Al-Azhar Lidhawatil-Khimar

Al-Azhar Lidhawatil-Khimar

اَلْاَزْھَارُ لِذَوَاتِ الْخِمَارِ یعنی اوڑھنی والیوں کیلئے پھول

جلد دوم
Author: Hazrat Mirza Tahir Ahmad

Language: UR

UR

حضرت مرزا طاہر احمد، خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے مستورات سے خطابات کا یہ مجموعہ لجنہ اماء اللہ پاکستان کا مرتب کردہ ہے ۔ اس مجموعہ سے جہاں احمدی مستورات کے لئے امام وقت کی توقعات اور قیمتی نصائح سے آگہی ملتی ہے  وہاں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی لجنہ اماء اللہ کی تنظیم سے تعلق کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ کس طرح حضور ؒ کی والدہ مرحومہ سیدہ ام طاہر نے اس شجر سایہ دار کی اپنی محنتوں اور خدمتوں سے آبیاری کی تھی۔ قریبا 700 صفحات پر مشتمل اس مجموعہ میں خطابات کے متن میں حوالہ جات شامل ہیں جبکہ شروع میں خطابات کے عناوین کی فہرست تو درج ہے لیکن آخر پر انڈیکس موجود نہ ہے۔


Book Content

Page 1

اَلَازُهَارُ لِذَوَاتِ الْخِمَارِ یعنی اوڑھنی والیوں کیلئے پھول جلد دوم خطابات سید ناحضرت مرزا طاہر احمد صاحب علیہ اسی الرابع رحمہ اللہ علی

Page 2

جملہ حقوق محفوظ ہیں نام کتاب تصنیف کمپوزنگ الا زہار لذوات الخمار جلد دوم (حصہ اوّل) مجموعه خطابات از مستورات حضرت خلیفہ مسیح الرابع دی کمپوز رز ربوہ سن اشاعت www.thecomposers.biz ۲۰۰۹ء

Page 3

فهرست خطابات نمبر شمار عنوان خطاب فرموده صفحہ نمبر 1 2 3 4 5 6 7 دینی پردہ کی ضرورت اور اہمیت ۲۷/دسمبر ۱۹۸۲ء آنحضرت کی خوبصورت عائلی زندگی اور جنت نظیر معاشرت ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۳ء ۱۹ اسلام میں عورت کا مقام ۲۶ جولائی ۱۹۸۶ء ۳۹ اسلام میں عورت کا مقام یکم اگست ۱۹۸۷ء اے اچھا مبلغ بننے کے لئے اچھی تربیت ضروری ہے ۳ را پریل ۱۹۸۸ء ۱۰۷ اسلام میں عورت کا مقام ۲۳ جولائی ۱۹۸۸ء 112 ۱۳۵ ۱۵۵ ۱۷۵ ۱۹۵ ۲۱۱ ۲۲۹ ۲۴۵ ۲۶۵ ۲۸۳ ۳۰۵ ۳۲۱ ۳۴۳ 8 9 نفرت پھیلانے والی معاشرتی برائیوں سے اجتناب اور صلح ومحبت ۱۳ مئی ۱۹۸۹ء کی فضا پیدا کریں.اسلام میں عورت کا مقام ۱۲ / اگست ۱۹۸۹ء تربیت کے گر ، گھروں کی جنت اور تربیت اولاد کی ذمہ داری ۲ جون ۱۹۹۰ء 10 اپنے گھروں کو جنت نشان بنا ئیں ۲۸ جولائی ۱۹۹۰ء 11 اپنے اندر اور اپنے بچوں میں محبت الہی کے رنگ بھرنے کی کوشش کریں ۲۷ جولائی ۱۹۹۱ء 12 صدر، عہدیداران اور لجنات کو قیمتی نصائح ۳۱ را گست ۱۹۹۱ء 13 اسلام میں عورتوں کا مقام، ذمہ داریاں اور لجنہ ہندوستان کی ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۹۱ء مساعی کا ذکر 14 واقفین زندگی کی بیگمات اور دوسری احمدی خواتین کی بے مثال قربانیاں یکم اگست ۱۹۹۲ء 15 احمدی خواتین کی مالی قربانیاں اور تبلیغی مساعی 16 ماؤں کی تربیت اولاد کی ذمہ داری اور اس کے طریق احمدی خواتین کا تعلق باللہ اور قبولیت دعا کے واقعات 17 18 احمدی خواتین کا تعلق باللہ اور قبولیت دعا کے نشانات ۱۲ ستمبر ۱۹۹۲ء ۱۷ اکتوبر ۱۹۹۲ء ۳۱ جولائی ۱۹۹۳ء ۱۱ ستمبر ۱۹۹۳ء

Page 4

صفحہ نمبر ۳۶۶ ۳۸۷ ۴۰۷ ۴۳۵ ۴۵۹ ۴۸۱ ۵۱۱ ۵۳۱ ۵۵۵ ۵۶۵ ۵۸۰ ۵۹۸ ۶۱۵ ۶۲۳ ۶۳۵ ۶۴۵ ۶۸۳ ۶۹۷ فرموده عنوان خطاب نمبر شمار 19 احمدی خواتین کی عظیم الشان قربانیاں اور اپنے عزیزوں کی شہادتوں ۳۰ / جولائی ۱۹۹۴ء پر بے مثال صبر ۲۶ را گست ۱۹۹۴ء ۲۸ ؍ جولائی ۱۹۹۵ء ۸ ستمبر ۱۹۹۵ء ۲۷ جولائی ۱۹۹۶ء ۲۴ / اگست ۱۹۹۶ء 20 احمدی خوتین کی عظیم الشان قربانیاں 21 پر دہ اور اس کی روح 22 پر دہ اور اس کی روح 23 محبت الہی کے ذریعہ تربیت 24 محبت الہی کے ذریعہ تربیت 25 دنیا بھر میں رضا کارانہ خدمت کر نیوالی احمدی خواتین کا تذکرہ ۲۶ جولائی ۱۹۹۷ء 26 آنحضور کی ازدواج مطہرات کی پاکیزہ سیرت کا بیان اور احمدی ۱۶ اگست ۱۹۹۷ء خواتین کو نیکیوں میں آگے بڑھنے کی نصیحت 27 سورۃ فاتحہ کے مضامین سمجھنے اور تبلیغ کے متعلق نصائح ۲ رمئی ۱۹۹۸ء 28 دنیا بھر میں مستورات کی میدان تبلیغ میں خدمت خلق کا تذکرہ یکم اگست ۱۹۹۸ء 29 | قناعت.ایک نہ ختم ہو نیوالاخزانہ 30 عیب چینی ، غیبت اور تفاخر سے پر ہیز کی نصیحت 31 استقامت کے شیریں ثمرات نیز پردہ کی نصیحت 32 طعن توضیح اور عیب چینی سے اجتناب کی تلقین 33 لجنہ انڈونیشیا کو قیمتی نصائح 34 آنحضور علیہ کی عورتوں کو زریں نصائح 35 دین میں عورتوں کے حقوق وفرائض 36 بچوں کی تربیت کے متعلق نصائح 37 میاں بیوی کے حقوق و فرائض ۲۲ را گست ۱۹۹۸ء ۳۱ جولائی ۱۹۹۹ء ۲۲ را پریل ۲۰۰۰ء ۳/ جون ۲۰۰۰ء یکم جولائی ۲۰۰۰ء ۲۹ جولائی ۲۰۰۰ء ۲۶ /اگست ۲۰۰۰ء ۲۵ / اگست ۲۰۰۱ء ۲۷ جولائی ۲۰۰۲ء

Page 5

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۲ء دینی پردہ کی ضرورت اور اہمیت جلسہ سالانہ مستورات سے خطاب فرموده ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۲ء بمقام ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُوْنَ وَقُلْ.لِلْمُؤْمِنَتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِ بْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبَا بِهِنَّ أَوْ أَبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَا بِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَتِهِنَّ أَوْ نِسَا بِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أوِ التَّبِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِ بْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ) ان آیات کا جو میں نے تلاوت کی ہیں ترجمہ یہ ہے.(النور: ۳۲،۳۱) تو مومنوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنے

Page 6

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۲ء فروج کی حفاظت کریں یہ ان کے لئے بہت پاکیزگی کا موجب ہوگا.جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے اچھی طرح باخبر ہے اور تو مومن عورتوں سے کہہ دے کہ وہ بھی اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنے فروج کی حفاظت کیا کریں 66 اور اپنی زبانت کو غیر مردوں سے پوشیدہ رکھیں.“ یہ وہ آیات ہیں جن میں پردے کا تفصیلی حکم ہے مجھے ان آیات کی تلاوت کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ میں محسوس کر رہا ہوں کہ کچھ عرصہ سے اسلام پر جو بلائیں ٹوٹ رہی ہیں ان میں سے ایک بہت بڑی بلا بے پردگی کی بلا ہے.مختلف جہت سے مختلف شکلوں اور مختلف بہانوں سے یہ بلا مسلمان عورتوں پر ٹوٹ رہی ہے اور دنیا کے اکثر ممالک میں مسلمان عورت پردے سے باہر آ رہی ہے.یہاں تک کہ بعض ممالک میں تو یہ فتویٰ بھی دیا جانے لگا ہے کہ پر دہ حرام ہے.مثلاً لیبیا میں ابھی چند دن ہوئے یہ فتویٰ شائع کیا گیا کہ پردہ نہ صرف یہ کہ ضروری نہیں بلکہ اسلام میں حرام ہے اور کوئی عورت پردہ نہیں کرے گی اور جو کرے گی وہ قانون شکنی کرے گی.تو وہ مسلمان ممالک جو اسلام کے پاسبان سمجھے جاتے تھے خودان ممالک میں بھی یہ بلا اس شدت کے ساتھ ٹوٹ پڑی ہے کہ قرآن کریم کے احکام کی خلاف ورزی ہی نہیں ان کو بالکل الٹایا جا رہا ہے.ایک مسلمان عورت یعنی احمدی عورت ایسی عورت تھی جس سے توقع تھی کہ اس میدان میں وہ جہاد کا بہترین نمونہ دکھائے گی اور بھاگتے ہوؤں کے قدم رو کے گی اور اس کھوئی ہوئی بازی کو پھر جیت کر دکھائے گی لیکن بڑی حسرت اور بڑے دکھ کے ساتھ مجھے یہ کہنا پڑتا ہے.یہ محسوس ہونے لگا کہ گویا یہ بازی ہم اس میدان میں ہار چکے ہیں یعنی ہم بھی یہ بازی ہار چکے ہیں.میں نے محسوس کیا اور بڑی شدت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ تحریک ڈالی کہ احمدی مستوارت میں اس جہاد کا اعلان کروں کہ اگر آپ نے بھی یہ میدان چھوڑ دیا تو پھر دنیا میں وہ کون عورتیں ہوں گی جو اسلامی اقدار کی حفاظت کے لئے آگے آئیں گی.مختلف بہانے مختلف عذرات جو تراشے جاتے ہیں ان کی داستان لمبی ہے لیکن میں نے یہ دیکھا کہ سب سے زیادہ چور دروازہ جس رستے سے بے پردگی نے حملہ کیا ہے وہ چادر ہے.چادر جو پردے کی خاطر قرآن کریم میں مذکور ہے بالکل برعکس مقصد کے لئے استعمال ہونے لگی.واقعہ یہ ہے کہ چادر کا پردہ اسلامی پر دہ ہوسکتا ہے اس سے کوئی انکار نہیں لیکن کن حالات میں کس حد تک یہ پردہ ، پردہ رہتا ہے اس کی وضاحت کی ضرورت ہے.

Page 7

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۲ء قرآن کریم میں پردے کے جو احکامات ہیں ان کے متعلق تفصیلی جائزہ لیا گیا.مجلس افتاء کے سپر د میں نے یہ معاملہ کیا.چنانچہ گزشتہ چھ ماہ سے یہ معاملہ تفصیلاً زیر غور ہے اور تمام آیات کے اکٹھا کرنے اور ان پر غور کرنے کے علاوہ تمام متعلقہ احادیث کا مطالعہ کیا گیا، اسلامی تاریخ میں پردے نے مختلف وقتوں میں کیا شکلیں اختیار کیں ان کو زیر نظر رکھا گیا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جملہ اقتباسات پر غور کیا گیا، خلفائے سلسلہ عالیہ احمدیہ نے جو اظہار خیال فرمایا ان کو بھی زیر غور لایا گیا، حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان تمام باتوں پر غور کے بعد یہ نتیجہ سامنے آیا کہ اسلام مختلف حالتوں اور مختلف سوسائٹیوں اور ان کی ترقی کی مختلف حالتوں کے پیش نظر اور پھر انسانی ضروریات کے پیش نظر اور پھر کسی سوسائٹی کے عمومی حالات اور کردار کے پیش نظر مختلف قسم کے پردوں کی توقع رکھتا ہے.یعنی ایک عالمگیر مذہب ہے جو پردے کی ہر امکانی ضرورت کو پیش نظر رکھتا ہے اور کوئی ایک پہلو بھی ایسا نہیں ہے جو دنیا کی کسی قوم پر وارد ہوا ہو اور اس کا جواب قرآن کریم میں اور سنت نبوی میں نہ ملتا ہو.مثلاً ہمارے دیہات میں جو چادر کا پردہ رائج ہے جس میں گھونگھٹ ہے، حیا ہے اور چہرے کو جہاں تک ممکن ہو چادر سے لپیٹ کر دائیں بائیں سے شرم اور احتیاط سے چلنے والی عورتیں ہیں وہ خاوند کو روٹی پہنچانے کے لئے اس کے پاس کھیتوں میں پہنچتی ہیں، پانی بھرنے باہر نکلتی ہیں یہ اسلام کے مطابق استثناء نہیں ہے بلکہ اسلام کے پردے کے بنیادی تخیل کا ایک حصہ ہے اور قرآن کریم اس کے متعلق وضاحت فرماتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ مضمون خوب کھول کر بیان فرمایا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی قرآن کریم کی ان آیات کے ترجمہ میں جو میں نے پڑھی تھیں بیان فرمایا کہ: ایک پردہ اسلام کا یہ ہے کہ اپنے چہرے کو دائیں اور بائیں سے ٹھوڑی تک پوری طرح ڈھانک لیا جائے اور ماتھے کو بھی پوری طرح ڈھانک لیا جائے اور کوئی سنگھار ایسا نہ کیا جائے کہ جس کے نتیجہ میں خواہ مخواہ بدلوگوں کی نظروں میں انگیخت پیدا ہو.وقار اور تحمل کے ساتھ بغیر سنگھار کٹار کے انسانی ضروریات کی خاطر جن سوسائٹیوں میں عورتیں باہرنکلتی ہیں وہ اسلامی پردہ کر رہی ہیں مستی نہیں ہیں.استثناء تو وہ ہوتا ہے جو قانون کے خلاف ہو.یہ پردہ قانون کے اندر داخل ہے.

Page 8

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۴ خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۲ء چنانچہ یورپ میں جو سوسائٹی ہے اس کے متعلق بھی حضرت مسیح موعوعلیہ الصلوۃ والسلام نے اس تشریح کے ساتھ بیان فرمایا: یہ وہ پردہ ہے جو اہل یورپ کے لئے بھی شاق نہیں گزرسکتا ، بار نہیں گزرسکتا کیونکہ ان کی سوسائٹی میں عورت نے اقتصادی معاملات میں بہت زیادہ آگے قدم بڑھالیا ہے اور ان کی اقتصادیات کا ایک حصہ بن چکی ہے اس لئے اس کو باہر نکلنا پڑتا ہے.“ اگر وہ عورت اسی قسم کا پردہ کرے تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ: وہ عین اسلامی پردہ کر رہی ہوگی.“ 66 اس سے آگے ایک اور پردہ ہے اور وم چہرے کا پردہ ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وضاحتوں کی روشنی میں حضرت خلیفتہ امسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اس بات پر قلم اُٹھایا تو بڑی وضاحت کے ساتھ بغیر کسی استثناء کے یہ بات بیان فرمائی کہ چہرے کا پردہ بھی اسلامی پردہ ہے اور اس کی بنیادوں میں داخل ہے.مگر کس سوسائٹی کے لئے؟ اس کی وضاحت کے لئے جب آپ حضرت مصلح موعود کی تفاسیر پڑھتی ہیں اور اس موضوع پر جو آپ نے قلم اٹھایا یا بیان فرمایا اس پر غور کرتی ہیں تو آپ کو یہ بات کھل کر سامنے آجائے گی کہ سوسائٹی کا وہ حصہ جو متمول ہے اور سوسائٹی کا وہ حصہ جو عام اصطلاح میں ایڈوانس کہلاتا ہے یعنی ترقی یافتہ ان کو ہر قسم کی سہولتیں حاصل ہیں گھروں میں نوکر ہیں کام کرنے والے خدمت گزار، ہر قسم کے آرام و آسائش کے سامان اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے ہوئے ہیں، کوٹھیاں ہیں بنگلے ہیں اور بظاہر زندگی کا مقصد اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا کہ وہ اپنے پیسے کو اپنے قلب کے اطمینان کے لئے خرچ کرنے کی راہیں ڈھونڈیں یعنی یہ ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ ہم زندہ کس طرح رہیں گے بلکہ یہ ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو پیسہ ہمیں عطا فرمایا ہے ہم اس کو کس طرح خرچ کریں کہ اور زیادہ لذت یابی کے سامان پیدا ہوں.یہ وہ سوسائٹی ہے جس کے متعلق حکم ہے کہ جہاں تک ہو سکے وہ اپنے چہرے کو ڈھانپیں سنگھار وغیرہ کر کے باہر نہ نکلیں ، بے ضرورت اور بے مقصد جب وہ دُنیا میں نکلیں گی تو اس سے شدید نقصان سوسائٹی کو پہنچے گا اور آج کل جب کہ ہر طرف گندگی پھیل رہی ہے اور گھروں کے امن اُٹھ رہے ہیں اس وقت زیادہ احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ ایسی عورتیں پورا پردہ کریں.اب برقع ٹھیک ہے کہ اسلامی پر دہ نہیں لیکن حالات اور موقع کے

Page 9

خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۲ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات مطابق خلفاء کا یہ کام رہا ہے اور یہ فرض ہے کہ وہ اس معاملے میں انتظامی فیصلے کریں اگر ایک برقع ایک سوسائٹی میں رائج ہے اور چادر اس کی جگہ لے رہی ہے تو دیکھنا یہ پڑے گا کہ اس سے اسلامی پردہ کو کوئی نقصان پہنچتا ہے یا نہیں ؟ اگر کوئی نقصان نہیں پہنچتا تو اس وقت کا فیصلہ یہی ہوگا کہ کوئی حرج نہیں لیکن اگر واضح طور پر یقینی طور پر قدم ضلالت اور گمراہی کی طرف اُٹھ رہے ہوں اور خطرہ یہ پیدا ہورہا ہو کہ رفتہ رفتہ پردہ اُٹھ جائے گا صرف برقع نہیں اُٹھے گا اس وقت کا خلیفہ اگر قدم نہیں اُٹھاتا تو وہ مجرم ہوگا اور خدا کے سامنے جواب دہ ہو گا اس لئے لازماً میرا فرض ہے کہ ان تمام حالات پر غور کر کے ان کے لئے کوئی انتظامی فیصلہ کروں.برقع کے حالات بعض سوسائٹیوں میں بہت اہمیت اختیار کر چکے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ برقع سے باہر آنے والا رخ کیا ہے اور برقع کے اندر داخل ہونے والا رخ کیا ہے؟ یہ دو مختلف اور متضاد شکلیں ہیں جو میں آپ کے سامنے کھول کر رکھنا چاہتا ہوں.جن سوسائٹیوں میں نسلاً بعد نسل برقع رائج رہا ہے.مثلاً خاندان اقدس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں ہم نے حضرت اماں جان کو دیکھا ، آپ کی اولا د کو دیکھا حضرت مصلح موعود کو اور آپ کی اولا دکو دیکھا، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے خاندان کے افراد جو پارٹیشن سے پہلے تک وہاں پیدا ہوئے اور اس ماحول میں انہوں نے پرورش پائی ان کو دیکھا وہ سارے برقع میں ملبوس ہوتے تھے.آزادی سے دنیا کی زندگیوں میں اور دلچسپیوں میں حصہ لینے سے ان کو کہیں روکا نہیں گیا.وہ عورتیں شکار میں بھی جاتی تھیں، کھیل کود میں بھی حصہ لیا کرتی تھیں، سیر و تفریح میں بھی حصہ لیا کرتیں تھیں تعلیم بھی اعلیٰ سے اعلیٰ حاصل کرتی تھیں لیکن برقع پہنتی تھیں.اس دور میں اگر ان کے بچے اور بچیاں یہ دیکھیں کہ ان کی ماؤں نے چادریں لی ہیں اور چادروں کی شکل یہ بن گئی ہے کہ اپنوں کے سامنے وہ زیادہ شدت کے ساتھ لیٹی جاتی ہے اور غیروں میں نکلتی ہیں تو چادر میں ڈھلک جاتی ہیں اور کندھوں پر جاپڑتی ہے.کون کہہ سکتا ہے کہ یہ اسلامی پردہ ہے؟ تقویٰ سے کام لینا چاہئے.اعتراض کی زبانیں بے شک آپ کھولیں مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں لیکن میں اس مقام پر فائز کیا گیا ہوں کہ میں آپ کی نگرانی کروں اس لئے میں آپ پر خود کھول کر یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم فرماتا ہے.بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ وَلَوْ الْقَى مَعَاذِيْرَهُ ) ( القيمة : ۱۶،۱۵) لاکھ تم بہانے تراشو اور لاکھ عذر پیش کرو کہ تم اسلامی پردے میں زیادہ شدت اختیار کر رہے

Page 10

حضرت خلیفہ مسیح الرائع کے مستورات سے خطابات ۶ خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۲ء ہو اور اسلامی پردہ چادر ہی ہے لیکن میں جانتا ہوں اور میر انفس جانتا ہے اور آپ کا نفس جانتا ہے کہ وہ چادر اسلامی پردہ نہیں جو آج بے پردگی کے لئے استعمال کی جارہی ہے.اسلامی قدرمیں تو ڑی جارہی ہیں اور ان کو کوئی پرواہ نہیں کہ ان کی نسلوں کا آگے سے کیا حال ہوگا.ان کو نہیں پتہ کہ وہ ناچ گانوں میں مبتلا ہو جائیں گی اور بے حیائی میں ایسے قدم آگے بڑھائیں گی کہ پھر نہیں روکی جائیں گی.اس کے برعکس ایسی سوسائٹیاں ہیں جہاں بے حیائی عام ہے جہاں ننگ کا تصور ہی بالکل مختلف ہے.ننگے بازو، ننگے چہرے بلکہ بدن کے ایسے اعضاء ننگے کر کے وہ پھرتی ہیں کہ انسان کی نظر پڑتی ہے تو حیران ہوتا ہے کہ عورت یہاں تک بھی پہنچ گئی.وہاں جب مسلمان عورتیں احمدیت کو اختیار کرنے کے بعد اسلامی قدروں کو اختیار کرتی ہیں اور اپنے چہروں کو نہ بھی ڈھانپیں تب بھی وہ چادر کے ساتھ ایسا پردہ اختیار کرتی ہیں کہ ان کی شرافت اور ان کی نجابت ساری سوسائٹی کو نظر آرہی ہوتی ہے.ان کے طرز عمل دعوت نہیں دیتے بلکہ دھکے دے رہی ہوتی ہیں نظروں کو.اس سوسائٹی میں وہ بعینہ اسلامی پردہ ہے استثناء نہیں ہے.اس لئے مختلف حالات میں مختلف پس منظر کو دیکھ کر انتظامی فیصلے کرنے پڑے ہیں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ اسلام نے ان سب چیزوں کی گنجائش رکھی ہوئی ہے.ایک اور پردہ ہے جو اہل بیت کا پردہ ہے.اب دیکھئے کہ اہل بیت کا خدا اور تھا اور عام عورتوں کا خدا اور تھا ؟ خدا جانتا تھا کہ بعض خاندانوں پر زائد ذمہ داریاں عائد ہوا کرتی ہیں.اگر وہ ایک گناہ کی طرف قدم اُٹھا ئیں تو دوسری عورتیں دس قدم اُٹھا ئیں گی ایک نیکی کی طرف قدم اُٹھائیں گی تو دوسری عورتیں دس قدم نیکیوں کی طرف اُٹھا ئیں گی.اس بنیادی فلسفہ کو خدا تعالیٰ نے پیش نظر رکھتے ہوئے جو خالق کا ئنات ہے جس نے انسانی فطرت کو پیدا کیا یہ حکم دیا اور یہ نا انصافی کا حکم نہیں تھا.یہ حکم دیا کہ جہاں تک ہو سکے تم گھروں کے اندر ٹھہری رہو.بے ضرورت باہر ہی نہ نکلو اور نکلو تو پوری طرح اپنے آپ کو ڈھانپ کر اور ہر گز کسی کو موقع نہ دو کہ تمہارے چہروں کو دیکھے اور بدنظر سے ان پاک چہروں کو نا پاک کرنے کی کوشش کرے یہ ایک تیسری قسم ہے پردے کی.تو یہ تینوں قسم کے پر دے اسلامی ہیں اور مختلف حالات میں وہ نافذ ہوں گے لیکن افراد کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی.یہ جماعت ایک منظم جماعت ہے اس میں وحدت کا تصور ہے افراد کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ جدھر چاہیں منہ اٹھا کر پھریں اور نظم و ضبط کو توڑ دیں اور اسلامی پردے کا تصور ہی سارا اس سوسائٹی سے اُٹھتا چلا جائے.

Page 11

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۲ء یہ وہ وجوہات ہیں جس کے پیش نظر میں نے اس دفعہ نظارت اصلاح وارشاد کو بھی اور لجنہ کو بھی یہ ہدایت دی کہ سب سے پہلے سٹیج پر آپ پابندی کریں اور خصوصیت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کی مستورات پر پختی کریں.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خاندان پر جو احکامات عائد ہوتے ہیں خالی طور پر ویسے ہی احکامات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان پر بھی عائد ہوتے ہیں.اگر ان سے یہ سلوک ہو کہ وہ چاہے پردے کا احترام کریں نہ کریں ان کو سٹیجوں کے ٹکٹ مل رہے ہوں اور لجنہ کی خدمت کرنے والی مستورات ، قربانی کرنے والی مستورات، پردے میں رہ کر اسلام کے لئے اپنا سب کچھ پیش کرنے والی مستورات، ہاتھوں سے زیورا تار دینے والی مستورات، یہ باہر بیٹھی ہوں نیچے اور یہ تصور قائم ہو کہ گویا کہ اعلیٰ اور ماڈرن سوسائٹی کا کام ہے کہ وہ میچ کا ٹکٹ لے لے اور دوسری غریب احمدی عورتوں کا کام ہے کہ وہ سامنے زمین پر بیٹھ جائیں یہ باطل تصور ہے.ہمیشہ کے لئے اگر کسی کے دماغ میں یہ کیڑا ہے تو نکال دے ہرگز ایسا نہیں ہوگا.تقویٰ معیار ہے.جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے.إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمْ (الحجرات :۱۴) خبر دار ہم نے تمہیں شعوب بنایا، قبائل بنایا اور مختلف قسمیں کیں لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک متقی کے سوا کوئی عزت کے لائق نہیں.پس اگر جماعت تقویٰ کے معیار کی حفاظت نہیں کرے گی تو کسی بھی قدر کی حفاظت نہیں ہو سکے گی.یہ تو بنیا د ہے، مومن کی بنیاد ہے، یہ تو اسلام کی جڑیں ہیں تقویٰ.حضرت مسیح موعو علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.عے اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے تقویٰ ہی وہ ہے جس کے نتیجہ میں سارے اسلام کا تانا بانا قائم رہتا ہے.یہ بہار جو اسلام کے چہرے پر آتی ہے تقویٰ کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے یہ تقویٰ کی جڑیں زمین کا رس چوستی ہیں اور پھران کو آسمانی کیفیتوں میں تبدیل کرتی چلی جاتی ہیں اس لئے بہر حال تقویٰ کا کام یہ ہے کہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے.ایسے موقعوں پر کچھ بے احتیاطیاں بھی ہو جاتی ہیں.مثلاً بعض علاقے ایسے ہیں جن علاقوں میں برقع رائج نہیں بلکہ چادر رائج ہے اور کچھ مستورات ایسی ہیں جو چادر سے برقع کی نسبت زیادہ اپنی حفاظت کرتی ہیں.جماعت کا کام ہے کہ ان باتوں کی نگرانی کرے اور دیکھے کہ کہاں

Page 12

خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۲ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات کہاں وہ علاقے ہیں اور جو چادر لے رہی ہیں ان کا طریق کار کیا ہے.کیا وہ فیشن کی غلام ہیں یا واقعہ ضرورت کی غلام ہیں اور مجبور ہیں اور پوری طرح اپنی حفاظت کرتی ہیں.پھر اگر وہ چادر لیتی ہیں تو یہ ان کا کام ہے یعنی جماعت کا نظام ان مستورات کے متعلق فیصلہ کرتا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے لئے زیادہ مصیبت مول لیتی ہیں.واقعہ اگر کوئی عورت پوری طرح پردہ کرنا چاہے تو برقع آسان ہے بنسبت چادر کے.چادر تو ڈھلکتی ہے اس کو سنبھالنا پڑتا ہے ، گھونگھٹ کھینچنا پڑتا ہے اور کئی قسم کی مصیبتیں ساتھ لگی ہوئی ہیں.بڑی مشکل کے ساتھ چادر کے ساتھ انسان اپنے پردے کی حفاظت کرتا ہے.برقع تو ایک آسان طریق تھا.پس اگر وہ ماڈرن سوسائٹی کے اثرات یا اس کی باتوں سے متاثر ہوئے بغیر بعض علاقوں کے رواج کے پیش نظر ایسا کرتی ہیں تو جماعت کا کام ہے، ہم تحقیق کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ اور جماعتی نظام کے تابع ان کو اجازت دی جائے گی لیکن اس حد تک جس حد تک ان کا پردہ اسلامی ہے.اگر وہی چادر میں خطرہ محسوس ہوا کہ ان کی بچیاں غلط استعمال کرنے لگی ہیں، نئی سوسائٹی میں آکر اس کے بداثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں تو اس سے بھی روک دیا جائے گا.تو بعض ایسی عورتوں کو بھی ممکن ہے ٹکٹ نہ ملا ہو جو حق رکھتی ہوں اور ان کے دل میں شکوہ پیدا ہوا ہو.جہاں تک اس کے رد عمل کا تعلق ہے بڑی دلچسپ رپورٹیں آئی ہیں وہ میں آپ کو سنانا چاہتا ہوں.ہماری ایک باجی جان ہیں ان کا شروع سے ہی پردے میں سختی کی طرف رجحان رہا ہے کیونکہ حضرت مصلح موعود کی تربیت میں جو پہلی نسل ہے ان میں سے وہ ہیں.جو گھر میں مصلح موعود کو انہوں نے کرتے دیکھا جس طرح بچیوں کو باہر نکالتے دیکھا ایسا ان کی فطرت میں رچ چکا ہے کہ وہ اس عادت سے ہٹ ہی نہیں سکتیں.ان کے متعلق بعض ہماری بچیوں کا خیال ہے کہ : اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو پاگل ہو گئے ہیں پرانے وقتوں کے لوگ ہیں ایسی باتیں کیا ہی کرتے ہیں لیکن اگلے وقت کون سے؟ میں تو ان اگلے وقتوں کو جانتا ہوں جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اگلے وقت ہیں اس لئے ان کو اگر اگلے وقتوں کا کہہ کر کسی نے کچھ کہنا ہے تو اس کی مرضی ہے وہ جانے اور خدا کا معاملہ جانے لیکن یہ جو میری بہن ہیں واقعہ تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اس بات پر سختی کرتی تھیں.چنانچہ اس دفعہ مسیح کے ٹکٹوں کی خصوصاً ایک حلقہ کے ٹکٹوں کی ذمہ داری ان پر عائد کی گئی.نظارت اصلاح وارشاد نے جہاں اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کیا میں نے ان کی جواب طلبی کی ہے وہاں انہوں نے ذمہ داری کو

Page 13

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۹ خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۲ء ادا کیا اور ٹکٹ جاری ہونے کے باوجود روک دیئے.چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کو ہر طرف سے طعن و تشنیع کے فون آنے شروع ہوئے.بڑی سختی کی گئی ان کے اوپر ، بعض والدین نے گالیاں دیں، بعض بچیوں نے فون کئے کہ یہ تم لوگوں نے کیا قصہ چلایا ہوا ہے.میری بیوی کے پاس ایک بچی آئی اس نے کہا یہ چلے گا نہیں معاملہ کر کے دیکھ لیں.پھر ایک ہماری بچی کے پاس چند لڑکیاں آئیں اس سلسلہ میں گفتگو ہونے لگی تو انہوں نے کہا کہ تم تو پردہ بھی کرتی ہو اور گھر سے باہر بھی نہیں نکلتی اس لئے تمہیں سٹیج کا نہیں صدارت کا ٹکٹ ملنا چاہئے.غرضیکہ اپنے دل کے جتنے بھی دکھ تھے وہ انہوں نے جس طرح بھی پیش آئی بس چلی وہ دوسرے کے دلوں کو دکھوں میں تبدیل کرنے کی کوشش کی.چر کہ جب عورت لگاتی ہے تو یہی مطلب ہوتا ہے کہ میرے دل کا دکھ میرے دل میں کیوں رہے.میں اپنے دل کا دکھ تمہارے دل میں منتقل کرتی ہوں اور اب میں چھٹی کر جاتی ہوں عیش کرو جو مرضی کرنا ہے کرو.یہ ساری باتیں جب مجھے پہنچیں تو میں نے ان سے کہا کہ آپ کیوں غمگین ہوتی ہیں یہ تو میرا فیصلہ ہے یہ غم آپ کے دل میں بھی نہیں رہنے چاہئیں یہ تو میرے دل میں منتقل ہونے کا حق رکھتے ہیں.آپ مجھے دے دیں میں جانوں اور میرا خدا جانے.آپ ہرگز غمگین نہ ہوں بے فکر ہو کر ان باتوں کی تعمیل کریں جن کا ذمہ دار میں ہوں.آپ پر ان کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی.اس وقت مجھے خیال آیا اور آغاز اسلام میں بھی تو یہی ہوتا تھا.میں کیا اور میری بساط کیا.میں تو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے غلاموں کا غلام ہوں، گنہ گار اور کمزور انسان نہیں جانتا کہ کیوں اللہ تعالیٰ نے مجھے اس منصب پر فائز فرمایا لیکن جیسا بھی میں تھا اور جیسا بھی میں ہوں، میں کمزور انسان ہوں اور اس منصب کی ذمہ داریاں لازماً ادا کرنے کی کوشش کروں گا مجھے دنیا کی باتوں کی کوئی پرواہ نہیں.میں اتنی طاقت نہیں رکھتا کہ مرنے کے بعد خدا کے حضور جوابدہ ہوں اس لئے دنیا کی باتیں تو میں برداشت کروں گا خدا کی جواب دہی مجھے قبول نہیں ہے.میں نے ان سے کہا آپ بے فکر رہیں اس سے پہلے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بھی باتیں کرنے والوں کی زبانوں نے نہیں چھوڑا تو ہم کیا حیثیت رکھتے ہیں.مختلف فیصلے مختلف نیتوں کے ساتھ کئے جاتے ہیں اور مختلف نیتیں ان کی طرف منسوب کر دی جاتی ہیں.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب فتح مکہ کے بعد اور غزوات سے فارغ ہوکر واپس مدینہ جانے لگے تو اس سے پہلے ایک واقعہ ہوا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان مہاجرین کو جو

Page 14

خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۲ء حضرت خلیفہ مسیح الرائع کے مستورات سے خطابات واپس مکہ میں اپنے گھروں میں آبادہورہے تھے مال غنیمت میں سے بہت کچھ دیا اور وہ انصار جو وہاں سے ساتھ آئے تھے وہ تقریباً خالی ہاتھ رہے.اس وقت ایک بدقسمت نے یہ سوال کیا یہ اعتراض اٹھایا کہ یہ عجیب بے منصف رسول ہے جو عدل پر قائم ہے اور لوگوں کو قائم کرتا ہے اور اپنا یہ حال ہے کہ جنگ کے اموال غنیمت اپنے رشتہ داروں اور اقرباء کو دے دیئے ہیں اور خون ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم بہت رنجیدہ خاطر ہوئے لیکن آپ اس قسم کی باتوں کے عادی تھے.آپ نے انصار اور مہاجرین کو اکٹھا کیا اور فرمایا کہ: دیکھو مجھ تک یہ بات پہنچی ہے.ایک جاہل انصاری تھا جس سے یہ بات ہوئی جس نے یہ بات کہی تھی جب یہ بات سنی تو انصار تو دھاڑیں مار مار کر رونے لگے.یا رسول اللہ ! ہمارا قصور نہیں.ہم میں سے ایک جاہل نے یہ بات کر دی ہے.آپ نے فرمایا نہیں نہیں سنو تو سہی.اس نے یہ دیکھا اور اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا میرا فرض ہے کہ میں تمہیں بتاؤں کہ میری نیت کیا تھی.آپ نے فرمایا کہ میرا یہ فیصلہ تھا کہ اب میں اس وطن میں نہیں ٹھہروں گا جہاں سے نکالا گیا تھا.میں ان انصار بھائیوں میں واپس چلا جاؤں گا جنہوں نے ہجرت کے وقت میری مدد کی تھی اس لئے میں نے سوچا کہ مال غنیمت اور دنیا کی چیزیں تو ان لوگوں کو دے جاؤں اور خدا کا رسول تمہارے ساتھ چل پڑے.پس تم یہ بھی تو کہہ سکتے تھے کہ یہ تو مال مویشی ہانک کر لوٹ رہے ہیں اور ہم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساتھ لے کر جا رہے ہیں جن کی خاطر کائنات کو پیدا کیا گیا.ایک ایسا بھی ردعمل ہوتا ہے.ایک بچی کے والد نے مجھے خط لکھا اور انہوں نے لکھا باون (۵۲) سال حضرت مصلح موعود کے ساتھ میں نے زندگی کا وقت گزارا، بڑے ہی محسن تھے، بڑا ہی احسان کا سلوک فرمایا کرتے تھے، پھر سترہ سال میں نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث" کے ساتھ زندگی کا وقت گزارا بڑے ہی محسن تھے اور بہت ہی احسان اور شفقت کا سلوک فرمایا کرتے تھے اور اس کے بعد یہ خط ختم ہو گیا.مجھے اللہ تعالیٰ نے بصیرت عطا فرمائی ہے کہ میں خاموش زبان کو بھی پڑھ سکتا ہوں.اب میں آپ کو بتا تا ہوں کہ وہ خط جاری تھا اور میں اسے پڑھتا رہا جہاں یہ خط ختم ہوا اس کے بعد یہ مضمون تھا کہ مجھے آج یہ نحوست کا دن بھی دیکھنا پڑا کہ جب تمہاری خلافت کی بیعت کرنی پڑی جو ظالم ہو اور انصاف کے خلاف فیصلے کرتے ہو.پہلے مجھے خیال آیا کہ ان کو جواب دوں پھر میرے دل نے یہ فیصلہ کیا کہ خلیفہ وقت کے خلاف جب اس قسم کے اعتراضات پیدا ہوں تو اس میں کسی بحث کا سوال نہیں رہا کرتا یہ معاملہ آسمان کی عدالت میں

Page 15

11 خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۲ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات چلا جایا کرتا ہے.پس میں ان کو جواب نہیں دوں گا کیونکہ یہ فیصلہ قیامت کے دن ہوگا میرے اور ان کے درمیان اور اللہ تعالیٰ ہی ہے جو فیصلہ کرے گا کہ وہی میرے دل کا حال جانتا ہے.جب سختیاں کی جاتی ہیں تو کس طرح کی جاتی ہیں اور کیوں کی جاتی ہیں میں آپ کو بتا تا ہوں حقیقت یہ ہے کہ مجھے نظر آرہا ہے کہ اگلی نسلیں انتہائی خطرناک دور میں داخل ہونے والی ہیں ہر طرف بے حیائی کا دور دورہ ہے ہر طرف ایسے حالات پیدا ہورہے ہیں کہ اگر آپ نے پردے کی خاص حفاظت نہ کی تو اتنے خطرناک حالات سے آپ کی اگلی نسلیں دو چار ہوں گی کہ آپ حسرت سے دیکھیں گی اور ان کو واپس نہیں بلا سکیں گی.زندگی کے فیشن سے دور جارہے ہیں آپ.وہ زندگی کا فیشن جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام میں ذکر ہے.اور جب آپ کو آپ کی خاطر روکا جاتا ہے تو جواب میں زخم لگا کر، چر کے لگا کر اپنے دکھ دوسروں میں منتقل کرنے کی کوشش کرتے ہو.کیوں میں نے ایسا کیا؟ اس لئے کہ قرآن کریم فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيمُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ) (النور: ٢٠) یقینا وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی کو پھیلائیں ان کے لئے اس دنیا میں بھی درد ناک عذاب مقدر ہے صرف آخرت کا عذاب نہیں ہے اس دنیا میں بھی دردناک عذاب مقدر ہے.وفی الآخرۃ اور آخرت میں بھی ہے.وَاللهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے کہ ان حالات کے کیا بد نتائج پیدا ہونے والے ہیں.پھر فرماتا ہے: فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ ۖ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَازَكَى مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَكِنَّ اللهَ يُزَكِّي ( النور : ۲۲) مَنْ يَّشَاءُ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيْمٌ کہ دیکھو یہ سارے پردے کی کوششیں، احکامات ، انسانی قدروں کی حفاظت ،اسلامی

Page 16

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۱۲ خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۲ء معاشرے کی حفاظت کی کوششیں یہ ساری تمہیں پاک کرنے کی خاطر ہی تو کی جاتی ہیں.لیکن یاد رکھو کہ اگر اللہ کا فضل تم پر نہ ہو اور اس کی رحمت شامل حال نہ ہو تو تم میں سے کبھی کوئی پاک نہیں ہوسکتا.وَلَكِنَّ اللهَ يُزَكِّي مَنْ تَشَاءُ اللہ جسے چاہتا ہے پاک کرتا ہے.وَاللهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ اور اللہ تعالیٰ بہت سننے والا اور جاننے والا ہے.سیہ وہ قرآن کریم کی آیات ہیں جو مجھے مجبور کر رہی ہیں کیونکہ میں جانتا ہوں اور ایسے حالات میری آنکھوں کے سامنے ہیں.باہر کی دنیا میں بھی جہاں اب پاکستانی عورتوں نے غیر معاشرے سے متاثر ہو کر بے پردگی شروع کی.چونکہ وہ برقع سے باہر نکلی تھیں اس لئے ایک ایسی کیفیت پیدا ہوئی کہ ان کی بچیوں نے سمجھا کہ اب پردہ اٹھ گیا ہے اور اس بے احتیاطی کی سزائیں ان کو ملیں.چنانچہ بہت سی ان میں سے ایسی تھیں جو واپس برقعوں میں آئیں.بلکہ امریکہ کی سوسائٹی کا تو یہ حال ہے کہ انہوں نے صرف چادر نہیں کی بلکہ اس غرض سے برقع پہنا کہ وہ کہتی ہیں کہ اگر ہم برقع نہ پہنیں تو پوری طرح ہم اقدار کی حفاظت نہیں کر سکتیں لیکن جب وہ واپس آئیں اس سے پہلے کیا حال ہو چکا تھا ایسی بھی بعض بچیاں ہیں جوسکھوں کے ساتھ بھاگ گئیں.ایک واقعہ ہے یہ لیکن بڑا ہی دردناک واقعہ ہے.ایسی بھی بچیاں ہیں جنہوں نے ماں باپ سے آنکھیں پھیریں اور عیسائی لڑکوں کے ساتھ بھاگ گئیں.شاید دو واقعات ایسے ہوں لیکن ناسور کی طرح دکھ دینے والے واقعات ہیں.یہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے میرا دل بے چین اور بے قرار ہے کہ میں آپ کو بار بار توجہ دلاؤں کہ اسلامی قدروں کی حفاظت کے لئے واپس آؤ.پھر اس میں بعض دفعہ دوسروں سے بھی پیچھے رہ جاتا ہے.جو چیزیں جائز ہیں وہ بھی بعض دفعہ خدا کی خاطر چھوڑنی پڑتی ہیں اور جو کام فرض نہیں وہ بھی کرنے پڑتے ہیں ایسے بھی حالات آجایا کرتے ہیں.کہاں لکھا ہوا ہے کہ عورتیں گوٹہ کناری استعمال نہ کریں لیکن جب وقت کی ضرورت تھی اور خلیفہ وقت نے حکم دیا تو عورتوں نے اپنے ہاتھوں سے کنگن اتار دیئے.بڑے بڑے امراء جن کو عادت تھی تنعم کی زندگی کی وہ ایک کھانے پر آگئے اور شادی بیاہ میں بھی گوٹہ کناری سے احتراز ہونے لگے.احمدی عورت کا ایک کردار تھا وہ اپنے عہد کی سچی تھی.وہ خلافت کی بیعت کرتی تھی پورے دل کے خلوص کے ساتھ اور اس کے بعد پھر یہ نہیں کہا کرتی تھی کہ یہ حکم کیوں دیا جارہا ہے اور کیوں ہم پر زیادتی کی جارہی ہے.احمدیت نے ایسی ایسی شاندار مائیں پیدا کی ہیں کہ ان کی عظمت کو دیکھتے ہوئے عام

Page 17

حضرت خلیفہ مسیح الرائع کے مستورات سے خطابات ۱۳ خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۲ء انسان کی ٹوپی گرتی ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے ان واقعات کو مختلف وقتوں میں مختلف شکلوں میں بیان فرمایا.لیکن افسوس ہے کہ باوجود اس کے کہ لجنہ ان کو مرتب کر چکی ہے پھر بھی بہت سے ہیں جو پڑھتے ہی نہیں ہیں ، ان کو وقت ہی نہیں ملتا، سوسائٹی کی زندگیاں ہیں اس کے تقاضے ہیں ، ملاقاتیں ہیں ایک دوسرے کے گھر جانا ہے.اتنی مصروفیات ، ان مصروفیات کے بعد کسی کو وقت کہاں مل سکتا ہے کہ دینی مطالعہ کرے.حالانکہ ضرورتیں ایسی پیش آنے والی ہیں کہ آپ کو بھی آہستہ آہستہ بہت بڑی قربانیوں کے لئے تیار ہونا پڑے گا.بہر حال حضرت مصلح موعودؓ نے مختلف وقتوں میں جو مختلف احکامات جاری کئے بظاہر ان کا براہ راست مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن احمدی مستورات نے ایسی ایسی قربانیاں دی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.مسلم لیگ کے زمانہ میں جب یہ خطرہ تھا کہ مسلم لیگ نہ جیتی تو پاکستان کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا.حضرت مصلح موعودؓ نے ایک عام حکم جاری کیا کہ جس میں بھی طاقت ہے وہ ضرور ووٹ دینے کے لئے جائے.اب وہ تو ایک واضح بات ہے کہ ووٹ دینا کوئی ایسا اسلامی فرض تو نہیں ہے کہ اس کو چھوڑنے کے لئے اسلامی حکم کو ٹالا جاتا ہے اور پھر جو مجبور ہو، بیمار ہو اس کو تو ویسے ہی اجازت ہے لیکن ایک عورت مچل گئی اس کے چند دن پہلے بچہ ہوا تھا.اس کے ماں باپ رشتہ داروں نے سمجھایا کہ بی بی نہ جاؤ خطرہ ہے اس نے کہا خطرہ اپنی جگہ ہوگا میرے کانوں میں تو امام وقت کی آواز پہنچی ہوئی ہے کہ مسلم لیگ کو جتانا ہے اور ووٹ دینا ہے.انہوں نے کہا اچھا پھر یہی علاج ہے تمہارا کہ ہم تالا لگا جاتے ہیں باہراور تمہیں اکیلا گھر میں چھوڑ جاتے ہیں.تالا لگا کے سارے گھر والے چلے گئے.وہ عورت اُٹھی اور اس نے ان کے جانے کے بعد واویلا شروع کیا کسی ایک ہمسائے کے کان میں آواز پڑی وہ آیا اور اس نے تالا توڑا.اس نے کہا اور کوئی بات نہیں مجھے تھوڑی دیر کے لئے باہر جانا ہے تو باقی ٹھیک ہے.وہ یہ کہہ کر وہاں سے روانہ ہوئی.واپسی پر وہ قافلہ آرہا تھا ووٹ دے کر تو ایک جھاڑی میں سے انہوں نے خون بہتا دیکھا جا کے پتہ کیا تو وہی ان کے گھر کی بچی تھی اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ چل سکے.چنانچہ رستے میں اتنی Bleeding شروع ہو گئی کہ جھاڑیوں میں وہ چھپ کر لیٹ گئی اور وہیں بے ہوش ہوگئی اسے اُٹھا کر واپس لائے.اس طرح وہ لوگ بیعتیں کیا کرتے تھے، اس طرح تقاضے ادا کرتے تھے دین کے، وہ خالص تھے اپنے ایمان میں کوئی ان میں جھوٹ کی ملونی نہیں تھی.ایسی ایسی مائیں تھیں جنہوں

Page 18

حضرت خلیفہ مسیح الرائع کے مستورات سے خطابات ۱۴ خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۲ء نے اس قربانی کے حیرت انگیز مظاہرے کئے ہیں اسلام کی خاطر اور بیعت کا حق ادا کرنے کے لئے.حضرت مصلح موعودؓ بیان کرتے ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد جب شروع میں کشمیر میں جہاد ہو رہا تھا تو پاکستانی فوج کو مجاہدین کی شدید ضرورت تھی.حضرت مصلح موعودؓ نے دیہات میں پیغام بھجوانے شروع کئے جماعت میں کہ جو بھی فوج میں بھرتی ہو سکتا ہے آج ایک خاص ضرورت ہے قوم اور ملک کو اس لئے آپ لوگ بھرتی ہوں.ایک جگہ آپ کے کارندے گئے اور وہاں اعلان کیا بڑا احمدی گاؤں تھا کوئی کھڑا نہیں ہوا پھر اس نے کہا پھر کوئی کھڑا نہیں ہوا.ایک بیوہ عورت تھی بڑی عمر کی اس کا ایک ہی بچہ تھا وہ اپنے گھر سے جھانک رہی تھی یہ نظارہ.اس قدر اس کو جوش آیا اس نے اپنے بیٹے کو نام لے کر کہا کہ او! میرے بیٹے تو کیوں جواب نہیں دیتا.تیرے کان میں کیا خلیفہ وقت کی آواز نہیں پڑ رہی.چنانچہ وہ اُٹھ کھڑا ہوا اس نے کہا میں حاضر ہوں اور ایک قطرہ جس طرح بارش کا آتا ہے اور اس کے پیچھے موسلا دھار بارش برستی ہے سارے جتنے جوان تھے اُٹھ کھڑے ہوئے کہ ہم بھی آتے ہیں.حضرت مصلح موعود اس واقعہ کو لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب یہ اطلاع مجھ تک پہنچی تو میں نے اپنے خدا کے حضور ایک دعا کی.میں نے کہا اے میرے اللہ ! میری آواز پر اس بیوہ نے اپنا ایک ہی بیٹا پیش کر دیا ہے جو شادی کی عمر سے گزر چکی ہے پھر اولا د کی کوئی توقع نہیں ہے.میں تیری عظمت اور جلال کی دہائی دیتا ہوں کہ اگر تو نے قربانی لینی ہے تو میرے بیٹے ذبح ہو جائیں اس عورت کا بیٹا بچایا جائے.یہ ہیں وہ احمدی خواتین اور مستورات جو عہد بیعت کو نبھانے والی ہیں.پس اگر کچھ بیٹیاں ان شدتوں کی وجہ سے اور ان سختیوں کی وجہ سے روٹھ کر پیٹھ دکھا کر باہر جاتی ہیں تو غم تو مجھے ان کا ضرور ہوگا لیکن دین کی غیرت مجھے بتاتی ہے کہ خدا کے دین کو ان کی ضرورت نہیں ہے.مسیح موعود علیہ السلام کی ایک بیٹی اگر جائے گی تو خدا سینکڑوں ایسی بیٹیاں عطا فرمائے گا جو زیادہ وفادار ہوں گی، زیادہ حیادار ہوں گی، زیادہ دین کی خاطر قربانیاں کرنے والی ہوں گی، قانتات ہوں گی ،حافظات ہوں گی اور مرتے دم تک اپنے عہد بیعت کو نبھانے والیاں ہوں گی کیونکہ دین کو تو ان کی ضرورت نہیں.ہاں میرے دل کے غم اپنی جگہ ہوں گے کیونکہ میں تو یہ بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ ایک بچی بھی ضائع ہو.جب یہ فیصلے کرنے پڑتے ہیں کہ وقت آ گیا ہے کہ فلاں کو جماعت سے نکالوتو کیا آپ کا خیال یہ ہے کہ خلیفہ وقت کو اس کی تکلیف نہیں پہنچتی ؟ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ تمام مومنین مل کر ایک بدن کی طرح ہیں ایک مومن کو دکھ پہنچتا ہے تو سارے مومنوں کو

Page 19

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۱۵ خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۲ء تکلیف پہنچتی ہے تو کیا خلیفہ وقت کو آپ ایمان کے اس ادنی معیار سے بھی کم سمجھتی ہیں؟ جب وہ ایسا فیصلہ کرتا ہے اس کا دل خون روتا ہے ، وہ دعائیں کرتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی اور گریہ وزاری کرتا ہے کہ اے خدا! بچا اور مجھے ایسا وقت نہ دیکھنا پڑے کہ میرے ہاتھ سے کوئی احمدی بچی یا احمدی بھائی ضائع ہو.اس کے باوجود اگر کوئی ضائع ہوتا ہے تو پھر ایمانی غیرت کا تقاضا ہے اور میں آپ کو کھول کر بتا دیتا ہوں کہ پھر ان کی کوئی پرواہ نہیں کی جائے گی.جو زندگی انہوں نے اپنے لئے پسند کی ہے اس کا نقشہ میں نے آپ کے سامنے کھینچا ہے اس دنیا میں بھی ان کے لئے عذاب الیم کے سوا کچھ نہیں لکھا جائے گا.میری کوئی بھی ذاتی حیثیت نہ سہی مگر میں اس منصب پر فائز ہوں جس کے لئے خدا ہمیشہ غیرت دکھاتا رہا ہے اور ہمیشہ غیرت دکھائے گا.ایک دن بھی خلافت کا ایسا نہیں آئے گا کہ خدا اپنے خلیفہ کے لئے غیرت نہ دکھا رہا ہو اس لئے اپنے مقام کو سمجھیں میں ایک عاجز اور حقیر اور ذلیل انسان ہوں مگر منصب خلافت عاجز اور حقیر اور ذلیل نہیں ہے.اگر آپ اپنے عہد بیعت میں صادق اور بچی ہوں گی تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے آپ پر رحمتیں نازل فرمائیں گے اور آپ کی نسلوں کی خوشیاں آپ کو دکھاتے چلے جائیں گے.کن لوگوں کی آپ اولا دیں ہیں، کس عظیم اسلام کی پاسبان ہیں ان کی قدروں کی پاسبان آپ بنائی گئی ہیں آپ نے پیٹھ پھیر لی تو کون ان قدروں کی حفاظت کرے گا.ابتدائے اسلام میں ایسی ایسی خواتین تھیں جو پورا پردہ کرتی تھیں باوجود اس کے کہ جب سوسائٹی پاک ہو گئی ہے تو اجازت تھی کہ چہرے کا سامنے کا حصہ کھلا رکھا جائے ، جب گند تھا سوسائٹی میں تو پردے میں بہت زیادہ سختی تھی.جیسا کہ آج کل پسماندہ ممالک میں گند ہے.یعنی نظریں ایسی گندی ہو چکی ہیں ایسی عادت پڑ چکی ہے کہ یوں لگتا ہے کہ نقاب پھاڑ کے بھی پہنچنے کی کوشش کریں گے.یہاں وہی ابتدائے اسلام والا حصہ کام کرے گا جہاں سوسائٹیوں میں ایسی حالت نہیں ہے وہاں پر دے کا دوسرا حکم اطلاق پائے گا.تو اس وقت بھی امہات المومنین میں سے ایسی عورتیں تھیں جو پردہ کرتے ہوئے جنگوں میں حصہ لیتی رہیں.انہوں نے بڑی بڑی خدمات ادا کی ہیں.جنگ احد میں حصہ لیا دوسری جنگوں میں حصہ لیا اور بڑی خدمت کے فریضے ادا فرمائے.خولہ کا واقعہ آپ نے سنا ہوا ہے.خالد بن ولید کو ایک دفعہ رومیوں کے ساتھ ایک معرکہ

Page 20

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۱۶ خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۲ء در پیش تھا جس میں رومیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اتنی کثیر تعداد تھی کہ خطرہ تھا کہ مسلمانوں کے پاؤں نہ اکھڑ جائیں.وہاں مسلمانوں نے ایک نقاب پوش زرہ بکتر میں بند سوار کو اس حالت میں دیکھا کہ وہ پلٹ پلٹ کر دشمن کی فوج پر حملے کر رہا ہے اور جدھر جاتا ہے کشتوں کے پشتے لگادیتا ہے صفیں چیر دیتا ہے اور پھر دوسری طرف سے صفیں چیرتا ہوا واپس نکل آتا ہے.چنانچہ مسلمان لشکر نے آپس میں باتیں شروع کیں کہ یہ تو ہمارے سردار خالد بن ولید کے سوا کوئی نہیں ہوسکتا.سیف اللہ کے سواء اللہ کی تلوار کے سوا کس کی شان ہے کہ اس شان کے حملے کرے.اتنے میں انہوں نے دیکھا کہ خالد بن ولید خیمے سے باہر آرہے ہیں بڑا تعجب ہوا.انہوں نے کہا اے سپہ سالار! یہ کون ہے اگر آپ نہیں ہیں؟ انہوں نے کہا مجھے بھی پتہ نہیں.میں تو پہلی دفعہ اس قسم کا جو ان دیکھ رہا ہوں.چنانچہ اس حالت میں آخر وہ جوان واپس لوٹا جس کو وہ سب جوان سمجھ رہے تھے کہ خون سے لت پت تھا اور اس کا گھوڑا بھی دم توڑنے کو تیار تھا پسینے میں شرابور ، وہ اترا تو خالد بن ولید آگے بڑھے.انہوں نے کہا اے اسلام کے مجاہد ! بتا تو کون ہے؟ ہماری نظریں ترس رہی ہیں تجھے دیکھنے کے لئے اپنے چہرہ سے پردہ اتار.اس نے سنی ان سنی کر دی.نہ زرہ اتاری نہ پردہ اتارا.خالد بن ولید حیران ہو گئے کہ اتنا بڑا مجاہد اور اطاعت کا یہ حال ہے.انہوں نے پھر تعجب سے کہا کہ اے جوان ! ہم تو ترس رہے ہیں تجھے دیکھنے کے لئے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لئے چہرے سے پردہ اُتار.اس نے کہا اے آقا! میں نافرمان نہیں ہوں لیکن مجھے اللہ کا حکم یہ ہے کہ تو نے پردہ نہیں اتارنا.میں عورت ہوں میرا نام خولہ ہے اور انہوں نے پردہ نہیں اتارا.بعض عورتیں کہتی ہیں کہ جی گرمی بہت ہے.مردوں کو کیا فرق پڑتا ہے وہ جس طرح مرضی نکل جائیں ہم برقع میں کس طرح رہیں گرمی ہے.حالانکہ یہ بات نہیں ہے مجھے اپنا تجربہ ہے کہ خصوصاً دیہاتی علاقوں میں جب جانا پڑتا ہے باہر تو چھوٹی دیواروں والی مسجدیں ، چھت قریب ہوتی ہے، گرمیوں کا زمانہ بھی کوئی نہیں ہوتی ، اچکن کے بٹن اوپر تک بند کرنے پڑتے ہیں یوں لگتا ہے کہ آدمی Steam ہو رہا ہے.یعنی بھاپ کے اندر پکایا جارہا ہے.مجبوریاں ہیں عادت نہیں ہے پھر بھی کرنا پڑتا ہے.تو یہ بات تو نہیں ہے کہ مردوں کو کبھی ایسی تکلیفوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا.مگر ایک پرانے زمانہ کی ، ابتدائے اسلام کی ایک عورت کا بھی میں آپ کو واقعہ سناتا ہو.آپ کو تو برقعے میں گرمی لگتی ہے.حضرت سمیہ کا یہ حال تھا کہ جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائیں تو اس جرم کی سزا میں

Page 21

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۱۷ خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۲ء اور ان کو ارتداد پر مجبور کرنے کے لئے پورا زرہ بکتر پہنا کر دھوپ میں تپتی ہوئی ریت پر کھڑا کر دیا جاتا تھا یہاں تو درجہ حرارت ۱۲۰ تک پہنچتا ہے عرب میں صحرا میں ۱۴۰ تک بھی پہنچ جاتا ہے اور ان کے حواس مختل ہو جایا کرتے تھے.اس وقت ان سے پوچھا جاتا تھا.تو روایتوں میں آتا ہے کہ ان کو بات سمجھ نہیں آتی تھی اس قدر شدت گرمی اور تکلیف سے وہ پاگل ہوئی ہوتی تھیں.پھر ان کو ایذاء دینے والے اوپر کی طرف انگلی اُٹھاتے تھے اور تب وہ سمجھتیں تھیں کہ کہتے ہیں کہ خدائے واحد کا انکار کر دو.تو بات کرنے کی تو طاقت نہیں تھی سر ہلا دیا کرتی تھیں کہ یہ انکار نہیں ہوگا.ایسی بھی پردہ پوش مستورات اسلام میں گزری ہیں.پھر حضرت اُم شعیب کا واقعہ آتا ہے ان کے ساتھ بھی دشمن یہی سلوک کیا کرتے تھے.ایک دفعہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر ہوا جب انہیں تکلیف دی جا رہی تھی اور حالت یہ تھی کہ اس عورت کا بیٹا بھی یہ نظارہ کر رہا تھا اور اس کا خاوند بھی نظارہ کر رہا تھا اور کچھ پیش نہیں جاتی تھی.آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ! اے عمار صبر کرو ، اے ام عمار صبر کرو اور اے ام عمار کے خاوند تم بھی صبر کرو کیونکہ خدا صبر کرنے والوں کے اجر کو کبھی ضائع نہیں کرتا.تو یہ تو کچھ بھی نہیں ہے ابھی تو اسلام کے لئے بڑی بڑی قربانیاں آپ نے دینی ہیں.میں دیکھ رہا ہوں کہ اسلام کی رفتار اسلام کے قافلے کی رفتار یعنی جو احمد بیت کا قافلہ ہے تیز سے تیز تر ہونے والا ہے اور تمام دنیا میں کاموں کے بے شمار بوجھ آپ پر آنے والے ہیں ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے گھبرانے کے بعد آپ کو یہ توفیق کیسے ہوگی کہ عظیم خدمت کے کام کر سکیں.پس دعا کریں اور استغفار سے کام لیں اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ اسلام کی خاطر ہم ہر قربانی کے لئے پیش پیش ہوں یہ میدان بظاہر ہم ہار گئے ہیں اس میدان کو ہم نے لاز مافتح کرنا ہے.وہ بچی جس نے کہا تھا کہ یہ بات نہیں چلے گی میں اس کو بتادیتا ہوں کہ یہ بات چلے گی یہ خدا کی بات ہے لازماً چلے گی تم ساتھ نہیں چلو گی تو الگ ہو جاؤ اسلام کے قافلے میں ایسے لوگوں کو شامل ہونے کا کوئی حق نہیں ہے.مگر اسلام کا قافلہ بھی چلے گا اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن کی بات بھی لازما چلے گی اور ہمیشہ چلتی رہے گی خواہ ہمیں خون کا آخری قطرہ اس راہ میں بہانا پڑے.

Page 22

Page 23

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۹ خطاب ۲۷/ دسمبر ۱۹۸۳ء آنحضرت کی خوبصورت عائلی زندگی اور جنت نظیر معاشرت (جلسہ سالانہ مستورات پاکستان سے خطاب فرمودہ ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۳ء بمقام ربوہ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللهَ كَثِيرَاتٌ (الاحزاب : ۲۲) تمام دنیا سے جو مختلف رپورٹیں موصول ہوتی رہتی ہیں، انفرادی خطوں کی صورت میں بھی اور جماعت کے امراء کی رپورٹوں کی شکل میں بھی ان سے یہ معلوم کر کے دل حمد سے بھر جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدی عورت ہر جگہ بڑی تیزی کے ساتھ بیدار ہو رہی ہے.اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ رہی ہے اور یہ کہ پہلے سے بہت بڑھ کر اُن ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی طرف توجہ ہے.گزشتہ سال جو میں نے پردے کی تحریک کی تھی اس تحریک کے نتیجے میں بھی اتنا حیرت انگیز موافق رد عمل کا اظہار ہوا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کیسے احمدی عورت کو اتنی عظیم الشان توفیق نصیب ہوئی.آج تک اس دور میں اور کہیں آپ کو ایسا واقعہ نظر نہیں آئے گا کہ دنیا کے کسی حصے کی عورت جو ایک دفعہ مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر ان کی مفروضہ آزادیوں کی شکار ہو چکی ہو پھر واپس لوٹ آئی ہو.سارے عالم میں یہ اس دور کا ایک ہی واقعہ ہے کہ احمدی خاتون جو مغربیت سے متاثر ہو کر مغربیت کی اندھی تقلید کی طرف بڑھ رہی تھی ایک اُٹھنے والی آواز کے ساتھ بڑی تیزی کے ساتھ واپس دوڑی اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے امن کے جھنڈے تلے اکٹھی ہوگئی.یہ ایک اتنی بڑی نیکی ہے، اتنا بڑا اچھا قدم اُٹھایا گیا

Page 24

حضرت خلیفہ امسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات خطاب ۲۷ دسمبر ۱۹۸۳ء ہے کہ مجھے یقین ہے اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل جیسے نازل ہورہے ہیں اس سے بڑھ کر آئندہ بھی نازل ہوتے رہیں گے اور جماعت احمدیہ کی خواتین کو ہمیشہ پہلے سے بڑھ کر خدمت دین کی توفیق نصیب ہوتی رہے گی.پاکستان سے جو اطلاعیں ملتی رہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بچیاں جو پہلے برقعے کے خیال سے شرماتی تھیں انہوں نے بڑی جرات اور ہمت کے ساتھ برقعے کو اوڑھا اور بعض بچیوں نے مجھے لکھا کہ پہلے کبھی مجبور ابرقع پہنا پڑتا تو شرم سے سر جھکا کر چلا کرتی تھی.اب میں برقع پہن کر سر اٹھا کر چلتی ہوں غیروں میں اور مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے ان کے طعنوں کی.میں ان کو یہ جواب دیتی ہوں کہ تمہاری نظر میں میں پسماندہ ہوں لیکن اپنے رب کی نظر میں میں ترقی یافتہ ہوں اور تم سے بہت آگے ہوں.یہ واقعہ ایک جگہ نہیں ہوا دو جگہ نہیں ہوا ، مشرق میں نہیں ہوا مغرب میں نہیں ہوا بلکہ سارے عالم میں اسی قسم کے واقعات رونما ہوئے.یہاں تک کہ امریکہ کا وہ شہر جو د نیا کونگ سکھانے میں سب سے آگے ہے، یعنی Los Angleas لاس انجلیس “ جو تمام بے حیاؤں کی آماجگاہ ہے.وہاں سے بے حیائیاں پھوٹتی ہیں اور ساری دنیا ان کے پیچھے چلتی ہے.دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری وہاں ہے.وہاں ایک رات میں ۳۰ احمدی خواتین نے راتوں رات برقعے سے اور صبح وہ برقع پہن کر باہر نکل گئیں اور ان تجربوں کے نتیجے میں جو غیر ممالک سے خط آرہے ہیں بہت ہی حوصلہ افزاء ہیں.بعض جگہ احمدی خواتین نے لکھا کہ ہم نے جب برقع شروع کیا تو کچھ دیر کے بعد غیر مسلم خواتین نے یہ کہنا شروع کیا کہ ہاں ہم تسلیم کرتی ہیں کہ تمہارا معاشرہ ہم سے بہتر ہے اور تمہارا کردار ہم سے بہتر ہے.ایک کالج کی لڑکی نے جو نو مسلم ہے امریکہ کی خاتون ہے اس نے مجھے لکھا کہ جب مجھے آواز آئی ساتھ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ جو دوسرے معاشرے میں بسنے والے لوگ ہیں وہ صرف چادر سنبھال کر اوڑھ لیں تو بہت کافی ہو گا ضروری نہیں ہے کہ وہ پاکستان میں رائج برقع ہی پہنیں.غیر قوموں میں سے آنے والوں کے لئے برقعے کی ابتدائی شکل یا پردے کی ابتدائی شکل ہی کافی ہے.اس نے مجھے لکھا کہ یہ سب باتیں مجھے معلوم تھیں لیکن جب میں نے احمدی خواتین کو جو پاکستان سے آئی ہوئی تھیں برقع پہنے دیکھا تو میں نے کہا کہ میں کیوں پیچھے رہ جاؤں.چنانچہ ایک دن میں کالج میں برقع پہن کرگئی اور مجھ پر بہت انگلیاں اُٹھیں.یہاں تک کہ اس دن ہمارے لیکچرار نے مجھے نشانہ بنایا اور کہا تمہیں کیا ہو گیا ہے تمہارا سر پھر گیا ہے؟ کیا واقعہ ہوا ہے آج.کہتی ہیں جب میں نے سنایا کیا واقعہ ہوا، جب میں نے تفصیل بیان کی تو سارے نہ صرف مطمئن ہوئے بلکہ وہ کہتی ہیں کہ اب میں اس کالج میں سب سے زیادہ معزز لڑ کی

Page 25

حضرت خلیفہ المسح الرائع" کے مستورات سے خطابات ۲۱ خطاب ۲۷/ دسمبر ۱۹۸۳ء شمار ہوتی ہوں اور وہی پر و فیسر جس نے پہلے اعتراض کئے تھے اس نے اس کردار کی بارہا تعریف کی اور کہا کہ یہ زندہ رہنے والا کردار ہے جو یہ نمونہ دکھا رہے ہیں.ان باتوں پر نظر کر کے جہاں دل حمد سے بھرتا ہے اللہ تعالیٰ کے احسانات کے آگے روح سجدے کرتی ہے وہاں یہ احساس بھی بڑی شدت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے کہ عورت پر ذمہ داریاں ہی نہیں عورت کے کچھ حقوق بھی ہیں.اگر عورت کو ذمہ داریاں یاد کرائی جائیں تو اس کے حقوق بھی تو ہمیں یا درکھنے پڑیں گے.مردوں کو یہ بھی تو سمجھانا ہوگا کہ تم پر عورت کی کیا ذمہ داریاں ہیں اس کے بغیر معاشرے میں کبھی بھی توازن پیدا نہیں ہوسکتا، نیکیاں مستقل صورت اختیار نہیں کر سکتیں جب تک کہ معاشرے میں توازن نہ ہو اس لئے میں نے آج کے موضوع کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عائلی زندگی میں اسوۂ حسنہ اختیار کیا ہے.عورتوں کے لئے بھی اس میں نصیحت ہے اور مردوں کے لئے بھی.سب سے حسین معاشرے کی جنت جو نازل ہوئی وہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نازل ہوئی.آپ نے بہترین اُسوہ ہر آنے والی نسل کے لئے پیچھے چھوڑا.خواتین مبارکہ سے آپ کا کیا سلوک تھا آپ کیسے گھر میں رہتے تھے، کس طرح ان کے حقوق کا خیال رکھتے تھے، کس طرح حقوق سے بڑھ کر اُن پر التفات فرمایا کرتے تھے، یہ وہ زندہ رہنے والے نمونے ہیں جو دُنیا کی نظر سے اوجھل ہو چکے ہیں اور یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ بہت سے احمدی گھروں کی نظر سے بھی اوجھل ہو چکے ہیں اس لئے جہاں عورت کو ہم اس کی ذمہ داریاں یاد کرواتے ہیں وہاں ضروری ہے اُس کے حقوق کو ادا کرنا بھی سیکھیں کیونکہ جب تک عورت کے حقوق ادا نہیں کئے جائیں گے مسلمان عورت مسلمان سوسائٹی میں فعال اور اہم کردار ادا نہیں کر سکے گی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عائلی زندگی سے متعلق پہلے تو میں کچھ عمومی باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور کیا تھا.آپ ایک ایسے خاوند نہیں تھے جو گھر میں محض حکم ہی چلائیں اور یہ سمجھیں کہ بیویاں صرف خدمت کے لئے پیدا کی گئی ہیں.باوجود اس کے کہ آپ عورتوں کو مردوں کے حقوق ادا کرنے کی تلقین فرماتے تھے لیکن اپنا سلوک ازواج مطہرات سے ایسا تھا کہ اس کو دیکھ کر روح وجد میں آجاتی ہے.کس قدر بے تکلفی کے ساتھ کس قدر انکساری کے ساتھ آپ گھر کے کاموں میں حصہ لیتے تھے کہ آج کی ایڈوانس سوسائٹیز میں جہاں مرد عورت کا کچھ نہ کچھ ہاتھ بٹانے لگے ہیں.آج کل کے زمانے میں بھی ایسی مثالیں نظر نہیں آسکتیں.

Page 26

حضرت خلیفہ امسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۲ خطاب ۲۷/ دسمبر ۱۹۸۳ء حضرت عروہ کی اپنے والد سے ایک روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ : میں نے عائشہ سے دریافت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر پر کیا کرتے رہتے ہیں.آپ نے جواب میں فرمایا اپنے کپڑے بھی سی لیتے ہیں، جوتے بھی مرمت کر لیتے ہیں، ہر وہ کام کرتے ہیں جو لوگ گھر پر کیا کرتے ہیں.“ ( مسنداحمد بن حنبل جلد ۶ ص ۱۲۱) اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ کنویں کا ڈول تک بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود مرمت کرتے اور سیتے ہیں.پھر حضرت عائشہ نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے آدمیوں کی طرح ایک بشر تھے اپنے کپڑے خو دسی لیتے تھے، بکری کا دودھ دوہتے تھے اور اپنے سارے کام خود کیا کرتے تھے.پھر حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بھی زیادہ خوش خلق نہیں تھا، گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتے تھے اور باہر سے جب کسی بلانے والے کی آواز آتی تھی تو آپ لبیک کہہ کر دروازے کی طرف جایا کرتے تھے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دستور تھا کہ رات کو جب خدا کی عبادت کے لئے اُٹھتے تھے تو اپنے اہل و عیال کو بھی جگایا کرتے تھے خصوصا رمضان شریف میں.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ کمر ہمت کس لیتے تھے اور رات کا بیشتر حصہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم عبادت میں صرف فرماتے اور اپنی بیویوں اور بچوں اور عزیزوں کو بھی بار بار جگاتے اور تاکید فرماتے اور بڑے صبر کے ساتھ اس نصیحت پر قائم رہتے.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ کا واقعہ ہے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جوتی کو پیوند لگا رہے تھے اور میں چرخہ کات رہی تھی میں نے دیکھا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک پر پسینہ آرہا تھا اور اس پسینہ کے اندر ایک نور چمک رہا تھا جو اُبھرتا جاتا تھا اور بڑھتا جاتا تھا یہ ایک ایسا نظارہ تھا کہ میں سراپا حیرت بن گئی.حضور مبارک کی نظر جب مجھ پر پڑی تو فرمایا عائشہ تو حیران سی کیوں ہے؟ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پر پسینہ ہے اور پسینے کے اندر ایک چمکتا ہوا نور ہے.اس پاک نظارے نے مجھے سرا پا چشم حیرت کر دیا.با خدا اگرا بوقبیل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ پاتا تو اسے معلوم ہو جاتا کہ اُس کے شعر کا صحیح مصداق تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں.اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ وہ شعر کیا ہے.

Page 27

حضرت خلیفہ امسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۳ حضرت عائشہ کہتی ہیں میں نے وہ شعر پڑھا جو یہ تھا.خطاب ۲۷/ دسمبر ۱۹۸۳ء وَمُبَرَّءٍ مِّنْ كُلِّ عُبْرِ حِيْضَةٍ وَفَسَادِ مُرضِعَةٍ وَدَاءٍ مُغِيلٍ وَإِذَا نَظَرُتِ إِلَى أَسِرَّةِ وَجُهِهِ بَرِقَتْ كَبَرُقِ الْعَارِضِ الْمُتَهَدِّلِ ( تہذیب الکمال جز ۲۸۶ صفحه ۳۱۹) (حلیۃ الاولیاء جزء ۲ صفحه ۴۶) حضرت عائشہ نے جو شعر پڑھا اس کا ترجمہ یہ ہے.کہ وہ شخص ولادت اور رضاعت کی آلودگیوں سے پاک تھا اور اس کے درخشندہ چہرے کی شکنوں پر نظر کرو تو معلوم ہوگا کہ نورانی اور کھل کر چمکنے والی روشن تر بجلی سے بھی بڑھ کر وہ روشن ہے.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت عائشہ صدیقہ کے منہ سے یہ شعر سنا تو آپ فرماتی ہیں کہ جو کچھ آپ کے ہاتھ میں تھا وہ رکھ دیا میری پیشانی پر بوسہ دیا اور فرمایا: مَاسُرِرُتِ كَسَرُو رِی مِنْكِ 66 " تو مجھ سے اتنا خوش نہیں ہوئی جتنا میں تجھ سے خوش ہوا ہوں.“ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مختلف ادوار آئے.ایسے وقت بھی تھے کہ مہینہ مہینہ گھر میں چولہے میں آگ نہیں جلتی تھی.جو صحابہ پر گزرتی تھی وہی آپ کے گھر پر بھی گزرتی تھی اگر باہر فاقے پڑ رہے ہوتے تھے.تو آپ کے گھر میں بھی فاقے پڑ رہے ہوتے تھے، جب باہر سہولت ہو جاتی تھی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی نسبت سے گھر میں بھی سہولت دے دیا کرتے تھے اور ایک روایت کے مطابق جب خدا تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی تو آپ کا یہ دستور تھا کہ تقریباً ۳۷۵ من کھجور اور ۷۵ من کو یہ سالانہ وظیفہ اپنے ہر گھر میں دیا کرتے تھے.اس زمانے میں چونکہ یہ جو اور کھجور وغیرہ بدلا کر باقی چیزیں بھی لی جاتی تھیں اس لئے ایک گھر کے کھانے سے تو بہت زیادہ ہے یہ.مگر چونکہ اس سے زندگی کی ساری ضرورتیں پوری کرنی ہوتی تھیں اس لئے درمیانہ سا گزارا ہے.لیکن اس شفقت اور اس گزارے کے باوجو دایک وقت ایسا آیا کہ بعض خواتین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مطالبے شروع کئے.انہوں نے کہا کہ ہماری ضرورت پوری نہیں ہو رہی ہمیں کچھ زیادہ دیجئے.اس موقع پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو جو صدمہ پہنچا اس پر نظر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا

Page 28

حضرت خلیفہ امسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۴ خطاب ۲۷/ دسمبر ۱۹۸۳ء يَايُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَ تُرِدْنَ الْحَيُوةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتَّعُكُنَّ وَأُسَرِحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنَتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا (الاحزاب : ۳۰،۲۹) ”اے نبی اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا اور اس کی زینت چاہتی ہو.تو آؤ میں تمہیں کچھ دنیاوی سامان دے کر رخصت کرتا ہوں اور احسن اور نیک طریق سے تمہیں رخصت کروں گا اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اخروی زندگی کے گھر کو چاہتی ہو تو اللہ نے تم میں سے پوری طرح اسلام پر قائم رہنے والیوں کے لئے بہت بڑا اج تجویز فرمایا ہے.“ ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ ایک دن صبح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات رور ہی تھیں اور ہر بیوی کے پاس اس کے گھر والے اکٹھے ہورہے تھے.عجیب دردناک منظر تھا.میں مسجد گیا تو وہ لوگوں سے بھری ہوئی تھی.حضرت عمرؓ آئے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم چوبارے پر تھے.حضرت عمرؓ کو کسی نے جواب نہ دیا پھر انہوں نے سلام کیا.پھر جواب نہ دیا.پھر تیسری دفعہ سلام کیا تو اجازت ملی.حضرت عمر اندر چلے گئے اور پوچھا کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سب بیویوں کو طلاق دے دی ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ میں نے ایلاء کیا ہے.اس آیت کریمہ کے نزول کے بعد میں ایک ماہ تک اپنی بیویوں سے علیحدہ رہوں گا اور ان کو یہ موقع دوں گا کہ وہ خوب غور کر لیں کہ ان دونوں چیزوں میں سے انہیں کیا اختیار کرنی ہے.شدید محبت اور شفقت کے باوجود اصول کے معاملوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیر متزلزل تھے.جذبات نے کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عقل پر حکومت نہیں کی.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار پر حکومت نہیں کی بلکہ ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عقل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار جذبات کے حاکم رہے.چنانچہ جب یہ اختیار دیا گیا تو سب سے پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بات کی.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! کہ دیکھو تم اپنے ماں باپ سے پوچھ لو اور مشورہ کر لواور پھر مجھے بتاؤ کہ کیا فیصلہ ہے؟ حضرت عائشہ جواب میں کہتی ہیں کہ مجھے ماں باپ سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے میرے دل کا فیصلہ تو ہو چکا ہے.وہی فیصلہ ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم

Page 29

حضرت خلیفہ المسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۵ خطاب ۲۷/ دسمبر ۱۹۸۳ء کو اختیار کروں گی.چنانچہ اس کے بعد جتنی ازواج مطہرات تھیں سب نے یہی جواب دیا اور ایک مہینے کے بعد ایک نئی شان کے ساتھ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر بسنے لگے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عورت کے ساتھ نہایت شفقت اور محبت کا سلوک فرماتے تھے.اس کے باریک جذبات کا خیال رکھتے تھے اور اس کی جسمانی کمزوری اور نزاکت کا بھی احساس رکھتے تھے.ایک موقع پر جب اونٹنیوں پر سوار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر فرما رہے تھے تو ایک ایسی اونٹنی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج سوار تھیں.اس کے ہانکنے والے نے جس کا نام انجشہ تھا بہت تیزی کے ساتھ اُونٹنیوں کو ہنکایا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آہستہ آہستہ انجثہ قوارير قواریر.شیشے سوار ہیں ان اونٹوں پر.آہستہ چلو آہستہ چلو.تو یہ جو محاورہ ہے کہ Glass with Care آج کل کے زمانے کا کہ شیشہ ہے احتیاط سے چلنا.یہ سب سے پہلے چودہ سو سال قبل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا تھا.آپ کی ازواج میں سب سے پہلی زوجہ محترمہ حضرت اقدس خدیجہ رضی اللہ تعالی عنها تھیں.آپ کو ایک ایسا خاص مقام حاصل تھا جس میں کبھی کوئی دوسری بیوی شریک نہ ہوسکی.آپ سب سے پہلی تھیں تصدیق کرنے والی ، آپ وہ تھیں جن کے گھر میں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلی وحی کے بعد جب بے قراری کا اظہار فرمایا تو آپ نے ان کو تسلی دی.آپ نے یہ حکمت کی بات کہی کہ آپ کو کیا خوف ہے اپنے متعلق.آپ تو وہ ہیں جو صلہ رحمی کرتے ہیں، آپ تو وہ ہیں جو کھوئے ہوئے اخلاق کو دوبارہ زندہ کر رہے ہیں، آپ تو وہ ہیں جو غریبوں اور مصیبت زدگان کے بوجھ اُٹھانے والے ہیں، کیا ایسے شخص کو بھی خدا ضائع کر دے گا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں کوئی خوف کا سوال پیدا نہیں ہوتا.پھر یہ حضرت خدیجہ ہی تھیں جو شروع میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی ساتھی تھیں اور چُھپ چُھپ کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت خدیجہ ا کٹھے نماز ادا کیا کرتے تھے.حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے کسی پر بھی اتنا رشک نہ کرتی تھی جتنا کہ خدیجہ پر حالانکہ میں نے ان کو کبھی نہیں دیکھا مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اُن کا بہت ذکر کیا کرتے تھے.کبھی بکری ذبح کرتے تو اچھے ٹکڑے الگ کرتے اور بھون بھون کر خدیجہ کی سہیلیوں کو بھجوایا کرتے.وہ کہتی ہیں کہ جیسے دُنیا میں خدیجہ کے سوا کوئی عورت ہی نہ ہوئی ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ شکایت کرتیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اس طرح خیال رکھ رہے ہیں خدیجہ کا

Page 30

حضرت خلیفہ امسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۶ خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۳ء جیسے خدیجہ کے سوا دنیا میں عورت ہی کوئی نہیں تھی.تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب میں فرماتے کہ وہ ایسی ہی تھی ، اور پھر اُس سے خدا نے مجھے اولا د بھی تو عطا فرمائی.ایک روایت میں ہے حضرت عائشہ نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیوں خدیجہ کا بار بار ذکر کرتے ہیں اور ساتھ یہ بھی کہا کہ اس سے بہتر بیویاں آپ کو مل گئی ہیں اب کیوں ذکر کرتے ہیں.تو اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ہر گز نہیں اُس سے بہتر کیسے ممکن ہے.جب لوگوں نے میری تکذیب کی تو انہوں نے میری تصدیق کی ، جب لوگ کافر تھے وہ اسلام لائیں ، جب میرا کوئی مددگار نہ تھا دنیا میں تو انہوں نے میری مدد کی اور پھر ان کے بطن سے میری اولا د بھی ہوئی.( مسند احمد بن حنبل جلد ۶ ص ۱۱۸) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت خدیجہ سے جو تعلق تھا اس کی تفصیل تو احادیث میں موجود نہیں ہے.گھر میں کس طرح رہتے تھے اور کیسے حسن سلوک فرمایا کرتے تھے کیونکہ اس زمانے کا کوئی راوی ہی ایسا نہیں جو اس وقت مسلمان ہو چکا ہو اور قریب سے اس نے گھریلو زندگی پر نظر ڈالی ہو.ہاں حضرت خدیجہ کے وصال کے بعد جو حضور کی قلبی کیفیت تھی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی میں کیا سلوک فرماتے ہوں گے.ایک مرتبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے تو ایک آواز آئی اور وہ آواز حضرت خدیجہ کی بہن ہالہ بنت خویلد کی آواز تھی جو حضرت خدیجہ سے بہت ملتی تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بے قرار ہو گئے اور گھبرا کر فرمایا کہ خدایا یہ ہالہ ہیں.عائشہ کہتی ہیں کہ مجھے رشک آیا.میں نے کہا کہ آپ قریش کی بوڑھیوں میں سے ایک بوڑھی کو یاد کرتے رہتے ہیں جو کبھی کی اس دنیا سے گزر چکی ہے اور خاک ہو چکی ہے.اللہ نے آپ کو اس کے بدلے میں اس سے بہتر بیویاں دے دی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں نہیں ایسا نہیں.اس سے بہتر مجھے کوئی بیوی عطا نہیں کی گئی.(مسلم کتاب الفضائل ) یہ جو پہلو ہے اس میں وفا کا پہلو بڑا نمایاں ہے.بعض مرد شادیاں کرتے ہیں.بیوی فوت ہو جائے یا بعض دفعہ زندگی میں بھی اس سے بے وفائی کر جاتے ہیں اور ان کی وفا کا تعلق عورت کے ظاہری حسن سے ہوتا ہے اگر ہو بھی تو.جب تک ایک عورت میں جذب ہے کشش ہے وفا کے نام پر مرد ان کا خیال رکھتے ہیں.جب وہ کشش وہ جذب دور ہو جائے تو سمجھتے ہیں کہ اب وفا بھی ساتھ ہی ختم ہوگئی حالانکہ وفا کا ان چیزوں سے کوئی تعلق نہیں.وفا کسی نے سیکھنی ہو تو ہمارے آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھے.تو حضرت خدیجہ کے ذکر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق وفا بڑا نمایاں نظر آتا ہے.

Page 31

حضرت خلیفہ امسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۷ خطاب ۲۷/ دسمبر ۱۹۸۳ء حضرت خدیجہ کے بعد سب سے زیادہ محبت اور پیار کا سلوک حضرت عائشہؓ کے ساتھ دکھائی دیتا ہے.چنانچہ حضرت عمرو بن العاص روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کو ذات السلاسل کے غزوہ پر جانے کا ارشاد فرمایا اور بطور امیر لشکر وہاں بھجوانا تھا.وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی یا رسول اللہ ! آپ کو لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب کون ہے فرمایا عائشہ میں نے عرض کی مردوں میں سے کون ہے فرمایا اس کا باپ.معلوم ہوتا ہے حضرت عمرو بن العاص چونکہ ایک ایسے محاذ پر جارہے تھے جہاں امکان تھا کہ زندہ بچ کر نہیں آئیں گے اور شہید ہو جائیں گے تو پتہ نہیں کہ کون سی تمنالے کر یہ حاضر ہوئے تھے کہ کس کا نام حضور صلی اللہ علیہ وسلم لیں گے.شاید دل کے کونے میں یہ بھی خیال ہو کہ شاید میرا نام آجائے.پہلے عورتوں کا نام لیا گیا تو پھر عرض کی یا رسول اللہ ! مردوں میں سے پوچھ رہا ہوں تو فرمایا مردوں میں سے عائشہ کا باپ.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جو حضرت عائشہ سے پیار تھا وہ ایسا بے تکلف انسانی پیار ہے کہ آج کل کا کوئی انسان سوچ بھی نہیں سکتا کہ اتنا عظیم الشان انسان اس طرح بے تکلفی سے اپنے گھر میں روز مرہ سلوک کر سکتا ہے.آج کل تو بڑے عہدوں کے ساتھ بھی گردنیں اکڑ جاتی ہیں.آج تو بڑے بڑے منصبوں کے اُوپر جا کر انسان جھک کر بات کرنا پسند نہیں کرتا.تو وہ آقا ہمارا جو ساری کائنات کا آقا تھا ، جس کی خاطر زمین و آسمان کو پیدا کیا گیا، اس کی گھریلو زندگی کو دیکھیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے.حضرت عائشہ کی بہت چھوٹی عمر تھی، ابھی کھیلتی تھیں جب آپ کی شادی ہوئی.حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ تبوک اور خیبر سے واپس ہوئے تو گھر کے دروازے پر پردہ لٹکا ہوا تھا ہوا چلنے سے پردہ سر کا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر حضرت عائشہ کی گڑیوں پر جاپڑی، اس وقت وہ گڑیا سے کھیلا کرتی تھیں.اُن گڑیوں کے درمیان میں گھوڑا بھی تھا.جس کے پر کپڑے کے بنے ہوئے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو بڑی شفقت سے فرمایا کہ یہ گڑیوں کے درمیان تم نے کیا رکھا ہوا ہے؟ حضرت عائشہؓ نے عرض کی کہ گھوڑا ہے.فرمایا کہ اس کے اوپر کیا لگا ہوا ہے؟ کہنے لگیں دو پر ہیں.حضور نے پوچھا کہ کیا کبھی گھوڑوں کے بھی پر ہوتے ہیں.کہنے لگیں کہ کیا آپ نے سلیمان کے پردار گھوڑوں کے بارے میں کچھ نہیں سن رکھا ( بخاری کتاب الادب) تو کس طرح بے تکلفی سے پیار اور محبت کی باتیں گھروں میں ہوا کرتی تھیں.کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ ساری کائنات کا سردار ہے.جو ایک بچی سے اس طرح بے تکلفی اور پیار کے ساتھ باتیں کرتا ہے.

Page 32

حضرت خلیفہ امسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۸ خطاب ۲۷/ دسمبر ۱۹۸۳ء حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ حبشی صحن مسجد نبوی میں برچھیوں سے کھیل رہے تھے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سامنے کھڑے ہو کر سپر کیا اور میں اس وقت تک کھیل دیکھتی رہی یہاں تک کہ خود تھک کر پیچھے نہ ہٹ گئی.( بخاری کتاب العیدین) حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ گڑیاں کھیل رہی تھیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو ساری سہیلیاں بھاگ گئیں.یہ ہوتا ہے عموماً کہ چھوٹی چھوٹی بچیاں شرما کر دوڑ جایا کرتی ہیں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے اور اُن کو بلایا اور کہا کہ جاؤ اندر جاؤ ( صحیح بخاری کتاب الادب باب الانبساط ) اور عائشہ کے ساتھ گڑیاں کھیلو.حضرت عائشہ کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ دوڑ کا بھی مقابلہ کیا.اب یہ ایسی باتیں ہیں جو فرضی پیروں کے تصور میں بھی نہیں آسکتیں.خاتم الانبیاء سرور دو عالم ایسی بے تکلف زندگی بسر کر رہا ہے کہ بیوی کہتی ہے کہ میرے ساتھ دوڑ کر دکھا ئیں تو آپ دوڑ پڑتے ہیں اور دوڑ میں حضرت عائشہ آگے نکل گئیں.یہ شروع کا زمانہ تھا جب آپ کا بدن بہت ہلکا تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت ان کو پھر دوڑ کا چیلنج کیا جب ان کا جسم کچھ بھاری ہو گیا تھا اور پھر آپ آگے نکل گئے اور فرمایا عائشہ یہ اس کا بدلہ ہے جو تم نے مجھے شکست دی تھی.( مسند احمد بن حنبل جلد ۶ ص ۲۶۴) حضرت عائشہ صدیقہ کی باری پر لوگ زیادہ تحفے بھیجتے تھے کیونکہ مشہور ہو گیا تھا کہ یہ بیوی زیادہ پیاری ہے اور لوگ سمجھتے تھے کہ اس وقت تحفہ جائے تو حضور ا کرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم زیادہ پسند فرمائیں گے.کچھ بیویوں نے مل کر اس مسئلے پر غور کیا کہ اس کا علاج ہونا چاہئے.چنانچہ ام سلمہ کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی شکایت کریں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کریں کہ وہ اعلان کر دیں کہ آئندہ سے سب باریوں میں برابر چیز بھیجا کرو.ایک دفعہ انہوں نے بات کی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ دوسری طرف پھیر لیا.پھر بات کی پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم متوجہ نہ ہوئے.پھر تیسری دفعہ جب حضرت ام سلمہ نے کہا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے عائشہ کے بارہ میں تکلیف نہ دیا کرو.خدا کی قسم تم میں سے کسی کے بستر پر مجھ پر کبھی وحی نہیں ہوئی مگر عائشہ کے بستر پر مجھ سے خدا کلام کرتا ہے اس لئے تم کس طرح اس کی برابری کر سکتی ہو.( بخاری کتاب المناقب باب فضل عائشہ) یعنی آپ کی ترجیحات بھی اپنے اللہ کی محبت کے نتیجے میں تھیں اور اللہ بھی آپ کے پیار پر نظر رکھتا تھا اور اس بستر کو وحی کا مورد بنادیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند کا بستر تھا.

Page 33

حضرت خلیفہ امسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۹ خطاب ۲۷ دسمبر ۱۹۸۳ء حضرت عائشہ اس قسم کی ایک وحی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں.یعنی ایک ایسا واقعہ بیان کرتی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے.جس وحی کا اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے یہ اُن وحیوں میں سے ایک تھی جو اس رات نازل ہوئی.حضرت ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ عائشہ سے پوچھا کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایسی بات بتائیں جو آپ کو بہت ہی عجیب معلوم ہوتی ہو.اس پر حضرت عائشہ رو پڑیں اور ایک لمبے عرصے تک روتی رہیں اور جواب نہ دے سکیں پھر یہ فر مایا کہ آپ کی تو ہر بات عجیب تھی میں کس بات کا ذکر کروں.پھر عرض کیا ایک رات میری باری تھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بستر میں داخل ہوئے.یہاں تک کہ آپ کی جلد میری جلد کو چھونے لگی.پھر فرمایا کہ اے عائشہ ! کیا آپ مجھے اس بات کی اجازت دیں گی کہ میں اپنے رب کی عبادت میں یہ رات گزار دوں.کتنا حیرت انگیز وجود ہے.کیسا حیرت انگیز کلام ہے.رات کو داخل ہوتے ہیں اپنی بیوی کے بستر میں اور اجازت مانگتے ہیں اُس سے کہ تمہارا حق ہے یہ باری تمہاری ہے لیکن میرا دل چاہتا ہے کہ آج ساری رات اپنے رب کی عبادت کروں تو کیا تم مجھے اس کی اجازت دو گی.اس پر حضرت عائشہ کہتی ہیں.میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یقیناً مجھے تو آپ کا قرب پسند ہے اور مجھے آپ کی خوشنودی مقصود ہے میں آپ کو خوشی سے اجازت دیتی ہوں.اس پر حضور اُٹھے اور گھر میں لٹکے ہوئے ایک مشکیزے کی طرف گئے وضو کیا اور پھر نماز پڑھنے لگے اور قرآن کریم کا بعض حصہ تلاوت فرمایا اور پھر رونے لگے.یہاں تک کہ آپ کے آنسو دونوں کلوں پر بہر آئے.پھر آپ بیٹھ گئے اور خدا کی حمد اور تعریف کی اور پھر رونے لگے.پھر آپ نے اپنے ہاتھ اُٹھائے اور پھر رونے لگے.یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ آپ کے آنسوؤں سے زمین تر ہوگئی.یہاں تک کہ وہ رات گزرگئی اور صبح نماز کے وقت حضرت بلال آپ کو نماز کے لئے بلانے آئے.اس وقت بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے.حضرت بلال نے دیکھا تو عرض کیا رسول اللہ ! آپ رور ہے ہیں کیا آپ کے متعلق اللہ نے یہ خوشخبری نہیں دی.لِيَغْفِر لَكَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنبك وَمَا تَأَخَّر ترجمہ: یعنی یہ کہا اے رسول اللہ! اللہ تو آپ کو معاف فرما چکا ہے مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنبِكَ وَمَا تاخر آپ کی پچھلی غلطیوں کو بھی اور آئندہ آنے والی امکانی غلطیوں کو بھی اس خدا نے معاف فرما دیا

Page 34

حضرت خلیفہ المسح الرابع" کے مستورات سے خطابات خطاب ۲۷ دسمبر ۱۹۸۳ء آپ کیوں روتے ہیں.اس پر آپ نے فرمایا اے بلال! کیا میں خدا تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں اور فرمایا میں کیوں نہ روؤں جب کہ مجھ پر آج رات یہ آیات نازل ہوئی ہیں.اِنَّ فِى خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَايَتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ (آل عمران: ۱۹۱) میہ وہ آیات ہیں جو اُسی رات نازل ہوئی ہیں یوں معلوم ہوتا ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بستر میں داخل ہوئے ہیں تو اس وقت جبرائیل نازل ہوئے ہیں اور قرآن کریم کی یہ آیات نازل ہوئیں اور یہ آیات ایسا غلبہ پاگئیں آپ کے دل و دماغ پر کہ ساری رات پھر اللہ کی حمد میں روتے ہوئے آپ نے گزاردی.ایک روایت میں ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دنیا میں مجھے تین چیزیں عزیز ہیں، عورت، خوشبو.مگر میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت کے حسن کی وجہ سے، اُس کی لطافت کی وجہ سے، اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مرد کی تسکین کے لئے پیدا کیا ہے.عورت سے بھی آپ کو پیار تھا، خوشبو سے بھی آپ کو بہت پیار تھا کیونکہ آپ بے حد لطیف مذاق رکھتے تھے لیکن سب سے بڑھ آپ کی لذت نماز میں تھی.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے ہی مروی ہے.ایک مرتبہ رات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے اپنے بستر میں نہ پایا یعنی باری آپ کی تھی لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بستر سے غائب تھے.میں نے سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی زوجہ محترمہ کے پاس چلے گئے ہوں گے.میں نے پورے تجسس سے آپ کی تلاش شروع کی.چنانچہ باہرنکل کر میں نے دیکھا تو ایک جگہ آپ سجدے کی حالت میں پڑے ہوئے تھے اور یہ دُعا کر رہے تھے.سُبْحَانَكَ وَبِحَمْدِكَ لَا إِلَهُ إِلَّا أَنْتَ کہ اے اللہ تو پاک ہے اور اپنی حمد کے ساتھ پاک ہے کوئی معبود نہیں سوائے تیرے.میں نے عرض کی میرے والدین آپ پر قربان ہوں آپ تو کسی اور حالت میں ہی نکلے.میں تو کچھ اور ہی سمجھی تھی.( نسائی کتاب عشرۃ النساء ) یہ تھے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے غائب ہونے کے واقعات ، آج بھی مرد غائب ہوتے ہیں کتنے ہیں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُسوہ کی پیروی میں اس بناء پر غائب

Page 35

حضرت خلیفہ امسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۳ء ہوتے ہیں.بہت سے ہیں جو گھروں کے سکون برباد کر کے دنیا میں نکل کھڑے ہوتے ہیں.راتیں اپنی بھی تباہ کرتے ہیں، اپنی بیویوں کی بھی راتیں تباہ کرتے ہیں، گھر اجاڑ دیتے ہیں اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا پھر بھی دم بھرتے ہیں.اس مقدس رسول کی اگر غلامی کا دعویٰ ہے تو وہ کر کے دکھاؤ جو محد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کرتے تھے.حضرت ہشام کی روایت ہے اپنے والد سے کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جب مرض الموت سے بیمار پڑے تو آپ باریاں بدلتے رہے اور ہر گھر میں جا کر پوچھتے تھے کہ آج کس کی باری ہے پھر جب آپ کو یہ بتایا گیا کہ آج عائشہ کی باری ہے تو وہیں رک گئے اور وہ آخری دفعہ تھی جو آپ نے باری بدلی.پھر بیماری نے اجازت نہ دی کہ آپ کسی اور گھر جائیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ محسوس ہو گیا اللہ تعالیٰ نے خبر دے دی تھی کہ یہ آخری بیماری ہے.تو ایک مرتبہ جب حضرت عائشہ کے سر میں درد تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ! اگر تم میرے سامنے مرتی تو میں تمہیں غسل دیتا اور میں خود تمہاری تجہیز وتکفین کرتا.عائشہ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ تو میری موت کی خوشی مناتے ہیں کہ جب میں مرجاؤں گی تو نئی بیوی لے آئیں گے.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ناراض نہیں ہوئے بلکہ بیماری کی حالت میں بھی ہنس پڑے.یہ جو واقعہ ہے بظاہر بڑا چھوٹا سا ہے اور تعجب انگیز بھی.عام مرد اگر دل میں تمنا بھی رکھتے ہوں کہ بیوی مر جائے تو یہ بات نہیں کہہ سکتے یہ صرف ایک صادق اور امین کا قول ہے.آپ جانتے تھے کہ عائشہ کو اس سے زیادہ پیاری اور کوئی چیز نہیں ہو سکتی کہ میرے ہاتھوں سے رُخصت ہواس کامل یقین کے نتیجے میں یہ کلام دل سے نکلا ہے اور آپ جانتے تھے کہ واقعی وہ عورت خوش نصیب ہے جس کی میں تجہیز و تکفین کروں.جس کو میں نہلاؤں.تو زمانے سے رخصت ہوتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے یہ ایک احسان تھا جو آپ اُن پر نہ کر سکتے تھے.یہ دُکھ کا احساس تھا جس کا اظہار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک موقع پر فرماتے ہیں اگر تو نے خدا کی خاطر اس کی رضا کے لئے اپنے نفس کوکھانا کھلایا تو بھی عبادت ہے اور نیکی ہے.تو نے اگر اپنے بیٹے کو کھانا کھلایا خدا کی خاطر تو وہ بھی نیکی ہے.اگر تو نے اپنی بیوی کو کچھ کھلایا ، اس کے منہ میں لقمہ ڈالا اللہ کی رضا کی خاطر تو وہ

Page 36

حضرت خلیفہ المسح الرائع" کے مستورات سے خطابات ۳۲ خطاب ۲۷/ دسمبر ۱۹۸۳ء بھی نیکی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا دستور بھی یہی تھا کہ گھر میں اپنی بیویوں کے نازک جذبات اور احساسات کا خیال رکھتے اور نہایت لطیف رنگ میں ان کی دلجوئی فرماتے اُن پر شفقت کا اظہار فرمایا کرتے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بعض دفعہ مجھے چوسنے والی ہڈی دیتے اور میں اس کو چوستی.اور پھر مجھ سے لے کر اُسی جگہ سے چوستے جہاں میرا منہ لگا ہوتا آپ مجھے برتن دیتے تو میں اُس سے پیتی پھر حضور اُسی جگہ سے برتن کو منہ لگا کر پیتے جہاں میرا منہ لگا ہوا ہوتا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال سے کچھ دیر پہلے حضرت عبدالرحمن جو حضرت ابوبکر کے بیٹے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت آپ حضرت عائشہ کی گود میں سر رکھ کر لیٹے ہوئے تھے.عبد الرحمن کے ہاتھ میں مسواک تھی.مسواک کی طرف آپ نے نظر بھر کر دیکھا تو حضرت عائشہ سمجھ گئیں کہ آپ کو مسواک کی خواہش ہے.حضرت عبد الرحمن سے انہوں نے مسواک لی.اپنے دانتوں سے اُس کو نرم کیا اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسی طرح استعمال فرمایا.حضرت عائشہ بڑے فخر سے یہ کہا کرتی تھیں کہ تمام بیویوں میں مجھ کو یہ شرف حاصل ہوا کہ آخری وقت میں یہ میر العاب دہن تھا جو حمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لعاب دہن میں مل گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس گہری محبت کے باوجود حیرت انگیز طور پر بیویوں کے درمیان انصاف کرنے والے تھے اور جہاں تک آپ کا بس تھا آپ نے کبھی بھی کسی بیوی سے فرق نہیں کیا.کسی بیوی کو کسی دوسری بیوی کی حق تلفی کی بھی اجازت نہ دی.آپ ایک روایت کے مطابق یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ ! یہ میری تقسیم اس دائرے میں ہے جس میں مجھے اختیار ہے.یعنی جہاں تک میرا بس چلتا ہے میں اپنی تمام ازواج میں انصاف کا سلوک کرتا ہوں جو کچھ میری طاقت میں ہے وہ میں سب کے لئے برابر کرتا ہوں.مجھے اس کے متعلق ملامت نہ کرنا جس پر میرا کوئی بس اور اختیار نہیں.یعنی دل کا معاملہ جو ہے وہ میرے قبضہ قدرت میں نہیں اے اللہ ! دل کے جھکاؤ کی وجہ سے مجھے نامنصفوں میں شمار نہ فرما لینا.کتنی باریک نظر ہے اللہ کی رضا پر وہ جس کی پہلی غلطیاں پہلی کو تا ہیاں بھی معاف اگر کچھ تھیں، جس کی آئندہ کی کوتاہیاں بھی معاف اگر کچھ تھیں، انصاف کے متعلق اتنا باریک احساس رکھتا تھا کہ خدا کے حضور عرض کیا کرتا تھا کہ جو کچھ میرے بس میں ہے وہ تو میں کر چکا لیکن دل کے معاملات بس کے نہیں ہیں اس لئے اُس بارہ میں

Page 37

حضرت خلیفہ امسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات بے منصفوں میں نہ لکھ دینا.۳۳ خطاب ۲۷/ دسمبر ۱۹۸۳ء حضرت ام المومنین حضرت عائشہ کی ایک روایت حضرت زینب کے متعلق ہے فرماتی ہیں جب آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رخصت کے دن قریب آئے تو حضور نے ایک مرتبہ یہ فرمایا میری ازواج میں سے مجھ سے سب سے پہلے وہ ملے گا جس کے ہاتھ لمبے ہوں گے.اس پر ہم بیویوں نے ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ناپنے شروع کئے کہ دیکھیں کس کے ہاتھ لمبے ہیں کون پہلے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے گا.لیکن وہ کہتی ہیں ہمیں بات کی سمجھ نہیں آئی آپ کی مراد یہ تھی کہ جو بنی نوع انسان کا زیادہ ہمدرد ہے جو زیادہ صدقے اور خیرات دیتا ہے وہی میرے پاس سب سے پہلے آئے گا.چنانچہ حضرت زینب جب فوت ہوئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد اُس وقت خواتین مبارکہ اور صحابہ کو سمجھ آئی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا مراد تھی.اب یہاں بھی دیکھیں کہ نیکی پر ترجیح دی گئی ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل میں بنی نوع انسان کی ایسی محبت تھی ایسا پیار تھا کہ وفات کے بعد وہ پہلی بیوی جو خدا نے آپ کے حضور بھیجی وہ وہی تھی جو صدقہ و خیرات میں سب سے افضل تھی.بیویاں آپس میں مذاق بھی کر لیا کرتی تھیں اور مذاق کے نتیجے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس بیوی سے مذاق ہوتا تھا اس کو بچاتے بھی تھے دوسروں سے ، اُس کی دلداری بھی فرمایا کرتے تھے.کہتے ہیں کہ حضرت سودہ دجال سے بہت ڈرا کرتی تھیں، اس قدر ڈرا کرتی تھیں دجال سے کہ ایک موقع پر بعض ازواج نے مذاقا کہہ دیا کہ دجال آرہا ہے اور دوڑ کر ایک خیمے میں گھس گئیں اور پھر وہاں سے نکلی نہیں.ازواج مطہرات ہنستی ہوئیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں کہ یا رسول اللہ ! خوب تماشا ہوا ہے آج.وہ سورہ دجال کے ڈر کے مارے فلاں خیمے میں گھس گئی ہیں.آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود وہاں تشریف لے گئے اور دروازے پر کھڑے ہو کر فرمایا دجال ابھی نہیں نکلا یہ سنتے ہی حضرت سودہ بے اختیار ہو کر باہر تشریف لے آئیں وہ ایسے کونے سے لگ کر کھڑی تھیں جب با ہر نکلیں تو ماتھے اور سر پر مکڑی کا جالا بھی لگا ہوا تھا.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو عبادت کیا کرتے تھے تو بعض بیویاں ساتھ شامل ہو جایا کرتی تھیں بعضوں کو ہمت دوسروں سے زیادہ تھی ، بعض نسبتا کمزور تھیں ، حضرت سودہ کی روایت یہ ہے کہ مجھے بھی شوق آیا میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں کھڑی ہوگئی آپ کے رکوع اور

Page 38

حضرت خلیفہ امسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۳۴ خطاب ۲۷ دسمبر ۱۹۸۳ء آپ کے سجدے اتنے لمبے تھے کہ مجھے یوں لگتا تھا کہ میری نکسیر پھوٹ جائے گی اس لئے میں دیر تک.ناک پکڑے کھڑی رہی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب آپ نے یہ بتایا تو آپ مسکرا دیئے.آپ کی ازواج مطہرات میں سے ایک حضرت صفیہ بھی تھیں.جو یہودی الاصل تھیں.حضرت صفیہ کے ساتھ آپ کی شادی کا واقعہ بھی بڑا عجیب ہے.جب خیبر فتح ہوا تو دستور کے مطابق جب خیبر کے مردزیر کر لئے گئے اور قتل ہوئے تو جو عور تیں ہاتھ آئیں جنگی قیدیوں کے طور پر اُن کو بھی تقسیم کیا گیا اُس رواج کے مطابق.اور مختلف مسلمان خاندانوں کے سپرد کی گئیں.اُن میں حیی بن اخطب قبیلے کے سردار کی بیٹی صفیہ بھی تھیں جو سردار اُس دن قتل ہوا ہے.اس پر کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ غلطی سے صفیہ کو کسی عام آدمی کے سپرد کر دیا گیا ہے.وہ سردار کی بیٹی تھی اس لئے سردار کے گھر ہی اس کو آنا چاہئے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو تسلیم فرمالیا اور اسی دن حضرت صفیہ آپ کی زوجہ مطہرہ بنے کا شرف حاصل کر گئی.اتنی خوفناک وہ لڑائی تھی اور اتنی شدید نفرتیں تھیں یہود کو مسلمانوں سے کہ اس واقعہ پر بعض صحابہ بیقرار اور بے چین ہو گئے کہ صفیہ جس کا باپ آج قتل ہوا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی بدا رادہ نہ رکھتی ہو.چنانچہ اس رات حضرت ابوایوب سنگی تلوار لے کر ساری رات خیمے کے باہر کھڑے رہے کہ ذرا کوئی مشتبہ آواز آئے تو میں دوڑ کر جاکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کروں.صبح آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کہ یہ تم کیوں کھڑے تھے رات بھر میرے دروازے پر تو اُس وقت انہوں نے بتایا.لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو سلوک تھا اور آپ کے اندر جو بے پناہ قوت جاذ بہ پائی جاتی تھی اس کے نتیجے میں ایک ہی رات میں صفیہ کی کایا پلٹ گئی.اور اتنا گہرا عشق حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہو گیا کہ پھر کبھی کسی پرانے کا خیال آپ کے دل میں نہیں آیا.اسی سفر میں جب ایک صحابی روایت بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اونٹ کے پیچھے اپنی عبا کو پھیلا دیتے تھے اس پر حضرت صفیہ کو بٹھاتے تھے اور جب چڑھانا ہوتا تھا سواری پر تو اپنا گھٹنا قدم رکھنے کے لئے پیش کیا کرتے تھے اور حضرت صفیہ اس گھٹنے پر پاؤں رکھ کر پھر او پر بیٹھتی تھیں.( بخاری کتاب المغازی باب غزوہ خیبر ) حضرت صفیہ کے متعلق حضرت عائشہؓ کی روایت یہ ہے کہ کھانا اتنا اچھا پکاتی تھیں کہ میں نے کبھی ایسا اچھا پکانے والی نہیں دیکھی.ایک مرتبہ حضرت صفیہ کی طرف سے حضرت عائشہ کی باری

Page 39

حضرت خلیفہ المسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۳۵ خطاب ۲۷ دسمبر ۱۹۸۳ء کے دوران کھانا تحفتہ بھجوایا گیا.حضرت عائشہ کو غیرت آئی اور جو لونڈی یا غلام کھانا لے کر آئے تھے ہاتھ مار کر برتن کو گرا دیا اور وہ برتن ٹوٹ گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس واقعہ کا بہت دُکھ پہنچا.آپ نے خود اپنے ہاتھوں سے اس ٹوٹے ہوئے برتن کو اکٹھا کر کے جوڑا اور پھر حضرت عائشہؓ سے فرمایا اس کے ساتھ کا برتن تمہارے گھر ہے تو لاؤ چنا نچہ وہ برتن لایا گیا اور ٹوٹا ہوا برتن حضرت عائشہ کے سپر د کر دیا اور جو صحیح سالم برتن تھا وہ حضرت صفیہ کو واپس کیا گیا.( بخاری کتاب المظالم ) ایک مرتبہ سفر میں حضرت صفیہ کا اونٹ بیٹھ گیا اور وہ سب سے پیچھے رہ گئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا گزر ہوا تو دیکھا زارو قطار رو رہی ہیں.آپ نے رداء مبارک اور دست مبارک سے خود اُن کے آنسو پونچھے.آپ ان کے آنسو پونچھتے جاتے تھے اور وہ روتی جاتی تھیں.ایک اور روایت ہے کہ ایک سفر کے دوران حضرت صفیہ کا اونٹ بیمار پڑ گیا.حضرت زنیب بنت جحش کے پاس زائد اونٹ تھا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ دیکھوصفیہ کا اونٹ بیمار ہو گیا ہے کیا ہی اچھا ہو کہ تم اس کو اونٹ دے دو.اس پر حضرت زنیب نے کہا کہ میں اس یہودیہ کو اونٹ کیوں دوں کیونکہ وہ یہودی الاصل تھی اس لئے رقابت میں بعض دفعہ دوسری ازواج یہ طعنہ دے دیا کرتی تھیں.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اتنا دکھ ہوا کہ دو تین ماہ تک پھر حضرت زینب کے حجرے میں نہ گئے.اور وہ کہتی ہیں کہ یہاں تک کہ میں غم سے نڈھال ہو کر مایوس ہو چکی تھی اور میں سمجھتی تھی کہ اب کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ نہ دیکھ سکوں گی.ایک دفعہ حضرت صفیہ اور ہی تھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے متعلق بعض دوسری ازواج نے بڑی دل دکھانے والی باتیں کی ہیں.کیا باتیں تھیں ؟ وہ باتیں یہ تھیں حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضرت عائشہ غالبا حضرت حفصہ تھیں.انہوں نے یہ طعنہ دیا تھا کہ تم یہودیہ ہو یہود کی بیٹی ہواور ہم ہیں خاندان نبوی سے، تمہارا ہمارے ساتھ کیا مقابلہ.ہم تو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان ہی سے ہیں.اور پھر آپ کے عقد میں بھی آگئی ہیں.تو تمہارا ہمارا کوئی جوڑ نہیں برابری نہیں ہوسکتی.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صفیہ تم نے یہ جواب کیوں نہ دے دیا کہ دیکھو میرا خاوند محمد ہے میرا باپ ہارون تھا اور میرا چپا موسیٰ تھا وہ کون سی بات ہے جو تمہیں مجھ سے افضل بنا رہی ہے.چونکہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کی نسل سے تھیں اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دلداری بھی فرما دی اور یہ جواب سکھایا.

Page 40

حضرت خلیفہ امسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۳۶ خطاب ۲۷/ دسمبر ۱۹۸۳ء ایک مرتبہ حضرت صفیہ کے اوپر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے ایک طنز کیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں چھنگلی چھوٹی انگلی اٹھائی اور اشارہ کیا حضرت صفیہ کے متعلق کیونکہ ان کا قد بہت چھوٹا تھا.تو انہوں نے انگلی اُٹھا کر کہ وہ بیوی جو اس انگلی کے برابر ہے.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بے حد تکلیف پہنچی اور آپ نے جواب میں یہ فقرہ فرمایا کہ اے عائشہ! تو نے ایک بہت چھوٹی سی بات کی ہے لیکن اُس بات میں طاقت اتنی ہے اگر وہ سمندر میں گھول دی جائے تو سارے سمندر کو کڑوا کر سکتی ہے.کتنا حیرت انگیز، کتنا فصیح و بلیغ جواب ہے.چھوٹی سی انگلی کہہ کر تم نے اپنی طرف سے ایک چھوٹی سے بات کی ہے لیکن کڑواہٹ اتنی ہے خدا کی نظر میں وہ اتنی بُری بات ہے کہ گویا سارے سمندر کے پانی کا رنگ بدل سکتی ہے اور اس کا مزہ بدل سکتی ہے.آخری بیماری میں جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد تمام بیویاں جمع تھیں تو یہی وہ صفیہ ہیں جنہوں نے بے اختیار ہو کر یہ عرض کیا یا رسول اللہ ! میں خدا کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ آج میری دلی تمنا اور تڑپ یہ ہے کاش آپ کی بیماری مجھے لگ جائے اور میں آپ کی جگہ اس دنیا سے رخصت ہوں.اس پر تمام ازواج مطہرات نے آنکھوں آنکھوں میں ایک دوسرے کو اشارے شروع کئے گویا یہ اظہار تھا کہ دیکھو کیسی مصنوعی باتیں کرتی ہے.کس طرح باتوں کے ذریعے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا دل جیتنے کی کوشش کر رہی ہے.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ نظر ڈالی تو آپ سمجھ گئے اور فرمایا خدا کی قسم صفیہ اپنے دعوے میں سچی ہے.آخری گواہی جو کسی بیوی کے تعلق میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی وہ یہ صفیہ کے متعلق تھی.غرضیکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات پر آپ نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہوگا ایک جنت تھی معاشرے کی جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی نازل ہوئی اور گھروں کی اس نے کایا پلٹ دی تھی، رہن سہن کے اطوار بدل ڈالے تھے، ایک انقلاب بر پا ہورہا تھا عرب کی دنیا میں اور جس انقلاب نے جاری ہو کر ساری دنیا کو پھر جنت بنانا تھا.ایک لمبے عرصے تک اس جنت کی حفاظت کی گئی مسلمان معاشرے میں وراثتا ایک کے بعد دوسرے گھر میں یہ جنت منتقل ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ بدقسمتی سے وہ دور آیا کہ وہ جنت پھر ہاتھ سے ضائع ہو گئی.آج کی دنیا میں وہ تمام اسلام کے دشمن جو طرح طرح کے الزامات کا نشانہ بناتے ہیں اسلام کی تعلیم کوبھی اورمحمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اُسوہ کو بھی کہ اسلام میں عورت کا کوئی مقام نہیں ہے،اسلام کے گھروں کی زندگی دکھوں اور

Page 41

حضرت خلیفہ المسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۳۷ خطاب ۲۷ دسمبر ۱۹۸۳ء مصیبتوں کا دوسرا نام ہے عورت غلام بنائی جاتی ہے، ہر قسم کی تکلیفوں میں مبتلا کی جاتی ہے، اس کے کوئی حقوق نہیں ہیں وہ صرف ایک قیدن ہے، جس نے گھر میں بچے پالنے ہیں اور سارے مشقت اور محنت کے کام کرنے ہیں، نہ اُس کے جذبات ہیں نہ اس کے احساسات ہیں نہ وہ قدر کے لائق کوئی چیز شمار ہوتی ہے.ہم تمام دنیا کو نظریاتی لحاظ سے ان باتوں کا جواب دیتے ہیں.ہم قرآن اور سنت سے نکال کر ان کو دکھاتے ہیں کہ عورت کو کبھی وہ شرف انسانیت نصیب نہیں ہوا جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا کیا.کس حال کو پہنچی ہوئی تھی عورت اس زمانے میں ،سوچو اور پھر دیکھو کہ ان عورتوں سے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا سلوک فرمایا لیکن یہ ساری باتیں ہیں جب وہ سنتے ہیں اگر ان کے دل بظاہر قاتل بھی ہو جائیں تو پھر بھی وہ سوال اُٹھاتے ہیں اور جائز طور پر یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ ٹھیک ہے یہ باتیں ہوں گی لیکن یہ تو وقتی با تیں ہیں جیسے کہا کرتے ہیں لوگ کہ پدرم سلطان بود.جب فخر کی باتیں ہوں تو وہ لوگ جن کے ہاتھ پلے کچھ نہ ہو وہ بعض دفعہ یہ کہا کرتے ہیں کہ ہاں تم بھی بڑے ہو گے مگر ہمارے باپ دادا بھی بہت بڑے تھے.تو کہتے ہیں کہ آج کی دنیا کو تاریخ کیا سکھائے گی.آج کی دنیا کو عصر حاضر کا انسان کچھ سکھائے تو سکھائے.آج وہ اسلامی معاشرہ کہاں ہے جس کی برتری کے تم گیت گا رہے ہو.وہ جنت ہمیں دکھاؤ تو تب ہم اس کو مانیں گے.ورنہ تمہاری ساری جنتیں فرضی ہیں کچھ ماضی میں رہ گئی ہیں کچھ مرنے کے بعد ملیں گی لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اسلام کی کوئی جنت بھی فرضی نہیں ہے.اسلام کی جنت ہمیشہ معاشرے کے ساتھ چلتی ہے اگر سچا اسلام ہو.آج احمدی نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ہم اس اسلام کو زندہ کرنے کے لئے دوبارہ پیدا کئے گئے ہیں جو اسلام ہمارے آقا اور مولی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلام تھا جو آپ نے جاری فرمایا ہم اس کھوئی ہوئی جنت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں وہ جنت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے گھروں میں نازل ہوئی تھی.یہ وہ جنت تھی جس نے آپ سے بے وفائی نہ کی.یہ وہ جنت نہیں تھی جس سے آدم نکالا گیا تھا بلکہ یہ وہ جنت تھی جس سے خلیفہ اللہ نے ہمیشہ کے لئے شیطان کو نکال کر باہر پھینک دیا تھا.یہ جنت ہمیشگی کی جنت تھی جو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے اور آج بھی یہی جنت ہے جو دنیا کو بچاسکتی ہے اس کے سوا اور کوئی جنت نہیں.پس آج احمدی گھروں کومحمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں تبدیل ہونا ہوگا آج امن کی اور کوئی راہ نہیں ہے سوائے اصلاح کے.آج نجات کا کوئی راستہ نہیں مگر ایک راستہ کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو ہم قبول کر لیں.پس اے دنیا کو امن اور

Page 42

حضرت خلیفہ امسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۳۸ خطاب ۲۷/ دسمبر ۱۹۸۳ء آشتی کی خبر دینے والے احمدی مردو اور عور تو ضرور آگے بڑھو اور دنیا کو اس کی طرف بلاؤ لیکن یا درکھنا کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کردہ جنتیں ساتھ لے کر چلنا.یہی جنتیں ہیں جو آج دنیا کو امن دیں گی اس جنت کے بغیر گھر گھر میں جہنم بھڑکائی جارہی ہے.طرح طرح کے مصائب اور دکھ ہیں جس میں انسان مبتلا ہے اور ایک دوسرے کو مبتلا کرتا چلا جارہا ہے.آج مغربی قوموں کا امن بھی اُٹھ چکا ہے اور مشرقی قوموں کا امن بھی اُٹھ چکا ہے.آج نہ روس عائلی جنت کی ضمانت دے سکتا ہے نہ امریکہ عائلی جنت کی ضمانت دے سکتا ہے.وہ ایک ہی ہے اور وہ صرف ایک ہی ہے یعنی میرا آقا اور مولی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جو آج اس معاشرے کی جہنم کو جنت میں تبدیل کرنے کی طاقت رکھتا ہے.پس میں امید رکھتا ہوں کہ احمدی کو اپنی جان نچھاور بھی کرنی پڑے اپنا سب کچھ قربان بھی کرنا پڑے تو تب بھی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جاری کردہ معاشرے کو دوبارہ زندہ کر دیں گے.خدا کرے ایسا ہی ہو.اللہ آپ کے ساتھ ہو.اللہ آپ کے ساتھ ہو.اللہ آپ کے ساتھ ہو.

Page 43

حضرت خلیفہ مسیح الرابع " کے مستورات سے خطابات ۳۹ خطاب ۲۶ ؍جولائی ۱۹۸۶ء اسلام میں عورت کا مقام ( جلسہ سالانہ مستورات برطانیہ سے خطاب فرمودہ ۲۶ / جولائی ۱۹۸۶ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی : مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيْوَةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (النحل: ۹۸) ترجمہ اس آیت کا یہ ہے کہ جو کوئی مومن ہونے کی حالت میں مناسب حال عمل کرے مرد ہو یا عورت ہم اُس کو یقینا ایک پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور ہم ان تمام لوگوں کو ان کے بہترین عمل کے مطابق ان کے تمام اعمال صالحہ کا بدلہ دیں گے.آج کل دنیا میں عورت بحیثیت عورت ایک اہم مضمون بن چکی ہے اور دنیا کے مختلف خطوں میں عورت کی آزادی کی تحریکات مختلف شکلوں میں چل رہی ہیں.مغربی دنیا میں ان آزادی کی تحریکات کا آغاز ہوا اور اب ان کے اثرات مشرقی دنیا میں بھی اس طرح ظاہر ہورہے ہیں کہ عورت کی آزادی کے علمبردار آزادی کا وہ تصور لئے ہوئے جو اُن کے دلوں اور اُن کے ذہنوں کی پیداوار ہے، مشرقی دنیا میں عورت کو وہ آزادی کا پیغام دے رہے ہیں، جو اُن کے نزدیک آزادی ہے.اس کا پس منظر عموماً یہ بیان کیا جاتا ہے کہ پرانے مذاہب نے عورت کے تمام حقوق چھین لئے اور اسلام کو بالخصوص طعن کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ اسلام نے عورت کو ایک پس ماندہ اور قدیم طرز کی زندگی قبول کرنے پر مجبور کر دیا ہے.اور یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ یہ آزادی کے علمبردار اسلامی تہذیب ، اسلامی قواعد، اسلامی پابندیوں

Page 44

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۴۰ خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۸۶ء سے پسماندہ اور پابندِ سلاسل عورت کو نجات دینے کے لئے دنیا میں نکلے ہیں.عموماً جب اسلام کے دفاع میں اس مضمون میں لب کشائی کی جاتی ہے یا قلم اُٹھایا جاتا ہے تو بات چودہ سو سال پہلے اُس دور سے چلتی ہے جب کہ اسلام ابھی جزیرہ نما عرب میں اپنا نور لے کر پھوٹا نہیں تھا یا یوں کہنا چاہیے کہ اسلام کا سورج ابھی طلوع نہیں ہوا تھا.اور عرب تہذیب و تمدن کے نتیجہ میں عورت پر قسما قسم کے مظالم روا ر کھے جاتے تھے.مسلمان مفکرین جب اسلام کا دفاع کرتے ہیں تو اُس قبل از اسلام زمانے سے بات شروع کرتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ دیکھو عورت پر کیسے کیسے مظالم روا رکھے گئے تھے جن سے اسلام نے اُس کو نجات بخشی.اس چودہ سو سال کے عرصے میں باقی دنیا میں کیا ہور ہا تھا، اور باقی دنیا میں عورت کی کیا حیثیت تھی ، اس وسیع لمبے دور کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور غلط رنگ میں یہ بات قبول کر لی جاتی ہے کہ اسلام کا موازنہ یا تو ماضی میں کیا جائے یا پھر حال میں بجائے مذاہب سے کرنے کے مختلف تہذیبوں سے اسلام کا موازنہ کیا جائے.ان مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے ، آج میں نے اس موضوع پر خطاب کرنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن ایک دوسرے رنگ میں صحیح صورت حال آپ کے سامنے رکھنے کے لئے میں صرف ماضی کے حوالے سے بات نہیں کروں گا ، یعنی اسلام کے ماضی کے حوالے سے بات نہیں کروں گا، بلکہ یورپ کے ماضی کے حوالے سے بات کروں گا.اور پھر اس دور کے حوالے سے بات کروں گا، جس دور میں سے اب ہم گزر رہے ہیں اور پھر آپ کو بتاؤں گا ، ان موازنوں کے بعد، کہ اسلام کا کردار عورت کے حقوق کی حفاظت کے سلسلے میں خدا تعالیٰ کے فضل و رحم کے ساتھ تمام دنیا کے مذاہب سے ہی اعلیٰ اور برتر نہیں، بلکہ تمام دنیا کے فلسفوں سے بھی اور تمام دنیا کی تہذیبوں سے بھی زیادہ اعلیٰ اور برتر اور عورت کے حق میں مفید ہے.بہر حال جہاں تک اسلام کے پس منظر کا تعلق ہے، اس حقیقت سے انکار نہیں کہ عرب کی دنیا میں حضرت اقدس محمد مصطفی میں اللہ کے جلوہ افروز ہونے سے پہلے عورت نا قابل بیان مظالم کا نشانہ بنی ہوئی تھی اور اُس کی حالت ناگفتہ بہ تھی.یہ ایک وسیع مضمون ہے جو بار ہا آپ سُن چکی ہیں.اس لئے مختصر آیاددہانی کے لئے صرف چند امور آپ کے سامنے رکھتا ہوں.عورت عرب تہذیب میں حیوانات اور دیگر سامان کی طرح وراثت میں منتقل ہوتی تھی.بیٹا سوتیلی ماں کو ورثے میں پاتا تھا اور اس سے نکاح کرنے کا اولین حقدار تھا.مطلقہ اپنی پسند سے دوسرا

Page 45

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۸۶ء نکاح نہیں کر سکتی تھی.بیوہ کو خاوند کی وفات کے بعد ایک سال تک اندھیری کوٹھڑی اور گندے، غلیظ کپڑوں میں بند رہنے پر مجبور کیا جاتا تھا اور اسے خاوند کا حق سمجھا جاتا تھا کہ اس کا سوگ عورت اس طرح منائے کہ ایک سال تک ان ہی غلیظ کپڑوں میں جو وفات کے وقت تھے ان میں ملبوس زندگی گزارے اور گھر سے باہر قدم نہ رکھے.عورت بحیثیت خود ایک بدنامی کا داغ تھی جسے زندہ درگور کرنا مفخر سمجھا جاتا تھا اور بڑے فخر کے ساتھ شعروں کی صورت میں اور قصیدوں کی صورت میں اس امر کو بیان کیا جاتا تھا کہ ہم ایسے با غیرت اور خود دار ہیں کہ ہم اپنے ہاتھوں سے اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے ہیں.ایک عرب شاعر کہتا ہے: تَهْوِي حَيَاتِي وَ أَهْوَى مَوْتَهَا شَفَقَاً وَالْمَوْتُ أَكْرَمُ نِزَالِ عَلَى الْحَرَمِ کہ میری بیٹی تو میری زندگی کی خواہاں ہے اور مجھے زندگی کی دعائیں دیتی ہے.مگر میں اس کی موت کا متمنی ہوں کیونکہ حقیقت میں عورت کے لئے موت ہی سب سے زیادہ عزت کا مقام ہے.عورت جوخود میراث تھی اسے ورثہ ملنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا.عورت بدکاری کا آلہ سمجھی جاتی تھی.یہاں تک کہ وہ مشہور قصائد جو سونے کے حروف میں لکھ کر کسی زمانہ میں، زمانہ جاہلیت میں خانہ کعبہ میں آویزاں تھے ان میں سے بیشتر کا مضمون یہ تھا کہ ہم نے عورت سے یہ سلوک کیا ، ہم نے عورت سے یہ سلوک کیا ، ہم نے عورت سے یہ سلوک کیا.اور سب سے بڑا افخر یہ سمجھا جاتا تھا کہ ہم نے عورت کو اپنی ہوا و ہوس کا نشانہ بنایا ہوا ہے، اور کوئی نہیں جو ہمارے مقابل پر اس پہلو سے آسکے.جتنا زیادہ کوئی شخص بدکرداری میں آگے بڑھا ہوا ہو، اتنا ہی زیادہ فخر کے ساتھ وہ شاعرانہ کلام میں اس بات کا ذکر کرتا تھا اور یہ بات اتنی ، عرب دنیا میں، اُن کا رعب اور اُن کی عزت قائم کرنے والی سمجھی جاتی تھی کہ اس موضوع پر سب سے گندے قصیدے خانہ کعبہ میں نمونہ کے طور پر لٹکائے گئے.اس کے علاوہ عورت کی زندگی کی جو بھی تصویر ہے اس کی تفاصیل میں جانے کی ضرورت نہیں.آج مغربی دنیا میں عورت کو جس قسم کا کھیل سمجھا جارہا ہے اور جس طرح تہذیب کے پر نچے اڑا دیئے گئے ہیں اور ہر چیز کو آزادی کے نام پر روا رکھا گیا ہے.جو معاشرہ آج یورپ اور امریکہ اور دیگر مغربی ممالک ہی میں نہیں بلکہ بکثرت مشرقی ممالک میں بھی پایا جاتا ہے وہ آپ جانتی ہیں ، وہ آپ دیکھ رہی ہیں.یہ ساری باتیں اسلام سے پہلے کے عرب کے زمانے میں پائی جاتی تھی.شراب اور رقص و سرود

Page 46

حضرت خلیفہ مسح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۲ خطاب ۲۶ ؍جولائی ۱۹۸۶ء اور تہذیب کے نام پر ہر قسم کی ہوا اور ہوس کو جائز سمجھنا اور رواج دینا اور اس پر فخر کرنا یہ تمام باتیں آج کے دور کی تہذیب نے نئی آپ کو نہیں دیں، بلکہ یہ ساری وہ باتیں ہیں جن سے اسلام نے عورت کو نجات بخشی تھی.اس لئے آزادی کے نام پر جب آپ کو ان چیزوں کی طرف بلایا جاتا ہے تو یہ کہنا غلط ہے کہ نئی باتیں ہیں، جس سے پہلے عورت آشنا نہیں تھی بلکہ حقیقت یہ ہے، کہ پرانی تہذ یہیں، جتنی بھی تھیں، خواہ وہ اسلام سے پہلے کی ہوں ، روم کی تہذیب ہو یا گریس یعنی یونان کی تہذیب ہو یا قدیم ہندو تہذیب ہو، تمام پرانی اُس زمانے کی تہذیبیں، جو تاریکی کا زمانہ کہلاتا ہے ، عورت کو اُسی طرح استعمال کرتی تھیں جس طرح آج یورپ میں استعمال کیا جا رہا ہے.یہ تو وہ پس منظر ہے جس میں اسلام نے عورت کوان تمام خرابیوں سے نجات بخشی اور تمام حقوق جو عورت سے چھینے جاچکے تھے ان کو قائم فرمایا.اور بہت کچھ وہ بھی دیا ، جن کا اُس تہذیب سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا، بلکہ ایک عالمی دین کے طور پر عورت کے ایک منصب کو قائم فرمایا ، اس منصب کی حفاظت کی اور اس تفصیل سے عورت کے حقوق کی تعلیم دی که انسان دنگ رہ جاتا ہے کہ چودہ سو سال قبل، یہ کیسے ممکن ہوا.خصوصاً ایک بات بہت ہی قابل توجہ ہے جسے آج کا انسان فراموش کر دیتا ہے اور وہ یہ ہے کہ تمام انسانی تہذیب میں اور جب میں یہ کہتا ہوں تو تمام انسانی تہذیب پر اُس کی تاریخ پر نظر ڈال کر یہ بات کہتا ہوں.تمام انسانی تہذیب میں صرف ایک مرد ہے جس نے عورت کی آزادی کی تحریک چلائی اور عورت کو اُس کے حقوق دیئے وہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ ہیں.باقی تمام تحریکات جو عورت کی آزادی کے نام پر چلائی گئی ہیں، وہ تمام عورتوں کی طرف سے چلائی گئی ہیں.آج تک ، ساری کائنات میں ، ایک بھی مرد نہیں ہمارے آقاو الله مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے سواء کہ جن کے دست کرم سے عورت کو فیض نصیب ہوا ہو.آج بھی یورپ میں یا امریکہ میں یا مشرق میں جتنی عورت کی آزادی کی تحریکات ہیں ان کی سربراہ عورتیں ہیں.عورتیں ہی اس کو منظم کر رہی ہیں.کس حد تک وہ اس میں کامیاب ہیں، کس حد تک ان کے فکر و نظر کے نتائج عورت کیلئے مفید ثابت ہوں گے یا مہلک ثابت ہوں گے.یہ الگ مضمون ہے جس کا بعد میں ذکر آئے گا.دوسری بات جو مسلمان عورت تمام دنیا کے سامنے چیلنج کے طور پر پیش کر سکتی ہے وہ یہ ہے کہ تمام ادیان میں، بلا استثناء، اسلام کے سوا ایک بھی ایسا مذہب نہیں جس نے عورت کو اپنے ماضی کے ظلموں سے نجات بخشی ہوا اور تہذیب جو عورت نے اس زمانہ میں ورثہ میں پائی تھی اس کے خلاف علم بلند

Page 47

حضرت خلیفہ مسح الرابع ' کے مستورات سے خطابات ۴۳ خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۸۶ء کیا ہو.آپ اس پہلو سے خواہ یہودیت کا مطالعہ کریں یا عیسائیت کا مطالعہ کریں یا بدھ ازم کا مطالعہ کریں یا کنفیوشس ازم کا مطالعہ کریں کسی مذہب کے ساتھ بھی اسلام کا موازنہ کر کے دیکھیں ایک مذہب بھی آپ کو ایسا نظر نہیں آئے گا جس نے عورت کی آزادی کی تحریک چلائی ہو اور اس کے حقوق کے قیام کے لئے ایک وسیع اور عظیم تعلیم دی ہو.ہاں بدقسمتی سے مذہب کی وہ شکلیں جو آج ہمیں نظر آتی ہیں اور ان مذاہب کے ماننے والوں ہی کی طرف سے مستند صورت میں پیش کی جاتی ہیں ان میں عورت پر ظلم کرنے کی مختلف تعلیمات ایسی ملتی ہیں جن کے بڑے بھیا نک اور گھناؤنے اثرات ان کی تہذیبوں پر پڑے اور فی الحقیقت آج کی مغربی دنیا کی آزادی کی تحریکات اس پس منظر میں شروع ہوتی ہیں جو ان کا اپنا پس منظر ہے، ان کے اپنے ماضی کے حوالے سے شروع ہوتی ہیں اور وہ کچھ جو اسلام ان کو چودہ سو برس پہلے دے چکا تھا آج تک وہ آزادی کی تحریکات اس زمانہ میں بھی عورت کو نہیں دے سکیں.اسلام نے جو کچھ عورت کو دیا وہ کچھ آزادی کی شکل میں دیا اور کچھ بظاہر پابندیوں کی شکل میں دیا.وہ عرب تہذیب جو عورت کو غلام بنا رہی تھی، اس کو حقوق سے محروم کر رہی تھی.اس کے خلاف اسلام نے علم بلند کیا اور عورت کو وہ تمام حقوق بخشے جو اس سے سلب کر لئے گئے تھے اور تہذیب اور تمدن کے نام پر عورت کو جس طرح کھلونا بنایا جارہا تھا انسانی شہوات کو پورا کرنے کا، جس طرح نشانہ بنایا جا رہا تھا مردوں کی حرص و ہوا کو پورا کرنے کا اس سے آزادی پابندیوں کی صورت میں بخشی ہے.اس لئے آج جب آپ اسلام کی پابندیوں پر نظر ڈالتی ہیں تو وہ بھی آزادی ہے اور جب آپ اسلام کے حقوق پر نظر ڈالتی ہیں تو وہ بھی آزادی ہے.یہ دوسرا پہلو چونکہ آج کے مختصر وقت میں زیر نظر نہیں لایا جا سکے گا اس لئے اگر چہ اُس کے لئے میں مضمون کے اشارے تو لکھ لایا ہوں، لیکن میرا اندازہ یہی ہے کہ اُس کو کسی اور وقت کے لئے رکھنا پڑے گا.اب میں آپ کو عرب پس منظر کے بعد یورپ کے پس منظر میں لے کر آتا ہوں تا کہ آپ کو معلوم ہو کہ یہ آپ کو آزادی کا پیغام دینے والی عورتیں خود کس ماضی سے تعلق رکھتی ہیں اور آج بھی کس جد و جہد میں مبتلا ہیں.عورتوں کو سزائیں سترھویں صدی میں عورتوں کو جادو کے الزام میں موت کی سزا ئیں اس کثرت سے دی گئی

Page 48

حضرت خلیفہ مسح الرابع ' کے مستورات سے خطابات ۴۴ خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۸۶ء ہیں کہ ایک صدی میں بعض کتب کے بیان کے مطابق ایک لاکھ عورتیں زندہ جلا دی گئیں محض اس الزام میں کہ انہوں نے دوسروں پر جادو کیا تھا.سولھویں صدی میں یہ قسمیں لی جاتی تھیں دایہ عورتوں سے کہ وہ بچے کی پیدائش پر اس پر جادو نہیں کریں گی.یہ جو پہلو ہے عورتوں کے مظالم کا اس کو اگر آپ دوسری تمام دنیا کی تہذیبوں سے موازنہ کر کے دیکھیں تو باقی تہذیبیں تو چھوڑیئے اسلام کے متعلق جو کہا جاتا ہے کہ اسلامی مختلف ادوار میں گذشتہ چودہ سو سال میں عورتوں پر بڑے مظالم ہوئے ہیں ان سارے مظالم کو اکٹھا کر لیں ان کا Concentrate تیار کر لیں تو چودہ سو سال میں پھیلے ہوئے جتنے بھی مظالم عورت پر اسلام کی تعلیم کے خلاف ہوئے ہیں اس سے سینکڑوں گنا زیادہ مظالم عیسائی تہذیب کے ایک سوسال کے اندر عورت پر روار کھے گئے.اور یہ جو ایک لاکھ عورتیں یا کم و بیش اس کے لگ بھگ زندہ جلائی گئیں صرف یہی تعداد اصل حقیقت کو ظاہر نہیں کرتی.یہ ایک لاکھ عورتیں جو جادوگرنی سمجھی گئی تھیں ان کا جو ٹیسٹ لیا گیا، جس آزمائش سے گزار کا ان کو جادوگرنی سمجھا گیا اس آزمائش میں جو عورتیں ہلاک ہوئیں ہیں ان کی تعداد کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے.طریقہ سنئے کہ یہاں کیا رائج تھا عورتوں کو جادو گرنی یا نه جادوگرنی قرار دینے کا ، عورت کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اس کو تالاب میں پھینک دیا جاتا تھا.اگر وہ ڈوب جاتی تھی تو کہا جاتا تھا کہ دیکھو معصوم تھی اس لئے ڈوب گئی اور انسانی سزا سے بچ گئی اور اگر وہ بچ جاتی تھی تو کہتے تھے کہ دیکھو جادو گرنی ہے نا جو بچ گئی اور اس کے نتیجہ میں اسے زندہ جلا دیا جاتا تھا.ہاتھ پاؤں باندھ کر لٹکا دیا جاتا تھا، پاؤں سے پتھر باندھ دیئے جاتے تھے اور نیچے آگ کا الآؤ روشن کر دیا جاتا تھا اور اس کے نتیجہ میں وہ انتہائی اذیت کے ساتھ جان دیتی تھی.عورت کا اموال پر کسی قسم کا تسلط تسلیم نہیں کیا جاتا تھا.سولہویں صدی میں ایسے واقعات بکثرت ملتے ہیں کہ خاوند کو یہ حق تھا کہ جب عورت پر الزام لگائے تو صرف خاوند کا یہ کہنا کافی تھا کہ اس عورت نے فلاں بری حرکت کی ہے اور اس کے نتیجہ میں اسے قتل کر دیا جاتا تھا.اس کا موازنہ آپ کر کے دیکھیں.چودہ سو سال پہلے اسلام نے اس بارہ میں کیا تعلیم دی ؟ اسلام نے صرف مرد کو الزام کا حق نہیں دیا بلکہ عورت کو بھی الزام کا حق دیا اور اس کے جواب میں مرد کو بھی حق دیا اور عورت کو بھی حق دیا کہ اگر وہ اسی شدت اسی طریق پر اس الزام کا انکار کرے تو قعطا وہ قابل سرزنش نہیں سمجھی جائے گی.یا قابلِ سرزنش نہیں سمجھا جائے گا، اگر مرد ہو.اور وہ دونوں اس الزام سے بری قرار دئیے جائیں گے.عورتوں کو فیکٹریوں میں روزانہ اٹھارہ گھنٹے کام کرنا ہوتا تھا اور گھر کا کام کاج اس کے علاوہ

Page 49

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۴۵ خطاب ۲۶ ؍جولائی ۱۹۸۶ء تھا.انگلستان کی کل عورتوں کی تعداد جس میں بچیاں بھی شامل ہیں ان کی ایک بٹا تین (۱/۳) عورت اپنے گھر کے علاوہ دوسرے کام کرنے پر مجبور تھی.عورت کو عرب معاشرے کی طرح مرد کی جائیداد سمجھا جاتا تھا.عورت کو گواہی دینے کا حق حاصل نہیں تھا.آج یورپ شور مچارہا ہے کہ اسلام نے ایک مرد کے مقابل پر دو عورتوں کی گواہی مقرر کی اور بڑا بھاری ظلم ہے.کل تک عورت کو یہاں گواہی دینے کا ہی حق حاصل نہیں تھا.اور وہ مسئلہ الگ ہے، وہ موقع پر میں بیان کروں گا ، وہ بالکل غلط الزام ہے.۱۸۹۱ ء تک یعنی ابھی صدیوں کے لحاظ سے کل کی بات ہے انگلینڈ، جرمنی ، ناروے، امریکہ، سکینڈے نیویا، وغیرہ میں عورتوں کو قانونا مرد کی جائیداد پر کسی قسم کا کوئی حق حاصل نہیں تھا.عورت کو ووٹ دینے کا کوئی حق حاصل نہیں تھا.انیسویں صدی تک فرانس میں خاوند اگر عورت کو طلاق دیتا تھا تو ماں کو بچوں پر کوئی حق نہیں تھا.یہاں تک کہ بیوہ عورت کو بھی اپنے بچوں پر کوئی حق حاصل نہیں تھا.خاوند کے مرنے کی صورت میں اس کے بچے خاوند کے رشتہ داروں کے سپر د کر دیئے جاتے تھے.انیسویں صدی میں انگلستان اور فرانس میں عورتیں مردوں سے طلاق نہیں لے سکتی تھیں.عورت کو تو بے حیائی کی پاداش میں، اگر اس پر مرد الزام لگائے شدید سزا دی جاتی تھی اور مرد کا یہ حق مسلم تھا کہ اگر چہ وہ ایک سے زیادہ شادیاں تو نہیں کر سکتا مگر ایک سے زیادہ عورتیں اپنے گھر میں بغیر شادی کے رکھ سکتا ہے.اس کے نتیجہ میں اس کی کوئی سزا مقررنہیں تھی اور یہ تو اب بھی جاری ہے.دوسری جنگ عظیم میں عورتوں سے نہایت سخت کام لئے گئے یہ کہہ کر کہ قومی ضرورت ہے اور اس کے پیش نظر عورتوں کا بھی فرض ہے کہ وہ قوم کی خدمت کریں لیکن جنگ کے معا بعد ان ساری عورتوں کو بغیر حقوق کے فارغ کر دیا گیا.انیسویں صدی کے آخر تک حال یہ تھا کہ عورتوں کا فیکٹریوں وغیرہ میں کام کرنا تو مناسب خیال کیا جاتا تھا مگر تعلیمی کام کرنے کی اجازت نہیں تھی.یہاں تک کہ بعض اس دور کی مصنفہ عورتیں مثلاً Marian Evans میری این ایونز (۱۸۸۰-۱۸۱۹) George Eliot ( جارج ایلیٹ ) کے نام پر مشہور ہوئی جو ایک مرد کا نام ہے.اور اکثر انگریزی لٹریچر پڑھنے والے یہ بھی نہیں جانتے کہ یہ عورت تھی اور باہر کی دنیا کے لوگ ، جارج ایلیٹ جس کو وہ مرد سمجھتے ہیں، وہ دراصل عورت تھی اس لئے وہ عورت کا نام ظاہر نہیں کر سکتی تھی کہ یہ کرنا اس کے لئے جرم تھا.اسی طرح برانٹے سٹرز جو مشہور ہیں شارلٹ اور این اور غالبا ایک اور نام مجھے بھول گیا ہے.بہر حال تین بہنیں مشہور ہیں ادب کی دنیا میں.ایملی یہ تینوں شروع میں مردوں کے نام پر ناول لکھا کرتی

Page 50

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۶ خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۸۶ء تھیں کیونکہ اس زمانہ میں عورت کو علمی کام کرنا ایک جرم تصور کیا جاتا تھا.☆ ☆ اب تاریخ وار میں آپ کے سامنے ایک خاکہ پیش کرتا ہوں.۱۸۵۷ء سے پہلے عورتوں کو قانونی طور پر طلاق لینے کا کوئی حق نہیں تھا.۱۸۶۶ء میں پہلی دفعہ کیمبرج کے Examination Board نے لڑکیوں کو امتحان دینے کی اجازت دی.(۱۸۶۶ کی بات ہے یہ ) ۱۸۸۲ء میں پہلی مرتبہ یورپ میں عورت کو اپنے نام پر جائید اور کھنے کا حق حاصل ہوا.۱۸۹۰ء تک عورتوں کا اپنے خاوند کی جائیداد پرکسی قسم کا کوئی حق حاصل نہیں تھا.یہ تو گزشتہ صدی کی باتیں ہیں.اب اس صدی میں آئے :- ۱۹۲۰ء سے پہلے آکسفورڈ یونیورسٹی میں کوئی عورت داخلہ ہی نہیں لے سکتی تھی.۱۹۳۷ء سے پہلے تک انگلستان میں عورت مرد سے طلاق لینے کا حق نہیں رکھتی تھی.۱۹۴۴ء سے پہلے عورتوں کو شادی کے بعد تعلیمی پروفیشن سے قانو ن خارج کر دیا جا تا تھا ، یعنی عورت کو شادی کے بعد کسی تعلیمی پروفیشن سے تعلق رکھنے کی اجازت نہیں تھی.۱۹۴۸ء سے پہلے کیمبرج یو نیورسٹی میں کوئی عورت ڈگری حاصل نہیں کر سکتی تھی.۱۹۵۳ء سے پہلے ( یعنی کل کی بات ہے جب فساد پاکستان میں احمدیوں کے خلاف ہو رہے تھے ) وومن ٹیچر کی تنخواہ اگر چہ مضمون ایک ہی پڑھاتی ہو ، اور ایک ہی جیسا وقت دیتی ہو، مر داستاد سے بہت کم تھی.۱۹۵۵ء سے پہلے سول سروس میں ایک ہی جیسے عہدوں پر فائز ہونے کے باوجود عورت کی تنخواہ مرد کی تنخواہ سے کم تھی.۱۹۶۷ء کے Matrimonial Homes Act سے پہلے قانونی طور پر عورت کو مرد کے گھر میں رہنے کا حق حاصل نہیں تھا.یعنی اگر یہ ۱۹۶۷ء کی بات ہے ، آپ تصور کریں ذرا، یہ جو آزادی کی باتیں کرنے والی مغربی دنیا ہے، کل تک ان کا اپنا حال کیا تھا؟.اسلام نے جو آزادیاں عورت کو چودہ سو سال پہلے دی تھیں، جو حقوق دیئے تھے وہ ۱۹۶۷ء تک بھی عورت کو یہاں نہیں ملے تھے.اور کئی ایسے ہیں جو آج تک نہیں مل سکے اس لئے کہ اسلام نے

Page 51

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۷ خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۸۶ء اُن کو وہ باتیں نہیں دیں.بڑی لمبی جد و جہد سے عورتیں گزری ہیں.بڑے مظالم اور دکھوں کے زمانے سے نکل کر آئی ہیں تب جا کر رفتہ رفتہ خود عورتوں کی کوششوں کے نتیجہ میں یہ حقوق ان کو ملنے شروع ہوئے جو چھین کر لئے ہیں انہوں نے.مرد کے گھر میں رہنے کا حق حاصل نہیں تھا.اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر خاوند اپنی بیوی کو رکھتا ہے گھر میں تو اس کے رحم و کرم پر ہے.جس دن چاہے کان پکڑ کر نکال دے.اس کو ذاتی حق کوئی نہیں ہے کہ وہ اپنے خاوند کے گھر میں رہ سکے.۱۹۷۵ء سے پہلے عورتیں اپنے نام پر سٹیٹ پینشن بھی وصول نہیں کر سکتی تھیں اور ۱۹۷۶ء کے Domestic Violence Act سے پہلے عورتیں اپنے خاوند کے مظالم کی شکایت قانونی طور پر کر ہی نہیں سکتی تھیں یعنی گھر میں خواہ کسی قسم کا ظلم روا رکھا جائے انگلستان میں چھہتر تک بھی عورت کو یہ قانونی حق حاصل نہیں تھا کہ وہ عدالت میں چارہ جوئی کی درخواست کرے اور یہ تمام حقوق یک قلم حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ پر نازل ہونے والے دین نے عورت کو چودہ سو سال پہلے دیئے بلکہ ان سے بڑھ کر دیئے.آج بھی یورپ میں عورت ورثہ نہیں پاتی اور اسلام نے عورت کو اس زمانہ میں جب کہ وہ میراث تھی، وارث قرار دے دیا.بجائے اس کے کہ وہ ورثہ ہو، اسے ورثے کا حقدار قرار دے دیا.یورپ کے چند دلچسپ مقالے اب آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جو مختلف کتب سے لئے ہیں.ان میں سے ایک دلچسپ کتاب ہے Benham's book of quotations بائیبل اس کو کہتے ہیں.یہ book of quotations ہے اصل میں اس میں Biblical quotations بھی ہیں اور بعض دوسری quotations بھی ہیں.اسی طرح Great quotations ہیں.مختلف کتب ہیں جن سے میں نے یہ محاورے آپ کے لئے چنے ہیں آج.یعنی کل تک یورپ کا تصور عورت کے متعلق کیا تھا، وہ ان کے فلسفیوں اور ان کے ادیبوں کی زبان سے 66 سینے.دنیا میں ہر جھگڑے کی بنیا د عورت ہے.عورت کو مذہبی امور میں دخل اندازی نہ کرنے دو اس کے لئے بائیل کا حوالہ دیا گیا ہے.تین چیزیں ایسی ہیں جنہیں جتنا زیادہ مارا جائے ان کے لئے بہتر ہوتا ہے.عورت، کتا اور ” walnut tree ( یعنی اخروٹ کا درخت ) عورت کو صرف تین بار گھر سے باہر نکلنا چاہئے.ایک دفعہ جب اس کی christening ہوتی ہے پھر اُس کا نام رکھا جاتا ہے مذہبی ایک روایت کے مطابق دوسری بار جب اس کی شادی ہوتی ہے اور تیسری بار

Page 52

حضرت خلیفہ مسح الرابع ' کے مستورات سے خطابات ۴۸ خطاب ۲۶ ؍جولائی ۱۹۸۶ء جب اس کا جنازہ نکلتا ہے“.ایک مقولہ یہ ہے کہ عورت ہی اصل جہنم ہے“.ایک یہ ہے کہ دنیا کا ہر شر عورت کے شر سے کم ہے.ایک مقولہ یہ ہے کہ عورت اتنی بے اعتبار ہے کہ اس کی قسم کو بھی پانی پر لکھنا چاہئے.کہ جب تک وہ گیلا پانی ہو شاید نظر آنا شروع ہو، کسی حد تک نظر آتا رہے ،اور جب وہ پانی سوکھے تو عورت کی قسم بھی ختم.پس در اصل جو رد عمل آج آپ مغربی تہذیب میں مردوں کے مظالم کے خلاف دیکھتی ہیں ، بڑا ظلم کیا جارہا ہے کہ اسے مذاہب کے خلاف رد عمل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور اسلام کو گویا اس کے مد مقابل ایک ظلم کرنے والے مذہب کے طور پر پیش کیا جار ہا ہے.بالکل جھوٹ ہے، بالکل غلط ہے، کوئی بھی حقیقت نہیں اس الزام میں.ان کا اپنا پس منظر کل تک اتنا بھیا نک تھا.ان کی اپنی تہذیب اتنی ظالمانہ تھی.ساری دنیا کی تہذیبوں پر آپ غور کر کے دیکھیں، کسی تہذیب میں کبھی عورت پر اتنے مظالم نہیں ہوئے جتنے مغربی تہذیب میں ہوئے.جتنے مغربی تہذیب کے ایک سوسال میں ہوئے انسانی تہذیب کے ہزار ہا سال میں تمام دنیا میں ایسے مظالم نہیں ہوئے اس لئے یہ ردعمل ان کا بجا ہے لیکن غلط نشانہ کیوں بناتی ہیں؟ ان کو حق ہے اس تہذیب کے خلاف آواز بلند کریں ، اپنے ماضی کے خلاف آواز بلند کریں، مردوں کو کوسیں، جتنا چاہے کو میں مگر اپنی تہذیب کے نام پر کوسیں ، اسلام کو سامنے نشانہ رکھ کر پھر کیوں یہ ظلم کرتی ہیں.اس لئے آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اصل مجرم کون ہے.ہرگز اسلام مجرم نہیں ! مجرم ان کی اپنی تہذیب ہے.ان کا اپنا ماضی ہے.یہ حوالے بہت سے اور بھی ہیں.فی الحال میں ان کو چھوڑتا ہوں کافی نمونہ ہو گیا آپ کے سامنے.اس کے مقابل پر ایک حوالہ میں آپ کے سامنے صرف رکھتا ہوں.(Stanley Lane Pole) سٹینلے لین پول وہ یہ کہتا ہے کہ پین میں جو بارھویں صدی تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلامی حکومت قائم رہی ہے اس دور میں وہ عورت کے حقوق کے متعلق ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ عورتوں کو ہر قسم کی تعلیمی سہولتیں حاصل تھیں اور ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی کہ وہ ہر قسم کی تعلیم کو حاصل کریں یہاں تک کہ اس دور میں بھی قرطبہ میں ، یعنی قر ڈوبہ، وہاں لیڈی ڈاکٹر ز موجود تھیں.جس کا تصور سینکڑوں سال کے بعد یعنی اب اگر یورپ میں پیدا ہوا ہے اور اب لیڈی ڈاکٹر ز بکثرت ملتی ہیں ، اس میں کوئی شک نہیں لیکن کل تک تو ان کو تعلیم کی ہی اجازت نہیں تھی ، کجا یہ کہ وہ لیڈی ڈاکٹر بنتیں.ہاں witch doctors بہت سمجھی

Page 53

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات جاتی تھیں تھیں یا نہیں، یہ الگ مسئلہ ہے.۴۹ خطاب ۲۶ ؍جولائی ۱۹۸۶ء اس کے مقابل پر آپ یا درکھیں کہ اسلام نے عورت کو ایک عظیم معلمہ کے طور پر پیش کیا ہے.صرف گھر کی معلمہ کے طور پر نہیں بلکہ باہر کی معلمہ کے طور پر بھی.ایک حدیث میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے متعلق یہ آتا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ آدھا دین عائشہ سے سیکھو.اور جہاں تک حضرت عائشہ صدیقہ کی روایات کا تعلق ہے دینی مسائل میں واقعہ لگ بھگ آدھے دین کے.حضرت عائشہ کی روایات سے ہمیں دین کا علم ملتا ہے.اگر ان روایات کو نکال دیا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے دین آدھا رہ گیا ہو.صرف یہی نہیں کہ وہ یہ روایات بیان کرتی تھیں بلکہ بعض اوقات آپ نے اجتماعات کو خطاب فرمایا اور یہ ایک عام سہولت مہیا تھی کہ جس کسی کو بھی کسی معاملے میں علم کی تلاش ہوتی ،کسی روایت کی تلاش ہوتی تو حضرت عائشہ صدیقہ کے پاس سہولت سے پہنچتا اور پردے کی پابندی کے ساتھ آپ سے سوال کرتا اور آپ سے ہر قسم کی معلومات حاصل کرتا.پس چودہ سو سال پہلے عورت کو جس حیثیت سے پیش کیا گیا اُس کا عشر عشیر بھی یورپ کی کل تک کی صدیوں کو نصیب نہیں ہوا تھا.جہاں تک دیگر فلسفوں اور مذاہب کا تعلق ہے، میں مختصر اب ان کا بھی ذکر کر دوں.سوشل ازم اور کمیونزم یہ آج کی جدید ترین ریاست کی بنیاد کا فلسفہ ہے، جسے ہم Commonism یا Scientific Socialism کے نام سے جانتے ہیں اگرچہ Marx نے اقتصادی پہلو کے لحاظ سے سوشل ازم کی بنیاد رکھی اور بہت بڑی خدمت کی، لیکن اُس کا فلسفیانہ پس منظر Engels کا مرہون منت ہے.اور Engels نے وہ تمام نظریات پیش کئے جن کو بنیاد بنا کر Marx نے Socialism کی تشکیل کی ہے.Engels کا عورت کے متعلق جو تصور ہے، جسے بعد میں Lenin نے اپنایا اور اپنی کتب میں بکثرت اور بشدت اُس کی توثیق کی، اگر چہ ابھی تک مکمل طور پر عورت کو وہ مقام عطاء نہیں ہوسکا، الحمد للہ کہ ابھی تک عورت کو Communist Society میں وہ مقام عطا نہیں ہوسکا، مگر اُن کا آخری رُخ اس طرف ہے.وہ کس طرف آپ کو لیجانا چاہتے ہیں ، وہ نہیں.اینگلز کہتا ہے کہ مرد عورت کا رشتہ ازدواجی رشتوں میں منسلک کرنا ایک بہت ہی بھیا نک فعل ہے جب آپ میاں بیوی کے رشتہ میں عورت اور مرد کو منسلک کر دیتے ہیں تو سوسائٹی میں کئی قسم کی خرابیاں جنم لیتی ہیں اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یا مرد عورت پر ظلم کرنے لگ جاتا ہے یا عورت مرد پر ظلم کرنے

Page 54

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۵۰ خطاب ۲۶ ؍جولائی ۱۹۸۶ء لگ جاتی ہے اس لئے اس ظلم سے نجات کا صرف ایک ذریعہ ہے کہ یہ رشتہ ختم کر دیا جائے اور عورتوں کو عام پبلک کی جاگیر بنا دیا جائے یعنی یہ لفظ تو اس نے استعمال نہیں کئے لیکن نتیجہ یہ نکالا ہے اور اس کے نتیجہ میں جو مسائل پیدا ہوں ان کا وہ ایک حل پیش کرتا ہے.وہ یہ کہتا ہے کہ عورت صرف بچہ جننے کی مشین کے طور پر استعمال ہوگی، چونکہ عورت سے ہم نے فیکٹریوں میں بھی کام لینے ہیں، باہر کی دنیا میں اس پر سارے بوجھ ڈالنے ہیں اس لئے یہ زیادتی ہوگی کہ عورت کے سپر داپنے بچوں کی دیکھ بھال کی جائے ، اس لئے پیدا ہوتے ہی اس کے بچے اس سے چھین لئے جائیں گے اور انہیں سٹیٹ کی تحویل میں دے دیا جائے گا.یہ ہے جدید ترین فلسفے کا جدید ترین تصور جو آپ کے متعلق باندھے بیٹھے ہیں اور ابھی انہیں توفیق نہیں ملی اسے پورا کرنے کی.مگر اگر اشتراکیت ساری دنیا میں پھیل جائے تو پھر یہ بحث نہیں رہے گی کہ بچے کسی عورت کے ہیں یا اس کے باپ کے ہیں.بچوں کے باپ کے ہیں یا بچوں کی ماں کے ہیں.بچے کسی کے بھی نہیں رہیں گے سٹیسٹ کے ہو جائیں گے اور عورت صرف بچے پیدا کرے گی اور ہر کس و ناکس کو حق حاصل ہوگا کہ جس عورت سے چاہے اپنے بچے پیدا کرتا پھرے اور بچے پیدا کرنے کے عرصہ میں سٹیٹ اس کی دیکھ بھال کرے گی اور اس کے بعد اسے واپس فیکٹریوں میں بھیج دیا جائے گا.اس کو کچھ پتہ نہیں ہوگا کہ میں نے کس کو جنم دیا تھا اور ان کا کیا حال ہوا.ایسی ہولناک ایسی خوفناک تہذیب آج اس صدی میں جنم لے رہی ہے.گزشتہ صدی میں اس کا بیج بویا گیا تھا اور ابھی یہ پرورش پا رہا ہے.الحمد للہ کہ ابھی یہ درخت نہیں بن سکا لیکن اس طرف حرکت ضرور ہے اور معذرت کے طور پر Lenin نے یہ لکھا ہے کہ اگر چہ ہم سر دست اس کو پوری طرح نافذ نہیں کر سکے لیکن ہماری آخری منزل یہی ہے.جب اشتراکیت اپنی پوری شان اور پوری قوت کے ساتھ دنیا پر اپنا تسلط جمالے گی تو اس وقت تمام خاندان مٹ جائیں گے، تمام میاں بیوی کے ازدواجی تعلقات ختم ہو جائیں گے، تمام ماں بیٹے کے رشتے ختم ہو جائیں گے نہ بہن بھائی کا کوئی رشتہ رہے گا اور پھر یہ بھی کوئی پتہ نہیں کہ اس کے بعد کون کس سے بچے پیدا کر رہا ہوگا کیونکہ جب تمام انفرادی لیبل اُٹھ جائیں گے تو یہ تو نہیں پتہ رہے گا کہ بیٹا کس کا ہے اور بیٹی کس کی ہے، بہن کس کی ہے اور بھائی کس کا ہے.ماں کس کی ہے اور باپ کس کا ہے.پھر تو تمام سٹیسٹ میں سب عورتوں پر سب مردوں کے برابر نا جائز حقوق قائم ہو جاتے ہیں.جہاں تک عورت کے حقوق کا یہودی مذہب میں تصور پایا جا تا ہے اس کی بنیاد ہی یہ ہے کہ

Page 55

حضرت خلیفہ مسح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۵۱ خطاب ۲۶ ؍جولائی ۱۹۸۶ء عورت از لی طور پر بنیادی طور پر گنہگار ہے.چنانچہ تو ا کے گناہ کا باعث تورات نے عورت کو قرار دیا اور اس گناہ کو موروثی طور پر بنی نوع انسان میں جاری کرنے کی ذمہ دار عورت ہے اور اس کی سزا یہ سنائی کہ تو درد کے ساتھ بچے جنے گی اور تیری رغبت اپنے شوہر کی طرف ہوگی اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا.اب تصور کریں یہ مذہب یا مذہب کا یہ تصور کہاں اور کہاں اسلام کی پاکیزہ اور حیرت انگیز ایسی تعلیم جو آج کی دنیا میں بھی جدید ترین تعلیم نظر آرہی ہے.ان پیشگوئیوں میں سے ایک تو چل رہی ہے ابھی تک یعنی عورت درد کے ساتھ بچے جنتی ہے بیچاری.اگر چہ یورپ میں اس کے سامان پیدا کئے جا رہے ہیں کہ بچہ درد کے ساتھ نہ ہو.دوسری پیشگوئی تو کلیۂ غلط ثابت ہو گئی ہے مغربی تہذیب میں کہ تیری رغبت اپنے شوہر کی طرف رہے گی.یہ پیشگوئی تو ایسی جھوٹی بنی ہے کہ اس تہذیب نے اس پیشگوئی کے پر خچے اڑا دیئے ہیں.آج کی دنیا میں مغربی تہذیب کے تقاضوں کو پورا کرنے والی عورتیں صرف ایک شخص سے رغبت نہیں رکھتیں (یعنی اپنے خاوند سے )، باقی سب سے رغبت رکھتی ہیں.اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا یہ بھی ختم ہو گیا معاملہ.اب تو ایسا وقت بھی آگیا ہے کہ عورتیں مردوں پر حکومت کرنے لگی ہیں اور اس کے بدنتائج بھی ظاہر ہونے شروع ہو گئے ہیں.اس ضمن میں میں آپ کی توجہ یورپ کے بعض ممالک کے قوانین کی طرف مبذول کراتا ہوں.جیسا کہ میں نے بیان کیا عورتوں نے اپنے ظالمانہ پس منظر سے نجات پانے کیلئے خود جد وجہد کی ہے اور جب ایک فریق بن کر ایک گروہ جد و جہد کرتا ہے تو یہ عقلاً اور نفسیاتی لحاظ سے ناممکن ہے کہ وہ اُس مقام پر ٹھہر جائے کہ جہاں ٹھہر نا فریقین کیلئے مناسب ہو ، جہاں انصاف کے تقاضے مطالبہ کرتے ہوں کہ یہاں ٹھہر جاؤ اس لئے ہمیشہ ایسی جدو جہد میں تحریکات مرکزی نقطے سے کئی قدم آگے نکل جاتی ہیں تحریکات پینڈولم کی طرح جس طرح گھڑی پرانے زمانے کی ہوا کرتی تھی، پیڈ ولم لٹکتا تھا.کبھی ادھر نکل گیا کبھی اُس طرف نکل گیا.بیچ میں نہیں کھڑا ہو سکتا تھا اسی طرح یہ تحریکات ایک طرف سے چلتی ہیں اور دوسری طرف نکل جاتی ہیں.یورپ کی تحریک آزادی یعنی عورت کی تحریک آزادی چونکہ عورتوں کے ہاتھ میں تھی اور اُن کے مطالبات جائز حد سے آگے بڑھ چکے تھے ، اس لئے انہوں نے وہ کچھ بھی حاصل کر لیا جو مناسب نہیں تھا اور اس کے نتیجے میں خود اپنی خوشیوں سے محروم رہ گئیں ہیں اور اس کے نتیجے میں بعض ایسی

Page 56

حضرت خلیقہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۵۲ خطاب ۲۶ ؍جولائی ۱۹۸۶ء خرابیاں پیدا ہور رہی ہیں جن کا بظاہر کوئی علاج نظر نہیں آتا.مثلاً کہاں یہ وقت کہ اس صدی کے آغاز تک بلکہ تقریباً وسط تک بہت سی عورتوں کو اپنے خاوندوں کے گھر پر بھی کوئی حقوق حاصل نہیں تھے، اپنے ماں باپ کے گھروں پر بھی کوئی حقوق حاصل نہیں تھے، اپنے بچوں کے گھروں پر بھی کوئی حقوق حاصل نہیں تھے بلکہ بعض قوانین کے مطابق تو وہ جائیداد بنا ہی نہیں سکتی تھیں.کہاں یہ ایسے قوانین، بعض ممالک کے کہ جن میں عورت کو تقریباً تمام حقوق دے دیئے گئے ہیں جس دن چاہے کان پکڑ کے خاوند کو باہر نکال دے اور اس سے چابیاں لے لے.اور صرف اس کو یہ کرنا ہو گا کہ خاوند کے کپڑے سوٹ کیس میں سجا کر یا جس طرح بھی پیک کر سکتی ہے جلدی میں کرے اور دروازے کے باہر رکھ دے اور ایک نوٹ لکھا ہو کہ آئندہ سے تمہارا اس گھر پر کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ قانون یہ ہے کہ اگر عورت علیحدگی کا فیصلہ کرے تو مرد اور عورت کی مشتر کہ جائیداد عورت کے نام ہوگی اور تمام عمر جو مرد نے کمائی کی ہے، خواہ عورت نے اُس میں حصہ نہ بھی لیا ہو تب بھی وہ عورت کو ملے گی.چنانچہ سکینڈے نیوین کنٹریز میں یہ باتیں عام ہیں.اب کہ کسی دن خاوند بیچارہ کام سے لوٹتا ہے، تو باہر ایک سوٹ کیس پڑا ہوتا ہے، اس پر ایک نوٹ لکھا ہوتا ہے کہ اب مہربانی فرما کر واپس تشریف لے جائیے اب یہ گھر میرا ہے، اس کے سارے حقوق میرے ہیں، آپ کا میرے سے کوئی تعلق نہیں.اس کے نتیجے میں عورت خود خوشیوں سے محروم ہو گئی ہے.عورت کی فطرت تو تبدیل نہیں ہو سکتی، جتنی آپ آزادیاں دیں محض آزادی خوشی کی ضمانت نہیں ہے بلکہ عورت کی ایک فطرت ہے جسے خدا نے بنایا ہے.وہ جھکاؤ چاہتی ہے ، وہ انحصار چاہتی ہے ، وہ محبت کا ہاتھ چاہتی ہے جو اس کے سر پر ہو.بطور ماں وہ سر پر ہاتھ رکھنے کی اہل بھی ہے لیکن بحیثیت بیوی وہ یہ چاہتی ہے کہ بطور ماں جو میں نے خدمت کی ہے قوم کی اب اس عمر میں آکر میری خدمت ہو اور کوئی میری نگہداشت کرے، میں کسی کا سہارا ڈھونڈوں میں کسی پر انحصار کروں.جب ایسی آزادی مل جائے کہ یہ انحصار ختم ہو جائیں تو بظا ہر عورت آزاد ہوتی ہے لیکن در حقیقت اس کے اندر ایک خلا پیدا ہو جاتا ہے، ایک ایسی جستجو اور ایسی طلب پیدا ہو جاتی ہے کہ جس کا کوئی جواب نہیں ملتا.ایک تنہائی کا ایسا احساس پیدا ہو جاتا ہے جو پھر کبھی ختم نہیں ہوسکتا.نتیجہ ساری سوسائٹی بے چین ہو جاتی ہے.میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا میں نے جب سکینڈے نیوین ممالک کا ۱۹۶۸ء میں دورہ کیا تو وہاں اس موضوع پر مختلف عورتوں سے گفتگو ہوتی رہی اور حیرت سے میں نے دیکھا کہ اتنی بے اطمینانی ہے، اتنی بے چینی ہے وہاں عورت میں کہ بعض عورتیں

Page 57

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۳ خطاب ۲۶ ؍جولائی ۱۹۸۶ء اب جن کی خاوندوں سے علیحد گیاں ہو گئیں تھی گھروں کی مالک بنی ہوئی تھیں لیکن اپنی تنہائی کی وجہ سے اس طرح وہ حول کھا رہی تھیں، ایسی بے قرار تھیں کہ جب بات کرتی تھیں تو آنکھوں سے آنسورواں ہو جاتے تھے اور بکثرت میں نے یہ احساس پایا کہ عورت کی بے چینی بڑھتی چلی جارہی ہے.اس کے مقابل پر مردوں نے اپنے حقوق لینے کا ایک اور طریقہ دریافت کر لیا ہے.اب وہ کہتے ہیں کہ شادی کر کے جو گھر دینا ہے دوسرے کو اور سارے حقوق دینے ہیں تو بغیر شادی ہی کے کیوں نہ رہو.نتیجہ وہ تحفظ جس کی عورت کو تلاش تھی جس تحفظ کے حصول کی خاطر اُس نے اپنے مطالبات میں اتنی شدت کی کہ مرد کا تحفظ اُڑ گیا.اب وہ سب کچھ عورت کے ہاتھ سے جاتا رہا ہے.اب وہاں جو غیر قانونی بچے پیدا ہورہے ہیں وہ یورپ میں سب سے زیادہ ہیں سکینڈے نیوین کنٹریز میں اور یہ وہ ہیں جو علم میں آتے ہیں اور باقاعدہ رجسٹر ہوتے ہیں.تقریباً ستائیس فیصدی بعض ممالک میں بچے ہر سال ایسے ہوتے ہیں جو قانونی طور پر غیر قانونی کہلاتے ہیں اور جو قانون کے علم میں نہیں آرہے ان کی تعداد اس کے سوا ہے اور بہت زیادہ ہے.کیوں ایسا ہو رہا ہے؟ اس لئے کہ مردوں کو یہ ترکیب سوجھی ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں اچھا ہم شادی نہیں کرتے.اس کے دو بھیا نک نتائج نکلے ہیں اور وہ دونوں اتنے خطرناک ہیں کہ اس نے عورت کے مستقبل کو بالکل تاریک کر دیا ہے.اول یہ کہ بغیر شادی کے تم ہمارے ساتھ رہتی ہو تو ہو اور جب ہم چاہیں گے تمہیں الگ کر دیں گے.تم ایک Concubien ہو، ایک مسٹریس ہو.اس سے زیادہ تمہاری کوئی حیثیت نہیں بچے پیدا ہوں گے تو سٹیٹ تمہیں حق دے گی میں تمہارا ذمہ دار نہیں ہوں.اگر چہ قانونی طور پر ایسی بحثیں چلتی ہیں کہ عورت ثابت کرے کہ اس مرد کا بچہ ہے اور اس سے حقوق لینے کی کوشش کرے مگر یہ سارے بعد کے قصے ہیں.عملاً جو ہورہا ہے وہ یہ کہ عورت کے لئے اب کوئی امن کی ضمانت نہیں رہی وہاں اس پہلو سے.دوسرا خطر ناک پہلو جو صرف سکینڈے نیوین کنٹریز میں نہیں بلکہ دنیا کی دوسری مغربی ریاستوں میں بھی بڑی تیزی سے پیدا ہو رہا ہے وہ مردوں کا مردوں کی طرف رجحان اور عورتوں کا عورتوں کی طرف رجحان ہے.یعنی عورتیں تنگ آکر اس معاشرے سے یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ ہمیں مرد کی ضرورت نہیں.ہم اُس سے پوری آزادی کیوں نہ حاصل کر لیں.اس لئے ہم اپنی محبت اور رحمت اور شفقت اور سکینت کے تقاضے بجائے مردوں میں ڈھونڈنے کے عورتوں میں ڈھونڈتی ہیں اور Lesbianism کہلاتا ہے یہ.بڑی تیزی کے ساتھ اعدادوشمار بتا رہے ہیں کہ یورپ کی عورتوں

Page 58

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۴ خطاب ۲۶ ؍جولائی ۱۹۸۶ء میں Lesbianism بڑھ رہا ہے اس کے مقابل پر مردوں میں Lesbianism کی بجائے homosexuality اتنی بڑھ چکی ہے کہ ایک نہایت ہی خوفناک صورت اختیار کر چکی ہے.امریکہ آج کی سب بدیوں میں سب سے زیادہ آگے ہے.یورپ کو بدیاں سکھانے میں پیش پیش ہے.امریکہ کے بعد سویڈن اور ڈنمارک وغیرہ کی باری آتی ہے.بہر حال امریکہ میں تو بڑی بڑی leagues ہیں اور بڑی بڑی مردوں کے حقوق کی حفاظت کی Associations قائم ہو چکی ہیں عورتوں کے مقابل پر.اور وہ کہتے ہیں کہ قانون ہمیں وہ سارے تحفظ دے جو از دواجی تعلقات میں تحفظات دیئے جاتے ہیں اور مرد با قاعدہ قانونی طور پر مردوں سے شادی کریں اور ان کے بڑے بڑے جلوس نکلتے ہیں اور ان کو قومی ٹیلی ویژن اور ریڈیو وغیرہ دکھاتے ہیں کہ دیکھو یہ حقوق لے رہے ہیں مرد اپنے.تو عورت نے جو حقوق لینے کی تحریک شروع کی تھی چونکہ وہ خدائی تحریک نہیں تھی کیونکہ اس کے او پر کسی نبی کا تاج نہیں تھا، کسی نبی کی رہنمائی کی روشنی ان کو حاصل نہیں تھی اس لئے ایسی بے راہ ہو چکی ہیں یہ تحریکات کہ کچھ بداثرات تو اب ظاہر ہو چکے ہیں، کچھ آئندہ ہونے والے ہیں اور جو بد اثرات ظاہر ہورہے ہیں ان میں سے ایک بداثر بیماریوں کی شکل میں ظاہر ہو رہار ہے.آزادی! آزدی! آزادی ! یعنی کس چیز کی آزادی؟ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ بے حیائی کی آزادی دو.اور اس آزادی سے مرد بہت خوش ہیں یہاں.وہ کہتے ہیں تم آزادی مانگو ہم دیتے چلے جائیں گے کیونکہ بالآخر جہاں اشترا کی تہذیب میں قانون کی صورت میں تمہیں سب کی جائیداد بنانا ہے، وہاں تم خود آزادیاں مانگتے مانگتے ہم سب کی جائیداد بنتی چلی جارہی ہو.ہمیں اس پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟ تو تین قسم کے نئے تہذیبی تقاضے ابھر رہے ہیں.یا تین قسم کے تقاضے نہیں کہنا چاہئے ، ایک تقاضے کے نتیجے میں تین قسم کے آثار ابھر رہے ہیں.ایک مرد کا مرد کی طرف رجحان اور عورت کو نظر انداز کر دینا.دوسرا عورت کا عورت کی طرف رجحان اور مرد کو نظر انداز کر دینا.تیسرا تمام تہذیبی تقاضوں کو پس پشت ڈال کر ، تمام مذہبی اور اخلاقی قوانین کو پس پشت ڈال کر ، آزادی جنس کی تعلیم دینا اور اُس کو فروغ دینا.یہ تینوں چیزیں کیا عورت کے حق میں ہیں؟ کیا اس کا نام آزادی ہے عورت کے لئے ؟ اس کو اپنے پیش نظر رکھیں پھر اسلام کی تعلیم کا موازنہ کریں پھر دیکھیں کہ اسلام کیا دیتا ہے اور کیا چاہتا ہے اور عورت کی کیا عزت قائم کرتا ہے.کہاں یہ تعلیم ، کہاں یہ فلسفہ کہ عورت کا دوسرا نام جہنم ہے.

Page 59

حضرت خلیفتہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۵ خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۸۶ء عورت جہنم کی طرف لے کے جاتی ہے اور کہاں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی تعلیم کہ جت تمہاری ماؤں کے پاؤں کے نیچے ہے.کوئی نسبت ہے ان دونوں تصورات میں اور ان دونوں فلسفوں میں؟ اب میں کسی قدر تفصیل کے ساتھ ، وقت کی کمی کے پیش نظر، ذرا مختصر کرنا پڑے گا تفصیل سے تو نہیں اب میں کہہ سکوں گا ، کچھ آپ کے سامنے اسلامی تعلیم کا تعارف پیش کرتا ہوں.اگر چہ طبعی اور جبی طور پر مرد اور عورت میں ایک فرق موجود ہے اور اسلام نے اپنی تعلیمات میں اس فرق کو نظر انداز نہیں کیا اور جہاں بھی مرد اور عورت کے معاملہ میں تعلیم میں فرق کیا گیا ہے وہاں لازماً بلا استثناء اس فطری اور جہتی فرق کے پیش نظر وہ فرق کیا گیا ہے اس لئے اب جب میں اس موضوع پر گفتگو کروں گا جس موضوع کو عموماً یورپ میں اعتراض کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو آپ کو بتاؤں گا کہ اس کے سوا اس سے بہتر تعلیم ممکن ہی نہیں تھی.مرد اور عورت کی بناوٹ میں، اس کے طرزفکر میں ، اس کے جذبات میں ،اس کے تصورات میں جو طبعی جبلی تقاضوں سے تعلق رکھنے والے تصورات ہیں ، ایک بنیادی فرق ہے.عورت ماں بن سکتی ہے ، مردماں بن نہیں سکتا جو چاہیں آپ کر لیں.مرد مجبور ہے اور وہ ماں بن نہیں سکتا اور عورت مجبور ہے وہ باپ بن نہیں سکتی.وہ مشینری اللہ تعالیٰ نے عورت کو مہیا کی ہے جس کے ذریعہ بچے پیدا ہوتے ہیں نو مہینے وہ ان کو اپنے پیٹ میں پالتی ہے اور اس کے نتیجہ میں اس بچے کے ساتھ ایک ایسا گہرا زائد تعلق ماں کو پیدا ہو جاتا ہے جو باپ کو نہیں اور اس کی پرورش کیلئے وہ مجبور ہے.عورت کے بغیر باپ وہ پرورش نہیں کر سکتا اس لئے عورت کے حقوق قائم ہونے چاہئے تھے جو اس کو باقی کاموں سے آزاد کریں اور گھر میں بچوں کی پرورش کے لئے خاص کر دیں.ان حقوق کا نام یورپ پابندیاں رکھتا ہے اور ان پابندیوں پر پھر اعتراض کرتا ہے یہ میں آپ کو مثال دے رہا ہوں.لیکن اگر آپ اسلامی تعلیم کا گہرا مطالعہ کریں تو آپ حیران ہوں گی یہ معلوم کر کے کہ جن کو پابندیاں کہا جاتا ہے، وہ دراصل عورت کے حقوق ہیں لیکن جہاں تک اس کے سوا تعلیم کا تعلق ہے اسلام مکمل طور پر عورت اور مرد میں برابری کی تعلیم دیتا ہے اور انہیں بار بار اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ تم دونوں کے حقوق جنسی فرق کے باوجود ایک سے ہیں اور خدا کی نظر میں ایک ہی طرح تم جوابدہ ہو گے.فرمایا وَمِنْ كُلِّ شَيْ خَلَقْنَازَ و جَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (الذاریات: ۵۰) کہ دیکھو ہم نے تو ہر چیز سے جوڑے پیدا کئے ہیں تو تم کیوں نصیحت نہیں پکڑتے ، یعنی

Page 60

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۵۶ خطاب ۲۶ ؍جولائی ۱۹۸۶ء عورت اور مردکو صرف انسانی تعلقات کے دائرے میں سوچ اور فکر کی دعوت نہیں دیتا قرآن کریم، بلکہ تمام زندگی کے وسیع تر دائرے میں غور اور تدبر کی دعوت دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ انسانی زندگی تو الگ حیوانی زندگی پر بھی غور کر کے دیکھو وہاں بھی ہم نے جوڑوں میں زندگی کو پیدا کیا.یعنی مرد اور عورت کی بجائے نر اور مادہ کی شکل میں.اور کیوں کیا؟ اس لئے نہیں کہ ایک فریق پر ظلم ہو بلکہ اس لئے کہ زندگی کی پیدائش اور اُس کی حفاظت کی ضمانت ہو اور اُس سلسلے میں حقوق کو قدرت نے تقسیم کر دیا ہے اور اُن حقوق میں یہ بات بھی داخل فرما دی کہ صرف عورت پر اُس بچے کی پیدائش کی تیاری کی ذمہ داری نہ ہو یا اُس کی پرورش کی ، مرد پر بھی ہو.اگر چہ تقسیم کا رجیسا کہ انسانوں میں مقرر ہوئی ہے، ویسا حیوانی زندگی میں بھی آپ کو ملتی ہے.یہ جو قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے یہ ایک بہت بڑا وسیع مضمون ہے.جن خواتین کو علم حیوانات سے کوئی مس ہے یا وہ با قاعدہ وہ مضمون پڑھ رہی ہیں، وہ اس آیت کا مفہوم زیادہ بہتر سمجھ سکتی ہیں لیکن آج کل تو اس علم سے براہ راست تعلق رکھنے والے لوگوں کے سوا بھی بہت سا دلچسپ مواد لٹریچر کی صورت میں مہیا ہو چکا ہے یا ٹیلی ویژن ، ریڈیو کے پروگراموں میں آتا رہتا ہے.بجائے اس کے کہ گندے پروگراموں میں ، لغو پروگراموں میں اپنا اور اپنے بچوں کے وقت ضائع کریں، آپ اس قسم کے پروگرام دیکھیں اور دکھا ئیں اور قرآن کریم کی اس آیت کو پیش نظر رکھ کر جب آپ ان پروگراموں کا مطالعہ کریں گی ، تو آپ کا علم بہت ہی وسیع ہوگا اور آپ قرآنی احکامات کی حکمت کو سمجھنے کی پہلے سے زیادہ اہل ہو جائیں گی.فرمایا وَ مِنْ كُلِّ شَيْ خَلَقْنَازَ وَ جَيْنِ ہم نے جو ہر چیز سے جوڑے پیدا کئے ہیں ، اس لئے لَعَلَّكُم اگر یہ علم آپ حاصل نہیں کریں گی تو تَذَكَّرُونَ کا سوال کیسے اُٹھتا ہے.کس طرح آپ اس پر تدبر کر کے اس کے اچھے نتائج نکالیں گی.مجھے چونکہ شوق ہے حیوانی زندگی کے مطالعہ کا تو قرآن کریم کی اس آیت کی روشنی میں جب میں دیکھتا ہوں ، حیوانی دنیا کے ازدواجی تعلقات کے مختلف ادوار کو ، تو دو طرح سے میری راہنمائی ہوتی ہے اور اُس کی طرف میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.اول یہ کہ ان تعلقات میں بہت تفاوت بھی پایا جاتا ہے.بعض تعلقات اور نوع کے ہیں، بعض تعلقات اور نوع کے ہیں.مختلف حیوانوں میں مختلف قسم کے تعلقات ہیں اور بعض تعلقات عبرت کے لئے ہیں اور بعض تعلقات روشنی اور راہنمائی کے لئے اس لئے اس طرح غور کرنا کہ گویا ہر حیوانی مرد اور عورت یا نر اور مادہ کا تعلق آپ کیلئے را ہنمائی پیدا کر رہا ہے ، یہ بالکل غلط بات ہے.تَذَكَّرُونَ“

Page 61

حضرت خلیفہ آسخ الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۷ خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۸۶ء کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی تعلیم کی روشنی میں ان تعلقات پر نظر ڈالو تو تمہیں بعض تعلقات عبرت کا نشان نظر آئیں گے، وہاں سے بھی تم سبق سیکھ سکو گی اور بعض تعلقات راہنمائی اور روشنی پیدا کریں گے، وہاں سے بھی تم سبق سیکھ سکو گی.مثلاً بعض جوڑے ایسے ہوتے ہیں ، جانوروں میں، جہاں گھونسلے کی تیاری میں، جب کہ انڈے دینے کا وقت آ رہا ہوتا ہے، مرد بھی پوری یعنی نر بھی پوری محنت سے کام لیتا ہے بلکہ زیادہ محنت سے کام لیتا ہے اور اُن دنوں میں عورت کے بڑے نخرے برداشت کرتا ہے ، یعنی میری مراد ہے مادہ کے چونچلے کرتا ہے، اُس کو اچھی خوراک مہیا کرنے میں اُس کی مدد کرتا ہے اور دن رات محنت کر کے تنکے پچن چن کر لاتا ہے، جسے مادہ اپنی مرضی سے سجاتی اور اُس گھونسلے کی تخلیق کرتی ہے.ہم نے سیر کے دوران ایک ایسا واقعہ دیکھا کہ جھیل کے پاس سے گزرتے ہیں.وہاں ایک Coots یعنی ڈیکوں کا جوڑا ہمارے سامنے اس دور سے گزرا ہے، پھر وہ مکمل ہوا.اب اُس کے بچے بھی پیدا ہو چکے ہیں اور بڑے ہو کر آزادی کے قریب پہنچ گئے ہیں.تو ہم نے دیکھا کہ بہت محنت کر رہا تھا اُس کا نر ، اور ہر طرح سے خدمت کر رہا تھا، بلکہ اُس دور میں ایسے اُس کے تقاضے پورے کر رہا تھا جو عام اُن کے تعلقات میں اشارہ بھی نظر نہیں آ رہے تھے.آنحضرت ﷺ کا حسن سلوک جو اپنی ازدواج مطہرات سے تھا، اُس کی روشنی میں جب آپ تلاش کریں گی تو آپ کو بعض حیوانی زندگی کے تعلقات اس کے قریب تر نظر آئیں گے.وہ آپ کیلئے راہنمائی کا کام دے رہے ہیں.تَذَكَّرُونَ کا یہ مطلب ہے.اور جہاں جہاں اس سے بہتی ہوئی حیوانی زندگی آپ کو نظر آئے گی ، وہ تکلیف کا جب بنے گی اور جانوروں میں بھی نہایت خوفناک نتائج پیدا کرنے کی موجب بنے گی.میں اُس کی مثال ایک بعد میں آپ کو دوں گا جو اتنی بھیانک ہے کہ آدمی کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.تو تَذَكَّرُونَ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر جانور کی طرح تم بھی جانور بن جاؤ.مراد یہ ہے جانوروں میں بعض جانور تمہارے لئے نمونہ ہیں مثبت رنگ میں اور بعض جانور تمہارے لئے نمونہ ہیں منفی رنگ میں اور یہ فیصلہ کہ کونسا مثبت ہے اور کونسا منفی نمونہ ہے، یہ اسلام کی تعلیم کی روشنی میں تم کرو گی ، تب تمہیں سمجھ آئے گی کہ تَذَكَّرُونَ کا کیا معنی ہے.بہر حال، پھر بڑے انتظار کے بعد وہ بیٹھ گئی بیچاری انڈے دینے کے لئے.اس سارے عرصے میں وہ گوٹ نرجو تھا، وہ اُسے کھانے کھلاتا رہا اور ہم صبح جو بریڈ پھینکتے ہیں، روٹی پھینکتے ہیں ان کے لئے جانوروں کے لئے جھیل میں، اس سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ نر اور مادہ دونوں ایک دوسرے سے

Page 62

حضرت خلیفہ انسخ الرابع" کے مستورات سے خطابات مسیح ۵۸ خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۸۶ء جھگڑ جھگڑ کے، جس کا پہلے داؤ لگے وہ اُس سے چھین لیتا تھا یا چھین لیتی تھی اور اب ایک نیا دستور بن گیا.یعنی مرد نہ صرف یہ کہ اُس دوران عورت کو کھلاتا بلکہ جب بچے پیدا ہوئے تو مسلسل چکر لگا تا تھا، جہاں ہم روٹی پھینکتے تھے، وہاں سے گھونسلے تک اور صبح بھوکا ہونے کے باوجود، جب تک اپنی مادہ کا اور اپنے بچوں کا پیٹ نہیں بھر لیتا تھا، اُس وقت تک وہ نظر بھی نہیں کرتا تھا اپنی ذات کیلئے.یوں معلوم ہوتا تھا کہ جس طرح کامل طور پر ایک بے نفس شخص ہے.حیرت سے میں اُس کو دیکھتا رہا، اس جوڑے کو اور مجھے خیال آیا کہ اگر اسلامی تعلیم پر ، قرآن کی اس آیت پر ہی آج کے انسان نے غور کیا ہوتا تو باقی دنیا چھوڑیئے، یورپ کے بھی بہت سے مسائل حل ہو جاتے.عورت کو اس دور میں ایک بوجھ سمجھ کر چھوڑ دیا جاتا ہے،اُس کی عزت کم کر دی جاتی ہے، اُس کی خدمت کے تقاضے پورے نہیں کئے جاتے بلکہ بعض گھروں میں تو اس دور میں اُس سے خدمت لی جاتی ہے اور بعض بھیانک ایسی شکلیں میرے سامنے یعنی بہت ہی تکلیف دہ بعض احمدی گھروں کی بھی سامنے آئیں کہ عورت حاملہ ہونے کی وجہ سے بجائے اس کے کہ اُس کو آرام دیا جائے ، اُس کا خیال رکھا جائے ، اُس پر اُسی طرح بوجھ پڑے رہے ، بلکہ بچہ پیدا کرنے کے بعد سمجھا گیا کہ جلدی سے جلدی وہ اپنی دوسری خدمتیں فوراً شروع کر دے یہاں تک کہ جیسا کہ میں نے ایک دفعہ خطبے میں بیان کیا تھا بارش ہو رہی ہے، سردی کا وقت ہے ماں، جو ساس، اپنی بیٹیوں کو کہنے کی بجائے کہ تم باہر سے چار پائیاں اٹھا کر اندر لے آؤ اپنی بہو کو کہ رہی ہے کہ جاؤ اور جا کر چار پائیاں اُٹھا کر لے آؤ.اُس کے نتیجے میں اُس کے ہاتھ پاؤں جڑ گئے کیونکہ وہ وقت ایسا تھا کہ جب بدن کچا ہوتا ہے اور خصوصاً اُن دنوں میں اگر بارش میں ٹھنڈ کے زمانے میں عورت باہر نکلے تو بڑے خطرات لاحق ہوتے ہیں.تو یہ سارا ظلم جو دنیا میں ہو رہا ہے اس چھوٹے سے قرآنی تقاضے کو نظر انداز کر کے ہورہا ہے کہ تم کم سے کم جانوروں سے ہی سبق سیکھ لو.اگر انسانوں سے سبق نہیں سیکھ سکتے کہ انسان بگڑ چکے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے جانور کی تہذیب کی تو آج تک حفاظت فرما رکھی ہے.کوئی نہیں جو اُس تہذیب کو بدل سکے.اُن میں وہ تہذیب جو اسلامی تقاضوں کے قریب ترین ہے جو اسلامی تعلیمات کے قریب ترین ہے آج بھی تمہارے لئے مشعل راہ ثابت ہوسکتی ہے.پھر فرمایا:- ياَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءَ ( سورة النساء:۲)

Page 63

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۵۹ خطاب ۲۶ ؍جولائی ۱۹۸۶ء اے لوگو اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو.تمہیں خدا نے نفس واحدہ سے پیدا فرمایا ہے.دنفس واحدہ کے بہت سے مفاہیم ہیں جن کو میں مختلف نکاحوں کے خطبات میں بیان کرتا رہا ہوں اور وہ آئندہ بھی بیان ہوتے رہیں گے اور کوئی نہیں جو ان مفاہیم کو ختم کر سکے کیونکہ قرآن کریم کے علوم کی روشنیاں ہر آیت سے اس رنگ میں پھوٹ رہی ہیں کہ وہ لا زوال بھی ہیں اور اُن کا محیط کرنا ممکن نہیں رہتا پھیلتی چلی جاتی ہیں.زمانے کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتی ہیں اور انسان کو نور بخشتی چلی جاتی ہیں تو اس آیت کے بھی بڑے گہرے مفاہیم اور مطالب ہیں جن پر کوئی انسان احاطہ نہیں کر سکتا، لیکن ایک ان میں سے یہ ہے کہ ہم نے تمہیں نفس واحدہ سے پیدا کیا یعنی تمہاری عزت مرد اور عورت کے لحاظ سے برابر ہے، تمہارے حقوق مرد اور عورت کے لحاظ سے برابر ہیں ہم نفس واحدہ کی پیداوار ہو اور ایک دوسرے کا محتاج اور ممنون احسان نہیں ہے اس پہلو سے ی تعلیم عیسائیت کی تعلیم سے کتنی مختلف ہے.جو یہ کہتی ہے کہ عورت کو مرد کی پہلی سے پیدا کیا گیا ہے اور اسلئے عورت اپنی تخلیق میں مرد کی محتاج ہے.جہاں تک آغاز کا تعلق ہے،انسانیت کے آغاز کا تعلق ہے، قرآن کریم اس تعلیم کو ر ڈ کرتا ہے اور یہ فرماتا ہے کہ مرد اور عورت اپنے آغاز کے لحاظ سے ایک دوسرے کے محتاج نہیں ہیں بلکہ برابر کا درجہ رکھتے ہیں کیونکہ ان کی پیدائش کا آغاز نفس واحدہ سے کیا گیا تھا.یہ Scientific مضمون ہے جو تفصیلات کو چاہتا ہے لیکن یہاں اس کی تفصیل کو بیان کرنے کا وقت نہیں ہے.پیدائش کی غرض کیا بیان فرمائی.فرمایا: سے.وَمِنْ أَيْته أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَ رَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَتٍ لِقَوْمٍ (الروم : ۲۲) يَتَفَكَّرُونَ کہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے اس کی آیات میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہیں خود ایک دوسرے سے پیدا کیا ، ایک دوسرے سے تمہارے لئے جوڑے پیدا کئے..کیوں پیدا کئے ؟ اس لئے نہیں کہ ایک دوسرے پر جبر کرے اور زیادتی کرے.فرمایا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا تا کہ تم ایک دوسرے کی طرف سکینت کی تلاش کرتے ہوئے جھکو اور ایک دوسرے کے اوپر انحصار کرو.تسکین کی خاطر وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت کو پیدا فرمایا.پس شادی بیاہ کے بعد اگر یہ مقصد پورا نہیں ہوتا یا جوڑے اس مقصد کو نظر انداز کر دیتے ہیں ، خواہ مردوں کا قصور ہو یا

Page 64

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۶۰ خطاب ۲۶ ؍جولائی ۱۹۸۶ء عورتوں کا ، تو اپنی تخلیق کے مقصد کو وہ بھلا دیتے ہیں.شادی کے بعد مودت اور رحمت کا مضمون ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہئے.لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا کا مضمون ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہئے.اور ایسا ماحول قائم کرنا چاہئے کہ مرد عورت کیلئے محبت اور رحمت کا سر چشمہ ثابت ہو اور عورت مرد کیلئے محبت اور رحمت کا سرچشمہ ثابت ہو.جہاں تک نظروں کے بدکنے کا تعلق ہے ، بے راہ ہونے کا تعلق ہے، جہاں تک سکینت تلاش، دوسری جگہ کرنے کا تعلق ہے، اسلام جو پابندی لگاتا ہے وہ عائلی زندگی کی تقویت کی خاطر لگاتا ہے.وہ اسلئے لگاتا ہے کہ مرد اور عورت کے تعلقات میں ہمیشہ دائم طور پر محبت کی حفاظت کی جائے.اگر نظر کو بد کنے اور بے راہ روی کی اجازت دے دی جائے تو لازماً گھر کی محبت کی قربانی کے نتیجہ میں ایسا کیا جاسکتا ہے اس کے بغیر نہیں کیا جاسکتا.جتنی نظریں آزاد ہوں گی اتنی ہی زیادہ آپس میں ایک دوسرے کے حقوق سے آزادی کے نتیجے میں آزاد ہوں گی اس لئے جب اس کو پابندی کہا جاتا ہے تو بالکل غلط بات ہے.اصل میں یہ حفاظت کا مضمون ہے اور بنیاد چونکہ اسلام نے عائلی معاشرہ پر رکھی ہے اس لئے عائلی اقدار کی حفاظت کیلئے یہ تعلیم دی جاتی ہے.اور قرآن کریم یہ حقیقت نظر انداز نہیں فرما تا کہ انسانی فطرت کے تقاضے ایسے ہیں جو بالآخر تہذیبوں کو آزادی کی طرف مائل کر دیتے ہیں.بالآخر مذا ہب سے بے راہ روی پیدا کرنے کے لئے بھی انسان کے اندر کچھ ایسے تقاضے ہیں جو رفتہ رفتہ قدم ہٹاتے ہٹاتے اصل راہ سے دور لے جاتے ہیں.تو فرمایا اس سلسلہ میں تمہیں ہم دعا سکھلاتے ہیں اگر تم دعا سے کام لو گے تو ان اقدار کی حفاظت کر سکو گے.اگر محض اپنی طاقت پر انحصار کی کوشش کی تو تم ہر گز ان اقدار کی حفاظت نہیں کر سکو گے.چنانچہ مؤمنوں کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا: وَالَّذِيْنَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (الفرقان: ۷۵) کہ وہ لوگ یعنی رحمن خدا کے بندے، وہ یہ دُعا کرتے رہتے ہیں کہ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنِ کہ اے خدا ! ہمیں اپنے جوڑوں سے ہی ، ایک دوسرے سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرمادے تا کہ ہمارے دلوں کو ایسی تسکین نصیب ہو کہ ہم دوسری جگہ اس تسکین کے متمنی بن

Page 65

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۶۱ خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۸۶ء کر اپنی نظروں کو آزادانہ نہ پھرائیں هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا اور صرف یہی نہیں بلکہ ہمیں اپنی اولاد کی طرف سے بھی آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب فرما.وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا اور ہمیں متقیوں کا امام بنانا.اس آیت میں جس عائلی زندگی کا تصور پیش فرمایا گیا ہے اس میں سب سے پہلی بات جوغور کے لائق ہے وہ یہ ہے کہ مومن اپنی کوششوں پر انحصار نہیں کرتا اور جانتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے توفیق نصیب نہ ہو تو میں اپنی عائلی زندگی کو خوشگوار نہیں بنا سکتا اور یہ حقیقت ہے.وجہ یہ ہے کہ مثالی جوڑے، ایسے جوڑے کہ جہاں طبعی تقاضوں کے طور پر ایک مرد عورت کی تسکین کا موجب ہو اور ایک عورت مرد کی تسکین کا موجب ہو، بہت ہی شاذ کے طور پر ملتے ہیں.اسلئے نہیں کہ ہمارے معاشرے میں ماں باپ شادیاں کرتے ہیں اور غلط شادیاں کر دیتے ہیں، اس لئے کہ جہاں معاشرے میں پوری طور پر آزادی حاصل ہے، جہاں اپنی مرضی سے چھان پھٹک کر ، ایک دوسرے کی دیکھ بھال کے بعد شادیاں کی جاتی ہیں ، وہاں بھی یہی صورتِ حال درپیش ہے کیونکہ عائلی زندگی میں A Give اور Give & Take Take کا مضمون فوراً داخل ہو جاتا ہے کچھ لینا پڑتا ہے، کچھ دینا پڑتا ہے، کچھ اپنے مزاج کو چھوڑنا پڑتا ہے، کچھ دوسرے کے مزاج کو قبول کرنا پڑتا ہے.اس لحاظ سے ابتداء میں Adjustment بہت مشکل ہو جاتی ہیں اور عموماً اس دور میں جبکہ شادیاں Late ہو رہی ہیں اور بھی زیادہ مشکل پیش آجاتی ہے.پرانے زمانے میں ، یعنی ایسے زمانے کو میں پرانا کہہ رہا ہوں جو میں نے بھی دیکھا ہوا ہے، اُس زمانے میں رواج یہ تھا کہ ماں باپ جلدی بچیوں کی شادی سے فارغ ہو جاتے تھے.اُس کے نتیجے میں مرد بھی جلدی شادی کرتے تھے.نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ وہ سادہ سے بچے جو آجکل کے زمانے میں بچے کہلاتے ہیں ، وہ ایک دوسرے کے ساتھ بڑی جلدی Adjust ہو جایا کرتے تھے اور باوجود مزاج کے اختلاف کے، بہت جلدی ایک دوسرے کی خاطر قربانی کرنا، ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھنا سیکھ لیتے تھے اور ایک اچھا معاشرہ وجود میں آتا تھا.شادیاں تو اتنی جلدی ہوتی تھیں اس زمانے میں کہ مجھے یاد ہے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مجھے ایک دفعہ بتایا کہ جب میری شادی ہوئی ہے، یعنی حضرت میاں بشیر احمد صاحب کی ، تو کہتے ہیں میری چودہ سال کی عمر تھی اور جب پہلی بچی یعنی میری بیوی (سیدہ آصفہ بیگم صاحبہ ) کی والدہ امتہ السلام بیگم صاحبہ ) پیدا ہوئیں ، تو کہتے ہیں کہ میں اتنا چھوٹا تھا اور اتنا شر مارہا تھا کہ میں چار پائی

Page 66

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات مسیح ۶۲ خطاب ۲۶ ؍جولائی ۱۹۸۶ء کے نیچے گھس گیا اور تلاش شروع ہوگئی کہ باپ کہاں گیا ہے، اُس کو مبارک باد دی جائے.آخر حضرت اماں جان نے چار پائی سے نکلا ہوا بوٹ دیکھ لیا اور بوٹ سے پکڑ کر گھسیٹا کہ میاں ادھر آؤ ، آکر مبارک بادلو.یہ وہ دور تھا سادہ ، اُسے سادہ دور کہیں.ویسا دور تو شاید دوبارہ پیدا نہ ہو سکے لیکن اگر جلدی شادیاں کی جائیں اور بے وجہ زیادہ تعلمیات حاصل کرنے کے چکر میں نہ پڑا جائے ، یا عورت کو اپنے ماں باپ اور اپنے خاندان کو اقتصادی سہارا دینے کے لئے استعمال نہ کیا جائے تو بہت سی خرابیاں جو آج ہم دیکھتے ہیں معاشرے میں ، وہ دُور ہو سکتی ہیں.چنانچہ ان طبعی مجبوریوں کی بناء پر قرآن کریم نے ہمیں تعلیم دی کہ اللہ سے مدد مانگا کرو.ورنہ ہو سکتا ہے ایک شکل تمہیں چند دن اچھی لگے کچھ دیر کے بعد بری لگنے لگ جائے.ایک عادت شروع میں پیار سے نخرے کے طور پر برداشت کرو تھوڑی دیر میں تکلیف دینے لگ جائے.یہاں تک عادات کا اختلاف مسائل پیدا کر دیتا ہے کہ ایک مرد جو لقمہ کھاتے وقت اُنگلی بھی تھوڑی سی منہ میں داخل کر دیتا ہے ، وہ اتنانا قابل برداشت ہو جاتا ہے بعض عورتوں کے لئے جو حساس ہوتی ہیں ، کہ اسی وجہ سے ان کی لڑائیاں چل پڑتی ہی جو پھر ختم ہی نہیں ہوتیں.بعض مردوں کو تہذیبی تقاضے پورے نہیں آتے کہ فوراً اُٹھ کر جب اکٹھے کھانا کھانے جارہے ہیں تو پہلے بل پیش کر دیں اور بعض Sensitive عورتیں ہوتی ہیں اُن کو شرمندگی ہوتی ہے دوسری عورتوں کے سامنے اُن کے خاوند اُٹھ رہے ہیں، اُن کے خاوند زیادہ تیزی کے ساتھ سرعت کے ساتھ تہذیبی تقاضے پورے کر رہے ہیں اور ان کے میاں چھڈو بن کر بیٹھے ہوئے ہیں.اس کی وجہ سے تکلیف شروع ہو جاتی ہے اور شروع شروع میں یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں لیکن رفتہ رفتہ اتنی شدت اختیار کر جاتی ہیں کہ با قاعدہ گالی گلوچ ،لڑائیاں، جھگڑے، فساد اور جب اپنے گھر میں گالی دینے والے وجود مزید نہیں ملتے تو پھر ماں باپ کے گھر تک پہنچتے ہیں.پھر کبھی خاوند یہ ظلم شروع کرتا ہے، کبھی بیوی یہ ظلم شروع کرتی ہے کہ ہاں ہاں تم نہیں تمہارے تو ماں باپ بھی ایسے تھے.تمہاری تو نسلیں ایسی ہیں اور تمہارے رشتہ دار جو ہیں ، جہاں جہاں تم نے اپنی بہنوں کی شادیاں کی ہیں وہ بھی ہم نے دیکھے ہوئے ہیں اور پھر اگر مرد نے شروع کیا ہے تو عورت جواب دیتی ہے اور عورت نے شروع کیا ہے تو مرد جواب دیتا ہے.اپنے اختیار میں تو آپ کے کچھ بھی نہیں ہے.اگر اپنے تعلقات کو عام بہاؤ کے اوپر چلنے دیں گے تو یہ نتیجے لازماً نکلیں گے اس لئے دیکھئے قرآن کریم نے کتنی پیاری تعلیم دی ہے.فرمایا اپنی کوششوں پر، اپنے طبعی تقاضوں پر انحصار نہ کرنا بلکہ مسلسل یہ دعا کرتے رہنا: رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا

Page 67

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۳ خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۸۶ء وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنِ جب تک تو ہمیں آپس میں ایک دوسرے سے تسکین حاصل کرنے کے طریق نہیں سکھائے گا، جب تک تو ہمیں وہ محبت عطا نہیں کرے گا، جس کی تلاش میں ہم سرگرداں ہیں جس کے بغیر کوئی دل مکمل نہیں ہوتا ایک دوسرے سے، کسی اور سے نہیں اس وقت تک ہمیں چین نصیب نہیں ہوسکتا اس لئے ہم تجھ سے دعا مانگتے ہیں اور اس دعا کے نتیجے میں دو باتیں ظاہر ہوتی ہیں.اول یہ کہ انکسار سکھانے کے علاوہ انسان متوجہ رہتا ہے اس طرف کہ میں نے کس سے سکون حاصل کرنا ہے، کس کی محبت حاصل کرنا میرے دل کی تمنا ہے.اگر وہ دل کی تمنا نہ ہو تو دعا بن نہیں سکتی اور دعا بن جائے تو دل کی تمنا نہ بھی ہو، تو انسان کی توجہ اس طرف پیدا ہو جاتی ہے اور انسان یہ سمجھتا ہے کہ میرے فرائض میں سے ایک یہ ہے کہ جب میں دعا مانگ رہا ہوں تو کچھ کر کے بھی تو دکھاؤں اس لئے ایک دوسرے کے ساتھ ایک خاص تعلق پیدا ہوتا ہے جو اسلام کے سوا پیدا ہونا کسی معاشرے میں ممکن ہی نہیں.اس دعا کے بغیر یہ تعلق پیدا نہیں ہو سکتا.پھر اللہ تعالیٰ فضل فرماتا ہے اور ایک دوسرے سے چشم پوشی کے گر سکھاتا ہے.ایک دوسرے سے انسانیت کی خاطر، خدا کی خاطر، اسلام کی خاطر ، نرمی کا سلوک سکھاتا ہے اور عفو سے کام لینا سکھاتا ہے اور انسان کا رُخ بجائے اس کی برائیوں کی طرف پھرنے کے خو بیوں کی طرف منتقل ہونے لگتا ہے.بجائے اس کے کہ وہ مرد عورت کی برائیوں پر ہر وقت نظر رکھے اور یہ بتا تا ر ہے کہ جب تک تم یہ نہیں چھوڑو گی تم میری پیاری نہیں ہوسکتی اور عورت مرد کو کہے کہ جب تک تم اس بدی سے باز نہیں آؤ گے تم مجھے اچھے نہیں لگ سکتے ، وہ یہ دیکھنے لگ جاتے ہیں کہ ان میں خوبیاں تو ڈھونڈیں.مرد جب هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا کی دعا کرتا ہے تو لازماً خوبیوں کی تلاش کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اور وہ اچھی باتیں دھیان میں لاتا ہے، جن اچھی باتوں کے نتیجے میں اُسے ابتداء پیار ہوا تھا.اس سے اُن کو وہ بقا بخشنے کی کوشش کرتا ہے، دوام بخشنے کی کوشش کرتا ہے.اسی طرح عورت کا حال ہوتا ہے.اور دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے غائبانہ مد دضرور ملتی ہے.سنجیدگی سے آپ دعا کر کے دیکھیں اور اپنی پہلی زندگی کو اپنی نظر میں رکھیں اور اس دعا کے بعد اپنی بعد کی زندگی کو نظر میں رکھیں تو آپ حیرت انگیز تبدیلی پائیں گے.بہت سی ایسی باتیں جن سے لگتا ہے کہ گزارا مشکل ہے کیا کریں گے؟ کس طرح زندگی کٹے گی؟ اس دعا کے بعد آسان ہو جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایک دوسرے کی اصلاح شروع کر دیتا ہے.مرد کی سختی کو کم کرتا ہے، عورت کی کبھی کو سیدھا کرنے لگ جاتا ہے یا برعکس صورت جو بھی ہو.

Page 68

حضرت خلیفہ مسیح الرابع " کے مستورات سے خطابات مسیح ۶۴ خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۸۶ء تیسری بات جو قابل توجہ ہے وہ ہے وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا عني أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنِ کہ ہمیں ہماری ذریات کی طرف سے بھی آنکھوں کی ٹھنڈک پہنچانا.اولاد کی تربیت کا ایک گر ہمیں اس میں سکھایا گیا.اول یہ کہ اولاد کی تربیت دُعا کے بغیر ممکن نہیں.اگر آپ دُعا سے کام نہیں لیں گی تو یہ خیال کر لینا کہ اولا دآنکھوں کی ٹھنڈک ثابت ہوگی، یہ بالکل ناممکن ہے.اور جب دعا سے کام لیں گی تو ماں باپ اور نئی نسل کے درمیان مودت کے رشتے اس طرح قائم ہو جائیں گے کہ Generation Gap اُڑ جائیں گے بیچ میں سے.جب آپ کی اولاد آپ کے لئے قرۃ العین بن جائے ، آنکھوں کی ٹھنڈک ہو، اور یہ مقصد آپ کے پیش نظر رہے کہ آپ نے اپنی اولاد کو بھی آنکھوں کی ٹھنڈک بنانا ہے تو عائلی زندگی میں صرف ایک Space پیدا نہیں ہوتی یعنی میاں بیوی کے تعلقات کے نتیجے میں جو حال سے تعلق رکھنے والے تقاضے ہیں، بلکہ مستقبل سے تعلق رکھنے والے تقاضے بھی آپ کی زندگی میں مؤثر کردار ادا کرنے لگتے ہیں اور آئیندہ نسلوں کے ساتھ آپ کے تعلقات کا ایسا مضمون شروع ہو جاتا ہے جو لا متناہی ہو جاتا ہے.آج اگر یورپ کے مسائل کو دیکھیں اور یورپ کے دکھوں اور مشکلات کو دیکھیں ، جن کی طرف کسی Women's Lib کی توجہ ابھی تک پیدا نہیں ہوئی منتقل نہیں ہوئی.بلکہ اس کے نتیجہ میں یہ مسائل اور بڑھ رہے ہیں.وہ یہ ہے کہ گھر ٹوٹ رہے ہیں.نہ صرف یہ کہ میاں بیوی کے تعلقات خراب ہوتے چلے جارہے ہیں.بلکہ ماں باپ کے اولاد سے تعلقات خراب ہوتے چلے جا رہے ہیں اور اولا دکسی صورت میں بھی آنکھوں کی ٹھنڈک ہی نہیں رہی.الا ماشاء اللہ بہت کم ہیں ایسے گھر جہاں اولا د بھی تک آنکھوں کی ٹھنڈک ہے.یورپ کے بعض ممالک میں نسبتا جو اولا داور ماں باپ کے تعلق بہتر ہیں.مثلاً انگلستان میں ، میں نے جب موازنہ کیا ہے، انگلستان میں نسبتا زیادہ بہتر تعلقات ہیں ، لندن کو چھوڑ کر، اگر ان کے دیہاتی علاقوں میں آپ جائیں، تو گھریلو زندگی کی حفاظت یہاں نسبتاً زیادہ پائی جاتی ہے.یا سپین میں جنوبی یورپ میں بعض ممالک میں آپ کو یہ تعلقات زیادہ بہتر نظر آئیں گے.مگر وسطی یورپ اور شمالی یورپ میں تو اتنی خطر ناک حالت پہنچ چکی ہے کہ جوان ہونے کے بعد اولا د ماں باپ کو نہیں دیکھ سکتی اور ماں باپ اولا د کو نہیں دیکھ سکتے اور جرمنی میں اور بعض دیگر ممالک میں ہمارے احمدی دوستوں نے ، جو مقامی باشندے ہیں، انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ بہت ساری صورتوں میں جب اولاد بڑی ہو تو ماں باپ کو تکلیف دیتی ہے یہ بات کہ وہ اُن کی روٹی توڑ رہے ہیں اور جب وہ کمانے لگ جائیں تو اصرار ہوتا ہے کہ با قاعدہ

Page 69

حضرت خلیلہ اسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۵ خطاب ۲۶ ؍جولائی ۱۹۸۶ء حصہ ڈالواور Paying Guest ہو ورنہ یہاں سے نکل جاؤ.اُس کے نتیجے میں ، نئی نسل کے دل میں پرانی نسل کے لئے ایک نفرت پیدا ہوتی ہے اور وہ جو گزشتہ احسان کا سلوک تھا، وہ اثر ڈالنے کی بجائے ، انتقام کے جذبے پرورش پانے لگتے ہیں.یہاں تک کہ اکثر صورتوں میں اب یہ گھر اس طرح اُجڑ گئے ہیں کہ ماں باپ اولاد کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک نہیں رہے اور اولاد ماں باپ کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک نہیں رہی اسلام نے نہ صرف اس کی طرف توجہ دلائی، بلکہ دعا سکھائی کہ یہ دعا کرتے رہنا.ذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنِ ہمیں اپنی اولاد کی طرف سے بھی آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب فرما و اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا اور ہمیں ایک ایسی متقی اولاد پیچھے چھوڑنے کی توفیق بخش کہ ہم متقیوں کے امام کہلائیں.آئندہ نسلیں جب نظر ڈالیں تو ہمیں دعائیں دیں کہ کیسی پاکیزہ ، کیسی نیک اولا د چھوڑ کر پیچھے گئے تھے.متقیوں کا امام اپنے اندر ایک اور پیغام بھی آپ کیلئے رکھتا ہے اور بہت وسیع پیغام ہے.مراد یہ ہے کہ اس بات پر راضی نہ رہو کہ تمہارے بچے تمہارے حقوق ادا کر رہے ہیں.جب تک کہ وہ بنی نوع انسان کے حقوق ادا کرنے والے بچے نہیں بن جاتے اُس وقت تک تم اطمینان پانے کے اہل نہیں اس لئے یہ دعا کرنا کہ اے خدا ہم محض خود غرضی کے طور پر اپنی اولا دکو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک دیکھنا نہیں چاہتے بلکہ ہم انہیں تمام بنی نوع انسان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنانا چاہتے ہیں تو انہیں متقی بنادینا اور متقی سے مراد قرآنی تعریف کے مطابق یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا خوف پیش نظر رکھتے ہوئے ہر دوسرے کے حقوق کو ادا کرنے میں اول حیثیت اختیار کرتا ہو.یہاں تک کہ اپنے حقوق غیر کی خاطر چھوڑ کر بھی دوسرے کا خیال کرنے والا ہو اس کو متقی کہتے ہیں تو اس عائلی تعلق میں اس آیت کا مفہوم بالکل اور ہو جاتا ہے.محض عام متقی مراد نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ اے خدا ہم تجھ سے یہ التجا کرتے ہیں کہ ہماری اولا دصرف ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک نہ بنے بلکہ تمام بنی نوع انسان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنے ، اس سے دنیا کوثر نہ پہنچے دنیا کو خیر پہنچے.مضمون کا یہ پہلو ، یہ حصہ ابھی بہت باقی ہے، لیکن وقت ختم ہو گیا ہے اس لئے میں اس مضمون کو یہیں ختم کرتا ہوں کیونکہ آئندہ اس کے بعد جو پروگرام چلنے ہیں ان میں زیادہ لمبا کرنے کی ہمارے پاس گنجائش نہیں ہے.مشکل یہ ہے کہ لندن سے جو بسیں چلتی ہیں، مختلف محلوں کے احمدیوں کو اور اُن کے مہمانوں کو لے کر آتی ہیں.یہاں کے قوانین کے مطابق اُن ڈرائیوروں سے جو معاہدہ ہے کمپنیوں کا ، وہ خاص وقت سے زیادہ اُن سے خدمت لے ہی نہیں سکتے.یعنی اُن کو یہ بھی حق ہے کہ اگر اُن کا

Page 70

حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۶۶ خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۸۶ء وقت ختم ہو جائے تو جہاں بس ہے وہاں کھڑی کر کے بیٹھ جائیں کہ بس ہمارا وقت ختم ہو گیا ہے.اگر چہ اس طرح وہ استعمال نہیں کرتے اس حق کو لیکن یہ ضرور اصرار کرتے ہیں کہ ہمیں عین وقت پر رخصت کیا جائے اور اتنا خیال رکھا جائے کہ اگر ہم نے ایک گھنٹے میں تمہیں وہاں پہنچانا ہے تو ایک گھنٹہ پہلے ہم یہاں سے چل پڑیں گے اور اس بارے میں وہ بنی کرتے ہیں.تو کل جب پروگرام لمبے ہو گئے تھے تو یہی مشکل پیش آئی تھی کہ جلسے کے دوران ہی لوگوں کو اُٹھ کر جانا پڑا.اس ضمن میں میں آپ کو ایک آخری بات کہہ کر اب آپ سے اجازت چاہوں گا.یہ مضمون تو انشاء اللہ تعالی آئندہ چلتے رہیں گے.آئندہ جلسے بھی آنے ہیں، اور بھی مواقع ہیں.جہاں اس تعلیم کو زیادہ تفصیل سے بیان کیا جائے گا اور اس کی بڑی شدید ضرورت ہے.آج احمدی عورت کو ایسے ہتھیاروں سے پوری طرح لیس ہونا چاہئے اور مسلح ہونا چاہئے.جو عورت پر عورت کے تعلق میں اسلامی تعلیم پر حملہ کرنے والوں کے دفاع کے لئے ضروری ہیں بلکہ جارحانہ اسلحہ سے بھی آپ کو مسلح ہونا چاہئے.مرد جب اسلامی تعلیم کا دفاع کرتے ہیں عورت کے معاملے میں اگر مؤثر اور مضبوط دفاع ہو تو کسی حد تک دنیا اُسے قبول کر لیتی ہے مگر پوری طرح باہر کی عورت اطمینان پا نہیں سکتی ، جب تک اسلامی عورت اسلامی تعلیم کا دفاع نہ کرے اور اسلامی عورت اسلامی تعلیم کا دفاع کر نہیں سکتی ، جب تک اُس کا دل پوری طرح مطمئن نہ ہو.اس کی جان کی گہرائیوں تک جب تک وہ تعلیم محبت کے ساتھ نہ اتر چکی ہو، جب تک اُس کے وجود کا حصہ نہ بن چکی ہو، جب تک اس کے فلسفے سے واقف نہ ہو چکی ہواُس وقت تک حقیقی معنوں میں پوری شدت اور زور اور قوت کے ساتھ وہ اسلامی تعلیمات کا دفاع نہیں کر سکتی اس لئے آپ کے اگر حقوق برابر ہیں تو یاد رکھیں کہ آپ کے فرائض بھی برابر ہیں اور اس میدان میں آپ کو اسلام کا دفاع کرنا ہے.تو یہ مضمون میں نے اس لئے اس نہج پر چلایا ہے کہ جہاں تک اللہ تعالیٰ نے مجھے تو فیق عطا فرمائی ہے میں اسلامی تعلیم کے فلسفہ سے ، اس کے پس منظر سے، اس کی گہرائیوں سے، اس کے ماضی سے ، اس کے حال سے ، اس کے مستقبل سے آپ کو آگاہ کروں اور اُس غیر تہذیب کے خطرات سے بھی آپ کو پوری طرح متنبہ کروں جو آپ کی آزادی کے نام پر آپ کو جہنم کی طرف بلا رہی ہے.آخرت کے جہنم کی بات میں اس وقت نہیں کر رہا اس دنیا کے جہنم کی بات کر رہا ہوں.اگر اسلامی تہذیب نے اُس رنگ میں جس رنگ میں احمدیت نے اس کو سمجھا ہے اور اس زمانے میں امام مہدی پر

Page 71

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات المسیح ۶۷ خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۸۶ء وہ تعلیم الہاما جلوہ گر ہوئی ہے قرآن کی روشنی میں، جب تک اُس رنگ میں آپ اسلامی تعلیم کو آج کی دنیا کی عورت کے سامنے پیش نہیں کر سکتیں ، اُس وقت تک دنیا اس تعلیم کے فوائد سے ، اس کے حسن و فتح سے پوری طرح واقف نہیں ہو سکتی اور آپ کے اندر بھی وہ جذ بہ، وہ قوت پیدا نہیں ہوں گے جس کے بغیر دنیا مطمئن نہیں ہوا کرتی.تو اس لئے یہ مضمون بہت اہم ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ مختلف مواقع پر ، ضروری نہیں کہ آئندہ جلسے کا انتظار کیا جائے، کوئی اور موقع پیدا ہوا تو اس کو وہیں سے شروع کروں گا، جہاں میں چھوڑ رہا ہوں.آخری بات جو میں نے آپ سے کہنی تھی وہ یہ ہے کہ یہ مضمون تو بعد میں مکمل ہوتا رہے گا، کم سے کم آج اور کل، یہ جلسے کے دو دن تو اپنے رویے سے باہر کی عورتوں کو یہ بتائیں کہ اسلامی تہذیب، خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی کامل تہذیب ہے.اور ہم اسلامی تہذیب کی پروردہ تم سے کسی طرح پیچھے نہیں ہیں اور جو عام تہذیبی تقاضے تم نے مذہب کے بغیر سیکھ لئے ہیں ہم ایسی نہیں کہ اُن سے غافل ہوں یا اُن سے جاہل ہوں.اسلام یہ تقاضے چودہ سو سال پہلے ہمیں بتا بھی چکا ہے اور اس پر عمل کرنا بھی سکھا چکا ہے.چند چھوٹی چھوٹی باتوں میں یہ نمونہ تو اپنا دکھا ئیں لیکن کل سے جو میں دیکھ رہا ہوں، میں نہایت شرمندہ ہوں اور آپ کی طرف سے یورپ کی خواتین سے معذرت کرتا ہوں کہ آپ اس نمونے پر پورا نہیں اُتریں اور اگر یورپ کی خواتین یہ سمجھیں کہ اسلامی تہذیب کے دکھانے کے دانت اور ہیں اور کھانے کے دانت اور ہیں.ان کی بڑی بڑی باتیں اور ہیں اور ان کا عمل اور ہے، تو کل کے نمونہ کو دیکھ کر وہ یہی سمجھیں گی کہ ہاں اب ہم اس بات کو سوچنے میں حق بجانب ہیں.جب جلسے میں میری تقریر ہورہی تھی، کسی حد تک اُس وقت عورتوں نے برداشت کیا اور باتیں بند کر دیں.اگر چہ کلیہ ایسا نہیں ہو سکا اور اس حد تک بعض جگہ باتیں جاری رہیں، وقتاً فوقتاً، کہ سننے والوں کو اُس سے تکلیف پہنچتی تھی اور سننے والوں نے ہی مجھے شکایت کی ہے لیکن یہ تو ایک بالکل معمولی بات ہے اُس کے بعد جو حال ہوا ہے، وہ تو نہایت ہی تکلیف دہ تھا.دو یا تین دن اگر آپ صبر سے جلسے نہیں سن سکتیں تو یہاں آنے کی کیا ضروت تھی.میلے ٹھیلے تو اس سے بہت زیادہ شاندار اور دلچسپی کا موجب باہر منائے جار ہے ہیں.ہر جگہ ، ہر وقت موجود ہیں.شاپنگ کرنے جانا ہے تو آرنڈیل سینٹر چلی جائیں یا آکسفورڈ سٹریٹ چلی جائیں یا سنڈے مارکیٹس دیکھ لیں.کل بھی تو سنڈے مارکیٹ آنے والی ہے یا Monday مارکیٹ آجائے گی اس کے بعد.پھر جلسے کو کیوں آپ آرنڈیل سینٹر بناتی ہیں یا منڈے

Page 72

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کےمستورات سے خطابات ۶۸ خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۸۶ء سنڈے مارکیٹ بناتی ہیں؟ یہ مجھے بتایا گیا ہے اور بڑی تکلیف کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے.اعتراض کے رنگ میں نہیں بلکہ جس نے مجھے ، ایک سے زائد اطلاعات جو مجھے ملی ہیں ، میں جانتا ہوں اُن کو وہ صاحب دل، متقی عورتیں ہیں، بڑے درد محسوس کر کے انہوں نے بتایا ہے کہ باقی جب تقریریں شروع ہوئی ہیں تو اس طرح انخلاء ہوا ہے عورتوں کا اور اسقدر شور بر پا ہو گیا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی.وہ ماحول کا تقدس ختم ہو گیا یوں معلوم ہوتا تھا کہ جلسے کیلئے آئی نہیں ہیں اور کچھ چیزیں بیچنے کے شوق میں دوڑی ہیں اور کچھ چیزیں خریدنے کے شوق میں مارکیٹ کی طرف دوڑی ہیں اور کچھ باتیں کرنے کے شوق میں باہر نکل گئی ہیں اور کچھ یہ بتانے کیلئے کہ بس خلیفہ وقت کی تقریرین لی ہے بس اتنا ہی کافی تھا.اس کے بعد اس جلسے کی کوئی اہمیت نہیں ہے.بالکل غلط بات ہے! ہر جلسے کی اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے اور ہر جلسے کے کچھ تہذیب و تقاضے ہوتے ہیں اور مرد ہو یا عورت انہیں اُن تہذیبی تقاضوں کو لازماً پورا کرنا ہوگا ، اور یہ تقاضے جو یورپ میں بڑے لمبے عرصے کے بعد بڑی محنتیں اُٹھا کر، بڑی تکلیفیں اُٹھا کر خود سکھے ہیں، چودہ سو سال پہلے اسلام نے واضح تعلیم کے طور پر آپ کو سکھا دیئے تھے.قرآن کریم یہ تعلیم دیتا ہے کہ جب کسی امر جامع میں تم لوگ اکٹھے ہو، آنحضرت علی کے متعلق فرماتا ہے کہ اُن کی اجازت کے بغیر تم نے نہیں ہلنا.باہر نہیں نکلنا اجازت کے بغیر.اب ظاہر بات ہے صلى الله کہ یہ تعلیم اس وقت کے لئے خاص تعلیم نہیں تھی.بہت سی باتوں میں حضرت اقدس محمد مصطفی حلیہ کو اس لئے مخاطب فرمایا گیا ہے کہ آپ کو اسوہ حسنہ قرار دیا گیا ہے.اس لئے مخاطب نہیں فرمایا گیا کہ صرف آپ کی ذات تک وہ تعلیم محدود ہو جاتی ہے بلکہ بتایا کہ تم اُسوہ بنواور دوسروں کو سکھاؤ اور مومنوں کو ، آپ کے غلاموں کو بھی اسوہ قرار دیا گیا ہے کہ جس طرح آپ سے وہ سیکھیں، اس طرح باقی نسلیں اُس اُسوے کو جاری رکھیں.اُن میں ایک یہ تھا کہ جب قرآن کریم کی تلاوت ہو تو کامل خاموشی اختیار کرو.دوسرا یہ کہ جب تم جلسوں میں بیٹھو تو ان کے تقاضے پورے کرو، کامل اطاعت کرو.جب تمہیں آگے بڑھ کر سمٹنے کی تعلیم دی جائے تو آگے بڑھ کر سمٹ جاؤ.جب تمہیں گھلا گھلا بیٹھنے کی تعلیم دی جائے تو خاموشی کے ساتھ کھلے کھلے ہو جاؤ.اور سو فیصدی اطاعت کرو منتظمین کی.قرآن کی تعلیم ہے کوئی آج کی نئی بنائی ہوئی تعلیم نہیں آپ کو بتارہا اور پھر یہ کہ ایسے جلسوں سے جب تمہیں جانا ہو تو اجازت لے کر جاؤ.جس کا طریق جماعت میں یہ رائج ہے کہ وہ ہاتھ اُٹھاتے ہیں.اگر کسی نے فوری طبعی حاجات کے تقاضے

Page 73

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۹ خطاب ۲۶ ؍جولائی ۱۹۸۶ء پورے کرنے کے لئے باہر جانا ہے تو انکی یا ہاتھ اُٹھا کر اشارہ کرتے ہیں اور جب زیادہ لوگ ہو جائیں تو منتظمین کو یا منتظمین کے نائبین کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ دیکھ کر اُن کو اشارے سے اجازت دے دیں تا کہ اس قرآنی تعلیم پر پوری طرح عمل درآمد ہو.اگر اس تعلیم پر آپ عمل کرتیں تو جب تک یہ جلسہ ختم نہ ہو جاتا اُس وقت تک آپ یہاں بیٹھی رہتیں.تکلیف سمجھتیں ، تب بھی بیٹھی رہتیں.دکھ مجھتیں ، تب بھی بیٹھی رہتیں لیکن امر واقعہ یہ ہے، کہ جو تقریریں کل ہوئی ہیں میرے آنے کے بعد ، مجھے جلسے میں پہلی دفعہ، کیونکہ ٹیلی ویژن کا انتظام میرے گھر میں بھی موجود ہے، ( کلوزڈ سرکٹ ٹیلی ویژن ) Closed Circuit Television ، ا ، مجھے وہ دیکھنے کا موقع ملا ، سننے کا موقع ملا اور میں نے بہت لطف اُٹھایا.ہر تقریر اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہایت اعلیٰ پیمانے کی تھی.زیادہ سے زیادہ ، آپ میں سے بعض کو، جو پاکستان سے تشریف لائی ہیں، یہ ایک جائز جواز پیش کرنے کا یعنی اُن کے نزدیک جائز جواز پیش کرنے کا موقع مل سکتا تھا کہ ہمیں انگریزی نہیں آتی.امر واقعہ یہ ہے، کہ آپ نے دیکھا نہیں کہ جب تک یہ نظام تر جمانی کا ہم نے شروع نہیں کیا، یہ دو تین سال کی پیداوار ہے، اس سے پہلے تک تمام غیر ملکی جو جلسہ سالانہ پر آیا کرتے تھے.بعض دفعہ چھ چھ گھنٹے ، بعض دفعہ آٹھ آٹھ گھنٹے اُس حالت میں بھی بیٹھے رہتے تھے کہ ایک لفظ بھی نہیں سن سکتے تھے اور نہایت خاموشی سے بیٹھے رہتے تھے اور نہایت ادب اور احترام کے ساتھ بیٹھے رہتے تھے.اگر چودہ سو سال پہلے کا اُسوہ آپ کو یاد نہیں رہا تو یہ اُسوہ جو آج کے بیرونی احمدی زندہ کر رہے ہیں، اُس اُسوے سے ہی آپ نصیحت پکڑ لیتیں.اگر غیر ملکوں سے آنے والے کوئی چین، کوئی جاپان، کوئی کو ریا، کوئی انگلستان، کوئی یورپ کے دوسرے ممالک، کوئی امریکہ سے، دور دراز سے آئے ہوئے احمدی ، ایک لفظ سمجھے بغیر ، نہایت عمل اور محبت کے ساتھ ، پورے وقت جلسے میں بیٹھ سکتے ہیں اور نہ سمجھنے کے باوجود سنتے رہتے ہیں، تو پاکستان کی تربیت یافتہ احمدی خواتین اور ان کی نئی نسلیں، یہ کیوں ایسا نہیں کر سکتیں؟ سنیں اور یاد رکھیں ! کہ آنحضرت ﷺ آپ کو ایک خوشخبری دے رہے ہیں.اُس خوشخبری سے آپ محروم نہ رہیں.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ جن مجالس میں اللہ کا ذکر چلتا ہو، وہاں خدا کی خاص برکتیں نازل ہوتی ہیں.یہاں تک آپ نے فرمایا کہ خدا کے فرشتے جو پہرے دیتے ہیں، یعنی مختلف اوقات میں مختلف امور کی نگرانی کرتے ہیں اور باقاعدہ جس طرح اس دنیا میں رپورٹوں کا نظام جاری ہے، روحانی دنیا میں بھی ایک رپورٹوں کا نظام جاری ہے.وہ اپنی رپورٹیں خدا کے حضور پیش کرتے ہیں.ایک مجلس کی رپورٹ ایک فرشتے نے اس طرح پیش

Page 74

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کےمستورات سے خطابات خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۸۶ء کی.یعنی باوجود اس کے کہ اللہ کے علم میں ہے سب کچھ لیکن ہمیں سکھانے کے لئے کائنات کا نظام جو بنایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ وہاں بھی باقاعدہ رپورٹوں کا نظام جاری ہے، ہر چیز ریکارڈ کی جارہی ہے یہ رپورٹ پیش کی کہ اے خدا میں نے دیکھا گزرتے ہوئے کہ ایک مجلس لگی ہوئی تھی اور وہ تیرے ذکر کی خاطر لگی ہوئی تھی.کوئی دنیا کی لذت نہیں تھی اس میں اور کچھ لوگ نہایت خاموشی اور ادب سے اُس مجلس میں بیٹھے ہوئے تیرا ذ کر سن رہے تھے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے ان سب کو بخش دیا.کیونکہ وہ لوگ جو میرے ذکر کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں، اُن پر میں نے جہنم کی آگ حرام کر دی ہے.اس پر اُس فرشتے نے عرض کیا کہ اے خدا وہاں ایک مسافر بھی تھا.جو اس نیت سے نہیں آیا تھا.وہ سستانے کی خاطر اُس مجلس میں چند منٹ بیٹھ گیا تھا.آپ نے فرمایا کہ جو لوگ میرے ذکر کی خاطر ا کٹھے ہوتے ہیں اُن کی مجلس میں کوئی مسافر بھی بیٹھ جائے تو میں اُس کو بھی بخش دوں گا.کیسی عظیم برکتیں ہیں اُن جلسوں کی جو محض اللہ ، اللہ کے نام کو بلند کرنے کی خاطر اور اُس کا ذکر کرنے کی خاطر منعقد کی جاتی ہیں.ایسی مجالس میں آپ کو حاضر ہونے کا موقع ملے اور ان سے محروم ہو کر اُن لذتوں کی طرف بڑی بے صبری کے ساتھ لوٹ جائیں جو سارا سال آپ کو مہیا رہتی ہیں.اس سے زیادہ بدقسمتی کا اور نقصان کا اورسودانہیں ہو سکتا.اس لئے اور باتوں کو چھوڑ کر اپنی اس محرومی کی خاطر ہی اس محرومی کے احساس کی خاطر ہی جواب میں نے آپ کو دلایا ہے ، اپنے گزشتہ عمل سے تو بہ کریں اور پورے نظامِ جماعت کی پابندی کریں اور کم سے کم نئی آنے والی احمدی عورتوں کے لئے ٹھو کر تو نہ بنیں.اللہ تعالیٰ آپ کو ان باتوں کی توفیق عطا فرمائے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اب باقی مضمون انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ کی مجالس میں جاری رہے گا.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

Page 75

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات اے خطاب یکم اگست ۱۹۸۷ء اسلام میں عورت کا مقام (جلسہ سالانہ مستورات برطانیہ سے خطاب فرمودہ یکم اگست ۱۹۸۷ء) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے سورۃ النساء آیت ۳۵ کی تلاوت کی : الرِّجَالُ قَوْمُوْنَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ اَمْوَالِهِمْ فَالصَّلِحُتُ قُنِتَتُ حفِظتُ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ وَالَّتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا (النساء: ۳۵) گزشتہ سال میں نے خواتین میں خطاب کے لئے اسلام اور عورت کا مضمون چنا تھا لیکن اس موضوع پر ابھی سیر حاصل گفتگو نہیں ہو سکی تھی کہ وقت ختم ہو گیا اس لئے میں نے گزشتہ سال یہ وعدہ کیا تھا کہ انشاء اللہ جہاں سے مضمون چھوڑا ہے وہیں سے اُٹھا کر اس مضمون کو آئندہ سال مکمل کرنے کی کوشش کروں گا.آج کے خطاب کے لئے جس آیت کا میں نے انتخاب کیا ہے جسے سر فہرست بنایا گیا ہے.اس آیت کے انتخاب کی وجہ یہ ہے کہ اس آیت کے دو ایسے پہلو ہیں جن پر اہل یورپ کو یا اہل مغرب کو شدت سے اعتراض ہے اور جب بھی عورت کے متعلق اسلام کی تعلیم دنیا کے سامنے پیش کی جاتی ہے تو زیادہ تر اسی آیت میں مضمران دو پہلوؤں کو اچھالا جاتا ہے اور اُن دو پہلوؤں کو سامنے لا کر دنیا کے سامنے یہ تصور پیش کیا جاتا ہے کہ اسلام بہر حال عورت کے قبول کرنے کے لائق چیز نہیں کیونکہ یہ ایک ایسامذہب ہے جس نے عورت پر ظلم کو سراہا، اس کی تائید کی اور خود ظلم کی تعلیم دی.کچھ پہلو اس سلسلے میں

Page 76

حضرت خلیفہ مسیح الرابع " کے مستورات سے خطابات ۷۲ خطاب کیکم اگست ۱۹۸۷ء گزشتہ سال بیان ہو گئے تھے.اب میں بقیہ پہلوؤں کو اس آیت کریمہ کی روشنی میں آپ کے سامنے پیش کروں گا.پہلا حصہ جس پر اعتراض ہے وہ یہ ہے:.الرّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ کہ مرد عورتوں پر قوام ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے بعض کو بعض پر بعض پہلوؤں سے فضیلت بخشی ہے اور اس وجہ سے بھی وہ قوام ہیں کہ وہ گھر کو چلانے میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں.فَالصَّلِحُتُ قُنِتُت حفظتُ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ پس وہ پاک دامن نیک بیبیاں جو فرمانبردار ہیں اور غیب میں اپنے خاوند کے حقوق کی حفاظت کرنے والی ہیں.وہ حقوق جو اللہ تعالیٰ نے ان پر عائد فرمائے.لیکن وہ خواتین.یہ دوسرا حصہ بھی خاص طور پر جواہل یورپ کے نزدیک اعتراض کے لائق ہے.وَالتِى تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ لیکن وہ عورتیں جن سے تم بغاوت کے آثار پاؤ اور خائف ہو کہ وہ باغیانہ سلوک کریں گی اُن کے ساتھ کیا سلوک کرو.فرمایا فَعِظُوهُنَّ ، تم اُن کو نصیحت کرو.وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ اُن کو اپنے بستروں میں الگ چھوڑ دو وَاضْرِبُوهُنَّ اور ان کو ما رو فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا اگر وہ تمہاری اطاعت کرنے لگیں تو پھر تمہیں اُن پر ہاتھ اُٹھانے کا کوئی حق نہیں ہے.إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرً ا يقينا اللہ تعالیٰ بہت بلندشان والا اور بڑا ہے.الرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاءِ کا ایک معنی یہ لیا جاتا ہے کہ مرد عورتوں کے اوپر حاکم بنائے گئے ہیں اور بِمَا فَضَّلَ اللہ کا ایک معنی یہ لیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو ہر پہلو سے عورت پر فضلیت بخشی ہے.چنانچہ اہل مغرب یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مرد کو بنایا ہی ہر پہلو سے بہتر ہے اور اس وجہ سے وہ عورت پر حکم چلانے کا حق رکھتا ہے.حالانکہ دونوں جگہ معنے غلط کئے گئے ہیں.ب سے پہلے تو لفظ قوام کو دیکھتے ہیں.قوام کہتے ہیں ایسی ذات کو جو اصلاح احوال کرنے

Page 77

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۷۳ خطاب یکم اگست ۷ ۱۹۸ء والی ہو.جو درست کرنے والی ہو جو ٹیڑھے پن اور کجی کو سیدھا کرنے والی ہو.چنانچہ قوام اصلاح معاشرہ کے لئے ذمہ دار شخص کو کہا جائے گا.پس قوامون کا حقیقی معنی یہ ہے کہ عورتوں کی اصلاح معاشرہ کی اول ذمہ داری مرد پر ڈالی گئی ہے.اگر عورتوں کا معاشرہ بگڑنا شروع ہو جائے اُن میں کج روی پیدا ہو جائے ، اُن میں ایسی آزادیوں کی رو چل پڑے جو اسلام کے عائلی نظام کو تباہ کرنے والی ہو تو عورت پر دوش دینے سے پہلے مرد اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں کیونکہ خدا نے اُن کو نگران مقرر فرمایا تھا.معلوم ہوتا ہے انہوں نے اپنی بعض ذمہ داریاں اس سلسلے میں ادا نہیں کیں.بِمَا فَضَّلَ اللهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ میں خدا تعالیٰ نے جو بیان فرمایا وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہر تخلیق میں کچھ خلقی فضیلتیں ایسی رکھی ہیں جو دوسری تخلیق میں نہیں ہیں اور بعض کو بعض پر فضیلت ہے.قوام کے لحاظ سے مرد کی ایک فضیلت کا اس میں ذکر فرمایا گیا ہے.ہرگز یہ مراد نہیں کہ ہر پہلو سے مرد کو عورتوں پر فضیلت حاصل ہے کیونکہ یہ نہیں فرمایا کہ اس لئے کہ ہم نے مردوں کو عورت پر فضیلت بخشی بلکہ فرمایا فَضَّلَ اللهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ ایک عمومی اصول جاریہ کی طرف توجہ مبذول فرمائی اور اس مضمون کی آیات قرآن کریم میں بارہا دوسری جگہ پر بھی ملتی ہیں.چنانچہ فرمایا کہ ہم نے بعض کو بعض پہلو سے دوسروں پر فضیلت بخشی ہے.اس پہلو سے جب ہم لفظ قوام کو دیکھتے ہیں تو قوام میں ایک معنی طاقتور کے بھی ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ جسے صنف لطیف کہا جاتا ہے اور اہل یورپ بھی اسی طرح اس کو یاد کرتے ہیں اس میں ایک نزاکت پائی جاتی ہے اور مرد کو ایک قومی کی فضیلت مضبوطی کے لحاظ سے عورت پر عطا کی گئی ہے.اگر یہ نہ ہو تو آج اہل مغرب جو سالانہ کھیلیں منعقد کرتے ہیں بڑی بڑی عالمی اُن میں عورتوں کی کھیلوں کا الگ انتظام کیوں کرتے ہیں.مردوں کے ساتھ کیوں نہیں دوڑا دیتے.اُن کی بین الا قوامی کھیلیں ہوتی ہیں اُس میں شاٹ پٹ جو ہے وہ بھی عورتوں کا مردوں کے ساتھ ہونا چاہئے ، ان کی دوڑیں بھی ان کے ساتھ ہونی چاہئیں ، ان کی کشتیاں بھی، ان کی باکسنگ بھی اگر وہ قرآن کو جھٹلا رہے ہیں تو زبان سے نہ جھٹلائیں عمل سے جھٹلا کر دکھا ئیں.یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر Women's Lib کی ساری دنیا کی اجتماعی طاقتیں بھی اکٹھی ہو جائیں تو اسے تبدیل نہیں کر سکتیں اس لئے جو واقعاتی بیان ہے اس پر چیں بجیں ہونے کی ضرورت ہی کوئی نہیں حق نہیں پہنچتا اور تیسری بات یہ بیان فرمائی

Page 78

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۷۴ خطاب یکم اگست ۷ ۱۹۸ء وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ اَمْوَالِهِمْ - فضیلت جو بعض پر بعض کو دی گئی ہے ایک تو قوام کے لحاظ سے جو واضح ہو گئی ہے.دوسری اس لئے کہ اسلام کے اقتصادی نظام میں مرد کا فرض ہے کہ وہ گھر کی ضرورتوں کا خیال رکھے اور یہ ظاہر بات ہے کہ جس کے ہاتھ میں روپیہ پیسہ ہوا سے ایک گونہ اس پر فضیلت حاصل ہو جاتی ہے جس کے ہاتھ میں نہ ہو یا جس کی کمائی کی ذمہ داری نہ ہو.چنانچہ مرد اور عورت کی بحث تو در کنار وہ تو میں بھی جو اپنی اجتماعی قومی دولت کا ایک معمولی حصہ بھی غیر قوموں سے بطور امداد کے لیتی ہیں اُن کے سراُن کے سامنے جھک جاتے ہیں اور امداد دینے والی قوموں کو ایک فضیلت نصیب ہو جاتی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ یورپ اس پہلو کو اس لئے نہیں سمجھ سکتا یا مغرب اس پہلو کو کہنا چاہئے کیونکہ یورپ میں تو امریکہ نہیں آتا مغرب میں امریکہ بھی اور دیگر ایسے ممالک بھی شامل ہیں جو ترقی یافتہ مغربی ممالک کہلاتے ہیں وہ اس حقیقت کو اس لئے نہیں سمجھ سکتے کہ انہوں نے گھروں کے یہ بوجھ اٹھانے سے عملاً اس طرح انکار کر دیا ہے یعنی تنہا اٹھانے سے کہ ان کے اقتصادی نظام میں ، ان کے معاشی نظام میں عورت پر تقریباً برابر کی ذمہ داریاں آچکی ہیں اور ظلم یہ ہے کہ اس کے باوجود عورت ہونے کی حیثیت سے اُس پر جو گھریلو ذمہ داریاں ہیں وہ بھی اسی پر رہتی ہیں.اقتصادی لحاظ سے کہتے ہیں میں بھی کماتا ہوں اپنی بیوی کو کہتے ہیں تم بھی کماؤ اور ہم دونوں مل کر گھر چلاتے ہیں کیونکہ اکیلے کی محنت سے کام نہیں چلتا اور دونوں مل کر محنتیں کرتے ہیں اور جب گھر میں کھانے پکانے کا وقت آتا ہے تو کہتے ہیں تم پکاؤ.جب بچے پیدا کرنے کا وقت آتا ہے تو کہتے ہیں میں مجبور ہوں تم بچے پیدا کرو.نو مہینے میرے بچے کو پیٹ میں اُٹھائے پھرو.اپنی زندگی کا ہر جزو اس کو دو اپنا خون دو.اپنی ہڈیاں دو، اپنا دماغ دو، اپنی رگیں دو، جو کچھ بھی خدا نے تمہیں دیا ہے اس کے ساتھ شیئر کرو اور پھر اُس دور میں بھی تم بھی کماؤ میں بھی کماتا ہوں.ہم دونوں برابر ہیں یعنی برابری کا عجیب تصور ہے اور پھر اُس کے بعد جب علیحدگی ہوتی ہے تو اگر مرد کے پاس کچھ نہ بھی ہو تب بھی وہ بیوی کے مال میں آدھے کا شریک ہو جاتا ہے.چنانچہ کچھ عرصہ پہلے سویڈن سے ایک شکایت ملی ایک احمدی عورت کی ایک شکایت تھی.اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں مگر اُس دوران میں نے جب تحقیق کرائی کہ اس ملک کے قوانین کیا ہیں تو یہ سن کے میں حیران رہ گیا کہ اگر ایک عورت ایک غریب مرد سے شادی کر لے اور ان کی علیحدگی ہو جائے تو قطع نظر اس کے کہ اُس غریب مرد نے کتنا حصہ ڈالا تھا علیحدگی کے وقت ساری جائیداد برابر کی تقسیم ہو جائے گی.کچھ اسی سے ملتا جلتا کوئی جھگڑا تھا.بہر حال اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور وہ معاملہ حکومت کی عدالتوں میں جانے کی بجائے آپس میں بڑے

Page 79

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۷۵ خطاب یکم اگست ۷ ۱۹۸ء عمدہ رنگ میں سمجھوتے سے طے ہو گیا.لیکن سوال یہ ہے کہ اس قسم کے جہاں اقتصادی قوانین پائے جاتے ہوں کہ عورت پر دو ہرے بوجھ ڈال دیئے گئے ہوں گھر کی کمائی کا بھی اور بیرونی کمائی کا بھی اور تمام اقتصادی ذمہ داریوں میں اُس کو شریک کیا جارہا ہو تو اُن کو یہ آیت نہیں سمجھ آئے گی کیونکہ اس میں تو ایک ایسے اقتصادی نظام کا ذکر کیا گیا ہے کہ جس میں عورت کلیتہ بری الذمہ ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ اسلام کے اقتصادی نظام میں عورت اگر کمانا چاہے تو اس کو اجازت ہے لیکن خاوند کا یہ حق نہیں کہ اس کے کمائے ہوئے مال کو لالچ کی نظر سے دیکھے اس سے کوئی مطالبہ کرے.اگر وہ سارے کا سارا اپنا کمایا ہوار و پیدا پنی مرضی سے الگ رکھتی ہے اپنے ماں باپ کو دیتی ہے، اپنے بھائیوں پر خرچ کرتی ہے، جماعت کو دے دیتی ہے ہر گز قرآن کریم کی تعلیم کی رو سے مرد کا یہ حق نہیں کہ وہ اعتراض کر سکے کہ تمہاری کمائی کہاں گئی.اس کے باوجود مرد کا فرض رہتا ہے کہ وہ عورت کی ذمہ داریاں بھی اُٹھائے اور بچوں کی ذمہ داریاں بھی اُٹھائے.اس پہلو سے جو فضیلت دی گئی ہے اس فضیلت کے ساتھ ذمہ داریاں تو بہت ہی زیادہ ہیں.اگر یہ فضیلت عورتوں کو چاہئے تو بے شک لے لیں اور کوئی دنیا میں مرد اعتراض نہیں کرے گا کہ تم گھر کی چلانے کی ساری ذمہ داریاں، اقتصادی ذمہ داریاں اٹھا لو ہمیں آزاد کر دو اور ہم کہیں گے تم افضل ہوگئی.افضل تو وہ ہو جائیں گے پھر وہ واقعتہ ہو جاتی ہیں ایک پہلو سے اور عملاً ہم نے روز مرہ کی زندگی میں دیکھا ہے.ایک گزشتہ سال جو قافلے آئے تھے پاکستان سے اُن میں ایک ایسی خاتون بھی تھیں جن کے خاوند ان سے پیسے مانگ کے خرچ کرتے تھے اور ان کی حالت قابل رحم تھی بیچاروں کی.پیچھے پیچھے پھرتے تھے اور جب تک وہ بیوی کو راضی نہ کر لیں وہ ان کو خوشی سے کچھ رقم دے نہ دے ان کے پاس ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کا کرایہ تک نہیں ہوتا تھا.تو قرآن کریم سچ فرماتا ہے کہ جس کے اوپر رزق کی ذمہ داری ہوگی اسے طوعی اور طبعی طور پر ایک فضیلت حاصل ہو جائے گی.یہ ایک واقعاتی اظہار ہے.اس پر کسی قسم کے اعتراض کی گنجائش ہی کوئی موجود نہیں.اس کے بعد اگلے مضمون سے قبل ایک تھوڑا سا ٹکڑا آیت کا ایسا ہے جو بظاہر بات شروع کر کے نامکمل چھوڑ دیا گیا ہے.فرمایا فَالصَّلِحُتُ قُنِتُتُ حفظتُ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ الله پس وہ نیک اعمال والی بیبیاں جو فرمانبردار بھی ہیں اور غیب میں حفاظت کرنے والی ہیں ان

Page 80

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات خطاب یکم اگست ۷ ۱۹۸ء حقوق کی جو اللہ تعالیٰ نے ان پر فرض کئے ہیں.اور اس کے بعد کچھ بیان نہیں فرمایا ان کے متعلق کہ ان سے کیا سلوک کرو.قرآن کریم کا یہ خاص اسلوب ہے اور بڑا دلکش اسلوب ہے جس مضمون کو بڑی شان کے ساتھ اُٹھانا چاہتا ہے اور توجہ دلانا چاہتا ہے بعض دفعہ اسے شروع کر کے بغیر اس کوختم کئے بات چھوڑ دیتا ہے.مراد یہ ہے کہ دیکھو اپنی ان بیبیوں کو دیکھو اور ان کے حقوق کی طرف توجہ کرو.ان کی عزت اور احترام کا خیال رکھو کیونکہ یہ تو وہ سب کچھ کر رہی ہیں جو تم ان سے توقع رکھ سکتے تھے یہ نہ ہو کہ یہ جو تم سے توقعات رکھتی ہیں وہ پوری نہ کر سکو اس لئے اس آیت کے اس ٹکڑے کو بغیر نتیجہ کے خالی چھوڑ دیا گیا کیونکہ اس کے بہت سے نتائج نکل سکتے ہیں اور یہی قرآن کریم کا اسلوب ہے.جہاں ایک سے زائد نتائج کی طرف توجہ دلانا مقصود ہو بغیر وہاں نتیجہ نکالے خدا تعالیٰ اس ٹکڑے کو چھوڑ دیتا ہے اور ذہن کو آزادی دیتا ہے کہ جو اچھے نتائج مرتب کر سکتے ہو کرتے چلے جاؤ.اگلا حصہ ہے وَالَّتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ اگر تمہیں خطرہ ہو یا محسوس کرو کہ تمہارے حقوق ادا کرنے کے باوجود بعض عورتیں فساد اور دنگے پر تلی بیٹھی ہیں اور نشور میں ہر قسم کا فساد اور دنگا شامل ہے یہاں تک کہ ہاتھ اُٹھا بیٹھنا بھی شامل ہے ایسی صورت میں کیا کرو؟ یہ نہیں فرمایا کہ وہ دنگا کرتی ہیں تو تم بھی دنگا شروع کر دو، تمہارا حق قائم ہو گیا ہے.آگے دیکھئے کہ تین شرطیں ایسی آیت کی ہیں جس کی طرف یورپ کی نظر ہی نہیں جاتی یا مغرب کی نظر ہی نہیں جاتی.طبعی عقلی نتیجہ اس کا یہ نکلنا چاہئے تھا اور آج بھی دنیا کے قانون میں یہی نکلے گا کہ اگر عورتیں پہل کریں فساد میں اگر وہ باغیانہ رویہ میں پہل اختیار کریں اور مرد پر ہاتھ اُٹھانے سے بھی باز نہ آئیں تو پھر مرد کو بھی چھٹی ہونی چاہئے کہ وہ جو چاہے کرے لیکن قرآن کریم چھٹی نہیں دیتا بلکہ عورت کی نزاکت کے خیال سے اس کی بعض کمزوریوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے فرماتا ہے فَعِظُوهُنَّ تم طاقت ور ہو تم قوام ہو.اگر قوام کا یہ مطلب ہوتا جو اہل مغرب نے لیا ہے کہ وہ حاکم ہے ڈنڈا چلائے گا تو فَعِظُوهُنَّ کا کون سا موقعہ تھا یہاں.پھر تو یہ کہنا چاہئے تھا کہ تمہارے قوام ہوتے ہوئے کسی عورت کی جرات کیا تھی کہ تمہارے متعلق باغیانہ طرز اختیار کرے.اُٹھاؤ ڈنڈا اور مارنا شروع کر دو.فرمایا نہیں فَعِظُوهُنَّ حوصلہ دکھاؤ تم طاقت ور ہو تمہیں خدا تعالیٰ نے کئی پہلوؤں سے فضیلت بخشی ہے اس لئے حوصلے سے کام لیتے ہوئے پہلے نصیحتیں کرو.اگر نصیحت کارگر نہ ہو تو پھر دوسرا قدم ہے.وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ.

Page 81

حضرت خلیفہ مسیح الرابع " کے مستورات سے خطابات LL خطاب یکم اگست ۱۹۸۷ء اُن کو اپنے بستروں میں کچھ عرصہ کے لئے الگ چھوڑ دو.اب بستروں میں جو الگ چھوڑا جائے عورتوں کو تو اس کے متعلق یہ وہم کر لینا کہ یک طرفہ سزا ہے بڑی بے وقوفی ہے.بسا اوقات یہ ممکن ہے کہ بستر میں الگ چھوڑ نے کے نتیجہ میں عورت تو امن میں آجائے کہے کہ شکر ہے خدا کا یہ ہو گیا.میں تو پہلے ہی تنگ آئی بیٹھی تھی اس سے اور مرد کو سزاملنی شروع ہو جائے اور واقعتا یہی ہوتا ہے.تو قرآنی تعلیم کا عجیب کمال ہے کہ بغیر مرد کو بتائے کہ ہم کیا کر رہے ہیں تمہارے ساتھ اس کو ایک ایسے عمل پر مجبور کیا ہے جس کے نتیجہ میں اس کا، غصہ کے ٹھنڈا ہونے کا ہر امکان پیدا ہو جاتا ہے.نصیحت کے باوجود عورت نہیں سن رہی اور ہاتھ کھولنے کی پھر بھی اجازت نہیں دی.فرمایا! کچھ دیر علیحدگی اختیار کرو.جب علیحدگی اختیار کرو گے تو انسانی جذبات ہیں وہ اعتدال پر آجاتے ہیں.کئی قسم کی دل میں تحریکات پیدا ہوتی ہیں ، محبت عود کر آتی ہے اور ہر نفسیاتی پہلو اس بات کا پیدا ہو جاتا ہے کہ مرد شرمندہ ہو اپنے پہلے رویہ سے یا عورت کو خیال آئے کہ مجھ سے روٹھ گیا ہے چلو بس کریں، اب لڑائی جھگڑا ختم کر دیں.فرمایا اُس کے باوجوداگر پھر بھی عورت اپنے سابقہ بدخلقی کے رویے پر قائم رہے اور ہاتھ اُٹھانے یا ، تمہارے خلاف یا بغاوت کرنے میں پہل کرتی رہے وَاضْرِبُوهُنَّ پھر اُن کو مارو.اس کے سوا اور کیا تعلیم ہوسکتی تھی.اسے کوئی بدل کر دکھائے.خدا یہ کہتا کہ پھر پولیس کے حوالے کر دو حوالات میں پہنچا دو؟ یعنی جہاں عائلی زندگی کی حفاظت کی جاتی ہے وہاں مرد کو تو دوسروں کے سپرد کیا جاسکتا ہے مگر عورت کو سپر د کرنا اس کے لئے سب سے بڑی تذلیل ہے اور اس سے بہتر کوئی اور ذریعہ ہی نہیں بجائے اس کے کہ یہ کہا جائے کہ مردوں کو بلاؤ محلے کے وہ ماریں تمہاری بیوی کو یا پولیس کے سپرد کرو وہ ڈنڈے چلائیں.فرمایا ! کہ ان سب باتوں کے باوجود پھر تم فیصلہ کرنے کے مجاز ہو گئے ہو کہ خدا کی طرف سے پھر اُس حد تک اس سے سختی کرو کہ اُس کی اصلاح ہو.لیکن کن شرطوں کے ساتھ ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بیان فرما ئیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جو تعلیم ہے وہ میں نے بعد میں اکٹھی کر دی ہے.اس لئے وہ مخصوص حدیث جس کی طرف میری توجہ مبذول ہوئی تھی اب وہ تلاش کرنی پڑے گی اس لئے میں بعد میں بیان کر دوں گا.بہر حال اسلامی تعلیم کا جو خلاصہ ہے اس آیت کی رو سے وہ میں نے آپ کے سامنے رکھ دیا اور جو یہ کہا جاتا ہے کہ اس میں عدم مساوات کی تعلیم ہے یہ بالکل غلط اور بے بنیاد اور قرآن کریم کی دوسری آیات کے مضمون کے بالکل منافی ہے.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے.

Page 82

حضرت خلیفہ مسیح الرابع " کے مستورات سے خطابات خطاب یکم اگست ۷ ۱۹۸ء وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ (البقره: ۲۲۹) دَرَجَةً یعنی یہ جو فرمایا تھا کہ ان کو فضیلت دی گئی ہے اسی مضمون کو دوسری طرح یہ بیان فرمایا: وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةً ۚ ان کو ایک قسم کی فوقیت حاصل ہے.لیکن اس فوقیت کے باوجودان کے حقوق میں کوئی فرق نہیں اور بعینہ مردوں کے حقوق عورتوں کے حقوق برابر ہیں.چنانچہ فرمایا: وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ.عورتوں کے لئے بعینہ وہی حقوق ہیں جو مردوں کے لئے ان پر ہیں بِالْمَعْرُوفِ عام دنیاوی عقل اور مناسبت کے اعتبار سے جو بھی برابرحقوق ہونے چاہئیں میاں بیوی کے وہ دونوں کو اسی طرح ملیں گے.حالانکہ وہ لِلرجال میں یہاں حالیہ معلوم ہوتی ہے 6699 یعنی یہ بیان کرنے کے لئے کہ باوجود اس کے حالانکہ لِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ.ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ مردوں کو ایک پہلو سے عورتوں پر ایک فضیلت حاصل بھی ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہ لیا جائے اس لئے یہ دہرایا ہے کہ ان کے حقوق میں کوئی فرق پڑ گیا ہے.پھر فرمایا کہ هُنَّ لِبَاسٌ نَّكُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ (البقرۃ:۱۸۸).تم ایک دوسرے سے حقوق میں اور ذمہ داریوں میں اس طرح بالکل برا بر ہو گو یا تم ان کا لباس ہو اور وہ تمہارا لباس ہیں.اس کی تشریح کا اس وقت وقت نہیں مگر یہ آیت بہت ہی لطیف مضامین پر مشتمل ہے.جہاں تک آج کے مضمون کا تعلق ہے اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ لباس کی جتنی بھی ذمہ داریاں ہوتی ہیں ، خاوند کو عورت کے لئے ادا کرنی ہوں گی اور عورت کو خاوند کے لئے ادا کرنی ہوں گی.پھر فرمایا لَا تُضَارَ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَّهُ بِوَلَدِهِ (البقرہ:۲۳۴) اگر آپس میں اختلاف پیدا ہو جائے، علیحد گیوں کے مواقع پیش آئیں تو فرمایا ہر گز کوئی ایسا فیصلہ نہیں دیا جائے گا جس کے نتیجہ میں والدہ کو اپنے بیٹے کے ذریعہ دکھ پہنچایا جائے.وَلَا مَوْلُودٌ لَّهُ بِوَلَدِم نہ ہی والد کو اس کے بیٹے کے ذریعہ کوئی دکھ پہنچایا جائے اور اس تعلیم میں بھی دونوں کو بالکل برابر کر دیا.اس کے مقابل پر اب ہم دیکھتے ہیں کہ دیگر قوموں یا دیگر مذاہب میں عورت کے متعلق کیا ذکر ملتا ہے.پہلی بات تو اس ضمن میں پیش نظر یہ رہنی چاہئے کہ جب بھی مغربی دنیا میں اس مضمون پر

Page 83

حضرت خلیفتہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات 29 خطاب یکم اگست ۷ ۱۹۸ء بحث اُٹھتی ہے تو عموماً ایک مغالطہ آمیزی سے کام لیا جاتا ہے اور وہ مغالطہ آمیزی یہ ہے کہ مغربی تہذیب کو اسلام کے مقابل پر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ مغربی تہذیب کوئی مذہب نہیں ہے.اسلام ایک مذہب ہے.اگر فوقیت پیش کرنا مقصود ہے تو بائبل کی تعلیم کی قرآن کی تعلیم پر فوقیت دکھانی چاہئے اور یہ ایک جائز موازنہ ہے.یہودیت کی تعلیم کی فوقیت ، عیسائیت کی تعلیم کی فوقیت دکھائی جائے تو یہ بحث بے تعلق نہیں ہوگی لیکن اگر مذہب کے مقابل پر تہذیب کی بحثیں شروع کر دی جائیں تو یہ بالکل لا تعلق بات ہے لیکن میں اس پہلو کو بھی بعد میں لوں گا.سردست آپ کو یہ توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جب بھی کوئی عیسائی آپ سے گفتگو کرتے ہوئے اسلام کی کسی تعلیم پر حملہ آور ہو تو آپ ہمیشہ پہلے بائبل سے اس کا موازنہ کیا کریں اور تہذیب کو نظر انداز کر دیا کریں کیونکہ کسی انسان کا یہ حق نہیں کہ ایک کلاس کی چیز کا کسی دوسری کلاس کی چیز سے موازنہ کرے.بائبل کے نمونے اب آپ کے سامنے رکھتا ہوں.بائیل کہتی ہے.بیوی اپنے شوہر سے ڈرتی رہے“ (امثال ۵:۲۸:۳۳) پیدائش ۳:۱۶ میں لکھا ہے کہ شوہر تجھ پر حکومت کرے گا“ اب جو الزام اسلام پر لگا رہے تھے وہ الزام تو خود بائبل سے ثابت ہو گیا.اگر حکومت کرنا بری بات ہے تو پھر عیسائیت نے خود حکومت کی بنیاد ڈالی ہے.سب سے پہلے اگر حکومت کی تعلیم دی ہے تو یہود بیت نے یعنی توربیت نے دی ہے.جہاں تک انجیل کا تعلق ہے انجیل کہتی ہے..چاپ رہے 66 میں اجازت نہیں دیتا کہ عورت سکھائے یا مرد پر حکم چلائے بلکہ چپ (۱ تیمتھیس باب ۱۲:۱) (۱.جہاں تک سکھانے کا تعلق ہے اس نے بات کو عام کر دیا ہے.صرف مذہب کا معاملہ نہیں ،، رہا.دنیا میں عورت کو ئی بھی تعلیم نہیں دے سکتی اور مرد پر حکم چلانا ہی بند نہیں کیا بلکہ بچاری کی زبان بھی بند کر دی.”چپ چاپ رہے حکم نہ دینے تک بات رہتی تو ٹھیک تھا لیکن عورت بیچاری کو جو بولنے کا ویسے ہی شوق رکھتی ہے اُس کی زبان گنگ کر دینا یہ کہاں کا انصاف ہے؟ پھر فرمایا:

Page 84

حضرت خلیفہ مسیح الرابع " کے مستورات سے خطابات وو وہ مرد کی محکوم بن کر رہے“ ۸۰ خطاب یکم اگست ۷ ۱۹۸ء (۱.کرنتھیون ۱۴:۳۴) اور اس کی علامت کے طور پر اپنا سر ڈھانپے شاید یہ کہنا پڑتا ہے کہ یورپ نے یہ علامت اڑادی ہے اور شاید اسی وجہ سے وہ اس کی حکومت سے باہر نکل گئی ہے.اب میں اس حدیث کو جواب مجھے مل گئی ہے آپ کے سامنے رکھنے کے بعد پھر میں اس مضمون کو دوبارہ شروع کروں گا.مارنے کے متعلق جو حدیث تھی اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک تاکید فرمائی ہے وہ یہ ہے.پہلے تو حقوق بیان فرمائے.آپ نے فرمایا 66 ” جو تو کھاتا ہے اس کو بھی کھلا ، جو تو پہنتا ہے اس کو بھی پہنا اور اس کے چہرے پر نہ مار اور اس کو بدصورت نہ بنا اور پھر فرمایا اگرسبق سکھانے کے لئے تجھے اس سے الگ رہنا پڑے تو گھر میں ہی ایسا کر یعنی گھر سے اسے نہ نکال یا خود بھی گھر سے نہ نکل.“ (ابو داؤد کتاب الا نکاح باب فی حق المرأة على زوجها ) پس یہ صاف معلوم ہوتا ہے.اسی قرآن کریم کی آیت کی تفسیر فرمائی جارہی ہے.فرمایا ان کو اپنے بستروں پر چھوڑنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ تم انہیں گھروں میں اکیلا چھوڑ کر باہر نکل کر اللے تللے اڑاتے پھرو اور ان کی اس علیحدگی کے دکھ میں شریک نہ ہو.فرمایا تمہیں اس وقت تک صرف ان.....مجھے دقت یہ پیش آئی کہ جب میں نے تلاش کیا تو پتہ چلا کہ اکثر مذاہب میں وہ تعلیمات ہی موجود نہیں جو اسلام میں ہیں ذکر بھی نہیں بعض مذاہب میں اس لئے خلاء ملتے ہیں جو بڑے بڑے مذاہب ہیں مثلاً یہودیت ، عیسائیت اور ہندو ازم ان میں چونکہ ذکر ملتا ہے اس لئے میں نے ہندوازم کو بھی آج کے موازنے کے لئے چن لیا.ہندومت میں بیٹی کی پیدائش کو منحوس قرار دیا گیا ہے اور جس طرح عربوں میں بیٹی کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے اُسی طرح ہندو مذہبی کتب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ سابقہ زمانوں میں ہندوؤں میں بھی یہ رواج تھا کہ اچھے خاندان کے لوگ اپنی بیٹی کو پیدائش پر مار دیا کرتے تھے.عورت کی شادی کے لئے اس کی اجازت کا حصول ضروری نہیں.بیوہ عورت کے ساتھ یہ سلوک ہوگا کہ وہ شادی نہیں کرے گی.اس کو سر کے بال منڈوانے ہوں گے اور ہمیشہ سفید کپڑے پہنے ہوں گے.آئندہ کبھی وہ رنگ دار کپڑے استعمال نہیں کر سکتی.کسی شادی میں شریک نہیں ہوسکتی اگر ہوگی تو سہاگن کے قریب بھی نہ جائے.اپنا کھانا خود پکانا ہوگا.کوئی اسے کھانا پکا کر نہیں دے سکتا.اس کے علاوہ بھی بہت ہی

Page 85

حضرت خلیفہ مسیح الرابع " کے مستورات سے خطابات ΔΙ خطاب یکم اگست ۷ ۱۹۸ء بھیا نک مظالم ہیں جو عورت پر روا ر کھے جاتے ہیں اور نتیجہ ایک ایسے ظلم کا آغاز ہوا جو ان مظالم کے نتیجہ میں ہو جانا چاہئے تھا.یعنی ہندومت نے عورت کو یہ تعلیم دی کہ خاوند مر جائے تو تم بھی جل مرو.اتنا درد ناک نقشہ ہوتا ہے ساری عمر دکھ اُٹھانے کا ایک ہندو بیوہ کا کہ اس کے بعد یہ تعلیم رحمت نظر آتی ہے کہ ساری عمر کے جو دکھ اُٹھانے ہیں تو بہتر ہے کہ ایک دفعہ ہی جل کر مر جاؤ ورنہ ساری زندگی جلتی رہوگی.منوسمرتی جو عورت کے متعلق تعلیم دیتی ہے وہ جانوروں سے بدتر ہے.وارث یہ قرار نہیں پاتی اور اس کے علاوہ بعض ایسی بدرسمیں ہیں جن کا یہاں ذکر بھی مناسب نہیں.چنانچہ اسی تعلیم سے متاثر ہوکر ہندو شاعر تلسی داس نے لکھا کہ : شودر ، ڈھول، مویشی اور عورت پیٹتے ہی رہیں تو ٹھیک رہتے ہیں.“ بہر حال مذاہب کے اس مختصر موازنہ کے بعد اب میں تمدنی مواز نے کی طرف آتا ہوں.تہذیبی موازنے کی طرف آتا ہوں.اہل مغرب کو اپنی تہذیب پر ناز ہے اور یہ سمجھتے ہیں کہ اہل مغرب کی تہذیب ، اسلامی تہذیب کے مقابل پر عورت کے لئے بہت ہی بہتر ہے اور چودہ سوسال قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قلب مطہر پر نازل ہونے والی تعلیم پر جو یہ اعتراض کرتے ہیں اس کے مقابل پر آج کل کی مغربی تہذیب کو رکھتے ہیں اور اس موازنے میں ان کو لذت محسوس ہوتی ہے کہ دیکھو آج جو کچھ ہم نے عورت کے متعلق کہا ہے چودہ سو سال پہلے تم لوگ اس سے واقف نہیں تھے.گویا اس رنگ میں موازنہ پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.اب میں آپ کے سامنے واقعات رکھتا ہوں جو اس دعویٰ کو کلیۂ جھٹلا دیتے ہیں.چودہ سو سال پہلے اسلام نے عورت کے متعلق جو تعلیم دی تھی آج کے یورپ کو بھی اس تعلیم کے پاؤں چھونے تک کی توفیق نہیں مل سکی اور میں جب یہ دعوی کرتا ہوں تو اہل یورپ کی اپنی زبان میں ان حقائق کو آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جن کو جھٹلانے کا آج کسی کو حق نہیں ہے.سے پہلے تو میں Northumberland and Tyneside Council of Social Services کی ایک رپورٹ کی طرف آپ کو متوجہ کرتا ہوں جو لکھتے ہیں کہ انگلستان میں ۱۹۱۵ء میں ایک قانون بنا اور وہ قانون ایک مجسٹریٹ کے فیصلے کی شکل میں ظاہر ہوا.جس نے یہ فیصلہ دیا کہ خاوند اپنی لڑنے والی بیوی کو مار سکتا ہے.جہاں تک اس بات کا تعلق ہے یہ وہی بات ہے جو قرآن کریم نے پیش کی تھی اور جس پر

Page 86

حضرت خلیفہ مسیح الرابع " کے مستورات سے خطابات ۸۲ خطاب یکم اگست ۷ ۱۹۸ء یورپ نے اتنا واویلا مچایا.لیکن قرآن کریم نے بعض شرطیں ساتھ رکھ کر اس تعلیم کی تلخی کو غائب کر دیا تھا.مگر انہوں نے جو شرط رکھی یعنی انگلستان کے قانون میں ۱۹۱۵ء میں وہ یہ تھی کہ مار تو سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ جس چھڑی سے مارے وہ مرد کے انگوٹھے کی موٹائی سے زیادہ نہ ہو کتنی دفعہ مارے، کہاں کہاں مارے، کہاں نہ مارے ، کیا کیا احتیاطیں کرے، کوئی اور ذکر نہیں اور آپ جانتے ہیں کہ یہاں جو زمیندار ہیں ان کے انگو ٹھے ہماری دو دو تین تین انگلیوں کے برابر ہوتے ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ بعض دفعہ دیکھو تو ہماری جو انگوٹھیاں الیس اللہ والی ہمیں آرام سے آجاتی ہیں درمیانی انگلی میں بڑی انگلی میں وہ جب تحفہ بعض دفعہ ان کو دینا پڑتا ہے تو ان کی چھنگلی میں بھی پوری نہیں آتی.تو اتنی موٹی سوئی آرام سے بن جائے گی.اس سے جتنا چاہو مارو.یہ اس صدی کا ۱۹۱۵ء کا قانون ہے جو یہاں رائج ہوا تھا.اور یہ قانون پھر اسی طرح جاری رہا ہے یہ تبدیل نہیں ہوا.۱۹۷۰ء میں ابھی کل کی بات ہے پہلی دفعہ عورتوں نے ایک Domestic Violence کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا اور ایک ایسوسی ایشن بنائی اور اہل انگلستان کی تہذیب کو سکھانے کی کوشش کی ۱۹۷۰ء میں یہ پہلی دفعہ ان کی کوششوں کا آغاز ہوتا ہے اور ۱۹۷۳ء تک ان کوششوں کے کیا نیک نتائج ظاہر ہوئے تھے ان کے متعلق میں آپ کو Marital Violence: The Community Response ۱۹۸۳ء کی چھپی ہوئی اس کتاب سے ایک حوالہ پڑھ کر سناتا ہوں.وہ لکھتے ہیں Ashley نے ۱۹۷۳ء کے ایک سروے میں بتایا کہ برطانیہ میں ہر سال ۲۷ ہزار Serious Cases ہوتے ہیں جن میں مرد اپنے بیویوں کو مار کر زخمی کر دیتے ہیں.یہ ۱۹۷۳ء کی عورتوں کی اصلاح معاشرہ کی کوششوں کے نتیجہ میں جس حد تک معاشرہ کی اصلاح ہوئی تھی اس کا یہ نمونہ ہے.ایک اور سروے سے معلوم ہوا کہ یہ تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے بلکہ دو لاکھ کے لگ بھگ ہے.علاوہ ازیں کہتے ہیں کہ اس تعداد کو بھی آخری شمار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ کہتے ہیں ہمارا تاثر یہ ہے کہ اکثر عورتیں مار کھاتی ہیں اور خاموش رہتی ہیں کیونکہ وہ شرم محسوس کرتی ہیں کہ تحقیق کرنے والوں کو بتائیں کہ ہمارا خاوند ہم پر ہاتھ اُٹھاتا رہا ہے.Parliamentary Select Committee On Violence In Marriage نے کہا ہے کہ اس وجہ سے اس قسم کی تعداد کا صحیح اندازہ کرنا بے حد مشکل ہے.چنانچہ ایک اور رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ۱۹۷۷ء میں صرف Bristol کے علاقہ میں پانچ چھ ہزار کے قریب Cases پولیس رپورٹ کے مطابق درج ہوئے جن میں عورتوں نے یہ شکایت کی تھی کہ مردوں نے ہمیں ظالمانہ طور پر پیٹتا ہے.

Page 87

حضرت خلیفہ مسیح الرابع " کے مستورات سے خطابات ۸۳ خطاب یکم اگست ۷ ۱۹۸ء ایک کتاب ہے.Scream Quietly Or The Neighbour Will Erinpizzy Hear نے یہ کتاب لکھی اور Penguin نے ۱۹۷۴ء میں شائع کی.اس کتاب میں عورتوں پر ظلم کی بہت ہی دردناک داستانیں ہیں.ایک روایت کے مطابق عورتوں کی مار کھا کھا کر زخمی اور ٹوٹی ہوئی ہڈیوں ،سگریٹوں سے جلائی ہوئی جلد اور بے شمار خطرناک زخموں کی ایک کہانی ہے.اس کہانی کی تفصیلات کو تو چھوڑتا ہوں.جس نے کتاب دیکھنی ہے وہ دیکھ سکتا ہے.بہت دردناک واقعات ہیں اس میں.اس میں یہ ساری چیزیں درج ہیں کہ کس طرح وہ بوتلیں شراب کی مار مار کر توڑتے.ان کے ٹوٹے پھوٹے شیشوں سے کیسے گہرے زخم عورتوں کے چہروں پر آتے اور باندھ کر سگر بیٹوں سے جلایا جاتا ان کو اور یہ پچھلی صدی کی بات نہیں ہے.اس صدی کے شروع کی بھی بات نہیں ہے.۱۹۷۳ء کی بات میں کر رہا ہوں.بہر حال اس کتاب کو جو دیچیپسی چاہے رکھے ، جس کا حوصلہ ہو وہ اس کو پڑھ سکتا ہے.۱۹۷۶ء میں پہلی بار انگلستان میں Violence کےخلاف Act بناہےاور قانون کے مطابق ۱۹۱۵ء کا قانون اس وقت تک منسوخ نہیں ہو سکتا جب تک کوئی نیا قانون اس کو منسوخ نہ کرے.۱۹۷۶ء میں یہ کل کی بات سمجھیں آپ.پہلی بار یہاں قانون بنایا جارہا ہے اور اعتراض کر کر کے برا حال کیا ہے انہوں نے اسلام کے اوپر.۱۹۸۱ء میں اس قانون کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے Waff کی ریسرچ ٹیم نے رپورٹ کی کہ اس ایکٹ کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہوا کیونکہ جب تک حج کواس بات کی تسلی نہ ہو جائے کہ تشدد واقعی حد سے گزرگیا تھا وہ مردکو گھر سے باہر نہیں نکال سکتے.اگر انہیں گھر سے نکال دیں تو حکومت کو مسئلہ یہ پیش آجاتا ہے کہ وہ مرد Homeless بن جاتا ہے اور لوکل کونسل کو اس کی ذمہ داری قبول کرنی پڑتی ہے.اس ریسرچ ٹیم نے جو Findings دی ہیں ان کی رو سے وہ کہتے ہیں ہم نے چھ سو چھپن مظلوم عورتوں کا انٹرویو لیا ان میں ۶۴ نے کہا کہ ان کے خاوندوں نے انہیں مارا مگر باوجود ر پورٹ کے ۳۶ پولیس نے ان کی کوئی مدد نہیں کی.انہوں نے کہا کہ وہ گھر یلو جھگڑوں میں دخل اندازی نہیں کر سکتے باقی نے کہا کہ پولیس کو بلایا گیا مگر انہوں نے یقین ہی نہیں کیا کہ مارا بھی گیا تھا اور عورتوں کا اس رپورٹ کے مطابق تاثر تھا کہ چونکہ پولیس والے اکثر مرد ہیں اس لئے اس معاملہ میں وہ مردوں کا ساتھ دیتے ہیں اور عورت کی آواز نہیں سنتے.South London Press کی جمعہ ۱۲ جون ۱۹۸۷ء کی اشاعت میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ایک باپ نے اپنی ایک سال کی معصوم بچی کو سر پر اس قدر مارا کہ اس کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں.

Page 88

حضرت خلیفہ مسیح الرابع " کے مستورات سے خطابات ۸۴ خطاب یکم اگست ۷ ۱۹۸ء ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بچی ساری زندگی کے لئے اندھی ہو چکی ہے اور اس کے علاوہ اسے مرگی کی بیماری بھی لگ گئی ہے اور اس کے علاوہ بھی بعض بیماریاں ہیں جو عمر بھر اس کے ساتھ لگی رہیں گی.Times ،۲۰ر جون ۱۹۸۷ صفحہ ۴ اس میں لکھا ہے کہ پورٹ سمتھ میں ایک پانچ سالہ بچی کو اس کے باپ نے ریپ کیا اور NSPCC کے اندازے کے مطابق ۱۹۸۶ء میں رجسٹر ڈ مظلوم بچوں کی تعداد دس ہزار تھی.یہ بچے پندرہ سال سے کم عمر کے ہیں اور ان میں بھاری اکثریت وہ تھی جن کے ساتھ اُسی قسم کے جنسی مظالم ہوئے جن کا میں نے ذکر کیا.انگلینڈ اور ویلز میں اس تعداد میں اضافہ: ۱۹۸۵ء میں %۴۲ اضافہ ہوا یہ قانون بننے کے بعد اور تحریکات جاری ہونے کے بعد کے قصے ہیں.سمجھ نہیں آتی کہ کس منہ سے یہ اسلام کی اس تعلیم پر اعتراض کرتے ہیں جس کی تفصیل میں نے آپ کے سامنے ابھی سنائی ہے اور جو حال ہے اپنا وہ یہ ہے کہ جتنی کوششیں کر رہے ہیں یہ ظلم ہاتھ سے نکلتا چلا جارہا ہے اور حد سے بڑھتا چلا جا رہا ہے.۱۹۸۵ء میں انگلینڈ اور ویلز میں %۴۲ اضافہ ہوا.اور جہاں تک معصوم بچیوں کے ساتھ Sexual Abuse کا تعلق ہے ۱۲۶ اضافہ ہوا ہے یعنی دگنے سے بھی بڑھ گیا ہے معاملہ.ساری اسلامی دنیا میں آپ تلاش کر کے دیکھ لیں.آج کے بگڑے ہوئے حال میں بھی بد سے بدتر حال میں بھی آپ کو غالباً ایک بھی ایسا واقعہ نظر نہیں آئے گا.ان مظلوم بچوں میں سے لکھا ہے ۱/۵ بچے وہ ہیں جو پانچ سال سے چھوٹی عمر کے ہیں اور اپنے ہی گھروں میں اپنے ہی باپوں کے ہاتھوں وہ مظالم کا شکار ہوئے.NSPCC کی Statistics کے مطابق یہ اضافہ ہر سال دگنا ہورہا ہے.یعنی آنے والے چند سالوں میں شاید آپ کو ڈھونڈ کر وہ گھر نکالنا پڑے گا جہاں عورتوں پر مظالم نہیں ہور ہے اور معصوم بچیوں پر مظالم نہیں ہور ہے.The Independent اپنی ۳۰ / جون ۱۹۸۷ء یعنی آج کل کی بات ہے کی اشاعت میں لکھتا ہے کہ NSPCC کی ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے سال Sexual Abuse بچوں کی تعداد میں %۱۳۷ اضافہ ہو گیا ہے.پس یہ جو اندازہ پیش کیا گیا تھا کہ ہر سال دُگنے کا اضافہ متوقع ہے اس سے بھی زیادہ ہے.۱۳۷ کا مطلب یہ ہے کہ دُگنے سے بھی زیادہ.اور لکھا ہے اس میں سے ۸۰۰ تعداد معصوم بچیوں کی ہے.Gaurdian ، جولائی ۱۹۸۷ ء کے صفحہ پر ہے کہ ایک نیشنل سروے کی رپورٹ سے

Page 89

حضرت خلیفتہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۸۵ خطاب یکم اگست ۷ ۱۹۸ء معلوم ہوا ہے کہ مظلوم بچوں کی تعداد جو کہ لوکل اتھارٹیز میں رجسٹر ڈ ہوگئی ہے اس میں %۲۲ اضافہ ہو چکا ہے.اس میں زیادہ تر وہی بچے ہیں یعنی مظلوم جو اپنے والدین کے ستائے ہوئے ہیں.جہاں تک طلاقوں کا تعلق ہے.اس ملک میں Middle Class جو تعلیم یافتہ اور اچھی کبھی جاتی ہے اور آپ یا درکھیں کہ یہاں اقتصادی معیار چونکہ اونچا ہے اس لئے مڈل کلاس اچھی خاصی کھاتی پیتی کلاس ہے.اس میں ۳۲۰ عورتوں نے یہ ثابت کر کے عدالتوں میں طلاق لی کہ ان کے خاوندان پر شدید مظالم کرتے ہیں اور مار کٹائی کرتے ہیں اور ورکنگ کلاس میں %۴۰.لیکن یہ وہ معاملات ہیں جو عدالتوں میں جا کر ثابت ہوئے اور جن کے نتیجہ میں طلاقیں دے دی گئیں.وہ ایسی مظلوم عورتیں بے شمار ان %۶۰ میں بھی ہوں گی جو عدالتوں تک پہنچ ہی نہیں سکیں کسی وجہ سے.چنانچہ آئندہ رپورٹ میں یہ ذکر بھی ملتا ہے کہ کسی اور وجہ سے عورتیں عدالتوں میں نہیں جاتیں بلکہ ہم جب ان کے گھروں میں گئے ان سے انٹرویو کیا تو انہوں نے کہا کہ اس معاملہ کو چھوڑ دو ہماری مظلومیت کی زندگی اب بدل نہیں سکتی.ہمارے حالات ایسے ہیں، ہمارے بچوں کے حالات ایسے ہیں کہ اب جس طرح بھی ہے اسی طرح چلتا رہے گا.چنانچہ ایسی ہی ایک سوشل ورکر نے جو گھروں میں جا کر سوالات کئے ان کے واقعات لکھے ہیں.ایک عورت کے متعلق بیان ہے جو میں نے چنا ہے آپ کو سنانے کے لئے کہتی ہے:.”میرے خاوند نے ساری زندگی مجھے مارا.جب میں پہلے بچے سے حاملہ ہوئی تو میرا خاوند باہر جانے لگ گیا دوسروں کے ساتھ.پھر جب وہ شراب خانے سے واپس آتا تو مجھے مارنا شروع کر دیتا.کہتی ہے یہ روزمرہ کا دستور تھا لیکن ایک دفعہ کا ذکر یہ ہے کہ اس نے مجھے کندھوں سے پکڑ کر میرا سر دیوار پر مارنا شروع کیا یہاں تک میں بے ہوش ہو گئی.پھر مجھے گھسیٹ کے پانی کی ٹونٹی کے نیچے لے گیا اور ٹھنڈا پانی میرے سر پر ڈالا اور جب مجھے ہوش آئی تو پھر اسی طرح مجھے کندھوں سے پکڑا اور دیوار کے ساتھ مارنا شروع کیا یہاں تک کہ میں پھر بے ہوش ہوگئی.“ جب اس سے پوچھا گیا کہ ان حالات میں وہ اپنے خاوند کو چھوڑتی کیوں نہیں.تو کہنے لگی کہ آخر وہ بچوں کو لے کر کہاں جائے.اس سے کہا گیا کہ وہ حکومت کی سوشل سروس کی طرف رجوع کرے.کہنے لگی کہ اس نے کوشش کی ہے مگر ہر دفعہ اسے ٹال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ گھر واپس چلی

Page 90

حضرت خلیفہ مسیح الرابع " کے مستورات سے خطابات ۸۶ خطاب یکم اگست ۷ ۱۹۸ء جاؤ.چنانچہ اس سوشل اور کرنے جب لندن کی تمام Borogls سے اس عورت کی داستان بیان کر کے ان سے مدد چاہی تو انہوں نے جواب یہ دیا کہ اگر وہ گھر سے نکلی تو Voluntary Homeless قرار دی جائے گی اور جو Voluntary Homeless ہواس کے لئے کوئی امداد نہیں.اب اس بیچاری کو کیا کرنا چاہئے ؟ اگر وہ عدالت میں جائے تو اسی گھر میں رہتے ہوئے اپنے خاوند کے خلاف آواز اُٹھائے یا سوشل سروس میں جائے.جو اتنا ظالم ہے وہ اور کتنا بد اس سے سلوک کرے گا؟ اور کیا کیا بد سلوک نہ کرے گا کہنا چاہئے اور اگر وہ خود نکل جائے تو کہتے ہیں تم امداد کی مستحق نہیں رہی کیونکہ قانون یہ کہتا ہے کہ تم خود بخود نکل آئی.امریکہ میں جو سروے شائع ہوئے ہیں وہ بھی کوئی اس حال سے بہتر نہیں ہیں.سارے امریکہ کی ساری شادیوں کی بات ہو رہی ہے.۴۱ عورتوں کو شادی کے پہلے چھ مہینے میں مارا گیا.۱۸ عورتوں کو ایک سال کے بعد مار پڑنی شروع ہوئی.۲۵ عورتوں کو دوسال کے بعد مار پڑنی شروع ہوئی اور یہ جو امریکہ اٹھ اٹھ کے اسلام پر اعتراض کرتا ہے اور فلمیں دکھاتا ہے (نعوذ باللہ ) اسلام کے مظالم کی.اپنا اب حال یہ ہے.کہتے ہیں چنانچہ پہلے تین سال کے Statistics بتاتے ہیں کہ %۸۴ عورتیں ایک سال سے دو تین سال کے اندراندر مارکھانا شروع کر دیتی ہیں.Dobash And Dobash اب جس کے مذہب کے اوپر زبان طعن درازی کی جارہی ہے یعنی حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ان کا اپنا نمونہ دیکھئے.جن پر یہ تعلیم نازل ہوئی تھی اس تعلیم کو انہوں نے کس طرح سمجھا اور کس طرح اس پر عمل کیا اور کس طرح اپنے غلاموں میں اس تعلیم کو رائج فرمایا، وہ اسلام تھا اس اسلام پر انگلی اٹھا کے دیکھیں.خود حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم عورتوں کی تکلیف اس حد تک بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ ایک دفعہ ایک اونٹ کو تیز دوڑاتے ہوئے دیکھا تو آپ نے فرمایا آبگینے ہیں آبگینے ہیں.اس تیزی سے تم اونٹ کو دوڑا ر ہے ہو اس پر عورتیں سوار ہیں ان کو چوٹ لگ جائے گی.(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب في رحمة النبي للنساء) جس طرح آپ نے گلاس کے Packets پر لکھا دیکھا ہوگا کہ Glass! with Glass! With Care Care یہ محاورہ چودہ سو سال پہلے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ

Page 91

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات AL خطاب یکم اگست ۷ ۱۹۸ء والہ وسلم نے عورت کے لئے ایجاد فرمایا تھا کہ Glass With Care تو جس کا اپنا رجحان یہ ہو عورت کی طرف اس کی طرف ظلم کی تعلیم منسوب کرنا سب سے بڑا ظلم ہے.ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرت صفیہ کے ساتھ اونٹ پر سوار تھے.اونٹ نے ٹھوکر کھائی اور گر گیا.سارے عشاق حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف دوڑے.تو آپ نے فرمایا ”المرءة المرءة “ میرا خیال چھوڑ و عورت کی خبر لو.عورت کی خبر لو.(مسلم کتاب الفضائل ) Ladies First کا یہ محاورہ آج کل بنا کر پھرتے ہیں اور کہتے ہیں دیکھو کیسی ماڈرن کیسی اچھی تعلیم ہے.چودہ سو سال پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے باوجود اس کے کہ سب سے زیادہ محبوب تھے تمام غلاموں کے سامنے اور آپ کے سامنے ہزاروں لاکھوں کو تکلیف پہنچ جاتی تو ان کو کوئی پرواہ نہ رہتی.بے اختیار عشق میں وہ آپ کی طرف دوڑے تھے کوئی مردعورت کا فرق نہیں کیا جارہا تھا لیکن اس کے باوجود اپنے مذہبی بلند مرتبے کو سامنے رکھنے کے باوجود آپ نے یہی فرمایا: ”المرءة المرءة“ عورت کا خیال کرو.عورت کا خیال کرو.کدھر دوڑے چلے آرہے ہو.یہ نہیں ہوا کہ کبھی آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خلاف آپ کی خواتین نے کبھی کوئی ایسی کارروائی نہیں کی اس لئے آپ نے جوابا ان کو کچھ نہیں کہا.امر واقعہ یہ ہے کہ بعض اوقات خود امہات المومنین سے ایسی باتیں سرزد ہوئیں جن کے متعلق قرآن کریم نے اس آیت میں ذکر فرمایا يَايُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أَمَتَّعْكُنَّ وَأُسَرِحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا (الاحزاب : ۲۹) طلاق تک نوبت آگئی ایسے مطالبے تھے کہ جو نا جائز تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے یہ تعلیم دی کہ ساری بیویوں کو بلاؤ اور ان سے کہہ دو کہ اگر تم نے یہی مطالبے کرتے چلے جانا ہے تو پھر ٹھیک ہے گھر کا ماحول خراب کرنے کی کوئی ضرورت نہیں.آؤ میں تمہیں اموال سے لا ذکر رخصت کرتا ہوں لیکن پھر میرے ساتھ نہیں رہنا تم نے کیونکہ میری ایسی ذمہ داریاں ہیں جن کو ادا کرنے کے لئے میں ایک خاص قسم کی زندگی اختیار کرنے پر مجبور ہوں لیکن عورت کو اس کے حق سے محروم نہیں کیا کہ وہ اچھے حال میں رہے، فرمایا ٹھیک ہے تمہیں اختیار ہے اگر اچھا حال اختیار کرنا ہے

Page 92

۸۸ خطاب یکم اگست ۱۹۸۷ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع " کے مستورات سے خطابات تمہیں دولت دیتا ہوں ناراضگی کی کوئی بات نہیں مجھ سے رخصت ہو جاؤ.پھر قرآن کریم فرماتا ہے کہ ایسی باتیں بھی ہوئیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک راز کی بات اپنی کسی زوجہ محترمہ کو بتائی اور انہوں نے اس راز کو دوسروں پر ظاہر کر دیا.بما حفظ اللہ کے خلاف بات ہے بظاہر یہ اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی امانت.اس سے زیادہ مقدس امانت اور کیا ہو سکتی ہے.اس کے نتیجہ میں بھی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کوئی سخت کلامی نہیں کی.مارنا تو درکنار، چنانچہ آپ نے انہیں صرف اتنا بتایا کہ تم نے یہ راز ظاہر کر دیا ہے.فَلَمَّا نَبَّاهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنْبَاكَ هَذَا قَالَ نَبَّانِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ (التحریم:۴) جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی زوجہ محترمہ کو بتایا کہ جوراز میں نے تمہیں کہا تھا کسی کو نہیں بتا نا تم نے ظاہر کر دیا.اس کے سوا کچھ نہیں کہا.انہوں نے جواباًیہ کہا کہ آپ کو کس نے بتا دیا ان کو یہ خیال نہیں آیا شاید کہ عورتوں کو اگر یہ کہا جائے کہ بات آگے نہیں بتانی تو وہ ضرور بتاتی ہیں.یا شاید اسی خیال کی وجہ سے انہوں نے پوچھا ہوگا کہ ضرور اس نے بات بتادی ہے لیکن کسی نے نہیں بتائی تھی.اللہ تعالیٰ نے بتائی تھی.فرمایا مجھے تو علیم خبیر خدا نے بتا دیا ہے.اس سے کوئی راز پوشیدہ نہیں ہے اور اس کا حق ہے کہ جس کو چاہے، جس کے چاہے راز بتا تا ر ہے.پھر فرمایا إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُكُمَا ۚ وَاِنْ تَظْهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ (التحریم: ۵) کہ میں تمہیں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اگر تم دونوں عورتیں ( یعنی ایک نے دوسری کو بتایا تھا ) تم دونوں تو بہ کرو تو حق ہے کیونکہ تمہارے دل غلطی کی طرف مائل ہو چکے ہیں.تم سے ایک جرم سرزد ہو چکا ہے اس لئے تو بہ کرو تو اس کی حقدار ہو.اول تمہیں تو یہ کرنی چاہئے لیکن اگر نہیں کرتیں.اِنْ تَتُوبَا إِلَى اللهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُكُمَا ۚ وَإِن تَظْهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللهَ هُوَ مَوْلهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَيْكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرُ (التحریم: ۵) اگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خلاف تم نے بغاوت ہی کا فیصلہ کر لیا ہے.تو یا درکھواللہ

Page 93

حضرت خلیفہ مسیح الرابع " کے مستورات سے خطابات ۸۹ خطاب یکم اگست ۷ ۱۹۸ء اور جبریل اور صالح مومنین ، سب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ہیں اور خدا تعالیٰ کے فرشتے بھی اس کے پس پشت کھڑے ہیں.عَلَى رَبُّةَ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ تُبْدِلَةَ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ (التحریم: 1) اگر تمہیں طلاق بھی دینی پڑے تو خدا تعالیٰ تم سے بہت بہتر بیویوں کا اس کے لئے انتظام کر سکتا ہے وہ تمہار احتاج نہیں ہے.اس محتاجی کے نہ ہونے کے باوجود یہ نصیحت کا طریق ہے اور اس آیت کی تفسیر پیش کی جارہی ہے کہ اگر تمہارے خلاف عورتیں نشوز کریں تو تم انہیں کیسی نصیحت کرو اور اس نصیحت کے بعد پھر اگلے کسی دوسرے اقدام کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عورتوں کو جس ذلت کے مقام سے اُٹھا کر ایک نہایت ہی عالی شان اور ارفع مقام پر پہنچا دیا تھا اس کے نتیجہ میں عرب معاشرہ میں بنیادی تبدیلیاں پیدا ہوگئیں.حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے جو پاک تعلیم دی اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس کے مطابق جو پاک نمونہ دکھایا اس کے نتیجہ میں ایک نئی سوسائٹی وجود میں آئی ہے اور عورتوں نے مردوں کے برابر اپنے آپ کو سمجھا اور اپنے حق کو برابری کے ساتھ وصول کیا ہے.اس سے پہلے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتی تھی بات کہ کوئی عورت اپنے باپ کے مقابل پر کھڑی ہوکر اپنا حق مانگ رہی ہو یا اپنے خاوند کے مقابل کھڑی ہو کر حق مانگ رہی ہو یا کسی غیر سے اپنا حق مانگ رہی ہو.وہ بیچاری تو مظلوم چیز تھی.ورثے میں بانٹی جایا کرتی تھی چنانچہ اسی واقعہ کے متعلق جس کا ذکر قرآن کریم کی پہلی آیت میں ہے جو میں نے آپ کے سامنے پڑھی ہے یعنی اس آیت سے پہلی آیت جس میں ذکر تھا کہ اگر تمام مطالبے کرتی رہو گی تو پھر تمہیں اس بات کی رخصت ہے کہ میں تمہیں بہت مال و دولت دے کر اور پوری طرح راضی کر کے رخصت کر دیتا ہوں.جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت محمد مصطفی اصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اُن کو سمجھانے کی خاطر علیحدگی اختیار کر لی کچھ عرصہ کے لئے.اس وقت ان ازواج مطہرات کے والدین جن کو یہ معلوم ہوا، وہ سمجھانے کے لئے اپنی اپنی بیٹیوں کے پاس پہنچے.حضرت ابوبکر اور حضرت عمرؓ کا ذکر ملتا ہے کہ خاص طور پر انہوں نے حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ کو سمجھانے کی کوشش کی اپنی طرف سے پھر وہ حضرت ام سلمی کے پاس پہنچے تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ حضرات کا یہاں کام کیا ہے.رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم

Page 94

حضرت خلیفہ مسیح الرابع " کے مستورات سے خطابات خطاب یکم اگست ۷ ۱۹۸ء ہمارے حالات سے بخوبی واقف ہیں.اگر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہمیں منع کرنا چاہیں تو جس چیز سے منع کرنا چاہیں آپ منع کر سکتے ہیں.اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے مطالبہ نہ کریں تو کس سے کریں.ابھی تک یہ حال تھا کیا آپ حضرات اپنی بیویوں کے معاملات میں کسی دوسرے کا دخل پسند کرتے ہیں؟ اگر نہیں تو یہاں سے تشریف لے جائیں آپ کا کوئی کام نہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور ان کی بیویوں کے درمیان دخل اندازی کا.یہ بات کسی عرب کے تصور میں بھی نہیں آسکتی تھی اسلام سے پہلے اس طرح عورت کھڑی ہو کر مردکو مخاطب ہوسکتی ہے.(طبقات ابن سعد صفحه ۲۹ صحیح مسلم کتاب الطلاق ) ایک دفعہ حضرت عمرؓ کا اپنی بیوی سے ایک معاملہ میں اختلاف رائے ہوگیا.ان کی بیگم حضرت عاتکہ نماز کی بہت شائق تھیں اور نماز با جماعت کی تو ان کو عادت پڑ چکی تھی وہ رہ ہی نہیں سکتی تھیں نماز با جماعت کے بغیر.پانچ وقت عورت گھر سے نکلے جب اس پر فرض ہی نہ ہو اور پانچ وقت مسجد میں پہنچے تو پیچھے گھر کی ضروریات کا کیا حال ہوتا ہوگا اس کا آپ تصور کر سکتے ہیں.چنانچہ حضرت عمر نے آخر کچھ عرصہ حوصلہ کے بعد ان سے کہا بی بی! بس کرو کافی ہو گئیں نماز یں.گھر میں اجازت ہے تم کیوں مسجد جاتی ہو؟ اور کہا کہ خدا کی قسم تم جانتی ہو کہ تمہارا یہ فعل مجھے پسند نہیں.انہوں نے کہا واللہ ! جب تک آپ مجھے مسجد جانے سے حکما نہیں روکیں گے میں نہیں رکوں گی اور حضرت عمر کو یہ جرات نہیں ہوئی کہ بیوی کو حکما مسجد جانے سے روک دیں.چنانچہ آخر وقت تک انہوں نے یہ سلسلہ نہیں چھوڑا اور باقاعدہ مسجد جا کر نماز پڑھتی رہیں.صحابہ یہ بیان کرتے ہیں بخاری میں روایت ہے کتاب الا نکاح باب الوصاة بالنساء.حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہتے ہیں کہ : حال یہ ہو گیا تھا ہمارا کہ ہم اپنے گھروں میں اپنی عورتوں سے بے تکلفی سے گفتگو کر کے ڈرنے لگے تھے کہ کہیں یہ شکایت کر دیں اور ہمارے خلاف کوئی آیت نہ نازل ہو جائے.یہ تھا مرتبہ اُس عورت کا جسے ظالمانہ طور پر زندہ درگور کر دیا جاتا تھا.جس سے غلاموں اور لونڈیوں سے بدتر سلوک کیا جاتا تھا.سب سے زیادہ مظلوم حالت عرب کی عورت کی تھی اُس دور میں اور کہاں سے کس شان پر پہنچا دیا ہے.

