Orhni

Orhni

اوڑھنی والیوں کے لئے پُھول

مستورات سے خطابات کا مجموعہ
Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR

حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے دورخلافت میں مستورات کی تربیت کی خاطر ان کے مختلف جلسوں میں تقاریر فرمائیں جو علم کے خزائن اپنے اندر رکھتی ہیں۔ جن میں کہیں آپ نے ان کو روحانی علوم سے روشناس کروایا ہے اور کہیں تربیت نفس و اولاد پر زور دیا ہے، کہیں قومی ذمہ داریوں کی طرف ان کی توجہ دلائی ہے اور کہیں اولاد کی تربیت کے گُر بتائے ہیں اور کہیں ان کی صلاحیتوں کو ابھارا ہے۔ غرض یہ تقاریر مشعل راہ کا کام دیتی ہیں۔ ان تقاریر کا یہ مجموعہ بھی حضورؓ کی ہی خواہش کو پورا کرنے کے لئے مرتب کیا گیا ہے۔ کیونکہ آپؓ نے فرمایاتھاکہ ’’اس کے لئے تربیت کی ضرورت ہے، لیکچروں سے یہ کام نہیں ہوسکتا۔ اس کے لئے ضرورت ہے کہ قوم کے لئے دستور العمل بنایا جائے، ایک کتاب تیار کی جائے جس میں لکھا جائے کہ عورتوں کو بچوں کی تربیت اس طرح کرنی چاہیئے تاکہ عورتیں اسے پڑھ کر اس پر عمل کریں ورنہ یہ کوئی نہیں کرسکتا کہ الفضل اور ریویو کے فائل اپنے پاس رکھ چھوڑے۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘‘  


Book Content

Page 1

الاهاول والاخير اوڑھنی والیوں کے لئے پھول سیدنا حضرت اميرالمومين خلفية اسم الثاني == سیح مستورا سے خطابات کا مجموعہ تبر حضرت سیده ام متین مریم صدیق احد اللجان اللامركزية

Page 2

مضمون مائیں اپنے بچوں کو بااخلاق بنائیں فہرس مضمون بچوں کی اخلاقی تربیت کیلئے ضروری خود نیک ہو تا تمہارے بچے بھی نیک بنیں ہدایات صفحہ ۱۵۴ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا مستورات احمدی خواتین کے متعلق ضروری ارشادات ۱۷۵ میں وعظ (لاہور ۸ / جولائی ۱۹۱۵ء) مستورات میں وعظ بمقام شملہ اکتوبر ۱۹۱۷ء وعظ عمل کرنے کیلئے سُنو (سیالکوٹ ۱۲ را پریل ۱۹۲۰ء) ۱۳ ۳۰ احمدی خواتین کی تعلیم و تربیت کے متعلق چند ضروری امور طالبات مدرسہ خواتین سے خطاب تقریر جلسہ سالانہ ۲۷ / دسمبر ۱۹۲۶ء ۱۸۵ 19.۱۹۵ تقریر بر موقع جلسہ سالانہ خواتین (دسمبر ۱۹۲۱) ۴۵ مبلغ ماریشس کے اعزاز میں تقریب پر لجنہ اماء اللہ کے متعلق ابتدائی تحریک تقریر بر موقع جلسہ سالانہ خواتین قادیان ۱۹۲۲ء ۵۲ ۵۵ تقریر ۱۹۷ عورتوں میں بیداری اور احساس پیدا کرد ۱۹۸ ۱۹۹ ۲۰۶ ۲۰۸ ۲۱۴ ۲۱۸ ۲۲۳ ۲۳۶ ۲۳۷ ۲۳۹ ۲۴۲ خواتین کے پردے کے متعلق اسلامی پردہ کے متعلق ضروری تشریحات پردہ کے متعلق مزید گفتگو جماعت احمدیہ کی خواتین توجہ کریں ۶۳ ΔΙ ۱۰۵ تقاریر ثلاثہ، مختلف علوم ۱۹۲۳ء تقریر دوم ۱۱ فروری ۱۹۲۳ء تقریر سوم ۵ / مارچ ۱۹۲۳ء احمدی مستورات سے خطاب (۲ فروری ۱۹۳۳ء) ۱۱۴ مبلغ انگلستان کے اعزاز میں دعوت پر تقریر مسجد برلن کیلئے تحریک برلن میں احمدیہ مسجد بنانے کی تحریک ٢ / مارچ ۱۹۲۳ء احمدی بچوں کی تعلیم و تربیت 11 117 ۱۱۹ ۱۲۵ تقریر بر موقع جلسه سلانه ۱۹۲۸ء قانون کا احترام کرو اور اختلاف رائے سے مت گھبراؤ تقریر جلسه سالانه ۲۸ / دسمبر ۱۹۲۹ء لجنہ کے فرائض تقریر بر موقع جلسه سالانه ۲۸ / دسمبر ۱۹۲۳ء ۱۳۵ احمدی خواتین کی تعلیم و تربیت کی اہمیت عورتوں کا مشاورت میں حق نمائندگی اور ضرورت کیا لڑکی اپنا مہر والدین کو دے سکتی ہے؟ ۱۳۹ ۱۴۴ شادی بیاہ کی رسمیں اور اُنکی اصلاح تقریر جلسہ سالانہ دسمبر ۱۹۳۰ء

Page 3

مضمون احمد کی خواتین کا فریضہ وقت ۲۵۲ )- مضمون تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۲ء ایف اے کلاس کے افتتاح کے موقع پر تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۳ء ۲۵۷ لجنہ اماء اللہ کے جلسہ میں حضور کی تقریر صفحه ۳۵۴ ۳۶۱ ۳۷۱ حضور کی تقریر عورتوں کے اندر جرات و بہادری پیدا کی عورتوں کی دینی تعلیم و تربیت کے طریق ۳۷۵ جاتے ۲۵۹ مبشر الهام مسجد لندن کی مرمت کیلئے احمدی خواتین قرآن کریم کے غیر ملکی زبانوں میں تراجم کو تحریک احمدی خواتین کی تعلیمی ترقی ۲۶۷ اور لجنات اما ء اللہ تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۴ء خلاصہ تقریر بر موقع جلسہ سالانہ دسمبر ۱۹۳۱ء ۲۷۱ تربیت اولاد اور احمدی خواتین ۱۹۴۶ء ۳۸۱ ۳۸۲ ۳۸۲ ۴۰۴ ۴۱۰ 늘 ۴۱۲ ۴۳۳ ۴۳۵ ۴۳۹ قادیان کی احمدی خواتین کے کام کی تعریف اور اظہار خوشنودی فریضہ تبلیغ اور احمدی خواتین ۴۴۳ ۲۷۴ ۲۸۲ ۲۸۷ تقریر جلسه سالانه ۱۹۳۲ء حقیقی علم حاصل کرد ۱۹۳۳ء تقریر جلسه سالانه ۱۹۳۴ء تربیت اولاد کے متعلق حضور کے ارشادات جذبات صحیحہ کو بیدار کرو اور دین کی طرف تقریر جلسه سالانه ۲۷ / دسمبر ۱۹۲۵ء تقریر جلسه سالانه ۱۹۳۶ء ۲۹۴ ۲۹۸ توجہ دو چار اہم نصیحتیں ماں کی تربیت پر ہی بچہ کی تربیت کا عورتوں کے حقوق کی نگہداشت ۴۴۵ زیورات اور جائیداد میں سے چندوں کی ادائیگی رسالہ مصباح کا نیا دور ۳۱۲ ۳۱۳ ۳۱۵ انحصار ہوتا ہے ہمیں اصلاح کی فکر رکھنی چاہیے ہر جگہ لجنہ قائم ہو تربیت اولاد کے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو چندہ مسجد برلن کیلئے تحریک سمجھو.تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۳۸ء جلسه خلافت جوبلی کے موقع پر خواتین سے خطاب.۲۷ / دسمبر ۱۹۳۹ء عورتیں مردوں سے کوئی علیحدہ چیز نہیں ۳۱۶ ۳۲۷ ہیں.تقریر جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۱۹۳۰ ۳۳۷ تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۱ ۳۴۵۱ خطبہ جمعہ، فرموده ۲۷ / جولائی ۱۹۲۳ء

Page 4

حصہ دوم مضمون عورتوں اور بچوں کی تربیت کے بغیر کوئی قیام پاکستان کے بعد قوم ترقی نہیں کر سکتی مضمون صفحہ احمدی مستورات کی مالی قربانیاں ۱۳۸ ۱۳ ۱۳ لجنہ اماءاللہ کراچی سے خطاب بالینڈ کی مسجد کیلئے چندہ کی تحریک محض جذبات کوئی چیز نہیں جب تک عمل عورتوں کو خدا نے قربانی کی جنس بنایا ہے ۱۳۷ ساتھ نہ ہو لجنہ اماء اللہ کیلئے ضروری ہدایات لاہور کی احمدی خواتین کی ذمہ داریاں ۳۶ اپنی روایات زندہ رکھواور مستقل مائو تجویز کرو ۱۳۷ ۱۵۱ ۱۵۴ چند متفرق امور دو ضروری امور عورتوں میں تبلیغ کی ضرورت اور اہمیت ۳۹ اسلامی پرده ۱۵۶ لجنہ اماء اللہ کوئٹہ سے خطاب ربوہ کے افتتاح کے موقع پر حضور کا خطاب لجنہ اماء اللہ کوئٹہ سے خطاب لجنہ اماء اللہ لاہور سے خطاب ۵۸ ZA ۸۰ پردے کی پابندی اور عورتوں کے حقوق ۱۵۸ یورپ میں ایک نیا مشن قرون اولی کی مسلمان خواتین کا نمونہ چند قابل توجه امور ) جلسه سالانه ۱۹۴۹ء) ۸۲ اپنے سامنے رکھو ۱۶۲ لڑکیوں میں دین کی خدمت کا جوش جلسہ سالانہ ۱۹۴۹ء کے اختتام پر کارکنات تعمیر مسجد ہالینڈ رسالہ مصباح سے خطاب مسجد ہالینڈ کیلئے چندہ کی تحریک لجنہ اماء اللہ کراچی سے خطاب ۸۴ ۸۵ AY ٩٩ تحریک چندہ مسجد ہالینڈ مہمانوں اور منتظمین جلسہ سالانہ کو اہم نصیحتیں چند متفرق امور سورة الكوثر کی نہایت لطیف اور پر ۱۸۶ ۱۸۷ ۱۸۸ 19.مہمانوں کو بھی کام میں حصہ لینا چاہیے ۱۹۲ معارف تفسیر (سالانہ اجتماع ۱۹۵۷ء) جلسہ سالانہ ۱۹۵۰ ء کے موقع پر مستورات سے خطاب ہمیں ہر جگہ مسجد میں بنانا ہونگی عہد یدارن لجنہ اماء الله مرکزیہ خطاب (۱۹۵۱ء) سے جامعہ نصرت ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطاب (۱۹۵۱ء) ۱۰۴ احمدی خواتین کیلئے پردہ کی اہمیت لجنہ اماء اللہ کے سالانہ اجتماع ۱۹۶۰ء پر حضور کا پیغام لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کے اجتماع ۱۹۶۲ ء پر حضور کا پیغام ۲۱۱ ۲۲۳ ۲۲۵

Page 5

پہر اعلائے دین مصطفوی وقف پیری تیری شباب ترا دے خدا اجر بے حساب تجھے ہم پہ احسان ہے بے حساب ترا حضرت امير المومنين خليفة المسيح الثاني رضى الله تعالى.عنه

Page 6

أعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم و على عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر پیش لفظ (رقم فرموده حضرت سيده أمر متين مريم صديقه صاحبه مدظلها العالي صدر لجنه اماء الله مركزيه) حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے دور خلافت میں مستورات کی تربیت کی خاطر ان کے مختلف جلسوں میں تقاریر فرمائیں جو علم کے خزائن اپنے اندر رکھتی ہیں.جن میں کہیں آپ نے ان کو روحانی علوم سے روشناس کروایا ہے کہیں تربیت پر زور دیا ہے، کہیں قومی ذمہ داریوں کی طرف ان کو تو جہ دلائی ہے، کہیں اولاد کی تربیت کے گر بتائے ہیں کہیں ان کی صلاحیتوں کو ابھارا ہے.غرض یہ تقار بر عورتوں کے لئے ہمیشہ ایک مشعل راہ کا کام دیں گی.ان تقاریر کا مجموعہ حضرت مصلح موعود کی ایک خواہش کو پورا کرتے ہوئے ۱۹۴۶ء میں میں نے مرتب کر کے شائع کیا تھا.آپ نے ایک تقریر میں فرمایا تھا.اس کے لئے تربیت کی ضرورت سے پیچروں سے یہ کام نہیں ہوسکتا.اس کے لئے ضرورت ہے کہ قوم کے لئے دستور العمل بنایا جائے ، ایک کتاب تیار کی جائے جس میں لکھا جائے کہ عورتوں کو بچوں کی تربیت اس طرح کرنی چاہیئے تا کہ عورتیں اسے پڑھ کر اس پر عمل کریں ورنہ یہ کوئی نہیں کر سکتا کہ الفضل اور ریویو کے فائل اپنے پاس رکھ چھوڑے، ان مقامات پر نشان لگے ہوں جہاں تربیت وغیرہ کے متعلق مضامین درج ہوں ان کو پڑھ پڑھ کر عمل کرے، لیکن اگر ایسی باتیں ایک جگہ جمع ہوں اور ایسی کتاب عورتوں کے کورس میں شامل ہو یا وہ اپنے طور پر پڑھ کر اس پر عمل کریں تو بہت مفید ہو سکتا ہے.“ ( یکم دسمبر ۱۹۲۸ء) گزشتہ ایڈیشن صرف ۱۹۴۴ء تک کی تقاریر پر مشتمل تھا.اب جبکہ وہ پاک وجود جواسیروں کی رستگاری کا

Page 7

موجب بنا ہم میں موجود نہیں ضروری تھا کہ آپ کی تمام تقاریر کا مجموعہ پھر شائع کیا جائے تا مستورات آپ کی نصائح پر عمل کریں اور لجنات اپنے پروگرام بناتے ہوئے ان سے استفادہ کریں.کوشش کی گئی ہے کہ اس مجموعہ میں عورتوں کے متعلق حضرت مصلح موعود کی ہر تقریر شائع ہو سکے.ہوسکتا ہے کہ اس مجموعہ میں بھی کوئی نفر بر شامل ہونے سے رہ گئی ہو کسی بھائی یا بہن کو کسی ایسی تقریر یا ارشاد کا علم ہو جو کسی اخبار میں شائع ہو چکا ہو اور اس مجموعہ میں رہ گیا ہو تو ضر ور اطلاع دیں آئندہ ایڈیشن میں اسے شامل کر لیا جائے گا.بہنوں کو چاہئے اس کتاب کو خریدیں ، پڑھیں، حضرت مصلح موعودؓ کی نصائح پر عمل کریں اور اُس محسن نسواں کے لئے ہمیشہ دُعا کرتی رہیں جس کے شب و روز اُن کی بہبودی اور ترقی کی راہیں تلاش کرنے میں گزرے.اللہ تعالے آپ سب کو تو فیق عطا فرمائے.آمین.اس کتاب کی تیاری کے سلسلہ میں الفضل کے فائلوں سے نقار بر نقل کرنے میں صاحب نے میری بہت مدد کی ہے اور متعد و نقار بر اخباروں میں سے ڈھونڈھ کر نقل کی ہیں میں ان کی ممنون ہوں.اللہ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے.طباعت کے سلسلہ میں کام کا سارا بوجھ کے ذمہ رہا ہے جنہوں نے رات دن مصروف رہ کر طباعت کے سلسلہ میں تمام کام سر انجام دئے.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے.لجنات کو اس کتاب کی اشاعت کے لئے یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہر احمدی گھرانہ میں کم از کم ایک کتاب ضرور پہنچ جائے.یہ کتاب حضرت مصلح موعود کی انمول نصائح کا ایک بیش بہا خزانہ ہے جن کا پڑھنا احمدی مستورات کے لئے ضروری ہے تا وہ ان کی روشنی میں اپنی زندگیاں قرآن مجید کے مطابق ڈھال سکیں اور اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریق پر ادا کر سکیں.آمین اللہم آمین.خاکسار

Page 8

1 بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم مائیں اپنے بچوں کو با اخلاق بنائیں بعض لوگ بچوں کو چڑاتے ہیں اور ان کے سامنے ہاتھ اٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ماڑوں.میں نے دیکھا ہے کہ ایک دو دفعہ کے بعد بچہ وہی شکل بنا کر اسی طرح ہاتھ اٹھا کر کہنے لگ جاتا ہے ماڑوں.بعض احمق بچوں کو پیار سے گالیاں دیتے ہیں بچے آگے سے اُسی طرح گالیاں دینے لگ جاتے ہیں.بعض عورتیں اپنے بچوں سے ہمیشہ منہ بنا کر اور تیوری چڑھا کر بات کرتی ہیں تو ان کے بچے بھی ہمیشہ منہ پھلا کر بات کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں.اس کے برخلاف جو عورتیں ہنس لکھ ہوں.بچوں سے نیک سلوک کی عادی ہوں اُن کی اولا د بھی ویسی ہی ہنس مکھ ہوتی ہے.ماؤں کو چاہیئے کہ بچوں سے ایسا سلوک کریں جس کو نقل کرنے پر وہ ساری عمر ذلیل وخوار نہ ہوں ہمیشہ کے لئے اُن کے اخلاق درست ہو جائیں.( الفضل ۳- ستمبر ۱۹۱۳ء ) خود نیک بنو تا تمہارے بچے بھی نیک بنیں بے دین اور دین سے متنفر وہی بچہ ہو گا (الا ماشاء اللہ ) جس کے والدین اس کے سامنے دین کا استخفاف کرتے ہوں.ماں اگر نماز نہیں پڑھتی ، نماز کے اوقات کا احترام محوظ نہیں رکھتی تو ضرور ہے کہ بیٹا بھی بڑا ہو کر ایسا ہی کرے.جس بچے کے ماں باپ نمازی ہوں میں نے اکثر دیکھا ہے کہ وہ باوجود کچھ نہ لکھنے کے اسی طرح نماز کے وقت پر نماز کی رکعتیں پڑھتے ہیں.یہ عادت ایسی مبارک ہے کہ جوانی میں آخر کام آتی ہے.اور یہ ابتدائی بیج اپنے اندر ایسے خوشگوار ثمرات رکھتا ہے کہ بڑی عمر میں ڈھیروں روپیہ خرچ کرنے پر بھی یہ عمل نہیں ہوتا.جب کوئی چیز آئے تو ماں بچے کو سکھائے کہ یہ اللہ میاں نے بھجوائی ہے جو ہمیں رزق دیتا ہے ،

Page 9

2 ہماری حاجتیں پوری کرتا ہے، ہماری دعاؤں کو سنتا ہے، ہمیں چاہیئے کہ اس کا شکر ادا کریں.بچہ کھانے پینے بیٹھے ماں باتوں ہی باتوں میں اُسے سمجھا سکتی ہے کہ یہ کھانا کتنی محنت اور کس قد رتبدیلیوں کے بعد تیرے سامنے آیا ہے حالانکہ تجھے کچھ بھی محنت کرنی نہیں پڑی یہ سب اس پاک مولی کا احسان ہے جس نے اول ان چیزوں کو پیدا کیا پھر ایسے اسباب مہیا کئے کہ وہ تیرے لئے تیار ہو اور اب وہی پاک ذات ہے جو تیرے لئے اسے نافع بنائے.اسی طرح مائیں اگر چاہیں تو بچوں کو سوتے وقت تارے چاند اور آسمان.دن کو دوسرے نظارہ ہائے قدرت کی طرف متوجہ کر کے خدا تعالی کی طرف توجہ دلا سکتی ہیں.میں احمدی ماؤں کو خصوصیت سے اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے ننھے ننھے بچوں میں خدا پرستی کا جذ بہ پیدا کرنے کے لئے ہر وقت کوشاں رہیں.وہ انہیں لغو مخرب اخلاق اور بے سر و پا کہا نیاں سنانے کی بجائے نتیجہ خیز ، مفید اور دیندار بنانے والے قصے سنائیں.اُن کے سامنے ہرگز کوئی ایسی بات چیت نہ کریں جس سے کسی بد خلق کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو.بچہ اگر نادانی سے کوئی بات خلاف مذہب اسلام کہتا ہے یا کرتا ہے اسے فوراً روکا جائے اور ہر وقت اس بات کی کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت ان کے قلب میں جاگزیں ہو.اپنے بچوں کو بھی آوارہ نہ پھرنے دو، اُن کو آزاد نہ ہونے دو کہ حدود اللہ کو توڑنے لگیں ، اُن کے کاموں کو انضباط کے اندر رکھو اور ہر وقت نگرانی رکھو ، اپنے ننھے بچوں کو اپنی نوکرانیوں کے سپر د کر کے بالکل بے پروانہ ہو جاؤ کہ بہت ہی خرابیاں صرف اسی ابتدائی غفلت سے پیدا ہوتی ہیں.ماں اپنے بچے کو باہر بھیج کر خوش ہوتی ہے کہ مجھے کچھ فرصت مل گئی ہے لیکن اُسے کیا معلوم ہے کہ میرا بچہ رکن کن صحبتوں میں گیا اور مختلف نظاروں سے اُس نے اپنے اندر کیا بر نے نقش لئے جو اُس کی آئندہ زندگی کے لئے نہایت ضرر رساں ہو سکتے ہیں.پس احتیاط کرو کہ اس وقت کی تھوڑی سی احتیاط بہت سے آنے والے خطروں سے بچانے والی ہے.خود نیک بنو اور خدا پرست بنو کہ تمہارے بچے بھی بڑے ہوکر نیک اور خدا ( الفضل ١٠ - ستمبر ١٩١٣ء) پرست ہوں.

Page 10

3 حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی کا وعظ مستورات میں ( بمقام لاہور ۸.جولائی ۱۹۱۵ء) انسانی تقسیم خدا تعالٰی نے انسان کو دو قسموں میں پیدا کیا ہے ایک مرد دوسرے عورتیں.تمام دنیا کے انسان انہی دو قسموں میں منقسم ہیں اس لئے جس قدر شریعتیں خدا تعالی کی طرف سے آئی ہیں ان کے مخاطب صرف مرد ہی نہیں ہوتے بلکہ عورتیں بھی ہیں لیکن جب دنیا میں جہالت اور گمراہی پھیل جاتی ہے تو بہت سے لوگ شریعت کے جوئے کو اپنی گردن سے اُتارنا چاہتے ہیں اور جس طرح وحشی بیل اور منہ زور گھوڑے جوئے کے نیچے سے گردن نکال کر بھاگنا چاہتے ہیں.اسی طرح جب جہالت بڑھتی ہے تو انسان قسم قسم کے بہانوں سے اپنے آپ کو شریعت کے احکام سے آزاد کرانا چاہتے ہیں.اس زمانہ میں جبکہ اسلام کے لئے مصیبت کا زمانہ ہے مسلمانوں نے قرآن شریف کو بھلا دیا ہے اور اس بات کو بھول گئے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں کیا حکم دیا تھا اور جہاں عام طور پر مردوں نے شریعت سے اپنے آپ کو آزاد کرانا شروع کر دیا ہے وہاں تمام کی تمام عورتوں نے سوائے شاذ و نادر کے شریعت کی پابندی کو اُتار دیا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے شریعت کو سمجھا ہی نہیں اس لئے ھوکر کھا کر کہیں کی کہیں چلی گئی ہیں حالانکہ خدا تعالٰی کا کلام جس طرح مردوں کے لئے آیا تھا اسی طرح عورتوں کے لئے تھا.مرد و عورت کے حقوق کوئی نادان نادانی سے کہہ دے کہ اصل حقوق مردوں کے ہی ہیں یا سب حقوق عورتوں کیلئے ہی ہیں تو یہ اور بات ہے جو تنگ خیالی اور کوتاہ نظری کا پتہ دیتی ہے لیکن خدا تعالیٰ کے نزد یک مرد اور عورت دونوں برابر ہیں.اُس نے دونوں کو پیدا کیا ہے اگر کوئی مرد اس کے حکم کو توڑتا اور عورت فرمانبر داری کرتی ہے تو وہ عورت اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس مرد سے بدرجہا اچھی ہے.اسی طرح اگر کوئی عورت خدا تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کرتی ہے اور مرد فرمانبرداری کرتا ہے تو وہ مرد خدا تعالیٰ کے نزدیک اس عورت سے بدرجہا اچھا ہے.خدا تعالیٰ چونکہ دونوں کا خالق ہے اس لئے اُس کا نہ صرف مردوں سے رشتہ ہے اور نہ صرف عورتوں سے اسکے نزدیک دونوں برابر ہیں.پس اُس نے جو کلام بھیجا ہے وہ صرف مردوں کے لئے ہی نہیں بلکہ عورتوں کے لئے بھی بھیجات مگر مسلمانوں میں تعلیم کی کمی سے شریعت کی نا واقعی سے ایسی جہالت اور بے دینی پھیل گئی ہے کہ اسلام سے بہت دور چلے گئے ہیں اور خاص کر عورتوں میں جہالت اور بے

Page 11

4 دینی بہت زیادہ پائی جاتی ہے.بہت سی ایسی عورتیں ہمارے پاس بیعت کرنے کے لئے آتی ہیں جو کلمہ شہادت بھی نہیں پڑھ سکتیں.اشهَدُ َانْ لا اله الا الله وَاشْهدُ أنَ مُحَمَّدَ اعْبُدُهُ وَرَسُوله، کتنا چھوٹا ساجملہ ہے اور خدا تعالیٰ کا کتنا فضل ہے کہ اس نے اس جملہ میں ساری شریعت کا خلاصہ رکھ دیا ہے لیکن عورتیں بہت سے فضول شعر تو یاد کر لیتی ہیں.قصے اور کہانیاں جانتی ہیں مگر بہت ایسی دیکھی گئی ہیں کہ جب انہیں کلمہ شہادت پڑھوایا گیا تو نہیں پڑھ سکتیں.پس عورتوں میں جہالت کمال کو پہنچ گئی ہے لیکن یہ خوب یاد رکھو کہ خدا تعالی کی طرف سے جو احکام آتے ہیں وہ مرد و عورت دونوں کے لئے ایک جیسے ہوتے ہیں اور جیسا ان عمل کرنا مردوں کے لئے ضروری ہوتا ہے ویسا ہی عورتوں کے لئے بھی ضروری ہے.عورتوں کی اسلامی خدمات آنحضرت ﷺ کے زمانہ پر نظر کرنے سے پتہ لگتا ہے کہ جس طرح مردوں سے ہم تک دین پہنچا ہے اسی طرح عورتوں سے بھی پہنچا ہے.اگر ہم حدیثوں سے یہ پڑھتے ہیں کہ حضرت ابو بکر نے یا حضرت عمرؓ نے یا حضرت عثمان نے یا حضرت علیؓ نے اور ابو ہریرہ وغیر ھم نے رسول کریم معہ سے فلاں بات سنکر بیان کی ہے تو ساتھ ہی یہ بھی پڑھتے ہیں کہ حضرت عائشہ سے حضرت حفصہ علية سے حضرت اُم سلمہ سے سنا گیا ہے کہ آنحضرت مہ نے فلاں بات یوں فرمائی.تو روایات کا سلسلہ جس طرح مردوں سے چلتا ہے اسی طرح عورتوں سے بھی چلتا ہے.اور اگر آدھا دین مردوں سے ہم تک پہنچا ہے از آدھا دین عورتوں نے پہنچایا ہے.آج وہ لوگ جو بڑے بڑے عالم مشہور ہیں اگر مرد صحابہ کے شاگرد ہیں تو عورتوں کے بھی ہیں اور علم شریعت کا وہ حصہ جو مردوں سے تعلق رکھتا ہے انہوں نے مردوں سے سیکھا ہے تو وہ حصہ جو عورتوں کے متعلق ہے عورتوں سے پڑھا ہے.اگر مرد اور عورت دونوں اس معاملہ میں کوشاں نہ ہوتے تو دین نامکمل رہ جاتا.اسلام کے ابتدائی ایام کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے جس طرح مردوں نے اسلام پھیلایا ہے اسی طرح عورتوں نے بھی اس کام میں حصہ لیا ہے اور جس طرح مردوں نے اسلام سیکھا ہے اسی طرح عورتوں نے بھی سیکھا ہے.پھر مسلمانوں میں بڑی مشہور اور عالم عورتیں گزریں ہیں.ایک عورت رابعہ بصری نام گزری ہیں جب بھی وہ کوئی کلام کرتیں قرآن شریف کی آیت سے ہی کر تھیں اور اگر جواب دیتیں تو بھی قرآن شریف سے ہی دیتیں.انہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام، کشف اور رویا ہوتے تھے اسی طرح کی اور بہت سی سورتیں ہیں جنہوں نے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کیا ، خدا سے باتیں کیں اس زمانہ میں کسی

Page 12

5 عورت سے ان باتوں کے متعلق پوچھو تو وہ یہی جواب دے گی کہ میں جاہل ہوں ان باتوں کے متعلق کیا جانوں گویا جاہل اور عورت ہونا انہوں نے ایک ہی سمجھا ہوا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے.آنحضرت علی فرماتے ہیں اگر کوئی میرا دین سیکھنا چاہتا ہے تو آدھا عائشہ سے سیکھے.اُس زمانہ کی عورتیں کوئی نئی قسم کی نہ تھیں ایسی ہی تھیں جیسا کہ اب ہیں.آج بھی عورتیں ویسی ہی بن سکتی ہیں اور انہی جیسے کام کر سکتی ہیں لیکن نقص یہ ہے کہ کچھ کرتی نہیں.اگر کرنے کے لئے تیار ہو جائیں تو خدا تعالیٰ ان کی مدد کر کے اُن کے لئے رستہ کھول دے گا.قرآن شریف میں خدا تعالی نے بار بار فرمایا ہے کہ جو کوئی تقویٰ کرے اللہ تعالی آپ اس کے لئے رستہ کھول دیتا ہے.جب عورتیں ایسا کریں گی تو کیوں اُن کی ترقی کا راستہ نہ کھل جائے گا اور کیوں اپنے لئے اور نیز دنیا کیلئے مفید اور بابرکت ثابت نہ ہونے لگیں گی.احمدی عورتوں کو نصیحت ہماری جماعت کی عورتوں کو یہ خیال دل سے نکال دینا چاہئے کہ ہم کیا کر سکتی ہیں کہ کچھ کوشش کریں ؟ کیونکہ عورتیں اسی طرح خدا تعالی سے کلام کر سکتی ہیں جس طرح مرد کر سکتے ہیں، عورتیں اسی طرح دنیا کی راہنمائی کر سکتی ہیں جس طرح مرد کرتے ہیں اور عورتیں اسی طرح دنیا کی بدیاں دو کر سکتی ہیں جس طرح مرد کرتے ہیں، عورتوں میں اور مردوں میں دین کے معاملہ میں کوئی فرق نہیں عورتیں بھی مردوں کی طرح ہی دین کی خدمت کر سکتی ہیں.پس تم یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لو کہ خدا تعالی نے مرد اور عورتوں میں ایک جیسی قو تیں رکھی ہیں اگر مرد کمال حاصل کر کے خدا تعالی تک پہنچ سکتے ہیں تو عورتیں بھی پہنچ سکتی ہیں، مرد تبلیغ کر سکتے ہیں تو عورتیں بھی کر سکتی ہیں، مرددنیا کی راہنمائی اور ہدایت کا موجب ہو سکتے ہیں تو عورتیں بھی ہو سکتی ہیں.ہاں فرق ہے تو صرف اتنا کہ مرد اپنے حلقہ کے اندر تبلیغ کر سکتے ہیں اور عورتیں اپنے حلقہ کے اندر.باقی اس قسم کا کوئی فرق نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ نے روحانی سلسلہ کو صرف مردوں کے لئے کھول رکھا ہو اور عورتیں اس سے محروم ہوں.لا ہور کی احمدی مستورات سے خطاب لاہور ایک مرکز ہے یہاں سے عورتوں کے متعلق کئی رسالے اور اخبار نکلتے ہیں، جلسے ہوتے ہیں، یہاں ہماری جماعت کی عورتوں کو بہت ہوشیار رہنا چاہئیے اور تبلیغ میں بہت کوشش کرنی چاہیے.دیکھو ایک ایسے آدمی کی نسبت جس کی ساری کوشش اور سعی صرف اس لئے ہو کہ دنیامل جائے وہ آدمی کس قدر خوش قسمت اور با نصیب ہے جس کو اپنی کوشش اور سعی سے یہ امید ہو کہ اس

Page 13

6 طرح میرا خدا مجھ سے خوش ہو جائے گا، اور جب خدا خوش ہو جائے گا تو دنیا خود بخود ہی مل جائے گی.میں نے دیکھا ہے کہ یہاں کی عورتیں دن رات اسی نظر میں لگی نظر آتی ہیں کہ دنیاوی ترقی حاصل کریں ، اس کے متعلق جلسے کرتی ہیں مضمون لکھتی ہیں ، اخبار اور رسالے نکالتی ہیں لیکن چونکہ شریعہ اسلام سے ناواقف ہیں اس لئے اپنے مضامین میں ایسی ایسی باتیں لکھ جاتی ہیں جو دین کو کمزور کرتی ہیں اور اُلٹے اعتراض پیدا کراتی ہیں.اس کے مقابلہ میں اگر ہماری جماعت کی عورتیں جنہیں خدا تعالی نے دین سیکھنے کا بہت عمدہ موقع دیا ہے خود دین سیکھیں اور اوروں کو سکھائیں تو بہت جلدی اسلام اور اپنی جماعت کے لئے ترقی کا باعث ہوسکتی ہیں.عیسائیوں میں عور تیں تبلیغ کے لئے جاتی ہیں اور ایسی ایسی جگہوں پر جاتی ہیں جہاں مرد بھی نہیں جا سکتے اور جب ایک ماری جاتی ہے تو دوسری اس کی جگہ جانے کے لئے تیار ہو جاتی ہے اور جب دوسری ماری جاتی ہے تو تیسری اور چوتھی چلی جاتی ہے اسی طرح وہ ہزاروں اور لاکھوں آدمیوں کو عیسائی کر لیتی ہیں.جب عیسائی عورتیں اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ جو احمد کی عورتیں خدا تعالیٰ کے لئے کام کرنے لئے کھڑی ہوں گی خواہ ابتداء میں انہیں تکلیفیں اور مصیبتیں ہی کیوں نہ اٹھانی پڑیں تو وہ کامیاب نہ ہوں؟ ضرور ہوں گی.لیکن سب سے ضروری بات یہ ہے کہ اول تم خوردین کی تعلیم حاصل کرو کیونکہ جو خود نہیں جانتی وہ اوروں کو کیا سکھا سکے گی.یہ مت خیال کرو کہ اب ہم کچھ نہیں سیکھ سکتیں.قادیان میں بیسیوں ایسی عورتیں ہیں جو قرآن شریف کا ترجمہ پڑھ چکی ہیں اور بعض تو ایسی ہیں جنہوں نے بچہ پیدا ہونے کے بعد قرآن کا ترجمہ پڑھا ہے پس اگر کوئی ہمت کرے تو ضرور پڑھ سکتی ہے.جو کوئی اردو جانتی ہے وہ قرآن کا ترجمہ دیکھ کر پڑھ لیا کرے اور اسی طرح ترجمہ شدہ حدیثوں کو پڑھیں اور جو اردو نہیں جانتی جس طرح مرد اکھٹے ہوتے ہیں اور ایک درس دیتا ہے اسی طرح عورتیں کیوں نہ اکھٹی ہوں اور جو پڑھی ہوئی ہو وہ سب کو سنا دیا کرے.اور اگر ایسا نہ ہو سکے تو مولوی غلام رسول صاحب را جیکی جہاں مردوں کو درس دیتے ہیں وہاں عورتوں کو کیوں نہ دیں.اگر ہر روز نہیں تو ہفتہ میں ایک دفعہ یا مہینے میں ایک دفعہ قرآن پڑھا دیا کریں.تم انہیں درس دینے کے لئے مجبور کر سکتی ہو.اسی طرح وہ عورتیں بھی جو پڑھی ہوئی نہیں پڑھ سکتی ہیں.دین آسان ہے دین کوئی مشکل نہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَ لَقَدْ يَسْرِنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ من مذکر ہم نے قرآن کو عمل کرنے والوں کیلئے آسان بنایا ہے پس کوئی ہے جو قرآن سے نصیحت حاصل

Page 14

7 کرنے والا ہو؟ خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہ انسان کا اپنا قصور ہے کہ دین نہیں سیکھتا ور نہ دین کی کوئی بات مشکل نہیں.بعض عورتیں ایسی ہوتی ہیں جو حساب ، جغرافیہ، انگریزی وغیرہ علوم تو اچھی طرح پڑھی ہوئی ہیں لیکن دین سے بالکل ناواقف ہوتی ہیں حالانکہ ان علوم کے مقابلے میں دین بہت آسان ہے اور قرآن شریف میں وہی باتیں ہیں جو فطرت کے مطابق ہیں کیونکہ قرآن شریف کے بھیجنے والا خوب جانتا ہے کہ انسان کیا کیا کر سکتا ہے اور کیا کیا کرنا اُس کی طاقت میں نہیں.پس دین میں کوئی ایسی بات نہیں جو عقل کے خلاف ہو یا مردوں ،عورتوں ، بوڑھوں ، بچوں ، جوانوں عمر رسیدوں ، غرضیکہ کسی قوم کے مردوں اور عورتوں کے لئے نا قابل عمل ہو.پس ایک ایسی تجویز کرو کہ اول تو ہفتہ میں اور اگر یہ نہیں تو مہینہ میں ایک دفعہ عورتیں ایک جگہ جمع ہوا کریں مولوی غلام رسول صاحب ( راجیکی ) قرآن شریف کا ترجمہ پڑھا دیا کریں اور حدیث کے بھی موٹے موٹے مسائل پڑھا دیا کریں اور پھر تم گھروں میں جا کر ان باتوں کو یاد کر لیا کرو.تمہارے لئے دین سیکھنے کی یہ آسان ترکیب ہے.خوب یا درکھو کہ جتنی کوئی دین کی خدمت کرتا ہے اتنی اس کی عزت بڑھتی ہے، دیکھو حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ وغیرہ کی ساری دنیا عزت کرتی ہے اس لئے بھی کہ آپ آنحضرت یہ کی بیویاں تھی لیکن اس لئے بھی کہ انہوں نے دین کی وہ باتیں بتائیں ہیں جو مرد نہیں بتا سکتے تھے.پس جب تک دنیا قائم ہے اور انسان چلتا ہے پھرتا اُن کا نام زندہ رہے گا اور مسلمان اُن کا نام لیتے وقت رضی اللہ عنہا کی دعا دے گا.حدیث کے پڑھنے والا اُن کے لئے دعا کرے گا کہ اے خدا اُن کا درجہ بلند کیجیے کیونکہ اُن کے ذریعہ مجھے یہ دین نصیب ہوا ہے.تو دین کا سکھانا بڑا مبارک کام ہے اور مرنے کے بعد ایسا صدقہ جاریہ ہے جیسا اور کوئی نہیں ہوسکتا.دین سکھانے والے کو مرنے کے بعد لوگ دعاؤں سے یاد کرتے ہیں کہ اے خدا اُس کے ذریعہ سے ہمیں یہ نعمت نصیب ہوئی ہے اُسے اس کا بڑا اجر دیجیئے اور خدا تعالیٰ اُسے ضرور ثواب دیتا ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو کوئی کسی کو نیک کام سکھاتا ہے اسے بھی اس کا ثواب پہنچتا ہے.مثلاً ایک آدمی کسی کو نماز پڑھنی سکھاتا ہے تو نماز سکھنے والا جب نماز پڑھے گا تو اُس کا ثواب اُسے بھی ملے گا اور سکھانے والے کو بھی ملے گا.میں دیکھتا ہوں کہ عورتوں میں عورتیں بڑی عمدگی سے تبلیغ کر سکتی ہیں.مردوں میں تو ہم مرد کرتے ہیں،

Page 15

8 لیکن عورتوں تک ہم نہیں پہنچ سکتے اس لئے احمدی عورتوں کا فرض ہے کہ وہ عورتوں میں تبلیغ کریں.انہیں دین سکھائیں اور وعظ کریں، جلسے کر کے اُن میں عورتوں کو بلائیں اور تقریریں کریں ، رسالوں اور اخباروں میں عورتوں کے لئے مضمون لکھیں.میری اس وقت یہ غرض ہے کہ چونکہ میں لاہور آیا ہوں اس لئے تمہیں بھی کچھ سنا جاؤں.قادیان میں بہت سی ایسی عورتیں ہیں جو قرآن اور حدیثوں کا ترجمہ جانتی اور پڑھاتی ہیں، عربی پڑھتی ہیں وہ ادھر کی ہی گئی ہوئی ہیں وہاں کی اصل رہنے والی نہیں ہیں.اسی طرح تمام عورتوں کو چاہیئے کہ قرآن اور حدیث سے واقف ہونے کیلئے کوشش کریں خاص کر لاہور کی عورتوں کو اس میں زیادہ کوشش کرنی چاہیے کیونکہ یہاں تمہارے سامنے ایسی عورتیں ہیں جو دنیا کے لئے تو کوشش کر رہی ہیں لیکن انہیں دین کا کوئی فکر نہیں.دین کا میدان خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے رکھا ہے وہ اپنے خود ساختہ حقوق کیلئے پردہ کے دور کرنے کیلئے ، انگریزی تعلیم حاصل کرنے کیلئے اور اسی طرح کی باتوں کیلئے کوشش کر رہی ہیں اور دنیا وی باتوں میں پڑی ہیں.خدا تعالیٰ نے تمہیں یہ موقع دیا ہے کہ تم خود دین سیکھو اور اوروں کو سکھاؤ اور اپنی نسلوں کو دین دار بناؤ.جو باتیں دین دار ماں اپنے بچے کو سکھا سکتی ہے وہ باپ نہیں سکھا سکتا خواہ وہ کتنا ہی دین دار کیوں نہ ہو کیونکہ وہ تو اکثر باہر رہتا ہے اس لئے اولاد کی تربیت میں اُس کا اتنا اثر نہیں ہوتا جتناماں کا ہوتا ہے.پس ایک تجویز تو یہ ہے کہ تم مولوی غلام رسول صاحب سے پڑھنے کیلئے وقت مقرر کر دا گر ہفتہ میں یا مہینہ میں ایک دفعہ قرآن اور حدیث پڑھا کرو اور دوبارہ سبق کی باری آنے تک اُسے دُہراتی رہا کرو.(۲) یہ طریق التیار کرو کہ ساتھ کی عورتوں کو نصیحت اور وعظ کیا کرو اور اپنے محلہ کی عورتوں کو نماز روزہ کی تعلیم دو.جب تم ان کو تعلیم دو گی تو وہ کہیں گی کہ ہم جاہل ہیں کچھ نہیں سمجھ سکتیں لیکن تم یہ کہنا کہ خدا تعالیٰ نے اپنا دین صرف پڑھے لکھے لوگوں کیلئے ہی نہیں بھیجا بلکہ ہر ایک کے لئے بھیجا ہے.کیونکہ جاہل اور ان پڑھ سب اس کی مخلوق ہیں.خدا تعالی نے ایسا فضل کیا اور اسلام کا ایسا معجزہ دکھایا ہے کہ وہ انسان جس پر یہ دین نازل ہوا اور جس سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کے حضور کوئی مقرب نہیں ہو سکتا وہ بھی ان پڑھ تھا اور ایک لفظ نہ لکھ سکتا تھا پھر یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اسلام ان پڑھوں کیلئے نہیں ہے.صحابہ کرام میں سے کثرت سے ایسے تھے جو لکھ پڑھ نہیں سکتے تھے مگر ان کی معرفت دین کی بہت بڑی ترقی ہوئی اور وہ خدا اور رسول کے احکام کی پوری پوری فرمانبرداری کرتے اور دوسروں کو سکھاتے تھے.بہت عورتیں یہ عذر کرتی ہیں کہ ہم پڑھی ہوئی نہیں مگر یاد

Page 16

9 رکھیں کہ جب وہ خدا تعالیٰ کے حضور حاضر کی جائیں گی تو اُن سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تم پڑھی ہوئی ہو یا نہیں؟ بلکہ یہ پوچھا جائے گا کہ اسلام کی باتیں تمہاری عقل میں آتی تھیں یا نہیں اور ایسی کون سی بات ہے جو سمجھ میں نہیں آسکتی.کیا نماز کا پڑھنا سمجھ میں نہیں آتا؟ خواہ کتنا ہی کسی کا حافظہ خراب ہو وہ نماز کو یاد کر سکتی ہے کیونکہ بہت مختصر عبارت ہے.پھر کیا روزہ ، زکوۃ اور حج کے سمجھنے میں یا خدا تعالیٰ کو ایک جاننے میں یا بحضرت مے کو ہی سمجھنے میں یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سیح موعود اور نبی اللہ مانے میں کونسی مشکل ہے؟ کچھ نہیں.یہ سب باتیں ایسی ہیں جو ہر ایک انسان آسانی سے سمجھ اور سیکھ سکتا ہے.پس کوئی عورت یہ خیال نہ کرے کہ میں پڑھی ہوئی نہیں.اگر نہیں پڑھی ہوئی تو بھی دین سیکھے اور اوروں کو سکھائے.پڑھے ہوئے اور ان پڑھ سب کا فرض ہے کہ دین سیکھیں اور عمل کریں.خدا تعالیٰ نے عقل اسی لئے دی ہے کہ اس سے لوگ سمجھیں اور سوچیں اور دوسروں کو سکھائیں.حضرت عیسی کی وفات کا مسئلہ دیکھو اب ہمارے سلسلہ کے مسائل ہیں.سب سے بڑی بات تو وفات مسیح کا جھگڑا ہے.جس عورت سے بات چیت ہوا سے کہو کہ قرآن شریف کی ان آیات کا صرف ترجمہ ہی سُن لے.خواہ مخالف مولوی سے ہی سنے.وہ آیات یہ ہیں.إِذْ قَالَ اللهُ یا إِلَى يَومِ الْقِيَامَةِ اور جب کہا اللہ تعالیٰ نے کہ اے عیسی میں تجھے ماروں گا اور اپنی طرف اُٹھالوں گا اور تجھ کو پاک کروں گا اُن لوگوں سے جو کافر ہوئے اور جو عيسى تیرے متبع ہوں گے اُن کو ان لوگوں پر جو کافر ہوئے غالب کروں گا قیامت کے دن تک.یہاں خدا تعالیٰ نے عیسی علیہ السلام کی نسبت ماروں گا پہلے فرمایا اور اُٹھالوں گا بعد میں.اگر اُٹھالوں گا کے یہ معنے ہیں آسمان پر زندہ اُٹھالوں گا تو یہ آیت ہی غلط ہو جاتی ہے اور ( نعوذ باللہ ) خدا تعالیٰ پر یہ الزام آتا ہے کہ اُسے عربی بھی نہیں آتی کیونکہ جب حضرت عیسے کو اُس نے زندہ آسمان پر اٹھا لینا تھا تو پھر پہلے یہ کیوں فرمایا کہ ماروں گا اور بعد میں فرمایا کہ اُٹھاؤں گا.کیا خدا تعالیٰ کو اتنی عربی بھی نہیں آتی کہ الفاظ کو درست بولے..اور آگے پیچھے کر کے فقرہ کو غلط نہ کر دے.پس خدا تعالیٰ نے جس طرح فرمایا ہے اسی طرح درست اور صحیح ہے.جب اُس نے فرمایا کہ پہلے ماروں گا اور بعد میں اٹھاؤں کا تو اس کے ہیں درست معنے ہیں کہ پہلے حضرت مسیح کو وفات ہوگی اور پھر اُن کی روح اٹھائی جائے گی نہ کہ وفات سے پہلے

Page 17

10 ہی زندہ اُٹھائے جائیں گے؟ یہ بات ہر ایک عقل کی عورت سمجھ سکتی ہے کہ خدا تعالی نے جس بات کو پہلے رکھا وہی پہلے ہونی چاہیئے اور جس کو بعد میں وہ بعد میں ہوگی.اگر ایسا نہ ہو تو خدا پر یہ الزام آتا ہے کہ ( نعوذ باللہ ) اس کو اتنی بھی سمجھ نہیں کہ پہلے ہونے والی بات کو پہلے بیان کرے اور بعد میں ہونے والی کو بعد میں لیکن مولوی لوگ خدا کی عربی کی اصلاح کرتے ہیں کہ اصل میں اس طرح ہے کہ رَافِعُكَ پہلے ہے اور مُتَوَفِّيْكَ بعد میں ہے.یہ خدا تعالیٰ پر بہت بڑا الزام ہے اور سخت سزا کا مستحق ہے.پس یہ کتنی آسان بات ہے.جب یہ ثابت ہو گیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام وفات پاگئے ہیں تو یہ بات بھی صاف ہو گئی کہ جو عیسے آنے والے ہیں وہ اس امت سے آئیں گے اور وہ حضرت میرزا غلام احمد صاحب قادیانی ہیں جنہوں نے مسیح اور مہدی ہونے کا دعوی کیا ہے.حضرت مسیح موعود کی صداقت کا آسان ثبوت اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ حضرت مرزا صاحب کا دعوی سچا ہے یا نہیں.اس کے لئے بھی آسان طریق ہے.مثلا ایک لڑکا تمہیں آکر کہے کہ میں تمہارا بیٹا ہوں.لیکن اگر وہ واقعہ میں تمہارا بیانہ ہوتو کبھی ایسا نہیں ہوا کہ تم اُسے اس لئے کپڑے بنوا دو، کپڑے سلوا دو اور خاطر مدارات کرو کہ وہ تمہارا بیٹا بن گیا ہے تم تو اسے فورا گھر سے نکلوا دو گی.بعض لوگ جو اس طرح کرتے ہیں انہیں سزا ملتی ہے.پھر اسی طرح اگر کوئی جھونا تحصیلدار یا جھوٹا جنگی کا افسر یا جھوٹا پولیس کا سپاہی بن جائے تو گورنمنٹ پکڑ کر اُسے سزا دیتی ہے اور یہ ایسی بات ہے جس کو ہر ایک سمجھتا ہے اسی طرح دیکھنا چاہیے کہ ایک شخص ہے وہ دعوی کرتا ہے کہ خدا تعالی نے مجھے بھیجا ہے میں دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں، میں مصلح ہوں، میں مسیح ہوں، میں مہدی ہوں اور ایسا شخص تمہیں سال تک زندہ رہتا ہے، چار لاکھ کی جماعت اُس کے ساتھ ہو جاتی ہے، اُسے ہر میدان میں فتح حاصل ہوتی ہے، اُس کے دشمن اور مخالف ذلیل اور رسوا ہوتے ہیں اور وہ دن بدن ترقی کرتا اور عزت حاصل کرتا جاتا ہے، اب بتاؤ اُس کو سچا سمجھنے میں کون سے علم کی ضرورت ہے؟ ہر ایک انسان آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ اگر وہ جھوٹا ہوتا تو خدا تعالیٰ ضرور اُس کو سزا دیتا.ورنہ یہ کہنا پڑے گا کہ (نعوذ باللہ ) اب خدا بوڑھا ہو گیا ہے اور اُس کی طاقتیں زائل ہو گئی ہیں اس لئے کسی کو سر انہیں دے سکتا لیکن ایسا عقیدہ رکھنا کفر ہے.تو یہ ایک ایسی صاف اور آسان بات ہے جس کو جاہل سے جاہل عورت بھی سمجھ سکتی ہے کہ حضرت مسیح موعود اپنا ایک وجود لے کر آئے تھے مگر باوجود

Page 18

11 اس کے کہ ساری دنیا مخالف ہوگئی ، اپنے اور پراؤں نے گدی نشینوں اور پیروں نے انگریزی خوانوں اور عربی دانوں نے مخالفت میں آواز اٹھائی لیکن آپ سب پر غالب آئے اور کئی لاکھ آدمیوں کو چھین کر لے آئے.اب بتلاؤ اگر مرزا جھوٹا ہے تو خدا بھی ثابت نہیں ہو سکتا کیونکہ اُس نے اُس کو کچھ نہیں کہا.یا یہ مانا پڑے گا کہ اب خدا تعالی میں کسی کو سزا دینے کی طاقت ہی نہیں ہے.پہلے اس نے نمرود، شداد، فرمون وغیرہ کو سزا دی اور آج سے تیرہ سو سال پہلے بھی سزا دیتا تھا لیکن اب خواہ کوئی کچھ کرے وہ سزا نہیں دے سکتا.یہ خدا تعالی کی ذات پر بہت بڑا الزام ہے پس کچی بات یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے دعوئی میں بچے ہیں وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الَّا قَاوِيلِ ، لَآخَذَ نَا مُنْهُ بِالْيَمِينِ هِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الوتين ، فَمَا مِنكُم مِن أحدٍ عنه حاجزين.اگر یہ جھوٹا دعوی کرتا تو ہم اسے پکڑ کر ہلاک کر دیتے اور اس کی رگِ جان کاٹ دیتے.یہ آنحضرت ے کی صداقت کی دلیل خدا تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے.جب یہ دلیل آنحضرت ﷺ کی صداقت کی ہے تو یہی حضرت مسیح موعود کی صداقت کی کیوں نہیں ہو سکتی.اس بات کے سمجھنے کے لئے بھی کسی بڑے علم کی ضرورت نہیں.آسان اور واضح بات ہے.الله الهام اسی طرح بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ خدا تعالی پہلے تو اپنے مقرب لوگوں کو الہام کیا کرتا تھا لیکن اب نہیں کرتا.اس بات کا جواب بھی بہت آسان ہے کہ کیا وہ خدا جو پہلے بولا کرتا تھا اب (نعوذ باللہ ) گونگا ہو گیا ہے یا اس کی کسی وجہ سے بولنے کی طاقت سلب ہوگئی ہے؟ نہیں تو پھر ضرور ہے کہ جس طرح وہ پہلے سنتا تھا اسی طرح اب بھی سنے اور جس طرح پہلے دیکھتا تھا اب بھی دیکھیے.اگر وہ پہلے بولتا تھا اور اب نہیں بولتا تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ خدا پہلے تو دیکھتا تھا اب نہیں دیکھتا، خدا پہلے سنتا تھا لیکن اب نہیں سنتا حتی کہ خدا پہلے زندہ تھا لیکن اب زندہ بھی نہیں ہے.کیا یہ باتیں ماننے کے قابل ہیں؟ ہر گز نہیں.پس ثابت ہوا کہ جس طرح خدا پہلے اپنے بندوں سے بولتا اور کلام کرتا تھا اسی طرح اب بھی کرتا ہے.کامیابی کا ذریعہ قرآن شریف بڑی سیدھی اور آسان باتیں بیان کرتا ہے.تم خود دین سیکھو اس پر عمل کرو اور اوروں کو سکھاؤ.اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وَلَتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّة" يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَ يَا مُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.اے لوگو تم میں سے

Page 19

12 ایک ایسی جماعت ہو جولوگوں کو خیر کی طرف بلائے اور معروف کے ساتھ حکم دے اور منکر سے منع کرے اور یہ وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہو جائیں گے.یعنی ایسی جماعت اپنے ہر مقصد میں کامیاب ہوگی.اب جتلاؤ کون نہیں چاہتا کہ میں کامیاب ہو جاؤں.اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اگر تم دین کی اشاعت اور تبلیغ کروگی تو میں تمہیں کامیاب کروں گا.لوگ مال کی تلاش میں عمریں گنوا دیتے ہیں لیکن بالآخر وہ بھی کام نہیں آتا ، دوست اور رشتہ داروں کے لئے جان تک قربان کر دی جاتی ہے لیکن اکثر وہ بھی کوئی مدد نہیں کر سکتے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا میں کئی تکلیفیں آتی ہیں ، باپ، بھائی ، بیٹے ، خاوند پر مصیبتیں نازل ہوتیں اور اس طرح تمہیں کئی دکھ اٹھانے پڑتے ہیں لیکن جو اللہ تعالی کے لئے ہو جاتا ہے اللہ تعالی اُس کا ہو جاتا ہے اور اس پر جو مصیبت آتی ہے اول تو خدا تعالی اُسے ٹال دیتا ہے اور اگر وہ اٹل ہو تو اس کا نعم البدل عطا کر دیتا ہے پس ایسی عورتوں کو دین بھی مل جاتا ہے اور دنیا بھی کیونکہ جس طرح جو بادشاہ کا دوست ہو جائے اُسے کوئی دکھ نہیں پہنچا سکتا اسی طرح جس کا تعلق خدا تعالیٰ سے ہو جائے اُس کو بھی کوئی تکلیف نہیں دے سکتا خواہ اس کو کھانے کو کچھ بھی نہ ملے تو بھی ساری دنیا کے بادشاہ مل کر اُس کا بال بیکا نہیں کر سکتے.ایک فقیر کی نسبت لکھا ہے کہ بادشاہ نے کہا کہ اس سفر سے واپس آکر قتل کروں گا.جب وہ لوٹ کر آرہا تھا تو اس فقیر کے مریدوں نے اُسے کہا کہ اب تو بادشاہ قریب آ گیا ہے.اسنے کہا.ہنوز دتی دُور است.یہاں تک کہ وہ شہر میں داخل ہو گیا تو بھی اس نے یہی کہا.آخر وہ آتے آتے ایک دیوار کے گرنے سے نیچے دب کر مر گیا اور اس فقیر کو اللہ تعالی نے بچالیا.تو جو کوئی خدا تعالی کے لئے ہو جائے اُس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.ایک قصہ لکھا ہے ایک سوداگر نے ایک قاضی کے پاس کچھ رقم امانت رکھوائی.کچھ عرصہ کے بعد جو آکر مانگی تو قاضی نے انکار کر دیا اور کہا میں نے تم سے کچھ رکھنے کے لئے نہیں لیا تھا.سوداگر نے بادشاہ کے حضور جا کر عرض کی.بادشاہ نے سوچا کہ اگر میں قاضی کو یہاں بلواتا ہوں تو وہ روپیہ دینے سے انکار کر دے گا اور چونکہ اس کے پاس امانت رکھنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے اس لئے روپیہ وصول نہیں ہو سکے گا.اُس نے کہا کل جب میں سیر کے لئے نکلوں گا تو تم فلاں جگہ ٹھہرے رہنا میں آکر تم سے ملوں گا اور باتیں کروں گا.دوسرے دن اُس نے اسی طرح کیا اور بادشاہ نے تمام ہمراہیوں کے سامنے جن میں قاضی بھی تھا اُس سے باتیں کیں ، جب وہ باتیں کر کے چلا گیا تو قاضی نے اُس کو بلا کر کہا.میاں تم کچھ روپوں کا ذکر کرتے تھے کیسے روپے تھے؟ کچھا تا پتا بتاؤ تا کہ