Page 95

حضرت خلیفہ مسیح الرابع " کے مستورات سے خطابات ۹۱ خطاب یکم اگست ۷ ۱۹۸ء تمام زندگی میں حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کسی عورت پر ہاتھ نہیں اُٹھایا، کسی بچے پر ہاتھ نہیں اُٹھایا، کسی غلام پر ہاتھ نہیں اٹھایا اس لئے اس بات سے ایک اور بھی نکتہ نکلتا ہے کہ وہ تعلیم جو آپ پر نازل ہوئی وَاضْرِبُوهُنَّ وہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دل کی تعلیم نہیں تھی وہ خدائے واحد ویگانہ کا پیغام تھا کہ جس کے قلب کی یہ حالت ہو کہ ساری عمر اپنے غلاموں سے، اپنے ماتحتوں سے، اپنے دشمنوں سے یہ سلوک رہا ہو جو زیادتیاں بھی کر رہے ہوں ، نافرمانیاں بھی کر رہے ہوں ، منہ سے سخت کلام بھی ان کے متعلق نہ نکلا ہو وہ یہ تعلیم سوچ ہی نہیں سکتا تھا کہ وَاضْرِبُوهُنَّ ان کو مارو.اس لئے جو خدا انسانی فطرت سے واقف ہے، جو جانتا ہے کہ بعض دفعہ گھروں میں ایسی شد تیں اور عورتیں ایسے طریق اختیار کر لیتی ہیں کہ اگر ان کو یہ خوف نہ رہے کہ ایک مقام پر جا کر ان کو سزا ملے گی تو وہ حد سے زیادہ بڑھنا شروع ہو جائیں گی.اس خدا کے سوا یہ تعلیم نازل نہیں کر سکتا کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مزاج کے خلاف بات تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ملفوظات جلد دوم ص: ۳۸۷ پر یہ عبارت درج ہے جو میں آپ کے سامنے پڑھ کے سنانے لگا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں."رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ساری باتوں کے کامل نمونہ ہیں.آپ کی زندگی میں دیکھو کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم عورتوں سے کیسی معاشرت کرتے تھے.میرے نزدیک وہ شخص بزدل اور نا مرد ہے جو عورت کے مقابلہ میں کھڑا ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پاک زندگی کا مطالعہ کرو تا تمہیں معلوم ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایسے خلیق تھے.باجود یکہ آپ بڑے بارعب تھے لیکن اگر کوئی ضعیفہ عورت بھی آپ کو کھڑا کرتی تو آپ اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک کہ وہ اجازت نہ دے.“ (ملفوظات جلد دوم صفحہ ۳۸۷) یہ ہے اسلامی تعلیم جو اس رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھی.جس پر وہ آیت نازل ہوئی تھی جسے اعتراض کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور یہ ہے اس کی زندگی بھر کا نمونہ اور کسی مسلمان کو حق نہیں ہے اور تمام فقہا ء اس پر متفق ہیں کہ قرآن کریم کی کسی آیت کا کوئی ایسا مطلب نکالیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی مخالفت کرنے والا مطلب ہو اس لئے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا کامل نمونه قرآن کریم کی کامل تفسیر ہے.اس کے مطابق فیصلہ ہوگا کہ کوئی تعلیم کیا ہے اور اس کا مقصود کیا تھا.

Page 96

حضرت خلیفہ مسیح الرابع " کے مستورات سے خطابات ۹۲ خطاب یکم اگست ۷ ۱۹۸ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس زمانہ میں اس تعلیم کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے آئینہ میں دیکھا اور اسی آئینے میں اس کو سمجھا.فتاویٰ احمد یہ جلد دوم صفحہ ۳۸ پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک تحریر درج ہے.آپ نے فرمایا: میں جب کبھی اتفاقاً ایک ذرہ درشتی اپنی بیوی سے کروں تو میرا بدن کانپ جاتا ہے کہ ایک عورت کو خدا نے صدہا کوس سے لا کر میرے حوالے کیا.شاید معصیت ہوگی کہ مجھ سے ایسا ہوا.تب میں ان کو کہتا ہوں کہ تم اپنی نماز میں میرے لئے دُعا کرو کہ اگر یہ عمل خلاف مرضی حق تعالیٰ ہے تو وہ مجھے معاف کر دے اور میں بہت ڈرتا ہوں کہ ہم کسی ظالمانہ حرکت میں مبتلا نہ ہو جائیں.“ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نمونہ ، آپ کی ساری زندگی کی باتیں ہمارے گھروں میں آج تک زندہ چلی آرہی ہیں.کوئی دیر کی بات نہیں.ایسا پاک نمونہ تھا حضرت اماں جان رضی اللہ عنھا کے ساتھ ایسا پاک سلوک تھا.ایسا محبت و نرمی و شفقت کا سلوک تھا کہ آج کی دنیا میں سب سے بڑا دعویدار بھی جو یہ کہنا چاہتا ہو کہ میں اپنی بیوی سے حسن سلوک کرتا ہوں اس نمونے کا پاسنگ بھی نہیں دکھا سکتا.اس کے باوجود یہ حال ہے اور اس بات میں بڑی حکمت ہے کہ یہ نہیں کہا کہ میں دعا کرتا ہوں فرمایا ! میں اس بیوی سے درخواست کرتا ہوں جس کو میں سمجھتا ہوں مجھ سے کوئی دکھ پہنچ گیا ہے کہ تم میرے لئے دعا کرو.ورنہ ہر خاوند اُٹھ کر یہ کہنا شروع کر دے ہم نے مار دیا پھر دعا کر لی ہم نے مارا پھر دعا کر لی.یہ بہت ہی باریک اور لطیف نکتہ ہے، جس کی طرف متوجہ ہونا چاہئے کہ جس پر ظلم کیا گیا ہے اس کی دعا شامل نہیں ہوگی تو مغفرت نہیں ہوگی.اس کی بخشش ضروری ہے.پس یہ اتفاقی منہ سے نکلا ہوا کلام نہیں ہے بلکہ ایک عارف باللہ کا کلام ہے.اس میں ہمارے لئے بہت ہی بڑے حکمتوں کے راز ہیں.جب بھی آپ کسی کے خلاف زیادتی کرتی ہیں، اگر وہ انسان ہے تو انسان سے معافی لینا ضروری ہو جاتا ہے.ورنہ تو بڑا ظلم ہو جائے دنیا میں کہ ظلم انسانوں پر کرے اور معافیاں خدا سے مانگتے رہیں.خدا سے بھی معافی مانگنی ہوگی کیونکہ اس کی تعلیم کے خلاف ظلم کیا ہے لیکن جس کے خلاف زیادتی ہوئی ہے.جب تک اس سے معافی نہ مانگی جائے اس وقت تک حقیقت میں معافی کا انسان حقدار قرار نہیں پاتا.جہاں تک پردے کی تعلیم کا ذکر ہے اور اس پر اعتراضات کا سوال ہے میں چونکہ اس مضمون پر بار ہا روشنی ڈال چکا ہوں اس لئے سر دست اس سے گزر جاتا ہوں.صرف اتنا بتا نا مناسب ہوگا کہ

Page 97

حضرت خلیفتہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۹۳ خطاب کیکم اگست ۷ ۱۹۸ء پردے کے پیچھے حکمتیں کیا ہیں اور اسلامی پردہ کی نوعیت کیا ہے.خلاصہ چند نکات آپ کے سامنے رکھتا ہوں پہلی بات یہ ہے کہ نظر کا پردہ ہے جس پر زور دیا گیا ہے اور اس میں مرد اور عورت دونوں برابر کے شریک ہیں.عورت کو یہ تعلیم ہے کہ بطور خاص اس بات کا خیال رکھے کہ خدا تعالیٰ نے اسے حسین اور دلکش بنایا ہے اس لئے اگر وہ ذرا بھی زینت اختیار کرے گی اور اپنے اعضاء کو چھپانے میں احتیاط سے کام نہیں لے گی تو مرد بھٹک جائیں گے اس لئے ان پر رحم کرے اور اپنے آپ کو سمیٹ کر چلے اور اپنے حسن کی حفاظت کرے.چادر وغیرہ کے پردے کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو اسلامی اصول کی فلاسفی میں وضاحت فرمائی ہے وہ میں بارہا آپ کے سامنے پیش کر چکا ہوں.اس کے علاوہ بوڑھی عورتوں کو اسلام پردہ سے مستثنی قرار دیتا ہے.یعنی ایسی عورتیں جن کے متعلق کسی ظالم کا بد نظر ڈالنے کا سوال ہی باقی نہ رہے.کام کرنے والی عورتوں ، خدمت کرنے والی عورتوں کو اس حد تک پردہ کی پابندی سے آزاد رکھا گیا ہے جس حد تک کام کے سلسلہ میں ان کا اپنی زینت کو ظاہر کرنا ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.خدا کی کتاب میں پردہ سے یہ مراد نہیں کہ فقط عورتوں کو قیدیوں کی طرح حراست میں رکھا جائے.یہ ان نادانوں کا خیال ہے جن کو اسلامی طریقوں کی خبر نہیں.بلکہ مقصود یہ ہے کہ عورت مرد دونوں کو آزاد نظر اندازی اور اپنی زنیتوں کے دکھانے سے روکا جائے کیونکہ اس میں دونوں مرد اور عورت کی بھلائی ہے.بالآخر یہ بھی یادر ہے کہ خوابیدہ نگاہ سے غیر محل پر نظر ڈالنے سے اپنے تئیں بچالینا اور دوسری جائز النظر چیزوں کو دیکھنا اس طریق کو عربی میں نغض بصر کہتے ہیں.“ اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلده اص: ۳۴۴) یعنی اگر خوابیدہ نظر پڑ جائے تو یہ اس تعلیم قرآنی کے خلاف نہیں ہے.کیونکہ غض بصر میں یہ خوابیدہ نظر بھی شامل ہے.جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ فی زمانہ یہ تعلیم قابل عمل نہیں رہی.کیونکہ چودہ سوسال کے اندر دنیا کے حالات بدل چکے ہیں.اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.فرماتے ہیں.مگر اے پیارو! خدا آپ تمہارے دلوں میں الہام کرے.ابھی وہ

Page 98

حضرت خلیفہ مسیح الرابع " کے مستورات سے خطابات وقت نہیں کہ تم ایسا کرو ۹۴ خطاب یکم اگست ۷ ۱۹۸ء لیکچر لاہور روحانی خزائن جلد ۲۰ص:۱۷۴) یعنی پردے کے معاملات میں نرمیاں اختیار کرنی شروع کر دو معلوم ہوتا ہے کہ ایسا وقت آئے گا جہاں رفتہ رفتہ پر دے میں نرمی کے سامان پیدا ہوں گے اور وہ کب ہوں گے اور کیوں ہوں گے اس کا ذکر فرماتے ہیں.مگر اے پیارو! خدا آپ تمہارے دلوں میں الہام کرے ابھی وہ وقت نہیں کہ تم ایسا کرو.اور اگر ایسا کرو گے تو ایک زہرناک بیج قوم میں پھیلاؤ گے.یہ زمانہ ایک ایسا نازک زمانہ ہے کہ اگر کسی زمانہ میں پردہ کی رسم نہ ہوتی تو اس زمانہ میں ضرور ہونی چاہئے تھی.کیونکہ کل جنگ ہے اور زمین پر بدی اور فستق و فجور اور شراب خوری کا زور ہے اور دلوں میں دہر یہ پن کے خیالات پھیل رہے ہیں اور خدا تعالیٰ کے احکام کی دلوں میں سے عظمت اُٹھ گئی ہے.زبانوں پر سب کچھ ہے اور لیکچر بھی منطق اور فلسفہ سے بھرے ہوئے ہیں مگر دل روحانیت سے خالی ہیں ایسے وقت میں کب مناسب ہے کہ اپنی غریب بکریوں کو بھیٹریوں کے بنوں میں چھوڑ دیا جائے.“ لیکچر لاہور روحانی خزائن جلد ۲۰ ص ۱۷۴) جو مجھ سے بار بار سوال کرتے ہیں مرد بھی اور عورتیں بھی.ان کو میں اس سے بہتر جواب نہیں دے سکتا کہ میں پردے کے معاملہ میں جو ایک جماعت کو حکمت عملی اختیار کرنے کی بار بار تلقین کرتا ہوں وہ کیا ہے.اسی عبارت میں جو روح ہے وہی میں چاہتا ہوں کہ اسے نافذ کیا جائے.آج کل کے حالات گندے ہیں.جن احمدی گھروں نے پردے کے معاملہ میں بے پروائیاں کی ہیں ان میں سے بعض روتی ہوئی دردناک چینچوں کے ساتھ میرے پاس پہنچتی ہیں کہ ہماری بچی ہاتھ سے نکل گئی ہے.ہمارے ساتھ یہ ظلم ہو گیا ہمارے ساتھ وہ ظلم ہو گیا معاشرہ بہت گندہ ہے.اتنا کرائم ہے اس کے کچھ اشارے میں نے بتائے ہیں آپ کو.چھوٹی چند سال کی تین تین چار چار سال کی بچیوں پر جو معاشرہ ہاتھ اُٹھا رہا ہو وہاں کیسے آپ اپنی بچیوں کو محفوظ سمجھ سکتی ہیں اگر ان کے پردے کی حفاظت نہیں کریں گی.تعد دازدواج: ایک یہ اسلامی حکم ایسا ہے جس کے متعلق اہل مغرب میں خصوصیت کے ساتھ چر چا رہتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اسلام نے بڑا ظلم کیا ہے کہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت دے دی اور صرف

Page 99

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۹۵ خطاب یکم اگست ۱۹۸۷ء مرد کو دی عورت کو نہیں دی.دو اعتراضات کئے جاتے ہیں.پہلے تو میں اس آیت کی تلاوت آپ کے سامنے کرتا ہوں تا کہ آپ اس کے مفہوم کو اچھی طرح سمجھ لیں کیوں اجازت دی، کن شرائط کے ساتھ دی اور کیا ایسی صورت میں اجازت دینا درست تھا یا نا جائز تھا.فرمایا: وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَثَ وَرُبعَ ، فَإِنْ خِفْتُم اَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّا تَعُولُوا وَأَتُوا النِّسَاءَ صَدُقَتِهِنَّ نِحْلَةً فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا (النساء:۴.۵) فرمایا اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ تم یتیموں کے بارہ میں انصاف نہ کر سکو گے تو جو صورت تمہیں پسند ہو کر لو.یعنی غیر یتیم عورتوں میں سے دو دو اور تین تین اور چار چار نکاح کر سکتے ہو لیکن اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ تم عدل نہ کر سکو گے تو ایک ہی عورت پر اکتفا کرنا ضروری ہے یا وہ جو تمہارے ہاتھوں کے تابع ہو.اس طریق سے بہت قریب ہے کہ تم ظالم نہ ہو جاؤ اور عورت کو ان کے مہر خوشی سے ادا کرو پھر اگر وہ اپنے دل کی خوشی سے اس میں سے کچھ تمہیں دیں تو اس میں سے بے شک خوشی سے اور شوق سے کچھ استعمال کر ولیکن عورت کی ملکیت پر اس کی مرضی کے بغیر نظر نہیں ڈالنی یہ اس کا مفہوم ہے.یہ جو چار شادیوں تک کی اجازت ہے اس کے مختلف پہلو ہیں جن کو میں آج آپ کے سامنے الگ الگ نمایاں طور پر رکھنا چاہتا ہوں.سب سے پہلی تو یہ بات ہے کہ یہ اجازت مشروط ہے اور دونوں طرف ایک شرط عائد ہوئی ہے.اس آیت کے آغاز میں بھی یہ بیان فرمایا گیا وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا اگر تمہیں یہ ڈر ہو کہ تم انصاف نہیں کر سکو گے تب تمہیں اجازت ہے یعنی انصاف کی حفاظت کی خاطر اجازت ہے اور اجازت دینے کے بعد فرمایا

Page 100

حضرت خلیفتہ مسیح الرابع" کےمستورات سے خطابات ۹۶ خطاب یکم اگست ۷ ۱۹۸ء فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً - اب دوبارہ ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ ایک سے زائد شادیوں کے لئے تمہاری انصاف کرنے کی استعداد لازمی شرط ہے.اگر تمہیں یہ و ہم بھی ہو کہ تم ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کے نتیجے میں انصاف پر قائم نہیں رہ سکو گے تو یا درکھنا ایک ہی ہے تمہارے لئے ایک سے آگے نہیں بڑھنا.آج کی دنیا میں جہاں تک میں نے نظر ڈالی ہے شاذ کے طور پر آپ کو کوئی ایسا مرد دکھائی دے گا مسلمانوں میں سے جو ایک سے زیادہ شادیاں کر کے دونوں کے درمیان انصاف کرتا ہو اس لئے اسلام کے نام پر جو اکثر شادیاں آپ کو دکھائی دے رہی ہیں وہ اسلام کے خلاف ایک باغیانہ رویۃ ہے.میرے علم میں کثرت سے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے شادیاں کیں اور ایک کو معلقہ کی طرح چھوڑ دیا اور پھر اس کے گھر جھانک کے بھی نہیں دیکھا.اخراجات تک بھی نہ دیئے اس کو اور جس طرح بھی اس بیچاری سے بن پڑی اس نے گزارا کرنے کی کوشش کی اور دوسری بیوی کی طرف کلیتہ جھک گئے اور قرآن فرماتا ہے.اَلا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً تم ایک سے زیادہ کے لائق ہی نہیں ہوا گر تم انصاف نہیں کر سکتے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جو نمونہ دکھایا ہے انصاف کا اس کی کچھ تفصیل ایک گذشتہ تقریر میں میں نے خواتین کے سامنے جو تقریر کی تھی اس میں بیان کی تھی.وہ معیارا گر آپ سامنے رکھ لیں تو بڑے حوصلے کا مرد ہوگا جو دوسری شادی کرے گا کیونکہ ناممکن نظر آتا ہے کہ ایک انسان اس اعلیٰ تقویٰ اور انصاف کے معیار پر قائم رہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ظاہر ہوا ہے.دوسرا پہلو اس کا یہ ہے کہ ایک سے زیادہ بیویاں کرنے کی اجازت ہے اور بعض مخصوص حالات میں اجازت ہے.یہ جو آیت ہے.اس کی شان نزول یہ ہے کہ ان دنوں میں یہ آیت نازل ہوئی جبکہ غیروں کے ساتھ جہاد ہو رہا تھا قتال کا جہاد اور جب بھی تو میں آپس میں لڑتی ہیں تو مردوں کی تعداد گھٹنی شروع ہو جاتی ہے اور عورتوں کی تعداد زیادہ ہونی شروع ہو جاتی ہے.اس پس منظر میں یتامیٰ بھی ابھرتے ہیں.بڑی کثرت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں اور یتامی کی دیکھ بھال کے لئے بھی ضرورتیں پیش آتی ہیں.اس پس منظر کو اگر آپ سامنے رکھیں تو ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت نہ دینا ظلم ہوتا بجائے اس کے کہ ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دینا ظلم قرار دیا جائے اور آج بھی جب بھی ایسے حالات پیش آتے ہیں ایک سے زیادہ شادیوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے خواہ وہ اسے مانیں یا نہ ما نہیں.یورپ میں بھی دو جنگوں میں ایسے واقعات پیش آئے جب کہ کثرت کے ساتھ عورتوں کی تعداد

Page 101

حضرت خلیفہ مسیح الرابع " کے مستورات سے خطابات ۹۷ خطاب یکم اگست ۷ ۱۹۸ء مردوں کے مقابل پر بڑھ گئی اور معاشرے میں اس کے نتیجے میں شدید بے چینی پیدا ہوگئی.یہ بے چینی باہر کی دنیا کو اس لئے نمایاں طور پر نظر نہیں آئی کہ یہاں سوسائٹی ویسے ہی آزاد تھی اور جن عورتوں کو خاوندمل ہی نہیں سکتے تھے عددی طور پر ناممکن تھا اور چونکہ وہ اسلام کی قائل نہیں تھیں اس لئے ایک سے زیادہ شادیوں کا حل بھی ان کے سامنے نہیں تھا.وہ آزاد تھیں کہ پھر دوسری عورتوں کے خاوندوں کے ساتھ تعلقات قائم کر لیں.جہاں تک بھی آپس میں ممکن ہے اس بات کو خفیہ رکھنا.اور اس معاشرے میں جو بدیوں کا زیادہ آغاز ہوا ہے جہاں تک میں نے مطالعہ کیا ہے وہ پہلی جنگ کے بعد شروع ہوا ہے خاص طور پر اور پھر دوسری جنگ میں بڑی تیزی سے پھیلا ہے اور آج جو یہ سوسائٹی اور ہی ہے کہ معاملہ ہاتھ سے نکل چکا ہے اس کا گہرا تعلق ان دو جنگوں سے ہے.اس سے پہلے جو یورپ کے حالات کا مطالعہ کر کے دیکھیں یہاں عصمت کا معیار بہت بلند تھا لیکن جنگوں نے ایک ضرورت پیش کی ان کے مذہب اور ان کے معاشرے نے اس ضرورت کا حل پیش نہیں کیا.نیچے طبعی طور پر آزادی پھیلنی شروع ہوئی اور اس آزادی کے نتیجے میں مردوں کے اخلاق بھی تباہ ہوئے عورتوں کے اخلاق بھی تباہ ہوئے اور شادی شدہ گھروں کا امن بھی اُٹھ گیا.تو شادی کی اجازت نہ دینا بظاہر ایک عورت کے دل کے سکون کی حفاظت ہے مگر فی الحقیقت ایسے زمانے دنیا میں آتے ہیں کہ شادی کی اجازت نہ دینا ساری عورتوں کے دل کا سکون اُٹھانے والی بات بن جاتی ہے.یہ حالت اس وقت یورپ کی ہو چکی تھی.میں نے ایک دفعہ پہلے بھی شاید آپ کے سامنے مثال پیش کی تھی یا سوال و جواب کی مجالس میں کرتا رہا کہ ہمارے ایک تعلق والے دوست پاکستان سے تشریف لائے.ہندوستان سے اس زمانے میں ہندوستان سے تشریف لائے اور انہوں نے اخبارات میں ایک اشتہار شائع کیا اس کا مضمون یہ تھا کہ میں شادی شدہ ہوں میرے اتنے بچے ہیں لیکن میں ضرورت محسوس کرتا ہوں کہ دوسری شادی کروں اس لئے اگر یورپ کی کوئی خاتون اس بات کے لئے آمادہ اور غالباً انہوں نے جرمن قوم کو خاص طور پر مخاطب کیا تھا کہ جرمن قوم میں چونکہ زیادہ عورتیں ہیں ایسی جو بیچاری مظلوم رہ گئی ہیں خالی اس لئے اگر ان میں سے کوئی خاتون راضی ان شرائط کو سمجھ کر تو وہ اپنا نام پیش کریں.ان کو اتنی چٹھیاں ملیں کہ ہزار ہا خطوط عورتوں کے موصول ہوئے ان کو ایک پرائیویٹ سیکرٹری رکھنا پڑا اس کام کے لئے کہ ان خطوط کی چھان بین کرے اور جائزہ لے کہ ان میں سے چند عورتوں کے کوائف نکالے کہ نسبتا یہ بہتر معلوم ہوتی ہیں.اس طرف توجہ کرو چنانچہ وہ اُس زمانے میں

Page 102

حضرت خلیفتہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۹۸ خطاب یکم اگست ۷ ۱۹۸ء ہالینڈ میں جو مبلغ تھے ہالینڈ میں آکر ٹھہرے تھے.مشن ہاؤس میں انہوں نے لطیفے سنائے کہ ڈاک کے تھیلے کے تھیلے آنے لگ گئے.مصیبت پڑگئی سارے مشن ہاؤس میں یہ پتہ کرنے کے لئے نکالنے کے لئے کہ کون سی ملک صاحب کی ڈاک ہے، کافی مشکل پیش آتی تھی اور وہ جانتی تھیں کہ یہ دوسری شادی ہے.اعتراض ہے تعلیم پر لیکن ضرورت سے انکار نہیں کر سکتیں تھیں.اتنے گھر تباہ ہوئے ہیں اس ظالمانہ معاشرے کے نتیجے میں کہ ضرورت بھی پڑے تو ایک سے زیادہ کی اجازت نہیں ہے.یہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آج کی تہذیب کے اکثر دیکھ ورثہ ہیں اس تعلیم سے انکار کا.اس کے علاوہ آپ تصور کریں کہ دوصورتوں میں سے اگر یہ نہیں تو پھر دوسری صورت کیا ہے؟ بھاری تعداد میں عورتیں بغیر شادی کے رہیں ان کے جذبات کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی یعنی صرف سو کنا پے سے ہوسکتی ہے.لیکن اگر بغیر شادی کے رہیں تو کہتے ہیں کوئی تکلیف نہیں.اور امر واقعہ یہ ہے کہ اگر ایک مرد ایک سے زیادہ شادیاں کرتا ہے اور عورت کو یہ اختیار ہے کہ بغیر شادی کے رہے یا دوسری شادی میں شریک ہو جائے تو شاذ کے طور پر آپ کو ایسی عورت ملے گی جو دوسری شادی میں شریک ہونا پسند نہ کرے اور اکیلی رہ جائے.شادی شدہ ہو تو اس موقع پر طلاق نہیں لیتی حالانکہ اس کو اختیار ہے اور اگر شادی شدہ نہ ہوتو دیکھ کر آتی ہے کہ گھر میں سوکن موجود ہے.اس کی فطرت یہ بتا رہی ہے کہ ضرورت کے وقت وہ اس بات کو ترجیح دیتی ہے کہ دو عورتیں ایک خاوند کے ساتھ رہیں بہ نسبت اس کے کہ ایک عورت اکیلی تنہائی کی زندگی ہمیشہ ہمیش کے لئے کاٹے.اس سلسلہ میں جب گفتگو کا موقع ملتا ہے تو بعض دفعہ بعض سوال کرنے والیاں یعنی پریس کانفرنسز کے موقع پر یہ سوال کرتی ہیں کہ پھر عورتوں کو بھی اجازت ملنی چاہئے تھی.میں ان کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ دیکھو بیک وقت دونوں کو اجازت نہیں مل سکتی.ضرورت تو یہ ثابت ہو رہی ہے کہ مردگھٹا کرتے ہیں.عورتیں زیادہ ہوا کرتی ہیں اور اجازت خدا عورتوں کو دے دے تو مصیبت ہی پڑ جائے پہلے ہی مرد کم ہیں.اگر عورتیں چار چار شادیاں کرنے لگ جائیں تو بھاری اکثریت مردوں کی بغیر شادی کے رہ جائے گی عذاب آجائے گا سوسائٹی پر.اور اگر یہ کہو کہ نہیں انصاف سے کام لیا جا تا دونوں کو بیک وقت اجازت دے دی جاتی تو میں ان سے کہتا رہا ہوں کہ اچھا پھر حساب کرو بیٹھ کے.فرض کرو تم نے اپنے خاوند کے علاوہ تین اور مردوں سے شادی کی اوران

Page 103

حضرت خلیفہ مسیح الرابع " کے مستورات سے خطابات ۹۹ خطاب یکم اگست ۷ ۱۹۸ء تین مردوں نے اپنے حق کو استعمال کرتے ہوئے تین تین اور عورتوں سے شادی کی اور ان تین تین عورتوں نے پھر تین تین اور مردوں سے شادی کی اور پھر ان مردوں نے تین تین اور عورتوں سے شادی کی.سارا ملک ایک شادی شدہ خاندان بن جائے اور جگہ نہ رہے.دوسرے ملکوں سے پھر بیویاں اور خاوند لانے پڑیں اور پھر بچے کس کے ہوں گے؟ طلاق ہوگی تو ذمہ دار کون قرار دیا جائے گا.نان نفقہ کس پر ہوگا ؟ کس طرح پھر طلاق کے جھگڑے طے ہوں گے اور جائیدادیں بانٹی جائیں گی.ایسا احمقانہ سوال ہے کہ اس کا کوئی حل سوال کرنے والا بھی پیش نہیں کر سکتا اس لئے اسلام کی تعلیم سے مفر نہیں ہے.خدا تعالیٰ کی تعلیم جذبات پر نہیں فطرت انسانی پر مبنی ہے اور ضروریات انسانی پر مبنی ہے اور ہر زمانہ کے لئے ہے.امن کے زمانہ کے لئے ہے، جنگ کے زمانہ کے لئے بھی ہے.پس وہ تمام احتیاطیں اختیار کرنے کے بعد جس کے نتیجہ میں ظلم سے مردوں کو روکا جائے خدا تعالیٰ نے مناسب شرطوں کے ساتھ ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دی اور اسے عمومی قانون نہیں قرار دیا.اگر عمومی قانون اسے سمجھا جائے تو پھر نعوذ باللہ من ذالک ، خدا تعالیٰ کی حکمت کاملہ پر ایک شدید اعتراض وارد ہوتا ہے.یعنی ایک طرف خدا تعالی گویا یہ تعلیم دے رہا ہے کہ ہر مرد بہتر ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرے.دو دو، تین تین، چار چار شادیاں کرے اور دوسری طرف قانون ایسا بنایا ہو کہ مرد اور عورتوں کی تعداد تقریباً برابر ہو.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ مرد اور عورت کی تعداد تو برابر پیدا ہورہی ہو کم و بیش اور مردوں کو چار چارشادیوں کی اجازت کی تعلیم دی جارہی ہو اس لئے لا زما یہ تعلیم عام نہیں ہے.انہی حالات سے مخصوص ہے جن کا میں نے ذکر کیا ہے اور ان شرائط سے پابند ہے جن کا میں نے ذکر کیا ہے اور اس کے علاوہ بھی بعض ضرورتیں پیش آسکتی ہیں.صرف جنگ کی ضرورتیں نہیں ہیں.ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو ذکر فرمایا ہے.میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عبارت ہی سے ، آپ کے سامنے پیش کروں گا.چنانچہ ایک اور شرط قرآن کریم نے یہ عائد فرمائی: وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاء وَلَوْ حَرَصْتُم فَلَا تَمِيلُوْا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ (النساء: ۱۳۰) اتنا زور دیا ہے انصاف پر کہ پھر خدا تعالیٰ نے اس کی وضاحت فرمائی کہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ سو فیصدی انصاف ہو یہ ممکن ہی نہیں ہے.یعنی یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ جتنی محبت انسان ایک

Page 104

خطاب یکم اگست ۷ ۱۹۸ء حضرت خلیفتہ مسیح الرابع" کےمستورات سے خطابات بیوی سے کرے اتنی محبت دوسری بیوی سے بھی کرے اس لئے فرمایا اور اس کا شان نزول بھی یہی ہے کہ صحابہ نے جب اجازت کے دونوں طرف عدل کے پہرے دیکھے تو انہوں نے سمجھا کہ بظاہر اجازت دی ہے مگر ایک ہاتھ سے دی اور دوسرے سے واپس لے لی ہے.اس پر قرآن کریم میں یہ تشریح نازل ہوئی کہ فی الحقیقت ان معنوں میں انصاف ممکن نہیں ہے کہ سو فیصدی برابر محبت ہو لیکن برابر محبت نہ ہونے کے باوجود حقوق برابر تقسیم ہوں گے، وقت برابر دیا جائے گا، توجہ برابر دی جائے گی جو نعمتیں خدا نے تمہیں دی ہیں تم ان میں دونوں یا دو سے زیادہ سب کو برابر شریک کرو گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ کا ایسا تقویٰ اختیار فرماتے تھے کہ آخری عمر میں جب کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کمزور ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ استطاعت نہیں تھی کہ ہر گھر میں باری باری جا کر رہیں اور توجہ چاہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا خیال رکھا جائے کسی ایسے گھر میں جہاں بیوی نسبتاً صحت مند ہے اور خیال رکھ سکتی ہے تو اپنی دوسری بیویوں کی اجازت کے بغیر ایسا نہیں کیا.جب تک کسی بیوی نے خوشی سے اجازت نہیں دی اس وقت تک باقاعدہ اس کے گھر اپنا وقت تقسیم کر کے جاتے رہے.جہاں تک دیگر مذاہب کا تعلق ہے.عجیب بات ہے کہ یہ غیر مذاہب والے جو اسلام پر اعتراض کرتے ہیں ان کے مذاہب کا مطالعہ کریں تو بالکل برعکس صورت نظر آرہی ہے.موسوی شریعت نے اس کی کھلم کھلا اجازت دی استثناء باب ۲۱ آیت ۵ اسلاطین ایک باب ۱۱ آیت ۳ کا مطالعہ کریں تو آپ حیران ہوں گے کہ یہ کھلی اجازت تو ہے اور کوئی پابندی عائد نہیں کی.اور ان شرائط انصاف کا اشارہ بھی ذکر موجود نہیں جن کو قرآن کریم نے کھول کر بیان فرمایا ہے.جن انبیاء کو یہ بہت ہی عظمت کا مقام خود دیتے ہیں جن سے آگے سارے نبوتوں کے سلسلے جاری ہوئے اور جن کے آگے نسل سے ان کے نزدیک دنیا کا منجی پیدا ہوا یعنی حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام.آپ جانتے ہیں ان کی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں (پیدائش ۱۶ آیت ۴-۳) اور ( پیدائش ۲۵ آیت ۱) حضرت یعقوب علیہ السلام کی ایک سے زائد بیویاں تھیں دیکھئے ( پیدائش ۲۹ آیت ۲۲ تا ۲۴) اسی طرح ( پیدائش ۳۰ آیات ۴۷۳، ۱۰،۹) دو سموئیل باب ۳ آیات ۲ تا ۵ اور پھر دوسموئیل باب ۵ آیت ۱۳ میں حضرت داؤد کی بیویوں کا ذکر ملتا ہے اور یہ ذکر ملتا ہے کہ نانوے بیویاں تھیں.اگر مردوں کے قومی کا یہ نقشہ بائبل کھینچ رہی ہے تو کسی بائبل کی طرف منسوب ہونے والے اور بائبل کو عزت کی نگاہ سے دیکھنے والے کا ہرگز یہ حق نہیں ہے کہ چار بیویوں

Page 105

حضرت خلیفتہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات 1+1 خطاب یکم اگست ۱۹۸۷ء پر اعتراض کرے ، انصاف اور تقویٰ کے خلاف ہے.حضرت سلیمان کی بیویوں کا ذکر سلاطین اباب ۱۱ آیت ۳۲ میں آپ مطالعہ کر سکتے ہیں.ہندوؤں کی طرف سے بھی تعدد ازدواج پر اعتراض کیا جاتا ہے.حالانکہ حضرت کرشن کو کثرت کے ساتھ بن بیاہتا بیویوں والا دکھایا گیا ہے.اور بہت سے ہندو بزرگوں کا تذکرہ ہندوالہی کتب میں ملتا ہے جنہوں نے ایک سے زیادہ اور متعدد زیادہ شادیاں کیں.(دیکھئے منو باب ۹ آیت ۱۲۲، منو باب ۹ آیت ۱۴۹ منو باب ۹ آیت ۱۸۴) لالہ لاجپت رائے اپنی کتاب سری کرشن مہاراج جی کے صفحہ ۹۸-۹۷ پر لکھتے ہیں کہ کرشن جی تعد دازدواج پر عملاً کار بند تھے.بائبل کی اس تعلیم کو آپ دیکھئے تو حضرت مسیح ناصری نے کہیں بھی اس تعلیم کو منسوخ نہیں فرمایا اس لئے عیسائیوں کا بھی آج یہ حق نہیں ہے کہ وہ اُس تعلیم کو منسوخ سمجھیں جس کے متعلق حضرت مسیح علیہ السلام کا یہ قول تھا کہ میں تو رات کا ایک شوشہ بھی تبدیل کرنے کے لئے نہیں آیا.یا مٹانے کے لئے نہیں آیا.میں تو اس تعلیم کو مکمل کرنے کے لئے آیا ہوں.پس اگر حضرت مسیح ناصری کے ارشادات کا فقدان پیش نظر رکھا جائے اور آپ کے عمل کو دیکھا جائے تو عیسائیت میں ایک شادی کی بھی اجازت نہیں.کیونکہ قول ہے نہیں جس میں منع کیا ہو ایک سے زیادہ شادیوں سے اور اپنا نمونہ یہ ہے کہ ایک بھی شادی نہیں کی اس لئے عیسائی دنیا کو اگر اعتراض ہے تو تب اعتراض کرے پہلے اپنی تعلیم پر عمل کر کے دکھائے.ایک بھی شادی نہ کریں تو اس کا فائدہ ہمیں یہ پہنچے گا کہ اگلی نسل میں کوئی اعتراض و الا باقی نہیں رہے گا.ہے تو بظا ہر یہ تمسخر کی بات لیکن امر واقعہ یہ ہے.عجیب ظلم ہورہا ہے اپنی تعلیم کو دیکھے بغیر، اپنی کتابوں کا مطالعہ کئے بغیر ، یا جاننے کے باوجود عمد ان کو نظر انداز کرتے ہوئے اسلام پر اعتراض کی جراتیں کھل چکی ہیں.مجبور ابتانا پڑتا ہے ان کو کہ Physician Heal Thy Self اے صحت کے علمبردار ! اور دوسروں کو صحت کی تعلیم دینے والے اپنی طرف تو دیکھ اس لئے جب قرآن کریم پر یہ حملہ کریں گے تو لازماً ان کی الہی کتب کے نمونے ان کے سامنے پیش کرنے پڑیں گے خواہ وہ اسے پسند کریں یا نہ کریں.عجیب بات یہ ہے کہ اسلام جس پر تعدد ازدواج کی تعلیم کا اعتراض ہے اس پر اعتراض کرتے ہوئے دیگر سارے مذاہب یہ بات بھول جاتے ہیں کہ صرف اسلام ہے جس نے تعداد کو کم کر کے اس پر پابندی لگائی ہے.جن دیگر مذاہب نے ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت دی یا ان کے

Page 106

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۰۲ خطاب یکم اگست ۷ ۱۹۸ء انبیاء اور مقدس لوگوں نے یہ نمونے دکھائے ان میں سے ایک نے بھی تعداد پر کوئی پابندی نہیں لگائی اس لئے جہاں تک دیگر مذاہب کا تعلق ہے وہ جتنی چاہیں شادیاں کرتے پھریں ان کو کھلی اجازت ہے اور پھر وہ شرائط انصاف سامنے نہیں رکھیں جن کو قرآن کریم نے کھول کر بیان فرمایا اور وہ پاک نمونے نہیں دکھائے جو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت کے پاک نمونے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں.ہمیں جو کچھ خدا تعالیٰ سے معلوم ہوا ہے وہ بلاکسی رعایت کے بیان کرتے ہیں.قرآن شریف کا منشاء زیادہ بیویوں کی اجازت سے یہ ہے کہ تم کو اپنے نفوس کو تقویٰ پر قائم رکھنے اور دوسرے اغراض مثلاً اولا دصالحہ کے حاصل کرنے اور خویش واقارب کی نگہداشت اور ان کے حقوق کی بجا آوری سے ثواب حاصل ہو اور اپنی اغراض کے لحاظ سے اختیار دیا گیا ہے کہ ایک دو تین چار عورتوں تک نکاح کر لو.لیکن اگر ان میں عدل نہ کر سکو تو پھر یہ فسق ہوگا اور بجائے ثواب کے عذاب حاصل کرو گے کہ ایک گناہ سے نفرت کی وجہ سے دوسرے گناہوں پر آمادہ ہوئے.دل کا دکھانا بڑا گناہ ہے.“ ( ملفوظات جلد چہارم ص:۵۰) کیسی عظیم عبارت ہے اور فرمایا کہ یہ خدا کی اس تعلیم کے پیش نظر جو اسلامی تعلیم کے مطابق اللہ تعالیٰ نے خود مجھے دی ہے اس کے مطابق میں بغیر رعایت کے بغیر چھپائے تمہیں بتا تا ہوں.اگر تم اسلامی تعلیم کی اجازت سے بظاہر استفادہ کرتے ہوئے اور اس رخصت کا بہانہ بنا کر ایک سے زائد شادیاں کرو گے اور عدل کی تعلیم کو پیش نظر نہیں رکھو گے تو یاد رکھو.دل دکھانا زیادہ بڑا گناہ ہے تمہاری نا انصافی کے نتیجے میں جو دل دیکھیں گے اس کے عذاب میں تم مبتلا کئے جاؤ گے.پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مردوں کو ان کے حقوق سے مطلع فرماتے ہیں ایک لمبی عبارت ہے کہ اگر تم نے فیصلہ کیا ہے تم مجبور ہو تو جن شرائط کے ساتھ اسلام جس حد تک اجازت دیتا ہے تم ضرور کر ولیکن یہ حقوق ہیں اور یہ حقوق ہیں اور یہ حقوق ہیں ان کو پیش نظر رکھنا.ان کے ذکر کے بعد فرماتے ہیں.یہ حقوق اس قسم کے ہیں کہ اگر انسان کو پورے طور پر معلوم ہوں تو بجائے بیاہ کے وہ ہمیشہ رنڈوارہنا پسند کر لے (ملفوظات جلد چہارم ص: ۴۹ ) دوسری شادی کا خیال چھوڑ کے اگر وہ پورے حقوق ادا کرنے کا عزم کر کے کہ ہاں میں نے

Page 107

حضرت خلیفتہ مسیح الرابع" کےمستورات سے خطابات ۱۰۳ خطاب یکم اگست ۷ ۱۹۸ء یہ حقوق ادا کرنے ہیں تو ایک ایسا خوف کھائے شادی سے کہ وہ رنڈ وار ہنا پسند کرے.خدا تعالی کی تحدید کے نیچے رہ کر جوشخص زندگی بسر کرتا ہے وہی ان کی بجا آوری کا دم بھر سکتا ہے.ایسے لذات کی نسبت جن سے خدا تعالیٰ کا تازیانہ ہمیشہ سر پر 66 رہے تلخ زندگی بسر کر لینی ہزار ہا درجہ بہتر ہے.( ملفوظات جلد چہارم ص:۴۹) ایک سے زائد بیویاں اگر نفس کی خواہش کے پیش نظر کوئی انسان اختیار کرتا ہے اور اُن تمام حقوق کی بجا آواری نہیں کرتا جو اسلام نے اس پر عائد فرمائے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا تازیانہ ہمیشہ سر پر رہے اس زندگی سے بہتر ہے کہ وہ تلخ زندگی کو قبول کرلے.پھر فرمایا ایک اور ترکیب ہے جو میں آپ کو آج بتا تا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے الفاظ میں اور وہ آپ کے کام آسکتی ہے یعنی ان عورتوں کے جن کے خاوند محض تعلیم کا بہانہ بنا کرنفسی اغراض کی خاطر زیادہ شادیاں کرنا چاہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اُن کو ایک علاج بتاتے ہیں فرمایا: جبکہ یہ مسئلہ اسلام میں شائع متعارف ہے کہ چار تک بیویاں کرنا جائز ہے مگر جبر کسی پر نہیں (یعنی نہ مرد پر ہے نہ عورت پر ہے ) اور ہر ایک مرد اور عورت کو اس مسئلہ کی بخوبی خبر ہے تو یہ ان عورتوں کا حق ہے کہ جب کسی مسلمان سے نکاح کرنا چاہیں اول شرط کرالیں کہ ان کا خاوند کسی حالت میں دوسری بیوی نہیں کرے گا اور اگر نکاح سے پہلے ایسی شرط لکھی جائے تو بے شک ایسی بیوی کا خاوند اگر دوسری بیوی کرے تو جرم نقض عہد کا مرتکب ہوگا.“ (روحانی خزائن جلد ۲۳ص: ۲۴۶) ایک طرف سے اجازت ہوگی دوسری طرف ایک اور نقض عہد کے جرم کا مرتکب ہو گا اس لئے اسلام کبھی اس کی اجازت نہیں دے سکتا تو آپ کو ترکیب بھی میں آخر میں بتا دیتا ہوں لیکن اس ترکیب کا ناجائز استعمال نہ کریں کہ جہاں جائز ضرورتیں ہیں وہاں ان جائز ضرورتوں سے بھی آپ منہ موڑ لیں اور اسلام کی روح کے منافی عمل کرنا شروع کر دیں.ایک جائز ضرورت مرد کی اولاد ہے اگر مردذ مہ دار ہے اولاد کے نہ ہونے کا تو پھر چونکہ ایک سے زیادہ مردوں کی اجازت عقلاً ممکن ہی نہیں ہے اس لئے اس کا حل تو یہ ہے کہ عورتیں مردوں سے علیحدگی اختیار کرلیں اور اس بناء پر ان کو اسلامی قانون لازماً طلاق کا حق دیتا ہے اگر عورت قصور وار ہے یہ قصور واران معنوں میں کہ وہ مجبور ہے بچے پیدا نہیں کرسکتی

Page 108

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۰۴ خطاب یکم اگست ۷ ۱۹۸ء تو مرد کو اس حق سے باز نہیں رکھا جا سکتا اور پھر بہانے کر کے کہ نا انصافی کرو گے، یہ کرو گے یا معاہدے ہم نے کر لئے ہیں پھر یہ مناسب نہیں ہے کہ اسلام کی روح کے منافی کا روائی کی جائے.اس کے ذکر کا خیال مجھے اس لئے آیا کہ چند مہینے پہلے میں نے خطبہ میں یہ کہا تھا کہ جماعت احمد یہ جو اپنی دوسری صدی میں داخل ہو رہی ہے ہمارے دل میں تمنا ہے کہ ہم خدا کے حضور کچھ تحفے پیش کریں.ہم نے بہت روپوں کی قربانی کی اور کئی قسم کی قربانیاں کیں اور اصلاح نفس کے پروگرام بنائے ،اصلاح معاشرہ کے پروگرام بنائے تا کہ ہم جب نئی صدی میں داخل ہوں تو بہت بہتر حال میں خدا کے حضور نیکیوں کے ہدیے لے کر داخل ہوں.اس ضمن میں مجھے خیال آیا جو میں سمجھتا ہوں خدا تعالی کی طرف سے یہ تحریک تھی کہ کیوں نہ ہم اپنے بچے خدا کے حضور تحفے کے طور پر پیش کریں جو اگلی صدی کے انسانوں کی ذمہ داریاں قبول کرنے کے لئے ہم خدا کی جماعت کے سپرد کر دیں کہ جس طرح چاہو ان کی تعلیم وتربیت کرو اور آئندہ صدی کے انسانوں تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے ان کو استعمال کرو.چنانچہ میں نے تحریک کی کہ خطبہ کے بعد سے آئندہ صدی تک آپ اگر یہ عہد کر لیں کہ ہمارے ہاں جو بھی بچہ پیدا ہوگا ہم خدا کے حضور پیش کر دیں گی تو ایک بہت ہی پیارا تحفہ ہوگا اور ہوسکتا ہے کہ اس کی برکت سے بعض گھر جو اولاد کی رونق سے محروم ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اولاد بھی عطا فرما دے.چنانچہ اس سلسلہ میں ابھی سے بعض اطلاعیں حیرت انگیز ملنی شروع ہوئی ہیں کہ خدا کے فضل کے ساتھ جب بعض میاں بیوی نے یہ ارادہ کیا تو باوجود اس کے کہ سالہا سال سے اولاد نہیں تھی اللہ تعالیٰ نے اس نیک تمنا کی برکت سے ان کو امید سے بنا دیا ان کے گھر میں امید بنادی اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس ہدایت پر جہاں تک ممکن ہے عمل کرنا چاہئے اور کثرت کے ساتھ آئندہ صدی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے اپنے بچے پیش کرنے چاہئیں.اس تحریک کے نتیجہ میں یہ جو دوسرا مسئلہ تھا یہ بھی اُٹھ کھڑا ہوا ایک سے زیادہ شادیوں کا.چنانچہ بعض مردوں کو بہانہ مل گیا انہوں نے کہا ہمارے بچے پہلے تو موجود ہیں لیکن ہم اس صدی کے لئے وقف کرنا چاہتے ہیں اس لئے دو سال رہ گئے ہیں فوراً اجازت دیں ہم شادی کر لیں تا کہ بچہ پیدا ہو اور ہم اسلام کے حضور پیش کر دیں.میں نے کہا کوئی ضرورت نہیں ہے جو پہلے بچے ہیں وہی ٹھیک ہیں اُن کو کیوں وقف نہیں کرتے.کہ دو کہ ہم مجبور ہیں پہلے بچے وقف ہو جائیں گے.لیکن بعض مردوں نے عورتوں پر اتنا دباؤ ڈالا کہ وہ بے چاریاں اپنے اخلاص میں مجبور ہوکر اجازت دینے لگ گئیں کہ ہاں اگر اس نیک نیت سے تم کرتے ہو تو ہماری طرف سے اجازت

Page 109

۱۰۵ خطاب یکم اگست ۷ ۱۹۸ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ہے.ہم تمہیں اس دکھ میں مبتلا نہیں کرنا چاہتیں کہ تم وقف کرنا چاہتے ہو خدا کی خاطر اور تم وقف نہ کر سکو ہماری مجبوری کے پیش نظر یہ بھی عجیب شان ہے احمدی عورت کی.دنیا کے پردے میں ایسے نمونے آپ کو نہیں ملیں گے ، صرف خدا کی رضا کی خاطر اس خیال سے کہ اگر ہم وہ تحفہ نہیں پیش کر سکتیں تو بے شک ہماری سوکن آکے وہ تحفہ پیش کر دے.عظیم الشان یہ قربانیوں کے نمونے دکھائے ہیں لیکن یہ میں آپ کو بتادیتا ہوں.اپنی جگہ ان کی یہ قربانی ان کا اخلاص قابل قدر ہے مگر مردوں کو غلط بہانے نہ بنانے دیں اور ایک نیک تحریک میں بد نیتوں کو نہ شامل ہونے دیں اس لئے میں آپ کو اس ذمہ داری سے اس پہلو سے آزاد کرتا ہوں کہ جو مرد کہے آپ اخلاص میں آکر اس کی بات مان جائیں.اگر ایسے حالات ہوں جہاں آپ مطمئن ہوں کہ جہاں مرد واقعی مجبور ہے اور اسے اولاد کی ضرورت ہے اور بہانے سے کام نہیں لیا جار ہا وہاں آپ کو اس کی راہ میں روک نہیں ڈالنی چاہئے وہاں تقویٰ کے ساتھ خدا کے دین کی خاطر بے شک خوشی سے اجازت دیں مگر عام حالات میں یہ نہ ہو کہ مرد ادھر آپ سے اجازت لے کر جائے اور باہر مردوں میں جا کر قصے سنا رہا ہو کہ اس طرح میں نے اپنی بیوی کو پاگل بنایا.چنانچہ بعض ایسی باتیں کرتے ہیں.میں آپ کو بتارہا ہوں گھر میں آکر نہیں بتاتے باہر باتیں کرتے ہیں.بہر حال اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو.دیر زیادہ ہو رہی ہے چونکہ دو بج گئے ہیں اس لئے جو باقی مضمون ہے وہ انشاء اللہ اگلے سال.خدا حافظ.السلام علیکم

Page 110

Page 111

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطاب خطاب ۳ را پریل ۱۹۸۸ء اچھا مبلغ بننے کے لئے اچھی تربیت ضروری ہے جلسہ سالانہ مستورات جرمنی سے خطاب فرموده ۳ را پریل ۱۹۸۸ء بمقام ناصر باغ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا: آج صبح ملاقاتوں کے پروگرام میں کچھ ایسے ملاقاتی بھی آئے جو تبلیغی گفتگو کرنا چاہتے تھے.مختلف مسلمان ممالک سے اُن کا تعلق تھا، بعض عرب تھے، بعض ترک تھے ، بعض افغان اور چونکہ وہ بہت صاف دل لے کر بات کرنے کے لئے آئے تھے اور اچھے ذہین ، تعلیم یافتہ نو جوان تھے اس لئے اُن کو اتنا وقت دینا پڑا کہ آپ کا وقت تھوڑا رہ گیا اور اس کے بعد جو جرمن مردوں ، خواتین اور فیملیز سے ملاقات تھی اُس میں بھی بہت ہی مختصر وقت دے کر بمشکل ایک دوسرے سے تعارف ہوسکا ورنہ میری خواہش تھی کہ جو جرمن نو مسلم احمدی ہیں خصوصیت سے اُن کے ساتھ کچھ عرصہ بیٹھ کرکھل کے بات کروں مگر بہر حال یہ مجبوری ہے اس لئے آج بجائے اس کے کہ میں آپ سے کچھ لمبا خطاب کروں مختصر چند منٹ ہی کی بات ہوگی.باقی انشاء اللہ آج آخری اختتامی پروگرام میں جب میں خطاب کروں گا تو مرد اور خواتین دونوں ہی مخاطب ہوں گے.اس وقت میں سب سے پہلے تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ یہاں جرمنی میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک مضبوط خواتین کی جماعت قائم ہو چکی ہے اور وہ شامیانے جو پچھلے سال مردوں کے لئے بمشکل کافی ہوئے تھے امسال خواتین کے لئے بمشکل کافی ہیں بلکہ بہت سی خواتین ان خیموں سے باہر بیٹھی ہوئی ہیں.دوسری بات شکر کے لائق یہ ہے کہ گزشتہ سال جب میں چند منٹ کے لئے آیا تھا تو اس قدر ہنگامہ برپا ہوا کہ کچھ سمجھ نہیں آتی تھی کہ کیا ہورہا ہے.چند خواتین بچوں کو لے کر آگے دوڑ پڑیں اور باقی بیچاری بالکل ہی محروم رہ گئیں.اس سال آپ نہایت صبر اور اطمینان اور نظم وضبط کے ساتھ بیٹھی

Page 112

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطاب ۱۰۸ خطاب ۳ را پریل ۱۹۸۸ء ہوئیں ہیں اور یہ بھی بڑی قابل شکر اور قابل تعریف بات ہے.احمدی خواتین اور غیر احمدی خواتین میں ایک یہ نمایاں فرق ہے.باہر بھی جذباتی حالات میں نظم و ضبط ٹوٹ جاتے ہیں اور پچھلی دفعہ بھی میں سمجھتا ہوں کہ کیوں ایسا ہوا.بہت سی ایسی خواتین تھیں جو پاکستان سے تشریف لائی تھیں ان کے دل دکھے ہوئے تھے دیر کے بعد مجھے بھی پردیس میں دیکھا اس کی وجہ سے وہ بھی جذباتی ہو گئیں تھیں اور میں بھی جذباتی تھا لیکن بحیثیت مرد کے مجھ میں ضبط کی طاقت زیادہ تھی اور وہ برداشت نہ کر سکیں اس لئے میں ناراض نہیں تھا میں سمجھتا تھا کہ کیوں ایسا ہوالیکن اس کے باوجود اس سال بھی اگر چہ بہت سی ایسی خواتین یہاں تشریف لائی ہیں.گزشتہ سال اور اس سال کے درمیان مختلف پاکستان کے علاقے چھوڑ کر آئی ہیں اور ان کے دل میں جذباتی ہنگامے برپا ہیں لیکن چونکہ واضح طور پر ہدایت تھی کہ اس دفعہ آپ نے نظم و ضبط کا نمونہ دکھانا ہے،صبر سے کام لینا ہے اس لئے خدا کے فضل سے آپ کتنی خاموشی کے ساتھ اور ضبط کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہیں.یہ ایک احمدیت کا خاصہ ہے کہ حکم کی اطاعت کرنا احمدیت نے سکھایا جو دراصل اسلام کی تعلیم کی روح ہے اور ایسے نظارے دوسری دنیا کی مجالس میں آپ کو دکھائی نہیں دے سکتے ہیں پس میں اللہ تعالیٰ کا آج شکر ادا کرتا ہوں کہ اس پہلو سے آپ نے نہایت ہی اعلیٰ نمونہ دکھا کر احمدیت کا سر بلند کیا ہے یا بلند رکھا ہے.تیسری بات مختصراً میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ اس دفعہ جن جرمن احمدی خواتین سے یا مہمان خواتین سے میری ملاقات ہوئی ہے کچھ کل کی مجلس سوال و جواب میں کچھ آج اس سے میرا یہ تأثر پہلے سے بھی زیادہ گہرا ہو گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جرمن قوم میں بعض ایسی خوبیاں رکھی ہیں کہ وہ اسلام کی خدمت میں ایک عظیم الشان تاریخی کارنامہ سرانجام دے سکتے ہیں اور جرمن خواتین میں جو اخلاص ہے اور جو سچائی ہے اور جو سادگی ہے یہ چیزیں اتنی نمایاں ہیں کہ یورپ کی کسی اور قوم میں آپ کو اس شدت سے دکھائی نہیں دیں گی.وہ جب فیصلہ کرتی ہیں، سچائی سے کرتی ہیں کوئی دکھاوا نہیں، بعض ایسی ہیں جنہوں نے دس دس پندرہ پندرہ سال اپنے خاوندوں کے ساتھ گزارے اُن کا اپنا مذہب رہا ان کا اپنار ہالیکن خاوند کی خاطر تبدیل نہیں کیا لیکن جب خود دل مان گیا تو احمدی ہوئیں اور پھر خاوند سے بہتر احمدی ہوگئیں اور بسا اوقات مجھے یہ بھی اطلاعیں ملتی ہیں بعض جرمن خواتین کی طرف سے دُعا کی درخواستیں ملتی ہیں کہ ہمارے خاوند کے لئے دُعا کریں کہ وہ اچھا احمدی ہو جائے.تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس قوم میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سی خوبیاں ہیں جن سے جماعت احمدیہ کو غیر معمولی طور

Page 113

1+9 خطاب ۳ اپریل ۱۹۸۸ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطاب پر استفادہ کرنے کا موقع ہے.اس پہلو سے پاکستان سے آنے والی خواتین کی بہت بڑی ذمہ داری ہے.میں جانتا ہوں کہ انہوں نے اسلام کو سچا سمجھ کر مانا ہے اور اگر آپ نے بُرانمونہ دیکھایا خدانخواستہ تو اس کے باوجود یہ اپنا تعلق نہیں تو ڑ دیں گی کیونکہ یہ باشعور لوگ ہیں، یہ سمجھ کر ایک بات کو قبول کرتے ہیں ، ان کو اسلام.محبت پیدا ہوئی ہے اس لئے آپ کا نمونہ اگر خدانخواستہ خراب بھی ہوا تو یہ اپنی ذات پر قائم رہیں گی لیکن آپ محروم رہ جائیں گی اس خدمت سے یعنی پاکستان سے آنے والی خواتین اگر اپنا نمونہ اعلی دکھا ئیں تو ان کی تربیت میں ، مزید تربیت میں بہت بڑا کردار ادا کرسکتی ہیں اور ان کے اخلاص کو مزید چار چاند لگا سکتی ہیں.مزید ان کے اندر عظمتیں اور رفعتیں پیدا کرسکتی ہیں اس لئے میں آپ سے خصوصیت سے آج مخاطب ہو کر بعض تربیتی امور سے متعلق باتیں کرنی چاہتا ہوں.مختلف خطوط کے ذریعے بھی اور یہاں آنے کے بعد گفت وشنید کے ذریعے بھی جو جائزہ میں نے لیا ہے اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو خواتین پاکستان کے دیہاتی علاقوں سے یہاں تشریف لائی ہیں وہ اپنی بہت سے بدر میں بھی ساتھ لے آئی ہیں اور یہاں آنے کے باوجود انہوں نے وہ تہذیبی روشنی حاصل نہیں کی جن میں یہ ملک ہمارے ملکوں سے بہت آگے ہیں.نتیجہ بعض ایسی باتیں لجنہ میں ہوتی رہتی ہیں جو لجنہ رپورٹ کرے یا نہ کرے حالانکہ اُن کا فرض ہے کہ وہ رپورٹ کریں مگر خطوں کے ذریعے مجھ تک پہنچتی ہیں اور جب میں ملتا ہوں لوگوں سے تو باتوں باتوں میں ذکر چل پڑتے ہیں اور اس کے نتیجے میں میرے سامنے ایک تصویر ابھرتی ہے.وہ تصویر ایسی ابھری ہے جو پسندیدہ نہیں، جس سے میرا دل خوش نہیں ہوا کیونکہ معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہاں ہر حلقے میں جہاں جہاں آپ آ کر ٹھہری ہیں آپس میں لڑائیاں ہیں، ایک دوسرے سے اختلاف ہیں اور اختلاف بھی چھوٹی اور کمینی باتوں پر ، گھٹیا گھٹیا باتوں پر ، بدظنیاں عام ہیں، اگر کسی عہدے دار کی طرف سے کسی کو نصیحت کی جائے تو آگے سے بعض دفعہ ہر خاتون کے معاملے میں تو نہیں لیکن بعض خواتین ایسی ہیں جو لڑنے کے لئے اُٹھ کھڑی ہوتی ہیں کہ تم ہوتے کون ہو اور کس خبیث نے ہماری شکایت کی تھی ، لاؤ تو سہی اُس عورت کو میں اس کے ساتھ یہ سلوک کر کے دکھاؤں گی.یہ تو کوئی انسانی رو عمل نہیں.اسلام تو در کنار وہ تو بہت اونچی چیز ہے یہ تو عام شرافت کے خلاف بات ہے.ایک لجنہ کی عہدیدار اگر آپ کے پاس آتی ہے نیک نصیحت لے کر ، آپ کی بچی کے متعلق

Page 114

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطاب 11.خطاب ۳ اپریل ۱۹۸۸ء اس نے سنا کہ پر وہ ٹھیک نہیں کر رہی، یہاں کی تہذیب سے متاثر ہورہی ہے، اس کے نتیجے میں اس کو خطرہ لاحق ہے.یہاں کے لوگ گندے بھی ہیں ، اچھے بھی ہیں بعض پہلوؤں سے لیکن عام انسانی جنسی تعلقات میں یہ اتنا زیادہ حد سے گزر چکے ہیں کہ اکثر صورتوں میں حیوانات سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں اس لئے بچیوں کے لئے خطرات ہیں.جب لجنہ کی خواتین آپ کے پاس آتی ہیں اور کہتی ہیں کہ دیکھو بی بی تمہاری بیٹی کچھ بے احتیاط ہوگئی ہے، اگر برقعہ نہیں پہنتی تو کم از کم چادر ہی سنبھالے، سر سے چادر بھی ڈھلک جائے اور ویسے بھی لباس ننگا ہونا شروع ہو جائے تو اس کے لئے یہ بہت زیادہ خطرناک ہے بہ نسبت ایک یہاں کی خاتون کے جو برقعہ نہیں پہنتی لیکن اپنے آپ کو سنبھالے ہوئے ہے.شریفانہ لباس میں ہے جیسے یہ خواتین ہیں جو سب بیٹھی ہوئی ہیں ان میں سے بعض نے برقعے پہنے ہوئے ہیں اور بہت سی پاکستانی احمدیوں سے بہتر برقعے کا حق ادا کر رہی ہیں.بعض نے برقعے نہیں پہنے ہوئے لیکن ان کے لباس سے شرافت برس رہی ہے.ان کی طرز میں وہ نمایاں طور پر ایک کردار کی جھلک ہے کہ ہم نے ایک طریق اختیار کیا ہے اور ہم اس کے پیچھے چلیں گی اس لئے ان کو کوئی خطرہ نہیں بغیر برقعے کے بھی یہ محفوظ ہیں کیونکہ اپنی تہذیب کی اونچ نیچ اور اس کے گند یہ دیکھ چکی ہیں اور ایک عظیم فیصلہ کرنے کے بعد اب انہوں نے اپنے بود و باش، طرز رہائش کو بدلنے کا ارادہ کر لیا ہے اور وہ ان کے لباس اس کے طرز اور ان کے اٹھنے بیٹھنے سے نمایاں ہے.لیکن وہ احمدی بچیاں جو بعض دیہات کی تہذیب سے اُٹھ کر یہاں آتی ہیں، وہ پاکستان میں بھی اکثر بعض ایسے طبقات سے بیچاری تعلق رکھتی ہیں جو غریب بھی ہے جہاں آپس میں لڑائیاں بھی ہوتی رہتی ہیں، طعنے مینے چلتے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف چغلیاں ہو رہی ہیں.ایک گھر والی نے کسی کی بیٹی پر انگلی اٹھائی تو اس نے دس انگلیاں اُٹھا دیں.ایک نے منہ سے بات نکالی تو دوسری نے پتھر برسا دیئے.لڑائیوں کی عادتیں اور ایک دوسرے کی چغلیاں کرنی پھر مردوں کو بیچ میں ملوث کرنا یہ ساری باتیں جس معاشرے میں عام ہوں وہاں سے لڑکیاں بیچاری اُٹھ کر یہاں آئیں اور مزید یہاں سے بھی بُری باتیں سیکھنے لگ جائیں تو لجنہ کا فرض ہے.اسی لئے تو لجنہ قائم کی گئی ہے کہ وہ آپ کے پاس آئے آپ کو بتائے کہ بی بی سنبھالو اپنے آپ کو نقصان پہنچے گا.احمدیت کی خاطر تم یہاں پناہ لینے آئی لیکن احمدیت کی پناہ سے خود نکل گئی ہو.اس ملکی پناہ کا کیا فائدہ.جواحمدیت کے نام پر پناہ لینے آتا ہے وہ احمدیت بیچنے کے لئے تو نہیں آتا لیکن اگر آپ نے

Page 115

حضرت خلیفہ اصبح الرابع" کے مستورات سے خطاب خطاب ۳ راپریل ۱۹۸۸ء احمدیت کے نام پر پناہ لی اور احمدی قدروں کو پیچھے چھوڑ آئیں یا یہاں آکر بُری باتیں سیکھنی شروع کر دیں تو احمدیت کی پناہ سے تو نکل آئیں آپ یہ تو احمدیت بیچنے والی بات ہے.یہ تو وہی بات ہے جو قرآن کریم نے لکھی ہے کہ خدا کی آیات کو ادنی ادنیٰ ذلیل قیمتوں پر نہ بیچو اور اللہ تعالیٰ اس بارہ میں قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے تعلق تو ڑ لیتا ہے جو دین کو بیچنے لگ جاتے ہیں تو پھر آپ کا وہاں سے نکلنا بھی بریکار ، آپ کا یہاں آنا بھی بریکار بلکہ نقصان دہ.اُس سے بڑھ کر یہ کہ ایک آدمی نصیحت کرتا ہے اور آپ غصہ مناتی ہیں.آپ بھر جاتی ہیں.کہتی ہیں تم ہوتے کون ہو میری بچی پر انگلی اُٹھانے والے حالانکہ وہ بیچاری کہیں سے چل کر اپنے وقت کا نقصان یا اپنے وقت کی قربانی دے کر یہاں آئی آپ کے پاس آئی اور خالصہ للہ آپ کی نصیحت کی خاطر اس لئے اُس سے جب آپ بگڑتی ہیں تو خدا سے بگڑتی ہیں کیونکہ خدا کی خاطر آنے والے بندوں کے لئے خدا کے دل میں پیار کا مقام ہوتا ہے.آپ کے نزدیک وہ معمولی بھی دکھائی دیں مگر جو خدا کی خاطر سفر کرتا ہے، جو خدا کی خاطر کسی بہن کے پاس جاتا ہے اور اسے سمجھانے کی کوشش کرتا ہے وہ اللہ کی نظر میں پیارا ہوتا ہے.اس کی بے عزتی کرنا عملاً خدا کی بے عزتی ہے اور اس مضمون کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خوب اچھی طرح کھول دیا ہے.یہ کوئی فرضی بات نہیں ہے.ایک موقع پر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا اپنے بعض بندوں سے پوچھے گا کہ میں بیمار تھا تم نے میری عیادت نہیں کی، میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہیں کھلایا، میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی نہیں پلایا، میں بدحالی میں مبتلا تھا تم نے میرا خیال نہیں رکھا، میں بغیر کپڑوں کے تھا تم نے مجھے کپڑے نہیں پہنائے اس قسم کا مضمون ہے.بندہ تعجب سے پوچھے گا کہ اے خدا! تو تو ساری کائنات کا خالق ہے، ہر چیز تیری ہے ہم ادنی ذلیل بندوں سے ہو کیسے سکتا ہے کہ تجھے کچھ پلائیں ، تجھے کچھ کھلائیں، تیری خاطر کریں، تیرا خیال رکھیں.تو اللہ تعالیٰ جواب دے گا کہ جب میرا بندہ بیمار تھا اور تو نے اُس سے بے پروائی کی تو مجھ سے بے پروائی کی ، جب میرا بندہ پیاسا تھا اور تو نے اُسے پانی نہیں پلایا تو مجھے پانی نہیں پلایا، جب میرا بندہ بھوکا تھا اور تو خود سیر ہوکر کھا تا رہا اور اس کی پرواہ نہیں کی تو تو نے میری پرواہ نہیں کی اور مجھے بھوکا رکھا.(مسلم کتاب البر والصلۃ والادب) اب خدا اتنار من ورحیم ہے کہ اپنی عام مخلوقات، اپنے عام بندوں سے اس کا یہ تعلق ہے آپ اندازہ کریں اُس سے کیسا تعلق ہو گا جو اس کی خاطر خدمت کے لئے نکلا ہے.چنانچہ اس مضمون پر اور

Page 116

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطاب خطاب ۳ راپریل ۱۹۸۸ء بھی بہت سی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ملتی ہیں کہ خدا اپنے کام کرنے والوں کے لئے بڑی غیرت رکھتا ہے اس لئے آپ ایسے معاملے میں خدا کی خاطر کام کرنے والیوں سے اگر تعاون نہیں کر سکتیں تو ادب کا سلوک تو کریں، عام اخلاق حسنہ تو قائم رکھیں اور بدظنیوں میں جلدی نہ کیا کریں کہ ی محض طعنہ دینے کے لئے اس مصیبت سے کہیں دور سے آئی ہے.یا شکایتیں ہورہی ہیں اور کون ہوتا ہے میری شکایت کرنے والا.آپ خیال کریں کہ آپ ان ملکوں میں ایک نمونہ بن کر آئی ہیں اگر آپ نے اپنے نمونے گندے پیش کئے اور یہاں سے بُری عادتیں سیکھیں تو ان خواتین کو جو محض تقویٰ سے اور خدا کے پیار سے اسلام میں داخل ہو رہی ہیں ان کی تکلیف کا بھی موجب بنیں گی اگر ٹھوکر کا موجب نہیں بن سکتی اور یہ جو آپ سے سیکھ سکتی ہیں کیونکہ آپ پیدائشی احمدی ہیں آپ نے لمبے عرصے تک احمدیت کے ماحول میں تربیت پائی ہوتی ہے، لجنہ کے نظام سے واقف ہیں جو کچھ آپ سے سیکھ سکتی ہیں یہ نہیں سیکھیں گی اور ایک بڑے اہم مقصد سے آپ محروم رہ جائیں گی جو اسلام کے قیام کا مقصد ہے کہ قوموں کے تفرقے مٹادے ، رنگ اور نسل کی تمیز کو ختم کر دے، مشرق و مغرب کی خلیجیں پاٹ دے کہ فاصلے ختم ہوں اور ساری انسانیت جو خدا کے بندے ہیں وہ خدا کے نام پر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے ایک انسان کے طور پر اکٹھے ہو جائیں.یہ وہ اعلیٰ اور آخری مقصد ہے جس کی طرف اسلام دنیا کو لے جا رہا ہے مختلف راہوں مختلف طریقوں سے.اور آج یہ کام جماعت احمدیہ کے سپرد ہوا ہے اور ۱۴اممالک میں جماعت احمد یہ اس کام ، اس خدمت پر فائز ہے اور حتی المقدور اس کو ادا کرنے کی کوشش کررہی ہے.یہاں اگر آپ نے Misbehave کیا ، بُرے اخلاق کا نمونہ دکھایا تو خطرہ ہے کہ اگر آپ اسلام سے ان کو دور نہ کریں تو کم از کم تہذیبی لحاظ سے ضرور ان کو پرے پھینک دیں گی.قومی لحاظ سے یہ یہی سمجھیں گی کہ یہ گھٹیا لوگ ہیں ، ادنیٰ لوگ ہیں ، اچھے مذہب کے باوجود بُرے اخلاق رکھنے والے لوگ ہیں اس لئے اس ذمہ داری کو بڑی سمجھ سے ، ہمت سے ، سوچ کر ادا کریں اور حو صلے دکھا ئیں.اپنی تربیت کا خیال رکھیں اور خود اپنی بچیاں لجنہ کے سپر د کر یں.آپ میں سے بہت سی ایسی بھی ہوں گی جن کو قرآن کریم کی تلاوت نہیں آتی ، جن کو نماز اچھی طرح نہیں آتی، جن کو عام دینی مسائل سے پوری طرح واقفیت نہیں ہے.اگر آپ اپنے بچوں کی تربیت کرنے کی اہل نہیں ہیں کیونکہ آپ خود تر بیت کی محتاج ہیں تو

Page 117

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطاب ۱۱۳ خطاب ۳ اپریل ۱۹۸۸ء اسی غرض سے تو لجنہ قائم کی گئی ہے کہ آپ لجنہ کے سپرد اپنی بچیاں کریں اور ان کے زیر احسان ہوں ،ان کا شکر یہ ادا کریں کہ جو کام ہم نہیں کر سکتیں تھیں وہ آپ نے شروع کر دیا ہے.اس سے آپ کی آئندہ نسل کی حفاظت ہوگی.پھر آئندہ آنے والوں کو اچھی مائیں عطا ہوں گی.انہی بچیوں نے کل کو اچھی مائیں بننا ہے.دوسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ آپ میں سے بہت سی ایسی خواتین ہیں.بہت سی نہیں تو کافی تعداد بہر حال ہے جو تبلیغ کر رہی ہے اور ان کے خطوں سے مجھے علم ہوتا رہتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کم علمی کے باوجود تبلیغ کے لئے بڑی محبت رکھتی ہیں، دعائیں کرتی بھی ہیں اور دعائیں کرواتی بھی ہیں اور اپنے نیک نمونے اور پیار کے ساتھ وہ اپنے ماحول میں پیغام پہنچا رہی ہیں.چنانچہ اس کے نتیجہ میں جرمنی میں بعض پاکستان سے آنے والی خواتین کو اللہ تعالیٰ نے مختلف پھل بھی عطا کئے.مختلف قوموں کی عورتوں میں مختلف قوموں کے خاندانوں میں انہوں نے تبلیغ شروع کی اور اس بات کی کبھی پرواہ نہیں کی کہ اُن کو زبان بھی ٹھیک نہیں آتی.کہیں سے لڑ پچر لیا، کہیں سے کیسٹ مانگی، دوستی کی ، تعلقات قائم کئے اور اسی طرح انہوں نے تبلیغ شروع کر دی.نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ کے فضل سے اُس تبلیغ کو پھل بھی لگنا شروع ہو گئے.آپ کی اتنی بڑی تعداد ہے یہاں خدا کے فضل سے اس وقت ۱۴۰۰ کے قریب عورتیں ، لڑکیاں اور بچے یہاں موجود ہیں.ان میں ۸۰۰ سے زائد بڑی عمر کی عورتیں اور بڑی عمر کی بچیاں ہیں.آپ لوگ یہ تبلیغ اگر یہاں شروع کریں تو ۸۰۰ کی ایک فوج بن جائے گی اسلام کی جوار دگرد پیغام پہنچانا شروع کرے گی.دیکھتے دیکھتے تبدیلی پیدا ہونی شروع ہو جائے گی اور یہ میرا تجربہ ہے کہ جو عورت بھی فیصلہ کرتی ہے کہ میں نے تبلیغ کرنی ہے اور خدا سے دعا مانگتے ہوئے وہ کام شروع کرتی ہے اور محبت اور پیار سے اپنے تعلقات بڑھاتی ہے اور میٹھی زبان استعمال کرتی ہے اس کو ایک کیا ایک سے زائد پھل بھی لگ جاتے ہیں.اوسطاً آپ کو ایک روحانی بچہ بھی ملے تو اگلے سال آپ کی تعداد ۸۰۰ سے ۱۶۰۰ ہو جائے گی.اور اسی طرح سلسلے پھیلا کرتے ہیں.آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدا تعالیٰ نے Reproduction کے لئے ایک خاص مقام دیا ہے ایک خاص خلقت بخشی ہے آپ نہ ہوں تو دنیا کی نسلیں ختم ہو جائیں.آپ زندگی کی ضامن ہیں.آپ کے بغیر زندگی کی نشو ونماممکن ہی نہیں ہے لیکن صرف جسمانی زندگی نہیں آپ اگر چاہیں تو

Page 118

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطاب ۱۱۴ خطاب ۳ را پریل ۱۹۸۸ء روحانی زندگی کی بھی ضامن بن سکتی ہیں.روحانی لحاظ سے بھی روحانی بچے پیدا کر کے اپنے خاوندوں کو بتا سکتی ہیں کہ تم لکھے بیٹھے ہوئے ہو اور دیکھو ہمیں اللہ تعالیٰ توفیق دے رہا ہے کہ جسمانی بچے بھی تمہارے لئے پیدا کرتی ہیں اور روحانی بچے بھی اسلام کے لئے پیدا کر رہی ہیں اس طرح ایک حیرت انگیز پاک تبدیلی پیدا ہونی شروع ہو جائے گی اور وہ روحانی انقلاب جو ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں بر پا ہو وہ دیر کی بجائے جلد ہی رونما ہو جائے گا اس لئے تبلیغ سے غافل نہ ہوں اور اپنے آپ کو ، اپنے مقام کو سمجھیں.آپ میں طاقت ہے.یہ نہ سمجھیں کہ آپ عورت ہیں آپ میں طاقت نہیں تبلیغ کی، مشکلات ہیں، آپ پیار اور محبت سے ، خدمت سے اپنے تعلقات وسیع کریں تو بہت لوگ آپ میں دلچسپی لینے لگ جائیں گے.کل بھی ایک سوال کے جواب میں میں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ اچھا مبلغ بننے کے لئے محض اچھا علم کافی نہیں.اچھا مبلغ بننے کے لئے اچھی طبیعت ضروری ہے.ایسی طبیعت ہو جس سے لوگ پیار کرنے لگیں.ایسی طبیعت ہو جس کی طرف جذب ہوا اور لوگ کھنچے آئیں.ایسا شخص جب کوئی بات کرتا ہے تو اس کی بات کا بہت اثر ہوتا ہے.میں نے بار ہا وقف جدید میں معلوم کیا ہے تجربے سے کہ ہمارے بعض مبلغین علم کے لحاظ سے بالکل کورے ہوتے تھے بیچارے، چوتھی بھی پاس نہیں کی تھی ، اخلاص میں آئے پیش کر دیا.شروع میں ضرورت تھی اس لئے ہم نے اُن کو رکھ لیا.تھوڑی سی تربیت دی اور میدان میں پھینک دیا.اُن میں سے بعض مولوی فاضل بھی تھے بعض بڑے اچھے دنیا کے تعلیم یافتہ بھی تھے بعض نے B.A بھی پاس کیا اور پھر وقف کیا وہ بھی معلم تھے لیکن جہاں تک تبلیغی پھل کا تعلق ہے بعض دفعہ ایک ان پڑھ معلم کو جو مخلص بھی تھا ، دعا گو بھی تھا اور طبیعت کا میٹھا تھا پڑھے لکھے مبلغوں سے بہت زیادہ پھل لگتے تھے اور بعض دفعہ نہیں بلکہ ایسے لوگ بہر حال ہمیشہ زیادہ تعلیم یافتہ لوگوں سے آگے رہتے تھے جو اخلاص اور طبیعت کے لحاظ سے کم درجے پر تھے.تبلیغ میں بہت ہی اہم بات یہ ہے کہ پہلے اپنی ذات میں دلچسپی پیدا کر و.پھر لوگ آپ کے پیغام میں دلچسپی لیں گے جو اپنی ذات میں دلچسپی پیدا نہیں کرتا اس کے پیغام میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لیا کرتا اس لئے اس نقطہ نگاہ سے اپنے تعلقات کو بڑھا ئیں تو آپ کو یقینا ایک نہیں ، دو نہیں ، بیسیوں پھل مل سکتے ہیں.اب میں جب افریقہ کے دورے پر گیا تو ایک جگہ آئیوری کوسٹ میں تبلیغ کے متعلق بات

Page 119

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطاب ۱۱۵ خطاب ۳ را پریل ۱۹۸۸ء ہو رہی تھی میں مردوں سے بات کر رہا تھا وہاں مجھے بتایا گیا کہ ایک احمدی خاتون ہیں جنہوں نے گزشتہ سال میں ایک سو بیعتیں کروائی ہیں.پہلے میں سمجھا مبالغہ ہو گا لیکن جب میں نے پوچھا جماعت سے تو پتہ لگا کہ کثرت سے اس کے بنائے ہوئے احمدی موجود تھے.چنانچہ جب میں لجنہ میں گیا تو بی بی کو میں نے کہا کہ اُس خاتون کو بلا کر اپنے ساتھ یہاں بٹھانا ہے چنانچہ بڑی عزت اور محبت سے ہم نے ان کو بلا کر پاس بٹھایا اور ساری خواتین نے رشک کیا اس پر اور ہے بھی قابل رشک بات جو مرتبے اور مقام میں بڑھے گی وہی اونچی ہوگی ، وہی عزت کے لائق ہے اس لئے خدا کی نظر میں اگر آپ مرتبہ اور پیار اور محبت کا مقام چاہتی ہیں تو اس کی خدمت میں آگے بڑھیں اور اپنے اخلاق بہتر کریں.اخلاق گندے ہوں گے تو آپس میں لڑیں گی ، ایک دوسرے پر گند اچھالیں گی ،فساد بڑھنے شروع ہو جائیں گے، آپ کے بچے آپ سے لڑنا سیکھیں گے، آپ کے خاوند دوسروں کے خاوندوں سے لڑیں گے جا کر ، آپ کے بھائی دوسرے کے بھائیوں سے لڑیں گے.ایک بد اخلاقی اور ہزارلعنتیں آپ اپنے اوپر لے لیں گی اور تبلیغ کے قابل ہی نہیں رہیں گی آپ بالکل.اس لئے بنیادی سبق وہی ہے جس سے میں نے آغاز کیا تھا کہ آپ اپنے اخلاق کو بلند کریں، اخلاق حسنہ پیدا کریں.اندرونی طور پر ایک دوسرے سے پیار اور محبت کی باتیں کریں جس سے تعلق بڑھے نہ کہ تعلق کئے اور بیرونی طور پر اسی خلق کے بہتھیار کو لے کر نکلیں اور دنیا کے دل موہ لیں تا کہ وہ لوگ آپ کے مذہب میں دلچسپی لیں.اُمید ہے کہ آپ ان باتوں کو ملحوظ خاطر رکھیں گی.امید ہے ان باتوں پر آپ عمل کرنے کی کوشش کریں گی لیکن اگر خدانخواستہ آپ میں سے کوئی خاتون ایسا نہیں کرتیں اور اندرونی طور پر بدخلقی سے کام لیتی ہیں یا نظام جماعت سے تعاون نہیں کرتیں یا ان کی بچیاں ان کے ہاتھ سے نکل رہی ہیں اور ان کو کوئی پرواہ نہیں ہے، ان کو کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا تو بہتر ہے کہ پھر ایسی خواتین جماعت سے الگ ہوجائیں کیونکہ ہم نے تو اب لمبے پروگرام بنائیں ہیں ، ہم نے تو تیز چلنے کا فیصلہ کر لیا ہے.اگلی صدی قریب آرہی ہے اور بہت سے فاصلے طے کرنے والے باقی ہیں اس لئے ہم ان کمزوروں کی خاطر اب رک کر زیادہ دیر انتظار نہیں کر سکتے اس لئے میں نے جماعت کو بھی نصیحت کی ہے، لجنہ کو بھی کہتا ہوں کہ پیار اور محبت سے سمجھانے کی کوشش کریں اگر سمجھیں اور اصلاح کر کے نظام جماعت کے ساتھ تعاون کر کے آگے بڑھیں تو بہتر ہے ورنہ مجھے مطلع کریں تا کہ ان کو نظام جماعت سے الگ کر دیا

Page 120

حضرت خلیفہ مسیح الرابع " کے مستورات سے خطاب 117 خطاب ۳ راپریل ۱۹۸۸ء جائے.تو پھر یہ اپنی ذمہ وار ہیں خدا کو خود جوابدہ ہیں.کم سے کم ہم پر بے وجہ کا ایک بوجھ نہیں ہوگا.کم سے کم جماعت کی بدنامی کا موجب تو نہیں بنیں گی ایسے.مگر میں اُمید رکھتا ہوں جیسا کہ میں نے محسوس کیا ہے احمدیوں میں بات سن کر قبول کرنے کا بڑا مادہ ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ آپ میں سے جن تک یہ آواز پہنچی ہے اللہ کے فضل سے انشاء اللہ وہ اطاعت کی روح آمیز لبیک کہیں گی اور پاک روحانی تبدیلی پیدا کریں گی.جس کا آغاز اخلاق حسنہ سے ہوا کرتا ہے.کوئی روحانی ترقی انسان نہیں کر سکتا جب تک کہ اس کے اخلاق اچھے نہ ہوں.اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو اور آپ کو حسن خلق اختیار کرنے کی توفیق بخشے.اب ہم دُعا کر لیتے ہیں اس کے بعد میں نے رخصت ہونا ہے.میں نے کہا تو تھا پانچ دس منٹ لیکن مجھے زیادہ وقت ہو گیا خطاب کرتے کرتے اور پھر انشاء اللہ شام کے اجلاس میں میں دوبارہ آپ کے سامنے حاضر ہوں گا.اب دُعا کر لیجئے.......آمین

Page 121

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات 112 خطاب ۲۳ جولائی ۱۹۸۸ء اسلام میں عورت کا مقام (جلسہ سالانہ مستورات برطانیہ سے خطاب فرموده ۲۳ / جولائی ۱۹۸۸ء) تشہد ، تعوذ ، سورۃ فاتحہ اور مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی: وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصُّلِحَتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ نَقِيرًا اور فرمایا: (النساء : ۱۲۵) ترجمہ : اور جو لوگ خواہ مرد ہوں یا عورتیں مومن ہونے کی حالت میں نیک کام کریں گے تو جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر کھجور کی گٹھلی کے سوراخ کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا.گزشتہ دوسال سے میں اسلام میں عورت کے مقام کے موضوع پر آپ سے خطاب کر رہا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ امسال انشاء اللہ اس مضمون کو ختم کر دیں گے لیکن مشکل یہ ہے کہ آج کا دن ایک اور تقریر کا بھی دن ہوتا ہے اور اس لئے اس تقریر کو اگر انسان کھینچ کر لمبا کرنا بھی چاہے تو بعد کی تقریر اس کی اجازت نہیں دیتی.بہر حال مختصراً آپ کو یاد کرا تا ہوں کہ گزشتہ سال اس موضوع پر کہ اسلام عورت کو مذہب میں ایک خاص مقام دیتا ہے اور اس سے کوئی نا انصافی نہیں کرتا کسی حد تک میں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا اور جہاں تک مجھے یاد ہے یہ بتایا تھا کہ اگر عورت نبی نہیں بن سکتی تو یہ اس سے نا انصافی نہیں ہے بلکہ اس کی خلقت کے تقاضوں کے پیش نظر ایسا ضروری تھا اور طاقت سے بڑھ کر اس پر بوجھ ڈالنے سے اسے بچایا گیا ہے.اب میں بالعموم عورت اور مذہب کے موضوع پر

Page 122

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۱۸ خطاب ۲۳ جولائی ۱۹۸۸ء مختصراً آپ کے سامنے اسلامی تعلیم رکھتا ہوں لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ دیگر مذاہب میں یعنی اسلام کے سوا جتنے بھی دیگر مذاہب ہیں جہاں تک میں نے اُن پر نظر ڈالی ہے یا تو عورت کے کسی مقام کا ذکر ہی نہیں کرتے اور کلیتہ عورت کے ذکر سے اس طرح گزر جاتے ہیں جیسے اس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے.چنانچہ تاؤ ازم کا مطالعہ کر لیجئے، کنفیوشس ازم کا مطالعہ کر لیجئے شنٹو ازم کا مطالعہ کر لیجئے، بدھ ازم کا مطالعہ کر لیجئے کہیں آپ کو عورت کا کوئی ذکر نہیں ملے گا.بعض ایسے مذاہب ہیں جہاں ذکر ملتا ہے تو اس قدر تذلیل کے ساتھ ، اس قدر قابل شرم طریق پر کہ اگر کوئی باشعور انسان صرف اسی پہلو سے اُس مذہب کو پرکھنا چاہے تو وہ عورت کے متعلق اُس مذہب کی تعلیم کو دیکھ کر مذہب سے بھی متنفر ہو جائے اور خدا کے وجود کا بھی منکر ہو جائے.ہندو ازم ہے.اس وقت کسی مذہب پر حملہ کرنا مقصود نہیں مگر یہ کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ ہندو ازم میں عورت کو جو مقام دیا گیا ہے وہ نہ ہی دیا جاتا، ذکر نہ ہی کیا جاتا تو بہتر تھا.بعض صورتوں میں جانوروں سے بدتر حالت عورت کی مذہبی نقطہ نگاہ سے بیان کی جاتی ہے اور تمام ہندو تاریخ بتاتی ہے کہ مذہبی نقطہ نگاہ سے ایک لمبے عرصے تک اس پر عمل بھی ہوتا رہا.آج ہندوستان کی حکومت کو بار بار بعض ہندو مذہب کی بد رسوم کے خلاف جہاد کرنا پڑ رہا ہے حالانکہ خود بھی وہ ہندوؤں کی سیکولر حکومت ہے اس لئے میں اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ پھر یہ موضوع بہت ہی لمبا ہو جائے گا.صرف اتنا بتانا کافی ہے کہ ہندو مذہب میں عورت کو دید تک پڑھنے کی اجازت نہیں ہے اور کسی قسم کی مذہبی رسوم سوائے مرد کی خدمت کے اور اکیلے بیٹھ کر پوجا پاٹ کرنے کے وہ سرانجام نہیں دے سکتی.جہاں تک بائیبل کا تعلق ہے بائیبل عورت کو مذہب میں دخل اندازی کرنے سے روکتی ہے.( کرنتھیوں باب ۱۴ آیت ۳۴-۳۵) اس کے حوالے بعد میں چھپ جائیں گے مضمون کے ساتھ انجیل میں بھی کلیسا میں عورت کو خاموش رہنے کا حکم ہے اور یہ واضح حکم ہے کہ عورت اگر کلیسا میں کوئی سوال پوچھے یا لوگوں کی موجودگی میں کوئی سوال پوچھے تو اس کے لئے قابل شرم ہے.جہاں تک اسلام کا تعلق ہے اسلام میں عورتوں کو اجتماعی عبادات میں شمولیت کی نہ صرف ممانعت نہیں بلکہ برابر کا حق دیتے ہوئے سہولتیں دی گئی ہیں.یعنی کسی بھی اجتماعی عبادت سے عورت کو روکا تو نہیں گیا لیکن اس کی خلقت کے اعتبار سے اس کے اوپر ایسا بوجھ نہیں ڈالا گیا کہ ہر عبادت میں شمولیت اس پر لازم ہو جائے.مثلاً پانچ وقت مسجد میں جا کر نماز پڑھنا مردوں پر تو لازم ہے جو اس قابل ہوں کہ پہنچ سکیں لیکن عورتوں پر لازم قرار نہیں دیا گیا کیونکہ انہوں نے بچوں کی پرورش کرنی ہوتی ہے اور ایسی ضروریات ہوتی ہیں گھر یلو اور بعض ایسے

Page 123

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات 119 خطاب ۲۳ جولائی ۱۹۸۸ء شرعی عذر پیش آجاتے ہیں کہ ان کیلئے یہ تکلیف مالا بطاق، یعنی طاقت سے بڑھ کر تکلیف ثابت ہوتی لیکن آنحضرت ﷺ کے زمانے میں بکثرت اس بات کے شواہد ملتے ہیں کہ خواتین نہ صرف مسجدوں میں جا کر نمازیں پڑھتی تھیں بلکہ تہجد کے وقت بھی آنحضرت ﷺ کے ساتھ بعض خواتین کا خود آپ کی از وارج مبارکہ کا شامل ہونا ثابت ہے.جہاں تک جہاد کی فرضیت کا تعلق ہے اُس میں بھی بالکل اسی قسم کا سلوک کیا گیا ہے یعنی جہاد میں شمولیت سے عورت کو منع نہیں فرمایا گیا لیکن جہاد میں شمولیت سے اس کو اس رنگ میں مستثنیٰ کر دیا گیا ہے کہ اگر وہ چاہے شوق سے تو بے شک شامل ہو جائے ورنہ اس پر جہاد میں شمولیت ضروری نہیں ہے.آنحضرت ﷺ سے ایک دفعہ حضرت عائشہ صدیقہ نے پوچھا کہ کیا جہاد عورتوں پر فرض نہیں ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں ہے لیکن ان کا جہاد جنگ کا جہاد نہیں ہے بلکہ حج اور عمرہ اور دیگر اس قسم کی نیکیوں میں شمولیت ہی عورت کا جہاد بن جاتا ہے.تو یاد رکھیں کہ جہاد میں شامل ہونا یعنی قتال میں شامل ہونا عورت پر فرض قرار نہیں دیا لیکن اس کا ثواب اس پر لازم کر دیا اور جب کہ ایک مرد حج ادا کرتا ہے تو اسے حج ہی کا ثواب ملتا ہے مگر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا کہ جب عورت حج کرتی ہے یا عمرہ کرتی ہے تو اسے جہاد کا بھی ثواب ملتا ہے.(سنن ابن ماجہ، ابواب المناسک.باب الج جہاد النساء) اس تعلیم میں بھی گہری حکمت ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی کلام بھی گہری حکمت سے خالی نہیں ہوتا تھا.اس موقع پر نماز کو جہاد کا قائم مقام نہیں فرمایا روزہ کو جہاد کا قائمقام نہیں فرمایا بلکہ واضح طور پر حج اور عمرہ کو جہاد کا قائمقام فرمایا ہے اور اس کے لئے جو جد و جہد کرنی پڑتی ہے.عورت کو خود نکل کر حج میں شمولیت کے لئے جانا بذات خود ایک کا بردارد ہے اور عورت کی جو ذمہ داریاں ہیں اور عورت کو جس قسم کے خطرات درپیش ہوتے ہیں سفر میں ظاہر ہے کہ مرد کو ویسے نہیں ہوتے اسلئے خصوصیت کے ساتھ آنحضرت کا حج اور عمرہ کو جہاد کا قائمقام قرار دینا بہت ہی لطیف بات ہے اور اس تعلیم میں آنحضرت نے بعض اور وں کو شامل کر کے اس حکمت پر مزید روشنی ڈال دی.ایک موقع پر فرمایا بوڑھے ، بچے ، کمزور اور عورت کے لئے حج اور عمرہ ہی جہاد ہے.(سنن نسائی کتاب المناسک الحج.باب فضل الحج ) اس مضمون کی حکمت بھی اس سے سمجھ آگئی اور عورت کا جو مقام ہے اس کو بھی مزید عظمت ملی اور تقویت ملی کیونکہ آپ جانتے ہیں بچپن میں جب ہم کھیلا کرتے تھے ، آپ بھی کھیلا کرتی تھیں تو جس کی کچی مٹی ہو اس کو بڑی شرم آیا کرتی تھی اگر کسی بچے کو کہا جائے کہ تم بھی ساتھ کھیلو مگر تم پر فرض نہیں ہے یہ

Page 124

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۲۰ خطاب ۲۳ جولائی ۱۹۸۸ء کام کرنا ہم کچی مٹی ہو تو بچہ کھیلتا تو تھا لیکن دل میں بہت دکھ محسوس کرتا تھا کم سے کم میں ضرور کرتا تھا.اگر صرف عورت کیلئے فرمایا ہوتا کہ حج کرنا تمہارا جہاد ہے تو اسے ضرور کچی مٹی کا احساس رہتا لیکن دیکھئے حضرت رسول کریم کی شان کہ اس کے دل میں اپنی عظمت کا احساس قائم کرنے کیلئے اور بتانے کیلئے کہ تم سے کوئی ثانوی سلوک نہیں ہورہا.مردوں کو بھی اس میں شامل کر دیا کمزوروں اور بیماروں اور بچوں کو بھی شامل کر دیا اور حکمت بیان فرما دی، جن کیلئے حج زیادہ دوبھر ہے ان کیلئے ، یہ وہی لوگ ہیں جو جہاد بھی نہیں کر سکتے.دیکھئے آنحضرت کی باتوں میں کتنی گہری حکمت ہوا کرتی تھی.سرسری نظر سے آپ حدیثوں کو پڑھ کر آگے گزر جائیں.آپ کو پتہ بھی نہیں ہو گا کہ ان کے اندر کیسے خزائن مخفی ہیں.اب دیکھئے بوڑھے پر جہاد فرض نہیں ، بچے کے لئے جہاد فرض نہیں ، کمزور کے لئے جہاد فرض نہیں اور عورت کیلئے جہاد فرض نہیں ایک ہی وجہ سے اور جن جن کے لئے جہاد فرض نہیں ان کے لئے حج کو جہاد کا قائمقام قرار دے دیا.جہاں تک عورت کے معلم اور مربی ہونے کا تعلق ہے اسلام نہ صرف عوررت کو عورتوں کا معلم اور مربی تسلیم کرتا ہے، یہ حق دیتا ہے اور یہ مقام دیتا ہے کہ وہ عورتوں ، مردوں کی تعلیم کر سکتی ہے اور ان کی تربیت کرسکتی ہے بلکہ عورت کو صرف گھر میں ہی اپنے بچوں کی مربی نہیں بلکہ باہر کی دنیا کے مردوں کا بھی مربی اور معلم بننے کا حق دیتا ہے اور یہ وہ حق ہے جو آج تک عیسائی مذہب کے تمام فرقوں کے چرچوں نے عورت کو نہیں دیا اور جہاں دیا جاتا ہے وہاں بخشیں چھڑ جاتی ہیں کہ نیا مذہب بنارہے ہو، عیسائیت میں دخل اندازی کر رہے ہو.کئی عیسائی جو زیادہ کٹر ہیں یا قدامت پسند ہیں وہ ان فرقوں کو چھوڑ کر بغاوت کر جاتے ہیں کہ جہاں عورت کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ مذہب سکھائے یا تعلیم دے باہر نکل کر مردوں کو ، ہم ایسے مذہب سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے لیکن ۱۴۰۰ سو سال قبل آنحضرت نے عورت کو نہ صرف یہ حق دیا بلکہ حضرت عائشہ صدیقہ آپ کی زوجہ محترمہ نے آپ کی زندگی میں بھی مردوں کو مسائل سکھائے اور آپ کے وصال کے بعد تو اتنا دین سکھایا کہ تمام اہل السنت والجماعت کے فقہاء متفق ہیں کہ ہم نے آدھا دین عائشہ سے سیکھا ہے.اس کثرت سے دینی روایات اور علمی روایات حضرت عائشہ کی ملتی ہیں اور ان روایات میں اتنی روشنی ہے کہ باقی روایات سے وہ ممتاز ہیں.حضرت عائشہ صدیقہ کی روایات میں آگے چل کر کچھ شاید مثالیں آئیں یہاں سامنے.آپ حیران ہوں گی کہ مردوں کی ، عام مردوں کی ، عام صحابہ کی روایات کے مقابل پر بہت زیادہ روشنی اور جلا ہے

Page 125

حضرت خلیلہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۲۱ خطاب ۲۳ جولائی ۱۹۸۸ء اور بعض دفعہ تو صاف پہچانی جاتی ہیں کہ یہ روایت حضرت عائشہ صدیقہ کی ہو گی.تمام زوائد اور ایسے جن سے غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہوں وہ آپ کی روایات میں شاذ کے طور پر ملیں گے اور ہوسکتا ہے وہ بعد میں کسی روایت کرنے والے نے بیچ میں شامل کر دیئے ہوں.ورنہ آپ کی روایتیں بالکل صاف شفاف روشن اور ہر قسم کے شک سے پاک ہیں.تو عورت کو تو مرد کا بھی معلم بنایا گیا ہے اور دین میں معلم بنایا گیا اور آنحضرت اور تمام بنی نوع انسان کے درمیان میں واسطہ بنا دیا گیا اور قیامت تک کیلئے واسطہ بنا دیا گیا.جہاں تک عام دنوں میں ، عام عبادتوں میں عورت کی شمولیت کا تعلق ہے میں بیان کر چکا ہوں کہ اس میں فرضیت نہیں ہے لیکن فقہاء یہ بیان کرتے ہیں کہ عید کی نما ز عورت کے لئے بھی فرض ہے اُس میں ضرور شامل ہونا ہے شاید اس لئے کہ عید میں بچے بھی تیار ہو کر ساتھ چلتے ہیں اور بلکہ بچوں کو اچھے کپڑے پہنے کی وجہ سے زیادہ شوق ہوتا ہے باہر نکلنے کا تو ماؤں پر فرض کر دیا کہ بچوں کو اکیلا نہ چھوڑیں.ساتھ لے کر نکلیں صرف ایک ہی نماز ہے جوان پر فرض ہے جو عید کی نماز ہے.جہاں تک سوالات کا تعلق ہے حضرت عائشہ صدیقہ یہ فرماتی ہیں کہ انصار کی عورتیں دیکھو کتنی اچھی ہیں.مجھے بہت ہی پیاری لگتی ہیں کیونکہ وہ مہاجر عورتوں کی طرح مسائل پوچھنے میں شرم محسوس نہیں کرتیں اور بے تکلف حضور ا کرم کی خدمت میں حاضر ہو کر ایسے مسائل پوچھ لیتی ہیں جو مہاجر عورتیں پوچھتے شرمائیں اور اس سے وہ دنیا کی تعلیم کا سبب بن رہی ہیں.چنانچہ روایتوں میں آتا ہے کہ بعض انصار عورتیں بے تکلفی سے تمام اندرونی مسائل عورتوں کی ذات سے تعلق رکھنے والے پوچھا کرتی تھیں اور یہ انہی کی وجہ ہے کہ آج خدا تعالیٰ کے فضل سے ان امور میں ہم آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایات کا فیض پارہے ہیں.جب عورتوں کی باتیں آنحضرت کے دربار میں جا پاتی تھیں اور بے تکلف جا پاتی تھیں تو شاید اسی کی برکت ہے کہ خدا کے دربار میں بھی ان کی باتیں بے تکلف جاپا جاتی تھیں اور قرآن کریم میں ایک عورت کی شکایت کا ذکر ہے جو اپنے خاوند کے خلاف شکایت کرتی ہے اور کسی مرد کسی انسان سے شکایت نہیں کرتی بلکہ راتوں کو اُٹھ کر اپنے رب سے شکایت کرتی.قرآن کریم میں فرمایا: قَدْ سَمِعَ اللهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِنَّ إِلَى اللَّهِ کہ خدا تعالیٰ نے اس عورت کا قول سن لیا ہے جو تجھ سے خاوند کے مقابل پر اپنے حقوق کے

Page 126

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کےمستورات سے خطابات ۱۲۲ خطاب ۲۳ جولائی ۱۹۸۸ء معاملہ میں بحثیں کرتی ہے مگر شکایتیں تجھ سے نہیں کرتی ، شکایتیں اپنے رب سے کرتی ہے وَاللهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا إِنَّ اللهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ (المجادلہ:۲) اور اللہ تمہاری گفت و شنید کو خوب سنتا ہے، جانتا ہے کہ کیا گفتگو چلی اور وہ خوب سننے والا ، اور خوب جاننے والا ہے.پس اس عورت کی وہ شکایت جو رات کو اس نے اپنے رب سے کی وہ خدا نے سنی ، اس کو قبول فرمایا اور آنحضرت کو اس کے متعلق نصیحت فرمائی اور ہمیشہ کے لئے قرآن میں یہ پیغام دے دیا کہ اگر تم اپنے خاوندوں سے نالاں ہو، تمہیں ان سے شکوے ہوں ،ضرور قضاء میں پہنچو اور اپنے حقوق لینے کی کوشش کرو لیکن قضاء پر بناء نہ کرو.تمہارا ایک خدا ہے جو مردوں سے کم تمہارا خدا نہیں وہ تمہارے لئے اسی طرح غیرت رکھتا ہے اور تمہاری تکلیف کا اسی طرح احساس رکھتا ہے جس طرح مردوں کی تکلیف کا احساس رکھتا ہے پس وہ کچھ جو قضاء تمہارے لئے نہیں کر سکے گی وہ خدا تمہارے لئے کرے گا اگر تم خدا سے دعائیں مانگو اور خدا سے التجائیں کرو.آخر پر ایک مثال میں رکھتا ہوں.روایات تو بے شمار ہیں اور اس مضمون پر جب آپ احادیث کا مطالعہ کریں گی تو آپ دیکھ کر حیران ہوں گی کہ کس قد ر عورت کو عظمت اور عظیم مقام عطاء فرمایا گیا ہے لیکن قرآن کریم کی ایک آیت آپ کے سامنے رکھتا ہوں جس میں عورت کو ایک ایسا مقام عطاء فرمایا گیا ہے جو تمام دنیا کے مذاہب میں نہ صرف بے مثل بلکہ اس طرح درخشندہ اور چمکتا ہوا ہے کہ اس کے پاسنگ کو بھی کسی اور مذہب کی تعلیم نہیں پہنچتی.فرمایا: وَضَرَبَ اللهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِنِي مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَنَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيْهِ مِنْ رُّوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقَنِتِينَ (التحریم:۱۳،۱۲)

Page 127

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۲۳ خطاب ۲۳ جولائی ۱۹۸۸ء فرمایا وہ تمام لوگ جو ایمان لے آئے یعنی حضور ا کرم کے غلاموں کا ذکر ہے اور مردوں کا ذکر ہے خصوصیت کے ساتھ.وہ تمام لوگ ، یعنی خواہ وہ مرد ہوں یا عورت، جوایمان لے آئے ان کیلئے خدا تعالی فرعون کی بیوی کی مثال رکھ رہا ہے.جس کا مطلب ہے کہ فرعون کی بیوی کو جو ایک عورت تھی آئندہ آنے والے مردوں کے لئے بھی Model بنا رہا ہے اور آئندہ آنے والی عورتوں کے لئے بھی Model بنا رہا ہے اس لئے کوئی یہ کہے کہ عورت مرد کے لئے Model نہیں ہو سکتی تو قرآن کی یہ آیت اس کو جھٹلائے گی.بہت سی نیکیوں میں عورت نہ صرف Model ہوسکتی ہے بلکہ ایک ایسی خاص نیکی کا ذکر ہے جس میں خدا تعالیٰ نے تمام کائنات پر تمام عالم پر نظر ڈال کے عورت کو مثال کے لئے چنا ہے اور ایک ایسی عورت کو چنا ہے جو نبی اللہ نہیں تھی.ورنہ سارا قرآن نبیوں کی مثالوں سے بھرا پڑا ہے اور نبیوں سے بہتر مثالیں اور کیا ہو سکتی ہیں لیکن دو موضوع ایسے ہیں جن پر عورت کو مثال کے طور پر چنا گیا اور ہمیشہ کے لئے بنی نوع انسان کے لے ماڈل اور نمونہ بنا دیا گیا.ان میں سے ایک فرعون کی بیوی تھی.فرمایا اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجْنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ (التحریم:۱۲) کہ اے میرے رب ! میرے لئے اپنے پاس جنت میں گھر بنانا وَ نَجْنِي مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہ اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے نجات بخش وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ اور ظالموں کی قوم سے مجھے نجات عطا فرما.اس میں کیا ماڈل ہے اور مردوں کے لئے کیا نصیحت ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ جہاں تک عورت کا خاوند سے رشتہ ہے خصوصیت کے ساتھ قدیم زمانوں میں یہ رشتہ ایسا تھا کہ عورت کلیتہ اپنے خاوند کے تابع مرضی اور مغلوب ہوا کرتی تھی.پھر خاوند اگر بادشاہ ہو اس کو اور بھی زیادہ رعب اور ہیبت پیدا ہو جاتی تھی.عام خاوند سے بھی اس زمانہ میں انکار کی مجال نہیں تھی اور عورت کلیۂ خاوند کے تابع ہوا کرتی تھی لیکن خاوند وہ بھی پھر بادشاہ ، اور بادشاہ بھی وہ فرعون جس کی ہیبت اور جبروت کے قصے قرآن کریم میں بھی محفوظ ہیں اور تاریخ میں بھی محفوظ ہیں.سخت ظالم اور خدا کا دشمن اور اپنے آپ کو خدا کہنے والا ، اس سے زیادہ کسی کے ایمان کو خطرہ پیش نہیں آ سکتا جیسا فرعون کی بیوی کو

Page 128

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۲۴ خطاب ۲۳ جولائی ۱۹۸۸ء تھا.اس نے نہ صرف یہ کہ اپنے ایمان کی ان انتہائی مخالفانہ حالات میں حفاظت کی بلکہ اس حفاظت کا طریق بھی خدا تعالیٰ نے بتادیا کہ کیسے حفاظت کی.فرمایا وہ اس طرح دعائیں کیا کرتی تھی اور ظالم کے ظلم سے تم نہیں بچ سکتے جب تک خدا کے سہارے نہ مانگو خدا کی طرف اپنی مدد اور التجا کے ہاتھ نہ بڑھاؤ.پس فرعون سے مثال پکڑو خواہ کتنے ہی بڑے ظلم ہوں کیسا ہی بڑا ظالم اور جابر بادشاہ یا آمرتم پر مسلط ہو ، ادنی تقاضا تم سے یہ ہے کہ کم سے کم فرعون کی بیوی تو بن کے دکھاؤ.اس سے بڑھ کر تم پر کیا ابتلاء آ سکتا ہے.جس طریق سے جس حکمت سے اس نے اپنے ایمان کی حفاظت کی ہے اس طریق کو تم بھی اختیار کرو.تم بھی اپنے خدا سے دعائیں مانگو کیونکہ وہ ہر جابر اور ہر غالب اور ہر آمر سے بڑھ کر طاقتور ہے اور تمہیں خواہ کیسی بھی مظلوم اور کمزور کیوں نہ ہو، ہر ظالم کے ظلم سے نجات بخش سکتا ہے.پھر ایک اور مثال دی.ایک ادنی پہلو کی مثال ہے، ایک نہایت ہی اعلیٰ پہلو کی مثال ہے.ادنی پہلو کی مثال، مثال کے ادنیٰ ہونے کے لحاظ سے نہیں بلکہ ایمان کی حفاظت کے کم سے کم تقاضوں کے لحاظ سے، میں اسے ادنی کہہ رہا ہوں ورنہ اپنے مضمون میں اس سے بہتر کوئی اور مثال پیش نہیں کی جاسکتی.دوسری مثال ہے ایک اور عظیم الشان روحانی مضمون اس میں بیان ہوا.فرمایا: وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَنَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا (التحريم:۱۳) اور مریم بنت عمران کو دیکھو کہ اس نے کیسی اپنی عصمت کی حفاظت کی فَنَفَخْنَا فِيْهِ مِنْ روحِنَا ہم نے اس میں خود اپنی روح پھونکی.یادرکھئے یہاں فیہ کا لفظ استعمال ہوا ہے فِيهَا کا نہیں.یعنی ہم نے مریم میں روح پھونکی یہ نہیں فرمایا.فرمایا اُس میں روح پھونکی مرد کی طرف اشارہ ہے.بعض مفسرین اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ فیہ سے مراد وہ بچہ ہے جو مریم کے پیٹ میں تھا.لیکن دوسری جگہ اسی مضمون کو فیها کہہ کر بھی بیان فرمایا گیا ہے کہ ہم نے اس مریم میں اپنی روح پھونکی ، اُس عورت میں اپنی روح پھونکی.تو یہاں فرق کیوں ہے؟ فرق اس لئے ہے کہ یہاں مومنوں کی مثال دی گئی ہے اور مریم کی بات کرتے کرتے مومن کو ضمیر کا مرجع بنا دیا گیا کہ وہ مومن جو مریم کی شان اختیار کر لیتا ہے اس لئے کہ وہ مریمی شان رکھتا ہے، اس میں ہم اپنی روح پھونکتے ہیں.تو ہر وہ مومن جو اپنے نفس کی حفاظت کرتے ہوئے ایک ایسی پاکیزگی اختیار کر جاتا ہے کہ خدا کے پیار کی نظر اس پاکیزگی پہ پڑتی ہے اس سے جو اسے روحانی اولا د نصیب ہوتی ہے.اس میں جو روح پھونکی جاتی ہے وہ مریم کی مثال کی متابعت کرنے کے طفیل ملتی ہے.چنانچہ فرمایا :

Page 129

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۲۵ خطاب ۲۳ جولائی ۱۹۸۸ء وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَتِ رَبَّهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقَنِتِينَ اس نے خدا تعالیٰ کے کلمات کی تصدیق کی اور اس کی کتب کی تصدیق کی وَكَانَتْ مِنَ القنتين اور وہ بہت ہی دعائیں کرنے والی ، بہت ہی عاجزی اختیار کرنے والی عورت تھی.حضرت اقدس مسیح موعود نے اس مضمون کو اپنی ذات کے اوپر صادق کر کے دکھایا، اطلاق کر کے دکھایا.آپ نے لکھا کہ مجھ پر ایک حالت تھی جو میں مریم کی طرح تھا اور پھر اس مریمی حالت سے میرے اندر سے عیسی کا بچہ پیدا ہوا اور میں ابن مریم بن گیا.اس مضمون کو نہ سمجھنے کے نتیجہ میں مختلف مخالف علماء نے حضرت مسیح موعود کو سخت تضحیک کا نشانہ بنایا.بہت بڑھ بڑھ کے باتیں کیں اور بعض بڑے بڑے گندے فقرے چست کئے کہ اچھا جب آپ مریم تھیں تو کیا ہوا تھا، کس طرح آپ کی یہ کیفیت ہوئی تھی ، کس طرح وہ کیفیت طاری ہوئی ، بچہ پھر کس طرح پیدا ہوا اور یہ اور وہ ، نہایت بے ہودہ اور سفاکانہ اور ظالمانہ باتیں انہوں نے کیں اسلئے کہ قرآن کریم پر ان کی نظر نہیں تھی.ایک دفعہ ایک مولوی صاحب کراچی کے وفد کے ساتھ ربوہ تشریف لائے ہوئے تھے سوال و جواب کی مجلس جب میں لگایا کرتا تھا ، پرانی بات ہے، وہاں کراچی کے کوئی، میرا خیال ہے، ڈیڑھ دو ڈھائی سو کے قریب غیر احمدی لوگ تھے بہت بڑا قافلہ تھا.جب مولوی صاحب نے دیکھا کہ ان پر اثر ہورہا ہے تو اُس نے یہی شرارت شروع کر دی کہ اچھا مرزا صاحب باقی باتیں چھوڑیں مجھے یہ تو بتائیں کہ مرزا صاحب جو جماعت احمدیہ کے بانی ہیں وہ جب مریم بنے تھے تو کس طرح بنے تھے، عورتوں والی کیا باتیں ان میں پیدا ہوئی تھیں اور پھر بچہ کس طرح پیدا ہوا تھا ذرا وہ قصہ سنائیے.میں نے کہا مولوی صاحب مجھے بڑا افسوس ہوا ہے آپ کو دیکھ کر کہ آپ کو قرآن کا ہی علم نہیں اور آپ اعتراض کر رہے ہیں.کیا آپ نے سورۃ تحریم کی یہ آیتیں نہیں پڑھیں، کیا آپ کا ایمان نہیں ہے قرآن کریم پر، قرآن کریم نے آپ کو اختیار نہیں دیا، قرآن کریم نے لازم کر دیا ہے کہ اگر تم مومن ہو تو ان دو عورتوں کی مثالیں پکڑنا لازم ہے.پس اگر آپ مریم نہیں بن سکتے تو فرعون کی بیوی تو بن کے دکھائیں.اگر آپ فرعون کی بیوی بنیں گے تو میں آپ سے پوچھوں گا کہ آپ کے فرعون کے ساتھ کیسے تعلقات تھے اور کیا کیا ماجرا گزرا.پھر آپ کیا جواب دیں گے.آپ کے لئے راہ فرار نہیں رہے گی سوائے اس کے کہ کہیں کہ میں مؤمن نہیں ہوں.ورنہ لازماً آپ کو حضرت مسیح موعود پر جو حملے کئے ہیں وہ واپس لینے پڑیں گے.چنانچہ جب میں نے یہ بات بیان کی تو انہوں نے بار بار کہا کہ بس کریں کافی ہو گئی ہے میرے

Page 130

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات خطاب ۲۳ جولائی ۱۹۸۸ء ساتھ اور اب لوگوں کے سامنے مجھے رسوا نہ کریں.امر واقعہ یہ ہے کہ قرآن کے فہم کی کمی یا کلیہ لاعلمی کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے پاک بندوں پر اعتراض ہوتے ہیں اور حضرت مسیح موعود کو بھی اسی اعتراض کا نشانہ بنایا گیا تھا لیکن بتانا اس وقت یہ مقصود ہے کہ آج دنیا میں جو حضرت مسیح موعود کی شکل میں مسیحیت دوبارہ پیدا ہوئی ہے تو اس میں بھی ایک عورت کا احسان ہے، مریم کا احسان ہے.اور مریمی حالت دوبارہ پیدا ہوئی تب مسیح پیدا ہوئے.کتنا عظیم الشان مقام ہے جو عورت کو دیا گیا ہے لیکن لوگ کہتے ہیں کہ جی اسلام میں عورت کا کوئی مقام نہیں.کوئی منصب نہیں محض لاعلمی اور جہالت ہے.جہاں تک دیگر علوم کا تعلق ہے اب میں کچھ تفصیلی طو پر قرآن کی تعلیم آپ کے سامنے رکھتا ہوں عورت کی مختلف حیثیتوں کے لحاظ سے.میرا پہلے تو یہ ارادہ تھا کہ دنیا کے اکثر بڑے بڑے مذاہب اور معاشروں اور تہذیبوں سے مثالیں لے کر موازنہ کر کے دکھاؤں.کچھ اپنے خیالات کا اظہار کرنا پڑتا ہے.تو سوائے اس کے کہ اشارۃ بعض جگہ میں ذکر کروں میں زیادہ تر محض اسلامی تعلیم کے بیان پر ہی اکتفا کروں گا.عورت بحیثیت بیٹی اس مضمون پر بھی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آپ نگاہ دوڑائیں اور باقی مذاہب کو دیکھیں وہی تین باتیں یہاں بھی دکھائی دیں گی.یا تو کوئی ذکر ہی نہیں ملے گا بیٹی کا جیسے بیٹی ہوتی ہی نہیں.یا ذکر ملے گا تو حقوق کی تلفی کے لحاظ سے.گائے بھینس ، بھیڑ ، بکری کی طرح بیٹی کا ذکر ہوگا اور یا تیسری بات میں نے کیا کہی تھی وہ یاد نہیں رہی.بہر حال وہ تینوں باتیں جو میں نے شروع میں بیان کی تھی ان کا اطلاق یہاں بھی ہوگا.فرمایا: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَيْكُمْ عُقُوقَ الْأُمَّهَاتِ وَ مَنْعَاوَهاتِ وَ وَأْ دَالْبَنَاتِ (صحیح البخاری کتاب الادب باب عقوق الوالدین) اللہ تعالیٰ تم پر ماؤں کی نافرمانی، ادائیگی حقوق سے ہاتھ روکنا اور مال بٹورنا اور لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا حرام کر دیا ہے.جہاں تک لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کو حرام قرار دینا ہے قرآن کریم میں واضح تعلیم موجود ہے، اسی کی تشریح ہے.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ پرانے وقتوں میں اور آج بھی بعض علاقوں میں ،افریقہ میں بھی اور بعض اور پسماندہ علاقوں میں جہاں ابھی تک نئی دنیا کی روشنی پوری طرح نہیں پہنچی.عورت سے یہی سلوک ہو رہا ہے.عورت کو ماں باپ کی ایسی کلیہ ملکیت سمجھا جاتا ہے کہ وہ جو کچھ اس سے کر

Page 131

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۲۷ خطاب ۲۳ جولائی ۱۹۸۸ء گزریں کوئی قانون اس میں دخل نہیں دے سکتا اسی لئے یہ تعلیم محض پرانے زمانہ کی بات نہیں رہی.آج بھی اس کا اطلاق ہو رہا ہے اور آج بھی اس کی ضرورت ہے.حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول کریم نے فرمایا کہ جس کی تین بیٹیاں ہوں اور ان کی پرورش اچھی طرح کرے، ان کے ساتھ حسن سلوک کرے تو اس کے لئے جنت ہوگی.( سنن ابو داؤد کتاب الادب) میں یہ روایت ہے.پھر ایک اور اسی مضمون کی روایت ہے.دوسری روایت ( سنن ترمندی) سے ہے جس میں یہ ذکر ہے ابو سعید خدری سے روایت ہے.کہ آپ نے فرمایا کہ جس کی تین بیٹیاں ہوئیں یا تین بہنیں اور وہ ان سے حسن سلوک کرتا ہے وہ جنت میں داخل ہوتا ہے.(سنن ترمذی ابواب البر والصلة ، باب ما جاء فی النفقات على البنات والاخوات ) ایک اور روایت میں دو بیٹیوں اور دو بہنوں کا ذکر ہے اس مضمون پر مجھے کچھ تھوڑا سا تر در اس بات میں تھا کہ تین بیٹیوں کی تربیت میں تو ثواب ہو اور چار میں نہ ہو ، پانچ میں نہ ہو.یہ عجیب سی بات ہے اور لازماً روایت سننے والے کو کوئی غلطی لگی ہے.بعض دفعہ روایت اس لئے تبدیل ہو جاتی ہے کہ مثلاً جس عورت کو مد نظر رکھتے ہوئے آنحضور ﷺ نے فرمایا ہو اس کی تین بیٹیاں ہوں.جب آپ نے فرمایا تم نے تینوں بیٹیوں کی اچھی تربیت کی ہے تم جنت میں جاؤ گے تو سننے والے نے یہ سمجھا کہ تین ہی ہوں گی تو جنت میں جائے گا چوتھی پڑی تو جت گئی.یہ درست نہیں ہے.ایک موقع پر یہ روایت ملتی ہے کہ ایک عورت کی دو بیٹیاں تھیں اس نے ان سے انصاف اور پیار کا سلوک کیا تو اس کے متعلق بھی رسول کریم نے خوشخبری دی چنانچہ دو بیٹیوں کی روایت بھی جو پیدا ہوئی وہ اسی وجہ سے پیدا ہوئی.لیکن حضرت عائشہ کی روایت سنیں اور وہی بات جو میں نے آپ سے بیان کی تھی.اب دیکھیں پر کھ کر کہ کتنی نمایاں طور پر حضرت عائشہ صدیقہ کی روایات میں روشنی ملتی ہے اور کوئی ابہام دکھائی نہیں دیتا.آپ نے یہ فرمایا کہ میں نے رسول اکرم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کو لڑکیوں کے ذریعے آزمائش میں ڈالے، اور وہ اس سے بہتر سلوک کرے ، وہ اس کیلئے جہنم سے بچاؤ کا ذریعہ ہوں گی.( بخاری کتاب الادب ) تو یہاں وہ تعداد آپ نے ذکر نہیں فرمائی.فرمایا رسول اکرم کا ارشاد اتنا ہی ہے دراصل، کہ کوئی شخص بھی جس کو لڑکیوں کے ذریعہ خدا تعالیٰ آزمائش میں ڈالے.اب یہ فقرہ سننے کے لائق ہے یہ مرادنہیں ہے کہ ہر شخص جس کی بیٹیاں ہوں گی وہ جنت میں چلا جائے گا.مراد یہ ہے کہ بیٹیوں کے ذریعہ آزمائش میں ڈالا گیا ہو.دو طرح کی آزمائشیں

Page 132

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۲۸ خطاب ۲۳ جولائی ۱۹۸۸ء ہیں.بعض معاشروں میں عورت کو نعوذ باللہ من ذلک اتنا حقیر سمجھا جاتا ہے کہ جب کسی کے بیٹیاں پیدا ہوں تو وہ شرم سے منہ چھپاتا پھرتا ہے اور قرآن کریم میں بھی اس کا ذکر فرمایا.ایسا شخص آزمائش میں ڈالا گیا.اگر وہ خدا کی رضا کی خاطر دنیا کی تذلیل کی کچھ بھی پرواہ نہ کرے اور ہمت اور حوصلہ دکھائے اور ان کی تربیت میں اور ان سے حسن سلوک میں کمی نہ کرے تو وہ یقینا جنت کا مستحق ہوگا کیونکہ اس کے حسن سلوک میں باپ اور بیٹی کی محبت کارفرما نہیں بلکہ خدا کی محبت کارفرما ہے.اسی طرح اور کئی قسم کی آزمائشیں ہیں جو بیٹیوں کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں.تو حضرت عائشہ صدیقہ نے نہ صرف یہ الجھن دور کر دی کہ تین بیٹیوں کا کیوں ذکر ملتا ہے اور دو بیٹیوں کا کیوں ذکر ملتا ہے بلکہ یہ بھی بیان کر دیا کہ اس میں نیکی ہے کیا؟ جہاں تک عورت کے بیاہ شادی کے اختیار کا تعلق ہے.اسلام دنیا میں وہ واحد مذہب ہے جس نے اس اختیار کو نہ صرف قائم فرمایا بلکہ آج سے چودہ سوسال پہلے قائم فرمایا جبکہ ساری دنیا کے معاشروں میں سوائے اُن معاشروں کے جہاں عورت تاریخی طور پر ویسے ہی غالب تھی باقی تمام معاشروں میں آپ کو کنواری بچیوں کے اس اختیار کا کوئی ذکر نہیں ملتا کہ وہ اپنے خاوند کے چناؤ میں خود فیصلہ کر سکیں.صرف اسلام ہے جس نے عورت کے اس حق کو قائم فرمایا اور اس زمانہ میں قائم فرمایا جب که عورت کے ساتھ ایسا ظالمانہ سلوک ہوتا تھا.کہ زندہ درگور بھی کر دی جاتی تھی.حضرت ابن عباس سے روایت ہے.آپ بیان کرتے ہیں اَنْ جَارِيَةً بِكُراً أَتَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَتْ أَنَّ آبَاهَا زَوْجَهَا وَهِيَ كَارِهَةٌ فَخَيَّرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم.(ابوداؤد.باب فی البکریز وجھا ابوها ولا ئیستا ئمرها ) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک کنواری لڑکی آنحضرت ﷺ کے پاس آئی اور بیان کیا کہ اس کے والد نے اس کا نکاح کر دیا ہے اور یہ اس نکاح کو پسند نہیں کرتی.آنحضرت علی نے اختیار دیا کہ چاہے تو نکاح کو قائم رکھ، چاہے تو نہ رکھ.ایک اور بڑی دلچسپ روایت ملتی ہے کہ ایک صاحب نے اپنی لڑکی کا نکاح ایک مالدار شخص سے کر دیا جس کو لڑ کی نا پسند کرتی تھی.وہ آنحضور ﷺ کی خدمت میں شکایت لے کر حاضر ہوئی اور کہا کہ یا رسول اللہ ! ایک تو مجھے آدمی پسند نہیں دوسرے میرے باپ کو دیکھیں کہ مال کی خاطر نکاح کر رہا

Page 133

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۲۹ خطاب ۲۳ جولائی ۱۹۸۸ء ہے میں تو بالکل پسند نہیں کرتی.بہت ہی کوئی نفیس اور پاک طبیعت کی بیٹی تھی.رسول کریم ﷺ نے فرمایا تو آزاد ہے.کوئی تجھ پر جبر نہیں ہو سکتا جو چاہے کرو.اس کی نفاست طبع دیکھیں.عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں اپنے باپ کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتی اس سے بھی میراتعلق ہے.میں تو اس لئے حاضر ہوئی تھی کہ ہمیشہ کیلئے عورت کا حق قائم کر کے دکھاؤں تا کہ دنیا پر یہ ثابت ہو کہ کوئی باپ اپنی بیٹی کو اس کی مرضی کے خلاف رخصت نہیں کر سکتا.اب جب آپ نے حق قائم فرما دیا تو خواہ مجھے تکلیف پہنچے، میں باپ کی خاطر اس قربانی کیلئے تیار ہوں.(مسند احمد جلد ۲ ص ۱۳۶.ابن ماجہ ابواب النکاح باب من زوج ابنتہ وہی کا رھتہ ) چنانچہ ایک اور روایت ہے بخاری میں (بخاری کتاب النکاح) جس سے پتہ چلا کہ آنحضرت علی نے اصولاً بھی عورت کو خواہ وہ بیوہ ہو یا مطلقہ ہو یا دوشیزہ ہو نکاح کے متعلق یہ اختیار دیا کہ اس کی اجازت کے بغیر اس کا کوئی نکاح کہیں نہیں کروایا جا سکتا.خصوصیت کے ساتھ یتامی کے متعلق آپ نے فرمایا: لا تَنْكِحُوا الْيَتَامَى حَتَّى تَسْتَأْ مِرُوهُنَّ.(دار قطنی - کتاب النکاح) یتیم لڑکیوں کے متعلق خاص طور پر خیال رکھنا کہ ان کے نکاح ان کی مرضی کے بغیر نہ کرنا.آنحضرت ﷺ اس حق کو اس شدت سے نافذ کروانا چاہتے تھے کہ خود بھی باوجود اس کے کہ ما مور تھے.اگر کسی کو حکم دینا چاہتے تو دے سکتے تھے لیکن آپ اس سے احتراز فرماتے تھے بلکہ ایک موقعہ پر ایک خاتون نے واضح طور پر یہ وضاحت کروائی کہ "یا رسول اللہ احکم دے رہے ہیں یا مشورہ ہے.چنانچہ وہ روایت بڑی دلچسپ ہے.ایک لڑکی کا نکاح جبکہ وہ ابھی غلام تھی ایک شخص مغیث ہوا.اب مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئی لونڈی آزاد ہو جائے تو اس کا حق ہے پھر کہ غلامی کی حالت کی کی ہوئی شادی کو قائم رکھے یا توڑ دے.اب بریرہ کو یہ حق مل گیا وہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی کہ یا رسول اللہ! میرا حق دلوائیے اب.آپ نے فرمایا ٹھیک ہے.مغیث کو کہا کہ اس کو چھوڑ دو.اس کو اتنی محبت تھی کہ وہ بے اختیار رونے لگا اور گریہ وزاری کرنے لگا اور رسول اللہ ﷺ سے التجا کی ، پیچھے پیچھے دوڑا ، روتا ہوا پیچھے پیچھے دوڑا بریرہ کے، کہ آجاؤ میرے پاس واپس، میں نہیں رہ سکتا تمہارے بغیر.رسول اللہ ﷺ کو یہ منظر دیکھ کر اس پر اتنا رحم آیا کہ آپ نے بریرہ سے کہا کہ بریرہ خدا سے ڈرو.وہ کل

Page 134

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۳۰ خطاب ۲۳ جولائی ۱۹۸۸ء تک تمہارا شوہر تھا.اس سے تمہیں اولاد ہو چکی ہے اس لئے کچھ دل میں رحم کھاؤ.کچھ اس پر رحم کرو.بریرہ نے پلٹ کر یہ عرض کیا انا مُرُونِي بِذلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! ( بخاری کتاب الطلاق.باب شفاعة النبي في زوج بريرة + ابوداؤد کتاب الطلاق ) آپ مجھے حکم دے رہے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہیں میں شفاعت کر رہا ہوں.مگر اُس نے رسول اکرم کی شفاعت کا انکار کر دیا.لیکن عورت کا حق ضرور آنحضور ﷺ نے ہمیشہ کے لئے قائم کر دیا اور یہ مثال قائم کر دی کہ خدا نے جو حقوق دیئے ہیں ان میں رسول بھی کبھی دخل نہیں دے گا.کون ہے دنیا میں جو اس اسلام کے ہوتے ہوئے عورت کو کسی حق سے محروم کر سکتا ہے؟ عورت بحیثیت ماں یہ ایک ایسا عظیم الشان مقام ہے جو قرآن کریم اور آنحضرت کی احادیث ، آپ کے ارشادات عورت کو دیتے ہیں کہ پھر آپ نظر دوڑا کر دیکھئے سارے دنیا کے افق پر ، آپ کو عشر عشیر بھی اس تعلیم کا کسی اور مذہب کسی اور معاشرے میں دکھائی نہیں دے گا.ماں کے لحاظ سے عورت کو قرآن کریم نے اس بلند مقام پر پہنچا دیا ہے کہ عقل دنگ رہتی ہے.عورت کو ماں کے لحاظ سے دیکھتے ہوئے پگڑی ہلتی ہے ، جیسے محاورے میں کہا جاتا ہے.قرآن کریم میں ماں اور باپ دونوں کے مقام اور منصب کو ایک بہت ہی بلند مرتبہ عطا فرمایا، لیکن جوں جوں آپ آگے بڑھیں گے آپ کو معلوم ہوگا کہ عورت کا خصوصیت کے ساتھ قرآن کریم میں اس طرح ذکر ملتا ہے کہ باپ کے حق کا اس طرح خصوصیت سے ذکر نہیں ملتا.اور احادیث نبویہ میں بھی ماں اور باپ دونوں کے حقوق کی باتیں کرتے کرتے پھر ایک مقام ایسا آتا ہے جہاں عورت تنہا رہ جاتی ہے اس مقام میں ، اور باپ کا پھر وہاں ذکر ملنا بند ہو جاتا ہے.قرآن کریم فرماتا ہے: وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلْهُمَا فَلَا تَقُلُ نَّهُمَا أُفِّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيْنِي صَغِيرات (بنی اسرائیل : ۲۴-۲۵)

Page 135

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۳۱ خطاب ۲۳ جولائی ۱۹۸۸ء ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ جب تمہارے والدین میں سے کوئی ایک یا دونوں ہی بڑھاپے کو پہنچ جائیں فَلَا تَقُل لَّهُمَا اُف تو ان کو اُف تک نہیں کہنا.وَلَا تَنْهَرْهُمَا اور ڈانٹنے کا تو سوال ہی کوئی نہیں.یہاں ان کو ڈانٹنا نہیں غلط ترجمہ ہوگا کیونکہ جب اُف نہیں کہنے دیا تو ڈانٹنے کا پھر 66 کیا سوال ہے.تو محاورہ اس کا ترجمہ یہ ہو گا ” اُن کو اُف تک نہیں کہنا.ڈانٹنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں.“ وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا بلکہ ان سے تم تکریم کی بات کیا کرو.قول کریم کہتے ہیں بہت ہی ملاطفت اور نرمی اور احسان کا قول.اس لئے فرمایا کہ صرف منفی تعلیم نہیں ہے کہ تم نے اُف نہیں کہنا اور تمہارا حق ادا ہو گیا بلکہ جب بھی بات کرنی ہے نہایت عزت اور احترام کے ساتھ بات کرنی ہے.اب آپ دیکھئے تعلیمات کو تو الگ چھوڑیئے ، دنیا کے افق پر نظر دوڑا کر دیکھئے ، کہ مرد اور عورت دونوں ہی دیکھئے.ماں باپ کے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے دنیا میں.بڑھاپا آیا اور ماں باپ قصہ ماضی بن گئے.ہمارے معاشرے میں جہاں اکٹھے رہتے ہیں.وہاں میں نے ایسی بہوئیں بھی دیکھی ہیں جو سارا سارا دن کوستی رہتی ہیں ساس کی موجودگی کو کہ عذاب پڑا ہوا ہے.زندگی اجیرن ہوگئی ہے.ہم تو دونوں اکٹھے کہیں سیر پہ بھی نہیں جا سکتے.ہر وقت ساس سر پہ چڑھی ہوئی ہے اور وہ بھی ایسی وہمی کہ ذرا دیر ہو جائے تو دورے پڑنے شروع ہو جاتے ہیں کہ ابھی تک آئے کیوں نہیں.غرضیکہ تھوڑی سی تکلیف بھی برداشت نہیں ہوتی لیکن بہو تو بہو ہے بیٹے برداشت نہیں کرتے پھر خود اپنی ماؤں کو بھجوا دیتے ہیں دوسروں کے گھر.اور یہ تو اُس معاشرے کا حال ہے جہاں مشرق میں عورت کا ایک خاص مقام ، ماں اور باپ کا ایک خاص مقام ہے.لیکن مغرب میں آکر دیکھیں تو نہایت ہی دردناک نظارے ملتے ہیں.اُدھر ایک خاص عمر کو، ماں باپ پہنچے، ادھر رشتے ٹوٹ گئے اور قطع تعلق ہو گئے بعض جگہ سال میں ایک دفعہ بیٹوں کا آجانا اتنی نعمت سمجھی جاتی ہے کہ ماں باپ ان کا شکریہ ادا کرتے نہیں تھکتے.آپ نے بڑا احسان کیا ہے.بہت ہی پیارا بچہ ہے، کتنا فرمانبردار ہے.سال میں ایک دفعہ مجھے ملنے کے لئے آیا ہے اور چار پیسے کا تحفہ بھی لے آیا ہے.ہسپتالوں میں مرجاتے ہیں، دکھوں میں مبتلا رہ کر تنہائی سے تنگ آکر خود کشیاں کر لیتے ہیں لیکن بچوں کو خیال نہیں آتا کہ اُن کا کوئی حق ہے.قرآن کریم نے نہ صرف حق قائم فرمایا بلکہ اس طریق پر قائم فرمایا کہ انسان میں ذرا بھی شرافت ہو تو قرآن کریم کی ان آیات کو پڑھ کر وہ اُس حق کا احساس کئے بغیر نہیں رہ سکتا.فرمایا:

Page 136

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۳۲ خطاب ۲۳ جولائی ۱۹۸۸ء وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ اِحْسَنًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا وَحَمْلُهُ وَفِضْلُهُ ثَلُثُوْنَ شَهْرًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِيْنَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضُهُ وَاَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي * إنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ (الاحقاف : ۱۶) ہم نے انسان کو وصیت کی ہے.نصیحت اور وصیت میں فرق ہے.نصیحت تو عام نصیحت کو کہا جاتا ہے لیکن وصیت اُس نصیحت کو کہتے ہیں جس کو ٹالا نہیں جا سکتا.وہ قانون بن جاتی ہے.تو فرمایا ہم نے انسان کو بڑی قومی نصیحت کی ہے جسے ٹالنے کا ہم اُسے اختیار نہیں دیتے.بِوَالِدَيْهِ اِحْسُنَّا کہ اپنے ماں باپ دونوں ہی سے احسان کا سلوک کرو.پھر باپ کا ذکر دیکھیں کیسے پیچھے چھوڑ دیا ہے.فرما یا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا وہ یادر کھے کہ اس کی ماں نے کس طرح اسے کتنی تکلیفیں اٹھا کر اپنے پیٹ میں اُٹھائے رکھا.ووَضَعَتْهُ كُرْهًا اور جب اس کی ولادت ہوئی اور اس سے فارغ ہوئی وہ وقت بھی اس کے لئے بڑا عذاب کا وقت تھا.بڑی تکلیف کا وقت تھا.وَحَمْلُهُ وَفِضلُهُ ثَلُثُونَ شَهْرًا اور مدت اگر وہ ساری شمار کرے تو ابھی بھی تم نے اپنی ماؤں کا پیچھا نہیں چھوڑا.باہر آکر ان کا دودھ پیتے ہو اور اگر حمل کا زمانہ اور دودھ کا زمانہ ملا دیا جائے تو یہ تمیں (۳۰) مہینے بنتے ہیں.پھر جو شریف النفس لوگ ہیں وہ اس بات کو کبھی نہیں بھلاتے.اتنا بڑا احسان ہے کہ لڑکی ہویا لڑکا اس کو ہمیشہ ساری زندگی اس احسان کو نہیں بھلانا چاہئے.چنانچہ قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کو دیکھئے کہ پھر اس کے بعد اس کے بچپن کے شکریے اور جوانی کے شکریوں کو چھوڑ دیتا ہے فرمایا حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَ بَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً کہ پھر وہ جب پوری پختہ عمر کو پہنچ جاتا ہے جب انسان ماں باپ کے خیال سے بھی آزاد ہو جاتا ہے، ان کی احتیاط سے آزاد ہو جاتا ہے، فرمایا یہاں تک کہ پھر وہ پوری عمر کو پہنچ گیا باغ اَرْبَعِينَ سَنَةً چالیس (۴۰) سال تک پہنچ گیا تب اس نے دعا کی قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَى

Page 137

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۳۳ خطاب ۲۳ جولائی ۱۹۸۸ء کہ مجھے توفیق عطا فرما کہ میں تیری اُس نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر فرمائی وَعَلَى وَالِدَيَّ اور میرے والدین پر فرمائی وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّى إنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ یہ باقی آیت کے حصے کو میں اس وقت چھوڑتا ہوں تبصرے سے کیونکہ اس کی تفصیل لمبی ہو جائے گی.صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ اس تعلق کو قرآن کریم میں ماں باپ سے شروع کیا، ماں کے ذکر پر آگیا.ماں کے احسان کو یاد کرایا اور پھر اس مضمون کو خدا کی طرف منتقل فرما دیا.یہ مضمون ہے جو سمجھنے کے لائق ہے.اس سے آپ کو ماں کا مقام سمجھ آئے گا.ماں باپ کا اکٹھا کر پھر ماں کو الگ کر لیا کہ اس نے تمہیں اپنے پیٹ میں پالا ہے.اس سے تمہارا آغاز ہوا ہے.اور ایک عرصے تک تمہاری تمام تر زندگی کا کلیۂ انحصار تمہاری ماں پر تھا.پھر جب تم چالیس (۴۰) سال کی عمر کو پہنچ جاتے ہوا گر تم میں شرافت ہے تو نہ صرف ماں کے احسان کو نہ بھولو بلکہ ماں کےاحسان کے نتیجے میں خدا کے احسان تک تمہارا ذہن پہنچنا چاہئے اور خدا کے شکر کی طرف توجہ مائل ہو جانی چاہئے کہ ماں نے تو تمہیں (۳۰) مہینے پرورش کی کم سے کم بالعموم، اور کچھ زیادہ بھی کی ہوگی.مگر خدا نے جس نے آغا ز آفرینش سے گویا نقشہ بنایا اور تمام کائنات کو ترقی دیتے دیتے اُس مرتبے اور مقام تک پہنچایا جہاں زندگی کی پیدائش ممکن ہوگئی.پھر زندگی کو کروڑہا کروڑ سال تک درجہ بدرجہ ترقی دیتے ہوئے اُس مقام تک پہنچایا جہاں انسان کی تخلیق مکمل ہوئی اور اسے خدا تعالیٰ نے ٹھیک ٹھاک کر دیا.فرمایا کہ ماں کے رشتے سے تم خدا تک پہنچ سکتے ہو اور ماں کے معاملات پر غور کر کے ماں سے اپنے تعلقات کو پیش نظر رکھ کر جب تم شکر ادا کرنے والے بندے بنو گے تو تمہارا خدا سے بھی تعلق قائم ہو جائے گا.اس مضمون کو آنحضور نے اس آیت کے حوالے کے بغیر ایک الگ جگہ یوں بیان فرمایا ہے.کہ ماں کے پاؤں کے نیچے جنت ہے.اس کے متعلق بہت سی تفاصیل کی گئی ہیں جو ساری درست ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں اس مضمون کا اس آیت سے گہرا تعلق ہے.ماں کے توسط سے خدا تک پہنچا جا سکتا ہے.جو ماں کے حقوق ادا کرنے والا بچہ ہے وہ لازماً خدا کے حقوق بھی ادا کیا کرتا ہے اور جو ماں کے حقوق ادا نہیں کرتا وہ خدا کے حقوق بھی ادا نہیں کرتا چنانچہ یہ دوسرا مضمون بھی خود آنحضور نے بیان فرمایا.میں اپنے منہ کی باتیں آپ کو نہیں بتا رہا اور دونوں طرفیں آنحضور نے مکمل فرما دیں.فرمایا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں جو رحم ہے جس میں بچہ بنتا ہے وہ رحم عربی میں رحم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے.رحم.یہ تین حروف ہیں.آنحضرت نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ میری سب سے غالب صفت

Page 138

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۳۴ خطاب ۲۳ جولائی ۱۹۸۸ء رحمانیت بھی انہی تین حروف سے بنی ہے.رح.م.اور ماں کے رحم کا اور میری رحمانیت کا مادہ ایک ہی ہے.اس لئے جو کوئی ماں کے رحم کو کاٹے گا یعنی اس کے حقوق ادا نہیں کرے گا وہ میری رحمانیت سے بھی کاٹا جائے گا اور کوئی اس کا مجھ سے تعلق قائم نہیں ہو سکے گا.اس سے زیادہ عظمت کی تعلیم عورت کے متعلق تصور میں بھی نہیں آسکتی.خدا تک پہنچانے کی راہ بن گئی.اس کے پاؤں کے تلے ہمیشہ کیلئے مردوں اور عورتوں کی اس کے بچوں کی جنتیں رکھ دی گئیں.اس مضمون کو وضاحت سے بیان فرما دیا گیا کہ عورت سے تمہارا آغاز ہوتا ہے جس طرح خدا سے کائنات کا آغاز ہوا ہے.تم رحم میں اس طرح پل کر اپنے منتھی کو پہنچتے ہو جس طرح خدا کی رحمانیت نے آغاز آفرینش سے ترقی دیتے ہوئے کائنات کو اس بلند و بالا مقام تک پہنچا دیا اور یہ دونوں رشتے ایسے ایک دوسرے سے منسلک ہو چکے ہیں کہ ایک کو کاٹو گے تو دوسرے سے بھی کاٹے جاؤ گے.پس چونکہ اب وقت نہیں ہے مزید باقی پھر انشاء اللہ تعالیٰ.اور بھی ابھی اس مضمون کے پہلو باقی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے زندگی اور توفیق دی تو پھر انشاء اللہ اکٹھے ہوں گے.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.

Page 139

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطاب ۱۳۵ خطاب ۱۳ مئی ۱۹۸۹ء نفرت پھیلانے والی معاشرتی برائیوں سے اجتناب اور صلح و محبت کی فضا پیدا کریں جلسہ سالانہ مستورات جرمنی سے خطاب فرموده ۱۳ مئی ۱۹۸۹ء بمقام ناصر باغ گروس گیراؤ ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آپ نے سورۃ الحجرات کی تفسیر بیان کرنے سے پہلے فرمایا: سب سے پہلے تو میں آپ سب کو اس بات کی مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ امسال خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ کا انتظام پچھلے سال اور اس سے پچھلے سالوں سے بہت بہتر ہے اور نظم وضبط بھی عمدہ نظر آتا ہے شور بھی کوئی نہیں.اگر چہ مجھے یہ اعلانات کی آواز میں آرہی تھیں کہ شور نہ کریں ، شور نہ کریں.کافی محنت آپ پر کی ہے ان لوگوں نے تب آپ کو جا کر چپ کرایا ہے اور پھر یہ بورڈ بھی جگہ جگہ لے کر کھڑی ہیں خواتین.بہر حال اللہ نے ان کوششوں کو پھل لگایا اور بڑے عمدہ ماحول میں نظم وضبط کے ساتھ آپ تشریف فرما ہیں اور کوئی کسی قسم کے شور کی آواز نہیں آرہی.گذشتہ سالوں میں جرمنی کی جماعت اپنی خواتین سے ویسا ہی سلوک کرتی تھی جس طرح آپ لوگ اپنے گاؤں میں مرغیوں سے کرتے ہیں.ایک ڈربے میں بغیر سوچے کہ کتنی اس میں آسکتی ہیں دیہات میں زبردستی بھری جاتی ہیں مرغیاں اور دوسرے دن جب کھولتے ہیں تو یقین نہ آتا کہ اسی ڈربے میں سے نکل رہی ہیں.اسی طرح آپ لوگوں کا حال ہوتا تھا کہ جب جلسہ ختم ہوتا تھا تو یقین نہیں آتا تھا کہ اتنی چھوٹی جگہ سے اتنی خواتین نکل رہی ہیں لیکن میں نے ان کو سمجھایا پچھلے سال کہ آپ خدا کا خوف کریں عورتوں کی اپنی عزت کا مقام ہے اور اس کو اگر ہم نے دنیا کے سامنے صحیح معنوں میں پیش نہ کیا تو اسلام کی جو بھیانک تصویر دنیا میں کھینچی جارہی ہے اس کو کون درست کرے گا.اسلام نے عورت

Page 140

حضرت خلیفہ آسیح الرابع" کے مستورات سے خطاب خطاب ۱۳ مئی ۱۹۸۹ء کو ایک بہت ہی عظمت کا مقام عطا فرمایا ہے اس کو بحال کرنا سب سے زیادہ ذمہ داری جماعت احمدیہ کی ہے اور یورپ اس معاملہ میں پہلے ہی اسلام سے بدظن ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی عورتیں گذشتہ ہزار سال پہلے کے زمانے کی عورتوں کی طرح ہیں اور ان کو اسلام ہر ترقی کی راہ سے پیچھے دھکیل دیتا ہے کوئی ترقی کا موقع مسلم خواتین کے لئے مہیا نہیں کرتا.احمدیت نے اس بات کو جھٹلانا ہے اور اللہ کے فضل سے جھٹلا رہی ہے.جہاں جہاں یورپ میں جماعت احمدیہ کا تعارف ہورہا ہے غیروں کے ساتھ وہ یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہوتے چلے جارہے ہیں.چنانچہ انگلستان میں بارہا اخبارات میں یہ بات شائع ہو چکی ہے جب پریس کی نمائندہ خواتین انٹرویو کے لئے آتی رہیں تو انہوں نے بہت ہی اچھے Compliments دیئے لجنہ انگلستان کو اور بعض مجھ سے بھی ملے ہیں تو انہوں نے بتایا بعد میں کہ ہم تو بہت متاثر ہوئی ہیں یہ دیکھ کر کہ احمدیت خواتین کو پوری عظمت کا مقام دے رہی ہے اور ان میں بڑا حوصلہ بڑی خود اعتمادی کامل یقین ہے ماشاء اللہ.یہی بات جرمنی میں پیدا ہونی چاہئے.لیکن اس راہ میں ابھی کچھ مشکلات ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ عموماً جرمنی میں جو خاندان آئے ہیں وہ دیہات سے یا چھوٹے قصبات سے آئے ہیں اور وہاں تعلیم کا معیار اتنا اونچا نہیں اس وجہ سے جرمنی میں بھی جو خواتین تشریف لائی ہیں یا ان کے بچے ان کے لئے مسائل ہیں تعلیم کی کمی کے اور معاشرے کے ایک خاص پس منظر کے، اس معاشرہ میں عموماً لڑائیاں بھی آپس میں زیادہ ہوتی ہیں، تو تو میں میں بھی چلتی ہے، چغلیاں بھی بہت زیادہ ہوتی ہیں.چغلیاں تو خیر ہر جگہ ہر عورت میں رجحان پایا جاتا ہے لیکن بعض علاقوں میں خصوصاً پاکستان میں دیکھا ہے باقی علاقوں سے زیادہ یہ بیماری ہے اس وجہ سے جب یہ آیات (سورۃ الحجرات ) تلاوت کی جارہی تھی تو مجھے اس بات کی بہت خوشی ہوئی کہ بہت ہی عمدہ برمحل آیات کا انتخاب کیا گیا ہے اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ آپ کو کس موضوع سے مخاطب ہوں تو اس بچی نے تلاوت کے ساتھ ہی مجھے مضمون دے دیا چنانچہ میں نے ان سے کہا کہ آپ بجائے اس کے کہ اردو میں ترجمہ کریں یہ ترجمہ میرے لئے رہنے دیں اور میں اسی مضمون پر آپ سے مخاطب ہوں گا.پہلی آیت جو تلاوت کی ہے وہ ہے اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الحجرات :) کہ مومن سب بھائی بھائی ہیں اس لئے بھائیوں کے درمیان صلح اور محبت کا ماحول قائم کرو، امن کا ماحول قائم کرو وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے.یہ خطاب

Page 141

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطاب خطاب ۱۳ مئی ۱۹۸۹ء بظاہر تو مردوں سے ہے لیکن قرآن کریم کا یہ اسلوب ہے اور عربی زبان میں یہ طریق جاری ہے کہ عموماً خطاب مردوں سے ہوتا ہے لیکن مرد مراد نہیں ہوتے بلکہ سب شامل ہوتے ہیں یعنی بنی نوع انسان یا مسلمان شامل ہوتے ہیں اور خطاب مردوں سے ہے.چنانچہ اگر یہ مضمون اس طرح نہ سمجھا جائے تو پھر عورت کا ذکر تو بہت کم ملے گا لیکن بہت ساری دوسری جگہوں پر خدا تعالیٰ نے یہ غلط فہمی دور فرما دی اور کھول کھول کر بتا دیا کہ ان آیات اور شریعت کا تعلق مردوں اور عورتوں سے برابر کا ہے اور دونوں ہی مخاطب ہیں.اس پہلو سے اگر چہ کہا یہ ہے کہ بھائیوں بھائیوں کے درمیان تم مواخات پیدا کر وہ محبت کا اور صلح کا ماحول پیدا کر ولیکن اس میں عورتیں بھی مخاطب میں ہیں اور دو طرح سے مخاطب ہیں اول تو جیسا کہ میں نے بیان کیا عربی زبان میں مرد کا صیغہ قومی خطاب عورت پر بھی اطلاق پاتا ہے اور مرد عورت دونوں پیش نظر ہوتے ہیں دوسرا یہ کہ جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے بہت سارے ایسے علاقے ہیں جہاں مردوں کی لڑائی میں عورتوں کا بہت دخل ہوا کرتا ہے اس لئے اصلحوا بين اخو یکم میں عورت پر دو ہری ذمہ داری ہے.بہت سے ایسے مرد ہیں جو گھر میں عورت کی باتیں سنتے ہیں اور پھر باہر جا کر دوسرے مردوں سے لڑتے ہیں اور ان کے گھر کی عورتیں پھر ان کو انگیخت کرتی ہیں، دوسرے گھر کے خلاف اور یہ میرا تجربہ بہت پرانا ہے، مجھے موقع ملا ہے پاکستان میں بہت کثرت سے دورے کرنے کا.اس وقت مشرقی پاکستان وہاں بھی جاتا تھا بہت دیہاتیوں میں کثرت سے پھر ہوں اور جہاں جاتا تھا وہاں اختلافات طے کرنے کی کوشش کرتا تھا تو جب باتیں سامنے آتی تھیں تو یہ میں نے محسوس کیا کہ بہت ساری جگہ لڑائیوں کا فتنہ گھر سے شروع ہوتا تھا اور رقابت اور شریکے کی بناء پر ایک عورت اپنے خاوند کو کہتی کہ فلاں نے میری بے عزتی کر دی، فلاں میری چچازاد بہن نے یہ کہا فلاں کی بیوی نے مجھے اس طرح دیکھا فلاں نے مجھے طعنہ دیا اور وہ پھر مشتعل ہو کے اس کے خاوند سے باہر جا کر لڑتا تھا.ایک دفعہ ڈھا کہ میں تو معاملہ اتنا خطرناک ہو گیا تھا کہ لگتا تھا کہ ساری جماعت پھٹ جائے گی.اس وقت مجھے بڑا گھبرا کر ایک منتظم نے کہا کہ باہر بڑا فساد ہونے لگا ہے بہت سخت اشتعال پیدا ہو گیا ہے.میں باہر گیا ان کو جا کر تسلی دی ، آرام سے پہلے بٹھایا ، پھر میں نے ان کے نمائندے بلوائے ان سے پوچھا کیا بات ہے آخر پر وہی چھوٹی سی بات نکلی کہ کسی عورت نے کسی اور عورت کے متعلق اپنے خاوند سے بات کر دی اور اس نے پھر اپنے خاوند سے غصے میں آکر کہا کہ یہ اس نے میری شکایت کی ہے، پھر خاوند کے حمایتی دونوں طرف سے اکٹھے ہونے شروع ہوئے ، پھر عورتوں کے حمایتی اکھٹے ہونے شروع

Page 142

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطاب ۱۳۸ خطاب ۱۳ مئی ۱۹۸۹ء ہوئے.یہ جہالت ہے جس کے خلاف قرآن کریم نے یہ اعلان فرمایا ہے کہ دیکھو ہم نے مومنوں کو بھائی بھائی بنایا ہے، مومنوں کو بھائی بھائی ہی رکھنا لعلکم ترحمون تاکہ تم پر خدا رحم کرے.اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر وہ شخص خواہ وہ مرد ہو یا عورت جو ایسی باتیں کرے کہ جس کے نتیجے میں مومنوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوں اور بھائی بھائی نہ رہیں وہ خدا تعالیٰ کے رحم سے کاٹا جائے گا.اگر وہ عورت ہے وہ بھی خدا کے رحم سے کائی جائے گی.اس سے آپ کو یہ مضمون سمجھ لینا چاہئے کہ بعض دفعہ آپ کی دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتیں.آپ لوگ مجھے بھی لکھتے ہیں کہ ہم تو بہت روئے بہت گریہ وزاری کی.کئی لوگوں کی ہو بھی جاتی ہیں ہم سے پتہ نہیں خدا کو کیا نکار ہے کہ وہ ہماری دعائیں نہیں سنتا حالانکہ اللہ تو سب کے ساتھ ہے.اس کے بعض اصول بعض دفعہ توڑے جاتے ہیں اور یہ مضمون تو بہت وسیع ہے.میں نے خطبات میں اس پر کئی دفعہ روشنی ڈالی ہے لیکن یہ نہ ختم ہونے والا مضمون ہے.دعا کیوں قبول ہوتی ہے کیوں نہیں ہوتی قبولیت کے لئے کیا طریق ہیں اور کیا ہونے چاہئیں، اس وقت تو میرا یہ مضمون نہیں ہے.یہ بات میں آپ کو بتا دوں کہ جہاں خدا نے یہ فرمایا ہے کہ یہ کام کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے اگر وہ کام نہیں کریں گی تو اس کا برعکس بھی صادق آئے گا اور جو شخص خدا کی اس بات پر دھیان نہیں دیتا وہ رحم سے کاٹا جائے گا.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مضمون کو کھول کر بیان فرمایا ہے مختلف طریق پر مختلف جگہوں پر کہ مَن لا يرحم لَا يُرحم کہ جو رحم نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیا جائے گا ، اس لئے یہ مضمون بڑا وسیع ہے کہ کن باتوں پر آپ خدا کے رحم سے کائی جاسکتی ہیں.ایک مضمون عورت کے ساتھ خاص تعلق رکھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے وہ جسم کا عضو جس میں بچہ بنتا ہے اس کا نام رحم رکھا جو ر ، ح ہم سے ہے اور خدا تعالیٰ نے اپنی صفت رحمانیت بھی ان تین حرفوں سے بنائی ہے یعنی ر، ح ، م اور اس میں بڑا وسیع مضمون ہے.آنحضرت نے ایک سمندر بند کر دیا ہے اس کوزے میں.آپ نے فرمایا کہ یاد رکھو جو رحمی رشتوں کو کاٹتا ہے وہ رحمن خدا سے بھی اپنا تعلق منقطع کر لیتا ہے اس لئے یہ خدا کے رحم کو حاصل کرنے کا مضمون بہت وسیع مضمون ہے، اس کی کنہ کو اس کی حکمت کو سمجھیں تب آپ کو پتہ چلے گا کہ بعض دفعہ کیوں آپ پر رحم نہیں کیا جاتا.اللہ کسی پر ظلم کرنے والا نہیں اس نے خوب کھول کر ان باتوں کو سمجھا دیا ہے جو بہنیں اپنے رحمی رشتوں کو کاٹنے کی کوشش کرتی ہیں خواہ وہ بطور ساس ایسی کوشش کریں، خواہ وہ بطور بہوا یسی

Page 143

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطاب ۱۳۹ خطاب ۱۳ مئی ۱۹۸۹ء کوشش کریں، خواہ بہن بھائی کے رشتوں پر حملہ آور ہو یا بھائی بہن کے رشتوں پر حملہ آور ہو، جہاں جہاں بھی آپ نے ایسی کوشش کی کہ رحمی رشتوں کو قطع کرنا شروع کیا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا کے رحم سے تم لوگ کاٹے جاؤ گے.ساتھ ہی اس میں آپ کا اعزاز بھی دیکھیں کتنا ہے فرمایا رحم کا نام خدا نے اپنی رحمانیت کے مطابق رکھا ہے اور امر واقعہ یہ ہے کہ رحمی رشتوں کے نتیجے میں رحم پھیلنا چاہئے اور طبعی بات یہی ہے کہ ان رشتوں کے نتیجہ میں آپس میں سوسائٹی میں محبت پھیلنی چاہئے جہاں کہیں آپ اس مضمون کو بھلا دیں گی اور بھلا دیتی ہیں اکثر وہاں آپ کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ آپ کس بات سے محروم ہورہی ہیں.آپ سمجھتی ہیں کوئی فرق نہیں پڑا.میرے خاوند نے میری تائید کر دی یا ساس سمجھتی ہیں میرے بیٹے نے میرا ساتھ دے دیا اور اس طرح فساد بھی ہو گیا تو فرق نہیں پڑا لیکن اس محرومی کا آپ کو خیال ہی نہیں آتا کہ دنیا کے رشتوں نے تو آپ کا ساتھ دے دیا لیکن خدا نے آپ کا تعلق کاٹ دیا اور اس کا اعلان کر دیا ہے کہ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ اگر تم بھائی چارے کو فروغ دوگی بڑھاؤ گی اور محبتیں پھیلاؤ گی تو یا درکھو خدا تم پر رحم کرے گا اور رحمت کا سلوک فرمائے گا اگر اس کے برعکس کام کرو گی تو خدا کی مت سے کاٹی جاؤ گی.مردوں پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے لیکن چونکہ رحم والی حدیث بتلا رہی ہے کہ عورت کے ساتھ اس مضمون کا گہرا تعلق ہے اس لئے میں خاص طور پر اس آیت کی تشریح آپ کے سامنے کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کے سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق بخشے.آمین يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ (الحجرات :۱۲) پھر آپ نے فرمایا ( ترجمہ ) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے اور یہ بات بھی خاص طور پر پاکستان سے آنے والوں کو پیش نظر رکھنی چاہئے جہاں تک میں نے مطالعہ کیا ہے مغربی قوموں میں آپس میں ایک دوسرے سے تمسخر کا رجحان نہیں پایا جاتا سوائے اس کے کہ بعض قومی رقابتوں کے نتیجہ میں وہ ایک دوسرے کے خلاف بعض مذاق بناتے ہوں اس لئے اس پہلو سے یہ آیت ان پر بھی اطلاق پاتی ہے مثلاً انگریز جب جرمن کی بات کرے گا تو کہے گا گو بھی کھان، پنجابی میں کہتے ہیں نا گو بھی کھان کہ گو بھی کھانے والی قوم ہے اور اسی طرح جرمن فرانسیسی انگریزوں کے اوپر مذاق کرتے ہیں.انگریز پھر آئرش پر مذاق کرتے ہیں، سکائش کے خلاف لطیفے بنائے ہوئے ہیں.یہ مضمون ہے جس کو قرآن کریم کھول کر بیان کرتا ہے کہ جہالت کی باتیں ہیں، لغو باتیں ہیں

Page 144

حضرت خلیفہ آسیح الرابع" کے مستورات سے خطاب ۱۴۰ خطاب ۱۳ مئی ۱۹۸۹ء مومن کی شان نہیں ہے کہ ایسی باتیں کرے لیکن بد قسمتی سے ہمارے ملک میں یعنی پاکستان میں اور ہندوستان میں بھی بہت کثرت کے ساتھ یہ بیماری پائی جاتی ہے.پنجاب کا معاشرہ تو ہندواثرات کے نیچے بالکل قومی بندھنوں میں جکڑا جا چکا ہے.ایک راجپوت ہے وہ آرائیں کے متعلق باتیں کرے گا.ایک آرائیں ہے وہ کسی اور قوم کو مذاق کا نشانہ بنائے گا.کوئی جولا ہے پر باتیں ہورہی ہیں کوئی اس پر لطیفے بنائے جار ہے ہیں، میراثی کے اوپر کوئی میراثی دوسروں پر بنارہا ہے ،لطیفوں میں خصوصاً جو پنجاب میں لطیفے بنتے ہیں آپ اکثر قومی رجحانات دیکھیں گے کوئی لطیفے کشمیری قوم پر ہیں، کوئی پٹھان قوم پر ہیں، کوئی زمینداروں جائوں کے اوپر ہیں کوئی قوم نہیں ہے بچی ہوئی جس کے اوپر لطیفے نہ بنائے گئے ہوں.چنانچہ قرآن کریم فرمارہا ہے کہ ایسی جہالتوں میں نہ مبتلا ہو اس کے نتیجے میں تمہارے تعلقات کاٹے جائیں گے.خدا کے نزدیک کوئی قوم کسی دوسری قوم سے بحیثیت قوم فضیلت نہیں رکھتی ، زمیندار اپنی جگہ اور میراثی اور جولا ہے یہ سارے اپنی جگہ یہ سارے قوم کی خدمتیں کرنے والے مختلف پیشوں میں بٹے ہوئے لوگ ہیں اور جہاں تک ان کی عزت کا تعلق ہے ، قرآن کریم فرماتا ہے تم میں سے جو تقویٰ میں آگے ہے وہی معزز ہے.اگر کوئی جولاہا زیادہ متقی ہے تو وہی معزز ہے اور یہ بات یادرکھیں یہ جو کہا جاتا ہے کہ جولا ہے بے وقوف ہوتے ہیں.میرا تجربہ یہ ہے کہ بے وقوف وہ ہوتا ہے جو خدا سے دور ہے اور جو خدا کے نزدیک ہوا سے عقل ملنی شروع ہو جاتی ہے خواہ وہ کسی قوم سے بھی تعلق رکھتا ہو.جماعت احمدیہ میں بھی بعض علماء مختلف قوموں سے آئے اور بعض جاہلوں نے ان کو مذاق کا نشانہ بنایا لیکن ہم جانتے ہیں کہ بعض جولا ہے ان میں سے اتنے عقلمند ثابت ہوئے کہ دوسری قوموں کے بڑے بڑے فرزانوں کے اوپر ان کو فتح نصیب ہوئی کیونکہ متقی تھے.چنانچہ قرآن کریم کا یہ فرمان إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ اتَقُكُم بالکل سچا ہے سو فیصدی درست ہے.عقل تقویٰ سے آتی ہے خدا سے دوری کے نتیجے میں عقل نہیں آیا کرتی.چنانچہ یہ دعوی کہ یہ لوگ عام لوگ ہیں بے چارے جن کی نہ قو میں نہ دنیاوی عزتیں ہیں یہ بے وقوف ہوتے ہیں.قرآن کریم فرماتا ہے یہ دعویٰ اسلام کے دشمن جہلاء کیا کرتے ہیں وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا أَمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا أَمَنَ السُّفَهَاء ترجمہ.جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اے لوگو! ایمان لاؤ جس طرح عوام الناس ایمان لائے ہیں تو آگے سے جواب دیتے ہیں عوام الناس کی کیا حیثیت ہے ہم تو معزز لوگ ہیں ، ہم صاحب فہم اور صاحب عقل لوگ ہیں.کیا ہم اسی طرح ایمان لائیں جس طرح یہ بے وقوف لوگ ایمان

Page 145

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطاب ۱۴۱ خطاب ۱۳ مئی ۱۹۸۹ء لائے ہیں.قرآن کریم فرماتا ہے أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَكِنْ لَّا يَعْلَمُونَ (البقرة :١٤) خبر دار یہی بے وقوف ہیں ان کو پتہ نہیں دوسری جگہ فرمایا اولو الباب وہ لوگ ہیں جو خدا کی محبت میں راتوں کو جاگتے ہیں، کروٹیں بدلتے ہیں تو اس کو یاد کرتے ہیں، کھڑے ہوتے ہیں تو یاد کرتے ہیں، بیٹھتے ہیں تو یاد کرتے ہیں، کائنات پر نظر ڈالتے ہیں تو غور کرتے رہتے ہیں کہ خدا نے کیوں پیدا کیا کس لئے پیدا کیا.یہ اولوالا لباب ہیں یہ صاحب فہم اور صاحب عقل لوگ ہیں.اس لئے یہ جو میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ عقل تقویٰ سے آتی ہے یہ قرآن کریم کے ایک ارشاد کے مطابق بتارہا ہوں.قرآن کی گواہی اس بات پر ہے اور امر واقعہ یہ ہے کہ حقیقت میں بلا استثناء تمام دنیا پر نظر ڈالیں کچی عقل خدا کے تقویٰ کے بغیر نصیب نہیں ہوتی.اب آپ دیکھ لیجئے کہ ان قوموں نے کتنی ترقیاں کی ہیں بظا ہر آپ ان کو عقل مند سمجھ رہے ہیں، آپ جانتی ہیں کہ دنیا ایجادات میں ،سائنس میں فلسفوں میں یہ تو میں کتنا آگے بڑھ گئی ہیں لیکن آخری نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر کچھ عرصے کے بعد اس طرح آپس میں لڑتی ہیں جاہلوں کی طرح کہ حیوانوں کو بھی ظلم میں پیچھے چھوڑ جاتی ہیں.اس ملک میں جہاں ہم آج بیٹھے ہوئے ہیں اس ملک میں اتنے مظالم ہوئے ہیں کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتیں.وہ تاریخ جو دوسری جنگ کی ہے اگر آپ اس کا مطالعہ کریں تو آپ کا دل بیٹھنے لگے گا.چند سطروں سے زیادہ آپ ان کتابوں کا مطالعہ نہیں کرسکتیں.جن میں وہ واقعات محفوظ ہیں کیسے کیسے ظلم یہاں کئے گئے اور پھر جب دوسری قومیں ان پر غالب آئیں تو انہوں نے بھی ایسا بہیمانہ سلوک کیا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ یہ صاحب فہم، صاحب عقل لوگ ہیں.یہ ان کی ساری محنتوں کا ماحصل اور ثمرہ ہے.پس حقیقت میں کچی عقل تقویٰ سے آتی ہے اور اس کے بغیر کوئی عقل نہیں ہے.اس بات کو اچھی طرح یا درکھیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَا يَسْخَرُ قَوْمُ مِنْ قَوْمٍ عَلَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءِ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا منهن (الحجرات :۱۲) اس مضمون کا اس بات سے تعلق ہے جو میں بیان کر رہا ہوں.فرمایا اے لوگو! جو ایمان لائے ہو کوئی قوم کسی دوسری قوم سے تمسخر نہ کرے عَلَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ کیونکہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ اس سے بہتر ہو جائیں جس سے آج تمسخر کیا گیا ہے خدا ان کو بلندی عطا کر دے اور جو تمسخر کرنے والے ہیں ان کی حیثیت کچھ باقی نہ رہے پھر خصوصیت سے فرمایا یہاں باوجود اس کے کہ پہلے بھی عورتیں شامل ہیں لیکن معلوم ہوتا ہے خصوصیت سے عورتوں میں جو یہ رجحان پایا جاتا ہے اس

Page 146

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطاب مسیح مہ ۱۴۲ خطاب ۱۳ مئی ۱۹۸۹ء لئے فرمایا وَ لَا نِسَاءِ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ اور کوئی عورت کسی عورت سے تمسخر نہ کرے یعنی اس کو نیچا نہ دکھائے ، اس کے اوپر ایسے لطیفے نہ گسے جس سے اس کی تحقیر مراد ہو، یہ ہے تمسخر سے مراد عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ یا درکھو ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہو جائیں.اس میں دو باتیں بیان ہوئی ہیں یہ نہیں فرمایا کہ وہ ضرور بہتر ہو جائیں گی عسی فرمایا ہے بعید نہیں عین ممکن ہے کہ وہ اس سے بہتر ہو جائیں اس میں دو مضمون خاص طور پر ذہن نشین کرنے چاہئیں.اول یہ کہ ایسی عورتیں جن کے اوپر زیادتی ہو وہ اگر خدا کی خاطر صبر کریں گی تو یقیناً خدا ان کو بہتر کر دے گا اس میں کوئی شک نہیں اس لئے یہ نہیں فرمایا کہ لازم ہو جائیں گی.اگر وہ آگے سے ویسی باتیں کریں گی یا زیادتیاں شروع کر دیں گی اور اسی طرح زبانیں دراز کریں گی ، تو اس آیت کا اطلاق ان پر نہیں ہوگا.اس لئے جو مظلوم ہے اگر وہ خدا کی وجہ سے خدا کی محبت اور اس کی رضا کی خاطر صبر سے کام لیتا ہے تو پھر بات آگے نہیں بڑھتی اور اللہ تعالیٰ نے یہ ضمانت دے دی ہے کہ ہم اسے بہتر کر دیں گے.دوسرا یہ مضمون ہے کہ اگر وہ عورتیں نیک ہیں اور متقی ہیں تو ان کو ویسے ہی ضمانت مل چکی ہے.ایسی قومیں جو تقویٰ میں آگے بڑھ جائیں وہ پھر غالب آجایا کرتی ہیں.ان کو خدا بہتر کر دیا کرتا ہے.چنانچہ اسلام کی پہلی تاریخ میں آپ دیکھ لیجئے عرب قوم کو خدا نے کہاں سے اٹھایا اور کہاں تک پہنچایا.یہ قوم بھی جیسا کہ قرآن کریم نے گواہی دی ہے، دوسری قوموں کے تمسخر کا نشانہ تھی.عربوں کے متعلق لوگ کہا کرتے تھے یہ جہلاء ہیں ان پڑھ اجڑ جس طرح پنجابی لوگوں کو بھی کہتے ہیں پنجابی ڈھگا، مطلب یہ ہے کہ پنجابیوں کو زیادہ عقل نہیں ہوتی ، موٹے دماغ کے لوگ ہیں اور خاص طور پر یو پی والے پنجابیوں کا یہ مذاق اڑاتے ہیں، یہ بھی قومی مذاق ہے، بہر حال مذاق اڑا رہے تھے.دیکھیں خدا نے پنجابیوں کو فضیلت دی نا یہاں پر اور انہی میں سے نبی بنادیا بالکل یہی مضمون ہمیں قرآن کریم میں ملتا ہے یہ وہ مضمون ہے جو اس مضمون سے ملتا جلتا ہے، فرماتا ہے: هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُّبِينٍ وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ذلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (الجمعه : ۳-۵)

Page 147

حضرت خلیفتہ امسح الرابع" کے مستورات سے خطاب ۱۴۳ خطاب ۱۳ مئی ۱۹۸۹ء فرمایا کہ ٹھیک ہے عرب جہلاء تھے مگر دیکھو انہی جہلاء میں سے دنیا کا سب سے بڑا عالم خدا نے پیدا کر دیا.ایسا عالم جو دوسروں کا معلم بن گیا اور محض ظاہری علم نہیں دیتا بلکہ انہیں تقویٰ بھی عطا کرتا ہے، انہیں نیکی عطا کرتا ہے، عقلوں کی جڑ عطا کرتا ہے اور حکمت بھی انکو سکھاتا ہے.یہ وہ مضمون ہے جو اس مضمون سے ملتا جلتا ہے جو یہاں بیان ہوا کہ خدا تعالیٰ ان لوگوں کو جن پر تم آج تمسخر اڑا رہے ہو ہوسکتا ہے کل بہتر کر دے.چنانچہ اس کی ایک مثال عرب میں آپ کے سامنے ظاہر ہوئی دوسری اس دور میں پنجاب میں آپ کے سامنے آئی یہ دونوں تو میں ایسی تھیں جن کو باہر کے لوگ اجڑ ، بے وقوف اور جاہل کہا کرتے تھے اور انہی میں سے خدا نے دنیا کا معلم اور دنیا کوحکمتیں سکھانے والے پیدا کر دئیے.چنانچہ فرمایا ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ یہ خدا کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور جب خدافضل عطا کیا کرتا ہے تو یہ نہیں دیکھا کرتا کہ کوئی جولاہا ہے یا میراثی ہے یا موچی ہے یا لوہار ہے یا زمیندار ہے ترکھان ہے یا قریشی ہے یا سید ہے یا مغل ہے یا پٹھان.خدا کے نزدیک ان قوموں کی کوئی حیثیت نہیں، سب انسان ہیں.وہی معزز ہے جو متقی ہو اور جو تقویٰ اختیار کرے اس پر خدا افضل فرماتا ہے اور اتنے فضل فرما دیتا ہے کہ ساری دنیا ان کو رشک سے دیکھنے لگتی ہے فرمایا وَلَا نِسَاء مِنْ نِسَاء عورتیں بھی یاد رکھیں کہ اپنی بہنوں سے تمسخر نہ کیا کریں اوران کو نیچا نہ دکھایا کریں.پھر فرمایا وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ (الحجرات :۱۲) کہ تم ایک دوسرے کے اوپر طعن نہ کیا کرو.انفسکم کا ترجمہ عموماً آپ کو ملتا ہے مگر ایک دوسرے مگر اس میں خاص طور پر یہ مفہوم پیش نظر رکھنا چاہئے انفسکم کا مطلب ہے اپنے اوپر خود اپنے لوگوں پر ظلم نہ کیا کرو کیونکہ اس کا نقصان تمہیں پہنچے گا.اگر انسان اپنے اوپر حملہ کرے تو آپ زخمی ہوگا.مراد یہ ہے کہ یہ خود کشی ہے.تم سمجھتی ہو کہ تم دوسری عورتوں کا مذاق اڑار ہی ہو اپنی ساتھیوں اور بہنوں پر لیکن بحیثیت قوم تم اپنے آپ کو ذلیل کرتی چلی جاتی ہو اور اس کا قومی نقصان تمہیں پہنچے گا.ولا تنابزوابالالقاب اور نام نہ رکھا کرو یعنی بیہودہ چڑانے والے نام جیسے کہتے ہیں چھٹکل ہے ، قد چھوٹا ہے بے چاری کا.بونی ہے یا کوئی کالی کلوٹی ہے، جشن ہے، جھینگی ہے، یہ ہے، وہ ہے، اللہ تعالیٰ نے جس طرح کسی کو پیدا کر دیاوہ بے اختیار ہے اور بے اختیار پر حملہ سب سے ذلیل چیز ہے.قوموں میں تو کچھ اختیار بھی ہوتا ہے انسان ترقی کر جاتا ہے محنت کر کے لیکن خدا نے بعض لوگوں کو بعض حالتوں میں پیدا کیا اس کو تبدیل نہیں کر سکتے.

Page 148

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطاب ۱۴۴ خطاب ۱۳ مئی ۱۹۸۹ء فرمایا کہ یہ بہت بری حرکت ہے کہ تم ایسی کمینی با تیں شروع کر دو کہ کسی پر طعنہ زنی کے طور پر اور خاص طور پر اس کے نام، اس کی شکلوں کے مطابق، اس کے رنگوں کے مطابق ،اس کے حلیے کے مطابق رکھنے شروع کر دو اور سمجھو کہ میں نے کمال کر دیا یہ ایسا گناہ ہے جس کو خدا شدید نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اور جب خدا کسی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اس کی دونوں زندگیاں تباہ ہو جاتی ہیں.نہ اس دنیا کا رہتا ہے ، نہ اُس دنیا کا رہتا ہے.یہ بیماری بھی بدقسمتی سے ہمارے پنجاب میں بڑی نمایاں طور پر پائی جاتی ہے اور اکثر یہاں جو خواتین تشریف لائی ہیں، جو خاندان ہیں میں جانتا ہوں چونکہ پنجاب میں زیادہ مظالم ہوئے ہیں اس لئے پنجاب ہی سے آئی ہیں اور ان بیماریوں کو یہاں ساتھ لے آئی ہیں.کیونکہ مجھے علم ہے کہ یہی شکایتیں، یہی تکلیفیں یہاں بھی موجود ہیں اور آپ میں سے جو ناراض ہو یا جس سے ناراض ہو اس کے خلاف مجھے خط لکھ دیتا ہے اور اب مجھے پتہ نہیں کس حد تک وہ خط سچا ہے لیکن بعض دفعہ دوسرے شخص کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ میرے خلاف کیا شکایت ہوئی ہے.بعض دفعہ ایک بہو اپنی ساس کے خلاف لکھ رہی ہے بعض دفعہ ایک ساس ہے جو بہو سے تنگ آئی ہوئی ہے.یہ جو یک طرفہ شکایتیں ہیں یہ بھی اسلام کی تعلیم کے خلاف ہو جاتی ہیں کیونکہ دو احمدی بچیاں ہیں، ایک سمجھ لیں بچی ہے اور ایک خاتون ہیں بڑی عمر کی.دونوں کی آپس میں کوئی لڑائی ہے تو مجھے تو پتہ نہیں کیا لڑائی ہوئی میں نہیں جانتا کہ کس نے کس پر ظلم کیا بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ دونوں اپنے آپ کو مظلوم سمجھ رہی ہوتی ہیں اور اس کے نتیجے میں ان کی آپس کی دشمنیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں اور گھر برباد ہو جاتے ہیں.مجھے اگر لکھا جائے تو یہ لکھنا چاہئے کہ کوئی کمیشن مقرر کریں جو تحقیق کر کے رپورٹ کرے یا اصلاح کی کوشش کرے اور پھر آپ کو بتلائے کہ کس کی غلطی تھی اور کس حد تک اصلاح ہوگئی ہے، یہ تو جائز بات ہے لیکن یکطرفہ کان بھرتے چلے جانا اور بعض دفعہ آٹھ آٹھ دس دس بعض دفعہ چودہ چودہ صفحے کی چٹھیاں مجھے ملتی ہیں.ایک عورت نے دوسرے خاندان والوں کے خلاف بڑی تکلیف دہ باتیں لکھی ہوتی ہیں اگر وہ بچی ہیں تو بڑی قابل رحم حالت ہے ان کی.اس میں کوئی شک نہیں لیکن اگر کا لفظ کس طرح حل ہو جب تک میں دوسرے فریق کی بات نہ سن لوں اور میرے پاس اتنا وقت ہے، نہیں کہ ساری دنیا کی جماعت کے دوسرے کام بھی کروں اور پھر ہر جگہ جہاں کسی عورت کی کسی دوسرے سے لڑائی ہو اس کے سارے قصے سنے بیٹھ جاؤں.یہ تو ہو نہیں سکتا اس کے لئے نظام جماعت مقرر ہے.دو میں سے ایک طریق آپ اختیار کر سکتی ہیں آپ کا جائز حق ہے.یا تو مطالبہ کریں کہ

Page 149

حضرت خلیفہ انسخ الرابع کے مستورات سے خطاب ۱۴۵ خطاب ۱۳ مئی ۱۹۸۹ء ہمارے متعلق کوئی تحقیقاتی کمیشن بیٹھے جو صلح کی کوشش کرائے اور اگر صلح نہیں ہوسکتی تو پھر ایک فریق جو نا جائز ظلم کر رہا ہے اس کے خلاف تعزیری کا روائی ہو یا بالعموم اپنے دکھ کا اظہار تفصیل سے بتائے کہ میں تکلیف میں ہوں میرے لئے دعا کریں.اس میں بغیر کسی پر حملہ کئے اپنے درد کا اظہار کیا جا سکتا ہے.قرآن کریم اس چیز کو پسند نہیں کرتا جیسا کہ آگے ان آیات میں اس مضمون کو کھولا جائے گا.اول تو طعن و تشنیع سے پر ہیز ، دوسرے ایک دوسرے کا نام رکھنے سے تو بہ اور اگر آپ نے توبہ نہ کی تو فرمايا ومن لم يتب فاولئِكَ هم الظالمون اگر آپ نے ان باتوں سے تو بہ نہ کی تو خدا کے نزدیک آپ ظالم ہیں اور جو ظالم ہو اس پر خدارحم نہیں کیا کرتا وہی لعلکم ترحمون والے مضمون کو خدا نے مزید کھول دیا ہے کہ اگر آپ نے توبہ کر لی تو ٹھیک ہے ورنہ خدا تعالیٰ آپ پر رحم نہیں کرے گا.آگے فرمایا: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيْرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْم وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا اَ يُحِبُّ اَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ * وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ تَوَّابٌ رَّحِيمُ (الحجرات : ۱۳) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ظن کی عادت اختیار نہ کرو.ہمیشہ اندازے نہ لگایا کرو کیونکہ اگر تم نے ظن کی عادت اختیار کر لی تو یا درکھو بعض ظن بڑے سخت گناہ بن جاتے ہیں اور یہ بیماری بھی ایسی ہے جو مردوں میں بھی پائی جاتی ہے اور عورتوں میں بھی پائی جاتی ہے لیکن اگر کچھ فرق ہے تو میرے نزدیک عورتوں میں بدظنی کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے اس لئے آپ کو میں سمجھا رہا ہوں کہ خدا نے آپ کو جو فضیلتیں عطا فرمائیں ہیں ان کو اختیار کرنے کے لئے آپ ان کمزوریوں سے بچیں.یہ معاشرے کو تباہ کر دیتی ہیں، اور بدظنی ایسی عادت ہے جو بڑھتے بڑھتے پھر اوپر چلتی ہے پہلے آپس میں ایک دوسرے سے بدظنی شروع کرتے ہیں پھر اور سلسلہ بڑھ جاتا ہے پھر نظام جماعت سے بدظنی پھرا میر سے بدظنی شروع ہو جاتی ہے پھر بعض دفعہ قاضی سے اپنی عدلیہ سے بدظنی شروع ہو جاتی ہے.اور اگر جھگڑے خلیفہ وقت تک پہنچیں تو جن کو بدظنی کرنے کی عادت ہے وہ خلیفہ وقت پر بھی بدظنی کرنے اور زبانیں دراز کرنے سے کبھی باز نہیں آتے.ایسے لوگ مجھے معلوم ہیں بعض دفعہ جب تک ان کے آپس میں جھگڑے نہیں ہوئے اس مضمون کے خط لکھا کرتے تھے کہ ہم تو قربان ہم فدا.ہمارا مال ہماری دولتیں

Page 150

حضرت خلیفہ امسح الرابع" کے مستورات سے خطاب خطاب ۱۳ مئی ۱۹۸۹ء آپ کی آپ جس طرح چاہیں تقسیم کرائیں.جو چاہیں تصرف کریں ہمارا تو کچھ بھی نہیں.جب ان کا اپنے بھائی سے جھگڑا ہوا، کسی اور احمدی سے اور قضاء میں اپیل در اپیل ہوکر میرے پاس فیصلہ پہنچا اور جب میں نے فیصلہ دیا تو ان لوگوں نے لکھنا شروع کیا کہ آپ میں تو انصاف ہے ہی کوئی نہیں.دعوے کرتے ہیں کہ آپ دنیا میں انصاف کو قائم کریں گے اور یہ آپ کا حال ہے.تو انسان اس وقت آزمایا جاتا ہے جب وہ خود ان تجارب سے گزرے.دراصل یہ بیماری پہلے ہی ان لوگوں میں موجود تھی وہ بدظنی کرنے والے ہیں اور جب تک خود ایسے امتحان میں مبتلا نہیں ہوئے جہاں خلیفہ وقت کو بھی ان کی بدظنی نے نشانہ بنالیا.اس وقت تک ان کا پتہ نہیں لگتا تھا.آپ کے تقوی اور اخلاق کی حالتیں صرف اللہ بہتر جانتا ہے.جذباتی طور پر آپ کے دل میں جو محبتیں پیدا ہوتی ہیں نظام جماعت کے لئے ، احمدیت کے لئے ،اسلام کے لئے اس وقت تک ہیں جب تک آپ کی آزمائی نہیں جاتیں.جب اختلاف شروع ہوجا ئیں جب فیصلوں کے وقت آئیں ، جب کسی ایک فریق کے حق میں فیصلہ کرنا پڑتا ہے اور کسی ایک فریق کے خلاف کرنا پڑتا ہے اس وقت متقی وہی ہے جو بدظنی سے کام نہ لے.خلیفہ وقت کی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کچھ بھی حیثیت نہیں ، ایک ادنیٰ غلام کا غلام ہونے پر بھی فخر کرتا ہے.خود حضور اکرم ﷺ کے اوپر اس قسم کی زبان طعن دراز کی گئی اور قرآن کریم نے اس کو محفوظ کیا ہے یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے بدظنی پر اپنے آپ کو چھٹی دے دی تھی چنانچہ فرمایا کہ بعض رسول کریم عے پر بھی الزام لگاتے ہیں ، کہ یہ کان ہے لوگوں کی باتیں سنتا رہتا ہے اور یک طرفہ باتیں سن کر فیصلہ دے دیتا ہے اور یہی الزام ہے جو آج تک اسی طرح چلا آ رہا ہے.قرآن کریم فرماتا ہے کان ضرور ہے لیکن تمہارے لئے رحمت اور شفقت کا کان ہے.تمہارے خلاف باتیں سنے والا کان نہیں بلکہ تم سے بے انتہا محبت کرنے والا وجود ہے.اس کان تک جو یہ بات پہنچتی ہے وہ ناممکن ہے کہ اس کے دل میں یکطرفہ کسی کے خلاف غیظ پیدا کر دے أُذُنُ خَيْرٍ لَّكُم یہ جواب دیا خدا تعالیٰ نے.یہ تمہارے لئے خیر کا کان ہے لیکن بدقسمتی سے یہ اس وقت سے یہ بیماری چلی آرہی ہے.میں نے دیکھا ہے گذشتہ دو خلفاء کے وقت بھی یہی بیماری موجود تھی آج بھی موجود ہے.پھر قرآن کریم فرماتا ہے بعض ظالم رسول اکرم ﷺ پر یہ تہمت بھی لگاتے تھے کہ مال کے لحاظ سے کچا ہے یعنی امراء کی ہمدردی کردے گا اور غرباء کو نظر انداز کر دے گا.مال تقسیم کرنا ہو تو اپنوں کو

Page 151

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطاب ۱۴۷ خطاب ۱۳ مئی ۱۹۸۹ء زیادہ دے گا.دوسروں کو کم دے گا.اتنا ظالمانہ الزام حضرت اقدس رسول کریم ﷺ پر کہ کوئی آدمی سوچ بھی نہیں سکتا وہم و گمان بھی نہیں کر سکتا.آج اتنے مستشرقین ہیں اسلام پر حملہ کرنے والے، اور سینکڑوں سال سے کر رہے ہیں لیکن ایک ظالم سے ظالم مستشرق کو یہ توفیق نہیں ملی یہ بدبختی نصیب نہ ہوئی کہ حضور اکرم ﷺ پر یہ حملہ کرے کہ مال کی وجہ سے یا امیروں کی وجہ سے وہ اپنے فیصلے بدلتا تھا لیکن اس زمانے میں ایسی توفیق ملی.اس کا مذہب سے تعلق ہے گہرا، اور قرآن کریم یہ ساری باتیں کھول کر آپ کے سامنے رکھ رہا ہے، کہ یہ ٹھوکریں ہیں اگر تم نے ترقیاں کرنی ہیں، اگر تم نے خدا کی طرف آگے بڑھنا ہے، اگر تم نے خدا کی محبت میں بلند مقامات حاصل کرنے ہیں تو پھر ان گرنے کی جگہوں سے بچ کر چلناور نہ کسی ٹھو کر میں تم آکر ہلاک ہو سکتی ہو یا ہو سکتے ہو.الله آنحضور ﷺ کے زمانے میں ایک واقعہ ایسا ہے جس کا قرآن کریم میں اشارہ موجود ہے تفصیل نہیں ملتی.وہ واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کواللہ تعالیٰ نے مکہ پر فتح نصیب فرمائی اس کے بعد اور بھی مغازی ہوئے ، مقابلے ہوئے غیروں سے اور اسلام کو فتح کے نتیجے میں کچھ دولتیں بھی ملیں.آنحضرت مہ جب دولت تقسیم کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تو آپ نے وہ ساری دنیا کی مال ودولت اور نعمتیں مکے والوں میں اور مہاجروں میں تقسیم کرنا شروع کر دیں، تمام انصار صلى الله خاموش کھڑے رہے کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ نعوذ باللہ رسول کریم ﷺ ان سے کسی قسم کی نا انصافی کر رہے ہیں لیکن ایک بد بخت اس وقت بھی ایسا تھا جس نے اعتراض کیا کہ انصار کی تلواروں سے ابھی بھی خون لگا ہوا ہے یعنی قربانیاں تو انصار نے دیں اور جب دولتیں تقسیم کرنے کا وقت آیا تو اپنے رشتہ داروں میں یعنی مکہ والوں میں تقسیم کر دیں.اس وقت آنحضرت ﷺ کو شدید تکلیف پہنچی.آپ نے سب کو اکٹھا کیا اور کھڑے ہو کر ایک بہت ہی دردناک تقریر فرمائی.انصار کو مخاطب کرتے ہوئے خصوصیت کے ساتھ اور اس میں ایک خاص طور پر درد کا اظہار ملتا ہے وہ ایسا عجیب ہے کہ قیامت تک کے لئے وہ کلام آنحضرت کا ایک خاص شان کے ساتھ ہمیشہ یادر کھا جائے گا.آپ نے انصار کو مخاطب کر کے بعد میں فرمایا کہ اے انصار! تم نے یہ کیوں نہ سوچا میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں مکہ کو چھوڑ کر تمہارے ساتھ چلا جاؤں گا اور ان انصار میں جا کر ساری زندگی بسر کروں گا اور پھر واپس اپنے وطن نہیں رہونگا جو میرا وطن ہے.اس وقت تم نے یہ نظارہ کیوں نہ سوچا کہ بعض لوگ مال و دولت ہانک کر اونٹوں پر ، گھوڑوں اور گدھوں پر مکے کی طرف لے جارہے ہیں اور خدا کا رسول محمد مصطفی علی

Page 152

حضرت خلیفہ انسخ الرابع کے مستورات سے خطاب مسیح ۱۴۸ خطاب ۱۳ مئی ۱۹۸۹ء تمہارے ساتھ تمہارے وطن جا رہا ہے.کیا تم پسند نہیں کرتے کہ یہ نظارہ ہو کہ بجائے اس کے کہ دنیا کے مال و دولت تمہارے ساتھ جارہے ہوں اور خدا کا رسول ﷺ تمہیں چھوڑ کر دوسری طرف جارہا ہو.روایت کرنے والے بیان کرتے ہیں یوں معلوم ہوتا تھا جیسے بکرے ذبح کئے جارہے ہیں اس قدر کہرام مچ گیا درد کا اور انصار بار بار کہتے تھے یا رسول اللہ ! خدا کے لئے ہمیں معاف کر دیں.ہم نے ہرگز نہیں یہ سوچا، ایک بد بخت، ایک بدنصیب ہے جس نے ہم سب پر داغ لگا دیا تو ایسے ایسے بھی ظالم تھے جنہوں نے آنحضرت عملے پر اموال میں الزام لگائے بدظنی کی یہ آخری انتہا ہے.حضرت مصلح موعود کا مجھے یاد ہے ایک دفعہ آپ نے خطبہ میں فرمایا کہ میں کیا کروں مجھے کچھ سمجھ نہیں آتی اگر میں کسی امیر کی دعوت میں چلا جاؤں تو لوگ کہتے ہیں دیکھو یہ ان سے رعایت کرتا ہے.اگر امیر کے حق میں فیصلہ ہو جائے مقدمے میں تو کہتے ہیں دیکھونا امیر آدمی تھا وہ تحفے دیتا ہوگا اس لئے اس کے حق میں فیصلہ ہو گیا.اور اگر غریب کے چلا جاؤں تو لوگ کہتے ہیں ایسا حریص ہے غریبوں کی دعوت بھی نہیں چھوڑتا.ان کے کھانے کے لئے بھی ضرور پہنچ جاتا ہے، کیا کروں میں نہ جاؤں تو تم کہتے ہو متکبر اور غریبوں کے پاس نہیں جاتا.اگر کسی امیر کے پاس نہ جاؤں تو کہتے ہیں ہم سے بدسلو کی ہورہی ہے ہمارا قصور کیا ہے اگر خدا نے ہمیں دولت دی ہے تو تمہیں کوئی حسن ظنی نہیں ہے اس پر جس کے ہاتھ پر بیعت کی ہے.یہ سلسلہ آنحضرت ﷺ کے وقت سے جاری ہے اور آج بھی جاری ہے آج بھی لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں.تو فرمایا تم اگر بدظنیاں کرو گے تو اِن بَعضَ الظَّنِ اثم ہلاک ہو جاؤ گے، بعض تمہاری بدظنیاں تمہیں گناہوں میں مبتلا کر دیں گی اور ایسے شدید گناہ تم سے سرزد ہوں گے جیسے اس بد بخت انصار میں سے ایک شخص سے سرزد ہوا تھا کہ قیامت تک قرآن کریم میں اس واقعہ کا ذکر اشارہ موجود ہے.اور احادیث میں اس کی تفصیل موجود ہے اور جو شخص پڑھتا ہے وہ اس شخص پرلعنتیں ڈالتا ہے.اس لئے ان باتوں کو چھوٹی نہ سمجھیں ان کے اندر آپ کی زندگی کے بہت گہرے راز ہیں.روحانی زندگی سے اگر آپ کو محبت ہے تو اس کلام کی آپ کو اطاعت کرنی ہوگی پورے شرح صدر کے ساتھ اور پورے غور وفکر کے ساتھ محبت کے ساتھ.کلام الہی کی نصیحتوں پر آپ کو عمل پیرا ہونا ہوگا لیکن افسوس ہے کہ یہ وہ نصیحتیں ہیں جو بار بار آپ کے سامنے پیش کی جاتی ہیں اور بار بار آپ انکو بھلا دیتی ہیں یا بھلا دیتے ہیں.مرد بھی اس میں برابر کے مخاطب ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں عقل دے اور توفیق عطا فرمائے کہ ان چیزوں سے بچیں.

Page 153

حضرت خلیل مسیح الرابع" کے مستورات سے خطاب ۱۴۹ خطاب ۱۳ مئی ۱۹۸۹ء پھر فرمایا ؤ لَا تَجَسَّسُوا ہر انسان کے لئے اس کے ساتھ خدا تعالیٰ نے ستاری کا پردہ رکھا ہوا ہے، جب اس کی برائی اچھل کر معاشرے کے سامنے آجائے تو ضروری ہے کہ اس کو پکڑا جائے ، برائی کرنے والے کو یا سمجھایا جائے یا اگر وہ سزا کا حقدار ہو گیا ہے تو سزادی جائے لیکن اس کے باجود بہتیرے گناہ گارایسے ہیں اور شاید ہی کوئی انسان ایسا ہو جس پر اس آیت کا اطلاق نہ ہوتا ہو کہ جن کے گناہوں پر خدا نے پردہ ڈالا ہو لیکن لوگوں نے تجسس کر کے ان کی کمزوریاں نکالیں اور معاشرے میں اچھال دیں یہ وہ جرم ہے جس کو خدا تعالی سختی سے منع فرماتا ہے.فرماتا ہے اگر تم تجسس کرو گے ،اگر تم اپنے بہن بھائیوں کے اور اپنے عزیزوں کے نقائص تلاش کرو گے اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کو نکالو گے تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ پھر اللہ تعالیٰ تم سے اپنی ستاری کا پردہ اٹھالے گا اور سارا معاشرہ دکھوں میں مبتلا ہو جائے گا.بہت سارے ایسے خاندان اجڑے ہیں کیونکہ میری نظر بعض قضیوں پر ہے اس لئے میں عملاً انہیں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ بہت سے خاندان ایسے گذر چکے ہیں کہ جہاں اگر تجسس نہ اختیار کیا جاتا تو بعض کمزوریاں کسی بچی کی یا کسی مرد کی اپنی جگہ ڈھکی رہتیں اور ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ انہیں معاف کر دیتا اور ان کی اصلاح کر دیتا لیکن تجس کے نتیجے میں جب وہ ٹنگی کی گئیں تو دوسری طرف سے پھر بغاوت کا سلوک ہوا اس میں بعض دفعہ معاشرے کے خلاف بغاوت کی اور رفتہ رفتہ معاملہ ہاتھ سے نکل گیا.تجس کی عادت بھی آپ کو ترک کرنا چاہئے.وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا اور کوئی اور کسی کے خلاف ایسی باتیں نہ کریں کہ یک طرفہ حملہ ہو اور اس کو پتہ ہی نہ ہو کہ مجھ پر کیا حملہ ہو رہا ہے یہ آخری خلاصہ ہے معاشرے کی اصلاح کے لئے جس کی طرف آپ کو غیر معمولی توجہ کی ضرورت ہے.غیبت کی عادت کے متعلق میں نے بارہا خطبات دیئے مگر مجھے افسوس ہے کہ یہ وہ عادت ہے اور چسکا ہے جس کو آپ لوگ چھوڑ نہیں سکتے جس طرح Drug Addicts ہوتے ہیں اسی طرح عورتوں میں خصوصیت کے ساتھ غیبت کی عادت ہوتی ہے، ان کا کھانا ہضم نہیں ہوتا جب تک کسی اور بہن کے خلاف بات نہ کر لیں.جب بیٹھتی ہیں اس وقت کوئی باتیں کر رہی ہوتی ہیں ایک دوسرے کے متعلق.مجھے اپنے گھر میں بھی تجربہ ہے، جب میری بیوی مجھے بتاتی ہے بعض دفعہ کھانے پہ کہ فلاں عورت میں یہ کمزوری ہے اور فلاں میں یہ تو میں ان سے پوچھتا ہوں کہ آج آپ سے کون ملنے آیا تھا اور وہ نہ بتا ئیں تو میں کہتا ہوں کہ اب آپ کا فرض ہے مجھے بتانا.آپ کا کوئی حق نہیں کہ یک طرفہ کسی احمدی خاتون کی بچی کے متعلق یہ بات کریں، صاف پتہ لگ جاتا ہے، بعض دفعہ مجھے یقین ہو جاتا ہے

Page 154

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطاب خطاب ۱۳ مئی ۱۹۸۹ء کہ فلاں عورت آئی تھی کیونکہ کچھ نہ کچھ تو مجھے لجنہ یو.کے سے واقفیت ہو ہی چکی ہے اور انکے انداز فکر سے میں اندازہ لگا لیتا ہوں کہ یہ باتیں فلاں نے کی ہوں گی اور یہ باتیں فلاں نے کی ہوں گی اور یہ لجنہ میرے ساتھ سامنے بیٹھی ہے ان کو پتہ ہے کہ کون کون کیا باتیں کر جاتا ہے.ناجائز بات ہے نامناسب ہے.خلیفہ وقت کی بیوی کو اس کام کے لئے استعمال ہی نہیں کرنا چاہئے.اگر یک طرفہ بات وہ کریں اور میں سن لوں اور کسی احمدی بچی یا عورت کے خلاف میرے دل میں ایک داغ لگ جائے کہ وہ ایسی ہے، تو اس کا گناہ آپ پر ہوگا.جنہوں نے یہ باتیں کی ہیں اس لئے میں ان کو روک دیتا ہوں.میں کہتا ہوں آپ کے لئے جائز نہیں ہے ایسی باتیں.آپ مجھ سے یہ باتیں نہ کریں لیکن روکتے روکتے بھی دو تین باتیں نکل ہی آتی ہیں اس لئے میں ان کو بھی نصیحت کر رہا ہوں اور آپ کو بھی سب کو.میرے لئے آپ انصاف میں سب برابر ہیں.میری بیوی ہو، بہن ہو یا کوئی رشتہ دار ہو مجھے اس میں کوئی تفریق نہیں ہے ہے غلطی خصوصا معاشرے میں ظلم پھیلانے والی غلطی بہت ہی اہمیت رکھتی ہے اور اس کے نتیجہ میں قومیں ایک دوسرے سے پھٹ جاتی ہیں.آج اسلام کو ضرورت ہے آپ سب اکٹھے ہو جائیں.اسلام کا دشمن ہر اس موقع پر اکٹھا ہو جاتا ہے جب اسلام کے خلاف خاص طور پر حملے کا وقت ہوتا ہے.سلمان رشدی کا واقعہ گزرا قطع نظر اس کے کہ خمینی نے بے وقوفی کی ظلم کیا.امر واقعہ یہ ہے کہ اس موجودہ قریب تاریخ میں کبھی کسی بات پر یورپ اس طرح اکٹھا نہیں ہوا جس طرح سلمان رشدی کے مقابلے میں ایران کو رسوا اور ذلیل کرنے میں اکٹھا ہوا.کوئی ایک بڑے سے بڑا واقعہ جو روس میں ہوا ہو یا مشرقی یورپ کے کسی ملک میں یا پولینڈ میں یا کسی اور جگہ ہوا ہو یا اسرائیل میں جو مظالم ہوتے ہیں وہ ان کی نظر میں آئے ہوں، کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے جس پر سارے یورپ نے مشترکہ طور پر اپنے سارے سفیر اس ملک سے واپس بلا لئے ہوں لیکن بنیادی طور پر اندر گھسی ہوئی اسلام کی نفرت موجود ہے اور وہ ان لوگوں میں بھی موجود ہے جو د ہر یہ ہیں، روزمرہ کے معاشرہ میں انہیں کوئی بھی اس بات کا فرق نہیں پڑتا کہ عیسائیت کو کوئی کیا کہہ رہا ہے اور کیا نہیں کہہ رہا لیکن جہاں اسلام کے خلاف دشمنی کا کوئی سوال پیدا ہو تو سب اکٹھے ہو جاتے ہیں تو سارا یورپ اسلام کے خلاف حملوں میں اکٹھا ہو جاتا ہے.آپ ان کو بچانے کے لئے ان تک اسلام کا صحیح پیغام پہنچانے کے لئے اکٹھے نہیں ہو سکتیں.کیوں ہر وقت فتنوں میں مبتلا رہتی ہیں، کیوں ایک دوسرے کے خلاف باتیں کرتی ہیں،

Page 155

حضرت خلیفہ سے الرابع" کے مستورات سے خطاب مسیح ۱۵۱ خطاب ۱۳ مئی ۱۹۸۹ء کیوں ایک دوسرے کے خلاف باتیں سنتی ہیں.سننا بھی ایسا جرم ہے جیسا کرنا ہے کیونکہ اگر آپ سن کر حوصلہ افزائی کریں بہنوں کی تو پھر یہ بات آگے چل پڑتی ہے.پھر اگر سنتی ہیں اور بعض دفعہ دوسروں تک پہنچاتی ہیں اور اس سے پھر فتنے کی آگ اور پھیل جاتی ہے.آنحضرت ﷺ نے اس کی مثال دیتے ہوئے ایک موقع پر یغتب کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ غیبت کیا ہوتی ہے؟ غیبت تو ایسی بات ہے جیسے کوئی کسی کی طرف تیر چلائے وہ تیر چلے تو سہی لیکن اس کے قدموں میں جاپڑے اس کو نہ لگے غائبانہ بات جو ہوئی لیکن جو شخص پھر اس بات کو وہاں تک پہنچاتا ہے اس کی مثال ایسی ہے کہ قدموں سے تیر ا ٹھائے اور اس کے سینے میں گھونپ دے کہ تمہارے لئے آیا تھا میں تمہارے تک پہنچا دیتی ہوں، گویا امانت ہے میں حق ادا کر دیتی ہوں.تو فرمایا یہ ہے وہ فتنہ جود وطرح سے مکمل ہوتا ہے.ایک غیبت کرنے والا چغلی کھاتا ہے اپنی بہن کی اپنے بھائی کی یا اپنے کسی عزیز کی یا غیر کی اور دوسرا اس کوسن کر اس تک پہنچاتا ہے شرارت کی نیت سے تا کہ ان کی آپس میں نفرتیں بڑھیں.یہ دونوں شدید گناہ ہیں اور قرآن کریم اس کے خلاف اعلان جہاد کرتا ہے.بڑی شدت کے ساتھ آپ کو ان چیزوں سے متنفر کرنے کی کوشش فرماتا ہے.چنانچہ غیبت کی مثال دیتے ہوئے فرمایا: لَا يَغْتَب بَّعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ b لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ تَوَّابُ (الحجرات :۱۳) رحِيم کہ کیا تم پسند کرتے ہو ایک دوسرے کے خلاف باتیں کرنے والوجبکہ وہ موجود نہیں ہوتا.کیا تم یہ باتیں پسند کرتے ہو کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاؤ.اب تمہیں پتا چلا کہ کراہت کیا ہوتی ہے.فرمایا فکر هتموۀ دیکھا نا تم نے کیسی کراہت محسوس کی لیکن ایسے ہی ظلم ایک تم روحانی طور پر کر رہی ہو اور تمہیں اس کی کوئی کراہت محسوس نہیں ہے.مثال دیکھیں کتنی کامل دی ہے، مردہ بھائی اپنا دفاع نہیں کر سکتا اس بے چارے کو پتہ نہیں ہوتا کہ میرے ساتھ کیا گذر رہی ہے اور مردے کا گوشت کھانا اس لئے یہاں چسپاں ہوتا ہے کہ آپ جب غیبت کرتی ہیں تو لذت محسوس کرتی ہیں، جس طرح کھانے میں لذت محسوس کرتی ہیں.فرمایا ایسی آپ کی بہن یا بھائی یا کوئی عزیز یا غیر جس کو پتہ نہیں کہ آپ اس کے متعلق کیا باتیں کر رہی ہیں اور اس وقت آپ کو اس میں جو لذت محسوس ہوتی ہے بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے مردہ بھائی کا گوشت آپ کھا رہی ہوں اور لذت محسوس کر رہی ہوں.جب یہ

Page 156

حضرت خلیفہ آیح الرابع" کے مستورات سے خطاب ۱۵۲ خطاب ۱۳ مئی ۱۹۸۹ء مثال دی جائے تو آپ کہتی ہیں اف تو بہ تو بہ کراہت والی بات ہے لیکن اسی کراہت میں آپ روزانہ مبتلا ہوتی ہیں.صبح کو ، دو پہر کو بھی اور شام کو بھی ،لیکن کچھ خدا کا خوف نہیں کھاتیں اور پھر اس کے نتیجے میں منافقت پیدا ہو جاتی ہے، بزدلی پیدا ہو جاتی ہے، معاشرہ تباہ ہورہا ہوتا ہے، نظام جماعت بالکل بیکار اور بے اثر ہو کر رہ جاتا ہے.ایسے وقت میں آپس میں جب باتیں ہورہی ہوتی ہیں اگر وہ عورت اتفاق سے نکل آئے تو ایک دم آپ سب شی شی کی آوازیں دے کر خاموش ہو جاؤ خاموش ہو جاؤ اور بات کو بدلتی ہیں کہ کہیں اس کو پتہ نہ لگ جائے.یہ بزدلی جو ہے اس سے کردار تباہ ہو جایا کرتے ہیں قوموں کے اور غیبت کا بزدلی سے گہرا تعلق ہے اگر آپ کو کسی عورت میں کسی بہن میں کسی بھائی میں نقص نظر آئے تو اس کا طریق کیا ہے، کس طرح ٹھیک کرنا ہے اگر آپ کے دل میں سچی ہمدردی ہے، محبت ہے اور برائی کے خلاف آپ جہاد کرنا چاہتی ہیں تو یہ طریق نہیں ہے جس کو قرآن کریم نے منع فرما دیا ہے.اس کا طریق بڑا آسان یہ ہے کہ جس طرح آپ یہ دیکھیں کہ آپ کی بچی سے اگر کوئی غلطی ہو جائے تو آپ کیا کرتی ہیں ، اس پر پر دے ڈھانپتی ہیں، غیروں سے چھپاتی ہیں اور علیحدگی میں بعض دفعہ دروازے بند کر کے اس کے سامنے روتی ہیں کہ کیوں مجھے ذلیل و رسوا کر رہی ہو، خدا کے لئے ہوش کرو.خاندان کا نام کاٹا جائے گا.تمہارے باپ کو پتہ لگے گا تو کیا کہے گا، لوگ ہمارے متعلق کیا باتیں کریں گے، چھپ کر علیحدگی میں آپ اس سے باتیں کرتی ہیں کہ اور کوئی سن نہ لے.یہی طریق ہے دراصل جو اسلامی طریق ہے، معاشرے کی اصلاح کے اس طریق کو اختیار کریں اور اگر کوئی اس طریق پر اصلاح نہیں کرتا تو پھر آپ کا حق نہیں فرض ہے کہ اس کو بتا کر کہ چونکہ تم ہماری نصیحت سے بالا ہو، ہماری حداثر سے آگے نکل گئی ہو اس لئے ہم تمہارے متعلق جماعت کے منتظمین کو بتانے پر مجبور ہیں لیکن تمہاری ہمدردی میں مجبوری ہے اس کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے.اس طرح اگر آپ یہ طریق اختیار کریں تو یہ جائز ہے، پھر وہ جماعت کے متعلقہ افسران تک بات پہنچانا غیبت نہیں ہے، بلکہ اگر کسی جگہ یہ بات شروع ہو جائے تو دیکھتے دیکھتے برائیاں اس طرح کھڑی ہو جائیں جس طرح اچانک بریک لگا دی جاتی ہے ان کا نفوذان کا پھیلاؤ یہ ساراختم ہو جائے گا.ان کے چلنے کے رستے بند ہو جائیں گے.آج بہت ضرورت ہے اسلام کو آپ سب لوگ موحدین کی طرح اکٹھے ہو کر ایک ہاتھ پر

Page 157

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطاب ۱۵۳ خطاب ۱۳ مئی ۱۹۸۹ء اکٹھے ہو جائیں اور نیکی کو فروغ دینے کی کوشش کریں، محبت کو فروغ دینے کی کوشش کریں، ہرگز کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے ایک دوسرے سے نفرت پیدا ہو.اگر آپ یہ مثالیں اس ملک میں قائم کریں گی تو جرمن خواتین جو آپ کو چاروں طرف سے دیکھ رہی ہیں ان کے دل میں آپکی نہیں اسلام کی محبت پیدا ہوگی اسلام کی عظمت ان کے دل میں پیدا ہوگی آپ ان کی بھی معلم بن سکیں گی لیکن اگر ایسا نہیں کریں گی تو وہ سمجھتی ہیں کہ یہ پناہ لینے کے لئے اپنے اقتصادی مقاصد کی خاطر یہاں پہنچ گئے ہیں یہ لوگ ہیں تو اس قسم کی تیسری دنیا کے لوگ جو ہم سمجھا کرتے تھے ان سے ہم نے کیا لینا ہے.وہ آپ کو ایسی نظر سے دیکھتی ہیں جیسے کوئی بلندی سے نیچے دیکھ رہا ہواور کہتی ہیں کہ ٹھیک ہے ان کے ساتھ گزارہ کرو لیکن ہم الگ لوگ ہیں اور یہ الگ لوگ ہیں.لیکن اگر آپ اسلام کے بتائے ہوئے حسن کو اختیار کریں، اس زیور سے آراستہ ہوں اور دنیا کے حسن کو اس کے مقابل پر اس کو ترجیح دیں تو میں یہ آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ جو مغربی قومیں ہیں یہ بڑی زیرک ہیں، بڑی باریک نظر سے دیکھنے والی ہیں یہ لازماً آپ سے محبت کے نتیجے میں اسلام سے محبت کرنے لگیں گی.جتنے بھی نو مبائعین مجھے ملتے ہیں میں ان سے پوچھا کرتا ہوں کیوں آپ نے اسلام کی طرف توجہ دی، کیوں تحقیق کا خیال پیدا ہوا؟ الا ما شاء اللہ ہمیشہ ہی یہ جواب ملتا ہے کہ فلاں خاندان کے نیک رویے فلاں بہن کے حسن سلوک اور اس کی نیک عادات اور اس کی خصلتوں سے متاثر ہوکر ،فلاں مرد کے اعلیٰ کردار سے متاثر ہوکر.اسلام سے محبت نظریات کے ذریعہ پیدا نہیں ہوگی وہ بعد کی بات ہے پہلے انسان انسان کو جیتا کرتا ہے،اس میں مذہب کا کوئی سوال نہیں ہوا کرتا.آپ میں اگر جیتنے کی خصلتیں پیدا ہوں گی تو یہ قومیں جیتی جائیں گی.بحیثیت ایک مسلمان خاتون کے آپ کو ایک سنگھار کرنا ہوگا ، وہ سنگھار نہیں جو سرخی اور پاؤڈر سے تعلق رکھتا ہے، وہ سنگھار جو روح کو حسین بناتا ہے،فطرت کو دلکش بنادیتا ہے،اخلاق میں دلر بائی پیدا کر دیتا ہے، ایسا حسن پیدا ہوتا ہے کہ ہر انسان اس پر بھیجنے پر مجبور ہوجاتا ہے، یہ وہ کام ہے جو لجنہ اماءاللہ جرمنی کو کرنا چاہئے اور اگر آپ ان باتوں کو توجہ سے سن کر اپنے پلے باندھیں گی اور اختیار کرنے کی کوشش کریں گی تو میں یقین دلاتا ہوں کہ اسلام کی فتح جو بہت دور دکھائی دے رہی ہے وہ آپ کو بہت قریب نظر آتی دکھائی دے گی.آپ اسلام کی فتح کے قدموں کی چاپ سن سکیں گی.اس تیزی کے ساتھ مغرب کو اسلام کے اعلیٰ اخلاق کی ضرورت ہے اور وہ اس کی پیاس محسوس کرتے ہیں مگر نظریات سے نہیں مانیں گے وہ نمونوں سے مانیں گے اور وہ نمونے آپ نے پیدا

Page 158

حضرت خلیفہ انسخ الرابع" کے مستورات سے خطاب ۱۵۴ خطاب ۱۳ مئی ۱۹۸۹ء کرنے ہیں، جو میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ آپ اس کی طرف توجہ کریں گی اور آخری بات میں کہنا چاہتا ہوں کہ اپنا نیک اثر تو آپ سبھی ڈالیں گی اگر آپ میں یہ خوبیاں پیدا ہوں گی ورنہ آپ ان کے بداثرات ضرور قبول کریں گی.آپ کی بچیاں جو اندرونی اور روحانی سنگھار سے غافل ہوں گی وہ بیرونی سنگھار کی طرف متوجہ ہوں گی کیونکہ سنگھا رعورت کی فطرت میں داخل ہے یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ عورت سنگھار کے بغیر رہ سکے یاوہ اندرونی طور پر حسن پیدا کرتی ہے اور اس میں عظمت اور وقار پیدا ہوتا ہے اور اس کو ایک کامل اعتماد پیدا ہو جاتا ہے کہ میں اخلاقی لحاظ سے حسین ہوں اور ظاہری طور پر میری شکل وصورت کی کوئی حقیقت نہیں.ایسی عورتیں میں نے دیکھی ہیں بچپن سے میں ان لوگوں سے متاثر ہوا ہوں جن کو کوئی لباس کی پرواہ نہیں ہوا کرتی تھی لیکن ان کی عظمت کردار ان کو حسین بنائے پھرتی تھی ، جہاں جاتی تھیں مقبول ہوتی تھیں ان کی بڑی عزت کی جاتی تھی بڑا احترام ہوتا تھا.وہ عورتیں یاوہ بچیاں جو اس تزئین سے غافل ہیں وہ پھر لازماً دوسری تزئین کی طرف توجہ کرتی ہیں وہ معاشرے میں نکلتی ہیں اور لوگوں کو اپنی طرف کھینچنا چاہتی ہیں.غیر مردوں کی نگاہوں کو دعوتیں دیتی ہیں.مجور رفتہ رفتہ وہ سوسائٹی جو پہلے ہی اس قسم کی باتوں کی منتظر بیٹھی ہے ان کو گھیر لیتی ہے اور ان کو ختم کر دیتی ہے، ان کی اخلاقی حالتیں تباہ ہو جاتی ہیں، ان کی روحانی حالتیں تباہ ہو جاتی ہیں ، آنکھوں کے سامنے آپ کی بچیاں آپ کے ہاتھوں سے نکل رہی ہوتی ہیں اور یہاں کے کہ قوانین ان کو نکلنے کا تحفظ دیتے ہیں، آپ روکنے کی حمایت نہیں کرتے.پس بڑے خطرے میں آپ مبتلا ہیں اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ ان سب باتوں کو غور سے سمجھ کر اپنی آئندہ نسلوں کی حفاظت کی خاطر اس اندرونی حسن کی طرف متوجہ ہوں جس کے نتیجے میں آپ نے تمام دنیا کے دل جیتنے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 159

حضرت خلیفت صیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۵۵ خطاب ۱۲ را گست ۱۹۸۹ء اسلام میں عورت کا مقام (جلسہ سالانہ مستورات برطانیہ سے خطاب فرموده ۱۲ اگست ۱۹۸۹ء) حضور رحمہ اللہ نے خطاب سے قبل فرمایا: یہ جو نعرے آپ نے سنے ہیں یہ غانا کی ایک خاتون لگا رہی تھیں.اس سے پہلے جماعت احمدیہ میں ، قادیان میں یار بوہ میں عورتوں میں نعرے لگانے کا رواج نہیں تھا.اس کی وجہ مجھے سمجھ نہیں آئی غالباً معاشرہ کی روایات کے تابع یہ بات ہو رہی تھی.جب میں غانا گیا یا افریقہ کے دوسرے ممالک میں بھی گیا لیکن خصوصیت سے غانا میں تو ہزار ہا احمدی خواتین سفید لباس میں ملبوس وہ ایئر پورٹ سے باہر انتظار فرما رہی تھیں اور پھر ایسے فلک شگاف نعرے اُنہوں نے لگائے اور ویلکم (Welcome) کے نغمے بھی ساتھ گائے کہ اُس سے ساری فضا میں ارتعاش پیدا ہو گیا.اس کی جب فلمیں یہاں لنڈن میں دکھائی گئیں تو یہاں بھی عورتوں میں بہت جوش آگیا انہوں نے کہا.ہم کیوں محروم رہیں، ہم بھی آخر خواتین ہیں، ہمارا بھی حق ہے، تو انہوں نے بھی پھر یہ شروع کر دیا.اب جب میں کل افریقہ کے وفد سے ملنے گیا ہوں تو وہاں اُسی طرح سفید لباس میں ملبوس ایک چھوٹا سا وفد آیا ہوا تھا انہوں نے پھر اُن نعروں کی اور نغموں کی تکرار کی تو میں نے چاہا کہ آپ سب بھی اُس نظارے میں اور وہ جو روحانی لذت حاصل ہوتی ہے اُس میں شریک ہو جائیں.تو آج میری فرمائش پر انشاء اللہ تلاوت اور نظم کے بعد یہ افریقہ سے آئی ہوئی خواتین آپ کے سامنے وہی مظاہرہ فرما ئیں گی.خصوصیت سے غانا میں جب انہوں نے درود شریف پڑھا ہے تو بہت ہی خاص انداز میں بہت ہی پیاری ئے کے ساتھ پڑھا ہے.وہ ایک غیر معمولی تجربہ ہے جس سے آپ اُمید ہے لذت پائیں گی.(اس کے بعد حضور نے مکرمہ عارفہ امتیا ز صاحبہ کو تلاوت قرآن کریم کے لئے بلایا )

Page 160

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۱۵۶ خطاب ۱۲ مرا گست ۱۹۸۹ء تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: اب میں آپ کو اردو میں ایک دلچسب بات بتا تا ہوں ، ترجمہ سے پہلے.یہ جو خاتون یہاں تلاوت کے لئے تشریف لائی ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کی دُعاؤں کا ایک زندہ معجزہ ہیں.ایک سال قبل انہوں نے میری تحریک میں حصہ لیا اور وقف نو کے لئے خواہش ظاہر کی.ڈاکٹر ز کا ان کو مشورہ یہ تھا کہ یہ بہت کمزور ہیں اور ایک اور بچے کی متحمل نہیں ہوسکتیں.انہوں نے اس کے باوجود کہا کہ مجھے اس سے غرض کو ئی نہیں.میں نے تو عہد کیا ہے کہ اس نئی تحریک میں ضرور حصہ لینا ہے.چنانچہ جب خدا تعالیٰ کے فضل سے وضع حمل ہوا تو کچھ عرصہ کے بعد ڈاکٹروں نے ان کو وارننگ دینی شروع کی لیکن یہ اپنی ضد پر قائم رہیں اور جب بچے کی پیدائش ہوئی تو کس طرح کلیہ یہ Collapse کر گئیں اور ہاتھوں سے نکل گئیں کہ ڈاکٹروں نے آخر بالکل جواب دے دیا.انہوں نے کہا کہ ان کے دماغ نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا ہے.ان کی حالت جو ہے وہ اس قدر حد سے گزر چکی ہے کہ ڈاکٹری نکتہ نگاہ سے اب کوئی امید نہیں رہی.اُس وقت ان کے بعض عزیز روتے ہوئے میرے پاس آئے اور نڈھال ہورہے تھے انہوں نے کہا یہ آپ کی تحریک کے نتیجہ میں ، اس طرح انہوں نے اخلاص سے قربانی دی تھی ، کچھ کریں.اُس وقت میں نے خصوصیت سے ان کے لئے دُعا کی اور یہی حوالہ دیا کہ اے خدا! اِس نیک خاتون کو زندہ رکھ اور احمدیت کی صداقت کا نشان بنا اور اس کے بچے کو بھی زندہ رکھ.چنانچہ بجائے اس کے کہ وہ ان کی تدفین کی تیاری کرتے.دیکھتے دیکھتے سانس پلٹ گئی ، ہوش آنا شروع ہوا اور ڈاکٹروں نے کہا کہ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آتی کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے.ہمارے علم کے مطابق اس عورت کو مر جانا چاہئے تھا اور اب بھی ہم سمجھتے ہیں کہ اس کی دماغی قابلیتیں واپس نہیں آسکتیں کیونکہ ان کو نقصان پہنچا ہے لیکن خدا کے فضل سے وہ ساری قابلیتمیں واپس آئیں اور آج جس آواز سے انہوں نے تلاوت کی ہے اُس سے ہی آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ خدا کے فضل سے بیماری کا کوئی بداثر باقی نہیں رہا.ایسے اور بھی بہت سے واقعات ہوتے رہے ہیں جن کا شمار ممکن نہیں اللہ کے فضل کے ساتھ.احمدی ہمیشہ دعاؤں کی قبولیت کے نمونے دیکھتے ہیں اور ان کے ایمان تازہ ہوتے ہیں.تو یہ ایک ایسا نمونہ تھا جو میں نے چاہا کہ آپ کو بھی اس ذکر میں شامل کرلوں.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک نظم میں سے چندا شعار مسز امتہ الکریم کو کب پیش فرمائیں گی.

Page 161

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۵۷ بعد از نظم حضور نے فرمایا: خطاب ۱۲ راگست ۱۹۸۹ء یہ جونظم آپ نے سنی ہے حضرت مسیح موعود کی اس کی یہ خصوصی طر ز سب سے پہلے مسز نیم شیخ نے نکالی تھی اور گزشتہ سال انہوں نے ہی اپنی آواز میں پڑھ کر سنائی تھی.انہوں نے بھی اچھی نقل کی ہے ماشاء اللہ لیکن قوام کا فرق ہے.آپ نے دیکھا ہو گا آپ تو کھانا پکاتی ہیں، میٹھے کا قوام بنایا جائے تو بعض دفعہ تار لمبی کھچ جاتی ہے.بعض دفعہ جلدی ٹوٹتی ہے.تو مسز نسیم کی آواز کا قوام اچھا ہے.ماشاء اللہ مگر کو کونے بھی اچھا حق ادا کیا ہے.جزاا اللہ احسن الجزاء.تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: آج کے خطاب سے پہلے ایک دو باتیں میں آپ کی خدمت میں متفرق رکھنی چاہتا ہوں.سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آج سٹیج پر میرے ساتھ میری اہلیہ کے علاوہ بھی دوصدرات لجنہ موجود ہیں ایک تو کینیڈا کی صدر لجنہ ہیں اور ایک امریکہ کی صدر لجنہ ہیں لیکن صدر لجنہ جو تمام دنیا کی ہیں وہ بھی یہاں موجود ہیں.مجھے علم نہیں کہ آیا انہوں نے خود معذرت کی یا ان سے درخواست ہی نہیں کی گئی کہ وہ بھی سٹیج پر تشریف لائیں.اسی طرح اگر چہ اور بہت سے ممالک ہیں جن کی صدرات لجنہ ہیں بہت سے شہر ہیں جن کی صدرات لجنہ ہیں.اس چھوٹے سے سٹیج پر سب کو اکٹھا تو نہیں کیا جاسکتا لیکن صدر لجنہ ربوہ کو بھی ایک خاص اہمیت حاصل ہے اس لئے آئندہ سے یا تو جس طرح دستور پہلے چلا ہوا تھا.صرف خلیفہ وقت کے ساتھ اس کی بیوی بیٹھی ہو اور کوئی بھی نمائندہ نہ ہو اور یا پھر جو مرکزی نمائندگان موجود ہوں ان کو اولیت دینی چاہئے اور اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں لجنہ اماءاللہ امریکہ کی نمائندگی اور لجنہ اماءاللہ کینیڈا کی نمائندگی سے خوش نہیں ہوں.میں اس سے خوش ہوں مگر میں زیادہ خوش ہوتا اگر صدر لجنہ مرکز یہ بھی یہاں تشریف رکھتیں اور صدر لجنہ ربوہ بھی یہاں ساتھ ہوتیں اس سٹیج پر یقینا اتنی جگہ موجود ہے.بہر حال یہ مختصر سی بات تھی.امید ہے آئندہ ایسے جو مراتب ہیں ان کا خیال رکھا جائے گا.جو نے آپ نے سنے ہیں افریقہ کے ، یہ ایک چھوٹا سا نمونہ ہے جو جب میں افریقہ گیا تھا تو اُس وقت جس قسم کے نغمے گائے گئے تھے اُن میں سے یہ نمونہ تھوڑا سا آپ کے سامنے پیش ہوا ہے.اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ جب افریقہ کے دورے میں، ملکوں ملکوں میں ، مقامی زبانوں میں بے اختیار، مردوں ، عورتوں اور بچوں نے نغموں کی صورت میں حضرت مسیح موعود کی صداقت کا اعلان کیا تو

Page 162

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۵۸ خطاب ۱۲ را گست ۱۹۸۹ء میرے دل کا کیا حال ہوتا ہوگا.افریقہ کے کونے کونے سے، ایسے عظیم الشان صداقت کی گواہیوں کے نغمے بلند ہوئے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ سارے افریقہ کی فضا اُن سے گونج رہی ہے اور کئی ٹیلیویژن Stations نے بھی ان کو پکڑا.ایک حصہ بچوں کا تھا وہ تو اتنا پیارا تھا ،اتنا دلنشین کہ جب تک آپ سنیں نا آپ اُس کی کیفیت کا اندازہ بھی نہیں کر سکتیں.اس میں سب سے آگے ، بازی لے جانے والا سیرالیون تھا.سیرالیون میں احمدی سکول خدا کے فضل سے ۱۲۷ ہیں اور اس کے علاوہ ۲۷ پورے بڑے سکول ہیں یعنی سیکینڈری سکولز.اُن سکولوں میں سب بچے احمدی نہیں ہیں لیکن احمدی بچے اور عیسائی بچے اور دوسرے بچے ملے جلے ہیں.اُن سب نے ان نغموں میں شرکت کی اور عیسائی بچوں نے بھی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے نغمے بلند کئے اور ایسا پیارا منظر ہوا کرتا تھاوہ، کہ اُس سے روح تحلیل ہو جاتی تھی اور انسان اپنے تصوروں میں عرش باری تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو جاتا تھا.اس موقع پر میں نے ان کا نغمہ پیش کرنے کے لئے خصوصیت سے اس لئے بھی ہدایت کی ہے کہ احمدی عورت کو ایک خاص مقام حاصل ہے جو پاکستانی معاشرہ سے کسی نہ کسی رنگ میں کچھ تعلق تو رکھتا ہے لیکن وہ پاکستانی معاشرہ نہیں ہے ،اس خیال کو دل سے نکال ڈالیں.ایک اسلامی معاشرہ ہے اور بعض اسلامی حقوق ہیں جو عورت کو دیئے گئے ہیں.اُن حقوق کو تلف کرنے کے نتیجہ میں نہ صرف احمدی خواتین کے حق تلف ہوں گے بلکہ دنیا بھر میں اسلام کو نقصان پہنچے گا.اُن میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ جس طرح مرد خدا تعالیٰ کی عظمت سے مرعوب ہو کر ایک خاص روحانی جوش سے نعرے بلند کرتے ہیں.کیوں عورت کا یہ حق نہیں ہے؟ قرآن کریم تو فرماتا ہے کہ کائنات کی ہر چیز تسبیح و تحمید کر رہی ہے تو ایک عورت ہی ہے بیچاری جو تسبیح و تحمید کے حق سے محروم کی جائے.جہاں تک پاکیزہ نغموں کا تعلق ہے یہ خواہ مخواہ کی غلط روایات ہمارے اندر قائم ہوئی ہیں کہ عورت کی آواز کوئی مرد سن نہیں سکتا.عورت کی آواز کیسے نہیں سن سکتا ؟ حضرت عائشہ صدیقہ نے مجمعوں میں لیکچر دیئے ہیں اور تربیت کی ہے مردوں کی اور براہ راست مرد آپ کی آواز کو سنتے تھے.جو آواز سنی منع ہے وہ بیہودہ نغموں کی آواز ہے جو انسانی ذہن کو غلط رستوں پر ڈالنے والی ہے.لیکن کتنا تضاد ہے ہمارے معاشرہ میں کہ گھر گھر میں عورتوں کے نغمے سنائے جاتے ہیں ، سنے جاتے ہیں ریکارڈ کئے جاتے ہیں، میوزک کے ساتھ نہایت فحش کلام یا بعض دفعہ غیر بخش کلام بھی غزلوں کی صورت میں عام مروج ہے سارے پاکستان میں بلکہ تمام دنیا میں اُس پر کوئی انگلی نہیں اُٹھاتا لیکن ایک احمدی عورت کی پاکیزہ آواز میں حضرت محمد مصطفی ﷺ کے عشق میں اگر نغمہ بلند ہو تو

Page 163

حضرت خلیفہ مسح الرائع کے مستورات سے خطابات ۱۵۹ خطاب ۱۲ را گست ۱۹۸۹ء لوگ سمجھتے ہیں کہ ہیں ہیں ایسی بات نہیں یہ تو بہت بُری بات ہوگئی ہے، یہ کیا شروع ہو گیا ہے.عقل کرنی چاہئے ، توازن پیدا کرنا چاہئے تمام دنیا میں ہم نے احمدی عورت کو مقام کو اُس شان کے ساتھ پیش کرنا ہے جس شان کے ساتھ اسلام پیش کرتا ہے اور سوائے ان راہوں کے جہاں کچھی کا خطرہ ہے ہر دوسری راہ پر عورت کو چلنے کا مرد کے ساتھ برابرحق ہے اور کوئی دنیا کی طاقت اس حق کو روک نہیں سکتی.اگر کوئی اپنی جہالت کی وجہ سے اس حق کو روکنے کی کوشش کرے گا تو عورتیں اس کے خلاف بغاوت کریں گی اور اس بغاوت میں اگر اسلام کو نقصان پہنچا تو وہ روکنے والے بھی اس کے ذمہ دار ہوں گے لیکن احتیاط کے تقاضے ہیں ان تقاضوں کو فراموش نہیں کرنا چاہئے اور سوچ سوچ کر قدم اُٹھانے چاہئیں.عورت کو مقام جو اسلام نے دیئے ہیں وہ اُن تک لازماً پہنچیں گے.لیکن بعض دفعہ جلدی سے ایسے خطرات درپیش ہوئے ہیں کہ راستہ بھٹک جائے اور انسان حد اعتدال سے تجاوز کر جائے پس اُن احتیاطوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے احمدی عورت کو اپنا وہ مقام لازما حاصل کرنا ہے اور دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے جو خدا تعالیٰ نے اُسے عطا فرمایا ہے.گزشتہ سال اپنے خطاب میں ، میں اسلام اور عورت کے موضوع پر ، جب آپ سے گفتگو کر رہا تھا تو عورت کو اسلام نے بطور ماں کے کس طرح پیش کیا ہے.یہ بات چل رہی تھی کہ وقت ختم ہو گیا.اب جہاں تک مجھے یاد ہے، میں نے کوشش کی ہے کہ وہ حوالے جو میں پہلے آپ کے سامنے پیش کر چکا تھا اُن کی تکرار نہ ہو لیکن اگر کچھ ہو جائے تو میں معذرت خواہ ہوں مگر جہاں میں نے مضمون کو چھوڑا تھا وہیں سے اس کو آج اُٹھانے کی کوشش کروں گا.قرآن کریم نے عورت کو بحیثیت ماں اس شان کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے کہ ساری کائنات میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی.مذاہب کو آپ دیکھ لیجئے معاشروں کو دیکھ لیجئے دنیا بھر میں چھان بین کریں نگاہ دوڑائیں مئے عرفان کا یہی ایک ہی شیشہ نکلا یہی آواز ہے جو ہر دفعہ آپ کو جواب کی صورت میں دل سے اٹھتی ہوئی دکھائی دے گی.قرآن کریم نے اتنا عظیم الشان ذکر فرمایا ہے ماں کا اور اُس کے مراتب کا اُس کے مقامات کا ،اس کے حقوق کا کہ دنیا میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے نہ مذاہب میں اس کی مثال ہے نہ معاشروں میں اس کی مثال ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ ماں باپ کا اکٹھا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:

Page 164

17.خطاب ۱۲ را گست ۱۹۸۹ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَا أَفْ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ( بنی اسرائیل : ۲۴-۲۵) وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيْنِي صَغِيرًا اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تمہارے ماں باپ میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کی عمر تک پہنچ جائیں تو ان کو اُف تک نہیں کہنا وَ لَا تَنْهَرْهُمَا ڈانٹنے کا تو سوال ہی پید انہیں ہوتا.وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا بلکہ عزت کے ساتھ اور تکریم کے ساتھ اُن کو مخاطب کیا کرو.یہ وہ تعلیم ہے جس کو آج دنیا یکسر بھلا بیٹھی ہے اور وہ بڑے بڑے ممالک جو عورت کی تکریم کے قیام کا دعویٰ کرتے ہیں ان کا معاشرہ اس دعویٰ کو اس کثرت کے ساتھ اور اس دردناک طریق پر جھٹلا رہا ہے کہ آج تک قول وفعل میں انسان نے جو تضاد دکھائے ہیں اس سے بڑھ کر شاید کم ہی کوئی تضاد دنیا کے سامنے ظاہر ہوا ہو.روز بروز ترقی یافتہ ممالک میں ماں باپ کی عزت کم ہوتی چلی جارہی ہے اور نوجوان نسلیں ان کو اس طرح پھینک دیتی ہیں، بڑھاپے کی عمر میں، جس طرح پرانے کپڑوں کو اتار کر پھینک دیا جاتا ہے.بعض لوگ اپنے پرانے کپڑوں سے بھی زیادہ محبت کرتے ہیں اور انہیں بھی سنبھال کر رکھتے ہیں لیکن اکثر صورتوں میں آپ کو مغربی ممالک میں یہ ظلم دکھائی دے گا کہ عورت یا مرد دونوں جب بھی بڑھاپے کی عمر کو پہنچیں تو اُن سے عملاً رشتے منقطع کر لئے جاتے ہیں.میں نے بارہا اس مضمون کا دوسری جگہ بھی ذکر کیا ہے.جو خود کشی کے واقعات مغربی دنیا میں آپ کے سامنے آتے ہیں ان میں ایک بڑی تعداد ایسے ماں باپ کی ہے جو محرومی کے احساس سے تنگ آکر خود کشیاں کر لیتے ہیں اور ترستے رہتے ہیں کہ کبھی اُن کے بچے اُن کی طرف نگاہ کریں اور ان کو سوسائٹی کے سپر د یعنی حکومتوں کے سپر د کر کے وہ فراموش کر دیتے ہیں اور سال میں کبھی ایک دفعہ کبھی خوش نصیبی کے ساتھ اُن سے دوبارہ ملتے ہیں.یہ حالات میں اس لئے نہیں بیان کر رہا کہ مغرب پر تنقید کروں کیونکہ اسلام تو نہ مغرب کا ہے نہ مشرق کا ہے.ہم بحیثیت احمدی مغرب اور مشرق کی تفریق مٹانے آئے ہیں میں صرف اس لئے یہ بات کھول رہا ہوں کہ جس طرح میں بعض دفعہ مشرقی معاشرہ کی برائیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہوں اور اہل مشرق

Page 165

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۱۶۱ خطاب ۱۲ را گست ۱۹۸۹ء کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان برائیوں کو دور کریں اور اسلامی تعلیم کی طرف واپس لوٹیں اسی طرح میرا فرض ہے کہ مغربی دنیا کی برائیاں بھی ان کو کھول کھول کر بتاؤں اور ان کو متوجہ کروں کہ ان کی نجات اسلامی اخلاق کی طرف لوٹ آنے میں ہے.اس معاملہ میں ہرگز میرے تصورات کے پس منظر میں کوئی تفریق نہیں ہے.مجھے مغرب کی دنیا کے انسان اُسی طرح پیارے ہیں جس طرح مشرق کی دنیا کے جس طرح اُن کی خوبیوں کو سراہتا ہوں اس طرح ان کی خوبیوں کو سراہتا ہوں.اُن کی برائیوں پر بھی دکھ سے نظر ڈالتا ہوں اور دوسروں کی برائیوں پر بھی دکھ سے نظر ڈالتا ہوں اس لئے ہر گز اس معاملہ میں کوئی کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہو.اسلامی تعلیم ماں باپ کے متعلق اگر دنیا میں رائج ہو تو انسانی معاشرہ بہت ہی حسین ہو کر اُبھر سکتا ہے.اس سلسلہ میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے بہت سی نصائح فرمائی ہیں جو قرآنی تعلیم پر مبنی ہیں.قرآنی آیات بھی کثرت سے ہیں اور کئی طریق پر انسانوں کو اپنے ماں باپ کے حقوق کی طرف متوجہ کیا گیا ہے اور خصوصاً والدہ کے حقوق کو بڑی وضاحت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے.چنانچہ ایک موقع پر قرآن کریم فرماتا ہے: وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهَنَّا عَلَى وَهْنٍ وَ فِصلُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَى الْمَصِيرُ وَإِنْ جَاهَدُكَ عَلَى اَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبُهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا وَاتَّبِعْ سَبِيْلَ مَنْ آنَابَ إِلَى ثُمَّ إِلَى مَرْجِعُكُمْ فَأُنَتِتُكُمْ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ) (تضمن: ۱۵-۱۶) اور ہم نے یہ کہتے ہوئے کہ میرا اور اپنے والدین کا شکر یہ ادا کر.انسان کو اپنے والدین کے متعلق احسان کرنے کا تاکیدی حکم دیا اور اُس کی ماں نے اُسے کمزوری کے ایک دور کے بعد کمزوری کے دوسرے دور میں اُٹھائے رکھا اور اس کا دودھ چھڑانا دوسال کے عرصہ میں تھا.یعنی انسان بچے کی کمزوری کے دور میں جب وہ ماں کے اوپر کلی منحصر تھا اس نے ایک کمزوری کے دور کے بعد دوسری کمزوری کے دور میں اُسے مسلسل اُٹھائے رکھا، اپنے خون اپنی تمام طاقتوں سے اُس کو حصہ دیا اور جب وہ پیدا ہوا تب بھی وہ اپنی ماں پر منحصر رہا اور دو سال تک اُس نے دودھ بھی پلایا اور ویسے بھی اُس کی پرورش کی ، یاد رکھو کہ میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہو گا.یعنی ان احسانات کو اگر بھلا دو گے تو میرے سامنے

Page 166

حضرت خلیفہ انسخ الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۶۲ خطاب ۱۲ را گست ۱۹۸۹ء آکر تم جوابدہ ہو گے.پھر فرمایا کہ اگر وہ دونوں تم سے بحث کریں کہ تم کسی کو میرا شریک مقرر کر و جس کا تمہیں علم نہیں تو ان دونوں کی بات مت مانیو.ہاں دنیوی معاملات میں ان کے ساتھ نیک تعلقات کو قائم رکھو اور اُس شخص کے پیچھے چلو جو میری طرف جھکتا ہے اور تم سب کا لوٹنا میری طرف ہی ہوگا ،اُس وقت میں تم کو تمہارے عمل سے خبر دار کروں گا.اس آیت میں جہاں ماں باپ کے حقوق کا ذکر فرمایا ہے وہاں اپنے حقوق کا ذکر بھی ساتھ فرما دیا اور آیت کا مضمون بتاتا ہے کہ تقدم اور تاخر کو کھول دیا گیا ہے.فرمایا کہ ماں کا احسان تم پر ہے اُس نے کمزوری کے بعد کمزوری کی حالت میں تمہیں اُٹھائے رکھا اس لئے اُس کے شکر گزار ر ہولیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ خالق کو بھول جاؤ جس نے تمہیں ازل سے لے کر آج تک ہزار ہا بلکہ لکھوکھا بلکہ کروڑ ہا ، ارب ہا مراحل سے گزارا ہے اور تمہاری پرورش کے انتظامات کئے ہیں.یہ نہیں ہوسکتا کہ ماں کے احسان کے تابع اس کو بھول جاؤ اس لئے ماں یا باپ یا دونوں اگر تمہیں شرک پر آمادہ کریں تو تمہارا فرض ہے کہ اُن کی بات نہ مانو اور خدا کی طرف جھکو اور اُن کے تابع رہو جو خدا کی طرف جھکنے والے ہیں.اس کے علاوہ شرک کی تعلیم کے باوجود تم نے ان سے تعلق نہیں تو ڑنا اور جہاں تک دنیاوی احسانات کا معاملہ ہے وہ سلوک جاری رکھنا ہے.حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کثرت سے ایسی روایات مروی ہیں جن میں آپ نے ماں کے حقوق کی طرف مختلف رنگ میں توجہ دلائی.اُن میں سے چند حدیثیں میں نے پھنی ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.الادب المفرد حضرت امام بخاری کی کتاب ہے جو بخاری کا حصہ تو نہیں لیکن بہت ہی عمدہ اور مستند روایات پر مشتمل اخلاق کی کتاب ہے.آپ نے حضرت ابو ہریرہ سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ آنحضرت سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ! کس کے ساتھ نیک سلوک کروں؟ فرمایا اپنی ماں کے ساتھ.عرض کیا پھر کس کے ساتھ ؟ فرمایا اپنی ماں کے ساتھ.پھر عرض کیا گیا پھر کس کے ساتھ ؟ فرمایا اپنے باپ کے ساتھ.( صحیح بخاری.کتاب الادب باب من احق الناس بحسن الصحبة ) اب وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام نے عورت اور مرد کے درمیان تفریق کی ہے.اس موقع پہ جو تفریق ہے وہ ماں کے حق میں ہے عورت کے حق میں ہے باپ کے حق میں نہیں کیونکہ دو دفعہ سوال جب دھرایا گیا تو یہ فرمایا کہ ماں کے ساتھ حسنِ سلوک کرو اور ایک دفعہ آخر پر فرمایا کہ باپ کے ساتھ بھی حسن سلوک کرو.پھر باقیوں کو بھی اس نصیحت میں شامل فرمالیا گیا الادب المفرد ہی کی ایک اور روایت ہے، جو حضرت کلیب

Page 167

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۶۳ خطاب ۱۲ را گست ۱۹۸۹ء بڑا بد نصیب ہے.سے مروی ہے.آپ کہتے ہیں کہ میرے دادا نے ( یہ صحابی نہیں تھے ) عرض کیا یا رسول اللہ ! کس کے ساتھ حسن سلوک کروں؟ آپ نے فرمایا اپنی ماں ، بہن ، بھائی اور اپنے غلام کے ساتھ جو تم سے قریب ہو.یہ واجب حق ہے اور قرابت داری کے حقوق کی حق شناسی کرو.پھر ایک موقع پر آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ خاک آلودہ ہو اُس کی ناک یعنی گویا ایسا شخص ذلیل ہوا جس نے اپنے ماں باپ کو بڑھاپے کی عمر میں پایا اور پھر بھی وہ چھتم میں گیا.یعنی مطلب یہ ہے کہ بوڑھے ماں باپ کی خدمت کرنے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ بخشش کا سلوک فرماتا ہے اور بوڑھے ماں باپ کی خدمت کے نتیجہ میں جنت کی راہیں آسان ہو جاتی ہیں.جو اس موقع کو پائے اور کھو دے وہ ( صحیح مسلم کتاب البر والصلة باب رغم انف من ادرک ابویه ) جہاد کا مضمون آپ سب پہ روشن ہے کہ اُس کی کتنی اہمیت ہے.بہت سے ایسے مواقع تھے جبکہ مسلمانوں کی دشمنوں سے لڑائی ہورہی تھی یعنی جہاد عمومی بھی جاری تھا لیکن تلوار کا جہاد بھی شروع ہو چکا تھا.ایسے موقع پر حضرت امام بخاری ہی کی روایت ہے، الادب المفرد سے کہ ایک شخص رسول کریم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُس نے اپنے آپ کو جہاد کے لئے پیش کیا، یعنی قتال کے لئے.آپ نے فرمایا، تمہارے والدین زندہ ہیں؟ اُس نے کہاں ہاں.آپ نے فرمایا جاؤ اُن کی خدمت کرو یہی تمہارا جہاد ہے.ایک اور موقع پر حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہجرت کی بیعت کرنے کو حاضر ہوا اور ماں باپ کو گھر روتے چھوڑ آیا ( یہ ہجرت کی بیعت سے مراد یہ ہے کہ مکہ میں جو لوگ مسلمان ہوتے تھے وہ بعض دفعہ تکلیفوں کو برداشت نہ کر کے وہاں سے ہجرت کرتے تھے تو آکر دوبارہ آنحضرت کی بیعت کیا کرتے تھے ، اُسے ہجرت کی بیعت کہا جاتا تھا).اب یہ ظاہر نہیں فرمایا گیا اس روایت میں کہ اُس کے ماں باپ مومن تھے یا مشرک تھے.بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ مسلمان نہیں تھے مگر ان کو وہ روتا ہوا پیچھے چھوڑ آیا تھا.آپ نے فرمایا، واپس جاؤ، جیسے تم نے انہیں رلایا ہے ویسے انہیں جا کر ہنساؤ.بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ اگر ماں باپ فوت ہو جائیں تو اُن کی خدمت کیسے کی جائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب بڑے واضح طریق پر دیا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ چار طریق سے تم اُن کے ساتھ حسن سلوک کر سکتے ہو ان کے لئے عمومی دُعا کرو، اُن کے لئے خدا تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتے رہو، اور اُن کے وعدوں کا ایفاء کیا کرو یعنی جو کچھ انہوں نے وعدے

Page 168

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۶۴ خطاب ۱۲ را گست ۱۹۸۹ء کئے لیکن زندگی نہ پائی اور وعدے پورے نہ کر سکے ان کا ایفاء کر و.ان کے دوستوں کی تکریم اور ان کے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرو.پس ماں کے ساتھ جو حسن سلوک ہے اُس کے ساتھ والد کا بھی ذکر ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن جہاں بھی تفریق کا سوال پیدا ہوا ہے، بکثرت ایسی احادیث ملتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں کو زیادہ اہمیت دی ہے.چنانچہ ایک موقع پر جب آپ سے سوال کیا گیا کہ کس کی خدمت کروں تو آپ نے فرمایا، ماں کی.پھر سوال کیا گیا اس کے بعد کس کی؟ پھر فرمایا ماں کی.پھر سوال کیا گیا گیا پھر جواب تھا ماں کی.چوتھی بار اُس نے سوال کیا پھر فرمایا ماں کی خدمت کرو.پس اس پہلو سے ماؤں کو ایک عظیم مقام قرآن کریم نے عطا کیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ جو نصیحتیں کیا کرتے تھے اُن پر عمل بھی فرماتے تھے.جب آپ نے فرمایا، جو ماؤں کے ساتھ حسن سلوک کا ایک طریق ہے کہ اُن کے رشتہ داروں سے بھی حسن سلوک کیا کرو تو اُس کا ایک مظاہرہ ایک حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: حضرت ابوطفیل بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جیرانہ میں گوشت تقسیم کرتے دیکھا، میں ابھی بچہ ہی تھا اور اونٹ کی ہڈیاں اُٹھائے لئے پھرتا تھا اتنے میں ایک خاتون آئیں اور حضور کے پاس جا پہنچیں.تو آپ نے اُٹھ کر ان کے لئے چادر بچھائی اور اُس چادر پر وہ بیٹھ گئیں.میں نے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ تو صحابہ نے بتایا کہ یہ آپ کی رضاعی والدہ ہیں.یعنی ماں کے معاملہ میں رضاعی والدہ کو بھی شامل کیا گیا.(ابو داؤد.کتاب الادب باب فی بر الوالد ین ) لیکن اس کے علاوہ دوسری روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اپنی رضاعی والدہ کے تعلق والوں کے ساتھ بھی آپ نے بے انتہا حسن سلوک کیا اور بہت سے موقعوں پر ان سے غیر معمولی بخشش کا سلوک فرمایا.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ماں باپ سے حسنِ سلوک کے متعلق ہمیں یہ بتاتا ہے کہ یہ حسن سلوک اُن کی زندگی کے ساتھ ختم نہیں ہو جانا چاہئے بلکہ اُن کی زندگی کے بعد بھی جاری رہنا چاہئے.اب میں دوسرے مضمون کی طرف آتا ہوں جو طلاق سے تعلق رکھتا ہے.اس پہلو سے بھی آپ تمام مذاہب کا موازنہ کر کے دیکھیں آپ کو کسی مذہب میں طلاق کے مضمون سے متعلق اتنی تفصیلی ہدایات نہیں ملیں گی جس طرح قرآن کریم میں ملتی ہیں.طلاق سے مراد یہ ہے کہ مرد جب اپنی بیوی کو علیحدہ کرنے کا فیصلہ کرے، یہ تمام کاغذات کا جتھہ جو دیکھ رہی ہیں اس میں تمام تر قرآنی آیات درج ہیں جو اسی مضمون سے تعلق رکھتی ہیں.ساری پڑھ کر آپ کے سامنے اس وقت سنانے کا تو وقت

Page 169

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۶۵ خطاب ۱۲ را گست ۱۹۸۹ء نہیں ہے لیکن میں مختصراً آپ کو یہ بتاتا ہوں کہ عورت کے حقوق کی طلاق کے معاملہ میں ایسی حیرت انگیز حفاظت فرمائی گئی ہے اور اس تفصیل سے اُن کو بیان کیا گیا ہے کہ جب میں نے دیگر مذاہب کا جائزہ لیا تا کہ موازنہ کرسکوں تو میں حیران رہ گیا کہ وہاں یا تو ذکر ہی نہیں ملتا یا اتنا مختصر اشارۃ ذکر ملتا ہے کہ اُس سے کسی حق کی تعیین ہی نہیں ہوتی.قرآن کریم نے یہاں تک فرمایا کہ اگر شادی ہو اور حق مہر مقرر ہو چکا ہو لیکن رخصتانہ سے پہلے طلاق ہو جائے تو آدھا حق مہر پھر بھی ادا کر و.اس حد تک بار یکی میں گیا ہے قرآن کریم کہ فرمایا کہ اگر حق مہر نہ بھی مقرر ہوا ہو اور رخصتانہ بھی نہ ہوا ہو اور طلاق ہو جائے تو اس صورت میں احسان کا سلوک کرو اور کچھ نہ کچھ ضروران عورتوں کو دو، جو تمہارے نام کے ساتھ ایک دفعہ منسوب ہو چکی ہیں.پھر فرمایا کہ اگر تم ان لوگوں کو طلاق سے پہلے ڈھیروں مال بھی دے چکے ہو تو یعنی اموال کے پہاڑ اُن کے سپر د کر چکے ہو تو تمہارا کوئی حق نہیں کہ طلاق کے بعد اس میں سے ایک پیسہ بھی واپس لو.اس قسم کی تعلیم اتنی تفصیلی ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے اور اُس ظلم کو دیکھ کر بھی حیران ہوتا ہے کہ جب اسلام کو مطعون کیا جاتا ہے کہ اس نے عورت کے حقوق کو مسخ کیا ہے، عورت کے حقوق کو پامال کیا ہے.ایک ایسا گزرے ہوئے زمانوں کا مذہب ہے جس نے عورت کو ایک باندی کے طور پر حقوق سے محروم ایک شے کے طور پر پیش کیا ہے، ہرگز ایسی کوئی بات نہیں.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے مذاہب میں تو مقابلہ کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.جہاں تک معاشروں کا تعلق ہے کسی معاشرے میں طلاق کے متعلق ایسے عمدہ ایسے پاکیزہ قوانین نہیں ہیں جیسا کہ اسلام میں ملتے ہیں اور اگر ان کا تفصیل سے قو میں مطالعہ کریں تو اس سے بہت حد تک استفادہ کر سکتی ہیں اور دنیا کا معاشرہ سدھر سکتا ہے.عورت کے حقوق کے سلسلے میں ورثے کا مضمون بھی بہت ہی دلچسپی کا حقدار ہے کیونکہ ساری دنیا کے مذاہب میں ورثے کے معاملے میں یا تو عورت کا کہیں ذکر ہی نہیں ملتا یا ذکر ملتا ہے تو محرومی کی صورت میں اور وہ مذہب جو اسلام کے قریب ترین ہے یعنی یہودی مذہب اور اس کے بعد عیسائیت اُن میں جہاں ورثے کی تعلیم ملاتی ہے اس شرط کے ساتھ عورت کو وارث قرار دیا گیا ہے کہ اُس کا کوئی بھائی نہ ہو.اگر عورت کا یعنی فوت ہونے والی عورت کی بیٹیاں ہوں یا فوت ہونے والے باپ کی صرف بیٹیاں ہوں تب اُس عورت کو کچھ ور شپ مل سکتا ہے لیکن باپ کے بھائیوں کے ساتھ وہ شریک قرار دی گئی ہے اس کے بغیر نہیں اور باقی حالات میں واضح طور پر یہ علیم ہے کہ تمام جائیداد بیٹوں کو ملے گی عورت کو کچھ نہیں ملے گا.اس کے باوجود عجیب ظلم ہے کہ اسلام پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس نے عورت کے

Page 170

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۶۶ خطاب ۱۲ را گست ۱۹۸۹ء ساتھ ظلم اور نا انصافی کا سلوک کیا ہے.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے.لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَن وَالْاَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَنِ وَالْاَقْرَبُونَ مِمَّا ط قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضَا (النساء: ٨) اور مردوں کا بھی اور عورتوں کا بھی اُس مال میں جو اُن کے ماں باپ اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں ایک حصہ ہے خواہ اس ترکے میں سے تھوڑا بچا ہوا ہو یا بہت یہ ایک معین حصہ ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے فرض کر دیا گیا ہے.اس سلسلے میں بعض دفعہ یہ اعتراض اہل یورپ کی طرف سے خصوصیت سے اُٹھایا جاتا ہے کہ مرد کا حصہ دگنا کیوں رکھا؟ عورت کا آدھا کیوں رکھا؟ پہلا اس کا جواب یہ ہے کچھ رکھا تو ہے.اگر اسی وجہ سے اسلام قبول نہیں کرتے تو باقی مذاہب کو قبول کرنے کا تمہیں کیا حق ہے جہاں عورت کا کوئی بھی حصہ نہیں رکھا گیا اس لئے انصاف سے کام لو جہاں بہتر تعلیم ہے کم سے کم اُسی کی طرف رُخ کرو.دوسرا اس کا حقیقی جواب یہ ہے جو میں اکثر اپنی سوال و جواب کی مجالس میں دیتارہتا ہوں کہ قرآن کریم نے اقتصادیات کی ذمہ داری مرد پر ڈالی ہے اور عورت پر نہیں ڈالی.عورت کو مال کمانے کے حق سے محروم نہیں فرمایا لیکن جو مال عورت خود کماتی ہے ، وہ اس کی ذاتی ملکیت ہے وہ نہ خاوند اُس سے مطالبہ کر سکتا ہے، نہ اس کو مجبور کر سکتا ہے کہ اپنے گھر پر وہ خرچ کرے.وہ مالک ہے چاہے تو اس کو پھینک دے، اپنے بھائیوں کو دے، بہنوں کو دے، جو چاہے کرے لیکن خاوند کا اس پر کوئی حق نہیں.خاوند کا مرنے کے بعد حق ہوتا ہے اُس سے پہلے نہیں.یعنی عورت اگر فوت ہو جائے تب حق ہو گا لیکن جہاں تک روز مرہ کی زندگی کا تعلق ہے خاوند پر فرض ہے کہ وہ عورت کے تمام اخراجات برداشت کرے.چنانچہ قرآن کریم نے جہاں مرد کو قوام فرمایا ہے اور ایک گونہ فضیلت کا ذکر فرمایا ہے بعض لوگ اس پر بھی اعتراض کرتے ہیں تو میں اُن کو سمجھاتا ہوں کہ وہیں اس کے ساتھ وجہ بھی بیان فرما دی کہ جو شخص خرچ کرنے والا ہے، جو گھر کے اخراجات چلانے والا ہے، یا اقتصادی نظام کو چلانے والا ہے خواہ وہ شخص ہو خواہ وہ حکومت ہو اُس کو ایک قسم کی فضیلت طبعی طور پر حاصل ہو جاتی ہے.پس وہ مرد جو گھروں پر خرچ نہیں کرتے اور عورت کو تنگی دیتے ہیں وہ اس فضیلت سے محروم ہیں کیونکہ قرآن کریم نے بڑی کھول کر وجہ بیان فرما دی ہے کہ کیوں تمہیں ایک قسم کی فضیلت حاصل ہے.اور جو مرد اپنی بیویوں کو مجبور کرتے

Page 171

حضرت خلیفتہ صیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۶۷ خطاب ۱۲ را گست ۱۹۸۹ء ہیں کہ اپنی کمائی کو ضرور ہمارے گھروں پر خرچ کر دور نہ ہم بدمزاجی سے تمہاری زندگی تنگ کر دیں گے وہ سراسر اسلام کی تعلیم کے خلاف ایسا کرتے ہیں.پس جب عورت پر اقتصادی نظام کو چلانے کی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی اور حق دیا گیا ہے کہ وہ چاہے تو کمائے اس صورت میں اس کو نصف حصہ دینا اُس کی ضرورت سے زیادہ تو ہوسکتا ہے کم قرار نہیں دیا جا سکتا اور لازماً جب مرد پر ذمہ داری ڈالی گئی ہے تو اس کو ورثے میں کچھ زیادہ ملنا چاہئے.پس زیادہ تو دیا گیا ہے یہ تو شاید آپ کہہ سکتے ہیں کہ عورت کو نسبتا زیادہ دے دیا گیا ہے لیکن ہرگز یہ اعتراض نہیں ہوسکتا کہ عورت کو نسبتا کم دیا گیا ہے.ورثے کے سلسلے میں ایک اور بات ماں کے ضمن میں بیان کرنی چاہتا تھا ، شاید کی ہے یا نہیں ، مجھے اس قت یاد نہیں ، مگر ماں کو بھی خدا تعالیٰ نے حصہ دار قرار دیا ہے اور خاوند کے ورثے میں بیوی کو بھی حصہ دار قرار دیا ہے اور یہ نسبت ایک اور دو کی ہر جگہ اُسی طرح قائم رکھی ہے اور آپ دنیا کے مذاہب کا جائزہ لے کے دیکھیں، کہیں قانون کے طور پر عورت کے حقوق اس طرح قائم نہیں کئے گئے.اب اس مضمون کو سمجھنے کے بعد آپ جب عرب کے معاشرے پر نگاہ ڈالیں تو آپ حیران رہ جائیں گی کہ اسلام نے کتنے عظیم الشان انقلابی فیصلے فرمائے ہیں.عورت نہ صرف عرب دنیا میں ، اُس زمانے میں ورثے سے محروم تھی بلکہ خود ورثہ بھی جاتی تھی اور ورثے میں بانٹی جاتی تھی.یہاں تک کہ ایک مرحوم کی بیوہ اُس کی اولا د کا ورثہ کبھی جاتی تھی اور ساری عرب دنیا میں یہ ظالمانہ رواج قائم تھا.اسی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ نے اپنی ایک نظم میں جہاں عورتوں کو آنحضرت ﷺ کے احسانات یاد دلائے وہاں یہ ذکر بھی فرمایا اور دوسری زیادتیاں جو عورت پر ہوا کرتی تھیں ان کا بھی ذکر فرمایا.آپ مھتی ہیں: لکھتی ہیں رکھ پیش نظر وہ وقت بہن جب زندہ گاڑی جاتی تھی گھر کی دیوار میں روتی تھیں جب دنیا میں تو آتی تھی جب باپ کی جھوٹی غیرت کا خوں جوش میں آنے لگتا تھا جس طرح جنا ہے سانپ کوئی یوں ماں تیری گھبراتی تھی عورت ہونا تھی سخت خطا پھر تجھ پر سارے جبر روا یہ جرم نہ بخشا جاتا تھا تا مرگ سزائیں پاتی تھی گویا تو کنکر پتھر تھی احساس نہ تھا، جذبات نہ تھے

Page 172

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۶۸ تو ہین وہ اپنی یا دتو کر ترکہ میں بانٹی جاتی تھی وہ رحمت عالم آتا ہے تیرا حامی ہو جاتا ہے خطاب ۱۲ را گست ۱۹۸۹ء تو بھی انساں کہلاتی ہے سب حق تیرے دلواتا ہے ظلموں سے چھڑواتا ہے ان بھیج درود اُس محسن پر تو دن میں سوسو بار پاک محمد مصطفی سب نبیوں کا سردار ( در عدن) بعض اور باتیں بھی عورتوں سے متعلق ایسی ہیں جن میں جب اسلامی تعلیم کے ساتھ دیگر تعلیمات کا موازنہ کریں تو ایک فرق نمایاں آپ کو دکھائی دیتا ہے.اب روزمرہ کی زندگی میں خدا تعالیٰ نے چونکہ عورت کو بچے پیدا کرنے کے لئے خصوصی اعضاء دیئے ہیں اُن اعضاء کے بعض تقاضے ہیں جن کے نتیجہ میں ماہانہ عورت بعض تکلیف کے ایام میں سے گزرتی ہے.دنیا کے جتنے مذاہب پر آپ نگاہ ڈالیں گی آپ یہ حیران ہو جائیں گی دیکھ کر کہ ان تکلیف کے ایام کو نجاست کے ایام قرار دیا گیا ہے اور ناپاکی کے ایام قرار دیا گیا ہے اس حد تک کہ بعض مذاہب میں یہ تعلیم ہے کہ اُس عورت کو جوان ایام میں سے گزر رہی ہے یہ بھی حق نہیں کہ کچھ پکا سکے، اُس کے ہاتھ کا چھوا ہوا بھی حرام ہو جاتا ہے، وہ جس جگہ بیٹھتی ہے وہ جگہ ناپاک ہو جاتی ہے.قرآن کریم نے اس مضمون کو یکسر بدل دیا اور جب قرآن کریم میں یہ سوال اُٹھایا گیا کہ: وَيَسْتَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ اے محمد ! صلی اللہ علیہ وسلم تجھ سے حائضہ عورت کے متعلق سوال کیا جاتا ہے تو اس کا جواب قرآن کریم نے یہ دیا لا قُلْ هُوَ أَذًى (البقرة : ۲۲۳) یہ تو تکلیف اور بیماری کی ایک حالت ہے اُن سے احتراز کرو.کن معنوں میں ؟ ان معنوں میں نہیں کہ ان کو نا پاک سمجھو ان معنوں میں کہ اُن پر رحم کرو اور ان کی تکلیف کا احساس کرو.اس تفسیر کی تصدیق حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے اسوہ حسنہ سے ہوتی ہے.حضرت عائشہ صدیقہ بیان صلى الله کرتی ہیں کہ خصوصی ایام میں بجائے اس کے کہ آنحضرت ﷺ مجھ سے کسی قسم کا جو جسمانی تعلق ہے،

Page 173

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۶۹ خطاب ۱۲ را گست ۱۹۸۹ء ہاتھ لگانا وغیرہ کا یہ توڑ لیں ، ایک خصوصی تعلق تو منع ہے لیکن عام تعلقات ملنا جلنا، معاشرے کی دوسری ضروریات جن میں انسان عورت کا محتاج ہوتا ہے، عورت مرد کی محتاج ہوتی ہے ان میں تعلق توڑنے کی بجائے آپ کا سلوک یہ ہوتا تھا کہ میں حضور کے ساتھ کھاتی پیتی تھی ، اور آپ کے ساتھ پانی پیا کرتی تھی اور آنحضور عل ہے جب اُس گلاس میں پانی پیتے تھے جس سے میں نے پیا ہوتا تھا تو اُس جگہ لب لگاتے تھے جہاں میرے لب لگتے تھے.کیسا پاکیزہ اُسوہ ہے.اس کی کوئی نظیر آپ کو دنیا میں کہیں دکھائی نہیں دے گی کسی معاشرے میں کبھی کوئی مرد آپ کو ایسا دکھائی نہیں دے گا جو خصوصیت سے ان ایام میں عورت کی عزت اور تکریم کی خاطر ایسا بار یک حسنِ سلوک کر رہا ہو اور اس کے باوجود ظلم کی حد ہے کہ اسلام پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے عورت کو عزت کے مقامات سے گرا دیا ہے اور عورت سے ظلم کا سلوک کر رہا ہے.حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ بعض دفعہ ایسی حالت میں جب میں ہڈی سے گوشت کھا چکتی تھی تو آنحضرت ﷺ اپنے پیار کے اظہار کے لئے انہی جگہوں پہ منہ مارتے تھے جہاں سے ہڈی کا گوشت کھایا ہوتا تھا اور اُس ہڈی کو وہاں سے چوستے تھے جہاں سے میں نے چھوڑا ہوا ہوتا تھا.اب اگر دنیا کے مرد اس اسوہ حسنہ پر چلیں تو عورت کی تو تقدیر بدل سکتی ہے لیکن بدقسمتی سے غیر معاشرے میں تو کیا خود احمدی معاشرے میں بھی عورت کے ساتھ وہ حسنِ سلوک نہیں ہورہا اور بار بار میں نے خطبات میں اس کی طرف توجہ دلائی ہے.بعض مرد مجھ سے شکوہ کرتے ہیں، مجھے خط لکھتے ہیں کہ تم کیوں عورتوں کے حقوق پر اتنا زور دے رہے ہو مردوں کے بھی تو حقوق ہیں.میں ان کو سمجھاتا ہوں کہ تم تو اپنے حقوق زبردستی لے رہے ہو اور اُس سے بھی زیادہ لے رہے ہو لیکن عورتیں اپنی نزاکت کی وجہ سے اپنی طبعی کمزوریوں کی وجہ سے، اپنی نسوانیت کی اُن خصوصیات کی وجہ سے، جو مردوں کے مقابل پر عورتوں کو آبگینے کے طور پر پیش کرتی ہیں اُن سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہو اور اُن پر ظلم کرتے ہو جو حقوق ہیں اُن کے ، وہ اُن کو نہیں ادا کرتے.اسلئے جب تک تم عورت کے حقوق ادا کرنے نہیں سیکھو گے اُس وقت تک دنیا میں نہ تم ترقی کر سکتے ہو نہ اسلام کا وہ مقام دوبارہ دنیا میں قائم ہوسکتا ہے ،اُس شان کا مقام جو آنحضرت ﷺ کے دور میں دنیا پر ظاہر ہوا تھا.آنحضور ﷺ نے عورت پر اتنے احسانات کئے ہیں کہ میں ہمیشہ اپنی مغربی دنیا کی پریس کا نفر نسیز میں اس بات کی طرف ان کو متوجہ کیا کرتا ہوں.میں اُن سے کہتا ہوں کہ عورت کے حقوق کی خاطر لڑنے والی عورتوں کا تو ایک انبار لگا پڑا

Page 174

حضرت خلیفتہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات خطاب ۱۲ را گست ۱۹۸۹ء ہے.اس کثرت سے عورتوں میں لیڈرشپ ظاہر ہوئی ہے ، جو عورتوں کے حقوق کے لئے لڑ رہی ہیں مجھے ایک مرد کا نام بتاؤ جس نے عورت کے حقوق کے لئے جھنڈا ہاتھ میں اُٹھایا ہو.آج کی دنیا میں جہاں کہتے ہو کہ معاشرہ اتنا ترقی کر چکا ہے اتنا انسان کو تہذیب و تمدن کے ماحول میں انسان کی اتنی تربیت ہو چکی ہے کہ وہ ان باریک باتوں کو سوچنے اور ان پر عمل کرنے کا اہل ہو چکا ہے اس کے باوجود آج بھی دنیا میں ایک مرد کا نام نہیں لیا جا سکتا جو عورت کے حقوق کے لے کھڑا ہو.اور آج سے چودہ سو سال پہلے حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ اس وقت عورت کے حقوق کی حفاظت کے لئے کھڑے ہوئے جب کہ ساری دنیا میں ایک بھی عورت اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے نہیں لڑ رہی تھی بلکہ کلیہ صلى الله مایوس ہو چکی تھی ، کلیہ جواب دے چکی تھی.آنحضرت علی نے اس پر اتنا زور دیا کہ آپ کے صحابہ شکایتاً آپ کے پاس پہنچنے لگے.انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے ہماری عورتوں کو بگاڑ دیا ہے، یہ تو مقابل پر کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگی ہیں.....حقوق کی باتیں کرتی ہیں.یہ جو رجحان پیدا ہوا ہے یہ عورتوں کے کسی ظاہر ہونے والے رجحان کے نتیجہ میں نہیں تھا بلکہ خالصہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی تعلیم کے نتیجہ میں تھا اور آپ کے اُسوہ حسنہ کے نتیجہ میں تھا.اس کے علاوہ ایک آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے جو اس مضمون میں ایک معراج ہے، جو سب سے آخری بات ہے.آپ نے فرمایا کہ تم میں سے سب سے اچھا مرد وہ ہے جو اپنے اہل وعیال کیلئے ، اپنی بیوی کے لئے ، اپنے بچوں کے لئے بہترین ہے اور میں تم میں سے بہترین ہوں کیونکہ میں اپنی بیوی اور بچوں کے لئے سب سے بہترین خاوند اور سب سے بہترین باپ ہوں.بیوی کے حقوق کے قیام کے لئے اس سے بہتر تعلیم نہیں دی جاسکتی تھی.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے اسوہ کو قرآن کریم نے ہمیشہ کے لئے انسان کے لئے نجات کی راہ قرار دیا ہے اور اُس اُسوہ کا معراج یہ بیان فرمایا گیا ہے.فرمایا ہے اگر تم بہترین بننا چاہتے ہو تو مجھ سے بہتر تو تم ہو نہیں سکتے میرے جیسا بننے کی کوشش کرو اور میرا بہترین خلق یہ ہے کہ میں عورتوں پر مہربان ہوں، اپنی بیوی پر مہربان ہوں ، اُس کے حقوق کا خیال رکھتا ہوں.پس آنحضرت ﷺ کی ساری زندگی میں ایک بھی واقعہ آپ کو ایسا دکھائی نہیں دے گا جب حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی وجہ سے آپ کی ازواج مطہرات کو کبھی کوئی تکلیف پہنچی ہو.ایک بھی واقعہ نہیں.اس کے برعکس ایسے واقعات ملتے ہیں کہ آپ کو تکلیفیں پہنچیں، اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے ، بعض دفعہ اتنی تکلیفیں پہنچی ہیں کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو حکماً یہ اجازت دی کہ ان کو طلاق

Page 175

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات 121 خطاب ۱۲ را گست ۱۹۸۹ء دے دو اور طلاق اس صورت میں دو کہ جتنے اموال یہ چاہتی ہیں جو کچھ چاہتی ہیں لے لیں اور الگ ہو جائیں لیکن ان کو موقع دو کہ آئندہ یہ ان تکلیف دہ باتوں کو دھرائیں گی نہیں.اُس وقت وہ حقوق جو آنحضرت ﷺ اپنے لئے نہیں مانگا کرتے تھے.جب خدا نے ان کی طرف متوجہ فرمایا تو ظاہر بات ہے کہ امہات المومنین کا ایک ہی جواب ہونا تھا کہ یا رسول اللہ! ہر نگی ترشی میں ہم آپ کے ساتھ رہیں الله گی ، آپ کے ساتھ تعاون کریں گی اور آئندہ بھی آپ کو ہم سے کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی.پس اس پہلو سے آنحضرت ﷺ کا اسوہ ہی وہ اُسوہ ہے جسے احمدی مردوں کو اپنانا ہوگا.اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو اپنے گھروں کو نقصان پہنچائیں گے، اپنی خوشیوں کو نقصان پہنچائیں گے، اپنے گھروں کو جنت کا گہوارہ بنانے کی بجائے جہنم کا ایک مرکز بناویں گے جہاں تکلیف ہی تکلیف ہوگی اس لئے مجھے بار بار یہ کہنا پڑتا ہے کہ احمدی مردوں پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.اگر احمدی عورتیں اپنے مردوں سے خوش رہیں تو وہ ان کے ساتھ وفا دار ہیں گی ، وہ ان کی اولاد کی بہترین تربیت کریں گی ، ان کی نظریں ادھر ادھر بھٹکیں گی نہیں ، وہ گھر کا ماحول ایسا پیارا بنا ئیں گی کہ واقعہ اس دنیا کے معاشرے کو ایک جنت کا معاشرہ قرار دیا جا سکے گا.آنحضرت عملے نے اس باریکی سے عورت کے حقوق کا خیال رکھا ہے کہ حیرت ہوتی ہے.کتنی لطیف نظر تھی اور کہاں کہاں تک پہنچتی تھی.بعض دفعہ بعض مردوں کو یہ بیہودہ عادت ہوتی ہے کہ اچانک گھر پہنچتے ہیں دیکھنے کے لئے کہ بیوی کیا کر رہی ہے.جہالت کی بات ہے اگر عورتیں اس طرح ان کے دفتروں پر چھاپے مارنے لگ جائیں تو ان کا کیا حال ہو گا.وہ تو بعض دفعہ کچھ کہہ کر کہیں اور چلے جاتے ہیں، اپنے دوستوں کی مجلس میں اور آکر کہتے ہیں کہ ہم دفتر گئے ہوئے تھے.آنحضرت علی نے اس حد تک اس معاملے میں اُس زمانے میں عورت کا خیال رکھا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جب تم سفر سے آیا کرو، جب تم دور گئے ہوئے ہو، اور عورت کو کبھی و ہم بھی نہیں آسکتا کہ کس وقت خاوند میرے پاس آئے گا ایسی حالت میں اچانک بلا اطلاع کے اپنے گھر داخل نہیں ہونا اور رات کے وقت اچانک نہیں آنا بلکہ اطلاع دو اور دن کے وقت آؤ.اس میں بڑی حکمتیں ہیں.حیرت انگیز نصیحت ہے یہ اور بڑی گہری ہے.اس میں کئی قسم کی باتیں ہیں، اول تو بدلنی سے منع فرما دیا گیا اور فرمایا کہ اگر تم بدظنی بھی کرتے ہو، تو تمہیں تجسس کا کوئی حق نہیں.ہر گز تم نے اپنی بیویوں پر کسی قسم کا بدخن، سوء ظن نہیں کرنا اور اس قسم کے چھاپے نہیں مارنے.دوسرا یہ کہ عورت کو یہ حق دو کہ وہ تیار ہو.گھر میں تم

Page 176

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۷۲ خطاب ۱۲ را گست ۱۹۸۹ء آتے ہو تو عورت کی خواہش یہ ہوگی کہ وہ گھر کو صاف ستھرا کرے،سنبھال کر رکھے، تمہارے لئے اچھے کھانے پکائے ، اچھے کپڑے زیب تن کرے، اُس کو موقع تو دو اس بات کا کہ وہ یہ خوشی پوری کر سکے.اس معاملے پر غور کرتے چلے جائیں آپ کو اور حکمت کے دروازے آپ پر کھلتے چلے جائیں گے.میں جب اس حدیث پر غور کرتا ہوں، مجھے بہت ہی لطف آتا ہے اور سوچتے سوچتے میرا ذ ہن کہیں سے کہیں جانا شروع ہو جاتا ہے.اس میں آنحضرت ﷺ نے عورت کو آداب بھی سکھائے ہیں کہ کس طرح مرد کا استقبال ہونا چاہئے.اگر عورت نے مرد کو گھر میں داخل ہوتے ہی گالیاں ہی دینی ہیں اور کہنا ہے کہ تم اب آگئے ہو اتنی دیر کے بعد کیا کر کے لائے ہو، اور تم تو یہ ہو اور وہ ہو اور تم ہمارا خیال نہیں کرتے ،اس قسم کی باتیں کرنی ہیں، تو پھر پہلے اطلاع دینے کا کیا فائدہ؟ پھر جیسی پہلے اطلاع ویسے بعد کی اطلاع ایک ہی بات بن جاتی ہے.پس اس پر غور کریں اس میں عورت کو بھی ایک تعلیم دے دی ہے کہ تمہارے لئے پہلے اطلاع دینے کی نصیحت اس لئے کر رہے ہیں کہ جب خاوند گھر میں داخل ہوا کرے تو اس کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو، اُس کے لئے تیاری کیا کرو اور اگر تمہاری عادتیں گندی بھی ہیں ، اگر تم بے پرواہ بھی ہو، بستر اُسی طرح گھلے پڑے ہیں.اور جو برتن بکھرے پڑے ہیں وہ اُسی طرح بکھرے پڑے ہیں تو کم سے کم اپنے خاوند کی موجودگی میں ان چیزوں کا خیال کر لیا کرو.یہ مخفی نصیحت ہے جو اس نصیحت کے اندر موجود ہے.اگر آپ غور کریں حکمت سے تو آپ کو یہ ساری باتیں نظر آجائیں گی اور گھروں کی خرابی کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ ایسی باتوں میں عورت باریکی سے خیال نہیں کرتی اور بعض دفعہ وہ بجھتی ہے کہ کیا فرق پڑتا ہے گھر میں.جیسی گندی میں ہوں ٹھیک ہے کوئی فرق نہیں پڑتا.خاوند ہی ہے نا اس نے ساتھ ہی رہنا ہے جو کچھ ہے ٹھیک ہے.برتن بکھرے پڑے ہوں ، بستر اُلٹے پلٹے پڑے ہوں گند کی ڈھیریاں لگی ہوں، کوئی فرق نہیں پڑتا ، آپس میں بے تکلفی ہے.واقعہ اس کا بہت ہی گہرا اثر پڑتا ہے.ایک تکلف ہے جو ہمیشہ رشتوں میں قائم رہنا چاہئے وہ ایک دوسرے کے احترام کا تکلف ہے اور ایک دوسرے کے سامنے صفائی کے ساتھ ظاہر ہونے کا تعلق ہے جہاں یہ تعلق بگڑیں گے وہاں معاشرہ ضرور تباہ ہو گا اس لئے عورتوں کے لئے بھی اس میں نصیحت ہے کہ اپنے گھروں کو بھی صاف رکھا کریں، اپنے بدن کو بھی ، اپنے کپڑوں کو بھی اور خاوند آئے تو اس کا اہتمام کیا کریں.اگر عورتیں ایسا کریں گی تو بہت سے خاوند جو اپنی بدھیبی سے بھٹک جاتے ہیں اور دوسرے گھروں میں دلچسپی لینے لگ جاتے ہیں وہ اس

Page 177

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۷۳ خطاب ۱۲ را گست ۱۹۸۹ء گناہ سے بچ جائیں گے اور اُن کی عاقبت سنور جائے گی اس لئے عورت کو اپنے تعلقات میں ان باتوں کا بھی خیال کرنا چاہئے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا اس سادہ سی چھوٹی سی نصیحت میں یہ گہرائی بھی موجود ہے.عورتوں میں بھی کمزوریاں ہوتی ہیں، مردوں میں بھی کمزوریاں ہوتی ہیں...ان کو بیوائیں بنایا گیا ان کے بچوں کو بے حال چھوڑ دیا گیا.نہایت ہی درد ناک مظالم ہیں جو احمدی عورتوں پر پاکستان میں توڑے جا رہے ہیں مردوں پر بھی توڑے جا رہے ہیں مگر عورتوں کے لئے یہ حالات زیادہ مشکل ہوتے ہیں برداشت کرنا کیونکہ ان کے اندر کمزوری ہے جب مرد شہید ہو جائے تو پیچھے ان کے بچوں کا نگہبان اُن کی پرورش کرنے والا اس طرح نہیں رہتا جس طرح مرد خود کر سکتا ہے.اگر چہ جماعت اس بارہ میں پورا حساس رکھتی ہے اور حتی المقدور کوشش کی جاتی ہے کہ احمدی بیوائیوں اور احمدی قیموں کا خیال کیا جائے لیکن یہ ناممکن ہے کہ وہ گھر کا مالک، وہ خاوند جو جُدا ہو چکا ہو، اُس کی جگہ کوئی بھر سکے.ناممکن ہے.جذباتی تکلیف تو اپنی جگہ ہے لیکن اس کے علاوہ بچوں کی ضروریات ایسی ہیں جن کو کوئی دوسرا پورا کر ہی نہیں سکتا اس لئے آج کی دُعا میں خصوصیت سے اپنی ان مظلوم بہنوں کو بھی دُعا میں یاد رکھیں.اللہ تعالیٰ پاکستان کے حالات تبدیل کرے اور دنیا بھر میں عورتیں جو دُکھ اُٹھا رہی ہیں اُن پر رحم کی نگاہ فرماتے ہوئے اُن کے دُکھ دور کرے اور بہترین اسلامی معاشرے کو قائم کرنے کی ہمیں تو فیق عطا فرمائے.آمین اب دُعا کر لیجئے

Page 178

Page 179

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۷۵ خطاب ۲ جون ۱۹۹۰ء تربیت کے گر ، گھروں کی جنت اور تربیت اولاد کی ذمہ داری (جلسہ سالانہ مستورات جرمنی سے خطاب فرموده ۲ جون ۱۹۹۰ء بمقام ناصر باغ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس جلسے پر خواتین کی حاضری گزشتہ سال کی نسبت نمایاں طور پر زیادہ دکھائی دے رہی ہے لیکن جہاں تک اعداد وشمار کا تعلق ہے ان میں کچھ غلطی معلوم ہوتی ہے کیونکہ ابھی صدر لجنہ نے جو رپورٹ پیش کی اس میں لجنہ کی ممبرات کی تعداد ۱۵۰۰ کچھ دکھائی گئی ہے اور بچیوں کی تعداد ناصرات کی ۷۵ اور بچوں کی ۷۰ حالانکہ آپ جانتی ہیں کہ آپ میں سے دواڑھائی سونے تو بچہ اٹھایا ہوا ہے اور ناصرات بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے کافی دکھائی دے رہی ہیں اس لئے اگر اس شعبے میں غلطی ہے تو بڑوں میں بھی گنتی میں ضرور غلطی ہوگی کیونکہ نظری طور پر آپ یہاں خدا کے فضل کے ساتھ ۲۰۰۰ سے زائد دکھائی دے رہی ہیں اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ رجسٹریشن میں یقینا کوئی خامی رہ گئی ہے.آج کے خطاب کے لئے میں نے ایک بہت ہی اہم موضوع چنا ہے.جس کا گہرا تعلق خواتین سے ہے اور وہ اگلی نسلوں کی تربیت ہے.یورپ میں یا یوں کہیئے کہ ساری مغربی دنیا میں جب ہم احمدیت کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو احمدیت ہی وہ پہلی اسلام کی نمائندہ جماعت ہے جس نے اسلام سے مغربی دنیا کو آشنا کروایا.گومغربی دنیا منفی رنگ میں بُرے رنگ میں اسلام کے متعلق بہت کچھ جانتی تھی یعنی اسلام کے دشمنوں کی زبان سے لیکن اسلام کے حسن سے واقف نہیں تھی اور حقیقت میں اس سلسلے میں جماعت احمدیہ کو ساری مغربی

Page 180

خطاب ۲ جون ۱۹۹۰ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات دنیا میں ایک لمبے عرصے تک علمی جد و جہد کرنی پڑی.آج آپ کو امریکہ میں لاکھوں مسلمان بتائے جاتے ہیں اور اکثر ان کا تعلق الیفر وامریکن سے ہے یعنی افریقہ کے پرانے باشندے جو کبھی غلام بنا کر امریکہ لے جائے گئے تھے اور ان میں احمدیوں کی تعداد تھوڑی ہے لیکن امر واقع یہ ہے کہ سب سے پہلا پیغام جو اسلام کا امریکہ کی سرزمین کو دیا گیا وہ ایک احمدی مبلغ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے ذریعے دیا گیا اور ایک وقت ایسا تھا جب کہ امریکہ میں احمدیت اور اسلام ایک ہی چیز کے دو نام سمجھے جاتے تھے.جیسا کہ سمجھا جانا چاہئے کوئی اور تفریق نہیں کی جاتی تھی ہر امریکن جانتا تھا کہ احمدیت ہی اسلام ہے اور اسلام ہی احمدیت ہے.لیکن افسوس ہے کہ وہ کیفیت بہت سے ایسے محرکات کے نتیجے میں قائم نہ رہی.جن محرکات میں سے بعض پر ہمیں اختیار تھا اور ان پر عمل نہ کرنے کے ہم کسی حد تک ذمہ دار ہیں اور بعض ایسے تھے جن پر ہمارا اختیار نہیں تھا جن محرکات پر ہمارا اختیار نہ تھا نہ ہے وہ بعد کے زمانے میں مسلمان ممالک میں تیل کی دریافت ہے.جب تک مسلمان ممالک میں تیل دریافت نہیں ہوا تھا حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف مغربی دنیا میں بلکہ افریقہ میں بھی اور دوسری دنیا میں بھی اسلام کی نمائندہ صرف احمد یہ جماعت ہی تھی کیونکہ جماعت احمدیہ مالی قربانی کے ذریعہ اور وقف کے ذریعہ اس زمانے میں بھی خدمت پر کمر بستہ ہوگئی جبکہ ایک بہت ہی چھوٹی اور غریب جماعت تھی اور دنیا میں اس وقت کوئی بھی اسلام کی نمائندگی کے لئے تیار نہیں تھا.عرب ممالک مسلمان ہونے کے باوجود اپنی سیاستوں میں تو الجھے ہوئے تھے، اپنی روزی کمانے کے مسئلے سے تو ان کو دلچسپی تھی لیکن اسلام پر کیا بنتی ہے اور اسلام کا دنیا میں کیا حال ہے اس سے وہ کلیتہ غافل تھے اور آج بھی اگر آپ اسلامی دنیا پر نظر ڈالیں تو اسلام کی خدمت کرنے والے جماعت احمدیہ کی طرح طوعی طور پر مالی قربانی کے ذریعے خدمت نہیں کر رہے بلکہ کچھ امیرحکومتیں ہیں جو مختلف تنظیموں کو روپیہ فراہم کرتی ہیں اور وہی رو پیدا اسلام کی خدمت کے نام پر مختلف دلچسپیوں میں خرچ ہوتا ہے.کچھ اس کا ضائع چلا جاتا ہے، کچھ اپنا لیا جاتا ہے مگر بہر حال اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا ایک حصہ ضرور اسلام کی خدمت کے نام پر کئے جانے والے کاموں پر خرچ ہوتا ہے.یہ جو دوسرا دور ہے اس میں جماعت احمد یہ پس منظر میں جانی شروع ہوئی کیونکہ دولت کے نتیجے میں ان کو ایک بہت غلبہ عطا ہو گیا عظیم دولت ہے ان مسلمان ممالک کو جو بطور تیل کے خدا کی طرف سے ان کو تحفہ ملی.اس کا ایک حصہ اور بہت چھوٹا حصہ انہوں نے دنیا کے دوسرے ممالک میں اسلام کی خدمت پر خرچ کرنا شروع کیا اور باوجود اس کے کہ ان کے نقطہ نگاہ سے وہ

Page 181

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات 122 خطاب ۲ جون ۱۹۹۰ء اس سمندر کے چند قطرے ہیں جو ان کو نصیب ہوا ہے لیکن جماعت احمد یہ جیسی غریب جماعت کے مقابلہ پر وہ دولت ایک پہاڑ دکھائی دیتی ہے اور ساری دنیا میں انہوں نے ایسی تنظیمیں قائم کیں اور ایسی تنظیموں کو روپیہ دینا شروع کیا جو اسلام سے کسی نہ کسی رنگ میں تعلق رکھتی تھی.مساجد کی تعمیر کے نام پر ، مدارس کی تعمیر کے نام پر تنظیموں کو چلانے کے نام پر لاکھوں، کروڑوں ڈالر مختلف ممالک میں خرچ کئے گئے اور کئے جارہے ہیں.امریکہ اس سے مستی نہیں.اس پس منظر کو زیادہ وضاحت سے سمجھنے کے لئے جب ہم مسلمان ممالک کی آپس کی مخاصمانہ کارروائیوں پر نظر ڈالتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ جو وہ حسد رکھتے ہیں اس کو دیکھتے ہیں تو یہ منظر اور زیادہ نظر کر سامنے آتا ہے.اگر چہ سب ممالک جہاں تک مغربی دنیا کا تعلق ہے مسلمان ہیں، ان کو اس تفصیل کا علم نہیں کہ کس قسم کے مسلمان ہیں، شیعہ مسلمان ہیں ،سنی مسلمان ہیں ، وہابی مسلمان ہیں، حنفی مسلمان ہیں، حنبلی ہیں، یا شافعی ہیں یہ ساری باتیں باہر سے دور سے دیکھنے والوں کو دکھائی نہیں دیتیں اور وہ تفریق نہیں کر سکتے کہ اسلام کو کن ملکوں میں کس طرح سمجھا جا رہا ہے لیکن یہ لوگ خوب جانتے ہیں اور اپنی تنظیموں کو یا ان تنظیموں کو جو اپنے سیاسی اثرات کو تقویت دینے والی ہوں ان کو زیادہ امداد دیتے ہیں بلکہ کلیتہ انہی کو تقویت دینے کی کوشش کرتے ہیں.نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تمام مغربی دنیا میں اب اسلام کی خدمت کرنے والی تنظیمیں ملکوں کے اثرات کے تابع بٹ گئی ہیں.اب امریکہ میں آپ جا کر دیکھیں تو بعض مسلمان تنظیمیں ہیں ان کو وہابی عقائد کا تو علم نہیں مگر چونکہ وہ سعودی عرب سے روپیہ لے رہی ہیں اس لئے وہ ہر بات سعودی عرب کی کریں گی اور چونکہ روپیہ بڑی کثرت سے تقسیم ہوتا ہے اور مساجد کے لئے اور دوسرے مدارس وغیرہ کے لئے لکھوکھا ڈالر عطا کئے جاتے ہیں، ملیز کہنا چاہئے ، اس لئے جو ایفر وامریکن تھا اس کا تیزی کے ساتھ ان لوگوں کی طرف رجحان شروع ہو گیا.جب امریکہ نے پیش قدمی کی تو لیبیا کو خیال آیا کہ ہم کیوں پیچھے رہیں.چنانچہ لیبیا نے بھی اپنا تیل ، وہابی یا یوں کہنا چاہئے کہ سعودی نفوذ کے مقابل پر امریکہ میں خرچ کرنا شروع کیا اور بہت تیزی کے ساتھ ان کا مقابلہ ہونا شروع ہو گیا لیبین مسلمان یا سعودی مسلمان اور امر واقع یہ ہے کہ تفصیل سے نہ لیبیا نے تربیت دی نہ سعودی عرب نے تربیت دی ، عقائد کے فرق کے متعلق کچھ بتایا نہیں گیا، ایک سیاسی تصویر ہے جو مقامی مسلمانوں پر نقش ہونی شروع ہوگئی.ان کو صرف اتنا علم ہے بعض

Page 182

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات KA خطاب ۲ جون ۱۹۹۰ء افریقن مسلمانوں کو کہ سعودی عرب سے روپیہ لیتے ہیں اس لئے سعودی عرب کی بات کریں گے.ہم لیبیا سے روپیہ لیتے ہیں اس لئے لیبیا کی بات کریں گے.اس عرصے میں عراق، ایران کی لڑائی کے نتیجے میں عرب دنیا ایک اور طرح سے بھی منقسم ہو گئی.وہ لوگ جو عراق کی تائید کرتے تھے عرب ہونے کے نتیجے میں ان کے مقابل پر ایران ، شیعہ ایران نے ایک الگ پول، ایک الگ مرکز قائم کر لیا اور چونکہ ایران کو معلوم تھا کہ ان سے بہت پہلے اسلام کی خدمت کے نام پر بعض سیاسی تنظیمیں مغربی ملکوں میں عمل کر رہی ہیں اس لئے ایران بھی اس میدان میں کود پڑا اور اب امریکہ میں بھی اور باقی یورپین ممالک میں بھی دراصل مسلمان تنظیمیں ان تین بڑی طاقتوں کی پشت پناہی میں کام کرتی دکھائی دیں گی اور عجیب بات ہے کہ وہاں بھی عقائد کی تفاصیل سے ان لوگوں کو مطلع نہیں کیا جاتا.صرف ان کو یہ علم ہے کہ رو پید ایران سے آرہا ہے یا لیبیا سے آ رہا ہے یا سعودی عربیہ سے آرہا ہے لیکن ایران کے داخل ہونے کے بعد کچھ عقائد کی بات بھی اب شروع ہو چکی ہے کیونکہ ایران نے اس بار پیش قدمی کی کہ نہ صرف روپیہ خرچ کرنا شروع کیا بلکہ شیعہ ازم کی تبلیغ بھی ساتھ شروع کی.یہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے احمدیت سے توجہ ہٹ گئی اور اسلام کو سیاسی نظریات کے تابع دیکھا جانے لگا اور زیادہ توجہ اس طرف ہوگئی کہ کون سا ملک یا کون سی تنظیم خدمت اسلام کے لئے زیادہ قیمت دینے پر تیار ہے، زیادہ قیمت دینے کی استطاعت رکھتی ہے.اس کے مقابل پر جماعت احمدیہ نے جو اسلام ان لوگوں کے سامنے پیش کیا تھا یا اب بھی کر رہی ہے اور ہمیشہ کرتی چلی جائے گی وہ یہ تھا کہ قرآن کریم کے تابع اسلام نام ہے دو قسم کی قربانیوں کا ، جانی قربانی اور مالی قربانی.قرآن کریم فرماتا ہے: إِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ (التوبة: ۱۱۱ ) کہ اسلام اس چیز کا نام ہے کہ خدا تعالیٰ نے تم سے تمہاری جانیں بھی خرید لی ہیں تمہارے اموال بھی خرید لئے ہیں.اب کچھ بھی تمہارا باقی نہیں رہا.پس قرآن کریم نے اس مضمون کو مسلسل بار ہا بیان فرمایا اور بارہا اس بات پر زور دیا کہ اسلام نام ہے جانی اور مالی قربانی کا کوئی شخص حقیقت میں سچا مسلمان نہیں ہوسکتا اور خدا سے سچا تعلق قائم نہیں

Page 183

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات 129 خطاب ۲ جون ۱۹۹۰ء کر سکتا جب تک خدا کی خاطر کچھ خرچ نہ کرے خواہ اس کی جان ہو یا اس کے اموال ہوں.تو اب یہ موازانہ دیکھیں کتنا اور زیادہ کھل کر سامنے آ گیا.ایک جماعت تھی جو کہ رہی تھی کہ تمہیں مسلمان بننا ہے تو کچھ دینا ہوگا، کچھ قربانی کرنی ہوگی.ایک آواز تھی جو کہہ رہی تھی کہ اگر تمہیں مسلمان بننا ہے تو کچھ لینا ہوگا، اپنی جانیں پیش نہیں کرنی ہوں گی بلکہ ہماری بنائی ہوئی تنظیموں کے ذریعے دوسروں کی جانیں لینی ہوں گی اور اموال بھی ہم تمہیں دیں گے وہ دنیا Materialistic ہو چکی ہے.جو دنیا دار بن گئی ہے وہ جو جس پر آج کے زمانے کی مختلف تہذیبوں نے ایک ایسا گندا نقش چھوڑا ہے کہ ہر انسان خود غرض بنتا چلا جارہا ہے.اُس دنیا کے لئے اب دیکھیں احمدی ہونا کتنا بڑا مشکل کام بن گیا.جب جماعت احمد یہ میدان میں اکیلی تھی تو مقابل پر یہ آواز نہیں سنائی دیتی تھی کہ آؤ پیسے دینے کی بجائے ہم سے پیسے لو، جانیں پیش کرنے کی بجائے دوسروں کی جانیں لو، جہازوں میں بم رکھو، مختلف شہروں میں بم پھاڑ واور اسلام کے نام پر تباہی مچاؤ اور یہی اسلام ہے.اسی کا نام خدمت اسلام ہے اس وقت یہ آواز میں نہیں تھی.اس لئے سوائے احمدیت کے نہ جرمنی میں کوئی حقیقتاً اسلام سے آشنا تھا، نہ انگلستان میں آشنا تھا، نہ ہالینڈ میں آشنا تھا، سنا تو ہوا تھا انہوں نے لیکن اُن دشمنوں کے ذریعے جو ان کے اپنے ملکوں میں پیدا ہوئے اور اپنی زندگیاں اسلام کی دشمنیوں میں خرچ کر دیں اسلام کی نمائندہ جماعت کے طور پر ایک ہی جماعت تھی اور ایک ہی جماعت تھی جو ساری دنیا میں سرگرم عمل تھی اور چونکہ مقابل پر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے مخالفانہ طاقتیں ابھی نہیں ابھری تھیں اس لئے کنفیوژن (Confusion) کسی کے لئے نہیں تھا.جس شخص نے مسلمان ہونا ہوتا وہ جماعت احمدیہ کی طرف رجوع کرتا تھا.اب حالات تبدیل ہو چکے ہیں اس لئے یہ وہ محرکات ہیں جن پر ہمارا اختیار نہیں ہے لیکن اس حد تک اختیار ضرور ہے کہ اگر آپ ان باتوں کو ذہن نشین رکھ کر دُعائیں کریں اور خدا سے مدد چاہیں اور خدا سے عرض کریں کہ اے خدا! تو جانتا ہے اگر دنیا بھول چکی ہے کہ ہم اس وقت دین کی خدمت کے لئے نکلے تھے جب ہم ابھی غریب اور نہتے اور کمزور تھے اور دنیا اس وقت بھی بڑی طاقتور تھی لیکن ہم نے اپنی غربت کی کوئی پرواہ نہیں کی اور جو کچھ ہمیں میسر تھا ہم نے تیری راہ میں جھونک دیا ، ہم نے اپنے بچے قربان کئے ، اپنے خاوندوں کو تیری راہ میں زندگی بھر علیحدہ زندگی بسر کرنے کے لئے اجازت دے دی، ایسے وقتوں میں جب کہ افریقہ کے نام سے بھی دوسرے مسلمانوں کی طبیعتیں گھبراتی تھیں، ایسی احمدی خواتین تھیں جنہوں نے اپنے خاوندوں کو یہ کہہ کر رخصت کیا کہ تم جاؤ اور ہماری زندگیوں کی پرواہ

Page 184

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۱۸۰ خطاب ۲ جون ۱۹۹۰ء نہ کرو ہم ایسے رہیں گی جیسے ہم نے خاوند کبھی کیا ہی نہیں تھا اور تم بھی بغیر بیوی کے گزارہ کرنا سکھو اور اسلام کی خاطر میں اپنا سہاگ بھیجتی ہوں تم اپنی ازدواجی زندگی کی لذتیں چھوڑ دو.چنانچہ ایسے واقعات ہوئے کہ تبلیغ کی خاطر نکلنے والے احمدی بعض دفعہ ۲۳-۲۳ سال اپنی بیویوں سے اور بچوں سے علیحدہ رہے.ایک موقع پر انڈونیشیا میں ایک تبلیغ کرنے والے احمدی مولوی رحمت علی صاحب جب بالآخر واپس آئے تو تقریباً مختلف وقتوں میں علیحدہ رہتے ہوئے ان کی علیحدگی کا زمانہ ۲۳ سال ہو چکا تھا جو بچے انہوں نے پیچھے چھوڑے تھے وہ جوان ہو چکے تھے اور ۲۳ سال سے چند سال جو پہلے پیدا ہوئے تھے تو ان میں سے کوئی ۲۵ کوئی ۳۰ سال کے قریب پہنچ گیا تھا.بیوی بوڑھی ہو چکی تھی چنانچہ وہ بیوی حضرت مصلح موعود کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے کہا میرے آقا میرے خاوند کی جدائی میں میرے بال سفید ہو چکے اور میں خوش ہوں کہ میری جوانی اسلام کی خاطر قربان کر دی گئی ہے میں ناراض نہیں ہوں لیکن میری اب یہ درخواست ہے کہ میری اس جوانی کی قربانی کو زندہ رکھنے کی خاطر اس کو دوام بخشنے کی خاطر میرے اس بوڑھے خاوند کو جو میرے اب کسی کام کا نہیں اور نہ میں اس کے کام کی ہوں اس کو واپس میدان میں بھیج دیں.مجھے یہ تو اطمینان ہوگا کہ میرا خاوند خدا کی خاطر جہاد کرتے ہوئے مجھ سے دور مارا گیا.جو دن اس کے قریب رہنے کے تھے وہ تو گزر چکے ہیں.یہ وہ دور تھا، یہ وہ احمدیت کی خاطر قربانی کرنے والی جماعت تھی جو ساری دنیا میں تنہا اسلام کے نام پر لڑ رہی تھی.یہی حال افریقہ میں کام کرنے والوں کا تھا اور یہی حال پیسیفک آئی لینڈ منی میں کام کرنے والوں کا تھا.کچھ لوگ روس گئے خدمت دین کے لئے اور پھر واپس نہیں آئے ، کچھ واپس اس طرح آئے کہ دکھ اُٹھا اُٹھا کر وہ پاگل ہو چکے تھے.پاگل کے طور پر ان کو روس کی سرحدوں سے باہر پھینک دیا گیا.یہ وہ اسلام ہے جو قرآن نے ہمیں سکھایا اور متنبہ کیا کہ دین قربانیوں سے زندہ ہوا کرتے ہیں.دین روپیہ لے کر نہیں بلکہ خدا کی راہ میں روپیہ دے کر زندہ ہوا کرتا ہے.دین جانیں لے کر نہیں بلکہ اپنی جانیں خدا کے حضور پیش کرنے کے ذریعے زندہ ہوا کرتے ہیں اور ہمیں کامل یقین تھا اور آج بھی یقین ہے کہ ہم صحیح راستہ پر تھے کیونکہ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تو یہی دین سکھایا تھا اور اسی طرح دین کو فروغ دیا تھا کیونکہ آپ سے پہلے عیسی نے بھی یہی دین سکھایا تھا اور اسی طرح دین کو فروغ دیا تھا اور آپ سے پہلے حضرت اسماعیل" ، حضرت داؤد نے اور حضرت سلیمان اور

Page 185

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۸۱ خطاب ۲ جون ۱۹۹۰ء یسعیاہ نے اور حضرت موسیٰ نے اور جتنے نبیوں کے نام آپ کو یاد ہیں آپ دیکھتی چلی جائیں تاریخوں کا مطالعہ کریں سب نے یہی دین سکھایا تھا اور اسی طرح دین کو فروغ دیا تھا.کوئی استثناء آپ کو دکھائی نہیں دیتا.دین کی خاطر اپنی جانیں پیش کر دیں اپنے اموال پیش کر دیئے اور اپنی عزتیں لٹادیں اپنے گھروں کے آرام تج کر دیئے جو کچھ تھا وہ سب لے کر خدا کے حضور حاضر ہو گئے اور اپنی جھولیاں خالی کر دیں تب خدا نے ان جھولیوں کو بھرا اور دنیا اور دین کی دولتوں سے ان کو مالا مال کر دیا مگر دنیا کی طاقتوں کے ذریعے ان کو کچھ نصیب نہیں ہوا اس رنگ میں جماعت احمدیہ نے اسلام پھیلانا شروع کیا اور اسی رنگ میں جماعت احمد یہ ہمیشہ اسلام پھیلاتی چلی جائے گی اور ہم جانتے ہیں کہ لازماً ہم جیتیں گے کیونکہ یہ وہ آزمودہ طریق ہے جو ایک حدیث کے مطابق ایک لاکھ چوبیس ہزار بار آزمایا گیا.ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء دنیا میں تشریف لائے.ایک بھی ایسا نہیں تھا جو دولتیں بانٹنے کے لئے آیا تھا، ایک بھی ایسا نہیں تھا جو لوگوں کی جانیں ضائع کرنے کے لئے آیا تھا، ہر ایک ان میں سے ایسا تھا جس نے اپنا سب کچھ خدا کے حضور لٹادیا اور لوگوں کو قربانی کے رستوں کی طرف بلایا اور کوئی شخص جس میں ادنی سی عقل بھی ہو وہ عقلاً بھی یہی نتیجہ نکالے گا اس کے سوا کوئی نتیجہ نکالا جا نہیں سکتا کہ قوموں کی اصلاح قربانی کے رستوں پر ڈالے بغیر ممکن نہیں ہے.وہ دنیا جو پہلے ہیMaterialist ہو چکی ہے، جو دنیا کی دولتوں کی طرف جھک گئی ہے اور في الحقيقت ان کو سجدہ کر رہی ہے اگر دنیا کی محبت ان کے دلوں سے کائی نہ جائے ، اگر ان کو خدا کی راہ میں قربانی کے اسلوب نہ سکھائے جائیں تو کیسے ممکن ہے کہ وہ اصلاح پذیر ہو جائیں.کوئی اور نسخہ اصلاح کا نہیں ہے سوائے اس کے کہ انسان کو اس کی عظمت یاد کرائی جائے اس کو بتایا جائے کہ اس کی عظمت اس بات میں ہے کہ وہ قربانیاں لینے کی بجائے قربانیاں پیش کرنے والا ہو.خدا کی خاطر ہر دوسری محبت کو کاٹ کر الگ پھینک دے تب اس کی اصلاح نفس ہوگی تب اس کے اندر سے ایک نئی تخلیق پیدا ہوگی جس کو قرآن کریم خلق آخر بیان کرتا ہے.یہ تو ہے مختصر تاریخ جماعت احمدیت کے طرز عمل کی اور یہ مختصر تاریخ ایک سو سال تک پھیل چکی ہے اور ایک سو سال سے دنیا دیکھ رہی ہے کہ ہم نے ان نقوش قدم کو نہیں چھوڑا جو نقوش قدم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقوش قدم تھے اور آپ سے پہلے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کے نقوش قدم تھے.ان راہوں سے بہت لوگ گزر چکے ہیں ہم نے وہ نقوش قدم اختیار کئے جو قربانیاں کرنے والوں کے

Page 186

حضرت خلیفہ اسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۱۸۲ خطاب ۲ جون ۱۹۹۰ء نقوش قدم تھے ، وہ نقوش قدم دوسروں کے لئے چھوڑ دیئے جو بھیٹریوں کی طرح خدا کے بندوں پر حملہ آور ہوتے رہے اور خدا کے پاک بندوں سے قربانیاں لیتے رہے ان کی جانیں تلف کرتے رہے، ان کے اموال لوٹتے رہے، ان کے سرتن سے جدا کرتے رہے، ان کی عزتیں لوٹتے رہے اور ان کو ہر قسم کے دکھ جو انسان دوسرے انسان کو دے سکتا ہے دیتے رہے اور دیتے چلے گئے وہ نقوش قدم بھی ملتے ہیں اور ساری تاریخ ان نقوش قدم سے میلی ہوئی پڑی ہے.جماعت احمدیہ نے اپنے لئے وہ نقوش قدم چنے جو قربانی دینے والوں کے نقوش قدم ہیں اور سو سال سے بڑی وفا کے ساتھ اس راہ پر ہم نے قدم رکھا ہے.آپ وہ مائیں ہیں جنہوں نے اگلے سو سال کی ضمانت دینی ہے ، آپ وہ مائیں ہیں جنہوں نے یہ بتاتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کی ایسی تربیت کریں گی اور اس طرح ان کے ذہنوں میں یہ ان مٹ سنت الانبیاء نقش کر دیں گی کہ وہ کبھی اس بات کو بھلا نہ سکیں ، وہ انہیں رستوں پر گامزن رہیں یہاں تک کہ اگلی صدی آجائے اور پھر اگلی صدی کے سر پر کھڑا ہونے والا خلیفہ اس وقت کی ماؤں کو یاد کرائے کہ دو سو سال تم نے بڑی وفا کے ساتھ انبیاء کے نقوش قدم کی پیروی کی ہے ان کو چومتے ہوئے تم آگے بڑھے ہو، اٹھو! اور اگلی صدی کی ضمانت دو اور اے دوسری صدی کے آخری وقت پر پیدا ہونے والی ماؤں ! تم اس جھنڈے کو اگلی نسلوں کے لئے آگے بڑھا دو اور یہ ضمانت دو کہ تم ایسی تربیت کرو گی کہ ان پاکیزہ اسباق کو تمہاری نسلیں کبھی نہیں بھولیں گی.یہ وہ پیغام ہے جو میں آج آپ کو دینا چاہتا ہوں اور یہ پس منظر میں نے اس لئے بیان کیا کہ دن بدن تربیت کی راہ میں ہمارے لئے اور مشکلات پیدا ہوتی چلی جارہی ہیں.جہاں تک جماعت احمد یہ میں داخل ہونے والے مغربی لوگوں کا تعلق ہے اس کے متعلق مجھے خاص طور پر فکر ہے اور اس فکر سے میں آپ کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں تا کہ اس کو ذہن نشین رکھ کر آپ اگلی نسلوں کی تربیت میں نہ صرف اپنے بچوں کے لحاظ سے کوشش کریں بلکہ دوسرے مغربی دنیا سے تعلق رکھنے والے نو مسلموں کے بچوں کے لئے بھی آپ وقت دیں اور کوشش کریں.جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک ایسا المیہ ہے جس کا ہماری ذات سے تعلق ہے.وہ ایسے محرکات ہیں جن پر ہمیں اختیار تھا لیکن ہم اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کر سکے.امریکہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں احمدی ہو چکے تھے، انگلستان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں احمدی ہو چکے تھے، کئی جرمن فلسفی تھے، کئی روسی فلسفی تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام سے بہت گہرے طور پر متاثر ہو چکے تھے لیکن وہ لوگ کہاں گئے.ان کی اگلی نسلوں نے نہ پھر اُن

Page 187

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۱۸۳ خطاب ۲ جون ۱۹۹۰ء سے وہ پیغام سنا، نہ اس پیغام کو زندہ رکھ سکے.احمدیت کے مغرب میں فروغ کی تاریخ ایک بہت ہی دردناک تاریخ ہے.جب اس پہلو سے ہم اس کو دیکھتے ہیں کہ جو لوگ احمدی ہوئے انہوں نے اپنی اولاد کی طرف توجہ نہ کی اور ان کی اولاد بجائے اس کے کہ اسلام پر پرورش پاتی اور اسلامی اقدار کی حفاظت پر کمر بستہ رہتی وہ رفتہ رفتہ واپس اپنے غیر اسلامی معاشرے میں ڈوب گئے.نسلاً بعد نسل یہی ہوتا چلا گیا.میں نے ایک دفعہ انگلستان میں مختلف وقتوں میں داخل ہونے والے احمدیوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جس حد تک وہ کوائف میرے سامنے آسکے اور میرے دل پر اتنا گہراغم کا اثر ہوا کہ بے چین ہو گیا کہ یہ کیا ہوتا رہا ہے.ایک وقت میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے انگلستان میں اس زمانے میں جب کہ انگریزی قوم کو اپنی دنیا پر برتری کا بے انتہا تکبر تھا.عام آدمی نہیں صرف بلکہ لارڈز میں سے بعض نے احمدیت کو قبول کیا اور بڑی جرات کے ساتھ اعلان کیا کہ وہ اسلام جو اس جماعت کے ذریعے ہمیں پہنچا ہے وہ سچا ہے اور ہم یہ جرات رکھتے ہیں کہ اس کے ساتھ شامل ہو جائیں اور وابستہ ہو جائیں لیکن آگے وہ نسلیں کہاں گئیں کچھ پتہ نہیں چلتا.پھر اس کے بعد مسلسل مختلف مبلغین کے ذریعے کثرت سے نہیں تو بیسیوں کی تعداد میں بلکہ ایک مبلغ کے دور میں 100 سے زائد ایسے خاندان آپ کو ملیں گے جو احمدیت سے وابستہ ہوئے.اپنی زندگی تک وہ احمدی رہے بعض ان میں سے کمزور بھی پڑے لیکن اکثر اپنی زندگی تک احمدی رہے لیکن رفتہ رفتہ سرکتے سرکتے ان کی نسلیں احمد بیت سے بالکل غائب ہو گئیں.یہاں تک کہ وہ اجنبی بنتے بنتے اتنی دور جا چکی ہیں کہ ان کو ڈھونڈنے کے لئے بھی بڑی جستجو کی ضرورت ہے.میں نے حال ہی میں بعض خاندانوں کے متعلق جستجو کی تحریک کی تو بڑی مشکل سے بعض کا کھوج نکلا اور ان کے خاندان بات کریں تو مانتے ہیں کہ ہاں ہمارے والدین احمدی ہوئے تھے اور جماعت سے تعلق تھا لیکن ہمیں کوئی دلچسپی نہیں.بنیادی خرابی وہی ہے کہ تربیت یعنی اولاد کی تربیت کی طرف اس وقت اس طرح توجہ نہیں دی گئی اور اس بات کی اہمیت نہیں بتائی گئی.یہ سمجھا گیا کہ یورپین معاشرے میں سب لوگ آزاد ہیں.ماں باپ ہو گئے تو ٹھیک ہے ان کے بچے اپنے حال پر رہیں گے.یہ درست نہیں ہے.ماں باپ پر فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت کریں اس وقت تک کسی مذہب کا استحکام نہیں ہو سکتا جب تک نسلاً بعد نسل اس مذہب کو جسے اختیار کیا جاتا ہے اگلی نسلوں تک منتقل نہ کیا جائے اور نئی نسلیں بھی وہی جھنڈے لئے بلند ہورہی ہوں جو جھنڈے ان کے ماں باپ نے تھامے تھے اور ان کے ہاتھوں میں تھمائے گئے.

Page 188

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۱۸۴ خطاب ۲ جون ۱۹۹۰ء تازہ صورت حال یہ ہے کہ بڑی توجہ اور دعاؤں کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے یہ فضل فرمایا ہے کہ بہت سے یورپین بہت سے نہیں لیکن بعض یورپین ممالک میں اب حالات بدل رہے ہیں اور بہتر ہورہے ہیں.انگلستان میں بہت سے خاندان ایسے نئے احمدیت میں داخل ہوئے ہیں جو خاندان کے طور پر داخل ہوئے ہیں بچے بھی ان کے ساتھ ہیں اور وہ پوری کوشش کرتے ہیں کہ ان بچوں کی اعلیٰ تربیت کر سکیں اور ان میں سے بعض بڑے ہو کر جوان بھی ہوئے ، بعض اس وقت جوانی کے قریب پہنچے ہیں اور ان کے حالات دیکھ کر اور ان کے چہرے دیکھ کر بے حد پیار آتا ہے کہ یہ انگلستان کی سرزمین کی پیداوار احمدی نسل ہے.وہ لوگ جو اس زمین سے ہمیشہ سے وابستہ چلے آرہے ہیں نہ کہ پاکستان یا ہندوستان سے آکر وہاں آباد ہوئے اس لئے وہاں حالات اب بہتری کی طرف پلٹا کھا رہے ہیں اور جہاں تک جماعت احمدیہ کی کوشش ہے اور دعائیں ہیں انشاء اللہ جو کچھ حاصل ہو چکا ہے اس کو قائم رکھنے کی کوشش کی جائے گی اور آئندہ اور خاندانوں میں بھی یہی رجحان پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی.ایک امید کی سرزمین مجھے جرمنی دکھائی دیتی ہے.ایک لمبے عرصے سے میں جرمن قوم کا بڑی گہری نظر سے مطالعہ کر رہا ہوں اور میں نے یہ دیکھا ہے کہ جرمن قوم میں بعض ایسی خوبیاں ہیں جو اسلام کے حق میں عظیم الشان رنگ میں استعمال کی جاسکتی ہیں اور باقی یورپین سے یہ بعض باتوں میں ممتاز قوم ہے.ان میں ایک خوبی جو سب سے بڑی خوبی ہے وہ یہ ہے کہ مذہب یا تو اختیار نہیں کریں گے جب اختیار کریں گے تو پورا غور ، سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کے بعد اختیار کریں گے اور پھر فوراً اس مذہب میں ڈھلنے کی کوشش کرتے ہیں.ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں جیسے ایک پودے کو ایک سرز مین سے اکھاڑ کر دوسری سرزمین میں لگا دیا گیا ہو اور وہ نئی جڑیں نکالتا ہے، نئی زمین کا پانی رس چوستا ہے اور ویسے ہی اطوار اختیار کرتا ہے جیسے اُس زمین کے ماحول کا تقاضا ہو پس اس پہلو سے جرمن قوم یورپین قوموں میں ایک غیر معمولی امتیاز رکھتی ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے انگلستان میں بھی کچھ رجحان شروع ہوا ہے لیکن وہ قومی عادت کے نتیجے میں نہیں.وہ انفرادی کوششوں کے نتیجے میں ہوا ہے.قومی عادت کے طور پر جتنی سنجیدگی مذہب کے معاملے میں جرمن اختیار کرتے ہیں آج تک میں نے کوئی اور مغربی قوم ایسی نہیں دیکھی ان کو سنبھالنا یہ ہے اصل ذمہ داری جو جماعت پر بحیثیت جماعت عائد ہوتی ہے اور پاکستان سے آنے والے احمدیوں پر بالخصوص عائد ہوتی ہے ان کو سنبھالیں اور ان کے بچوں کو سنبھالیں یہ سب سے اہم ذمہ داری ہے جو لجنہ اماءاللہ کی خصوصیت کے ساتھ ہے.ان کے بہت سے

Page 189

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۸۵ خطاب ۲ جون ۱۹۹۰ء مسائل ہیں، معاشرے کا اختلاف ہے، ان کی ساری زندگی ایسے ماحول میں کئی جس میں دنیا کی لذتیں بے تکلفی کے ساتھ جو چیز کرنے کی تمنا دل میں پیدا ہوئی اس کی طرف ہاتھ بڑھا دیا.جہاں کوئی Taboos نہیں تھے یہ کرو اور وہ نہ کرو اس قسم کی کوئی تعلیم تھی بھی تو یہ اس سے بے پرواہ تھے.ایک عجیب آزادی کے ماحول میں خود رو پودوں کی طرح یہ بلند ہوئے.اچانک اسلام کو اختیار کیا جہاں ایک بالکل مختلف ماحول ہے اور اپنے ماحول سے کاٹے گئے.ان کے بہت سے تقاضے ہیں.اول یہ کہ ان کو مسلسل اسلام کی تعلیم کا فلسفہ سمجھایا جائے.محض یہ کہنا کافی نہیں کہ انہوں نے یقین کر لیا محض یہ کہنا کافی نہیں کہ یہ ایمان لے آئے.یہ جب سوال کرتے ہیں تو بعض احمد یوں کو میں نے دیکھا ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جو سوال کرے اس کے اندر ضرور کوئی ایچ بیچ ہے وہ مخلص احمدی نہیں.بڑی بے قوفوں والی بات ہے اور اس طرح کرتے کرتے بعض مخلصین کو جو سچائی کی جستجو میں سوال کر کے اپنے دل اور اپنے دماغ کی پیاس بجھانا چاہتے ہیں دھکے دے دے کر پرے کر دیتے ہیں.یہ رجحان نہایت ہی خطرناک اور احمقانہ ہے اور احمدیت کے لئے ایک زہر ثابت ہوگا.بعض خواتین کے متعلق میں جانتا ہوں کہ مجھے بعض دفعہ اب نام نہیں لینا چاہتا یہ اطلاع کی گئی ہے کہ ویسے تو مخلص ہے احمدی ہے لیکن اعتراضوں کی بڑی عادت ہے ہر بات میں مین میخ نکالتی ہے، یہ کرتی ہے وہ کرتی ہے.جب میں نے ان سے رابطے کئے اور ان کو سوالات کا موقع دیا تو میں نے محسوس کیا کہ بالکل جائز باتیں تھیں اس بے چاری کو ایک نئے ماحول سے آنے کے بعد بہت سی باتوں میں جستجو ہے، طلب ہے اپنے ذہن کی تشنگی کا احساس باقی ہے.وہ چاہتی ہے کہ جس مذہب کو اس نے اختیار کیا ہے اس کو اس طرح ذہن نشین کر لے کہ جب غیر بھی اس سے سوال کریں تو مطمئن کرنے والے جوابات دے سکے.ایسی صورت میں جب وہ سوال کرتی ہے تو پاکستان سے آئی ہوئی خواتین یا مربیان، مبلغین کا یہ ردعمل کہ اوہو اس کے تو دماغ میں کیڑا ہے، یہ ٹھیک نہیں ہے.یہ اس کے دماغ کا کیٹر ا تو ثابت نہیں کرتا بلکہ کیڑا کہنے والے کے دماغ کا کیٹر ا ضرور ثابت کر دیتا ہے.تم مربی بن کر دنیا کے لئے نکالے گئے ہو ، تم معلم بنا کر دنیا کے لئے نکالے گئے ہو،اس رسول سے وابستہ ہو جس کے متعلق قرآن کریم نے فرمایا: يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ ( الجمعة ٣٠) وہ محض کتاب کی تعلیم نہیں دیتا تھا بلکہ حکمتیں بھی بیان کرتا تھا.

Page 190

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۱۸۶ خطاب ۲ جون ۱۹۹۰ء ساری زندگی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف قسم کے سوال کئے گئے ، چھوٹے بھی اور بڑے بھی ، گہرے بھی اور بالکل سطحی بھی ، ایک واقعہ آپ کی زندگی میں ایسا نہیں ملتا کہ آپ سوالوں سے تنگ آگئے ہوں اور کہتے ہوں کہ سوال کرنے والا تو بالکل کوئی ٹیڑھے دماغ کا آدمی ہے، دماغ میں کوئی کیڑا ہے، کوئی پاگل ہے، بڑے حوصلے کے ساتھ جھک کر، شفقت ورحمت کے ساتھ ہر ذہن کو مطمئن کرانے کی کوشش کی.اس لئے اگر آپ یہ چاہتی ہیں کہ اسلام کی عظیم ذمہ داری جو آپ کے کندھے پر ڈالی گئی ہے آپ اس کو کما حقہ ادا کریں تو ان کی اگلی نسلوں کو سنبھالنے سے پہلے ان کی ان نسلوں کو سنبھالیں جو بڑے شوق اور ولولے کے ساتھ اور بڑی قربانیوں کے ساتھ اسلام میں داخل ہوئی ہیں.بعض بالکل سفید چادروں کی طرح آئیں ان کو مذہب کا ہی کچھ پتہ نہیں تھا اس لئے آپ بڑے حوصلے اور پیار کے ساتھ ان سے محبت کے تعلقات بڑھا ئیں ان سے پوچھیں کہ ہر بات جو تمہارے ذہن میں خلش پیدا کرتی ہے تشنگی کا احساس پیدا کرتی ہے بے تکلفی سے بیان کیا کرو.اگر ہم تمہیں نہ سمجھا سکیں تو ہم ان سے پوچھ کر بتائیں گے جو تمہیں سمجھا سکتے ہیں اور اس طرح ان کے ساتھ معاشرتی بہنا پا پیدا کریں، بھائی چارے کا لفظ استعمال ہوتا ہے.مگر لجنہ کے معاملے میں بہنا پا کا لفظ میں نے سوچا کہ زیادہ موزوں ہوگا.یعنی ان کو معاشرتی رنگ میں بہن ہونے کا پیار دیں، بہن ہونے کا ساتھ دیں، بہن ہونے کے طریق پر ان کی ہمجولیاں بنیں.ساتھ لے کر پھریں اور اس تعلقات کے سلسلے میں محض ان کو سکھائیں نہیں بلکہ ان سے سیکھیں بھی کیونکہ یہ کہنا غلط ہے کہ آپ محض سکھانے کی صلاحیت رکھتی ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ بہت سے امور میں بہت سی احمدی خواتین جو پاکستان کے مختلف دیہات اور معاشروں سے یہاں تشریف لائی ہیں وہ ایک بڑی تعداد ان میں سے سکھانے کی اہلیت رکھتی ہی نہیں بے چاری انہوں نے وہاں رہ کر بھی دین کو پوری طرح سیکھا نہیں تھا.وہاں بھی وہ اپنے ماحول یا ایسے گاؤں سے تعلق رکھتی تھیں جہاں جماعتی تربیت ابھی پوری طرح ان کو سیراب نہیں کر سکی تھی.لجنہ کے نظام بنے دوسرے نظام بنے لیکن وہ رفتہ رفتہ سرایت کر رہے ہیں.پانی خواہ بہتات میں موجود ہو، اگر نالوں اور نالیوں کا انتظام مکمل نہ ہو تو کھیتوں میں ہر جگہ برابر نہیں پہنچا کرتا اور بعض سر زمینیں ایسی ہوتی ہیں جو پانی کو جلدی چوس لیتی ہیں مثلاً ریتلی زمینیں ، وہاں پانی مختلف کھیتوں کے کناروں تک پہنچانا بہت محنت اور جوکھوں کا کام ہے.میں خود زمیندار رہا

Page 191

حضرت خاین است الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۸۷ خطاب ۲ جون ۱۹۹۰ء ہوں میں جانتا ہوں کہ محض نالیاں بنادینا کافی نہیں.بعض دفعہ نالیاں راستے میں ٹوٹتی رہتی ہیں یعنی منتظم اپنا حق ادا نہیں کرتے اور پانی رستے ہی میں بکھر جاتا ہے.بعض دفعہ پانی پہنچا بھی دیں تو کھیت ایسا سوکھا ہوا بے چارہ اور زمین ایسی پیاسی ہوتی ہے کہ ایک ہی جگہ پانی ڈوبتا چلا جاتا ہے پر لے کنارے تک پہنچتا ہی نہیں.بعض دفعہ لیول ایک نہیں ہوتا اور لیول ایک نہ ہونے کا انسانی مثال میں یہ مطلب ہوگا کہ بعض لوگ تربیت قبول کرنے کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیتے ہیں اور وہ پانی کے بہاؤ کو قبول کرتے ہیں.بعض ذرا اکھڑ مزاج کے ہوتے ہیں ، سر اُٹھانے والے اس معنے میں کہ وہ اپنے آپ کو تربیت اور تعلیم کے لئے پیش نہیں کرتے.وہ چھوٹی چھوٹی ڈھیریاں ایسی آپ کو نظر آئیں گی جہاں سارا کھیت بھر گیا مگر ان ڈھیروں تک پانی نہیں پہنچا.تربیت کوئی آسان کام نہیں ہے.بہت سلیقے کا کام ہے اور ایک سائنسی طریق پر تربیت کے تمام تقاضے پورے کرنا ایک لمبی تربیت چاہتا ہے اس لئے آپ کو پہلے اپنی بھی تو تربیت کرنی ہوگی کہ کیسے تربیت کی جاتی ہے اور اسی کام پر میں مامور ہوں اس لئے میں آپ کو بار بار یہ باتیں سمجھا تا رہتا ہوں اپنے خطبات کے ذریعہ بھی اور اپنے خطابات کے ذریعہ بھی کہ ہمارا سب سے اہم کام بنی نوع انسان کی تربیت کرنا ہے اور اس تربیت سے پہلے ہمیں اپنی تربیت بھی کرنی ہوگی اور جوں جوں ہم اپنی تربیت کرتے چلے جائیں غیروں کی تربیت بھی کرنی ہوگی یا غیروں میں سے آکر اپنے بننے والوں کی بھی تربیت کرنی ہوگی.اس مضمون کو میں چونکہ مختلف وقتوں میں بیان کر چکا ہوں بعض پہلو آئندہ پھر بیان کروں گا.اس وقت خاص طور پر نئے آنے والی احمدیوں کی نسلوں کو سنبھالنے کی حد تک اپنے مضمون کو محمد و درکھوں گا.اس لئے آپ سب کا جو پاکستان سے تشریف لائی ہیں اور آپ سب میں ان کا خصوصیت کے ساتھ جن کو خدا تعالیٰ نے تربیت کا سلیقہ بخشا ہے ان کی تعلیم بہتر ہے، ان کا مزاج نرم ہے اور خدا تعالیٰ نے دوستی کا مزاج عطا کیا ہے، خصوصیت سے فرض ہے کہ اپنی نئی آنے والی بہنوں کو محبت سے گلے لگائیں ، ان کے لئے بہنا پے کا ماحول مہیا کریں ان کے حضور اپنی صلاحیتیں پیش کر دیں اور ان کو یہ احساس دلائیں اسی لئے میں یہ مثال کہ جس معاشرے سے وہ ٹوٹ کرتارے آپ کی جھولی میں گرے ہیں اس جھولی میں ان تاروں کو زیادہ محبت بخشیں ان کو اس آسمان کی فکر نہ رہے جس سے وہ ٹوٹے ہیں.آپ کی جھولی کی زیادہ قدر پیدا ہو جائے اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب آپ محبت دیں

Page 192

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۱۸۸ خطاب ۲ جون ۱۹۹۰ء اور ماؤں سے بہتر اور کون جانتا ہے کہ محبت کیسے دی جاتی ہے.بچے بھی خواہ کسی مقام پر پہنچیں کسی ترقی کے آسمان تک پہنچیں جو رفعت ماں کی جھولی میں محسوس کرتے ہیں وہ کسی اور جگہ محسوس نہیں کرتے.اسی لئے میں نے یہ مثال آپ کے سامنے رکھ دی ہے کہ ان کے بلند رونق اور چمکتے ہوئے معاشرے کے آسمان قائم ہیں.ان آسمانوں سے ان تاروں نے ٹوٹنا قبول کر لیا، ان کو مٹی میں نہ ڈلنے دیں، ان کو خاک میں نہ بکھرنے دیں.آپ کا فرض ہے اور خدا آپ کو پوچھے گا اگر ان گرتے ہوئے تاروں کو آپ نے اپنی جھولیوں میں نہ سمایا اور محبت نہ دی جیسی آپ اپنی اولادکو محبت دیتی ہیں.پیار اور محبت سے آپ گروپوں میں بیٹھ کر یہ سوال کریں اور سیکھیں خود اپنی تربیت ساتھ ساتھ کرتی چلی جائیں اور اس کے ساتھ آپ ان نسلوں کی طرف بھی متوجہ ہوں اور اپنی نسلوں کی طرف بھی متوجہ ہوں.اس ملک میں آنے کے بعد خود آپ کو بھی تو خطرے درپیش ہیں، آپ کی بیٹیاں بھی تو ایسے سکولوں میں داخل ہیں جہاں آزادی کے معنی بے حیائی کے لئے جاتے ہیں.جہاں آزادی کے معنی یہ سمجھے جاتے ہیں کہ ایک لڑکی جو چاہے جس طرح چاہے لذتیں حاصل کرتی رہے کوئی اس کو روکنے والا نہ ہوا گر کوئی رو کے گا تو نفسیاتی طور پر اس کے دل میں زخم پیدا کر دے گا.یا اس کے ذہنوں میں الجھن پیدا کر دے گا.اس نظریے کے تعلیمی ماحول میں آپ کی بیٹیاں بھی تو جاتی ہیں.جب تک آپ ان کو اپنے زیادہ قریب نہ رکھیں اور مسلسل ان کے قریب نہ رہیں، ان کو رفاقت عطا نہ کریں ، اور ان کو بھی مطمئن نہ کراتی چلی جائیں کہ اسلامی ماحول ان کو اپنی بہبود کے لئے اور بنی نوع انسان کی بہبود کے لئے زیادہ بہتر ہے اس وقت تک ان کے مستقبل کی بھی تو کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی.نہایت ہی درد ناک المیہ ہو گا اگر وہ کہانی جو میں نے آپ کے سامنے بیان کی پرانے زمانوں میں نئے آنے والے احمدیوں کے متعلق کہ ان کی اولادیں کس طرح آہستہ آہستہ ضائع ہو گئیں.خود آپ کے گھروں میں دہرائی جانے لگیں اور یہ خطرات فرضی نہیں ہیں، یہ حقیقی خطرات ہیں.صاف نظر سے آپ ماحول کو دیکھیں آپ کو دکھائی دینے چاہئیں.ابھی دو چار سال کے اندر ہی وہ خاندان جو یہاں آکر بسے ہیں.ان کے اندر یہ خطرات عملی شکل میں ظاہر ہونے شروع ہو چکے ہیں.ایسی بچیاں ہیں یہاں جن کی نظریں بدل رہی ہیں، جن کے رخ بدل رہے ہیں، ان کی باتوں کی طرز ایسی ہے جیسے وہ باہر جانے کے لئے پر تول رہی ہیں.مائیں اگر اس وقت ان کا خیال نہیں کرتیں اور اس وقت وہ لرزتی نہیں اس خوف سے کہ خدا نے جو امانت ہمارے سپر د کی تھی ہم اس امانت کی حفاظت نہیں کر سکے اور خدا ہم سے پوچھے گا کہ کیوں تم نے اس

Page 193

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۱۸۹ خطاب ۲ جون ۱۹۹۰ء امانت کی حفاظت نہیں کی تو پھر کچھ عرصے کے بعد وہ بالکل ہاتھ سے نکل جائیں گی.اسی طرح بچے ہیں، بیٹے ہیں ان کی تربیت کی بھی ضرورت ہے اور بڑے پیار اور محبت کے ساتھ اور مسلسل نگران رہ کر چھوٹی چھوٹی باتوں کا جائزہ لیتے ہوئے چھوٹے چھوٹے رجحانات کو سمجھتے ہوئے ان کو رفتہ رفتہ ساتھ چلانے کی ضرورت ہے اور یہ یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ یہ تعلیم جو قرآن نے ہمیں عطا کی ہے یہی وہ تعلیم ہے جو دلوں کو سکینت بخش سکتی ہے.باقی سارے وقتی یا جز وقتی مشغلے ہیں.کچھ دیر کی لذتیں ہیں جو اپنے پیچھے دکھ چھوڑ جائیں گے، بے چینیاں چھوڑ جائیں گی ان کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ان کے گھروں کی طرف دیکھو ٹیلی ویژن میں جو معاشرہ پیش ہو رہا ہے اس کو نہ دیکھو غور سے فکر کی نظر سے ان کے اپنے ان رسائل کا مطالعہ کر کے دیکھو جن میں ان کی بڑھتی ہوئی بے چینیوں کا ذکر ہے.گھر ٹوٹ رہے ہیں، اعتماد اُٹھ رہے ہیں ، بچوں کے دلوں میں والدین کی کوئی عزت باقی نہیں رہی ہے اگر ہے تو اتفاقی حادثات کے طور پر ہے.والدین کچھ عرصے کے بعد بچوں کو دھکا دیتے ہیں کہ جاؤ.اب تم آزاد پھر و ہمارے اوپر مزید بوجھ نہ بنو بلکہ بعض والدین بچوں سے اپنے گھروں میں رہنے کا کرایہ اور کھانے کی قیمت وصول کرنی شروع کر دیتے ہیں.اب یہ وہ باتیں ہیں جن کا تصور بھی کسی مشرقی معاشرہ میں خواہ وہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی ہو نہیں کیا جاسکتا اور جس کو ہم غیر مذہبی معاشرہ کہتے ہیں اس کی تخلیق بھی دراصل مذہبی پس منظر میں ہوئی تھی.اس لئے مشرق میں وہ معاشرہ کسی حد تک اب تو ٹوٹ رہا ہے لیکن کسی حد تک ابھی بھی قائم ہے جس کا پس منظر مذہب نے قائم کیا اور جس کے نتیجے میں خاندانوں کو اکٹھار کھنے پر اور بہن بھائی کے رشتوں پر اور باپ بیٹے اور ماں بیٹے اور باپ بیٹی اور ماں بیٹی کے رشتوں پر اور ان کے تقدس پر بہت زور دیا گیا.آج کی دنیا میں مغرب میں یہ ساری قدریں ٹوٹ بکھر گئی ہیں، گھر بکھر رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں بے چینیاں پیدا ہو رہی ہیں.پس تنقید کے طور پر نہیں سمجھانے کے طور پر ان کے سامنے یہ واقعات لا ئیں اور اپنی بہنوں کو بھی بتا ئیں کہ آپ کی دائگی تسکین اسی معاشرے، اسی تعلیم میں ہے جو آپ کے گھروں کی حفاظت کرتی ہے.جو تعلیم اور جو معاشرہ گھروں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہتا ہے وہ بنی نوع انسان کو سکینت بخشنے میں لازماً نا کام رہے گا.آج نہیں تو کل یہ بے چینی اتنی بڑھے گی کہ اسی معاشرے کے خلاف کھلم کھلا ان کی نسلیں بغاوت کریں گی کیونکہ امر واقعہ یہ ہے کہ جو سکون گھر کے ماحول میں ہے ویسا سکون کہیں دنیا میں نصیب نہیں ہوسکتا.لیکن گھر وہ جو محبت کے رشتوں میں بندھا ہوا ہو، گھر میں جو تقدس کے رشتوں

Page 194

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ١٩٠ خطاب ۲ جون ۱۹۹۰ء میں بندھا ہوا ہو، جہاں ادب کے تصورات ہوں، جہاں ایثار کے تصورات ہوں، جہاں نرم اور ملائم گوشے ہوں ایک دوسرے کے لئے جہاں یقین ہو کہ اگر ساری دنیا بھی مجھے دھتکار دے تو میری ماں مجھے نہیں دھتکارے گی ، میرا باپ مجھے نہیں دھتکارے گا.میرا بھائی ایسا ہے جس پر میں مان رکھتی ہوں، میں گری پڑی گلیوں میں بھی اس کو ملی ہوں اٹھائے گا اور مجھے چھاتی سے لگائے گا اور اپنے گھر لے جائے گا.یہ وہ گھروں کا تصور ہے جو اسلامی تصور ہے.جو درحقیقت مذہبی تصور ہے اور ہر مذہب میں اگر آج مشترک نہیں ہے تو پہلے مشترک تھا.کوئی دنیا کا مذہب ایسا نہیں ہے جس نے اس طرح انسانی گھروں کی تخلیق کی کوشش نہ کی ہو.یہ مغربی معاشرہ جانتا ہے کہ عیسائیت کی تعلیم کی روح بھی یہی ہے کہ ایک دوسرے کے خونی رشتوں کے ساتھ تعلق رکھو، ان کے لئے ایثار پیدا کرو، محبت کے نرم گوشے ان کو مہیا کرو اور پھر ان رشتوں کی تقدیس کرو.یہ جو قرآن کریم میں اور اسلامی تعلیم میں بار بار حرمت اور محرم کا ذکر آپ پڑھتی ہیں یہ دراصل یہی تقدیس ہے جس کا میں ذکر کر رہا ہوں.ان ممالک میں بدنصیبی ہے اور بے انتہا بد نصیبی کہ جہاں ایک طرف تعلق کے رشتے ٹوٹے وہاں دوسری طرف غلط تعلق کے رشتے قائم ہونے شروع ہو گئے.ماں بیٹے اور باپ بیٹی کے درمیان تقدیس کی بجائے غلط رشتے قائم ہونے شروع ہو گئے.اس چیز کا نام آج کل کی اصطلاح میں Child abuse ہے.یہ ایک ایسا مضمون ہے جس میں کوئی اور روشنی نہیں ڈال سکتا اس مجلس میں لیکن آپ سب لوگ اس پیغام کو سمجھتے ہیں اور اس ماحول میں رہتے ہوئے واقف ہیں کہ یہ کیا ہورہا ہے اور یہ ایک بھیانک چیز ہے اتنا ظالمانہ اور بہیمانہ رجحان ہے کہ انسان کو ہزار ہا سال کے تہذیبی سفر سے الٹا کر واپس ہیمیت کے ادنی کناروں تک پہنچا دے گا.ان گڑھوں میں اس قعر مذلت میں انسانیت ڈوب جائے گی جہاں جانوروں کے اندر بھی اس سے زیادہ تقدیس پائی جاتی ہے.اس لئے یہ باتیں معمولی نہیں ہیں.آپ کو گھر کی تعمیر کی طرف لازماً توجہ دینی ہوگی اور ایسے گھر کی تعمیر کی طرف جہاں سمجھانے کے نتیجے میں اور عملاً ایثار اور پیار اور محبت کے نتیجے میں آپ کے بچے آپ سے ذہنی طور پر اور قلبی طور پر وابستہ ہو جائیں اور دل میں یقین کرلیں کہ ان اقدار کی بہت بڑی قیمت ہے اور ان کا کوئی بدل نہیں اور یہی وہ پیغام ہے جو آپ کو اپنی دوسری بہنوں تک پہنچانا چاہئے اور ان کی گھروں کی حفاظت کے لئے استعمال کرنا چاہئے.اس ضمن میں یا درکھیں کہ آپ کی طرز گفتگو بہت بڑا کردارادا کرے گی.ایک احمدی خاتون نے

Page 195

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات 191 خطاب ۲ جون ۱۹۹۰ء کچھ عرصہ پہلے مجھے خط لکھا کہ میرا خاوند مجھے ہمیشہ تو تڑاں کر کے مخاطب کرتا ہے اور میں جب آئی تھی اس گھر میں تو میرے دل میں نرمی اور نفاست تھی رفتہ رفتہ محسوس کر رہی ہوں کہ اس بات کی کمی ہو رہی ہے اور مجھ میں بے چینی پیدا ہو رہی ہے.یہ ایک بہت ہی اہم نکتہ ہے جو اس نے اٹھایا اور میں نے سوچا کہ میں اس کو آپ کے سامنے رکھوں، روزمرہ کی گفتگو کے سلیقے سے ہی گھر بنتے ہیں یا بگڑتے ہیں.میں نے اس کو لکھا کہ لفظ تو کی بحث نہیں ہے.خدا کو بھی تو آپ عظمت اور پیار سے تو کہہ کر مخاطب کرتی ہیں.بحث ہے کس رنگ میں بات کی جاتی ہے.اگر آپ بد تمیزی کے ساتھ آپ کہیں تو وہ آپ بھی تکلیف دے گا اور زہر گھول دے گا آپ کے رشتوں میں اور اگر محبت اور پیار کے ذریعے کے ساتھ آپ تو کہیں تو اس تو میں بڑی مٹھاس ہو گی اور وہ رشتے توڑنے کی بجائے رشتے باندھنے کا موجب بن جائے گی.پس طرز گفتگو ہے جس میں آپ کو سلیقہ اختیار کرنا چاہئے.اپنے بچوں پر بھی نظر رکھیں میں نے دیکھا ہے مجھے اس پر بڑی محنت کرنی پڑی ہے.میری بچیاں ہیں خدا کے فضل سے عام تربیتی تقاضوں کے لحاظ سے بُری نہیں کہی جاسکتیں لیکن آپس میں جب باتیں کرتی ہیں جب بعض دفعہ تو ایک دوسرے کا لحاظ نہیں کرتیں اور بچپن سے لے کر ان کے آج تک مجھے مسلسل محنت کرنی پڑی ہے.بعض دفعہ میں اچانک کمرے میں جاؤں تو اونچی آواز میں بحث ہورہی ہوتی ہے اور میرے جاتے ہی آواز دھیمی ہو جاتی ہے میں ان سے کہتا ہوں کہ بیبیو میرا سوال نہیں میں آج نہیں تو کل چلا جاؤں گا لیکن میں اس یقین کے ساتھ اس دنیا سے جانا چاہتا ہوں کہ میری عدم موجودگی میں بھی تم ایک دوسرے کے ساتھ ملائمت کا سلوک کرو، نرمی اور پیار کا سلوک کرو.تم نے دنیا کی تربیت کرنی ہے.اگر چھوٹی چھوٹی باتوں میں چھوٹی چھوٹی بحثوں میں تم نے گرمی اختیار کی ، جوش اختیار کئے، ایک دوسرے کے لئے تحقیر کے کلمے استعمال کئے تو دنیا کی تربیت کیسے کرو گی.اپنی نسلوں کی تربیت کیسے کرو گی اس لئے میں جانتا ہوں کہ مشکل کام ہے، بہت محنت کرنی پڑتی ہے اور بڑی وفا کے ساتھ محنت کرنی پڑتی ہے، مستقل مزاجی کے ساتھ محنت کرنی پڑتی ہے.اس پہلو سے آپ اپنے گھروں پر غور کریں اور نقشوں کو بدلیں کیونکہ جرمنی کی جماعت سے مجھے بہت کثرت سے ایسی شکایتیں ملتی ہیں کہ خاوند اپنی بیویوں سے بدتمیز ہیں اور بعض بیویاں اپنے خاوندوں سے بدتمیز ہیں بعض اپنے بچوں سے بدتمیزی سے بات کرتے ہیں اور پھر ان کے بچے بھی آگے سے جواب دیتے ہیں عجیب ہنگامہ پیدا ہوتا ہے.تو وہ کوئی گھر ہے رہنے والا جہاں ہر وقت

Page 196

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۱۹۲ خطاب ۲ جون ۱۹۹۰ء بدتمیزی ہو رہی ہو، لڑائیاں ہو رہی ہوں، آواز میں اونچی ہو رہی ہوں.وہی ماحول ہو ، وہی آسائش کے سامان ہوں یا تکلیف دہ حالات ہوں.مزاج بدلنے سے گھر جنت بنتا ہے یا جہنم بنتا ہے میں نے ایسے غریب خاندانوں کو بھی دیکھا ہے کہ جن کے پاس ایک کمرہ رہنے کا اور بڑا خاندان لیکن ان کے مزاج میں خدا تعالیٰ نے لطافت عطا فرمائی ، نرمی عطا فرمائی ہے، وہ سوکھی روٹی بھی بڑے محبت و پیار سے مل کر کھاتے ہیں اور ایک دوسرے کے لئے قربانی کے جذبات رکھتے ہیں اور اس چھوٹی سی غریب نہ جگہ میں نہایت معمولی غذا میں بھی وہ ایک جنت محسوس کرتے ہیں.باہر کی دنیا کی نعمتیں ان کے لئے کشش نہیں رکھتیں.جب تک وہ اپنے گھر کے ماحول میں واپس نہ جائیں ان کو مزہ نہیں آتا.ایک ایسے معاملے میں میں نے ایک تجربہ بھی کر کے دیکھا، ایک شخص کو ایک بچے کو جو کسی ایسے ہی گھر کا تھا، ہر قسم کی نعمتیں پہنچائیں ہر قسم کے آرام دیئے مگر اس کا دل نہیں لگتا تھا کہ جو مزہ گھر میں ہے وہ مزہ نہیں ہے.ماں باپ پیار کرنے والے، بہن بھائی پیار کرنے والے، اب اس چیز کا کوئی بدل ہے دنیا میں ؟ کوئی بدل نہیں.اور ایسے گھر ہیں جہاں ہر قسم کی نعمتیں موجود ہیں لیکن بدا خلاقی اور بدتمیزی کی وجہ سے وہ گھر جہنم بنے رہتے ہیں کوئی چین نہیں.آپ کا اپنا اختیار ہے ایک تنگ لاگر میں بھی اگر آپ نے رہنا ہے، تکلیف دہ ماحول ہے، مجھے پتہ ہے بہت ہی مصیبتیں ہیں، بڑی آزمائشیں ہیں.غلط ماحول کے پلے ہوئے لوگ ، غلط تربیت پائے ہوئے لوگ آپ کے ساتھ رہتے ، آپ کے غسل خانے استعمال کرتے ، اس کچن میں آپ کھانا پکاتی ہیں ، بیچاریاں مجھے پتہ ہے لیکن مزید جہنم بھی آپ اس کو بنا سکتی ہیں.اگر آپس میں لڑنا شروع کر دیں اور آپس میں بدتمیزیاں شروع کر دیں.اگر ایک دوسرے کو سہارا دیں ایک دوسرے کو پیار دیں اخلاق سے بات کریں نرمی کا لہجہ اختیار کریں اور نرمی کی تعلیم دیں تو یہی ماحول اگر جنت نہیں تو کم سے کم اتنا نرم ضرور ہو سکتا ہے کہ زندگی گزارنے کے لئے کچھ نہ کچھ سامان تو ہو جائیں گے.کچھ سہارا تو ہو آپس میں جب رات کو اکٹھے ہو جایا کریں گے تو آپ ایک دوسرے کے ساتھ پیار دیکھیں گے، ایک دوسرے کی آنکھوں میں پیار دیکھیں گے تو سارے دن کی تھکاوٹ دور ہو جائے گی لیکن اس پر مزید اگر وہ بدتمیزیاں ہوں جن کا میں نے ذکر کیا ہے تو پھر کچھ باقی نہیں رہتا.ایک آفت ایک قیامت آئی رہتی ہے ایسے گھروں میں.پس یا درکھیں اس دنیا میں گھر جنت بھی بنا سکتے ہیں اور جہنم بھی بنا سکتے ہیں اور گھروں کی جنت اور جہنم دنیا کی آسائشوں سے بہت معمولی تعلق رکھتی ہیں.اصل جنت اور جہنم ایک دوسرے کے رجحان

Page 197

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۱۹۳ خطاب ۲ جون ۱۹۹۰ء سے پیدا ہوتی ہے، ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کے سلیقوں اور آداب سے پیدا ہوتی ہے اور اس سے سارا ماحول بدل جاتا ہے.اس پہلو سے جب آپ تربیت کریں گی تو آپ کی اولاد کی حفاظت ہوگی میں کوئی بے تعلق بات نہیں کہہ رہا وہی اولا د بچتی ہے اور اسی کی تربیت کی ضمانت دی جاسکتی ہے جس کو گھر میں پیار اور محبت کا اور اعتماد کا ماحول میسر ہو.ورنہ آپ کے بچے آپ کی کوکھوں سے جنم لے کر غیروں کی گودوں میں جانا شروع ہو جائیں گے اور ان کی گودوں میں پلیں گے آپ واویلا کریں گی اور وہ آپ کے نہیں بن سکیں گے.بچپن کا وقت ہے جو غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے اس وقت آپ ان کو سنبھالیں اور اس وقت ان کو پیار دیں ، اس وقت ان کو اپنا ئیں اور یہ اسلامی گھر ہے جس کو نمونے کے طور آپ نئی آنے والی بہنوں کو آپ فخر سے دکھا سکتی ہیں، کہہ سکتی ہیں کہ جو تم نے چھوڑا ہے اس سے بہت کچھ زیادہ پالیا اور تمہارے مستقبل کی حفاظت اس ماحول میں ہے.پس تربیت کے بہت فنون ہیں، بہت سے گر ہیں، بہت سے ایسے امور ہیں جن پر روشنی ڈالی جا سکتی تھی ، ڈالی جاتی ہے اور مختلف خطبات میں مختلف پہلوؤں سے میں ذکر کرتا ہوں ، مگر آج کے مضمون کے لئے میں نے یہی دو تین باتیں چینی تھیں.میں امید رکھتا ہوں جس طرح دھیان سے آپ سن رہی ہیں، جس طرح خاموشی کے ساتھ آپ متوجہ ہیں اسی طرح دھیان سے ان باتوں کو اب ہمیشہ ذہن نشین رکھیں گی.اپنے دلوں میں جگہ دیں گی ، اپنے گھروں کی روز مرہ کی زندگی میں ان باتوں کو جاری کر دیں گی اور پیار اور محبت کے وہ ماحول پیدا کریں گی ، جس کے نتیجے میں آپ کی دنیا جنت بن جائے گی اور دوسری دنیا کو جنت عطا کرنے کی اہلیت عطا ہوگی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہم اس حال میں اس دنیا سے رخصت ہوں کہ کامل یقین کے ساتھ اور کامل دل کے اطمینان کے ساتھ پیچھے چھوڑنے والی نسلوں پر نظریں ڈال رہے ہوں کہ اے خدا! جب تک ہمارا بس تھا جس طرح ہماری پیش گئی ہم نے ان کو اعلیٰ اقدار عطا کئے اور اعلیٰ حالات اور اعلیٰ اخلاق پر قائم رکھا.اب یہ جواہر تیرے سپرد ہیں جس طرح ہم نے ان کی تربیت کی اب اے خدا! تو ان کی تربیت کرنا اور ہمیں دوسری دنیا میں بھی یہ دکھ نصیب نہ ہو کہ جن اعلیٰ رستوں پر ہم ان کو ڈال کر گئی تھیں ان رستوں سے ان کے قدم ہٹ گئے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.اب دُعا میں شامل ہو جائیں.

Page 198

Page 199

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۱۹۵ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۰ء اپنے گھروں کو جنت نشان بنا ئیں (جلسہ سالانہ مستورات برطانیہ سے خطاب فرمودہ ۲۸ / جولائی ۱۹۹۰ء) تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی.ياَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً (النساء:۲) آج کے اس خطاب کے لئے میں نے گھر کا عنوان منتخب کیا ہے آج کے اس جدید دور میں دنیا کو امن کی تلاش ہے اور امن کی تلاش میں دنیا سرگرداں ہر اس امکانی گوشے پر نگاہ رکھ رہی ہے جہاں سے وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں امن کے حصول کی کوئی توقع ہو سکتی ہے اور ہر اس راہ پر دوڑتے چلے جاتے ہیں جہاں وہ امید رکھتے ہیں کہ اس راہ پر آگے بڑھنے سے ہمیں امن نصیب ہو جائے گا لیکن امن کے قریب ہونے کی بجائے دن بدن امن سے دور ہٹتے چلے جارہے ہیں امن کی تلاش میں وہ گلیوں میں بھی نکلتے ہیں شہروں میں بھی اور ملکوں میں بھی سرگرداں پھرتے ہیں.لیکن وہ امن جو گھر میں نصیب ہوسکتا ہے وہ دن بدن ان کے گھروں کو ویران چھوڑتا چلا جا رہا ہے جیسے پرندہ گھونسلے کو چھوڑ کر اڑ جائے اسی طرح امن گھروں کو چھوڑ کر رخصت ہوتا چلا جا رہا ہے.آج کے معاشرے میں خواہ دنیا کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتی ہو مشرق سے تعلق رکھتی ہو یا مغرب سے تعلق رکھتی ہو.شمال سے جنوب سے سب سے اہم ضرورت گھروں کی تعمیر نو ہے ہمارے ذہنوں میں جب ہم گھر کی بربادی کا نقشہ سوچتے ہیں اور خاندانوں کے ٹوٹنے کا تصور باندھتے ہیں

Page 200

حضرت خلیفہ آسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۱۹۶ خطاب ۲۸؍ جولائی ۱۹۹۰ء بالعموم مغربی معاشرے کا خیال ابھرتا ہے اور مغربی معاشرے کی بعض برائیاں ہیں جن پر نظر پڑتی ہے اور سمجھتے ہیں کہ گھروں کے ٹوٹنے کی بڑی ذمہ داری مغربی تہذیب پر ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ انصاف کی نظر سے اگر دیکھا جائے تو مشرق بھی بہت بڑی حد تک ذمہ دار ہے اور بہت سی ایسی معاشرتی خرابیاں مشرق میں پائی جاتی ہیں جن کا مغرب میں کوئی وجود نہیں اور وہ گھروں کے توڑنے میں بہت ہی زیادہ خطرناک کردار ادا کر رہی ہیں.میں اس مضمون سے پہلے تقویٰ کی نظر سے صورت حال کا جائزہ لیا تو مجھے بعض ایسی باتیں دکھائی دیں جن کے نتیجہ میں میں سمجھتا ہوں کہ بعض پہلوؤں سے مشرقی معاشرہ زیادہ خطرناک صورت حال پیدا کر رہا ہے.خلاصہ کلام یہ ہے کہ مغربی تہذیب نے بھی گھروں کو توڑا ہے اور دن بدن تو ڑتی چلی جارہی ہے اور اس کے نتیجہ میں دن بدن معاشرہ زیادہ دکھوں میں مبتلا ہو رہا ہے لیکن ان کے گھر کو توڑنے کا انداز نفرت پر مبنی نہیں بلکہ بے حسی اور عدم توجہ کے نتیجہ میں ہے اور ذاتی خود غرضیوں کے نتیجے میں ہے ذاتی خود غرضیاں تو دنیا میں ہر جگہ اسی قسم کا کردار ادا کیا کرتی ہیں لیکن ہمارے مشرق میں جو تہذیبی خرابیاں پائی جاتی ہیں جو معاشرتی خرابیاں پائی جاتی ہیں وہ محض تعلقات کو تو ڑتی نہیں بلکہ محبت کی بجائے ان میں نفرت کے رشتے قائم کرتی ہیں اور خاندانوں کے درمیان جو شریکے کا لفظ آپ نے سن رکھا ہے جو ہماری صدیوں کی تہذیب کا ورثہ ہے ویسا کوئی تصور آپ کو مغرب میں دکھائی نہیں دیگا اور یہ جو شریکے کا تصور ہمارے ہاں پایا جا تا ہے یہ بہت سے معاشرتی خرابیوں کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے.اس لئے انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ جب نصیحت کی جائے تو پہلے تمام صورت حال کا جائزہ لے کر بیماری کا تجزیہ کیا جائے پھر دونوں فریق کو جہاں جہاں کوئی نقص دکھائی دے اس نقص کی طرف متوجہ کیا جائے اور تقویٰ کے ساتھ اللہ کے نام پر نیک نصیحت کی جائے.جہاں تک مشرقی معاشرے کی خرابیوں کا تعلق ہے اس میں ہمارے رشتوں کا بظاہر مضبوط ہونا عملاً ان رشتوں میں دوری پیدا کرنے کا موجب بن رہا ہے مغرب میں چونکہ گھر الگ الگ ہو جاتے ہیں اور ایک بڑے خاندان کے اکٹھے بسنے کا تصور نہیں ہے یا اگر تھا تو تاریخ میں بہت پیچھے رہ گیا ہے.لیکن ہمارے ہاں اکثر مشرقی ممالک میں خاندان زیادہ وسیع ہیں اور ان کے باہمی روابط دیکھنے میں مضبوط ہیں اور ایک ہی گھر میں بعض صورتوں میں صرف بہو بیٹا اور ساس اور داماد وغیرہ یہ سارے اکٹھے نہیں رہتے بلکہ چچا تا یا رشتے دار دوسرے اور بعض علاقوں میں تو ان کا ایک ہی کچن ہوتا ہے یعنی ایک ہی مطبخ سے ان کا کھانا تیار ہوتا ہے اور بعض بڑے خاندانوں میں تو ان کے باہمی تجارتوں کے

Page 201

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۱۹۷ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۰ء حساب کتاب بھی نہیں کئے جاتے بلکہ نہ صرف یہ کہ غیر احمدی معاشرے میں بلکہ احمدی معاشرے میں بھی ایسی خرابیاں دیکھنے میں آئیں ہیں کہ باپ فوت ہو گیا یا ماں فوت ہوگئی اور جائیداد بائی نہیں گئی بلکہ یہ سمجھا گیا کہ ہمارے اکھٹے رکھنے کا خاندان کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے حق کا مطالبہ نہ کرے زبان نہ کھولے اس بات پر کہ میری ماں یا میرے باپ کی جائیداد کا مجھے بھی حصہ دو بڑے بھائی یا خاندان میں اگر کوئی اور بڑا ہے اس کے سپر د معاملات رہے اور خاموشی سے شکوے لوگوں کے سینوں میں پلتے رہے اور دن بدن تکلیف بڑھتی رہی.یہ احساس بڑھتا رہا کہ جس کے ہاتھ میں انتظامات ہیں یا جس کے نام پر جائیداد ہے وہ زیادہ استفادہ کر رہا ہے بہ نسبت دوسروں کے اور اس کے نتیجہ میں پہلی نسل بعض دفعہ اس بات کا برادشت کر بھی جاتی ہے لیکن آئندہ جو بچے پیدا ہوتے ہیں اور جوان ہوتے ہیں ان کے دل میں یہ بظاہر محبت کا رشتہ محبت کے رشتے کی بجائے نفرت کے جذبے میں تبدیل ہو جا تا ہے اور وہ اگر ابتدا میں نیت نیک بھی تھی تو چونکہ غلط اقدام تھا اس لئے وہ نیک نیت اچھا پھل نہیں دے سکتی اور اچھا پھل نہیں دے سکتی یہ ایک مثال ہے لیکن عملاً میرے سامنے ایسے بہت سے معاملات آتے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ اس قسم کی غلط روایات جو اسلامی شریعت کے خلاف ہیں وہ یقینا بد نتائج پر منتج ہوتی ہیں اور اس سے معاشرے میں محبت بڑھنے کی بجائے نفرت پھیلتی ہے پس وہی معاشرہ صحیح معاشرہ ہے جو آپ کو دنیا میں پیش کرنے کا حق ہے جو اسلام کی تعلیم پر بنی ہے اور اس معاشرے کا کوئی رنگ نہیں ہے نہ وہ مشرق کا ہے نہ وہ مغرب کا ہے نہ وہ سیاہ ہے نہ سفید ، وہ نورانی معاشرہ ہے پس اس حد تک معاشرے کو Universalize کرنا چاہئے اس کو تمام دنیا میں پھیلانا چاہئے اور تمام بنی نوع کو انسان کی قدر مشترک بنانے کی کوشش کرنا چاہئے.جس حد تک وہ کسی معاشرے کے پہلو اسلام سے روشنی پا رہے ہیں اور اس کی بنیادیں اسلام میں پیوستہ ہیں.مگر ہمارے ہاں یہ غلط تصور پایا جاتا ہے کہ مشرقی معاشرہ گویا اسلامی معاشرہ ہے اور یہ تصور غلط ہے.مشرقی معاشرے کے بعض پہلو اسلامی ہیں اور ان میں تہذیب و مذہب دونوں باہم ایک دوسرے کے ساتھ جذب ہو کر ایک ہی شکل اختیار کر گئے ہیں لیکن کثرت سے ایسے پہلو ہیں جو نہ صرف یہ کہ اسلامی نہیں بلکہ مذہبی اقدار معاند اور مخالف ہیں اور مذہبی اقدار سے ٹکرانے والے ہیں اور بت پرست تہذیب کا ورثہ ہیں اس لئے احمدی خواتین کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے رہن سہن اپنے طرز معاشرت کو اسلامی بنا ئیں خواہ وہ مشرق سے تعلق رکھتی ہوں خواہ وہ مغرب سے تعلق رکھتی ہوں.اب مشرقی معاشرے کا ذکر چل رہا ہے یہ تو بڑا مشکل کام ہے کہ

Page 202

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۱۹۸ خطاب ۲۸؍ جولائی ۱۹۹۰ء سارے مشرقی معاشرے کا ذکر کیا جائے میں جب مشرقی معاشرہ کی بات کروں گا تو میری مراد یہ ہے کہ وہ احمدی خواتین جو مشرقی ممالک میں پیدا ہوئیں اور وہیں پلیں ان کا معاشرہ ایک پہلو سے مشرقی معاشرہ ہے لیکن لازم نہیں کہ ہر پہلو سے وہ اسلامی معاشرہ بھی ہو اس لئے اگر انھوں نے دنیا کی معلمہ بننے کی کوشش کرنا ہے، اگر انہوں نے تمام بنی نوع انسان کی اس شدید ضرورت کو پورا کرنے میں کوئی اہم کردار ادا کرنا ہے کہ آج بنی نوع انسان کو گھر کی ضرورت ہے تو اچھا گھر بنا کر پھر اس گھر کے نمونے پیش کریں.آپ نے دنیا میں دیکھا ہو گا آج کل جدید انجینئر نگ کے اثر کے نتیجے میں بڑی بڑی خوبصورت عمارتیں تعمیر ہوتی ہیں.اور بعض عمارتیں ماڈل کے طور پر بنائی جاتی ہیں تا کہ وسیع پیمانے پر ویسے ہی اور گھر بنائیں جائیں.وہ ماڈل کہاں ہے یہ وہ سوال ہے جو مجھے پریشان کر رہا ہے.کونسا ایسا ماڈل ہے جس ماڈل کو ہم بنی نوع انسان کے سامنے اسلامی معاشرے کے طور پر پیش کر سکیں اگر احمدی خواتین نے وہ ماڈل پیش نہ کیا تو وقت کے ایک اہم تقاضے کو پورا کرنے سے محروم رہ جائیں گی اور تمام بنی نوع انسان کو امت واحدہ میں اکٹھا کرنے اور امت واحدہ کی کڑیوں سے منسلک کرنے میں ناکام رہیں گی اس لئے اس ضرورت کو جو میں آج آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں بہت اہمیت دیں یہ مضمون کیونکہ بہت وسیع ہے اس لئے میں حتی المقدور کوشش کروں گا کہ نکات کی صورت میں آپ کے سامنے باتیں رکھوں.ہمارے معاشرے ہمارے سے مراد میر انہیں بلکہ میں تو اسلامی معاشرے کا علمبر دار ہوں اور اسی کی نمائندگی کرتا ہوں عادتا چونکہ میں مشرق سے تعلق رکھتا ہوں اس لئے ہمارے کا لفظ زبان پر جاری ہو جاتا ہے مشرقی معاشرے میں بعض بہت ہی گہری خرابیاں پائی جاتی ہیں جو ہمارے روز مرہ کی یعنی احمدیوں کی روز مرہ کی زندگیوں پر بھی اثر انداز ہیں.رشتوں کا مثلاً معاملہ ہے رشتوں کے معاملات میں ابھی تک ہماری خواتین کی اس حد تک اصلاح نہیں ہو سکی کہ وہ رشتے کرتے وقت اچھی لڑکی یا اچھے لڑکے پر نظر رکھنے کی بجائے اچھی لڑکی کی دولت یا اچھے لڑکے کی دولت پر نظر رکھیں.یہ جو عادت ہے یہ ہم نے بالعموم مشرقی معاشرے سے ورثے میں پائی ہے اور اس کی بنیادیں مشرکانہ معاشروں میں قائم اور نصب ہیں ہندو معاشرے میں یہ بہت زیادہ رسمیں پائی جاتی تھیں کہ رشتے کے وقت مالی منفعتیں بھی حاصل کی جائیں.چنانچہ آج تک اس بدنصیبی کا ورثہ ہمارے ملک پاکستان میں بھی جاری وساری ہے اور ہندوستان کے بسنے والے

Page 203

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۱۹۹ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۰ء مسلمانوں نے بھی اس سے حصہ پایا ہے جبکہ ہندو قوم اب اس سے بے زاری کا اظہار کر رہی ہے اور ہندو قوم میں نی تحریکات چل رہی ہیں کہ ان نہایت خطرناک رجحانات کا قلع قمع کرنا چاہئے اور اگر قانون بنانے کی بھی ضرورت پیش آئے تو قانون بنا کر ان بدرسموں کا استیصال کرنا چاہئے لیکن ہمارے ہاں روز مرہ ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں کہ کوئی بیٹے کی ماں اس خیال سے کہ بیٹا چونکہ برسر روزگار ہے اور تعلیم یا فتہ ہے بہو کی تلاش میں نکلتی ہے اور بہو کے اخلاق پر نظر رکھنے کی بجائے اس کے گھر پر نظر ڈالتی ہے.یہ دیکھتی ہے کہ وہاں کس قسم کے صوفہ سیٹس ہیں دنیا کی زندگی کی سہولتیں موجود ہیں کہ نہیں کا رہے یا نہیں ہے اور کیا اگر کار ہے تو اپنی بیٹی کو وہ کار جہیز میں بھی دیں گے کہ نہیں دینگے اور دیگر جائیداد پر نظر ڈالتے ہیں.یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ماں اپنی بہو کی تلاش پر نہیں نکی بلکہ کوئی انکم ٹیکس کا انسپکٹر کسی جائیداد کا جائزہ لینے کے لئے نکل کھڑا ہوا ہے.ایسے خوفناک بدنتائج اس کے پیدا ہوتے ہیں کہ اگر ایسی شادیاں ہو بھی جائیں تو ان کی تعمیر میں ان کی تخریب کے سامان ڈال دیئے جاتے ہیں اور وہ ایسی شاخ پر بنا کرتی ہیں ایسی شادیاں جس شاخ نے قائم نہیں رہنا اس نے لازماً کاٹا جانا ہے زیوروں پر نگاہ ہوتی ہے یہ توقع کی جاتی ہے کہ کس حد تک کوئی بہوز یور مانگ کر یا پہن کر اپنا بنا کر گھر آئے گی.مانگنے لفظ تو میں نے زائد کر دیا ہے جہاں تک ان کی توقع کا تعلق ہے وہ بجھتی ہیں کہ چاہے بیٹی والا اپنی ساری جائیداد بیچ دے اپنی بیٹی کو بہت سے زیور سے آراستہ کر کے ہمارے گھر بھیجے اور امر واقعہ یہ ہے کہ بعض ساسیں یعنی ان بیٹوں کی مائیں جو بطور بہو کسی گھر بھجوائی جاتی ہیں تقاضوں سے مجبور ہو کر بعض دفعه ما نگ کر زیور دیتی ہیں اور کوشش کرتی ہیں کہ دوسرے دن خفیہ طریق پر وہ زیور واپس منگوالیا جائے تا کہ جس کی امانت ہے اس کے سپر د کر دیا جائے چنانچہ بعد میں جو جھگڑے ہوتے ہیں ان میں یہ باتیں بھی سامنے آتی ہیں کیسی لغو بات ہے لیکن بڑی سنجیدگی کے ساتھ سامنے آتی ہے کہ ہم سے دھوکا کیا گیا بہو کو جو جھومر پہنایا گیا وہ مانگا ہوا تھا جو کانٹا پہنایا گیا ہو مانگا ہوا تھا اور یا یہ کہ مانتی نہیں کہ مانگا ہوا تھا کہتی کہتی ہیں دیا تھا اور واپس لے گئیں ایسا ظالمانہ معاشرہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں محبت بڑھنے کی بجائے نفرتیں پیدا ہوتی ہیں اور وہ مائیں جو یہ ظالمانہ طریق اختیار کرتی ہیں وہ اپنے بیٹے کی خوشیوں میں کانٹے بودیتی ہیں اور ہمیشہ کے لئے معاشرے میں زہر گھول دیتی ہیں اور یہ باتیں پھر رکا نہیں کرتیں بڑھتی چلی جاتی ہیں شکووں پر شکوے اور نہایت کمینی با تیں.پھر بعض مائیں ہیں وہ ان باتوں کی پرواہ شاید نہ کرتی ہوں لیکن بہت زیادہ بیٹی کی تعلیم پر زور دیتی ہیں اور اس کے پس پردہ ایک بدنیت چھپی ہوئی ہوتی ہے.

Page 204

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۲۰۰ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۰ء ان کی نیت یہ ہوتی ہے کہ ایسی بیٹی گھر آئے جس کی تعلیم اس کے لئے روزی کمانے کا ذریعہ بن سکے چنانچہ وہ اپنے خاوند کے ساتھ مل کر روزی کمائے اور جو کچھ کمائے وہ ہمارے سپر د کر دے اب یہ نیت زیادہ دیر تو چھپی نہیں رہ سکتی جب شادی ہو جاتی ہے تو ان بچیوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ آپ نوکریاں تلاش کر محنتیں کرو اور جو کچھ کماتی ہو وہ ہماے قدموں میں ڈال دو.یہ تمام غیر اسلامی رسمیں ہیں اور یہ رسمیں مغرب میں مفقود ہیں مغرب میں اگر گھر ٹوٹ رہے ہیں تو نفرتوں کی بنا پر نہیں ٹوٹ رہے وہاں گھر اس لئے ٹوٹتے ہیں کہ دنیا پرستی مادی خوشیوں مادی لذتوں کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے اور انفرادیت نمو پا رہی ہے یعنی وہ پہلے سے بڑھ کر نمایاں ہوتی چلی جارہی ہے اور دنیا کی لذتوں کی راہ میں یہ انفرادیت اس طرح رشتوں کی تعمیر میں حائل ہو جاتی ہے کہ اگر ایک شخص یعنی مغرب میں شادی کرتا ہے تو وہ یہ پسند نہیں کرتا کہ بیوی کی ماں یا بیوی یہ پسند نہیں کرتی کہ خاوند کی ماں ان کے گھروں پر کسی قسم کا بھی بوجھ بنیں.اس سے ان کی آزادی پر ان کی لذت یا بی پر فرق پڑتا ہے.چنانچہ یہ آزادی کا رجحان جو ہے یہ سب سے پہلے گھر کو تو ڑ کر محض میاں بیوی میں تبدیل کر دیتا ہے باقی رشتہ داروں سے تعلق محض اس حد تک استوار رہتا ہے جس حد تک دنیا کی رسموں میں یا بعض تقریبوں کے موقع پر دوستوں کو بلایا ہی جاتا ہے ایسے موقعوں پر خاندان کے دوسرے افراد بھی حصہ لے لیتے ہیں لیکن چونکہ تقاضے نہیں ہیں اس لئے مایوسیاں بھی نہیں ہیں رفتہ رفتہ اس خود غرضی کے معاشرے نے یہ مشکل اختیار کر لی کہ بوڑھی مائیں جو مدد کی محتاج ہیں وہ بیچاری تنہا پڑی ہوئی اپنی زندگی کے باقی دن کاٹتی ہیں اور موت کا انتظار کرتی ہیں.بوڑھے باپ کا دیکھنے والا کوئی نہیں چنانچہ سارا معاشرہ اپنی اجتماعی ذمہ داری کو ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے ایسے لوگوں کے لئے Old Homes بنتے ہیں دیکھ بھال کے لئے ، دوسرے سامان فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یہاں تک کہ یہ معاشرہ اتنا زیادہ Society پر بوجھ ڈال دیتا ہے کہ پھر مزید تقاضے پورے نہیں ہو سکتے اور ایک عدم اطمینان اور بے چینی کا معاشرہ پیدا ہوتا ہے جو ان چیزوں میں بڑھتا چلا جاتا ہے.دن بدن سارا معاشرہ بے چین ہوتا چلا جاتا ہے.انگلستان میں آپ دیکھ لیجئے.یہی صورت ہے مگر یا درکھیں کہ ان برائیوں کے نتیجہ میں نفرتیں نہیں پیدا ہوتیں.ہمارا یعنی مشرقی معاشرہ مجھے کہنا چاہئے مشرقی معاشرے کی خرابیاں نفرتیں پیدا کرتی ہیں اور اسی کا نام شریکا ہے اور یہ خرابیاں اور بھی کئی قسم کی عادتوں کے نتیجہ میں بڑھتی چلی جاتی ہیں مثلاً دکھاوا ہے بیاہ شادی کے موقعہ پر ایک خوامخواہ کا ناک بنایا ہوا ہے ان لوگوں نے اور ناک کے کٹنے کی بڑی فکر ہے ان کو یہ وہم ہوتا ہے ہماری خواتین کو

Page 205

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۲۰۱ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۰ء کہ اگر بیاہ شادی کے موقع پر ریا کاری سے کام نہ لیا گیا تو لوگوں کے سامنے ہمارا ناک کٹ جائے گا بھئی ناک تو اس وقت کٹ گیا جب خدا کے سامنے کٹ گیا باقی ناک رہا کہاں ہے جس کو کاٹو گی.جب خدا کی ہدایات سے روگردانی کی جب رسول کی ہدایات سے روگردانی کی جب اسلامی تعلیم کی طرف پیٹھ پھیر دی تو مومن کا ناک تو وہیں کٹ جاتا ہے باقی رہا ہی کچھ نہیں پھر اس بات کا کیا فکر ہے کہ باقی کیا رہتا ہے کیا نہیں رہتا امر واقعہ یہ ہے کہ دکھاوے نے بھی ہمارے معاشرے میں بہت ہی خوفناک اثرات مرتب کئے ہیں.یہ باتیں ابتداء ہیں یا یہاں تک کہ کھانے میں نمک ہی زیادہ پڑ گیا کوئی معمولی سی بھی خرابی ہو تو یہاں شریکا فورا سر اٹھاتا ہے اور کہتا ہے فلاں وقت فلاں جگہ یہ خرابی ہوئی تھی.اور پھر وہ باتیں کبھی بھولتے ہی نہیں اور وہ بے چاری اکیلی بیٹی جو کسی نے رخصت کی ہے کسی کے گھر میں اس کو محسوس ہوتا ہے کہ میں دشمنوں کے گھر میں آگئی ہوں.ہر موقعے پر اس کو طعنے دیئے جاتے ہیں.کبھی اس نے کھانا پکا یا اور وہ خراب ہو گیا تو کہا ہاں ہمیں پتا ہے کس ماں کی بیٹی ہو وہیں سے آئی تھی نا جہاں تمہاری شادی کے وقت یہ واقعہ ہوا تھا مہمانوں نے اُف تو بہ توبہ کی کسی نے لقمہ نہیں اٹھایا.اٹھایا جاتا ہی نہیں تھا اس قسم کی مبالغہ آمیز با تیں اور پھر طعن و تشنیع کے ذریعے وہ اس بے چاری بچی کی زندگی اجیرن کر دیتی ہے پھر یہ باتیں اور زیادہ گہری ہو جاتی ہیں معاشرے کی بدیوں کی شکل میں جب اپنی بہو سے جیلس ہو جاتی ہے.یہ چیز یہاں یورپ کے معاشرے میں تو کہیں دکھائی نہیں دیتی لیکن مشرقی معاشرے میں ہر جگہ موجود ہے ایک بیٹا جو اپنی بیوی سے پیار کرتا ہے جس کو بڑے شوق سے بظاہر اور بڑی چاؤ سے اس کی ماں نے بیاہ کر اپنے گھر میں بسایا اس وقت کے بعد سے وہ ماں اس کو اجاڑنے پر تل جاتی ہے.کوئی موقع ایسا ہاتھ سے جانے نہیں دیتی جس سے اس بے چاری بیٹی کا گھر نہ اُجڑے.چنانچہ بیٹے نے اس کی طرف التفات کیا تو ماں کو غصہ آگیا اور وہ بجھتی ہے کہ بیٹے کو اپنے ہاتھ میں قابورکھنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ بہو کی برائیاں کھوج کھوج کر نکالی جائیں اور بیٹے کو بتائی جائیں اور اگر وہ خرابیاں نہ ہوں تو پھر بنائی جائیں وہ تو کوئی مشکل کام نہیں ہے.بعض لوگ بڑی آسانی سے قصے گھڑ لیتے ہیں.اور پھر اگر کبھی اس بہو نے اس نو بیاہتا اگر وہ غریب گھر سے امیر گھر میں آئی ہے اپنے بھائیوں سے کوئی حسنِ سلوک کر دیا اس پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے حالانکہ اکثر صورتوں میں ایسی عورتیں احتیاط کرتی ہیں اور اگر حسن سلوک کرتی ہیں تو اپنی کمائی سے کرتی ہیں.مگر یہ ساسیں جن کا میں ذکر کر رہا ہوں خدا کرے آپ

Page 206

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۲۰۲ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۰ء میں سے کوئی ایسی ساس نہ ہو.یہ بھی برداشت نہیں کرتیں کہ ایک تعلیم یافتہ لڑکی آکر اپنے خاوند پر تمام بوجھ نہیں ڈالتی بلکہ خود کماتی ہے کچھ اپنے گھر پر خرچ کرتی ہے کچھ اپنے غریب بھائیوں اور بہنوں کو دیتی ہے تو یہ چیز ان کی برداشت سے باہر ہو جاتی ہے اور وہ خاوند کے کان بھرنے شروع کر دیتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ اس طرح ہم نے اپنے بیٹے کو جیت لیا ہے اور وہ ہمارا بن کے رہ رہا ہے.وہ ہمارا تو بنایا نہیں بنا اپنا نہ بن سکے گا کیونکہ اس بیٹے کی تو زندگی اجیرن ہو جائے گی جس کا گھر ہی نہیں بس سکا تو اس مشرقی معاشرے میں جہاں بظاہر خاندان بڑے ہیں اور ظاہری روابط زیادہ مضبوط ہیں وہاں اندرونی طور پر ایک ایسا نظام چل رہا ہے جو ان روابط کو کاتا ہے اور نفرتوں کی تعلیم دیتا ہے.اسی لئے قرآن کریم نے ہمیں بارہا ہمیں رحمی رشتوں کی طرف متوجہ فرمایا اور وہ آیت جس کی میں نے تلاوت کی ہے وہ آنحضرت یہ نکاح کے موقع پر پڑھا کرتے تھے اور آنحضرت عیﷺ ہی کی سنت میں اب ہمیشہ ہر مسلمان کے نکاح میں تین آیات پڑھی جاتی ہیں ان میں سے پہلی وہی ہے جس کی میں نے تلاوت کی تھی.اللہ تعالی فرماتا ہے: يَايُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ اے بنی نوح انسان اپنے رب کا تقوی اختیار کرو الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ اس نے تمھیں ایک ہی جان سے پیدا کیا ہے.ایک ہی جان سے پیدا کرنے کے بہت سے مفاہیم ہیں ایک مفہوم یہ ہے کہ اس موقع سے تعلق رکھنے والا کہ تم میں سے کوئی کسی دوسرے پر برتری نہیں رکھتا اور ایک جان میں اکٹھے ہونے کا مضمون پایا جاتا ہے.اس لئے معاشرہ جو ایک جان سے پیدا کیا گیا ہے اس کو ایک جان والا معاشرہ بنا رہنا چاہئے.وہ معاشرہ جو بٹ کر کئی جانوں میں تبدیل ہو جایا کرتا ہے وہ اپنی اصل کو بھول جاتا ہے اور اس میں افتراق پیدا ہو جاتا ہے.فرمایا ہم نے تمھیں کثرت بھی عطا کی کثرت سے مرد بھی پیدا کئے اور عورتیں بھی پیدا کیں لیکن اس لئے نہیں کہ تم باہم اختراق اختیار کرو ایک دوسرے سے دلوں کے لحاظ سے پھٹ جاؤ بلکہ اس لئے کہ تم ان تعلقات کو دوبارہ باندھو اور پھر ایک ہونے کی کوشش کریں یہ پیغام اس آیت کا آخر میں یوں دیا گیا.وَاتَّقُوا اللهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ “ ہم نے تمہیں تمام دنیا میں پھیلا دیا اور ایک جان سے بے شمار جانیں پیدا کیں مگر اس لئے نہیں کہ رشتے ٹوٹ جائیں اس لئے کہ رشتے قائم ہوں اور بڑے احترام کے ساتھ قائم ہوں فرمایا جس خدا سے تم منتیں کر کے اپنی مرادیں مانگتے ہو یاد رکھنا.کہ وہ خدا تمھیں تعلیم دے رہا ہے کہ اپنے رحمی رشتوں کی حفاظت کرنا اور ان کا

Page 207

خطاب ۲۸؍ جولائی ۱۹۹۰ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات خیال رکھنا ان دونوں باتوں کو اس طرح باندھ دیا گیا ہے کہ اگر کوئی عورت یا مرد دونوں میں سے جو بھی ہورحمی رشتوں کا لحاظ نہیں کرتا اور صلہ رحمی کی بجائے قطع رحمی اختیار کرتا ہے تو اس کے لئے پیغام ہے کہ تمھاری دعائیں قبول نہیں ہونگی اس نکتہ کو سمجھنا بہت ہی ضروری ہے کیونکہ بے شمار خطوط مجھے ملتے ہیں دعا کے لئے اس میں ایسے بھی بہت سے خطوط ہوتے ہیں کہ ہماری دعائیں پتا نہیں کیوں قبول نہیں ہوتیں.کئی وجوہات ہو سکتی ہیں دعائیں قبول نہ ہونے کی مگر ایک وجہ جو یہاں بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اگر تم نے اپنے خاندانی تعلقات کو مضبوط بنانے کی بجائے ایسی حرکتیں کیں کہ یہ تعلقات قطع ہو جائیں تو یاد رکھنا تم خدا سے اپنا تعلق منقطع کر لو گی اور جس سے منتیں کر کر کے اپنی مرادیں مانگتی ہو وہ تمھاری مراد یں پوری نہیں کرے گا.ی تفسیر میری نہیں حضرت اقدس محمد مصطفی ملالہ کی تفسیر ہے.آپ نے ایک موقع پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبر دی کہ خدا کا نام رحمن اسی مادے سے ہے جس مادے سے ماں کا رحم بنا.ماں کا وہ عضور تم کہلاتا ہے جس میں بچہ پیدا ہوتا ہے.فرمایا رحم ماں کے یوٹرس کے لئے بھی نام رکھا گیا اور رحم ہی خدا کے رحمن نام کی بنیاد ہے.فرمایا اگر تم رحمی رشتوں کو کاٹو گے تو خدا کے رحم سے بھی کاٹے جاؤ گے اور ایک کا دوسرے سے بڑا گہرا تعلق ہے.پس جو رحمانیت سے کاٹا گیا وہ تو کہیں کا بھی نہیں رہا اور ایسے معاشرے کا رحمانیت سے کاٹے جانے کا ایک یہ بھی مفہوم ہے کہ اس معاشرے میں محبت نہیں پل سکتی اور نفرتیں پیدا ہو جاتی ہیں.جو رحم سے کاٹا گیا وہ رحمانیت سے کاٹا گیا.جس کا ایک مفہوم تو وہی ہے جو میں نے بیان کیا کہ خدا کی طرف سے پھر تمھاری دعاؤں کے باوجو درحم کا سلوک نہیں کیا جائے گا.دوسرا یہ کہ ایسا معاشرہ رحمت سے عاری ہو جاتا ہے اور اس میں نفرتیں پلنے لگتی ہیں دیکھنے میں بہت بڑی بڑی خرابیاں ہمیں مغربی معاشرے میں بھی دکھائی دیتی ہیں اور ان کا ازالہ بھی ضروری ہے ان کا تدارک بھی ضروری ہے، لیکن چونکہ اکثر احمدی خواتین سر دست مشرقی معاشرے سے تعلق رکھنے والی ہیں اس لئے میں ان کو متوجہ کرتا ہوں کہ اگر آپ نے محض تنقید کی نظر سے مغربی معاشرے کو دیکھا اور ان کو اپنے معاشرے کی طرف بلایا تو وہ بھی جوابا تنقید کی نظر سے آپ کے معاشرے کو دیکھیں گی اور یہ حق رکھیں گی کہ کہیں کہ یہ معاشرہ ہمیں قبول نہیں ہے کیونکہ یہ معاشرہ تقویٰ پر مبنی نہیں اور اس کے نتیجہ میں پھر Racialism پیدا ہوگا.اس کے نتیجے میں جغرافیائی اور قومی تفریقات پیدا ہونگی اور نفرتیں پیدا ہونگی جو قوموں کو قوموں سے الگ کریں گی اس کا صرف مغرب سے تعلق نہیں مشرق سے بھی تعلق ہے.

Page 208

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۲۰۴ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۰ء میں جب افریقہ کے دورے پر گیا تو وہاں بعض جگہوں پر مجھ سے بعض افریقن خواتین نے بعض پاکستانی خواتین کی شکایت کی کہ ان کا یہ طرز زندگی ہے اور وہ ہم پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ یہ اسلامی طرز زندگی ہے اور ہم اس کی نمائندہ اور علمبردار ہیں.آپ بتائیں کہ کیا یہ اسلامی طرز زندگی ہے؟ اور اگر نہیں تو کیا احمدیت پاکستانیت دنیا پر ٹھونسنے کے لئے اور نافذ کرنے کے لئے پیدا کی گئی تھی.بعض جگہ غلط فہمیاں تھیں اور بعض جگہ ان کی شکایت میں حقیقت تھی میں نے کھول کر ان کے سامنے جب بات بیان کی تو بڑی اچھی طرح سمجھ گئیں اور میں نے ان کے اوپر یہ بات خوب روشن کر دی کہ احمدیت اور پاکستانیت ایک چیز کے دو نام نہیں ہیں.احمدیت اور ہے احمدیت اسلام ہے اور احمدیت کی ہرا دامبنی بر قرآن اور مبنی بر سنت ہونی چاہئے.پس وہ ادا جو ینی بر قرآن ہے اور مبنی بر سنت ہے وہ احمد بیت ہے اور جس عورت میں وہ ادا پائی جاتی ہے اس کا حق ہے کہ وہ اسلام کی نمائندگی میں تمھیں ی تعلیم دے کہ اس عادت کو اپنا لو یا اس رہن سہن کی اس رسم کو اپنا لو اور اس کے علاوہ جو باقی باتیں ہیں وہ اس کو کوئی حق نہیں کہ آپ تک پہنچائیں اور یہ دعوی کرے.گویا وہ اسلام کی نمائندہ بن کر آپ کو یہ سلیقے سکھانے کے لئے آئی ہے.مغربی دنیا کی خرابیوں میں سے بہت بڑی خرابی وہی انفرادیت ہے.خُود غرضی پیدا ہو چکی ہے معاشرے میں اور خود غرضی کو مزید تقویت دینے کے لئے دنیا کی لذتیں اور جدید آلات جو یہ لذتیں پیدا کرنے میں محمد بنے ہوئے ہیں یہ ایک بہت ہی بھیا نک کر دار ادا کر رہے ہیں دن بدن معاشرہ اس لئے بکھر رہا ہے کہ ہر شخص چاہتا ہے کہ میں جدید تر قیات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے لذت یابی کے ذرائع سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کروں اور اس راہ میں کوئی رشتہ حائل نہیں ہوتا کوئی تعلق حائل نہیں ہوتا.بیٹا جو کماتا ہے وہ اپنے تک محدود رکھتا ہے.شاذ ہی وہ اس سے اپنی غریب بہن کو حصہ دے گا یا غریب ماں کو حصہ دے گا یا غریب بھائی پر خرچ کرے گا پس اس پہلو سے یہ معاشرہ انفرادیت کا معاشرہ بنتا چلا جاتا ہے کیونکہ ہر شخص کی اپنی ضرورتیں پوری نہیں ہور ہیں.ضرورتیں پوری نہ ہونے کا مضمون غربت سے تعلق نہیں رکھتا یہ قناعت سے تعلق رکھتا ہے یعنی اکثر صورتوں میں قناعت سے تعلق رکھتا ہے.مغربی معاشرہ جتنا امیر ہوتا چلا جارہا ہے اتنا ہی زیادہ وہ ان کی طلب بھڑک رہی ہے اور ھل مِنُ مذید (ق: ۳۱) کی آواز اٹھ رہی ہے.جو کچھ بھی لذت یابی کے سامان ان کو مہیا ہوتے چلے جارہے ہیں ان کی عادت پڑ جاتی ہے وہ بنیادی حق بن جاتا ہے اس سے آگے مزید طلب پیدا ہو جاتی ہے یہاں کی ٹیلی وژن یہاں کے ریڈیو یہاں کے دوسرے ذرائع ابلاغ

Page 209

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۲۰۵ خطاب ۲۸؍ جولائی ۱۹۹۰ء اسی شکل میں ایک فرضی جنت کو ان کے سامنے رکھتے ہیں جو دور سے جنت ہی دکھائی دیتی ہے اور ہر انسان اس کی طرف دوڑنے کی کوشش کرتا ہے لیکن عملاً وہ جنت نہیں ہے وہ سمندر کے پانی کی طرح کی ایک جنت ہے جو پیاس بجھانے کی بجائے اسے بھڑ کاتی چلی جاتی ہے.حقیقی جنت گھر کی تعمیر میں ہے حقیقی جنت رحمی رشتوں کو مضبوط کرنے میں ہے اور اسی لئے قرآن کریم نے اس مضمون پر اس آیت میں روشنی ڈالی جو میں نے آپ کے سامنے رکھا اور آنحضرت ﷺ نے کمال فراست اور کمال عارفانہ نگاہ ڈالتے ہوئے اس آیت کو نکاح کے موقع کے لئے منتخب فرما دیا.الله یه فراست کے نتیجے میں بھی تھا آپ کے عرفان لیکن میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ گومیرے علم میں ایسی کوئی حدیث نہیں آئی کہ آنحضرت ﷺ نے ایسا خدا کی واضح وحی کے نتیجہ میں کیا مگر چونکہ آپ کا دستور یہ تھا کہ وحی کے سوا کوئی قدم نہیں اُٹھاتے تھے اس لئے مجھے کامل ایمان اور یقین ہے کہ فراست کے علاوہ اس کا وحی سے بھی تعلق تھا ضمناً آپ یہ کہ سکتی ہیں کہ اگر فراست سے تعلق تھا تو پھر وحی سے کیسے ہوا اور اگر وحی سے تھا تو پھر فراست سے کیسے ہوا اس سوال کا جواب قرآن کریم نے خود دے دیا ہے.قرآن کریم آنحضرت میلہ کے نور کی مثال یا خدا کے نور کی مثال آپ کی شکل میں یوں پیش کرتا ہے کہ گویا آپ ایسا ایک شفاف تیل تھے جو از خود بھڑک اٹھنے پر تیار بیٹھا تھا اس کے اندر ایسی پاکیزہ صفات تھیں کہ اگر خدا کی وحی نازل نہ بھی ہوتی تو اس نے دنیا کے لئے روشنی ہی کے سامان کرنے تھے.اس پر خدا کی وحی کا نور نازل ہوا اور محمد مصطفی ﷺ نور علی نور بن گئے پس وحی کا فراست سے بھی گہرا تعلق ہوتا ہے.اور یہی وجہ ہے کہ مختلف انبیاء کی وحی کے مرتبے میں فرق ہے اور اس کی صفائی اور روشنی میں فرق ہے ورنہ خدا تو وہی ہے جس نے ہر نبی کی طرف وحی بھیجی پس آنحضرت ﷺ کو جو روشن تعلیمات نصیب ہوئیں ان تعلیمات میں یقیناً آپ کی خداداد فراست کا دخل تھا جس پر وحی نے نازل ہو کر اسے نور علی نور بنا دیا.پس اس آیت کا انتخاب بیاہ شادی کے موقع پر غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے اور گھروں کی تعمیر میں یہ آیت ایک بنیادی کردار ادا کرتی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں یاد کراتا ہے تم ایک جان سے پیدا ہوئے تھے اگر چہ تعداد میں بڑھ رہے ہو اور پھیلتے چلے جارہے ہو لیکن ہمیشہ ایک جان کی طرف لوٹنے کی کوشش کرتے چلے جانا اور یہ بھی نصیب ہو گا اگر گھر کے تعلقات کو مضبوط کرو گے اور رحمی رشتوں کو استوار کرو گے اس میں بہت بڑا گہرا حکمت کا راز یہ ہے کہ قومی تعمیر اور قومی بجہتی پیدا کرنا ناممکن ہے جب تک گھروں کی تعمیر نہ ہو.اور گھروں میں

Page 210

حضرت خلیفہ امسح الرابع' کے مستورات سے خطابات خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۰ء یجہتی نہ ہو جس قوم کے گھر منتشر ہو جائیں وہ قوم اکٹھی نہیں رہ سکتی اس کے مفادات بکھر جاتے ہیں.جس قوم کے گھروں میں امن نہیں اس قوم کی گلیاں بھی ہمیشہ امن سے محروم رہیں گی.یہ ایک ایسا قانون ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت بدل نہیں سکتی.آپ ان ممالک کے جرائم کا جائزہ لے کر دیکھیں جن ممالک میں آجکل با وجود ترقی کے باوجود اقتصادی ترقی کے باوجود علمی ترقی کے نہایت خوفناک قسم کے جرائم نشو و نما پارہے ہیں اور دن بدن زیادہ بھیانک ہوتے چلے جارہے ہیں.تو آپ کو آخری وجہ اس کی یہی معلوم ہوگی کہ گھر ٹوٹنے کے نتیجہ میں یہ جرائم بڑھے ہیں.آج کل انگلستان میں ایک نہایت ہی درد ناک جرم کے تذکرے ہورہے ہیں ہر خبر میں ہر ریڈیو ٹیلی وژن کی Announcement میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ بعض بد بختوں نے گندی نگی فلمیں بنانے کے لئے معصوم بچوں کو اغوء کیا اور جس قسم کی خوفناک فلمیں وہ بنانا چاہتے تھے ان فلموں کے بنانے کے دوران تقریبا ۴۰ بچے موت کے گھاٹ اتار دیئے کیسا کیسا بھیا نک ظلم ان پر کیا ہوگا اور ان کی چیچنیں سننے والا اور ان کی پکار سننے والا کوئی نہیں تھا ایسا درد ناک واقعہ ہے کہ ساری قوم کا سر شرم سے جھک جاتا ہے بلکہ انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے.لیکن دیکھ لیجئے اس کی آخری وجہ یہی ہے کہ انفرادیت کی وجہ سے گھر ٹوٹ رہے ہیں اور لذت یابی کے شوق نے قوم کو پاگل کر دیا ہے اور چونکہ گھروں میں امن نہیں رہا اور گھروں میں دلچسپی نہیں رہی اس لئے ایسے گھروں میں پلنے والے نوجوان گلیوں میں نکلتے ہیں.امن کی تلاش میں نہیں بلکہ لذت کی تلاش میں اور اپنی لذت کی خاطر وہ دوسروں کا امن بر باد کرتے ہیں یہ Drug Addiction اور دیگر Pornography ہر قسم کی جتنی خرابیاں ہیں ان کی آخری وجہ یہی ہے پس اگر چہ گھر توڑنے میں نفرت نے دخل نہیں دیا یا نفرت نے کوئی کردار ادا نہیں کیا مگر گھر ٹوٹنے کے نتیجہ میں نفرت پیدا ہوئی اور عملاً آخر نفرت پر بات ٹوٹتی ہے.گھر ٹوٹنے کے نتیجے میں سارے معاشرے میں بے اطمینانی اور بے اعتباری اور نفرت کی ہوائیں چلنے لگتی ہیں اور چونکہ لذت یابی کی تلاش باہر کی گلیوں میں ہوتی ہے اس لئے قطعاً کوئی احساس نہیں رہتا کہ کسی کو کیا تکلیف پہنچے گی کسی کو کیا دکھ ہوگا.تھوڑ اسا روپیہ حاصل کرنے کے لئے Mugging کرتے وقت بعض دفعہ ہاتھ بھی کاٹ دیئے جاتے ہیں جب میں امریکہ گیا یہ ۱۹۷۸ء کی بات ہے تو اپنی بیوی اور دو بچیوں کو لے کر میں Harlum دیکھنے گیا مجھے لوگوں نے بڑا ڈرایا وہاں جانے سے.انھوں نے کہا کہ وہاں جاتے ہو تو بہت ہی خطرناک جگہ ہے پھر اوپر سے برقعہ پہنا ہوا ہوگا بیوی اور بیٹیوں نے پتا نہیں

Page 211

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۰۷ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۰ء زندہ بچ کے آتے ہو کہ نہیں میں نے کہا ایسی کوئی بات نہیں ہے مجھے نہیں سمجھ آتی دن دیہاڑے کیا ہوگا.تو انھوں نے مجھے بتایا کہ ایک ایسی مشرقی خاتون اپنے ہاتھ میں موٹا سونے کا کڑا پہنے جا رہی تھی تو چونکہ اتنا وقت نہیں تھا کہ چھینا جھپٹی کر کے وہ کڑا اتارا جا سکتا ایک شخص نے تیز چاقو سے اس کی کلائی کاٹ دی اور کڑ از مین پر گرا تو وہ اسے لے کر بھاگ گیا انھوں نے کہا یہ حالت ہے یہاں.یہ حالت صرف وہاں نہیں ہر جگہ یہ حالت بنی چلی جارہی ہے.اور سفا کی بڑھ رہی ہے وجہ یہ ہے کہ گھروں میں امن نہیں اگر کسی سوسائٹی میں گھروں میں محبت موجود ہو گھروں میں پیار ہو.صرف میاں بیوی کے تعلقات یا مرد عورت کے تعلقات ہی لذت کا ذریعہ نہ ہوں بلکہ بہن بھائی کے تعلقات کو تقویت دی جائے ماں بیٹے کے تعلقات کو تقویت دی جائے باپ بیٹی کے تعلقات کو تقویت دی جائے اور رشتے داروں کے دیگر تعلقات کو جو قرآن کریم کی آیت میں سب شامل ہیں.رحمی رشتوں میں میاں کے رحمی رشتے بھی آجاتے ہیں اور بیوی کے رحمی رشتے بھی آجاتے ہیں اور ایک وسیع خاندان بن جاتا ہے.اس پہلو سے اگر گھروں کی تعمیر کی جائے تو گھر کے اندر ہی انسان کو ایسی لذت نصیب ہوتی ہے کہ بہت سے ایسے بچے جو ایسے خوش نصیب گھروں میں پلتے ہیں ان کو قطعاً کوئی شوق نہیں ہوتا کہ اسکول سے آکر یا کام سے آکر دوبارہ جلدی سے باہر نکلیں یا گلیوں کا رخ اختیار کریں یا دوسری سوسائیٹیوں میں جو گندی سوسائٹیاں آج کل انسان کو وقتی طور پر لذت دینے کے لئے بنائی جاتی ہیں.ان میں جا کر اپنے وقت کو ضائع کرے.یہی وہ معاشرہ ہے جو دراصل بعد میں شراب کو تقویت دیتا ہے جوئے کو تقویت دیتا ہے ہرقسم کی برائیاں اس معاشرے میں پنپتی ہیں اور نتیجے گھر ٹوٹ جاتے ہیں.گھر آج مغرب میں بھی ٹوٹ رہے ہیں اور گھر آج مشرق میں بھی ٹوٹ رہے ہیں اور گھروں کو بنانے والا صرف ایک ہے اور ہمارے آقا و مولا محمد ﷺے ہیں آپ ہی کی تعلیم ہے جو مشرق کو بھی سدھار سکتی ہے اور مغرب کو بھی سدھار سکتی ہیں اور آج کی دنیا میں امن کی ضمانت ناممکن ہے جب تک گھروں کے سکون اور گھروں کے اطمینان اور گھروں کے اندرونی امن کی ضمانت نہ دی جائے.پس گھروں کی تعمیر نو کی فکر کریں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آپ میں سے اکثر احمدی خواتین کیونکہ مشرقی معاشرے سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے آپ اپنی کمزوریوں کو دور کر کے اپنے گھر کو ایک ماڈل بنانے کی کوشش کریں جہاں تک مغرب سے آنے والی احمدی خواتین کا تعلق ہے باوجوداس کے کہ یہاں بہت سی دقتیں ہیں اور ان کو اپنا رہن سہن بدلنا اور ایسے لباس پہننا جو ان کی سوسائٹی میں

Page 212

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۲۰۸ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۰ء بے قوفوں والے لباس سمجھے جاتے ہیں مشکل کام ہے لیکن جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے خدا کے فضل سے ان میں سے احمدی ہونے والی اکثر خواتین پردہ کی روح کی تو حفاظت کر رہی ہیں اور اپنے آپ کو سمیٹتی ہیں اور اپنے آپ کو بچا کر چلتی ہیں اور ان کا لاز مأرخ غیر اسلامی معا شرے سے اسلامی معاشرے کی طرف ہو چکا ہے آپ کو بھی لازماً ان سے زیادہ قدم ان کی طرف بڑھانے ہونگے یعنی اُن احمدی خواتین کو جو مشرقی معاشرے میں پلی ہیں ان کو اپنی تطہیر کرنی ہوگی.مشرق کی گندی عادتیں توڑنی ہوگی اور ختم کرنی ہونگی اور اسلام کے پاکیزہ معاشرے کو از سر نو قائم کرنا ہوگا کیونکہ میرے نزدیک ابھی تک مشرقی دنیا کی احمدی خواتین خالصہ اسلامی معاشرے قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں.ان تمام بدرسموں کا قلع قمع کرنا ضروری ہے جو ہمیں بعض غیر اسلامی معاشروں سے ورثے میں ملی ہیں اور پاکیزہ اور صاف ستھرے ماحول قائم کرنے کی ضرورت ہے.ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی ضرورت ہے ایک دوسرے سے رشتوں میں منسلک ہو کر اور ان رشتوں تقویت دینے کی ضرورت ہے بجائے اس کے کہ گھٹیا اور کمینی باتوں سے ان تعلقات کو مجروح کیا جائے وہ عورتیں جن کو طعن و تشنیع کی لذت کی عادت پڑ جاتی ہے وہ عورتیں جو منفی کردار ادا کر کے ایک قسم کی بڑائی کا تصور قائم کرتی ہیں کہ ہم اونچی ہو گئیں ہم نے فلاں کو نیچا دکھا دیا وہ ایک گندی قسم کی لذت میں مبتلا ہیں اور یہ لذت ان کو سکون نصیب نہیں کر سکتی دن بدن ان کی تکلیفوں میں اور مصیبتوں میں اضافہ ہونا ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ دوسروں کی تکلیفوں اور دوسروں کی مصیبتوں میں بھی اضافہ کر رہی ہوتی ہیں وہ نیکی کر کے بھی تو دیکھیں وہ خدمت کر کے بھی تو دیکھیں وہ پیار سے اپنی بہو کا دل جیتنے کی کوشش بھی تو کریں اسی طرح بہو دیں بھی یہ نہ سمجھیں کہ غیر کے گھر آئیں ہیں اور وہاں آکر بھی اپنے گھر کے تذکرے کرتی رہیں اور اپنے ماں باپ کو یاد کرتی رہیں.اگر وہ قرآنی تعلیم کے مطابق جہاں دونوں کے رحمی رشتوں کا احترام کرنے کی تعلیم دی گئی ہے وہ یہ کوشش کریں کہ میں ان کی بیٹی بن کر رہوں اور اپنے ماں باپ کی طرح ان کا خیال رکھوں اور ان کی خدمت کروں تو دونوں طرف سے یہ حسن سلوک معاشرے کو جنت بنا سکتا ہے یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں لیکن اتنے بڑے بڑے بد نتائج پیدا کرتی ہیں کہ اس کے نتیجہ میں سارا معاشرہ دکھوں میں مبتلا ہو جاتا ہے مصیبتوں میں، عذاب میں مبتلا ہو جاتا ہے گھر ٹوٹتے ہیں.شادیاں ناکام ہوتی اور پھر بعض دفعہ قضاء کی طرف دوڑنا پڑتا ہے.بعض دفعہ عدالتوں کے پھیرے لگانے پڑتے ہیں لیکن ہر دفعہ ہر جگہ ہر موقع پر خرابی کی جڑ اسلامی تعلیم سے روگردانی نظر آئے گی.

Page 213

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۰۹ خطاب ۲۸ ؍ جولائی ۱۹۹۰ء پس آپ نے اگر دنیا کو امن عطا کرنا ہے تو احمدی خواتین کا فرض ہے خواہ وہ مشرق میں بسنے والی ہوں یا مغرب میں بسنے والی ہوں اپنے گھروں کو اسلامی گھروں کا ماڈل بنا ئیں تا کہ باہر سے آنے والے جب ان کو دیکھیں تو ان کو پتا لگے کہ انھوں نے کیا حاصل کیا ہے اور تمام دنیا میں وہ ایسے پاک نمونے پیش کریں جس کے نتیجے میں بنی نوع انسان دوبارہ گھر کی کھوئی ہوئی جنت کو حاصل کریں وہ جنت جس کا قرآن کریم میں ذکر ملتا ہے آدم کی ابتدائی تاریخ میں، اس کا میں سمجھتا ہوں کہ گھر کی جنت سے بڑا گہرا تعلق ہے.چنانچہ بائبل نے جو سزائیں تجویز کی ہیں اگر چہ قرآن کریم نے ان کا ذکر نہیں فرمایا لیکن ان سزاؤں کا گھروں سے ضرور تعلق ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ آج کا بہت ہی اہم پیغام یہی ہے کہ آپ گھروں کی تعمیر نو کی کوشش کریں اپنے گھروں کو جنت نشان بنائیں اپنے تعلقات میں انکسار اور محبت پیدا کریں.ہر اس بات سے احتراز کریں جس کے نتیجے میں رشتے ٹوٹتے ہوں اور نفرتیں پیدا ہوتی ہوں اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آج دنیا کو سب سے زیادہ گھر کی ضرورت ہے اس کو یا درکھیں اور یہ گھر اگر احمدیوں نے دنیا کو مہیا نہ کئے تو دنیا کا کوئی معاشرہ بنی نوع انسان کو گھر مہیا نہیں کر سکتا اللہ ہمیں اس کی تو فیق عطا فرمائے.آمین

Page 214

Page 215

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۱۱ خطاب ۲۷ ؍ جولائی ۱۹۹۱ء اپنے اندر اور اپنے بچوں میں محبت الہی کے رنگ بھرنے کی کوشش کریں ( جلسہ سالانہ مستورات برطانیہ سے خطاب فرمودہ ۲۷ / جولائی ۱۹۹۱ء) خطاب سے قبل جلسہ میں تلاوت قرآن کریم کے بعد حضور نے فرمایا: تلاوت کے دوران بالکل آواز نہیں بلند کرنی چاہئے.آپس میں سرگوشیاں بھی نہیں کرنی چاہئیں کیونکہ قرآن کریم کے واضح حکم کے خلاف بات ہے.بعض منتظمین سمجھتے ہیں کہ وہ اس حکم سے بالا ہیں.میرے کان میں بھی آکر باتیں پھونکتے رہے اور مجھے Disturb کرتے رہے.عادت بنا ئیں کہ جب قرآن کریم کی تلاوت ہورہی ہو اور اس مجلس میں آپ شامل ہوں تو آپ خاموشی کے ساتھ بیٹھیں اور ساری توجہ کلام الہی کی طرف کریں.جلسہ میں تلاوت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظم جو خاک میں ملے اسے ملتا ہے آشنا خوش الحانی سے پڑھی گئی نظم پڑھے جانے کے بعد حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: اتنی اچھی نظم ہے، اتنی نصیحتیں اس میں اچھی ہیں کہ اس لئے میں نے خودان شعروں کا انتخاب کیا تھا تا کہ براہ راست حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام ان تک.آپ کی نظم خواں ) آواز میں پہنچے تو اثر اور بھی ہوگا“ تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: چند دن پہلے صدر لجنہ اماءاللہ یو.کے ایک ملاقات کے لئے تشریف لائیں تو مجھ سے انہوں

Page 216

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۱۲ خطاب ۲۷ جولائی ۱۹۹۱ء نے پوچھا کہ میں مستورات سے کس موضوع پر خطاب کروں گا تا کہ اس کے مطابق وہ آیات اور نظم کا انتخاب کر سکیں.میں نے ان سے کہا کہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ میں کسی قسم کی تیاری کے بغیر اور فیصلے کے بغیر تقریر کے لئے کھڑا ہو جاتا ہوں اور اللہ تعالیٰ خود ہی موقع پر مجھے مضمون سمجھا دیتا ہے تو کیسے میں آپ کو آج وہ بات بتا سکوں جو خود مجھے بھی علم نہیں ہے.میں نہیں جانتا کہ میں کس موضوع پر خطاب کروں گا.لیکن قرآن کریم کی آیات اور نظموں کے انتخاب کے متعلق میں نے کہا کہ وہ میں خود کروں گا اس لئے آپ کو اس کے لیے فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے.جب میں نے حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی نظم کا انتخاب کیا تو مضمون از خود ہی مجھ پر روشن ہو گیا.اور میں نے سمجھا کہ آج کے وقت کی سب سے اہم آواز وہ ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود کے منظوم کلام کی صورت میں آپ نے سنی ہے.آج کی دنیا انتشار کی دنیا ہے.اتفاق کی باتیں بھی کی جاتی ہیں تو انتشار کی نیتوں کے ساتھ.بڑے بڑے دعاوی بلند کئے جارہے ہیں مذہبی پلیٹ فارم سے بھی اور سیاسی پلیٹ فارم سے بھی کہ ضرورت ہے کہ دنیا کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کیا جائے اور دنیا کو امن سے بھر دیا جائے مگر وہ بلند بانگ دعاوی کرنے والے خود امن سے عاری ہیں، خود منتشر ہیں ان کے ذہن بھی منتشر ہیں ان کی نیتیں بھی منتشر ہیں کیسے ممکن ہے کہ وہ دنیا کو امن دے سکیں.تمام عالم کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنے کا مقصد صرف اور صرف ایک ہی صورت میں پورا ہوسکتا ہے کہ تمام عالم کو خدائے واحد و یگانہ کی ذات پر اکٹھا کر دیا جائے اور اشتراک کی کوئی صورت نہیں ہے.انسانیت کے نام کی باتیں محض فرضی اور خیالی باتیں ہیں ورنہ حقیقت میں آج بھی Racialism ( نسل پرستی ) اسی طرح زندہ ہے جس طرح آج سے سو سال پہلے زندہ تھا.اس نے مختلف روپ دھار لئے ہیں.مختلف شکلوں میں ڈھل چکا ہے.مگر جغرافیائی تقسیمیں قومی تقسیمیں اور اسی طرح لسانی تقسیمیں انسان کو بانٹے ہوئے ہیں.جس طرح آج سے پہلے انسان کو بانٹے ہوئے تھیں اور جب بھی دنیا کے راہنما کوئی فیصلہ کرنے کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں تو ہر ایک ان میں سے اس نیت کے ساتھ وہاں پہنچتا ہے کہ اپنی قوم کے لئے یا اپنے لسانی گروہ کے لئے یا اپنے جغرافیائی علاقے کے لئے زیادہ سے زیادہ حاصل کر کے آئے.انصاف کا کوئی تصور وہاں کارفرما نہیں ہوتا.پس انصاف کے بغیر دنیا کو کیسے امن سے بھرا جا سکتا ہے اور انصاف کا تصور خدائے واحد دیگانہ کے تصور کے بغیر عالمی تصور نہیں بنتا بلکہ علاقائی تصور بن جاتا ہے.Absolute

Page 217

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۱۳ خطاب ۲۷ جولائی ۱۹۹۱ء Justice صرف اور صرف خدا کی ذات کے تعلق میں قائم ہوسکتی ہے.اس کے بغیر اس کا کوئی وجود نہیں اور انسان کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنا بھی خدائے واحد و یگانہ کی ذات میں ان کو اکٹھا کرتا ہے.اس کے سوا جب خیالی اور فرضی باتیں ہیں، ڈھکو سلے ہیں ، دھوکا بازیاں ہیں،محض لفاظیاں ہیں.ان میں کوئی حقیقت نہیں لیکن خدائے واحد و یگانہ کے نام پر کیسے اکٹھا کیا جائے.یہ وہ بڑا مسئلہ ہے جو ہمیں در پیش ہے اور جماعت احمد یہ جو اس مقصد کی خاطر قائم کی گئی ہے جماعت احمدیہ کے لئے سب سے اہم اور سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ تم کیسے بنی نوع انسان کو ان کے بکھرے ہوئے گروہوں کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرو گے اور کیسے ان کے دل ملانے کی کوشش کرو گے.جہاں تک دل ملانے کا تعلق ہے اسلام کی آغاز کی تاریخ میں ہم نے بہت شدت کے ساتھ پھٹے ہوئے دلوں کو ملتے دیکھا ہے.ایسے قبائل کو اکٹھے ہوتے دیکھا جو ایک دوسرے کی جان کے دشمن تھے.جہاں بے سبب ایک دوسرے کا خون کیا جاتا تھا.جہاں سوسالہ پرانی بے عزتیوں کے بدلے بعد میں آنے والی نسلوں سے لئے جاتے تھے اور اس انتقام کی آگ کبھی ٹھنڈی نہیں پڑا کرتی تھی.وہ نظارہ ہم نے آج سے چودہ سو سال پہلے دیکھا کہ اچانک یہ بکھری ہوئی منتشر قوم جن کے دل صرف جداجدا ہی نہیں تھے اور نفرتوں سے بھرے پڑے تھے ، اٹے پڑے تھے وہ اچانک ایک ہاتھ پر اکٹھی ہوگئی اور اس طرح اکٹھی ہوئی کہ قرآن کریم کے بیان کے مطابق وہ محبت کے رشتوں میں باندھے گئے اور ایک دوسرے کے بھائی بھائی بن گئے اور بھائی بھی وہ جو ایک دوسرے پر جان نثار کرنے والے ہیں.قرآن کریم نے اس مضمون کو مختلف سورتوں میں مختلف جگہ بیان فرمایا.ایک جگہ اس نصیحت کے طور پر فرماتا ہے کہ اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ اَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَليُّ حَمِيمٌ (حم السجدة : ۳۵) کہ ایک پروگرام ہم تمہارے سامنے رکھتے ہیں اگر تم وہ پروگرام اختیار کرو گے اور وہ پروگرام یہ ہے کہ بدی دیکھو تو حسن سے اس بدی کو دور کر ونفرت سے اس بدی کو دور کرنے کی کوشش نہ کرو.انتقامی جذبہ سے برائی کو دور کرنے کی کوشش نہ کرو بلکہ بدی تو ایک بدصورت بد زیب چیز ہے اس کا علاج حسن ہے.کبھی آپ یہ نہیں دیکھیں گے کہ کسی کے ناک پر پھوڑا ہو تو انسان ناک کاٹ دے، انتقامی جذبے کی یہ تصویر ابھرتی ہے.اس زخم کو بھرنے کی کوشش کی جاتی ہے نقص کو حسن میں بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے.

Page 218

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۱۴ خطاب ۲۷ ؍ جولائی ۱۹۹۱ء پس قرآن کریم نے یہ پروگرام ہمارے سامنے رکھا کہ جب تم بدی کو دیکھو تو بدی کی دشمنی تمہارے پیش نظر نہ رہے.بدی کو حسن میں تبدیل کرنا تمہارا مقصود بن جائے اگر تم ایسا کرو گے تو فرمایا فإذا الذي بينك وبينه عدواة کانه ولی حمیم تم اچانک یہ عجیب ماجرا دیکھو گے کہ وہ جو تمہاری جان کے دشمن تھے وہ تم پر جان نثار کرنے والے دوست بن جائیں گے.یہ وہ پروگرام تھا جو حضرت اقدس محمد مصطفی ملے کے دل پر جاری فرمایا گیا.آپ کے اعمال میں ڈھلا اور آپ کے ساتھ وہ جماعت الله پیدا ہوئی جس نے آپ سے یہ رنگ سیکھے اور اس کے نتیجہ میں ایک عظیم روحانی انقلاب برپا ہوا.پس دلوں کو اکٹھا کرنا بنیادی چیز ہے اس کے بغیر نہ افراد ا کٹھے ہو سکتے ہیں نہ قومیں اکٹھی ہوسکتی ہیں اور دلوں کو اکٹھا کرنے کا کام خدا تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے.چنانچہ اگر چہ یہ پروگرام مسلمانوں کو دیا گیا لیکن آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا گیا کہ تیرا بھی دلوں پر اختیار نہیں ہے.اگر اللہ نہ چاہتا اور اللہ دلوں پر تصرف نہ فرما تا تویہ قوم بکھری بٹی ہوئی قوم کبھی ایک ہاتھ پر اکٹھی نہ ہوتی اور ان کے دل کبھی مل نہیں سکتے تھے.تو دلوں کو ملانے کا کام دوحصوں سے تعلق رکھتا ہے.ایک اپنے نظریے اور اپنے لائحہ عمل میں ایسی پاک تبدیلی کہ نفرتیں کہ محرکات میں شامل نہ ہوں.انتقام کو آپ کے پلاننگ میں آپ کے لائحہ عمل میں کوئی دخل نہ ہو اور ایک مقصود ہو کہ جہاں بدی دیکھوں وہاں اس کا حسن تبدیل کرنے کی کوشش کروں.یہ مرکزی نقطہ ہے اور دوسرا خدا تعالیٰ سے ایسا تعلق کہ اللہ تعالیٰ اس پروگرام میں آپ کا مددگار بن جائے.کیونکہ اس کوشش کے باوجود آپ دنیا میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر سکتے جو دلوں کو جوڑنے والی ہو جب تک خدا تعالیٰ کا خاص فضل اور تصرف شامل حال نہ ہو.جہاں تک پہلے حصے کا تعلق ہے کہ بدی کو دیکھو تو حسن میں تبدیل کرنے کی کوشش کرو.یہ دیکھنے میں اور سننے میں تو بہت خوبصورت پیغام دکھائی دیتا ہے اور انسان سمجھتا ہے کہ سارے مسئلے حل ہو گئے.آج کے بعد سے بدی کو حسن میں تبدیل کرنے لگوں گی.( یعنی خواتین سوچیں گی تو اس طرح سوچیں گی ) تو سارا مسئلہ حل ہو گیا.دنیا فتح ہوگئی لیکن دنیا تو تب فتح ہو گی جب آپ پہلے اپنے آپ کو فتح کریں گی اور یہ مضمون ذات سے شروع ہوتا ہے اگر انسان اپنی بدیوں سے آنکھیں بند ر کھے اور اپنی بدیوں کو حسن میں تبدیل کرنے کی کوشش نہ کرے تو کیسے ممکن ہے کہ وہ دوسروں پر یہ عمل جاری کر دے اور مشکل یہ ہے کہ انسان سب سے زیادہ اپنی بدیوں سے غافل رہتا ہے اور بعض دفعہ بالا رادہ اور بعض دفعہ بغیر ارادہ کے اپنی کمزوریوں سے آنکھیں بند کرتا ہے اور نہیں دیکھنا چاہتا.اس لئے نہیں دیکھنا چاہتا

Page 219

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۲۱۵ خطاب ۲۷ ؍ جولائی ۱۹۹۱ء کہ وہ ان بدیوں کے احساس کے ساتھ اپنی زندگی کو تھی میں تبدیل نہیں کرنا چاہتا.وہ ایک جھوٹی ملمع کاری کا عادی بن چکا ہوتا ہے.وہ اس بات کا عادی بن چکا ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو دوسروں کے طور پر ایک خوبصورت حسین دلکش وجود کے طور پر پیش کرے جو دوسروں سے بہتر ہے.اگر وہ اپنی بدیاں خود تلاش کرے اور پتہ لگ جائے کہ میں ہوں کون اور کتنے پانی میں ہوں تو اس کا یہ لذت یابی کا پروگرام منقطع ہو جاتا ہے پھر وہ کبھی بھی دوسروں کے مقابل پر اپنی حمد کے خود گیت گانے کے اہل نہیں رہتا.ایک شعر میں نے بہادر شاہ ظفر کا بارہا سنایا ہے.یہ شعر بہت ہی پر لطف اور گہرا شعر ہے اسے میں بار بار سناؤں تو تب بھی نہیں تھکتا وہ یہ کہتا ہے : تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر ہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا ایک ایسا دور بھی ہماری زندگی میں گذرا ہے کہ ہمیں اپنے حال کی خبر نہیں تھی اور جب ہمیں اپنے حال کی خبر نہیں تھی تو ہماری تمام تر تو جہات لوگوں کی بدیاں معلوم کرنے کی طرف تھیں.ہم ڈھونڈتے رہتے تھے فلاں میں کتنی برائیاں ہیں، فلاں میں کتنی برائیاں ہیں.ایک بیرونی نظر تھی جو روشن تر ہوتی جارہی تھی اور ایک اندرونی نظر تھی جو دن بدن اندھی ہوتی چلی جارہی تھی اور اپنے حال سے ہم بالکل غافل ہو گئے تھے.یہاں تک کہ ایک دن ہم جاگ اُٹھے، ہمیں ہوش آگئی اور ہم نے اپنی برائیوں کی تلاش شروع کی اور اس تلاش کے دوران میں ہم نے یہ دریافت کیا کہ ہمارے سوا کہیں بدیاں موجود نہیں.غیروں کی بدیاں تلاش کرنے کی ہوش ہی باقی نہ رہی.تو انسان کی دود نیائیں ہیں، ایک باہر کی دنیا ہے اور ایک اندر کی دنیا ہے.باہر کی دنیا کو روشن کرنے کی تمنار کھنے والے لوگ بسا اوقات اس فرض سے غافل رہتے ہیں کہ جب تک ان کے اندر کی دنیا روشن نہ ہو وہ باہر نور پھیلا سکتے.ناممکن ہے جتنی چاہیں آپ فرضی باتیں کر لیں، جتنی چاہیں آپ تقریریں کرلیں لوگوں کو بتائیں کہ اسلام کے کیا محامد اور محاسن ہیں.لوگوں کو یہ بتائیں کہ یہ مذہب دنیا میں سب سے زیادہ حسین مذہب ہے.جب تک آپ کی ذات میں اس مذہب کا حسن اور اس مذہب کی روشنی لوگوں کو دکھائی نہ دے گی کبھی دنیا آپ کی باتوں کو قبول نہیں کرے گی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو فرمایا:

Page 220

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات خطاب ۲۷ ؍ جولائی ۱۹۹۱ء بن دیکھے کس طرح کسی مہ رخ پر آئے دل کیونکر کوئی خیالی صنم سے لگائے دل ( در ثمین صفحه: ۱۱۱) جب تک خدا آپ کا صنم نہیں بنتا جب تک خدا آپ کی ذات میں ظاہر نہیں ہوتا وہ آپ کے لئے بھی خیالی ہے اور غیروں کے لئے بھی خیالی ہے اور خدائے واحد کی ذات میں تمام کا ئنات کو اکٹھا کرنا فرضی باتوں سے ممکن نہیں ہے.پہلے خدا آپ کی ذات میں جلوہ گر ہونا چاہئے.آپ کی تاریکیاں روشنی میں تبدیل ہو جانی چاہئیں.پھر وہ خدا آپ کی ذات میں اس طرح لوگوں کو دکھائی دے گا جیسے روشنی ذرات سے ٹکرانے کے بعد دکھائی دیتی ہے، فی ذاتہ دکھائی نہیں دیا کرتی.اس حقیقت کو سمجھنا بہت ضروری ہے بسا اوقات لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ روشنی از خود نظر آنے والی چیز ہے یہ بالکل ایک جاہلانہ تصور ہے آج کی سائنس کی دنیا میں سائنس پڑھنے والا بچہ بچہ جانتا ہے کہ روشنی ایک نہ نظر آنے والی چیز ہے جب تک کسی وجود سے ٹکرا کر اس کی ہیئت کو آنکھوں تک نہیں پہنچائے.اگر آپ کے سامنے سے روشنی گذر رہی ہو تو آپ کو کچھ دکھائی نہیں دے گا.جب تک اردگرد کے ماحول سے روشنی ٹکرا ٹکرا کر مختلف وجودوں کا عکس آپ کی آنکھوں تک نہیں پہنچاتی اس وقت تک روشنی بظاہر روشنی ہونے کے باوجود آپ کے لئے روشنی نہیں ہے.اسی لئے خدا نما وجودوں کی ضرورت پڑتی ہے، اسی لئے خدا کو کائنات کے آئینہ میں دیکھنا پڑتا ہے کیونکہ وہ سب روشنیوں سے زیادہ لطیف تر روشنی ہے اور براہ راست اس کا دیدار ممکن ہی نہیں ہے.پس اس پہلو سے حضرت اقدس محمد مصطفی مے خدا نما و جو د بنے تو ہم نے خدا کو دیکھا اور وہ ایسے خدا نما نے اور آپ پر خدا اس طرح جلوہ گر ہوا کہ کائنات کے ذرہ ذرہ میں خدا دکھائی دینے لگا.قرآن کریم کو اگر آپ غور سے پڑھیں اور دل لگا کر اس کا مطالعہ کریں تو سب سے زیادہ گہرا اثر کرنے والا قرآن کریم کا وہ حصہ ہے جو خدا کی ذات سے تعلق رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے جلوہ پر گفتگو کرتا ہے اور مختلف رنگ میں خدا تعالیٰ کی صفات بیان کی جاتی ہیں کبھی براہ راست اور کبھی کائنات کے حوالے سے بیان کی جاتی ہیں کبھی خود انسان کے اپنے نفس کے حوالے سے بیان کی جاتی ہیں اور ہر جگہ آپ یہ دیکھیں گے کہ براہ راست خدا دکھائی نہیں دیتا.مگر وہ اپنی صفات کے ذریعہ جو جلوہ گر ہوتی ہیں تو خدا دکھائی دیتا ہے.پس اس پہلو سے جب کہا جاتا ہے کہ :

Page 221

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۱۷ خطاب ۲۷ ؍ جولائی ۱۹۹۱ء بن دیکھے کس طرح کسی مہ رخ پر آئے دل کیونکر کوئی خیالی صنم سے لگائے دل تو ایک مذہبی جماعت کے لئے سب سے زیادہ اہم مشن یہ بن جاتا ہے کہ خیالی صنم کو حقیقی صنم میں تبدیل کیا جائے اور وہ صنم دنیا کوتب دکھائی دے گا اگر آپ کی ذات میں اس کے جلوے ظاہر ہوں اور خدا جس ذات میں جلوہ گر ہوا سے پھر اشاروں کے ذریعہ دکھانے کی ضرورت نہیں رہتی.وہ خود اپنی صفات میں ایسا روشن ہے کہ جس ذات میں وہ چمکتا ہے اس ذات کے حوالے سے خدا دنیا کو دکھائی دینے لگ جاتا ہے اور اسی کا معنی ہے خدا نما ہونا.مگر خدا نما بننے سے پہلے خود خدا کو اپنی صفات میں جلوہ گر کرنا ضروری ہے.اپنے اندھیروں کو روشنی میں تبدیل کرنا ضروری ہے.اور یہ ممکن نہیں ہے.اگر آپ غیروں کی برائیوں کی تلاش میں رہیں اور یہ دعوے کریں کہ غیروں کی برائیاں ہم دور کریں گے اور اپنی برائیوں کی تلاش سے آنکھیں بند کر لیں اور اگر کوئی توجہ بھی دلائے تو آپ کو غصہ محسوس ہو.پس یہ جو طرز عمل ہے یہ اندر کی دنیا کو تاریک سے تاریک تر بناتی چلی جاتی ہے اور بعض دفعہ اس کے باوجود آپ واقعہ باہر کی دنیا کو روشن دیکھنا چاہتے ہیں.واقعہ ان معنوں میں کہ بڑے خلوص کے ساتھ ، آپ واقعہ بڑے گہرے جذبے کے ساتھ دنیا میں پاک تبدیلیاں ہوتی دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ اپنے وجود کو تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں.چنانچہ ماؤں کو آپ نے دیکھا ہوگا بہت سی ایسی مائیں ہیں جو ہر قسم کی بدیوں میں مبتلا ہیں مگر اپنی اولاد کو اچھا دیکھنا چاہتی ہیں.ان کے اندر روشنی دیکھنا چاہتی ہیں.یہ وہ تضاد ہے جس سے وہ خود باخبر نہیں ہوتیں.اگر ان کی اولاد کے لئے وہ صفات حسنہ اچھی ہیں تو ان کی ذات کے لئے کیوں اچھی نہیں اور جوان کی ذات کے لئے اچھی نہیں وہ ان کی اولاد کے لئے بھی اچھی نہیں ہے.ان معنوں میں کہ اولاد جانتی ہے کہ ماں کا دل کہاں ہے اور اسے دھوکا نہیں دیا جا سکتا.آپ کی تمنائیں جو رخ بھی اختیار کریں گی.آپ کی زبان چاہے کسی اور رخ پر جاری رہے.اولا د آپ کی تمناؤں کا رخ اختیار کرے گی.آپ کی زبان کی کوئی پرواہ نہیں کرے گی.پس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کلام میں ہمیں گہرے انسانی فطرت کے فلسفوں سے آگاہ فرمایا ہے.فرمایا کہ اے قوم تم خدا نما وجود بننا چاہتے ہو تو پہلے خود خدا کو دیکھو.خیالی صنم سے تعلقات نہ جوڑو.بلکہ ایسے صنم سے محبت کرو جو تمہیں دکھائی دینے لگے.فرمایا

Page 222

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ع ۲۱۸ دیدار گر نہیں ہے تو گفتار ہی سہی ( در ثمین صفحه ۱۱۱) خطاب ۲۷ ؍ جولائی ۱۹۹۱ء خدا کو دیکھ نہیں سکتے تو کم سے کم گفتار تو ہو، کچھ گفت و شنید تو ہو، کچھ محبت اور پیار کے آثار تو ظاہر ہوں.یہ وہ مضمون ہے جس کی آج دنیا کو سب سے زیادہ ضرورت ہے اور احمدی ماؤں کو احمدی باپوں سے بڑھ کر ضرورت ہے.کیونکہ بچے ان کی کوکھ سے پیدا ہوتے ہیں آئندہ کی دنیا مائیں بناتی ہیں اور ماؤں کے دودھ میں آئندہ قوموں کے متعلق یہ تقدیر یکھی جاتی ہے کہ وہ زہریلی قوم بنے گی یا زندگی بخش قوم ثابت ہوگی.پس آپ پر ایک عظیم ذمہ داری ہے وہ احمدی مائیں جو خدا ترس ہوں اور خدا رسیدہ ہوں ان کی اولا د کبھی ضائع نہیں ہوتی.لیکن ایسے باپ میں نے دیکھے ہیں جو بہت خدا ترس اور بزرگ انسان تھے مگر ان کی اولادیں ضائع ہو گئیں.کیونکہ ماؤں نے ان کا ساتھ نہ دیا.اس معاملے میں میں نے ماؤں کو ہمیشہ جیتتے دیکھا ہے.جو مائیں گہرے طور پر خدا سے محبت کرنے والی ہوں اور خدا سے ذاتی صلى الله تعلق قائم کر چکی ہوں ان کی اولادیں کبھی ضائع نہیں ہوتیں.اسی لئے حضرت اقدس محمد رسول اللہ ہے نے یہ نہ فرمایا کہ جنت تمہارے باپوں کے قدموں کے نیچے ہے.فرمایا جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے.پس جنت آپ کے تحت اقدام رکھی گئی ہے آپ کے قدموں کے نیچے رکھی گئی ہے.آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ آئندہ نسلوں کو آپ نے جنت عطا کرنی ہے یا جہنم میں پھینکنا ہے.کیونکہ اگر جنت آپ کے پاؤں کے نیچے ہو اور پھر آپ کی نسلیں جہنمی بن جائیں تو اس کی دوہری ذمہ داری آپ پر ہوگی.پس جب یہ کہا گیا کہ جنت ماؤں کے پاؤں کے نیچے ہے تو مراد یہ نہیں تھی کہ ہر ماں کے پاؤں کے نیچے جنت ہی جنت ہے.مراد یہ ہے کہ اگر جنت مل سکتی ہے اگلی نسلوں کو تو ایسی ماؤں سے مل سکتی ہے جو خود جنت نشان ہو چکی ہوں.خود جنت اُن کے آثار میں ظاہر ہو چکی ہو.ایسی ماؤں کی اولاد لازما جنتی بنتی ہے.پس میں نے مردوں کو اس مضمون پر مخاطب کرنے کی بجائے یہ فیصلہ کیا کہ آج خواتین کو اس مضمون میں مخاطب کروں کیونکہ میں تو روشنی تو حضرت اقدس محمد مصطفی ماہ سے پاتا ہوں.اپنی عقل سے کلام نہیں کرتا جو قرآن سکھاتا ہے وہ کہتا ہوں جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں وہ میں آپ کے سامنے اپنے رنگ میں پیش کرتا ہوں.پس میں نے اس راز کو قرآن اور حدیث کے مطالعہ سے پایا کہ حقیقتا آئندہ قوموں کی تقدیر کا فیصلہ کرنا عورتوں کا کام ہے اور یہ فیصلہ انہیں آج

Page 223

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات کرنا پڑے گا ورنہ مستقبل لازماً تاریک رہے گا.۲۱۹ خطاب ۲۷ ؍ جولائی ۱۹۹۱ء آج احمدی خواتین کو اپنے سینوں کو خدا کی محبت سے روشن کرنا ہوگا ورنہ ان کے دودھ وہ نور ان کے بچوں کو نہیں پلائیں گے جو ماؤں کے دودھ کے ساتھ پلایا جاتا ہے اور ہمیشہ بجز و بدن اور حجز وروح بن جایا کرتا ہے اور خدا کی محبت ایک فرضی چیز نہیں ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اس کے آثار ظاہر ہوا کرتے ہیں.پاک تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں تو آثار ظاہر ہوتے ہیں.جب بارش آنے لگے اس وقت بھی آثار ظاہر ہوا کرتے ہیں.اچانک نہیں آجایا کرتی.جب موسم تبدیل ہوتے ہیں تو اس وقت بھی آثار ظاہر ہوا کرتے ہیں.وقت سے پہلے آپ کو معلوم ہو جاتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے.پس وہ مائیں جو خدا کی سمت حرکت کر رہی ہوں ان کے اندر پاک تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں.جب میں نے اس مضمون پر غور کیا تو میرے بہت سے مسائل حل ہو گئے.میں آپ کو یہ تاکید کیا کرتا ہوں کہ آپ اپنا ایسا خیال رکھیں کہ مغربی تہذیب میں یا دوسری بدتہذیبوں میں بہہ نہ جائیں.یہ کریں اور وہ کریں اور ایسی پابندیاں اختیار کریں یہ ساری نصیحتیں ہیں کبھی اثر کر جاتی ہیں کبھی لوگ ان سے اور زیادہ بدک جاتے ہیں اور پیچھے ہٹ جاتے ہیں.لیکن ایک نصیحت ایسی ہے جو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس نظم میں بیان فرمائی اور حقیقت میں اسی پر بار بار مختلف رنگ میں زور دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر آپ خدا کی محبت میں مبتلا ہو جائیں تو سارے معاملے حل ہو جاتے ہیں پھر کسی اور نصیحت کی ضرورت باقی نہیں رہتی.پھر خدا خود آپ کو سنبھال لے گا وہ خود آپ کے کام بنائے گا آپ کو بتائے گا کہ کیا راہ اور کون سی راہ اس کی طرف جاتی ہے اور کون سی راہ اس سے مخالف چلتی ہے.پھر کیسے ممکن ہے کہ انسان اپنے محبوب کی راہ چھوڑ کر اس کے مخالف سمت چلنے والی راہوں پر قدم مارے.پھر تو قربانیوں کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے.پاکیزہ زندگی کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے.معاشرہ کے اختلافات کے مسائل بھی سب حل ہو جاتے ہیں.سارے مسائل کا ایک حل ہے اور وہ حل یہی ہے کہ خدا کی محبت میں مبتلا ہو جائیں اور اس کے نتیجہ میں جو نسلیں پیدا ہوں گی وہ یقیناً خدا والی نسلیں بنیں گی.لیکن اس کے آثار ظا ہر ہونے چاہئیں اور وہ آثار دو طرح سے ظاہر ہوتے ہیں.اوّل یہ کہ جو انسان خدا کی سمت میں حرکت کرتا ہے اس کے اندر پاک تبدیلیاں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں وہ غیر کی بجائے اپنی ذات کا شعور حاصل کرنا شروع

Page 224

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۲۲۰ خطاب ۲۷ جولائی ۱۹۹۱ء کر دیتا ہے اس کو پھر اس سے غرض کوئی نہیں رہتی کہ میرے ہمسایہ کے گھر خدا ہے یا نہیں.اس کو یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ میرا گھر اتنا صاف ہے کہ نہیں کہ اس میں خدا اتر آئے.جب آپ کے ہاں کوئی معزز مہمان آنے لگتا ہے تو کبھی یہ تو نہیں ہوا کہ آپ گھر چھوڑ کر دوسرے گھروں میں بھاگ جائیں کہ تم صفائیاں شروع کر دو.مہمان آپ کے گھر آنا ہے وہ کوئی اور پاگل کیوں صفائیاں کرے گا.جب آپ غیروں کو نصیحت کرتی ہیں تو یہی بات کر رہی ہوتی ہیں خدا کی متمنی ہیں کہ خدا آپ کے گھر اترے اور صفائیاں غیروں کے گھروں کی کروائی جارہی ہیں.یہ سوچ ہی نہیں ہے کہ مہمان تو آپ کا آنے والا ہے.پس جب آپ کو یہ خیال پیدا ہو کہ کون مہمان آپ کے دل میں اتر نے والا ہے تو اس شعور کے ساتھ آپ کو اتنی برائیاں وہاں دکھائی دینے لگیں گی کہ جتنے داغ صاف کریں گی کوئی نیا داغ ظاہر ہو جائے گا.اور انسان جس کو یہ تجربہ ہو اس کو علم ہے کہ جتنی آپ صفائی کریں گھر کی کوئی نہ کوئی کون کھترا ایسا دکھائی دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی صفائی کامل نہیں ہوئی اور جب اس کو صاف کر دیتی ہے تو بعض دوسری جگہیں جو پہلے صاف دکھائی دیتی تھیں اس کے مقابل پر داغدار دکھائی دینے لگتی ہیں اور یہ سلسلہ نہ ختم ہونے والا ہے.تو اللہ تعالیٰ کی محبت کا سفر ایک ایسا سفر ہے جو آپ کو اپنے سوا کسی اور کی ہوش نہیں رہنے دے گا.سوائے اس کے کہ آپ کی ذات میں وہ جلوہ ایسا چمکے کہ دنیا اس جلوہ سے خیرہ ہو جائے.دنیا اس کی روشنی کو محسوس کرنے لگے اور پھر خدا کے حکم کے تابع آپ پیغامبر بن کر دنیا کے سامنے نکلیں.یہی فلسفہ نبوت ہے لوگ کہتے ہیں نبوت ہمیشہ کے لئے بند ہے.میں کہتا ہوں کہ نبوت تو ہر فرد میں جاری ہے.جب تک کوئی شخص نبوت کی پیروی نہیں کرتا اور نبوت کے انداز نہیں سیکھتا اور نبوت کے کام نہیں کرتا اس وقت تک نہ اس کی زندگی کی کوئی ضمانت ہو سکتی ہے نہ وہ غیروں کو زندگی عطا کرسکتا ہے.پس نبی ، نبوت کو ختم کرنے کے لئے نہیں آیا کرتے اور سب سے افضل نبی ان معنوں میں نبوت کو ختم کرنے کے لئے نہیں آیا کہ نبوت کی ادائیں ختم ہو جائیں ، نبوت کے پھل ختم ہو جائیں اگر نبوت کی ادا ئیں ختم ہو جائیں اور نبوت کے پھل ختم ہو جائیں.تو کائنات میں جو کچھ تھا سب کچھ ختم ہو گیا.وہ تو اس لئے آتا ہے کہ نبوت کی ادائیں لوگوں میں جاری کر دے اور نبوت کے پھل لوگوں کو کھلانے لگے.یہی معنی خاتم کے ہیں، ایسی مہر جو اپنی تصویر دوسری سادہ چیزوں پر ثبت کرنے یعنی اپنے نقوش کا اثبات کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو اور اسی کا نام خاتم ہے.پس خاتم کا حقیقی معنی یہ ہے کہ ایک

Page 225

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۲۱ خطاب ۲۷ جولائی ۱۹۹۱ء ایسا وجود جو اپنے جیسی تصویریں بنانے لگ جائے اور کثرت سے بنانے لگ جائے.تبھی قرآن کریم نے آنحضرت ﷺ کے ذکر کے ساتھ فرمایا محمد رسول الله والذين معه (الفتح ۳۰) کہ دیکھو محمد اکیلا نہیں رہا اب وہ جو اس کے ساتھی تھے وہ بھی اس جیسے ہو گئے ہیں.والذین معہ سے مراد ہے کہ صفاتِ حسنہ میں اس کی معیت اختیار کر گئے ہیں.پس ان معنوں میں حقیقت میں صحیح تغیر پیدا ہوتا ہے لیکن اگر مہر پر وہ نقش نہ ہو تو کیسے وہ کسی اور چیز پر نقش ثبت کرے گی.بعض مہریں مٹ جاتی ہیں.جہاں جہاں سے وہ مٹتی ہیں جب ان کا نقش ظاہر ہوتا ہے تو وہاں ایک خام نقش ظاہر ہوتا ہے.ایک عیب دارنقش ظاہر ہوتا ہے اور بعض حروف مٹے ہوئے ہوتے ہیں.بعض نشان مٹے ہوئے ہوتے ہیں.مشکل سے انسان پہچانتا ہے یہ کون سی مہر تھی جس کا نقش مثبت ہوا ہے.پس بعینہ اسی طرح انسان کی کیفیت ہے.انسان جب خدا تعالیٰ کی ذات کو اپنے اندر ثبت کرتا ہے اور اس طرح ثبت کرتا ہے کہ وہ گہرے نقوش چھوڑ جائے اس وقت وہ مہر میں تبدیل ہونے لگتا ہے.گویا اس پہلو کے لحاظ سے خدا سے تعلقات کے دو قدم ہیں.ایک قدم ہے خدا کی صفاتِ حسنہ سے پیار اور محبت کے ذریعہ ایسا تعلق جوڑنا کہ وہ بالآخر آپ کے وجود میں ظاہر ہو جائیں.دوسرا قدم یہ ہے کہ اس کے نقوش کو اتنا گہرا کر دینا کہ پھر وہ دوسروں کے وجود میں ظاہر ہونے کی صلاحیت رکھے.چنانچہ مہر کو ھر چ کر بنایا جاتا ہے ورنہ مہر کے لفظ جو ہیں وہ اگر عام سطح پر لکھے گئے ہوں جس طرح کہ عام تحریریں لکھی جاتی ہیں تو مہر نہیں بن سکتی.حالانکہ تحریر صاف پڑھی جاتی ہے.مہر بنانے کا فلسفہ یہ ہے کہ وہ الفاظ ایسے گہرے کنندہ ہو جائیں ، انمٹ ہو جائیں، وجود ایسا حصہ بن جائیں کہ پھر وہ دوسروں تک اس اثر کو پہنچانے کی صلاحیت اختیار کر لیں.پس خدا نما بننے کے لئے صرف خدا سے تعلق کافی نہیں بلکہ خدا سے ایسا گہرا تعلق ضروری ہے جس کے نتیجہ میں خدا کے نقوش غیروں تک منتقل ہونے کی صلاحیت حاصل کر لیں.یہی وہ طریق ہے جس کے ذریعہ بنی نوع انسان کو امت واحدہ بنایا جاسکتا ہے کیوں کہ صرف ایک خدا کی ذات ہے جس کے حوالے سے انسان ایک ہاتھ پر اکٹھا ہو سکتا ہے اور کوئی حوالہ نہیں ہے اور کوئی حوالہ نہیں ہے جس سے آپ اس منتشر بنی نوع انسان کو ایک ذات میں اکٹھا کر سکیں.اور اس کا طریق جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہی طریق ہے اس کے سوا کوئی طریق نہیں ہے.باقی فرضی باتیں ہیں، قصے ہیں.اپنی ذات میں خدا کوا تاریں اور یہ کام آپ کے بس میں نہیں ہے سوائے محبت کے.محبت ایک عجیب طاقت ہے اس کی

Page 226

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۲۲۲ خطاب ۲۷ ؍ جولائی ۱۹۹۱ء کوئی مثال دنیا میں نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے محبت کی تعریف میں ایک کلام فرمایا ہے جو مجھے دنیا کے لٹریچر میں کہیں اور دکھائی نہیں دیا.فرماتے ہیں : اے محبت عجب آثار نمایاں کردی زخم و مرہم برہ یار تو یکساں کردی اے محبت تو عجیب چیز ہے تو نے حیرت انگیز نشان ظاہر کئے ہیں.زخم اور مرہم کو برابر کر دیا ہے.یعنی خدا کی راہ میں اب مجھے زخم لگے تب بھی مرہم کا سا سرور ہے اور مرہم لگے اس میں بھی مرہم کا سا سرور ہے.تو وہ محنت جو انسان کو دنیا میں انقلاب بر پا کرنے کے لئے چاہئے ، وہ محنت محبت کے بغیر ممکن نہیں ہے.کیونکہ محبت کے بغیر جو کام کیا جاتا ہے وہ ایک مصیبت ہوتی ہے.ایک ماں کسی اور کے بچے کو سنبھالے تو اس کو کیسی مشکل پڑتی ہے یہاں تک کہ میں نے دیکھا ہے نانیاں بھی جب بچہ گندا ہوتو ماں کے اوپر پھینک دیتی ہیں.کہتی ہیں تیار کر کے لاؤ تو ٹھیک ہے بڑا پیار کریں گے اس سے لیکن ذرا گندا ہوا ، بد بو آئی کہتی ہیں پکڑوا سے اٹھا کر لے جاؤ ہم تو اسے برداشت نہیں کر سکتے.میری بیگم پاس بیٹھی ہوئی ہیں یہ بھی اسی طرح کرتی ہیں.بیٹیاں بے چاری جنہوں نے آگے بچے پیدا کئے ہیں بڑے پیارے پیارے وہ ان کو تیار کرتی ہیں جب وہ سج کے خوبصورت لگتے ہیں اچھے لگتے تو نانیوں کی گود میں آجاتے ہیں اور نانوں کی گود میں آجاتے ہیں اور جب ذرا گندے ہوئے تو مائیں سنبھالیں.کیوں ایسا ہوتا ہے اس لئے کہ ان کو ان سے زیادہ محبت ہے اور کچی محبت ہے.ایک محبت ہے مزے اٹھانے کی محبت ایک محبت ہے ان مزوں کی خاطر تکلیف میں مبتلا ہونے کی محبت.ان دونوں محبتوں میں فرق ہے.پس جب تک خدا سے آپ کو ایسی محبت نہ ہو کہ اس کے نتیجہ میں زخم و مر ہم برابر نہ ہو جائیں اس وقت تک آپ دنیا کا کوئی علاج نہیں کر سکتے.ورنہ یہ سردردی ہوگی ایک بکھیڑا ہوگا ہر وقت کی مصیبت ہوگی لیکن پیار ہو تو یہ سب چیزیں، سب راہیں آسان ہو جایا کرتی ہیں.فرماتے ہیں: تانه دیوانه شدم ، ہوش ناید بسرم اے جنونِ گرد تو گردم که چه احساں کر دی اے محبت جب تک تو نے مجھے پاگل نہیں بنا دیا مجھے ہوش نہیں آئی.مجھے حقائق کا علم نہیں ہوا مجھے معرفت نصیب نہیں ہوئی.اے جنون میں تیرے گرد مجنوں کی طرح گھوموں کیوں کہ تم نے مجھے وہ

Page 227

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات عطا کر دیا جو خرد مجھے کبھی عطا نہیں کرسکتی.۲۲۳ خطاب ۲۷ ؍ جولائی ۱۹۹۱ء پس محبت کا جنون ہے جو دنیا میں پاک تبدیلیاں پیدا کرے گا اور اس محبت کا سفر انفرادی طور پر ہر شخص کو کرنا ہوگا اور آج سب سے زیادہ اس محبت کے سفر کی احمدی خواتین کی ضرورت ہے.احمدی بچیوں کوضرورت ہے.کیونکہ انہوں نے کل کی مائیں بننا ہے.یہ مطلب نہیں کہ مردوں کو ضرورت نہیں.مردوں کو لازماً ضرورت ہے مگر وہ ماؤں سے یہ فیض پائیں گے.کیونکہ مردوں کی جنتیں ان کی ماؤں کے پاؤں کے نیچے رکھی گئی ہیں اور جنت کی بہترین تعریف اللہ کی محبت ہے.یہاں بعض لوگ بلکہ اکثر جنت کا لفظ سنتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ماں کے پاؤں کے نیچے سے سیدھا آپ جنت میں باغوں میں پہنچ جائیں گے حالانکہ اصل جنت کی تعریف خدا کی محبت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں.یعنی دنیا تو دوسری جنتیں ڈھونڈھتی ہے ہمیں تو سوائے اس کے کوئی جنت دکھائی نہیں دیتی کہ اللہ کی محبت نصیب ہو جائے.اس کا پیار عطا ہو اس کی رضا مل جائے اور اس کے نتیجہ میں ہمیں اعلیٰ لذات عطا ہوتی ہیں.وہ ایسی لذتیں ہیں جن کا عام انسان تصور نہیں کر سکتا.کیونکہ عام انسان ان لوگوں کو بعض دفعہ مشقتوں میں مبتلا دیکھتا ہے.اکثر انبیاء کی زندگی ایسے دکھوں میں کٹتی ہے ایسی مصیبتوں میں کٹتی ہے، کچھ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دکھ ہیں جو بہت بڑے دکھ ہیں جس شخص پر جتنی ذمہ داری ڈالی جائے اور جتنا وہ خلوص سے ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی کوشش کرے اتنی بڑی اس کی زندگی مشکل میں مبتلا ہو جاتی ہے.کچھ دکھ ہیں جو غیر ان پر پھینکتے ہیں اور دشمنی اور نفرتوں کی بوچھاڑ کرتے رہتے ہیں.ان حالات میں ان کا زندہ رہنا اور ایسی زندگی سے لذت پانا ایک نا قابل حل معمہ ہے جس کی دنیا کو سمجھ نہیں آیا کرتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کا حل یوں پیش فرماتے ہیں: ہیں تری پیاری نگاہیں دلبرا ایک تیغ تیز جن سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا غم اغیار کا ( در شین صفحه : ۱۰) کہ لوگ تو سمجھتے ہیں کہ ہم بڑی مصیبت میں مبتلا ہیں.غیروں نے یہ یہ ظلم کئے اور یہ یہ ظلم کئے ہم تو ان ظالموں کے نیچے پیسے گئے ہوں گے مگر فرمایا اے میرے آقا! اے میرے محبوب رب ! تیری پیاری نگاہیں ایک ایسی تیز تیغ کا حکم رکھتی ہیں جن سے سارا غیروں کا جھگڑا، اغیار کی سب مصیبتوں کا

Page 228

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۲۲۴ خطاب ۲۷ جولائی ۱۹۹۱ء جھگڑا کٹ جاتا ہے کچھ بھی باقی نہیں رہتا.تو وہاں بھی محبت ہی ہے جو کام آتی ہے.محبت رستوں کو آسان کر دیتی ہے.ایک شاعر اپنے تجربے کو یوں بیان کرتا ہے کہتا ہے.دن رات جو ہم محبوب کے کو چوں کے چکر لگاتے ہیں اور وہاں سے دھکے کھاتے ہیں اور دھتکارے جاتے ہیں اور پھر بھی جانا نہیں چھوڑتے اور ٹھوکریں کھاتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں پاگل ہو گئے ہو.لوگ کہتے ہیں اپنے آپ کو تبدیل کرو.ہم ان کو جواب میں کیا کہتے ہیں.یہ تونے کیا کہا ناصح نہ جانا کوئے جاناں میں ہمیں تو راہ رووں کی ٹھوکریں کھانا مگر جانا اے پاگل نصیحت کرنے والے یہ کیا کہہ بیٹھا ہے تو کہ اپنے محبوب کے کوچوں میں نہ جاؤں.میں تو خدا کی قسم اگر ہر چلنے والا مجھے اس کوچے میں چلتے ہوئے ٹھوکریں مارتا ہوا چلے تب بھی میں وہاں جاؤں گا.ان ٹھوکروں کا مزہ محبت کے سوا سمجھ آہی نہیں سکتا.محبت پاگل کر دیا کرتی ہے.محبت ہی ہے جس نے فرہاد کا تصور پیدا کیا.وہ تمام عمر ایک پہاڑ کو کاٹتا رہا اس غرض سے کہ اس پہاڑ سے وہ نہریں جاری ہوں جن کے بعد اس کی محبوبہ کو بطور انعام اسی کو دیا جائے گا اور اسی حالت میں اس نے جان دے دی.کیا بات تھی جس کی خاطر اس نے ساری زندگی اس مشقت کے کام میں گنوا دی.وہ مشقت اپنی ذات میں اس کی جزا تھی.لوگوں کو سمجھ نہیں آتی لوگ کہتے ہیں فرہاد پاگل ہو گیا تھا.پاگل تو تھا لیکن عشق میں پاگل ہوا تھا.عام پاگلوں جیسا پاگل نہیں تھا.جن کو اپنے وجود کی خبر نہیں رہتی ، اپنے مفاد کی خبر نہیں رہتی.عشق کے پاگل وہ ہوتے ہیں جن کا مقصد بلند ہو چکا ہوتا ہے ان کا مقصد روحانی مقصد بن چکا ہوتا ہے اس مقصد کو دنیا والے سمجھ نہیں سکتے.پس سارے کام آپ کے آسان ہو جائیں گے بجائے اس کے کہ کوئی کہے اس طرح فیشن کر کے باہر نہ پھرا کرو اس طرح وقت ضائع نہ کیا کرو.اتنے پیسے اپنے کپڑوں پر بر باد نہ کرو.سادہ رہو اور جس حد تک ہو سکتا ہے اچھی بنو خدا نے تمہیں دیا ہے لیکن اس میں حد سے زیادہ تجاوز نہ کرو.دین کی خدمت کے لئے بھی کچھ رکھو اور دنیا میں ایک پاک معاشرہ پیدا کرنے کی کوشش کرو.یہ سب خالی نصیحتیں ہیں.آپ سنیں گی اور بھول جائیں گی.مگر اگر خدا سے محبت ہو جائے تو آپ کے دل سے ایک ناصح پیدا ہوگا.ہر وقت دھیان خدا کی طرف رہے گا.اگر ہر وقت نہیں تو بار بار یہ دھیان آنا شروع ہو

Page 229

۲۲۵ خطاب ۲۷ ؍ جولائی ۱۹۹۱ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات جائے گا.بسا اوقات آپ ایک کام کریں گی اور دل سے آواز اُٹھے گی کہ مجھے تو خدا سے محبت ہے اور خدا کو تو یہ بات پسند نہیں.یہ سلسلہ شروع میں اس طرح تھوڑے تھوڑے تجربوں سے شروع ہوتا ہے لیکن حقیقت میں اس کی انتہا ایک خودرو پانی کی طرح بہتی ہے، اس وقت انسان اپنے آپ کو متوجہ نہیں کیا کرتا بلکہ محبت میں رواں دواں ہو جاتا ہے ، وہ اس کو اٹھائے پھرتی ہے ،اس کی زندگیوں کے رخ موڑ دیتی ہے.محبت فیصلہ کرتی ہے کہ کس طرف اس نے جانا ہے اس وقت وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے کہ ہمیں تو راہ رووں کی ٹھوکریں کھانا مگر جانا.ہمیں تو جانا ہی جانا ہے کیونکہ وہ بے اختیار ہو جاتے ہیں.پس آج دنیا کے سارے مسائل کا حل خدا کی محبت ہے اور یہی وہ محبت ہے جو دلوں کو اکٹھا کر سکتی ہے اس کے علاوہ باقی سارے نسخے بے معنی اور جھوٹے اور لغو نسخے ہیں ،منہ کی باتیں ہیں اس سے زیادہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے.پس یہ سفر شروع کریں اور اگر اس سفر میں آپ بہت سا وقت ضائع کر چکی ہیں اور بہت پیچھے رہ گئی ہیں تو خدا سے مدد مانگیں کیونکہ خدا کی مدد کے بغیر یہ سفرمکمل نہیں ہوا کرتے نہ ہو سکتے ہیں.کسی انسان کی طاقت میں نہیں ہے کہ وہ خود خدا تک پہنچ جائے یا خدا کا پیار حاصل کر سکے.اس کے لئے بھی خدا سے مدد مانگنی پڑتی ہے لیکن نیست فرض ہے اور نیت کی سچائی فرض ہے.وہ کام آپ کے سپرد ہے.آپ ایک دن یہ فیصلہ کر لیں کہ آپ نے خدا کی محبت میں مبتلا ہونا ہے.جیسے تیسے بھی ہو سکے آپ اپنے رب سے محبت کریں گی اور اس کے حسن کی تلاش کریں گی.جب آپ محبت کی بات کریں گی تو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا یہ شعر آپ کے لئے ایک تنبیہہ بن جائے گا.بن دیکھے کس طرح کسی مہ رخ پہ آئے دل کیونکر کوئی خیالی صنم سے لگائے دل آپ سوچیں گی کہ میں تو واقعی نظریاتی طور پر ایک خدا کی قائل تھی مجھے تو اس کا حسن دکھائی نہیں دیتا.میں کیسے محبت کروں؟ چنانچہ بہت سے احمدی مرد اور بہت سی احمدی عورتیں مجھے گھبرا گھبرا کر لکھتے ہیں کہ آپ تو کہتے ہیں نماز میں لذتیں پیدا ہو سکتی ہیں ہم نے تو اتنی ٹکریں ماری ہیں ہمیں تو لذت پیدا نہیں ہوئی.اس لئے کہ ان کا صنم خیالی رہا ہے، اس لئے کہ انہوں نے نماز کے کلمات پر غور نہیں کیا.ان میں ڈوب کر نماز نہیں پڑھی.یہی وجہ تھی کہ مجھے ایک خطبات کا سلسلہ دینا پڑا جو کئی مہینوں پر پھیلا ہوا ہے.یہ سمجھانے کے لئے کہ نماز میں کیسے ڈوبا جاتا ہے اور اس نماز میں ڈوبنے کے نتیجے میں خدا کا چہرہ دکھائی دینے لگتا ہے اور وہ اتنا حسین چہرہ ہے کہ آپ چاہیں نہ چاہیں آپ اس کی محبت میں مبتلا ہو جائیں گی.

Page 230

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۲۲۶ خطاب ۲۷ ؍ جولائی ۱۹۹۱ء محبت میں ایک لطف کی بات یہ ہے کہ اس میں پھر اختیار کی بات نہیں رہتی.جو چیز فرض ہے وہ ہے حسن کے ساتھ رابطہ اور حسن اور رابطے کے بغیر محبت ہو ہی نہیں سکتی.ایک شاعر کہتا ہے یہ ایسی آگ ہے جو لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے.غالب کا یہ شعر ہے کہ محبت عجیب پاگل چیز ہے کہ ہم کوشش کریں ہو جائے تو ہوتی نہیں اور جب ہو جائے تو مٹتی نہیں.ایسی آگ لگ جاتی ہے جو بجھائی نہیں جاسکتی.اس لئے بندہ کا اختیار نہیں ہے لیکن حسن کا اختیار ہے.حسن فیصلہ کرتا ہے کہ کس کو کس سے محبت ہوگی اور چونکہ حسن خدا کا حسن ہے اس لئے خدا ہی فیصلہ کرے گا کہ کس وقت کتنا آپ پر جلوہ گر ہو.اس کے لئے دعا ضروری ہے اور یہ دعا مانگنی چاہئے کہ اے خدا! مجھے اپنا وہ حسین چہرہ دکھا.چنانچہ حضرت موسی" چونکہ عارف باللہ تھے انہوں نے یہ دعا نہیں کی کہ اے خدا میرے دل کو محبت سے بھر دے انہوں نے یہ دعا کی کہ اے خدا مجھے اپنا چہرہ دکھا دے.کیونکہ وہ جانتے تھے کہ چہرہ دیکھا اور میں عاشق ہو گیا.یہی مضمون مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت محمد مصطفی امیہ کے حسن کے تعلق میں بیاں فرمایا.جب آپ نے فرمایا: اگر خواہی دلیلے عاشقش باش بُرہان محمد تم دلیل پوچھ رہے ہو محمدؐ کی صداقت کی دلیل یہ ہے کہ تم اس کے عاشق ہو جاؤ.محمد ہی اپنی صداقت کی دلیل ہے کیونکہ وہ حسین ہے اور حسینوں کی صداقت کی دلیل نہیں مانگی جایا کرتی.حسینوں کے اس جذبہ کی اور اس قوت کی دلیل نہیں مانگی جاتی جو انسان کو خود بخو د مغلوب کرلیا کرتا ہے.حسن کو دیکھیں پھر آپ کا اختیار نہیں رہے گا.پھر آپ چلے چلیں گے اس کے پیچھے اور یہ انسانی فطرت ہے.ایسی گہری کشش خدا تعالیٰ نے انسانی فطرت میں حسن کے ساتھ رکھ دی ہے کہ بندہ بے اختیار ہو جاتا ہے.تو میں آپ کو یہ راز سمجھاتا ہوں کہ آپ خدا تعالیٰ سے محبت ان معنوں میں مانگیں کہ اے خدا! ہمیں اپنا حسن دیکھا، اپنے حسن کے جلوے دکھا، ہمیں بے اختیار کر دے.ہم ایسا تجھے دیکھیں کہ پاگل ہوجائیں.ہمیں دنیا کی ہوش نہ رہے.ہم تجھے چاہیں اور تیرے مقابل پر پھر کسی اور کو نہ چاہ سکیں.یہ وہ دعا ہے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ آپ کے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی شروع کر دے گا اور جب تک آپ کے اندر پاک تبدیلیاں پیدا نہ ہوں باہر کی دنیا میں پاک تبدیلیاں پیدا نہیں کی جاسکتی ! نہیں پیدا کی جاسکتی نہیں پیدا کی جاسکتی.ایسا قطعی اصول ہے جس کو دنیا میں کوئی طاقت بدل

Page 231

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۲۲۷ خطاب ۲۷ ؍ جولائی ۱۹۹۱ء نہیں سکتی.اپنے اندر روشنیاں پیدا کریں.اپنی تاریکیوں کو روشنی میں تبدیل کر دیں اور ایسے جلووں سے بھر دیں کہ وہ آپ کے باہر دکھائی دینے لگیں اور از خود آپ کے دل کا نور باہر جلوہ گر ہو.چنانچہ قرآن کریم اس مضمون کو اسی رنگ میں بیان فرماتا ہے نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ (تحریم: 9).ان کا نور صرف ان کی ذات تک محدود نہیں رہا کرتا يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ.وہ ان سے آگے آگے بھاگتا ہے اور دنیا کو بھی روشن کرتا چلا جاتا ہے.ماؤں کو اس لئے ضرورت ہے کہ ماؤں کے قبضے میں بچے ہوتے ہیں اور اگر بچپن میں آپ خدا کی محبت ان کے دلوں میں پیدا کر سکیں تو سب سے بڑا احسان اپنی اولاد پر آپ یہی کر سکتی ہیں.اور خدا کی محبت پیدا کرنے کے لئے آپ کو خدا کی باتیں کرنی ہوں گی.خدا کی باتیں کرتے وقت اگر آپ کے دل پر اثر نہ ہوا اگر آپ کی آنکھوں سے آنسو نہ ہے.اگر آپ کا دل موم نہ ہوا تو یہ خیال کرنا کہ بچے اس سے متاثر ہو جا ئیں گے.یہ جھوٹی کہانی ہے کچھ بھی اس میں حقیقت نہیں.ایسی ماؤں کے بچے خدا سے محبت کیا کرتے ہیں کہ جب وہ خدا کا ذکر کرتی ہیں تو ان کے دل پگھل کر آنسو بن کر بہنے لگتے ہیں.ان کے چہروں کے آثار بدل جاتے ہیں.بچے یہ حیرت سے دیکھتے ہیں کہ اس ماں کو ہو کیا گیا ہے.کس بات کی اداسی ہے.کس جذبے نے اس پر قبضہ کر لیا ہے.یہ وہ تاثر ہے جو بچے کے اندر ایک پاک عظیم تبدیلی پیدا کر دیا کرتا ہے.یہ انقلاب کی روح ہے، یہ انقلاب کی جان ہے.ایسی مائیں بہنیں اور ایسی مائیں بننے کے لئے جیسے کہ میں نے بیان کیا ہے خدا سے مدد مانگتے ہوئے اس کے حسن کی تلاش کرنی ہوگی.یہاں تک کہ وہ حسن آپ پر جلوہ افروز ہو اور آپ کے دلوں میں ایسی محبت بھر دے کہ آپ کا وجود پکھل جائے اور پگھلنے کے بعد ایک نئے وجود میں ڈھالا جائے.پس آج کے خطاب کے لئے میں نے صرف یہی مضمون پچھنا تھا.میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ ہزار باتوں کی ایک بات یہ ہے.اس کو آپ مضبوطی سے تھام لیں اور خدا کی محبت کرنے کے طریق تو بے شمار طریق ہیں اور میں مختلف خطبات میں ان کا ذکر بھی کرتا رہتا ہوں.آج صرف آپ کو اس حیثیت سے آپ سے مخاطب ہوں کہ آج اگر مائیں بن چکی ہیں تو آپ کو آج بھی خدا تعالیٰ نے یہ استطاعت بخشی ہے کہ اپنے گردو پیش، اپنے ماحول میں خدا کی محبت کے رنگ بھرنے کی کوشش کریں اگر آپ مائیں نہیں بنہیں تو آج وہ پاک تبدیلیاں پیدا کریں تا کہ جب مائیں بنیں تو اس سے پہلے ہی آپ خدا سے محبت کرنی والی وجود بن چکی ہوں.وہ چھوٹی بچیاں اور وہ چھوٹے

Page 232

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۲۸ خطاب ۲۷ جولائی ۱۹۹۱ء بچے جو آپ کی گودوں میں پلتے ہیں، آپ کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں ، آپ کے دودھ پی کر جوان ہوتے ہیں یا آپ کے ہاتھوں سے دودھ پی کر جوان ہوتے ہیں، اس زمانہ میں ابتدائی دور میں ان کو خدا کے پیار کی لوریاں دیں، خدا کی محبت کی ان سے باتیں کریں پھر آپ کی بعد کی ساری منازل آسان ہو جائیں گی اور اصل یہ ہے جو میں نے آخر پر بیان کیا ہے.بعد کے زمانوں میں ماؤں کی یہ کوشش کرنا کہ بچے خدا کی محبت میں مبتلا ہو جائیں جبکہ ابتدائی دور میں وہ اس کام سے غافل رہیں.بہت مشکل کام ہے اتنا مشکل کام ہے کہ بعض دفعہ مائیں اس غم سے ہلاک ہونے لگتی ہیں مگر پھر کچھ نہیں کر سکتیں.تو اس وقت کام شروع کریں جب آسانی ہے جب بچہ آپ کی گود میں اترتا ہے اور اس وقت سے آگے پھر مسلسل اس وقت تک جاری رہتا ہے جبکہ اپنے شعور کو پہنچ کر آزاد حیثیت اختیار نہیں کر لیتا.اس دور میں آپ اس کے اندر عظیم الشان تبدیلیاں پیدا کر سکتی ہیں تو پھر میں اسی بات کو دہرا کر اس پر اپنے خطاب کو ختم کرتا ہوں کہ جو تبدیلیاں آپ کو پیدا کرنی ہونگیں پہلے اپنی ذات میں پیدا کرنی ہونگیں.آپ کے تبدیل ہوئے بغیر آپ کی اولا د تبدیل ہو نہیں سکتی.جب تک آپ کی ذات خدا کے نور سے نہ بھر جائے آپ کی اولا د کے سینے خدا کے نور سے نہیں بھر سکتے.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.دیکھیں آپ ایک نئی صدی کے سر پر کھڑی ہیں.اس صدی کی آپ مجدد بنائی گئی ہیں.بحیثیت قوم آپ کو خلفاء فرمایا گیا ہے.آپ نے آئندہ زمانوں کی ضرورتیں پوری کرنی ہیں.یہی وہ طریق ہے جس سے آپ آئندہ زمانے کی ضرورتیں پوری کر سکتیں ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی تو فیق عطا فرمائے.آمین.

Page 233

حضرت خلیفہ امسیح الرابع ” کے مستورات سے خطابات ۲۲۹ خطاب ۳۱ را گست ۱۹۹۱ء صدر، عہدیداران اور لجنات کو قیمتی نصائح (جلسہ سالانہ مستورات جرمنی سے خطاب فرموده ۳۱ را گست ۱۹۹۱ء بمقام ناصر باغ جرمنی ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: صدر صاحبہ لجنہ کو ہٹانے کے محرکات آج کے خطاب میں میں چاہتا ہوں کہ پہلے مختصراً آپ کو وہ وجہ بتاؤں کہ کیوں سابقہ صدر لجنہ اماءاللہ جرمنی کو ان کے عہدے سے سبکدوش کیا گیا تا کہ ان کے بارہ میں اگر کوئی غلط فہمیاں ہیں تو وہ دور ہو جائیں.اور جو باتیں آئندہ عہدہ داران کے علم میں آنی چاہئیں وہ خود مجھ سے سمجھ لیں اور وہ غلطی نہ کریں جو اس سے پہلے سرزد ہوئی ہے.جہاں تک صدر لجنہ سابقہ کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ انہوں نے بڑے اخلاص اور محنت کے ساتھ بہت لمبا عرصہ لجنہ اماءاللہ جرمنی کی خدمت کی ہے.تعلیم یافتہ بھی تھیں اور محنت بھی بہت کرتی تھیں نظم و ضبط کا بھی کسی حد تک سلیقہ تھا کچھ ضرورت سے زیادہ طبیعت خشکی کی طرف مائل تھی اس لئے اس پہلو سے لجنات کو شکایت ہوتی رہتی تھی لیکن جہاں تک ان کے اخلاص ان کی محنت کا تعلق ہے اس پر کوئی حرف نہیں اس لئے اگر خواتین میں کچھ اس قسم کی باتیں ہورہی ہوں کہ انہوں نے کوئی ایسا جرم کیا ہے جس کے نتیجہ میں ان کا ایمان ان کا اخلاص شک میں پڑ گیا ہے یہ بات درست نہیں ہے.اس خیال کو دل سے مٹادیں.میں بھی ان کا ممنون ہوں کہ ایک لمبے عرصے تک انہوں نے اپنی توفیق کے مطابق اپنی طاقت کے مطابق جہاں تک پیش گئی جماعت کی خدمت کی کوشش کی ہے اور آپ سب کو بھی ان کا ممنون ہونا چاہئے اور اس پہلو سے ان کو اعزاز کے ساتھ رخصت کرنا چاہئے لیکن میں نے جو ان کی علیحدگی کا فیصلہ کیا اس کے متعلق بھی آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ کیوں یہ فیصلہ کیا گیا تا کہ

Page 234

حضرت خلیفہ المسیح الرابع " کے مستورات سے خطابات ۲۳۰ خطاب ۳۱ را گست ۱۹۹۱ء آئندہ عہد یدارات ان باتوں سے پر ہیز کریں.تربیت کے لئے نرمی ضروری ہے ایک وجہ تو مختصر میں نے بیان کی ہے کہ طبیعت میں خشکی کا مادہ اس حد تک تھا جو تر بیت کی راہ میں مخل ہو جاتا ہے.تربیت کے لئے دل کی نرمی بھی اس طرح کی ہونی چاہئے کہ نظم وضبط کے ساتھ مل جُل کر اس میں رس پیدا کر دے اور جب انسان نظام جماعت کو نافذ کرے تو جن لوگوں پر وہ نظام نافذ ہوتا ہے ان کو یہ احساس نہ ہو کہ ایک خشک قسم کا نظام ہے جو ٹھونسا جار ہا ہے اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی تلخی سے تنقید کی جاتی ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ گویا جو کمزور ہے وہ گھٹیا ہے، بے حقیقت ہے، تھوڑی سی غلطی بھی سرزد ہوگئی ہو، بے احتیاطی ہوگئی ہو تو اس کو نظر سے گرا دیا جائے ، یہ طریق تربیت کا طریق نہیں ہے، تربیت کے لئے اپنے دل کو زخمی کرنا پڑتا ہے بجائے اس کے کہ دوسروں کے دلوں کو زخمی کیا جائے.اور جہاں تک ممکن ہو اس پہلو سے تربیت کرنی چاہئے اور اس کے لئے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ سے انداز سیکھنے چاہئیں.چنانچہ مختلف وقتوں میں مختلف شکلوں میں یہاں بھی اور اس کے علاوہ بھی میں نے اس پہلو پر روشنی ڈالی.میں نے بار ہا عہد یداران کو اور جماعت کو بالعموم یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ ان لوگوں کو جو ہدایت نہیں پاتے تھے جن کی تربیت میں نقص تھے نفرت اور حقارت اور خشک تنقید کی نظر سے نہیں دیکھا کرتے تھے بلکہ آپ کا دل اُن کے لئے زخمی ہو جایا کرتا تھا اور آپ اُن کا دکھ محسوس فرمایا کرتے تھے.جوشخص کسی کمزور کے لئے دکھ محسوس کرتا ہے اس کے نتیجہ میں اس کی تنقید میں بھی ایک رس پیدا ہو جاتا ہے.وہ تنقید جو دل کے گداز سے کی جائے اس کا اور رنگ ہوتا ہے اس کی اور تاثیر ہوا کرتی ہے اور وہ تنقید جو خشک ملا کی طرح کی جائے اثر صلى الله سے خالی ہوتی ہے جیسے کوئی درخت ایسا ہو جو پھل دار نہ رہے.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے اندر وہ زندگی کا رس تھا جو آنحضرت ﷺ کو آسمان سے بھی ودیعت کیا گیا اور آپ کے دل میں بھی وہ اس پھوٹا الله کرتا تھا.چنانچہ دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کو آپ کو اس بات سے پیار کے رنگ میں روکنا پڑا کہ اتنا تو غم نہ کیا کرو لوگوں کا کہ خود ہی ہلاک ہو جاؤ.کتنا عظیم الشان آنحضور ﷺ کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے فرماتا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِينَ (الشعراء: ۴) شاید تو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالے گا کہ وہ کیوں نہیں مومن ہوتے.کہ اے میرے بندے کیا تو اس غم میں اپنے آپ کو ہلاک کر لے گا یہ لوگ ہلاک ہو رہے ہیں اور تیری بات سن کر زندگی کا پانی نہیں پیتے اور آب حیات کے

Page 235

حضرت خلیفہ اسیح الرابع ” کے مستورات سے خطابات خلیفہ المسیح صلى الله ۲۳۱ خطاب ۳۱ راگست ۱۹۹۱ء گھونٹ نہیں بھرتے.وہ لوگ جو ہلاک ہور ہے ہیں اپنے ارادے سے اپنی غلطیوں سے تو ان کے غم میں کیوں اپنے آپ کو ہلاک کئے جاتا ہے.یہ کوئی ایسی تنقید نہیں ہے خدا کی طرف سے کہ جس کے متعلق یہ کہا جائے کہ نعوذ باللہ آنحضرت یہ غلطی کر رہے تھے اور خدا نے سمجھایا اور روک دیا.یہ ایک پیار اور محبت کے اظہار کا ایک حیرت انگیز طریق ہے جو فصاحت و بلاغت میں آسمان سے باتیں کر رہا ہے.یہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی تعریف ہے اور یہ پیغام دنیا کو دیا جارہا ہے کہ جو سب سے زیادہ پاک تھا ، جو سب سے زیادہ معصوم تھا، جو سب کا ئنات کا سردار بنایا گیا تھا اُس کا دل چھوٹوں کے لئے اور اُن لوگوں کے لئے بھی جو ہدایت سے دور بھاگتے ہیں، اتنا نرم ہے کہ اُن کے لئے وہ سخت غم محسوس کرتا ہے.نصیحت میں دل کے درد اور سوز کی اہمیت پس یہ مسئلہ ایسا ہے جو سب سے زیادہ عورت کو سمجھنا چاہئے کوئی مرد اگر نہ سمجھ سکے تو وہ معذور خیال کیا جا سکتا ہے لیکن عورت تو ماں ہوتی ہے.عورت سے بڑھ کر کون اس مسئلے کو سمجھ سکتا ہے کہ جب اُس کے بچے غلطی کرتے ہیں تو اس کی نصیحت میں خشکی اور سختی نہیں ہوا کرتی بلکہ دل کا در داور سوز شامل ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ماں کی نصیحت سے بڑھ کر اور کوئی نصیحت نہیں.یہی وجہ ہے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ ایک بددعا ہے اس سے ڈرو وہ ضرور قبول کی جائے گی وہ ماں کی دعا اپنی اولاد کے خلاف ہے.اس میں یہ حکمت کا راز ہمیں سمجھایا گیا کہ سوائے اس کے کہ کوئی ماں بے انتہا مجبور ہوگئی ہو بار بار مظالم کا نشانہ بنی ہو اس کے دل سے اپنی اولاد کے لئے بددعا پھوٹ ہی نہیں سکتی.اس لئے آنحضرت ﷺ نے یہ عظیم حکمت کی بات بتائی اور یہ حدیث قدسی ہے کیونکہ جو بات خدا کی طرف منسوب کر کے آپ فرمایا کرتے تھے اس کے متعلق یہ مسلمہ اصول ہے کہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہدایت کے تابع یہ بات کہا کرتے تھے.اپنی طرف سے کوئی اندازے لگا کر باتیں نہیں کیا کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو خود فر مایا کہ ماں کی بد دعا سے اولادکو ڈرنا چاہئے کیونکہ ماں اپنی اولاد کے لئے بد دعا کر ہی نہیں سکتی سوائے اس کے کہ بے حد مجبور ہو گئی ہو سخت تکلیف میں ہو.اس کے متعلق ایک مثال ایسی آتی ہے جو ہے تو فرضی لیکن اس مضمون کو واضح کرنے کے لئے بہت عمدہ مثال ہے اور اس سے پہلے بھی میں اپنے بعض خطابات میں بیان کر چکا ہوں.آپ میں سے بہت سے نئے ہیں اُن تک وہ بات نہیں پہنچی ہوگی اور مضمون سے اس کا اتنا گہرا تعلق ہے کہ میں سمجھتا ہوں اس کو دہرانے میں حرج کوئی نہیں.

Page 236

حضرت خلیفہ امسیح الرابع ” کے مستورات سے خطابات ۲۳۲ خطاب ۳۱ را گست ۱۹۹۱ء تربیت کی سچی روح کہتے ہیں ایک بیٹا اتنا ظالم تھا کہ اپنی ماں سے مسلسل بے اعتنائی برتتا رہا اور اُس کی بیوی بد نصیب ایسی تھی جو اس کے ذریعے اپنی ساس پر ظلم کروایا کرتی تھی.یہ سلسلہ اتنابڑھ گیا کہ اس بیوی کی پیاس بجھنے کی بجائے اور بھڑکتی رہی اور اس کی ماں کو اس گھر میں دیکھنا بھی اس کو پسند نہیں تھا.یہاں تک کہ ایک دن اس نے کہا کہ میرے خاوند اگر تجھے واقعی مجھ سے پیار ہے تو اپنی ماں کا سرتھال میں سجا کر لاؤ تب میں تمہارے ساتھ رہوں گی ورنہ میرا تم سے کوئی رشتہ نہیں ، اس بدبخت نے ایسا ہی کیا.کہتے ہیں جب وہ تھال پر اپنی ماں کا سرلگا کر بیوی کی طرف آرہا تھا تو رستے میں ٹھو کر گی اور وہ سر زمین پر جا پڑ اوہ لڑکا خود بھی زمین پر گرا تو ماں کے کٹے ہوئے سر میں سے آواز آئی بیٹا تجھے چوٹ تو نہیں لگی تمہیں کوئی تکلیف تو نہیں پہنچی ؟ کسی نے یہ مثال بنائی ہے، کہانی ہے، اس میں حقیقت تو نہیں لیکن اس کہانی کے اندر جو روح ہے وہ زندہ روح ہے اور وہ سچی روح ہے مائیں ایسی ہی ہوا کرتی ہیں اور آنحضرت ﷺ کے متعلق ماؤں نے گواہی دی کہ خدا کی قسم ماؤں سے بڑھ کر وہ ہم سے پیار کیا کرتے تھے، بیٹوں نے گواہی دی کہ خدا کی قسم ماؤں سے بڑھ کر وہ ہم سے پیار کیا کرتے تھے ، تمام صحابہ اس بات پر گواہ ٹھہرے اور یہی وجہ ہے کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ سے آپ کے غلاموں کو ایسا عشق تھا کہ دنیا میں کبھی آسمان کی آنکھ نے ایسا عشق کسی اور کے لئے نہیں دیکھا.فدا ہو جاتے تھے نظریں پڑتی تھیں تو سیراب ہوا کرتی تھیں.رحمۃ للعالمین کا خُلق عظیم آپ ہی کے متعلق جنگ اُحد کا یہ واقعہ بیان ہوا ہے کہ ایک ایسی عورت تھی جس کا باپ بھی وہاں شہید ہوا، جس کے بھائی بھی شہید ہوئے ، جس کے بیٹے بھی شہید ہوئے جب اس کو یہ خبر پہنچی کہ آنحضرت ﷺ بھی شہید ہو گئے ہیں تو اتنا دکھ ہوا کہ بے اختیار میدان جہاد کی طرف دوڑی اور رستے میں جو اس سے ملتا تھا اس سے پوچھتی تھیں کہ بتاؤ محمد مصطفی علیہ کا کیا حال ہے.ایک روایت کرنے والا بتا تا ہے کہ ایک موقع پر جب وہ میدان جہاد کے قریب پہنچی گئی ایک صحابی سے اس نے پوچھا ان کو علم تھا کہ اس کا باپ شہید ہو گیا ہے اس نے جوابا کہا کہ بی بی تمہارے والد شہید ہو گئے ہیں یا والد کی بجائے خاوند کا ذکر ہوگا تفصیل مجھے اس وقت یاد نہیں لیکن تین رشتوں کے متعلق قطعی بات ہے کہ تین

Page 237

حضرت خلیفہ المسح الرابع ” کے مستورات سے خطابات ۲۳۳ خطاب ۳۱ را گست ۱۹۹۱ء بے حد قریب کے رشتے ایسے تھے جن کو شہادت نصیب ہوئی تھی.اگر خاوند تھا تو اس نے یہ کہا کہ بی بی تمہارے خاوند شہید ہو گئے ہیں.اس نے پلٹ کر کہا میں نے خاوند کا کب پوچھا ہے میں تو محمد مصطفیٰ کی بات کر رہی ہوں ان کو تو گزند نہیں پہنچا؟ اس نے سمجھا کہ شاید خاوند کے ساتھ بعض بیویوں کے ایسے تعلق نہیں ہوا کرتے اس لئے اس کو پرواہ نہیں ہے.اس نے کہا بی بی تمہارے بھائی بھی شہید ہو گئے ہیں.اس نے کہا میں بھائیوں کا کب پوچھتی ہوں.مجھے تو میرے آقا محمد کی خبر دو.اس نے سمجھا کہ شاید بھائیوں سے پیار نہیں تھا اور چونکہ وہ نرمی سے آہستہ آہستہ سب سے بڑی تکلیف کی خبر اُسے پہنچانا چاہتا تھا اس کے بعد کہا بی بی میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تمہارے بیٹے بھی شہید ہو گئے ہیں.اس نے پھر پلٹ کر کہا میں بیٹوں کا کب پوچھتی ہوں مجھے میرے آقا محمد رسول اللہ کی خبر دو وہ خیریت سے صلى الله ہیں کہ نہیں؟ اتنے میں حضرت رسول اللہ ﷺ اپنے عاشقوں کے جھرمٹ میں اُن کے سہارے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اُس کی طرف آرہے تھے تو اس جواب دینے والے کی نظر آپ پر پڑی اور اُس نے اشارہ کر دیا کہ وہ ہیں محمد رسول اللہ ﷺ زندہ سلامت موجود ہیں.یہ سن کر وہ بے اختیار چیخ اٹھی ٹل مُصِيبَة بَعْدَكَ جَلَلُ.اے میرے محبوب تو زندہ ہے تو سلامت ہے تو تیرے بعد کوئی مصیبت باقی نہیں رہی.ہر مصیبت ہر مشکل حل ہوگئی ہے تو سب سے زیادہ پیار کرنے والا بھائی تھا، تو سب سے زیادہ پیار کرنے والا سر کا سایہ تھا تو سب سے زیادہ پیار کرنے والا بچہ تھا، جو پیار ہر طرف سے کسی عورت کو نصیب ہو سکتے ہیں مجھے تجھ سے نصیب تھے.تجھ سے نصیب رہیں گے.یہ کیسے معجزہ ہوا؟ تاریخ عالم کا مطالعہ کر کے دیکھیں کبھی اس جیسا کوئی واقعہ اس آسمان کے نیچے رونما نہیں ہوا.یہ تنہا واقعہ ہے اس شان کا واقعہ ہے کہ اس شان کے نہ سورج ہیں اور نہ چاند ستارے ہیں.اپنی مثال آپ ہے یہ صرف اور صرف حضرت محمد رسول اللہ اللہ کے دل کی رحمت اور آپ کے عظیم اخلاق کا نتیجہ تھا کہ یہ بات ہوئی اور قرآن کریم نے اس مضمون کو یوں بیان کیا ہے کہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی آپ کے سامنے آیت رکھی ہے فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى الا يكونوا مؤمنين - قرآن كريم نے اس مضمون کو یوں بیان کیا ہے کہ اور ایک دوسری جگہ فرمایا.فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَى أَثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا ( سورة الكهف:۷ ) کہ اے محمد ! تو کیا اُن لوگوں کے غم میں ہلاک ہورہا ہے جو تیری باتیں سنتے ہیں اور پھر ایمان نہیں لاتے اور ہلاکت کی طرف چلے جارہے ہیں.

Page 238

حضرت خلیفہ المسیح الرابع " کے مستورات سے خطابات ۲۳۴ خطاب ۳۱ را گست ۱۹۹۱ء ناصح کے بنیادی اوصاف پس ناصح کے لئے جو سب سے اہم جذبہ ہے وہ محبت اور پیار کا جذبہ ہے وہ ان لوگوں کے لئے دکھ محسوس کرے جو نیک نصیحت کو سن کر اس پر عمل نہیں کرتے آنحضرت ﷺ نے بعض دفعہ سزائیں بھی دیں اور بڑی سخت سزائیں دیں اور وہ اتنی لمبی ہو گئیں کہ حیرت ہوتی تھی کہ حضرت محمد رسول اللہ اللہ جیسا شفیق اور نرم دل انسان اتنے لمبے عرصہ تک سزا کیسے دے سکتا ہے مگر چونکہ آپ کسی عورت کی طرح نرم دل نہیں تھے بلکہ ایک ایسے بااختیار مرد کی طرح نرم دل تھے جسے اپنے جذبات پر پورا قابو حاصل تھا جس کا دماغ اور دل باہم متوازن تھے.دل کو دماغ پر غلبہ نہیں تھا اور دماغ کو دل پر غلبہ نہیں تھا دونوں پہلو بہ پہلو ایک توازن کے ساتھ جاری وساری تھے اس لئے جہاں اصولی طور پر آپ نے فیصلے فرمائے وہاں اُن پر سختی سے قائم ہوئے یہاں تک کہ بعض دفعہ جب تک خدا کی طرف سے وحی نازل نہیں ہوئی کہ اب بہت کچھ ہو چکا اب ان کو معاف کر دو اس وقت تک آپ نے معاف نہیں کیا لیکن اس عرصہ میں بھی ان کے لئے دیکھ ہی محسوس کرتے رہے.اُن کو جب دیکھا رحم اور درد کی نظر سے دیکھا.اس لئے یہ وہ بنیادی صفات ہیں جو عہدیداران میں میں دیکھنا چاہتا ہوں اور اس پہلو سے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے.مجھ پر کئی سال سے یہی تاثر چلا آ رہا ہے ہوسکتا ہے میں غلط ہوں اگر میں غلط ہوں تو خدا مجھے معاف فرمائے لیکن مجھ پر یہ تاثر تھا کہ آپ کی سابقہ صدر بہت محنت کرنے والی ، بے حد خلوص سے خدمت کرنے والی ، قربانی کرنے والی فطری جذبے سے عاری تھیں جو نصیحت کی کامیابی کے لئے ضروری ہے جس کے بغیر دلوں پر گہرا اثر نہیں پڑتا.یہاں تک تو قابل برداشت تھا لیکن امسال شوری میں ایک ایسی حرکت ان سے سرزد ہوئی جس کے نتیجہ میں فتنہ پیدا ہوا.کئی اور لوگ بھی اپنے کئے کی سزا پاگئے لیکن بہانہ وہ بنا جو بات انہوں نے کہی.دو باتیں ایسی تھیں جو نظام جماعت کے خلاف ، شوری کی روایات کے خلاف اور ہرگز زیب نہیں دیتا تھا کہ صدر لجنہ اس اجلاس میں ایسی باتیں کرے.جماعت احمدیہ پر نا پاک فتویٰ ایک تو انہوں نے یہ کہا جماعت کے اوپر تبصرہ کرتے ہوئے کہ ہم باتیں تو کرتے ہیں عمل کوئی نہیں کرتے یہ ہم لوگوں کا حال ہے اور ساتھ اقبال کا یہ شعر پڑھا

Page 239

حضرت خلیفہ المسح الرابع ” کے مستورات سے خطابات ۲۳۵ خطاب ۳۱ را گست ۱۹۹۱ء مسجد تو بنادی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے من اپنا پرانا پاپی تھا برسوں میں نمازی بن نہ سکا عجیب حالت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت ہے جس کی قربانیاں بے مثال ہیں بعض کمزوریاں ہیں لیکن اس کے باوجود مسلسل اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے دن رات کوشاں ہے اور ہم سب مل کر اس جدو جہد میں شامل ہیں اُن کے اوپر ایسانا پاک فتویٰ بڑے ظلم کی بات ہے.مسجد تو بنادی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے من اپنا پرانا پاپی تھا برسوں میں نمازی بن نہ سکا بڑے ظلم کی بات ہے.اس پر اگر مربی کو تکلیف پہنچی تو جائز بھی.تمام مجلس شوری میں شامل خواتین کو بھی تکلیف پہنچنی چاہئے تھی ، مردوں کو بھی تکلیف پہنچنی چاہئے تھی لیکن افسوس ہے کہ مربی نے اپنے حق کو جیسا کہ فرض تھا ادا نہیں کیا اس وقت ادب کے ساتھ اُٹھ کر امیر صاحب کو متوجہ کرتا کہ سلسلہ کی روایات کے خلاف جب نا پسندیدہ بات کہی جائے تو فورا سمجھا دینا چاہئے.آپ شاید روایات سے واقف نہ ہوں یا آپ کو سمجھ نہ آئی ہو اُردو میں بات ہو رہی ہے.میں عرض کرتا ہوں کہ یہ انہوں نے کہا ہے اور یہ جماعت کی غیرت کے خلاف ہے کہ اس قسم کی باتیں ہماری مجالس میں کی جائیں.یہ کہنے کی بجائے بات کو وہیں ختم کر دیتے اور بعد میں میرے سامنے یہ مسئلہ پیش کیا جا سکتا تھا کہ اس کا کیا کیا جائے.انہوں نے بعض ایسے رنگ میں تنقید کی جس کا میں نے مختصر اذکر خطبہ جمعہ میں بھی کیا تھا جس سے آپ کو سمجھ آگئی ہو گی کہ ان کا رد عمل خود اپنی ذات میں ناجائز تھا.مربی کی نصیحت کا غلط طریق کار مثلاً ایک بات انہوں نے بار بار کہی جو میں نے خطبے میں پہلے بیان نہیں کی وہ یہ تھی جس پر خاص طور پر صدر مجلس لجنہ اماءاللہ کو غیر معمولی تکلیف پہنچی وہ یہ تھی کہ انہوں نے بار بار یہ کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک صحابی سے میں نے یہ روایت سنی اور کئی دفعہ سنی کہ حضور فرمایا کرتے تھے کہ گر حفظ مراتب نہ کئی زندیقی.اگر تم حفظ مراتب نہیں کرو گے، مراتب کا خیال نہیں کرو گے، ادب سے کام نہیں لو گے تو تم زندیق ہو جاؤ گے زندیق کا ترجمہ صرف کافر نہیں بلکہ بہت ہی سخت لفظ ہے.زندیق کا فر قرار دینے والے کے لئے اس سے بھی بڑھ کر گالی ہے اور اس بات کو وہاں کہتے رہے

Page 240

حضرت خلیفہ المسیح الرابع " کے مستورات سے خطابات ۲۳۶ خطاب ۳۱ راگست ۱۹۹۱ء اور یہ بھول گئے کہ وہ خود امیر کا ادب نہیں کر رہے اور امیر کی اجازت کے بغیر یہ حرکت کر رہے ہیں اور خلافت کے احترام کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یہ تقریر کر رہے ہیں.اُن کا یہ کام نہیں تھا اس قسم کے لفظ بولتے ان کا فرض تھا ادب سے امیر کو توجہ دلاتے اور بعد میں جو واقعہ رونما ہوا مجلس عاملہ میں وہ سراسر اُس نصیحت کے بالکل برعکس تھا جو وہ خود صدر لجنہ کو کر رہے تھے.تو اس لئے وہ خود بھی ایک غلط طریقہ کا راختیار کرنے کے نتیجہ میں مور دسزا ٹھہرے اور یہ ہونا چاہئے تھا کیونکہ ایک نائب امیر اور پھر اتنا پرانا تربیت یافتہ مربی ہو اس کو ہرگز یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اس قسم کی حرکت کرے لیکن صدر لجنہ ہو اور اس قسم کی باتیں وہاں مجلس شوریٰ میں کر رہی ہو جس کے متعلق اس کو اختیار نہیں جس کے متعلق عجز کے انکسار کا تقاضا تھا کہ ایسی تلخ زبان میں مخلصین جماعت کے دلوں کو مجروح نہ کرے انہوں نے کام لیا.تو اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ ان کا مجھ پر جو اثر چلا آرہا تھا وہ درست تھا.جو کھلم کھلا مجلس شوریٰ میں ایسی باتیں کر سکتا ہے وہ اپنے ماحول میں، اپنے محلوں میں جاتے ہوئے پتہ نہیں کیا کیا با تیں تلخ کہہ دیتا ہوگا اور کس کس طرح بیچاری احمدی بچیوں کے دل مجروح ہوتے ہوں گے.ان میں غلطیاں ضرور ہوں گی ، ماؤں میں بھی غلطیاں ہوگی لیکن کہنے کے انداز میں فرق ہوا کرتا ہے اگر کوئی اس طرح بات کرے کہ محسوس ہو کہ اس کا دل دکھ گیا ہے اور پیار اور محبت سے نصیحت کرے اُس پر اور اثر ہوتا ہے اور کوئی اس طرح جس طرح کہ تنقید کی گئی تنقید کرے اگر بات سچی بھی ہو تو انسان اس کو قبول نہیں کرتا.خدا کے رستوں کے فقیر بارہا میں نے سمجھانے کی کوشش کی ہے پتہ نہیں کیوں کون سی میں زبان بولتا ہوں جو آپ کو سمجھ میں نہیں آتی یا بعضوں کو آتی ہے اور بہت سے سمجھے بغیر رہ جاتے ہیں کہ نصیحت کرنی ہو تو درد اور دکھ سے کیا کریں اور سلیقے سے کیا کریں.بات اس رنگ میں کرنی چاہئے کہ دل سے نکلے اور دل پر اثر انداز ہو اور وہی بات اثر انداز ہوا کرتی ہے جو دل سے نکلتی ہے.دماغ سے نکلی ہوئی باتیں اثر انداز نہیں ہوا کرتیں.دماغ پر تو اثر کر لیتی ہیں دل پر نہیں کرتیں اور تربیت کا تعلق دل کی باتوں سے ہے.دماغ مسائل سمجھاتا ہے مگر دلوں کو محبتیں بدلا کرتی ہیں، دلوں کو پیار تبدیل کیا کرتے ہیں ورنہ خشک مسائل تو مولویوں کو بھی سب معلوم ہیں.ان کے دل کیوں پتھر ہو گئے اور کیوں وہ اس بات کے نا اہل ہو گئے کہ قوم کی تربیت کر سکیں اس لئے کے دل کے معاملات اور ہیں دماغ کے اور ہیں.محبت عشق وفا اور خلوص اور

Page 241

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۳۷ خطاب ۳۱ راگست ۱۹۹۱ء قربانی اور اپنے آپ کے اندر ایک حیرت انگیز انقلابی تبدیلی پیدا کر لینا یہ سارے دل کے معاملات ہیں اس لئے صاحب دل کو تربیت کرنی چاہئے اور اعلیٰ اخلاق کے ساتھ اچھے انداز سے بات کرنی چاہئے.اگر کوئی بات رد کر دیتا ہے، اگر آگے سے کوئی طعنہ آمیزی سے کام لیتا ہے تو اس کے لئے بھی طرز عمل یہ ہونا چاہئے کہ انسان اس کا دکھ محسوس کرے اور دعا دیتے ہوئے واپس آجائے.جیسے بعض فقیر بڑے اچھے لگا کرتے تھے اُن کی عادت ہوا کرتی تھی پرانے زمانے میں قادیان میں مجھے یاد ہے بچپن میں بعض فقیروں کو دیکھا کرتا تھا میرے دل میں اُن کے لئے بڑا پیار پیدا ہوتا کسی گھر نے اُن کو دھتکار دیا کہا جاؤ بھاگ جاؤ روٹی نہیں تو کہتے اچھا اللہ تیرا بھلا کرے جو تھا ٹھیک ہے.تربیت کی راہ میں تو خدا کے رستوں کا ایسا فقیر بنا پڑتا ہے کہ ختی کا کلام بھی کوئی کرتا ہے جواب میں بات سننے کی بجائے شکریہ ادا کرنے کی بجائے ، طعنے دینے شروع کر دیتا ہے تو سر جھکا کے کہیں اچھا اللہ تیرا بھلا کرے.ہم نے تو دل کے درد کے ساتھ ہمدردی سے نصیحت کی تھی توفیق ملتی ہے تو کرو نہیں ملتی تو ہم اپنا رستہ لیتے ہیں.بات کہنے کا سلیقہ اب بات کہنے کا طریقہ ہوتا ہے.ایک ہی بات مختلف انداز میں کی جائے تو دیکھیں کتنا غلط اثر پڑ جاتا ہے.میں نے کئی دفعہ سمجھایا ہے، ایک مثال بار بار دی ہے اور اس کے باوجود دلوں میں نہیں بیٹھتی.میں نے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اگر آپ بھو کی بھی ہوں سخت تکلیف میں ہوں اور کوئی شخص آپ کو کہے یہ کھانا ہے زہر مار کر نہیں تو دفع ہو جاؤ تو آپ کہیں گی کہ ہاں میں دفع ہو جاتی ہوں مگر میں اس بد بخت کھانے کو نہیں کھاؤں گی جس کے ساتھ بے عزتی کی جارہی ہے جس کے ساتھ سختی کی جارہی ہے.با غیرت عورتیں اس موقع پر اُٹھ کر چلی آئیں کہیں گی جاؤ تم اور تمہارا کھانا جہنم میں مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے.اور اگر کھانا کھایا بھی ہو اور پیٹ بھرا ہو اور کوئی لجاجت کے ساتھ پیار کے ساتھ بار بار کہتا ہے ذرا چکھ تو لو کچھ میری خاطر تو انسان کا دل نرم پڑ جاتا ہے انسان کہتا ہے اچھا کوئی بات نہیں میں چکھ ہی لیتا ہوں.بعض دفعہ میری بچیاں جب ڈائٹنگ کرتی ہیں تو مجھے یہی کرنا پڑتا ہے اس قسم کی ڈائٹنگ کا میں بڑا سخت خلاف ہوں کیونکہ رنگ پیلا ہو جاتا ہے ہڈیوں کا رس چوسا جا رہا ہے اور سمارٹ بننے کے شوق میں کھانے بند ہوئے ہیں.تو میں پھر اُن کی منت سماجت کرتا ہوں کہ میں نے کھایا ہے بہت اچھی چیز ہے ذرا چکھ لو تو وہ

Page 242

حضرت خلیفہ المسح الرابع ” کے مستورات سے خطابات ۲۳۸ خطاب ۳۱ راگست ۱۹۹۱ء کہتی ہیں ابا نہیں ، بالکل بھوک نہیں ہے.میں کہتا ہوں یہ تو جھوٹ ہے کہ بھوک نہیں تم نے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ نہیں کھانا مگر چلو میری خاطر آخر بڑے نخروں کے بعد وہ مان جاتی ہیں کہ اچھا آپ کی خاطر تھوڑا سا چکھا دیں.وہ تھوڑا سا چکھتیں ہیں پھر اُن کو مزا آتا ہے تو پھر میں ان کو تھوڑا سا اور چکھا دیتا ہوں.تو نصیحت میں بھی یہی طریق ہے کوئی الگ طریق نہیں ہے.انسانی فطرت تو وہی ہے جو باپ بیٹی کے تعلقات میں ہے، وہی ماں بیٹیوں کے تعلقات میں ہے، وہی ایک صدر کی اپنی لجنات کے تعلقات میں ہے.فطرت انسانی تو نہیں بدلا کرتی اس طریق سے آپ نصیحت کر کے دیکھیں پھر دیکھیں کہ کیسی کیسی پاکیزہ اور عظیم الشان تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں.مردوں پر تبصرے کر نالجنہ کا کام نہیں دوسری بات جو انہوں نے کہی جس سے مجھے بطور خاص تکلیف ہوئی وہ یہ تھی کہ اُٹھ کر مردوں پر تبصرے شروع کر دئے کہ ہم کیا کریں ہم کس طرح کامیاب ہو سکتی ہیں لجنات جبکہ مرد ہم سے تعاون نہیں کرتے.اب مجلس شوری میں یہ بات بڑی بے ہودہ لگتی ہے، بے تعلق ہے، بے جا ہے اور پھر یہ ایسی بات تھی جو خود مجھ سے وہ کہہ چکی تھیں.انہوں نے اپنی ایک مجلس کی میٹنگ میں مجھ سے کہی اور میں نے اس بات پر نا پسندیدگی کا اظہار کیا اُن کو سمجھایا کہ بی بی اس طرح نہیں کرنا.اگر کوئی مرد تعاون نہیں کرتا تو آپ کیا کر سکتی ہیں.آپ نے اپنا فرض ادا کیا اب اس بات کو چھوڑ دیں....اللہ تعالیٰ نے آنحضرت عے کو بھی یہی فرمایا ہے کہ تو نصیحت کر تیرا کام نصیحت کرنا ہے.کوئی نہیں سنتا تو اس کا نقصان ہے.آگے بڑھ بڑھ کر اس کے خلاف باتیں کرنا کہ اس کا خاوند تعاون نہیں کرتا ، اس کا بھائی تعاون نہیں کرتا ، اس کا بیٹا تعاون نہیں کرتا، یہ لجنہ کا کام ہی نہیں ہے نہ نصیحت کرنے والے کو ویسے زیب دیتا ہے.سب کچھ سمجھا چکا تھا اس کے باوجود اس دن شوری میں اٹھ کر یہی بات اُسی تلخی کے ساتھ دہرائی.میں ساری Cassetes کی ریکارڈنگ سن چکا ہوں اب وہ لکھتی ہیں کہ میرا قصور تو بتایا جائے کہ میرا قصور کیا تھا.تو جس حد تک اُن کا قصور ہے میں آپ کو بتادیتا ہوں اس میں وہ معذور ہیں.اس قصور میں ان کا قصور کوئی نہیں.ان معنوں میں کہ اُن کو میری باتیں سمجھ ہی نہیں آئیں.بار بار سمجھانے کی کوشش کی پتہ ہی نہیں کہ تربیت ہوتی کیا ہے.خدمت جتنی چاہیں کریں قربانی جتنی چاہیں دیں، جب اس کو پھل ہی نہیں لگنے تو ہم کیسے اس صدر کو رکھ سکتے ہیں.

Page 243

حضرت خلیفہ المسح الرابع ” کے مستورات سے خطابات ۲۳۹ خطاب ۳۱ راگست ۱۹۹۱ء یہ جو دو واقعات ہوئے ہیں اس کے بعد میں نے فوری قطعی فیصلہ کیا کہ آئندہ یہ صدر لجنہ نہیں رہیں گی اور جب تک ان کے اندران دو پہلوؤں سے نمایاں تبدیلی پیدا نہیں ہوتی اول یہ کہ نصیحت میں اپنے آپ کو مجروح کریں دوسروں کو نہ کریں.دوسرے یہ کہ خدا کی خاطر اس مقام پر بات کرنے سے رک جائیں جہاں ان کو دخل نہیں ہے وہاں معاملہ خدا اور خدا کے دین پر چھوڑ دیں.اور ایسی جگہوں میں دخل اندازی سے گریز کریں جہاں خدا ان کو اجازت نہیں دیتا.قوموں کے بنے اور بگڑنے کے اسباب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس میں نے اس موقع کے لئے رکھا ہوا تھا جو میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.لوگ کہتے ہیں کہ ایک بات ہی تو کی تھی اس بات سے کیا ہو گیا.یہ غلط بات ہے بات ہی سے تو سب کچھ ہوتا ہے.بات ہی سے قو میں بنا کرتی ہیں اور بات ہی سے قومیں بگڑ جایا کرتی ہیں.بات ہی سے لوگوں کے مقدر روشن ہو جاتے اور بات ہی سے لوگوں کے مقدر ڈوب جاتے ہیں اور تاریک ہو جایا کرتے ہیں.آنحضرت ﷺ نے بھی اس بارے میں بہت دفعہ متنبہ فرمایا کہ زبان کے متعلق ہوشیار رہوا ایک چھوٹا سا جسم کا لوتھڑا ہے لیکن اس سے تمہاری تقدیر بن بھی سکتی ہے اور بگڑ بھی سکتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: " سچے تقویٰ کے بغیر کوئی راحت اور خوشی مل ہی نہیں سکتی تو معلوم کرنا چاہئے کہ تقویٰ کے بہت سے شعبے ہیں“ ( ملفوظات جلد اوّل: ۲۸۰) یعنی جب ہم تقوی کی بات کرتے ہیں تو یہ مطلب نہیں کہ تقویٰ ایک ہی چیز ہے ایک ہی لفظ کا نام ہے ایک ہی مضمون کا نام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں تقویٰ کی شاخیں تو بہت پھیلی پڑی ہیں.انسانی زندگی کے مختلف شعبوں پر تقویٰ کے شعبے حکمران ہوتے ہیں.کچھ لوگ اس حکمرانی کو قبول کرتے ہیں کچھ اس حکمرانی کو رد کر دیتے ہیں.دیکھیں کس حیرت انگیز گہری حکمت کے ساتھ آپ علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ہوئے ہیں تقویٰ کے بہت سے شعبے ہیں جو عنکبوت کے تاروں کی طرح پھیلے ( ملفوظات جلد اوّل صفحه ۲۸۰) جیسے مکڑی کا جال پھیلا ہوا ہوتا ہے اس کے تار پھیلے ہوئے ہوتے ہیں.آپ نے وہ مثال دی

Page 244

حضرت خلیفہ امسیح الرابع " کے مستورات سے خطابات ۲۴۰ خطاب ۳۱ راگست ۱۹۹۱ء اس مثال میں فی ذاتہ ایک بہت عجیب حسن ہے مکڑی کے جالے کے تاراس کثرت سے ہر طرف پھیلے ہوتے ہیں کہ یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ پتہ کریں کدھر سے نکلا اور کہاں چلا گیا اور پھر باریک ہوتے ہیں ایسے باریک کہ بعض جانوروں کو بعض کیڑے مکوڑوں کو دکھائی بھی نہیں دیتے وہ اس میں پھنستے چلے جاتے ہیں.جس انسان کی بصیرت کمزور ہو وہ باریک جال دیکھ نہیں سکتا اور اس کو پتہ نہیں لگتا کہ تقویٰ کے جال کہاں کہاں پھیلے ہوئے ہیں کہاں تک پہنچے ہوئے ہیں اور جس کی نظر روشن ہو اس کو پتہ لگ جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے نور بصیرت عطا فرمایا تھا چنانچہ آپ نے مثال بھی بہت عمدہ دی کہ جو عنکبوت کے تاروں کی طرح پھیلے ہوئے ہیں.فرمایا کہ تقویٰ تمام جوارح انسانی اور عقائد زبان، اخلاق وغیرہ سے متعلق ہے“ فرمایا کہ تقویٰ کا تعلق انسانی جسم کے ہر عضو سے، انسانی جسم کے ہر حصے سے، ہر خلئے سے ہے اور ہرعقائد سے بھی ہے، زبان سے بھی ہے اور اخلاق سے بھی ہے.66 نازک ترین معاملہ زبان سے ہے.یہ نہیں فرمایا کہ عقائد کا معاملہ سب سے نازک ہے.یہ نہیں فرمایا کہ اعضائے بدن کا معاملہ سب سے نازک ہے یہ فرمایا کہ زبان کا جہاں تک تعلق ہے تقویٰ کا تعلق زبان سے سب سے زیادہ نازک تعلق ہے اور اس کے متعلق میں تمہیں متنبہ کرتا ہوں.” بسا اوقات تقویٰ کو دور کر کے ایک بات کہتا ہے اور دل میں خوش ہو جاتا ہے کہ میں نے یوں کہا اور ایسا کہا ( ملفوظات جلد اول صفحه ۲۸۰) یہ جو بات ہے یہ تو مردوں پر بھی چسپاں ہوتی ہے، عورتوں پر بھی چسپاں ہوتی ہے مگر اگر میرا اندازہ درست ہے اور اس بارہ میں اگر آپ مجھے معاف فرما ئیں تو میں یہ کہوں گا کہ عورتوں کے مزاج میں یہ بات زیادہ داخل ہے وہ کوئی بات آگے سے کہتی ہیں تو ٹکا کر اس کو جواب دے کر گھر آتی ہیں اور کہتی ہیں اس نے یہ بد کہا تھا میں نے آگے کہہ دیا اس کو اب وہ بیٹھی ہوئی جلتی رہے گی.میں نے بھی نہیں چھوڑ اوہ کیا بجھتی ہے وہ کیا بات ہے میں تو اس سے بھی زیادہ سخت ہوں.اور بعض پرانے زمانوں میں عورتیں اس بات پر فخر کیا کرتی تھیں کہ ہم سے زیادہ کپنی کوئی نہیں وہ کپتی ہوگی اپنے گھر پر، مجھ سے زیادہ میرے جیسی کپشتی کہاں ہوگئی.یہ بد بختی ہے ہمارے معاشرے کی جن معاشروں میں یہ بدبختی نہیں وہ خوش نصیب ہیں.ہر جگہ کی عورت ایک جیسی نہیں ہے کیونکہ فطرت کے لحاظ سے تو ایک ہے لیکن عادتوں کے لحاظ سے مختلف ہے.لیکن جہاں تک ہندوستان اور پاکستان کے معاشرے کا تعلق ہے میرا

Page 245

حضرت خلیفہ المسح الرابع ” کے مستورات سے خطابات ۲۴۱ خطاب ۳۱ راگست ۱۹۹۱ء بچپن ہی سے یہ تاثر ہے کہ اس معاملہ میں عورتیں مردوں کو پیچھے چھوڑ جاتی ہیں.مرد غصے سے صاف بات کھلی کھلی کر کے آجاتا ہے بسا اوقات یہ بھول بھی جاتا ہے بتاتا بھی نہیں لیکن کسی عورت نے اگر ڈ کا کر جواب دیا ہو تو گھر آکر ضرور بتاتی ہے اور بڑے فخر سے بتاتی ہے کہ ایسا مزہ آیا.دیکھیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر اس کے دل تک بھی پہنچی ہے ، اس کے دل کے پاتال بھی پہنچی ہے.فرماتے ہیں ”بسا اوقات تقویٰ کو دور کر کے اس وقت خدا کا خوف نہیں ہوتا ،اس وقت خدا کی محبت کی طلب نہیں ہوتی ، یہ خیال نہیں ہوتا کہ اس بات سے خدا خوش ہوگا یا ناراض ہو گا.وہ ایک تلخ بات جواباً کہہ دیتا ہے کوئی اور انسان دل میں خوش ہو جاتا ہے کہ میں نے یوں کہا اور ایسا کہا.حالانکہ وہ بات بُری ہوتی ہے ( اور اس بات کو کہنے سے سننے والا برا بنے یا نہ بنے وہ خود برا بن جاتا ہے.مجھے اس پر ایک نقل یاد آئی ہے کہ ایک بزرگ کی کسی دنیا دار نے دعوت کی جب وہ بزرگ کھانا کھانے کے لئے تشریف لے گئے تو اس متکبر دنیا دار نے اپنے نوکر کو کہا کہ فلاں تھال لانا ( یعنی فلاں مجمع میں کھانا لگا کر لاؤ ) جو ہم پہلے حج میں لائے تھے اور پھر کہا دوسرا تھال بھی لانا جو ہم دوسرے حج میں لائے تھے اور پھر کہا تیسرے حج والا بھی لیتے آنا.اس بزرگ نے فرمایا کہ تو بہت ہی قابل رحم ہے ان تین فقروں میں تو نے اپنے تین ہی تجوں کا ستیا ناس کر دیا.اب حج تو ایک بڑا المسافعل تھا ، اتنی لمبی اس میں اس کو محنت کرنی پڑی ،سفر کی صعوبت اخراجات، گرمیاں تھیں تو شدید تکلیف میں اس نے حج ادا کئے اور پھر وہاں بہت سے ارکان حج ادا کئے کتنا بڑا وزن ہے اس بات کا.وہ ایک بات کہ وہ تھال لانا جو پہلے حج سے ہم لے کر آئے تھے.وہ بات ان سب باتوں کے وزن پر غالب آگئی اور آنا فانا اس نے نیکی کے سب اثر کو ہلاک کر دیا.( ملفوظات جلد اوّل صفحه ۲۸۰) دل سے نکلنے والی بات اثر رکھتی ہے تو کون کہتا ہے کہ بات سے فرق نہیں پڑتا.بات ہی سے تو سارے فرق پڑتے ہیں کیونکہ بات سے دل کی اندرونی گہری نیکی کا تعلق ہوتا ہے یا اندرونی گہری بدی کا تعلق ہوتا ہے ایسے مزاج کا تعلق ہوتا ہے جو لمبے عرصہ کی بداعمالیوں سے وجود میں آتا ہے یا لمبے عرصہ کی نیکیوں سے وجود میں آتا ہے.اس کے نتیجہ میں باتوں کے انداز بدل جاتے ہیں.بعض لوگوں کی باتیں جتنی مرضی لفاظی کریں ، لپائی کریں، ہزار تقریریں کریں اثر سے خالی رہتی ہیں اور گھن آتی ہے.ایسے لوگوں کی مجلس.

Page 246

حضرت خلیفہ المسیح الرابع " کے مستورات سے خطابات ۲۴۲ خطاب ۳۱ راگست ۱۹۹۱ء میں زیادہ دیر بیٹھ کر انسان گھبرا جاتا ہے کیا فضول باتیں کرنے والا ہے.اپنے دکھاوے کی باتیں، دنیا داری کی باتیں، اپنے تعلقات کی باتیں بنی نوع انسان کی ہمدردی کی کوئی چیز نہیں ہے کوئی عصر اُن میں نہیں ہے کوئی گہری سچائی نہیں ہے اور اس کے مقابل پر بعض لوگ سادہ سی بات کرتے ہیں بڑاوزن رکھتی ہے دل پر بہت گہرا اثر کرتی ہے اُن کے دل میں پیار پیدا ہو جاتا ہے اُن کی ایک بات کو سننے کے لئے آدمی گھنٹوں بیٹھا رہتا ہے.تو بات میں بہت کچھ ہے.یہ نہ سمجھیں کہ منہ کی بات کی کیا بات ہے منہ کی بات ہی کی تو ہر بات ہے اس لئے آپ جب منہ سے بات نکالا کریں تو احتیاط کیا کریں، غور کر لیا کریں بعد میں نہ سوچا ریں پہلے سوچا کریں اور جو بات نکل جائے وہ پرائی ہو جاتی ہے اس پر بھر بعض دفعہ اقدام کرنے پڑتے ہیں.نئی صدر عہد یداران اور لجنات کو اہم نصائح تو میں آئندہ آنے والی صدر لجنہ کو بھی متنبہ کرتا ہوں کہ وہ ان معاملات میں پوری احتیاط سے کام لیں اور اگر وہ نصیحت کرنے کے ساتھ دل کا دکھ محسوس نہیں کرتیں تو اپنی فکر کریں اور دعا کے ذریعہ اپنا علاج کرنے کی کوشش کریں اور اگر وہ غصہ سے بے قابو ہو جاتی ہیں یادوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھتی ہیں یہ کہ نیکی میں ہم سے پیچھے ہے اس کا پردہ خراب ،اس کی فلاں بات خراب پھر وہ اس قابل نہیں ہے کہ وہ بھی صدر بن سکے.ان کو پھر استغفار سے کام لینا چاہئے اور مجھے مخفی طور پر اطلاع کر دیں کہ ان باتوں میں مجبور ہوں.اگر چہ استعفیٰ دینا جائز نہیں مگر اس قسم کی بات میں اگر واقعات لکھ دئے جائیں تو میں ان کو ضرور زیر نظر لاتا ہوں مگر میں اُمید رکھتا ہوں کہ خدا کے فضل سے وہ ایسا نہیں کریں گے یا ان میں یہ حوصلہ ہوگا.خدا حوصلہ عطا فرمائے گا کہ وہ ان نصیحتوں کو پلے باندھ لیں اور مضبوطی کے ساتھ ان کو پکڑ لیں اور پھر ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں.لیکن اس خطاب میں صرف صدر لجنہ مخاطب نہیں آپ میں سے ہر ایک جو عہد یدار ہے وہ بھی مخاطب ہے، آپ میں سے ہر ایک جو گھر کی مالکہ بنائی گئی ہے وہ بھی مخاطب ہے، آپ میں سے ہر ایک جو بچی اپنے گھروں میں رہتی ہے ابھی صاحب اختیار نہیں ہوئی وہ بھی مخاطب ہے.یہ وہ ایسی نصیحت ہے جس کا تعلق آپ کی اپنی زندگی ہی سے نہیں ، آپ کے ماحول سے ہی نہیں بلکہ آئندہ آنے

Page 247

حضرت خلیفہ امسیح الرابع " کے مستورات سے خطابات ۲۴۳ خطاب ۳۱ راگست ۱۹۹۱ء والی نسلوں سے بھی بڑا گہرا تعلق ہے.آنحضرت ﷺ کا انداز نصیحت سیکھیں اور اس انداز نصیحت کو اپنالیں اور حرز جان بنالیں، اپنی جان سے زیادہ اپنی روح سے زیادہ عزیز رکھیں.پھر خدا تعالیٰ آپ کے اندر ایک عظیم الشان قوت پیدا فرمائے گا جو اثر رکھتی ہوگی جو دلوں کو تبدیل کرنے کی اہلیت رکھتی ہوگی.وہ مائیں جو یہ شکایت کرتی ہیں کہ ہماری اولاد بڑی ہوگئی، جرمن ماحول میں یہ ہو گیا ان کے ساتھ ، امریکن ماحول میں یہ ہو گیا، ہماری پیش نہیں جاتی ، ان کی آنکھیں بدل گئیں.وہ یہ سوچتی نہیں کہ آغاز انہیں کی طرف سے ہوا ہے.ابتداء ہی سے جب یہ آنکھیں بدلنے لگی تھیں اس ماں کے دل میں وہ در دنہیں پیدا ہوا جو بچے پر گہرا اثر پیدا کرسکتا تھا.اگر وہ پیدا ہوجاتا اس وقت تو کبھی بچہ وہ منزلیں طے نہ کرتا.جن منزلوں کو طے کرنے کے بعد پھر ماں کی آواز بھی اس کو سنائی نہیں دیتی ، وہ ماں کے در دکو دیکھ بھی نہیں سکتا.ایسی ہی کیفیت ہے جس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے صُمّ بُـكـم عـمـى فَهُم لا يَرجِعُونَ اب تو یہ لوگ بہرے ہو گئے، اندھے ہو گئے ، گونکے ہو گئے ،اب تو نہیں لوٹیں گے.اب تو نکل گئے ہاتھ سے اس وقت کیوں روتے ہو جب ابھی کانوں میں قوت شنوائی موجود تھی.جب آنکھوں میں بصارت تھی بصیرت تھی اس وقت اُن کو دکھانا چاہئے تھا.اس وقت اپنا غم ان کو دکھاتے ، اس وقت اپنے دل کی روئیداد ان کو سناتے تو ضرور اثر پڑتا لیکن اب جبکہ وہ ان نوروں سے بے بہرہ ہو چکے ہیں اب تمہاری آواز اُن کو سنائی نہیں دے گی.یہ وہ مضمون ہے جو قرآن کریم نے بیان فرمایا جس کو آنحضرت ﷺ نے مختلف رنگ میں ہم پر روشن فرمایا جس کو ہم بار بار بھول جاتے ہیں اور بار بار اس کے دکھ اُٹھاتے ہیں اس لئے وہ مائیں جو سچے دل سے اپنی اولاد کی بھلائی چاہتی ہیں ان کے لئے لازم ہے کہ ان کی غلطی پر ڈانٹیں ڈپٹیں نہیں مارنا شروع کریں اپنا غصہ ان معصوموں پر نہ نکالیں اپنے در دکوان پر برسائیں اپنے درد کو سجدوں میں برسائیں وہ دل کا درد ہے جو عظیم انقلاب پیدا کر دیا کرتا ہے اس کی طاقت کے سامنے کوئی دنیا کی دوسری طاقت نہیں ٹھہر سکتی.اس لئے آنحضرت مہ کو رحمۃ للعالمین قرار دیا گیا اور کسی نبی کو کیوں نہ یہ لقب عطا فرمایا اس لئے کہ تمام جہانوں کے لئے سب سے زیادہ در د حضرت محمد رسول اللہ کے دل میں تھا تبھی آپ رحمت بن سکتے تھے.اگر درد نہ ہوتا اور خشک نصیحت ہوتی تو ساری دنیا کے لئے ایک زحمت بن جاتے.ملاں اور خشک ناصح کی تو باتوں سے ہی انسان گھبرا تا ہے ،نفرت کرتا ہے، کہتا ہے جاؤ دفع ہو جاؤ یہاں سے اپنی نصیحتیں لے جاؤ ہم پر کوئی اثر نہیں کرتیں لیکن صاحب دل کی نصیحت کا اور اثر ہوا کرتا ہے تو وہ ماں ہو جاتا ہے بلکہ بعض دفعہ ماں سے بھی بڑھ

Page 248

حضرت خلیفہ المسح الرابع ” کے مستورات سے خطابات ۲۴۴ خطاب ۳۱ راگست ۱۹۹۱ء کر ہو جاتا ہے.جیسے حضرت محمد رسول اللہ تھے.تو اپنے اندر وہ صفات پیدا کرین جو آپ کی تنظیمی تربیت کی ضرورتوں کو بھی پورا کریں گی اور گھر یلو تربیت کی ضرورتوں کو بھی پورا کریں گی.اللہ تعالی اس کی توفیق عطا فرمائے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے.میرے دل میں آپ کی سابقہ صدر کے لئے کوئی غصے کے جذبات ہر گز نہیں ایک ذرہ بھی نہیں.مجھے تکلیف بہت پہنچی تھی لیکن اس کو میں نے ضبط کیا اور اس وجہ سے کہ میں جانتا ہوں کہ وہ دل کی بُری نہیں ہیں بے چاری مجبور ہیں اس لئے ان کے ساتھ آپ ایسا نعوذ باللہ من ذالک کسی رنگ میں بھی تحقیر کا معاملہ نہیں ہونا چاہئے جو سزا کے حقدار تھے.جنہوں نے کھلم کھلا غلطی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر غلطی کی ہے اور جانتے تھے کہ اس کا نظام جماعت پر بہت برا اثر پڑے گا اُن سے بھی غصہ کا حق نہیں.ان سے بھی نفرت کا حق نہیں ان کے لئے دل میں درد محسوس کریں.رحم کریں بہت بد نصیب وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی نیکیوں کو اس طرح ضائع کر دیتے ہیں کما کے خالی ہاتھ ہو جاتے ہیں.قرآن کریم نے متنبہ بھی فرمایا تھا کہ ایسی عورت کی طرح نہ بننا جو سارا دن سوت کاتے اور شام کو تکلے کے اوپر چھری پھیر دے اور کا تا ہوا سوت سارا دھاگہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے.ایسے بھی ہوتے ہیں بد نصیب ہی ہیں ان کی بے چارگی پر رحم آنا چاہئے.اُن پر غصہ کا سوال نہیں لیکن صدر کے ساتھ اس صدر کے ساتھ خاص طور پر ممنونیت کا تعلق بھی قائم رکھنا چاہئے.میں جانتا ہوں انہوں نے بہت محنت کی ہے بہت خلوص کے ساتھ بے حد لمبے عرصہ تک قربانی کی ہے.بہت سے ان کے فیض بھی پہنچے ہیں.بہت سا نظم وضبط جو آج یہاں دکھائی دیتا ہے اس میں ان کی کوشش کی برکت بھی شامل ہے تو ان کو اعزاز کے ساتھ رخصت کریں.نئی آنے والی جو مجلس عاملہ ہے وہ ان کا شکر یہ ادا کرے.باقی لجنات بھی شکریئے کے طور پر ان کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ جو کمیاں رہ گئی ہیں ان کو بھی پورا فرمائے اور ان کے دل میں نرمی کا گوشہ رکھ دے جو ایک نصیحت کرنے والے کے لئے ضروری ہوا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.غصے اور نفرت سے دلوں کو پاک کرنا ضروری ہے اس کے بغیر بنی نوع انسان کی اصلاح ممکن نہیں.بنی نوع انسان تو گجا آپ کے اپنے گھروں کی اصلاح بھی ممکن نہیں.آئیے اب دعا کر لیتے ہیں.

Page 249

حضرت خلیفتہ آیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۲۴۵ خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۹۱ء اسلام میں عورتوں کا مقام، ذمہ داریاں اور لجنہ ہندوستان کی مساعی کا ذکر جلسہ سالانہ مستورات قادیان سے خطاب فرمودہ ۲۷ / دسمبر ۱۹۹۱ء) تشہد وتعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: دنیا کے سب مذاہب میں عورت کا کسی نہ کسی رنگ میں ذکر ملتا ہے اور میں نے اس پہلو سے دنیا کے تمام مذاہب کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے لیکن حقیقت ہے کہ جو عزت اور مقام اور مرتبہ قرآن کریم اور حضرت اقدس محمد مصطفی میلہ نے عورت کو عطا فرمایا اس کا عشر عشیر بھی کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتا.جب انسان یہ موازنہ کرتا ہے تو تعجب میں غرق ہو جاتا ہے اور بہت ہی تکلیف دہ پر عذاب تعجب میں غرق ہو جاتا ہے کہ یہ تمام مذاہب جن میں عورت کا یا تو مثبت رنگ میں ذکر ملتا ہے تو بہت معمولی اور بے حیثیت یا منفی رنگ میں ذکر ملتا ہے.اسلام پر یہ حملے کرنے میں سب زیادہ تیزی دکھاتے ہیں اور شوخی دکھاتے ہیں کہ اسلام میں عورت کو کوئی مقام اور مرتبہ نہیں.ایک دفعہ یورپ میں کسی سوال و جواب کی مجلس میں ایک عیسائی خاتون نے یہ سوال کیا اور مجھے یاد نہیں کہ کبھی بھی سوال و جواب کی کوئی ایسی مجلس ہوئی ہو جس میں یہ سوال نہ کیا گیا ہو تو میں نے اُن سے کہا کہ میں صرف حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا ایک فرمان تمہیں سناتا ہوں.تم مذاہب ہی کا نہیں تمام دنیا کی تہذیبوں میں عورت کے ذکر کی تحقیق کر دیکھو اور وہ شان جو حضرت محمد مصطفی مے نے ایک چھوٹے سے پاکیزہ جملے میں عورت کو عطا کر دی ہے اس کا لا کھواں کروڑواں حصہ بھی مجھے کہیں اور سے لا دکھاؤ.میں نے اسے بتایا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی میں نے ایک مرتبہ فرمایا کہ تمہاری جنت

Page 250

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۴۶ خطاب ۲۷؍ دسمبر ۱۹۹۱ء تمہاری ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے.اتنا خوبصورت فقرہ ہے، اتنا عظیم عورت کیلئے اظہار تحسین ہے کہ جس کے متعلق یہ فقرہ کہا جائے بلا شبہ اس کو آسمان کی بلند ترین رفعتیں عطا ہو جاتی ہیں.کسی مرد کے متعلق نہیں فرمایا ، یا مردوں کے کسی گروہ کے متعلق نہیں فرمایا کہ ان کے پاؤں تلے ان کی اولا دوں کی جنت ہے یا قوم کی جنت ہے صرف عورت کو مخاطب کرتے ہوئے یہ ایسا سر ٹیفکیٹ ایسا لقب عطا فرما دیا، ایسا مقام عطا کر دیا، ایسا مطمع نظر اس کو بخشا جس کی کوئی مثال دنیا کے کسی مذہب اور کسی تہذیب میں نہیں ملتی.جب میں نے اسکی مزید تفصیل بیان کی تو وہی خاتون جنہوں نے بڑی شوخی سے تو نہیں کہنا چاہئے مگر اعتماد کے ساتھ یہ سوال کیا تھا، یہ جانتے ہوئے یہ احساس رکھتے ہوئے کہ اس سوال کا کوئی جواب کسی مسلمان کے پاس نہیں ہو سکتا، نہ صرف یہ کہ اس کا سر جھک گیا بلکہ بعد میں تائید میں کھڑی ہوئی اور اس نے کہا آج مجھے پہلی دفعہ معلوم ہوا ہے کہ اسلام عورت کو کیا عزت عطا کرتا ہے اور کیا مقام بخشتا ہے.یہ ایک چھوٹی سی ہدایت ہے لیکن اس کے اندر بہت گہرے مضامین ہیں ،مثبت رنگ کے بھی اور منفی رنگ کے بھی.یہ محض ایک خوشخبری ہی نہیں بلکہ انذار کا پہلو بھی رکھتی ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا عورتوں کے متعلق مردوں کو یہ نصیحت کرنا یا تمام قوم کو یہ نصیحت کرنا کہ تمہاری جنت تمہاری ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے ایک بہت ہی معارف کا سمندر ہے جو ایک چھوٹے سے فقرے کے کوزے میں بند کر دیا گیا ہے.عورت کے اختیار میں ہے کہ قوم کا مستقبل بنائے.جس جنّت کا ذکر فرمایا گیا ہے وہ صرف آخرت کی جنت نہیں بلکہ اس دنیا کی جنت بھی ہے.کوئی قوم جسے اس دنیا کی جنت نصیب نہ ہوا سے آخرت کی جنت کی موہوم امیدوں میں نہیں رہنا چاہئے وہ محض ایک دیوانے کا خواب ہے کیونکہ جس کے دل کو اس دنیا میں سکینت نصیب نہیں ہوتی اسے آخرت میں بھی سکینت نصیب نہیں ہوسکتی.جو اس دنیا میں اندھے ہیں وہ اس دنیا میں بھی اندھے ہی اٹھائے جائیں گے.پس اس پہلو سے مسلمان عورت کی کچھ ذمہ داریاں ہیں جو اس دنیا کے ساتھ بھی تعلق رکھتی ہیں اور اُس دنیا کے ساتھ بھی تعلق رکھتی ہیں.سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہوگا کہ ہر خاتون جو گھر کی مالکہ ہے کیا اس کے گھر میں جنت بن گئی ہے یا نہیں بنی ؟ کیا اس کی اولاد میں جنتیوں والی علامتیں پائی جاتی ہیں کہ نہیں؟ اسے دیکھ کر ہر عورت خود اپنے نفس کا جائزہ لے سکتی ہے اور اس بات کو پر کھ سکتی ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی پیش کردہ کسوئی کے مطابق میں وہ عورت ہوں کہ نہیں جس کا ذکر میرے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے اتنے پیار اور اتنے ناز اور اتنے اعتماد کے ساتھ کیا تھا مجھے مخاطب کیا

Page 251

حضرت خلیفہ اسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۴۷ مسیح خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۹۱ء میرا ذکر فرمایا اور یہ کہا اے مسلمان عورت! جو میرے حلقہ ارادت میں داخل ہوئی تجھ سے مجھے یہ توقع ہے کہ تیرے پاؤں کے نیچے بخت ہے.پس محض یہ مردوں کیلئے ہی پیغام نہیں ، بچوں کیلئے ہی پیغام نہیں کہ تم اپنی جت اپنی ماؤں کے پاؤں تلے ڈھونڈو اور بالعموم یہی معنی ہیں جو کہ سمجھے جاتے ہیں اور بیان کئے جاتے ہیں کہ عورت کا ادب کر وہ عورت کی دعائیں لو حالانکہ اس سے بہت زیادہ وسیع تر معنی عورت کے کردار سے تعلق میں بیان ہوئے ہیں.اگر ہمارا معاشرہ ہر گھر کو جنت نہیں بنادیتا تو اس حدیث کی رو سے وہ معاشرہ اسلامی نہیں ہے اور اگر جنت کو جہنم بنانے میں مردوں کا قصور ہے تو یہ قصور محض اس وقت کے دائرے میں محدود نہیں جس میں اس کی شادی ہوئی اور ایک عورت کے ساتھ ازدواجی زندگی بسر کرنی شروع کی بلکہ اس کا تعلق ایک گزرے ہوئے زمانے سے بھی ہے.اس نے ایسی بدنصیب ماں بھی پائی کہ جس کے قدموں تلے اسے جنت کی بجائے جہنم ملی پس جنت کی خوشخبری سے یہ مراد نہیں کہ لاز ماہر ماں کے پاؤں تلے جنت ہے.مراد یہ ہے کہ خدا توقع رکھتا ہے کہ اے مسلمان عورتو! تمہارے پاؤں تلے سے جنت پھوٹا کرے اور جہاں تمہارے قدم پڑیں وہ برکت کے قدم پڑیں اور تمہاری اولادیں اور تم سے تربیت پانے والے ایک جنت نشان معاشرے کی تعمیر کریں.پس اس نقطہ نگاہ سے احمدی خواتین کو بہت کچھ سوچنے کی ضرورت ہے.بہت کچھ فکر کی ضرورت ہے، اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور جتنی اسلامی تعلیمات بعض عیوب سے تعلق رکھتی ہیں یعنی عورت کو بعض باتیں کرنے سے روکتی ہیں اور بعض ادا ئیں اختیار کرنے سے منع فرماتی ہیں ان کا بلا شبہ اس حدیث کے مضمون سے ایک گہرا تعلق ہے.وہ سب باتیں وہ ہیں جو جنت کو جہنم میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں.پس اسلام عورت کیلئے قید خانہ ان معنوں میں نہیں کہ مرد کو تو کھلی چھٹی ہے جو چاہے کرتا پھرے عورت مظلوم گھروں کی چار دیواری میں مقید ہو ان معنوں میں ہرگز مومنہ عورت کی زندگی ایک قید خانہ میں بسر نہیں ہوتی.ہاں ایک اور معنی میں وہ یقینا قید خانہ میں رہتی ہے ، جن معنوں میں تمام مسلمان مرد بھی تو قید خانہ میں ہی رہتے ہیں کیونکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اور اس کی روایت یہ ہے کہ الدُّنْيَا سِجن لِلْمُومِن وَجَنَّة لِلْكَافِرِ ( صحیح مسلم - كتاب الزہد ) تو وہاں مومن کے لفظ کے اندر تمام مرد مومن بھی اور مومن عورتیں بھی شامل فرما دیں.پس وہ قید خانہ اور ہے جس کا میں ذکر کر رہا ہوں لیکن ایسے کسی قید خانے کا ذکر اسلام میں کہیں نہیں ملتا جس کے نتیجہ میں عورت تو اچھی باتوں سے محروم رہ جائے اور مقید ہو جائے اور مرد کو کھلی آزادی ہو کہ وہ جو چاہے کرتا پھرے.جو بھی پابندیاں ہیں وہ حفاظت کا

Page 252

حضرت خلیفتہ مسح الرابع کے مستورات سے خطابات ۲۴۸ خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۹۱ء مضمون رکھتی ہیں.وہ عظمت اور تحریم کا مضمون رکھتی ہیں.ان سے عورت کا مقام بلند ہوتا ہے،اس سے عورت کو دنیا کے دلدلوں میں پھنسنے سے نجات ملتی ہے، اس کے سوا ان قیود کا اور کوئی مطلب نہیں لیکن آج میں اس مضمون کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا.کچھ اور باتیں ہیں جو میرے پیش نظر ہیں.اول یہ کہ آج دنیا کو مسلمان عورت کے متعلق جو غلط نہی ہے اس کے محض علمی جواب دینا کافی نہیں کیونکہ بسا اوقات جب مجالس سوال و جواب میں اہل مغرب نے اس مضمون پر سوال کیئے اور میں نے خدا تعالیٰ کی تائید کے ساتھ اور اس کی توفیق کے ساتھ کسی حد تک تشفی بخش جواب دیئے تو کبھی ایسا بھی ہوا کہ کوئی عورت اٹھ کھڑی ہوئی اور اس نے کہا کہ اچھا! اگر یہ اسلامی معاشرہ ہے تو اس کے نمونے تو دکھائیے.کیا مصر میں یہ جنت ملتی ہے؟ یا شام میں نظر آتی ہے؟ یا سعودی عرب میں دکھائی دیتی ہے یا پاکستان میں اس کا مظاہرہ ہوتا ہے؟ کسی ملک کا نام تو لیجئے جہاں آپ کی بتائی ہوئی جنت دکھائی بھی تو دے.پس محض بتا نا کافی نہیں ہے وہ جنت جس کا میں ذکر کر رہا ہوں ، ایک ٹھوس حقیقت ہے ایک خواب نہیں ہے جس کی تعبیریں تلاش کی جائیں.یہ ٹھوس حقیقت احمدی خواتین نے اپنی زندگی اور اپنے معاشرے میں عملاً دنیا کو دکھانی ہے.پس بعض دفعہ میں ان سے کہتا ہوں کہ وہ جنت اپنی آخری کامل اور حسین تر صورت میں تو میں تمہیں نہیں دکھا سکتا لیکن اگر تمہارے پاس وقت ہو اور اپنے ملک میں بسنے والی احمدی خواتین سے ملو، ان کے اجلاسوں میں آؤ، ان سے سوال و جواب کرو، ان کے گھروں میں جا کر دیکھو، ایک ایسے معاشرے کو جنم دے رہی ہیں، ایک ایسا معاشرہ پیدا کر رہی ہیں جو یورپ سے ایک بالکل مختلف معاشرہ ہے.یورپ کے معاشرے کو اگر دو لفظوں میں بیان کیا جائے تو وہ تموج پیدا کرتا ہے، بے چینی پیدا کرتا ہے، ایسی تحریکات آپ کے سامنے رکھتا ہے جس کے نتیجہ میں دل بے اطمینانی ہی محسوس نہیں کرتا بلکہ اس کے اندر ایک طلب کی ایسی آگ بھڑک اٹھتی ہے جو کسی پانی سے بجھ نہیں سکتی جس پانی کی بھڑک دل میں پیدا ہوتی ہے وہ پانی سمندر کے پانی کی طرح شور پانی ہوتا ہے اور جتنا آپ اس سے پیاس بجھانے کی کوشش کریں اتنا ہی وہ بھڑک اور زیادہ ہوتی چلی جاتی ہے.یہ ایسی حقیقت ہے، جب کھول کر اہل مغرب کے سامنے پیش کی جائے تو ان کے دل گواہی دیتے ہیں اور وہ ہمیشہ یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ہماری Civilization ہماری تہذیب ، ہمارا تمدن جن لذتوں کی طرف بلاتا ہے ان میں آخری تسکین کا کوئی مقام نہیں ہے.محض پیچھے بھاگنا ہے اور مزید کی طلب ، مزید کی تلاش ہے جو آخر کہیں نہیں ملتا اور بالآخر وہ لوگ جو دنیاوی لذتوں کی تلاش میں بے لگام

Page 253

حضرت خلیفہ مسح الرائع کے مستورات سے خطابات ۲۴۹ خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۹۱ء ہوکر بھاگے پھرتے ہیں، ان کو سوائے بے چینی کے ، بے اطمینانی کے بالآخر کچھ بھی نصیب نہیں ہوتا.پس قرآن کریم نے اس معاشرے کی تصویر ایک موقع پر یوں بیان فرمائی کہ جیسے کوئی سراب کے پیچھے دوڑ رہا ہو، پیاس کی شدت اسے سراب کی پیروی کیلئے اس کی طرف تیز تر بھگاتی چلی جائے لیکن وہ اس سے آگے بھاگتا چلا جائے یہاں تک کہ جب مزید اس میں چلنے کی سکت نہ رہے تو اپنے آپ کو اس سراب کے مقام پر پائے جہاں خدا اس کو جزاء دینے کیلئے پہنچا ہے اور اسے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا.پس اکثر ان لوگوں کے انجام اسی قسم کے ہیں اور دن بدن ان کے معاشرے میں بے چینی بڑھتی چلی جارہی ہے، معاشرہ پر عذاب ہوتا چلا جا رہا ہے.اقتصادی لحاظ سے بلند مقامات پر فائز ہونے کے باوجود کوئی دولت ان کے دلوں کی تسکین کے سامان نہیں کر سکتی اور دن بدن گلیوں میں جرم پل رہے ہیں اور ظلم اور سفا کی نشو ونما پارہی ہے.ایک طرف تہذیبی تقاضے یہ ہیں کہ تمام دنیا کو وہ تہذیب سکھانے کا دعویٰ کرتے ہیں اور تیسری دنیا کے غریب ممالک پر اس لحاظ سے طعن زنی کرتے ہیں کہ تمہیں ابھی تک انسانیت بھی نہیں آئی تمہیں انسان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی طرف بھی توجہ نہیں ہے تم انسانی حقوق ادا کرنے کے راز نہیں جانتے ہم تمہیں سکھاتے ہیں کہ Civilization کیا ہے.کس طرح تہذیب کے ساتھ رہنا ہوتا ہے اور دوسری طرف جب ان کو قریب سے دیکھا جائے تو ایسے خوفناک رجحانات ان کے اندر نہ صرف پیدا ہوئے ہیں بلکہ روز بروز نشو و نما پاتے چلے جارہے ہیں کہ جو سفا کی کے نظارے اب وہاں ان کے ٹیلیویژن پر کھلم کھلا دکھائے جانے لگے ہیں یا ان کے اخبارات میں ان کے تذکرے ملتے ہیں وہ ایسے خوفناک ہیں کہ ان کا بیان بھی ممکن نہیں.ایک موقعہ پر ایک ٹیلیویژن کے پروگرام میں ایک بہت ہی تجربہ کار بڑا پولیس کا افسر پیش ہوا اور اس نے ایک ایسے شہر کو ٹیلیویژن پر دکھایا جس کا نام اس نے احتیاطاً نہیں لیا تاکہ قانونی جکڑ میں نہ آجائے.اس نے کہا اس شہر میں ایک لمبے عرصے سے میں اپنے فرائض ادا کرتا چلا آرہا ہوں، غالباً اس نے ۲۵ یا ۳۰ سال بتائے اور کہا کہ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ کم از کم اس شہر کے ۳۳ فیصدی گھر یعنی (ONE THIRD) ایسے ہیں جن میں باپ اپنی بیٹیوں پر سفا کا نہ ظلم کرتے ہیں اور مائیں اپنے بیٹوں پر کرتی ہیں اور بے حیائی اپنے کمال کو پہنچ چکی ہے اور انکی کوئی شنوائی نہیں.قوانین ایسے ہیں جو مجرم کی حمایت کرنے والے اور معصوم کے خلاف استعمال ہونے والے اور معصوم کی حفاظت کے جتنے حقوق ہیں ان کو پامال کرنے والے ہیں.بہر حال یہ بحث تو اس کی قانونی بحث تھی لیکن میں نے اسے اس نقطہ نگاہ سے دیکھا کہ تہذیب کے اس لمبے سفر

Page 254

حضرت خلیفہ انسخ الرابع کے مستورات سے خطابات مسیح ۲۵۰ خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۹۱ء کے بعد بالآخر جس مقام پر پہنچے ہیں یہ وہی مقام تو ہے جس کا قرآن کریم میں ایک سراب کی صورت میں ذکر فرمایا گیا تھا کہ بالآخر تم وہاں پہنچو گے جہاں تمہیں خدا کی عائد کردہ سزا کھڑی دکھائی دے گی.اس سزا میں تم چاروں طرف سے گھیرے جاؤ گے اور تمہارے لئے نجات کی کوئی راہ باقی نہیں رہے گی.یہ ایک پہلو ہے جس کا میں نے مختصر اذکر کیا لیکن جو بیماریاں اب وہاں راہ پارہی ہیں، جو دن بدن بدامنی کی کیفیت پیدا ہوتی چلی جارہی ہے اس کا حال یہ ہے کہ ہر انسان اپنے گھر میں جنت ڈھونڈنے کی بجائے باہر جنت کی تلاش کرتا ہے الا ماشاء اللہ یقیناً بہت سے ایسے گھر بھی ہیں جن میں سکون ملتا ہے، جن میں اعلیٰ انسانی قدریں بھی ملتی ہیں، اکثر گھروں کی صورت یہ ہو چکی ہے کہ وہ گھر محض رات بسر کرنے کیلئے گھر ہیں ورنہ ان کی لذتیں ان کے سکون گھروں سے باہر پڑے ہیں اور وہ لذتیں ، وہ سکون ایسے ہیں جو حاصل کئے جائیں تو کسی اور کی لذت اور سکون ٹوٹ کر حاصل ہوتے ہیں ایسی بیماریاں پھیل چکی ہیں جس نے خدا تعالیٰ کی عطا فرمودہ لذتوں کو ایک جہنم میں تبدیل کر دیا ہے یہ وہ صورتِ حال ہے جو گہرے غور کے بعد غیر اسلامی تہذیب کی صرف ایک ملک میں نہیں دو ملکوں میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں رونما ہورہی ہے.پس میں جب مغرب کی مثال دیتا ہوں تو ہر گز یہ مراد نہیں کہ اہل مشرق ان باتوں سے صاف اور پاک ہیں.میں اسلام اور اسلام کی مخالف قدروں کا موازنہ کر رہا ہوں.ہندوستان بھی انہی بدیوں میں مبتلا ہوتا چلا جا رہا ہے اور پاکستان بھی انہی بدیوں میں مبتلا ہوتا چلا جارہا ہے اور مشرق اور مغرب دونوں اس پہلو سے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا مقابلہ کر رہے ہیں.پس اس صورت حال کو کیسے تبدیل کیا جائے، کیسے اس کا رخ پلٹا جائے تاکہ دنیا کو سکون نصیب ہو.یہ وہ مضمون ہے جس کی طرف میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.احمدی عورت واقعہ اس بات کی اہلیت رکھتی ہے اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی تو قعات کو پورا کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے کہ اس دنیا میں جنت کے نمونے پیدا کرے.اپنے گھروں کو وہ جذب دے، وہ کشش عطا کرے جس کے نتیجہ میں وہ محور بن جائے اور اسکے گھر کے افراد اس کے گرد گھو میں.انہیں باہر چین نصیب نہ ہو بلکہ گھر میں سکینت ملے وہ ایک دوسرے سے پیار اور محبت کے ساتھ ایسی زندگی بسر کریں کہ محض لذت یابی کا ایک ہی رخ سر پر سوار نہ رہے جو جنون بن جائے اور جس کے بعد دنیا کا امن اٹھ جائے بلکہ خدا تعالیٰ نے جو پیار اور محبت کے مختلف لطیف رشتے عطا فر مار کھے ہیں ان رشتوں کے ذریعہ وہ سکینت حاصل کریں جیسے خون کی نالیوں سے ہر طرف سے

Page 255

حضرت خلیفہ مسح الرائع کے مستورات سے خطابات ۲۵۱ خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۹۱ء دل کو خون پہنچتا ہے.وہ دل بن جائیں اور ہر طرف سے محبت کا خون ان تک پہنچے اور وہ دل بن جائیں اور ہر جسم کے عضو کو ان کی طرف سے سکینت کا خون پہنچے یہ وہ اسلامی معاشرہ ہے جس کو بیان فرماتے ہوئے حضرت اقدس محمد مصطفی نے ایک ہی چھوٹے سے جملے میں فرمایا کہ تمہاری جنت تمہاری ماؤں کے قدموں تلے ہے.پس جہاں حجت ہو اسی طرف تو انسان بھا گتا ہے.یہ کیسے ممکن ہے کہ جنت کہیں اور ہو اور دوڑ کے رخ کسی اور سمت میں ہوں.اس کی مزید عملی تصویر اس طرح دکھائی دیتی ہے کہ جن معاشروں میں اسلام کے خلاف قدریں قائم ہو رہی ہیں ان میں کسی نہ کسی تھوڑے فرق کے ساتھ بالعموم یہ رجحان ہے کہ ماؤں کے ساتھ اولاد کا تعلق اور اسی تعلق سے باپوں کے ساتھ اولاد کا تعلق دن بدن کٹتا چلا جارہا ہے یا دھیما پڑتا چلا جارہا ہے اورنئی نسل یوں سمجھتی ہے کہ جیسے یہ پرانی نسل ہم پر بوجھ ہے ایک مصیبت ہے ، ایک عذاب سر پر پڑا ہے کوئی ایسا فرض وہ ان کے حقوق کے سلسلہ میں ادا نہیں کرتے جس کے نتیجہ میں انہیں تکلیف اٹھانی پڑے.بہت معمولی تکلیف اٹھا کر کبھی کبھی عید بکر عید جیسے ہم کہتے ہیں وہاں کرسمس کہا جاتا ہے، ایسے مواقع پر وہ کبھی ماں باپ کو اپنے ہاں دعوت دے دیتے ہیں یا کبھی ماں باپ کے ہاں چلے جاتے ہیں ورنہ بالعموم بوڑھوں کیلئے اُس سوسائٹی میں کوئی جگہ نہیں رہی.جو تھوڑی سی جگہ ہے وہ بھی تنگ ہوتی چلی جارہی ہے.ایسے شریف گھرانے ضرور موجود ہیں جنھیں ما حول قدامت پسند سمجھتا ہے اور وہ اپنے ماضی کے گہرے تعلق کی بناء پر ابھی تک مجبور ہیں کہ اپنے ماں باپ کے کچھ حقوق ادا کریں لیکن اس حد تک نہیں کہ مستقلاً وہ ان کی رضا جوئی کی کوشش کرتے رہیں.اگر پاؤں تلے جنت ہو تو انسان آخر وقت تک اس جنت کے حصول کے لئے جدو جہد اور کوشش کرتا رہتا ہے اور آخری وقت کی اپنی ماں کی دعائیں اور اپنے باپ کی رضا کی آواز سننا چاہتا ہے اسی سے اس کو تسکین ملتی ہے مگر ایسی کسی صورت کا مغرب میں تو تصورہی نہیں رہا.مشرق میں بھی دن بدن یہ رشتے ٹوٹ رہے ہیں اور مجھے بسا اوقات بعض احمدی مائیں بھی یہ ھتی ہیں کہ ہماری اولاد کی نظریں بدل رہی ہیں ،ان میں وہ احترام وہ تعلق نہیں رہا جیسے غیر غیر ہو رہے ہوں.ہم اس کا کیا علاج کریں؟ کیا علاج کے مضمون سے متعلق میں آپ کو یہ بات سمجھانی چاہتا ہوں کہ بچپن ہی میں آپ کے پاس علاج ہوتا ہے خدا نے یہ علاج آپکو عطا فر مارکھا ہے.اگر ایسا نہ ہوتا تو ہر گز حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے متعلق یہ بلند توقع نہ رکھتے کہ جت آپکے قدموں تلے ہے.ضرور چاہے آپ اسے استعمال کریں یا نہ کریں بات یہ ہے کہ ہر وہ ماں جو بچے کو صرف پیار ہی نہیں دیتی بلکہ شروع ہی سے اس کے اندر

Page 256

حضرت خلیفتہ اسے الرابع" کے مستورات سے خطابات اسم ۲۵۲ خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۹۱ء انصاف پیدا کرتی ہے اس کے اندر توازن پیدا کرتی ہے، وہ حقیقت میں مستقبل کیلئے جنت پیدا کر رہی ہوتی ہے.جو ماں اپنی اولاد کو صرف محبت دیتی ہے اور اس محبت کے نتیجہ میں وہ بجھتی ہے کہ اس نے اسے سب کچھ دے دیا وہ ایک غلط فہمی میں مبتلا ہے.ایسی محبتیں جو محض محبت کا رنگ رکھتی ہوں ان میں نظم و ضبط کی کوئی رگ شامل نہ ہو، جن میں مضبوط تقاضے نہ ہوں ، جن میں توازن کے مطالبے نہ ہوں ایسی محبتیں اولاد کے فائدے کی بجائے اسے نقصان پہنچا دیتی ہیں لیکن اس سے بہت بڑھ کر ایک نقصان عورت کا اپنی ذات میں مگن ہونے کا نقصان ہے اور یہ وہ نقصان ہے جو نئے تقاضوں کے نتیجہ میں دن بدن زیادہ ہو کر دکھائی دینے لگا ہے.اگر کوئی عورت سنگھار پٹار کرتی ہے سوسائٹی میں جاتی ہے، کچھ دل کے بہلانے کے سامان کرتی ہے اور اسے کہا جاتا ہے کہ بی بی ذرا سنبھل کر چلو تو کہے گی یہ چھوٹی موٹی باتیں ہیں میں نے کونسا گناہ کیا ہے کیا میری زندگی کو تم عذاب بنا دو گے لیکن درحقیقت یہ چھوٹی موٹی باتیں بہت بڑی بڑی باتیں بعض دفعہ پیدا کر دیا کرتی ہیں.ایسی اولا دجس کی ماں کو اور جس کے باپ کو اپنی لذتوں کی تلاش اتنی ہو جائے کہ وہ اس کی زندگی کے روز مرہ کے انداز پر غالب آجائے ایسی مائیں بسا اوقات اپنے بچوں کی تربیت سے غافل ہو جاتی ہیں.آتی ہیں کبھی باہر وقت گزار کر تو یہ دیکھنا چاہتی ہیں کہ بچے اپنے کمرے میں موجود ہیں کہ نہیں ، کچھ ان کی فوری ضرورتیں ہوئیں تو وہ پوری کر دیں، کوئی بیمار ہوا تو اس کا علاج کیا لیکن پھر گلے سے اتار کر اپنے علیحدہ کمروں میں غائب ہو گئیں اور صبح اٹھ کر نئے سوشل پروگرام بنائے گئے اور نئی لذتوں کی تلاش کی گئی.ایسی ماؤں کی نظریں پہلے بدلتی ہیں پھر اولاد کی نظریں بدلا کرتی ہیں.اولا د کو خدا تعالیٰ نے بہت ہی فراست عطا فرمارکھی ہے.جن بچوں نے اپنی ماؤں کو ایک خود غرضی کی حالت میں زندگی بسر کرتے دیکھا ہو وہ لازماً خود غرض بن کر بڑے ہوتے ہیں اور بچپن سے ان کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ میری ماں مجھ پر احسان کرنے والی ہے بلکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ میری ماں نے اپنی مرضی سے جب اس نے چاہا، جب اس کو خواہش پیدا ہوئی مجھ سے پیار کیا لیکن میری ساتھی نہ بنی.مجھے اس نے رفاقت عطا نہیں کی.مجھ سے ایسا تعلق قائم نہ کیا کہ مجھے اس کے ساتھ بیٹھنے کا مزہ آئے اسے میرے ساتھ بیٹھنے کا مزہ آئے.پس اسی وقت سے اس بچے کا مستقبل گھر کی بجائے گلیوں سے وابستہ ہونے لگتا ہے.صرف یہی نہیں بلکہ جو ٹلانے کی باتیں ہیں یہ بھی بظاہر چھوٹی ہیں لیکن بہت گہرے اور لمبے نقصانات پیدا کرتی ہیں.ایسی مائیں جو اپنے بچوں کو چپ کرانے کی خاطر جھوٹ بول دیتی ہیں یا ساتھ نہ لے جانے کیلئے بہانہ بنادیتی

Page 257

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۵۳ خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۹۱ء ہیں ایسی مائیں ہمیشہ جھوٹی نسلیں پیدا کرتی ہیں اوروہ بچے کبھی بھی اپنی ماؤں کی باتیں نہیں مانتے بلکہ غیر شعوری طور پر انہیں دوسروں کو دھوکہ دینے کے سبق مل جاتے ہیں.بعض دفعہ مائیں خود نیک بھی ہوں لیکن وہ بجھتی ہیں یہ تو گناہ ہی کوئی نہیں ، بچے کو ٹالنا معمولی بات ہے یا بچے سے کوئی وعدہ کیا اور اسے جھٹلا دیا تو اس میں کوئی خاص بڑی بات نہیں ہے.بچوں کے ساتھ تو اسی طرح ہوا کرتا ہے اور وہ نہیں جانتیں کہ وہ بچے کا مستقبل خود اپنے ہاتھوں سے ہمیشہ کیلئے برباد کر دیتی ہیں.ایک دفعہ ایک چھوٹا سا نظارہ میں نے اس طرح دیکھا کہ ایک باپ نے اپنے بچے کو پونڈے گنے کا ایک ٹکڑا دیا ہوا تھا ( نصف یا چوتھا حصہ ) اور سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے وہ ماں بھی ساتھ ساتھ چل رہی تھی.اس نے دیکھا کہ بچے سے سنبھالا نہیں جاتا تو اس نے کہا کہ بیٹا یہ مجھے پکڑا دو.میں اوپر جا کر تمہیں واپس کر دوں گی.اس نے کہا جائیں جائیں میں نے دیکھا ہوا ہے آپ کو، او پر پہنچتے پہنچتے آدھا کھا جائیں گی آپ.اب یہ بات چھوٹی سی ہے لیکن آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس رد عمل نے میرا دل ہلا دیا.مجھے خطرات نظر آئے سامنے کہ اس بچے کا مستقبل شاید ٹھیک نہ رہے کیونکہ جو اپنی ماں پر اعتماد نہیں کر سکتا وہ دوسروں پر کیسے اعتما دکرے گا.پس ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں آپ جنت بھی پاتی ہیں اور جہنم بھی پاتی ہیں.آپ کو اختیار ہے جہنم کو قبول کر لیں یا جگت کو قبول کر لیں.پس آئندہ کی قوم آپ کے پاؤں سے وابستہ ہو چکی ہے، آئندہ کی نسل آپکے قدموں سے وابستہ ہو چکی ہے اس کیلئے اس دنیا میں جنت چھوڑیں تو دیکھیں کہ یقینا اللہ کے فضل کے ساتھ ان کی اخروی جنت کی بھی ضمانت مہیا ہو جائے گی.یہ چند پہلو ہیں جن کی اور بھی بہت سی شاخیں ہیں اور یہ مضمون ایسا ہے جو بڑی تفصیل کا محتاج ہے تا کہ مثالیں دے دے کر آپ کو سمجھایا جائے کہ کہاں کہاں ٹھوکر کا مقام ہے.کہاں کہاں بچنے کی ضرورت ہے.کس طرز عمل کو اختیار کیا جائے مگر میں امید رکھتا ہوں کہ ان چند مثالوں سے آپ اس مضمون کو سمجھ گئی ہوں گی کہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں واقعہ جنت یا جہنم ہوتی ہے.میں نے بعض ماؤں کو بچوں کو ڈراتے ہوئے دیکھا ہے اور میں بڑی سختی سے اپنے گھر میں یہ بات قائم کرنے کی کوشش کرتا رہا ہوں سختی سے مراد یہ ہے کہ FIRMNESS کے ساتھ ،شدت کے ساتھ نہیں یا سزادے کر نہیں کیونکہ مجھے یاد نہیں کہ شاید ہی کبھی زندگی میں ایک دومرتبہ کسی بچے کو سزادی ہو ورنہ میں اس بات کا قائل ہوں کہ بچے کے ساتھ اگر تمہارا اعتماد کا رشتہ قائم ہو جائے اور پیار کا رشتہ قائم ہو جائے تو تمہاری نظروں کے حلقہ سے تغیر میں بچہ اتنی سزا پا جاتا ہے کہ اسے کسی اور سزا کی ضرورت نہیں رہتی تو میں نے

Page 258

حضرت خلیفہ صیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۵۴ خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۹۱ء جس حد تک مجھ سے ممکن ہے اپنے گھر میں بھی اور باہر دوسرے اپنے عزیزوں کو بھی یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ بچوں کو ڈرایا نہ کریں.بچہ سوتا نہیں ہے یا کسی جگہ جانا چاہتا ہے تو مائیں کہہ دیتی ہیں کہ بھوت آجائیگا.فلاں چیز تمہیں چمٹ جائے گی.وقتی طور پر وہ اس بچے سے چھٹکارا حاصل کرتی ہیں اور ہمیشہ کیلئے خوف کا بھوت اُس کو چمٹادیتی ہیں جو پھر کبھی اسکا پیچھا نہیں چھوڑتا.باہر نکل رہی ہیں.لمبے عرصہ کیلئے جانے کا ارادہ ہے، لیکن جھوٹ بول دیتی ہیں کہ ہم ابھی آتے ہیں اور بچہ بیچارہ انتظار میں بیٹھارہ جاتا ہے.ایسے بچے سے بڑے ہو کر سچ کی کیسے توقع کی جاسکتی ہے.پس آپ اپنے گھر میں جس رنگ میں زندگی بسر کر رہی ہوتی ہیں بچہ اس کی اصل تصویر کو دیکھتا ہے.اس تصویر کو قبول نہیں کرتا جو آپ جعلی عکس کے طور پر اس پر ڈالتی ہیں اور اس پہلو سے کوئی ماں کسی بچے کو دھوکہ نہیں دے سکتی.ایک دن کا معاملہ ہو تو کوئی اور بات ہو.دو دن کا قصہ ہو تو سمجھ میں آجائے.یہ ساری زندگی کے معاملات ہیں.ایک بچہ ضرور اپنے ماں باپ کی اصلیت کو سمجھ جاتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اس کے دل میں آئندہ ان کا احترام پیدا ہوتا ہے یا احترام کی بجائے بد تمیزی کے رجحانات پیدا ہوتے ہیں.پس وہ قومیں جن میں پہلی نسلوں اور دوسری نسلوں کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں ان میں ضروری نہیں کہ اسی قسم کی غلطیاں ہوں.کچھ نہ کچھ غلطیاں ضرور ہوتی ہیں جن کے نتیجہ میں بچے اس یقین کے ساتھ بڑے ہور ہے ہوتے ہیں کہ یہ دنیا خود غرضی کی دنیا ہے.اس میں ہر شخص کا جو بس چاہے وہی کرے.جس پر زور چلے وہ اپنا لے اور اپنی لذتیں ہمارے اپنے ہاتھ میں ہیں ہمیں کسی اور پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں.اس حالت میں جب وہ بڑے ہوتے ہیں تو اپنے ماں باپ ان کو ایک بوجھ دکھائی دیتے ہیں ، پرانے زمانے کی چیزیں دکھائی دیتے ہیں جیسے پرانا استعمال شدہ فرنیچر بعض دفعہ نظر کو تکلیف دیتا ہے ویسے ہی ماں باپ ایک پرانے فرنیچر کے طور پر دکھائی دینے لگتے ہیں.ایسا معاشرہ جنت سے دور ہٹ رہا ہوتا ہے.ایسا معاشرہ بہترین زمین ہے جس پر بدترین چیزمیں جڑ پکڑیں اور دن بدن ایسے معاشرے ہلاکت اور تباہی کی طرف بڑھتے چلے جاتے ہیں.آپ نے عملاً پاک معاشرہ پیدا کرنا ہے اور اس پاک معاشرے کیلئے کسی لمبی چوڑی علمی تحقیق کی ضرورت نہیں.یہ چھوٹی چھوٹی عام سادہ سی باتیں ہیں.حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہی آپ کی تعلیم کے لئے کافی ہے.ہر اس موقع پر جب آپ کا رابطہ اپنی اولاد سے قائم ہوتا ہے اگر آپ یہ سوچیں کہ آپ اس پر آج ہی نہیں بلکہ کل کیلئے بھی اثر انداز ہو رہی ہیں تو یقیناً آپ کے طرز عمل میں ایک ذمہ داری کا احساس پیدا ہو گا.دوسری بات ایسی ہے جس کا عورت سے

Page 259

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۲۵۵ خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۹۱ء بھی تعلق ہے اور مرد سے بھی تعلق ہے.بعض دفعہ عورتیں جن کے پاؤں تلے جنت ہونی چاہئے بد نصیب مردان کے پاؤں تلے سے جنت چھین لیتے ہیں اور ذمہ داری عورت پر نہیں ہوتی بلکہ ان بدنصیب مردوں پر ہوتی ہے جن کی اولاد ماؤں سے جنت حاصل کرنے کی بجائے جہنم حاصل کر لیتی ہے.وہ شخص وہ لوگ ہیں جو گھروں میں بد خلقی اور بدتمیزی سے پیش آتے ہیں.ان کو اپنی بیویوں کے نازک جذبات کا احساس نہیں ہوتا.وہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ انہیں جسمانی طاقت زیادہ حاصل ہے اس لئے وہ جس طرح چاہیں اپنی بیویوں سے سلوک کریں باتوں میں انکی تلخی پائی جاتی ہے، غصہ پایا جاتا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر بگڑ جانا اور غصے کا اظہار کرنا.اس کے نتیجہ میں اتنی خرابیاں رونما ہوتی ہیں کہ اگر آپ ان کا تنجس کریں ان کے پیچھے چلیں تو بہت بڑا مضمون ہے جو آپ کے سامنے ابھرے گا.میں نے ان باتوں پر بار ہا غور کیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ روز مرہ کی گھر کی بدخلقیاں ہمارے معاشرہ کی اکثر خرابیوں کی ذمہ دار بن جاتی ہے.جن خاوندوں کا بیویوں کے ساتھ حسن واحسان کا تعلق نہ ہوان کے نازک جذبات کا احساس نہ ہوا گر کبھی زیادتی بھی ہو جائے تو حوصلہ سے کام نہ لے سکیں وہ بھی اپنی اولاد کیلئے ماؤں کے قدموں تلے سے جنت چھین لیتے ہیں اور ایسے مرد بھی ماؤں کے قدموں تلے سے جنت چھین لیتے ہیں جو ماؤں کی بے راہ روی کو بغیر اظہار افسوس کے قبول کرتے چلے جاتے ہیں.پس ماں اور باپ کے تعلق کے توازن ہیں جو آئندہ نسلوں کے بنانے یا بگاڑ نے کا فیصلہ کرتے ہیں.جن گھروں میں مائیں مظلوم ہوں جب باپ ان گھروں سے چلے جاتے ہیں تو مائیں اپنے بچوں کے کانوں میں ان باپوں کے خلاف باتیں بھرتی چلی جاتی ہیں اور یہ ایک ایسا طبعی قانون ہے جو تمام دنیا میں رائج ہے.ایسی نسل پیدا ہوتی ہے جو باپ کی باغی ہوتی ہے اور باغی نسلیں پھر ہر نظم وضبط کی ہر نظام کی باغی ہو جایا کرتی ہیں.مائیں سمجھتی ہیں کہ ہم نے باپ سے زیادہ اپنی اولاد کی ہمدردی حاصل کر کے اپنا بدلا اتارا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنا بدلا نہیں اتارر ہیں بلکہ اولا دکو برباد کر رہی ہیں اور آئندہ کیلئے اسے کسی کام کا نہیں چھوڑتیں.وہ اولاد جو باپ کے خلاف چاہے جائز شکایات بھی ہوں بڑھ بڑھ کر باتیں کرنے لگ جاتی ہیں اسے مذہب کی بھی کوئی قدر نہیں رہتی ، معاشرے کی بھی کوئی قدر نہیں رہتی.اس کا احترام بالعموم اٹھ جاتا ہے اور ایک باغی طرز کے مزاج کے لوگ پیدا ہونے شروع ہوتے ہیں اب ان باتوں کو مزید بڑھا کر دیکھیں، یہی مرد ہیں جو آئندہ کسی کے خاوند بننے والے ہیں ، آئندہ عورتوں سے تعلق قائم کرنے والے ہیں تو اس ماں نے در حقیقت اپنا بدلا خاوند سے نہیں اتارا بلکہ آنے

Page 260

حضرت خلیفہ مسح الرائع کے مستورات سے خطابات ۲۵۶ خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۹۱ء والی معصوم عورتوں سے اتارا ہے.اس نے ایسے بدتمیز بچے پیدا کر دیئے جنھوں نے اس ظلم کو جاری رکھا جوان کے باپ نے ماں سے روا رکھا تھا.اسی طرح اس کے برعکس بھی صورت حال ہوتی ہے.مائیں بے راہ رو ہو جاتی ہیں اور خاوندان کو روکنے سے عاجز ہو جاتے ہیں کیونکہ شروع ہی سے بعض عورتیں اس رنگ میں اپنے مردوں سے تعلقات قائم کرتی ہیں کہ گویا وہ بہتر معاشرے سے آئی ہیں وہ زیادہ تعلیم یافتہ ہیں وہ زیادہ باتوں کو بجھتی ہیں، مرد میں نقائص ہیں اس کے باوجو دانہوں نے قبول کر لیا.مرد کا خاندان نسبتا ہلکا ہے اسکے باوجود وہ شہزادی ان کے گھر آگئی.یہ باتیں منہ سے کہیں نہ کہیں ان کی طرز عمل بتارہی ہوتی ہے کہ میں اونچی ہوں تم نیچے ہو اور وہ نیچے واقعہ پھر ہمیشہ کیلئے نیچے ہو جاتے ہیں.دیکھتے ہیں بری باتوں کو گھر میں، خلاف اسلام باتوں کو رائج دیکھتے ہیں اور ان کو جرات نہیں ہوتی کہ انکو روک سکیں.اب اندازہ کیجئے کہ ایسی اولاد جو ایسے گھر میں پل رہی ہو وہ کیا سیکھے گی اور کیا سوچ کر بڑی ہوگی.رفتہ رفتہ اس اولاد کے دل سے اس ماں کی عزت بھی اٹھ جاتی ہے.اگر باپ کہے یا نہ کہے وہ بڑے ہو کر اس ماں کے خلاف گواہیاں دیتے ہیں اور جانتے ہیں دل سے کہ اس ماں نے نہ باپ سے صحیح سلوک کیا نہ حقوق ادا کئے نہ ہماری صحیح تربیت کی لیکن یہ سب کچھ جاننے کے باوجود وہ بداثر کو بہتر اثر کی نسبت جلدی قبول کرتے ہیں.وقت کی رعایت سے میں نسبتاً اس خطاب کو چھوٹا کروں گا لیکن یہ بات میں آپکو سمجھانی چاہتا ہوں کہ ایک راز کو آپ اچھی طرح ذہن نشین کر لیں بچوں کی تربیت کے سلسلہ میں یہ بات خوب یاد رکھیں کہ جس طرح پانی نچلی سطح کی طرف بہتا ہے اسی طرح فطرت انسانی میں یہ بات داخل ہے کہ مشکل چیز کو قبول کرنے کی بجائے اگر آسان چیز میسر ہو تو اسے قبول کرتی ہے.پس ماں اور باپ کے اخلاق میں سے جس کا اخلاق بدتر ہو بالعموم وہی اولاد میں رائج ہو جاتا ہے پس دونوں طرف کی کمزوریاں آگے جا کر جمع ہوتی ہیں اور بعض دفعہ ضرب کھا جاتی ہیں اسلئے گھر کے معاشرے کو جنت بنانا کوئی معمولی بات نہیں ہے.بہت باریک نظر سے ان باتوں کو اور ان تعلقات کو دیکھنا چاہئے.آخری فیصلہ اس بات سے ہوگا کہ آپ کا گھر آپ کے لئے جنت بنا ہے کہ نہیں.آپ کے خاوند کیلئے جنت بنا ہے کہ نہیں.آپ کے بچے آپ دونوں سے برابر پیار کرتے ہیں اور احترام کرتے ہیں کہ نہیں.اگر مرد میں کمزوریاں ہیں تو عورت حتی المقدور ان سے صرف نظر کرتی ہے کہ نہیں لیکن کوشش ضرور کرتی ہے کہ وہ ان کمزوریوں کو دور کرے.نیک اور پاک مخلصانہ نصیحت کے ذریعہ وہ اپنے خاوند کو سمجھاتی رہتی ہے اگر

Page 261

حضرت خلیفہ اس الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۵۷ خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۹۱ء ایسا ہے تو اچھا ہے.اگر پہلی باتیں ہیں تو پھر وہ عورت اپنی آئندہ نسلوں کی تربیت کی اہل نہیں ہے یہی حال مردوں کا ہے.پس اگر چہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کا نام نہیں لیا اور عورتوں کا لیا ہے اور اس میں بڑی گہری حکمت ہے مگر گھر کی جنت بگاڑنے میں یقیناً مرد بھی ایک بڑا بھاری کردار ادا کرتے ہیں اور عورت کا کام ہے کہ اپنی اولاد کی ان سے حفاظت کرے.حفاظت کیسے کی جائے ؟ یہ میں آپ کو ایک بار یک نکتہ سمجھانا چاہتا ہوں.جب مرد کے مظالم یا مرد کی زیادتیاں کسی عورت کا دل ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہوں تو مرد کے جانے کے بعد اس کا رد عمل یہ فیصلہ کرے گا کہ وہ اپنی اولاد کی اس ظالم مرد کی عادتوں سے حفاظت کر رہی ہے یا نہیں.اگر وہ اس اولا د کو اپنا ہمدرد بنانے کی خاطر بڑھا چڑھا کر ان باتوں کو بیان کرے اور اپنے ظلموں کے قصے بتا کر ٹسوے بہائے اور انہیں اپنائے اور انہیں کہے کہ یہ ظالم باپ ہے تمہارا تو اپنے ہاتھوں سے اس نے ان کو برباد کر دیا.انکی حفاظت کرنے کی بجائے مرد کے ظلم کو ان تک پہنچنے کی اجازت دی.اگر وہ قربانی کرے اور مرد کے ظلم اور اولاد کے درمیان حائل ہو جائے ، اپنے پروں پر اپنے سینے پر مرد کے ظلم لے لیکن اولاد تک ان کا نقص نہ پہنچنے دے تو اسکی مثال ایک ایسی مرغی کی طرح ہوگی جو کمزور جانور ہے لیکن جب چیل اس کے بچوں پر جھپٹتی ہے تو اپنے پروں تلے انکو لے لیتی ہے.آپ کتنا ہی دکھ اٹھائے ، آپ چاہے اس راہ میں ماری جائے ، اپنے بچوں تک اس ظالم چیل کا نقصان نہیں پہنچنے دیتی سوائے اس کے کہ مرنے کے بعد وہ اس سے جو چاہے کرے.یہ وہ بچی ماں ہے جو ایک جانور کے اندر ہمیں دکھائی دیتی ہے.اے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کے دم بھرنے والی خواتین ! کیا تم ایک جانور میں سے ایک بچی ماں کے برابر بھی نہیں ہوسکتی.کیا حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی غلامی کے یہی تقاضے ہیں کہ ماں کی حیثیت سے حیوانی دنیا میں جو ہمیں عظیم نمونے ملتے ہیں محمد رسول اللہ ﷺ کی لونڈیاں، آپ کی غلام عورتیں ان نمونوں کو بھی اپنا نہ سکیں.آخری فیصلہ اس بات سے ہو گا کہ آپ اپنی اولا د اور بد اثرات کے درمیان حائل ہوکر ہر قیمت پر اپنی اولا دکوان بداثرات سے روک سکتی ہیں کہ نہیں روک سکتیں.پس بہت سی ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو گھروں کو بناتی ہیں یا بگاڑتی ہیں.مجھے پتہ ہے کہ وقت زیادہ ہے لیکن پھر بھی میں مختصر نصیحت کرنا چاہتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ یہ مضمون بہت ہی لمبا ہے اور تھوڑے وقت میں تفصیل سے بیان نہیں ہوسکتا.یہ نمونے میں نے آپ کے سامنے رکھے

Page 262

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۵۸ خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۹۱ء الله ہیں ان کو بڑھالیں بیدار مغزی کے ساتھ اپنے گھروں میں آنحضرت ﷺ کی ان توقعات کو پورا کرنے کی کوشش کریں جو آپ کے ساتھ وابستہ ہیں.آخری نتیجہ اس کا یہ نکلے گا کہ اگر آئندہ نسل جہنم کی طرف قدم بڑھانے والی نسل ہو تو حضرت محمد مصطفی عملہ زبان حال سے آپ کو مطعون کر رہے ہوں گے آپ سے شکوہ کر رہے ہونگے کہ اے میری طرف منسوب ہو نیوالی ماؤں ! تم نے اپنے پیچھے جنت نہیں چھوڑی.تمہارے پاؤں سے جہنم کی لپیٹیں تو نکلیں لیکن جنت کی تسکین بخش ہوا ئیں نہ چلیں اس لئے کیا آپ اس شکوہ کے مقام پر اپنے آپ کو دیکھنا چاہتی ہیں کہ نہیں.اس کسوٹی کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں تو ہر بات میں حضرت محمد مصطفی ﷺ کا مزاج آپکی راہنمائی کرے گا.اس مزاج میں اپنے آپکو ڈال کر سوچا کریں کہ میرا آقا ومولیٰ اس موقع پر مجھ سے کیا توقع رکھتا ہے.دوسری بات میں یہ کہنی چاہتا تھا اور اب مختصراً بیان کروں گا کہ جہاں تک ہندوستان کی لجنات کا تعلق ہے مجھے اس بات سے بہت خوشی ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ساتھ تمام ہندوستان کی لجنات مسلسل ترقی کی طرف قدم اٹھا رہی ہیں.اُن کی قیادت بھی بڑی سلکبھی ہوئی اور حلیم قیادت ہے.ہر طرف برابر نظر ہے اور بغیر شور کے اور بغیر دکھاوے کے مسلسل ٹھوس پروگرام لجنات کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں.ان کی متحمل طریق پر نگرانی کی جاتی ہے کمزوریوں کی نشاندہی کی جاتی ہیں مگر غصے دلا کر نہیں یا غصے کا اظہار کر کے نہیں خدا کرے کہ آپ کی ہر لجنہ کو ایسی ہی قیادت نصیب ہو اور لجنہ میں کہیں بھی ایسی قیادت نہ ابھرے جو حکم کا طریق اختیار کرے بلکہ محبت اور پیار کے ساتھ سمجھا کر آگے بڑھانا ہی سچی قیادت کا راز ہے.جہاں تک میں نے لجنہ اماءاللہ ہندوستان کی رپورٹوں کا جائزہ لیا ہے مجھے خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر پہلو سے قدم ترقی کی جانب ہے قادیان میں بھی خدا کے فضل سے جو مجلس عاملہ کی ممبرات ہیں مجھے انکی رپورٹیں پڑھنے کا اتفاق ہوتا ہے.ان کی کاروائیوں کا بغور مطالعہ کرتا ہوں اور خدا کے فضل کے ساتھ مجھے ہر چیز درست، ٹھیک اپنے مقام پر بیٹھی ہوئی دکھائی دے رہی ہے.خدا کرے کہ یہ جو غیر معمولی عطا آپ کو خدا کی طرف سے نصیب ہوئی ہے آپ اس کی شکر گزار بننے کی کوشش کریں اور اگر آپ اس اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ صلاحیت کا شکر ادا کریں گی تو یہ صلاحیت مزید بڑھے گی اور نشو ونما پائے گی.میں نے مختلف مواقع پر نصیحتیں کیں ہیں.بعض خاص پروگرام لجنات کو دیئے ہیں.میں

Page 263

حضرت خلیفہ مسح الرابع کے مستورات سے خطابات ۲۵۹ خطاب ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۹۱ء رپورٹوں کی ترسیل اور مضمون نگاری سے اس بات کا جائزہ نہیں لیتا کہ واقعتہ ان باتوں پر عمل کیا گیا ہے یا نہیں.میں آخری اعداد و شمار کی صورت میں دیکھتا ہوں کہ کیا واقعہ کچھ پیدا ہوا یا وہی پہلے والا حال ہے اس نقطہ نگاہ سے میں ایک مثال آپکے سامنے رکھتا ہوں کہ علمی اور تربیتی لحاظ سے جو پروگرام دیئے گئے ہیں ان میں خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماء اللہ ہندوستان نے کیا کیا کامیابیاں حاصل کی ہیں.جہاں تک تربیت کا تعلق ہے قرآن کریم ناظرہ جاننے والی، بھارت میں، احمدی خواتین کی تعداد ۲۸۱۹ تھی.اس ایک سال میں آپ اندازہ کریں کہ کتنی لمبی اور تفصیلی محنت سے کام لیا گیا ہوگا کہ اب یہ تعداد بڑھ کر ۳۳۵۲ ہو چکی ہے.ایک سال کے عرصہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنی زیادہ خواتین کو جو پہلے قرآن نہیں جانتی تھیں قرآن سکھانا ایک بہت ہی عظیم سعادت ہے اور یہ وہ دوسرا پہلو ہے جنت بنانے کا.پہلا پہلو تھا منفی اثرات سے اپنی اولاد کو بچانا.دوسرا پہلو ہے مثبت باتیں ایسی عطا کرنا جن کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ان کے مستقبل کی حفاظت ہوگی اور وہ یہ طریق ہے کہ بچپن ہی صلى الله سے قرآن کریم کی محبت ان کے دلوں میں پیدا کریں.حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی محبت ان کے دل میں پیدا کریں.خدا تعالیٰ کا گہرا پیار ان کے دل میں جاگزیں کر دیں کیونکہ اسی کے پیار سے پھر باقی سب پیار پھوٹتے ہیں.خدا سے سچا پیار ہو تو ہر خدا والے سے پیار ہو جاتا ہے.خدا والوں سے پیار ہوتو ان کی عادات اپنانا ، ایک زندگی کا بہترین مشغلہ بن جاتا ہے پس ٹھوس تربیت کا مطلب محض نیک نصیحت کرنا نہیں بلکہ عملاً کچھ پیدا کر کے دکھانا چاہئے.پس وہ احمدی خواتین جن کے گھر میں قرآن کریم پڑھنے اور پڑھانے کی عادت نہیں اس پہلو سے وہ گھر ویران ہیں اور آئندہ وہ ویران نسلیں پیدا کریں گی.معاشرے کی بدیاں نہ بھی ان میں پائی جائیں وہ بچے ایک خلا پلیکر اٹھیں گے اور خلاؤں کو اگر آپ نے خوبیوں سے نہ بھرا ہوتو بعد میں بدیاں ان خلاؤں کو بھر دیا کرتی ہیں ایسے بچے محفوظ نہیں ہیں.جہاں تک آپ کے گھر میں پکے مان لیا کہ ان کو آپ نے کوئی برائی نہ دی ، برائی اور ان کی راہ میں حائل رہیں لیکن اگر ٹھوس نیکیاں اور ٹھوس خوبیاں ان کو عطا نہ کیں تب بھی ان کی آئندہ حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں ہے.پس ایسے کام ہیں جن کی مجھے لجنہ سے توقعات ہیں بچپن ہی سے قرآن کریم کی تلاوت کی آوازان کے کانوں میں گونجنی چاہئے.وہ ایسی ماؤں کی گود میں پلیں جن کو خدا سے محبت ہو، خدا والوں سے محبت ہو.وہ بچپن میں ایسے ذکر ان سے کرتی چلی جائیں.یہ وہ اولاد ہے جو لازماً اپنی ماؤں کے پاؤں تلے سے جنت حاصل کر لے گی.