Page 20

13 مجھے یاد آ گئیں.اُس نے وہی باتیں جو پہلے بتا ئیں تھیں بیان کر دیں.قاضی نے روپیہ نکال کر اسے دیدیا اور کہا تم نے مجھے یہ پہلے کیوں نہ بتا دیا ور نہ اُسی وقت دید تا.باتیں تو اس نے پہلے بھی یہی بتا ئیں تھیں لیکن اب چونکہ قاضی کو یہ معلوم ہو گیا تھا کہ اُس کا بادشاہ سے تعلق ہے اُس نے روپے نکال کر دے دیئے تو جب دنیاوی بادشاہ کے ساتھ جس کا تعلق ہو اُسے کوئی دُکھ نہیں دے سکتا تو جس کا خدا تعالیٰ سے تعلق ہوگا اُسے دُکھ دینے کی کس میں طاقت ہے؟ پس تم یہ کوشش کرو کہ خدا تعالی تمہارا ہو جائے.خدا تعالی فرماتا ہے کہ جو کوئی دین سکھے اور دوسروں کو سکھائے میں اُس کا ہو جاتا ہوں.تم یاد رکھو کہ دنیا کی تمام مصیبتوں سے بچنے اور کامیابیوں کے حاصل کرنے کا یہی ایک گھر ہے.اللہ تعالی ہر ایک کو اس کی توفیق دے.آمین.الفضل ۳۳.جولائی ۱۹۱۵ء ) حضرت امیر المومنین خلیفہ مسیح الثانی کا مستورات میں وعظ بمقام شملہ فرموده ۶ - اکتوبر ۱۹۱۷ء عورتوں کو ضروری نصیحت عورتوں کے متعلق سب سے پہلی اور سب سے بڑی نصیحت جو انہیں کرنے کی ضرورت ہے وہ انہیں اس زمانہ میں اس بات کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ دین کے معاملہ میں وہ اسی طرح شریعت کے قانون کی پابند ہیں اور اسی طرح شریعت کے قانون پر عمل کریں کہ جس طرح مرد کرتے ہیں.یہ ایک بڑی مشکل ہے جو اس زمانہ میں ہمیں پیش آئی ہے کہ عورتوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے که وه دینی معاملات میں حصہ لینے کے قابل نہیں ہیں.بہت سی عورتیں ہیں جو بجھتی ہیں کہ دین کے معاملات میں حصہ لینا اُن کے خاوندوں کا کام ہے اسی وجہ سے اس زمانہ میں عورتوں کا مذہب کوئی مستقل مذہب نہیں رہا.سومیں سے پچانوے عورتیں بلکہ اس سے زیادہ ایسی ملیں گی جنہوں نے کسی مذہب کو اس کے بچے ہونے کی وجہ سے قبول نہیں کیا بلکہ خاوندوں کی وجہ سے قبول کیا ہے.مرد اگر آج شیعہ ہے تو عورت بھی شیعہ ہے، مردا گرسکتی ہے تو عورت بھی سنی ہے کل کو اگر مرد شیعہ سے سکی ہو گیا تو عورت بھی سنی ہو جاتی ہے اور جس طرح اُس کے خاوند کے مذہب میں تبدیلی ہوتی ہے اسی طرح اُس کا اپنا مذ ہب بھی بدلتا رہتا ہے لیکن اس جہالت اور خام خیالی کی وجہ سے عورتوں میں مذہب نہیں رہا دیکھو اگر شیر کی تصویر ہو تو انسان اُس سے ڈرتا

Page 21

14 نہیں.کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اُسے کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی.اسی طرح آگ تب ہی کھانا پکائے گی جب حقیقی آگ ہو.اگر اُس کی تصویر ہو تو کچھ نہیں کر سکتی.تو چونکہ عورتوں کا مذہب نقلی ہوتا ہے اور جس طرح نقلی آگ کچھ نہیں دے سکتی اسی طرح اُنکا نقلی مذہب بھی فائدہ نہیں دے سکتا.مذہب کو حقیقی طور پر ماننا چاہئیے ہاں جس طرح حقیقی آگ کھانا پکا سکتی ہے اسی طرح حقیقی مذہب مفید ہو سکتا ہے.مذہب کو صرف اس لئے ماننا کہ ہمارا خاوند یوں کہتا ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں.ہمارے ملک میں اسے رکابی یا بینگنی مذہب کہتے ہیں.کسی راجہ نے اپنے دربار میں بینگن کی بہت تعریف کی.اس کا ایک خوشامدی درباری بھی تعریف کرنے لگا کہ اس کا بدن ایسا معلوم ہوتا ہے جیسا کسی صوفی نے چوغہ بہتا ہو، اس کی سبز ڈنڈی ایسی معلوم ہوتی ہے جیسے سبز چڑی سر پر باندھی ہو ہبر چوں میں ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے کوئی عابد عبادت کرتا ہو لیکن کچھ دن کے بعد جب راجہ کو اس کی وجہ سے تکلیف ہوئی تو اس نے دربار میں ذکر کیا کہ بینگن بوی خراب چیز ہے.یہ شکر وہی درباری کہنے لگا کہ حضور بینگن بھی کوئی سبزی ہے اسے تو سبزیوں میں شمار کرنا حماقت ہے، بڑی خراب اور ضرررساں چیز ہے.کسی نے اُس سے پوچھا کہ ابھی چند دن ہوئے تم اس کی تعریف کرتے تھے اور اب مذمت کر رہے ہو یہ کیا بات ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ میں راجہ کا نوکر ہوں بینگن کا نوکر نہیں.جب انہوں نے تعریف کی تو میں نے بھی کر دی اب انہوں نے مذمت کی تو میں نے بھی مذمت کرنی شروع کر دی تو عورتوں کا مذہب بینگنی مذہب ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ بہت سی عورتیں ایسی پائی جاتی ہیں کہ جو اپنے خاوندوں کے مذہب کو اسی طرح مانتی ہیں.الا ماشاء اللہ.عورتوں کو مذہب کی ضرورت مذہب کا فائدہ تو اخلاص اور حقیقت کے جانے سے ہوتا ہے یہی قرآن کریم کی تعلیم ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ عورتوں کو صرف مردوں کی خوشی اور آرام کے لئے پیدا کیا گیا ہے لیکن اسلام ایسا نہیں کہتا بلکہ سمجھاتا ہے کہ عورتوں پر بھی شریعت ایسی ہی عائد ہوتی ہے جیسے مردوں پر ہے اور جس طرح مردوں کے لئے شریعت کی بجا آوری ضروری ہے اسی طرح عورتوں کے لئے بھی ضروری ہے یہ نہیں کہ جس طرح بھیڑ بکری انسان کے آرام کے لئے ہیں اور انکی کوئی مستقل غرض پیدائش کی نہیں اسی طرح عورتیں ہیں.پس قرآن کریم جس طرح مردوں کے لئے ہے ویسے ہی عورتوں کیلئے بھی ہے اور نیک عورت جو اُس کے حکموں کو مانتی ہے اس کے لیے جنت کا وعدہ ہے اور جو اُس کے خلاف کرتی ہے وہ دوزخ

Page 22

15 کی سزا پائے گی اس لئے سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ عورتوں کے ذہن میں یہ بات ڈالی جائے کہ عورتوں کو بھی مذہب کی ویسی ہی ضرورت ہے جیسی مردوں کو.تا وہ سمجھیں کہ اسلام کیا ہے کیونکہ جب کسی کو کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ اس کے حاصل کرنے کے طریق سیکھتا ہے اور جب اس کی حقیقت سمجھتا ہے تو اس کے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے.پس جیسے مردوں کا حق ہے کہ وہ دین کو حاصل کریں ویسے ہی عورتوں کا بھی حق ہے کیونکہ مذہب کے احکام کا توڑنا جیسے مردوں کو نقصان دیتا ہے ایسے ہی عورتوں کو بھی دیتا ہے.پس کیا وجہ ہے عورتیں مردوں کی طرح دین نہ سیکھیں.دیکھو اگر کسی کو یہ معلوم ہو کہ مذہب کا کیا فائدہ ہے تو وہ خدا کو مانے گا اور اس کے احکام کی پابندی کرے گا لیکن اگر اس کو پتہ ہی نہ ہو تو پھر اسے کیا ضرورت ہے کہ خدا کو مانے اس سے تو بہتر ہے کہ نہ مانے.پھر جب تک اُسے یہ معلوم نہ ہو کہ رسولوں کے ماننے نہ ماننے میں کیا فائدہ یا نقصان ہے تو وہ کیوں مانے گا.پس ان باتوں کے فائدہ اور حقیقت سے آگاہ ہونا ضروری ہے اور جس طرح مرد دین کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اسی طرح عورتوں کو کرنی چاہیے.متقی عورتوں کا ذکر قرآن میں قرآن کریم میں دو پار سا عورتوں کا ذکر آتا ہے جن میں سے ایک فرعون کی بیوی ہے.ہے.فرعون کو تو توفیق نہ ملی لیکن اُس کی عورت نے تقوی اختیار کیا اور اُس نے مذہب کی ضرورت کو سمجھا اور موسیٰ پر ایمان لائی.اللہ تعالی نے اُس کا ذکر قرآن کریم میں بطور مثال کے کیا ہے اور اس سے بڑھ کر اور فضیلت کیا ہو سکتی ہے کہ اُس کتاب میں جو ہمیشہ کے لئے ہے اُس کا ذکر آیا ہے جس کی وجہ یہی ہے کہ چونکہ اس نے سمجھ لیا تھا کہ جو فرائض مذاہب کے متعلق مردوں کے ہیں وہی عورتوں کے بھی ہیں.دوسری مثال مریم کی ہے.وہ حضرت عیسٹے کی والدہ تھیں.اس زمانہ میں گمراہی انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی انہوں نے ایسی پر ہیز گاری دکھائی کہ اُن کے بیٹے نے نبوت حاصل کر لی.دنیا پر حضرت مسیح کا بڑا احسان ہے لیکن حضرت مریم کا بھی بڑا احسان ہے کیونکہ ان کی تربیت سے ایک ایسا انسان بنا جس نے دنیا پر بڑا احسان کیا قرآن کریم فرماتا ہے کہ وہ بڑی متقی اور پرہیز گار عورت تھی.اُن کے بچے نے ان سے تقومی سیکھا.سود کھو قرآن کریم میں جہاں حضرت مسیح کا ذکر ہے ساتھ ہی حضرت مریم کا ذکر بھی موجود ہے.اسلام میں عورتوں کی خدمات پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے آنحصرت لے کے زمانے میں جب

Page 23

16 ظلمت کمال کو پہنچی ہوئی تھی عورتوں نے دین کی بڑی خدمت کی کیونکہ انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ جس طرح مرد خدمت دین کرتے ہیں ہم بھی کر سکتی ہیں.شاید یہ بات بعض کو معلوم نہ ہو کہ سب سے پہلے جو آنحضرت ﷺ پر ایمان لائی وہ ایک عورت تھی.رسول کریم مع غار حرا میں عبادت کیا کرتے تھے وہاں آپ پر جبرائیل نازل ہوا اور آپ کو خدا تعالیٰ کا کلام سُنایا.آپ کے لئے چونکہ یہ بات بالکل نئی تھی اس لئے آپ سمجھ نہ سکے اور خیال کیا کہ شاید نفس کا دھوکا ہو گا.ایسا نہ ہو کہ غلطی ہو.آپ خائف ہوئے اور حضرت خدیجہ سے کہا کہ مجھے بیماری ہوگئی ہے.آپ نے اس حالت کا نام بیماری رکھا لیکن خدیجہ سمجھدار تھی.گو اس زمانہ میں وحی نہ ہوتی تھی لیکن آپ سمجھ گئی کہ یہ وحی الہی ہے.آج تو تمام لوگ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کلام آیا کرتا ہے پھر بھی دعویدار کو جھوٹا کہہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاگل ہو گیا ہے لیکن باوجود اسکے حضرت خدیجہ اس قوم سے تھی جس کو خدا تعالی پر ایمان نہ تھا ، کوئی الہامی کتاب اُس کے پاس نہ تھی، الہام کی وہ قائل ہی تھی پھر بھی آپ نے یہی کہا آپ کو الہام الہی ہوا ہے، اور یہ ہرگز بیماری نہیں ہے.كَلَّا وَالله لَا يُخْزِيكَ اللهُ أَبَدًا.حضرت خدیجہ نے کہا آپ کو بیماری نہیں بلکہ یقینی طور پر کلام الہی ہے.آپ لوگوں سے نیک سلوک کرتے ہیں ،صلہ رحمی کرتے ہیں، مشکلات میں اُن کی مدد کرتے ہیں، پس خدا تعالی آپ کو ہر گز ذلیل نہ کرے گا.یہ ایک عورت تھی جو اس طرح ایمان لائی کہ مردوں میں بھی اس کی مثال نہیں پائی جاتی.پھر اعمال کو دیکھتے ہیں تو حضرت خدیجہ کوئی معمولی ایمان نہ لائیں کہ جب دشمنوں نے آنحضرت ﷺ پر حملے کرنے شروع کئے تو انہوں نے اپنا سارا مال آپ کے سپرد کر دیا کہ دین کے راستہ میں خرچ کردیں.شاید کوئی سمجھے کہ یہ آنحضرت ﷺ کی بیوی تھی اس لئے انہوں نے جو کچھ کیا اپنے خاوند کی عزت کے لئے کیا.مگر نہیں آپ ہی اسلام میں ایک عورت نہیں گزریں صلى الله بلکہ اور بھی کئی ایک ایسی تھیں جنہوں نے اخلاص اور محبت کا ایسا نمونہ دکھلایا کہ جس کی نظیر نہیں ملتی.ایک عورت کا اخلاص چناچہ جنگ اُحد کا واقعہ ہے کفار تین ہزار کا لشکر لے آئے اور ادھر سے ایک ہزار جاں شمار آنحضرت مے کے ساتھ تھے.لڑائی کے وقت مسلمانوں کے ایک گروہ سے ایسی غلطی ہوئی کہ جس کی وجہ سے اسلامی لشکر کے پاؤں اکھر گئے اور رسول کریم نے تمہارہ گئے کفار نے آپ کو اتنے پتھر مارے کہ آپ زخمی ہو کر گر پڑے اور لاشوں کے نیچے دب گئے.جب یہ خبر مدینہ پہنچی جو حد سے چار میل کے فاصلہ

Page 24

17 پر ہے تو سب مردو عورت گھبرا کر باہر نکل آئے اور اصل حقیقت دریافت کرنے کے لئے راستہ پر کھڑے ہو گئے.ادھر لاشوں کے نیچے سے جب آنحضرت ﷺ کو نکالا گیا تو معلوم ہوا کہ آپ زندہ ہیں.یہ سنکر سب مسلمان جمع ہو گئے اور کافر بھاگ گئے.مسلمان جب مدینہ کو واپس لوٹے اور لوگوں نے انہیں دیکھا تو ایک عورت آگے بڑھی جو رسول کریم اے کی کوئی رشتہ دار نہ تھی وہ مدینہ کی رہنے والی تھی اور مکہ کے لوگ مدینہ والوں سے علیحدہ تھے.وہ محض دین کی وجہ سے رسول کریم والے سے اخلاص رکھتی تھی اُس نے ایک صحابی سے جو آگے آگے آرہا تھا پوچھا.رسول کریم کا کیا حال ہے؟ چونکہ آپ زندہ تھے اور پیچھے تشریف لا رہے تھے اس لئے اُس نے اس سوال کو معمولی سمجھ کر جواب نہ دیا اور کہا تیرا باپ مارا گیا ہے.اس پر عورت نے کہا میں نے اپنے باپ کے متعلق نہیں پوچھا بلکہ یہ دریافت کیا ہے کہ رسول اللہ کا کیا حال ہے؟ مگر اُس نے اس کا جواب نہ دیا اور کہا تیرا خاوند بھی مارا گیا ہے.یہ سنکر اُس نے کہا میں رسول اللہ کے متعلق پوچھتی ہوں اُن کا کیا حال ہے؟ اس کا بھی اُس نے جواب نہ دیا اور کہا تیرا بھائی مارا گیا ہے.اس پر اُس نے کہا تم میرے سوال کا جواب کیوں نہیں دیتے.میں پوچھتی ہوں رسول اللہ کا کیا حال ہے؟ اُس نے کہا اچھے ہیں اور تشریف لا رہے ہیں.یہ سنکر اُس نے کہا الحمد للہ اگر رسول اللہ زندہ ہیں تو پھر اور کسی کی مجھے پروا نہیں ہے.اس سے اُس عورت کی رسول اللہ ﷺ سے محبت اور الفت کا انداز ولگاؤ جو محض دین کی وجہ سے تھی اور خیال کرو کہ کیسا اخلاص تھا.مگر اس زمانہ میں دیکھو اگر کسی کا چھوٹا بچہ مرجائے تو اس کا کیا حال ہوتا ہے.مگر اُس کا باپ مارا جاتا ہے، خاوند شہید ہوتا ہے ، بھائی قتل کیا جاتا ہے، بیٹا کوئی ہے نہیں اور یہی قریبی سے قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں جن کو اگر کوئی تکلیف اور ڈکھ پہنچے تو عورتوں کا کیا مردوں کے دل بھی ٹکرے ٹکرے ہو جاتے ہیں مگر اس عورت کے اندر ایسا قومی اور مضبوط دل تھا کہ اُسے باپ اور بھائی اور خاوند کے مرنے کی خبر سنائی جاتی ہے مگر وہ آنحضرت مہ کی خیریت کی خبر سنکر الحمد للہ کہتی ہے اور کسی صدمہ کی پروا نہیں کرتی.اس قسم کے اور کئی واقعات ہیں یہ تو میں نے آنحضرت ﷺ کے وقت کا واقعہ سنایا ہے ایک واقعہ آپ کی وفات کے بعد کا سناتا ہوں.ایک اور مثال ہندہ ایک عورت تھی جو آنحضرت ﷺ کی ابتداء میں اس قدر دشمن تھی کہ جب آپ کے چچا حضرت حمزہ شہید ہوئے تو اُس نے اُن کا کلیجہ نکال کر دانتوں سے چبایا تا کہ آنحضرت ﷺ کو تکلیف پہنچے لیکن

Page 25

18 جب آپ پر ایمان لائی تو دین کی بڑی خدمت کرتی رہی اور کئی جنگوں میں شامل ہوئی.چنانچہ حضرت عمر کے وقت جب مسلمانوں کا عیسائیوں کے ایک کثیر التعداد شکر سے مقابلہ ہوا جس میں ایک مسلمان کے مقابلہ میں کو دو عیسائی تھے تو مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے اُس وقت ہندہ نے اپنی ساتھی عورتوں کو کہا یہ مرد ہو کر دشمن کے مقابلہ سے ہٹ رہے ہیں آؤ ہم عورتیں ہو کر انہیں سبق دیں.یہ کہ کر انہوں نے خیمہ کی چومیں نکال لیں اور صف باندھ کر کھڑی ہو گئیں اور مسلمانوں کے گھوڑوں کو سوئے مار مار کر واپس لوٹا دیا.اُس وقت ہندہ نے اپنے خاوند کو کہا کیا تمہیں شرم نہیں آتی کفر کے زمانہ میں تو اسلام کا بڑے زور وشور سے مقابلہ کرتا رہا ہے اور آب پیٹھ دکھاتا ہے.تو عورتوں نے ایسے بہادری کے کام کئے ہیں.عورتوں کا ہم امور میں مشورہ دینا پھر رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی اور احادیث سے ثابت ہے کہ آپ بڑے بڑے اہم امور میں اپنی بیویوں سے مشورہ لیتے تھے.چنانچہ جب آپ حج کو گئے ہیں اور کفار نے مکہ جانے سے روک دیا تو آپ نے مسلمانوں کو فرمایا کہ احرام کھول دیں لیکن انہوں نے نہ کھولے تو آپ بیویوں کے پاس گئے اور جا کر بات بتائی.انہوں نے کہا آپ خاموش ہو کر جائیں اور قربانی کر کے اپنا احرام کھول دیں یہ دیکھ کر سب ایسا ہی کریں گے.آپ نے ایسا ہی کیا اور سب مسلمانوں نے احرام کھول دیئے.تو ہمیشہ عورتیں بڑی بڑی خدمتیں کرتیں اور امور مہمہ میں مشورے دیتی رہی ہیں.پس آجکل کی عورتوں کا یہ غلط خیال ہے کہ ہم کچھ نہیں کرسکتیں حالانکہ وہ بہت کچھ کر سکتی ہیں اور جس طرح مردوں کے لئے دوسروں کو دین سکھانا ضروری ہے اسی طرح عورتوں کے لئے ضروری ہے.عورتیں کیا کرتی رہی ہیں رسول کریم ﷺ کی بیویاں مسائل میں غلطی کرنے پر مردوں کو ڈانٹ دیتی تھیں اور حضرت عائشہ قرآن کا درس دیا کرتی تھیں جسے مرد بھی سُنا کرے تھے.پھر بعض عورتیں ایسی بھی گزری ہیں جو درمیان میں پردہ لٹکا کر مردوں کو پڑھاتی رہیں مگر آج یہ مصیبت ہے کہ عورتیں خود ان پڑھ ہیں اور اُن کا خیال ہے کہ ہم کیا کر سکتی ہیں.کچھ بھی نہیں.حالانکہ یہ خیال بالکل غلط ہے.پہلے جو عور تیں پڑھی ہوئی نہ بھی تھی اُن میں بھی یہ خیال نہ پایا جا تا تھا.موجودہ زمانہ کی ایک عورت کی مثال آپ بھی دیکھا گیا ہے کہ جن عورتوں کو دین سے محبت اور پیار ہے اُن میں بڑا اخلاص پایا جاتا ہے.چنانچہ مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک

Page 26

19 عورت آئی اور آپ کے سامنے بہت روئی کہ میرا بیٹا عیسائی ہو گیا ہے آپ دعا کریں کہ وہ ایک دفعہ کلمہ پڑھ لے پھر خواہ مر ہی جائے.لڑکا عیسائیوں کا سکھایا پڑھایا تھا با وجود بخار چڑھے ہونے کے بھاگ گیا اُس کی ماں بھی اُس کے پیچھے بھاگی اور پھر پکڑ کر لے آئی.حضرت مسیح موعود نے اُسے سمجھایا اور کچھ دن کے بعد اُسے سمجھ آگئی اور مسلمان ہو گیا.مسلمان ہونے کے دوسرے تیسرے دن اُس کی جان نکل گئی اور اس پر ماں نے کچھ غم نہ کیا.تو آپ بھی ایسی عورتیں ہیں گوشاذ ہیں جو ایمان کے مقابلہ میں کسی چیز کی پروا نہیں کرتیں.عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اگر خاوند عیسائی ہو جائے تو بیوی بھی عیسائی ہو جاتی ہے اور جو مذ ہب اُس کے خاوند کا ہو وہی اُس کا ہوتا ہے.مگر ایسی بھی عورتیں ہیں جو جان دینا تو پسند کرتی ہیں مگر اسلام چھوڑ نا گوارہ نہیں کرتیں.لیکن ایسی کون عورتیں ہوتی ہیں؟ وہی جو مذ ہب کو سمجھ کر قبول کرتی ہیں اور اُس سے پوری پوری واقعیت پیدا کرتی ہیں.عورتوں کا دین سے واقف ہونا ضروری ہے پس سب سے ضروری بات یہ ہے کہ عورتیں مذہب سے واقف ہوں ، مذہب سے اُن کا تعلق ہو، مذہب سے انہیں محبت ہو ، مذہب سے انہیں پیار ہو، جب اُن میں یہ بات پیدا ہو جائے گی تو وہ خود بخود اس پر عمل کریں گی اور دوسری عورتوں کے لئے نمونہ بن کر دکھا ئیں گی اور اُن میں اشاعت اسلام کا ذریعہ بنیں گی.ہاں انہیں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ جس طرح مرد مردوں کو دین سکھا سکتے ہیں اسی طرح عورتیں عورتوں کو سکھا سکتی ہیں.اس کے ثبوت میں کہ عورتیں دین کی خدمت کر سکتی ہیں میں نے مثالیں پیش کی ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ عورتیں بھی دین کی خدمت کرتی رہی ہیں.پس جب یہ ثابت ہو گیا کہ کچھ عورتوں نے ایسا کیا ہے تو معلوم ہوا کہ اور بھی کر سکتی ہیں.پہلے زمانہ کی عورتوں کے متعلق یہ کہنا کہ وہ بڑی پارسا اور پر ہیز گار تھیں ہم اُن جیسے کام کہاں کر سکتی ہیں کم حوصلگی اور کم ہمتی ہے.بہت عورتیں ہیں جو کہتی ہیں کہ کیا ہم عائشہ بن سکتی ہیں کہ کچھ کوشش کریں.انہیں خیال کرنا چاہیے کہ عائشہ کس طرح عائشہ نہیں.انہوں نے کوشش کی ، ہمت دکھائی تو عائشہ بن گئیں.اب بھی اُن جیسا بننے کے لئے ہمت اور کوشش کی ضرورت سے بغیر کچھ کئے ہمت ہار دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک بچہ کو نصیحت کی جائے کہ تعلیم حاصل کر لو تو فلاں کی طرح ایم.اے ہو جاؤ گے لیکن وہ کہے میں کہاں فلاں کی طرح ایم.اے

Page 27

20 ہو سکتا ہوں اسلئے تعلیم ہی حاصل نہیں کرتا.اُس نے کوشش کی تھی اس لئے ایم اے ہو گیا.پھر کیا وجہ ہے کہ یہ بھی کوشش کرے تو ایم.اے نہ ہو جائے.صحابہ نے کس طرح درجے حاصل کئے ؟ دیکھو صحابی کس طرح رسول کریم منانے کے صحابہ بنے اور کس طرح انہوں نے بڑے بڑے درجے حاصل کئے.اسیطرح کہ کوشش کی.ورنہ یہ وہی لوگ تھے جو رسول کریم لے کے جانی دشمن تھے اور آپ کو گالیاں دیتے تھے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو آنحضرت علیہ کے بعد دوسرے خلیفہ ہوئے ہیں ابتداء میں آنحضرت ﷺ کے ایسے سخت دشمن تھے کہ آپ کو قتل کرنے کے لئے گھر سے نکلے تھے.راستہ میں ایک شخص ملا جس نے پو چھا کہاں جارہے ہو؟ انہوں نے کہا محمد (ع) الله کو قتل کرنے جاتا ہوں.اُس نے کہا پہلے اپنی بہن اور بہنوئی کو تو قتل کر لو جو مسلمان ہو گئے ہیں پھر محمد (صلعم) کو مارنا.یہ سنکر وہ غصہ سے بھر گئے اور اپنی بہن کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے.آگے جا کر دیکھا تو دروازہ بند تھا اور ایک شخص قرآن کریم سنارہا تھا اور اُن کی بہن اور بہنوئی سن رہے تھے.اس وقت تک پردہ کا حکم نازل نہ ہوا تھا.حضرت عمر نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کھولو.اُن کی آواز سُن کر اندر والوں کو ڈر پیدا ہوا کہ مار دیں گے اس لئے انہوں نے دروازہ نہ کھولا.حضرت عمر نے کہا اگر دروازہ نہ کھولو گے تو میں تو ڑ دونگا.اس پر قرآن کریم سنانے والے مسلمان کو چھپا دیا اور بہنوئی بھی چھپ گیا.صرف بہن نے سامنے آکر دروازہ کھولا.حضرت عمرؓ نے پوچھا بتاؤ کیا کر رہے تھے اور کون شخص تھا جو کچھ پڑھ رہا تھا ؟ انہوں نے ڈر کے مارے ٹالنا چاہا.حضرت عمر نے کہا جو پڑھ رہے تھے مجھے سُناؤ.اُن کی بہن نے کہا آپ اس کی بے ادبی کریں گے اس لئے خواہ ہمیں جان سے ماردیں ہم نہیں سنائیں گے.انہوں نے کہا نہیں میں وعدہ کرتا ہوں کہ بے ادبی نہیں کرونگا.اس پر انہوں نے قرآن کریم سنایا جسے سنگر حضرت عمر رو پڑے اور دوڑے دوڑے.سول کریم ہے کے پاس گئے.تلوار ہاتھ میں ہی تھی.رسول کریم نے نے انہیں دیکھ کر کہا عمر یہ بات کب تک می آید سنکر وہ رو پڑے اور کہا میں نکلا تو آپ کے مارنے کے لئے تھا لیکن خود شکار ہو گیا ہوں.تو پہلے یہ حالت تھی جس سے انہوں نے ترقی کی.پھر یہی صحابی تھے جو پہلے شراب پیا کرتے تھے ، آپس میں لڑا کرتے تھے اور کئی قسم کی کمزوریاں اُن میں پائی جاتی تھیں لیکن جب انہوں نے آنحضرت ﷺ کو قبول کیا اور دین کے لئے ہمت اور کوشش سے کام لیا تو نہ صرف خود ہی اعلی درجے پر پہنچ گئے بلکہ دوسروں کو بھی اعلے مقام پر پہنچانے کا

Page 28

21 کرونگا.اس پر انہوں نے قرآن کریم سُنایا جسے سنگر حضرت عمر رو پڑے اور دوڑے دوڑے رسول کریم والے کے پاس گئے.تلوار ہاتھ میں ہی تھی.رسول کریم ﷺ نے انہیں دیکھ کر کہا عمر یہ بات کب تک رہے گی ؟ یہ شکر وہ رو پڑے اور کہا میں نکلا تو آپ کے مارنے کے لئے تھا لیکن خود شکار ہو گیا ہوں.تو پہلے یہ حالت تھی جس سے انہوں نے ترقی کی.پھر یہی صحابی تھے جو پہلے شراب پیا کرتے تھے، آپس میں لڑا کرتے تھے اور کئی قسم کی کمزوریاں اُن میں پائی جاتی تھیں لیکن جب انہوں نے آنحضرت مہ کو قبول کیا اور دین کے لئے ہمت اور کوشش سے کام لیا تو نہ صرف خود ہی اعلی درجے پر پہنچ گئے بلکہ دوسروں کو بھی اعلے مقام پر پہنچانے کا باعث ہو گئے.وہ پیدا ہی صحابی نہیں ہوئے تھے بلکہ اُسی طرح کے تھے جس طرح کے اور تھے مگر انہوں نے عمل کیا اور ہمت دکھائی تو صحابی ہو گئے.آج بھی اگر ہم ایسا ہی کریں تو صحابی بن سکتے ہیں.یہ شیطان کا جال اور پھندا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ کوئی انسان دین کی راہ میں کوشش کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اُس کے آگے ڈال دیتا ہے کہ تم کیا کر سکتے ہو.اور اس کی مثال مکڑی کے جالے کی طرح ہوتی ہے کہ جب لکھی زور کر کے اُسے توڑ دیتی ہے تو وہ اور تن دیتی ہے.شیطان بھی اسی طرح بندوں کے اردگرد پھرتا رہتا ہے اور جب دیکھتا ہے کہ میرے بند ٹوٹنے لگے ہیں تو اور باندھ دیتا ہے.ان بندوں میں سے ایک یہ بھی بند ہے کہ جب کوئی عورت یا مرد نیک کام کرنا چاہتے ہیں تو وہ خیال پیدا کر دیتا ہے کہ کیا ہم فلاں بن جائیں گے.ایسا تو نہیں ہو سکتا اس لئے کرنا ہی نہیں چاہئے حالانکہ فلاں بھی کوشش کر کے ایسا بن گیا تھا پھر جب یہ کوشش کرے گا تو کیوں نہ ویسا ہی بن جائے گا.صرف نبی کی بیوی ہونا فضیلت کی وجہ نہیں یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ حضرت عائشہ و غیر بانہی کی بیویاں تھیں اس لئے انہوں نے دین کی خدمت کی ہم کیا کر سکتی ہیں.اگر انہوں نے نبی کی بیویاں ہونے کی وجہ سے دین کی خدمت کی تو کیا حضرت نوع کی بیوی نبی کی بیوی نہ تھی.یا حضرت لوط کی بیوی نبی کی بیوی نہ تھی ؟ لیکن انہوں نے کیا کیا.نبی کے ماننے سے ہی انکار کر دیا اور تباہ و برباد ہوگئیں.اگر صرف نبی کی بیوی ہونا کوئی چیز ہوتا تو وہ کیوں نیک نہ ہو تیں اور خدا سے تعلق نہ پیدا کرتیں اور دین کی خدمت کر کے نہ دکھاتیں لیکن بات یہ ہے کہ انہوں نے خدا تعالی کے احکام پر عمل نہ کیا اس لئے تباہ اور ہلاک ہو گئیں اور ہمارے رسول کریم ﷺ کی بیویوں نے عمل کیا اس لئے انہیں اعلیٰ درجہ حاصل ہو گیا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِيْنَ الله

Page 29

22 جَاهَدُ وَافِيْنَا لَنَهْدِ يَنْهُمْ سُبُلَنَا (۶۹) کہ جو ہم تک پہنچنے کے لئے کوشش کرتا ہے اُس کے لئے ہم دروازے کھول دیتے ہیں.پس وہ مرد و عورت جنہوں نے آنحضرت ﷺ کے وقت کوشش کی ، دین کے لئے گھر سے بے گھر ہوئے ، مال و جان کو خدا تعالیٰ کی راہ میں لگا دیا ، اپنے خیالات اور عزیزوں ، رشتہ داروں ، وطن غرضیکہ ہر ایک پیاری سے پیاری چیز کو قربان کر دیا انکو دین میں بھی بڑے بڑے رتبے حاصل ہو گئے اور دنیا میں بھی بڑے بڑے انعام مل گئے.آج بھی اگر مرد و عورتیں اسی طرح کریں ، خود دین سیکھیں اور عمل کر کے دکھا ئیں ، دوسروں کو سمجھانے اور عمل کرانے کی کوشش کریں ، دین کے مقابلہ میں کسی چیز کی پروانہ کریں تو ویسی ہی بن سکتی ہیں.اب میں بعض موٹے موٹے مسائل بیان کرتا ہوں جن کا یا درکھنا بہت ضروری ہے.خدا تعالیٰ کو ایک سمجھنا اسلام کا سب سے بڑا عقیدہ یہ ہے کہ خدا ہے اور ایک ہے.اس عقیدہ کو پھیلانے کے لئے آنحضرت ﷺ کو بڑی بڑی تکالیف اٹھانی پڑیں مکہ والوں کا ذریعہ معاش چونکہ بُت ہی تھے اور انہی پر ان کی گزران تھی اس لئے بتوں کو چھوڑ نا اُن کے لئے بہت مشکل تھا.جب آنحضرت والله نے بتوں کے خلاف سمجھانا چاہا تو انہوں نے ایک مجلس کی اور ایک آدمی مقرر کیا جو آنحضرت نے کو جا کر کہے کہ آپ اس بات سے باز آجا ئیں چنانچہ وہ شخص آپ کے پاس آیا اور آکر کہا کہ اگر آپ کو مال کی خواہش ہے ہم بہت سا مال لا کہ آپ کے سامنے ڈھیر کر دیتے ہیں، اگر حکومت کی خواہش ہے تو ہم سب آپ کو حاکم ماننے کے لئے تیار ہیں ، اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ میری بات مانی جائے تو آئندہ ہم آپ کے مشورہ کے بغیر کو کی بات نہیں کریں گے اور اگر آپ کو کوئی بیماری ہوگئی ہے تو ہم اس کا علاج کرانے کے لئے تیار ہیں لیکن آپ بتوں کے خلاف کہنا چھوڑ دیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم سورج کو میرے دائیں اور چاند کو بائیں لا کر رکھ دو تو بھی میں یہ کہنا نہیں چھوڑوں گا کہ خدا ایک ہے اور کوئی اُس کا شریک نہیں.تو یہ ایک ایسا اہم عقیدہ ہے کہ جس کے بغیر نجات نہیں ہو سکتی.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اور گناہ تو معاف کر دوں گا مگر شرک نہیں معاف کروں گا.آجکل یہ بہت پھیلا ہوا ہے اور مسلمانوں میں گو بتوں کی پرستش نہیں پائی جاتی مگر ان کی بجائے قبروں کو پوجا جاتا ہے.پھر عورتوں کا اپنے خاوند عزیز رشتہ داروں کے متعلق یہ کہنا کہ جو اُن کا مذہب ہے وہی ہمارا مذہب ہے شرک ہے، اسی طرح یہ بھی کہ اگر فلاں بات پوری ہو گئی تو فلاں پیر کی نیاز دی جائے

Page 30

23 گی شرک ہے اور بھی کئی قسم کے شرک ہیں جن میں آجکل عورتیں خاص طور پر مبتلا ہیں حالانکہ یہ ایک خطرناک بات ہے.پس عورتوں کے لئے ایک سب سے ضروری عقیدہ یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کو ایک سمجھیں اور نہ کسی کو اُس کی صفات میں نہ افعال میں نہ اسماء میں شریک قرار دیں.فرشتوں پر ایمان لانا دوسرا عقیدہ یہ ہے کہ فرشتوں پر یقین رکھے کہ وہ خدا تعالیٰ کی ایک مخلوق ہے جو انسانوں کے دلوں میں نیک تحریکیں کرتی ہے اور اُن پر ایمان لانے کے یہ معنے ہیں کہ جب کوئی دل میں نیک خیال تحریک ہو تو فوراً اس پر عمل کیا جائے تا کہ اور تحریک کے لئے جگہ خالی ہو.قرآن کو خدا کی کتاب سمجھنا اور سب رسولوں پر ایمان لانا تیسرا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن کریم پر ایمان ہو کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور اس کے سوا اور بھی کتابیں نازل ہوئی تھیں.چوتھے یہ کہ سارے رسولوں پر ایمان ہو کہ وہ بچے ہیں.بعث بعد الموت پانچویں یہ کہ مرنے کے بعد اٹھایا جائے گا اور حساب و کتاب ہوگا.ان عقائد کو نہ ماننے سے کوئی مرد و عورت مسلمان نہیں کہلا سکتا اس لئے اُن پر ایمان رکھنا بہت ضروری ہے.یہ تو ہوئے عقائد.اب میں اعمال کا ذکر کرتا ہوں جو اسلام نے ضروری قرار دیئے ہیں.نماز پڑھنا اول نماز ہے جس کا ادا کرنا نہایت ضروری ہے مگر اس میں نہایت سستی کی جاتی ہے اور خاص کر عورتیں بہت سُست نظر آتی ہیں کئی قسم کے عذر پیش کیا کرتی ہیں.مثلاً یہ کہ میں بچہ والی جو ہوئی کپڑے کس طرح سے پاک رکھوں کہ نماز پڑھوں لیکن کیا کپڑے پاک رکھنا کوئی ایسی مشکل بات ہے جو ہو ہی نہیں سکتی.ایسی تو نہیں ہے.اگر احتیاط کی جائے تو کپڑے پاک رہ سکتے ہیں لیکن اگر احتیاط نہیں کی جاسکتی تو کیا یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ ایک جوڑا ایسا بنا لیا جائے جو صرف نماز پڑھنے کے وقت پہن لیا جائے اور اگر کوئی عورت ایسی ہی غریب ہے کہ دوسرا جوڑا نہیں بنا سکتی تو اسے بھی نماز معاف نہیں ہے وہ پلید کپڑوں میں ہی پڑھ لے.اوّل تو انسانیت چاہتی ہے کہ انسان پاک وصاف رہے اسلئے اگر کپڑا نا پاک ہو جائے تو اُسے صاف کر لینا چاہیئے لیکن اگر فرض کر لیا جائے کہ کوئی ایسی صورت ہے جس میں صاف نہیں کیا جا سکتا تو بھی نماز چھوٹ نہیں سکتی مگر بہت کم عورتیں ہیں جو پڑھتی ہیں اور جو پڑھتی ہیں وہ بھی عجیب طرح پڑھتی ہیں.کھڑے ہوتے ہی رکوع میں چلی جاتی ہیں اور کھڑے ہوئے بغیر ہی بیٹھ جاتی ہیں اور اس جلدی سے ایسا کرتی ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا

Page 31

24 کہ کیا پڑھتی ہوں گی.ایسی عورتوں کو یا د رکھنا چاہئے کہ وہ انہی کے طور پر کھڑی نہیں ہوتیں بلکہ نماز پڑھنے کے لئے کھڑی ہوتی ہیں اور نماز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی اور فروتنی دکھائی جائے اور خدا تعالی سے اپنی حاجتوں کے پورا ہونے کی درخواست کی جائے.کیا جس سے کچھ مانگنا ہو اُس کے سامنے اسی طرح کیا جاتا ہے؟ نہیں بلکہ اُس کا تو بڑا ادب اور لحاظ کیا جاتا ہے، اُس کی منت خوشامد کی جاتی ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ وہ خدا تعالی کے حضور کھڑی تو کچھ مانگنے کے لئے ہوتی ہیں لیکن اُن کی حرکات میں ادب نہیں ہوتا ، اُن کے دل میں خوف نہیں پیدا ہوتا ، وہ عاجزی اور فروتنی نہیں دکھاتیں بلکہ یہ ظاہر کرتی ہیں کہ گویا اللہ تعالیٰ اُن کا محتاج ہے حالانکہ اللہ تعالی کسی کا محتاج نہیں ہم سب اُس کے محتاج ہیں اس لئے ہمیں خاص طور پر ادب کرنا چاہئے ، اس کے خوف کو دل میں جگہ دینی چاہیئے اور نہایت عاجزی اور خاکساری سے اُس کے آگے عرض کرنی چاہیئے.کئی ایک مرد ایسے ہیں جو ایسا نہیں کرتے لیکن عورتیں تو کثرت سے ایسی ہیں جو نماز کو ایک مصیبت سمجھتی اور جتنی جلدی ہو سکے گلے سے اتارنا چاہتی ہیں.حالانکہ نماز انہی کے فائدے کے لئے ہے نہ کہ خدا تعالی کو کوئی فائدہ ہے.پس نماز نہایت عمدگی کے ساتھ ادا کرنی چاہیئے.زکوۃ دینا اس کے علاوہ دوسرا حکم زکوة کا ہے کہ اگر کسی کے پاس ۵۲ تولے چاندی یا ۳۰ روپے سال بھر تک جمع رہیں تو ان پر ایک روپیہ زکوۃ دے جو مسکینوں، یتیموں اور غریبوں کے لئے ضروری ہے اور جہاں نماز کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا حق ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہاں زکوۃ کے حکم سے بندوں کا حق ادا کرنے کی تاکید ہے..خدا تعالیٰ خود بھی براہ راست اپنے بندوں کو سب کچھ دے سکتا ہے لیکن اس نے آپ دینے کی بجائے بندوں کے ذریعہ دینا چاہا ہے تا کہ دینے والے بھی ثواب اور اجر کے مستحق ہوں.روزہ رکھنا تیرا حکم روزہ رکھنا ہے.ہمارے ملک میں بعض مرد اور عورتیں نماز نہیں پڑھتے مگر روز در رکھتے ہیں.یہ بھی ضروری حکم ہے اور اس میں بڑے بڑے فوائد ہیں.حج کرنا چوتھا حکم حج کا ہے اگر سفر کرنے کے لئے مال ہو، راستہ میں کوئی خطرہ نہ ہو ، بال بچوں کی نگرانی اور حفاظت کا سامان ہو سکتا ہوتو زندگی میں ایک دفعہ حج کرنے کا حکم ہے.خدمات دین یہ بڑے بڑے حکم ہیں جو ہر مومن مرد اور عورت کے لئے ضروری ہیں.ان کے علاوہ اور بہت سی دینی خدمتیں ہیں جو کی جاسکتی ہیں.اور میں نے بتایا ہے کہ آنحضرت اللہ کے وقت اور آپ کے بعد

Page 32

25 مسلمان عورتوں نے بڑی بڑی خدمتیں کی ہیں حتی کہ اسلام کے لئے جانیں دے دی ہیں اور جس طرح اُس وقت اسلام پر مصائب اور مشکلات کے دن تھے اسی طرح اب بھی ہیں اس لئے اس وقت بھی اسی قسم کی خدمتیں کرنے والی عورتوں کی ضرورت ہے.یہ تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جس طرح رسول کریم ﷺ کے وقت دنیا کی اصلاح کے لئے آپکو کھڑا کیا گیا تھا اُسی طرح اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کھڑا کیا گیا ہے.اس وقت اسلام کی یہ حالت ہو چکی تھی کہ خود مسلمان کہلانے والے اس پر حملے کرانے کے موجب ہور ہے تھے.حضرت مسیح علیہ السلام وفات پاچکے ہیں چنانچہ وہ اپنی نادانی سے یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ حضرت عیسے آسمان پر بیٹھے ہیں اور کسی وقت زمین پر آئیں گے.اس عقیدہ سے اسلام پر کئی ایک اعتراض پڑتے ہیں.ایک تو یہ کہ قرآن کریم جھوٹا ہوتا ہے.کیونکہ وہ کہتا ہے کہ حضرت عیسے وفات پاچکے ہیں.دوسرے اس وجہ سے بہت سے مسلمان عیسائی ہو گئے ہیں کیونکہ جب پادریوں نے اُن کے سامنے یہ بات پیش کی کہ دیکھو حضرت عیسے زندہ آسمان پر ہیں اور تم بھی اس کو مانتے ہو لیکن تمہارا رسول وفات پاچکا ہے اور زمین میں دفن ہیں اب تم خود ہی بتاؤ کہ کس کا درجہ ت.؟ اور یہ تو تم مانتے ہی ہو کہ تمہارے رسول کا درجہ سب رسولوں سے بڑا ہے اور جب اس سے بھی حضرت عیسے کا درجہ اعلے ہوا تو معلوم ہوا وہ خدا ہے.اس کا وہ کوئی جواب نہ دے سکتے اور اسلام کو چھوڑ کر عیسائی ہو جاتے حالانکہ یہ بالکل غلط ہے کہ حضرت عیسے زندہ آسمان پر موجود ہیں.وہ تو بھی کے وفات پاچکے ہیں.حضرت عیسی کے آنے سے مراد مسلمانوں کو اس سے غلطی لگی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی تھی عیسی آئیں گے.اس سے انہوں نے انہی پہلے عیسی کا آنا سمجھ لیا ہے حالانکہ اس عیسی سے آنحضرت کی مراد انہی کی صفات رکھنے والے انسان کے آنے کی تھی.چونکہ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ آخری زمانہ میں مسلمان یہود ہو جائیں گے اس لئے جس طرح یہو.یوں کی اصلاح کے لئے حضرت عیسی آئے تھے اُسی طرح اُن کی اصلاح کے لئے جس انسان نے آنا تھا اُس کو بھی عیسی کہا گیا ورنہ پہلے عیسی کہاں آسمی تھے وہ الله کتھے تو وفات پاچکے تھے.چنانچہ کہتا ہے مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُول قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُل - ك محد الله کے رسول ہیں ان سے پہلے جتنے رسول تھے وہ وفات پاچکے ہیں.اب یا تو یہ کہنا پڑے گا کہ حضرت عیسی رسول

Page 33

26 نہ تھے بلکہ خدا تھے اس لئے انہوں نے وفات نہیں پائی لیکن یہ کفر ہے کہ اُن کو خدا قرار دیا جائے اور اگر رسول تھے اور واقعہ میں رسول تھے تو وفات بھی پاچکے ہیں کیونکہ قرآن کریم صاف طور پر بتلا رہا ہے کہ آنحضرت میں ہے سے پہلے سارے رسول فوت ہو چکے ہیں.قرآن کریم حضرت معینی کو فوت شدہ قرار دے رہا ہے اور جو فوت ہو جائے وہ دوبارہ دنیا میں واپس نہیں آسکتا کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کی سنت کے خلاف ہے.پھر اللہ تعالیٰ کو کیا ضرورت ہے کہ ایک مرے ہوئے انسان کو دوبارہ زندہ کر کے دنیا میں لائے.خدا تعالیٰ تو قادر مطلق ہے اُس کو یہ ضرورت نہیں ہے کہ دنیا کی اصلاح کے لئے کسی نئے انسان کو پیدا کرنے کی بجائے ایک مدتوں کے مردہ انسان کو بھیج دے.ہم تو دیکھتے ہیں کہ دنیا میں کوئی مالدار اور دولتمند انسان اس طرح نہیں کرتا کہ ایک وقت کھانا بچ جائے اُسے دوسرے وقت کھانے کے لئے رکھ چھوڑے.ہاں غریب لوگ ایسا کرتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کی نسبت یہ کہنا کہ اُس نے ضرورت کے لئے وہی حضرت عیسی رکھے ہوئے ہیں جو کئی سو سال ہوئے پیدا کئے گئے تھے اُسے کنگال اور مفلس خدا بنانا ہے اور اُس کے قادر ہونے سے انکار کرنا ہے حالانکہ خدا تعالیٰ ایک نہیں کئی عیسی پیدا کر سکتا ہے اور جب ضرورت ہو بھیج سکتا ہے.پہلے نبی جب فوت ہوتے رہے تو اُن کے بعد اور نبی بھیجتا رہا یہ نہیں ہوا کہ انہی کو دوبارہ زندہ کر کے بھیجتا رہا ہے پھر کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ حضرت عیسی کو دوبارہ بھیجے.مسلمانوں میں یہ ایک بہت بیہودہ عقیدہ پھیلا ہوا ہے حالانکہ حضرت عیسی کے آنے سے مُراد یہ تھی کہ اُن کی صفات کا ایک انسان آئے گا اور حضرت مرزا صاحب آئے ہیں جو حضرت عیسی کی طرح یہودیوں کی اصلاح پر مامور کئے گئے ہیں کیونکہ آنحضرت ﷺ نے فرما دیا ہوا ہے کہ مسلمان یہودی ہو جائیں گے.اس زمانہ کا فتنہ آنحضرت اللہ نے فرمایا ہے کہ حضرت نوح سے لے کر آپ تک کے سب نبیوں نے اس فتنہ کی خبر دی ہے جو حضرت مسیح موعود کے وقت آئیگا اب دیکھ لو کہ اتنے بڑے فتنہ کے دور کرنے کے لئے کس قدر کوشش کی ضرورت ہے.آجکل ہماری جماعت کے مردوں سے جس قدر ہو سکتا ہے کوشش کر رہے ہیں.عورتیں دعائیں کریں لیکن ضرورت ہے کہ عورتیں بھی اُن کی مددکریں اور اسکام میں اُن کا ساتھ دیں دردِ دل سے دعائیں مانگا کریں کہ اسلام کی ترقی ہو ، خدا تعالیٰ حق کے قبول کرنے کے لئے لوگوں کے

Page 34

27 دل کھولے، دُنیا سے بدیاں اور بُرائیاں دور ہوں، اللہ تعالیٰ کا نام دنیا میں پھیلے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو نور آیا ہے لوگ اُس سے فائدہ اُٹھا ئیں.چندہ دیں اس کے علاوہ جہاں تک اُن سے ہو سکے مالی خدمت بھی کریں.آنحضرت ﷺ جب مردوں سے چندہ لیا کرتے تھے تو عورتوں سے بھی وصول کرتے تھے اور یہ چندہ وہ اپنے لئے نہ لیتے تھے اور نہ اللہ کے پیارے اپنی ذات کے لیے مانگا کرتے ہیں.اُن کا انتظام خدا تعالیٰ خود کرتا ہے.تو نہ آنحضرت می نے اپنے لئے مانگا نہ آپ سے پہلے انبیاء نے اپنے لئے مالگا.نہ اس زمانہ میں جس کو خدا تعالی نے مسیح موعود کر کے بھیجا اُس نے اپنے لئے کچھ طلب کیا اور نہ وہ جو آپ کے بعد کھڑے ہوئے انہوں نے ایسا کیا بلکہ سب دین کے لئے ہی مانگتے رہے اور میں بھی اس غرض کے لئے کہتا ہوں کہ جن عورتوں کو خدا تعالیٰ تو فیق دے وہ اُس کے راستہ میں اپنے مالوں سے دیں.پچھلے دنوں میں نے مستورات کو چندہ دینے کی تحریک کی تو مجھے بتایا گیا کہ مرد عورتوں کو روپیہ نہیں دیتے بلکہ جس چیز کی ضرورت ہو وہ لا دیتے ہیں اس لئے وہ چندہ کہاں سے دیں لیکن یہ بات شریعت کے خلاف ہے.آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام کا یہ طریق تھا کہ عورتوں کو اپنے مال میں حصہ دیا کرتے تھے.اب بھی اسی طرح کرنا چاہیے.اور خواہ کتنی ہی تھوڑی آمدنی ہو اس سے عورتوں کو اُن کا حصہ دینا چاہئے.پھر اس میں سے عورتیں خدا کی راہ میں دیا کریں اور اس بات کا ہرگز خیال نہ ہو کہ اس قلیل رقم سے کیا بنے گا.خواہ ایک دمڑی دینے کی توفیق ہو تو وہی دیدی جائے.اللہ تعالی اخلاص کو دیکھتا ہے نہ مال کو.اگر کسی کے پاس صرف ایک روٹی ہو اور وہ اس کا ایک چوتھا حصہ خدا تعالی کی راہ میں دید ہے تو خدا تعالیٰ کے حضور وہ ثواب کا ویسا ہی مستحق ہے جیسا کہ سوروپیہ والا پچیس روپے دے کر.اس لئے تھوڑے مال کا خیال نہ کرنا چاہئیے.ہاں نیت اور اخلاص کا خیال رکھنا چاہیئے کہ خدا تعالی انہی کو دیکھتا ہے اور انہی کے مطابق اجر دیتا ہے.عورتوں میں تبلیغ کریں پھر عورتوں کو چاہئے کہ تبلیغ کریں.مرد عورتوں میں تبلیغ نہیں کر سکتے اس لئے یہ کام عورتوں کا ہی ہے.انہیں چاہئے کہ غیر احمدی، ہندو، عیسائی وغیرہ عورتوں کو اسلام کی تعلیم بنائیں اور ایسی دلیلیں یا درکھیں جو انہیں تبلیغ کرتے وقت کام آئیں.خواہ عورت ان پڑھ ہو تو بھی موٹی باتیں اپنے خاوند باپ، بھائی سے سیکھ لے.میں نے دیکھا ہے کہ بعض ان پڑھ احمدی دین سے ایسی واقفیت پیدا کر لیتے ہیں

Page 35

28 کہ غیر احمدی پڑھے ہوئے ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے.ایک احمدی زمیندار جو بالکل ان پڑھ ہے اور یوں بھی سیدھا سادہ معلوم ہوتا ہے.اُس نے سنایا کہ میرے رشتہ دار مجھے ایک شیعہ مولوی کے پاس لے گئے کہ وہ مجھے سمجھائے.اُس نے مجھ سے پوچھا.بتاؤ آنحضرت والے مسلمانوں کے کیا لگتے ہیں؟ میں نے کہا باپ.پھر اُس نے پوچھا آنحضرت ﷺ کی بیٹی مسلمانوں کی کیا لگتی ہے؟ میں نے کہا ہن.وہ کہنے لگا.اچھا مرزا صاحب نے جو سیدانی سے نکاح کیا ہے وہ کس طرح جائز ہوسکتا ہے؟ میں نے کہا حضرت علیؓ نے تو رسول کریمہ کی خاص بیٹی سے نکاح کیا تھا اسے آپ کیا سمجھتے ہیں؟ حضرت مرزا صاحب نے تو نہ معلوم کتنی پشتوں کے بعد جا کر نکاح کیا تھا.مولوی نے کہا حضرت علی تو بزرگ انسان اور خدا کے پیارے تھے.میں نے کہا حضرت مرزا صاحب کو ہم اُن سے بھی بڑھ کر مانتے ہیں.اس پر وہ لا جواب ہو گیا اور کہنے لگا جا تیری عقل ماری گئی ہے.اسی قسم کی اور کئی ایک مثالیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر انسان سچائی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑلے تو پھر کوئی اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.سچائی ایک تلوار ہے جس کے ہاتھ میں ہوگی وہ دشمن کا سر اُڑا دے گا اور اگر بچہ بھی مارے گا تو زخمی ضرور کر دے گا اسی طرح گو پڑھا ہوا انسان دشمن کے مقابلہ میں بڑا کام کر سکتا ہے مگر ان پڑھ بھی اگر دین سے واقفیت حاصل کر لے تو غالب ہی رہے گا.اس لئے ان پڑھ عورتوں کو بھی موٹی موٹی دلیلیں سیکھ لینی چاہیئے اور جہاں عورتیں مل جائیں اُن کو تبلیغ کرنی چاہیئے.تبلیغ کرنے کے مواقع آجکل ریلوں میں عورتوں کو خوب تبلیغ کا موقع مل سکتا ہے.یہاں آتے ہوئے راستہ میں دوستوں نے مجھے بتایا کہ ایک عیسائی عورت مسلمان عورتوں سے گفتگو کر رہی ہے جو اُسے کوئی جواب نہیں دے سکتیں.میں نے اپنے گھر سے اس کمرہ میں بھیج دیا اور مختصر طور پر بتا دیا کہ اول تو وہ تمہیں مسلمان دیکھ کر خود بخود اعتراض کرے گی.اُس کا اس طرح جواب دیتا.اور اگر وہ اعتراض نہ کرے تو تم خود یہ اعتراض کرنا لیکن اتفاق کی بات ہے عیسائیوں کا سب سے بڑا اعتراض اور اُس کا جواب مجھے بتانا بھول گیا.جب وہ گئیں تو اُس نے وہی اعتراض کر دیا.اس کا جواب میں نے کسی وقت عورتوں کے درس میں بیان کیا ہوا تھا جو انہوں نے دیدیا.اُس نے کہا تمہارے قرآن میں لکھا ہے کہ عورتوں میں روح نہیں ہے اس

Page 36

29 لئے اُن کو اپنے اعمال کا کوئی بدلہ نہیں ملے گا.انہوں نے کہا قرآن میں تو صاف لکھا کہ کسی مومن مرد و عورت سے عمل کو ضائع نہیں کیا جائے گا بلکہ اُس کا بدلہ دیا جائے گا تم نے یہ کہاں سے نکالا کہ عورت میں روح ہی نہیں ؟ عیسائی عورت نے کہا قرآن میں یہ بات موجود ہے تم کو علم نہیں.انہوں نے کہا میں تمہارے سامنے قرآن کریم کی آیت پیش کر رہی ہوں اور تم کہتی ہو تمہیں علم نہیں.اگر کوئی ایسی آیت قرآن کریم میں ہے تو نکال دیجیئے.اُس نے کہا اگر تم لکھنو آؤ تو میں تمہاری تسلی کر سکتی ہوں.انہوں نے کہا اگر تم قادیان آؤ تو میں تمہیں سمجھانے کی کوشش کروں گی.پھر اُس نے کہا تم نوجوان ہو اور میں بوڑھی ہو گئی ہوں اس لئے تمہاری باتوں کا جواب نہیں دے سکتی.اُنہوں نے کہا اس لحاظ سے تو آپ کو ضرور جواب دینے چاہئیے تھے کیونکہ آپ نے بہت سی مردہ ہی باتوں میں گزاری ہے.مگر وہ خاموش ہوگئی اور کوئی جواب نہ دے گی.توریل میں عورتوں کو تبلیغ کا اچھا موقع مل سکتا ہے اور کسی جگہ تو شاید ہی اتنی عورتیں جمع ہو سکیں جتنی گاڑی میں ہوتی ہیں اور مختلف جگہوں کی ہوتی ہیں.اگر اُن میں سے کسی کو ہدایت ہو جائے تو وہ اس کے اثر کو دُور دُور پھیلا سکتی ہے.پھر گھروں میں یا عورتوں کے مجمع میں موقع مل سکتا ہے اس لئے موٹے موٹے مسائل یاد کر لینے چاہئیں.تقویٰ حاصل کرنا اس کے علاوہ تقویٰ اللہ حاصل کرنا ایک نہایت ضروری چیز ہے کیونکہ اسلام صرف باتیں سُنانے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ کہتا ہے کہ انسان کو خدا تعالیٰ کا خوف اور محبت اپنے دل میں پیدا کرنی چاہیئے اس لئے یہ نہایت ضروری ہے اور جب تک یہ نہ ہو کوئی عمل عمل نہیں کہلا سکتا.نماز ، نماز نہیں کہلا سکتی ، روزہ ، روزہ نہیں کہلا سکتا، زکوۃ، زکوۃ نہیں کہلا سکتی ، حج ، حج نہیں کہلا سکتا.کیوں؟ اس لئے کہ نماز اس غرض کے لئے نہیں رکھی گئی کہ انسان کی ورزش ہو، روزہ اس لئے نہیں کہ انسان کو بھوکا پیاسا رکھا جائے ، زکوۃ اس لئے نہیں کہ مالی نقصان ہو اور حج اس لئے نہیں کہ سفر کی صعوبت برداشت کرنی پڑے بلکہ اُن کی غرض اللہ تعالی کا تقوی اور نیکی پیدا کرنا ہے، حسد و کینہ لڑائی اور فساد و بدی اور برائی و غیر دو غیر وبُری باتوں سے بچا کر انسان کو تقی بنانا ہے کیونکہ یہی سب نیکیوں کی جڑ ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود نے بھی لکھا ہے.

Page 37

30 ہراک نیکی کی جڑ یہ انتقا ہے اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے تو یہ بہت ضروری چیز ہے اس کے لئے سوچنا چاہیئے ہمارے کسی کام کا یہ نتیجہ نہ ہو کہ خدا تعالیٰ ناراض ہو جائے یا کسی انسان کو تکلیف پہنچے.آجکل عورتوں میں یہ بات زیادہ پائی جاتی ہے کہ وہ دوسری کو تکلیف پہنچا کر خود کچھ حاصل کر لینا اچھا بجھتی ہیں.مگر تقومی ایسا کرنے سے روکتا ہے.پھر عورتیں ایک دوسری کو طعنے دیتی ہیں ہنسی کرتی رہتی ہیں اور عیب نکالتی ہیں اور آخر کارلڑائی شروع کر دیتی ہیں یہ سب باتیں تقومی کے خلاف ہیں.اس قسم کے عیب تو عورتوں میں بہت سے ہیں اگر اُن کو بیان کرنے لگوں تو بہت دیر لگے گی اور آج میرے حلق میں درد بھی ہے اس لئے میں نے یہ اصل بتا دیا ہے کہ ہر ایک ایسا کام جس سے خدا تعالیٰ ناراض ہو یا اُس کی کسی مخلوق کے لئے دکھ اور تکلیف کا باعث ہو اس سے بچنا چاہیے.اگر یہ بات پیدا ہو جائے تو تقویٰ اللہ حاصل ہو جاتا ہے.خاتمہ یہ چند ایک باتیں جو میں نے نصیحت کے طور پر بیان کر دی ہیں.اگر ان کو یاد رکھو گی اور اُن کے مطابق عمل کرو گی تو فائدہ اُٹھاؤ گی.( افضل ۲۷ اکتوری کل) وعظ عمل کرنے کے لئے سنو یہ تقریر حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ۱۲.اپریل ۱۹۳۰ ء کو بمقام سیالکوٹ مستورات کے سامنے پنجابی زبان میں فرمائی تھی جس کو ایڈیٹر صاحب الفضل نے اردو میں لکھا ان چند دنوں میں مجھے عورتوں کی طرف سے بہت سے رقعے ملے ہیں جن میں و المھتی ہیں کہ ہمیں بھی کچھ سنایا جائے.اگر چہ یہ جوش قابل تعریف ہے لیکن خالی جوش اُس وقت تک کام نہیں دیتا جب تک انسان جو کہے اس پر عمل نہ کرے.دیکھو اگر ایک شخص بھوکا ہو اور بھوک سے اُس کی جان نکل رہی ہو اُس کو کہو کہ کھانا کھالو.کھانا کھا لولیکن کھانا دیا نہ جائے تو اُس سے اُس کا پیٹ نہیں بھر جائے گا.اسی طرح وہ عورتیں جو دین کی باتیں سنتی ہیں اُن پر عمل نہیں کرتیں اُن کو بھی کچھ فائدہ نہیں ہوتا بلکہ ان عورتوں کی نسبت جن کو دین کی باتیں سنے کا موقعہ نہیں ملتا اُن کے لئے زیادہ خوف اور ڈر کا مقام ہے کیونکہ جو نہیں سنتیں وہ معذور بھی جا سکتی ہیں لیکن جو سُنتی ہیں اور پھر اُن پر عمل نہیں کرتیں وہ زیادہ مجرم اور گنہگار ہیں.عام طور پر عورتیں وعظ کو ایک

Page 38

31 تماشا کجھتی ہیں.جس طرح بچے کوئی تم شاد یکھتے ہیں اور پھر تھوڑی مدت کے بعد اسے بھلا دیتے ہیں اسی طرح عورتیں کرتی ہیں.مردوں میں تو ایک جماعت ایسی ہے جو وعظ ونصیحت کی باتیں سنکر ان پر عمل کرتے جاتے ہیں لیکن عورتیں عام طور پر کچھ فائدہ نہیں اٹھا نہیں.یہی وجہ ہے کہ وہ نہ اخلاق میں نہ دین میں نہ تھن میں نہ معاشرت میں ترقی کرتی ہیں اور نہ اُن کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے.اس میں شک نہیں کہ مردوں کی نسبت عورتوں کو کم وعظ ونصیحت کی باتیں سنے کا موقع ملتا ہے تاہم کچھ نہ کچھ تو وہ بھی سنتی ہیں اس لئے اُن کا یہ کہنا کہ مردوں جتنا اُن کو نہیں سنایا جاتا اُس وقت درست ہو سکتا ہے اور یہ کہنے کا انہیں اُس وقت حق پہنچتا ہے جبکہ جس قدر نہیں سنایا جاتا ہے اُس کو یا درکھیں اور اس پر عمل کریں.ایک طالب علم اگر اپنا پہلا سبق یاد کر کے سنا دے تو پھر اُس کو یہ کہنے کا حق ہوتا ہے کہ اور سبق پڑھاؤ لیکن اگر وہ پہلا ہی سبق یاد نہیں کرتا تو اُسے اور پڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا.اسی طرح عورتوں کو جس قدر سنایا جاتا ہے اسکو اگر وہ یا درکھیں اور اُس پر عمل کریں تو اُن کا حق ہے کہ اور سنے کا مطالبہ کریں ورنہ نہیں.پس تم بجائے اس کے کہ یہ کہو کہ ہمیں مردوں کی طرح لیکچر سُنائے جائیں جو کچھ منایا جا چکا ہو اس پر عمل کر کے دکھاؤ.ورنہ اگر تم اُس پر عمل نہ کرو اور اور سننے کا مطالبہ کرو تو جو کچھ تمہیں سنایا جائے گا وہ مجبوری سے سنایا جائے گا اور اس کا کچھ فائدہ نہ ہوگا کیونکہ جو ایک بات کو ہی یاد نہیں رکھتا وہ دوسری کو کس طرح یا درکھے گا.جو ایک روٹی ہضم نہیں کر سکتا وہ دوکس طرح ہضم کر لے گا.پس اگر تم نے ان پہلی باتوں پر عمل نہیں کیا جو تمہیں سنائی جا چکی ہیں تو کیا امید ہو سکتی ہے کہ اور سنانے سے کچھ فائدہ اُٹھایا جائے گا.پس میں پہلے تمہیں یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ کسی وعظ کی مجلس میں تماشا کے طور پر شامل ہوتا اور وہ باتیں جو اُس میں سنائی جائیں اُن کو گھر جا کر بھلا دینا گناہ ہے اور اسکا کچھ فائدہ نہیں ہے.وعظ سنانے کی غرض یہی ہوتی ہے کہ اُس کو یا درکھا جائے اور اُس پر عمل کیا جائے.اچھا وعظ وہ نہیں جس میں سامعین کی تعریف کی جائے عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ عورتوں کو وعظ میں بھی خیال ہوتا ہے کہ اُن کے متعلق اس میں کیا کہا گیا ہے.جلسہ پر جو عورتیں جاتی ہیں وہ یہی کہتی ہیں کہ فلاں مولوی صاحب کا وعظ بہت اچھا تھا اور فلاں کا اچھا نہیں تھا.جب دریافت کیا گیا تو معلوم ہوا کہ جس وعظ میں اُن کی تعریف کی گئی اُس کو تو اچھا کہتی ہیں اور جس میں اُن کے نقص بیان کئے گئے اور اُن کی اصلاح کرنے کیلئے کہا گیا اُس کو نا پسند کرتی ہیں.حافظ روشن علی

Page 39

32 صاحب جو بڑے واعظ ہیں اُن کے متعلق کہا گیا کہ اُن کا وعظ اچھا نہیں تھا.جب دریافت کیا گیا تو معلوم ہوا کہ انہوں نے عورتوں کو نصیحتیں کی تھیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں اُسی وعظ کو پسند کرتی ہیں جس میں اُن کو اچھا کہا جائے اُن کی تعریف کی جائے.اور اگر اُن کو نصیحت کی جائے تو اُس کو پسند نہیں کرتین حالا نکہ کسی کے اچھا کہہ دینے سے وہ اچھی نہیں ہو جائیں جب تک خود اچھی نہ بنیں.اور کسی کے برے کہہ دینے سے تیری نہیں ہو جاتیں.اگر اُن کو اچھا کیا جاتا ہے اور وہ واقع میں اچھی ہیں تو یہ خوشی کی بات ہے اور اگر انکی کوئی برائی بیان کی جاتی ہے اور وہ برائی ان میں پائی جاتی ہے تو انہیں اُس کی اصلاح کرنی چاہیئے اور عبرت پکڑنی چاہیئے.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں جب کوئی شخص مرتا ہے اور عورتیں بین کرتی ہوئی کہتی ہیں اے بھائی تو ایسا بہادر تھا کہ تیرے آگے شیر بھی نہیں ٹھہر سکتا تھا تو فرشتے اُسے گر ز مار کر پوچھتے ہیں کیا تو ایسا ہی تھا؟ وہ کہتا ہے نہیں.فرشتے پوچھتے ہیں پھر کیوں تیرے متعلق کہا جاتا ہے؟ اسی طرح عورتیں جو اور جھوٹی تعریفیں کر کے روتی ہیں اُن کے متعلق پوچھا جاتا ہے اور مرنے والے کو اقرار کرنا پڑتا ہے کہ یہ باتیں مجھ میں نہیں پائی جاتی تھیں تو جھوٹی تعریف سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا اور نہ جھوٹی خدمت سے کوئی نقصان ہوتا ہے.اس لئے دیکھنا چاہیئے کہ جو کچھ بیان کیا جاتا ہے اُس میں میرے عمل کرنے کے لئے کوئی بات ہے.اگر کوئی اچھی بات ہو تو اُس پر عمل کرنا چاہیئے.اور اگر کوئی بری بات اپنے اندر نظر آئے تو اُسے چھوڑ دینا چاہیے.یہ غرض ہوتی ہے وعظ کی.اس نصیحت کے بعد میں مختصر طور پر چند باتیں بیان کرتا ہوں کیونکہ وقت بہت تھوڑا ہے اور دس بجے کے قریب جو گاڑی یہاں سے جاتی ہے اُس پر میں جانیوالا ہوں.اسلام کی غرض پہلے میں یہ بیان کرتا ہوں کہ اسلام کی فرض کیا ہے؟ اسلام کے معنے ہیں فرمانبرداری اور ایمان کے معنے ہیں مان لینا“.جتنے مسلمان کہلا نیوالے مرد اور عورتیں ہیں اُن سے اگر پوچھا جائے کہ تم کون ہو تو وہ کہتی ہیں.اللہ کے فضل سے ہم مسلمان ہیں، ایمان دار ہیں لیکن انہیں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ مسلمان اور ایمان دار کے کیا معنے ہیں.وہ یہی بجھتی ہیں کہ ہمارے ماں باپ مسلمان کہلاتے ہیں اس لئے ہم بھی مسلمان ہیں.مسلمان ہونے کا ثبوت خدا تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے سے ہے حالانکہ کوئی مرد اور عورت اُس وقت تک مومن اور مسلمان نہیں ہو سکتی جتک خدا تعالی کے احکام کی

Page 40

33 فرمانبرداری نہ کرے اور جو خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری نہیں کرتی اور خدا تعالیٰ کے احکام کو نہیں مانتی وہ عقل مند کہلانے کی مستحق نہیں بلکہ وہ پاگل اور سودائی ہے.دیکھو جب ایک بادشاہ لکھتا ہے کہ میں بادشاہ ہوں تو لوگ اُس کی بات کو تسلیم کر لیتے ہیں لیکن اگر کوئی بادشاہ نہ ہو اور کہے کہ میں بادشاہ ہوں تو اُسے پاگل کہا جا سکتا ہے.اس کی وجہ کیا ہے؟ یہی کہ جو بادشاہ ہوتا ہے اُس کے پاس کئی فوجیں اور بادشاہت کا ساز وسامان ہوتا ہے مگر گلیوں میں دھکے کھانیوالا نگا انسان چونکہ بادشاہت کی علامت نہیں رکھتا اس لئے اُسے پاگل کہا جاتا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ متمند جو بات کہتا ہے اُس کا اُس کے پاس ثبوت ہوتا ہے.لیکن سودائی جو کہتا ہے اُس کا اُسکے پاس کوئی ثبوت نہیں ہوتا پس جو شخص یہ کہتا ہے کہ یا جو عورت یہ کہتی ہے کہ میں مومن مسلمان ہوں لیکن وہ خدا تعالی کے احکام کو نہیں مانتی خدا تعالی کی فرنمبر اوری نہیں کرتی اس میں اور پاگل میں کیا فرق ہے؟ کچھ نہیں.ایسا مرد ایسی عورت تو ایک پاگل کے بادشاہ ہونے سے بھی بڑا دعوی کرتی ہے جس کا اُس کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہوتا اس لئے وہ پاگل سے بھی گئی گزری ہے.پس دوسری نصیحت میں تم کو یہ کرنا چاہتا ہوں کہ خدا تعالی کے احکام پر عمل کرو، اس کی اطاعت کرو، اُس کے حکموں کو مان لو اگر تم ایسا کرو گی تب مومن اور مسلمان کہلا سکو گی ورنہ تمہارا یہ دھوئی ایک پاگل اور سودائی کے دعوئی سے بڑھ کر کوئی حقیقت نہیں رکھے گا.خدا تعالی کا بندہ : وہی ہے جو خدا تعالیٰ کے احکام پر چلے اب میں ہی اسلام کا خلاصہ بتا تا ہوں.اسلام کا خلاصہ دو باتیں ہیں ایک یہ کہ بندے کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنْسَ ِالَّا لِيَعْبُدُونِ کہ میں نے جن اور انسان کو نہیں پیدا کیا مگر اس لئے کہ میرے بندے بن جائیں.یعنی اپنے بچے غلام بنانے کے لئے خدا تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے.اب اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ہم خدا کے بندے ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ بہت تھوڑے لوگ ہوتے ہیں جن میں بندگی کی علامتیں پائی جاتی ہیں.اگر صرف خدا تعالی کے پیدا کر دینے سے ہی انسان اُس کے بندے بن جاتے تو پھر خدا تعالیٰ کو یہ کہنے کی ضرورت ہی کیا تھی کہ میں نے اُن کو بندہ بنانے کے لئے پیدا کیا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ بندہ بننے کے کچھ اور معنے ہیں اور وہ یہی ہیں کہ ایک غلام اپنے آقا کے سامنے کیا کیا کرتا ہے یہی کہ ہاتھ باندھ کر اُس کے احکام ماننے کے لئے کھڑا رہتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کا بند ؛ بننے کے یہ معنے ہیں کہ انسان خدا تعالیٰ کا فرمانبراد ہے.ہر وقت اُس کے احکام مانتار ہے اور خدا تعالیٰ سے

Page 41

34 == اپنا تعلق اور رشتہ بڑھائے.خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں سب تعلقات پیچ سمجھو سب سے اعلی تعلق انسان سے خدا تعالی کا ہے.ماں باپ کا بہت بڑا تعلق ہوتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کے تعلق کے مقابلہ میں وہ بھی بیچ ہے.ایک ماں کا بچہ سے یہی تعلق ہوتا ہے کہ وہ اُسے نو ماہ تک اپنے پیٹ میں رکھتی ہے اور جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی خبر گیری کرتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا تعلق اس سے بہت زیادہ ہے.خدا تعالی نے انسان کو پیدا کیا ہے ماں نے پیدا نہیں کیا.پھر ماں جن چیزوں کے ذریعے بچہ کی پرورش کرتی ہے وہ خدا تعالیٰ ہی کی پیدا کی ہوتی ہیں ماں کی پیدا کردہ نہیں ہوتیں.کہتے ہیں ماں نے بچہ کو دودھ پلایا ہوتا ہے اس لئے اُس کا بڑا حق ہوتا ہے.مگر میں پوچھتا ہوں ماں کہاں سے دودھ پلاتی ہے کیا وہ خدا تعالی کا پیدا کردہ نہیں ہوتا ؟ پس اگر ماں نے بچہ کو دودھ پلایا ہے تو خدا تعالیٰ نے دودھ بنایا ہے.پھر ماں بچہ کو کھانا کھلاتی ہے مگر ماں کا تو اتنا ہی کام تھا کہ کھانا پکا کر کھلا دیتی.جب اُس کا بچہ پر اتنا بڑا احسان ہے تو خدا تعالیٰ جس نے کھانا بنایا اس کا کس قدر احسان ہوگا ؟ پھر بچہ جوان ہو کر ماں باپ کی خدمت کرتا ہے اور اُن کو کھلاتا پلاتا ہے لیکن خدا تعالی کو اس قسم کی کوئی احتیاج نہیں ہوتی.پھر ماں باپ کا تعلق مرنے سے ختم ہو جاتا ہے مگر خدا تعالیٰ کا تعلق مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے.پس ماں باپ کا تو بچہ سے ایسا تعلق ہوتا ہے جسے راہ چلتے مسافر کا تعلق اس درخت سے ہوتا ہے جس کے نیچے وہ تھوڑی دیر آرام کرتا ہے لیکن خدا تعالی کا تعلق ایسا ہوتا ہے کہ جو کبھی ختم ہی نہیں ہوتا.تو خدا تعالیٰ کا انسان سے بہت بڑا اور عظیم الشان تعلق ہے مگر افسوس کہ لوگ دنیا کے رشتہ دوروں کا تو خیال رکھتے ہیں لیکن خدا تعالی کی کوئی پروا نہیں کرتے.عام طور پر عورتیں جھوٹ بول لیتی ہیں کہ اُن کے مرد خوش ہو جائیں اور یہ خیال نہیں کرتیں کہ اللہ تعالی کا اُن سے جو تعلق ہے اُس کو اس طرح کسی قدر نقصان پہنچ جائے گا.اسی طرح دنیا کی محبت میں اسقدر منہمک ہو جاتی ہے کہ جب بچہ پیدا ہو جائے تو بچہ کی صحبت کی وجہ سے نماز میں سست ہو جاتی ہیں اور اکثر تو نماز چھوڑ ہی دیتی ہیں.روزہ کی کوئی پروا نہیں کرتیں حالانکہ انہیں خیال کرنا چاہیئے کہ بچہ کی حفاظت اور پرورش تو ہم کرتی ہیں لیکن خدا وہ ہے جو ہماری حفاظت اور پرورش کر رہا ہے.برادری کی رسوم کو شریعت پر ترجیح نہ دو.پھر کئی قسم کی رسمیں اور بدعتیں ہیں جن کے کرنے

Page 42

35 کے لئے عورتیں مردوں کو مجبور کرتی ہیں اور کہتی ہیں اگر اس طرح نہ کیا گیا تو باپ دادا کی ناک کٹ جائے گی گویا وہ باپ دادا کی رسموں کو چھوڑنا تو پسند نہیں کرتیں.کہتی ہیں اگر ہم نے رسمیں نہ کیں تو محلہ والے نام رکھیں گے لیکن خدا تعالیٰ ان کا نام رکھے تو اس کی انہیں پروانہیں ہوتی.محلہ والوں کی انہیں بڑی فکر ہوتی ہے لیکن خدا تعالیٰ انہیں کافر اور فاسق قرار دے دے تو اس کا کچھ خیال نہیں ہوتا.کہتی ہیں یہ ور تارا ہے اسے ہم چھوڑ نہیں سکتیں حالانکہ قائم خدا تعالیٰ ہی کا در تارا ر ہے گا باقی سب کچھ یہیں رہ جائے گا اور انسان اگلے جہاں چلا جائے گا جہاں کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے قیامت کا دن ایسا سخت اور خطرناک ہوگا کہ ہر ایک رشتہ دار رشتہ داروں کو چھوڑ کر الگ الگ اپنی فکر میں گرفتار ہوگا.پس عورتوں کو چاہیئے کہ اس دن کی فکر کریں.سب سے ضروری بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرو اور اس تعلق کو مضبوط کرو جو قیامت میں تمہارے کام آئے گا.دنیا کے تعلق اور دنیا کی باتیں کچھ حقیقت نہیں رکھتیں.ہمارے پیشوا خاتم الانبیا کا اُسوہ حسنہ دیکھو جب محمد رسول اللہ علیہ آئے اور آکر کہا کہ خدا تعالیٰ ایک ہے اور کوئی اُس کا شریک نہیں ہے اُس وقت اُن کے سارے رشتہ دار بتوں کے آگے سجدے کرتے اور اُن کو خدا تعالیٰ کا شریک سمجھتے تھے.اکثر عورتوں کو معدوم ہوگا کہ مجاوروں کا گزارہ لوگوں کی منتوں پر ہی ہوتا ہے.احمدیت سے پہلے تم میں کئی عورتیں خانقاہوں پر جاتی ہوں گی یا جن کو احمدیت کی تعلیم سے ناواقفیت ہے اور جو اپنے مذہب میں کمزور ہیں ممکن ہے وہ اب بھی جاتی ہوں انہوں نے دیکھا ہوگا کہ مجاوروں کی آمدنی انہی لوگوں کے زریعے ہوتی ہے جو وہاں جاتے ہیں.تو مکہ والے بنوں کے مجاور تھے اُنہوں نے کعبہ میں بت رکھے ہوئے تھے جن پر لوگ دور دور سے آکر نذریں چڑھاتے تھے جنہیں وہ آپس میں بانٹ لیتے تھے.یا لوگ بتوں کی پرستش کے لئے وہاں جمع ہوتے اور وہ تجارت کے ذریعہ اُن سے فائدہ اُٹھاتے تھے اس لئے بتوں کو چھوڑ دینے سے وہ سمجھتے تھے کہ ہم بھو کے مر جائیں گے.رسول کریم ہے کے سارے رشتہ دار ایسے ہی تھے جن کا گزارہ بچوں پر تھا مگر رسول کریم ہے جب کھڑے ہوئے تو آپ نے کسی رشتہ دار کی پروا نہ کی اور بڑے زور کے ساتھ کہہ دیا کہ صرف خدا ہی ایک معبود ہے باقی سب معبود جھوٹے ہیں.یہ بات آپ کے رشتہ داروں کو بہت بُری لگی اور انہوں نے تکلیفیں دینا شروع کر دیں.ایک دن رسول کریم نے ایک پہاڑ پر چڑھ گئے اور لوگوں کو بلا یا جب لوگ آگئے تو کہا تم جانتے ہو میں جھوٹ بولنے والا

Page 43

36 صلى الله الله نہیں.انہوں نے کہا ہاں ہم جانتے ہیں.آپ نے فرمایا اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بڑالشکر موجود ہے جو کہ کوتباہ کرنا چاہتا ہے تو تم مان لو گے؟ انہوں نے کہا ہاں ہم مان لیں گے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا تو میں تمہیں کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کا عذاب تم پر آنے والا ہے تم اس سے بچ جاو اور شرک کر کے خدا تعالیٰ کے عذاب کے مستوجب نہ بنو.یہ بات سنکر وہ گالیاں دیتے چلے گئے اور کہنے لگے یہ تو سودائی ہو گیا ہے.رسول کریم ﷺ نے اس کی کوئی پروانہیں کی اور پہلے کی طرح اُن کو شرک سے روکتے رہے.اس پر لوگ جمع ہو کر رسول کریم ﷺ کے چچا کے پاس گئے اور جا کر کہا اپنے بھتیجے کو سمجھاؤ یہ ہمارے بتوں کی مذمت کرتا ہے باز آ جائے.رسول کریم لے کے چانے لوگوں سے کہہ دیا کہ جو بات وہ بچے دل اور پورے یقین کے ساتھ کہتا ہے وہ کس طرح چھوڑ سکتا ہے.آخر بڑے بڑے لوگ جمع ہوئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ کچھ لوگ رسول اللہ اللہ کے پاس جائیں اور جا کر کہیں کہ جو تم کہو گے مان لیں گے لیکن تم بہوں کے خلاف کہنا چھوڑ دو.چنانچہ لوگ گئے اور جا کر کہا کہ ہم قوم کی طرف سے آئے ہیں اور تم بہت اچھے آدمی ہو ہم نہیں سمجھتے تم قوم کو تباہ ہونے دو گے ہم تمہارے پاس ایک پیغام لائے ہیں اس کو قبول کرو تا کہ تفرقہ نہ پڑے اور ہماری قوم تباہ نہ ہو.رسول کریم ﷺ نے فرمایا سناؤ کیا پیغام لائے ہو.انہوں نے کہا ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر تمہیں مال کی ضرورت ہو تو ہم تمہیں مال جمع کر کے دیدیں اور اگر تم کسی اعلے گھرانے میں رشتہ کرنا چاہتے ہو تو امیر سے امیر گھرانے کی اچھی سے اچھی عورت سے رشتہ کرا دیتے ہیں اور اگر یہ چاہتے ہو کہ لوگ تمہاری باتیں مانیں تو ہم لکھ دیتے ہیں کہ جس طرح سے تم کہو گے اُسی طرح ہم کریں گے، اگر تم بادشاہ بننا چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا بادشاہ تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں مگر تم یہ نہ کہو کہ ایک ہی خدا ہے اور کوئی معبود نہیں ہے.اس کا جواب رسول کریم نے نے کیا دیا ؟ یہ کہ اگر تم سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں لا کر بھی رکھ دو تو پھر بھی میں تمہاری یہ بات نہ مانوں گا.رسموں کو چھوڑ دو مگر عورتیں کہتی ہیں اگر ہم نے فلاں رسم نہ کی محلہ والے کیا کہیں گے.اب تو رسمیں کم ہوتی ہیں تا ہم ہندوؤں کی رسمیں جو مسلمانوں میں آگئی ہیں اُنکے متعلق سوچنا چاہیئے کہ اُن کا کیا فائدہ ہے.عقلمند انسان وہی کام کرتا ہے جس میں کوئی فائدہ ہو مگر آجکل بیاہ شادیوں میں جو رسمیں کی جاتی ہیں انکا کیا فائدہ ہوتا ہے کچھ بھی نہیں.صرف اس لئے کی جاتی ہیں کہ ہمارے باپ دادا کی رسمیں ہیں.مگر جن لوگوں میں الله

Page 44

37 ایمان داخل ہو جاتا ہے اور دین پر عمل کرتے ہیں وہ ہرگز اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ اُن کے باپ دادا کیا کیا کرتے تھے محمد ﷺ سے بڑھ کر کسی کے باپ دادا کی کیا حیثیت ہوسکتی ہے.آپ نے کفر سے نکال کر ایمان جیسی نعمت عطا کی اس لئے آپ سے بڑھ کر کسی کی کیا وقعت ہو سکتی لیکن افسوس کہ لوگ آپ کو چھوڑ کر باپ دادا کی فضول رسموں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور چونکہ یہ باتیں زیادہ تر عورتوں میں پائی جاتی ہیں اس لئے اُن کی حالت بہت ہی قابل افسوس ہے.ایک صحابی عورت کا نمونہ میں مثال کے طور پر بتاتا ہوں کہ وہ عورتیں جو بچے دل سے رسول کریم صلى الله پر ایمان رکھتی تھیں ان کی کیا حالت تھی.رسول کریم ہی ہے جب دشمنوں کے تکلیفیں پہنچانے پر مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آگئے تو مکہ والوں نے وہاں بھی آپ کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہاں بھی لڑائی کرنے کے لیے آگئے.مدینہ سے چار میل کے فاصلہ پر ایک جگہ تھی جہاں لڑائی شروع ہوئی.اگر چہ کافر بہت تھے اور اُن کے مقابلہ میں مسلمان بہت تھوڑے تھے لیکن مسلمانوں کو فتح ہوئی.جب فتح ہوگئی تو چند لوگ جن کو رسول کریم نے ایک جگہ کھڑے رہنے کا حکم دیا تھا اور فرمایا تھا خواہ کچھ ہو تم اس جگہ سے نہ ہلنا انہوں نے کہا ہمیں لڑائی کے لئے یہاں کھڑا کیا گیا تھا جب ہماری فتح ہو گئی ہے تو پھر ہمیں یہاں کھڑے رہنے کی ضرورت نہیں.اُن کے سردار نے کہا خواہ کچھ ہو چونکہ ہمیں کھڑے رہنے کا حکم ہے اس لئے یہاں سے نہیں جانا چاہئیے لیکن دوسروں نے کہا ہمارا کھڑا ہو نالڑائی کے لئے تھا اب جبکہ دشمن بھاگ گیا ہے تو پھر کھڑے رہنے کی کیا ضرورت ہے.یہ کہہ کر جب وہ وہاں سے ہٹ گئے تو کافروں نے جو بھاگ رہے تھے دوبارہ یک لخت حملہ کر دیا اور ایسے زور سے حملہ کیا کہ مسلمانوں میں جو دشمن کی طرف سے مطمئن ہو چکے تھے ابتری پھیل گئی.اس وقت رسول کریم ﷺہ زخمی ہو گئے اور آپ کے دو دانت شہید ہو گئے اور مشہور ہو گیا کہ رسول کریم ہے شہید ہو گئے ہیں.یہ سنکر مسلمانوں کو بہت صدمہ ہو حتیٰ کہ فرائم کی وجہ سے حضرت عمر جیسے بہادر انسان سر نیچے کر کے بیٹھ گئے.ایک صحابی اُن کے پاس سے گزرے اور پو چھا کیا ہوا.انہوں نے کہا رسول کریم ہی تھے شہید ہو گئے ہیں یہ سنکر اُس صحابی نے کہا اگر رسول کریم ہے شہید ہو گئے ہیں تو یہاں بیٹھنے کا کیا فائدہ؟ چلو جہاں رسول کریم لے گئے ہیں وہیں ہم بھی جائیں.یہ کہ کر وہ دشمن پر حملہ آور ہوا اور اس قدر سختی سے لڑا کہ جب اُس کی لاش دیکھی گئی تو معلوم ہوا کہ اُس پر سفر زخم لگے ہوئے ہیں لیکن رسول کریم نے محفوظ تھے اور

Page 45

38 کیوں محفوظ نہ ہوتے جبکہ خدا تعالیٰ کا آپ سے وعدہ تھا کہ کوئی تمہیں مار نہیں سکتا.آخر رسول کریم ﷺ اٹھے اور مدینہ کی طرف روانہ ہوئے.جو صحابی آپ کے ساتھ تھے انہیں تو آپ کے زندہ ہونے کا علم ہو گیا لیکن مدینہ میں پہلی خبر پہنچ چکی تھی اس لئے مدینہ کے بچے اور عورتیں دیوانہ وار باہر نکلے.اُس وقت جبکہ لشکر واپس آ رہا تھا ایک صحابی آگے آگے تھا.اُس سے ایک عورت نے بے تحاشا آکر پوچھا رسول اللہ کا کیا حال ہے؟ اُس کے دل میں چونکہ رسول کریم ﷺ کے متعلق اطمینان اور تسلی تھی اسلئے اس نے اس بات کو معمولی سمجھ کر کہا تمہارا باپ مارا گیا ہے.عورت نے کہا میں نے تم سے پوچھا ہے کہ رسول اللہ کا کیا حال ہے؟ اُس نے کہا تمہارا بھائی مارا گیا ہے.عورت نے کہا میں پوچھتی ہوں کہ رسول اللہ کا کیا حال ہے؟ اُس نے کہا تیرا خاوند بھی مارا گیا ہے.عورت نے کہا میری بات کا تم جواب کیوں نہیں دیتے میں پوچھتی ہوں کہ رسول اللہ کا کیا حال ہے؟ اُس نے کہا رسول اللہ زندہ ہیں.یہ سنکر عورت نے کہا شکر ہے خدا کا اگر رسول اللہ زندہ ہیں تو ہمیں اور کسی کی پروا نہیں.ایماندار ہو تو رسول کریم کو مقدم رکھو اس بات کو سامنے رکھ کر تم اپنی حالت کو دیکھو.اگر پیدا ہوتے ہی بچہ مر جائے تو اس پر بین شروع کر دیئے جاتے ہیں حالانکہ وہ جانتی ہیں کہ جہاں بچہ گیا ہے وہیں اُن کو بھی جانا ہے.اگر کچھ فرق ہے تو یہ کہ وہ پہلے چلا گیا ہے اور یہ کچھ عرصہ بعد جائیں گی.تاہم عجیب عجیب بین کرتی ، روتی ، چلاتی اور شور مچاتی ہیں.یہ تو آج کل کی مسلمان کہلانے والی عورتوں کی حالت ہے اور ایک وہ مسلمان عورت تھی جس کا باپ، بھائی اور خاوند مارا جاتا ہے مگر وہ کہتی ہے رسول اللہ زندہ ہیں تو مجھے کچھ غم نہیں.یہ وہ ایمان ہے جو مسلمان ہونے کی علامت ہے پس اگر تم ایماندار ہو اور تمہیں مسلمان ہونے کا دعویٰ ہے تو خدا تعالیٰ کے احکام کے مقابلہ میں کسی بات کی پروا نہ کرو اور اُس کے حکموں پر عمل کر کے دکھاؤ.اس بات کی ہرگتر پروانہ کرو کہ لوگ تمہیں کیا کہیں گے بلکہ اس بات کی پروا کرو کہ خدا تمہیں کیا کہتا ہے.قبر پرستی سے بچو عورتوں میں بہت سی باتیں ایسی پائی جاتی ہیں جو شرک ہیں.قبروں پر چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں ، چراغ جلائے جاتے ہیں ہنتیں مانی جاتی ہیں ، یہ سب شرک ہے خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں کسی کو کھڑا کرنا شرک ہے جو بہت ہی بڑا گناہ ہے اور اس سے خدا تعالی کا غضب بھڑک اُٹھتا ہے.دیکھو اگر کوئی اپنے باپ کے سامنے ایک چوہڑے کو اپنا باپ کہے تو اُسکے باپ کو کس قدر غصہ آئے گا اور وہ کس قدر

Page 46

39 ناراض ہو گا اسی طرح ایک ادنی مخلوق کو جو خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں کیڑے کی حیثیت بھی نہیں رکھتی اپنا حاجت روا سمجھنا خدا تعالیٰ کی بہت بڑی ناراضگی کا موجب ہے.ایک قبر میں دفن شدہ مردہ جس کی ہڈیاں بھی گل گئی ہوں اور جس کے جسم کو کیڑے کھا گئے ہوں اُس کو جا کر کہنا کہ تو میری مراد پوری کر کتنی بڑی پا گلا نہ بات ہے.خدا تعالیٰ جب زندہ ہے اور مانگنے والوں کو دیتا ہے تو جو کچھ مانگنا ہو اس سے مانگنا چاہئے.جومٹی میں دفن ہو چکا ہو اُس کے متعلق کیا معلوم ہے کہ نیک تھا یا کیسا تھا.اگر وہ نیک تھا تو اُن پر لعنتیں بھیجتا ہو گا جو اُس سے مرادیں مانگتی ہیں اور اگر یہ ہوگا تو خود جہنم میں پڑا ہوگا دوسروں کو کیا دے سکے گا.ٹونے ٹوٹکے ترک کر دو اسی طرح عورتیں ٹو نے تو نکے کرتی ہیں.اگر کوئی پیار ہوتا ہے تو کچا نا گا باندھتی ہیں کہ صحت ہو جائے حالانکہ جس کو ایک بچہ بھی تو ڑ کر پھینک سکتا ہے وہ کیا کر سکتا ہے.اسی طرح عورتوں میں اور کئی قسم کی بدعتیں اور بُرے خیالات پائے جاتے ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور جن سے سوائے اس کے کہ اُن کی جہالت اور نادانی ثابت ہو اور کچھ نہیں ہوتا.پس خوب اچھی طرح یا درکھو کہ ٹونے ، ٹو کے تعویذ گنڈے ، منتر ، جنتر سب غریب اور دھو کے ہیں جو پیسے کمانے کے لئے کسی نے بنائے ہوئے ہیں.یہ سب لغو اور جھوٹی باتیں ہیں ان کو ترک کرو.ایسا کرنے والوں سے خدا تعالے سخت ناراض ہوتا ہے.کیا تم نہیں دیکھتیں کہ مسلمان دن بدن تباہ و برباد ہوتے جارہے ہیں.تم عام طور پر اپنے گھروں میں، اپنے رشتہ داروں میں دیکھو اور مسلمانوں کی حالت پر غور کرو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ مسلمان ہندوؤں کے مقروض ہوتے ہیں.اس کی وجہ کیا ہے ہی کہ خدا تعالی کی لعنت اُن پر پڑی ہوئی ہے.چونکہ انہوں نے خدا تعالی کو چھوڑ دیا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے بھی اُن کو چھوڑ دیا ہے.تم ان بیہودہ رسموں اور لغو چیزوں کو قطعا چھوڑ دو.اور اپنے گھروں سے نکال دو مسلمان اور مومن کے لئے صرف یہی جائز ہے کہ ایک خدا کی پرستش کرے اور اُس کے آگے سجدہ کرے.جب محمد ہے کے آگے بھی سجدہ کرنے کی خدا تعالیٰ نے اجازت نہیں دی تو اور کون ہے جس کو سجدہ کیا جاسکے.پھر اس زمانہ کے مصلح حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہوئے ہیں ان کے آگے سجدہ کرنے کی اجازت نہیں ، نہ ان کی قبر پرمنتیں ماننے اور نذریں چڑھانے کی اجازت ہے.پس تم اس قسم کی ہاتوں کو اپنے گھروں سے نکال دو اور اگر نکال دیا ہے تو دوسری عورتوں کو سمجھاؤ کہ وہ بھی اسی طرح کریں.قرآن کریم کا ترجمہ پڑھو اس پر عمل کرو پھر یہ یادر کھوکہ قرآن کریم خدا تعالی کی کتاب اور

Page 47

40 اُس کے منہ کی باتیں ہیں اس کا ادب اور احترام کرو.قرآن کریم کے بغیر کوئی دین نہیں اور اس دین کے بغیر کہیں ایمان نہیں اور ایمان کے بغیر نجات نہیں وہ شخص ہر گز نجات نہیں پا سکتا جو قرآن کریم پر عمل نہ کرے.عام طور پر عورتیں خود پڑھی ہوئی نہیں ہیں مگر خود پڑھا ہوا ہونا ہی ضروری نہیں.دیکھو اگر کسی رشتہ دار کا خطہ آئے تو پڑھے ہوئے سے پڑھوا کر سنا جاتا ہے اسی طرح قرآن بھی خط ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے نام آیا ہے اس کو اپنے رشتہ داروں سے پڑھوا کر سنو اور خاص کر اپنے خاوندوں سے تھوڑا تھوڑا کر کے سنو اور اُسے یاد کرو.وعظ میں قرآن کی آیتیں نہیں سنائی جائیں.اس وقت میں جو کچھ بیان کر رہا ہوں وہ اگر چہ قرآن ہی کی باتیں ہیں لیکن الفاظ میرے ہیں اور خدا تعالیٰ کے لفظوں میں جو بات ہے وہ کسی انسان کے الفاظ میں نہیں پائی جاتی.میں یہ نہیں کہتا کہ یہ وعقوں میں جو کچھ سنا یا جاتا ہے وہ خدا تعالے کے کلام کے خلاف ہوتا ہے مگر پھر بھی وہ انسان کے الفاظ ہوتے ہیں.تمہیں چاہئے کہ خدا کے کلام کو خدا کے الفاظ میں سنو عربی پڑھو اور اُس کے معنے سیکھو، خواہ کوئی عمر ہو پڑھنے سے جی نہ چھاؤ.قادیان میں ایک قاعدہ تیار کیا گیا ہے اس سے قرآن پڑھنے میں بہت مددمل سکتی ہے.اُس کے ذریعہ قرآن کریم پڑھو خود پڑھنے اور دوسرے سے سننے میں بڑا فرق ہے سننے میں صرف کان ہی مشغول ہوتے ہیں.خود پڑھنے سے آنکھیں بھی مشغول رہتی ہیں اور اس طرح زیادہ ثواب ہوتا ہے.تو خدا تعالی کے کلا م کو خود پڑھنے کی کوشش کرو اور جب تک خود پڑھنے کی قابلیت پیدا نہ ہو اس وقت تک اپنے خاوندوں اور بچوں سے سنو یا اپنے ہمسائیوں سے پڑھو.دیکھو اگر کوئی بھوکا یا نگا ہو تو دوسروں سے کھانا اور کپڑے مانگ لیتاب در اس میں شرم نہیں کرتا.جب ایسی چیزوں کیلئے شرم نہیں کی جاتی تو خدا تعالی کی باتیں سنے اور پڑھنے میں کیوں شرم کی جائے ؟ خدا کے بعد رسول کریم سے بڑھ کر کسی کو درجہ نہ دو پھر تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے رسولوں پر ایمان رکھو.سب سے بڑے رسول محمد تے ہیں اُن سے بڑا درجہ کسی رسول کو نہ دو.ہمارے ملک میں مسلمانوں نے اپنی جہالت سے حضرت عیسی کو بڑا درجہ دے رکھا ہے.کہتے ہیں کہ حضرت عیسی آج تک زندہ ہیں مگر رسول کریم نے فوت ہو گئے ہیں.پھر کہتے ہیں کہ حضرت عیسی مردے زندہ کیا کرتے تھیمگر رسول کریم ﷺ نے کوئی مردہ زندہ نہیں کیا.پھر اُن کے نزدیک حضرت عیسی تو آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں لیکن رسول کریم نے زمین میں دفن ہیں.حضرت عیسی کے متعلق اس

Page 48

41 قسم کی جتنی باتیں کہتے ہیں وہ غلط ہیں کیونکہ سب سے بڑا رسول محمد سے ہے.اگر آسمان پر کوئی رسول مردوں کو زندہ کرتا تو وہ آپ ہوتے لیکن مسلمان نادانی سے اس قسم کی باتیں حضرت عیسی کی طرف منسوب کر کے اُن کا درجہ رسول کریم ہے کے درجہ سے بڑھاتے ہیں.تم ہر گز اس طرح نہ کرو اور سب سے بڑا درجہ رسول کریم ﷺ کا سمجھو.اُن کے تم پر بہت بڑے احسان ہیں اس لئے اُن پر ایمان لاؤ اور ان کے مقابلہ میں کسی اور کو کسی بات میں فضیلت نہ دو.اُن پر درود بھیجو.درود دعا ہوتی ہے جس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اے خدا رسول کریم یا اللہ نے ہم پر جس قدر احسان کئے ہیں اُن کا بدلہ ہم کچھ نہیں دے سکتے آپ ہی اُن کو بدلہ دیں.بعث بعد الموت پر ایمان رکھو پھر ایک بات میں تم کو یہ بتا تا ہوں کہ تمہیں عقیدہ رکھنا چاہیئے کہ مرنے کے بعد پھر زندہ ہوتا ہے.جو لوگ یہ عقیدہ نہیں رکھتے وہ بڑے بڑے گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں.مثلا یہی کسی کے مرنے پر رونا پیٹنا ہے اس کی وجہ کیا ہوتی ہے یہی کہ اُن کو یقین نہیں ہوتا کہ مرنے کے بعد ہم پھر مل سکیں گے اس لئے ضروری ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر ایمان لاؤ.خدا تعالی نے اس پر ایمان لانا نہایت ضروری قرار دیا ہے.موجودہ زمانہ کا نبی پھر یہ بات یاد رکھو کہ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے مرزا صاحب کو نبی بنا کر دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے لیکن آپ کوئی علیحدہ نبی نہیں ہیں بلکہ رسول کریم اللہ کے غلام ہیں ہم سے اُن کا تعلق نبی کا ہے لیکن رسول کریم ملانے سے وہی تعلق ہے جو ایک غلام کو اپنے آقا سے ہوتا ہے.ان پر ایمان لانا ضروری ہے.ان کے بھی ہم پر بڑے بڑے احسان ہیں.اس زمانہ میں بھی دنیا اسی طرح گمراہ اور دین سے غافل ہو گئی تھی جس طرح رسول کریم لانے کے وقت ہو گئی تھی اور انہوں نے آگر دین سکھایا اور خدا تعالی تک پہنچنے کا سیدھا راستہ دکھایا ہے.یہ تو وہ باتیں ہیں جو عقائد سے تعلق رکھتی ہیں.اب میں اعمال کے متعلق بتاتا ہوں.نماز کی پابندر ہو اول نماز ہے اس کی پابندی نہایت ضروری ہے.عام طور پر عورتوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ چھوٹی عمر میں کہتی ہیں ابھی بچپن ہے جو ان ہو کر نماز پڑہیں گی جب جوان ہوتی ہیں بچوں کے عذر کر دیتی ہیں اور جب بوڑھی ہو جاتی ہیں تو کہتی ہیں اب تو چلا نہیں جاتا نماز کیا پڑھیں.گویا اُن کی عمر ساری یونہی گزر جاتی ہے تو اکثر عورتیں نماز پڑھنے میں بہت ست ہوتی ہیں اور اگر پڑھتی ہیں تو چند دن پڑھ کے پھر چھوڑ

Page 49

42 دیتی ہیں یا اگر پڑھتی ہیں تو اس طرح پڑھتی ہیں کہ انہیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کیا پڑھتی ہیں.جلدی جلدی رکوع اور سجدہ کر کے فارغ ہو بیٹھتی ہیں اس طرح کی نماز کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اُن کی نماز اس طرح ہوتی ہے جس طرح مرغ دانے چگتا ہے.آخر سوچنا چاہیئے نماز کوئی ورزش نہیں ہے بلکہ خدا تعالی کی عبادت ہے اس لئے اسے سمجھ کر اور اچھی طرح بھی لگا کر پڑھنا چاہیئے.اور کوئی نماز سوائے ان ایام کے جن میں نہ پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے نہیں چھوڑنی چاہیئے.کیونکہ نماز ایسی ضروری چیز ہے کہ اگر سال میں ایک دفعہ بھی جان بوجھ کر نہ پڑھی جائے تو انسان مسلمان نہیں رہتا.پس جب تک ہر ایک مسلمان مرد اور عورت پانچوں وقت بلاناغہ نماز میں نہیں پڑھتے وہ مسلمان نہیں ہو سکتے.ہاں اگر کہو آج تک ہم نے کئی نمازیں نہیں پڑھیں ان کے متعلق کیا کیا جائے تو اس کے متعلق یا درکھنا چاہئے کہ خدا تعالی نے تو یہ رکھی ہے.اگر آج سے پہلے تم نے جان بوجھ کر نماز میں چھوڑی ہیں تو تو بہ کر لو اور عہد کر لو کہ آمدید ہ کوئی نماز نہ چھوڑیں گی.مینہ برستا ہو یا آندھی ہو کپڑے پاک ہوں یا نا پاک کوئی ضروری سے ضروری کام ہو یا عدم فرصت کچھ ہو کسی صورت میں نماز نہ چھوڑنی چاہیئے.اول تو ضروری ہے کہ کپڑے پاک صاف ہوں لیکن اگر ایسی صورت ہو کہ پاک کپڑے تیار نہ ہوں یا پہنے ہوئے کپڑے اُتارنے سے بیمار ہو جانے کا خوف ہو تو خواہ کپڑے بچہ کے پیشاب میں تر ہوں تو بھی ان کے ساتھ نماز پڑھ لینا جائز ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ بچہ کو خود پیشاب کرا کے اس طرح نماز پڑھ لینی چاہئے بلکہ یہ ہے کہ اگر پاک کپڑے مہیا ہونے کی صورت نہ ہو تو انہیں کے ساتھ پڑھ لی جائے ورنہ اچھی بات یہی ہے کہ کپڑوں کو صاف کر لینا چاہیئے بچہ کا پیشاب ہوتا ہی کتنا ہے.بچہ جب تک دودھ پیتا ہے روٹی نہیں کھاتا اُس وقت تک شریعت نے رکھا ہے کہ اس کے اوپر سے پانی بہا کر نچوڑ دینے سے کپڑا پاک ہو جاتا ہے.تو خواہ کچھ ہو نماز ضرور پڑھنی چاہیئے.کیونکہ نماز کسی صورت میں معاف نہیں ہو سکتی یہ ایمان کا ستون ہے.جس طرح جہت اخیر ستون کے قائم نہیں رہتی اسی طرح نماز کے بغیر ایمان قائم نہیں رہتا.زکوۃ دیتی رہو نماز کے بعد دوسرا حکم زکوۃ کا ہے جس کا یہ مطلب ہے جس مال پر ایک سال گزر جائے اُس میں سے غریبوں اور مسکینوں کی امداد کے لئے چالیسواں حصہ نکالا جائے.اگر اسلامی حکومت ہو تو اُس کو وہ حصہ دے دیا جائے.اگر نہ ہو تو جو انتظام ہو اُس کو دیا جائے.ہم احمدیوں کا ایک با قاعدہ انتظام ہے

Page 50

43 اس لئے احمدی عورتوں کو چاہئے کہ منتظمین کو زکوۃ کا مال دے دیا کریں.زیوروں کے متعلق یہ حکم ہے کہ اگر پہنے جاتے ہوں ان کی ذکر و نہ دی جائے اور اگر انکی بھی دی جائے تو اچھی بات ہے.ہاں اگر ایسے زیور ہوں جو عام طور پر نہ پہنے جاتے ہوں بھی بیاہ شادی کے موقعہ پر چکن لئے جاتے ہوں اُن کی زکوۃ دینا ضروری ہے اور جو عام طور پر پہنے جاتے ہوں اُن کی زکوۃ دی جائے تو جائز ہے اور نہ دی جائے تو گناہ نہیں.اُن کا کھنا ہی زکوۃ ہے.رے اک میں عورتوں کو زیور بنوانے کی عادت ہے اس لئے قریبا سب عورتوں پر زکوۃ فرض ہوتی ہے.وہ اس کا خیال نہیں رکھتیں حالانکہ یہ اتنا ضروری حکم ہے کہ رسول کریم نہ کی وفات کے بعد جب کچھ لوگوں نے زکوۃ دیتے انکار کیا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا جب زکوۃ کی اُونٹ باندھنے کی رتی تک نہ دیں گے میں اُن سے جنگ کروں گا اور یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ جو ز کوۃ نہ دے وہ مسلمان نہیں.تم اپنی حالت پر غور کرو تم میں سے بہت ہی نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے مسلمان نہیں رہتیں اور جو اس سے بچ جاتی ہیں اُن میں اکثر ز کوۃ نہ دینے کی وجہ سے مسلمان نہیں کہلا سکتیں.روزہ رکھو تیرا حکم روزے کا ہے.اس کے متعلق حکم ہے کہ جب رمضان کا مہینہ آئے تو سوائے اُن دنوں کے جن میں خدا تعالیٰ نے عورتوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا ہے باقی دنوں میں روزے رکھنے چاہئیں.اس کے متعلق مجھے زیادہ زور دینے کی ضرورت نہیں کیونکہ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ نماز یں تو نہیں پڑھتے لیکن روزے بڑی پابندی کے ساتھ رکھتے ہیں.گو خدا تعالیٰ کے لئے نہیں بلکہ تماشا کے طور پر.کہ رات کو اُٹھتے ہیں اور روزے کا خاص اہتمام کرتے ہیں حج خانہ کعبہ چوتھا حکم یہ ہے کہ اگر خدا تعالی کسی کو توفیق دے تو صبح کرے.اس کے لئے کئی شرطیں ہیں.مثلا مال ہو ، رستہ میں امن ہو اور اگر عورت ہو تو اُس کے ساتھ اُس کا خاوند یا بیٹایا بھیجا یا ایسا کوئی اور رشتہ دار محرم جانے والا ہو.صدقہ و خیرات یہ تو وہ باتیں ہیں جو ایک مومن مرد اور عورت پر فرض ہیں.ان کے علاوہ صدقہ و خیرات ہے.یہ اگر چہ فرض نہیں لیکن دینا فرض ہے.اپنے خاندان میں ، اپنے محلہ میں جو غریب اور محتاج ہو اس کو دینا چاہئے.ہم احمدیوں میں صدقہ کا رواج بہت کم ہو گیا ہے جس کی ایک وجہ ہے اور وہ یہ کہ احمدی جو چندہ دیتے ہیں اُسی کو صدقہ سمجھ لیتے ہیں حالانکہ دین کے لئے چندہ دینا اور بات ہے اور صدقہ دینا اور بات

Page 51

44 ہے.صدقہ و خیرات وہاں کے غریب اور محتاج لوگوں کا حق ہوتا ہے جہاں انسان رہے.اس میں مذہب کی شرط نہیں خواہ کسی مذہب کا انسان ہو اگر محتاج ہو تو اُس کی مددکرنی چاہیئے.مثلاً اگر تمہیں کوئی غریب عورت ملے تو تمہیں یہ نہیں کہنا چاہیئے کہ چونکہ یہ ہندو ہے اس لئے اسے کچھ دینا نہیں چاہیئے بلکہ اس کو بھی ضرور دینا چاہیئے.یہ تو خدا تعالی کے حکم میں ان کے علاوہ حکم ہیں.اخلاق حسنہ سیکھو جو بندوں کو بندوں کے متعلق ہیں.مثلاً یہ کہ ایک دوسرے کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آؤ.کسی کی غیبت نہ کرو، چغلی نہ کرو، کسی کے مال میں خیانت نہ کرو، کسی سے بغض اور کمینے نہ رکھو.عورتوں میں چغلی اور غیبت کی مرض بہت پائی جاتی ہے.اگر کسی کے متعلق کوئی بات سن لیں تو جب تک دوسری کے سامنے بیان نہ کر لیں انہیں چین نہیں آتا.جو بات سنتی ہیں جھٹ دوسری جگہ بیان کر دیتی ہیں حالانکہ چاہیئے یہ کہ اگر کوئی کسی بھائی بہن کا نقص اور عیب بیان کرے تو اُسے منع کر دیا جائے لیکن ایسا نہیں کیا جاتا.تو چغلی کرنا بہت بڑا عیب ہے اور اتنا بڑا عیب ہے کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگ اس کی وجہ سے جہنم صلى الله میں ڈالیں جائیں گے.ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کہیں جارہے تھے کہ راستہ میں دو قبریں آئیں آپ وہاں ٹھہر گئے اور فرمایا خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ ان قبروں کے مردے ایسے چھوٹے چھوٹے گناہوں کی محبہ سے جہنم میں پڑے ہوئے ہیں کہ جن سے بآسانی بچ سکتے تھے لیکن بچے نہیں.ان میں سے ایک تو پیشاب کے چھینٹوں سے اپنے آپکو نہیں بچاتا تھا اور دوسرا چغلی کرتا تھا.تو چغلی بہت بڑا عیب ہے اس میں ہرگز مبتلا نہیں ہونا چاہیئے.اگر تمہارے سامنے کوئی کسی کے متعلق براکلمہ کہے تو اُسے روک دو اور کہہ دو نہیں نہ سناؤ بلکہ جس کا عیب ہے اُسے جا کر سناؤ.پھر اگر کوئی بات سن لو تو جس کے متعلق ہو اُس کو جا کر نہ سناؤ تا کہ فساد نہ ہو.ای طرح کسی کی غیبت بھی نہیں کرنی چاہیئے.کیا اپنے نقص کم ہوتے ہیں کہ دوسروں کے نقص بیان کرنے شروع کر دئے جاتے ہیں.تمہیں چاہیئے کہ دوسروں کے عیب نکالنے کی بجائے اپنے عیب نکالو تا کہ تمہیں کچھ فائدہ بھی ہو.دوسروں کے عیب نکالنے سے سوائے گناہ کے کوئی فائدہ نہیں ہوتا.اپنی اصلاح کی فکر کرد پس اگر عیب ہی نکالنے میں تو اپنے عیب نکالونا کہ ان کے دور کر نیکی کوشش کر سکو.تم اپنے متعلق دیکھو کہ تم میں چڑ چڑا پن تو نہیں پایا جاتا تم خواہ خواہ دوسری عورتوں سے لڑائی فساد تو نہیں کرتیں تمہارے اخلاق میں تو کوئی کمزوری نہیں اور جب تمہیں اپنی کمزوری معلوم ہو جائے تو اس کو دور