Page 264

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۶۰ خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۹۱ء قرآن کریم با ترجمہ جاننے کے سلسلہ میں بھی لجنہ اماءاللہ نے بہت بڑی خدمت سرانجام دی ہے.۱۲۵۷ کی تعداد میں ( ان کی رپورٹ کے مطابق ) ایسی خواتین کو تر جمہ سکھایا گیا جن کو اس سے پہلے ترجمہ نہیں آتا تھا.( حضور انور کا خطاب ابھی جاری تھا کہ نماز مغرب کی اذان کی آواز سنائی دی.اس پر حضور انور نے فرمایا کہ منتظمین کو چاہئے تھا کہ جب تک تقریر جاری ہے اذان نہ شروع کرواتے.عجیب بات ہے کہ اتنی چھوٹی سی بات بھی ان کو سمجھ نہیں آئی ).اب میں اس کے باقی تفصیلی ذکر چھوڑتا ہوں اور مالی قربانی کے متعلق نمونے میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہندوستان کی لجنات میں سے سب کے متعلق تو میں نہیں کہہ سکتا لیکن قادیان کی لجنہ کے متعلق کہہ سکتا ہوں کہ مالی قربانی میں یہ بے مثل نمونے دکھانے والی ہے.قادیان کی جماعت ایک بہت غریب جماعت ہے لیکن میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ جب بھی کوئی تحریک کی جائے یہاں کی خواتین اور بچیاں ایسے ولولے اور جوش کے ساتھ اس میں حصہ لیتی ہیں کہ بعض دفعہ میرا دل چاہتا ہے کہ ان کو روک دوں کہ بس کرو تم میں اتنی استطاعت نہیں ہے اور واقعہ مجھے خوشی کے ساتھ انکا فکر بھی لاحق ہو جاتا ہے لیکن پھر میں سوچتا ہوں کہ جس کی خاطر انہوں نے قربانیاں کی ہیں وہ جانے.وہ جانتا ہے بلکہ.کہ کس طرح ان کو بڑھ چڑھ کر عطا کرنا ہے.وہی اللہ اپنے فضل کے ساتھ ان کے مستقبل کو دین اور دنیا کی دولتوں سے بھر دے گا.ایک موقع پر جب میں نے مراکز کیلئے تحریک کی تو احمدی بچیوں نے جو چھوٹی چھوٹی بجیاں بنا رکھی تھیں، عجیب نظارہ تھا کہ گھر گھر میں وہ نجیاں ٹوٹنے لگیں اور دیواروں سے مار مار کر گجیاں تو ڑ دیں.چند پیسے، چند ٹکے جو انہوں نے اپنے لئے بچائے تھے وہ دین کی خاطر پیش کر دیئے.ہمارا رب بھی کتنا محسن ہے ، کتنا عظیم الشان ہے.بعض دفعہ بغیر محبت اور ولولے کے کروڑوں بھی اُس کے قدموں میں ڈالے جائیں تو وہ رد کر دیتا ہے، ٹھو کر بھی نہیں مارتا ، ان کی کوئی حیثیت نہیں اور ایک مخلص ایک غریب پیار اور محبت کے ساتھ اپنی جمع شدہ پونچی چند کوڑیاں بھی پیش کرے تو اسے بڑھ کر پیار اور محبت سے قبول کرتا ہے جیسے آپ اپنے محبت کرنے والے اور محبوبوں کے تحفوں کو لیتے اور چومتی ہیں.خدا کے بھی چومنے کے کچھ رنگ ہوا کرتے ہیں اور میں جانتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ان معنوں میں خدا نے ان چند کوڑیوں کو ضرور چھ ما ہوگا.بظاہر یہ اصطلاح خدا پر صادق نہیں آتی مگر حضرت محمد مصطفی علیہ نے اسی رنگ میں کئی مرتبہ خدا کا ذکر فرمایا ہے کہ فلاں نظارہ دیکھ کر خدا بھی عرش پر ہنس پڑا اور ایک موقعہ پر

Page 265

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۶۱ خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۹۱ء حضرت مصلح موعود نے یوں فرمایا کہ ایک صحابی کی مہمان نوازی کچھ اس انداز کی تھی کہ آسمان پر خدا بھی چائے لینے لگا.یعنی اچھا مزیدار کھانا کھاتے ہوئے جس طرح انسان بعض دفعہ مزے سے، بے تکلفی سے منہ سے مچا کے مارتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ عرش پر اپنے اس پیارے کی مہمان نوازی کے نظارے دیکھ کر مچا کے لینے لگا ( صحیح بخاری.کتاب المناقب باب ويؤثــرون على انفسهم ولو كان بهم خصاصة ) تو ان معنوں میں میں یقین رکھتا ہوں کہ ان بظاہر چھوٹی چھوٹی قربانیوں کو خدا تعالیٰ نے لازماً چوما ہو گا اور پیار کیا ہو گا اور یہی پیار ہے جو آئندہ ان بچیوں کے نصیب جگائے گا.ان کے گھروں کو جنت ہی میں تبدیل نہیں کرے گا بلکہ جنت عطا کرنے والے گھر بنادے گا.پس یہ دوسرا پہلو ہے اس جنت کا جو آپ کے پاؤں تلے، اور آپ کے پاؤں سے وابستہ ہو چکی ہے.منفی پہلو سے حفاظت ہی مقصد نہیں بچوں کو چوگا ڈالنا بھی تو ضروری ہے اور پرندوں میں میں نے یہ دیکھا ہے کہ جب بچے چھوٹے ہوں تو وہ کمزور ہونے شروع ہو جاتے ہیں.بعض پرندے ایسے ہیں جن میں ان کی مائیں بھی اور نر بھی دونوں سارا دن چگ چگ کر اپنے بچوں کی چونچ میں ڈالتے چلے جاتے ہیں خود کمزور ہور ہے ہوتے ہیں لیکن ان کی خاطر قربانی کرتے چلے جاتے ہیں.پس روحانی رزق کے چوگے ہیں جو آپ نے اپنے بچوں کے منہ میں بچپن ہی سے ڈالنے ہیں.یہ قربانی کی ادائیں اگر آپ بچپن میں ان کو سکھا دیں تو مرتے دم تک ان کو قربانی کی لذتوں کی ایسی عادت پڑ جائے گی کہ اس سے وہ چاہیں بھی تو چھٹ نہیں سکیں گے.جہاں تک تبلیغ کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہندوستان کی خواتین بڑی مستعدی کے ساتھ تبلیغ میں مصروف ہو چکی ہیں اور اس وقت تک ۱۸۳ ایسی داعیات الی اللہ ہیں جنہوں نے اپنے عہدوں کو پورا کیا ہے اور واقعہ تبلیغ کے کاموں میں مصروف ہو چکی ہیں.ان کو خدا تعالیٰ جس قسم کے پھل عطاء کر رہا ہے اس سلسلہ میں ایک نمونہ کو دیکھ کر میری روح وجد میں آگئی.بنگال کے ایک گاؤں کانگولی بنگہ میں ایک بیوہ خاتون نے بیعت کی اور احمدی دعوت کرنے والیوں کی وجہ سے اس تک پیغام پہنچایا شاید کسی مبلغ کے ذریعہ پہنچا ہو گا لیکن وہ آئندہ تبلیغ کا مرکز بن گئیں.اس خاتون کی تبلیغ سے مزید تین (۳) عورتوں نے بیعت کرلی جس کے نتیجہ میں گاؤں کے بعض مردوں اور مولویوں نے شدید مخالفت شروع کر دی یہاں تک کہ ان تینوں مستورات کے خاوندوں نے ان کو یہ دھمکی دی کہ ہم تمہیں طلاق دے کر گھروں سے نکال دیں گے اور ہمارا ہمیشہ کے لئے تم سے تعلق منقطع ہو جائے گا.

Page 266

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۶۲ خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۹۱ء انہوں نے کہا طلاق دینا کیا چیز ہے تم اگر ہمارے سر بھی تن سے جُدا کر دو تو امام مہدی سے ہم تعلق نہیں توڑیں گی اور جوز ور لگتا ہے لگاؤ ہم لا ز ما تبلیغ کریں گی اور اس ٹو رکو آگے پھیلاتی چلی جائیں گی.چنانچہ خدا کے فضل کے ساتھ ایک تھوڑے سے عرصے میں ان تین عورتوں نے مل کر ۳۰ سے زیادہ گھروں کو احمدیت سے وابستہ کر دیا ( نعرے.خواتین کے پُر جوش نعرہ ہائے تکبیر کے بعد حضور نے فرمایا : ہاں میں یہ بتارہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی خواتین میں استطاعت ہے.اگر وہ چاہیں تو عظیم انقلاب رونما کر سکتی ہیں.آپ کیا سمجھتی ہیں.آپ گھروں میں بٹھائے رکھنے والی عورتیں ہیں.آپ کو جب میدانِ جہاد اپنی طرف بلا رہا ہو تو کوئی دنیا کا مولوی اگر اس کے خلاف فتوی دے تو اس کے منہ پر آپ تھوکیں بھی نہیں.اس کی قطعاً پر واہ نہ کریں.احمدی خواتین کو بیکار کرنے کیلئے قرآن کریم میں کہیں کوئی تعلیم نہیں.احمدی خواتین سے، یعنی مسلمان خواتین سے اللہ تعالیٰ ہر صحتمند میدان میں مردوں سے آگے بڑھنے کے مقابلہ کرنے کی توقع رکھتا ہے.کیونکہ مسلمانوں کو برابر یہ طمع نظر عطا کیا گیا کہ: وَلِكُلِّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلَّيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرُتِ (البقره: ۱۴۹) اب دیکھئے! آپ ذرا غور تو کریں یہاں یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے مردوں کے لئے ایک مطمع نظر مقرر فرمایا ہے.لفظ اتنے خوبصورت استعمال کئے ہیں جو ہر شخص پر برابر چسپاں ہوتے ہیں فرمایا : لِكُلّ وجَهَةً ہر شخص کے لئے ہم نے ایک مطمع نظر رکھ دیا ہے.ہر قوم کے لئے ایک مقصود بنارکھا ہے.اور اے محمد مصطفی ﷺ کے غلامو! تمہارے لئے مقصود یہ ہے کہ تم نے ہر حال میں ایک دوسرے سے نیکیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرنی ہے.پس اگر آپ اُن محل میں داخل ہیں اور یقیناً اس محل میں داخل ہیں تو ہر نیکی کے میدان میں مردوں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنا خدا کی طرف سے بطور فریضہ آپ پر عائد کر دیا گیا ہے.پس اگر تبلیغ کے میدان میں مرد پیچھے رہ رہے ہیں تو ان کو پیچھے چھوڑ دیں اور آپ نکلیں اور آپ اس ملک میں اسلام اور احمدیت کا سچا نور پھیلانے کی ذمہ داری اپنی ذات کے لئے قبول کرلیں.میں نے یہاں اس سے پہلے ایک خطاب میں یہاں عورتوں کو تاریخ اسلام کی ایک درخشندہ مثال بتائی تھی وہ آپ کو بھی بتاؤں گا اور اس کے بعد پھر آپ سے اجازت چاہوں گا.ایک ایسا موقع آیا تھا جب کہ میدانِ جنگ سے مسلمان مجاہدین کے پاؤں اکھڑ گئے.بعض دفعہ ایسا مجبوری کی حالت میں بھی

Page 267

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات اسی مہ ۲۶۳ خطاب ۲۷ / دسمبر ۱۹۹۱ء ہو جاتا ہے.بعض دفعہ دشمن کی طرف سے ایسار یلا آتا ہے کہ جان دینے کی خواہش رکھنے والے بھی اس کو سنبھال نہیں سکتے اور ان کے پاؤں اکھڑ جایا کرتے ہیں.پس ان پر الزام کی صورت میں میں بات نہیں کر رہا، ایک واقعہ آپ کو بتاتا ہوں.ان سے پیچھے مسلمان خواتین کے خیمے تھے انہوں نے جب یہ دیکھا که مسلمان مجاہدین اپنے خیموں کی طرف دوڑے چلے آرہے ہیں تو ایک محمد مصطفی ﷺ کی سچی غلام عورت نے اپنی ساتھنوں کو کہا کہ تم اپنے خیموں کے ڈنڈے اکھیڑ لو اور ان مردوں کو یہ بتا دو کہ اب تمہارے لئے دو موتوں میں سے ایک لازماً مقدر ہے یا دشمن کے ہاتھوں مارے جاؤ گے اور شہید کہلاؤ گے یا ہمارے ڈنڈوں سے مر کر مردود موت کو قبول کرو گے اب بتاؤ تمہیں کیا کرنا ہے.یہ آواز جب مردوں کے کانوں تک پہنچی تو اس طرح پلٹے ہیں جس طرح کوئی بھوکا غذا کی طرف کو ٹتا ہے اور اس شان کے ساتھ انہوں نے اس میدان میں جانیں دی ہیں کہ یکسر اس میدان کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا.اس ذلّت ناک شکست کو ایک عظیم فتح میں تبدیل کر دیا.اے احمدی خواتین ! میں تم سے توقع رکھتا ہوں ،خدا کا رسول تم سے توقع رکھتا ہے، اس رسول کا خدا تم سے توقع رکھتا ہے کہ تم اس بات کی پرواہ نہ کرو کہ مرد تمہیں کیا کہتے ہیں اور ہر اس نیکی کے میدان میں آگے بڑھنے کی کوشش کرو.نئی فتوحات حاصل کرو یہاں تک کہ تمہارے مردوں میں بھی غیرت جاگ اٹھے اور وہ بھی دین کی حمیت میں اور دین کے دفاع میں تم سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں.اگر تم ایسا کرو تو ہندوستان چند صدیوں کی بات نہیں چند دھاگوں میں اسلام کے قدموں میں پڑا ہوگا.اور اس فتح کا سہرا تمہارے سر لکھا جائے گا.اے احمدی خواتین ! تمہارے سر پر اس کا سہرا ہو گا.اے احمدی خواتین ! کوئی مرد دولہا اس سہرے کا حقدار نہیں یہ احمدی دو بہنیں محمد مصطفی اللہ کے دین کی خاطر نیکیوں سے بھی ہوئی دولہنیں ہیں جن کے سر اس فتح کا سہرا باندھا جائے گا.خدا کرے کہ آپ کو بھی یہ سہرا نصیب ہو اور مردوں کو بھی یہ سہرا نصیب ہو.اس کے بعد اب ہم دعا کر لیتے ہیں.پھر میں اجازت چاہوں گا.اب دعا کر لیجئے.

Page 268

Page 269

حضرت خلیفت صیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۶۵ خطاب یکم اگست ۱۹۹۲ء واقفین زندگی کی بیگمات اور دوسری احمدی خواتین کی بے مثال قربانیاں (جلسہ سالانہ مستورات برطانیہ سے خطاب فرمودہ یکم اگست ۱۹۹۲ء) تشہد ، تعوذ وسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: آج کے دوسرے اجلاس میں جماعت احمدیہ کی عمومی کارکردگی کا جو تمام عالم سے تعلق رکھتی ہے کچھ جائزہ پیش کیا جائے گا.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت اب ترقی کے ایسے دور میں داخل ہو چکی ہے کہ اگر ایک دن کی ترقی سے متعلق بھی تفصیل سے کچھ بیان کیا جائے تو چند گھنٹوں کے بس کی بات نہیں بلکہ اس سے زیادہ وقت درکار ہوگا.روزانہ جماعت کی ترقی اور حالات کے متعلق مجھے جو رپورٹیں ملتی ہیں اور کثرت سے جو اطلاعات ملتی ہیں.ان کی تفصیل پڑھنے ہی میں مجھے گھنٹوں لگ جاتے ہیں.اور اگر ان کو مضمون کے لحاظ سے سجا کر تقریر میں پیش کیا جائے تو اس سے بھی زیادہ وقت درکار ہے.اس لئے جو کچھ بھی پیش کیا جائے گا.بہت محنت کے بعد خلاصہ نکال کے، کچھ اعداد وشمار میں ڈھال کر ، کچھ واقعات میں سے چھان بین کے بعد چند ایک چن کر آپ کے سامنے رکھے جائیں گے اور سالہا سال سے یہی دستور چلا آ رہا ہے لیکن اس سارے ذکر میں خواتین کا کوئی ایساذ کر نہیں ملتا جس سے دنیا کو یہ علم ہو کہ احمدی خواتین کی قربانیوں کا ان کوششوں میں کیا دخل ہے جو اسلام کے احیائے نو کے لئے جماعت احمد یہ عالمگیر بجالا رہی ہے.اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس کثرت سے اسے میٹھے اور دائمی پھل لگ رہے ہیں.اس مضمون کا خیال مجھے اپنی اہلیہ کی وفات پر آیا جب میں نے ایک اور واقف زندگی کی بیگم جو

Page 270

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۶۶ خطاب یکم اگست ۱۹۹۲ء وفات پا گئیں تھیں اُن کا ذکر کیا.تو اس سے مجھے خیال آیا کہ یہ ایک لمبا مضمون ہے جو سلسلہ وار کچھ عرصہ تک جاری رہنا چاہئے.بہت سی ایسی خواتین ہیں جن کی خاموش قربانیاں گویا تاریخ میں دفن ہو گئیں لیکن وہ زندہ جاوید ہیں.ان کی ایک ایک دن کی دردناک داستان اس قابل ہے کہ اسے ہمیشہ زندہ رکھا جائے.اور ہمیشہ آنے والی نسلوں کو اس کو سنایا جائے کیوں کہ کوئی قوم دنیا میں عظیم قربانیاں پیش نہیں کر سکتی جب تک اس قوم کی خواتین اپنے مردوں کے ساتھ نہ ہوں.جب تک مردوں کو یہ یقین نہ ہو کہ ہماری خواتین اپنے دل اور اپنی جان اور اپنی عزت اور اپنے احترام کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنا سب کچھ اس خدمت میں جھونک دینے کے لئے تیار بیٹھی ہیں جس خدمت پر مامور دکھائی دیتے ہیں اور وہ دکھائی نہیں دیتیں.تب تک مرد پورے حوصلے اور عزم اور صبر اور استقلال کے ساتھ وہ قربانیاں پیش نہیں کر سکتے.یہ بھی بہت وسیع اور لمباذکر ہے.گذشتہ ایک سوسال میں جماعت احمدیہ کی خواتین نے کس عظمت کے ساتھ ، کس ثبات قدم کے ساتھ کس شان کے ساتھ اور کس انکساری اور خاموشی کے ساتھ احیائے کلمتہ اللہ کے لئے قربانیاں پیش کی ہیں ان کا ذکر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ تو بہت لمبی داستان ہے اور آج میں نے بہت ہی محنت کے بعد کچھ چیزیں چن کر الگ کی ہیں تا کہ نمونے آپ کے سامنے رکھ سکوں اور آپ کی وساطت سے ساری دنیا کے مردوں کو بھی پتہ چلے کہ احمدی خواتین ہیں کیا؟ اور کتنی عظیم قربانی کرنے والی عورت آج اس زمانے میں پیدا ہوئی ہے؟ وہ یورپ کی خواتین جو مشرق کی خواتین کو جھک کر نیچے دیکھتی ہیں جو مسلمان خواتین کے متعلق سمجھتی ہیں کہ یہ گھوڑوں میں پلنے والی، از منہ گزشتہ سے تعلق رکھنے والی جانور قسم کی کچھ چیزیں ہیں ان کو کیا پتہ کہ زندگی کیا ہے.وہ اگر احمدی خواتین کی قربانیوں کو دیکھیں اور لمبی خاموش قربانیوں کی داستان میں سے کچھ معلوم کر سکیں تو وہ یقیناً اپنی زندگیوں کو اسی طرح جھک کر، نیچے نظر کر کے دیکھیں گی اور وہ سمجھیں گی کہ ہمیں جینے کا سلیقہ نہیں آیا تھا.ہم نے اپنی زندگیاں فضول لہو و لعب کی پیروی کرتے ہوئے ضائع کر دیں.یہ بات ہر یورپین خاتون پر صادق نہیں آتی.دنیا کے لحاظ سے وہ بہت محنت کر رہی ہیں لیکن محنت کا مقصد دنیا کی زندگی ہی ہے اور یہیں تک محنت اپنے مطلوب کو پا کر ختم ہو جاتی ہے مگر میں جن قربانیوں کا ذکر کرنے والا ہوں وہ ابدی قربانیاں ہیں.ہمیشہ ہمیش کے لئے ہیں اور ان قربانیوں میں اور عیسائی دنیا کی ان قربانیوں میں ایک فرق ہے جو عیسائی خواتین نے عیسائیت کی خاطر پیش کی تھیں.وہ فرق یہ ہے کہ عیسائی خواتین کا ایک بہت ہی معمولی حصہ تھا جو سو میں سے ایک بھی نہیں بلکہ

Page 271

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۲۶۷ خطاب یکم اگست ۱۹۹۲ء ہزار میں سے ایک بھی نہیں تھا.اس سے بھی کم جنہوں نے عیسائیت کے لئے عظیم الشان قربانیاں کی ہیں.لیکن دنیا میں ایک ہی جماعت ہے اور صرف ایک جماعت ہے جس کی تمام تر خواتین خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اپنے دل و جان کے ساتھ اس عظیم خدمت پر مامور ہیں.پس انصاف کا تقاضا ہے کہ دوسروں کی خوبیوں کا بھی ذکر کیا جائے اور اپنی خوبیوں کا بھی اور صداقت پر مبنی موازنہ کیا جائے.لیکن ایک اور فرق بھی تو ہے.ان کی قربانیاں کھلے عام لوگوں کے سامنے چلتی پھرتی ہیں اور دکھائی دیتی ہیں.ہماری خواتین کی قربانیاں پس پردہ ہیں.اس میں دکھاوے کا کوئی بھی دخل نہیں.اور خدا کے حضور وہ قربانیاں پیش کرتی چلی جاتی ہیں.یہاں تک کہ کبھی کسی خلیفہ وقت کی نظر پڑ جائے یا کسی اور تاریخ لکھنے والے کی نظر پڑ جائے تو وہ چند نمونے دانہ دانہ چن چن کر تاریخ کے صفحات میں محفوظ کر دیتا ہے.اس سے زیادہ ان کی قربانیوں کی کوئی نمائش نہیں ہے.اب بھی میں نمائش کی خاطر یہ پیش نہیں کروں گا.بلکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آپ کی اگلی نسلوں کی قربانیوں کی روح کی حفاظت کے لئے ضروری ہے کہ انکو علم ہو کہ ان کی مائیں کیا تھیں.ان کی بہنیں کیا تھیں.ان کی نانیاں دادیاں کیا چیز تھیں.کس طرح انہوں نے احمدیت کی راہ میں اپنے خون کے قطرے بہائے اور اس کی کھیتی کو اپنے خون سے سیراب کیا.اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ یہ مضمون جو شاید ایک دو یا تین سال تک جاری رہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اسلام میں عورت کے مقام کو صحیح سمجھنے میں بھی دنیا کو مدد دے گا اور احمدی خواتین میں بھی ایک نئی خود اعتمادی پیدا ہوگی.ہماری موجودہ نسلیں بھی پرانی نسلوں کی عظمتوں سے حصہ پائیں گی یا حصہ پانے کے لئے نیا ولولہ پیش کریں گی اور آپ کی قربانیوں سے حصہ پانے کے لئے اور آپ کی تقلید کے لئے اگلی نسلوں میں ولولہ پیدا ہو گا.اس تمہید کے ساتھ میں چند ایک باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.جہاں تک وقف اور وقف کی روح کا تعلق ہے کس طرح احمدی مائیں اپنے بچوں کو وقف کرتی ہیں یا اپنے خاوندوں کو خدا کے حضور پیش کرتی ہیں یا اپنے بیٹوں کو پیش کرتی ہیں یا خود اپنے آپ کو پیش کرتی ہیں.اس سلسلہ میں سب سے پہلے تو حضرت اماں جان ،نصرت جہاں بیگم کا ذکر کرتا ہوں.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے جس رنگ میں آپ کی تربیت فرمائی اور وہ تربیت جس طرح زندگی کا ایک دائمی نقش بن گئی.اس کا نمونہ ایک خط کے جواب کے طور پر ہمارے سامنے ہے.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد جو اس وقت صاحبزادہ محمود احمد کہلاتے تھے.انہوں نے خلیفہ اسیح الاوّل

Page 272

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۶۸ خطاب یکم اگست ۱۹۹۲ء کے ایک مشورے کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اماں جان کو لکھا کہ بتائیے آپ کی کیا منشاء ہے.حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل نے ایک مشورہ دیا کہ یوں کرو اور حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کے دل میں اپنی والدہ کا جو ایک خاص مقام تھا اس کے پیش نظر انہوں نے مناسب سمجھا کہ میں ان سے بھی مشورہ کرلوں.اس کے جواب میں حضرت اماں جان نے لکھا: خط تمہارا پہنچا.سب حال معلوم ہوا.(اس وقت حضرت مولوی صاحب کو حضرت اماں جان مولوی صاحب کہا کرتی تھیں اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے زمانے سے یہی رواج تھا.حضرت...کہنے کی بجائے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے زمانہ میں جو کہتی تھیں وہی بعد میں کہتی رہیں تو لکھتی ہیں کہ خط تمہارا پہنچا.سب حال معلوم ہوا ) مولوی صاحب کا مشورہ ہے کہ پہلے حج کو جاؤ اور میرا جواب یہ ہے کہ میں تو دین کی خدمت کے واسطے تم کو اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دے چکی ہوں.اب میرا کوئی دعویٰ نہیں.وہ جو کسی دینی خدمت کو نہیں گئے بلکہ سیر کو گئے.ان کو خطرہ تھا اور تم کو کوئی خطرہ نہیں.خدا وند کریم اپنے خدمت گاروں کی آپ حفاظت کرے گا.میں نے خدا کے سپر د کر دیا.تم کو خدا کے سپرد کر دیا.خدا کے سپر د کر دیا اور سب یہاں خیریت ہے.“ یہ وہ روح تھی جس روح نے آگے احمدی خواتین میں پرورش پائی ہے.اور نشو ونما کے نتیجہ میں خوب پروان چڑھی ہے.اب بعض دوسری خواتین کے تعلق باللہ اور دین کی خاطر ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کے چند واقعات آپ کے سامنے رکھتا ہوں.سب سے پہلے سید الشہداء حضرت سیّد عبداللطیف صاحب ( کی اہلیہ ) کے متعلق تاریخ احمدیت جلد سوم صفحه ۳۴۹ میں درج ہے کہ جب حضرت صاحبزادہ عبداللطیف کو قربان کر دیا گیا تو حکومت افغانستان کی طرف آپ کی اہلیہ اور بچوں پر بہت مظالم ڈھائے گئے.اور ان کو ایک جگہ نظر بند کر دیا گیا.وہ ایسے مظالم ہیں کہ ان کے ذکر سے کلیجہ منہ کو آتا ہے مگر انہوں نے قابل رشک صبر واستقلال کا نمونہ دکھایا.آپ کی اہلیہ ہر موقع پر یہی فرماتی رہیں کہ : اگر احمدیت کی وجہ سے میں اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے قربان کر دئیے جائیں تو میں اس پر خدا تعالیٰ کی بے حد شکر گزار ہوں گی.اور بال بھر بھی

Page 273

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۲۶۹ 66 اپنے عقائد میں تبدیلی نہیں کروں گی.“ خطاب یکم اگست ۱۹۹۲ء پس جیسا عظیم وہ خاوند تھا ویسی ہی عظیم ان کی بیگم بھی تھیں اور ماں کا اپنے بچوں کو اس طرح بکریوں کی طرح خدا کے حضور پیش کر دینا اور پھر اس خوشی اور اس یقین کے ساتھ اور اس صداقت کے ساتھ یہ جو فقرہ ہے سادہ سا ہے لیکن اس میں گہری صداقت ہے ان کا یہ اظہار کہ بال بھر بھی اپنے عقائد میں تبدیلی نہیں کروں گی.اور جیسا کہ اس زمانہ کے لوگ پٹھانوں کے مزاج کو جانتے تھے کہ وہ ذرہ بھر بھی اپنے قول سے متزلزل نہیں ہوا کرتے تھے.پس انہوں نے جو کچھ کہا یہ بعینہ ان کے دل کی کیفیت تھی اور اگر ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے بچوں کو ذبح کر دیا جاتا تو وہ اسر مواحدیت سے بھی انحراف نہ کرتیں.پھر آپ کی بہوؤں کے متعلق قربانیوں کے ذکر بڑی تفصیل کے ساتھ ملتے ہیں کہ انہوں نے نظر بندی کے زمانے میں بہت خطرناک تکلیفوں اور بھوک اور پیاس کے دکھ برداشت کرتے ہوئے کس طرح احمد بیت پر ثبات قدم دکھایا اور اپنے بچوں کی بھی نہایت اعلیٰ درجہ کی تربیت کی جواب خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک جاری وساری کہانی بن گئی ہے اور حضرت صاحبزادہ صاحب کی اولاد میں نسلاً بعد نسل اسی خلوص کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں جو اس عظیم قربانی کے خون میں دکھائی دیا کرتی تھیں.ان کا ورثہ آگے نسلوں میں جاری کرنے میں ماؤں نے دخل دیا ہے.یہ میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں.یہ بات یا درکھئے کہ ایک انسان خواہ کتنی ہی بڑی عظیم قربانی کیوں نہ پیش کرے اگر اس کی بیوی اس کا ساتھ نہ دے تو اولا دضائع ہو جایا کرتی ہے.اولاد میں یہ نیکیاں نہیں چلا کرتیں.اس قربانی کی صداقت اس کی بیوی کی وساطت سے اس کی اولا د میں پہنچی ہے.اس کی اولاد میں مردوں کی صداقت ان کی بیویوں کی وساطت سے ان کی اولاد میں پہنچی ہے.پس آج ساری دنیا میں پھیلی ہوئی حضرت صاحبزادہ صاحب کی اولادان ماؤں کو بھی خراج تحسین پیش کر رہی ہے جن ماؤں نے ان کی عظمت کردار کو مستقل بنانے میں یہ عظیم حصہ لیا.بعد کے دور میں آپ تاریخ میں یہ واقعات تو کثرت سے پڑھتی ہوں گی کہ کس طرح افریقہ میں جماعت پھیلی.کس طرح امریکہ میں جماعت پھیلنے کا آغاز ہوا.کس طرح یورپ میں قربانیاں پیش کی گئیں.کس طرح مشرق میں اور کس طرح مغرب میں لیکن بہت کم لوگوں کے سامنے ان خواتین کی قربانیاں آتی ہیں جنہوں نے محض اپنے خاوندوں کو خدمت دین کی بھٹی میں نہیں جھونکا بلکہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ خود کس کس دکھ میں مبتلا ہو کر صبر کے ساتھ انہوں نے وہ دن کاٹے ہیں.میرا تجربہ یہی ہے کہ جانے والا اتنی تکلیف محسوس نہیں کرتا

Page 274

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۲۷۰ خطاب یکم اگست ۱۹۹۲ء جتنا پیچھے رہ جانے والے تکلیف محسوس کیا کرتے ہیں.اس لئے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ہمارے مبلغین نے جو قربانیاں تبلیغ کے میدان میں پیش کی ہیں وہ پیچھے چھوڑی جانے والی اپنی بیویوں اور بچیوں کی نسبت زیادہ سخت قربانیاں تھیں بلکہ میرا دل یہی گواہی دیتا ہے کہ معاملہ اس کے برعکس تھا.مرد تو باہر کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں.ان کے دل بہلانے کے اللہ تعالیٰ اور رنگ میں سامان کرتا چلا جاتا ہے.مگر جو بیویاں خاوندوں کی زندگی میں بیواؤں کی طرح زندگی بسر کر رہی ہوں وہ بچے جو اپنے باپوں کی زندگی میں یتیموں کی سی حالت میں دن گزار رہے ہوں ان کی کیفیت تو وہی جان سکتے ہیں جنہوں نے وہ کچھ دیکھا ہو.کسی شاعر نے خوب کہا ہے کہ ع گجا دانند حال ما سبک سارانِ ساحلها کہ ہم سمندر کی موجوں سے کھیل رہے ہیں اور طوفان کی موجوں سے ہمیں ہر دم خطرہ ہے اور شب تاریک بھی حائل ہے شب موج بھی ہے.لیکن ” گجا دانند حال ما سبک ساران ساحلها‘ جوساحل پر ہلکے پھلکے قدم سے چلتے ہیں.انہیں کیا پتہ کہ ہم کیسے دکھوں میں مبتلا ہیں.لیکن کچھ اندازہ ہم کر سکتے ہیں کہ کیسی کیفیات میں انہوں نے دن گزارے ہوں گے.حکیم فضل الرحمن صاحب مبلغ افریقہ کی زندگی بھی بہت لمبا عرصہ باہر گزری.ان کے متعلق شیخ محمود احمد صاحب عرفانی اپنی کتاب ”مرکز احمدیت قادیان میں لکھتے ہیں: ”اب ان کو گئے بارہ برس کے قریب ہو گئے ہیں.( یعنی حکیم صاحب کو اپنے بیوی بچوں کو پیچھے چھوڑ کر گئے ہوئے ۱۲ برس ہو گئے ہیں ) ان کی بیوی جو شیخ فضل حق صاحب بٹالوی کی صاحبزادی ہیں کی یہ قربانی کوئی معمولی قربانی نہیں ہے.وہ اپنی بیوی کو جوانی کی حالت میں چھوڑ کر گئے تھے.اب ۱۲ سال کے بعد جب وہ آئیں گے تو شاید ان کو بڑھاپے کے دروازے پر کھڑا دیکھیں گے.یہ اس وقت کی بات ہے جب ابھی ۱۲ برس گزرے تھے.۱۶ برس کے بعد حکیم صاحب آۓ.انہوں نے اس دروازے پر بھی کھڑا نہیں دیکھا بلکہ بڑھاپے میں داخل ہوچکی تھیں تو پھر وہ واپس تشریف لائے.حضرت خلیفة المسیح الثانی حکیم فضل الرحمن صاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مکرم فضل الرحمن صاحب جو حال ہی میں فوت ہوئے ہیں وہ شادی کے تھوڑا عرصہ بعد ہی مغربی افریقہ میں (تبلیغ) کے لئے چلے گئے تھے اور ۱۳ ۱۴ سال تک باہر رہے.جب وہ واپس آئے تو ان کی بیوی کے

Page 275

حضرت خلیفتہ مسح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۲۷۱ خطاب یکم اگست ۱۹۹۲ء بال سفید ہو چکے تھے اور ان کے بچے جوان ہو چکے تھے.شیخ محمود احمد صاحب عرفانی ایڈیٹر الحکم قادیان اپنی اسی کتاب میں لکھتے ہیں کہ میری دوسری ہمشیرہ حمیدہ خاتون عرفانی اہلیہ مولوی مطیع الرحمن صاحب بنگالی مبلغ امریکہ سخت بیمار تھیں اور مرض کے شدید دورے ہوتے تھے جن کی وجہ سے وہ ہر وقت موت کے قریب ہوتی جاتی تھیں.درداس شدت سے اٹھتی کہ چینیں دور دور تک سنائی دیتی تھیں.اس حالت میں مولوی صاحب کو امریکہ جانے کا حکم ہوا.مولوی صاحب نے اپنی اہلیہ کی شدید تکلیف کی حالت کو دیکھ کر کہا ! حمیدہ ! اگر تم کہو تو میں حضرت صاحب کو کہہ کر اپنے سفر کو منسوخ کرالوں.مگر بستر مرگ پر لیتی ہوئی حمیدہ خاتون نے کہا.نہیں نہیں.آپ جائیں اور مجھے خدا کے حوالے کر دیں.خدمت سلسلہ کے اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیں.چنانچہ مولوی صاحب موصوف امریکہ کے سفر میں ابھی لندن ہی پہنچے تھے کہ حمیدہ بیگم جان جان آفریں کے سپر د کر کے جنت کو سدھاریں.حضرت مولوی نذیر احمد صاحب مبشر سیالکوٹی خدا کے فضل سے زندہ ہیں لیکن بہت کمزور ہو چکے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو صحت وعافیت کے ساتھ خوشیوں سے معمور زندگی عطا فرمائے.ان کے متعلق اسی کتاب میں یہ لکھا ہے کہ مکرم مولوی نذیر احمد صاحب مبشر نکاح کے بعد رخصتانہ سے قبل ہی افریقہ چلے گئے تھے.یعنی اس زمانے میں مبلغین کی بھی اتنی کمی تھی اور دنیا میں مختلف جگہوں پر ایسے تقاضے پیدا ہو رہے تھے کہ حضرت فضل عمر جو بہت حلیم دل رکھتے تھے.ان کے متعلق فرمایا گیا کہ دل کا حلیم ہو گا لیکن دینی تقاضوں کو ترجیح دیتے ہوئے اتنا بھی انتظار نہیں کر سکتے تھے کہ جس کا نکاح ہو چکا ہے اس کو شادی کی ہی اجازت دے دیں.رخصتانے ہی کا انتظار کر لیں.چنانچہ ادھر نکاح ہوا اور ادھر افریقہ میں ضرورت پڑی تو آپ کو افریقہ بھجوادیا گیا.پھر جنگ کی وجہ سے واپس نہ ہو سکے.وہ لکھتے ہیں کہ اب ان کو ۸ ۹ سال کے قریب ہو گئے ہیں اور ابھی عزیزہ موصوفہ کا رخصتا نہ نہیں ہوا.مجھے یاد نہیں کہ کتنی مدت کے بعد آئے تھے لیکن جب آئے تھے تو وہ کنواری دلہن بوڑھی ہو چکی تھی.اور اس عمر میں داخل ہو چکی تھی جس کے بعد بڑھاپے کے انتظار کے چند سال ہی رہ جایا کرتے ہیں.اکثر وقت انہوں نے تنہائی اور جدائی میں کاٹا.حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحب کی بیویوں نے جو قربانیاں پیش کی ہیں.ان کا ذکر خود حضرت مصلح موعود فضل عمران الفاظ میں فرماتے ہیں.مجھے یاد ہے جب ہم نے دردصاحب کو ولایت

Page 276

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۷۲ خطاب کیکم اگست ۱۹۹۲ء بھیجا ہے تو ان کی تنخواہ ایک سو روپیہ ماہوار تھی.چندہ اور دوسری کٹوتیوں کے بعد انہیں ساٹھ روپے ماہوار ملتے تھے...اس سے اندازہ کریں کہ اس زمانہ کے واقفین چندہ میں کتنا حوصلہ دکھایا کرتے تھے.کتنے وسیع قلب کے ساتھ چندہ دیا کرتے تھے.جس میں سے بڑا حصہ وہ اپنی والدہ کو بھیج دیتے تھے.ان کی دو بیویاں تھیں.ان میں سے ہر ایک کے چار، چار، پانچ ، پانچ بچے تھے.وہ ہمارے مکان کے ہی ایک حصہ میں جو کچا تھا جس میں آج کل کے کلرک بھی رہنا پسند نہیں کرتے ، رہتی تھیں.مجھے یاد ہے، مجھے یہ معلوم کر کے سخت صدمہ ہوا کہ ان کی بیویوں کے حصے میں چار چار، پانچ پانچ ، بچوں سمیت صرف ۱۴۱۴ روپے ماہوار آتے تھے.ان کی ایک بیوی کا بھائی جلد ساز تھا جس کے پاس فرمہ شکنی کے لئے جب کوئی کتاب آتی تو اس میں سے فرمے منگوالیتیں اور وہ خود اور دوسری بیوی فرمے تو ڑ تو ڑ کر کچھ رقم پیدا کر لیا کرتی تھیں جس سے ان کا گزارہ ہوتا تھا.حضرت فضل عمر نے ۱۹۵۶ء میں لجنہ کے اجتماع میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ہمارے کئی مبلغ ایسے ہیں جو دس دس پندرہ پندرہ سال تک بیرونی ممالک میں فریضہ دعوت الی اللہ ادا کرتے رہے اور وہ اپنی نئی بیا ہی ہوئی بیویوں کو چھوڑ گئے.ان عورتوں کے بال اب سفید ہو چکے ہیں لیکن انہوں نے اپنے خاوندوں کو کبھی یہ طعنہ نہیں دیا کہ وہ ہمیں شادی کے معا بعد چھوڑ کر لمبے عرصے کے لئے باہر چلے گئے تھے.ہمارے ایک مبلغ مولوی جلال الدین صاحب شمس ہیں وہ شادی کے تھوڑا عرصہ بعد ہی یورپ تبلیغ کے لئے چلے گئے تھے.ان کے واقعات سن کر بھی انسان کو رقت آجاتی ہے.ایک دن ان کا بیٹا گھر آیا اور اپنی والدہ سے کہنے لگا.امی! ابا کسے کہتے ہیں.ہمیں پتہ نہیں کہ ہمارا ابا کہاں گیا ہے.کیوں کہ وہ بچے بھی تین تین چار چار سال کے تھے کہ شمس صاحب یورپ دعوت الی اللہ کے لئے چلے گئے.اور جب وہ واپس آئے تو وہ بچے ۱۷،۱۷.۱۸، ۱۸ سال کے ہو چکے تھے.اب دیکھو یہ ان کی بیوی کی ہمت تھی اور اس بیوی کی ہمت ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ ایک لمبے عرصہ تک دعوت الی اللہ کا کام کرتے رہے.اگر وہ انہیں اپنی درد بھری کہانیاں لکھتی رہتیں تو وہ یا تو خود بھاگ آتے یا سلسلے کو مجبور کرتے کہ انہیں بلالیا جائے.یہ بالکل درست تجزیہ ہے.وہ عورتیں جو اپنے خاوندوں کو در دبھری کہانیاں لکھتی رہتیں ہیں.اگر ان کے خاوندوں میں انسانیت ہو تو اتناز بردست دباؤ ان پر پڑ جاتا ہے کہ پھر وہ اس کام کو جاری نہیں رکھ سکتے.تو وہ تمام مبلغین جنہوں نے سابقہ ایک سو سال میں عظیم خدمتیں سرانجام دیں ہیں ان کے پیچھے بے شمار ان لکھی داستانیں ہیں جو ان کی بیویوں کی قربانیوں کی

Page 277

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۷۳ خطاب یکم اگست ۱۹۹۲ء صورت میں لکھی گئیں.چند ایک کے تذکرے آپ کے سامنے آئیں گے لیکن اندازہ کریں کہ ان میں سے ہر ایک نے اتنی قربانیاں دی ہیں اور ہر روز قربانیاں دی ہیں کہ اگر ان کی داستان لکھی جائے تو شاید سالہا سال تک پڑھی جائے تب بھی ختم نہ ہو لیکن میں آپ کو ایک یقین دلاتا ہوں کہ وہ داستانیں لکھی گئی ہیں اور لکھی جارہی ہیں.وہ آسمان کے نوشتوں پر لکھی گئی ہیں.اس خدا کے فرشتوں نے لکھی ہیں جو فرماتا ہے کہ ایک ایسی کتاب ہے جو نہ چھوٹے کو چھوڑتی ہے نہ بڑے کو اور ہر چیز اس میں تحریر کی جارہی جونہ کو نہ اور کی ہے.پس آسمان پر وہ قربانیاں لکھی گئیں اور ہمیشہ ہمیش کے لئے ان کے اجر لکھے گئے ہیں.ان میں سے ایک ذرہ بھی ضائع نہیں گیا.انسان تو انسان کی قربانیوں اور خدمتوں کو بھول جایا کرتے ہیں مگر اللہ کبھی نہیں بھولتا.اس لئے ہم جو انسانوں کو سناتے ہیں محض اس لئے کہ ان کے اندر بھی قربانیوں کے ولولے پیدا ہوں ورنہ یہ سنانا ان عظیم عورتوں کی قربانیوں کی جزا نہیں ہے جزاء تو صرف خدا کے پاس ہے اور وہی ہے جو ہمیشہ ان کو جزاء دیتا چلا جائے گا.اب میں مختصراً آپ کے سامنے ایک لسٹ پڑھ کرسنا دیتا ہوں کیوں کہ اور بھی بہت سی باتیں کرنے والی ہیں.مبلغین کرام کی بیویاں جن کے خاوند تبلیغ کیلئے لمبا عرصہ ملک سے باہر رہے اور انہوں نے یہ وقت بغیر خاوندوں کے گزارا.ان میں سر فہرست حکیم فضل الرحمن صاحب ہیں.حکیم صاحب ۲۳ سال نائیجریا میں رہے.پہلے سات سال مسلسل ، پھر ۶ اسال مسلسل.دونوں مرتبہ ان کی بیوی نے اکیلے وقت گزارا ہے اور آپ جانتی ہیں کہ شادی کے بعد عورت کی جو شادی کی خوشیوں کی جو زندگی ہے وہ بمشکل ۲۳ سال تک چلتی ہے.اس کے ساتھ ساتھ بچوں کے بوجھ بڑھتے چلے جاتے ہیں.کئی قسم کی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں اور غربت اگر ہو تو پھر تو اور بھی مصیبت بنتی ہے اور بعد میں تو زندگی گھسیٹنے والی بات ہے تو خاوند کی ۲۳ سال کی جدائی کے بعد اس کا کیا باقی رہا ہوگا اور کونسی خوشیاں اس نے زندگی میں دیکھی ہوں گی یا اپنے بچوں کو خوشیاں دکھائی ہوں گی.پھر مکر مہ رفیقہ بیگم صاحبہ اہلیہ غلام حسین صاحب ایاز ہیں.ایاز صاحب مسلسل ساڑھے پندرہ سال سنگا پور میں رہے.اب تو سنگا پور یوں لگتا ہے کہ چھلانگ لگاؤ تو سنگا پور چلے جاؤ.اس زمانے میں جب کہ قادیان سے سنگا پور نسبتاً بہت نزدیک ہے.اتنی دور دکھائی دیتا تھا اور جماعت اتنی غریب تھی کہ سنگا پور بھیج کر و یا جماعت نے کالے پانی بھجوا دیا اور عمر قید دے دی کیوں کہ عمر قید سولہ سال کی ہوتی ہے.ساڑھے پندرہ سال عمر قید کے برابر کا عرصہ ہے.یہ عرصہ سنگا پور بھیج کر وہاں سے بلانے کی توفیق نہیں تھی.

Page 278

حضرت خلیفہ مسح الرابع کے مستورات سے خطابات ۲۷۴ خطاب یکم اگست ۱۹۹۲ء ٹکٹ بھیجنے کی توفیق نہیں تھی.آج جماعت کو جس حال میں دیکھ رہے ہیں کہ ساری دنیا میں اب تو ۲۶ ممالک سے بھی بڑھ گئے ہیں جہاں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا پیغام تمام دنیا میں زمین کے کناروں تک پہنچا ہوا دکھائی دیتی ہے.ان کے پیچھے جن عظیم خواتین نے قربانیاں پیش کی ہیں اور اس فصل کی آبیاری کی ہے ان کا بھی کبھی کبھی ذکر چلتے رہنا چاہئے تا کہ آئندہ نسلیں ہمیشہ ان پر سلام اور درود بھیجتی رہیں.مکرم مولوی رحمت علی صاحب مرحوم یہ متفرق اوقات میں ۲۲ سال باہر رہے اور ان کی بیوی نے یہ دن عملاً بیوگی کی حالت میں کاٹے.زیادہ تر جاو اسماٹرا وغیرہ میں گزرا.ان کے ایک بچے کے متعلق حضرت مصلح موعوددؓ فرمایا کرتے تھے کہ اپنی ماں سے پوچھتے تھے کہ لوگوں کے ابا آتے ہیں.چیزیں لے کر آتے ہیں.ہمارے ابا کہاں ہیں.کہاں چلے گئے ہیں.تو بیوی آبدیدہ ہو جایا کرتی تھیں.منہ سے تو بول نہیں سکتی تھیں.جس طرف وہ بجھتی تھیں کہ انڈونیشیا ہے اس طرف انگلی اٹھادیا کرتی تھیں کہ تمہارے ابا خدا کے دین کی خدمت کے لئے وہاں گئے ہیں اور قربانی کے لحاظ سے ایسی عظیم خاتون تھیں کہ جب بالآخر حضرت مصلح موعود نے یہ فیصلہ کیا کہ اب ان کو بلا لیا جائے.کم سے کم دونوں کا بڑھا پا تو اکٹھا گزرے تو یہ احتجاج کرتی ہوئی حضرت فضل عمر کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا آپ میری قربانیوں کو ضائع نہ کریں.جو عمر ہماری اکٹھے رہنے کی تھی وہ تو ہم نے علیحدگی میں گزار دی اب اس پر موت ایسی حالت میں آئے کہ وہ مجھ سے علیحدہ ہو اور خدا کے حضور میری یہ قربانی کومقبول ہو.کیا کیا احمدی عورتوں نے سنہری حروف میں احمدیت کی کیا کیا تاریخ سجار کھی ہے.یہ وہ زیور ہے جس سے بڑھ کر حسین زیور اور کوئی زیور نہیں ہے.جو دنیا کو دکھائی دینے والے زیور ہیں اور میک اپ ہیں ان کی تو کوئی بھی حیثیت نہیں ان خوشنماز یوروں کے مقابل پر کوئی بھی حیثیت نہیں جو تمام قوم کی تاریخ کو سجا دیا کرتے ہیں.اور ہمیشہ ہمیش کے لئے اسے رنگین بنا دیتے ہیں.آمنه خاتون اہلیہ نذیر احمد صاحب مبشر کا ذکر گزر چکا ہے.حضرت مولوی جلال الدین صاحب شمس کی اہلیہ کا ذکر گذر چکا ہے.نصرت جہاں اہلیہ مولوی امام الدین صاحب مرحوم ابھی زندہ ہیں اور کافی بیمار ہیں، کمزور ہو چکی ہیں.ان کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.انہوں نے بھی متفرق اوقات میں ۲۰ سال اپنے خاوند سے علیحدہ گزارے ہیں اور ان کی اولاد بھی اپنے والد کو بہت کم جانتی تھی.زیادہ تر وہ انڈونیشیا میں رہے ہیں.مکرمہ بیگم صاحبہ اہلیہ قریشی محمد افضل صاحب یہ خدا کے فضل کے ساتھ ایسی صابرہ خاتون ہیں

Page 279

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۷۵ خطاب یکم اگست ۱۹۹۲ء ۲۷ سال سے زائد عرصہ اپنے خاوند سے جدائی میں گزارا اور کبھی ایک لفظ بھی زبان تک نہیں لائیں.میں جب اس تاریخ کا مطالعہ کر رہا تھا.احمدی علماء مقرر کئے ہوئے تھے تا کہ میری مدد کریں تو مجھے بھی حیرت ہوئی کہ یہ اتنی خاموشی کے ساتھ وقت گزارگئی ہیں.اور ہماری تاریخ کی کتابوں میں بھی کہیں ان کا ذکر نہیں ملتا.محمودہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم محمد سعید صاحب انصاری نے ساڑھے تیرہ سال انصاری صاحب سے علیحدگی میں وقت گزارا.یہ تو فوت ہو چکی ہیں.انصاری صاحب خدا کے فضل سے زندہ ہیں.امة المجيد صاحبہ اہلیہ محمد صدیق صاحب گورداسپوری.یہ بھی خدا کے فضل سے زندہ ہیں.بیمار ہیں اور دعاؤں کی محتاج ہیں.میرا ان سے تعارف تو وقف جدید کی ڈسپنسری میں ہوا تھا.ان کے میاں امریکہ یا کہیں اور تبلیغ کے لئے گئے ہوئے تھے.بچے بیمار ہوتے تھے تو میرے پاس لے کر آیا کرتی تھیں.اب میں نے جب چھان بین کی ہے تو مجھے پتہ چلا ہے کہ یہ ۲۰ سال اپنے خاوند سے جدا رہی ہیں.امتہ العزیز صاحبہ اہلیہ مرزا محمد اور میں صاحب آپ کے ہاں آتی جاتی ہیں.لجنہ والوں نے شاید کبھی نوٹس بھی نہ لیا ہو کہ یہ کیا چیز ہے.وہ بھی اپنی زندگی کا بہترین حصہ اپنی خاوند سے علیحدہ گزار چکی ہیں.یعنی مسلسل یا وقفے وقفے سے ۲۰ سال تک انہوں نے اپنے خاوند کی جدائی میں دن کاٹے ہیں.پھر حمیدہ خاتون صاحبہ اہلیہ عبدالرشید صاحب رازی ہیں.یہ دونوں خدا کے فضل سے بقیدِ حیات ہیں خدا تعالیٰ ان کو بھی خوشیوں سے معمور صحت والی لمبی زندگی عطا فرمائے.۱۴ سال تک یہ اپنے خاوند سے جدار ہیں.مکرم نسیم صاحبہ اہلیہ عطاء اللہ صاحب کلیم ۱۲ سال تک علیحدہ رہیں.مکرمہ مجیدہ بیگم صاحبہ مرحومہ اہلیہ جلال الدین صاحب قمر 11 سال تک علیحدہ رہیں.مکرمہ حمیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ اقبال احمد صاحب غفنفرا اسال تک، مکرمہ امتہ المجید صاحبہ اہلیہ عبدالشکور صاحب ساڑھے گیارہ سال تک، مکرمہ نصیرہ نزہت صاحبہ اہلیہ حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب ۱۰ سال اور مکر مہ امتہ الحفیظ صاحبہ اہلیہ بشیر احمد صاحب قمر، جو ہمارے پرائیویٹ سیکرٹری ہیں نصیر احمد صاحب قمران کی والدہ مرحومہ یہ ساڑھے دس سال تک اپنے خاوند سے الگ رہیں.مبارکہ نسرین صاحبہ اہلیہ محمد اسماعیل صاحب منیره ۱ سال تک، امتہ المنان قمر اہلیہ میر غلام احمد صاحب نیمار سال تک اور آمنہ صاحبہ اہلیہ مقبول احمد صاحب ذبیح ۱۶ سال

Page 280

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے ستورات سے خطابات ۲۷۶ خطاب یکم اگست ۱۹۹۲ء تک ، بشارت بیگم صاحبہ اہلیہ ملک غلام بنی صاحب پونے تیرہ سال اور شاہدہ صاحبہ اہلیہ منصور بشیر صاحب ساڑھے گیارہ سال.باقی چوں کہ سینکڑوں مبلغین ہیں.سینکڑوں بیویاں ہیں جنہوں نے جدائی میں مختلف وقت کاٹے ہیں ان کی ساری قربانیوں کا تذکرہ تو ممکن ہی نہیں ہے یہ چند نمونے آپ کے سامنے رکھتا ہوں.کس جذبے کے ساتھ ، کس ولولے کے ساتھ ماؤں نے اپنے بچے پیش کئے تھے.اور ان کی جدائیاں برداشت کیں.ان کا بھی ذکر بڑا طویل ہے.ابھی تو آپ نے بیویوں کی قربانیاں سنی ہیں.ماؤں کا بھی یہی حال تھا.ایک آپ کے سامنے رکھتا ہوں.مقبول احمد صاحب ذبیح ایک لمبے عرصے تک باہر تھے، ان کی والدہ جنہوں نے ۸۳ء میں وفات پائی ہے وہ بستر مرگ پر تھیں.اپنی بیماری کے دنوں میں وہ اپنے بیٹے مقبول احمد ذبیح کو بہت یاد کیا کرتی تھیں.اس سے متاثر ہو کر ان کے دوسرے عزیزوں نے ایک دن عرض کیا کہ ہم حضور اقدس کی خدمت میں درخواست کریں کہ ابا جان کو بلا لیا جائے تو فرمایا نہیں! میں نے اپنے بیٹے کو وقف کیا ہے.میں یہ مطالبہ کر کے وقف کی روح کے خلاف نہیں کرنا چاہتی.جب حضور خود چاہیں گے بلا لیں گے.بلکہ اپنی بیماری کی بھی مجھے اطلاع نہیں دی تا کہ ان کی وجہ سے میری پریشانی سلسلہ کے کاموں میں روک نہ بن سکے.یہ درست ہے کہ جب بھی کسی بیمار ماں یا بیمار بیوی کے متعلق مجھے اطلاع ملتی ہے تو بلا تاخیر میں ان کے بچوں یا خاوندوں وغیرہ کو واپس جانے کا حکم دیتا ہوں چاہے وہ پسند کریں یا نہ کریں.ان کو جبراً واپس بھجوایا جاتا ہے کیونکہ اس سے میرے دل کو ورنہ گہری تکلیف پہنچتی ہے اور اب جماعت اللہ کے فضل سے بہت توفیق پا چکی ہے.اب کوئی وجہ نہیں کہ بے وجہ قربانیاں گھسیٹی جائیں.قربانیاں دینے کا جو وہ عظیم دور تھا وہ اور رنگ کی قربانیاں تھیں.اب جماعت اور رنگ کی قربانیوں میں داخل ہوگئی ہے.لیکن انہوں نے مجھے پتہ ہی نہیں لگنے دیا.ایسی حالت میں وفات پاگئیں کہ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ کیا کیفیت تھی.کس طرح انہوں نے اپنے بچوں کو روک رکھا تھا.کہ مجھے اطلاع نہ دیں.ایک واقعہ ایک ماں اور بچے کے آپس میں معاملے کا ہے اور بہت دلچسپ ہے.مکرمہ نذیر بیگم صاحبہ جو مولوی عبد الرحمن صاحب انور مرحوم کی بیگم ہیں، ان کا واقعہ ہے.وہ بھتی ہیں کہ میں ایک دن اپنی ساس امۃ العزیز صاحبہ کے ساتھ حضرت مولوی حافظ روشن علی صاحب سے ملنے گئی تو انہوں

Page 281

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۲۷۷ سے خطاب کیکم اگست ۱۹۹۲ء نے پوچھا کہ عبدالرحمن کہاں ہے.یعنی مولوی عبد الرحمن صاحب انور کی والدہ سے پوچھا کہ عبدالرحمن کہاں ہے تو ان کی والدہ نے کہا وہ گورنمنٹ میں ملازم ہو گیا ہے.اب اس خبر پر انسان عام طور پر کہتا ہے کہ انہوں نے کہا ہوگا اچھا اچھا.مبارک ہو بہت بہت.لیکن حافظ روشن علی صاحب کا جواب سنئے.حافظ صاحب نے جو لیٹے ہوئے تھے اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے زانوؤں پر ہاتھ مار کر کہا : جب ناک پونچھنا نہ آتا تھا تو ہمارے حوالے کر دیا اور جب کسی قابل ہوا تو گورنمنٹ کو دے دیا.یہ کونسا انصاف ہے.ان کی والدہ کہتی ہیں کہ میں حضرت حافظ صاحب کی گرجدار آواز سن کر تھر تھر کانپنے لگی.میں نے گھر آکر انور کو خط بھجوایا کہ استعفیٰ دے کر فوراً آ جاؤ.ان کا جو جواب آیا وہ ۱۵.۶اکٹری شرائط پر مشتمل تھا.اب آپ سوچیں گی کہ وہ شرائط کیا ہیں.بڑی سخت شرائط تھیں کہ میں آؤں گا لیکن یہ میری شرطیں ہیں.اگر آپ کو منظور ہے تو آؤں گا ورنہ نہیں آؤں گا.وہ شرطیں سن لیجئے.وہ ساری شرطیں تو کہتی ہیں مجھے یاد نہیں رہیں لیکن کہتی ہیں کہ تین شرطیں جو نمایاں طور پر مجھے یادر ہیں وہ یہ تھیں کہ جب جہاں اور جتنی دیر کے لئے بھیجیں گے چلا جاؤں گا.اس شرط کے ساتھ استعفیٰ دوں گا کہ میں آپ کو بھی متنبہ کردیتا ہوں.کہ وقف کے بعد مجھے خلیفہ اسیح امام وقت جب جہاں جتنی مدت کے لئے بھیجیں گے چلا جاؤں گا.اگر تنخواہ نہیں دیں گے تو مطالبہ نہیں کروں گا.اگر مجھے کہیں گے کہ کنویں میں چھلانگ لگا دو تو لگا دوں گا.بعد میں رونا نہیں.ان کی والدہ نے لکھا مجھے شرطیں منظور ہیں.چلے آؤ اور اس کے بعد تا زندگی کامل وفا کے ساتھ وہ سلسلہ سے وابستہ رہے اور وقف کے تمام تقاضے پورے کئے.مجھے یاد ہے ایک وقت میں تحریک جدید میں یہی افسر تھے یہی کلرک تھے.سارا کام انہی کے سپرد ہوتا تھا.تحریک کے اس دفتر کے پاس سے ہم کھیلتے کھیلتے گزرا کرتے تھے تو دن کو بھی ان کو موجود پایا، رات کو بھی وہاں بجلیاں جلی ہوتی تھیں اور کئی آدمیوں کا کام یہ تنہا کرتے رہے اور ساری عمر یہی ان کا دستور رہا.حضرت خلیفہ اسی الثانی کے پرائیویٹ سیکرٹری بھی رہے.اس وقت بھی یہی عالم تھا توقف کی روح کو جیسا کہ انہوں نے کڑی شرطیں خود پیش کی تھیں ان شرطوں کے مطابق تا زندگی نبھاتے رہے.اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے.اور اس ماں کو بھی جس ماں نے اس بچے کو دنیا سے ہٹا کر دین کی خدمت میں پیش کر دیا.عجیب مائیں تھیں وہ اور عجیب بیویاں تھیں.وہ جن کے ہاتھوں میں احمدیت پل کر جوان ہوئی ہے.

Page 282

حضرت خلیفہ المسیح الرابع کےمستورات سے خطابات ۲۷۸ خطاب یکم اگست ۱۹۹۲ء میں نے مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم کی بیگم کا ذکر کیا ہے.ان کو جب سالٹ پانڈ (غانا) بھجوایا گیا تو وہ بالکل ان پڑھ تھیں اور کوئی زبان نہ آتی تھی.ابھی بھی اردو نہیں آتی.صرف پنجابی بولتی ہیں تو یہ کہتی ہیں کہ میں جب گئی تو بڑی پریشانی ہوئی کہ میں کروں گی کیا ؟ میری کوئی عمر ہے سیکھنے والی تو انہوں نے کہا کہ اچھا یہ کرتی ہوں کہ مقامی زبان سیکھتی ہوں.عام عورتوں سے.اس میں تو کوئی لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی عمدہ زبان سیکھی کہ غالبا اپنے خاوند سے بھی اس زبان میں آگے بڑھ گئیں اور پھر عورتوں کی بہت تربیت کی ہے.ان کو قرآن سکھایا.نماز سکھائی.اور ہر رنگ میں دینی تربیت دی.یہ بھی ایک الگ الگ رہنے والی ہیں.جماعت کے کاموں میں ان کا کوئی خاص ذکر نہیں ملتا لیکن غانا کی تاریخ میں ان کا نام انشاء اللہ ہمیشہ زندہ رہے گا.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے داستان بڑی دلچسپ بھی ہے، دردناک بھی ہے اور ایسی ہے کہ اسے انسان بیان بھی کرتا رہے اور سنتا بھی چلا جائے لیکن وقت کی کمی حائل ہے اور مجبوری ہے.ابھی بھی میرا خیال ہے کہ میں صرف چند منٹ تک اور آپ کے ساتھ یہاں رہوں گا کیوں کہ پھر دوسرے پروگرام شروع ہونے والے ہیں.پارٹیشن کے دنوں میں جب قادیان پر اردگرد سے بڑے سخت حملے ہورہے تھے جتھے آرہے تھے اور بہت خطرناک حالات تھے تو ان دنوں میں کچھ لوگ درویش بن کر قادیان میں رہ گئے اور ان کی تعدا د عمد ا۳۱۳ مقرر کی گئی.تبرک کے طور پر کیوں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے جنگ بدر میں ۳۱ ساتھی تھے.تو ایک نیک فال کے طور پر حضرت فضل عمر مصلح موعودؓ نے بھی ۳۱۳ مجاہدین پیچھے چھوڑے.ان میں سے بہت سے فوت ہو چکے ہیں.بہت سے زندہ ہیں.لیکن ان کے نام تو ملتے ہیں مگر ان ماؤں اور بیویوں اور بہنوں کے نام نہیں ملتے جنہوں نے ان قربانیوں میں ان کو اکسایا اور ان کو قائم رکھا.ان کی قربانیوں کی حفاظت کی اور خاموشی سے اپنے جذبات کی قربانیاں پیش کرتی رہیں.ان میں سے ایک خاتون اہلیہ صاحبہ مستری نور محمد صاحب گنج مغلپورہ تھیں.اپنے بیٹے محمد لطیف امرتسری کو انہوں نے خط لکھا کہ آج قادیان میں رہنا بہت مجاہدہ ہے.تم نہایت استقلال اور جوانمردی سے حفاظت مرکز کی ڈیوٹی دیتے رہو اور اگر اس راہ میں جان بھی دینی پڑی تو دریغ نہ کرو.یاد رکھو ہم تم پر بھی خوش ہوں گے جب کہ تم حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ کی مقدس بستی قادیان کی حفاظت میں قربانی کا وہ اعلیٰ درجے کا نمونہ دکھاؤ جو ایک احمدی نوجوان کے شایانِ شان ہے.گھبراؤ نہیں.خدا تعالیٰ تمہاری

Page 283

حضرت خلیفہ مسح الرابع کے مستورات سے خطابات ۲۷۹ خطاب یکم اگست ۱۹۹۲ء مدد کرے گا.ہم تمہارے ماں باپ تمہارے لئے دعائیں کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ تمہیں استقامت بخشے.پھر مکرم خواجہ محمد اسماعیل صاحب بمبئی کی بیگم محترمہ حبیبہ صاحبہ نے لکھا: کل حضرت امام جماعت احمدیہ کا ایک مضمون ” جماعت احمدیہ کے امتحان کا وقت الفضل ۴ اکتوبر ۱۹۴۷ء میں شائع ہوا ہے.اپنے خاوند کولکھ رہی ہیں کہ وہ آپ کو بھیج رہی ہوں گو پہلے بھی میں نے آپ کو قادیان رہنے سے روکا نہیں تھا.لیکن کل حضور کا مضمون پڑھنے کے بعد میں نے سجدے میں گر کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی اے اللہ ! میں اپنا سارا سرمایہ شرح صدر سے تیرے رسول کی تخت گاہ کی حفاظت کے لئے پیش کرتی ہوں اوراے میرے خدا تو قادر ہے تو ان کو دین کی خدمت کا موقعہ دیتے ہوئے بھی اپنی حفاظت میں رکھ...آمین اس وقت میں زیادہ نہیں لکھ سکتی.اللہ تعالیٰ قادیان کو سلامت رکھے اور سلامتی کے ساتھ ہمیں ملائے.آمین محترمہ امتہ اللطیف صاحبہ نے لاہور سے اپنے خاوند مکرم ڈاکٹر محمد احمد صاحب کو ایک خط میں لکھا: اب میری بھی یہی نصیحت ہے اور اماں جی کی بھی یہی نصیحت ہے ( یہ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کے بیٹے تھے ڈاکٹر محمد احمد صاحب.ان کی بہو جب اماں جی کہتی ہیں تو مراد ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کی بیگم جواب فوت ہو چکی ہیں ) کہ وہاں پر خدا کے بھروسے پر بیٹھے رہیں.اللہ تعالیٰ وہاں پر ہی حفاظت کرے گا اور ایمان رکھنے والوں کو ضائع نہیں کرے گا.آپ اجازت لینے کی بھی کوشش نہ کریں.ہم سب کو خدا کے حوالے کر دیں.میری طرف سے آپ اطمینان رکھیں.میں اتنی بزدل نہیں ہوں میرا ایمان اللہ تعالیٰ پر مضبوط ہے.اگر اس کی طرف سے ابتلاء آنا ہے تو ہر طرح آنا ہے.بس یہی دعا ہے کہ ہر وہ طرح ثابت قدم رکھے اور ہمارا ایمان کسی طرح متزلزل نہ ہو جائے.یہ خط ۱۰ را کتوبر ۱۹۴۷ کی تاریخ کا یہ خط ہے.ہمارے ایک واقف زندگی مقصود احمد صاحب مرحوم کے ساتھ میرا پرانا تعلق رہا.وہاں گنری میں فیکٹری میں ہوا کرتے تھے.بہت ہی نیک مزاج، نیک فطرت ، خاموش، صبر ورضا کے لحاظ سے ویسے باتیں کافی کر لیتے تھے.ہمارے مولود صاحب جو ہمارے امام بیت لندن رہے ہیں یہ ان کے بھائی تھے.ان کی بیگم صالحہ عفیفہ بہت ہی مخلص اور فدائی تھیں.انہوں نے اپنے خاوند کو جب وہ قادیان ہوا کرتے تھے لکھا: آپ سوچتے ہوں گے کہ میری بیوی بھی کیسی دنیا دار ہے کہ ایک دفعہ بھی اس بات کا اظہار نہیں کیا کہ خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ قربانی کی گئی ہے جس کا دل پر ہرگز ملال نہیں ہونا چاہئے مگر کی پو چھٹے اور یقین جانئے میں یہ باتیں پوشیدہ ہی رکھنا چاہتی تھی.میں سوچتی تھی کہ اپنے

Page 284

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۸۰ خطاب کیکم اگست ۱۹۹۲ء جذبات ظاہر کر کے خواہ مخواہ ریاء کار بنوں مگر پھر دل نے کہا کہ خاوند سے بھی کوئی بات پوشیدہ رکھی جاتی ہے.اس لئے اب میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ میں بالکل مطمئن ہوں اور اپنے آپ میں بہت خوشی محسوس کرتی ہوں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس شاندار قربانی کا موقع عطا فر مایا.اللہ تعالیٰ قبول فرمائے.ایسی کتنی ہوں گی جن کی قربانیوں کو زبان نہیں ملی.وہ اس وہم میں مبتلا خاموشی اور صبر کے ساتھ وقت گزار گئیں کہ کہیں خدانخواستہ ہمارا یہ اظہار ریاء کاری میں شامل نہ ہو جائے.بہر حال احمدی خواتین کی قربانیوں کی ایک عظیم طویل داستان ہے جو حقیقت میں نہ ختم ہونے والی ہے اور قیامت تک جاری ہونے والی ہے.آپ اپنی قربانیوں سے آج جو داستانیں لکھ رہی ہیں وہ بھی زندہ رہیں گی.اور ہمیشہ ہمیش کے لئے عزت اور احترام کے ساتھ پڑھی جائیں گی اور سنی جائیں گی اور کل آپ کی کوکھ میں پیدا ہونے والے بچے جو قربانیاں پیش کریں گے ان کی قربانیاں بھی تا ابد زندہ رہیں گی اور زندہ جاوید رہیں گی.خواتین کا قوموں کو بنانے اور بگاڑنے میں سب سے بڑا ہاتھ ہوا کرتا ہے.یہی احمدی خواتین اگر سنگھار پٹار کی عادی ہو تیں یعنی اس شوق میں مبتلا ہو چکی ہوتیں ویسے تو ہر عورت کا حق بھی ہے.شوق بھی ہے.ایک طبعی بات ہے.سجنا اس کی فطرت میں داخل ہے لیکن ایک سجنا سطحی نظر کے ساتھ ہوتا ہے.توفیق ملے، وقت ملے تو ٹھیک ہے.ایک ہوتا ہے کہ عورت سجنے کی غلام بن جایا کرتی ہے.جو عورتیں اپنی سجاوٹ کی غلام ہو جایا کرتی ہیں وہ قوم کے لئے کبھی کچھ نہیں کر سکتیں.وہ خواتین ہی ہیں جو قوم کے لئے ہمیشہ عظیم قربانی دیا کرتی ہیں.جن کی اولیت مقاصد میں ہوا کرتی ہے.دنیا دار قوموں میں بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں گو بہت کم لیکن ہوتی ہیں.مقاصد کے لئے قربانی پیش کرنا دراصل یہ وہ چیز ہے جو کسی انسان کو جاودانی بنا دیا کرتی ہے.احمدی خواتین میں خدا کے فضل کے ساتھ مقاصد کے لئے قربانی پیش کرنے کا جذبہ اتنا زیادہ ہے اور اس کثرت سے ملتا ہے کہ اس کا شمار ممکن نہیں ہے لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ لازم ہے کہ کبھی کبھی اس داستان کو دہرایا جاتا رہے تا کہ ان کے لئے دعاؤں کی بھی تحریک ہوتی رہے اور آئندہ آنے والی نسلیں ان سے جوش اور ولولہ حاصل کریں.سیدہ رشیدہ بیگم صاحبہ نے اپنے بیٹے سید سعید احمد صاحب قادیانی متعلم جامعہ احمد یہ قادیان کو لکھا: عزیزم قادیان میں رہو.آج آپ لوگوں کے امتحان کا وقت ہے.دعا ہے کہ خدا تم کو امتحان میں کامیاب کرے.دوبارہ تاکید ہے کہ بلا اجازت حضرت امیر المومنین کے کسی صورت میں بھی قادیان سے نہ آئیں.کیوں کہ اب ایمان کی آزمائش کا وقت ہے.خدا سے دعا ہے کہ تم اپنے ایمان کا بہتر نمونہ

Page 285

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۸۱ خطاب یکم اگست ۱۹۹۲ء دکھاؤ اور دین کے ستارے بن کر چمکو اور دنیا کے لوگوں کے لئے راہنما بنو.نصیرہ نزہت صاحبہ نے گجرات سے اپنے شوہر حضرت حافظ بشیر الدین صاحب عبیداللہ مرحوم کے نام خط میں لکھا: خوش رہیں، کامیابی اور کامرانی کی مرادیں دیکھیں.قادیان کے جھنڈے کو بلند کرنے والوں میں سے ہوں اور دعا بھی کریں کہ خدا کا نام پھیلانے والوں میں ہمارا بھی نام ہو.میں جب سے یہاں آئی ہوں.کس طرح دن گزرتے ہیں اور کس طرح ستارے گنتے گنتے راتیں کٹتی ہوں گی لیکن زبان سے اگر کوئی لفظ نکلتا ہے تو یہی کہ اے قادیان کی بستی ! تجھ پر لاکھوں سلام اور اے قادیان میں رہنے والو جانباز و! تم پر لاکھوں درود.سیالکوٹ کے ایک احمدی نوجوان غلام احمد صاحب ابن مستری غلام قادر صاحب جو قادیان کی بستی کی حفاظت کے لئے سیالکوٹ سے گئے تھے ان کی والدہ نے ان کے نام خط لکھا جو دراصل ان کی قربانی کی پیشگوئی بن گیا.وہ لکھتی ہیں: بیٹا اگر دین حق اور احمدیت کی حفاظت کے لئے تمہیں لڑنا پڑے تو کبھی پیٹھ نہ دکھانا.اس سعادت مند اور خوش قسمت نوجوان نے اپنی بزرگ والدہ محترمہ حسین بی بی صاحبہ کی اس نصیحت پر اس طرح عمل کیا کہ قادیان میں احمدی عورتوں کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان دے دی مگر دشمن کے مقابلے میں پیٹھ نہ دکھائی.مرنے سے پہلے اس نوجوان نے اپنے ایک دوست کو اپنے پاس بلایا اور اپنے آخری پیغام کے طور پر اس نے یہ لکھوایا: مجھے اسلام دین حق اور احمدیت کی صداقت پر پکا یقین ہے.میں ایمان پر قائم جان دیتا ہوں.میں اپنے گھر سے اسی لئے نکلا تھا کہ میں اسلام کے لئے جان دوں گا.آپ لوگ گواہ رہیں کہ میں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا اور جس مقصد کے لئے جان دینے کے لئے آیا تھا میں نے اس مقصد کے لئے جان دے دی.جب میں گھر سے چلا تھا تو میری ماں نے نصیحت کی تھی کہ بیٹا! دیکھنا پیٹھ نہ دکھانا.میری ماں کو کہہ دینا کہ تمہارے بیٹے نے تمہاری نصیحت پوری کر دی اور پیٹھ نہیں دکھائی.اور لڑتے ہوئے مارا گیا.کتنے شہید ہیں جن کی قربانی شہادت کے فیض میں ان کی مائیں، بہنیں، بیویاں شامل ہوا کرتی ہیں.ان کے فیض سے جو ثواب عطا ہوتا ہے اس میں وہ شامل ہوتی ہیں لیکن انسان کا علم محدود ہے.اس کی یادداشت محدود ہے وہ لکھ نہیں سکتا لیکن یاد رکھیں کہ آئندہ نسلوں کی عظمت اور ان کی سر بلندی میں آج کی ماؤں کا اتنا گہر ادخل ہے کہ اگر خدانخواستہ آج کی مائیں کو تا ہی دکھا دیں تو آئندہ آنے والی نسلیں سرنگوں ہو جائیں گی اور ہمیشہ کے لئے دین حق کو شرمندہ کرنے کا موجب بن جائیں

Page 286

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۸۲ خطاب یکم اگست ۱۹۹۲ء گی.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آپ کو اس سے کیا غرض کہ کوئی دیکھ رہا ہے یا نہیں دیکھ رہا.اور اکثر خواتین کے حالات سے تو دنیا بے خبر ہوتی ہی ہے ان کو کیا پتہ کہ گھر میں کس حالت میں گزارا کیا.کس مصیبت سے وقت کا ٹا.کس طرح اپنے بچوں کو بھوک اور تکلیفوں اور بیمارویوں کو برداشت کیا.یہ ساری وہ داستانیں ہیں جو نہ لکھی جاسکتی ہیں نہ لکھنے والوں کو میسر آتی ہیں.لیکن یاد رکھیں کہ ہمارا خدا اپنے بندوں کی ادنیٰ سے ادنی قربانیوں پر بھی نگاہ رکھتا ہے اور اپنے فضلوں سے نوازتا چلا جاتا ہے.ان قربانیاں کرنے والوں کے حالات پر غور کریں جن میں سے کچھ کا ذکر میں نے آپ کے سامنے کیا ہے اور اب ان کی اولادوں کو دیکھیں کہ خدا تعالیٰ نے ان کو کیسے کیسے فضلوں سے نوازا ہے.کس طرح دنیا میں عزتیں دیں.کس طرح دین میں ان کو مستحکم کیا اور دین اور دنیا کے لحاظ سے ہمیشہ کے لئے سرفراز اور سرخرو ہو گئے.خدا کرے کہ احمدی خواتین کو ہمیشہ احمدیت اور اسلام اور خدا کی خاطر قربانیوں میں صف اول میں مقام عطا ر ہے اور ہمیشہ اسی مقام کی حفاظت کرتے ہوئے اس جھنڈے کو اپنے ہاتھوں میں بلند کرتے ہوئے وہ آگے بڑھتی رہیں.ابھی مضمون کے بہت سے حصے باقی ہیں لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے انشاء اللہ یہ مضمون سلسلہ وار جاری رہے گا.اب دعا کے بعد میں آپ سے اجازت چاہوں گا.دعا میں شامل ہو جائیں.

Page 287

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۲۸۳ خطاب ۱۲؍ ستمبر ۱۹۹۲ء احمدی خواتین کی مالی قربانیاں اور تبلیغی مساعی جلسہ سالانہ مستورات جرمنی فرموده ۱۲ ستمبر ۱۹۹۲ء) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اس دفعہ جلسہ پر آنے سے کچھ عرصہ پہلے جرمنی سے ایک دوست کا خط ملا کہ جلسہ سالانہ یو.کے میں جو آپ نے مضمون شروع کئے ہوئے ہیں خصوصاً عورتوں کے متعلق،ان کی اسلام کی خدمات کی شاندار مثالیں جو بیان کی جارہی ہیں.اگر اس مضمون کو جرمنی کے جلسے میں جاری رکھیں تو چند سال انتظار کرنے کی بجائے ایک دو سال میں ہی یہ مضمون کا سلسلہ مکمل ہو جائے گا اور جرمنی کا جلسہ بھی غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے اس لئے اس کا بھی حق ہے کہ اس قسم کے مستقل مضامین میں یہاں بھی بیان کئے جائیں.اسی طرح انہوں نے یہ بھی مشورہ دیا کہ جلسہ سالانہ کی دوسرے دن کی تقریر میں بہت سے آپ کے نوٹس باقی رہ جاتے ہیں جن کو آپ پڑھ کر سنا نہیں سکتے.اور بہت سی ایسی قیمتی باتیں ہیں جو ہمارے علم میں نہیں آسکتیں تو وہ بچا ہوا مواد بھی یہاں جرمنی کے جلسہ کے آخری دن کی تقریر میں یہاں بیان کر دیا کریں تو جلسہ یو کے کے تسلسل میں پوری تقریر مکمل ہو جائے گی.تو ان دونوں مشوروں کو میں نے قبول کر لیا.اور آج میں احمدی خواتین کی عظیم الشان قربانیوں سے متعلق اسی مضمون کو دوسرا حصہ آپ کے سامنے پیش کروں گا جو جلسہ سالانہ یو.کے میں شروع کیا ہوا ہے.احمدی خواتین کے متعلق مغرب کی خواتین پتہ نہیں کیا بجھتی ہیں کہ کن گھروں میں بند ہیں.کس قسم کی زندگی گزار رہی ہیں.دنیا کی لذتوں سے نا آشنا کوئی مثبت قوم کی خدمت سے بے نیاز اور بس گھر کی روٹی پکائی اور بچے پیدا کئے اور اسی طرح بیچاریوں نے زندگی بسر کر کے اپنی عمر گنوا دی.یہ بالکل جھوٹا اور غلط تصور ہے.میں نے جیسا کہ جلسہ یو.کے میں یہ بات پیش کی تھی ایک کھلا چیلنج ہے

Page 288

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۲۸۴ خطاب ۱۲ ستمبر ۱۹۹۲ء تمام دنیا کی خواتین کے لئے کہ احمدی خواتین سی کوئی اور خواتین لا کر تو دکھاؤ کتنی عظمت کی زندگی ہے.کتنے اعلیٰ مقاصد کے لئے یہ وقف ہیں اور ان کی لذتوں کے معیار بدل چکے ہیں.تمہیں جو لذت سنگھار پٹار میں ملتی ہے مختلف قسم کی لغو لذتوں کی پیروی میں ملتی ہے.دکھاوے، نمائش اور ناچ گانوں میں ملتی ہے.اس سے بہت بہتر ، بہت اعلیٰ درجے کی لذتیں احمدی خواتیں کی زندگی کو منور رکھتی ہیں اور ان کے دلوں میں ایسی باقی رہنے والی لذات ہیں جو اس زندگی میں بھی ان کا ساتھ دیتی ہیں اور اُس دنیا میں بھی جہاں ہم نے سب نے مرکز آخر پہنچنا ہے.تو کچھ تعارف میں نے کروایا تھا اور کچھ تعارف آج کرواؤں گا کہ احمدی خواتین دنیا میں مثبت اقدام کے طور پر کیا کچھ کر رہی ہیں.قوموں کی زندگی میں کتنا بھر پور حصہ لے رہی ہیں اور جیسا کہ میں نے یہ پہلے بھی کہا ہے دنیا بھر کی تمام قوموں کی خواتین سے مقابلہ کر کے دیکھیں کسی قوم میں خواتین کی اتنی بھاری تعداد اتنے مثبت کاموں میں اور مفید کارآمد کاموں میں مصروف دکھائی نہیں دے گی جیسے کہ احمدی خواتین دکھائی دیتی ہیں.آج میں مالی قربانیوں سے متعلق مضمون شروع کرتا ہوں.یہ تو بہت وسیع مضمون ہے.ایک سمندر ہے احمدی خواتین کی مالی قربانیوں کا جسے کوزے میں سمونا بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن کام ہے.نمونہ میں نے چند باتیں چنی ہیں آپ کے سامنے رکھنے کے لئے تا کہ آپ کو بھی یادر ہے کہ آپ کون ہیں، کس مقام اور مرتبے سے تعلق رکھتی ہیں.آپ کے آنے والی نسلیں بھی اس بات کو یا درکھیں کہ کن ماؤں اور کن دادیوں کی بیٹیاں اور ان کی نسلوں سے تعلق رکھنے والی ہیں.اور باہر کی خواتین بھی پتہ تو کر میں آپ ہیں کون؟ آپ نے اپنے اندر کیا کیا داگی حسن چھپارکھا ہے؟ حضرت اماں جان سے بات شروع کرتا ہوں.حضرت اماں جان نے ہر قسم کے چندوں میں جماعت احمدیہ کی خواتین کے لئے ایسے پاک اور دائمی نمونے پیچھے چھوڑے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے دوڑ میں کوئی تیز رفتار جوان مضبوط آگے بڑھ کر رفتار کے معیار مقرر کرتا ہے اور دوسرے ساتھی اگر اس معیار پر پورے اتریں تو مقابلے میں شامل رہتے ہیں ورنہ بہت پیچھے رہ جاتے ہیں.اسی طرح اگر خواتین نیک کاموں میں دوڑیں لگا رہی ہیں تو آپ کو اس دوڑ والے قافلے کے سر پر حضرت اماں جان حضرت نصرت جہاں بیگم دکھائی دیں گی.واقعہ ہے، اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ مالی قربانی کیسے کی جاتی ہے اس کے نمونے حضرت اماں جان نے اس زمانہ میں دکھا دئے اور اللہ کے فضل سے احمدی خواتین نے پھر کوئی کمی نہیں کی بلکہ مسلسل اسی راہ پر اسی شان کے ساتھ ، اسی ولولے اور جذ بے

Page 289

حضرت خلیفہ مسیح الرابع سے مستورات سے خطابات ۲۸۵ خطاب ۱۲؍ ستمبر ۱۹۹۲ء کے ساتھ آگے قدم بڑھاتی رہیں.تحریک جدید کے چندے کی بات ہے لیکن اس سے پہلے بھی بہت کچھ اور باتیں بھی قابل ذکر ہیں.چوہدری برکت علی صاحب وکیل المال لکھتے ہیں آپ کا انہیں سالہ ( یعنی حضرت اماں جان ) کا انیس سالہ حساب تحریر کرتے ہوئے یہ نوٹ دینا ضروری ہے کہ آپ نے کسی سال بھی وعدہ نہیں فرمایا بلکہ ہر سال جوں ہی سیدنا حضرت خلیفتہ امیج ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحریک جدید کے چندے کا اعلان ہوتا ہے معاً بعد آپ اپنا چندہ گزشتہ سال سے اضافہ کے ساتھ نقد ادا فرماتیں اس طرح آپ سترھویں سال تک اپنی جیب خاص سے ادا فرماتی رہیں.آپ کی وفات کے بعد حضرت اماں جان نے آپ کی طرف سے سال ۱۸.۱۹ کا چندہ ادا فرمایا اور یہ چندہ ابھی بھی مسلسل جاری ہے.“ حضرت اماں جان نے جو چندہ کا معیار مقرر فرمایا تھا اب خاندان کی طرف سے وہ چندہ اسی طرح ادا کیا جا رہا ہے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے نام سے ساری جماعت واقف ہے انہوں نے حضرت میر حامد شاہ صاحب کے نام ایک خط لکھا اور اس کا یہ اقتباس سنانے اور سننے کے لائق ہے فرماتے ہیں: منارہ کے لئے زمین بفضل تعالیٰ ان کو مل گئی.حضرت اقدس کی توجہ از بس اس طرف مبذول ہے.قوم کی طرف سے چندہ آرہا ہے مگر از بس قلیل ہے.حضرت نے کل ایک تجویز کی.ایک سو آدمی جماعت میں سے ایسے منتخب کئے جائیں کہ ان کے نام حکماً اشتہار دیا جاوے کہ سوسور و پید ارسال کریں خواہ عورتوں کا زیور بیچ کر.در حقیقت یہ تجویز نہایت عمدہ ہے اور ایسی دینی ضرورتوں میں قوم کا روپیہ کام نہ آئے تو پھر کب؟ یاد رکھیں کہ اس زمانہ میں روپے کی کتنی قیمت تھی کہ دس ہزار روپے کل چاہئے تھا منارۃ المسیح کی تعمیر کے لئے اور اس کی یہ ترکیب سوجھی کہ سو آدمی اگر سوسور و پیہ دے دیں تو اتنی بڑی قربانی ہوگی کہ اس سے منارہ بھی بن جائے گا اور رہتی دنیا تک ان لوگوں کا نام یاد رکھا جائے گا.لکھتے ہیں: بیوی صاحبہ نے ( یعنی حضرت اماں جان نے ) ایک ہزار روپیہ چندہ منارہ میں لکھوایا.دہلی میں ان کا ایک مکان ہے اس کو فروخت کا حکم دیا ہے وہ اس چندے میں دیا جائے گا.“ تو حضرت اماں جان نے خاموشی کے ساتھ جو ابتداء میں جو قربانیاں کی ہیں وہ عام طور پر لوگوں کے سامنے نہیں آتیں مگر چونکہ ذکر تھا عورت کی قربانی کا اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ حضرت اماں جان کی قربانیوں سے ہی اس مضمون کو شروع کیا جائے.

Page 290

۲۸۶ خطاب ۱۲ ستمبر ۱۹۹۲ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات لنگر خانے کے اخراجات کیسے چلا کرتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں.اس کے متعلق ایک واقعہ جس میں حضرت اماں جان کی عظیم قربانی بھی شامل ہے.آپکو سناتا ہوں.ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر خرچ نہ رہا.ان دنوں جلسہ سالانہ کے لئے چندہ الگ نہیں آیا کرتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس جو کچھ ہوا کرتا تھا وہ خرچ کرتے چلے جاتے تھے.کچھ باہر سے احمدی محبت کرنے والے تحائف بھیجوا دیا کرتے تھے کچھ خاص ضروریات کے پیش نظر معین رقمیں پیش کر دیا کرتے تھے لیکن کوئی باقاعدہ جلسہ سالانہ کے لئے الگ رقم کہیں محفوظ نہیں ہوا کرتی تھی تو ایسی حالت میں میر ناصر نواب صاحب نے جو انتظام لنگر خانے کا کیا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ رات کو مہمانوں کے لئے کوئی سالن نہیں ہے یعنی اندازہ کریں کس قدر غربت کا حال تھا اس زمانے میں کہ روٹی کے لئے انتظام تھا لیکن سالن کے لئے مہمانوں کے لئے کوئی انتظام نہیں تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا کہ بیوی صاحبہ سے ( یعنی حضرت اماں جان کو اس وقت بیوی صاحبہ کہا جاتا تھا ) کہ زیور لے کر جو کفایت کر سکے فروخت کر کے سامان کرلیں.میر ناصر نواب صاحب کی بیٹی تھیں حضرت اماں جان.تو کہا گھر جاؤ، اپنی بیٹی کا زیور پکڑو اور تمہیں کیا چاہئے.چنانچہ وہ گئے اور حضرت اماں جان کا زیور فروخت یا رہن کر کے روپیہ لے آئے اور مہمانوں کے لئے سامان بہم پہنچا دیا.اس کے بعد پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں عرض کیا کہ آج کا گزارہ تو ہو گیا کل کیا بنے گا.آپ نے فرمایا کل کا میرا خدا حافظ ہے.تم کیا سمجھتے ہو کہ اسی طرح گزارے چلنے ہیں.خدا نے ضمانت دے رکھی ہے وہی ہے جو انتظام کرے گا.اور دوسرے دن اتنے منی آرڈ راکٹھے ملے کہ سب حیران رہ گئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھر کسی قسم کی روک پیدا نہیں ہوئی.تو یہ جو اچانک سامان کی فراہمی میں انقطاع ہوا یہ غالبا خدا تعالیٰ نے اسی لئے کیا کہ حضرت اماں جان کو ایک غیر معمولی قربانی کی توفیق بھی مل جائے اور آئندہ آنے والی احمدی خواتین کے لئے ایک پاک نمونہ ہمیشہ کے لئے قابل تقلید باقی رہ جائے.حضرت سیدہ ام ناصر حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی والدہ کا بھی بڑی محبت اور جذ بہ تشکر کے ساتھ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ذکر فرمایا.وہ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں اس طرح تحریک کی جس طرح حضرت خدیجہ کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کی

Page 291

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۲۸۷ خطاب ۱۲ ستمبر ۱۹۹۲ء تحریک کی تھی.انہوں نے اس امر کو جانتے ہوئے کہ اخبار میں روپیہ لگانا ایسا ہی ہے جیسے کنویں میں پھینک دینا.‘الفضل جو جاری کیا گیا تھا.حضرت مصلح موعود نے جاری فرمایا تھا.اس وقت تو مصلح موعود نہیں تھے مگر آپ ہی اس کے جانی مبانی ہیں اس کا ذکر فرمارہے ہیں کہ جب اس کے لئے ضرورت پیش آئی تو حضرت امی جان، ہم تو امی جان کہتے تھے، ام ناصر نے اپنا تمام زیور فروخت کر کے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں پیش کر دیا اور بچپن کے وہ کڑے بھی دے دئے جو انہوں نے اپنی بیٹی عزیزہ ناصرہ بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ کے لئے رکھے ہوئے تھے.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ میں وہ زیور لے کر فور الا ہور چلا گیا اور پونے پانچ سو کے وہ دونوں کڑے فروخت ہوئے.یہ ابتدائی سرمایہ الفضل کا تھا.الفضل اپنے ساتھ میری بے بسی کی حالت اور میری بیوی کی قربانی کو ہمیشہ تازہ رکھے گا.حضرت مصلح موعود کا یہ فقرہ بڑا دردناک ہے کہ ”میری بے بسی کی حالت لیکن اللہ کی شان دیکھیں کہ وہ بے بسی کی حالت کیسے تبدیل کی گئی ہے.آج دنیا کے کونے کونے میں احمدی خواتین اتنی عظیم قربانیاں کر رہی ہیں کہ بہت بڑے بڑے کام ان کی قربانیوں سے چلائے جارہے ہیں اور پرانے زمانے کی باتیں سن کر آدمی حیران ہوتا ہے کہ کبھی جماعت کا اتنی بھی ضرورت پیش ہوا کرتی تھی.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی حضرت سیدہ ام ناصر کی قربانی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ غالبا یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگی کہ سیدہ ام ناصر کو جو جیب خرج حضرت خلیفہ اسح الثانی کی طرف سے ملتا تھا اسے وہ سب کا سب چندے میں دے دیا کرتی تھیں اور اولین موصیوں میں سے بھی تھیں.بہت خاموش طبیعت تھیں.دکھاوے سے بہت متنفر اور قربانیاں خاموشی کے ساتھ بغیر کسی کو بتائے پیش کیا کرتی تھیں.لیکن خدا تعالیٰ نے چوں کہ ذکر خیر کو زندہ رکھنا تھا اس لئے ایک دو جھلکیاں ان قربانیوں کی روح کی ہمارے لئے احمد ی لٹریچر میں محفوظ کر دی گئیں.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے مجھے بتایا کہ مجھے تو میری بیوی نے پختہ احمدی بنایا ہے.اب میں دوسری خواتین کی باتیں کرتا ہوں.احمدی خواتین میں قربانیوں کا جذبہ کیسا تھا اور ابھی بھی ہے.مصلح موعود نے ایک احمدی خاتون کے متعلق فرمایا کہ اس کے خاوند نے مجھے بتایا کہ میں تو کوئی اچھا احمدی نہیں تھا، ایسا ویسا ہی تھا.میری بیوی نے مجھے اچھا احمدی بنایا ہے وہ کہتے ہیں اس طرح کہ میں جب تنخواہ لے کر گھر آتا تھا تو میری بیوی مجھ سے پہلے یہ پوچھا کرتی تھی، چندہ دے آئے ہو؟ تو میں کہ دیتا تھا کہ ابھی کل دے دوں گا جلدی کیا ہے.تو وہ کہتی تھی کہ جب تک اس روپے میں خدا

Page 292

حضرت خلیفہ صیح الرابع ' کے مستورات سے خطابات ۲۸۸ خطاب ۱۲ ستمبر ۱۹۹۲ء کا مال شامل ہے میرے لئے حرام ہے.میں تو آج کھانا نہیں پکاؤں گی پہلے چندہ دے کر آؤ، مجھے رسید دکھاؤ تب میں کھانا پکاؤں گی.چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ میں اسی طرح کیا کرتا تھا اور بیوی کی قربانی تھی جس نے مجھے اچھا احمدی بننے کے راز سکھائے.اور اللہ کے فضل سے اب میں صف اول کا احمدی بن چکا ہوں.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ جب تقسیم ملک ہوئی اور ہم ہجرت کر کے پاکستان آئے تو جالندھر کی ایک احمدی عورت مجھے ملنے کے لئے آئی.رتن باغ میں ہم مقیم تھے وہیں آکر ملی اور ا پناز یور نکال کر کہنے لگی کہ حضور میرا یہ زیور چندے میں دے دیں.اس زمانے میں بہت ضرورت ہوا کرتی تھی.بہت زیادہ غربت تھی.مجھے یاد ہے کہ پارٹیشن کے بعد رتن باغ میں جب ہم ٹھہرے ہوئے تھے تو سارے خاندان کا خرچ حضرت مصلح موعود پر تھا اور روٹی کا راشن تھا.ایک روٹی سے زیادہ کسی کو نہیں ملتی تھی اور بعض بچے شور مچاتے تھے کہ ہم نہیں کھائیں گے ایک روٹی.ہمیں دوسری روٹی چاہئے اور ابھی ہماری ایک عزیزہ نے ہمارے چا کی بیٹی ہیں انہوں نے مجھے لندن میں چند دن پہلے بتایا کہ پہلے آدھی روٹی مقرر ہوئی تھی اور ہم نے ہڑتال کر دی کہ ہم نے نہیں آدھی روٹی کھانی.چا ابا کی بچیاں کھائیں بے شک ، ہم نہیں کھائیں گے.یعنی حضرت مصلح موعود کے بچے کھاتے ہیں تو کھا ئیں ہم نہیں کھا سکتے تو پھر وہ راشن بڑھا کر ایک روٹی کر دیا گیا اور وہ بھی ہلکی روٹی ہوا کرتی تھی اس لئے پوری نہیں آیا کرتی تھی ، تو یہ اس زمانے کی بات ہے جب کہ اس قد ر غربت کا حال تھالٹ لٹا کر پہنچے تھے.نئے انتظام بھی شروع نہیں ہوئے تھے.تو حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں وہ عورت آئی اور مجھے کہا میرا سارا زیور لے لیں.میں نے اسے سمجھایا کہ دیکھو دن کون سے ہیں تمہیں بھی ضرورت ہے، تمہارے خاندان کو ضرورت ہوگی یہ رکھ لو اس نے کہا کہ بات یہ ہے کہ یہ زیور جب میں چلی تھی تو اس نیت سے لے کر چلی تھی کہ میں اسے خدمت دین میں پیش کروں گی.باقی سب چیزوں نے سکھوں نے لوٹ لیں.یہ بھی لوٹ سکتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت فرمائی ہے میری اس نیت کی وجہ سے اس لئے یہ تو ممکن ہی نہیں ہے کہ میں اسے اپنے گھر رکھوں.آپ سارا لیں.میں دے کر جاؤں گی.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ میں پھر مجبور ہو گیا اور اس کا زیور سارے کا سارا جماعت کے کام میں آیا.اس زمانہ میں جماعت کو چونکہ ضرورت بہت تھی اس لئے یقیناً اس سے بہت بڑا فائدہ پہنچا ہوگا.یہ قربانیاں صرف ایک خطے اور ایک ملک کی عورتوں کی طرف سے نہیں ہیں.میں جانتا ہوں افریقہ میں بھی خدا کے فضل سے احمدی خواتین بہت قربانیاں کر رہی ہیں.خود محنت کر کے کماتی ہیں اور

Page 293

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۲۸۹ خطاب ۱۲ ستمبر ۱۹۹۲ء پھر جو کچھ ہاتھ آتا ہے قربانیوں کی تحریکوں کے وقت بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں ایک ایسی ہی خاتون کا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ذکر فرمایا تھا جب آپ نائیجیریا کے دورہ پر گئے تو آپ نے بیان کیا کے میرے علم میں افریقی ممالک کا کوئی اکیلا مرد ایسا نہیں ہے جس نے بیک وقت ۲۵/۳۰ ہزار پونڈ چندہ دیا ہو.لیکن جب افریقہ کے دورہ پر نائیجیریا میں میں نے تحریک کی کہ ہم چاہتے ہیں کہ ایک احمد یہ ریڈیو اسٹیشن قائم کیا جائے تو ایک عورت نے اکیلی نے ۳۰/ ۲۵ ہزار پونڈ اس میں چندہ پیش کیا.تو دنیا بھر میں ایک عظیم انقلاب برپا ہو رہا ہے.احمدی خواتین غیر معمولی قربانیاں پیش کر رہی ہیں اور جماعت جو ہر جگہ ترقی کر رہی ہے اس میں ان قربانیوں کا دو طرح سے دخل ہے.اول تو مالی ضروریات کا اس زمانے میں مہیا ہو جانا کہ کسی جگہ بھی تنگی محسوس نہ ہو.یہ اللہ کا غیر معمولی فضل ہے اور دنیا کی کسی اور قوم میں ایسی مثال دکھائی نہیں دیتی.میں نے بارہا اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ جب بھی میں نے کوئی تحریک کی ہے.کسی دینی کام کے لئے ضرورت پیش آئی ہے، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مجھے فکر ہو کہ اب یہ کام کیسے چلے گا.اللہ تعالیٰ ضرورت سے زیادہ ہی مہیا فرما تا رہا ہے.یورپین مراکز کے لئے جو میں نے تحریک کی تھی اس میں عورتوں نے کس طرح قربانی کی اس کے نمونے میں آپ کے سامنے پڑھ کر سناؤں گا.اس سے آپ کو انداز ہوگا که احمدی خواتین اللہ تعالیٰ کے فضل سے نیکی کے کاموں میں تمام دنیا کی خواتین سے آگے ہیں.حضرت مصلح موعود پرانے زمانے کا ذکر فرماتے ہیں جب کہ بہت زیادہ ابھی غربت تھی.کہتے ہیں ایک بڑھیا خاتون نے جس کا خاوند فوت ہو چکا تھا، حضور کی تحریک پر باوجود غربت کے وعدہ کیا کہ آٹھ آنے ماہوار ادا کروں گی آپ اندازہ کریں اس وقت آٹھ آنے کی کیا قیمت ہے اس وقت اور اس زمانے میں آٹھ آنے ماہوار ادا کرنا اس کے لئے اتنا مشکل تھا کہ چند مہینے اس نے آٹھ آنے ماہوار ادا کئے اور اس کے بعد پھر بے قرار ہوگئی کہ ایک سال لگے گا مجھے وعدہ پورا کرتے ہوئے.حضرت مصلح موعود کی خدمت میں باقی پیسے پیش کرتے ہوئے اس نے کہا کہ اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ خواہ فاقے کرنے پڑیں میں اکٹھا دوں گی.وہ آٹھ آنے بچانے کے لئے اس عورت کو واقعہ فاقے درپیش تھے تو بظاہر یہ ایک بہت معمولی قربانی تھی لیکن وہ جذبہ، وہ اخلاص ، وہ حیرت انگیز اللہ تعالیٰ کی محبت میں فنا ہو کر اپنے اموال پیش کرنا یہ وہی ہے جو آج ساری جماعت کے کام آ رہا ہے.

Page 294

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۲۹۰ خطاب ۱۲؍ ستمبر ۱۹۹۲ء پس یہ دوسرا پہلو عورت کی مالی قربانی کا یہ ہے کہ ان کی قربانیاں جب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہوتی ہیں تو وہ زندہ جاوید بنادی جاتی ہیں.زندہ جاوید اس طرح نہیں کہ ان کا ذکر چلتا ہے بلکہ اس طرح کہ وہی قربانیاں ہیں جو آئندہ نسلوں میں سرایت کرتی چلی جاتی ہیں.آج جو آپ لوگوں کو خدا کے حضور غیر معمولی قربانیوں کی توفیق مل رہی ہے اس میں یقیناً ان ماؤں ،ان دادیوں کا دخل ہے، جنہوں نے چار چار آٹھ آٹھ آنے کی قربانیاں اس طرح پیش کیں گویا اپنا لہو پیش کر رہی ہوں اور اللہ تعالیٰ نے اس لہو کو ایسے رنگ لگائے کہ آج تمام دنیا میں خواتین عظیم قربانیاں پیش کر رہی ہیں اور بڑے بڑے کام ان کی قربانیوں کے نتیجے میں خدمت دین کے لئے جارہے ہیں.اللہ تعالیٰ اس جذ بے کو ہمیشہ سلامت اور دائم اور قائم رکھے.ملکانہ کا زمانہ جو شدھی کا دور تھا ہندوستان میں ایک وقت ایسا آیا تھا کہ ہندؤں نے بڑے وسیع پیمانے پر راجپوت مسلمانوں کو ہندو بنانے کی تحریک شروع کی.باقی مسلمان تو اشتعال انگیز تقریریں کرتے رہے.بڑے بڑے دعوے کرتے رہے، جماعت احمدیہ کی طرف سے حضرت مصلح موعود کی تحریک پر کثرت کے ساتھ احمدیوں نے اپنے آپ کو پیش کیا ، وہ اپنے خرچ پر جائیں گے اور اپنے خرچ پر رہیں گے.اور وہاں کی غربت کے حالات کی وجہ سے یہ بھی ضرورت تھی کہ کچھ کپڑے پیش کئے جائیں تو احمدی خواتین نے وہاں کی مسلمان بہنوں کو ہندوں کی لالچ سے بچانے کے لئے اپنے کپڑے دئے ، اپنے دوپٹے دئے.ایک مؤرخ احمدیت لکھتے ہیں کہ جب عورتیں دوپٹے پیش کر رہی تھیں یعنی ایسا غربت کا دور تھا کہ ۲۰ دوپٹے پیش ہوئے تو اس کا اخباروں میں اشتہا رنکل آیا.الفضل میں یہ بات شائع ہوگئی کہ قادیان کی احمدی خواتین نے ۲۰ دوپٹے پیش کئے ہیں.آج آپ کے لئے دوپٹے ، چنیوں کی حیثیت ہی کوئی نہیں ہے.بلکہ بعض بے چاریاں تو ضرورت بھی نہیں سمجھتی اس کی.لیکن اس زمانے میں ۲۰ دوپٹے پیش کرنا بڑی بات تھی.اور اس میں ہماری ہمشیرہ امتہ القیوم کا بھی ذکر آیا ہوا ہے کہ انہوں نے وہ چھوٹی سی تھیں.انہوں نے چھوٹی سے چینی پیش کر دی کہ کسی ملکانی عورت کی بچی کو میری طرف سے یہ پیش کر دینا.اب میں آپ کو بتا تا ہوں کہ مساجد کی تعمیر میں احمدی خواتین نے کتنا عظیم کردار ادا کیا ہے اور یہ ذکر جرمنی سے چلتا ہے اور اس لحاظ سے جرمنی میں اس کا ذکر کرنا مناسب حال ہے.جب سے پہلے برلن مسجد کی تحریک ہوئی ہے.تو حضرت مصلح موعود نے احمدی خواتین سے کہا کہ میں چاہتا

Page 295

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۲۹۱ خطاب ۱۲ ستمبر ۱۹۹۲ء ہوں کہ برلن مسجد کا سارا خرچ احمدی خواتین ادا کریں.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خواتین نے اس دعوت کو قبول کیا.بڑے جذبے کے ساتھ لبیک کہا اور عظیم الشان قربانیوں کے نظارے آسمان پر احمدیت پر ستاروں کی صورت میں لکھے گئے.اسی طرح بیت الفضل لنڈن میں بھی احمدی خواتین نے غیر معمولی کردار ادا کیا.اور بیت المبارک ہیگ میں بھی جو احمدی خواتین کی قربانی سے بنائی گئی.بیت نصرت جہاں کو پن ہیگن بھی احمدی خواتین کی قربانی سے بنائی گئی.حضرت مصلح موعود حضرت اماں جان سے متعلق فرماتے ہیں کہ بڑی رقموں میں سے ایک رقم حضرت اماں جان کی طرف سے پانچ سو روپے کی تھی.ہماری جائیداد کا ایک حصہ فروخت ہوا تھا اس میں سے ان کا حصہ ۵۰۰ روپے بنتا تھا انہوں نے وہ سب کا سب اس چندہ میں دے دیا.میں جانتا ہوں کہ ان کے پاس بس یہی نقد مال تھا.حضرت مصلح موعود اسی جرمنی میں بیت کی تعمیر کے سلسلہ میں لکھتے ہیں کہ آپ نے یہ تحریک فرمائی کہ اگر اس کام کو صرف عورتیں ہی مل کر پورا کریں تو یہ سلسلہ کی بہترین خدمات میں سے ایک خدمت شمار ہوگی اور آئندہ آنے والی نسلیں ہماری عورتوں کی سعی اور ان کی ہمت کو دیکھ کر اپنے ایمانوں کو تازہ کریں گی اور ان کے دلوں سے بے اختیار ان کے لئے دعا نکلے گی.جو ہمیشہ کے لئے موت کے بعد کی زندگی میں ان کے درجوں کی ترقی کا موجب ہوتی رہے گی.اس قدر چندہ کی وصولی خاص تائید الہی کے بغیر نہیں ہو سکتی تھی اور میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اس چندہ کے ساتھ شامل ہے.ان دنوں میں قادیان کے لوگوں کا جوش و خروش دیکھنے کے قابل تھا اور اس کا وہی لوگ ٹھیک اندازہ کر سکتے ہیں جنہوں نے اس کو آنکھوں سے دیکھا ہو.مرد اور عورت اور بچے سب ایک خالص نشہ محبت میں چور نظر آتے تھے کئی عورتوں نے اپنے زیور اتار دیئے اور بہتوں نے ایک دفعہ چندہ دے کر پھر دوبارہ جوش آنے پر اپنے بچوں کی طرف سے چندہ دینا شروع کیا پھر بھی جوش کو بتا نہ دیکھ کر اپنے وفات یافتہ رشتہ داروں کے نام سے چندہ دیا.چونکہ جوش کا یہ حال تھا کہ ایک بچے نے جو ایک غریب اور محنتی آدمی کا بیٹا تھا مجھے ساڑھے تیرہ روپے بھیجے کہ مجھے جو پیسے خرچ کے لئے ملتے تھے ان کو میں جمع کرتا رہتا تھا وہ میں سب کے سب اس چندہ کے لئے دیتا ہوں.نا معلوم کن کن امنگوں کے ماتحت اس بچے نے وہ پیسے جمع کئے ہوں گے لیکن اس کے مذہبی جوش نے خدا کی راہ میں ان پیسوں کے ساتھ ان امنگوں کو بھی قربان کر دیا.حضرت مصلح موعود اس زمانے میں برلن بیت الذکر کی تحریک کے دوران ایک احمدی پٹھان

Page 296

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۹۲ خطاب ۱۲ ستمبر ۱۹۹۲ء عورت کی قربانی کا ذکر فرماتے ہیں.کہتے ہیں ضعیف تھی چلتے وقت قدم سے قدم نہیں ملتا تھا.لڑکھڑاتے ہوئے چلتی تھی میرے پاس آئی اور دو روپے میرے ہاتھوں میں تھا دیئے.زبان پشتو تھی.اردو اٹک اٹک کے تھوڑا تھوڑا بولتی تھی.اتنی غریب عورت تھی کہ جماعت کے وظیفہ پر چل رہی تھی.اس نے اپنی چنی کو ہاتھ لگا کر دکھایا کہ یہ جماعت کی ہے.اپنی قمیض کو ہاتھ میں پکڑ کر بتایا کہ یہ جماعت کی ہے.جوتی دکھائی.یہ بھی جماعت کی ہے اور جو وظیفہ ملتا تھا اس میں سے جو دوروپے تھے وہ بھی کہتی ہے جماعت ہی کے تھے میں نے اپنے لئے اکٹھے بچائے ہوئے تھے.اب میں یہ جماعت کے حضور پھر پیش کرتی ہوں.کتنا عظیم جذبہ تھاوہ دوروپے جماعت ہی کے وظیفہ جاری تھا اسی سے بچائے ہوئے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے حضور ان دو روپے کی عظیم قیمت ہوگی.حضرت مصلح موعود کہتے ہیں اس نے کہا یہ جوتی دفتر کا ہے میرا قرآن بھی دفتر کا ہے یعنی میرے پاس کچھ نہیں ہے میری ہر ایک چیز بیت المال سے مجھے ملی ہے.فرماتے ہیں اس کا ایک ایک لفظ ایک طرف تو میرے دل پر نشتر کا کام کر رہا تھا دوسری طرف میرا دل اس محسن کے احسان کو یاد کر کے جس نے ایک مردہ قوم میں سے ایسی زندہ اور سر سبز روحیں پیدا کر دیں شکر و امتنان کے جذبات سے لبریز ہو رہا تھا اور میرے اندر سے یہ آواز آرہی تھی.خدایا تیرا مسیحا کس شان کا تھا جس نے ان پٹھانوں کو جو دوسروں کا مال لوٹ لیا کرتے تھے.ان پٹھانوں کی ایسی کا یا پلٹ دی کہ وہ تیرے دین کے لئے اپنے ملک اور اپنے عزیز اور اپنے مال قربان کر دینے کو ایک نعمت سمجھتے ہیں.برلن بیت کے ضمن میں فرمایا.ایک پنجابی بیوہ عورت نے جس کے پاس زیور کے سوا کچھ نہ تھا اپنا ایک زیور بیت کے لئے دے دیا.ایک اور بیوہ عورت جو ئی یتیم بچوں کو پال رہی تھی اور زیور اور مال میں کچھ بھی پیش کرنے کے لئے موجود نہ تھا.اپنے استعمال کے برتن چندہ میں دے دئے.ایک بھاگلپوری دوست کی بیوی دو بکریاں لئے الدار میں پہنچی اور کہا کہ ہمارے گھر میں ان کے سوا اور کوئی چیز نہیں یہی دو بکریاں ہیں جو قبول کی جائیں.برلن بیت الذکر کے لئے ایک غریب عورت کی قربانی کا یہ ذکر تاریخ احمدیت میں ملتا ہے.ایک خاتون نے اپناز یور چندہ میں دے دیا تھا.دوبارہ گئی کہ بعض برتن بھی لا کر حاضر کر دوں.اس کے خاوند نے کہا تو زیور دے چکی ہے اب برتن بھی لے کے جارہی ہے.اس کا جواب سنیئے.اس نے جواب دیا کہ میرے دل میں اس قدر جوش پیدا ہوا ہے کہ اگر خدا اور اس کے دین اور اس کے رسول اللہ

Page 297

حضرت خلیفتہ اسح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۲۹۳ خطاب ۱۲؍ ستمبر ۱۹۹۲ء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ضرورت پیش آئے اور یہ جائز ہو تو میں تجھے بھی فروخت کر کے چندے میں دے دوں.یعنی اپنے خاوند کو کہتی ہے کہ تم برتنوں کی بات کر رہے ہواگر یہ جائز ہو.اور اللہ کی طرف سے اجازت ہو آج میرا بس چلے تو تجھے بھی بیچ دوں اور جو پیسے آئیں وہ بھی چندے میں دے دوں.یہ جرمنی ملک جس میں ہم اس وقت بیٹھے ہوئے ہیں ان کا جماعت پر بڑا احسان ہے مگر وہ قربانیاں جوغریبوں نے جرمن قوم کو دین سکھانے کے لئے پیش کی تھیں وہ چند آنوں کی ہوں ، بکریوں کی ہوں ، دو پٹوں کی ہوں یا زیورات کی یا گھر کے برتنوں کی.امر واقعہ یہ ہے کہ ان کی چمک دمک کو آئندہ زمانوں کی کوئی بھی قربانیاں ماند نہیں کر سکتیں.قربانی کا تعلق دل کے جذبوں سے ہوا کرتا ہے.پیسوں کی مقدار قربانی نہیں بنایا کرتی.وہ ولولے وہ جذ بے وہ پچھلتی ہوئی روح جو قربانی کو پیش کرنے کے لئے بے قرار ہوا کرتی ہے وہی ہے جس سے قربانی کے معیار بنتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان کہ احمدی عورتوں نے جرمنی کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے اور جرمن قوم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین میں داخل کرنے کی خاطر خدا تعالیٰ کے حضور جو قربانیاں پیش کی ہیں اگر چہ وہ بیت الذکر نہیں بن سکی مگر یہ قربانیاں ہمیشہ زندہ رہیں گی.اور یہی وہ قربانیاں ہیں جنہوں نے آئندہ آنے والی احمدی نسلوں کے لئے رفتار کے وہ معیار مقرر کر دئے تھے جن پر آج بھی جماعت احمدیہ کی عورتیں اسی دھن کے ساتھ اسی جذبے کے ساتھ اسی ولولے کے ساتھ گامزن ہیں.جب مسجد نصرت جہاں کو پن ہیگن کی تحریک ہورہی تھی اور عورتیں جس طرح والہانہ طور پر سب کچھ حاضر کر رہی تھیں تو اتفاق سے ایک غیر احمدی عورت بھی وہاں بیٹھی یہ نظارہ دیکھ رہی تھی اس نے یہ تبصرہ کیا کہ ہم نے لوگوں کو دیوانہ وار پیسے لیتے تو دیکھا ہے لیکن دیوانہ وار پیسے دیتے کبھی نہیں دیکھا تھا.یہ آج احمدی عورتوں نے ہمیں بتایا ہے کہ پیسے لیتے ہوئے جوش نہیں ہوا کرتا اصل جوش وہ ہے جو پیسے دیتے وقت خدا کی راہ میں مالی قربانیاں پیش کرتے وقت دکھایا جائے.یہ وہ زندگی کی علامت ہے اللہ کے فضل کے ساتھ جس نے احمدی خواتین کو سب دنیا میں ممتاز کر دیا ہے.نائیجیریا میں جب حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے تحریک فرمائی تو میں نے بتایا ہے کہ ایک خاتون نے ۳۰/ ۲۵ ہزار پاؤنڈ پیش کئے.اسی طرح ایک اور خاتون الحاجہ الا رگا نے بھی دس ہزار پاؤنڈ مسجد کے لئے پیش کئے.امریکہ میں پرانے زمانوں میں بہت غربت تھی یعنی احمدی چونکہ اکثر ایفر وامریکنز میں سے

Page 298

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۲۹۴ خطاب ۱۲ ستمبر ۱۹۹۲ء آئے تھے اور ان کے حالات اس زمانے میں بہت ہی غربت کے حالات تھے تو احمدی خواتین خدمت کر کے اپنی قربانی کی روح کو تسکین دیا کرتی تھیں.ایک ہماری مخلص احمدی خاتون ہیں وہ کلیولینڈ اوہائیو(OHIO) سے تعلق رکھتی ہیں انہوں نے بتایا ہے کہ ہم اتنے غریب تھے اور میرا سارا خاندان اتنا شکستہ حال تھا کہ کچھ بھی ہم خدمت کرنے کے لائق نہیں تھے میں یہ کہا کرتی تھی اپنے خدمت کے جذبے کو تسکین دینے کے لئے کہ جمعہ کے روز علی الصبح مشن ہاؤس جاتی اپنے ساتھ پانی کی بالٹی لے جاتی تھی اور گھر میں بنائے ہوئے صابن کا ٹکڑا اور کپڑا لے جاتی تھی.یعنی اس زمانے میں امریکہ جیسے ملک میں بھی صابن خریدنے کی توفیق نہیں تھی ان کو.گھر میں بنایا کرتی تھیں اور پھر جاکے ساری مسجد کو دھوتی ، پالش کرتی اور جمعہ سے پہلے اس لئے واپس آجایا کرتی تھی کہ کسی کو پتہ نہ لگے کہ یہ کام کس نے کیا ہے.عجب حسین اور ہمیشہ زندہ رہنے والی قربانیاں ہیں.لیکن بے آواز ہیں اور ہر ملک میں اس قربانی میں احمدی عورتیں برابر شریک ہوئی ہیں.اب اس زمانے میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی خاتون کے جذ بہ قربانی پر کوئی برا اثر نہیں پڑا.برا اثر تو کیا جہاں تک قربانی کے عمومی معیار کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں کہ عالمی حیثیت سے احمدی خواتین قربانی میں آگے بڑھی ہیں پیچھے نہیں ہیں.میں نے اپنے دور میں جو تحریکات کی ہیں ان کے نتیجہ میں میں جانتا ہوں کہ اتنی عظیم الشان قربانیاں احمدی خواتین نے کی ہیں اور اس خاموشی کے ساتھ کیں کہ بعض دفعہ ان کے خط پڑھتے ہوئے میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو جایا کرتے تھے.میں دعا کیا کرتا تھا کہ کاش میری اولاد میں بھی ایسی بیٹیاں ہوں جواس شان کے ساتھ اس پیار اور اس محبت کے ساتھ اللہ کے حضور اپنا سب کچھ پیش کر دینے والیاں ہوں.تو اس زمانے میں مجھے یاد ہے یورپ کے مشنوں کی جب میں نے تحریک کی ہے.عجیب کیفیت میں دن کئے ہیں.بعض دفعہ احمدی خواتین کے حالات جانتے ہوئے میں منتیں کیا کرتا تھا کہ آپ یہ نہ کریں.آپ کی طرف سے میں دے دوں گا لیکن وہ باز نہیں آیا کرتی تھیں.مجبور کر دیا کرتی تھیں کہ ہمارا حال خدا پر رہنے دو ہم کسی اور سے پیچھے نہیں رہ سکتیں.بڑے ہی دردناک نظارے ہیں جو آج بھی میری آنکھوں کے سامنے آتے ہیں تو میرے لئے ضبط کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور کون دنیا میں کہہ سکتا ہے کہ یہ خواتین پسماندہ خواتین ہیں، بے کار ہیں، گھروں میں بند ہیں.جو احمدی خواتین اس وقت دنیا کے سامنے مثبت کاموں کے نمونے پیش کر رہی ہیں کوئی دنیا کی دوسری قوم ان کے پاسنگ کو بھی نہیں آتی.میں چند نمونے آپ کے

Page 299

حضرت خلیفہ مسیح الرابع سے مستورات سے خطابات ۲۹۵ سامنے رکھتا ہوں.خطاب ۱۲؍ ستمبر ۱۹۹۲ء ایک ماں نے میرے پاس دس ہزار روپے بھیجے.وہ بھتی ہے کہ میرے پاس بیٹی کے زیور کے.لئے دس ہزار روپے جمع تھے جو سنار کو دئے ہوئے تھے کہ زیور خرید لوں لیکن یہ خطبہ سن کر دل نے فیصلہ کیا کہ جب میرا خدا بیٹی کے لئے ساتھی دے گا تو زندہ خدا اس کو زیور بھی دے دے گا.آج میرے خلیفہ کو ضرورت ہے چنانچہ وہ پیسے سنار کودئے ہوئے واپس لے کر اس یورپین مشن کے چندے میں بھیج دئے.ایک اور عورت سھتی ہے.میں نے کچھ عرصہ پہلے اپنا زیور کا سیٹ مبلغ چار ہزار روپے میں فروخت کیا تھا اور خیال تھا کہ کچھ اور رقم شامل کر کے ذرا بھاری سیٹ بنواؤں گی تاکہ بچیوں کے کام آسکے.لیکن بچیوں کے لئے اللہ کوئی اور انتظام کر دے گا اب زیور بنوانے کی کوئی خواہش نہیں رہی میری طرف سے یورپ مشنز کے لئے یہ حقیر رقم قبول فرما ئیں.ایک واقف زندگی کی بیگم نے لکھا.اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ میں اس قربانی کے موقع پر حاضری دوں اور قرآن مجید کے حکم لن تنالوا البر حتى تنفقو مما تحبون ( آل عمران :۹۲) کے مطابق یعنی تم ہرگز نیکی کونہیں پا سکو گے جب تک اس میں سے خرچ نہ کرو جو تمہیں عزیز ہو جوتمہیں پیارا ہو.کہتی ہیں کہ اس آیت کے تابع میں نے سوچا کہ جو چیز مجھے اپنی ملکیت کی چیزوں میں سے سب سے زیادہ پیاری ہے وہ پیش کروں تو میں نے دیکھا کہ میرے گلے کا ہار جو سب زیوروں میں سے زیادہ بھاری ہے ، وہی مجھے سب سے زیادہ پیارا ہے.پس میں یہ ہار یورپ کے مشن کے لئے پیش کرتی ہوں.پھر لکھتی ہیں کیوں اس وقت تو اسلام کی ترقی اور عظمت ہی ہمارے گھر کا اصل ہار ہے.اور اصل زینت کا باعث یہی ہے.اس لئے مجھے یہی اسلام کی زینت زیادہ پیاری ہے.ایک صاحبہ بھتی ہیں اپنی بچی کے متعلق کہ میری ایک بیٹی جس کی عمر تقریباً ۵ سال ہے اس کے کانوں میں صرف دو بالیاں تھیں اور ناک ڈالنے والے دوکو کے تھے وہ بے قرار ر ہوگئی اور اتار کر دے دئے اور کہنے لگی کہ ابا جان یہ میرے آقا کے حضور پیش کر دیں اور اس جذبے سے اس نے کہا کہ باپ بھی اسکا انکار نہیں کر سکا اور اسی طرح مجھے بھجوادئے.بعض واقفین زندگی دین کی خدمت کرنے والے ایسے تھے جن کی خواتین کے پاس کچھ بھی نہیں تھا پیش کرنے کے لئے.تو انہوں نے اپنے بچے پیش کئے.اور جو وقف نو کی تحریک ہے یہ بعد میں چلی ہے بعض عورتوں نے اس سے بہت پہلے اس وجہ سے کہ ہمارے پاس کچھ دینے کے لئے نہیں ہے

Page 300

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۲۹۶ خطاب ۱۲؍ ستمبر ۱۹۹۲ء اپنے بچوں میں سے جو سب سے پیار لگتا تھا وہی خدمت دین کے لئے پیش کر دیا تھا.ایک خاتون نے لندن سے انہوں نے اپنے نکاح کی ایک نشانی رکھ کر باقی سب کچھ خدا کی راہ میں پیش کر دیا.لندن ہی سے ایک اور خاتون نے لکھا آج جب میں نے آپ کا خطبہ سنا تو میری نظر ایک دم میرے ہاتھ کی چوڑیوں اور باقی زیور پر پڑی.میں نے گھر آ کر اتار دیں اور کہا عید سے پہلے یہ چیزیں اسلام کے لئے دے دوں اور عید پر کچھ نہ پہنوں حضور یہ آپ قبول فرمائیں.میرا خدا میرے لئے کافی ہے.ایک واقف زندگی کی غریب بیٹی نے لکھا.سیدی ! میرے پاس ایک انگوٹھی اور کانٹا زیور تھا میں نے کانٹا سلسلہ احمدیہ کو پیش کر دیا ہے.حضور جہاں چاہیں خرچ کریں.میں بہت غریب اور تنگ حال خادمہ ہوں مگر جب میرے باپ نے خدا کی خاطر اپنی زندگی وقف کر دی تو میرا بھی تو حق تھا کہ میں کچھ قربانی پیش کرتی.ایک جرمن خاتون نے لکھا کہ میں نے جب احمدی عورتوں کا جذ بہ قربانی دیکھا ہے تو میرے دل میں بھی ایک لگن لگ گئی ہے کہ میں کچھ پیش کروں لیکن اتفاق سے اس وقت میرے پاس کوئی نقدی، کوئی چیز پیش کرنے کے لئے نہیں ہے اس لئے میں اپنا ایک پیارا بیٹا خدمت دین کے لئے پیش کرتی ہوں.جس طرح چاہیں اس سے کام لیں جو چاہیں سلوک کریں میری طرف سے اب آپ کا ہو چکا ہے.دعوت الی اللہ کی جب میں نے تحریک کی ہے تو اس میں بھی احمدی خواتین نے بفضلہ تعالیٰ بھر پور حصہ لیا ہے.بھر پور حصہ سے یہ مراد نہیں ہے کہ جس طرح چندہ میں کثرت سے احمدی شامل ہوئی ہیں اس طرح کثرت سے احمدی خواتین نے تبلیغ کی ہو.یہ پہلوا بھی باقی ہے.لیکن بعض احمدی خواتین نے جس شان کے ساتھ لبیک کہی اور جس طرح دل لگا کر اور جان ڈال کر تبلیغ کی کوشش کی ہے اس کے بہت اچھے اچھے پھل بھی اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے.میں چند نمونے آپ کے سامنے اس وقت پیش کرتا ہوں باقی مضمون تو انشاء اللہ آئندہ جاری رہے گا.اس غرض سے تا کہ آپ کو احساس ہو کہ یہ وہ میدان ہے قربانی کا جس میں ابھی آپ پیچھے ہیں اور میں یہ پسند نہیں کرتا کہ احمدی خواتین جنہوں نے اتنا شاندار ماضی جگمگا تا ہوا ماضی اپنے پیچھے چھوڑا ہے وہ کسی ایک تحریک میں بھی پیچھے رہ جائیں.پس دعوت الی اللہ کے کام کی طرف بھی آپ کو بھر پور توجہ دینی چاہئے اور یہ وہ خدمت ہے جس کے نتیجے میں رہتی نسلوں تک ہمیشہ ہمیش کے لئے

Page 301

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۲۹۷ خطاب ۱۲؍ ستمبر ۱۹۹۲ء آپ پر درود اور سلام بھیجنے والے پیدا ہوں گے کیونکہ جو شخص آپ کی تبلیغ سے مسلمان ہوگا اللہ کے فضل سے اس کی آئندہ ساری نسلیں بھی آپ کے زیر ا حسان رہیں گی اور قیامت تک وہ جتنے نیک کام کریں گے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وعدے کے مطابق ان کی نیکیاں آپ کے نام لکھیں جائیں گی کیونکہ جو شخص بھی ایک نیکی کا سلسلہ جاری کرتا ہے اللہ کے فضل کے ساتھ ثواب میں اس کو شامل کر لیا جاتا ہے جبکہ خدمت ، نیکی کرنے والے کے حصے میں سے کچھ بھی کا ٹا نہیں جاتا.تو یہ اللہ کا حساب ہے جو اس طرح چلتا ہے تو میں آپ کے سامنے چند نمونے رکھ کر اجازت چاہوں گا.لیکن اس توقع کے ساتھ کہ آپ کے دل میں بھی ولولے پیدا ہوں.آپ کو بھی خیال آئے کہ ہم بھی دعوت الی اللہ کے کام میں آگے بڑھیں اور اگر مرد پوری توجہ سے یہ کام نہیں کر رہے.تو عورتیں ہی یہ کام کرنا شروع کر دیں.بسا اوقات تاریخ اسلام میں ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ جہاں مرد پیچھے رہے گئے وہاں عورتیں آگے بڑھیں اور ان کا نمونہ دیکھ کر پھر مردوں کو بھی ہوش آ گئی.تو خدا کرے جرمنی کے مردوں کے لئے دعوت الی اللہ میں احمدی خواتین اسی قسم کا ایک زندہ کرنے والا نمونہ پیش کریں.حضرت مصلح موعود کو بھی دعوت الی اللہ کی بہت دھن تھی.آپ بسا اوقات احمدی خواتین کو کہا کرتے تھے کہ تم دعوت الی اللہ کا کام شروع کرو.آپ لکھتے ہیں کہ چک منگلا اور چنڈ بھروانہ یہ علاقہ خدا کے فضل سے ترقی کر رہا ہے اور یہی وہ بہادر لوگ ہیں جن کی ایک عورت کی مثال کل میں نے اپنی افتتاحی تقریر میں بیان کی تھی وہ بیعت کرنے یہاں آئی ہوئی تھی.کہ شام کو اُس کی بیٹی بھی یہاں آگئی اس نے کہا اماں تو نے مجھے کہاں بیاہ دیا ہے وہ لوگ تو میری بات سنتے ہی نہیں.تو میں نے مجھے جو کتابیں دی تھیں میں انہیں پڑھ کر سناتی ہوں تو وہ سنتے ہی نہیں.میں احمدیت پیش کرتی ہوں تو وہ ہنسی اور مذاق کرتے ہیں اور مجھے پاگل قرار دیتے ہیں.وہ عورت کہنے لگی بیٹی ! اتو میری جگہ آکر اپنے والد اور بھائیوں اور دوسرے عزیزوں کی روٹی پکا میں تیرے سسرال جاتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ کون میری بات نہیں سنتا.میں ان سب کو احمدی بنا کر دم لوں گی.شاید یہی عورت جلسہ سالانہ سے چندہ ماہ قبل آئی اس کے پاس ایک بچہ تھا اس نے مجھے بتایا کہ یہ میرے بھائی کا بیٹا ہے وہ ربوہ نہیں آتا تھا.میں اس کا بچہ اٹھالائی ہوں کہ وہ اس بچے کی وجہ سے تو ربوہ آئے گا.مجھے کسی نے بتایا کہ اس کا وہ بھائی احمدیت کے قریب ہے لیکن چوہدری فتح محمد صاحب سیال نے خبر دی ہے کہ اللہ کے فضل سے اب وہ احمدی ہو چکا ہے.تو اس طرح ایک احمدی خاتون پورے خاندان کے لئے اور در حقیقت اس سارے علاقے کے

Page 302

حضرت خلیفہ صیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۲۹۸ خطاب ۱۲؍ ستمبر ۱۹۹۲ء لئے ایک روشنی کا مینار بن گئی.اگر کوئی احمدی عورت چاہے تبلیغ کرنا اور دعا کرے اور اخلاص کے ساتھ کام کرے تو یقینا وہ پھل سے محروم نہیں رہے گی.لجنہ کے اب بہت ایسے کام ہیں جن پر میری براہ راست نظر پڑتی ہے.پہلے تو لجنہ صدر لجنہ پاکستان کے ماتحت ہوا کرتی تھی.اب جب سے میں نے ہر ملک کی لجنہ کو آزاد کیا ہے اور براہ راست ان کی صدروں سے رابطہ قائم کیا ہے.ان کی رپورٹیں ملتی ہیں.میں ساری نہ بھی پڑھ سکوں تو اہم نکات نکال کر میرے سامنے رکھے جاتے ہیں تو اس سے مجھے اندازہ ہوا ہے کہ اللہ کے فضل سے بعض لجنات دعوت الی اللہ کے کام میں بہت آگے بڑھ گئی ہیں اور خدام اور انصار سے بھی آگے نکل گئی ہیں.گزشتہ رپورٹوں میں سے ایک لجنہ کی رپورٹ کے مطابق تین گاؤں میں محض لجنہ نے ۲۷ احمدی بنائے ہیں اور یہ افریقہ کی بات ہے وہاں کی لجنہ کی خواتین دیہات میں جاتی ہیں وفد بنا کر اور اپنے رنگ میں خدا کے فضل سے تبلیغ کرتی ہیں.اور اللہ کے فضل سے نئی نئی جماعتیں قائم کر رہی ہیں.پنجاب میں بھی بعض لجنہ کی خواتین نے ایسا ہی کام کیا ہے.ایک گاؤں میں لجنہ کے ذریعے سے بیعتیں ہوئی اور وہاں احمدیت کا پہلی دفعہ بوٹا لگا ہے.بنگال میں بھی یعنی جس کو ہم پہلے مشرقی پاکستان کہا کرتے تھے وہاں کی ایک بیوہ خاتون نے بیعت کی.اس کے بعد مزید تین خواتین کی اس نے بیعت کروائی.اس پر شدید مخالفت ہوئی چاروں کے خاوندوں نے طلاق کی دھمکیاں دیں لیکن ان عورتوں نے کہا کہ جو چاہو کر وہم نے حق کو پالیا ہے.ہم پیچھے ہٹنے والی نہیں تم بے شک ہمیں طلاق دے دو اور طلاق کی دھمکی کے باوجود اسی طرح تبلیغ کرتی رہیں.اللہ کے فضل سے اب بنگال میں ان عورتوں کی قربانی کی وجہ سے ۳۰ خواتین بیعت کر کے جماعت میں داخل ہو چکی ہیں اور اس گاؤں پر احمدیت - کا غلبہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے.پاکستان میں جو حالات ہیں آپ جانتے ہیں.مردوں کے لئے بھی بہت مشکل ہے کام کرنا لیکن پاکستان کی بجنات کی جور پورٹیں ملتی ہیں ان سے پتہ چل رہا ہے کہ بعض خواتین اپنے محلوں میں اور دوسری جگہ جا کر مسلسل تبلیغ کر رہی ہیں.ایک گھرانے کو ایک احمدی خاتون نے تبلیغ کی تو سارا محلہ ان کی مخالفت پر اکٹھا ہو گیا اور ایک طوفان بدتمیزی اٹھ کھڑا ہوا.اس تبلیغ کرنے والی خاتون کے گھر کا بائیکاٹ کر دیا گیا اس نے ان سب باتوں کے باوجود کام نہیں چھوڑا.مسلسل لٹریچر تقسیم کرتی رہی اور اللہ کے فضل کے ساتھ اب ۷ افراد پرمشتمل ایک گھرانہ اس بچی کی تبلیغ کی وجہ سے احمدی ہو چکا ہے.بچی

Page 303

۲۹۹ خطاب ۱۲ ستمبر ۱۹۹۲ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات اسی طرح ایک خاتون نے تین بیعتیں کروائی ہیں پھر بعض بچیاں اپنا ایسا اعلیٰ نمونہ دکھاتی ہیں کہ اس نمونہ کو دیکھ کر بھی وہاں کے اساتذہ انکی استانیاں وغیرہ بہت متاثر ہوتے ہیں اور پتہ کرتے ہیں کہ کیا چیز ہے.ایک لڑکی کے متعلق یہ رپورٹ ہے کہ اس کا نمونہ اپنی کلاس میں جہاں وہ ٹریننگ لے رہی تھی اتنا مثالی تھا کہ اس کلاس کے استاد حکیم صاحب احمدیت میں دلچسپی لینے لگے اور اللہ کے فضل کے ساتھ اس بچی کے نیک نمونے کی وجہ سے بالآخر احمدیت کی صداقت کو پا کر اپنے سارے خاندان سمیت انہوں نے بیعت کر لی.ایک خاتون ہیں ان کے ذریعے لاہور میں ۳۰ بیعتیں ہوئی ہیں جبکہ لاہور کی ساری جماعت بہت بڑی جماعت ہے اور ان کو میں نصیحت کرتا چلا آرہا ہوں کہ خدا کے لئے ہوش کر و تبلیغ کرو لیکن ان سے نہیں یہ کام ہوئے.ایک احمدی خاتون نے اکیلی نے خدا نے فضل سے ۳۰ بیعتیں کروالی ہیں اور ہیں اور ان پڑھی یعنی معمولی پڑھی لکھی.ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا راز ہے آپ کس طرح بیعتیں کروارہی ہیں.ماحول بڑا مخالف ہے.لوگوں کے مزاج ہی نہیں ہیں دین کی طرف.مردوں سے جو کام نہیں ہو رہے وہ آپ کیسے کر رہی ہیں.تو انہوں نے کہا میں بہت کم پڑھی لکھی ہوں لیکن مسیح موعود علیہ السلام کی محبت میں سرشار ہوں اور اس نشے کے ساتھ ، اس موج میں تبلیغ کرتی ہوں کے سننے والے مجبور ہو جاتے ہیں.جاہل سے جاہل آدمی بھی میرا یہ جذبہ دیکھ کر بات سنے پر آمادہ ہو جاتا ہے اور اللہ کے فضل کے ساتھ جب بھی مجھے موقع ملے اسی جذبہ کے ساتھ تبلیغ کرتی ہوں اور یہ اسی کا پھل ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ تبلیغ میں جذ بہ بہت اہم کردار ادا کرتا ہے.اگر آپ دلائل سے کتنے ہی آراستہ ہوں، کتنے ہی آپ کے پاس اعلی دلائل اور تبلیغ کا مصالحہ موجود ہو جب تک جذ بہ دل نہیں ہے اس وقت تک تبلیغ اثر نہیں کرتی اور میرا وقف جدید کا لمبا تجربہ یہی ہے.وہاں وہ غریب مسکین معلم جو علمی لحاظ سے اکثر معلمین سے پیچھے ہوا کرتے تھے مگر ان میں جذبہ تھا وہ ہمیشہ بڑے بڑے عالم معلموں پر غالب آجایا کرتے تھے.سخت سے سخت کڑوے علاقے میں بھی جب ان کو مقرر کیا گیا تو وہاں بھی ان کی باتوں سے دل پسیج جایا کرتے تھے.پس احمدی خواتین کے لئے یہ نکتہ بہت ہی اہم ہے جو اس عورت نے ایک عورت کے سوال کے جواب میں پیش کیا کہ ٹھیک ہے مجھے علم نہیں ہے معمولی تعلیم ہے مگر جذ بہ ہے.میں تبلیغ نشہ کی حالت میں یعنی محبت الہی اور مسیح موعود علیہ السلام کے پیار میں نشہ کی حالت میں تبلیغ کرتی ہوں اور اس کے نتیجہ میں لوگ مجبور ہیں میری بات سننے کے لئے.

Page 304

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات خطاب ۱۲ ستمبر ۱۹۹۲ء لجنات میں جو تبلیغی کام ہورہے ہیں ان میں ایک ذریعہ بہت بڑا سیرت نبوی کے جلسے ہیں.آپ بھی اس سے فائدہ اٹھا ئیں.سیرت نبوی کے جلسے دنیا میں ہر جگہ غیر معمولی اثر دکھاتے ہیں اپنوں پر بھی غیروں پر بھی.احمدیوں کی تربیت کے لئے بھی کام آتے ہیں لیکن دوسرے مسلمانوں اور غیر مسلموں پر بھی ان کا بڑا گہرا اثر پڑتا ہے..چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بجنات میں اس کی طرف بہت توجہ پیدا ہورہی ہے اور جو مجموعی رپوٹیں ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے اس وقت ۱۲۲ ایسے ایک سال میں تبلیغی جلسے ہوئے ہیں جو دراصل تبلیغی جلسے براہ راست تو نہیں تھے.سیرت کے جلسے تھے اُن کے نتیجہ میں اللہ کے فضل سے بہت عمدہ رنگ میں دوسروں تک پیغام پہنچانے کی توفیق ملی.اس طرح ویڈیوز کے ذریعہ احمدی خواتین تبلیغ کر رہی ہیں.آج کل بہت سی ایسی ویڈیوز میسر ہیں جن کا اثر غیروں پر بہت پڑتا ہے.قادیان کی رپورٹ ہے کہ جب ہم خواتین کی طرف سے ویڈیوز دکھاتی ہیں تو اس کا بہت گہرا اثر دل پر پڑتا ہے.روس میں جو واقفین عارضی گئے.ان کے ایک وفد نے بتایا کہ شروع میں وہاں کے بہت بڑے افسر تھے جن سے گفتگو ہورہی تھی انہوں نے کوئی توجہ نہیں دی تو ہم نے پھر ویڈیو استعمال کی جو انگلستان کے جلسہ کی تھی.کہتے ہیں وہ ویڈیو دیکھتے دیکھتے ان کی کیفیت بدل گئی.انہوں نے کہا یہ ویڈیو تو سارے روس میں دکھانی چاہئے.اللہ نے ایک اور ذریعہ بھی ہمیں مہیا فرما دیا ہے.جب ویڈیوز کے ذریعہ گھروں میں آپ دعوت دے کر خواتین کو یا اپنی بچیوں کی سہیلیوں کو بلا کر پروگرام دکھا ئیں تو انشاء اللہ اس کے نتیجہ میں بہت سی غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی اور جو دل پہلے بات سننے پر آمادہ نہیں ہوتے وہ اب آمادہ ہو جائیں گے.آج کے لئے میں نے آپ کے سامنے یہی باتیں پیش کرنے کے لئے رکھی تھیں.آئندہ میں ایک اور مضمون شروع کروں گا جو غالباً انشاء اللہ آئندہ جلسہ یو کے میں ہوگا.اور وہ یہ ہے کہ احمدی خواتین کو اللہ تعالیٰ نے اپنے قرب کے کیسے کیسے نشان دکھائے ہیں.احمدی خواتین میں بڑی بڑی اولیاء اللہ پیدا ہوئی ہیں.ایسی ہیں جن کو خدا تعالیٰ الہامات سے نوازتا رہا ہے.کشوف عطا فرما تا رہا ہے.کچی رؤیا دکھاتا رہا ہے.مصیبت کے وقت ان کی دعائیں قبول کیں.اور قبولیت کے متعلق پہلے سے اطلاع دی کہ یہ واقعہ اس طرح ہوگا اور اسی طرح ہوئے یہ وہ آخری منزل ہے جس کی طرف ہر احمدی خاتون کو ہم نے لے کر آگے بڑھنا ہے.تعلق باللہ کے سوا مذ ہب کی اور کوئی جان نہیں ہے.حقیقت یہ ہے کہ عبادت بھی اللہ سے

Page 305

حضرت خلیفہ اسیح الرابع ' کے مستورات سے خطابات ٣٠١ خطاب ۱۲؍ ستمبر ۱۹۹۲ء تعلق اور محبت پیدا کرنے کی خاطر کی جاتی ہے.تو میں اس لئے وہ واقعات آئندہ آپ کے سامنے رکھوں گا تا کہ آپ کو معلوم ہو کہ اسلام کا خدا صرف مردوں کا خدا نہیں ہے.وہ عورتوں کا بھی خدا ہے اور جن عورتوں نے اللہ سے سچی محبت کی ہے اس کے جواب میں وہ ان پر ظاہر ہوا ہے اور بڑی شان کے ساتھ ظاہر ہوتا رہا ہے.پس امید ہے اس کے نتیجہ میں آئندہ آپ کے دل میں بھی تعلق باللہ کی طرف ذاتی توجہ پیدا ہوگی.سردست میں اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ چندہ کے متعلق میں نے جو باتیں پیش کی تھیں وہ ہرگز تحریک کے لئے نہیں کی تھیں.یہ غلط فہمی دور اس لئے کرنی پڑ رہی ہے کہ ایک خاتون نے اپنی انگوٹھی بہت پیاری سی انگوٹھی اتار کر بھجوا دی ہے.اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے کوئی ضرورت نہیں ہے.جتنی تحریکیں میں نے کی ہیں ان میں جو میرا اندازہ ہوتا تھا اس سے زیادہ چندے موصول ہوئے ہیں اور احمدی خواتین ہرگز مردوں سے پیچھے نہیں رہیں.اس لئے ابھی سب کچھ اپنے پاس رکھیں اگر وقت آیا اور کوئی ضرورت پیش ہوئی تو میں جانتا ہوں آپ گھر میں کچھ بھی نہیں رکھیں گی.سب کچھ پیش کر دیں گی.لیکن بغیر تحریک کے کوئی ضرورت نہیں ہے.میں صرف بتانا چاہتا تھا آپ کو اور آپ کی وساطت سے غیر مسلم خواتین کو جو مغرب میں رہتی ہیں کہ تم نے بھی اپنی ایک عیش و عشرت کی دنیا بنائی ہوئی ہے جس کو تم آزادی سمجھتی ہو.اور تم مجھتی ہو کہ تم تہذیب و تمدن کی صف اول میں آگے آگے چل رہی ہو.ایک احمدی خواتین کا بھی رستہ ہے اس رستے پر وہ گامزن ہے تم شاید یہی بجھتی ہو کہ تم نے جو رستہ اختیار کیا ہے وہی سچا دائگی لذات کا رستہ ہے مگر میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ نیکیوں کی راہ میں آگے بڑھنا ایک ایسا سچا خلوص اور تعلق اور پیار اور امن کا رستہ ہے کہ اس کا اور کوئی مقابلہ کسی رستے پر نہیں ہو سکتا.دنیا کے رستے دنیا کی لذتوں کی طرف جاتے ہیں.لیکن وہ لذتیں عارضی ثابت ہوتی ہیں.وہ لذتیں بے چینی پیدا کر جاتی ہیں ان لذتوں کے نتیجہ میں ایک دوسرے پر اعتماد اٹھ جاتے ہیں گھر ٹوٹ جاتے ہیں.بچے ماؤں کے نہیں رہتے.باپ بیٹوں کے نہیں رہتے.گھر گھر میں بدیاں پھیلتی ہیں اور مزید کی طلب ایسی ہے کہ جیسے آگ لگ گئی ہو.سمندر کا پانی ہے جس سے آپ اپنی پیاس بجھانے کی کوشش کر رہی ہیں اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے.جتنا پانی پیئیں گی اور پیاس بھڑکتی چلی جائے گی.مزید کی طلب اور پیدا ہوتی چلی جائے گی.کہاں تک آخر آپ پہنچیں گی؟ اس لئے حقیقت یہی ہے کہ تسکین کا رستہ وہی ہے جو اسلام نے سکھایا ہے.نیکی کے کاموں میں آگے بڑھیں.آپ کو دائمی تسکین ملے گی.وہ خواتین جن کی قربانیوں کا میں نے

Page 306

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ٣٠٢ خطاب ۱۲ ستمبر ۱۹۹۲ء ذکر کیا ہے.کیا آپ کے خیال میں وہ محروم رہی ہیں؟ وہ اس دنیا میں ہی جنت کے مزے پا جاتی ہیں ان کو پتہ ہے کہ یہ ایک ایسی لذت ہے جو ہمیشہ ساتھ دیتی ہے اور پھر آگے اولاد میں بھی برکتیں بن کر ظاہر ہوتی چلی جاتی ہے.وہ قربانی کرنے والے جنہوں نے ابتداء میں دو دو آنے چار چار آنے کی قربانی کی جن کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑے پیار سے اپنی کتابوں میں محفوظ فرمایا.میں جانتا ہوں آج ان کی اولادیں تمام دنیا میں پھیلی پڑی ہیں اور لکھ پتی اور کروڑ پتی تک ہو چکی ہیں.پس اللہ تعالیٰ قربانیوں کو ضائع نہیں کیا کرتا.قربانی کرنے والا دنیا کی لالچ میں نہیں پڑتا لیکن میں غیروں کو بتا رہا ہوں کہ وہ ان سودوں سے واقف ہی نہیں ہیں.اول تو قربانی کرنا خود ہی اپنی جزاء آپ بن جایا کرتا ہے.آپ میں سے ہر وہ شخص گواہ ہے اس بات کا کہ جس کو خدا نے قربانی کی توفیق دی ہے وہ قربانی کرنے کا وقت اپنی ذات میں ایک ایسی لذت رکھتا ہے کہ اس کا دنیا کی فانی لذتوں کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں ہو سکتا.یہ احساس کہ میں نے ایک نیک قدم اٹھایا ہے اپنی جزاء خود بن جایا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ مزہ ایسا ہے جو ہمیشہ باقی رہ جاتا ہے.جس کے پیچھے کوئی سردر دی نہیں آتی.کوئی بے چینی نہیں پیدا ہوتی لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہو جاتی تو پھر آپ کی طرف سے انعامات کا سلسلہ جاری ہوتا ہے جو ہمیشہ کے لئے آگے نسلوں تک جاری ہوتا چلا جا تا ہے اور چلتا چلا جاتا ہے.وہ بزرگ خواتین جن میں سے بعض کے نام میں نے آپ کے سامنے پڑھے بے شمار ایسی ہیں جن کے نام کہیں لکھے ہوئے بھی نظر نہیں آئیں گے.ان کو کیا پتہ کہ آج کی اولادوں سے اللہ تعالیٰ کیا سلوک فرمارہا ہے.آپ میں سے ہر وہ خاتون جو کسی ایسے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں جن کے آباء واجداد نے ابتداء میں احمدیت قبول کی تھی وہ مڑ کر دیکھیں تو سہی کہ اس زمانہ میں کیا حالات تھے اور اب کیا بن چکی ہیں.یہ سارے ان قربانیوں کے پھل ہی ہیں جو آپ کھا رہی ہیں اور آئندہ آپ کی نسلیں کھاتی چلی جائیں گی.جو قربانیاں آج آپ پیش کر رہی ہیں ان کی ایک جزاء تو خدا نے وہیں نقد نقد دی.آپ کے دل کو سکینت سے بھر دیا.آپ کے گھروں کو برکتوں سے بھر دیا لیکن آئندہ نسلیں بھی اس کی خیرات پائیں گی اور یہ سلسلہ ایسا ہے جو نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے.کاش! دوسرے بھی دیکھیں اور سمجھیں کہ باقی رہنے والی لذتیں کیا ہوا کرتی ہیں ان کا دنیا کی عارضی لذتوں کے ساتھ مقابلہ کرنا محض نادانی اور جہالت ہے.دنیا کی عارضی لذتیں تکلیفیں پیچھے چھوڑ جاتی ہیں دکھ چھوڑ جاتی ہیں بنے بنائے گھروں کو اجاڑ دیتی ہیں مگر نیکی کرنے والے گھروں کو اللہ تعالیٰ

Page 307

حضرت خلیفہ اسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ٣٠٣ خطاب ۱۲ ستمبر ۱۹۹۲ء برکتیں بخشتا ہے.محبت اور پیار کے ماحول عطا کرتا ہے.اولا دیں ماں باپ کی رہتی ہیں ماں باپ اولاد کے رہتے ہیں اور ایسے محبت کے باہمی رشتے گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں جو اس دنیا میں ہی ہر گھر کو ایک جنت کا نشان گھر بنادیا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہماری ان قربانیوں کو نہ صرف مقبول فرمائے بلکہ ان کو دوام بخشے اور جتنا اجر وہ ہمیں عطا کرے وہ سب کچھ پھر ہم خدا کے حضور پیش کرتے چلے جائیں کیونکہ یہ سلسلہ ایک لا متناہی سلسلہ ہونا چاہئے.جو خدا دے ہم پھر اس کے حضور پیش کرتے رہیں.پھر وہ اور دے پھر اس کے حضور پیش کرتے رہیں.آخر پر قربانی کے اس جذبے اور اس کی لذت سے متعلق ایک صحابی کا ایک واقعہ آپ کے سامنے رکھ کر میں اس خطاب کو ختم کرتا ہوں.حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس حال میں جنگ احد میں شرکت فرمائی.بہت ہی دردناک حالات پیدا ہوئے.اس وقت ایک صحابی اس جنگ کے دوران شہید ہوئے ان کا بیٹا بہت غمگین تھا اپنے باپ کی شہادت پر.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر اس پر پڑی تو آپ نے فرمایا.ادھر آؤ میں تمہیں ایک ایسی بات بتاتا ہوں جو تمہارے غم کو خوشی میں بدل دے گی.خدا نے مجھے بتایا ہے کہ جب تمہارا باپ شہید ہو کر اس کے حضور پیش ہوا تو اس شان کی قربانی تھی اس جذبے کے ساتھ اس نے شہادت پیش کی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے فرمایا بتا تیری کیا جزاء ہے میں چاہتا ہوں کہ جو تو چاہتا ہے وہ تجھے پیش کر دوں.تو پتہ ہے تیرے باپ نے کیا کہا.تیرے باپ نے یہ جواب دیا کہ اے خدا ! میری خواہش تو یہی ہے کہ مجھے پھر زندہ کر.میں پھر تیری راہ میں مارا جاؤں.مجھے پھر زندہ کر میں پھر تیری راہ میں مارا جاؤں.تیری ہی قسم ہے کہ جو مزہ مجھے شہادت کا آیا ہے ویسا کوئی اور مزہ نہیں.پس میرے اس مزے کو دائم کر دے.سو جانیں مجھے دے اور سو مرتبہ میں تجھ پر قربان کر دو.اللہ نے فرمایا کہ اگر میں اپنے اوپر یہ حرام نہ کر چکا ہوتا کہ جس کو میں ایک دفعہ اپنے پاس بلالوں اس کو دوبارہ دنیا نہیں بھیجوں گا.میں تیری یہ تمنا ضرور مان لیتا مگر میرے قانون کے خلاف ہے.یہ مثال آپ کو یہ بتانے کے لئے اور دوسروں کو بتانے کے لئے پیش کر رہا ہوں کہ قربانی دینے والا جانتا ہے کہ اس میں کتنی لذت ہے.لا متناہی لذت ہے اس کا تصور بھی دوسرے نہیں کر سکتے اور یہ لذت اپنی ذات میں اتنی جزاء بن جاتی ہے کہ شہید ہونے والا خدا سے اور جانیں مانگتا ہے کہ میں پھر تیری راہ میں ان جانوں کو نچھاور کروں.خدا کرے کہ ہماری قربانیوں کے ساتھ یہ جذ بہ محبت ہمیشہ

Page 308

حضرت خلیفہ مسیح الرابعہ کے مستورات سے خطابات ۳۰۴ خطاب ۱۲؍ ستمبر ۱۹۹۲ء زندہ رہے.یہ جذ بہ فدائیت ہمیشہ قائم و دائم رہے.اسی میں ہماری لذتیں ہیں اسی میں ہماری بقاء کی ضمانت ہے.اگر یہ جذبے زندہ رہے تو خدا کی قسم اس جماعت کو دنیا کی کوئی طاقت مغلوب نہیں کر سکتی.آپ ہی غالب آئیں گی اور آپ ہی غالب آئیں گی اور آپ ہی غالب آئیں گی.خدا کر کے کہ ایسا ہی ہو.آخر پر حضور نے فرمایا اب ہم دعا کریں گے.سب دعا میں شامل ہو جا ئیں.اللہ پھر ہمیں دوبارہ بار بار ایسے نیک موقعوں پر اکٹھا ہونے کی توفیق عطا فرمائے.

Page 309

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۳۰۵ خطاب ۱۷ را کتوبر ۱۹۹۲ء ماؤں کی تربیت اولاد کی ذمہ داری اور اس کے طریق ( خطاب فرموده ۱۷ اکتوبر ۱۹۹۲ء بر موقع جلسہ سالانہ کینیڈا) سب سے پہلے تو میں لجنہ کی عزیز ممبرات کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ اللہ تعالی کے فضل کے ساتھ وہ دن طلوع ہوئے جن میں ہم اکٹھے ہو کر مل جل کر خدا کی حمد کے گیت گا رہے ہیں کہ اس نے ہمیں ایک بہت ہی عظیم اور وسیع مسجد کی تعمیر کی توفیق بخشی ہے جو عیسائیت کے گڑھ کے دل میں واقع ہے عیسائیت کا گڑھ ان معنوں میں کہ کسی زمانہ میں یہاں اکثریت عیسائیت کی قائل بھی تھی اور عیسائیت پر عمل بھی کرتی تھی.اگر چہ یہ باتیں اب قصہ پارینہ ہوتی جا رہی ہیں لیکن مجموعی تشخص کے لحاظ سے یہ ملک ابھی بھی عیسائی ہی کہلائے گا.پس اللہ تعالی کا بہت بڑا احسان ہے کہ اُس نے اس ملک میں ہمیں ایک عظیم مسجد کی تو فیق عطا فرمائی ایسی مسجد کہ جس کی مثال نہ شمالی امریکہ میں ہے نہ جنوبی امریکہ میں اس کثرت سے نمازی یہاں خدائے واحد کی عبادت کے لئے اکٹھے ہو سکتے ہیں کہ کوئی اور مسجد اس کا ہم پلہ نہیں ہے.جب یہ مسجد تعمیر ہو رہی تھی تو شروع میں آرکیٹیکٹ صاحب نے جو بہت وسیع تجر بہ مساجد کی تعمیر کا رکھتے ہیں ایک ایسا نقشہ پیش کیا جس میں عبادت کی ضرورتوں کا کم خیال تھا اور دیگر ضرورتوں کا بہت زیادہ میں نے دو تین دفعہ پیغام بجھوایا لیکن پوری طرح وہ بات سمجھ نہیں سکے.لیکن بہت ہی شریف النفس انسان ہیں غیر معمولی تعاون کرنے والے حالانکہ دوسرے آرکیٹیکٹس میں میں نے یہ بات نہیں دیکھی الا ماشاء اللہ احمدی آرکیٹیکٹس کے علاوہ دوسروں کی بات کر رہا ہوں.ان سے میں نے دراخواست کی کہ ہو سکے تو مجھ سے ملیں چنانچہ وہ سفر اختیار کر کے لندن تشریف لائے اور ایک دفعہ نہیں دو دفعہ نہیں تین بار کم از کم ہماری ملاقاتیں ہوئیں اور انہیں میں نے تفصیل سے سمجھایا کہ جماعت احمدیہ کو دکھاوے میں کوئی دلچسپی

Page 310

خطاب ۱۷ را کتوبر ۱۹۹۲ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات نہیں اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں کہ بڑے بڑے ہال اس مسجد کے ساتھ ملحق ہوں جہاں کا نفرنسز ہو رہی ہوں بڑے بڑے عظیم الشان دفاتر ہوں.جن ملکوں کے پاس تیل کی دولت ہے یا جو مساجد کو بھی اپنی انا کے دکھاوے کا ذریعہ بنانا چاہتے ہیں ان کو یہ باتیں مبارک ہوں مجھے تو ایسی مسجد چاہئے جہاں زیادہ سے زیادہ نمازی خدا تعالی کی عبادت کی غرض سے حاضر ہوں.پس عبادت کے صحن کو عبادت کی عمارت کو وسیع تر کر دیں اور لو احقات جو دیگر مسجد کے ساتھ ملتے ہیں ان کو چھوٹے سے چھوٹا کر دیں.چناچہ بہت انہوں نے محنت کی کئی طرح سے نقشے تجویز کئے اور آخر اللہ تعالی کے فضل کے ساتھ ایک ایسی مسجد کی تعمیر پر ہمارا اتفاق ہو گیا جو ان کے آریچر نقطہ نگاہ سے بھی بہت عمدہ تھی اور ہماری ضروریات کیٹ کے پیش نظر بھی عین مناسب حال تھی.اللہ تعالی کا بڑا احسان ہے اور جماعت احمدیہ کینیڈا اس لحاظ سے بھی مبارک باد کی مستحق ہے کہ انہوں نے کل کی اور آج کی تقریبات کو بیک وقت دنیا کے تمام براعظموں میں مواصلاتی ذرائع سے ٹرانسمٹ کرنے کے تمام اخراجات برداشت کئے.اور آج وہ دن ہے کہ خدا تعالی کے فضل کے ساتھ ہماری روحیں ہمارے دل ہمارے جسم خدا کے حضور سجدہ ریز ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی آواز آج زمین کے کونے کونے تک پہنچ رہی ہے اور آپ کے اس عاجز نمائندہ کی تصویر بھی اس آواز کے ساتھ ساتھ پہنچ رہی ہے.بظاہر آواز میری بظاہر شکل میری لیکن حقیقت میں یہ وہ وعدے ہیں جو مسیح موعود الصلوۃ والسلام سے کئے گئے تھے اور انہی کی برکت ہے اور انہی کی خیرات ہے کہ آج ہم یہ مبارک دن دیکھ رہے ہیں.پس بہت مبارک ہو اور ان آنے والوں کو بھی جو دور دور د سے تشریف لائے.امریکہ خدا کے فضل کے ساتھ غیر معمولی طور پر اس جلسہ میں شامل ہونے کی توفیق پا رہا ہے.ایک زمانہ تھا جب کہ امریکہ کے جلسوں میں بہت معمولی گفتی کی تعداد ہوا کرتی تھی مجھے یاد ہے جب میں ۱۹۷۸ء میں وہاں حاضر ہوا تو ایک مسجد واشنگٹن چھوٹی سی مسجد تھی اس کا بھی ایک حصہ خالی پڑا تھا اور دلچسپی بھی کم تھی نسبتا اور تعداد بھی معمولی تھی.اب خدا کے فضل سے دو ہزار کی تعداد میں یا اس کے لگ بھگ امریکہ کے احمدی اس جلسہ میں شرکت کے لئے حاضر ہوئے ہیں.جہاں تک کینیڈا کا حال ہے وہ اس سے بھی پتلا تھا.جب ۱۹۷۸ء میں میں اپنی اہلیہ اور دو بچیوں کو لے کر یہاں آیا تو ٹورانٹو کا مشن ہاؤس ایک چھوٹی سے عمارت پر مشتمل تھا.اور اس عمارت کے ایک کمرے میں ایک دوصفوں سے زیادہ نہیں تھیں.

Page 311

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۳۰۷ خطاب ۱۷ را کتوبر ۱۹۹۲ء جو بہت لمبی تگ ودو کے بعد اس اطلاع کے بعد کہ میں آرہا ہوں خصوصیت سے ان کو ملنا چاہتا ہوں وہ لوگ اکٹھے ہو سکے اور اُن میں سے بھی بعض اعتراض کی خاطر آئے تھے.کسی خاص اعلیٰ مقصد کی خاطر نہیں چنا نچہ لمبا عرصہ ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کو سمجھانا پڑا کہ دیکھو تم نیکی کے کاموں میں تعاون کر وحصہ لو.اگر وہ لوگ جو حصہ لے رہے ہیں ان کی ادائیں پسند نہیں تو مل کر محبت اور اخلاص سے ان کو سمجھاؤ ان کی برائیوں کی تلاش نہ کرو ان کی خوبیوں پر نگاہ رکھو اور یہ بھی تو دیکھو کہ تمہاری عدم دلچسپی کا یہ نتیجہ ہے کہ جیسے چاہتے ہو ویسے نہیں ہورہا.اور اس کے بعد بھی پھر یہ سلسلہ نصیحت اور سمجھانے کی کوشش کا جاری رہا جب میں نے انگلستان جا کر حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں کینیڈا کی جماعت کا آنکھوں دیکھا حال بتایا تو اتنے ناراض ہوئے.تم نے کیوں ان عہد یداروں کو وہیں معطل نہیں کر دیا میں نے عرض کیا میری مجال کیا تھی میری حیثیت کیا تھی میں ایک ذاتی سفر پر تھا.لیکن آپ کو تکلیف اتنی تھی کہ بار بار یہی بات دہرا ر ہے تھے چنانچہ اس کے بعد بھی کچھ عرصہ تک جماعت کینیڈا ایسی جماعتوں میں شمار نہیں ہوئی کہ جسے انسان دنیا میں نمونے کے طور پر پیش کر سکے.اب دیکھیں کہ وہ دن کیسے بدلے ہیں.اس میں لجنہ کی حاضری خدا کے فضل سے اتنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد سے دل بھر جاتا ہے.جس طرح یہ ہال لجنہ سے بھرا ہوا ہے اور پھر ایسی نظم وضبط کی لڑیوں میں پروئی ہوئی خاموشی کے ساتھ بغیر کسی شور بغیر کسی بدنظمی کے آپ سب بیٹھی اس اجلاس میں شامل ہو رہی ہیں.یہ بہت اللہ تعالیٰ کا فضل اسکا احسان ہے.اسی کی عطا کردہ برکتیں ہیں.دعاؤں کو سنتا ہے بے قرار دلوں پر نظر رکھتا ہے اور اگر خدا کے کاموں میں خدا سے مدد مانگی جائے تو وہ مد دضرور آسمان سے آتی ہے.پس پہلی نصیحت آج آپ کو یہی ہے کہ دعاؤں پر زور دیں ورنہ آپ کا کام بہت مشکل ،، ہے.بہت بڑی ذمہ داریاں ہیں.جو آپ کے نازک کندھوں پر ہیں.اور ایک لحاظ سے مرد کو قوام مقرر فرمایا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس میں پیش کروں گا اس میں اس کا بھی ذکر ہے لیکن ایک لحاظ سے عورت پر اتنی بڑی ذمہ داری ڈالی گئی کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ تمھاری جنت تمہاری ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے.پس اس نقطہ نگاہ سے میں آپ کی ذمہ داریاں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں وہ ایسی ذمہ داریاں ہیں جن سے آپ واقف تو ہیں لیکن انسانی فطرت ہے کہ ان باتوں کو بھولتا جاتا ہے جو کام ایسے ہوں جیسے پانی نیچے کی طرف بہتا ہے آسان اور نیچے اترنے والے ان میں انسان تیز قدموں سے دوڑتا ہوا چلتا ہے جو اوپر کے رستے ہوں اعلی قدروں کو حاصل کرنے کی راہیں ہوں.ان

Page 312

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات خطاب ۱۷ مرا کتوبر ۱۹۹۲ء میں قدم مشکل سے اُٹھتے ہیں اور انسان بوجھ محسوس کرتا ہے.اسی لئے ذمہ داریوں کو ایک طرف پھینکنے کا رجان انسانی فطرت میں ہے اور کمزوریوں کو اختیار کرنے کا رحجان بھی انسانی فطرت میں داخل ہے تبھی بار بار نصیحت کا حکم ہے.اور اللہ تعالی نے آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ: فَذَكَّرُ انْ نَّفَعَتِ الذِّكْري ( الاعلى:١٠) ذکر کا مطلب ہے شدت کے ساتھ اور بار بار نصیحت کرتے چلے جاؤ.إِنْ نَّفَعَتِ الذِّكْری ہم تمھیں یقین دلاتے ہیں کہ بظاہر نصیحت بے اثر بھی ہو تو حقیقت میں اثر کرتی ہے اور اگر صبر کے ساتھ نصیحت کرو گے تو وہ ضرور رنگ لائے گی اور ضرور فائدہ پہنچائے گی.پس حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے ہاتھوں جو عظیم معجزہ رونما ہو اور دعاؤں کی برکت سے تھا اور مسلسل نصیحت کے ذریعہ تھا.یہی دعا آپ ﷺ کے ہتھیار تھے.اول ہتھیار دعائیں اور دوسرا ہتھیا رایسی نصیحت کرنا جس میں آپ تھکتے نہیں تھے.مسلسل نصیحت کرتے چلے جاتے تھے.پس نصیحت کو قبول کرنے والے بالآخر قبول ضرور کرتے ہیں.لیکن شرط یہ ہے کہ نصیحت کرنے والا تھک نہ جائے اور رستے میں ہار کہ بیٹھ نہ رہے.حضرت اسماعیل کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے کہ آپ ہمیشہ اپنی اولاد کو نماز کی نصیحت کرتے رہے اور کرتے رہے اور کرتے رہے کبھی نہیں تھکے آخر زندگی تک آپکا یہی دستور تھا کہ اپنی اولاد کو نمازوں پر قائم ہونے کی نصیحت فرمایا کرتے تھے.ہر نبی انبیاء میں سے نیکی کی تعلیم دیتا ہے.لیکن اللہ تعالی نے قرآن کریم میں بعض انبیاء کی بعض خاص اداؤں کو بڑے پیار اور محبت سے ہمارے سامنے پیش فرمایا اور ہمیشہ کے لئے انکا ذکر محفوظ کر دیا جہاں تک حضرت اسماعیل کا تعلق ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ جو انھوں نے عظیم کردار ادا کیا اس کے علاوہ ان کا ذکر نماز میں قیام کی کوشش میں ملتا ہے اور اس پتے لق و دق صحراء میں جبکہ نماز سے چہرہ پھیرنے کے لئے کوئی اور محرکات بھی نہیں تھے نماز کی طرف انکا اتنا گہرا توجہ دینا معنے رکھتا ہے.آپ کے ماحول میں ایک اور قسم کا لق و دق صحرا ہے ایک ایسا لق و دق صحراء ہے جو عبادت سے توجہ کو پھیر نے والا ہے اور تمام اثرات ایک طرف اور یہ جدید نغموں کا شوق ایک طرف یہ اکیلا ہی نسلوں کے مزاج بگاڑنے کے لئے کافی ہے اور بچوں کو نماز کی لذت سے نابلد کرنے اور نا آشنا ر کھنے کے لئے ایک بہت خطر ناک رجحان پیدا کرتا ہے.اس لئے میں ایک نصیحت تو آپ کو یہ کرتا ہوں کہ اپنے بچوں کی عبادت کی حفاظت کریں.اگر بچے نمازی رہے جیسا کہ میں نے جمعہ پر بھی یہ اعلان کیا تھا تو آپ کی آئندہ

Page 313

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات نسلیں سنور جائیں گی.۳۰۹ خطاب ۱۷ مرا کتوبر ۱۹۹۲ء آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم نماز پر قائم ہو جاؤ تو پھر تمھیں کوئی خطرہ نہیں“ نماز خود تمھیں سنبھال لے گی.پس آپ اپنے بچوں کی عبادت کی طرف توجہ دیں اور یہ توجہ بچپن ہی سے ہونی چاہئے بڑے ہو کر جو باتیں بچپن میں عادت کا حصہ نہ بن سکیں.عادت کا حصہ بڑی مشکل سے بنا کرتی ہیں.بچوں کے رحجانات ماں باپ کے کردار سے بنتے ہیں.اگر اپنے ماں باپ کو وہ محبت اور پیار سے خدا کی عبادت کرتے دیکھیں تو ان کے دل میں بھی چھوٹے چھوٹے معصوم دلوں میں بھی وہ شوق پیدا ہو جاتے ہیں وہ اپنے رنگ میں نمازوں میں شامل ہوتے اور ماؤں کے دل ٹھنڈے کرتے ان کی آنکھوں کا نور بنتے ہیں اور جانتے ہیں کہ ہماری ان اداؤں کو بڑے پیار اور محبت کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے.اگر وہ عبادت کی محبت ماؤں کی آنکھوں میں نہ ہو تو بچوں کے دل میں کوئی پیغام نہیں پہنچے گا کوئی جذبہ ان کے دلوں میں نہیں جاگے گا جو پھر ساری زندگی ان کو جگائے رکھے.پس ابتدا ء کی جو ادائیں ہیں ماں باپ کی وہ بچے کی تقدیر بنا بھی رہی ہوتی ہیں اور بگا ڑبھی رہی ہوتی ہیں.پس آپ اپنے گھروں میں اپنی نمازیں سنوار کر پڑھنا سیکھیں.میں نے دیکھا ہے کہ جن ماؤں کو عادت ہوتی ہے تیم کرنے کی ان کی اولا د بھی آگے تیم کرتی چلی جاتی ہے.جن ماؤں کو عادت ہوتی ہے بیٹھ کر تیم نماز پڑھنے کی چھوٹے چھوٹے بہانے استعمال کر کے بیٹھ جاتی ہیں اور بیٹھ کر نمازیں پڑھتی ہیں ان کی اولاد بھی نمازوں میں بیٹھ جاتی ہے.پس آپ نے نمونے قائم کرنے ہیں اور نماز کا احترام قائم کرنا ہے قادیان میں مجھے یاد ہے کہ احمدی خواتین بہت اہتمام کیا کرتی تھیں سخت سردی میں بھی جب کہ گرم پانی بھی کوئی انتظام نہیں ہوا کرتا تھا صبح صبح اُٹھ کر وہ ٹھنڈے پانی سے وضو کرتی تھیں.میں نے شاید پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ ایک احمدی بچی کا میں بہت ممنون ہوں جو جلسہ سالانہ میں کام کرنے آیا کرتی تھی اور میں چھوٹا سا تھا.میں نے اس وقت اس بچی کو دیکھا شدید سردی میں باہر عام کپڑوں میں ملبوس.خاص گرم کپڑے بھی نہیں تھے وہ ٹوٹی سے بہت ہی ٹھنڈے پانی سے وضو کر رہی تھی.اس کا میرے دل پر ایسا گہرا اثر پڑا کہ میں نے فیصلہ کیا کہ آئندہ کبھی کوئی حال ہو بغیر وضو کے تیسم سے نماز نہیں پڑھنی اور اس چھوٹی سی بات نے اگر میرے دل پر ایسا اثر کیا کہ ساری زندگی کے لئے وہ نقش ہوگئی تو میں سوچتا ہوں اور میرا تجربہ بھی یہی ہے کہ ماؤں کی ادائیں بچوں کے دل پر بہت گہرا اثر کرتی ہیں پس آپ اپنی اولا د کو نمازی بنادیں اور نماز

Page 314

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۳۱۰ خطاب ۱۷ را کتوبر ۱۹۹۲ء ان کی اس ماحول سے حفاظت کرے گی.وہ لق و دق صحراء جو آپ کے اردگرد ہے وہ خدا کے فقدان کا یعنی خدا سے تعلق کے فقدانی کا صحراء ہے اور بہت سے یہاں ایسے دلچسپیوں کے سامان ہیں جو بچوں کے دلوں کو خدا کی طرف سے پھیر کر دنیا کی طرف مائل کرتے ہیں اگر بچپن ہی میں آپ نے ان کی حفاظت نہ کی تو بڑے ہو کر وہ آپ کے ہاتھوں سے نکل جائیں گے.بچیوں کے لئے خصوصیت کے ساتھ بہت فکر دامن گیر رہتا ہے.یہاں کا معاشرہ یعنی سارے مغرب کا معاشرہ ایسا خطر ناک ہو چکا ہے کہ اب اہل مغرب بھی خود آئندہ کے تصورات سے لرزتے ہیں.اور مختلف مضامین کے ذریعے اس بے چینی کا اظہار ہوتا ہے بعض دفعہ ٹیلی ویژن پر بھی ایسے پروگرام آتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان کی عائلی زندگی تباہ ہو چکی ہے.آزدای کے نام پر سب کچھ ہورہا ہے حالانکہ حقیقت یہ کہ آزادی کا دوسرا نام شیطان کی غلامی ہے اور یہ غلامی پھر قوموں کو تباہ کر کے رکھ دیا کرتی ہے.حقیقی آزادی صرف ایک زنجیر پہننے کا نام ہے وہ اللہ کی محبت کی زنجیر ہے اگر آپ خدا کی زنجیر میں جکڑے جائیں تو آپ دنیا کی ہر دوسری چیز سے آزاد ہو جائیں گے.ہر دوسرا خوف باطل ہو جائے گا.ہرامید خدا سے وابستہ ہو جائے گی ہر غیر اللہ سے آپ کو بے نیازی نصیب ہوگی پس وہ لوگ جو بعض دفعہ یہ سوچتے ہیں کہ خدا تو بے نیاز ہے ہم کیسے بے نیاز ہو سکتے ہیں ان کو میں بتا تا ہوں کہ خدا کی ہر صفت ایک خاص رنگ میں انسان اختیار کر سکتا ہے.اسی لئے قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ: صِبْغَةَ اللَّهِ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً " (البقره: ۱۳۹) اللہ کے رنگ اختیار کرنے کے لئے ہیں.پس اللہ کے رنگ سے بہتر کونسا رنگ ہو سکتا ہے.پس آپ نے اگر خدا کے معنوں میں بے نیاز ہونا ہے تو خدا سے تعلق جوڑ لیں پس تمام دنیا کی دوسری چیزیں بالکل ثانوی اور بے معنی اور چھوٹی سے دکھائی دینے لگیں گی تو جو شخص خدا سے تعلق جوڑے اس کو دنیا کا کوئی خوف نہیں رہتا لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة :۱۱۳) کا جو وعدہ قرآن کریم میں کیا گیا ہے وہ اولیاء اللہ کے متعلق ہے اور اس کی مختلف شکلیں قرآن کریم میں ملتی ہیں لیکن اولیاء اللہ کے متعلق فرمایا خصوصیت کے ساتھ اللہ کے بندے جو اللہ کے دوست بن جاتے ہیں وہ ہر خوف اور ہر غم سے آزاد ہو جاتے ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ کی محبت کے نتیجہ میں اللہ کا دوست بننے کے نتیجہ میں ان کو غم نہیں آتا وہ آزمائشوں میں مبتلا نہیں ہوتے.

Page 315

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات خطاب ۱۷ را کتوبر ۱۹۹۲ء حضرت محمد ﷺ کو بھی تو غم پہنچے تھے آپ تو آزمائشوں میں مبتلا کئے گئے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ لکھا کہ جتناد کھ آنحضرت علیہ نے برداشت کیا دنیا میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی.لیکن یہ دکھ خدا کی محبت نے آسان کر دیا اس نے توفیق بخشی.لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقره: ۱۱۳) کا مطلب یہ ہے کہ جو خدا کے دوست ہو جاتے ہیں.وہ دکھوں سے مغلوب نہیں کئے جاتے وہ خوف سے مغلوب نہیں ہوا کرتے.بڑے خوف کے وقت بھی ان کا سر بلند رہتا ہے اور ان کی ہمتیں ٹوٹتی نہیں ہیں پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کردار کا آپ خوف کی مختلف حالتوں میں مطالعہ کریں.سب سے بڑا جو خوف تھا وہ وقت تھا جب آپ صرف حضرت ابو بکڑ کے ساتھ ایک خونخوار قوم سے ہجرت کر کے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور وہ ایسی خونخوار قوم تھی.جس نے مل کر یہ عہد باندھے تھے اور تمام قبیلے اس عہد میں شامل ہوئے تھے.کہ اب ہم محمد کو زندہ نہیں چھوڑیں گے اور حضرت محمد کے خاندان کے لوگ بھی اس عہد میں شامل تھے ایسی حالت میں اس صحراء کا سفر تھا جس میں چھپنے کی کوئی جگہ نہیں کچھ فاصلہ پر ایک پہاڑی میں ایک غارتھی غار ثور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے.اس غار میں آنحضرت ﷺ اور آپ کے ساتھی حضرت ابو بکر پناہ لینے کے لئے اور ستانے کے لئے ٹھہرے تو انھوں نے ٹاپوں کی آواز سنی.باتوں کی آواز سنی.دشمن وہاں تک پہنچ چکا تھا اور کھو جی جو کھوج لگاتے ہیں اور قدموں کے نشان دیکھ کر چلتے ہیں وہ یہ بتارہے تھے کہ اگر محمد اور اس کا ساتھی یہاں نہیں ہیں تو پھر زمین نکل گئی ہے یا آسمان کھا گیا ہے ہم اپنے علم کے مطابق کہتے ہیں کہ لازم نہیں ہے.لیکن آنحضرت نے حضرت ابو بکر کی طرف دیکھا تو انھوں نے بے چینی محسوس کی اور خوف محسوس کیا اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ رسول اللہ کے لئے وہ فکر مند ہو گئے قرآن کریم فرما تا ہے کہ آنحضرت نے انھیں مخاطب کر کے فرمایا کہ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا (التوبہ: ۴۰).کوئی خوف نہ کرو کوئی غم نہ کرو خدا ہمارے ساتھ ہے سامنے دشمن تھا اس کے قدم دکھائی دے رہے تھے.کھڑا باتیں کر رہا تھا اور وہ ماہر قدموں کے نشان لینے والے بڑی تکرار اور زور کے ساتھ یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ وہ نہیں ہے وہ یہیں ہے لیکن خدا تعالی کی تقدیر دیکھیں کہ جو جانور دنیا کا سب سے کمزور جانور ہے جس کے گھر کے متعلق قرآن کریم نے فرمایا کہ اَوهَنَ الْبُيُوتِ (العنکبوت :۴۲) اس سے کمزور جالہ کسی اور جانور کا نہیں اس جانور سے کمزور ترین گھر نے آنحضرت ﷺ کو پنادے دی وہ جالہ تنا ہوا تھا اور دیکھنے والے کہہ رہے تھے کہ اگر اس میں داخل ہوئے ہوتے تو یہ جالہ کیوں نہ ٹوٹا ہو تا.اس لئے یہاں اندر

Page 316

۳۱۲ خطاب ۱۷ مرا کتوبر ۱۹۹۲ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات کوئی نہیں گیا.اور اتنی توفیق ہی نہ ملی کہ آگے بڑھ کر جھانک کر دیکھ لیں.تو جو اہل اللہ ہیں ان پر کوئی خوف نہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ خوف کے مقامات تو آتے ہیں.لیکن خوف سے مغلوب نہیں ہو جایا کرتے.پس ایک ہی پناہ ہے جو اللہ کی پناہ ہے ایک ہی پناہ ہے جو خدا کی محبت کی پناہ ہے.اپنے بچوں کے دل میں شروع سے ہی خدا کی محبت پیدا کر دیں پھر دیکھیں کہ دنیا کا کوئی فسادان پر غلبہ نہیں پاسکے گا.بچپن میں بھی کمزوریاں ہوتی ہیں جوانی میں بھی انسان سے لغزشیں ہو جاتی ہیں مگر جو حقیقتاً خدا سے پیار کرنے والے ہوں ان سے خدا بخشش کا سلوک اس طرح فرماتا ہے ان کو غلطی کی حالت میں مرنے نہیں دیتا بلکہ موت سے پہلے لازماً ان کو تو بہ اور اصلاح کی توفیق بخشتا ہے اور ہوا سوقت جان دیتے ہیں حب امن میں آجاتے ہیں اور اس معاشرے میں یہ تو نہیں کہتا کہ ہر بچہ ہر لغزش سے محفوظ رہے گا لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ اگر مائیں ان کے دل میں بچپن ہی سے جیسے کہتے ہیں کہ دودھ میں خدا کی محبت پلائیں.اگر بچپن ہی سے ان کے دل میں اللہ کی محبت پیدا کر دیں تو خدا تعالیٰ سے فضل کے ساتھ وہ بچے کبھی ضائع نہیں ہو سکتے.دوسری نصیحت جو بچوں کو سنبھالنے کے لئے ہے وہ یہ ہے کہ بچوں میں خود اعتمادی پیدا کریں اور سر بلندی پیدا کریں پچپن ہی سے ان کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ جس معاشرے میں تم پل رہے ہو یہ معاشرہ تمہار احتاج ہے تم پر اس معاشرے کی نگا ہیں ہیں اگر تم نے اس کو بچالیا تو بچے گا ورنہ کوئی اور چیز اس کو بچانہیں سکتی.دن بدن اس معاشرے کا ہر قدم تباہی کی طرف اٹھ رہا ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا کہ گھر بربادہور ہے ہیں اور گھروں سے امن اٹھ گیا ہے اس حد تک اٹھ گیا ہے کہ معصوم بچیاں اپنے باپوں سے محفوظ نہیں معصوم بچے اپنے باپوں اور بڑوں سے محفوظ نہیں ہیں.اور ( Child Abuse) ایک ایسی وباء بن گئی ہے کہ وہ گھر سے گھر منتقل ہوتی چلی جارہی ہے اور محفوظ انداز ہ لگانے والے اندازہ لگاتے ہیں کہ بعض شہروں میں ہر تیسرے گھر میں (Child Abuse) ہو رہی ہے تو ایک امن کی جگہ سکون کی جگہ گھر ہوا کرتا تھا اگر گھر سے سکون اٹھ جائے اور وہ جن کو بچوں کا نگران بنایا جاتا ہے خدا کی طرف سے اور فطرت کی طرف سے وہ بچے امن لوٹنے لگ جائیں تو پیچھے کیا ر ہے گا.(Child Abuse) کو چھوڑ بھی دیں تو وہ معاشرہ جو دنیا کی لذت میں منہمک ہو جس کا دن اور رات ایک نئی لذت کی تلاش میں ایک نئے Pop Song کے انتظار میں گزرتا ہو اس معاشرے میں لوگوں کو ہوش ہی نہیں ہوتی کہ بچوں کی طرف کماحقہ توجہ دے سکیں جہاں زندگی کے معیار

Page 317

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ٣١٣ خطاب ۱۷ را کتوبر ۱۹۹۲ء مصنوعی طور پر بلند کر دیے گئے ہوں جہاں لذت کے ذریعہ غیر معمولی چمک دمک کے ساتھ اور کشش کے ساتھ ٹیلی ویژن پر دکھائے جا رہے ہوں.لیکن عام انسان کے بس میں نہ ہو کہ وہ ان چیزوں کو حاصل کر سکے وہاں لازم ہے کہ جرم گا اور بچے آغا ز ہی سے یہ سوچیں گے کہ کس طرح وہ دولت حاصل کریں جس کے نتیجہ میں وہ ان لذات کی پیروی کر سکیں.پس یہ معاشرہ ہر پہلو سے کھوکھلا اور داغدار ہے اور دن بدن اور زیادہ خطر ناک ہوتا چلا جا رہا ہے.جن گھروں میں بے چینی ہو وہاں گھر مسکن نہیں ہوتا بلکہ بیرونی دنیا مسکن بن جاتی ہے اور انسانی زندگی کی دلچسپیوں کے سامان گھروں سے نکل کر گلیوں میں آجاتے ہیں اور نیچے گھر میں تھکے ہارے بچے اسی وقت لوٹتے ہیں جب کہ مجبور اسونے کے لئے انھیں گھر آنا ہو یا خاوند اس وقت آتے ہیں جب کہ دنیاوی لذتوں سے بھر پور ہو کر یا مجبور ہو کر کہ اور پیسے نہیں ہیں خرچ کرنے کے لئے واپس گھروں میں لوٹتے ہیں.شرابی اس وقت آتے ہیں جب کہ نشے میں مدہوش ہوتے ہیں.ایسی حالت میں گھروں میں لوٹتے ہیں کہ ذراسی بچے کے رونے کی آواز پر بھی بعض دفعہ باپ بچوں کے سر دیواروں سے ٹکڑا کر ان کو جان سے مار دیتے ہیں مائیں شراب میں ایسی مدہوش ہو جاتی ہیں کہ ان کو بچوں کی کوئی فکر نہیں بلکہ مجھے یاد ہے کہ جب گذشتہ سفر پر میں امریکہ آیا تو حاکم کا علاقہ دیکھنے کے لئے گیا اور وہاں میں نے ایسی ماؤں کے نظارے دیکھے جن کو قوم نے مجرمانہ طور پر شراب کی لت ڈال دی تھی.اور وہ باہر اپنی سیڑھیوں پر بیٹھی پاس بھری ہوئی یا خالی یا ٹوٹی ہوئی بوتلیں پڑی ہوئی تھیں اور ان کے بچے گلیوں میں آوارہ کھیل رہے ہوتے تھے اور کوئی انکا نگران کوئی ان کا پاسبان نہیں تھا اور انہی دنوں میں ایک ایسا واقعہ بھی ٹیلی وژن پر دکھایا گیا کہ ایک ماں نے جس کا نشہ ٹوٹا ہوا تھا اور غصہ قابو میں نہیں تھا اس نے ایک شور مچاتے ہوئے بچے کا سر خود دیوار سے ٹکڑا کر پاش پاش کر دیا اور وہ بھوکا روٹی مانگ رہا تھا یا دودھ طلب کر رہا تھا تو اس معاشرے کا انجام یہ ہے کیوں بچپن میں آپ اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر ان کو سمجھاتی نہیں.ہمارے مشرقی معاشرے میں یہ کمزوری ہے کہ بچوں کے متعلق سمجھتے ہیں کہ بس ڈانٹ ڈپٹ کر منہ بند کرادینا یہ بہت کافی ہے اور بچے کون ہوتے ہیں کہ ان سے آپ با قاعدہ بڑوں کی طرح برابر بیٹھ کر گفتگو کریں.حالانکہ بچے خدا تعالی کے فضل سے بہت ذہین ہوتے ہیں اور بعض باتوں میں ماں باپ سے زیادہ صاف ذہن رکھتے ہیں کیونکہ ان کے دماغ بعض prejudicied اور غلط رجحانات کی وجہ سے آلودہ نہیں ہوتے ان کو اگر صحیح بات پیار سے محبت سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یا گود میں بیٹھا

Page 318

حضرت خلیلہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۳۱۴ خطاب ۱۷ را کتوبر ۱۹۹۲ء کر سمجھائی جائے تو سمجھتے ہیں میرا تو اپنے بچوں سے ہمیشہ کا یہی تجربہ ہے کہ خواہ کیسا ہی اختلاف ہو جب ان کو پیار سے سامنے بٹھا کر ان کو کھل کر بات کرنے کا موقع دیا اور آرام سے انھیں سمجھایا تو کبھی ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے ضد کی ہو اور وہ بات سمجھتے ہیں اور پھر اس پر قائم ہو جاتے ہیں.پس یہ وہ طریق ہے جس سے آپ کو بچوں کی تربیت کرنا ہوگی.پہلے دعا کے ذریعے پھر عبادت کے قیام کے ذریعہ پھر خدا تعالی کی محبت دلوں میں جاگزین اور پھر سمجھا کر برابر آمنے سامنے بیٹھ کر ان کو بتا ئیں اور سمجھائیں کہ دیکھو یہ چیزیں بالآخر نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں.ایسے گھر جہاں محبت کے بندھن مضبوط ہوں وہاں بچوں کے نقصان کا احتمال بہت کم ہوتا ہے یہ ایک اور بات ہے جو میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں بعض مائیں جن کو بعض بچوں کے لئے وقت نہ ہو مثلاً کمائی کے لئے ان کو مجبور آباہر نکلنا پڑتا ہو یا سجاوٹ سے اور سوشل دلچسپیوں سے ہی فرصت نہ ملے ان کے بچوں کی دلچسپیاں گھر میں ختم ہو جاتی ہیں کیونکہ انکے وہاں محبت نہیں ملتی وہ سکولوں میں جاتے ہیں تو سکول کے لڑکے ان سے پیار کرتے ہیں بعض بد ارادوں کے ساتھ اور غیر ذمہ داری کے ساتھ اور رفتہ رفتہ بچہ گھر سے اکھڑ کر غیروں کا ہوتا چلا جاتا ہے.مائیں اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتی ہیں اور کچھ کر نہیں سکتیں.کیونکہ انکا اس میں بہت بڑا قصور ہوتا ہے.انھوں نے بچوں سے دوستی نہیں کی انھیں پیار نہیں دیا اسے اپنایا نہیں.پس جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مصنوعی طور پر اپنی زندگی کے معیار کو بڑھایا جائے.یہ بھی ایک خاص قابل ذکر بات ہے.اگر انسان سادگی سے قانع نہ ہواگر انسان پیسے کا ایسا شیدائی ہو کہ خاوند کی کمائی سے گھر کا اچھا گزارہ چلنے کے باوجود عورت ضرور بچوں کو چھوڑ کر باہر نکلے اور اپنی آزاد کمائی کرے تو اس کا خمیازہ اس کے بچوں کے نقصان کی صورت میں بھگتنا پڑے گا.مجبوریوں کی باتیں الگ ہیں.بعض دفعہ مائیں مجبور ہوتی ہیں.بعض دفعہ خاوندوں کے پاس کام نہیں ہوتے اور بیویاں خاوندوں کو پالتی ہیں.ان خاوندوں بے چاروں کا حال دیکھنے کے لائق ہوتا ہے مگر وہ بھی پھر روزانہ باہر نکل جاتے ہیں کم سے کم اتنی شرافت تو کریں کہ بیوی کی کمائی کھا رہے ہیں تو بیوی کی ذمہ داریاں بھی قبول کریں.لیکن گھروں میں بیٹھنے کی بجائے بچوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے خصوصیت سے جب بچے سکولوں سے واپس آتے ہیں اس وقت وہ توجہ کے محتاج ہوا کرتے ہیں.ان کو ٹیلی ویثرن کے سامنے پھینک کر ماں باپ سمجھتے ہیں کہ کمال ہو گیا.بچے ہمارے گلے سے اترے اور ٹیلی ویثرن نے

Page 319

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۳۱۵ خطاب ۱۷ را کتوبر ۱۹۹۲ء انھیں سنبھال لیا.کس ٹیلی ویژن نے انھیں سنبھالا.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کسی کو امن کی جگہ سے اٹھا کر شیر کی غار میں دھکیل دیا جائے.ٹیلی ویثرن بچے دیکھیں گے اس سے روکا نہیں جاسکتا لیکن پیار اور محبت کے ساتھ بٹھا کر اچھے پروگرام دکھانا برے پروگراموں سے ان کے دلوں میں نفرت پیدا کرنا اور اپنی توجہ اتنی دینا کہ ان کے ساتھ آپ کھیلیں ان کے ساتھ دلچسپی کی باتیں کریں، ان کو اپنا ئیں، اپنے سے تعلق بڑھا ئیں.ایسے بچے جن کا محور گھر بن جاتا ہے جن کی دلچسپیوں کا مرکز ماں باپ اور بہن بھائی ہو جاتے ہیں اللہ تعالی کے فضل سے وہ ضائع نہیں ہوا کرتے.چنانچہ انگلستان میں مجھے ایک لمبے عرصہ سے ٹھہرنے کا موقع ملا ہے میں کثرت کے ساتھ وہاں خاندانوں کے حالات جانتا ہوں اور مجھے پتہ ہے کہ جہاں بھی ماں باپ نے بچے کو پیار دیا ہے اور ماں باپ کا احترام ان کے دلوں میں قائم ہے وہاں وہ بچے کبھی بھی غیر معاشرے سے مرعوب نہیں ہوتے.بلکہ بڑھ بڑھ کر دوسروں سے باتیں کرتے ہیں.مجھ سے بعض ماں باپ نے ذکر کیا کہ استانیاں شکائتیں کرتی ہیں کہ یہ ہمیں تبلیغ کرتے ہیں اور ہم انھیں بات سمجھا ئیں تو آگے سے ہمیں سمجھانے کے لئے دوڑتے ہیں اللہ تعالی کے فضل سے وہ سر بلند ہیں.ان کو کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا جہاں توجہ میں کمی آجائے گی پیار میں کمی آجائے گی احترام میں کمی آجائے گی وہاں ضر ورخرابیاں پیدا ہوں گی.اب ایک اور بات احترام ہے میں اس کا ذکر بھی ضروری سمجھتا ہوں اس کے بعد انشاء اللہ اس خطاب کو ختم کروں گا.میرے پاس بہت سی کہنے کی باتیں تھیں.مگر وقت کم ہے اب اگلا پروگرام چھ بجے سے شروع ہو چکا ہے اور بعض مجبوریوں کی بنا پر یہ جلسہ تاخیر سے شروع ہوا ہے.اس لئے میں اسی پر اس نصیحت کو ختم کرتا ہوں کہ بچے کے دل میں ماں باپ کا احترام ضروری ہے اور حضرت اقدس محمد مصطفیٰ نے قیام احترام کا یہ نسخہ ہمیں بتایا کہ اپنے بچوں کا احترام کیا کرو.ان سے ادب سے پیش آیا کرو.اب یہ ایک ایسا تصور ہے جو عام دنیا میں موجود نہیں ہے لیکن نفسیات کے ماہرین جانتے ہیں کہ اگر ماں باپ اپنے بچوں سے بد تمیزی سے کام نہ لیں ان کا احترام کریں اور عزت سے ان سے پیش آئیں اور ان کو یہ احساس دلائیں کہ وہ ان کی قدر کرتے ہیں تو ایسے بچے لا زما ماں باپ کا احترام کرتے ہیں اور احترام کرنے والے بچے نصیحت سننے کے زیادہ لائق اور سزا وار ٹھہرتے ہیں اگر احترام اٹھ جائے تو نصیحت کتنی ہی طاقتور اور مضبوط کیوں نہ ہو بچہ اس کی پرواہ نہیں کرے گا وہ سر اٹھا کر ایک طرف چلا جائے گا.بچوں کا بچپن سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ کس طرف چل پڑیں گے جن بچوں کے دل میں ماں

Page 320

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۳۱۶ خطاب ۱۷ را کتوبر ۱۹۹۲ء باپ کا احترام نہ ہو وہ شروع سے ہی ایسی حرکتیں کرتے ہیں.ایک دفعہ مجھے یاد ہے کہ بڑا دلچسپ کارٹون آیا تھا کہ ایک ماں نے ایک بچے کو شاید کچھ ڈانٹایا سمجھایا، بچہ سراٹھا کر اس سے گفتگو کر رہا تھا اور آنکھوں میں بڑی تیزی دکھائی دے رہی تھی کہ یہ رہا تھا کہ خبر دار جو آئندہ تم نے مجھ سے اس طرح بات کی میں تمہارا خاوند نہیں ہوں.خبر دار میں خاوند نہیں ہوں تمہارا جو تم مجھ سے اس طرح بد تمیزی کرواس کارٹون میں ایک نکتہ ہے اس کو سمجھنا چاہے واقعہ یہ ہے کہ جس گھر میں عورتیں خاوندوں سے بدتمیزی کریں اور خاوند عورتوں سے بدتمیزی کریں ان کے بچے ضرور بدتمیز ہوں گے.جہاں بات بات پر جھگڑے ہوں اور بداخلاقی سے کام لئے جائیں اور گالی گلوچ ہو وہاں ایسے ہی بچے پیدا ہوں گے جوسر اٹھا کر کہیں گے کہ میں تیرا خاوند نہیں ہوں جو تم مجھ سے بدتمیزی کر رہی ہو.تو احترام قائم کریں اور احترام قائم کرنے کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ ادب سے بولیں.احترام قائم کرنے کے بہت سے ذرائع ہیں.حکمت کا کام ہے.اگر ضرورت سے زیادہ ادب سے بولیں گے تب بھی آپ بچوں کو خراب کر دیں گے.احترام قائم کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کسی کے گھر جاتی ہیں بچوں سمیت اور بچے وہاں تو ڑ پھوڑ شروع کر دیتے ہیں.زلزلہ لے آتے ہیں اور میزبان بیچارہ شرم کے مارے کہ کچھ نہیں سکتا.آپ ہیں کہ احترام کئے جا چلی جارہی ہیں احترام کئے چلی جارہی ہیں کہ نہیں جناب آپ اس طرح کی حرکت نہ کیجئے آپ اس طرح نہ کیجئے احترام کے بھی مواقع ہوتے ہیں.نظم وضبط کے قیام کے بھی مواقع ہوتے ہیں.سر منہ ہونا اور تادیب کرنا یہ احترام کے خلاف نہیں ہے.احترام کی حدود کے اندر احترام ہونا چاہئے.احترام کا طریق یہ ہے کہ بچے کو اس طریق پر سمجھایا دیا جائے کہ یہ میں نہیں ہونے دوں گی.یہ بدتمیزی ہے تمھیں کوئی حق نہیں ہے کہ تم دوسروں کے گھر جا کر ایسی بے ہودگیاں کرو اور ساتھ اس کے بعد محبت سے پیار سے سلوک کر کے اس کی دلجوئی بھی کر لینا یہ وہ طریق ہے جس کے ذریعے بچے نظم و ضبط میں رہیں گے ورنہ میں نے دیکھا کہ بعض ایسی خواتین ہمارے گھر میں بھی کئی دفعہ آتی تھیں تو بی بی کو میں کہا کرتا تھا کہ سب چیزیں سمیٹ لوور نہ کچھ نہیں رہے گا باقی اور واقع ہی میز بان مجبور ہوتا ہے کچھ کہہ نہیں سکتا.اور وہ بیٹھی دیکھ رہی ہیں مائیں پروا ہی نہیں ہے کہ بچہ کیا حرکت کر رہا ہے.اپنے گھر میں بعض مائیں تادیب کرتی ہیں اور یہ جو تضاد ہے یہ اولا دکو بگاڑ دیتا ہے میں نے ایسی ماؤں کے بچے دیکھے ہیں جو دوسروں کے گھر میں زلزلہ برپا کر دیتے ہیں اور اپنے گھر میں ہر چیز حفاظت سے رکھتے ہیں.وہاں

Page 321

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۳۱۷ خطاب ۱۷ را کتوبر ۱۹۹۲ء ان کو ماریں پڑتی ہیں.اور دوسری جگہ خاموشی اور احترام سلوک برابر ہونا چاہیے.اور تادیب کا مطلب ہے اپنے گھر میں بھی تادیب کی جائے یعنی ادب سکھایا جائے غیروں کے گھر میں بھی ادب سکھایا جائے.بچے کے دل میں وقار کے ذریعہ احترام پیدا ہوتا ہے.اعلی اخلاقی قدروں کے ذریعہ احترام پیدا ہوتا ہے.میاں بیوی کے تعلقات کے اچھے ہونے کے نتیجہ میں احترام پیدا ہوتا ہے.یہ تمام ایسی چیزیں ہیں جن پر آپ کو غور کرنا ہو گا.اپنی زندگی کی طرز اسلام کے قریب تر لانی ہوگی.حضرت اقدس محمد مصطفی می ﷺ کے اسوہ کی طرح اگر حسن معاشرت ہو جائے.اگر خاوند اپنی بیویوں سے محبت اور پیار کا سلوک کریں مگر غلط بات کو اس طرح برداشت نہ کریں کہ محبت کی نذر کر دیں.ضرور سمجھائیں اور اپنے طرز عمل سے بتا دیں کہ یہ وہ حد ہے جس سے میں تجاوز نہیں کرنے دوں گا.تو ماں یا بیوی کا خاوند کے دل میں احترام ہو گا خاوند کا بیوی کے دل میں احترام ہو گا جو اولا دان گھروں میں پلے گی وہ ضرور اپنے بڑوں کا حترام کرنے والی ہوگی.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے متعلق حضرت عائشہ ر وایت فرماتی ہیں کہ بے حد حلم والے کبھی کسی بات پر تو ٹو کتے نہیں تھے اُف نہیں کرتے تھے اپنے کام خود کرتے اپنے کپڑے خودی لیتے تھے.گھر کے کاموں میں مدد کرتے تھے.اتنی مصروفیتیں اتنی ذمہ داریاں کہ دنیا میں سب سے زیادہ ذمہ داریاں اگر کسی انسان پر ڈالی گئی ہیں تو ہمارے آقا مولی حضرت محمد رسول اللہ پر ڈالی گئی تھیں.مگر پھر بھی علم کا یہ حال ہے کہ چھوٹے چھوٹے گھر کے معمولی کام بھی جھاڑ وصفائی ہر قسم کے کام خود کرتے اور اپنی بیوی کی مدد کرتے تھے مگر بداخلاقی کی بات کو برداشت نہیں کرتے تھے ایک دفعہ حضرت عائشہ بتاتی ہیں کہ میں نے آپ کی ایک اور زوجہ محترمہ سے جل کر جن کے ہاں سے کوئی چیز آئی تھی.ان کے چھوٹے قد کا طعنہ اس طرح دیا کہ میں نے رسول کریم سے کہا وہ بیوی آپ کی جو اس چھنگلی کے برابر ہے.آنحضرت علی سنجیدہ ہو گئے آپ کے چہرہ پر غم کے آثار ظاہر ہوئے.آپ نے فرمایا کہ عائشہ یہ تم نے ایک چھوٹی سی بات اور دیکھیں کتنی فصاحت و بلاغت ہے چھوٹی سی انگلی کے طعنہ پر فرمایا تم نے ایک بہت چھوٹی سی بات کی ہے مگر اتنی کڑوی کہ سمندر میں ڈالی جائے تو سمندر کا رنگ متغیر ہو جائے اس کی یو متغیر ہو جائے.سمندر زہریلا ہو جائے.اتنا گہرا صدمہ حضرت عائشہ کو اپنی اس بات پر پہنچا ایسی ندامت ہوئی کہ پھر کبھی خیال نہیں گذرا کبھی و ہم بھی دل میں نہیں گزرا اپنی کسی سوکن کو دوسری کسی زوجہ محترمہ کو پھر طعنہ کبھی دیں.تو آنحضرت علے ادب فرماتے تھے لیکن ادب کو اصولوں کی حدود سے

Page 322

۳۱۸ خطاب ۱۷ را کتوبر ۱۹۹۲ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات تجاوز نہیں کرنے دیا کرتے تھے اس کے نتیجے میں احترام پیدا ہوتا ہے.پس یہاں کے معاشرہ میں احترام کا قیام بہت زیادہ ضروری ہے.کیونکہ یہ احترام اب بچوں کے دل سے اوپر کی نسل کے لئے اتنا اٹھ چکا ہے کہ سکولوں میں کالجوں میں ایک لا قانونیت کا سا حال ہے.ہمارے ایک دوست احمدیت سے بہت تعلق رکھنے والے مجھے ملنے آئے ان کا پہلے یہ حال تھا کہ اپنے آپ کو آنریری احمدی کہا کرتے تھے.اس جلسے کے دنوں میں ان کے دل پر اتنا اثر پڑا کہ انھوں نے امام صاحب کو کہا کہ آنریری کا لفظ چھوڑ دو احمدی کہا کرو وہ بتا رہے تھے کہ ہمارے سکولوں میں اب اتنی بدتمیزی ہوگئی ہے کہ استاد کی مجال نہیں کہ کسی لڑکے کو کوئی نصیحت سختی کے ساتھ کر سکے نرمی سے بھی بات قبول نہیں کی جاتی اور لڑکے اُٹھ کر مارنے کو دوڑتے ہیں اور بدتمیزی کی حد ہو چکی ہے.ہم تو بڑی مشکل سے اپنی عزت بچا کر سکولوں اور کالجوں میں گزارے کر رہے ہیں.یہ نسل ان ماؤں کی گود میں پلی ہے جنھوں نے احترام گھروں میں پیدا نہیں کیا.اور یہ انحطاط ایک دو نسلوں کی بات نہیں ایک لمبے عرصے سے شروع ہوا ہوتا ہے اور چھوٹی چھوٹی بدتمیزیاں گھروں میں پلی ہیں جو پھر بڑھتے ہوئے قومی شعار بن جایا کرتی ہیں.ہمارے اردو کے ایک شاعر ہیں جو قو می نقائص کے متعلق کلام کرتے ہیں اور بہت اچھا کلام ہے وہ کہتے ہیں.دن وہ بھی تھے کہ خدمت استاد کے عوض جی چاہتا تھا ہدیہ دل پیش کیجئے بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبق کہتا ہے ماسٹر سے کہ بل پیش کیجئے تو یہ بل پیش کرنے والے محاورے یہ دنیا وی تمدن کے غلبے ہیں جو معاشرے کو تباہ کر دیتے ہیں.اپنے گھروں میں ان کو داخل نہ ہونے دیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولاد کے حق میں بہت ہی پیاری دعا کی وہی دعا اب میری آپ کے لئے ہے کہ ع نہ آوے ان کے گھر تک رعب دقبال کیسی پیاری دعا ہے فرمایا.دجالی ادا ئیں تو الگ بات ہے رعب دجال نہ آئے.عملاً یہ بہت ہی گہری نفسیاتی حقیقت پر مبنی دعا ہے.اگر سوسائٹیاں غیر سوسائٹیوں سے مرعوب ہو جائیں اور ان کو احساس کمتری پیدا ہو جائے تو پھر ہر قسم کی خرابی سیلاب کی طرح ان گھروں میں امڈ آیا کرتی ہے.اگر

Page 323

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۳۱۹ خطاب ۱۷ را کتوبر ۱۹۹۲ء آپ رعب سے محفوظ رہیں.آپ کے سر بلند رہیں آپ کی اولاد کے سر بلند ر ہیں تو خدا تعالی کے فضل سے نہ آپ کو کچھ ہو گا نہ آپ کی نسلیں بگڑیں گی اور نسلاً بعد نسل آپ ان اقدار کی حفاظت کر سکیں گی جو اقدار آج احمدی گھروں کے سپرد کی گئی ہیں.احمدی ماؤں کے ہاتھوں میں تھمائی گئی ہیں.اللہ تعالی آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.اب دعا کر لیجئے پھر رخصت ہوگی.( آمین )

Page 324

Page 325

حضرت خلیفہ آسیح الرابع' کے مستورات کے خطابات ۳۲۱ خطاب ۳۱ جولائی ۱۹۹۳ء احمدی خواتین کا تعلق باللہ اور قبولیت دعا کے واقعات خطاب جلسہ سالانہ مستورات برطانیہ فرموده ۳۱ / جولائی ۱۹۹۳ء بمقام اسلام آباد لفورڈ ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی: إِنَّ الَّذِينَ قَالُوْا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَاَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ نَحْنُ اَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۚ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِيَ أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدْعُونَ ( حم السجدۃ: ۳۱-۳۲) قرآن کریم کی جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے ان کا ترجمہ یہ ہے کہ یقیناً وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر اس دعوے پر استقامت اختیار کرتے ہیں.تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَئِكَةُ ان پر بکثرت فرشتے نازل ہوتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ إِلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا کہ دیکھو ہرگز کوئی خوف نہ کرو اور کوئی غم نہ کھاؤ وَ اَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ اور اُس جنت کی خوشخبری سے خوش ہو جاؤ جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے.نَحْنُ اَوْلِيَؤُكُمْ في الْحَيَوةِ الدُّنْیا ہم صرف جنت کی خوشخبریاں لے کر ہی نہیں آئے ہم اس دنیا میں بھی تمہارے ساتھی اور تمہارے دوست ہیں وَفِي الْآخِرَةِ اور آخرت میں بھی دوست رہیں گے لَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِيَ اَنْفُسُكُمْ تمہارے لئے اس آخرت کی دنیا میں ، آخرت کی زندگی میں وہ سب کچھ ہو گا جو تم چاہتے ہو.وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَعُوْنَ اور تمہارے لئے وہ کچھ ہوگا

Page 326

حضرت خلیفہ آسیح الرابع' کے مستورات کے خطابات ۳۲۲ خطاب ۳۱ جولائی ۱۹۹۳ء جس کا تم ادعا کیا کرتے تھے، جس کو پکارا کرتے تھے.نُزُلًا مِنْ غَفُورٍ رَّحِيْمِ یہ غفور اور رحیم رب کی طرف سے مہمانی ہے.تم خدا کے مہمان ہو اور اس رنگ میں اللہ تمہاری مہمان نوازی فرما رہا ہے ان آیات کریمہ سے یہ بات تو قطعی طور پر ثابت ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی امت میں ہمیشہ فرشتوں کا نزول رہے گا اور کوئی دنیا کی طاقت اس نزول کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی اور یہ نزول بعض خاص ایام میں شدت اختیار کر جاتا ہے.یعنی دکھوں اور ابتلاؤں کے دنوں میں یہ فرشتے جو بالعموم امت محمدیہ میں خدا کے پاک بندوں پر نازل ہوتے ہیں اور ابتلاؤں کے دنوں میں بکثرت نازل ہوتے ہیں اور یہ پھل ہے استقامت کا.جو لوگ خدا کی طرف منسوب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، جو یہ اعلان کر دیتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے اور ہمیں کسی دوسرے کی پرواہ نہیں اور پھر اس دعوئی پر قائم رہتے ہیں، استقامت دکھاتے ہیں وفا کرتے ہیں ان سے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان پر خدا کے فرشتے بکثرت نازل ہوتے ہیں اور بولتے ہوئے فرشتے یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اس دنیا میں بھی ، آخرت میں بھی کوئی غم نہ کرو، کوئی خوف نہ کرو.سوال یہ ہے کہ اس نزول ملائکہ کی کونسی علامتیں جماعت احمدیہ میں پائی جاتی ہیں جن کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا کے فضل کے ساتھ ہم وہی غلامان محمد مصطفی ﷺ ہیں جن کے حق میں یہ خوشخبریاں دی گئی تھیں.اس پہلو سے بارہا آپ کے سامنے سلسلہ عالیہ احمدیہ کی سوسالہ تاریخ سے بکثرت ایسے واقعات اور حقائق پیش کئے جاتے رہے ہیں جن میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے صحابہ کے تجارب، خدا تعالیٰ سے تعلقات کے واقعات اور خدا تعالیٰ کی رحمت اور شفقت کی داستانیں محفوظ ہیں.اس کثرت سے ایسے واقعات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں رونما ہوئے تھے کہ بلا شبہ ان پر کامل طور پر یہ آیت اطلاق پاتی ہے کہ تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَبِكَةُ بکثرت فرشتے ان پر نازل ہوتے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض راتیں ایسی گزریں کہ آپ فرماتے ہیں کہ بعض دفعہ یہ ہوتا تھا کہ میں کسی غم اور فکر میں مبتلا ہوتا تھا دشمن کی تیزیوں اور گستاخیوں سے دل مجروح ہوتا تھا اور تکیے پر سر رکھتا تھا اور ساری رات میرے خدا کے پیار کی آواز میں سنائی دیتی تھیں.مسلسل ساری ساری رات مجھ سے کلام کرتا تھا اور تسلیاں دیتا تھا.ایک صحابی نے مجھ سے بیان کیا کہ اس زمانے میں تو یہ کیفیت تھی کہ یوں لگتا تھا کہ ایکھینچ لگا ہوا ہے.

Page 327

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات کے خطابات ۳۲۳ خطاب ۳۱ جولائی ۱۹۹۳ء اُدھر بات کی اور ادھر اس کا جواب آ گیا.پس خصوصیت کے ساتھ جو ابتلاء کا دور تھاوہ احمدیت کے آغاز میں اپنی پوری شدت کے ساتھ ظاہر ہوا اور اسی شدت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ انعامات جماعت پر نازل ہوئے جن کا اس آیت کریمہ میں ذکر ملتا ہے لیکن یہ سلسلہ محض تاریخ کا حصہ نہیں یہ جماعت احمدیہ کے وجود کا ایک لازم حصہ ہے اور جماعت احمد یہ اور خدا تعالیٰ سے تعلق کے واقعات لازم و ملزوم ہیں.اگر یہ تعلق ٹوٹ جائے ، اگر اس نزول ملائکہ کا سلسلہ بند ہو جائے تو وہ دن جماعت احمدیہ کی موت کا دن ہو گا لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آج بھی بکثرت خدا تعالیٰ جماعت سے ہمکلام ہوتا ہے.جماعت کے مردوں سے بھی عورتوں سے بھی اور بچوں سے بھی اور تمام دنیا میں یہ واقعات رونما ہوتے چلے جارہے ہیں.شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جبکہ خطوط میں کسی نہ کسی تعلق باللہ کا تجربہ مجھے خط کی صورت میں پیش نہ کیا گیا ہو اور خطوں میں اس کا ذکر نہ ملا ہو.اور یہ واقعات افریقہ میں بھی ہورہے ہیں، مشرق بعید میں بھی ہو رہے ہیں ، مشرق وسطی میں بھی ہورہے ہیں ، امریکہ میں بھی، کینیڈا میں بھی اور تعلق باللہ کی داستانیں جو ساری دنیا میں بکھری پڑی ہیں اور رونما ہوتی چلی جارہی ہیں ان سے متعلق مجھے کچھ اطلاعیں ملتی رہتی ہیں تا کہ میرا دل تسلی پا جائے کہ جس جماعت کا مجھے امام مقرر کیا گیا ہے وہ متقین کی جماعت ہے وہ فاسقین کی جماعت نہیں اور ایک زندہ جماعت ہے جس کا خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک زندہ تعلق ہے.آج کے اجلاس میں میں نے خواتین کی مناسبت سے کچھ واقعات وہ بیان کرنے کے لئے سامنے رکھے ہیں جن کا خالصی تعلق خواتین سے ہے.یہ مضمون اتنا وسیع ہے اور واقعات کے ایسے انبار لگے پڑے ہیں کہ میرے لئے ممکن نہیں تھا کہ ان کا دسواں بیسواں حصہ بھی میں بیان کرسکتا.میں نے ایک سلسلہ کے عالم کے سپر د کام کیا کہ ان واقعات میں سے کچھ چن کر مجھے دے دو.ہوسکتا ہے میں خود تفصیل سے تلاش کرتا تو بعض اور زیادہ دل پر اثر کرنے والے واقعات اکٹھے کر لیتا مگر جو کچھ میرے سامنے پیش کیا گیا میں اس میں آپ کو اپنے ساتھ شریک کرتا ہوں.سب سے پہلے حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے دور و یا آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ کس طرح خدا تعالیٰ احمدی خواتین سے بھی اس حالت میں بھی ہمکلام ہوا جب ابھی وہ بچہ تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ عادت تھی کہ آپ بچوں کو بھی دعا کے لئے کہا کرتے تھے اور پھر بعض دفعہ پوچھا کرتے تھے کہ کیا کوئی خدا تعالیٰ کی طرف سے جواب آیا.یہ مطلب نہیں تھا

Page 328

حضرت خلیفہ آسیح الرابع' کے مستورات کے خطابات ۳۲۴ خطاب ۳۱ جولائی ۱۹۹۳ء کہ گویا آپ بچوں کے محتاج تھے کہ وہ خدا تعالیٰ سے جواب لے کر دیں.بلکہ بچوں کی تربیت کی خاطر یہ آپ کا دستور تھا اور ان کو بتانے کے لئے کہ ان کا باپ ایک زندہ خدا سے تعلق رکھتا ہے جسے وہ بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں اور اپنے کانوں سے سن سکتے ہیں.نواب مبار کہ بیگم صاحبہ بلھتی ہیں کہ ایک بار جب مجھ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دُعا کی تحریک کی تو میں نے خواب میں دیکھا کہ چوبارے پر گئی ہوں اور حضرت مولوی نورالدین صاحب ایک کتاب لئے بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو اس کتاب میں میرے متعلق حضرت صاحب کے الہامات ہیں اور ایک الہام ان میں سے یہ ہے کہ میں ابوبکر ہوں.آپ نے یہ رویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سنائی تو حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ اپنی اماں سے اس کا ذکر نہ کرنا.اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابو بکر، حضرت رسول کریم کے کے پہلے خلیفہ تھے اور اس رویا کے ذریعے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوراً سمجھ گئے کہ میری وفات کے دن قریب ہیں اور ابو بکر کا زمانہ آنے والا ہے.پس اس پہلو سے آپ نے نصیحت کی.حضرت پھوپھی جان بتاتی ہیں اور لکھتی ہیں کہ مجھے تو سمجھ نہیں آئی تھی کہ کیا بات تھی کیوں نہ بتاؤں لیکن پھر چند ماہ کے بعد جب وصال ہوا تو یہ بات مجھ پر کھل گئی.اسی طرح ایک اور رویا میں آپ نے دیکھا کہ خواب میں مولوی عبد الکریم صاحب دروازے کے پاس آئے اور مجھے کہا بی بی جاؤ ابا سے کہو کہ رسول کریم ﷺ اور صحابہ تشریف لے آئے ہیں اور آپ کو بلاتے ہیں.میں اوپر گئی اور دیکھا کہ پلنگ پر بیٹھے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بہت تیزی سے لکھ رہے ہیں ( یہ ساری خواب ہی کی کیفیت ہے تیزی سے لکھ رہے ہیں ) اور ایک خاص کیفیت آپ کے چہرے پر ہے، پر نور اور پور جوش، میں نے کہا ابا مولوی عبدالکریم کہتے ہیں کہ رسول کریم مع صحابه رضوان اللہ کے ساتھ تشریف لائے ہیں اور آپ کو بلا رہے ہیں.آپ نے لکھتے لکھتے نظر اٹھائی اور مجھے کہا جاؤ کہو یہ مضمون ختم ہوا اور میں آیا.یہ مضمون وہ ہے جس کا نام پیغام صلح ہے.یہ مضمون لکھنے کے معاً بعد ایک دن کے اندر اندر آپ کا وصال ہوا ہے.یعنی ایک رات کو مضمون ختم ہوا ہے اور دوسرے دن وصال ہو گیا ہے.تو کتنی شان اور صفائی کے ساتھ یہ دردناک رویا پوری ہوئی اور یہ جواب کتنا عجیب ہے جاؤ کہو یہ مضمون ختم ہوا اور میں آیا.ایک اور رویا میں آپ نے دیکھا کہ میں بیٹھی ہوں ایک شخص کہتا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا آدمی دو چار ماہ تک رخصت ہو جائے گا.حضرت پھوپھی جان لکھتی ہیں کہ میں سمجھی کہ دنیا کا سب سے

Page 329

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات کے خطابات ۳۲۵ خطاب ۳۱ ر جولائی ۱۹۹۳ء بڑا آدمی اس وقت تو سلطنت برطانیہ کا بادشاہ ہے اس کی موت کی خبر ہے تو آپ نے اسی رنگ میں ذکر کیا کہ دنیا کا سب سے بڑا آدمی فوت ہو گیا ہے.میں نے دیکھا ہے اور سلطنت انگریز کا بادشاہ مراد ہو سکتی ہے.آپ نے میری طرف دیکھ کر فرمایا یہ مطلب نہیں ہے اور بات ختم ہو گئی.یہ سلسلہ اگلی خلافت میں بھی اسی طرح جاری رہا.حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل کے دور میں بھی ، خلیفہ اسیح الثانی کے دور میں بھی، خلیفہ ثالث کے دور میں بھی اور اب بھی میں روز مرہ اس کا مشاہدہ کرتا ہوں.کہ مردوں ہی کو نہیں عورتوں کو بھی اللہ تعالیٰ سچی رویاء سے مشرف فرماتا ہے اور حیرت انگیز صفائی کے ساتھ وہ خوشخبریاں یا انذار کی خبریں پوری ہوتی ہیں.عالم بی بی صاحبہ ایک بہت ہی نیک، دعا گو خاتون تھیں ان والد کا نام حسن محمد تھا.حضرت عالم بی بی صاحب لکھتی ہیں کہ مجھے کبھی بھی خلافت مسیح موعود کے بارے میں کوئی شک نہیں ہوا.کہتی ہیں مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک خواب کے ذریعے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ حضور کے خلیفہ حضرت حاجی مولوی نورالدین صاحب ہوں گے.کہتی ہیں میں نے حضور کی وفات سے چند یوم قبل دیکھا کہ آسمان ستاروں سے بھر پور ہے.اچانک اس میں ایک کھڑ کی کھلی کیا دیکھتی ہوں کہ فرشتے نور کی مشکیں بھر بھر کر حضرت مولوی صاحب کے گھر انڈیل رہے ہیں.عجیب نورانی کیفیت تھی کہ آنکھ کھل گئی.چند دن بعد یعنی چھبیس مئی کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وصال ہوا.حضرت قاضی محمد اکمل صاحب کی اہلیہ بھی بہت دعا گو بزرگ خاتون تھیں.انہوں نے دیکھا، حضرت خلیفہ مسیح الاول کے وصال سے کچھ دن پہلے ، کہ حضرت مولوی صاحب فوت ہو گئے ہیں اور پھر مرز امحمود احمد ایک گھوڑے پر نمودار ہوئے اور آواز آئی یہ خلیفہ منتخب ہو گئے ہیں اس لئے خلافت ثانیہ کی بیعت میں مجھے ادنی سا بھی تردد نہ ہوا اور پوری شرح صدر کے ساتھ میں نے حضرت مرز امحمود احمد کے ہاتھ پر بیعت کی.اہلیہ صاحبہ قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی جن کے خاندان کا ایک بڑا حصہ اب انگلستان میں آباد ہے وہ لکھتی ہیں خدا تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر اور اس کی قسم کھا کر لکھوارہی ہوں کہ حضرت خلیفہ مسیح الاول جب گھوڑے پر سے گرے اور حضور کو بہت چوٹیں آئیں تھیں جن کی وجہ سے سخت تکلیف تھی اور زندگی کی بظاہر کوئی امید نہ تھی میں نے رویا میں دیکھا کہ سخت گھبراہٹ کا عالم ہے اور بے چین ہوں اتنے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ظاہر ہوتے ہیں اور آپ فرماتے ہیں، میں عرض کرتا ہوں

Page 330

خطاب ۳۱ جولائی ۱۹۹۳ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات کے خطابات تین دن کے بعد یہ جو ہو گا.اور اشارہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی مصلح موعود کی طرف ہے آپ اس وقت صاحبزادہ مرزا محمود کہلاتے تھے تو اس گھبراہٹ کے نتیجے میں جو رویا آئی اس میں حضرت مرزا محمود احمد دکھائے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام انگلی سے اشارہ کر کے فرماتے ہیں کہ تین دن کے بعد یہ جو ہوگا.اس پر ان کو گھبراہٹ ہوئی کہ شاید حضرت خلیفتہ اسی الاول کی زندگی تین دن تک ہی ہے لیکن شفا ہوگئی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوبارہ اپنے فرائض کی سرانجام دہی میں مصروف ہو گئے لیکن تین سال کے بعد آپ کا وصال ہوا اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی مرزا محموداحم منتخب ہو گئے.تو تین دن سے مراد بعض دفعہ تین سال ہوتے ہیں لیکن جب خواب پوری ہوتی ہے تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ بعض باتیں اشاروں میں تھیں اور وقت پر جب وہ اشارے ظاہر ہوتے ہیں تب انسان کو سمجھ آتی ہے.اب میں نسبتا قریب کے دور میں آتا ہوں مگر اس طرح ادوار میں میں نے واقعات تقسیم نہیں کئے کچھ ملا جلا دیئے ہیں کبھی ہم واپس چلے جائیں گے.مسیح موعود علیہ السلام کے دور میں کبھی کسی اور خلیفہ کے دور میں.ملا جلا کر گلدستے کے رنگ میں میں یہ واقعات آج آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.اوچ شریف سے زرینہ بیگم صاحبہ اہلیہ حکیم محد افضل صاحب لکھتی ہیں کہ کچھ عرصہ ہوا میں نے رات کے پچھلے حصے میں ایک خواب دیکھی کیا دیکھتی ہوں کہ جلسہ سالانہ پر ر بوہ گئی ہوں جلسہ پر لوگ کافی تعداد میں ہیں اور جلسہ گاہ اتنی بھر گئی ہے کہ باقی لوگ مکان کی چھتوں پر چڑھ بیٹھے ہیں.میرے دل میں خیال آیا کہ میں حضور اقدس یعنی حضرت مصلح موعود کی زیارت کر لوں.کہتی ہیں میں وہاں گئی ہوں لیکن لوگ بہت سے ہیں جو زیارت کرنا چاہتے ہیں.دروازے بند ہیں اور میں اندر نہیں جاسکتی.پھر آخر مجھے اندر جانے کا موقع ملا.حضرت مصلح موعودؓ ایک پلنگ پر لیٹے ہوئے ہیں اور پاس ہی سیّدہ بشری بیگم بیٹھی ہیں.حضور کا چہرہ نور ہی نور تھا.میرا دل دیکھ کر باغ باغ ہو گیا میں نے عرض کیا حضور سر مبارک پر تیل ملوں ؟ آپ نے فرمایا: نہیں.پھر عرض کی کیا حضور کے پاؤں دباؤں؟ حضور نے فرمایا نہیں.پھر میں نے عرض کی کہ جلسہ گاہ میں لوگ انتظار میں بیٹھے ہیں.حضور جلسہ گاہ میں تشریف لے چلیں تا کہ تقریر فرماویں.اس پر حضرت مصلح موعود نے فرمایا: ” اب میراحق نہیں ہے ناصر کا حق ہے.“ چنانچہ اس رؤیا کے کچھ دیر بعد حضرت مصلح موعود کا وصال ہوا.تو حضرت خلیفہ اسیح الثالث یعنی مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ منتخب ہوئے.ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ آپ نے مجھ سے پوچھا کہ تم کس کی بیٹی ہو.میں عرض کرتی ہوں کہ میں رانا فیض بخش صاحب اسٹنٹ رجسٹرار کی بیٹی ہوں 66

Page 331

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات کے خطابات ۳۲۷ خطاب ۳۱ جولائی ۱۹۹۳ء جو ضلع ملتان کے رہنے والے ہیں تو اس پر حضور فرماتے ہیں میں اُن کو جانتا ہوں ان کی عمر اس وقت پچاس پچپن سال ہے.خدا کے فضل سے یہ آج بھی زندہ ہیں اور بقائمی ہوش وحواس ہیں.مجھ سے خط و کتابت بھی ہے اور یہ اس سارے واقعہ کے گواہ موجود ہیں.صو بیدار بدر عالم صاحب اعوان کی بیٹی نصرت صاحبہ تحریر کرتی ہیں.آج سے تقریباً چھ سال قبل غالبا سن ۷۴ء میں (مہینہ یاد نہیں) ایک رات نفل پڑھنے کے بعد سوئی تو خواب میں دیکھا کہ میں نے کسی بڑی دعوت کا انتظام کیا ہے اور میں بے شمار مہمانوں کی آمد کا انتظار کر رہی ہوں اس ہجوم میں حضرت خلیفۃ أصبح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ اور حضور کی حرم محترم حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ بھی ہمراہ ہیں.حضور مجھ سے فرماتے ہیں.آج ہم آپ سب میں موجود ہیں آپ کے بلانے پر ہم آئے ہیں مگر پھر شاید ہم ایسا اب جس طرح آپ کے گھر آئے ہیں پھر نہ آسکیں گے دوبارہ موقع نہ ملے گا.‘ میں نے شرارت سے کہا ( یعنی پیار کے رنگ میں شرارت مراد ہے ) ”اے ہمارے پیارے والد آپ نہیں ہوں گے تو پھر کون ہوگا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کچھ دیر میری طرف دیکھ کر مسکراتے رہے اور پھر فرمایا ”طاہر اس کے آگے حضور کچھ نہ بولے.پھر حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ نوراللہ مرقدھانے فرمایا.”میں پہلے ہی اس جہان میں نہ رہوں گی.پس محض ایک بات نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے کوئی انسان سمجھے کہ شاید خیال اور تصور کی بات ہو.دوسری پختہ نشانی بھی پہلے ہی سن ۷۴ء میں آپ کے سامنے خدا تعالیٰ نے کھول کر رکھ دی کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے وصال کا جو ذکر ہے اس سے پہلے ہی حضرت سید ہ منصورہ بیگم صاحبہ اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہوں گی.نعیمہ بیگم صاحب حمید احمد رانا صاحب کی اہلیہ ہیں، دیکھتی ہیں کہ میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر جس کی جھوٹی قسم کھا نالعنتیوں کا کام ہے.یہ خواب بیان کرتی ہوں کہ آج سے ۴ سال قبل یہ ۲ اگست ۱۹۸۲ء کو روی لکھی ، یعنی ۱۹۷۸ء کو ان کی رؤیا ہوگی.۱۹۷۸ء میں عاجزہ نے خواب میں دیکھا کہ شہر سرگودھا میں احمدیوں کے خلاف کوئی جھگڑا ہورہا ہے ایک شخص جس کو میں نہیں جانتی اس کی آواز آتی ہے.کہ ”میاں طاہر احمد کہاں ہیں.کسی دوسرے نے ، اس کو بھی میں نہیں جانتی جواب میں کہا کہ وہ تو سیالکوٹ میں ہیں اگر وہ یہاں ہوتے تو جماعت کی خاطر جان لڑا دیتے اس کے بعد ایک اور آواز آئی کہ اچھا ہے وہ یہاں نہیں ہیں.اگر وہ یہاں ہوتے تو شاید انہیں کوئی نقصان پہنچ جاتا ان کا وجود بہت قیمتی ہے کیونکہ انہوں نے خلیفہ ثالث کے بعد خلیفہ بنا ہے.۱۹۷۴ء کے فسادات کی بات ہے اور واقعہ

Page 332

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات کے خطابات ۳۲۸ خطاب ۳۱ ؍ جولائی ۱۹۹۳ء میں ان دنوں ربوہ میں نہیں تھا.میں باہر دورے پر گیا ہوا تھا.واپسی پر مجھے اطلاع ملی ابھی لاہور پہنچا تھا کہ بہت بڑے فساد پھوٹ پڑے ہیں اور سرگودھا میں بھی اور ربوہ میں بھی آتش زنیاں ہو رہی تھیں تو یہ رؤیا بڑی صفائی کے ساتھ پوری ہوئی کہ وہ یہاں موجود نہیں ہیں.یعنی ان فسادوں کے وقتوں میں اور خدا تعالیٰ نے باہر رکھا ہوا ہے.اقبال بیگم صاحبہ اہلیہ خوندمحمد اکبر صاحب صحابی نے دسمبر ۱۹۲۵ء میں اپنی یہ خواب لکھ کر بھجوائی جو مولانا شمس صاحب مرحوم نے ایک مجموعہ کی شکل میں شائع کی وہ لکھتی ہیں آج سے بارہ تیرہ سال قبل اس عاجزہ نے ایک خواب دیکھا تھا جسے حلفیہ بیان کر رہی ہوں دیکھا کہ ربوہ کے میدان میں بے حد لوگ جمع ہیں یوں معلوم ہوتا ہے جیسے ہنگامی حالت ہو.قریب آئی تو معلوم ہوا کہ کچھ لوگ جن میں خاندان مسیح موعود کے افراد بھی ہیں آپس میں خلافت کے متعلق بحث کر رہے ہیں پھر میں نے دیکھا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی بھی اسی جگہ تشریف لائے ہیں اور انہوں نے حضرت میاں ناصر احمد صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا اور خاموشی سے اسی طرف چل پڑے جہاں اب مسجد مبارک ہے.مسجد مبارک میں ہی یہ خلافت کا انتخاب ہوتا رہا ہے اس پر جو لوگ آپس میں بحث کر رہے ہیں خاموشی سے حضور کے پیچھے پیچھے چل پڑے ہیں اور زور زور سے نعرے بلند کر رہے ہیں اور باقی چند خاموشی سے دوسری طرف چل پڑے ہیں.امتہ الرشید صاحبہ کراچی سے لکھتی ہیں.عاجزہ نے آج سے سترہ سال پہلے ایک خواب دیکھی جس کی تعبیر آج ملی ہے میں نے حضرت مصلح موعود کی وفات سے چند روز قبل خواب میں دیکھا کہ حضرت امم ناصر اپنے گھر میں ہیں.حضرت امی جان کے ساتھ اس خاندان کا بہت گہرا تعلق تھا.ان کی والدہ بھی اور یہ سب لوگ خاص تعلق سے وہاں خدمت کے لئے حاضر ہوا کرتے تھے کہتی ہیں کہ رؤیا میں حضرت ام ناصر کو وہاں دیکھا ایک بہت بڑا کمرہ ہے جو بہت خوبصورت اور روشن ہے اس کے اندر ایک خوبصورت پلنگ بچھا ہوا ہے اور اس پر ایک خوبصورت گاؤ تکیہ کے سہارے حضرت اُمّم ناصر نوراللہ مرقدھا بیٹھی ہیں.میں ان کو دیکھ کر جلدی سے اندر جاتی ہوں اور بڑے زور سے آپ کو السلام علیکم کہتی ہوں.آپ مجھے فرماتی ہیں کہ چھوٹی آپا کے گھر آج دعوت ہے سب لوگ کھانا کھا رہے ہیں تم نے کھایا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ کس بات کی دعوت ہے فرماتی ہیں تمہیں علم نہیں کہ آج ناصر دولہا بنا ہے.اس ساری گفتگو کے دوران میں نے دیکھا کہ حضرت مرزا طاہر احمد ( میرا نام لیتی ہے ) حضرت اُمم ناصر

Page 333

حضرت خلیفہ آسیح الرابع' کے مستورات کے خطابات ۳۲۹ خطاب ۳۱ ؍ جولائی ۱۹۹۳ء نوراللہ مرقدھا کے پیچھے اس طرح کھڑے ہیں کہ ان کے دونوں کندھوں کے درمیان میں ہوں.اور آپ مجھے دیکھ کر مسکرا رہے ہیں.جب حضرت ام ناصر نے فرمایا کہ تمہیں علم نہیں کہ آج ناصر دولہا بنا ہے تو ساتھ ہی مرزا طاہر احمد کی طرف اشارہ کر کے فرمایا اس کے بعد ان کی باری ہے اس کے بعد میں چھوٹی آپا کے گھر جاتی ہوں وہاں جا کر دیکھا کہ سب لوگ وہاں جمع ہیں اور کھانے کا اہتمام ہے.امتہ الرشید بیگم صاحبہ دارالبرکات ربوہ سے لکھتی ہیں کہ خدائے قدوس کی قسم کھا کر جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے عرض کرتی ہوں کہ آج سے تقریباً بیالیس برس پہلے سن چالیس اکتالیس کی بات ہے.(یعنی یا درکھیں کہ پارٹیشن سے بہت پہلے کا چالیس اکتالیس کا واقعہ ہے ) میں نے ہاتف غیبی کی نہایت صاف اور بڑی اثر انگیز آواز سنی.خلیفہ ایسیح حضرت میاں طاہر احمد صاحب ہوں گے.میرے مرحوم میاں ان دنوں انبالہ چھاؤنی میں ریلوے میں ملازم تھے.(میں اپنے نام کے ساتھ یہ لفظ ، عزت کے یہ القاب پڑھنا پسند نہیں کرتا مگر یہ رویا کی امانت ہے چونکہ اس لئے مجبوراً اسی طرح پڑھ کر سنانا پڑا ہے ) انہیں میں نے یہ بات بتا کر اپنے محبوب امام حضرت مصلح موعودؓ کی بارگاہ میں بذریعہ ڈاک سب واقعہ لکھ کر بھیجا جس کا جواب حضور کی طرف سے یہ موصول ہوا کہ خلیفہ کی موجودگی میں ایسے رویا و کشوف صیغہ راز میں رہنے چاہئیں.اور تشہیر نہیں کرنی چاہئے.چنانچہ خلافت ثالثہ کے قیام کے موقع پر میں یہی کبھی کہ شاید میاں طاہر احمد صاحب سے مراد یہ ہے کہ ایسا خلیفہ عطا ہو جو طا ہرا اور مطہر ہو، اب حضور کا انتخاب ہوا تو معاملہ صاف ہو گیا.خدا کا کہنا پورا ہوا.روح جھوم اُٹھی.الحمد لله ثم الحمدللہ.اس میں ان کی لمبی زندگی کی بھی عملاً پیشگوئی تھی کہ اس زمانہ تک زندہ رہیں گی کہ اپنی آنکھوں سے اس رویا کو پورا ہوتا دیکھ لیں.اس رویا کا خصوصیت سے میں نے اس لئے انتخاب کیا ہے کہ ایسی رؤیا اب بھی احمدی خواتین کو مردوں اور بچوں کو بھی آتی ہیں یہ خلیفہ وقت کی امانت ہوتی ہے اسے اپنے ماحول میں گردو پیش میں بیان نہیں کرنا چاہئے کیونکہ بعض رؤیا بعض خاص علامتیں رکھتی ہیں.جن کو ہر کس و ناکس نہیں پڑھ سمجھ سکتا اور بعض دفعہ اس سے غلط فہمیاں پھیلتی ہیں بعض دفعہ فتنے پرورش پاتے ہیں اس لئے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی اس ہدایت کو یا درکھیں آپ نے فرمایا کہ اس کی کوئی تشہیر نہیں کرنی چاہئے اور اشارہ بھی انہوں نے بعد میں اپنی زندگی میں اس کا ذکر نہیں کیا اور جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ پوری ہوئی تب انہوں نے یہ واقعہ لکھ کر بھجوایا.صالحہ بیگم صاحبہ دختر حضرت حافظ محمد ابراہیم صاحب اپنا ایک خواب بیان کرتی ہیں.اللہ تعالیٰ

Page 334

حضرت خلیفہ آسیح الرابع' کے مستورات کے خطابات ۳۳۰ خطاب ۳۱ ؍ جولائی ۱۹۹۳ء کو حاضر ناظر جان کر عرض کرتی ہوں کہ خواب بالکل اسی طرح دیکھا گیا جیسا کہ لکھ رہی ہوں.غالبا جولائی ۱۹۵۰ء کا مہینہ تھا میں ان دنوں ربوہ میں تھی خواب میں دیکھا کہ حضرت مصلح موعود کی وفات ہو گئی ہے لوگ گفتگو کر رہے ہیں کہ خلیفہ کون ہو فوراً میرے خاوند مولوی محمد منیر صاحب نے ایک پگڑی حضرت صاحبزادہ میاں ناصر احمد صاحب کے سر پر رکھ دی اور سب سے پہلے میرے خاوند نے بیعت کی.یہ جو رویا ہیں خلافت سے متعلق یہ سینکڑوں کی تعداد میں ہیں.جو حیرت انگیز صفائی سے پورے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کو اس طرح تقویت دیتے ہیں کہ کوئی دانا انسان یہ وہم بھی نہیں کر سکتا کہ یہ خواب و خیال کی دنیا کی باتیں ہیں.بلکہ سچی رؤیا ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے دکھائی جاتی ہیں.یہاں تک کہ بعض ایسی حیرت انگیز طور پر پوری ہوتی ہیں کہ دیکھنے والا بھی حیران رہ جاتا ہے.مجھے یاد ہے جب میں بیعت خلافت لے رہا تھا تو اس وقت وہاں شیخو پورہ کا ایک احمدی بھی موجود تھا جس نے رویا میں دیکھا تھا کہ میں خلیفہ بنا ہوں اور ایک لڑکا پیچھے سے آتا ہے اور میرے سر پر پگڑی رکھ دیتا ہے اور وہ پگڑی حضرت خلیفتہ امیج الثالث کی پگڑی ہے اب کوئی وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ ایسا واقعہ ہوسکتا ہے.جب بیعت ہو رہی تھی اس وقت اچانک میرے پیچھے سے عزیزم لقمان احمد آئے اور میری ٹوپی اتار کر ، جو ویسے نامناسب ہے کہ آدمی بڑے کی ٹوپی کو خود اتار دے ،حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی پگڑی میرے سر پر رکھ دی اور وہ حیران رہ گیا کہ کس شان اور صفائی کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس رویا کو پورا فرمایا.پس یہ ذکر تو بہت ہی وسیع ہے تاہم مختصر آمیں نے چند وہ رؤیا پچی ہیں یا میرے لئے چینی گئی ہیں جو خواتین سے تعلق رکھتی ہیں.ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب جو میرے نانا تھے انہوں نے اپنی اہلیہ یعنی میری نانی کے رویا و کشوف کا ذکر کیا ہے.وہ کہتے ہیں کہ ان میں سے ایک رؤیا ہے جس نے خاص طور پر مجھے متاثر کیا وہ اتنا بیمار ہوگئیں تھیں کہ ان کے بچنے کی کوئی امید باقی نہیں رہی تھی اور یہ چونکہ خودسول سرجن تھے یہ بیماریوں کو شناخت کرتے تھے پہچانتے تھے کہتے ہیں کہ رات میں اس حال میں سویا کہ میں سمجھتا تھا کہ صبح مُردہ دیکھوں گا اس کی زندگی کے کوئی آثار نہیں.اس دوران انہوں نے رویا میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے ہیں.وہ رؤیا یوں ہے کہ شفاخانہ کے باہر ایک بڑا خیمہ لگا ہوا ہے.لوگ کہتے ہیں کہ یہ خیمہ مرزا صاحب قادیانی کا ہے.کچھ مرد اور کچھ عورتیں ایک طرف بیٹھے ہیں.مرداندر جاتے ہیں اور واپس آتے ہیں.عورتیں اپنی باری پر ایک ایک کر کے اندر جاتی ہیں آپ اپنی

Page 335

خطاب ۳۱ ؍ جولائی ۱۹۹۳ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات کے خطابات باری پر بہت ہی نحیف شکل میں پردہ کئے ہوئے حضور کی خدمت میں جا کر بیٹھ گئیں پوچھنے پر کہ کیا تکلیف ہے انہوں نے انگلی سے سینے کی طرف اشارہ کر کےکہا کہ مجھ کو بخار، دل کی کمزوری اور سینے میں درد ہے.حضور نے اسی وقت ایک خادمہ سے ایک پیالہ پانی کا منگوا کر اس پر دم کر کے اپنے ہاتھ سے ان کو دیا اور فرمایا اس کو پی لیں.اللہ تعالیٰ شفا دے گا.اس رؤیا کے بعد جب ان کی آنکھ کھلی تو طبیعت بہتر ہونی شروع ہوگئی اور صبح خدا تعالیٰ کے فضل سے پوری طرح شفایاب ہو چکی تھیں.حضرت نانا جان جب کمرے میں ڈرتے ڈرتے داخل ہوئے کہ شاید میری بیوی کا مردہ دکھائی دے تو دیکھا کہ وہ اچھی بھلی صحت یاب.کہتی ہیں مجھے پیاس لگی ہے پانی پلاؤ.بھوک لگی ہے کھانا کھایا اور بالکل ٹھیک.کہتے ہیں میں حیران تھا کہ یہ کیا ہوا ہے.تب انہوں نے مجھے یہ رویا سنائی اور بتایا کہ اس رؤیا کے ساتھ پانی پیتے ہی میرے اند رسب بخارات اور بخار کے زہر نکلنے شروع ہو گئے اور میں خدا کے فضل سے بھلی چنگی ہوگئی.شیخ عبدالرحمن صاحب نائب صدر قانون گو کپورتھلہ کی اہلیہ نے جنوری ۱۹۳۶ء میں تحریر فرمایا کہ میں در دشقیقہ سے متواتر بیمار رہتی تھی اور کسی صورت مجھے آرام نہیں آتا تھا.کسی کروٹ چھین نہیں پاتی تھی.ایک دفعہ دعا کر کے سوئی.شدید تکلیف کی حالت میں لیٹی تھی کہ مجھے آپا جان دکھائی دیں یعنی میری والدہ مرحومہ جو ایک پلنگ پر تنہا قیام فرما ہیں.میں آتی ہوں تو سر ہانے سے اُٹھ کر پاکتی بیٹھ جاتی ہیں اور مجھے سرہانے کی طرف بٹھا دیتی ہیں اور میں جب عرض کرتی ہوں کہ مجھے بہت ہی تکلیف ہے تو کہتی ہیں یہ دعا پڑھا کرو.رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِ مُک اس سے صحت ہو جائے گی کہتی ہیں رویا میں ہی میں نے وہ دعا پڑھنی شروع کی اور صبح تک اس بیماری کا نام ونشان باقی نہیں تھا.حضرت مولوی ابراہیم صاحب بقا پوری کی اہلیہ لکھتی ہیں کہ ۱۹۳۰ء میں میں ٹائیفائیڈ سے سخت بیمار ہو گئی.بیماری کے ابتدائی ایام میں میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اپنے مکان کی چھت پر سیٹرھیوں کے راستے گئی ہوں لیکن جب میں نیچے اترنے لگی ہوں تو وہ سیڑھیاں غائب ہیں اب میں سخت گھبرائی ہوں کہ کس رستے سے اتروں.اس وقت دیکھا کہ حضرت اماں جان نیچے کھڑی ہیں اور فرماتی ہیں چھلانگ لگا دو میری گود میں آجاؤ گی.کہتی ہیں میں ڈرتی ہوں.میں چھلانگ نہیں لگاتی.پھر فرماتی ہیں چھلانگ لگا دو میری گود میں آجاؤ گی پھر میں ڈر جاتی ہوں پھر تیسری دفعہ فرمایا کہ چھلانگ لگا دو میری گود میں آجاؤ گی.تب میں نے چھلانگ لگائی اور آپ نے مجھے اپنی گود میں پھول کی طرح لے لیا.اس کے بعد جب صبح حضرت اماں جان کو یہ خواب سنائی تو آپ نے تعبیر فرمائی کہ لمبی بیماری دیکھوگی

Page 336

حضرت خلیفہ آسیح الرابع' کے مستورات کے خطابات ۳۳۲ خطاب ۳۱ ر جولائی ۱۹۹۳ء کافی تکلیف اٹھاؤ گی لیکن بالآخر ضر ور شفا پا جاؤ گی.مراد ی تھی کہ دو دفعہ انکار کیوں کیا ہے پہلی مرتبہ ہی چھلانگ لگا دیتی تو اللہ کے فضل سے جلدی بلائل جاتی.کہتی ہیں ایسا ہی ہوا بہت لمبی تکلیف دیکھی مگر بالآخر حضرت اماں جان کی گود میں آگئی اور پھر اس کے بعد ساری زندگی اچھی صحت سے کئی ہے.سلیمہ بی بی صاحبہ کھیوہ باجوہ بیان کرتی ہیں کہ مجھے شدید بخار ہوا.ڈاکٹر کو بلایا گیا اس نے بتایا کہ ٹائیفائیڈ کا دوبارہ حملہ ہوا ہے.تمام اہل خانہ میری زندگی سے مایوس ہو چکے تھے.ڈاکٹر نے مجھے بے علاج سمجھا اور میں نے بھی محسوس کیا کہ میری زندگی کا چراغ گل ہونے والا ہے اس رات میں نے بہت دعائیں کیں اور رویا میں میں نے دیکھا کہ ہمارے گاؤں کے قریب ایک ریت کا ٹیلہ ہے اور سارا گاؤں اکٹھا ہے اور سبز لباس والے درویش دو اونٹوں کو گھما رہے ہیں.پھر ان میں سے ایک کہنے لگا کہ جب ان اونٹوں کا اکیسواں پھیرا آیا تو اس لڑکی کی روح قفس عنصری سے پرواز کر جائے گی.پھر گاؤں کے تمام لوگوں نے یک زبان ہو کے پوچھا کہ اس لڑکی کے بچنے کی کوئی ایک صورت بھی ہے تو اس پر وہ سبز پوش بوڑھا ملنگ کہنے لگا اگر اس کا باپ تمام جائیداد اس کاغذ پر لکھ دے تو ہم اس لڑکی کو بچا سکتے ہیں.میرے باپ کا رنگ اس وقت زرد تھا لیکن اس لفظ سے اس کے غمگین چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی.وہ کہنے لگا صرف جائیداد؟ میں تو اس کا غذ پر اپنی جان بھی لکھ کر دینے کو تیار ہوں.چنانچہ اس آدمی نے وہ کاغذ آگے بڑھایا اور میرا باپ قلم پکڑ کر دستخط کرنے لگا اس پر میں نے اپنے باپ کا ہاتھ پکڑ لیا کہ میں اپنے خوشحال باپ کو افلاس زدہ نہیں دیکھ سکتی.اے میرے پیارے باپ میں اپنے بھائیوں کو ننگے جسم نہیں دیکھ سکتی اور پھر میں نے اس ملنگ کی طرف منہ کر کے کہا.تمہارا میری جان کے ساتھ کیا تعلق یہ تمام چیزیں تو اس خدا وند کریم کے ہاتھ میں ہیں جو ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے.تمہاری یہ شاطری اب زیادہ دیر نہیں چل سکتی.اب مقدس مسیح کا زمانہ شروع ہو چکا ہے.تمہاری تلوار میں زنگ آلود ہو چکی ہیں.تم مسیح کی تیز تلوار سے ڈرو اور پھر میں اونچی آواز سے پڑھتی ہوں الا ام دشمن نادان وب اے بترس از تیغ بران مح راه اتنے میں لوگوں میں چہ میگوئیاں ہوتی ہیں کہ اس لڑکی کا ماموں محمد لطیف آگیا ہے اس کا نام سنتے ہی ملنگ کا رنگ اُڑ گیا اور وہ فوراً بھاگ اُٹھا.پھر لوگوں نے کہا ر بوہ سے ابراہیم بقا پوری آرہے ہیں.اس پر ایسا معلوم ہوا جیسے اس لفظ نے ملنگ پر جادو کا سا اثر کر دیا ( یعنی بھا گا ابھی نہیں اس کے بعد

Page 337

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات کے خطابات ۳۳۳ خطاب ۳۱ ؍ جولائی ۱۹۹۳ء بھاگتا ہے ) پھر اس کا رنگ فق ہو گیا اور اس نے اپنا سامان سمیٹنا شروع کر دیا.وہ جلدی سے بھاگ جانا چاہتا ہے لیکن لوگوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ پکڑو پکڑو یہ واقعہ تو رویا میں ہوا لیکن کہتی ہیں صبح تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں رو بصحت ہونا شروع ہو چکی تھی اور سارے گھر والوں نے اور گاؤں والوں نے یہ معجزہ دیکھا کہ اس لاعلاج بیماری سے جسے ڈاکٹروں نے مرض الموت قرار دیا تھا میں کلیۂ شفا پا گئی.یہ توحید کی برکت بھی ہے جو اس رویا میں بیان ہوئی ہے بعض دفعہ خواتین اس قسم کی رؤیا سے ڈر جاتی ہیں اور ان کی آزمائش بھی کی جاتی ہے.والدہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے ساتھ یہ سلسلہ لمبے عرصے تک چلتا رہا.خواب میں ایک ڈائن نما عورت آیا کرتی تھی اور شرک کی تعلیم دیتی تھی کہتی تھی ورنہ یہ بچہ مار جاؤں گی لیکن وہ ہر دفعہ اس کو دھتکار دیتی تھیں.” مجھے کوئی پرواہ نہیں جتنے بچے مرتے ہیں مر جائیں مگر میں شرک نہیں کروں گی.چنانچہ خدا تعالیٰ نے کچھ عرصہ اس ابتلاء میں رکھا.پھر ان کی شنوائی ہوئی تو حید نے اپنی چمکار دکھائی اور رویائے صالحہ کے ذریعہ ان کو حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا بلند مرتبہ اور مقام دکھایا گیا اور باقی بچوں کی خوشخبریاں دی گئیں.چنانچہ وہ سارے بچے خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے پھولنے پھلنے والے بہت ہی مخلص خاندانوں کے سر براہ بنے ہوئے ہیں.نفیسه طلعت صاحبہ اہلیہ وارنٹ آفیسر مرزا سعید صاحب لکھتی ہیں.یہ رویا ۲ راگست ۱۹۸۲ء کے الفضل میں شائع ہو چکی ہے.یہ میں کل بیان کر چکا تھا.اس کو دوہرانے کی ضرورت نہیں یہ وہی رؤیا ہے جس میں نام ابھرنے کا ذکر ہے لیکن حوالہ نہیں دیا گیا.( یہ روز نامہ الفضل ۲ راگست ۱۹۸۲ء میں شائع ہوئی ہے) ہمارے گھر کی بچیوں میں سے لبنی عزیزم قمر سلیمان احمد کی بیگم آرڈینینس سے کچھ دیر پہلے رؤیا میں دیکھتی ہیں کہ تمام احمدی ابا جان کی کوٹھی میں جمع ہیں ( ابا جان سے مراد حضرت میرزا بشیر احمد صاحب) اور کوٹھی کے چاروں طرف خندق کھودی ہوئی ہے اور ایسا ہے کہ جیسے جنگ خندق ہو رہی ہے چھوٹی آپا میرے بھائی ماجد کو کہہ رہی ہیں کہ یوں تو ہمیں یہی حکم ہے کہ سب کچھ برداشت کرو اور کچھ نہ کہو مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ تم ہاتھوں میں چوڑیاں پہن لو.یہ جور دیا ہے یہ اس طرح پوری ہوئی کہ اس رؤیا کے چند دن بعد ہی وہ آرڈینینس ظاہر ہوا اور ربوہ سے انگلستان کے سفر سے پہلی رات میں نے اسی کوٹھی میں گزاری ہے.جس کے گرد یہ خوشخبری تھی کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں کا پہرہ ہوگا اور روحانی معنوں میں ایک خندق کھودی جائے گی جس سے کوئی حملہ آور وہاں نہیں پہنچ سکے گا.

Page 338

حضرت خلیفۃالمسیح الرابع " کے مستورات کے خطابات ۳۳۴ خطاب ۳۱ ؍ جولائی ۱۹۹۳ء امتہ الحفیظ صاحبہ کا بل والی جو مرز انصیر احمد صاحب صاحب چٹھی مسیح کی والدہ تھیں انہوں نے ۲۸ اور ۲۹ اپریل کی رات کو ایک خواب دیکھا یہ وہ رات تھی جس کے بعد دوسری صبح میں نے کراچی کے لئے روانہ ہونا تھا اور وہاں سے رات کو انگلستان کے لئے جہاز پکڑنا تھا.حالات بہت سنگین تھے چاروں طرف پانچ مختلف انٹیلی جینس کے نمائندوں کے پہرے تھے اور ایک ایک حرکت اور سکون کی خبر حکومت کو دی جارہی تھی.اس وقت بصیغہ راز ہمارا قافلہ آدھی رات کو ربوہ سے روانہ ہوا صبح ربوہ میں یہ مشہور ہوا کہ گویا میرا قافلہ اسلام آباد کے لئے روانہ ہو گیا ہے اور یہی باتیں ہو رہی تھیں چہ میگوئیاں تھیں کہ میں اسلام آباد چلا گیا ہوں.تو انہوں نے رؤیا دیکھی اور اس رؤیا میں ان کو صاف دکھائی دیا کہ قصر خلافت کے پاس ایک کمرہ بنایا گیا ہے جس میں شیشے کی کھڑکیاں ہیں اور اس کمرے میں داخل ہو جاتا ہوں اور وہ کمرہ ہوا میں اُڑتا ہوا کسی محفوظ مقام کی طرف چلا جاتا ہے.دوسرے دن صبح جب یہ باہر نکلیں گول بازار کا چکر لگانا شروع کیا تو ہر جگہ لوگ میرے متعلق یہی باتیں کر رہے تھے کہ وہ تو اسلام آباد چلے گئے ہیں تو ہر جگہ ان کو کہتی تھیں کہ تم کیا باتیں کر رہے ہو مجھے خدا نے بتایا ہے وہ باہر جاچکے ہیں.ہوائی جہاز میں اڑ کر وہ کہیں چلے گئے ہیں اور یہ بات ایسی خطر ناک تھی کہ اگر یہ لوگ مان جاتے اور اس بات کو شہرت ہو جاتی تو رستے روکنے کے بہت سے سامان حکومت کے پاس تھے لیکن اللہ کی شان ہے ان کی بات کسی نے نہیں مانی.کئی جگہ دکانداروں سے جھگڑا کرتی رہیں کہ تمہیں کس نے بتایا ہے مجھے تو خدا نے بتایا ہے اور تم کہتے ہو مجھے فلاں نے بتایا ہے خدا کی بات کچی ہے کہ فلاں کی بات سچی ہے مگر انہوں نے جس شان کے ساتھ اور صفائی کے ساتھ رویا دیکھی اسی طرح پوری ہوئی.اس ضمن میں ایک رؤیا عزیزہ فائزہ کی بھی میں آپ کو بتا دیتا ہوں جب ہم روانہ ہوئے تو ہم نے جھنگ جانے کے لئے لالیاں کی طرف کی سڑک پکڑی جس کے رستے میں ایک جگہ سڑک سیلابوں کی وجہ سے ٹوٹی ہوئی تھی.اور وہاں کچھ لمبے چوغوں والے فقیر نما لوگ موجود تھے.ہماری کاریں جب آہستہ ہوئیں تو وہ تیزی سے کاروں کی طرف بڑھے اور ہاتھ بڑھاتے ہوئے کچھ اشارے کر رہے ہیں اور جھانک رہے ہیں ان سے ہمیں خطرہ محسوس ہوا.یہ واقعہ پورا کرنے سے پہلے آپ کو فائزہ کی رؤیا سنا دیتا ہوں جو اس نے چند دن پہلے دیکھی تھی اس نے دیکھا کہ میں مخفی طور پر ایک قافلے کی شکل میں ربوہ سے روانہ ہوا ہوں ایک جگہ جا کر سڑک ایسی ہے کہ وہاں کاریں آہستہ ہو جاتی ہیں اور آہستہ ہوتی ہیں تو

Page 339

حضرت خلیفہ آسیح الرابع' کے مستورات کے خطابات ۳۳۵ خطاب ۳۱ ر جولائی ۱۹۹۳ء لمبے چوغوں والے فقیر ( بعینہ یہی بات دیکھی جارحانہ طور پر کاروں کی طرف بڑھتے ہیں اور میں گھبراتی ہوں کہ اس سے کیا ہو گا.اتنے میں کوئی خاتون کہتی ہیں کہ بڑے کھولو اور نوٹ باہر پھینکو تا کہ ان فقیروں کی توجہ ان نوٹوں کی طرف ہو جائے.یہ سنتی ہوں تو اچانک میری نظر سامنے پڑتی ہے.سامنے کی کارسے کوئی شخص اچانک نوٹوں کی بارش باہر کر دیتا ہے اور سارے فقیر نوٹوں کی طرف دوڑ پڑتے ہیں.جب ہمارا قافلہ اس جگہ پہنچا جس کا میں نے ذکر کیا ہے تو ظاہری طور پر وہاں کافی تعداد میں وہ فقیر نما لوگ موجود تھے جو انٹیلی جنس کے آدمی تھے.فوجی چولے جن کو برانڈی کہا جاتا ہے اور بڑے بڑے بوٹ پہنے ہوئے تھے وہ ہماری کاروں کی طرف جھانکتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھے اچانک سامنے والی کار سے عزیزم ادریس نصر اللہ خاں جو چوہدری محمد اسد اللہ خاں صاحب مرحوم کے صاحبزادہ ہیں ان کو پتہ نہیں کیا خیال آیا بلکہ تصرف کہنا چاہئے.ان کے پاس سو کے نوٹوں کی ایک تھی تھی انہوں نے اسی وقت پھاڑی اور دونوں طرف سے وہ نوٹ باہر پھینکنے شروع کر دیئے اور ان فقیروں کی ساری توجہ نوٹوں کی طرف ہوگئی اور میری کارکو نظر انداز کر دیا.چنانچہ ہمارا قافلہ خیریت سے وہاں سے گذر گیا.اب دیکھیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ رویائے صالحہ کے ذریعہ جماعت کے تقویٰ کی خبر دیتا ہے اور اپنے اس تعلق کی خبر دیتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں.نَحْنُ اَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ہم دنیا میں بھی تمہارے ساتھ ہیں اور آخرت میں بھی ساتھ ہیں اور یہ جو خبریں ہیں یہ خدا تعالیٰ کی مہمانی ہے.یہ خدا تعالیٰ کے دسترخوان کی نعمتیں ہیں جو جماعت احمدیہ کوروز بروز تازہ تازہ میسر آتی رہتی ہیں.امتہ الحی صاحبہ اہلیہ مکرم شکیل احمد صاحب طاہر قادیان لھتی ہیں کہ کل رات (ان کا یہ خط ۲۸ را پریل ۱۹۸۴ ء کا ہے ) میں نے خواب میں دیکھا کہ نماز فجر کے بعد میرے شوہر شکیل صاحب گھر میں آکر اطلاع دیتے ہیں کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ دارالرحمت میں پہنچ گئے ہیں اور یہ جملہ دو تین مرتبہ انہوں نے آنگن میں کھڑے ہو کر دہرایا اس کے بعد جب میری آنکھ کھلی تو میں نے محسوس کیا کہ جو بے چینی اور فکر تھی وہ دور ہو چکی ہے.یہ وہی رات ہے جس رات میں انگلستان کے سفر کے لئے روانہ ہوا ہوں اور بھی بہت سی رؤیا ہیں لیکن اب چونکہ وقت ختم ہوا چاہتا ہے اس لئے میں بعض دوسری رؤیا کی طرف متوجہ ہوتا ہوں.اب آصفہ بیگم کی ایک رؤیا بھی آپ کے سامنے رکھتا ہوں جس پہ میں حیران رہ گیا تھا کہ کس حیرت انگیز طریق پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبر دی ہے.جب شروع میں انگلستان پہنچا ہوں تو لازم بات ہے کہ کئی قسم کی فکریں تھیں اور میں نے ایک فیصلہ کیا تھا کہ جماعت سے کوئی گزارہ نہیں لینا جو بھی

Page 340

حضرت خلیفہ آسیح الرابع' کے مستورات کے خطابات ۳۳۶ خطاب ۳۱ جولائی ۱۹۹۳ء صورت ہوگی اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے گا اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ انتظام فرمائے.رات میں نے رویا میں دیکھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے کہا ہے کہ ”تم سے نور الدین کا سلوک کیا جائے گا.‘ نورالدین حضرت خلیفہ امسیح الاول تھے اور آپ کے ساتھ خدا تعالیٰ کا خاص سلوک تھا کہ بغیر مانگے ، بغیر کسی طلب کے عین ضرورت کے وقت غیب سے ضروریات پوری ہوتی چلی جاتی تھیں.یہ رویا میں نے کسی کو نہیں بتائی.لیکن دوسرے یا تیسرے دن بی بی نے خواب میں دیکھا اور مجھے صبح بڑے مسکرا کر خواب سنائی کہ میں نے دیکھا کہ مسجد اقصیٰ میں مہر آپا سیدہ بشری بیگم مٹھائی تقسیم کر رہی ہیں اور کوئی پوچھتا ہے کہ یہ مٹھائی کس بات کی تقسیم ہورہی ہے تو وہ کہتی ہیں اس بات کی کہ خدا تعالیٰ نے میرا ذکر کر کے ان کو الہام کیا ہے کہ میں تجھے نورالدین بنارہا ہوں.ایک خواب مجھے دکھائی گئی ہے اس کی تائید میں اللہ تعالیٰ نے بی بی کو رؤیا دکھائی اور اس کا پھر عملی ثبوت فوری طور پر اس طرح ظاہر فرما دیا کہ دوسرے دن جب میں دفتر گیا ہوں تو وہاں میرے میز پر چالیس پاؤنڈ کا ایک بل پڑا تھا جو میرے کسی داماد نے رکھا تھا کہ مجھ سے لے لے.میں نے اس کو کہا کہ شام کو ملاقات کے وقت آکے لے جانا.حالانکہ ایک پیسہ بھی میرے پاس نہیں تھا اور ملاقات کے وقت اور اس کے درمیان میں کسی پیسے کے بظاہر آنے کا کوئی سوال بھی نہیں تھا لیکن ان کے جانے کے بعد بعینہ چالیس پاؤنڈ کا تحفہ کہیں سے آ گیا.ایک لفافہ دیکھا تو اس میں چالیس پاؤنڈ کا تحفہ تھا اور جب وہ آئے تو میں نے ان کو پیش کر دیا.یہ جو واقعہ ہے یہ اس لئے بتارہاہوں کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے تائید ظاہر فرمائی ہے.یعنی بعض دفعہ رویا نفس کی تمنا ئیں ہوتی ہیں لیکن جو رؤیا مبشرات ہوتی ہیں ان کے ساتھ تائیدی بیان ہوتے ہیں.ایک کو ر و یا دکھائی جاتی ہے تو دوسرے کو اس کی تائید میں دکھائی جاتی ہے اور پھر عملی طور پر واقعات میں ان رؤیا کا سچا ہونا ثابت کر دیا جاتا ہے.مبارکہ بشیر صاحبہ دستگیر سوسائٹی کراچی سے لکھتی ہیں.بقر عید سے یعنی عید الاضحیہ سے تین دن پہلے رات کو مباہلہ کی کاپی پڑھی اور دعائیں کرتی لیٹی تو خواب میں دیکھا کہ سترہ تاریخ کو بہت بڑا انقلاب آئے گا.خواب میں یہ الفاظ تین مرتبہ زور دے کر کوئی کہتا ہے.صبح گھر والوں کو یہ خواب سنایا اور ساتھ ہی ذکر کرتی ہوں کہ ۲۳ / مارچ کو ہماری صد سالہ جو بلی ہے تو اس سے پہلے ۱۷ تاریخ کو انشاء اللہ کوئی انقلاب آئے گا.ضیاء کی موت کی خبر سن کر خیال آیا کہ دیکھو یہ خواب کس شان کے ساتھ پوری ہوئی.مکرم نورالدین صاحب نے کراچی سے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ضیاء الحق کی ہلاکت سے چند روز پہلے میری بہو نزہت بیگم نے رویا میں دیکھا کہ ضیاء الحق آسمان سے الٹالٹکا ہوا ہے.وہ مزید

Page 341

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات کے خطابات ۳۳۷ خطاب ۳۱ ؍ جولائی ۱۹۹۳ء لکھتے ہیں کہ ٹی وی پر جب ہم نے یہ واقعہ دیکھا تو دکھایا گیا کہ صدر کے جہاز نے تین قلابازیاں کھائی ہیں اور پھر وہ سر کے بل گویا الٹاز مین میں دھنس گیا.تو کس شان کے ساتھ کس صفائی کے ساتھ یہ رویا بھی پوری ہوئی.پس وہی خدا ہے جو ہم عاجزوں کی مہمان نوازی فرما رہا ہے.اور ہمارے دلوں کو تقویت بخشتا ہے اور کہتا ہے.میں ہی ہوں جس کو تم نے اپنا رب بنایا ہے.پس میں اپنی ربوبیت کے نشان تم پر ظاہر کرتا چلا جاؤں گا فرشتے جماعت احمد یہ پر جیسے مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں نازل ہوتے تھے آج بھی نازل ہورہے ہیں اور کل بھی نازل ہوتے رہیں گے اگر ہم نے اپنے تقویٰ کی حفاظت کی تو میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ سلسلہ ہمیشہ ہمیش کے لئے جاری وساری رہے گا.ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب لکھتے ہیں.ایک دن میری اہلیہ نے بتایا کہ میں نے خواب میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے آپ نے وسطی اور سبابہ ان دو انگلیوں کو کھڑی کر کے فرمایا.میں اور مسیح ایک ہیں.آپ بیعت سے پہلے بھی صاحب حال تھیں.پیغمبروں، اولیاء اور فرشتوں کی زیارت کر چکی تھیں.ان کے خواب دیکھنے سے حضرت اقدس پر بہت ایمان پیدا ہو گیا.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اپنی والدہ کی ایک رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.دیکھا کہ رات کے وقت (یہ ابھی احمدی نہیں ہوئی تھیں ) اپنے مکان کے صحن میں اس طور پر انتظام میں مصروف ہیں کہ گویا بہت سے مہمانوں کی آمد متوقع ہے.اسی دوران میں دالان کے اندر جانے کا اتفاق ہوا تو دیکھا کہ مغرب کی طرف کو ٹھڑی میں بہت اجالا ہے.حیران ہوئیں کہ وہاں تو کوئی لیمپ وغیرہ نہیں ہے.یہ روشنی کیسی ہے چنانچہ آگے بڑھیں تو دیکھا کہ وہ کمرہ روشنی سے دمک رہا ہے اور ایک پلنگ پرا یک نورانی صورت بزرگ تشریف فرما ہیں.اور ایک نوٹ بک میں کچھ تحریر فرما رہے ہیں.والدہ صاحبہ کمرے میں داخل ہو کر ان کی پیٹھ کی طرف کھڑی ہو گئیں.جب انہوں نے محسوس کیا کہ کوئی شخص کمرے کے اندر آیا ہے تو انہوں نے اپنا جوتا پہننے کے لئے پاؤں پلنگ کے نیچے اتارے گویا کمرے سے چلے جانے کی تیاری کرنے لگے ہیں.والدہ صاحبہ نے عرض کی.یا حضرت مجھے تمام عمر میں کبھی اس قدر خوشی محسوس نہیں ہوئی جس قدر آج میں محسوس کر رہی ہوں.آپ تھوڑی دیر تو اور تشریف رکھیں.چنانچہ وہ بزرگ تھوڑی دیر اور ٹھہر گئے اور پھر جب تشریف لے جانے لگے تو والدہ صاحبہ نے دریافت کیا کہ یا حضرت اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ کون بزرگ ملے ہیں تو میں کیا بتاؤں.انہوں نے دائیں کندھے کے اوپر سے پیچھے کی طرف دیکھ کر اور دایاں باز و اُٹھا کر جواب دیا

Page 342

حضرت خلیفہ آسیح الرابع' کے مستورات کے خطابات ۳۳۸.خطاب ۳۱ ؍ جولائی ۱۹۹۳ء کہ اگر آپ سے کوئی پوچھے کہ کون ملے ہیں تو کہیں احمد ملے ہیں.اس پر والدہ صاحبہ بیدار ہوگئیں.اپنی رؤیا اور کشوف کے نتیجے میں آپ نے اپنے بزرگ خاوند سے پہلے بیعت کر لی تھی اور اس کے نتیجے میں اُن کی ناراضگی اس حد تک مول لی کہ جب آپ قادیان سے بیعت کر کے واپس آئیں تو چوہدری نصر اللہ خاں صاحب شدید ناراض ہوئے اور کہا کہ مجھ سے پہلے بغیر اجازت کے تم نے کیوں کی ہے آج کے بعد میرا اور تمہارا ازدواجی رشتہ ختم ہے.میرے لئے یہ جائز ہی نہیں کہ میں اسی کمرے میں رہوں.چنانچہ میری چار پائی الگ کر دو.تو حضرت چوہدری صاحب کی والدہ نے نوکر کو کہا کہ باہر مردانے میں ان کی چار پائی لے جاؤ.اور ذرہ بھی پرواہ نہیں کی.پھر چند دن کے بعد اللہ تعالیٰ نے بہر حال ان کو بھی احمدیت کی نعمت عطا فرمائی اور مخلصین کی صف میں ان کا بہت بلند مقام ہے.منظور احمد صاحب سالک ولد خدا بخش صاحب ساکن کوٹ محمد یار اپنی نانی کے متعلق لکھتے ہیں کہ ان کی رؤیا کے نتیجے میں ہمارا خاندان احمدی ہوا ہے.کہتی ہیں کہ جب ہم احمدی نہیں ہوئے تھے اور کشمکش میں تھے تو میں نے دیکھا کہ ایک شخص میرے سرہانے کھڑا ہے اور اُس نے مجھے دو چٹھیاں دی ہیں ان میں سے ایک چٹھی پر سنہری حروف میں لکھا ہے ” حضرت مہدی مسیح موعود “ اور دوسری چٹھی خالی ہے وہ کہتا ہے ان کو پکڑو.غور سے جب میں دیکھتی ہوں تو جس پر حضرت غلام احمد مسیح موعود لکھا ہے وہ چٹھی اچانک روشن ہو جاتی ہے اور بے حد چمک اُٹھتی ہے تو یہ دیکھنے کے بعد مجھے ذرہ بھر بھی شک باقی نہیں رہا.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کی صداقت کا نشان دکھایا ہے.اس رؤیا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے، اس سعید فطرت خاندان نے بیعت کر لی.ایک کشمیری خاندان کی اشد مخالف خاتون جو احمدیت کا نام بھی برداشت نہیں کر سکتی تھی ان کا نام سرور سلطانہ بیگم ہے اور ان کا سارا خاندان ہی مخالف تھا ان کی احمدیت کا واقعہ بھی ایسا ہی ہے کہ انہوں نے رؤیا کے ذریعے احمدیت کی صداقت کا نشان پایا.چنانچہ جب حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی وفات ہوئی تو سرور سلطانہ صاحبہ نے خواب دیکھا جس میں میرا نام لکھا ہے کہ اس کی تصویر دکھائی گئی.یعنی وہ خاتون جو احمدیت کی سخت معاند میرے نام سے بھی واقف نہیں میری تصویر اور شکل سے بھی واقف نہیں اس کو تصویر دکھائی گئی اور کہا گیا کہ ان کے ذریعے خدمتِ اسلام کا عظیم الشان کام ہوگا اور یہی اب امام جماعت احمد یہ ہیں.چنانچہ انہوں نے اپنی اس خواب کا لوگوں سے ذکر کیا اور جب میری تصویر ان کو دکھائی گئی تو بے ساختہ پہچان کر کہا کہ ہاں یہی تھا جس کو میں نے رویا میں دیکھا تھا اور

Page 343

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات کے خطابات مخالفت کے علی الرغم اسی وقت بیعت کر لی.۳۳۹ خطاب ۳۱ ر جولائی ۱۹۹۳ء اب حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا ایک اور رویا آپ کے سامنے رکھتا ہوں دیکھتی ہیں کہ بھائی مبارک احمد مرحوم بیمار تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے علاج کی کوشش کی دعا ئیں بھی بہت ہوئیں.میں نے خواب میں دیکھا کہ مسیح موعود علیہ السلام اس پلنگ کے گرداس سلسلہ میں ہی پھر رہے ہیں مگر اس کا انتقال ہو گیا اور میں دروازے پر کھڑی ہوں ، بہت گھبراہٹ کی حالت میں.جب مبارک احمد کی وفات ہوگئی تو آپ دروازہ کھول کر میرے پاس آئے اور بڑی شاندار پر اثر آواز میں فرمایا کہ مومن کا کام ہے کہ دوا علاج کی کوشش ہر طرح کرے اور دعا میں آخر وقت تک لگا رہے مگر جب خدا تعالیٰ کی تقدیر وارد ہو جائے تو پھر اس کی رضا پر راضی ہو جائے.یہی الفاظ تھے.اور وہ عجیب نظارہ تھا جو میں نے دیکھا اور دل پر نقش ہو گیا میں اپنی سمجھ کے مطابق اب سوچتی ہوں کہ یہ منجھلے بھائی صاحب کے لئے ہی خواب تھا کیونکہ میرے چھوٹے بھائی کے لئے تو کچھ بھی نہ ہوسکا تھا.میرے منجھلے بھائی کیلئے تو آخر دن تک ہر ممکن کوشش کی گئی.نہ علاج میں کمی رہی نہ صدقات میں نہ دعاؤں میں مگر جو خدا کی طرف سے مقدر تھا وہ پورا ہو کے رہا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال سے پہلے مائی اروڑی نے جو ایک دعا گو خاتون تھیں.انہوں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لا رہے ہیں اور کچھ صحابہ آپ کے ساتھ ہیں تو ساتھیوں میں سے ایک نے عرض کیا کہ حضور مفتی صاحب کو بھی ساتھ لے لیں.چنانچہ مفتی صاحب بھی سفر کے ساتھ روانہ ہوئے.یہ آپ کے وصال سے چند دن پہلے کی رؤیا ہے حضرت محمد ظفر اللہ خاں صاحب اپنی والدہ کی ایک اور رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کی والدہ کو اپنے خاوند یعنی چوہدری صاحب کے والد کی وفات کی خبر دے دی گئی تھی.اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ انہوں نے رویا میں دیکھا کہ ڈاکٹر صاحبان والد صاحب کو دیکھنے کے بعد ، دو ڈاکٹر ہیں، جو والد صاحب کو دیکھنے کے بعد ساتھ کے کمرے میں چلے گئے.خاکسار نے والدہ صاحبہ کو اطلاع کی وہ والد صاحب کے کمرے میں تشریف ( یہاں جواب لکھنے میں Confusion ہو گیا ہے ).چوہدری صاحب پہلے ایک واقعہ بتاتے ہیں پھر اس کے بعد رؤیا کا ذکر ہے.وہ واقعہ یہ ہے کہ جب والد صاحب بیمار تھے اور نہایت ہی خطرناک صورتحال تھی تو چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے ڈاکٹروں کو بلوایا اور دوڈاکٹر دیکھنے کے لئے آئے.ان کے آنے کی وجہ سے والدہ محترمہ نے وہ کمرہ چھوڑ

Page 344

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات کے خطابات ۳۴۰ خطاب ۳۱ جولائی ۱۹۹۳ء دیا کسی اور ساتھ کے کمرے میں چلی گئیں.جب وہ واپس جانے لگے، اس خیال سے کہ وہ جاچکے ہوں گے، چوہدری صاحب کی والدہ دوبارہ کمرے میں داخل ہو رہی تھیں تو وہ دونوں باہر نکل رہے تھے.ان کو دیکھ کر والدہ صاحبہ نے اپنا ایک خواب مجھے سنایا کہ میں نے دیکھا کہ دو شخص انگریزی لباس پہنے ہوئے کمرے سے باہر جارہے ہیں کسی نے ان کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ دو شخص چوہدری صاحب یعنی والد صاحب کو قتل کر گئے ہیں اب جبکہ میں نے دیکھا ہے تو اسی حالت میں پیٹھ کی طرف سے دیکھا تھا یہی وہ دو شخص تھے اس لئے والد کی وفات کی تیاری کرو.ایسا ہی ہوا اس کے چند دن بعد ہی وہ وفات پاگئے.چوہدری صاحب میر انعام اللہ شاہ صاحب کی وفات کے متعلق ایک خواب کا ذکر کرتے ہیں کہ ان کی والدہ نے دیکھا کہ ایک روز تہجد اور فجر کے درمیان پلنگ پر لیٹی ہوئی تھیں تو دیکھا کہ آواز آئی کہ میر صاحب کی صحت کہ اس کا کرنٹ بند کر دیا گیا ہے یعنی بجلی کی ہر منقطع کر دی گئی ہے.اسی صبح ہی والدہ نے کہا کہ میر صاحب فوت ہو گئے ہیں پتہ کرو.چنانچہ جب پتہ کرایا گیا تو جس وقت وہ رؤیا دیکھی تھی اسی وقت کسی اور شہر میں میر صاحب وفات پاگئے تھے اور دوسرے دن پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ کس طرح عین اُس وفات کے وقت چوہدری صاحب کی والدہ کو خدا تعالیٰ نے یہ دکھا دیا.انشاء اللہ بعد میں چھپوا دیں گے یہ واقعات اور کچھ اور بھی واقعات ، کیونکہ بہت زیادہ ہیں ان کو سمیٹا نہیں جاسکتا.ایسے رویا وکشوف میں چین کی احمدی خاتون، عثمان چینی صاحب کی بیگم یہاں اسلام آباد میں موجود ہیں ان کی ایک رویا بھی میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.وہ کہتی ہیں جب میں چین سے پاکستان آئی اور عثمان چینی صاحب کے ساتھ بیاہی گئی تو اس وقت عربی زبان سے بالکل نابلد تھی اور نہ ہی عربی زبان میں کوئی دُعا کر سکتی تھی ( نابلد تو اب بھی ہیں لیکن دُعا کرسکتی ہیں اس وقت نابلد بھی تھیں اور دُعا بھی کوئی یاد نہیں تھی) ان دنوں میں خواب میں دیکھا کہ میں اور عثمان چینی صاحب ایک ایسے کھیت میں چل رہے ہیں کہ دونوں طرف لہلہاتی ہوئی فصلیں کھڑی ہیں.اس چہل قدمی کے دوران عثمان صاحب مجھے یہ دعا سکھلاتے ہیں.رَبِّ لَا تَذَرُنِي فَرْدًا وَّ أَنْتَ خَيْرُ الْوَرِثِينَ اس دعا کو پڑھتے پڑھتے میری آنکھ کھل گئی اور اسی وقت سے یہ دُعا مجھے یاد ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس دُعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے مجھے تین بچے عطا فرمائے.اب چونکہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ وقت ختم ہو چکا ہے ایک آدھ منٹ باقی ہے میں آخر پر آپ کو صرف یہ توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ احمدیت کو ابھی بہت لمبا سفر طے کرنا ہے اور بہت زادراہ کی ضرورت ہے

Page 345

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات کے خطابات ۳۴۱ خطاب ۳۱ ر جولائی ۱۹۹۳ء قرآن کریم فرماتا ہے کہ زادِ راہ ساتھ لے کر چلو اور خير الزاد التقویٰ (البقرۃ:۱۹۸) سب سے اچھا زادراہ تقویٰ ہے.پس آپ بھی اپنے تقویٰ کی حفاظت کریں کیونکہ ہمارا سفر بہت دشوار ہے اور بہت بڑی بڑی منازل ہم نے طے کرنی ہیں.دنیا کی لذتیں تو آنی جانی ہیں.چند دن کے بعد یہ ختم ہو جاتی ہیں ہر حسن بڑھاپے میں اپنا نور اپنی روشنی اپنی چمک چھوڑ دیتا ہے اور چند دن کے عیش وعشرت کے بعد انسان محض ایک خاک کا پتلا رہ جاتا ہے اس لئے احمدی خواتین دنیا کے فیشنوں کی پرواہ نہ کریں دنیا کی طرز زندگی کو نظر انداز کر دیں.اصل لذتیں اور دائمی لذتیں وہی ہیں جن میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمکلام ہونے والے فرشتے نازل ہوتے ہوں.وہ احمدی بچیوں اور بوڑھیوں اور ماؤں اور بیٹیوں اور بہنوں کو بار بار یہ خوشخبریاں دیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں کوئی غم نہ کرو کوئی فکر نہ کرو.یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہاری مہمانی ہے اس دنیا میں بھی ہم تمہارے ساتھ ہیں اور اس دنیا میں بھی ساتھ رہیں گے.پس میں سمجھتا ہوں کہ احمدی خواتین کو متقی بنا اور اس حد تک متقی بننا ہے کہ وہ رویا وکشوف کا مورد بن جائیں کثرت کے ساتھ ان کو سچی رؤیا دکھائی جائیں کثرت کے ساتھ ان کو الہام ہوں کثرت کے ساتھ وہ اپنی آنکھوں سے خدا تعالیٰ کے قرب کے نظارے دیکھیں.اگر ایسی احمدی خواتین آج کی نسل میں پیدا ہو جائیں تو میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آئندہ ساری صدی کی زندگی کی آپ ضمانت بن جائیں گی.نسلاً بعد نسل آپ کا تقویٰ آپ کی نسلوں کی بھی حفاظت کرے گا اور احمد بیت کی اعلیٰ اقدار کی بھی.حفاظت کرے گا.پس تعلق باللہ ہی اصل مذہب کی جان ہے اگر تعلق باللہ نصیب ہو جائے تو سب کچھ نصیب ہو گیا اگر یہ نہیں تو محض قصے اور کہانیاں ہیں.چند دن کے عیش و عشرت کے بعد پھر آخر ہم نے رخصت ہونا ہے.یہ نہ ہو کہ اگر یہاں مہمانی نہ ہو تو وہاں بھی مہمانی کے کوئی سامان نہ ہوں کیونکہ اس میں پیغام یہی ہے کہ وہی لوگ وہاں مہمانی کی توقع رکھ سکتے ہیں جن سے اس دنیا میں مہمانی کا سلوک ہوا ہواور قرآن کریم کی دوسری آیات بھی اس پر گواہ ہیں کہ جب جنت میں ان کو پھل پیش کئے جائیں گے نعماء پیش کی جائیں گی تو کہیں گے ہمیں پہلے بھی تو ایسی دی گئی تھیں.اللہ تعالیٰ فرمائے گا.نہیں ملتی جلتی تھیں.ان کا مقابلہ تو نہیں ہو سکتا.پس خدا کرے کہ دنیا کی جنتیں بھی احمدی خواتین کو نصیب ہوں اور یہی جنتیں اُخروی بخت کی بھی ضامن بن جائیں.

Page 346

Page 347

حضرت خلیفتہ صیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۳۴۳ خطاب الرستمبر ۱۹۹۳ء احمدی خواتین کا تعلق باللہ اور قبولیت دعا کے نشانات ( جلسہ سالانہ مستورات جرمنی سے خطاب فرموده ۱۱ارستمبر ۱۹۹۳ء بمقام ناصر باغ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: مذہب کا آخری مقصد اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے اور اگر یہ مقصد نہ رہے تو تمام مذہبی مصروفیات اور تمام مذہبی مشاغل محض ایک کھیل تماشارہ جاتے ہیں اور وہ درخت جو پھل سے محروم ہو خواہ اس کا نام پھلدار درخت ہی رکھا جائے عملاً وہ بے کار ہے اور جلائے جانے کے لائق ٹھہرتا ہے.قرآن کریم نے ان لوگوں کے اعمال کا ذکر کرتے ہوئے جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کے اور وصال کے قائل نہیں ان کو جہنم کا ایندھن قرار دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خشک لکڑیاں ہیں.ایسے درخت نہیں ہیں جن کو پھل لگتے ہیں اور مومنوں کی جماعت کا ذکر کرتے ہوئے انہیں کلمہ طیبہ کے طور پر ان کی مثال شجرہ طیبہ کے ساتھ رکھی ہے یعنی ایسا پاک درخت جس کی جڑیں گہری زمین میں پیوست ہوں اور جس کی شاخیں آسمان سے باتیں کرتی ہوں اور ہمیشہ ہر موسم میں خواہ وہ بہار ہو یا خزاں ہو اللہ کے حکم سے ان کی بلند و بالا شاخوں کو پھل لگتے ہوں.اس پہلو سے ہر مذہب کا جائزہ ہونا چاہئے.اگر کوئی مذہب سچا ہے تو اس مذہب کے پیروکاروں میں کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے تعلق کے نمونے ملنے چاہئیں اور یہ نمونے مردوں میں بھی ملنے چاہئیں اور عورتوں میں بھی ، بڑوں میں بھی اور چھوٹوں میں بھی.اس پہلو سے جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آج دنیا میں ایک زندہ مذہب کی زندہ مثال کے طور پر قائم ہے.گزشتہ جلسہ سالانہ یو کے میں میں نے ایک مضمون شروع کیا تھا.کہ احمدی خواتین سے خدا تعالیٰ کس طرح کثرت کے ساتھ رویا اور کشوف کے ذریعے اور بعض صورتوں میں الہامات کے

Page 348

حضرت خلیل مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۳۴۴ خطاب ۱ارستمبر ۱۹۹۳ء ذریعے ہم کلام ہوا اور جو خوشخبریاں اللہ تعالیٰ نے عطا فرما ئیں وہ بعینہ اسی طرح پوری ہوئی.اسی طرح بعض خواتین کے تو کل کو اللہ نے قبول فرمایا اور باوجود اس کے کہ ظاہری طور پر کوئی خبر نہ دی گئی لیکن موقع اور محل کے مطابق ان کے تو کل کی قبولیت کے نشان ان کو دکھائے گئے.یہ مضمون چونکہ بہت وسیع ہے اس لئے گزشتہ سالانہ اجتماع یوں کے پر یہ ختم نہ ہو سکا تھا ویسے تو یہ مضمون ایک لا متناہی مسلسل مضمون ہے جو ہمیشہ جاری رہ سکتا ہے کیونکہ خدا کا تعلق بھی ایک زندہ اور قائم رہنے والا مسلسل تعلق ہے ہر دو جلسوں کے درمیان کثرت سے ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ خدا تعالیٰ اب بھی احمدی خواتین پر اسی طرح رحمت کے ساتھ اپنا فضل فرماتا ہے جیسے پہلے فرماتا رہا اور مجھے جو خطوط ملتے ہیں ان میں ہر سال بکثرت احمدی خواتین کے آنکھوں دیکھے اور تجربے میں آئے ہوئے نشانات کا ذکر بھی ملتا ہے لیکن جو نوٹس میرے باقی رہ گئے تھے پچھلے جلسے سے.انہی پر آج اکتفا کروں گا اور آپ کے سامنے چند احمدی خواتین کے تعلق باللہ کے اور ان کی دعاؤں کی قبولیت اور ان کے تو کل کی قبولیت کے نشان آپ کے سامنے رکھوں گا.تبرکاسب سے پہلے حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی یہ روایت آپ کے سامنے رکھتا ہوں.یہ ماہنامہ مصباح میں شائع ہوئی آپ نے فرمایا جب منصور حمل میں تھی (یعنی حضرت سیدہ بھا بھی جان منصورہ بیگم، بیگم حضرت خلیفتہ اسیح الثالث) فرماتی ہیں.جب منصورہ جمل میں تھی تو خواب میں حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہاری بیٹی ہوگی اس کی شادی محمود کے بیٹے سے کرنا.پس جیسا کہ آپ جانتے ہیں بعینہ اسی طرح وہ رو یا پوری ہوئی.آپ کی بیٹی ہوئی وہ زندہ رہی اور ان کا رشتہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث سے ہوا اور اسی طرح وہ بہت پرانی خواب بعینہ اسی طرح پوری ہوئی.پیدائش کے سلسلے میں بہت کثرت سے ایسی روایات ملتی ہیں کہ احمدی خواتین کو ان کے بچے کی پیدائش سے پہلے معین طور پر خبر دی گئی اگر چہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ماؤں کو ایسی خوا ہیں آجایا کرتی ہیں اور بعض دفعہ تو اگر بیٹی دیکھیں اور بیٹا ہو جائے تو لوگ یہ کہہ دیتے ہیں جب بیٹی دیکھی جائے تو بیٹا مراد ہوتی ہے.اگر بیٹی ہو جائے تو کہتے ہیں کہ دیکھو بیٹی ہوگئی.تو میں ویسی باتیں آپ کے سامنے پیش نہیں کرتا جو خیالات کے نتیجے میں خوابیں بن جایا کرتی ہیں.بکثرت احمدی خواتین کو خدا تعالیٰ نے ایسے نشان دیئے ہیں جو قطعیت کے ساتھ پورے ہوئے اور پھر ان خواتین کا اپنا نیکی کا پس منظر بتاتا ہے کہ

Page 349

حضرت خلیہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۳۴۵ خطاب الرستمبر ۱۹۹۳ء یہ خیالات کی خوا ہیں نہیں تھیں بلکہ حقیقتا اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھیں اور پھر بعض اوقات پہ رویا ایسی زبان میں عطا ہوتی ہیں جن کی زبان وہ خواتین دیکھنے والی مائیں بھی نہیں سمجھتیں.جب وہ مجھے لھتی ہیں تو ان کی تعبیران کو بھیجتا ہوں اور وہ حیرت انگیز طور پر پوری ہوتی ہے مثلا کسی خاتون نے ایک ایسی رؤیا دیکھی جس سے پتہ چلتا تھا کہ اس کے چار بیٹے ہوں گے اور تعبیر کے بعد اس پر یہ ظاہر ہوا کہ کیا مراد ہے.تو بعینہ ویسا ہی ہوا.بہت کثرت سے ایسے نمونے ملتے ہیں.میرے پاس چونکہ وقت نہیں تھا کہ میں خود چھان بین کرتا مگر دفتر نے کچھ نمونے چن کر میرے سامنے رکھے ہیں.وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہے.حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے بعد چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی یہ گواہی ہے کہ میری بیٹی امتہ الئی کے پیدا ہونے سے چند گھنٹے قبل والدہ صاحبہ نے میری بیوی سے کہا کہ لڑکی پیدا ہوگی.کیونکہ میں نے ابھی غنودگی کی حالت میں دیکھا کہ مکان میں بہت چہل پہل ہے اور لوگ کہتے ہیں.بی بی آئی ہے، بہت خوبصورت.اب وہ بی بی کہلاتی ہے.میں نے کئی دفعہ چوہدری حمید نصر اللہ صاحب سے بھی ان کے ذکر میں بی بی کا لفظ سنا ہے.اب مجھے سمجھ آئی کہ کیوں بی بی کہتے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ نے رویا میں پہلے ہی ان کو بی بی کے نام سے یاد فرمایا تھا.بادشاہ بیگم صاحبہ اہلیہ غلام محمد صاحب بیڈن روڈ کے متعلق ان کے میاں غلام محمد صاحب کی گواہی ہے.وہ لکھتے ہیں ۱۹۱۴ء میں حضرت خلیفتہ اسی الاول کی وفات حسرت آیات کے بعد خاکسار لا ہوری جماعت میں شامل ہو گیا تھا.مولوی صاحب کی وفات کے چار پانچ دن بعد میری اہلیہ کو خواب آئی کہ تیرے گھر لڑکا پیدا ہوگا تم میاں کی بیعت کر لو.حضرت مصلح موعود کو بچپن میں میاں کہا کرتے تھے اور چونکہ یہ لا ہوری احمدی تھے.بیعت نہیں کی تھی اس لئے وہی نام رویا میں دکھایا گیا کہ میاں کی بیعت کرلو.کہتے ہیں میری بیوی نے مجھے خواب سنائی.اس کے بعد ۱۹۱۵ ء یا جنوری ۱۹۱۶ء میں میرا لڑکا عبدالرحیم عین خواب کے مطابق پیدا ہوا.لڑکے کے پیدا ہونے کے بعد میری بیوی نے مجھے مجبور کیا کہ مجھے تو خواب میں خدا تعالیٰ نے میاں کی بیعت کی ہدایت فرمائی ہے.اس لئے میری بیعت کا خط لکھ دو.چنانچہ میں وہ خط لکھ دیا.کہتے ہیں اس کے بعد ڈاکٹر سیدمحمد حسین شاہ صاحب جو لا ہوری جماعت کے سرکردہ ممبر تھے اور شیخ رحمت اللہ صاحب بھی، یہ بہت سٹپٹائے اور میرے پاس آئے اور یہ خو لا ہوری جماعت ہی میں رہے بیگم نے رڈیا کے مطابق بیعت کر لی مگر ان کو تو فیق نہیں ملی.تو کہتے ہیں مجھ سے شکوہ کیا کہ تم نے یہ کیا حرکت کی ہے ان کی تائید میں ایک خط الفضل میں چھپ گیا ہے تو کہتے ہیں میں

Page 350

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۳۴۶ خطاب الرستمبر ۱۹۹۳ء نے کہا میری بیوی زندہ موجود ہے خود اس سے جا کر پوچھ لو لیکن ان کو اس کی جرات نہ ہوئی.قاضی اکمل صاحب کے دو بچے جمشید عاقل اور خورشید احسن صغرسنی میں یعنی بہت چھوٹی عمر میں میں فوت ہو گئے تھے.قاضی اکمل صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے ان کی اہلیہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بہت ہی درد ناک دُعا کا خط لکھا.حضور علیہ السلام نے نعم البدل کی بشارت دی کہ تسلی رکھو اللہ نعم البدل عطا فرمائے گا.اس کے بعد مرحومہ نے خواب میں دیکھا کہ حضور علیہ السلام نے آپ کو دوبال عنایت کئے ہیں.اب یہ تعبیر طلب رؤیا کی ایک مثال ہے.بال کا بظاہر بچے سے کوئی تعلق نہیں لیکن پنجابی میں بال لڑکے کو کہتے ہیں.تو خدا تعالیٰ نے اس طرح ان کو یہ خواب دکھائی جس کی ان کو خود سمجھ نہ آئی.حضرت خلیفہ اسیح الاول کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا میں نے یہ عجیب خواب دیکھی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے دو بال عطا کئے ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الاول دھوپ میں چادر تانے لیٹے ہوئے تھے.دفعہ چادر ہٹا کر فرمایا! اللہ تعالی آپ کو دوڑ کے دے گا.مبارک ہو.چنانچہ جولائی ۱۹۱۱ء اور جولائی ۱۹۱۳ء کو دوٹر کے ان تاریخوں میں پیدا ہوئے اور دونوں کے نام حضرت خلیفہ اسیح الاول نے رکھے.کان میں اذان دی اور بعد میں ضرورت کے وقت گھر تشریف لا کر بھی ان کو دیکھتے رہے.تو رؤیا کے اندر اس کی صداقت کا نشان بھی موجود ہیں.صرف دو بالوں کی خبر تھی اور بالوں سے مرادلر کے تھے اور ان کی تعبیر حضرت خلیفہ امسیح الاول نے وقت سے پہلے کر دی تھی اور دوہی لڑکے پیدا ہوئے اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوئی اور دونوں زندہ رہنے والے تھے.دونوں کو ہم نے ان کی پختگی کی عمر میں دیکھا ہوا ہے.پس اللہ تعالیٰ احمدی خواتین سے مسلسل ساری تاریخ احمدیت میں ذاتی تعلق کے ذریعے اپنی قدرت نمائی کا اظہار فرماتا ہے اور اپنے تعلق کا اظہار فرما تارہا ہے اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ آئندہ آپ سب کے ساتھ بھی خدا کے پیار اور محبت کا یہی سلسلہ جاری رہے گا.نسبتاً آج کی نسل کی باتوں میں میں ایک ڈاکٹر لطیف احمد صاحب طیب کی مثال آپ کے سامنے رکھتا ہوں وہ غانا سے لکھتے ہیں کہ میری بیوی کو بچے کی پیدائش سے چند دن پہلے خواب آئی کی گود میں ایک بچہ ہے میری والدہ پوچھتی ہیں کہ یہ تم نے کس کا بچہ اُٹھایا ہوا ہے تو بیوی کو جواب دیتی ہیں.آپ اپنے سلطان احمد کو نہیں پہچانتیں.اب خواب میں نام بھی بتادیا گیا اور واقعہ وہ بچہ پیدا ہوا اور اس کا نام پھر سلطان احمد رکھا گیا.

Page 351

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۳۴۷ خطاب اار ستمبر ۱۹۹۳ء جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے.ایسی بہت کثرت سے مثالیں ہیں جن کے اندر صداقت کے نشان چھپے ہوئے ہیں اور جب تعبیر کھولی جائے تو پھر یقین ہو جاتا ہے کہ یفس کی رؤیا نہیں ہے مگر چونکہ مجھے خود وقت نہیں مل سکا کہ اپنی پرانی ڈاک میں سے چھان بین کر کے ایسے واقعات نکالتا اس لئے جو چند واقعات میرے سامنے رکھے گئے انہی پر اکتفا کرتا ہوں.اب کچھ اور قسم کی رؤیا ہیں کچھ اور قسم کے شواہد ہیں ان کی مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.ہماری ہمشیرہ صاحبزادی امتہ الرشید بیگم میاں عبدالرحیم احمد صاحب سھتی ہیں.تابعین اصحاب احمد جلد سوم میں یہ روایت درج ہے کہ موسم گرما کے ایک رمضان شریف میں، یہ قادیان کی بات ہے پرانے زمانے کی ایک رات نا قابل فراموش ہے.ہم سب بچوں کی چار پائیوں کے بچھنے کے بعد بہت تھوڑی سی جگہ بچتی تھی وہیں آپا جان اور عائشہ پٹھانی اہلیہ حضرت مولوی غلام رسول صاحب پٹھان معمولاً تہجد میں درد بھری دعائیں کر رہی تھیں.آپا جان سے مراد میری والدہ ہیں.کہتی ہیں میں نے دیکھا کہ چندھیا دینے والی روشنی سے ہمارا صحن منور ہو گیا ہے.مجھے خیال آیا کہ یہ لیلۃ القدر کی روشنی ہے.میں نے لیٹے لیٹے شور مچا دیا کہ میرے لئے دعا کریں.عائشہ پٹھانی نے بعد میں بتایا کہ یہ روشنی مجھے بھی نظر آئی تھی اور میں اس وقت میاں طاہر کے لئے دعا کر رہی تھی.آپا جان کہتی تھیں کہ رشید کے بولنے نے مجھے سب کچھ بھلا دیا اور میں نے اپنی بیٹی رشید کے لئے دُعا کرنی شروع کر دی میں بھی یہ روشنی دیکھ رہی تھی جو چند سکینڈ رہی.پس اس نظارے میں تینوں برابر شامل ہوئے اور اس سے یہ ثابت ہوا کہ یہ کوئی نفسیاتی کیفیت نہیں تھی بلکہ واقعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک روشنی کا نشان دکھایا گیا تھا.مائی روڑی صاحبہ ایک چوڑیاں بیچنے والی خاتون تھیں بہت نیک دعا گو اور صاحب رؤیاء وکشف تھیں.آپ سیالکوٹ کی رہنے والی تھیں وہ بتاتی ہیں کہ ایک دفعہ میں سیڑھیوں کے ساتھ والے کمرے میں اپنی چوڑیوں کی گٹھڑی کھول کر بیٹھ گئی.یعنی مسجد سیالکوٹ کے ساتھ سیڑھیوں کے پاس جو چھوٹا سا کمرہ تھا اتنے میں آپ کو آواز آئی کہ جیسے ان سے کوئی کہہ رہا ہے یہاں سے اُٹھ جا.آپ نے اس پر کوئی توجہ نہ دی.دوسری دفعہ پھر آواز آئی تو آپ نے سوچا کہ ابھی اُٹھ جاتی ہوں لیکن تیسری دفعہ اس زور سے آواز آئی کہ آپ کہتی ہیں میں نے گھبرا کر اپنی چیز میں اُٹھا ئیں اور فورا باہر آ گئی.جیسے ہی کمرے سے باہر قدم نکالا اس کمرے کی چھت گر گئی.تو اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس نیک خاتون کی حفاظت فرمائی اور الہاما اس کو اس جگہ چھوڑنے کی تلقین فرمائی.

Page 352

حضرت خلیفتہ اسح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۳۴۸ خطاب ار ستمبر ۱۹۹۳ء صالحہ بی بی کی روایت ہے.ان کے متعلق ہے کہ یہ بہت تہجد گزار رو رو کر دعائیں کرنے والی اور بچے رؤیا کشوف اور الہامات کی حامل تھیں.ان کو اللہ تعالیٰ عطا فرما تا تھا.یہ کہتی ہیں کہ قادیان میں ایک دفعہ حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب کی کوئی رقم تھی جو انجمن کے پاس تھی اور وہ معاملہ طے نہیں ہور ہا تھا اور ان کو بہت پریشانی تھی.تو رویا میں ان کو بتایا گیا کہ ہمارے گماشتے سے کہو.اب گماشتے کا اس کا ترجمہ بھی نہیں آتا تھا.یہ لفظ نہیں سنا تھا تو بعد میں جب پتہ چلا تو معلوم ہوا کہ ہمارے نمائندے سے کہو.چنانچہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ نے وہ معاملہ دیکھا اور فوراً اس رقم کے ادا کرنے کا ارشاد فرما دیا.تو بعض الہامات اور رویا میں ایسے الفاظ دکھائے جاتے ہیں جن کو دیکھنے والا یا سننے والا جانتا نہیں ہے اور اُن الفاظ کی لاعلمی کی وجہ سے رؤیا کے اندر اس کی اپنی صداقت کا نشان موجود ہوتا ہے.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ اسد اللہ خاں یعنی چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے چھوٹے بھائی کہتے ہیں جب چھوٹی عمر کا تھا اس سے سلیٹ گم ہوگئی یا ٹوٹ گئی اور والدہ صاحبہ اس سے بہت خفا ہوئیں کہ ہر چند دن کے بعد نئی سلیٹ لیتے ہوا سے تو ڑ دیتے ہو یا گم کر دیتے ہو.والدہ صاحبہ کے خفا ہونے سے وہ بہت سہم گیا اسی رات والدہ نے رویا میں دیکھا کہ ایک نہایت نورانی شکل سفید پوش بزرگ فرمارہے ہیں.آپ نے ایک چار آنے کی چیز ضائع ہو جانے پر ہمارے بندے پر اس قدر غضب کا اظہار کیا.یہ لیجئے چار آنے میں دے دیتا ہوں اور انہوں نے ایک چمکتی ہوئی چونی والدہ صاحبہ کے ہاتھوں میں تھمادی.والدہ صاحبہ بیدار ہوئیں تو فجر ہونے کو تھی.لوٹے میں پانی لے کر وضو کے لئے اوپر کی منزل پر گئیں.چاندنی ہو رہی تھی.جب چھت پر آسمان کے نیچے پہنچی تو کوئی چمکتی ہوئی چیز تیزی سے آسمان سے گرتی ہوئی دیکھی وہ چیز ان کے لوٹے کے ساتھ آکر ٹکرائی اور ٹکرانے کی آواز ایسی تھی کہ گویا یہ چیز کوئی چاندی کی یا کسی اور دھات کی چیز ہے.یہ زمین پر گر گئی.والدہ صاحبہ نے اسے اُٹھالیا اور دیکھا کہ وہ ایک چمکتی ہوئی چونی ہے.والدہ صاحبہ نے اسے تبرک کے طور پر جیب میں ڈال لیا.کچھ دن تو اسے احتیاط سے الگ سنبھالے رکھا لیکن چند دن کے بعد وہ گم ہو گئی.اس ضمن میں میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے تصرف کے تابع بعض ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ جن سے اگر چہ مادہ نیا وجود میں نہیں آتا لیکن بعض چیزیں اس تصرف کے تابع عین وقت کے اوپر نمودار ہو جاتی ہیں.چیلوں میں یہ عادت ہے کہ وہ چمکتی ہوئی چیزیں خصوصاً چاندی کی چیزیں

Page 353

حضرت خلیلة امسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۳۴۹ خطاب ۱ارستمبر ۱۹۹۳ء اُٹھا کر اپنے گھونسلے میں جمع کرتی ہیں اور پنجاب میں خصوصیت کے ساتھ یہ تجر بہ عام ہے کہ چیلوں کے گھونسلوں میں چمکتی ہوئی چیزیں خصوصاً چاندی کی چیزیں نظر آ جاتی ہیں.تو عین ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کے تصرف نے صبح سویرے چاندنی کی روشنی میں کسی چیل کو جگادیا ہو اور وہ اپنی چونی لے کر چل پڑی ہوا اور عین اس جگہ جا کے گری جہاں چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی والدہ لوٹا لے کر نکل رہی تھیں اور لوٹے سے ٹکرائی تاکہ ان کو پتہ لگ جائے کہ رات جو پیغام تھا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا اور اس چونی کو انہوں نے پھر اپنے پاس تبر کا کچھ دیر کے لئے رکھ بھی لیا.آج کل کے زمانے میں آتے ہوئے میں نے ہدایت کی تھی کہ کچھ نو مبائعین احمدی خواتین کے واقعات بھی اکٹھے کریں لیکن افسوس ہے کہ وقت کم تھا اس لئے صرف امریکہ سے ایک واقعہ کی اطلاع ملی حالانکہ میں جانتا ہوں مجھ سے کئی دفعہ ملاقات کے وقت بھی اور خطوں کے ذریعے بھی نومبائعین یورپین یا امریکن خواتین نے اپنے روحانی تجربوں کا ذکر کیا ہے اور ایسے رویا بتائے ہیں جن سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ان سے ایک زندہ تعلق قائم ہو گیا ہے.لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے وقت کی کمی کی وجہ سے وہ واقعات اس وقت اکٹھے نہیں ہو سکے.صرف ایک واقعہ شکور یہ نوریہ نے یونائیٹڈ سٹیٹس (امریکہ ) سے جو لکھا تھا وہ میرے سامنے ہے وہ کہتی ہیں کہ بیعت کرنے کے بعد خواب میں دیکھا کہ مشن ہاؤس گئی ہوں بہت سی خواتین اور بچیوں نے میرا استقبال کیا ہے.میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کون سی جگہ ہے تو انہوں نے کہا جنت ہے اور ہم سب آپ کا گھر سجانے آئی ہیں.اس کے بعد مجھے اپنا گھر شفٹ کرنا پڑا ارادہ نہیں بلکہ مجبورا اور جو نیا گھر ملاوہ مسجد کے پاس ملا اور اس کے بعد نیا گھر سجانے کے لئے احمدی خواتین اور بچیاں اکٹھی ہو گئیں اور میرا گھر سجا دیا.تو جنت سے مراد یہ ہے ایسا - گھر جو جنت نشاں ہو جہاں اللہ کی باتیں ہوتی ہوں.جہاں خدا کے تعلق کے نشان ملتے ہوں.سکینہ بی بی صاحبہ اہلیہ نورمحمد صاحب دار الرحمت وسطی ربوہ بیان کرتی ہیں کہ گوجرانوالہ میں ایک مولوی پاس والی مسجد میں بہت بد زبانی کیا کرتا تھا.ایک دن آپ نماز تہجد پڑھ رہی تھیں کہ اس نے لاؤڈ سپیکر پر احمدیوں کے خلاف جلوس نکالنے کا اعلان کر دیا.وہ کہتی ہیں میں نے روروکر اللہ سے دُعا کی اللہ آج ان ظالموں سے بچالے.ابھی سجدے میں ہی تھی کہ اچانک اس نے اعلان کیا کہ یہ جلوس ملتوی کیا جاتا ہے کیونکہ میری ماں کو ہارٹ اٹیک ہو گیا ہے اور ابھی مجھے خبر ملی ہے اس لئے میں اپنے گاؤں جار ہا ہوں تو ادھر دُعا کی اور ادھر فوری طور پر اس کی قبولیت کا نشان ظاہر ہوا حالانکہ ہارٹ اٹیک ان کی

Page 354

حضرت خلیفت آسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۳۵۰ خطاب اار ستمبر ۱۹۹۳ء والدہ کو پہلے ہو گیا تھا لیکن خدا تعالیٰ ٹائمنگ ایسی کرتا ہے، وقت کو اس طرح ملاتا ہے کہ دُعا کرنے والے کو فوراً اپنی دُعا کا جواب ملتا ہوا دکھائی دیتا ہے.اس طرح اس کے دل میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ایمان مزید افزائش پاتا ہے بڑھتا اور طاقتور ہوتا ہے.محترمہ زینب بی بی صاحبہ اہلیہ میاں چراغ دین صاحب مرحوم بہت مستجاب الدعوات خاتون تھیں یعنی ان کی دعائیں بکثرت قبول ہوتی تھیں.صاحب کشوف ور دیا تھیں.آپ ایک دفعہ گھر پر اکیلی تھیں دروازہ کھٹکا اور کچھ لوگ جن کے چہرے بہت نورانی تھے گھر کے اندر داخل ہوئے اور آپ کو یہ کہہ کر کہ ہم پھر آئیں گے واپس چلے گئے.کچھ دیر کے بعد وہ لوگ دوبارہ آئے اور گھر میں داخل ہونے کے بعد مختلف کمروں میں گئے.ان کے ہر طرف جانے سے روشنی ہی روشنی ہو جاتی تھی آپ انہیں دیکھ کر خوفزدہ ہو گئیں آپ کو گھبرائے ہوئے دیکھ کر انہوں نے تسلی دی کہ فکر نہ کریں اللہ تعالیٰ آپ پر بہت فضل فرمائے گا.اس کے بعد یہ نورانی چہروں والے وجود غائب ہو گئے.یہ روایت اس لئے میں نے چینی ہے کہ زینب بی بی صاحبہ کے متعلق یہ قطعی شہادت ہے کہ وہ بہت صاف گو پاک خاتون تھیں اس لئے ان کا یہ تجربہ واقعہ ایسا ہی ہوا ہے اس میں کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے.امتہ الرشید فرحت صاحبہ اہلیہ حبیب اللہ خان صاحب مرحوم پارٹیشن کے بعد بدوملہی ضلع سیالکوٹ میں رہائش پذیر ہوئیں.اپنے جذبہ خدمت دین کے تحت لجنہ کو منظم کیا.اجلاسات اور جلسے کروانے لگیں جس کی وجہ سے غیر احمدی ملاؤں کی نظر میں کھٹنے لگیں.چنانچہ مساجد کے ملاں نے آپ کا نام لے لے کر مسجد میں اعلان کروایا کہ یہ مرزائی عورت اپنے کاموں سے باز آجائے اور ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف نہایت غلیظ زبان استعمال کی اب یہ اس مولوی کا روزمرہ کا دستور بن گیا ہر روز مسجد میں جا کر لاؤڈ سپیکر پر اس کا نام لے لے کر گالیاں دیتا اور لوگوں کو بھڑ کا تا اور ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں بدزبانی کرتا تھا.کہتی ہیں اس پر میرے دل میں یہ بڑے زور سے خیال پیدا ہوا کہ میں اسے متنبہ کروں.چنانچہ اپنے بیٹے کی جیب میں جو سات آٹھ سال کا تھا یہ خط اس کے نام بھجوایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے خدا نے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ آپ کے دشمنوں کو ذلیل و رسوا کرے گا اور ایک یہ بھی خبر ہے کہ وہ ابتر ہو کے مریں گے اس لئے میں تمہیں ابتر ہونے سے ڈراتی ہوں.خدا کا خوف کرو ورنہ تم لا ولد مرجاؤ گے اور خدا کے غضب کا نشان بن جاؤ گے یہ رقعہ پڑھ کر وہ مولوی اور بھی زیادہ بھڑک اُٹھا اور پہلے سے بڑھ کر اس نے

Page 355

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۳۵۱ خطاب ار ستمبر ۱۹۹۳ء بد زبانی شروع کردی.روزانہ فجر کی نماز کے بعد گالیاں دیتا تھا اور خط کا حوالہ بھی دیا کرتا تھا اور کہتا تھا دیکھو مجھے ابتر ہونے سے ڈرایا جا رہا ہے.آخر اللہ تعالیٰ کی غیرت نے جوش مارا.چند ماہ نہ گزرے تھے کہ اس کا اکلوتا بیٹا معمولی سی بیماری سے اس دنیا سے کوچ کر گیا اور یہ مخالف ابتر ہوکر ہمیشہ کے لئے عبرت کا نشان بن گیا ہے.سلمی فیض صاحبہ جو میری دودھ کی بہن ہیں.ہم سب نے بہنوں نے اور میں نے ان کی والدہ کا دودھ پیا ہوا ہے کیونکہ ہر دفعہ ان کے ہاں بھی کوئی بچہ ایسا ہوا کرتا تھا کہ ہم اس وقت ان کا دودھ پی سکتے تھے.میری والدہ کے دودھ کم اتر کر تا تھا پس ان کی وجہ سے ہمیں یہ توفیق مل جاتی تھی کیونکہ ان کو دودھ زیادہ اترا کرتا تھا تو دونوں بچے اس طرح پل جاتے تھے.تو سلمی فیض صاحب لکھتی ہیں کہ ستمبر ۱۹۷۴ء میرے میاں چونیاں ضلع قصور میں گورنمنٹ ہائی سکول میں ہیڈ ماسٹر تھے.موسم گرما کی تعطیلات گزارنے کے بعد انہوں نے وہاں جانا ضروری سمجھا.میں اور میرا سب سے چھوٹا بیٹا ساتھ تھے.پتوکی اور چونیاں کے درمیان محکمہ انہار کے سرکاری بنگلے میں ہمارے ایک احمدی دوست محمد یحیی رہائش پذیر تھے.یہ عبدالرحمن صاحب قادیانی جن کو عبد الرحمن جٹ کہا جاتا تھا ان کے بھتیجے تھے کہتی ہیں کہ اُسی رات تہجد کی نماز میں نیم بیداری کی حالت میں ایک آواز سنائی دی جیسے کوئی کہہ رہا ہو کفار مکہ کا نظارہ میں گھبرا گئی اور یہ رویا یہ تجربہ بیان کیا تو مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ نے فرمایا کہ چونیاں نہ جائیں کیونکہ یہ اسی سلسلہ میں انذار ہے لیکن چونکہ ہم وہاں جانے کا پروگرام بنا چکے تھے اس لئے انہوں نے زیادہ اصرار نہ کیا.البتہ ایک دُعا بتائی کہ بکثرت یہ دُعا پڑھتے ہوئے جائیں.ہم چونیاں اپنے مکان میں پہنچ گئے.ابھی بمشکل ایک گھنٹہ ہی گذرا ہوگا کہ سینکڑوں لوگوں کا ہجوم آ گیا اور مکان کو گھیرے میں لے لیا.دو تین لڑکے اندر گھس آئے اور میرے میاں کے ساتھ بدسلوکی کی اور الجھ پڑے عین اس وقت پولیس کو ہمارے مکان پر حملے کی خبر مل گئی انہوں نے لوگوں کو مکان سے باہر نکال دیا لیکن ہجوم بے قابو ہورہا تھا پولیس نے حفاظت کی غرض سے ہمیں ہوٹل کے ایک کمرے میں بند کر دیا.جو ہمارے مکان سے ملحق تھا.ہجوم پتھر اندر پھینک رہا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ہماری حفاظت فرمائی.پھر بمشکل ہمیں ہجوم میں سے گزار کر قریبی مکانوں میں پناہ دینی پڑی.راستہ میں وقفے وقفے سے پتھروں کی بارش ہوتی رہی اور ان میں سے بعض پتھر میرے میاں کو لگے.کچھ عرصہ کے بعد ہجوم منتشر ہو گیا تو ہمیں پولیس اپنی گاڑی میں کرنل احمد خاں صاحب آف ٹوپی کے بنگلے میں چھوڑ گئی ان کے عزیز واقارب بھی

Page 356

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۳۵۲ خطاب اار ستمبر ۱۹۹۳ء ٹوپی سے خالی ہاتھ اپنی جانیں بچا کر وہاں آگئے تھے.اس تجربے میں جو الہا ما آپ کو بتایا گیا کفار مکہ کا نظارہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ احمدیت کی مخالفت کرنے والے وہی رنگ اختیار کریں گے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں مکے میں کیا گیا اور جس طرح خدا تعالیٰ نے غیر معمولی حفاظت سے بڑے شر سے حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے غلاموں کو بچایا.اسی طرح جماعت احمدیہ کی بھی حفاظت فرمائے گا اور یہ واقعہ بعینہ اسی طرح ان کے حق میں پورا ہوا.بعض دفعہ یورپ کے احمدی پاکستان سے آئے ہوئے غریب اور ایسے طبقے سے تعلق رکھنے والے احمدیوں سے پریشان ہوتے ہیں جن کی عادتیں ان سے بالکل مختلف ہیں جن کا علم بھی کم ہے جن کی تہذیب ترقی یافتہ نہیں ہے اور وہ حیران ہوتے ہیں کہ ان میں تو بہت سی برائیاں بھی ہیں پھر ان کو کیوں خدا نے چن لیا ہے.وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ یہ غریب اور کمزور احمدی خدا کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں دے کر آئے ہیں اور ہر قربانی پر ثابت قدم رہے ہیں اور اتنی عظیم مثال وفا کے ساتھ انتہائی تکلیفوں میں صبر کے ساتھ دن گزار کے اپنے ایمان پر رہنے کی انہوں نے قائم کی ہے کہ ایسی مثال تاریخ عالم میں کم دکھائی دیتی ہے.پس میں جانتا ہوں کہ ان میں کمزوریاں بھی ہیں ان میں غفلتیں بھی ہیں.تہذیبی تقاضے بھی پورے نہیں کرتے لیکن ہیں ایسے خدا کے بندے جن کی وفا آزمائی جا چکی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کی کمزوریوں سے اس وجہ سے صرف نظر بھی فرماتا ہے.خدا کرے کہ یہ کمزوریاں بھی دُور ہو جا ئیں اور انہی گودڑیوں میں وہ پھل پیدا ہوں جن پر خدا اپنے جلوے دکھائے اور خدا کے نور سے وہ پھل چمکتے رہیں اور تمام دنیا اس بات کی گواہ ہو جائے کہ ان میں کوئی بات تھی جس کی وجہ سے خدا نے ان سے پیار کیا ہے.یہ بے وجہ خدا کے انعامات نہیں تھے جو ان پر نازل ہور ہے ہیں.راجہ محمد عنایت صاحب کی اہلیہ محترمہ امتہ الرحمن صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ میرے خسر غیر احمدی تھے اور مجھ پر بہت ہی ظلم کیا کرتے تھے.ہر وقت جھگڑا، ہر وقت گالیاں ، جامعہ اشرفیہ کی مسجد میں نماز پڑھنے چلے گئے.یعنی گالیاں والیاں دے کر تو میں بہت روئی.روتے روتے میں نے بلند آواز سے عرض کیا کہ یا اللہ ! میں تو یہاں تڑپ رہی ہوں.میری ماں کو ربوہ معلوم ہو جائے کہ اس کی بیٹی کی کیا حالت ہے کہتے ہیں اگلے دن صبح صبح ان کے بھائی وہاں پہنچ گئے اور آ کے پوچھا کہ تمہیں کوئی تکلیف ہے کہتی ہیں میں سن کر رو پڑی لیکن ساس نے پردہ ڈالنے کی خاطر کہا کہ بھائی کو دیکھ کر محبت سے روئی ہے.تکلیف وکلیف کوئی نہیں.اس پر بھائی نے کہا کہ میں تو اس لئے آیا ہوں کہ کل والدہ کو بالکل ٹھیک

Page 357

حضرت خلیفہ اس الرابع" کے مستورات سے خطابات ۳۵۳ خطاب الرستمبر ۱۹۹۳ء حالت میں چھوڑ کر مسجد میں عشاء کی نماز کے لئے گیا یعنی یہ وہی وقت ہے جب کہ ان کا سسر گالیاں دے کر جامعہ عثمانیہ ( پڑھا گیا) میں نماز پڑھنے گیا ہوا تھا تو واپس آیا تو والدہ کا بُرا حال تھا رو رو کر ہلکان ہوئی جاتی تھیں کہ ہائے میری بیٹی کو کیا ہو گیا ہے تم فوراً جاؤ اور صبح جا کر اس کا پتہ کرو.کہتے ہیں جب یہ اس نے واقعہ سنایا تو میری ساس کی تو کایا پلٹ گئی اس نے کہا کہ یہ تو میں گواہ ہوں کہ بالکل اسی وقت جس وقت ان کی والدہ کو خدا تعالیٰ نے خبر دی تھی.اس بے چاری کا یہاں رو رو کر برا حال ہو رہا تھا اور میرے سامنے اس نے یہ کہا کہ ”اے اللہ میری ماں کو خبر دے دے کہ اس کی بیٹی کا بُرا حال ہے تو یہ ایک نظام مواصلات قائم ہے اور زندہ نظام ہے ہم نے بارہا اس کو دیکھا ہے.ایک درد ناک چیخ آسمان پر اٹھتی ہے اور آسمان سے وہ خبر بن کر اس شخص کے دل پر اترتی ہے جس کے لئے وہ چیخ بھیجی گئی تھی پس یہ وہ زندہ خدا ہے جو احمدیت کا خدا ہے.اس کے ہوتے ہوئے کوئی ابتلاء انسان کے قدموں کو لڑکھڑا نہیں سکتا اور یہی وہ سچا ثبوت ہے احمدیت کی زندگی کا جس کی بناء پر ہم خدا کے فضل سے ہر ابتلاء میں احمدیت پر پوری طرح قائم ہیں اور ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار بیٹھے ہیں.اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں کے نشانات کو ہم میں اور بھی بڑھاتا رہے ان ملکوں میں بھی جہاں کثرت سے احمدیوں نے پناہ لی ہے بکثرت ایسے با خدا وجودوں کی ضرورت ہے جن کو دیکھ کر یہ نئے آنے والے اپنے ایمان کو تقویت دیں یا ان کا ایمان اس سے تقویت پائے کیونکہ دلائل کی دنیا محدود نیا ہے.دلائل کا ایمان کمزور ایمان ہوا کرتا ہے.اصل ایمان وہ ہے جو تعلق باللہ کی زندہ شہادت کے نتیجے میں تقویت پاتا ہے.اصل ایمان وہ ہے جس کو قبولیت دعا کے پھل لگنے شروع ہو جاتے ہیں.پس میری دعا ہے کہ آپ میں سے بھی اللہ تعالیٰ نیک پارسا ایسی خواتین پیدا فرمائے جو خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق رکھنے والی ہوں.ان کی دعائیں قبول ہوں ان پر خدا کی رحمتیں اس طرح جلوہ گر ہوں کہ ماحول کو بھی دکھائی دینے لگیں اور خدا کرے کہ آپ کی پاک صحبت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے نئی آنے والی مغربی خواتین بھی اسی طرح الہی رنگوں میں رنگین ہو جائیں اور اسی طرح اللہ ان پر بھی جلوہ گر ہو.آپ کی وساطت کی ضرورت نہ رہے براہ راست ان کا ہاتھ اللہ کے ہاتھ میں آجائے.یہی وہ زندگی کی نشانی ہے جس کے ساتھ خدا تعالیٰ ایک زندہ مذہب کی صداقت کی تصدیق فرماتا ہے خدا کرے کہ یہ نشانیاں ہم میں ہمیشہ زندہ اور پائندہ رہیں.زینب صاحبہ زوجہ عبدالرحمن صاحب فیصل آباد اپنی بیعت کا واقعہ مھتی ہیں.میں نے بیعت خواب کی بنا پر کی.اور خواب یہ تھی کہ ہمارے گھر کے صحن میں ایک کشتی اتری ہے جس میں ایک بزرگ

Page 358

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۳۵۴ خطاب ار ستمبر ۱۹۹۳ء ماسفید پگڑی میں ہے اور ساتھ دو عورتیں ہیں.ربوہ میں جب پہلا جلسہ ہوا تو میں نے اس میں شرکت کی جلسے میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کو دیکھا کہ آپ کے ساتھ حضرت مہر آپا اور چھوٹی آپا جان ہیں تو خواب والا نقشہ میرے ذہن میں چونکہ تازہ تھا.میں نے صاف پہچان لیا کہ یہی وہ بزرگ تھے اور یہی وہ دوخواتین تھیں جو ان کے ساتھ تھیں.چنانچہ اس کو دیکھنے کے بعد مجھے شرح صدر ہوا اور میں نے وہیں بیعت کر لی.شریفہ بی بی صاحبہ اہلیہ عبدالمجید نیاز صاحب ایک دلچسپ واقعہ کا ذکر کرتی ہیں.کہتی ہیں کہ جب کہ آپ کی مالی حالت بہت کمزور تھی اور سب بچے پڑھ رہے تھے.جب نیا تعلیمی سال شروع ہوا تو کتابوں اور کاپیوں کے لئے پیسے نہیں تھے.بچے اصرار کر رہے تھے.آپ بے حد پریشان تھیں.کئی بار قرض کا خیال آیا مگر اس خیال سے نہ لیا کہ واپس کیسے کروں گی یہ بہت ہی اہم بات ہے وہ لوگ جو قرض لیتے ہیں ان کو حقیقت میں علم ہوتا ہے کہ وہ قرض واپس کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں کہ نہیں.پس اگر ایسی حالت میں قرض لیں کہ واپس کرنے کی اہلیت نہ ہو تو وہ دھو کہ بھی ہے اور توکل کے بھی خلاف ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے تو رزق نہیں دیا وہ زبردستی چوری کر رہی ہیں اور اس چوری کا نام قرض رکھ لیتی ہیں.ایسے لوگوں کے اموال میں کبھی برکت نہیں پڑتی.ہمیشہ وہ لوگ قرضوں میں رہتے چلے جاتے ہیں اور پھر کچھ عرصے کے بعد لکھتے ہیں کہ دعا کریں قرضہ بہت بڑھ گیا ہے خرچ پورے نہیں ہورہے.امر واقعہ یہ ہے کہ قناعت انتہائی ضروری صفت ہے جسے احمدی مردوں اور عورتوں کو اپنا چاہئے.میں نے بہت سے ایسے غریب دیکھے ہیں جو قناعت پر قائم رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی سفید پوشی کا بھرم رکھتا ہے ان کو کبھی کسی سے مانگنے کی ضرورت نہیں پڑتی اور اگر قرض لیتے ہیں تو اتنا لیتے ہیں جسے وہ واپس کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے اموال میں برکت ڈالتا ہے ان کے لئے غیب سے امداد کے سامان فرماتا ہے اور ان کی دعائیں قبول فرماتا ہے.پس محض یہ کہنا کہ قرض کی ضرورت تھی میں نے نہیں لیا اور خدا تعالیٰ نے میری دعا نہیں سنی.یہ کافی نہیں ہے دعا کی قبولیت کی کچھ کیفیات ہوتی ہیں ان میں نفس کی پاکیزگی اور خدا پر تو کل شامل ہے.پس یہ خاتون جو واقعہ بیان کر رہی ہیں اس میں یہ حکمت ہے کہ قرض لینے گئیں لیکن پھر نفس نے ملامت کی کہ دیکھوتم یہ قرض واپس نہیں کر سکو گی اس وجہ سے واپس آئیں اور اللہ تعالیٰ پر توکل کیا ، تو کہتی ہیں.میں نے پھر تہجد میں دُعا کی اے میرے اللہ! میں تو بے بس ہوں میں نے صداقت کی خاطر اس قرض سے اجتناب کیا ہے اور اب

Page 359

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۳۵۵ خطاب اار ستمبر ۱۹۹۳ء تیرے سوا میرا کوئی سہارا نہیں ہے کہتی ہیں مجھے آواز آئی کہ پیسے آئیں گے.دوسرے دن بچوں نے اصرار کیا تو انہوں نے بڑی مزیدار بات کہی انہوں نے کہا رات مجھے اللہ میاں کا فون آ گیا ہے کہ پیسے آئیں گے کیونکہ کان میں آواز آئی تھی جیسے فون سے آواز آرہی ہو.کہتی ہیں دوسرے دن ایک شخص آپ کے گھر آکر رقم دے گیا کہ کینیڈا سے ایک عورت نے اپنے خاوند کے کاروبار میں برکت کے لئے آپ سے دُعا کروائی تھی کاروبار بہت اچھا ہو گیا ہے اس خوشی میں یہ رقم آپ کو بھجوا رہی ہوں.اب دیکھیں کاروبار کی دُعا کب ہوئی کب اس میں برکت پڑی.کب وہ پیسے وہاں سے چلے ہوں گے کب خدا نے دل میں خیال ڈالا اور ٹائمنگ اس کے وقت کی مطابقت ایسی عظیم الشان ہے کہ ادھر تو کل کر کے وہ قرضے سے اجتناب کرتی ہوئی رات دعائیں کرتی ہیں رات پھر الہاما اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ پیسے آئیں گے اور دوسری صبح وہ پیسے اس طرح ایسے ذریعے سے آتے ہیں جس کے متعلق کوئی وہم و گمان بھی ان کو نہیں تھا.اسی طرح مکرمہ مبشرہ بیگم صاحبہ اہلیہ صوفی محمد الحق صاحب لکھتی ہیں کہ تحدیث نعمت کی خاطر بتارہی ہوں کہ رمضان کا مہینہ تھا میری ایک بہن میرے پاس تھی میرے سُسر بھی ان دنوں میرے پاس تھے سخت گرمی کے روزے تھے درس قرآن سے واپس آئی تو روزہ رکھا ہوا تھا.مہینے کی ۲۶ یا ۲۷ تاریخ تھی میرے پاس دو پیسے بھی نہیں تھے کہ برف ہی منگوا کر ٹھنڈا پانی پی لوں.اسی طرح قرآن مجید ہاتھ میں تھا اور برقعہ پہنا ہوا تھا.اس وقت مجھ پر رقت طاری ہوئی خوب دل کھول کر اللہ کے حضور گڑ گڑائی پھر مجھے سمجھ نہیں آئی کہ کیا میں کروں.کہتی ہیں کہ اچانک مجھے سمجھ نہیں آئی کہ میں کیوں ایسا کر رہی ہوں جو بوسیدہ کپڑوں کا صندوق تھا جس میں پرانے بے کار کپڑے رکھے ہوئے تھے وہ ٹرنک کھولا اور اس کو ٹولنا شروع کیا تو اس میں سے ایک روپیہ نکل آیا یہ روپیہ شاید چند فینگ ہوں جرمنی کرنسی میں لیکن اس زمانے میں پاکستان میں ابھی روپے کی کچھ قیمت تھی.کہتی ہیں اس سے ہم نے برف منگوا کر ٹھنڈا پانی کر کے شربت بنا کر افطاری بھی کی اور باقی مہینے کے دن بھی اسی روپے سے کئے.رؤفہ شاہین صاحبہ اہلیہ چوہدری مہر دین صاحب سھتی ہیں ۱۹۷۴ء میں ان کے میاں فیصل آباد میں ایک سٹور پر منیجر تھے جن کی دکان تھی ان کا سلوک اچھا تھا.لیکن ۱۹۷۴ء کی مخالفت سے مجبور ہوکر انہوں نے ایک دن ان کو رخصت کر دیا اور کہا اب جب تک یہ مخالفت ہے میں تمہیں اپنے پاس نہیں رکھ سکتا کہتی ہیں جو جمع شدہ تھا وہ کم ہونا شروع ہوا یہاں تک کہ فاقوں کی نوبت آگئی ایک ایسا وقت آیا کہ مٹی کا تیل بھی پاس نہیں تھا کہ کچھ جلا کر پانی ہی گرم کر سکوں.چھوٹے چھوٹے بچے تھے.یہ سوچ کر میں

Page 360

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۳۵۶ خطاب الرستمبر ۱۹۹۳ء نے خیال کیا کہ اب اگر مانگنا ہے تو صرف اللہ سے مانگنا ہے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلانا.کہتی ہیں میں نے وضو کیا کمرہ بند کر کے خوب دُعا کی شام کو ویسے ہی اپنے کپڑے دیکھ رہی تھی ٹرنک کھولا تو وہاں کسی وقت کے پڑے ہوئے چالیس روپے اور پچاس روپے کے بانڈ مل گئے جو بالکل ذہن میں نہیں تھے اور اللہ تعالیٰ نے پھر وہ ضرورت اس طرح پوری کر دی کہ جب تک میاں کو کام نہیں ملا اس وقت تک پھر کوئی محتاجی نہیں ہوئی پھر خدا تعالیٰ نے دکان دی اور اس میں بہت برکت ڈالی.ہمارے ایک مربی چوہدری لطیف احمد صاحب شاہد مربی کی اہلیہ صفیہ بیگم بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ میرا بڑا لڑکا جو کالج میں زیر تعلیم تھا اس کے پاس فیس کے لئے پیسے نہیں تھے جو کئی سوروپے تھی.مولوی صاحب ملک سے باہر تھے.پیسے آپ کے پاس تھے جو پیسے ان کے پاس یعنی اس خاتون کے پاس تھے وہ بہت تھوڑے تھے اور بچہ ضد کر رہا تھا کہ آج ہی ضرور مجھے فیس دینی ہے مجھے لا کر دیں.کہتی ہیں برقعہ پہن کر تیار ہوگئی کہ کسی ہمسائے سے جا کر پیسے مانگوں لیکن کچھ سمجھ نہیں آتی کہ کہاں جاؤں.ہمت کر کے باہر کے دروازے تک پہنچی لیکن قدم باہر رکھا ہی تھا کہ دوسری طرف سے دروازہ کھٹکا آپ نے دروازہ کھولا تو ایک شخص نے آپ کو یہ کہ کر اتنے پیسے دیئے جتنی آپ کو ضرورت تھی اور یہ بتایا کہ بچوں کے والد جب تبلیغ کے لئے روانہ ہوئے ہیں تو کچھ پاکستانی کرنسی ساتھ لے گئے تھے تاکہ ضرورت پڑے تو وہ سفر کے سلسلے میں استعمال کریں ائیر پورٹ پر انہوں نے دیکھا کہ اس کی ضرورت نہیں ہے تو اس کے ہاتھ واپس کر دیئے.چنانچہ وہ عین اُس وقت ان کو پہنچی جس وقت ضرورت تھی اور اتنی ہی رقم نکلی جتنی اس وقت ضرورت تھی.سلطان محمود صاحب انور ہمارے مبلغ سلسلہ بھی رہے ہیں اور آج کل ناظر اصلاح وارشاد ہیں ان کی بیگم محمودہ شوکت صاحبہ ایک واقعہ لھتی ہیں کہ ایک دفعہ مولوی صاحب غانا تھے.بچوں کا تعلیمی سال شروع تھا اخراجات کے لئے گھر میں پیسے نہیں تھے.قرض لینے کی ہمت اس لئے نہ تھی کہ واپس کرنا مشکل ہوگا.دیکھیں وہی بات دوبارہ وہی نیکی دراصل کام آئی ہے قرض لے سکتی ہیں مگر جانتی ہیں کہ اتنی توفیق نہیں کہ قرض لے کر واپس کروں تو قرض سے اجتناب کیا ہے.چنانچہ کہتی ہیں کافی سوچ بچار کے بعد پھر مجبور ہوکر میں نے آخر قرض کا ارادہ کر لیا.چنانچہ واقف کار کے گھر پہنچی لیکن دستک دیتے وقت پھر دل میں تر ڈر پیدا ہو گیا اور خالی ہاتھ واپس آگئی.ضمیر نے قرض لینے کی اجازت نہ دی.گھر پہنچی تو دروازے پر ڈاکیہ نے یہ لکھا ہوا تھا کہ آپ کی کچھ رقم کا منی آرڈر آیا ہے آ کر وصول کر لیں.

Page 361

حضرت خلیفتہ مسح الرابع کے مستورات سے خطابات ۳۵۷ خطاب اار ستمبر ۱۹۹۳ء دروازے سے واپسی دروازے پر اللہ کی طرف سے یہ پیغام دیکھیں کتنا پیار کا اظہار ہے اور اسی طرح اللہ تعالیٰ سلوک فرماتا ہے اور ایسے سلوک فرماتا ہے کہ وہم و گمان کی کوئی گنجائش نہیں رہتی.بعینہ حالات کے مطابق ایسا نشان ظاہر ہوتا ہے کہ جو دیکھتا ہے وہ اس یقین سے بھر جاتا ہے کہ یہ اتفاق کی بات نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیار کا اظہار ہے.اب دیکھیں وہ کہتی ہیں جب میں وہاں پہنچی تو منی آرڈر وصول ہوا اور ایک پرانے عزیز کی طرف سے خط تھا ایک ایسی عزیز تھی وہ جس کے ساتھ جب میں ہوٹل میں ہوا کرتی تھی تو میں نے بہت حسن سلوک کیا تھا.اس نے لکھا کہ ہوٹل کے زمانے میں آپ نے مجھ سے بہت حسن سلوک کیا ہوا ہے میں نے نئی سروس شروع کی ہے اور آج مجھے اس کی تنخواہ ملی ہے اور میں چاہتی ہوں کہ اس حسن سلوک کی یاد میں اس تحفے میں آپ کو بھی شامل کرلوں.اب پھر دوبارہ دیکھیں کس طرح وقت کو خدا تعالیٰ نے ملایا ہے کنٹرول کیا ہے وہ پرانے زمانے کی حسن سلوک کی یاد کس طرح ان کے دل میں ایک دم تڑپی ہے اور تنخواہ ملنے کا واقعہ اور یہ ٹائمنگ دیکھیں کیسی پرفیکٹ (Perfect) ہے کہ ادھر خاتون ایک خاتون کی طرف جاتی ہیں اور اس تردد سے لوٹ آتی ہیں کہ خدا کے سوا کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلانا اور ادھر وہ پرانا واقعہ ایک خدا کی نعمت بن کر کینیڈا سے چلا ہوا ہے جو عین وقت پر ان کو ملتا ہے.پس یہ نشانات اس کثرت سے ہیں جماعت احمدیہ میں کہ ان کو شمار نہیں کیا جاسکتا.ہم آخر پاگل تو نہیں کہ دُنیا کو چھوڑ کر دین کے لئے سب تن من دھن قربان کئے بیٹھے ہیں اور دنیا کی کوئی پرواہ نہیں کرتے.وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے.زندہ خدا کو دیکھ رہے ہیں وہ ہمارے ساتھ ہے اس کو چھوڑ کر پھر اور کہاں جاسکتے ہیں.ہمارا تو کل ، ہمارا خلاص ہمارے دین کی محبت ہمارے دل کی مجبوریاں ہیں اور غیر ان کو سمجھ نہیں سکتے.طاہرہ رشیدالدین صاحبہ اپنی ایک رؤیا کا ذکر کرتی ہیں وہ لکھتی ہیں کہ حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی وفات سے ایک دن قبل رویا میں دیکھا کہ بیگم صاحبہ کے کمرے میں بہت روشنی ہے.بی بی فوزیہ بھی جو میری پھوپھی زاد ہمشیرہ ہیں.ماڈل ٹاؤن میں خدا کے فضل سے انہوں نے بھی خدمت دین میں بہت محنت کی ہے اور بیعتوں کے سلسلے میں انہوں نے اور ان کی لجنہ نے بہت اعلیٰ نمونے کا کام کیا تھا وہ کہتی ہیں بی بی فوزیہ اس کمرے میں ہیں.نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ مجھے کہتی ہیں کہ میں نے نہانا ہے.میں بی بی فوزیہ سے کہتی ہوں کہ کیا خیال ہے انہیں نہلا نا دیں.بی بی فوزیہ کہتی ہیں کہ انہیں ہم کل مل کر نہلائیں گے میں صبح اُٹھ کر ان کے گھر جانے ہی والی تھی کہ ان کی ملازمہ آگئی اور خبر دی کہ بیگم

Page 362

حضرت خلیفہ مسح الرائع کے مستورات سے خطابات ۳۵۸ خطاب ۱ار تمبر ۱۹۹۳ء صاحبہ وفات پاچکی ہیں.چنانچہ اسی خواب کی بناء پر پھر مجھے بھی ان کے غسل میں شامل ہونے کی اجازت دی گئی.محترمہ کاوش صاحبہ اپنی والدہ محترمہ عطیه با جره زوجه سید محمود احمد صاحب خادم مسجد دار البرکات کے متعلق لکھتی ہیں کہ جب حضرت خلیفہ اسیح الثالث اسلام آباد گئے تو بالکل صحت مند تھے لیکن ان کی والدہ عطیہ ہاجرہ نے ان سے کہا کہ دُعا کرو کہ حضور اسلام آباد نہ جائیں.بار بار وہ یہ کہتی رہیں اور بار بار میں اُن کو سمجھاتی رہی کہ یہ دین کی خاطر سفر ہے آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں.میں کیوں ایسی دُعا کروں لیکن وہ بہت پریشان تھیں اور کہتی تھیں دُعا کرو کہ وہ نہ جائیں.آخر کچھ عرصے کے بعد وہ کپڑے ہی رہی تھیں کہ بے اختیار رونے لگیں اور کہا کہ اب حضور واپس نہیں آئیں گے.معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے اسی وقت کشفی نظارہ آپ کو دکھایا تھا کہ وہ رویا جو پہلے دیکھی وہ پوری ہو چکی ہے کہتی ہیں میں نے ابھی یہ نظارہ دیکھا ہے کہ حضور سفید چولا پہنے ہوئے ہیں سفید اور نیلی رنگ کی لائنوں والی اچکن پہنی ہوئی ہے سفید پگڑی باندھی ہوئی ہے لیکن پگڑی کا پتو گردن کے گرد اس طرح ڈالا ہوا ہے کہ جیسے انسان کو سانس میں دقت پیدا کر دے اور تکلیف پہنچے ہسپتال کے چکر لگا رہے ہیں.اس سے اگلے دن ہی حضور کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ جو سانس کی تکلیف تھی اس کی جو کیفیت دکھائی گئی تھی بعینہ ویسی ہی بیماری کا حملہ ہوا.یہ بیان کرتی ہیں اپنی والدہ کے متعلق کے وہ خدا کے فضل سے بہت دُعا گو تھیں بہت غریب لیکن بہت متوکل اور نمازوں کی رسیا.کہتی ہیں ایک دفعہ کو ٹھے پر میں گئی سردیوں کا موسم تھا شدید سردی تھی.والدہ وہاں نماز پڑھ رہی تھیں لیکن جسم اتنا گرم تھا کہ ہاتھ لگانے سے اس کا سیک لگتا تھا اور پسینے سے شرابور تھا.میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے تو انہوں نے کہا ابھی فرشتے مجھ سے باتیں کر رہے تھے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ اس جلسے پر بہت لوگ آئیں گے اور بڑے بڑے لوگ بیعت بھی کریں گے چنانچہ اس کا یہ اثر ہے کہ میرا جسم ایک دم گرم ہو گیا ہے چنانچہ کہتی ہیں کہ واقعہ اس جلسے پر بکثرت لوگ آئے اور یہ نشان ہمیں دکھایا گیا کہ والدہ کی خواب یعنی تجربہ وہمی نہیں تھا کہ ان کے عزیزوں میں رشتہ داروں میں ایک بڑا آدمی جو بہت مخالف تھا وہ اس جلسے پر آیا اور اس نے بیعت کر لی تو اس طرح خدا تعالیٰ نے اس خاتون کی سچائی کا ایک ظاہری گواہ بنا دیا.ہاجرہ بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ میرے والدین اور میرے سسرال غیر احمدی تھے.کہتی ہیں میری دو بیٹیاں تھیں اور بیٹا کوئی نہ تھا.سب کو اس بات کا شوق تھا کہ اللہ تعالیٰ بیٹا دے.غیر احمدی

Page 363

حضرت خلیفہ مسح الرابع کے مستورات سے خطابات ۳۵۹ خطاب ۱ ار ستمبر ۱۹۹۳ء ہونے کی وجہ سے وہ تعویذ گنڈے کی بہت قائل تھیں اور دم درود کروا کر اس کو کہتے ہیں کہ وہ ٹوٹکے کے بعض چیزوں کے اوپر پھونکیں مراد لیتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اس کی برکت سے کوئی چیز عطا ہو جائے گی تو کسی چیز پر انہوں نے وہ پھونکیں مروائیں اور ان کو کہا کہ اس کو ہاتھ لگاؤ گی.یعنی گڑ دیا کہ اس پر ہاتھ لگاؤ گی تو تمہارے بچہ ہوگا تو انہوں نے کہ میں مشرکہ نہیں ہوں.کہتی ہیں میں نے اس وقت لے تو لیا ان سے لیکن ہاتھ نہیں لگایا اور باہر جا کر بھینسوں کی کھرلی جس میں بھینسوں کو چارہ دیا جاتا ہے اس میں وہ گڑ پھینک دیا اور بعد میں ان کو بتادیا کہ دیکھیں میں نے اسکو کپڑے سے پکڑا تھا ہاتھ نہیں لگایا کیونکہ میں مشرکہ نہیں ہوں.بچہ لوں گی تو خدا سے لوں گی.آپ کے پیروں فقیروں سے میں نے کچھ نہیں لینا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی عزت رکھی.دعا قبول فرمائی اور دو صحت مند بیٹے عطا فرمائے.کہتی ہیں میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھے شرک سے بھی بچایا اور میری دلی آرزو بھی پوری فرمائی.حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی بہت بزرگ صاحب کشف والہام صحابی تھے اس کثرت سے آپ کی دعائیں قبول ہوتی تھیں اور ایسے نشانات آپ کو دکھائے جاتے تھے کہ پرانے زمانے میں انبیاء کی تاریخ میں بھی ایسے واقعات کم دکھائی دیتے ہیں.ان کو دیکھ کر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث یاد آ جاتی ہے کہ علماء امتى كانبیاء بنی اسرائیل کہ تم میری اُمت کے علماء کو ایسے دیکھو گے کہ بظاہر وہ معمولی انسان ہوں گے لیکن فی الحقیقت میں ان کا مرتبہ انبیاء بنی اسرائیل جیسا ہوگا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے غلاموں میں کثرت سے ایسے لوگ پیدا ہوئے اور ان میں بھی مختلف شانوں والے انسان تھے.حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی ایک بہت ہی بلندشان کے انسان تھے.بہت ہی عاجز بہت ہی منسکر المزاج اور بکثرت دعائیں کرنے والے اور بکثرت دعاؤں کا فیض پانے والے تے ان کی نیکی کا اثر ان کے ماحول پر بھی تھ ان کی بیگم بھی خدا کے فضل سے بہت دُعا گو اور متوکل خاتون تھیں.وہ بھتی ہیں کہ ایک دفعہ مجھے رویا میں دکھایا گیا کہ کوئی کہتا ہے کہ مولوی صاحب تو دیوئے ہیں اگر بجھ بھی گئے تو اللہ کافی ہے.یہ خدا کی عجیب شان تھی کہ حضرت مولوی صاحب کے اس مقام مرتبے کے باوجود ان کو ایک دیوا‘ بتایا ہے.بہت سے دیوے اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کو عطا فرمائے تو فرمایا کہ ایک دیوا‘ بجھ گیا تو کیا ہے دوسرے دیوے بھی تو اور ہیں.یہ روشنی تو بہر حال خدا کی عطا کردہ ہے جو جاری وساری رہے گی کوئی اس روشنی کو بجھا نہیں سکے گا.کہتی ہیں میں اس کا مضمون سمجھے تو گئی لیکن دل میں بے چینی پیدا ہوئی اور

Page 364

خطاب ار ستمبر ۱۹۹۳ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات میں نے دُعا کی کہ اللہ تعالیٰ مولوی صاحب کو ابھی زندہ رکھ کہتی ہیں اس کے بعد مجھے رویا میں دکھایا گیا کہ مولوی صاحب اس وقت زندہ رہیں گے جب تک تیرے دس بچے نہ پیدا ہو جائیں.اب خدا کی عجیب شان ہے کہ دس بچوں تک مولوی صاحب زندہ رہے اور کچھ عرصہ اس کے بعد تک بھی اور دس ہی بچے پیدا ہوئے.تو یہ واقعات کوئی جاہل ہی ہوگا جو کہے کہ نفس کی باتیں ہیں.یہ ایسی خواہیں ہیں جن کا نفسیاتی تجزیہ ہو سکتا ہے؟ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو بڑی شان کے ساتھ پورا ہوتا ہے.ایک مقتدر ہستی کی عطا کردہ خبریں ہیں جن کے پورا ہونے کی راہ میں کوئی دوسری طاقت حائل نہیں ہو سکتی.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کے یہ سب نشانات ہیں اور خدا کرے کہ آپ میں بھی بکثرت ایسے نشان پیدا ہوں.کیونکہ حقیقی صداقت کا نشان تو تعلق باللہ ہی ہے.اگر تعلق باللہ نہ رہے تو مذہب کی صداقت اپنی جگہ اس طرح رہتی ہے جیسے وہ صداقت موجود ہے لیکن آپ کی ذات پر اثر انداز نہیں ہوئی ایسی مثال ہے جیسے سورج باہر چمک رہا ہو لیکن آپ اپنے دروازے بند کر کے اندھیری کوٹھری میں بیٹھی رہیں اور سورج سے فیض یاب نہ ہوسکیں.بعض لوگ اپنی مرضی سے روشنیاں اپنے اوپر بند کر لیتے ہیں بعض مجبوراً ایسے گڑھوں میں پڑ جاتے ہیں.یا ایسی قیدوں میں مبتلا کئے جاتے ہیں کہ جن پر سورج کی روشنی حرام ہو جاتی ہے.پس ایسے گناہوں کے زنداں خانے بھی تو ہیں جن میں انسان ایسی حالت میں زندگی بسر کرتا ہے کہ باہر کا نور یعنی اللہ تعالیٰ کا نوران تک نہیں پہنچ سکتا.پس یہ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان زنداں خانوں سے، ان قیدوں سے، ان بند حجروں سے،ان تاریک گوشوں سے آپ کو نجات بخشے.آپ باہر آئیں اور خدا کے نور سے اسی طرح فیضاب یاب ہوں جس طرح احمدی خواتین ہمیشہ ہوتی رہی ہیں اور آج بھی ہو رہی ہیں.حمیدہ بیگم صاحبہ صدر لجنہ گولارچی ضلع بدین ایک واقعہ مھتی ہیں کہ ان کے گھر چوتھے نمبر کے مکان میں آگ لگ گئی چونکہ سب مکان لکڑی کے تھے اس لئے اس آگ نے تیزی سے اردگرد کے مکانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا.آگ تیزی سے پھیل رہی تھی کسی طرح بجھنے کا نام نہیں لیتی تھی.لوگ میرے گھر بھی آئے اور میرا سامان اُٹھا اُٹھا کر باہر رکھنا شروع کیا تا کہ جب مکان جلے تو سامان تو بیچ جائے.کہتی ہیں میں اس کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی جس کی دیوار اس آگ والی سمت میں تھی اور اتفاق سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا فوٹو وہاں لٹکا ہوا تھا.وہ فوٹو دیکھ کر ان کے ذہن میں آپ کا یہ الہام گھوم رہا تھا کہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.“ ( تذکره صفحه ۳۲۴)

Page 365

حضرت خلیفہ امسح الرابع" کے مستورات سے خطابات خطاب الرستمبر ۱۹۹۳ء پس وہاں بیٹھی دُعا کرتی رہیں.کہتی ہیں نظر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاک چہرے پر لگی ہوئی تھی اور رَبِّ كُلَّ شَيْءٍ خَادِمُک کا ورد کر رہی تھی اور لوگ کچھ سامان اُٹھا اُٹھا کر باہر لے جارہے تھے.ان سب باتوں سے بے پرواہ میں اس کمرے میں دعاؤں میں مگن تھی کہ اچانک میں نے دیکھا کہ لوگ باہر سے سامان اُٹھا اُٹھا کر واپس لا رہے ہیں.پوچھا کہ یہ کیا ہوا ہے تو انہوں نے کہ آپ کے گھر کی دیوار تک آکر آگ اچانک ختم ہو گئی ہے کیونکہ اس وقت ہوا کا رخ بدلا ہے.وہ ہوا جو تیزی کے ساتھ آگ کو ان کے گھر کی طرف لے جارہی تھی وہاں جا کر ٹھہر گئی کہتی ہیں یہ میرا چھوٹا ساخس وخاشاک کا گھر تھا.میں دعا کرتی تھی کہ اے اللہ مسیح موعود علیہ السلام کی برکت سے اس گھر کو بچالے.کہتی ہیں یہ معجزہ دیکھ کر میں حیران رہ گئی.میری روح پاتال تک خدا کے حضور سجدے میں گر گئی.لوگ جو گولارچی سے پندرہ میل کے فاصلے پر گولارچی قصبے میں شاپنگ کے لئے یعنی سودا سلف خریدنے کے لئے آئے ہوئے تھے کہتی ہیں وہ سارے یہ معجزہ دیکھنے کے لئے آئے اور سارے علاقے میں یہ باتیں ہونے لگیں کہ دیکھو آج گولارچی میں عجیب واقعہ ہوا کہ پورا پاڑہ جل گیا ( پاڑہ غالباً محلے کو کہتے ہیں سندھی میں ) اور جب قادیانیوں کا گھر آیا تو آگ پیچھے مڑگئی یعنی خدا نے الٹی ہوا چلا دی.پس کہتی ہیں قربان جاؤں اس پروردگار کے جس نے روز روشن کی طرح نشان دکھا کر سب کا منہ بند کر دیا.اس طرح مجھ نا چیز کے ساتھ ہزاروں لوگوں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے یہ الفاظ کہ آگ ہماری غلام ہے بلکہ غلاموں کی غلام ہے.“ کا روشن نشان دیکھا.الحمد للہ علی ذلک ہماری ایک مخلص احمدی خاتون جو ایک واقف زندگی حافظ عبدالحفیظ صاحب کی بیگم ہیں جو حادثے میں شہید ہو گئے تھے، نجی کے مبلغ تھے.وہ لکھتی ہیں کہ جنازہ جس دن ربوہ پہنچنا تھا یعنی ان کا حادثہ جو ہوا ہے وہ تبلیغ کی حالت میں میدان جہاد میں ہوا ہے اس لئے ہم ان کے لئے لفظ شہید برحق طور پر استعمال کر سکتے ہیں.وہ کہتی ہیں جنازہ جس دن ربوہ پہنچنا تھا اس رات میں نے اپنے دونوں بیٹیوں کو بتایا کہ تمہارے ابو فوت ہو گئے ہیں.ان کی عمریں ساڑھے چھ سال اور پانچ سال تھیں اور یہ بھی کہ صبح ان کا جنازہ آئے گا تو عطیہ تو کافی پریشان ہوئی جو نسبتا بڑی عمر کی تھی مگر قرۃ العین کی آنکھیں چمک اُٹھیں.اس بات سے بے نیاز کہ موت کیا چیز ہوتی ہے وہ خوش ہوئی کہ ابو آ رہے ہیں.اگلی صبح قرة العین کہہ رہی تھی کہ آج ابو آئیں گے اور دیکھ لینا کہ میری گڑیا ضرور لائیں گے.کہتی ہیں اس سے میرے دل کی عجیب حالت ہوئی.عطیہ نے بار بار سمجھایا کہ پاگل نہ بنو تم نے سنا نہیں ہے میری بیٹی نے

Page 366

حضرت خلیفتہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۳۶۲ خطاب الرستمبر ۱۹۹۳ء اپنی بہن کو سمجھایا کہ تم نے سنا نہیں کہ امی کہہ رہی تھیں ابو فوت ہو گئے ہیں وہ کبھی نہیں آئیں گے.قرة العین غصے میں اونچا بولنے لگی کہ جی نہیں ابو جو وعدہ کرتے ہیں ضرور پورا کرتے ہیں انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ گڑیالا ئیں گے.اب وہ وعدہ تھا گڑیا لانے کا اس وقت جب کہ وہاں ان کی تقرری اپنے اختتام کو پہنچتی اور ابھی ایک دو سال ان کے آنے میں باقی تھے.اس لئے ان کی والدہ کو ( اس بچی کی والدہ کو ) وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ وہ ابھی گڑیا لے بیٹھے ہوں گے.یعنی عقلاً یہ ناممکن بات تھی تو اس لئے وہ ان کو سمجھاتی تھیں کہ بیٹی گڑیا نہیں آئے گی تم خواہ مخواہ اپنا دل اس پر نہ لگا ؤ اور بہن بھی کہتی تھی تو وہ آگے سے تن کر کہتی تھی کہ نہیں میرے ابا تو وعدے کے بچے ہیں.کہتی ہیں کہ عجیب بات ہے کہ جب سامان آیا تو سامان پر سب سے او پر گڑیا پڑی ہوئی تھی.کہتی ہیں ورد سے اور خدا کے شکر سے میری چیخیں نکل گئیں.اللہ کی عجیب شان ہے کس طرح اس معصوم بچی کا دل رکھ لیا اور اس کے باپ کی صداقت کا نشان قائم کر دیا کہ بچی کو جو توقع تھی کہ میرا باپ جھوٹ نہیں بولتا سچے وعدہ کرتا ہے.اس کے وعدے کو اسی طرح پورا فرما دیا کہ وہ گڑیا انہوں نے واپسی سے بہت پہلے سے خرید کر رکھ لی تھی اور سامان بھیجنے والوں نے بھی سامان کے اوپر سجا کر وہ داخل کی ہے.اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کوئی اتفاقی حادثات نہیں ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نشان ہیں اور اس کے پیار کے اظہار ہیں جو اپنی خدمت کرنے والے واقفین سے بھی اور خدمت کرنے والے دوسرے خدام سے بھی وہ شفقت کے سلوک فرماتا ہے.یہ سب ان کے اظہار ہیں یہ اپنی صداقت کے نشان اپنے ساتھ رکھتے ہیں.کوئی نہیں ہے جو احمدیت سے اس الہی محبت اور پیار کے تعلق کو چھین سکے.ہاں آپ اپنے تعلق میں وفا کریں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ خدا سب وفاداروں سے بڑھ کر وفا دار ہے.آپ میں سے ہر ایک کے گھر میں نازل ہوگا.ہر ایک کے سینے کو منور کرے گا.آپ اپنی دعاؤں کی قبولیت کے نشان خود دیکھیں گی.آپ کے بچے آپ کے ایمان سے اور ایمان کے پھلوں سے فیض یاب ہوں گے اور نسلاً بعد نسل ہمیشہ یہ فیض احمدیت میں جاری وساری رہے گا.ایک خاتون شیخ سردار محمد صاحب کی اہلیہ لکھتی ہیں کہ بارہ سال مسلسل ہدایت کے لئے دعائیں کرتی رہیں.آپ کے والد تو احمدی ہو کر قادیان جاچکے تھے.لیکن سارا خاندان شدید مخالف تھا اور میرے والد کا بائیکاٹ کر رکھا تھا.کہتی ہیں میں بہت روتی رہی دعائیں کرتی رہی اور تحقیق بھی کرتی رہی لیکن احمدیت کی طرف مائل نہ ہوئیں.آخر ایک رات انہوں نے خواب میں دیکھا کہ وہ کشتی

Page 367

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۳۶۳ خطاب الرستمبر ۱۹۹۳ء میں بیٹھی ہیں اور کشتی ڈگمگا رہی ہے.آپ دعائیں کرتی ہیں کہ اے اللہ تو ہی بچانے والا ہے.پھر انہیں ساحل پر ایک بزرگ نظر آئے جیسے وہ بزرگ آپ کے قریب آتے ہیں.کشتی کنارے لگ جاتی ہے.اس خواب کا ذکر آپ نے کسی پیر سے کیا.پیر صاحب نے مشورہ دیا کہ اگر آپ کو وہ بزرگ مل جائیں جن کو آپ نے خواب میں دیکھا تھا آپ ان کی بیعت کر لیں.پھر ان کے دل میں خیال آیا کہ بارہ سال سے ان کے والد بھی ان کو چھوڑ کر قادیان چلے گئے ہیں.ہوسکتا ہے وہی فرقہ سچا ہو.آپ اپنی ساس سے اجازت لے کر چاروں بچوں کو لے کر قادیان چلی گئیں.جانے سے پہلے اپنے خاوند کو خط لکھا کہ میں ساس کی اجازت سے قادیان جارہی ہوں اگر مجھے سچ نظر آگیا تو میں قبول کرلوں گی.ادھر جب برادری کو معلوم ہوا تو انہوں نے بہت شور مچایا اور ساس کو بھی بھڑ کا یا اور کہا اگر یہ احمدی ہو جائے تو اپنے بیٹے کو کہہ کر اسے طلاق دلوا دینا.کہتی ہیں کہ وہ سب بہت پریشان تھے.ایک طرف والدہ کا حکم تھا دوسری طرف میری محبت اور میرے خاوند اس طرح ایک ایسی حالت میں مبتلا تھے کہ کوئی فیصلہ کر نہیں پاتے تھے.لیکن کہتی ہیں.میں بہر حال ان باتوں سے بے خبر قادیان چلی گئی.وہاں جب پہنچنی تو مجھے خلیفتر اسیح الثانی کی تصویر دکھائی گئی.کیا وہ یہ بزرگ تھے؟ تو میں کہا نہیں یہ بزرگ نہیں تھے.پھر حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کی تصویر دکھائی گئی.کیا وہ یہ بزرگ تھے ؟ میں نے کہا نہیں یہ بزرگ نہیں تھے.پھر مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دکھائی گئی.وہ اتنی قطعی طور پر تھی کہتی ہیں بے اختیار میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی.کیونکہ بعینہ مسیح موعود علیہ السلام تھے.ایک ذرہ بھی فرق نہیں تھا مشابہت میں.چنانچہ میں نے اسی وقت فیصلہ کر لیا.اگلے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی ملاقات کے لئے گئی مگر رستے میں یہ کہتی جارہی تھی کہ اب بھی کوئی خلاف شریعت بات نظر آئی تو خواب کی پرواہ نہیں کروں گی اور بیعت نہیں کروں گی اور اس طرح اپنے دل کو سہارا دیتے ہوئے وہاں پہنچیں.اس وقت کہتی ہیں حضور حضرت ام طاہر کے گھر تھے.یعنی ہمارے گھر میں.برآمدے میں آئے السلام علیکم کہا میں نے اسی طرح نقاب چہرے پر گرائے رکھا.حضور نے مجھ سے کوئی سوال نہیں کیا اور بیعت کے الفاظ دہرانے شروع کئے اور میں نے وہ الفاظ پیچھے دہرائے اور اس طرح بیعت کر کے میں سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئی.بعد میں میں نے حضرت ام طاہر کے ذریعے حضور سے پچھوایا کہ آپ نے بغیر سوال کئے بیعت کیوں لے لی؟ اس پر حضور نے بتایا کہ تمہارے ایک دوسرے بھائی جو احمدی ہو چکے ہیں وہ مجھے خط لکھا کرتے تھے کہ میری بہن بڑی نیک ہے یہ دُعا کریں کہ یہ بیعت کر لے.چنانچہ کہتے ہیں میں

Page 368

حضرت خالیت مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۳۶۴ خطاب ۱ار تمبر ۱۹۹۳ء نے اس کی بیعت کی بہت دعائیں کیں.یعنی تمہاری بیعت کے لئے اور مجھے خدا کی طرف سے یہ بتادیا گیا کہ تم بیعت کرنے آؤ گی.پس جب مجھے یہ اطلاع ملی کہ ڈاکٹر قاضی لال دین صاحب کی بیٹی ہیں تو مجھے اس رؤیا کے مطابق جو خدا نے پہلے سے دی تھی یقین تھا کہ تم بیعت کرنے آؤ گی اور میں نے پوچھا بھی نہیں اور جا کے بیعت کے الفاظ دہرائے اور تم نے بیعت شروع کر دی.تو اس طرح اللہ تعالیٰ رؤیا اور کشوف کے ذریعہ احمدی خواتین یعنی ان نیک پارسا خواتین کی راہنمائی بھی فرماتا ہے.میری دُعا یہ ہے کہ آپ سب میں خدا تعالیٰ جلوہ گر ہو اور یہ مشکل کام نہیں ہے.سچی محبت اللہ سے چاہئے.خلوص چاہئے خدا کی خاطر قربانی کرنے کے ایسے عزم ہوں کہ جن کے نتیجے میں آپ اپنی پیاری چیزیں خدا کی خاطر قربان کرنے کے لئے دل سے تیار ہوں اور اپنے روزمرہ کے انسانی معاملات میں یہ عزم کریں کہ آپ اپنے دل کو ٹول کر ، اپنی نیتوں کو کھنگال کر پھر قدم اُٹھایا کریں گی.جیسا کہ میں نے مثالیں دی ہیں.تین احمدی خواتین کی.قرض لینے سے اجتناب اس لئے کیا کہ آخری وقت میں ان کے دل نے ان کو بتا دیا تھا کہ تم قرض واپس کرنے کی اہلیت نہیں رکھتیں اور اس جذبے کو خدا نے قبول فرمایا ہے اور اس شان سے ان کی ضرورتیں پوری کیں کہ کوئی جاہل ہی ہوگا جو کہے کہ یہ اتفاقی حادثات ہیں.پس خدا سے تعلقات استوار کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے.خدا کی راہ میں سیدھی اور صاف ہو جائیں.اللہ تعالیٰ سے قول سدید اختیار کریں.قول سدید کا مطلب ہے محض فرضی دعائیں نہ کیا کریں بلکہ دل کو ٹٹول لیا کریں.میرے ساتھ بارہا یہ واقعہ ہوا ہے کہ کوئی احمدی بچی ابتلاء میں پڑ گئی اس کے والدین نے مجھ سے کہا کہ اس کو سنبھالو.میں نے اس سے گفتگو کی تو اس کو اس دعا پر آمادہ کر لیا کہ اللہ تعالیٰ جدھر تمہیں لے جائے گا تم وہی کام کرو گی.اور پھر متنبہ کیا کہ اگر تم نے یہ منہ سے دعا کی اور پہلے یہ فیصلہ نہ کیا کہ اگر انتہائی کڑوی بات بھی خدا نے چاہی تو میں ویسے ہی کروں گی تو تمہاری قبول نہیں ہوگی.پھر تمہارے متعلق کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی.لیکن اگر تم یہ دعا یقین کے ساتھ کرو اور یہ فیصلہ کر کے کرو کہ خدا کی انگلی جدھر لے کے جائے گی خواہ وہ انتہائی مہلک بات دکھائی دے میں ضرور کروں گی.پھر اللہ تعالیٰ تمہاری ضرور راہنمائی فرمائے گا.اور جب وہ آمادہ ہو گئی تو اس سے پہلے میں نے ایک دفعہ دیکھا.ایک لڑکی لرزگئی کیونکہ اب وہ واقعۂ خلوص نیت سے دُعا کے لئے تیار تھی.اس سے پہلے یونہی ہاں ہاں کر رہی تھی.ہاں میں دُعا کروں گی.میرے بات سمجھنے کے بعد اس کو سمجھ آئی کہ دعا تو بڑا مشکل کام ہے.اس

Page 369

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۳۶۵ خطاب الرستمبر ۱۹۹۳ء میں نفس کو پہلے خدا کی راہ میں سجدہ ریز کرنا پڑتا ہے.جھکا دینا پڑتا ہے.چنانچہ اس کے کانپنے سے میں سمجھ گیا کہ اب اس کی دعا ضرور قبول ہوگی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر ایسے معاملے میں اللہ تعالیٰ نے راہنمائی فرمائی.شرح صدر عطا کئے.ہلاکت کے فیصلوں سے بچایا اور ان کا حامی و ناصر ہوا.پس خدا سے تعلق قائم کرنا نفس کی سچائی کو چاہتا ہے.دل کا تقویٰ ہے جو دراصل ہر قسم کے مبارک پھل آسمان سے عطا کرتا ہے.آپ دل کی متقی ہو جائیں ، دل کی صاف ہو جائیں.اللہ تعالیٰ سے ٹیڑھی ہوشیاری کی باتیں کرنا چھوڑ دیں.صاف ستھری بات اتنی ہی کریں جو آپ کر سکتی ہوں.پھر دیکھیں خدا کس طرح اپنے فضل کے ساتھ آپ پر جلوہ گر ہوگا.ہمیشہ آپ کے ساتھ ہوگا.آج مغرب کی دنیا کو زندہ کرنے کے لئے ایسی احمدی خواتین کی ضرورت ہے جو خدا کے تعلق کے ذریعے خود زندہ ہو چکی ہوں کیونکہ زندہ ہی ہیں جو مردوں کو زندگی بخش سکتے ہیں.اگر آپ کے دل زندہ نہ ہوئے ، اگر خدا آپ کے دلوں کے صحنوں میں جلوہ گر نہ ہوا تو پھر ماحول کے اندھیروں کو آپ دور نہ کرسکیں گی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 370

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات خطاب ۳۰ ر جولائی ۱۹۹۴ء احمدی خواتین کی عظیم الشان قربانیاں اور اپنے عزیزوں کی شہادتوں پر بے مثال صبر خطاب جلسہ سالانہ مستورات برطانیہ فرموده ۳۰ / جولائی ۱۹۹۴ء) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات قرآنی کی تلاوت فرمائی: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصُّبِرِينَ وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءِ وَلَكِنْ لَّا تَشْعُرُونَ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّبِرِينَ في (القره: ۱۵۴ ۲ ۱۵۲) اور فرمایا: یدا نہی آیات میں سے کچھ آیات ہیں جن کی آپ کے سامنے اس سے پہلے تلاوت کی گئی.چونکہ میرے مضمون کا عنوان یہی آیات ہیں اس لئے ان میں سے وہ درمیانی حصہ جو بطور خاص اس مضمون سے تعلق رکھتا ہے میں نے بھی آپ کے سامنے دوبارہ پڑھا ہے.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ تعالیٰ سے صبر اور نماز کے ذریعہ مدد مانگو إِنَّ اللهَ مَعَ الصُّبِرِينَ ، یا درکھو اللہ صابرین کا ساتھ نہیں چھوڑا کرتا ، ان کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ شخص جوخد ا کی راہ میں قتل کیا جائے اسے مردہ نہ کہو یا ان لوگوں کو مردہ نہ کہو جو خدا کی راہ میں قتل کئے جائیں بَلْ أَحْيَاء “ وہ تو زندہ ہیں.لیکن تم شعور نہیں رکھتے.اور یقیناً ہم تم لوگوں کو آزمائیں گے کچھ

Page 371

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات خطاب ۳۰ جولائی ۱۹۹۴ء خوف میں سے ابتلاء ڈال کر، کچھ بھوک کا ابتلاء ڈال کر ، کچھ اموال کے نقصان کے ذریعہ اور کچھ جانوں اور پھلوں کے نقصان کے ذریعہ.وَبَشِّرِ الصَّبِرِین لیکن صبر کرنے والوں کو خوش خبری دو.یہ عجیب طرز کلام ہے کہ غم کی خبر کے ساتھ ہی خوشی کی خبر اس طرح ملا دی ہے کہ گویا اس فکر کی بات سے جو بیان کی گئی مومنوں کے دل دہل نہ جائیں.پس یہاں صبر کی تلقین نہیں فرمائی بلکہ بَشِّرِ الصَّبِرِينَ فرمایا کہ صبر کرنے والوں کو خوش خبری دے دو.الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَة وه لوگ جو جب بھی ان پر کوئی مصیبت ٹوٹتی ہے کہتے ہیں ہم اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف ہم لوٹ کر جانے والے ہیں.اولئک علیهم صلوات من ربهم ان پر ان کے اللہ تعالی کی طرف سے سلام اترتے ہیں.اللہ ان پر درود بھیجتا ہے اور اس کی رحمت نازل ہوتی ہے.واولئک هم المهتدون یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت یافتہ ہیں.آپ نے بارہا ان مردوں کے قصے سنے ہیں، وہ تذکرے سنے جنہوں نے خدا کی محبت میں اسی کے پیار میں ہر مصیبت اُٹھائی.آج کا دن ان خواتین کے لئے وقف ہے جنہوں نے خدا کی محبت میں ہر مصیبت اُٹھائی اور خواتین ہی کے ذکر پر یہ تمام تقریر وقف رہے گی لیکن ذکر بہت لمبا ہے وقت تھوڑا ہے.کچھ واقعات تو میں بیان کر سکوں گا بقیہ آئندہ کے لئے اٹھارکھوں گا.واقعہ یہ ہے کہ جب بھی احمدیوں کے خلاف مظالم کی نئی تحریکات شروع ہوئیں مردوں کی قربانیوں کے ذکر تو عموماً ملتے ہیں لیکن عورتوں نے جو اپنی آنکھوں حال دیکھا، جو ان کے دل پر گذری اس کے تذکرے پوری وضاحت کے ساتھ پوری تفصیل کے ساتھ ہمارے ہاں محفوظ نہیں.چنانچہ میں نے صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ پاکستان سے درخواست کی کہ وہ خصوصیت سے ۷۴ء کے واقعات سے متعلق ان خواتین سے پوچھیں جو خدا کے فضل سے آج بھی زندہ موجود ہیں جن کے گھروں پر یہ مظالم کی داستانیں گزری ہیں، جنہوں نے اپنی آنکھوں سے اپنے خاوندوں، اپنے بھائیوں، اپنے بچوں کو شہید ہوتے دیکھا.جن کے گھر جلائے گئے ، جن کے سروں سے چادر میں اتار دی گئیں یا خاک آلودہ گھروں کو چھوڑ کر بغیر کسی ساز وسامان کے یہاں تک بغیر جوتیوں کے پیدل گھروں سے نکلیں ، ان کے دلوں پر کیا گزری تھی اور ان پر خود ان پر ایمان کی کیسی کیسی آزمائشیں آئیں اور کس طرح وہ ثابت قدم رہیں.یہ واقعات محترمہ صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ نے بڑی محنت سے اکٹھے کروائے اور ان کی صحت کے متعلق بھی بہت احتیاط برتی گئی ہے.کچھ خواتین باہر چلی گئی ہیں ان کے متعلق ان لوگوں نے بیان کیا ہے جو وہاں موجود ہیں.مگر انشاء اللہ تعالیٰ اللہ کے

Page 372

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۳۶۸ خطاب ۳۰ جولائی ۱۹۹۴ء فضل کے ساتھ جو بھی زندہ ہیں انشاء اللہ ان سب کے واقعات خودان کے قلم سے محفوظ کئے جائیں گے.یہ داستان بہت ہی درد ناک ہے اس لئے دعا کریں اللہ مجھے حوصلہ عطا فرمائے کہ اپنے ضبط کو قائم رکھتے ہوئے میں آپ کے سامنے کچھ واقعات بیان کرسکوں.جب میں سرسری نظر سے ان کو پڑھ رہا تھا تو دل کی کیفیت یہ تھی کہ: روکے ہوئے ہیں ضبط وتحمل کی قوتیں رگ رگ پھڑک رہی ہے دل ناصبور کی ان کا پڑھنا اتنا دو بھر تھا تو تصور کریں کہ وہ لوگ جو ان واقعات میں سے گزرے ہیں وہ خواتین جوان واقعات میں سے گزری ہیں ان کا کیا حال ہو ا ہوگا.مختلف نوعیت کے واقعات ہیں میں ان میں سے چند آپ کے سامنے رکھتا ہوں.☆ عد عائشہ بی بی اہلیہ مہر دین صاحب آف گوجرانوالہ بیان کرتی ہیں کہ ۷۴ ء میں جب گوجرانوالہ میں حالات خراب ہوئے تو میرے بیٹے منیر احمد کا ایک غیر احمدی دوست آیا اور کہنے لگا کہ صبح بہت خطرہ ہے راتوں رات کہیں چلے جائیں.میرے بیٹے نے کہا ہمیں کہیں جانے کی اجازت نہیں ہے ہم یہیں رہیں گے.میرے بیٹے بشیر نے مجھے اور میری بیٹی جمیلہ کو اپنے دوست کے گھر بھجوا دیا.بیان کرتی ہیں کہ میں نے عام حالات میں اپنے بیٹوں کو آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیا لیکن اس دن بیٹوں کو اس قدر خطر ناک حالات میں بے فکری سے چھوڑ کر چلی گئی.اس بات سے بے خبر کہ نہ جانے بیٹوں کے ساتھ کیا ہوگا.یہ اللہ ہی کا فضل تھا جو اس نے مجھے حوصلہ عطا فرمایا.صبح جلوس نے حملہ کر دیا.میرے بیٹے تمام دروازے مقفل کر کے چھت کے اوپر چلے گئے جہاں پہلے بھی پانچ آدمی موجود تھے.ہجوم نے ان پر پتھراؤ کیا.بچے چھت پر ادھر ادھر بھاگتے اپنے بچاؤ کی کوشش کرتے رہے لیکن کوئی بچنے کی صورت نہیں تھی.بارش کی طرح پتھر ہر طرف سے برس رہے تھے ، جو قریب کے اونچے کو ٹھے تھے وہاں سے بھی پتھراؤ ہو رہا تھا.وہ پچھلی گلی میں اترے تا کہ وہاں سے باہر نکل جائیں لیکن وہاں بھی ہجوم تھا.انہوں نے نیچے اترتے ہی ان پر حملہ کر دیا اور ڈنڈوں اور پتھروں سے مار مار کر میرے دونوں بیٹوں کو شہید کر دیا اور انہیں اینٹوں اور پتھروں کے ڈھیروں کے نیچے دبا دیا.اس موقع پر میرے بیٹے منیر احمد اور بشیر احمد کے علاوہ سعید احمد ، منظور احمد محمود احمد اور احمد علی قریشی بھی وہیں شہید ہوئے.سبھی کو ڈنڈوں اور اور پتھروں سے مار مار کر شہید کیا گیا اور اس طرح خدمت اسلام کے ایک نئے نمونے دنیا میں پیش

Page 373

حضرت خلیفہ صیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۳۶۹ خطاب ۳۰ جولائی ۱۹۹۴ء کئے گئے.جن لوگوں کو یہ انبیاء کہتے ہیں ان بے حیاؤں نے ان کی سنت پر نظر نہ ڈالی بلکہ ان ظالموں کی سنت کو اختیار کر لیا جو انبیاء کے ساتھ یہی سلوک کیا کرتے تھے.آپ بیان کرتی ہیں کہ اس قیامت کے گزرنے کا علم جب مجھے ہوا تو کچھ دیر کے لئے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے لیکن گھر والوں نے رونے نہ دیا کہ ہمارے رونے سے آواز باہر نکلے گی.حالت نا قابل بیان تھی، اس وقت تو مجھے کچھ علم نہ تھا کہ میرے بیٹوں نے کیسے جان دی اور ان پر کیا گزری بعد میں معلوم ہوا کہ بڑے ظالمانہ اور سفاکانہ طریق پر انہیں مارا گیا.ہمارا ہنستا بستا گھر اجڑ چکا تھا، بڑا کڑا امتحان تھا، دل و دماغ میں غموں کا ایک طوفان تھا، آنسو زار و قطار بہہ رہے تھے لیکن اونچی آواز سے کچھ کہنے سننے کی اجازت نہیں تھی.کہتی ہیں بعد میں حالات تبدیل ہوئے تو اس گھر میں رہنے کو دل نہ چاہتا تھا لیکن مجبورئی حالات ہمیں پھر اسی ویرانے میں لے آئی.پہلے ہی بہت غمزدہ تھے دوسرا اہل محلہ نے ہمارا بائیکاٹ کر دیا.یہ ان کی تعزیت تھی ، دکانداروں نے سودا سلف دینا بند کر دیا، تمام اشیاء بہت دور سے جا کر لاتے ، اہل محلہ ہمیں دیکھ کر راستہ بدل لیتے.ان حالات سے ہمیں اور بھی اذیت پہنچتی لیکن ہم نے صبر کا دامن نہ چھوڑا.یہ تو ہم سے غیروں کا سلوک تھا لیکن اپنے عزیز رشتہ دار جو غیر احمدی تھے انہوں نے بھی قطع تعلق کر لئے اور بار بار ہمیں یہی پیغام بھیجتے رہے کہ مذہب چھوڑ دو اسی کی وجہ سے تمہاری ساری بربادی ہے لیکن ہم نے کہا کہ جو قربانیاں ہمارے پیاروں نے مذہب کی خاطر دی ہیں ہم کسی قیمت بھی ان قربانیوں کو ضائع نہیں ہونے دیں گے.تمہارا بس چلے تو ہماری جانیں لے لو، تمہارا بس چلے تو دوبارہ ان گھروں کو ویران کر دو مگر ہمارے دلوں کو ویران نہیں کر سکتے.ان میں جو ایمان بستا ہے وہ ہمیشہ زندہ رہے گا اور اسی ایمان کے برتے تو ہم زندہ ہیں.یہ ایک احمدی خاتون کی داستان ہے جو اس کے دل پر بیتی ، اس کے جسم پر گزری اس نے اپنے دونوں جوان بیٹوں کو اس طرح شہید ہوتے دیکھا اور اس طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے اُسی کی دی ہوئی توفیق سے صبر کی توفیق پائی.پس اللہ تعالیٰ جو فرماتا ہے کہ صبر کرو مگر ساتھ ہی صبر کے ساتھ یہ ارشاد فرمایا وَ اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة کہ صبر کی توفیق تمہیں نہیں مل سکتی جب تک اللہ سے مدد نہ مانگو.ان حالات میں صبر کرنا ناممکن دکھائی دیتا ہے، پس آئندہ بھی جب بھی خدا تعالیٰ جماعت کو آزمانا چاہے گا تو ہمارے دل کی آواز یہی ہوگی کہ ع راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تیری رضا ہو

Page 374

حضرت خلیفہ مسیح الرابع سے مستورات سے خطابات ۳۷۰ ☆ خطاب ۳۰ جولائی ۱۹۹۴ء مگر راضی برضا ر ہنے کے لئے بھی تو اللہ کی مدد کی ضرورت ہے.صبر اختیار کرنے کے لئے بھی اسی سے توفیق ملتی ہے اس لئے ہر آئندہ وقت کے لئے ابھی سے امن کے زمانوں میں دعائیں کرنی چاہئیں کہ اگر اللہ کسی آزمائش میں ڈالنے کا فیصلہ فرمالے تو پھر ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ ہمارے سر اس کے حضور خم رہیں اور دل ہر حال میں راضی برضا ر ہے اور ہمیں صبر کے اعلیٰ نمونے پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائے.یہاں تک کہ خدا کی تقدیر ہمارے حق میں کہے کہ اللہ تمہارے ساتھ ہے اور اللہ تمہارا ساتھ کبھی نہیں چھوڑے گا.سید احمد علی صاحب کی بیٹی نفیہ لکھتی ہیں کہ گوجرانوالہ میں بپھرے ہوئے ہجوم اور مولویوں کے جلوس نے بہت تباہی مچائی ، گھروں کو جلایا ، پتھراؤ کیا.اس فساد میں ہم چار بہنیں اور امی جان حیران و پریشان چھت پر چڑھیں تو اچانک جلوس کی ایک ٹولی ہمارے گھر کی طرف بڑھی اور کہنے لگی یہ مرزائیوں کے مربی کا گھر ہے پہلے اسے آگ لگاؤ.بھائی سید ولی احمد صادق اور میرے ابا جان مربی سلسلہ دونوں ہی مسجد میں تھے اور مسجد دشمنوں کے گھیرے میں تھی اس لئے ان کے آنے کی بھی کوئی امید نہ تھی مگر کسی طرح ہماری فکر میں وہ مسجد سے نکل آئے اور ہم چاروں بہنوں کو ایک قریبی احمدی محمود احمد صاحب امینی کے گھر چھوڑ آئے.یہ عشاء کے قریب کا وقت تھا.جب چاروں بہنیں امینی صاحب کے گھر پہنچیں تو دیکھا کہ دیگر احمدی گھروں کی لڑکیاں اور عورتیں بھی وہاں موجود تھیں.وہ بیان کرتی ہیں کہ ہم چھت پر بیٹھ کر ایمان کی سلامتی اور احمدیت کی ترقی کے لئے دعائیں کیا کرتی تھیں.یعنی ان دنوں میں سب سے بڑی فکر ایمان کی سلامتی کی تھی اور پھر احمدیت کی ترقی کا فکر تھا جو ان کو اس وقت خدا کے حضور گریہ وزاری کرنے پر آمادہ کر رہا تھا.کسی اور ذاتی منفعت کا کوئی خیال ان کے دل سے نہیں گزرا.یکم جون کو تقریباً صبح کے پونے چار بجے پانچ رائفل بر دارا مینی صاحب کے گھر کی چھت پر آگئے جنہیں دیکھتے ہی مرد اور عورتیں چوبارہ کے کمروں میں چلی گئیں.کمرے صرف دو تھے ایک میں مرد اور ایک میں عورتیں جمع ہو گئیں.حملہ آور سر پر آپہنچے ، ان کی رائفلیں شعلے برسانے لگیں.آہ وفغاں کا ایک شور بلند ہوا اور ہماری چشم تصور میں ۱۹۴۷ء کا منظر گھوم گیا جب سکھ پنجاب میں مسلمانوں کو اس طرح ظلم کے ساتھ تہہ تیغ کر رہے تھے مگر وہ تو غیر مسلم تھے.وہ دن اور تھے جبکہ مسلمانوں اور ہندوؤں اور سکھوں میں سیاسی مخالفت کی وجہ سے ایک جنون کا دور تھا، دونوں طرف ہی مظالم ہورہے تھے مگر آج ایک ایسا دور تھا کہ آزاد پاکستان میں ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے خون سے ہاتھ رنگ رہا تھا.

Page 375

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۳۷۱ خطاب ۳۰ جولائی ۱۹۹۴ء گولیاں چل رہی تھیں ، دروازے ٹوٹنے کی آواز میں آرہی تھی ، ہم اپنے کمزور ہاتھوں سے دروازوں کو تھامتے رہے، اس وقت ہماری حالت یہ تھی کہ ہم کہہ نہیں سکتے تھے کہ ہم دنیا کو دوبارہ دیکھ سکیں گے.ہاتھ پاؤں پر رعشہ طاری تھا ایسی ایک کیفیت تھی کہ بیان سے باہر ہے.اچانک مردوں کی جانب کا دروازہ ٹوٹا جہاں محمود صاحب اور ان کے نوجوان بھانجے اشرف صاحب تھے.چندلمحوں کے بعد ان کی آوازوں سے پتہ چلا کہ وہ ماموں اور بھانجا خاک و خون میں لتھڑے ہوئے تڑپ رے ہیں.ایسا منظر تھا کہ کلیجہ منہ کو آتا تھا.اشرف محمود صاحب کی ٹانگ سے خون کے فوارے بہہ رہے تھے ان کی اہلیہ صاحبہ چھت پھلانگ کر اپنے غیر احمدی عزیز کے ہاں گئیں اور کہا کہ ہمارے گھر میں گولیاں برسائی جارہی ہیں.میرا میاں اور ان کا بھانجا سخت زخمی حالت میں تڑپ رہے ہیں آپ کچھ مددکریں مگر ان کا جواب تھا تمہارے ساتھ ہم کیوں جانیں گنوائیں.حملہ آور تو چلے گئے مگر زخمیوں کی چیخوں سے اور در دو کراہ سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ آسمان تھرا رہا ہے.ان کی یہ حالت دیکھ کر ہمارے ضبط کے بندھ ٹوٹ گئے ہم نے ان کے منہ میں پانی ڈالا.فون پر پولیس سے رابطہ کیا صورت حال سے ان کا آگاہ کیا.پولیس تو ایسی غائب ہوئی کہ جیسے ڈھونڈے سے ان کا نشان نہ ملے اور صرف دعا ئیں تھیں جو ہمارا سہارا بنیں.پھر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہم کسی طریق سے ان کو ہسپتال پہنچانے میں کامیاب ہو گئے اور خدا کا یہ فضل ہوا کہ محمود صاحب جو آج کل انگلستان کی جماعت میں ہیں بریڈ فورڈ جماعت میں رہتے ہیں ایک ٹانگ ہے ان کی وہ اس واقعہ کے ایک زندہ گواہ ہیں.عمار حکیم نظام جان صاحب کے بچوں کے گھر کو جب آگ لگائی گئی تو سب اہل خانہ نچلی منزل پر تھے جو دوسری منزل پر چلے گئے.جلوس نے یہاں بھی پیچھا نہ چھوڑا دوسری منزل کو بھی آگ لگادی.باہر نکلنے کے راستے بند تھے، سڑک پر ہزاروں کا مجمع سخت گندی گالیاں دیتا ہوا اور جوش سے منہ سے جھا گیں نکالتا ہوا، ان کو موت کی دھمکیاں دیتا ہوا ، شور و غوغا کر رہا تھا اور عجیب خوفناک آواز میں وہاں سے آرہی تھیں.پھر یہ لوگ تیسری منزل پر جا پہنچے تو تیسری منزل بھی آگ کی لپیٹ میں آ گئی.اب نیچے اترنے کے لئے کوئی راستہ نہ تھا اور آگ بڑی تیزی سے پھیل رہی تھی.بچے سہم سہم کر بڑوں سے چھٹے ہوئے تھے اور ہمارے پاس دعا کے سوا اور کوئی آسرا نہ تھا.نیچے گلی میں ہجوم منتظر تھا کہ کب یہ جل کر خاک ہو جائیں اور ان کے ملبے کے ساتھ ان کی جھلسی ہوئی لاشیں بھی زمین پر آگریں.کہتے ہیں اس موقع پر سامنے کے گھر والوں کے دل کو اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف مائل فرما دیا اور انہوں

Page 376

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات خطاب ۳۰ جولائی ۱۹۹۴ء نے لکڑی کا ایک تختہ گھر کی چھت سے آگے بڑھا کر ہماری چھت کے کنارے پر لگا دیا.وہ باریک سا تختہ تھا عام حالات میں کسی کو جرات نہیں ہو سکتی تھی کہ اس تختے پر چل کر وہ گلی پار کرے لیکن خدا نے ہمت دی.وہ کہتی ہیں کہ نیچے سے شور بپا ہورہا تھا اور ہم ایک ایک کر کے اس تختے پر چلتے ہوئے دوسری ☆ منزل میں جا پہنچے.ہیے پھر وہ ( راضیہ سید بنت سید احمد علی صاحب.مرتب ) کہتی ہیں کہ نیچے بلوائیوں نے امی کو آواز دے کر کہا کہ کلمہ پڑھ لو ابھی بھی وقت ہے تو انہوں نے کہا ”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ انہوں نے کہا مرزائن ! ہمارا کلمہ پڑھو.انہوں نے کہا ہمیں تو اپنا کلمہ آتا ہے تمہار کلمہ کچھ اور ہے تو پتہ نہیں ہم تو یہی کلمہ جانتی ہیں.پھر اس نے کہا کہ اچھا مرز اصاحب کو گالی دو.بہن نے جواب دیا تم ہماری جان لے لو، ہمارا ایمان نہیں چھین سکتے.محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا کلمہ پڑھنا تھا تو خدا کی توحید کا اقرار کرنا تھا وہ ہم نے کر دیا ہے لیکن اس اقرار میں جو تعلیم ہمیں دی گئی ہے اس تعلیم کو ہم قربان نہیں کر سکتے اس لئے اب جو کچھ حاضر ہے ہم پیش کر رہے ہیں.جو کچھ تم نے ہماری قربانی لینی ہے لے لو لیکن ہم کسی قیمت پر بھی حضرت مرزا صاحب کو جن کو ہم خدا کا سچا مرسل یقین کرتے ہیں ان کو گالی نہیں دیں گے.یہ واقعہ جو ہے یہ اس چھت کا واقعہ نہیں ہے بلکہ ایک اور واقعہ شروع ہو چکا ہے اس لئے میں غلط فہمی دور کر دوں.میں نے بھی جب پڑھا تو پہلے کے تسلسل میں پڑھا تھا.یوں معلوم ہوتا تھا جیسے نیچے سے کسی نے آواز دی ہے لیکن وہ واقعہ وہاں ختم ہو گیا تھا.غالبا اس وقت کسی نیچے والے کی نظر نہیں پڑی کہ تیسری منزل پر ایک چھوٹا سا عبوری تختہ لگا دیا گیا ہے.یہ ایک دوسرا واقعہ شروع ہو چکا ہے.یہ مجمع کے گھیرے میں آئی ہوئی احمدی خواتین تھیں جو اپنی سرگزشت بتارہی ہیں ہم پر کیا گزری.کہتی ہیں جب بہن نے یہ کہا کہ پھر جو کچھ کر سکتے ہوں کر گز رو مگر ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالی نہیں دیں گے.اس پر ایک غنڈے نے بہن کو تھپڑ مارا اور دوسرے نے ڈنڈے برسائے.اتنے میں ایک شخص نے کمانی دار چا تو پکڑا اور ابا جان کو کھینچ کر باہر لے جانے لگا اور کہنے لگا کہ یہی ان کا مربی ہے پہلے اسے ختم کرو.بہن زخمی حالت میں بھاگ کر ساتھ والے مکان میں چلی گئی مگر وہاں کی خواتین نے یہ کہہ کر دھکے دے کر نکال دیا کہ اپنے ساتھ ہمیں بھی مرواؤ گی.پھر وہ ایک اور مکان میں گئیں لیکن انہوں نے بھی پناہ دینے سے انکار کر دیا.اس پر میری بہن نے اس مکان کے چھت سے پھلانگ کر گلی پار کی یعنی واپس اپنے مکان میں گئی ہیں اور پانچ فٹ کا فاصلہ تھا دونوں چھتوں کے درمیان.تو عجیب

Page 377

حضرت خلیفہ صیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۳۷۳ خطاب ۳۰ جولائی ۱۹۹۴ء خدا نے اس کو ہمت عطا فرمائی کہ وہ پانچ فٹ کی چھلانگ لگا کر دوسرے مکان میں گئیں اور وہاں سے پھر دوسرا راستہ اختیار کر کے اس نے اپنی جان اور عزت بچائی.* میرے ایک کلاس فیلو اور عزیز دوست تھے محمد افضل شہید.ان کی بیگم سعیدہ افضل آج کل کینیڈا میں ہیں.میں نے ہدایت کی تھی کہ براہ راست ان سے یہ واقعہ منگوائیں کیونکہ لجنہ ربوہ کی طرف سے شنید کے طور پر یہ واقعہ آیا تھا.اب وہ واقعہ موصول ہو گیا ہے.وہ بیان کرتی ہیں کہ شہادت سے چند روز پہلے کی بات ہے کہ افضل شہید عشاء کی نماز پڑھ کر گھر واپس آئے تو میں بستر پر بیٹھی رورہی تھی.دیکھ کر کہنے لگے سعیدہ کیوں رورہی ہو.میں نے کہا یہ کتاب روشن ستارے“ پڑھ رہی تھی اور میرے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ کاش میں بھی حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں ہوتی اور میرا نام بھی کسی نہ کسی رنگ میں ایسے روشن ستاروں میں شمار ہو جاتا.اس پر افضل کہنے لگے یہ آخرین کا زمانہ ہے اللہ کے حضور قربانیاں پیش کرو تو تم بھی اولین سے مل سکتی ہو اور پہلوں میں شمار ہوسکتی ہو.مجھے کیا خبر تھی کہ کتنی جلدی اللہ میری آرزو کو کس رنگ میں پورا کرے گا اور کتنی دردناک قربانیوں میں سے مجھے گزرنا پڑے گا.کہتی ہیں اللہ بہتر جانتا ہے کہ کس حسرت کے ساتھ میری یہ خواہش دل سے نکلی جو ایک ہفتے کے اندر اندر حقیقت بن گئی.۳۱ رمئی کی رات احمدیوں کے خلاف فسادات کا جوش تھا، ساری رات جاگ کر دعائیں کرتی گزرگئی ، اپنا دفاع کرتے رہے.مجھے یہ وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ میرے شوہر اور بیٹے کے ساتھ یہ میری آخری رات ہے.یکم جون کو جلوس نے حملہ کر دیا، عورتوں کو افضل نے ہمسائیوں کے گھر بھیج دیا اور خود باپ بیٹا گھر پر ٹھہر گئے کیونکہ اس وقت ہدایت یہی تھی کہ کوئی مرد اپنا گھر نہیں چھوڑے گا اور عورتوں اور بچوں کو بچانے کی خاطر ان کو بے شک محفوظ جگہوں میں پہنچا دیا جائے.کہتی ہیں سارا دن شور بپار ہا اور حملہ ہوتا رہا.توڑ پھوڑ کی آوازیں آتی رہیں مگر ہمیں کچھ پتہ نہ تھا کہ باپ بیٹے پر کیا گزری اور ظالموں نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا.رات ہمیں ایک اور گھر منتقل کر دیا گیا.وہاں میں اپنے خاوند افضل صاحب اور بیٹے اشرف کا انتظار کرتی رہی.رات گیارہ بجے مجھے بتایا گیا کہ دونوں باپ بیٹا شہید ہو گئے ہیں.بعد میں معلوم ہوا کہ انہیں بڑے دردناک طریقے سے مارا گیا تھا.چھرے مارے گئے ، انتڑیاں باہر نکل آئیں، پھر اینٹوں سے سر کوٹے گئے.اس طرح پہلے بیٹے کو باپ کے سامنے مارا گیا ، جب اس نوجوان بیٹے کو اس طرح پھل کھل کر مارا گیا تو پھر باپ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اب بھی ایمان لے آؤ اور مرزا غلام احمد قادیانی کو گندی گالیاں دو.

Page 378

حضرت خلیفہ مسح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۳۷۴ خطاب ۳۰ ر جولائی ۱۹۹۴ء یہ ایمان ہے ان لوگوں کا.آج تک میں نے کسی مذہب کی تاریخ میں ایمان کی نشانی یہ نہیں پڑھی کہ کسی اور کو گالیاں دو.قرآن کریم تو فرماتا ہے کہ بتوں کو بھی گالیاں نہ دو، جھوٹے خداؤں کو بھی گالیاں نہ دو اس لئے یہ تو ظاہر وباہر ہے کہ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مذہب اسلام نہیں تھا کسی اور کا مذہب تھا جس کی یہ پیروی کر رہے تھے.افضل نے یہ جواب دیا اور یہ جواب ایک غیر احمدی کی طرف سے ہمیں پہلے پہنچا تھا جو موقع کا گواہ تھا اور وہ واقعہ دیکھ کر اپنے حواس کھو بیٹھا تھا.شامل تو تھا مجمع میں لیکن اس کے دماغ پر ایسا اثر پڑا کہ کئی مہینے تک پاگل رہا.پھر رفتہ رفتہ اسے ہوش آئی.جب صدمہ برداشت کیا تو اس نے احمدیوں کو بتایا کہ مجھے کیا ہوا تھا.کہتا ہے میں نے یہ واقع اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے.جب افضل کی طرف رخ کیا اور اسے کہا کہ اپنا ایمان چھوڑ دو اس نے کہا تم مجھے اپنے بیٹے سے بھی کمزور ایمان والا سمجھتے ہو.جس نے میرے سامنے اس بہادری سے جان دی ہے.جب آخر وقت تک سکتے ہوئے وہ پانی مانگ رہا تھا تو گھر پر جو عمارت کے لئے ریت پڑی تھی وہ اس کے منہ میں ڈالی گئی اور باپ نے یہ نظارہ دیکھا.اس نے کہا جو چاہو کر لواس سے بدتر سلوک مجھ سے کرومگر میں اپنے ایمان سے متزلزل نہیں ہوں گا.اس پر ان کو اسی طرح نہایت ہی درد ناک عذاب دے کر شہید کیا گیا اور پھر ان کو نگا کر کے ان کی نعشیں تیسری منزل سے اپنے گھر سے نیچے پھینک دی گئیں اور سارا دن کسی کو اجازت نہیں تھی کہ وہ ان نعشوں کو اُٹھا سکے.یہ وہ بربریت ہے جس کو یہ بد بخت لوگ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف منسوب کرتے ہیں.اس سے بڑی بے حیائی اسلام کے نام پر شاید کبھی نہ کی گئی ہو.محمد رسول اللہ کی طرف اُسوہ منسوب کرتے ہوئے یہ بدکارانہ سلوک ، یہ وحشیانہ سلوک، جو نبیوں کے دشمنوں نے ان سے کیا ہے کم کیا ہے.پرستار تھے.دیکھتی ہیں لوگ ان پر پتھر برساتے رہے ، لاشیں ٹھیٹتے پھرتے تھے.یہ لوگ اسلام کے چوہدری منظور احمد صاحب بھی گوجرانوالہ ہی میں شہید ہوئے.ان کی بیوہ محترمہ صفیہ صدیقہ صاحبہ بھتی ہیں کہ جون ۱۹۷۴ء میں جب حالات خراب ہوئے تو پولیس میرے بیٹے مقصود احمد کو ایک مولوی کے کہنے پر دوکان سے گرفتار کر کے لے گئی اور حوالات میں بند کر دیا.اگلے دن جلوس نے گھروں پر حملہ کر دیا.عورتوں کو ایک احمدی گھر جو بظاہر محفوظ تھا پہنچادیا گیا.شام تک ہمیں گھر کی کوئی خبر

Page 379

حضرت خلیفہ اسح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۳۷۵ خطاب ۳۰ جولائی ۱۹۹۴ء نہ ملی.بعض لوگوں نے بتایا کہ ہمارے گھروں کو جلوس نے آگ لگادی ہے اور وہاں پر موجود تمام افراد زخمی ہو گئے ہیں حالانکہ اس وقت ان کو سب کی شہادت کی اطلاع مل چکی تھی.یعنی ہماری دلداری کی خاطر کہ ہمیں زیادہ صدمہ نہ پہنچے باوجود ان کی شہادت کی اطلاع کے صرف اتنا بتایا گیا کہ وہ زخمی ہیں.اس شام کو جب ایک ٹرک چھ شہیدوں کو لے کر را ہوالی پہنچا تو اس وقت ہمیں پتہ چلا کہ ہمارے پیارے تو شہید ہو چکے ہیں اور ان کی لاشیں اس ٹرک میں موجود ہیں مگر جلوس ٹرک کے پیچھے تھا، نہ جانے وہ ان لاشوں سے مزید کیا سلوک کرنا چاہتے تھے جنہیں پہلے ہی ڈنڈے اور پتھر مار مار کر شہید کیا گیا تھا.ٹرک ان لاشوں کو لے کر چلا گیا وہاں سے پیچھے چھوڑا ہی نہیں وہاں.یہ میرا اندازہ ہے لکھا ہوا ہے کہ جلوس کے خطرے سے وہ لاشوں کو لے کر آگے بڑھ گیا.وہاں سے میں اور میری بیٹی انیسہ اپنے پیاروں کے آخری دیدار سے بھی محروم رہے.ہم ان کے چہرے بھی نہ دیکھ سکے، میرا خوبصورت پاک طینت لخت جگر محمود احمد اور بیٹی کا جواں سہاگ ، میرا پیارا داماد سعید احمد بھی اپنی حقیقی معبود ومحبوب کے حضور حاضر ہو گئے.یہ لمحے قیامت کے لمحے تھے.بتانا چاہوں تو کیسے بتا سکوں گی، جس کا خاوند شہید ہوا، جس کا بیٹا شہید ہوا، جس کا داماد شہید ہوا سب کچھ لٹا کے بیٹھی تھی اور اپنے ایمان کی حفاظت کر رہی تھی.اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے خدا سے دعا گو تھی.کہتی ہیں تم مجھ سے پوچھتی ہو کہ میں بتاؤں کہ مجھ پر کیا گزری.تم بتاؤ میں کیسے بتاسکتی ہوں کہ مجھ پر کیا گزری ہوگی.یہ تین تو اللہ کو پیارے ہو گئے چھوٹا بیٹا شدید زخمی تھا.بڑا بیٹا حوالات میں بند تھا.اسے کچھ معلوم نہ تھا کہ اس کا باپ، چھوٹا بھائی ، بہنوئی تو شہید ہو چکے ہیں.ان کی ماں بہن نہ جانے کس حال میں ہیں.یہ اللہ ہی تھا جس نے ہمیں صبر کی توفیق عطا فرمائی.صفیہ صدیقہ صاحبہ اپنے بیٹے کی شہادت کا واقعہ جب بعد میں انہوں نے لوگوں سے سنا وہ بیان کرتے ہوئے بھتی ہیں.یکم جون کو جو جلوس سول لائن سے ہمارے گھروں اور مسجدوں پر حملہ آور تھا اس کے ساتھ جو پولیس تھی اس کا ایک سپاہی راہوالی کا رہنے والا تھا.اس نے بتایا کہ میں بہت سے جائے حادثات پر گیا ہوں میں نے ذاتی مفاد کی خاطر اور دس دس روپے کی خاطر ایک دوسرے کی جان لیتے ہوئے سڑک پر نشے غفلت اور لا پرواہی کی نتیجے میں گاڑیاں چلانے والوں کو بھی مارتے اور مرتے دیکھا ہے لیکن یکم جون کو سول لائن میں ایک گھر کی چھت پر جو معرکہ گزرا وہ آج سے چودہ سو سال پہلے اسلام کی تاریخ میں گزرا تھا اور اس عرصے میں شاید دنیا نے بھی ایسا واقعہ نہیں دیکھا.وہ کہتے ہیں کہ وہ

Page 380

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات خطاب ۳۰ جولائی ۱۹۹۴ء پولیس کا سپاہی ان کو بتارہا ہے کہ اس دن مجھے معلوم ہوا کہ صحابہ اسلام پر کیسے جان نثار کیا کرتے تھے.اس نے کہا میں اس لڑکے کو کبھی بھلا نہیں سکوں گا جس کی عمر بمشکل سترہ اٹھارہ برس ہوگی.سفید رنگ، لمبا قد اس کے ہاتھوں میں بندوق تھی.ہمارے ایک ساتھی نے جاتے ہی اس کے ہاتھ پر ڈنڈا مارا اور بندوق چھین لی ، جلوس اس لڑکے پر تشدد کر رہا تھا.جلوس میں سے کسی نے کہا ”مسلمان ہو جاؤ اور کلمہ پڑھو اس نے کہا ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ اور میں سچا احمدی ہوں ،مسلمان ہوں.جلوس میں سے کسی نے کہا مرزا کو گالیاں دو اس لڑکے نے اپنے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا یہ کام میں کبھی نہیں کروں گا اور ان کی ایک نہ سنی.اس نے کہا تم مجھے اس ہستی کو گالیاں دینے کے بارے میں کہہ رہے ہو جو اس جان سے بھی پیارا ہے اور ساتھ ہی اس نے مسیح موعود زندہ با داور احمد بیت زندہ باد کا نعرہ لگایا.نعرہ لگانے کی دیر تھی کہ جلوس نے اس لڑکے کو چھت پر سے اٹھا کر نیچے پھینک دیا اینٹوں اور پتھروں کی بارش شروع ہوگئی.مزید چھت پر بنے پردوں کی جالیاں تو ڑ کر اس پر پھینکیں اور اس لڑکے نے میرے سامنے اپنے مذہب پر اور صداقت پر جان شار کر دی.یہ واقعہ ہے جو اس پولیس والے نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس نے گواہی دی کہ میں یقین کرتا ہوں کہ محمد رسول اللہ کے زمانے کے بعد بیچ کا زمانہ ایسی مثالوں سے خالی ہوگا.کہتا ہے آج مجھے پتہ لگا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صحابہ کس طرح دین کی خاطر اپنی جانیں فدا کیا کرتے تھے.اس کی یاد میں بھی انہوں نے کچھ باتیں لکھی ہیں.کہتی ہیں بیٹا محمود نہایت خوبصورت ،خوب سیرت ، پاک طینت تھا.وہ بچپن ہی سے سب کا ہمدرد اور ہر کسی کے دکھ درد میں کام آنے والا تھا، وہ بچپن ہی سے پانچ وقت کی نمازیں مسجد میں جا کر ادا کیا کرتا تھا، باپ کی طرح باغیرت اور تبلیغ کا دھنی تھا.جس دن اس کے ایف اے کے امتحان ختم ہوئے تو مجھ سے کہنے لگا کہ امی دعا کریں میں اعلیٰ نمبروں میں کامیاب ہو جاؤں تا کہ میں فوج میں کمیشن حاصل کروں.اس وقت میں نے کہا تم جیسے بہادر جو شیلے جو ان کی تو جماعت کو بہت ضرورت ہے تو کہنے لگا میں فوج میں رہتے ہوئے تبلیغ سے غافل نہیں رہوں گا.کیا آپ نہیں چاہتیں کہ میں وطن کی خدمت کروں اور قادیان بھی تو ہم ہی نے واپس لینا ہے.اگر میں شہید ہو گیا تو آپ شہید کی ماں کہلائیں گی ، اگر فتح یاب لوٹا تو غازی کی ماں.یہ میرا بیٹا شہید ہوا اور ظالموں نے بڑے دردناک طریق سے اس کو مارا مگر یہ شہادت ایک عظیم شہادت ہے جو کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے.

Page 381

حضرت خلیفہ صیح الرابع' کے مستورات سے خطابات خطاب ۳۰ جولائی ۱۹۹۴ء ہ مکرمہ رشیدہ بیگم صاحبہ جن کے شوہر قریشی محمود احمد صاحب شہید کئے گئے لکھتی ہیں که قریشی محمود کو شہادت کا شوق ہی بہت تھا.۱۹۷۴ء میں احمدیوں کی مخالفت زوروں پر تھی مگر آپ نے ہر موقع پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا.یہ مخالفت کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی گئی اور آپ کے ماموں زاد بھائی مقبول احمد کو فروری ۱۹۸۲ء میں پنوں عاقل میں شہید کر دیا گیا.جب اپنے بھائی کو بہشتی مقبرے میں قبر میں اتار رہے تھے تو کہا اے مقبول ! یہ رتبہ خوش نصیبوں کو نصیب ہوتا ہے کاش مجھے بھی یہ رتبہ حاصل ہو جائے اور میں بھی یہیں پر آؤں.ربوہ سے واپسی پر وہاں کی پولیس نے آپ سے کہا کہ آپ اپنی زمینیں فروخت کر کے کہیں اور چلے جائیں کیونکہ پہلے ہی آپ کے رشتے دار بھائی کو شہید کیا جاچکا ہے.ہم مولویوں کی وجہ سے مجبور ہیں اور کچھ نہیں کر سکتے.انہوں نے کہا احمد بیت کی مخالفت تو ہر جگہ ہے، ہر جگہ دشمن موجود ہے اگر شہادت مجھے ملنی ہے تو یہاں کیوں نہ ملے.آپ کے چار بیٹے اور چھ بیٹیاں ہیں.دو بیٹے سکول جاتے تو مولویوں کے کہنے پر ان کو کچھ لڑ کے پتھر مارتے اور گالیاں دیتے اور سکول کے اساتذہ بھی مذہبی مخالفت کی بناء پر زیادہ بختی کرتے.ان حالات میں تعلیم جاری رکھنا مشکل ہو گیا.اکثر گروہوں کی شکل میں لڑکے آتے اور گھروں پر بھی فائر کرتے.دشمن رات کو چھپ کر ہمارے کھیتوں کے پانی بھی بند کر دیتے.پھر پکی ہوئی فصلوں کو بھی آگ لگا دیتے یا کاٹ کر اجاڑ جاتے تا کہ ان پر ذریعہ معاش تنگ ہو جائے اور کسی طرح یہ یا احمدیت سے تو بہ کر لیں یا یہ سب چیزیں چھوڑ کر کہیں نکل جائیں.کہتی ہیں کہ ایک رات دروازہ کھٹکا ، جیٹھ کا بیٹا سعید باہر گیا.جب دیر تک واپس نہ آیا تو آپ کے شوہر قریشی محمود احمد صاحب باہر گئے دیکھا کہ دو آدمی لوہے کی موٹی سلاخ سے سعید کو مار رہے ہیں.انہیں لوگوں کو قریشی صاحب کو شہید کرنے کے لئے مقرر کیا گیا تھا.ایک طرف گندم کاٹ کر رکھی ہوئی تھی اس کو مولویوں کے آدمیوں نے آگ لگادی.مولوی بازار میں لوگوں کو بھڑکا کر کہ محمود قادیانی کو قتل کرنا واجب اور ثواب ہے ساتھ ہی کہتے رہے کہ دیکھو قادیانی کتنے ڈھیٹ ہیں.ہم یہ سب کچھ ان پر کر رہے ہیں لیکن مذہب نہیں چھوڑتے.آپ بیان کرتی ہیں کہ میرے شوہر نے دین کی خاطر مرنا قبول کر لیا اور دین کو ہمیشہ دنیا پر مقدم رکھا.آخر رمضان کا مہینہ آ گیا.مخالفت زوروں پر تھی مولوی مساجد میں غلیظ زبان استعمال کرتے.جب انہوں نے سب حربے آزما لئے اور سخت نا کامی کا منہ دیکھنا پڑا تو آخر ایک رات وہ اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب ہو گئے.۲۹ جولائی شام سات بجے ۱۹۸۵ء کو جب ایک ہندو دوست کے کام سے باہر جانے لگے تو آپ کی اہلیہ نے کہا کہ واپسی پر رستہ

Page 382

خطاب ۳۰ جولائی ۱۹۹۴ء حضرت خلیفہ صیح الرابع" کے مستورات سے خطابات بدل لیں کیونکہ دشمن تاک میں رہتا ہے.انہوں نے کہا جو رات مجھے قبر میں آنی ہے وہ باہر نہیں آسکتی.جب تک میری زندگی خدا نے لکھی ہے وہ مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتے.ایک دن ایک دوست کو ملنے گئے آپ کا چودہ سالہ بیٹا بھی ساتھ تھا واپسی پر تین آدمیوں نے اچانک ایک گلی سے نکل کر آپ پر حملہ کر دیا اور وہیں شہید کر دیا.شہادت کے وقت اپنے بیٹے سے کہا کہ بیٹے احمدیت نہ چھوڑ نا خواہ تمہیں بھی جان دینی پڑے.پھر بیان کرتی ہیں کہ جس رات آپ کے شوہر کی میت کور بوہ پہنچایا گیا اس رات آپ کے گھر زبردست فائرنگ ہوئی مگر خدا کے فضل سے سب محفوظ رہے.آپ بتاتی ہیں کہ بچیوں کا سر فخر سے بلند رہتا ہے کہ ہمارے والد نے شہادت کا رتبہ حاصل کر لیا اور کہتی ہیں کہ موت تو ایک اہل حقیقت ہے کسی اور طریق سے بھی تو آسکتی تھی.رخسانہ طارق جولائی ۱۹۸۶ء میں عید کے دن شہید کی گئیں.رخسانہ کے والد بتاتے ہیں کہ شادی سے چند روز قبل اس نے ایک خواب دیکھی کہ میں اپنے کمرے میں بیٹھی ہوں اور حضور انور تشریف لائے ہیں اور کمرے کے باہر کی طرف کھڑکی کے راستے میرے سر پر ہاتھ پھیرا ہے جیسے بزرگ بچوں سے پیار کرتے ہیں.یہ خواب بیان کر کے وہ بہت خوش ہوئی.ایک عجیب بات جو میں نے رخسانہ میں دیکھی وہ شادی کے چند دن بعد ہی اپنا جہیز بانٹنے لگی.مجھ سے اجازت لے کر سارا سامان غریب لڑکیوں میں تقسیم کر دیا.پوچھنے پر کہنے لگی کہ میں نے اپنی امی جان سے کہا تھا کہ مجھے صرف دو چار پائی وغیرہ دے دیں زندگی ایسے ہی فانی ہے اس کا کیا بھروسہ ہے.جتنی بھی غریبوں کی خدمت کرلوں مجھے راحت نصیب ہوتی ہے.طارق بتاتے ہیں کہ غریبوں کی خدمت کر کے اس کے چہرے پر اتنی خوشی ہوتی تھی جیسے سورج نکل آیا ہو.جولائی ۸۶ء میں عید ہی کا دن تھا.رخسانہ نے عید پر جانے کا ارادہ ظاہر کیا طارق کے بڑے بھائی نے مخالفت کی اور ڈانٹ کر منع کر دیا.وہ طارق سے کہنے لگی کہ ہم ربوہ چلے جاتے ہیں وہاں اپنا گھر بنا لیتے ہیں.پھر وہ پرانے کپڑوں میں ہی عید کی نماز کے لئے چلی گئی حالانکہ شادی کے بعد یہ اس کی پہلی عید تھی.عید کی نماز میں وہ بہت روئی اور گھر واپس آتے ہوئے بہت خوش تھی سب کے لئے ناشتہ تیار کیا.ان کے خاوند بتاتے ہیں کہ میں حیران تھا آج اتنی خوش کیوں ہے.وہ گھر میں سب کو خوشی سے ملی ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہ اس کے آخری لمحات ہیں.طارق کا بڑا بھائی آیا اور آتے ہی رخسانہ پر گولیوں کی بارش برسادی.طارق کہتے ہیں کہ مجھے اکثر کہا کرتی تھی کہ جب میں اللہ کو پیاری ہو جاؤں تو مجھے پہاڑوں کے دامن میں دفن کرنا.وہ ربوہ ہی کے

Page 383

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات پہاڑ تھے جہاں پہ بالآخر وہ دفن کی گئی.خطاب ۳۰ جولائی ۱۹۹۴ء مقبول شہید صاحب کی بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ میرے شوہر مقبول احمد نے ۱۹۶۷ء میں بیعت کی تھی.احمدیت قبول کرنے کے بعد مولوی آپ کو بہت تنگ کرتے تھے.دھمکیاں دیتے ، رات کو گھر میں پتھراؤ کرتے دروازے کھٹکھٹاتے.آپ کا لکڑی کا آرا تھا ایک دن ایک نقاب پوش شخص لکڑی خریدنے کے بہانے آیا اور خنجر نکال کر آپ پر پے در پے وار کئے اور وہیں شہید کر دیا.شوہر کی شہادت کے بعد سسرال والوں نے کہا جو غیر احمدی تھے کہ احمدیت چھوڑ دو تو ہم تمہیں پناہ دیں گے.دشمن بھی دھمکیاں دیتے رہے کہ احمدیت چھوڑ دو اور ہمارے ساتھ مل جاؤ ہم تمہیں سینے سے لگالیں گے لیکن میں نے ان سب باتوں کو حقارت سے رد کر دیا اور ان سے کہا کہ جو کچھ کر سکتے ہو کر گز رو کسی قیمت پر بھی میں احمدیت کو نہیں چھوڑوں گی جس کی خاطر میرے شوہر کو آپ نے شہید کیا ہے اور اس نے بڑی خوشی سے یہ قربانی دی تھی.مریم سلطانہ صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر محمد احمد خان صاحب بیان کرتی ہیں کہ میں اپنے خاوند اور چار بچوں کے ساتھ ضلع کو ہاٹ کے علاقے ٹل میں مقیم تھی.اس علاقے میں کوئی احمدی گھرانہ نہ تھا.۱۹۵۳ء کے فسادات میں وہاں مخالفت کی آگ بہت بھڑ کی.مخالفین میرے خاوند کو دھوکہ دے کر لے گئے اور غیر علاقے میں لے جا کر شہید کر دیا.جب آپ کو شہادت کی خبر ملی تو ارد گرد کوئی بھی آپ کا دوست نہ تھا سب مخالف تھے.اپنے آپ کو دلاسا دیا اور ہمت کر کے بچوں کو خدا کے سپر د کر کے اپنے میاں کی نعش لینے کے لئے نکل کھڑی ہوئی.جس قسم کے حالات تھے نعش کا ملنا ممکن نظر نہیں آتا تھا.آپ لاش تلاش کرتی پھرتی تھی.کہتی ہیں میں لاش تلاش کرتی پھرتی تھی اور شہر کے لوگ میرے شوہر کے قتل پر خوشیاں منا رہے تھے.میں نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا.کوئی میرے غم میں شریک نہ تھا آخر انہوں نے لاش حاصل کر لی اور ٹرک کا انتظام کیا.بڑی بہادر خاتون تھیں خودا کیلئے ہی یہ سارے کام کئے پھر ٹرک کا انتظام کیا.اس میں لاش رکھ کر چاروں بچوں کو لے کر ربوہ روانہ ہوگئیں.کہتی ہیں میں آہوں اور سسکیوں میں زیرلب دعائیں کرتی رہی.آپ کے شوہر کی دکان بھی لوٹ لی گئی.قاتل وہاں دندناتا پھرتا تھا لیکن کوئی اسے پکڑنے والا نہ تھا لیکن خدا کی پکڑ سخت ہوتی ہے.یہ پاگل ہو گیا اور دیوانگی کی حالت میں گلیوں میں نیم برہنہ پھرتارہا اور کچھ عرصہ نظر آنے کے بعد کہیں ہمیشہ کے لئے گم ہو گیا.جو شخص مریض دکھانے کے بہانے ڈاکٹر کو بلانے آیا تھا

Page 384

حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے مستورات سے خطابات خطاب ۳۰ جولائی ۱۹۹۴ء اس کا سب سامان لٹ گیا اور گھر لٹ گیا سب صدمے برداشت کرنے پڑے یکے بعد دیگرے تین بھائی مرے اور باپ بھی مر گیا اور وہ تنہا رہ گیا یہاں تک کہ پھر آخر اسے بھی خدا کے حضور حاضر ہونا پڑا.یہ واقعات بتارہی ہیں کہ میں نے نظر رکھی تھی کہ ان لوگوں سے کیا خدا کی تقدیر کرتی ہے.تو یہ میں نے دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ ضرور آتی ہے خواہ ہم اس کا تتبع کریں اور ان واقعات کو محفوظ کریں یا نہ کریں.یہ بات درست ہے کیونکہ جب میں وقف جدید میں تھا تو میں نے بطور خاص اس کام پر کچھ خدام کی ڈیوٹی لگائی تھی.کچھ مبلغین وقف جدید کی کہ وہ ایک ایک گھر جائیں جہاں مصیبتیں ٹوٹی تھیں اور ان کے حالات کا جائزہ لیں اور گواہیوں کے ساتھ قلم بند کریں کہ اللہ تعالیٰ نے پھر ان سے کیا سلوک فرمایا اور ان ظالموں کا بھی پتہ کریں اور ان کا ریکارڈ رکھیں جنہوں نے احمدیوں کے ساتھ یہ ظالمانہ سلوک کئے تھے اور پھر ان سے خدا کا سلوک کیا ہوا.وہ واقعات وہاں کہیں میرے دفتر میں ابھی بھی محفوظ پڑے ہوں گے لیکن حیرت انگیز خدا تعالیٰ کے دو طرح کے نشانات میرے سامنے آئے.ایک حسن و جمال کے نشانات جو مظلوم احمدیوں کے حق میں بعد میں ظاہر ہوئے اور اس کثرت سے ظاہر ہوئے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اور ایک اس کی جلالی شان کے نشانات تھے اور کس طرح خدا نے ان ظالموں کو ایک ایک کو پکڑا اور ان کو سزائیں دیں.پس یہ جو دوسرا پہلو ہے اس کی طرف بھی جماعت کو توجہ کرنی چاہئے.یہ جتنے حالات میں بیان کر رہا ہوں ان کو بھی زیر نظر رکھیں اور جو بکثرت اور ہیں جو بیان میں احاطہ تحریر میں نہیں آسکتے ان کو بھی زیر نظر رکھیں اور باقاعدہ تحقیق کے ذریعے معلوم کریں کہ اللہ تعالیٰ نے اس اپنی راہ میں شہید ہونے والے یا دوسرے مظلومین کے ساتھ کیا سلوک فرمایا اور ان کے دشمنوں سے پھر کیا سلوک فرمایا.ڈاکٹر منور احمد صاحب شہید سکرنڈ کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی شہادت سے قبل انہوں نے خواب دیکھا کہ میری سونے کی چوڑیوں میں سے ایک چوڑی ٹوٹ کر گر گئی ہے اور ساتھ ہی بہت بڑا ہجوم ہے اور عورتیں باری باری میرے گلے لگ کر رو رہی ہیں اور میں سمجھ نہ سکی کہ وہ کیوں رو رہی ہیں.صبح اُٹھ کر پریشان رہی ،صدقہ بھی دیا مگر یوں محسوس ہوا کہ جسم سے جان نکل گئی.ڈاکٹر صاحب کو خواب سنائی تو کہنے لگے اللہ پر بھروسہ رکھو جورات قبر میں آنی ہے وہ باہر نہیں آئے گی.بہت بہادر انسان تھے اور کہا کرتے تھے کہ شہادت کسی کو نصیب ہوا کرتی ہے.یہ نصیبوں والوں کا حصہ ہے کاش یہ رتبہ مجھے نصیب ہو.سکرنڈ کے حالات زیادہ خراب ہوئے تو مجھے کہنے لگے کہ

Page 385

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۳۸۱ خطاب ۳۰ جولائی ۱۹۹۴ء ربوہ چلی جاؤ مگر میں نہ مانی اور کہا کہ چھوڑ کر نہیں جاؤں گی.جب شہادت کا دن آیا تو کلینک میں دو آدمی آئے اور گولیاں برسا کر آپ کو وہیں شہید کر دیا.بیاں کرتی ہیں کہ شدید گرمی میں پونے تین بجے کے قریب تینوں بچے سوئے ہوئے تھے کہ اچانک اٹھ کر چیخیں مارنے لگے.میں پہلے ہی بے چین تھی کہ اتنے میں کمپوڈر روتا ہوا آیا اور بتایا کہ ڈاکٹر صاحب کو کسی نے گولی مار دی ہے.بہت ہجوم اکٹھا ہو گیا.ایک غم کا پہاڑ تھا جو مجھ پر ٹوٹ پڑا.بڑی تکلیف میں یہ دن کئے.بچے کہتے تھے کہ ابو کو کس نے گولی ماری؟ کیوں ماری؟ میں ان کو گولی مار دوں گا.ایک بچہ کہتا کہ وہاں اور لوگ بھی تو تھے انہوں نے ہمارے ابا ہی کو کیوں مارا.میں ان کو سمجھاتی رہی کہ ان کو شہادت کا شوق تھا سو وہ شوق پورا ہوا اور شہادت نصیب ہوئی.مکرمہ ثریا صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ گوجرانوالہ میں علی پور میں رہتے تھے.۷۴ء کے ہنگاموں میں جب وہاں پر جلوس آیا تو ایک رات پانچ چھ آدمی ہمارے گھر آگئے میری تائی جان نے ان سے کہا کہ تم کیا چاہتے ہو.تو انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے گھروں کو اور تم لوگوں کو جلانا چاہتے ہیں.اس پر میری تائی جان نے کہا بے شک ہمارے گھروں کو جلا دو لیکن ہمیں یہاں سے نکل جانے دو.اتنے میں میرے بہنوئی عنایت محمد بھی آگئے.انہوں نے میرے بہنوئی اور میرے والد غلام قادر کو پکڑ لیا.میرے سامنے ان کو زبردستی گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے.اکیلی عورت تھی بے بس تھی ، کچھ نہ کرسکتی تھی.میرے دیکھتے دیکھتے ان ظالموں نے ان دونوں کو گولیاں مار مار کر شہید کر دیا.اللہ نے مجھے صبر کی توفیق بخشی گونموں کا پہاڑ تھا جوٹوٹ پڑا تھا.دو ماہ بعد میری والدہ بھی وفات پاگئیں.بہت تکلیف دہ حالات تھے.اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہر موقع پر ثبات قدم عطا فر مایا.محترمہ امہ اللہ اور امتہ الرشید صاحبہ دونوں بیٹیاں ہیں ڈاکٹر عبد القدیر صاحب جدران کی.لیکھتی ہیں ۱۹۸۴ میں جب حالات خراب ہوئے تو آپ کو کئی دفعہ دھمکی آمیز خطوط آئے یعنی ان کے والد کو کہ ہم تمہیں قتل کر دیں گے لیکن آپ کو ان دھمکیوں سے کوئی خوف اور ڈر نہ تھا بلکہ نماز تہجد میں شہادت کی دعا مانگا کرتے تھے.آخر ایک روز ایک شخص مریض بن کر آیا اور مسیحا کی جان لے گیا.اس نے کئی فائر کئے اور ڈاکٹر نے اسی وقت شہادت کا مرتبہ پالیا.آب زمزم سے دھلے ہوئے دوکفن مکہ سے لائے تھے ان کی خواہش تھی کہ ان کفنوں میں ان کو دفنایا جائے.اصولاً شہید کو کفن نہیں دیا جاتا مگر ڈاکٹر صاحب کے کپڑے خون میں لت پت تھے جو پولیس نے لے لئے اور ڈاکٹر صاحب کو مجبوراً پھر

Page 386

۳۸۲ خطاب ۳۰ جولائی ۱۹۹۴ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات وہی کفن کی چادریں پہنانی پڑیں.امتہ الحفیظ شوکت صاحبہ، ڈاکٹر انعام الرحمن صاحب انور شہید کی اہلیہ کھتی ہیں.جب ایک دن لوگوں نے آپ کو حالات خراب ہونے اور اس کے نتیجے میں خطرات سے آگاہ کیا تو آپ نے یہ کہہ کر علاقہ چھوڑنے سے انکار کر دیا کہ پھر تو یہ علاقہ احمدیت سے خالی ہو جائے گا.آپ کے تمام بہن بھائیوں اور عزیز واقارب نے بھی سندھ چھوڑنے کا مشورہ دیا مگر اس وقت بھی حامی نہ بھری بلکہ کہنے لگے کہ شاید سندھ کی سرزمین میرا خون مانگتی ہے اور پھر سینے پر ہاتھ مار کر کہنے لگے کہ میں اس کے لئے تیار ہوں.ڈاکٹر صاحب مجھے کہا کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ جیسی دردمند ، محبت کرنے والی ، دین کی راہوں پر قدم مارنے والی ساتھی عطا کر دی ہے.آخری دن جب ہم دونوں بازار گئے ہوئے تھے تو ایک دوکان پر مجھے انتظار کرنے کے لئے کہا اور ساتھ ہی ایک سٹول لا کر دیا کہ آپ یہاں گوارا نہ تھا کہ میں کھڑی ہو کر بے آرامی میں انتظار کروں.ساتھ ہی گوشت کی دکان تھی ڈاکٹر صاحب گوشت لے کر پیسے نکالنے لگے تو پیچھے سے اچانک دشمنوں نے حملہ کر دیا اور موقع پر ہی آپ کو شہید کر دیا.آپ کی لاش خون میں لت پت تھی.آپ نے اپنے خون میں انگلیاں ڈبو کر لا الہ الا اللہ لکھا اور اس حالت میں جان دے دی.ان کی شہادت کا منظر بڑا دردناک تھا.میرے سامنے تڑپتے ہیٹیھیں یہ تڑپتے جان دی.اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے مجھے صبر کی تو فیق بخشی.عائشہ بی بی صاحبہ اہلیہ مہر دین صاحب سھتی ہیں ۷۴ء میں جب گوجرانوالہ میں حالات خراب ہوئے تو میرے بیٹے منیر کا غیر احمدی دوست آیا اور کہنے لگا کہ صبح یہاں بہت خطرہ ہے راتوں رات کہیں چلے جاؤ.یہ تو وہی واقعہ ہے جو میں بیان کر چکا ہوں.یہ تو وہ چند واقعات ہیں جو احمدی مردوں کی شہادتوں کے واقعات یا بعض احمدی خواتین کی شہادت کے واقعات کس طرح انہوں نے اپنے پیاروں کو خدا کی راہ میں جانیں لٹاتے دیکھا اور کس طرح انتہائی بہیمانہ اور سفا کا نہ سلوک پر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کو عظیم صبر کی توفیق بخشی.یہ وہ داستانیں ہیں جن سے احمدیت زندہ ہے.شہید خود بھی زندہ ہوتے ہیں اور ان قوموں کو بھی زندہ کر جاتے ہیں جن سے وہ وابستہ ہوتے ہیں.ان کی زندگی کی گواہی جو قرآن کریم نے عطا فرمائی ہے اس کے ہم سب گواہ ہیں.حقیقت میں شہیدوں کی زندگی سے قو میں زندگی پایا کرتی ہیں.پس میں چونکہ وقت ختم ہو رہا ہے بقیہ حصے کو آئندہ کے لئے رکھتا ہوں.

Page 387

حضرت خلیفہ صیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۳۸۳ خطاب ۳۰ جولائی ۱۹۹۴ء میں آپ کو صرف اتنی نصیحت کرتا ہوں کہ آپ کے لئے راہیں معین کر دی گئی ہیں.ہر وقت میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے مردوں اور بچوں اور عورتوں کو مزید ابتلاؤں سے بچائے اور بغیر ابتلاؤں ہی کے اجر کا ایک لامتناہی سلسلہ عطا فرمادے.مگر انسان کی سوچ ناقص ہوتی ہے.بعض لوگ جب مجھے لکھتے ہیں کہ ہمارے لئے شہادت کی دعا کریں تو میں جانتا ہوں کہ شہادت کا رتبہ کیا ہے.مگر میں ان کو لکھا کرتا ہوں کہ مجھے اس وقت اور جماعت کو اس وقت غازیوں کی ضرورت ہے.مگر ایک انسانی سوچ ہے اللہ بہتر جانتا ہے کہ کب جماعت کو شہادتوں کی ضرورت ہے اور کب جماعت کو غازیوں کی ضرورت پیش آتی ہے.پس جب بھی اس کی تقدیر ایک فیصلہ فرمائے گی وہ فیصلہ بہر حال جاری ہو گا اس لئے میں آپ کو یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ آپ کی ان پاک خواتین نے جو آپ سے پہلے ان مصیبتوں میں سے پہلے گزری ہیں انہوں نے آپ کے لئے راہ عمل معین کر دی ہے.وہ زمین پر چلنے والی ایسی تھیں کہ آسمان پر کہکشاں کی طرح ان کے قدموں کے نشانات ہمیشہ تاریخ میں روشن رہیں گے.اگر ایسے واقعات پھر رونما ہوں جیسا کہ آج پاکستان کا ملاں شدید لیش کھا کر غیظ و غضب کا شکار ہو کر دوبارہ ایسے حالات پاکستان پر وارد کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو میری نصیحت یہ ہے کہ دنیا چند روزہ ہے جو کچھ بھی ہوتا ہو، ہو جائے.اپنے ایمان کو سلامت رکھتے ہوئے خدا کے حضور حاضر ہوں اور یاد رکھیں کہ آپ جو شہید کا مرتبہ پانے والے ہیں آپ کبھی مر نہیں سکتے.آسمان کا خدا گواہ ہے کہ آپ ہمیشہ کے لئے زندہ ہیں اور آپ ہی کی زندگی سے آپ کے بعد پیچھے رہنے والی قومیں زندہ رہیں گی اور اسی کا فیض پاتی رہیں گی.اللہ تعالیٰ ہمیشہ یہ توفیق عطا فرما تار ہے.اس ضمن میں میں آخری نصیحت یہ کرتا ہوں کہ آج جو تبلیغ کا دور ہے اس میں جیسا کہ حیرت انگیز طور پر احمدی خواتین قربانیاں پیش کر رہی ہیں اس راہ میں قدم آگے بڑھاتی رہیں کیونکہ وہ لوگ جو داعی الی اللہ ہوتے ہیں ان کی غیر معمولی حفاظت آسمان سے اترتی ہے، حفاظت کے سامان آسمان سے اترتے ہیں اور یہ وہ موقع ہے جس کے متعلق میں جانتا ہوں کہ داعین الی اللہ کے لئے اللہ تعالیٰ کی قدرت غیر معمولی طور پر حفاظت کے سامان کرتی ہے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں آئندہ بھی ہوتے رہیں گے لیکن بعض دفعہ دعوت الی اللہ کی راہ میں بھی شہادت واقع ہو جاتی ہے اس کے نتیجے میں دعوت الی اللہ سے نہیں رکنا.ہم یعنی احمدیت آج ایک ایسے عظیم دور میں داخل ہو چکی ہے جہاں سارے پیمانے تبدیل

Page 388

حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۳۸۴ خطاب ۳۰ جولائی ۱۹۹۴ء کر دیئے گئے ہیں.وہ ممالک جو بیسیوں سال میں بھی چند سو یا چند ہزار بیعتوں سے زیادہ نہیں کروا سکتے تھے.ان کی بیعتوں کے پیمانے تبدیل کئے جاچکے ہیں.حیرت انگیز طور پر خدا تعالیٰ جماعت کی طرف ان لوگوں کا رجحان کر رہا ہے جن لوگوں کو پہلے جماعت سے نفرت تھی اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس سلسلے میں MTA کو بھی عظیم خدمت کی توفیق مل رہی ہے.پس میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ دعوت الی اللہ کے کام میں مسلسل آگے بڑھتی رہیں گی جیسا کہ اب بڑھ رہی ہیں تو انشاء اللہ تعالیٰ اللہ آپ کی حفاظت بھی فرمائے گا اور میری دعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان زندوں کو بھی شہادت کے رتبے عطا فرمائے جو خدا کی راہ میں اپنی جان کو تھیلی میں ڈال کر خدا کی خاطر خطروں کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے نکل کھڑی ہوں کیونکہ خدا کے ہاں یہ نہ صرف یہ کہ ناممکن نہیں بلکہ قرآن سے قطعی ثبوت اس بات کا موجود ہے کہ زندوں کو بھی شہید کہا گیا ہے.وہ لوگ جو ہمہ وقت شہادت کے لئے حاضر رہتے ہیں جو خدمت کے لئے تیار رہتے ہیں اور خدا کی تقدیر پر چھوڑ دیتے ہیں کہ جو کچھ ان سے ہو وہ اس پر راضی رہیں گے وہ زندہ بھی رہیں طبعی موت بھی وفات پائیں تو ان کو شہید ہی کہا جاتا ہے.تمام انبیاء کو انہی معنوں میں شہید کہا گیا ہے اور حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سب شہیدوں کا سردار قرار دیا گیا ہے.پس جہاں تک شہادت کا شوق ہے وہ تو خدا چاہے تو کئی رستوں سے عطا کر سکتا ہے.راہ عمل میں قدم نہ روکیں مسلسل آگے بڑھتی رہیں.میں آپ کو بتارہا ہوں کہ حال ہی میں لجنہ اماءاللہ کی طرف سے مختلف ملکوں سے جو تبلیغ کے واقعات مل رہے ہیں وہ ایسے حیرت انگیز ہیں کہ بعض ملکوں میں پہلے وقتوں میں کبھی مردوں نے اتنی بیعتیں نہیں کروائی تھیں جتنی اب احمدی خواتین بیعتیں کروارہی ہیں.وہ اکیلی آپس میں مل کر منصوبے بناتی ہیں اور بعض دیہات کو چنتی ہیں اور ان کے لئے نکل کھڑی ہوتی ہیں جہاں ایک بھی احمدی نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ پھر وہاں احمدیت کا پودا گاڑ کر تسلی پاتی ہیں اور پھر ایسا پودا نصب کرتی ہیں جو جلد جلد نشو و نما پانے لگتا ہے شاخیں نکالتا ہے ، بیج اور پھل لاتا ہے اس سے پھر اور پودے اُگتے ہیں.یہ نمونے سالوں کی بات نہیں، مہینوں میں ہمارے سامنے ظاہر ہورہے ہیں.پس یہ ایک عظیم دور ہے جس سے قطعی طور پر یقینی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے احمدیت کو فتح مند ہونے کے لئے بنایا ہے اور فتح مندی کے راستے پر تیزی کے ساتھ جماعت کے قدم آگے بڑھ رہے ہیں.خدا کی تائید کی ہوائیں ہمارے حق میں چل رہی ہیں.پس آگے بڑھتی رہیں درودوسلام بھیجتی ہوئی آگے بڑھتی

Page 389

حضرت خلیفہ آسیح الرابع کے متورات سے خطابات ۳۸۵ خطاب ۳۰ جولائی ۱۹۹۴ء رہیں اور یہ عہد کریں کہ اگر بڑی سے بڑی قربانی کے لئے بھی آپ کو بلایا گیا تو ہنستے ہوئے خدا کا نام لیتے ہوئے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دور بھیجتے ہوئے آپ خدا کی راہ میں جانیں دیں گی اور ہر قربانی پیش کریں گی.اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو.اللہ آپ کو عظیم سعادتوں کی تو فیق بخشے.خدا کرے کہ آپ کی روشنی سے آئندہ سو سال ہی کی نہیں آئندہ ہزار سال کی احمدی تاریخ روشن ہو جائے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.

Page 390

Page 391

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۳۸۷ خطاب ۲۶ / اگست ۱۹۹۴ء احمدی خواتین کی عظیم الشان قربانیاں جلسہ سالانہ مستورات جرمنی سے خطاب فرموده ۲۶ را گست ۱۹۹۴ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے بعض خواتین کو جو باتیں کر رہی تھیں جس سے بہت شور بلند ہورہا تھا، حضور نے منتظمات کو اس طرف توجہ دلانے کے بعد فرمایا: گزشتہ ایک دو سال سے میرا یہ دستور ہے کہ جلسہ سالانہ یو کے سے عورتوں کے خطاب میں جو مواد بچتا ہے وہ میں جرمنی کے جلسے میں پیش کر دیتا ہوں کیونکہ ایک دفعہ اس مواد کو بیان کرنا ممکن نہیں.وقت تھوڑا ہوتا ہے اور بانٹ کر بات کرنی پڑتی ہے.تو کچھ وہاں جلسہ سالانہ یو.کے میں جو باتیں کی تھیں ان کا بقیہ حصہ میں اب آپ کے سامنے رکھنے لگا ہوں.مضمون کا عنوان ہے ”احمدی خواتین کی عظیم الشان قربانیاں اور گزشتہ جلسہ سالانہ یو.کے پر میں نے عموماً ان خواتین کا ذکر کیا تھا جن کے قریبی شہید ہوئے یا باپ شہید ہوئے یا بھائی یا بیٹے.اپنی آنکھوں سے انہوں نے وہ واقعات دیکھے یا قریب ہی تھیں اور ان تک پہنچنے کی طاقت نہیں تھی لیکن بہت گہرے صدمے میں سے وہ خود گزری ہیں اور کیا ان کے دلوں پر کیفیات گزریں، کس طرح انہوں نے صبر کی توفیق پائی ، بہت ہی دردناک واقعات تھے جن کا میں نے گزشتہ جلسے پر ذکر کیا تھا، یعنی یو.کے.کے جلسے پر.اب آپ کے لئے نسبتاً کم درجے کے واقعات چنے ہیں، یعنی شہداء کے ذکر کے نہیں بلکہ احمدی خواتین جب فسادات میں سے گزریں اور مختلف ملک کے حصوں میں اُن فسادات نے کیا شکل اختیار کی بے سہارا احمدی خواتین اور چھوٹے چھوٹے بچوں پر کیا گزری اُن کی زبان ہی سے یہ باتیں میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں تا کہ آپ کو معلوم ہو کہ جماعت احمدیہ کی تاریخ کتنی عظیم قربانیوں کے ساتھ لکھی جارہی ہے.یا شہداء کا خون ہے جو جماعت احمدیہ کی قربانیوں کے لئے یعنی آسمان پر

Page 392

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۳۸۸ خطاب ۲۶ اگست ۱۹۹۴ء جماعت احمدیہ کی قربانیاں لکھنے کے لئے روشنائی کا کام دیتا ہے یا مظلوم اور بے سہارا عورتوں کی دعاؤں میں گرنے والے آنسو ہیں جن سے یہ کہانی رقم ہورہی ہے مگر یہ ایک ایسا عظیم سرمایہ ہے جماعت کا جسے ہمیشہ محفوظ رکھنا چاہے اور احمدی خواتین کو اپنی ان بزرگ خواتین سے ہمیشہ سبق لینا چاہئے جو انتہائی شدید خطرات کے وقت بھی ، بڑی دلیری اور ہمت کے ساتھ اُن کا مقابلہ کرتی رہیں اور اپنے ایمان کی ا حفاظت کی ، خواہ اُس کے نتیجے میں اُن کو بڑی سے بڑی قربانی دینی پڑی.چند واقعات جو میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ان میں سے کچھ مختصر ذکر کروں گا کیونکہ واقعات بہت زیادہ ہیں لیکن خلاصہ بات کرتے ہوئے آہستہ آہستہ ایسے واقعات کی طرف بڑھوں گا جو غیر معمولی طور پر دل پر اثر کرنے والے ہیں.ایک احمدی خاتون جو بیٹ ناصرآباد کی صدر لجنہ اماءاللہ میں دیکھتی ہیں کہ گزشتہ سے پیوستہ سال دشمنوں نے اُن کو گھیرے میں لے لیا اور زدو کوب کرنے لگے بار بار یہ کہتے تھے کہ کلمہ پڑھو، کلمہ پڑھو.وہ کہتی ہیں کہ میں جب کلمہ سناتی تھی تو پھر مجھ پر مکوں اور گھونسوں کی بارش شروع ہو جاتی تھی اور کوئی تھپڑ مارتا تھا اور کوئی جو بھی ہاتھ میں چیز تھی اس سے تکلیف پہنچا تا تھا یہاں تک کہ میں نڈھال ہوگئی اور مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ میں کیا کروں.کیونکہ وہ کہتے تھے کلمہ پڑھو اور میں کلمہ پڑھتی تھی تو آخر بات یہ کھلی کہ وہ اس لئے کہتے تھے کہ یہ کلمہ تو ہمارا کلمہ ہے، تم اپنا کلمہ پڑھو اور چونکہ ہمارا الگ کلمہ ہی کوئی نہیں اسلئے ان کا دماغ اُس طرف جاہی نہیں سکتا تھا کہ میں الگ کلمہ کونسا پڑھوں.غرضیکہ اسی حالت میں یہ کہتی ہیں کہ آخر انہوں نے مجھ پر یہ بات کھولی کہ اگر کلمہ پڑھنا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دو.اس پر انہوں نے کہا کہ جو کچھ بھی کرنا ہے کر گز رو نگر میں تو کلمہ پڑھوں گی اور میرے کلمہ میں کسی کو گالیاں دینا شامل نہیں ہے.لجنہ اماءاللہ بہاولپور کی صد رکھتی ہیں کہ ۱۹۵۷ء میں احمدیت قبول کی تھی.۱۹۶۵ء میں میری شدید مخالفت شروع ہوگئی.محلے کے لوگوں نے بہت سختی کی.ایک بار انہوں نے گھر آکر انہیں مارا پیٹا.باہر لوگ اکٹھے کر لئے جو باہر نعرے لگا رہے تھے اور مجھے قتل کی دھمکیاں دے رہے تھے.خوف کی وجہ سے کہتی ہیں میں نے اپنے خاوند اور بیٹے کو باہر بھجوا دیا تھا تا کہ وہ زندہ بچ جائیں لیکن خود اپنے چھوٹے بچوں کو ساتھ لے کر وہیں بیٹھی رہی.۱۹۷۵ء میں پھر یہ جوش دوبارہ ابلا تو بڑے زور سے سارے محلے والوں نے ہم پر سختی شروع کر دی اور رات کے وقت مل کر حملہ کیا.

Page 393

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۳۸۹ خطاب ۲۶ / اگست ۱۹۹۴ء کہتی ہیں کہ میرے خاوند کو گھسیٹ کر مسجد میں لے گئے اور بہت مارا پیٹا اور بار بارختی کی.میرا سارا زیور چھین لیا اور جو پلاٹ تھا اس پر بھی قبضہ کر لیا.میں نے سب کچھ بڑی ہمت اور حو صلے سے برداشت کیا اور یہ عہد کر لیا کہ اگر یہ مجھے آگ میں بھی ڈال دیں گے تو میں احمدیت کو نہیں چھوڑوں گی چنانچہ دعائیں مقبول ہوئیں اور اللہ تعالیٰ نے بالآخران ظالموں سے مجھے نجات بخشی.ہاجرہ تحسین صاحبہ صدر لجنہ قصور بیان کرتی ہیں کہ ۷۴ء میں قصور شہر کے تمام احمدی گھروں پر پہرہ لگا دیا گیا کہ کوئی کھانے کی چیز اُن تک نہ پہنچ سکے نہ پینے کا پانی ، نہ دودھ، نہ کوئی کھانے کی چیز.ایک دن کارپوریشن کا عملہ پانی کا پائپ کاٹنے کے لئے بھی آ گیا اور اُنہوں نے کہا کہ تم پانی پر زندہ ہو ہم یہ پانی بھی بند کریں گے.ان سے ان کی لمبی گفتگو ہوئی اور انہوں نے قتل کی بھی دھمکیاں دیں.آخر اس نے کہا کہ دیکھو تم ایک خون کی بات کر رہے ہو یہاں جو کچھ بھی ہے سب حاضر ہے.تم ہمارے خون کی ندی بہا دو گے تب بھی ہم اپنے دین اور ایمان کو نہیں چھوڑیں گے، میں حاضر ہوں، میرے بچے حاضر ہیں، جو کرنا ہے کر گزرو.وہ کہتی ہیں اس بات کا اُن پر ایسا اثر پڑا کہ وہ عملہ جو با قاعدہ اس غرض سے بھجوایا گیا تھا کہ پائپ کاٹ دیں، بغیر پائپ کاٹے واپس چلا گیا اور یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ یہ لوگ اپنے عقیدے سے ملنے والے نہیں ہیں اس لئے ان کا ساتھ جو کچھ بھی کرنا ہے بے کار ہے، اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا.اس کے باوجود ہیں دن تک مسلسل ناکہ بندی جاری رہی.نکلےگا.کے باوجود امتہ الحمید صاحبہ لھتی ہیں کہ ۱۹۷۴ء میں مخالفین نے جلوس کی شکل میں فیصل آباد کے احمدی گھروں کا رخ کیا اور میرے میاں اور چار بیٹے نماز مغرب کے لئے ایک فرلانگ پر گئے ہوئے تھے اور گھروں میں میں اور میری چار معصوم بیٹیاں تھیں.میں خود بیمار تھی ، ہم دوسری منزل پر چلے گئے.مردوں کی طرف سے بہت فکر مند تھے.میری بیٹی جو نسبتا بڑی تھی وہ گھبرا کر نکلی اور پانچ فٹ کی دیوار پھلانگ کر اپنی ہمسائی کی جا کر منتیں کیں، اس کو رحم آیا تو وہ ساتھ لے کر جہاں میرے میاں اور بچے تھے ان کو اطلاع دینے کے لئے پہنچ گئی.کہتی ہیں میں جلوس سے محو گفتگو تھی اور مسلسل ان کی باتوں کا جواب دے رہی تھی جب ان کے پاس اور باتیں کرنے کی نہ رہیں، کوئی دلیل نہ رہی تو آخر انہوں نے فیصلہ کیا کہ نماز عشاء کے بعد بڑا جلوس اکٹھا ہو اور اینٹوں اور پتھروں کی بارش کی جائے.چنانچہ رات کے اندھیرے میں بہت خوفناک آوازوں کے ساتھ اُنہوں نے ہمارے مکان پر حملہ کیا ہر طرف سے اینٹوں اور پتھروں کی بارش برسا دی اور مجبور کیا میرے میاں اور بیٹے کو کہ باہر نکلیں اور کلمہ شہادت سنائیں.

Page 394

۳۹۰ خطاب ۲۶ / اگست ۱۹۹۴ء حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات چنانچہ ان کے کہنے میں آکر وہ باہر نکلے اور اُس پر انہوں نے اُن کو مارنا شروع کیا اور ساتھ ساتھ کہتے جاتے تھے کہ کلمہ پڑھو.پھر وہی بات جب وہ کلمہ پڑھتے تھے تو کہتے تھے یہ کلمہ کافی نہیں ہے مسلمان بنانے کے لئے تم مرزا صاحب کو گالیاں دو.چنانچہ انہوں نے بھی وہی جواب دیا جو اس سے پہلے خاتون نے دیا تھا کہ گالیوں والا کلمہ میں نہیں جانتا.جو کلمہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ ہے وہ پڑھ کر سناؤں گا وہی پڑھوں گا اس کے سوا اور کچھ نہیں کہوں گا.چنانچہ ادھ موا چھوڑ کر ان کو جب وہ چلے گئے تو کہتی ہیں بڑی مشکل کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضل فرمایا اور ہم بچ گئے.آخری کوشش انہوں نے یہ کی کہ ہمیں زندہ اپنے مکان میں جلا دیں لیکن تیل چھڑکنے کے باوجود، بار بار اس کو شعلے دکھانے کے باوجود کوئی ایسی بات ہوئی کہ مکان کو آگ نہیں لگ سکی چنانچہ ایسی حالت میں ہی ٹوٹے ہوئے دروازوں اور کھڑکیوں کے ساتھ ہم نے رات بسر کی اور بعد میں اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ ہمیں اُن کے چنگل سے نجات بخشی.نسیم اختر صاحبہ اہلیہ ولایت خان صاحب بیان کرتی ہیں کہ جب چک سکندر پر حملہ ہوا تو حملہ آوروں نے احمدی گھروں کو آگ لگانا شروع کر دی.ہمارے گھر آئے تو گھر کی کھڑکیاں، دروازے انہوں نے توڑ دیئے ، سارا سامان باہر نکال کر جلا دیا، کچھ لوٹ کر لے گئے ، ہم لوگ گھر کے پچھلے کمرے میں تھے.وہ لوگ آپس میں باتیں کرنے لگے ، ان کو یہیں زندہ جلا دو جب وہ لوگ سامان جلا رہے تھے تو میری زبان سے کلمہ طیبہ کے الفاظ نکل رہے تھے.ایک لڑکا قرآن پاک کو آگ میں پھینکنے لگا تو اس وقت مجھ سے برداشت نہ ہوا.میں بھاگ کر بے خطر اس کی طرف جھپٹی اور کہا دیکھو قرآن نہ پھینکو.وہ آگے بڑھا اور میرے منہ پر تھپڑ مارنے لگا میں نے اپنا منہ آگے کر دیا اور کہا کہ دیکھو تھپڑر ضرور میرے مارلو، جتنے چاہو مارلومگر قرآن پاک کو کچھ نہ کہو مگر اس ظالم نے اس کے باوجود جلتی آگ میں قرآن پھینک دیا.ظالم آگ میں سامان ڈالتے اور کہتے اب تمہارا مرزا ہی ہے جو تمہیں سامان دے گا.اللہ کا فضل ہے کہ یہ گاؤں اب پھر آباد ہو چکا ہے.خدا کے فضل سے سارے پہلے سے بہتر ہیں.وہ کہتی ہیں میں نے کہا پہلے بھی خدا ہی دیتا تھا اب بھی خدا ہی دے گا.چنانچہ خدا تعالیٰ نے اب ان کو پہلے سے بڑھ کر سب کچھ عطا فرمایا ہے اور اس وقت وہ ڈش اینٹینا کے ذریعے ہمارا یہ اجلاس دیکھ رہے ہیں اور سن رہے ہیں.لکه سید صادق شاہ صاحب پھگلہ کی بیگم نیر سلطانہ صاحب لکھتی ہیں کہ میں شادی کے بعد احمدی ہوئی سسرال والے سب پہلے سے احمدی تھے لیکن سارا میکہ اور برادری غیر احمدی تھے.۷۴ء کے بعد بہت زیادہ مخالفت شروع ہو گئی.والد صاحب پر دباؤ ڈالا گیا کہ بیٹی کی علیحدگی کروا کر اُسے گھر لے آؤ.

Page 395

۳۹۱ خطاب ۲۶ اگست ۱۹۹۴ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات انہوں نے کہا اس کے تین بچے ہیں میں اسے کیسے گھر لا سکتا ہوں.یعنی جو لکھنے والی ہیں کہتی ہیں میرے والد پر دباؤ ڈالا گیا کہ مجھے خاوند سے طلاق دلوا کر یا خلع دلوا کر باپ اپنے گھر لے جائے.۸۴ء کے بعد پھگلے میں شدید مخالفت ہوئی ، ہمارے گھر پر پتھراؤ کیا جاتا رہا، بچوں کو سکول جاتے ہوئے لوگ مارتے اور گالیاں دیتے.ایک وقت ایسا بھی آیا کہ بیٹا خاوند اور گھر کے دوسرے افراد کلمہ پڑھنے کی وجہ سے جیل میں چلے گئے اور گھر میں صرف عورتیں رہ گئیں.اب اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ کس طرح جھوٹے اور بدکردار لوگ ہیں یہ کہتے ہیں کہ کلمہ پڑھ تو پھر تمہیں چھوڑیں گے اور جب احمدی کلمہ پڑھتا ہے تو کہتے ہیں تم نے ہتک رسول کی ہے تمہیں پھانسی چڑھنا چاہئے اس لئے خدا سے ان کا کوئی دور کا بھی تعلق نہیں.محض گندی ذہنیت کے بدکردار ملاں ہیں جو اپنے نفس کی آگ بجھانا چاہتے ہیں اس کے سوا ان کا کوئی مقصد نہیں.ایک طرف احمد یوں کو مار رہے ہیں، اُن کے گھر جلا رہے ہیں کہ کلمہ پڑھو، دوسری طرف احمدیوں کو جیلوں میں ٹھونس رہے ہیں اور اُن پر دفعہ ۲۹۵ (C) کے مقدمے دائر کر رہے ہیں.جرم پوچھو تو صرف اتنا کہ انہوں نے کلمہ پڑھا تھا.پس کلمہ پڑھنا بھی موت کی سزا چاہتا ہے، کلمہ نہ پڑھنا بھی موت کی سزا چاہتا ہے.پس ان کی بدکرداری اور جھوٹ کو ظاہر کرنے کے لئے یہ کافی وشافی وجہ ہے.باہر کی دنیا کے لوگ ان باتوں کا تصور بھی نہیں کر سکتے.وہ آپ کو دیکھتے ہیں وہ سمجھتے ہیں عام سی عورتیں ہیں اسی طرح آجائیں گی حالانکہ آپ میں وہ کثرت سے ایسی عورتیں بیٹھی ہوں گی جن کے گھروں پر کسی نہ کسی وقت احمدیت کی دشمنی میں کوئی قیامت ٹوٹی ہوگی.کئی ایسی مائیں ہوں گی جن کے بچے جب سکول سے واپس آتے تھے تو روتے ہوئے اس وجہ سے اپنے زخم دکھاتے آتے تھے کہ مار پڑی ہے محض اس لئے کہ ہم احمدی ہیں اور روزانہ یہی ظلم بچوں پر ہوتا رہا.پس یہ وقت ہے کہ ہم ان ساری باتوں کی حفاظت کریں ، ان کو اپنی تاریخ کا انمٹ حصہ بنائیں اور آئندہ نسلوں کو بھی بتائیں کہ ایمان کی قیمت دینی پڑتی ہے اور احمدی خواتین نے بھی بڑی بڑی قیمتیں دے کر اپنے ایمان کی حفاظت کی ہے.آگے کہتے ہیں پھر انہوں نے گھر پر پتھراؤ کیا اور خاوند اور بیٹا تو جیل جاچکے تھے صرف عورتیں تھیں.ہم نے بہت صبر اور ثابت قدمی کے نمونے دکھائے اور اللہ تعالیٰ نے بالآخر ہمیں حفاظت سے وہاں سے نکال لیا.رحمت بی بی صاحبہ اہلیہ ماسٹر غلام محمد صاحب لکھتی ہیں کہ ۷۴ء میں جب حالات خراب ہوئے

Page 396

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۳۹۲ خطاب ۲۶ اگست ۱۹۹۴ء تو رات کے اڑھائی تین بجے جلوس گھر آپہنچا، دروازے اور کھڑکیوں کو آگ لگا کر چلے گئے.گھر میں میری بیٹیوں کے چھوٹے چھوٹے بچے تھے جو سب سہم کر اپنی ماؤں کی چھاتیوں سے چھٹے ہوئے تھے.ہم نے کوشش کر کے آگ بجھا دی.صبح پھر جلوس آگیا ان کے ہاتھ میں برچھیاں اور کلہاڑیاں اور ٹو کے تھے.انہوں نے دروازوں اور روشن دانوں کے شیشے توڑ دیئے اور گھر کو گھیرے میں لے لیا.کوئی چیز باہر سے نہ اندر آسکتی تھی ، نہ باہر جاسکتی تھی.چھوٹے چھوٹے بچوں کو دودھ کی ضرورت تھی دودھ ہم لا نہیں سکتے تھے.ہم پانی میں چینی گھول گھول کر بچوں کو دیتے رہے.بچے روتے اور بلکتے لیکن تین دن رات تک ہم انہیں صرف میٹھا پانی پلاتے رہے.بڑی تکلیف کے دن تھے.الحمد للہ کہ اللہ نے ثباتِ قدم بخشا اور ہمارے ایمان کو بچالیا اور ہم نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا.امتہ الامین اہلیہ عبدالرزاق شاہ صاحب پھگلہ مھتی ہیں کہ ۱۹۷۴ء میں جب احمد یوں پر قیامت ٹوٹی تو ظالموں نے سب احمدیوں کے گھر لوٹ لئے اور جلا دیئے اور ہمارا گھر بھی راکھ کا ڈھیر بن گیا.ہم نے سب ظلم وستم برداشت کئے مگر احمدیت کو نہ چھوڑا اور مضبوطی سے اسے تھامے رکھا.جب بچے سکول جاتے تو روتے ہوئے گھر آتے سکول ٹیچر سے احمدی ہونے کی وجہ سے مار پڑتی تھی.یہ خود سکول گئیں یعنی لکھنے والی نے بتایا ہے کہ وہ خود سکول گئیں اور ٹیچر سے کہا کہ بچے زخمی ہو جاتے ہیں تم کیا ظلم کر رہی ہو تو اس نے کہا آسان بات ہے تم احمدیت چھوڑ دو تو میں مارنا چھوڑ دوں گی.پس ماں کے ثبات قدم اور ایمان کے نتیجے میں روزانہ بچیوں کو مار مار کے ان کے ہاتھ زخمی کر دیے جاتے.یران لوگوں کا دین ہے، یہ ان کا ایمان ہے ، ان کو تصور بھی نہیں کہ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا کردار تھا.ایک لمحہ کے لئے بھی کوئی شریف النفس انسان یہ نہیں سوچ سکتا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نہ ماننے والوں کے ساتھ یہ سلوک کر رہے ہوں.یہاں تو ماننے والوں کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے.انکار کی وجہ سے تو دکھ دینے کا رواج دنیا میں قدیم سے چلا آتا ہے مگر تائید میں دکھ دینے کا رواج ایک نیا مضمون ایجا د ہوا ہے.پہلے کلمہ کے انکار کے نتیجے میں بھی سختی نہیں ہوتی تھی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے کلمہ کا انکار تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بھر لوگوں نے کیا مگر ایک شخص کے اوپر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلمہ کے انکار کی وجہ سے ظلم نہ کیا.اب یہ وہ دن آگئے ہیں کہ کلمہ پڑھنے کی سزائیں موت کی کال کوٹھڑی اور سر پر لٹکا ہوا پھانسی کا پھندا ہے اور آج ایک سو بارہ سے زائد احمدی ایسے ہیں جن کے اوپر یہ موت کا پھندا اس لئے لٹکایا گیا ہے کہ

Page 397

۳۹۳ خطاب ۲۶ اگست ۱۹۹۴ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات انہوں نے کلمہ پڑھا تھا اور احمدی کا کلمہ پڑھنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی گستاخی ہے کہ اُس کی سزا موت کے سوا کچھ نہیں.پس پہلے تو دنیا میں اختلاف کی سزائیں ملا کرتی تھیں اب مولوی کی بد بخت دنیا میں اتفاق کی بھی سزائیں مل رہی ہیں اور یہ نیا دستور ظلم وستم کا جاری ہوا ہے جو اس سے پہلے مذہب کی تاریخ میں آپ کو کہیں دکھائی نہیں دے گا.تمام دنیا کی مذہبی تاریخ پڑھ کر دیکھ لیں کسی کے عقیدے سے انکار کے نتیجے میں تو سزا ملتی رہی مگر اس کے عقیدے کی تائید میں پہلے کبھی سزا نہیں دی گئی تھی.کہتی ہیں جب بچے سکول جاتے روتے ہوئے گھر آتے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہتی ہیں آپ کے گھر کے قریب غیر احمدیوں کی مسجد تھی جمعہ کے دن وہ لوگ آپ کے گھر پر پتھر پھینکنے آگئے ، گھر کے سارے شیشے توڑ دیئے اور ہر جمعہ یہی رواج بن گیا کہ جمعہ سے فارغ ہو تو اللہ کے فضل کو تلاش کرو، یہ بد بخت اس طرح خدا کا فضل تلاش کرتے تھے کہ مظلوم عورتوں اور بچوں پر پتھراؤ کرتے اور گندی گالیاں دیتے اور یہ فضل الہی کی تلاش کے نئے اسلوب ایجا دکر رہے تھے.کہتی ہیں بالآخر جب ہم نے استقامت دکھائی اور اُسی حال میں اس گھر میں ٹھہرے رہے تو ایک دن انہوں نے گھر کو اس طرح آگ لگائی کہ سارا گھر پھونک دیا.اور سوائے خاکستر جلی ہوئی اینٹوں کے وہاں کچھ بھی نہ بچا.ہم بمشکل ننگے پاؤں اور ننگے سر وہاں سے نکلے اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کے پھندے سے نجات بخشی لیکن اس حال میں کہ گھر کا سارا سامان ، ساری عمر کی جائیداد، سب کچھ خاک کا ڈھیر بن چکا تھا.شمس النساء صاحبہ اہلیہ شیخ غلام احمد صاحب بہاولنگر لکھتی ہیں کہ ۷۴ء میں ہنگامے شروع ہوئے تو ہر جگہ جلوس اور ماردھاڑ شروع ہوگئی.بہاولنگر میں جلوس نکلے.احمدیوں کو اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو انتہائی گندی گالیاں دی گئیں.ان کے ہاتھ میں مٹی کے تیل کی بوتلیں اور ڈنڈے اور پتھر تھے.جب یہ جلوس بازار آیا تو پولیس بھی آگئی مگر وہ خاموش تماشائی بنی رہی.جلوس والوں نے میرے دیور کی کپڑے کی دوکان پر تیل چھڑک کر آگ لگادی اور باقی احمدیوں کی دکانوں کو بھی توڑ پھوڑ کر چلے گئے.اگلے دن ہماری دوکان کا دروازہ توڑا جنرل اسٹور کا سارا سامان لوٹ کر اور تو ڑ کر چلے گئے.یہ توڑ پھوڑ ،لوٹ مار ہر روز کا معمول بنا ہوا تھا.احمدیوں کے گھروں پر پتھراؤ کیا جاتا ، سب لوگ گھروں میں بند، دعاؤں کا ورد کرتے رہتے.ہمیں حضور کا حکم تھا کہ جگہ نہ چھوڑی جائے اور گالیوں کا جواب اشتعال میں آکر ہر گز نہ دیا جائے.اُدھر انہوں نے سوشل بائیکاٹ بھی کر دیا ، مکانوں پر پہرے بٹھا دیئے کہ ان کے گھروں میں کھانے پینے کی اشیاء نہ جائیں مگر خدا ہمارا رازق تھا، کسی نہ کسی طرح

Page 398

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات کھانے پینے کی اشیاء ہم تک پہنچ ہی جاتی تھیں.۳۹۴ خطاب ۲۶ / اگست ۱۹۹۴ء یہ وہ زمانہ تھا جب کہ ربوہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدام کی ٹیمیں مختلف جگہ بھجوائی جاتی تھیں اور دوسرے علاقوں سے بھی ،سرگودھا کے دیہات سے بھی لوگ آتے تھے، بعض دوسرے ایسے علاقے جہاں نسبتاً امن تھا مثلاً سیالکوٹ وغیرہ وہاں سے بھی بہت مخلص نو جوان اپنے آپ کو پیش کرتے تھے اور دن رات ہمارا وہاں یہ کام تھا کہ مختلف علاقوں کی خبروں کے لئے ان کو استعمال کیا جائے.وہ ایسے بھیس بدل کر وہاں پہنچتے تھے جیسے شکل سے وہ احمدی پہچانے نہ جائیں اور بسا اوقات وہ اچانک ان کا گھیرا توڑ کر کھانے پینے کی اشیاء لے کر مظلوم گھروں تک پہنچ جایا کرتے تھے.پھر جب واپس آتے تھے تو اس حال میں کہ ان کے چہرے بگڑے ہوئے ، ان کا حلیہ پہچانا نہیں جاتا تھا.ایک ایسا ہی قافلہ جو خدام کا احمدی گھروں کو خوراک دینے کے لئے بھجوایا گیا تھا جب وہ واپس آیا تو مجھے یاد ہے میں قصر خلافت سے نکل کر مسجد مبارک میں نماز کے لئے جارہا تھا، رستے میں ایک بڑی بھیانک شکل کا آدمی مجھے نظر آیا جس کا منہ سوجا ہوا اور کپڑے پھٹے ہوئے لیکن مسکرا رہا تھا.میں حیران کہ اس کو اندر آنے کیوں دیا گیا ہے.یہ ہے کون؟ تو جب اس سے پوچھا تو پتہ لگا کہ ہماراہی بھیجا ہوا ادم تھا اور وہ خوشی سے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کو یہ خبر دینے وہاں آیا تھا کہ خدا کے فضل سے ہم بھوکوں کو بھوک سے مرنے سے بچانے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور بڑی دردناک کہانی تھی جس طرح ان نو جوانوں نے پتھر کھاتے ، ماریں کھاتے ، ان پر ڈنڈے برسائے جارہے تھے مگر قوت کے ساتھ ، زور کے ساتھ دوڑ کر ان گھروں تک پہنچ گئے اور ان بچوں کو جو بھوک سے بلک رہے تھے ان کو خوراک مہیا کی.بہت ہی عظیم دور تھا جس کی یادیں اتنی گہری اور اتنی عظیم ہیں کہ ان کے تصور سے ہی انسان کی روح پگھل جاتی ہے.آپ لوگ جن کو یہ تجربہ نہیں ہے آپ کو اندازہ نہیں کہ کیسے عجیب دن تھے وہ اور خدا کے فضلوں کو بھی کس طرح ہم نے آسمان سے برستے دیکھا ہے.غرضیکہ جیسا کہ اس خاتون نے گواہی دی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اللہ تعالیٰ رزق کا انتظام کرہی دیتا تھا، میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ اس رزق کے انتظام میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اسی کی دی ہوئی توفیق سے احمدی نوجوانوں کی عظیم قربانیاں شامل ہیں.کہتی ہیں ہمارا تمام کاروبار ختم ہو گیا.بچے چھوٹے چھوٹے تھے بھوک سے روتے دیکھے نہ جاتے تھے مگر خدا کو ہمارا زندہ رہنا منظور تھا.شیر خوار بچے کے لئے دودھ کی بہت مشکل تھی.دودھ تو

Page 399

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۳۹۵ خطاب ۲۶ / اگست ۱۹۹۴ء دودھ پانی بھی نہیں ملتا تھا.کہتی ہیں میرے میاں دوکان پر تھے جلوس آیا، پہلے پتھراؤ کیا، پھر ان کو دوکان کے اندر بند کر دیا.ایک دن نہیں، کئی دن ایسا ہوتا رہا پھر اؤ کرتے ،سزا دیتے اور پھر اپنی ہی دوکان میں بند کر کے تالا لگا کر چلے جاتے.سخت گرمی کے دن تھے جان کنی کی حالت ہوگئی.گھڑے میں تھوڑا سا پانی رہ گیا تھا.اس میں قمیض بھگو کر منہ اور جسم تر کرتے تا کہ بے ہوش نہ ہو جائیں.باہراتنا شور پڑا ہوتا تھا کہ کچھ سنائی نہ دیتا تھا.کہتی ہیں ایک دفعہ صبح کے آٹھ بجے سے شام کے پانچ بجے تک دوکان میں بند رہے.بعد میں کسی نے اتفاق سے پولیس کو اطلاع کی اور کوئی ایک شریف النفس پولیس والا ایسا تھا جو گاڑی لے کر آیا اور پھر ان کو گھر چھوڑ گیا.یعنی کئی دن تک بیوی نے اپنے خاوند کا منہ نہیں دیکھا اور نہ پتہ تھا کہ کس حال میں ہیں.روزانہ ان کو وہیں بند کر کے رکھا جاتا اور طرح طرح سے عذاب میں مبتلا کیا جاتا.کہتی ہیں جب بھی جلوس آتا سب لوگ گھروں میں ایک دوسرے سے چمٹ کر بیٹھ جاتے اور ہر وقت دعائیں کرتے رہتے تھے.پھر ہمیں اعصابی طور پر بیمار کرنے کے لئے ہمارے گھروں کے سامنے پٹانے چھوڑے جاتے.ساری ساری رات ڈھول بجاتے ،کبھی پٹانے چھوڑتے ، کبھی چینیں مارتے ،غرضیکہ بچے جو پہلے ہی سہمے ہوتے تھے ان کو دو گھڑی سکون کی نیند بھی نصیب نہیں ہوتی تھی.کہتی ہیں میں نے تو بعض دفعہ ساری ساری رات اسی حالت میں جاگ کر گزاری.رقیہ صاحبہ اہلیہ محمد اسحاق صاحب لکھتی ہیں.جون ۷۴ء میں سرگودھا میں مخالفین نے ہمارے گھر پر حملہ کیا پتھراؤ کیا، لوٹا، کھڑکیاں اور دروازے توڑ دیئے ان کا ارادہ رات کو آگے لگانے کا تھا.ہم ایک دوسرے گھر میں چلے گئے.مخالفین کو پتہ چلا وہاں بھی پیچھا نہ چھوڑا اور مولویوں کو معلوم ہوا تو اس گھر کو بھی آگ لگانے کا منصوبہ بنایا گیا جو ایک غیر احمدی کا گھر تھا مگر غالباً اس کے اثر ورسوخ کی وجہ سے یہ ارادہ بدل دیا.محلے والوں نے بائیکاٹ کر دیا ، دوکاندار سودا نہیں دیتا تھا اور پولیس نے گھر کی تلاشی کے بہانے کئی قیمتی چیزیں چرا لیں.بھائی چھپ کر ضرورت کی چیزیں لاتے اور احمدیوں کے گھروں میں پہنچاتے.ایک دفعہ مولویوں نے دیکھ لیا اور پکڑ کر خوب مارا اور کلمہ سنانے کو کہا.جب کلمہ سنا دیا تو اسے مارتے ہوئے مسجد میں لے گئے اور منہ اور کپڑے کالے کر دیئے.انہیں دنوں میرا چھوٹا بھائی سرگودھا سے ربوہ آ رہا تھا تو راستے میں بہت سے آدمیوں نے اسے مارنا شروع کر دیا اور ربوہ بس نہ روکی اور بس والا اسے دو پلوں سے گزار کر اس حالت میں کہ لوگ مارتے چلے جاتے تھے آخر چلتی ہوئی بس سے دھکا دے کر سڑک پر پھینک گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے بچالیا اور اُس کو زندگی بخشی.غرض

Page 400

حضرت خلیلہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۳۹۶ خطاب ۲۶ / اگست ۱۹۹۴ء وہ بختی کے دن تھے جن سے جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُسی کے سہارے کے ساتھ زخمی مگر ایمان کو زندہ رکھتے ہوئے گزری.نسیمہ لطیف صاحبہ جمال پور سندھ سے کھتی ہیں کہ ۲۴ یا ۲ مئی ۱۹۸۵ء کا دن تھا کہ عصر کی نماز کے بعد ہماری گوٹھ جمال پور کوسکھر کی پولیس نے گھیرے میں لے لیا اور میرے شوہر لطیف اور آپ کے والد کو بھی گرفتار کر کے لے گئے اور کہا جب تک ایوب نہیں ملتا آپ دونوں ہماری حراست میں رہیں گے.یہ ایوب اب خدا کے فضل سے انگلستان پہنچ چکا ہے وہاں ٹھیک ٹھاک ہے سب کچھ.لیکن اُس نے بہت سختیاں جھیلی ہیں.آخر جب ایوب پکڑا گیا تھا تو اس کو ساری ساری رات الٹا لٹکاتے تھے اور ساتھ ڈنڈوں اور سوٹوں اور جوتیوں سے مارتے تھے اور کوئی جھوٹ بکوانا چاہتے تھے کہ بتاؤ وہ کون ہے جس نے مولویوں کے ایک مدرسے کو آگ لگائی تھی یا ہم وہاں پھینکا تھا حالانکہ کسی احمدی کا کام نہیں تھا.تو یہ جب کہتا تھا کہ مجھے علم ہی نہیں، مجھے پتہ ہی نہیں یہ کیا واقعات ہیں.کیوں ایسی باتیں میری طرف منسوب یا کسی اور کی طرف کر رہے ہو تو پھر مارتے جاتے تھے.یہاں تک کہ اسی حالت میں بے ہوش ہو جاتا تھا اور میں نے جب انگلستان پہنچا ہے تو اُس سے سوال کیا ایوب سے کہ یہ چھوٹا بچہ تھا جب ہم گوٹھوں میں جایا کرتے تھے اس لئے تکلف سے ذکر کرنے کی بجائے میں ایک لڑکے کے طور پر ذکر کر رہا ہوں.میں نے کہا ایوب تمہیں جب یہ ہو رہا تھا سب کچھ تو تم بر داشت کس طرح کرتے تھے.تعجب ہے کہ تم میں اتنی برداشت تھی تو اس نے بتایا کہ آپ کو جتنی تکلیف ہورہی ہے مجھے اس سے کم ہو رہی تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کچھ اثر کر دیا تھا کہ اس مار کے باوجود الٹا لٹکے ہوئے بھی مجھ میں تکلیف کا حساس ختم ہو گیا تھا اور پولیس والے بھی حیران ہوتے تھے کہ یہ شخص ہے کس چیز کا بنا ہوا؟ اتنا ہم اُس کو تکلیف پہنچارہے ہیں لیکن اس کو کچھ نہیں ہورہا.تو دراصل یہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بعض دفعہ خدا اس وقت غیر معمولی طور پر انسان کی حفاظت فرماتا ہے.یہی بات مجھے ۷۴ء کے فساد کے دنوں میں ایک اور احمدی نے بتائی جن کو اینٹوں سے کوٹا گیا تھا.ان کا منہ جو تھا وہ کر چیوں کا ایک تھیلا بن چکا تھا.ہڈیاں ٹوٹیں ، دانت ٹوٹے اور بہت ہی دردناک حالت تھی اور خدا نے بچالیا.بعد میں جب سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہو گیا تو تب بھی ان کا منہ بے چارے کا اسی طرح زخموں سے بگڑا ہوا تھا.ان سے میں نے ایک دفعہ پوچھا کہ آپ مجھے بتائیں کہ اُس وقت آپ کی حالت کیا تھی جب اس قدر خوفناک سزا دی جارہی تھی اینٹوں سے منہ کوٹنا کوئی معمولی بات تو

Page 401

حضرت خلیہ مسیح الرایہ کے مستورات سے خطابات ۳۹۷ خطاب ۲۶ را گست ۱۹۹۴ء نہیں ہے.تو مسکرا کے کہا کہ چپ ہی کر جائیں لوگ یہی سمجھتے ہیں میں نے بڑی قربانی کی ہے مگر مجھے تو کچھ بھی نہیں پتہ لگا اور اُس وقت مجھے سمجھ آئی کہ شہادت کی دعائیں کیوں کیا کرتے تھے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہو کر تکلیفیں اٹھا کر، زخم کھا کر ، پھر کیوں شہادت کی دعائیں کیا کرتے تھے.خدا اپنے فضل کے ساتھ اُس وقت ایسی تائید فرماتا ہے کہ انسان کو شدید زخموں کے باوجود وہ دکھ نہیں ہوتا جو دشمن سمجھتا ہے کہ اسے ہم پہنچارہے ہیں.اب یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ ہر زخمی ہونے والے کی یہی کیفیت ہو گی مگر یہ ایسی دو گواہیاں ہیں جن کا میں خود گواہ ہوں اور بلا تکلف انہوں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے موقع پر ہماری حفاظت فرما تا رہا ہے.چنا نچہ کھتی ہیں سندھیوں کی طرف سے ہمیں پیغام آنے شروع ہوئے کہ ہم آپ کے گھروں اور بچوں کی حفاظت کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن نسیمہ نے انہیں جواب دیا کہ ہم اپنے گھروں کی حفاظت خود کریں گے.چنانچہ وہ کہتی ہیں کہ ہم نے خود پہرے دیئے.لطیف صاحب اور والد صاحب کی طرف سے بہت پریشانی تھی کہ نا معلوم وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں.ان کے ساتھ ستائیس اور احمدیوں کو بھی گرفتار کر کے لے گئے.سکھر کے حالات سنگین صورت اختیار کر گئے.احمدیوں کی آزادی سلب ہوگئی ، گیارہ احمدی شہید ہو گئے ، ان حالات میں سکھر کونئی قیادت کی ضرورت تھی.اب بھی وہ کہتی ہیں کہ اس وقت میرے شوہر لطیف کے سوا کوئی اور ایسی چیز نہیں تھی جو میں دین کے لئے پیش کر سکتی اور میں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ یہ توفیق دے کہ میں اپنا پیارا خاوند دین کے لئے پیش کردوں.کہتی ہیں ایسی یہ دعا میری قبول ہوئی کہ ان شدید خطرے کے دنوں میں جب کہ سکھر جانا ہی ایک احمدی کے لئے خطرے کا موجب تھا اُن کے میاں کو سکھر کا امیر مقرر کر دیا گیا اوران کولازماً اپنا زمیندارہ چھوڑ کر سکھر جانا پڑا اور یہ نسیمہ بھی اُن کے ساتھ وہاں رہیں.کیونکہ میں اُس زمانے میں ان سب لوگوں سے واسطے رکھتا تھا اور میری خدمات میں اولین خدمت ان حادثات سے متاثر ہونے والوں کے لئے وقف تھیں اس لئے میں جانتا ہوں ان کے ساتھ میرا مسلسل رابطہ رہا اور بڑے حو صلے اور ہمت سے نسیمہ اور ان کے والد اور لطیف کے والد اور پھر ان کے بچوں نے غیر معمولی بہادری اور ہمت سے احمدیت کی خاطر اپنے دوسرے مظلوم بھائیوں کی حفاظت کی اور ان کے مقدمے لڑے ان کی ضرورتیں پوری کیں اور اللہ تعالیٰ نے پھر اپنے فضل سے ان کو بھی خطرات سے بچالیا.

Page 402

۳۹۸ خطاب ۲۶ اگست ۱۹۹۴ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ایک دفعہ انہوں نے مجھے لکھا کہ ہمارے گھروں کے اوپر موت کے نشان لگ چکے ہیں اور حملہ آور بھی آتے رہے ہیں اور ہمیں متنبہ کر دیا گیا ہے کہ اب تمہاری زندگیوں کے چند دن رہ گئے ہیں اور ساتھ ہی مجھے تسلی دی کہ آپ بالکل مطمئن رہیں، ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے.جو مرضی کرنا ہے کریں ہم ایک ذرہ بھی اس جگہ سے نہیں ہٹیں گے.جو منصب جماعت نے ہمارے سپرد کیا ہے ہم اُس پر قائم رہیں گے.پس اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کو منصب پر بھی قائم رکھا اور ان کی حفاظت بھی فرمائی.یہ خود بیان کرتی ہیں، اس قسم کی دھمکیوں کے متعلق کہتی ہیں ایک دن گیٹ پر ایک نامعلوم خط پڑا ہوا ملا.ایسے ہی خطوط پہلے شہداء کو بھی لکھے جاتے تھے.جو گیارہ شہید ہوئے تھے ان میں سے کچھ تو اکٹھے ایک جگہ شہید ہوئے تھے، کچھ کو پہلے خط ملتا تھا اور بتایا جا تا تھا کہ تمہاری موت سر پر کھڑی ہے ابھی بھی تو بہ کر لو اور جب وہ ثابت قدم رہتا تھا تو پھر عین مقررہ وقت پر اسی طرح ان کو شہید کیا جاتا تھا.کہتی ہیں ایک دفعہ میں نے دروازہ کھولا تو میرے دروازے پر بھی وہ خط پڑا ہوا تھا.خط ہاتھ میں پکڑے ہوئے میرا جسم کانپ رہا تھا ، دکھ کی شدت سے وہاں کھڑے کھڑے بے ساختہ انتہائی گریہ وزاری سے اپنے مولا کے حضور التجا کی کہ یا باری تعالیٰ ! اتنی جلدی تین چار سال اور تو کچھ ہمیں خدمت کا موقع دیا ہوتا.اللہ نے ہی پھر حفاظت فرمائی اور وہ خط بے اثر رہا.خورشید بیگم صاحبہ اہلیہ محمد زمان صاحب لکھتی ہیں میں نے شروع سے ہی احمدیت کی راہ میں بہت تکلیفیں اٹھائی ہیں ، بہت ظلم برداشت کئے ہیں.چنیوٹ میں ہماری رہائش تھی.ایک دفعہ جلوس کی شکل میں مخالفین اکٹھے ہو کر آگئے اور گھر کو آگ لگانے کی کوشش کی.ہمسایوں نے بڑی بہادری سے دفاع کیا اور اللہ نے اپنے فضل سے ہمیں محفوظ رکھا.یہ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اکثر جگہ یہ دیکھا گیا ہے کہ غیر احمدی شرفاء نے اپنے احمدی ہمسایوں کی اگر ظاہری نہیں تو خفیہ مدد ضرور کی ہے.یہ اس لئے میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ ساری قوم کو ہم ملزم نہیں کر سکتے ، ساری قوم مجرم نہیں ہے.حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں شدید ترین مخالفت کے دوران بھی شرافت کی رگ ضرور زندہ رہی ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو بعض احمدیوں کے اوپر جوان کے بد ارادے تھے ان کا بہت بھیانک نتیجہ نکل سکتا تھا.میں نے چونکہ بعد میں تاریخ اکٹھی کرنے کی خاطر وقف جدید کے زمانے میں اپنے معلم بھیج کر، انسپکٹر بھیج کر یا ویسے جماعتوں کو لکھ کر حالات اکٹھے کرنے شروع کئے تو اس دوران مجھے معلوم ہوا کہ بہت سے غیر احمدی شرفاء ایسے تھے جنہوں نے خود اپنی جان

Page 403

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۳۹۹ خطاب ۲۶ / اگست ۱۹۹۴ء پر خطرہ مول لینے کے باوجود اپنے احمدی ہمسایوں کو بچانے کی کوشش کی اسی لئے میں نے جب گزشتہ جلسے میں مولویوں پر اور شدید مولویوں پر بد دعا کی جماعت کو اجازت دی تھی تو تاکید کی تھی کہ عامتہ الناس کے خلاف کوئی بددعا نہیں کرنی.انہی میں بڑے بڑے قیمتی جو ہر چھپے ہوئے ہیں اور اللہ توفیق عطا فرمائے گا کہ ان جان لینے والوں میں سے جان قربان کرنے والے کثرت سے نکلیں گے.آپ سب لوگ بھی تو اسی معاشرے سے نکل کر آئے ہیں اس لئے دعا یہ کریں کہ اللہ تعالیٰ اب یہ آزمائش کے دن جس میں خود اُس نے ہمیں اپنے ہی فضل کے ساتھ صبر کی توفیق بخشی ہے ، یہ دن اب ٹال دے اور نیک نتائج اور ثواب کے دن چل پڑیں، اجر کے دن چل پڑیں، اور لامتناہی ہو جائیں اس قدر ان مظلوموں کی آہوں کو قبول کرتے ہوئے، ان پر رحم فرماتے ہوئے عالمگیر جماعت پر عالمگیر برکتیں نازل فرمائے کہ ان کا شمار کرنا ممکن نہ رہے.اور امر واقعہ یہ ہے کہ اس دور میں ہم داخل ہو چکے ہیں جو آج تک آپ لوگ دیکھ چکے ہیں یا آپ خواتین دیکھ رہی ہیں، ہر سال جماعت دیکھیں کتنے بڑے سے بڑے فضل لے کر آ رہا ہے.میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ آئندہ چند سالوں میں عظیم انقلابات رونما ہونے شروع ہو جائیں گے اور ملک کے ملک اور قوموں کی تو میں انشاء اللہ احمد یت میں داخل ہوں گی لیکن آپ یا درکھیں کہ یہ ساری باتیں اُن احمدی مظلوموں کی آہوں کا ثمرہ ہیں، اُن مارکھانے والے بچوں کی بلکتی ہوئی دعاؤں کا ثمرہ ہیں، اُن سسکیوں کا ثمرہ ہیں جو ماؤں نے لیں جو اپنے بچوں اور بچیوں کے زخمی ہاتھ دیکھے اور کچھ نہیں کر سکتی تھیں.ہم بھول سکتے ہیں ان باتوں کو اور بسا اوقات تو میں اپنی ایسی دردناک تاریخ کو بھلا بھی دیا کرتی ہیں مگر خدا نہیں بھولتا اس کی قربانی کرنے والے کی ایک ایک ادا پر نظر ہوتی ہے.اس کی ایک ایک سانس کی قیمت ادا کرتا ہے.ہر دکھ کے بدلے احسانات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کر دیتا ہے.پس اب جو کچھ فضل جماعت پر ہورہے ہیں اور یہاں آنے کے بعد جو آپ لوگوں کی کایا پلٹی ہے تو ہمیشہ ان مظلوموں کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.اُن غربیوں اور بے کسوں اور بے سہاروں کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں جنہوں نے عظیم قربانیاں پیش کیں مگر اپنے ایمان کو بچایا اور راہ صداقت پر ثابت قدم رہیں.ان عورتوں کی قربانیاں بھی ہمیشہ انشاء اللہ احمدیت کی تاریخ میں زندہ رہیں گی اور اس لائق ہیں کہ زندہ رکھی جائیں اسی لئے میں نے یہ مضمون شروع کیا ہے.یہی وجہ ہے کہ با قاعدہ بجنات کو مقرر کر کے ایسے تمام گھروں کی فہرستیں بنوا کر ، اُن کے دروازے کھٹکھٹا کھٹکھٹا کر وہاں سے یہ واقعات اکٹھے

Page 404

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۴۰۰ خطاب ۲۶ / اگست ۱۹۹۴ء کئے گئے ہیں ورنہ یہ واقعات اُن کے ساتھ خاموشی کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہو جاتے اور ہماری تاریخ کا ایک قیمتی سرمایہ ہمارے ہاتھ سے نکل جاتا.انشاء اللہ تعالیٰ اور بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا کیونکہ جماعت احمدیہ کی خواتین کی قربانیاں کوئی معمولی نہیں.ایسی نہیں ہیں کہ انہیں سو یا دوسو یا چار سو صفحات پر بھی محفوظ کیا جا سکے، کئی سلسلے کتابوں کے لکھے جاسکتے ہیں اور ابھی تو ہم نے مختصر ان کے دل کے تاثرات لکھے ہیں.کئی مہینے تک روزانہ جو ان مظلوموں پر گزرتی رہی اور جن دردناک حالات سے وہ گزریں اُن کا شمار کرنا، اُن کا احاطہ کرنا بہت مشکل کام ہے.پس لجنہ اماءاللہ جرمنی کو بھی چاہئے کہ یہاں بھی وہ ایسی خواتین جو مختلف سخت وقتوں سے گزر کر آئی ہیں ان کا تتبع کریں، ان کی فہرستیں تیار کریں اور ان کی آپ بیتی خود ان کی زبان سے لکھوائیں.اگر زبان کمزور ہے تو اصلاح نہ کریں، جس زبان میں وہ لکھواتی ہیں اسی طرح لکھ دیں.اگر پنجابی بولتی ہیں تو پنجابی میں لکھ دیں مگر جو حقیقت میں اس کی زبان کا لطف ہے جس پر سے گزری ہو وہ خواہ کیسی اچھی زبان ہو دوسرے کی زبان میں بات پیدا نہیں ہوسکتی.جس کے دل پر گزرتی ہے اس کے ٹوٹے پھوٹے فقرے میں بھی زیادہ طاقت ہوتی ہے بہ نسبت اس کے کہ کوئی اچھا قلم کا راس کی جگہ اس کے واقعہ کو بیان کرنے کی کوشش کرے.پس آپ سب کے پاس یہ جو امانتیں ہیں ان کی حفاظت کریں اور آئندہ اپنی نسلوں کو بھی یہ باتیں سناتی رہیں کیونکہ یہ احمدیت کے قیمتی سرمائے ہیں.یہ سرمائے نہیں ، وہ سرمایہ کاری ہے جس کا پھل ہم آج کھا رہے ہیں اور کل بھی کھاتے رہیں گے.ساری صدی اس سرمایہ کاری کا پھل کھاتی رہے گی مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم آرام پسندی اور تعیش کی زندگی میں داخل ہو جائیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس حقیقت کو چھٹے رہیں کہ قوموں کی زندگی ان کے ایثار پر وابستہ ہے.شہیدوں کے خون ہی میں قوموں کی حیات کا راز مضمر ہے.آب حیات کے قصے آپ نے سنے ہیں، ہر دوسرا قصہ جھوٹ ہے مگر شہید کا خون یقیناً آب حیات کا حکم رکھتا ہے.یہی بات ہے جو قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے.بَلْ أَحْيَا وَلكِنْ لا تَشْعُرُونَ (البقره: ۱۵۵) شہیدوں کو مرا ہوا نہ کہو وہ تو زندہ ہیں لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں ہے.پس یہ وہ آب حیات ہے جس کے جسم سے بہتا ہے اسے بھی زندہ کر جاتا ہے اور آنے والی نسلوں پر جن پر ان قربانیوں کے چھینٹے پڑتے ہیں اُن کو بھی زندہ کر جاتا ہے.پس اس آب حیات کی قدر سمجھیں اور ان قربانیوں کے ساتھ چھٹی رہیں.اپنی آئندہ نسلوں کو

Page 405

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۴۰۱ خطاب ۲۶ اگست ۱۹۹۴ء بھی ہمیشہ قربانیوں پر آمادہ کرتی رہیں اور یہ نہ سمجھیں کہ یہ قربانیوں کا دور صرف پاکستان کی حد تک ہی محدود ہے یا محدود در ہے گا.جب بھی روحانی قو میں ، جب بھی مذہبی قو میں دنیا میں ترقی کرتی ہیں تو اُن کی ترقی کے ساتھ ساتھ حسد کی آگ ضرور بھڑکتی ہے اور ملک کا نام چاہے کوئی بھی ہو، خواہ وہ مشرق کا ملک ہو خواہ مغرب کا ملک ہو جب بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اٹھی جماعتیں نشو ونما پاتی ہیں تو ان پر مظالم ہوتے ہیں اور بہت سخت مظالم ہوتے ہیں.یورپ کی زمین بھی اس بات پر گواہ ہے کہ مذہب کے نام پر یہاں بہت شدید مظالم کئے گئے ہیں پس آپ امن میں نہیں ہیں.اگر یہ بجھتی ہیں کہ آپ ہمیشہ کے لئے دنیا کے مظالم کے ہاتھوں سے امن میں آچکی ہیں تو یہ غلط خیال ہے.امن صرف اللہ کی حفاظت میں ہے، اللہ کے پیار میں ہے، اللہ ہی کی محبت ہے جو آپ کے امن کی ضمانت دے سکتی ہے اس کے سوا کوئی ملک، کوئی قوم کسی بڑی قوم کے ساتھ دوستی اور تعلقات آپ کے امن کی ضمانت نہیں ہیں کیونکہ وہ زمانہ جرمنی پہ بھی آسکتا ہے ، انگلستان پہ بھی آسکتا ہے، یورپ کی دوسری قوموں پر بھی ، فرانس پر اور چین پر، سوئٹزرلینڈ پر یہ زمانے آ سکتے ہیں مگر وہی ان زمانوں کو دیکھیں گے جو ترقی کریں گے اور جن کی ترقی اس تیز رفتاری کے ساتھ ہونی شروع ہو جائے گی کہ قومیں سمجھیں گی کہ اب یہ غالب آنے والے ہیں.پس سب سے پہلے یہ خطرہ مجھے جرمنی میں محسوس ہورہا ہے.کیونکہ آج یورپ میں سب سے تیز رفتاری کے ساتھ جرمنی کی جماعت ترقی کر رہی ہے.پس آج جب میں یہ بات کہہ رہا ہوں تو آپ کو عجیب لگے گی لیکن یہ امر واقعہ ہے تمام مذہب کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ جس جگہ بھی ، جس ملک میں بھی ، جس قوم میں بھی خدا کے پیغام نے ترقی کی ہے، خدا والوں نے ترقی کی ہے وہاں ضرور شدید رد عمل ظاہر ہوتا ہے.آج نہیں تو کل ایسا ہو گا اُس وقت کے لئے تیاری کریں.اس وقت کی تیاری کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے بچوں کو اپنی نسلوں کو اُن قربانیوں کے تذکرے، قصے سناتی رہیں.ان کے دلوں میں عزم پیدا کرنے کے لئے ، ڈرانے کے لئے نہیں، اس حکمت کے ساتھ اور اس پورے عزم کے ساتھ کہ آپ کے تذکرے اُن کے دل میں خوف نہیں بلکہ قربانی کے لئے ولولے پیدا کریں، نئے جوش سے ان کو بھر دیں اور وہ اپنے آپ کو ہمیشہ اس بات پر تیار پائیں کہ خدا کی خاطر دنیا کی جو سرزمین کبھی خون مانگے گی وہ اپنا خون پیش کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہیں گے.اگر احمدی مائیں اس نصیحت پر عمل کریں تو پھر احمدیت کو دنیا میں کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچا

Page 406

حضرت خلیفہ آسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۰۲ خطاب ۲۶ اگست ۱۹۹۴ء سکتی کیونکہ ایسی عظیم مائیں ہی ہیں جو اپنے دودھ میں بچوں کو قربانیوں کی تمنائیں پلاتی ہیں ،شہادت کی آرزوئیں پلاتی ہیں اور صبر و استقامت کے راز پلاتی ہیں اور ایسی ماؤں کے بچے ہمیشہ قوموں کی زندگی کا موجب بنا کرتے ہیں.یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق اللہ فرماتا ہے کہ جب شہید بھی ہو جائیں تو ان کو مردہ نہ کہو کیونکہ وہ تو ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیئے گئے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ کل یہ واقعہ ہو ، پرسوں یا آئندہ کسی وقت لیکن میں تاریخ پر نظر رکھتے ہوئے آپ کو بتا رہا ہوں کہ خدا کی خاطر ترقی کرنے والی قومیں جو الہی آگے قدم بڑھاتی ہیں ان کے راستے میں ضرور گڑھے کھودے جاتے ہیں ، اُن کو ضرور آزمائشوں میں سے گزرنا پڑتا ہے لیکن یاد رکھیں کہ اگر آپ اللہ پر توکل رکھتے ہوئے اس طرح قربانی کے رستے پہ آگے بڑھیں گی تو تمام آگئیں آپ کے لئے ٹھنڈی کر دی جائیں گی.ہر تکلیف دوسروں کو دکھائی دے گی مگر آپ خوشی کے ساتھ مسکراتی ہوئی ان تکلیفوں میں سے گزر جائیں گی.ہمیشہ سے یہی ہوا ہے اور یہی ابراہیمی سنت کی روح ہے جو قرآن کریم نے ہمارے لئے ہمیشہ کے لئے محفوظ فرما دی ہے.قرآن کریم فرماتا ہے کہ جب ابراہیم کو آگ میں ڈالنے کی تیاری ہو رہی تھی اور آگ میں جھونکنے کے لئے قوم تیار ہو چکی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا نَارُ كُونِى بَرْدًا وَ سَلَمَّا عَلَى إِبْرَاهِيمَ (الانبياء ٧٠ ) اے آگ! میرے بندے ابراہیم پر ٹھنڈی ہو جا اور وہ آگ ٹھنڈی ہوگئی.یہ وہ حقیقت ہے جو ہمیشہ سے ابرا ہیمی صفت لوگوں کے حق میں پوری ہوتی چلی آئی ہے.لوگ سمجھتے ہیں یہ ماضی کا واقعہ ہے، ہزاروں سال پہلے کی بات ہے، صرف ابراہیم کے لئے ہوئی تھی ،مگر ہرگز نہیں.ابراہیمی صفت رکھنے والے ہر بندے کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے آسمان سے یہ آواز اُترتی ہے کہ يُنَارُ كُونِی بَردًا سَلَمَّا عَلَى اِبراهیم آپ جن کو نہایت تکلیف اور دکھوں کی حالت میں جان دیتے ہوئے دیکھتے ہیں، جیسا کہ میں نے بیان کیا آپ کو کیا پتہ کہ ان کی اپنی کیفیت کیا تھی.یقیناً اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں ، ان کو سکینت بخشتے ہیں، ان کو اطمینان دلاتے ہیں ، ان کے غموں کا ساتھی بن جاتے ہیں، ان کو آئندہ کی خوش خبریاں دیتے ہیں.اور یہ بات جو میں کہہ رہا ہوں اپنے منہ سے نہیں، قرآن نے یہ بات سکھائی ہے.قرآن ہی کا پیغام میں آپ تک پہنچاتا رہا ہوں.قرآن کریم فرماتا ہے إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا یقیناً وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے ثُمَّ اسْتَقَامُوا پھر اس بات پر قائم ہو جاتے ہیں اور کوئی آندھی ، کوئی زلزلہ ان کو اپنی بات سے ٹال نہیں سکتا.پھر کیا ہوتا ہے

Page 407

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۰۳ خطاب ۲۶ اگست ۱۹۹۴ء 66 تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا کثرت سے ان پر آسمان سے فرشتے نازل ہوتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ خوف نہیں کرنا اور جو کچھ تم نے کھو دیا ہے اس پر غم نہیں کرنا." نَحْنُ اَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْیا ، ہمیں تو خدا نے اس لئے بھیجا ہے کہ اگر تم اس دنیا میں خوش رہو تو تب بھی اس دنیا میں ہم تمہارے ساتھ رہیں گئے وَ فِي الْآخِرَةِ (حم السجده: ۳۱ ۳۲) آخرت میں بھی تمہارا ساتھ نہ چھوڑیں گے.پس یہ ایک حق بات ہے.جو شہید ہوئے اور اُس دنیا میں چلے گئے ان سے ہم پوچھ تو نہیں سکتے تھے مگر جو شہادت کے قریب پہنچے اور واپس آئے وہ سب اس بات پر گواہ ہیں کہ جب خدا کی خاطر انہوں نے استقامت دکھائی تو واقعہ ان کے دلوں پر فرشتے نازل ہوئے ہیں، ان کو غیر معمولی استقامت بخشی ہے اور وہ آگ جو دنیا کو آگ دکھائی دے رہی تھی ان کے لئے گلزار بن جاتی رہی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی اسی مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار (در ثمین صفحه : ۱۵۴) جن کے دل میں اللہ کا پیار ہے ان پر آگ حرام کر دی جاتی ہے.وہ مر بھی جائیں تو زندہ رہتے ہیں، وہ زندہ رہیں تو فاتح اور غازی بن کر زندہ رہتے ہیں.پس آنے والی نسلوں کو اسی راہ پر گامزن رکھیں.آپ کل کی مائیں ، آپ کل کی قوم کی سردار ہیں، آپ وہ ہیں جن کے متعلق حضرت محمد رسول اللہ نے فرمایا کہ ماؤں کے پاؤں تلے جنت ہے.آپ ہی کے پاؤں تلے جنت ہے اگر آپ جیسا کہ میں نے آپ سے عرض کیا ہے قرآنی تعلیم کے مطابق اپنے بچوں کی پرورش کریں.لیکن اگر آپ نے ویسا نہ کیا تو اس جنت کی پھر کوئی ضمانت نہیں ماؤں کے پاؤں تلے سے بعض لوگ جہنم بھی لے لیتے ہیں مگر میں یقین رکھتا ہوں، مجھے ذرہ بھی شک نہیں کہ انشاء اللہ احمدی مائیں نسلاً بعد نسل ایسی مائیں بنی رہیں گی کہ جن کے پاؤں تلے سے ان کی اولادیں جنت حاصل کرتی رہیں گی.اللہ ان جنتوں کو دائمی کردے، آپ کو اپنا پیار اور حقیقی پیار عطا کرے، وہ محبت عطا کرے جس محبت کے بعد ہر قربانی آسان دکھائی دیتی ہے اور حقیقت میں یہ الہی محبت ہی ہے جس کے ذریعے سے قربانیاں آسان ہوتی ہیں.میں نے آپ کے سامنے یہ واقعات رکھے اب میں ان واقعات کے بعد آپ کو حوصلہ دینے کی جو کوشش کر رہا ہوں اس کی ایک وجہ ہے کیونکہ میں نے یہ واقعات آپ کو ڈرانے کے لئے نہیں

Page 408

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۴۰۴ خطاب ۲۶ اگست ۱۹۹۴ء بتائے تھے، آپ کو سہا دینے کے لئے نہیں بتائے تھے بلکہ اس لئے بتائے تھے کہ آپ اپنے سے پہلے گزرنے والی نسلوں کی قربانیوں کو یادرکھیں اور ان کے نقش قدم پر چلنے کے لئے اپنے دل میں نئے ولولے اور نئے عزم پیدا کریں اور ان ولولوں اور ان عزموں کی حفاظت کریں اور ان مشکلات کی راہ سے گزرنے کا آسان رستہ بھی میں آپ کو بتارہا ہوں.یہ ہر مشکل راہ محبت سے آسان ہوتی ہے.محبت خواہ دنیا کی بھی ہو ہر مشکل کو آسان کر دیتی ہے.مجنوں پر کیا گزری تھی کہ عمر بھر دشت پیمائی کرتارہا.صحرا نوردی اس کا مقدر بن گیا لیکن اس کو اس میں کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی تھی کیونکہ وہ لیلیٰ کی تلاش میں صحرا صحرا کی ریت چھانتا پھرا اور اس امید پر کہ لیلیٰ کا محمل کبھی یہاں سے گزرے گا تو میں ایک نظر اس کو دیکھ لوں گا اس نے اتنی شدید مشقتیں برداشت کیں.تو کیا اللہ کی محبت مجنوں کی محبت سے بھی کم درجے کی ہے.لیلیٰ کی محبت سے بھی کم درجے کی ہے، کیا خدا کے عاشق مجنوں سے کم مرتبہ ہوتے ہیں.ہرگز نہیں.محبت میں ایک عظیم طاقت ہے، ایک نا قابل بیان قوت ہے جس کے ذریعے انسان کی کایا پلٹ جاتی ہے.مشکل سے مشکل کام اس پر آسان ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے یہ شعر میں نے پہلے بھی شاید آپ کو سنائے ہیں، کتنا پیارا کلام ہے، محبت کی طاقت کے متعلق فرماتے ہیں.اے محبت عجب آثار نمایاں کردی زخم و مرہم برہ یار تو یکساں کر دی اے محبت میں تجھ پر قربان جاؤں ، ” عجب آثار نمایاں کر دی تو نے حیرت انگیز آثار ظاہر گئے زخم و مرہم برہ یار تو یکساں کر دی تو نے یار کے رستے میں زخم اور مرہم کو ایک جیسا ہی بنا دیا ہے.جیسے مرہم میں آرام ملتا ہے ویسے ہی یار کی راہ میں زخم کھاتے سے آرام ملتا ہے.پھر فرماتے ہیں.تا نه دیوانه شدم ہوش نہ آمد بسرم اے جنوں گرد تو گردم که چه احساس کردی ( در تمین فارسی صفحه: ۲۵۸) اے محبت جب تک میں پاگل نہیں ہو گیا عشق میں ،اس وقت تک مجھے ہوش نہیں آیا.” تانہ دیوانہ شدم “ جب تک میں دیوانہ نہیں ہو گیا ہوش نہ آمد بسرم“ میرے سر میں ہوش تو نہیں آیا.”اے جنوں گرد تو گردم “اے جنوں میرا دل چاہتا ہے میں تیرا طواف کرتا رہوں جیسے خانہ کعبہ کا طواف کیا جاتا ہے ” کہ چہ احساں کر دی تو نے مجھ پر عجیب احسان کر دیا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ کی خاطر، محمد رسول اللہ کی خاطر جو عظیم زندگی بھر کواللہ

Page 409

۴۰۵ خطاب ۲۶ را گست ۱۹۹۴ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات قربانیاں پیش کرنے کی توفیق ملی ہے وہ محبت ہی نے آسمان کی تھیں.محبت ایک عجیب کیفیت ہے، جو ایک عجیب طاقت ہے جو ناممکن کو ممکن کر دکھائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب صحابہ اور صحابیات کو قربانیوں کی توفیق ملی تو اس کا فلسفہ بھی یہی ہے کہ وہ محبت میں گم ہو چکے تھے، محبت میں فدا ہو چکے تھے اگر محبت نہ ہوتی تو ان کے لئے ناممکن تھا کہ ان کڑی راہوں سے گزر سکتے.ان سختیوں کو جھیل سکتے ، ان مشقتوں کو برداشت کر سکتے جو دین کی راہ میں ان کو دیکھنی پڑی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بھی خدا کی محبت کے بعد ان پر حیرت انگیز اثر دکھا رہی تھی اور اس محبت کی خاطر وہ دیوانہ وار ہر قربانی کے لئے تیار ہو جاتے تھے.ایک جنگ کے موقع پر ایک مسلمان خاتون کا یہ واقعہ ہمیشہ اسلامی تاریخ پر ستاروں کی طرح روشن اور چمکتا رہے گا.اس نے جب یہ سنا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو چکے ہیں تو مدینہ سے دیوانہ وار کی کسی اور چیز کی ہوش نہیں رہی.میدان اُحد کی طرف دوڑی چلی جارہی تھی اور ہر ایک سے پوچھتی تھی کہ محمد مصطفی کا کیا ہوا.ایک موقع پر ایک آنے والا جانتا تھا کہ اس خاتون کا خاوند بھی شہید ہو چکا ہے، اس کا بھائی بھی شہید ہو چکا ہے، اس کا بیٹا بھی شہید ہو چکا ہے.اس نے جب اس سے پوچھا کہ مجھے بتاؤ محمد مصطفی کا کیا ہوا.اس نے کہا بی بی تمہارا خاوند شہید ہو گیا ہے.لیکن میں خاوند کا کب پوچھتی ہوں.مجھے بتاؤ کہ محمد رسول اللہ کا کیا ہوا.اس نے سمجھا شاید خاوند کی محبت بعض لوگوں کو نہیں ہوتی.اس نے کہا بی بی تمہارا بھائی بھی شہید ہو گیا ہے.بڑے غصے سے پلٹ کے اس نے کہا میں بھائی کا کب پوچھ رہی ہوں.مجھے بتاؤ میرے محبوب محمد رسول اللہ کا کیا ہوا.اس نے پھر یہی سمجھا کہ شاید یہ وہ ماں ہے جو بیٹے کی محبت میں سرشار ہے، نہ بھائی کی پرواہ ، نہ خاوند کی ، آخر اس نے یہ خبر تو ڑی کہ بی بی تمہارا بیٹا بھی شہید ہو چکا ہے.تڑپ گئی ہے، میں بیٹے کا کب پوچھتی ہوں.مجھے بتاؤ میرے محمد کا کیا بنا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا بیتی.عجب اتفاق ہوا ، خدا تعالیٰ کا تصرف تھا کہ ابھی وہ یہ کہہ ہی رہی تھی کہ دور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوصحابہ کے جھرمٹ میں زخمی حالت میں ان کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے آتے ہوئے دیکھا.دوڑ کے گئی اور دیکھتے ہوئے مسرور ہو گئی.اور اس کے منہ سے یہ فقرہ بے اختیار نکلنا شروع ہوا.و كل مصيبة بعدك جلل ـ كل مصيبة بعدک جلل کہ اے میرے محبوب ! اگر تو زندہ ہے تو ہر دوسری مصیبت ٹل چکی ہے، میرے لئے آسان ہوگئی.مجھے کچھ پرواہ نہیں ہے اور مصیبتیں کیا ہیں.تو دیکھو یہ عشق ہی تھا جس نے ایک بیوہ کو اپنے خاوند کا غم برداشت کرنے کی توفیق بخشی.

Page 410

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۴۰۶ خطاب ۲۶ / اگست ۱۹۹۴ء ایک ایسی عورت کو جس کا بھائی شہید ہو چکا تھا اس کا غم برداشت کرنے کی توفیق بخشی.ایک ایسی ماں کو جس کا بیٹا شہید ہو چکا تھا اس کا غم برداشت کرنے کی توفیق بخشی اور یہ سارے غم محمد رسول اللہ کی محبت کے سامنے بالکل حقیر اور بے معنی ہو کر دکھائی دینے لگے.پس مشقتوں کے قصے جب آپ سنتی ہیں تو ان سے مرعوب نہ ہوں.وہ مشقتیں جو خدا کی راہ میں آتی ہیں.ان کی توفیق بھی خدا سے عطا ہوا کرتی ہے.اور اس کا راز محبت ہے اگر اللہ سے آپ محبت اپنے دلوں میں پیدا کر دیں گی تو اپنے بچے بھیٹر بکریوں کی طرح دکھائی دیں گے.ایک مسلمان عورت کے متعلق آتا ہے کہ اس کے سات بچے تھے.اس نے سات بچوں کو میدان جنگ میں جھونک دیا اور کہا میں ایک کو بھی واپس آتا نہ دیکھوں.اگر تم میں سے کوئی ایک میدان جنگ چھوڑ کر بھاگا تو میں تمہاری ماں نہیں.تم ساتوں جاؤ اور خدا کی راہ میں شہید ہو جاؤ.یہ عقل کی باتیں تو نہیں ہیں.یہ محبت کے قصے ہیں.پس محبت ہی ہے جو آپ کو آئندہ قربانیوں کے لئے تیار کرے گی.اللہ کا پیارا اپنے دلوں میں پیدا کریں، اللہ کے پیار کو اپنے دلوں میں پالیں، اللہ کے پیار کو اپنے دودھ میں اپنے بچوں کو پلائیں ، اور یوں میں ان کو سنائیں.بچپن سے خدا کے عشاق پیدا کر دیں پھر ہر مصیبت آسان ہی آسان ہے.دنیا کا کوئی ابتلاء آپ کو ڈرا نہیں سکے گا.یہ چند واقعات جو آپ نے احمدی ماؤں کی قربانیوں کے سنے ہیں یہ بالکل معمولی اور حقیرسی چیزیں دکھائی دینے لگیں گی.آپ ان سے بہت بڑھ چڑھ کر خدا کی محبت میں قربانیوں کے لئے اپنے آپ کو تیار پائیں گی.اللہ کرے کہ ایسا ہو.احمدی عورتوں کی نسلوں کے بعد نسلیں خدا کی محبت میں سرشار پیدا ہوتی چلی جائیں اور خدا کی محبت میں سرشار نسلیں پیچھے چھوڑ کر رخصت ہوا کریں.آمین.اب میں باقی واقعات کو سر دست چھوڑ دیتا ہوں کیونکہ وقت کافی ہو چکا ہے اور جو میرا مقصد تھا وہ میں نے کھول کر بیان کر دیا ہے.ان واقعات کو زندہ رکھنا ہمارا فرض ہے، ہماری ذمہ داری ہے اور یہ قرض ہے ان شہیدوں اور ان خدا کی راہ میں تکلیفیں اٹھانے والوں کا ہم پرلیکن اگر ہم اس قرض کو ادا کریں گے اور جیسا کہ میں نے آپ سے بیان کیا ہے خدا کی محبت میں سرشار ہو کر اس جذ بہ قربانی کو اپنا لیں گے تو آئندہ نسلوں پر ہم احسان کرنے والے ہوں گے.ہم ایک ایسی قوم بن جائیں گے جو شہیدوں کی طرح ہمیشہ زندہ رہتی ہے.اللہ ہمیں ابدالآباد تک زندہ رکھے.اب آیئے دعا میں شامل ہوجائیں.

Page 411

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۴۰۷ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۵ء میر دہ اور اس کی روح ( جلسہ سالانہ مستورات برطانیہ سے خطاب فرمودہ ۲۸ / جولائی ۱۹۹۵ء) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل قرآنی آیت کی تلاوت فرمائی: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ذلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللهُ غَفُورًا رَّحِيمًا (الاحزاب : ۶۰ ) (ترجمہ) اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہہ دے کہ (جب وہ باہر نکلیں ) اپنی بڑی چادروں کو سروں پر سے گھسیٹ کر اپنے سینوں تک لے آیا کریں یہ امر اس بات کو ممکن بنادیتا ہے کہ وہ پہچانی جائیں اور ان کو تکلیف نہ دی جائے اور اللہ بڑا بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.قرآن کریم کی سورۃ احزاب کی ساٹھویں آیت جو میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے یہ انہیں آیات میں سے ایک ہے جن کی اس سے پہلے ابتداء میں تلاوت کی جاچکی ہے اور اس کا تعلق پردے سے ہے.پردے کا مضمون بار ہا مجھے بیان کرنے کی توفیق ملی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس مضمون کو بیان کرنے اور سمجھا کر ، کھول کر ذہن نشین کرانے کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے.احمدیت ایک ایسے دور میں داخل ہورہی ہے جہاں مختلف قوموں اور مختلف معاشروں سے احمدیت کا رابطہ ہو رہا ہے اور مختلف قدریں ہر سمت سے احمدیت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہیں اور احمدیت تمام قدروں پر اثر ہونے کی کوشش کر رہی ہے.پس اس طرح بڑے وسیع پیمانے پر دریاؤں کا امتزاج

Page 412

حضرت خلیفہ مسح الرابع کے مستورات سے خطابات ۴۰۸ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۵ء ہو تو بعینہ یکساں صورت نہیں رہا کرتی.کچھ اثر قبول کئے جاتے ہیں کچھ اثر چھوڑے جاتے ہیں اور اس طرح باہم امتزاج سے جو وسیع پیمانے پر ہوا ایک نیا مزاج اُبھرتا ہے اور نیا مزاج ظاہر ہو جاتا ہے.پردے سے متعلق میں خصوصیت سے آج اس لئے آپ سے مخاطب ہوں کہ یہ امور جو میں نے بیان کئے ہیں ان کے نتیجے میں مختلف ممالک میں مختلف سوال اُٹھتے رہتے ہیں اور مجھ سے پوچھے جاتے ہیں.مسلمانوں کی طرف سے بھی اور غیر مسلموں کی طرف سے بھی اور اس کے علاوہ احمدیوں کی طرف سے بھی جو پاکستان میں یا ہندوستان میں بستے ہیں.باہر مختلف رنگ میں توجہ دلائی جاتی ہے لیکن اس مضمون کو کھولنے سے پہلے جو میں قرآن کریم کی آیات اور احادیث کے حوالے سے کھولوں گا میں مزید آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس وقت احمدیت کا قافلہ بہت لمبا ہو چکا ہے.ایک سرا اس کا جوا گلاسرا ہے اُس کی اور کیفیت ہے جو سب سے آخر پر چل رہا ہے اس کی اور کیفیت ہے بیچ میں مختلف مزاج اور مختلف نوعیت کے لوگ شامل ہیں اس لئے ان سب کا مختصر اذکر ضروری ہے تا کہ آپ کو پتہ چلے کہ پردے کے تعلق میں احمدی خواتین کیا مسلک اپنائے ہوئے ہیں اور کتنے مسلک اس جماعت کے اندر اس وقت Already یعنی پہلے ہی سے موجود چلے آرہے ہیں.سب سے آگے قافلے کے سر پر جو گروہ اس وقت گامزن ہے اُس میں آپ پر دے کو عموماً پاکستانی برقعے کی صورت میں اس طرح دیکھتی ہیں کہ بعض دفعہ وہ شدت سے بہت بڑھ چکا ہوا ہوتا ہے.میں نے بعض ویڈیوز دیکھی ہیں جو پاکستان میں تیار ہوئیں اور یہاں MTA پر دکھانے کے لئے بھیجی گئیں لیکن دل میں تر ڈ دہوا کہ ان کو اُس طرح پیش کیا جائے.کیونکہ جب پردے کا تصور ایک عالمی حیثیت اختیار کر چکا ہو اور ہر نوع کے دیکھنے والے اور ہر قسم کے دیکھنے والے ہوں تو محض ایک نمونے کو خالصتہ اسلامی نمونے کے طور پر پیش کرنا یہ پردے کے لئے ممد ہونے کی بجائے اس کی راہ میں حائل ہو سکتا ہے اور اس کے رد عمل ایسے ہو سکتے ہیں جو بالآخر اسلام کو فائدہ پہنچانے کی بجائے اس کے لئے نقصان دہ ثابت ہوں گے.پس ایسا کس کر برقعہ باندھا ہو اور صرف آنکھیں نگی ہونے کا احتمال ہو اور اس پر بھی کالی عینک چڑھی ہو جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں عینک کا رواج ہی کوئی نہیں تھا نہ بنائی جاتی تھیں.تو سوال یہ ہے کہ کیا یہی اسلامی پردہ ہے جس کو اختیار کرنا مسلمان خاتون کا فرض ہے اس کے علاوہ اس سے ہٹ کر جو بھی طرز اختیار کی جائے وہ غیر اسلامی ہوگی؟ اگر یہ تصور ہے تو یہ غلط تصور ہے.پردے کی ایک روح ہے جسے تفصیل سے قرآن کریم نے بیان

Page 413

حضرت خلیفہ انسخ الرابع" کے مستورات سے خطابات مسیح ۴۰۹ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۵ء فرمایا ہے اور مختلف پہلوؤں سے اُس پر روشنی ڈالی ہے اُس روح کو جب تک ہمیشہ پیش نظر نہ رکھیں گی اس وقت تک آپ کو حقیقت میں علم ہو ہی نہیں سکتا کہ پردہ ہے کیا اور کن حالات میں کس حد تک اس میں نرمی کی گنجائش ہے کن حالات میں مزید احتیاط کی ضرورت ہے پس بجائے اس کے محض کوئی ایک ملک میں آپ کے سامنے پیش کروں میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اس قافلے کے سر پر تو ایسی خواتین آپ کو دکھائی دیں گی جن کے نزدیک ہاتھوں کا نظر آنا بھی پردے کے خلاف ہے ، جن کے نزدیک آنکھیں اگر کسی کونے سے دکھائی دے جائیں تو وہ بھی بے پردگی ہے اور اس طرح یہ باہر پھریں تا کہ دنیا کو پتہ چل جائے کہ اگر مسلمان ہوں گے تو پردہ کرنا پڑے گا.اس کے برعکس اس کے پیچھے پیچھے کچھ ایسے لوگ ہیں جو درمیانی مزاج رکھتے ہیں پردہ کرتے ہیں مگر اس سختی سے اپنے چہرے کو ڈھانپتے اور کستے نہیں ہیں کہ گویا چہرہ دکھائی دینا ہی بہت بڑا گناہ ہے اور متلون مزاج بھی ہیں ان میں لیکن متدین مزاج بھی ہیں.کبھی متلون مزاج ان معنوں میں کہ کبھی احمدیوں میں آتے ہیں تو پرده نسبتا سخت ہو جاتا ہے کہیں غیروں میں جاتے ہیں تو کچھ زیادہ ڈھیلا ہو جاتا ہے.ان کو میں متلون مزاج کہتا ہوں متدین مزاج وہ ہیں جو مناسب متوان طرز عمل ہر جگہ برابر اختیار کرتے ہیں.جو ان کا پردہ احمدی مجالس میں ہے وہی پردہ غیروں میں جا کر ہوتا ہے، جو ایک ملک میں ہے وہ دوسرے ملک میں بھی چلتا ہے اور اس پہلو سے کوئی فرق نہیں پڑتا.جب آصفہ زندہ تھیں تو اُن کو میں نے اس معاملہ میں ضرورت سے زیادہ سخت پردہ کرنے کا نہ کبھی کہا نہ مناسب سمجھا کہ وہ وہی نمونہ پیش کریں جو اس سے پہلے پیش کیا جاتا رہا ہے کیونکہ اس معاملے میں مختلف خواتین کا پس منظر کس طرح ان کی تربیت کی گئی کس ماحول میں وہ تھیں کس ماحول میں اُن کو پردہ سکھایا گیا یہ بھی تعلق ہے اس پس منظر سے جس میں حضرت امام جماعت احمد یہ الثالث کی بیگم اس سے پہلے پردہ کیا کرتیں تھیں لیکن وہ ماحول جس میں اُس پردے کی ضرورت تھی وہ اور تھا.اس بحث میں پڑے بغیر کہ کس حد تک وہ پردہ بعینہ اسلامی تھا ہمیشہ یہ کہا تھا کہ آپ وہ مناسب پردہ رکھیں جو بعض لوگوں پر دوبھر نہ ہو اور بعض لوگوں کو کھلی چھٹی بھی نہ دے، اپنے آپ کو سنبھال کر رکھیں.کچھ چہرہ اگر دکھتا بھی ہے تو میرے نزدیک کوئی حرج نہیں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اسلام میں چہرے کو اس طرح کسنے کا حکم نہیں دیا گیا.ہاں بعض حالات میں بعض معاشروں میں جبکہ غیروں کے ساتھ مقابلے تھے، جبکہ اس کے متعلق مسلمانوں میں بھی گروہ بٹ رہے تھے کوئی پردے کے قائل تھے تو کوئی بالکل چھٹی کر گئے تھے اس وقت سے احمدیت

Page 414

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۴۱۰ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۵ء نے ایک خاص رنگ اختیار کیا ہے.اسے ہمیشہ کے لئے دائگی مثال نہیں بنایا جاسکتا.دائگی مثال وہی ہے جو قرآن کریم نے پیش فرمائی ہے اور اس میں تمام پہلو دیکھے گئے ہیں.ہر صورت حال کا ذکر ہے اور اس صورت حال میں پردے کے کیا معنے بنتے ہیں اس کے متعلق قرآنی تعلیم موجود ہے.پس یہ جو تعلیم آپ کے سامنے پیش کروں گا اس کے پیش نظر آپ خود اپنے لئے ایک راہ معین کریں.اس قافلے کا جس کا میں نے ذکر کیا ہے وہ بہت لمبا ہے.ایک اس کے سر پر وہ خواتین ہیں جن کا میں ذکر کر چکا ہوں اس کے پیچھے وہ ہیں جو پردے کو بے عزتی سمجھتی ہیں اور پردے سے شرماتی ہیں.اُن کا پردہ چھوڑنا ضرورت کے نتیجے میں نہیں بلکہ پردے کے حکم سے حیا کرتے ہیں اپنا جسم دکھانے میں اُن کو حیا محسوس نہیں ہوتی مگر قرآنی سنت کو اختیار کرنے میں اُن کا دل حیا محسوس کرتا ہے اور اس پہلو سے بعض خاندان ہیں جماعت احمدیہ میں جو بعض دوسری باتوں میں بڑے مخلص دکھائی دیں گے مگر ان کی روایت بن گئی ہے کہ ہمارے خاندان میں پردہ نہیں آسکتا ہم اونچے ہیں، پردہ تو پرانے زمانے کے لوگوں کا کام ہے، نسبتا ادنی ترقی یافتہ خاندانوں کا کام ہے.اس طرح بعض پیشوں کے ساتھ پردے سے حیا وابستہ ہو جاتی جارہی ہے.مثلاً فوج کے افسر جو ہیں اور بعض ایس پی افسران وغیرہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں تو پردہ نہیں چل سکتا.ہم تو جب تک چھوٹے درجے پر تھے ( وہ اپنے آپ کو اب بڑے درجے پر سمجھ رہے ہیں نا ) اب فوج میں افسر ہو گئے اور بڑا درجہ کیا مل سکتا ہے اُن کو یا کسی حکومت کے نوکر ہو گئے ، یہ بھی وہ سمجھتے ہیں بہت بڑا درجہ عطا ہوا ہے.تو اب پر دے کے درجے چھوٹے ہیں ہمارے درجے اُونچے ہو گئے.اگر ہماری بیویاں اسی طرح ہمارے ساتھ پردہ کر کے چلیں گی تو ہمارے آئندہ کے امکان پر ایک بد سایہ پڑ جائے گا اور ضروری ہے کہ ہماری بیویاں اس طرح کا کردار اختیار کریں جیسے غیر احمدی بیویاں کرتی ہیں اور اس سوسائٹی میں اس طرح ملیں جس طرح غیر احمدی بیویاں ملتی ہیں.تو گویا وہ احمدیت سے نکل کر مگر احمدیت میں رہتے ہوئے ایک الگ جزیرہ سا بنا لیتے ہیں اور جب تک یہ جزیرہ اُن لوگوں میں ڈوبا ر ہے جن کا وہ اصل میں حصہ ہے اس وقت تک کوئی خاص طور پر تکلیف محسوس نہیں ہوتی.ہمیں پتہ ہی نہیں وہ بیٹھے کیا کر رہے ہیں لیکن جب یہی لوگ اس شان کے اور اسی مزاج کے ساتھ باقی احمدیوں میں داخل ہوتے ہیں اور اُن پر اثر انداز ہوتے ہیں تو وہاں پھر خطرے کی گھنٹی بجنے لگتی ہے اور ان کو سمجھانے کے لئے طبیعت مائل ہوتی ہے کہ تم کس بات کو فخر بنائے ہوئے ہو.یہ دنیا کی چھوٹی موٹی عزتیں، یہ چند ترقیاں، چند افسریاں کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتیں.

Page 415

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۱۱ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۵ء اسلامی معاشرہ سب سے زیادہ قابل قدر چیز ہے اور اس کو ہم نے نافذ کرنا ہے، ہم نے اس کی حفاظت کرنی ہے، ہم نے اس کو لے کر آئندہ مستقبل میں بڑھنا ہے.اگر غیروں کی نقالی میں تم اپنی قابل عزت اور قابل احترام چیزوں سے شرمانے لگو گے تو پھر دنیا میں نیکی پر شرم آنے لگے گی اور بدیاں قابل فخر ہو جائیں گی اور یہ بات جو میں کہتا ہوں یہ بالکل حقیقت ہے.اسی طرح قو میں تر ڈ دا ختیار کرتی ہیں جب بھی کوئی خوبی کی بات جو حقیقت میں خوبی ہو اس سے تو میں شرمانے لگیں اور بدیوں پر بے حیائی اختیار کریں تو پھر وہ دن ہے جو قوم کے تنزل کے متعلق ایک تقدیر لکھ دیتا ہے پھر آئندہ ہمیشہ وہ قوم تنزل پذیر ہوتی چلی جاتی ہے، گرتی چلی جاتی ہے اور اُسے پھر سنبھالا نہیں جاسکتا.پس ہم نے ایک قدر کی حفاظت کرنی ہے اس بحث میں نہ مبتلا ہوں کہ پردہ اتنا سخت ہے یا اتنا سخت ہے.پردہ کی روح کو سمجھیں اور ہر احمدی خاتون میں پردے کی روح نمایاں طور پر دکھائی دینی چاہئے.اس پہلو سے میں آپ کے سامنے یہ مضامین کھول رہا ہوں.قرآن کریم کے حوالے سے اس کو غور سے سنیں اور سمجھیں اور اپنے لئے ایک لائحہ عمل تراشیں.اس سے پہلے میں یہ بھی بتا چکا ہوں کہ اگر آپ کے نزدیک پردہ اتنا سخت نہیں جتنا بعض لوگوں کے نزدیک ہے لیکن آپ نے وارثت میں وہ پردہ پایا ہوا ہے تو پھر ایک دم اس کو کھولنا اور ایک دم اپنے طریق کو بدلنا یہ بھی خطرناک بات ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں بسا اوقات آپ کی نئی نسلیں یہ تا قمر لیتی ہیں کہ آپ پردہ چھوڑ رہی ہیں اور اب آئندہ کی نسل کے لئے گویا اجازت ہے کہ جو چاہے کرتی پھریں اور ہمیشہ یہی ہوتا ہے.ہمیشہ نئی نسلیں یہی تاثر لیتی ہیں اور اس کے نتیجہ میں پردے کی اعلیٰ اقدار پاؤں تلے روندی جاتی ہیں یا پیٹھ پیچھے پھینک دی جاتی ہیں.یہ ہے ضروری کیونکہ قرآن کریم نے اس کو مختلف پہلوؤں سے مختلف رنگ میں بیان فرمایا ہے اور آئندہ زمانے کی جنت کی تعمیر کے لئے پر دے کی روح کو سمجھنا اور اسے نافذ کرنا حد سے زیادہ ضروری ہے.ایک تو اوہ تھی جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ جنت سے نکالنے کا موجب بنیں.اے احمدی بیٹیو! اے احمدی ماؤں ! اے احمدی بہنوں! میں تمہیں وہ تو ا دیکھنا چاہتا ہوں جو از سر نو اس جنت میں داخل کرنے کا موجب بنیں اور پھر ہمیشہ کے لئے اس جنت میں ہم داخل رہیں اور اس کے امن کی چاردیواری میں اللہ کی رحمتوں کے پھل کھاتے رہیں اور پھر کسی شیطان کو توفیق نہ ملے کہ ہم اس جنت سے ہمیشہ کے لئے نکالے جائیں.یہ وہ جنت ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر دوبارہ نازل ہوئی شریعت اسلامیہ کی صورت میں نازل ہوئی.

Page 416

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کےمستورات سے خطابات مسیح ۴۱۲ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۵ء یہاں جب ہم درختوں کی بات کرتے ہیں تو شجرہ طیبہ کی بات کرتے ہیں، کسی ظاہری دنیاوی درخت کی بات نہیں کر رہے.قرآن کریم کے وہ احکام جو آپ کو ایک پاک، دائمی ، ابدی زندگی کی طرف بلاتے ہیں ایک آسمانی زندگی کی طرف بلاتے ہیں اس کی مثال قرآن کریم نے شجرہ طیبہ سے وہ دی ہے جس کی جڑیں تو زمین میں پیوست ہیں مگر شاخیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں اللہ کے حکم سے و اپنا رزق پاتے ہیں، اللہ کے حکم سے ہر موسم میں پھولتے اور پھلتے ہیں، نہ خزاں ان کو نقصان پہنچاتی ہے نہ بہار، وہ دائمی پھولنے پھلنے والے درخت ہیں جو دائما اللہ کی رحمت کو خدا کے عطا کردہ روحانی پھلوں کے ذریعہ دنیا کے لئے بھی ایک نعمت کا سامان پیدا کرتے ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ اگر کوئی قوم اس مقصد پر گامزن رہے اور ہمیشہ اس پر نظر رکھے کہ میری عمومی صورت، میرا عمومی کردار مجھے اللہ کی رحمت کے پھلوں کا مجھے وارث بنا رہا ہے یا نہیں بنارہا، اگر یہ سوال ہمیشہ اُٹھتا رہے تو پھر جو بھی رستہ تجویز ہوگا وہی درست رستہ ہے امر واقعہ یہ ہے کہ ہر مذہب کا مقصد اللہ کے قریب تر کرنا ہے.پس سب سے پہلے پردے کے تعلق میں میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ظاہری الفاظ کے چکر میں پڑے بغیر آپ میں سے ہر خاتون یہ فیصلہ خود کرسکتی ہے کہ میں نے جس رنگ کے پردے کو اپنایا ہے جس رنگ کے پردے کو میں اپنی بچیوں میں رواج دے رہی ہوں اور آئندہ نسلوں کے لئے بھیج رہی ہوں کیا یہ مجھے خدا سے قریب تر کر رہا ہے یا خدا سے دور ہٹا رہا ہے.اگر خدا سے دور ہٹا رہا ہے تو آپ کے قدم اُس جنت سے باہر کی طرف ہیں جس جنت سے ایک دفعہ پہلے کہا جاتا ہے کہ تو انے آدم کو بھی نکالا ، خود بھی نکلی اور ان سب ساتھیوں کو جو اُن کے ساتھ تھے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا ( البقره: ٣٩) اب صورت حال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ تم سب کے سب یہاں سے نکل جاؤ.جنت کا عورت سے گہرا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں قرآن کریم نے عورت کو تسکین کے طور پیش کیا ہے کہ اگر عورت کو انسان کی قدروں سے نکال لیا جائے تو دلوں کی تسکین اُٹھ جائے ، زندگی بور ہو جائے ، کوئی لذت کچھ بھی باقی نہ رہے نہ کمانے کے وہ شوق رہیں نہ کھانے پہنے کے کوئی شوق رہیں.ایک سوسائٹی جس میں مرد ہی مرد ہوں اور عورت کا کوئی تصور نہ ہو وہ سوسائٹی تو بے حد رنگ وروپ سے عاری اور خوشبو سے عاری ہو جاتی ہے، اس میں کچھ بھی باقی نہیں رہتا اس لئے عورت کے

Page 417

حضرت خلیلہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۱۳ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۵ء اس پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے جنت کی تعمیر کے مضمون پر غور کریں.اگر یہ پہلو غلط استعمال ہو تو پھر وہی جنت جہنم بن جاتی ہے تسکین کی بجائے بے چینی کے سامان پیدا ہوتے ہیں.طمانیت کی بجائے ایک Excitement ایک طبیعت میں ہر وقت کا ہیجان پیدا ہوتا ہے اور پیاسیں بڑھتی رہتی ہیں اُن کی تسکین کے کوئی سامان نہیں ہوتے اور ہر طرف بکھر جاتی ہیں پیاسیں.ہر انسان تسکین کے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ہر طرف سے بالآخر اس کو وہ سراب دکھائی دیتا ہے جیسے ایک پیاسا پانی کی تلاش میں سراب کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھتا ہے لیکن جب پہنچتا ہے تو وہاں کچھ بھی نہیں پاتا سوائے اس کے خدا اُس کی اس عبث اور بے کار کوشش کا بدلہ اسے دینے کے لئے وہاں تیار ہو.پس مضمون کو سمجھیں یہ دیکھیں کہ عورت نے جنت کو دوبارہ دینا ہے دنیا کو، یہ دیکھیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی لونڈیاں ہی ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی غلام عورتیں ہیں انہوں نے ہی اس جنت کی پھر تعمیر کرنی اور پردے کا اس سے بہت گہرا تعلق ہے یعنی پردے کے مضمون کا، پردے کی روح کا.اگر آپ اس پر قائم رہیں تو آپ کے گھر تسکین سے بھر جائیں گے اور جو پاک نمونے آپ دنیا پر چھوڑیں گی، جو اثرات دنیا پر مرتب کریں گی وہ اثرات اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک نئی جنت کی تعمیر شروع کریں گے اور ایک نئے معاشرے کی بنیاد ڈالیں گے.یہ وہ اعلیٰ مقصد ہے جس کی خاطر ہم بار بار آپ سے مخاطب ہوتے ہیں ، یہ وہ اعلیٰ مقصد ہے جس کے حصول کے لئے میں چاہتا ہوں کہ تمام دنیا کی جماعتیں یکساں کوشش کریں، خواہ وہ انگریز احمدی عورتیں ہوں یا امریکن احمدی عورتیں ہوں، کالی ہوں یا گوری ہوں، افریقہ کی ہوں یا چین اور جاپان سے تعلق رکھتی ہوں یا ہندوستان یا بنگلہ دیش سے، وہ ایک ہی امت ہیں یا درکھیں اس لئے پردے کی روح یکساں سب میں ہونی چاہئے یہ درست نہیں ہے کہ انڈونیشیا کا پردہ اور ہے اور عرب کا پردہ اور ہے اور بنگال کا پردہ اور ہے اور ہندوستان اور پاکستان کے پر دے اور ہیں اور اگر ہیں تو محض اس حد تک اور رہنے کی اجازت ہے جس حد تک یہ اسلامی روح کو مختلف رنگ میں پیش نہ کرتے ہوں.اگر پردے کی روح مختلف صورتوں میں منعکس ہورہی ہے تو پھر یہ پر دے غلط ہیں.اگر امتیاز ہیں تو معمولی تمدنی امتیاز.فرق ہیں تو تھوڑے تھوڑے معاشرتی فرق ہیں لیکن جہاں تک روح کا تعلق ہے وہ ایک ہی عالمی روح ہے جو خد اتعالیٰ کی وحدت کی مظہر ہے تو پھر یہ تھوڑے تھوڑے فرق کچھ بھی اثر انداز نہیں ہو سکتے.پھر اسی طرح پردے کی ظاہری شکلیں ہر عورت کے حالات کے مطابق بدلتی ہیں، اس کی عمر کے مطابق بدلتی ہیں ، اس کے عمومی

Page 418

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۱۴ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۵ء رجحانات سے بھی تعلق رکھتی ہیں.ایک عورت بچپن ہی سے مثلاً اس مزاج کی ہے کہ اس کو ادھر ادھر جھانکنے کی عادت ہی نہیں وہ اپنے میں صرف مصروف اپنے آپ میں ڈوبی ہوئی ایک ایسا کردار پیش کرتی ہے.شروع ہی سے بعض بچیاں میں نے دیکھی ہیں شروع ہی سے اس کردار کی ہوتی ہیں جن کو قرآن کریم المُحْصَنَتِ الْخَفِلت (النور: ۲۴) قرار دیتا ہے.یہ غافل عورتیں ہیں ان کو کچھ بھی پرواہ نہیں گردو پیش کی ، ان کا پردہ ڈھیلا ہو یا سخت ہو کسی کو کوئی دعوت نہیں دیتا.وہ اپنے من میں ڈوبی ہوئی عورتیں ہیں اور آزاد ہیں اس بات سے کہ دنیا انہیں کیا دیکھ رہی ہے اور کیا نہیں دیکھ رہی.قرآن کریم فرماتا ہے کہ جو ایسی عورتوں پر الزام لگاتا ہے وہ سب سے مکروہ جرم کرتا ہے اور یقینا اللہ تعالیٰ اسے سخت سزا دے گا.پس ایک غافلات کی دنیا ہے یہ ایک اور ہی دنیا ہے جو جاری وساری تمدن مقامی تمدن اور مقامی روایات سے الگ ایک عالمی دنیا ہے جس سے وہ تعلق رکھتی ہیں.پھر بعض خواتین ہیں جو بچپن سے ہی عادی ہیں کہ کچھ ان کی طرف توجہ دی جائے اور چھوٹی بچیاں بھی ہوں تو ان کا سنگھار پٹار بتاتا ہے کہ ان کو چین نہیں آئے گا جب تک لوگ ان کو دیکھیں نہ اور اس وجہ سے وہ شروع ہی سے اپنے حسن کو ابھار کر اور نکھار کر پیش کرنے کی عادت اختیار کر لیتی ہیں جب وہ اپنے بال تراشتی ہیں تو نظر آجاتا ہے کہ کس کی خاطر تراشے جارہے ہیں جب وہ اپنا حلیہ بناتی ہیں جو بھی بنا ئیں تو یہ بحث نہیں ہے کہ لپسٹک (Lipstick) جائز ہے یا نا جائز ہے.جائز ہے مگر بنانے والے ہاتھ ، لپسٹک لگانے والے ہاتھ فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ لپسٹک جائز ہے یا نا جائز ہے، بعض خواتین طبعی طور پر اپنے آپ کو اچھا دکھانا چاہتی ہیں مرد بھی یہی چاہتے ہیں.مگر اچھا دکھانا کسی حد تک اپنی خامیوں پر پردہ ڈالنا انسانی فطرت ہے، اپنے رنگ پر تھوڑا سا غازہ مل لینا کوئی گناہ نہیں ، ہونٹوں پر طبیعی خون کی سرخی نہ ہو تو کچھ لگا دینا کوئی حرج نہیں لیکن اگر اس سے بڑھ کر دعوت عام کے طور پر اسے استعمال کیا جائے ، اس نیت سے کیا جائے تو پھر یہی حرکت گناہ کی حدوں میں داخل ہو جاتی ہے اور قرآن کریم نے اسی پہلو سے اس پردے کے مضمون کو کھولا ہے کہ تم اپنے آپ کو سنبھال کر رکھو، اپنی عزت کا خیال کرو، ہم نہیں چاہتے کہ تمہیں غیروں سے گزند پہنچے، ہم نہیں چاہتے کہ تم سوسائٹی میں عیش و عشرت کے کھلونے بن جاؤ تمہاری عزت اور وقار کے قیام کی خاطر ہم تمہیں پردے کی تعلیم دیتے ہیں.پس عورت کا وقار اور عورت کی عزت اسلام کی پردے کی تعلیم سے وابستہ ہے جہاں جہاں اسے نظر انداز کریں گے وہیں وہیں بدی کے پھل لگنے شروع ہو جائیں گے اور ضرورت نہیں کہ جنت سے

Page 419

حضرت خلیفہ امسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۴۱۵ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۵ء سب کے سب پہلے نکالے جائیں تو پھر بد درختوں میں جائیں گے قرآن کریم نے جس جنت کا نقشہ کھینچا ہے وہاں بد درخت موجود ہیں اور ترجمہ کرنے والے اور تفسیر کرنے والے یہ غور نہیں کرتے اگر وہ جنت کچھ اور تھی جیسی مرنے کے بعد نصیب ہوگی تو وہاں کے پھل کیا کام کر رہے تھے.وہاں اُن کا وجود کیا حیثیت رکھتا تھا کس طرح خدا نے اس پاک جنت میں ناپاک ناجائز پھلوں کو اگنے کی اجازت دی.پس در اصل جنت وہ معاشرہ ہے جو ایک نبی تعمیر کرتا ہے اس معاشرے میں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں کچھ بد درختوں کی مثال کچھ نیک درختوں کی مثال اور معاشرے کو عمومی طور پر یہ تعلیم ہے کہ نیک درختوں سے تعلق قائم کرو اور بددرختوں سے تعلق کاٹ رکھو اگر ایسا نہیں کرو گے تو بدیاں آخر تم پر غالب آجائیں گی اور تمہاری جنت کی حیثیت بدل جائے گی یہاں تک کہ پھر آسمان سے آوازیں آئیں گی کہ جنت سے نکل جاؤ، اب تمہارا اس جنت سے کوئی تعلق نہیں ہے.اس پہلو سے پردے کو سمجھیں کوئی سختی کا حکم نہیں ہے بلکہ ایک نیک مشورہ ہے، ایک نصیحت ہے، اگر اسے سمجھیں اور سنیں اور اس کی روح کو قائم کریں تو آپ کا بھی فائدہ ہے اور جماعت کا بھی فائدہ ہے، اسلام کا فائدہ ہے.تمام عالم میں ایک ہی روح کی علمبر دار عورتیں آئندہ زمانوں کے لئے جنت پیدا کر جائیں گی اور ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ جنت ہمیشہ ہمیش کے لئے قائم رہے گی مگر ابھی سے جو ر نے پیدا ہورہے ہیں ابھی سے جو چیلنجز اُٹھ رہے ہیں اُن کے مقابلے کے لئے سارے مضمون کو سمجھنا ضروری ہے.وہ آیات جن کی آپ کے سامنے تلاوت کی گئی ہے اس میں بہت سے مضامین بیان ہوئے ہیں.اس کا ترجمہ آپ سن چکی ہیں اگر تفصیل سے ان آیات کی تفسیر کی جائے تو باقی مضامین ممکن ہے اس تھوڑے سے وقت میں بیان ہی نہ کئے جاسکیں اس لئے چونکہ پہلے میں ان آیات پر روشنی ڈال چکا ہوں یعنی آیات جو روشنی مجھ پر ڈالتی ہیں اس میں میں آپ کو بھی شریک کر چکا ہوں اس لئے میں چند دوسری آیات جو بعض دوسرے پہلوؤں کا ذکر کرتی ہیں وہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ الَّتِي لَا يَرْجُونَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَنْ يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِجُتٍ بِزِينَةِ وَأَنْ يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَهُنَّ وَاللهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (النور: ۶۱)

Page 420

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۵ء کہ وہ عورتیں جو بیٹھی رہ جاتی ہیں التِي لَا يَرْجُونَ نِكَاحًا جو نکاح کی امید رکھتی ہیں نہ ضرورت محسوس کرتی ہیں یعنی بعض دفعہ بیوگان بڑی عمر کی ہو جاتی ہیں.بعض دفعہ وہ کنواریاں یعنی وَالْقَوَاعِدُ وہ کنواریاں جو بڑی عمر کو پہنچ جاتی ہیں اور اپنے اندر نہ کوئی حاجت پاتی ہیں نکاح کی نہ دنیا سمجھتی ہے کہ ان کو نکاح کی ضرورت ہے ان کے متعلق فرمایا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَنْ يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ ان پر کوئی حرج نہیں کہ اپنے وہ پردوں کے اہتمام جوانہوں نے کئے ہوئے تھے اتاردیں عام سادہ زندگی میں لوگوں کے سامنے پھر میں جس طرح مردلباس میں پھرتے ہیں وہ بھی عام لباس میں بے شک پھریں مگر ایک شرط ہے کہ جاہلیت کے سنگھار پھر نہیں کرنے.مگر بہتر ہے أَنْ يَسْتَعْفِفْ اس کے باوجود ان کا بچ کر رہنا زیادہ مناسب ہے کیونکہ سوسائٹی بیمار ہوتی ہے بعض دفعہ بعض ایسے گندے مزاج کے ٹیڑھے مزاج کے مرد ہوتے ہیں جو ہر طرف نظر ڈالتے ہیں تو بد نظر ہی ڈالتے ہیں تو فرمایا ان کے لئے بہتر تو یہی ہے کہ استعفاف کریں یعنی جس حد تک بچ سکتی ہوں بچیں لیکن اس تعلیم کے پیش نظر اگر وہ نسبتا کھلے بندوں کھلے عام باہر نکلتی ہیں تو کوئی حرج نہیں ہے.اس ضمن میں حضرت اماں جان کی مثال گو اس مثال میں نہیں آتی مگر میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ بڑی عمر میں جا کر اول تو یہ کہ وہاں قادیان میں اور ربوہ میں بھی ہر ایک نظر جو آپ کو دیکھتی تھی.وہ ایک مقدس ماں کے طور پر دیکھتی تھی اور آپ کے جلال کے رعب سے آپ کے چہرے کی طرف نظریں اٹھتی ہی نہیں تھیں مگر ایک عمر میں جا کر آپ کے لئے ممکن نہیں تھا کہ پردہ کھینچ کر اوپر سے نیچے لائیں اس لئے آپ چھتری لے لیا کرتی تھیں اور چھتری لے کر دار الانوار مثلاً سیر کے لئے جاتی تھیں.کبھی ڈلہوزی میں بھی مجھے تو فیق ملی آپ کے ساتھ جانے کی تو جب دیکھتیں غیر مرد آئے ہیں تو ان کے سامنے چھتری جھکالی اور پھر چھتری اونچی کر کے کھلی ہوا کے لطف سے لطف اندوز ہوئیں حالانکہ اس عمر میں جا کر عام عورتوں کے لئے بھی یہی حکم ہے جو ایسے مقدس مقام نہ بھی رکھتی ہوں کہ تم نسبتاً آسان زندگی اختیار کر لو کوئی گناہ نہیں ہے لیکن استعفاف کا پہلو ایسا ہے کہ دنیا کو نظر آئے کہ یہ بچنے والی عورتیں ہیں.یہ عام عورتیں نہیں ہیں.دوسری شرط یہ ہے مُتَبَرِجتٍ بِزِينَةِ بعض عورتیں بڑی عمر میں بھی سنگھار پٹار بہت کرتی ہیں.صرف جوانی کا قصہ نہیں ہے ان کو آپ کہیں ناچلو بازار چلتے ہیں کہیں گی ٹھہرو میں تیار ہو جاؤں کیوں تیار ہونا ہے اچھی بھلی گھر میں بیٹھی ہوئی صاف پاکیزہ روحانی چہرہ ہے کیا کرنا ہے اس

Page 421

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۴۱۷ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۵ء کو.تو کہتی ہیں تھوڑی سی لپسٹک تھوڑا سا نکھار سنگھار ٹھیک ہو جاؤں.باہر نکلنا ہے کیا لوگ دیکھیں گے کیا سمجھیں گے، تو یہ عورت کی فطرت ہے اس لئے قرآن کریم دیکھیں کتنا پاک الہی کلام ہے فطرت کی گہرائیوں تک اترتا ہے ایک طرف فرما رہا ہے کہ جب تم بڑی عمر کی ہو جاؤ تمہیں ضرورت محسوس نہ ہو لوگ بھی سمجھیں کہ تم نکاح کی عمر سے آگے تجاوز کر گئی ہو تو کوئی حرج نہیں مگر فرمایا ہم جانتے ہیں تمہیں بننے سجنے کی عادت ضرور ہے اور یہ تمہاری فطرت میں داخل ہے اس لئے جب نکلو گی تو جاہلانہ طریق پر سنگھار بالکل نہیں کرنے.اب وہ نسبتا ماڈرن احمدی عورتیں سمجھتی ہیں کہ اُن کی عزت ماڈرن ہونے میں ہے اُن کو میں نے احمدیت کے قافلے کے سر پر نہیں رکھا کیونکہ میرے نزدیک وہ ماڈرن نہیں بیک ورڈز (Backwards ) ہیں.اُن کو سب سے آخر پر کھڑا کیا ہے جو پیچھے پیچھے چل رہی ہیں اور اُن کے حلیے اور ہیں.وہ اپنی عزتیں اس بات میں محسوس کرتی ہیں کہ ہم پردہ چھوڑ دیں گی یہ تو پرانے زمانے کی بات ہے لیکن پھر سنگھار پٹار کیوں کرتی ہیں جب نکلتی ہیں تو سادہ چہروں کے ساتھ کیوں نہیں نکلتیں ، جب نکلتی ہیں تو سادہ لباس پہن کر کیوں نہیں نکلتیں، اگر ایک چیز سے فائدہ اُٹھانا ہے تو یا درکھیں دوکشتیوں میں بیک وقت پاؤں رکھنے کی اجازت نہیں ہو سکتی.سنگھار کرنا ہے تو کر وشوق سے کرو اور گھر کے لئے کرو، اپنوں اور عزیزوں کے لئے کرو اور پھر پردہ کرو اور اگر دوسرے پہلو سے فائدہ اٹھانا ہے تو پھر سنگھار گھر چھوڑ کر آؤ اور باہر نکلو.اب اس پہلو سے جو احمدی معاشرہ ڈویلپ (Develop) ہونا چاہئے جس کو میں چاہتا ہوں کہ ہو.اگر ایسی عورتیں جنہوں نے نسبتا بے احتیاطی کے پر دے کرنے ہیں، اس کو ہلکے طور پر استعمال کرنا ہے، اُن کا دستور عام عورتوں سے بالکل برعکس ہونا چاہئے.کوئی ان کو کہے چلو چلیں کہیں ٹھہر ٹھہرو میں ذرالپسٹک صاف کرلوں، غازہ صاف کرلوں ، میں تو بہت بنی گھنی ہوں، میں نے باہر جانا ہے غیر دیکھیں گے اس لئے میں ذرا مناسب ہو جاؤں.بالکل اس رجحان کے برعکس رجحان ہے جو آپ کو ساری دنیا کی عورتوں میں یکساں دکھائی دیتا ہے.یہ جو فطرت کی بات قرآن کر رہا ہے یہ ہر جگہ برابر ہے اس میں اسلام غیر اسلام کوئی فرق نہیں.تمام دنیا کی عورتیں گھر میں جس طرح بھی ہوں بعض گھر میں بھی اچھے سلیقے سے رہتی ہیں مگر بعض ذرا گھر میں آتے ہی ڈھیلی پڑ جاتی ہیں کوئی پرواہ نہیں ، جھاٹا پھولا ہوا ہو اور کچھ صبح کی جو نیند کے آثار ہیں وہ چہرے پر اسی طرح داغ ڈالے ہوئے ہوں کوئی پرواہ نہیں لیکن باہر جانا ہو تو اچھا ایک منٹ ٹھہر جائیں.یہ فطرت ہے وہ عام عالمی رجحان ہے عورت کا

Page 422

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۴۱۸ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۵ء تبھی قرآن کریم نے اس مضمون کو یہاں بیان فرمایا ہے کہ بوڑھی بھی ہو جاؤ گی تو دل یہی چاہے گا کہ سنگھار پٹار کر کے نکلو ہم نے جب تمہیں اجازت دی ہے کہ نسبتا کھلے ماحول میں باہر آجاؤ تو پھر سنگھار کی اجازت نہیں ہوگی.یہ تمہاری فطرت کے مطابق ہو اسلامی مزاج کے خلاف بات بن جاتی ہے.تو پھر احمدی معاشرہ یوں ہونا چاہئے کہ جو عورتیں کام پر جاتی ہیں جنہوں نے پیشے اختیار کرنے ہیں مختلف قسم کے عزت والے پیشے یعنی ڈاکٹرز ہیں یا دکانوں پر کام کرنا پڑتا ہے، مغربی معاشرے میں تو خصوصیت سے عورتوں کو بہت کام کرنے پڑتے ہیں جو باہر کے کام ہیں مگر عام طور پر مشرقی معاشرے میں عورتوں کے زیادہ کام گھر سے وابستہ رہتے ہیں لیکن مشرق بھی اب ایک مشرق تو نہیں رہا.مشارق ہیں کئی مشرقیں ہیں کئی مختلف رجحان ہیں.مشرقی بعید میں اور رجحان ہے وہاں عورتیں برابر اقتصادیات میں حصہ لیتی ہیں.افریقہ میں اور رجحان ہے وہاں مردوں سے زیادہ بعض جگہ عورتیں اقتصادیات میں حصہ لیتی ہیں.بچے پیدا کرتی ہیں اُن کو اٹھایا ہوا پیٹھ کے اوپر ، ایک سامنے جھولی میں ڈالا ہوا پھر ہل بھی چلا رہی ہیں، پھر فصلیں بھی کاٹ رہی ہیں ، پھر مارکیٹ پر جا کر دکانیں بھی لگا رہی ہیں.اب ایسی عورتوں کو آپ یہ کہیں اسلام کہتا ہے کہ تم کس کے برقع سامنے رکھو اور کالی عینکیں پہن کے باہر نکلو اور ہاتھ بھی نظر نہ آئیں تو اُس غریب قوم کو بھوکا مارنے والی بات ہے.کہاں اسلام یہ کہتا ہے؟ اسلام جو کچھ بھی کہتا ہے یا درکھیں آپ کی عزت اور حفاظت کے قیام کی خاطر کہتا ہے کسی بنیادی انسانی حق سے محروم کرنے کے لئے نہیں کہتا.پس پردہ جس معاشرے میں بھی ہو وہاں کسی صورت میں بھی عورت کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم نہیں کرتا اس کے اس بنیادی حق کو قائم کرتا ہے کہ چونکہ وہ نسبتا زیادہ لطیف چیز ہے.خدا تعالیٰ نے اس کو ایک نمایاں حسن عطا کیا ہے وہ حسین ہو یا نہ ہو اس کی نسوانیت میں ایک حسن ہے جس کی طرف نظریں جذب کے ساتھ اُٹھتی ہیں اس لئے اس کی حفاظت کی خاطر پر دہ ہے نہ کہ اس کو محروم کرنے کے لئے.اگر محروم کرتا ہے تو پردہ تو گندے مردوں کو محروم کرتا ہے.ان مردوں پر قدغن ہے جن کا دل یہی چاہتا ہے کہ پردہ اُٹھ جائے اور پھر وہ مزے کرتے پھریں جس طرح بھی چاہیں.تو یہ بالکل غلط مفہوم ہے جو پردے کا سمجھا جا رہا ہے دنیا میں کہ اسلام نے عورت پر پابندی لگادی ہے.اسلام نے مرد پر پابندی لگائی ہے کہ تم لوگوں پر ہمیں اعتبار کوئی نہیں.جس طرح عورت کی فطرت ہے سنگھار کرے تمہاری فطرت ہے کہ دوسروں کے سنگھار سے ناجائز فائدے اٹھاؤ اور جگہ جگہ اپنی نظروں کو

Page 423

حضرت خلیفہ مسح الرابع ' کے مستورات سے خطابات ۴۱۹ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۵ء ناحق سیراب کرتے پھرو اس کی اجازت نہیں ہے.چونکہ مرد اپنی فطرت سے مجبور ہے اور اس کی نظریں زیادہ بہکتی ہیں عورت کے مقابل پر اس لئے اللہ تعالیٰ نے اُس کو ان مواقعوں سے ہی محروم کر دیا.اب عورتیں بن سنور کر پبلک میں نہیں آئیں گی تا کہ جو کچھ بھی تمہیں خدا نے جائز ضروریات عطا کی ہیں ان کو جائز ذریعے سے پورا کرو اور اپنے گھر میں پاک ستھرے ماحول میں تسکین قلب کے سامان حاصل کرو اس لئے اسلامی معاشرے کی اس روح کو آپ کے لئے سمجھنا بہت ضروری ہے ورنہ حقیقت میں آپ پردے کا حق ادا نہیں کر سکتیں نہ اس کی روح کو سمجھ سکتی ہیں.پس کسی کام سے محرومی کے لئے کسی حق سے محرومی کے لئے پردے کی تعلیم قرآن کریم میں کہیں بھی مذکور نہیں.ہر جگہ پردے کی تعلیم کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں، احادیث کا مطالعہ کر لیں عورت کو کبھی کسی پہلو سے اُس کے جائز بنیادی حق سے اسلامی پردہ محروم نہیں کرتا اس کی حفاظت کرتا ہے، اس کی عزت کی حفاظت کرتا ہے اس کی تسکین کی حفاظت کرتا ہے،اس کے گھر کی حفاظت کرتا ہے، اس جنت کی حفاظت کرتا ہے جو عورت کے بغیر بنائی نہیں جاسکتی ، عورت کو اس جنت سے نکال دیں تو آدم ویسے ہی پیچھے پیچھے نکل جائے گا اس بیچارے کا کیا رہ جاتا ہے اس لئے عورت نے نکالا ہو یہ الگ مسئلہ ہے مگر عورت کو اکیلا اللہ نکالتا تو وہ جنت ہی نہ رہتی آدم نے جانا ہی جانا تھا اس لئے فرمایا تم دونوں ہی چلے جاؤ تمہارا اکٹھے رہے بغیر گزارہ چل ہی نہیں سکتا.پس اس پہلو سے آپ ایسی جنت بنا ئیں جہاں آدم اور حوا دونوں اکٹھے اکٹھے پھر میں، گھر میں بھی ساتھ رہیں ، گھر کے باہر بھی ساتھ رہیں معاشرہ حسین ہو جائے اور عورت اپنے جائز حق سے محروم نہ رہے.پس میں نے بتایا ہے کہ کام ہیں.اب اُن کام کرنے والی عورتوں کو جو افریقہ میں کام کرتی ہیں آپ دیکھیں اُن میں کہیں اشارہ بھی وہ سنگھار نہیں پایا جاتا جو بے وجہ لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے کیا جاتا ہے.اُن کی ساری شکل صورت ان کے کاموں کے انہماک ان کی طبیعت میں کوئی گندہ خیال پیدا کرتا ہی نہیں حالانکہ اُن میں ایسی بھی ہیں جو صرف اپنے رواج کی وجہ سے (مسلمان نہیں غیروں کی بات بھی کر رہا ہوں ) اپنے رواج کی وجہ سے تقریبا نیم تنگی ہوتی ہیں جو مشرکہ عورتیں ہیں ان کا لباس وہاں تقریباً ننگا ہے لیکن جب وہ کاموں میں مصروف ہوں تو انسانی ذہن کو بھٹکنے کا کوئی موقع ہی نہیں پیدا ہوتا.ان کا انہماک ان کی توجہ تمام تر زندگی کے لئے نان و نفقہ کمانے یعنی زندگی کے لئے ضروریات کمانے پر مبذول رہنا ہے اور ان کی توجہ اس سے ہٹتی ہی نہیں ہے.لوگوں کی توجہ بھی اس طرف سے نہیں بہتی.پھر اب ان عورتوں کو آپ اور قسم کا برقع اورقسم کا پردہ پہنا دیں تو وہ سارے معاشرے میں

Page 424

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۴۲۰ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۵ء رخنہ ڈال دے گا اور وہ لوگ ان کے بچے بھوکے مرنے لگیں.ہر صورت حال کو اس کے ماحول کے مطابق جانچنا چاہئے اور اس ماحول سے الگ کر کے اس کے نتیجے نکالنا غلطی ہے اور بیوقوفی ہے.ابھی پیچھے چند ہفتے پہلے یا چند مہینے پہلے بڑا شور تھا یورپ میں اس بات میں کہ ہندوستان میں اور پاکستان میں چھوٹے بچوں پر ظلم کیا جاتا ہے، ان سے Labourالی جاتی ہے اس لئے ان کی تجارتوں کا بائیکاٹ کر دو.ہندوستان پر تو اتنا زور نہیں تھا پاکستان پر زیادہ نزلہ ٹوٹ رہا تھا اور واقعتہ پاکستان کی ایکسپورٹ کو اس سے گہرا نقصان پہنچا کیونکہ وجہ یہ ہوئی تھی ( یہ بات نہیں تھی کہ ان کے علم میں پہلے یہ نہیں آیا تھا) وجہ یہ ہوئی تھی کہ ایک عیسائی بچے نے خبر دی تھی کسی عالمی ادارے کو کہ یہاں یہ ہو رہا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کے نتیجے میں بعض ظالموں نے اسے قتل کر دیا تو ردعمل اس بات کا تھا نہ کہ بچوں کی ہمدردی ، ورنہ یہ ساری باتیں کھلی کھلی ہیں سب کو علم ہے کہ کیا ہورہا ہے.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُس معاشرے میں جس کی میں بات کر رہا ہوں ان اقتصادی حالات میں جو ہندوستان اور پاکستان اور بنگلہ دیش اور دوسرے غریب ممالک میں پائے جاتے ہیں اگر بچوں کو کام کی اجازت نہ ہو اس کا متبادل یہ نہیں ہے کہ گھر بیٹھ کے آرام سے روٹی کھا ئیں اس کا متبادل یہ ہوگا کہ گھر بیٹھے سارے بھوکے مر جائیں کیونکہ اقتصادی حالات ایسے خراب ہیں بعض ملکوں کے ایک کمانے والا شخص اپنے سارے خاندان کو پال سکتا ہی نہیں اور اوپر سے مصیبت یہ ہے کہ غربت میں نشو ونما کی طاقت زیادہ پائی جاتی ہے.جہاں غربت زیادہ ہو بچے بھی زیادہ پیدا ہوتے ہیں.اگر غریبوں کے بچے کثرت سے پیدا ہورہے ہیں ان کو سنبھالے کون ، ان کو کھلائے کون.ایک عمر تک پہنچ کر جہاں وہ کام کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ان کا مفاد اس میں ہے کہ ان کو کام مہیا کیا جائے اور یہ صرف دیکھا جائے کہ غیر ضروری سختی نہ ہو.اُن کی عمر کا خیال رکھا جائے اول تو بچپن ہی سے سختیاں دیکھتے دیکھتے غربت ہی ان کو سخت جان بنا دیتی ہے اور ان کی ہڈیاں عام بچوں سے مختلف ہوتی ہیں ان کے آرام اور تکلیف کے معیار جو عام بچوں سے مختلف ہو جاتے ہیں وہ ایک Hardener بچے جو زندگی کی تلخیوں میں سے گزر کر ایک نیا سخت وجود آپ کو دکھاتے ہیں اُن بچوں پر یہ رحم نہیں ہے کہ ان کے کام کے مواقع اُن سے چھین لئے جائیں.ایسے بچے پھر جرائم پیشہ ہوجائیں گے، ایسے بچے سوسائٹی کو شدید نقصان پہنچا ئیں گے.یہ چیزیں یہ دیکھتے ہی نہیں.یہ سمجھتے ہیں یورپ میں بیٹھے ہم جیسا اپنے بچوں کے فیصلے کرتے ہیں ویسے وہیں بھی نافذ کر سکتے ہیں یہ بھول جاتے ہیں کہ انگلستان خود اور یورپ کے دوسرے ممالک ایک ایسے

Page 425

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۲۱ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۵ء تاریخی دور سے گزر چکے ہیں جہاں بچوں سے کام لینا ایک دور میں ضروری تھا اور جتنی سختی یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان میں ہو رہی ہے اس سے دس گنا زیادہ بختی یہ مظلوم بچوں پر یہاں کیا کرتے تھے ایک اقتصادی دور ہے یہ اس سے آگے نکل چکے ہیں.بعض غریب ممالک ابھی وہاں تک پہنچے نہیں ہیں اس لئے یہ خیال کہ ایک صدی میں ساری قومیں یکساں برابر چل رہی ہیں بالکل جھوٹا اور بے معنی خیال ہے.ایک ہی صدی میں ہزار سال پہلے کے لوگ بھی موجود ہیں وہ اسی طرح ہزار سال پہلے کا سفر کر رہے ہیں.ایک ہی صدی میں سو سال پہلے کے لوگ بھی موجود ہیں، دو سو سال پہلے کے لوگ بھی موجود ہیں تو ان پر ان کے حالات کے مطابق فیصلہ کرنا ہو گا اور حالات کے مطابق فیصلہ کرنا ہوگا حالات کے مطابق احکامات جاری کرنے ہوں گے.پر دے کا بھی اس مضمون سے گہرا تعلق ہے جن سوسائٹیوں میں عورتوں نے کام کرنا ہے ان میں پیشے مختلف قسم کے معزز پیشے اختیار کرنے ہیں.ان کو اس قسم کا برقع پہنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے اسلام یہ چاہتا ہے کہ وہ ایسا پردہ کریں اُن کے لئے یہ پردہ ضروری ہے جو میں نے بیان کیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بچا کر رکھیں، باہر نکلیں تو اپنی زینت کو چھپائیں نہ کہ اس کو ظاہر کریں، اپنی خوبصورتی کو دبائیں نہ کہ ابھار ہیں تا کہ غیر نظریں بے وجہ اُن پر نہ پڑیں اور غلط پیغام قبول نہ کریں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی پردے کی ضرورت کو بیان کرتے ہوئے یہی مضمون بیان فرمایا ہے.پس ایک تو وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاء والی آیت ہے النور کی وہ اس مضمون کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈال رہی ہے.دوسری آیت جو میرے سامنے ہے.وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولى وَاَقِمْنَ الصَّلوةَ وَاتِينَ الزَّكُوةَ وَاَطِعْنَ اللهَ وَرَسُولَهُ (الاحزاب : ۳۴) إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَبَرَكُمْ تَطْهِيرًان یہ جو آیت ہے جس میں ایک نسبتاً سخت پردے کا حکم دکھائی دیتا ہے اس کا تعلق حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بیویوں اور اہل بیت سے خصوصیت سے ہے اُس کی وجہ یہ ہے کہ بعض رشتوں کے نتیجے میں بعض خاندان خصوصیت کے ساتھ تنقید کا نشانہ بھی بنتے ہیں اور ان کی رسمیں نسبتاً

Page 426

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۲۲ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۵ء زیادہ آگے قدم بڑھا کر عام طور پر قبول کی جاتی ہیں.اگر وہ ایک قدم بے پردگی کی طرف آگے بڑھیں تو لوگ دس قدم اس حوالے سے پھر آگے بڑھ جاتے ہیں اس لئے اُن کی ذمہ داریاں مختلف ہیں اور پھر اس میں مخالف آنکھوں کا بھی تعلق ہے، معاند آنکھوں کا بھی تعلق ہے وہ بد نیتی سے ایسی عورتوں کو دیکھیں اور پھر موقعے کی تلاش میں ہوں کہ ان کی عزت کو کسی طرح داغ لگا ئیں تا کہ ان سے تعلق رکھنے والوں کی عزت بھی مجروح ہو.یہ وہ مضمون ہے جس کے پیش نظر حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور امہات المومنین کے لئے اور اہل بیت کے لئے خدا تعالیٰ نے نسبتاً زیادہ سخت الفاظ میں پردہ بیان فرمایا ہے لیکن وہاں بھی اس قسم کے برقعے کا ذکر نہیں ہے جو ہمارے ہاں رائج ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ یہ غلط ہے یہ ایک انداز تھا جسے اختیار کیا گیا.میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اسے تنہا اسلامی نمائندہ پردہ نہیں کہا جا سکتا.اگر یہ کہیں گے تو اسلام کے آغاز میں جو مسلمان خواتین آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے تربیت پا کر پردے کا نمونہ پیش کرتی تھیں اُن میں یہ برقع آپ کو دکھائی نہیں دے گا تو کیا یہ نتیجہ نکلے گا کہ اُن کو تو پردے کا علم نہیں تھا بعد میں ہندوستان اور پاکستان میں پردے کا حقیقی علم ہوا تو انہوں نے اس کی صحیح صورت پیش کی اس لئے جب میں ایک بات بیان کرتا ہوں تو لازم ہے اس کے سارے پہلو کھول کر آپ کے سامنے رکھوں تا کہ غلط فیصلے نہ کریں.یہ میں پھر دوبارہ اصرار کرتا ہوں کہ جن کو یہ پردہ ورثے میں ملا ہے اگر انہوں نے بے احتیاطی کی اور اسے یہ عذر رکھ کر اتار پھینکا کہ اسلام کے آغاز میں اس قسم کا برقع نہیں تھا تو وہ اپنے آپ کو بھی شدید نقصان پہنچا ئیں گی، اپنی نسلوں کو بھی شدید نقصان پہنچائیں گی اور ان کی نسلوں سے پھر پردہ اُٹھ جائے گا اس لئے جس صورت حال میں کوئی انسان پکڑا جائے اس کے مطابق موزوں طریق اختیار کر کے اس سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.پس ایک لمبا سفر ہے ایک وقت آئے گا بالآخر جبکہ جماعت احمدیہ کو ایک ہی قسم کا عالمی پردہ پیش کرنے کی توفیق عطا ہوگی جس میں پردے کی روح ہمیشہ ہمیش مد نظر رہے گی اور اسے ہی بنیادی اہمیت دی جائے گی.مگر جب میں مختلف پردوں پر تبصرے کرتا ہوں تو اس سے ہرگز یہ نتیجہ نہ نکالیں اور پھر میرے حوالے دے کر اپنے نفس کی بھٹکی ہوئی خواہشات کی تسکین نہ کریں کہ انہوں نے کہہ دیا کہ یہ برقع رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں موجود نہیں تھا اس لئے اُتار پھینکو اس کو.ہرگز میں نے یہ نہیں کہا نہ میں اسے مناسب سمجھتا ہوں پاکستان کے ماحول میں خصوصاً اُن خاندانوں میں جو اقتصادی لحاظ سے اوپر کے مرتبے پر ہیں اس قسم کی حرکت بڑی سخت نقصان دہ ہوگی رفتہ رفتہ مزاج میں

Page 427

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۲۳ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۵ء تعدیل پیدا کریں.اعتدال کے ساتھ ضرورت سے زیادہ سختیاں جھاڑنی شروع کریں لیکن جو قدم بھی اٹھائیں اس میں قرآن کریم کے اس حکم کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں کہ استعفاف کریں.نکلیں تو دعوت دیتی ہوئی نہ نکلیں بلکہ نظروں کو جھٹکتی ہوئی ، نظروں کو جو غلط نظریں ہیں اُن کو دھتکارتی ہوئی ، ان کی امیدوں پر پانی ڈالتی ہوئی جیسے اوس پڑ جاتی ہے کسی پر ، ان معنوں میں پانی ڈالنے کا لفظ میں استعمال کر رہا ہوں اُن کی خواہش ہی پیدا نہ ہو وہ سمجھیں کہ یہ ہمارے لئے ہیں ہی نہیں اور قسم کی چیزیں ہیں.یہ روح اگر آپ قائم رکھیں تو پھر پردہ کچھ ڈھیلا ہونا شروع ہو جائے اس روایتی پر دے سے جو آپ کو ورثے میں ملا ہے تو اس کا نقصان نہیں ہے بلکہ اس کا دوسری دنیا پر اچھا اثر پڑے گا اور وہاں پر دے کی روح کو تقویت ملے گی.پس یہ سارے قصے عقل اور حکمت کے قصے ہیں روح کو سمجھیں بار بار میں یہی کہتا ہوں کہ روح کو سمجھیں اور روح کی حفاظت کریں اور آخری صورت روح کی حفاظت کی یہی ہے آپ اپنے اوپر یقین اور اعتماد پیدا کریں کہ ہم جو بھی حرکت کر رہی ہیں، جو بھی طریق اختیار کر رہی ہیں خدا سے دور لے جانے والا نہیں بلکہ خدا سے قریب لے جانے والا ہے.یہ ہی رہنما اصول ہے جس اصول کے تابع دنیا میں جنت کی از سرنو تعمیر ہوسکتی ہے.شجرہ طیبہ کو اس بنیادی اصول سے تقویت ملے گی کیونکہ اصول کہتے ہی جڑوں کو ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس شجرہ طیبہ کی جڑیں تو دنیا ہی میں قائم ہیں ان سے الگ نہیں ہوسکتیں ان کو دنیا سے اکھیڑ کر باہر نہیں پھینکا جا سکتا مگر شاخوں کا رخ ہمیشہ آسمان کی طرف رہتا ہے.ہمیشہ اللہ کے قریب تر ہوتی چلی جاتی ہیں اور پھر ان کو رزق زمین سے نہیں ملتا بلکہ آسمان سے ملتا ہے یہ وہ بنیادی حقیقت ہے جس کے قیام کے لئے اسلامی پردہ تشکیل دیا گیا ہے اور جس کے نتیجے میں دنیا میں جنت قائم ہوگی.پس اس روح کو میں آپ کو سمجھا رہا ہوں کہ قرآن کن معنوں میں اس پر دے کو قائم کرنا چاہتا ہے کن معنوں میں آپ نے اس کی حفاظت کرنی ہے.یہ یادرکھیں پردہ خواہ کسی قسم کا بھی ہو جب آپ اسے ایک پرانے زمانے کی چیز سمجھ کر شرما کر اتارتی ہیں تو وہیں آپ کا دل داغ دار ہو جاتا ہے، وہیں آپ کی عزت بڑھتی نہیں بلکہ کمینگی کے آثار ظاہر ہو جاتے ہیں.احساس کمتری ہے جو آپ کو کھا رہا ہے اور اس وجہ سے اگر آپ کوئی حرکت کرتی ہیں تو یہ قطع نظر اس کے کہ وہ پردہ واقعہ اسلامی تھا یا نہیں تھا آپ کا دل غیر اسلامی ہو جاتا ہے کیونکہ دینی سمجھتے ہوئے دینی قدروں سے روگردانی کرنا اس سے شرما جانا یہ شکست کا پہلا قدم ہے.جس کے بعد ہر دوسرا قدم شکست کی طرف اُٹھتا ہے.