Page 52

45 کرنے کی کوشش کرو.تم اپنی مجلسوں میں ہی دیکھ لوذراسی بات پر عورتیں ایک دوسری سے اس طرح لڑتی ہیں کہ گویا انسان حیوان ایک جگہ جمع کئے ہوئے ہیں.پس اپنے اخلاق اور عادات درست کرو ، جس مجلس میں جاؤ ادب اور تہذیب سے بیٹھو، ایک دوسری کیساتھ محبت اور الفت سے ملو ہنرمی اور پیار سے بات کرو،اگر کوئی سختی بھی کر بیٹھے تو صبر اور تحمل سے کام لو اور خوش اخلاقی سے پیش آؤ.خاتمہ تقریر یا اسلام کی تعلیم ہے جو مختصر طور پر اس وقت میں نے تمہارے سامنے بیان کی ہے اس پر عمل کرو تا مسلمان ہو.جو اس پر عمل نہ کرے اُس کو کوئی حق نہیں کہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھے.جاہل ماؤں کا ظلم بسا اوقات ہم نے دیکھا ہے کہ اگر باپ بچے پر نماز کے چھوڑنے یا کسی بداخلاقی کی وجہ سے سرزنش کرتا ہے تو جاہل ماں اُس کی طرف سے غصہ سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتی ہے اور جو نہی کہ وہ باہر جاتا ہے بچے کو گلے لگا کر اس کے ساتھ آہیں بھرتی ہے اور اُس کی دلجوئی شروع کر دیتی ہے اور اس کے منہ سے ایسے الفاظ لکھتے ہیں جن سے انجان بچے کے ذہن نشین ہو جاتا ہے کہ اس کا باپ واقعہ میں بڑا ظالم ہے نماز جیسی بات پر اس نے ایسی سختی کی.ہوتے ہوتے نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ ایک طرف ماں کی قدر اس کے دل سے جاتی رہتی ہے اور دوسری طرف باپ سے اطاعت کی رغبت کم ہوتے ہوتے آخر کار حقوق والدین ترک کر کے کفر الہی نتیجہ ہوتا ہے.ابتداء میں تو یہ معمولی بات نظر آتی ہوگی مگر اس کا نتیجہ اخلاق و تقوی کی تباہی ہو جاتا ہے.بچے کی سادہ فطرت راست گوئی کی طرف مائل ہوتی ہے اور اگر اس نے کوئی نقصان کر دیا ہے تو پوچھنے پر وہ صاف کہہ دے گا کہ اس نے کیا ہے.مگر یہ مائیں ہی ہوتی ہیں جواُ سے سکھاتی ہیں کہ کہو میں نے نقصان نہیں کیا اور اس طرح وہ انہیں آگاہ کرتی ہیں کہ : نیا میں واقعات کے خلاف بہنا کوئی شئے ہے.( خطبہ نکاح فرموده مصلح موعود ۲۰.نومبر ۱۹۲۰ء) تقریر برموقع جلسہ سالانہ خواتین منعقد مسجد اقصی دسمبر ۱۹۲۱ بندوں کے لئے ترقی کے وسیع میدان دیکھو اللہ تعالیٰ نے بندوں میں بڑے ترقی کے سامان رکھتے ہیں.جب انسان ترقی کرے تو بہت بڑھ جاتا ہے یہاں تک کہ خدا اس کے اندر سما جاتا ہے اور اس میں خدا کے رنگ دکھائی دینے لگتے ہیں تب خدا اس کی اکثر باتوں کو پوری کرتا ہے.اگر وہ چاہتا ہے کہ

Page 53

46 لوگ خدا کی عبادت کریں تو لوگ اس کی زندگی میں ہی عبادت الہی کرنے لگ جاتے ہیں اور اگر چاہتا ہے کہ ایک ایسی جماعت ہو جاوے جو کہ متقی جماعت ہو تو اس کی زندگی میں وہ جماعت بن جاتی ہے.ان ترقیوں کو دیکھتے ہوئے یہ سواں سید ہوتا جب اس درجے تک بندہ پہنچ سکتا ہے تو کوئی خاص بات اس میں ہے کیا ہم بھی اس درجہ تک پہنچ سکتے ہیں یا نہیں.اس کے متعلق حضرت محمد یا یہ فرماتے ہیں کہ میں بھی تمہاری طرح ایک بندہ ہوں مجھ میں تم سے زیادتی نہیں جب تم یہ دیکھو گے کہ خدائے تعالی نے مجھے پر اپنے فضل کئے ہیں تو تم بھی کوشش کرو کہ تم بھی ایسا مرتبہ حاصل کرو.مثلاً جب تم کسی کو کوئی عمدہ زیور یا کپڑا وغیرہ پہنے ہوئے دیکھتی ہو تو تم اس کے خریدے بغیر چین نہیں کرتیں.اگر یہ معلوم ہو جائے کہ حضرت محمد رسول اللہ پر جو انعامات ہوئے وہ تم بھی لے سکتی ہو اور اگر تم وہ انعامات نہیں لے سکتیں تو دو باتوں میں سے ایک بات ضرور ہے.پہلی یہ کہ حضرت محمد سے میں کوئی خوبی نہیں یا یہ کہ محمدرسول اللہ کوتم اچھا بجھتیں ہو مگر اپنی طاقت اتنی نہیں سمجھتی کہ وہ فضل تم حاصل کر سکو.تب یہ بات نعوذ یا اللہ جھوٹی ہوتی ہے کہ حضرت محمد نے فرماتے ہیں کہ میں بھی تمہاری طرح ایک بندہ ہوں اور خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٍ مِثْلُكُمْ یعنی کہ دے میں تمہارے جیسا ایک بندہ ہوں.محمد رسول اللہ ہے جو دنیا میں تشریف لائے تھے وہ گویا خدا کے ایک گماشتے تھے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مال کے نمونے لائے تھے یعنی اللہ تعالیٰ کے جتنے فعل اور جتنی صفتیں ہیں وہ دکھانے آئے تھے کہ ان صفات کو دیکھ کر لوگوں کو خواہش پیدا ہو اور وہ کوشش کر کے اللہ تعالیٰ سے جاملیں تو مرد اور عورت یونہی پیدا نہیں ہوئے بلکہ اللہ تعالیٰ نے خود کسی مطلب کے لئے انہیں پیدا کیا ہے وہ مطلب یہی ہے کہ خدا تعالی اپنی مالکیت ظاہر کرے.خدار زاق ہے اُس نے رزق اپنے آپ کو تو دینا نہیں اس لئے اس کے دینے کے لئے بندوں کی ضرورت تھی.تو اسی طرح خدا رحم کرنے والا ہے ضر روی تھا کہ مظلوم بھی ہوں تا کہ اُن پر خدا رحم کرے.6 ہر ایک خدا کا شیشہ ہے غرض اللہ تعالی کی جو صفتیں ہیں ان کے ظاہر کرنے کے لئے اُس نے بندے پیدا کئے.تو ہم میں سے ہر ایک شخص شیشہ ہے جس میں خدائے تعالی اپنا چیرو دیکھنا چاہتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ میں شیشہ بناؤں دو شیشہ بندے کا دل بنایا، اس پر اپنی شکل ڈالی.مثلا خداز ہ ہے تو کیا واقعی تم بھی پرورش کرتی ہو.اللہ مالک ہے چاہے سزا دے یا معاف کرے تو کیا تم بھی معاف کرتی ہویا

Page 54

47 نہیں.اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو خدا کی شکل ہمارے اندر اچھی طرح سے نہیں آئی.خدا تعالیٰ نے جو تمہیں پیدا کیا ہے تو اس سے غرض یہ ہے کہ تمہارے ذریعہ سے اپنی صفتیں ظاہر کرے اور اگر تم میں وہ سب صفتیں ظاہر نہیں ہوتیں تو معلوم ہوا کہ تم کو پیدا کر نیکی غرض پوری نہیں ہوئی اور تمہاری مثال اُس خراب شیشے کی مانند ہوگی جس میں منہ اچھی طرح دکھائی نہیں دیتا اور اُس کا مالک اُس کو پھینک دیتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی اس شخص کو دے مارتا ہے اور اس کے مقابلہ میں جو بندہ جتنا بھی نیک ہوتا ہے اتناہی اللہ تعالیٰ اُس پر فضل کرتا ہے اور جتنابر اہوتا ہے آخر خدا بھی اس کو ہلاک کر دیتا ہے اور جانور کی قدر اس آدمی سے زیادہ کرتا ہے.حضرت نوح علیہ السلام کا واقعہ ہے کہ ایک درخت پر ایک چڑیا کا گھونسلا تھا اور اس میں چڑیا نے بچے دیئے تھے.جب طوفان آیا اور پانی بہت اونچا چڑھ گیا تو خدا تعالی نے کہا کہ چڑیا کے بچے بہتر ہیں ان لوگوں سے جن پر میر انغضب نازل ہوا میں اُن لوگوں کو ماروں گا مگر ان چڑیا کے بچوں کو بچالونگا.پیدائش کا مطلب کیا ہے؟ تو انسان کی غرض ہے کہ خدا تعالی کے حکموں کو بچا لا ؤ اور اس کی صفتوں کو ظاہر کرو اور کوئی کمزوری بھی اپنے اندر نہ رکھو اور نہ جھوٹ بواو جھوٹ بولنا تو کمزوری کی نشانی ہے.خدا کا حکم ہے کہ غریبوں کی خبر داری کرو.اس کے معنے یہ ہیں کہ خدا کا نمونہ بن جاؤ کیونکہ وہ بھی اپنی مخلوق کی خبر داری کرتا ہے.جب تم ایسی ہو جاؤ گی تو تمہیں دیکھ کر لوگوں کو خدا کا پتہ لگ جاوے گا.پرانے زمانے کے بادشاہ شیشوں کے ذریعے اپنا عکس لوگوں کو دکھاتے تھے مگر یہ تو جہالت ہے.ہاں خدا اپنا عکس بندوں کے ذریعہ سے دکھاتا ہے.مثلاً حضرت محمد اللہ خدا کا شیشہ تھے اور اُن سے خدا ظاہر ہوتا تھا اس لئے میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم بھی خدا کی باتوں کو مانو اور ان پر عمل کرو.دوسری نصیحت یہ ہے کہ ہم کو خدا نے ایک کام سپرد کیا ہے اور اس کام کے لئے ایک نبی بھیجا ہے وہ نبی کوئی نئی شریعت تو نہیں لا یا البتہ اس کے بھیجنے کی غرض دنیا میں اپنا چہرہ دکھلانا ہے.اس نبی کا منشاء یہ تھا کہ اسلام کی تعلیم دنیا میں پہنچاہے.ہم نے جو اس نبی کی بیعت کی ہے اس کے یہی معنی ہیں کہ گویا ہم نے اس نبی سے اقرار کیا ہے کہ جو کام تم کرتے ہو ہم بھی کریں گے.اس کا یہی کام تھا کہ دنیا کوظلمتوں اور تاریکیوں سے بچاوے اس لئے تم لوگوں کو ظلمتوں اور تاریکیوں سے تب ہی بچا سکتی ہو جب تم اپنے اندر خو بیاں پیدا کرو اس کے متعلق میں تم کو چند باتیں بتا تا ہوں.

Page 55

48 شرک سے بچو خدا کے جاننے والوں کا یہ فرض ہے کہ وہ شرک نہ کریں.شرک کا مطلب میں اس لئے بتاتا ہوں کہ کئی پڑھے لکھے مرد بھی شرک نہیں جانتے تا تم اس سے بیچ کر خدا کے غضب سے بچو.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں سب گناہ بخش سکتا ہوں مگر شرک کو ہرگز نہ بخشوں گا.پس شرک سے بچنا بہت ضروری ہے.شرک کی باتیں جن سے بچنا چاہیئے یہ ہیں کہ اول بڑے ادب کے طریقے اور عبادت کے طریقے خدا کے سوا اور کسی سے نہ برتے.ادب کی بڑی باتیں یہ ہیں.جھکنا یا کسی کے سامنے ہاتھ باندھنایاہاتھ جوڑ کر جھک جانا یا سجدہ میں گر جانا یا گھٹنے ایک کر بیٹھ جانا یہ تمام قوموں میں بے ادب کی باتیں میں نہ اگر یہ ادب کے طریقے ہم اوروں سے برتیں تو پھر خدا کا ادب ہنم کیسے کریں گے.کیوں کہ خدا جو سب سے بڑا ہے اس کا ادب بھی سب سے بڑا ہونا چاہیے اس لئے یہ تمام ادب کے طریقے خدا ہی کے آگے برتنے چاہئیں کسی کے آگے جھک جاتا ، ہاتھ باندھنا یہ شرک ہے اور بڑے گناہ کی بات ہے یہ ساری باتیں ہیں جو آخری درجے کا ادب ہیں.ہم اگر کسی دوسرے کا بھی اتنا ہی ادب کریں تو گویا ہم نے اس کو خدا کا شریک بنادیا جو منع ہے اس لئے اس قسم کے سارے کام منع ہیں.(۲) دوسری شرک کی بات ہے کہ خدا کی طاقت کی باتیں بندوں میں سمجھ لینا.مثلاً یہ سمجھنا کہ فلاں شخص بیماروں کو اچھا کرتا ہے شرک ہے، قبروں پر دئے جلانا بھی شرک ہے، کسی بندے سے اتنی محبت کرنا جتنی خدا سے کی جانی چاہیئے یہ بھی شرک ہے.(۳) نماز کی پابندی کروجو شخص نماز کی پابندی نہیں کرتا وہ کبھی ایمان حاصل نہیں کر سکتا.حضرت محمد مت کہتے کہتے ہیں کہ خدا فرماتا ہے کہ میرا بندہ نماز پڑھتا پڑھتا میرے اتنا قریب ہو جاتا ہے کہ میں اس کا ہاتھ پاؤں ، آنکھ اور کان ہو جاتا ہوں.تو جو کام وہ اُن سے کرتا ہے گویا وہ نہیں کرتا بلکہ میں کرتا ہوں.پس نماز ایسی اعلیٰ چیز ہے کہ اس سے خدا کا قرب حاصل ہوتا ہے.تو جو یہ چاہتا ہے کہ میں قیامت کے دن خدا کا دیدار کروں وہ بھی نماز کو نہ چھوڑے اور نماز میں باجماعت پڑھے اور جو عورتیں با جماعت نہیں پڑھ سکتیں تو ان کو نماز میں گریہ وزاری اور توجہ سے پڑھنی چاہیں گویا کہ خدا تعالیٰ سامنے ہے اور وہ دیکھتا ہے اور تمام توجہ خدا کی طرف ہو.ایک بزرگ کا واقعہ ایک دفعہ کسی بزرگ نے کسی امام کے پیچھے نماز پڑھنی شروع کر دی اس وقت امام کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ میرے پاس جو دو سو روپے ہیں ان کا تیل خرید کر دہلی جاؤں گا اور وہاں چار سو

Page 56

49 رو پے کو بیچ کر وہاں سے فلاں چیز خرید کر پھر آگرے جاؤں گا اور آگرہ میں میرے چار سو کے آٹھ سو ہو جاویں گے.پھر میں آگرے سے فلاں چیز خریدوں گا جو پشاور میں مہنگی بکتی ہے اور وہاں جا کر بیچوں گا تو سولہ سو بن جاویں گے ، ان بزرگ کو کشف کے ذریعے یہ حال معلوم ہو گیا انہوں نے نماز تو ڑ کر الگ پڑھنی شروع کر دی.امام نے نماز پڑھ کر بہت ڈانٹنا شروع کیا یہ بڑا جرم ہے، حرام ہے، وہ بزگ کہنے لگے کہ میں کمزور ہوں میری ٹانگوں میں اتنی طاقت نہیں تھی.پہلے میں آپ کے ساتھ دہلی گیا، میں نے کہا اچھا امام صاحب جاتے ہیں تو میں بھی اُن کے ساتھ چلا جاتا ہوں مگر آپ وہاں سے آگرے گئے: ہاں بھی میں آپ کے ساتھ گیا لیکن جب آپ اگرے سے پشاور جانے کو تیار ہو گئے تو میں نے نماز توڑ کر علیحدہ پڑھنی شروع کر دی.یہ بات سنکر امام بہت شرمند و ہوا اس لئے نماز پڑھتے وقت تین باتوں کا خیال رکھنا چاہیئے:.(۱) یہ کہ فقط خدا کے لئے پڑھو.(۲) کہ دل لگا کر توجہ سے پڑھو.(۳) یہ کہ فرضوں کے علاوہ منتیں خدا کا تعلق بڑھاتی ہیں.سنتیں ضرور پڑھنی چاہئیں.کامل عرفان خدا کے نفلوں کے ذریعے حاصل ہوتا ہے.یہ فضل تو ایک نعمت ہیں اس میں ہمارا ہی فائدہ ہے.خدا کے انعام کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی کسی کے گھر جاوے اور اس کے بچوں کے لئے کوئی تحفہ لے جاوے اور وہ قبول کر لیوے تو وہ بہت شکر گزار ہوتا ہے کہ آپ نے یہ قبول کر لیا میں اس کے بدلے میں یہ انعام آپ کو دیتا ہوں.تو نماز پڑھنے سے صفائی اور فائدہ ہمارا ہی ہے مگر خدا اور انعام دیتا ہے.نفلوں میں سے ایک بہت بڑا نفل تمجید ہے.نفس کے ٹوڑنے کے لئے تہجد بہت ضروری ہے.یہ نماز مردوں کے علاوہ عورتوں کو بھی پڑھنی چاہیئے.حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ جب رات کو مرداٹھے تو وہ عورت کو بھی اُٹھاوے اور جو کوئی نہ اُٹھے تو دوسرانہ اُٹھنے والے پر پانی کے چھینٹے مارے ایسا گھر بہت ہی مبارک ہے.یادرکھو تکلیف اُٹھانے سے ہی انعام ملا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے جنت کا وعدہ کیا ہے وہ یو نبی نہیں مل جاتی.اس نماز میں فرضوں کے علاوہ فل بھی پڑھنے چاہئیں اور نفلوں میں سب سے بہتر تہجد ہے.اگر تم رات کو بچے کی خاطر جاگتے ہو محض اس لئے کہ یہ بڑا ہو کر ہمارا نام روشن کرے گا تو کیا تم خدا کی خاطر نہیں جاگ سکتیں.خدا کے لئے جاگنے سے ہمیشہ نام یا درہتا ہے.اور اگر تم رات کواللہ کی خاطر ایک گھنٹہ جا گوتو دائی زندگی حاصل ہو جاتی ہے.

Page 57

50 نماز کے آداب میں سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ نماز آہستہ آہستہ پڑھی جاوے.نماز تو خدا کا ایک دیدار ہے اس لئے نماز ٹھہر کے پڑھنی چاہئیے کہ جتنی دیر ٹھہر ٹھہر کے پڑھیں گے اتنی دیر تک ہمیں دیدار الہی میسر ہوگا.حضرت مسیح موعود فرمایا کرتے تھے کہ آجکل کے مرد عورتوں کے سجدے مرغیوں کے ٹھونگے مارنے کی طرح ہیں.پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے حاصل کرنے کا طریقہ یہ بھی ہے کہ جتنی دیر نماز میں لگے اچھی ہے.یا درکھو تم خدا سے آنکھ مچولی تو نہیں کھیلئے جائیں بلکہ اس کا دیدار کرنے جاتی ہو.اب میں اور احکام شریعت بیاں کرتا ہوں.نماز کے علاوہ خدا تعالیٰ نے یہ بات مقرر فرمائی ہے کہ اگر انسان کے پاس ۴۰ روپے ہو تو وہ ایک رو پیر اللہ کی راہ میں دیوے.یہ زکوۃ کے معنے پاک کر دینے کے ہیں.پس یہ مرد عورتوں کا فرض ہے کہ وہ زکوۃ دیا کریں.حضرت محمد یہ اس کی بہت تاکید فرمایا کرتے تھے.حضرت ابو بکر کے وقت میں بعض لوگ زکوة کے منکر ہو گئے.انہوں نے کہا کہ ہم زکوۃ نہیں دیتے حتی کہ اتنا شور ہو گیا کہ مدینے اور ایک بستی کے سوا بہت مرتد ہو گئے.اس وقت حضرت عمرؓ نے جو بہت بہادر تھے ابو بکر سے کہا کہ آپ اس وقت ان سے نرمی کریں پھر آہستہ آہستہ مان لیں گے مگر حضرت ابو بکڑ نے کہا کہ دیکھو تم کو ڈر ہے کہ یہ بہت ہیں اور ہم تھوڑے اس لئے میں اکیلا جاؤں گا اور زکوۃ کے واسطے ان سے لڑوں گا اور اگر یہ ایک رتی بھی کم دیں گے تب میں ان سے لڑائی کروں گا یہ خدا کا حکم ہے.دیکھو ان لوگوں نے ایک حکم کی خلاف ورزی کی اور سب کام مسلمانوں جیسے کیا کرتے تھے پھر بھی اُن کے ساتھ کافروں کا سا سلوک ہوا جس سے معلوم ہوا کہ زکوۃ کیسی ضروری بات ہے.ہاں جو زیور پہنا جاوے اُس پر ز کو پ نہیں.للہ تعالی کی طرف سے بندے کے تعلق کے لئے بہت سے سامان ہیں پھر بھی بہت سے وسوسے پیدا ہوتے ہیں.ان وسوسوں سے بچنے کے لئے ایک ذریعہ دعا ہے.مثلا انہیں ایک خزانہ ایسا مل جاوے جس میں سے جب اور جو چیز چاہو وہ مل جاوے.....پرانے زمانے کے قصے کہانیاں ہوتے تھے کہ فلاں دیو نے فلاں لڑکے کو ایک ایسی چیز دی جس میں سے جو چاہو نکل آتا تھا مگر یہ تو جھوٹ ہے.ہاں ایک خزانہ ایسا ہے جس میں ہاتھ ڈالیں تو جو چاہیں مل سکتا ہے.وہ خزانہ اللہ تعالیٰ ہے اور اس خزانہ سے حاصل کرنے کا دروازہ دعا ہے.دُعا کے ذریعہ سب کچھیل سکتا ہے.دُعا بڑاز بردست آلہ ہے اور اسکے مقابل میں ہوا اور

Page 58

51 سمندر نہیں ٹھہر سکتے.ہم نے یہ نظارے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں.دعا کی قبولیت کا نظارہ ایک دفعہ ایک شخص نے مجھے خط لکھا کہ میں چھ سال سے شادی کی کوشش کر رہا ہوں مگر نا کام ہوں آپ میرے لئے دُعا کریں.میں نے اُس کیلئے دعا کی تو مجھے معلوم ہوا کہ قبول ہوگئی.میں نے اُس شخص کو خط لکھا اُس کا جواب آیا کہ جس وقت آپ کا خط آیا اُسی وقت یہاں کا ایک رئیس میرے گھر آیا اور کہا کہ میری لڑکی جوان ہے اور میں اُس کی شادی تمہارے ساتھ کرنی چاہتا ہوں.پس خداد عاؤں کو ایسے طور سے سنتا ہے کہ نا واقف کو یقین ہی نہیں ہوتا.اگر ہمیں رزق کی ضرورت ہے تو خدا رازق ہے اور اگر ہمیں پردہ پوشی کی ضرورت ہے تو خدا کا نام ستار ہے اور اگر عزت کی ضرورت ہے تو خدا کا نام معز بھی ہے پس دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں کہ خدا کے ناموں میں نہ پائی جائے.جب تمام اچھی ملتیں خدا میں پائی جاتی ہیں تو ہمیں جو چیز مطلوب ہو خدا کی اُسی صفت کا نام لے کر جس کے ماتحت چیز ہو میں عام لگنی چاہیئے.آب میں چند دعا کے قبول ہونے کے طریق بیان کرتا ہوں :.(1) پہلی بات یہ ہے کہ حرام مال کھانے والے کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں اس لئے ہمیشہ پاک مال کھانا چاہئیے.(۲) دوسری بات یہ ہے کہ دُعا کرنے والا توجہ سے دُعا کرے اور یقین رکھے کہ خدافضل اور رحم کر نیوالا ہے.اگر توجہ سے کرے تو ضرور قبول ہوگی.(۳) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس طرح کی دعا مانگتی ہو تو ہی نام سے مانگا کرو.مثلا پرورش میں کچھ نقص ہو تو دعا کرے اے رب مجھے پاک کر اور جب رزق مانگے تو کہے اے رزاق مجھے رزق دے.جب تم اس کے ناموں سے دعا مانگو گی تب خدا بہت دعائیں سنے گا.(۴) دعا مانگنے والا لوگوں پر خود بھی رحم کرے تو خدا اُس کی دعا کبھی رد نہیں کرتا کیونکہ خدا کو غیرت آجاتی ہے کہ جب یہ بندہ دوسرے کی درخواست رو نہیں کرتا تو میں بادشاہ ہو کر کیوں رڈ کروں ( الفضل ۶ - مارچ ۱۹۳۲ صفحه ۴ تا ۶ )

Page 59

52 لجنہ اماءاللہ کے متعلق ابتدائی تحریک (حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے قلم سے) (19rr) السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.ہماری پیدائش کی جو غرض و غائیت ہے اس کو پورا کرنے کے لئے عورتوں کی کوششوں کی بھی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح مردوں کی ہے.جہاں تک میرا خیال ہے عورتوں میں اب تک اس کا احساس پیدا نہیں ہوا کہ اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے.ہماری زندگی کس طرح صرف ہونی چاہیئے جس سے ہم بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر کے مرنے کے بعد بلکہ اسی دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوسکیں..اگر غور کیا جائے تو اکثر عورتیں اس امر کو محسوس نہیں کریں گی کہ روز مرہ کے کاموں کے سوا کوئی اور بھی کام نہ کے قابل ہے یا نہیں؟ دشمنانِ اسلام میں عورتوں کی کوشش سے جو روح بچوں میں پیدا کی جاتی ہے اور جو بد گمانی اسلام کی نسبت پھیلائی جاتی ہے اس کا اگر کوئی توڑ ہو سکتا ہے تو وہ عورتوں ہی ذریعہ سے ہو سکتا ہے اور بچوں میں اگر قربانی کا مادہ پیدا کیا جاسکتا ہے تو وہ بھی ماں ہی کے ذریعہ سے کیا جا سکتا ہے.پس علاوہ اپنی روحانی وعلمی ترقی کے آئیند ہ جماعت کی ترقی کا انحصار بھی زیادہ تر عورتوں ہی کی کوشش پر ہے.چونکہ بڑے ہو کر جواثر بچے قبول کر سکتے ہیں وہ ایسا گہرا نہیں ہوتا جو بچپن میں قبول کرتے ہیں.اسی طرح عورتوں کی اصلاح بھی عورتوں کے ذریعہ سے ہو سکتی ہے.ان امور کو مد نظر رکھ کر ایسی بہنوں کو جو اس خیال کی مؤید ہوں اور مندرجہ ذیل باتوں کی ضرورت کو تسلیم کرتی ہوں دعوت دیتا ہوں کہ ان مقاصد کو پورا کرنے کے لئے مل کر کام شروع کریں.اگر آپ بھی مندرجہ ذیل باتوں سے متفق ہوں تو مہربانی کر کے مجھے اطلاع دیں تا کہ اس کام کو جلد سے جلد شروع کر دیا جائے.ا.اس امر کی ضرورت ہے کہ عورتیں باہم مل کر اپنے علم کو بڑھانے اور دوسروں تک اپنے حاصل کردہ علم کو پہنچانے کی کوشش کریں.

Page 60

53 ۲.اس بات کی ضرورت ہے کہ اس کے لئے ایک انجمن قائم کی جائے تا کہ اس کام کو با قاعدگی سے جاری رکھا جا سکے..اس با ت کی ضرورت ہے کہ اس انجمن کو چلانے کے لئے قواعد ہوں جن کی پابندی ہر رکن پر واجب ہو ۴.اس امر کی ضرورت ہے کہ قواعد وضوابط سلسلہ احمدیہ کے پیشکر دہ اسلام کے مطابق ہوں اور اس کی ترقی اور اس کے استحکام میں محمد ہوں..اس امر کی ضرورت ہے کہ جلسوں میں اسلام کے مختلف مسائل خصوصاً اُن پر جو اس وقت کے حالات کے متعلق ہوں مضامین پڑھے جائیں اور وہ خود اراکین انجمن کے لکھے ہوں تا کہ اس طرح علم کے استعمال کرنے کا ملکہ پیدا ہو..اس امر کی ضرورت ہے کہ علم بڑھانے کے لئے ایسے مضامین پر جنہیں انجمن ضروری سمجھے اسلام کے واقف لوگوں سے لیکچر کر وائے جائیں.ے.اس امر کی ضرورت ہے کہ جماعت میں وحدت کی روح قائم رکھنے کے لئے جو بھی خلیفہ وقت ہو اس کی تیار کردہ سکیم کے مطابق اور اس کی ترقی کو مد نظر رکھ کر تمام کا روائیاں ہوں..اس امر کی ضرورت ہے کہ تم اتحاد جماعت کو بڑھانے کے لئے ایسی ہی کوشاں رہو جیسے کہ ہر مسلمان کا فرض قرآن کریم ، آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے مقرر فرمایا ہے اور اس کے لئے ہر ایک قربانی کو تیار رہو.۹.اس امر کی ضرورت ہے کہ اپنے اخلاق اور روحانیت کی اصلاح کی طرف ہمیشہ متوجہ رہو اور صرف کھانے اپنے پہنے تک اپنی توجہ کو محدود نہ رکھو.اس کے لئے ایک دوسری کی پوری مدد کرنی چاہیئے اور ایسے ذرائع پر غور اور عمل کرنا چاہیئے.۱۰.اس بات کی ضرورت ہے کہ بچوں کی تربیت میں اپنی ذمہ داری کو خاص طور پر سمجھوا در اینی گو د مین سے غافل اور بد دل اور سُست بنانے کی بجائے چست، ہوشیار، تکلیف برداشت کرنے والے بناء اور دین کے مسائل جس قدر معلوم ہوں اُن سے اُن کو واقف کرو اور خدا، رسول مسیح موجود اور خلفاء کی محبت ، اطاعت کا مادہ اُن کے اندر پیدا کرو.اسلام کی خاطر اور اُس کی منشاء کے مطابق اپنی زندگیاں خرچ کرنے کا جوش اُن

Page 61

54 میں پیدا کرو، اس لئے اس کام کو بجالانے کے لئے تجاویز سوچو اور اُن پر مکمل درآمد کرو..اس امر کی ضرورت ہے کہ جب مل کر کام کیا جائے تو ایک دوسرے کی غلطیوں سے چشم پوشی کی جائے اور میر اور ہمت سے اصلاح کی کوشش کی جائے نہ نار انتگی اور تنگی سے تفرقہ بڑھایا جائے.۱۲.چونکہ ہر ایک کام جب شروع کیا جائے تو لوگ اُس پر بنتے اور ٹھٹھا کرتے ہیں اس لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ لوگوں کی بنسی اور ٹھٹھے کی پروانہ کی جائے اور بہنوں کو الگ الگ مہنوں یا طعنوں یا مجالس کے ٹھٹھوں کو بہادری و ہمت سے برداشت کا سبق اور اُس کی طاقت پیدا کرنے کا مادہ پہلے ہی سے حاصل کیا جائے تا کہ اس نمونہ کو دیکھ کر دوسری بہنوں کو بھی اس کام کی طرف توجہ پیدا ہو.۱۳.اس امر کی ضرورت ہے کہ اس خیال کو مضبوط کرنے کے لئے اور ہمیشہ کے لئے جاری رکھنے کے لئے اپنی ہم خیال بنائی جائیں اور یہ کام اس صورت میں چل سکتا ہے کہ ہر ایک بہن جو اس مجلس میں شامل ہوا اپنا فرض سمجھے کہ دوسری بہنوں کو بھی اپنا ہم خیال بنائے گی.۱۴.اس امر کی ضرورت ہے کہ اس کام کو تباہ ہونے سے بچانے کے لئے صرف وہی بہنیں انجمن کی کارکن بنائی جائیں جو ان خیالات سے پوری متفق ہوں اور کسی وقت خدانخواستہ کوئی متفق نہ رہے تو وہ بطیب خاطر انجمن سے علیحدہ ہو جائے یا بصورت دیگر علیحدہ کی جائے.۱۵.چونکہ جماعت کسی خاص گروہ کا نام نہیں چھوٹے بڑے ، غریب امیر سب کا نام جماعت ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس انجمن میں غریب امیر کی کوئی تفریق نہ ہو بلکہ غریب اور امیر دونوں میں محبت اور مساوات پیدا کرنے کی کوشش کی جائے اور ایک دوسرے کی حقارت اور اپنے آپ کو بڑا گھنٹے کا مادو دلوں سے زور کیا جائے کہ باوجود مدارج کے فرق کے اصل میں سب مرد بھائی بھائی اور سب عورتیں بہنیں بہنیں ہیں.۱۹.اس امر کی ضرورت ہے کہ عملی طور پر خدمت اسلام کے لئے اور اپنی غریب بہنوں اور بھائیوں کی مدد کے لئے بعض طریق تجویز کئے جائیں اور ان کے مطابق عمل کیا جائے.۱۷.اس امر کی نہرورت ہے کہ چونکہ مدد اور سب برکت اور سب کا میابیاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں.اس لئے دُعا کی جائے اور کروائی جائے.ہمیں وہ مقاصد الہام ہوں جو ہماری پیدائش میں اُس نے مد نظر رکھے ہیں اور ان مقاصد کے

Page 62

55 پورا کرنے کے لئے بہتر سے بہتر ذرائع پر اطلاع اور پھر ان ذرائع کے احسن سے احسن طور پر پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ بخیر کرے.آئندہ آنیوالی نسلوں کی بھی اپنے فضل سے راہنمائی کرے اور اس کام کو اپنی مرضی کے مطابق ہمیشہ کے لئے جاری رکے یہاں تک کہ اس دنیا کی عمر تمام ہو جائے.اگر آپ ان خیالات سے متفق ہیں اور ان کے مطابق اور موافق قواعد پر جو بعد میں انجمن میں پیش کر کے پاس کئے جارہے ہیں اور کئے جائیں گے عمل کرنے کے لئے تیار ہوں تو مہربانی کر کے اس کاغذ پر دستخط کر دیں.بعد میں ان قواعد پر ہر ایک بہن سے علیحدہ علیحدہ دستخط لے کر اقرار و معاہد ے لئے جائیں گے تقریر بر موقع جلسه سالانه خواتین ۱۹۲۳ء - قادیان اسلام میں عورت کی وقعت اسلام کے آنے سے پہلے جتنے مذاہب تھے ان میں زیادہ تر توجہ مردوں کی اصلاح کی طرف تھی اور بعض مذاہب تو یہ خیال کرتے تھے کہ گویا عورتوں میں روح ہی نہیں ہوتی اور وہ فقط مردوں کے آرام کے لئے کوئی انعام ہے نہ اُن سے کچھ پوچھا جائے گا.یہ بہت مذہبوں کا خیال تھا حتی کہ یہودیوں اور عیسائیوں کی کتابوں میں بھی یہ لکھا ہے کہ خدا نے مردوں کو اپنے لئے اور عورتوں کو مردوں کے لئے بنایا ہے.اسلام چونکہ اس بات کے لئے سب سے پہلا اور مذہب کے لحاظ سے آخری مذہب ہے جس نے یہ بتلایا ہے کہ مرد اور عورت بحیثیت انسان کے برابر ہیں جس طرح عورت مرد کے لئے پیدا کی گئی ہے اسی طرح مرد بھی عورتوں کے لئے بنایا گیا ہے.اگر عورت مرد کا کام کرتی ہے تو مرد بھی اسے کما کر لا دیتا ہے.پس پچھلے مذہبوں کا یہ خیال درست نہیں تھا.یہ باتیں خدا کی کسی کتاب میں نہیں تھیں بلکہ اس زمانہ کے آدمیوں نے خود جس طرح چاہا قلم اُٹھا کر لکھ لیا.سب سے پہلے رسول کریم اپنے نے تعلیم دی اور اس سے عورتوں کی کایا ہی پلٹ گئی.رسول کریم کے آنے سے قبل عربوں کا خیال عورتوں کے متعلق اُس زمانہ میں عربوں کا یہ خیال تھا کہ عورت میں کچھ عقل نہیں ہوتی اُسے ہمارے کسی معاملے میں بولنا ہی نہیں چاہیئے.اگر کوئی کسی معاملے میں دخل بھی دیتی تو اُسے سخت نا پسند کرتے تھے ایک دفعہ حضرت عمر ایک بات کے متعلق سوچ رہے تھے اُن کی بیوی نے کہا بات تو آسان ہے اس

Page 63

56 طرح کر لو.اُنہوں نے کہا تو کون ہوتی ہے میرے معاملے میں دخل دینے والی.اُن کی بیوی نے کہا جب رسول کریم کی بیویاں اُن کو مشورہ دیدیتی ہیں تو اگر میں نے دیدیا تو کیا حرج ہے.حضرت عمر اُسی وقت اپنی لڑکی کے پاس جو کہ رسول کریم سے بیاہی ہوئی تھی دوڑے گئے اور پوچھا کہ کیا تم رسول کریم کے معاملے میں دخل دیا کرتی ہو.وہ کہنے لگیں.ہاں نہ حضرت عمر نے انہیں کہا یہ بہت بُری بات ہے تم پھر اس طرح کبھی نہ کرنا.اُن کی پھوپھی نے جب یہ بات سنی تو انہوں نے کہا تم کون ہوتے ہو رسول کریم کے گھر کی باتوں میں بولنے والے یہ تو اُس زمانے میں عورتوں کو بیلوں کی طرح سمجھتے تھے مگر رسول کریم خود عورتوں سے مشورہ لیا کرتے تھے.عورت سے مشورے کی وجہ سے ایک مشکل کا حل ہونا ایک دفعہ رسول کریم نے رویا میں دیکھا کہ آپ کمرہ کر رہے ہیں.آپ کو خیال پیدا ہوا کہ شاید ای سال عمرہ کرنا ہے.چونکہ مکہ والے ستاتے تھے اور مدینہ والے جانہیں سکتے تھے یہ رویا سنکر کئی ہزار آدمی آپ کے ساتھ جانے کو تیار ہو گئے کئی ہزار کے مجمع کو ساتھ لے کر رسول کریم جب مکہ کے پاس پہنچے تو مکہ والوں نے کہا کہ ہم ہر گز نہیں جانے دیں گے.لوگ کہیں گے کہ محمد ( رسول اللہ ) کئی ہزار کے مجمع کو لے کر گئے تو مکہ والے ڈر گئے ہماری تو ناک کٹ جائے گی.کئی تدبیریں کی گئیں اور فیصلہ کی یہ صورت ہوئی کہ دونوں طرفوں کے بڑے بڑے سردارا کھٹے ہو کر فیصلہ کریں.آخر فیصلہ کرنے سے یہ بات قرار پائی کہ مدینہ والے اس سال چلے جاویں اور اگلے سال آویں.اس فیصلہ سے صحابہ کرام بہت رنجیدہ ہوئے کہ رسول کریم نے کفار کی یہ شرط کیوں مان لی ہے.پھر رسول کریم نے فرمایا کہ قربانی کے لئے جو کچھ لائے ہو یہیں پر قربان کر دو مگر کوئی نہ اُٹھا.حتی کہ رسول کریم نے تین دفعہ کہا مگر پھر بھی سب بیٹھے رہے.یہ حال دیکھ کر رسول کریم کو بہت فکر ہو ا کہ کہیں اس واقعہ سے لوگوں پر ابتلاء نہ آجاوے.آخر آپ اُٹھ کر گھر گئے اور اپنی ایک بیوی سے پوچھا کہ کیا کیا جاوے یہ آج پہلی دفعہ ہے کہ میں بات کہوں اور لوگ نہ کریں.آپ کی بیوی نے کہا آپ آب ان سے کچھ نہ کہیں سید ھے چلے جاویں اور جا کر اپنی قربانی کے گلے پر چھری پھیر دیں.چنانچہ آپ گئے اور اپنے اونٹ کے گلے پر نیزہ مارا یہ دیکھ کر سب لوگ اس طرح کھڑے ہوئے کہ ہر ایک ہی چاہتا تھا کہ مجھ سے کوئی اور پہلے نہ ہو جائے کیونکہ اُن کے صرف دل ٹوٹے ہوئے تھے.رسول کریم کو قربانی کرتے دیکھ کر سب اُٹھ

Page 64

57 کھڑے ہوئے.تو ایک عورت کے مشورے کی بدولت یہ مشکل حل ہوگئی.عورتیں اپنی اہمیت نہیں بجھتیں مگر بڑے افسوس کی بات ہے کہ اس زمانہ میں عورتیں خود اپنی اہمیت نہیں سمجھتیں اور وہ یہی سمجھتی ہیں کہ ہم مردوں کے لئے ہیں اور جس مذہب کو مر د اختیار کرتا ہے اُسی پر وہ چل پڑتی ہیں اور یہ نہیں سمجھتیں کہ خدا تعالی کے ساتھ مرد اور عورت کا تعلق الگ الگ ہے مگر موجودہ صورت میں تو جو مرد نے کہ دیا وہی اُن کا ایمان ہے.اس لئے چاہیئے کہ عورت خود دین کو سوچ سمجھ کر اختیار کرے کیونکہ خدا کے سامنے اُس نے یہ جواب نہیں دینا کہ میرا خاوند احمد کی تھا تو میں احمدی ہوئی یا میرا خاوند عیسائی تھا تو میں عیسائی ہوئی.اُس سے پوچھا جائے گا کہ تو نے کونسا مذ ہب سچا سمجھ کر اختیار کیا.عورتوں کا تعلق خدا کیساتھ آج میں اس بات پر بیان کروں گا کہ عورتیں اپنے ایمان کے متعلق یہ یاد رکھیں کہ اُن کا تعلق خدا کے ساتھ علیحدہ ہے.چنانچہ عورتیں بھی خدا کے ساتھ تعلق رکھ سکتی ہیں.بشرطیکہ اُن کا ایمان اپنا ایمان ہو خاوندوں کا ایمان نہ ہو.پچھلے زمانہ میں کئی عورتیں ایسی گزری ہیں کہ انہیں الہام ہو ا کرتے تھے.مثلاً رابعہ بصری، مریم ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ.ان کے ساتھ خدا کلام کرتا تھا.اگر عورتیں سمجھے کر دین اختیار کریں تو مرد چاہے کہیں بھٹکتا پھرے عورت کو ابتلاء نہیں آسکتا اور جودیکھ کر ایمان لایا ہوتا ہے اُس کی یہ علامت ہوتی ہے کہ وہ بگڑتا نہیں اور ابتلا نہیں آتا کیونکہ جس نے دیکھ کر قبول کیا ہوتا ہے اگر ساری دنیا بھی اُس کو پھرانا چاہے تو پھر نہیں سکتا.ایمان کے بغیر مستقل ترقی نہیں یا د رکھو کہ ایمان کے بغیر مستقل ترقی نہیں ہوتی.بھلا کیا وجہ ہے کہ مردوں نے اتنی ترقی کی ہے کہ اگر وہ آروں سے بھی کانے جاویں تو دین نہیں چھوڑتے مگر عورتوں نے چونکہ مردوں کی خاطر دین مانا ہوتا ہے خدا کے لئے نہیں اسلئے کوئی قربانی بھی نہیں کر سکتیں.پس جان لو کہ کوئی نماز، کوئی روزہ، کوئی حج ، غرضیکہ کوئی عبادت بھی قبول نہیں ہوتی جب تک ایمان اپنا نہ ہو بلکہ خاوندوں کی وجہ سے ہو.اور اگر تم یہ یقین رکھو کہ ہمیں خدا نے صرف مردوں کے لئے پیدا کیا ہے تو کوئی ترقی نہیں کر سکتیں.عورتوں کی ترقی سے دین کی ترقی یادر کھو کہ کوئی دین ترقی نہیں کر سکتا جب تک عورتیں ترقی : کریں، پس اسلام کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ تم بھی ترقی کرو.عورتیں کمرے کی چار دیواروں میں سے دود یوار میں ہیں.اگر کمرے کی دو دیواریں گر جائیں تو کیا اُس کمرے کی چھت ٹھہر سکتی ہے.نہیں ہرگز نہیں.

Page 65

58 58 پس عورتوں کو کئی اہمیتیں حاصل ہیں.ہر چیز کے جوڑے پہلی اہمیت تو اپنی ذات کے لحاظ سے حاصل ہے کہ عورت کے بغیر نسل نہیں چل سکتی اگر اس کے بغیر چل سکتی تو چاہئے تھا کہ خدا تعالٰی مرد ہی بنا دیتا.دوسرے چونکہ اللہ تعالٰی واحد ہے اُس کو اپنے ایک ہو ئیکی بڑی غیرت ہے اس لئے اُس نے کوئی چیز ایسی نہیں بنائی جو کہ ایک ہی ہو اور دوسروں کی محتاج نہ ہو اس لئے اُس نے دنیا میں سب چیزوں کے جوڑے بنائے ہیں.آدمی کے اندر بھی دو ہی چیزیں ہیں.(۱) جسم (۲) روح.اس زمانہ کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ درختوں میں بھی نر و مادہ موجود ہیں.قرآن شریف میں یہ بات پہلے سے ہی لکھی ہوئی تھی کہ دنیا میں ہر ایک چیز کے جوڑے ہیں تا کہ کوئی چیز یہ نہ کہ سکتے کہ میں ایک ہوں اس لئے سب ایک دوسرے کے محتاج بھی ہیں، اور سوائے اس شاذ و نا در حالت کہ آدم علیہ السلام پیدا و گئے مگر انکی پیدائش بھی ایک چیز سے نہیں ہوئی بلکہ مختلف چیزوں سے ہوئی تھی.مرد عورت کی پیدلکش کی غرض عورت اور مرد بنانے کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ واحد انسیت قائم رہے.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں نے جن اور انسان کو سوائے اس کے نہیں بنایا کہ میری اطاعت کریں.پس جبکہ خدا تعالیٰ نے مرد اور عورت کو ایک ہی کام کے لئے پیدا کیا ہے تو عورت کو بھی چاہیئے کہ خدا کا قرب حاصل کرے.آب تو دونوں کی مثال ایسی ہوگئی ہے کہ جیسے گاڑی میں دو بیل ے گئے ہیں اور دونوں کو آقا کی اطاعت کرنی چاہیئے.یہ تو ذاتی اہمیت ہے.عورت کا اثر خاوند پر ایک اور اہمیت یہ ہے کہ عورت کا اپنے خاوند پر بڑا اثر ہوتا ہے.کہنے کو تو کہتے ہیں کہ عورت کے ماتحت ہے مگر یہ بات درست ہے کہ کئی عورتوں کی وجہ سے مردوں نے اپنے آپ کو ابتلاء میں ڈال لیا.عورت مانتی کے رنگ میں حکومت کرتی ہے چنانچہ حضرت آدم بھی اس طرح بہشت سے نکلے.بائیبل میں تھا.ہے کہ ا دم شیطان کا کہنا نہ مانتے تھے آخر وہ تو ا کے پاس گیا اور آدم سے کہہ کر تو انے منوالیا.اس سے پتہ لگتا ہے کہ دونگیت و پیار کی حکومت ہوتی ہے بہر حال حکومت ہوتی ہے.ہم نے بہت دفعہ د یکھا ہے کہ بڑے مخلص مریدوں کو ان کی عورتوں نے ورغلا لیا اور ایسا بھی دیکھا ہے کہ عورتیں پہلے احمدی ہوئی ہیں او رمردوں کو بھی انہوں نے بنوا لیا اگر عورتیں مان لیں تو مرد بھی خدمت دین میں زیادہ حصہ لے سکتے ہیں.

Page 66

59 بعض دفعہ عورتیں اپنی محبت کی حکومت کو بڑے خطر ناک طریق سے چلاتی ہیں چنانچہ رشوتیں بھی اکثر عورتوں کی وجہ سے لی جاتی ہیں کہ جب عورتیں مردوں کو دق کرتی ہیں کہ ہمیں یہ چاہیئے یہ چاہیئے تو مرد کو مجبور نا جائز طریق سے روپیہ کمانا پڑتا ہے.یہ عورت کا اثر ہوتا ہے.دُنیا میں اکثر خرابیاں مرد عورت کی ضرورت پوری نہ ہونیکی وجہ سے کرتے ہیں.کیا یہ عورتوں کی حکومت نہیں کہ انکی وجہ سے مردوں کے دین تک سلب ہو گئے اور کئی عورتوں کی وجہ سے مرد نیک ہو گئے.یہ تو ظاہری اثر ہے مخفی اثر بھی عورتیں ڈال سکتی ہیں.چنانچہ بعض عورتیں جب چندے کا سوال اٹھنے والا ہوتا ہے تو اسی وقت اپنی ضروریات سے آگاہ کرنا شروع کر دیتی ہیں تا کہ چندہ دینے سے وہ رہ جائے یہ خفی اثر ہے.جس طرح یہ بداثر ڈالتی ہیں اسیطرح نیک بھی ڈال سکتی ہیں.ایک دفعہ ایک صحابی کے گھر میں ایک مہمان آیا مرد نے کہا کہ کیا کیا جاوے.عورت نے کہا کیا ڈر ہے ایک ہی آدمی کا کھانا ہے وہ اسے کھلا دیں.اُس عورت نے بچوں کو تو سلا دیا اور وہ کھانا اس مہمان کے سامنے رکھ دیا.عربوں کے ہاں یہ رواج تھا کہ جب تک گھر والے ساتھ نہ بیٹھ کر کھا دیں مہمان کھانا نہیں کھایا کرتے تھے اس عورت نے کسی طریق سے روشنی بجھا دی اور آپ دونوں اُس کے پاس بیٹھ گئے اور ایسے ہی منہ مارتے رہے گویا کہ آپ بھی ساتھ کھا رہے ہیں.مگر اب اکثر عورتیں کہہ دیتی ہیں کہ جہنم میں جاوے مہمان ہم اپنے بچوں کو کیوں بھوکا رکھیں.ایک عورت کا ایمان رسول کریم کی وفات کے بعد جبکہ حضرت ابو بکر صدیق کچھ غلافت کے آخری ایام تھے مسلمانوں کو عیسائیوں کے ساتھ ایک بڑی جنگ کا سامنا ہوا.عیسائیوں کی تعداد مسلمانوں سے بہت زیادہ تھی، کئی دن تک سخت جنگ ہوتی رہی ، آخر کار عیسائیوں نے ارادہ کیا کہ یک بار حملہ کر کے اسلامی لشکر کو شکست دیدی جاوے.چنانچہ انہوں نے آخری دن بڑے زور سے حملہ کیا اور مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے.آخر اسی بندہ نے جس نے کفر کی حالت میں حضرت حمزہ کا کلیجہ نکال کر چہایا تھا اسلام لانے کی حالت میں ایسی ایمانی غیرت دکھائی کہ مردوں کو جنگ سے لوٹتے ہوئے دیکھ کر عورتوں سے کہا اُٹھو مردوں کا منہ کالا کر واب ہم لڑنے جاتی ہیں اور عورتوں کے ہاتھ میں لکڑیاں ، سوئے پکڑا دئے اور خیموں سے باہر نکل آئیں اور جو کوئی بھاگ کر آتا تھا اُسے کہتی تھی کہ تم جاؤ گھروں میں کھانا پکا ؤ اب ہم لڑنے کے لئے جاتی ہیں، اسوقت آدمیوں کو اس قدر شرم آئی کہ ایک صحابی کہتے ہیں کہ تلوار کا گھاؤ بہتر تھا انکی اس بات

Page 67

60 60 سے.سب مرد واپس چلے گئے اور انہوں نے اس زور سے حملہ کیا کہ فتح ہو گئی.یہ ایک عورت کی ہمت اور اسکی عالی حوصلگی کا نتیجہ تھا.اس زمانہ میں بھی عورتیں یہ کر سکتی ہیں کہ مردوں کو تبلیغ کے لئے تیار کریں.عورت کا اثر بچوں پر ایک اہمیت جو عورت کو حاصل ہے دو مرد کو نہیں اور یہ عورت کی فضیلت ہے اور وہ یہ کہ عورت بچوں سے زیادہ باتیں منواسکتی ہے اور اولاد کی تربیت بھی بہت ضروری ہے کیونکہ بُری اولا د کی وجہ سے بھی انسان رسوا اور ذلیل ہو جاتا ہے اور نیک اولاد کی وجہ سے اس کا نام روشن ہو جا تا ہے.یہ مت سمجھو کہ تم احمدی ہو گئیں تو کافی سے نہیں بلکہ اولاد کو بھی احمدی بنانا ضروری ہے.کئی دفعہ ایسا دیکھا ہے کہ مسلمانوں نے عیسائی عورتوں سے شادیاں کیں اور اُن عورتوں نے مردوں کے مرتے ہی اپنی اولا د کو عیسائی بنالیا.چنانچہ رام پور کی ریاست سنیوں کی تھی اُن میں ایک شیعہ عورت آگئی جس کی وجہ سے اس ریاست کی حکومت ہی شیعوں کی ہوگئی.بچپن کی عمر چونکہ سیکھنے کی ہوتی ہے اس لئے جو کچھ کچھ پوچھے گا اور جو کچھ ماں سکھائے گی وہ بچے کے دل پر پتھر کی لکیر کی طرح ہو جاتا ہے اور وہ کبھی مٹائے نہیں متا.ہندوؤں میں چونکہ بچپن سے ہی پتھروں کے آگے سجدہ کرنا سکھایا جاتا ہے اس لئے بڑے ہو کر چاہے وہ بی.اے ، ایم.اے بھی پاس کر لیں تب بھی وہ پتھروں کے آگے سجدہ کرتے چلے جاتے ہیں.اسکی یہی وجہ ہے کہ بچپن کی سیکھی ہوئی باتیں عقل پر غالب آجاتی ہیں.اب اگر وہ دلیلیں جو قرآن کریم میں ہیں ہم پڑھیں تو حیران رہ جاتے ہیں کہ کیوں تمام دنیا مسلمان نہیں ہو جاتی مگر تمام دنیا کے مسلمان نہ ہونے کی یہی وجہ ہے کہ بچپن میں ماں کی سیکھی ہوئی باتیں لوگوں کے دلوں سے مٹ نہیں سکتیں.پس اگر ماں بے دین ہو تو وہ بہت بُرا اثر بچے پر ڈالتی ہے.مردوں کو تو فرصت ہوتی نہیں کہ بیٹھیں بچوں کو دین کی باتیں اور نیک باتیں سکھاویں.عورتیں دوستم کی بُری باتیں بچوں کو سکھا دیتی ہیں (۱) ایک تو مذہب کے متعلق اور دوسرے اسلام کے متعلق.یعنی بچوں کو کہتی رہتی ہیں کہ احمدی بہت بُرے ہوتے ہیں.انہوں نے ایک نیا مذ ہب نکال لیا ہے ہم تو وہی کریں گے جو ہمارے باپ دادا کرتے آئے اور دوسرے اسلام کے متعلق مثلا یہ سکھاتی ہیں کہ جھکا کرو اور السلام علیکم نہ کہا کرو.تو بچے میں وہی عادتیں گھر کر جاتی ہیں.(۳) تیسری بات یہ کہ عورتیں بچوں کو خدمت دین سے متنفر کر دیتی ہیں.یہ سب بُرے خیال عورتیں ہی بچوں میں ڈال دیتی ہیں جس کی وجہ سے وہ دین کے نزدیک بھی نہیں جاتے.