Page 428

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۴۲۴ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۵ء میں نے پہلے بھی مثال دی ہے کبھی کفر کے طور پر نہیں بلکہ اپنے دل کی سچی آواز آپ کے سامنے رکھنے کے لئے کہ جب میں اپنی بیوی بچیوں کے ساتھ امریکہ وغیرہ دورہ پر گیا جبکہ میری ایک خلیفہ کی حیثیت نہیں تھی ، جماعت کے ایک فرد کی طرح ہی تھا، ابھی بھی ایک فرد ہی کی طرح ہوں لیکن کچھ زائد ذمہ داریاں ڈال دی گئی ہیں، اس وقت جب میں نے دورہ کیا تو اپنی بیوی بچیوں کو اسی طرح پردہ کرایا کہ خود اعتمادر ہیں کوئی دعوت نہیں کوئی پرواہ نہیں غافلات کی طرح زندگی گزاریں اور ڈھیلا کچھ پردہ ہو تو اتنا ہی ڈھیلا ہو جتنا پاکستان میں ڈھیلا ہوتا ہے اگر سخت ہے تو اتنا ہی سخت ہو جتنا پاکستان میں ہوتا ہے، ملک بدلنے سے پردہ نہیں بدلے گا.اس بات سے ان کو ایک پیغام مل گیا ان کو سمجھ آگئی کہ اسلامی پردہ ایک عالمی چیز ہے.ہر عورت جس جگہ بھی کسی پردے کو اسلامی سمجھ کر ایک دفعہ اختیار کر لیتی ہے جگہ بدلنے سے، ماحول بدلنے سے، نوکریاں بدلنے سے ، اعلیٰ درجے کی سوسائٹی میں جانے سے یا نہ جانے سے اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا وہ اسی طرح قائم رہتا ہے.پس ایسا ہی ایک واقعہ اس سفر کے دوران پیش آیا جب ہم اپنی موٹر جو کرائے پر لی ہوئی تھی واپس کرنے کے لئے اس مرکز میں پہنچے جہاں کاریں واپس کرنی تھیں بالآخر تو میرے ساتھ میری بیٹی غالبا شو کی تھی اور ایک ہی تھی غالباً اس وقت باقیوں کو میں پیچھے اپنے جہاں بھی ہم نے رہنا تھا وہاں چھوڑ آیا تھا.اس عورت نے مجھ سے پوچھا یہ کس قسم کا لباس پہنے ہوئے ہے میں نے کہا اس سے پوچھو یہ قید ہوئی ہے یا اپنے شوق سے ہے.اس نے کہا میں بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں بالکل پرواہ نہ کرو، مجھے مزے ہیں میں یہی وہاں بھی پاکستان میں بھی اس طرح رہتی تھی یہاں بھی اسی طرح رہتی ہوں.اب وہاں خدا تعالیٰ نے اس کو ایک نصیحت کا سامان بنانا تھا.اچانک وہاں ایک پاکستانی عورت آگئی بڑی چنچل سی لڑکی اور بالکل بے پر دبلکہ بے پر د سے بھی کچھ زیادہ اور اس نے آتے ہی کہا لو میری چابیاں پہلے مجھے فارغ کر ووہ مجھی کہ پرانے زمانے کی عورت آئی ہوئی ہے ان سے زیادہ میری عزت ہے.اس نے کہا ٹھیک ہے مجھے پہلے فارغ کرواس نے کہا تمہیں پہلے فارغ کیوں کروں یہ پہلے آئے ہوئے ہیں.پہلے میں ان کو فارغ کروں گی تھوڑا سا پھر وہ بجھی لیکن پھر بھی وہ اصرار کرتی رہی نہیں نہیں مجھے جلدی ہے.اس نے کہا بالکل جلدی نہیں مگر تم مجھے یہ تو بتاؤ کہ تمہاری ٹینکی میں پڑول ہے.یہ اس نے اس لئے پوچھا کہ وہاں دستور یہ ہے کہ وہ جب کرایہ پر کار لیتے ہیں تو بھری ہوئی ٹینکی لے کر جاتے ہیں اور واپس آکر بھری ہوئی ٹینکی واپس کرنی ہے تا کہ پٹرول کے حساب کتاب کی بحث ہی نہ پڑے.اس نے کہا بھری ہوئی ٹینکی ہے اس نے کہا اچھا

Page 429

حضرت خلیفہ صیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۴۲۵ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۵ء ٹھہر جاؤ.مجھ سے پوچھا آپ کی ٹینکی؟ میں نے کہا بھری ہوئی ہے اس نے کہا مجھے آپ پر اعتبار ہے اس پر اعتبار نہیں.اس کے سامنے اس سے پوچھا کہ تم یہ بتاؤ کہ یہ بھی مسلمان ہیں تم بھی مسلمان ہو تم پردہ کیوں نہیں کر رہی.اس نے کہا میں اپنے ملک میں تو کرتی ہوں یہاں آگئی ہوں یہاں ماحول اور ہے.اس نے کہا بس اب مجھے سمجھ آگئی ہے تمہارا اسلام مقامی ہے ان کا اسلام عالمی ہے اور چونکہ تم نے یہ حرکت کی ہے مجھے تم پر یقین ہی کوئی نہیں کہ تم نے سچ بولا ہو.چلو جا کے ٹینکی دیکھیں دیکھا تو آدھے سے بھی کم پڑول.تو اللہ تعالیٰ نے اس کے دل پر بھی اثر ڈالنا تھا کہ جو اسلامی قدروں کی ہر جگہ برابر حفاظت کرتے ہیں وہ سچے لوگ ہیں اُن میں کوئی فریب نہیں ہے وہ قابل اعتما دلوگ ہیں اور بجائے اس کے کہ وہ ہمیں کم عزت دیتی.عزت بڑھی اور یہی تجربہ میرا ہر جگہ کا برابر اسی طرح ہے.پردہ اگر لوگوں کی نظر سے بے پرواہ ہو کر اختیار کیا جائے ، اللہ کی نظر کو سامنے رکھتے ہوئے کیا جائے تو کچھ ڈھیلا بھی ہو تو کوئی ایسا بڑا گناہ نہیں.نیت پاک ہو، نیت اللہ کی خاطر ایک پردے کو اختیار کرنے کی ہو اور زمانے کے لحاظ سے ، جگہوں کے لحاظ سے قدریں نہ بدلیں یہ نہ ہو کہ لنڈن مسجد آتے ہوئے اور پردہ ہو اور لندن مسجد سے جاتے ہوئے اور پردہ ہو یہ پر دے جو ہیں یہ خطر ناک ہیں.اگر چہ میں ان کو بھی کچھ نہ کچھ عزت سے ہی دیکھتا ہوں میں کہتا ہوں کہ چلو اتنی سی تو حیاء ہے کہ احمدیوں میں ہی آکر ہم ٹھیک ہو جائیں لوگ بعض دفعہ مجھے کہتے ہیں ان کو کیوں آپ اجازت دیتے ہیں آنے کی؟ میں کہتا ہوں کہ اللہ بہتر جانتا ہے میرے سامنے تو پردہ کر کے ہی آتی ہیں، اتنی حیا تو ہے ناں ، میں تو ان کو بھی ملاقات کی اجازت دیتا ہوں جو بالکل بے پردہ آتی ہیں اور اُس کی وجہ یہ ہے کہ کئی دفعہ دل میں خیال آتا ہے کہ کچھ قدغن لگائی جائے.کچھ کہا جائے کہ آئندہ سے بے پردہ خاندان سے ملاقات نہیں کروں گا تو مجھے یہ خطرہ پیدا ہوتا ہے کہ ملنے جلنے سے جو نیک اثر پڑتا ہے اس سے بھی وہ محروم رہ جائیں گے.چنانچہ کئی دفعہ میں نے دیکھا ہے کہ بے پرد خاندانوں کی جو بچیاں ساتھ آتی ہیں بڑے اپنے ڈھنگ نہ بھی بدلیں تو بچیاں نیک اثر قبول کر لیتی ہیں اور ان کے اندر تبدیلیاں ہونی شروع ہو جاتی ہیں.ایسی معین مثالیں ہیں کہ وہ ماں باپ جو بے پر د تھے ملاقاتوں کے دوران اُن کی بچیاں قریب آئیں تو انہوں نے خود پردہ شروع کیا اور اپنے ماں باپ کو کہنا شروع کیا ہم تو اسی طرح رہیں گی ہمیں تو یہ زیادہ پسند ہے تو یہ وہ وجوہات ہیں.یہ نہیں کہ میں اُن سے کوئی مرعوب ہوں خاص طور پر میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت ضرورت ہے کہ پیارا اور محبت کے ساتھ سارے قافلے کو ساتھ لے کر چلا جائے اور

Page 430

حضرت خلیفہ مسح الرابع ' کے مستورات سے خطابات ۴۲۶ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۵ء تربیت کی جائے.مگر اگر معاشرے میں روز مرہ کے تعلقات میں یہ لوگ حد سے تجاوز کرنے لگیں اور بے پردگی بلکہ بے حیائی کے طریق اختیار کرتے ہوئے احمدی شادیوں میں احمدی بیا ہوں میں حصہ لیں تو یہ چیز نقصان دہ ہے ان کی تربیت وہاں نہیں ہوگی جو معصوم بچیاں ہیں ان کی تربیت پر بداثر پڑنے کا احتمال زیادہ ہے اس لئے ملاقات والا مضمون بالکل مختلف ہے اور اپنے روز مرہ کی بیاہ شادی یا دوسری سوشل رسموں میں ان کی کھلی چھٹی دے دینا کہ جس طرح چاہیں دندناتی پھریں یہ مناسب نہیں ہے وہاں آپ لوگوں کو اب احتیاط کرنی چاہئے.کچھ ان کے اور اپنے درمیان ایک پردے ڈالنے چاہئیں.ان سے کہو کہ بیبیو! تم آؤ بے شک سر آنکھوں پر لیکن اس طرح نہ آؤ کہ ہماری بچیوں پر برا اثر پڑے اپنے آپ کو سنبھال کر چلو.تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ جو سوشل دباؤ ہے یہ بھی مفید ثابت ہوسکتا ہے مگر اصل تو قع تو دعا پر ہے اور دلوں کی پاک تبدیلی پر ہے.پردہ جہاں تک اسلامی روح کا تعلق ہے بظاہر قائم کیا جاسکتا ہے مگر بالباطن قائم کرنا ایک اور بات ہے.اسلامی روح کا جہاں تک تعلق ہے جب تک دل میں نہ قائم ہواس وقت تک ظاہری پردہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور یہ بھی غلط ہے کہ ایک انسان ایک پردہ کرنے والی خاتون کو یہ طعنے دے کہ جی چھوڑو پردے ! پردے کے پیچھے جو کچھ ہوتا ہے وہ بھی ہمیں پتہ ہے اس لئے ہمیں کوئی ضرورت نہیں.یہ بھی جھوٹ ہے، ایک نفس کی انانیت ہے، ایک قسم کا تکبر ہے اور دراصل اس عورت کی نہیں بلکہ اسلام کے پردے کی تحقیر ہے جو کچھ پیچھے ہوتا ہے اس کا تمہارے ساتھ کوئی تعلق نہیں اس کا خدا سے تعلق ہے تم جو دکھائی دیتی ہو اس سے پرے بھی اور باتیں ہیں جو دکھائی نہیں دیتیں جن کو خود تم نے روک کے رکھا ہوا ہے کسی عورت کو حق نہیں کہ وہ کہے کہ اچھا پھر بے پردگی تو اتنی رہی اس سے پیچھے جو کچھ ہوتا ہے وہ بھی ہمیں پتہ ہے یہ تو پھر آپس میں لڑائیاں شروع ہو جائیں گی.یہ گھٹیا کمینی باتیں میں جماعت کے معاشرے میں اس قسم کے طعن و تشنیع کو ہرگز پسند نہیں کرتا.یہ تربیت کا ذریعہ نہیں ہیں یہ نفرتیں پیدا کرنے کا ذریعہ ہیں.یہ اختلافات کو بڑھانے کا موجب ہیں تربیت کے لئے پاک روح کی ضرورت ہے.قلبی محبت کی ضرورت ہے، اللہ سے تعلق کی ضرورت ہے جو بات کہیں خدا کی خاطر کہیں اور خدا کی خاطر کہیں تو لازماً سلیقے اور وقار کے ساتھ کہیں کیونکہ اللہ کے حوالے سے اس کی خاطر جو بات کی جاتی ہے اس میں کمینگی نہیں آسکتی.پھر آپ کی نصیحت میں وقار پیدا ہوگا پھر آپ کی نصیحت طعن و تشنیع کا رنگ اختیار کر ہی نہیں سکتی.گہرا در داس میں پیدا ہوگا، گہری ہمدردی پیدا ہوگی اور وہ زیادہ تبدیلیاں پیدا

Page 431

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۴۲۷ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۵ء کرنے کی صلاحیت رکھے گی ورنہ اگر نفس کے تفاخر میں مبتلا ہوکر ، خاندانی تفاخر میں یا معاشرتی تفاخر میں مبتلا ہو کر ایک دوسرے کو طعنے دیں گی ایک دوسرے کو نیچا دکھا ئیں گی تو یہ چیزیں آپ کے نقصان کا موجب ہیں.پردے کے فائدے کا موجب بہر حال نہیں بن سکتیں.پس قرآن کریم کے حوالے سے میں بعض اور آیتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولى کہ زیادہ اپنے گھروں میں رہا کرو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کام کی غرض سے باہر نہ نکلو.باہر نہ نکلنے کا مضمون ایک اور جگہ ایک سزا کے طور پر بیان فرمایا گیا ہے.یہاں ہرگز وہ مراد نہیں ہے مراد یہ ہے کہ بے ضرورت باہر نکلنے کا شیوہ اختیار نہ کرو.یہ اچھا نہیں ہے گھر میں بہت سے تمہارے کام پڑے ہوتے ہیں گھروں کو صاف ستھرا پاکیزہ بناؤ.کشش کا موجب بناؤ تمہارے بچے بھی گھر آکے تسکین حاصل کریں، تمہارے بڑے بھی تو اپنے وقت کو اس طرح بے وجہ بکھیر کر ضائع نہ کرو بلکہ کارآمد مقاصد میں استعمال کرو.یہ مراد ہے.وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ اور جاہلیت کے انداز کے سنگھار پٹارا ختیار نہ کرو کیونکہ وہ جاہلیت کے جو سنگھار تھے وہ غیروں کو دعوت دینے والے ہوا کرتے تھے اپنوں کی نظر کی تسکین کے لئے نہیں ہوا کرتے تھے اور اس کے بدلے کیا کرو.وَاَقِمْنَ الصَّلوةَ وَاتِينَ الزَّكُوةَ وَاَطِعْنَ اللهَ وَرَسُولَهُ (الاحزاب : ۳۴) تمہاری تسکین اس بات میں ہے کہ نمازوں کو قائم کرو اور زکوۃ دوغریبوں کی ہمدردی میں خرچ کرو، اللہ کی خاطر مذہبی مقاصد پر خرچ کرو.وَاَطِعْنَ اللهَ وَرَسُولَهُ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو.اب اس تعلق میں اچا نک نماز کے قائم کرنے کا بیان فرمایا ہے دراصل وہ عورتیں جن کو باہر پھرنے کی عادتیں پڑ جائیں نہ اُن کی نمازوں کے کوئی اوقات باقی رہتے ہیں، نہ وہ اپنے بچوں کی نمازوں کی نگرانی کر سکتی ہیں، نہ اُن کو نیک نصیحت کر سکتی ہیں.آپ دیکھ لیں بے شک اُن عورتوں کی مثالیں آپ کے سامنے ہوں گی آپ کے دائیں بائیں ہوں گی جن کا شیوہ ہی یہ ہو کہ گھر سے نکلیں اور باہر سیر سپاٹا کریں یا شاپنگ کریں.شاپنگ اچھی چیز ہے کوئی حرج نہیں مگر شا پنگ روز مرہ کی ضرورت نہ رہے بلکہ ایک زندگی کا مقصد بن جائے.یہ وہ چیزیں ہیں جس سے باہر نکلنے کی عادتیں پڑی ہیں اور جو احمدی ہیں ان بیچاریوں کی تو حد دوڑ جو ہے وہ شاپنگ تک ہی ہوتی ہے جو غیر احمدی ہیں وہ پھر

Page 432

حضرت خلیفتہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۴۲۸ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۵ء کلبوں میں جانے لگتی ہیں اور جو غیر احمدیوں کے اثر کے نیچے ہیں وہ اس قسم کے شیوے اختیار کر لیتی ہیں.بیرونی زندگی ہے بہانہ یہ ہے کہ فلاں سوسائٹی کے ہم ممبر ہیں، فلاں سوسائٹی میں حصہ لے رہی ہیں مگر گھر کے لئے وقت ہی نہیں رہتا نتیجہ وہ گھر ویران ہو جاتا ہے.اس میں گھر والے دوسرے افراد کو دلچسپی نہیں رہتی اور ایک بڑا مقصد گھر کے ساتھ عورت کا تعلق باندھنے میں قیام نماز ہے آئندہ نسلوں کو اگر احمدی خواتین نمازوں پر قائم کر دیں تو ایک بہت بڑا احسان ہے اور قیام جنت کا سب سے اول ذریعہ یہی ہے لیکن وہ عورتیں جو زیادہ گھروں سے باہر دوڑی پھرتی ہیں اُن کو گھروں میں نماز قائم کرنے کی توفیق ہی نہیں ملتی.یہ میرا تجربہ ہے اور میں وسیع نظر رکھنے کے بعد آپ کو یہ بات بتا رہا ہوں.نام لئے بغیر کہ ایسی عورتیں جب خود نمازیں پڑھتی ہیں تو اکثر ٹکریں مارنے والی نماز میں ہوتی ہیں کیونکہ ان کو دو مصروفیتوں کے درمیان وقت ہی پورانہیں ملتا اور جلدی سے گلے سے اتاری کہ اچھا جی اب نماز پڑھ لی چلو باہر چلیں اور اپنے بچوں کو پنجوقتہ نماز کی عادت ڈالنی تبھی ممکن ہے اگر گھر میں عورت گھر کی مالکہ بن کے رہے اس کے تمام معاملات اس کے کنٹرول میں ہوں اس کی نظر کے سامنے سب چیزیں چل رہی ہوں اپنے بچوں کو صبح بھی نماز پہ اٹھائے ، رات کو بھی نماز کی توجہ دلائے اور پھر صبح خود نماز پر اُٹھنے کی عادی ہو.یہ گھریلو زندگی کے طبعی پھل ہیں جن کا قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے.بیرونی زندگی اگر ضرورت سے زیادہ بڑھ جائے تو راتیں دیر تک ضائع ہو جاتی ہیں.رات گئے تک انسان ایسی مصروفیتوں میں پڑا رہتا ہے کہ اکثر ایسی عورتوں کے لئے صبح نماز پہ اٹھنے کی توفیق ہی نہیں ملتی ، ہمت ہی نہیں ان میں رہتی اور وہ ساری عورتیں پھر اگر صبح بیکار ہوں تو ان کا دن صبح ساڑھے دس سے گیارہ بجے شروع ہوتا ہے.اُٹھ کر وہ ناشتہ کرتی ہیں اور پھر تھوڑا سا وقت جو باقی رہتا اس میں اگر وہ کھانا انہوں نے خود پکانا ہے تو پکایا اور لگا کر پھر آپ باہر چلیں گئیں.پھر شام کی مصروفیت پھر رات کی مصروفیت گویا ایک چکر ہے بد چکر جس میں مبتلا ہو کر ان کو تسکین نہیں ملتی اس لئے زندگی بظاہر ایک دلچسپ اور دیدہ زیب ہے لیکن آپ اس کا تجزیہ کر کے دیکھیں ہر وقت کی بے چینی ہے.ہر وقت کی مصیبت ہے اسلام تسکین پیدا کرنا چاہتا ہے، قرار بخشنا چاہتا ہے تحریک کر کے آپ کو بے وجہ متموج نہیں کرنا چاہتا کہ ہر وقت ایک ہنگامہ برپا ہو اور اس کا ماحصل کیا ہو؟ سارے دن کے آخر پر اپنا حساب کتاب کرنے بیٹھیں تو جیسی بے چینی لے کر دن شروع کیا تھا وہی بے چینی آخر پر اسی طرح رہی.باہر بہت نکلنا ، بہت زیادہ مجالس میں اس طرح بیٹھنا عورت کے لئے اور بھی مشکلات

Page 433

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کےمستورات سے خطابات ۴۲۹ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۵ء پیدا کر دیتا ہے.ہر عورت ایک اقتصادی معیار پر نہیں ہوتی نسبتاً زیادہ امیر عورتیں ہیں وہ زیادہ قیمتی سنگھار پٹار کرتی ہیں ، وہ زیادہ قیمتی کپڑے پہنتی ہیں ان کے فیشن اور قسم کے ہوتے ہیں اور ان کی دولت کے قصے بھی مجلسوں میں چل رہے ہوتے ہیں.تو ایسی عورتیں بیچاریاں ہر وقت بے چین ہوتی چلی جاتی ہیں کہ فلاں کے پاس گئی تھی کہ دیکھا اس کا کتنا اچھا جوڑا تھا، دیکھا اس نے کہاں سے سنگھار لیا تھا، یہ اس نے امریکہ سے منگوایا تھا یہ جرمنی سے حاصل کیا تھا اور وہ جو سلائی کی ہے یہ تو کراچی میں جو سب سے مہنگی سلائی والی دکان ہے وہاں سے لی ہوئی ہے.مشغلہ ہی یہ ہے، باتیں ہی یہ ہو جاتی ہیں نماز کے ذکر کا موقع کب ملے گا.ذکر الہی ان باتوں میں سجتا ہی نہیں ، پھبتا ہی نہیں..اور قرآن کریم نماز کے قیام اور ذکر الہی کا ماحول پیدا کرنا چاہتا ہے.جہاں یہ پیدا ہو جائے وہ عورتیں آپ اگر مجھتی ہیں کہ وہ لذتوں سے محروم ہیں تو بالکل دھوکا ہے جو تسکین جو وقار اُن عورتوں کے چہروں پر ظاہر ہوتے ہیں وہ چیز ہی اور ہے.بچپن میں ہم نے کثرت سے قادیان میں ایسی چلتی پھرتی جنتیں دیکھی ہیں، اُن کا مقام ان کا مرتبہ ہی الگ ہے وہ اس قسم کی چھوٹی چھوٹی چیزوں کو ادنی اور ذلیل اور حقیر سمجھتی ہیں ان میں محرومی کا کبھی بھی احساس پیدا نہیں ہوا.ہاں لوگ جو ان سے ملنے آتے ہیں ان کو تسکین ملتی ہے، جو قریب بیٹھتے تھے ان کو ایک روحانی لذت عطا ہوتی تھی پس اسی دنیا میں رہتے ہوئے وہ اس دنیا کی وجود بن جاتی ہیں.یہ وہ عورتیں ہیں جنہوں نے جنت دوبارہ پیدا کرنی ہے اور جو دوبارہ جنت پیدا کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں.ان کی اولادیں بھی نیکیوں پر قدم مارتی ہیں، ان کے مزاج بھی ہمیشہ اللہ کی طرف مائل رہتے ہیں اور نیک باتوں سے لذت پاتے ہیں.پس بظاہر چھوٹی سی باتیں ہیں کوئی گناہ بھی نہیں ہے.میں یہ نہیں کہتا جو باہرنکلتی ہیں وہ گناہوں کی خاطر نکلتی ہیں ہرگز نہیں بڑی بڑی نیک بیبیاں ہیں اپنے آپ کو سنبھالتی ہیں نکلتی ہیں شوق کی خاطر مگر مومن کا وقت ضائع ضرور ہو جاتا ہے.ایسی باتوں میں اور ان کے ذہنی رجحانات کو یہ باتیں معین کرتی ہیں اور ان رجحانات کا اثر آئندہ نسلوں پر اور گھر کے ماحول پر ضرور پڑتا ہے اور رفتہ رفتہ یہ وہ ماحول ذکر الہی کے لئے ایسا اجنبی ماحول بن جاتا ہے کہ وہاں وہ پودا لگ نہیں سکتا اور اسی پودے کا نام تو دراصل شجرہ طیبہ ہے وہی تو پودا ہے جس نے جنت بنانی ہے.پس گھر میں اگر اللہ کے ذکر کی باتیں ہوں خدا کی محبت اور پیار سے آپ کی زندگیاں تسکین پانے والی ہوں اور پھر جو عورت کی طبعی ضروریات ہیں جس کو خدا تعالیٰ نے خود بیان فرمایا ہے اس میں

Page 434

حضرت خلیفتہ مسح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۳۰ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۵ء بھی دلچسپی ہو وہ بے رونق اور بد زیب دکھائی نہ دیں.سلیقے والیاں ہوں لیکن متداول مزاج کی متناسب زندگی اختیار کرنے والی تو اُن پر کوئی گناہ نہیں ہرگز ان کا شاپنگ بھی گناہ نہیں بن سکتا.ہرگز ان کا دوسری دلچسپیوں میں حصہ لینا بھی گناہ نہیں بن سکتا مگر اگر اتنی دلچسپی لی جائے کہ دین سے نظریں غافل ہو جائیں اور دنیا کی طرف مائل ہو جائیں بلکہ چپکنے لگیں دنیا سے تو یہ وہ خطرناک منزل ہے جس کے بعد پھر واپسی کی توقع بہت کم رہ جاتی ہے بظاہر یہ عورتیں پاکباز بھی دکھائی دیں تو آئندہ کے لئے پاک پیج چھوڑ کر نہیں جاتیں بلکہ معاشرہ دن بدن گرتا چلا جاتا ہے اور اس میں شجرہ خبیثہ کے پنپنے کے لئے زیادہ سازگار ماحول پیدا ہو جاتا ہے.چنا نچہ اللہ تعالیٰ یہ ذکر کرنے کے بعد فرماتا ہے نمازوں کو قائم کرو.تمہارا اولین فرض ہے ، زکوۃ دو اور زکوۃ دینا اپنی ذات میں ایک لذت رکھتا ہے.آپ میں سے وہ خواتین (اور بہت سی ہوں گی میں امید رکھتا ہوں ) جن کو غریبوں سے ہمدردی ہے، غریبوں پر کچھ نہ کچھ خرچ کرنا ان کا ایک دائمی مزاج بن چکا ہوتا ہے وہ جانتی ہیں کہ جو کسی غریب کی ضرورت پورا کرنے میں لذت ہے وہ کسی سے کوئی تحفہ پانے میں لذت نہیں ہوتی زمین آسمان کا فرق ہے.کہاں وہ لذت کہ کسی بھو کے کو آپ کھانا کھلانے کا موجب بنیں ، کسی غریب عورت کو جو اپنا تن ڈھانچنا چاہتی ہے مگرتن ڈھاپنے کے لئے کپڑے نہیں اس کو مخفی ہاتھوں سے کپڑے پہنائیں اور یہ جانتے ہوئے کہ اللہ کے پیار کی نظریں آپ پر پڑ رہی ہوں گی اور کہاں یہ لذت کہاں کسی سے ایک اچھا قیمتی جوڑا تحفے میں حاصل کر لینا.وہ آیا اور گیا اور بات ختم ہوگئی.شکریے ادا ہو گئے مگر جو عطا کی لذت ہے وہ ایک دائمی لذت ہے وہ ایسی لذت ہے جو آپ کے کردار پر گہرے اثر مترتب کر جاتی ہے.آپ کو پہلے سے بہتر بناتی چلی جاتی ہے آپ کی غیرت اپنی نظروں میں بڑھتی چلی جاتی ہے اور خدا کی نظر میں بھی آپ کی عزت بڑھتی چلی جاتی ہے.پس لذتیں مختلف قسم کی ہیں ایکسائٹمنٹ (Excitement) میں بھی لذت ہے تسکین میں بھی لذت ہے کچھ مانگنے اور لینے میں بھی لذت ہے، کچھ عطا کرنے میں بھی لذت ہے اللہ نے جو اسلام کا مزاج بنایا ہے اس کا تعلق عطا کی لذتوں سے ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ( آل عمران : 1) اے امت محمدیہ ! آج تک جتنی بھی امتیں نکالی گئیں تم ان میں سب سے بہتر ہو کیوں بہتر ہو؟ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ کیونکہ تم بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانے کے لئے پیدا کئے گئے ہو تم سے خیر دوسروں

Page 435

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۳۱ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۵ء کی طرف چلتا ہے، جاری ہوتا ہے تمہارا فیض غیروں کو عطا ہوتا ہے تمہارا ہاتھ ان کے سامنے فیض پانے کے لئے نہیں پھیلا ہوا، وہ تم سے فیض پاتی ہیں.یہ بنیادی وجہ ہے کہ تم بہترین ہو اور امر واقعہ یہ ہے کہ جن کا فیض دوسروں کو پہنچے جوسکون اُن کو نصیب ہوتا ہے، جو چین وہ پاتے ہیں اس کی کوئی مثال دنیا میں دوسری جگہ دکھائی نہیں دیتی.اپنے ہاتھ سے اپنی ضرروتیں کم کر کے اپنی ضرورتیں کاٹ کر اپنے بچوں کی ضرورتیں کم کر کے اور کاٹ کر غریبوں کی خاطر خرچ کرنا یہ بھی ایک نشہ رکھتا ہے اور یہ وہ نشہ ہے جس کا کوئی ہینگ اوور (Hang over) نہیں ہے.کوئی بعد میں ضمیر کے چر کے نہیں ہیں بلکہ ایسی لذت ہے جو دائمی آپ کے وجود کا حصہ بن جاتی ہے.پس قرآن کریم نے ساتھ ہی زکوۃ کا ذکر فرمایا کہ تمہیں لذتیں چاہئیں تو دیکھو لذتوں کے بہت سے سامان ہم نے مہیا کر دیئے ہیں.تم بنی نوع انسان کی ہمدردی میں خرچ کرو، نیک کاموں پر خرچ کرو، پھر دیکھو کہ تمہیں کیسا سکون نصیب ہوتا ہے.تو اسلام عورت کو محروم کرنے کے لئے نہیں بلکہ عورت کی حفاظت کے لئے ، اس کی عظمتوں کے قیام کے لئے ، اس کو ایسی تسکین بخشنے کے لئے آیا ہے کہ جس کے نتیجہ میں وہ غیروں کی تسکین پورا کرنے کا کھلونا نہ بنیں بلکہ دنیا کو ایک دائمی تسکین دینے کا موجب بن جائیں جو گناہ سے پاک ہو جو ایک ہمیشہ کی زندگی اپنے اندر رکھتی ہے ایک ایسی تسکین جو نسلاً بعد نسل ورثے میں ملتی چلی جاتی ہے.یہ وہ پردے کی روح ہے جس کی آپ نے حفاظت فرمانی ہے.اب احادیث میں سے یہ چونکہ مضمون میں نے بتایا تھا کہ قرآن کریم کا تو بہت ہی گہرا اور وسیع مضمون ہے ایک ہی آیت کے مختلف پہلوؤں میں انسان ڈوب کر دیکھے تو مضمون گھنٹوں بیان ہوسکتا ہے مگر وقت کے لحاظ سے جواب صرف چند منٹ رہ گیا ہے میں آپ کو چندا حادیث پیش کرتا ہوں تا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نیک اور پاک نصیحت کا آپ پر گہرا اثر پڑے اور اس کے نتیجے میں جو میں کہہ رہا ہوں اسے قبول کرنے میں آپ کو مدد ملے.حضرت عبد اللہ بن عمر روایت کرتے ہیں کہ دنیا تو سامان زیست ہے ایک متاع ہے، لیکن سب سے بڑی متاع جو انسان کو عطا ہوئی ہے وہ نیک عورت ہے جس سے بڑھ کر دنیا کی متاع نہیں.اب یہ حقیقت ہے کہ جن مردوں کے نصیب میں نیک بیبیاں آجا ئیں ان کے گھر جنت بن جاتے ہیں.اس سے زیادہ کوئی چیز ان کی زندگی میں لذت پیدا نہیں کر سکتی، ان کی زندگی کو اطمینان نہیں بخش سکتی ، ان کی بے قراریاں دور نہیں کر سکتی ، ان کی بے اطمینانیوں کا حل نہیں ہے جیسا ایک پاک بیوی

Page 436

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۴۳۲ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۵ء جو وفا دار ہو، نیک ہو، نیک مزاج ہو اور نیک کاموں میں اپنے خاوند کی مددگار اور تعاون کرنے والی ہو.ایسی عورتوں کی ضروری نہیں شکل اچھی ہو.اچھی شکل والی اگر عادتیں بد ہوں تو بعض دفعہ تھوڑی دیر میں ان کی شکلیں بہت ہی بری لگنے لگ جاتی ہیں ، جتنی اچھی صورت ہو بد عادتیں ان کو اور بھی بد زیب دکھانے لگتی ہیں.وہ منہ کو آتی ہیں یہ کیا ہے؟ شکلیں دیکھو اور عادت دیکھولیکن اگر بدصورت عورت ہو وہ سمجھتی ہے بعض دفعہ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حسن نہیں دیا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ایک حسن کی صلاحیت بخشی ہے.بدصورت عورت بھی ہو اور نیک ہو فطرتاً نیک مزاج ہو تو لازماً اس کا اثر اپنے خاوند پر اور اپنے ماحول پر بالآخر ضرور غالب آتا ہے جو قدر اس کی دل میں پیدا ہوتی ہے اور باقی رہتی ہے ویسی ہی دوسری حسین عورت کی ہو ہی نہیں سکتی.حسن چند دن میں اپنی لذت کھو دیتا ہے اس سے آشنائی اس کی لذت کو بوسیدہ کر دیتی ہے مگرنیکیوں سے آشنائی لذتوں کو دوام بخشنے والی ہے کبھی کوئی انسان کسی نیکی سے بور نہیں ہوتے دیکھا.نہ ہوسکتا ہے.ایک نیک مزاج آدمی ہو آپ کے ساتھ چل رہا ہواس کی نیکی کا حسن جب بھی جلوہ گر ہو آپ کو غیر معمولی کشش سے اپنے ساتھ اپنی طرف کھینچے گا.اس کی قدر و منزلت آپ کے دل میں بڑھتی چلی جائے گی.پس اللہ تعالیٰ جب نیکیوں کا ذکر فرماتا ہے تو بوریت کے مضمون کے طور پر نہیں بلکہ لذت کے ایک نہایت ہی اعلیٰ اور ستھرے ہوئے ایک روحانی منظر کشی کے طور پر پیش کرتا ہے.اگر لذتیں ڈھونڈنی ہیں تو اس ملائے اعلیٰ میں لذتیں ہیں جو نیکیوں کے ساتھ وابستہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس کا خلاصہ یوں بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں تو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی متاع پیدا کی ہے یہ ہے ہی متاع عارضی فائدوں کی دنیا ہے مگر سب سے اچھی متاع نیک عورت ہے اس سے بہتر زندگی کی کوئی متاع نہیں اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عورت سے جو تعلق تھا آپ کی ذات میں اس کو نماز کے ساتھ باندھا ہے، حیرت انگیز بات ہے فرماتے ہیں دنیا کا دل اس میں ہوگا اُس میں ہوگا اس میں ہوگا میرا دل تو نماز میں اٹکارہتا ہے یا عورت میں ہے یا خوشبو میں ہے اور نماز اور خوشبو کے ساتھ عورت کے مضمون کو باندھ کر یہ بتادیا کہ اس تعلق میں کوئی نفسانیت نہیں کیونکہ نہ خوشبو میں نفسانیت ہے نہ عبادت میں نفسانیت ہے.عبادت کی جو اعلیٰ قدریں ہیں وہ ایک نیک بیوی کی رفاقت سے انسان کو نصیب ہوتی ہیں اور یہ جو جنت ہے یہ آئندہ نسلوں میں جاری وساری ہو جاتی ہے.آئندہ جنتوں کے قیام کے لئے ضروری ہو جاتی ہے.اس پہلو سے آپ کو پردے کی روح کو سمجھ کر اپنے اوپر پابندی سمجھ کر اختیار نہ کریں

Page 437

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۴۳۳ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۵ء بلکہ یہ سمجھیں کہ آپ کو عظیم نصیحتیں کی جارہی ہیں مردوں کی غلامی سے آزاد کیا جارہا ہے.بے پردگی کی تعلیم دینے والے مرد ہر گز آپ کی خاطر یہ نہیں کر رہے، اپنے نفس کا کھلونا بنانے کی خاطر یہ کر رہے ہیں اسی لئے دنیا کی سب سے زیادہ مہنگی انڈسٹری کاسمیٹکس کی انڈسٹری ہے جہاں ارب ہا ارب ڈالر وہ کھینچ کر لے جاتے ہیں اور مرد چاہتے ہیں کہ عورت کو اور نگا کریں اور دکھائیں اور وہ اور محتاج ہوں Artificial ذرائع مصنوعی حسن کی تعمیر کی اور محتاج ہوتی چلی جائیں اور اس طرح دنیا کی دولتیں چند ایسے ہاتھوں میں سمٹتی جائیں جن کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں کہ عورت کو ایک بے عزت کھلونے کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کریں.قرآن آپ کی عزت قائم کرنا چاہتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ کی عزت کا قیام چاہتے ہیں.ہر گز آپ کو بے وجہ پابند نہیں فرمانا چاہتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تو ادا سے یہ بات پھوٹتی تھی دیکھیں ! کون نبی ہے جس نے یہ کہا کہ تمہاری جنتیں تمہاری ماؤں کے قدموں کے نیچے ہیں نکال کے تو دکھا ئیں.تمام دنیا پر نظر ڈال کر دیکھیں.محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سواد نیا کا کوئی نبی نہیں ہے جس نے عورت کو ایسا عزت کا مقام بخشا ہو.تمام اسلامی تعلیم تمام مذاہب کی تعلیم دراصل اسی مقصد کے لئے ہے کہ انسان کو جنت عطا ہوا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں تمہاری ماؤں کے قدموں تلے تمہاری جنتیں ہیں.اتنا بڑا وسیع مضمون اس مضمون کا اس سے بھی تعلق ہے جو میں ابھی بیان کر چکا ہوں.اگر ما ئیں جنت بنانے والی ہوں گی تو ان کے قدموں سے ان کی اولادیں جنتیں لوٹیں گی اور وہ جنتیں وراثتا آگے چلی جائیں گی لیکن اگر مائیں ایسی نہ ہوں تو انہیں قدموں کے نیچے جہنم بھی ہو سکتی ہے.پس جس تعلق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم عورت کا مقام اور مرتبہ پیش کر رہے ہیں اس تعلق کو سمجھیں اس مضمون کے حوالے سے اس حدیث کا معنی سمجھنے کی کوشش کریں.فرماتے ہیں ! تمہاری جنتیں تمہاری ماؤں کے قدموں کے نیچے ہیں.ایک فرمانبردار اولاد کا تصور بھی اس سے پیدا ہوتا ہے اسی سے پھوٹتا ہے ایسی نیک ماں کا تصور جس کے قدموں میں جتنا اولا د آئے اتنا ہی وہ جنت کے قریب ہوتی چلی جاتی ہے.یہ مضمون بھی اس میں موجود ہے پھر یہ کہ عورت کو کتنا بلند مقام حاصل ہے یعنی مردوں باپوں کے قدموں کے نیچے جنت نہیں دکھائی.ماؤں کے قدموں کے نیچے جنت دکھائی ہے پھر ماؤں کی ٹھنڈی چھاؤں کا ذکر بھی موجود ہو گیا کیسے ماں کی ٹھنڈی چھاؤں خواہ وہ بوڑھی بھی ہو جائے

Page 438

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۴۳۴ خطاب ۲۸ جولائی ۱۹۹۵ء ہمیشہ اولاد پر تسکین کے سائے ڈالتی ہے.ایک بوڑھی ماں کا غم بھی بوڑھی اولا د کو بعض دفعہ بے چین کر دیتا ہے.اولاد خود بھی بڑی عمر کو پہنچ چکی ہے لیکن ماں کی کمی پوری نہیں ہوتی.اس کی وجہ یہ ہے کہ ماؤں کے قدموں تلے جنت کا ایک یہ بھی معنی ہے جیسی ماں کی ٹھنڈی چھاؤں ہے جیسے اس کی تسکین ہے ویسے اور کسی رشتے کو نصیب نہیں.تو عورت کے مقام کو دیکھیں کہاں سے اٹھا کر کہاں تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے پہنچا دیا.کیسے ممکن ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم عورت کی حق تلفی کی تعلیم دیں.آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے قدم قدم پر عورت کے حقوق کی حفاظت فرمائی ایسی حفاظت فرمائی کہ دنیا میں کبھی کوئی انسان کوئی مرد ایسا پیدا نہیں ہوا جس نے عورت کے حقوق کی خاطر ایسی جدو جہد فرمائی ، ادنی ، باریک باتوں کا خیال رکھا.ایک دفعہ ایک اونٹ ذرا تیزی سے بھگایا.آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: قَوَارِيرَا قَوَارِيرَا ( مسلم کتاب الفضائل باب فی رحمۃ النبی ).اس پر عورتیں بیٹھی ہیں وہ تو شیشے ہیں ان کا خیال رکھنا ، اس بار یک نظر سے آپ نے عورت کا خیال رکھا ہے.کہ وہ گھر جو اسلام بظاہر عورت کے سپر د کرتا ہے اس میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سب مردوں سے بڑھ کر اپنی بیویوں کے مددگار ہوتے تھے بلکہ بعض دفعہ ان سے بڑھ کر کام کر لیا کرتے.پس یہ وہ دونوں کا باہم نیکیوں پر تعاون ہے جو دنیا کو جنت عطا کرے گا.یہ مضمون تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بہت وسیع ہے.بکثرت حوالے میرے پاس ہیں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نصائح بھی ہیں.مگر اب چونکہ وقت ہو چکا ہے نماز کا وقت قریب ہے اس لئے اب میں آپ سے اجازت چاہتا ہوں میں امید رکھتا ہوں کہ آئندہ ان چھوٹی چھوٹی رسمی بحثوں میں اپنا وقت نہیں ضائع کریں گی کہ فلاں کا پردہ اچھا ہے یا میرا پردہ اچھا ہے.فلاں ضروری ہے یا غیر ضروری ہے، اگر روح اسلام کو آپ سینے سے چمٹائے رکھیں اگر آپ کے دل اسلام کی روح کے ساتھ دھڑکتے ہوں تو ظاہری پردہ خواہ اس نوعیت کا ہو یا اس نوعیت کا ہو یقیناً آپ مقام محفوظ پر ہیں.یقیناً آپ ہی ہیں وہ جن سے انشاء اللہ پردے کی روح ہمیشہ زندہ رہے گی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.یاد رکھیں اگر احمدی خواتین نے یہ جھنڈے ہاتھ سے چھوڑ دیئے تو آج دنیا میں کوئی نہیں جو ان جھنڈوں کو اُٹھائے.پھر اسلام کا یہ حکم گر جائے گا اور ہمیشہ کے لئے گر جائے گا.آپ کو خدا نے پیدا کیا ہے کہ اس جھنڈوں کو بلند رکھیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے.

Page 439

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۴۳۵ خطاب ۸ ستمبر ۱۹۹۵ء پر دہ اور اس کی روح ( جلسہ سالانہ مستورات جرمنی سے خطاب فرمودہ ۸/ستمبر ۱۹۹۵ء) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد نے فرمایا: گزشتہ دو سال سے یا تین سال سے جرمنی کا جلسہ بھی ایک United Kingdom کے سالانہ جلسے کا تتمہ بنتا جارہا ہے یعنی وہ تقریری مواد جو جلسہ سالانہ UK کے لئے تیار کیا جاتا ہے اگر پورا بیان نہ ہو سکے جیسا کہ اکثر بیان نہیں ہو سکتا تو اس کا کچھ حصہ جو بچتا ہے وہ جرمنی کے جلسے کے لئے رکھ دیا جاتا ہے تو گویا یہ دونوں مل کر اجتماعی طور پر عالمی سالانہ جلسہ بن جاتے ہیں چنانچہ اس سال کے لئے بھی میں نے وہی خطاب چنا ہے جو UK کے جلسہ سالانہ پر کیا تھا یعنی پردہ سے متعلق بعض وضاحتیں.جو حصہ قرآن کریم کی آیات سے تعلق رکھتا تھا یعنی براہ راست ان کی تفسیر سے وہ تو میں بیان کر چکا ہوں لیکن کچھ احادیث بھی چن کر اس مضمون پر روشنی ڈالنے کے لئے رکھی تھیں، کچھ اقتباسات تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان کے ذکر سے پہلے ہی وقت ختم ہو چکا تھا.بس اب میں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں پردے کی روح کو بیان کرتا ہوں.تا کہ آپ لوگ اچھی طرح سمجھ جائیں کہ پردہ کیا چیز ہے ، کون سی حفاظت مقصود ہے، اس کا مقصد کیا ہے اور امید رکھتا ہوں کہ اس کو سمجھنے کے بعد انشاء اللہ آپ سب میں ایک پاک تبدیلی پیدا ہوگی.مسلم کتاب اللباس باب النساء سے یہ روایت لی گئی ہے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دوزخیوں کے دو گروہ ایسے ہیں کہ ان جیسا میں نے کسی گروہ کو نہیں دیکھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دوزخیوں کے یعنی جہنمیوں کے دو

Page 440

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۳۶ خطاب ۸ ستمبر ۱۹۹۵ء گروہ ایسے ہیں کہ ان جیسا میں نے کسی گروہ کو نہیں دیکھا.“ ایک وہ جن کے پاس بیل کی دموں کی طرح کوڑے ہوتے ہیں جن سے وہ لوگوں کو مارتے ہیں.اور دوسرے وہ عورتیں جو کپڑے تو پہنتی ہیں لیکن حقیقت میں وہ جنگی ہوتی ہیں ناز سے پچکیلی چال چلتی ہیں ، لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے جتن کرتی پھرتی ہیں.بختی اونٹوں کی لچکدار کو ہانوں کی طرح ان کے سر ہوتے ہیں، ان میں سے کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگی اور اس کی خوشبو تک نہ پائے گی حالانکہ اس کی خوشبو بہت دور کے فاصلے سے بھی آسکتی ہے.یہاں جہاں تک اس نظارے کا تعلق ہے کہ بیل کی دم کی طرح ان کے ہاتھ میں کوڑے ہیں کچھ لوگ ماررہے ہیں.یہ تمام تفصیل طلب باتیں ہیں.کیونکہ وہ دنیا اور اس دنیا کی سزائیں اس دنیا اور اس دنیا سے مختلف ہیں.اس دنیا کی سزاؤں سے مختلف ہیں.محض ایک تصویر کشی ہے تا کہ آپ کو کچھ اندازہ ہو کہ وہاں کے حالات میں بھی وہ سزا ایسی ہی بھیانک معلوم ہوگی جیسے یہاں کے حالات میں یہ نقشہ جو کھینچا جارہا ہے آپ کو بھیا نک معلوم ہوتا ہے.ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جہنم اور جنت دونوں کی ایسی روحانی شکلیں ہیں جن کا کوئی انسان تصور نہیں کر سکتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی یہی فرمایا ہے کیونکہ قرآن کریم نے بڑی وضاحت کے ساتھ یہ بات کھول دی ہے کہ جنت اور جہنم دواس قسم کی چیزیں ہیں جو بیک وقت ایک ہی فضا میں رہ سکتی ہیں تمام کائنات پر جنت محیط ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفصیل میں فرمایا کہ اسی ساری کائنات پر دوزخ بھی محیط ہے.گویا جہاں تک Space کا تعلق ہے جہاں تک مکانیت کا تعلق ہے جنت اور جہنم میں کوئی علیحدہ علیحدہ مقام مقرر نہیں بلکہ ایک ہی جگہ میں ایک ہی وقت میں جنت اور جہنم کی کیفیات کو مختلف روحیں اپنے اپنے رنگ میں محسوس کریں گی.پس ایک تو وضاحت ضروری تھی کہ اس قسم کی حدیثیں جن میں جنت اور جہنم کے نقشے آپ پڑھتی ہیں یا قرآن کریم کی بعض آیات جن سے بعض ظاہری تصویر کشی نظر آتی ہے ان کو بعینہ انہی لفظوں میں نہیں لیا جا سکتا کیونکہ قرآن کریم بتاتا ہے کہ وہ دنیا اور ہے اور اس کا کوئی تصور اس دنیا کی آنکھ یا اس دنیا کے کان یا اس دنیا کے دل نہیں کر سکتے.اس تمہید کے بعد میں واپس اس مضمون کی طرف آتا ہوں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو جہنم میں دیکھا اور اس کی ایک خاص وجہ بیان فرمائی.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اُن

Page 441

حضرت خلیفت آس الرابع کے مستورات سے خطابات ۴۳۷ خطاب ۸ ستمبر ۱۹۹۵ء عورتوں کو جہنم میں خاص طور پر سے دیکھا جو بالا رادہ اس طرح بن سنور کر نکلتی ہیں کہ لوگوں کی توجہ ان کی طرف پھرے اور ان کی چال پچکیلی ہو جاتی ہے.ان کی باتوں میں ایسا لوچ ہے کہ وہ گویا دام میں پھنسانے کے لئے نکلتی ہیں اور بظاہر کپڑے پہنے ہوتے ہیں مگر فی الحقیقت ان کے ننگ ان سے ظاہر ہوتے ہیں بلکہ بعض قسم کے کپڑے بعض قسم کے اندرونی حسن کو نکھارنے کے لئے پہنے جاتے ہیں چھپانے کے لئے نہیں.پس جہاں تک بے پردگی کا تعلق ہے یہ بے پردگی کی بدترین قسم ہے.پردے کے متعلق تو آپ پوچھتی رہتی ہیں یا میں بتاتا بھی رہتا ہوں کہ پردے کی روح کیا ہے؟ لیکن بے پردگی کو بھی سمجھنا چاہئے کیونکہ اس کے بغیر آپ صحیح پر دے کا تصور باندھ ہی نہیں سکتیں.قرآن کریم نے جو معاشرہ پیدا فرمایا ہے جس کی تفصیل حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں ملتی ہے اس کی مرکزی روح یہ ہے کہ عورت جو فطرتا سنگھار کرنا چاہتی ہے،خدا تعالیٰ نے اس کو فطر تا نرم بنایا ہے، جاذب نظر بنایا ہے، پرکشش بنایا ہے وہ مزید اضافوں کے ساتھ اس طرح باہر نہ نکلیں کہ Society پر ایک ابتلاء لے آئے اور ہر بری آنکھ اس پر اور بھی بری نیت سے پڑنے لگے.خواہ ایسی عورت کا مدعا یہ ہو یا نہ ہو کہ لوگ مجھے دیکھیں اور میری طرف مائل ہوں اور میں اسی طرح ان کا جواب دوں لیکن جہاں تک Society میں ایک ہیجان پیدا کرنے کا تعلق ہے، جہاں تک دلوں میں ایک آگ بھڑ کانے کا تعلق ہے یہ عورت اس آگ لگانے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں بہت سی معصوم عورتیں نقصان اُٹھاتی ہیں کیونکہ ایسی Society جہاں بالا رادہ مردانہ جذبات سے کھیلا جائے اور انہیں انگیخت کیا جائے خواہ وہ انگیخت کرنے والی تیلی لگا کر ایک طرف ہٹ جائے مگر ایسی Society میں پھر عورتوں پر حملے ان کی بے عزتی، ان پر ظلم وستم کی جو واردات ہوتی ہیں ان کی وہ عورتیں ذمہ دار ہیں جنہوں نے Society میں ہیجان پیدا کیا ہے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نقشہ کھینچا ہے وہ بالکل درست ہے آج کل کی دنیا میں بھی جو خصوصیت کے ساتھ پہلے مغربی دنیا میں باتیں پائی جاتی تھیں اب وہ مشرقی دنیا میں بھی اسی زوروشور سے پائی جاتی ہیں.یہاں تک کہ مغرب اور مشرق کی تفریق اُٹھ گئی ہے.اس میں جنسی بے راہ روی کا جہاں تک تعلق ہے اس جنسی بے راہ روی میں عورت کا کردار غیر معمولی طور پر نمایاں ہے باوجود اس کے کہ مردوں کا کردار نمایاں دکھائی دے رہا ہے.اگر ایک ایسی Society ہو جہاں پردے کا احترام ہو، جہاں حیا ہو، جہاں بے وجہ مردوں

Page 442

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۳۸ خطاب ۸ ستمبر ۱۹۹۵ء کے جذبات سے نہ کھیلا جائے اور ان کی دبی ہوئی آگوں کو بھڑکایا نہ جائے ایسی جگہ میں اس قسم کے واقعات یا تو ہوتے ہی نہیں یا بالکل نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں.اب ربوہ کا ایک ماحول ہے.آپ اس ماحول کو دیکھیں یہ درست ہے کہ کوئی بھی Society گناہوں سے پاک نہیں ہے، ہم ربوہ کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ ایک گناہوں سے پاک بستی ہے مگر جب ہم دوسری بستیوں سے مقابلہ کرتے ہیں تو زمین آسمان کا فرق دکھائی دیتا ہے.وہاں عورت کا ایک احترام پایا جاتا ہے اور اس عورت کے احترام کا Credit اس کی خوبی مردوں کو نہیں بلکہ خود عورتوں کو جاتی ہے.جنہوں نے اس شہر میں اپنے آپ کو سنبھال کے رکھا ، بے وجہ گلیوں میں اپنے حسن کی آزمائش نہیں کرتی پھرتیں بلکہ سلیقے سے اپنے آپ کو سمیٹ کر رکھتی ہیں اور چلتی ہیں تو وقار سے چلتی ہیں اس لئے اگر کوئی نظر بیمار بھی ہو تو ایسی عورتوں کو پڑھ کر شفا پا جاتی ہے نہ کہ اس کی بیماری میں اضافہ ہوتا ہے.پس یہ وہ مضمون ہے جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے اور جو نقشہ کھینچا ہے وہ تو آج کل کا نقشہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس زمانے میں مکے اور مدینے کے گلیوں میں اس قسم کی عورتیں شاذ ہی دکھائی دیتی ہوں گی جن کا نقشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کھینچ رہے ہیں اور بالوں کو کو ہانوں کی طرح بنالینا اور بھی بہت ایسی تفاصیل ہیں جو احادیث میں ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے کشف یا رویا میں یہ نظارے دکھائے تھے.بخاری سے ایک اور حدیث حضرت انس بن مالک کی مروی ہے.وہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ عسفان سے واپسی کے وقت ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اونٹنی پر حضرت صفیہ بیٹھی ہوئی تھیں.اونٹنی کے ٹھو کر کھانے کی وجہ سے دونوں گر پڑے اور ابوطلحہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سہارا دینے کے لئے لیکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورت کا خیال کرو.یعنی مجھے چھوڑو.میرا احترام اور عزت اپنی جگہ مگر جہاں حادثے ہوں وہاں سب سے پہلے عورت کا خیال رکھنا چاہئے.اس سے ایک تو یہ پتہ چلتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں صنف نازک کا کتنا خیال تھا.سب سے دنیا کی مقدس سب سے معزز ہستی خود وہ تھے اور تبھی خیال گزرتا ہے کہ اگر بچانا ہے تو سب سے پہلے آپ کو بچایا جائے لیکن وہ جو بے اختیار بچانے کے لئے آپ کی طرف دوڑا ہے اس کو کہا عورت کا خیال کرو ، عورت کا خیال کرو اور حضرت ابوطلحہ نے خیال کیسے رکھا؟ احادیث میں یہ آتا ہے کہ آپ نے اپنے چہرے پر پردہ ڈالا اور حضرت صفیہ پہ چادر پھینکی اور جب ان کا جسم سنبھل گیا اور

Page 443

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۴۳۹ پر دے میں آ گیا تب ان کی مدد کی کہ وہ اٹھیں اور محفوظ جگہ پر پہنچیں.خطاب ۸ ستمبر ۱۹۹۵ء ابوداؤد کتاب اللباس میں یہ روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں اور ایسے مردوں پر بھی لعنت بھیجی ہے جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں.اب یہ وہ باتیں ہیں جہاں تک میں نے اس زمانے کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے اس زمانے کے معاشرے میں پڑھنے میں بھی نہیں ملتیں لیکن آج کے زمانے میں یہ ایک عام بات ہے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی احادیث واضح طور پر ثابت کرتی ہیں کہ حضرت اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ زمانے کی بالکل واضح خبریں اللہ تعالیٰ سے پائیں اور انہیں اس طرح وضاحت کے ساتھ بیان کیا کہ جیسا آج کل کی Society کو دیکھ کر کوئی وہ باتیں پڑھ پڑھ کر سنا رہا ہو.چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ گویا کہ ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جب عورتیں مردوں جیسے لباس پہنیں گی اور مردوں جیسی ادا ئیں اختیار کریں گی اور اسی میں وہ اپنی برتری سمجھیں گی کہ ہم زیادہ جدید خیالات کی عورتیں ہیں، ہمیں پرانے زمانے کی باتوں کی پرواہ نہیں رہی اور ان کی جدت پسندی مردوں میں بھی پائی جائے گی اور مرد عورتوں کی طرح پھریں گے اور یہ امر واقعہ ہے کہ بعض دفعہ دکانوں پر کوئی جارہا ہو تو پیچھے سے دیکھ کر پتہ نہیں چلتا کہ یہ مرد ہے کہ عورت ہے اور مڑیں تو پھر بھی کچھ دیر کے بعد پتہ لگتا ہے.ابھی کچھ عرصہ پہلے ایک جگہ ہم سفر پر تھے تو ہمارے ساتھیوں میں یہ گفتگو چل پڑی کسی شخص کو دیکھا کہ یہ مرد ہے کہ عورت ہے.کچھ نہیں پتہ چل رہا تھا.میں نے کہا چھوڑ واس جھگڑے کو تمہیں کیا فرق پڑتا ہے تم کون سا عدالت میں بیٹھے ہوئے یہ فیصلے دے رہے ہو اور تمہارے فیصلوں سے بھی کیا فرق پڑ جائے گا.لیکن یہ دراصل ایک قدرتی تعجب کی بات تھی اس لئے ان کو اس بات میں دلچسپی پیدا ہوئی ورنہ فی ذاتہ عورت یا مرد کے چہروں میں ان کو کوئی دلچسپی نہیں تھی.لیکن تعجب ضرور تھا کہ ایک ایسا شخص دکھائی دے رہا ہے جس کے متعلق یہ فیصلہ کرنا ہی مشکل ہو گیا ہے کہ یہ عورت ہے کہ مرد ہے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو لعنت بھیجی ہے اس لعنت کا مطلب یہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کو اتنا نا پسند فرماتے تھے کہ اسلامی معاشرے سے اس کو دور رکھنا چاہتے تھے.لعنت کوئی گالی کے طور پر نہیں ہے بلکہ لعنت کا مطلب ہے دور ہٹی ہوئی چیز کہ اے خدا! اس بلا ، کو اس بیماری کو ہم سے دور رکھ لیکن مجھے افسوس ہے کہ بسا اوقات اگر بسا اوقات نہیں تو کبھی کبھارضرور احمدی بچیوں میں

Page 444

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۴۴۰ خطاب ۸ ستمبر ۱۹۹۵ء بھی مجھے یہ رجحان نظر آتا ہے اور جہاں تک آج کل کے زمانے کی مسلمان غیر احمدی بچیاں ہیں ان میں تو یہ رجحان نمایاں ہوتا جا رہا ہے.ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے کہ ایک خاتون جو خود احمدی ہوئیں تھیں ایک اچھے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، بہت مخلص ہیں انہوں نے مجھ سے شکایت کی کہ میری بیٹی کو اتنا مرد بننے کی عادت پڑ چکی ہے کہ کسی طرح سمجھتی نہیں ہے.اس کو ہزار سمجھا یا سب نے منتیں کیں ہزار ہاقتم کے حوالے دیئے وہ کہتی ہے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا میں تو لڑکا ہی بن کے رہوں گی لڑ کا کہلاؤں گی اور لڑکوں والے کام کروں گی اور کون ہے جو مجھے روک سکے تو میں نے ان سے کہا کہ آپ اگلی دفعہ اس بچی کو ساتھ لے آئیں تو لڑکا لڑکی جب سامنے آیا تو کہہ نہیں سکتا تھا کہ آیا کہ آئی.اس کی شکل بالکل لڑکوں والی اسی طرح کے لباس پہنے ہوئے تنے ہوئے اور ٹائی لگائی ہوئی ہیٹ رکھا ہوا سر کے اوپر تو کچھ دیر کے بعد میں نے اسے آہستہ آہستہ پیار سے سمجھانا شروع کیا اور عجیب اللہ تعالیٰ کا تصرف تھا کہ دس پندرہ منٹ کے اندر اندر ہی وہ بات سمجھ گئی اور مجھے اس نے کہا کہ ہاں اب میں مانی ہوں اور میں وعدہ کرتی ہوں کہ آئندہ سے اب لڑکی بن کے رہوں گی.تو یہ بیماری ہے جو آج کل کے زمانے کی ہے.اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا اور ان دونوں کے اندر ان دونوں باتوں میں در حقیقت جنسی بے راہ روی کی رو ہے جو اندراندر چل رہی ہے.وہ لڑکیاں جو لڑکا بننے کے انداز اختیار کرتی ہیں ان کی نیتوں میں بھی کچھ فتور ضرور ہوتا ہے.وہ لڑکے جو لڑکیاں بن کے پھرتے ہیں ان کی نیتوں میں بھی کچھ فتو ر ضرور ہوتا ہے.اب اس کی تفصیل میں یہاں بیان نہیں کر سکتا مگر اس زمانے کی بعض بیماریاں ہیں جنسی بیماریاں جن کے متعلق تفصیل میں جائے بغیر اتنا تو آپ یہاں رہتے ہوئے جان چکی ہوں گی کہ ان دونوں اداؤں کا ان بیماریوں سے تعلق ہے.بعض دفعہ لوگ صرف نقالی میں ایسا کرتے ہیں یعنی یہاں کی بچیاں بھی بعض طرزیں اختیار کر لیتی ہیں محض اس لئے کہ اپنے کالج میں اپنے سکول میں یو نیورسٹیز وغیرہ میں وہ ایسی باتیں دیکھتی ہیں.حضرت عبد اللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ.جو شخص کسی قوم کی نقالی کرے اور اس کی چال ڈھال رکھے وہ انہی میں سے ہوگا.یہ جو لفظ ہے انہی میں سے ہوگا یہ سمجھنے والا ہے کیونکہ اس کا مطلب ایک تو یہ ہے کہ جو جیسا بننا چاہتا ہے اس کی فطرت بتارہی ہے کہ در حقیقت اس کا دل ان میں ہے ،اس کا دماغ ان میں ہے اس لئے وہ بظا ہر کسی

Page 445

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۴۱ خطاب ۸ ستمبر ۱۹۹۵ء اور قوم کے ساتھ تعلق رکھتا ہے لیکن فی الحقیقت جہاں تک اس کی روح ، اس کا دماغ ، اس کا دل ہے وہ اپنی قوم کو چھوڑ کر دوسری قوم کے ہو چکے ہیں.ایک تو یہ سیدھا سادہ نفسیاتی پیغام ہے دوسرا اس میں پیغام یہ ہے کہ اس کا انجام ان جیسا ہی ہوگا اگر چہ اس کا پس منظر اسلامی ہو.مسلمانوں میں پیدا ہوا ہو لیکن اگر اسلام کے خلاف روایات اختیار کرلے اور ان غیر اسلامی روایات میں دوسری قوموں کی نقل کرے گا وہ تو اس سے خدا تعالیٰ کا سلوک وہی ہوگا جیسا غیر مسلموں سے جو عمداً بد ارادوں کے ساتھ بعض اعمال اختیار کرتے ہیں، اللہ کا سلوک ہوگا.حضرت زید بن طلحہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر دین اور مذہب کا اپنا ایک خاص خلق ہوتا ہے اور اسلام کا یہ خلق حیاء ہے.ہر مذہب کی ایک بنیادی روح ہے اور وہ روح اسے دوسرے مذاہب سے ممتاز کرتی ہے.یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم کی بات نہیں کی کیونکہ بنیادی طور پر تمام الہی مذاہب جو اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہونے والے مذاہب ہیں ان کی تعلیم ایک ہی طرح کی ہے.بنیادی طور پر تفاصیل میں فرق ہے لیکن زور کس بات پر ہے اس کی روح کیا ہے؟ جب اس کی بات کرتے ہیں تو ہر مذہب کی ایک روح نمایاں طور پر دکھائی دینے لگتی ہے.مثلاً لوگ کہتے ہیں یہودیت کی روح بدلہ لینا ہے، عیسائیت کی روح بخشنا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام کی روح حیاء ہے اور حیاء نہ رہے تو کچھ بھی نہیں رہتا.پس یادرکھیں کہ حیاء کا جہاں تک تعلق ہے یہ صرف عورت کا زیور نہیں یہ مردوں کا بھی زیور ہے اور مردوں اور عورتوں دونوں میں برابر کی چیز ہے.بعض دفعہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ حیاء کرنا عورت کا کام ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں میں برابر کا خُلق ہے.اگر یہ نہ ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حیاء کو اسلام کا خُلق قرار نہ دیتے بلکہ خواتین سے متعلق تعلیم کے طور پر اسے پیش کرتے.بعض صحابہ میں غیر معمولی حیاء پائی جاتی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے ہر حال میں پسند فرماتے تھے.حضرت عثمان سے متعلق آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جتنے صحابہ تھے ان سب سے زیادہ حیاء حضرت عثمان میں پائی جاتی تھی.یہاں تک کہ اگر مجلس میں آپ کی پنڈلی سے بھی کپڑا اُٹھ جاتا تھا اور اچانک آپ کو معلوم ہوتا تھا کہ میری پنڈلی تنگی ہے تو شرما کر فوری طور پر چادر کھینچ کر اپنی پنڈلی چھپالیا کرتے تھے.تو حیاء مردوں کا بھی زیور ہے اور عورتوں کا بھی لیکن عورتوں کا ان معنوں میں

Page 446

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۴۲ خطاب ۸ ستمبر ۱۹۹۵ء بھی زیور ہے کہ عورت کے طبعی اور فطری حسن کا حیاء سے تعلق ہے.حسن کا دکھاوا اس کی نمائش تو منع ہے لیکن حسن تو اللہ کو پسند ہے اور ہر عورت کی فطرت میں ہے کہ وہ حسین ہو اور حقیقت یہ ہے کہ حسن کا حیاء سے ایک بہت گہرا تعلق ہے.جس عورت کی حیاء اڑنی شروع ہو جائے یا درکھیں اس کا حسن اڑنا شروع ہو جاتا ہے وہ پھول جس سے رنگت اڑ جائے ، وہ پھول جس کی خوشبو اس سے باغی ہو جائے ، اس پھول کا چہرہ بالکل بے رونق اور بے حقیقت سا دکھائی دینے لگتا ہے.پس حسن کا حیاء سے ایک بہت گہرا تعلق ہے خصوصاً عورت کے اندر جو اللہ تعالیٰ نے فطری طور پر حسن کی ادائیں رکھی ہیں یا حسن کی باتیں رکھی ہیں ان میں حیاء ایسے ہی ہے جیسے کہ میں نے بیان کیا کہ پھول کی خوشبو اور پھول کی رنگت ہو.پس آپ گردو پیش میں نگاہ ڈال کر دیکھ لیں.آپ میں سے ہر ایک کا دل گواہی دے گا کہ وہ عورت جس کی حیاء اٹھتی ہے.خواہ دوسرے معنوں میں بے حیاء نہ بھی ہو مگر روز مرہ کی بعض باتوں کے نتیجے میں حیاء کچھ اٹھتی جاتی ہے اس کا حسن بھی اسی حد تک اُڑتا جاتا ہے اور اُسی حد تک اس میں ایک کشش کم ہوتی جاتی ہے.آپ نے نئی دلہن کا چہرہ بھی دیکھا ہوا ہے وہی لڑکی ہے جو پہلے اسی طرح آپ کے سامنے پھرتی تھی لیکن جب نئی دلہن بن کے آتی ہے تو اس کے حسن میں غیر معمولی اضافہ ہو جاتا ہے وہ کیا وجہ ہے؟ اس لئے کہ نئی دلہن ہمارے معاشرے میں شرماتی ہے اور اگر نہ شرمائے اور دیدے پھاڑ پھاڑ کر ہر طرف دیکھے تو کسی کو بھی اس کا چہرہ پسند نہیں آتا اس لئے حیاء کا اس سے بہت گہرا تعلق ہے.حضرت انس بیان کرتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے حیائی ہر مر تکب کو بدنما بنا دیتی ہے.“ یہاں عورت کی بات نہیں ہے ہر کرنے والے کو فرمایا.جو بھی وجود جو بھی شخص مرد ہو یا عورت بے حیاء ہوتا چلا جائے وہ اسی حد تک بدنما ہوتا چلا جاتا ہے اس لئے آپ نے ایسے لوگ بھی دیکھیں ہوں گے جو بے ہودہ کاروبار میں پڑے ہوتے ہیں، گندے کاروبار میں ان کا چہرہ دیکھیں اس سے شدید قسم کی انسان کو نفرت پیدا ہوتی ہے وہ دھکے دیتا ہے.رشوت بری بات ہے لیکن کچھ لوگ شرما کر رشوت لیتے ہیں.ابھی تازہ تازہ راشی بنے ہوتے ہیں ان کے چہروں پر وہ بھیا نک پن نہیں آتا لیکن جو پکے رشوت کے عادی بن چکے ہیں ان کا چہرہ ایسا منحوس ہو جاتا ہے کہ وہ دیکھتے ہی انسان کو دھکے دیتا ہے مسخ ہو چکا ہوتا ہے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حیاء کے مضمون کو صرف عورت سے نہیں باندھا بلکہ مرد اور

Page 447

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۴۳ خطاب ۸ ستمبر ۱۹۹۵ء عورت دونوں سے برابر باندھا ہے فرماتے ہیں !بے حیائی اپنے ہر بے حیا کو بدنما بنادیتی ہے اور شرم و حیاء ہر حیا دار کو حسن سیرت بخشتا ہے اور اسے خوبصورت بنادیتا ہے.پس ہر عورت کے دل کی جو فطری کمزوری یا فطری طاقت ہے کہ وہ اپنے آپ کو حسین دیکھنا چاہتی ہے اور فی الحقیقت حسین بنانا چاہتی ہے اس کے حسن کا راز اس کی حیاء میں ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول گہرائی تک سچا ہے.اپنے حیاء کو قائم رکھیں اللہ آپ کے حسن کو قائم رکھے گا.قرآن کریم میں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ بیان ہوا ہے.وہاں بھی حیاء کا مضمون ایک خاص انداز میں بیان فرمایا گیا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام جب در بدر ہو کر ا پنا وطن چھوڑ کر ایک دوسرے وطن میں پہنچے تو وہاں مسافر کے طور پر ابھی نئے نئے آئے تھے، ایک درخت کے سائے میں بیٹھے تھے ، آپ نے دیکھا کہ وہاں کچھ گڈریے اپنے مویشیوں کو پانی پلا رہے ہیں اور ان کے مویشی کثرت کے ساتھ تھے کیونکہ بعض Water Holes کہلاتے ہیں یعنی پانی پینے کی جگہیں جہاں جانور کافی دور دور کے علاقے سے لائے جاتے ہیں.تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اس جگہ کا انتخاب بھی اس وجہ سے تھا کہ یہاں لوگ آئیں گے تو کوئی واقفیت پیدا ہوگی، کوئی سر چھپانے کی جگہ ملے گی اور کثرت سے وہاں گڈریے آئے ہوئے تھے.وہاں دو عورتیں بھی تھیں.جو ایک طرف کھڑی تھیں یا دو لڑکیاں تھیں جو ایک طرف کھڑی تھیں ان کی بھی بکریاں وغیرہ تھیں جنہیں وہ پانی پلانا چاہتی تھیں لیکن کوئی ان کی طرف توجہ نہیں دے رہا تھا.حضرت موسیٰ علیہ السلام چونکہ غیر معمولی طور پر طاقتور اور جوان مرد تھے.آپ علیہ السلام نے ان سے پوچھا کہ کیا بات ہے تم ایک طرف کیوں کھڑی ہو انہوں نے کہا کہ جب تک یہ سارے مرد پانی پلا کر چلے نہ جائیں ہماری باری نہیں آئے گی.آپ علیہ السلام نے کہا نہیں میں پلاتا ہوں.چنانچہ ان کی بھیڑ بکریاں جو بھی تھیں یا جتنی بھی تھیں انہیں لے کر انہوں نے مردوں کو ہٹا کر پانی پلایا اور واپس جا کر خاموشی سے اسی درخت کے نیچے بیٹھ گئے.انہوں نے جا کر اپنے والد سے ذکر کیا کہ ایک ایسا شریف النفس انسان ہم نے دیکھا ہے ،اس نے محض خدمت کی خاطر ہماری طرف توجہ دی اور جب ہماری بھیڑ بکریوں کو پانی پلا دیا تو خاموشی سے اپنی جگہ جا کے بیٹھ رہا اور ان میں سے ایک نے اپنے باپ کو مشورہ یہ دیا کہ کیوں نہ ہم اس کو ملازم رکھ لیں.کیونکہ شریف النفس تو ہے ہی اور آپ کے گھر میں رہنے کے لئے ایک شریف النفس انسان چاہئے کیونکہ لڑکیاں ہیں لڑکا کوئی نہیں اس لئے ایسا شخص جو امین بھی ہو ، طاقتور بھی ہو اس سے بہتر ملازم اور کوئی مل نہیں سکتا تو کیوں نہ

Page 448

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۴۴۴ خطاب ۸ ستمبر ۱۹۹۵ء اسے ملازم رکھ لیں.قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے ایک لڑکی کو حضرت شعیب نے یعنی یہ نبی شعیب نہیں بلکہ دوسرے شعیب ہیں انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجا کہ جاؤ اس کو بلالا ؤ اب معلوم ہوتا ہے کہ جس نے مشورہ دیا تھا بعید نہیں کہ اس کو بھیجا ہو.اس دفعہ جب وہ گئی ہے اور اکیلی گئی ہے تو قرآن کریم فرماتا ہے.تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاء (القصص: ۲۶) وہ حیاء سے لجاتی ہوئی لچکتی ہوئی گئی.اب صاف پتہ چلتا ہے کہ وہی لڑکیاں اپنی طرف کھینچنے کی طرف ان کا کوئی رجحان نہیں تھا.سیدھی سادھی باتیں کر رہی تھیں مگر جب اکیلی گئی ہے تو شرما گئی اور اس شرمانے کا ذکر اللہ تعالیٰ نے تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءِ کر کے بڑے خوبصورت انداز میں فرمایا ہے.ظاہر ہے کہ وہ شرمانا اس کو غیر معمولی حسن بخش رہا تھا.پس جب وہ دونوں حضرت شعیب کے گھر پہنچے ہیں تو حضرت شعیب نے یہ نہیں فرمایا تم میرے ملازم ہو جاؤ.آپ نے فرمایا میں اس شرط پر ان دونوں میں سے ایک سے تمہاری شادی کرنے پر آمادہ ہوں کہ تم کم از کم آٹھ سال میری خدمت کرو اور چاہو تو دو اور بڑھا دو اور دس سال کر دو.اب حضرت شعیب کی عمر چونکہ زیادہ تھی اس لئے انہوں نے اندازہ لگایا کہ آگے آٹھ دس سال میں زندہ رہوں گا اس عرصے میں میرے سارے کام ہوتے رہیں گے اور اگر چہ یہ امین ہے اگر چہ یہ با اخلاق انسان ہے مگر پھر بھی ایک گھر میں دولڑکیوں اور ایک مرد کا اکٹھا رہنا مناسب نہیں ہے.اس ساری کہانی سے بہت سی باتیں مترشح ہیں بہت سے سبق ہمیں ملتے ہیں لیکن جو بات آج میں بیان کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حیاء کا ذکر کیسے عمدہ موقع پر فرما رہا ہے.یہ حیاء اس کے لئے جاذب نظر تھی، کشش کا موجب تھی اور بعید نہیں کہ جس طرح قرآن نے بیان فرمایا ہے اسی بچی سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شادی ہوئی ہو.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حیاء کا دیکھیں کیسا عمدہ نقطہ ہمارے سامنے رکھا کہ مرد ہو یا عورت جس میں حیاء ہو وہ اچھی لگتی ہے.حضرت ابو مسعود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں.بخاری کتاب الادب سے یہ روایت لی گئی ہے کہ سابقہ انبیاء کے حکیمانہ اقوال میں سے جولوگوں تک پہنچتے رہے ایک یہ ہے کہ جب حیاء اٹھ جائے تو پھر انسان جو چاہے کرتا پھرے.الفاظ یہ ہیں.ادْلَمُ تَسْتَحْى فَاصْنَعُ مَا شِئْتَ

Page 449

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۴۵ خطاب ۸ ستمبر ۱۹۹۵ء ( بخاری کتاب الادب باب اذالم تستهی فاصنع ماشئت ) جس کا مطلب یہ ہے کہ اکثر گناہوں کا ارتکاب بے حیائی کے نتیجے میں ہوتا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ اس پہلو پر انسان بہت کم نظر کرتا ہے کہ ہر گناہ کا آغاز بے حیائی سے ہوتا ہے اور حیاء تو ڑ کر گناہ کرنا پڑتا ہے.پہلی دفعہ اگر کوئی بچہ چوری کرے تو چوری سے بھی اس کو حیاء آتی ہے، اگر کوئی پہلی بار جھوٹ بولے تو جھوٹ سے بھی اس کو حیاء آتی ہے، بدتمیزی کرے اور اگر پہلی بار بالا رادہ بد تمیزی کرتا ہے تو لازماً اس کو اس بد تمیزی سے بھی حیاء آئے گی.پس حیاء ہر گناہ کے رستے کی ایک روک ہے اور بے حیائی ہر گناہ کے لئے دروازے کھولتی ہے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ انبیاء جو بہت حکیمانہ کلام کیا کرتے تھے ان کے پر حکمت کلام کا یہ ایک نمونہ ہے کہ وہ کہا کرتے تھے.إِذْلَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعُ مَاشِتُتَ جب تم میں حیاء ہی باقی نہیں رہی تو پھر جو چاہے کرتا پھر.فارسی میں بھی ایک محاورہ ہے جو غالباً اسی انبیاء کے حکیمانہ قول سے لیا گیا ہے.”بے حیاء باش ہر چہ خواہی کن“ بے حیاء ہو جالبس یہ شرط ہے پھر جو چاہے کرتا پھر ، پھر کوئی فرق نہیں پڑتا.تو یہ پر دے کی روح ہے اور پردے ہی کی نہیں ہر عصمت کی روح ہے اور یہ وہ روح ہے جو عورتوں سے خاص نہیں ہے بلکہ مردوں اور عورتوں دونوں سے خاص ہے اس لئے حیاء کی حفاظت کریں اور اپنے بچوں میں بھی حیاء کو قائم کریں.حیاء سے مراد صرف مردوں،عورتوں کے تعلقات کی حیا نہیں ہے.حیافی ذاتہ ایک خلق ہے جو ہر گناہ کے مقابل پر ایک پردہ ہے.پس وہ عورتیں جو معلوم کرنا چاہتی ہیں کہ اسلامی پردہ کیا ہے؟ میں ان کو یقین دلاتا ہوں کہ اسلامی پردہ حیا ہے.اگر آپ اپنی حیاء کی حفاظت کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدا کے فرشتے آپ کی ہر قسم کی خرابیوں اور گناہوں سے حفاظت کریں گے کیونکہ حیاء کے پردے سے بہتر اور کوئی پردہ نہیں.پس اپنے بچوں کو بھی حیادار بنائیں.حیا کا مردانگی سے ایک تعلق ہے اور ایک تعلق نہیں بھی ہے.حیا سے یہ مراد ہر گز نہیں کہ نیک کاموں سے انسان حیا کرے یا بہادری کے کاموں سے انسان حیاء کرے.وہ مواقع جہاں جان دینے کی باتیں ہو رہی ہوں وہاں حیا بے حیائی ہے اور شرم کا مقام ہے اور امر واقعہ یہ ہے کہ وہ وہاں حیا کا مضمون بالکل الٹ جاتا ہے کیونکہ ایسا شخص جہاں مرد جان دینے کے لئے آگے بڑھ رہے ہوں اور وہ پیچھے ہٹ رہا ہو یا اس کو مانع نہیں ہوا کرتی بلکہ بہت ہی بڑا بے

Page 450

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۴۴۶ خطاب ۸ ستمبر ۱۹۹۵ء حیاہی ہوگا جو ایسے موقع پر مردوں سے الگ ہو کر پھر اس نیک کام سے محروم رہ جائے جو اس وقت کا بہترین کام ہے.یعنی جب جنگ کا دور ہو، جہاد ہو رہا ہو اور لوگ جانیں دے رہے ہوں اس وقت وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ فلاں حیاء کی وجہ سے پیچھے ہٹ گیا اس لئے بعض جگہ پیچھے ہٹنا حیاء کا موجب نہیں بلکہ بے حیائی کی وجہ ہوتی ہے.پس موقع اور محل کے مطابق ان باتوں کے معنوں کو سمجھنا چاہئے لیکن اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ اپنے بچوں کو بزدل نہ بنائیں.حیاء کے بہانے ان کو ایسا نہ بنادیں کہ ہر وہ کام جہاں ان کو آگے بڑھ کر حصہ لینا چاہئے اس سے وہ پیچھے ہٹ جائیں.یہ حیاء نہیں ہوگی بلکہ نقائص ہیں یہ اور ان کا کوئی بھی نام رکھیں یہ حیاء نہیں ہے.مگر اچھی باتوں میں حیاء اور بری باتوں سے حیاء یہ باتیں اگر آج ہماری مائیں اپنے کل کے بچوں میں پیدا کر دیں تو آئندہ نسلوں پر بہت بڑا احسان ہوگا.بہت سے جھگڑے ہمارے جو پر دے کے ہیں وہ اٹھ جائیں گے.مجھ سے بہت سے خاندان ملنے آتے ہیں، فیملی ملاقات اب ایک عام محاورہ بن گیا ہے اور بہت بڑا وقت میرا ان ملاقاتوں میں لندن میں بھی خرچ ہوتا ہے باہر بھی ، وہاں بعض خاندانوں کی خواتین کے متعلق مجھے یہ پوچھنا نہیں پڑتا کہ وہ پردہ کرتی ہیں کہ نہیں ، برقع ہماری طرز کا لیتی ہیں کہ نہیں، ان کے چہروں میں متانت دکھائی دیتی ہے،ان میں وقار نظر آتا ہے اور مجھے کوئی خاص پریشانی نہیں ہوتی مگر بعض بچیاں اپنی اداؤں کے ساتھ مجھے فکر مند کر دیتی ہیں.ان کے بالوں کے کٹنے کے انداز ، ان کا اپنے آپ کو ابھار کر پیش کرنا بعض دفعہ میں حیران ہو جاتا ہوں دس گیارہ سال کی لڑکی ہے اور بغیر شرم کے اچانک اپنا ہاتھ آگے مصافحہ کے لئے بڑھاتی ہے اور بعض جگہ اسی عمر کی بچیاں شرما جاتی ہیں.مجھے جو ایسی بچیاں ہوں خواہ پر دے کا بظاہر حکم ان پر نہ بھی آیا ہوان کی ادائیں مجھے بتاتی ہیں کہ قابل فکر ہیں.یہ دوسروں کے معاشرے سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہو چکی ہیں اور یہ جو اس وقت کی شوخی ہے یہ کل کی بے حیائی بن سکتی ہے.پس بچپن ہی سے حیاء کا خیال کریں اور حیاء کی حفاظت کریں.یہاں جو یہ رواج ہے کہ لڑکیاں لڑکوں سے مصافحے کرتی ہیں بعض دفعہ ایسی صورت ہوتی ہے کہ چونکہ اس معاشرے کے حالات مختلف ہیں.ایک ڈاکٹر نے ہاتھ بڑھا دیا مصافحے کے لئے ایک عورت اس وقت مجبور ہوتی ہے.وہ بجھتی ہے کہ اس وقت ہاتھ نہ بڑھانا نقصان دہ ہوسکتا ہے اس پر اسلام کا برا اثر نہ پڑے تو اپنی بے عزتی تو ضرور محسوس کرے گا.ایسی صورت میں اگر پہلے تنبیہ نہ کی گئی ہو تو بعض مجبوری کے طور پر محض سرسری سا ہاتھ دے کر اسے کھینچ لیتی ہیں اور محسوس کرتی ہیں کہ اچھا نہیں

Page 451

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۴۷ خطاب ۸ ستمبر ۱۹۹۵ء ہوا مگر میں مجبور تھی مگر شوق سے ہاتھ بڑھاتے پھرنا ہر جگہ اس بہانے کہ یہاں کا معاشرہ اور ہے یہ درست نہیں ہے.یہ آپ کی Society کو لازماً بے حیا بنا دے گا اور ایک دفعہ ایک جگہ ایک چیز کی شرم ٹوٹ جائے تو دوسری جگہ اور بھی بہت سی بے شرمیوں کو دعوت دیا کرتی ہے.پس یہ مضمون ایسا ہے جسے غور سے سمجھنا چاہئے اس کو باریکی سے سمجھتے ہوئے اس کے تقاضے پورے کرنے چاہئیں کیونکہ ہم جس معاشرے میں یہاں بس رہے ہیں اسلامی معاشرے کو کئی قسم کے خطرات درپیش ہیں کچھ تو معاشرتی فرق ہیں جو طبعی ہیں اور قدرتی فرق ہیں ان میں کوئی مذہبی فرق نہیں بلکہ قومی عادات کے فرق کا تعلق ہے.ایسے معاشرتی انداز اگر کسی ملک میں اپنا لئے جائیں تو یہ بداخلاقی نہیں بلکہ اعلیٰ اخلاق کا مظہر ہے کیوں ہم ان سے ہر بات میں بھیج کر ر ہیں جن کی سرزمین میں آ کے بیٹھے ہیں ان کی اچھی باتیں اپنا نا تو گناہ نہیں ہے لیکن وہ معاشرتی اقدار جن کا مذہب سے ٹکڑاؤ ہے جو نہ صرف آپ کے لئے نقصان دہ بلکہ خود ان کے لئے بھی نقصان دہ ہیں وہاں سے بچ کر رہنا وہاں سے ہاتھ کھینچ لینا، اسلام آپ سے تقاضا کرتا ہے اور آپ کی عقل بھی آپ سے تقاضا کر رہی ہے، اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ کی اگلی نسلوں کو ضرور نقصان پہنچے گا.مجھ سے ایک دفعہ یہی سوال انگلستان میں کسی نے کیا کہ ہمارا معاشرہ اور ہے آپ کا معاشرہ اور ہے.آپ ہمارے ملک میں آکر اپنے معاشرے پر جو زور دیتے ہیں تو ہم آپ کو اجنبی دیکھتے ہیں آپ ہم میں جذب نہیں ہو سکتے اس لئے ان وجوہات سے Racialism کو تقویت ملتی ہے اور یہ معمولی بات نہ سمجھیں.ہمارے لڑکے آپ کی لڑکیوں پر ہنستے ، آوازیں کستے ہیں اور ایسے لڑکے جو عجب طریق سے رہتے ہیں ہمارے نزدیک عجب ہے.ان کے اوپر بھی سکول کی زندگی مشکل ہو جاتی ہے تو اب ان باتوں کو چھوڑ دیں.وہ ہیڈ ماسٹر تھے جنہوں نے مجھ سے سوال کیا ان کو میں نے سمجھایا تفصیل سے کہ معاشرتی فرق ہوتا کیا ہے اور جہاں یہ فرق گناہ کا موجب نہیں ہے وہاں ہم شوق سے اسے اختیار کرتے ہیں اور کرنے دیتے ہیں ہرگز کوئی حرج نہیں دیکھتے اس میں.اس لئے آپ خواہ مخواہ ایک بات کو ضرورت سے زیادہ بے محل بڑھا کر پیش نہ کریں حقیقت سے دیکھیں.چنانچہ اس کی تفاصیل میں نے بیان کیں کہ آپ جس بات کو معاشرے کا فرق دیکھ رہے ہیں بعض باتوں میں ہم ان کو معاشرے کا فرق نہیں دیکھتے.مثلاً ہیڈ ماسٹر کا ہی تعلق تھا.میں نے کہا ایک ہیڈ ماسٹر نے ایک احمدی بچے کو جس کی عمر دس گیارہ سال کی تھی مجبور کرنا شروع کیا کہ وہ دوسرے لڑکوں کے ساتھ بالکل ننگا

Page 452

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۴۸ خطاب ۸ ستمبر ۱۹۹۵ء نہائے.اس نے انکار کر دیا اس نے کہا میں تو نہیں نہاؤں گا.اس ہیڈ ماسٹر نے کہا کہ یہ ہمارے معاشرے میں تمہاری دخل اندازی ہے.تم اپنی معاشرتی اقدار اور اپنے تمدن کو ہم پر ٹھونس رہے ہواس لئے ہم یہ نہیں ہونے دیں گے.اگر تم نے تعلیم حاصل کرنی ہے تو اسی طرح تمہیں کرنا ہوگا ور نہ سکول سے نکل جاؤ.اس کو میں نے سمجھایا کہ آپ خودان باتوں کو جانتے ہیں آپ کا معاشرہ ان وجوہات سے بہت گندہ ہو گیا ہے.کئی قسم کے بدر جحانات یہاں پیدا ہو چکے ہیں اور خود بچے آپ کے اساتذہ سے بھی محفوظ نہیں رہے.ایسی صورت میں آپ تمدنی ، معاشرتی فرق کہہ کر ان برائیوں کو یہاں جاری کریں تو یہ کوئی اچھی بات تو نہیں ہے.یہ نقصان دہ ہے اور آپ کا کوئی حق نہیں کہ کسی انسان کو اس کے نقصان پر مجبور کریں.اگر آپ کا تمدن برا ہے تو ہم کیوں اسے اختیار کریں.ہاں جہاں اچھی تمدن کی باتیں ہیں میں اپنے بچوں کو خود نصیحت کرتا ہوں کہ آپ بھی ویسا بنیں.یہ بات چونکہ ان کے اپنے تجربے میں تھی اور پہلے ہی اس معاملے میں تلخی محسوس کر رہے تھے کیونکہ ان کے بعض اساتذہ کا سلوک اپنے بچوں سے شریفانہ نہیں تھا اس لئے فوراً انہوں نے اس بات کو قبول کیا.انہوں نے کہا ہاں میں سمجھتا ہوں یہ بات بالکل درست ہے.کسی تمدن کسی معاشرے کو یہ حق نہیں ہے کہ کسی قوم کے اخلاق بگاڑے.میں نے کہا آپ کو تو ہم سے سیکھنا چاہئے.ہماری بہت سی ایسی باتیں ہیں جن کی آپ کے تمدن کو ضرورت ہے اور تمدن کی تعریف یہ کر لینا کہ ایک ہی ملک کے حالات اس وقت کا اس کے ملک کا تمدن ہے جو بدل نہیں سکتا وہ درست نہیں ہے.معاشرہ اور تمدن تو ہمیشہ جاری رہنے والی ، تبدیل ہونے والی حالتوں کا نام ہے.مختلف وقتوں میں وہ بدلتی ہیں اور مختلف قسم کے معاشرے ایک دوسرے پر اثر انداز ہوکر ایک دوسرے کو تبدیل کرتے چلے جاتے ہیں.کوئی قانون اس راہ میں حائل نہ ہوسکتا ہے، نہ حائل کرنا چاہئے.میں نے ان کو کہا کہ معاشرہ تو نام ہی گلدستے کا ہے.مختلف رنگوں کے مختلف خوشبوؤں کے پھول ہیں وہ اکٹھے ایک جگہ ہوں تو خوبصورت دکھائی دیتے ہیں.ایک ہی طرح کی عادتوں کو اگر آپ اپنا لیں تو یہ تو فوجی ڈرل ہو جائے گی اس کا نام معاشرہ نہیں ہوسکتا.رفتہ رفتہ آپس میں جب ملیں گے ، ہندوستان کے معاشرے کو بھی آپ یہاں پنپنے دیں ، افریقہ کے معاشرے کو بھی پنپنے دیں پاکستان کے معاشرے کو بھی پنپنے دیں.اگر آپ کو پسند نہیں تو اپنی جگہ وہ آپس میں ہی جس طرح رہنا پسند کریں آپ کا کیا حق ہے کہ اپنا معاشرہ ان پر ٹھونسیں.یہ کوئی قانون شکنی تو نہیں کر رہے وہ.آپ کے قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے وہ ایک طرز زندگی اختیار کرتے ہیں، کسی قانون کا حق

Page 453

حضرت خلیفہ مسح الرابع کے مستورات سے خطابات ۴۴۹ خطاب ۸ ستمبر ۱۹۹۵ء نہیں ہے کہ انفرادی طور پر دخل دے کر کسی کو اس کی طرز بود و باش میں مجبور کرے لیکن بعید نہیں کہ رفتہ رفتہ آپ کو ان کی ادائیں اچھی لگنے لگیں، آپ وہی رنگ اختیار کرنے لگیں.چنانچہ اس کی مثال میں نے ان کو دی کہ آپ دیکھیں کھانا کھانے کے انداز تھے ایک زمانے میں جو یورپ میں اب بہت بدل چکے ہیں اور اس کی ایک وجہ مشرق سے ان کے تعلقات ہیں جنہوں نے مشرقی عادات کو ان کے اندر سرایت ہونے کا موقع دے دیا.انگریزوں نے حکومت کی ہے ہندوستان پر ، پاکستان پر اور بہت سی جگہوں پر.ایک زمانہ تھا جب وہ چھری کانٹے سے کھانے کا نام تہذیب رکھتے تھے اور ہاتھ سے کھانے کا نام وحشیانہ حرکت سمجھا کرتے تھے.وہ سمجھتے تھے کہ جاہل تو میں ہیں اور تمیز سے عاری ہیں جو اپنے ہاتھوں سے کھانا پکڑ کے کھاتی ہیں.یہ ہائی جین (Hygiene) کے بھی خلاف ہے، یہ تمیز کے بھی خلاف ہے لیکن وقت گزرا انہوں نے دیکھا کہ رفتہ رفتہ جو بعض چیزیں ہاتھ سے کھانے کا مزہ ہے وہ چھری کانٹے سے آہی نہیں سکتا.چنانچہ اب جتنے ان کے باربی کیو وغیرہ ہوتے ہیں ان میں چھری کانٹے پھینک دیتے ہیں اور ہاتھ سے پکڑ پکڑ کر کھاتے ہیں اور امریکہ میں تو بہت ہی رواج بڑھتا جارہا ہے اور انگلستان میں بھی جو ہوٹل ریسٹورنٹ وغیرہ ہیں وہاں اب رفتہ رفتہ ہاتھ سے لقمے بنا کے کھانے کے مزے لوگ لوٹنے لگے ہیں.تو ایک تہذیب ایک وقت میں معیار سے گری ہوئی دکھائی دیتی ہے دوسرے وقت میں انسان اسی کو اپنا لیتا ہے اس میں زبر دستی کی کوئی روکیں ایسی نہیں پیدا کرنی چاہئیں کہ ایک تہذیب دوسری میں سرایت نہ کر سکے لیکن جہاں تک دینی تعلیم کا تعلق ہے، جہاں تک گناہوں کا تعلق ہے وہاں یہ مضمون نہیں چلتا وہاں خدا تعالیٰ نے بعض حدیں مقرر فرما دی ہیں.معاشرے کے نام پر نہ آپ کو وہ حدیں تجاوز کرنے کا حق ہے ، نہ ان کا حق ہے کہ آپ کی حدیں توڑیں اور حیا ان حدود میں سے ایک حد ہے.ہر وہ معاشرتی عادت ، ہر وہ تمدن جو انسان کو بے حیا بنا تا ہو وہ مرد کے لئے بھی مہلک ہے اور عورت کے لئے بھی مہلک ہے اور ساری قوم کے لئے بھی مہلک ہے کیونکہ جتنے گناہ پینپ رہے ہیں یہ بے حیائی کے نتیجے میں پنپ رہے ہیں.پس میں امید رکھتا ہوں کہ پردے کی روح کو سمجھتے ہوئے آپ حیاء پر زور دیں گی.اپنی حیاء پر بھی ، اپنے بچوں کی حیاء پر بھی اور یقین رکھیں گی کہ حیاء سے آپ کے حسن میں کمی نہیں آئے گی بلکہ آپ کے حسن میں اضافہ ہوگا اور آپ کی خوبیاں اور چمکیں گی اور آپ کا گھر جنت نشان بن جائے گا.حیا کی نظریں خود شرماتی ہیں، حیا کی نظروں میں بے حیائی کا گھور نا آہی نہیں سکتا.پس حیا پردہ ہے

Page 454

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۴۵۰ خطاب ۸ ستمبر ۱۹۹۵ء بے حیا نظروں سے اور بہترین پردہ ہے اور نظر کو سلیقہ اور ادب سکھانے کا بہترین ذریعہ بھی حیا ہے.پس مردوں پر بھی لازم ہے کہ وہ حیا کریں، عورتوں پر بھی لازم ہے کہ وہ حیا کریں اور اگر حیا ہوتو پھر یہ ظاہری پر دے پر اتنا زیادہ زور دینے کی ضرورت باقی نہیں رہتی مگر جب تک حیا نہ ہو اس وقت تک تو یہ لازم ہے، اس وقت تک ہم اس کو نظر انداز نہیں کر سکتے.چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: یورپ کی طرح بے پردگی پر بھی لوگ زور دے رہے ہیں لیکن یہ ہرگز مناسب نہیں.یہی عورتوں کی آزادی فسق و فجور کی جڑ ہے.جن ممالک نے اس قسم کی آزادی کو روا رکھا ہے ذرا ان کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرو.اگر اُس کی آزادی اور بے پردگی سے ان کی عفت اور پاکدامنی بڑھ گئی ہے تو ہم مان لیں 66 گے کہ ہم غلطی پر ہیں.“ پھر فرماتے ہیں.وو ( ملفوظات جلد چهارم صفحه ۱۰۴) مردوں کی حالت کا اندازہ کرو کہ وہ کس طرح بے لگام گھوڑے کی طرح ہو گئے ہیں.(حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے دوبار یہ جملہ دہرایا ) نہ خدا کا خوف رہا ہے نہ آخرت کا یقین ہے دنیاوی لذات کو اپنا معبود بنارکھا ہے پس سب سے اول ضروری ہے کہ اس آزادی اور بے پردگی سے پہلے مردوں کی اخلاقی حالت درست کرو.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحه ۱۰۴) پس جہاں تک خواتین کے حیاء سیکھنے اور سکھانے کا تعلق ہے.میں آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ اپنے مردوں کو بھی حیا سکھائیں کیونکہ امر واقعہ یہ ہے کہ آج کل کے معاشرتی دور میں یا آج کل کے معاشرتی اور تمدنی دور میں بہت بڑی ذمہ داری بلکہ اکثر ذمہ داری مردوں کی بے حیائی پر ہے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صحیح مرض کی نشاندہی فرمائی اور صحیح جگہ انگلی رکھی.آپ علیہ السلام فرماتے ہیں : اگر یہ درست ہو جاوے اور مردوں میں کم از کم اس قد رقوت ہو کہ وہ اپنی نفسانی جذبات کے مغلوب نہ ہوسکیں تو اس وقت اس بحث کو چھیڑو کہ آیا پردہ ضروری ہے کہ نہیں.“

Page 455

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۵۱ خطاب ۸ ستمبر ۱۹۹۵ء فرمایا: اگر مردوں کی تربیت ہو جائے اور ان سے عورتیں امن میں آجائیں اور یقین ہو کہ ان کے جذبات ان پر غالب نہیں آئیں گے تو پھر یہ بحث جائز 66 ہے.یہ بحث چھیڑ نا جائز ہے کہ اب پردے کی ضرورت ہے کہ نہیں.“ ور نہ موجودہ حالت میں اس بات پر زور دینا کہ آزادی اور بے پردگی ہو گو یا بکریوں کو شیروں کے آگے رکھ دینا ہے ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کسی بات کے نتیجہ پر غور نہیں کرتے کم از کم اپنے کانشنس سے ہی کام لیں آیا مردوں کی حالت ایسی اصلاح شدہ ہے کہ عورتوں کو بے پردہ ان کے سامنے رکھا جاوے.قرآن شریف نے جو کہ انسان کی فطرت کے تقاضوں اور کمزوریوں کو مد نظر رکھ کر حسب حال تعلیم دیتا ہے.کیا عمدہ مسلک اختیار کیا ہے.قُل لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا (النور: ۳۱ ) فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمُ کہ تو ایمان والوں کو کہدے ( یعنی ان مردوں کو جو مومن ہیں ) کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنے سوراخوں کی حفاظت کریں.یہ وہ عمل ہے جس سے ان کے نفوس کا تزکیہ ہو گا.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحه ۱۰۵) پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.یہ بات ہر ایک فہیم انسان سمجھ سکتا ہے کہ بہت سا حصہ انسانوں کا نفس امارہ کے ماتحت چل رہا ہے اور وہ اپنے نفس کے ایسے قابو میں ہیں کہ اس کے جوشوں کے وقت کچھ بھی خدا تعالیٰ کی سزا کا دھیان نہیں رکھتے.جوان اور خوبصورت عورتوں کو دیکھ کر بد نظری سے باز نہیں آتے اور ایسے ہی بہت سی عورتیں ہیں کہ خراب دلی سے بے گانہ مردوں کی طرف نگاہیں کرتی ہیں اور جب فریقین کو با وجود ان کی اس خراب حالت میں ہونے کے پوری آزادی دی جائے تو یقیناً ان کا وہی انجام ہوگا جیسا کہ یورپ کے بعض حصوں سے ظاہر ہے.“ 66 (روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۷۳)

Page 456

حضرت خلیفہ اس الرابع کے مستورات سے خطابات ۴۵۲ خطاب ۸ ستمبر ۱۹۹۵ء یہ 100 سال پہلے کی تحریر ہے.اس وقت جو بات یورپ کے بعض حصوں سے ظاہر تھی اب تمام دنیا کے ہر حصے سے ظاہر ہو چکی ہے کیونکہ یہ بیماری اب یورپ کا خاصا نہیں رہی بلکہ تمام دنیا میں یکساں پھیل چکی ہے.آپ علیہ السلام فرماتے ہیں.ہاں جب یہ لوگ در حقیقت پاک دل ہو جائیں گے اور ان کی امارگی جاتی رہے گی ( امارگی سے مراد ہے دل کے نفس کے اندر جو ہر وقت بدی کی طرف جھکنے کا رجحان پایا جاتا ہے یا نفس ہمیشہ انسان کو حکم دیتا رہتا ہے کہ یہ کام کرو، وہ کام کر و فر مایا ) جب یہ امارگی جاتی رہے گی اور شیطانی روح نکل جائے گی اور ان کی آنکھوں میں خدا کا خوف پیدا ہو جائے گا اور ان کے دلوں میں خدا کی عظمت قائم ہو جائے گی اور وہ ایک پاک تبدیلی کرلیں گے اور خداترسی کا ایک پاک چولہ پہن لیں گے تب جو چاہیں سوکریں کیونکہ اس وقت وہ خدا کے ہاتھ کے خوجے ہوں گے گویا وہ مرد نہیں ہیں اور ان کی آنکھیں اس بات سے اندھی ہونگی کہ نامحرم عورت کو بدنظری سے دیکھ سکیں یا ایسا بد خیال دل میں لاسکیں مگر اے پیارو، اب خدا تمہارے دلوں میں الہام کرے ابھی وہ وقت نہیں کہ تم ایسا کرو.“ (روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۷۴) پھر اسلامی پردے سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.اسلامی پردہ سے یہ ہرگز مراد نہیں ہے کہ عورت جیل خانے کی طرح بند رکھی جاوے.قرآن شریف کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں ستر کریں وہ غیر مردکونہ دیکھیں.جن عورتوں کو باہر جانے کی ضرورت تمدنی امور کے لئے پڑے ان کو گھر سے باہر نکلنا منع نہیں ہے وہ بے شک جائیں لیکن نظر کا پردہ ضروری ہے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ ۲۹۸ جدید ایڈیشن) پس یہ احادیث اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں میں نے کوشش کی ہے کہ رسمی اصطلاحوں میں پڑے بغیر یہ بحث چھیڑے بغیر کہ پردہ چہرے کے کتنے حصے کا ہے

Page 457

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۵۳ خطاب ۸ ستمبر ۱۹۹۵ء برقع کیسے اوڑھنا چاہئے ، کیسا لباس پہننا چاہئے ، آپ کو پردے کی روح سمجھا دوں اور آپ کو بتا دوں کہ آپ کے معاشرے کے لئے خود آپ کی اپنی خوشیوں کے لئے پردے کی روح کو قائم رکھنا بہت ضروری ہے.جب اس قسم کی تعلیم دی جاتی ہے تو بعض بچیاں جواب تک کسی حد تک آزادی کے ماحول میں نکل چکی ہوتی ہیں ان پر اس قسم کی تقاریر اور اس قسم کے درس بہت گراں گزرتے ہیں بہت بوجھل محسوس کرتی ہیں.اگر وہ بال خاص انداز کے کٹائے ہوئے ہیں تو مجلس میں بیٹھی اپنے آپ کو اجنبی سی محسوس کرتی ہیں کہ کس مصیبت میں پھنس گئیں.اگر ہمیں پتہ ہوتا کہ یہ باتیں ہونی ہیں تو ہم آتیں ہی نہ یہاں.جن عورتوں کو بعض اور قسم کے سنگھار پٹار کی عادت پڑ چکی ہوتی ہے، دکھاوے کی عادت پڑ چکی ہے، اپنے جسم کی نمائش کی عادت پڑ چکی ہے ان پر بھی یہ باتیں بہت گراں گزرتی ہیں اور بڑی مصیبت سے دم سادھ کر وہ یہ وقت کاٹتی ہیں مگر میں آپ کو یہ بات سمجھانا چاہتا ہوں خوب اچھی طرح آپ پر روشن کرنا چاہتا ہوں کہ یہ باتیں ہیں تو مشکل اس قسم کا معاشرہ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چاہا ہے کہ آپ میں پیدا ہو بہت مشکل کام ہے آسان نہیں ہے وہ لوگ جو فیصلہ کرتے ہیں کہ ان باتوں کو کلیہ مان جائیں وہ اپنے دل پر ایک قسم کی موت وارد کر لیتے ہیں، ان کو شروع میں یہ لگتا ہے کہ یہ زندگی چلو ٹھیک ہے تو یہ تو موت کے مشابہ زندگی ہے جہاں کوئی بھی دلکشی باقی نہ رہے، کوئی بھی دل میں تموج نہ رہے ایک خاموش موت کے مشابہ مردہ کی سی زندگی لیکن اچھا اگر اللہ کا حکم ہے تو یہی سہی.ان کے دل بجھ سے جاتے ہیں اور وہ مجھتی ہیں کہ اسلام ہے بڑا مشکل کام لیکن میں آپ کو ایک اور بات سمجھانا چاہتا ہوں اگر آپ وسیع نظر سے دیکھیں تو اس مشکل کی زندگی کے نتیجے میں دراصل آپ کے دل کی تسکین اور آخری آسائش ہے.اس معاشرے کو قبول کرنا مشکل ہے اور شروع شروع میں بہت مصیبت دکھائی دیتی ہے مگر ان عورتوں کے لئے یا ان خواتین کے لئے جن کو آزاد معاشرے سے واسطہ پڑ چکا ہو اور اس کی ظاہری لذات سے متاثر ہو چکی ہوں.وہ خواتین جو مختلف پس منظر میں جوان ہوئیں ہیں جن کو شروع ہی سے اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی گئی ہے جن کو شروع ہی سے عصمت کی قدرو قیمت کا احساس دلایا گیا ہے ان کے ہاں یہ مضمون اُکسانیت کا موجب نہیں بنتا بلکہ عین ان کے دل کے مطابق ہے.ان کو اگر یہ کہا جائے کہ کھلے بندوں پھرو اور ہر قسم کے کاموں میں بڑھ چڑھ کے حصے لو.اپنے بال کٹاؤ اپنی نمائش کرو تو ان کے لئے وہ عذاب محسوس ہوگا.مصیبت پڑ جائے گی کہ یہ کیا تعلیم ہے؟ پس یا درکھیں موسم کے مطابق باتیں ہوا کرتی ہیں.آپ کو یہ تعلیم

Page 458

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۴۵۴ خطاب ۱۸ ستمبر ۱۹۹۵ء اس لئے مشکل معلوم ہورہی ہے کہ آپ کے موسم اور ہیں آپ جس ملک جس فضاء میں سانس لے رہی ہیں وہاں کا موسم مختلف ہے اور اس وجہ سے آپ کے دل میں کھٹن محسوس ہوتی ہے کہ کون اس مصیبت میں پڑے لیکن اگر آپ اس تعلیم کو اپنا لیں تو یاد رکھیں صحیح سکون کچی جنت اس کے نتیجے میں نصیب ہوگی.تصور تو کریں کہ آپ کے مرد آپ کے معاملے میں کل یہ مطمئن ہوں اور آپ اپنے مردوں کے متعلق کلیتہ مطمئن ہوں جو آپ ان سے چاہتی ہیں وہ ویسے ہی بنیں اور جو وہ آپ سے چاہتے ہیں آپ ویسی ہی ہوں تو دیکھو کیسا اعتماد دلوں میں پیدا ہوتا ہے.ایک اور پہلو سے بھی دیکھیں کہ جب آپ کی بچیاں بڑی ہورہی ہوں اور جوان ہو رہی ہوں تو جس قسم کی آزادی آپ نے اپنے لئے پسند کی تھی ان کے متعلق کیوں گھبراتی ہیں.وہی باتیں جب وہ بچیاں کرتی ہیں تو آپ اس سے گھبرا جاتی ہیں آپ جانتی ہیں کہ ان کی عزت کا سوال ہے ان کی دائمی خوشی کا سوال ہے.آپ جانتی ہیں کہ اگر یہ بے لگام ہو گئیں پھر ان کا مستقبل خطرے میں ہے ان کو کبھی بھی چین اور سکون کی گھریلو زندگی نصیب نہیں ہو سکے گی.یہ ہمیشہ دوڑتی پھریں گی ان کے خاوند ہمیشہ ان سے بے اعتمادی کریں گے نہ ان کو اپنے خاوندوں پر اعتما در ہے گا نہ ان کے خاوندوں کو ان پر اعتماد رہے گا اور یہ گھر جنت نشان نہیں رہے گا بلکہ ایک ایسا جہنم کا نمونہ بنے گا جہاں نہ عورت کو لطف آئے گا نہ مرد کو لطف آئے گا.دونوں گھر سے ٹکڑا کر باہر بھاگیں گے اور اپنی اپنی لذتوں کو باہر تلاش کریں گے.یہ اس کا بر عکس مضمون ہے پس اگر آپ نظر غائر سے دیکھیں فکر کی آنکھ کھول کر مطالعہ کریں تو آپ یقیناً اس بات پر مطمئن ہو سکتی ہیں کہ اللہ نے کوئی تعلیم آپ پر بوجھ ڈالنے کے لئے نہیں دی بلکہ آپ کے بوجھ ہلکے کرنے کے لئے دی ہے.آپ نے جو باہر کی دنیا میں دیکھا ہے یہ اختیار کرنے کے لائق نہیں ہے.آخری تجزیے کی صورت میں خدا تعالیٰ کی تعلیم یہ ہے جو آپ کی جنت کی حفاظت کرتی ہے اور آپ کے سکون اور طمانیت کی ضمانت دیتی ہے.اس سے باہر بے چینی ہے بے قراری ہے.لذتوں کی تلاش میں ہمہ تن دن رات زندگی بسر کرنا ہے مگر وہ لذتیں ہمیشہ آگے بھاگتی چلی جاتی ہے کبھی بھی ہاتھ نہیں آئیں.آپ نے اگر اپنے تربیت میں توازن نہ پیدا کیا اگر نیکی کے ساتھ دل لگانے کا سلیقہ نہ سیکھا اگر حسن واحسان کے ذریعے لذت حاصل کرنے کا آپ کو طریقہ نہ آیا تو آپ کی زندگی دنیاوی لذتوں کی تلاش میں ہمیشہ سر گرداں رہے گی آپ کو کبھی بھی چین نصیب نہیں ہوسکتا.امر واقعہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیم کا اگر گہری نظر سے مطالعہ کریں تو آپ یقین کے درجے تک پہنچ سکتی ہیں کہ یہ تعلیم جو مشکل دکھائی دیتی ہے

Page 459

حضرت خلیفہ اسیح الرابع ' کے مستورات سے خطابات ۴۵۵ خطاب ۸ ستمبر ۱۹۹۵ء بالآخر اپنے آخری نتیجے کے طور پر آپ کے لئے ایک جنت پیدا کرنے کی ضامن تعلیم ہے.جولطف اس تعلیم کے پھل کھانے میں ہے وہ دوسری زندگی کے پھل کھانے میں نہیں ہے اس لئے قرآن کریم نے جنت کی مثال دو قسم کے درختوں سے دی ہے.ایک وہ درخت جس کے متعلق اللہ نے کوئی پابندی نہیں لگائی کہ اس سے پھل نہ کھاؤ بلکہ یہ فرمایا ہے کہ جہاں سے چاہو جیسا چاہو پھل کھاؤ یہ وہ تمام پھل وہ ہیں جو خدا کی رضا کے تابع زندگی بسر کرنا ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو کھلی آزادیاں دی ہیں یہ بھی کرو، وہ بھی کرو، وہ بھی بہت ہیں، وہ کوئی کم تو نہیں ہیں.اس دائرے میں رہیں اور اس دائرے میں رہنا سیکھیں تو پھر آپ کو حقیقی لذت سے آشنائی ہوگی ورنہ آپ کو پتہ ہی نہیں کہ حقیقی لذت اور حقیقی سکون کیا چیز ہے.ان کا پھل میٹھا ہوتا ہے، ان کا پھل صحت مند ہوتا ہے، یہ پھل کھانے کے بعد جو رضائے باری تعالیٰ کی جنت کے درختوں میں لگتا ہے انسان کو کبھی بھی افسردگی نہیں ہوتی.کبھی پچھتاوا نہیں ہوتا، کبھی بے چینی نہیں ہوتی.مگر وہ پھل جس سے آدم علیہ السلام کو منع کیا گیا تھا ، وہ پھل جس سے تو ا کو منع کیا گیا تھا وہ خدا تعالیٰ کی نافرمانی کے درخت کا پھل تھا اور دیکھنے میں لذت والا تھا لیکن اس لذت کے پیچھے شدید بے چینی تھی اور یہی وہ نقشہ ہے جو قرآن کریم نے بڑی وضاحت کے ساتھ کھینچا ہے.فرمایا! آدم علیہ السلام اور حوا پھسل گئے شیطان نے ان کو کہا کہ بہت مزے کا پھل ہے یہی تو کھانے کے لائق ہے جب انہوں نے کھایا تو پھر ان کی کمزوریاں ان پر تنگی ہو گئیں.ان کو محسوس ہوا کہ ان کے اندر کیا کیا خامیاں تھیں اور ایک پچھتاوا سا لگ گیا، ایک بے چینی شروع ہوگئی کہ ہم کیا کر بیٹھے ہیں.یہ بات گناہ اور نیکی کی تفریق میں بہت ہی ضروری ہے.نیکی اور بدی کی تفریق کے لئے جو بینائی ہے وہ اسی بات کو سمجھنے میں پوشیدہ ہے.اپنی ساری زندگی پر آپ نظر ڈال کر دیکھ لیں پہلی غلطی جو آپ نے کی ہے، کبھی ، پہلا گناہ جو کیا ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا اس سے پہلے ایک حیاء کا پردہ تھا جسے پھاڑ نا پڑا تھا اور اس گناہ کے بعد مدتوں جس میں بھی وہ گناہ کیا جس نوعیت کا بھی تھا دل میں بے چینی محسوس کی ہے، بے قراری محسوس کی ہے.ایسا شخص ہمیشہ اس کے بعد تڑپتا رہا ہے اور اس نے محسوس کیا جو پھل کھانے میں میٹھا تھا اصل میں بہت کڑوا ہے اور اس کے پیچھے ایک زہر کا سا مزہ ہے جو منہ میں باقی رہ گیا ہے لیکن جب پھر کیا، جب پھر کیا اور پھر کیا تو پھر یہ کڑوا کسیلا مزہ رفتہ رفتہ نظر سے غائب ہونے لگ گیا اور محسوس نہیں ہوا.پس احساسات کی موت کا نام آپ لذت رکھ لیتی ہیں یہ کیسے ممکن ہے.احساس وہی ہے جو طبعی ہے، جو پہلی غلطی کے وقت طبعی رد عمل ہے وہی قابل اعتمادا حساس ہے جو

Page 460

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۵۶ خطاب ۸ ستمبر ۱۹۹۵ء خدا نے پیدا فرمایا ہے بعد میں جو بے حسی پیدا ہوتی ہے یہ تو احساسات کے مرنے کا،احساسات کی موت کا نام ہے اس لئے نیکی اور بدی کے پھل کی جو عظیم مثال قرآن کریم نے ہمارے سامنے رکھی ہے اس پر آپ غور کریں تو ایک بات قطعی ہے کہ گناہ کا پھل اور نیکی کے پھل میں فرق یہ ہے کہ گناہ کا پھل کھانے میں مزیدار لگتے ہی جو نبی ختم ہوا پیچھے ایک شدید بے چینی چھوڑ جاتا ہے، بے قراری اور بدمزگی اور وہ لوگ جو اس بدمزگی سے نصیحت نہیں پکڑتے ، استغفار نہیں کرتے ، اللہ کی طرف تو بہ کے ساتھ مائل نہیں ہوتے ان کے لئے صرف یہی نہیں کہ ان کی حسیں مرجاتی ہیں بلکہ اس کے بعد ان کی ساری زندگی ایک سزا بن جاتی ہے، بد انجام کو پہنچتے ہیں ، وہ خراب ہو جاتے ہیں، ان کے گھر خراب ہو جاتے ہیں،ان کے بچے اجڑ نے لگتے ہیں.پس قرآن کریم کی تعلیم کو تخفیف کی نظر سے نہ دیکھیں یہ کوئی Dictator کا حکم نہیں ہے آپ کے لئے.اللہ کا حکم ہے جو فطرت کی باریک در باریک پہلوؤں پر نظر رکھتا ہے اور قرآنی تعلیم عین فطرت کے مطابق ہے.پس میں امید رکھتا ہوں کہ ان امور کو سمجھنے کے بعد آپ یہ فیصلہ کریں گی کہ وہ ہر پھل جو ابتداء میں حیا توڑنے کے ذریعے حاصل ہوتا ہے اس پھل سے اجتناب کریں.حیا کا پردہ اٹھا کر یا اسے پھاڑ کر جس لذت کو بھی آپ حاصل کرتی ہیں وہ لذت گناہ ہے اور وہ لذت آپ کے آخری مفاد کے خلاف ہے اور پھر حیا ر ہے یا نہ رہے وہ بداثر ضرور باقی رہتا ہے اور ایسے لوگوں کا انجام بہت ہی بد ہوتا ہے.بسا اوقات ہم نے دیکھا ہے کہ وہ لوگ جن کی زندگیاں اس طرح اجڑ جائیں ، ان کے بڑھاپے دیکھ کر انسان عبرت حاصل کرتا ہے.بہت ہی خوفناک بیماریوں میں مبتلاء ہو کر ایسے چہروں کے ساتھ وہ مرنے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں جن کے انگ انگ پر سارے بدن کے دیکھ ظاہر ہور ہے ہوتے ہیں.ایک ناکام زندگی ، ایک گناہوں میں ملوث زندگی جس نے سارے جسم کو پھوڑا بنا رکھا ہے اس انجام کو پہنچتے ہیں.چہرے پہ کوئی حیاء کے آثار نہیں ہوتے اور ان کو دیکھ کر عبرت حاصل ہوتی ہے.حقیقت ہے کہ نیکی ہی ہے جو انجام کا رسب سے اچھی چیز ہے.آپ کسی نیک کومرتا ہوا دیکھیں اور پھر ایک بد کو مرتا ہوا دیکھیں تب آپ کو یہ باتیں سمجھ آئیں گی.جو میں قرآن اور حدیث کے حوالے سے آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں.جب ایک بد کو موت آتی ہے اس کی بے قراری اظہر من الشمس ہوتی ہے اور بلا استثناء ہر مرنے والا بدحسرت سے دیکھتا ہے کہ کاش میں اس سے پہلے کچھ اور کر چکا ہوتا اور ہر نیک جو جان دیتا ہے وہ اپنی جان جان آفرین کے سپر داشتنی طمانیت سے کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بیان فرماتا ہے.رَاضِيَةً مَّرْضِيَةٌ ، ایسی روحیں بھی ہیں میرے ایسے غلام

Page 461

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۵۷ خطاب ۸ ستمبر ۱۹۹۵ء بندے ہیں کہ جب ان کی روحیں میرے حضور حاضر ہورہی ہوتی ہیں تو رَاضِيَةً مَّرْضِيَةٌ وہ مجھ سے راضی ہوتی ہیں میں ان سے راضی ہوتا ہوں اور میں انہیں آواز دے کر کہتا ہوں.يَايَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عَبْدِي وَادْخُلِي جَنَّتِي (الفجر: ۲۸-۳۱) کہ اے میرے پاک بندے ! لوٹ آمیری طرف راضِيَةً مَرْضِيّةً اس حالت میں کہ تو مجھ سے خوش ہے اور میں تجھ سے خوش ہوں.فَادْخُلِي فِي عِبدِی.میرے بندوں میں داخل ہو جا وَ ادْخُلِي جَنَّتی اور میری جنت میں داخل ہو جا.پس کیا آپ پسند نہیں کریں گے اور کیا آپ پسند نہیں کریں گی کہ ہم میں سے ہر ایک کو مرتے وقت یہ آواز آئے کہ مجھ سے راضی ہوتے ہوئے میرے پاس آ.ایسی حالت میں کہ میں تجھ سے راضی ہوں اور یہ آواز آپ نے بنانی ہے اس زندگی میں جو موت سے پہلے کی زندگی ہے اگر آپ یہ آواز نہیں بنا سکیں تو مرتے وقت آپ کو یہ آواز نہیں آئے گی.راضیة کا مطلب یہ ہے کہ ساری عمر تو مجھ سے راضی رہا میرے احکام سے راضی رہا جو میں نے تجھ سے چاہا تو اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالتا رہا.پس چونکہ زندگی بھر تو مجھ سے راضی رہا اب موت کے بعد وقت آگیا ہے کہ میں تجھ سے راضی رہوں اور ہمیشہ راضی رہوں.پس اللہ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک کا انجام اس پیاری آواز کو سنتے ہوئے ہو کہ يَايَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عَبْدِي وَادْخُلِي جَنَّتِي (الفجر: ۲۸-۳۱) کہ اے پیاری روح! جو میری طرف لوٹ کر آ رہی ہے اس حال میں میری طرف لوٹ کہ تو مجھ سے راضی ہو یا راضی رہی ہو ) اور میں تجھ سے راضی ہوں.پس میرے بندوں میں داخل ہواور میری جنت میں داخل ہو.اب جنتیں تو بہت سی ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو رَاضَيَةٌ مَّرْضِيَةٌ ہیں.ان کی جنت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی جنت قرار دیا ہے.اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ساری عمر وہ رضا کی خاطر زندہ رہیں اور جس رضا کی خاطر رہے اسی کا قرب ان کی جنت بنتا ہے.پس میری جنت سے مراد یہ ہے کہ

Page 462

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۴۵۸ خطاب ۸ ستمبر ۱۹۹۵ء تمہیں ہم سب سے اعلیٰ درجے کی جنت عطا کریں گے جو قرب الہی کی جنت ہے.خدا کرے کہ ہم سب کو یہی نیک انجام نصیب ہو.اس کے ساتھ ہی اب ہم دعا کرتے ہیں اور آج کا یہ اجلاس اس دعا کے ساتھ ختم ہورہا ہے.اب خاموشی کے ساتھ میرے ساتھ دُعا میں شامل ہو جائیں.یہ اجلاس اس دعا کے بعد اختتام پذیر ہوگا.آیئے دعا کر لیں.

Page 463

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۴۵۹ خطاب ۲۷ جولائی ۱۹۹۶ء محبت الہی کے ذریعہ تربیت کرنا ( جلسہ سالانہ مستورات برطانیہ سے خطاب فرمودہ ۲۷ / جولائی ۱۹۹۶ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِيْنَ تَقُوْمُ وَ مِنَ الَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَإِدْبَارَ النُّجُومِ ® اور اس کے بعد حضور نے فرمایا: (الطور: ۴۹-۵۰) گزشتہ دنوں جب کینیڈا اور امریکہ کے دورے کی توفیق ملی تو دونوں جگہ خواتین کے خطاب کے لئے میں نے ایک ہی مضمون چنا یعنی اللہ کی محبت کے ذریعہ اپنی تربیت اور یہ مضمون خصوصیت سے خواتین کے اجلاس میں چنے کی وجہ یہ تھی کہ امریکہ اور کینیڈا کے معاشرے میں مجھے اپنی احمدی بچیوں کے متعلق بہت فکر لاحق ہوئی.اگر چہ جماعتی اجلاسوں کے موقع پر جب احمدی خواتین آتی ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اتنی حیاء ضرور دکھاتی ہیں کہ وہاں پہنچ کر اپنے آپ کو برابر مناسب طریق سے ڈھانپ لیں اور اگر اس سے پہلے بے احتیاطیاں کرتی بھی ہوں تو کم سے کم دینی اجتماع میں وہ بے احتیاطیاں اچھل کر نظروں کو تکلیف نہ دیں.ایک یہ بھی زوایہ ہے اُن کے وقتی پر دے کو دیکھنے کا ، جس زوایے کو میں نے دیکھا.ایک وہ زوایہ تھا جس کے متعلق مجھے کثرت سے خط ملتے رہے کہ دیکھو یہ منافقات ہیں یہ دھوکا دیتی ہیں.آپ کے سامنے آجاتی ہیں تو کچھ اور بن جاتی ہیں ، پیچھے ان کو گھروں میں دیکھیں ان کو ، ان کے خاندانوں کے روابط دیکھیں ، وہاں مجلس کے اندر کیسی کیسی بے احتیاطیاں کرتی ہیں ، کھلے عام مردوں اور عورتوں کی اختلاط کی مجلسیں چلتی ہیں تو وہاں ان کا دین اور ہے ، آپ

Page 464

حضرت خلیفہ صیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۶۰ خطاب ۲۷ جولائی ۱۹۹۶ء کے سامنے کچھ اور ہو جاتا ہے.مگر اس کے باوجود میں نے ان خطوں کو رد کر دیا کیونکہ میں احمدی بچیوں کے دلوں سے نیک تو قعات رکھتا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ وہ اگر بد ہوتیں تو سطحی طور پر ہوتی ہیں دل کی گہرائیوں سے ان کے اندر خدا اور دین کی محبت موجود ہے اور ایک ہی چیز کو دو مختلف زاویوں سے دیکھا جاسکتا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ بسا اوقات ایک ایسی بچی جو پردے میں غیر محتاط ہو جب مسجد آتی ہے یادین کی مجالس میں شرکت کے لئے آتی ہے تو دکھاوے کی خاطر نہیں بلکہ حیا کی خاطر اپنے دل کی شرم سے وہ اپنے آپ کو چادر میں لپیٹ لیتی ہے اور تمام عرصہ شرمندگی محسوس کرتی ہے اور دکھاوے کے لئے وہاں اس کو آنے کی ضرورت ہی کیا ہے.ساری دنیا کھلی ہے جہاں چاہے سر اٹھا کر پھرے کوئی اس کو رو کنے والا نہیں.پس میں اس وقت بھی اس نتیجے پر قائم تھا اب بھی اسی نتیجے پہ قائم ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی بچیاں حدتربیت سے باہر نہیں نکلیں اور جب ایسے معاشرے میں جہاں غیر معاشرے کے اثرات کی شدت ہو اور غیروں کی کثرت ہو ان کو گھومنا پھرنا پڑے ان کو کالجوں سکولوں میں جانا پڑے ان کو دیگر کاموں میں حصہ لینا پڑے تو طبعا ان کے اوپر ایک ایسا حملہ ہورہا ہے جس کو روکنے کے لئے کوئی تربیت کی نظر سامنے نہیں ہوتی.ماں باپ کو بھی پتہ نہیں کہ وہ باہر نکلتی ہیں تو کیا کر رہی ہیں، کس سے مل رہی ہیں.عزیز واقارب کی بھی نگاہ نہیں پڑتی کیونکہ وہاں بہت پھیلا ہوا معاشرہ ہے.احمدی نسبتا کم اور دور دور ہٹے ہوئے.پس یہ جو علیحدگی کی وجہ سے ایک قسم کی آزادی ملتی ہے اس میں شیطان کو کھل کر کھیلنے کا زیادہ موقع مل جاتا ہے.یورپ کی اور بات ہے اب انگلستان میں تو کوئی احمدی لڑکی احمدی کی نظر سے بچ کے نکل نہیں سکتی، کوئی دور کے کنارے پر بھی کوئی واقعہ ہو اس کی اطلاع مجھے ملتی ہے اور بر وقت ہم اقدام کرتے ہیں، سنبھالنے کی کوشش کرتے ہیں.کئی دفعہ ایسے خاندانوں کو بلواتا ہوں اور بلا استثناء ہمیشہ جب بھی پیار سے انہیں سمجھایا گیا انہوں نے مثبت رد عمل دکھایا ہے اس لئے میرے لئے بدظنی کے لئے کوئی جانہیں کوئی اس کا جواز نہیں کہ میں ان بچیوں پر بدظنی کروں.اسی طرح وہ ماں باپ جنہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے ان کو دور ہٹتے ہوئے دیکھا ان پر بدظنی تو نہیں مگر تکلیف ان کے متعلق بہت ہے.انہوں نے اس بے چینی کا وقت پر اظہار نہیں کیا.جو بے چینیاں جلد ہی بچوں کو سنبھال سکتی تھیں.وہ بچے جب گودوں میں کھیلتے ہیں اس وقت ان کی ماؤں کے انداز ان کے دل پران کے ذہن پر نقش ہو جاتے ہیں اور جو باتیں مائیں اچھی بجھتی ہیں وہ بچے ضرور اچھی سمجھتے ہوئے بڑھتے

Page 465

حضرت خلیفتہ اسح الرابع کے مستورات سے خطابات ۴۶۱ خطاب ۲۷ جولائی ۱۹۹۶ء ہیں.اگر ماؤں کے ظاہر کی بات اور ہو اور دل کی بات اور ہو یعنی دل میں خواہ کیسا ہی ایمان کیوں نہ ہواگر بیرونی سفر دوسری طرف کا شروع ہو چکا ہو تو بچے وہ بھی دیکھتے ہیں اور دل کو بھی دیکھتے ہوں گے کیونکہ بارہا ان کی طرف سے ایمان کے اظہار بھی ہوتے ہیں.مگر کمزوری انسانی فطرت کی کمزوری ہے کہ نیچے کی راہ کی طرف بہتا ہے جیسے پانی نیچے کی طرف بہتا ہے اس لئے جب دو طرح کے رجحانات بچوں کو دکھائی دیں تو ہمیشہ نسبتاً آسان رجحان کو قبول کرتے ہیں، جس سمت میں بہنا ان کے لئے زیادہ آسان ہے.پس تربیت میں یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ ماں نیک ہو اور باپ بد ہو تو بچوں کے لئے خطرہ ہے کہ باپ کی بدی کو اختیار کر لیں.باپ نیک ہو اور ماں بد ہو تو بچوں کے لئے خطرہ ہے کہ ماں کی بدی کو اختیار کر لیں.پس دونوں کے لئے یکساں ہونا اور برابر قدم کے ساتھ قدم ملا کر چلنا بہت ضروری ہے لیکن کیسے تربیت والے مہیا کئے جائیں؟ کہاں ہر ایک خاندان پر ایک نگران مقرر کیا جا سکتا ہے؟ اور اگر ہو بھی تو ناصح کی نصیحت سے تو لوگ طبعا دور بھاگتے ہیں اور نصیحت کے انداز بھی تو سب کو معلوم نہیں ہوتے.بعض لوگ تو نصیحتیں اس طرح کرتے ہیں جیسے روڑے مار رہے ہوں اور مشکل یہ ہے کہ خواتین میں روڑے مارنے کا رجحان مردوں سے زیادہ ہے.وہ جب نصیحت کرتی ہیں تو اثر یہ پڑتا ہے کہ طعنے دے رہی ہیں.اثر یہ پڑتا ہے کہ ہماری بھلائی مقصود نہیں اپنی بڑائی جتانا مقصود ہے.یہ جتلانا مقصود ہے کہ دیکھو ہم اس معاملے میں تم سے بہتر ہیں اور تم بہت ہی ذلیل قسم کی چیز ہو جو ایسا گندہ نمونہ دکھاتی ہو.ناک بھوں چڑھا کر اگر وہ بات کریں تو اس بات کا دل پر نیک اثر تو کیا ہوگا الٹا بداثر ہوگا اور ایسی عورتیں پھر نصیحت کرنے والیوں سے اور بھی دور ہٹ جاتی ہیں اور ردعمل کے طور پر ایک اور بہت ہی خوفناک رجحان پیدا ہو جاتا ہے کہ ہر نصیحت کے بدلے ایسی عورتیں جن کے اندر کمزوریاں پائی جائیں یا وہ اچھوں پر نظر ڈال کر اُن کی کمزوریوں کی جستجو کرتی ہیں اور کوئی انسان بھی ایسا نہیں جو ہر کمزوری سے پاک ہو پھر وہ باتیں بناتی ہیں وہ کہتی ہیں دیکھو جی آئی تھی گھر سے بڑی نصیحت کرنے والی.ہم پر یہ طعن کئے اور اپنا یہ حال ہے.ہمیں پتہ ہے جو اندر ہو رہا ہے.پھر یہ ساری باتیں نصیحت کی باتیں نہیں ، یہ تو معاشرے کو چھید دیتی ہیں.جہاں ایک دو سوراخ تھے وہاں سوراخ اتنے ہوتے چلے جاتے ہیں کہ معاشرہ چھلنی بن جاتا ہے.کوئی نیکی کی بات اس چھلنی میں نہیں ٹھہرتی.سیہ وہ مسائل تھے جن پر غور کرتے ہوئے جب میں کینیڈا کے اجلاس میں بیٹھا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کس طرح ان باتوں کا ذکر چھیڑوں اور کیا کہوں کہ اتنے میں وہ نظم جوا بھی آپ کے سامنے پڑھی گئی

Page 466

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۴۶۲ خطاب ۲۷ جولائی ۱۹۹۶ء ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سبحان من یرانی “ پر جس کی تان ٹوٹتی ہے یہ تان وہاں پہنچ کر پھر ایک نئے مضمون میں داخل ہوتی ہے تو اچانک میرے سامنے گویا ایک معمہ حل ہوکر اُبھر آیا ہر بات روشن ہوگئی اور یہ بات میں حیران تھا کہ پہلے مجھے کیوں نہیں سوجھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام محبت کے حوالے سے تربیت کرتے ہیں اور اس وقت مجھے یہ راز سمجھ آیا کہ ہر نبی محبت کی بناء پر نبی بنتا ہے.بنی نوع انسان کی خرابیوں کی نفرت کی بناء پر کبھی کوئی نبی نہیں بنا وہ تو ان لوگوں کی بدیوں میں رہتے ہوئے اپنی ذات میں سمٹ جاتا ہے اور ایک علیحدگی اختیار کر لیتا ہے.مگر جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہوا وہ بات جو پہلے بھی معلوم ہونی چاہئے تھی مگر وہ ایک واضح حقیقت روشن دن کی طرح سامنے اُبھری کہ کبھی کسی نبی نے نبی بننے سے پہلے معاشرے کو طعن تشنیع نہیں کیا.اگر وہ طعن و تشنیع سے کام لیتا تو اتنا ہر دل عزیز کیوں ہوتا ؟ وہ اپنے دکھ اپنے دل میں سمیٹتا رہا ہے اور خدا کی طرف متوجہ ہوتا رہا ہے اور یہ اس کا دردتھا جو محبت الہی کے اثر سے وہ مقبول دعا بن گیا جس کے نتیجے میں اس قوم کی تقدیر کے بدلنے کا فیصلہ کیا گیا اور یہی وہ محبت بھری دعا تھی جس کے ذریعہ سے خدا نے اس کو چنا اور وہ سب سے زیادہ مستحق ٹھہرا کہ اس قوم کے حالات کو تبدیل کرے، اس گندے معاشرے کو صاف کرے.پس یہ وہ مضامین تھے جو شعروں کے ساتھ ساتھ میرے ذہن میں اُبھرتے رہے، میرے دل میں جانشین ہوتے چلے گئے اور اس وقت مجھے بھی یہی سمجھ آئی کہ عورتوں کے لئے تو محبت سے بہتر کوئی اور علاج نہیں ہے.مرد بھی محبت کرتے ہیں، عورتیں بھی محبت کرتی ہیں مگر ماں کے رشتے سے اور بہن بھائیوں کے تعلق کے لحاظ سے، جیسا محبت کا سلیقہ عورت کو ہے اور جیسی وفاعورت کو نصیب ہے ویسی مردوں میں نہیں اور یہ فطری تقاضوں کے فرق ہیں.اگر عورت کو خدا تعالیٰ محبت کے معاملے میں ایک فوقیت نہ بخشتا تو اپنی اولا د کو وہ سنبھال نہیں سکتی.اتنے لمبے عرصے وہ دکھوں کے دور میں سے گزرتی ہے اور پھر دکھ اور تکلیف کے ساتھ بچہ پیدا کرتی ہے یہ مسئلہ بھی حل ہوا کہ آخر کیوں ایسا ہوتا ہے جو چیز دکھوں اور تکلیفوں سے حاصل ہو اس سے زیادہ محبت ہوتی ہے.جو محنت سے کمایا ہوا مال ہے وہ پیارا لگتا ہے.جو ورثے میں پالیتا ہے انسان اسے تو جس طرح جس آسانی سے پایا اسی آسانی سے اُڑا کر ضائع کر دیا کرتا ہے.تو بہت سی حکمتیں ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائشیں جو بظاہر ہم بری سمجھتے ہیں ان میں بھی گہرے راز ہیں.پس یہ خیالات کی رو جو چلتی رہی اس کے نتیجے میں میں نے فیصلہ کیا کہ آئندہ جب تک خدا

Page 467

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۴۶۳ خطاب ۲۷ جولائی ۱۹۹۶ء توفیق دے عورتوں کے دل میں خدا کی محبت پیدا کرنے کی کوشش کروں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون کو جیسے بیان فرمایا ہے.اس کو کھول کھول کر آپ کے سامنے رکھوں اور بتاؤں کہ محبت وہی ہے جو اللہ کی ہے.جو لا فانی ہے اور ہر دوسری محبت بے معنی اور بے حقیقت ہے.وقتی طور پر وہ لذت بخش بھی دے تو ہمیشہ دکھوں پر اس کا انجام ہوتا ہے اور کوئی بھی ایسی محبت نہیں جو انجام کا رلطف چھوڑ جائے کیونکہ ہر محبت نے اس دنیا میں منقطع ہو جاتا ہے.کئی محبتیں اس طرح منقطع ہوتی ہیں کہ محبت کے رشتے ہوئے مگر کچھ دیر کے بعد خاوند کو بیوی کی اور بیوی کو خاوند کی برائیاں دکھائی دینے لگیں جن پر پہلے نظر نہیں تھی.پہلے تو وہ احتیاطاً ایک دوسرے سے چھپاتے تھے پھر وہ احتیاطیں اڑ گئیں اور کھلے بندوں پھر وہ عام ہونے لگیں وہ دل کی بیماریاں باہر نکل آئیں.دل کی برائیاں بدخلقیاں وہ کھل کر سامنے آگئیں اور جو پہلے محبت کے رشتے تھے ان کو ختم کرنا شروع کر دیا.یہ ایک عام رواج ہے، عام رواج نہیں ایک عام ایک فطرت کا دستور ہے.جس سے شاذ ہی کوئی مستثناء ہو.میاں بیوی کی جب نئی نئی شادی ہوتی ہے اس سے پہلے کا دور کچھ اور ہوتا ہے شادی کے ابتدائی دنوں میں کچھ اور ہوتا ہے اور کچھ عرصہ کے بعد کوئی اور بات ظاہر ہو جاتی ہے وہ پہلے سی بات ہمیشہ آپ قائم نہیں رکھ سکے.اسی ضمن میں ایک لطیفہ بھی ہے.ایک شخص بتا رہا تھا کہ شادی سے پہلے میرے اُس عورت سے رسمی تعلقات تھے اس وقت کیا ہوتا تھا، شادی کے بعد ایک مہینے تک کیا ہوتا رہا اور پھر کیا ہوا.اس نے کہا جو ایک مہینہ کے پہلے تعلقات تھے اس میں تو میں بولا کرتا تھا اور وہ سنا کرتی تھی ، شرما کر سر جھکائے ہوئے میری ہر بات سنتی تھی ایک لفظ نہیں بولتی تھی.شادی کے بعد ایک مہینہ وہ بولی ہے اور میں نے سنا ہے اور پھر تو ہم بولتے تھے اور محلہ سنتا تھا ہمیں کچھ نہیں پتا تھا کہ ہم کیا کہتے ہیں اور اس شور میں کچھ سنائی نہیں دیتا تھا لیکن سارا محلہ سن رہا ہوتا تھا کیا باتیں ہو رہی ہیں.یہ ہے تو لطیفہ مگر ہے ایک درد ناک حقیقت اور جن کو خدا نیکی کی محبت عطا کرتا ہے وہی اس سے مستثناء ہیں.جو نیکی کی محبت کے بغیر رشتے جوڑتے ہیں وہ اس سے مستثناء نہیں ہیں کوئی محبت کی ہے.تبھی حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جن سے بڑھ کر رازدان فطرت کبھی کوئی پیدا نہیں ہوا.نبیوں میں نہ نبیوں سے باہر.آپ نے فرمایا کہ جب رشتے کیا کرو تو دین دیکھا کرو اور اس کو ترجیح دینا ، نہ حسن کو ترجیح دینا، نہ مال و دولت کو ترجیح دینا، نہ نام ونسب کو ترجیح دینا، یہ دیکھنا کہ وہ سچا دیندار

Page 468

حضرت خلیفہ صیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۶۴ خطاب ۲۷ ؍جولائی ۱۹۹۶ء ہے کہ نہیں یعنی اللہ کا خوف رکھتا ہے کہ نہیں.اللہ کی محبت کے نتیجے میں اس کی تربیت ہوئی ہے کہ نہیں.تربیت تقویٰ سے جو ہو یہی اصل تربیت ہے تربیت خدا کی محبت سے جو ہو وہی اصل تربیت ہے اور جو شخص اللہ کی محبت سے تربیت یافتہ ہو اس کا اپنی بیوی سے سلوک اس شخص کے مقابل پر اتنا مختلف ہوتا ہے جو دنیا کی محبت سے تربیت یافتہ ہے اس کی دونوں میں کوئی مثال نہیں دکھائی دیتی.اس کی مثال حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اپنی ازواج مطہرات سے سلوک ہے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا حضرت اماں جان سے سلوک ہے.ایک طرف یہ حالت کہ ہر محبت پر خدا کی محبت غالب اور خدا کی محبت کے سوا گویا ہر دوسری محبت غائب ہو گئی ہے لیکن جب خدا کی محبت میں ڈوب کر محبت کی ہے تو خدا کے انداز میں محبت کی ہے.اُسی طرح غفور و رحیم ، اسی طرح حلیم ، اسی طرح زیادتیوں کو برداشت کرنے والے.اگر یہ نہ ہوتا اور خدا ایسا نہ ہوتا تو بنی نوع انسان کی تو اپنے گناہوں کی وجہ سے صف لپیٹ دی جاتی.بس محبت کی تربیت اور ہے اور دنیا کے رشتوں کے تعلق اور قسم کے ہیں.یہی وجہ ہے کہ میں نے یہ مضمون اختیار کیا اور جب تک توفیق ملے گی جب تک میں سمجھوں گا کہ اس مضمون کا کچھ حصہ ابھی باقی ہے میں اس پر خواتین سے خطاب کرتا رہوں گا.محبت کا مضمون خواتین جیسا کہ میں نے کہا مردوں سے بہتر سمجھتی ہیں اور دنیا میں جہاں کہیں بھی وہ پھیلی ہیں اللہ کی اُن پر نظر ہے اور خدا ان کو دیکھ رہا ہے اور اگر وہ محبت کے تعلق میں یہ احساس پیدا کرلیں کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بار بار یہی فرمایا: ان من يراني (در مشین اردو صفحه ۳۴) پاک ہے وہ جو مجھے دیکھ رہا ہے.اب سبحان کا کلمہ ایک تو بے اختیار دل کی گہرائی سے نکلی ہوئی تعریف ہے.اس کے اور کچھ بھی معنی نہیں سوائے اظہار محبت کے لیکن ایک اور معنی یہ بھی ہے جو اصل معنی ہے کہ وہ جو مجھے دیکھ رہا ہے وہ تو خود ہر برائی سے پاک ہے.اب اس کے دیکھتے ہی جو ہر برائی سے پاک ہے میں کیسے بدیاں کروں؟ اس کی نظر میں گر جاؤں گا اور اس کی نظر سے بھاگ نہیں سکتا.یہ محبت کا مضمون اس تربیت کے رنگ میں مسیح موعود علیہ السلام نے ڈھالا اور اپنے آپ کو ہمیشہ خدا کی نظر کے نیچے دیکھا.اور سبحان“ کہنے سے بار بار مراد یہ تھی کہ میں جانتا ہوں کہ تو ہر برائی

Page 469

حضرت خلیفہ صیح الرابع' کے مستورات سے خطابات خطاب ۲۷ جولائی ۱۹۹۶ء سے پاک ہے جس پر تو محبت کی نظر ڈال رہا ہے اس کو بھی پاک کرتا چلا جا.اس کو بھی اپنا جیسے بنے کی توفیق بخش یعنی انہی صفات میں جن کو بندہ اپنا سکتا ہے.پس اس پہلو سے اگر آپ اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کریں اور یہ دیکھیں کہ وہ پاک ہے اور یہ مضمون دل سے جاری رکھیں تو آپ جہاں بھی ہوں جس معاشرے میں بھی ہوں وہاں خدا کی نظر آپ کو دیکھ رہی ہوگی.آپ کا دل اس نظر کا جواب دے رہا ہوگا اور سبحان من برانی کا مضمون ہے جو آپ کی تربیت کے لحاظ سے سب سے اعلیٰ مربی ثابت ہوتا ہے.اس سے بڑھ کر کوئی مربی نہیں.ہر حال میں اور دیکھتا کون ہے؟ اپنے گھر میں ماں باپ نہیں دیکھ رہے ہوتے ، بچوں کے دل کی حالت اور ہے ظاہر کی حالت اور ہے ماں باپ کو پتہ ہی نہیں.وہ سمجھتے ہیں بڑے شریف سلجھے ہوئے بچے ہیں وہ دل میں سوچ رہے ہوتے ہیں.ہاں تمہارے سامنے ہیں باہر نکلیں گے تو اپنی کرتو تیں دکھا ئیں گے اور انتظار کرتے ہیں کہ ماں باپ کے سامنے شرافت سے سر جھکا کے بیٹھے باتیں کریں.ماں باپ گئے تو اچانک دل میں آئی وہ کرنی شروع کر دی اور یہ جو دستور ہے یہ فطرت کا ایک ایسا اظہار ہے جس میں نیکی بدی کا فرق نہیں.سب اس میں برابر کے شریک ہیں.جب استاد کے سامنے بچے جب بیٹھتے ہیں ان کا اظہار اور ہوتا ہے، ان کے اطوار اور.ماں باپ کے سامنے بیٹھے ہوں تو اور اطوار ہوتے ہیں.میرے سامنے آکر بیٹھتے ہیں جب مجلس میں تو اور انداز ہوتے ہیں.میں نے ایک بچے کے متعلق ماں باپ سے کہا کہ بہت ہی شریف بچہ ہے ماشاء اللہ.انہوں نے کہا کہ آپ کے سامنے شریف ہے نا کبھی علیحدہ ہمارے گھر میں آکر دیکھیں مصیبت ڈالی ہوتی ہے تو بچوں کو بھی یہ شعور ہے فطرت کا تقاضا ہے کہ جس کا کچھ احترام دل میں ہو اس کے سامنے سنبھل جاتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ جب تک کوئی انسان ہمیشہ کسی محترم آنکھ کے نیچے نہ ہو اس کی تربیت کی نگرانی نہیں ہو سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ راز ہمیں سمجھا دیا کہ ”سبحان من بیرانی ہر بات جو تھی اس کے بعد یہی عرض کیا کہ پاک ہے وہ ذات جو مجھے ہر حال میں دیکھ رہا ہے.میرے ظاہر پر بھی نظر ہے، میرے باطن پر بھی نظر ہے، میرے اندر پہ بھی نظر ہے، میرے باہر پہ بھی نظر ہے، ہر حال میں مجھ پر وہ نگاہ رکھتا ہے اور اس مضمون کو آپ نے اپنے حمدیہ اشعار میں ایسے ایسے رنگ میں بیان فرمایا کہ دل اللہ کی محبت میں غرق ہو جاتا ہے اگر آپ ان شعروں میں ڈوب کر ان کا لطف اٹھا ئیں.کبھی سرسری اور سطحی نظر سے نہ گزریں.جو آیت میں نے چینی اس مضمون کے لئے وہ بھی دراصل بعینہ یہی بات ہے جو

Page 470

حضرت خلیفہ اسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۶۶ خطاب ۲۷ جولائی ۱۹۹۶ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اس کلام میں کہتے ہیں ”سبحان من برانی“ کے اندر اور تب مجھے سمجھ آئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اندر لازماً اس آیت پر تھی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَاصْبِرُ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا اے محمد ! اپنے رب کی خاطر اپنے رب کے حکم کو قائم کرنے کی خاطر صبر سے کام لے فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا تو ہمیشہ ہماری نظر کے سامنے رہتا ہے.وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِيْنَ تَقُوْمُ کہ جب بھی تو کھڑا ہو اللہ کی تسبیح کرتے ہوئے اس کے حمد کے گیت گاتے ہوئے کھڑا ہو.دیکھیں نظر کے سامنے ہونا اور تسبیح کرنا یہ وہ مضمون ہے جو قرآن نے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سمجھایا اور اس عظیم روحانی استاد سے اُس عظیم روحانی شاگرد نے سیکھا جن کو ہم مسیح موعود کہتے ہیں اور آپ نے پھر اسی حوالے سے ہماری تربیت فرمائی.اب یہاں ایک بات ہے جو غور کے لائق ہے.صبر کا اس سے کیا تعلق ہوا ؟ وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبَّكَ یہ ایک بہت گہرا مضمون ہے اور ان دونوں مضامین کا آپس میں گہرا تعلق ہے.صبر کا یہ معنی کہ کوئی مارے اور تکلیف پہنچائے تو انسان برداشت کرے.یہ ایک معنی ہے لیکن اور بھی معنی ہیں اور ایک معنی جو اعلیٰ درجہ کا حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا یہ نیکیوں کو چمٹ جانا اور نیکیوں سے چپک کر بیٹھ رہنا اور ان کو ہاتھ سے جانے نہ دینا.یہ سب سے اعلیٰ درجہ کا صبر ہے پس جیسے اعلیٰ درجہ کا رسول تھا اس کے خطاب میں بھی اس اعلیٰ درجے کا مضمون جوصبر میں سے سکھایا گیا کہ ہم جانتے ہیں کہ اللہ کے حکم سے چمٹ جانے والا ہے اور اس سے کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ اس حکم سے کبھی الگ ہو لیکن بنی نوع انسان کی تربیت میں چونکہ دقت پیش آتی ہے.جب وہ یہ بات سنتے ہیں اور الگ ہو جاتے ہیں.وَاصْبِرُ لِحُكْمِ رَبِّكَ کا دوسرا معنی بھی ساتھ شامل ہو جاتا ہے کہ اپنے رب کے حکم کو قائم کرنے کی خاطر صبر سے کام لیں اور ایک ہی راہ ہے سچی تربیت کی.وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ - اللہ تعالیٰ کی تسبیح کر اور اس کے حمد کے گیت گا اور اے وہ جس کو تو مخاطب ہے تو تو ہر حال میں ہمیشہ میری نظر کے سامنے رہتا ہے.اس مضمون کا ان اشعار سے بھی گہرا تعلق ہے جو میں نے آپ کے سامنے یعنی میں نے نہیں پڑھے میرے کہنے پر میرے منتخب اشعار آپ کے سامنے پڑھے گئے.”سبحان من میرانی “ کے اشعار حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دل پر گزرنے والی ہر کیفیت کو اللہ تعالیٰ کے احسان کے تابع

Page 471

۴۶۷ خطاب ۲۷ جولائی ۱۹۹۶ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات دیکھا ہے.کوئی ایک بھی ایسی کیفیت نہیں جو دل پر طاری ہوتی ہو اور اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے رب کے احسان کے حوالے سے نہ دیکھا ہو اور محبت کا سب سے اعلیٰ طریق یہ ہے، یعنی محبت پیدا کرنے کا، یہ وہ شخص جو احسانوں تلے ڈوب چکا ہو اور ہر احسان کے دفعہ اس کو یہی....کہ اس کے سوا اور کوئی ایسا نہیں جو یہ احسان کر سکتا.اس کے سوا اور کوئی ایسا نہیں جو مجھے اس طرح پوچھتا مجھے اس طرح قدر کی نگاہ سے دیکھتا.اگر احسان میں کوئی ذاتی وقت شامل ہو تو انسان سمجھتا ہے کہ میں عزت والا ہوں مجھے اس نے تحفہ دے دیا تو کیا مضائقہ ہے؟ مجھ میں بھی تو کوئی بات ہے.اس پہلو سے لازم نہیں کہ محبت پیدا ہو ،لیکن ایک ایسا انسان جو اپنے میں کچھ ہی نہ دیکھے اور پھر بار بار احسان کی بارش ہونا دیکھے اس کے لئے تو ممکن ہی نہیں کہ وہ مرشد کی محبت میں مبتلا نہ ہو جائے پس تمام انبیاء جنہوں نے اللہ سے محبت کی ہے،اس بناء پر وہ اس محبت میں گرفتار ہوئے ہیں کہ انہوں نے اپنے نفس پر جب نگاہ ڈالی تو کچھ بھی اپنی ذات کا ایسا نہ پایا کہ جو خدا کے احسان سے باہر ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ مصرعہ مجھے بہت ہی پیارا لگتا ہے کبھی بھی میرے لئے پرانا نہیں ہوا کہ سب کچھ تیری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے.اے اللہ ! میں جب تیرے حضور عبادت کے لئے کھڑا ہوتا ہوں اور ذکر کرتا ہوں.خدا نے مجھے معمور فرمایا! تمام دنیا کی تربیت کے لئے معمور ہوا.یہ ساری باتیں ایسی ہیں جو تو نے عطا کی ہیں تو مجھے ملی ہیں ورنہ میں گھر سے تو کچھ بھی نہیں لایا.پس وہ جو اپنے نفس کو کلیہ مٹا دیتا ہے اور حقیقت میں مٹائے بغیر انسان اپنے نفس کی حقیقت کو پا نہیں سکتا وہ جب دنیا کو دیکھتا ہے تو ایک نئی نظر کے سامنے دیکھتا ہے وہ اگر اللہ کے احسانوں پر نگاہ ڈالتا ہے تو ایک اور نگاہ ڈالتا ہے.وہ جانتا ہے کہ ہر حسن کا جو خدا کی طرف سے احسان کی صورت میں اس پر نازل ہو رہا ہے وہ مستحق نہیں ، ان میں سے کسی کا بھی مستحق نہیں محض اللہ تعالیٰ کی دین ہے اس کی عنایت ہے اور اس پہلو سے جب آپ غور فرماتے ہیں کائنات پر ، اپنے گردو پیش پر ، اپنے حالات پر ، اپنے بچوں پر ، اپنی بیوی پر.خدا تعالیٰ کی تمام نعمتوں پر جو اس نے عطا فرما ئیں تو احسان ہی احسان دیکھتے ہیں.احسان میں ایسے گھرے ہوئے ہیں کہ جیسے سمندر میں ایک ذرہ ڈوب جائے اور تمام تر سمندرا سے ہر طرف سے محیط کرلے محیط پر محیط ہو جائے.یہ وہ طریق ہے جس سے آپ اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کر سکتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے بغیر نہ آپ بچی ماں بن سکتیں اور نہ آپ کی بیٹیاں خدا تعالیٰ کی راہ میں ثابت قدم رہ سکتی ہیں کیونکہ وہ شخص جس کو کسی سے محبت ہو جائے وہ نگاہ رکھتا ہے کہ اس کی مرضی کے خلاف بات

Page 472

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۶۸ خطاب ۲۷ جولائی ۱۹۹۶ء نہ ہو.پس ”سبحان من بیرانی کا یہ معنی کہ تجھے ہر حال ہر وقت اپنے آپ کو دیکھتا ہوا پاتا ہوں میں کیسے تیری حمد اور تیری رضا سے باہر ہٹ جاؤں.یہ سارے وہ مضامین ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اشعار میں بڑے پڑاثر انداز میں بیان فرمایا ہے اور ایک ایک لفظ دل سے اُٹھا ہے ایک بھی ایسا نہیں جو دل سے نہ اُٹھا ہواور محض زبان سے جاری ہوا ہو.یہ وہ سچائی ہے جس نے آپ کے شعروں کو ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا.ایسا کلام ہے جو کبھی مر نہیں سکتا.لاکھوں بار آپ اس کو سنیں یہ تو ہو سکتا ہے کہ نئے مضامین آپ پر ظاہر ہوں جو پہلے آپ سے مخفی رہے تھے مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ سن کر آپ کہیں او ہو یہ تو ہم نے بہت دفعہ سن لیا ہے اب اس میں اور کچھ باقی نہیں رہا.زندہ کلام ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور وہ کلام جو محبت الہی سے زندہ ہوا ہو جو دل کی سچائی سے زندہ ہوا ہو، وہ لافانی بن جاتا ہے کبھی مرسکتا نہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام سے ذاتی محبت پیدا کریں.آپ کے اشعار کے ذریعہ یہ اور بھی زیادہ آسان ہو جائے گی.کیونکہ شعر کا ایک رومانس سے تعلق ہے تبھی محبت کے اظہار کے لئے سب سے اچھا ذریعہ شعراء شعر پاتے ہیں.شعر کے اندر اپنی ذات میں ایک ایسی نغمگی ہے کہ اس نغمگی کے ساتھ محبت کا مضمون مطابقت کھاتا ہے اور عام الفاظ میں جو بیان نہیں ہو سکتا وہ شعروں میں بیان ہوسکتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اگر چہ نثر میں بھی اللہ تعالیٰ کی شان میں بہت ہی عظیم تحریر یں چھوڑی ہیں مگر شعروں میں جو بیان ہے اس کی شان ہی الگ ہے.ایسی بے ساختہ محبت ایک ایک لفظ سے پھوٹتی ہے یہ ناممکن ہے کہ انسان اس کو غور سے پڑھے اور اپنے دل پر اس کو طاری کرے، اپنے دل پر اس کا اطلاق کرے اور پھر وہ محبت سے محروم رہ جائے.مگر دل پر اطلاق کیسے کرے؟ یہ سب سے بڑی مشکل ہے کیونکہ اگر پاپ میوزک سے محبت ہوگئی ہوا گر گانے بجانے کے Record کے بغیر لڑکیوں کو نیند نہ آئے اگر کانوں میں ٹوٹیاں ٹھونسی ہوں اور چلتے پھرتے بھی وہ آوازیں آرہی ہوں تو بڑی.مصیبت ہے ، خدا کی محبت کے لئے آپ نے جگہ کون سی چھوڑی ہے.تو نیک باتوں سے پیار کے لئے وہ ذوق کیسے پیدا ہوگا ؟ اس لئے میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ حوالہ کل پیش کیا تھا کہ جب تک آفاقی اور نفسی نطق اپنے دل اور اپنے اندرون کو پاک نہیں کرتے اس وقت تک خدا کا نور تمہارے دل میں سما نہیں سکتا.تو ذوق کی اصلاح بہت ضروری ہے اور ذوق کی اصلاح کے لئے کہاں سے انسان شروع کرے، کیسے شروع کرے؟ یہ مضمون ہے جو آج میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ اول وقت اس کا

Page 473

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات خطاب ۲۷ جولائی ۱۹۹۶ء بچپن کا ہے.یہ بچے آپ کی گودوں میں کھیلتے ہیں اگر اس وقت ان گھروں میں جہاں وہ آپ کی گودوں میں پل رہے ہیں.میوزک کی آوازیں اُٹھ رہی ہیں، ہندوستان کے گانے سنائے جارہے ہیں ، پاکستان کے سنائے جارہے ہیں اور انہی آوازوں سے گھر گونج رہا ہے تو وہم نہ کریں کہ وہ بڑے ہو کر اعلیٰ ذوق پالیں گے اور تلاوت کا ذوق ان کو حاصل ہو جائے گا اور پاکیزہ کلام کا ذوق ان کو حاصل ہو جائے گا.یہ ایسے نقوش ہیں جو ایک دفعہ جم جائیں تو پھر پیچھا نہیں چھوڑتے.پھر ان تختیوں کو صاف کرنا بہت ہی مشکل کام ہے.یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نصیحت فرمائی بچہ پیدا ہو تو بغیر انتظار کے فوراً اس کے دائیں کان میں اذان دے دو اور بائیں کان میں تکبیر کہہ دو.اب بچہ تو اول تو عربی سمجھتاہی نہیں ؟ بڑے نہیں سمجھتے آج تو بچے نے کہاں سمجھنی ہے مگر جو عر بی جانتے بھی ہوں ماں باپ تو بچوں کو تو عربی ابھی نہیں آتی.پہلی آواز اُن کے کان میں پڑھ رہی ہے اللہ اکبراللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر.اللہ سب سے بڑا ہے اللہ سب سے بڑا ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے.بڑا پر شوکت اعلان ہے لوگ سمجھتے نہیں کہ خدا نے کیوں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی راہنمائی فرمائی کہ بچے کے دائیں کان میں اذان دیا کرو.اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر سمجھیں یا نہ سمجھیں ذہن کی خالی تختیاں جس کلام سے سب سے پہلے بھرتی ہیں وہ ہمیشہ سب سے زیادہ غالب رہتا ہے اور بچپن کی عمروں میں جو تحریر میں ذہن پر لکھی جائیں خواہ اس کی سمجھ بعد میں آئے وہ تحریریں اپنا ایک ایسا نقش چھوڑ جاتی ہیں کہ بعد کی تحریریں ان کو پھر بدل نہیں سکتیں اور یہ فطرت کا ایک راز ہے جس کو آج تمام Psychologist سمجھ چکے ہیں اور اس کے متعلق تحقیقات کر کے ایک قطعی نتیجے تک پہنچے ہیں کہ بچپن کے زمانہ میں تو اگر کوئی چھ زبانیں بھی سکھا دو تو بچہ آرام سے سیکھ لے گا اور مادری زبان کی طرح سیکھے گا.وہ کہتے ہیں کہ جب گیارہ بارہ سال کی عمر کا ہو اور اگر کوئی زبان نہ سیکھی ہو تو پھر کوئی بھی نہیں سیکھ سکے گا.یعنی اس وقت وہ ذہن کی تختیاں مندمل ہو جاتی ہیں.وہ پھر اثر قبول کرنے کے اہل نہیں رہتیں.تو دیکھیں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیسے فطرت کے شناسا تھے اور کس طرح خدا تعالیٰ نے انسانی فطرت کے گہرے راز آپ کو سمجھائے.فرمایا پیدا ہو تو اس کے دائیں کان میں اذان دو اور بائیں کان میں تکبیر پڑھو تو آپ کیوں اس سے نصیحت نہیں پکڑتیں کیوں نہیں سمجھتیں ؟ کہ بچپن کے ماحول میں بچے جو کچھ سنیں گے اس کا اثر قبول کریں گے اور اسی کا اثر قبول کریں گے بعد میں اگر آپ نے کوشش کی اُن کو سمجھانے کی کوئی طریق اختیار کیا تو کوششیں بے کار ہو جائیں گی لیکن بچپن سے جو ایک مزاج پیدا

Page 474

حضرت خلیفہ مسیح الرابع سے مستورات سے خطابات خطاب ۲۷ جولائی ۱۹۹۶ء ہو چکا ہے اسے بدلنا پھر آسان کام نہیں رہے گا.ہاں جو بچے اُن ماؤں کی گودوں میں پلتے ہیں جو اللہ کی محبت کی لوریاں دیتی ہیں کبھی وہ رسوا نہیں کرتا.ناممکن ہے وہ بوڑھے بھی ہو جائیں موت کے وقت بھی ان کو اپنی ماں کی وہ اور یاں یاد آتی ہیں جو خدا کی محبت میں ان کو دیا کرتے تھے کیوں اس راز کو نہیں سمجھتیں کہ بچپن سے اپنے بچوں کے دلوں میں خدا کی محبت کے گیت نقش نہیں کر جاتیں.ایسے نقش جو کبھی مٹ نہیں سکتے اور پھر جب وہ بڑے ہوتے ہیں تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام سے آپ اُن کو بتائیں اُن کو سمجھائیں کہ دیکھو یہ محبت الہی ہوتی ہے.اس طرح خدا پیار کرنے والا ہے.اگر ایسی تربیت آپ کریں گی تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دُنیا کا کوئی معاشرہ اُن پر غالب آنے کی طاقت نہیں رکھتا.اُن کو جہاں کہیں پھینک دیں وہ خدا انما وجود بن کر ابھریں گے اور الوہیت کو غیر اللہ پر ایک فوقیت حاصل ہے ایسی فوقیت کہ جیسے نور کو ظلمت پر ایک فوقیت ہوتی ہے.کہنے کو تو آپ کہہ دیتی ہیں لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ سننے کو آپ سن لیتی ہیں کہ نور غالب آجاتا ہے اور اندھیرے زائل ہو جایا کرتے ہیں مگر جب اندھیرے زائل ہوتے نہ دیکھیں تو اُس نور پر نظر ثانی کیوں نہیں کرتیں ؟ وہ نور تھا بھی کہ نہیں جسے آپ نو سمجھ بیٹھی تھیں.اگر وہ نور ہے تو لازماً غالب آئے گا اور اللہ کی سچی محبت اگر آپ کے دل میں ہے تو ممکن نہیں ہے کہ غیر اللہ کی محبت اس پر غالب آجائے.سب سے بڑا حفاظت کا نسخہ یہ ہے اس سے بڑھ کر اور کوئی نسخہ نہیں.پس بچپن ہی سے اپنی اور یوں کو خدا کی محبت میں ڈبو ڈبو کر ان کو سنائیں.اُن کے کانوں میں وہ لوریاں اللہ کے عشق کی رس گھولیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت کے گیت ان کو سنائیں اور خود سنیں گی خود یاد کریں گی تو سنا سکیں گی نا.پس جہاں جہاں بھی لجنہ کی منظمات میری بات سن رہی ہیں وہ اس کی طرف توجہ کریں.محض اس جلسے میں ایک نصیحت سے یہ کام ہونے والا نہیں ہے.یہ لمبی محنت کو چاہتا ہے.آپ کا فرض ہے کہ ماؤں کی تربیت کی طرف اس پہلو سے توجہ کریں کہ وہ مسلمان مائیں تو بن جائیں اگر وہ مسلمان مائیں نہیں بنتیں تو ان کے بچوں سے مسلمان بچے کیسے نکلیں گے، ان کی گودوں سے مسلمان بچے کیسے پیدا ہوں گے.اس لئے یہ ایک فیصلہ کن بات ہے، دو ٹوک فیصلہ کرنا ہے کہ آپ نے اللہ کا ہونا ہے کہ نہیں ہونا اور اگر ہونا ہے تو آپ یاد رکھیں کہ آپ کو وہم ہے کہ دنیا کی لذات کو چھوڑ کر اللہ کی محبت کی لذت اختیار کرنا ایک قربانی ہے.اس سے بڑا سودا ہی اور کوئی نہیں.اس سے زیادہ نفع بخش سودا اور کوئی ممکن ہی نہیں ہے.کوئی نسبت ہی نہیں ہے ان دونوں لذتوں میں.

Page 475

حضرت خلیفہ صیح الرابع' کے مستورات سے خطابات خطاب ۲۷ جولائی ۱۹۹۶ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو اس طرح بار بار ہمیں سناتے ہیں کہ میں کس دف سے منادی کروں کیا علاج کروں کانوں کا کہ تمہارے ان کانوں میں یہ بات پڑ جائے وہ سمجھ سکیں کہ اللہ کی محبت کی لذت سے بڑھ کر اور کوئی لذت دنیا میں نہیں ہے.پس کون ہے جو آپ کو قربانیوں کی طرف بلا رہا ہے؟ میں تو آپ کو ان حقائق کی طرف بلا رہا ہوں جن کے نتیجے میں آپ کے دل ہر دوسری چیز کو از خود قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے کیونکہ قربانی اعلیٰ کی خاطر ہوتی ہے اور قربانی تب ہوتی ہے اگر اعلیٰ کی محبت بڑی ہوتی ہو ورنہ قربانی کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتی.زبر دستی کی قربانی تو دلوں کو میلا کر دیتی ہے، مگر بے اختیار قربانی ہے جس سے زیادہ پیار ہے اس کی خاطر ادنی کو آپ قربان کر دیں اور بسا اوقات، عام طور پر کسی سے پیار ہو، پیار قائم رہتا ہے اور بالا پیار بھی قائم رہتا ہے لیکن جب ادنی پیار بالا سے ٹکراتا ہے تو آپ کے دل میں ادنی پیار کے لئے نفرت پیدا ہو جاتی ہے.مائیں یہ جانتی ہیں اور اُن سے بڑھ کر کون جانتا ہے کہ بچوں سے ان کو پیار ہے اور اکثر صورتوں میں وہ ظاہر کریں یا نہ کریں یہ پیار ہر دوسرے پیار پر غالب رہتا ہے.اس کے علاوہ آنے والے بچوں سے بھی پیار ہے، گھر میں آتے ہیں، ہمسائیوں سے بھی پیار ہے اُن کی نیکی کی وجہ سے یا اپنی نیکی کی وجہ سے، دوستوں ،سہیلیوں سے پیار ہے مگر مجال ہے جو کوئی آپ کے بچوں کو میلی آنکھ سے دیکھے اور پھر بھی اس کا پیار باقی رہ جائے.اچانک وہ پیار شدید نفرت میں تبدیل ہو جائے گا تو کون سا بالا پیار ہے؟ یہ وہ حقیقت ہے جسے آپ نے سمجھنا ہے اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہمیں یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اللہ کے پیار کو سب سے زیادہ فوقیت دو، تو ہر گز یہ مراد نہیں کہ دوسرے پیار دل سے مٹادو.کبھی کوئی ایسی ماں دیکھی ہے جو بچے کے ڈر کی وجہ سے نہ خاوند سے پیار کرے، نہ بھائیوں سے، نہ ماں باپ سے نہ اپنے ہمسائیوں سے نہ اپنے تعلق داروں سے کہ مجھے بچوں سے پیار ہے اور کسی سے ہو نہیں سکتا.بچوں سے پیار ہے تو غالب پیار ہے.دوسروں سے بھی پیار ہے اپنے اپنے مرتبے اور مقام کا پیار ہے.جب ادنی پیار غالب سے ٹکرائے گا تو پارہ پارہ ہو جائے گا.یہ وہ طریق ہے جس سے آپ اپنے رب کی محبت کو پہچان سکتی ہیں اور یہی وہ پہچان ہے جو قرآن کریم نے ہمارے سامنے کھولی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ شخص جس کو اپنے ماں باپ ، اپنے عزیز واقارب، اپنی دوستیں، اپنے اموال ، سب سے بڑھ کر اللہ اور رسول سے محبت نہ ہواس کو ایمان کی حرارت کا پتہ ہی کچھ نہیں.برتر ہے.یہ مطلب تو نہیں کہ یہ محبتیں مٹ جاتی ہیں بلکہ

Page 476

خطاب ۲۷ جولائی ۱۹۹۶ء حضرت خلیفہ صیح الرابع' کے مستورات سے خطابات جب خدا کی محبت ان دوسری محبتوں کے ساتھ ایک ہم آہنگی اختیار کر جاتی ہے تو پھر یہ دوسری عام محبتیں پہلے سے بڑھ کر دل میں پیدا ہوتی ہیں اور ہم نے دل سے محبت کی ، انسان سے محبت کی جو ایک طبعی تمنا دل میں رکھی گئی ہے اس کے گلے پر چھری نہیں پھیرنی پڑتی.یہ وہم دل سے نکال دیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بڑھ کر خدا سے کس نے محبت کرنی تھی یا کون کر سکتا ہے لیکن آپ سے بڑھ کر اپنی ازواج مطہرات سے جو پیار دینے والا میں نے تو کبھی کوئی نہیں سنا.ایسی شفقت، ایسی رحمت، اپنی اولاد سے ایسا پیار ، اپنی فوت شدہ بیوی سے ایسا پیار ، جس کے ذکر پر آپ کی آنکھیں آبدیدہ ہو جاتیں.ایک خاتون کو آپ نے دیکھا جن کی شکل حضرت خدیجہ سے ملتی تھی بے اختیار محبت سے کھڑے ہو گئے ہیں خدیجہ! یعنی خدیجہ کی یاد کیسی صورت میں میرے سامنے آئی ہے.تو کیا آپ کو خدا سے محبت نہیں تھی؟ سب محبت کرنے والوں سے بڑھ کر آپ کو خدا سے محبت تھی مگر اُس محبت نے پھر آپ کے دل کو واپس لوٹایا ہے اپنے رنگ دے کر.اس لئے خدا بھی تو بنی نوع انسان سے محبت کرتا ہے اس لئے خدا بھی تو ہمیں یہی تعلیم دیتا ہے کہ اقرباء کا خیال رکھو، جو عزیز ہیں ان سے پیار کرو، اپنے بچوں کا حق ادا کر واپنے ماں باپ کے ساتھ حسن و احسان کا سلوک کروان پر اپنے رحمت کے پر جھکا دو.یہ محبت نہیں تو اور کیا ہے؟ تو اس مضمون کو غلط نہ سمجھیں.جب میں امریکہ سے واپس آیا تو کسی نے مجھ سے فون پر سوال کیا کہ آپ نے تو بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے.اب ہر دوسری محبت مٹانی پڑے گی.میں نے کہا نہیں مٹانی نہیں پڑے گی.خدا کی محبت کے تابع کرنی ہوگی.اگر تم خدا کی محبت کے تابع کر دوگی، ایک خاتون تھیں جنہوں نے یہ سوال کیا ، اگر تم خدا کی محبت کے تابع کر دو گی تو یہ محبت مٹے گی نہیں پہلے سے بھی بڑھ جائے گی کیونکہ اللہ سے بڑھ کر اس کی مخلوق سے کوئی محبت نہیں کرتا.پھر تم اللہ کی آنکھ سے بنی نوع انسان سے محبت کرو گی.اس محبت میں ایک تقدس پیدا ہو جائے گا اس میں ایک عظمت پیدا ہو جائے گی اس میں ایک ہمیشگی داخل ہو جائے گی جو پھر مٹ نہیں سکتی.پس سب سے زیادہ وفا دار نبی ہوا کرتے ہیں.اُن سے بڑھ کر وفا کا کوئی تصور ہی ممکن نہیں اور وہ وفا وہ اپنے رب سے سیکھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ کے حضور عرض کرتے ہیں کہ جو وفا ہم نے تجھ میں دیکھی ہے کبھی بنی نوع انسان میں ایسی وفا دکھائی نہیں دی.اور پھر آپ فرماتے ہیں میں سوتا ہوں تو مجھے وہ دیکھ رہا ہوتا ہے، جاگ رہا ہوتا ہوںتو دیکھ رہا ہوتا ہے ہر وہ شخص جو اس سے پیار

Page 477

حضرت خلیفتہ آس الرابع کے مستورات سے خطابات ۴۷۳ خطاب ۲۷ جولائی ۱۹۹۶ء کرتا ہے اس پر وہ ہمیشہ کے لئے نگران بن جاتا ہے.اگر ، ماؤں کا بس ہوتا تو وہ ساری ساری رات جاگ کر اپنے بچوں کا دھیان رکھتیں کہ ہر سانس ٹھیک آبھی رہی ہے کہ نہیں کیونکہ بے اختیاری ہے انسان میں طاقت ہی نہیں ہے کہ صحیح وفا کر سکے.محبت کے دعوے تو ہیں مگر محبت کے تقاضے پورے نہیں کر سکتا اس کی بے اختیاری کی حالت ہے.اللہ تو کر سکتا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ مضمون بیان فرمایا.اس میں بہت ہی عظیم بات ہے اب کیونکہ وقت تھوڑا تھا اس لئے میں نے سوچا کہ ایک ایک شعر کا حوالہ دے کر ہی میں بات کروں گا.اگر وہ شروع کر دی تو ہو سکتا ہے کہ ایک دو شعروں میں ہی سارا وقت ختم ہو جائے اس لئے میں چند چیدہ چیدہ باتیں میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.سب سے عظیم بات یہ ہے کہ اللہ ہر ایک کے لئے Available ہے.یعنی دنیا میں تو کبھی آپ نے یہ نظارہ نہیں دیکھا کہ کوئی بدصورت ترین منظر بداخلاق کسی بہت ہی خوبصورت سے محبت کرے اور تقاضایہ کرے کہ تم بھی مجھ سے پیار کرو.کبھی دنیا میں دیکھا ہے کسی نے کبھی ایسا ممکن ہے؟ مگر اللہ ایسا کرتا ہے اور صرف وہی ہے جو تمہارے اندرونی نقائص کو بھی دیکھ رہا ہے، بیرونی نقائص کو تو دیکھ ہی رہا ہے اور تمہاری اندرونی بدصورتیوں سے بھی واقف ہے اور بیرونی بدصورتیوں سے بھی واقف ہے.محبت کا ہاتھ بڑھاؤ وہ دس گنا لمبا ہاتھ کر کے تمہارے طرف بڑھے گا یہ الہی محبت کی شان ہے جو انسان کو نصیب نہیں.وہ جو محرومیوں کے شکار بیٹھے ہیں ان کے لئے اس سے بڑھ کر نجات کا اور خوش خبری کا اور کوئی نسخہ نہیں ہے کہ اپنی محبتوں کے رخ پھیر دیں.خدا کی طرف محبت کا ہاتھ بڑھا ئیں تو پھر دیکھیں کہ محبت کا ہاتھ کیسے قبول کیا جاتا ہے.وہ جھکتا ہے کیونکہ ہم اُٹھ نہیں سکتے اور پھر ہمیں لے کر رفتہ رفتہ اُٹھتا ہے ہر رفعت پانے والا انسان خدا کی گود میں اٹھتا ہے.یہ وہ مضمون ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا: سُبْحَنَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا (بنی اسرائیل :۲) یہاں بھی سبحان کا وہ مضمون ہے پاک ہے وہ اللہ دیکھو کس طرح اپنے محد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے پیار کی گود میں لے کر چلا ہے.اپنی طرف جارہا ہے یعنی ایک رفعت سے بلند تر رفعتوں کی طرف لے جارہا ہے لیکن لے کر چلا ہے.رستے کا کوئی خطرہ ایسا نہیں جہاں خدا کی حفاظت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نہ تھے.ایک لمحہ آپ کی گود میں آگے بڑھے اور یہی وہ مضمون ہے جو ہر

Page 478

حضرت خلیفہ مسح الرائع کے مستورات سے خطابات ۴۷۴ خطاب ۲۷ ؍جولائی ۱۹۹۶ء انسان اپنے ذاتی تجربے سے محسوس کر سکتا ہے یہ نبیوں کے لئے خاص نہیں ہے.اس مضمون کی عظمت اور رفعت جیسے نبیوں پر ظاہر ہوتی ہے میں جانتا ہوں کہ ویسے کسی اور پر نہیں ہوتی اور نبیوں میں بھی سب سے بڑھ کر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر لیکن ہر انسان سے خدا کا یہ تعلق ہے اور ہر انسان کے لئے خدا جھک جاتا ہے.اس سے بڑھ کر پیار کے لائق کون ہوسکتا ہے؟ اور لوگ ہیں جو عمر میں جلا دیتے ہیں بنی نوع انسان کی محبت میں اس کی چاہت میں ، ان کی محرومیوں کے شکار ہو کر اپنا سب کچھ کھو بیٹھتے ہیں اور وہ محبت اگر حاصل بھی ہو جائے تو چند دن کی بات ہے.یا وہ محبت کرنے والا مر جائے گا یا جس سے محبت کی جاتی ہے وہ مرجائے گا.یا اس کو حادثہ پیش آجائے گا یا اس کو حادثہ پیش آ جائے گا.یا دونوں کے پیارے ہاتھ سے دیکھتے دیکھتے نکل جائیں گے.حادثے کا شکار ہوں بچے آنکھوں کے سامنے ہاتھوں سے چلے جاتے ہیں.تو محبت آپ کو کیا دے گی؟ دنیا کی محبت تو بے سکونی کے سوا کچھ نہیں دے سکتی.اگر تعلق بھی ہے، پیار بھی ہے، صحتیں بھی اچھی ہیں، مزاج بھی اچھے ہیں تو ہر روز کی جدائیاں ایک مصیبت ہیں.صبح سے خاوند نکلتا اور بعض دفعہ رات گئے گھر واپس آتا ہے بیوی بے چاری اکیلی گھر بیٹھی رہتی ہے.بچے ہو جائیں تو شاید کچھ دل بہل جائے مگر ہر محبت کے اپنے تقاضے ہیں.ہر انسانی محبت ایسی ہے جو اپنی ذات میں ایک خاص نوعیت رکھتی ہے دوسری محبت اس کا بدل نہیں ہوا کرتی.تو آدمی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اے عورت! تیرا بچہ مرگیا تو کیا تیرا خاوند تو زندہ ہے ، کہے گی تم پاگل ہوگئے ہو، بچہ اور ہے خاوند اور ہے.کسی کا بھائی فوت ہو جائے تو اور تکلیف ہوتی ہے.بیٹا موجود ہو تب بھی بھائی کی تکلیف تو نہیں جاسکتی مگر خدا تعالیٰ کی محبت کے رنگ عجیب ہیں وہ ہر محبت پر غالب ہیں.ہر قسم کی محبت عطا کرتا ہے اور اپنے محبوبوں کو بھی ویسا ہی بنادیتا ہے اس لئے خدا کی محبت کے نتیجے میں بنی نوع انسان کی محبت ہر گز کم نہیں ہوتی بلکہ ایسے رنگ میں بڑھتی ہے کہ اس سے پہلے آپ تصور بھی نہیں کر سکتے.اب میں نے ایک مثال دی تھی ایک بدصورت شخص جس پر کوئی پیار کی نظر ڈال نہیں سکتا.کہیں رشتے کا پیغام دے تو کوئی اس کا جواب نہیں دے گا.جہاں بھی جائے لوگ اگر با اخلاق ہیں تو ہلکے طریقے پر نظریں ایک طرف پھیریں گے اگر بد اخلاق ہیں تو پیٹھ پھیر کر بیٹھ جائیں گے اس کو اور بھی تکلیف پہنچائیں گے لیکن دیکھیں! حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا کیا انداز تھا.آپ نے جب خدا سے محبت کی تھی تو کیا بن کر ابھرے ہیں، کیا بن کر لوٹے ہیں آسمان سے.مدینے کی گلیوں میں ایک

Page 479

حضرت خلیفہ مسح الرابع کے مستورات سے خطابات ۴۷۵ خطاب ۲۷ ؍جولائی ۱۹۹۶ء ایسا شخص بھی تھا جو بدصورتی میں مشہور تھا ، نہایت بھونڈا کہ یہاں تک کوئی انسان ایسا تھا نہیں جو پاس سے گزرتا ہو تو ہنسی چھپانے کے لئے منہ نہ پھیر لیتا ہو، نہایت ہی بھونڈا ، بدزیب اس میں کچھ بھی نہیں تھا.پھر غریب بھی ایسا کہ روز کی روٹی مزدوری سے کمانی پڑتی اور پسینے سے بدن شرا بور، کپڑے گندے، ایک دفعہ اپنی تنہائی کے غم لئے ، اپنی اسی کیفیت کے غم لئے اکیلا کھڑا تھا کہ پیچھے سے دو پیار کے ہاتھ آئے اور آنکھیں موند لیں اور آنکھیں موند کر پوچھا کہ بتا کہ میں کون ہوں؟ اس نے اپنے ہاتھ پھیر نے شروع کئے اس بدن پر جو آکر چمٹا تھا.اپنا بدن اس سے رگڑنا شروع کیا اور بتا تا نہیں تھا.آخر آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پوچھا بتا میں کون ہوں؟ آپ نے کہا کہ آپ کے سوا ہو کون سکتا ہے؟ مجھے غریب سے کون پیار کر سکتا ہے؟ یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ والہ وسلم مجھے اسی وقت پتہ چل گیا تھا کہ یہ آپ ہیں.ہے کوئی اس دنیا میں جو آپ سا با اخلاق ہو.آپ سے زیادہ پیار کرنے والا ہو؟ میں اس لئے چپ تھا کہ میرے نصیب جاگ اٹھیں ہیں آج خوش قسمت وہ میرے دن نصیب آئیں ہیں کہ اللہ کا محبوب مجھے ایسا چمٹا ہوا ہے جیسے میں اس کا محبوب ہوں اور میں چاہتا تھا کہ یہ لمحے لمبے ہو جائیں اور میں ہاتھ پھیر رہا تھا.بظاہر یہ Acting کر رہا تھا کہ پہچانوں تو سہی کہ ہے کون؟ تو دیکھیں کتنی سچی بات ہے کہ خدا بھی اپنے بندوں سے ان کے سب نقائص کے باوجود پیار کرنے کی صفات رکھتا ہے اور جو خدا کے ہو جائیں تو وہ صفات ان کو عطا کرتا ہے وہ پہلے سے بڑھ کر محبت کرنے والے خاوند بن جاتے ہیں، وہ پہلے سے بڑھ کر محبت کرنے والے باپ بن جاتے ہیں، وہ پہلے سے بڑھ کر محبت کرنے والے بھائی ہو جاتے ہیں.کوئی دنیا کا رشتہ ایسا نہیں ، جس میں ان کی محبتیں زیادہ میٹل نہ ہو چکی ہوں، زیادہ پیار کرنے والی اور پیار جذب کرنے والی نہ بن جائیں.یہی وجہ ہے کہ اُن کے مقابل پر جو اُن سے محبت کرتے ہیں اُن کے بھی انداز بدل جاتے ہیں.وہ حلاوت ایمانی والی بات ایسی پیدا ہوتی ہے کہ انسان حیرت اور رشک سے دیکھتا ہے رفعتوں کو اُن آسمانوں کو جو مدینہ کے آسمان تھے، جیسے آسمان نہ پہلے کسی نے دیکھے نہ بعد میں ویسے دکھائی دیئے.جنگ احد کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے متعلق یہ مشہور ہوا کہ گویا نعوذ باللہ من ذالک آپ وفات پاچکے ہیں قتل کر دیئے گئے ہیں.کچھ لوگ تھے جو سراسمیگی کی حالت میں میدان چھوڑ کر دوڑ گئے کچھ ، پہاڑوں پر چڑھ گئے کچھ پتھروں پر بیٹھ گئے.ایسے دماغ ماؤوف ہوئے صدمے کی شدت سے کہ کچھ سمجھ نہیں آتی تھی کہ ہم کریں کیا.کچھ تھے جو مدینے سے سن کر ان میں خواتین بھی تھیں

Page 480

خطاب ۲۷ جولائی ۱۹۹۶ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع سے مستورات سے خطابات دوڑے ہوئے اس میدان کی طرف چلے آرہے تھے کہ پتہ تو کریں کہ کیا ہوا ہے.ان میں ایک عورت بھی تھی ایک ایسی عورت جس کا خاوند اس جنگ میں شہید ہوا، جس کا بھائی اس میں شہید ہوا، جس کے اور بعض اقرباء اسی جنگ احد میں شہید ہو گئے تھے.اس نے جب میدان کی طرف آگے بڑھ رہی تھی کسی آنے والے سے پوچھا، بتاؤ کیا حال ہے؟ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیسے ہیں؟ تو وہ سمجھا کہ اس کو پتہ نہیں اس کا خاوند شہید ہو گیا ہے اس نے کہا بی بی! مجھے بہت دکھ سے بتانا پڑتا ہے کہ تمہارے خاوند شہید ہو گئے ، میرے خاوند کو کون پوچھتا ہے! مجھے بتاؤ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیسے ہیں؟ اس نے سمجھا کہ شاید اس کو یہ پتہ نہیں کہ اس کے بھائی بھی شہید ہو گئے ہیں.بعض عورتوں کو خاوند سے پیار نہیں ہوتا، بھائیوں سے تو ہوتا ہے.اس نے کہا بی بی ! بہت صدمے کی بات ہے تمہارے بھائی بھی شہید ہو گئے.تو بے اختیاری سے پھر اس نے کہا بڑی زیادہ شدت کے ساتھ میں نے کب بھائیوں کا پوچھا ہے مجھے بتاؤ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا.اب اس نے سمجھا کہ ماں کی مامتا ہے جو دراصل اس کو سبق سکھائے گی.اس نے کہا اے بی بی ! تمہارے بیٹے بھی شہید ہو گئے ہیں.اس نے کہا میں بیٹوں کا نہیں پوچھ رہی مجھے بتاؤ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیسے ہیں؟ یہ کہتے کہتے اس کی نظر ایک ایسے گروہ پر پڑی جس کے درمیان آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم چلے آرہے تھے.دوڑتی ہوئی اس طرف گئی اور محبت کی نگاہیں ڈالتے ہوئے اس نے کہا.اے میرے محبوب آقا! تو زندہ ہے تو ہر مصیبت مرگئی تو صحیح سلامت ہے تو ہر غم غائب اور زائل ہو چکا ہے.غموں کی کوئی حقیقت مجھے دکھائی نہیں دیتی.یہ وہ مضمون ہے جو قرآن کریم نے بیان فرمایا کہ اگر تمہیں خدا اور رسول سے اپنے ہر دوسرے رشتے سے زیادہ محبت نہیں ہے تو تمہیں پتہ نہیں کہ ایمان کی حلاوت ہوتی کیا ہے؟ پس محبت سے بڑھ کر طاقتور کوئی تربیت کرنے والا تربیت کر نہیں کر سکتا اور یہ وہ تربیت کدہ ہے جو خود اپنا دیوانہ بنادیتی ہے.ہوش نہیں رہتی انسان کو اور تکلیفیں آسان ہونے لگتی ہیں یہ عجیب بات ہے کہ یہ وہ راہ ہے جو بظاہر بڑی مشکل ہے مگر سب سے آسان ہے، یہ راہ کی مشکلات کو حل کرنے والا جادو بھی محبت ہی ہے.لوگ سمجھتے ہیں بڑی مصیبت میں مبتلا ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی تو ایک موقعہ پر یہ فرمایا یا تحریر ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ انبیاء بڑی مصیبت میں وقت گزار رہے ہیں.ان کو کیا پستہ یہ تو عشق کی دنیا میں بسنے والے لوگ ہیں.جو اپنے زور سے یا زبردستی کے نتیجے میں کچھ بھی خدا کی خاطر نہیں کر رہے وہ تو بے اختیار بندھے ہوئے لوگ ہیں.بے ساختہ اللہ کی محبت ان کو کھینچے چلی جاتی ہے اور اس کے بعد کسی اور

Page 481

حضرت خلیفتہ مسح الرابع کے مستورات سے خطابات ۴۷۷ چیز کو دیکھنا، اس کی پرواہ کرنا ، ان کے بس کی بات نہیں رہتی.خطاب ۲۷ جولائی ۱۹۹۶ء جس کو آپ مصیبت سمجھتے ہیں اگر محبت کے نتیجے میں ہو تو مصیبت نہیں اور محبت کے بغیر ہو تو گلی کا کانٹا بھی ایک مصیبت بن جاتا ہے.ہر وہ کام جو آپ سے کروایا جائے اگر آپ کو پیار نہیں ہے تو دیکھیں کیسی کیسی مصیبت بنتی ہے.اس کو بیگار کہتے ہیں.اگر آپ محنت کرتے ہیں اور زیادہ شوق سے وقت دے کر محنت کرتے ہیں تو کسی محبت کی وجہ سے یا اپنے نفس کی محبت ہے، یا اپنے اہل وعیال کی محبت ہے، اُن کی خاطر آپ کو کچھ مل رہا ہے تو آپ محنت کرتے ہیں لیکن وہی محنت اگر بے گار کے طور پر لی جائے اس کا ایک ایک لمحہ عذاب بن جاتا ہے اور اگر آپ کی دل کی محبت نے آپ کو مجبور کیا ہے کہ آپ محنت کریں تاکہ آپ کا بھلا ہو، آپ کے اہل وعیال کا بھلا ہو تو ایک بات ہے.بعض دفعہ لوگ ہڑتالیں کرتے ہیں کہ ہم سے صرف آٹھ گھنٹے کام لیا جا رہا ہے ہم سے زائد Over Time نہیں دیا جا رہا.انگلستان میں بھی ایسے واقعات ہو چکے ہیں اب Over Time نہ دینا تو ایک احسان لگتا ہے آٹھ گھنٹے سختی کا کام اور پھر اس کے بعد دو گھنٹے اور بھی کام کرو لیکن مطالبے یہ ہور ہے ہیں کہ ہمیں Over Time کیوں نہیں دیا.وجہ یہ ہے کہ Over Time کے پیسے زیادہ ملتے ہیں اور پیسے سے محبت ہے.تو محبت ہر مشکل آسان کر دیتی ہے.دو کوڑی کی محبت بھی مشکل آسان کر دیتی ہے.اللہ کی محبت ہو تو زندگی کے ہر مرض کو آسان کر دیتی ہے.ہر مشکل سے مشکل مرض کے وقت آپ کے ساتھ رہتی ہے اور اس میں کوئی بھی شک نہیں کہ کوئی ماں نہیں جو اپنے بچے کو ہمیشہ گود میں اُٹھائے لئے پھرے مگر خدا کی محبت ایسی ہے کہ گود میں اٹھاتی ہے اور تادم آخر گود میں لئے پھرتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.ابتداء سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے گود میں تیری رہا میں مثل طفلِ شیر خوار ( در مشین اردو صفحه ۱۲۶) یعنی یہ شعر جب فرمایا تو آپ معمور ہو چکے تھے.کہتے ہیں ابتداء سے لے کر آج تک میں نے تو یہی دیکھا ہے کہ تیرے ہی سایہ میں دن کٹ رہے ہیں اور آج بھی میں تیری گود میں اس طرح ہوں جیسے ایک دودھ پیتا بچہ ماں کی گود میں ہوتا ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس محبت کی طرف آپ کو بلایا ہے یہ وہی پیغام ہے جو

Page 482

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۴۷۸ خطاب ۲۷ جولائی ۱۹۹۶ء آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے پاک نمونوں سے ظاہر فرمایا اور اس کو کئی رنگ میں بیان فرمایا اور وہی آواز ہے جو آسمان سے آپ کے دل پر نازل ہوئی پھر اس آیت میں آپ کے سامنے پیش کی گئی.جس کی تلاوت آپ نے سنی.اگر چہ اکثر اس کے ترجمہ سے ناواقف ہیں اس لئے اس اجلاس کی خاطر چنی گئی تھی کہ آپ کو معلوم ہو کہ محبت سے بہتر مربی اور کوئی نہیں اور محبت میں یہ ایک کسوٹی ہے جو ہمیشہ آپ کے سامنے رہنی چاہئے کہ جب خدا کے مقابل پر دوسری محبت غالب آئے تو سمجھ لیں کہ نہ آپ میں ایمان ہے نہ آپ میں توحید ہے اور جب یہ بات پیدا ہوتو فکر کریں اور پھر اس فکر کا علاج کیا ہے؟ جب خدا کے سوا کسی اور میں طاقت نہیں ہے کہ کسی کی نفسیاتی کیفیات کو بدل سکے.تو یہ وہ علاج ہے جو میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پیش فرمایا اور اسی پر میں اس خطاب کو ختم کرتا ہوں.حضرت ابو دردا بیان کرتے ہیں کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا داؤد علیہ السلام یوں دعا مانگا کرتے تھے یعنی اپنے پہلے انبیاء کی وہ باتیں جو خدا کو پسند آئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کوبھی پسند آتی تھیں.اگر چہ محبت کے ہر انداز میں ہر دوسرے سے بڑھ گئے مگر رشک سے اور پیار سے ان کا ذکر کیا کرتے تھے اور اپنی طرف سے اس سے بھی بڑھ کر بات کہہ سکتے تھے.مگر یہ آپ کی شفقت اور رحمت ہے کہ اپنے سے کم درجے انبیاء کی باتوں کو محفوظ کرتے ہیں اور تعریف سے دیکھتے ہیں.جیسے آپ میں سے جو حو صلے والا ہوا گر اپنے سے کم درجہ کے کسی آدمی کی بھی اچھی بات ہو تو اس کی بات اُٹھاتا ہے.کہتا ہے واہ واہ سبحان اللہ ، اس نے بڑی اچھی بات کی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا یہی انداز دکھائی دیتا ہے کسی نے کوئی اچھی بات کی ہو آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم شفقت کی نگاہ ڈال کر کہتے دیکھو کیسی اچھی بات کر گیا.ایک شاعر نے ایک شعر اچھا کہہ دیا.اس کا ذکر کر کے اس کی تعریف فرما دی.پس حضرت داؤد کی تعریف کا یہ مطلب نہیں کہ آپ نے حضرت داؤد سے سیکھا تھا.یہ آپ کے احسان کا طریق ہے.باقی انبیاء کے ذکر کو بھی اپنے ذکر کے ساتھ زندہ کرنا چاہتے ہیں تا کہ امت ہمیشہ ان کو بھی دعاؤں میں یادر کھے.ان کے احسان کا بھی خیال کرے.یعنی وہ دعا جو آپ نے بیان کی وہ یہ تھی اس کے عربی الفاظ ہیں.اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ اے اللہ میں تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں.اگر خاتون ہوئیں تو کہیں گی اے اللہ !

Page 483

حضرت خلیلہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۴۷۹ خطاب ۲۷ ؍جولائی ۱۹۹۶ء میں تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتی ہوں.وَحُبَّ مَن یحبک اور اس کی محبت کا جو تجھ سے محبت کرتا ہے.یعنی انبیاء اور وہ لوگ جو سچے دل سے خدا سے محبت کرتے ہیں.اے خدا ہمارے دل میں ان کی محبت بھی ڈال دے.وَالْعَمَلَ الَّذِي يُبَلِّغُنِي حُبَّكَ اور اس عمل کی محبت بھی ہمارے دل میں پیدا کر دے جو تیری محبت پیدا کرنے والا عمل ہے.ہر وہ کام ، جس کے نتیجے میں تیری محبت پیدا ہوتی ہو اور اُن کاموں میں سے بنی نوع انسان کی خدمت، ایک دکھیا کا دکھ دور کرنا، ایک مصیبت زدہ کی مصیبت کو ٹالنا ، اپنی خوشیوں میں کسی کو شریک کرنا، یہ سارے وہ کام ہیں جو اللہ کی محبت پیدا کرتے ہیں.اس کی تفصیل بیان کرنے کے بجائے آپ نے فرمایا! کہ وہ یہ بھی دعا کیا کرتے تھے.اس عمل کی محبت میرے دل میں ڈال دے جو عمل تیری محبت پیدا کرتا ہے.اور سب سے آخر پر یہ وَ اجْعَلُ حُبَّكَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي وَأَهْلِ اے میرے رب ! اپنی محبت کو مجھے اپنے نفس کی محبت سے زیادہ کر دے.اپنے نفس کی محبت سے بڑھا دے اور اپنے اہل کی محبت سے بھی بڑھا دے یعنی وہ جو قرآن کریم نے مضمون بیان فرمایا ہے یہ اس پر آکر اس دعا کی تان پہنچتی ہے.وَأَهْلِي وَمِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ اور ٹھنڈے پانی سے زیادہ مجھے اپنی محبت عطا کر ٹھنڈے پانی کی بات یہ ہے کہ حقیقت میں کوئی ایسا دل کو لذت نہیں پہنچاتا اور سکون نہیں بخشتا جیسا ٹھنڈا پانی ہے اور جب پیاس کی شدت سے جان ہونٹوں تک پہنچتی ہو تو اس وقت Coka Cola کی ضرورت رہتی ہے نہ کسی جوس کا خیال آتا ہے بلکہ کوئی پیش کرے تو نفرت پیدا ہوتی ہے.ٹھنڈے پانی کی ایک بوند کے لئے جیسا تڑپتا ہے اس کی کوئی اور مثال کسی مشروب کی لذت میں نہیں رہتی.تو فرمایا! کہ جو اپنی جان سے زیادہ گھونٹ پیارے ہو چکے ہوں یا جب جان کی طلب بھی ایک گھونٹ پانی کے سوا کچھ نہ رہی ہو.اس وقت ایک گھونٹ سے زیادہ اپنی محبت تمہارے دل میں پیدا کرے.مرتے ہوئے ، جان بچانے کے لئے ایک پیالہ ہے جوٹھنڈے پانی کا جو آپ کی جان بچا سکتا ہے.اللہ کی محبت ایسے غالب ہو کہ اس وقت بھی اپنی ہاتھوں سے انسان پھینک دے کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں.آپ کہتے ہوں گے کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مقام تو بہت بلند تھا.آپ نے تو اپنے غلاموں کے دل میں بھی یہی بات پیدا کر دی تھی اور حیرت انگیز طریق سے پیدا کر دی تھی.ایک جہاد کے موقع پر کچھ صحابہ قریب قریب زخمی پڑے تھے اور شدت پیاس سے چونکہ بہت

Page 484

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۴۸۰ خطاب ۲۷ جولائی ۱۹۹۶ء گرمی تھی اس زمانے میں یا گرمی کی شدت دن کے وقت ہو جاتی ہے عرب میں ویسے ہی مگر وہ زمانہ بھی گرمی کا تھا اور زخمی کی پیاس بہت بھڑک اُٹھتی ہے.ایک پانی پلانے والا آیا.ایک زخمی کی طرف گیا اس نے کہا یہ پانی پیو.اپنے ساتھی بھائی پر نظر پڑی وہ بھی زخمی تھا تڑپ رہا تھا اور پیاس کی شدت سے وہ بے قرار تھا اس نے اس پر نظر کی اور کہا پہلے اس کو پلاؤ وہ اس کی طرف گیا.اس نے ایک اور کی طرف اشارہ کر دیا پہلے اس کو پلاؤ.جب اس تک پہنچا تو وہ مر چکا تھا.اب یہ عجیب روایت ہے کہ جب وہ واپس لوٹتا ہے تو اُن میں سے ہر ایک مر چکا تھا اور ایک ایک بوند کو ترستا ہوا مر چکا تھا.لیکن اللہ کی محبت کے نتیجے میں اس نے بنی نوع انسان سے محبت کر کے دکھائی تو جب میں نے آپ سے کہا کہ یہ خدا سے محبت کریں گے تو آپ کے دل بنی نوع انسان سے محبت کو نقصان نہیں پہنچے گا، یہ وہم ہے یہ محض ایک جھوٹا خیال ہے.آپ کو اپنے بھائیوں، اپنی بہنوں، اپنی بیویوں ، اپنے خاوندوں ، اپنے عزیزوں ، اپنے پیاروں سے محبت کا سلیقہ خدا کی محبت سکھائے گی.پہلے سے بڑھ بڑھ کر اس کی چاہتیں آپ کے دل میں پیدا ہوں گی.پس اللہ تو آپ کو عظمتوں کی طرف بلا رہا ہے ، رفعتوں کی طرف بلا رہا ہے اور اسی میں آپ کی اور آپ کے بچوں کی بقاء کا راز ہے اگر آپ نے اس کو نہ سمجھا اور خدا کی محبت کو اوڑھنا اور بچھونا نہ بنایا اگر اس کے حصار میں آپ نہ آگئیں تو دنیا کے کسی ملک میں بھی ہوں آپ اور آپ کی نسلیں شیطان کے حملوں سے محفوظ نہیں رہ سکتیں.ایک ہی وہ راہ ہے اور وہ خدا کی محبت کی راہ ہے ایک ہی خلا ہے جو خدا کی محبت کا خلا ہے.آپ کو ہر غم اور ہر فکر اور پھر غیر اللہ کے گزند سے اس کے نقصان سے بچا سکتا ہے.اس کی پناہ میں آجائیں.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.یہ ایک ہی راہ میں نے سوچی اور پائی اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کے سوا تربیت کا اور اگلی نسلوں کی خصوصیت سے تربیت کا حق ہم ادا نہیں کر سکتے.آیئے ہم دعا کر لیں.

Page 485

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۸۱ خطاب ۲۴ را گست ۱۹۹۶ء محبت الہی کے ذریعہ تربیت (جلسہ سالانہ مستورات جرمنی سے خطاب فرموده ۲۴ اگست ۱۹۹۶ء) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا تُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلهِ وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُوا اِذْيَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا b ( سورة البقرة: ۱۶۶ ) وَانَّ اللهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ اس آیت کریمہ کا ترجمہ جوابھی میں نے تلاوت کی ہے یہ ہے: لوگوں میں سے ایسے بھی ہیں جو اللہ کے سوا اس کا ہمسر بنا لیتے ہیں.تُحِبُّونَهُمْ كَحُبِ اللهِ وہ ان سے محبت کرتے ہیں جیسا اللہ سے محبت کی جانی چاہئیے.وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ اور وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں وہ اللہ سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں.وَلَوْ يَرَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوا وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا اگر وہ دیکھ لیتے کیوں نہیں وہ دیکھتے جانتے یا سمجھتے وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا کہ جب وہ عذاب کو دیکھیں گے تو ان پر یہ حقیقت کھل جائے گی.اَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا کہ قوت تمام تر اللہ کی ہے.اس کا حال میں بھی یہ ترجمہ ممکن ہے کیوں وہ لوگ جو عذاب کو دیکھتے ہیں عذاب کو دیکھنے کے وقت کیوں یہ سمجھتے نہیں کہ تمام طاقت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.وانَّ اللهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ اور اللہ تعالیٰ عذاب دینے میں بہت سخت ہے.گزشتہ جلسہ سالانہ یو.کے پر جو میں نے عورتوں کے جلسہ میں یعنی خواتین کے جلسے میں تقریر کی تھی اس میں خطاب ” محبت الہی تھا اور اس سے پہلے یہی مضمون کینیڈا کے جلسے سے شروع ہو کر

Page 486

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۸۲ خطاب ۲۴ را گست ۱۹۹۶ء امریکہ کے جلسے میں بھی جاری رہا.پھر یو کے کے جلسہ میں بھی ختم نہیں ہوا تھا تو میں نے غالبا وہاں ذکر بھی کیا تھا کہ باقی مضمون میں انشاء اللہ جرمنی کے جلسے پر جاری رکھوں گا.یہ ایک بہت ہی اہم مضمون ہے ، مذہب کی جان ہے، انسانی زندگی کی بقا اس مضمون کو سمجھنے اور اس مضمون کی حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد عشق الہی میں مبتلا ہو جانے میں ہے.یہ مضمون جتنا آسان ہے اتنا مشکل بھی ہے.جتنا اچھا دکھائی دیتا ہے اُتنا ہی لوگ فی الحقیقت اسے نا پسند بھی کرتے ہیں اور یہ عجیب تضاد ہے جس کا دور ہونا بہت ضروری ہے.پس سب سے پہلے تو میں آپ کو اسی تضاد کی طرف متوجہ کرتا ہوں جب بھی آپ سے پوچھا جائے سب سے پیارا کون ہے تو آپ کہیں گے اللہ.اپنے بچوں کو بھی آپ یہی سکھاتی ہیں اور جب ملاقات پر تشریف لاتی ہیں تو بسا اوقات مائیں مجھے خوش کرنے کے لئے اپنے بچوں سے پوچھتی ہیں کہ بتاؤ کون زیادہ پیارا ہے تو سیکھے سکھائے بچے کہتے ہیں کہ اللہ سب سے زیادہ پیارا ہے.تو گویا بچپن ہی سے ہماری گھٹی میں یہ بات بودی جاتی ہے کہ اللہ سب سے پیارا ہے لیکن عملی زندگی میں جب بھی خدا کی محبت کے مقابل پر کوئی دنیا کی محبت آکھڑی ہو اپنے نفس کی محبت آکھڑی ہو ، اپنے عزیزوں اور پیاروں کی محبت آکھڑی ہو، تو دل ہر بار یہی فیصلہ کرتا ہے کہ خدا کے سوا ہر دوسری چیز ہمیں زیادہ پیاری ہے.اور اللہ زبان سے پیارا ہے اور دنیا کی حقیقتیں دل سے پیاری ہیں.یہ وہ تضاد ہے جو شرک کی بدترین قسم ہے اور اس تضاد کو سمجھے بغیر آپ اللہ تعالیٰ کی محبت کی حقیقت کو پانہیں سکتیں.اس تضاد کو سمجھنے کے بعد ہی آپ اس بیماری کا علاج سوچ سکتی ہیں یا کرنے کی طرف متوجہ ہو سکتی ہیں.ورنہ عمر بھر انسان اسی دھوکے میں مبتلا اپنی ساری زندگی دنیا کی محبت میں ضائع کر بیٹھتا ہے اور جب موت کا وقت آتا ہے تو اُس وقت سب محنت کے ساتھ اور سب کوشش اور توجہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی طرف مائل ہونے کے وقت ہاتھ سے نکل چکے ہوتے ہیں.صرف ایک حقیقت سامنے آتی ہے کہ وہ دنیا جس سے ہم نے محبت کی تھی وہ پیارے جو ہمیں بہت عزیز تھے، وہ لوگ جو ہم سے محبت کرتے تھے ہم ان سب کو پیچھے چھوڑ کر جارہے ہیں.ایسی جگہ جارہے ہیں جہاں اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کبھی پھر ان کے منہ دیکھیں گے بھی کہ نہیں.دنیا کی کمائی ہوئی سب چیزیں، دنیا میں محبت سے حاصل کی ہوئی سب جائیدادیں اور دولتیں ، وہ سارے زیورات جوز بینت بنتے ہیں ہر وہ چیز جو وجود کو پیاری ہے، وہ سب چیزیں اسی دنیا میں پیچھے رہ جاتی ہیں اور اس حقیقت کا احساس کہ یہ عارضی چیز یں تھیں اور عارضی چیز سے دل لگانا ایک جھوٹی کہانی ہے.یہ احساس

Page 487

حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۴۸۳ خطاب ۲۴ را گست ۱۹۹۶ء زندگی بھر تو نہیں ہوتا.اس وقت ہوتا ہے جب زندگی ہاتھ سے جارہی ہوتی ہے.پس سب سے پہلے تو یہ سوچنے کی بات ہے کہ کیا زندگی میں اس شعور کو پیدا کرنے کا کبھی کوئی موقع آپ کو میسر آئے گا کہ نہیں.آئے گا تو کیسے آئے گا اور اگر یہ حقیقت ہے کہ خدا کے سوا ہر دوسری چیز ہمارے دل کی چاہت ہے.ہمارے دل کی تمناؤں کا مرکز ہے.تو پھر خدا سے محبت کیسے پیدا ہوگی.کیا انسان ہمیشہ اس جھوٹی زندگی میں ہی اپنی جان گنوا بیٹھے گا کہ منہ سے کہتا رہے کہ اللہ سب سے پیارا ہے اور دل آواز میں دیتا رہے کہ اللہ کے سوا ہر دوسری چیز پیاری ہے.پس اس حقیقت کو اپنے روزمرہ کے تجربے میں پرکھ کر دیکھیں اور بیدار تو ہوں ، غور کر کے اپنے نفس کا جائزہ تو لیں آپ کون ہیں اور کس سے پیار کرتے ہیں.جب بھی آپ اپنے بچوں کو دیکھتی ہیں ، ان کے لئے دل میں بے انتہا محبت کا جذ بہ پھوٹتا ہے یعنی اکثر ماؤں کے دلوں میں سوائے ان ماؤں کے جن کے دل بعض دفعہ بچوں کے لئے بھی سخت ہو چکے ہوتے ہیں.اپنے پیاروں سے ملتی ہیں دل میں بے اختیار جذ بہ اُٹھتا ہے اور اپنے پیاروں کی طرف جانے اور ان کی صحبت میں بیٹھنے کی تمنا ایک طبعی حقیقت ہے.اگر وہ نہ بھی ہوں تو ان کا ذکر پیارا لگتا ہے.جیسا کہ ایک شاعر نے کہا ہے:.تم میرے پاس ہوتے ہو گویا جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا جب اپنے پاس کوئی اپنا محبوب نہ بھی ہو.اس کا ذکر دل میں جاگزیں ہو جاتا ہے.اسکی یاد دل میں جگہ لے لیتی ہے اور اسکے ذریعے ہی انسان اپنا دل بہلاتا ہے.لیکن کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ جب کوئی نہ ہو تو خدا ہو.جب کوئی نہ ہو تو خدا کی یاد دل کو ستائے اور اسکی تمنا دل میں تڑپے اور اس سے پیار کی باتیں کی جائیں.اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر ایک بہت بڑا خلا ہے جو آپ کے دل میں ہے.آپ کی ساری زندگی ایک خلا کے سوا اور کچھ نہیں.جس سے پیار ہو اس کی صحبت میں انسان جانا چاہتا ہے بیٹھنا چاہتا ہے.اس سے تنہائی میں باتیں کرنا چاہتا ہے اور پیار اور تنہائی کا ایک گہرا تعلق ہے.لیکن جب انسان مثلاً جلسے کے دنوں میں اپنے دوستوں ، عزیزوں اور اقارب سے ملتا ہے تو بسا اوقات رات کا اکثر حصہ جاگ کر گزار دیتا ہے.اور مجلسیں لگتی ہیں اور دل خوش ہوتے ہیں کہ شکر ہے اللہ کا بڑے دنوں کے بعد یہ پیارے دن ہے آئے جب ہمارے عزیز ، محبت کرنے والے جن سے ہمیں محبت تھی دور دور سے سفر کر کے آئے اور جب خدا

Page 488

حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۴۸۴ خطاب ۲۴ را گست ۱۹۹۶ء کی یاد کا وقت آتا ہے تو اس وقت انسان سو جاتا ہے.تھکا ہارا، ساری رات کا باتیں کر کر کے ٹوٹا ہوا بدن لے کر آخر وہ آرام سے سو جاتا ہے اور اس کو علم نہیں کہ قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ تہجد کے وقت کی تلاوت اور تہجد کے وقت کی اللہ کی یاد ایک امر مشہود ہے.یعنی یہ وہ وقت ہے جب خدا انتظار کرتا ہے کہ میرے بندے مجھ سے پیار کرنے والے اُٹھیں گے اور میرے ذکر کے لئے باقی سب سے الگ ہو جائیں گے.وہ ایسے اٹھیں گے کہ اپنی بیویوں کو بھی پتہ نہیں چلنے دیں گے.خاموشی سے اپنے بستروں سے الگ ہو جائیں گے اور بیویاں بھی اس طرح اٹھ کر ایک الگ گوشہ سنبھالیں گی جہاں اُن کے خاوندان کی آوازیں نہیں سکتے.بچے ماں باپ سے الگ کونوں میں گھسیں گے اور کوئی جگہ سجدے کے لئے تلاش کریں گے.یہ وہ وقت ہے جس کو قرآن کریم مشہوداً فرماتا ہے.اَقِمِ الصَّلوةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ اِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا ( بنی اسرائیل : ۷۹ ) یعنی اس وقت فرشتے بھی انتظار کرتے ہیں اور اللہ بھی اپنے پیاروں کا انتظار کرتا ہے کہ وہ مجھ سے محبت اور پیار کی باتیں کریں.لیکن یہ وقت انسان اکثر نیند کی حالت میں بسر کر دیتا ہے.تو یہ دل کی گواہی ہے یہ حقیقت کی گواہی ہے.اس کے سوا سب باتیں فرضی باتیں ہیں.پس جب اس حالت میں آپ خدا سے تعلق باندھیں اور جب مصیبت پڑے تو خدا کی طرف دوڑ میں تو پھر آپ کا شکوہ کیا حق رکھتا ہے کہ ہم نے تو بہت دعائیں کیں اللہ جواب ہی نہیں دیتا.ہمارا بچہ بہار تھا، ساری رات اس کے حضور روئے لیکن اُس نے بات نہ سنی.ہماری ماں سکتے سسکتے مرگئی لیکن خدا نے ہماری کوئی بات نہ سنی.کیسا خدا ہے جب ہمیں ضرورت پڑتی ہے ہماری بات کا جواب نہیں دیتا.یہ حقیقت خوب اچھی طرح اپنے ذہن نشین کر لیں اور اس بات کو سمجھ لیں کہ وہ تعلق جو آپ خدا سے باندھنا چاہتے ہیں مرد ہوں یا عورتیں وہ تعلق فی الحقیقت آقا اور غلام کا تعلق ہے.خدا کو نوکر بنا کر رکھنے کی جو بد عادت انسانوں کو ہے یہ اُس وقت تنگی ہوتی ہے اس وقت کھل کر سامنے آتی ہے جب آپ آوازیں دیتے ہیں اور آگے سے جواب نہیں ملتا.کبھی آپ نے غور کیا کہ نوکر کا مقام کیا ہے نوکر کا مقام یہ ہے کہ جب آپ اپنی مجلسوں میں مصروف ہوں، اپنی پیار کی باتوں میں ہوں تو نوکر پرے ہٹ جائے اور اس کے وجود کا احساس تک آپ کو نہ ستائے.آپ کی خلوتوں میں نوکر کا تصور بھی دخل نہ دے.لیکن جب ضرورت پیش آئے تو آپ کی ایک آواز پر لبیک کہتا ہوا کہیں سے دوڑتا ہوا آ جائے.کیا امر واقعہ یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق میں بندے عموماً یہی سلوک کرتے ہیں.جب اپنے اچھے دن

Page 489

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۸۵ خطاب ۲۴ را گست ۱۹۹۶ء ہوں تو گویا خدا کے بُرے دن آجاتے ہیں.جب اپنی آسائش کے وقت ہوں تو اللہ تعالیٰ کو ان مجلسوں میں دخل دینے کا موقع ہی نہیں ملتا نہ اجازت دی جاتی ہے.جب تکلیف کا موقع ہو، ضرورت کا موقع ہوتو پھر آوازیں دیتے ہیں کہ اے خدا ہماری مددکو اور اگر نہ آئے تو ناراضگی دلوں میں پیدا ہوتی ہے.کئی ایسے ہیں جنہوں نے مجھے لکھا کہ ہمارا بچہ چونکہ فلاں وقت امتحان میں ناکام رہا.اُس نے دعائیں کیں پھر نا کام رہا.پھر دعائیں کیں پھر ناکام رہاوہ دہر یہ ہو گیا.وہ کہتا ہے کوئی خدا نہیں ہے.اگر خدا ہوتا تو میری بات کیوں نہ سُنتا کیوں نہ میری بات کا جواب دیتا جبکہ میں نے بڑی گریہ وزاری سے، بڑی منت سے اس سے کوئی چیز مانگی تھی.لیکن اس کو یہ خیال نہیں آتا کہ وہ دہریہ پہلے ہی تھا.دہریت کی حقیقت کا اب اُسے علم ہوا ہے.جب اُس کے اچھے دن تھے، اس نے خدا کو اپنی زندگی سے نکال باہر کیا ہوا تھا.اور خدا کی باتوں کا کوئی جواب نہیں دیتا تھا.تو جب مشکل کے دن آئے تو اس پر یہ حقیقت کھلی ہے کہ میرا دل پہلے بھی خدا سے خالی تھا اب بھی خدا سے خالی ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ سے غلام اور آقا کا تعلق اس طرح رکھا جاتا ہے کہ آپ غلام ہوں اور اللہ آقا ہو.نہ کہ خدا غلام بنے اور آپ آقا ہو جائیں.پس سب سے پہلے اپنے نفس کی حقیقت کو خوب اچھی طرح جانچ کر پہچاننا ضروری ہے.اس کے بغیر انسان عرفان کا کوئی سفر بھی اختیار نہیں کر سکتا.ہر شخص اپنے دل کو ٹولے، ہر عورت اپنے دل کو ٹولے، اپنی محبتوں کے مراکز کی تلاش کریں، کہاں کہاں ہیں.کون کون ہیں جو اُ سے محبوب ہیں، کون کون ہیں جو اسکی محبتوں سے دور ہیں.جن سے محبت ہے ان سے کیا دل چاہتا ہے.کیسا کیسا قرب نصیب ہو.اور جب ہر عورت اپنے علم اور اپنے دماغ اور اپنے قلب کی توفیق کے مطابق یہ معین کرلے کہ میں کس سے محبت کرتی ہوں کیوں کرتی ہوں.تب خدا پر نظر ڈالے اور دیکھے کہ خدا کا کوئی خانہ اُس کے دل میں تھا کہ نہیں تھا.اگر نہیں تھا تو دہریت کی یہ ایک بڑی ظالمانہ قسم ہے کہ خدا کی حقیقت ایک فرضی دنیا کی حقیقت بنی رہتی ہے.اُس کے سامنے سر جھکتا ہے تو دراصل محض ایک مادی سر ایک بدنی سر جھکتا ہے.روح کا سر نہیں جھکتا.رُوح کا سر اس وقت بھی کسی اور جانب جھکا رہتا ہے.انسان عبادت کرتا ہے بظاہر خدا کی عبادت کرتا ہے.لیکن دل کی آرزوئیں اسے کسی اور طرف کھینچ رہی ہوتی ہیں.عبادت میں جوش اُس وقت آتا ہے.جب خدا کے سوا خدا سے کچھ اور چیزیں مانگی جائیں.اور جب وہ چیزیں مل جائیں یا وہ ہیجان کا وقت گزر جائے تو پھر اللہ نظر سے غائب ہو جاتا ہے.وہ خدا کا بندہ ہے جو بغیر ضرورت کے خدا کے سامنے جھکتا ہے.خدا کا وہ بندہ ہے جب اُسے صرف خدا کی خاطر ، خدا کی

Page 490

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۴۸۶ خطاب ۲۴ را گست ۱۹۹۶ء محبت کی خاطر خدا کا عشق اُسکے دل میں ہیجان برپا کر دے.اور اس کی تلاش میں اُس کی روح نکل کھڑی ہو.یہ وہ مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود نے اپنے اشعار میں اپنی نثر میں بھی خوب کھول کر ہمارے سامنے رکھا اور اس مضمون کو سمجھے بغیر اور خدا کی محبت دل میں جاگزیں کئے بغیر ، حقیقت میں ہم زندہ نہیں ہو سکتے.بسا اوقات ہم زندہ سمجھتے ہوئے دنیا میں حرکت کرتے ہیں، چلتے پھرتے ہیں، مختلف باتوں میں حصہ لیتے ہیں.مگر ایک ویران دل کے ساتھ جو در حقیقت زندگی سے خالی ہوتا ہے.زندگی اللہ کی محبت کا نام ہے.لیکن یہ بات سمجھنے کے بعد اگر تقویٰ کے ساتھ اب اپنا جائزہ لے لیں اور سمجھ لیں کہ فی الحقیقت آپ خدا سے محبت نہیں کرتی یا نہیں کرتے تو سوال یہ پیدا ہوگا کہ پھر کیسے کریں گے.یہ وہ مضمون ہے جس کے متعلق میں جس حد تک توفیق ملے آپ کی رہنمائی کرنا چاہتا ہوں اور آپ کی مدد کرنا چاہتا ہوں که فرضی محبت ایک حقیقی محبت میں تبدیل ہو جائے.سب سے پہلے تو محبت کا تجزیہ ضروری ہے.محبت کیوں ہوتی ہے اور کیا ہوتی ہے؟ محبت تو زبردستی کی چیز ہے ہی نہیں.لاکھ آپ کہیں اس سے محبت کر ولیکن اگر طبعا کسی چیز سے محبت نہ ہو تو اس طرف اشارے کرتے ہوئے یہ کہہ دینا کہ اُس سے محبت کرو، محبت پیدا نہیں کر سکتے ناممکن ہے.محبت میں تو بس ہی کوئی نہیں ، اختیار ہی کوئی نہیں.یہ تو ایسی آگ ہے کہ کہتے ہیں جو لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے.اگر لگانے کی کوشش کریں گے تو لگے گی نہیں، لگ جائے تو بجھائی نہیں جائے گی.پس جب محبت پر انسان کا اختیار نہیں ہے.تو کیسے کی جائے یہ سوال ہے.اب آپ کو میں نے ایک طرح سے خوب سمجھا دیا کہ ہم میں سے اکثر فی الحقیقت خدا کی محبت کا فرضی نام لیتے ہیں.دل اللہ کی محبت سے خالی اور ہر دوسری محبت سے بھرے ہوئے ہیں.جو موازنے کے وقت بات ظاہر ہوتی ہے.جب خدا تعالیٰ کی محبت کے مقابلہ پر کوئی دوسری محبت آکھڑی ہو اس وقت پتہ چلتا ہے کہ فی الحقیقت خدا کے سوا ہم کسی اور سے محبت کیا کرتے تھے.قرآن کریم میں یہی وہ نشانی ہے سچی محبت کی جو ہمارے سامنے بیان فرمائی.فرماتا ہے : وَالَّذِينَ آمَنُوا اَشَدُّ حُبًّا لِلهِ وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں وہ خدا تعالیٰ سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں.اس کی محبت کے سامنے کوئی اور محبت نہیں ٹھہرتی.اس مضمون کو سمجھانا بہت مشکل کام ہے لیکن بہر حال یہ میرے فرائض میں سے ہے بلکہ اس مضمون سے مجھے محبت

Page 491

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات MAL خطاب ۲۴ را گست ۱۹۹۶ء ہے میں اسے سمجھائے بغیر رہ نہیں سکتا اور میں یہ جانتا ہوں کہ ہماری زندگی کا راز اس محبت الہی میں ہے.اگر ہم اس راز کو پالیس تو گویا زندگی کی حقیقت کو پالیں گے.پس سوال یہ ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا کہ زبر دستی کیسے خدا سے محبت کریں.زبر دستی تو ہو نہیں سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود فر ماتے ہیں.بن دیکھے کس طرح کسی مہ رخ پہ آئے دل کیونکر کوئی خیالی صنم سے لگائے دل (در ثمین صفحه ۱۱۱) ایک ایسے محبوب پر دل کیسے آجائے جسے دیکھا کبھی نہیں اور اگر دیکھا نہیں تو گفتگو ہی سہی.پردوں سے ہی گفتگو ہو جائے تو پھر بھی کوئی محبتوں کے امکان پیدا ہوتے ہیں.پس یہ وہ مشکل مسئلہ ہے.جسے میں جہاں تک ممکن ہو آسان کرنے کی کوشش کرتے ہوئے آپ کو سمجھارہا ہوں.کچھ باتیں میں نے گزشتہ جلسوں پر سمجھا ئیں ، کچھ آج سمجھاؤں گا.محبت الہی کی اہمیت کے متعلق پہلے آپ کو ایک حدیث سناتا ہوں.حضرت رسول اللہ سے حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ تین باتیں ہیں جس میں وہ ہوں وہ ایمان کی حلاوت اور مٹھاس کو محسوس کرے گا.ایمان کی حلاوت اس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول باقی تمام چیزوں سے اُسے زیادہ محبوب ہو.دوسرے یہ کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کی خاطر کسی سے محبت کرے اور تیسرے یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے کفر سے نکل آنے کے بعد پھر کفر میں لوٹ جانے کو اتنا نا پسند کرے جیسے اُسے آگ میں پھینکا جارہا ہو.پس پہلی بات رسول اکرم نے یہ سمجھائی وہی جو قرآن کریم نے ایمان کی علامت بتائی تھی کہ اللہ کی محبت ایمان کی نشانی ہے اگر دل محبت سے خالی ہیں تو ظاہر ہے کہ ایمان سے بھی خالی ہیں تو پھر وہ جو قرآن کریم میں وعدے ہیں کہ مومنوں کو یہ ملے گا اور مومنات کو یہ ملے گا وہ سارے وعدے کہاں جائیں گے کیونکہ اگر ہم نے محبت کے ذریعے ہی ایمان کو پرکھنا ہے جیسا کہ قرآن نے واضح طور پر فرمایا اور آنحضرت نے اُسے مزید کھول دیا کہ محبت کے بغیر ایمان بھی کچھ نہیں.اس سے ایمان کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے کہ ایمان ہے کیا ؟ ایمان کی طرف جب ہم جاتے ہیں تو ایک اور مشکل در پیش ہے الَّذِینَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقره:۴) ایمان کی نشانی یہ بتائی کہ وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں تو معمہ یہ معمہ، تعجب پر تعجب ، ایک مسئلہ حل نہیں ہوتا ایک اور مسئلہ سر اُٹھالیتا ہے.حضرت مسیح موعود تو فرماتے ہیں کہ بغیر دیکھے کسی محبوب سے محبت ہو ہی نہیں سکتی.اگر دیکھا نہیں تو سُن تو لو ا سکی آواز ہی سہی.اس سے گفتگو ہی ہو لیکن اللہ تعالیٰ نے تو ایک عجیب نشانی

Page 492

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۴۸۸ خطاب ۲۴ را گست ۱۹۹۶ء بیان فرمائی ہے مومنین کی.پہلا نشان یہ ہے کہ الَّذِينَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرة : ٤ ) کہ وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں تو اگر غیب پر ایمان لانا ہے تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ جیسے لوگ جن بھوتوں کی کہانیوں پر ایمان لے آتے ہیں، پریوں کی کہانیوں پر ایمان لاتے ہیں، اسی طرح گویا اللہ پر ایمان لانا ہے.اگر ایمان کی یہی حقیقت ہے اور غیب کا وہی معنی ہے جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے تو پھر تو یہ محبت سب فرضی قصے ہیں اور ایمان کی بھی کوئی حقیقت باقی نہیں رہتی.اس لئے لفظ غیب پر ایمان لانے کو سمجھیں گی تو بات آگے چلے گی.غیب پر ایمان کیا چیز ہے؟ اس پر اگر آپ غور کریں تو خدا تعالیٰ کی ساری کائنات آپ کے سامنے آکھڑی ہوگی اور اپنے ماضی کی طرف بھی توجہ ہوگی اور اپنے مستقبل کی طرف بھی توجہ ہوگی.اللہ پر ایمان غیب پر ایمان کے بغیر ممکن نہیں ہے کیونکہ اگر آپ اپنے ماضی پر نگاہ ڈالیں تو ازل کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا.اور آپ کی زندگی کے پہلے بھی عدم ہے اور آپ کی زندگی کے معا بعد بھی عدم ہے.اور پہلی عدم جو زندگی سے پہلے کی ہے.یعنی جب آپ دنیا میں نہیں آتے یا نہیں آتیں تو اس پر نظر ڈال کے دیکھیں وہ کچھ بھی نہیں ہے.گویا آپ کے آنے سے ایک جہاں بنتا ہے.آپ کے وجود کے ساتھ ایک پورا جہاں پیدا ہو جاتا ہے اور ہر انسان کا عالم اس کے ساتھ ہی جنم لیتا ہے.اس کے ساتھ ہی وہ پیدا ہوتا ہے.اس کے سوا اگر اس کو نکال دیا جائے تو کچھ بھی باقی نہیں رہتا.تو ایک ایک کر کے اگر آپ ہر وجود کو دنیا سے نکال دیں تو ایک عالم مٹتا چلا جاتا ہے.اس کا ماضی بھی فنا ہو جاتا ہے اس کا حال بھی اسکا مستقبل بھی گویا دُنیا باقی نہیں رہی اور اگر آپ سب کے سب ذی شعور لوگوں کو دنیا سے نکال دیں.فرض کریں اس دور کا تصور کریں جبکہ کوئی ذی شعور باقی نہیں تھا تو کل عالم فنا ہو جائے گا.کچھ بھی باقی نہیں رہے گا.لیکن يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وہ غیب پر اس لئے ایمان لاتے ہیں کہ اس حالت میں صرف خدا ہے جو موجود ہے.اس کے بغیر عالم کا وجود میں رہ ہی نہیں سکتا.کیونکہ عالم کہتے ہی اُس کو ہیں جسکا علم ہو اور اگر انسانی علم کے نتیجہ میں اس کے نہ ہونے کے نتیجہ میں ایک جہان مٹ جاتا ہے.تو سب انسانوں کے مٹ جانے سے سارا جہان ہر پہلو سے مٹ جانا چاہئے مگر پھر بھی باقی رہتا ہے.اگر وہ نہ رہتا تو ہم کہاں سے آتے.تو غیب کا مضمون یہ بتاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی بھی نہیں.اگر ہم نہیں تھے تب بھی خدا تھا.غیب تھا اس وقت بھی کائنات موجود تھی اور غیب کو دیکھنے والا بھی موجود تھا.پس خدا کی از لیست اور ابدیت کے لئے غیب کا تصور ضروری ہے.اور یہ ایمان اتنا یقینی اور قطعی ہے کہ جس کا

Page 493

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۴۸۹ خطاب ۲۴ را گست ۱۹۹۶ء جن بھوتوں کی کہانیوں سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں.جن بھوتوں کی کہانیاں تو فرضی ہیں اور آپ جانتے ہیں اور سب جانتے ہیں کہ محض انسانی فکر کی ایک تخلیق ہے.مگر غیب جس کی طرف خدا بلا رہا ہے جس پر ایمان لانے کی خدا دعوت دے رہا ہے وہ اتنی قطعی حقیقت ہے کہ اس کے مقابل پر وجود کی کوئی حقیقت دکھائی نہیں دیتی.خدا کے سوا ہر چیز غیب ہے اور خدا نہ ہو تو غیب کلیہ غائب ہو جائے.پس غیب کا وجود میں آنا اور وجود میں رہنا جب ہم ماضی پر نظر ڈالیں تو ہمیں دکھائی دینے لگتا ہے.جب ہم نہیں تھے تب بھی تھا.جب جاندار نہیں تھے تب بھی کوئی وجود تھا.جب مادہ نہیں تھا تب بھی کوئی وجود تھا.تو غیب اللہ مستقبل پر سے بھرا پڑا ہے.اللہ کے سوا غیب کچھ نہیں اور غیب ہے تو خدا ضرور ہے.اور جب ہم ماضی اور نگاہ ڈالیں تو یہ حقیقت ہم پر خوب روشن ہو جاتی ہے کہ غیب پر ایمان لانا ہمارے لئے لازم ہے.اور ایک قطعی حقیقت ہے.ایک سائنٹفک حقیقت ہے کہ غیب کی حقیقت کو سمجھیں گے تو پھر خدا کی حقیقت کا احساس، اس کا شعور دلوں میں پیدا ہو گا.غیب کے حوالے کے بغیر خدا کا تصور نہیں باندھا جاسکتا.ایک دفعہ پھر آپ غور کریں.جب آپ نہیں تھیں یعنی میں خواتین سے مخاطب ہوں اس لئے میں خواتین کا حوالہ دے رہا ہوں جب آپ نہیں تھیں تو کل کائنات نہیں تھی.کبھی آپ نے غور کیا اس بات پر ؟ اگر آپ نہ ہوں گی تو گویا کل کائنات غائب ہو جائے گی.باقی ہوں یا نہ ہوں اس سے آپ کو کیا غرض ہے.وہ بچے جو مجھ سے ملنے کے لئے آتے ہیں، کئی دفعہ میں اُن سے پوچھتا ہوں، یہ غیب کا تصور ان کے دماغ میں جاگزیں کرنے کی خاطر کہ تم جب پیدا نہیں ہوئے تھے یا پیدا نہیں ہوئی تھیں تو کیا تھا پیچھے؟ تو حیران ہو جاتے ہیں.کہتے ہیں کچھ بھی نہیں تھا.اور امر واقعہ یہ ہے کہ کچھ بھی نہیں ہوتا.یعنی اب تم نے آنکھیں کھول لی ہیں تو تمہیں پتا تھا.کہ تھا سب کچھ.یہ جہان ہمیں پتہ تھا.لیکن اگر ہم نہ ہوتے تو ہمیں کچھ نہ پتا ہوتا.تو ہمارے ہونے نے ہمیں بتایا کہ غیب ہے اور ہم نہ بھی ہوں تو غیب ہے.غیب کا وجود ہمارے ہونے سے کوئی تعلق نہیں رکھتا.وہ اپنی ذات میں قائم ہے.تو قرآن میں جس کو غیب کہا جاتا ہے اسکا مطلب عدم نہیں ہے بلکہ نظروں سے غائب ہے تصور سے باہر ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اپنی تھوڑی سی زندگی کے اوپر ساری کائنات کو کس طرح منحصر کر دو گے تم تو آج آئے اور کل گزر گئے اور تمہارے آنے کے بعد ایک عالم وجود میں آیا.تمہارے جانے کے بعد وہ عالم غائب ہو گیا.لیکن اس عرصے میں جب تم غور کرو گے تو پھر تمہیں پتا چلے گا کہ تمہارا ہونا تو ایک بہت ہی معمولی ایک نقطے سے بھی کم حیثیت رکھتا ہے.جو نہیں ہے وہ بہت وسیع ہے اور بہت عظیم ہے ، ساری

Page 494

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۴۹۰ خطاب ۲۴ را گست ۱۹۹۶ء کائنات پر پھیلا پڑا ہے.پس غیب پر ایمان لاؤ تو پھر اللہ پر ایمان کی حقیقت دل پر روشن ہوگی.اس پہلو سے آپ کو زمانوں کی طرف جو گزرے ہوئے زمانے ہیں اور ان زمانوں کی طرف بھی جو آنے والے زمانے ہیں خدا دعوت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر تم مجھے پہچاننا چاہتے ہو تو یاد کرو کہ تم بے حقیقت ہو.تمہارے عدم کے ساتھ اس کائنات کا کوئی تعلق نہیں.تمہارے وجود کے ساتھ اس کا ئنات کا کوئی تعلق نہیں.تم تو ایک ذرہ بے حقیقت کی طرح آئے اور گزر گئے.لیکن یہ کائنات جو تمہاری نظر سے غائب تھی اور غائب ہو جائے گی پھر بھی رہے گی.پس اس غیب پر یقین کرو کہ تم پر کوئی بنا نہیں ہے.تمہارے بغیر کا ئنات قائم ہے اور تمہارے بغیر کائنات باقی رہے گی اور اس کو باقی رکھنے والا خدا ہے جس پر تمہیں ایمان لانا لازم ہے کیونکہ اگر اس پر ایمان نہیں لائے تو پھر ساری کائنات ہی کالعدم ہو جانی چاہئے.پر يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ کا جو مضمون ہے یہ ہمیں ایمان کی حقیقت سکھاتا ہے اور جوں جوں آپ غیب پر غور کرتی چلی جائیں اللہ تعالیٰ کا تصور آپ کے دل میں عظیم تر ہو کر ابھرے گا اور ایمان کے ساتھ ہر محبت کا ایک تعلق ہے جو غور کے بعد ظاہر ہوا کرتا ہے اُس سے پہلے نہیں ہوتا.اب ایک اور پہلو سے میں اسی مضمون کو کھولنے کی کوشش کرتا ہوں.کیونکہ جیسا کہ میں عرض کیا ہے کہ مضمون بہت ہی گہرا ہے، باریک ہے ،لطیف ہے اور بسا اوقات چونکہ انسان ان باتوں پر غور نہیں کرتے.اس لئے نئے سرے سے انہیں پڑھانا ایک مشکل کام ہے.لیکن اس مشکل کو بہر حال ادا کرنا ہے.کیونکہ یہ ہماری زندگی اور موت کا مسئلہ ہے.غیب کو سمجھنے کے بعد اب آپکو یہ غور کرنا ہوگا کہ اگر آپ کے دل میں ہمیشگی کی تمنا ہے، اگر آپ چاہتی ہیں کہ آپ ہمیشہ کے لئے ہوں تو یہ کیسے حاصل ہو سکتا ہے.جب تک اس ذات سے تعلق قائم نہ ہو جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی کسی انسان کو ہمیشگی نصیب نہیں ہو سکتی اور ہمیشگی سے انسان کو ایسی محبت ہے کہ جب وہ اپنی ذات سے پیار کرتا ہے تو دراصل ہمیشگی سے پیار کر رہا ہے اور اس نقطے کو وہ سمجھتا ہی نہیں ہے کہ میں کیوں پیار کر رہا ہوں.ایک انسان اپنی عمر بڑھانے کی جو کوشش کرتا ہے.تو یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ عمر جو جبتک رہی ہے میں موجود کا احساس رکھتی ہوں اور میرے ہونے کا احساس، میرے وجود کا احساس اور کائنات کو دیکھنے کا احساس اور شعور کا احساس، ہر قسم کے جو شعور انسان کو نصیب ہوئے ہیں یہ زندگی کی سب سے بڑی لذت ہے.جب انسان مٹ جائے تو پھر بھی باقی رہنا چاہتا ہے اور اس باقی رہنے کی خواہش کے نتیجے

Page 495

حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۴۹۱ خطاب ۲۴ را گست ۱۹۹۶ء میں اولاد پیدا ہوتی ہے اور خدا نے اولاد کے ذریعے انسان کو باقی رکھنے کے سامان پیدا کئے ہیں.اس پر آپ غور کریں تو آپ کو اولاد کی محبت کی حقیقت سمجھ آجائے گی.اولاد سے پیار دراصل اس لئے ہے کہ وہ آپ کا مستقبل ہے.اولاد سے در حقیقت پیار اس لئے ہوتا ہے کہ جب آپ نہیں ہوں تو وہ آپ کی جگہ ہوتی ہے اور آپ کی ذات کو لے کر آگے بڑھتی ہے.تو گویا آپ کی ذات کا وہ دوسرا حصہ ہے.ہزار مائیں یہ کہیں کہ اولاد پہ ہماری جان فدا ہو مگر قرآن کریم فرماتا ہے کہ در حقیقت سب سے زیادہ تمہیں اپنی جان پیاری ہے.اولاد کی محبت ثانوی ہے اپنی محبت کی وجہ سے محبت ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب قیامت کے دن سزا در پیش ہوگی تو مائیں چاہیں گی کہ اپنے بچے کو جہنم میں جھونک کر خود بچ جائیں.دودھ پلانے والی اپنے بچوں کے دودھ چھڑا کر گویا کہ ان کو آگ میں جھونکنا زیادہ پسند کریں گی.بہ نسبت اس کے کہ وہ آگ میں پڑیں.اس انسانی فطرت کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ کہنے کی باتیں ہیں فی الحقیقت اپنا نفس ہی ہے جو پیارا ہے اور نفس کی خاطر انسان بچوں سے پیار کرتا ہے محض اس لئے کہ وہ اُن کے مستقبل کے محافظ ہیں.اس کے مستقبل کے ضامن ہیں.وہ اس کو لے کر آگے بڑھیں گے.اس وقت میں اس بحث کو نہیں چھیڑتا کہ بعض مائیں بچوں پر جان فدا کر بھی دیتی ہیں تو کیوں کرتی ہیں؟ یہ ایک بہت گہر ا مضمون ہے اس کی تفصیل میں اگر میں جاؤں تو جو بات میں چھیٹر بیٹھا ہوں اُس کو اس کے کنارے تک نہیں پہنچا سکوں گا.لیکن میں اس کی حقیقت کو جانتا ہوں اور میں بتا سکتا ہوں، سمجھا سکتا ہوں کہ یہ جو ماں کی قربانی ہے بچے کے لئے اور جان فدا کر دینا یہ بھی ایک نفس کا دھوکا ہے.حقیقت یہ ہے کہ انسان سب سے زیادہ اپنے نفس سے محبت کرتا ہے.اپنے وجود سے محبت کرتا ہے اور جو چیز اس کے وجود کو بقا بخشنے والی ہے اس سے پیار کرتا ہے.جو چیز اُس کے وجود کو وسعت دینے والی ہے اس سے پیار کرتا ہے.یہ پیار کی حقیقتیں ہیں ان میں کبھی کوئی تبدیلی آپ نہیں دیکھیں گی.آپ کو کھانا کیوں اچھا لگتا ہے؟ میٹھا میٹھا کیوں لگتا ہے؟ خوشبو ، خوشبو کیوں لگتی ہے.اس لئے کہ جب سے آپ کو تخلیق کے مراحل سے گزارا گیا.جب سے شعور کی پرورش ہوئی اور ارتقاء شروع ہوا.ہر وہ چیز جو آپ کے بقا کے لئے مفید تھی آپ کو اچھی لگنے لگی اور اچھی پہلے لگی تھی مٹھاس بعد میں پیدا ہوئی ہے.بُری پہلے لگی تھی کرواہٹ بعد میں پیدا ہوئی ہے.اور کیونکہ یہ تربیت کا دور کروڑ ہا سال اربوں سال تک پھیلا ہوا ہے.اس لئے آپ کو احساس نہیں ہوسکتا آپ معلوم نہیں کر سکتیں کہ کیسے مجھے

Page 496

حضرت خلیفہ صیح الرابع ' کے مستورات سے خطابات ۴۹۲ خطاب ۲۴ را گست ۱۹۹۶ء رفتہ رفتہ مٹھاس کا شعور پیدا ہوا تھا.جو چیز کسی کی بقا کے لئے ضروری ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ ساتھ اُس میں ایک نیا شعور عطا فرمانا شروع کیا کہ تمہاری بقا کے لئے ضروری ہے تمہیں اچھی لگتی ہے.اب پانی دیکھ لیں کہ اُس میں مٹھاس تو نہیں ہے لیکن جب پیاس کی شدت سے انسان مر رہا ہوتو ہر میٹھی چیز سے زیادہ پانی اچھا لگتا ہے.جب پیاس کی شدت حد سے زیادہ بڑھ جائے تو شربت سے بھی نفرت ہو جاتی ہے.آپ کا دلپسند کو کا کولا بھی بُرا لگنے لگتا ہے.اس وقت تو دل چاہتا ہے کہ ٹھنڈا پانی ملے اور اس سے میرے دل کی پیاس بجھے.تو وہ چیز جس میں بظاہر لذت نہیں ہے.اس میں بھی بقا کی وجہ سے لذت ہے.اور اس کی لذت کا احساس اُس وقت ہوتا ہے جب آپ موت کے کنارے پر کھڑے ہوں.تو ہر وہ چیز جو آپ کے وجود کو بڑھانے کا موجب بنتی ہے یا قائم رکھنے کا موجب بنتی ہے وہ آپ کو پیاری لگنے لگتی ہے اور اس کا تعلق شعور کے ارتقاء سے ہے.جس کو شعور نہ رہے مثلاً پاگل ہو جائے.اس کو میٹھا دیں یا کڑواد میں اس کو فرق ہی نہیں پڑتا.پاگلوں کو ہم نے دیکھا ہے مٹی بھی کھا رہے ہوتے ہیں اور بد بودار چیزوں پر بھی منہ مار رہے ہوتے ہیں.اور آپ حیران ہوتے ہیں کہ اس کو کیا ہو گیا ہے.یہ نہیں سوچتے کہ آپ بھی تو ایسے ہی ہیں.جن چیزوں کا آپ کو شعور نہ ہو آپ وہاں بھی گندگی پر ہی منہ مارتے ہیں.کیونکہ شعور کے نہ ہونے کے نتیجے میں آپ اچھی چیزوں کو پہچان نہیں سکتے.پس محبت الہی کے مضمون کو سمجھنے کے لئے یہ انسانی تجارب پر غور بہت ضروری ہے.اگر حقیقت میں اللہ تعالیٰ کا عرفان نصیب ہو جائے.اس کی ذات کی عظمت کا دل پر ایک رعب قائم ہو جائے.اور اس سے تعارف ہو.اور پتہ چلے کہ ہماری بقا کا ، ہماری ہر زندگی کے لمحے لمحے کا انحصار اس کی ذات پر ہے.اگر یہ فی الحقیقت یہ سچی بات ہے اور ہے سچی بات تو ہمارے دل میں یونہی یہ بات داخل ہوگی ، جاگزیں ہوگی.طبعا اللہ تعالیٰ سے ہماری محبت بڑھے گی.اس کے بغیر نہیں بڑھ سکتی.اب اس مثال کو جو میں دے رہا ہوں مزید آگے بڑھا تا ہوا بچوں کے پیار کی بات کر رہا تھا.بچے آپ کو دراصل اس لئے پیارے ہیں کیونکہ وہ آپ کا مستقبل ہیں.اور اگر بچے نہ ہوں تو کیسا کیساوہ عورتیں جن کی گود خالی ہو تڑپتی ہیں.حالانکہ اگر بچے آتے ہیں تو مصیبت کے ساتھ آتے ہیں.ان کا پیدا ہونا مصیبت ،نو مہینے ان کو پیٹ میں پالنا مصیبت ، جان کو خطرے میں ڈالنا مصیبت اور پھر ہر وقت اس کا رونا پیٹنا.ذراسی بیماری کے وقت آپ کو مصیبت پڑ جانا.یہ ساری مشکلات ہیں اور یہ آپ قبول

Page 497

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۹۳ خطاب ۲۴ را گست ۱۹۹۶ء کرتی ہیں، کیوں کرتی ہیں؟ اس لئے کہ وہ آپ کے مستقبل کا ضامن ہے.اس کے اندر رہ کر آپ باقی رہتی ہیں.تو اگر آپ یہ غور کریں، غیب کے مضمون پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ کا ماضی بھی خدا کی ذات سے تعلق رکھتا ہے.آپ کا مستقبل بھی اسی کی ذات سے تعلق رکھتا ہے.یہ جو بچے آپکو پیارے لگتے ہیں.ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ان کو چھوڑ دیں گی آپ یا ایسا وقت بھی آسکتا ہے کہ بچے آپکو چھوڑ دیں.تو جس سے پیار بڑھا یا وہ تو وفانہیں کرتا.وہ تو ساتھ رہ نہیں سکتا.لازم ہے کہ ایک دن مائیں بچوں کو چھوڑیں یا بچے ماؤں کو چھوڑ دیں.لازم ہے کہ ماؤں کی زندگی میں بھی ایسا وقت آئے کہ بچے محض فرض کی خاطر ان سے تعلق نبھائیں ورنہ ان کی خواہشات کے رُخ تبدیل ہو چکے ہوں مائیں بوجھ بن گئی ہوں.بیمار ہوں یا ذہنی مریضہ بن چکی ہوں.ہر وقت ان کو سنبھالنا اور بہری ہوگئی ہیں تو اونچی اونچی ان سے باتیں کرنا اور ہر وقت پوچھنا کہ تمہیں کیا کرنا ہے کیا کھانا ہے.بھول جاتی ہیں تو یہ مصیبت کہ ابھی کھانا کھلایا ہے تو پھر ماں آواز دیتی ہے کہ لاؤ کچھ میرے لئے میں نے کھانا نہیں کھایا.ہزار مصیبتیں ہیں جو ماؤں سے جو بہت پیاری ہوتی ہیں ان سے وابستہ ہو جائیں تو پھر بھی آپ فرض نبھاتے چلے جاتے ہیں.لیکن بالآخر آپ کے تمام شعور نے آپ کو چھوڑ دینا ہے، آپ کی سب پیاری چیزوں نے آپ کو چھوڑ دینا ہے.یا آپ نے اپنی پیاری چیزوں کو چھوڑ دینا ہے.پھر آپ نے کہاں جانا ہے وہ جو غیب ہے.یعنی اب آپ کی نظر سے غائب ہے ایک یہ معنی بھی غیب کے ہیں.ایک ایسی دنیا میں آنکھیں کھولنی ہیں جس کا کوئی شعور آپ کو نہیں ہے.آپ کو علم نہیں کہ وہ کیا ہوگی.لیکن اگر آپ باقی رہیں گی تو اپنی سب پیاری چیزوں سے جدا ہو کر ایک اور طرف حرکت کر رہی ہیں اور ہر ایک سے جدائی آپ کے مقدر میں ایسے لکھی ہوئی ہے کہ کوئی دنیا کی طاقت اس کو ٹال نہیں سکتی.لازما ہم نے مرنا ہے، لا زما ہم نے جدا ہو جانا ہے.پس جس غیب سے آئے تھے اُس غیب کی حقیقت کو تو ہم نے ماضی پر نظر ڈال کے معلوم کیا.جس غیب میں ہم جا رہے ہیں اس کی حقیقت قرآن ہمیں بتاتا ہے اور فرماتا ہے کہ وہ ایک ایسا غیب ہے جس میں تم اللہ تعالیٰ کے قریب تر ہو جاؤ گے اور خدا کی طرف سے آئے تھے ، اس بات کو اگر تم نے بھلا دیا تو جب خدا کی طرف جاؤ گے تو ایک اجنبی ذات کی طرف جاؤ گے جس سے تم نے کوئی تعلق قائم نہیں کیا.پس تمہاری جنت جہنم میں تبدیل ہو جائے گی.اور جو عارضی دنیا کی لذتیں تھیں ان کے بدلے تم نے دائمی جہنم اپنے لئے خرید لی.یہ وہ مضمون ہے جس کا غیب کی محبت سے تعلق ہے ایمان بالغیب سے

Page 498

حضرت خلیفہ مسح الرابع کے مستورات سے خطابات ۴۹۴ خطاب ۲۴ را گست ۱۹۹۶ء تعلق ہے اور اسے آپ سمجھیں تو پھر اس کی اہمیت دل میں ظاہر ہوگی اور جب اہمیت دل میں بیٹھے گی تو پھر ایسے طریقے اختیار کئے جاسکتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی محبت کی طرف قدم آگے بڑھیں گے.پس اس بات کو یقین کرلیں کہ مرنے کے بعد ہماری ساری محبتیں ، ہماری ساری چاہتیں اس دنیا میں پیچھے رہ جائیں گی اور دنیا کی زندگی دن بدن جھوٹی دکھائی دینے لگے گی.اتنی تھوڑی دکھائی دینے لگے گی کہ وہ ایک لمحے میں گزرگئی اور جدھر جانا ہے وہ وہی غیب ہے جس کی آپ نے پروا نہیں کی تھی.لیکن بالآخر ادھر ضرور جانا ہے اس سے کیسا تعلق قائم ہے؟ یہ بات ہے جو آپ کی جنت بنائے گی وہ یہی بات ہے جو آپ کی جہنم بنائے گی.اگر اس دنیا میں اللہ تعالیٰ سے قرب کے احساس سے لذت حاصل ہوئی اس کے قرب کے احساس سے لطف آیا تو مرنے کے بعد یہ لطف بڑھ جائیں گے.اگر اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ گھبراہٹ ہوئی کہ چلو یہ نام جلدی گزرے تو ہم دوسری باتوں میں مصروف ہو جائیں اور یاد محض فرضی یاد ہے، حقیقت سے تعلق نہیں رکھتی.تو پھر مرنے کے بعد جس ہستی کی طرف آپ جائیں گی وہ آپ کی محبوب ہستی نہیں ہے.اور اصل لذت جو ہے وہ محبوب کے ملنے کی لذت ہے.جنت اسی کا دوسرا نام ہے کئی دفعہ آپ لوگ یہ غور کریں تو آپ یہ سوچ کر حیران ہوں گے کہ جو دنیا کی لذتیں ہیں ان سے بہت بڑھ کر محبوب کے قرب کی لذت ہے.ہر دوسری لذت اس پر فدا ہو جاتی ہے.مجنوں نے اگر دنیا حج کر دی.سب کچھ قربان کر کے اپنے آرام کو قربان کیا.اپنی جائیداد چھوڑی اپنے وطن سے بے وطن ہوا.صحرائی زندگی بسر کی تو محض لیلی کے محمل کی تلاش میں کہ لیلی کا قافلہ یہاں سے کبھی گزرے گا تو میں بھی دیکھ لوں گا.ایک فرضی بات ہے مگر اتنی بھی فرضی نہیں کہ دنیا میں ہوتی ہی نہ ہو.مجنوں کی کہانی تو فرضی ہے مگر یہ بات فرضی نہیں ہے کہ انسان واقعہ اپنے محبوب کی خاطر دنیا کے ہر آرام کو قربان کر دیا کرتا ہے اصل جنت قرب الہی کی جنت ہے.اگر یہ دنیا میں نصیب ہو جائے تو آخرت میں ضرور نصیب ہوگی.اگر اس دنیا میں آپ اس سے غافل رہیں گی تو آپ کی آخرت خالی ہوگی.بلکہ قرب الہی آپ کو سزا دے گا.آپ کے لئے مصیبت پڑ جائے گی.آپ نے دیکھا نہیں کہ کوئی پیارا شخص اٹھ کر چلا جائے اور ایسا شخص آ جائے جس سے آپ کو الرجی ہو تو کتنی مصیبت پڑتی ہے.چند منٹ بیٹھنا بھی مشکل ہو جاتا ہے.میں نے دیکھا ہے کہ کئی دفعہ کوئی اچھی مجلس لگی ہو، پیاری پیاری باتیں ہورہی ہوں.اچانک

Page 499

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۹۵ خطاب ۲۴ را گست ۱۹۹۶ء ایسا آدمی آ جائے جس سے مزاج نہ ملتا ہو تو لوگ کن اکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں که کب یہ مصیبت ملے گی.کب ہم اپنی پہلی مجلس میں لوٹیں گے اور یہ جو حقیقت ہے یہ انسان اپنے اوپر بھی چسپاں کر سکتا ہے لیکن نہیں کرتا اور یہی بڑی مشکل ہے کہ وہ غفلت کی حالت میں اپنی زندگی ضائع کر بیٹھتا ہے غور کریں کہ کیا خدا بھی کہیں ان لوگوں میں سے نہیں جس سے ہمیں اس دنیا میں الرجی رہی ہے.الرجی ایسی تو نہیں تھی کہ اللہ کے نام کے ساتھ ہی آپ کو چھپا کی نکل آئے.مگر الرجی ایسی ضرور تھی کہ اللہ کا نام جب تک جاری رہا آپ کا دل اپنے دنیا کے محبوبوں میں انکا رہا، اپنے آرام میں انکا رہا، اپنی پیاری چیزوں میں اٹکا رہا.ادھر عبادت ختم ہوئی ادھر آپ دوڑے اپنی محبوب چیزوں کی طرف.تو الرجی اس قسم کی بھی ہوا کرتی ہے کہ انسان زور سے، زبر دستی ، دم گھونٹ کر برداشت کر لیتا ہے لیکن دل کہیں اور انکار ہتا ہے.پس اگر یہی کیفیت ہے تو یا درکھیں کہ ہم نے واپس خدا ہی کی طرف جانا ہے.اور جب اس کے قریب ہوں تو جن کو آج اس دنیا میں خدا کے قرب کا مزہ نہیں آتا.کس مصیبت میں مبتلا ہو جائیں گے اور حقیقت میں جہنم اسی چیز کا دوسرا نام ہے.وہاں چونکہ خدا کے سوا کوئی اور حقیقت نہیں ہے.خدا کا وجود کھل کر روشن ہو کر آپ کے سامنے ظاہر ہوگا.اس وقت جو پیار کی باتیں اس دنیا میں آپ نے خدا سے کی تھیں اگر کی تھیں تو وہ پہلے سے بہت زیادہ لذیذ ہوکر، پرلطف ہو کر آپ کے لئے ابھریں گی اور آپ حیران ہو جائیں گی کہ خدا کی محبت میں میں جو لطف اٹھایا کرتی تھی وہ تو کچھ بھی نہیں تھا.اب جبکہ خدا قریب آیا ہے تو اب سمجھ آئی ہے کہ محبت کا لطف کیا ہوتا ہے.اس کا تجربہ بھی انسان روز مرہ کی زندگی میں کرتا ہے اور کر سکتا ہے کوئی مشکل کام نہیں ہے.کئی دفعہ ایک انسان سے آپ کو پیار ہو لیکن وہ دور کا پیار ہوتا ہے کئی انسان ایسے ہیں کہ جب وہ قریب آتے ہیں تو وہ پیار مٹتا چلا جاتا ہے.کیونکہ ان کے قریب آنے سے ان کی برائیاں بھی اُبھرتی ہیں، ان کی کمزوریاں بھی سامنے آتی ہیں.کئی محبتیں اسی طرح نفرتوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں.کئی شادیاں اسی وجہ سے نا کام ہو جاتی ہیں کہ دور کے باندھے ہوئے تصور میاں کے بیوی کے لئے اور بیوی کے میاں کے لئے جب وہ سامنے آتے ہیں تو وہ تصور رفتہ رفتہ حقیقوں کے سامنے گھلنے لگتے ہیں اور جو حقیقتیں ابھرتی ہیں وہ تلخ ہوتی ہیں.انسان سمجھتا ہے کہ میں نے تو یو نہی عمر گنوائی اس شخص کی خاطر اور اس کو حاصل کرنے کے شوق میں آ کے دیکھا تو کچھ اور ہی نکلا.لیکن اس کے برعکس کچھ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جن کے جتنا قریب جائیں اُتنا ہی اُن سے پیار بڑھتا چلا جاتا ہے.رفتہ رفتہ ان کی حقیقت آپ پر آشکار ہوتی ہے.کئی ایسے بھی لوگ ہوتے

Page 500

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۹۶ خطاب ۲۴ را گست ۱۹۹۶ء ہیں جن سے سفر کا آغا ز مشکل ہوتا ہے کیونکہ ظاہری طور پر ان میں کوئی ایسی کشش کی بات نہیں ہوتی.جو آپ کے دل کو موہ لے لیکن ان کی اعلیٰ صفات ان کا حسن خلق ، ان کا وقار، ان کے دل کی عظمت ، ان کی آپ کے لئے قربانیاں، رفتہ رفتہ آپ کے دل کو اس قوت کے ساتھ اپنی طرف کھینچے لگتی ہیں کہ جو آغاز ایک سرسری سا آغا ز تھا.وہ ایک بہت ہی گہری محبت میں منتج ہو جاتا ہے.اسی مضمون کے متعلق ایک شعر ہے جو میں بارہا آپ کے سامنے پڑھ چکا ہوں اور جتنی دفعہ بھی پڑھیں وہ پرانا نہیں ہو سکتا.یہ مضمون ایسا ہے، جس کا اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے کہ : جب بھی دیکھا ہے تجھے عالم کو دیکھا ہے مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا عجیب انسان ہو، جب بھی تم ملتے ہو ایک نیا عالم ظہور میں آتا ہے.ایک نئی حسن کی باتیں ہیں جن سے پہلے شناسا نہیں تھا.وہ تمہاری ذات میں اُبھرتی ہیں.تو تیری واقفیت کا مرحلہ تو طے ہی نہیں ہوا.تجھے جب ملتا ہے ایک نیا مرحلہ اُبھرتا ہے ایک نیا تشخص اُبھرتا ہے.ایک نئی واقفیت نکلتی ہے.جس شخص نے بھی انسانوں کے متعلق یہ شعر کہا، جھوٹ کہا لیکن خدا کے متعلق اس سے زیادہ سچا شعر نہیں ہو سکتا جب بھی دیکھا ہے تجھے عالم نو دیکھا ہے مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا پس اب شناسائی کا سفر طے کرنے کی طرف آپ کو متوجہ کرتا ہوں.شناسائی کا سفر اختیار کئے بغیر آپ خدا تعالیٰ سے محبت کر ہی نہیں سکتے یا خواتین ہیں تو کر ہی نہیں سکتیں.شناسائی کے سفر کا آغاز در حقیقت سورۃ فاتحہ سے ہوتا ہے.اور سورۃ فاتحہ کے متعلق جو میں بارہا متوجہ کرتا ہوں خواتین کو بھی ، مردوں کو بھی ، اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت سورۃ فاتحہ پر غور کئے بغیر ممکن ہی نہیں ہے سورۃ فاتحہ میں وہ تعارف کروایا گیا.وہ تعارف ایسا ہے کہ انسان اگر اس پر غور کرئے تو خدا پر عاشق ہوئے بغیر رہ نہیں سکتا.ہر انسانی محبت کے تعلقات کا مضمون خدا تعالیٰ کی چار صفات میں بیان فرما دیا گیا.اور اتنے یقینی طور پر اتنے قطعی انداز سے کہ اس میں کوئی شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی.پہلے فرمایا الحمد لله رب العالمین سب تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہے وہ رب العالمین ہے.تمام جہانوں کا رب ہے.اب آپ غور کریں کہ آپ کو دنیا میں جو محبتیں ہوتی ہیں.ان میں بڑا حصہ ربوبیت کی وجہ سے محبت ہے.اگر ربوبیت نہ ہو تو آپ کی محبتیں خام رہ جائیں.ماں سے بچہ کیوں

Page 501

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۹۷ خطاب ۲۴ را گست ۱۹۹۶ء محبت کرتا ہے.اس لئے کہ ماں اس کے لئے ایک عارضی رب بن جاتی ہے.جب وہ بھوکا ہو، تو وہ چیختا ہے تو وہ مائیں جو دودھ پلانے والی ہیں ان کی چھاتیوں میں اس کی پکار سے دودھ اُتر آتا ہے.وہ جب دھ سے خالی ہوں تو بھو کی بھی رہیں گی تو بچے کے لئے دودھ کا کوئی انتظام کریں گی.کیونکہ جب تک بچے کا پیٹ نہ بھرے ان کو چین نصیب نہیں ہوتا.اس کی ہر ضرورت کا خیال، ان کا بعض دفعہ جنون بن جاتا ہے.ہراچھا کپڑا دیکھیں تو بچہ یاد آتا ہے.ہراچھا کھلونا دیکھیں تو بچہ یاد آتا ہے.غرضیکہ بچے کی ربوبیت پر وہ ہمہ تن مگن ہو کر وقف ہو جاتی ہیں.لیکن یہ ربوبیت ایک معمولی سی عارضی سی ربوبیت ہے.جب قحط سالی ہو تو مائیں کچھ نہیں کر سکتیں.جب پانی زمین کی گہرائیوں میں اتر جائے اور وہ تمام علاقہ پانی سے خالی ہو جائے تو ماں کی محبت بچے کیلئے پانی نہیں لاسکتی.حضرت ہاجرہ کے ساتھ کیا ہوا تھا.وہ جب عرب کے لق و دق صحرا میں اپنے بچے کو لے کر اکیلی رہ گئیں اور بچہ پیاس سے ایڑیاں رگڑنے لگا تو کہاں سے انہوں نے پانی ڈھونڈا.تو وہ کبھی ایک پہاڑی کی طرف دوڑتی تھیں کبھی دوسری کی طرف نظر ڈالتی تھیں کہ شاید کوئی قافلہ آجائے تو میرے بچے کو پانی نصیب ہو.مگر نہ ان کی پیاس بجھی نہ بچے کی پیاس بجھ سکی.پانی نکلا تو بچے کی ایڑیوں سے نکالا ،اس کی رگڑ سے نکلا یعنی اللہ تعالیٰ نے مہیا فرمایا.سو ماں کو بچے کی ایڑیوں نے پانی دے دیا.مگر یہ پانی خدا سے آیا اور رب العالمین اسی کو کہتے ہیں.پس مائیں تو جب بھوک کا وقت ہو، آپ بھوکی ہوں تو بچے کو کیا دیں گی.کچھ بھی نہیں کرسکتیں.پس وہی رب ہے جو قدیم سے رب ہے جو ہر ربوبیت کے ماخذ پر فائز اور اس کا مالک ہے.ر ہر ربوبیت کا چشمہ اس سے پھوٹتا ہے.ساری کائنات اس نے بنائی ہے اور ہماری تمام ضرورتوں کا اس نے اس وقت خیال رکھا جب ہم ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے تھے.ماؤں سے تعلق تو نو مہینے کا تعلق تھا جس میں ماں جو کچھ ہمیں دے سکتی تھی دیا.مگر ماں کو وہ کس نے دیا تھا جو اس نے ہمیں دیا.اگر رب العالمین نہ دیتا تو ماں ساری عمر روتی پیٹتی ترستی رہے.اسکے بچہ نہیں ہوسکتا.اس کے رحم میں ایک معمولی سانقص رہ جائے بلکہ بعض دفعہ ڈاکٹروں کو نہ بھی دکھائی دے اگر اللہ عطا نہ کرے تو بچہ نصیب نہیں ہوسکتا.کئی دفعہ مائیں آتی ہیں، یعنی خواتین شادی شدہ کہ چودہ سال ہو گئے ، پندرہ سال ہو گئے ہیں سال ہو گئے اور یہ غم ہمیں کھائے جارہا ہے بچہ نہیں ہے.میں پوچھتا ہوں کئی دفعہ بتاتی ہیں کہ یہ نقص نکلا کئی دفعہ بتاتی ہیں کہ وہ نقص نکلا اور کئی دفعہ کہتی ہیں کہ ڈاکٹروں نے ہر چھان بین کر لی.جتنا زور چل سکتا تھا لگا لیا

Page 502

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۴۹۸ خطاب ۲۴ راگست ۱۹۹۶ء لیکن کوئی بھی نقص نہیں نکلا.نہ میرے رحم کے اندر کوئی نقص نظر آتا ہے نہ میرے خاوند کے اندر کوئی کمزوری، بچہ نہیں ہوتا.تو بہت سے مخفی در مخفی راز ہیں.جن تک ہماری نظر بھی نہیں پہنچتی.مگر وجہ ضرور ہوا کرتی ہے.خدا کے سوا اس کا کسی کو علم نہیں ہے.پس ہمارے لئے جو سب کچھ غائب ہے.اُس کا ایک عالم الغیب والشھادہ ہے.اس عالم الغیب سے تعلق رکھیں گی تو پھر آپ کا غیب شہادت بن جائے گا.جو نظر سے اوجھل ہے وہ نظر کے سامنے آکھڑا ہوگا.یہ وہ پہلو ہیں جن پر غور کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی طرف دھیان سچا اور حقیقی دھیان بن کر پھرتا ہے.پس اسی مضمون کو آپ اور آگے بڑھا کر دیکھ لیں.مائیں آج ربوبیت کر رہی ہیں کل مر جائیں تو پتہ بھی نہیں لگے گا.کس پر چھوڑ جائیں گی بچے کو.یاماں سے بچہ چھین کے کوئی بھاگ جائے تو ان کی ربوبیت کیا کرے گی.ربوبیت کے لئے اختیار بھی ضروری ہے اور خدا تعالیٰ کو اپنی ربوبیت پر کامل اختیار ہے.پس اپنی نظر کو اپنی ماں کی زندگی کے ساتھ محدود نہ کریں اُس سے پرے تو گھما کر دیکھیں.ماں نے بھی جو کچھ پایا وہ رب سے پایا.اور خدا جب اپنی ربوبیت کا سایہ اٹھاتا ہے تو ماں بھی بالکل خالی ہو جاتی ہے اس کی گود سے کچھ بھی آپ کو نصیب نہیں ہوتا.ماں کے رحم سے آپ نے آنکھیں لیں ، ماں کے رحم سے آپ نے کان لئے ، ماں کے رحم سے آپ نے زبانیں لیں ،احساسات لئے ،شعور لیا لیکن اگر اللہ تعالیٰ ماں کے رحم میں ایک باریک سی تبدیلی پیدا کر دے.اتنی باریک سی تبدیلی جواکثر ڈاکٹروں کو بھی دکھائی نہیں دیتی.تو بعض بچے بغیر آنکھوں کے پیدا ہو جاتے ہیں.بعض بغیر کانوں کے پیدا ہو جاتے ہیں، بغیر بولنے کی طاقت کے پیدا ہوتے ہیں.پس وہ جو مائیں آپ کو دیتی ہیں وہ تو امین ہیں وہ تو خود منگتی ہیں.اللہ نے انہیں دیا تو وہ آگے چلاتی ہیں.تو وہ بچے جو ماؤں کی محبت پر آ کر ٹھہر جاتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے اس غیب سے غافل ہو جاتے ہیں.جو ازل سے چل رہا ہے اور ابد تک ٹھہرا رہے گا.پس يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ کا یہ مضمون ہے.یہ نہیں کہ خالی ایمان لے آتے ہیں.غور کرتے ہیں کہ وہ غیب ہے.اور جب غور کرتے ہیں تو غیب حقیقت بن کر آپ کے سامنے ابھرنے لگتا ہے.وہ مزید غیب نہیں رہتا وہ ایک ایسا وجود بن کر آپ کے سامنے ابھرتا ہے جس سے زیادہ قطعی اور یقینی وجود ہوہی نہیں سکتا.پس اللہ تعالیٰ سے اگر محبت کرنی ہے تو اس پر غور تو کریں.اس کی حقیقت سے تعارف تو حاصل کریں.اس کے بغیر آپ کو کیسے محبت ہو جائے گی.پس محبت کے لئے شکر ضروری ہے اور شعور

Page 503

حضرت خلیفہ صیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۴۹۹ خطاب ۲۴ را گست ۱۹۹۶ء ضروری ہے.الحمد لله رب العالمین میں ”حمد“ کا مطلب ہے.ایک مطلب تو ہے سب تعریف اللہ کے لئے ہے اور ایک احمد کا مضمون اظہار تشکر کے لئے سب سے اعلیٰ مضمون ہے.جب آپ بے حد خدا تعالیٰ کے کسی احسان کے نیچے دیتی ہیں تو بے اختیار دل سے نکلتا ہے الحمد للہ رب العالمین وہاں تعریف مراد نہیں ہوتی.وہاں اظہار تشکر ہے.کہ میں خدا کا شکر کیسے ادا کروں.ہر تعریف اسی کی ہے میرے بیان کرنے سے کچھ بڑھ تو نہیں جائے گا مگر میں نے اب محسوس کیا ہے کہ سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے.آپ کا بچہ گم جائے اور اچانک ظاہر ہو جائے ، اچانک مل جائے تو پھر آپ کے دل سے بے اختیار نکلے گا الحمد لله رب العالمین لیکن اللہ گم جائے ،اس کی آپ کو کوئی پروا نہیں ہوتی حالانکہ آپ خدا سے گم جائیں تو اللہ کو پرواہ ہوتی ہے.یہ مضمون بھی ایسا ہے کہ اس پر آپ غور کریں تو خدا کی محبت ایک حقیقت بن کر آپ کے دل میں داخل ہو سکتی ہے اور وہاں پروان چڑھتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مضمون کو یوں بیان فرمایا کہ دیکھو ایک شخص جو صحرا میں، یتے ہوئے صحرا میں ایک ایسی اونٹنی کو درخت سے باندھ کر یا گھٹنے باندھ کر بٹھا دے اور درخت کے سائے تلے آرام کرے.جس اونٹنی پر اُس کا کھانا پینا اس کا سارا ساز وسامان لدا ہوا ہو.درخت کے سائے تلے آرام کر رہا ہو اور یہ اونٹی کسی طرح وہ رسی تڑوا کر بھاگ جائے اور اس کی نظر سے غائب ہو جائے.آنحضور فرماتے ہیں کہ وہ شخص سوچ سکتا ہے کہ اُسے کیسی تکلیف ہوگی.کیسی وہ اونٹنی اس وقت اس کو پیاری لگے گی.کتنا دل چاہے گا کہ کاش نظر مجھے وہ دوبارہ آجائے.فرمایا وہ؟ بندے خدا کے جو خدا سے دور چلے جاتے ہیں.جب وہ واپس خدا کی طرف آتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کو اس سے بھی زیادہ لطف آتا ہے جتنا کھوئی ہوئی اونٹنی والے کو اونٹنی حاصل کرنے کے وقت لطف آتا ہے.فرمایا وہ تڑپتا ہوا بے قرار نظروں سے اوپر کو دیکھ رہا ہو اور شام کے وقت دور سے وہی اونٹنی اس کی طرف آتی ہوئی دکھائی دے تو سوچو کہ اس کا دل کس قدر لذت سے بھر جائے گا.کتنا گہر ا سکون حاصل کرے گا.فرمایا اللہ کو تم سے ایسی ہی محبت ہے.پس خدا تو اتنا پیار کرے کہ جیسے ایک انسان کا سب کچھ کھویا گیا ہو اور اسے واپس مل جائے.اس سے بھی بڑھ کر اپنے کھوئے ہوئے بندے کے واپس آنے پر اس کا دل اس کی محبت سے لبریز ہو جائے اور بندے کی یہ حالت ہو کہ ساری عمر خدا گنوائے رکھا اور پتا بھی نہیں کہ کوئی چیز گم گئی ہے.اس طرح تو محبت کے رشتے نہیں بنا کرتے.ماں کی مثالیں میں دے رہا ہوں کیونکہ عورتیں ماں کی مثالیں زیادہ بجھتی ہیں.ایک گم شدہ بچہ جب واپس آتا ہے تو دیکھیں کیسے کیسے بے اختیار دل

Page 504

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۵۰۰ خطاب ۲۴ را گست ۱۹۹۶ء سے حمد اٹھتی ہے، کیسے کیسے الحمدللہ دل سے نکلتا ہے.لیکن خدا آپ کو بچے سے بھی کم پیارا ہے.بچہ تو آپ سے وفا بھی نہیں کرتا اور بسا اوقات آپ بڑی ہوں تو آپکو پھینک دیتا ہے ایک طرف بعض دفعہ اپنی بیویوں کی محبت میں اپنی ماؤں کی قدریں چھوڑ دیتا ہے.بھلا دیتا ہے.بعض دفعہ مائیں اس پر بوجھ بن جاتی ہیں جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں مگر عجیب بات ہے کہ اس بچے کی خاطر آپ جان فدا کرتی ہیں ،اس کے ڈھونڈنے کے لئے ہمیشہ بے قرار رہتی ہیں.اللہ تعالیٰ کا کوئی خیال دور تک بھی نہیں آتا کہ وہ ہے بھی کہ نہیں.پس غیب ہے وہ اور اس پر ایمان نہیں ہے.یہ وہ غیب کا مضمون ہے جو میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں.اگر غیب پر ایمان ہو تو خدا تعالیٰ کی غیب کی حقیقت بھی آپ کے سامنے رہے گی.اگر غیب پر ایمان نہیں ہوگا تو وہ واقعتہ غائب ہو جائے گا.پس یہ مراد نہیں ہے غیب پر ایمان کی کہ غائب چیز ہے اس سے آپ محبت کرتی ہیں.غیب پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ غیب اتنا یقینی ہے گویا سامنے کھڑا ہے اور اس پر کامل یقین ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے جو قرآن کریم دیتا ہے کہ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ تو نماز میں پڑھتے ہیں ایسے لوگ اور قائم کرتے ہیں نماز کو.اور مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ اس کی خاطر جو کچھ ہم نے دیا ہے وہ آگے خرچ کرتے چلے جاتے ہیں.تو غیب پر ایمان کا یہ مطلب نہیں کہ فرضی کہانی پر ایمان ہے.ایمان کا مطلب ہے کہ اتنا یقینی ایمان ہے کہ غیب آپ کے لئے حقیقت بن گیا آپ کو دکھائی دینے لگا اور وہ چیز میں جو آپ کے ہاتھ میں ہیں اُس غیب کی خاطر آپ قربان کرتی چلی جاتی ہیں.پس اللہ کو اگر سمجھنا ہے تو سورۃ الفاتحہ پر غور کریں اور قرآن کریم پر غور کر کے اس کی صفات حسنہ کا مفہوم سمجھیں اسکا عرفان حاصل کریں الحمد للہ رب العالمین میں اگر آپ غور کریں گی تو آپ کو پتا چلے گا کہ ہر چیز جو آپ کو پیاری ہے اس کا ایک بڑا تعلق ربوبیت سے ہے.اب دنیا میں جو غاضب بنا ہوا ہو.مثلاً ایک مالک ہے جس کے ہاں ایک آدمی ملازم ہے.وہ حسنِ سلوک کرتا ہے اس کے رازق کا ذریعہ ہے.دیکھیں اس کا اس سے طبعا تعلق پیدا ہو جاتا ہے.ایک ایسا شخص ہے جس پر کسی کا انحصار ہے وہ اسکو پیسے دیتا ہے، اس کے لئے خرچ کرتا ہے، اس کی ضرورتیں پوری کرتا ہے.طبعا اس سے ایک محبت پیدا ہو جاتی ہے.ایک فقیر کو اپنے عطا کرنے والے سے پیار ہو جاتا ہے.جب حاصل بھی کر لیتا ہے تو جاتے ہوئے دور سے دعائیں دیتا چلا جاتا ہے.حالانکہ نہ بھی دیں تو فرق نہیں پڑتا.تو رب سے محبت ہوا کرتی ہے.لیکن اگر معلوم ہو کہ رب ہے کون تب محبت ہوتی ہے.اگر خدا سے رزق حاصل

Page 505

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۵۰۱ خطاب ۲۴ را گست ۱۹۹۶ء کر رہی ہوں ، خدا سے لذتیں حاصل کر رہی ہوں، خدا سب کچھ دینے والا ہو، جب تک وہ چیزیں موجود ہوں خدا کا خیال تک دل میں نہ آئے یہ ایمان بالغیب نہیں بلکہ خدا کو غائب کرنے والی بات ہے.اس بات کو سمجھ لیں کہ آپ کی زندگی سے خدا غائب رہتا ہے.اس کو ایمان بالغیب نہیں کہتے.غائب ہونے کے باوجود آپ کو معروف موجودات میں سے سب سے زیادہ موجود وہ ہے اس کا نام ایمان بالغیب ہے اور یہ بھی ممکن ہے اگر جب آپ غور کرنے کی عادت ڈالیں.صبح اٹھتی ہیں تو آپ کی آنکھ کھلتی ہے.آپ کو کیوں خیال نہیں آتا کہ اسی نیند کی حالت میں آپ مر بھی سکتی تھیں اللہ ہی ہے جس نے آپکو دوبارہ زندہ کیا.ہر سانس جو آپ لیتی ہیں یا ہم لیتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے احسانات کا مظہر بن کر آتا ہے.ہر چیز جو ہمیں اچھی لگتی ہے.اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اگر وہ چیز خدا تعالیٰ کی عطا کے بغیر ہو تو وہی چیز جو ا چھی لگتی ہے اس سے نفرت بھی ہو سکتی ہے.صحت کے بغیر کوئی چیز اچھی نہیں لگ سکتی.جتنی مرضی اچھی چیزیں آپ کے گر داکٹھی ہو جا ئیں اگر آپ بیماری کی وجہ سے زندگی کی لذتیں ہی کھو بیٹھیں.ایک درد کے عذاب میں مبتلا ہوں.اس وقت لاکھ آپ کے سامنے اچھی سے اچھی چیزیں پیش کی جائیں.آپ نفرت کے ساتھ ان کو رد کرتی چلی جائیں گی.بلکہ ان کو پیش کیا جائے تو آپ کو اور بھی غصہ آئے گا.جو وہ چیزیں پیش کرے گا اس سے بھی آپ نفرت کریں گی.بعض دفعہ انسان ایسا بیزار ہو جاتا ہے کہ کسی کو بھی دیکھنا نہیں چاہتا.کہتا ہے سب ہٹ جاؤ یہاں سے، کیونکہ میر امزاج نہیں ہے.میرا دل نہیں ہے.مجھے ہر چیز سے نفرت ہوگئی ہے.تو اللہ تعالیٰ اگر اپنے احسانات کے لطف پیدا کرنے کے مواقع چھین لے تو لطف مہیا بھی ہوں تو لطف آنہیں سکتے.وہ ذرائع موجود بھی ہوں تب بھی آپ ان کو محسوس نہیں کر سکتے ، ان کے لطف کو محسوس نہیں کر سکتے.پس رب العالمین کا تصور ہے جو خدا کا پہلا تعارف ہے جس کے بغیر آپ کا قدم خدا کی محبت میں آگے بڑھ نہیں سکتا.پھر یہ نہیں فرمایا کہ صرف تمہارا رب ہے.رب العالمین ہے.سب جہانوں کا رب ہے.تم سے پہلے جتنے بھی پیدا ہوئے جنہوں نے تمہیں پیدا کیا.ان کا بھی وہی رب تھا.تمہارے بعد جتنے آئیں گے ان کا بھی وہی رب ہوگا.اس عالم کا بھی رب ہے اُس عالم کا بھی رب ہے.یہاں جو کچھ تمہیں ملا اُس سے ملا اور مرنے کے بعد بھی جو کچھ ملے گا اُسی سے ملے گا.اگر آپ کو رزق سے محبت ہے، اگر اپنے پالنے والے سے محبت ہے ، اگر ماں سے محبت ہے اگر دنیا کے دوسرے احسان

Page 506

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۵۰۲ خطاب ۲۴ را گست ۱۹۹۶ء کرنے والوں سے محبت ہے.تو اگر خدا سے محبت نہ کی تو یہ ساری محبتیں اس دنیا میں ضائع ہو جائیں گی کیونکہ مرنے کے بعد وہ صرف ایک ہی رہ جائے گا.اُسی سے ربوبیت وابستہ ہو جائے گی.پھر رحمن اور رحیم کا مضمون ہے جو لا متناہی مضمون ہے.میں پہلے بھی اس پر روشنی ڈال چکا ہوں رحمت ایک ایسی چیز ہے جس کے نتیجے میں انسان کو محبت ہوتی ہے.ربوبیت ایک چیز ہے جس سے محبت پیدا ہوتی ہے.دوسرے رحمانیت ہے.اگر ایک رب تو ہو مگر رحمان نہ ہو تو آپ کو اس سے بھی محبت نہیں ہو سکتی.کوئی مالک ہو جس کے ہاں آپ نوکر ہوں.اس کی خدمت کریں اور اس کے بدلے وہ پیسے بھی بہت دے.مگر اگر بدتمیز ہے اور بد خلق ہے تو ساری عمر بھی آپ اس کی نوکری کر کے رزق حاصل کریں آپ کو اس سے محبت نہیں ہو سکتی.بلکہ دل میں نفرت ہی بڑھتی رہے گی اور یہی حال ماں باپ کا بھی ہے.رب تو ہیں ان معنوں میں کہ وہ اپنے بچوں کو پالتے ہیں مگر جہاں بداخلاق ہوں وہاں بچے ان سے محبت نہیں کر سکتے.اسی لئے میں احمدی ماؤں پر زور دیتا ہوں کہ بچوں کے لئے اپنے دلوں میں نہ صرف محبت پیدا کریں بلکہ ان کے دلوں میں اپنے لئے محبت پیدا کرنے کی کوشش کر یں.اگر ان کے دلوں میں آپ کی محبت پیدا نہ ہوئی تو وہ آپ کے ہاتھ سے نکل جائیں گے اور بالآخر دین کے ہاتھ سے بھی نکل جائیں گے.مگر اس مضمون کا تعلق رحمانیت سے ہے.جیسا کہ میں نے ابھی آپ کے سامنے رکھا کہ الحمد لله ربّ العالمين الرحمن الرحیم.خدارت بھی ہے اور رحمن بھی ہے.وہ انفارم کرنے والا ہے کہ اس نے آپ کے تمام ان تقاضوں کو پورا فرمایا جن تقاضوں پر آپ کی نظر بھی کوئی نہیں تھی.بار بار ہم گناہ کرتے ہیں، بار بار ہم خدا سے غافل ہوتے ہیں، بار بار غلطیاں کرتے ہیں.اس کی رحمانیت ہے جو ہماری غلطیوں پر پردے ڈال دیتی ہے اور چشم پوشی فرماتی ہے.پس رحمانیت کا تعلق بھی محبت ہی سے ہے اور اگر رحمانیت نہ ہو تو ربوبیت بھی محبت پیدا نہیں کر سکتی.پس وہ انسان جو رب تو ہو اور رحمن نہ ہو.اس سے بھی پیار نہیں ہوسکتا.پھر رحیمیت وہ چیز ہے جو بار بار رحم کو لے کر آتی ہے.اس کا رحم چھوڑتا ہی نہیں ہے.ہر مشکل کے وقت پھر وہی کام آتا ہے.پھر اُسی کو آپ آواز میں دیتی ہیں اور باوجود اس کے کہ آپ نے اس سے بے وفائی کی ہو پھر بھی وہ اپنا فضل لے کر آجاتا ہے.یہ بار بار آنے والا رحم رحیمیت سے تعلق رکھتا ہے.اور پھر مالک بھی ہے ہر چیز اس کے قبضہ قدرت میں ہے.جب چاہے اپنی دی ہوئی چیزیں واپس لے سکتا ہے کیونکہ وہ مالک ہے.پس اس پہلو سے اگر آپ خدا کی ہستی پر غور کریں گی تو آپ کو

Page 507

حضرت خلیفتہ آس الرابع کے مستورات سے خطابات ۵۰۳ خطاب ۲۴ را گست ۱۹۹۶ء معلوم ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سچ فرماتے ہیں کہ تجھ بن نہیں گزارا ہم نے تو ہر طرف غور کر کے دیکھا تیرے بغیر گزارا ہی کوئی نہیں.یہ ہوہی نہیں سکتا کہ تیرے سوا ہم کسی اور سے محبت کریں کیونکہ ہر محبت عارضی اور فانی اور بے حقیقت ہے اور قدرتوں سے خالی ہے.ایک تو ہی ہے جو محبتوں کے سرچشموں پر قادر ہے.ہر محبت کا سرچشمہ تیرے قبضہ قدرت میں ہے.پس اگر آپ ذکر الہی کی عادت ڈالیں گی تب آپ کو اللہ تعالیٰ سے محبت ہوگی.اگر ذکر الہی کی عادت نہیں ڈالیں گی تو ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ سے آپ کو محبت ہو جائے اور ذکر الہی کی عادت رفتہ رفتہ پڑا کرتی ہے.ایک دم نہیں پڑتی.(یا گرمی زیادہ ہوگئی ہے یا مجھے اچکن کی وجہ سے زیادہ گرمی لگ رہی ہے.مگر اب وقت تھوڑا رہ گیا ہے اس مضمون کو بہر حال میں نے ختم کرنا ہے.) حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ در اصل خدا تعالیٰ کی چوکھٹ پر پہنچنے کا ذریعہ شکر ہی ہے“.شکر کا جب تک جذبہ پیدا نہیں ہوگا.اس وقت تک آپ اللہ تعالیٰ سے محبت کر نہیں سکتے.اللہ تعالیٰ کی چوکھٹ تک آپ کی رسائی ممکن نہیں ہے.لیکن شکر کے وقت انسان کیا کرتا ہے.ثناء کرتا ہے ،تعریف کرتا ہے، اور خاص طور پر ایسا وجود جس کو آپ کچھ دے نہیں سکتے.اس کا شکر ثناء کے سوا ممکن ہی نہیں حضرت مسیح موعود نے اس بار یک نقطے کو اٹھایا ہے.اور امر واقعہ ہے کہ اگر دنیا پہ آپ غور کریں تو وہ سب فقیر جو آپ سے لیتے تو ہیں ، دے کچھ نہیں سکتے وہ جو تعریفیں کرتے ہوئے اور دعائیں دیتے ہوئے گذرتے ہیں تو ان کا اظہار تشکر کا ایک طریق ہے.اس کے سوا ان کو کچھ نصیب نہیں.پس جس عالی شان دربار سے آپ کو کچھ ملتا ہے.آپ واپس کچھ نہیں کر سکتے.اس کے شکر کا حق سوائے تعریف کے اور ممکن نہیں ہے.لیکن حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں.كَيْفَ الوُصُولُ إلى مدارج شكره تثنى عليك وليس حول ثناء ( در متن عربی) کہتے ہیں ہم خدا کا شکر ادا کیسے کریں.ممکن دکھائی نہیں دیتا کیونکہ ثناء کے سوا شکر ممکن نہیں اور ہمیں تو خدا کی ثناء کی بھی طاقت نہیں.دن رات اُسکی تعریفیں کریں تب بھی دل تشنہ ہی رہے گا کیونکہ خدا کی تعریف کا کوئی احاطہ نہیں کر سکتا.یہ جو مضمون ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ، یہ ایک عارف باللہ کا مضمون ہے جو عارف باللہ کے سوا کوئی سمجھ ہی نہیں سکتا.

Page 508

۵۰۴ خطاب ۲۴ را گست ۱۹۹۶ء حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے مستورات سے خطابات امر واقعہ یہ ہے کہ خدا نے جو ہر چیز ہمیں عطا کی ہے.اگر آپ اس پر غور کریں تو اس کی نعمتوں کا احاطہ ایک معمولی سی چیز میں بھی نہیں کر سکتے.اپنی نظر کو دیکھیں ، اپنے احساسات کو دیکھیں.کھانے کی لذت، سونگھنے کی لذت، سننے کی لذت شعور کی لذت ، ان میں سے ایک بھی ایسی چیز نہیں جس پر آپ اعلیٰ درجے کے سائنس دان ہونے کے باوجود بھی اس کا احاطہ کر سکیں آج تک سائنس دان نظر کی حیرت انگیز صناعی کا بھی احاطہ نہیں کر سکے.اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے پیدا کی.آج تک سائنس دان گویائی کا بھی احاطہ نہیں کر سکے.کہ کس طرح انسان میں بیان کی طاقت پیدا ہوئی ہے.اور کس طرح وہ باریک سے باریک مطالب کو بیان کرنے کی طاقت رکھتا ہے.آج تک سائنس دان سننے کی قوت کا بھی احاطہ نہیں کر سکے.اتنا حیرت انگیز نظام ہے کہ اگر آپ غور کریں گی تو آپ حیرت کے سمندر میں ڈوب جائیں گی اور سمجھ نہیں سکیں گی کہ یہ کیا واقعہ ہوا ہے.آپ میری آواز کوشن رہی ہیں اور جو قریب ہیں ان کو قریب سے آواز آرہی ہے جو دور ہیں ان کو دُور سے آواز آرہی ہے.جو دائیں طرف ہیں ان کو بائیں طرف سے آواز آرہی ہے.جو بائیں طرف ہیں ان کو دائیں طرف سے آواز آرہی ہے.معمولی اُونچ نیچ ہو آواز کا آپ اس کو بجھتی ہیں آواز کے ذریعے فاصلے معلوم ہوتے ہیں.ایک بچے کی آواز دُور سے اُٹھ رہی ہو.آپ سب شور میں اس آواز کو سنتی ہیں اور اندازہ کرتی ہیں کہ وہ جگہ ہے جہاں سے اس بچے کی آواز آرہی ہو.اس پردے کے باہر سے جب جہاز گزرے گا تو آپ کو پتا ہوگا کہ فلاں جگہ سے آواز آرہی ہے.یہ جو بار یک فرق ہیں یہ کیسے پیدا ہورہے ہیں یہ وہ مضمون ہے.جس کے اوپر آج تک سائنس دان احاطہ نہیں کر سکے.کیونکہ کان کے پردوں کے اند را تنے باریک اور حساس خلیے ہیں کہ وہ پر دے ایٹم کے ٹوٹنے کی آواز بھی سُن سکتے ہیں اور اس کے باوجود ساری دنیا کی تمام آوازوں کا تجزیہ بیک وقت کر رہے ہیں.اور شور میں سے بھی اپنے مطلب کی آواز نکال لیتے ہیں.فاصلے کا ایسا تعین کرتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.اتو بھی اندھیرے میں پتوں کے نیچے چھپے ہوئے اُس مینڈک پر حملہ کرے گا جو ذرا سا سر کے گایا چوہے پر حملہ کرے گا.جو ذرا سا ہلے گا تو سرسراہٹ پیدا ہوگی.اور رات کے اندھیرے میں محض اپنے کان کی طاقت سے وہ یہ معلوم کرتا ہے کہ کتنے فاصلے پر ہے اور کس جگہ بیٹھا ہوا ہے اور اس کی پرواز بالکل اندھیرے میں آنکھوں کی طاقت کے بغیر بعینہ اس جگہ پہنچتی ہے جہاں وہ چیز چھپی ہوئی ہے اور اس کے پنجے بعینہ اسی جگہ پڑتے ہیں جہاں وہ چیز چھپی ہوئی ہے اور وہ خالی ہاتھ واپس نہیں آتا.ان پنجوں میں وہ مینڈک یا وہ چوہاوہ اس کے قبضے میں

Page 509

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۵۰۵ خطاب ۲۴ را گست ۱۹۹۶ء آجاتا ہے لیکن آواز کی طاقت سے.تو اللہ تعالیٰ اس طرف بھی توجہ فرماتا ہے.اپنی ربوبیت کے بیان میں.فرماتا ہے تم دیکھتے نہیں کہ ماؤں کے پیٹ میں تم تھے کیا تم ایسے تھے کہ تمہیں کوئی ہوش نہیں تھا، تمہیں کوئی شعور نہیں تھا.ہم نے جب انسان کو پیدا کیا فَجَعَلْنَهُ سَمِيعًا بَصِيرًا (الدھر :۳) اچانک ہم نے اُس کو سنے کی طاقت بھی بخشی اور دیکھنے کی طاقت بھی بخشی.پس انسان نعمتوں کا احاطہ کیسے کرے.احاطہ ہی ممکن نہیں.حضرت مسیح موعودؓ فرماتے ہیں کہ جب نعمتوں کا احاطہ ہی ممکن نہیں تو تعریف کیسے ممکن ہوگی.پس شکر کا حق ادا ہو ہی نہیں سکتا مگر جو غور کرتے ہیں ان کو کچھ نہ کچھ تو شکر کی طرف توجہ مائل ہوتی ہے.اس لئے غور ضروری ہے.سب سے پہلا اور سب سے اہم اور آخری سبق یہ ہے کہ اپنی زندگی آنکھیں بند کر کے نہ گزاریں.غور کریں اور شعور کی حالت میں خدا کی تلاش کریں اور اپنے نفس کے حوالے سے سمجھیں کہ آپ پر کتنے بڑے بڑے احسان ہیں.معمولی سی اس کی رحمت کا پردہ اُٹھے تو آپ کی نعمتیں آپ کے ہاتھ سے نکل جاتی ہیں.اب کان کی خرابیاں بھی بے شمار ہیں.جن میں سے ایک خرابی بھی آپ کی سماعت کی راہ میں حائل ہو جاتی ہے.بعض دفعہ آوازیں دوسری طرف سے آنے لگتی ہیں.بعض لوگوں کو یہ بیماری بھی ہو جاتی ہے کہ ادھر سے آواز میں سُن کے جار ہے ہیں، آواز دوسری طرف سے آرہی ہوتی ہے.اور رُخ ہی بدل جاتے ہیں ان کے.اتنی باریک لطافتیں ہیں ان حسوں میں جو خدا نے ہمیں عطا کئے ہیں کہ ان کا احاطہ ہی انسان کے لیے ممکن نہیں.ساری کائنات اور غیب کے مضمون کا احاطہ کیسے کر سکے گا.تو جب تک کسی کے احسانات ، اس کے حسن کے تصور میں نہ ڈھلیں اس وقت تک محبت نہیں ہوسکتی.پس محبت کا اگر پہلا قدم ہی آپ نے نہ اُٹھایا تو ساری عمر یہ کہتے ہوئے کہ ہم خدا سے محبت کرنا چاہتے ہیں خدا سے محبت کریں گے.وقت ضائع کر دیں گی اور کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا.بیدار ہو جائیں ، شعور کی حالت میں خدا کی طرف سفر شروع کریں.اپنے دن رات پر غور کریں.اللہ تعالیٰ کے آپ پر جو احسانات ہیں ان پر غور کریں، اگر غور کریں تو پھر آپ کو محرومی کی حالت میں بھی خدا کے خلاف کوئی جذبہ پیدا نہیں ہوگا.بلکہ اُس کا شکر پیدا ہوگا.ایک آدمی جب اندھا ہو جاتا ہے.اس کے دو قسم کے رد عمل ہیں یا تو یہ کہ وہ رونے پیٹنے لگ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کیوں اندھا کر دیا.اور میں نظر سے محروم ہو گیا.یہ کیسا خدا ہے جو ظالم ہے.اس نے یہ احساس نہیں کیا کہ مجھے اس سے تکلیف ہوتی ہے.لیکن اگرہ وہ بہرہ بھی ہو جائے تو کیا کر سکتا ہے.اگر وہ چکھنے کی لذت سے بھی محروم رہے تو کیا کر سکتا ہے.اگر اس کا کوئی ادنی ساعذر بھی اُس کا ساتھ چھوڑ دے.ایک

Page 510

خطاب ۲۴ را گست ۱۹۹۶ء حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے مستورات سے خطابات گردہ ہی خراب ہو جائے ایک عذاب میں مبتلا ہو جاتا ہے.خدا کے فضلوں کا سایہ اتنا وسیع ہے اور اس کثرت سے ہیں کہ اگر ایک فضل وہ اپنا واپس لے تو اس وقت جو باشعور انسان ہے وہ پہلے سے بڑھ کر خدا کی طرف متوجہ ہوگا اور وہ یہ غور کرے گا کہ او ہو میرا تو سب کچھ خدا ہی کی طرف سے تھا.میں نے ناشکری کی حالت میں زندگی بسر کر دی.حالانکہ میرا حق تھا کہ شعور کی حالت میں اپنے محسن کے ہاتھ کو پہچانوں.پس محسن کا تعارف اس کے حسن کی طرف لے کے جاتا ہے اور حسن کا تعارف محسن کی طرف لے کے جاتا ہے.اسی لئے حضرت مسیح موعود اس مضمون کو مختلف شعروں میں ڈھالتے ہیں.فرماتے ہیں: چشم مست سے ہر حسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خم دار کا ( در شین صفحه : ۱۰) کہ میں تو جب بھی حسن دیکھتا ہوں.میرا دل تیری طرف چلا جاتا ہے.وہ آنکھ جو حسین ہے بعض نظریں اس آنکھ پر جا کر ٹھہر جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں.کہ میں تو جب حسین آنکھ کو دیکھتا ہوں تو اس حسین آنکھ بنانے والے کی طرف میرا ذہن جاتا ہے.اور محض آنکھ پر نظر نہیں ٹھہرتی.جب ایک خوبصورت بالوں کے گچھے کو دیکھتا ہوں.جو کسی کے حسن میں ایک نیا رنگ بھر رہا ہے.تو وہ گچھا مجھے خدا کی طرف اشارہ کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے.پس حسن محسن کی طرف لے جاتا ہے اور احسان اُس کے حسن کی طرف لے کے جاتا ہے.یہ تعلق ہے جس کو قائم کئے بغیر آپ کو اللہ تعالیٰ سے سچی محبت ممکن نہیں ، ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ یہ مضمون بہت وسیع ہے اور سمجھانے میں مجھے دقت پیش آئی تھی کیونکہ میں جانتا ہوں یہاں ہر علم کی خواتین ہیں، ہر مزاج کی خواتین ہیں.باریک اور لطیف باتیں سمجھنا سب کے لئے ممکن نہیں ہے.اس لئے میں نے حتی المقدور کوشش کی ہے.کہ اس بنیادی کچھی کو سلجھا دوں کہ اللہ سے اگر محبت کرنی ہے تو اس پر غور ضروری ہے.اور اللہ پر غور اپنے نفس کے حوالے سے شروع ہوگا.اپنے وجود پر غور کی عادت ڈالیں.اپنے دن رات کے آرام پر غور کریں، جو آپ میوزک میں لطف اٹھا رہی ہیں کبھی آپ کو خیال نہیں آیا کہ اللہ اگر آپ کو بہرہ کر دے تو یہ سب آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گا.میوزک کی زیر و بم میں جو لذت پیدا کی ہے وہ بھی اللہ نے پیدا کی ہے.اگر وہ لذت کا احساس آپ کو خدا نہ بخشتا تو آپ کو میوزک سے کوئی دلچسپی پیدا نہ ہوتی.پس ہر وہ شخص جو احسان کو تو قبول کر لیتا ہے اور محسن کی طرف اس کا دھیان نہیں جاتا وہ اندھا ہے.اب اگر آپ کو ایک آرٹ سے

Page 511

حضرت خلیفہ اسح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۵۰۷ خطاب ۲۴ را گست ۱۹۹۶ء محبت ہو جائے اور آرٹسٹ کا خیال بھی دل میں نہ آئے تو بڑی بے وقوفی ہے.آرٹ اپنی ذات میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا جب تک آرٹسٹ کا وجود اسے پیدا نہ کرے.پس انسان کا ہر حسن اللہ نے پیدا کیا ہے.انسان کی ہر لذت اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے.وہی رب العالمین ہے.اُسی کا شعور آپ کے دل میں پیدا ہو گا تو آپ کو بغیر کوشش کے از خود اس سے محبت ہونی شروع ہو جائے گی.اور یہ سفر بڑا لمبا ہے.اور لا متناہی ہے.مگر آپ کو اختیار کرنا ہے.اور میں پہلے بھی آپ سے گزارش کر چکا ہوں کہ اور کچھ نہیں تو اپنے بچوں سے خدا کی محبت کی باتیں تو کیا کریں.اگر اپنے بچوں سے باتیں کریں گی تو وہ باتیں جن کا آپکو پہلے شعور نہیں تھا وہ آہستہ آہستہ ہونا شروع ہو جائے گا.جب بچوں کو کوئی چیز دیتی ہیں تو یہ تو بتایا کریں کہ کیسے بنی.کیسے آئی ہے.اور غور کے نتیجے میں پھر اللہ تعالیٰ کی محبت لا زما پیدا ہوتی ہے.اس بزرگ کا واقعہ میں پھر آپ کو سُنا دیتا ہوں.تا کہ آپ کو سلیقہ آئے خدا سے پیار کا.ایک بزرگ کے متعلق آتا ہے کہ اُس کے سامنے ایک لڑؤں کا ٹوکرا پیش کیا گیا جبکہ اور مرید بھی بیٹھے ہوئے تھے اور مرید تو ، جب اُس نے لڈو بانٹے تو ایک ایک، دو دو، جتنے بھی تھے جلدی جلدی کھائے اور لطف اُٹھایا اور دیکھنے لگے کہ ہمارا پیر کر کیا رہا ہے.وہ ایک ایک دانہ تو ڑتا تھا اور منہ میں رکھتا تھا اور سوچوں میں ڈوب جا تا تھا.تو اس کے مریدوں میں سے ایک نے کہا کہ آپ کیا مزہ برباد کر رہے ہیں.ہم نے تو لڈ وکھایا اور مزہ آیا پھر ہم نے دوسرا کھایا پھر تیسرا کھایا اور آپ ایک ایک دانہ کر کے لڑؤں کا مزہ بر باد کر رہے ہیں یہ کیا بات ہے؟.آپ نے فرمایا تم نے مزے برباد کئے ہیں میں نہیں کر رہا.میں تو جو مزے لے رہا ہوں تم تو تصور بھی نہیں کر سکتے.ہر دانہ جو میں کھاتا ہوں.اس کی مٹھاس محسوس ہوتی ہے تو میں سوچتا ہوں کہ دیکھو کیسا رب العالمین ہے.کہیں دور کسی کھیت میں صبح صبح بھی لوگ سوئے ہوئے تھے ایک کسان ہل لے کر چلا تھا.اُس نے زمین کا سینہ پھاڑا تھا.اس نے تیاری کی گھاس پھوس کو دور کیا اور پھر بڑی محنت کر کے اُس نے شکر نے.یعنی گنے کے ٹکڑے کئے اور انکو اس نے کاشت کیا اور پھر سارا سال محنت کی.اس کو پانی دیئے بیماریوں سے بچایا ہر طرح اس کا خیال رکھا اور جا کر اس میں وہ گنے پیدا ہوئے جن میں مٹھاس آئی اور مٹھاس وہ تو نہیں بھر سکتا تھا.اس نے تو گنوں کے ٹکڑے کاٹ کے مٹی میں ملا دیئے تھے.اللہ ہی ہے جس نے انہیں اُگایا، اللہ ہی ہے جس نے پھر وہ نظام پیدا کیا جس سے گنوں کے اندر مٹھاس پیدا ہو گئی ورنہ بانس کے بانس رہ جاتے.اور پھر اس نے محنت کی ، ان کو کاٹا پھر اس کا رس بنانے کے لئے اس نے وہ بڑے بڑے برتن خریدے پرانتیں ، جن میں رس ڈالا

Page 512

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۵۰۸ خطاب ۲۴ را گست ۱۹۹۶ء جاتا ہے.پھر وہ آگ بنانے کے لئے اُس نے وہ جھونپڑی بنائی جس سے آگ دی جاتی ہے.وہ پتے اکٹھے کئے جو آگ میں جھونکے جاتے ہیں.اس نے کہا جب میں یہ سوچ رہا تھا تو مجھے خیال آیا کہ وہ لوہار بھی تو ہے جس نے وہ برتن بنایا تھا.اس نے کیا کیا محنت نہیں کی اور پھر دماغ اس لوہار کی طرف چلا گیا.تو ایک میٹھے کا جو احساس ہے اُس کے لئے ہی میرے تصور نے اتنے سفر کئے ہیں.کہ دانہ ختم ہو جاتا تھا وہ سفر ختم نہیں ہوتا تھا.اور میں سوچتا تھا کہ اللہ کی شان دیکھو میری خاطر، میرا منہ میٹھا کرنے کے لئے اللہ نے اتنی دور خدا جانے کس ملک میں وہ کسان پیدا کیا جس کسان نے یہ منتیں کی تھیں اور پھر میٹھا بنا کر اُس کو صاف کرنے کے لئے کارخانے بنوا دیئے اور ان کارخانوں میں وہ گنے گئے اور وہ کاٹے گئے اور ان سے رس نکالے گئے.پھر ان کی صفائی کی گئی پھر اُسے صاف اور پاک میٹھے کی صورت میں تبدیل کیا گیا.وہ دانہ جو میرے حصے میں آیا تھا جب چلا تب تو اللہ نے میری خاطر بنایا تھا.کتنے سفر کر کے مجھ تک پہنچا ہے.اور میں بڑا ہی ظالم ہوں گا کہ اگر چہ یہ سوچے بغیر کے کون میرا محسن ہے اُٹھایا لڈو منہ میں ڈال لیا اور ختم کر دیا ہم ہر وقت ہر کھانے پہ یہ تو نہیں کر سکتے.مگر ہر کھانے کے وقت شکر کا تصور تو ضرور باندھ سکتے ہیں.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے سکھایا کہ کھانے سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ لیا کرو.یہ تو سوچا کرو کہ کس نے تمہیں دیا ہے.اور جب ختم کرو تو اللہ کا شکر ادا کیا کرو.اتنا سا بھی اگر ہم سے ممکن نہ ہو تو ہم کوخدا سے محبت کیسے ہوگی.پس محبت کے ان گنت رستے ہیں.ایک ایک رستے پر اگر آپ چل کے دیکھیں تو ان گنت مواقع ہیں جن سے خدا تعالیٰ کی محبت آپ کے دل میں اس طرح اُچھلے گی جیسے ماں کے دل میں بیٹے کی محبت اُچھلتی ہے.اُس سے بھی زیادہ بڑھ کے کیونکہ دونوں کا کوئی موازنہ ہی نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ کے احسانات اور ان کی وسعتیں اور ان کی عظمتیں تو لا متناہی ہیں انسان کے تصور میں آنہیں سکتیں.مگر پہلے ایک شکر والا دل تو پیدا کریں.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.تیرے کوچے میں کن راہوں سے آؤں وہ خدمت کیا ہے جس سے تجھے کو پاؤں محبت ہے کہ جس سے کھینچا جاؤں خدائی ہے خودی جس سے جلاؤں محبت چیز کیا کس کو بتاؤں

Page 513

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۵۰۹ وفا کیا راز ہے کس کو سناؤں میں اس آندھی کو اب کیونکر چھپاؤں یہی بہتر کہ خاک اپنی اُڑاؤں کہاں ہم اور کہاں دنیائے مادی خطاب ۲۴ را گست ۱۹۹۶ء فسبحان الَّذِي أَخْرَى الأَعَادِي ( در شین : ۵۴) یہ جو حضرت مسیح موعود کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت کی آندھی اُٹھی ہے اور اتنازور پکڑا ہے کہ آپ خدا کے حضور عرض کرتے ہیں کہ مجھ میں تو اب طاقت نہیں رہی کہ اس کو برداشت کرنے کی.میرا دل چاہتا ہے کہ تیری محبت کی آندھی جو میرے دل میں اُٹھی ہے.میں اپنی ذات کی خاک اس آندھی میں اُڑا دوں.اور میری خاک کا ذرہ ذرہ تجھ پر فدا ہو جائے.اور خدا نے پھر آخر آپ کو وہ مقام عطا فرما دیا ع جس مقام پر پہنچ کر آپ نے کل عالم میں یہ اعلان کیا.جو ہمارا تھا وہ اب دلبر کا سارا ہوگیا کتنا عظیم دعوی ہے لیکن عرفان کے ایک لمبے سفر کے بعد انسان کو یہ دعوئی نصیب ہوتا ہے.اُس سے پہلے ممکن نہیں ہے.آپ نے وہاں تک پہنچنا ہے.خدا کی محبت کی آخری منزل ہے جہاں تک پہنچ کر خدا نے خود حضرت مسیح موعود کو مجاز فرما دیا.کہ اب اُٹھ اور دنیا میں یہ اعلان کر دے کہ جو ہمارا تھا وہ اب دلبر کا سارا ہوگیا آج ہم دلبر کے اور دلبر ہمارا ہوگیا ( در تمین صفحه: ۱۵۸) پس جو کچھ آپ کا ہے وہ سب خدا کا کریں گی تو خدا آپ کا ہوگا.اور جب خدا آپ کا ہوگا تو وہ سب کچھ جو اس کا ہے وہ سب آپ کا ہو جائے گا اُس کی ساری کائنات آپ کی ہو جائے گی.اس کی ملکیت میں آپ شریک ہو جائیں گے کیونکہ وہ آپ کو شریک کرے گا.اسی مضمون کو حضرت مسیح موعود سورۃ فاتحہ کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ کی جو آخری منزل ہے وہ کامل طور پر محمد رسول اللہ کو نصیب ہوئی ہے.خدا نے اپنی ملکیت میں کسی اور نبی کو اس شان سے شامل نہیں کیا جس شان سے محمد رسول اللہ کو شامل کیا.کیونکہ آپ نے اپنا سب کچھ خدا کے سپر د کر دیا.تو سپردگی کی منزل تو بعد کی ہیں لیکن پہلے احساس کا وہ سفر تو شروع کریں جو خدا تعالیٰ کے حسن و

Page 514

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۵۱۰ خطاب ۲۴ را گست ۱۹۹۶ء احسان کی تلاش کا سفر ہے.صبح اُٹھیں تو خدا کی یاد کو دل میں لگائیں.خدا کی یاد سے دل کو معمور کریں اُس کو معطر کریں.دن بھر پھیریں.تو اللہ تعالیٰ کی یاد آپ کا ساتھی بن جائے جس کے بغیر آپ رہ نہ سکیں.سوئیں تو اس کو سوچتے ہوئے سوئیں، جاگیں تو اُسکے خواب دیکھتے ہوئے اُٹھیں یہ وہ آخری مقام ہے جس کی طرف ہمارا محبتوں کا سفر ہمیں لے کر جائے گا.اور اگر یہ ہمیں نصیب ہو جائے.تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ آپ کو بھی وہ مقام اور مرتبہ عطا فرمائے گا کہ آپ کہہ سکیں.جو ہمارا تھا وہ اب دلبر کا سارا ہوگیا آج ہم دلبر کے اور دلبر ہمارا ہوگیا یہ وہ تمام منازل ہیں جن کی تفاصیل میں بیان نہیں کر سکا بہت وسیع مضمون ہے.لیکن اس پر میں اب اس تقریر کو ختم کرتا ہوں کیونکہ مجھے چھیاں مل رہی ہیں کہ تمہارا اگلا پروگرام شروع ہو چکا ہے.اور لوگ انتظار کر رہے ہیں.مگر جس طرح بھی ، جب بھی خدا تعالیٰ توفیق دے گا میں آپ کو یہ یادہانی کرواتا رہوں گا.اور کوشش کروں گا کہ آپ کو سمجھاؤں کس طرح اللہ کی سچی محبت کو دل میں جگہ دی جاسکتی ہے.اگر ہمیں خدا سے محبت ہو جائے تو ہمارے سارے مسائل حل ہو جائیں.کچھ بھی باقی نہ رہے.دُنیا بھی ہماری آخرت بھی ہماری.ہماری اولادیں بھی سمجھ سنور جائیں گی، ہمارا ماحول بھی خوشگوار ہو جائے گا.حقیقت میں دنیا کو جنت بنانے کا ایک ہی راز ہے.کہ ہم اللہ تعالیٰ کو اپنے دل میں بسالیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات میں بسنا سیکھ لیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اسکی تو فیق عطا فرمائے.آئیے اب دُعا کر لیں.دعا یہی کرلیں جو رسول اللہ نے ہمیں سکھائی ہے.اس کی عربی تو آپ کو نہیں آئے گی لیکن اُردو میں میں وہ دعا بتا دیتا ہوں کہ خدا تو اپنی محبت کا رزق ہمیں عطا فرما.اپنی محبت ہمارے دل میں ڈال دے.ہر اُس چیز کی محبت ہمارے دل میں ڈال دے جو تجھ سے محبت کرتی ہے.ہر اُس چیز کی محبت ہمارے دل میں ڈال دے جس سے تو محبت کرتا ہے.ہر اس چیز کی محبت ہمارے دل میں ڈال دے جو تیری محبت کی طرف لے کے جاتی ہے.اے خدا اپنی ایسی محبت ہمارے دل میں اُتار ، ہمارے دل پر قابض کر دے کہ جس کے سامنے نہ ماں کی محبت رہے، نہ باپ کی محبت رہے نہ عزیز نہ رشتے دار نہ دوست کی.ہر دوسری محبت پر تیری محبت غالب آجائے اور آخر پر یہ کہ اے خدا اُس پانی کی محبت سے بھی بڑھ کر ، ٹھنڈے پانی کی محبت سے بھی بڑھ کر ہمیں اپنی محبت عطا کر جو پیاسے کو پانی سے ہوا کرتی ہے جب پیاس سے دم توڑنے کے قریب ہو.تو اس دُعا کے ساتھ ہم اس اجلاس کی کاروائی کو ختم کریں گے...آمین.