Page 68

61 (۴) چوتھی بات یہ ہے کہ اُن کو عملاً سست کر دیتی ہیں اور وہ اس کا نام محبت رکھتی ہیں.مثلاً نماز کے لئے جگاتی نہیں.یا وضوء نہیں کرنے دیتیں کہ سردی لگ جاوے گی اور وہ اس وجہ سے دین کے کاموں میں سُست رہ جاتا ہے حالانکہ محنت کرنے سے زیادہ زور پیدا ہوتا ہے اور ہمت بڑھتی ہے.تو بعض عورتیں بچوں کو بچپن میں مشق نہیں کروائیں جس کی وجہ سے اگر بچہ کسی کام کو کرنا بھی چاہے تو نہیں کر سکتا.خالی ایمان کچھ نہیں کر سکتا جب تک کہ مشق نہ ہو.اخلاص بھی کچھ کام نہیں کرنے دیتا اور وہ بڑا ہو کر ماں کو دعائیں دینے کی بجائے بُرا بھلا ہی کہے گا کہ اگر بچپن ہی میں مجھے مشق کروائی ہوتی تو آج مجھے عشاء اور تہجد وغیرہ کی نمازوں میں اور دوسرے دینی کاموں میں ذرا بھی دقت محسوس نہ ہوتی.(۵) پانچویں بات یہ ہے کہ مرد تو باہر چلا جاتا ہے اور عورت بچوں کی پروا نہیں کرتی اور وہ اور بچوں کے ساتھ گلیوں میں پھرتے رہتے ہیں.مرد اپنی سب سے زیادہ قیمتی چیز اولادکو عورت کے سپرد کر کے جاتا ہے وہ اس امانت میں خیانت کرتی ہے.یہ پانچوں ہداثر ہیں جو عورت بچوں پر ڈالتی ہے اور وہ یہ نہیں جانتی کہ اس کی حفاظت میرے ذمہ ہے.کیا اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو دو سور و پی دے جاوے تو وہ اس رقم کو گلی کے کسی بچے کے ہاتھ دیدیگی؟ نہیں.تو کیا وجہ ہے کہ وہ اس چیز کو جو ہیروں پھلوں اور موتیوں بلکہ بادشاہوں سے زیادہ قیمتی ہے اُس کو گلی کے آوارہ بچوں کے سپر د کر دیتی ہے.(۶) چھٹی بری عادت جو ماؤں میں ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ بچوں کی غلطیوں کو چھپاتی ہیں.بھلا کسی نے کسی عورت کو دیکھا کہ وہ بچے کی بیماری کو چھپائے نہیں کیونکہ وہ جانتی ہے کہ اگر وہ اس کی بیماری کا علاج نہ کرے گی تو وہ مر جاوے گا لیکن وہ اس کی روحانی بیماریوں کو چھپاتی ہے.اگر بچپن میں کوئی مرض پیدا ہو جاوے اور بچپن میں ہی اس کی اصلاح نہ کی جاوے تو بڑے ہونے کے بعد بڑی بڑی قربانیوں کے بغیر اس کی اصلاح نہیں ہو سکتی مگر عورتیں پردہ ڈالتی ہیں.بعض دفعہ بچہ جھوٹ بولتا ہے اور باپ سمجھانا چاہتا ہے تو ماں کہہ دیتی ہے کہ نہیں یہ بات اس طرح تھی اور خود بھی جھوٹ بول دیتی ہے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچہ خراب ہوتا چلا جاتا ہے.(۷) ساتویں بات یہ ہے کہ عورتیں بچوں کی صحت کا خیال نہیں رکھتیں جس کی وجہ سے وہ بڑے ہو کر کوئی

Page 69

62 بڑے کام نہیں کر سکتے.یہ سات ایسے کام ہیں جن کی کنجی عورت کے ہاتھ میں ہے.ان کاموں کے کرنے کے لئے عالم ہونے کی ضرورت نہیں.اسلام کی اصل باتیں تو ہر ایک عورت جانتی ہے.اگر عورتیں بچوں کو بچپن میں دین کے موٹے موٹے مسئلے سکھا دیا کریں تو پھر دیکھو کہ نو دس برس کی عمر تک بچوں میں وہ غیرت پیدا ہو جاوے گی کہ وہ بہت کچھ سکھانے کی وجہ سے بھی ان باتوں سے نہ پھر سکیں گے.اور جو بری باتیں میں نے بیان کی ہیں اُن کے برعکس وہ نیک باتیں بھی سکھا سکتی ہیں جن کی وجہ سے بچے میں عیب پیدا ہو ہی نہیں سکتے اور اصل محبت تو یہی ہے تم ان باتوں کو یا درکھو.یہ باتیں تمہاری اہمیت کے متعلق ہیں.عورتوں کی ذمہ داریاں جب تک تم ترقی نہ کرو دین کامیاب نہیں ہو سکتا.ہماری ترقیاں ، ہماری قربانیاں زیادہ سے زیادہ میں یا پچیس سال تک رہیں گی مگر اگر تم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ تو قیامت تک اس ترقی کو قائم رکھ سکتی ہو.کیونکہ آئندہ نسلوں کو سکھانے والی تم ہی ہو.ہمارا اثر ظاہری ہے.تمہارا اثر داگئی ہے.اس سے تم سمجھ لو کہ تمہارے اوپر زیادہ بوجھ ہے.یہ تمہیں ہو کہ اسلام کو قائم رکھ سکتی ہو، شیطان کا سرکاٹ سکتی ہو اور دین کی ترقی کو ایسی صورت میں مستحکم کر سکتی ہو کہ تمام قو میں دیکھ کر حیران رہ جائیں.آخر میں میری یہ دعا ہے کہ خدا تعالٰی ہماری جماعت کے مردوں اور عورتوں کو اپنے فرائض میں مستحکم کرے اور ہم اپنے فرائض اچھی طرح سے ادا کر سکیں اور ہم اس مضبوط چٹان کی طرح ہو جاویں کہ کوئی دشمن ہمارا مقابلہ نہ کر سکے.آمین.الفضل ۲۲.جنوری ۱۹۲۳ء صفحہ ۵ تا ۷ )

Page 70

63 نقار بر ثلاثه تقریر اول حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جلسه لجنہ اماءاللہ منعقدہ مورخه ۵ - فروری ۱۹۲۳ء علم دماغی ترقی کا موجب ہوتا ہے میں نے پچھلے جلسہ کے ایک موقعہ پر یہ بات بیان کی تھی کرہ علم کی ترقی کے لئے یہ ضروری ہے کہ مختلف علوم کے متعلق ایسے لوگوں کے لیکچر ہوتے رہیں جو اُن کے ماہر ہوں.خواہ یہ علوم دینی ہوں یا دنیاوی کیونکہ ہر قسم کا علم انسان کی دماغی ترقی کا موجب ہوتا ہے.بعض دفعہ انسان مذہبی طور پر ایک رتبہ حاصل کر لیتا ہے مگر دنیاوی علوم نہ جاننے کے باعث ذلیل ہوتا ہے.حکایت حضرت مسیح موعود السلام کسی شخص کا جو بزرگ مشہور تھا واقعہ بیان کرتے تھے.....بادشاہ کے درباریوں میں سے کوئی اُس کا معتقد تھا وہ ہمیشہ بادشاہ کو تحریک کرتا تھا کہ اس بزرگ کے پاس چلو مگر بادشاہ ہمیشہ اُس کو ٹلا دیتا تھا.بار بار کے کہنے پر ایک بار بادشاہ کو خیال آیا کہ چل کر دیکھیں تو سہی بزرگ کہلاتا ہے اُس میں کیا کمال اور بزرگی ہے.چنانچہ بادشاہ وہاں پہنچا.اس کو خیال ہوا کہ بادشاہ پر کچھ اثر ڈالنا چاہیئے اور اس کے لئے اس نے مناسب سمجھا کہ کچھ نصیحت کروں اور اس طرح علم کا اظہار کروں تا کہ اُس کی عقیدت میں ترقی ہو.اس خیال پر اُس نے اپنی تقریر کا سلسلہ شروع کیا اور کہا کہ بادشاہوں کو لازم ہے کہ اپنی رعایا کے ساتھ انصاف کریں اور اُن پر ظلم نہ کریں.مسلمان بادشاہوں میں سے ایک سکندر بادشاہ تھا جو رسول اللہ سے ہزار سال پہلے گزرا تھا.بادشاہ نے جب یہ بات سنی تو اُس کا چہرہ متغیر ہوا اور اس کو معلوم ہوا کہ یہ شخص محض جاہل ہے اور اُٹھ کر چلا آیا.اس کو نفس کی خواہش نے ہلاک کیا اور ضروری علم کے نہ جاننے کی وجہ سے ذلیل ہوا.اگر چہ یہ کوئی ضروری بات نہیں کہ کوئی بزرگ ہو تو اسے یہ معلوم ہو کہ سکندر کون تھا مگر اُس شخص نے محض اپنے نفس کی بڑائی کے لئے اور یہ بتانے کے لئے کہ وہ تاریخ سے بھی واقف ہے ایک ایسی بات کہی جو اُس کی ذلت کا باعث ہوگئی اس لئے کہ وہ غلط تھی.پس ایسے علوم سے انسان کو کم از کم واقفیت ہونی چاہیئے اسی لئے

Page 71

64 میں نے بتایا کہ مختلف اوقات میں علمی امور پر تقریریں ہوتی رہیں تا کہ سب ممبر واقف ہو جائیں اور یہ علوم دینی ہوں یا د نیوی.اور یہ بھی بتایا تھا کہ مردوں کو بعض وقت معلوم نہیں ہوتا کہ کون سے مسائل ہیں جو عورتوں کے لئے ضروری ہیں اس لئے میں نے تجویز کیا کہ ایک لیکچر ایسا ہو کہ اس میں بنادیا جائے کہ معلوم کون سے ہیں تب عورتیں خود فیصلہ کر سکیں گی کہ وہ کس علم کے متعلق تفصیل سے سننا چاہتی ہیں.جیسے اگر کسی شخص کو شہروں کے دیکھنے کی خواہش ہو.مثلاً دہلی ہے تو وہ اُس کے دیکھنے کے لئے آرزو کرے گا اس لئے کہ اُس نے دوسرے بڑے شہروں جیسے لنڈن یا پیرس کا نام نہیں سنا اور نہ اُن کی وسعت اور خوبصورتی کے متعلق کچھ معلوم ہے حالانکہ لنڈن.پیرس.برلن.بہت بڑے شہر ہیں مگر چونکہ اُن کے متعلق علم نہیں اس لئے دہلی کے دیکھنے کی خواہش کریں گے حالانکہ وہ ان شہروں سے کچھ نسبت ہی نہیں رکھتی.اسی طرح عورتیں اُسی وقت معلوم کریں گی جب اُن کے سامنے علوم کی ایک فہرست رکھ دی جائے.پس میرا یہ لیکچر صرف علوم کی تعریف کے متعلق ہو گا میں بتاؤں گا کہ دنیا میں کیا کیا علوم ہیں.علم کے مفہوم کی وسعت علم کے معنے میرے نزدیک یہ نہیں کہ جو سچا ہی ہو.میرے نزدیک علم کئی قسم کے ہوتے ہیں.بعض تو ایسے ہوتے ہیں کہ فی الحقیقت وہ بچے اور مکمل ہوتے ہیں اور بعض نہ بچے ہوتے ہیں اور نہ مکمل ہوتے ہیں مگر پھر بھی اُن کو علم کہا جا سکتا ہے اور بعض ابھی معرض تحقیق میں ہوتے ہیں مگر علم کہلاتے ہیں.اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کو پڑھنا ہوتا ہے مگر عمل اور کام کرنا نہیں ہوتا.اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ اُن میں صرف کام کرنا پڑتا ہے اور ہاتھ کا زیادہ دخل ہوتا ہے.پس میں اس مضمون میں صرف علوم کی فہرست بتاؤں گا تا کہ اندازہ کر لیں کہ کس کس قدر علم کی ضرورت ہے اور اسی طرح پر اس فہرست میں وہ علوم بھی لوں گا جو بچے اور درست ہیں اور وہ علم بھی لوں گا جو درست نہیں، ایسے بھی جو عقل سے تعلق رکھتے ہیں اور ایسے بھی جو صرف عمل سے تعلق رکھتے ہیں.مذہبی علوم مذہبی علوم کے معلوم کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ مذہب کیا چیز ہے اور کن باتوں میں مختلف مذاہب میں باہم اختلاف ہوا ہے.مذہب پر اگر غور کریں تو تین باتوں کی وجہ سے اختلاف ہوا ہے.اس کے متعلق بھی میں تفصیلات نہیں بیان کروں گا بلکہ مذاہب کے مختلف پہلو بیان کروں گا.

Page 72

65 مختلف مذاہب میں تین اصول ہیں جن پر اختلاف ہوا ہے.اوّل انسان کس طرح دُنیا میں آیا ؟ دوم کس فرض کے لئے دنیا میں آیا ؟ سوم اس بات پر کہ کہاں جائے گا؟ یہی تین باتیں ہیں جن کی وجہ سے اختلاف ہوا اور مختلف مذاہب پیدا ہو گئے.ان ہر سہ امور کے متعلق جس قدر مسائل ہیں ہم ان سے گرد چکر لگائیں گے.اشتراک مذاہب نے علوم کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک اور سوال بھی........مد نظر رکھنا چاہیئے کہ مذاہب کا باہم کس حد تک اشتراک ہے یعنی وہ کن باتوں میں باہم ملتے ہیں اور کن خیالات کے دائرہ کے اندر وہ پیدا ہوئے ہیں؟ یہ سوال اس لئے پیدا ہوا ہے کہ اس زمانہ کے لوگ مذاہب سے الگ ہو کر سمجھتے ہیں کہ وہ جھوٹ ہے اس فرض کے لئے انہوں نے یہ خیال نکالا ہے کہ کن باتوں میں مذاہب ملتے ہیں اور کن باتوں میں اختلاف ہے ؟ پھران دو باتوں کو مد نظر رکھ کر وہ کہتے ہیں کہ ان کے باہر سے آنے کی ضرورت نہیں یہ اخلاق سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے الہام کی ضرورت نہیں.پہلی بات کے متعلق کہ کن باتوں میں ملتے ہیں وہ ان کو مشترک سچائیاں کہ کر الہام کی ضرورت کا انکار کرتے ہیں.اور دوسرا حصہ کہ کن دائروں کے اندروہ خیالات پیدا ہوئے ہیں.اس کے متعلق وہ ہر قسم اور ملک کی پہلی حالت کو لیتے ہیں اور پھر اُن کے مذاہب کو لیتے ہیں اور قرار دیتے ہیں کہ ان خیالات کا نتیجہ ہے اور اس طرح پر کہتے ہیں کہ خدا تعالے کی طرف سے آیا ہوا نہ ہب نہیں.یہ جدید تحقیقات مذاہب کے علم کے متعلق ہے اور اس علم کو موازنہ مذاہب یا کمپیر ٹیوریلیجن کہتے ہیں.یہ اصول علوم ہیں مذاہب کے متعلق.مذہب اسلام تفصیلی طور پر مذہبی علوم یہ ہیں کہ (۱) ایک علم اسلام کا ہے.اسلام مذاہب میں سے ایک مذہب ہے.پس انسان اس کی تحقیقات کرے.مذہب یچی (۲) دوسرا مذہب مسیحیت ہے.جب تحقیقات مذاہب ہوگی تو یہ سوال ہوگا کہ مسیحیت کیا سیجی ہے؟ جب علمی تحقیقات ہو گی تو اس کے فرقوں کو دیکھنا ہوگا.اس کے چار بڑے فرقے اصول کے لحاظ سے ہیں:.اول.رومن کیتھولک :.ان کا عقیدہ یہ ہے کہ علیہ السلام کے خلیفہ پیر (پطرس ) تھے.پطرس حضرت مسیح علیہ السلام کے حواری اور خلیفہ تھے اس کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ روم میں رہے.وہ ( کیتھولک ) کہتے

Page 73

66 ہیں کہ جب روم میں گئے تو اُن کو قائم مقام مقرر کیا تھا اس لئے وہ اُن کا خلیفہ تھا.روم کے پادریوں کا سب سے بڑا افسر جس کو پوپ کہتے ہیں اُس کو وہ پطرس کا جانشین اور خلیفہ سمجھتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ باقی جس قدر پادری ہیں وہ اُس کی اطاعت کریں.اگر وہ اس کی اطاعت نہیں کرتے تو مسیح کی بھی نہیں کرتے.غرض وہ حضرت مسیح کی خلافت متواترہ کا اقرار کرتے ہیں.میں اس وقت یہ بحث نہیں کروں گا کہ یہ غلط ہے یا تی بلکہ مجھ کو تو صرف یہ بتانا ہے کہ یہ بھی ایک علم ہے.پھر وہ لوگ حضرت مریم کی طرف کچھ خدائی صفات منسوب کرتے ہیں اور یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ جب کوئی بزرگ مرجاتا ہے تو اس کی قبر یا لاش سے دعا کرتے ہیں.سائنس کے طریق پر بعض لاشوں کو محفوظ رکھتے ہیں اور بزرگوں کی قبروں پر یا جہاں انہوں نے دُعائیں کی ہوں جاتے ہیں.انتظامی طور پر وہ خلیفہ کو مانتے ہیں اور مذہبی لحاظ سے اُن کا خیال ہے کہ حضرت مسیح اور مریم اور دوسرے بزرگوں کی قبر یا مقامات مقدسہ پر دُعا کی جائے تو قبول ہوتی ہے.ان میں ایک رسم عشاء ربانی کی ہے کہتے ہیں کہ مسیح نے اپنی گرفتاری سے پہلے شراب یا انگور کا رس اور روٹی کا ٹکرا لے کر پیا اور حواریوں کو دیا اور اس کی تعبیر اپنے گوشت اور خون سے کی.یہ اُس کی نقل کرتے ہیں اور یہ عقید ور رکھتے ہیں یعنی وہ ڈبل روٹی کو گوشت اور شراب کو اُس کا خون یقین کرتے ہیں.رومن کیتھولک کے ماتحت بہت بڑا علاقہ ہے اور رومن کیتھولک پرانے طریق کے عیسائی ہیں.دوسرا فرقه گر یک چرچ ہے.گر یک چرچ کے معنے ہیں.یونانی گر جا.یہ لوگ پانچویں مسیحی میں جدا ہو گئے.یونانیوں میں بُت پرستی زیادہ تھی.یہ لوگ رومیوں کے اس خیال کو صحیح نہیں سمجھتے کہ پوپ منبع کا قائم مقام ہے اس لئے وہ پوپ سے الگ ہو گئے.اُن کا بڑا پادری پیڑی مارک کہلاتا ہے جو قسطنطنیہ میں رہتا ہے اس کو بھی پوپ کی طرح وہ مسیح کا قائم مقام نہیں سمجھتے.تیسرا مذہب پروٹسٹنٹ.پروٹسٹنٹ کے معنے ہیں مقابل میں اظہار نفرت یا اظہار علیحدگی.ان لوگوں نے پوپ سے علیحدگی کا اظہار کر دیا.رومن کیتھولک سے یہ لوگ نکل کر علیحدہ ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ ہر شخص آزاد ہے پوپ کچھ چیز نہیں.اُن کے ہاں بھی گر جا ہے اور وہ اُسے بادشاہ کے ماتحت سمجھتے ہیں.یہ انگلستان کا حال ہے یورپ کے باقی ممالک والے گرجے کے ماتحت سمجھے جاتے ہیں جن میں عام لوگوں کی

Page 74

67 بھی رائے ہوتی ہے.ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ مسیح کی صلیب کے سامنے یا کسی بزرگ یا مریم کے بہت کے سامنے جھکنا جائز نہیں اور انجیل کا ترجمہ دوسری زبانوں میں کرنا جائز ہے برخلاف رومن کیتھولک والوں کے جو کہتے ہیں کہ انجیل اصلی زبان نہیں پڑھنی چاہیئے.چوتھا فرقہ یونی ٹیرین ہے جو ایک خدا کو مانتے ہیں.حضرت مسیح علیہ السلام کو وہ خدا یا خدا کا بیٹا نہیں مانتے بلکہ اُن کو آخری اور بڑا نبی یقین کرتے ہیں.عیسائیت کے یہ بڑے بڑے فرقے بیان کئے ہیں ان میں چھوٹے چھوٹے اور بھی بہت سے فرقے ہیں لیکن بڑے فرقے یہی ہیں.یہودی مذہب (۳) تیسرا مذہب یہودیت ہے.یہ لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت ہیں اور تو رات کو مانتے ہیں.حضرت مسیح علیہ السلام کو جھوٹا یقین کرتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ایک آنے والے مسیح کی پیشگوئی ضرور ہے مگر مسیح ابن مریم کا دعوئی غلط ہے.وہ کہتے ہیں مسیح سے پہلے ایلیا نبی آسمان سے آئے گا.ملاتی نبی تک سب کو مانتے ہیں البتہ حضرت سلیمان کو بھی بڑا کہتے ہیں اور حضرت داؤد کو نبی مانتے ہیں.اصل مذہب کی بنیاد توریت پر رکھتے ہیں.یہودی مذہب کے دو بڑے فرقے ہیں.ایک صدوقی دوسرے فریسی.صدوقتی سیاسی فرقہ ہے اور آزاد خیال ہے.ان کا یہی خیال تھا کہ بائیبل ہر شخص سمجھ سکتا ہے اس لئے وہ حالات زمانہ کے ماتحت بائیبل کے معنی کر لیتا تھا اور یہ فرقہ چونکہ سیاسی تھا بادشاہوں کی مدد پر تھا.بادشاہوں کو بھی اپنی حکومت چلانے کے لئے اُن کی ضرورت تھی اس لئے وہ بھی ان کی مدد کرتے اور آزادی دے دیتے تھے تا کہ حسب مطلب معنے کر لیں.در حقیقت یہ ایک سیاسی فرقہ تھا.اس فرقہ کو کسی حد تک اہل حدیث کی مانند کہہ سکتے ہیں.دوسرا فرقه فریسی حنفیوں کی مانند ہے.یہ کہتے ہیں کہ بزرگوں کے اقوال کی بھی تقلید ضروری ہے اور دوسرے ملکوں کے فتح کرنے کے خلاف تھے بلکہ اپنے ملک کو محدود رکھنا چاہتے تھے.چونکہ صدوقی فرقہ ایک سیاسی فرقہ ہی تھا اس لئے یہودیت کی تباہی کے ساتھ وہ مٹ گیا.ہندو مذہب (۴) چوتھا ہندو مذہب ہے.دراصل یہ کوئی مذہب نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے آنے سے

Page 75

68 پہلے جولوگ ہندوستان میں موجود تھے وہ ہندو کہلاتے تھے.ان میں موٹے موٹے فرقے یہ ہیں:.سب سے زیادہ اور سب سے قدیم سناتن دھرم ہے.یہ بہت پرانا مذہب ہے اور وید پر یقین رکھتے ہیں اور اس کو خدا کا کلام سمجھتے ہیں.ان کا عقیدہ ہے کہ وید کے بعد کوئی نئی شریعت اور کتاب نہیں آئی ہے بلکہ اوتاروں کے ذریعہ وید کا علم آتا ہے.کرشن اور رام چندر کو اوتار مانتے ہیں.اس مذہب کا زیادہ مدار بت پرستی پر ہے اور تین بڑے دیوتا بر ہما.وشنو اور شو کو مانتے ہیں.اور بھی چھوٹے چھوٹے بہت سے دیوتاؤں کو مانتے ہیں مگر سب سے بڑے یہی ہیں.آگے پھر ان میں مذہبی فرقے ہیں.بعض برہما کو بڑا بتاتے ہیں اور بعض وشنو کو اور بعض شو کو.برہما پیدائش کا دیوتا ہے، جو آرام اور دولت کا اور وشنو بلاک کا یعنی موت کا.پھر ان فرقوں میں ایک اہم فرقہ ہے جو کرشن جی کو مانے والا ہے.وہ وید کو خاص طرز پر مانتے ہیں لیکن ان کا خیال ہے کہ کرشن جی نے کیتا میں جو کچھ بیان کیا ہے وہ وید کو پڑھ کر نہیں آتا اس لئے وہ گیتا ہی کو پڑھتے ہیں.وہ گیتا کے علم کو مکمل سمجھتے ہیں اور دیدوں پر اس کو فضیلت دیتے ہیں.اس لئے وہ ایک نیا ہی فرقہ ہے.پھر ایک اور فرقہ ان میں ویدانتی یاد یدانت کہلاتا ہے.اس فرقہ والے بجھتے ہیں کہ سب کچھ خداہی ہے.وہ کہتے ہیں کہ دنیا کو ایک خدا کا خیال ہے اور اُن کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ سب کچھ ہمیشہ سے ہے اور اگر یہ ہمیشہ سے نہیں تو پھر کہاں سے آگیا.پس یہ خدا کا خیال ہے اور در حقیقت یہ کچھ نہیں.پھر ایک فرقہ وام مارگ ہے ان کا عقیدہ عملی طور پر یہ ہے کہ ساری روحانی ترقی عیاشی پر موقوف ہے.یہ لوگ کثرت سے پھیلے ہوئے ہیں.پھر ایک مذیب آریہ مذہب ہے.یہ اوتاروں کو نہیں مانتے اور یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے روح اور مادہ کو پیدا نہیں کیا بلکہ یہ دونوں چیزیں بھی ہمیشہ سے مستقل طور پر ہیں.اپنے وجود کے لئے خدا تعالیٰ نے ان چیزوں کو لے کر جوڑ جاڑ دیا جس طرح کمہار مٹی لے کر برتن بنادیتا ہے.اور یہ مذہب نجات کے متعلق کہتا ہے کہ جو کچھ ملتا ہے وہ صرف کرموں کا پھل ہے اور اس کو تاریخ یا آواگوں کا عقید ہ بتاتے ہیں کہ انسان بار ہارا اپنے عملوں کی جزا وسزا بھگتنے کے لئے اس دُنیا میں بار بار آ تار بہتا ہے اور کبھی اس کو ہمیشہ کی نجات نہیں مل سکتی.بدھ مذہب (۵) پانچواں مذہب بدھ مذہب ہے.لوگوں کا خیال ہے کہ سب سے زیادہ تعداد اسی مذہب کی ہے.یہ مذہب پیدا تو ہندوستان میں ہو انگر اب اس کے مانے والوں کی بڑی تعداد ہندوستان سے باہر ہے

Page 76

69 چین اور جاپان وغیرہ میں اسی مذہب کے ماننے والے کثرت سے ہیں.اس مذہب کا بانی بدھ ایک راجہ کا بیٹا تھا.انہوں نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر خدا کی یاد کی.وہ کہتے ہیں کہ خواہشات کے مٹا دینے کا نام نجات ہے اور خواہشات کا مٹانا فنا ہو جانا ہے.یہی اس مذہب کا بڑا امتیاز ہے.وہ ہر قسم کی خواہشات ہی مٹا دینا چاہتے ہیں اس لئے وہ روزہ نہیں رکھتے اور دوسری قسم کی عبادات کو بھی مٹادیا کیونکہ یہ بھی ایک قسم کی خواہش ہے اور خواہش کے مٹادینے کا نام فنا ہونا ہے اور یہی نجات ہے.جینی مذہب (1) چھٹا ند ہب جین مت ہے.اس مذہب کے ماننے والوں کی تعداد ہندوستان میں دو اڑھائی کروڑ ہوگی.وہ کہتے ہیں کہ خدا کوئی نہیں.چند پاک رُوحیں مل کر دنیا پر حکومت کرتی ہیں اور باقی تمام ارواح ترقی کرتی ہیں اور اس ترقی میں کبھی کوئی وقت آجاتا ہے کہ وہ نجات پا جاتی ہیں.انسان کی روح کو مادہ لگ گیا ہے جب وہ مادہ جھڑ جاتا ہے تو وہ نجات پا جاتی ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی کانٹا کپڑے کو لگ جائے اور اس کانٹے کو الگ کر دیا جائے اُن کا بھی یہ عقیدہ ہے کہ جب تک وہ مادہ جھڑتا نہیں روحیں بار بار آتی رہتی ہیں اور بار بار آنے کا نام تناسخ ہے.یہ عقیدہ سب میں ہے.زرتشتی مذہب (۷) ساتواں زرتشتی مذہب کا علم ہے.یہ مذہب پانچ ہزار برس پہلے ایران میں پیدا ہوا تھا.بعض کا خیال ہے یہ ہندو مذ ہب سے بھی پہلے کا ہے.زرتشت ایک شخص ہے جس پر یہ مذہب نازل ہوا.اس مذہب کے عقائد اسلام سے ملتے ہیں.اعمال میں وضور تیم ، نماز بھی پائی جاتی ہے اور دوزخ اور بہشت کا عقیدہ بھی رکھتے ہیں.ان لوگوں کا سب سے بڑا اختلاف دوسرے مذاہب سے یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا سب سے بڑا جلوہ آگ اور سورج کو یقین کرتے ہیں اس لئے اس کی عام طور پر پوجا کرتے ہیں.اس کے بعد پانی اور ہوا عناصر کے بھی پرستار ہیں.عملی طور پر دوسرے مذاہب کے بعد اعمال سے بہت بڑا اختلاف ہے.مثلاً ہندو مردوں کو جلاتے ہیں اور مسلمان، عیسائی، یہودی سب دفن کرتے ہیں.یہ لوگ جن کو زرتشی یا پارسی کہتے ہیں نہ جلاتے ہیں نہ دفن کرتے ہیں بلکہ گروں کو کھلاتے ہیں.اس کام کے لئے انہوں نے ایک جگہ بنائی ہوئی ہوتی ہے جس کو وضمہ کہتے ہیں.انگریزی میں اس کا جو نام ہے اُس کا ترجمہ ہے."مینا ر خا موشی.جو لوگ اس میں مردوں کو رکھتے ہیں اور یہ کام کرتے ہیں اُن کو باہر نکلنے نہیں دیتے.

Page 77

70 سکھ مذہب (۸) آٹھواں مذہب سکھ مذہب ہے.اس مذہب کے بانی گورونا تک صاحب کے عمل اور کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کو اچھا جانتے ہیں.ایسا بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہندو بزرگوں کو بھی اچھا جانتے ہیں.ان میں کوئی شریعت نہیں.انکی مذہبی کتاب گرنتھ صاحب ہے.اسی کو یہ مانتے ہیں.مسلمانوں سے اختلاف اور عداوت کی وجہ سے اُن سے الگ ہو گئے ہیں.عام طور پر اس مذہب میں اخلاقی تعلیم ہوتی ہے.بہادر بنو جُھوٹ نہ بولو.وغیرہ.اس کے دو بڑے فرقے ہیں.ایک اکالی دوسرے اداسی.اواسی پرانے ہندو بزرگوں کو بھی مانتے ہیں اور ا کالی کہتے ہیں کہ سکھ نیا مذ ہب ہے ہندوؤں سے تعلق نہیں.آجکل اس فرقہ کا بہت زور ہے اور چھوٹے چھوٹے بہت سے فرقے اس مذہب میں ہیں.ہوا جاپانی مذہب (۹) نواں مذہب شنتو ازم ہے جو جاپان کا مذہب ہے.ان میں نہ شریعت ہے نہ کوئی قانون ہے.اخلاقی باتیں ہوتی ہیں.اور وہ روح کی طاقتوں کے قائل ہیں.مردوں کی روحوں کی پرستش کرتے ہیں.مذہب فلسفه (۱۰) دسواں مذہب فلسفہ کا ہے.یہ شک وشبہ کا مذہب ہے.دہریہ بھی اسی میں داخل ہے.یورپ میں ان کو اگناسٹک کہتے ہیں.اسکے معنے ہیں.”میں نہیں جانتا.اس مذہب کی بنیا محض وہم پر ہے.ان کے سوا کچھ نئے مذہب پیدا ہوئے ہیں ان میں سے ایک بابی مذہب ہے.اس کا عقیدہ ہے کہ نبی کریم اللہ کے بعد ایک نیا رسول صاحب شریعت آیا ہے.اس مذہب کا بانی ایک مخص محمد علی باب تھا جس کے نام سے منسوب ہو کر یہ لوگ بابی کہلاتے تھے پھر اس کے بعد اُس کا ایک خلیفہ بہاؤ اللہ اس کا جانشین ہوا اور اس کے نام سے منسوب ہو کر اس مذہب کا نام بہائی ہو گیا.اور اب یہ لوگ آپنے آپ کو اسی نام سے ہی پکارا جانا پسند کرتے ہیں.اس مذہب کا خیال ہے کہ حضرت امام حسین کی اولاد میں سے ایک امام غائب ہو گیا تھا جواب تک زندہ ہے.وہ امام غائب ایک شخص کو اپنا قائمقام بناتا ہے وہ اس کا جانشین ہوتا ہے.گویا وہ شخص امام غائب اور دوسرے لوگوں کے درمیان ایک واسطہ اور باب ہوتا ہے.باب دروازہ کو کہتے ہیں.ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ وہ باب معصوم ہوتا ہے اُس سے غلطی اور خطا نہیں ہوتی کیونکہ وہ امام مہدی کا آئینہ ہوتا ہے اور یہ بھی اُن کا

Page 78

71 عقیدہ ہے کہ مہدی کو علم غیب ہے.محمد علی باب مارا گیا.کہتے ہیں کہ اُس نے مرتے وقت وصیت کی تھی کہ میرا جانشین ایک صبح ازل ہو.دراصل یہ ایک لقب تھا جو محمد علی کے بعد اُس کے جانشین مرزا یے نے اپنار کھا لیا.یہ میرزا یحی بہاء اللہ کا بھائی تھا.یہ فرقہ چونکہ حکومت ایران کے خلاف تھا اور باب بھی شاہی حکم سے مارا گیا تھا.صبح ازل نے جب دیکھا کنہ اسکے سرگرم اور جو شیلے مرید قتل ہورہے ہیں تو بہت گھبرایا اور بغداد کو بھاگ آیا جہاں اُسنے آ کر خوف سے گوشہ نشیلی اختیار کر لی.اس موقع کو اُس کے بھائی بیاء اللہ نے جس کا اصل نام میرزا حسین علی تھا غنیمت سمجھا اور بہاء اللہ کا لقب اختیار کر کے اپنا کام کرنے لگا.اب صبح ازل تو بیٹھا رہ گیا اور بہائی فرقہ بڑھ گیا.یہ فرقہ ایک ایسا فرقہ ہے کہ جس کا مذہب اور عقیدہ عملی طور پر یہ پایا جاتا ہے کہ جو یورپ والے کہیں وہی تعلیم اپنی بتا دیتے ہیں.خواجہ صاحب کا ساطریق ہے کہ جو تعلیم یافتہ لوگوں نے کہہ دیا وہی اسلام ہے.بہائیوں کا عملی طریق یہی ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ کے لوگوں کے خیالات کو لیکر اور کچھا خلاقی تعلیم پیش کر دیتے ہیں.برہمو نذہب (۱۱) گیارواں مذہب یا دوسرا جدید مذ ہب پر ہمو مذ ہب ہے.یہ عقلی مذہب ہے اور کہتے ہیں ہمارے عقیدہ کی بنیاد عقل پر ہے.یہ لوگ دُعا بھی کرتے ہیں مگر دُعا کی قبولیت کے قائل نہیں.وہ کہتے ہیں کہ دُعا سے صرف خدا کی محبت بڑھتی ہے.تھیا سونی مذہب تیسرا جدید مذہب تھی سوفی ہے.اس مذہب کے بڑھانیہ نا ایک عورت ہے اور آجکل اسکی سردار بھی ایک عورت ہے جس کا نام اپنی بسنٹ ہے.اس کا عقیدہ ہے کہ انسانی روحیں واپس آتی ہیں.وہ کہتے ہیں کہ صداقت بیشک ہے مگر وہ نہ تو کسی خاص عقیدہ سے مخصوص ہے نہ کسی خاص انسان سے.وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انسان خدا کو دیکھ لیتا ہے مگر کسی مذہب کی پیروی سے نہیں بلکہ انسانی نذیر اور فکر کے ساتھ.یونٹی ٹیرین مذہب چوتھا جدید مذہب یونی میرین ازم.یعنی نفع کا مذہب ہے.یہ کہتے ہیں کہ مذاہب سب جھوٹے ہیں.جس چیز میں سب سے زیادہ نفع ہو وہی اچھی ہے.یہ مذہب و ہر بیت کی ایک شاخ ہے.دیوسماج مذہب پانچواں جدید مذہب دیو سماج ہے.یہ بھی دہر یہ ہے.اس کا بانی خدا کا تو انکار کراتا ہے مگر اپنی پوجا کراتا ہے.وہ کہتا ہے کہ ارواح ترقی کر کے اپنا اثر ڈالتی ہیں.دراصل یہ مذہب جین مت

Page 79

72 سے نکالا ہے.پیر چوملزم مذہب چھنا جدید مذہب پر چوکلزم ہے.اس مذہب کے ماننے والے کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد روحیں اس دُنیا میں آتی ہیں اور اُس جہان کی خبریں دیتی ہیں حالانکہ اصل تو یہی ہے کہ یہ معلوم کرتا ہے کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا.ان کے علاوہ ہزاروں قدیم وجدید مذہب ہیں مگر ان کا کوئی نام ونشان نہیں ہے.مذاہب کے اس مختصر تذکرہ کے بعد اب میں اسلام کو لیتا ہوں جس کو میں نے بیان تو سب سے پہلے کیا تھا مگر اُسے چھوڑ دیا تھا اس لئے کہ وہ عظیم الشان ہے.اسلامی علوم علوم اسلامی میں سے پہلی بات علم العقائد ہے اور علم العقائد میں سب سے اہم مسئلہ ہستی باری تعالی ہے.یہ معمولی علم نہیں بلکہ اس میں بڑی بڑی بحثیں ہیں.مثلاً اللہ تعالیٰ نظر آ سکتا ہے یا نہیں ؟مل سکتا ہے یا نہیں؟ یا ملنے کے کیا نشان ہیں؟ بندوں سے کس طرح تعلق رکھتا ہے؟ اُن سے اپنی محبت یا غضب کا کس طرح اظہار کرتا ہے؟ ہمار اور خدا کا تعلق کیا تعلق ہے؟ غرض ہستی باری تعالٰی کی کئی شاخیں ہیں.میں نے پچھلے سال اس مسئلہ پر سالانہ جلسہ کے موقعہ پر تقریر کی تھی اور نو گھنٹہ تک تقریر کی تھی.عام طور پر لوگ ہستی باری تعالیٰ کو نہیں سمجھتے.پھر اسی کے ساتھ صفات باری تعالی کا عقیدہ ہے اور اس کے متعلق بھی بہت سے پہلو ہیں.صفات باری تعالیٰ کا آپس میں کیا تعلق ہے.سب مسائل اسی میں آتے ہیں.دوسرا مسئلہ ملائکہ کا ہے اس کی بھی بہت سی شاخیں ہیں.ملائکہ ہیں یا نہیں ؟ اور اگر میں تو کیا چیتے ہیں؟ اور انسان سے اُن کا کیا تعلق ہے؟ اگر کوئی تعلق ہے تو کیا ہے؟ اور انسان کا اس میں کہاں تک دخل ہے اور وہ کس طرح ملائکہ سے تعلق پیدا کر سکتا ہے؟ پھر ملائکہ کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں یا نہیں ؟ اس مسئلہ پر بھی میری مفصل تقریر شائع ہو چکی ہے جو سات آٹھ گھنٹہ تک ہوئی تھی.تیسرا مسئلہ وحی اور الہام کا ہے اس کے بھی مختلف پہلو ہیں.خدا کا کلام کس طرح نازل ہوتا ہے یعنی لفظوں میں نازل ہوتا ہے یا خواب کی صورت میں اس کا مضمون نازل ہوتا ہے؟ خواب ہو تو اس کی تعبیر کس طرح کی جاتی ہے اور کس طرح معلوم ہو کہ خدا تعالی کی طرف سے ہے؟ یہ بہت وسیع مضمون ہے.

Page 80

73 چوتھا علم علم العقائد میں نبوت اور رسالت ہے.اس کے بھی مختلف پہلو ہیں.اصلاح کے لئے جو آتے ہیں کیا وہ خدا ہوتے ہیں.یا آدمی ہوتے ہیں؟ کس غرض کے لئے آتے ہیں؟ کس حد تک وہ کام کر کے جاتے ہیں؟ ان کی صداقت کی کیا علامات ہوتی ہیں؟ ان کی زندگیاں کیا اثر رکھتی ہیں؟ یہ بھی ایک وسیع علم ہے.پانچواں علم علم العقائد میں دعا ہے.یہ مضمون بھی وسیع علم ہے.دُعا کیا چیز ہے؟ دعا قبول ہوتی ہے یا نہیں ؟ اور اگر ہوتی ہے تو کس طرح؟ ساری قبول ہوتی ہے یا تھوڑی ؟ اور اگر قبول ہوتی ہے تو اس کے کیا نشانات ہیں؟ اور کس طرح معلوم ہو کہ دُعا قبول ہوگئی ؟ پھر یہ کہ کن الفاظ اور کس حالت میں دُعا قبول ہوتی ہے؟ غرض دُعا کے مختلف پہلو اور سوال ہیں.علم العقائد میں تقدیر کا ہے.یہ علم بھی بڑا وسیع اور نازک ہے.اس کے مختلف پہلو ہیں.مثلاً کیا انسان کو خدا تعالیٰ نے ایسا پیدا کیا ہے کہ جس قدر اعمال وہ کرتا ہے سب خدا ہی کراتا ہے یا انسان کا بھی اس میں اختیار ہے ؟ اگر انسان کا دخل نہیں تو پھر اسے سزا کیوں دیتا ہے؟ اس کے متعلق بھی میری تقریر سالانہ جلسہ پر ہو چکی ہے.ساتواں علم علم العقائد میں بعث بعد الموت ہے.یہ علم بھی بڑا وسیع ہے اور اس کے مختلف پہلو ہیں.کیا مرنے کے بعد انسان زندہ ہوگا ؟ پھر اگر زندہ ہو گا تو یہی جسم ہو گا یا صرف روح ہوگی ؟ اور اُٹھے گا تو کس طر ح ؟ اگر صرف روح ہوگی تو کیونکر اٹھے گا.جسم ہوگا تو کیونکر؟ پہلے لوگ جو مر چکے ہیں کیا وہ اٹھ چکے ہیں یا باقی ہیں؟ کیا بعد میں آنے والے بھی اس کے ساتھ شامل ہو جائیں گے؟ آٹھواں علم علم العقائد میں مسئلہ نجات یا فلاح ہے.اس مسئلہ پر اس سال میں نے تقریر کی ہے.اس میں میں نے اس کے مختلف پہلوؤں کو کھول کر بیان کیا ہے کہ نجات کیا چیز ہے اور کیا وہ مرنے کے بعد ہوگی یا اسی زندگی میں؟ پھر مرنے کے بعد جو انعام ہو گا وہ ہٹ جائے گا یا ہمیشہ رہے گا ؟ ایسا ہی سزا کے متعلق کہ وہ ہمیشہ رہے گی یا ایک وقت خاص تک غرض اس کے مختلف پہلو ہیں اور ان پر میری تقریر میں بحث ہے.علوم اسلامی میں دوسرا علم قرآن کریم ہے کیونکہ یہ وحی الہی ہے.قرآن کریم بجائے خود بہت سے علوم کا مجموعہ ہے اور اس کے کئی حصے ہیں.اول متن پڑھنا اور اس کو سمجھنا ہے.دوم علم تفسیر.اس سے یہ مطلب ہے

Page 81

74 کہ پہلے لوگوں نے کیا معنے کئے ہیں.تفسیروں کے علم میں بیسیوں تفسیریں ہیں اور ایک تفسیر بہت کی جلدوں میں لکھی گئی ہے یہاں تک کہ ایک تفسیر دو سو جلدوں میں ہے.فرض سینکڑوں جلد میں مختلف تفسیروں کی ہیں اور بہت سی ان میں چھپ چکی ہیں اور بہت ہیں جو بھی نہیں چھپی ہیں.پھر علوم قرانیہ میں تیسر اعلم اصول تفسیر کا ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ قرآن شریف کے معنے اور تفسیر کرتے وقت کن باتوں کا خیال رکھنا چاہئے.یہ ایک مستقل علم ہے.۴.پھر ایک قرآن کریم کے متعلق علم قراءت ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے بعض الفاظ کو کسی جگہ سات سات طرز پر پڑھا ہے اور بعض جگہ دس دس طرز پر بھی پڑھا ہے.یہ علم قراءت سے معلوم ہوتا ہے اور جولوگ اس کے عالم ہیں وہ جانتے ہیں یہ علم صرف قبائل کے لحاظ سے ہے.عربوں کے مختلف قبیلے صلى الله اپنے لب ولہجہ کے لحاظ سے جس طرح پر ادا کر سکتے تھے اُن کی آسانی کے لئے نبی کریم ہے اجازت دیتے تھے.پانچواں علم علم تجوید.اس علم میں بتایا گیا ہے کہ قرآن کے الفاظ کو ادا کرتے وقت ٹھہر نا کہاں ہے اور کہاں لمبا کرنا ہے.اس میں اعراب اور مند کے قواعد ہوتے ہیں.چھٹا علم جمع القرآن ہے.اس علم میں اس امر پر بحث ہوتی ہے کہ قرآن مجید انحضرت ﷺ کے زمانہ میں لکھا گیا یا نہیں اور لکھا گیا تو سارا لکھا گیا ؟ اہل یورپ نے جمع قرآن پر اعتراضات کئے ہیں.اس علم کے ذریعہ اُن اعتراضات کا جواب دیا جاتا ہے.ساتواں علم تاریخ نزول و تربیت قرآن کریم ہے.قرآن کریم کی آیات اس وقت تو ملی جلی ہیں.اس علم کے ذریعہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ کونسی آیت کس وقت اتری.سی ایک مستقل علم ہے.آٹھواں علم حل اخت قرآن بالقرآن ہے.قرآن کریم اپنے الفاظ کے معنے خود کرتا ہے.یہ علم بھی ایک مستقل علم ہے.غرض قرآن کریم کے متعلق یہ آٹھ علم ہیں.تیسر اعلم علوم اسلامیہ میں سے علم الحدیث ہے اس کی بھی کئی شاخیں ہیں.(۱) خود حدیث ہے نبی کریم ﷺ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ حدیث ہے.اس کا ایک حصہ وہ ہے جس کو روایت

Page 82

75 الله کہتے ہیں.جیسے ابو ہریرہ ( رضی اللہ عنہ ) کہتے ہیں کہ آنحضرت ماہ سے ایسا سنا یا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا کہنا کہ میں نے رسول اللہ اللہ سے سنا.یا کسی اور صحابی کا ایسا کہنا روایت ہے اور اس روایت کو حدیث کہتے ہیں.(۲) دوسراحصہ اصول حدیث ہے جس میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ حدیث کس طرح پر لکھی گئی.اسکے اصول بیان کئے ہیں.اس علم میں یہ بھی بتایا کہ کتنی قسم کی حدیثیں ہوتی ہیں.بعض صحیح ہوتی ہیں بعض کمزور ہوتی ہیں.پھر ان اقسام حدیث کے درجے بتائے جاتے ہیں.یعنی کہاں تک کوئی حدیث اثر رکھتی ہے.اس علم کی ایک شاخ اور نکل آئی ہے.وہ اسماء الرجال ہے.اس علم میں یہ بحث ہے کہ فلاں راوی صادق ہے یا کیسا ہے.اس کا حافظ کیسا ہے.وہ ملا بھی ہے یا نہیں.فرض راویوں کے حالات پر بہت کھول کھول کر بحث کی جاتی ہے.اور ان ساری باتوں کا اثر حدیث پر جا پڑتا ہے.چوتھا حصہ حدیث کے متعلق تاریخ حدیث ہے.اس میں بتایا گیا ہے کہ حدیث کے لکھنے کا خیال کیونکر پیدا ہوا اور کس زمانہ میں حدیث کی تحریر شروع ہوئی.مئولفین نے حدیث کا ذکر بھی کیا ہے اور یہ بھی کہ اٹلی میں کیا کیا ترقیاں ہوئیں.پانچواں حصہ علم حدیث کے متعلق شرح حدیث ہے.جس طرح پر قرآن کریم کی تفسیر کی گئی ہے اسی طرح پر حدیث کی شرح لکھی گئی ہے.چھٹا حصہ موضوعات حدیث کا ہے.اگر چہ یہ بحث اسما ولا جال میں بھی آجاتی ہے مگر بعض نے مستقل طور پر اس علم کو لیا ہے اور موضوع احادیث کو جمع کیا ہے.چوتھا علم علوم اسلامی میں فقہ کا علم ہے اس کے بھی کئی حصہ ہیں.ایک تو خود فقہ ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وضوء اس طرح کرنا چاہیئے ، نماز اس طرح پڑھنی چاہیئے ، اس طرح زکوۃ ، روزہ ، نکاح ، حج ، اور دوسرے مسائل لین دین ، ورثہ وغیرہ کے متعلق حدیث میں بھی مسائل آتے ہیں مگر متفرق طور پر فقہ میں - مسائل کو ایک جگہ جمع کر کے بتا دیا ہے.فقہ کے علم کے ماتحت بھی کئی علم ہیں.ان میں سے ایک اصول وہ ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ فقہ

Page 83

76 کیوں کر بنائی جاتی ہے.یعنی کن کن طریقوں پر اس کی بنیاد رکھی جاتی ہے.پھر آگے اس میں اختلاف ہوگا.کوئی کہے گا یہ بات قرآن کریم کے مطابق ہو.ایسا ہی کوئی کہے گا کہ قیاس اور عقل کو بھی دخل ہوگا.پھر صرف و نحو کا دخل ہوگا اس کے لحاظ سے یہ معنے ہوں گے.پھر اس سے بھی اختلاف ہوگا.غرض اصول فقہ میں یہ بحث ہو گی کہ کس طرح مسائل نکالے جائیں.فقہاء کے موٹے موٹے فرقے یہ ہیں.حقی.شافعی الگی متیلی.حنفی زیادہ زور قرآن مجید سے اجتہاد کر کے مسائل کے ماننے پر زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں جو عقل سے ثابت ہوں وہ مانیں گے اور حدیث پر زور نہیں دیتے.یہ مسئلہ ان کو بھول جاتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کا فہم سب سے برتر ہے.یہ حالت آب ان لوگوں کی ہے ورنہ پہلے لوگوں کا عمل قرآن مجید اور احادیث ہی پر تھا.امام ابو حنفیہ اولیاء اللہ میں سے تھے.شافعی عقل کی طرف زیادہ جاتے ہیں.مالکی بھی عقل پر زور دیتے ہیں مگر حدیث پر بھی شافعی مذہب سے زیادہ زور دیتے ہیں.امام مالک کی موطا بہت معتبر کتاب ہے.امام جنبل سب سے زیادہ زور حدیث پر دیتے ہیں.پانچواں فرقہ اہل حدیث کا ہے وہ بالکل حدیث پر چلتے ہیں اور عقل کو نہیں مانتے.وہ کمزور حدیث کو بھی مقدم کر لیتے ہیں حالانکہ ضرورت تو یہ ہے کہ قرآن کریم سے ثابت شدہ ہو یعنی قرآن مجید کے خلاف نہ ہو اور عقل بھی اُس کو ر ڈ نہ کرے.پھر فقہ سے تعلق رکھنے والا تیسر اعلم فتاویٰ سے تعلق رکھتا ہے علماء نے مسائل ضروریہ کے متعلق جو فتاویٰ دیے ہیں ان سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے.پانچواں علم اسرار شریعت کا ہے.اس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ نماز کیوں پڑھی جاتی ہے روزہ کیوں رکھا جاتا ہے.غرض احکام شریعت کے وجوہ بیان کرنا اسرار شریعت ہے.اس میں یہ بھی داخل ہے کہ کسی حد تک اسرار شریعت معلوم ہو سکتے ہیں اور کس حد تک بیان کر سکتے ہیں.چھٹا علم اصول شریعت ہے.یعنی شریعت کی کیا کیا بنیاد ہے.مثلاً خدا تعالیٰ کی وحی سے نازل شدہ علوم

Page 84

77 ہوتے ہیں.یاوہ اصول جو رسول کی معرفت بتائے جاتے ہیں کسی حد تک انکے بیان کی ضرورت ہوتی ہے اور کس حد تک اجازت ہوتی ہے.یہ تفصیل ہوگی.یعنی شریعت کے اصولوں کے بیان کرنے میں کس حد تک رسول کے اختیار میں ہے اور کس حد تک اس کو دوسرے لوگوں پر رکھا گیا ہے.ساتواں علم اختلاف المذاہب کا ہے.اس علم کے ذریعہ معلوم ہوگا کہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں جو اختلافات ہیں وہ کس قسم کے ہیں.عقائد کے لحاظ سے مسلمانوں میں جو فرقے ہیں اُن میں ایک دوسرے کے عقائد کے لحاظ سے کیا اختلاف ہے.مثلاً ایک سنی کہلاتے ہیں.جن میں حنفی.مانگی جنبہی.شافعی.سب داخل ہیں.دوسرے شیعہ ہیں.سنیوں اور شیعوں کا بڑا اختلاف مسئلہ خلافت کے متعلق ہے.مسئلہ خلافت کے متعلق پھر بحث ہوگی کہ خلافت ہے یا نہیں.ہے تو کس حد تک ماننا ضروری ہے اور پھر خلافت انتخاب سے ہوگی یا اولا د سے؟ دوسرا مسئلہ اختلاف کا یہ ہے کہ قرآن مجید کی وحی لفظوں میں ہے یا یہ خیالات اور اس کا مضمون وحی ہوا؟ اس ضمن میں خدا تعالیٰ کی صفات پر بحث ہے کہ کیا خدا کلام کر سکتا ہے یا اُس کا بولنا اور سنا اور ہے؟ تیسرا اختلاف اس بات پر ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام کے مقابلہ میں رسول کا بھی کوئی حق ہوتا ہے یا نہیں؟ یہ اصول ہیں جو خلفاء کے ماننے والے لوگوں میں اور جو خلفاء کے متعلق اختلاف کرتے ہیں قابل غور ہیں.دوسرا فر قہ خارجیوں کا ہے.اُن کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ کے بعد کوئی خلافت نہیں.وہ کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ چاہئے تھی اور یہ بھی ان کا خیال ہے کہ گناہ کے بعد ضرور جہنم میں جانا ہوگا.شفاعت نہ ہوگی.اُن کے فرقہ کی اصل بنیاد یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد نعوذ بااللہ غلطی کی جو خلیفہ مقرر کیا.خوارج حضرت حضرت علی کرم اللہ وجہ کے وقت میں ہوئے ہیں.صلى تیسرا فرقہ معتزلی ہے.عمر بن عمیر نے بنایا اُن کا خیال ہے کہ عقل خدا نے دی ہے اس سے کام لیا جائے.یہ لوگ صفات تقدیر اور کلام کے منکر ہیں.چوتھا فرقہ شیعہ کا ہے ان کا عقیدہ یہ تھا کہ امت میں ایک شخص ہو جو امام ہو اور یہ آپ کی اولاد کا حق تھا.آنحضرت ﷺ کے بعد حضرت علی اور پھر حضرت علی کی اولاد کا حق ہے.یہ فرقہ خصوصیت سے خلفاء کا

Page 85

78 دشمن ہے اور نعوذ باللہ ان کو ٹھگ قرار دیتا ہے.پانچواں فرقہ نیچری ہے ان کا طریق یہ ہے کہ یورپ کے علوم کے ماتحت اسلام کو کر نا چاہتے ہیں.یہ بڑی غلطی ہے کہ بندے کے علم کے موافق خدا کا کلام ہو.نیچریوں کا بظاہر عقیدہ تو یہ ہے کہ خدا کا کلام خدا کے فعل سے الگ نہ ہو مگر جب تطبیق کرنے لگتے ہیں تو خدا کے کلام کی بجائے انسان کے کلام سے کرتے ہیں یہ فرقہ معتزلہ سے ملتا ہے.چھنا فرقہ اہل قرآن کا ہے.یہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول کا کام صرف ڈاکئے کا کام ہے اس کی کیا حقیقت.اس لیئے وہ حدیث کو ر ڈ کر دیتے ہیں اور ہر بات قرآن کریم سے نکالتے ہیں اور اس وجہ سے کوئی نماز کی دورکعت نکالتا ست کوئی تین.سی موٹی موٹی باتیں فرقوں کے متعلق بیان کی ہیں اور ان میں بحث نہیں کروں گا کہ ہر فرقہ کے دلائل کس حد تک غلط ہیں ا شیخ ہیں.سات مالی فرقہ حقیقی اسلام احمدیت ہے.احمدیت کے متعلق سمجھنے والی یہ باتیں ہیں.اڈلی حضرت صاحب کا کیا دھوئی تھا.پھر یہ کہ نبوت کا دعوی تھا یا نہیں ؟ اور یہ بھی کہ رسول اللہ نے کے بعد الله میں اسکتا ہے یا نہیں؟ دوم دعوئی کے بعد یہ سوال آتا ہے کہ آپ کا دعوی مسیح موعود کا تھا.اس دھوئی سے ضمن میں یہ بات آئیگی کہ مسیح ابن مریم فوسے گیا ہے یا نہیں ؟ اگر فوت ہو گیا ہے تو کیا کوئی مسیح اس امت میں آنے والا ہے؟ اور اگر فوت نہیں ہوا تو کیا وہ صحیح ابن مریم آئے گا؟ اور اگر وہ آئے تو اُس کی آمد کا اثر انحضرت ﷺ کی بات پر کیا ہو گا ؟ تیسری بات یہ کہ احمدیت کی کیا غرض ہے؟ کیا اس سلسلہ کی ضرورت تھی تو کیا و وضرورت احمدیت کے آنے سے پوری ہوگئی.پھر حضرت صاحب کے متعلق یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اگر وہ نبی یا رسول تھے.تو کیا اُن میں وہ باتیں پائی جاتی ہیں جو خدا تعالی کے نبیوں اور رسولوں میں ہوتی ہیں یا یہ کہو کہ جن معیاروں پر نبی یا رسول صداقت ثابت ہوتی ہے وہ بھی اُن معیاروں پر پورا اترتے ہیں؟ اور یہ بھی کہ وہ کیا ہیں؟

Page 86

79 پھر ایک علم ہے پیشگوئی کی حقیقت کے متعلق پیشگوئی کیا ہوتی ہے ؟ انبیاء علیہم السلام کی پیشگوئیاں کس قسم کی تھیں اور حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیاں کس قسم کی ہیں.پھر یہ بات بھی دیکھنی ہوگی کہ حضرت صاحب کی جماعت کا پہلے فرقوں سے کیا تعلق ہے؟ پھر نئے جھگڑوں میں یہ ہے کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلافت ہو گی یا خارجیوں کے طریق پر پارلیمنٹ؟ آئند و احمدیت کی ترقی کا کیا نظام ہے اور اس میں افراد کی کیا ذمہ داری ہے؟ آٹھواں فرقہ تصوف کا ہے.مختلف لوگوں نے اسکے مختلف معنے کئے ہیں.کسی نے صفائی قلب کے معنے گئے کسی نے کچھ.عام طور پر یہ مراد لی جاتی ہے کہ جس سے صفائی قلب پر بحث ہو.کس طرح پر اللہ تعالی سے تعلق اور قرب پیدا ہوتا ہے؟ بڑے بڑے اولیاء اللہ گزرے ہیں.تصوف میں دوسری بات تاریخ تصوف ہے.یہ سلسلہ کب سے شروع ہوا اور کن لوگوں نے اس کو جاری کیا.کیا اغراض تھے اور کیا کام کیا.مختلف زمانوں میں کس قسم کے تعمیرات تصوف میں ہوئے.تیسری بات اہل تصوف کے متعلق مذاہب تصوف ہیں جس میں اس بات پر بھی غور کیا جاتا ہے کہ آیا ان میں بھی اختلاف ہے.اور اختلاف ہے تو کس قسم کا ہے؟ مختلف سلسلے تو پائے جاتے ہیں.جیسے قادری.چشتی.سُہر وردی.نقشبندی.اصل اختلاف تو پایا نہیں جاتا مگر بعض باتوں میں اختلاف پایا جاتا ہے.اور یہ اختلاف زیادہ تر مجاہدات کے متعلق ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسا جیسا رنگ ان لوگوں نے اپنے علاقہ کا دیکھا اور جس قسم کے امراض میں انکو مبتلا پایا اسی قسم کے علاج تجویز کئے.جیسے ڈاکٹر مختلف طریق سے علاج کرتے ہیں.کبھی بخار کے بہار کو کونین دیتے ہیں اور کبھی جلاب دیتے ہیں.ان بڑے فرقوں کے علاوہ اور بھی چھوٹے چھوٹے فرقے ہیں.انہی اہل تصوف میں ایک فرقہ ملاحدہ بھی ہے جو شریعت کو مناتے ہیں.وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم طریقت کے مقام پر ہیں یا ایسی باتیں کرتے ہیں.اگر کوئی شخص کشتی پر سوار ہو تو کنارے پر جا اُترے یا کشتی میں ہی بیٹھا ر ہے؟ یہ لوگ اس قسم کی لغو باتیں کر کے دوسروں کو دھوکا دیتے ہیں ایک ملامتی فرقہ ہے.یہ بھی گندہ ہے.اصل میں تو یہ بُرے نہیں ہوتے مگر وہ سمجھتے ہیں کہ ریاء سے تباہی ہوتی ہے اور اس کا علاج اس طرح پر کرتے ہیں کہ بعض ایسے کام کرنے لگتے ہیں جن سے دوسرے لوگوں میں بد

Page 87

80 نام ہو جائیں.مثلاً رات کو کسی فاحشہ عورت کے گھر میں جاسوتے ہیں اور وہاں جا کر تہجد پڑھتے رہتے ہیں.لیکن یہ ایسا طریق ہے کہ اس کا خطرہ زیادہ ہے.بعض لوگ اس طریق کو اختیار کر کے ہلاک ہو جاتے ہیں.اور مختلف قسم کی گندگیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ اس سے نفس موٹا نہیں ہوتا مگر دراصل اس کا اثر اکثر خراب ہوتا ہے.نواں علم علم القضاء ہے.اس سے یہ مراد ہے کہ کس رنگ میں امور متنازعہ کا فیصلہ کرنا چاہیئے.گواہ کا بیان کس طرح پر ہو ، اس پر جرح کس طرح پر ہو، کیا اُمور اسکی شہادت کے وزن کے لئے ضروری ہیں، قاضی کا علم واقفیت اور تقویٰ اور طہارت کیسی ہو.دوسرا حصہ اسی علم کے متعلق تاریخ القضاء ہے.کس کس طرح یہ محکمہ مکمل ہوا اور کون سے بڑے قاضی اسلام میں گزرے ہیں؟ دسواں علم علم الفرائض والمیراث ہے.میراث کے قانون اگر چہ فقہ میں شامل ہیں مگر یہ مستقل علم ہے کیونکہ اس کا اثر سیاست اور قوم پر آکر پڑتا ہے.گیارھواں علم علم الا دعیہ والا ذکار ہے.اس علم میں یہ بتایا جا تا ہے کہ کس کس وقت اور کون کون سی دُعا ئیں اور اذکار کرنے چاہئیں.بارھواں علم علم اسیر ہے.اس علم کے ذریعے بڑے بڑے صحابہ اور دوسرے بزرگان کے حالات کا علم ہوتا ہے.القارة تیرھواں علم علم اخلاق ہے.کس طرح تیری باتوں اور ادنی اخلاق کو ترک کر کے اعلیٰ درجہ کے اخلاق اور عادات حاصل کئے جاتے ہیں.اس میں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جو اخلاقی امراض انسان میں پیدا ہوتے ہیں اُن کے اسباب کیا ہیں اور کیوں ان امراض کو امراض سمجھا جاتا ہے.چودھواں علم علم الکلام ہے.اس علم سے یہ مراد ہے کہ غیر مذاہب کے مقابلہ میں اسلام کی فوقیت کس طرح پر ثابت کی جاتی ہے اور اصول اسلام کو دلائل سے ثابت کیا جاتا ہے.اسی علم کلام میں ایک شاخ علم بحث ہے جس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ دوسرے مذاہب جو اسلام کے مقابلہ میں ہیں اُن کے عقائد یا اصول کیونکر غلط ہیں.مثلاً عیسائیت کا یہ مسئلہ کہ خدا تین ہیں یا خدا مجسم ہے کیوں صحیح نہیں.یا ہندوؤں کے عقیدے کیوں درست نہیں ؟ اس علم بحث کے پھر دو حصے ہیں.ایک حصہ وہ ہے جس

Page 88

81 میں دوسرے کی تردید دلائل سے ہوتی ہے.دوسرا اصول علم کلام ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ معیار صداقت کیا ہے؟ کس طرح دشمن کا مقابلہ کرنا چاہیئے یہ سب با تیں اصول علم کلام میں بیان کی جاتی ہیں.سولہواں علم سیاست اسلامیہ ہے ، حکومت کا کیا انتظام ہو، رعایا اور حکومت کے کیا تعلق ہیں، حکومت پر عایا کے کیا حقوق ہیں اور رعایا پر کیا؟ یہ بہت وسیع علم ہے.حکومت کس طریق سے کی جائے ، دوسری حکومتوں سے اس کے کیا تعلقات ہیں.غرض یہ سولہ ۱۶ موٹے موٹے علوم ہیں اور ان کی شاخیں ملا کر تو بہت بڑی تعداد ان علوم کی ہو جاتی ہے.دنیاوی علوم اگلے ہفتہ میں بیان کروں گا.انشا اللہ ان ریز تقریر دوم حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ جلسه لجنہ اماءاللہ منعقده مؤرخہ ۱۱ - فروری ۱۹۲۳ ء میں نے پچھلے ہفتہ مذہبی علوم کے متعلق تقریر کی تھی اس میں مذہبی علوم کے نام اور ان کی مختصر کیفیت بیان کی تھی اور اس میں بتایا تھا کہ مذہبی علوم میں ان مختلف عنوانوں کے نیچے بحث کی جاتی ہے یا اس مذہب کی یہ حقیقت ہے.میری غرض اس سے یہ نہ تھی کہ وہ علم کیا ہے اور کیسا ہے بلکہ صرف اتنا بتانا ہے کہ اس قسم کا ایک علم ہے اس مطلب کے بیان کرنے کے لئے جس قدر ضروری تھا بیان کیا اور اب بھی ایسا ہی کروں گا.اس سے زیادہ بیان کرنا موضوع سے باہر لے جاتا ہے.آج میرا منشاء یہ ہے کہ دنیاوی علوم کے متعلق بیان کروں کہ وہ کتنے قسم کے ہیں اور کیا کیا ہیں.اور اگر کسی علم کی کوئی اندرونی تقسیم ہے تو وہ بھی بیان کروں کہ کن کن مسائل پر اس میں بحث ہوتی ہے.میں نے پہلے بھی بتایا تھا اور آج بھی بتاتا ہوں کہ علم سے ہرگز یہ مراد نہیں ہوتی کہ وہ بچے ہی ہوں.بعض باتیں جہالت بھی ہوتی ہیں مگر عام طور پر وہ ایک علم کی ذیل میں آجاتی ہیں.جس طرح مذاہب میں ( مذاہب ہی کہنا چاہیئے کیونکہ اصل میں تو ایک ہی مذہب ہے جو اسلام ہے ) میں نے ہندو مذہب اور دوسرے مذاہب کا ذکر کیا ہے حالانکہ میری غرض اس سے یہ نہ تھی کہ یہ مذاہب خدا

Page 89

82 تک پہنچاتے ہیں کیونکہ خدا تک پہنچانے والا صرف ایک ہی مذہب ہے جو اسلام ہے.لیکن اسلام کی خوبی اور کمال کے جاننے کے لئے دوسرے مذاہب کا بھی مختصر علم تو ہو کہ وہ کیا ہیں؟ دنیاوی علوم اسی طرح آج جب میں دنیاوی علوم کے نام لوں گا تو یہ مطلب نہیں ہوگا کہ واقعی ہر ایک علم ہے صرف یہ مطلب ہوگا کہ بعض اس کو علم کہتے ہیں جیسے اسلام کے مقابلہ میں ہندوؤں کے عقائد بتانے سے یہ غرض ہے کہ یہ معلوم ہو جائے اس میں کیا نقص اور کمزوری ہے.اسی طرح جہالت کے علوم سے واقف ہونا ضروری ہے کہ اس کے معلوم ہونے سے جہالت ثابت کر سکتے ہیں اور کم از کم ان کے نزدیک ہم نہ جائیں گے جب اس کی برائی کا علم ہوگا.اب میں نمبر وارد نیاوی علوم بتا تا ہوں.(۱) دنیاوی علوم میں سب سے پہلا علم جس کو تمام علوم کی بنیاد یا برتن یا ظرف کہنا چاہیئے وہ زبان کا علم ہے.جیتک زبان کا علم نہ ہو انسان اپنے خیالات دوسروں تک پہنچا نہیں سکتا.اس زبان کے علم کے یہ معنے نہیں کہ انسان اپنے خیالات دوسروں تک کس ذریعہ سے پہنچا سکتا ہے.سو آ گے تین طرز پرتقسیم ہوتا ہے.علم اللسان اول وہ زبان جو لفظ کے ذریعہ بتائی جاتی ہے جو منہ کے حرکات سے آواز پیدا ہوتی ہے یامنہ سے کوئی بات انسان بیان کرتا ہے جس کو دوسرے انسان کانوں سے سنکر سمجھتے ہیں جیسا کہ میں اب بول رہا ہوں اور تم اُس کو سن رہے ہو.یہ تقریری زبان کہلاتی ہے.دوم.علم زبان کا ایک حصہ وہ ہوتا ہے جس کو تحریری زبان کہتے ہیں.یعنی اپنے مطالب اور خیالات کو لکھ کر پیش کرنا.وہ الفاظ جو ہم بولتے ہیں ان کے لئے کچھ اشارات اور نقوش ہوتے ہیں اُن کے ذریعہ سے ظاہر کیا جاتا ہے جیسے تم کو معلوم ہے کہ ہر بات لکھ کر پیش کر سکتے ہیں.سوم :.ایک زبان اشارات سے تعلق رکھتی ہے.اس میں نہ بولا جاتا ہے نہ لکھا جاتا ہے بلکہ اشارات ہوتے ہیں جیسے تار آتا ہے.تار دینے والا کچھ اشارات کرتا ہے اور لینے والا ان اشارات کو سمجھتا ہے کہ اس سے مُراد ہے کہ ایک دفعہ ٹک ٹک ہو گا تو یہ حرف ہوگا دو دفعہ ہوگا تو یہ حرف ہوگا.پھر وہ ان اشارات سے کئی سو میل کے فاصلہ پر سے مطلب سمجھ لیتا ہے.یا پرانے زمانہ میں جانوروں یا مختلف قسم کی شکلوں کے بنانے سے اپنا مطلب ظاہر کر دیا کرتے تھے.مثلاً کتے سے یہ مطلب ہوگا.یا شیر سے یہ مطلب ہوگا.مصر میں یہی زبان

Page 90

83 بولی جاتی تھی اور یہ تصویری زبان کہلاتی تھی.لوگ اس سے مطلب سمجھ لیتے تھے.اشارتی زبان ایسی اشارتی زبان میں وہ اشارات وغیرہ کی زبان بھی دخل ہے جو مثلا گونگوں کے لئے استعمال کی جاتی ہے.وہ اپنے خیالات اشارات سے ہی ظاہر کرتے ہیں یا لڑائیوں میں جھنڈیوں اور شیشوں سے کام لیتے ہیں.گونگا اپنی بھوک پیاس کو ظاہر کرتا ہے یا سر پر ہاتھ رکھ کر اور آنکھیں بند کر کے بتاتا ہے کہ سونا ہے.یہ اشارات ہم دیکھتے ہیں.اشارات کی زبان سے بڑے بڑے کام لئے جاتے ہیں.تار کی ساری زبان اشارات پر ہی موقوف ہے.لاہور سے بالا کس طرح لفظ پہنچے گا ؟ مگر تار کے ذریعہ بٹالہ تو کیا لندن اور دنیا کے تمام حصوں میں خبر پہنچائی جاتی ہے.اسی طرح جیسے میں نے کہا فوجوں میں کام لیا جاتا ہے.شیشہ سے اشارہ کرتے ہیں یا جھنڈی سے بتاتے ہیں اور دوست کو روشنی سے اشارہ کرتے ہیں کہ دشمن کمزور ہے یا زبر دست ہے.کھانے پینے کی چیزوں کی ضرورت ہے یا گولہ بارود کی حاجت ہے.غرض بہت بڑے بڑے کام اس انشارتی زبان سے لئے گئے ہیں.اگر صرف الفاظ یا تحریری تک ہی زبان محدود ہوتی تو کام رک جاتے.غرض علم زبان سب سے مقدم ہے اور یہ تینوں علوم جداجدا ہیں مگر تقسیم علوم میں پہلا علم معلم زبان ہے اور یہ تینوں اُس کی مختلف شاخیں ہیں اور اپنے اندر وہ بھی ایک وسیع علم رکھتی ہیں.زبان کے علم کے نیچے بعض اور مستقل علوم میں اُن کا تعلق گو زبان ہی سے ہے مگر علمی تقسیم میں ان کو الگ قرار دیا ہے اس لئے میں بھی اسے دوسر العلم کہتا ہوں.علم بلاغت (۲) دوسرا علم علم بلاغت ہے.یہ زبان سے تعلق رکھتا ہے.بلاغت میں محض اظہار خیالات ہی مقصد نہیں ہوتا بلکہ اس سے کچھ بڑھ کر ہوتا ہے.جیسے بچہ روٹی کو توتی کہتا ہے یا ایک غیر زبان کا آدمی یا انگریز کہتا ہے.کھانا مانگتا ہے.مطلب تو اس سے سمجھ میں آجاتا ہے مگر زبان صحیح نہیں ہوتی.زبان کا علم تو صرف اس قدر ظاہر کرتا ہے کہ خیالات ظاہر کر دئے مگر بلاغت کا علم اس سے بڑھ کر تین باتوں پر بحث کرے باتیں کتنے اقسام کی ہوتی ہیں.مثلاً ایک بات سچی ہوتی ہے یا جھوٹی ہے.یا کلام کو کس طرح دوسرے کی طرف منسوب کیا جاتا ہے.اسی طرح فقروں کی ترتیب پر بحث کرے گا کہ کس طرح ہر ایک بات زیادہ عمدگی سے بیان کی جاتی ہے.مثلا ایک شخص کو کہیں کہ بڑا بہادر ہے لیکن شیر چونکہ بڑا بہادر ہوتا ہے اس لئے

Page 91

84 جب کہا جائے کہ فلاں شخص شیر ہے تو بڑا اثر ہوتا ہے.اس طرح پر گویا اس میں استعارات اور مجاز سے بھی بحث ہوتی ہے.ایک شخص کی نسبت کہا جائے کہ غصہ ہو گیا ہے تو اتنا اثر نہیں ہوتا لیکن جب کہیں کہ آگ بگولا ہو گیا تو اس کا بڑا اثر ہوتا ہے.اس طرح پر گویا غیر لفظ بول کر اور مفہوم بن جاتا ہے.اس علم بلاغت میں ایک بحث یہ ہوتی ہے کہ کلام خوبصورت کس طرح بنایا جاتا ہے.اس علم کی بدولت انسان اچھی طرح بولنے یا کہنے لگتا ہے.جیسے کہتے ہیں کہ فلاں شخص بڑی اعلے درجہ کی تقریر کرتا ہے یا بہت عمدہ لکھتا ہے تو یہ خوبی اس علم کے ذریعہ پیدا ہوتی ہے.غرض علم بلاغت میں یہ باتیں ہوتی ہیں.علم لغت (۳) تیسر اعلم یعلم لغت ہے.یعنی لفظوں کے معنی یہ خود بہت بڑا علم ہے اور بہت وسیع ہے.زبان تو ہر شخص بول لیتا ہے.مثلاً ایک شخص کہتا ہے کہ تکلیف ہے تو ہر شخص اس تکلیف کے اندازہ کو نہیں جانتا لیکن لغت بتائے گی کہ کس کس جگہ یہ لفظ بولا جاتا ہے اس محل کے لحاظ سے جب تکلیف کا لفظ بولا جاتا ہے تو سننے والا فوراً اس کے اندازہ کا ایک علم حاصل کر لے گا.یہی علم ہے جو سب الفاظ کا احاطہ کرتا ہے یہ خود ایک مستقل علم ہے.اگر چہ علم زبان سے ہی وابستہ ہے مگراب مستقل علم کی حیثیت اختیار کر گیا ہے.خط و کتابت (۴) چوتھا علم.انشاء یا خط و خطابت ہے.اس میں یہ سکھایا جاتا ہے کہ کس طرح عمدگی سے اپنے خیالات کو تحریر انظا ہر لیا جائے.خط و کتابت اور کتاب لکھنے میں فرق ہے.کتاب لکھنے والا سمجھتا ہے اور ہوتا یہی ہے کہ وہ سب کے لئے لکھ رہا ہے اور خطہ ایسا ہوتا ہے کہ لکھنے والا ایک شخص کو لکھتا ہے اور جو اس کو پڑھتا ہے وہ جانتا ہے کہ مجھے لکھنا ہے اور گویا وہ سامنے بیٹھ کر باتیں کر رہا ہے.اسی طرح پر یہ علم ایک مستقل اور بڑا علم ہے اور اس علم نے اس زمانہ میں بڑی ترقی کی ہے.بڑے بڑے کالج اسی غرض کے لئے کھولے گئے ہیں جہاں علم انشاء یا خط و کتابت کا علم سکھایا جاتا ہے.پھر اس مخط و کتابت کی بہت سی قسمیں ہیں.تاجروں کی مخلط و کتابت کس قسم کی ہو، افسروں اور ماتحتوں کی خط و کتابت کے کیا مراتب ہونے چاہیں.اس غرض کے لئے مدرسہ اور کالج کھولے گئے ہیں اُن میں بتایا جاتا ہے کہ کس طرح محل کو زیادہ موثر بنایا جاتا ہے اور اس میں حفظ مراتب کے آداب اور امتیاز کو بھی سکھایا جاتا ہے.

Page 92

85 اخبار نویسی (۵) پانچواں علم.اخبار نویسی کا علم ہے.انگریزی میں اس کو جرنل ازم اور عربی میں صحافت کہتے ہیں.یہ علم بھی بڑا وسیع علم ہے.ہمارے ملک میں تو نہیں مگر یورپ اور امریکہ میں اس کے بڑے بڑے مدرسے ہیں جن میں اخبار نویسی کا فن سکھایا جاتا ہے.اس فن کی بہت سی شاخیں ہیں.کس طرح اخبار کا لیڈر لکھا جائے ، خبروں کو کس طرح چُنا جائے اور کس طرح پر اُن کی ترتیب ہو، عنوان کیسے قائم کئے جائیں کہ اخبار پڑھنے والے پر اس کا فوری اثر ہو اور وہ اس کے مضمون کو عنوان ہی سے سمجھ لے، کس طرح پر ایک مضمون یا واقعہ کولکھا جائے کہ وہ اپنے مفید مطلب ہو سکے.مثلاً زید اور بکر لڑتے ہیں.زید کا دوست ایسے طور پر بیان کرتا ہے کہ زید معلوم تھا اور جگر کے دوست ایسے طور پر کہ جگر مظلوم سمجھا جائے.غرض یہ بڑا علم ہے اور اس کی مختلف شاخیں ہوتی ہیں جن میں سے بڑی یہ ہیں کہ کس طرح پر اخبار مفید اور دلچسپ ہو سکے اور پبلک کی رائے کا وہ آئینہ ہو جائے اور وہ اپنا اثر ڈال سکے.پھر اخبارات کی حد بندی ہوتی ہے.مثلاً بعض مذہبی اخبار ہوتے ہیں بعض تجارتی ، بعض کسی خاص جماعت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور سیاسی اغراض میں بھی ان کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں.علم الہجو والملطائف (۶) چھٹا علم جو اس زبان کے نیچے آتا ہے علم الہجو والملطا ف ہے.اس علم میں اس بات سے بحث کی جاتی ہے کہ کس طریق پر ہجو کمال کو پہنچ جائے اور اس میں زبان اور تحریر کی خوبی بھی اعلیٰ درجہ کی رہے.اسی طرح ایسا لطیفہ ہو کہ سب بے اختیار ہنس پڑیں.اس فن میں جو لوگ کمال حاصل کرتے ہیں بعض وقت وہ ایسی ہجو کرتے ہیں کہ فوراً اثر ہوتا ہے.اسی طرح لطائف کا علم ہوتا ہے.ایک شخص بیان کرتا ہے سننے والے بے اختیار ہو جاتے ہیں وہ ہنسی کو الکھنی ، دوسرا ضبط نہیں کر سکتے.غرض یہ ایک مستقل علم ہے.واعظ خاص طور پر اس سے کام لیتے ہیں.قصہ نویسی (۷) ساتواں علم.قصہ نویسی کا علم ہے.اس کی دوشاخیں ہوتی ہیں.ایک مختصر کہانی لو لمبا ناول لکھنا.پھر ان میں جد احد ابحث ہے، قصوں اور ناولوں کے مختلف اقسام ہیں.قصہ نویسی کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اس کے ذریعہ سے پڑھنے والوں پر ایک خاص قسم کا اثر ڈالا جائے.بعض ناول ایسے ہوتے ہیں کہ اُن میں صرف ایسے واقعات کا ذکر ہوتا ہے جو محبت سے تعلق رکھتے ہیں یا سراغ رسانی کے متعلق ہوتے ہیں.پھر بعض ایسے ہوتے ہیں جن کا انجام غم پر ہوتا ہے اور بعض کا خوشی پر.پھر جو باتیں چھوٹے چھوٹے

Page 93

86 قضوں میں ضروری ہوتی ہیں بڑوں میں وہ نہیں.بعض بڑا ناول لکھتے ہیں اور بعض کہانی اور فسانہ لکھتے ہیں.علم تقریر (۸) آٹھواں علم بھی علم زبان کے متعلق ہے اور یہ بھی ایک مستقل علم ہے.اس کو علم خطابت کہتے ہیں یعنی تقریر کرنے کا علم لیکچر دینے کا فن.اس علم میں اس بات سے بحث ہوگی کہ مقرریعنی تقریر کر نیوالا ایسی تقریر کر سکے کہ سننے والوں کی توجہ دیکھاری کی طرف ہو اور اس کلام اور بیان میں اثر اور قوت ہو کہ اگر سننے والے اُس کے خلاف بھی ہوں تو بھی مئوید ہو سکیں.اس علم میں یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ کس طرح پر مقرر کو اپنے مضمون کی تقسیم اور ترتیب کرنی چاہیے اور کس طرح پر اپنے کلام میں قوت اور اثر پیدا کرنا ہوگا.مضمون نویسی (۹) نو اس علم مضمون نویسی کہنا چاہئے جس کو انگریزی میں اسے رائٹنگ اور ہماری زبان میں جواب مضمون کہتے ہیں.یہ مضمون نویسی ، اخبار نویسی کے علاوہ ایک علم ہے.اس میں بعض کیفیتوں اور جذبات کا ذکر ہوتا ہے.مثلاً محبت پر جب مضمون لکھا جائے گا تو اُس کی کیفیت اور حقیقت بیان کرنی ہوگی.اسی میں ان امور پر بحث ہوگی جو محبت کے اثر کوقوی بناتے ہیں اور پھر اس کے نتائج کو بیان کرنا ہوگا اس طرح اگر نفرت پر لکھتا ہے تو اس کی ساری کیفیت کا ایک نقشہ کھینچ کر سامنے رکھ دیا جائے.صرف ونحو (۱۰) دسواں علم.جو زبان کے متعلق ہے وہ صرف ونحو کا علم ہے.صرف کے معنے ہیں الفاظ کے ہیر پھیر اور صیغوں کا علم بتانا بحیثیت الگ الگ لفظ کے.مثلاً کھانا ایک لفظ ہے.اس سے کھایا ، کھاتا.کھائے گاو غیر ومختلف الفاظ جو بنتے ہیں اُن کی بابت یہ علم دینا کہ وہ کس طرح بنتے ہیں اور اُن کے ان تغیرات کا کیا اثر ہوتا ہے.معنوں میں کیا تغیر ہوتا ہے.اور صورت میں کیا تغیر آتا ہے، ان میں سے ہر ایک سے کیا مراد ہو گی ، کیا وہ واحد ہے جمع ہے؟ مونث کے لئے کیا آتا ہے مذکر کے لئے کیا بولتے ہیں.تمو کا علم یہ بتاتا ہے کہ الفاظ مل کر کیا مفہوم بناتے ہیں، الفاظ کی ترتیب اور ترکیب کس طرح ہونی چاہیئے پہلے کس لفظ کولا نا ہو گا اور آخر میں کون سا؟ اور الفاظ کے اس طرح ترتیب دینے سے اُن کے مفہوم اور مطلب میں کیا اثر پڑتا ہے؟ جیسے میں نے روٹی کھائی، کھائی روٹی میں نے وغیرہ نحو کے علم کے ذریعہ یہ معلوم ہوگا کہ ان میں درست املہ کونسا ہو گا.پھر ہر ایک زبان کی تموتر تیب الفاظ کو اپنے قاعدہ کے موافق بنائے گی.جس ملک میں کوئی شخص پیدا ہوتا ہے اور اُس کی مادری زبان یا ملکی زبان جو بھی ہو وہ اُس میں درست بولے گا لیکن غیر زبان کو بغیر نو کے علم کے وہ صحیح طور پر نہیں بول سکے گا اس کے لئے نحو کا جانا ضروری ہوگا.

Page 94

87 دیکھو ہمارے ملک میں ایک زمیندار جٹ عورت بھی کبھی یہ نہ کہے گی روٹی کھائی میں نے بلکہ وہ میں نے روٹی کھائی ہی کہے گی.جو درست ہے.لیکن جو اس ملک میں پیدا نہیں ہوئے ایک انگریز ، عرب یا ایرانی ضرور غلط بول دے گا جب تک وہ نحو سے واقف نہ ہوگا.عربی زبان میں علم تو یہ بھی بتاتا ہے کہ زیر، زبر، پیش کا کیا مطلب ہے.عربی زبان میں نے کو.وغیرہ الفاظ کے قائمقام زیر اور زیرہی ہو جاتے ہیں اور ان سے ہی اُن کے مفہوم کا کام نکل آتا ہے.علم التعلیم (1) گیارھواں علم.زبان کے متعلق علم التعلیم ہے.علم التعلیم سے مراد یہ ہے کہ دوسروں کو سمجھانا کس طرح ہے.لیکچر اور ہوتا ہے.لیکچر کے ذریعہ ہم خیال بنانا ہوتا ہے مگر تعلیم سے یہ غرض ہوتی ہے کہ جو کچھ ہمیں آتا ہے دوسروں کو سکھانا ہے.لیکچر میں صرف متعلق کرنا ہوتا ہے.تعلیم میں یہ مقصد ہوتا ہے کہ تفاصیل سے آ جائے اور دوسرا اس کو سیکھ جائے.پھر اس علم التعلیم کے بہت حصے ہیں.اور مختلف شائیں ہیں.یہ ایک مستقل علم ہو گیا ہے.علم الشعر (۱۲) بارھواں علم علم الشعر ہے.اس علم میں یہ باتیں داخل ہیں کہ شعر کہنے کی فرض کیا ہے.بھر میں کیا خوبی ہے اور شعر کتنی قسم کا ہوتا ہے.علم اوزان الشعر (۱۳) تیرھواں علم علم اور ان الشعر ہے یعنی شعر کا وزن بیان کرنا.علم اشعر میں جو قسم شعر کی بیان کی جاتی ہے.اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ غزل ہے، رباعی ہے وغیرہ اور وزن شعر میں یہ بتایا جائے گا کہ شعر کا وزن درست ہے یا نہیں.جب شعر کے اوزان کا علم آجاتا ہے تو جو لوگ شعر نہیں بنا سکتے وہ بھی بنا سکتے ہیں.علم التشہیر (۱۴) چودھواں علم زبان کے ساتھ تعلق رکھتا ہے وہ علم التشہیر ہے یعنی اشتہار دینے کا علم.اس علم کی بھی بہت سی قسمیں اور شاخیں ہیں.یورپ اور امریکہ میں اس علم کے مدرسے ہیں جہاں علم التشہیر سکھایا جاتا ہے.اشتہار کیوں دینا چاہیئے کس طرح دینا چاہیئے ، کس قدر دینا چاہیئے.یہاں لوگ اشتہار دیتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آج ہی آرڈر آنے شروع ہو جائیں مگر یورپ اور امریکہ میں لوگ اشتہار دیتے ہیں اور اس قدر دیتے ہیں کہ بعض اوقات سرمایہ کا بہت بڑا حصہ مال کے خریدنے کی بجائے اشتہار پر خرچ کر دیتے ہیں.اس میں ایک حصہ عنوان ہے.اس میں یہ بھی ہوتا ہے کہ اشتہار میں عنوان کس طرح قائم کیا

Page 95

88 جائے.بذریعہ تصویر اشتہار دیا جائے تو وہ دائیں طرف ہو یا بائیں طرف.غرض خاص فن ہے اور جو اس علم کے ماہر ہیں وہ بہت بڑی رقمیں لے کر اشتہار لکھتے ہیں.علم موسیقی (۱۵) پندرواں علم.علم موسیقی ہے یعنی گانے کا علم.اس میں یہ بتایا جا تا ہے کہ گا نا کس طرح چاہیے.اونچی اور نیچی آواز کس طرح نکالنی چاہئے.بابے کو اگر ساتھ ملایا جائے تو آواز میں کس طرح موافقت پیدا کی جائے اسی طرح اس میں یہ آتا ہے کہ آواز کس طرح پر خوشی اور غم و افسردگی پیدا کرتی ہے، کونسی آواز میں ہمت و جرات پیدا ہوتی ہے.یہ ایسا علم ہے کہ جذبات ابھر سکیں.ایک شخص جو روپیہ خرچ نہیں کر سکتا.ایک عمدہ گانے والا اُس میں ایسی کیفیت پیدا کر سکتا ہے کہ سب روپیہ اُس سے لے لے یائے دل نا دے یا ہمت پیدا کر دے.یہ خاص فن ہے اس میں صرف آواز کے اونچے نیچے کرنے سے جذبات اُبھرتے ہیں اور بہت ہی نازک فن ہے.چونکہ اس میں بعض نقائص ہیں اس لئے اسلام نے جائز نہیں رکھا.ڈراما نویسی.(۱۲) سولھواں علم ڈراما نویسی ہے.ڈرا مادہ ہے جس کو عملی طور پر کرنا ہوتا ہے نا تک میں جہاں با دشاہ وزیر یا ڈاکٹر لکھا ہے تو اس میں بن کر دکھایا ہے.عملی طور پر جب ڈراما کر کے دکھایا جائے تو اس کا اثر ظاہر ہوتا ہے.پھر اس کے کئی حصے ہیں.جب اس کو سٹیج پر کر کے دکھایا جاتا ہے تو دلچسپ ہوتا ہے.کتابوں میں سرسری طور پر پڑھیں تو بعض اوقات بہت خشک معلوم ہوتا ہے.ڈراما نویس ان باتوں کا خیال رکھتا ہے کہ اُس کی تصنیف میں ایک اثر اور جذب ہو اور شیخ پر کرتے وقت اُس میں کوئی ایسی بات نہ پیدا ہو جو بے لطفی اور کمزوری کا موجب ہو.میں نے علوم کی اس تقسیم میں کوئی بھی تقسیم نہیں کی کیونکہ ایسی تقسیم ایک لمبا عرصہ چاہتی ہے بلکہ میں نے اس تقسیم میں سرسری طور پر جو جو علم میرے سامنے آتا گیا اُس کو بیان کر دیا ہے.کھانے پینے کے علوم :.(۱۷) سترھواں علم علم الاغذيه والا شر بہ ہے.اس میں یہ بتایا ہے کہ کون سی غذا ئیں کھانے کے قابل ہیں، صحت کے لئے کس قسم کی غذا مفید ہوتی ہے اور کس قسم کی غذاؤں کا خراب اثر صحت پر پڑتا ہے.پھر اسی میں یہ داخل ہے کہ سردی یا گرمی میں کس کس قسم کی غذائیں استعمال کرنی چاہیں.بیمار ہو جائے تو اس کی غذا کا خاص اہتمام کس طریق پر کیا جاتا ہے اور اُس کی غذاؤں میں کن امور کو مد نظر رکھنا

Page 96

89 چاہیئے.پھر جسم کے خاص اعضاء پر کس کس قسم کی اغذیہ اپنا خاص اثر ڈالتی ہیں.مثلا دماغ کی کمزوری یا دل کی کمزوری میں کیا استعمال کرنا چاہیئے.معدہ کمزور ہو تو کیا کھانا چاہیئے.یہ بہت بڑی تفصیل ہے اور اس کا ذکر اور بیان اس علم میں ہوتا ہے.اور اس میں ان اشیا کا ذکر آتا ہے کہ پینے کے قابل کیا کیا چیزیں ہیں.تندرستی میں کیا اور بیماری میں کیا اور پھر مختلف بیماریوں میں مختلف قسم کے شربت یا عرق دیئے جاتے ہیں.بہت کی بیماریوں میں بعض چشموں کے پانی مفید ہوتے ہیں اور ایسے ہی بعض تیل جیسے مچھلی کا تیل وغیرہ.غرض اس علم میں بہت بڑی تفصیل ہے اور یہ تندرستی اور بیماری اور مختلف ملکوں کی اشیاء خوردنی اور نوشیدنی کے علم پر حاوی ہے.سینے پرونے اور کھانا پکانے کے علوم (۱۸) اٹھارواں علم وہ ہے جو سینے پرونے سے تعلق رکھتا ہے اصل معنے اس کے یہ ہیں کہ کپڑے اور فیتہ کوکس طرح لگایا جائے کہ اُس کا خاص اثر دیکھنے والے پر ہوتا ہے.یورپ نے اس فن میں بہت ترقی کی ہے اور اُس کے لئے با قاعدہ سکول اور کالج بنائے ہیں.جہاں کے تعلیم یافتہ اور اس فن کے صاحب کمال بعض اوقات ہزار ہزار دو دو ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ پاتے ہیں.علم الالوان یعنی رنگوں کا علم در اصل اس میں داخل ہے.کسی رنگ کے ساتھ کسی قسم کا فیتہ لگانا ہے کون سی جگہ اونچی ہو اور کہاں کس قسم کی شکل رکھنی چاہیئے.فرض اس فن کو بہت وسعت دی گئی ہے.(۱۹) انیسواں علم جو اس کا حصہ ہے وہ کاٹنے کا فن ہے اس کے بھی الگ کالج ہیں اور آج یہ علم بہت ترقی کر گیا ہے یعنی کپڑا کا نا کس طرح جاتا ہے.کس قسم کی کاٹ زیادہ خوبصورت ہوسکتی ہے اور کس طرح کاٹنے سے کپڑا کم خرچ ہو یا ضائع نہ ہو.(۲۰) بیسواں علم کھانا پکانے کا علم ہے.اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ آٹا گوندھ کر پکا لیا بلکہ جب کہ اُس کو عملی شکل دی جاتی ہے تو اُس میں بہت سی باتیں داخل ہوتی ہیں اور اس میں یہ طبعی باتوں کو اپنے اندر رکھتا ہے اس علم کے ماہر کو علم الاغذ یہ والا شعر بہ کا ماہر ہوتا بھی ضروری ہے وہ دیکھے گا کہ کس حد تک ایک چیز کو گلا نا چاہیئے جو صحت کے لئے مفید ہو ہضم میں محمد ہو ، غذائیت پیدا کرنے میں کارآمد ہو.پھر جہاں ایک طرف اسے طبی پہلو کو مد نظر رکھنا ہے دوسری طرف زبان اور ذائقہ کے پہلو کو بھی زیر نظر رکھنا ہے.کون کون

Page 97

90 سی چیز کیا اثر رکھتی ہے، کھٹا اور میٹھا ملائیں تو کسی نسبت سے کہ دونوں ذائقے اپنی جگہ قائم رہ کر دوسرا لطیف ذائقہ پیدا کر سکیں اور پھر اگر وہ ملا کر کھائے جائیں تو کیا اثر کرتے ہیں.غرض ایک ایک چیز کے متعلق علم ہونا ضروری ہے، اس کے خواص اور اثرات سے واقفیت لازمی ہے.یہ علوم خصوصیت سے عورتوں سے تعلق رکھتے ہیں.تربیت اولاد (۲۱) اکیسواں علم تربیت اولاد کا ہے.یہ علم بہت ضروری ہے اور عورتوں کے ساتھ اس کا خاص تعلق ہے کیوں کہ اولاد کی تربیت اور تعلیم کا جس قدر تعلق ماں سے ہے مردوں سے اتنا نہیں ہوتا.ابتدائی تعلیم و تربیت سب ماں ہی کی گود اور اثر میں ہوتی ہے.اس علم میں یہ بتایا جاتا ہے کہ بچوں کے ساتھ کس حد تک مفتی یا نرمی کرنی چاہیئے.اُن کو غلامیوں یا بد عادتوں سے بچانے کیلئے کیا طریق اختیار کیا جائے ، ان میں اچھی عادتیں پیدا کرنے کے کیا طرق ہیں.اُن کے حوصلہ اور ہمت کو بلند کرنے کے لئے کیا طریق اختیار کیا جائے.غرض ان کی جسمانی اور اخلاقی تربیت اور ترقی کے لئے تمام ضروری باتوں کا علم اس میں داخل ہے.یہ علم بھی یورب اور امریکہ میں ایک مستقل علم کی حیثیت سے سیکھایا جاتا ہے.(۲۲) طبی علوم بائیسواں علم.طب ہے.یہ طب کا علم بہت وسیع ہو گیا ہے.اس لئے کہ ہر شخص بیمار ہوتا ہے.وہ علاج کراتا ہے.اور مختلف قسم کی بیماریاں ہوتی ہیں اس لئے بہت سے لوگ اس کی تحقیقات میں لگ گئے ہیں اور یہ علم وسیع ہوتا چلا گیا.اس کی دو وسعتیں ہیں.ایک تحقیقات امراض کے سلسلے میں دوسری علاج الامراض کے رنگ میں.پھر ان دونوں شاخوں کے اندر ایک اور سلسلہ وسیع ہوتا چلا گیا.طلب کی بھی کئی قسمیں ہیں.ایک اُن میں سے طب یونانی ہے.یونان یورپ ہی کا علاقہ ہے.اس طب کی اصلیت یہ ہے کہ چیزوں کے اثرات دریافت کیے جاتے ہیں اور پھر اُن کو اس قسم کی بیماریوں میں استعمال کرتے ہیں.مثلاً ایک چیز علم نکالتی ہے.جب بلغم کی تکلیف ہو تو وہ دیتے ہیں.جیسے بنفشہ.ایک قسم طب کی و یدک ہے.ویدک اور یونانی میں فرق ہے.ویدک ہندی طب ہے اور اس میں کشتہ جات پر زیادہ زور دیا جاتا ہے.اور وہ کہتے ہیں اصل چیز کا جو ہر دینا زیادہ مفید ہے.تفصیلات میں اور بھی بہت فرق ہے مگر میں نے موٹی بات بتادی ہے.

Page 98

91 پھر ایک قسم علاج بالماء ہے.اس کو انگریزی میں بایڈرو پیتھی کہتے ہیں.اس میں تمام امراض کا علاج پانی کے ذریعہ کرتے ہیں.بھی پانی پلا کر بھی نسل کے ذریعہ.پھر غسل کی مختلف صورتیں ہیں.کبھی چھینٹیے دیتے ہیں کبھی گرم یا ٹھنڈے پانی میں تو لئے بھگو کر رکھتے ہیں اور بدن کو صاف کرتے ہیں کبھی پورانسل دیتے ہیں.غرض تمام امراض کا علاج پانی سے کرتے ہیں.ایک قسم علاج کی علاج بالشعاع ہے یعنی سورج کی روشنی سے علاج کرتے ہیں.سورج کی روشنی مختلف رنگوں سے مل کرنی کیفیتیں اور مختلف اثرات پیدا کرتی ہے.اس علاج کے ماہر سبز.سرخ یا اور رنگوں کی شیشیاں لے کر اُن میں پانی ڈالتے ہیں اور پھر اُسے بطور دوا استعمال کرتے ہیں.اس علاج کی بھی کئی صورتیں ہیں.کبھی سورج کی شعاعوں میں بیٹھا کر بھی بعض امراض کا علاج کرتے ہیں.ایک قسم علاج کی علاج بالبرق ہے.بجلی کے ذریعے مختلف امراض کا علاج کرتے ہیں.اس غرض کے لئے مختلف قسم کے آلات بنائے گئے ہیں.اور ہر مرض میں اس کے مناسب حال آلہ لگا کر علاج کریں گے مثلاً گلے میں درد ہے تو ایک آلہ لگا کر اُسے بجلی سے دور کریں گے.یا جوڑوں میں درد ہے تو بجلی کے ذریعہ اس کی اصلاح کریں گے.یہ بھی ایک بہت بڑا علم ہو گیا ہے.ایک قسم علاج کی ہومیو پیتھی ہے جس کو علاج بالمثل کہتے ہیں.اس قسم کا علاج کرنے والے کہتے ہیں کہ جب سے انسان پیدا ہوا ہے اور وہ مختلف امراض میں مبتلا ہوتا ہے اس کو ان بیماریوں سے شفاء پانے کے لئے ایک ایسا گر بتا دیا ہے کہ اُس کے استعمال سے فائدہ ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جس چیز سے بیماری پیدا ہوتی ہے اُس کی قلیل مقدار دینے سے وہ دور ہو جاتی ہے.مثلاً افیوم قبض کرتی ہے لیکن جب الفیوم نہایت ہی قلیل مقدار میں دی جائے تو وہ قبض کشا ہو جاتی ہے.اس غرض کے لئے انہوں نے کیمیاوی ترکیب سے ہر چیز کی تاثیر کو نکال لیا ہے.کو نین جو ہے یہ ایک بوٹی کاست ہے.یہ بوٹی بنگال میں ہوتی ہے مگر لوگوں کو معلوم نہیں.ایک بابو کی کہلاتی ہے.اس کے اندر طب والوں نے یہ بحث کی ہے کہ انسان بارہ نمکوں سے بنا ہے.پس انہوں نے کیمیاوی طور پر خون کو دیکھا ہے وہ کہتے ہیں کہ جو بیماری پیدا ہو اس قسم کی چیز دی جائے.اس میں ایک ویکسن ہوتا ہے اور ایک سیرم.دیکسن یہ ہے کہ جیسے ہلکے کتے کا کاٹا ہوا ہو تو اُس کا زہر دے کر پچکاری کر دیں گے.سیرم یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی بیماری ہو تو اس میں دور کرنے کا جو مادہ ہوتا ہے اُسے لے کر

Page 99

92 محفوظ رکھتے ہیں.اور پھر اس قسم کے مریضوں میں اُسے داخل کرتے ہیں.ایک قسم طب کی آٹوینی ہے یعنی اپنے ہی خون سے علاج کرتے ہیں.جو بیمار آئے گا اسی کا خون لے کر علاج کریں گے.ایک علاج بالتوجہ ہوتا ہے.اس میں صرف توجہ سے علاج کرتے ہیں دوائی نہیں ہوتی.توجہ کرنے والے کے جسم سے ایک چیز نکلتی ہے جو ہمار پر اثر کرتی ہے.یہ بھی قلیل مقدار میں ہوتی ہے کبھی کثیر مقدار میں علوم حساب تاریخ و جغرافیه (۲۳) تئیسواں علم حساب ہے.اس کی دو صورتیں ہے.ایک بذریعہ اعداد دوسرا بذریعہ حروف جس کو الجبرا کہتے ہیں.اس میں حروف کا حساب لگایا جاتا ہے.بعض باتیں حساب سے نہیں پتہ لگتیں مگر الجبرا سے پتہ لگ جاتا ہے.ایک جیومیٹری ہے.اس میں یہ بحث ہوتی ہے کہ ایک جگہ ہے اُس کی آپس میں کیا نسبت ہے.مثلاً دائرہ ہے اُس کا کیا ثبوت ہے، سیدھا محل کس طرح بنایا جاتا ہے ، زاویہ کی کیا قیمت ہوتی ہے.اس علم میں خطوط کے ذریعہ بڑے بڑے حساب حل ہوتے ہیں.اس علم کے ذریعہ تعمیر مکانات میں بڑی مد ملتی ہے.پھر اسی کی ذیل میں ٹر گنا میٹری یعنی علم مثلث ہے جس میں اُن کی طاقتوں پر بحث ہوتی ہے اور پھر ایک لوگا رسم ہے جس میں خیالی قیمت لگا کر بعض لیے اور پیچیدہ حساب دو چار ہندسوں سے نکال لیتے ہیں.یہ علوم بہت بڑی تفصیل چاہتے ہیں.خلاصہ ان کا نہیں بیان کیا جاسکتا اس لئے صرف نام بتا دیے جائیں.(۲۴) چوبیسواں علم تاریخ ہے یعنی پچھلے لوگوں کے حالات بیان کرنا.یہ پانچ قسم کا ہے.سیاسی علمی.مذہبی.قومی.جنگی تاریخ.سیاسی تاریخ سے یہ مراد ہے کہ کسی قوم کی سیاست پر بحث کرنا اس میں تاریخی واقعات کو بیان کر کے ان اسباب پر بھی بحث ہوگی جو سیاسی تغیرات کا موجب ہوئے.مثلاً فلاں قوم نے فلاں ملک پر فلاں سنہ میں حملہ کیا اور وہ ہار گئے تو اُس کے ساتھ ہی یہ بھی بیان کیا جائے گا کہ اندرونی انتظام کیا تھے.رعایا اور بادشاہ کے تعلقات کیا تھے؟ علمی تاریخ میں اس امر سے بحث ہوگی کہ کیا علوم آتے تھے اُن میں کیا ترقی ہوئی.کون سے جدید علم اُس

Page 100

نے پیدا کئے.93 قومی تاریخ میں اس کا بیان ہوگا کہ وہ قوم جس کی وہ تاریخ ہے کہاں سے نکلی اور اس میں کیا قبائل تھے.اس کی کیا تقسیم ہے.کہاں کہاں پھیلی اور اس کے حالات میں کیا تبدیلیاں ہوئی ہیں.جنگی تاریخ میں اس امر کا بیان ہو گا کہ جنگی حیثیت سے اس قوم میں کیا تغیرات آئے.یہ حصہ تاریخ کا سیاسی تاریخ سے بالکل الگ ہے.سیاسی میں انتظامی امور پر بحث ہوتی ہے.جنگی میں اس قسم کی شجاعت، بزدلی اور فنون جنگ سے واقفیت یا عدم واقفیت اور جنگی ضروریات میں ایجادات اور سامان حرب کی حیثیتوں پر بحث ہوگی.پھر اس تاریخ کے علم کے ساتھ بعض اور علوم بھی تعلق رکھتے ہیں.وہ گو یا علم التواریخ کی شاخیں ہیں.چنانچہ دوسرا علم اس کا جو تاریخ سے تعلق رکھتا ہے.وہ فلسفہ تاریخ ہے.اس کے معنے یہ ہیں کہ کوئی تاریخ جولکھی جائے اس میں کیا قوانین مد نظر ہوں.یا تاریخ کے کیا فوائد ہیں، تاریخ نویسی کے کیا اصول ہیں ، اور مؤرخ کو کن باتوں کو مد نظر رکھنا چاہیئے.ایسا ہی تاریخ نویسی کے فن کی تدریجی ترقیوں اور حالات پر بحث ہوگی.تیسر اعلم جو اس کی شاخ ہے وہ ذرائع تاریخ ہے.اس میں یہ باتیں بھی داخل ہوتی ہیں کہ کسی ملک یا قوم کی صنعتوں اور روایات سے پتہ لگاتے ہیں، ایسا ہی اس قوم کے مذہب اور عقائد اور رسومات سے بھی پتہ لگاتے ہیں.غرض مؤرخ ذرائع اور اسباب سے تاریخ کا پتہ لگاتے ہیں.(۲۵) پچیوں علم جغرافیہ ہے.جغرافیہ کا علم زمانہ کے موجودہ نقشہ پر بحث کرتا ہے.کہاں دریا میں کہاں پہاڑ ہیں.جغرافیہ کی پانچ قسمیں ہیں.ایک مدتی ہوتی ہے جس میں شہروں کی نسبت بیان ہوتا ہے.ایک سیاسی جغرافیہ ہے اس میں اس بات پر بحث ہوگی کہ کسی پہاڑ، دریا یا شہر کی سیاسی حیثیت کیا ہے، اردگرد کے شہروں پر اس کا کیا اثر پڑتا ہے.اس سیاسی جغرافیہ میں اس امر پر بھی بحث ہوتی ہے کہ کسی ملک پر کس قوم کا قبضہ ہے اور کس حد تک سیاسی حالات اس کے موافق ہیں یا مخالف ہیں.ایک تجارتی جغرافیہ ہوتا ہے.اس میں یہ بتایا جاتا ہے کس ملک میں کیا کیا چیزیں ہوتی ہیں اور ان چیزوں کا نکاس کس طرح ہوتا ہے اور وہاں دوسرے ممالک سے کیا کیا چیزیں آتی ہیں اور کہاں کہاں سے آتی ہیں جیسے مثلاً ہندوستان میں گیہوں اور روئی ہوتی ہے اور یہ گیہوں اور روئی یورپ، امریکہ اور دوسرے ممالک میں جاتی ہے.

Page 101

94 ایک قسم جغرافیہ کی طبعی یا فضائی جغرافیہ ہے.اس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ بارش کیا چیز ہے، شبنم کیوں کر بنتی ہے،اولے اور برف کس طرح بنتے ہیں.ایک قسم جغرافیہ کی نقشہ کا علم ہے.اس میں دنیا کے نقشے بنانا داخل ہے.علوم تعمیر و سنگ تراشی و مصوری (۲۶) چھبیسواں علم تعمیر کا علم ہے.اس علم کے تین حصہ ہیں.ایک یہ کہ عمارت کس طرح بنانی چاہیئے.پھر اس کی مختلف شاخیں ہیں.بنیادیں کس طرح بھرنی چاہئے مختلف اونچائیوں کے لحاظ سے کسی قسم کا مصالحہ استعمال کیا جائے ، عمارت کس طرح مضبوط ہو، مختلف آفات بارش ، زلزلہ، بجلی وغیرہ سے کس طرح حفاظت ہو.یہ بجائے خود ایک وسیع علم اور اس کے لئے خاص قسم کے انجینئر نگ کے کالج ہیں.دوسرا حصہ اس علم کا تاریخ تعمیر ہے.اس میں یہ بیان ہوگا کہ کس طرح فن تعمیر میں ترقی ہوئی ؟ تیسرا حصہ اس علم کا یہ ہے کہ تاریخ تعمیر کے ساتھ مختلف اقوام کے فن تعمیر کا مقابلہ کیا جائے.ہندستانی کیسے بناتے تھے ، عربوں کا فن تعمیر کیسا تھا، دونوں میں کیا فرق تھا، کون بہتر تھا، دوسرے ملکوں میں اس فن نے کیا ترقی کی تھی.ان کا باہم مقابلہ کرنا، پھر کس قوم نے کس سے کیا سیکھا، سی ایک وسیع تاریخ تعمیر ہے اور بہت دلچسپ ہے.(۲۷) ستائیسواں علم سنگ تراشی اور مجسمہ سازی ہے.پتھروں کو دوسری شکلوں میں تراشنا اور ان سے انسانوں، حیوانوں یا دوسری چیزوں کے مجھے بائبت بنانا.اس کی بھی دو شاخیں ہیں.ایک خود سنگ تراشی دوسرے تاریخ سنگ تراشی.سنگ تراشی کی تاریخ میں مختلف فرقوں نے اس فن میں کیا کیا ترقیا ت کیں اور کس کس طرح اس فن میں ترقی کی اس کا مقابلہ کیا جاتا ہے (۲۸) اٹھائیسواں علم مقوری ہے.اس مصوری میں تین چیزیں داخل ہیں.نفس مصوری ، تاریخ مصوری اور فلسفہ تصویر نفس مصوری میں تو یہی بحث ہوگی کہ مصور کی کیا ضروریات ہیں.کس قسم کا سامان اسکے پاس ہونا چاہئے.اور تصویر کے وقت کن باتوں کو مد نظر رکھنا چاہیئے جس سے تصویر میں خوبی اور اثر پیدا ہو.یہ بہت وسیع علم ہے اور ایک خاص فن ہے.مصور انسانی جذبات اور کیفیات کو مجسم کر کے دکھا دیتا ہے.مثلا رنج و راحت، افسردگی کے نظارے نہایت عمدگی سے دکھا دیتا ہے.ایسا ہی دنیا کے

Page 102

95 فانی ہونے کی تصویر جب ایک لائق مصور کھینچ کر دکھائے گا تو طبیعت پر نقش ہو جاتا ہے.شاعر جذبات اور کیفیات کو الفاظ میں دکھاتا ہے مگر مصور تصویر کھینچ کر اور بنا کر دکھا دیتا ہے.تاریخ مصوری میں پھر وہی بات ہوگی کہ اس فن نے کس طرح پر ترقی کی مختلف قوموں میں یہ علم کس طرح جاری ہوا اور کیا کیا ایجادات اس میں ہوتی گئیں.اس زمانہ میں تو اس فن نے اس قدر ترقی کی ہے کہ حیرت ہوتی ہے.فلسفہ تصویر میں تصویر کی حقیقت اور قابیت کا بیان ہوگا.(۲۹) انتیسواں علم علم اعکس ہے.یہ بھی در اصل ایک قسم مصوری ہی کی ہے اس میں فوٹو لینا اور تاریخ فوٹوگرافی داخل ہے.فوٹو لینے میں کن چیزوں کی ضرورت ہے، کس اصول پر فوٹو لیا جاتا ہے، کن اجزاء سے تصویر بنتی ہے تاریخ فوٹو گرافی میں بیان کیا جائے گا کہ کس طرح پر علم العکس پیدا ہوا اور کس طرح ترقی کرتا چلا گیا.(۳۰) تیسواں علم صنعت ہے.صنعت کا لفظ اپنے اندر بہت وسعت رکھتا ہے میں تفصیل بیان نہیں کر سکتا صرف نام لے دیتا ہوں.لکڑی کی صنعت لو ہے، پیتل وغیرہ دھاتوں کی صنعت.پھر یہ مختلف قسم کی صنعتیں ہیں اسی میں تاریخ صنعت بھی ضروری ہے.علم لہو ولعب (۳۱) اکتیسواں علم لہو و لعب کا علم ہے.ہمارے یہاں لہو ولعب کا لفظ بڑا سخت لفظ ہے اور لہو ولعب کو پسند نہیں کیا جاتا.مگر میں نے بتا دیا ہے کہ بعض اوقات جہالت کو بھی علم کہتے ہیں.انگریزوں کے ہاں اس علم کو میوزمنٹ کہتے ہیں یعنی وہ علم جس سے انسان کا دل خوش ہوتا ہے.اسکی دو بڑی شاخیں ہیں.اندرون خانہ مشاغل کہ گھر میں بیٹھ کر انسان اُن سے لطف اٹھاتا ہے.دوسرے بیرون خانہ یعنی گھر سے باہر جا کر کیا کھیلیں.اس علم میں اس پر بڑی بحث ہے کہ کس قسم کی کھیلیں انسانی اعضاء پر کس قسم کا اثر ڈالتی ہیں، ہاتھ پٹھے کس طرح مضبوط ہوتے ہیں ، دل، دماغ اور پھیپھڑوں پر کس قسم کا اثر ہوتا ہے.ان دوا کے علاوہ ایک اور شاخ بھی اس علم کی ہے جو ہمارے تمدن میں علم نہیں سمجھا گیا مگر انگریزی تمدن میں وہ علم ہے اور وہ علم الرقص ہے.اس علم کے ذریعہ جسم کے مختلف اعضاء پر ایک خاص اثر ڈالا جاتا ہے اور مختلف قسم کی حرکات کا انہیں عادی بنالیا جاتا ہے.،

Page 103

96 چوتھا علم جو اسی لہو و لعب کی ایک شاخ ہے وہ علم القوات یعنی آواز کا علم ہے.اس میں ایک شخص ایسے طور پر بات کر سکتا ہے کہ لوگ دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ وہ نیچے سے ہوتا ہے مگر وہ اوپر سے بولتا ہو گا.اسی طرح آگے پیچھے یا دا ئیں بائیں سے بولتا ہے بعض لوگ ایسے حالات کو دیکھ کر ڈر جاتے ہیں اس علم میں آواز کو آگے پیچھے دور نز دیک کرنے سے خاص اثر پیدا ہوتا ہے.اس تبدیلی آواز کی ایک شاخ جانوروں کی بولیاں بولنا بھی ہے.شکاری اس سے کام لیتے ہیں اور ان کو بہت مددولتی ہے.جانور کھتے ہیں کہ اُن میں سے کوئی بول رہا ہے اور وہ آواز شکر ا کٹھے ہو جاتے ہیں.پانچواں علم اس فن لہو و لعب میں شعبدہ بازی ہے.مختلف کیمیاوی ترکیبوں سے مختلف چیزیں بنا دیتے ہیں اور وہ اصل چیزوں کی سی صورت اختیار کرتی ہوئی نظر آتی ہے.جیسے سانپ یا شیر بنانا.ایسا ہی مختلف قسم کے نقشے اور دھو کے ہوتے ہیں.چھٹا علم ہاتھ کی صفائی.دھوکا کہلاتا ہے.ایسی پھرتی سے ہاتھ چلاتے ہیں کہ دھوکا لگتا ہے.یہ کھیل عام طور پر تاش کے کھیل میں ہوتا ہے.ساتواں علم چیستانوں کا ہے.پہیلیوں کی طرح اس میں بتایا جاتا ہے.یہ بھی دو قسم کا ہے ایک زبانی دوسرا عملی ملی چیستا نیں ایسی ہوتی ہیں کہ لوہے کے چھلے وغیرہ گورکھ دھندے رکھ دیتے ہیں ان کو کھولنا ہوتا ہے.علم قدامت و محمدن (۳۲) بتیسواں علم علم القدامت ہے.اس علم میں بتایا جاتا ہے کہ ابتدائی زمانہ میں انسانوں کی کیا حالت تھی.مثلا نجھے رہتے تھے یا کپڑے پہنتے تھے اور کپڑے اگر پہنتے تھے تو کس قسم کے تھے.غرض اس طرح پر پر انے حالات پر اس علم میں بحث ہوتی تھی.اس کا ایک حصہ علم انسان ہے.یعنی آیا دو زبان سے الفاظ بولتے تھے یا اشارات سے کام لیتے تھے.خیالات کا اظہار کس طرح کرتے تھے.اور اسی میں ایک حصہ علم الدراہم ہے یعنی سکے نکال کر باتیں دریافت کرتے ہیں اور ایسا ہی تیسری شاخ علم تعمیر ہے یعنی پرانی عمارتوں سے بھی پتہ لگتا ہے.چوتھی ایک شاخ اور بھی ہے جو تعمیر کے علاوہ ہے اور اس میں دیگر آثار قدیمہ سے پتا لگایا جاتا ہے.(۳۳) تینتیسواں علم علم التمدن ہے جو نہایت اہم علم ہے.اس میں کئی علوم سے بحث ہوتی ہے.