Page 515

حضرت خلیفت صیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۱۱ خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۹۷ء دنیا بھر میں رضا کارانہ خدمت کر نیوالی احمدی خواتین کا تذکرہ (جلسہ سالانہ مستورات برطانیہ سے خطاب فرموده ۲۶ جولائی ۱۹۹۷ء) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج لجنہ کے اس خطاب میں میں نے مضمون دستور سے ہٹ کر ایک اور رنگ میں اختیار کیا ہے.پہلے تو میں آپ سب کو نصیحتیں کیا کرتا تھا کہ یہ بھی کرو اور وہ بھی کر و.اب میں آپ کو داد دینا چاہتا ہوں کہ آپ نے خوب کیا ہے.اور آج کا خطاب لجنہ اماءاللہ نہیں بلکہ مسلم احمدی خواتین ، بڑی اور بچی اور چھوٹی ہر قسم کی ان کو داد و تحسین دینے پر مشتمل ہے مگر اس سے پہلے میں آپ کو ایک واقعہ پڑھ کر سنا تا ہوں ، جو درد ناک ہے.اس پہلو سے اگر عورتوں کی طرح میرے بھی آنسو نکل آئیں تو مجھے معذور سمجھیں ، کیونکہ واقعہ بہت عظیم ہے اور دل پر گہرا اثر کرنے والا ہے.ایک ایسی مسلم خاتون کا واقعہ ہے، جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں آئندہ آنے والی خواتین کے لئے ایک نئی بناء ڈالی اُن کا نام ام عمارہ تھا.یہ غزوہ اُحد میں مشکیزے بھر بھر کے زخمیوں کو پانی پلا رہی تھیں.اچانک انہوں نے کیا دیکھا کہ بہت بھگدڑ مچ گئی اور بڑے بڑے جوان مرد بھی آنحضرت کا ساتھ چھوڑ کر بھاگنے لگے.اس خاتون نے مشکیزہ ہاتھ سے پھینک دیا اور تلوار ہاتھ میں پکڑ لی اور آنحضرت کے لئے سینہ سپر ہوگئیں.وہ پہلی خاتون ہے،اگر چہ آپ نے خولہ کا نام سنا ہے، مگر خولہ تو بعد میں آنے والی ان کا ایک نمونہ تھی ، ان کی جاری کردہ رسموں پر چلنے والی ایک خاتون تھی.تو پہلی خاتون جس نے غزوہ احد کے موقع پر بلکہ تمام تاریخ اسلام میں ،تلوار ہاتھ میں پکڑی اور

Page 516

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۱۲ خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۹۷ء دشمن پر لپکی اور رسول کا ساتھ نہیں چھوڑا.وہ یہ خاتون تھیں.جب آنحضرت پر ابن امیہ نے وار کیا ہے، جو آگے بڑھا ہے، تو یہ ایک خاتون تھیں جو آگے بڑھیں ہیں اور اپنی کمزوری کے باوجود اس پر وار کرتیں رہیں ، یہاں تک کے اس ایک وار سے آپ کے کندھے پر ایسا گڑھا پڑ گیا کہ جو ہمیشہ آپ کو معذور رکھتا رہا جس نے ہمیشہ کے لئے آپ کو معذور کر دیا.خود اس خاتون کے متعلق حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گواہی ، النصاری فی تمیم الصحابہ ابن ہند السلانی، نے یوں دی ہے وہ لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بیان فرماتے تھے کہ اُحد میں اُن کو اپنے دائیں اور بائیں اس خاتون کو آپ نے اُحد میں برابر لڑتے دیکھا.آنحضرت کا یہ بیان کہ جب بڑے بڑے سورما بہادر مسلمان سپاہی بھاگ گئے تھے ، یہ خاتون مجھے کبھی دائیں نظر آتی تھیں کبھی بائیں نظر آتی تھیں اور دونوں طرف میں اسے لڑتا ہوا دیکھتا تھا.اتنا بڑا خراج تحسین ہے ایک عورت کو کہ اس سے بڑا اور خراج تحسین ممکن نہیں.میں آپ کو ایک خراج تحسین دینا چاہتا ہوں اب میرا یہ حال ہے کہ میں احمدی خواتین کو اپنے دائیں بھی لڑتے دیکھ رہا ہوں اور اپنے بائیں بھی لڑتے دیکھ رہا ہوں، اپنے آگے بھی لڑتے دیکھ رہا ہوں اپنے پیچھے بھی لڑتے دیکھ رہا ہوں.احمدی خاتون اب وہ نہیں رہی جو پہلے ہوا کرتی تھی.احمدی خاتون اس طرح بیدار ہو کر جہاد کی تلواریں ہاتھ میں لے کر اُٹھ کھڑی ہوئی ہے کہ زمانے پر ایک رعب ڈال چکی ہیں اور احمدی خواتین سے بڑے بڑے علماء بھی ڈرتے اور کانپتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ، احمدی خواتین نے ہر میدان میں میرا ساتھ دیا ہے اور ہر میدان میں ، جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے میرے آگے پیچھے، دائیں بائیں ہر طرف لڑتی ہیں.ان میں بہت سی ایسی ہیں جو مجھے لکھتی ہیں کہ خدا کی قسم اگر آپ کی جان کو خطرہ ہو، تو آپ ہمیں فوج صحابہ کی طرح اپنے آگے اور پیچھے رکھ کر دیکھیں، تو لکھتی ہیں کہ کاش ہم میں طاقت ہو کہ ہم آپ کو دکھا سکیں کہ کس طرح ہم اسلام کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار بیٹھی ہیں.یہ وہ دور ہے جس میں احمدی خواتین اس شان کے ساتھ داخل ہوئی ہیں کہ اس سے پہلے تاریخ میں کہیں اس دور کا کوئی سایہ بھی نہیں دکھائی دیتا.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ، انفرادی طور پر احمدی خواتین نے بڑی قربانیاں دیں ہیں لیکن حضرت ام عمارہ کی اس غیر معمولی شان کو اپنی ذات میں زندہ کرنے والی اب ہزار ہا ام عمارہ پیدا ہو چکی ہیں اور ہر ملک میں پیدا ہو چکی ہیں.اس پہلو سے اگر آپ لجنہ کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ یقیناً گواہی دیں گی کہ پہلے اور زمانے تھے، اور طرح کے اجلاس ہوا کرتے تھے.لیکن

Page 517

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۵۱۳ خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۹۷ء احمدی خاتون غیروں سے لپٹ جائیں اور ان سے احمدیت کے حق میں لڑنے لگیں اور ہر وہ پروگرام جو جماعت کو دیا جائے اس میں وہ اول اول اور آگے آگے ہوں، یہ نیا نظارہ ہے، جوان سالوں نے دیکھا ہے اور اس سال نے خصوصیت کے ساتھ دیکھا ہے.اس وقت آپ کے سامنے لجنہ اماءاللہ Indonesia کی خواتین بیٹھی ہیں ، میری دائیں طرف کبھی اتنی تعداد میں Indonesia کی نمائندگی نہیں ہوئی تھی جتنی اس دفعہ ہوئی ہے اور کبھی اس تعداد میں Indonesia کی خواتین میدان عمل میں نہیں نکلی تھیں، جیسے اب نکل آئی ہیں.پس سب سے پہلے تو میں Indonesia کا مختصر ذکر کرتا ہوں.ان میں اکثر کو تو میں نہیں جانتا.مگر جن چند کو جانتا ہوں ! ان کے نام بھی لیتا ہوں.سب سے پہلے تو عبدالقیوم صاحب کی فیملی کی خواتین.ان کی خواتین نے تمام Indonesia میں MTA کی کارروائی کو نہ صرف مدددی ہے بلکہ اس شان کے ساتھ بعض حصوں کو سنبھالا ہے کہ حیرت ہوتی ہے.غیر معمولی طور پر آگے آکر اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے والی ہیں اور اسی خاندان کی عورتیں جو تبلیغ میں بھی خدا کے فضل سے بہت آگے نکل گئیں ہیں.پھر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ Homeopathic کو انڈونیشیا میں داخل کرنے والی اور متعارف کروانے والی اسی خاندان کی بچیاں ہیں اور ان سب نے اپنے اپنے ذمے مختلف باتیں لگا رکھیں ہیں، جن کے لئے یہ ہمہ تن وقف ہیں اور ان کے ساتھ کثرت سے دوسری احمدی خواتین شامل ہیں.اسی طرح عزیزہ خدیجہ پونتو ہیں جو سال ہا سال سے ربوہ ، قادیان، یہاں آتی چلی جارہی ہیں اور ان کی لجنہ اماءاللہ Indonesia کے لئے خدمات غیر معمولی ہیں.صرف لجنہ کی حیثیت سے نہیں بلکہ آپ نئی حیثیت سے بھی ، اللہ تعالیٰ کے فضل سے غیر معمولی خدمات انجام دے رہی ہیں.پس یہ سارا وفد جو Indonesia خواتین کا آپ کے سامنے بیٹھا ہے یہ احمدیت کے لئے یوں لگتا ہے جیسے Charged ہو گئے ہیں، بجلی جس طرح Charged ہو جاتی ہے.ان کے اندر بڑا ولولہ ہے جب ملاقات کے لئے آتی ہیں، تو وفور جذبات سے ان کے آنسو دھاروں بہتے ہیں.خود بھی روتی ہیں، مجھے بھی رلاتی ہیں مگر یہ محبت اور عشق کے آنسو ہیں.اس بات کے اس احساس کے آنسو ہیں کہ ہم خدا کے قریب ہو رہے ہیں اور خدا کے قریب ہونے کی وجہ سے بنی نوع انسان کے قریب ہو رہے ہیں.پس میں سمجھتا ہوں کہ انڈونیشیا میں ایک لمبے عرصے سے جو ایک انقلاب رکا ہوا تھا اب انشاء اللہ احمدی خواتین کے ذریعے انڈونیشا میں ایک عظیم انقلاب بر پا ہو گا.اگر چہ مردبھی اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں لیکن جو خواتین کے جاگنے کی شان ہے

Page 518

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۱۴ خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۹۷ء وہ بالکل الگ اور ممتاز ہے.اس مختصر ذکر کے بعد ، کیونکہ اس مختصر ذکر کے سوا میں لمبی باتیں آپ سے کر نہیں سکتا.جو باتیں مجھے علم ہے کہ وہاں خواتین کر رہی ہیں وہ بہت ہی خوشکن ہیں.میرا دل راضی ہے، دل کی گہرائی تک راضی ہے، ان کے لئے دعائیں خود بخو د دل سے اچھلتی ہیں.دوسرا مختصر ذکر مجھے جرمنی کا کرنا ہے کہ جرمنی میں ہر وہ کام جو میں نے کرنے کے لئے کہا اس پر احمدی خواتین نے بڑے زور کے ساتھ لبیک کہی.بڑی بھی چھوٹی بھی اور خصوصاً نو جوان بچیاں بڑے زور کے ساتھ آگے آئی ہیں اور بہت اہم کاموں کے جھنڈے انہوں نے اپنے ہاتھوں میں تھام رکھے ہیں.اس سلسلے میں مختلف چند باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ میں نے جو Research Cell کی تحریک کی تھی جس کی بناء یہاں ڈالی، اب جرمنی کے Research Cell میں سینکڑوں نہیں ، تو سو سے زائد یقیناً ایسی بچیاں شامل ہو گئی ہیں، جو دن رات اسلام کی خاطر Research میں مصروف ہیں.Bible Research کے سلسلے میں بھی انہوں نے بہت مجھے مدددی ہے.دیگر معاملات میں Research کے لئے انہوں نے غیر معمولی کوششیں کی ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ پوری طرح بیدار اور ہمہ وقت اس میں مصروف اور اس بات میں خوش ہیں کہ ہم ایک نیک کام سرانجام دے رہی ہیں.جہاں تک MTA کا تعلق ہے، ہزاروں بچیاں ایسی ہیں، جنہوں نے اپنے آپ کو جرمنی میں MTA کے لئے وقف کر رکھا ہے.اس کے علاوہ تبلیغ کے معاملے میں بھی اب یہ میدان میں نکل آئی ہیں، مسجدیں بنانے کے سلسلے میں بھی یہ میدان میں نکل آئی ہیں.کوئی بھی ایسی تحریک میں نہیں کرتا جس میں یہ کسی پہلو سے بھی پیچھے رہیں بلکہ دنیا کی تمام خواتین کو پیچھے چھوڑنے کی پوری کوشش کرتی ہیں.اس کا ایک زائد فائدہ یہ ہے کہ ان ممالک میں ہماری بچیاں ایک زہریلے ماحول میں پل رہی ہیں، کثرت کے ساتھ ایسی تھیں جو غیروں کے رحم و کرم پر تھیں.چند سال پہلے جب میں جرمنی جایا کرتا تھا، تو ان کے سوالوں سے مجھے معلوم ہوتا تھا کہ یہ خطرے میں ہیں.طرح طرح کے مخالف ماحول کے سوا جو اس کے دل میں گڑھتے تھے کہ ان کو نسبتاً زیادہ آزادی دینے والے تھے.ان کی انفرادی آزادی جومعاشرے کے خلاف یا ماں باپ کے مذہب کے خلاف تھی اس کو وہ تقویت دیتے تھے.اب وہ زمانے گئے.اب کہاں ؟ اب تو یہ خدا کے فضل سے شیروں کی طرح غراتی ہوئی غیروں پر حملے کر رہی ہیں.تمام سکولوں میں احمدی لڑکیاں بیدار ہو گئی ہیں اور سکول والیوں کو اسلام کی تبلیغ میں ، اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس طرح مصروف کر دیا ہے کہ اب یہ جہاں جاتی ہیں ، خدا کے فضل سے، اسلام کی مجاہدہ

Page 519

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۱۵ خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۹۷ء کے طور پر جاتی ہیں اور فخر سے سر اونچا کرتی ہیں.کچھ استثناء بھی ہوں گے.ابھی کچھ ایسی جگہیں بھی ہوں گی جن میں احمدی بچیاں ابھی شامل نہیں ہیں لیکن جو شامل ہو چکی ہیں ان کی تعدا داتنی بھاری ہے کہ احمدیت کی تاریخ میں مجھے اس طرح احمدی بچیوں کا حصہ لینا مجھے یاد نہیں.اس کا شاید سوواں حصہ بھی کبھی اس طرح بیدار نہ ہوا ہو.مختصر ذکر کے تعلق میں اب میں Norway کی بات کرتا ہوں.Norway کی احمدی بچیاں بھی ، خدا تعالیٰ کے فضل سے، کسی سے پیچھے نہیں.تراجم اور اشاعت کے کاموں میں بہت سے ملکوں کو یہ پیچھے چھوڑ گئی ہیں.قرآن کریم کا ترجمہ ان احمدی بچیوں نے خود کیا اور ایسا عمدہ کیا کہ جو چوٹی کی Firms ہیں جو International معیار کی ہیں، جن کو ہم ترجمہ Check کرانے کے لئے بھیجتے ہیں ان کے سامنے جب ان کا ترجمہ بھیجا گیا تو ایک بھی غلطی نہیں نکال سکیں.انہوں نے کہا، ایسی عمدہ زبان، ایسا ترجمہ ہم نے پہلے نہیں دیکھا تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مختلف ترجمے کے کاموں کے علاوہ وہ Research ٹیمیں وہاں کام کر رہی ہیں، زبانیں سکھانے کا کام ہے، غیروں سے رابطے کا کام ہے، اشاعت قرآن کا کام ہے غرضیکہ طرح طرح کے مختلف کاموں میں، یہاں تک کہ Homeopathic میں بھی ، خدا کے فضل سے، یہ پوری طرح مصروف ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ Norway کی بچیاں الگ ایک نمونہ بن چکی ہیں.ان کا نمونہ ہونا اس بات سے بھی ثابت ہے کہ ان کو دیکھ کر Norwegian بچیاں خدا تعالیٰ کے فضل سے اسلام کی طرف مائل ہورہی ہیں اور اسلام کو قبول کر کے وہ لباس اختیار کر رہی ہیں جو ان کے ملک سے بالکل اجنبی لباس ہے.وہاں وہ لباس پہن کر پھر نا بھی لوگوں کی انگلیاں اٹھانے والی بات ہے مگر بڑے فخر کے ساتھ اور بڑے یقین کے ساتھ وہ اسلامی طرز کا لباس پہنتی ہیں اور اسی میں اپنی شان سمجھتی ہیں.ان میں سے ایک بچی عائشہ، مجھے ملنے آئیں تھیں، یہاں بیٹھی ہوئی ہیں.عائشہ بیگم؟ Show your face to them.Tell them, I am a Muslim Ahmadi girl from Norway.Right? Alhamdulillah, and you are proud of it? you are happy? لڑکی اثبات میں جواب دیتی ہے تو اس پر حضور نے فرمایا: Maashaallah, Maashaallah.Please, sit down.

Page 520

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۱۶ خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۹۷ء اب عائشہ کا نمونہ اتنا اچھا ہے کہ اس کو دیکھ کر اور عائشا ئیں بھی بننے لگ گئی ہیں وہاں پر ان کی ایک سہیلی مجھے ملنے آئی تھی، اس پر بھی احمدیت کا رنگ چڑھ گیا ہے.وہ کہہ رہی تھی ، مجھے تو بہت اچھی لگتی ہے اور اس طرح نئی نسل میں خالصتاد ہر یہ اور دنیا پرستوں میں سے نکل نکل کر یہ بچیاں آگے آرہی ہیں اور اس کا سہرا احمدی خواتین کے سر ہے جن کے پاک نمونوں کو دیکھ کر انہوں نے مذہب کے متعلق اچھی رائے قائم کی.ناروے کے بعد سویڈن کی باری ہے جہاں جب سے مجھے ہوش ہے یاد ہے، ایک ہی نام سنا کرتے تھے ڈاکٹر قامتہ اور اب بھی ڈاکٹر قانتہ صاحبہ اللہ کے فضل سے اسی طرح مصروف عمل ہیں.( آگئی ہیں؟ کہاں ہیں ڈاکٹر قائمتہ ؟ ڈاکٹر قامتہ وہاں انگریزی Section میں بیٹھی ہوئی ہیں ).اب اللہ کے فضل سے بہت سی قامتائیں پیدا ہو چکی ہیں اور Sweden میں کثرت سے کام کاج شروع ہو چکا ہے احمدی خواتین بیدار ہورہی ہیں.پس ان کا صبرا چھے رنگ دکھا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے سویڈن میں بھی اب گہما گہمی ہے.ڈنمارک کے متعلق میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ وہاں بھی ایک لہر بچیوں میں اٹھی تو ہے، اب دیکھیں کہاں تک پہنچتی ہے ،مگر میں نے محسوس کیا ہے کہ بچیوں میں ایک احساس بیدار ہورہا ہے کہ ہمیں بھی اس شمالی علاقے سے پیچھے نہیں رہنا چاہئے اور احمدیت میں آگے بڑھنا چاہئے یہ مختصر ذکر ناروے، سویڈن اور ڈنمارک کا تھا اور جرمنی کا پہلے میں کر چکا ہوں.اب میں پاکستان سے متعلق کچھ باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.پاکستان میں ،خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک بہت لمبے عرصے تک لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی صدر رہی اور مرکز یہ انتظام ایسا تھا جو ساری دنیا پر حاوی تھا.اب پاکستان صرف پاکستان کے لئے خاص ہو چکا ہے.وہاں کی لجنہ اب صرف لجنہ پاکستان ہے.مگر لجنہ کے جو پہلے کام ہوا کرتے تھے، اگر چہ تنظیم کے لحاظ سے ٹھوس تھے جلسے اور کاروائیاں ان سے ان کے دفتر کی رپورٹیں بھری پڑی ہوں گی مگر کبھی یہ واقعہ نہیں ہوا کہ احمدی خواتین میدان عمل میں نکل کھڑی ہوں اور کثرت کے ساتھ ، ایک روحانی انقلاب برپا کر دیں.اس وقت ، خدا کے فضل سے، پاکستان کی احمدی خواتین کی وہ حالت نہیں جو پہلے کبھی ہوا کرتی تھی.ہر میدان میں آگے آگے ہیں، ہر بات کا جواب دیتی ہیں اور مثبت جواب دیتی ہیں.سب سے پہلے میں مختصر ار بوہ کا ذکر کروں گا کیونکہ اس کے بغیر یہ Report مکمل نہیں

Page 521

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۱۷ خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۹۷ء ہوگی.ہماری عزیزہ آپا طاہرہ صدیقہ صاحبہ نے جو کام یہاں دیکھے وہ سارے وہاں بھی شروع کئے.Research Team یہاں دیکھی ، وہاں بھی قائم کی، ہومیو پیتھک کا نظام یہاں دیکھا وہاں بھی قائم کیا ، اشاعت اسلام کے لئے اردگرد کے دیہات میں پھیل گئیں اور خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ لجنہ اماءاللہ نے بعض ایسے دیہات احمدی بنائے جن میں کبھی مرد بھی نہیں گھستے تھے ،مگر بڑی حکمت کے ساتھ ، پہلے خدمت کی ، بچوں کو قرآن پڑھائے ، یہاں تک کہ خواتین کے دل جیت لئے اور بہت سی جگہ یہ بھی ہوا کہ مولوی نے شور مچایا مردوں نے اعتراض کیا، خواتین اٹھ کھڑی ہوئیں.غیر احمدی خواتین،انہوں نے کہا یہ بچیاں تو ہمارے گاؤں میں آئیں گی اور ہمیں نیکیاں سکھائیں گی ہم نے جو زور لگانا لگا لو لیکن ان کو نہیں ہم نکال سکتیں.بہت حکمت کے ساتھ وہ سارے اچھے کام جو انگلستان میں ہوتے انہوں نے دیکھے، وہ ربوہ میں دہرائے اور خدا کے فضل سے ربوہ کے چاروں طرف احمدیت کا اک رعب لجنہ اماءاللہ کی خواتین کی وجہ سے پیدا ہو چکا ہے.اس تفصیل میں میں اس لئے نہیں جاتا کہ یہ مناسب نہیں ہے کیونکہ مولوی کان لگائے بیٹھے ہیں اور خاص طور پر ربوہ کے لئے اگر میں نام لے کے بتاؤں کہ کس کس گاؤں میں کیا ہورہا ہے تو ان کی جان نکل جائے گی اور وہ پھر جوابی کاروائی اس حد تک ضرور کریں گے کہ ہماری ربوہ کی خواتین کے لئے وقتیں پیدا کرسکیں.ان کی کامیابی کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.احمدی عورتیں بڑے بڑے مولویوں پر لازماً غالب آئیں گی.مگر ایذا رسانی کا سوال ہے اس لئے میں احمدی بچیوں کی عزت اور احترام کی خاطر ، مولوی کو یہ موقع نہیں دینا چاہتا کہ وہ ان کی ایذارسانی کا موجب بنے.مرکز میں کام کرنے والیوں میں ہماری عزیزہ امتہ القدوس جو صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی بیٹی اور ہماری آپا ناصرہ کی بچی ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام پاکستان میں ان سارے کاموں کو فروغ دینے میں بہت کوشش کر رہی ہیں.لاہور کا ذکر بھی ضروری ہے، اگر چہ سارے پاکستان کے شہروں کا ذکر نہیں ہو سکے گا مگر لاہور کا ذکر اس لئے ضروری ہے کہ لاہور نے تمام پاکستان میں ایک غیر معمولی طور پر نمایاں خدمت سر انجام دی ہے اور اس کا سہرا ہماری مرحومہ آپا بشری کے سر بھی ہے.بڑی خاموش خدمت کرنے والی تھیں آخری سانس تک آپ نے خدمت کی ہے.مجھے خط لکھا کرتی تھیں.خدا کے لئے میرے لئے دعا کریں کہ میری جان اس کام میں نکلے اور اسی کام میں ان کی جان نکلی.بیماریوں نے ستایا ہوا تھا،

Page 522

حضرت خلیفتہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۱۸ خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۹۷ء الہام، خوا میں آچکی تھیں کہ تم مرنے لگی ہو لیکن مجھے دعا کے لئے لکھتی تھیں کہ مرتے دم تک میری اسلام کی راہ پر جان نکلے اور اس کے سوا میری کوئی تمنا نہیں، میں موت کے لئے تیار بیٹھی ہوں اور جس سال انہوں نے مجھے اپنی رؤیا لکھی ، اسی سال ان کی وفات ہوئی اور خدمت کرتے ہوئے گئیں.ان کے ساتھ ایک ہماری اور عزیزہ ہیں جن کو ہم سکو کہتے ہیں ، فوزیہ شمیم.انہوں نے تبلیغ کے میدان میں ان کے ماتحتی میں بہت بڑے کام کئے ہیں اور اب بھی کر رہی ہیں.عزیزہ فوزیہ شیم اب لاہور کی صدر ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو کام انہوں نے ، جن کی بناء ڈالی تھی ، ان کو وہ بہت آگے بڑھا رہی ہیں اور شدید مخالفانہ ماحول کے باوجود، کبھی ایک طرف حملہ کرتی ہیں، کبھی دوسری طرف حملہ کرتی ہیں، لوگوں کو سمجھ نہیں آتی کہ کہاں پیروی کریں.غرضیکہ ایک کامیاب سپہ سالار کی طرح یہ چاروں طرف اللہ تعالیٰ کے فضل سے، احمدیت کی راہیں بنارہی ہیں اور ان کا قدم پیچھے نہیں ہٹا بلکہ مخالفت کے باوجود آگے بڑھ رہا ہے.پاکستان میں کراچی کا ذکر بھی ایک لازم ذکر ہے، لیکن پنجاب سے کراچی آنے سے پہلے میں ذرا سرگودھا کی بات کرلوں.سرگودھا میں ہماری احمدی خواتین ایسی ہیں، جو خاموش کام کر رہی ہیں ،مگر دیہات میں انہوں نے غیر معمولی خدمت سرانجام دی ہے.بعض خواتین ایسی ہیں، جنہوں نے اکیلے میں غیر احمدی گاؤں میں جاکر وہاں احمدیت کے پودے نصب کئے ہیں اور بعض نے سینکڑوں احمدی بنادئے ہیں اور ان کا مولوی پیچھا کرتا ہے، ان کے لئے مشکلات پیدا کرتا ہے لیکن بالکل نہیں ڈرتیں اور خدا کے فضل سے ان کی طبیعتوں میں ایسا نیک اثر ہے، کہ نئے آنے والے ان کی تائید کرتے ہیں اور جگہ جگہ، خدا کے فضل سے نئی رونقیں پیدا ہورہی ہیں.یادرکھیں ایک لمبے عرصے تک سرگودھا میں احمدیت کا پھیلاؤ رکا ہوا تھا.اب یہ دوبارہ جو چل پڑا ہے یہ خواتین کے سراس کا سہرا ہے.انہوں نے خدا کے فضل سے آگے بڑھ کر کام کئے.اگر چہ ان کا کام زیادہ تر تبلیغ تک ہی محدود ہے اور ہمارے دوسرے کام جتنے ہیں "Research" وغیرہ ، ان سے ان کو کوئی غرض نہیں.نہ اتنا علم ہے کہ ان میں زیادہ آگے قدم بڑھا سکیں، مگر تبلیغ کے معاملے میں تو وہ ایک نمونہ ہیں.اب کراچی کی میں بات کرتا ہوں.کراچی کی لجنہ اماء اللہ بھی خدا کے فضل سے غیر معمولی خراج تحسین کی مستحق ہے.آپا سلیمہ ان کی صدر ہیں اور بہت نیک دل، دل موہنے والی صدر ہیں اور انتظام کے لحاظ سے خدا تعالیٰ نے ان کو غیر معمولی صلاحیت عطا فرمائی ہے.ان کی جو بیشتر مددگار ہیں

Page 523

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۱۹ خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۹۷ء بچیاں ان میں ایک ہماری فوت ہو چکی ہیں روحی بانو.اللہ ان کو غریق رحمت کرے وہ بھی ان کی بہت مدد کیا کرتی تھیں مگر اس وقت امتہ الباری ناصر اور مسز ناصر ملک یہ ان کے بازو ہیں اور اپنے اپنے دائرے میں غیر معمولی خدمات سرانجام دے رہی ہیں.ان بچیوں کو خصوصاً اشاعت کتب میں بہت مہارت حاصل ہے اور امتہ الباری ناصر کے تحت اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت کثرت سے چھوٹے چھوٹے رسائل جو مختلف موضوعات پر اور بہت اچھے رسائل ہیں ، وہ شائع ہو چکے ہیں اور ہر سال نئے سے نئے شائع ہوتے رہتے ہیں لیکن ان کے علاوہ کراچی کی رپورٹوں سے مجھے پتہ چل رہا ہے کہ وہاں بھی احمدی خواتین تبلیغ کے میدان میں آگے نکلی ہیں اور خدا کے فضل سے بہت سے اچھے کام سرانجام دے رہی ہیں مگر ان کی تفصیل یہاں بتانے کی ضرورت نہیں ہے.ہومیو پیتھک کا جہاں تک تعلق ہے ، وہاں اس میں کوئی غیر معمولی کام تو وہاں نہیں ہوالیکن میرا خیال ہے کہ اب جب یہ کتاب شائع ہو چکی ہے اور اس وقت یہاں سٹال پر پل رہی ہے، اس کے نتیجے میں انشاء اللہ وہاں ہو میو پیتھک کی طرف بھی مزید توجہ ہوگی.میں اس لئے اس کی طرف توجہ چاہتا ہوں کہ تبلیغ کے لئے ایک بہت ہی اہم ذریعہ ہے اور بہت تھوڑے خرچے پر.ہر احمدی گھر ، اپنے گھر میں ہومیو پیتھک کی دوائیں رکھ سکتا ہے.ہمارے گھروں میں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب ڈاکٹروں کو دکھانے کی ضرورت نہیں.یہاں مونا اور اس کا بچہ بھی بیٹھا ہوا تھا ، وہ کہاں چلا گیا ہے؟ اچھا یہ بچہ ہے ہر طرح سے بیمار ہو ہو کر اس نے دیکھ لیا ہے، جب بھی شفا ہوتی ہے، ہومیو پیتھک سے ہی ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے ان بچیوں کا یقین بڑھتا جا رہا ہے، ماشاء اللہ.ہمارے گھر میں تو اب ایلو پیتھک گھس کے بھی نہیں دیکھتی.جب ضرورت پڑے کبھی خالہ بھاگی آئی کبھی طوبی بھاگی آئی کبھی کوئی بھا گا آیا کہ ابا فلاں آپ نے نسخہ ایک دفعہ بتایا تھا وہ ذرا دوبارہ بتادیں.میں دوبارہ بتا بتا کے تھک گیا ہوں.انہوں نے یاد کرنے کی نہیں سوچی کیونکہ گھر میں بیٹھا ہوا ہوں.ان کو پتہ ہے، جب ضرورت پڑی ہم آپ ہی پوچھ لیں گے.اور وہ نسخے پہلے بتا بھی چکا ہوں لکھا بھی چکا ہوں.اس کے مختلف قسم کی بیماریوں کے لئے ، ان کو ڈبے بھی دے چکا ہوں.وہ سب ڈبے ایک طرف ،سب نسخے ایک طرف آخر میں پھر ابا ہی پڑتے ہیں ضرورت کے وقت اور خیر کوئی بات نہیں.مجھے بھی ان کی خدمت سے خوشی ہوتی ہے.کم از کم اس بہانے ملنا رہتا ہے ہمارا.ورنہ اکثر تو میرا وقت دفتر میں گزرتا ہے اور کھانے پہ سرسری ملاقات ان بچیوں سے ہوتی ہے.مگر بیماری کے بہانے اکثر ملاقات رہتی ہے.

Page 524

حضرت خلیفہ اصبح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۵۲۰ خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۹۷ء اب میں انگلستان کی طرف آرہا ہوں.انگلستان کی خواتین ضرور سوچ رہی ہوں گی کہ دور دور جار ہیں اور جس ملک میں جلسہ ہو رہا ہے، اس کا ذکر نہیں.میرے نزدیک اس نئے دور کا آغاز انگلستان ہی سے ہوا اور یہ ساری نیکیاں جو دنیا میں پھیلی ہیں،اس کی بناء انگلستان نے ڈالی ہے اور انگلستان کی خواتین نے جس طرح خاموش خدمت کی ہے ، اس کی مثال دنیا میں نظر نہیں آتی.اگر یہ میرا سہارا نہ بنیں تو میں نہیں جانتا کہ کس طرح مجھے کاموں سے نپٹنے کی تو فیق مل سکتی اور بالکل خاموشی سے، اپنی اپنی جگہ کمی ہوئی کام کر رہی ہیں، اور آپ کو پتہ بھی نہیں.مجھے تقریباً سال میں، دولا کھ خط ملتے ہیں اور ہر روز اگر ربوہ سے آنے والی ڈاک کے خلاصے شامل کر لئے جائیں تو ہر روز تقریباً ایک ہزار کی تعدا د بنتی ہے لیکن میں بھی باہر رہتا ہوں، اس لئے میں ۳ لاکھ کے بجائے دولاکھ کا اندازہ رکھتا ہوں.یہ سارا کام یہاں کی خواتین نے سرانجام دیا ہے.پرائیویٹ سیکرٹری کے عملے کا صرف اتنا کام ہے کہ وہ ڈاک بانٹ دیں اور میری ہدایات لجنہ اماءاللہ کی خواتین کو پہنچا دیں کہ اس قسم کے خطوط کا آپ نے خلاصہ بھی نکالنا ہے ، خلاصہ نکالنے کی طرز یہ ہونی چاہئے اور ان خطوط کو جب میں پڑھ لوں تو میری طرف سے اصولی جواب بیان کر دیئے جاتے ہیں کہ اس قسم کے خطوں کا جواب دیا جائے ،اس طرز کے خطوط کو یہ جواب دیا جائے.یہ سارا کام، اللہ تعالیٰ کے فضل سے لنڈن کی خواتین سرانجام دے رہی ہیں اور چودہ سال ہونے کو آئے لیکن بالکل نہیں تھکیں.اپنے ساتھ اور بھی خواتین کو شامل کرتی چلی جارہی ہیں اور ان کی ٹیم کی جو سر براہ ہیں ، سارہ رحمن اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے، انہوں نے یہ ساری ٹیم بڑے سلیقے سے بنائی اور پھر اس کو سنبھالا.دو بچیاں ایسی ہیں جن کے والد قادیان کے ہیں ،ایک امتۃ الرفیق ہیں اور ایک ان کی بہن ان دونوں کا سلیقہ بہت اچھا ہے کام کا.سینکڑوں خطوں کو پڑھ کر بڑے سلیقے سے ترتیب دیتی ہیں اور ہر قسم کے خط کو الگ الگ کرتی ہے.ان کی ڈاک دیکھتے ہوئے ، مجھے بالکل فکر کی ضرورت نہیں پڑتی کہ شاید کوئی اہم چیز رہ گئی ہو.جو اہم چیزوں والے خطوط ہیں ،ان کی لٹیں الگ ہیں ، ان کی قسمیں الگ الگ مقرر کی ہوئی ہیں اور جو صرف دعا کے خطوط ہیں ، اس میں لمبے چوڑے الفاظ کے بعد خلاصہ یہی نکلتا ہے کہ میرے لئے دعا کرو.وہ ساری دعا اور عمومی دعا کے نیچے وہ List بنادیتی ہیں اور ایک ایک فہرست بعض دفعہ ساڑھے تین تین سوخطوط کا خلاصہ ہوتی ہے اور بالکل تھکتی نہیں.میرے دل سے بے اختیار ان کے لئے اور ان کی ٹیموں کے لئے ، باقیوں کے لئے دعائیں نکلتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ اس پر خوش ہیں.ایک دفعہ میں نے ان میں سے کسی سے

Page 525

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۲۱ خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۹۷ء پوچھا تمہارے اوپر کام کا بوجھ زیادہ ہے، گھر پر بچے بھی ہیں دوسرے بھی ہیں تو کچھ کم نہ کر دوں؟ تو حیرت سے کہا یہ آپ جزاء دے رہے ہیں؟ میری خوشیاں رد کر رہے ہیں؟ خدا کے لئے ایسا نہ کریں.مجھے تو جتنا مزہ اس کام میں آتا ہے کسی اور زندگی کے کام میں نہیں آتا.میں نے کہا آئندہ سے میں کم کرنے کے لئے نہیں کہوں گا.یہ احمدی خواتین ہیں جو اس دور میں اٹھ رہی ہیں.دنیا کے پردے پر اس کی کوئی مثال نہیں اور خاموش ہیں، کوئی کسی سے جزاء نہیں چاہتیں.ان کے نام اچھالے نہیں جاتے.خط لکھنے والے ان کے شکوے تو بعض دفعہ کرتے ہیں کہ آپ کی خط لکھنے والی نے یہ غلطی کر دی اور وہ غلطی کر دی.اس لکھنے والے کو یہ نہیں پتہ کہ اس نے جو ایک آدھ خط لکھا تھا اس میں بھی غلطیاں ہوتی ہیں.یہ ہزار ہا خطوط ہر مہینے میں پڑھتی بھی ہیں لکھتی بھی ہیں اور کبھی ایک غلطی نظر آ جائے تو آپ کو معاف کرنا نہیں آتا.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزاء دے.جہاں تک ریسرچ ٹیموں کا تعلق ہے میں آپ کو بتا تا ہوں کہ اس کا آغا ز بھی لنڈن ہی سے ہوا تھا.ہاں کام کرنے والیوں میں مسٹر ونڈر لینڈ کا نام بھی میں لینا چاہتا ہوں.وہ بھی شروع سے آخر تک بڑی وفا سے اس کام کو چھٹی ہوئی ہیں.Research Team کا آغاز بھی انگلستان سے ہوا کیونکہ مجھے ضرورت محسوس ہوئی کہ اسلام کے دفاع کے لئے ، عیسائیت کے مطالعے کے لئے ، بائبل کے مطالعہ کے لئے جس قسم کاResearch کا کام ہونا چاہئے تھا ہمارے ہاں ویسا کا من نہیں بلکہ اور ڈگر پر کام چل رہا ہے.ہمیں ضرورت ہے بہت ہی اہم مسائل میں ریسرچ کر کے، ان کے اوپر جوابی حملے کرنے کی اور میں نے پہلی دفعہ جو ٹیم بنائی تھی اس کو میں نے نصیحت کی تھی کہ دیکھو یہ سب لوگ، جو بڑے بڑے علماء کہلاتے ہیں.انہوں نے تمام دنیا میں مختلف مذاہب کی کتب کے اوپر تبصرے کئے ہوئے ہیں اور قرآن کریم کی گویا تفسیریں لکھی ہوئی ہیں مگر کیا تم کبھی کسی مسلمان کو بھی دیکھو گے کہ اس نے بائبل کی تفسیر لکھی ہو؟ یہی وہ بنیادی نقص ہے جس کی وجہ سے یہ حملوں میں شیر ہیں.اب وقت آگیا ہے کہ احمدی خواتین یہ جوابی حملہ کریں.جس طرح مسجد لندن بنانے میں احمدی خواتین کو دخل تھا.میں نے ان بچیوں سے جو پہلا خطاب کیا، میں نے کہا اب تمہارے سپر د میں اسلام کے حق میں جوابی حملہ کر رہا ہوں اور پہلی ٹیم اگر چہ تھوڑی سی ،مگر اس قسم کے مضامین میں ریسرچ شروع ہوئی وہ مضامین اتنے پھیلتے چلے گئے کہ اب ان بچیوں کے بس کی بات نہیں تھی کہ وہ سارا کام اپنے پاس ہی رکھیں.چنانچہ لندن سے زیادہ انگلستان کی دوسری شاخوں میں انہوں نے اپنی اپنی شاخیں قائم کیں

Page 526

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۲۲ خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۹۷ء اور پھر یہ کام اتنا بڑھ گیا کہ مجبوراً مجھے جرمنی میں بھی ایک ریسرچ ٹیم قائم کرنی پڑی ، جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت پھیل گئی ہے.تو تمام دنیا میں اس وقت اگر اسلام کے حق میں کوئی ریسرچ کا کام ہورہا ہے، تو یہ احمدی بچیاں ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ، یہ جوابی حملہ کر رہی ہیں.ان میں سے چند کے نام مجھے یاد ہیں.جو میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.باقی کثرت سے آتی جاتی رہتی ہیں.آتی جاتی اس لئے کہ خدا کے فضل سے شادیاں اچھی ہو رہی ہیں اور آئے دن کسی ریسرچ ٹیم کی لڑکی کی شادی کی خبر سنتا ہوں.اس وقت تو السلام علیکم وعلیکم السلام کے سوا کچھ اور بس نہیں چلتا مگر میں ان کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ جہاں بھی جائیں خوش رہیں مگر ریسرچ کا کام نہ چھوڑنا اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ وہ ساری جانے والیاں جو ہم سے تربیت پاچکی ہیں، وہ اپنے اپنے وقت میں اس تربیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بھی ، ریسرچ کے کام کو کبھی چھوڑیں گی نہیں.ان میں سب سے پہلے تو نویدہ شاہ ہیں.نویدہ شاہ بھی ہیں نویدہ شاہد بھی.یہ ہمارے ایران کے خاندان میں بیاہی ہوئی ہیں جن کا نام شاہد ہے.سید عاشق حسین صاحب کے بیٹے ہیں.نویدہ شاہد کو اللہ تعالیٰ نے چیزیں Organize کرنے کا بڑا سلیقہ دیا تھا.چنانچہ سب سے پہلا انچارج میں نے ریسرچ ٹیم کا ان کو بنایا اور انہوں نے بڑی محنت کے ساتھ ریسرچ ٹیموں کو سب جگہ نافذ کیا اور میری ہدایت ان تک پہنچاتی رہیں.دوسری جو بچی ہے وہ شیلا احمد ہے.یہ بھی شادی کی وجہ سے اب ہم سے کچھ ہٹ گئی ہے، لیکن پھر بھی جب تک اس کی شادی نہیں ہوئی، بہت اچھا کام کیا.یہ مطلب نہیں کہ باقیوں کی شادی نہ ہو.اللہ کرے جلد جلد شادیاں ہوں مگر شادیوں کے بعد بھی جن کو توفیق مل سکتی ہے، ان کو ملنی چاہئے.کئی ایسی بچیاں ہیں جو شادی شدہ تھیں، پھر ریسرچ میں شامل ہوئیں.ان کا ہمیں کوئی نقصان نہیں کیونکہ وہ انہی حالات میں وقت نکالا کرتی تھیں اور دن بدن کام میں آگے بڑھی ہیں، پیچھے نہیں ہیں.ان بچیوں میں جو نمایاں ریسرچ کا کام کرنے والی ہیں ان میں ایک ہماری ماہا در بوس تھیں جو خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ Egyption ہیں اور جو ریسرچ میں حضرت بی کے متعلق کروارہا ہوں اس میں ماہا در بوس نے غیر معمولی کام کیا ہے اور اسی کام کو ہم لوگ آگے بڑھا رہے ہیں.فوزیہ شاہ ہیں ، جو شروع سے ریسرچ کے کاموں میں شامل ہیں اور صوفیہ صفی ہیں جنہوں نے شادی کے بعد کسی حد تک کام چھوڑ دیا تھا اب کچھ واپس آرہی ہیں.غازی خاندان کی بچیاں ہیں.یہ تبلیغ کے میدان کی بھی غازی ہیں اور تحریر اور علمی تحقیق کی بھی غازی ہیں.ان میں فریدہ

Page 527

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۵۲۳ خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۹۷ء غازی، جس کا میں نے کل بھی ذکر کیا تھا، وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ، ریسرچ کے کاموں میں بہت چھا کام کر رہی ہیں یہاں بیٹھی ہیں ، ان کو خدا نے ملکہ دیا ہے کہ ریسرچ کا جوسلیقہ دنیا میں مسلم ہے ،اس کے مطابق چلتی ہوئی یہ احمدیت پر ریسرچ کر رہی ہیں اور ان کی ایک بہن عصمہ غازی ہیں ان سے بھی میں بہت کام لے رہا ہوں.ان کی بھی ایک اور بہن جس کا مجھے نام یاد نہیں مگر یہ سارے خدا کے فضل سے، اس تبلیغ اور تحریر اور تقریر کے تو نہیں مگر علمی میدانوں کے غازی ہیں.ترجمہ کی ٹیم کا جہاں تک تعلق ہے اس کو ہم نے F6 کا نام دیا ہے.اب یادرکھیں یہ سارے کام آپ نے کرنے ہیں.میں اس لئے آپ کو بتا رہا ہوں کہ لندن میں کیا کیا چیزیں شروع ہو چکی ہیں.خراج تحسین بھی ہے اور ایک استدعا بھی ہے کہ وہ علاقے جوان نیکیوں سے خالی ہیں ان کو بھی کوشش کرنی چاہئے کچھ نہ کچھ ان نیکیوں میں آگے قدم بڑھائیں.اس ٹیم کا نام میں نے (F) ٹیم رکھا ہوا تھا کیونکہ اتفاق سے وہ چھ لڑکیاں جو غیر معمولی طور پر ترجمے میں میرا ہاتھ بٹاتی تھیں ان کے نام (F) سے شروع ہوتے تھے.ایک ان میں فوزیہ بشیر ہیں.یہیں کہیں نظر آئیں تھیں مجھے.ہاں.اور فوزیہ باجوہ ہیں.وہ کہاں گئیں؟ بیٹھی ہوئی ہیں فوزیہ؟ غائب ہوگئیں ہیں.بہر حال، فوزیہ باجوہ بھی بڑی ہمت کے ساتھ ، استقلال کے ساتھ مستقل مزاجی کے ساتھ متراجم کے کام کر رہی ہیں اور ان کی بھی زبان بہت اچھی ہے.ایک فوزیہ شاہ ہیں جو ریسرچ ٹیم میں بھی ہیں ، اس میں بھی ہیں.ان کا نام بھی (F) سے شروع ہوتا ہے.ایک فریدہ غازی ہیں، جن کا پہلے بھی ذکر گزر چکا ہے ایک فرینہ قریشی ہیں ان کا بھی پہلے ذکر گزر چکا ہے.ایک فرحانہ قادر ہیں یہ چھ کی چھ ، ہمارے تراجم کے کام میں.ماشاء اللہ بہت خدمات سرانجام دے چکی ہیں اور خدا کے فضل سے ، ان کی زبان اچھی ہے اور جو میں ان کو سمجھاتا ہوں کہ یہ ترجمہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ ویسا ترجمہ کرنے کی.پھر ہم سب اکٹھے بیٹھتے ہیں پھر میں ان کو بتاتا ہوں کہ آپ نے حضرت مسیح موعود کی اس تحریر کو سمجھنے میں یہ اور یہ غلطیاں کی ہیں.چنانچہ ترجمے میں اکثر میرا بھی حصہ شامل ہو جاتا ہے اور اردو انگریزی میں ، دونوں طرح ہم مل کر جو ترجمہ تیار کرتے ہیں، اس ترجمے کو باہر کی دنیا بہت خراج تحسین دے رہی ہے وہ کہتے ہیں بعض کتابوں کی اب ہمیں سمجھ آئی ہے.ورنہ اس سے پہلے بار ہا پڑھی تھیں لیکن ان کی کچھ سمجھ نہیں آئی تھی.اللہ نے ان کو چونکہ یہاں کی زبان بچپن سے سکھائی ہے، انہیں انگریزی پر بھی عبور ہے اور اردو پر کسی حد تک میں ان کو سمجھا دیتا ہوں.وقتی طور پر کچھ نہ کچھ علم رکھتی ہیں.تو یہ ہماری (F.Team) ہے.اور اس

Page 528

حضرت خلیفتہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۲۴ خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۹۷ء کے علاوہ ایک ہومیو پیتھک ٹیم ہے.یہ سارا آغا ز ہر چیز کا ، یہاں لنڈن سے ہوا ہے.ہومیو پیتھک میں بہت سی خواتین نے جو مجھ سے سمجھ کر کام کو آگے بڑھایا ہے ان میں دو خواتین ہیں جن کا غیر معمولی طور پر ذکر ضروری ہے.ایک فرحت Walker اور ایک نعیمہ کھوکھر.فرحت وا کر نے میرے لیکچرز کوتحریر کی شکل دی.اگر چہ تحریر کی صورت میں تھے تو سہی مگر زبانی تقریر کی اور بات ہوتی ہے اور ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریر کی اور بات ہوتی ہے.ان کو میں نے سمجھایا کہ کس طرح بعض آگے پیچھے فقروں کو پھر آگے پیچھے کریں اور تحریر کی شکل دیں اور اس معاملہ میں فرحت واکر کوخدا تعالیٰ نے ایک غیر معمولی سلیقہ عطا فرمایا ہے.پہلے میں بہت سی خواتین کو آزما چکا تھا، ان کو سمجھا چکا تھا جو نتیجہ نکلتا تھا، وہ اچھا نہیں لگتا تھا.فرحت واکر نے جو سمجھا اسی طرح اس کو تحریر میں ڈھالا اور اب جونئی کتاب شائع ہوئی ہے، اس میں ان کی محنت کا بہت دخل ہے.پھر بہت سے ایسی دوا ئیں تھیں جن کے متعلق ابتدائی تعارف میں نے ضروری نہیں سمجھا تھا.اس سلسلے میں انہوں نے مجھے توجہ دلائی.چنانچہ بعض کتابوں سے ان دواؤں کے نام اور ان کے جو سائنسی نام ہیں، وہ شامل کئے گئے اور مختصر سا تعارف شامل کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں میں اور بھی بعضوں کو آزما چکا تھا مگر وہ ناکام رہے ) نعیمہ کھوکھر نے بالآخر مجھ سے بات سمجھ کر وہ نمونے مجھے پیش کرنے شروع کئے کہ Index ہم اس طرح بنائیں اور بسا اوقات آپ یہ بھی دیکھ لیں کہ اس میں میرا بھی کافی وقت لگتا ہے.ایک چیز کو بعض دفعہ چھ چھ دفعہ میں نے نعیمہ کو سمجھایا کہ نعیمہ یوں کرنا ہے یوں نہیں کرنا.بس جی اب مجھے سمجھ آگئی.‘ میں نے کہا سمجھ تو آگئی ہوگی مگر مجھے لا کر دکھانا.لا کر دکھایا بالکل کچھ اور.میں نے کہا یہ سمجھ آئی تھی ؟ اچھا اچھا اب مجھے دوبارہ بتائیں.دوبارہ بتایا.شکر ہے، اب مجھے سمجھ آئی.میں نے کہا کل پھر لا کر کام دکھانا.دوبارہ کام دکھایا تو با کل کچھ اور.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان میں یہ خوبی ہے کہ چھٹی یا ساتویں دفعہ سمجھ جاتی ہیں مگر جب سمجھ جائیں پھر بہت اچھا کام کرتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے موتیوں کی طرح سجا ہوا خط عطا کیا ہے.خوبصورت تحریر ہے اور محنت کا سلیقہ ہے.ساری بات سمجھنے کے بعد بالآخر پھر اسی طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ نے فضل سے اس کتاب کو ڈھالا ہے یہ اب شائع ہو چکی ہے.کہاں ہے آپ کے پاس ہے کہیں؟ کتاب؟ وہ منگوائیں نا.اس کتاب سے آپ کو گھر گھر میں اب ہومیو پیتھک آسان ہو جائے گی اب میں فائزہ ،شو کی اور مونا، طوبیٰ کو بتا رہا ہوں کہ خدا کے لئے ، اس کو پڑھو اور اس میں ہر بیماری کے متعلق یعنی ہر معروف

Page 529

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۲۵ خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۹۷ء بیماری کے متعلق جو اکثر ہوتی ہے ، Index کے ذریعے اس جگہ پہنچنا آسان ہو جائے گا.یہ محنت ہے جو نعیمہ کھو کھر نے غیر معمولی طور پر سر انجام دی.سر فہرست آخر پر، ہر بیماری کی بھی فہرستیں ہیں جن میں سے ایک فہرست یہ ہے کہ جو نام آپ کو یاد ہے ، دل کا نام، کینسر کا کوئی نام،جگر کا نام.اتنا تو یاد ہے ناہر نام کے ساتھ اب بیماری کی طرف جاسکتی ہیں.دل کی بیماریاں، آگے لکھی گئی ہیں ان میں سے آپ کو کونسی تکلیف یا کسی اور کو کونسی تکلیف ہے.وہ آپ ان کی نشاندہی کر سکتے ہیں.وہ ذکر کتاب کے جس صفحہ پر ملتا ہے،اس کے صفحہ نمبر لکھ دئے گئے ہیں جس صفحہ پر آپ جائیں تو اس میں وہ سطر نمایاں طور پر آپ کو سیاہی کے ساتھ دکھائی دے گی جہاں اس کا ذکر ملتا ہے.غرضیکہ بہت ہی آسان ہو گیا ہے کسی مرض کی تشخیص کرنا.آپ اس کتاب کے ذریعے، گھر بیٹھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے، پوری ڈاکٹر بن سکتی ہیں اور اس کے ساتھ ، جہاں تک ڈبوں کی Supply کا تعلق ہے،اس سلسلے میں ہماری ایک ہومیو پیتھک ٹیم ہے جس نے غیر معمولی خدمت سرانجام دی ہے، بلکہ ان کے سارے خاندان نے وہ حفیظ بھٹی صاحب اور ان کی بیوی چھیری بیگم ہیں.یہ کتاب دیکھ لی ہے.خوبصورت ہے کہ نہیں؟ ( مونا عینک پہنو نہیں پہنی ہوئی نا.ہاں.یہ دیکھ لو ).یہ بتاؤ کہ اتنا خوبصورت ٹائٹل کس نے بنایا ہوگا ؟ اندازہ ہے کسی کو؟ جی ناں ناں ! سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ! یہ ٹائٹل امریکہ سے آیا ہے اور نو ما نے بنایا ہے.اور نو ما“ کو میں نے سمجھایا اور خود بلا کر ، اس کی امی بھی تھیں، بتایا کہ یوں کرو، یوں کرو.کافی انہوں نے اس پر محنت کی اور اتنا خوبصورت ٹائٹل یہ بنا ہے کہ اس کے اندر حکمت کے ساتھ ، تمام باتیں جو ہومیو پیتھک سے تعلق رکھنے والی ہیں ، اس ٹائٹل کے اندر ہی موجود ہیں.جسم میں حدت پیدا ہوتی ہے ہر بیماری سے پہلے.پھر یہ شعلے حدت کا نشان ہیں.پھر زرد رنگ بیماری کا نشان ہیں.پھر یہ علاج ہے، یوں اور سبز رنگ پر شفا ہے اور اس کے سلسلے میں شہد کی مکھیاں جو کام کرتی ہیں ، وہ مکھیاں مختلف اطراف سے چھتوں سے اُڑ اُڑ کے، پھولوں پر بیٹھ رہی ہیں.جیسے کہ قرآن کریم نے فرمایا ہے.تو اس کا ٹائٹل ہی خود اپنی ذات میں پانچ پونڈ کا ہونا چاہئے لیکن یہ ساری کتاب پانچ پونڈ کی ہے.سات سو صفحے کی کتاب کہیں سے پانچ پونڈ کی نکال کر دکھا ئیں.مارکیٹ میں میں چھپیس پونڈ کی یہ کتاب ملے گی مگر ہم نے اللہ کے فضل سے اس کی قیمت صرف پانچ پونڈ مقرر کی ہے تا کہ کثرت سے احمدی اس سے فائدہ اٹھا سکیں اور پاکستان میں بھی یہ پانچ پونڈ میں نہیں مل سکتی تو میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ کے فضل سے یہ بھی ایک شفا کا موجب بنے

Page 530

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات گی.دنیا میں شفا پھیلانے کا موجب بنے گی.۵۲۶ خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۹۷ء حفیظ بھٹی اور عزیزہ چھیری بیگم کا ذکر میں نے چھیڑا تھا.خدا تعالیٰ نے ان کو اور ان کے سارے خاندان کو ہومیو پیتھک کے لئے وقف کیا ہوا ہے بے حد کام کر رہے ہیں ڈبے جو ہمارے بنارہے ہیں ، دوائیاں بنارہے ہیں.۲۰۰ کچھ دوائیاں جو مرکزی دوائیاں میں نے ان کو سمجھا ئیں تھیں، اس کے ڈبے بنا کر سب انہوں نے اپنے ہاتھ سے کام کیا ہے.ان کے بچے بھی اسی کام میں لگے رہتے ہیں.سارا دن گھر میں یہ ہاتھ ہلتے اور بعد میں دردوں کا علاج مجھے کرنا پڑتا ہے کیونکہ کبھی اس بازو میں درد شروع ہوگئی، کبھی اس بازو میں درد شروع ہو گئی مگر یہ خدا کے فضل سے، ہومیو پیتھک کی خدمت سے باز نہیں آرہے.چھیری بیگم میں ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ اپنی کسی بیماری کا خود علاج نہیں کرسکتیں.سب دنیا کا علاج کرتی ہیں، جب آپ بیمار ہوں تو میرے علاج کے سوا فائدہ نہیں ہوتا اس لئے اللہ کے فضل سے یہ میری تجربہ گاہ بھی بن گئی ہیں اور یہ اللہ کا احسان ہے کہ اکثر میری دوائیاں تیر بہدف لگتی ہیں اور ان کو فوری طور پر شفا ہو جاتی ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ چھیری بیگم اس سے متفق ہوں گی.( کیوں بھئی کہاں ہیں چھیری بیگم؟ کہاں ہو تم ؟ متفق ہو کہ نہیں؟ گھٹے کچھ ٹھیک ہوئے کہ نہیں.بالکل ٹھیک ہیں ماشاء اللہ ).یہ ہومیو پیتھک سے پہلے کرچ پر چلنے والی خاتون تھیں.بمشکل قدم اٹھاتی تھیں.سارا جسم ٹیڑھا ہوا تھا اور جب خدا کے فضل سے ہومیو پیتھک کی خدمت شروع کی ہے، تو رفتہ رفتہ سب کچھ کر چیں ور چیں چھوڑ دیں اور اب یہ لڑکیوں کی طرح دوڑتی پھرتی ہیں یا دوڑنے پھرنے کی کوشش ضرور کرتی ہیں.ان کے علاوہ ہومیو پیتھک ٹیم میں جو ڈیوٹیاں سرانجام دیتی ہیں، جنہوں نے ہماری ڈسپنسری کو سنبھالا ہوا ہے، وہ ہے چھیری بیگم کے ساتھ قانتہ را شد امام صاحب کی بیگم، عارفہ امتیاز بہت خدمت کر رہی ہیں.صبیحہ لون نے بھی ہو میو پیتھک شروع کی ہوئی ہے، شگفتہ ناصر مسلسل خدمت کر رہی ہیں نعیمہ کھوکھر بھی باقاعدہ حاضری دیتی ہیں.مبارکہ احمد یعنی مبارکہ گلزار یہ بھی حاضر ہوتی ہیں اور ناصرہ رشید بھی، اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہومیو پیتھک میں قدم رکھ رہی ہیں.ان کے علاوہ جو مددگار ٹیمیں ہیں، ان میں سے ایک ہماری نئی کتاب کے سلسلے میں مددگار ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس کتاب میں اتنے موضوعات ہیں کہ ان کے لئے کسی ایک ٹیم کا ہر موضوع پر کام کر نا ممکن نہیں ہوتا تھا.بہت سے ایسے علوم ہیں، جن میں بعض ٹیمیں کام کر سکتی تھیں اور بعض دوسروں میں وہ کام نہیں کر سکتی تھیں اس لئے بہت عرصہ لگا مختلف وقتوں میں مختلف یہاں کی احمدی بچیوں کو

Page 531

حضرت خلیلہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۲۷ خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۹۷ء ڈھونڈنا پڑا جو کم سے کم بعض Chapters کے سلسلے میں اچھی خدمت سرانجام دے رہی ہیں.ان کا تفصیل سے ذکر تو کتاب میں ممکن نہیں ہوگا مگر میں آپ سمجھتا ہوں کہ اس تعلق میں کچھ سمجھا دوں آپ کو.فوزیہ شاہ اور ماہا در بوس نے شروع میں بہت محنت کی ہے مگر جو کچھ ان کے بس میں تھی وہ کی اور اس سے آگے رک گئیں.منصورہ حیدر نے اس معاملے کو آگے بڑھایا.وہ وہاں کہیں بیٹھی ہوئی ہیں سامنے نظر آئی تھیں.ہاں.بہت قابل بچی ہیں ماشاء اللہ - M.SC کیا ہے یا Ph.D کیا ہے؟ M.Sc بہت قابل ہیں، اللہ کے فضل کے ساتھ اور جو سائنسی امور ہیں ، ان کے سلسلے میں ، حوالوں کی مجھے تلاش ہوتی تھی.تو یہ مجھے کتابیں پڑھ پڑھ کے معین حوالے بتاتی تھیں کہ یہ جو آپ بات کہہ رہے ہیں وہ وہاں لکھی ہوئی ہے اور بہت لمبے عرصے سے یہ میرے ساتھ کام کر رہی ہیں.فائزہ کو پتہ ہے کہ یہ بچیاں بعض دفعہ شام کو آئیں تو رات گئے تک بیٹھی کام کر رہی ہوتی تھیں.فائزہ کو اس لئے پتہ ہے کہ میں نے فائزہ کے سپردان کا کھانا کیا ہوا تھا کہ کھانا تم سنبھالو اور باقی کام میری ذمہ داری.اگر چہ بہت شرمایا کرتی تھیں یہ بچیاں کہ ہم نے نہیں کھانا ہم نے نہیں کھانا مگر بھوک تو انسان کو لگتی ہے بہر حال.آخر وہ مجبور ہو جایا کرتی تھیں.تقریب دو تین سال اس طرح احمدی بچیوں سے میں نے خدمت لی ہے کہ اس میں ہمارے گھر والے، یعنی فائزہ بھی کسی حد تک شامل ہو جاتی رہی ہیں.منصورہ حیدر کے علاوہ جواب منصورہ منیب بن چکی ہیں.مسرت بھٹی جو طاہر بھٹی صاحب کی بیگم ہیں انہوں نے بہت بڑا کام کیا ہے اور لمبے عرصے تک ، خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنی ایک اور ٹیم بنائی ہوئی تھی ، جس میں فوزیہ باجوہ بھی اور نیلوفر بھی اور بھی بچیاں تھیں.ان کے ساتھ مل کر یہ میری مددگارر ہیں.آپا مجیدہ جو اسلام آباد کی ہیں.اگر چہ ان کا Official کام یعنی جماعت کی طرف سے جو کام سپرد ہے وہ Review کا ہے.لیکن پہلی خدمت یہ Proof Reading بھی کرتی رہی ہیں اور اچھی Proof Reading کرتی رہی ہیں.یہ آخری ٹیم ، جس کا کل میں نے ذکر کیا تھا یہ مولوی منیر الدین صاحب شمس اور فرینہ قریشی اور فریدہ غازی کی ٹیم ہے.پچھلی جتنی ٹیمیں تھیں، ان کے علاوہ ان کو ایک سلیقہ ایسا ہے جوقومے اور چھوٹی چھوٹی اردو انگریزی کی غلطیاں یا امکانی طور پر غلطیاں یا ایسے مضامین جو میں اپنی طرف سے بیان کر چکا ہوں لیکن پڑھنے والے کو ممکن ہے سمجھ نہ آئے.ان تمام کے اوپر، ایک ایک لفظ پڑھ کر انہوں نے نشان لگائے اور مجھے بھیجے کہ آپ اس پر چھپنے سے پہلے دوبارہ غور کر لیں.چنانچہ بہت سی تحریرات

Page 532

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۲۸ خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۹۷ء کو، اس وجہ سے کہ یہ نہیں سمجھ سکیں مجھے بدلنا پڑا اور جب تک ان کا اطمینان نہیں ہوا، میں نئی تحریر میں لکھتا رہا.اب میں سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب تیار ہے.مگر سب سے آخر پر میں صالح صفی کا ذکر ضرور کروں گا، جنہوں نے میرے انگلستان کے تمام عرصے میں ہر قسم کے حوالوں کی تلاش میں میری مدد کی ہے.بعض دفعہ میں سال پہلے میں نے کوئی کتاب پڑھی ہوتی تھی اس کا مضمون مجھے یاد ہوتا تھا، میں صالح صفی کو فون کرتا تھا کہ صالح صفی، لا و حوالہ دو اور اس کو ایسا سلیقہ خدا نے دیا ہے کہ چند دنوں کی محنت کے بعد ساری لائبریریاں کھنگال لیتی تھیں کمپیوٹر میں چیزیں ڈال دیتی تھیں اور بالآخر وہ کتاب مل جاتی تھی.آج تک ایک حوالہ بھی ایسا نہیں ، جو میں نے صالحہ صفی کو بھیجا ہو کہ مجھے اس میں تمہاری مدد کی ضرورت ہے اور انہوں نے مہیا نہ کیا ہو.تو اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے ، انگلستان میں، یہ ٹیمیں تیار ہوئی ہیں جو یہاں کی لجنہ اماءاللہ کی تربیت کی بھی بہت بڑی حد تک محتاج ہیں.انہی ٹیموں میں سے ہماری اردو کلاس ہے.انہی ٹیموں میں سے ہماری انگریزی کلاس ہے، جو ناصرہ رشید اور اس کی دو ساتھی سنبھالتی ہیں.یہ سارے کام اللہ کے فضل سے، اس ہجرت کا پھل ہیں سینکڑوں بچیاں لازماً بلکہ ہزاروں ہوں گی جو صرف انگلستان ہی میں ایسے نیک کاموں میں مشغول ہو چکی ہیں کہ ان کو دوسرے کاموں کی ہوش ہی نہیں ہے.ان کو بعض دفعہ تو اپنے بچوں کی اپنے خاوندوں وغیرہ کی ہوش بھی نہیں ہوتی اور ان کے خاوند بعض بچیوں کے خاوند مسجد فون کرتے ہیں کہ ہماری بیوی تو نہیں دیکھی؟ کہتے ہیں ہم گھر میں دو تین گھنٹے سے انتظار کر رہے ہیں، ضرور یہیں کہیں ہوگی.بیمار ما ئیں چھوڑ کر، بیمار بچے چھوڑ کر گھر کی ضرورتیں چھوڑ کر، جب بھی احمدی خواتین کو آواز دی ہے وہ لبیک کہتے ہوئے آگئیں ہیں.پس ، میں نے جو مثال آپ کے سامنے رکھی تھی ، اس میں کوئی بھی مبالغہ نہیں.وہ ایک ام عمارہ جس نے نیکیوں کی یہ بناء ڈالی تھی کہ اسلام کے جہاد کے لئے آگے کھڑی ہوں.اب تو مجھے اپنے چاروں طرف ام عمارہ دکھائی دے رہی ہیں اور خدا گواہ ہے کہ اگر جسمانی جہاد کی بھی ضرورت پڑے گی تو ہر گز دریغ نہیں کریں گے.اللہ ان سب کو دنیا اور آخرت میں بہترین جزاء دے اور ان کی نیکیاں، دنیا میں بھی پھل لائیں اور آخرت میں بھی پھل لائیں.ہمارے اجتماعی کام جو جماعت کے آگے بڑھ رہے ہیں، اس میں احمدی خواتین کا غیر معمولی دخل ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ یہ دخل آگے بڑھتا رہے گا.

Page 533

حضرت خلیفہ اس الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۲۹ خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۹۷ء اب آخر پر میں افریقہ کو مخاطب ہوتا ہوں.افریقہ میں احمدی خواتین سے ویسی خدمت نہیں لی جارہی جیسی دنیا کی باقی قوموں میں لی جارہی ہے اور افریقہ میں شدید ضرورت ہے کہ لکھوکھا ہونے والی بیعتوں میں، ان میں سے خواتین اپنی ذمہ داری ادا کریں اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ ابھی تک جو افریقہ میں مردوں کو بیدار کیا جارہا ہے، اگر افریقہ کی عورت کو احمدیت کے لئے بیدار کیا گیا تو چند سالوں میں تمام افریقہ میں وہ انقلاب برپا کر سکتی ہیں.افریقن عورت میں یہ خوبی ہے کہ وہ افریقہ کے ہر ملک کی افریقن عورت اپنے مردوں سے زیادہ کام کرتی ہے.آپ کو شاید انداز نہیں مگر میں نے تو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوا ہے.افریقن عورتوں میں جتنی محنت کی عادت ہے اور جس سلیقے سے وہ کام کرتی ہیں، ان کے مردان سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں حکومت تو وہ چلاتے رہیں تعلیم کے بعض شعبوں میں وہ آگے ہیں لیکن دیہات میں کھیتوں میں کام کرنا، بچے اٹھائے ہوئے.ایک آگے ٹوکری میں ڈالا ہوا ہے، ایک پیچھے پھینکا ہوا.کچھ ہاتھ کی انگلی پکڑے ساتھ چلتے ہوئے اور ساتھ کھیتوں میں خدمت ہو رہی ہے.پھر دکانیں بھی وہی چلاتی ہیں.اکثر کمائیاں عورتیں کرتی ہیں.مردوں کا کام تو روٹی کھانا ہے وہاں.یا پھر اپنی شان و شوکت دکھانا ہے.میں سارے مردوں کی بات نہیں کر رہا.کچھ ناراض بھی ہوں گے شاید مگر امر واقعہ یہ ہے کہ افریقہ میں احمدی عورت ، خدا کے فضل سے، بہت بڑا کام سرانجام دے رہی ہے.اگر یہ عورتیں، خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ، جماعت کے حق میں اس طرح بیدار ہو کے اٹھ کھڑی ہوں، جس طرح میں نے باقی دنیا میں نقشہ کھینچا ہے ، تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ چند سالوں کے اندر سارے افریقہ کی تربیت بدل جائے گی.پس آئیے، میرے ساتھ اس دعا میں شامل ہو جائیں کہ اللہ تعالیٰ ان سب خواتین کو جنہوں نے احمدیت کی خدمت میں کار ہائے نمایاں سرانجام دئے ہیں، ان خواتین کو بھی ، جن کو میں جانتا ہوں ،ان خواتین کو بھی جن کو میں نہیں جانتا، ان پر خدا کی نظر ضرور ہے، ان سب کے لئے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ دین اور دنیا میں ان کو بہترین جزاء دے.ان کو نیکیوں کا چسکا پڑ چکا ہے اور مخالف معاشرے کا اس سے بڑھ کر بہتر کوئی جواب نہیں ہو سکتا.کئی تحقیق کرنے والے میرے پاس آتے ہیں میں کہتا ہوں ان بچیوں سے جاکے پوچھو کہ ان کو کیا جنون کا سودا ہے کہ یہ دن رات مسجد میں رہتی ہیں.ایک MTA ٹیم ہے.اس میں رقیہ گلزار ہیں اس کی ساتھی ہیں اکثر ان کو میں نے دن ہو یا رات ہو، وہیں کام کرتے دیکھا ہے.اتنی خواتین احمدیت کی خدمت میں مصروف ہیں کہ باہر کی دنیا

Page 534

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۳۰ خطاب ۲۶ جولائی ۱۹۹۷ء تصور بھی نہیں کر سکتی اس لئے آپ میں وہ لوگ جو ان کاموں میں شامل نہیں ہوئے ان کو میں دعوت دیتا ہوں کہ وہ بھی شامل ہو کر دیکھیں تو سہی کہ اس کا مزہ کیا ہے.جب میں غیروں کا بتا تا ہوں اور وہ جاکر Interview لیتے ہیں تو واپس آکر مجھے کہتے ہیں کہ ہم نے تو ایک عجیب ہی چیز دیکھی.ہر خدمت کرنے والا خدمت کی وجہ سے خوش ہے اور اس کو دنیا کے کسی دوسرے کام کی کسی لذت کی کوئی پرواہ نہیں.آج اگر دنیا کے بگڑے ہوئے معاشرے کا کوئی جواب ہے، تو احمدی عورت ہے.اے دنیا کی احمدی خواتین ! اٹھ کھڑی ہو، اور کثرت سے ام عمارہ پیدا کرو یہاں تک کہ یہ سارا جہان ام عمارہ سے بھر جائے اور جگہ جگہ اسلام کی تلوار اٹھانے والی احمدی خواتین ہوں، جو دنیا کو مغلوب کرتی رہیں.اگر افریقہ میں یہ انقلاب برپا ہو گیا، تو آپ دیکھیں گی کہ کل کی دنیا ایک اور دنیا ہو گی.اللہ ہمیں اس کی تو فیق عطا فرمائے.اس کے ساتھ ہی اب میں دعا کرواتا ہوں.آئیے اس دعا میں شامل ہو جائیں.آمین اب میں آپ سے اجازت چاہتا ہوں.خدا حافظ.اپنی دعاؤں میں مجھے بھی یاد رکھیں کہ ان سب خدمت کرنے والیوں کی دعا کے لئے دعا کا حق ادا کر سکیں یہ ایک محرومی کا احساس رہتا ہے جب بھی کوئی احمدی عورت خدمت کرتی ہے تو مجھے حقیقتا یوں لگتا ہے کہ میری ذات پر اس نے احسان کیا ہے اور اس احسان کے نتیجہ میں بے حد دل چاہتا ہے کہ اس کے لئے دعائیں کروں لیکن کئی دفعہ اچانک مجھے یاد آجاتی ہے کہ او ہو فلاں بچی نے جو اتنی خدمت کی تھی اس کے لئے دعا نہیں کی.میرا دماغ گھومتا رہتا ہے ان کی تلاش میں ان سب کو میری دعاؤں سے حصہ ملے.پس میرے لئے یہ دعا کیا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے عبد شکور بنائے اور سارے محسنوں کا احسان کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.

Page 535

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۵۳۱ خطاب ۶ امر اگست ۱۹۹۷ء آنحضور کی ازواج مطہرات کی پاکیزہ سیرت کا بیان اور احمدی خواتین کو نیکیوں میں آگے بڑھنے کی نصیحت (جلسہ سالانہ مستورات جرمنی سے خطاب فرموده ۱۶ را گست ۱۹۹۷ء) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: گزشتہ مرتبہ جب امریکہ اور کینیڈا کے دورے کی توفیق ملی تو خصوصیت سے مستورات کے اور نوجوان بچیوں کی تربیت کے مسائل میں نے ایسے دیکھے جن کی وجہ سے میرے دل میں بہت بے چینی اور کرب پیدا ہوا کیونکہ اس نسل کی بچیاں جنہوں نے باہر آنکھ کھولی ہے اور باہر کی فضا میں پلی ہیں ان کے لئے بیرونی تقاضے بہت ہیں.جو ان کو اپنی طرف کھینچتے ہیں اور اس طریق پر کھینچتے ہیں کہ ان کا دل اس طرف مائل ہو جاتا ہے اور جب دل اور دماغ دونوں اکٹھے ایک طرف چلیں تو ماں باپ کے بس کی بات نہیں رہتی کہ انہیں کھینچ کر دوبارہ اپنی طرف لائیں.یہ وہ مسائل تھے جنہوں نے مجھے پریشان کئے رکھا اور بالآخر اللہ تعالیٰ نے مجھے یہی ایک تجویز سمجھائی کہ ان خواتین کو ان کے لئے ایسے ماڈل دیئے جائیں جن میں ان کا دل اٹک جائے یہ سارا دور ماڈلز کا دور ہے ہمیشہ سے رہا ہے مگر اس دور میں تو خصوصیت سے ماڈلز نے ایک بڑی اہمیت اختیار کر لی ہے.آپ نے دیکھا ہوگا بچوں کی بنیا نوں پر کسی بھیا تک کشتی لڑنے والے کی تصویر ہوگی یا اور ایکسرسوں کی تصویر میں ہوں گی.بعض عورتوں کے بدن کے کپڑوں پر، بعض لڑکیوں کے کپڑوں پر ، مردوں کے کپڑوں پر بعض ایکٹروں کی تصویریں، بہت اچھے گانے والوں کی تصویر میں ، فٹ بال کھیلنے والوں کی تصویریں، یہ سارے ماڈلز ہیں اور ایک بچہ کا سینہ آپ دیکھیں اس پر کیا چھپا ہوا ہے وہی جو کچھ اس کی بنیان پر چھپا ہوا ہے اس کے دل پر بھی چھپا ہوا ہے وہ اسی کی پیروی کرتا

Page 536

حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۵۳۲ خطاب ۶ ار اگست ۱۹۹۷ء ہے اور اس طرح آپ کو ہر شخص کا رخ معین کرنے میں مدد ملتی ہے.قرآن کریم اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے لِكُلِّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلَّيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ (البقره: ۱۴۹) کہ یہ ایک ایسا مضمون ہے جو تمام بنی نوع انسان پر یکساں اطلاق پاتا ہے ہر زمانے پر یکساں اطلاق پاتا ہے اور قرآن کریم نے دیکھو کتنے خوبصورت انداز میں ایک ہی جملے میں اسے بیان فرما دیا لِكُلِّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَفِّيْهَا.ہر شخص کا ایک قبلہ ہے، ہر قوم کا ایک قبلہ ہے، ہر رنگ ونسل کا ایک قبلہ ہے هُوَ مُوَلَّيْهَا وہ اسی کی طرف منہ کرے.پس قبلہ کی تعیین سب سے ضروری ہے اگر قبلہ کی تعیین ہو جائے تو سارے مسائل حل ہو جاتے ہیں اس پہلو سے میں نے سوچا کہ کیوں نہ خواتین کے سامنے وہ قبلے رکھے جائیں جو گزشتہ عظیم خواتین کے قبلے ہیں، جن کو قرآن کریم نے محفوظ فرمایا ہے، جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی احادیث نے ہمارے سامنے خوب معین طور پر کھل کر پیش فرمایا ہے، بعید نہیں کہ ان کی باتیں سنیں اور بعض بچیوں کے دل ان میں اٹک جائیں.چنانچہ یہی ترکیب میں نے کینیڈا اور امریکہ کے جلسے میں استعمال کر کے دیکھی اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس کا غیر معمولی نتیجہ نکلا.کثرت کے ساتھ بڑی بچیوں کے بھی اور چھوٹی بچیوں کے بھی مجھے خطوط ملے کہ اس سے پہلے ہم بغیر کسی سمت معین کے منہ اُٹھائے ہوئے جدھر معاشرہ جارہا تھا ہم بھی جارہی تھیں ہمارے سامنے کوئی قبلہ نہیں تھا اگر تھا تو غلط قبلہ تھا لیکن آپ نے جن خواتین کی باتیں کی ہیں انہوں نے ہمارے رخ ایک طرف موڑ دیئے ہیں اور اب ان خواتین کے رخ کے مطابق ہمیں ہر طرف خدا ہی کا قبلہ دکھائی خدا ہی دے رہا ہے اور ہم نے اپنے اندر نمایاں پاک تبدیلیاں پیدا کی ہیں اور پھر دعاؤں کے لئے لکھتی رہیں کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان فیصلوں پر قائم رہنے کی توفیق بخشے.پس اس کامیاب تجربے کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں نے گزشتہ اسی سال جلسہ خواتین (UK) میں اسی مضمون کو کچھ آگے بڑھایا تھا.یہ مضمون بہت لمبا ہے کئی سالوں پر پھیل جائے گا لیکن جتنی بھی مجھے توفیق ہوئی میں آپ کے سامنے رکھوں گا.وجہ یہ ہے کہ اس میں مختلف خواتین کی مختلف تمنائیں ہیں.کسی کے لئے کوئی قبلہ کام آئے گا، کسی کے لئے کوئی قبلہ کام آئے گا اس لئے مختلف خواتین کے ذکر مجھے تاریخ کے حوالے سے کرنے ہوں گے اور صرف تاریخ اولی یعنی پرانے زمانے کی.پرانا زمانہ تو نہیں کہنا چاہئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا زمانہ تو بالکل نیا زمانہ ہے آنحضور کے زمانے تک پہنچ جائیں تو درمیان کے اندھیرے سب دور ہو جاتے ہیں اور وہاں آپ کو روشنی دکھائی دیتی ہے پس رسول اللہ کے زمانے تک پہنچنے کے

Page 537

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۵۳۳ خطاب ۶ اسراگست ۱۹۹۷ء لئے سب سے پہلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے کی خواتین ہی کی ضرورت ہے پھر ان کی باتیں کریں اور انہیں حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کیسے دیکھا کیسے آپ پر جانیں نچھاور کیں کیسے ہمیشہ کے لئے انہیں کی ہو کر رہ گئیں.انہی کی باتیں سن کر شاید بعض بچیوں کے دل میں نئے ولوے پیدا ہوں ، شاید بعض دلوں میں ہیجان برپا ہو اور وہ سوچیں کہ کاش ہم بھی اس وقت ہوتیں یا ہم بھی آج انہیں کے نمونے پکڑیں غرضیکہ یہ ایک نصیحت کا ایسا طریق ہے جو دلوں کو متحرک کرتا ہے زبانی طور پر آپ کو بہت کچھ کہا گیا ہے یہ کرو اور یہ نہ کرو وہ کرو اور یہ نہ کرو لیکن ایسی باتیں بچیاں جب اپنے بڑوں سے سنتی ہیں تو عملاً ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتی ہیں کہ جی اگلے وقتوں کے لوگ ہیں پرانی باتیں کرتے ہیں.ان کو کیا پتہ کہ اب زمانہ کس نہج پر چل پڑا ہے، اب تو دنیا کے حالات بدل چکے ہیں، اب تو نئے نئے لذتوں کے اور دلچسپیوں کے تقاضے ہیں جو باہر ہمیں بھینچ رہے ہیں.ہمارے سارے سکول کے بچے اور کالج کے بچے سکول کی بچیاں اور کالج کی بچیاں اور ہی سمت میں بھاگے جارہے ہیں ہمیں کیوں روک رہے ہیں.اپنے ماں باپ کی یا اپنے بڑوں کی نصیحت کا عموماً یہی اثر ہم نے دیکھا ہے لیکن جو نمونے میں آپ کے سامنے رکھوں گا ان نمونوں کو سن کر دلوں کی کایا پلٹتی ہے.دلوں میں ہیجان پیدا ہوتا ہے انسان اس دنیا کومحض اس دنیا ہی کی زندگی سمجھتا نہیں بلکہ اس دنیا کو اگلی دنیا سے پیوست دیکھتا ہے گویا ایک ہی تسلسل ہے.یہاں آنکھیں بند ہوئیں اور وہاں آنکھیں کھل گئیں جو کچھ یہاں انسان کھوتا ہے اس سے بہت زیادہ آگے پانے کا یقین دل میں بیٹھ جاتا ہے اور اس بناء پر ہر شخص کے دل سے معلم اٹھ کھڑا ہوتا ہے ایک نصیحت کرنے والا ہے جو اسے نصیحت کرتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ تم نے اپنا قبلہ کیا بنانا ہے.یہ قبلے جو میں آپ کو دکھاؤں گا ان کے مقابل پر وہ سینوں پر چھپے ہوئے قبلے دیکھیں تو آپ حیران رہ جائیں گی کہ وہ کیا چیزیں تھیں جن میں آپ کا دل انکا ہوا تھا نہایت لغو، بے معنی بے حقیقت چیزیں.ایسی صورتیں جو آپ کبھی بن نہیں سکتیں اگر بن جائیں تو اپنی دنیا بھی برباد کریں گی.اور آخرت بھی برباد کریں گی کن لوگوں کے پیچھے چل پڑی ہیں، کن لوگوں کو اپنا نمونہ بنا بیٹھی ہیں وہ لوگ جن کی دنیا میں بھی کوئی حقیقت نہیں ، ان کے اپنے دلوں میں آگ لگی ہوئی ہے، ہر وہ کوشش کر بیٹھتے ہیں کہ وہ دنیا کمانے کے نتیجے میں اس کی لذتیں حاصل کر سکیں مگر لذتیں حقیقت میں ان سے دور بھاگتی ہیں.بہت سے ایسے ہیرو ہیں ، بہت سی ایسی ہیروئن ہیں جو خود کشیاں کر کے مرجاتے ہیں ان کے جب حالات اخباروں میں چھپتے ہیں، جب ان کے مقدمے بنتے ہیں تو پھر آپ کو

Page 538

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۵۳۴ خطاب ۶ ار اگست ۱۹۹۷ء ان کے اصلی چہرے دکھائی دیتے ہیں.تو یہ محض دھو کے ہیں ان کی پیروی نہ کریں جو حقیقتیں میں آپ کے سامنے رکھوں گا ان کو اپنانے کی کوشش کریں..انگلستان کے خطاب میں میں نے حضرت خدیجہ کا ذکر شروع کیا تھا مختصر آیاد کرادوں کہ میں نے بتایا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے آپ کی تیسری شادی تھی اور آپ کا نام خدیجہ طاہرہ تھا اس لئے کہ طاہرہ آپ کی پاکیزگی کی وجہ سے اور آپ کی عصمت کی حفاظت کی وجہ سے آپ کو کہا جاتا تھا.آپ آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اوّل سے آخر تک ایسی مددگار ر ہیں کبھی کسی اور خاتون کو کسی خاوند کی وفاداری اور مددگار ہونے کا ایسا دعویٰ نہیں ہوا.جس کو جبرائیل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے پہنچ کر تسلیم کیا ہو اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا دل ہمیشہ وفات تک اس خدیجہ کو یاد کرتا رہا ہو.جس نے اپنا سب کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر قربان کر دیا وہ خدیجائیں بننے کی ضرورت ہے ہر گھر کو ایسی خدیجاؤں کی ضرورت ہے جو نیکی پر فدا ہوں اگر ان کے خاوند نیک ہیں تو ان نیکوں کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے پر تیار بیٹھیں اور اگر ان کے خاوند نیک نہیں ہیں تو ان کو نیک بنانے کی کوشش کریں لیکن اس مضمون کو اب میں حضرت خدیجہ کے حوالے سے اور آگے بڑھاتا ہوں.حضرت خدیجہ کے متعلق حضرت عائشہ نے ایک دفعہ، میں یہ عرض کر دیتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ کو اتنا یاد کیا کرتے تھے کہ حضرت عائشہ نے ایک دفعہ زچ ہو کر یہ کہا، کہ آپ کیا اس بوڑھی عورت کو یاد کرتے رہتے ہیں اللہ نے آپ کو اس سے بہتر بیوی عطا فرمائی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا! اللہ کی قسم اللہ نے اس سے بہتر بیوی مجھے عطا نہیں کی.وہ جو آپ سے عمر میں بڑی تھیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ہجرت ہوئی مدینہ کی طرف اس سے دو تین سال پہلے حضرت خدیجہ کی وفات ہوئی اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عمر ۵۳ سال کی تھی ہجرت کے وقت حضرت خدیجہ آپ سے بڑی عمر کی تھیں تقریباً ۱۵ سال.اب اندازہ کریں کہ اس عورت سے آپ کی وفا کا منبع سوائے محبت الہی کے اور کوئی نہیں ہو سکتا.وہ بوڑھی عورت جس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایسی وفا کی کہ آپ کی زندگی میں کوئی اور شادی نہیں کی اور عملاً اس کی بیوی کی حیثیت بہت پہلے سے یعنی عورت کی ازدواجی حیثیت پہلے سے ختم ہو چکی تھی بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر دشمنان اسلام جو الزام رکھتے ہیں کہ آپ نے بہت سے بیویاں کیں گویا آپ اپنے نفس کے نعوذ باللہ

Page 539

حضرت خلیہ مسح الرابع کے مستورات سے خطابات ۵۳۵ خطاب ۶ ار ا گست ۱۹۹۷ء من ذالک غلام تھے اس سارے اعتراض کو ان اعتراضات کو دور کرنے کے لئے صرف ایک خدیجہ کافی ہیں.جب تک وہ زندہ رہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کسی اور طرف نگاہ نہیں کی.کسی عورت کا تصور تک دل میں نہیں لائے اور آپ کی عمرا ۵ سال اس وقت ہو چکی تھی جب حضرت خدیجہ کی وفات ہوئی ہے.فرمایا: خدا کی قسم اس سے بہتر بیوی مجھے عطا نہیں کی گئی.وہ اس وقت میرے پر ایمان لائیں میری صداقت پر ایمان لائیں جبکہ سب نے میری تکذیب کی صرف خدیجہ تھیں جو پہلی بار میری وحی کوسن کر میری حمایت میں اُٹھ کھڑی ہوئیں اور میرا کوئی معین اور مددگار نہیں تھا.آپ میری معین اور مددگار بنیں اللہ نے مجھے اولا د بھی عطا فرمائی اسی خدیجہ سے اولا د عطاء فرمائی حضرت خدیجہ کو اللہ تعالیٰ نے آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نبوت سے پہلے ہی توحید کی نعمت سے نوازا تھا اور عرب خواتین میں آپ موحدہ ہونے کے لحاظ سے مشہور تھیں ایک خدا کی قائل تھیں اور ہر بت سے روگردانی کر بیٹھی تھیں.مسند احمد بن حنبل میں آتا ہے.وَكَانَتْ لَهُ وَزِيرٌ مُصَدِّقُ عَلَى الْإِسْلَامِ کہ وہ اسلام کے متعلق آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سچی مشیرہ تھیں.ابو ہریرہ کی روایت صحیح مسلم میں یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ جبرائیل میرے پاس آئے اور کہنے لگے اے اللہ کے رسول یہ خدیجہ آرہی ہے اس کے پاس برتن ہے جس میں کھانا ہے جب آپ کے پاس پہنچیں تو ان کو ان کے رب کا اور میر اسلام پہنچائیں اور انہیں جنت میں ایک ایسے محل کی بشارت دیں جو موتیوں کا ہوگا جس میں کوئی شور اور بے آرامی نہیں ہوگی.یہ جو حضرت خدیجہ کے متعلق کوئی شور اور بے آرامی نہیں ہوگی.کیونکہ آپ نے شعب ابی طالب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جو ساتھ دیا ہے بہت ہی سخت بے آرامی اور تکلیف کا دور تھا شاید اسی کے حوالے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ پیغام دیا گیا کہ ان کو موتیوں کا ایک محل عطا ہوگا یاد رکھیں یہاں موتیوں سے مراد ظاہری موتی نہیں ہیں بلکہ موتیوں سے مراد ایسے صاف ستھرے پاکیزہ خوبصورت مجسمے ہیں گول شکل کے جن کو ہم دنیا میں موتی کہتے ہیں جو سپی کے بطن سے پیدا ہوتے ہیں اور ان میں غیر معمولی پاکیزگی پائی جاتی ہے تو موتی ایک پاکیزگی اور روشنی کا نشان بن جاتا ہے.پس مراد یہ ہے کہ حضرت خدیجہ کو جنت کے محل کی ایسی خوشخبری دی گئی ہے جس میں غیر معمولی چمک دمک ہوگی اور وہ پاکیزہ اینٹوں سے بنایا گیا ہوگا.ہم اینٹیں کہتے ہیں مگر اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا چیزیں ہوں گی یقیناً اس دنیا کی اینٹیں تو نہیں ہوں گی نہ ہی اس میں دنیا کے موتی ہوں گے مگر اپنی چمک دمک اور پاکیزگی کے لحاظ سے ان کی مشابہت موتیوں سے

Page 540

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۵۳۶ خطاب ۶ ار اگست ۱۹۹۷ء ہوگی.یہ واقعہ جب حضرت نے اس کو صحیح مسلم میں روایت کیا ہے.یہ واقعہ جب گزرا تو اس کے تھوڑی دیر بعد ہی حضرت خدیجہ وہاں آ پہنچی اور حضرت خدیجہ کی روایت سنیں کہ آپ نے اس کو کیسے سنا وہ فرماتی ہیں.آپ نے جو فرمایا ہے اس کو میں تھرڈ پرسن یعنی غائبانہ طور پر یوں بیاں کر رہا ہوں ایک روز آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لئے کھانا لئے ہوئے حضور کی تلاش میں مکہ کی پہاڑیوں کی طرف نکلیں راستے میں آپ کو جبرائیل علیہ السلام ایک آدمی کی شکل میں دکھائی دیئے.جبرائیل علیہ السلام نے آپ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بارے میں پوچھا حضرت خدیجہ ڈرگئیں کہ یہ شخص کہیں نعوذ باللہ من ذالک رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو نقصان نہ پہنچانا چاہتا ہو اور خاموشی اختیار کی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ نے فرمایا کہ وہ جبرائیل تھے جو تمہیں رستے میں ملے تھے انہوں نے مجھے کہا ہے کہ میں تمہیں خدا کا اور ان کا سلام پہنچاؤں اور جنت میں ایسے گھر کی بشارت دوں جو موتیوں والا ہو.اس خوش خبری کو سن کر حضرت خدیجہ کا جواب ہے بہت ہی پیارا ہے مجھے تو اس جواب میں بہت ہی لذت محسوس ہوتی ہے.آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تو خود سلام ہے اور جبرائیل علیہ السلام پر بھی سلام ہو اور آپ پر بھی سلام اور خدا کی رحمت ہو یہ سلامتی کی باتیں ہیں تو سب سے بڑا تو اللہ ہے جو خود سلام ہے اس کا سلام مجھے پہنچے تو گویا خدا مجھ تک پہنچ گیا اور پھر آپ کبھی سلام ہیں اور جبرائیل بھی.آپ سب پر میری طرف سے وعلیکم السلام ہے کہ اللہ آپ کو بھی اپنی سلامتی میں رکھے.حضرت خدیجہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ایسی محبت تھی کہ حلیمہ دائی سے پہلے ابولہب کی لونڈی جس نے آپ کو دودھ پلایا تھا اور وہ مسلمان ہوگئی تھیں ان کو آزاد کرانے کے لئے آپ نے ابولہب کو پیغام بھیجا کیونکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دائی کو ایک ابو لہب جیسے انسان کی لونڈی کے طور پر دیکھ نہیں سکتی تھیں.شعب ابی طالب میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے.ے سے انبوی تک آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ساتھ دیا اور انتہائی تکلیف میں یہ وقت گزارا.جب یہ دور ختم ہوا تو اس کے معا بعد آپ کے چچا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چا ابوطالب کی وفات ہوئی اور ابو طالب کی وفات کے تین دن بعد حضرت خدیجہ کی وفات ہوئی اور حضرت خدیجہ کی وفات کی وجہ سے خصوصیت سے تاریخ اسلام میں اس سال کو یعنی دس نبوی کو عام الحزن قرار دیا گیا.مؤرخین نے اسے عام الحزن قرار دینے میں یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے غم کا تصور باندھا ہوگا کیونکہ کسی کی وفات سے

Page 541

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۵۳۷ خطاب ۶ ا ر ا گست ۱۹۹۷ء رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کوایسا غم نہیں پہنچا جیسا حضرت خدیجہ کی وفات سے.صحیح بخاری میں ہے.خَيْرُ نِسَاء هَا مَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ وَخَيْرُ نِسَاء هَا خَدِيجَةُ بِئْتُ خَوَيْلَدَ موسوی امت کی بہترین خاتون مریم تھیں جو آل عمران میں سے تھیں اور اس امت کی بہترین خاتون خدیجہ بنت خویلد ہیں.پس خدیجہ کے ذکر سے آپ کے لئے ایک ایسا نمونہ قائم ہوتا ہے جو پاکیزگی میں، وفا میں، سادگی میں ، انکسار میں سخاوت میں اپنی مثل آپ ہو.حضرت خدیجہ بہت امیر خاتون تھیں مگر خاوند کا جو احترام محض خاوند کا نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جو احترام آپ کے دل میں تھا اس کے نتیجے میں آپ نے پہلے دن ہی شادی کے پہلے دن ہی اپنا جو کچھ تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا اس میں میں آپ کی انتہائی ذہانت کو بھی دیکھ رہا ہوں.حضرت خدیجہ جانتی تھیں کہ ایک ایسے غیرت مند انسان سے میں شادی کر رہی ہوں جو بیوی کے مال پر نہیں پل سکتا اور یہ بالکل درست ہے وہ مرد جو بیویوں کے مال پر پلتے ہیں اور انہیں اس طرح قبول کرتے ہیں گویا کہ وہ ان کے لئے مرجع و مال کی ہے ماں کے دودھ کی طرح ان کے لئے جائز ہے وہ ایسے مردا کٹر کھٹو اور بے کار بنتے ہیں اور ان کی مردانگی کی صفات ختم ہو جاتی ہیں.حقیقت یہ ہے کہ بیوی کے مال پر پلنے والے مرد، مرد ر ہتے ہی نہیں اور جرمنی میں ایسے بہت ہیں جو بیوی کے مال پر پل رہے ہیں.ان کو میں بتارہا ہوں کہ حضرت خدیجہ تمہارے لئے بھی نمونہ ہیں اور تمہاری بیویوں کے لئے بھی لیکن حضرت خدیجہ نے جو اپنا مال قربان کیا تھا یہ مطلب نہیں کہ ہر بیوی اپنے نکھٹو خاوند پر اپنا مال قربان کر دے یہ نکتہ ہے جو آپ کو سمجھانے والا ہے.حضرت خدیجہ نے ایسے خاوند کے لئے مال قربان کیا تھا جو کسی قیمت پر بھی چاہے کتنے ہی فاقے دیکھنے پڑتے اپنے بیوی کے مال پر نہیں پل سکتا تھا اگر ایسے خاوند ہوں تو ان کے لئے بے شک اپنے مال جان کو قربان کریں مگر وہ جو آپ کے مال پر اپنا حق سمجھتے ہیں، جو آپ کے مال پر زندہ رہنے میں فخر محسوس کر رہے ہیں اور اگر آپ ان سے ہاتھ کھینچیں تو وہ آپ پر سختی کرتے ہیں ایسے مردوں کو اگر آپ کچھ کوڑی عطا کرتی ہیں تو آپ کی مرضی آپ کی فراخ دلی ہے مگر حضرت خدیجہ کا غلط معنی نہ سمجھنا.چنانچہ حضرت خدیجہ نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھا تھا ویسا ہی پایا آپ نے خدیجہ کا مال لے کر کسی ایسی خوشی کا اظہار نہیں کیا کہ میں کل تک غریب تھا اور اب امیر ہو گیا ہوں.آپ نے

Page 542

حضرت خلیفہ مسح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۵۳۸ خطاب ۶ ار اگست ۱۹۹۷ء خدیجہ سے کہا تو نے مجھے دے دیا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں! آپ نے فرمایا! اب سب سارے کا سارا مال غریبوں میں تقسیم کرتا ہوں اس میں سے ایک کوڑی بھی آپ نے اپنے لئے نہیں رکھی.ایسے مرد ہوں تو ان کی بیویاں خدیجہ بنتی ہیں اگر مرد کھٹو ہوں تو ان کی بیویاں خدیجائیں نہیں کہلاسکتیں.خواہ وہ قربانی بھی کر رہی ہیں تو آپ کو اللہ تعالیٰ نیک مرد عطا کرے احمدی مردوں میں غیرتیں ہوں ان کو ان کے سامنے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نمونہ ہو پھر وہ دعائیں کر سکتے ہیں کہ اب اُن کی بیویاں خدیجائیں بنیں مگر خود وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے کوسوں دور بیٹھے ہوں، ہر صورت میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مخالفت کر رہے ہوں اور بیویوں کو خدیجہ کے نمونے دکھا ئیں اور بتائیں کہ ہم تم سے یہ توقع رکھتے ہیں تو بالکل جھوٹ ہے.ان کا کوئی حق نہیں ہے کہ وہ اپنی بیویوں کی پاکیزگی کی توقع رکھیں جبکہ خود نا پاک زندگی بسر کر رہے ہوں.اب میں حضرت عائشہ کی بات کرتا ہوں حضرت عائشہ کے متعلق جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے چھوٹی سی بچی تھیں اور دوسروں سے ایک قسم کا رشک دل میں پیدا ہوتا تھا یہ ایک طبعی بات ہے.حضرت خدیجہ کے متعلق جانتیں تھیں کہ کتنی بڑی عمر کی تھیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی میں آپ کا وصال ہوا ہے تو ان کی باتیں کرنا عجیب لگ رہا ہے جبکہ خدا نے بہت چھوٹی عمر کی خوبصورت بیویاں بعد میں آپ کو عطا کر دیں.تو آپ نے اس وجہ سے تعجب کا اظہار کیا تھا مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کے دل میں حضرت خدیجہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اور نیک بیویوں کی عزت نہیں تھی.عورتوں کی جو رقابت ہے وہ تو عورتوں کے ساتھ وابستہ ہے لیکن اس کے ہوتے ہوئے بھی نیکی کی عزت اور احترام حضرت عائشہ صدیقہ کے دل میں بہت گہرا پایا جاتا تھا.چنانچہ آپ کی شادی بھی اللہ تعالیٰ نے آسمان پر پہلے لکھ دی تھی اور وہی شادی جو ہونے والی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو جبرائیل علیہ السلام نے اس طرح بیان کی کہ ایک ریشمی رومال آپ کی خدمت میں پیش کیا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے وہ رو مال کھول کر دیکھا تو اس پر حضرت عائشہ صدیقہ کی تصویر تھی اور ابھی آپ کا کوئی شادی کا ارادہ نہیں تھا.آپ نے وہ تصویر دیکھی اور کہا اگر اللہ کی یہی مرضی ہے تو وہی اس مرضی کو پورا کرے گا.بات یہ ہے کہ تصویر کا مضمون بھی اس سے حل ہو جاتا ہے لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہر تصویر شرک کی طرف لے جاتی ہے یہ غلط ہے.یہ سب مولویوں کے قصے ہیں وہ تصویر جو حقیقی ہے اور شرک کی طرف

Page 543

حضرت خلیفہ اسح الرائع کے مستورات سے خطابات ۵۳۹ خطاب ۶ ا ر ا گست ۱۹۹۷ء نہیں بلکہ خدا کی طرف لے جانی والی ہو اس کو دیکھ کر شرک کا شائبہ بھی دل میں پیدا نہ ہو وہ تصویر تو خود جبرائیل علیہ السلام نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں پیش کی تھی اس لئے تصویر کا مسئلہ بھی اس میں ضمناً حل ہوتا ہے.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں، اس روایت کے الفاظ صحیح مسلم میں یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ تم مجھے رویا میں تین بار دکھائی گئی ہو ایک فرشتہ سفید رنگ کے ریشم میں تمہاری تصویر لایا تھا اور کہتا تھا یہ تمہاری بیوی ہے جب میں نے کپڑا ہٹا کر چہرہ دیکھا تو اندر سے تمہاری تصویر نظر آئی.اب بعض مولوی دماغ یہ سوچیں گے کہ پھر ریشم بھی جائز ہے ریشم عورتوں کے لئے جائز ہے اور ریشم پر عورت کی تصویر تھی اس لئے یہ کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ریشم کو استعمال کیا یہ غلط ہے یہ کشفی نظارہ تھا اور کشفی نظارہ میں بھی یہ لحاظ رکھا گیا تھا کہ ایک ریشمی کپڑے پر ایک ریشمی صفات خاتون کی تصویر ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس سے تمہاری شادی مقدر ہو چکی ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا! اگر اللہ کا یہی منشاء ہے تو خود ہی اس کو پورا فرمائے گا حضرت عائشہ کا دوسری بیویوں کے تعلق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بہت لحاظ رہتا تھا.اس لحاظ میں بھی حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دل میں ایک تقدس تھا جس کے نتیجے میں حضرت عائشہ سے محبت پہلے سے بڑھ گئی.اس کا ثبوت یہ ہے کہ ایک دفعہ دوسری خواتین میں سے جو آپ کی ازواج مطہرات تھیں بعض نے حضرت عائشہ کے متعلق اس رنگ میں بات کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو پسند نہ آئی آپ نے فرمایا! تم مجھے عائشہ کے متعلق کیوں تکلیف دیتی ہو.عائشہ کی شان گویا یہ ہے کہ اس کے بستر کے علاوہ کسی اور بیوی کے بستر میں مجھے وحی نہیں ہوتی یہ ایک عظیم بیان ہے.حضرت عائشہ کے دل کی پاکیزگی اور تقدس کا بیان ہے ،حضرت عائشہ سے محبت کی بنیادی وجہ اس سے کھلتی ہے.اس بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ کے بستر میں وحی نازل ہوتی رہی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عائشہ سے محض جسمانی نسوانی محبت نہیں تھی بلکہ آپ کے دل کی پاکیزگی کا آپ کو خیال تھا اور جس کے بستر پر وحی نازل ہو رہی ہواس میں نفسانیت کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے اس لئے بعض لوگ جود ثمن حضرت عائشہ پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ چھوٹی سی عمر میں شادی کر لی اس میں نعوذ باللہ من ذالک رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نفسانی جذبات تھے تو ان کو سوچنا چاہئے کہ جس کے بستر میں اللہ تعالیٰ کا الہام نازل ہو رہا ہو اس میں نفسانی جذبات کا کیا دخل

Page 544

۵۴۰ خطاب ۶ ار ا گست ۱۹۹۷ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ہوسکتا ہے.بس ایسی پاک خواتین بننے کی کوشش کریں کہ ان کے بستر پر سچی خوا ہیں نازل ہوں، کشف نازل ہوں، الہامات اتریں اور اللہ تعالیٰ خواتین کے دل پر نظر رکھتا ہے اور اس الہام میں حضرت عائشہ صدیقہ کی پاکیزگی کا ایک ثبوت ہے اس بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ کے بستر میں وحی نازل ہوتی رہی.اور یہ روایت بخاری کی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ بہت قانع اور خود دار اور دلیر تھیں اور جود وسخا بہت نمایاں وصف تھا جو آپ کو عطا ہوا.اس لئے عائشہ بنا ہو تو وہ صفات اختیار کریں جو حضرت عائشہ کی صفات ہیں ان کا نمونہ بنیں ان کی تصویریں اپنے دل پر چھا ہیں اور پھر آپ کو علم ہوگا کہ حقیقت میں حسن طبیعت کیا ہوتا ہے جو حسن سیرت حسن صورت کے ساتھ مل کر عائشہ پیدا کرتا ہے.حضرت عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے ان سے زیادہ بھی کسی کو نہیں دیکھا.نہایت خاشع متضرع ، عبادت گزار، غلاموں پر شفقت کرنے والی یہاں تک کہ آپ نے ۲۷ غلام خرید کر آزاد کئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت عائشہ کو ایک موقع پر مخاطب ہو کے فرمایا: حُبُّكِ يَا عَائِشَةَ فِي قَلْبِي كَالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى اے عائشہ! میرے دل میں تیری محبت عروة وثقی کی طرح ہے.اب یہ عجیب مثال ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دی لوگ سمجھتے ہیں مراد یہ ہے کہ بہت مضبوطی سے گڑی ہوئی ہے حالانکہ عروۃ و شفتی قرآن کریم کا محاورہ ہے اور عروۃ و شفتی خدا کی رسی کو تھامنے کے لئے ایک عروہ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے.تو صاف پتہ چلتا ہے کہ تیری محبت خدا سے مجھے ملاتی ہے اور تجھے تھامنے سے میں خدا کو تھامتا ہوں ان معنوں میں کہ تیری محبت کا کوئی تقاضہ بھی ایسا نہیں جو مجھے خدا سے دور لے جاتا ہو تو عروۃ و شفتی کے مضمون کو پیش نظر رکھیں اور اپنی محبتوں کو اس کے مطابق ڈھالیں کہ آپ کا خاوند آپ کی محبت کی وجہ سے جو بھی لطف اُٹھائے وہ اسے خدا کی طرف لے جانے والا ہو.اور آپ کو تھامنا ان معنوں میں اس کا خدا کو تھامنا بن جائے اور آخر پر حضرت عائشہ صدیقہ مگر آخر پر نہیں اس کے بعد آپ کے زہد و تقویٰ کو بھی بیان مختصر کروں گا ایک ایسا واقعہ پیش کرتا ہوں جو مجھے بہت ہی پیارا لگتا ہے اور ہمیشہ اس واقعہ کو پڑھ کر دل پگھلتا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور عائشہ کے درمیان کیا کیا محبت کی باتیں ہوا کرتی تھیں اور ان محبت کی باتوں میں کیسی پاکیزگی پائی جاتی تھی ہم جب یہ سنتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عائشہ سے بہت محبت تھی تو تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اس محبت کے رنگ کیا تھے اُن میں کس طرح روحانیت ڈھلی ہوئی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم

Page 545

حضرت خلیفہ اسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۵۴۱ خطاب ۱۶ را گست ۱۹۹۷ء بھی اس محبت کو کس نظر سے دیکھا کرتے تھے.ایک موقعہ پر حضرت عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنی جوتی کو پیوند لگا رہے تھے اور میں چرخہ کات رہی تھی یہ گھر کا نقشہ تھا اپنی جوتی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم خود پیوند لگا رہے تھے.حضرت عائشہ صدیقہ بیٹھی چرخہ کات رہی تھیں.کہتی ہیں اچانک میری نظر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیشانی پر پڑی تو اس پیشانی پر پسینے کے قطرے ابھر رہے تھے اور ان پسینوں کے اندر، اس پسینے کے اندر ایسا نور تھا جو ابھرتا چلا آرہا تھا اور بڑھ رہا تھا یہ نظارہ دیکھ کر میں سراپا حیرت بن گئی.کہ ایک شخص جو جوتی کو درست کر رہا ہے اسے ٹانکے لگا رہا ہے اس کی پیشانی سے نور پھوٹ رہا ہے اور وہ بڑھتا چلا جاتا ہے جیسے گویا کل عالم پر محیط ہو جائے گا.یہ حیرت انگیز نظارہ دیکھا تو حضرت عائشہ کہتی ہیں.حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نگاہ مجھ پر پڑی تو فرمایا! عائشہ تم حیران کیوں ہوئی بیٹھی ہو؟ میں نے کہا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں نے آپ کی پیشانی پر ایسا پسینہ دیکھا ہے کہ اس کے اندر ایک نور چمکتا دمکتا بڑھتا چلا جا رہا ہے خدا کی قسم اگر ابو کبیر بجلی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھ پاتا تو اسے معلوم ہو جاتا کہ اس کے اشعار کا مصداق آپ ہی تھے.آپ نے فرمایا ! اس کے اشعار کیا ہیں.حضرت عائشہ صدیقہ نے وہ اشعار پڑھ کر سنائے جن کا ترجمہ یہ ہے کہ وہ ولادت اور رضاعت کی آلودگیوں سے مبرا ہیں اور تو کوئی ایسا نہیں جو ولادت اور رضاعت کی آلودگیوں سے اس طرح مبرا ہو.جن معنوں میں حضرت عائشہ صدیقہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھ رہی تھیں وہ کہتے ہیں ان کے درخشاں چہرے پر نظر کرو تو یوں معلوم ہوگا کہ نہایت روشن اور چمکدار برق اپنا جلوہ دکھا رہی ہے ایک حیرت انگیز روشن بجلی ہے جو چمک رہی ہے اور پیشانی سے پھوٹ رہی ہے.حضور نے ہاتھ میں جو کچھ تھا انہیں رکھ دیا.عائشہ کہتی ہیں آپ نے مجھے قریب کیا اور میری پیشانی کو چوما اور فرمایا اے عائشہ ! جو سرور مجھے اس وقت تجھ سے حاصل ہوا ہے اتنا سرور تو تجھے بھی میرے نظارے میں حاصل نہیں ہوا ہو گا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو جو حضرت عائشہ کی محبت سرور پہنچاتی تھی وہ ان معنوں میں سرور پہنچایا کرتی تھی.آپ نے وہ روحانی نظارہ دیکھا کہ آپ کی پیشانی سے نور پھوٹ رہا ہے اسی

Page 546

۵۴۲ خطاب ۶ ا ر ا گست ۱۹۹۷ء حضرت خلیفہ اسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات نور کا قرآن کریم میں بھی ذکر ملتا ہے وہ نور ہے جو آگے آگے دوڑتا ہے اور جہاں پڑتا ہے اسے روشن کرتا چلا جاتا ہے اس نور کا عملی نظارہ حضرت عائشہ صدیقہ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور جس پیار سے دیکھ رہی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اس پیار کی وجہ سے اور اس شعر کی وجہ سے جو آپ نے پڑھا آپ نے آپ کی پیشانی کا بوسہ لیا اور کہا خدا کی قسم! جو مجھے لطف آیا ہے تمہاری ان پیاری باتوں سے ایسا لطف تمہیں بھی نہیں آیا ہو گا یہ آپ کی ازدواجی زندگی کے حالات ہیں.اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہ محبت جو خدا کے لئے ہو، وہ لذتیں جو خدا کی خاطر ہوں، ان محبتوں اور لذتوں کے کیا رنگ ہوا کرتے ہیں.جہاں تک دل کی خوشی کا تعلق ہے جہاں تک لذت کا تعلق ہے یہ محبتیں اور ان کے اثرات لاثانی ہو جاتے ہیں.یہ نہ مٹنے والے ہیں وہ محبتیں جو انسانی محبتیں خدا کی محبت سے الگ دل میں زور مارتی ہیں وہ فانی محبتیں ہوا کرتی ہیں.آج آئیں اور کل مٹ گئیں ان محبتوں میں لازماً رفتہ رفتہ ایک انحطاط واقع ہو جاتا ہے کوئی ایسا جوڑا نہیں جس کی زندگی میں ہر لمحہ پہلے سے بڑھ کر محبت نے زور دکھا یا ہوسوائے اس کے کہ وہ محبت جسمانی نہ ہو اور روحانی اور پاکیزہ ہو.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت اپنی ازواج کے لئے ایک روحانی معنی رکھتی تھی.یہی وجہ تھی کہ حضرت عائشہ جو ایک نو جوان بچی اور ایسی پیاری پیاری باتیں کرنے والی ذہین بچی تھی، جب خدیجہ کے متعلق آپ نے زبان کھولی ہے تو آپ نے اسے روک دیا فرمایا! خدیجہ جیسی کوئی خاتون نہیں تھی.تو اپنی محبتوں کو پاکیزہ کرنے کی کوشش کریں اور یہی محبتیں ہیں جو آپ کے دل آپ کے وجود کو پاکیزہ کر دیں گی آپ کی کیفیت بدل جائے گی.یہ وہم ہے کہ اس سے آپ کو کوئی قربانی ان معنوں میں کرنی پڑے گی کہ آپ ایک بے سرور زندگی بسر کریں، ایک خشک مولوی کی طرح بن کر گھر میں ٹھہریں اور کوئی زیر و بم آپ کی زندگی میں نہ رہے.امر واقعہ یہ ہے کہ الہی محبتوں میں جو سرور انسان کو نصیب ہوتا ہے وہ دائمی ہو جاتا ہے وہ ہمیشہ کے لئے رہتا ہے اور دنیا کی محبتیں آنا فانا آتی جاتی رہتی ہیں وہ کچھ اثر چھوڑتی ہیں پھر اگلی دفعہ اس سے کم اثر اس سے اگلی دفعہ اس سے کم اثر یہاں تک کہ سب محبتیں پرانی ہو جاتی ہیں مگر ایک محبت ہے کہ الہی محبت ہے جو محد رسول اللہ کو خدیجہ سے تھی وہ محبت بھی پرانی نہیں ہوگی حضرت عائشہ کا اپنا کر دار کیا تھا دنیا سے آپ کو کیا تعلق تھا اور دنیا کی نعمتوں کو کس نظر سے دیکھا کرتی تھیں اس کے متعلق حضرت امام مالک اپنی مشہور کتاب موطا میں لکھتے ہیں.اور یہ موطا ایک ایسی کتاب ہے جو صحت کے لحاظ سے بخاری سے بھی اوپر درجے کی کتاب ہے ہر حدیث نہایت ہی عمدگی اور احتیاط کے ساتھ چنی ہوئی اور ایک ایک

Page 547

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۵۴۳ خطاب ۶ امر اگست ۱۹۹۷ء حدیث اپنی صحت کے اعتبار سے ایک چمکتا ہو استارہ ہے اور موطا امام مالک کا مطالعہ کر کے دیکھیں آپ کو کہیں بھی کوئی خرابی کوئی کمزوری دکھائی نہیں دے گی.حضرت امام مالک یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ سے ایک غریب عورت نے سوال کیا ایک غریب عورت نے کچھ مانگا اس دن آپ روزے سے تھیں اور گھر میں سوائے ایک روٹی کے کچھ نہ تھا اب حضرت عائشہ صدیقہ کی خوبیوں پر اللہ تعالیٰ کی نظر ( حضرت عائشہ صدیقہ کی خوبیوں پر ) کیسی تھی.آپ کی نیکیوں کا کیا جواب خداد یا کرتا تھا یہ ایک ایسا سلوک ہے جو ہر ایسی خاتون کے متعلق ہوسکتا ہے جو خدا کی رضا کی خاطر اپنی پیاری باتیں اپنی پیاری چیزیں قربان کرنے والی ہوں.حضرت عائشہ صدیقہ سے ایک عورت نے سوال کیا ایک روٹی کا اور اس دن آپ روزے سے تھیں اور ایک ہی روٹی تھی جس سے روزہ کھولنا تھا آپ نے خادمہ سے کہا یہ روٹی اس غریب عورت کو دے دو.اس پر خادمہ نے کچھ ملال محسوس کیا سوچا ہوگا یہ عجیب عورت ہے ایک ہی روٹی ہے ٹکڑا دے دیتی کچھ اپنے لئے رکھ لیتی اب گھر میں روزہ کھولنے کے لئے کچھ نہیں رہا لیکن حضرت عائشہ صدیقہ نے جس یقین کے ساتھ وہ روٹی دی تھی اس کے متعلق آپ دیکھیں کہ جب شام ہوئی تو آپ کے پاس کسی عزیز نے ایک بکری کا کچھ گوشت اور اس کا باز و بطور تحفہ بھیجے.حضرت عائشہ صدیقہ نے اسی خادمہ کو بلا کر فرمایا لکھاؤ یہ تمہاری روٹی سے کہیں بہتر ہے.اب یہ کہنا کہ لوکھا ؤ یہ تمہاری روٹی سے کہیں بہتر ہے.صاف بتارہا ہے کہ لونڈی کو ملال تھا اس نے سوچا تھا اور جانتی تھی کہ حضرت عائشہ کچھ نہیں کھا تیں جب تک اپنی لونڈیوں کو نہ کھلا ئیں تو اس روٹی پر اس بیچاری کی نظر تھی.اس نے کہا ایک ہی روٹی تھی وہ میں نے کھانی تھی اور جہاں تک حضرت عائشہ صدیقہ کے کردار کا تعلق ہے لازماً آپ نے اپنے لئے تھوڑی رکھی تھی اس خاتون کو زیادہ دینی تھی.اس کو یاد رکھا اور فرمایا! لو یہ کھاؤ یہ تمہاری اس روٹی سے بہت بہتر ہے یعنی اللہ تعالیٰ آپ کی قربانیوں پر نظر رکھتا تھا اور ان قربانیوں کے نتیجے میں آسمان سے آپ پر رزق نازل فرمایا کرتا تھا.حضرت عائشہ کے متعلق بھی صحیح مسلم میں روایت ہے کہ ایک دفعہ جبرائیل نازل ہوئے اور آپ کو سلام کہا.اس پر حضرت عائشہ نے وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و برکانہ کے الفاظ کہے اس میں اور خدیجہ کے جواب میں ایک فرق ہے جو میں آپ پر کھول چکا ہوں.حضرت خدیجہ کا بیان بہت گہرا تھا اور حضرت خدیجہ کی جوفراست اور عرفان کی گہری عزت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دل میں تھی وہ ان دونوں کے جواب کے فرق سے ظاہر ہے.اب آپس کی چولیں بھی سن لیں.خاوند اور بیوی میں ناراضگیاں بھی ہوتی ہیں جو بھی ہوتی ہیں یہ سب چیزیں نیکی کے

Page 548

۵۴۴ خطاب ۶ امراگست ۱۹۹۷ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ساتھ ساتھ جاری تھیں اور نیکی کے حوالے سے ہو رہی تھیں.ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ تمہیں پتا ہے کہ جب تم ناراض ہوتی ہو تو مجھے علم ہو جاتا ہے.حضرت عائشہ نے اس پر یہ تعجب نہیں کیا کہ ناراض ہوتی ہوں.تو ظاہر ہے میرے چہرے پہ ظاہر ہوتا ہے علم تو ہو جانا تھا اس میں کون سی ہوشیاری کی بات ہے.پہلی بات یہ قابل غور ہے کہ حضرت عائشہ کے چہرے پر ذرا بھی ملال نہیں آیا کرتا تھا.اگر وہ ناراض ہوتی تھیں تو دل میں ہوا کرتی تھیں.اسی بناء پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں پتا ہے جب تم ناراض ہوتی ہو تو مجھے پتا چل جاتا ہے حضرت عائشہ کہتی ہیں میں نے عرض کیا آپ کس بات سے اس کو پہچان جاتے ہیں.آگے جا کر یہ بات کھل جائے گی حضرت عائشہ کے رویے میں ذرہ بھر بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوا کرتی تھی اس لئے آپ کو تعجب ہوا کہ پہچانتے کیسے ہیں.میرے اندر تو کوئی ناراضگی کے آثار ظاہر نہیں ہوتے.فرمایا: میں اس طرح پہچانتا ہوں کہ جب تم مجھ سے خوش ہو تو کہتی ہو لَا وَرتِ مُحَمَّد نہیں نہیں مجھے محمد کے رب کے قسم.اور جب مجھ سے ناراض ہو تو کہتی ہو لَا وَرتِ إِبْرَهِیمُ نہیں نہیں ابراہیم کے خدا کی قسم.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور ابراہیم علیہ السلام دو ماڈل تھے.جب دل سے کسی قسم کی ناراضگی یا شکوہ ہو تو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بجائے ابراہیم کی قسم کھایا کرتی تھیں.حضرت عائشہ کہتی ہیں میں نے عرض کیا بے شک اسی طرح ہے خدا کی قسم یا رسول اللہ ! جب آپ سے ناراض ہوتی ہوں تو صرف آپ کا نام لینا چھوڑ دیتی ہوں میرا دل اسی طرح محبت سے بھرا ہوا ہوتا ہے میرے دل کی محبت میں ایک ذرہ بھر بھی فرق نہیں آتا اور جب دل کی محبت میں فرق نہیں آتا تو پہچانا کیسے آپ نے بس یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور عائشہ کی چولیں ہیں اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی فراست کا بیان ہے کس طرح بار یک نظر سے اپنی بیوی کی باتوں کو ان کے آثار کو پڑھتے تھے اور اس پہ ایک صحیح نتیجہ نکالا کرتے تھے.حضرت عائشہ کے دل کی کیفیت یہ تھی کہ ناراض ہوتی بھی تھیں تو دل میں اسی طرح محبت موجزن ہوتی تھی محبت پر ایک ذرہ بھی اثر نہیں پڑتا تھا.اب یہ باتیں چھوٹی چھوٹی سی باتیں ہیں بظاہر لیکن اپنی زندگیوں میں آپ دیکھ لیں کہ کیا آپ کی ناراضگیاں آپ کی دل کی محبت پر اثر انداز نہیں ہوتیں.بسا اوقات میں نے دیکھا ہے کہ بعض دفعہ خاوند کی طرف سے عدم توجہ کے نتیجے میں یا کسی اور بناء پر عورت کے دل میں ناراضگی ہوتی ہے تو اس کی محبت بھی اس ناراضگی سے متاثر ہوتی ہے اور اس کی ناراضگی دل میں اس کی محبت میں ایک قسم کا

Page 549

حضرت خلیلہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۵۴۵ خطاب ۶ ار اگست ۱۹۹۷ء زنگ گھول دیتی ہے اور ناراضگیاں جب اسی طرح ہوتی چلی جائیں تو رفتہ رفتہ محبت ختم ہو جاتی ہے.پس حضرت عائشہ کی پیاری باتیں سنتے ہوئے آپ عائشہ کو اپنے دل میں جمانے کی کوشش کریں اور ویسا بننے کی کوشش کریں حضرت عائشہ صدیقہ ایک ایسا ماڈل ہیں جو ہمیشہ کے لئے بنی نوع انسان کی خواتین کے لئے ایک ماڈل رہیں گی اس میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آسکتی.جامع ترمذی میں آپ کے مرتبہ اور بیان کے متعلق یہ آتا ہے کہ حضرت عائشہ کو محض ازواج مطہرات میں سے ہونے کی وجہ سے ہم عزت نہیں دیتے تھے آپ بہت گہرا علم رکھنے والی خاتون تھیں.کہتے ہیں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی حدیث نے ہمارے لئے اشکال پیدا کیا ہو ہمیں کسی مشکل میں ڈالا ہو اس کا کیا مطلب بنتا ہے مگر ہم حضرت عائشہ کے پاس پہنچا کرتے تھے اور عائشہ ایسی ذہین تھیں کہ ہمیشہ اس حدیث کا صحیح مطلب بیان کر دیتی تھیں جو دماغوں اور دلوں کو مطمئن کرنے والا تھا اور ہمارے مسائل کو حل کرتی تھیں.پس علم کے لحاظ سے بھی خواتین کو عائشہ کا نمونہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے.امام زہری جو تابعین کے سرخیل کہلاتے ہیں، تابعین کے صف اول میں شمار کئے جاتے ہیں وہ یہ لکھتے ہیں کہ عائشہ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عالم تھیں بڑے بڑے صحابہ ان سے پوچھا کرتے تھے عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے قرآن کریم فرائض ، حلال و حرام ، فقہ، شاعری ، طب ، عرب کی تاریخ اور علم نفس کا عالم عائشہ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا.اب یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ عائشہ صدیقہ نے دنیا کا تو کوئی علم حاصل نہیں کیا تھا.حضرت عائشہ بے انتہا ذہین تھیں اور عربوں میں جو زبانی تعلیم کا سلسلہ جاری تھا وہ تحریر کی صورت میں پڑھنے کے لئے نہیں ملا کرتا تھا بلکہ زبانی طور پر بڑے بڑے شعراء کے کلام سنائے جاتے تھے ، بڑے بڑے اطباء کی باتیں کی جاتیں تھیں ، بڑے ہنر مندوں کے واقعات بیان کئے جاتے تھے یہ ساری باتیں حضرت عائشہ صدیقہ بچپن سے سنتی رہیں اور ذہن نشین کرتی رہیں اور دل میں جھاتی رہیں.یہ زبانی تعلیم تھی جس نے آپ کو اتنا بڑا عالم بنا دیا کہ بڑے بڑے صحابہ اور فقہیہ آپ کے علم کے سامنے گردنیں جھکاتے تھے.تو آپ میں سے وہ خواتین جو زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں ان کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ دین کی تعلیم اور دین کے عرفان کے لئے با قاعدهہ کسی مکتب میں پڑھنے کی ضرورت نہیں.اپنے گھر پر بھی آپ بہت اعلی تعلیم حاصل کر سکتی ہیں اور اب تو پڑھائی کا دور ہے.اس دور میں ہم نے اپنی دو پھوپھیوں کو دیکھا حضرت نواب مبارکہ بیگم ، حضرت نواب

Page 550

حضرت خلیفہ مسح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۵۴۶ خطاب ۶ ا ر ا گست ۱۹۹۷ء امتہ الحفیظ بیگم بہت گہرا علم رکھنے والی تھیں.انسان حیران رہ جاتا تھا کہ تاریخ کا علم، صحافت کا علم ، ادب کا علم ، شاعری کا علم غرضیکہ دین کی تفاصیل کا علم اور کسی مکتب میں تعلیم حاصل نہیں کی.وہ مکتب جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کے لئے اور سب دنیا کے لئے جاری کیا ہے اس مکتب میں ایک معلمہ کا نام عائشہ بھی تھا اور آپ نے معلمہ کا حق ایسا ادا کیا کہ آپ کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ ہم نے آدھا علم عائشہ سے سیکھا ہے.اب آپ اسلامی کتب اٹھا کر دیکھ لیں ، اسلامی فقہ اُٹھا کر دیکھ لیں جہاں جہاں بھی عائشہ کا ذکر ملے گا جہاں کسی حدیث پر آپ کا تبصرہ ملے گا اتنا گہرا ، اتنا فراست سے پر ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے.خاتم النبین والا مضمون ہے.مدینے کی گلیوں میں ایک آدمی آوازیں دے رہا تھا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو خاتم النبین قرار دے رہا تھا گویا ان معنوں میں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے ا (لَا نَبِيَّ بَعْدِی ) والی حدیث پڑھ رہا تھا اور یہ ظاہر کر رہا تھا کہ یہ مضمون ہے جو خاتم کا مضمون ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا.حضرت عائشہ نے اپنے گھر میں یہ آواز سنی اور باہر نکل کر اسے بلایا اور کہا یہ تو کہو کہ حمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم خاتم النبین ہیں مگر لا نبی بعدی نہ کہو یعنی حضرت عائشہ صدیقہ کے نزدیک خاتم کا مضمون حقیقت میں لانبی بعدی کے مضمون سے ٹکرا رہا ہے اور لانبی بعدی کی حدیث کو خاتم کے تابع رکھنا ضروری ہے.اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو غلط مفہوم جاری ہوں گے.حضرت عائشہ صدیقہ کی یہ حدیث ہے بعد میں آنے والے بڑے بڑے علماء نے پڑھی اور لکھی اور اس کے حل تلاش کئے اور آخر یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہو گئے کہ حضرت عائشہ کی فراست نے جس مضمون کو پایا تھا وہی حقیقت ہے.آپ کے نزدیک لانبی بعدی کا مطلب محض یہ بنتا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مخالف کوئی نبی نہیں آئے گا.آپ کی شریعت کے تابع ہوگا ، آپ کی سنت کے تابع ہوگا اور وہ نبی جو آپ کے شریعت اور سنت کے تابع ہو اس پر بعدی کا لفظ اطلاق نہیں پاسکتا.حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں لانبی بعدی سے مراد یہ ہے کہ مجھے چھوڑ کر مجھ سے ہٹ کر میرے مخالف ، میرے فیض سے فیض یافتہ نہ ہونے کے باوجود کوئی شخص نبی نہیں بن سکتا.پس حضرت عائشہ صدیقہ کی فراست اتنی گہری ہے کہ آج تک وہ اثر انداز ہے اور اس دور میں خصوصیت سے ہم پر اثر انداز ہے.حضرت عائشہ صدیقہ کی یہ حدیث ہے جو ختم نبوت کی حقیقت کے معنی بیان کرنے میں سب سے زیادہ جماعت احمدیہ کے کام آتی ہے.

Page 551

حضرت خلیفہ مسح الرابع کے مستورات سے خطالبات ۵۴۷ خطاب ۶ ارا گست ۱۹۹۷ء میرا یہ منشاء تھا کہ آج کے اجلاس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ازواج کی باتیں کروں اور اسی پہلو سے اُن آیات کا انتخاب کیا گیا تھا آپ کے لئے جس میں ازواج مطہرات کے متعلق قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے.اے نبی کی بیو یو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو.اب میں آپ کو یہ دکھا رہا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بیویاں عام عورتوں کی طرح نہیں تھیں اور عظیم قربانی کرنے والی تھیں اور ہمیشہ کے لئے وہ آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے نمونہ بن گئیں.اگر آپ ازواج مطہرات کو ہی پکڑ بیٹھیں آپ کو پھر کسی اور نسوانی نمونے کی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ مریم کا نمونہ بھی ان میں شامل تھا اور آسیہ فرعون کا نمونہ بھی ان میں شامل تھا.غرضیکہ ازواج مطہرات آپ کے سامنے وہ چمکتے ہوئے ماڈل ہیں جن کو ہمیشہ آپ کو سینے سے لگائے رکھنا چاہئے.حضرت ام سلمہ کا ذکر کرتا ہوں.حضرت ام سلمہ وہ مسلم خاتون تھیں جن کو سب سے پہلے ہجرت کی توفیق ملی اور ہجرت حبشہ میں یہ خاتون تھیں جو شامل ہوئیں.حضرت ام سلمہ کے خاوند زندہ تھے.ان کے ساتھ آپ ہجرت میں شریک ہوئیں اور پھر ہجرت مدینہ میں وہ تمام مستورات جنہوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی ہے ان میں آپ کا پہلا نمبر ہے.تو دو ہجرتوں میں اول خاتون حضرت ام سلمہ تھیں.اس پہلو سے آپ کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ حضرت ام سلمہ کی ہجرت کیا تھی.حضرت ام سلمہ کی ہجرت کسی مال و دولت کی وجہ سے نہیں تھی کوئی ایسی جگہ پانے کی خواہش نہیں تھی کہ جس جگہ پر آپ کو دنیا کے آرام میسر ہوں، مال و دولت نصیب ہو.آپ کی ہجرت دونوں دفعہ ہمیشہ خدا کے لئے تھی اس لئے خصوصاً جرمنی میں آنے والی خواتین کے لئے خواہ بڑی ہوں یا چھوٹی حضرت ام سلمہ کے حالات پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے.جب ہجرت حبشہ سے واپسی ہوگئی اور مدینہ کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہجرت فرما گئے تو حضرت ام سلمہ خود یہ بیان کرتی ہیں کہ جس دن ہم نے مدینہ کی طرف روانہ ہونا تھا میں اور میرا خاوند اور میرا بیٹا اونٹ پر سوار ہو کر مکے سے باہر نکلے اس دوران میرے قبیلے کے لوگ پہنچ گئے اور مجھے میرے خاوند کے ساتھ جانے سے روک دیا.چنانچہ میں اپنے بیٹے کے ساتھ پیچھے رہ گئی اور میرا خاوند مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے.کچھ ہی دیر بعد میرے خاوند کے قبیلے والے آگئے اور میرا بیٹا یہ کہ کر مجھ سے چھین کر لے گئے کہ ہمارا بچہ ہے اگر تمہارے قبیلے والے تمہیں اپنے خاوند کے ساتھ نہیں جانے دیتے تو پھر اس بچے پر بھی تمہارا کوئی حق نہیں یہ ہمارے پاس رہے گا.چنانچہ آپ اکیلی رہ گئیں.آپ بیان کرتی ہیں میں ہر روز مکہ سے باہر نکل جاتی تھی ، ریت کے ٹیلوں میں جا کر روتی

Page 552

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۵۴۸ خطاب ۶ اسراگست ۱۹۹۷ء رہتی تھی یہاں تک کہ شام ہو جاتی تھی ہر روز میرا یہ معمول تھا کہ مکہ کے باہر ریت کے ٹیلوں پر جا کر اپنے چھینے ہوئے خاوند اور اپنے چھینے ہوئے بیٹے کو یاد کرتی اور صبح سے شام تک آنسو بہاتی تھی.ایک دن ایک قبیلے کے آدمی کو مجھ پر رحم آ گیا.اس نے کہا کہ تم کیوں اس مسکین عورت پر ظلم کر رہے ہو.تم نے اس کا خاوند چھین لیا، اس کے بیٹے کی جدائی ڈال دی یہ ظلم ہے تم اس ظلم سے باز آ جاؤ.اس پر فرماتی ہیں کہ میرا بچہ میرے سپرد کر دیا گیا اور اس کے بعد آپ کو ہجرت کی اجازت دی گئی چنانچہ اس بیٹے کو اُٹھائے ہوئے مدینہ کی طرف اس وقت روانہ ہوئیں اور اس ہجرت میں یہ پہلی تھیں جنہوں نے دین کی خاطر اتنے دکھ اُٹھائے اور دین ہی کی خاطر ایک وطن کو چھوڑ کر ایک اور وطن کو قبول کیا.ابوسلمہ غزوہ احد میں زخمی ہوئے اور زخموں کی تاب نہ لا کر آپ نے وفات پائی.اب غزوہ احد جو چوتھے سال میں واقعہ ہوا اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عمر ۵۳ اور ۴ سال ۵۷ سال ہو چکی تھی اور آپ نے ابوسلمہ کی بیوہ سے جواحد میں شہید ہوئے تھے کسی نفسانی غرض کے لئے شادی نہیں کی تھی بلکہ ان کو سنبھالنے کے لئے ان کا سہارا بننے کے لئے ، ان کی نیکیوں کو دیکھتے ہوئے شادی کی تھی.پس اس پہلو سے حضرت ام سلمہ کو ایک بہت بڑا مقام حاصل ہے اور آپ کی عقل اور فراست کو، جس پر سورۃ فتح نازل ہوئی ہے، اس فتح میں حضرت ام سلمہ کا ایک بہت بڑا دخل تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس سفر میں صرف حضرت ام سلمہ کو ساتھ رکھا ہے.یہ بہت ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی فراست کی بار یک باتیں ہیں جن پر آپ کو نظر رکھنا چاہئے.حضرت ام سلمہ چونکہ ہجرت میں پہلی تھیں اور مدینہ کی طرف آپ نے پہلی ہجرت کی تھی.اس لئے فتح کے ساتھ حج کے وقت کے میں داخل ہونے کے لئے آپ نے صرف ایک بیوی کو چنا اور وہ حضرت ام سلمہ تھیں اور ان کا چنا جانالازماً الہی منشاء تھا کیونکہ آپ کی فراست تھی جس نے مسلمانوں کو اس دور کے صحابہ کو ایک ایسے داغ سے پاک کر دیا جو ہمیشہ کے لئے ان کے سینوں میں لگا رہتا، جب صلح حدیبیہ کے وقت ، حدیبیہ کے میدان میں کفار مکہ نے آپ کو حج کرنے سے روک دیا اور یہ کہا کہ ہماری ننگی تلواریں ہیں جو تمہارا راستہ روکیں گی.خون بہاتے ہوئے اگر ز ور اور جبر کے ساتھ تم مکے میں داخل ہو سکتے ہو تو ہو جاؤ لیکن امن کی حالت میں تمہیں داخل نہیں ہونے دیں گے.وقت ایسا تھا کہ صحابہ کے دل جوش سے گویا ان کے اندر ایک طوفان برپا ہو چکا تھا.اتنا زیادہ جذبہ تھا کہ اس جذبے کے سمجھنے کے لئے بھی ذرا ٹھہر کر غور کرنا پڑتا ہے کہ وہ جذبہ تھا کیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک رؤیا دیکھی تھی اس رؤیا کے مطابق آپ نے وہ سفر

Page 553

حضرت خلیفت آسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۵۴۹ خطاب ۶ امر اگست ۱۹۹۷ء اختیار کیا.اس رویاء میں اپنے آپ کو اور اپنے صحابہ کو آپ نے عمرہ کرتے ہوئے اور حج کرتے ہوئے دیکھا تھا.غرضیکہ اس سفر میں اس یقین کے ساتھ کہ شاید اللہ کا منشاء.ابھی اس رؤیا کو پورا کرنا ہے آپ نے سفر اختیار کر لیا.وہ واقعہ تو ہوا رو یا تو پوری ہوئی مگر یہ بعد کے وقت کے لئے تھی.وقتی طور پر نہیں تھی مگر آپ کا سفر خدا تعالیٰ نے اس لئے ہونے دیا کہ اس کے نتیجے میں تاریخ اسلام میں بے انتہا عظیم ایسے واقعات محفوظ ہو جانے تھے جو ہمیشہ کے لئے ہمارے لئے راہنما بنتے اس لئے خدا کا یہ فعل کہ ایک غلط تعبیر کو جو منشاء نہیں تھی اس کو اسی طرح جاری ہونے دیا.اس میں بھی بہت سی حکمتیں ہیں مگر ان کی تفصیل میں جانے کا یہ وقت نہیں ہے.یہ یا درکھیں کہ صحابہ کو جوش یہ تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے رویا دیکھی اور جو کفار ہمیں روک دیں اس رؤیا کو پوری کرنے سے یہ نہیں ہوگا.یک زبان ہوکر تمام صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہمیں اجازت دیں ہم خون کی ندیاں بہادیں گے مگر آپ کی رؤیا ضرور پوری ہوگی اور ہم ضرور مکہ میں داخل ہوں گے اور وہاں جیسا کہ آپ نے دیکھا عمرہ اور حج ادا کیا جائے.حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم خدا کے منشاء کے مطابق اس بات سے رک گئے.جس کی صداقت بظاہر خطرے میں تھی.آپ نے اس خطرے کو قبول کیا لیکن الہی منشاء کی خلاف ورزی کو قبول نہ کیا.آپ نے فرمایا کہ دیکھو حج اس صورت میں جائز ہے اگر رستہ صاف ہے، رستے کا امن میسر ہو اور چونکہ امن میسر نہیں ہے اس لئے میری رؤیا کا حال خدا پر کھلا ہے وہ جانے اور میری رویا جانے مگر میں خدا کے واضح منشاء کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خون بہاتا ہوا مکہ میں داخل نہیں ہوں گا.تمام صحابہ اس پر اس قدر یخ پاتھے.سیخ پا تو نہیں کہنا چاہئے بھنا گئے.ان کی عقلوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ بات سمجھائی کہ سفر حج میں جہاں رو کے جاؤ ہیں قربانیاں کر دو.جس کا ذکر میں نے کل بھی کیا تھا یا کسی سوال جواب کی محفل میں اس کا ذکر ہوا تھا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صحابہ کو کہا کہ اُٹھو اور قربانیاں کرو.ایک بھی نہیں اُٹھا بڑے بڑے عظیم صحابہ شامل تھے.اس قدر دکھ ہوا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ، اس قدر تکلیف پہنچی کہ آپ اپنی بیوی ام سلمہ کے پاس آئے.ام سلمہ! ان کو کیا ہو گیا ہے؟ میں کہہ رہا ہوں کہ اٹھو اور قربانیاں پیش کرو اور ایک بھی نہیں ہے جو اٹھا ہو.یہ ام سلمہ ہیں ان کا ایک تاریخی کارنامہ ہے جو ہمیشہ ہمیش کے لئے اسی طرح آسمان پر چاند سورج کی طرح چمکتا رہے گا.آپ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان کی محبت اور عشق میں کوئی کمی نہیں ، آپ نہیں جانتے ان

Page 554

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات خطاب ۶ ار ا گست ۱۹۹۷ء پر کیسی آزمائش ہے ، ان کی عقلیں بھنا گئی ہیں، ان میں سوچنے کی طاقت نہیں رہی ، آپ آگے بڑھیں اور اپنی قربانی کریں، پھر دیکھیں ان کا کیا حال ہوتا ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اُٹھے اور حضرت ام سلمہ کے مشورہ کے مطابق اپنی قربانی کی طرف بڑھے اور اس کی گردن پر چھری پھیر دی.روایت بیان کرنے والے بیان کرتے ہیں کہ اس قدر کہرام مچا تھا گویا ان کی گردنوں پر چھریاں چل رہی ہیں وہ لیکے ہیں اپنی اپنی قربانی کی طرف اور الٹی سیدھی جس طرح بھی بن پڑی اس میدان میں انہوں نے اپنی تمام قربانیاں ذبح کر دیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ثابت کر دیا کہ ام سلمہ سچ کہتی تھیں.ہم بیوفاؤں میں نہیں ہیں.ہمارے دماغ معطل ہو گئے تھے.جب آپ نے چھری پھیری تو یوں لگا جیسے ہماری گردنوں پر چھری پھیری جارہی ہے.پس حضرت ام سلمہ کو یہ عظیم مقام حاصل ہے.آپ کو خدا تعالیٰ نے فر است عطا فرمائی تھی.آپ صحابہ کے حال کو جانتی تھیں اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صحیح انتخاب فرمایا تھا کہ ام سلمیٰ کو ساتھ لے کر چلیں.کیسی بار یک نظر سے بیویوں کے حالات کو دیکھا یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان ہے.لوگ بیویوں سے اچھی توقعات تو کرتے ہیں مگر ان بیویوں کو کون سا خاوند نصیب ہے اور کیسا خاوند نصیب ہے اس پر نظر نہیں کرتے.پس آپ ضرور خدیجہ بنے کی کوشش کریں.آپ ضرور عائشہ بنے کی کوشش کریں.بن سکیں تو ام سلمہ بنیں.لیکن اپنے خاوند کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت پر ضرور چلانے کی کوشش کریں.اگر وہ نہیں چلیں گے تو نہ آپ خدیجہ بن سکتی ہیں نہ آپ عائشہ بن سکتی ہیں اور نہ ام سلمہ.یہ محض ایک فرضی قصے ہوں گے.اب حضرت سودہ کی بات کرتا ہوں کیونکہ کہتے ہیں کہ وقت ختم ہونے والا ہے.حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں.مَامِنَ النَّاسِ اَحَبُّ إِلَى اَنْ اَكُونُ فِي مَثْلِتِهَا مِنْ سَوْدَةً کہتی ہیں کہ سوده ایک ایسی خاتون تھیں رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بیویوں میں سے ایک بیوی تھیں کبھی میرے دل میں یہ خواہش نہیں ہوئی کہ میری روح کسی اور عورت کے قالب میں اُتر آئے مگر سودہ کے متعلق مجھے ضرور یہ خواہش ہوئی تھی کہ کاش میری روح سورہ کے دل میں اتر جاتی اور سودہ کے بدن میں رہتی.اتنا عظیم الشان خراج تحسین ہے حضرت سودہ کو اس سے بڑا خراج تحسین آپ سوچ بھی نہیں سکتیں اور حضرت عائشہ کا یہ خراج تحسین دینا آپ کی فراست کو بھی اجاگر کرتا ہے.یعنی اجا گر تو تھی اسے نمایاں کر کے

Page 555

حضرت خلیفہ مسیح الرابع سے مستورات سے خطابات ۵۵۱ خطاب ۶ ار ا گست ۱۹۹۷ء ہمارے سامنے رکھتا ہے.اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ نے حضرت سودہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت کا وہ جذبہ دیکھا تھا جو آپ کو کہیں اور دکھائی نہیں دیا.حضرت سودہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے جو عشق تھا وہ اطاعت میں ایسا ڈھل گیا تھا کہ کبھی کسی بیوی نے اطاعت کے مضمون میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ایسا حق ادا نہیں کیا جیسا حضرت سودہ ہمیشہ کرتی رہیں.آپ نے حجہ الوداع کے موقع پر ازواج مطہرات کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میرے بعد گھر میں بیٹھنا،مراد یہ تھی کہ بازاروں میں نہ پھرنا، گھر کو پکے رکھنا.یہ مرا تو ہر گز نہ تھی کہ گھر میں ہی بیٹھ رہنا نکل کر باہر کا منہ نہ دیکھنا.حضرت سودہ کو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت کی ایسی لگن تھی کہ آپ کے منہ سے جو لفظ نکلتے تھے بعینہ وہی کرتی تھیں.جانتی ہوں گی کہ یہ مراد نہیں ہے مگر جو سنا تھا وہ یہی سنا تھا کہ گھر سے نہ نکلنا.چنانچہ گھر کی ہو بیٹھیں اور تاوفات اپنے گھر کی چوکھٹ سے باہر قدم نہ نکالا.یہاں تک کہ ایک موقع پر حج پر روانہ نہ ہوئیں اور یہ بتایا کہ دیکھو خدا کی اطاعت اپنی جگہ ہے اگر میں حج اور عمرہ نہ کر چکی ہوتی تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے یہ کہنے کے باوجود میں حج کے لئے ضرور جاتی.اب یہ جو باریکیاں ہیں جو اصل میں نمونہ ہیں اگر چہ حضرت سودہ نے اس کی تفصیل بیان نہیں کی مگر روایت صرف اتنا بتا رہی ہے کہ آپ نے باقی ازواج مطہرات کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میں حج اور عمرہ دونوں کر چکی ہوں اور اب خدا کے حکم کے مطابق گھر بیٹھوں گی.چنانچہ اس کے اندر غور سے پڑھیں جو بات نکلتی ہے وہ میں نے آپ سے بیان کی ہے.یہ مضمون صاف بتا رہا ہے کہ حضرت سودہ نے اگر حج اور عمرہ نہ کیا ہوتا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اس ارشاد کے باوجود کہ گھر بیٹھو پھر بھی نکل کھڑی ہوتیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اطاعت اللہ کی خاطر کرو محض خاوند کی جھوٹی اطاعت نہیں تھی چنانچہ اس پر نتیجہ بھی یہ نکالا فرمایا میں کر چکی ہوں اور اب خدا کے حکم کے مطابق گھر میں بیٹھوں گی.ایک خدا کا حکم ہے حج کرنے کا وہ میں کر چکی ہوں.دوسرا حکم ہے میرے آقا و مولا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ، اس کو بھی خدا کا حکم مجھتی تھیں اور بالا حکم پہلے اس کی فرمانبرداری کر بیٹھی ہیں کہتی ہیں اب میں خدا کا وہ حکم مانوں گی جو محمد کی زبان سے جاری ہوا اور ساری عمر گھر سے قدم باہر نہ نکالا.اتنی سخی تھیں ایسی جود وسخا تھی آپ کی ذات میں کہ دنیا میں ایسی کم سخاوت والی عورتیں دکھائی دیتی ہیں جو کچھ آتا تھا وہ غریبوں میں بانٹ دیا کرتی تھیں اور آپ کی عزت اور غیرت کو دیکھتے ہوئے ایک دفعہ حضرت عمر نے آپ کو اشرفیوں کی تھیلیاں بھجوائیں لیکن وہ کجھور کی تھیلی میں ڈال کر.اب یہ عجیب لطیف واقعہ ہے.حضرت عمرؓ کا یہ

Page 556

حضرت خلیفہ مسح الرابع کے مستورات سے خطابات ۵۵۲ خطاب ۶ ار ا گست ۱۹۹۷ء حال تھا کہ ازواج مطہرات کو جانتے تھے سمجھتے تھے، ان کی بار یک فطرت پر نگاہ تھی.اب حضرت عمر نے سمجھا کہ اگر اشرفیوں کے طور پر تھیلیاں گئیں تو یہ بالکل قبول نہیں کریں گی اس لئے کھجوروں کے بہانے تھیلیاں بھیجتا ہوں شاید اس میں سے کچھ کام آجائیں.حضرت سودھا نے یہ فرمایا اس تھیلی میں کیا ہے.غالباً ایک تھیلی تھی اس تھیلی میں کیا ہے.اس نے کہا درہم ہیں.بولیں کجھور کی تھیلی اور اس میں درہم بھیجے جاتے ہیں یہ کہہ کر اسی وقت تمام درہم پورے کے پورے تقسیم کر دیئے آپ کھالیں بنانا جانتی تھیں یعنی کھالوں پر کام کرنا آپ کھالیں بنایا کرتی تھیں اور جو بھی آمد ہوتی تھی اسے تقسیم کر دیا کرتی تھیں.یہ ازواج مطہرات تھیں جو آپ کے لئے نمونہ ہیں، جو ہمارے لئے نمونہ ہیں، قیامت تک کے لئے یہ نمونہ بنی رہیں گی.آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان ازواج کے علاوہ ان میں حضرت فاطمہ کو بھی داخل فر مایا اور ان کو بھی ہمیشہ کے لئے امت کے لئے تحفہ قرار دیا مگر میں سر دست اس ذکر کو ختم کرتا ہوں.حضرت فاطمہ اور دیگر خواتین جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا زمانہ پایا ان کے نمونے کی چند باتیں میں انشاء اللہ آئندہ کسی وقت آپ کے سامنے رکھوں گا.اس وقت اسی پر بس ہے.اب آپ اگر اپنے لئے کوئی بڑائی چاہتی ہیں، ایسی بڑائی جو آسمان تک پہنچے روئے زمین پر نہ رہے، وہ بڑائی جو عرش معلی تک جا پہنچے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بیویوں کی پیروی کریں.ان جیسا بننے کی کوشش کریں ، ان کی صفات کو باریک نظر سے دیکھیں جیسا کہ میں نمونہ آپ کو دکھا رہا ہوں اور پھر اس پیار کی نظر سے دیکھیں کہ آپ کا دل کھینچا چلا جائے ، آپ بے اختیار ہو جا ئیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ازواج کے نمونے کو اپنا لیں.ایسی صورت میں جوارد گرد کا ماحول ہے آپ پر کوئی خاک بھی اثر نہیں کرے گا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وہ ازواج مطہرات جو گھر میں بیٹھ رہیں اور وہ ازواج جو باہر نکلا کرتی تھیں وہ ساری محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت اور آپ کی پیدا کردہ عصمت کی چار دیواری میں رہتی تھیں.جہاں بھی جاتی تھیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دعائیں آپ کی تربیت اور وہ عصمت کی چاردیواری جو آپ نے ان کے لئے بنادی تھی جس کا قرآن کریم میں بھی ذکر ملتا ہے کہ اپنے گھروں کو پکڑ رکھنا.اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کی جاسکتی کہ گھر چار دیواری کو پکڑ رکھیں.مراد یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو گھروں میں رہنا مگر محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جو عصمت کی چار دیواری آپ کے لئے بنائی ہے اس سے باہر قدم نہ رہے.بس آج میں آپ سے یہی توقع رکھتا ہوں کہ آپ آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خواتین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس ملک میں

Page 557

۵۵۳ خطاب ۶ ار ا گست ۱۹۹۷ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات التفات کے ساتھ رہنا ، زندہ رہنا سیکھیں تو معاشرہ اور ماحول اور اردگرد کے اثرات آپ کو ایک ذرہ بھی مغلوب نہیں کر سکتے.آپ اس معاشرے میں سر اٹھا کر چلیں لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت میں.آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے آگے سرجھکا کر چلنے والی ہوں، معاشرے میں سر اُٹھانے والی وہ ہوں گی جو خدا کے حضور سجدہ ریز رہیں گی اور اس صورت میں انشاء اللہ میں یقین رکھتا ہوں کہ آپ اپنے ماحول کو تبدیل کر سکیں گی.ورنہ آپکا ما حول آپ پر چڑھائی جاری رکھے گا، آپ کو بے معنی اور بے حقیقت دکھاتا رہے گا لیکن ایک عزم کے ساتھ ایک اعلیٰ ارادے کے ساتھ اگر آپ اس رستے پر قائم رہیں جو رستہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی محبت کے اظہار کے لئے ہم پر واضح فرمایا.اے عائشہ ! تمہاری محبت میرے دل میں عروۃ الوثقی کی طرح ہے تمہاری محبت مجھے خدا کی محبت سے ملانے والی ہے اور اس محبت کو میں چھوڑ نہیں سکتا کیونکہ عروۃ الوقتی پر جو ہاتھ ڈالا جائے گا وہ ہاتھ کاٹا تو جاسکتا ہے مگر عروۃ الوثقفی سے الگ نہیں کیا جا سکتا.اللہ تعالیٰ آپ کو ان باتوں کو سن کر اپنے دلوں میں جگہ دینے کی توفیق عطا فرمائے اور یہ باتیں آپ کے دلوں میں ولولہ پیدا کرنے والی ہوں.آپ کے لئے مختلف نمونے ابھریں اور ان نمونوں کو آپ وہ اُسوہ بنا لیں جس کو قرآن کریم فرماتا ہے.لِكُلِّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَتِيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَتِ (البقره:۱۳۹) بس اے احمدی خواتین! خدا تعالیٰ نے ہر ایک کے لئے ایک وِجُهَة مقرر فرمایا ہے ایک نصب العین مقرر فرمایا ہے اے احمدی خواتین ! نصب العین وہ ہے جو میں آپ کے سامنے روشن کر چکا ہوں.اس نصب العین کی طرف دوڑیں اور ایک دوسرے پر اس نصب العین کی طرف دوڑنے میں سبقت کرنے کی کوشش کریں فَاسْتَبِقُوا الخَیرات نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھتی جائیں اللہ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.اب میں دعا کراتا ہوں آپ سب اس دعا میں شامل ہو جائیں.باقی با تیں انشاء اللہ آئندہ کسی جلسے میں.

Page 558

Page 559

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۵۵ خطاب ۲ رمئی ۱۹۹۸ء سورۃ فاتحہ کے مضامین سمجھنے اور تبلیغ کے متعلق نصائح جلسہ سالانہ مستورات پیجیئم سے خطاب فرمودہ ۲ رمئی ۱۹۹۸ء) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: لجنہ کے آج کے خطاب کے لئے میں انہی چھوٹی چھوٹی باتوں کو دہراؤں گا جواکثر لجنہ کے خطابات میں میں پہلے کہہ چکا ہوں لیکن بدقسمتی سے ان پر عمل درآمد کروانے کے لئے کوئی نگران دکھائی نہیں دیتا.لجنہ تقریروں کی تو عادی ہے مگر تقریروں پر عمل کرنے کی عادی نہیں.یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے.بعض باتیں میں نے ہالینڈ میں بھی کہیں تھیں اگر آپ لوگ ان سب لجنات کو ہالینڈ والی کیسٹ سنانے کا انتظام کر لیں تو بہت اہم پیغامات مل جائیں گے.اسی طرح انگلینڈ میں انگلستان میں بھی لجنہ اماءاللہ کو میں نے بعض چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ دینے کی درخواست کی تھی لمبے عرصے سے میں کہہ رہا تھا مگر کوئی ایسا انتظام نہیں تھا کہ ان باتوں کو جاری کر کے دیکھ لے کہ واقعہ ان پر عمل ہو گیا ہے.اس لئے میں نے ان سے بھی ناراضگی کا اظہار کیا تھا کہ آپ لوگ ایک معمولی سی بات سمجھ کر اس کو نظر انداز کر دیتے ہیں حالانکہ اس پر عمل کئے بغیر آپ کی اگلی نسلوں کی بنیاد درست نہیں ہو سکتی.مثلاً یہاں جتنی بچیاں بیٹھی ہوئی ہیں ان کو سورۃ فاتحہ صحیح تلفظ کے ساتھ اور ترجمہ کے ساتھ یاد ہے کہ نہیں ہاتھ کھڑا کرنے کو تو بہت سی کر دیں گی لیکن جب سنا جائے گا تو وہاں بھول جائیں گی حالانکہ سورۃ فاتحہ وہ سورۃ ہے جس کو ہر نماز کی پہلی دورکعتوں میں تو لازماً پڑھا جاتا ہے اور اس کے علاوہ وتر میں تین رکعتوں میں بھی پڑھا جاتا ہے.معاف کرنا ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھا جاتا ہے اس کے بعد جو تلاوت ہے وہ پہلی دورکعتوں

Page 560

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۵۵۶ خطاب ۲ رمئی ۱۹۹۸ء کے علاوہ چھوڑی جاسکتی ہے لیکن سورۃ فاتحہ تولا ز ماہر رکعت میں پڑھنی ضروری ہے اس کے بغیر رکعت بنتی ہی نہیں.تو وہ سورۃ جو آپ نے دن کی کم سے کم پانچ نمازوں کی ہر رکعت میں پڑھنی ہے یہ کیسی عجیب بات ہے کہ وہ یاد ہی نہ ہو.یعنی اس طرح یاد نہ ہو کہ پڑھتے پڑھتے خود بخود ذہن میں اس کا مضمون جاری ہو جائے.پس یہ غفلت کی زندگی بسر کرنا بند کریں اس کے نتیجے میں آپ دنیا میں کوئی اصلاح کا کام نہیں کر سکیں گی.جو اپنی نسلوں کو نہ سنبھال سکے اس نے آئندہ نسلوں کو کیا سنبھالنا ہے.سورۃ فاتحہ کو اتنا ضروری قرار دیا گیا ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھنی لازم ہے کوئی بات ہوگی ورنہ اللہ تعالیٰ آپ کو ایک بات دہراد ہرا کر بور تو نہیں کرنا چاہتا.ظاہر بات ہے کہ سورۃ فاتحہ کے مضامین ہر انسان کی سوچ کے مطابق بدلتے تو نہیں مگر اپنی طرف متوجہ کرتے رہتے ہیں اتنے وسیع مضامین کہ ہر نماز کی ہر سورۃ فاتحہ ایک نئے رنگ میں آپ کے سامنے ظاہر ہوتی ہے حالانکہ وہی رہتی ہے جیسے شاعر نے کہا ہے..کو شمع حقیقت کی اپنی ہی جگہ پر ہے فانوس کی گردش سے کیا کیا نظر آتا ہے سورۃ فاتحہ بھی ایک ایسی لو ہے جو اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے مگر آپ کی سوچ کا فانوس جب اس کے اردگر حرکت کرتا ہے اس میں سورۃ فاتحہ کے نئے نئے مضامین چمکتے ہیں یہ وہ بات ہے جو میں سمجھا سمجھا کر تھک تو نہیں گیا لیکن سمجھا سمجھا کر کچھ آپ لوگوں سے مایوس ضرور ہوا ہوں سمجھتے کیوں نہیں.اتنی اہم سورۃ کو آپ میں سے اکثر جو اس وقت یہاں بیٹھی دیکھ رہی ہیں وہ اس طرح نہیں جانتی کہ نماز میں پڑھیں تو فورا ساتھ ساتھ اس کے مضامین دل پر جاری ہوں اب یہ ایک چھوٹا سا کام تھا جو بظاہر چھوٹا مگر اپنی اہمیت میں بہت بڑا ہے.یہ میں لجنات کو کہ رہا ہوں مگر اس پر عمل نہیں ہورہا ایسی کوئی مشینری بنائیں ، ایسا کوئی انتظام کریں کہ آپ کو یقین ہو کہ ہر بچی ہر عورت ہر چھوٹا بچہ بھی جو نماز پڑھنے کی عمر کو پہنچ گیا ہے اس کو سورۃ فاتحہ یاد کروائیں اور اس کے معنے بتائیں اور اس سلسلے میں جوار دو کلاس میں انگلینڈ میں ہمیں نے سورۃ فاتحہ کے مضامین بچوں کو سمجھائے تھے اگر وہ کیسٹ گھر گھر عام ہو جائے اور سب بڑے اور چھوٹے اس کو غور سے بار بار سنیں تو ان کو اتنے مضامین پتہ چل جائیں گے کہ ساری عمر کے لئے سورۃ فاتحہ ان کی ہر ضرورت پوری کرے گی.خطبات میں میں جو باتیں کہتا رہتا ہوں ان پر عمل کریں تو کئی زندگیاں آپ کو چاہئیں ان پر سچا عمل کرنے کے لئے مگر یہ صرف ایک بات یہ سورۃ فاتحہ کی

Page 561

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۵۷ خطاب ۲ رمئی ۱۹۹۸ء کہہ رہا ہوں اس پر آپ بھی عمل کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اگر سارے مضامین سمجھ لیں تو آپ کی ہر ضرورت پوری ہوسکتی ہے.جب کوئی انسان ضرورت مند ہووہ کسی سے کچھ مانگنا چاہے تو سورۃ فاتحہ میں اس کا حل موجود ہے کوئی بھی مزاج ہو کسی قسم کی حالت طاری ہو خوشی ہو یا نمی ہو ہر مضمون کے لئے سورۃ فاتحہ اس کو الفاظ مہیا کرے گی کہ ان الفاظ میں اپنے رب سے مانگوتو اتنی ضروری چیز ہے جس سے آپ غافل بیٹھے ہوئے ہیں اس پر توجہ دیں اس کو از برکریں اور پھر سورۃ فاتحہ کی زبان عربی محسوس نہ ہو بلکہ اپنی زبان لگے جو فرینچ سپیلنگ ہیں ان کو یوں لگے جیسے وہ فرانسیسی میں خدا سے مخاطب ہیں.یعنی عربی زبان کا وہ حصہ اتنا واضح اور قطعی ہو جائے کہ اپنی مادری زبان کی طرح سمجھ آنے لگ جائے اسی طرح ہر زبان کا حل ہے یہ ممکن ہے اگر آپ سنجیدگی سے بار بار اس طرح توجہ کریں اور نما ز پڑھتے وقت ذہن کو حاضر رکھیں کہ کیا واقعی سمجھ آرہی ہے کہ نہیں اگر نہ سمجھ آرہی ہو تو زیادہ وقت لیں نماز میں کھڑے ہو کر جب تک سمجھ نہ آئے دہراتے رہیں لفظوں کو اور جب مختلف مضامین آپ کو سمجھ آئیں تو پھر اپنے مزاج کے مطابق جب کوئی خاص مضمون آپ کے دل پر اثر انداز ہوسورۃ فاتحہ کی آیات کو اس کے مطابق پڑھیں.حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کھڑے ہو کر مجھے کئی دفعہ نماز پڑھنے کی توفیق ملی ہے.حضرت مولوی صاحب کو الصراط المستقیم والی آیت کے بہت سے مضامین سمجھ آگئے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ ہر مضمون دوبارہ اسی آیت کو پڑھتے ہوئے ان کے ذہن میں آئے تو بعض دفعہ اھدنا صراط المستقيم ، اهدنا صراط المستقیم اتنی دفعہ پڑھتے تھے کہ اس عرصہ میں ساتھ کھڑے ہونے والے نمازی اپنی ساری نماز مکمل کر لیتا تھا اور مولوی صاحب و ہیں کھڑے اهدنا صراط المستقيم ، اهدنا صراط المستقیم پڑھ رہے ہیں اس لئے نہیں پڑھتے تھے کہ ان کو سمجھ نہیں آتی تھی اس لئے بار بار پڑھتے تھے کہ بہت زیادہ سمجھ آتی تھی.صراط مستقیم میں بے شمار لوگوں کا ذکر ہے جن کو خدا تعالیٰ نے صراط مستقیم عطا فرمائی.ان میں صالحین بھی ہیں ، ان میں شہداء بھی ہیں، ان میں صدیقین بھی ہیں اور انبیاء بھی ہیں اور الصراط المستقیم پر چلنے والوں کی اتنی قسمیں ہیں کہ اگر ان میں سے ہر قسم کے حالات پر غور کریں کہ اے خدا! میں یہ بھی مانگ رہا ہوں میں یہ بھی مانگ رہا ہوں تو ہر نماز مولوی شیر علی صاحب کی نماز بن جائے گی.نہ ختم ہونے والی.لیکن ہماری مصروفیتوں کی وجہ سے دوسرے کاموں کی وجہ سے اتنا وقت تو نہیں ہوتا کہ ایک ہی نماز میں ان ساری باتوں کو دہرائیں مگر الگ الگ نمازوں میں ان کو ہرایا جا سکتا ہے.کبھی ایک بات پر زور دے کر -

Page 562

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۵۸ خطاب ۲ رمئی ۱۹۹۸ء کسی آیت کو سمجھیں اور دعا کریں کبھی دوسری آیت پر زور دے کر اس کو سمجھیں اور دعا کریں یہ ایک چھوٹا مگر بہت بڑا پیغام ہے.میں مزید کہتا ہوں کہ لجنہ اماءاللہ ہالینڈ توجہ سے سن رہی ہوگی اور اس پر عمل کا ارادہ بھی کیا ہوگا تو آئندہ جب بھی آؤں اس وقت مجھے پتہ چلے گا.لیکن اگر اس سے پہلے صدر لجنہ اماءاللہ با قاعدہ ایک ایک ممبر لجنہ کا جائزہ لے کر یہ رپورٹ کیا کریں کہ اتنوں کو سورۃ فاتحہ کا مضمون سمجھنے کی طرف توجہ پیدا ہوئی اتنی ہیں جو سمجھ چکی ہیں تو چھوٹی سی رپورٹ میں مجھے بہت کچھ مل جائے گا، بجائے اس کے کہ تھیں چالیس صفحے کالے کئے جائیں جس کا مجھے کوئی بھی فائدہ نہ ہو.ایک چھوٹی سی خبر مجھے دے دیں تو میرا دل اس سے بہت راضی ہوگا.میں امید رکھتا ہوں کہ اس طرح توجہ کریں گی.دوسرے ایک اور بات ہے تبلیغ سے متعلق.کل آپ نے ایک نظارہ دیکھا ہے وہی لوگ گھیر گھار کے لائے جاتے ہیں جن کو الف ب بھی سلسلہ کی نہیں پتہ اور اپنی طرف سے گھیر نے والے اپنے نمبر بناتے ہیں کہ دیکھو ہم بڑی تبلیغ کر رہے ہیں.حالانکہ میرے ہاں نمبر بنانے کا کوئی بھی فائدہ نہیں نمبر تو اللہ کے گھر بنیں تو پھر فائدہ ہوگا اور اللہ جانتا ہے کہ کیسی تبلیغ کی گئی ہے کتنی تبلیغ کی گئی ہے.اکثر کل کے سوال جواب کی مجلس میں میں نے یہی اندازہ کیا ہے کہ یہاں تبلیغ نام کی کوئی چیز نہیں محض ایک شور ڈالا جارہا ہے.مجھے جب میں آتا ہوں اکٹھے کر کے لوگ دکھا دیئے جاتے ہیں یا اس سے پہلے تبلیغ کا کام کرنے والوں نے رپورٹوں کے ذریعہ مجھ پر بہت اثر ڈالا ہوتا ہے اس وقت ساری جماعت ایک طرف اور ہم ایک طرف اور ہماری تبلیغ دیکھو اتنا بڑا پھل لا رہی ہے.ان کو میں نے بار بار توجہ دلائی ہے کہ آپ کی تبلیغ کے دو دروازے ہیں ایک اندر کی طرف کھل رہا ہے اور ایک باہر کی طرف کھل رہا ہے.اندر آنے والے زیادہ دیر جماعت میں نہیں ٹھہرتے وہ آتے ایک طرف سے اور باہر دوسری طرف سے نکل جاتے ہیں یہ کوئی تبلیغ نہیں.یہ چیز اللہ دیکھ رہا ہے اس سے مجھے بیکا ر خوش کرنے سے کیا فائدہ.میں تو ایک عاجز ناکارہ انسان ہوں میں آپ کو کچھ بھی نہیں دے سکتا دینے والا اللہ ہے وہی جزا دیتا ہے اور وہی سزا بھی دیتا ہے.اگر اس طرح ایک قسم کے دھوکے سے کام لیا جائے خواہ آپ کی نیت کچھ اور ہو دھوکہ دینا نہ بھی ہو تو آپ کی کوشش کی حقیقت کو اللہ ضرور سمجھتا ہے وہ جانتا ہے کہ یہ کوئی تبلیغ نہیں.تبلیغ وہ ہے جس کے نتیجے میں آپ کی جماعت نئے آنے والوں سے بھر جائے ،ان کے اندر جذ بہ ہو، ان کے اندر ولولہ ہو وہ آگے بڑھ کر نیک کاموں میں حصہ لیں ساری جماعت کے ہاتھ بٹائیں.اگر ایسا ہوتا ہے

Page 563

حضرت خلیفہ اسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۵۹ خطاب ۲ رمئی ۱۹۹۸ء تو بھلا یہ چھوٹا سا ہال آپ کے کام آسکتا تھا.اتنا سا ہال تو شور مچانے والے بچوں سے ہی بھر جاتا ہے پھر بھی چھوٹا پڑ جاتا ہے تو آپ لوگ ان نتیجوں کو کیوں نہیں دیکھتے نتیجے سے انسان کو اپنی کوشش کا پتہ لگنا چاہئے.اگر فٹ بال کے میدان میں جتنا مرضی آپ زور لگائیں خوب کھیلیں ادھر سے ادھر فٹ بال کو اٹھا کر اچھالیں مگر گول نہ ہو تو اس کھیل کا کیا فائدہ گول ہو تو فائدہ ہوتا ہے.آپ کے ہاں گول نہیں ہور ہے رپورٹوں میں یہ دکھایا جارہا ہے اس نے اس کو پاس دیا اس نے پاس دیا اتنا ہنگامہ برپا ہوا بہت مزہ آیا تبلیغ کا آخر پوچھو گول کتنے ہوئے گول تو نہیں ہوئے.اس رپورٹ کا کیا فائدہ یہ محض ایک دکھاوا ہے کہنے والا کہے گا کہ میں نے دکھاوے کی خاطر نہیں کیا مگر اللہ جانتا ہے.حقیقت میں دکھاوا ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں.اخلاص کے ساتھ پیار اور محبت کے ساتھ اگر پیغام پہنچایا جائے تو یہاں اچھے لوگ بے شمار مل سکتے ہیں.حکیم اچھے نیک لوگوں سے بھرا پڑا ہے صرف ان کی صحیح تلاش ضروری ہے بعض دفعہ آپ کو یہ دکھائی دے گا کہ بہت سے دہر یہ ہیں جو مذہب میں دلچسپی نہیں لیتے حالانکہ ان کی دہریت ان کی شرافت ان کے اچھے دماغ کی وجہ سے ہے جو انہوں نے مذہبی لوگوں کے ماحول دیکھے ہیں یہاں اور جو ان کی عقل کہتی ہے کہ خدا کو ایسا ہونا چاہئے ویسا پیغام ان کو نہیں دیا گیا اس لئے وہ اپنی عقل کی وجہ سے دہر یہ ہوئے ہیں.اور عقل کے ساتھ لاعلمی کی وجہ سے بھی کیونکہ جو خدا ان کو دکھایا گیا وہ سچا خدا ہے ہی نہیں.جو خدا اسلام کا خدا ہے جسے ملا پیش نہیں کر سکتا جسے آج آپ لوگ پیش کر سکتے ہیں اگر یہ خدا ان کو دیکھایا جائے تو ہر گز ان کو اس خدا کے تصور سے اعتراض نہیں ہوسکتا.میرا یہ تجربہ پہلے بھی تھا کل کی مجلس میں بھی یہی ہوا کہ ایک نوجوان جو کہہ رہا تھا کہ میں صرف خدا کا قائل ہوں اس کے دل میں جو کچھ بھی مذہب پر اعتراض تھے جب میں نے جواب دیا تو بڑے زور سے سر ہلا کر انہوں نے میرا بتایا کہ میں متفق ہو چکا ہوں بالکل یہی بات درست ہے.اسی طرح انگلستان میں سوال جواب کی مجالس میں مجھے بہت سے دہریوں سے بھی رابطہ ہوتا ہے لیکن اگر ان کی دہریت دل کی گندگی کی وجہ سے نہ ہوصاف پٹی ہو جس پر کچھ نہ لکھا گیا ہو تو جب ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی ہستی کا علم دیا جاتا ہے جیسا کہ حق ہے تو ضرور تسلیم کرتے ہیں اور بعض بڑے بڑے دانشوران مجالس میں آتے ہیں اور خواہ وہ اتنا خدا تعالیٰ کو مانیں یا نہ مانیں کہ ان کی زندگی کی روش بدل جائے مگر ذہنی طور پر قائل ضرور ہو جاتے ہیں.پس اس وجہ سے یہ خیال آپ کی راہ میں روک نہ ڈالے کہ لوگ بہت ہی دہر یہ ہیں ان دہریوں میں ہی آپ کو بہت شریف لوگ مل جائیں گے بہت اچھے اچھے سمجھدار عقل والے لوگ ملیں گے.ان سے ان کی

Page 564

۵۶۰ خطاب ۲ رمئی ۱۹۹۸ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات عقلوں کے مطابق بات کریں اور اگر وہ بات آپ کو نہیں کرنی آتی تو اس زمانے میں جماعت احمدیہ کی طرف سے اتنا لٹریچر ہے، اتنی وڈیوز ہیں، اتنی کیسٹیں ہیں کہ دنیا کے اکثر سوالات کے جوابات خواہ وہ کسی پہلو سے کئے گئے ہوں سائنس کی رو سے، فلسفے کی رو سے یا اقتصادیات کی رو سے، کسی پہلو سے بھی کئے گئے ہوں ان کے جواب قرآن کریم میں موجود ہیں اور میں دے چکا ہوں.بار بار دے چکا ہوں ان کے تمام پہلوؤں کو بیان کر چکا ہوں تو کیوں نہیں آپ لوگ وہ کیسٹیں اپنے گھروں میں رکھتیں مگر پہلے خود تو سنیں ان ٹیسٹس کو سن کو غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ واقعتا دل کی تسلی والے جواب موجود ہیں جب آپ کو یقین ہو جائے گا کہ جواب موجود ہیں پھر آپ میں تبلیغ کا ولولہ بھی پیدا ہوگا اس کے بغیر اپنی طرف سے کوشش کریں گی کسی کو پیغام پہنچانے کی وہ آپ کی باتوں کو سن کر مطمئن نہیں ہوگا اور آپ کا دل بھی اکھڑ جائے گا اس لئے جو بات میں سمجھا رہا ہوں جس طرح میں سمجھا رہا ہوں اس کو سمجھیں.آپ پہلے خود اپنی تربیت کے لئے ان آڈیو اور وڈیو ٹیسٹس کو سننا شروع کریں جن میں اس دور کے تبلیغی مسائل ہیں عیسائیوں ، دہریوں ، یہودیوں ،مسلمانوں جو احمدی نہیں ہیں ان سب کو تبلیغ کرنے کے لئے کیا کیا ضرورتیں ہیں، کیا کیا مسائل ہیں جن کا آپ کو علم ہونا چا ہے.اگر ان مسائل کا آپ کو علم ہوگا تو آپ کے دل میں ایک ولولہ پیدا ہوگا ایک جوش پیدا ہوگا کہ آپ دوسروں کو بھی یہ مسائل بتائیں اور سمجھا ئیں.پس تبلیغ کے میدان میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی ایک کمیٹی بیٹھ جانی چاہئے جو جائزہ لے گھر گھر کا.ہرگھر میں تبلیغی کیشیں ہونی چاہئیں اور یہ جائزہ لینا چاہئے کہ وہ ان ٹیسٹس سے فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں کہ نہیں.اگر وہ فائدہ اٹھا چکے ہیں تو پھر ان کو روکیں بھی تو انہوں نے ضرور آگے تبلیغ کرنی ہے کیونکہ جن کو خود سمجھ آجائے بات کی وہ آگے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں.اگر اس معاشرے سے آپ نے ڈر کر زندگی گزاری اور یہ سوچا کہ اس مصیبت میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے اچھے تعلقات ہیں بس اسی طرح رہنے دو تو آپ ہزار سال بھی یہاں رہیں گی تو اسلام کا پیغام نہیں پہنچاسکیں گی.مردوں نے جو کام نہیں کیا عورتیں کر کے دکھا ئیں.بعض اوقات ایسے ہوتے ہیں جب مردوں کی بجائے عورتوں کو بلانا پڑتا ہے اور اسلام کی جنگوں میں بھی ایسے واقعات کے زمانے گزرے ہیں جب مردوں کے پاؤں اکھڑے ہیں تو عورتیں آگے بڑھی ہیں بعض عورتوں نے اپنے خیموں کے ڈنڈے اکھیڑ لئے اور اپنے بھاگتے ہوئے مردوں کو جھپٹیں کہ تم ہوتے کون ہوا سلام کی خاطر جہاد ہورہا ہے اور تم پیٹھ دکھاؤ تم نے ہمارے ناک بھی کاٹ دیئے.چنانچہ عورتوں کے

Page 565

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۶۱ خطاب ۲ رمئی ۱۹۹۸ء ڈنڈے اپنے مردوں پر بر سے وہ مجبور ہو گئے واپس دوڑنے پر اور وہ جہاد کا میدان جو بظاہر ہارا ہوا تھا وہ جیت گئے.تو آج بھی ان باتوں کو دہرانے کی ضرورت پڑتی ہے مجھے یاد کرانا پڑتا ہے آپ کی تاریخ بہت عظیم ہے.آنحضرت صلی اللہ والہ وسلم کے زمانے میں خواتین نے بہت اونچے مقامات حاصل کئے ان سب کو آپ بھی حاصل کریں اور اپنے مردوں کو ایک طرف چھوڑ دیں اور خود تبلیغ میں آگے جائیں اور مردوں کو دکھا دیں کہ اس طرح تبلیغ ہوتی ہے اگر عورتیں یہ کام سنبھال لیں تو مجھے یقین ہے کہ مردوں کو بھی شرم آئے گی.یہ ترکیب ایک فرضی ترکیب نہیں ہے میں اسے استعمال کر چکا ہوں میں نے اس سے پہلے بعض ملکوں میں یہی ترکیب استعمال کی ان کی کایا پلٹ گئی.بعض ملک ایسے تھے جن میں پہلے چند ہزار سے زیادہ بیعتیں نہیں ہوا کرتی تھیں سال میں ( آواز آرہی ہے کہیں سے ڈسٹرب کر رہی ہیں دروازہ بند کر دیں) واقعہ بعض ایسے ممالک تھے جن میں سال میں ہزاروں تو نہیں ہزاروں کیا چند سو بیعتوں سے زیادہ نہیں ہوتی تھیں اور لمبے عرصے تک ان کو میں یاد کراتا رہا کہ خدا کا خوف کرو اٹھو ہمت کرو مانتے ہی نہیں تھے.پھر میں نے ان کی عورتوں سے کہا اٹھو اور ڈنڈے اپنے ہاتھوں میں اٹھا لو اور تبلیغ شروع کرو.انہوں نے چند قدم ہی اٹھائے تھے کہ مرد جاگ گئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جہاں چند سو سے زیادہ بیعتیں نہیں ہوتی تھیں سال میں وہاں کئی لاکھ بیعتیں ہونے لگیں.علاقوں کے علاقے جو احمدیت کے نام سے خالی پڑے تھے وہ احمدیت کے ذکر سے بھر گئے ہیں اور ہر طرف ایک شور برپا ہے احمدیت کے پھیلاؤ کا تو یہ ہو سکتا ہے یہ وہم دل سے نکال دیں کہ نہیں ہوسکتا.جب آپ کو یہ یقین ہو کہ یہ کام ہوہی نہیں سکتا ہم نے پھیلنا ہی نہیں تحکیم بہت بڑا ملک ہے.بیجیم کے لوگ بہت دور جاچکے ہیں اخلاق سے اگر یہ یقین کر کے آپ کام کریں گی تو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا.اگر یہ یقین ہو کہ اللہ کی مدد ہو تو کچھ بھی ناممکن نہیں تو آپ کی کوششوں کو ضرور اچھے پھل لگیں گے.آپ کا یہ وہم بھی دل سے نکل جانا چاہئے کہ آپ اللہ کی زیادہ پیاری بندیاں ہیں بیلجیم کی عور تیں اللہ تعالیٰ کی پسند نہیں خدا کے سب بندے خدا کے نزدیک برابر ہیں اور اس وجہ سے سب کی بھلائی چاہتا ہے اور تحکیم کی عورتوں میں بھی ضرور ایسی نیک بندیاں ہیں جن کو اگر خدا کا پیغام صحیح طریقے سے ملے تو بڑی تیزی سے وہ خدا کی طرف جائیں گی.یہ میرا تجر بہ یورپ کی نئی احمدی خواتین کے متعلق ہے.غلطی سے سمجھا جاتا تھا کہ یورپ تو آزاد ہے، اپنی اقدار، اپنے اخلاق ، اپنے کردار کے لحاظ سے بہت سی بداخلاقیوں میں مبتلا ہے اس لئے ان کی عورتیں اسلامی شعار کے مطابق اپنی پاکیزگی کی

Page 566

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۶۲ خطاب ۲ رمئی ۱۹۹۸ء حفاظت کرنا نہیں سیکھ سکتیں.یہ بالکل غلط خیال ہے اب تک کا میرا تجربہ ہے کہ جنہوں نے واقعتا سمجھ کر اسلام کے پیغام کو قبول کیا ہے وہ اپنی حفاظت کرتی ہیں وہ اپنی پاکیزگی کو بچانے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور بہت سی ایسی عورتوں سے بہتر نمونہ دکھاتی ہیں جو پیدا احمدیت میں ہوئیں اس لئے غلط نہی میں مبتلا نہ رہیں کہ گویا آپ ہی ہیں جو پردہ کر سکتی ہیں آپ ہی ہیں جو اپنی حفاظت کر سکتی ہیں.بات اس کے برعکس بھی ہے جو پاکستان سے ہندوستان سے بنگلہ دیش سے آنے والیاں ہیں ان کے لئے یہ خطرہ ہے وہ سمجھتی ہیں کہ ان کی حفاظت ہو رہی ہے مگر رفتہ رفتہ وہ اس معاشرے سے متاثر ہورہی ہیں.ان کو اچھا لگتا ہے پردے اتار کر باہر نکلنا بعض ایسے خاندان ہیں جو احمدیت سے دور ہی نکل گئے کیونکہ ان کو شرم آتی تھی پردے سے وہ نہیں کہ کوئی پتا نہیں آپ کے اندر کیا چیز چھپی ہوئی ہے جو کچھ بھی چھپا ہوا ہے جب یہ باہر نکلے گا تو پھر اس کی شکل دیکھیں گے.ابھی تک تو آپ نے اس کو دبا کر رکھا ہوا ہے لیکن وہ عورتیں جو مغرب سے تعلق رکھتی ہیں ان کے اندر کچھ بھی چھپا ہوا نہیں جو کچھ مغربی تہذیب نے ان کو لا ابالی پن عطا کیا تھا ، بے پرواہی دی تھی اس کے باوجود جب وہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اپنی حفاظت کرتی ہیں اور اچھی اسلامی قدروں پہ قائم ہو جاتی ہیں تو وہ بالکل سچی ہیں اور یہ ایک گہرا انقلاب ہے جو بر پا ہو رہا ہے تو یہ عورتیں نمونہ ہیں اس بات کا کہ باقی مغرب کی عورتیں بھی یہ صلاحیت رکھتی ہیں.وہ مجالس میں خواہ بڑے بڑے سوال کریں عورتوں مردوں کی برابری ، پردے کے خلاف جتنی مرضی باتیں کریں.اگر ان کو صحیح طور پر اللہ پر ایمان ہو جائے تو ان کا دل اس بات کا قائل ہو جائے گا کہ ان کا پاکیزہ ہونا ضروری ہے جب تک وہ پاک نہ ہو اپنے آپ کو خدا کے حضور پیش نہیں کر سکتیں ، ان کا دل ہی اٹھ جاتا ہے اس معاشرے سے.پس اس پہلو سے آپ لوگوں کو میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ یہاں کے لوگوں میں سچی صحیح تبلیغ پیار اور محبت سے کریں اور ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت داخل کرنے کی کوشش کریں.اللہ مل گیا تو پھر ان کو آپ کی کوئی احتیاج نہیں رہے گی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ آپ ہی کا ہاتھ پکڑی رکھیں ان کو اللہ مل جائے اور یقین ہو جائے کہ ہمارا خدا ہمارے ساتھ ہے تو پھر آپ کو ان کی انگلیاں پکڑنی پڑیں گی.وہ آپ سے آگے اور تیز رفتاری سے آگے بھاگیں گی پس یہ باتیں جو تبلیغ کے سلسلے میں میں کہہ رہا ہوں ان پر بھی عمل درآمد کرنے کے لئے ایک انتظام کی ضرورت ہے.وہ انتظام لجنہ کا کام ہے ایسی کمیٹیاں بنائیں جو ان کو باتوں جو سمجھے سنے تبلیغ کے تعلق میں جو آڈیو، وڈیو کا میں نے کہا ہے اس پر غور کریں اور

Page 567

۵۶۳ خطاب ۲ رمئی ۱۹۹۸ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات پھر گھر گھر جائزہ لیں کہ واقعہ عورتوں میں کوئی تبدیلی ہو بھی رہی ہے یا نہیں نظر آ جائے گی.یہ سارے منہ جو آپ کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں ان میں اگر تبدیلی آئی تو چہرے بتائیں گے، ان کی پیشانیاں بولیں گی ، ان کی کیفیتیں بدل جائیں گی یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ دل میں خدا ہو اور چہرے پر نہ ہو اس لئے جن چہروں پر خدا دکھائی نہ دے بالکل صاف ان کے رجحانات نظر نہ آئیں ان کے متعلق فکر کریں اور یہ ساری باتیں ان میں داخل کرنے کی کوشش کریں.خواہ آپ میں طاقت تھوڑی ہو تو تھوڑا تھوڑا کام شروع کریں.میں نے اس کے لئے ایک نظام تجویز کیا تھا کہ ہر جماعت میں سے کچھ لجنہ والیاں ایسی آپ چن لیں جو پہلے سے قریب ہوں یعنی جماعت کے اور خدا تعالیٰ کے پہلے ہی کچھ قریب ہوں ان کے اندر نیکی پائی جائے ان پر یہ کیسٹ استعمال کریں اچھی طرح بار بار جب آپ دیکھ لیں کہ ان کو خوب سمجھ آگئی ہے تو آپ کو ہر شہر میں ایک یا دو معلمہ خواتین مل جائیں گی تین یا چار بھی ہوسکتی ہیں.جتنی آپ کو خواتین ملیں گی جن کو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دل کا اطمینان نصیب ہو جائے ان کی توجہ دوسری باتوں سے ہٹ ہی جائے ان کو مزہ اس بات میں آئے کہ وہ خدا کی خدمت کر رہی ہیں ایسی خواتین پھر اپنی اپنی جگہ وہ کام کریں گی جس کا حوالہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات میں سے دیا تھا کہ جاگ لگا ئیں.یہ جاگ لگانے والا مضمون بہت ہی پیارا مضمون ہے تو جاگ لگانا شروع کریں گی کیونکہ وہ خود جاگ لگانے والی صفات اپنے اندر رکھیں گی اور پھر دیکھنا کہ اگلے سال تک آہستہ آہستہ ایک بہت بڑا نقلاب بر پا ہو جائے گا اس کی مجھے جیم میں ضرورت ہے.در اصل ساری دنیا میں ضرورت ہے مگر آپ پیسے چونکہ خاص طور پر مخاطب ہوں اس لئے میں یہ کہ رہا ہوں کہ اس کی مجھے سکیم میں ضرورت ہے کیونکہ تحکیم میں جب بھی آتا ہوں وہی پرانا منظر پیش ہوتا ہے وہی چہرے وہی لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں اخلاص تو ہے اکٹھے ہونے کے لئے وقت نکالتے ہیں کوشش کرتے ہیں کہ یہاں پہنچنے کی مگر اس اخلاص کا کیا فائدہ کہ چند دن رہے پھر فضا میں تحلیل ہو جائے.جس کا کوئی نشان دکھائی نہ دے برسات اگر صحرا میں ایک ہی دفعہ ہوتو برسات کی کایا نہیں پلٹ سکتی برسات ہوگی تو کچھ جھاڑ اگ جائیں گے جگہ جگہ پھر جب لمباخشکی کا زمانہ آئے گا تو دھوپ سے مر بھی جائیں گے اس لئے ایسی تبدیلی مجھے نہیں چاہئے کہ چند روزہ ہو جب بھی آپ لوگ میرے خطابات میں خود حاضر ہوتی ہیں تو نظر آرہا ہوتا ہے کہ آپ کے دل پر کچھ اثر پڑ رہا ہے مگر اس اثر کو وہ ٹھوس باتیں سنبھال سکتی ہیں جو میں نے بیان کی ہیں ورنہ چند دن کے بعد پھر ویسی کی ویسی واپس اپنے

Page 568

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۶۴ خطاب ۲ رمئی ۱۹۹۸ء سکول میں، اپنے کالج میں، اپنے کاموں میں کچھ دیر کے بعد کہیں گی کہ یہ تو بوجھ ہی تھا چلوا تار پھینکو، اپنی زندگی کے مزے لوٹو.یہ چیز ہو نہیں سکتی اگر دل میں اللہ کا پیار پیدا ہو جائے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو جائے پھر محبت آپ کو پکڑے گی آپ پھر اس محبت سے اپنا پیچھا ہی نہیں چھڑا اسکتیں.اللہ تعالیٰ کی محبت بہت عظیم چیز ہے اور جن لوگوں کے دل میں ہو وہ ہیں جو خمیر کا مرتبہ رکھتی ہیں یا وہ لوگ ہیں جو خمیر کا مرتبہ رکھتے ہیں محبت پھیلنے والی چیز ہے آگے لگے گی اور ہر دل میں مشتعل ہوتی چلی جائے گی.پس وہ کام کریں جو آپ کا ساتھ دے ایک سال نہیں ساری زندگی آپ کے ساتھ رہنے اور اس کے نتیجے میں ماحول میں جو تبدیلیاں ہوں وہ بھی اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے مستقل ہوں.ایک طرف سے آیا دوسری طرف سے چلا گیا یہ کوئی تبدیلی نہیں جو آ جائے اس کا پھر اٹھ کر جانے کو دل ہی نہ چاہئے یہ ہے جو مجھے چاہئے اور میں آپ سے امید رکھتا ہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ان امور کی طرف پوری توجہ دیں گی.میں اب زیادہ لمبا آپ کا وقت نہیں لینا چاہتا مختلف خواتین نے مختلف جگہ کام پر بھی جانا ہو شاید آج اور جو چیز جس چیز کی محبت میں آپ کے دل سے نکال سکوں نکال سکتا ہوں مگر دوکانوں میں جانے کی محبت نہیں نکال سکتا میرا خیال ہے یہ عورتوں کا پیدائشی حق ہے اس لئے یہ محبت صرف دین پر نہیں غالب آنی چاہئے اس لئے میں نے مونا اور طوبی کو کہا تھا کہ دوکانوں پر جانا الگ بات ہے پر اس مجلس میں یہاں دور دور سے احمدی خواتین آئی ہیں اس مجلس کو چھوڑ نا جائز نہیں.اس کا مطلب ہے کہ دوکان کی محبت آپ کے دل پر زیادہ غالب ہے اور دین کی کم ہے اور الحمد للہ کہ یہ میری بات سمجھ گئیں اور انہوں نے جو جانے کا پروگرام تھا کینسل کر دیا لیکن اب میرا خیال ہے کہ کافی وقت ہوگا کیوں جی کتنا وقت ہوگا.چھ بجے تک جتنا مرضی گھومو تھک ہار کر جب جسم دُکھنے لگے پھر واپس آجانا اور اس کے ساتھ ہی اب میں دعا کرا دیتا ہوں آپ لوگ میرے ساتھ دعا میں شامل ہو جائیں.یہ تھوڑی تھوڑی چھوٹی چھوٹی باتیں جو آپ کو کہی تھیں وہ بڑی بڑی باتیں کہی تھیں امید ہے آپ کو سمجھ آگئی ہوگی میں نے اپنی طرف سے تو پوری کوشش کی ہے کہ سمجھا سمجھا کر کھول کھول کر مضمون کو بیان کروں اللہ کرے کہ یہ دلوں میں داخل ہو چکا ہو.آئیے اب دعا میں شامل ہو جائیں.

Page 569

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۶۵ خطاب یکم را گست ۱۹۹۸ء دنیا بھر میں مستورات کی میدان تبلیغ میں خدمت خلق کا تذکرہ (جلسہ سالانہ مستورات برطانیہ سے خطاب فرمودہ یکم اگست ۱۹۹۸ء) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی: كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَلَوْا مَنَ أَهْلُ الْكِتَبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَاَكْثَرُهُمُ الْفَسِقُونَ (آل عمران: ۱۱۱) اس آیت کو آج کے خطاب کا عنوان بنایا ہے.مستورات کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں ہیں کہ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے مستورات کے حقوق ادا نہیں کرتا یا مستورات کو سوسائٹی کا ایک بریکار حصہ بنایا گیا ہے.اس سلسلہ میں مختلف گزشتہ خطبات میں بڑی تفصیل سے روشنی ڈال چکا ہوں.اب اس مضمون کو یہاں دہرانے کا ارادہ نہیں.آج میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ احمدی مستورات اُن مستورات سے بالکل مختلف ہیں جن کا تصور مغرب نے باندھ رکھا ہے.وہ ہر میدان میں مردوں سے سبقت لے جانے کی کوشش شروع کر چکی ہیں اور بہت سے میدانوں میں سبقت لے جا بھی چکی ہے.خاص طور پر آج میرا موضوع تبلیغ کے میدان میں خدمت خلق کا موضوع ہے.خصوصاً وہ خواتین جو تبلیغ کے دوران پیش آنے والی مہمان نوازی کے تقاضے پورے کرتی ہیں.یہ بہت وسیع مضمون ہے.جہاں تک مجھے توفیق ملی ہے میں نے کوشش کر کے اسے چھوٹا بنانے اور سمیٹنے کی بار بار کوشش کر چکا ہوں لیکن ابھی بھی یہ مضمون پھیلا ہوا ہے مگر چونکہ اس جلسہ میں میرا ارادہ یہی ہے کہ خطاب

Page 570

حضرت خلیفہ صیح الرابع" کے مستورات سے خطابات خطاب یکم را گست ۱۹۹۸ء کو نسبتا مختصر کروں اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ اس کوشش میں کامیاب ہو چکا ہوں گا.سب سے پہلے اسلام کے دور اول کا ذکر ضروری ہے.حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیات مہمان نوازی کے میدان میں اکثر مردوں پر سبقت لے گئی تھیں اور تبلیغ کے نتیجے میں جو بکثرت باہر سے وفود آتے تھے یا وہ نو مبائعین جن کو گھروں سے نکالا جاتا تھا ان کی ذمہ داری ادا کرنے میں اولین مسلم خواتین نے غیر معمولی خدمات سرانجام دیں ہیں.یہی وہ صحابیات ہیں جن کا نمونہ اس دور میں ہم احمدی عورتوں میں زندہ ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں جو دنیا بھر کے ہر ملک میں اس سنت کو زندہ کر رہی ہیں کہ ابتداء اسلام میں جولوگ اسلام لاتے تھے جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے ان کو مجبوراً اپنے گھر بار، اہل و عیال اور مال اور جائیداد سے کنارہ کش ہونا پڑتا تھا.اس بناء پر بہت بھاری تعداد ان مہاجرین کی مدینے آجایا کرتی تھی جن کی دیکھ بھال کا کوئی با قاعدہ انتظام نہیں تھا سوائے اس کے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں مختلف صحابیوں کے سپر د کر دیا کرتے تھے لیکن بہت سی مسلمان خواتین تھیں جنہوں نے از خود اپنے اوپر یہ کام لے لیا.ان میں حضرت اُم شریک کا گھر تو ایک ایسا نمونہ تھا کہ وہ تمام گھر نومسلمین اور دیگر تبلیغ کی غرض سے آنے والوں کے لئے ایک کھلا گھر تھا.جس میں دن رات ہر وقت یہی سلسلہ جاری تھا.کچھ ضرورت مند ، گھروں سے نکالے ہوئے اور کچھ اسلام میں دلچسپی لینے والے جو مدینے آیا کرتے تھے ان کے لئے انہوں نے اپنا گھر وقف کر رکھا تھا.یہاں تک حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا خیال تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ بن قیس کو جو ان کی بہن تھیں اس بناء پر عدت بسر کرنے کی اجازت نہیں دی کہ ان کے گھر مہمانوں کی کثرت سے پردے کا انتظام نہیں ہوسکتا.عدت جو سنت کے مطابق مروجہ ہے اور قرآن میں اس کا ذکر ہے حضرت اقدس محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بناء پر ان کو عدت کی اجازت بھی نہیں دی کیونکہ ایسے گھر میں جہاں کثرت سے لوگوں کا آنا جانا ہو، وہاں عدت گزارنا مشکل ہے.صحابہ کا یہ طریق تھا کہ مختلف غزوات میں جب وہ شریک ہوتے تھے تو جولوگ ان کی مہمان نوازی کرتے تھے ان کا بھی بہت خیال رکھا کرتے تھے.صرف یہی نہیں کہ خود مہمان نواز تھے بلکہ جوخود ان کی خدمت کرتے تھے ان کا بھی حق ادا کرنے کے بعد، اس سے بہت زیادہ ان کی خدمت کا جذبہ تشکر ان کے دل میں رہتا تھا اور اس کی ایک عظیم مثال میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.

Page 571

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۵۶۷ خطاب یکم راگست ۱۹۹۸ء ایک غزوہ میں صحابہ کرام کا پیاس سے بُرا حال تھا، بے تاب ہو ہو کر پانی کی تلاش میں دوڑتے پھرتے تھے.حسن اتفاق سے ایک عورت مل گئی جس کے پاس پانی کا ایک مشکیزہ تھا.صحابہ اس کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے.یہ چیز ایک خاص توجہ کے لائق بات تھی کہ پیاسوں کو پانی مل جائے تو صبر کہاں رہتا ہے لیکن صحابہ کی ایسی اعلیٰ تربیت تھی ایسا نظم وضبط تھا اور پھر یہ خیال کہ کسی غیر عورت کا مشکیزہ ہے ہم کیسے حق رکھتے ہیں کہ اس سے لے لیں.ان وجوہات کی بناء پر وہ اس عورت کو لے کر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قیمت دلوائی اور پھر اسے صحابہ میں تقسیم فرمایا.اب ظاہر بات ہے کہ اس کی خدمت کی قیمت مل چکی تھی اس کو لیکن چونکہ پیاس کا وقت بہت شدید ہوتا ہے اور اس وقت صحابہ جان کنی کی حالت میں پہنچے ہوئے تھے اس لئے اسے بھی انہوں نے احسان جانا اور احسان جاننا ایک بہت عظیم صحابہ کے اخلاق کی طرف اشارہ کرتا ہے.قیمت دی جاچکی ہے لیکن اگر وہ انکار کر دیتی کہتی کہ میں اپنا مشکیزہ تمہیں نہیں دوں گی تو صحابہ جانتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس پانی کو استعمال کی اجازت نہ دیتے.پس اس پہلو سے اسے احسان جانا کہ اسے وہ بیچنے پر آمادہ ہوگئی.اس احسان کا خیال اتنا لمبا عرصہ ان کے دل پر جاری رہا کہ بعد میں اسلامی جنگوں میں جب اس علاقے کی فتح ہوئی تو تمام صحابہ کو یہ ہدایت تھی کہ اس عورت اور اس کے خاندان اور گھر والوں کو کچھ نہیں کہنا.دائیں اور بائیں سے فتوحات کرتے ہوئے گزر جاتے تھے.اور اس عورت کے گھر کو یا خاندان والوں یا گاؤں کو چھیڑا تک نہ گیا.اس کے نتیجہ میں وہ از خود مسلمان ہوئیں.اس کے گھر والے مسلمان ہوئے اور سارا قبیلہ مسلمان ہو گیا.پس یہ خیال بھی غلط ہے کہ اسلام جنگوں کے زور سے پھیلا ہے.اسلام حسن خلق کی وجہ سے پھیلا ہے اور حسن سلوک میں احمدی خواتین کو ابھی بہت ترقی کرنا ہے.اب میں اس دور میں جو احمدی خواتین اور مختلف لجنات جو خدمات انجام دے رہی ہیں ان میں سب سے پہلے میں لجنہ اماءاللہ غانا کا ذکر کرتا ہوں.لجنہ اماءاللہ غانا میں بکثرت ہونے والی تبلیغ کی وہ خاموش کارکنات ہیں جن کا ذکر تفصیل سے نہیں ملتا مگر اگر وہ خدمت نہ کرتیں تو غانا میں اس کثرت سے تبلیغ ہونا ممکن نہیں تھا.تمام غانا میں تمام میز بانی کے فرائض یہ احمدی خواتین ادا کر رہی تھیں اور کوئی علاقہ ایسا نہیں تھا جہاں احمدی خواتین نے اپنے آپ کو میز بانی کے لئے پیش نہ کر رکھا ہو.

Page 572

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۵۶۸ خطاب یکم را گست ۱۹۹۸ء صرف یہی نہیں کہ غانا میں مہمان نوازی کے ذریعہ تبلیغ کی خدمات سرانجام دی جارہی ہیں.لجنہ اماءاللہ نے دینی تعلیم کے لئے با قاعدہ اپنے سکول قائم کر رکھے ہیں.مختلف علاقوں سے بچیاں آتی ہیں ، ان سے دین سیکھتی ہیں اور پھر واپس اپنے علاقوں میں جا کر عورتوں کو دین سکھاتی ہیں.جہاں مردوں کے لئے مدارس ہیں وہاں عورتوں کے لئے بھی الگ مدارس قائم ہیں جو لجنہ اماءاللہ غانا نے اپنے طور پر جاری کئے ہوئے ہیں.ان کی ایک اور قابل تقلید مثال جو یورپ کی جماعتوں کو بھی اپنانی چاہئے وہ یہ ہے کہ وہ تمام عورتیں جو کبھی احمدی ہوا کرتی تھیں وہ ان کی فہرستیں بناتی ہیں ان تک پہنچتی ہیں اور ان کو از سر نو احمدیت میں شامل کرنے کے لئے بہت محنت سے تبلیغ کرتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی احمدی خواتین جو کسی وجہ سے پیچھے ہٹ گئی تھیں دوبارہ کثرت سے احمدیت میں داخل ہورہی ہیں.وہ عورتیں جو احمدیت میں کمزور دیکھتی ہیں ان کے پاس بھی ان کے وفود پہنچتے ہیں انہیں مختلف ذرائع سے احمدیت میں بھر پور حصہ لینے کی تلقین کرتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے بہت اچھے نتائج نکلتے ہیں.طبی امداد بھی غانا کی احمدی خواتین نے اپنے طور پر جاری کی ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے گواس قسم کے کام دوسرے ممالک میں بھی ہورہے ہیں مگر غانا کی یہ مثال خاص طور پر قابل ذکر تھی.اس لئے میں نے اسے پیش کر دیا بعض اور ممالک کا بھی نسبتاً تفصیل سے ذکر کروں گا.تبلیغ اسلام میں سب سے مؤثر ذریعہ قرآن کریم کی ترویج اس کی اشاعت، اس کی تعلیم ہے.اور خدا تعالیٰ کے فضل سے میں لجنہ اماءاللہ سے بہت خوش ہوں کہ یہ دنیا بھر میں اس کام سے غافل نہیں ہیں اور بہت عمدگی کے ساتھ لجنات خواتین کی اور بچوں کی اس پہلو سے خدمت کر رہی ہیں.پاکستان میں ہندوستان میں ، انگلستان میں، جرمنی میں ، انڈونیشیا ، غانا، مشرق سے مغرب تک، تقریباً تمام افریقی ممالک میں ہر جگہ یہ خدمت سر انجام دی جارہی ہے اور اس سے تبلیغ کو بالواسطہ فائدہ پہنچتا ہے.اگر چہ اس خدمت کے ساتھ احمدی ہونا شرط نہیں ہے.میرے لئے ممکن نہیں کہ اس وقت آپ کو تفصیل سے بتاؤں کہ ایسے ممالک مثلاً پاکستان ، ہندوستان اور بنگلہ دیش وغیرہ وہاں یہ خدمت انجام دینا کتنا مشکل کام ہے.عورتوں کو بڑی حکمت سے کام لینا پڑتا ہے اور اس بات پر نظر رکھنی پڑتی ہے کہ کوئی شریر مولوی اس کام کو روکنے کی خاطر ہماری عورتوں کی بے حرمتی کا موجب نہ بنے.پس آپ کو بھی یہ نصیحت

Page 573

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۵۶۹ خطاب یکم را گست ۱۹۹۸ء ہے کہ جہاں جہاں اس کام کو بڑھا ئیں وہاں اس بات پر نظر رکھیں کہ عورتوں کی حرمت بہت اہمیت رکھتی ہے اور تبلیغ کے کام کو حکمت کے سوا سرانجام نہیں دیا جا سکتا.خدمت قرآن کو بھی حکمت کے سوا سرانجام نہیں دیا جاسکتا اس لئے پوری طرح اپنی آنکھیں کھول کر ، گردو پیش کا جائزہ لے کر ایسی خدمات انجام دیں جن سے شریر کو شرارت کا کوئی موقع میسر نہ آئے.قرآن کریم کی تعلیم کا جو نظام جاری ہے اس کے علاوہ قرآن کریم کو تقسیم کرنا اور اس کی اشاعت میں مددگار بننا بھی ایک بہت اہم کام ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک البانوی خاتون نے جو جرمنی میں رہتی ہیں ان کے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات ڈالی اور اب تک وہ قرآن کریم کے 100 نسخے خرید کر البانین مسلمانوں میں تقسیم کر چکی ہیں اور جہاں بھی ان کی قرآن کریم تک رسائی ہوئی ہے وہاں ازخود اس خدمت کے نتیجہ میں احمدیت کی طرف بھی توجہ ہوئی کیونکہ یہ تراجم احمدی تراجم ہیں کیونکہ ان خواتین کو موقع مل گیا کہ احمدی تراجم کا دوسرے تراجم سے موازنہ کر سکیں اور موازانہ کرنے کے بعد پھر ان کو سمجھ آئی کہ دونوں تراجم میں زمین و آسمان کا فرق ہے.اگر کسی نے قرآن کریم کے ترجمہ کا حق ادا کیا ہے تو آج وہ دنیا میں جماعت احمدیہ ہی ہے.چنانچہ اس کا جزوی یا ضمنی فائدہ یہ پہنچتا ہے کہ ان کو قرآن کریم کے موازنے کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے یعنی تراجم کے موازنے کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ سے اس کے نتیجہ میں ان کے دل احمدیت کی طرف از خود کھنچے چلے آتے ہیں.اب میں لجنہ اماء اللہ جرمنی کے مختلف طریقوں کا ذکر کرتا ہوں کہ کس طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت بڑی خدمت انجام دی ہے اور انتھک خدمت سرانجام دے رہی ہیں.تبلیغی سٹال لگانا یہ بھی ایک بہت اہم کام ہے اور لجنہ اماءاللہ کراچی کا یہ کمال ہے کہ وہ خواتین کے لئے تبلیغی سٹال لگا رہی ہیں، عام عوام الناس میں بازاروں میں ایسے سٹال لگتے ہی رہتے ہیں مگر لجنہ اماءاللہ جرمنی سے متعلق اطلاع ہے کہ وہ خصوصیت سے خواتین کے لئے ایسے سٹال لگاتی ہیں اور ان کے نتیجے میں جن کو پہلے اسلام کا کچھ پتہ نہیں تھا.وہ ان سٹالوں سے متاثر ہو کر ان سے لٹریچر لے کر اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا مطالعہ کرنے کی توفیق پارہی ہیں.لائبریریوں میں لٹریچر رکھوانا ہی ایک بہت اہم کام ہے اور یہ اتنا بڑا کام ہے کہ محض اس کے سرسری ذکر سے آپ کو اس کا تصور ہی نہیں ہوسکتا.ان ممالک میں جہاں تعلیم بہت ترقی کر چکی ہے وہاں اس کثرت سے لائبریریاں ہیں کہ ان

Page 574

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۷۰ خطاب یکم را گست ۱۹۹۸ء کا شمار بھی آپ کو حیران کر دے گا.صرف انگلستان میں ہی ایک لاکھ سے زائد لائبریریاں ہوں گی اور یہ بھی میں اندازاً احتیاطاً کہہ رہا ہوں اگر باقاعدہ شمار کیا جائے سکولوں اور کالجوں ، یونیورسٹیوں کی لائبریریوں اور ہر ہر کونسل میں ہونے والی لائبریریوں کو شمار کیا جائے تو ہرگز بعید نہیں کہ یہ تعداد ایک ملین سے بھی زیادہ ہو جائے.اب دیکھیں کہ کتنا بڑا کام ہے اور اس میں بھی خواتین کی ضرورت ہے.لائبریریوں تک احمد یہ اسلامی لٹریچر پہنچانا ایک بڑا محنت طلب کام ہے پھر لائبریرین کو اس بات پر مطمئن کرنا کہ یہ لٹریچر ان کی لائبریری کی زینت بنے گا اور اس سے لوگ استفادہ کریں گے یہ بھی اس کے ساتھ لازم ہے.چنانچہ ہمارا تجربہ ہے کہ یہاں جب احمدی خواتین نے مثلاً انگلستان میں یہ کوشش کی کہ جہاں یہ کوشش کی ان کو سمجھانا پڑا اور ناروے کے متعلق پچھلے سال بھی میں نے ذکر کیا تھا کہ وہاں احمدی خواتین جب یہ کوشش کرتی ہیں تو بعض دفعہ لائبریرین سے لمبی بحثیں کرنا پڑتی ہیں.مشکل یہ در پیش ہے کہ یہاں اسلام کے متعلق یہ تاثر قائم ہو چکا ہے کہ اسلام جبر اور نعوذ باللہ ظلم کی تعلیم دیتا ہے اور Terrorism کی تعلیم اسلام سے پھوٹ رہی ہے.لائبریرین اس وجہ سے خوف کھاتے ہیں، وہ خطرہ محسوس کرتے ہیں کہ اگر ہماری لائبریریوں کے ذریعہ سے جبر وستم کی تعلیم دی جانے لگی تو اس سے ملک کا امن برباد ہو جائے گا.یہی حال دیگر مغربی ممالک کا ہے.تو کام ایک تو بہت زیادہ اتنا کہ اس کو سمیٹنے کا تصور بھی محال لگتا ہے اور دوسرے ساتھ ہی یہ دوہری محنت کرنا ہے.تو احمدی خواتین کے لئے اس میدان میں ایک کھلی دوڑ ہے جو مردوں سے کر سکتی ہیں اور اس دوڑ میں میں چاہتا ہوں کہ احمدی خواتین بھر پور حصہ لیں اور فاستبقو الخیرات کا وہ نمونہ دکھائیں کہ ان کو دیکھ کر مرد کچھ شرمندگی محسوس کر کے اور تیز بھاگنے کی کوشش کریں.اب یہ دوڑ ایسی ہے کہ جس میں جسمانی ساخت کی مضبوطی کی ضرورت نہیں.مرد عام دوڑ میں تو آپ کو شکست دے سکتے ہیں مگر ضروری نہیں کہ اس دوڑ میں بھی شکست دے سکیں.پس فاستبقوا الخيرات آگے بڑھو اور تیزی سے نئے نئے میدان سر کرو اور یہی توقع ہے جو احمدی خواتین سے میں ہمیشہ رکھتا رہا ہوں.MTA کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو خدمت ہو رہی ہے جن گھروں میں ٹیلی ویژن

Page 575

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۷۱ خطاب یکم را گست ۱۹۹۸ء بھی ہے اول تو ان کے لئے بھی ممکن نہیں کہ ہر قسم کی ویڈیوز کو با قاعدہ دیکھ سکیں، ہر قسم کے TV کے پروگرام با قاعدہ دیکھ سکیں ، یہ ان کے لئے ممکن نہیں.پروگرام آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں اور ان کی ویڈیو تیار کرنا بھی ہر گھر کی استطاعت نہیں ہے.ویسے بھی یہ کیسے ممکن ہے کہ ۲۴ گھنٹے جو پروگرام چل رہے ہیں.۲۴ گھنٹے ہر گھر میں اس کی ویڈیو تیار کی جارہی ہو.یہ ناممکنات میں سے ہے اور اس کے علاوہ بعض ایسی ضرورتیں بھی ہیں جن کی طرف رات مجھے میرے عزیزوں نے توجہ دلائی.اردو کلاس کے ذریعہ ہم بچوں کو اردو لکھنا پڑھنا سکھانے کا کام کر رہے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی فائدہ مند ہے مگر صرف ان کے لئے جو باقاعدگی سے کاپی ، پنسل لے کر اس پروگرام کے سامنے بیٹھتے ہیں اور توجہ سے سنتے ہیں.تو شروع سے آخر تک اردولکھنا پڑھنا سکھتے ہیں.بہت کم ایسے بچے ہیں جن کو یہ توفیق ملی ہے مگر ہیں.اس کے نتیجے میں بہت سے ایسے بچے جن کی تدریس کا اور کوئی انتظام ہی نہیں مجھے بڑی مشستہ اردو میں خط لکھنے لگے ہیں اور بتاتے ہیں کہ سوائے اس پروگرام کے ہم نے اردو کا کوئی استاد مقرر نہیں کیا، کسی استاد سے تعلیم حاصل نہیں کی.لیکن جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے با قاعدگی سے اس پر سنجیدگی سے توجہ دینا کوئی آسان کام نہیں.چنانچہ یہی ذکر چل رہا تھا کہ اس کا کیا علاج کیا جائے تو میں نے مشورہ دیا کہ مرکزی آڈیو، ویڈیو سے رابطہ کر کے آغاز سے اس کی ویڈیوز منگوائی جائیں اور ماں باپ اپنے سامنے بچوں کو بٹھا کر ، کا پی پنسل پکڑا کر ان کو کہیں کہ توجہ سے سنو.ہم تمہارا امتحان لیں گے.جب یہ کام ہو جائے تو ویڈیوز واپس کریں گے تو ہم ان کے پیسے ان کو واپس کر دیں گے.اس لئے مفت میں یہ کام ہو گا.اگر باہر کے ممالک ہیں تو صرف ڈاک کا خرچ ہے اور اس کی بھی اکثر جگہ ضرورت نہیں کیونکہ آنے جانے والے آتے جاتے رہتے ہیں ایک مرکزی نظام کے تابع ان ویڈیوز کو جمع کرایا جا سکتا ہے.آج ہی ایک ملاقات کے دوران ایک احمدی دوست نے ذکر کیا کہ ان کو بعض سہولتیں ہیں جن کے نتیجہ میں وہ بکثرت ویڈیوز جرمنی سے لاتے اور انگلستان سے جرمنی پہنچاتے ہیں.ایسا مرکزی نظام قائم ہو سکتا ہے جس کا اعلان تمام جماعتوں میں کر دیا جائے اور اس طریق سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت آسانی سے ہمارے بچے اردولکھنا پڑھنا سیکھ لیں گے.اردو لکھنے پڑھنے کے متعلق میں اس لئے زور دے رہا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی

Page 576

۵۷۲ حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات خطاب یکم را گست ۱۹۹۸ء کتابیں اردو میں ہیں اور میں جو علمی تقاریر کرتا ہوں وہ بھی اکثر اردو میں ہوتی ہیں اور اچھی بھلی اُردو جاننے والے بھی جب تک درسی اردو نہ جانتے ہوں وہ ان کو نہیں سمجھ سکتے.اپنے بچوں کا جب میں نے امتحان لیا، یہ سامنے میری نواسی ندا بیٹھی ہے، میں نے کہا کل کی تقریر تمہیں سمجھ آگئی تھی.میں نے بہت آہستہ آہستہ سمجھا سمجھا کر کی تھی.تو ندا نے کہا! کچھ کچھ.میں نے کہا اردو تو ٹھیک بول لیتی ہو کچھ کچھ کیوں؟ اس نے کہا جو ایسی زبان ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ اور ان کی وضاحت ہے، وضاحت کے باوجود ہم بچوں کے لئے سمجھنا مشکل ہے، جن کی پرورش انگلستان میں ہوئی ہے اس کا کوئی انتظام ہونا چاہئے.چنانچہ میں نے ان کے والد کو یہی بتایا کہ آپ ویڈیوز کے آغاز سے اور با قاعدہ سکھانا شروع کر دیں اور پھر اس کام کو آگے بڑھائیں.بعض دفعہ دوسری قوموں کے لوگ خیال کر لیتے ہیں کہ ان کی زبان کی بجائے ہم ناواجب طور پر اردو کی ترویج کر رہے ہیں گویا کہ اردو دان ممالک کی خدمت کر رہے ہیں بالکل غلط ہے اس کا سچائی سے دور کا بھی تعلق نہیں.ہر زبان کو اپنے اپنے ملک میں جاننا اور اس میں مہارت حاصل کرنا وہاں کے ہر احمدی کا فرض ہے.چنانچہ جرمنی میں جو پاکستانی بہتے ہیں تو ان کو بھی میں یہی کہتا ہوں کہ تمہارے لئے لازم ہے کہ اگر بوڑھے بھی ہو چکے ہو تو پھر لازم ہے کہ دین کی خاطر اور ان قوموں کے دل جیتنے کی خاطر ان کی زبانیں سیکھنے کی کوشش کرو تو کوئی بھی تعصب اس تحریک کے پیچھے کام نہیں کرتا.ہر ملک کی زبان میں وہاں کے جلسوں میں خطابات کی میں تعلیم دیتا ہوں اور سختی سے اس کی نگرانی کرتا ہوں.بعض دفعہ احمدی لجنات جن میں پاکستان لجنات کی تعداد زیادہ ہے اس بات کو نظر انداز کرتی ہیں اور جب مجھے علم ہوتا ہے تو میں سختی سے ان سے جواب طلبی کرتا ہوں.آپ نے جب ایک بات سنی ہے تو آپ کا فرض ہے اس پر عمل کریں اور اس کے نتیجہ میں خدا کے فضل سے نئے آنے والے احمدیوں کی تربیت میں بہت فائدہ پہنچے گا اور دراصل یہی وہ موضوع ہے جس کی طرف میں لوٹ کر آپ کو سمجھا رہا ہوں.اگر آپ زبانیں سیکھیں گی ہلکی زبا نہیں سکھیں گی، آپس میں اپنی زبان میں گٹ مٹ بند کریں گی اور مجالس میں مجالس کا حق ادا کریں گی تو لازم ہے کہ نئی آنے والی خواتین سمجھیں گی کہ یہ ہم میں سے ہیں اور ہم ان میں سے ہیں اور اپنی تربیت کے لئے وہ اپنے آپ کو از خود پیش کریں گی.

Page 577

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۵۷۳ خطاب یکم را گست ۱۹۹۸ء دوسرے جب یہ سارے اردو سیکھیں گے تو اس کے نتیجہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے کلام کو براہ راست سمجھنے کی توفیق ملے گی اس پہلو سے اردو کو ایک عالمی حیثیت بھی حاصل ہے.پس ویڈیوز کی تقسیم کا کام اپنی جگہ پر ہے اور آڈیوز کا کام بھی اپنی جگہ پر ہے بس پوری طرح بات سمجھانے کے لئے ان دو باتوں کا جن کا میں نے تذکرہ کیا ہے ، ان دو باتوں پر عمل درآمد ضروری ہے.لجنہ اماءاللہ جرمنی کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے تبلیغی نشستیں الگ لگانی شروع کی ہوئی ہے جن میں خواتین کو دعوت دی جاتی ہے.خواتین کرسیوں پر بیٹھ کر ان کے جواب دیتی ہیں.اور میں امید رکھتا ہوں کہ تسلی بخش جواب دیتی ہوں گی کیونکہ اس کا رواج اب زور پکڑ رہا ہے اور اگر وہ تسلی بخش جواب نہ دیں تو لوگ سارے بھاگ جائیں.لیکن ان کو میری ہدایت ہے کہ جہاں بھی آپ یہ ایسی مجالس لگائیں اگر کسی سوال کا تسلی بخش جواب نہ دے سکیں تو آڈیو ویڈیوڈ یپارٹمنٹ سے رابطہ کریں ان سوالات پر خود میری تشریحات ریکارڈ موجود ہیں.آڈیوز کی شکل میں بھی اور ویڈیوز کی شکل میں بھی.اس کے لئے کسی بڑی محنت کی ضرورت نہیں.آپ ایسی مجالس لگائیں اور جہاں سوال اُٹھیں ان سے وعدہ کر لیں کہ آپ اُن کے تسلی بخش جواب ان کو بعد میں بھیج دیں گی.ایک اور بہت اہم کام جماعت جرمنی کی لجنات یہ کر رہی ہیں کہ مختلف ممالک اور قوموں سے آنے والی خواتین کی تربیت کا کام شروع کر چکی ہیں اور انہیں آگے تبلیغ سکھا رہے ہیں ان میں سے معلمات تیار کر رہی ہیں.چنانچہ جن فعال جرمن جماعتوں کی رپورٹیں آئی ہیں ان کے مطابق جرمن، بوسنین ، البانین، رومانین اور افغانین نواحمدی خواتین میں معلمات تیار کرنے کا کام بھی لجنہ اماءاللہ جر منی کر رہی ہیں.بہت سی احمدی جماعتیں بھی ہیں جہاں یہ خبر نہیں پہنچی ہوگی اس لئے وہ یہ خیال نہ کریں کہ لجنہ اماءاللہ نے مبالغہ سے کام لیا ہوا ہے.بعض جگہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی کوشش سے یہ کام نہیں ہوا مگر مقامی لجنات نے یہ کام کیا ہے اس لئے یہ ضروری نہیں کہ اس کا سہرا مرکزی لجنہ اماء اللہ کے سر پر ہی باندھا جائے.سہرے تو عام طور پر دولہوں کے سر پر باندھے جاتے ہیں، یوں کہنا چاہئے کہ اس کا جھومر مرکزی لجنہ اماءاللہ کے سر پر ہی لٹکایا جائے.بہت سی خواتین ایسی ہیں جو مختلف لجنات سے تعلق رکھتی ہیں اور اپنے اپنے دائرے میں از خود یہ کام کر رہی ہیں اس لئے اس رپورٹ میں ادنی بھی مبالغہ نہیں.

Page 578

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۷۴ خطاب یکم را گست ۱۹۹۸ء اب میں آپ کے سامنے انڈونیشیا کی ایک دلچسپ مثال رکھتا ہوں جو غالباً دنیا میں اور کہیں آپ کو دکھائی نہیں دے گی.انڈو نیشین خواتین بیٹھی ہوئی ہیں نا یہاں.کدھر بیٹھی ہوئی ہیں؟ اس دفعہ بہت کم آئی ہیں.کیونکہ وہاں کے اقتصادی حالات بہت خراب ہیں لیکن جتنی بھی آئی ہیں گو ان کو اس بات سے خوشی ہوگی کہ میں لجنہ اماءاللہ انڈونیشیا کی غیر معمولی خدمت کا ذکر کرنے والا ہوں.) ایک گاؤں میں تبلیغ کے لئے انہوں نے جانا تھا، اسے انہوں نے نشانہ بنایا اور اپنی خاطرتا کہ وہاں پہنچنے میں سہولت ہو وقار عمل کر کے تین کلومیٹر سڑک بنائی اور اس سڑک کا اتناہ فائدہ پہنچا گاؤں والوں کو جن کو تو فیق نہیں ملی تھی کہ محض اس خدمت کی وجہ سے دھڑا دھڑ احمدی ہونے شروع ہو گئے تو خدمت جس غرض سے کی گئی تھی اللہ تعالیٰ نے اسے اور رنگ میں پورا کر دیا.یعنی احساس تشکر بیدار ہوا اور اس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کی طرف توجہ ہوئی.اس گاؤں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک ۱۵۰۰ افراد اسی بناء پر احمدی ہو چکے ہیں لیکن اس تعلق میں بعض تجاویز آپ کے سامنے رکھتا ہوں.جہاں وقار عمل کے ذریعہ وقار عمل آپ کو کھلے بندوں باہر نکل کر نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ اکثر صورتوں میں لجنہ کے لئے یہ ممکن ہی نہیں.اکثر ممالک میں یہ ممکن نہیں.انڈونیشیا کی تہذیب و تمدن اور ہے پاکستان، بنگلہ دیشن، ہندوستان اور کچھ یہاں کا بھی تمدن اور ہے.سڑکوں پر احمد کی خواتین نکل کر یہ وقار عمل کا کام نہیں کر سکتیں.مگر ایک وقار عمل کا میدان ان کے لئے کھلا پڑا ہے.غریب گھروں میں جا کر وقار عمل کریں اور یہ غریب گھر دنیا کے امیر ترین ممالک میں بھی مل سکتے ہیں بلکہ امریکہ میں اس کثرت سے ہیں کہ ان کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.اگر احمدی خواتین خواہ کسی بھی ملک سے تعلق رکھتی ہوں گھروں تک پہنچیں اور ان کو سمجھائیں کہ ہمارے مذہب کا تقاضا ہے ، بنیادی تعلیم یہ ہے کہ اللہ کے بعد اس کے بندوں کی خدمت کرو.اس غرض سے بغیر کسی مقصد کے ہم تمہاری خدمت میں حاضر ہوئی ہیں.بغیر کسی مقصد کے سوائے اسکے کہ اللہ کی رضا جوئی مقصد ہے.یہ نیت خالص کر کے وہ اگر گھروں میں جائیں اور ان کی خدمت کریں تو بالواسطہ فائدہ یہ ہوگا کہ ایسی مسلمان خدمت کرنے والیوں کی خدمت کے ذریعہ اسلام کے متعلق بہت غلط فہمیاں دور ہوں گی اور ان کو بھی رہنا آجائے گا.اتنے گندے ماحول میں زندگی بسر ہو رہی ہے.

Page 579

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۷۵ خطاب یکم راگست ۱۹۹۸ء مختلف امریکہ کے بڑے بڑے شہروں میں مثلاً نیو یارک کے بعض علاقوں میں کہ واقعہ اس کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.اس کے نتیجہ میں بہت سی دیگر عائلی خرابیاں اور اخلاقی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں.وہ مائیں جن کا گھر اُجڑا ھجڑا ہوسکون سے بیٹھنے کی کوئی جگہ میسر نہ آتی ہو وہ بسا اوقات اپنے بچوں پر بھی ظلم کرتی ہیں اور بچے ایسے گھر چھوڑ کر باہر گلیوں میں بیٹھ جاتے ہیں، اتنے بدنتائج نکلتے ہیں جن کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آتا.پس میں امید رکھتا ہوں کہ دنیا بھر کی لجنات دنیا کے ہر ملک میں جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے.انگلستان میں بھی ممکن ہے، امریکہ میں بھی ممکن ہے، جرمنی میں بھی ممکن ہے کہ ایسے گھروں کی تلاش کر کے ان کو رہنے کا سلیقہ سکھا ئیں.یہ نہ سمجھیں مغرب کہ رہن سہن کے سلیقے ہم ہی سکھاتے ہیں.احمدی خواتین اسلام کی خادمائیں ان کو بتائیں کہ وہ سلیقے سکھانے ہیں جن سے تم غافل ہووہ ہم سے سیکھو اور ہم تمہارے گھروں کی خدمات سرانجام دیں گی اور وہ پھر دیگر خواتین کو بھی اس طرف متوجہ کریں.اس طرح یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھیل سکتا ہے.ہماری لجنات میں تو یہ طاقت ہی نہیں کہ اتنے بڑے کام کو ہیٹر لیں اور اس کا حق ادا کرسکیں مگر جس جگہ شروع کریں وہاں گردو پیش میں کچھ سرگوشیاں ہوں گی.کچھ لوگ باتیں کریں گے یہ تو بڑا اچھا کام ہے.آپ اردگرد کے گھروں کی لجنات سے بھی رابطہ کریں اور ان سے کہیں کہ اس نیک کام میں ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں اس کے لئے تمہارا مسلمان ہونا بھی ضروری نہیں ہے، آؤ اور اپنی بہنوں کی خدمت کرو.اس طرح جس طرح خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے اگر احمدی خواتین کو د یکھ کر دیگر خواتین رنگ پکڑنے لگیں تو بنی نوع انسان کی بہت عظیم خدمت ہوگی.اس ضمن میں میں احمدی خواتین کو ایک یقین دہانی کراتا ہوں کہ اگر لجنات کے پاس یا انفرادی خدمت کرنے والیوں کے پاس جو معمولی اخراجات ہوتے ہیں اس کام کو کرنے کے لئے وہ نہ ہوں تو ہمیں لکھیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں انشاء اللہ ان کا انتظام کر دوں گا اور اس طرح آپ کے کام میں کوئی روک نہیں بنے گی.یہ جو خدمات ہیں ان کا پھیلنا ضروری ہے میں نے جو مثالیں دی ہیں.ان مثالوں کے ساتھ انفرادی خدمت کی بہت سی مثالیں میں نے لگائی ہوئی تھیں جو میں چھوڑ آیا ہوں کیونکہ اگر وہ مثالیں یہاں بیان کی جاتیں تو پورے جلسے میں یہ کام ختم نہیں ہو سکتا تھا.اور جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے اس

Page 580

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۵۷۶ خطاب یکم را گست ۱۹۹۸ء دفعہ میں نے اپنے خطبات کو مختصر کرنے کا فیصلہ کیا ہے.تو بالآخر اس مضمون کو سمیٹتے ہوئے میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ ہر جگہ کی لجنات جو یہاں حاضر ہیں وہ اس کو اچھی طرح سمجھ لیں اور جہاں لجنہ کی ذمہ دار نمائندگان نہیں ہیں وہاں انفرادی طور پر آپ سب مخاطب ہیں.آپ میں سے ہر ایک اپنے نفس کا جائزہ لے ہر ایک اس کام میں شامل ہونے کی کوشش کرے.حضرت مصلح موعودؓ نے ایک الہام کے نتیجہ میں صحیح الفاظ یاد نہیں مگر مضمون یاد ہے فرمایا تھا کہ اگر احمدیوں کی ۵۰ فیصد عورتوں کی اصلاح ہو جائے تو ساری دنیا فتح ہو جائے گی.“ یہ خیال کر لینا کہ آپ میں سے ایک فیصد کی بھی صحیح اصلاح ہو چکی ہے یہ مبالغہ نہیں ہے.چند مثالیں اچھی اچھی جو میں پیش کر سکتا تھا وہ بھی اگر چہ سینکڑوں بلکہ شاید ہزاروں تک جا پہنچیں مگر احمدی مستورات کی تعداد تو کم سے کم ایک کروڑ کے قریب ہو چکی ہے.اب تک اور یہ جو پھیل رہی ہیں لجنات مردوں کے ساتھ ساتھ لازماً ان کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے اور ان کے بچوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے.تو تربیت کے متعلق جو حضرت مصلح موعودؓ نے الہام پر مبنی بات فرمائی تھی اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے.اگر ۵۰ فیصد احمدی عورتوں کی بھی اصلاح ہو جائے تو وہ آئندہ اپنی نسلوں کی ایسی تربیت کرسکیں گی کہ اگلے زمانوں کی وہ مائیں بن جائیں گی کہ جن کے پاؤں تلے دنیا کی جنت ہوگی.بہت بڑا کام ہے مگر مجھے افسوس کے ساتھ ذکر کرنا پڑتا ہے کہ میرے نزدیک ابھی ایک فیصد کی بھی اصلاح نہیں ہوئی.یعنی میرے یہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جب میں خطاب میں آپ لوگوں کو دیکھتا ہوں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ سب کی اصلاح ہو گئی.اتنا متاثر ہو رہی ہوتی ہیں عورتیں کہ بعضوں کے رومال جیب سے نکلتے ہیں اور آنسو پونچھتی ہیں اور جب گھروں کو واپس جاتی ہیں تو ایسے گھروں میں واپس جاتی ہیں جن میں غیر معمولی کام کی ضرورت ہے.بعض ملاقاتوں کے درمیان اندازہ ہو جاتا ہے کہ مذہب کی بنیادی تعلیمات سے بھی اکثر غافل ہیں.پوچھ کر دیکھ لیں تو اکثر کو نماز کے لوازمات یاد نہیں ہوں گے.قرآن کریم کی بنیادی تعلیم تو در کنار صحیح قرآن کریم پڑھنا بھی نہیں آتا تو جس قوم نے ساری دُنیا میں قرآن کی خدمت کرنی ہے اور ان تقاریر سے ظاہر ہے کہ بہت بڑی خدمت ہورہی ہے، کیا ان کا فرض نہیں کہ ان کی بھاری اکثریت جس طرف دنیا کو بلارہی ہے پہلے اپنے آپ کو تو آواز میں دیں اور اس طرف بلائیں.پس لجنہ کے ذریعہ آپ تک سارے پیغام پہنچانا ویسے ہی ممکن نہیں ہے کیونکہ لجنہ کی پہنچ ہی ہر

Page 581

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۷۷ خطاب یکم راگست ۱۹۹۸ء جگہ ہو ہی نہیں سکتی.آپ میں سے ہر ایک کو جو سن رہا ہے میں سنا رہا ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انداز بیان میں کہتا ہوں کہ میں کس دف سے منادی کروں کہ آپ کے کان سننے کے لئے کھل جائیں اور آپ کے دل ان باتوں کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہو جائیں." بار بار کہنے کے باوجود بار بار یہی مشاہدہ ہوتا ہے کہ ابھی عملی تربیت کی بہت بھاری گنجائش موجود ہے.ایک ہی طریق ہے کہ مائیں اپنی ذمہ داری کے لحاظ سے بیدار ہو جائیں اور حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت کے تابع ماؤں کے پاؤں کے نیچے جنت ہے اپنے بچوں کے لئے جنت پیدا کریں.ان ماؤں کے پاؤں تلے جنت ہے جو اپنے بچوں کو جنت کے پیغام دیتی ہیں.جنت میں داخل ہونے کے طریق سکھاتی ہیں ، جو نہیں سکھاتی تو ان کے نیچے تو جنت نہیں.ان کے پاؤں تلے اللہ جانتا ہے کہ کیا کچھ ہے؟ پس آپ اس بات کو خوب اچھی طرح یا درکھیں کہ جو باتیں میں کہ رہا ہوں اس میں جو اصرار کرتا ہوں، یہ تکرار نہیں ہے اصلاح ہے.میرا فرض ہے مجھے بار بار کرنی پڑتی ہے.بارہا ایسے خطبات کو میں دہراتا چلا جاتا ہوں جن میں ایسی باتوں کو کھول کھول کر بیان کیا گیا تھا اپنی دانست میں پھر بھی کرنا پڑتی ہے.وجہ یہ ہے کہ عملاً اصلاح بہت مشکل کام ہے.عملاً پیغام کو سمجھنا بہت ہی غیر معمولی توجہ کو چاہتا ہے اور اس توجہ کی راہ میں بہت سی چیزیں حائل ہیں.ان میں زبان ہی ایک حائل چیز ہے.میں سمجھتا ہوں سب کو سمجھ آگئی ہے مگر بہت سی ایسی خواتین ہیں جن میں جب تک پنجابی کی تقریر نہ کی جائے ان کو سمجھ میں کچھ نہیں آتی اور جوار دوران بھی ہیں اُن کے لئے بھی ہر بات سمجھنا مشکل ہے.اس تکرار اور اصرار میں فرق ہے.وہ تکرار جو اصرار کی وجہ سے کی جائے اس کا نام اصل میں اصرار ہے تکرار نہیں اور یہی حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شیوا تھا.یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دستور تھا.آپ اُن کی کتابیں پڑھ کے دیکھ لیں اس قدر تکرار ہے کہ بعض جاہل سمجھتے ہیں کہ بے وجہ تکرار سے کام لیا جا رہا ہے مگر حقیقت میں ہر تکرار میں کچھ تو نئے مضامین بھی ہیں اور تکرار ان مضامین کی ہے جنہیں جب تک بار بار سمجھا سمجھا کر بیان نہ کیا جائے لوگوں کی عقلیں ان کو قبول نہیں کرتیں.بس میں اب اس خطاب کو ختم کرنے سے پہلے ایک نیک خاتون کی مثال آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جس سے پتہ چلے گا کہ دینی خدمات کے لئے کسی علم کی ضرورت نہیں ہے کچھ اور چیزیں ہیں جن کی

Page 582

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ضرورت ہے.۵۷۸ خطاب یکم راگست ۱۹۹۸ء میری مراد حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی والدہ ہیں.ان کی بات کا بہت اثر ہوا کرتا تھا.کثرت سے خواتین ان کی سادہ باتیں سن کر احمدی ہوئیں.ایک عورت جو بہت متاثر ہوئی اس نے پوچھا کہ مجھے بھی بتائیں کہ یہ علم آپ نے کہاں سے پڑھا ہے، کیا طریقہ ہے کہ آپ کی بات میں اثر ہے؟ انہوں نے دو باتیں فرمائیں.انہوں نے کہا مجھے تو کوئی علم نہیں ہے میں صرف اتنا جانتی ہوں کہ میں اللہ سے ڈرتی ہوں اور اس سے محبت کرتی ہوں.اتنی عظیم الشان بات کر دی ہے ان دو فقروں میں کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتیں کہ کس طرح یہ آپ کی ساری زندگی کے لئے رہنما بن سکتی ہیں.اللہ سے ڈرنے کے ساتھ ان کا یہ ذکر کرنا کہ محبت کرتی ہوں.یہ مضمون کو مکمل کر دیتا ہے.بعض لوگ ڈرتے ہیں کسی چیز سے تو اس سے دور بھاگتے ہیں.ڈرنے کا ثبوت یہ پیش کیا کہ میں اس کی طرف بھاگ رہی ہوں جس سے ڈرتی ہوں یہ ڈرتی ہوں کہ کسی پہلو سے ہی میں اس کی رضا جوئی سے محروم نہ رہ جاؤں اس لئے ڈرنے کا طبعی تقاضا ہے کہ میں اس سے محبت کروں.تو ساری نصیحتیں ایک طرف اور یہ مرکزی نصیحت ایک طرف.جس کی طرف حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بار ہا توجہ دلائی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوٹی چھوٹی احادیث میں اسی مرکزی نقطے کو اُٹھایا ہے کہ دو کام کرو، اللہ سے ڈرو اور اس سے محبت کرو، ساری دنیا تمہارے قدموں میں ہوگی کیونکہ قلوب کو فتح کئے بغیر اذہان کی فتح ممکن ہی نہیں.ذہنوں میں تبدیلی اس وقت تک نہیں آسکتی جب تک آپ دلوں پر حکومت نہ کریں.پس یہ عذر کہ ہماری تعلیم نہیں ہے ہمیں زبانیں بھی پوری طرح نہیں آتیں اول تو زبان کی طرف پوری توجہ کی ضرورت ہے مگر میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جن کو ز بانہیں نہیں بھی آتیں مگر دل میں خدا کا خوف رکھتی ہیں اور اللہ سے محبت کرتی ہیں.ان کو خدا تعالیٰ ایک خاموش زبان عطا کرتا ہے.جواثر سے باز نہیں رہتی.ان کی خاموشی میں ایک گویائی ہو جاتی ہے.ایسی گویائی جو حیرت انگیز طور پر دلوں پر اثر کرنے والی ہوتی ہے.پس اس نصیحت کے ساتھ میں اب اس خطاب کو ختم کرتا ہوں.میں خوش ہوں کہ میں نے وہ تفصیلی ذکر پیچھے چھوڑ دیئے تھے تا کہ کہیں میں انہیں بیان کرنے کے لئے Tempt نہ ہو جاؤں.یعنی دیکھوں گا تو میں یہ کہوں گا کہ چلیں میں یہ بھی بیان کر دیتا ہوں.اس طرح یہ مضمون بہت لمبا ہو جاتا تھا.اب میرا خیال ہے کہ میں انداز اوقت پر اس خطاب کو ختم کر رہا ہوں.اس کے بعد میں آپ سے اجازت چاہتا ہوں.آپ سے توقع رکھتا ہوں کہ آج کے خطاب کو بھی غور سے

Page 583

۵۷۹ خطاب یکم راگست ۱۹۹۸ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات سنیں گی اور سمجھنے کی کوشش کریں گی.یعنی دوسرے دن کی تقریر.اس میں خواتین کی خدمات کا بھی ذکر آئے گا اور کثرت سے آئے گا اس لئے بھی میں نے یہ تفاصیل چھوڑ دی تھیں.کہ جو یہاں باتیں کی جا چکی ہیں ان کو وہاں پیش کرنا شاید مناسب نہ ہو اس لئے اس تفصیلی ذکر کو میں نے دوسرے دن کی دوسری تقریر کے لئے وقف کیا ہوا ہے.امید ہے انشاء اللہ آپ اس تقریر میں مردوں کے ذکر پر بھی جو اچھی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور عورتوں کے ذکر پر بھی خوش ہوں گی اور حقیقی فخر محسوس کریں گی.جو آپ کے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کا موجب بنے گا.اب اس کے ساتھ ہی دعا کے بعد آپ سے اجازت چاہوں گا.آئیں اور میرے ساتھ خاموش دُعا میں شامل ہو جائیں.آمین

Page 584

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۸۰ خطاب ۲۲ را گست ۱۹۹۸ء قناعت.ایک نہ ختم ہو نیوالا خزانہ جلسہ سالانہ مستورات جرمنی سے خطاب فرموده ۲۲ اگست ۱۹۹۸ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد آپ نے درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:.وَالْبُدْنَ جَعَلْنَهَا لَكُمْ مِنْ شَعَابِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ ۚ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ كَذَلِكَ سَخَّرْنُهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ امج : ۳۷) قرآن کریم کی جس آیت کی میں نے تلاوت کی ہے یہ سورۃ الحج کی ۳۷ویں آیت ہے.اس میں اور مضامین کے علاوہ یہ بھی بیان فرمایا گیا ہے اَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَ وہ جو قانع ہے اس کو بھی کھلاؤ اور جو غربت کی وجہ سے پریشان حال ہے اس کو بھی کھلاؤ.میں نے اس لجنہ کے اجلاس کے لئے بھی قناعت کا مضمون چنا تھا اور کل شام تک تمام علماء جن کو اس مضمون پر آیات اور روایات اکٹھی کرنے کا کہا گیا تھا انہوں نے اپنے ہاتھ اُٹھالئے کہ قانع کا تو صرف ایک ہی جگہ ذکر آتا ہے بلکہ ایک مقنعی کا لفظ ہے جو اور معنی میں استعمال ہوتا ہے اور سارے قرآن کریم میں قناعت کا ذکر ہی کوئی نہیں اور اسی طرح احادیث میں بھی کوئی ذکر نہیں.یہ بالکل غلط ہے.بعض دفعہ علماء کو یہ عادت ہوتی ہے کہ لفظ کی پیروی کرتے ہیں مضمون کی پیروی نہیں کرتے حالانکہ قرآن کریم قناعت کے مضمون سے بھرا پڑا ہے اور لفظ قناعت کے نیچے نہیں بلکہ دوسری آیات میں جہاں لفظ قناعت استعمال نہیں ہوا لیکن قناعت کا مضمون استعمال ہوا ہے اور یہ آیات بکثرت ہیں.میں نے بھی نمونہ دو آیات چھنی ہیں جو آپ کے سامنے رکھوں گا تو آپ کو سمجھ آئے گی کہ قناعت ہی کا مضمون ہے لیکن الفاظ دوسرے استعمال ہوئے

Page 585

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۵۸۱ خطاب ۲۲ را گست ۱۹۹۸ء ہیں.پس وہ مضمون جس کے لئے مواد ہی نہیں مل رہا تھا.اتنا مواد اکٹھا ہو گیا کہ اب اس کو سمیٹنا مشکل ہے اس لئے اس میں سے بھی میں نے کچھ حصہ چنا ہے اور جو اہم باتیں میں آپ کے سامنے پیش کرنی چاہتا ہوں وہ انشاء اللہ تعالیٰ آپ کے سامنے آج پیش کر سکوں گا..قناعت پر آپ کو کیوں مخاطب کیا جا رہا ہے.دراصل اس کا تعلق ایثار سے بھی ہے اور ایثار کا مضمون میں نے کل بیان کر دیا تھا.ایثار کے مضمون میں یہ بھی بیان کیا تھا کہ آج کل خدا تعالیٰ کے فضل سے جرمنی میں بہت تبلیغ ہورہی ہے اور اس تبلیغ کے لئے لوگوں کو ایثار سے کام لینا پڑتا ہے لیکن اگر قناعت ساتھ نہ ہو تو ایثار کا حق ادا کرنا مشکل ہے اور اس کے علاوہ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جرمنی میں بچوں کی تربیت کے لئے قناعت لازم ہے اور قناعت کا جو مضمون لغت سے ثابت ہوا ہے اور اس مضمون کی آیات بھی ملتی ہیں اور روایات بھی ملتی ہیں اس کے نتیجہ میں قناعت کا مضمون آج آپ کے لئے بہت برمحل ہے اور جیسا کہ میں لغت کے استعمال سے ابھی آپ کو دکھاؤں گا کہ لفظ قناعت تو ایسے معنی رکھتا ہے جو بے حد بہت ہی متفرق جگہوں پر اطلاق پاتے ہیں اور ان کا خصوصی تعلق خواتین سے ہے.یہ بات قرآن کریم کی آیات پر غور سے سمجھ آتی ہے ورنہ سرسری طور پر آپ لفظ قناعت کو ڈھونڈیں گے تو یہ باتیں نہیں ملیں گی.سب سے پہلے میں آپ کے سامنے لغت کے اعتبار سے بتا تا ہوں کہ قناعت کے کیا معنی اہل لغت نے بیان کئے ہیں اور جو بہت ہی مستند لغت کی کتابیں ہیں جس سے میں نے یہ معنی چنے ہیں.قانع قناعة کا ایک مطلب ہے.رَضِی بِمَا أُوتی جو کچھ دیا گیا اس پر راضی ہو گیا.دوسرا معنی ہے يُسَمَّى السَائِلُ فَإِنَّمَا لِاَنَّهُ يَرْضَى بِمَا يُؤْتی.اس سائل کو اس مانگنے والے کو قانع کہتے ہیں جسے جو دیا جائے وہ اس پر راضی ہو جائے.اللہ تعالیٰ کے حضور ان معنوں میں قانع کا ایک اور معنی ابھرتا ہے جو میں تفصیلی بیان میں آگے بیان کروں گا.اس وقت میں صرف عنوانات پڑھ رہا ہوں.قَنَعَتِ الْإِمْرَءَ ةُ.عورت نے حجاب پہنا.یہ قناعت کا اصلی لغوی معنی ہے کیونکہ قناعت کے لفظ میں حجاب شامل ہے.مرد کے لئے جب وہ ڈھال پہنے اور ڈھال کے پیچھے چھپے اس کے لئے بھی قفع کا لفظ استعمال ہوتا ہے.مفردات میں امام راغب فرماتے ہیں کہ بنیادی معنی ہے ہی یہی اپنے آپ کو ڈھانپ کر رکھنا یہ قناعت ہے.کن معنوں میں آپ پر یہ اطلاق پائے گا اس کی تفصیل میں انشاء اللہ بعد میں بیان کروں گا.قَنَعَ يَقْنَعُ قُنُوْعاً - سَأَلَ وَتَذَلَّلَ یعنی اللہ کے حضور یہ لفظ اطلاق پاتا ہے لوگوں کے

Page 586

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۵۸۲ خطاب ۲۲ را گست ۱۹۹۸ء حضور نہیں کہ سوال کیا خدا سے اور بے حد تذلل اختیار کیا اور جوخدا نے دیا اور پھر اس پر راضی ہوگئے یعنی دعائیں عمر بھر کیں رو رو کر کیں لیکن جو نہیں ملا اس پر شکوہ نہیں کیا جو خدا نے دے دیا اس پر راضی ہو گیا اور یہی مضمون آپ کے بچوں پر بھی اطلاق پائے گا جب آپ ان کو سمجھا ئیں گی اور رہنے کے سلیقے سکھائیں گی.قَنَعَتِ الْإِبِلُ وَالشَّاةَ - مَالَتْ لِمَأْواهَا وأَقْبَلَتْ نَحْوَا صَحَابِهَا.اونٹ یا بکری جب اپنی پناہ گاہ کی طرف لوٹتے ہیں تو کہتے ہیں یہ بھی قناعت ہے.مثلاً جب آپ کے بچے باہر نکل کر آپ کی طرف لوٹیں گے تو یہ بھی ان کا قناعت کا ایک انداز ہے یعنی باہر سے راضی نہ ہونا اور گھر سے راضی ہو جاتا.فَنَعَ الجَبَل.یہ چھٹا معنی بہت ہی عظیم الشان معنی ہے جس کا مطلب ہے پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گیا اور یہاں قناعت میں یہ مطلب نہیں ہے کہ بلندی نہ حاصل کر سکے اور راضی ہو جائے.قناعت کا یہ مطلب بنے گا کہ جتنی طاقت ، استطاعت ہے اس کو پوری طرح استعمال کرے اور پھر اس کے نتیجہ میں جو سر بلندی حاصل ہو وہ حاصل کر کے رہے.یہ بھی قناعت کے لغوی معنوں میں داخل ہے.اور ساتواں معنی بھی تھا وہ کہیں رہ گیا ہے غالبا.بہر حال اب میں آپ کے سامنے تفصیل بیان کروں گا اس مضمون کی.میں نے بتایا تھا کہ قرآن کریم میں مختلف آیات ملتی ہیں جن میں قناعت کا ہی مضمون ہے.ان میں سے صرف دو آیات میں مثال کے طور پر آپ کے سامنے رکھتا ہوں.وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى مَا مَتَعْنَابِةٍ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيْهِ وَرِزْقٌ رَبَّكَ خَيْرٌ وَابْقَى (طہ :۱۳۲) اپنی آنکھیں کھینچ کر اس طرف نہ پھیلا و یعنی تمھاری نظریں پیچھا نہ کریں جو ہم نے دنیا میں بسنے والے جوڑوں کو عارضی نعمت کے طور پر عطا کیا ہے.لِنَفْتِنَهُمْ فِیهِ اس لئے عطا فرمایا ہے کہ ان کی اس دنیا میں آزمائش کی جائے.وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَ اَبقی اور اللہ جو رزق عطا فرماتا ہے یا اس نے جو تمہیں عطا فر مایا ہے وہی بہتر ہے اور وہی باقی رہنے والا ہے.اب دیکھیں حرف بحرف قناعت کا مضمون ہے.غیروں کو جو کچھ عطا ہوا اس پر حرص نہ کرو، اُن پر حسد نہ کرو، اس پر رشک کی نگاہ نہ ڈالو.صرف یہی نہیں بلکہ اس پر راضی ہو جاؤ جو اللہ نے تمہیں عطا فرمایا ہے اور یا درکھو کہ جو خدا عطا فرماتا ہے وہ تھوڑا بھی ہوتو بہتر ہے اور ابقی ہے.ہمیشہ کے لئے باقی رہنے والا ہے.تو قناعت کے مضامین قرآن کریم میں ہر طرف پھیلے پڑے ہیں اور یہ آیت جو میں نے مثال کے طور پر پیش کی ہے یہ بڑی وضاحت کے ساتھ اس مضمون کو بیان فرمارہی ہے.

Page 587

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات پھر فرمایا: ۵۸۳ خطاب ۲۲ را گست ۱۹۹۸ء لِلْفُقَرَاءِ الَّذِيْنَ اُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ داوردج تَعْرِفُهُمْ بِسِيْمُهُمْ ۚ لَا يَسْلُونَ النَّاسَ الْحَافًا وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيْمٌ (البقره: ۲۷۴ ) کہ یہ صدقات لِلْفُقَرَاء - فقراء کے لئے ہیں.الَّذِيْنَ اُحْصِرُوا فِي سَبِيْلِ اللَّهِ جو خدا کی راہ میں روک دیئے گئے یعنی خدا تعالیٰ کی راہ میں انہوں نے گویا قید کی صعوبت برداشت کی محض اللہ کی خاطر ان کو ایک جگہ محصور کر دیا گیا.لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ.وہ زمین میں چلنے پھرنے اور گھومنے کی استطاعت نہیں رکھتے.اب یہاں فِي سَبِيلِ اللهِ روک دیا گیا میں ایک ان کے نفس کی خواہش بھی شامل ہے.آنحضرت کے زمانے میں بہت سے اصحاب الصفہ ایسے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب کی خواہش میں اس لئے کہ جب بھی حضور اکرم باہر تشریف لائیں وہ انہیں دیکھ سکیں.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں آپ کے قرب کی خواہش میں انہوں نے گویا خود اپنے اوپر سفر حرام کرلیا تھا اور بعض دفعہ ان کو بھوک ستاتی تھی تو باہر جا کر لکڑیاں کاٹ کر لے آیا کرتے تھے یعنی قناعت کا مضمون ہر پہلوان پر چسپاں ہورہا تھا.تھوڑے سے رزق پر گزارا کر رہے تھے جو لکڑیاں کاٹنے کے نتیجہ میں محض بھوک مٹانے کے لئے کافی ہوتا تھا اور اس بات پر قناعت تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ فرما ئیں وہی ہمارے لئے کافی ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ دیکھنا ہی ہمارے لئے کافی ہے.پس دیکھئے قرآن کریم تو قناعت کے مضامین سے بھرا پڑا ہے اور کثرت سے ایسی احادیث ملتی ہیں جو ان آیات کی تشریح میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے اسوہ کو پیش کرتی ہیں.فرمایا.يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّف.وہ اتنا بچتے ہیں اپنے فقر کو ظاہر کرنے سے کہ ان کی اس غیرت کو کہ انہوں نے اپنے او پر پردہ سا ڈال رکھا ہے غیر سمجھتا ہے کہ یہ امیر لوگ ہیں ان کو ضرورت ہی کوئی نہیں.اب یہ بھی قناعت کا ایک بہت ہی بار یک مضمون ہے جس کو قرآن کریم نے تعفف کے ذریعے ظاہر فرمایا.وہ بچتے ہیں لوگوں پر اپنے غربت کے اظہار سے اور حیا کرتے ہیں اس بات سے کہ لوگوں پر ان کی غربت ظاہر ہو.

Page 588

۵۸۴ خطاب ۲۲ را گست ۱۹۹۸ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات پس حیا کے پردہ کو بھی قناعت ہی کہتے ہیں اور قناعت کے لفظی معنوں میں پردہ داخل ہے.پھر فرمایا.تَعْرِفُهُمْ بِمُهُم - اے محمد ! صلی اللہ علیہ وسلم ! تو ان کے چہروں کی نشانیوں سے ان کو پہچانتا ہے.بولتے نہیں.لَا يَسْتَلُونَ النَّاسَ الْحَافًا.کبھی بھی وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے.وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللهَ بِهِ عَلِيمٌ اور جو کچھ تم خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہو اللہ اس کا علم رکھتا ہے.یہاں بھی دو معنی ہیں.ایک یہ کہ تم لوگ جو ان پر مخفی ہاتھ سے خرچ کرو گے اس لئے کہ ان کی غیرت کو للکارا نہ جائے، یہ حیا کا پردہ بھی رکھیں اور خاموشی سے قبول بھی کر لیں.فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِیم.اللہ اس کا خوب علم رکھتا ہے اس لئے یہ خیال نہ کرنا کہ اللہ کی خاطر تعفف کرنے والے، بچنے والوں کے اوپر جو تم چھپے ہوئے ہاتھ سے خرچ کرو گے اللہ کو اس کا علم نہیں.اب اس مضمون پر بھی روایات ملتی ہیں حیرت انگیز روایات صحابہ راتوں کو نکل جاتے تھے اور یہ سمجھ کر کہ شاید یہ محتاج ہو کسی کے ہاتھ میں کچھ تھا کر نکل جایا کرتے تھے اور بعض دفعہ امیروں کو بھی دے دیتے تھے لیکن اخفاء کا اس قدر شوق تھا کہ دنیا کی نظر میں یہ نیکی نہ آئے.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْر جو مال بھی تم خرچ کرتے ہو اللہ اس کو جانتا ہے اور اس کے علاوہ یہ لوگ جن کا گزارہ محض معمولی طور پر لکڑیاں بیچ کر ہوا کرتا تھا یہ بھی خرچ کرتے تھے اور ان کا خرچ قناعت کا ایک عظیم الشان مضمون پیش کر رہا ہے کیونکہ پاس کچھ نہ ہو یا جتنا ہو اس میں سے کچھ خرچ کرو یہ قناعت ہے اور ثابت ہے صحابہ کی روایات سے کہ یہ لوگ خدا کی راہ میں جتنی توفیق ملتی تھی کچھ بچاتے تھے اور خرچ بھی کرتے تھے.پس قناعت کا مضمون جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے بے انتہا وسیع ہے اور انسانی زندگی کے ہر شعبہ پر پھیلا پڑا ہے.خواتین سے خصوصیت سے اس کا تعلق ہے کیونکہ قع کا بنیادی مطلب ہی پردہ اوڑھنا ہے.چہرے کو ڈھانپنا قناعت کا لفظی ترجمہ ہے اور باقی جتنے معنی میں نے بیان کئے ہیں وہ اسی لفظی ترجمے سے نکلے ہیں.عورت تبھی قانع ہوگی جب وہ اپنے آپ کو ڈھانپے گی ورنہ اس لفظ کے بنیادی مضمون سے ہی وہ غافل ہے.تو اس پہلو سے آپ کو اپنی بچیوں کی تربیت کا ایک بہت اچھا گر ہاتھ آگیا.آپ کی بچیاں جب باہر نکلتی ہیں اور باہر کے ماحول میں جا کر چہرے سے پردے اٹھالیتی ہیں ان کو بتانا چاہئے کہ اللہ جانتا ہے جو تم کر رہی ہو اور قناعت کا تقاضا یہ ہے کہ تم اپنے بدن کو سمیٹ کر اور اپنے چہرے کو جس حد تک چلنے پھرنے کے لئے ضروری ہے اس حد تک نگا کرو اور باقی حصے کو ڈھانپو.

Page 589

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۸۵ خطاب ۲۲ را گست ۱۹۹۸ء پس دوسرا امر جو اس ضمن میں آپکو پیش نظر رکھنا چاہئے.اس سائل کو قانع کہتے ہیں کچھ اسے دیا جائے وہ اس پر راضی ہو جائے.پس اس سلسلے میں آپ اپنے بچوں کی تربیت اس طرح کریں کہ ان کو جو کچھ آپ دیں اس پر وہ راضی ہو جایا کریں اور پیچھے پڑ کر مانگنے کی عادت نہ ہو کیونکہ بچوں کوعلم ہونا چاہئے کہ مائیں ان کو جو کچھ دیتی ہیں وہ اپنی طاقت کے مطابق دیتی ہیں.استطاعت کے مطابق دیتی ہیں ، پس اس سے بڑھ کر ان سے مطالبہ کرنا ویسے بھی حماقت ہے اور خواہ مخواہ تکلیف میں ڈالنے والی بات ہے کیونکہ بچے جب اس سے بڑھ کر مطالبہ کرتے ہیں جو ماؤں کے پاس ہے تو اس کا لازمی نتیجہ نکلتا ہے کہ مائیں جائز نا جائزہ کا فرق بھول جاتی ہیں اور اپنے بچوں کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ناجائز طریق پر بھی کچھ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں.بعض ماؤں کے متعلق میرے علم میں آتا رہتا ہے کہ وہ اپنے خاوند کی چوری جائز سمجھتی ہیں اس لئے کہ اس کی جیب سے کچھ نکالا اور بچوں پر خرچ کر دیا یہ بھی قناعت کے خلاف ہے.اگر قناعت ہوتی تو ہرگز ایسا کام نہ کرتی اور بچوں کو بھی سکھانے کی ضرورت ہے کہ ہم جو قناعت کرتی ہیں.بعض دفعہ یہ نہیں کہ غربت کی وجہ سے کر رہی ہیں کیونکہ قناعت کا ایک معنی یہ ہے کہ توفیق ہو اور پھر بھی کسی اعلیٰ غرض کی خاطر بچایا جائے اس معنی کے اعتبار سے آپ کی جماعت کو قناعت کی بے انتہا ضرورت ہے اور بچوں کو اگر آپ شروع سے سمجھا دیں کہ ہم جو قناعت کر رہی ہیں اس غرض سے کر رہی ہیں کہ تبلیغی ضروریات پوری ہوں.ہمیں مہمان نوازی کرنی ہے، بہت لوگوں کے حق ادا کرنے ہیں، غیر قو میں آرہی ہیں ان کی دیکھ بھال ان کی تواضع کرنی ہے تو اگر ہم بچائیں گی نہیں تو کیسے خرچ کریں گی.پس قانع ہو جانا مال کے ہوتے ہوئے یہ اعلیٰ درجہ کی خوبی ہے اور اگر آپ بچوں کو شروع سے ہی سمجھا دیں تو بچے بھی اس ثواب میں شریک ہو جائیں گے.بچپن سے ہی ان کی نہایت اعلیٰ درجہ کی تربیت ہوگی.وہ دل میں یقین کر لیں گے کہ ہم بھی اس سارے نظام کا حصہ بن چکے ہیں اور ہمیں جو غربت کی وجہ سے تکلیف پہنچ رہی ہے یہ اللہ کی خاطر ہے.ہماری مائیں محبت کی کمی کی وجہ سے ہمارے او پر ہاتھ نہیں روکتیں بلکہ محبت میں زیادتی کی وجہ سے روک رہی ہیں کیونکہ محبت کے اعلیٰ تقاضے یہ ہیں کہ بچوں کی ایسی عمدہ تربیت کی جائے کہ وہ خدا کے قریب تر ہوں نا کہ اس سے دور ہٹ رہے ہوں.تو بچپن ہی میں لفظ قناعت نے آپ کو پردہ سکھا دیا، ان بچیوں کو پردہ سکھا دیا جو بجھتی ہیں کہ کوئی فرق ہی نہیں پڑتا کیونکہ قرآن کریم نے جہاں جہاں بھی لفظ قانع کا استعمال کیا ہے جن آیات میں یہ معنی بیان فرمائے ہیں وہاں پر دہ کا مضمون داخل ہے.

Page 590

۵۸۶ خطاب ۲۲ را گست ۱۹۹۸ء حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات اب قناعت کیوں نہیں کرتیں بچیاں ؟ اس لئے کہ گھر میں اپنے عزیز اور محرم ان کو دیکھتے ہیں تو ان کو کافی نہیں سمجھتیں اور یہاں بھی قناعت کا مضمون یہ ہے جو اطلاق پاتا ہے.ان کو غیر آنکھیں چاہئیں جو ان کو دیکھیں اور ان کی تعریف کریں اور ان کے لئے اپنے دل میں ایک حرکت محسوس کریں.پس یہ قناعت کے خلاف ہے.قناعت میں جو پردہ کا مضمون ہے اس کا اس سے گہرا تعلق ہے.پس اپنی بچیوں کو سکھائیں کہ وہ اگر سر ڈھانپ لیتی ہیں اور پیچھے سے کھلے بال چھوڑ دیتی ہیں تا کہ وہ پیچھے لہراتے رہیں اور دیکھنے والے بڑے پیار سے ان کو دیکھیں تو یہ قناعت کے خلاف ہے.قناعت اسی میں ہے کہ اپنی زینت کو بھی چھپا کر رکھیں اور صرف ان پر اپنی زینت ظاہر کریں جن کو خدا اجازت دیتا ہے.جب ان پر آپ زنیت ظاہر کریں گی یا ان پر کریں گی جن کی نگاہوں میں اللہ تعالیٰ نے تعفف ڈالا ہے اور حیا رکھی ہے وہ بد نیتی سے نہیں دیکھتے اس صورت میں قناعت کا مضمون پوری طرح صادق آئے گا.آپ کے معاشرے میں بچیوں کو یہ سکھانا بہت ضروری ہے اور سمجھانا ضروری ہے کیونکہ ایسا سمجھانا جو حض لفظی ہو وہ کام نہیں دے گا.قناعت کا سارا مضمون سمجھانا پڑے گا، بچپن سے ہی ان کی تربیت کرنی ہوگی تاکہ جب وہ باہر جائیں تو اس بات پر قانع ہوں کہ اللہ نے جن کے لئے اجازت دی ہے کہ ان کے سامنے وہ بے شک بال پھیلا دیں اور وہ بد نظر سے ان کو دیکھ ہی نہیں سکتے.محرم لوگ ہیں اس پر قانع ہو جائیں اور غیر لوگوں کی گندی آنکھوں سے لذت محسوس نہ کریں.اب یہ بات بھی سمجھانے کی ضرورت ہے کہ غیر جب دیکھے گا گندی نظر سے دیکھے گا تو کیوں پسند کرتے ہو اپنے لئے کہ تمہارے لئے غیروں کی نا پاک نظریں اُٹھ رہی ہوں اور تم پر حرص کر رہی ہوں.یہ چیز رفتہ رفتہ تمہیں کھینچ کر غیر معاشرے کی طرف لے جائے گی.یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ ہم تو معمولی سا ایک دکھاوا کر رہی ہیں.یہ معمولی دکھاوا نہیں ٹھہرا کرتا بلکہ قناعت کے نتیجہ میں ہی انسان صبر اختیار کرتا ہے اور قناعت کا فقدان ہو تو انسان ایک جگہ ٹھہرا ہی نہیں کرتا.لفظ قناعت میں دیکھو کتنے کتنے معنی پوشیدہ ہیں.اگر ان سب پر آپ نظر رکھیں تو آپ کو خدا تعالیٰ کے فضل سے تربیت کے گہرے حکمت کے راز معلوم ہوں گے.جیسے میں نے بیان کیا کہ مرد کا حجاب اس کی ڈھال ہے اس کے پیچھے چلتا ہے تو اس لئے اس کو ڈھال کہتے ہیں کہ وہ ایک قسم کا حجاب ہے.اسی لئے فرق فخر کے لئے جو پردہ کرتا ہے تو وہ بھی حجاب کہلاتا ہے.اب جہاں تک اللہ کے حضور معنی کا تعلق ہے تو اس میں تذلل اختیار کرنا ضروری ہے اور پیچھے پڑ کر مانگنا چاہئے.یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ قناعت کر لو اور جو اللہ نے دے دیا بس کافی ہے.یہ فیصلہ

Page 591

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۸۷ خطاب ۲۲ را گست ۱۹۹۸ء خدا کرے گا کہ کتنا دینا ہے مگر اس فیصلہ کے اندر آپ کا تذلل اور آپ کا مانگنا بھی تو شامل ہے اس کے بعد وہ فیصلہ کرتا ہے.پس بعض لوگ ایسے فقیر ہوتے ہیں جو ہٹتے ہی نہیں جب تک کہ ان کو مل نہ جائے.خدا تعالیٰ سے بھی بعض دفعہ انسان کو اسی قسم کا فقیر بنا پڑتا ہے.جیسا کہ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک بزرگ کو عادت تھی وہ مدتوں سے سالہا سال سے ایک دعا مانگے چلے جارہے تھے اور ہر دفعہ جب وہ دعا مانگتے تھے تو آواز آتی تھی نا مقبول.تیری دعا ہم نے قبول نہیں کی.قریباً ۳۰ سال کا عرصہ گزر گیا ان کو اسی طرح دعائیں مانگتے ہوئے اور پیچھا نہیں چھوڑا اللہ کا.خدا تعالیٰ یہ سبق دینا چاہتا تھا کہ یہ لوگ بھی قانع ہیں.یعنی قناعت کا ایک معنی یہ ہے کہ مالک ہے وہ جتنادے اس پر راضی رہو.نہ دے تو اس پر بھی راضی رہو، پس یہ نہایت لطیف معنی قناعت کا اس روایت سے ثابت ہوا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات کھولنی تھی اس لئے ان کے مرید کے دل میں یہ خیال ڈالا کہ تم بھی اس پہنچے ہوئے بزرگ کیسا تھ عبادت کرو، چند راتیں ان کے ساتھ کھڑا ہوا کرو.اگر یہ واقعہ نہ ہوتا تو شاید دنیا کو پتہ بھی نہ چلتا کہ ان کا کیا حال تھا.وہ چند دن تین دن کے متعلق آتا ہے غالباً کہ وہ پاس کھڑا ہوا.وہ دعائیں کرتے تھے تو ساتھ کا آدمی سنتا بھی تھا بعض دفعہ انسان اگر چہ سرگوشی میں بات کر رہا ہوتا ہے لیکن ساتھ والے آدمی کو آواز آرہی ہوتی ہے.وہ سنتا رہا کہ کیا دعائیں مانگ رہے ہیں اور ہر دعا کے بعد جو الہام ہواوہ اس نے بھی سنا.وہ تھا کہ تیری دعا ئیں نا مقبول ہمیں کوئی دعا قبول نہیں کر رہا.تیسرے دن وہ تھک گیا کیونکہ قانع نہیں تھا اس کو قناعت کا یہ مضمون معلوم ہی نہیں تھا کہ قناعت کا مطلب ہے کہ مالک جو چاہے دے جو چاہے نہ دے اس پر قناعت کرے چنانچہ وہ بول پڑا.اس نے کہا آپ عجیب انسان ہیں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے میں نے نہیں قبول کیا اور آپ ضد چھوڑ ہی نہیں رہے اور بار بار وہ دعائیں مانگ رہے ہیں.عین اس وقت بڑی شدت کے ساتھ یہ الہام ہوا کہ اے میرے بندے! میں نے تیری ساری عمر کی دعائیں قبول کر لیں.اس کو کہتے ہیں قناعت.یعنی خدا کی مرضی پر قناعت کر جانا.مانگتے چلے جانا ، مانگتے چلے جانا نہیں چھوڑ نا اس کا پیچھا.پھر وہ جو بھی دے اس پر راضی ہو جاؤ.پس آپ اپنے بچوں کو سمجھائیں کہ اس رنگ میں دعائیں کیا کریں.مانگتے رہیں مانگتے رہیں، پھر اللہ کی مرضی ہے کہ وہ نہ دے تو پھر بھی راضی ہو.اس کو ع قناعت کہتے ہیں.جس طرح حضرت مصلح موعود عرض کرتے ہیں.راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تیری رضا ہو یہ قناعت کا ایک مضمون ہے جو نہایت عمدگی کیساتھ حضرت مصلح موعود نے بیان فرمایا.

Page 592

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۸۸ خطاب ۲۲ را گست ۱۹۹۸ء اب ایک اور بات میں نے بیان کی تھی کہ فَنَعَتِ الابِلُ وَالشَّاةُ مَالَتْ لِمَاوَاهَا وَاقَبْلَتْ نَحْوَ اَصْحَابِهَا قناعت ایک معنی یہ ہے کہ سارا دن کام کرو اپنی روزی کماؤ جو بھی کرنا ہے رات کو ضرور اپنے گھر کی طرف لوٹ آؤ اپنی پناہ گاہ کی طرف لوٹ آؤ.پس پرندے، چرندے جب اپنی پناہ گاہ کی طرف لوٹتے ہیں تو یہ بھی ان کی قناعت ہے.اس میں قناعت کا کیا مضمون ہے؟ دو باتیں ہیں:.اول یہ کہ جتنا دن کے وقت میسر آ گیا اس پر راضی رہو.جانوروں سے بھی یہ گر سیکھو کہ وہ بھی تو جتنا خدا دن لمبا کرتا ہے جتنا ان کومل جاتا ہے اسی پر راضی ہو جاتے ہیں.جتنا دن چھوٹا کرتا ہے جتنا ان کو ملتا ہے چھوٹے دن اسی پر راضی ہو جاتے ہیں.تو دنوں کی لمبائی تو اولتی بدلتی رہتی ہے.بعض دنوں میں ویسے بھی رزق میں کمی ہوتی ہے.خزاں کے دن ہوتے ہیں ان میں گھاس نسبتا کم ملتا ہے، پتے کم ملتے ہیں مگر جانور پھر باہر نہیں بیٹھے رہتے.وہ واپس اپنے گھر کو ضرور لوٹتے ہیں.اپنی اولاد اور اپنے بچوں کی اس رنگ میں تربیت کریں کہ جب تک خدا چاہتا ہے ان کو باہر رہنے کا حق ہے کیونکہ وہ لازماً مختلف کاموں میں مشغول ہوں گے کچھ طالبعلم ہوں گے، کچھ کام کرنے والے ہوں گے لیکن اس کے بعد اپنے گھروں کو ضرور لوٹیں اور گھروں کو اپنی آماجگاہ سمجھیں.قناعت کا دوسرا معنی یہ ہے کہ اپنے گھر پر قانع ہو جائیں اور جولوگ اپنے گھروں پر قانع نہیں ہوتے وہ بازاروں میں آوارہ گردیاں کرتے پھرتے ہیں.خاوند ہوں، کسی کے بچے ہوں یا بچیاں ہوں جو بھی اپنے گھروں پر قانع نہیں ہوں گے اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ پھر باہر قانع ہوتے ہیں اور آوارہ گردی اس کا ایک طبعی قطعی نتیجہ ہے تو اونٹوں اور بھیڑ بکری سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ سبق دیا.ان کو قانع اس لئے قرار دیا ہے اہل لغت نے کہ یہ قناعت کا مرکزی معنی ان پر چسپاں ہو رہا ہے جو دراصل انسان کے لئے ہے.سب سے زیادہ اہمیت لفظ قناعت کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کے لئے ہے.جیسا کہ بھیڑ بکریاں قناعت کرتی ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام کیوں قناعت نہیں کرتے.ان کے لئے بھی ضروری ہے کہ اللہ کی مرضی پر راضی رہتے ہوئے اتنا عرصہ باہر رہیں جتنا عرصہ رہنا ضروری ہے پھر اپنے گھر میں جا کر سکون پائیں.قناعت کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ جو کچھ اس کو گھر میں ملے اس پر راضی ہو جائے بعض دفعہ یہ ہوا کرتا ہے کہ باہر کے ماحول میں زیادہ اچھی نعمت کی چیزیں ملتی ہیں، بعض اداروں کی طرف سے ہر قسم کی سہولتیں مہیا ہوتی ہیں اس کے بعد غریب بچوں کا گھر میں آرام پانا ایک مشکل کام نظر آتا ہے.یہی حال غریب بچیوں کا ہے گھر میں لوٹیں گی ایک

Page 593

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۵۸۹ خطاب ۲۲ را گست ۱۹۹۸ء ٹوٹے پھوٹے گھر میں لوٹیں گی جس میں ان کے آرام کے وہ سارے سامان موجود نہیں جو باہر کی سوسائٹی ان کے لئے مہیا کر رہی ہے.یہاں قناعت کا یہ معنی ہوگا کہ جب اُس گھر میں لوٹو اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اسی پر راضی ہو جو کچھ گھر میں ہے.سوچو کہ خدا نے یہ کچھ دیا ہے اس پر قناعت کرو اور جو اللہ کی خاطر قناعت کرتا ہے قرآن کریم کی دوسری آیات سے ثابت ہے کہ ان کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے اور قناعت کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ بہت رزق میں کشائش عطا فرماتا ہے.پس غریب بچوں کو اپنے غریبانہ گھر پر راضی ہو جانا چاہئے اور اس میں یہ سوچ کر سکون حاصل کرنا چاہئے کہ میرے اللہ نے دیا ہے.اگر یہ نہیں سوچیں گے تو ان کو قناعت نصیب ہو ہی نہیں سکتی.جب اللہ پر نظر ہو اور اللہ سے پیار ہو اور یہ پیار آپ نے پیدا کرنا ہے، یہ نظر ماؤں نے بچوں کو عطا کرنی ہے اس صورت میں ان کو کسی اور کے سمجھانے کی ضرورت نہیں پڑے گی جب وہ بڑے ہوں گے تو ہمیشہ اپنے گھر ہی کو اپنا آخری مسکن بناتے ہوئے بڑے ہوں گے اور جو بھی ماحول میسر ہے اس پر قناعت کریں گے.ایک فرق ہے اس قناعت میں اور باہر کی چیزوں میں آرام ڈھونڈنے میں جو گھر کی قناعت ہے اس میں بہت سی ایسی چیزیں ملتی ہیں جو باہر مل سکتی ہی نہیں کیونکہ گھر کی قناعت میں سچی محبت ملتی ہے.اس محبت کو دنیا بھر میں ڈھونڈتے پھریں وہ سچی محبت نہیں مل سکتی کیونکہ وہ محبت جو ان کو نظر آتی ہے وہ لوگوں کی خود غرضی کی محبت ہوتی ہے.وہ چند دن اپنے مزے لوٹنے کی خاطر محبت کا اظہار کرتے ہیں مگر گھر میں جو مائیں محبت کرتی ہیں یا جو باپ محبت کرتے ہیں وہ تو کسی خود غرضی کے لئے نہیں کرتے.وہ ایک طبعی رحم ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کی فطرت میں ڈال رکھا ہے اور یہ چیز ان کو باہر میسر آ ہی نہیں سکتی.پس قناعت کی تعلیم دیتے وقت یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ یہ ایسی تعلیم نہیں جو تم سے تمہارے حق چھین رہی ہے.تمہیں رہنے کے سلیقے سکھا رہی ہے.تمہیں بہت کچھ جو تمہیں باہر نصیب نہیں ہوسکتا وہ گھروں میں نصیب ہے.نظر تو ڈال کر کبھی غور تو کرو، فکر تو کرو.اس پہلو سے آپ کو چاہئے کہ اپنے بچوں کی آپس کی محبت کا بھی خیال رکھیں اور بہت سی مائیں میں نے دیکھی ہیں جو خیال رکھتی ہیں اور مجھے ان کے بچوں کا طرز عمل دیکھ کر بے حد خوشی ہوتی ہے اور تسکین ملتی ہے.میں مثلاً بچوں کو ان کی تربیت کی خاطر چاکلیٹ دیا کرتا ہوں جب وہ ملتے ہیں تو میں نے دیکھا ہے کہ بعض بچے فوراً اپنا چا کلیٹ جو دو ان کے لئے ہوتے ہیں ان میں سے ایک اپنے بھائی کو دے دیتے ہیں یا اپنی بہن کو دے دیتے ہیں.لپک کر جاتے ہیں تا کہ ان کو بھی دے دیں ان کو میں سمجھاتا ہوں کہ تمہارے لئے اور

Page 594

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۵۹۰ خطاب ۲۲ را گست ۱۹۹۸ء ہے، ان کے لئے اور ہے فکر نہ کرو.اور بعض بچے جو قناعت سے عاری ہوں وہ جس بچے کے ہاتھ میں چاکلیٹ دیکھتے ہیں اپنے بہن یا بھائی کے ہاتھ میں لپکتے ہیں اس کی طرف اور زبردستی چھینے کی کوشش کرتے ہیں.بمشکل مجھے انکو علیحدہ کرنا پڑتا ہے کہ صبر کرو تمہیں بھی ملے گا لیکن اس وقت تک منہ بسورے رہتے ہیں اور ماتھے پر بل پڑے رہتے ہیں جب تک ہاتھ میں نہ آجائے.یہ قناعت کے خلاف ہے.قناعت کا مضمون تو اگر آپ غور کریں تو ساری زندگی پر پھیلا پڑا ہے.یہ ختم ہی نہیں ہو سکتا لیکن قرآن سے سیکھیں کہ قناعت کیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سمجھیں کہ قناعت کس کو کہتے ہیں.اس ضمن میں اب میں چند حدیثیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.جو مضمون کی تفصیل بیان کر چکا ہوں اس کی تائید میں اس مضمون کو تقویت دینے کے لئے میں بعض احادیث آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور وہ احادیث بھی ایسی ہیں ان کو سمجھانا بھی پڑے گا ور نہ بعض لوگ اُس سے غلط نتیجہ بھی نکال سکتے ہیں.بخاری کتاب الزکوۃ میں یہ حدیث درج ہے حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسکین وہ نہیں جو ایک دو لقے یا ایک دو کھجوروں کیلئے در بدر پھرتا ہے.مسکین وہ ہے جس کے پاس بقدر کفاف گزارہ نہ ہو لیکن اس کے باوجوداس کی غربت سے کوئی واقف نہ ہو سکے.یہ قناعت کی تعریف ہے جو لفظ مسکین کے تابع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں.اب میں نے جب بعض علماء سے کہا کہ قناعت کے متعلق حدیثیں ڈھونڈیں تو کوئی بھی نہیں پیش کر سکے حالا نکہ آپ کو بھی میں سمجھا رہا ہوں کہ جب کسی مضمون کی تلاش ہو تو مضمون پر نظر رکھیں لفظوں پر نظر نہ رکھیں.وہ مضمون تو لازماً آپ کو قرآن میں بھی ملے گا اور احادیث میں بھی ملے گا.اگر میں نے لفظ مسکین کہا ہوتا تو فوراً یہ حدیثیں سامنے رکھ دیتے مگر میں نے قناعت کا کہا تھا کہ تو چونکہ دماغ میں لفظ ق ن ع رہا اس لئے یہ حدیث نظر میں نہ آئی لیکن سمجھانے کے بعد فوراً پھر انہوں نے میری مدد کی اور ایسی تمام حدیثیں میرے سامنے رکھ دیں.فرمایا بقدر کفاف گزارہ نہ ہو لیکن اس کے باوجود اس کی غربت سے کوئی واقف نہ ہو سکے وہ اس پر صدقہ خیرات کرے اور ضرورتمند ہوتے ہوئے بھی لوگوں سے کچھ نہ مانگے یعنی وہی روایت جو میں نے بیان کی تھی وہ اصحاب صفہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ بعینہ وہی مضمون بیان فرما رہے ہیں کہ قانع وہ ہے جس کو غربت کی وجہ سے جو اپنا حیا کا پردہ نہ اٹھنے دے اور مسکینوں کی سی زندگی بسر کرے لیکن جو کمائے اس میں سے بھی غیر پر خرچ کرے اور پھر جو بچ رہتا ہے اس پر قانع ہو جائے.یہ قناعت کی نہایت اعلیٰ تعریف ہے جس سے آپ کو اپنے بچوں اور بچیوں کو

Page 595

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۹۱ خطاب ۲۲ را گست ۱۹۹۸ء آگاہ کرنا ہوگا اور قناعت کا مضمون جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا نہ ختم ہونے والا مضمون ہے.اس کا دنیا سے بھی تعلق ہے آخرت سے بھی تعلق ہے.ایک حدیث میں حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قناعت ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے.اب قناعت میں بظاہر غربت ہے اور آنحضور فرما رہے ہیں کہ یہ نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے.جس کو قناعت نصیب ہو جائے اس کو سب کچھ نصیب ہو گیا اور یہ قناعت ہے جو ایک نہ ختم ہونے والاخزا نہ بھی بن جاتا ہے.میں نے اس سلسلے میں حضرت خلیفتہ اسی الاول کی ایک روایت بیان کی تھی وہ جو میں اکثر کیا کرتا ہوں لیکن اس مضمون میں وہ دوبارہ یاد آرہی ہے اس لئے میں پھر آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں.خلافت سے پہلے جب جموں میں حضرت خلیفتہ اسی الاول طبیب ہوا کرتے تھے وہ ایک راستے سے گزرتے تھے جہاں ایک نگا فقیر صرف لنگوٹی پہنے ہوئے ، بھوک راکھ بدن پر ملی ہوئی بیٹھا رہتا تھا اور اس کا چہرہ ہمیشہ غم سے آلودہ اور اس طرح اس کے چہرے سے اظہار ہوتا تھا جیسے اسے اپنی غربت پہ بہت غم ہے مگر مانگتا پھر بھی نہیں تھا.اس کا حال دیکھ کر جوچاہے اس کے دامن میں کچھ ڈال جائے اس طرح وہ بیٹھارہتا تھا.ایک دفعہ حضرت خلیفتہ امسیح الاول کی روایت کے مطابق جب اس کے پاس سے گزرے تو خوشی سے اچھل رہا تھا، چھلانگیں مار رہا تھا.آپ حیران رہ گئے کہ کل تک تو اس کا کچھ اور حال تھا آج یہ چھلانگیں مار رہا ہے.کیا ہوا تمہیں کیا خزانہ مل گیا ہے.اس نے پنجابی میں کہا جس کی کوئی خواہش نہ رہے اس کو سب خزانے مل گئے اس کی ساری خواہشیں پوری ہوگئیں.اب دیکھو کتنا گہرا مضمون ہے کہ اس فقیر نے قناعت کا بیان فرمایا اور یہ اسی کی تفسیر ہے جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قناعت ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے.جب حرص مرجائے تو جو کچھ بھی ہے انسان اس پر خوش ہوگا اور اگر یہ خیال ہو کہ اللہ نے عطا فرمایا ہے تو اور بھی زیادہ خوش ہوگا.تو اس فقیر کی چھلانگیں بے معنی چھلانگیں نہیں تھیں ایک گہرا حکمت کا راز اس کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا جو اس کی پہلی قناعت کے نتیجے میں تھا.پس یہ وہ باتیں ہیں جن کو آپ کو اپنی اولاد کو سمجھانا ہے.ورنہ وہ کہیں گے ہم کیسے قناعت کریں غریب سی زندگی ہے، بُرا حال ہے لیکن حرصوں کو کم کرنا ضروری ہے اور جب انسان اللہ پر نظر ڈالے تو پھر حرصیں کم ہو سکتی ہیں پھر تمنا میں آہستہ آہستہ کم ہوسکتی ہیں اس کے بعد جو زندگی سکون کی مل سکتی ہے اس کی کوئی مثال نہیں.حضرت رسول اللہ کی زندگی میں بے شمار ایسی مثالیں ہیں جن سے

Page 596

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۹۲ خطاب ۲۲ مراگست ۱۹۹۸ء ثابت ہوتا ہے کہ آپ کو یہ قناعت نصیب تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں بے شمار ایسی مثالیں ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ کو یہ بچی قناعت نصیب تھی.دارد حضرت ابو ہریرہ کی جو روایت اکثر بیان ہوتی رہتی ہے میں مختصراً اس کا ذکر کر دیتا ہوں کیونکہ وہ بھی قناعت کا ہی مضمون ہے اور قناعت کے نتیجے میں رسول کریم نے فرمایا ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے، اس کی ایک حقیقی مثال ہے یعنی کوئی فرضی بات نہیں ہے کہ نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے عملاً آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں خدا تعالیٰ نے یہ دکھا دیا کہ واقعۂ قناعت ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں.یہ ایک دوسری روایت ہے جو میں بیان کرنا چاہتا تھا حضرت ابو ہریرہ کے چہرے سے بھی بھوک کا اندازہ اگر کسی کو ہوا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوا تھا.کیونکہ آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تَعْرِفُهُمْ بِیمُهُمْ (البقرہ:۲۷۴۰) اگر کوئی شخص جو ان فقر کے چھپانے والے کے چہرے سے بھوک پڑھ سکتا ہے صرف تو ہے.جو لمبی روایت ہے اس میں حضرت ابو ہریرۃ کے فقر کا احساس کر کے، ان کی بھوک کا احساس کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ ابو ہریرہ تم بھوکے ہو.مجھے کہیں سے دودھ آیا ہے آؤ تمہیں بھی اس دودھ میں شریک کروں.ابوھریرہ بہت خوش ہوئے کہ ایک پیالہ دودھ کا ہے میں غٹ غٹ پیوں گا اور بہت حد تک میری بھوک مٹ جائے گی مگر اس حدیث کا یہ دوسرا پہلو قناعت والا پہلو ہے اللہ تعالیٰ یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ قناعت ایک ایسا خزانہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا.آنحضور نے ابو ہریرہ کو قناعت کا گر بھی سکھانا تھا.چنانچہ آپ نے فرمایا کہ جاؤ اعلان کرو کہ اور کچھ بھوکے ہیں تو ان کو بھی اکٹھا کر لاؤ.اب حضرت ابو ہریرۃ کے دل کا کیا حال ہو گا سخت بھوکے، کئی دن کے بھوکے، بھوک سے غشی کے دورے پڑ رہے تھے.ایک پیالہ دودھ آیا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں باقیوں کو بھی بلا لو.لیکن پھر اب غور کریں تو مطلب یہ تھا کہ جتنا تمہیں ملے اسی پر قناعت کرو اور جب بھوک کی شدت ستار ہی ہو اُس وقت کم پر قناعت کرنا یہ قناعت ہے لیکن یہ سمجھانا بھی مقصود تھا کہ خدا کی خاطر جو قناعت کرتے ہیں.اللہ ان کولا متناہی دیتا ہے وہ قناعت کے نتیجے میں کسی رزق سے محروم نہیں رہتے.چنانچہ حضرت ابوہریر گانے ایسا ہی کیا.آواز دی کہ اور کوئی بھوکا ہے تو آجائے اور چند بھو کے چھ سات اور ا کٹھے ہو گئے.اس وقت آنحضور نے ابو ہریرہ کو اپنے بائیں طرف بٹھایا اس لئے بائیں طرف بٹھایا کہ آپ دائیں طرف سے شروع کیا کرتے تھے.ابو ہریرہ کو قناعت کا مضمون اچھی طرح سمجھانا تھا.یہ بھی سمجھانا تھا کہ تم دیکھنا

Page 597

۵۹۳ خطاب ۲۲ را گست ۱۹۹۸ء حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات میرے خدا کا مجھ سے کیا سلوک ہے.قناعت کا خزانہ ختم نہیں ہوتا یہ اُس حدیث کی تشریح میں کر رہا ہوں.ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ دائیں طرف جو بیٹھا تھا اس نے دودھ کے پیالے کومنہ سے لگایا اور پینا شروع کیا.مجھے خیال آیا کہ بڑا پیالہ ہے شاید کچھ بچے بھی جائے.رسول اکرم نے فرمایا اس کو کہ اور پیو جو پی رہا تھا فرمایا اور بھی پیو.وہ کہتے ہیں ابو ہریرہ کہ میری تو جان نکل گئی تھی اندر سے اب تو میرے لئے سوال ہی نہ رہا کہ میرے پاس پہنچتا لیکن اس نے پورا پیا اور کہا یا رسول اللہ ! میں منہ تک بھر گیا ہوں.پھر آپ نے وہی پیالہ دوسرے کو دیا پھر تیسرے کو دیا پھر چوتھے کو دیا.دودھ ختم نہیں ہو رہا تھا.آخر پر ابوھریرہ کی باری آئی.رسول اللہ ! نے پیار سے مسکراتے ہوئے دیکھا ابو ہریرہ ہ اب تم پیو.وہ کہتے ہیں میں نے پیا اور پھر پیا اور پھر پیا، میری بھوک کلیپ ختم ہوگئی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصرار فرمارہے تھے کہ اور بھی پیو اور بھی پیو.کہتے ہیں میں نے آخر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب تو دودھ میرے ناخنوں سے پھوٹ پڑے گا میں نے اور بھی پیا تو اتنا بھر چکا ہوں دودھ سے.تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پیالے کو اپنے منہ سے لگایا.سب سے بڑا قانع محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے.ان سے بڑھ کر دنیا میں کبھی کوئی قانع پیدا نہیں ہوا اور یہ حدیث اس بات کو کھول کر بیان کر رہی ہے اور یہ بھی بتارہی ہے کہ جیسا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قناعت ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے.یہ حقیقت ہے قناعت کے نتیجے میں اگر سچی قناعت ہو تو اللہ تعالیٰ رزق میں اتنی برکت ڈال دیتا ہے کہ تھوڑا بھی ختم ہونے میں نہیں آتا.یہی واقعات حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ہم نے دیکھے.یعنی اُن صحابہ نے دیکھے جنہوں نے قناعت کی اور بعد یہ اسی قسم کی باتیں بار ہا پیش ہوئیں.یا بارہا ظاہر ہوئیں تو یہ کوئی پرانی تاریخ کے قصے نہیں ہیں.اس دور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ذریعے یہ تاریخ دوہرائی جاچکی ہے.پس آپ بھی اسی تاریخ کو دوہرائیں یہ تاریخ دہرائیں گی تو آپ کو نہ ختم ہونے والا رزق عطا کیا جائے گا اور اپنے بچوں اور اپنی بچیوں کو ان معنوں میں قناعت کے مضمون سکھا ئیں.آنحضرت کے حوالہ سے سکھائیں.اب ایک اور مضمون اسی سے تعلق رکھتا ہے حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ ایک کافر آنحضرت کا مہمان ہوا حضور نے اس کے لئے بکریوں کا دودھ نکلوایا وہ یکے بعد دیگرے سات بکریوں کا دودھ پی گیا اندازہ کریں کہ کیسا بھوکا تھا اس کو قناعت کا پتہ نہیں تھا کیونکہ کا فر وقناعت کا پتہ نہیں ہوتا.یہ

Page 598

حضرت خلیفہ اسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۹۴ خطاب ۲۲ را گست ۱۹۹۸ء دنیا کی زندگی اس کی لذت ہے سب کچھ یہی ہے جتنا کھا پی سکے وہ کھا پی لیتا ہے.اس کے ساتھ جو آنحضور نے جو حسن سلوک فرمایا اور جو باتیں فرمائیں اس کے نتیجہ میں دوسرے ہی دن وہ مسلمان ہو گیا.حضور نے اس کے واسطے پھر ایک بکری کا دودھ نکلوایا وہ اس نے پی لیا پھر دوسری بکری کا دودھ نکلوایا وہ سارا نہ پی سکا.آپ نے فرمایا یعنی اس سے پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی آپ نے مومنوں کو دکھانے کے لئے یہ کیا کہ جب تک یہ کافر تھا یہ سات انتڑیوں میں پیتا تھا یعنی سات گنا غذا تھی اُس کی اور مومن ہوا تو ایک ہی رات میں اس کو خدا تعالیٰ نے قناعت کے گڑ سکھا دیئے اور اب دو بکریاں کا پورا دودھ بھی ختم نہیں کر سکا.حضرت اثر اُس کی ایک روایت میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں اس میں کئی باتیں سمجھنے والی ہیں حضرت اقر اس بیان کرتے ہیں کہ بنومرہ نے اپنے اموال صدقہ دے کر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا.جب میں مدینہ میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت حضور مہاجرین اور انصار کے درمیان رونق افروز تھے حضور نے میرا ہاتھ پکڑا اور ام سلمہ کے گھر لے گئے اور ان سے دریافت کیا کہ کیا کوئی کھانے کی چیز ہے انھوں نے آنحضور کے لئے شرید کا پیالہ بنایا ہوا تھا ایک ایسی غذا ہے جسے اس زمانے میں جس کو نرم آٹا نصیب نہ ہو وہ بھی شوق سے کھا سکتے ہیں بے دانت کا آدمی بھی کھا سکتا ہے کیونکہ گندم کے دانے جو ( بچ جاتے) تو موٹی چکی میں پیسے جائیں ان کو جب شور بے میں دیر تک بھگو کے رکھا جائے تو بالکل نرم ہو جاتے ہیں پس آنحضور نثرید بہت پسند فرماتے تھے خصوصاً جب جنگ اُحد میں دانت شہید ہو گئے اُس کے بعد آپ کا موٹی کھر دری روٹی کھانا مشکل تھا اس لئے شرید پسند فرماتے تھے ام سلمہ نے اس میں بوٹیاں بھی بہت ڈالی ہوئی تھیں وہ شرید رسول اللہ کے سامنے پیش کیا گیا حضور نے اپنے بائیں ہاتھ سے میرا دایاں ہاتھ پکڑا جب ہم اس میں سے کھانے لگے تو میں کبھی ادھر ہاتھ مارتا تھا کبھی اُدھر ہاتھ مارتا تھا اسی پیالے میں رسول اللہ نے اقر اس کے ساتھ کھانا کھایا وہ کہتے ہیں میں ادھر ادھر ہاتھ مار رہا تھا آپ نے فرمایا یہ ایک ہی قسم کا کھانا ہے حرص نہ کرو جو سامنے سے ہے اسی سے کھاؤ.پھر کہتے ہیں ہمارے سامنے ایک طشت لایا گیا جس میں مختلف قسم کی کھجور اور ڈو کے وغیرہ تھے میں سامنے سے کھانے لگا.اب یہ دیکھیں کہ کیسا لطیف مضمون ہے یہ رسول اللہ کی حکمت پر دلالت کرتا ہے کیونکہ رسول اللہ نے اس وقت کیا کیا آنحضرت کبھی ادھر سے چنتے تھے کبھی ادھر سے چنتے تھے اور اپنی مرضی کی نرم کھجور میں اور پسندیدہ کھجوریں چن چن کے کھانے لگے.اقر اس اب حیرت سے

Page 599

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۵۹۵ خطاب ۲۲ را گست ۱۹۹۸ء دیکھ رہے تھے کہ ابھی تو مجھے روکا تھا کہ صرف سامنے سے کھانا ہے ادھر ادھر ہاتھ نہ مارواب ہر طرف ہاتھ مار رہے ہیں اور کھجور میں چھن رہے ہیں رسول اللہ اس بات کو پہچان گئے آپ نے فرمایا یہ کھجور مختلف قسموں کی ہیں اور جو کھانا میں نے کہا تھا ثرید وہ ایک ہی قسم کا تھا.اس میں ادب کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے سامنے سے کھاؤ خواہ مخواہ دوسری جگہ ہاتھ نہ مارو اور جو دوسرا کھانے والا ہے اسے بھی چین سے کھانے دو لیکن کھجوروں میں کیونکہ تقسیم ہے فرق ہے اس لئے اس فرق کے مطابق اور اپنے مزاج کے مطابق چنی چاہئیں یہ بدتمیزی نہیں ہے بلکہ یہ بے تکلفی کا ایک صحیح انداز ہے یعنی رسول اللہ کی طبیعت میں ادنیٰ سا بھی تکلف نہیں تھا.پھر آپ نے پانی منگوایا اس سے اپنا ہاتھ دھو یا گیلا ہاتھ اپنے چہرے پر پھیرا اور اس طرح آنحضور نے فرمایا کہ آگ پر پکی ہوئی چیز جو ہو اس کے ساتھ ہاتھ دھونا اور منہ کو صاف کرنا ضروری ہوا کرتا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ عام پھل یا کھجور میں وغیرہ اگر ہاتھ گندے نہ ہوں یعنی اس سے چیچے نہ ہوں اُس کھانے سے دھونے کی ضرورت نہیں ہے بعض لوگ چمچے سے کھانا اٹھا لیتے ہیں.لیکن آگ پر پکا ہوا کھانا جو ہے اس کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریق تھا اس سے منہ کو صاف کرنا چاہئے اور ہاتھ بھی دھونے چاہئیں.بعض دفعہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم قناعت کا ایک اور مضمون بھی لوگوں کو سمجھایا کرتے تھے.جس کا مطلب یہ تھا کہ جن لوگوں کو نہیں دیتے تھے وہ قناعت کریں اور آپ گا نہ دینا محبت کے نتیجے میں ہوا کرتا تھا اس لئے اپنے بچوں کو یہ مضمون بھی ضرور سکھائیں.بعض دفعہ آپ ان کو نہیں دیتیں کہ ان کی محبت کی وجہ سے نہیں دیتیں.امر بن تغلب کے متعلق روایت ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ آنحضور نے ایک موقع پر مال غنیمت تقسیم کئے اور بکثرت لوگوں کو دیئے اور مجھے کچھ نہیں دیا.تو میرے دل میں یہ گمان گز را که رسول اکرم کو شاید مجھ سے پیار نہیں ہے، باقیوں سے پیار ہے ان کو دے دیا مجھے نہیں دیا تو آنحضور نے فرمایا سنو میں نے تمہیں اس لئے نہیں دیا کہ مجھے تم سے پیار ہے اور میں جانتا ہوں کہ تمہیں بھی مجھ سے پیار ہے.تم میرے نہ دینے پر بھی راضی رہو گے اور اس کے نتیجے میں مجھے جو تجھ سے محبت ہوتی ہے وہ تمہارے لئے بہت کافی ہوگی.راوی بیان کرتے ہیں کہ ساری زندگی مجھے کبھی کسی بات سے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی آنحضور کے اس موقع پر نہ دینے کے نتیجے میں ہوئی کیونکہ یہ نہ دینا محبت کے نتیجے میں تھا.پس اپنے بچوں کی تربیت میں اس بات کو بھی داخل کریں کہ آپ کا ان کو کچھ نہ دینا اگر ان کی محبت کی وجہ سے ہے اور ان کو یہ احساس ہو تو پھر وہ ہمیشہ خوش رہیں گے بھی بھی آپ سے ناراض

Page 600

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۹۶ خطاب ۲۲ را گست ۱۹۹۸ء نہیں ہوں گے.اب آخر پر میں ایک چھوٹا سا واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا آپ کے سامنے رکھتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قناعت کا یہ عالم تھا کہ ایک موقع پر اپنے والد کو جو چاہتے تھے کہ دنیا کی ملازمت کریں اور کمائیں اور اچھی طرح زندگی بسر کریں اُن کی خدمت میں ، آپ نے اپنے والد کی خدمت میں عرض کی میں کوئی نوکری نہیں کرنا چاہتا.دو جوڑے کھدر کے کپڑوں کے بنا دیا کرو اور روٹی جیسی بھی ہو بھیج دیا کرو میرے لئے بہت کافی ہے.اپنے باپ کی زندگی کی دعائیں کرنے والے کہ اللہ تعالیٰ انہیں لمبی زندگی عطا فرمائے ، ساری عمر کے لئے اپنے لئے اس بات پر راضی ہو گئے کہ میں دین کے کام کروں اور دنیا کمانے سے مستغنی ہو جاؤں اور تمام عمر کے لئے اس پر راضی ہو گئے کہ دور وٹیاں مل جائیں یا ایک روٹی مل جائے اور کھدر کے ۲ جوڑے میرے لئے بہت کافی ہے.پس میں امید رکھتا ہوں کہ آپ اپنی زندگیوں میں اس قناعت کو اختیار کریں گی جس کو قرآن کریم نے بڑی تفصیل سے بیان فرمایا ہے اور جس کے پاک نمو نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھائے اور جن کا یہ نمونہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی دکھایا کہ والد کی زندگی کی اتنی تمنا تھی کہ جس دن الہام ہوا کہ رات کو کچھ ہونے والا ہے آپ کو شدید غم لگ گیا اور چاہتے تھے کہ گویا وہ کبھی بھی نہ فوت ہوں میری زندگی میں.ساری زندگی کے لئے یہ قناعت کا نمونہ ہے.اس بات پر راضی تھے کہ کھدر کے ۲ جوڑوں میں گزارہ کریں اور جو کچھل جائے گھر سے آجائے وہی کافی ہو.میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ ہماری خواتین، احمدی خواتین آج کی دنیا میں اس مضمون کو زندہ کریں گی.اپنے اعمال سے اور اپنے بچوں کی تربیت کے ذریعے اگر آپ ایسا کر سکیں تو آئندہ صدیوں کی تربیت کا سہرا آپ کے سر رہے گا اور وہ جو بھی نیکیاں اس وجہ سے اختیار کریں گے کہ آپ نے اپنے بچوں کی اچھی تربیت کی تھی اور انہوں نے یہ پیغام آگے پہنچایا تھا.اس کا ثواب آپ کو ہمیشہ ملتار ہے گا اور یہ قناعت کی آخری بات ہے جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.قناعت کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کا انعام آپ کے مرنے کے بعد بھی آئندہ نسلوں تک آپ کو پہنچتا رہے گا اور یہ بھی ان معنوں میں قناعت کا لفظ ہے کہ قناعت ایسا خزانہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ ہماری احمدی خواتین کو یہ توفیق عطا فرمائے اور احمدی بچیوں کو بھی یہ مضمون براہ راست سن کر اچھی طرح سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق بخشے.