Page 104

97 (۱) رعایا کے حقوق حکومت پر کیا ہیں.یعنی کونسی باتیں ہیں جو رعایا بادشاہ سے طلب کرے.(۲) حقوق علی الرعایا.یعنی کونسی باتیں مانی ضروری ہیں اور حکومت کے رعایا پر کیا کیا حقوق ہیں.(۳) حقوق الاخوان علی الاخوان یعنی انسان کے انسان پر ، بھائی کے بھائی پر کیا حقوق ہیں.(۴) حقوق الوالدین علی الاولاد یعنی ماں باپ کے حقوقی اولاد پر کیا ہیں.مثلاً اس میں یہ بھی بحث کریں گے کہ باپ بچہ کو مارے یا نہ مارے اور مارے تو کس حد تک.غرض والدین کو اولاد کے ساتھ کس قسم کا برتاؤ کرنا چاہیئے اور اولاد کو کیا طریق اختیار کرنا ضروری ہے.(۵) حقوق الرجال علی النساء.مرد کے عورتوں پر کیا حقوق ہیں.(۶) آئندہ نسل کی بہتری کس طرح ہو سکتی ہے.اس میں یہ بھی داخل ہے کہ عمدہ اخلاق والی اور مضبوط اولاد کس طرح پر ہو.(۷) مالک اور مزدور کے کیا حقوق ایک دوسرے پر ہیں.مزدور کس حد تک آزاد ہے اور کس حد تک پابند اور نوکر کا مالک کے مال میں کس حد تک حصہ ہے.یہ بڑی بحث ہے اور سرمایہ داروں اور نوکروں کے تعلقات اور حقوق کا علم اس وقت بہت وسیع ہو گیا ہے اور ان حقوق کی حفاظت نہ کرنے یا اُن کے نہ سمجھنے کے سبب سے بڑے بڑے فتنے اور فساد کھڑے ہو جاتے ہیں.مزدوروں کی جماعت جس کو لیبر پارٹی کہتے ہیں آج کل بڑے زوروں پر ہے.علم سیاست (۳۴) چونتیسواں علم سیاست ہے.اسکی بہت سی شاخیں ہیں.بڑی بڑی یہ ہیں:.(۱) حکومت اور ملازمین حکومت کا اپنے ملازمین پر کیا حق ہے اور کہاں تک اختیار ہے.ملازمین کے کیا حقوق ہیں.(۲) حدود حکومت یعنی حکومت ملک کی آزادی میں کس حد تک دخل دے سکتی ہے.کہاں تک بادشاہت رہتی ہے.(۳) طریق حکومت.اس کی پھر کئی شاخیں ہیں.(۱) غیر محدود سلطنت.جس میں بادشاہ کے اختیارات محدود نہیں.

Page 105

98 (۲) محمد ود سلطنت.اس میں حکومت کے پورے اختیارات نہیں ہوتے.بادشاہ رعایا کی مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتے.(۳) حکومت نواب.یعنی قائم مقاموں کی حکومت.(۴) حکومت فردی یعنی ایک ہی شخص حکومت کرے جس کو شاہی حکومت بھی کہتے ہیں.(۵) حکومت عوام.یعنی عام لوگوں کی مرضی سے حکومت.اس میں ایک بحث یہ ہے کہ آیا عام لوگوں کی حکومت بہتر ہے یا اس سے نقصان ہوتا ہے.(۲) حکومت عقلاء.چند عقلمندوں پر حکومت چھوڑ دی جائے.(۷) حکومت امراء.چونکہ سب سے زیادہ نقصان انقلاب حکومت پر امراء کا ہوتا ہے اس لیے بعض لوگ کہتے ہیں کہ امراء کا حق ہے کہ وہ حکومت کریں.پھر اس میں بحث یہ ہے کہ آیا یہ مفید ہے یا نہیں.(۸) حکومت پانچائی.حکومت پنچائتی میں ایک حکومت نہیں ہوتی بلکہ حکومت کو پھیلا دیا جاتا ہے جیسے آج کل روس کی حکومت کو کہا جاتا ہے.ہر جگہ اپنی حکومت ہے.بادشاہ ہوتا ہے اُس کا اتنا ہی کام ہوتا ہے کہ وہ دیکھ لے کہ آپس میں نہ لڑیں یا باہر سے دشمن آوے تو اس کا انتظام کریں.یہ ایسی حکومت ہوتی ہے کہ قادیان کی اپنی ہو.دہلی کی اپنی.لاہور کی اپنی گویا ہر شہر کی اپنی حکومت ہوتی ہے (۹) حکومت شیوخ ہے.اس میں بوڑھے تجربہ کار لوگ حکومت کرتے ہیں.عربوں میں یہی طریق حکومت تھا.چالیس برس سے اوپر کی عمر کے لوگوں کا انتخاب کر لیا جاتا ہے.(۱۰) دسویں شاخ اسلامی حکومت ہے کہ وہ ان میں سے کسی میں شامل نہیں ہے بلکہ اس نے سب سے لیا ہے اور تمام خوبیوں پر مشتمل ہے.محدود.غیر محدود.امراء عقلاء.نیابتی.اور شیوخ سب کو اس نے جمع کیا ہے اس لئے بہترین حکومت ہے.(۱۱) بحث.حکومت اور مذہب کے تعلقات کیا ہیں.کس حد تک مذہب کو بادشاہت کے ماتحت رہنا چاہیئے اور کس حد تک بادشاہت کو.(۱۲) بحث یہ ہے کہ حکومت میں عورتوں کا کس قدر دخل ہے.(۱۳) بحث.نو آبادیات کے متعلق ہے کہ کس طرح قائم کی جائیں.نو آبادیوں اور ملکوں کے کیا تعلقات

Page 106

99 99 ہوں.(۱۴) بحث.دو بادشاہوں کے تعلقات کس قسم کے ہوں.(۱۵) بحث.تعلقات بین الاقوام مختلف قوموں کے باہمی تعلقات کس قسم کے ہوں، ان میں باہم تنازعات ہوں تو فیصلہ کس طرح پر ہو، ہر ایک اُن میں اپنے قائم مقام چنتا ہے اس کے متعلق کچھ اصول ہیں اور وہ قانون بین الاقوامی کہلاتا ہے اس کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں.(۱۶) بحث.نیابتی حکومت کرنے والے آپ حاکم ہیں یا نہیں.اس میں بتایا گیا ہے کہ نیا بتی حکومت والے در اصل حاکم نہیں بلکہ ان کو نیابت مل گئی ہے جیسے عراق کا بادشاہ ہے.دراصل اس کی حکومت لیگ آف نیشنز کے سپرد ہے اور لیگ نے اُسے انگریزوں کے سپرد کر دیا ہے.(۱۷) بحث.دوحکومتوں کے علاقے کی حد بندی ہے اس میں یہ بحث ہوگی کہ کون سے ایسے قوانین ہوں کہ جس سے حد بندی ہو سکے.اس میں دیکھا جائے گا کہ کس قوم کے لوگ بستے ہیں اور کس کو فلاں حصہ دیا جائے تو نقصان ہوگا.(۱۸) بحث یہ ہوگی کہ حکومت کا انتظام کس طرح پر ہو.اس کی پھر بہت سی شاخیں ہیں.(۱) ایک نظام مرکزی ہے.بعض کہتے ہیں کہ دوسروں کو بھی اختیارات دیئے جائیں.جیسے یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ پنجاب.برما.یو پی وغیرہ کو اختیارات دیئے.گورنر بنا دیئے.پھر ایک صوبہ میں کمشنر اور ڈپٹی کمشنر وغیرہ ہیں.اور بعض یہ کہتے ہیں کہ تمام اختیارات مرکزی کو ہی رہیں.گویا نظام مرکزی کے متعلق دو حصے ہیں مکمل اختیارات مرکز کو ہوں یا دوسروں کو بھی ہوں.تیسری بحث اس میں پولیس کے متعلق ہے کہ کیا اختیارات ہوں.چوتھا محکمہ تجس کا ہے جس کو سی.آئی.ڈی کہتے ہیں جس کے ذریعہ حالات کا علم ہوتا رہے.پانچواں محکمہ جنگلات ہے.جنگلات کو کس حد تک محفوظ رکھا جائے اور کس حد تک جنگلات کو کاٹ کر زرعی آبادیوں کی صورت میں منتقل کیا جائے.بہت سی تفاصیل اس میں ہیں.چھٹا محکمہ محکمہ تعلیم ہے.اس میں بحث ہوگی کہ تعلیم کس طرح ہو، مفت یا قیمت پر، انتظام تعلیم کس طرح پر ہو، پھر لازمی ہو یا اختیاری، پھر اس صیغہ کی بہت سی شاخیں ہیں، زنانہ تعلیم، مردانہ تعلیم مختلف علوم کی تعلیم.

Page 107

100 ساتواں محکمہ.علاج انسانی اور حیوانی.ڈاکٹر اور ویٹرنری ڈاکٹر.پھر اسی میں ایک محکمہ حفظانِ صحت کا ہوتا ہے.پھر اسی میں طبی تعلیم کے ذرائع اور اسباب پر بحث ہے.آٹھواں محکمہ خزانہ کا ہے.نواں محکمہ انتظامی ہے.جیسے ڈپٹی کمشنر تحصیلدار وغیرہ.دسواں محکمہ فصل قضاء یا عدالت کا ہے.حج اور قاضی کس طرح مقرر ہوں.گیارھواں محکمہ مال کا ہے.اس میں زمینداروں کے تمام معاملات سے بحث ہوتی ہے.بارھواں محکمہ ڈاک کا ہے.تیرھواں محکمہ انہار کا ہے.چودھواں محکمہ ریلوے کا ہے.چندرھواں محکمہ آبکاری کا ہے.اس میں شراب اور دیگر منشیات کی نگرانی کرتا ہے.ناجائز طور پر کشید اور فروخت نہ ہو.سولہواں محکمہ تعمیرات کا ہے.سترھواں محکمہ ٹکسال اور سکہ کا ہے.اس میں سکہ جات بنانے کا علم ہوتا ہے.روپیہ کس قدر بنوانا چاہیے، پیسہ کس قدر چاہئے، دوسرے سکتے جو ضروری ہیں.پھر یہ بھی اس میں بتایا جائے گا کہ جعلی سگوں کی شناخت کا کیا علم ہے.اٹھارھواں محکمہ رجسٹری کا ہے.بعض معاملات میں فساد ہو جاتے ہیں اس لئے معاملات خرید وفروخت اور دستاویزات ضروریہ کی رجسٹری کا قانون جاری کر دیا جاتا ہے تا کہ سرکاری تصدیق ہو جائے.انیسواں محکمہ تجارت کا ہے.اس محکمہ کے ذریعہ سرکار دیکھتی ہے کہ ملک کی تجارتی ترقی کس طرح ہو سکتی ہے.اس ملک کی کونسی تجارتیں ہیں جو دوسرے ممالک میں پھیل سکتی ہیں.بیسواں محکمہ فوج کا محکمہ ہے.یہ بڑا وسیع علم ہے.اس میں دیکھا جاتا ہے کہ کس قسم کے ہتھیاروں کی ضرورت ہے.کتنی فوج ہو کس قسم کی ہو.وغیرہ وغیرہ.اکیسواں محکمہ تعلقات بیرونی کا محکمہ ہے جس کو صیغہ خارجہ کہتے ہیں.اسکا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ دیکھے

Page 108

101 کہ باہر والوں سے کیا تعلقات ہوں.بائیسواں محکمہ حفظان صحت کا محکمہ ہے.اس کا یہ فرض ہے کہ وہ دیکھے کہ لوگ کس طرح تندرست رہیں.شہروں اور دیہات کی صفائی کس طرح ہو.آب و ہوا درست رہے تا کہ صحت ورنسل پیدا ہو.تئیسواں محکمہ وضع قوانین ہے.اس کا کام ہے کہ ملک کی انتظامی اور اقتصادی ضروریات کیلئے قانون بناتا رہے اور مفید اور مصر قوانین کا خیال رکھے.چوبیسواں محکمہ بحری ہے.اس محکمہ کا کام ہوتا ہے کہ سمندروں کے متعلق تمام ضروریات کا انتظام کرے اور اس کے متعلق بحری قوانین کی پابندی کرے.پچیسواں محکمہ آب و ہوا ہے.اس میں بحث ہوگی کہ بارشوں کا کیا حال ہے.برف باری کہاں ہوگی.قبل از وقت حسابات لگائے جاتے ہیں.اگر چہ ابھی تک یہ محکمہ پورا ترقی یافتہ نہیں مگر پھر بھی بہت مفید ہے.چھبیسواں محکمہ ہوا ہے.یہ اس سے الگ ہے.اس محلہ کا تعلق فضاء سے ہے.ہوائی جہازوں کا علم اور اُن سے متعلق ضروری انتظام ہوتا ہے.ستائیسواں محکمہ ٹیکس ہے.جولوگ روپیہ کماتے ہیں اُن سے کتنا ٹیکس لیا جائے.اٹھائیسواں محکمہ کسٹم ہے.کس چیز پر کس قدر ٹیکس لیا جائے جو باہر سے آتی ہیں.یہ بہت وسیع محکمہ ہے.انتیسواں محکمہ شمار واعداد کا ہے.مختلف قسم کے اعداد جمع کئے جاتے ہیں.مثلا زراعت کے صیغہ کے اعداد ہوں گے کہ کس قدر رقبہ میں بڑی بڑی اجناس ہوئی گئی ہیں.ریلوے کے متعلق ہوں تو کس قدر مسافروں نے سفر کیا.کس قدر آمدنی ہوئی وغیرہ.اس محکمہ سے بڑا فائدہ ہوتا ہے.تیسواں محکمہ بجا رو بناور ہے.سمندروں اور بندرگاہوں کے متعلق انتظام.بندرگا ہیں وقتی ضرورتوں کے ماتحت کس قدر وسیع ہوں کہ جہاز آسانی سے آ جا سکے.وغیرہ.اکتیسواں محکمہ آثار قدیمہ ہے.پرانے آثار کی عمارت تحقیقات اور حفاظت.بتیسواں محکمہ محکمہ وزارت ہے.تینتیسواں محکمہ اشاعت ہے جس کا کام یہ ہوتا ہے کہ حکومت کے کاموں سے لوگوں کو آگاہ کرے یا غیر

Page 109

102 ملکوں میں حکومت کے متعلق بدظنی نہ پھیلے.چونتیسواں محکمہ تاریخ نویسی ہے جو حکومت کی ضروری تاریخ لکھتار ہے.پینتیسواں محکمہ حفاظت و ترقی حرفت و صنعت ہے.یعنی جو صنعتیں ملک میں جاری ہیں اُن کی حفاظت کی جائے اور اُن کی ترقی کی تدابیر کی جائیں.چھتیسواں محکمہ زراعت ہے.اس کی ترقی کی تجاویز سوچیں.مختلف قسم کے آلات اور حج مہیا کئے جائیں اور لوگوں کو اُن سے واقف کیا جائے.زراعت علمی طریق پر کی جائے.سینتیسواں محکمہ بندوبست ہے جس میں اراضیات کی پیمائش اور مالیہ کی پیشی کے متعلق ایک خاص انتظام اور قواعد ہوتے ہیں اتھیواں محکمہ میونسپلٹی ہے.مقامی پنچایتوں کا تقر ر اور ان کی نگرانی وغیرہ.غرض اس قسم کے محلے ہوں تو حکومت چلتی ہے.ایشیائی حکومتوں کی تباہی کا یہی موجب ہوا کہ ان باتوں کی طرف توجہ نہیں کی گئی.یہاں ابھی اس قدر محکمے قائم نہیں ہوئے......غرض اگر یہ محکمے ہوں تو حکومت چلتی ہے پھر ان محکمہ جات کے متعلق جواندرونی تفاصیل ہیں ان کا سلسلہ خود وسیع ہے.اصول تعلیم و علم حساب (۳۴) چونتیسواں علم اصول تعلیم ہے.اس میں (۱) اصول تعلیم کر تعلیم کس طرح دی جائے (۲) کون سے علوم مدارس میں پڑھائے جائیں.ان میں کیا نسبت ہو یعنی نصاب تعلیم اور پھر اُس کے لئے اوقات کی تقسیم مثلا تاریخ اتنے گھنٹے یا جغرافیہ اس قدر گھنٹے ہفتہ میں پڑھایا جائے (۳) سکولوں کا انتظام کس طرح ہو (۴) طریق تعلیم (۵) تاریخ تعلیم (۶) نظام تعلیم.جیسے پرائمری یا سکنڈری تعلیم.ہائی سکول اور کالج وغیرہ کس طرح قائم کئے جائیں.(۷) تعلیم المعلمین.استاد کس طرح پیدا کئے جائیں (۸) ورزشی تعلیم کس حد تک ہو ( ۹ ) اخلاقی تعلیم اور مذہبی تعلیم.پھر آیا مذ ہی تعلیم الگ ہو یا ساتھ.اگر ساتھ ہو تو مختلف مذاہب کے طالب علموں کی مذہبی تعلیم کا کیا انتظام ہو.(۱۰) تعمیر مدارس.مدرسہ کی عمارتوں کا خاص فن ہے جس سے

Page 110

103 طلباء صحت اور ذہن پر خاص اثر پڑتا ہے.غرض یہ ایک بڑا وسیع علم ہے.(۳۵) پینتیسواں علم حساب ہے.کسی طرح حساب رکھا جائے.(۳۶) چھتیسواں علم محاسبہ کا ہے.اس میں بتایا جاتا ہے کہ کس طرح حساب کے رجسٹروں کی پڑتال کی جائے.(۳۷) سینتیسواں علم نقش نو لیتی ہے.(۳۸) اٹھتیسواں علم انجینئر حتمی ہے.اس کی مختلف شاخیں ہیں.مثلا اس میں ڈانوں کا الگ علم نگ ہے کس قسم کی ڈاٹ کس قدروزن اٹھا سکتی ہے وغیرہ.(۳۹) انتالیسواں علم رسم و عادت ہے.یہ بھی مستقل علم ہے اور اس علم کی کئی شاخیں ہیں جس میں فلسفہ رسم و عادات.تاریخ رسوم وغیرہ داخل ہیں.علوم اللباس والاقتصاد (۴۰) چالیسواں علم علم المنہاس ہے.اول لباسوں کی تاریخ پھر مختلف ملکوں اور قوموں کے لباس لباس کی ضروریات.اس کی طبی اغراض اور موسموں کے لحاظ سے تقسیم.سب باتیں داخل ہیں.(۴۱) اکتالیسواں علم علم الحجر مین ہے.اس کی بھی بہت سی شاخیں ہیں.جرائم کے اسباب.مُجرموں کی اصلاح کے طریق.سزا کی حد اور اُس کا مقصد طریق سزا.کونسی سز از یادہ محسوس اور مؤثر ہوگی.(۴۲) بیالیسواں علم علم اقتصاد ہے.اس میں ملک کی مالی حالت کے متعلق علم بتایا جاتا ہے کہ کس طرح خرچ کرنا چاہئے.اس کے ضمن میں سخاوت اور بخل پر بحث ہوگی.پھر اس میں ایک بحث ایکھی تبادلہ سکہ کا ایک علم ہے اس نے آجکل لوگوں کو بہت گھبرا رکھا ہے.پھر اسی علم میں ایک شاخ ضرب سکہ کا علم ہے.پھر قرض پر بحث ہے.تجارت اندرونی اور بیرونی پر بحث ہو گی کہ کس طرح ترقی ہو سکتی ہے.پھر تجارت کی بحث میں اور کئی ضمنی بخشیں آجاتیں ہیں.طریق تجارت.آزاد تجارت.برابر ٹیکس والی تجارت کریں یا زیادہ والی.پھر اس میں ایک بحث ہوگی کہ اُن کا کیا اختیار ہو.اُن کا انتظام کس طرح ہو.مالک اور مزدورں کی انجمنیں با ہم کس طرح مل کر کام کریں تا کہ اس کے فوائد زیادہ ہوں.پھر اس میں سٹرائک کے متعلق بحث ہوگی کہ ہونی چاہیئے یا نہیں.اور

Page 111

104 اس عرصہ میں کھانے کا کیا انتظام ہو.تعطیل کارخانہ.اس کے متعلق مالک کیا اختیار کرے گا اور اس کا کیا اختیار ہے کہ نوکروں کو نکال کر کارخانہ بند کر دے.حقوق مزدوران.آیا مزدوروں کو اپنے حقوق مانگنے کی اجازت ہے یا نہیں ہے تو کس حد تک.غرباء اور اُن کا انتظام.ایک بحث اس علم میں یہ ہے کہ مالک زمین کے کیا حقوق ہیں؟ ایک بحث یہ ہے کہ کارخانوں میں باہم اتحاد کس حد تک لازمی ہے.ایک بحث یہ ہے کہ کارخانے کس طرح بنائے جائیں جس سے مزدوروں کی صحت پر برا اثر نہ پڑے.پھر ایک بحث یہ ہے کہ کمپنیوں کا قیام کس طرح ہو.پھر مال کا کیا اثر ہوتا ہے.ٹیکس اور اسکی حد بندیاں.بیمہ اور اس کا اثر - شرکت فی النفع اور اس کی تقسیم.قیمتیں کس طرح گھٹتی بڑھتی ہیں.یہ شاخیں ہیں علم الاقتصاد کی.منطق.فلسفہ اور علم بیت (01) 5 پور (۴۳) تینتالیسواں علم منطق ہے.دو ہاتوں کو ملا کر صبح نتیجہ نکال لیا.اس میں یہی سکھایا جاتا ہے مثلاً وہ کہتے ہیں ہر انسان حیوان ہے.زید انسان ہے معلوم ہوا زید حیوان ہے.اس طرح پر وہ بتاتے ہیں کہ مختلف باتوں سے صحیح نتائج کس طرح نکلتے ہیں.اس کے دو حصے ہوتے ہیں.ایک خاص مثالوں سے نتائج پیدا کرتے ہیں.ایک صورت یہ کہ خاص حالت سے عام قانون بنا لیتے ہیں.(۴۴) چوالیسواں علم فلسفہ ہے.اس کے معنے ہیں حقیقتہ الاشیاء.اس میں یہ بحث کی جاتی ہے کہ مادہ کیا چیز ہے؟ وقت کیا چیز ہے؟ دنیا کا انتظام کس چیز پر چل رہا ہے؟ مادہ کس طرح پیدا ہوتا ہے؟ خدا کیا ہے.اس علم کا خلاصہ کیا ؟ کیوں؟ کس طرح کے ؟ تین الفاظ میں آجاتا ہے.اس کے جوابات جو نکلتے ہیں وہ فلسفہ بتاتا ہے.خاص طور پر مادہ اور وقت پر بحث کی جاتی ہے.(۴۵) پنتالیسواں علم سائیکالوجی یا علم النفس ہے.انسان میں کیا کیا داخل ہے اور وہ کس طرح پیدا ہوتا ہے.انسانی عقل اور جانوروں کی عقل میں کیا فرق ہے.اس قسم کی بحث اس علم میں ہوتی ہے.(۴۶) چھیالیسواں علم علم الاخلاق ہے.اخلاق کیا ہیں وہ اچھے پائمر سے ہیں.

Page 112

105 (۴۷) سینتالیسواں علم خواص قانونِ قدرت.کبھی یکدم سردی ہو جاتی ہے کبھی گرمی.تغیرات کیوں ہوتے ہیں.(۴۸) اڑتالیسواں علم علم الروایات ہے.(۴۹) اُنچاسواں علم علم اللسان ہے.کسی طرح تغیرات زبان میں ہوتے ہیں.اس علم کے ماتحت (۱) مقابلہ زبان ہے.عربی سکسرت، عربی انگریزی، فارسی عربی وغیرہ زبانوں کا باہم مقابلہ کرتا.کونسے الفاظ ملتے ہیں.کیا تغیرات ہوتے ہیں.(۶) تحقیق اللسان.اس میں یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کامل زبان کونسی ہے.(۳) نظیر است انسان کا علم بھی اس میں داخل ہے.(۵۰) پچاسواں علم علم الہیت ہے.ستاروں کی بحث ہے.گردش فلکی، حقیقت سیارگان کیوں چلتے ہیں ان کے اثرات زمین پر کیا ہیں.ان کی رفتار اور گردش کس قسم کی ہے.اس گردش کا اثر خود ان کی ذات پر کیا ہوتا ہے.پھراسی میں اقسام سیارگان پر بحث ہوگی.اس کے ساتھ ہی اُن کے طریق پیدائش پر بحث ہے کہ چاند کس طرح بن گیا.اور پھر اسی علم میں علم النور پر بھی روشنی ڈالنی ہوگی کہ روشنیاں کس طرح پر ہوتی ہیں.تری هم مطرت ت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ جلسه لجنہ اماء اللہ منعقده ۵ مارچ ۱۹۲۳ء پچاس علوم پہلے بیان کر چکا ہوں چند اور باقی ہیں اُن کو اب بیان کر دیتا ہوں.علم سائنس و طبقات الارض (۵۱) واں علم فزکس کہلاتا ہے.یہ حصہ ہے اس علم کا جس کو ہمارے ملک میں سائنس کہتے ہیں اس کے کئی حصے ہیں.ایک حصہ کا نام فزکس ہے.اس علم میں اس بات پر بحث کی جاتی ہے کہ آواز کس طرح پیدا ہوتی ہے؟ روشنی گرمی، سردی کیا چیز ہیں؟ سیال چیزیں کیا ہیں؟ پھر اس علم کے ماتحت یہ بحث بھی ہوتی ہے کہ بجلی کیا ہے؟ مقناطیس کیا ہے؟ ذرات کیا ہیں؟ مادہ میں کیا کیا قو تیں ہیں؟ اس کی کتنی صورتیں ہیں؟ ٹھوس ،

Page 113

106 مائع اور گیس کے جدا جدا کیا خواص ہیں؟ جس قدر مشینیں ایجاد ہوتی ہیں وہ اس علم سے بنتی ہیں.غرض یہ علم سیال ، گیس ، آواز ، روشنی ، مقناطیس ذرات اور اجزائے مادہ پر بحث کرتا ہے.اسی کی وجہ سے ایجادیں ہوتی ہیں.مثلاً ریل کا انجن اسی علم سے بنا کہ گرمی کی کیا طاقت ہے.کس طرح اس طاقت کو پیدا کیا جاتا ہے اور کس طرح بند کیا جاتا ہے.اسی علم نے بجلی کی روشنی پیدا کی اور پھر اسی علم سے بتایا جاتا ہے کہ کس طرح بجلی ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائی جاتی ہے.پھر اس علم کے ذریعہ یہ بھی معلوم ہوا کہ بغیر تار کے بھی بجلی جاسکتی ہے.کوئی حرکت ضائع نہیں جاتی.پھر ذرات کا علم ہے جس سے ترقی کر کے ٹیکا نکلا ہے.غرض مشینوں کا کام گیس ، سیال اور مقناطیس کے ذریعہ چل رہا ہے اور یہ تمام اس علم کا نتیجہ ہیں اور ایجادات میں اس کا بڑا دخل ہے.پھر اس علم کا ایک حصہ ملی کہلاتا ہے یعنی علم کتابی کو کس طرح استعمال کر کے فائدہ اُٹھایا جاتا ہے اور ایک مکینیکل کہلا تا ہے.مشینوں پر کیا اثر پڑتا ہے.(۵۲) با ونواں علم کیمسٹری ہے.یہ وہی ہے جس کو پرانے زمانہ میں کیمیا کہتے تھے.دو چیزیں ملا کر تیسری چیز پیدا ہونے پر اس علم میں بحث کی جاتی ہے.غرض یہ علم بتاتا ہے کہ مختلف چیزیں مل کر کونسی نئی چیز پیدا ہوتی ہے اور اس کے خواص میں کیا تبدیلیاں ہو جاتی ہیں.اس علم پر طلب کی بنیاد ہے.مثلاً کونین دوسری چیزوں سے مل کر کیا اثر کرتی ہے.طب کی بنیاد اور سائنس کے شعبدے اس پر موقوف ہیں.یہ بھی علمی اور عملی ہوتی ہیں.پھر اسی علم کے ایک حصہ میں جسمانی چیزوں کے تجربہ کئے جاتے ہیں.ایک خاص صبہ انسان کی زندگی سے تعلق رکھتا ہے.کیمسٹری میں اس بات پر بحث ہوتی ہے کہ خون کے کیا اجزاء ہیں.پھر دو حصے اس کے اور ہیں جو نباتات اور جمادات سے تعلق رکھتے ہیں.(۵۳) تر پونواں علم جیالوجی ہے.اس کو علم طبقات ارض بھی کہتے ہیں.اس علم کی کئی شاخیں ہیں.اسی علم کی شاخوں میں سے ایک حصہ وہ ہے جو دنیا کے لئے مفید ثابت ہو رہا ہے وہ زلزلہ کا علم ہے.زلزلہ سے دُنیا کی بڑی تباہی ہوتی ہے.۱۹۰۵ء میں جو زلزلہ پنجاب میں آیا تھا اس میں میں ہزار کے قریب لوگ ضائع

Page 114

107 ہوئے تھے.اس علم کے ذریعے سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ زلزلہ آنے والا ہے اور اس ذریعہ سے قبل از وقت علم پا کر ہلاکت سے بچ سکتے ہیں.اس علم میں جو زلزلہ کے متعلق ہے زمین کی حرکات پر بحث ہوتی ہے.اس سے عام حرکت مراد نہیں ہے بلکہ ایسی حرکت مراد ہے جیسے بعض اوقات انسان کے جسم کے اندر کوئی حصہ پھڑ کنے لگتا ہے.اسی طرح زمین کی غیر معمولی حرکات کا پتہ اس علم سے لگ جاتا ہے.شملہ ایک آلہ لگا ہوا ہے جس سے پتہ لگ جاتا ہے کہ کہاں زلزلہ آیا ہے اور کتنے میل کے فاصلہ پر آیا ہے.جاپان نے اس علم میں بہت ترقی کی ہے.اس آلہ کو ٹیلو گراف کہتے ہیں.اس کے نگران جو میں اُن میں ایک احمدی محمد یوسف نام بھی مقرر ہوئے ہیں.اس آلہ کو میں نے دیکھا ہے.اُس کمرہ میں داخل ہوتے ہی ستون حرکت کرنے لگتا ہے.باریک سے بار یک حرکت کا پتہ لگ جاتا ہے.دوسراحصہ جو اس علم کا ہوتا ہے وہ طبقات الارض سے تعلق رکھتا ہے.وہ زمین کے مختلف حصوں کو دیکھ کر بتاتا ہے کہ یہ کب بنا.مثلاً یورپ کا علاقہ بہت بعد کا بنا ہوا ہے اور ایشیا اس قابل ہو گیا تھا کہ اس پر آدمی آباد ہوسکیں.اسی علم کے ذریعہ کانوں کا علم ہوتا ہے.لوہا وغیرہ کب بنے.یہ چیزیں ایک ہی مادے سے بنی ہیں.کوئلہ اور ہیرا ایک ہی چیز ہے صرف زمانہ کا فرق ہے.اس فرق نے ایک کی قیمت اتنی بنادی ہے کہ ایک تولہ لاکھوں روپیہ کو آئے گا اور دوسرا کئی من دس ہیں پچاس روپیہ کو جائیگا حالانکہ دونوں ایک ہی چیز ہیں.اس علم کے ماتحت علم الاوزان ہے یعنی وزنوں کا علم ہوا ، وقتی ، رطوبت اور خنکی کا علم بھی اس کے ماتحت ہے کہ اُن کا کیا اثر ہوتا ہے.اسیطرح بارشوں اور ہواؤں کا علم معلوم ہو جاتا ہے.اس علم میں یہ بحث بھی کی جاتی ہے کہ پتھروں کی کیا کیا مقسمیں ہیں.کس طرح اُن کے خواص معلوم ہوتے ہیں.کن حالات میں اُن کی لمنیوں کا اندازاہ ہوتا ہے.عام پتھروں سے لے کر ہیرے تک بحث آجاتی ہے.پیدائش اجسام وعلم الاقدام (۵۴) چونواں علم پرائھی ٹالوجی.پیدائش ابتدائی کا علم ہے اس میں اس بات پر بحث ہوگی کہ پہلے پیدائش کس طرح پر ہوئی پھر اس میں آگے چل کر اس طرح پر بحث ہوگی کہ نباتات کس طرح پیدا

Page 115

ہوئے.108 شروع ہی سے آم یا امرود تھے یا یہ کوئی اور پھل تھے اور ترقی کرتے کرتے آم اور امرود ہو گئے ؟ نباتات کی ابتدائی پیدائش کے ماہر کہتے ہیں کہ پہلے سبزہ ذرا سا تھا پھر اس سے ترقی کرتے کرتے اس کی شاخیں ہوئیں پھر شاخیں در شاخیں سلسلہ چلا گیا اور ہزاروں لاکھوں قسمیں ہو گئیں جیسے آدم کی اولا د ایک تھی پھر کوئی کہیں چلا گیا ، اور کوئی کہیں کوئی گورا ہو گیا اور کوئی کالا.اسی طرح نباتات کے متعلق کہتے ہیں کہ ابتداء میں ایک ذرہ سا تھا پھر اسی علم کے ماتحت جانوروں کے متعلق بحث ہوتی ہے اور پھر ان کی موٹی تقسیم دو طرح پر کی ہے.ظہری اور غیر قطبری یعنی وہ جن کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے اور وہ جن کی ریڑھ کی ہڈی نہیں ہوتی.پھر اس ترقی کے مدارج پر بحث ہے کہ کس کس طرح ترقی ہوئی.(۵۵) پچپنواں علم بایولوجی یعنی حیات جسمانی کا علم ہے.جسم کی زندگی پر اس علم کے ذریعہ بحث ہوتی ہے.مثلا ہاتھ حرکت کرتا ہے وہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس میں ایک حیات ہے روح ایک الگ چیز ہے.جسم میں ایک حیات ہوتی ہے.پھر اس حیات کے بھی مدارج ہوتے ہیں.یہ ایک بہت باریک اور وسیع علم ہے.علم الارتقاء میں اس پر بحث ہوگی.کس طرح پر ایک جانور سے دوسرا بن جاتا ہے.علم الارتقاء کے ماہرین کہتے ہیں کہ انسان ایک کیڑا ہوتا ہے وہی ترقی کرتے کرتے کوئی بندر بن گیا اور کوئی کچھ.اور پھر آخر ترقی کرتے کرتے انسان بن گیا.یہ لوگ ایک نیا سلسلہ چلاتے ہیں.ان کا خیال ہے کہ ترقی کرتے کرتے وہ کیڑر بندر بنا اور پھر اس سے ترقی کر کے ایک اور جانور بنا.پھر اس سے انسان بن گیا.یہ علم الارتقاء کہلاتا ہے.یہ علم بجائے خود ایک بحث طلب چیز ہے مگر اس علم والوں نے اس علم سے ایک فائدہ اُٹھایا کہ چھوٹی چیزوں کو بڑی بنالیا.مثلاً کدو بہت بڑا بنا لیا.اور بعض نئے مزے کی چیزیں بنالیں.ایک مزے کا انگور تھا اس میں ترقی کر کے کچھ اور تبدیلی کر لی.نباتات کی ترقی میں اس علم سے بہت فائدہ اُٹھایا گیا ہے.ہی علم میں یہ بحث بھی آتی ہے کہ باپ سے بیٹے کو کیا ورثے آتا ہے یعنی بیٹا باپ سے کن کن خصائل و عادات وغیرہ کو لیتا ہے.کس طرح سے ایک خاندان اپنی خاص بات اپنی اولاد میں منتقل کرتا چلا جاتا ہے.(۵۶) چھپنواں علم علم الاقوام ہے مختلف قوموں میں آپس میں کیا تعلق ہے اور کس حد تک اُن میں

Page 116

109 تفریق و امتیاز ہے.ایک طرح سے تمام اقوام ایک ہی ہیں کیونکہ ایک آدم کی اولاد ہیں مگر مختلف ملکوں میں چلے جانے اور رہنے سہنے سے اختلاف ہو گیا.یورپ کے لوگوں کا دماغ خاص قسم کا ہے.ایشیا کے لوگوں کے قومی اور رنگ کے ہیں.افریقہ والے اور قسم کے.پھر میدانوں میں رہنے والے اور پہاڑوں کے رہنے والوں میں جدا امتیاز ہے.یہ آب و ہوا اور تمدن کے اثر کے سبب سے ہوتا ہے یہاں تک کہ چمڑوں اور ہڈیوں کی بناوٹ میں فرق ہو جاتا ہے.اس علم کے ماہر ایک ہڈی کو دیکھ کر بتا دیتے ہیں کہ وہ کس قوم کا آدمی ہے.غرض یہ علم بھی بہت وسیع ہے.اور اس میں آئے دن ترقی ہورہی ہے.علم نباتات و حیوانات (۵۷) ستاونواں علم علم النباتات ہے.یہ علم بھی آجکل بہت ترقی کر گیا ہے.نباتات کے کیا اعمال ہیں؟ نباتات زندہ ہیں یا نہیں ؟ اور وہ سنتے اور دیکھتے ہیں یا نہیں؟ ان میں جس ہوتی ہے یا نہیں؟ قوتیں ہوتی ہیں یا نہیں ؟ ان پر رنج و راحت کا اثر ہوتا ہے یا نہیں؟ پھر ان باتوں کے معلوم کرنے کے کیا طریق ہیں اس علم کا ایک بہت بڑا ماہر ایک ہندوستانی ڈاکٹر یوس ایک بنگالی ہے.اس نے یورپ میں جا کر اپنے تجربوں سے ثابت کر دیا ہے کہ نباتات میں بھی جس اور زندگی ہے اور وہ انسان کی طرح مختلف جذبات سے متاثر ہوتے ہیں.سنتے ہیں، چلتے ہیں، ان میں غصہ بھی ہوتا ہے اور وہ خبر رسانی کرتے ہیں.ان میں شرم اور حیا بھی ہوتی ہے اور اُن کو بھوک اور پیاس بھی لگتی ہے.پھر اس علم میں نباتات کے اقسام پر بحث ہوتی ہے اور یہ بھی کہ مختلف آب و ہوا میں کس قسم کے پودے ہوتے ہیں اور کس قسم کے نباتات کن ملکوں میں نہیں ہو سکتے.ان کے امراض کیا ہیں؟ اور ان کے اسباب اور علاج کیا ؟ پھر اس علم میں ایک بحث علمی ترکیب سے ہو گی.مفردات کو لے کر بحث کریں گے کہ یہ فلاں چیز کی رشتہ دار ہے.بعض اوقات ایک پودے کی شکل نہیں ملتی مگر وہ رشتہ دار ہوتا ہے.مثلا گنا اور کانا (سرکنڈا) کو ایک ہی قوم سے بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سر کنڈا ترقی کرتے کرتے گنا ہو گیا.(۵۸) اٹھاونواں علم علم الحیوانات ہے.اس میں جانوروں کے متعلق بحث ہوگی اور اس علم میں حیوانات کے اعمال پر بحث ہوتی ہے.باریک باریک ذرات کے کیا کام ہیں.ریڑھ کی ہڈی والوں کی کیا

Page 117

110 کیفیت ہے.پھر اس میں تقسیم بلاد کے لحاظ سے بحث کریں گے کہ کون سے جانور کس ملک میں پائے جاتے ہیں اور کس ملک میں وہ نہیں پائے جاتے اور کیوں ہیں.غرض یہ بھی ایک وسیع علم ہے.(۵۹) انسٹھواں علم کان کنی ہے.اس کی کئی شاخیں ہیں.کانوں کا دریافت کرنا.ان میں روشنی اور ہوا کا پہنچانا.پہلے زمانہ کے لوگ ترقی نہ کر سکتے تھے اور وہ نہیں جانتے تھے کہ زمین کے اندر کس قسم کے خزانے بھرے ہوئے ہیں.کان کنی کے علم نے آب بہت ترقی کی ہے.کانیں زمین کے اندر ہوتی ہیں وہاں روشنی اور ہوا کا پیدا کرنا ایک خاص علم کو چاہتا ہے.جس کے ذریعہ وہاں کام کرنے والے کام کر سکیں اور آگ لگنے یا دم گھٹنے کے حادثات بھی پیدا نہ ہوں.(۶۰) ساٹھواں علم علم العناصر ہے.اس میں عناصر اور دھاتوں کے متعلق بحث کی جاتی ہے.علوم بجراحی والا دویة والامراض اکسٹھواں علم علم التشریح ہے.اس میں بتایا جاتا ہے کہ انسان یا جانداروں کے جسم کی کیا حقیقت ہے.اس علم کے ذریعہ ہی اُن کو معلوم ہوتا ہے کہ فلاں ناڑ کہاں ہے یا فلاں ہڈی کس مقام پر ہے اور اس کی کیسی شکل ہے.اس علم کے ذریعہ علاج میں بڑی مددملتی ہے اور اب اس علم نے بہت ترقی کی ہے اور مختلف قسم کے اور علوم اس کی مدد کے لئے پیدا ہو گئے ہیں.(۶۲) باسٹھواں علم علم الادویہ ہے.دواؤں کی کیا تاثیرات ہیں.زیادہ یا کم مقدار میں وہ کیا اثر کرتی ہیں.کسی خاص بیماری میں ان کی تاثیر کیا ہے.یہ ایک مستقل علم ہے اور بہت وسیع ہورہا ہے.(۶۳) تریسٹھواں علم علم الجراحت ہے.یعنی جراحی کا علم.ہڈیوں کو جوڑنا.چیرا دینا یا دوسرے جانوروں کی ہڈیاں لے کر انسان کی بعض ہڈیوں کی جگہ لگا دینا.(۶۴) چونسٹھواں علم ز سرتی ہے.اس میں بتایا جاتا ہے کہ بیار کی تیمارداری کس طرح کرنی چاہیئے بیمار کا مزاج چڑ چڑا ہو جاتا ہے.یہ علم بتائے گا کہ بیمار کے مزاج کو مد نظر رکھ کر کہاں ہم کو غصہ دکھانا چاہیئے اور کہاں نرمی کا برتاؤ کیا جائے.بعض وقت اندر فضہ ہوتا ہے مگر ظاہر میں نرمی کا برتاؤ کرنا پڑتا ہے اور بعض

Page 118

111 اوقات سختی اور غصہ کا اظہار ضروری ہوتا ہے.ایک دفعہ ایک ڈاکٹر نے ایک مریض پر میرے سامنے غصہ کا اظہار کیا میں نے کہا یہ کیا کرتے ہو اُس نے کہا یہ بھی ضروری ہے.اس لئے اس علم کو الگ کر دیا گیا ہے اور یہ ایک خاص پیشہ ہو گیا ہے.نرسیں الگ ہوتی ہیں.بیار کا اُٹھانا بٹھانا، کھانا کھلانا وغیرہ تمام امور کی وہ نہایت عمدگی سے نگہداشت کرتی ہیں.(۶۵) پینسٹھواں علم جو پہلے نیا علم نہ تھا اب وہ نیا اور مخصوص ہو گیا ہے.یہ علم عورتوں کی خاص بیماریوں اور علاج کا علم ہے.بعض ادویات ایسی ہیں جو عورتوں پر خاص اثر کرتی ہیں اس لئے عورتوں کی مخصوص بیماریوں کا ایک خدا اور مستقل علم ہو گیا ہے.جدااور (۶۶) چھیاسٹھواں علم بچوں کی مخصوص بیماریوں اور علاج کا علم ہے.(۶۷) تھا سٹھواں علم عام علم الامراض ہے.اس علم الا امراض میں یہ بحث ہوتی ہے کہ امراض سے کیا مراد ہے؟ امراض کیونکر پیدا ہوتی ہیں، ان کے اسباب اور علامات اور علاج کیا ہیں؟ علم زراعت و مسمریزم و علم قیافه (۶۸) ارسٹھواں علم علم زراعت ہے.اس میں یہ بحث ہوتی ہے کہ کوئی چیز کسی وقت ہونی چاہیئے ، زمین کو کس طرح تیار کیا جائے ، بونے کے بعد اس کی حفاظت اور پرورش کا کیا طریق ہے.پھراسی میں یہ بحث آتی ہے کہ کونسی چیز کس ملک میں پیدا ہوتی ہے اور وہ چیز دوسرے ممالک میں کس طرح پیدا کی جاسکتی ہے.یہ بہت ہی وسیع علم ہے اس کے لئے خاص قسم کے مدرسے اور کالج بنائے گئے ہیں.(۶۹) اُنسٹھواں علم مسمریزم ہے.اس علم کی کئی شاخیں ہیں (۱) ایک علاج الامراض (۲) دوسرے دور بین یعنی دُور کی بات معلوم کرنا.ایک بند کمرے یا الماری میں کوئی چیز ہو تو اس کو دیکھ لینا (۳) تیسر اعلم اس کے تحت میں خبر رسانی ہے.یہاں بیٹھے ہوئے دوسرے مقام پر جو دور فاصلہ پر ہو اپنی خواہش کو ڈال دینا.سیا بھی ابتدائی حالت میں ہے.(۴) چوتھا علم جو اس کی شاخ ہے وہ روح کو اور بھیج دینا ہے.اس سے انسانی روح مراد نہیں بلکہ اس

Page 119

112 سے مُراددماغ کا وہ حصہ ہے جو اثر قبول کرتا ہے جس کو متاثر دل کہتے ہیں.وہ باہر جاتا ہے اور دوسرے کو نظر آجاتا ہے.(۵) پانچوں حصّہ اصلاح الاخلاق ہے جس کے ذریعہ بعض بد عادتوں کو چھڑا دیا جاتا ہے جیسے چور کی عادت وغیر ہ چھڑائی جاتی ہے.(۷۰) سترواں علم روحوں کو بلانے کا علم ہے.بڑے بڑے سائنسدان اس علم کو پڑھ رہے ہیں جو اور علوم کو چھوڑ کر اس کی طرف آرہے ہیں مگر دراصل یہ وہم ہوتا ہے.عیسائیوں کو عیسائیوں کی اور ہندوؤں کو ہندوؤں کی بات بتائی جاتی ہے.ایک آدمی پر توجہ ڈالی جاتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ مجھ پر زوح آگئی ہے.کبھی الگ آتی ہے اور وہ اپنے آنے کی علامت بتاتی ہے.مثلاً کبھی گری اُلٹ دی یا کوئی اور فعل کر دیا.روح تو نہیں آتی مگر یہ ایک علم ہے اور صحیح علم ہے.(۷۱) اکہترواں علم علم القیافہ ہے.اس علم کے جانے والے شکل دیکھ کر بناوٹ سے یہ بتا دیتے ہیں که مشخص کس قسم کے عادات اور خصائل کا ہے.اس میں کس قسم کے خواص ہیں.دھوکا، دعا محبت ، وفا وغیرہ جذبات کا اندازہ ہو جاتا ہے.اس علم کی ایک شاخ علم ایکشرہ ہے.چیرہ کی بناوٹ سے بنا دینا کہ اس کے اخلاق کسی قسم کے ہیں.کانوں اور آنکھ کے فرق سے، ہونٹ ناک وغیرہ کی بناوٹ ، لمبائی اور موٹائی سے ہر قسم کے اخلاق کا پتہ دے دیا جاتا ہے.دوسراحصہ اس علم کا علم الرآس ہے جس کو سرکا علم بھی کہتے ہیں.یہ زیادہ بہتر حالت میں ہے جس قد را خلاق ہیں قتل ، خونریزی و غیر وان کا تعلق دماغ کے مختلف حصوں سے ہے.خدا تعالیٰ نے دماغ کو کئی حصوں میں تقسیم کیا ہے اور انسان کے مختلف جذبات اور اخلاق کے لئے الگ الگ حصے ہیں.جھوٹ، سچ ،فریب ،محبت وغیرہ کے لئے اس میں جد اخد ا کمرے ہیں.پس اس علم کے ذریعہ سر کی پیمائش کر کے بتا دیا جاتا ہے کہ اس میں کونسا مادہ زیادہ ہے.مثلاً حرص کا یا قناعت کا، غصب کا یا برداشت کا.اس علم کا کمال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر دماغ کے بعض حصوں کا اپریشن کر کے کم و بیش کر دیا جائے تو اس سے اخلاقی اصلاح میں بڑی مددل سکتی ہے.یہ علم ترقی کر رہا ہے.

Page 120

113 (۷۲) بہترواں علم علاج بالمشورہ ہے.یہ مسمریزم کے سوا ایک الگ چیز ہے.اس میں بغیر اپنا زور یا توجہ صرف کرنے کے یونہی کہے کہ تم بیمار نہیں ہو.خیال کے ساتھ جسم میں اثر ہو جاتا ہے اور اگر کسی بخار کے مریض کو کہا جائے کہ بخار نہیں تو اُترنے لگتا ہے.یہ ایک علم ہے یونہی کہہ دینے سے اثر نہیں ہوتا.نجوم ، جفر، رمل ، طلسمی علوم (۷۳) تہترواں علم علم نجوم ہے.یہ علم البعیت نہیں جو پہلے بتایا تھا یہ وہ جہالت والا علم ہے.ایک حد تک اس میں صداقت بھی ہے جیسے سورج کا کیا اثر ہوتا ہے.اس علم میں اتنی ترقی نہیں کی کہ یہ باتیں معلوم ہو سکیں.یہ علم تو سچا ہے.خدا تعالیٰ نے کواکب میں تاثیرات رکھی ہیں مگر جس طریق پر لوگ اس کو استعمال کرتے ہیں وہ غلط ہے.لوگ اس کو غیب کا ذریعہ بنانا چاہتے ہیں اور غیب کی خبریں بتانے کا دعوی کرتے ہیں.یہ غلط ہے، غیب کا علم اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہے.(۷۴) چوہترواں علم علم الجفر ہے.اس میں ہندسوں کے ذریعہ آئندہ کی خبریں معلوم کرتے ہیں.(۷۵) چھتر واں علم الرمل ہے.لکیروں کے ذریعے حالات معلوم کرتے ہیں.(۷۶) چھہترواں علم علم الاستخارہ ہے.یہ وہ اسلامی علم نہیں جس کو استخارہ کہتے ہیں بلکہ یہ وہ ہے کہ تی لے کر بیٹھے رہتے ہیں اور اس کے دانوں سے ایک نتیجہ نکالتے ہیں.بعض عورتیں عید لین کا فالنامہ دیکھتی ہیں.یہ ڈھکوسلے ہیں ان میں کوئی صداقت نہیں ہوتی.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے نجومی کہہ دیتے ہیں لڑکی نہ لڑکا.(۷۷) ستترواں علم طلسم کا علم ہے.اس کو جادو بھی کہہ دیتے ہیں.دراصل یہ علم علاج بالمطوروی کی شاخ ہے.پڑھ کر کوئی چیز دے دیتے ہیں یا ہند سے لکھ کر کوئی کاغذ کا ٹکرا بطور تعویذ دے دیتے ہیں.(۷۸) اٹھتر ھواں علم علم التسخیر ہے جس کے ذریعہ دوسروں کو یا بچوں کو قابو کیا جاتا ہے.یورپ والے بھی اس میں مبتلا ہیں.(۷۹) نواسیواں علم جس نے دُنیا میں تباہی مچائی ہے وہ علم کیمیا ہے.یہ سونا بنانے کا خبط ہے.بہت لوگ اس خبط سے تباہ ہوئے ہیں.بعض احمد کی بھی اس مرض میں مبتلا تھے مگر اب وہ اس میں جتلا نہیں.ایک مولوی دہلی سے یہاں آیا اُسنے مجھ کو کہا کہ مولوی صاحب (حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ ) تو سونا بنایا کرتے تھے

Page 121

114 اب آپ کو خوب بتاتے ہوں گے مجھ کو بتا دو.میں نے بہت سمجھایا مگر میں نے دیکھا کہ اُس کو اثر نہ ہوا.( ۸۰ ) اسیوال علم اس علم میں یہ بحث ہوتی ہے کہ کیسی کیسی اقوام کے اجتماع سے اولاد ہوتی ہے.بغیر نر و مادہ کے ملنے کے بھی اولاد ہوسکتی ہے یا نہیں.اگر ہو سکتی ہے تو کس طرح ؟ اس علم کے ذریعہ یہ ثابت ہوا کہ نر و مادہ کے ملنے کے بغیر بھی اولا د ہوسکتی ہے.(۸۱) اکیا سیواں جانوروں کے پالنے کا علم ہے.اس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ مُرغی گائے بھینس وغیرہ کے پالنے کے کیا طریق ہیں.کیا خوراک دی جائے جس سے وہ موٹی ہوں یا دودھ زیادہ دیں یا اولا دا تھی ہو.اس علم میں مختلف طریقوں پر بحث ہوگی اور تجارتی اصولوں کو مد نظر رکھ کر بھی بحث ہوتی ہے.(۸۲) بیا سیواں علم لائبریری کا علم ہے.اس علم میں یہ بتایا جاتا ہے کہ کوئی کرتا ہیں اکٹھی رکھنی چاہئیں.یہ ایک مستقل علم ہے.بعض کتا ہیں مختلف علوم سے تعلق رکھتی ہیں.اس علم نے تقسیم کر دیا ہے کہ کس کتاب کو کس علم میں رکھا جائے اور یہ بھی اس میں بتایا جاتا ہے کہ کس طرح کوئی کتاب آسانی سے نکالی جا سکتی ہے.یہ علوم کی ایک فہرست ہے.اب ان علوم کے متعلق مضامین سُننے ہیں.تم خود غور کرو میں بھی بتاؤں گا.احمدی مستورات سے خطاب ) خطبه جمعه فرموده ۲ - فروری ۱۹۲۳ء دین کے معاملہ میں مساوات تعوذ تشہد اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.دنیاوی معاملہ میں جس طرح کہ یورپین ، امریکن ، افریقن، ایشیائی ، لوگ برابر ہیں اور جس طرح کہ ہر رنگ ، ہر زبان ، ہر ملک وملت کے ساتھ تعلق رکھنے والے کو ایک نظر سے دیکھنے کا حکم ہے اس طرح دین کے معاملہ میں عورت و مرد مساوات رکھتے ہیں.یعنی جس طرح دینی احکام مردوں کے لئے نازل ہوئے ہیں اسی طرح عورتوں کے لئے بھی نازل ہوئے ہیں.سورۂ فاتحہ جو جڑہ ہے قرآن کریم کی اور جو كه گويا ايك

Page 122

115 اجمال ہے.اس کے مضامین کا اور متن ہے قرآن مجید کا اس کے الله تعالیٰ نے کس حکمت سے کام لیا ہے.جہاں دُعا سکھائی ہے اور اس میں جو مضمون ترقیات کے متعلق ہے اس کو بیان میں اس طرح ڈھالا ہے کہ اس میں عورت و مرد کا اشتراک رکھا ہے.گو عربی زبان کا یہ قاعدہ ہے کہ جب قوم کو مخاطب کیا جائے تو اس میں مذکر کے صیغے استعمال ہوتے ہیں جن میں عورتیں شامل ہی ایسے رکھے ہیں لیکن سورۂ فاتحہ میں ہیں الفاظ جاتی سمجھی کہ جس میں مرد و عورت دونوں مساوی ہیں اور دونوں کا ان میں مثلا - اشتراك ہے.إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنَ رکھے ہیں جن کو جس طرح مرد بول سکتے ہیں اسی طرح ان کو عور تیں بھی استعمال کر سکتی ہیں اور اس میں دونوں کی مساوت رکھی.اس کی ایک بڑی حکمت یہ بھی ہے کہ اس میں مرد و عورت وزن کے محاورہ کے لحاظ سے بھی شامل ہیں.یعنی اکیلے مرد بھی وہی الفاظ بولیں گے اور اکیلی عورتیں بھی وہی الفاظ کہیں گی اور جس طرح بعض احکام مردوں کے لئے خاص ہیں اسی طرح عورتوں کے لئے بھی خاص احکام ہیں.خاص احکام سے یہ مراد نہیں کہ خاص مرد ہی اللہ تعالیٰ کے مخاطب ہیں بلکہ اس سے یہ مطلب ہے کہ اگر مردوں کے لئے بعض احکام خاص ہیں تو عورتوں کے لئے بھی بعض احکام خاص ہیں.اور ایک وہ احکام میں جن میں مرد و عورت دونوں مساوی ہیں.مثلاً خطبہ جمعہ مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے ہے اسی طرح خطبہ عیدین بھی دونوں کے لئے ضروری ہے.یوں تو مرد الگ ہوتے ہیں اور عورتیں الگ ہوتی ہیں.یا وہ پردہ کے پیچھے ہوتی ہیں یا قتات کے پیچھے بیٹھتی ہیں.جس طرح عورتیں برقع پہن کر درس سن لیتی ہیں اسی طرح وہ جمعہ میں قنات یا پردہ کے پیچھے الگ بیٹھ کر خطبہ سنتی ہیں.چونکہ مردی خطیب ہوتا ہے اس لئے مرد سامنے ہوتے ہیں اور عورتیں پردو میں الگ ہوتی ہیں ورنہ خطیب کے مخاطب تو دونوں ہی ہیں.عورتوں کے الگ بیٹھنے یا پردہ کے پیچھے بیٹھنے کے یہ معنے نہیں کہ وہ خطبہ میں مخاطب نہیں ہوتیں بلکہ جس طرح مرد اس کے مخاطب ہوتے ہیں اسی طرح عورتیں بھی مخاطب ہوتی ہیں.یہ خطبہ صرف مردوں کے لئے ہی نہیں ہوتا بلکہ عورتوں کے لئے بھی ہوتا ہے.پس جو کچھ میں اب کہنے لگا ہوں وہ بلحاظ وقت اور مقام کے بالکل مناسب حال ہے.وہ کیا بات ہے وہ یہ ہے کہ میں نے سوچنے اور غور کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ جرمنی میں جو مسجد بننے والی بے وہ عورتوں کے چندہ

Page 123

116 سے بنے.اس میں کوئی شک نہیں کہ عورتوں کی ذاتی جائیداد نہیں ہوگی لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عورتوں کی مالی بنیاد زیورات پر ہوتی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مرد کا دخل آمدنی میں ہوتا ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مردوں میں سے اکثروں کے پاس بوجہ ان کی ذمہ داریوں کے مال نہیں ہوتا لیکن عورتوں کے پاس زیور کی صورت میں کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے اس وجہ سے قحط کے دنوں میں مرد عورتوں سے کچھ لے کر گزارہ کرتے ہیں اس لئے یہ نہ کوئی خیال کرے کہ عورتوں کے پاس کہاں سے مال آئے گا آخر وہ ہم سے ہی لیں گی.عورتیں اپنے زیورات وغیرہ سے چندو دے سکتی ہیں.یہ علیحد و بات ہے کہ کسی کے پاس زیادہ ہو اور کسی کے پاس تھوڑا ہو.خدا کے حضور تھوڑے بہت کا سوال نہیں اُس کے حضور تو اخلاص کا سوال ہے.مسجد برلن کے لئے چندہ کی تحریک میرا یہ منشاء ہے کہ جرمنی میں مسجد عورتوں کے چندہ سے بنے کیونکہ یورپ میں لوگوں کا خیال ہے کہ ہم میں عورت جانور کی طرح سمجھی جاتی ہے.جب یورپ کو یہ معلوم ہوگا کہ اس وقت اس شہر میں جو دنیا کا مرکز بن رہا ہے اس میں مسلمان عورتوں نے جرمن کے نو مسلم بھائیوں کے لئے مسجد تیار کرائی ہے تو یورپ کے لوگ اپنے اس خیال کی وجہ سے جو مسلمان عورتوں کے متعلق ہے کس قدر شرمندہ اور حیران ہوں گے.اور جب وہ مسجد کے پاس سے گزریں گے تو ان پر ایک موت طاری ہوگی اور مسجد بآواز بلند ہر وقت پکار ریگی کہ پادری جھوٹ بولتے ہیں جو کہتے ہیں کہ عورت کی اسلام میں کچھ حیثیت نہیں.وہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں عورتیں بالکل جانور ہیں اور ان کو جانور ہی سمجھا جاتا اور یقین کیا جاتا ہے.مسلمان عورتوں کو جانور کی طرح سمجھتے ہیں.اب جب صرف عورتوں کے چندہ سے وہاں مسجد بنے گی تو ان کو یہ معلوم ہوگا کہ یہاں کی عورتوںکو تو یہ بھی علم ہے کہ ایسے لوگ بھی دُنیا میں ہیں جو ایک بندے کی پرستش کرتے ہیں.یوں تو اُن میں یہ بھی قاعدہ ہے کہ شادی سے ایک ماہ بعد میاں بیوی آپس میں لڑ پڑتے ہیں اور میاں کسی اور کی تلاش میں پھرتا ہے اور بیوی کسی اور کی تلاش میں پھرتی ہے.وہاں اگر ایک ماہ تک میاں بیوی آپس میں محبت کے ساتھ رہتے ہوئے دکھائی دیں تو بڑا تعجب کیا جاتا ہے.اور ہمارے ہاں حقیقی تعلقات جو میاں بیوی میں ہوتا ہے ان کی ہوا بھی اُن کو نہیں چھو گئی.