Page 601

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۹۷ خطاب ۲۲ را گست ۱۹۹۸ء اس کے بعد چونکہ مجھے دوسرے بھی خطابات کرنے ہیں اور مردوں میں بھی اب جانا ہے وہاں نما ز اور پھر نماز کے بعد ایک نکاح بھی ہوگا اور نماز سے پہلے بچوں کی وہ ایک مارچ پاسٹ بھی رکھی ہوئی ہے.وہ مجھے تو اس قسم کی مارچ پاسٹ پسند نہیں کہ بچے با قاعدہ سلیوٹ کرتے ہوئے گزررہے ہوں وقف نو کے بچے لیکن امیر صاحب کا دل چاہ رہا تھا کہ یہ ہوتو میں نے کہا کہ امیر صاحب کی خواہش ہے تو ضرور ہوگی کیونکہ اس دفعہ انہوں نے یہی خواہش کا اظہار کیا.اگر اسی خواہش کو رد کر دوں تو اچھی بات نہیں ہے تو اس لئے میں نے یہ بات منظور کر لی ہے کہ ابھی جاؤں گا کچھ دیر تک اور ایک بجے میرا پہنچنا وہاں بیان کیا گیا ہے کہ ضروری ہوگا یا کافی ہو جائے گا.نماز سے پہلے مارچ پاسٹ ہو جائے گی اور نماز کے بعد ایک نکاح کا اعلان ہوگا.وہ نکاح افسر صاحب جلسہ کی بچی کا ہے.میں نے منع کیا ہوا تھا کہ جلسوں پر اب نکاح نہ کیا جایا کریں یہ ایک قسم کا دکھاوے کا ذریعہ بن گیا ہے اور آئندہ سے جلسوں پر نکاحوں کو روک دیا گیا ہے مگر چونکہ افسر صاحب جلسہ کا ایک خاص حق ہے کہ جلسے کا سارا انتظام کرتے ہیں اس لئے انہوں نے خواہش کی تھی کہ اس دفعہ میری بچی کے نکاح میں آپ شامل ہو جا ئیں اور سارے اہل جلسہ بھی اس میں شامل ہو جائیں تو میں نے اس دفعہ ان کی یہ درخواست منظور کر لی ہے.آئندہ کے لئے نہیں.ایک دفعہ اور صرف افسر جلسہ کی ہوگی.باقی آئندہ کسی کو افسر جلسہ بنے کی توفیق ملی تو دیکھی جائے گی اس وقت آج یہ نکاح ان کی بچی کا پڑھا جائے گا اور میں بھی اس میں شامل ہوں گا.اس کے ساتھ اب میں خاموش دعا کرواتا ہوں.میرے ساتھ شامل ہو جائیں.حضور نے دعا کروائی اور السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کہہ کر رخصت ہوئے.

Page 602

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۵۹۸ خطاب ۳۱ جولائی ۱۹۹۹ء عیب چینی ، غیبت اور تفاخر سے پر ہیز کی نصیحت (جلسہ سالانہ مستورات برطانیہ سے خطاب فرمودہ ۳۱ / جولائی ۱۹۹۹ء) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: آج کا جو مضمون ہے اس کا ذکر عملاً اس تلاوت قرآن کریم میں گزر چکا ہے جو آپ کے سامنے پیش کی گئی تھی اور کچھ اس کا اثر مسیح موعود علیہ السلام کے کلام کا اثر جس کی وجہ سے میری آواز بھرائی ہوئی ہے مگر یہ وقت کی مجبوری ہے میں انشاء اللہ اس پر قابو پا لوں گا.سب سے پہلے میں آپ کے سامنے اس اجلاس کی حاضری سے متعلق کچھ گزارشات کرنی چاہتا ہوں.یہ سب اللہ کے فضل ہیں جس پر بے اختیار ہمارے دل سے الحمد للہ کی آواز نکلتی ہے اس جلسے میں اللہ کے فضل کے ساتھ چالیس ممالک سے خواتین شرکت کر رہی ہیں.جرمنی سے آنے والی خواتین کی تعداد تو ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اور ان کا شمار ہمارے بس میں نہیں رہا اس لئے ہم نے محفوظ اندازہ پیش کیا ہے کہ ہزار سے زیادہ تعداد میں جرمن احمدی یا پاکستانی جرمن احمدی خواتین شامل ہیں.اس کے علاوہ پاکستان سے دوصدا کتالیس ۲۴۱ خواتین کے یہاں پہنچنے کی اطلاع با قاعدہ رجسٹر ڈ ہو چکی ہے اس کے علاوہ کچھ ہوں تو ہمیں علم نہیں.انڈونیشیا سے امسال باوجود اس کے کہ وہاں بہت اقتصادی بحران تھا بڑا قافلہ پہنچا ہے جس میں سے ۲۰ خواتین کا وفد ہے.فلسطین سے امسال سب سے زیادہ تعداد میں فلسطینی احمدی خواتین شامل ہوئی ہیں یعنی ۲۵ ، سب سے زیادہ سے مراد ہے انڈو نیشیا سے بھی زیادہ انڈونیشیا سے بھی زیادہ ہیں مگر انڈو نیشیا بہت دور کا ملک ہے اور جیسا اقتصادی بحران وہاں ہے ویسا فلسطین میں تو خدا کے فضل سے نہیں ہے مگر پھر بھی ان کی تعداد قابل احترام ہے ۲۵ کی تعداد میں خواتین پہنچی ہیں اور اللہ کے فضل سے ساری اخلاص کے رنگ میں رنگین ہیں اور یہاں ایک نیا روحانی

Page 603

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۵۹۹ خطاب ۳۱ جولائی ۱۹۹۹ء انقلاب برپا ہو رہا ہے اور میں امید رکھتا ہوں انشاء اللہ کہ اس کے نتیجے میں باقی فلسطینی سابقہ احمدی خواتین کی بھی اچھی تربیت ہو سکے گی.امریکہ سے سو اور کینیڈا سے ۸۸ کی تعداد میں خواتین کے اب تک پہنچنے کی اطلاع مل چکی ہے.اس کے علاوہ ناروے، ہالینڈ، قازقستان، سوئٹزر لینڈ ، سویڈن، کینیا، ہندوستان، جاپان، ماریشس، یوگینڈا، آسٹریلیا، سینیگال، بورکینافاسو، نائیجیریا سعودی عرب، ڈنمارک فرانس بیلجیئم ، پولینڈ، غانا، یواے ای، ہانگ کانگ، اٹلی ، آئر لینڈ، تھائی لینڈ، بوسنیا، تنزانیہ، بنگلہ دیش، گیمبیا، سپین ، یمن ، نیوزی لینڈ ، عمان اور ساؤتھ افریقہ وغیرہ سے مختلف تعداد میں خواتین کو اس جلسے میں شرکت کا موقع مل رہا ہے.الحمد للہ یہ بہت بڑا ایک نمائندہ وفد ہے جو دنیا بھر کے ممالک سے تشریف لایا ہوا ہے.جن آیات کی تلاوت کی گئی تھی انہی کے تسلسل میں میں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض نصائح آپ کے سامنے رکھتا ہوں کیونکہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ مختصر ہوتے ہیں مگر بہت گہرا اثر کرنے والے، ان کی گہرائی میں جتنا بھی ڈوبتے چلے جائیں ان کی کوئی اتھاہ نہیں، کسی جگہ پہنچ کے آپ کہہ نہیں سکتے کہ اس میں عرفان کا کنارہ مل گیا ہے.یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ہے جو آپ کے الفاظ سے بھی جلوہ گر ہے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان بعض اوقات بے خیالی میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی کوئی بات کہ دیتا ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے بے انتہا درجات بلند کرتا ہے.بے خیالی میں بھی جو بات نکلتی ہے دراصل اس کا نفسیات سے گہرا تعلق ہے.سوچے سمجھے منصوبے کے بغیر ہی جب انسان بے خیالی میں کوئی بات کرتا ہے تو غور کر کے دیکھیں اس کا تعلق انسانی نفسیات سے ہے.دل میں وہ اچھی بات ہوگی تو باہر آئے گی تو اللہ تعالیٰ اس کی قدر فرماتا ہے اور بہت درجات بلند کرتا ہے اور بعض اوقات لا پرواہی سے ایک بات کر بیٹھتا ہے جس کے متعلق اس کے پیچھے ارادہ نہیں ہوتا مگر بے خیالی میں بات کرتا ہے یہاں بھی وہی مصلحت ہے.حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ نفسیات کا کوئی ماہر نہیں تھا.پس آپ متنبہ کرتے ہیں کہ تم بے خیالی میں جو باتیں کرتے ہو بسا اوقات اس کی جڑیں دل میں پیوستہ ہوتی ہیں اس وقت اگر خدا تعالیٰ کے متعلق کوئی نا پسندیدہ بات کرو گے تو پھر اللہ تعالیٰ اس کو نوٹ کرے گا اور بعض دفعہ اسی کے نتیجے میں سزادی جائے گی اس لئے خوب اچھی طرح اپنے دل کو ٹول کر دیکھا کرو کہ سب نیکیوں کی جڑ دل ہی میں ہوتی ہے اور

Page 604

۶۰۰ خطاب ۳۱؍ جولائی ۱۹۹۹ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات تقویٰ کی کچی جڑ بھی دل ہی میں ہے.حضرت عقبہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ نجات کیسے حاصل ہو؟ آپ نے فرمایا اپنی زبان روک کر رکھو، تیرا گھر تیرے لئے کافی ہو یعنی حرص سے بچو.اگر کوئی غلطی ہو جائے تو نادم ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑا کر معافی طلب کرو.نجات کے حصول کے جو تین ذریعے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے ہیں ان میں ایک ہے زبان روک کر رکھو ، مطلب یہ ہے کہ جب زبان سے کوئی بات کہنا چاہو تو پہلے اس کو روک لیا کرو اور غور کر لیا کرو جب واقعی وہ بات سچی ہو اس میں کوئی لگاوٹ نہ ہو، کوئی فتنہ فساد، کوئی جھوٹ نہ ہو تو پھر وہ بات پیش کیا کرو اور پھر فرمایا تیرا گھر تیرے لئے کافی ہو اب اس میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت بڑی تربیت کے راز ہیں وہ مائیں اور باپ جن کے گھروں میں ان کے بچوں کو سکون ملتا ہے وہی گھر ان کے لئے کافی ہوتے ہیں وہ باہر سے بھاگ کر اپنے گھروں میں آتے ہیں اور وہاں سکون حاصل کرتے ہیں تو فرمایا کہ دوسروں کے گھروں کو بڑا دیکھ کر اس کی حرص نہ کیا کرو تمہارا گھر ہی تمہارے لئے کافی ہونا چاہئے وہیں جنت بنے گی اور وہیں تمہارے لئے اور تمہاری اولاد کے لئے نجات کے سامان پیدا ہوں گے اور غلطی تو ہو ہی جاتی ہے فرمایا غلطی ہو جائے تو نادم ہو جایا کر وصرف احساس کیا کرو کہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے اور اللہ کے حضور گڑ گڑا کر معافی مانگا کرو.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بدترین آدمی تم اُسے پاؤ گے جود و منہ رکھتا ہو.اب کسی آدمی کے دومنہ تو نہیں ہوا کرتے مراد یہ ہے ایک سے بات کرنے کے لئے ایک منہ ہے اور دوسرے سے بات کرنے کے لئے دوسرا منہ گویا دونوں میں نمایاں اختلاف پایا جاتا ہے یہ لگتا ہی نہیں کہ ایک ہی منہ سے دو باتیں نکلی ہوئی ہیں.اس کی تشریح میں فرماتے ہیں ان کے پاس آکر کچھ کہتا ہے دوسروں کے پاس جا کر کچھ کہتا ہے یعنی بڑا منافق اور چغل خور ہے.پس اپنے متعلق آپ سب جائزہ لیتی رہیں کہ بات کرتے وقت کہیں اس بیماری کا شکار تو نہیں ہو جاتیں.ایک کے پاس جائیں تو اس سے کچھ اور باتیں کریں اس کو خوش کرنے کے لئے دوسرے کے پاس جائیں تو اس کو خوش کرنے کے لئے اس سے کچھ اور باتیں کریں یہ بہت گہری بیماری ہے جس کی طرف حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توجہ دلائی ہے.ایک حدیث صحیح بخاری سے لی گئی ہے جو حضرت حذیفہ کی ہے.حضرت حذیفہ بیان کرتے

Page 605

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۶۰۱ خطاب ۳۱ جولائی ۱۹۹۹ء ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چغل خور جنت میں نہیں جا سکے گا.اب اس میں بعض دوسری باتیں بھی ضمنا بیان ہوئی ہیں.بعض حدیثوں سے ذکر ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہنم میں عورتوں کو زیادہ دیکھا اب عورتیں بیچاری تو ایسی ہیں جن کے پاؤں تلے جنت بھی ہوتی ہے وہ خود کیسے جہنم میں جائیں گی مگر ایک بیماری ایسی ہے جو اکثر عورتوں کو لاحق ہوتی ہے اور وہ چغل خوری ہے اس لئے اگر آپ چغل خوری سے پناہ مانگتی رہیں گی تو یقینا اللہ تعالیٰ آپ کو ان عورتوں میں داخل نہیں کرے گا جن کو زیادہ تعداد میں جہنم میں دیکھا گیا ہے.حضرت ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں اور یہ ترمذی سے حدیث لی گئی ہے آپ فرماتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا طعنہ زنی کرنے والا ، دوسرے پر لعنت کرنے والا نخش کلامی کرنے والا ، یا وا گو زبان دراز مومن نہیں ہو سکتا یعنی یہ ساری باتیں وہ ہیں جو ایمان کے منافی ہیں اور سچے مومن کے اندر خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ گندی خصلتیں نہیں ہوا کرتیں.طعنہ زنی کرنا، دوسروں پر لعنت ڈالنا نخش کلامی کرنا ، یاوا گوئی زبان درازی وغیرہ وغیرہ لعنت تو قرآن کریم نے بھی ڈالی ہوئی ہے اور مباہلے میں بھی ڈالی جاتی ہے مگر وہ لعنت اور رنگ کی لعنت ہے یہاں اس کا ذکر نہیں بات چیت میں، روز مرہ کی باتوں میں یونہی لعنتیں ڈالتے پھرنا یہ وہ عادت ہے جو سچے مومن میں نہیں ہوا کرتی.حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ممبر پر کھڑے ہو کر با آواز بلند فرمایا کہ اے لوگوں ! تم میں سے بعض بظاہر مسلمان ہیں لیکن ان کے دلوں میں ایمان راسخ نہیں ہوا انہیں میں متنبہ کرتا ہوں کہ وہ مسلمانوں کو طعن و تشنیع کے ذریعے تکلیف نہ دیں اور نہ ان کے عیبوں پر کھوج لگاتے پھریں ورنہ یا درکھیں جو شخص کسی کے عیب کی جستجو میں ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے اندر چھپے عیوب کو لوگوں پر ظاہر کر کے اس کو ذلیل ورسوا کر دیتا ہے.اب دیکھیں اس میں کتنی بڑی حکمت کی بات آپ کے سامنے پیش کی گئی ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے اس کے ذریعے سے آپ کے سارے معاشرے کی اصلاح ہوسکتی ہے.فرمایا اگر سچا ایمان ہو تو پھر طعن و تشنیع نہ کیا کرو جب تم طعن کرتے ہو تشنیع کرتے ہو، دوسروں کو تکلیف دیتے ہو تو ایمان دل سے اٹھ جاتا ہے اور اس کا دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ عیب ڈھونڈتے پھرتے ہو لوگوں کے گویا زندگی کا مزہ ہی یہ رہ گیا ہے کہ لوگوں کے عیب تلاش کرنا.جب ایسا کرو گے تو اتنا بھی تو خیال کرو کہ تمہارے اندر بھی عیوب ہیں جو خدا کی ستاری کے پردے میں چھپے ہوئے ہیں.جب تم لوگوں کے عیب نکالو گے تو اللہ یہ پردہ اٹھا لے گا

Page 606

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۰۲ خطاب ۳۱ جولائی ۱۹۹۹ء پھر تم ضرور زندگی میں یہ سزا پاؤ گے کہ خدا کی ستاری کا پردہ تم سے اٹھ چکا ہے اور تمہارے عیب پھر لوگوں کو دکھائی دینے لگ جائیں گے جو اس سے پہلے دکھائی نہیں دیا کرتے تھے.ایک روایت حضرت ابو ہریرہ کی یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے بھائی کی آنکھ کا تنکا تو انسان کو نظر آتا ہے لیکن اپنی آنکھ میں پڑا ہوا شہتیر بھول جاتا ہے.آنکھ میں تو شہتیر نہیں پڑسکتا.بھائی کی آنکھ کا تنکا نظر آنا اور اپنی آنکھ میں شہتیر پڑنے کا کیا مطلب ہے.مطلب ہے جتنی برائی بھائی کی دکھائی دے رہی ہے اس کی آنکھ میں اس سے بہت زیادہ برائی تمہاری آنکھ میں مضمر ہے، وہ چھپی ہوئی ہے.اس برائی کو تم دیکھ نہیں سکتے کیونکہ وہ تمہارے اندر نہاں ہے تو یا درکھو کہ یہ عادت ڈالو اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہا کرو اور جب غیر کی کوئی برائی دکھائی دے تو فورا جس طرح گیند اچھل کر واپس آتا ہے اس طرح تمہاری نظر اچھل کر واپس اپنے نفس کا مطالعہ شروع کر دے اور یہ کھوج لگائے کہ ویسی ہی برائی یا اس سے بہت زیادہ برائی تو میرے دل میں نہیں.یہ مضمون وہ ہے جس کے متعلق بہادر شاہ ظفر کو ایک بہت عارفانہ کلام کی تو فیق ملی تھی اور وہ یہ ہے نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی بُرا نہ رہا اگر اچھی آنکھ سے دیکھنا ہے تو پہلے اپنی بدیوں کی تلاش کرو.اتنا گھبرا جاؤ گے کہ اپنی بدیوں کے مقابل پر ساری دنیا اچھی دکھائی دے گی.یہ عارفانہ نقطہ بھی دراصل حضرت اقدس محمد مصطفی اصلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ہے اور اسی نقطے کو دنیا کے مختلف شعراء اور ادیبوں نے اپنے اپنے رنگ میں پیش کیا ہے.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام میں سے کچھ باتیں میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں یہ کلام در اصل حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کی ہی تشریح ہے کوئی نئی چیز نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام پر غور کر کے دیکھیں کچھ بھی نئی چیز نہیں سو فیصد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام اور عشق میں ڈوب کر آپ نے کہا ہے.بدی پر غیر کی ہر دم نظر ہے مگر اپنی بدی سے بے خبر ہے

Page 607

حضرت خلیفہ مسح الرابع کے مستورات سے خطابات ۶۰۳ خطاب ۳۱ جولائی ۱۹۹۹ء کہ انسان کا کیا حال ہے ہر وقت دوسرے کی بدی کی تلاش میں رہتا ہے اور اپنی بدی دکھائی نہیں دیتی.اس سلسلے میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور حدیث بھی میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بدظنی سے بچو کیونکہ بدظنی سخت جھوٹ ہے، ایک دوسرے کے عیب کی ٹوہ میں نہ رہو، اپنے بھائی کے خلاف تجسس نہ کرو، اچھی چیز ہتھیانے کی حرص نہ کرو، حسد نہ کرو، دشمنی نہ رکھو، بے رخی نہ برتو ، جس طرح اس نے حکم دیا ہے اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو، مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور وہ اس پر ظلم نہیں کرتا، وہ اسے بے یار و مددگار نہیں چھوڑتا، اسے حقیر نہیں جانتا.اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا تقویٰ یہاں ہے تقویٰ یہاں ہے یعنی مقام تقویٰ آپ کا دل ہے ایک انسان کے لئے یہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے ہر مسلمان کی تین چیزیں دوسرے مسلمان پر حرام ہیں اس کا خون، اس کی آبرو اور اس کا مال.اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں کی خوبصورتی کو نہیں دیکھتا اور نہ تمہاری صورتوں کو ، نہ تمہارے اموال کو بلکہ اس کی نظر تمہارے دلوں پر پڑتی ہے (ابن ماجہ باب الزھد ).اور ایک روایت میں ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، اپنے بھائی کے خلاف جاسوسی نہ کرو، دوسروں کے عیبوں کی ٹوہ میں نہ لگے رہو.ایک دوسرے کے سودے نہ بگاڑو، اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو.یہاں ایک ذکر ہے ایک دوسرے کے سودے نہ بگاڑ و اس سودے نہ بگاڑنے کا تعلق ایک اور بات سے بھی ہے جو بیاہ شادی کی باتیں ہوتی ہیں اور رشتے تجویز ہوتے ہیں اور دونوں طرف سے گفتگو چلتی ہے یہ بھی ایک سودا ہے اور بعض لوگوں کو عادت ہے کہ وہ اچھا رشتہ کہیں ہوتا دیکھ نہیں سکتے اور حسد کے نتیجے میں پھر اس فریق کے پاس پہنچتے ہیں جس پر ان کا اثر ہو اور کہتے ہیں کہ یہ جو رشتہ ہے اس میں فلاں مخفی دبی ہوئی خرابی موجود ہے یا اس بچی کا پہلے بھی ہوا تھا اس کو چھوڑا گیا تھا تو کیوں چھوڑ دیا گیا تھا اس طرف بھی توجہ کرو.اس طرح وہ لوگ سودے بگاڑتے ہیں اور اس کی آئے دن مجھے شکایتیں ملتی رہتی ہیں.شاید ہی کسی دن کی ڈاک ہو جس میں یہ مضمون بیان نہ ہو.اس کے نتیجے میں معاشرہ دکھوں سے بھر گیا ہے اتنی تکلیف ہوتی ہے یہ سوچ کر کہ کیوں بگاڑتے ہیں.ان کا حرج کیا ہے اگر کسی کی اچھی جگہ شادی ہو جائے تو اس کو اپنے حال پر چھوڑ دینا چاہئے مگر بعض پاکستان سے جرمنی لکھ کے بتاتے ہیں

Page 608

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۶۰۴ خطاب ۳۱؍ جولائی ۱۹۹۹ء کہ یہاں تم نے رشتہ کیا ہے اس رشتے میں خرابی ہے، بعض امریکہ لکھتے ہیں، بعض افریقہ بھی لکھ دیتے ہیں کہیں بھی پیچھا نہیں چھوڑتے.اپنی بچیوں کے لئے دعائیں کیا کریں اللہ نیک انجام کرے اور سب کو اچھے رشتے عطا فرمائے.جانا تو سب نے خدا کے حضور ہے مگر اچھے حال میں جائیں کہ جہاں خدا کی اُٹھات آواز أحد يا يَتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَينَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ رَاضِيَةً مُرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبدِي وَادْخُلَى جَلَبَيْن (الفجر : ۲۸ تا ۳۱) اے وہ روحو! جو مجھ سے راضی ہو اور جن سے میں راضی ہوں فادخلی فی عبادی میرے عباد میں داخل ہو جاؤ و ادخلی جنتی اور میری جنت میں داخل ہو جاؤ.یہاں ایک ضمناً آپ کو ایک نقطہ سمجھاتا ہوں جو عورتوں کے لئے بہت ہی اعلیٰ درجے کا نقطہ ہے کیونکہ روحوں کی کوئی جنس نہیں ہوا کرتی عورتوں کی روحیں ہوں یا مردوں کی روحیں ہوں ایک ہی جنس ہے اور وہ جنس تانیث میں بیان ہوئی ہے.يَايَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً اے نفس مطمئنہ ! اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ جا کہ تو اس سے راضی یعنی اے نفس مطمئنہ جس کا ذکر عورت کے طور پر کیا گیا ہے اپنے رب کی طرف لوٹ جا اس حالت میں کہ اس کے عباد میں داخل ہو جا اور اس کی جنت میں داخل ہو جا.پس یہ وہ دعا ہے جو آپ کو ہر ایک کے لئے کرنی چاہئے اور اس میں آپ سب کے لئے خوشخبری ہے کہ یہ مرد عورت کی تفریق صرف اس دنیا میں ہے اس کی وہاں کوئی بھی حیثیت نہیں رہے گی.سب مرد سب عورتیں ایک ہو کر اپنے اللہ کے حضور حاضر ہوں گے اور جنت میں جو بھی ان کے لئے نعمتیں ہیں وہ اور مضمون کی نعمتیں ہیں اس میں مرد عورت کا کوئی ذکر نہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تشریحات میں سے چند میں آپ کے سامنے پھر رکھتا ہوں.غیبت کرنے والے کی نسبت قرآن کریم میں ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے.“ ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۲۹ جدید ایڈیشن ) افسوس ہے کہ خصوصاً ہندو پاک کی عورتوں میں یہ بیماری زیادہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام متنبہ کر رہے ہیں اگر چہ باہر کی دنیا میں بھی ہوگی مگر نسبتا کم ہے.مصروفیتیں ہیں بہت

Page 609

حضرت خلیفہ مسح الرابع کے مستورات سے خطابات ۶۰۵ خطاب ۳۱ جولائی ۱۹۹۹ء سے کام ہیں جن میں وہ پھنس کر خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ غیبت کی بیماری سے نجات پا جاتے ہیں یعنی باہرگئی ہوئی عورتیں اکثر نجات پا جاتی ہیں مگر ہندو پاک میں یہ بیماری بہت پائی جاتی ہے اور ہندو پاک سے مراد یہاں بنگلہ دیش بھی ہے.بہر حال یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایشیائی مزاج میں یہ بات داخل ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.غیبت کی مجلس میں ان کو بہت مزہ آتا ہے“ اب یہ بات سچی ہے کہ نہیں آپ لوگ اپنے دل ٹول کر دیکھیں بہت لطف اُٹھاتی ہیں جب جلسے سے فارغ ہو کر آپس میں بیٹھتے ہیں اور غیبت کرتے ہیں ایک دوسرے کی ، خیال بھی نہیں کرتے کہ دیکھ یہ کتنی بری بات ہے جو موجود نہیں ہے وہ گویا مردہ بھائی ہے.مردہ اپنے جسم کا دفاع نہیں کر سکتا جو وہاں موجود نہیں وہ اپنا دفاع نہیں کرسکتا.پھر فرمایا: اسی طرح عورتوں میں دوسری عورتوں پر فخر کرنے اور شیخی بگھارنے کی عادت بھی عموماً مردوں سے زیادہ پائی جاتی ہے.“ عموماً کہہ کر بڑے انصاف سے کام لیا ہے یہ عادت بھی مردوں میں بھی پائی جاتی ہے.اور بعض مردوں میں بہت زور سے پائی جاتی ہے مگر اگر تناسب دیکھیں تو بسا اوقات آپ کو یہی دکھائی دے گا کہ عورتوں میں مردوں کی نسبت یہ عادت زیادہ ہے.اپنی قومیت پر فخر کرنا.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ ہیں.کسی دوسری عورت کے متعلق کہنا کہ فلاں تو کمینی ذات کی عورت ہے یا فلاں ہم سے نیچی ذات کی ہے.نیز اگر غریب عورت ان میں بیٹھی ہوئی ہو تو بعض دفعہ امیر عورتوں کو جوا چھے لباس میں ملبوس ہوں آنکھ ہی آنکھوں میں یہ پیغام دے دیتی ہیں کہ ذرا اس عورت کی طرف بھی دیکھو کپڑے کیسے بھونڈے ہیں.“ ( ملفوظات جلد پنجم ص ۲۹) اب یہ پیغام دینا تو عورتوں کو ہی آتا ہے اس کا خاص سلیقہ ان کو حاصل ہے ان کے اندر دیا ہوا ملکہ ہے کہ جس کی کوئی نقالی نہیں ہو سکتی.ہلکے سے اشارے سے بات سمجھا دیتی ہیں کہ دیکھو اس کے رنگوں کا امتزاج کیسا گندا ہے، کپڑے کیسے بھونڈے ہیں، ہاتھ دیکھے ہیں زیور کوئی بھی نہیں.اب یہ

Page 610

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات خطاب ۳۱ جولائی ۱۹۹۹ء باتیں تو اکثر مرد میں نہیں پائی جاتیں ان کو خیال ہی نہیں آتا کہ کسی نے کیسی گھڑی پہنی ہوئی ہے کون سا زیور پہنا ہوا ہے اس کا واہمہ بھی نہیں آتا تو جن کو چغل خوری کی عادت بھی ہو ان میں یہ بیماری تو بہر حال نہیں ملتی یہ تو عورتوں کی خصوصیت ہے اللہ ان کو اس خصوصیت سے محفوظ رکھے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان ساری باتوں کو ملفوظات میں بیان فرمایا ہے.فرماتے ہیں: عورتوں میں چند عیب بہت سخت ہیں اور کثرت سے ہیں ایک شیخنی کرنا کہ ہم ایسے ہیں اور ایسے ہیں پھر یہ کہ قوم پر فخر کرنا کہ فلاں تو کمینی ذات کی عورت ہے یا فلاں ہم سے نیچی ذات کی ہے پھر یہ کہ اگر کوئی غریب عورت ان میں بیٹھی ہوئی ہے تو اس سے نفرت کرتی ہیں اور اس کی طرف اشارے شروع کر دیتی ہیں کہ کیسے غلیظ کپڑے پہنے ہیں زیور اس کے پاس کچھ بھی نہیں وغیرہ وغیرہ.( ملفوظات جلد پنجم صفحه ۲۹ جدید ایڈیشن) پھر فرماتے ہیں: " قرآن کریم کی یہ تعلیم ہر گز نہیں ہے کہ عیب دیکھ کر اسے پھیلاؤ اور دوسروں سے تذکرہ کرتے پھرو بلکہ وہ فرماتا ہے تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ (البلد : ۱۸) کہ وہ صبر اور رحم سے نصیحت کرتے ہیں مرحمہ یہی ہے کہ دوسرے کے عیب دیکھ کر اسے نصیحت کی جاوے اور اس کے لئے دعا بھی کی جاوے دعا میں بڑی تاثیر ہے اور وہ شخص بہت ہی قابل افسوس ہے کہ ایک کے عیب کو بیان تو سو مرتبہ کرتا ہے لیکن دعا ایک مرتبہ بھی نہیں کرتا.“ سعدی کے ایک شعر کا حوالہ دے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ تو جان کر پردہ پوشی کرتا ہے مگر ہمسایہ کو علم نہیں ہوتا اور وہ شور کرتا پھرتا ہے.“ ( ملفوظات جلد چہارم ص: ۴۰ ۴۱) اب دیکھیں یہ کیسی گہری حکمت کی بات ہے خدا تعالیٰ کو علم ہے کہ گھروں کے اندر کیا ہورہا ہے اور وہ پردہ پوشی فرما رہا ہے اور ہمسایہ جس کو پتہ ہی نہیں کہ دوسرے گھر میں کیا ہو رہا ہے وہ باہر بیٹھا شور مچا رہا ہے کہ اس گھر میں یہ ہوتا ہے اور وہ ہوتا ہے یہ ایک ایسی بد عادت ہے جو ظاہر وباہر ہے اس سے

Page 611

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات پر ہیز کرنا چاہئے.پھر فرماتے ہیں: ۶۰۷ خطاب ۳۱؍ جولائی ۱۹۹۹ء ”خدا تعالیٰ کا نام ستار ہے ( یعنی پردہ پوشی کرنے والا ) تمہیں چاہئے کہ تَخلَّقُوا بِأَخْلاقِ الله نو (چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے اخلاق میں رنگین ہو اور جیسے وہ ستار ہے ویسے تم بھی ستار بنو ) ہمارا مطلب یہ نہیں یہ کہ عیب کے حامی نہ بنو بلکہ یہ کہ اشاعت اور غیبت نہ کرو.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحه ۶۱ ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں جہاں ایک ہی مضمون پر تکرار ہے وہاں کوئی نہ کوئی نیا نقطہ بھی ضرور بیان فرما دیا ہے.اس لئے بظاہر لوگ سمجھتے ہوں گے کہ یہ ایک ہی بات کی تکرار ہے مگر حقیقت میں تکرار نہیں ہے کوئی نہ کوئی نیا نقطہ ایسا موجود ہوتا ہے جس کو پیش کرنے کے لئے وہ عبارت غور سے پڑھنی پڑتی ہے.فرماتے ہیں.اللہ تعالیٰ کا کسی سے رشتہ ناطہ نہیں.اس کے ہاں اس کی بھی کچھ پروا نہیں کہ کوئی سید ہے یا کون ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فاطمہ سے کہا کہ یہ خیال مت کرنا کہ میرا باپ پیغمبر ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر کوئی بھی بیچ نہیں سکتا.کسی نے پوچھا کیا آپ بھی ؟ فرمایا ہاں میں بھی.مختصر یہ کہ نجات نہ قوم پر منحصر ہے نہ مال پر بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحه ۴۹۵ ) اور فضل جو ہے وہ دعا کے نتیجے میں نازل ہوتا ہے اور بعض دفعہ بغیر دعا کے بھی نازل ہوتا ہے یہ جو اپنے بس میں نہیں ہوتا.پس دعا کے ذریعے کوشش کرتی رہیں اور خدا کرے کہ خدا کا فضل بغیر دعا کے بھی آپ پر نازل ہوتا رہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے غیبت کا حال پوچھا فرمایا کہ : ”کسی سچی بات کا اس کی عدم موجودگی میں اس طرح سے بیان کرنا کہ اگر وہ موجود ہوتو اسے برا لگے غیبت ہے.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحه ۶۰) غیبت سے مراد یہ نہیں ہے کہ جھوٹی بات گھڑ کر بیان کی جائے بات سچی ہوگی اور اسی سچی بات

Page 612

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۶۰۸ خطاب ۳۱ جولائی ۱۹۹۹ء کے نتیجے میں عورتوں میں دلیری بھی پیدا ہو جاتی ہے بعض دفعہ وہ کہتی ہیں ہاں ہم جانتی ہیں پکی بات ہے مگر جب وہ شخص جس کے متعلق بات کر رہے ہوں وہ موجود ہو تو ایک دم ان کی زبان بند ہو جاتی ہے.اگر سچی بات ہے تو اب کیوں بولنے کی توفیق نہیں مل رہی اس لئے یہ نفس کا دھوکہ ہے.بات اگر کچی ہو اور غیر حاضری میں کی جائے تو اسی کا نام غیبت ہے.فرمایا اگر وہ بات اس میں نہیں ہے جو بیان کی جارہی ہے وہ بچی نہیں ہے تو اس کو بہتان کہتے ہیں.اس کا نام غیبت نہیں ہے.تو سچی بات جو آپ کے ذہن میں کچی ہو اس کے علم کو اپنے تک محدود رکھنے کی بجائے دوسروں میں پھیلا نا یہ غیبت ہے اور جو جھوٹ بولا جا رہا ہے وہ تو سراسر بہتان ہے اس کے دو گناہ ہوں گے غیبت کا بھی اور کسی پر جھوٹ گھڑنے کا گناہ بھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے محاورے دیکھیں کیسے کیسے پھیر پھیر کر لفظوں کو بیان کرتے ہیں اور مختلف تمثیلات میں بات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.ول تو اللہ تعالیٰ کی صندوقچی ہوتا ہے اور اس کی کنجی اس کے پاس ہوتی ہے کسی کو کیا خبر کہ اس کے اندر کیا ہے.“ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 11 جدید ایڈیشن) دل تو اللہ تعالیٰ کی صندوقچی ہوتا ہے اور اس کی کنجی اس کے پاس ہوتی ہے سو عورت اپنی صندوقچی کی کٹھی اپنے پاس رکھتی ہے سنبھال کے.اللہ تعالی اپنی صندوقچی یعنی دل کی کنفی اپنے پاس ہی رکھتا ہے دوسرے کو اختیار نہیں دیتا کہ وہ کسی کا دل کھولتے پھریں فرمایا: کسی کو کیا خبر کہ اس کے اندر کیا ہے تو خواہ مخواہ اپنے آپ کو گناہ میں ڈالنا کیا فائدہ.حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایک شخص بڑا گناہ گار ہوگا خدا تعالیٰ اس کو کہے گا کہ میرے قریب ہو جا.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 11 جدید ایڈیشن) اب دیکھیں اس ضمن میں یہ بات بہت ہی عظیم الشان اور بہت ہی پیاری ہے اور خدا کرے کہ سب گناہگاروں سے ہم میں سے ، ہم سب گناہگاروں سے ایسا ہی سلوک فرمائے اللہ تعالیٰ فضل کا کہ جب گناہوں کو دیکھتے ہیں تو لگتا ہے کہ ایسے پہاڑ ہیں کہ انسان کی بخشش کا کوئی انتظام نہیں ہوسکتا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے کامل وجود کو بھی اگر فضل ہی بچائے گا تو ہم گناہگاروں کا کیا حال ہوگا.بعض دفعہ انسان دیکھتا ہے اپنے گناہوں کو تو جتنی نظر گہری جاتی ہے اتنا ہی مایوس ہوتا چلا جاتا ہے.مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیثیں ہیں جو مایوسی سے انسان کو بچا لیتی ہیں.

Page 613

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات آپ فرماتے ہیں: ۶۰۹ خطاب ۳۱ جولائی ۱۹۹۹ء ایک شخص بڑا گناہگار ہوگا خدا تعالیٰ اس کو کہے گا کہ میرے قریب ہو جا یہاں تک کہ اس کے اور لوگوں کے درمیان اپنے ہاتھ سے پردہ کر دے گا.(ہاتھ سے مراد ہے قدرت سے، بیچ میں کوئی حائل نہیں ہوگا ) اور اس سے پوچھے گا کہ تو نے فلاں گناہ کیا فلاں گناہ کیا لیکن چھوٹے چھوٹے گناہ گنائے گا.“ ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 11 جدید ایڈیشن) تو چھوٹے گناہ کہنے کی تو انسان میں جرات ہوتی ہی ہے وہ کہہ دے گاہاں جی میرے خدا میں نے کئے.بہت مزے کی حدیث ہے.یعنی یہ بھی گناہ کیا یہ بھی گناہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ فرمائے گا کہ ہر ایک گناہ کے بدلے دس دس نیکیوں کا ثواب تجھے دیا ہے.اب یہ سن کر اس سودائی کو خیال ہوگا کہ چھوٹے گناہوں کا یہ اجر ہے تو بڑے گناہ کیوں نہ بیان کروں.ان کا تو ہزاروں گنا زیادہ اجر ہوگا یہ سوچ کر وہ کہے گا اب تو مجھے بڑے گناہ بیان کرنے ضروری ہو گئے ہیں وہ اپنے بڑے بڑے گناہ بیان کرنا شروع کر دے گا.کہ اے خدا! یہ تو کچھ بھی نہیں گویا خدا کو پتہ نہیں تھا میرے تو اندر کھول کر دیکھو اتنے گناہ کئے ہوئے ہیں کہ حساب نہیں اتنا بڑا گناہ ، اتنا بڑا گناہ اور گناہ کے چکر میں پھنس کر اس کا دماغ ہی گھوم جائے گا ایک گناہ سے نکلے گا دوسرے گناہ کی بات شروع کر دے گا.فرمایا! اللہ تعالیٰ اس کی یہ بات سن کر ہنسے گا کہ دیکھو کیسی جرات ہوگئی بات اور ہوئی تھی اور کہاں سے کہاں پہنچ گیا.فرمائے گا دیکھو میری مہربانی کی وجہ سے بندہ دلیر ہوگیا اگر میں مہربان نہ ہوتا تو اس کو کہاں یہ جرات تھی کہ ایسی سچی باتیں کرتا پھر اسے حکم دے گا کہ جا بہشت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس سے تیری طبیعت چاہے داخل ہو جا.اب دنیا کے تصور میں ہم سمجھتے ہیں گویا گیٹ بنے ہوئے ہیں.گیٹ نہیں بنے ہوئے مراد یہ ہے کہ ہر گناہ کے بھی کچھ دروازے سے نظر آتے ہیں جن کے ذریعے انسان جہنم میں داخل ہوتا ہے اس نے تو اپنی طرف سے جہنم کے گیٹ بنائے ہوئے تھے.اللہ فرمادے گا ان سب دروازوں کو میں جنت کے دروازوں میں تبدیل کر دیتا ہوں جیسی پسند ہو جس راہ سے چاہو تو میرے قریب آجا.اس پر ایک حدیث ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اگر چہ اس کی سند نہیں مگر یہ حدیث بالکل سچی لگتی ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے.

Page 614

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۱۰ خطاب ۳۱؍ جولائی ۱۹۹۹ء س مشـ ــــــــت خـــــــــاک را گرنه بخشم چه کنم اس خاک کی مٹھی کو اگر میں بخشوں نہیں تو کیا کروں.یہ میری ہی شان تھی کہ اس خاک کو آسمان تک پرواز دے دی اور اب اس کی بخشش میرے فضل پر ہی منحصر ہے ایں مشت خاک را گر نہ بخشم چہ کنم اگر اس خاک کی مٹھی کو میں بخشوں نہیں تو اور کیا کروں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بدظنی کے تعلق میں مولویوں کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.اگر مولوی لوگ ہم سے بدظنی نہ کرتے اور صدق اور استقلال کے ساتھ وہ ہماری باتیں سنتے ہماری کتابیں پڑھتے اور ہمارے پاس رہ کر ہمارے حالات کا مشاہدہ کرتے تو ان الزامات کو جو وہ ہم پر لگاتے ہیں ہرگز نہ لگاتے.لیکن جب انہوں نے خدا تعالیٰ کے اس ارشاد کی عظمت نہ کی اور اس پر کار بند نہ ہوئے تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھ پر بدظنی کی اور میری جماعت پر بھی بدظنی کی اور جھوٹے الزامات اورا بہتامات لگانے شروع کر دیئے یہاں تک کہ بعض نے بڑی بے باکی سے یہ لکھ دیا کہ یہ تو دہریوں کا گروہ ہے اور یہ لوگ نماز میں نہیں پڑھتے ، روزے نہیں رکھتے وغیرہ وغیرہ.اب اگر وہ اس بدظنی سے بچتے تو ان کو جھوٹ کی لعنت کے نیچے نہ آنا پڑتا اور وہ اس سے بچ جاتے.میں سچ کہتا ہوں کہ بدظنی بہت ہی بری بلا ہے جو انسان کے ایمان کو تباہ کر دیتی ہے اور صدق اور راستی سے دور پھینک دیتی ہے اور دوستوں کو دشمن بنادیتی ہے.صدیقوں کے کمال حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان بدظنی سے بہت ہی بچے اور اگر کسی کی نسبت کوئی سوئے ظن پیدا ہو تو کثرت کے ساتھ استغفار کرے اور خدا تعالیٰ سے دُعائیں کرے تا کہ اس معصیت اور اس کے برے نتیجہ سے بیچ جاوے.“ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۲۴۶ جدید ایڈیشن) بعض لوگوں کو شاید علم نہیں کہ ایک فرقہ مسلمانوں میں سلامتی فقیروں کا بھی تھا اور ملامتی فقیروں کا حال یہ تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ ہم اگر گندے دکھائی دیں گے تو اس سے ہماری بخشش ہوگی.چنانچہ ایک

Page 615

حضرت خلیفہ آسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۶۱۱ خطاب ۳۱ جولائی ۱۹۹۹ء شراب کی بوتل میں پانی ڈال کر پاس رکھ لیتے تھے اور گھونٹ پیتے تھے اور مست ہوتے تھے حالانکہ وہ صرف پانی ہوا کرتا تھا دیکھنے والے سمجھتے تھے کہ یہ جو بڑا نیک بنا پڑتا ہے یہ شرابی کہابی ہے اور جب وہ سمجھتے تھے کہ دنیا ہمیں بُری آنکھ سے دیکھ رہی ہے تو خیال کرتے تھے کہ اللہ اب ہم پر فضل کر دے گا.یہ سب نفس کے بہانے ہیں، سچائی وہی ہے جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی اس لئے نجات کی راہیں کسی اور فرقے میں اس کی عادات میں تلاش نہیں کرنی چاہئے حقیقت میں تمام نجات کی را ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی راہوں سے وابستہ ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.ایک قوم دوسری قوم سے ٹھٹھہ نہ کرے ہو سکتا ہے کہ جن سے ٹھٹھہ کیا گیا ہے وہی اچھے ہوں.بعض عورتیں بعض عورتوں سے ٹھٹھہ نہ کریں ہوسکتا ہے جن سے ٹھٹھہ کیا گیا ہو وہی ان سے اچھی ہوں.اور عیب مت لگاؤ اپنے لوگوں کے برے برے نام مت رکھو.بدگمانی کی باتیں مت کرو اور نہ عیبوں کو کرید کرید کر پوچھو.ایک دوسرے کا گلہ مت کرو.تم ایک دوسرے کے چڑ کے نام نہ ڈالو.ی فعل فساق اور فجار کا ہے.“ ( ملفوظات جلد اول ص ۲۳) ہر وہ نام جو پیار سے چھوٹا کر دیا جائے وہ اصل نام سے کچھ مختلف تو ہوتا ہے مگر وہ چڑ کا نام نہیں ہے چڑ کا نام وہی ہے جو چھوٹا کیا جائے اور کسی کو پسند نہ ہو کہ میرے متعلق یہ کہا جائے تو ایسے نام نہیں لینے چاہیں جس کو سن کر کوئی شخص چڑ جاتا ہے.فرماتے ہیں.” جو شخص کسی کو چڑاتا ہے وہ نہ مرے گا جب تک وہ خود اس طرح مبتلا نہ ہوگا.اپنے بھائیوں کو حقیر نہ سمجھو.“ ( ملفوظات جلد اول ص ۲۳) یہاں غالباً ایک لفظ چھٹ گیا ہے جو ہونا چاہئے تھا وہ نہ مرے گا جب تک وہ خود اس طرح مبتلا نہ ہوگا یہ نہ کا لفظ یہاں لکھنے میں رہ گیا ہے.اپنے بھائیوں کو حقیر نہ سمجھو جب ایک ہی چشمے سے گل پانی پیتے ہو تو 66 کون جانتا ہے کہ کس کی قسمت میں زیادہ پانی پینا ہے.“ یہاں لفظ بھائی استعمال ہوا ہے مگر تمام خواتین بھی اس میں برابر کی شریک ہیں اور بسا اوقات قرآن کریم کے محاورے سے پتہ چلتا ہے کہ مرد کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے لیکن عورتیں بھی اس میں

Page 616

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات شامل ہوتی ہیں.۶۱۲ خطاب ۳۱ جولائی ۱۹۹۹ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی خدمت میں بعض ہندو اور بدھ مذاہب والے لوگ بھی حاضر ہو کر اپنی تکلیفیں پیش کیا کرتے تھے.ایک روز ایک ہندو عورت نے کسی دوسری عورت کا گلہ کیا کہ فلاں ایسی ہے فلاں مجھے یوں تنگ کرتی ہے.آپ نے فرمایا کہ ”دیکھو یہ بہت بری عادت ہے جو خصوصاً عورتوں میں پائی جاتی ہے چونکہ مرد اور کام بہت رکھتے ہیں اس لئے ان کو شاذ و نادر ہی ایسا موقع ملتا ہے کہ بے فکری سے بیٹھ کر آپس میں باتیں کریں اور اگر ایسا موقع بھی ملے تو ان کو اور بہت سی باتیں ایسی مل جاتی ہیں جو وہ بیٹھ کر کرتے ہیں لیکن عورتوں کو نہ علم ہوتا ہے اور نہ کوئی ایسا کام ہوتا ہے.“ یہاں یا درکھیں سب دنیا کی عورتیں مراد نہیں ہیں وہ خاص معاشرہ ہے خاص ماحول ہے خاص سوال کرنے والی کا پس منظر ہے جس کو مد نظر رکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ جواب د.رہے ہیں.پس وہ لاعلم عورتیں جو اس معاشرے میں بکثرت پائی جاتی تھیں ان کا ذکر ہور ہا ہے.فرمایا: اس لئے سارے دن کا شغل سوائے گلہ اور شکایت کے کچھ نہیں ہوتا.“ فرمایا: ایک شخص تھا اس نے کسی دوسرے کوگناہگار دیکھ کر خوب اس کی نقطہ چینی کی اور کہا کہ تو دوزخ میں جائے گا.قیامت کے دن خدا تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ کیوں تجھ کو میرے اختیار کس نے دیئے ہیں.دوزخ اور بہشت میں بھیجنے والا تو میں ہی ہوں تو کون ہے سو ہر ایک انسان کو سمجھنا چاہئے کہ ایسا نہ ہو کہ میں ہی الٹا شکار ہو جاؤں.“ (ملفوظات جلد پنجم ص ۱۱) اب صرف دو اقتباس باقی ہیں اور جب یہ ختم ہوں گے تو میں بھی اس خطاب کو ختم کر دوں گا پھر دعا میں آپ لوگ شامل ہو جا ئیں.پھر انشاء اللہ آگے آج کا بڑا بھاری دن ہے جس میں شام کی تقریر میں تمام دنیا کی جماعتوں کی ترقیات اور وہ دلچسپ واقعات بیان ہونے ہیں جو اعجازی شان اپنے اندر رکھتے ہیں اس سے انشاء اللہ آپ کے ایمانوں کو بہت تقویت ملے گی.وہ اعداد وشمار کا بیان

Page 617

۶۱۳ خطاب ۳۱ جولائی ۱۹۹۹ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات کرنے کا دن ہے.خدا کے فضلوں کو یاد کر رہے ہوں گے لیکن آپ جانتی ہیں کہ اعداد و شمار کے بیان کے وقت بہت سے لوگ توجہ کھو دیتے ہیں.کسی مقرر نے کہا تھا کہ اگر کوئی سو جائے تو یہ نہیں کہا کہ اس کو چٹکی کاٹو اس نے کہا مجھے چٹکی کاٹو.تو مجھے چنگی تو نہ کاٹیں لیکن اگر سو جائے تو اس کو جگانے کی ذمہ داری بھی تو میرے اوپر ہی ہے اس لئے میں کوشش یہی کرتا ہوں، بھر پور کوشش کرتا ہوں کہ اعداد و شمار کے مضمون کو ایسے واقعات سے سجاتا چلا جاؤں جو عام فہم ہوں جو دلوں میں محبت پیدا کریں تحریک پیدا کریں اور خدا کرے کہ میں اس میں کامیاب ہو جاؤں تو آج کا دن چونکہ بہت بوجھل دن ہے اس لحاظ سے لیکن بو جھل کیا ہے اللہ ہی ان بوجھوں کا خود اٹھاتا ہے ہمارا تو نام لگتا ہے.بچوں کے ساتھ ابھی تو یہی سلوک ہے.بسا اوقات بو جھل چیزیں اس کو دیتی ہیں کہ اس کو اٹھاؤ اٹھاتی خود ہیں اور بچہ سمجھتا ہے میں نے اٹھالی ہے.ہم بھی اس لحاظ سے بچے ہی ہیں.اللہ تعالیٰ کا فضل چاہئے وہ سارے بوجھ ہلکے کر دے گا صرف دعا ہونی چاہئے.فرماتے ہیں.پس ذاتوں پر ناز اور گھمنڈ نہ کرو.یہ نیکی کے لئے روک کا باعث ہو جاتا ہے.ہاں ضروری یہ ہے کہ نیکی اور تقویٰ میں ترقی کرو.خدا تعالیٰ کے فضل اور برکات اسی راہ سے آتے ہیں میں خوب جانتا ہوں کہ ہماری جماعت اور ہم جو کچھ ہیں اسی حال میں اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کی نصرت ہمارے شامل حال ہوگی کہ ہم صراط مستقیم پر چلیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اور کچی اتباع کریں.قرآن شریف کی پاک تعلیم کو اپنا دستور العمل بنالیں اور ان باتوں کو ہم اپنے عمل اور حال سے ثابت کریں نہ صرف قال سے.اگر ہم اس طریق کو اختیار کریں گے تو یقیناً یا درکھو کہ ساری دنیا بھی مل کر ہم کو ہلاک کرنا چاہے تو ہم ہلاک نہیں ہو سکتے اس لئے کہ خدا ہمارے ساتھ ہوگا.“ اور آخر پر ایک فقرہ ہے صرف ایک ہی فقرہ میں آپ کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیش کرتا ہوں یہ بہت ہی گہرا ہے بہت عارفانہ ہے.فرمایا: پلید دل سے پلید باتیں نکلتی ہیں اور پاک دل سے پاک باتیں نکلتی ہیں.انسان اپنی باتوں سے ایسا ہی پہچانا جاتا ہے جیسے کہ درخت اپنے پھلوں سے.“

Page 618

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۶۱۴ خطاب ۳۱ جولائی ۱۹۹۹ء پس آپ احمدیت کے درخت کے پھل ہیں اور خدا کرے کہ آپ سے احمدیت اس طرح پہچانی جائے جیسے درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے اور اس میں آپ کی سچائی کا بہت بڑا دخل ہے.درخت کا پھل تو سچا ہوتا ہے.اپنے درخت کے اندرونی اثرات بیان کر دیتا ہے.اگر میٹھا پھل ہے تو پتہ لگے گا کہ وہ درخت ہی میٹھا ہے تو خدا کرے کہ آپ کا میٹھا پھل سب کی نظر میں آجائے اور اس میں کوئی جھوٹ اور کوئی تصنع نہ ہو.واقعہ جماعت احمدیہ ہی ایک درخت ہے جس کو میٹھے پھل لگتے ہیں.اللہ کرے کہ آپ کو میری ان باتوں کی سمجھ آئے اور یہ آپ کے دلوں کی گہرائی تک اتر جائیں کیونکہ میری باتیں کیا ہیں یہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں ہیں اور وہ باتیں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے مجھی ہیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آئیے اب میرے ساتھ دُعا میں شامل ہو جائیں.

Page 619

حضرت خلیفہ مسیح الرابع " کے مستورات سے خطابات ۶۱۵ خطاب ۲۲ راپریل ۲۰۰۰ء استقامت کے شیریں ثمرات نیز پردہ کی نصیحت خطاب جلسہ سالانہ مستورات ہالینڈ فرموده ۲۲ را پریل ۲۰۰۰ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: الحمد للہ کہ اسی کے فضل کے ساتھ ہمارالجنہ کا یہ اجتماع بہت کامیاب ہے کئی پہلو کے لحاظ سے اول تو لجنہ ہالینڈ کی حاضری ناصرات سمیت ما شاء اللہ اتنی ہو چکی ہے کہ کسی زمانے میں سب مردوں عورتوں کی ملا کر اس سے آدھی بھی نہیں ہوا کرتی تھی.دوسرے ساتھ کے ممالک سے بھی خدا تعالی کے فضل سے کافی مہمان تشریف لائے ہوئے ہیں اور کل تعداد بیرونی ممالک کے آنے والوں کی ۳۱ ہے.یہ تو محض تمہیدی کلمات تھے.اب میں آپ کے سامنے ایک بات بیان کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا: إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا ( حم السجدہ : ۳۱) یہ وہ چیز ہے جس کی خصوصیت کے ساتھ اس وقت لجنہ اماءاللہ کو بھی اور مردوں کو بھی ضرورت ہے کہ وہ اس پیغام کو سمجھیں جو اللہ تعالی نے ان کو عطا فرمایا ہے.بہت سے خطوط ملتے رہتے ہیں کہ اب ہمیں نکال دیا گیا ہے اب ہم نکال دیئے جائیں گے ہمیں واپس اپنے ملک بھیج دیا جائے گا غرضیکہ بہت سے ایسے پریشانی اور گھبراہٹ کے خط ملتے ہیں لیکن وہ لوگ یہ نہیں سوچتے کہ اللہ جو یہاں انکا رب ہے وہ وہاں بھی ان کا رب ہے.سب سے ضروری بات یہ ہے کہ اس بات پر انسان قائم رہے کہ ہمارا رب اللہ ہے نہ اس دنیا کی کوئی حکومت ہے ہر جگہ ایک ہی خدا ہے اور جس کو وہ چاہتا ہے بے حساب روزی عطا فرما دیتا ہے.پس ایسی گھبراہٹ اور پریشانی دراصل شرک پر منتج ہوتی ہے اور رفتہ رفتہ ایسے لوگوں کو جھوٹ بولنے کی بھی عادت پڑتی جاتی ہے اور وہ جھوٹ بول کے رزق کی خاطر اپنی عاقبت بھی

Page 620

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۶۱۶ خطاب ۲۲ راپریل ۲۰۰۰ء گندی کر لیتے ہیں.تو اس بارے میں میں نے بارہا پہلے بھی سمجھایا ہے اب بھی میں سمجھتا ہوں کہ اس کی ضرورت ہے کہ آپ ہر گز اس بات کی فکر نہ کریں اور اس بناء پر جھوٹ نہ بولیں کہ یہاں آپ کو رزق ملتا ہے ورنہ وہ گندا رزق کھانے کا کیا فائدہ.دیکھئے جب آپ کہتی ہے کہ ربنا الله.اللہ ہمارا رب ہے تو سوچ سمجھ کر کہا کریں یقین کے ساتھ کہا کریں اللہ کے سوا اور کوئی رب نہیں.جب یہ کہا جائے اور پورے خلوص سے کہا جائے تو پھر ابتلا بھی آتے ہیں، بہت تیز آندھیاں چلتی ہیں.جھگڑہ چلتے ہیں کہ کسی طرح اس مضبوط تر درخت کو جو پاک درخت ہے، پاکیزہ کلمات کا درخت ہے.اس کو اکھیٹر پھینکیں.اور جو کمزور ہوں وہ تو ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے ان ک تو یہ آندھیاں اکھاڑ پھینکتی ہیں اور وہ شجرہ طیبہ کی بجائے ایک شجرہ خبیثہ بن کر دنیا میں اِدھر اُدھر لڑھکتے پھرتے ہیں.دراصل تو آخرت ہے جس کی حفاظت کی ضرورت ہے اور جب انسان ثابت قدمی دکھائے تو اسی دنیا میں اس کو وہ آخرت کی ضمانت مل جاتی ہے.یہ خیال نہ کریں کہ بعد کا وعدہ ہے جو شاید پورا ہو شاید نہ ہو یہ ایسا وعدہ ہے جو اسی دنیا میں پورا ہو جاتا ہے.چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے.کہ وہ جو یہ عہد کرتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر تو کل کرتے ہیں اس پر قیام پکڑ لیتے ہیں.تنزل عليهم الملائكة.ان پر فرشتے کثرت سے نازل ہوتے ہیں ایسے فرشتے جو پیغام دیتے ہیں نحن اولیاء کم فی الحياة الدنيا وفي الآخرة كم ہم تو اس دنیا میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی تمہارے ساتھی ہیں.پس دنیا میں ان کی زندگی جس میں فرشتے ان کے ساتھ ہوتے ہیں وہ اس بات کی ضمانت ہو جاتی ہے کہ آخرت بھی انہی کی ہوگی اور ایسے فرشتے جو بولتے ہوئے کلام کرتے ہوئے آتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں پس یہ وہ خوش قسمت ہیں جن کو ایسے فرشتوں کی آواز سنائی دے، خواہ کچی خوابوں کے ذریعے ، خواہ کشوف کے ذریعے خواہ الہامات کے ذریعے مگر جب تک یہ بات پوری نہ ہو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک یقینی شہادت مل جائے.اس وقت تک آپ اطمینان نہ کریں کہ آپ کا انجام بخیر ہے.میں سمجھتا ہوں کہ بکثرت احمدیوں میں ایسے لوگ موجود ہیں مرد بھی اور عورتیں بھی جو پوری استقامت کے ساتھ اپنے عہد پر قائم ہیں اور اللہ تعالی کے فضل سے ان پر فرشتے اترتے بھی ہیں اور بہت سے خطوط میں کثرت سے لوگ مجھے ایسے ایسے امور لکھتے ہیں جن سے قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ ان پر جو کچھ بھی نازل ہوا وہ اللہ کا کلام تھا فرشتے لے کر آئے تھے اور اللہ کے فضل کے ساتھ ان کو اس کلام کے نتیجے میں مزید استقامت ملتی ہے ، ان کی توفیق خدا پر توکل کی پہلے سے بڑھ جاتی ہے.پس

Page 621

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۱۷ خطاب ۲۲ راپریل ۲۰۰۰ء آپ لوگوں کو کیا فکر ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں زبردستی یہاں سے نکال دیا جائے گا.اگر زبردستی نکالنا ان لوگوں کے بس کی بات ہو تو تب بھی بات ہے مگر یہ بھی تو اللہ ہی کے بس کی بات ہے اللہ جسے بچانا چاہے کوئی اس کو ہٹا نہیں سکتا، کوئی اس کو گزند نہیں پہنچا سکتا.یہ بھی تو تو کل کا معنی ہے اور امر واقعہ ہے کہ بہت سے ایسے لوگ جو اس لحاظ سے یقین رکھتے تھے کہ خدا کی مرضی کے بغیر ہمیں کوئی ایک ملک سے دوسرے ملک میں نہیں بھیج سکتا حیرت انگیز طور پر اللہ تعالی نے ان کی مدد بھی فرمائی.بعضوں کو ابتلاء آیا واپس جانے کا وہ اس پر ثابت قدم رہے، بعضوں کو خدا تعالی نے اسی ملک میں محفوظ رکھا اور یہاں تک کہ یہاں بھی اور باقی جگہوں میں بھی حکومت آخری فیصلے کر بیٹھی تھی کہ ان کو لازماً بھجوا دیا جائے گا.پھر کچھ نہ کچھ ان کی تائید میں ایسی بات ظاہر ہوئی جس کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل کے ساتھ ان کو یہاں یا دوسرے مغربی ملکوں میں پناہ مل گئی.تو کسی صورت میں بھی خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوں.مایوسی تو کفر ہے اور شیطان کی صفت ہے مایوس ہونا.جب آپ خدا کے فضلوں سے مایوس نہیں ہونگی تو اللہ تعالی کے فضل آپ کو مزید استقامت بخشیں گے اور آپ کی وہ دعائیں بھی قبول ہو جائیں گی.جوان کہی دعائیں ہیں ان کہی دعاؤں سے مراد یہ ہے کہ بسا اوقات دل سے دعائیں اٹھی ہیں اور ابھی ان کے لفظ بھی نہیں بنے ہوتے کہ اللہ تعالی کے ہاں قبول ہو جاتی ہیں.پس ایسے دعائیں مانگیں، جو دل سے اُٹھا کرتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ایک شرط بھی ہے کہ دعائیں اپنوں ہی کے لئے نہیں، اپنے لئے ہی نہیں بلکہ غیروں کے لئے بھی مانگیں ، بہت سے فلاکت زدہ ہیں، بہت مصیبتوں سے دنیا بھری پڑی ہے اور اگر آپ نظر ڈالیں تو آپ ہزاروں لاکھوں سے بہتر ہوگی.دیکھیں تو سہی زمبابوے میں کیا ہورہا ہے اور افریقین ممالک میں اور مغربی ممالک میں سے بھی بعض کو سود وغیرہ میں اتنے بھیا نک مظالم ہو رہے ہیں اور پھر چیچنیا میں جو ظلم ہو رہے ہیں ان پر نگاہ کریں، کس طرح ننگے سر چادر میں اتاری ہوئی عورتیں اپنے بچوں کو سنبھالے ہوئے بھاگی جارہی ہیں اور پھر وہ بھی دشمن کی زد میں آکر ہلاک ہو جاتی ہیں.ماؤں کو بچوں کا نہیں پتہ لگتا ، بچوں کو ماؤں کی خبر نہیں رہتی.تو دنیا پر نظر کریں ان کے لئے بھی دل در دمند کریں کیونکہ یہ دعاؤں کی قبولیت کا ایک گر ہے.جہاں اپنے لئے دعا کریں وہاں دنیا کے دوسرے دُکھے دلوں والوں کے لئے بھی دعا کریں خواہ انکا کوئی بھی مذہب ہو.غم کا کوئی مذہب نہیں ہوا کرتا دکھوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، نہ ان کا رنگ ہوتا ہے نہ ان کا مذہب دکھ دیکھ ہی ہیں تمام انسان کے دکھ برابر ہیں اس لئے جب آپ خدا کے بندوں کے دکھوں میں شریک ہونگی تو اللہ لازماً آپ کے دکھوں

Page 622

حضرت خلیفتہ اسے الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۱۸ خطاب ۲۲ اپریل ۲۰۰۰ء میں شریک ہو جائے گا.سب سے بہتر غمگسار اللہ تعالی ہی ہے ورنہ دنیا کے غم تو انسان کو پاگل کر دیتے ہیں.بہت سی ایسی خواتین ہیں جن کے جوان بچے فوت ہو جاتے ہیں، حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں ان کو چین ہی نہیں آتا.ان کو یہ سوچنا چاہئے کہ ایسی بھی ہیں مائیں جن کا سب کچھ جا تا رہا، نہ خاوند رہا،نہ بھائی رہا، نہ بچے رہے تو جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے تم اپنے سے نیچے نگاہ کرو تو پھر تمہیں شکر کی توفیق ملے گی.اگر او پر ہی دیکھتے رہو گے کہ ہم سے اچھے کون کون ہیں تو اس کے نتیجے میں تو حسد پیدا ہو گا یا رشک پیدا ہوگا اور کچھ بھی ہاتھ نہ آئے گا لیکن اگر اپنے سے نیچے کو دیکھیں کہ ہم سے زیادہ بدتر حال کتنی دنیا ہے جو سک رہی ہے تو لاکھوں کروڑوں بچے فاقوں کا شکار ہورہے ہیں ، بے شمار عورتیں ہیں جوا اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بچوں کو بھوکا مرتے ہوئے دیکھتی ہیں اور بھوک سے مرے ہوئے بچوں کو دفنانا پڑتا ہے.تو ان سب چیزوں کی طرف بھی تو نگاہ کیا کریں کیونکہ جب یہ کہا کہ رَبُّنَا الله کہ اللہ ہمارا رب ہے.تو یہ سارے امور پیش نظر رکھ کر یہ کہا کریں کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر اپنے رب سے شکوہ کیسے ہو سکتا ہے جب کہہ دیا کہ اللہ ہمارا رب ہے تو پھر : ہو فضل تیرا یارب یا کوئی ابتلا ہو راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تیری رضا ہو یہ وہ دل کی آواز اٹھتی ہے جو ہر مومن کے دل سے اٹھنی چاہئے اور اسی آواز میں نجات ہے، اسی میں سکون ہے.بہت سے ایسے غمزدہ لوگ مجھ سے ملاقات کے لئے جب آتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے کسی صورت میں ان کا غم مل سکتا ہی نہیں ناممکن ہے مگر جب میں ان کو یہ باتیں سمجھا تا ہوں جہاں تک بس چلتا ہے ان کو پیار سے بتاتا ہوں کہ حقیقت میں یہ دنیا تو چند روزہ ہے اور سب نے آخر میں ہی ملنا ہے.جب چھوڑ کر جائیں گی تو پتہ بھی نہیں لگے گا کہ کتنے دن رہے اور دکھوں میں کٹے یا سکھ میں کٹے، وہ سارے کے سارے خواب بن جاتے ہیں.پس جو آخرت کا گھر ہے جہاں آخر آپ نے قیام کرنا ہے اس کا بھی تو خیال کیا کریں جیسا کہ ان آیات کریمہ میں فرمایا گیا ہے نـحـن اولیاء كُم في الحياة الدنيا وفي الآخِرَة آخرت میں بھی ہم تمہارے ساتھ ہوں گے.پس دنیا میں ان کی جو تائید ہے وہ ثبوت بن جاتی ہے اس بات کا کہ آخرت میں بھی وہ اللہ کے فرشتے آپ لوگوں کے ساتھ ہوں گے اور آپ کی آخرت بھی سنور جائے گی.پس میں آپ سب سے امید رکھتا ہوں کہ اللہ کے فضلوں پر تو کل کرتے ہوئے بہادر احمدی عورتیں بنیں گی.ہمیں بزدل عورتوں کی ضرورت نہیں، بزدل مردوں کی

Page 623

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۶۱۹ خطاب ۲۲ را پریل ۲۰۰۰ء ضرورت نہیں خدا کی راہ میں بہادر بننا بہت بڑی بات ہے.آنحضور ﷺ کی دعائیں میں نے آپ کے سامنے پڑھ کر سنائی تھیں ان میں بزدلی سے بہت پناہ مانگی گئی ہے اور خدا کی راہ میں بہادر ہونے کی توفیق مانگی گئی ہے پس آپ بھی بہادر بنیں.چند روزہ دنیا ہے اس کی خاطر بزدلی دکھائیں گی تو کہاں بھاگ جائیں گی.اس کو چھوڑ کرکس اور دنیا میں چلی جائیں گی.اس کی تو یہی مثال ہے جو میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بیان کی مگر ہے ایسی پیاری مثال کہ اسے بار بار بیان کرنے کو جی چاہتا ہے.حضرت خلیفتہ اسح الاول اپنی زندگی کی داستان میں لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ کشمیر میں میں ایک ایسے درویش سادھو انسان کو فقر و فاقہ کرنے والے کو دیکھا کرتا تھا جو بیٹھا ہوا سر جھکائے اور سوائے غم کے اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا.ایک لنگوٹی پہنی ہوئی اور غم سے سر جھکایا ہوا فکروں کے پہاڑ تلے سرد با ہوا ایک دن آپ نے کیا دیکھا کہ وہ خوشیوں سے اچھل رہا ہے اور چھلانگیں مار رہا ہے.حضرت خلیفتہ امسیح الاول لکھتے ہیں کہ میں نے اس سے پوچھا کہ بابا تمہاری تو وہی ایک ہی لنگوٹی ہے، وہی فاقے ہیں، وہی بھکاری ہو جو پہلے ہوا کرتے تھے.تمہیں کیا خزانہ ل گیا ہے جوتم اس قدر چھلانگیں لگا ر ہے ہو.تو اس فقیر نے جواب دیا کہ جس کی ساری امیدیں پوری ہو جائیں وہ کیوں نہ خوشی سے اچھلے.حضرت خلیفہ اسیح الاول جو اس وقت خلیفہ نہیں حکیم نورالدین تھے.آپ نے حیرت سے پوچھا تمہاری ساری امنگیں پوری ہوگئیں.تو اس نے کہا آپ نہیں جانتے جس کی امنگ ہی کوئی نہ رہے اس کی ساری پوری ہوگئیں.تو ایک یہ بھی قناعت کا طریقہ ہے کہ اپنی بلند امنگوں کو چھوڑ دیں اور قناعت اختیار کریں.قناعت سے بڑھ کر صبر والی کوئی چیز نہیں ہے.جو کچھ خدا نے دیا ہے اس پر راضی ہو جائیں.تو اللہ تعالیٰ پھر بے انتہا فضل اور بھی فرماتا ہے مگر مرکزی نقطہ یہ ہے کہ زیادہ کی خاطر راضی نہ ہوں بلکہ کم سے کم پر تسلی پکڑیں اور راضی ہو جائیں کہ ہم بہتر ہیں ہم دوسروں سے بہت بہتر ہیں.جب یہ سوچیں گی تو انشاء اللہ آپ کو بہادری نصیب ہوگی.پھر آپ اس فقیر کی طرح اچھل سکتی ہیں اور کہہ سکتی ہیں کہ جس کی ساری مرادیں پوری ہو جائیں اس کو سب کچھ مل گیا.غالب نے بھی اسی مضمون کا ایک شعر کہا ہے.گر تجھ کو ہے یقین اجابت، دعا نہ مانگ یعنی بغیر یک دل بے مدعا نہ مانگ اے انسان اگر تجھے یقین ہو جائے کہ تیری دعا قبول ہو جائے گی تو صرف یہ دعا مانگ کہ اے

Page 624

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۶۲۰ خطاب ۲۲ راپریل ۲۰۰۰ء اللہ مجھے ایسا دل دے جس کا کوئی مدعا نہ رہے، پھر تیری ساری امنگیں پوری ہو گئیں.تو میں امید رکھتا ہوں کہ لجنہ اماءاللہ ہالینڈ اور دوسری لجنات جو سن رہی ہیں اس خطاب کو اور اسی طرح سارے مرد جو اس خطاب کو سن رہے ہیں وہ اس بات کو اپنے پلو میں باندھ لیں گے اور اس کو نہیں چھوڑیں گے اسی کا نام استقامت ہے.جو نیکی ہاتھ آجائے اس کو چھوڑنا نہیں، اس کو چھٹے رہنا ہے کسی قیمت پر اس کو نہیں چھوڑنا عُروة وثقى والا حساب ہے کہ عمر وہ جو خدا کی رسی کے ساتھ لگا ہوتا ہے وہ کڑا اگر اس پر ہاتھ ڈال دیا جائے تو ہاتھ کاٹا جائے تو الگ ہو مگر چھٹ نہیں سکتا.پس میں امید رکھتا ہوں کہ آپ لوگ اس مختصر سی نصیحت کو ہمیشہ پلو با ندھیں گی اور امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کے نتیجے میں بے انتہا جزاء فرمائے گا اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی.اب آخر پر میرا خیال تھا کہ ایک خصوصی خطبہ دوں گا آج آخر پر ایک اور بات بھی میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں مجھے یہ معلوم ہوا ہے مختلف ذرائع سے کہ بعض خواتین یہاں خصوصاً جو باہر سے تشریف لائی ہوئی ہیں وہ پردے کا بالکل لحاظ نہیں کرتیں بلکہ ایسی بھی ہیں جو کوٹ پتلون پہن کر مٹکتی پھرتی ہیں باہر اور حیا کا کوئی سوال ہی باقی نہیں رہا.سروں کی چُھپنیاں اتریں، چہرے کی حیا اتر گئی، آنکھوں کا پانی اتر گیا اور وہ بجھتی ہیں کہ چند دن کی اس دنیا میں وہ سب کچھ کما لیں گی یہ محض دھوکہ ہے اور میں نے سنا ہے کہ حوالے بعد میں یہ میرے دیتی ہیں کہ انہوں نے کہا ہے کہ پردہ ایسا نہیں ہونا چاہئے ایسا نہیں ہونا چاہئے یعنی زیادہ سے زیادہ بے پردگی کا نام میں نے پردہ رکھا ہوا ہے.یہ تو محض جھوٹا الزام ہے ہرگز میں نے کبھی یہ نہیں کہا زیادہ سے زیادہ میں نے یہ کہا ہوگا کہ وہ مقامی خواتین جو غیر ملکوں میں مسلمان ہوتی ہیں وہ اگر اپنے آپ کو ڈھانپ کر رکھیں اور اچھا لباس پہنیں جس سے ان کے اعضاء ننگے نہ ہوں تو ان کے لئے یہی بہت پر دہ ہے.یہ پہلا قدم ہے پردے کی طرف پھر ان میں سے بہت سی ایسی ہیں جو آپ سب سے جو پیدائشی احمدی ہیں بہت بہتر پردہ کرنے لگ جاتی ہیں.تو اس لئے آپ اپنی عصمت کی حفاظت کریں، اپنی بچیوں کا خیال کریں ، وہ مائیں جو بے پردہ آوارہ پھرتی ہیں ان کی بچیاں کبھی ٹھیک نہیں ہوسکتیں.یہ بھی شکر ہے کہ بینگ لجنہ میں میں نے اس بات کو محسوس کیا ہے کہ وہ بہت بہتر ہیں اس پہلو سے.بعض کے ماں باپ شاید آزاد بھی ہوں مگر ینگ لجنہ ہماری اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اپنے آپ کو ڈھانپنے کا اور ہر پہلو سے اپنی عصمت کا بہت خیال رکھتی ہے.تو میں آپ کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اور کچھ نہیں تو اپنے بچوں کی خاطر اپنی معصوم بچیوں کی

Page 625

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کےمستورات سے خطابات مسیح ۶۲۱ خطاب ۲۲ را پریل ۲۰۰۰ء خاطر ہی کچھ صبر کریں اب آپ کا زمانہ تو گزر گیا اب آپ آوارہ پھرنے سے کیا حاصل کریں گی کچھ بھی نہیں سوائے دکھاوے کے اور کوئی بھی آپ کو پوچھے گا نہیں.صرف ایک خیال ہے کہ ہم بہت خوبصورت ہو کر سب دنیا کو اپنی طرف کھینچ رہی ہیں.حالانکہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس دنیا کا کیا حال ہے.آپ کو دیکھ کر.ان کو تو اس دنیا میں اور بہت سے بے شمار ننگے وجو دمل جاتے ہیں جوننگ وجود ہیں اور نگ انسانیت بھی ہیں ان کو کیا ضرورت ہے بڑھی خواتین کو پکڑ کے بیٹھ رہیں اور سمجھیں کہ ان کو جنت مل گئی.یہ وہم ہے دل کا.کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا.پھر جب جانے کا واپسی کا وقت آئے گا تو پھر یا درکھنا کہ دل ہی کہے گا.خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانه تھا دنیا کے بڑے بڑے شعراء نے اس مضمون کو باندھا ہے اور مرتے وقت یہی بات بیان کی ہے جو قرآن کریم بیان فرماتا ہے کہ پھر وہ وقت آجاتا ہے جہاں سے واپسی کوئی نہیں.پھر جتنا چاہے انسان زور لگائے پھر دوبارہ اس دنیا میں واپس نہیں آسکتا.پھر انجام ہے اور حساب کا وقت آجاتا ہے.تو اللہ تعالی سے دعا کیا کریں حَاسِبُنَا حِسَابًا يَسِيراً ہے.اے اللہ ہمارا آسان حساب فرما.اگر بے حساب بخش دے تو تو مالک ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے اگر حساب کرنا ہے تو پھر آسان حساب کر دے.اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ آسان حساب کیسے کیا جاتا ہے.پس میں امید رکھتا ہوں کہ آپ سب میرے اس خطاب کو توجہ سے نہ صرف سنیں گی بلکہ دل کی گہرائیوں میں جگہ دیں گی اور آئندہ مجھے ہالینڈ کی طرف سے اس قسم کی تکلیف دہ شکائتیں نہیں ملیں گی جس کا میں نے آپ سے ذکر کیا ہے آئیے اب ہم دعا میں شامل ہو جائیں.پھر میں آپ سے اجازت چاہوں گا.السلام علیکم ورحمۃ اللہ.خدا حافظ.

Page 626

Page 627

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۲۳ خطاب ۳/ جون ۲۰۰۰ء طعن و تشنیع اور عیب چینی سے اجتناب کی تلقین جلسہ سالانہ مستورات نیم سے خطاب فرموده ۳ / جون ۲۰۰۰ء) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے یہ آیت تلات کی.ا تَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَبَ اَفَلَا تَعْقِلُونَ) (البقرة: ۴۵) کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو جبکہ تم کتاب بھی پڑھتے ہو آخر تم عقل کیوں نہیں کرتے.آج کے خطاب میں میں کچھ متفرق نصیحتیں کروں گا کچھ تو ایسی ہیں جن کا عورتوں سے خصوصی تعلق ہے اور کچھ ایسی ہیں جو عمومی مسائل سے تعلق رکھتی ہیں.مردوں کی بعض کمزوریاں بھی اس میں بیان ہوئی ہیں لیکن زیادہ تر خطاب خواتین سے ہے.اس سلسلہ میں میں سب سے پہلے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ایک حدیث تمیم داری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی بیان کرتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا دین سراسر خیر خواہی اور خلوص کا نام ہے پس اگر خیر خواہی نہ ہو دوسروں کی اور خیر خواہی پیش نظر نہ ہواور یہ خیر خواہی دل کے خلوص سے نہ اٹھتی ہو تو آپ نے فرمایا اس کے بغیر پھر کچھ بھی دین نہیں رہتا.پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ کی اور اس کی کتاب اور اس کے رسول کی اور مسلمانوں کے آئمہ اور عام مسلمانوں کی خیر خواہی اور اُن سے خلوص کا تعلق رکھنا.خیر خواہی کس کی کرنی ہے؟ سب سے پہلے یہ اللہ تعالیٰ کی اور اس کی کتاب کی اور اس کے رسول کی اور مسلمانوں کے آئمہ اور عام مسلمانوں کی اور اُن سب سے خلوص کا تعلق رکھنا.ایک حدیث سنن الدارمی میں حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضور صلی

Page 628

حضرت خلیفتہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۲۴ خطاب ۳/ جون ۲۰۰۰ء اللہ علیہ والہ وسلم نے ہم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اللہ اس شخص کو سر سبز و شاداب رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اور اسے اسی طرح آگے پہنچایا کیونکہ بہت سارے ایسے لوگ جنہیں بات پہنچائی جاتی ہے وہ خود سنے والے سے زیادہ اسے یاد رکھنے والے ہوتے ہیں.تین امور کے بارے میں مسلمان کا دل خیانت نہیں کر سکتا.خدا تعالیٰ کی خاطر کام میں خلوص نیت ہو یہ بہت ضروری ہے.ہر مسلمان کے لئے خیر خواہی دل میں ہو اور مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ چمٹے رہنا.چنانچہ یہ فرمایا گیا کہ بہت سارے ایسے لوگ ہیں جنہیں بات پہنچائی جاتی ہے وہ آگے پہنچائیں ! س میں بڑی حکمت یہ ہے کہ بعض دفعہ لوگ جو بات خود سنتے ہیں اس کو محفوظ تو کر لیتے ہیں لیکن اس کا مطلب اچھی طرح نہیں سمجھ سکتے آگے جن کو پہنچائی جاتی ہے وہ اس کا مطلب یا اس میں پنہاں خطرات کو بھی سمجھ لیتے ہیں.ایک دفعہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ اعلان کر دو.مَنْ قَالَ لَا إِله إِلا اللَّهُ دَخَلَ الجَنَّةَ کہ جس نے بھی لا الہ الا اللہ کہا وہ جنت میں داخل ہو گیا.حضور کے ارشاد پر ابو ہریرہ یہی پیغام اونچی آواز سے گلیوں میں پڑھتے پھر رہے تھے کہ حضرت عمرؓ کا سامنا ہوا.آپ نے کہا یہ کیا کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سب غیر حاضروں کو یہ بات پہنچاؤ.آپ نے (حضرت عمر کی ایسی طبیعت تھی ذرا غصہ والی ) اُن کو گریبان سے پکڑ لیا اور گھسیٹتے ہوئے واپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس لے گئے اور عرض کی یارسول اللہ ! آپ نے فرمایا تھا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہاں میں نے ہی فرمایا تھا یعنی میں نے ہی کہا تھا تو حضرت عمرؓ نے اس وقت یہ توجہ دلائی حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کہ عامتہ الناس اس بات کو سمجھ نہیں سکیں گے.یہ بات سو فیصد درست ہے لیکن لوگ اس کا مطلب اور نکال لیں گے عمل چھوڑ دیں گے اور صرف لا الہ الا اللہ کہتے پھریں گے یہ سمجھ کر کہ ان کی جنت میں جانے کے لئے بس اتنی ہی بات کافی ہے.اس لئے آپ بھی جو میرے خطاب کو سن رہی ہیں آپ سب خواتین بھی آگے اُن باتوں کو جو آپ کے دل پر کچھ اثر کریں یا نہ کریں جو بھی سنیں کوشش کریں کہ اُن کو دوسروں تک پہنچاسکیں اور اپنے خاوندوں ، بہنوں ، بھائیوں سب تک یہ پیغام پہنچانے کی کوشش کریں.ایک اور حدیث حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے.بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ منبر پر کھڑے ہو کر آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے با آواز بلند فرمایا کہ اے لوگو ! تم میں سے بعض بظاہر مسلمان ہیں لیکن

Page 629

حضرت خلیفتہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۲۵ خطاب ۳/ جون ۲۰۰۰ء ان کے دلوں میں ابھی ایمان راسخ نہیں ہوا.انہیں میں متنبہ کرتا ہوں کہ وہ مسلمانوں کو طعن و تشنیع کے ذریعہ تکلیف نہ دیں اور اُن کے عیبوں کا کھوج نہ لگاتے پھریں.اب یہ جو عادت ہے یہ مردوں میں بھی ہے مگر عورتوں میں نسبتاً زیادہ ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کا کھوج لگاتی پھرتی ہیں کہ اس میں کیا نقص ہے؟ اس کی ذاتی زندگی کی خامیاں تلاش کرتی پھرتی ہیں تو فرمایا کہ عیبوں کا کھوج نہ لگاتے پھریں ورنہ یا درکھیں کہ جو شخص کسی کے عیب کی جستجو میں ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے اندر چھپے ہوئے عیوب کو لوگوں پر ظاہر کر کے اس کو ذلیل ورسوا کر دیتا ہے.تو دوسروں کی پردہ دری کرتے کرتے اپنی پردہ دری نہ کروا بیٹھیں.یہ بہت ہی خطرناک تنبیہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی.اس کو اچھی طرح یاد رکھیں اس سے چمٹ رہیں.اس کو ہرگز کبھی بھی فراموش نہ ہونے دیں یعنی اپنے آپ کو فراموش نہ ہونے دیں کہ آپ لوگوں کی خیر خواہی چاہتی ہیں.ان کے عیوب کو تلاش نہ کریں، تلاش کریں یا خود بخود وہ ظاہر ہو جائیں آپ پر تو ان کی پردہ پوشی کیا کریں ورنہ پھر اپنے بارے میں ڈریں کہ آپ کے اندر بھی کتنے عیب ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ستاری کی وجہ سے چھپے ہوئے ہیں.ایک حدیث مسلم کتاب العلم سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی نیک کام اور ہدایت کی طرف بلاتا ہے تو اتنا ہی ثواب ہے جتنا ثواب اس بات پر عمل کرنے والے کو ملتا ہے.“ تو عام نیکی کی تلقین کرنا بغیر دلیلوں کے بغیر حجتوں کے ہر شخص میں کوئی نہ کوئی نیکی کی ایسی بات ہوتی ہے جسے وہ دوسروں تک پہنچا سکتا ہے تو جو اس پر عمل کرے گا اس کا ثواب بھی اس بات کرنے والے کو ملے گا لیکن جو شخص کسی گمراہی اور برائی کی طرف بلاتا ہے اس کو بھی اسی قدر گناہ ہوتا ہے جس قدر اس برائی کے کرنے والے کو ہوتا ہے اور جو برائی کرنے والا ہے اس کے گناہ کی پاداش میں کمی نہیں آتی.بخاری کتاب البیوع سے ایک روایت حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مروی ہے کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا اور آپ کا یہ فرمان اچھی طرح یاد ہے کہ شک میں ڈالنے والی باتوں کو چھوڑ دو.بعض واضح طور پر بات کسی کے خلاف نہیں کرتے مگر اس طرح اس انداز سے چُھپا چھپا دبا دبا ذکر کر دیتے ہیں کہ لوگوں کو شک پڑ جاتا ہے اور یہ شک ہے پھر وہ آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور شک میں

Page 630

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۲۶ خطاب ۳/ جون ۲۰۰۰ء مبتلا ہونا یا مبتلا کرنا ایک بہت بری بات ہے.یقین کو اختیار کرو، جس بات کا یقین ہے وہی بات کرو اور جو شک والی بات ہے اُس سے پر ہیز کرو.یقینا سچائی اطمینان کا باعث ہے اور جھوٹ اضطراب اور پریشانی کا موجب ہوتا ہے“ ایک اور حدیث مسلم کتاب البر سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لی گئی ہے آپ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ! بدترین آدمی تم اسے پاؤ گے جو دو منہ رکھتا ہے.ایک بات کہیں کہہ دی دوسری بات کہیں اور کہہ دی اور ان دونوں باتوں میں اختلاف ہو تو اس سے یہ مراد ہے کہ دو منہ رکھتا ہے.خود ہی اس کی تشریح فرماتے ہوئے آپ نے فرمایا ان کے پاس آکر کچھ کہتا ہے دوسروں کے پاس جا کر کچھ کہتا ہے.بہت سے اس دنیا میں فتنے اسی وجہ سے پھیلتے ہیں کہ لوگ دومنہ رکھتے ہیں.ایک حدیث مختصر صحیح بخاری کتاب الادب سے لی گئی ہے.حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : چغل خور جنت میں نہیں جا سکے گا.“ اس لئے چغلی کرنا بہت سی نیکیوں کو کھا جاتا ہے اور خود اپنی ہی نیکیوں کو بھسم کر دیتا ہے تو بہت چھوٹی سی لذت دنیاوی لذت، باتوں کی لذت انسان کو اپنے سارے اعمال کی خوبیوں اور اُن کی جزا سے محروم کر دیتی ہے.اور یہ مشہور جو محاورہ ہے یہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی سب سے پہلے استعمال کیا تھا.ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اپنے بھائی کی آنکھ کا تنکا تو انسان کو نظر آتا ہے لیکن اپنی آنکھ میں پڑا ہوا شہتیر وہ بھول جاتا ہے.“ یہ ایک محاورہ ہے جو سب دنیا میں پھیل چکا ہے.حقیقت یہی ہے انسان دوسرے کی آنکھ میں چھوٹا سا نقص بھی ہو تو اس کو دیکھ لیتا ہے اور اپنے اندر کا بھاری نقص بھی جو شہتیر کے برابر ہو گویا جو آنکھ میں پڑا ہوا وہ بھی اس کو دکھائی نہیں دیتا.حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اس بنیادی خطاب کے بعد جس میں خیر ہی خیر مضمر ہے ہمارے لئے اور جسے اختیار کرنا سب کے لئے ضروری ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت لیکن خصوصیت سے کیونکہ میرا خطاب خواتین سے ہے اس لئے میں خواتین سے تعلق رکھنے والے بعض

Page 631

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۶۲۷ خطاب ۳/ جون ۲۰۰۰ء اقتباسات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں." قرآن کریم کی یہ تعلیم ہر گز نہیں ہے کہ عیب دیکھ کر اسے پھیلاؤ اور دوسروں سے تذکرہ کرتے پھرو بلکہ وہ فرماتا ہے تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ (البلد : ۱۸) یہ عجیب تفسیر ہے نئی اس آیت کی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان کی ہے وہ صبر اور رحم سے نصیحت کرتے ہیں.مرحمہ یہی ہے کہ دوسرے دوسروں کے عیب دیکھ کر اسے نصیحت کی جائے جو عیب دکھائی دیں تو رحمت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو نصیحت کی جائے.پھر فرماتے ہیں اور اس کے ساتھ دعا بھی کی جاوے دعا میں بڑی تاثیر ہے اور وہ شخص بہت ہی قابل افسوس ہے کہ ایک کے عیب کو بیان تو سومرتبہ کرتا ہے لیکن دعا ایک مرتبہ بھی نہیں کرتا.“ پھر سعدی کا ایک شعر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.خدا تعالیٰ تو جان کر پردہ پوشی کرتا ہے مگر ہمسایہ کوعلم نہیں ہوتا اور شور کرتا پھرتا ہے.خدا تعالیٰ کا نام ستار ہے.تمہیں چاہئے کہ تَخَلَّقُوا بِاخْلَاقِ الله نو ( یعنی خدا کی صفات کو اختیار کرو.اگر وہ ستار ہے تو تم بھی ستار بنے کی کوشش کرو) 66 ہمارا یہ مطلب نہیں ہے کہ عیب کے حامی بنو بلکہ یہ کہ اشاعت اور غیبت نہ کرو.“ ( ملفوظات جلد چہارم ص : ۶۰) پھر خواتین کو نصیحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.عورتوں میں چند عیب بہت سخت ہیں اور کثرت سے ہیں.ایک شیخی کرنا کہ ہم ایسے ہیں اور ایسے ہیں پھر یہ کہ قوم پر فخر کرنا کہ تو کمینی ذات کی عورت ہے یا فلاں ہم سے نیچی ذات کی ہے پھر یہ کہ اگر کوئی غریب عورت ان کے پاس بیٹھی ہوتی ہے اس سے نفرت کرتی ہیں.“ ( ملفوظات جلد پنجم ص: ۲۹) بعض دفعہ بد قسمتی سے یہاں تو نہیں مگر پاکستان میں اور پنجاب وغیرہ میں ہمارے امیر یا میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے ہی بعض دفعہ زمیندار عورتیں ایک غریب کپڑوں والی عورت سے ذرا سکر

Page 632

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۶۲۸ خطاب ۳ جون ۲۰۰۰ء کے الگ بیٹھتی ہیں کہ ان کے کپڑوں کی میل ان کو نہ لگ جائے اور پھر آنکھوں آنکھوں میں دوسری عورتوں کو جو امیر ہیں اشارے سے کہہ دیتی ہیں کہ یہ دیکھو ذرا کیسے غلیظ کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور ساتھ یہ بھی فخر کہ اس کے پاس زیور تو کوئی ہے نہیں تو یہ ساری باتیں نہایت ہی لغو باتیں ہیں.زیوروں کا تو عورتوں کو ایک قدرتی شوق ہوتا ہے ایک عورت نے کہتے ہیں کہ ایک بہت اچھی انگوٹھی بنوائی اور بہت اچھا نگ اس میں جڑا ہوا تھا اور کسی نے نوٹس نہیں لیا وہ پہنتی پھرتی تھی دکھاتی پھرتی تھی سب کو مگر کسی نے مجال ہے جو کوئی تعریف کر دی ہو اور اب یہ مبالغہ صحیح لیکن ہے تو بات دلچسپ کہ آخر اس نے اپنے گھر کو آگ لگادی سب کچھ جل گیا اور باہر جو ہمسائیاں اور ہمسائے اکٹھے ہوئے ہوئے تھے باہر نکل کر ان کو دکھاتی پھری کہ یہ دیکھو اس انگوٹھی کے سوا کچھ بھی نہیں بچا تو پہلی دفعہ لوگوں نے نوٹس لیا کہ اس نے ایک بہت قیمتی انگوٹھی پہنی ہوئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مزید فرماتے ہیں ایک روز ایک ہندوعورت نے کسی دوسری عورت کا جب گلہ کیا تو اس وقت آپ نے فرمایا ( ہندو عورتیں بھی حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی شکایات اور گلے پیش کیا کرتی تھیں ) چنانچہ اس کی بات سن کر آپ نے فرمایا: دیکھو یہ بہت بُری عادت ہے.جو خصوصاً عورتوں میں پائی جاتی ہے چونکہ مرد اور کام بہت رکھتے ہیں اس لئے ان کو شاذ و نادر ہی ایسا موقع ملتا ہے کہ بے فکری سے بیٹھ کر آپس میں باتیں کریں اور اگر ایسا موقع بھی ملے تو ان کو اور بہت سی باتیں ایسی مل جاتی ہیں جو وہ بیٹھ کر کرتے ہیں.( ملفوظات جلد پنجم ص:۱۱) یہ تو عمومی دستور ہے لیکن ہمارے بعض علاقوں میں پاکستان میں مردوں کو بھی بہت موقع ملتا ہے.جب رات کو گھر پہنچتے ہیں تو اپنی بیویوں وغیرہ سے مل کر چغلیاں کرتے ہیں اور ان کو کھانا نہیں ہضم ہوتا جب تک یہ رات کی آخری چغلیاں نہ کر لیں تو وہ علاقے تو میں اب نہیں بیان کر سکتا.وہ بھی اُن کی اُن سے پردہ اٹھانے والی بات ہوگی لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ یہ عادت بعض علاقوں میں دنیا میں مردوں میں بھی پائی جاتی ہے.ایک شخص تھا اس نے کسی دوسرے کو گناہ گار دیکھ کر خوب اس کی نکتہ چینی کی اور کہا کہ تو دوزخ میں جائے گا.قیامت کے دن خدا تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ کیوں تجھ کو میرے اختیارات کس نے دیئے ہیں.دوزخ اور بہشت

Page 633

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۶۲۹ میں بھیجنے والا تو میں ہی ہوں تو کون ہے؟“ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ہو جاؤں.“ خطاب ۳/ جون ۲۰۰۰ء سو ہر ایک انسان کو سمجھنا چاہئے کہ ایسا نہ ہو کہ میں ہی الٹا شکار ( ملفوظات جلد پنجم ص:۱۱) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.انسان کی کمزوریاں جو ہمیشہ اس کی فطرت کے ساتھ لگی ہوئی ہیں ہمیشہ اس کو تمدن اور تعاون کا محتاج رکھتی ہیں اور یہ حاجت تمدن اور تعاون کی ایک ایسا بد یہی امر ہے کہ جس میں کسی عاقل کو کلام نہیں.خود ہمارے وجود کی بھی ترکیب ایسی ہے جو تعاون کی ضرورت پر اور بھی ثبوت ہے.ہمارے ہاتھ اور پاؤں اور کان اور ناک اور آنکھ وغیرہ اعضاء اور ہماری سب اندرونی اور بیرونی طاقتیں ایسی طرز پر واقع ہیں کہ جب تک وہ باہم مل کر ایک دوسرے کی مدد نہ کریں تب تک افعال ہمارے وجود کی عــلــى مـجــرہ صحت ہرگز جاری نہیں ہو سکتے “ مطلب یہ ہے کہ انسانی فطرت ہے اس کے جسم کے خواص یہ ہیں کہ ہر وجود کا حصہ دوسرے سے تعاون کرتا ہے.اب جس کو آپ کہتے ہیں ایک طرفہ فالج وہ صرف اتنی سی بات ہے کہ جسم کے ایک حصہ نے دوسرے حصہ سے تعاون چھوڑ دیا ہے.دایاں ہاتھ اُٹھتا ہے تو بایاں نہیں اُٹھتا.دایاں چہرہ حرکت کرتا ہے بات کرتے وقت تو بایاں نہیں کرتا تو یہ تعاون کی کمی کی ایک بہت عمدہ مثال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پیش فرما رہے ہیں.ہمارے ہاتھ ، پاؤں اور کان اور ناک اور آنکھ وغیرہ اعضاء ہیں اور ساری اندرونی طاقتیں ہیں جو صحت کو قائم رکھنے کے لئے لازماً ایک دوسرے سے تعاون کرتی ہیں.اگر یہ تعاون نہ ہو تو انسانیت کی گل ہی معطل پڑی رہتی ہے.جو کام دو ہاتھ کے ملنے سے ہوتا ہے وہ محض ایک ہی ہاتھ سے انجام نہیں ہوسکتا.جس راہ کو دو پاؤں مل کر طے کرتے ہیں وہ فقط ایک ہی پاؤں سے طے نہیں ہوسکتا اسی طرح تمام کامیابی ہماری معاشرت اور آخرت کے تعاون پر ہی موقوف ہے.کیا کوئی اکیلا انسان کسی کام دین یا دنیا کو انجام دے سکتا ہے؟ ہر گز نہیں.“

Page 634

حضرت خلیلتہ امسح الرابع کے مستورات سے خطابات ۶۳۰ خطاب ۳ جون ۲۰۰۰ء اب دیکھیں آپ سب کا تعاون ہے نظام جماعت کے ساتھ جس نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب دنیا میں جماعت کو حیرت انگیز ترقیاں عطا فرمائیں.کسی اکیلے آدمی کا کام نہیں.ہر بات میں وہ دوسرے کے تعاون کا محتاج ہے.ہر ایک گروہ جس کا مدعا اور مقصد ایک ہی مثل اعضاء یک دیگر ہے ان کا آپس میں گویا تعاون ضروری ہے اور ممکن نہیں کہ جو کوئی فعل جو مطلق غرض مشترک اس گروہ کے ہے بغیر معاونت با ہمی ان کے ان کی کہ با خوبی با خوش اسلوبی طے پا سکے.بالخصوص جس قدر جلیل القدر کام ہیں.یعنی بہت عظیم الشان کام کرنے ہوں جن کی علت غائی کو فائدہ عظیمہ جمہوری ہے“ جن کی علت غائی کوئی فائدہ عظیمہ جمہوری ہے مطلب ہے جو بڑے بڑے کام کرنے ہوں جو کثرت سے عوام الناس کے فائدے سے تعلق رکھتے ہوں یعنی جمہور کے فائدے سے تو بجز جمہوری عیانت کے کسی طور پر بھی انجام پذیر نہیں ہو سکتے.فائدہ جمہور کا ہے پیش نظر اور جب تک وہ جمہور خود تعاون نہ کریں ان کو فائدہ نہیں پہنچایا جاسکتا.صرف ایک ہی شخص ان کا متحمل ہرگز نہیں ہوسکتا اورنہ کبھی ہوا انبیاء علیہم السلام جو تو کل اور تفر یدا و حمل اور مجاہدات کے افعال خیر میں سب سے بڑھ کر ہیں ان کو بھی یہ با رعایت اسباب ظاہری مَنْ أَنْصارِی إِلَی اللہ کہنا پڑتا ہے.“ خدا کے کہنے پر نبی کھڑے ہوتے ہیں اور اگر اللہ چاہے تو اکیلے نبی ہی سب مخالفتوں پر غلبہ پالیں کیونکہ خدا کا ان سے وعدہ ہے وہ بہر حال غلبہ پائیں گے لیکن اس کے باوجود جیسا کہ حضرت عیسی علیہ الصلواۃ والسلام نے آواز بلند کی تھی.مَنْ أَنصَارِ إِلَی اللہ کون ہے؟ جواللہ کی خاطر میرا مددگار بنے.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فیض ہی تھا کہ سب خدمت کرنے والے اور تعاون کرنے والے اکٹھے ہوئے لیکن یہ آپ کی دعاؤں کا فیض تھا جس کے نتیجہ میں وہ تعاون حاصل ہوا مگر تعاون تو بہر حال ہوا.اس کے بغیر تو اکیلا شخص دنیا میں عظیم انقلاب بر پا نہیں کر سکتا اگر چہ اس کا سبب اس کی دعائیں ہی ہوں لیکن بہر حال اس کو دنیا کا تعاون حاصل ہونا ضروری ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں.دیکھو وہ جماعت جماعت نہیں ہوسکتی جو ایک دوسرے کو کھائے اور جہاں چارمل کر بیٹھیں تو ایک اپنے غریب بھائی کا گلہ کریں اور نکتہ چینیاں کرتے

Page 635

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۶۳۱ خطاب ۳/ جون ۲۰۰۰ء رہیں اور کمزوروں اور غریبوں کی حقارت کریں اور ان کو حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھیں ایسا ہر گز نہیں چاہئے.بلکہ اجماع میں چاہئے قوت آجاوے اور وحدت پیدا ہو جاوے.جس سے محبت آتی ہے اور برکات پیدا ہوتے ہیں.کیوں نہیں کیا جاتا کہ اخلاقی قوتوں کو سیکھ لیا جائے اور یہ تب ہوتا ہے کہ جب ہمدردی محبت اور عفو اور کرم کو عام کیا جاوے اور تمام عادتوں پر رحم اور ہمدردی اور پردہ پوشی کو مقدم کر لیا جائے.ذرا ذرا سی بات پر ایسی سخت گرفتیں نہیں ہونی چاہئے جو دل شکنی اور رنج کا موجب ہوتی ہیں.“ بسا اوقات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس قسم کی باتوں میں ذرا بھر بھی دل شکنی نہیں کیا کرتے تھے بلکہ اگر کوئی برتن ٹوٹ گیا کوئی قیمتی چیز ضائع ہوگئی تو بڑی ہمدردی کا سلوک فرمایا کرتے تھے اور وہ شخص گھبرایا ہوا ہوتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کو تسلی دیتے تھے کہ دیکھو کوئی بات نہیں.یہاں تک کہ ایک دفعہ ایک بہت قیمتی مسودہ آپ کی تحریر کا جس پر بے حد محنت کی ہوئی تھی آپ کے ایک بچے نے جلا دیا اپنی معصومیت کے کھیل میں اس کو آگ لگادی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی دلداری شروع کر دی کہ گھبراؤ نہیں یہ للہ تعالیٰ کا منشاء تھا کہ میں اس سے بھی اور اچھا لکھوں.تو اس میں بھی ایک فائدہ ہے یہ بہت ہی عظیم الشان خلق ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جو آپ سب کے لئے ایک عظیم نصیحت ہے.قابل تقلید نمونہ ہے.خدا تعالیٰ نے صحابہ کو بھی یہی طریق اور نعمت اخوت یاد دلائی ہے اگر وہ سونے کے پہاڑ بھی خرچ کرتے تو وہ اخوت ان کو نہ ملتی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ذریعہ ان کو ملی.اسی طرح پر خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم رکھا ہے اور اسی قسم کی اخوت وہ یہاں قائم کرے گا.“ پس الحمد للہ کہ حضرت مسیح موعوعلیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں اور مسلسل محنت کے نتیجہ میں اب جماعت میں یہ عظیم عالمی اخوت پیدا ہو چکی ہے اور اس کے عظیم الشان نمو نے ہمیں جگہ جگہ دکھائی دیتے ہیں مگر پھر بھی کمزوریاں ہیں اور ان کمزوریوں سے صرف نظر ہمیں نہیں کرنا چاہئے.آخری حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خطاب ملفوظات سے لیا گیا ہے جو یہ ہے.و نیکی اور تقویٰ میں ترقی کر و خدا تعالیٰ کے فضل اور برکات اسی راہ سے

Page 636

۶۳۲ خطاب ۳/ جون ۲۰۰۰ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات آتے ہیں.میں خوب جانتا ہوں کہ ہماری جماعت اور ہم جو کچھ ہیں اسی حال میں اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کی نصرت ہمارے شامل حال ہوگی کہ ہم صراط مستقیم پر چلیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی کامل اور سچی اتباع کریں قرآن شریف کی پاک تعلیم کو اپنا دستور عمل بنائیں اور اُن باتوں کو ہم اپنے عمل اور حال سے ثابت کریں.نہ صرف قال سے اگر ہم اس طریق کو اختیار کریں گے تو یقیناً یاد رکھو کہ ساری دنیا بھی مل کر ہم کو ہلاک کرنا چاہے تو ہم ہلاک نہیں ہو سکتے اس لئے کہ خدا ہمارے ساتھ ہوگا.“ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کی طرف بہت توجہ دلائی ہے اور قرآن ہی کے تعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بہت ہی حیرت انگیز شعری کلام فرمایا ہے اور سارے عالم اسلام میں قرآن کی محبت میں اس قسم کا شعری کلام آپ کو نہیں نظر آئے گا.اس کے بعد میں آپ کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ پاکستان سے بہت سی ایسی خواتین یہاں آئی ہوئی ہیں جو صحیح تلفظ کے ساتھ قرآن شریف پڑھ بھی سکتی ہیں اور سکھا بھی سکتی ہیں اور کئی ان میں سے ایسی بھی ہوں گی جن کو تر جمہ بھی آتا ہوگا اپنی نئی نسل پر رحم کریں اور ان کو جہاں تک ممکن ہو قر آن کریم کو صحت سے پڑھنا سکھائیں.اس سلسلہ میں جو ہمارا آڈیو ویڈیو نظام ہے اس نے بہت سی ویڈیوز بھی جاری کی ہوئی ہیں.آڈیو، وڈیو دونوں وہ لیں اور وہ خود بھی دیکھیں اپنے بھی تلفظ درست کریں اور پھر آگے اپنی بچیوں کے ، چھوٹی خواتین کے چھوٹی عمر کی خواتین کو مثلاً نوعمر لجنہ ہے ان سب کو قرآن پاک کی تعلیم دیں جو آپ قرآن کریم کی تعلیم میں وقت خرچ کریں گی وہ آپ کے لئے نہ صرف یہ کہ آخرت کی جزا کا موجب بنے گا بلکہ آپ جو بیکار بیٹھی رہتی ہیں اپنے گھروں میں.بعض دفعہ کھانا پکا نا اس کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں رہتا اس کی جگہ آپ ایک بہت ہی اہم خدمت دین میں مصروف ہوں گی اور ان باتوں میں بعض دفعہ اپنے خاوندوں سے بھی بازی لے جائیں گی.وہ بے چارے تو دنیا میں کمائی کمانے کے لئے اپنی زندگی صرف کر رہے ہیں آپ کی خاطر اور اپنے بچوں کے پیٹ پالنے کی خاطر ان کو کہاں وقت ملتا ہے کہ وہ گھر آ کے تلاوت وغیرہ کیا کریں اور قرآن کی تعلیم دیں.تو اس پہلو سے ان کی بیویاں اپنے خاوندوں سے بھی بازی لے جائیں گی اور جن کے خاوند نہ ہوں بڑی بوڑھی عورتیں ہیں ان کے لئے بھی وقت گزارنے کا ایک بہت ہی عمدہ ذریعہ ہاتھ آجائے گا.میں پھر تاکید کرتا ہوں کہ لجنہ اماءاللہ

Page 637

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۳۳ خطاب ۳/ جون ۲۰۰۰ء سے اس بارے میں ہر جگہ تعاون فرما ئیں جہاں جہاں ایسی خواتین موجود ہیں وہ فوری طور پر تمام خواتین اور بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دینی شروع کر دیں.اب میں امید رکھتا ہوں کہ اس سلسلہ میں لجنہ مجھے رپورٹوں میں مطلع کرتی رہے گی.ایک اور ضرورت اس ملک میں یہ ہے کہ اگر چہ اس وقت تک جو سامنے بچے اور بڑے بیٹھے ہوئے ہیں وہ اردو سمجھتے ہیں لیکن رفتہ رفتہ یہ اردومٹ جائے گی.جتنی دیر آپ ان ممالک میں رہیں گی آپ کے بچے آہستہ آہستہ یہاں کی زبانیں سیکھتے سکھتے اردو بالکل بھلا ڈالیں گے اور پھر آگے اردو میں جو خدمت کرنی ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابیں پڑھنی ہیں اس کے ترجمے کرنے ہیں اس کے لئے آپ کو کوئی نہیں ملے گا اس لئے اردو زبان کی خاطر نہیں ، نیکی کی خاطر اردو زبان سیکھیں اور سکھائیں.اب ایک اور نصیحت جس کا خاص طور پر یہاں خواتین سے یہاں کی خواتین سے تعلق ہے وہ یہ ہے کہ یہاں بعض جگہوں پر چھوٹی عمر کی خواتین لجنہ کی صدر بنادی جاتی ہیں.انتخاب کے ذریعہ لوگ انہی کا نام پیش کرتے ہیں کیونکہ وہ بڑے ذوق وشوق سے خدمت کرتی ہیں جو بڑی عمر کی عورتیں ہیں وہ ان کو تخفیف کی نظر سے دیکھتی ہیں گویا یہ کل کی چھوکری ہم پر حکومت کر رہی ہے اپنی طرف سے ، اس بے چاری کے وہم و گمان میں بھی حکومت نہیں ہوتی وہ تو صرف خدمت دین کی خاطر ان کو نصیحتیں کرتی ہے اور وہ یا تو ایسے اجلاسوں میں آنا ہی بند کر دیتی ہیں یا آتی ہیں تو گویا تکبر اور نخوت سے ان کی باتوں کوسن کے چلی جاتی ہیں.یہ جائز نہیں بہت بڑا گناہ ہے اپنی فکر کریں اگر آپ نے خود لجنہ کا عہد یدار بنتا ہے خدا کرے کہ یہ خواہش کسی کی بھی نہ ہو مگر اگر کسی نے عہدہ دار بننا ہے تو صرف ایک طریقہ ہے کہ خدمت کے کاموں میں آگے آئے.جب وہ خدمت کے کاموں میں آگے بڑھے گی تو پھر کیا ضرورت ہے کہ وہاں کی لجنات چھوٹی چھوٹی بچیوں پر یہ بوجھ ڈالیں پھر بڑی خواتین خود اس کام کو سنبھالیں اور اس طرح ہر پہلو سے جماعت میں یگانگت پیدا ہوسکتی ہے.پس اس مختصر خطاب کے بعد ، ان نصیحتوں کے بعد میں اس خطاب کو ختم کرتا ہوں اور آپ سے التجا کرتا ہوں کہ آئیے اب دعا میں میرے ساتھ شامل ہو جائیں تا کہ خدا تعالیٰ ان سب نصیحتوں کو جو ہم نے کی ہیں ان کو ہمارے اپنے وجود میں بھی جاری کر دے اور ہم بڑے یقین کے ساتھ یہ نصیحت دنیا کو کرسکیں کہ دیکھو ہم اپنے قول میں بچے ہیں کیونکہ ہمارا فعل اسکی گواہی دے رہا ہے.(آمین)

Page 638

Page 639

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۳۵ خطاب یکم جولائی ۲۰۰۰ء لجنہ انڈونیشیا کو قیمتی نصائح (جلسہ سالانہ مستورات انڈونیشیا سے خطاب فرمودہ یکم جولائی ۲۰۰۰ء) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا بے انتہا احسان ہے کہ اس نے مجھے آج یہ تو فیق عطا فرمائی ہے کہ میں انڈونیشیا کی لجنہ کو براہ راست یہاں سے خطاب کر رہا ہوں.اللہ تعالیٰ سب شامل ہونے والی خواتین پر رحمتیں فرمائے.خیریت سے آئیں، خیریت سے واپس جائیں، اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کی حفاظت فرمائے اور کوئی بھی تکلیف دہ خبر ہمیں ان کی واپسی کے بارے میں نہ پہنچے.میں بار ہا یہ نصیحت کر چکا ہوں کہ جو ڈرائیو کرنے والے ہیں وہ احتیاط سے ڈرائیوکریں.نیند کی ضرورت پڑے تو رستے میں ٹھہر جائیں.ہر پہلو سے احتیاط کریں تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ خیر وعافیت سے واپس اپنے گھروں کو پہنچیں.آج کے خطاب کے لئے مختلف موضوعات میں نے چنے ہیں اور ان کے متعلق عموماً مجھے امیر صاحب کی طرف سے بھی اور لجنہ اماءاللہ کی صدر کی طرف سے بھی مشورہ دیا گیا تھا.میں نے خلاصہ بعض باتیں آپ کے سامنے رکھنی ہیں.پہلی بات تو یہ ہے کہ ماشاء اللہ چشم بد دور جماعت احمدیہ انڈونیشیا کی خواتین مالی قربانی میں بہت آگے ہیں.اتنی آگے ہیں کہ بعض دفعہ تو حیرت ہوتی ہے دیکھ کر اور سب دنیا کی لجنات کے لئے ماشاء اللہ ایک اعلیٰ نمونہ ہیں.صرف چند امور میں نے چنے ہیں ورنہ تفصیل میں جاؤں تو بہت لمبی ہو جائے گی.۱۹۸۵ء میں لجنہ بانڈ ونگ نے لجنہ سے زیور ا کٹھا کر کے ایک گھر خریدا جو ہوٹل کے طور پر استعمال ہوتا ہے.۱۹۷۸ء میں ایک ممبر لجنہ نے اکیلے ہی ایک پلاٹ خرید کر مسجد کے لئے وقف کیا اور

Page 640

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۳۶ خطاب یکم جولائی ۲۰۰۰ء تعمیر مسجد کا سارا خرچ بھی خود ہی برداشت کیا.۱۹۹۳ء میں پارونگ میں لجنہ نے ایک تین منزلہ شاندار عمارت جماعتی کاموں کے لئے تعمیر کی.نیز جماعت انڈونیشیا کی ۷۵ سالہ منزل طے کرنے پر لجنہ نے بائیس کروڑ پچاس لاکھ سے زائد کی مالی قربانی کے علاوہ بیش بہا زیورات کی قربانی بھی پیش کی.اللہ تعالیٰ ان سب قربانی کرنے والیوں کو بے انتہا جزا عطا فرمائے.ماشاء اللہ یہ مالی قربانی میں کسی پہلو سے بھی آپ دنیا کی کسی دوسری جماعت سے پیچھے نہیں ہیں.ایک اور بات بھی ایسی ہے جس میں آپ سب دنیا پر سبقت لے گئیں ہیں جہاں تک مجھے اطلاع ہے کہیں بھی اس پہلو سے کسی لجنہ نے ایسی قربانی کا مظاہرہ نہیں کیا.۱۹۸۵ء میں ایک ہزار ممبرات لجنہ نے اپنی آنکھوں کا عطیہ حکومت کے متعلقہ ادارے کو پیش کیا.اللہ تعالیٰ ان کونور آخرت سے منور فرمائے.دنیا کی آنکھ انہوں نے دنیا ہی میں خدمت کے لئے پیش کر دی.اللہ تعالیٰ بہترین جزا عطا فرمائے.اس طرح زلازل سے نقصان کے خدمت خلق کے متعلق امور ہیں.مختلف زلزلے بڑے بڑے انڈو نیشیا میں آتے رہتے ہیں.ان سے جب بھی بڑا نقصان پہنچا ہے لجنہ اماءاللہ نے بڑھ چڑھ کر مصیبت زدگان کے لئے مالی قربانی کی ہے.ایک اور بڑی خدمت کا کام یہ ہے کہ صاف پانی مہیا کرنے کے لئے جو سکیم چل رہی ہے یہاں اس میں ایک احمدی خاتون نے اکیلے ہی اتنی رقم مہیا کی جس سے تین سو خاندانوں کی ضرورت پوری ہوتی رہے گی.کسی بھی جانی قربانی میں لجنہ دنیا کی کسی اور لجنہ سے پیچھے نہیں.عطیہ خون دینے میں بھی لجنہ نے اتنا نمایاں حصہ لیا ہے کہ یونیسف (UNISEF) کی طرف سے نمایاں خدمت کا اعزاز دیا گیا.ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ خاتون اول نے جو انڈونیشیا کی خاتون اول ہیں انہوں نے اپنے محل میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں آنکھوں کے عطیہ کے سلسلہ میں ملک بھر سے۲۴ خواتین کا بطور خاص انتخاب کیا.سارے ملک سے جو ۲۴ خواتین منتخب کی گئیں ان میں سے ۱۵ اللہ کے فضل سے احمدی خواتین تھیں.یہ ایک ایسا اعزاز ہے جو حیرت انگیز ہے اور اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی بہترین جزا عطا فرمائے.بار ہا یہ ذکر پہلے بھی گزر چکا ہے اس سے پہلے میں نے آپ کے ساتھ پریذیڈنٹ صاحب کی خدمت میں بھی یہ مسئلہ اٹھایا تھا کہ بدقسمتی سے آج کل Drug Addiction کا بہت رواج ہو رہا ہے اتنا زیادہ ہے کہ بعض دفعہ میرے دل کو سخت تکلیف پہنچتی ہے کہ بعض احمدی بچے اور بچیاں بھی Drug

Page 641

حضرت خلیفہ صیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۳۷ خطاب کیم جولائی ۲۰۰۰ء Addiction میں ملوث ہیں حالانکہ آپ کو تو اللہ تعالیٰ نے اس وجہ سے کھڑا کیا ہے کہ نہ صرف انڈونیشیا سے یہ بلا دور کریں بلکہ ایسا پاک نمونہ دکھائیں کہ سب دنیا سے یہ Drug Addiction کی وبا دور کر دی جائے.اس سلسلے میں ایک بہت ہی عمدہ اقتباس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا میں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں.آپ سوچیں اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آج کے زمانے کی Drug Addiction کی کتنی فکر تھی آپ فرماتے ہیں: ”اے عقلمند وا یہ دنیا ہمیشہ کی جگہ نہیں تم سنبھل جاؤ.تم ہر ایک بے اعتدالی کو چھوڑ دو اور ہر ایک نشے کی چیز کو ترک کرو.انسان کو تباہ کرنے والی صرف شراب ہی نہیں بلکہ افیون ، گانجہ، چرس، بھنگ ، تاڑی اور ہر ایک نشہ جو ہمیشہ کے لئے عادت کر لیا جاتا ہے وہ دماغ کو خراب کرتا اور آخر ہلاک کرتا ہے سو تم اس سے بچو.ہم نہیں سمجھ سکتے کہ تم کیوں ان چیزوں کو استعمال کرتے ہو جن کی شامت سے ہر ایک سال ہزار ہا تمہارے جیسے نشے کے عادی اس دنیا سے کوچ کرتے جاتے ہیں.“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۹اص : ۷۰ ) یہ ہزار ہا کی بات تو اس زمانے کی تھی اب تو بلا شبہ نشے کی عادت کے نتیجے میں جو مختلف دنیا میں پھیلی ہوئی نشے کی مختلف صورتیں ہیں ان کے استعمال سے بلاشبہ لکھوکھا انسان موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور اپنی خیالی دنیا میں بہت اونچے اڑتے رہتے ہیں حالانکہ وہ زمین پر چلنے کے قابل بھی نہیں ہوتے.تو بہت بڑی بلا ہے جس نے دنیا کو گھیر رکھا ہے اور مغرب اور مشرق دونوں میں یکساں عمل کر رہی ہے.ایک زمانہ تھا جبکہ چین کو غلام رکھنے کے لئے مغرب نے چین میں بعض نشہ آور چیزوں کے استعمال کو رواج دیا اور اب چین سے نشہ آور چیزیں بیرونی دنیا کو مغربی دنیا کو Export ہوتی ہیں اور یہ اچھا انتقام لے رہا ہے چین ان سے.بہر حال مختصراً آپ سے یہ عرض کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تعلیم کو پیش نظر رکھتے ہوئے نشہ آور Drugs کے پاؤں پر کلہاڑی چلا دیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: پر ہیز گار انسان بن جاؤ تا تمہاری عمر میں زیادہ ہوں اور تم خدا سے برکت پاؤ.حد سے زیادہ عیاشی میں بسر کرنا لعنتی زندگی ہے.حد سے زیادہ بدخلقی اور بے مہر ہونا لعنتی زندگی ہے.حد سے زیادہ خدا اور اس کے بندوں کی ہمدردی

Page 642

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۳۸ خطاب کیکم جولائی ۲۰۰۰ء سے لا پرواہ ہونا لعنتی زندگی ہے.ہر ایک امیر خدا کے حقوق اور انسانوں کے حقوق سے ایسا ہی پوچھا جائے گا جیسا کہ ایک فقیر بلکہ اس سے زیادہ.پس کیا ہی بد قسمت وہ شخص ہے جو اس مختصر زندگی پر بھروسہ کر کے بنگلی خدا سے منہ پھیر لیتا ہے اور خدا کے حرام کو ایسی بے باکی سے استعمال کرتا ہے گویا وہ حرام اس کے لئے حلال ہے.“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۹ اص: ۷۱ ) اب میں آپ کے لئے حضرت اقدس ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا تربیت کا نمونہ پیش کرتا ہوں.آپ نے تربیت کے بہترین اصول اپنائے اور آگے اپنی اولاد میں جاری کئے.اگر آپ اپنی اولا د کو اس دنیا میں اس گندے ماحول کے بداثر سے بچانا چاہتی ہیں تو آپ حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاک سنت پر عمل کریں اور یقیناً یہ نسخہ بے خطا جائے گا.بہت ہی کارآمد نسخہ ہے اس کے بعض پہلوؤں پر جس جس نے بھی دنیا میں عمل کیا ہے اس نے اپنے بچوں کی بہترین تربیت کا حق ادا کر دیا ہے.سب سے پہلی چیز جو حضرت ام المومنین بچوں کو سکھایا کرتیں تھیں وہ جھوٹ سے نفرت تھی.بچپن ہی سے اس کثرت سے بار بار بچوں کو تلقین کیا کرتیں تھیں کہ بیٹا جھوٹ نہیں بولنا جو مرضی خطا ہو جو مرضی سزا ہو ہرگز جھوٹ کے ذریعے بچنے کی کوشش نہ کرنا، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ جھوٹ کو شرک قرار دیتا ہے.پس وہ لوگ جو جھوٹ کا سہارا لے کر سزاؤں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں وہ اللہ کا شرک کرتے ہیں اور جھوٹ کے سہارے شرک کرنا بہت ہی ایک مکروہ شرک ہے اس لئے حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سب سے زیادہ زور جھوٹ سے نفرت پر دیا ہے.دوسرا یہ ہے کہ اپنے بچوں پر اعتماد کرنا چاہئے ان کو محسوس ہو کہ ہمارے ماں باپ ہم پر اعتماد کرتے ہیں اس سے عزت نفس پیدا ہوتی ہے، خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایسے بچوں کی ہمیشہ اچھی تربیت ہوتی ہے جن میں خود اعتمادی پیدا ہو جائے اور یقین ہو کہ ہماری باتوں پر لوگ اعتبار کرتے ہیں.ہمارے ماں باپ ہم پر اعتبار کرتے ہیں.دنیا ہم پر کیوں اعتبار نہ کرے.ایک اور عادت جو حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بچوں میں ڈالی وہ کہنا ماننے کی عادت ہے.بچپن ہی سے بچوں کو کہنا ماننے کی عادت ڈالنی چاہئے کہ ان سے کہنا چاہئے کہ تم چھوٹی موٹی شرارتیں بے شک کرتے پھرو اللہ تعالیٰ آپ ہی اصلاح فرمادے گا مگر ماں باپ کا کہنا مانو.اگر

Page 643

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۳۹ خطاب کیکم جولائی ۲۰۰۰ء بچپن ہی سے آپ کہنا ماننے کی عادت بچوں میں راسخ کر دیں گی تو بڑے ہو کر آپ کے سارے تربیتی مسائل حل ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ عادت جو ایک دفعہ بچپن میں پختہ ہو جائے تو پھر عمر بھر انسان کی روح میں پیوستہ ہو جاتی ہے.اور آخری بات جو سب سے آخر پہ بھی ہے لیکن پہلی بھی ہے وہ ہے دعا.حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا دعا پر بہت زور دیا کرتی تھیں اور عمر بھر ہمیشہ دعائیں کرتیں رہیں اور دعاؤں کے سہارے ہی آپ کی اولادکو روحانی امور میں ترقی نصیب ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تو اوڑھنا بچھونا دعا تھی وہی دعا حضرت اماں جان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سیکھی یعنی دعا کرنے کی عادت اور دن رات دعا کرتی رہتی تھیں.ہم بچپن میں جب حضرت اماں جان کے صحن سے کبھی گزرتے تھے تو آپ کی ہر نظر دعا بن کر ہم پر پڑتی تھی.کئی دفعہ پیار سے بلا لیتی تھیں اور جو کھانا اگر اس وقت کھا رہی ہوں کچھ اس میں سے ایک لقمہ ہمارے منہ میں ڈالتی تھیں اور دعائیں دیتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نیک نصیب بنائے.تو آپ بھی اسی طرح بچوں سے حسن سلوک کریں پیار سے ان کی تربیت کرنے کی کوشش کریں.زبردستی کی تربیت نا جائز ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے خلاف بہت سخت تنبیہ کی ہوئی ہے.آپ کے زمانے میں اسکولوں میں بچوں کو مارنا سختی سے ممنوع تھا بعد کے زمانے میں بھی بعض اساتذہ اپنے مزاج کی سختی کے وجہ سے جب بچوں کو مارتے تھے.اگر ان کی اطلاع حضرت مصلح موعودؓ کو پہنچے تو آپ بہت سختی سے ان کو منع کیا کرتے تھے اور سزا دیا کرتے تھے.تو بچوں کو مارنا ایک بہت بری عادت ہے بچپن سے آپ ان کو بغاوت سکھاتی ہیں اگر ان کو ماریں گی تو بچے معصوم بیچارے ڈر کر آپ کی بات تو مان جائیں گے اس وقت لیکن دل میں بغاوت کا شیطان اُٹھ کھڑا ہوگا اور وہ اس وقت تہیہ کر لیتے ہیں کہ جب تک ماں باپ کا زور چلتا ہے چلے اور آخر ہم نے بڑے ہونا ہے پھر ہم دیکھیں گے کہ ہم پر کیسے دھونس جمائی جاتی ہے اس لئے بہت ہی اہم ایک گر ہے بچوں کی تربیت کا ان کے لئے دعا کریں، ان پر رحم کا سلوک کریں ، شفقت کا سلوک فرمائیں جو بچے قابو نہ آئیں اور ہاتھ سے نکلتے جائیں ان کے لئے بھی صبر کے ساتھ دعا کرتی رہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کے صبر کے نمونے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ بہت بڑی بڑی فتوحات عطا فرماتا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے صبر کو سب سے زیادہ مؤثر ذریعہ تبلیغ وتربیت کا قرار دیا ہے.صبر سے قوموں کی کایا پلٹ جاتی ہے.اس زمانے میں جو تمام برائیاں دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں ان کا

Page 644

حضرت خلیفہ انسخ الرابع کے مستورات سے خطابات مسیح ۶۴۰ خطاب کیم جولائی ۲۰۰۰ء علاج سورۃ والعصر میں یہی بیان فرمایا گیا ہے کہ صبر کے ساتھ زمانے کو نصیحت کرتے چلے جاؤ اور صبر کی نصیحت کرتے چلے جاؤ.رحم کی نصیحت کرو اور صبر کے ساتھ رحم کی نصیحت کرتے چلے جاؤ.اس کے نتیجے میں وہ زمانہ جو نقصان اٹھانے والا زمانہ ہے ، سارا زمانہ نقصان میں ہے ، اس میں مومنین نقصان نہیں اٹھائیں گے اور وہ صبر سے چمٹے رہیں گے تو ان میں ایک عظیم پاک تبدیلی پیدا ہوگی جو دوسروں کو بھی تبدیل کر سکے گی.آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو صبر کا ایک بہت عظیم حصہ عطا کیا گیا ایسا کہ اس کے نتیجہ میں آپ کے خون کے پیاسے دشمن آپ پر جان نثار کرنے پر ہر دم تیار رہتے تھے.ایسی عظیم مثالیں ہیں آپ کے دشمنوں کا حلیم دوست بن جانے کی یعنی جانثار دوست بن جانے کی کہ ساری تاریخ انبیاء میں ایسی مثال آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے کے سوا کہیں دکھائی نہ دے گی.غیر معمولی طور پر قربانی کرنے کا جذبہ پیدا ہوا اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سب سے زیادہ صبر اور قربانی کرنے والے تھے.آپ نے بڑے بڑے خطرناک دشمنوں کو اپنا ایسا دوست بنایا کہ وہ اپنے خون کا آخری قطرہ آپ پر شار کرنے پر ہمیشہ تیار رہتے تھے اور اس پر فخر محسوس کرتے تھے کہ ہمارا خون کا ہر قطرہ کام آ گیا.اسلامی تاریخ میں مختلف غزوات میں اس کی بے انتہا مثالیں ملتی ہیں.مگر میں نے عمداً اس وقت ان سے اعراض کیا ہے کیونکہ بارہا یہ مثالیں آپ کی خدمت میں پیش کر چکا ہوں لیکن اب آپ کو سمجھانے کی خاطر میں نے دوبارہ ذکر کا اعادہ کیا ہے.ابھی چونکہ اس تقریر کا ترجمہ بھی ہونا ہے اور میں کوشش کر رہا ہوں کہ تھوڑے وقت میں اس خطاب کو ختم کروں اس لئے آخر پر میں قناعت کے متعلق آپ کو کچھ کہنا چاہتا ہوں.حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ قناعت ایک جو نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے قناعت ایک ایسا خزانہ ہے جو کبھی ختم ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ جو کچھ خدا کی طرف سے آپ کو عطا ہوا اس کے اندر رہنے کی عادت کو قناعت کہتے ہیں اور بہت سے غریب قناعت شعار ایسے ہیں جن کی ساری زندگی بڑے وقار سے گزری اور قناعت کے ذریعے جو کچھ انہوں نے تھوڑا تھوڑا بچایا گھر میں اس کے ذریعے آگے ان کی اولاد کا مستقبل بن گیا.قناعت ہر چیز میں ہونی چاہئے.پانی کی بات ابھی چل رہی تھی ، پانی کے استعمال میں بھی قناعت ہونی چاہئے.دیکھا

Page 645

حضرت خلیفتہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات مسیح ۶۴۱ خطاب کیکم جولائی ۲۰۰۰ء گیا ہے کہ بعض لوگ کھلا پانی بہاتے ہیں نہاتے وقت بھی ، وضو کرتے وقت بھی پرواہ ہی نہیں کرتے کہ بریکار پانی ضائع ہوتا چلا جارہا ہے.اس پہلو سے میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ بہت قناعت کی کوشش کی ہے اور بچوں کو بھی قناعت سکھانے کی کوشش کی ہے.یہاں تک کہ جو کاغذ استعمال کرتے ہیں منہ صاف کرنے کے لئے ٹشو پیپر وغیرہ میں اس پر بھی قناعت کرتا ہوں.یہ میرے بچے حیران ہو کر مجھے دیکھتے ہیں یہ کون سی پاگلوں والی قناعت ہے کہ ٹشو پیپر تو اس قابل ہی نہیں کہ اس کو استعمال کر کے کوئی تھوڑی دیر رکھا جائے.وہ تو استعمال کیا اور پھینکتے چلے گئے.استعمال کرتے چلے جاؤ اور پھینکتے چلے جاؤ لیکن ان کو سمجھ کبھی نہیں آتی کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں میں جو قناعت ہے وہ بڑی بڑی چیزوں میں قناعت کا گر سکھاتی ہے.اس لئے میں لجنہ اماءاللہ انڈونیشیا سے درخواست کرتا ہوں کہ گھر میں قناعت کیا کریں اس کے نتیجہ میں بہت سے کئی فوائد اور بھی ہوں گے، مثلاً بعض عورتیں خاوندوں سے شکوہ کرتی رہتی ہیں ہر وقت ان کو طعنے دیتی رہتی ہیں کہ تم گھر میں لائے کیا ہواب میں کیا پکا کر تمہیں کھلاؤں حالانکہ اس کے نتیجے میں خاوند ظالم بن جاتے ہیں عورتوں کو دبانے کے لئے سختی سے کام لیتے ہیں پس ایک بدی ایک دوسری بدی کو پیدا کر دیتی ہے.آپ اگر خاوند کے لئے گھر میں قناعت کر کے کچھ بچائیں اور جو کچھ بھی ہے وہ پیش کریں اچھا پیش کریں تو اس سے بہت برکت پڑتی ہے.میں آپ کو اپنے بچپن کا یہ واقعہ سناتا ہوں کہ ہمارے گھروں میں با قاعدہ بہت ہی قناعت پر عمل ہوتا تھا اور حضرت مصلح موعود کی بیویاں ہفتے میں پانچ دن یا پانچ دن کے قریب جو ان کی باری نہیں ہوتی تھی وہ ہم بچوں کوسوکھا پھیکا جو کچھ بھی ہے وہ کھانا کھلاتی تھیں اور قناعت کی تعلیم دیا کرتی تھیں کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہی کافی ہے اور اس کے نتیجے میں بعض بچے بڑے بڑا بھی کرتے تھے، بولتے تھے یہ کیا مصیبت پڑی ہوئی ہے دال پر دال کھلا رہی ہیں.ویسے انڈونیشیا کی دال بہت اچھی ہوتی ہے اس کے خلاف میرا کوئی اعتراض نہیں.آپ لوگ بہترین دال پکاتے ہیں اور ہم بڑے شوق سے اس کو کھاتے بھی ہیں لیکن بہر حال قناعت کا سبق دے کر وہ جو پسند دال کیا کرتی تھیں وہ حضرت مصلح موعودؓ کے کھانے پر خرچ کر دیا کرتی تھیں اور جب حضرت مصلح موعود کی باری ہمارے گھر ہوا کرتی تھی وہ ہمارے لئے عید کا دن گویا ہوتا تھا کہ ہمیں بہترین کھانا اس وقت ملتا تھا کیونکہ ہماری ماؤں نے حضرت مصلح موعود کی خاطر ہمیں یہ سکھایا تھا.ہر ایک کا اپنا اپنا مزاج ہوتا ہے حضرت مصلح موعود کا مزاج اس پہلو سے منفر دتھا.آپ کو کھانے میں ذرا بھی اونچ نیچ ہو تو کھانا چھوڑ دیا کرتے تھے.نمک تیز ہو جائے یا نمک کم ہو جائے ، مرچ تیز ہو یا

Page 646

حضرت خلیفتہ اسے الرابع" کے مستورات سے خطابات مسیح ۶۴۲ خطاب یکم جولائی ۲۰۰۰ء مرچ کم ہو جائے، میٹھا تیز ہو جائے یا میٹھا کم ہو جائے ، کسی قسم کی بوکھانے میں آنے لگے تو آپ بلا تاخیر فوراً کھانا چھوڑ کر واپس اپنے قصر خلافت میں چلے جایا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مزاج اس پہلو سے بالکل مختلف تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کبھی بھی کھانے پرشکوہ نہیں کیا بعض دفعہ نہایت ہی بدمزہ پکا ہوا کھانا بھی اتنے شوق سے کھا رہے ہوتے تھے کہ بعض دفعہ حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا سمجھتی تھیں کہ بہت ہی مزے دار کھانا پکا ہے اور جب خود کھا نہیں تھیں تو پھر پتہ چلتا تھا کوئی مزے دار کھانا نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دلداری کی خاطر اور اس وجہ سے کہ آپ کے نفس میں بالکل بھی انانیت کسی قسم کی نہیں تھی ہر قسم کا کھانا بڑے شکر اور صبر کے ساتھ قبول کرتے تھے.کئی دفعہ میں نے سوچا کہ جب میری خاطر میں کرتے ہیں بچے بھی اور جب آپ لوگ سب بے انتہا خاطریں کرتے ہیں تو مجھے وہ اپنے بچپن کا زمانہ یاد آ جاتا ہے اور میں کہتا ہوں کہ دیکھو اللہ کی شان کتنی نعمتیں اس نے مجھے عطا کر دیں جن کا میں اہل نہیں تھا مگر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ قناعت کا خزانہ جو ہے یہ کبھی بھی ختم نہیں ہوگا ہمیشہ چلتا رہے گا.میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس نسخے کو بھی آزما کر دیکھیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ فرماتے ہیں کہ : اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما اس کے بعد میں لجنہ اماء اللہ کا سب سے زیادہ، سب سے اہم بات یہ ہے کہ بہت شکر ادا کرنا چاہتا ہوں.آپ کی لجنہ کی تربیت بہت اچھی ہو رہی ہے.عظیم الشان کام کرہی ہیں لجنہ اماءاللہ مرکز یہ اور بہت ہی اچھے طریقے سے آپ کی تربیت کی جارہی ہے صرف مجھ سے یہ بجنات کا شکوہ کیا جاتا ہے،صدر لجنہ کی طرف سے بھی ، بعض دفعہ امیر کی طرف سے بھی ، کہ پردے کی پوری پابندی نہیں کرتیں.میں تو ان سے کہتا ہوں کہ میں نے تو بہت اچھا پردہ دیکھا ہے انڈونیشین میں بہت اچھی طرح اپنے آپ کو سنبھال کر رکھتی ہیں، سروں کو اچھی طرح لپیٹ کر رکھتی ہیں، چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی پردے کی بہترین تربیت دیتی ہیں.تو اگر آپ نے پردہ سیکھنا ہے تو اپنے بچوں سے سیکھیں دیکھو کتنی پیاری لگتی ہیں بچیاں سر ڈھانپا ہوا ہے اپنے آپ کو پوری طرح سنبھالا ہوا تو جن کی آپ نے تربیت کی ہے اب وہ آپ کی تربیت کرنے کے قابل ہو گئی ہیں.آپ اپنی بچیوں سے پردے کے انداز سیکھیں انڈونیشین پر دے پر کوئی اعتراض نہیں ہے بہت اچھا پردہ ہے لیکن ایک بات میں نے محسوس کی ہے کہ جب چہرہ کھلا رکھ کر باہر جانا ہو اور جسم کو ویسے ہی ڈھانپا ہوسر کو ڈھانپا ہو تو سنگھار سے کام نہیں کرنا.

Page 647

حضرت خلیفہ اصبح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۴۳ خطاب یکم جولائی ۲۰۰۰ء چاہئے ، یہ پردے کی روح کے خلاف ہے.ہونٹوں پر بہت زیادہ سرخی لگانا گھر میں تو جائز ہے کلوں پر سرخی لگانا گھر میں تو جائز ہے مگر جب باہر نکلیں تو اس کو صاف کر لیا کریں، بالکل اس طرح باہر نکلیں جس طرح مرد بغیر زینت کے باہر نکلتے ہیں.جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو قدرتی حسن دیا ہے وہ تو ہے اس کو تو آپ چھپا نہیں سکتیں مگر بناوٹ کا حسن جو ہے اس کو اختیار کرنے کی آپ کو کوئی ضرورت نہیں ہے.یہاں بچیوں کے پردے سے میں متاثر ہوا ہوں لیکن بچیوں کو بھی سرخیاں لگائی جاتیں ہیں اور کئی دفعہ میں نے دیکھا ہے کہ ان کے ہونٹوں پر تیز لپ سٹک لگائی جاتی ہے.تو بچپن سے یہ عادت ڈالیں کہ بچیوں کو کسی لپ سٹک کی کسی روش کی کسی چیز کی ضرورت نہیں وہ وہی حسن جو اللہ نے ان کو عطا کیا ہے اس پر راضی رہیں اور یہ انڈونیشیا کے لئے ایک بہترین پر دے کا نمونہ ہوگا.تو اس بات کے ساتھ میں اس بہت مختصر خطاب کو اب ختم کرتا ہوں کیونکہ مجھے احساس ہے کہ اس کا ابھی ترجمہ بھی ہونے والا ہے.تو اللہ تعالیٰ آپ سب پر فضل فرمائے میں پھر ایک دفعہ آپ کو دُعا دیتا ہوں دعائیں کرتے ہوئے آئے ہیں، دعائیں کرتے ہوئے خیریت سے واپس جائیں.بارش کی وجہ سے جو تکلیف پہنچی وہ تو قدررت کا فضل بھی ہے اور رحمت بھی ہے اور اپنی طرف سے بارش کے نتیجے میں جماعت کے لئے اللہ تعالیٰ ہمیشہ نشان ہی دکھاتا رہتا ہے.جب انتہائی تیز بارش ہو رہی تھی تو نماز کے معا بعدا میر صاحب انڈو نیشیا نے مجھ سے فرمایا کہ بارش تھمنے کی دعا کریں.ادھر انہوں نے کہا ادھر بارش تھم گئی اور اس کے بعد سے اب تک بالکل بارش نہیں ہوئی.پس جو تکلیف پہلی بارش کی وجہ سے پہنچی اس سے بھی فائدہ ہوا ہوگا بہت سی بیماریاں دھل گئی ہوں گی.تو اللہ تعالیٰ نے احمدیت کے لئے بارش کو ہمیشہ نشان بنایا ہے، حیرت انگیز نشان دکھاتا ہے.افریقہ سے کثرت سے احمدیت کی قبولیت کی جو باتیں ملتی ہیں ان میں بارش کا نشان بتایا جاتا ہے.بارش اللہ کے اختیار میں ہے وہ فضل ورحمت کا نشان بن کر احمدیت کے لئے اترتی ہے اور فضل و رحمت کا نشان بن کر احمدیت کے لئے ہٹ بھی جاتی ہے جب ہٹنا ہو.یہ بندے کا اختیار نہیں یہ محض اللہ کا احسان ہے جو جماعت احمدیہ پر دکھایا جاتا ہے جیسا کہ میں بیان کر رہا تھا افریقہ میں بار بابارش میں یہ نشان دکھایا.آپ کے یہاں بھی بارش کا ایک عظیم نشان حضرت مولوی رحمت علی صاحب کے زمانے کا جو میں نے نظم میں بھی بیان کیا ہے وہ آپ کے سامنے انشاء اللہ تعالی نظم پیش کی جائے گی وہ یہ نشان تھا کہ بہت سے لکڑی کے گھر سینکڑوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے بنے ہوئے تھے.نہایت

Page 648

حضرت خلیفہ المسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۴۴ خطاب کیکم جولائی ۲۰۰۰ء خوفناک آگ لگ گئی اور ہوا کا رخ ایسا تھا کہ گھر کے گھر جلاتی چلی گئی ، جلاتی چلی گئی.حضرت مولوی رحمت علی صاحب اللہ کے فضل سے ایک زندہ نشان ہیں انڈونیشیا کے لئے ، ہمیشہ نشان بنے رہیں گے.آپ اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے اور آگ آپ کے گھر کے کنارے کو چھونے لگی تھی.سب لوگ نیچے اتر آئے جو پہلے ان کے پاس تھے اور شور مچانا شروع کر دیا کہ خدا کے لئے تم بھی نیچے اتر جاؤ آگ تمہیں جلا کر بھسم کر دے گی.حضرت مولوی صاحب نے جواب دیا کہ دیکھو میں اس ابراہیم کا غلام ہوں جس کے غلاموں کی بھی آگ غلام ہے اور ناممکن ہے کہ یہ آگ مجھے یا میرے گھر کو جلا دے.آگ کے شعلے چھور ہے تھے اور وہ مرد خدا اتنے تو کل کے ساتھ اس گھر میں بیٹھا ہوا تھا، صاف انکار کر دیا نیچے اتر نے سے.اسی ہوا کے دوش پر بادل بھی چلے آرہے تھے عین اس وقت جب آگ کی لپیٹیں آپ کے گھر کے ایک پہلو کو چھونے لگیں آسمان سے اتنے زور سے بارش برسی کہ وہ آگ خودا اپنی راکھ پر ڈھیر ہوگئی اور انڈو نیشیا کو ایک عظیم الشان نشان اللہ تعالیٰ نے دکھایا.پس یا درکھیں دعا اور تو کل یہ دو عظیم الشان باتیں ہیں جن کے ذریعہ آپ کو انشاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ ہر بلا سے ہر آگ سے محفوظ رکھے گا.اس کے بعد میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ خاموش دعا میں میرے ساتھ شامل ہو جائیں جس کے بعد ترجمہ کیا جائے گا آئیے اب دعا کر لیجئے.(آمین )

Page 649

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۴۵ خطاب ۲۹ جولائی ۲۰۰۰ء آنحضور ﷺ کی عورتوں کو زریں نصائح (جلسہ سالانہ مستورات برطانیہ سے خطاب فرمودہ ۲۹ جولائی ۲۰۰۰ء) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: آج کے خطاب کے لئے میں نے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض نصیحتیں جو آپ نے عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہیں دیں، وہ پیش کرتا ہوں.یہ بعض صحابیات کو انفرادی طور پر بھی آپ نے نصیحت کی اور بعض دُعائیں دیں اور بعض ایسی بھی صحابیات کا ذکر ہے جنہوں نے شہادت کی درخواست کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دعا دی وہ بعینہ لفظ بہ لفظاً بعد میں پوری ہوئی اور اجتماعی طور پر بھی صحابیات سے آپ نے خطاب فرمایا ہے با رہا.پہلی روایت ابوداؤد کتاب الجنائز سے لی گئی ہے.حضرت اُسیڈ ایک بیعت کرنے والی صحابیہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت لیتے وقت جو عہد اُن سے لیا اس میں یہ بات بھی تھی کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہیں کریں گی ، ماتم کے وقت نہ اپنا چہرہ نو چیں گی اور نہ واویلا کریں گی، نہ اپنا گریبان پھاڑیں گی اور نہ اپنے بال بکھیر دیں گی.ایک دوسری روایت میں ، مسند احمد بن حنبل سے لی گئی ہے.حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جب عورتوں سے بیعت لیا کرتے تھے تو اس وقت آپ نے ان سے یہ عہد بھی لیا کہ ہم نوحہ نہیں کریں گی.عورتوں نے کہا کہ کچھ عورتوں نے جاہلیت میں ہماری مرگ پر بین کرنے میں ہماری مدد کی تھی ( ہم جاہل ہوا کرتی تھیں تو جاہل عورتیں اسی طرح اپنے سابقہ رواج کے مطابق بین کیا کرتی تھیں اور ہماری مدد کیا کرتی تھیں) کیا اب ہم اسلام کی حالت میں ان کی مدد کرسکتی ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام میں اس قسم کی کوئی مدد جائز نہیں.

Page 650

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۴۶ خطاب ۲۹ جولائی ۲۰۰۰ء ایک روایت حضرت عائشہ صدیقہ کی ہے کہ مومن عورتیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کر کے آتیں تھیں تو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ان کی آزمائش کی جاتی تھی اور شرک نہ کرنے ، چوری اور زنانہ کرنے کی بیعت لی جاتی تھی.حضرت عائشہ فرماتی ہیں جو مومن عورتوں میں سے اس کا اقرار کرتی تھی تو گویا وہ ایک مشکل امر کا اقرار کرتی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب عورتوں سے ان کی زبان سے یہ عہد لیتے تھے تو آپ ان کو فرماتے تھے اب جاؤ میں نے آپ کی بیعت لے لی.اور خدا کی قسم کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ بیعت میں کسی عورت کے ہاتھ سے مس نہیں ہوا کیونکہ آپ تھورتوں سے زبانی بیعت لیا کرتے تھے.حضرت عائشہ صدیقہ بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے سوائے اس عہد کے جس کا اللہ نے حکم دیا اور کوئی عہد نہیں لیا اور آپ ان سے بیعت لے کر فرماتے تھے میں نے تم سے زبانی بیعت لے لی.ایک مسند امام احمد بن حنبل میں حضرت امیمہ بنت رقیقہ کی روایت ہے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیعت کرنے کے لئے حاضر ہوئی حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا.ایک ترندی کتاب الاستیذان سے حضرت اسماء بنت یزید کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن مسجد میں سے گزرے وہاں عورتوں کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی.آپ نے ہاتھ کے اشارے سے ان کو سلام کیا.بخاری کتاب العلم میں حضرت ابو سعید خدری کی روایت ہے کہ عورتوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ کی ملاقات کے بارہ میں مرد ہم پر غالب آگئے ہیں.پس آپ ایک دن ہمارے لئے خاص طور پر مقرر فرماویں.آپ نے ایک دن ان کے لئے مقررفرمایا جس میں آپ ان سے ملاقات فرماتے تھے.آپ اُن کو وعظ فرماتے تھے اور ارشادات فرماتے تھے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم میں سے کوئی بھی عورت نہیں ہے جو اپنے تین بچے آگے بھجواتی ہے مگر وہ اس کے لئے آگ سے بچاؤ کا ذریعہ بن جاتے ہیں.ایک عورت نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اگر کسی کے دو بچے فوت ہوئے ہوں تو فرمایا ! ہاں خواہ دو ہی کیوں نہ ہوں.اس سے مراد یہ ہے کہ وہ عورت جو اپنے بچوں کی وفات پر صبر سے کام لیتی ہے وہی بچے ان کے لئے بعد میں نجات کا موجب

Page 651

حضرت خلیفہ مسیح الرائع کے مستورات سے خطابات ۶۴۷ بن جاتے ہیں.خطاب ۲۹ جولائی ۲۰۰۰ء ایک روایت اسماء بنت یزید انصاری کی ہے وہ ایک دفعہ ان کے بیان مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عورتوں کی نمائندہ بن کر آئیں اور عرض کیا کہ حضور ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں میں عورتوں کی طرف سے حضور کی خدمت میں حاضر ہوئی ہوں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو مردوں اور عورتوں سب کی طرف مبعوث فرمایا ہے.ہم عورتیں گھروں میں بند ہو کر رہ گئی ہیں اور مردوں کو یہ فضیلت اور موقع حاصل ہے کہ وہ نماز با جماعت، جمعہ اور دوسرے مواقع اجتماع میں شامل ہوتے ہیں.نماز جنازہ پڑھتے ہیں.حج کے بعد حج کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور جب آپ میں سے کوئی حج ، عمرہ یا جہاد کی غرض سے جاتا ہے تو ہم عورتیں آپ کی اولاد اور آپ کے اموال کی حفاظت کرتی ہیں اور سوت کات کر آپ کے کپڑے بنتی ہیں.آپ کے بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری بھی سنبھالے ہوئے ہیں.کیا مردوں کے ساتھ ہم ثواب میں برابر کی شریک ہو سکتی ہیں؟ جبکہ مرد اپنا فرض ادا کرتے ہیں اور ہم اپنی ذمہ داری نبھاتی ہیں.حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسماء کی یہ باتیں سن کر صحابہ کی طرف مڑے اور انہیں مخاطب کر کے فرمایا! کہ اس عورت سے زیادہ عمدگی کے ساتھ کوئی عورت اپنے مسئلہ اور کیس کو پیش کر سکتی ہے؟ صحابہ رضوان اللہ نے عرض کیا.حضور ہمیں تو گمان بھی نہیں تھا کہ کوئی عورت اتنی عمدگی کے ساتھ اور اتنے اچھے پیرائے میں اپنا مقدمہ پیش کرسکتی ہے.پھر آپ اسماء کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے خاتون ! اچھی طرح سمجھ لو اور جن کی تم نمائندہ بن کر آئی ہو ان کو جا کر بتا دو کہ خاوند کے گھر کی عمدگی کے ساتھ دیکھ بھال کرنے والی اور اسے اچھی طرح سنبھالنے والی عورت کو وہی ثواب اور اجر ملے گا جو اس کے خاوند کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے پر ملتا ہے.ایک روایت مسند حضرت امام احمد بن حنبل سے مروی ہے جو حضرت عائشہ صدیقہ نے بیان کی ہے.اَنَّ أَسْمَاءِ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ تَعَالَىٰ عَنْهُمَا دَخَلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ کہ اسماء بنت ابی بکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس حالت میں آئیں کہ وہ باریک کپڑا پہنے ہوئے تھیں.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے اعراض کیا اور فرمایا اے اسماء ! جب عورت بالغ ہو جائے تو اس کے لئے مناسب نہیں ہے کہ منہ اور ہاتھوں کے سوا اس کے بدن کا کوئی اور حصہ نظر آوے.ایک روایت ابوداؤد سے حضرت عبداللہ بن عباس کی مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم

Page 652

حضرت خلیفہ صیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۶۴۸ خطاب ۲۹ جولائی ۲۰۰۰ء نے ایسی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں اور ایسے مردوں پر بھی لعنت بھیجی ہے جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں.یہ آج کل کے زمانے میں رواج ہے کہ مرد عورتوں کی طرح اپنے بال بڑھا لیتے ہیں اور عورتیں مردوں کی طرح بال کٹوا لیتی ہیں.مجھے بھی ایک بچی ملنے آئی تھی اس کا یہی حال تھا اس کو میں نے نصیحت کی.اس نے توبہ کی اور مجھے کہا کہ اب میں جا کر اپنے بال بڑھالوں گی.تو اس قسم کے لطیفے بھی بہت مشہور ہیں کہ ایک آدمی اچانک غسل خانے میں گیا غلطی سے وہاں کوئی اس قسم کی عورت نہا رہی تھی تو اس نے کہاExcuse me Sir معاف کرنا بھائی میری غلطی ہوگئی ہے.یہ رواج ہے زمانے کا بگڑا ہوا.اس سے احمدی خواتین کو پوری طرح تو بہ کرنی چاہئے اور احمدی مردوں کو بھی.ایک ابن ماجہ ابواب النکاح سے روایت ہے حضرت عبد اللہ ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے کسی انصاری عزیزہ کی شادی کی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ کچھ تحفے تحائف بھی بھجوائے ہیں؟ عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھجوائے ہیں.حضور نے فرمایا کیا گانے والیاں بھی بھیجی ہیں؟ حضرت عائشہ نے کہا کہ نہیں.اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! انصار ایسے موقعوں پر گانے پسند کرتے ہیں تمہیں چاہئے تھا کہ انہیں ایسی گانے والیاں بھیجتیں جو کہتیں: آتَيْنَا كُمُ آتَيْنَا كُمْ فَحَيَّانَا وَحَيَّاكُمْ یہ شعر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت بنا کر اُن کو سکھایا.ترجمہ یہ ہے.ہم تمہارے ہاں آئے ہیں تمہیں خوش آمدید کہنے کے لئے.پس خوش آمدید کہو.بخاری کتاب النکاح سے ایک روایت خالد بن زکوان کی ہے کہ ربیع بنت معوذ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری شادی کے روز تشریف لائے اور میرے بچھونے پر تشریف فرما ہوئے.جیسے تم میرے پاس بیٹھے ہو.ہماری کچھ بچیاں ڈھولک کی تھاپ پر جنگ بدر میں اپنے شہید ہونے والے بزرگوں کے نوحے گارہی تھیں کہ اچانک ان میں سے ایک لڑکی یہ پڑھنے لگی ہمارے اندر ایک ایسا نبی موجود ہے جو کل کی بھی بات جانتا ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ مت کہو ہاں جو پہلے پڑھ رہی تھیں وہ بیشک پڑھتی رہو.ایک اور روایت حضرت عائشہ صدیقہ کی ابن ماجہ سے مروی ہے.حضرت عائشہ اور حضرت

Page 653

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۶۴۹ خطاب ۲۹ جولائی ۲۰۰۰ء ام سلمہ دونوں بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ فاطمہ کو رخصت کی غرض سے دلہن کی طور پر تیار کرو.(اب دیکھیں کتنی سادگی سے انہوں نے گھر سجایا ہے ) ہم نے اس کے کمرے کو لیپ پوت کر کے ٹھیک کیا.تکیہ اور گدے نرم نرم کھجور کے چھلکوں کے تیار کئے پھر ہم نے کھانے کے لئے کھجور اور کشمش اور پینے کے لئے میٹھے پانی کا انتظام کیا اور ہم نے کپڑے اور مشکیزہ لٹکانے کے لئے ایک لکڑی کونے میں گاڑی.اس طرح حضرت فاطمہ کی رخصتی سے بڑھ کر کوئی خوبصورت رخصتنا نہ ہم نے نہیں دیکھا.حضرت ابوداؤد سے ایک روایت حضرت ابن عباس کی ہے کہ ایک ہماری لڑکی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور بیان کیا کہ اس کے والد نے اس کی شادی کی ہے اور یہ شادی اسے ناپسند ہے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دیا کہ وہ چاہے تو اس نکاح کو قائم رکھے اور اگر چاہے تو اسے رد کر دے.یہ مغرب میں الزام لگایا جاتا ہے کہ مسلمان بچیوں کی زبردستی شادی کی جاتی ہے.یہ سراسر جھوٹ ہے اب بگڑے ہوئے زمانے کے مسلمان یہ کرتے ہوں تو کرتے ہوں اللہ کے فضل سے احمدیوں میں پوری کوشش کی جاتی ہے کہ کوئی ایسا واقعہ نہ ہو.ایک مسند امام احمد بن حنبل سے روایت حضرت عبداللہ بن عباس کی ہے کہ ایک عورت کا خاوند فوت ہو گیا.اس کا اس سے ایک بچہ بھی تھا.بچے کے چانے عورت کے والد سے اس بیوہ کا رشتہ مانگا یعنی اس کے دیور نے رشتہ مانگا.عورت نے بھی رضا مندی کا اظہار کیا لیکن لڑکی کے والد نے اس کا رشتہ اس کی رضامندی کے بغیر کسی اور جگہ کر دیا.اس پر وہ لڑکی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور شکایت کی.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے والد کو بلا کر دریافت کیا اس کے والد نے کہا کہ اس کے دیور سے بہتر آدمی کے ساتھ میں نے اس کا رشتہ کیا ہے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے باپ کے کئے ہوئے رشتے کو تو ڑ کر بچے کے چچا یعنی عورت کے دیور سے اس کا رشتہ کر دیا.سنن ابی داؤد میں یہ روایت ہے ایک بار ایک صحابی نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور بچے کو اس سے لینا چاہا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا کہ میرا پیٹ اس کا ظرف، میری چھاتی اس کا مشکیزہ اور میری گود اس کا گہوارہ تھا اور اب اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی اور اس کو مجھ سے چھینا چاہتا ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک تم دوسرا نکاح نہ کر لو تم بچے کی

Page 654

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات سب سے زیادہ مستحق ہو.خطاب ۲۹ جولائی ۲۰۰۰ء ایک روایت بخاری کتاب الادب سے لی گئی ہے.حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں.قَالَتْ مَارَأَيْتُ أَحَدًا كَانَ اَشْبَهَ سَمُتًا وَهَدْيَاو دلا یہ عربی عبارت کا ترجمہ میں پڑھتا ہوں اب حضرت عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے فاطمہ سے بڑھ کر رضی اللہ تعالیٰ عنھا، شکل وصورت ، چال ڈھال اور گفتگو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ کسی اور کو نہیں دیکھا.حضرت فاطمہ جب کبھی حضور سے ملنے آتیں تو حضور ان کے لئے کھڑے ہو جاتے ،ان کے ہاتھ کو پکڑ کر چومتے ، اپنے بیٹھنے کی جگہ پر بٹھاتے.اسی طرح جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ملنے کے لئے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ کھڑی ہو جاتیں.حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کو بوسہ دیتیں اور اپنے بیٹھنے کی جگہ پر حضور کو بٹھا تیں.ایک لمبی روایت ابو داؤد سے لی گئی ہے.اس میں حضرت ابن عابد بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت علی نے کہا کہ کیا میں تجھے اپنا اور فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک واقعہ نہ سناؤں.حضرت فاطمہ تمام رشتہ داروں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ عزیز تھیں.میں نے کہا کیوں نہیں ضرور سنائیں.اس پر حضرت علی سنانے لگے کہ چکی چلا چلا کر فاطمہ کے ہاتھ میں گئے اور پانی ڈھوڈھوکر سینے پر مشکیزے کے نشان پڑ گئے تھے اور گھر میں جھاڑو دینے کی وجہ سے کپڑے میلے کچیلے ہو جاتے تھے.اس عرصے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ خادم آئے.میں نے کہا بہتر ہوگا اگر پ اپنے والد محترم کے پاس جا کر کوئی خادم مانگ لیں وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو دیکھا کہ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں.وہ اس دن واپس آگئیں.پھر دوسرے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم خودان کے پاس گئے اور پوچھا کسی چیز کی ضرورت ہے؟ وہ خاموش رہیں.میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں بتاتا ہوں یہ کس لئے آئی ہیں.چکی چلا چلا کر ہاتھ میں گئے پڑ گئے ہیں.مشک اُٹھا اُٹھا کر سینے پر نشان پڑگئے ہیں.جب آپ کے پاس خادم آئے تو میں نے کہا جا کر اپنے لئے ایک خادم مانگ لو تا کہ وہ اس جانکاہ محنت سے بچ سکے.حضور علیہ السلام یہ سن کر فرمانے لگے.فاطمہ اللہ سے ڈرو، اپنے رب کے فرائض ادا کرو، گھر کے کام کاج خود کرو.جب رات کو سونے لگو تو ۳۳ بارسبحان اللہ ۳۳۰ بار الحمد للہ اور ۳۴ بار اللہ اکبر کہو کل سو بار ہوئے.یہ نوکر چاکر کی تمنا سے زیادہ بہتر ہے.اس پر حضرت فاطمہ نے عرض کیا میں اللہ اور اس کے رسول کی رضا پر راضی ہوں.

Page 655

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۵۱ خطاب ۲۹ جولائی ۲۰۰۰ء ایک روایت ابوداؤد سے ابوطفیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے.ابوطفیل بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام جعرانہ میں دیکھا آپ گوشت تقسیم فرمارہے تھے.اس دوران ایک عورت آئی یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آگئی.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے اپنی چادر بچھا دی اور وہ عورت اس پر بیٹھ گئی.میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ خاتون کون ہے تو لوگوں نے بتایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی والدہ ہیں.ایک روایت بخاری کتاب الانبیاء سے لی گئی ہے جو حضرت ابو ہریہ کا بیان کرتے ہیں کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اِسْتَوْصُوا بِالنَّاس خَيْراً کہ عورتوں کی بھلائی اور خیر خواہی کا خیال رکھو کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پہلی کا سب سے زیادہ کسی حصہ اس کا سب سے اعلیٰ حصہ ہوتا ہے اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اسے توڑ ڈالو گے اور اگر تم اسے اس کے حال پر رہنے دو گے تو وہ ٹیڑھا ہی رہے گا.پس عورتوں سے نرمی کا سلوک کرو.اسی قسم کی روایت ایک بائبل میں ملتی ہے جس میں آدم کی پسلی سے پیدا ہونے کا ذکر ہے.قرآن کریم ایسی کسی روایت کو بیان نہیں کرتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روایت کی بھی گویا تشریح فرما دی.عورت کو پہلی سے پیدا کیا گیا سے مراد یہ ہے کہ عورت خدا کے فضل سے اپنے اندر ایک نزاکت کا حسن رکھتی ہے اور پہلی کا سب سے اعلیٰ حصہ وہ ہوتا ہے جو زیادہ مڑا ہوا ہوتا ہے تو بظاہر عورت میں ایک کبھی بھی ہوتی ہے.ایک نخرہ بھی ہوتا ہے مگر سب سے زیادہ خوبصورتی اس میں اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ اس قسم کے نخروں سے کام لیتی ہے.اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو سیدھا کرنے کی کوشش نہ کرنا ورنہ عورت کا سارا حسن جاتا رہے گا.حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں ابن ماجہ کتاب النکاح میں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو عورت اس حالت میں فوت ہوئی کہ اس کا خاوند اس سے خوش اور راضی ہے تو وہ جنت میں جائے گی.ایک روایت مسلم کتاب النکاح میں حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن کو اپنی مومنہ بیوی سے نفرت اور بغض نہیں رکھنا چاہئے اگر اس کی ایک بات نا پسند ہے تو دوسری بات پسندیدہ بھی ہوتی ہے.پس مردوں کو خصوصیت سے یہ نصیحت ہے بعض عورتوں پر بہت ظلم کرتے ہیں.بعض ان کو شکل کے طعنے دیتے ہیں ان کی بعض اداؤں کے طعنے دیتے ہیں یہ

Page 656

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۵۲ خطاب ۲۹ جولائی ۲۰۰۰ء نہایت ناجائز حرکت ہے اور ہرگز اللہ کو پسند نہیں اس لئے ان میں جو اچھی بات دیکھیں اس کی تعریف کیا کریں اور بُری بات سے پردہ پوشی کریں.صحیح بخاری میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ روایت درج ہے کہ نِعم النِسَاء قُريش احْنَاهُنَّ عَلَى الْوَلَدِ ورَاهُنَّ عَلَى الزَّوُج یعنی قریش کی عورتیں کس قدر اچھی ہیں، بچوں سے محبت رکھتی ہیں اور شوہروں کے مال واسباب کی نگرانی کرتی ہیں.ایک روایت مسند احمد بن حنبل سے حضرت عبد الرحمن بن عوف کی بیان ہوئی ہے وہ عرض کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس عورت نے پانچوں وقت نماز پڑھی اور رمضان کے روزے رکھے اور اپنے آپ کو بُرے کاموں سے بچایا اور خاوند کی فرمانبرداری کی اور اس کا کہا مانا.ایسی عورت کو اختیار ہے کہ جنت میں جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے.جس دروازے کا محاورہ ہے.مراد یہی ہے کہ اس نے ہر پہلو سے ایسی نیکیاں کی ہیں کہ جو اس کو جنت کا حقدار بناتی ہیں.ایک روایت بخاری کتاب النفعات سے لی گئی ہے.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ہند بنت نکنبہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو سفیان بخیل آدمی ہے اور وہ مجھے اتنا خرچ نہیں دیتا جو مجھے اور میرے بچوں کے لئے کافی ہو سوائے اس کے کہ میں خود اس کی لاعلمی میں کچھ لے لوں.آپ نے فرمایا مناسب طور پر صرف اتنا لے لیا کرو کہ تمہارے لئے اور تمہارے بچوں کی ضرورت کے لئے کافی ہو.پس اگر کچھ بخیل خاوندوں کی بیویاں موجود ہوں تو یا د رکھ لیں اتنا ہی نکالا کریں جتنا ضرورت کے لئے مجبوری ہے.( بعض عورتوں کی ہنسنے کی آواز آئی ہے جس سے لگتا ہے کہ ان کے خاوند بخیل ہیں شاید ) ایک روایت ہے بخاری کتاب الزکوۃ میں زنیب زوجہ عبد اللہ سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ میں مسجد میں تھی میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ فرما رہے تھے کہ اے عورتو! صدقہ کرو خواہ اپنے زیور میں سے ہی کیوں نہ کچھ دینا پڑے.اور زینب اپنے خاوند عبداللہ اور اپنی گود میں پلنے والے یتیم بچوں پر خرچ کیا کرتی تھیں.اس نے عبداللہ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو کہ میں تم پر اور ان یتیم بچوں پر جو میری گود میں ہیں خرچ کرتی ہوں تو کیا میری طرف سے صدقہ ہو جائے گا؟ عبداللہ نے کہا کہ تم خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو.چنانچہ میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روانہ ہوئی.میں نے انصار کی ایک اور عورت کو دروازے پر موجود پایا.اسے بھی میری

Page 657

۶۵۳ خطاب ۲۹ جولائی ۲۰۰۰ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات طرح کا مسئلہ در پیش تھا.حضرت بلال ہمارے پاس سے گذرے ہم نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو کہ اگر میں اپنے خاوند اور گود میں پلنے والے یتیم بچوں پر خرچ کروں تو مجھ سے صدقہ ہو جائے گا؟ اور ہم نے کہا کہ ہمارے بارے میں نہ بتانا کہ پوچھنے والی کون ہیں؟ بلال نے آپ سے سوال کیا تو فرمایا وہ دونوں کون ہیں؟ بلال نے کہا زنیب آپ نے فرمایا کونسی زینب ؟ عرض کیا عبداللہ کی بیوی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اس کے لئے دوہرا اجر ہے.رشتہ داری کا اجر بھی اور صدقہ کا اجر بھی.بظاہر تو حضرت بلال نے وعدہ کیا تھا کہ نہیں بتائیں گے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے بعد اس کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا کہ نہ بتا ئیں.چنانچہ انہوں نے ان کا یہ راز کھول دیا.(اس موقع پر حضور نے اپنی بیٹی مونا کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اس کو سنبھالو اپنے بچے کو یہ انڈو نیشیا میں بھی یہی شرارتیں کیا کرتا تھا) ابوداؤد کتاب الجنائز میں حضرت ام علی رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی یہ روایت درج ہے کہ میں بیمار تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عیادت کے لئے میرے ہاں تشریف لائے اور میری تسلی کے لئے فرمایا.ام علی بیماری کا ایک پہلو خوش کن بھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ مرض کی وجہ سے ایک مسلمان کی خطائیں اس طرح دور کر دیتا ہے جس طرح آگ سونے اور چاندی کی میل کچیل دور کر دیتی ہے.پس مرض کے وقت یہ دعا کرنی چاہئے کہ جو بھی ہم نے تکلیف اُٹھائی ہے اللہ اس کے نتیجے میں ہمارے گناہ دھودے.ایک روایت کتاب الجنائز بخاری میں درج ہے کہ حضرت اسامہ بن زید نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی نے حضور کو پیغام بھجوایا کہ میرا بیٹا مرنے کے قریب ہے آپ ہمارے ہاں تشریف لائیں.حضور نے جوابا سلام بھجوایا اور فرمایا اللہ ہی کا ہے اس نے لے لیا اور اسی کا ہے جو کچھ اس نے عطا کیا اور ہر ایک شخص کی ایک مقررہ معیاد اس کے ہاں مقرر ہے.پس چاہئے کہ تم صبر کرو اور ثواب کی امید رکھو.اس نے دوبارہ پیغام بھجوایا آپ کو قسم دیتے ہوئے کہ آپ ضرور تشریف لائیں.آپ اُٹھے اور آپ کے ساتھ سعد بن عبادہ ، معاذ بن جبل، ابی بن کعب، زید بن ثابت اور کچھ اور صحابہ رضوان اللہ یھم بھی چلے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بچہ پیش کیا گیا اس کے سانس اکھڑ رہے تھے.راوی کہتا تھا یوں محسوس ہوتا تھا کہ ایک پانی کا مشکیزہ ہے یعنی اس کی چھاتی کھلی ہوئی تھی.سانس کی تنگی سے، سانس کی تکلیف سے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے.اصل میں یہی وجہ تھی جو حضور نے پہلے انکار کیا تھا کیونکہ آپ کو پتہ تھا کہ آپ یہ تکلیف دہ منظر

Page 658

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۵۴ خطاب ۲۹ جولائی ۲۰۰۰ء برداشت نہیں کر سکیں گے.سعد نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیا؟ آپ نے فرمایا یہ محبت ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا کی اور اللہ اپنے بندوں میں سے انہی پر رحم کرتا ہے جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں.ایک اور روایت بخاری کتاب الجنائز میں حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہم عورتوں کو جنازے کے ساتھ جانے سے روکتے لیکن اس بارہ میں زیادہ بختی نہیں فرماتے تھے.جنازے میں جو روکنے کی وجہ تھی جنازے کے ساتھ جانے میں بعض دفعہ عورتیں نوحہ وغیرہ کیا کرتی تھیں لیکن اگر عورت جائے اور اصرار کرے کہ میں نے جانا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو سختی سے نہیں روکا کرتے تھے.حضرت ام سلیم کی ایک روایت بخاری میں ہے.نہایت صابر اور مستقل مزاج تھیں ابو عمیر ان کا بہت لاڈلا اور پیارا بیٹا تھا لیکن جب اس نے انتقال کیا تو نہایت صبر سے کام لیا اور گھر والوں کو منع کیا کہ ابوطلحہ کو اس واقعہ کی خبر نہ کریں.رات کو ابوطلحہ آئے تو کھانا کھلایا اور نہایت اطمینان سے بستر پر لیٹے کچھ رات گذرنے پر ام سلیم نے اس واقعہ کا تذکرہ کیا لیکن عجیب انداز سے بولیں تمہیں کوئی شخص عاریتاً ایک چیز دے اور پھر اس کو واپس لینا چاہے تو کیا تم اس کے دینے سے انکار کرو گے؟ ابوطلحہ نے کہا.کبھی بھی نہیں تو پھر فرمایا تو اب تم کو اپنے بیٹے کی طرف سے صبر کرنا چاہئے.ابوطلحہ یہ سن کر خفا ہو گئے کہ پہلے کیوں نہ بتایا؟ صبح اٹھ کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور سارا واقعہ بیان کیا.آپ نے فرمایا خدا نے اس رات تم دونوں کو بہت برکت دی ہے کہ خدا نے پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دے دی تھی کہ یہ واقعہ ہوا ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ نے جب وفات پائی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ بدر کی وجہ سے ان کے جنازے میں شریک نہ ہو سکے لیکن جب واپس آئے اور اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو نہایت رنجیدہ ہو کر قبر پر تشریف لائے اور ارشاد فر مایا عثمان بن مظعون پہلے جاچکے اب تم بھی ان کے پاس چلی جاؤ.اس دردناک فقرے نے عورتوں میں کہرام بر پا کر دیا.حضرت عمرؓ اُٹھے تا کہ ان پر سختی کر کے ان کو بند کریں آپ نے ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا رونے میں کچھ حرج نہیں لیکن نوحہ اور بین شیطانی حرکت ہے اس سے بچنا چاہئے.حضرت فاطمہ بھی بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئیں وہ قبر کے پاس بیٹھ کر روتی جاتی تھیں اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کپڑے سے ان کے آنسو پونچھتے جاتے تھے.

Page 659

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات خطاب ۲۹ جولائی ۲۰۰۰ء ایک روایت مسلم کتاب الجنائز میں حضرت ابو ہریرہ کی مروی ہے کہ ایک سیاہ رنگ کی عورت مسجد کی صفائی اور اس کی دیکھ بھال کرتی تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی دن تک اس کو نہ دیکھا تو آپ نے اس کے متعلق پوچھا.لوگوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تو وفات ہوگئی.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے کیوں نہ اس کی اطلاع دی؟ دراصل صحابہ رضوان اللہ علیم نے اس کو معمولی انسان سمجھ کر یہ خیال کیا تھا کہ اس کے متعلق حضور کو کیا تکلیف دینی ہے.چنانچہ حضور نے فرمایا مجھے اس کی قبر دکھاؤ.لوگوں نے قبر دکھائی تو آپ نے وہاں جا کر اس کی نماز جنازہ پڑھی اور فرمایا یہ قبریں تاریکی سے بھری ہوئی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ میری نماز اور دعا کی وجہ سے ان کو منور اور روشن فرما دیتا ہے.تو یہ بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی فصاحت و بلاغت ہے جو ہمیشہ اپنی شان دکھلاتی تھی کہ وہ سیاہ رنگ کی عورت تھی تو فرمایا یہ اس کی سیاہی کا سوال نہیں ساری قبریں ہی تاریکی سے بھری ہوتی ہیں مگر میری دُعا سے منور ہو جاتی ہیں.بخاری کتاب الجنائز میں حضرت عائشہ صدیقہ کی یہ روایت مروی ہے کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی اور اس نے عذاب قبر کا ذکر کیا اور حضرت عائشہ سے کہا اللہ آپ کو عذاب قبر سے بچائے.چنانچہ حضرت عائشہ نے رسول اللہ سے عذاب قبر کی بابت دریافت کیا.آپ نے فرمایا ہاں عذاب قبریج ہے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں اس کے بعد میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی بھی نماز پڑھتے نہیں دیکھا مگر اس میں عذاب قبر سے بخشش طلب کیا کرتے تھے.یہ ضروری نہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر نماز کے وقت یہ دعاسنی ہو مگر جو بھی جب بھی سنی یہ سنا کہ آپ عذاب قبر سے پناہ مانگا کرتے تھے.ایک روایت بخاری ہی میں حضرت زنیب بنت ابی سلمہ سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت ام حبیبہ کے پاس حاضر ہوئی وہ فرمانے لگیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ کسی مومن عورت کے لئے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتی ہے.یہ جائز نہیں کہ وہ کسی عزیز کی وفات پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے سوائے اپنے خاوند کے کہ جس کے لئے وہ چار ماہ دس دن تک سوگ کرے گی یعنی عدت مقرر ہے.سوگ نہ کرنے سے مراد ہے زیبائش اور بناؤ سنگھار سے پر ہیز رکھے.کہتی ہیں پھر میں زنیب بنت جحش کے پاس آئی.جب ان کا بھائی فوت ہوا انہوں نے تیسرے دن کے بعد کچھ خوشبو منگا کر لگائی پھر فرمایا مجھے اس خوشبو وغیرہ کی

Page 660

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات خطاب ۲۹ جولائی ۲۰۰۰ء کوئی حاجت یا ضرورت تو نہیں مگر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ کسی مومن عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے.سوائے اپنے خاوند کے جس پر چار ماہ دس دن کی جو مدت مقرر ہے.وہ تو قرآن کریم کا حکم ہے اس کے مطابق تو میں عمل کروں گی.صحیح بخاری کتاب الجنائز میں ایک روایت حضرت عائشہؓ سے مروی ہے.حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری دفعہ بیمار ہوئے تو آپ کی کسی بیوی نے ایک گرجا کا ذکر کیا جو انہوں نے سرزمین حبشہ میں دیکھا تھا اور جس کا نام ماریہ تھا.حضرت ام سلمہ اور حضرت ام حبیبہ ملک جبش میں رہ چکی تھیں اُن دونوں نے اس گرجے کی خوبصورتی اور اس کی تصاویر وغیرہ کا ذکر کیا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جب ان میں سے کوئی نیک آدمی مرجاتا تھا تو اس کی قبر پر عبادت گاہ تعمیر کر لیا کرتے تھے.پھر اس میں اس طرح کی تصویر میں بناڈالتے تھے.یہ لوگ اللہ کی بدترین مخلوق ہیں.ایک لمبی روایت ہے بخاری کتاب الجنائز میں خارجہ بن زید بیان کرتے ہیں کہ انصار کی ایک عورت ام علی جس نے نبی کریم کی بیعت کی تھی اس نے مجھے بتایا کہ مہاجرین قرعہ کے ذریعہ تقسیم کئے گئے اور عثمان بن مظعون ہمارے حصے میں آئے.ہم انہیں اپنے گھر لے آئے.ان کو ایسی بیماری پیش آگئی جس میں ان کی وفات ہوئی.وفات کے بعد ان کو نسل دے کر کفن دیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور کہا اے ابو صائب ! یعنی عثمان بن مظعون کی نعش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا.اللہ کی رحمتیں تجھ پر ہوں.یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا.بیوی نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو ان کی بیوی نے اپنے مرحوم خاوند کو مخاطب کرتے ہوئے عرض کیا.اللہ کی حمتیں تجھ پر ہوں میں گواہی دیتی ہوں کہ خدا نے تجھے عزت دی ہے.یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھے کیسے پتہ کہ اللہ نے اُسے عزت دی ہے.میں نے عرض کیا کہ حضور اُسے بھی نہیں ؟ یعنی جب آپ تشریف لائے تو کیا اس کو بھی عزت نہیں ملی تو پھر کسے اللہ تعالیٰ عزت دیتا ہے.آپ نے فرمایا بس اس کو جب موت آ گئی تو میں اس کے لئے بھلائی کی امید رکھتا ہوں اور خدا کی قسم میں اللہ کا رسول ہو کر بھی نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا سلوک ہوگا.ام علی کہتی ہیں خدا کی قسم اس کے بعد میں کسی کو حتمی طور پر پاکباز قرار نہیں دیتی.حضرت سمعیہ کا اسلام قبول کرنے والوں میں ساتواں نمبر تھا.حضرت سمعیہ کو بھی خاندان

Page 661

حضرت خلیفہ صیح الرابع" کے مستورات سے خطابات خطاب ۲۹ جولائی ۲۰۰۰ء مغیرہ نے شرک پر مجبور کر دیا.شرک پر مجبور نہیں کر دیا.شرک پر بہت مجبور کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے عقیدے پر نہایت شدت سے قائم رہیں.مشرکیں ان کو مکے کی جلتی تپتی ریت پر لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں کھڑا کرتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گزرتے تو یہ حالت دیکھ کر فرماتے تھے اے آل یا سر صبر کرو.اس کے عوض تمہارے لئے جنت ہے.دن بھر اس مصیبت میں رہ کر شام کو نجات ملتی تھی.ایک مرتبہ شب کو گھر آئیں تو ابو جہل نے ان کو گالیاں دینی شروع کیں اور پھر اس غصہ میں اس قدر تیز ہوا کہ اُٹھ کر ایسا نیزہ مارا کہ آپ شہید ہوگئیں.ان کے بیٹے حضرت عمار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر کہا کہ اب تو حد ہو گئی.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر کی تاکید فرمائی.اور کہا خداوند آل یا سر کو جہنم سے بچا.انہوں نے اس دنیا میں جو دنیا کی جہنم گرمی کی تھی وہ تو دیکھ لی انہوں نے تو آخرت کی جہنم سے بچا.غزوہ بدر میں جب ابو جہل مارا گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار سے فرمایا.دیکھو تمہاری ماں کے قاتل کا خدا نے فیصلہ کر دیا.ایک روایت ابوداؤد کتاب الصلوۃ باب قیام اللیل میں حضرت ابو داؤد کی مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ رحم کرے اس شخص پر جو رات کو اُٹھے نماز پڑھے اور اپنی بیوی کو اُٹھائے.اگر وہ اُٹھنے میں پس و پیش کرے تو اس کے منہ پر پانی چھڑ کے تا کہ وہ اُٹھ کھڑی ہو.اسی طرح اللہ تعالیٰ رحم کرے اس عورت پر جو رات کو اٹھی نماز پڑھی اور اپنے میاں کو جگایا اگر اس نے اٹھنے میں پس و پیش کیا اس کے چہرے پر پانی چھڑ کا تا کہ وہ اُٹھ کھڑا ہو.ایک روایت مسند احمد میں حضرت ام سلمہ سے مروی ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورتوں کی بہترین مساجد ان کے گھروں کے اندر ہیں.ایک روایت بخاری کتاب الایمان میں حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے کہ میرے پاس ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور پوچھا یہ کون عورت ہے؟ میں نے عرض کیا یہ فلاں ہے جو اس قدر عبادت اور ذکر الہی میں مشغول رہتی ہے کہ سوتی بھی نہیں.یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چھوڑ وتم پر اسی قدر عبادت واجب ہے جتنی تم میں طاقت ہے.خدا کی قسم ! تم تھک اور اُکتا جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ نہیں اکتائے گا اللہ تعالیٰ کو وہی عمل پسند ہے جس پر میانہ روی کے ساتھ مداومت اختیار کی جائے.ایک روایت مسند احمد میں بھی حضرت مُمیضہ بنت یا سر کی مروی ہے وہ اپنی دادی یوئیر ہا سے روایت کرتی ہیں کہ جو مسلمان مہاجر خواتین میں سے تھیں یعنی وہ مسلمان مہاجر خواتین میں سے تھیں.

Page 662

حضرت خلیفتہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۵۸ خطاب ۲۹ جولائی ۲۰۰۰ء یوسیر کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نصیحت فرمائی کہ اے مومن عور تو اتم لا الہ الا اللہ کثرت سے پڑھا کرو اور سبحان اللہ اور الحمد للہ بھی بہت پڑھا کرو اور غفلت نہ کیا کرو اور غفلت کرتے ہوئے کہیں نعمت اور محبت کو نہ بھول جانا.انگلیوں کی پوروں پر گنتی کر لیا کرو کیونکہ ان سے پوچھا جائے گا اور یہ گواہی دیں گے.ایک روایت بخاری کتاب الصلوۃ میں حضرت ام عطیہ کی مروی ہے وہ فرماتی ہیں ہمیں ارشاد ہوتا تھا کہ ہم دونوں عیدوں کے موقع پر حائضہ عورتوں اور پردے والی عورتوں کو بھی ساتھ لے کر جائیں وہ مسلمانوں کے اجتماع اور ان کی دعا میں شریک ہوں اور حائضہ عورتیں نماز کی جگہ سے الگ رہیں.ایک عورت نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر ہم میں سے کسی کے پاس اوڑھنی نہ ہو.وہ اتنا غربت کا زمانہ تھا کہ بعض عورتوں کے پاس اوڑھنی تک نہیں تھی.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چاہئے اس کی ساتھی اپنی اوڑھنی اسے بھی اوڑھا دے.ایک روایت بخاری میں حضرت عائشہ صدیقہ کی مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھتے تھے.مسلمان مومن عورتیں آپ کے ساتھ اوڑھنی لئے ہوئے نماز فجر میں شریک ہوتی تھیں.پھر وہ اپنے گھروں میں لوٹتی تو کوئی انہیں پہچان نہ سکتا تھا.ایک روایت بخاری کتاب الصلوۃ سے لی گئی ہے جو حضرت جابر بن عبد اللہ کی ہے کہ ایک عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا میں آپ کے لئے کوئی ایسی چیز نہ بنوادوں جس پر آپ تشریف فرما ہوا کریں.میرا ایک غلام بڑھئی کا کام کرتا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اگر آپ کی مرضی ہے.چنانچہ اس خاتون نے وہ منبر بنایا جس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخر وفات تک کھڑے ہو کر خطبہ دیا کرتے تھے.ایک روایت بخاری کتاب العلم سے حضرت ام سلمہ کی مروی ہے.حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے اور فرمانے لگے.سبحان اللہ، اللہ پاک ہے.آج رات کتنے فتنوں کے بارہ میں علم عطا فرمایا اور کتنے ہی خزانے مجھ پر کھولے گئے ہیں.حجروں میں سونے والیوں کو جگاؤ کیونکہ کتنی ہی عورتیں ہیں کہ اس دنیا میں تو لباس زیب تن کئے ہوئے ہیں مگر آخرت میں لباس سے عاری ہوں گی.ایک روایت بخاری کتاب الزکوۃ میں حضرت عائشہ صدیقہ کی مروی ہے کہ ایک غریب

Page 663

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات خطاب ۲۹ جولائی ۲۰۰۰ء عورت میرے پاس آئی جس نے اپنی دو بچیاں اُٹھا رکھی تھیں.میں نے اس کو تین کھجور میں دی.اس نے دونوں بیٹیوں کو ایک ایک کھجور دے دی اور ایک کھجور کھانے کے لئے اپنے منہ میں ڈالنے لگی لیکن یہ کھجور بھی اس کی بیٹیوں نے اس سے مانگ لی.اس پر اُس نے اس کھجور کے جسے وہ کھانا چاہتی تھی دو حصے کئے اور اُن دونوں بیٹیوں کو دے دیئے.مجھے اس کی ادا بہت پسند آئی اور میں نے اس کا ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے جنت واجب کر دی یا یہ فرمایا کہ اس کی شفقت کی وجہ سے اُسے آگ کے عذاب سے آزاد کر دیا گیا.ایک روایت بخاری کتاب الزکوۃ میں حضرت ام عطیہ کی درج ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بے حد محبت کرتی تھیں اور آپ سبھی ان سے محبت کرتے تھے.ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس صدقہ کی ایک بکری بھیجی تو انہوں نے اس کا گوشت حضرت عائشہ کے پاس روانہ کیا.آپ گھر میں تشریف لائے تو کھانے کے لئے مانگا.بولیں اور تو کچھ نہیں ہے جو بکری آپ نے ام عطیہ کے پاس بھیجی تھی اس کا گوشت رکھا ہے.آپ نے فرمایالاؤ کیونکہ وہ مستحق کے پاس پہنچ چکی ہے.مراد یہ ہے کہ اگر کسی کو صدقہ دیا جائے اور وہ اس میں سے کچھ تحفہ صدقہ دینے والے کے اہل وعیال میں کسی کو یا اس کو بھجوا دے تو صدقہ سمجھ کے اس کو کھانے سے پر ہیز نہیں کرنا چاہئے کیونکہ دے دے.جس کو مل گیا اس کو مل گیا.اس کے بعد اس کا حق ہے کہ اس میں سے کچھ تحفہ کسی اور کو دے د.ایک اور روایت میں حضرت عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے ایک بکری ذبح کروائی اور اس کا گوشت غرباء میں تقسیم کیا اور کچھ گھر میں کھانے کے لئے بھی رکھ لیا.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کس قدر گوشت بیچ گیا ؟ عائشہ نے جواب دیا دستی بچی ہے.یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سارا بچ گیا ہے سوائے دستی کے.جو صدقہ میں چلا گیا وہی بچا ہے جو قیامت کے دن کام آئے گا.صرف ایک یہ دستی رہ گئی ہے جو نہیں بچی.بخاری کتاب الادب میں حضرت ابوذر کی یہ روایت درج ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے مسلمان عورتو! کوئی عورت اپنی پڑوسن سے حقارت آمیز سلوک نہ کرے.اگر بکری کا ایک پا یہ بھی بھیج سکتی ہو تو اسے بھیج دینا چاہئے.ایک اور روایت صحیح بخاری کتاب الادب میں حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میرے دو پڑوسی ہیں.میں کسے تحفہ بھجواؤں.آپ نے فرمایا ان دونوں

Page 664

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات میں سے جو تمہارے دروازے کے زیادہ قریب ہے.خطاب ۲۹ جولائی ۲۰۰۰ء اسی طرح ایک اور روایت بخاری کتاب الزکوۃ میں حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی نے آپ سے پوچھا کہ ہم میں سے کون سب سے پہلے آپ سے آن ملے گی.آپ نے فرمایا تم میں سے سب سے پہلے زیادہ لمبے ہاتھوں والی مجھے ملے گی.چنانچہ انہوں نے ایک کا نالیا اور اپنے ہاتھ ماپنے لگیں.حضرت سودہ کے ہاتھ سب سے لمبے نکلے.بعد میں پتہ چلا کہ لمبے ہاتھوں سے مراد صدقہ دینا تھا اور ہم میں سے سب سے پہلے حضور کو ملنے والی حضرت زنیب تھیں جوام المساکین کہلاتی تھیں.ان کو صدقے دینے کا بہت شوق تھا.ایک اور روایت حضرت عائشہ صدیقہ سے بخاری کتاب الجنائز میں مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے کہا میری ماں اچانک فوت ہوگئی ہے.مجھے یقین ہے کہ اگر وہ کلام کر سکتی تو ضر ورصدقے کا حکم دیتی.اب اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اسے اجر ہوگا.آپ نے فرمایا ہاں.ایک روایت ابو داؤد میں حضرت عمرو بن شعیب اپنے دادا کے واسطے سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت اپنی بیٹی کو ساتھ لے کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی.اس کی بیٹی نے سونے کے بھاری کنگن پہنے ہوئے تھے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت سے پوچھا کیا اُن کی زکوۃ بھی دیتی ہو.اس نے جواب دیا نہیں یا حضرت! آپ نے فرمایا کیا تو پسند کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تجھے آگ کے کنگن پہنائے.یہ سن کر اس عورت نے اپنی بیٹی کے ہاتھ سے کنگن اُتار لئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے لئے ہیں.یہ روایت پہلے بھی بیان ہو چکی ہے اور جب بھی میں بیان کرتا ہوں عموماً عورتیں اپنے کنگن زیور وغیرہ پیش کر دیا کرتی ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو جاری رکھتے ہوئے تو اس کو بیان کرتے ہوئے اب میرے دل میں کچھ تر ڈوسا تھا کہ کچھ عورتیں اپنے پاس بھی رکھیں بارہا پیش کر چکی ہیں.اتنے کہ بہت سی مساجد گواہ ہیں کہ خالصہ عورتوں کے زیور اور کنگنوں سے بنائی گئی ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ سب کو جزائے خیر دے کہ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی خواتین کی سنت کو اس دور میں بھی زندہ رکھا ہوا ہے.ایک روایت بخاری کتاب العلم میں ہے کہ حضرت عطاء تابعی بیان کرتے ہیں کہ میں نے

Page 665

۶۶۱ خطاب ۲۹ جولائی ۲۰۰۰ء حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات حضرت ابن عباس سے سنادہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نکے اور آپ کے ساتھ حضرت بلال بھی تھے.آپ کو خیال ہوا کہ آپ کی آواز شاید عورتوں تک سنائی نہیں دی چنانچہ آپ ان کے پاس تشریف لے گئے.آپ نے ان کو نصیحت فرمائی اور صدقہ کی تحریک فرمائی.چنانچہ عورتیں اپنی بالیاں اور انگوٹھیاں اُتار اُتار کر صدقہ کرنے لگیں اور حضرت بلال اپنے کپڑے کے ایک دامن میں اسے اکٹھا کرتے جارہے تھے.ایک روایت بخاری کتاب الحج میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جھینہ قبیلے کی ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور عرض کیا کہ میری ماں نے نذر مانی تھی کہ حج کرے گی مگر وہ حج نہ کر سکی اور اس کی وفات ہوگئی کیا اب میں اس کی طرف سے حج کر سکتی ہوں.آپ نے فرمایا ہاں اس کی طرف سے حج کر لو.تمہارا کیا خیال ہے اگر تمہاری ماں پر کوئی قرض ہوتا تو تم ادا کرتی یا نہیں؟ اللہ کے حق پورے کرو اللہ وفا کا زیادہ حق دار ہے.ایک اور روایت ابن ماجہ کی حضرت قبلہ ام بنی عمار سے مروی ہے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک عمرے کے وقت مروٹی کے مقام پر حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میں ایک تاجر عورت ہوں.میرا خریدنے کا طریقہ یہ ہے کہ چیز کی پہلے بہت کم قیمت بتاتی ہوں پھر آہستہ آہستہ قیمت زیادہ کرتی جاتی ہوں اور جس قیمت پر خریدنی مقصود ہو اس پر مال خرید لیتی ہوں.اسی طرح جو چیز فروخت کرنی ہوتی ہے پہلے اس کے دام بہت زیادہ بتاتی ہوں پھر آہستہ آہستہ دام کم کرتی جاتی ہوں.اس پر جس قیمت پر مال فروخت کرنا مقصود ہو اس پر مال فروخت کر دیتی ہوں.یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے قبیلہ اس طرح نہ کیا کرو بلکہ قیمت مقرر ہونی چاہئے.جس قیمت پر خریدنا ہو وہ صحیح قیمت بتا دو اگر اس نے اس قیمت پر دینا ہو تو دے دے اور نہ دینا ہوتو نہ دے.اسی طرح فروخت کرتے وقت اصل قیمت بتاؤ اگر کسی نے لینی ہو تو لے ورنہ اس کی مرضی.اب آج کی دنیا میں یہ رواج ہے کہ قیمتیں مقرر اور Fix ہوتی ہیں اور کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنت جاری فرمائی ہے.ویسے عورتوں کی عموماً جیسے اس زمانے میں عادت تھی اب بھی یہی عادت ہے وہ سودے اسی طرح کیا کرتی ہیں.مجھے یاد ہے ایک دفعہ اٹلی میں ایک سٹور پر گئے میں اور آصفہ مرحومہ.مجھے دکاندار نے جو قیمت بتائی وہ تھوڑی تھی اور آصفہ کو جو قیمت بتائی وہ بہت زیادہ تھی.تو بیچاری نے اسی قیمت پر چیز

Page 666

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۶۲ خطاب ۲۹ جولائی ۲۰۰۰ء خرید لی.اس پر میں نے دکاندار سے کہا یہ تم نے کیا تماشہ کیا ہے.مجھے اور بتائی عورت کو اور بتائی یعنی بیوی کو اور بتائی.اس نے کہا کہ بات دراصل یہ ہے کہ چونکہ عموماً عورتیں سودا کرتی ہیں اس لئے میں نے زیادہ بتا دی تھی پھر اس نے وہ زائد پیسے واپس کر دیئے.حضرت عائشہ صدیقہ کی ایک روایت ابوداؤ د کتاب الجنائز میں ہے.حضرت عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے کہا مجھے قرآن کریم کی ایک سخت ترین آیت کا علم ہے.آپ نے فرمایا عائشہ وہ کون سی.میں نے عرض کیا.اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے.مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَبِ (النساء : ۱۲۴) کہ جو کوئی برائی کرے گا اس سے بدلہ لیا جائے گا.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ! کیا تجھے معلوم نہیں کہ مسلمان کو کوئی تکلیف یا مصیبت خواہ کانٹا لگنے سے ہی کیوں نہ ہو وہ بُرے عمل کی مکافات ہوتی ہے اور جس کا حساب لیا گیا وہ تو عذاب میں مبتلا ہوا.یعنی ان سب تکلیفوں کے باوجود بھی اگر کسی کا حساب لیا گیا تو وہ پھر عذاب میں مبتلا ہوا.حضرت عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کا تو فرمان ہے.فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا (الانشقاق : 9) کہ تم سے آسان حساب لیا جائے گا.اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ ! یہ تو صرف خدا کے سامنے حساب کا پیش ہونا ہے ورنہ جس کا با ضابطہ حساب لیا گیا وہ تو مارا گیا.یعنی آسان حساب سے ایک مراد یہ بھی ہے کہ حساب لیا ہی نہ جائے.ایک روایت حضرت ام ورقہ بنت عبد اللہ سے مروی ہے کہ غزوہ بدر میں شرکت کی اجازت مانگی کہ مریضوں کی تیماداری کروں گی ممکن ہے کہ اس سلسلہ میں شہادت نصیب ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم گھر میں رہو خدا تمہیں شہادت عطا فرمائے گا.آپ کیونکہ قرآن پڑھی ہوئی تھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو عورتوں کا امام بنایا ہوا تھا اس لئے درخواست کی کہ ایک مؤذن بھی مقرر فرمائیں.چنانچہ مؤذن اذان دیتا اور عورتوں کی امامت آپ کرایا کرتی تھیں.رات کو قرآن پڑھا کرتیں.انہوں نے ایک لونڈی اور ایک غلام کو مدبر بنایا یعنی اس شرط پر آزادی کا وعدہ کیا کہ میرے مرنے کے بعد تم دونوں آزاد ہو.ان بدبختوں نے اس وعدے سے ناجائز فائدہ اُٹھانا چاہا اور رات کو ایک چادر ڈال کر آپ کا گلا گھونٹ دیا.صبح کو حضرت عمرؓ نے لوگوں سے پوچھا کہ آج خالہ کے پڑھنے کی آواز نہیں آئی.معلوم نہیں کیسی ہیں.مکان میں گئے تو دیکھا کہ ایک چادر میں لپٹی پڑی ہیں.نہایت افسوس ہوا اور فرمایا خدا اور اس کے رسول نے سچ کہا تھا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ

Page 667

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۶۶۳ خطاب ۲۹ جولائی ۲۰۰۰ء شہیدہ کے گھر چلو.چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی زندگی میں ہی اُن کو شہیدہ کہا کرتے تھے.ایک روایت انس بن مالک کی مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام حرام بنت ملحان کے گھر جایا کرتے تھے.یہ حضرت عبادہ بن صامت کی بیوی تھیں.ایک دن جب آپ وہاں تشریف لے گئے تو حضرت ام حرام نے کھانا پیش کیا.اس کے بعد آرام سے لیٹ گئے اور حضور کی آنکھ لگ گئی.ام حرام حضور کا سر سہلانے لگیں.کچھ دیر کے بعد حضور ہنستے ہوئے بیدار ہوئے.حضرت ام حرام نے پوچھا.حضور کیوں ہنس رہے ہیں؟ حضور نے فرمایا میں نے خواب میں اپنی امت کے کچھ لوگ دیکھے ہیں جو اللہ کے رستے میں جہاد کے لئے نکلے ہیں اور بحری جہازوں میں سوار تختوں پر بیٹھے ہوئے ہیں جیسے بادشاہ ہوں.حضرت ام حرام نے عرض کیا کہ حضور دُعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے بھی اس گروہ میں شامل کر لے.چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دُعا کی اور پھر آپ سو گئے.پھر ہنتے ہوئے بیدار ہوئے تو ام حرام نے عرض کیا حضور اب کیوں ہنس رہے ہیں.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب پھر میں نے امت کے کچھ مجاہد دیکھے ہیں جو بحری مہم کے لئے جارہے ہیں.حضرت ام حرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان غازیوں میں مجھے بھی شامل کرے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم پہلے گروہ میں شامل ہوگی.اب دیکھیں کس طرح آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بہت بعد امیر معاویہ کے زمانے میں یہ خواب حرف بہ حرف پوری ہوئی.حضرت ام حرام قبرص کی بحری مہم میں شامل تھیں لیکن جب جہاز سے اتر کر جزیرے میں داخل ہوئیں اور سواری پر سوار ہونے لگیں تو گر گئیں اور اسی چوٹ سے شہید ہوگئیں.ایک روایت ابوداؤد میں حضرت ابی اُسید انصاری کی مروی ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد سے باہر جس وقت عورتیں گلی میں مردوں کے ساتھ مل کر بھیٹر کی شکل میں چل رہی تھیں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ خواتین راستہ کے ایک طرف ہو کر یعنی فٹ پاتھ پر چلیں.یہ جو رواج ہے یہ بھی کیسی پیاری سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانے میں جاری فرما دی تھی.یہ مناسب نہیں کہ وہ راستہ کی روک بن جائیں.ابواسید بیان کرتے ہیں اس کے بعد عورتیں سڑک کے ایک طرف ہو کر دیوار کے ساتھ ساتھ ہو کر چلا کرتی تھیں.بعض اوقات تو اس قدر دیوار کے ساتھ لگ کر چلتی تھیں کہ ان کے کپڑے دیوار سے اٹک اٹک جاتے تھے.

Page 668

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۶۴ خطاب ۲۹ جولائی ۲۰۰۰ء ایک روایت مسند احمد بن حنبل سے لی گئی ہے.حضرت امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ عطا سے روایت بیان کرتے ہیں کہ عطا نے بہت سے صحابہ رضوان اللہ سے یہ واقعہ سنا کہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ کی ایک لونڈی تھی.جو ان کی بکریاں چرایا کرتی تھی.عبد اللہ بن رواحہ نے اس کو ایک بکری کا خاص طور پر خیال رکھنے کی ہدایت کی.چنانچہ وہ بکری موٹی تازی ہوگئی.ایک دن چرواہن بعض اور جانوروں کی دیکھ بھال میں مصروف تھی کہ ایک بھیڑیے نے آکر اس بکری کو چیر پھاڑ دیا.عبداللہ بن رواحہ نے اس بکری کو نہ پایا تو اس کے متعلق پوچھا.چرواہن نے سارا واقعہ بتا دیا.جس پر انہوں نے چرواہن کو ایک تھپڑ مارا.گو بعد میں اپنے فعل پر شرمندہ ہوئے اور اس شرمندگی کی حالت میں اس واقعہ کا ذکر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو بڑی اہمیت دی اور فرمایا کہ تم نے ایک مومنہ کے منہ پر تھپڑ مارا ہے؟ اس پر عبداللہ بن رواحہ نے عرض کیا کہ حضور وہ تو حبشن ہے اور جاہل سی عورت ہے اسے دین وغیرہ کا کچھ علم نہیں.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چرواہن کو بلا بھیجا اور اس سے پوچھا اللہ کہاں ہے؟ اس نے آسمان کی طرف اشارہ کیا.پھر آپ نے دریافت کیا میں کون ہوں؟ اس نے جواباً کہا اللہ کے رسول.یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ مومنہ ہے اسے آزاد کر دو.اس پر عبد اللہ بن رواحہ نے اسے آزاد کر دیا.آخر پر ایک مہلکی پھلکی روایت اب آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو حضرت عائشہ صدیقہ کی ہے ابو دادو میں مروی ہے.حضرت عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں ایک سفر میں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں.حضور اور حضرت عائشہ صدیقہ نے دوڑ میں مقابلہ کیا.حضرت عائشہ آگے بڑھ گئیں لیکن اور موقع پر جب وہ کچھ موٹی ہو گئیں تھیں پھر دوڑ میں مقابلہ ہوا.حضرت عائشہ کہتی ہیں اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اے عائشہ اس مقابلہ کا بدلہ اتر گیا.اس کے بعد فرمایا میں نے گھڑی دیکھی ہے.میرے خیال میں اب وقت ہو رہا ہے کچھ ایسی نصیحتیں بھی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عورتوں کو مخاطب کر کے فرمائی ہیں ان کا انشاء اللہ بعد میں جرمنی کے جلسے میں یا کسی اور موقع پر ذکر کر دیا جائے گا.اب میں آپ سب بہنوں سے درخواست کرتا ہوں اور بچیوں سے بھی کہ دُعا میں میرے ساتھ شامل ہو جائیں.اللہ تعالیٰ دونوں جہان کی حسنات آپ کو عطا فرمائے.آمین

Page 669

حضرت خلیفت صیح الرابع" کے مستورات سے خطابات خطاب ۲۶ اگست ۲۰۰۰ء دین میں عورتوں کے حقوق و فرائض جلسه سالانہ مستورات جرمنی سے خطاب فرموده مورخه ۲۶ /اگست ۲۰۰۰ء) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی: اِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ وَالْقَنِتِينَ وَالْقَنِتَتِ وَالصَّدِقِيْنَ وَالصَّدِقتِ و الصبِرِينَ وَالصبرتِ وَالْخَشِعِينَ وَالْخَشِعَتِ وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ وَالْمُتَصَدِّقْتِ وَالصَّابِمِيْنَ وَالظُّمَتِ وَالْحَفِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَفِظَتِ وَالذَّكِرِينَ اللهَ كَثِيرًا وَالذَّكِرتِ أَعَدَّ اللهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا (الاحزاب: ۳۶) ترجمہ: یقیناً مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں اور بچے مرد اور کچی عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور عاجزی کرنے والے مر داور عاجزی کرنے والی عورتیں اور صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں.اللہ نے اُن سب کے لئے مغفرت اور اجر عظیم تیار کئے ہیں.

Page 670

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۶۶ خطاب ۲۶ راگست ۲۰۰۰ء مرد اور عورت کی برابری کی اس سے زیادہ عظیم الشان آیت آپ کو کہیں دکھائی نہیں دے گی.دنیا کی کسی مذہبی کتاب میں آپ کو نظر نہیں آئے گی اس میں مردوں اور عورتوں کے حقوق کو بالکل برابر کر دیا ہے.سب کی نیکیوں پر خدا کی یکساں نظر ہے اس لئے یہ خیال کرنا کہ مردوں کو عورتوں پر کوئی فضلیت ہے یا عورتوں کو مردوں پر کوئی فضلیت ہے یہ تصور اسی ایک آیت سے کلیۂ باطل ہو جاتا ہے.یہ مضمون جو جاری ہے اس مضمون میں حضرت اقدس رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ احادیث اور روایات یا تحریریں ہیں مسیح موعود علیہ السلام کی جن سے پتہ چلتا ہے کہ عورتوں کے کیا حقوق ہیں اور مردوں کے کیا حقوق ہیں اور عورت کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا کیا رویہ تھا اور عورت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنے آقا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کیا رویہ تھا.مجھے بتایا گیا ہے کہ جلسہ سالانہ انگلستان کے لئے جو مضمون اخذ کیا گیا تھا اس میں سے بچے ہوئے حصے ہیں.کچھ میرے نزدیک دہرائے گئے تھے وہ میں نے الگ کر دیئے ہیں گو مختصر تو ہو گیا ہے لیکن پھر بھی بہت مضمون ہے.اب میں سب سے پہلے احادیث نبوی سے بات شروع کرتا ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا اور یہ حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ دنیا تو عارضی ٹھکانہ ہے دنیا کے عارضی سامانوں میں نیک عورت سے بڑھ کر کوئی سامان افضل نہیں.“ (سنن ابن ماجہ کتاب النکاح) گو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس سے زیادہ عورت کے متعلق کیا تاریخی کلمات فرما سکتے تھے کہ دنیا کی عارضی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت وہ عورت ہے جو نیک ہو پھر ایک روایت ہے بخاری کتاب الوصایا سے لی گئی ہے.حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: والا ہے.66 تم میں ہر ایک نگران ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جانے ( بخاری کتاب الجمعة ) چنانچہ امام بھی نگران ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جانے والا ہے اور خاوند اپنے اہل وعیال پر نگران ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں پوچھے جانے والا ہے اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے اور اپنی رعیت کے بارہ میں پوچھی جانے والی ہے اس میں ساری اولا د بھی شامل ہو جاتی ہے ان سب کی اچھی تربیت کرنا بھی عورت کا فرض ہے اور اس بارے میں وہ پوچھی جائے گی

Page 671

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات خطاب ۲۶ اگست ۲۰۰۰ء ایک مسند الامام العالم کتاب العلم سے روایت ہے حضرت اُمّم ھائی بیان کرتی ہیں کہ : آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ تمہارا شعار قرآن کریم اور علم ہے.( بخاری کتاب المناقب) صحیح بخاری سے حضرت عائشہ کی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ: ”اے عائشہ اتم مجھے رویا میں دو دفعہ دکھائی گئیں.ایک دفعہ دیکھا کہ ایک خاص شخص ریشم کے کپڑے کے ٹکڑے کے اندر تمہاری تصویر اٹھائے ہوئے ہے اور کہتا ہے یہ آپ کی بیوی ہے میں نے پردہ اُٹھایا تو نا گہاں تمہیں دیکھا میں نے کہا اگر اللہ کی یہی مرضی ہے تو ضرور وہ اسے پورا کر دے گا.“ ( بخاری کتاب المناقب) بخاری کتاب المناقب سے ابو سلمی کی روایت ہے کہ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا: اے عائش! ( آپ پیار سے حضرت عائشہ صدیقہ کو عائش کہہ دیا کرتے تھے ) یہ جبرائیل آیا ہے اور تمہیں سلام کہتا ہے میں نے عرض کیا ان پر بھی سلام اور اللہ کی رحمتیں ہوں.اے اللہ کے رسول آپ وہ کچھ دیکھتے ہیں جو میں نہیں دیکھتی.“ بخاری کتاب النکاح سے ایک روایت ہے یہ بھی حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھے فرمایا: مجھے خوب پتہ چل جاتا ہے جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو.میں نے عرض کیا آپ کو کیسے پتہ چلتا ہے؟ آپ نے فرمایا جب تم مجھ سے راضی ہو تو کہتی ہورب محمد کی قسم اور جب مجھ سے ناراض ہو تو کہتی ہو رب ابراہیم کی قسم.میں نے عرض کیا کہ ہاں یہ درست ہے.مگراے اللہ کے رسول! (نہایت رقت بھری آواز میں کہا) میں صرف ظاہراً آپ کا نام چھوڑتی ہوں دل سے تو آپ ہی سے محبت کرتی ہوں.“ فتح مکہ سے قبل حضرت ام حبیبہ کے باپ ابوسفیان کے متعلق ایک روایت ہے کہ

Page 672

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۶۸ خطاب ۲۶ اگست ۲۰۰۰ء ”وہ کفر کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس مدینہ آئے اور ان کے گھر گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بچھونے پر بیٹھنا چاہتے تھے.حضرت ام حبیبہ نے یہ دیکھ کر بچھونا الٹ دیا.ابوسفیان سخت برہم ہوئے کہ بچھونا اس قدر عزیز ہے؟ بولیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرش ہے اور آپ مشرک ہیں اور اس بناء پر نا پاک ہیں.ابوسفیان نے کہا کہ تو میرے پیچھے بہت بگڑ گئی ہے.“ حضرت انس کی ایک روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک سفر میں جارہے تھے اور ایک سیاہ رنگ کا غلام جس کا نام انجثہ تھا حدی خوانی کر رہا تھا جس کی وجہ سے اونٹ تیز چلنے لگتے تھے.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اے انجثہ ! ذرا ٹھہر کر اور آہستہ حدی خوانی کرتا کہ اونٹ تیز نہ چلیں کیونکہ اونٹوں پر شیشے اور آبگینے ہیں.“ ( بخاری کتاب الادب) یہ محاورہ جو آج کل چلتا ہے Glass with Care رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ۴۰۰ سال سے بھی پہلے یہ محاورہ بیان فرمایا تھا جو آج تک اسی طرح چل رہا ہے.ایک ابن ماجہ کتاب الاحکام میں مروی ہے.حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ: " آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم امہات المومنین میں سے کسی کے گھر تھے وہاں کسی دوسری بیوی نے حضور کو ایک پیالے میں کھانا تحفہ بھیجا.یہ دیکھ کر اس گھر والی بیوی نے غصے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہاتھ پر ہاتھ مارا جس سے وہ پیالہ گر کر ٹوٹ گیا.“ (ابن ماجہ کتاب الاحکام) نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہاتھ پر ہاتھ مارنا مراد نہیں تھی بلکہ پیالے سے جو دوسری سوت نے بھیجا تھا اس سے ایک نفرت کے اظہار میں بے ساختہ اس سے یہ حرکت ہوگئی.حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پیالے کے دونوں ٹکڑوں کو اکٹھا کر کے جوڑا اور اس میں گرا ہوا کھانا اُٹھا اُٹھا کر جمع کیا.ساتھ ساتھ آپ ناراضگی سے یہ فرماتے جاتے تھے تمہارا بُر ا ہو.لوکھاؤ.آپ نے یہ بار بار کہا تو اس اہلیہ نے پچھتا کر اپنی غلطی کو محسوس کرتے ہوئے اپنا سالم پیالہ حضور کی خدمت میں پیش کر دیا حضور نے ٹوٹے ہوئے پیالے کے بدلے میں یہ سالم پیالہ لانے والے کو دے دیا اور ٹوٹا ہوا پیالہ اس

Page 673

حضرت خلیفہ اصبح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۲۶۹ خطاب ۲۶ راگست ۲۰۰۰ء کے گھر رکھ دیا.جس کے ہاتھ سے پیالہ ٹوٹا تھا.بخاری کی ایک روایت ہے حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: خاوند کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر عورت نفلی روزے نہ رکھے اور نہ اس کی اجازت کے بغیر کسی کو گھر کے اندر آنے دے.“ ایک حدیث بخاری کتاب النکاح میں درج ہے.حضرت فاطمہ حضرت اسماء سے روایت کرتی ہیں کہ : ایک عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پوچھا اے اللہ کے رسول ! میری ایک سوتن ہے اگر میں جھوٹے طور پر اس کے سامنے یہ ظاہر کروں کہ خاوند مجھے یہ یہ چیزیں دیتا ہے حالانکہ اس نے مجھے نہ دی ہوں کیا مجھ پر یہ گناہ ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کہ نہ ملنے والی چیزوں کا جھوٹے طور پر اظہار کرنے والا ایسا ہی ہے گویا اس نے جھوٹے کپڑے پہنے ہوئے ہیں.“ یعنی کپڑے اگر نہ پہنے ہوئے ہوں اور انسان دنیا میں بنگا پھرے اور سمجھے کہ میں نے کپڑے پہنے ہوئے ہیں تو اسی طرح اس عورت کی مثال ہے جو شیخی کر کے جھوٹ بول کے اپنی سوتن کو جلانے کے لئے بات کہتی ہے.ایک روایت ابو داؤد کتاب الطلاق سے لی گئی ہے.حضرت ثوبان سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جس عورت نے اپنے خاوند سے بغیر کسی باس یعنی سخت بغیر معقول وجہ کے یعنی بغیر تکلیف اُٹھائے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کیا اس پر جنت کی خوشبو حرام ہوگئی.“ ایسی بہت سی شکایتیں ملتی ہیں.اللہ بہتر جانتا ہے حقیقت حال کیا ہے کہ عورتیں خاوند کی زیادتی پر یا قصے بتا کر طلاق کا مطالبہ کرتی ہیں بعید نہیں کہ وہ ٹھیک ہوں اور یہ بھی بعید نہیں کہ بہانہ بنایا جارہا ہومگر یا درکھیں اگر انہوں نے ناجائز طور پر طلاق کا مطالبہ کیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فیصلہ ہے کہ اس عورت پر جنت کی بوحرام ہے.ایک روایت نسائی کتاب النکاح سے لی گئی ہے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ : آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سی عورت بطور رفیقہ حیات بہتر ہے آپ نے فرمایا ! وہ جس کی طرف دیکھنے سے طبیعت

Page 674

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۷۰ خطاب ۲۶ اگست ۲۰۰۰ء خوش ہو، مرد جس کام کے کرنے کے لئے کہے اسے بجالائے اور جس بات کو اس کا خاوند نا پسند کرے اس سے بچے.یہ چند حدیثیں تھیں جو انگلستان میں عورتوں کے خطاب سے ابھی بچ گئی تھیں اور وہ میں نے آپ کے سامنے اب پڑھ کر پیش کر دیں ہیں.اب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی عورتوں کو نصائح کے مضمون پر کچھ بیان کرتا ہوں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کشتی نوح میں عورتوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتے ہیں.تقویٰ اختیار کرو، دنیا سے اور اس کی زینت سے بہت دل مت لگا ؤ، قومی فخر مت کرو، کسی عورت سے ٹھٹھا ہنسی مت کرو، خاوندوں سے وہ تقاضے نہ کرو جو ان کی حیثیت سے باہر ہیں ، کوشش کرو کہ تائم معصوم اور پاک دامن ہونے کی حالت میں قبروں میں داخل ہو.خدا کے فرائض نماز زکوۃ وغیرہ میں ستی مت کرو اپنے خاوندوں کی دل وجان سے مطیع رہو.بہت سا حصہ ان کی عزت کا تمہارے ہاتھ میں ہے سو تم اپنی اس ذمہ داری کو ایسی عمدگی سے ادا کرو کہ خدا کے نزدیک صالحات، قانتات میں گنی جاؤ.اسراف نہ کرو اور خاوند کے مالوں کو بے جا طور پر خرچ نہ کرو، خیانت نہ کرو، چوری نہ کرو، گلہ نہ کرو ایک عورت دوسری عورت یا مرد پر بہتان نہ لگاوے.“ (روحانی خزائن جلد ۱۹ کشتی نوح: ۸۱) پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.عورتوں میں چند عیب بہت سخت ہیں اور کثرت سے ہیں.ایک شیخی کرنا کہ ہم ایسے اور ایسے ہیں.پھر یہ کہ قوم پر فخر کرنا کہ فلاں تو کمینی ذات کی عورت ہے یا فلاں ہم سے نیچی ذات کی ہے.پھر یہ کہ اگر کوئی غریب عورت ان میں بیٹھی ہوئی ہے تو اس سے نفرت کرتی ہیں اور اس کی طرف اشارے شروع کر دیتی ہیں.کیسے غلیظ کپڑے پہنے ہیں.زیور اس کے پاس کچھ بھی نہیں.“ ( ملفوظات جلد پنجم صفحه ۲۹ جدید ایڈیشن ) یہ اکثر ہمارے ہندوستان میں عادات ہیں اور مغرب کی سوسائٹی میں خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ عیوب شاذ کے طور پر پائے جاتے ہیں.روایت ہے کہ

Page 675

حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے مستورات سے خطابات ۶۷۱.خطاب ۲۶ راگست ۲۰۰۰ء ایک روز ایک ہندو عورت نے کسی دوسری عورت کا گلہ کیا.آپ نے فرمایا! دیکھو یہ بہت بری عادت ہے جو خصوصاً عورتوں میں پائی جاتی ہے چونکہ مرد اور کام بہت رکھتے ہیں اس لئے ان کو شاذ و نادر ہی ایسا موقع ملتا ہے کہ بے فکری سے بیٹھ کر آپس میں باتیں کریں.“ (ملفوظات جلد پنجم صفحه جدید ایڈیشن) یہ ہر جگہ صرف عورتوں کا ہی دستور نہیں مردوں کا بھی ہوتا ہے.چنانچہ مجھے علم ہے کہ ضلع ہزارے میں عموماً یہ عادت ہوتی ہے مردوں کی کہ وہ رات کو بیٹھ کر عورتوں سے دوسرے برے لوگوں کی چغلی کرتے ہیں تو عورتوں کو اس بات کا برا نہیں منانا چاہئے.عورتوں میں بھی یہ قصور ہے اور مردوں میں بھی ہے لیکن عورتوں کو نہ علم ہوتا ہے اور نہ کوئی ایسا کام ہوتا ہے اس لئے سارے دن کا شغل سوائے گلہ اور شکایت کے اور کچھ نہیں ہوتا پھر خواتین کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.کوئی زمانہ ایسا نہیں ہے جس میں اسلامی عورتیں صالحات میں نہ ہوں.( ہر زمانے میں مسلمان عورتیں صالحات میں رہی ہیں مگر تھوڑی ) گو تھوڑی ہوں مگر ہوں گی ضرور.جس نے عورت کو صالحہ بنانا ہو وہ خود صالح بنے.( یہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ اگر اس نے عورت کو صالحہ بنانا ہے تو خو دبھی صالح بنے ).ہماری جماعت کے لئے ضروری ہے کہ اپنی پر ہیز گاری کے لئے عورتوں کو پر ہیز گاری سکھاویں ورنہ وہ گناہ گار ہوں گے اور جب کہ اس کی عورت سامنے ہو کر بتلا سکتی ہے کہ تجھ میں فلاں فلاں عیب ہیں تو پھر عورت خدا سے کیا ڈرے گی.جب تقوی نہ ہو تو ایسی حالت میں اولا د بھی پلید پیدا ہوتی ہے، اولاد کا طیب ہونا تو طیبات کا سلسلہ چاہتا ہے، اگر یہ نہ ہو تو پھر اولا دخراب ہوتی ہے اس لئے چاہئے کہ سب تو بہ کریں اور عورتوں کو اپنا اچھا نمونہ دکھلاویں.عورت خاوند کی جاسوس ہوتی ہے وہ اپنی بدیاں اس سے پوشیدہ نہیں رکھ سکتا.نیز عورتیں چھپی ہوئی دانا ہوتی ہیں یہ نہ خیال کرنا چاہئے کہ وہ احمق ہیں وہ اندر ہی اندر تمہارے سب اثروں کو حاصل کرتی ہیں.جب خاوند سید ھے راستہ پر ہوگا تو وہ اس سے بھی ڈرے گی اور خدا سے بھی.ایسا نمونہ دکھانا چاہئے کہ عورت کا یہ

Page 676

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات خطاب ۲۶ اگست ۲۰۰۰ء مذہب ہو جاوے کہ میرے خاوند جیسا اور کوئی نیک دنیا میں نہیں ہے اور وہ یہ اعتقاد کرے کہ یہ باریک سے باریک نیکی کی رعایت کرنے والا ہے.جب عورت کا یہ اعتقاد ہو جاوے گا تو ممکن نہیں کہ وہ خود نیکی سے باہر رہے.سب انبیاء اولیاء کی عورتیں نیک تھیں اس لئے کہ ان پر نیک اثر پڑتے تھے.جب مرد بدکار اور فاسق ہوتے ہیں تو ان کی عورتیں بھی ویسی ہی ہوتی ہیں.ایک چور کی بیوی کو یہ خیال کب ہو سکتا ہے کہ میں تہجد پڑھوں خاوند تو چوری کرنے جاتا ہے تو کیا وہ پیچھے تہجد پڑھتی ہے.اَلرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ اسی لئے کہا گیا ہے کہ قوامون کا یہ معنی پیش نظر رکھیں سختی کرنے والا مراد نہیں بلکہ وہ جس سے عورتیں اثر قبول کرتی ہیں کہ عورتیں خاوندوں سے متاثر ہوتی ہیں جس حد تک خاوند صلاحیت اور تقویٰ بڑھاوے گا کچھ حصہ اس سے عورتیں ضرور لیں گی.ویسے ہی اگر وہ بدمعاش ہو گا بدمعاشی سے وہ حصہ لیں گی.( ملفوظات جلد سوم ص: ۱۶۳ ۱۶۴) پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: عورتیں یہ نہ سمجھیں کہ ان پر کسی قسم کا ظلم کیا گیا ہے کیونکہ مرد پر اس کے بہت سے حقوق رکھے گئے ہیں.بلکہ عورتوں کو گو یا بالکل کرسی پر بٹھا دیا گیا ہے اور مرد کو کہا ہے کہ ان کی خبر گیری کر.اس کا تمام کپڑا ، کھانا اور تمام ضروریات مرد کے ذمہ ہیں دیکھو کہ موچی ایک جوتی میں بددیانتی سے کچھ کا کچھ بھر دیتا ہے صرف اس لئے کہ اس سے کچھ بیچ رہے تو جو رو بچوں کا پیٹ پالوں.سپاہی لڑائی میں سر کٹاتے ہیں صرف اس لئے کہ کسی طرح جو رو بچوں کا گزارہ ہو بڑے بڑے عہد یدار رشوت کے الزام میں پکڑے ہوئے دیکھے جاتے ہیں وہ کیا ہوتا ہے ؟ عورتوں کے لئے ہوتا ہے عورت کہتی ہے کہ مجھ کو زیور چاہئے ، کپڑا چاہئے مجبور بیچارے کو کرنا پڑتا ہے.“ ( ملفوظات جلد پنجم ص: ۳۰) یہ مراد نہیں کہ رشوت لینا اچھی بات ہے.مراد یہ ہے کہ عورتوں کو خوش کرنے کی خاطر ان کی ضروریات پوری کرنے کی خاطر حرام کھانے سے بھی

Page 677

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات خطاب ۲۶ اگست ۲۰۰۰ء پر ہیز نہیں کرتے لیکن خدا تعالیٰ نے ایسی طرزوں سے رزق کمانا منع فرمایا ہے.یہاں تک عورتوں کے حقوق ہیں کہ جب مردکو کہا گیا ہے کہ ان کو طلاق دو تو مہر کے علاوہ ان کو کچھ اور بھی دو کیونکہ اس وقت تمہاری ہمیشہ کے لئے اس سے جدائی لازم ہوتی ہے پس لازم ہے کہ ان کے ساتھ نیک سلوک کرو.( ملفوظات جلد پنجم ص:۳۰) پھر ملفوظات میں یہ درج ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا اسلام نے جو یہ حکم دیا ہے کہ مرد عورت سے اور عورت مرد سے پردہ کرے اس سے غرض یہ ہے کہ نفس انسان پھسلنے اور ٹھوکر کھانے کی حد سے بچار ہے کیونکہ ابتداء میں اس کی یہی حالت ہوتی ہے کہ وہ بدیوں کی طرف جھکا پڑتا ہے اور ذرا سی بھی تحریک ہو تو بدی پر ایسے گرتا ہے کہ جیسے کئی دنوں کا بھوکا آدمی کسی لذیذ کھانے پر.یہ انسان کا فرض ہے کہ اس کی اصلاح کرے.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحه ۱۰۶ جدید ایڈیشن) پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعا نہیں کی.مختصر الفاظ میں فرما دیا ہے وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ کہ جیسے مردوں کے عورتوں پر حقوق ہیں ویسے ہی عورتوں کے مردوں پر حقوق ہیں.بعض لوگوں کا حال سنا جاتا ہے کہ ان بے چاریوں کو پاؤں کی جوتی کی طرح جانتے ہیں اور ذلیل ترین خدمات ان سے لیتے ہیں.( ملفوظات جلد سوم : ص ۳۰) یہاں تک حال ہے کہ خواب میں کوئی دیکھے کہ میری جوتی گم ہوگئی ہے تو تعبیر یہ بتائی جاتی ہے کہ تمہاری بیوی ہاتھ سے نکل جائے گی.یہ نہایت درجہ احمقانہ حرکتیں ہیں عورت کو جوتی کے طور پر نہیں لینا چاہئے عورت کے قدموں تلے تو جنت ہے عورت کی جوتی تلے تمہاری جنت ہے.اس سے بہتر عورتوں کے مرتبہ کو بڑھانے والی اور کیا بات ہوسکتی ہے.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ذلیل ترین خدمات ان سے لیتے ہیں، گالیاں دیتے ہیں حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور پردہ کے حکم ایسے ناجائز طریق سے برتتے ہیں کہ ان کو

Page 678

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۷۴ خطاب ۲۶ راگست ۲۰۰۰ء زندہ درگور کر دیتے ہیں.چاہئے کہ بیویوں سے خاوند کا ایسا تعلق ہو جیسے دو بچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے.انسان کے اخلاق فاضلہ اور خدا تعالیٰ سے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عورتیں ہوتی ہیں اگر ان ہی سے اس کے تعلقات اچھے نہیں ہیں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ سے صلح ہو.رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے خَيْرُ كُمْ خَيْرُ كُمْ لِاَهْلِہ تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لئے اچھا ہے.“ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.( ملفوظات جلد سوم : ص ۳۰۰) اگر تم اپنی اصلاح چاہتے ہو تو یہ بھی لازمی امر ہے کہ گھر کی عورتوں کی اصلاح کرو.عورتوں میں بت پرستی کی جڑ ہے کیونکہ ان کی طبائع کا میدان زینت پرستی کی طرف ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بت پرستی کی ابتداء انہیں سے ہوئی ہے.“ ( ملفوظات جلد چہارم ص ۱۰۴) پھر فرماتے ہیں: اس وقت جو نئی روشنی کے لوگ مساوات پر زور دے رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ مرد اور عورت کے حقوق مساوی ہیں ان کی عقلوں پر تعجب آتا ہے وہ ذرا مردوں کی جگہ عورتوں کی فوجیں بنا کر جنگوں میں بھیج کر دیکھیں تو سہی.کیا نتیجه مساوی نکلتا ہے یا مختلف.ایک طرف تو اسے حمل ہے اور ایک طرف جنگ ہے وہ کیا کر سکے گی؟ غرض کہ عورتوں میں مردوں کی نسبت قومی کمزور ہیں اور کم بھی ہیں اس لئے مرد کو چاہئے کہ عورت کو اپنے ماتحت رکھے.“ ( ملفوظات جلد چہارم : ص۱۰۴) اور ماتحت رکھنے کے جو حقوق ہیں وہ پورا کرے.ایک دفعہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے ایک مضمون سول ملٹری گزٹ سے سنایا جو کہ اسلامی عورتوں کے حقوق پر تھا اس مضمون کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام میں عورتوں کو وہی حقوق دیئے گئے ہیں جو کہ مردوں کو دیئے گئے ہیں حتی کہ اسلامی عورتوں میں پاکیزہ اور مقدس عورتیں بھی ہوتیں ہیں اور ولیہ بھی ہوتی ہیں اور ان سے خارق عادت امور سرزد ہوتے ہیں اور جو لوگ اسلام پر اعتراض کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں اس پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ

Page 679

حضرت خلیفہ آج الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۷۵ السلام نے عورتوں کے بارہ میں فرمایا: خطاب ۲۶ را گست ۲۰۰۰ء مرد اگر پارسا طبع نہ ہو تو عورت کب صالحہ ہوسکتی ہے ہاں اگر مرد خود صالح بنے تو عورت بھی صالحہ بن سکتی ہے.قول سے عورت کو نصیحت نہ دینی چاہئے بلکہ فعل سے اگر نصیحت دی جاوے تو اس کا اثر ہوتا ہے.عورت تو در کنار اور بھی کون ہے جو صرف قول سے کسی کی بات مانتا ہے.اگر مرد کوئی کبھی یا خامی اپنے اندر رکھے گا تو عورت ہر وقت کی اس پر گواہ ہے.اگر وہ رشوت لے کر گھر آیا ہے تو اس کی عورت کہے گی کہ جب خاوند لایا ہے تو میں کیوں حرام کہوں.غرضیکہ مرد کا اثر عورت پر ضرور پڑتا ہے اور وہ خود ہی اسے خبیث اور طیب بناتا ہے.اسی لئے لکھا ہے الْخَبِيْثُتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَتِ ، وَالطَّيِّبَتُ لِلطَّيِّبِينَ ( النور : ۲۷) اس میں یہی نصیحت ہے کہ تم طیب بنو ورنہ ہزار ٹکریں مارو کچھ نہ بنے گا.جو شخص خدا سے خود نہیں ڈرتا تو عورت اس سے کیسے ڈرے؟ نہ ایسے مولویوں کا وعظ اثر کرتا ہے نہ خاوند کا.ہر حال میں عملی نمونہ اثر کیا کرتا ہے.خاوند رات کو اُٹھ اُٹھ کر دعا کرتا ہے ، روتا ہے تو عورت ایک دو دن تک دیکھے گی آخر ایک دن اسے بھی خیال آوے گا اور ضرور متاثر ہوگی عورت میں متاثر ہونے کا مادہ بہت ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ جب خاوند عیسائی وغیرہ ہوتے ہیں تو عورتیں ان کے ساتھ عیسائی وغیرہ ہو جاتی ہیں ان کی درستی کے واسطے کوئی مدرسہ بھی کفایت نہیں کرسکتا خاوند کا عملی نمونہ کفایت کرتا ہے.خاوند کے مقابلہ میں عورت کے بھائی بہن وغیرہ کا بھی کچھ اثر اس پر نہیں ہوتا.خدا نے مرد عورت دونوں کو ایک ہی وجود فر مایا ہے.یہ مردوں کا ظلم ہے کہ وہ اپنی عورتوں کو ایسا موقع دیتے ہیں کہ وہ ان کا نقص پکڑیں ان کو چاہئے کہ عورتوں کو ہرگز ایسا موقع نہ دیں کہ وہ یہ کہہ سکیں کہ تو فلاں بدی کرتا ہے بلکہ عورت ٹکریں مار مار کے تھک جاوے اور کسی بدی کا پتہ اسے مل ہی نہ سکے.تو اس وقت اس کو دین داری کا خیال ہوتا ہے اور وہ دین کو بجھتی ہے.مرد اپنے گھر کا امام ہوتا ہے پس اگر وہی بداثر قائم کرتا ہے تو کس قدر بداثر پڑنے کی

Page 680

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات خطاب ۲۶ اگست ۲۰۰۰ء امید ہے.مرد کو چاہئے کہ اپنے قومی کو برمحل اور حلال موقع پر استعمال کرے مثلاً ایک قوت غضبی ہے.( یعنی غصہ کی قوت ہے ).جب وہ اعتدال سے زیادہ ہو تو جنون کا پیش خیمہ ہوتی ہے جنون میں اور اس میں بہت تھوڑا فرق ہے جو آدمی شدید الغضب ہوتا ہے اس سے حکمت کا چشمہ چھین لیا جاتا ہے بلکہ اگر کوئی مخالف ہو اس سے بھی مغضوب الغضب ہو کر گفتگو نہ کرے.“ ( ملفوظات جلد سوم ص: ۱۵۶ ۱۵۷) بدقسمتی سے ہمارے جماعت میں بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جو مغضوب الغضب ہو جاتے ہیں ان کو سمجھانے کی بار بار کوشش کی جاتی ہے تو کہتے ہیں ہم مجبور ہیں.غصہ کے وقت ہم سے ایسی حرکتیں سرزد ہو جاتی ہیں اور بعد میں وہ عورتوں سے معافی بھی مانگتے ہیں یا مانگتے ہوں گے مگر حقیقت میں غصے کی حالت میں ایسی ایسی سخت تکلیفیں دیتے ہیں کہ اس کے بعد معافی مانگنے کا کوئی سوال نہیں رہتا.ان تکلیفوں کا گناہ تو ان کو پہنچ جاتا ہے بعض لوگ اتنے مغضوب الغضب ہوتے ہیں کہ میں نے تحقیق کی ہے.حقیقتاً بلاشبہ وہ عورتوں کو ان کے مرحوم ماں باپ کے طعنے دیتے ہیں اور بہت ظلم کے ساتھ ان کے خلاف بدزبانی کرتے ہیں اب اس کو عورت برداشت نہیں کر سکتی.مجبوراً پھر ایسی عورتیں طلاق کی درخواست کرتی ہیں یہ وہ ہیں جن کے لئے طلاق یعنی ضلع لینا جائز ہے مگر مردوں کو چاہئے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بیان فرمودہ طریق کے مطابق جب غصہ آئے تو کچھ بات نہ کریں پہلے ایک گھونٹ پانی کا پیئیں پھر لیٹ جائیں اور غور کریں.رفتہ رفتہ وہ غصہ ٹھنڈا ہو جائے تو پھر ان کی ندامت ان کے کس کام آئے گی.پھر فرماتے ہیں ! ” مرد کی ان تمام باتوں اور اوصاف کو عورت دیکھتی ہے وہ دیکھتی ہے میرے خاوند میں فلاں فلاں اوصاف تقویٰ کے ہیں جیسے سخاوت، حلم، صبر اور جیسے اسے پرکھنے کا موقع ملتا ہے وہ کسی دوسرے کو نہیں مل سکتا.( یعنی عورت جس طرح اپنے خاوند کو پر کھ سکتی ہے کوئی دوسرا اس کے خاوند کو

Page 681

حضرت خلیفہ صیح الرابع" کے مستورات سے خطابات 722 خطاب ۲۶ راگست ۲۰۰۰ء اس طرح پر کچھ نہیں سکتا ) اسی لئے عورت کو سارق بھی کہا ہے کیونکہ یہ اندر ہی اندرا خلاق کی چوری کرتی رہتی ہے حتی کہ آخر کار ایک وقت پورا اخلاق حاصل کر لیتی ہے.“ ( ملفوظات جلد سوم : ص ۱۵۷) ” ایک شخص کا ذکر ہے وہ ایک دفعہ عیسائی ہوا تو عورت بھی اس کے ساتھ عیسائی ہوگئی شراب وغیرہ اول شروع کی پھر پردہ بھی چھوڑ دیا.غیر لوگوں سے بھی ملنے لگی.خاوند نے پھر اسلام کی طرف رجوع کیا اس نے بیوی کو کہا کہ تم بھی میرے ساتھ مسلمان ہو.اس نے کہا کہ اب میرا مسلمان ہونا مشکل ہے.یہ عادتیں جو شراب وغیرہ اور آزادی کی پڑ گئی ہیں یہ نہیں چھوٹ سکتیں.“ ( ملفوظات جلد سوم ص: ۱۵۸) پھر ملفوظات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فرمان درج ہے.” خدا تعالیٰ نے انسان پر دو ذمہ داریاں مقرر کی ہیں ایک حقوق اللہ اور ایک حقوق العباد.پھر اس کے دو حصے کئے ہیں یعنی اول تو ماں باپ کی اطاعت اور فرمانبرداری اور پھر دوسری مخلوق الہی کی بہبودی کا خیال اور اس طرح ایک عورت پر اپنے ماں باپ اور خاوند اور ساس سسر کی خدمت اور اطاعت.پس کیا بدقسمت ہے جو ان لوگوں کی خدمت نہ کر کے حقوق عباد اور حقوق اللہ دونوں کی بجا آوری سے منہ موڑتی ہے.“ ( ملفوظات جلد پنجم صفحه ۱۸ جدید ایڈیشن) پھر ملفوظات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ دعا سکھلائی ہے کہ اَصْلِحُ لِی فِي ذُرِّيَّتِی یعنی میرے بیوی بچوں کی بھی اصلاح فرما دے.“ سو اپنی حالت کی پاک تبدیلی اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی اولا داور بیوی کے واسطے بھی دعا کرتے رہنا چاہئے.کیونکہ اکثر فتنے اولاد کی وجہ سے انسان پر پڑ جاتے ہیں اور اکثر بیوی کی وجہ سے.پھر فرماتے ہیں: اسی طرح عورتوں اور بچوں کے ساتھ تعلقات اور معاشرت میں لوگوں نے غلطیاں کھائی ہیں اور جادہ مستقیم سے بہک گئے ہیں قرآن شریف

Page 682

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۷۸ خطاب ۲۶ اگست ۲۰۰۰ء میں لکھا ہے کہ عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (النساء :۲۰) یعنی عورتوں سے بہترین معاشرہ کرو یعنی معاشرت کا سلوک کرو مگر اب اس کے علاوہ خلاف امر ہو رہا ہے.دو قسم کے لوگ اس کے متعلق بھی پائے جاتے ہیں ایک گروہ تو ایسا ہے کہ انہوں نے عورتوں کو بالکل خلیج الرسن کر دیا ہے.(خلیج الرسن سے مراد ہے کہ ان کی ڈوریں ڈھیلی چھوڑی ہوئی ہیں جو مرضی کرتی پھریں) دین کا کوئی اثر ہی ان کو نہیں ہوتا اور وہ کھلے طور پر اسلام کے خلاف کرتی ہیں اور کوئی اُن سے نہیں پوچھتا.بعض ایسے ہیں کہ انہوں نے خلیجع الرسن تو نہیں کیا مگر اس کے بالمقابل ایسی سختی اور پابندی کی ہے کہ ان میں اور حیوانوں میں کوئی فرق نہیں کیا جاسکتا اور کنیزوں اور بہائم سے بھی بدتر اُن سے سلوک ہوتا ہے.مارتے ہیں تو ایسے بے درد ہو کر کہ کچھ پتہ ہی نہیں کہ آگے کوئی جاندار ہستی ہے یا نہیں.غرض بہت ہی بری طرح سلوک کرتے ہیں یہاں تک کہ پنجاب میں مثل مشہور ہے کہ عورت کو پاؤں کی جوتی کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں ایک اتار دی دوسری پہن لی.یہ بڑی ہی خطرناک بات ہے اور اسلام کے شعائر کے خلاف ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ساری باتوں کے کامل نمونہ ہیں.آپ کی زندگی میں دیکھو کہ آپ عورتوں سے کیسی معاشرت کرتے تھے.میرے نزدیک وہ شخص بزدل اور نامرد ہے جو عورت کے مقابلے میں کھڑا ہوتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پاک زندگی کا مطالعہ کرو تا تمہیں معلوم ہو آپ ایسے خلیق تھے باوجود یکہ آپ بڑے بارعب تھے لیکن اگر کوئی ضعیفہ عورت بھی آپ کو کھڑا کرتی تو آپ اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک کہ وہ اجازت نہ دے.بعض اوقات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرت عائشہ کے ساتھ دوڑے بھی ہیں.ایک مرتبہ آپ آگے نکل گئے اور دوسری مرتبہ خود نرم ہو گئے تا کہ حضرت عائشہ آگے نکل جاویں اور وہ آگے نکل گئیں اسی طرح پر یہ بھی ثابت ہے کہ ایک بار کچھ حبشی آئے جو تماشہ کرتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ کو ان کا تماشہ دکھایا اور پھر حضرت عمرؓ جب آئے تو وہ حبشی ان کو دیکھ کر ڈر کر بھاگ گئے.“ (ملفوظات جلد دوم صفحه ۷ ۳۸، ۳۸۸ جدید ایڈیشن)

Page 683

حضرت خلیفہ مسح الرابع کے مستورات سے خطابات ۶۷۹ خطاب ۲۶ راگست ۲۰۰۰ء مکتوبات احمد میں میاں عبد اللہ سنوری صاحب کی یہ روایت ہے عورتوں کے لئے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر وہ اپنے خاوند کی اطاعت کریں گی تو خدا ان کو ہر بلا سے بچاوے گا اور ان کی اولا دعمر والی ہوگی اور نیک بخت ہوگی.پھر ملفوظات میں یہ روایت درج ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد ہے.اگر چہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بیویوں سے بڑھ کر کوئی نہیں ہوسکتا مگر تا ہم آپ کی بیویاں سب کام کر لیا کرتی تھیں جھاڑو بھی دے لیا کرتی تھیں اور ساتھ اس کے عبادت بھی کرتی تھیں چنانچہ ایک بیوی نے اپنی حفاظت کے واسطے ایک رسہ لٹکا رکھا تھا کہ عبادت میں اونگھ نہ آئے ( یعنی جب اونگھ آنے لگے اور خطرہ ہو کے گر جائیں گی تو رسے کو ہاتھ میں پکڑ لیا کرتی تھیں ).عورتوں کے لئے ایک ٹکڑا عبادت کا خاوندوں کا حق ادا کرنا ہے اور ایک ٹکڑا عبادت کا خدا ( ملفوظات جلد سوم ص: ۳۶۹) کا شکر بجالا نا ہے.“ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : تم اے عورتو! اپنے خاوندوں کے ان ارادوں کے وقت کہ وہ دوسرا نکاح کرنا چاہتے ہیں خدا تعالیٰ کی شکایت مت کرو بلکہ تم دعا کرو کہ خدا تمہیں مصیبت اور ابتلاء سے محفوظ رکھے.بے شک وہ مرد سخت ظالم اور قابل مواخذہ ہے جو دو جو رؤیں کر کے انصاف نہیں کرتا مگر تم خود خدا کی نافرمانی کر کے مورد قہر الہی مت بنو.ہر ایک اپنے کام سے پوچھا جائے گا.اگر تم خدا تعالیٰ کی نظر میں نیک بنو تو تمہارا خاوند بھی نیک کیا جاوے گا.(روحانی خزائن جلد ۱۹ کشتی نوح صفحه (۸) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ آخری اقتباس ارشاد ہے جو میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.ہمیں جو کچھ خدا تعالیٰ سے معلوم ہوا ہے وہ بلا کسی رعایت کے بیان کرتے ہیں قرآن شریف کا منشاء زیادہ بیویوں کی اجازت سے یہ ہے کہ تم کو اپنے نفوس کو تقویٰ پر قائم رکھنے اور دوسرے اغراض مثلاً اولا دصالحہ کے حاصل کرنے اور خویش واقارب کی نگہداشت اور ان کے حقوق کی بجا آوری سے ثواب حاصل ہو اور اپنی اغراض کے لحاظ سے اختیار دیا گیا ہے کہ ایک، دو، تین چار عورتوں تک

Page 684

حضرت خلیفہ انسخ الرابع کے ستورات سے خطابات ۶۸۰ خطاب ۲۶ را گست ۲۰۰۰ء نکاح کر لو لیکن اگر اُن میں عدل نہ کر سکو تو پھر یہ فسق ہوگا.“ 66 (ملفوظات جلد چہارم صفحه ۵۰ جدید ایڈیشن ) اب اس تعلیم کو بالکل غلط سمجھا گیا ہے ہرگز اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ نہیں ہے کہ چار بیویاں کی جائیں یا ایک سے زیادہ بیویاں کی جائیں.یہ خصوصی حالات میں مرد کو اجازت دی گئی ہے ورنہ اگر خدا تعالیٰ کا یہ نشاء ہوتا تو پھر دنیا میں ایک مرد کے مقابل پر چار عورتیں پیدا ہونی چاہئیں تھیں.تو خدا کا فعل بتا رہا ہے کہ مقصد یہ نہیں ہے بلکہ بعض مجبوریوں کی خاطر بعض حالات میں یہ ہدایت دی گئی ہے.مگر شرطیں بہت کڑی ہیں خدا کا تقویٰ اختیار کر و شروع میں بھی فرمایا یعنی بیویوں سے سلوک میں خدا کا تقویٰ اختیار کرو پھر آخر میں بھی فرمایا بیویوں سے سلوک میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو.تویہ تعلیم بظاہر تو یوں معلوم ہوتا ہے جس طرح مردوں کو چھٹی ہے وہ ایک سے زیادہ جتنی چاہیں شادیاں کریں مگر حقیقت میں اکثر مرد ایک سے زیادہ شادیاں کر کے گناہ گار بنتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عورتوں کو یہ نصیحت ہے کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو گناہوں سے بچائے اور ایک سے زیادہ شادی کی جو اغراض ہیں خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ اغراض پوری ہوں لیکن اگر اُن میں عدل نہ کر سکو تو پھر یہ فسق ہوگا.“ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمارہے ہیں اور بجائے ثواب کے عذاب حاصل کرو گے کہ ایک گناہ سے نفرت کی وجہ سے دوسرے گناہوں پر آمادہ ہوئے.دل دکھانا بڑا گناہ ہے.“ ( ملفوظات جلد چہارم ص : ۵۰ ) اب یہ خاص بات ہے جو سب کو پیش رکھنی ضروری ہے ایک باپ جب اپنی بیٹی کو رخصت " کر دیتا ہے تو پھر بہت تکلیف ہوتی ہے اس کو.اگر اس بیٹی سے بدسلوکی کی جائے.فرماتے ہیں: دل دکھانا بڑا گناہ ہے اور لڑکیوں کے تعلقات بڑے نازک ہوتے ہیں.جب والدین ان کو اپنے سے جدا اور دوسرے کے حوالے کرتے ہیں تو خیال کرو کہ کیا امیدیں ان کے دلوں میں ہوتی ہیں اور جن کا اندازہ انسان عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ( النساء:۲۰) کے حکم سے ہی کر سکتا ہے اگر انسان کا سلوک اپنی بیوی سے عمدہ ہو اور اسے ضرورت شرعی پیدا ہو جاوئے تو اس کی بیوی اس کے دوسرے نکاحوں سے ناراض نہیں ہوتی ہم نے اپنے گھر میں کئی دفعہ دیکھا ہے کہ وہ ہمارے نکاح والی پیشگوئی کے پورا ہونے کے لئے رو رو کر دعائیں کرتی

Page 685

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ΥΛΙ خطاب ۲۶ را گست ۲۰۰۰ء ہیں.یعنی حضرت امان جان.اصل بات یہ ہے کہ بیویوں کی ناراضگی کا باعث خاوند کی نفسانیت ہوا کرتی ہے اور اگر ان کو اس بات کا علم ہو کہ ہمارا خاوند صحیح اغراض اور تقویٰ کے اصول پر دوسری بیوی کرنا چاہتا ہے تو پھر وہ کبھی ناراض نہیں ہوتیں.فساد کی بناء تقومی کی خلاف ورزی پر ہوا کرتی ہے.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحه ۵۰ جدید ایڈیشن) اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی احمدی خواتین بھی ہیں جو اپنی سوتنوں سے بے انتہا محبت کا سلوک کرتی ہیں اور وہ ایک دوسرے پر جان نچھاور کرتی ہیں.بہت دفعہ میں نے ان کو دیکھا ہے بے اختیار دل سے ان کے لئے دعائیں نکلی ہیں اللہ آپ سب کو اس پاک تعلیم پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اب میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ خاموش دُعا میں میرے ساتھ شامل ہو جائیں کیونکہ اب وقت ہو رہا ہے.(آمین)

Page 686

Page 687

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۸۳ خطاب ۲۵ را گست ۲۰۰۱ء بچوں کی تربیت کے متعلق نصائح (جلسہ سالانہ مستورات جرمنی سے خطاب فرموده ۲۵ اگست ۲۰۰۱ء) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَيْكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ.(التحريم:۷) اس آیت کا سادہ ترجمہ یہ ہے.”اے لوگو جو ایمان لائے ہو اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں.اس پر بہت سخت گیر قوی فرشتے مسلط ہیں وہ اللہ کی اس بارے میں جو وہ انہیں حکم دے نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو حکم دیئے جاتے ہیں.“ آج کا خطاب بچوں کی تربیت سے متعلق ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالی اس خطاب کی روشنی میں مائیں اپنے بچوں کی بہترین تربیت کریں گی جو ان کا مستقبل ہیں.سب سے پہلی حدیث تو حضرت ابو ہریرہ کی میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر بچہ فطرت اسلامی پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں.پس یہ ایک بہت ہی بڑی خوشخبری ہے کہ ہر بچے کو اللہ تعالیٰ فطرت اسلامی پر پیدا کرتا ہے خواہ وہ کوئی بھی ہو ہر صورت میں بعض بچے جبر کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں اور بوسنیا میں بڑی کثرت سے

Page 688

۶۸۴ خطاب ۲۵ مراگست ۲۰۰۱ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات یسے بچے پیدا ہوئے تھے ان کی ماؤں نے مجھ سے سوال کیا کہ ان بچوں کا کیا بنے گا میں نے ان سے کہا ان بچوں کا قصور تو نہیں یہ تو جنتی ہیں مگر وہ جو ظالم ہیں وہ جہنمی ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کے رسول نے فرمایا ہے کہ سب بچے فطرت پر پیدا ہوتے ہیں.اس لئے ہماری ماؤں کو بھی سوچنا چاہئے کہ بچے تو دین فطرت پر پیدا ہوں اور اگر بڑے ہوں آپ کی تربیت میں اور وہ یہودی یا نصرانی یا مجوسی بن جائیں تو اس میں بچوں کا قصور نہیں یہ سارا ماں باپ کا قصور ہو گا.حضرت ایوب اپنے والد اور پھر اپنے دادا کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھی تربیت سے بڑھ کر کوئی تحفہ نہیں جو باپ اپنی اولا د کو دے سکتا ہے.ایک حدیث ہے حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آدمی اپنے دوست کے زیر اثر ہوتا ہے پس تم میں سے ہر ایک خیال رکھے کہ کسے دوست بنارہا ہے.اب بچپن ہی سے بچوں کے دوستوں پر نظر رکھنی بہت ضروری ہے.بعض لوگ اس کی پروا نہیں کرتے حالانکہ ماں باپ کو دکھائی دے دیتا ہے کہ کس قسم کے دوست ہیں اگر بچے کے دوست اچھے ہوں گے تو بچہ بھی ضرور اچھی تربیت پائے گا اس لئے آپ اس بات کا خیال رکھا کریں کہ اگر بچے کے غلط دوست دیکھیں تو پھر ان دوستوں سے بچے کا تعلق توڑنے کی کوشش کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس میں اس ضمن میں پڑھ کر سناتا ہوں.خوب یاد رکھو کہ جب تک خدا تعالیٰ سے رشتہ نہ ہوا ور سچا تعلق اس کے ساتھ نہ ہو جاوے ہو کوئی چیز نفع نہیں دے سکتی.یہودیوں کو دیکھو کہ کیا وہ پیغمبروں کی اولاد نہیں ؟ یہی وہ قوم ہے جو اس پر ناز کیا کرتی تھی اور کہا کرتی تھی نَحْنُ ابْنَوا اللهِ وَاحِبَّاؤُهُ ( المائدہ:۱۹) کہ ہم اللہ کی اولاد ہیں ، بیٹے ہیں اور اس کے محبوب ہیں.( حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کا ترجمہ یہ کرتے ہیں ) ہم اللہ تعالیٰ کے فرزند اور اس کے محبوب ہیں مگر جب انہوں نے خدا تعالیٰ سے رشتہ توڑ دیا اور دنیا ہی کو دین پر مقدم کر لیا تو کیا نتیجہ ہوا ؟ خدا تعالیٰ نے اسے سؤ ر اور بند رکہا اور جو حالت ان کی مال ودولت ہوتے ہوئے بھی ہے (اب دیکھ رہے ہو ) وہ کسی سے پوشیدہ نہیں.“ حضرت ابو قتادہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہترین چیزیں جو ( ملفوظات جلد چہارم ص ۴۴۴)

Page 689

حضرت خلیفہ المسح الرائع" کے مستورات سے خطابات ۶۸۵ خطاب ۲۵ را گست ۲۰۰۱ء انسان اپنی موت کے بعد پیچھے چھوڑ کے جاتا ہے وہ تین ہیں.نیک اولا د جو بعد میں اپنے ماں باپ کے لئے دعا گو ہو، صدقہ جاریہ جس کا ثواب اسے ہمیشہ پہنچتا ر ہے اور ایسا علم جس پر اس کے بعد عمل کیا جاتا رہے.خالی علم ، صدقہ نہیں ہے جار یہ بلکہ ایساعلم جس پر بعد میں عمل ہوتا رہے.ایک بخاری کی حدیث ہے.حضرت ابو موسیٰ سے مروی ہے.کہتے ہیں میرے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو میں اسے لے کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے اس کا نام ابراہیم رکھا.حضور صلی اللہ علیہ وسلم تفاؤل کے طور پر اچھے نام بچوں کے رکھا کرتے تھے اور آپ کو بھی اپنے بچوں کے نام محض سننے میں ، خوبصورت نہ ہوں بلکہ معنی خیز ہوں اور بہت اچھے نام ہوں ،ایسے نام رکھنے چاہئے.بچہ بھی بسا اوقات اپنے نام کے مطابق ہی بنتا ہے.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی دستور تھا.اس کا نام ابراہیم رکھا پھر اس زمانے میں جو دیا کرتے تھے.کیا کہتے ہیں اس کو گھٹی یا جو کچھ کہتے ہیں پھر اسے ایک کھجور کی گھٹی دی اور اس کے لئے خیر و برکت کی دُعا کی.آج کل تو لوگ شہد کی گھٹی دیتے ہیں.اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کھجور کی گھٹی ثابت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.اگر اولاد کی خواہش کرے تو اس نیت سے کرے وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ اِمَامًا (الفرقان : ۷۵) پر نظر کر کے کرے.کہ کوئی ایسا بچہ پیدا ہو جائے جو اعلاء كلمتۃ الاسلام کا ذریعہ ہو.جب ایسی پاک خواہش ہو تو اللہ قادر ہے کہ زکریا کی طرح اولا دوے دے.66 ( ملفوظات جلد سوم ص ۵۷۹) یعنی اولا داگر ظاہری حالت میں ناممکن بھی ہو.اگر یہ نیت ہو کہ بہت پاک اولا د ہو اور اس نیت سے خدا کے حضور انسان گریہ وزاری کرتا رہے اور مایوس نہ ہو تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں ہرگز بعید نہیں کہ بظاہر ناممکن حالات میں بھی اللہ نیک اولا دعطا فرمائے.اسی طرح آپ فرماتے ہیں.ر بعض اوقات صاحب جائیداد لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ کوئی اولاد ہو جاوے جو اس جائیداد کی وارث ہو.تا کہ غیروں کے ہاتھ میں نہ چلی جائے مگر نہیں جانتے کہ جب مر گئے تو شرکاء کون اور اولادکون.سبھی تیرے لئے تو غیر ہیں.اولاد کے لئے اگر خواہش ہو تو اس غرض سے ہو کہ وہ خادم دین ہو.“

Page 690

حضرت خلیفہ المسح الرائع" کے مستورات سے خطابات ۶۸۶ خطاب ۲۵ را گست ۲۰۰۱ء حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے بچوں سے عزت کے ساتھ پیش آؤ اور ان کی اچھی تربیت کرو.یہ بھی بہت ضروری ہے.بچوں کو بہت زیادہ ڈانٹنا اور تو کر کے مخاطب کر کے تو تو کہہ سکتے ہیں مگر پیار کے ساتھ.اگر بے عزتی کے ساتھ تو کر کے تو تڑاخ کی باتیں کریں تو اس بچے کی تربیت پھر ہمیشہ خراب ہوتی ہے.بچپن سے اس کے دل میں ماں باپ کی عزت باقی نہیں رہتی تو بعض یو پی سی پی وغیرہ میں تو رواج ہے کہ وہ بچے کو آپ کر کے مخاطب کرتے ہیں.تو اگر آپ کر کے مخاطب کر سکیں تو یہ بھی اچھی عادت ہے.بچے کا ادب کریں تو بچہ ماں باپ کا ادب کرتا ہے.اگر ادب نہ سکھائیں تو پھر بچہ بے ادب کے طور پر بڑا ہوتا ہے اور بڑے ہو کر بھی پھر ماں باپ کا ادب نہیں کرتا.حضرت عائشہ صدیقہ بیان فرماتی ہیں کہ میں نے فاطمہ سے بڑھ کر شکل وصورت اور چال ڈھال اور گفتگو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ کسی کو نہیں دیکھا.فاطمہ جب کبھی حضور سے ملنے آتیں تو حضور ان کے لئے کھڑے ہو جایا کرتے.ان کے ہاتھ کو پکڑ کر چومتے اپنے بیٹھنے کی جگہ پر بٹھاتے.اسی طرح جب حضور ملنے کے لئے حضرت فاطمہ کے یہاں تشریف لے جاتے تو وہ کھڑی ہو جاتیں.حضور کے دست مبارک کو بوسہ دیتیں اور اپنے بیٹھنے کی جگہ پر بٹھا تیں.ملفوظات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک اور عبارت ہے.اولاد کی خواہش تو لوگ بڑی کرتے ہیں اور اولاد ہوتی بھی ہے مگر یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ وہ اولاد کی تربیت اور ان کو عمدہ اور نیک چلن بنانے اور خدا تعالیٰ کے فرمانبردار بنانے کی سعی اور فکر کریں نہ کبھی ان کے لئے دُعا کرتے ہیں اور نہ مراتب تربیت کو مد نظر رکھتے ہیں.“ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جو قول ہے آپ کے ذہن میں اس وقت کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو اس قسم کی درخواستیں کرتے ہوں گے اور خود خیال نہیں کرتے ہوں گے مگر اب تو مجھے جہاں تک یاد ہے جتنے بھی لوگ اپنی اولاد کے لئے خط لکھتے ہیں اکثر ان کے نیک ہونے کے لئے دُعا کی تحریک کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.” میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں جس میں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لئے دُعا نہیں کرتا.( ملفوظات جلد اول صفحہ ۵۶۲)

Page 691

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۸۷ خطاب ۲۵ را گست ۲۰۰۱ء بخاری کتاب الاطعمة میں حضرت عمر بن ابی سلمی " جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ربیب تھے بیان کرتے ہیں کہ بچپن میں میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں رہتا تھا.کھانا کھاتے وقت میرا ہاتھ تھالی میں پھرتی سے ادھر ادھر گھومتا تھا.حضور نے میری اس عادت کو دیکھ کرفرمایا اے بچے! کھانا کھاتے وقت بسم اللہ پڑھو اور اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے آگے سے کھاؤ.اس وقت سے لے کر میں ہمیشہ حضور کی اس نصیحت کے مطابق کھانا کھاتا ہوں.اب یہ بھی بچپن میں ہی تربیت کی جائے تو تربیت ہوتی ہے.اگر بچپن سے بسم اللہ کہنے کی عادت نہ ڈالیں تو بڑے ہو کر بھی نہیں رہتی اور کھانا اپنے سامنے سے کھانا چاہئے.ہر جگہ انگلیاں نہیں پھیر نی چاہئیں.پس جو بچے ڈھونڈتے پھرتے ہیں اچھی چیزیں ، اچھی بوٹی کھانے میں، ان کو سمجھایا کریں اس کی بھی باری آجائے گی تم آرام سے اطمینان سے اپنا کھانا کھایا کرو.اطمینان سے کھانا کھانے سے ہاضمہ بھی انسان کا بہتر ہوتا ہے.جو افراتفری میں کھانا کھاتے ہیں ان کو نقصان پہنچتا ہے.ایک بچے کے متعلق روایت ہے ابورافع بن عمر والغفاری کے چچا سے یہ روایت ہے.وہ کہتے ہیں کہ میں ابھی بچہ ہی تھا تو انصار کے کھجوروں پر پتھر مار مار کر پھل گرایا کرتا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا گذرا دھر سے ہوا تو آپ سے عرض کیا گیا کہ یہاں ایک لڑکا ہے جو ہماری کھجوروں کو پتھر مارتا ہے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں وہ بچہ لایا گیا تو آپ نے پوچھا اے لڑکے تو کیوں کھجوروں کو پتھر مارتا ہے.میں نے عرض کیا کہ تا کہ میں کھجور میں کھا سکوں.فرمایا آئندہ کھجور کے درخت کو پتھر نہ مارنا ہاں جو پھل گر جائے اسے کھا لیا کر پھر آپ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور دُعا کی کہ اللهم اشبع بطنه “ کہ اے اللہ اس کا پیٹ بھر دے.یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت تھی بغیر پتھر مارے اگر کوئی پھل گرا ہوا نیچے مل جائے اس کا کھانا نا جائز نہیں ہے لیکن ساتھ ہی دُعا بھی دی کہ اللہ اس کا پیٹ بھر دے پھر ساری عمر اس نے کبھی حرص نہیں کی.بچوں کو حلال اور طیب کھانے کی نصیحت کرنا : حضرت ابو ہریرہ سے بخاری میں یہ روایت ہے.ایک دفعہ حضرت علیؓ کے بیٹے حسن نے صدقہ کی ایک کھجور منہ میں ڈالی تھی تو حضور نے فرمایا چھی چھی.تم جانتے نہیں کہ ہم صدقہ نہیں کھاتے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روایت کے مطابق اپنے نواسے کے منہ میں انگلی ڈال کے اس

Page 692

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات سے کھجور نکال لی.۶۸۸ خطاب ۲۵ را گست ۲۰۰۱ء حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے یہ بھی بخاری ہی کی ایک حدیث ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسے حسن بن علی کو چوما تو پاس بیٹھے اقرع بن حابس تمیمی نے کہا کہ میرے تو دس بچے ہیں لیکن میں نے کسی کو کبھی نہیں چوما.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا جو تم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا.پس بچوں کو جو پیار کرنا ہے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت تھی.چھوٹے بچوں کو بھی اور بڑے بچوں سے بھی آپ ہمیشہ پیار فرمایا کرتے تھے.حضرت ابو ہریرہ کی ایک روایت الادب المفرد بخاری میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا.اس کے ساتھ ایک چھوٹا بچہ تھا وہ اسے اپنے ساتھ چمٹانے لگا اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو اس سے رحم کا سلوک کرتا ہے اس پر اس نے جواب دیا جی ہاں حضور.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تجھے پر اس سے بہت زیادہ رحم کرے گا جتنا تو اس بچے پر کرتا ہے کیونکہ وہ خدارحم الراحمین ہے..سہل اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تبارک تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جن سے قیامت کے دن اللہ نہ بات کرے گا اور نہ ان کو پاک ٹھہرائے گا نہ ان کی طرف دیکھے گا.یہ بہت ہی بڑی تنبیہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی انتہائی ناراضگی کو ظاہر کرتی ہے.اللہ تعالیٰ تو سب کو دیکھ رہا ہے مگر بعض دفعہ انسان سے نظریں اس طرح پھیرتا ہے کہ انسان محسوس کرتا ہے کہ مجھے نہیں دیکھ رہا.حضور سے دریافت کیا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون لوگ ہیں.حضور نے فرمایا ایسا شخص جو اپنے والدین سے بے زار ہواور ان سے بے رغبتی رکھتا ہو.اس سے بھی اللہ تعالیٰ صرف نظر فرمائے گا اور ایسا شخص جو اپنی اولاد سے بے زار ہواس پر بھی اللہ تعالیٰ رحم کی نگاہ نہیں ڈالے گا اور ایسا شخص جسے اس کی قوم نے نوازا تو ہو لیکن اس نے ان کی نوازشات کی ناقدری کی ہو اور ان سے بے تعلقی کا اظہار کیا ہو.حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے اچھے اخلاق کے مالک تھے.ایک بار آپ نے مجھے کسی کام کے لئے بھیجا میں نے کہا میں نہیں جاؤں گا لیکن دل میں میرے یہ تھا کہ میں ضرور حضور کے حکم کی بجا آوری کے لئے جاؤں گا.بہر حال میں چل پڑا اور بازار میں کھیلتے ہوئے بچوں کے پاس سے گزرا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور پیچھے سے میری

Page 693

۶۸۹ خطاب ۲۵ را گست ۲۰۰۱ء حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات گردن پکڑی.میں نے مڑ کر آپ کی طرف دیکھا تو آپ ہنس رہے تھے.آپ نے فرمایا انس جس کام کی طرف میں نے تجھے بھیجا تھا وہاں گئے.میں نے عرض کی ہاں یارسول اللہ ! انس کہتے ہیں کہ خدا کی قسم میں نے 9 سال تک حضور کی خدمت کی مجھے علم نہیں کہ آپ نے کبھی فرمایا ہو کہ تو نے یہ کام کیوں نہ کیا اور یہ کام کیوں کیا وغیرہ.گویا کہ آپ حضرت انس سے بہت ہی شفقت فرمایا کرتے تھے اور اگر وہ اپنے کام سے غفلت بھی برتتے تھے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو معاف فرما دیا کرتے تھے.آپ کی طبیعت میں بے انتہا عفو تھا.حضرت عبداللہ بن جعفر بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے واپس آتے تو اہل بیت کے بچے بھی آپ کے استقبال کے لئے آتے.ایک دفعہ جب آپ سفر سے آئے تو سب سے پہلے مجھے آپ تک پہنچایا گیا.آپ نے مجھے گود میں اُٹھا لیا.پھر حضرت فاطمہ کے دو بیٹوں امام حسن یا امام حسین میں سے کسی ایک کو لایا گیا تو آپ نے اسے بھی اپنے پیچھے بٹھا لیا.اس طرح مدینہ منورہ میں اس حال میں داخل ہوئے کہ ایک اونٹ پر ہم تین سوار تھے.اب اونٹوں کا زمانہ تو نہیں رہا لیکن بچوں کو پیار سے اپنے ساتھ بٹھانا اگر وہ سواری کرتے ہیں تو سواری میں بٹھا لینا ، موٹر چلاتے ہیں تو موٹر میں گود میں بٹھا لینا یہ بھی سنت نبوی کے مطابق ہے.میں بھی بچپن میں اس سنت پر عمل کیا کرتا تھا اور موٹر چلاتے ہوئے اپنی بچیوں کو باری باری اپنی گود میں بٹھا لیا کرتا تھا.ایک روایت کتاب بخاری سے حضرت اسامہ بن زید کی طرف سے کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اٹھا کر اپنی ران پر بٹھا لیتے تھے اور حضرت حسن گو دوسری ران پر پھر انہیں بھینچ لیتے اور یہ دُعا کرتے اے اللہ ان دونوں پر رحم فرما میں بھی ان سے رحم کا سلوک کرتا ہوں.سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب کی روایت ہے آپ بچوں کو گود میں اُٹھاتے ہوئے باہر نکل آیا کرتے تھے اور سیر میں بھی اُٹھا لیا کرتے تھے اس میں کبھی آپ کو تامل نہ ہوتا تھا.اگر خدام جو ساتھ ہوتے وہ خود اُٹھانا اپنی سعادت سمجھتے مگر حضرت بچوں کی خواہش کا احساس اور ان کے اصرار کو دیکھ کر خود اُٹھا لیتے اور ان کی خوشی پوری کر دیتے پھر کچھ دور جا کر کسی خادم کو دے دیتے یعنی اس طرح اُٹھا کر لئے پھرتے پھر کچھ دیر کے بعد لوگوں کی خواہش کے پیش نظر کسی ایک خادم کے سپر د بھی کر دیتے.صاحبزادی امتہ النصیر کی وفات پر ان کا جنازہ بھی حضور نے اپنے ہاتھوں پر اٹھایا تھا اور چھوٹے بازار سے باہر نکلنے تک یعنی اڈہ خانہ تک حضور ہی اُٹھائے ہوئے

Page 694

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۹۰ خطاب ۲۵ را گست ۲۰۰۱ء لے گئے تھے.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کی روایت ہے.بارہا میں نے دیکھا اپنے اور دوسرے بچے آپ کی چار پائی پر بیٹھے ہیں اور آپ کو مضطر کر کے پائنتی پر بٹھا دیا اور اپنے بچپنے کی بولی میں مینڈک اور کوے اور چڑیا کی کہانیاں سنا رہے ہیں اور گھنٹوں سنائے چلے جارہے ہیں حضرت ہیں کہ بڑے مزے سے سنے جا رہے ہیں گویا مثنوی ملائے روم سنارہے ہیں.حضرت بچوں کو مارنے اور ڈانٹنے کے سخت مخالف تھے.بچے کیسا ہی بسوریں ، شوخی کریں ، سوال میں تنگ کریں اور بے جا سوال کریں اور ایک موہوم اور غیر موجود شئے کے لئے حد سے زیادہ اصرار کریں آپ نہ تو کبھی مارتے ہیں اور نہ جھڑکتے ہیں اور نہ کوئی خفگی کا اظہار کرتے ہیں.بچوں کو اچھی کہانیاں بھی سنانی چاہئیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق روایت ہے آپ نے فرمایا اچھی کہانی سنادینی چاہئے اس سے بچوں کو عقل اور علم آتا ہے.میں بھی اردو کلاس میں بعض کہانیاں بچوں کے لئے سنایا کرتا تھا اور خود ہی بنا بنا کے سنا دیتا تھا.بہت بچے دلچسپی لیتے تھے.اس سے اُردو بھی آجاتی تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سنت پر بھی مجھے عمل کرنے کی توفیق مل جاتی تھی.حضرت نعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں کہ ان کے ابا جان ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے بچے کو ایک غلام تحفتہ دیا ہے.حضور نے فرمایا کیا تم نے اپنے ہر بیٹے کو ایسا تحفہ دیا ہے.میرے ابا نے عرض کیا کہ نہیں حضور! آپ نے فرمایا: تو وہ واپس لے لو.ایک اور روایت میں ہے کہ حضور نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی اولا د سے انصاف اور مساوات کا سلوک کیا کرو.اس کو یا درکھنا چاہئے بعض بچے ماں باپ کو زیادہ پیارے ہوتے ہیں مگر جو کم پیارے ہیں ان سے بھی انصاف کا معاملہ لازمی ہے اگر انصاف نہیں کریں گے تو بچوں میں ایک دوسرے سے بھی بغض اور نفرت پیدا ہوگی.اس پر میرے والد نے وہ تحفہ واپس لے لیا.ایک روایت میں ہے کہ حضور نے فرمایا مجھے اس حصہ کا گواہ نہ بناؤ کیونکہ میں ظلم کا گواہ نہیں بن سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچوں کو سزا دینے کے سخت مخالف تھے یعنی اسکولوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نصیحت تھی اور بڑی سختی سے ہدایت تھی کہ بچوں کو استادسوٹیاں نہ مارا کریں.مدرسہ تعلیم الاسلام میں جب کبھی استاد کے خلاف شکایت آتی اس نے کسی بچے کو مارا ہے تو سخت نا پسند فرماتے اور متواتر ایسے احکام نافذ فرمانے لگ گئے کہ بچوں کو جسمانی سزا نہ دی جائے.چھوٹے بچوں

Page 695

حضرت خلیفہ المسح الرائع" کے مستورات سے خطابات ۶۹۱ خطاب ۲۵ را گست ۲۰۰۱ء کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ وہ خدا کی طرف سے تو مکلف ہوئے نہیں اور تمہارے مکلف کیسے ہو سکتے ہیں.مطلب ابھی ان کی عمریں نہیں ہیں کہ خدا تعالیٰ کو جواب دیں تو آپ ان کی بلوغت سے پہلے ان پر سختی کرنے کے مجاز نہیں ہیں.ایک حدیث ہے ( مسلم کتاب الفضائل سے ) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا.آپ نے ہم سب کو سلام کیا اور مجھے اپنے ایک کام کے لئے بھیجا اس وجہ سے میں اپنی ماں کے پاس دیر سے پہنچا.میری ماں نے مجھ سے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو میں نے جواب دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کسی کام کے لئے بھیجا تھا.میری ماں نے پوچھا کہ وہ کام کیا تھا میں نے جواب دیا کہ یہ ایک راز کی بات تھی.میری ماں نے کہا کہ تو پھر حضور کا راز کسی کو نہ بتائی.حضرت انس نے یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے اپنے ملا زم ثابت سے فرمایا اے ثابت اگر وہ راز کی بات میں کسی کو بتا سکتا تو تجھے ضرور بتا دیتا.نماز کی نصیحت : حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ کے واسطے سے اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہارے بچے سات سال کے ہو جا ئیں تو انہیں نماز پڑھنے کی تاکید کیا کرو، جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے پر کچھ پتی کرومگر یہ بختی معمولی سختی ہونی چاہئے.ایک دو پیٹھ پر تھپڑ مار دیں تھوڑے سے.اس سے زیادہ سوٹیوں وغیرہ سے سختی مراد ہرگز نہیں ہے.اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر گز پسند نہیں فرمایا کرتے تھے جب اسال کے ہو جائیں تو پھر کچھ سختی کیا کرو اور اسی عمر میں ان کے بستر بھی الگ کر دیا کرو اور ان کو الگ الگ بستر پر سلایا کرو جب ۲ سال کے ہو جائیں تو پھر ان پر کسی قسم کی تختی کی اجازت نہیں ہے.پھر ان کا معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑ دو.تمہارے بچپنے کی تربیت ان کے کام آئے گی یا تمہاری دعائیں ان کے کام آئیں گی.حضرت ابن عباس کی بخاری میں یہ روایت درج ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی خالہ کے گھر رات گزاری رات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے کھڑے ہوئے میں بھی حضور کے بائیں طرف کھڑا ہوا.حضور نے مجھے سر سے پکڑا اور مجھے اپنی دائیں طرف کھڑا کر دیا اور یہ بھی یا درکھیں لڑکے ہوں تو ان کو امام کی دائیں طرف کھڑا ہونا چاہئے.لڑکیاں ہوں تو انہیں امام کی بائیں طرف کھڑا

Page 696

حضرت خلیفہ المسح الرائع" کے مستورات سے خطابات ۶۹۲ خطاب ۲۵ را گست ۲۰۰۱ء ہونا چاہئے.اپنی اولا د سے پیار تو کرو لیکن یہ بھی یاد رکھو کہ اولاد کا زیادہ پیار بھی بہت بڑے فتنوں میں ڈال دیتا ہے انسان کو اور اکثر لوگ اپنی اولاد سے زیادہ پیار کے نتیجے میں ان کو بگاڑ دیتے ہیں اور بڑے ہوکر ان کے گناہوں کے ذمہ دار ہو جاتے ہیں.فرماتے ہیں.اپنی حالت کی پاک تبدیلی کی دُعاؤں کے ساتھ اپنی اولا داور بیوی کے واسطے بھی دُعا کرتے رہنا چاہئے کیونکہ اکثر فتنے اولاد کی وجہ سے انسان پر آجاتے ہیں.پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ فرماتے ہیں: ” جب تک اولاد کی خواہش محض اس غرض کے لئے نہ ہو کہ وہ دین دار اور متقی ہو اور خدا تعالیٰ کی فرمانبردار ہو کر اس کے دین کی خادم بنے بالکل فضول بلکہ ایک قسم کی معصیت اور گناہ ہے اور باقیات صالحات کے بجائے ان کا نام ( ملفوظات جلد اول ص ۵۶۰) باقیات سیات رکھنا جائز ہوگا.“ یعنی ایسی اولاد کے متعلق یہ خیال کہ وہ نیک طور پر باقی رہیں گی یہ ایک وہم ہے ایسی اولاد بدیوں کے ساتھ باقی رہتی ہے.لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں صالح اور خدا ترس اور خادم دین اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو اس کا اتنا کہنا بھی نرا ایک دعوی ہے جب تک کہ وہ خود اپنی حالت میں ایک اصلاح نہ کرے.“ ( ملفوظات جلد اوّل صفحه ۵۶۰) اور ماں باپ اولاد کے متعلق تو لازما چاہتے ہیں کہ وہ نیک ہولیکن اپنی حالت نہیں بدلتے اور بچے بڑے ذہین ہوتے ہیں وہ اپنے ماں باپ کی ایسی حالت دیکھ لیتے ہیں اور جان لیتے ہیں کہ ان کو تو بدی سے محبت ہے اور ہمیں نیکی کی تعلیم دے رہے ہیں اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ نکتہ سکھایا ہے کہ جب تک اپنی حالت کی اصلاح نہ کرو تمہارا منہ سے بچوں کو نیک نصیحتیں کرنا کچھ بھی فائدہ نہ دے گا.اگر خود فسق و فجور کی زندگی بسر کرتا ہے اور منہ سے کہتا ہے کہ میں صالح اور متقی اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو وہ اپنے اس دعوی میں کذاب ہے.صالح اور متقی اولاد کی خواہش سے پہلے ضروری ہے کہ وہ خود اپنی اصلاح کرے اور اپنی زندگی کو متقیانہ زندگی بناوے.تب اس کی ایسی خواہش ایک نتیجہ خیز خواہش ہوگی اور ایسی اولاد حقیقت میں اس قابل ہوگی کہ اس کو باقیات

Page 697

حضرت خلیفہ مسح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۹۳ خطاب ۲۵ را گست ۲۰۰۱ء صالحات کا مصداق کہیں.لیکن اگر یہ خواہش صرف اس لئے ہو کہ ہمارا نام باقی.66 رہے اور وہ ہمارے املاک و اسباب کی وارث ہو کہ وہ بڑی نامور اور مشہور ہو.اس قسم کی خواہش میرے نزدیک شرک ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ ۵۶۱) حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی ایک اور روایت ہے آپ بچوں کی خبر گیری اور پرورش اس طرح کرتے ہیں کہ ایک سرسری دیکھنے والا گمان کرے کہ آپ سے زیادہ اولاد کی محبت کسی کو نہ ہوگی اور بیماری میں اس قدر توجہ کرتے ہیں تیمارداری اور علاج میں ایسے محو ہوتے ہیں کہ گویا اور کوئی فکر ہی نہیں مگر باریک بین دیکھ سکتا ہے کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اور خدا کے لئے اس کی ضعیف مخلوق کی رعایت اور پرورش مد نظر ہے.آپ کی پلوٹھی بیٹی عصمت لدھیانہ میں ہیضے سے بیمار ہوئی.آپ اس کے علاج میں یوں دوا دارو کرتے گویا اس کے بغیر زندگی محال ہے اور ایک دنیا دار دنیا کی عرف واصطلاح میں اولاد کا بھوکا اور شیفتہ اس سے زیادہ جانکا ہی نہیں کر سکتا مگر جب وہ مرگئی تو آپ اس سے یوں الگ ہو گئے گویا کوئی چیز تھی ہی نہیں اور جب سے کبھی ذکر تک نہیں کیا کہ کوئی لڑکی بھی ہوتی تھی.اب حضرت پھوپھی جان نواب مبار کہ بیگم صاحبہ حضرت اماں جان کی تربیت کے متعلق کچھ اصول بیان کرتی ہیں جو آپ کے لئے ہمیشہ کے لئے رہنما اصول ہیں اسی طریق پر اگر آپ اپنے بچوں کی تربیت کریں تو انشاء اللہ بڑے ہوتے تک وہ نیک رہیں گے.فرماتی ہیں اصولی تربیت میں میں نے اس عمر تک بہت مطالعہ عام و خاص لوگوں کا کر کے بھی دیکھا حضرت والدہ صاحبہ سے کسی کو بہتر نہیں پایا.آپ نے دنیوی تعلیم حاصل نہیں کی مگر جو آپ کے اصول ، اخلاق و تربیت ہیں ان کو دیکھ کر میں نے یہی سمجھا ہے کہ خاص خدا کا فضل اور خدا کے مسیح کی تربیت کے سوا اور کچھ نہیں کیا جاسکتا کہ یہ سب کہاں سے سیکھا.نمبر ابچے پر ہمیشہ اعتبار اور پختہ اعتبار ظاہر کر کے اس کو والدین کے اعتبار کی شرم اور لاج ڈال دینا یہ بہت بڑا اصول تربیت ہے تو بچے پر اعتبار کریں اور اس کو شک سے نہ دیکھا کریں.اگر کوئی غلط بھی کام کر رہا ہے تو آپ کے اعتبار کی نظروں کی تابع وہ اصلاح پذیر ہو جائے گا اور یہ سمجھتے ہوئے کہ مجھ پر اعتبار کیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل.آئندہ وہ آپ کو غلط باتیں بتانے کی کوشش نہیں کرے گا.جھوٹ سے نفرت یہ بہت ہی بنیادی تربیت ہے.بچپن ہی میں بچوں کو جھوٹ سے نفرت دلا نا بہت ہی ضروری ہے.ہم لوگوں سے بھی آپ ہمیشہ یہی فرماتی رہیں کہ بچے میں یہ عادت ڈالو کہ وہ

Page 698

حضرت خلیل مسح الرابع کے مستورات سے خطابات ۶۹۴ خطاب ۲۵ را گست ۲۰۰۱ء کہنا مان لے.پھر بے شک بچپن کی شرارت بھی آئے تو کوئی ڈر نہیں.شرارتوں کو برداشت کر لیں مگر جھوٹ کو برداشت نہ کریں.جس وقت بھی روکا جائے گا بعد ازاں باز آجائے گا اور اصلاح ہو جائے گی.فرماتی ہیں اگر ایک بارتم نے کہنا ماننے کی پختہ عادت ڈال دی تو پھر ہمیشہ اصلاح کی امید ہے.یہی آپ نے ہم لوگوں کو سکھا رکھا تھا اور کبھی ہمارے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ ہم والدین کی عدم موجودگی کی حالت میں ان کی منشاء کے خلاف کر سکتے.حضرت اماں جان ہمیشہ فرماتی تھیں میرے بچے جھوٹ نہیں بولتے اور یہی اعتبار تھا جو ہم کو جھوٹ سے بچاتا بلکہ اور زیادہ متنفر کرتا.میں نے بھی یہ نسخہ اپنی بچیوں کے اوپر استعمال کر کے دیکھا ہے اور بہت زیادہ ان کو بچپن سے جھوٹ سے نفرت کی عادت ڈالی ہے.یہاں تک کہ بعض دفعہ لطیفے بھی ہو جاتے تھے جھوٹ سے بچنے کی عادت میں بعض دفعہ وہ جھوٹ بول دیا کرتی تھیں.یعنی کوئی برائی ہوئی تو اپنی طرف منسوب کر لی.یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ ایک بڑی بہادری ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جھوٹ بہر حال جھوٹ ہی ہے.بہر حال الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ نے میری بچیوں میں بچپن ہی سے جھوٹ سے نفرت پیدا کر دی اور کبھی وہ جھوٹ نہیں بولتیں کم سے کم میرے علم میں نہیں ہے.حضرت اماں جان کا سختی کرنا حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کو یاد نہیں.کہتی ہیں میرے علم میں تو کبھی آپ نے ایسی سختی نہیں کی لیکن آپ کا ایک رعب تھا جو رعب ہم پر طاری رہتا تھا اور اس رعب کے تابع ہم اصلاح کی کوشش کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت اماں جان کی بہت قدر کرتے تھے.جس کے نتیجے میں بچوں میں بھی آپ کی بے حد قدر تھی.حضرت اماں جان کے متعلق پانچواں اصول یہ بیان کرتی ہیں کہ پہلے بچے کی تربیت پر اپنا پورا زور لگاؤ.دوسرے ان کو نمونہ دیکھ کر خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے یعنی بڑا بچہ جو ہے اگر اس کی اچھی تربیت کر لوگی تو انشاء اللہ زیر تربیت اس بڑے بچے کے بعد باقیوں کی تربیت بھی اچھی ہوتی چلی جائے گی.اب ایک اور روایت حضرت ابو ہریرہ کی ہے.ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین دُعاؤں کی قبولیت میں کوئی شک نہیں.مظلوم کی دُعا، مسافر کی دُعا اور باپ کی بیٹے کے لئے دُعا.ماؤں کو وہم ہوتا ہے کہ بچے کو نظر بد لگ جائے گی اور فلاں شخص کی نظر بد کھا جائے گی.اس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دُعا یا درکھیں.حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں

Page 699

حضرت طلیقہ آسع الرابع کے مستورات سے خطابات ۲۹۵ امسیح خطاب ۲۵ را گست ۲۰۰۱ء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن اور حسین کو اس دُعا سے دم کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹوں حضرت اسماعیل اور اسحاق علیھم السلام کے لئے انہی الفاظ میں پناہ مانگا کرتے تھے.اب یہ عربی الفاظ نہ بھی یادرکھیں تو تر جمہ یاد رکھیں.اَعُوذُ بِكَلِمَتِ اللهِ تَامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَّهَّامَةِ وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَوَّامَةٍ میں اللہ کے کامل اور مکمل کلمات کے ذریعے پناہ طلب کرتا ہوں.شیطان اور موذی جانوروں سے اور ہر نظر بد سے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے متعلق فرماتے ہیں: اول: میں اپنے نفس کے لئے دُعا مانگتا ہوں کہ خداوند کریم مجھ سے وہ کام لے جس سے اس کی عظمت اور جلال ظاہر ہو اور اپنی رضا کی پوری توفیق عطا کرے.دوم پھر اپنے گھر کے لوگوں کے لئے دُعا مانگتا ہوں کہ ان سے قرة العین عطا ہو اور اللہ تعالیٰ کی مرضیات کی راہ پر چلیں.خدام بنیں.سوم پھر اپنے بچوں کے لئے دُعا مانگتا ہوں کہ یہ سب دین کے چہارم پھر اپنے مخلص دوستوں کے لئے نام بنام دُعا مانگتا ہوں.پنجم پھر ان سب کے لئے جو اس سلسلے سے وابستہ ہیں.خواہ ہم ( ملفوظات جلد اول صفحه ۳۰۹) انہیں جانتے ہیں خواہ نہیں جانتے.“ یہ دُعا کا طریق وہ ہے جو ہمیشہ میں نے خود بھی استعمال کیا ہے اور جہاں تک میری توفیق ہے نام بنام یا اجتماعی طور پر سب کو دعاؤں میں یاد رکھتا ہوں.اپنوں کے لئے بھی اور غیروں کے لئے بھی ناواقفوں کے لئے بھی دُعا مانگتا ہوں.آپ بھی اس طریق کو اپنا لیں تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین تربیت کی توفیق عطا ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آخری اقتباس ملفوظات جلدسوم سے لیا گیا ہے.اگر تم لوگ چاہتے ہو کہ خیریت سے رہو اور تمہارے گھروں میں امن رہے تو مناسب ہے کہ دُعائیں بہت کرو اور اپنے گھروں کو دُعاؤں سے پر

Page 700

حضرت خلیفۃالمسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۹۶ خطاب ۲۵ را گست ۲۰۰۱ء کرو جس گھر میں ہمیشہ دعا ہوتی ہے خدا تعالیٰ اسے برباد نہیں کیا کرتا “ ( ملفوظات جلد سوم صفحه ۲۳۲) اب خطاب ختم ہوا.اب میں آپ سے اجازت چاہوں گا لیکن جانے سے پہلے دعا پر بات ختم ہوئی تھی.دعا پر ہی ہم اس خطاب کو ختم کریں گے.اس کے بعد حضور نے دعا کروائی اور السلام علیکم کہہ کر جلسہ گاہ سے رخصت ہوئے.( جاتے ہوئے حضور نے دریافت فرمایا کہ یہاں (صاحبزادی) طوبی آئی ہوئی تھی وہ کہاں بیٹھی ہے.صاحبزادی طوبی نے اپنا بتایا کہ وہ جلسہ گاہ میں موجود ہے.حضور پھر السلام علیکم کہہ کر رخصت ہوئے.)

Page 701

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات خطاب ۲۷ جولائی ۲۰۰۲ء میاں بیوی کے حقوق و فرائض مستورات سے حضور کا آخری خطاب عام ) ( خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ، فرموده ۲۷ / جولائی ۲۰۰۲ ء بمقام اسلام آباد برطانیہ ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی: وَمِنْ أَيْتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَتٍ لِقَوْمٍ يتَفَكَّرُونَ (الروم: ۲۲) ترجمہ: اور اس کے نشانات میں سے (یہ بھی) ہے کہ تمہارے لئے تمہاری ہی جنس کے جوڑے بنائے.تاکہ تم ان کی طرف تسکین ( حاصل کرنے ) کے لئے جاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی ہے یقیناً اس میں ایسی قوم کے لئے جو غور و فکر کرتے ہیں بہت سے نشانات ہیں.شادی کے بعد میاں بیوی کے آپس کے معاملات جس طرح اللہ اور اس کے رسول کی نظر میں ہونے چاہئیں یہ وہ موضوع ہے جس کو میں نے آج کی تقریر کے لئے چنا ہے تا کہ آپ کو یہ بتاؤں کہ وہ کون سی پاکیزہ نصائح ہیں جن کو اختیار کر کے آپ خوشگوار زندگیاں گزار سکتے ہیں اور جن باتوں پر عمل کرنے سے آپ کے گھر جنت نظیر بن سکتے ہیں.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومنوں میں سے ایمان کے لحاظ سے کامل ترین مومن وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں اور تم میں سے خلق کے لحاظ سے

Page 702

حضرت خلیفہ مسیح الرابع' کے مستورات سے خطابات ۶۹۸ خطاب ۲۷ جولائی ۲۰۰۲ء بہترین وہ ہے جو اپنی عورتوں سے بہترین اور مثالی سلوک کرے.( ترمذی کتاب النکاح باب حق المرأة على زوجها ) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کو اپنی مومنہ بیوی سے نفرت اور بغض نہیں رکھنا چاہئے.اگر اسے اس کی ایک بات نا پسند ہے تو دوسری بات پسندیدہ بھی ہوسکتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلم کتاب النکاح باب الوصية بالنساء) تم میں سے سب سے اچھی عورت وہ ہے جو اپنے خاوند کو خوش کرتی ہے جب وہ اس کو دیکھتا ہے اور اس کا کہنا مانتی ہے جب وہ کوئی حکم دیتا ہے تو اپنا مال و جان میں سے اس بات کا خیال رکھتی ہے کہ کوئی ایسا کام سرزد نہ ہو جس سے خاوند کو کراہت ہو.کوئی عورت یہ نہ سمجھے کہ یہ فرمانبرداری ظلم ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: عورتیں یہ نہ سمجھیں کہ ان پر کسی قسم کا ظلم کیا گیا ہے کیونکہ مرد پر بھی اس کے بہت سے حقوق رکھے گئے ہیں بلکہ عورتوں کو گو یا بالکل کرسی پر بٹھا دیا ہے اور مرد کو کہا ہے کہ ان کی خبر گیری کرو.اس کا تمام کپڑا، کھانا اور تمام ضروریات مرد کے ذمہ ہیں.( ملفوظات جلد پنجم صفحه : ۳۰) حضرت عبدالرحمن بن عوف بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس عورت نے پانچوں وقت کی نما ز پڑھی اور رمضان کے روزے رکھے اور اپنے آپ کو برے کام سے بچایا اپنے خاوند کی فرمانبرداری کی اس کا کہنا مانا.ایسی عورت کو اختیار ہے کہ جنت میں جس دروازے سے چاہے داخل ( مسند امام احمد بن حنبل ) حضرت ثوبان جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہو جائے.

Page 703

حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کے مستورات سے خطابات ۶۹۹ مہ خطاب ۲۷ جولائی ۲۰۰۲ء بہترین پیسہ جو انسان خرچ کرتا ہے وہ ہے جو وہ اپنے اہل وعیال پر خرچ کرتا ہے.(مسلم کتاب الزكوة باب فضل النفقة على العيال والملوک) ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِذَاغِبُتَ عَنْهَا حَفِظَتْكَ فِي مَالِكَ وَنَفْسِهَا ( بیہقی ) جب تم اس سے غائب ہو تو تمہارے مال میں اور اپنے نفس میں تمہارے لئے حفاظت کرے اور وہ ضرورتیں جو پردہ غیب میں ہیں ان کا خیال کر کے اخراجات پر کنٹرول رکھے.ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! مَا حَقُّ زَوْجَةِ أَحَدِنَا عَلَيْهِ کہ بیوی کا خاوند پر کیا حق ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِحْمَلُوا النِّسَاءَ عَلَى أَهْوَائِهِنَّ کہ عورتوں کی ضروریات اور خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرو اور انہیں پورا کرنے کا خیال رکھو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورت اپنے خاوند کے مال سے کوئی چیز خاوند کی اجازت کے بغیر صدقہ نہ کرے اگر ایسا کرے گی تو اس کا اجر اس کے خاوند کو ملے گا اور گناہ عورت پر ہوگا اور یہ کہ خاوند کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے نہ نکلے.حضرت معاویہ بن حیدہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول ! بیوی کا حق خاوند پر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا ! جو تو کھاتا ہے اس کو بھی کھلا اور جو تو پہنتا ہے اس کو بھی پہنا اس کے چہرے پر نہ مار اور نہ اس کو بدصورت بنا اور اگر تجھے کسی ( غلطی کی وجہ سے ) اس سے الگ رہنا پڑے تو گھر میں ہی ایسا کر یعنی گھر سے اسے نہ نکال.( ابوداؤ د کتاب النکاح باب حق المرأة على زوجها ) حجتہ الوداع کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی

Page 704

حضرت خلیفہ صیح الرابع" کے مستورات سے خطابات تاکید کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا : فَإِنَّهُنَّ عِنْدَكُمْ عران لا يَمْلِكُنَ لَا نُفُسِهِنَّ شَيئًا خطاب ۲۷ جولائی ۲۰۰۲ء عورتیں تمہارے پاس قیدی کی طرح ہیں اپنے لئے کچھ نہیں کر سکتیں اس لئے تمہارا فرض ہے کہ ان کا خود خیال رکھو اور ان کی ضروریات اور حاجات کو پورا کرو اور حسن معاشرت کا رویہ پیش نظر رکھو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساری باتوں کے کامل نمونہ ہیں.آپ کی زندگی میں دیکھو کہ آپ عورتوں سے کیسی معاشرت کرتے تھے.میرے نزدیک وہ شخص بزدل اور نا مرد ہے جو عورت کے مقابلہ میں کھڑا ہوتا ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحه : ۳۸۷) آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آتا ہے کہ جب آپ اپنی بیویوں کے پاس تشریف لاتے تو آپ کا ان کے ساتھ برتاؤ یہ ہوتا کہ سب سے زیادہ نرم، سب سے زیادہ کریم ، خوب ہنسنے والے اور تبسم فرمانے والے ہوتے تھے.گھر کے بہت سے کام جو عورتوں کے ہوتے ہیں خود اپنے ہاتھ مبارک سے ان کاموں کو سرانجام دیتے تھے.مثلاً آٹا گوندھ رہی ہیں پانی لا کر دے دیا.کبھی چولہے میں لکڑیاں ڈال دیں.غرض بیویوں کے ساتھ بلا تکلف گھر کے کام میں ان کی مددفرماتے تھے.بلا تکلف باتیں فرماتے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.انسان کے اخلاق فاضلہ اور خدا تعالیٰ سے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عورتیں ہوتی ہیں.اگر ان ہی سے اس کے تعلقات اچھے نہیں ہیں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ سے صلح ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا خَيْرُ كُمُ كُم لِاهلِه تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لئے اچھا ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحه ۳۰۰) انسان کی بیوی ایک مسکین ہے اور ضعیف ہے جس کو خدا نے اس کے حوالے کر دیا ہے.وہ دیکھتا ہے کہ ہر ایک انسان اس سے کیا معاملہ کرتا ہے.نرمی برتنی چاہئے اور ہر ایک وقت دل میں یہ خیال کرنا چاہئے کہ میری بیوی ایک مہمان

Page 705

حضرت خلیفہ امسح الرابع" کے مستورات سے خطابات 2+1 خطاب ۲۷ جولائی ۲۰۰۲ء عزیز ہے جس کو خدا تعالیٰ نے میرے سپر د کر دیا ہے.وہ دیکھ رہا ہے کہ میں کیونکر شرائط مہمان داری بجالاتا ہوں اور میں ایک خدا کا بندہ ہوں اور یہ بھی ایک خدا کی بندی ہے.مجھے اس پر کون سی زیادتی ہے.خون خوار انسان نہیں بننا چاہئے.بیویوں پر رحم کرنا چاہئے اور ان کو دین سکھلانا چاہئے.الحکم مؤرخہ ۱۷ را پریل ۱۹۰۵، تفسیر حضرت مسیح موعود جلد دوم صفحہ ۲۳۰) حضرت مسیح موعود علیہ السلام مزید فرماتے ہیں: جو شخص اپنی اہلیہ اور اس کے اقارب سے نرمی اور احسان کے ساتھ معاشرت نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.پھر فرماتے ہیں.کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۹) اپنی حالت کی پاک تبدیلی اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی اولا د اور بیوی کے واسطے بھی دعا کرتے رہنا چاہئے کیونکہ اکثر فتنے اولاد کی وجہ سے انسان پر پڑ جاتے ہیں.“ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام مزید فرماتے ہیں.( ملفوظات جلد پنجم ص ۴۵۶) ”اگر تم لوگ چاہتے ہو کہ خیریت سے رہو اور تمہارے گھروں میں امن رہے تو مناسب ہے کہ دعا ئیں بہت کرو اور اپنے گھروں کو دعاؤں سے پُر کرو.جس گھر میں ہمیشہ دعا ہوتی ہے خدا تعالیٰ اسے برباد نہیں کیا کرتا.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحه : ۲۳۲) اس کے بعد میں آپ سے اس دعا کے ساتھ اجازت چاہوں گا کہ اللہ کرے آپ سب ان نصیحتوں پر خلوص دل سے عمل کرنے کی توفیق پائیں تا کہ ہمارا احمدی معاشرہ آج روئے زمین پر اللہ کی نظر میں سب سے پسندیدہ اور مقبول معاشرہ قرار پائے.ہم سب اس کی نظر میں راضية مرضية بندوں میں داخل ہو جا ئیں.آئیے اب دعا میں شامل ہو جائیں.اس کے بعد حضور نے ہاتھ اُٹھا کر خاموش اجتماعی دُعا کروائی.

Page 705