Page 124

117 مگر قلم در کف دشمن والی بات ہے.قلم ان کے ہاتھ میں ہے جو کچھ وہ چاہتے ہیں اسلام اور مسلمانوں کے متعلق لکھ دیتے ہیں.مولوی مبارک علی صاحب نے ایک خط بھیجا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ فن تعمیر کے ایک ماہر نے مسجد بنانے کے لئے دولاکھ روپے کا اندازہ لگایا تھا کیونکہ اس نے خیال کیا کہ جس قوم نے ہمارے ملک میں مسجد بنانے کا ارادہ کیا ہے وہ کوئی بڑی مال دار قوم ہوگی لیکن مولوی صاحب نے اُسے کہا کہ اتارو پیہ ہمارے پاس نہیں تو پھر اسنے پچاس ہزار روپیہ کا اندازہ لگایا.پانچ ہزار کی زمین اور ۴۵ ہزار روپیہ عمارت پر خرچ آئے گا کیونکہ اس کا نقطہ خیال یہ ہے کہ چونکہ یہ بڑا شہر ہے اور اُمراء کا شہر ہے اس لئے اس میں بڑی عمارت چاہیئے کہ جس کا لوگوں پر اثر ہو اور لوگ اس کی طرف توجہ کر سکیں معمولی عمارت کا ان لوگوں پر اثر نہیں ہوگا.وہ تو پھر ویسے ہی ہے جیسے ایک پختہ مکان ہو اور پھر اس میں کوئی حصہ کچی اینٹوں کا ہو تو وہ معیوب معلوم ہوگا.خیر اس کے اندازہ کے مطابق پچاس ہزار روپیہ سے مسجد کی عمارت قائم ہوسکتی ہے جو صرف مسجد ہی نہیں ہوگی بلکہ اس میں مبلغین کی رہائش کے لئے بھی مکان ہوگا.یہ معاملہ میں تمام جماعت کی عورتوں کی سامنے پیش کرتا ہوں.یہ زمانہ مقابلہ کا ہے.ولایت میں تو عورتیں وکالت اور ڈاکٹری کے امتحان تک مردوں کا مقابلہ کرتی ہیں مردوں سے برابری بتانے کے لئے آگے خواہ وہ کام نہ کرسکیں.خیر وہ تو اپنی عمر کو ضائع کرتی ہیں لیکن ہم کو ایک نیک مقابلہ کرنا چاہیئے اس لئے ہم کہتے ہیں کہ اب عورتیں یورپ میں مسجد بنوائیں.پہلے لنڈن والی مسجد میں عورتوں کا دس ہزار چندہ تھا اور شریعت کے لحاظ سے مردوں سے عورتوں کا نصف چندہ ہونا چاہیئے کیونکہ عورتوں کا حصہ شریعت نے نصف رکھا ہے.اس لئے اب عورتیں پچاس ہزار روپیہ چندہ مسجد احمد یہ برلن کے لئے تین ماہ کے اندر دیدیں.حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی ہے کہ زار روس کا عصا چھینا گیا ہے اور وہ آپ کے ہاتھ میں دیا گیا ہے.اور روس کا دروازہ برلن ہے اور اس دروازہ کے ذریعہ سے روس فتح ہو سکتا ہے.یوں تو روس میں تبلیغ کرنا تو الگ رہا اس میں ہمارا موجودہ حالات کی وجہ سے گھسنا ئی مشکل ہے.اس میں تبلیغ کا ذریعہ جرمن ہی ہے.جرمن کے ذریعہ ہم بڑی آسانی سے روس میں تبلیغ کر سکتے ہیں اور عورتوں کے ہاتھ سے اس اہم پیشگوئی کا پورا ہونا ان لوگوں پر بہت اثر کرے گا جو بعد میں آئیں گے اور انہیں معلوم ہو گا کہ عورتوں میں بھی مردوں کی طرح بہت اخلاص ہے.اور ادھر یورپ کو معلوم ہوگا کہ کس قدر

Page 125

118 مسلمان عورتوں میں اپنے مذہب کی اشاعت کا جوش ہے اور اس مسجد کی پیشانی پر جلی حروف میں لکھا جائے کہ احمدی خواتین کی طرف سے نو مسلم بھائیوں کے لئے یہ مسجد بنائی گئی.اور پھر دوسرے لوگوں کی بھی آنکھیں کھل جائیں گی اور پیغامیوں کو بھی معلوم ہو جائے کہ احمدی خواتین اس قدر ہی چندہ دے دیتی ہیں جس قدر کہ وہ غیر لوگوں کے آگے اور ہاتھ پھیلا پھیلا کر چندہ جمع کرتے ہیں.پس ہر جگہ عورتوں کو بتایا جائے کہ وہ اس کام کے لئے چندہ دیں اور تمام اخبارات جو قادیان سے نکلتے ہیں اس کام کے لئے چندہ کے واسطے تحریک کریں اور میرا یہ خطبہ شائع کر دیں تا کہ تمام وہ لوگ جو ان اخباروں سے تعلق رکھنے والے میں اپنے گھروں میں عورتوں کو بتا ئیں اور تحریک کریں کہ وہ تین ماہ کے اندر مسجد کے لئے چندہ دیں اور ہر جگہ مرد اپنی عورتوں کو یہ بات سُنا دیں اور یہاں جن کی عورتیں جمعہ میں نہیں آئیں وہ بھی اپنے گھروں میں اطلاع دیں اور اس کام کے لئے چندہ کے واسطے تحریک کریں.اور یہ کام میں نے اس انجمن کے سپرد کیا ہے جس کا نام میں نے لجنہ اماءاللہ رکھا ہے.ہندوستان میں ایک انجمن ہے جو اپنے آپ کو خادمان ہند بتاتے ہیں.ہم تو کسی خاص قوم کے خادم نہیں ہم اللہ کے خادم اور غلام ہیں.لجنہ اماء اللہ یعنی اللہ کی لونڈیوں کی انجمن.اس لئے میں نے یہ نام اس انجمن کا رکھا ہے اور ان کے سپرد یہ کام کیا ہے لیکن چونکہ خالی عورتیں اگر تحریک کرتیں تو اُن کا اتنا اثر نہ ہوتا اس لئے میں نے اُن کی طرف سے یہ تحریک کی ہے.عورتیں یہ نہ سمجھ لیں کہ چندہ جمع کرنا خاص خاص عورتوں کا ہی کام ہے بلکہ ہر عورت کھڑی ہو جائے اور باقی بہنوں سے تین ماد کے اندر چندہ جمع کرے.اندان کی مسجد کے لئے زمین تو خریدی جا چکی ہے لیکن چونکہ اس کی عمارت پر ایک لاکھ روپیہ خرچ ہوتا تھا اس لئے وہ فورا نہ بنائی جاسکی.لیکن بر تن کی مسجد کے لئے ایسا نہ ہوگا بلکہ ارادہ ہے کہ ادھر روپیہ جمع ہو اور اُدھر کام جاری کر دیا جائے.چونکہ ہمیں یقین ہے کہ یہ کام ہو کر رہے گا اس لئے جو نہی روپیہ جمع ہونا شروع ہو گا فورا عمارت کا کام شروع کر دیا جائے گا.میں اب خطبہ کے ذریعے تمام احمدی عورتوں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ اس کام کے لئے تین ماہ کے اندر پچاس ہزار روپیہ چندہ جمع کر دیں.ہاں یہ یادر ہے کہ مردوں کا ایک چیسہ بھی

Page 126

119 اس کام میں نہیں لیا جائیگا اگر کسی مرد کی طرف سے چندہ آگیا تو وہ کسی اور مد کی طرف منتقل کر دیا جائے گا.اس میں صرف عورتوں کا ہی روپیہ ہوگا تا کہ یہ مسجد ہمیشہ کے لئے عورتوں کی ہی یادگارر ہے.میں دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ عورتوں کو اس کام کی توفیق عطا کرے.الفضل ۸ فروری ۱۹۲۳ صفحه ۶،۵) برتن میں احمد یہ مسجد بنانے کی تحریک خطبه جمعه از حضرت خلیفتہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرموده ۲ مارچ ۱۹۲۳ ، تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.حضرت مسیح علیہ السلام کا ایک قول جو ایک عام قانون قدرت کی طرف اشارہ کرتا ہے وہ مجھے بہت پسند آتا ہے فرماتے ہیں:.درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے“ کسی درخت کی قیمت کسی درخت کی حقیقت، کسی درخت کا فائدہ اس کے عام نفع رسانی اور اس کا لوگوں کے لئے موجب برکات ہونا اس کا اندازہ اس کے پھل سے ہی لگایا جا سکتا ہے.پھل سے یہ مراد نہیں کہ وہ میوہ جو کھایا جاتا ہے بلکہ پھل سے وہ مقصد اور مدعا، وہ کام اور غرض مراد ہے جس کے لئے کوئی درخت لگایا جاتا ہے کہ اس کے پتوں سے فائدہ اُٹھایا جائے اس کے پتے ہی اس کا پھل ہیں.ایک درخت جو اس لئے لگایا جاتا ہے کہ اس کا ایندھن بنایا جائے اُس کی لکڑی اُس کا پھل ہے.ایک ایسا درخت جو میوے کے لئے لگایا جاتا ہے اس کا میوہ اس کا پھل ہے.غرض جو درخت جس مقصد کے لئے لگایا جاتا ہے اگر اسی کے مطابق وہ میوہ پیدا کرتا ہے اور لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو وہ اعلیٰ درجہ کا پھل لاتا ہے.مثلاً ایک ایسا درخت جو پتوں کی غرض سے لگایا جاتا ہے یعنی اس کے پتے ایسے مفید ہوتے ہیں کہ دوائیوں میں پڑتے ہیں یا اس کی شاخیں ایسی محمد و اور کارآمد ہوتی ہیں کہ صنعت و حرفت میں کام آتی ہیں یا اس کا سایہ ایسا اچھا ہوتا ہے کہ لوگ اس

Page 127

120 سے آرام پاتے ہیں جب یہ کام دینے لگ جائے تو وہ درخت اچھا ہوگا کیونکہ اس کا پھل اچھا ہے.لیکن اگر وہ اس غرض کو پورا نہیں کرتا جس کے لئے لگایا گیا تو وہ درخت اچھا نہیں ہو گا اس کو اگر ساری دنیا اچھا کہے تو وہ اچھا نہیں بن سکتا اور اگر اس کی جو غرض ہو اُسے وہ پورا کرے ساری دُنیا کے بُرا کہنے سے وہ بُر انہیں ہوسکتا یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ اس سے ہزاروں جگہ فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے.کسی سلسلہ کی سچائی اور اُس کی راستی کا معیار بھی یہ بات ہے کہ آیا اُس کا پھل قیمتی اور کار آمد ہے یا نہیں.وہ سلسلہ اس غرض اور غائیت کو پورا کرتا ہے یانہیں جو روحانی سلسلہ کی ہوا کرتی ہے.اگر کوئی سلسلہ اپنی تاثیرات اور اپنے اثرات اور اپنی نفع رسانیوں سے ثابت کر دے کہ وہ اس فرض کو پورا کر رہا ہے جو روحانی سلسلہ کی ہوا کرتی ہے تو وہ اعلیٰ اور سچا ہے لیکن اگر کوئی سلسلہ اپنے پھلوں سے اپنے اعلیٰ ہونے کا ثبوت نہیں دیتا تو وہ سچا کہلانے کا مستحق نہیں ہوسکتا ہمارے سلسلہ کے متعلق بھی لوگوں کو شبہات پیدا ہوتے ہیں اور شبہات پیدا کیا ہوتے ہیں یوں کہو کہ چونکہ ہمارا سلسلہ ان لوگوں کے عقائد اور خیالات کو باطل قرار دیتا اور اُن کور و کرتا ہے اس لئے عام طور پر وہ لوگ سلسلہ کی مخالفت پر کھڑے رہتے ہیں اور عیب نکالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن ایک عقلمند اور منصف انسان کے لئے فیصلہ کرنے میں بہت آسانی اور سہولت ہو جاتی ہے اگر وہ یہ دیکھے کہ کیا اس سلسلہ کے پھل ایسے ہی ہیں جیسے پہلے روحانی سلسلوں کے ہوتے رہے ہیں.اگر اسے ویسے ہی پھل نظر آ ئیں تو اُسے اس سلسلہ کو بھی روحانی ماننا پڑے گا لیکن اگر کوئی پھر بھی اعتراض کرے گا تو یہ اس کی اندرونی خرابی اور نقص کی وجہ سے ہوگا نہ یہ کہ سلسلہ سچا نہیں ہوگا.دیکھو اگر نیشکر اعلیٰ درجہ کا ہے اور اس کے چکھنے سے کسی کو کڑواہٹ معلوم ہوتی ہے تو یہ نیشکر کا نقص نہیں ہوگا بلکہ چکھنے والے کا ہو گا.اسی طرح اگر شیریں پھل سے کسی کے منہ میں کڑواہٹ پیدا ہوتی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ پھل خراب ہے بلکہ یہ چکھنے والے کے اندر مرض ہے.اسی طرح اگر ایک کھانے کا عمدہ ہونا دلائل اور مشاہدات سے ثابت ہو جائے.اور پھر کچھ لوگ اسکے متعلق اعتراض کریں کہ یہ پھیکا ہے.بدمزہ ہے یا یہ کہ اس میں نمک زیادہ ہے تو اس کے یہ معنے نہیں ہونگے کہ کھانا خراب ہے بلکہ یہ کہ نقص نکالنے والوں میں نقص ہے.اس صورت میں ہمارے لئے ضروری نہیں ہو گا کہ ہم کھانے کی اصلاح کریں بلکہ یہ ضروری ہوگا کہ اعتراض کرنے والوں کی بیماری کی اصلاح کریں.اُن کی ناک ، زبان اور عقل کی شہادت اس امر کے لئے کافی نہیں ہوگی کہ کھانے میں تغیر کریں بلکہ وہ اس امر کی

Page 128

121 طرف توجہ دلائے گی کہ اُن کی بیماری کی طرف توجہ کی جائے.اس وقت ہمارے سلسلہ اور سلسلہ کے کاموں کے متعلق ایک نئی تحریک کے متعلق اسی قاعدہ کے مطابق صداقت ثابت ہوئی ہے.تین چار ہفتے ہوئے میں نے مسجد برلن کے لئے اعلان کیا تھا.ہماری جماعت غریب اور کمزوروں کی جماعت ہے پھر اس کے اخراجات کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ ایسی بڑی بڑی رقمیں جن کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے جمع کر سکتی ہے.خلافت لڑکی کے لئے چندہ کی سارے ہندوستان میں تحریک کی گئی اور مسلمانوں میں ایسے ایسے لوگ موجود ہیں جو کیلے کروڑ کروڑ رو پی دے سکتے ہیں مگر اس کے باوجود اُن کی رقمیں دس بارہ لاکھ سے زیادہ نہ ہو سکیں اور اس کا اثر ایسا پڑا کہ اگر خلافت کے لئے چندہ دیتے ہیں تو یہاں کی تحریکوں کو چلانے کے لئے کچھ نہیں رہتا.حتی کہ مرکزی خلافت کمیٹی کو فیصلہ کرنا پڑا کہ انگورہ فنڈ سے روپیہ کاٹ کر یہاں کے اخراجات میں لگایا جائے.اس کے مقابلہ میں ہماری جماعتہے جو مال اور تعداد کے لحاظ سے یہاں کی سب اقوام سے کم ہے حتی کہ صرف پنجاب میں جتنے چوڑھے رہتے ہیں اُن سے بھی احمدی کم ہیں اور مال کے لحاظ سے بھا بڑے وغیرہ بہت چھوٹی اقوام بلکہ ان قوموں کے بعض افراد کے پاس جتنا مال ہے اتنا ہماری ساری جماعت کے پاس نہیں ہے مگر باوجود اس کے اللہ تعالیٰ اس جماعت سے جو کام لے رہا ہے اس کی طرف دیکھو کہ وہ کیسا عظیم الشان ہے.ہندوستان میں سات آٹھ کروڑ کے قریب کہتے ہیں مسلمان ہیں.پھر مسلمانوں کی زندگی اور موت کا سوال تھا ہمارے چندہ کے متعلق یہ سوال نہیں تھا.مسجد لنڈن ایک تحریک تھی اور بہت با برکت اور ضروری تحریک تھی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ اگر انڈن میں مسجد نہ بنی تو ہم بلاک ہو جائیں گے.اس طرح برلن میں مسجد کی تحریک ہے یہ مفید ہے مگر یہ نہیں کہ اگر مسجد نہ بنی تو ہماری جماعت ٹوٹ جائے گی.میمز مسلمانوں کی تحریک ایسی تھی کہ وہ خود کہتے تھے اگر اس میں کامیابی نہ ہوئی تو مسلمان تباہ و برباد ہو جائیں گے لیکن باوجود اس کے اُن کے لئے چند لاکھ روپیہ جمع کرنا مشکل ہو گیا.بالمقابل اس کے ہماری جماعت جوان کا سود ان حصہ بھی نہیں بنتی ایک لاکھ چند دنوں میں مسجد لنڈن کے لئے دیدیتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہماری زندگی اور موت کا سوال ہو تو ہماری مٹھی بھر جماعت دو کروڑ روپیہ بھی جمع کر سکتی ہے اور اس سے زائد ہم اس لئے نہ جمع کریں گے کہ اور دینا نہ چاہیں گے بلکہ اس لئے کہ ہمارے پاس اور کچھ ہوگا ہی نہیں.وہ

Page 129

122 سوال جو ہمارے لئے زندگی اور موت کا سوال ہوگا اُس کے لئے روپیہ کی انتہاء خواہ کوئی بھی ہو اس لئے نہ ہوگی کہ اس سے زیادہ ہم دینا نہ چاہیں گے بلکہ اس لئے ہوگی کہ ہمارے پاس دینے کے لئے کچھ اور ہوگا ہی نہیں.باقی صرف جانیں ہوں گی اور جانوں کے دینے سے بھی دریغ نہ ہوگا.کیا عقلمند اور سمجھدارلوگوں کے لئے یہ بات غور و فکر کے قابل نہیں ہے کہ ایک ایسی قوم جو مدتوں سے مُر چلی آتی ہے اُس کے افراد میں ایسی روح ایسا جوش اور ایسا ولولہ پیدا ہو جائے یہ کوئی معمولی بات نہیں.یہ خدا تعالیٰ ہی کا کام ہے کہ اُس نے ایسی حالت پیدا کر دی ہے.یہ کسی انسان کا کام نہیں ہوسکتا.دیکھو بڑے بڑے لوگ اُٹھے جنہوں نے لوگوں کی عقلوں اور فہموں پر تصرف حاصل کر لیا مگر اُن کا تصرف عارضی اور چند دن کا تھا.مسٹر گاندھی کو کتنا عروج ہوا مگر عارضی محمد علی شوکت علی صاحبان کو کس قدر لوگوں نے بلند کیا مگر عارضی، کچھ عرصے پہلے مسٹر گاندھی کا کتنا شور تھا مگر دو ہی سال کے عرصہ میں آج ان کو لوگوں پر پہلے اثر کا دسواں حصہ بھی حاصل نہیں.ان عارضی جوشوں کی ایسی ہی مثال ہوتی ہے جیسے روڑیوں پر پھول آگ آتے ہیں اور چند دن میں مر جھا جاتے ہیں مگر جو پھول باغ میں ہوتے ہیں اُن کی باغبان نگرانی کرتا ہے ایک مُرجھا جاتا ہے تو دوسرا اُس کی جگہ لگا دیتا ہے.تو انسانوں کے پیدا کئے ہوئے جوش مستقل نہیں ہوتے مگر خدا تعالیٰ کے پیدا کر وہ جوشوں میں استقلال ہوتا ہے.جب کبھی ڈراستی پیدا ہونے لگے تو اور جوش پیدا کر دیتا ہے.برتن میں مسجد کے متعلق جو تحریک کی گئی ہے اُس میں دیکھا گیا ہے کہ عورتوں نے اپنے اخلاص کا ایسا الے نمونہ دکھایا ہے جو کسی اور جگہ ہر گز نہیں مل سکتا.اس وقت تک ۲۵ ہزار کے وعدے ہو چکے ہیں اور کوئی تعجب نہیں کہ جو تم کہی گئی ہے اس سے بہت زیادہ ہو جائے کیونکہ ابھی تک کئی جماعتیں باقی ہیں.اس تحریک کے متعلق بھی دیکھا جائے تو اس میں بھی یہی بات پائی جاتی ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اور وہی بات میں آج پیش کرنا چاہتا ہوں جو یہ ہے کہ خدا تعالے نے بعض ایسے سامان پیدا کئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے ہاں یہ تحریک مقبول ہے.جہاں دوسرے لوگوں کی یہ حالت ہے کہ مال خرچ کرنے کی وجہ سے اُن میں سے لوگ مُرتد ہو جاتے ہیں وہاں ہمیں ایک نیا تجربہ ہوا ہے.میں نے اس مسجد کی تحریک کے لئے یہ شرط رکھی تھی کہ احمدی عورتوں کی طرف سے یہ مسجد ہو گی جو ان کی طرف سے نو مسلم بھائیوں کو بطور ہدیہ پیش کی جائے گی.اب بجائے اس کے وہ عورتیں جنہیں کمزور کہا جاتا ہے اس

Page 130

123 تحریک کو سنکر پیچھے ہمتیں عجیب نظارہ نظر آیا اور وہ یہ کہ اس تحریک پر اس وقت تک گیارہ عورتیں احمدیت میں داخل ہو چکی ہیں تا کہ وہ بھی اس چندہ میں شامل ہو سکیں.یہ خبر اس وقت تک آچکی ہے اوروں کا پتہ نہیں.میں سمجھتا ہوں کہ یہ عورتیں پہلے ہی احمدی تھیں، کوئی اس لئے مذہب نہیں بدلا کرتا کہ چندہ دے، وہ پہلے احمدی تھیں مگر اُن میں احمدیت کے اظہار کی جرات نہ تھی.اب انہوں نے دیکھا کہ اگر اب بھی جرات نہ کی تو اس ثواب سے محروم رہ جائیں گی.گویا اس طرح اس تحریک نے گیارہ روحوں کو ہلاکت سے بچالیا اور یہ پہلا پھل ہے جو اس تحریک سے ہم نے چکھا ہے کہ گیارہ روحیں ہلاکت سے بچ گئی ہیں.ایک مثل مشہور ہے اور وہی بات یہاں بن جاتی ہے.کہتے ہیں ایک بادشاہ گزر رہا تھا اسنے دیکھا ایک بوڑھا ۸۰-۹۰ سال کی عمر کا درخت لگارہا ہے.وہ درخت کوئی اس قسم کا تھا جو لمبے عرصہ کے بعد پھل دیتا ہے.بادشاہ نے اس بوڑھے کو کہا کہ یہ درخت تو بہت عرصہ کے بعد پھل دے گا تم اس سے کیا فائدہ اُٹھا سکو گے.بڑھے نے کہا بادشاہ سلامت بات یہ ہے کہ ہمارے باپ دادا نے درخت لگائے جن سے ہم نے پھل کھائے اب ہم درخت لگاتے ہیں جن سے آئندہ آنیوالے پھل کھائیں گے.بادشاہ نے یہ سنکر کہا.زہ.یعنی کیا خوب بات کہی ہے، اور اس کا حکم تھا کہ جس کی بات پر میں زہ کہوں اُسے چار ہزار روپیہ دینا چاہیئے.جب بادشاہ نے یہ کہا تو چار ہزار کی تھیلی اُسے دے دی گئی.بڑھے نے تھیلی ہاتھ میں لے کر کہا.بادشاہ سلامت آپ کہتے تھے کہ تو اس درخت کا پھل کب کھائے گا.لوگوں کے درخت تو دیر کے بعد پھل دیتے ہیں میرے درخت نے لگاتے لگاتے پھل دے دئے.بادشاہ نے پھر کہا.زہ.اور خزانچی نے چار ہزار کی اور تھیلی اُسے دیدی.بڈھے نے دوسری تحصیلی لے کر کہا.بادشاہ سلامت لوگوں کے درخت تو سال میں ایک دفعہ پھل دیتے ہیں میرے درخت نے بیٹھے بیٹھے دو دفعہ پھل دے دئے.بادشاہ نے پھر کیا.ہو.اور تیسری تھیلی اُسے دی گئی.اس پر بادشاہ نے کہا یہ بڑھا تو ہمیں کوٹ لے گا چلو یہاں سے چلیں اور روانہ ہو گیا.مسجد برلن کے متعلق بھی زہ والی ہی مثال ہے.لوگوں کی مسجد میں تو اس لئے بنتی ہیں کہ جو ایمان لے آئے ہیں وہ نمازیں پڑھیں مگر ہماری مسجدوں کی تحریکوں سے ہی لوگ ایمان لے آتے ہیں.یہ درخت کا پھل ہے جو بتاتا ہے کہ یہ درخت کس قسم کی خوبیاں رکھتا ہے.پھل سے ہی درخت کی خوبی معلوم ہوتی ہے.اور اس درخت کے پھل نے بتا دیا ہے کہ یہ بہت اعلے ثمرات رکھتا ہے.دیکھو جس درخت کو لگاتے ہوئے

Page 131

124 اس کی جڑ میں گیارہ آدمیوں کے ایمان کا پانی سینچا جائے گاوہ کیسا اعلے ہوگا اور اپنے وقت پر وہ کیسے ثمرات دے گا.اس کے بعد میں یہاں کی جماعت کے لوگوں اور اُن کی عورتوں کو اور باہر کی جماعتوں کو اور ان کی عورتوں کو مخاطب کرتا ہوں کہ ابھی تک بہت سی جماعتوں کے چندے نہیں آئے.تازہ تازہ کام کے کرنے میں جو ثواب اور لطف ہوتا ہے وہ بعد میں نہیں ہوتا اور سابقوں کو جو درجہ حاصل ہوتا ہے وہ بعد میں آنے والوں سے بہت اعلیٰ ہوتا ہے.دیکھو ایک صحابی تو ابو بکر بن گیا اور ایک وہ بھی صحابی ہوگا جو بعد میں ایمان لایا.اور اُس کا کوئی نام بھی نہیں جانتا.اس کی کیا وجہ ہے یہی کہ ابو بکر اُسی وقت ایمان لایا جب اُس کے کان میں آواز پڑی اور دوسرے بعد میں ایمان لائے.تو دیر سے کام کرنے میں بھی ثواب میں کمی ہو جاتی ہے.یہاں کی ان مستورات کو جنہوں نے چندے نہیں دے یا ادا نہیں کئے اور باہر کی مستورات کو بھی جنہوں نے چندے نہیں لکھائے یا ادا نہیں کئے تحریک کرتا ہوں کہ وقت پر ایک پیسہ جو فائدہ دے سکتا ہے بے وقت ہزار ہا روپیہ بھی اتنا فائدہ نہیں دے سکتا.پس جن بہنوں نے چندے لکھائے ہیں ان کو چاہیے کہ جلدی ادا کریں اور بھائیوں کو چاہیئے کہ اُن کو تحریک کرتے رہیں.اگر چہ اس کام میں مردوں کا چندہ نہیں رکھا گیا مگر وہ عورتوں میں تحریک کر کے ثواب حاصل کر سکتے ہیں اب کئی گھبرا کر لکھ رہے ہیں کہ ہماری عورتیں غیر احمدی ہیں ہم کیا کریں.میں کہتا ہوں کہ تمہاری سستی کا خمیازہ ہے کیوں تم نے ان کو احمدی نہیں کیا اور جب تم نے اس قدرستی دکھائی ہے تو یہی وقت ہے کہ تمہیں چوٹ لگے اور تم محسوس کرو کہ تم سے کس قدر کوتا ہی ہوئی.پھر یہ بھی ایمان کی علامت ہے کہ کئی لوگ لکھ رہے ہیں کہ آپ دُعا فرمائیں میری بیوی چندہ دینے میں کمزوری نہ دکھائے.کہتے ہیں کسی مولوی نے عورتوں میں چندہ کی تحریک کی اُس کی اپنی بیوی بھی بیٹھی ہوئی تھی وہ بھی ایک بالی دے آئی جب وہ گھر آیا اور معلوم ہوا کہ اُس کی بیوی نے بھی بالی دی ہے تو کہنے لگا تم نے بالی کیوں دی؟ یہ تحر یک تو اوروں کے لئے تھی نہ کہ اپنے گھر کے لئے ؟ لیکن ہماری جماعت کے لوگوں کی یہ حالت ہے کہ وہ لکھ رہے ہیں دُعا کی جائے کہ اُن کی عورتیں چندہ دینے میں کوتا ہی نہ کریں پھر بعض لکھ رہے ہیں کہ وفات یافتہ بیوی کی طرف سے چندہ دینے کی اجازت دی جائے.غرض یہ ایسا نظارہ ہے کہ جو اپنی نظیر نہیں رکھتا اور جس کا نمونہ صحابہ کے زمانہ میں ہی پایا جاتا ہے اور معلوم

Page 132

125 ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالی کے لئے جانیں بھی قربان کرنی پڑیں تو ہماری جماعت دریغ نہ کرے گی.دوستوں کو چاہیئے کہ جہاں تک ہو سکے جلدی اس ثواب کو حاصل کرنے کی عورتوں کو تحریک کریں کیونکہ ، اگر اسی وقت مسجد بجنے لگے تو اس رقم میں بن سکتی ہے ورنہ بعد میں ممکن ہے کہ دس لاکھ میں بھی نہ بن سکے.پس مردوں کو چاہئے کہ تحریک میں جلدی کریں.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور اُن کو پورا کرنے کی توفیق دے اور ہدایت پر قائم رکھے.احمدی بچوں کی تعلیم وتربیت تقریر فرموده ۲۹ - جوان ۱۹۳۳ ء بعد نماز مغرب بمقام محله دار الفضل قادیان) بچوں کی تربیت کا سوال یہ سوال ایسا اہم سوال ہے کہ کسی قوم کی بہتری کا دارو مدار اسی پر ہوتا ہے.ہمیشہ جو قو میں تباہ ہوئی ہیں اسی وجہ سے ہوئی ہیں کہ پہلے لوگ مرگئے اور پچھلے اُن کے قائمقام نہ بن سکے.اگر حضرت ابو بکر کا قائمقام ابو بکر پیدا ہو جاتا ، اگر حضرت عمر کا قائمقام عمر پیدا ہو جاتا ، اگر حضرت عثمان کا قائمقام عثمان پیدا ہو جاتا اگر حضرت علی کا قائمقام علی پیدا ہو جاتا ، اسی طرح طلحہ ، زبیر اور دوسرے صحابہ کے قائمقام پیدا ہوتے اور پھر اُن کے قائمقام ہوتے پھر اُن کے اور یہی سلسلہ چلتا رہتا تو آج اسلام میں ایسے مولوی کیوں پیدا ہوتے جنہوں نے حضرت مسیح موعود پر کفر کے فتوے دیئے اور آپ کے رستے میں روکیں ڈالیں.کیا شروع سے مسلمان ایسے ہی تھے.ہر گز نہیں.ان کے پیدا ہونے کی وجہ یہی ہے کہ پہلوں کی نسلیں ان کی قائمقام نہ پیدا ہوئیں.پس کسی قوم میں جس قدر خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ آئند و اولاد میں ماں باپ کے نقش قدم پر نہیں چلتیں.بعد میں آنیوالوں کا دُنیوی علوم میں ترقی کرنا اور یہ عجیب بات ہے کہ ہر علم سے متعلق ہم دیکھتے ہیں کہ بعد میں آنیوالے پہلوں کی نسبت اس میں زیادہ ترقی کرتے ہیں مثلاً پہلے جو حساب ہوتا تھا آج اُس سے بڑھا ہوا ہے اور آجکل کے حساب دان پہلے حساب دانوں سے بڑھے ہوئے ہیں.اسی طرح تاریخ کا حال ہے اس زمانہ میں پہلے سے زیادہ عمدگی کے ساتھ تاریخ مدون ہو چکی ہیں جو نہ صرف اس زمانہ کے حالات کی بلکہ اُس زمانہ کے حالات کی بھی جس میں وہ واقعات ہوئے اس وقت اُس زمانہ کے حالات اس

Page 133

126 سے زیادہ اچھی طرح لکھے گئے جیسے کہ پہلے زمانہ میں لکھے گئے تھے.مثلا ساتویں آٹھویں صدی کے حالات اس زمانہ کے لوگوں کو زیادہ عمدگی کے ساتھ معلوم ہیں یہ نسبت اُس زمانہ کے لوگوں کے.اسی طرح جغرافیہ کا حال ہے پہلے سے زیادہ لوگوں کو اس کا علم ہے.پہلے جن ملکوں کے کسی کو نام بھی معلوم نہ تھے آج ان کو سب لوگ جانتے ہیں.مثلاً امریکہ.اور ہمارے تو بچے بھی امریکہ کا نام خوب جانتے ہیں کیونکہ مفتی ( محمد صادق ) صاحب وہاں گئے ہوئے ہیں اور اُن کے حالات پڑھتے سنتے رہتے ہیں.دین میں بعد میں آنے والوں کا تیل مگر عجیب بات یہ ہے کہ جہاں اُن میں بعد میں آنیوالے ترقی کرتے ہیں وہاں دین کے معاملہ میں تنزیل اختیار کرتے ہیں.حساب جاننے میں اولا د اپنے باپ دادوں سے بڑھ کر ہوتی ہے، تاریخ میں زیادہ علم رکھتی ہے ، جغرافیہ زیادہ جانتی ہے ، اسی طرح لوہار، ترکھان ، سُنار جو پہلے مر گئے اب اُن سے بہتر کام کر نیوالے موجود ہیں مگر دینی معاملات میں یہ مثال نہیں ملتی اس کی وجہ کیا ہے؟ حالانکہ دین دُنیا کے ہر ایک کام اور ہر ایک پیشہ سے زیادہ اہم اور ضروری ہے اور چاہیئے تھا کہ اس میں زیادہ ترقی کرنے والے ہوتے.اس کی وجہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ جبکہ تار یخدان تار یخدانی میں فائدہ دیکھتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ اس کے متعلق اپنا جانشین چھوڑ جائے تا کہ یہ علم مٹ نہ جائے ، اسی طرح حسابدان جب حسابدائی میں فائدہ دیکھتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ اپنا قا ئمقام پیدا کرے، اسی طرح جغرافیہ والا جب اس علم کو نفع رساں پاتا ہے تو اپنے بعد اسے جاری رکھنے کے لئے اپنا قائمقام بنانے کی کوشش کرتا ہے لیکن دین کے معاملہ میں لوگوں میں بہت کم خواہش ہوتی ہے کہ اپنے سے زیادہ جاننے والے پیچھے چھوڑ ہیں.گوکسی قدر یہ خواہش ان لوگوں میں پائی جاتی ہے جو ری دین کے پابند نہیں ہوتے بلکہ اس کو مجھتے ہیں.صرف خواہش کافی نہیں مگر خرابی یہ ہے کہ کسی امر کی صرف خواہش ہی کافی نہیں ہوتی بلکہ یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ اس خواہش کو پورا کرنے میں مدد دینے والے بھی ہوں.مثلاً ایک حساب دان کی خواہش ہی کافی نہیں کہ اس کے پیچھے کوئی حساب دان رہے اور یہ خواہش اس وقت تک پوری نہیں ہو سکتی جب تک ایسے ماں باپ نہ ہوں جو اپنے بچوں کو اسکے سپر د کر یں.یہی حال اور باتوں کا ہے مگر دین کے معاملہ میں ایسا نہیں تے.

Page 134

127 دین بچپن میں سکھانا چاہئے اسی طرح ایک اور خرابی یہ ہے کہ اور تو ساری باتیں بچپن میں سکھانے کی خواہش کی جاتی ہے مگر دین کے متعلق کہتے ہیں کہ بچہ بڑا ہو کر سیکھ لے گا ابھی کیا ضرورت ہے.بچہ نے ابھی ہوش نہیں سنبھالی ہوتی اور ڈاکٹر منع کرتا ہے کہ ابھی اسے پڑھنے نہ بھیجو مگر ماں باپ اُسے سکول بھیج دیتے ہیں اور گروہ کہتے ہیں کہ چونکہ ادارہ پھرتا ہے اس لئے سکول میں بیٹھار ہے گا نگر اُن کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ سال جو اسکے ہوش میں آنے کے ہیں اُن میں بھی کچھ نہ کچھ پڑھ ہی لے.مگر نماز کے لئے جب وہ بلوغت کے قریب آگئی جاتا ہے تب بھی یہی کہتے ہیں ابھی ابچہ ہے بڑا ہو کر سیکھ لے گا.اگر یہ کہا جائے کہ بچے کو نماز کے لئے جگاؤ تو کہتے ہیں نہ جگاؤ نیند خراب ہو گی لیکن اگر صبح امتحان کے لئے انسپکٹر نے آنا ہو تو ساری رات جگائے رکھیں گے.گویا انسپکٹر کے سامنے جانے کا تو اتنا فکر ہوتا ہے کہ مگر یہ نہیں کہ خدا کے حضور جانے کے لئے جگا دیں.تو بچے کو چین میں ہی دین سکھانا چاہئے جو بچپن میں نہیں سکھاتے اُن کے بچے بڑے ہو کر بھی نہیں سیکھتے.جس طرح بڑی عمر میں جو شخص علم سیکھنا شروع کرتا ہے وہ کبھی اعلے ترقی نہیں کر سکتا اسی طرح بڑی عمر میں دین بھی نہیں سیکھا جا سکتا.مگر مصیبت یہ ہے کہ دنیا کے کاموں میں جو عمر بلوغت کی کبھی جاتی ہے دین کے متعلق نہیں سمجھی جاتی.۱۸- ۱۸ سال تک کے لڑکے کے متعلق کہتے ہیں ابھی بچہ ہے دین کی پابندی کرانے کے لئے بھی کرنے کی ضرورت نہیں حالانکہ چھوٹا سا بچہ جو چند سال کا ہوتا ہے اگر قلم اُٹھا کر کہیں پھینک دیتا ہے تو اسے دھمکایا جاتا ہے اگر کسی کتاب کو پھاڑ دیتا ہے تو ڈانٹا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اگر ا بھی سے اُسے نہ سمجھایا گیا تو اُسے چیزیں خراب کرنے کی عادت پڑ جائے گی لیکن اگر خدا کے دین کو خراب کرے تو کچھ نہیں کہا جاتا.اور دین اس وقت سکھانے کی کوشش کی جاتی ہے جب لڑکا سمجھتا ہے کہ اب تو میں اُستاد ہوں اور میں دوسروں کو سکھا سکتا ہوں اور اس وجہ سے کچھ نہیں سیکھ سکتا.میں جب تک ماں باپ یہ نہ سمجھیں گے کہ دین سیکھنے کا زمانہ بچپن ہے اور جب تک یہ نہ سمجھیں گے کہ ہمارا اثر بچپن میں ہی بچوں پر پڑسکتا ہے تب تک بچے دیندار نہیں بن سکیں گے.بچوں کی تربیت میں عورتوں کا حصہ اور پھر جب تک عورتیں بھی مردوں کی ہم خیال نہ بن جائیں گی بچے دیندار نہیں ہوسکیں گے کیونکہ مرد ہر وقت بچوں کے ساتھ نہیں ہوتے.بچے ماؤں کے ہی پاس ہوتے ہیں اور دیکھا گیا ہے کہ دیندار مائیں بھی بچوں کو دین سکھانے میں سستی کر جاتی ہیں.نماز کا وقت ہو

Page 135

128 جائے اور بچہ سورہا ہو تو کہتی ہیں ابھی اور سولے.پس جب تک ماؤں کے ذہن نشین نہ کریں کہ بچوں کی دینی تربیت بچپن میں ہی کی جاسکتی ہے اُس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی.پس پہلی نصیحت تو یہ ہے جس کے مخاطب والدین ہیں اور دراصل والد ہی ہیں کیونکہ اس وقت یہاں عورتیں نہیں ہیں کہ پیلوں کی دینی تربیت بچپن میں ہی کرو اور بچپن میں ہی اُن کو دین سکھاؤ تا کہ وہ حقیقی دیندار بنیں.ہر کام میں استقلال کی ضرورت اس کے بعد میں بچوں کو مخاطب کرتا ہوں.میں نے بتایا ہے کہ کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی جب تک بعد میں آنے والے ترقی یافتہ نہ ہوں مجھے قدر تا بچوں کی تربیت سے بہت لگاؤ ہے لیکن کبھی کوئی کام عمدگی سے نہیں ہو سکتا جب تک اس کے کرنے کا طریق مد نظر نہ رکھا جائے اور ہمارے ملک میں مشکل یہ ہے کہ اس طریق کو مد نظر نہیں رکھا جاتا جس سے کسی کام میں کامیابی ہوسکتی ہے.میرے نزدیک جس بات کی طرف سب سے پہلے توجہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور جو نہایت خطرناک طور پر پھیلی ہوئی ہے وہ بے استقلالی ہے.رسول اللہ نے سے کسی نے پو چھا سب سے بڑی نیکی کا کام کونسا ہے.آپ نے فرمایا ماں باپ کی خدمت کرنا.اُس نے پھر پوچھا اور آپ نے پھر یہی جواب دیا.اسی طرح ایک شخص نے یہی سوال کیا تو آپ نے اُن کی حالت کے مطابق اسے جواب دیا اور جب تک وہ پو چھتار ہا اُس کوڈ ہراتے رہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہی سب سے بڑی نیکیاں ہیں بلکہ یہ کہ چونکہ ان میں اس کی خلاف ورزی سب سے بڑا نقص تھا اس لئے اس کی طرف توجہ دلائی.ہمارے ملک میں بھی ایک نقص ہے اور اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ سب سے بڑا کامیابی کا گر کیا ہے تو میں یہی کہوں گا کہ استقلال، پھر پوچھے گا تو ہیں کہوں گا، پھر پوچھے گا تو بھی کہوں گا اور اگر دوسرا آدمی آکر پوچھے گا تو اس کو بھی یہی جواب دوں گا ، اور تیسرے کو بھی یہی حتی کہ جتنے پو چھتے جائیں گے اور جتنی بار پوچھیں گے یہی کہوں گا کہ ہر کام میں کامیابی حاصل کرنے کا گر استقلال ہے اس کے نہ ہونے کی وجہ سے ہر کام میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں.ایک شخص اُٹھتا ہے اور کوئی کام شروع کرتا ہے پھر چھوڑ کر بیٹھ رہتا ہے.اس طرح جو تھوڑے بہت کیا کرایا ہوتا ہے وہ بھی ضائع ہو جاتا ہے.پس جب تک استقلال کی عادت بچوں میں اور اُن کی تربیت کر نیوالوں میں نہ ڈالی جائے اس وقت تک ساری کوشش بے فائدہ ہے.

Page 136

129 بے استقلالی کا اثر دیکھو آج تو یہاں جلسہ ہو رہا ہے لیکن اگر سال کے بعد اس کام سے متعلق کچھ بھی نہ ہو اور اسے چھوڑ دیا گیا ہو تو اس کا بچوں پر زیادہ مضراثر پڑے گا.کسی کام کے شروع کرنے کا ایک اثر ہوتا ہے مگر وہ عارضی ہوتا ہے اور کام کو چھوڑ دینے کا ایسا اثر ہوتا ہے کہ جن پر ہوتا ہے اُن کو بھی اس کا پتہ نہیں لگتا مگر نہایت خطرناک ہوتا ہے.ہر کام جو شروع کر کے چھوڑ دیا جاتا ہے اس کا اثر بچوں پر یہ ہوتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں بڑے ہمیں یہ تعلیم دے رہے ہیں کہ کسی کام کو لگا تار نہیں کرنا چاہئے اور اس طرح وہ کامیاب نہیں ہو سکیں گے لیکن اگر اُن پر یہ اثر پڑے کہ جو کام شروع کیا جائے اُسے کرتے ہی جانا چاہیئے تو وہ ہر کام میں استقلال اختیار کریں گے اور کبھی نا کام نہ ہوں گے.بے استقلالی ایک بہت بڑا نقص ہے.یہ تو بچوں کی انجمن ہے اس نے مجھے بار بار اپنے جلسہ میں شامل ہونے کے لئے لکھا اور میں آج سے قبل نہ آسکا لیکن ایک بڑوں کی انجمن میں نے بنائی تھی پہلے پہلے میں اُس میں خود شامل ہوتا رہا تا کہ کام چلنے لگ جائے لیکن جب سے میں نہیں گیا اس کے جلسے بھی بند ہو گئے.اس کے سیکرٹری کا دوسروں کو استقلال سے کام کرنے کا وعظ کرتے کرتے تو منہ خشک ہو جاتا ہوگا اور کام کرنے کی تجویزیں سوچتے سوچتے دماغ پر اگندہ ہو جاتا ہو گا مگر وہ کام جو شروع کیا تھاوہ نہ کر سکے اور چھوڑ دیا.وہ تجویز میں تو بڑی بڑی گورنمٹوں کو بتانے کے لئے تیار ہوں گے مگر یہ چھوٹا سا کام بھی نہ کر سکے.یہ ٹھیک ہے کہ کوئی اکیلا آدمی کام نہیں چلا سکتا لیکن اگر استقلال اختیار کیا جائے تو اگر سب میں نہیں تو کچھ آدمیوں میں ضرور استقلال پیدا ہو جائے گا.یورپ کے لوگوں نے اس بات کو خوب سمجھا ہے اور وہاں ایسی دُکانیں اور اخباریں ہیں جو تین تین سوسال سے برابر چل رہی ہیں.جب سے خیال آیا کہ اخبار جاری کیا جائے یا اس قسم کی دُکان نکالی جائے اسی وقت سے وہ چلی آرہی ہیں.اسی طرح کئی مدر سے ہیں جب سے اُن کا خیال آیا اُسی وقت سے چلے آرہے ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ شروع کر نیوالوں نے استقلال سے کام چلا یا اس کا اثر اوروں پر پڑا انہوں نے کام شروع کر دیا.پھر اوروں پر.اسی طرح کام چلتا گیا.تو والدین کے بعد کارکن اور بچوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ استقلال سے کام کرو.ماسٹر ( عل محمد ) صاحب نے کہا ہے کہ اس کام میں بچوں اور اُن کے والدین نے مجھ سے تعاون نہیں کیا اس لئے ایک دفعہ یہ کام شروع ہوکر بند ہو گیا تھا اب پھر جاری کیا گیا ہے.میں کہتا ہوں اگر وہ استقلال سے کام کرتے رہتے تو اس کا اثر

Page 137

130 ضرور ہوتا اور کام جاری رہتا.انہوں نے دوبارہ کام کیوں شروع کیا اسی لئے کہ اُن کے دل سے پہلی ناکامی کا اثر دُور ہو گیا.اُنہوں نے سمجھ لیا تھا کہ کوئی مدد نہیں دیتا اس لئے کام نہیں رہ سکتا مگر پھر شروع کر دیا.اس کا نام بے استقلالی ہے.وہ پہلی باتوں کو بھول گئے اور پھر کام شروع کر دیا.انہیں یا درکھنا چاہیئے کہ استقلال سے جب تک کام نہ ہو گا اس وقت تک کامیابی نہ ہوگی.بچوں کی تربیت کے لئے والدین کا تعاون اسی طرح والدین ہیں.شروع میں وہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص ہمارے بچوں کی نگرانی کرتا ہے کیوں نہ ہم اس سے مل کر کام کریں اور اسے مدد دیں لیکن پھر ان کی حالت ایسی ہی ہو جاتی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی مشخص دھوپ میں بیٹا تھا کسی نے کہا سائے میں ہو جاؤ تو کہنے لگا کیا دو گے.وہ سمجھتے ہیں فلاں شخص جو ہمارے بچوں کے پیچھے پڑا ہوا ہے تو اس کو ضرور کوئی فائدہ ہی ہوتا ہوگا.ایک مثال ہے کہتے ہیں ایک آدمی کو کسی نے بتایا کہ درزی سب چور ہوتے ہیں کپڑا چرا لیتے ہیں.وہ ایک دن ٹوپی سلانے کے لئے درزی کے پاس کپڑا لے گیا اور جا کر پوچھا کیا اس کی ٹوپی بن جائے گی.درزی نے کہا ہاں بن جائے گی اُس نے کہا فی الواقعہ درزی چور ہوتے ہیں اُس نے کچھ کپڑا خود رکھنا ہوگا تبھی کہہ دیا کہ بن جائے گی.یہ سمجھ کر کہنے لگا کیا دو بن جائیں گی.درزی نے کہاہاں دو بن جائیں گی.اس پر تو اسے سمجھا کہ درزی کے چور ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہ گیا.اگر میں دو کے لئے نہ کہتا تو ایک خود رکھ لیتا اور ایک مجھے دے دیتا.یہ خیال کر کے کہنے لگا.کیا چار بن جائیں گی.درزی نے کہا ہاں.اس پر تو اسے یقین ہو گیا کہ ضرور یہ چوری کرتا ہے اور کہنے لگا کیا چھ بن جائیں گی.درزی نے ہاں چھ بن جائیں گی.یہ سن کر اس نے سمجھا اب شاید اور نہ بن سکے لیکن چلو پوچھ تو لیں.اور کہنے لگا کیا سات بن جائیں گی.درزی نے کہا ہاں سات بن جائیں گی.اس سے زیادہ کی اسے امید تو نہ تھی لیکن کہنے لگا کیا آٹھ بن جائیں گی.درزی نے کہا ہاں آٹھ بن جائیں گی.اس کے بعد وہ چلا گیا.دوسرے دن جب وہ آیا تو ڈراز راسی آٹھ نو بیاں رکھی تھیں.انہیں دیکھ کر درزی سے کہنے لگا یہ کیا؟ درزی نے کہا اپنا کپڑا ناپ لو تم نے اس کی آٹھ نو پیاں بنانے کو کہا تھا میں نے بنا دیں.اسی طرح والدین سمجھتے ہیں کہ یہ مدرس بچوں کی نگرانی کرتا ہے تو اس کو ضرور کوئی فائدہ ہوتا ہو گا کیوں اسے فائدہ پہنچائیں.یہ سمجھ کر وہ اس کی مدد کرنا چھوڑ دیتے ہیں.

Page 138

131 ماسٹر صاحب نے جو واقعہ سنایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے دونوں طرف سے بے استقلالی ہوئی.ماسٹر صاحب نے بھی بے استقلالی کی اور والدین نے بھی.جب تک دونوں یہ نیت نہ کرلیں کہ استقلال سے کام کریں گے اس وقت تک کام نہیں چل سکے گا.دونوں پورے استقلال سے کام کرنے کا وعدہ کریں اور چاہے آندھی آئے چاہے میںبہ اپنی بات پر قائم رہیں.یورپ کے متعلق میں نے کئی بار پڑھا ہے کہ کلب میں جو لوگ جاتے ہیں وہ ہیں بیس سال متواتر جاتے رہے.جب یورپ کے لوگ معمولی معمولی باتوں میں جو کھیل اور تفریح سے تعلق رکھتی ہیں اس قدر استقلال دکھائیں تو ہم ان باتوں میں کیوں استقلال نہ دکھا ئیں جو ہماری ترقی سے تعلق رکھتی ہیں.اس کے بعد میں تربیت کے متعلق بعض موٹی موٹی باتیں بیان کرتا ہوں.بیچے کی آواز بلند ہونی چاہیے اول تو مجھے اس بات سے صدمہ ہوا ہے کہ جتنے بچوں نے مضمون سنائے ہیں نیچی آواز سے سنائے ہیں مجھے نیچی آواز سے سخت چڑ ہے اور بہت تکلیف ہوتی ہے.میرے نزدیک نچہ کا یہ پیدائشی حق ہے کہ ماں باپ اس کی آواز اونچی بنا ئیں تا کہ بچہ دنیا سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنی آواز سنا سکے.جس بچہ کی آواز طوطی کی سی ہوگی وہ دنیاں کے نقار خانہ میں اپنی آواز نہیں سنا سکے گا.دیکھو کوئی نبی ایسا نہیں ہوا جس کی آواز عمدہ اور اچھی نہ ہو.اور یہ نہایت ضروری ہے کہ انسان کی آواز بلند ہو مگر ان بچوں کی آواز دھیمی اور کانپتی ہوئی تھی میرا تو یہاں تک خیال ہے کہ رشتے چنتے وقت ایسا رشتہ تلاش کرنا چاہیئے جس کی آواز بلند ہو.اور استادوں کو چاہیئے کہ بچوں کی آوازیں بلند کرنے کے متعلق جو کتابیں ہیں انہیں پڑھیں اور جو طریق بتائے گئے ہیں ان کو کام میں لائیں.میرا چھوٹا بچہ منور احمد بہت آہستہ ہوتا تھا اس کو قاری غلام بین صاحب کے پاس قرآن کریم پڑھنے کے لئے بھیجا گیا.ایک دن گھر جب اس سے سبق سنے لگے تو اس نے شور ڈال دیا اور بہت زور سے سنانے لگا.مجھے اس پر تعجب ہوا اور میں نے وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ قاری صاحب چونکہ اونچا سنتے ہیں اس لئے ان کو زور سے سنانے کی وجہ سے اونچی آواز سے پڑھنے کی عادت ہوگئی ہے.میں گھر میں بیویوں کو پڑھا تارہا ہوں اور اونچی آواز کرنے کے لئے اس طرح کرتا تھا کہ اپنے سے دور بٹھاتا نا سنانے کے لئے زور سے پڑھیں.اسی طرح جب میں مدرسہ احمدیہ میں پڑھاتا تھا تو جواڑ کا نیچی آواز

Page 139

132 سے پڑھتا اس کو پرے بٹھا دیتا یا اپنی کرسی بہت پیچھے بنا لیتا.اس پر اسے مجبور از ور سے پڑھنا پڑتا.تو اونچی آواز کرنے سے آواز اونچی ہو جاتی ہے اس کی ضرور کوشش کرنی چاہیئے.بچوں میں دلیری اور جرات پیدا کرو دوسری بات یہ ہے کہ اخلاق کے متعلق جو بات مد نظر رکھنی چاہیئے اور جو ا علیٰ خلق ہے اور دوسرے اخلاق پر حاوی ہے وہ دلیری اور خجرات ہے.کوشش یہ ہونی چاہئے کہ بچوں کو بہاؤ ر اور دلیر بنایا جائے ماسٹر صاحب نے مثال بیان کی ہے کہ ڈھاب میں نہانے سے جب بچوں کو روکا جا تا تو اُن کے والد مخالفت کرتے اور کہتے یہ تیرنا جانتے ہیں یہ نہیں ڈوبیں گے مگر وہ دوسروں کو تو ڈبو دیتے جو تیر نانہیں جانتے.میرے نزدیک اگر بچے بے احتیاطی سے ڈوبتے ہیں تو ان کو بچانا چاہئے لیکن اگر تیرنا سیکھتے ہوئے باوجود ممکن احتیاط کے ڈوبتے ہیں تو کیا حرج ہے؟ انگریزوں میں تیرنے کے مقابلے ہوتے ہیں.کشتیاں دوڑنے کا مقابلہ کرتی ہیں اور بعض اوقات ٹوٹتی اور ڈوبتی ہیں.جانیں بھی ضائع ہوتی ہیں لیکن یہ نہیں کہ آئندہ کے لئے مقابلہ چھوڑ دیں.پھر جاتے ہیں اور مقابلہ کرتے ہیں.ماں باپ بچوں کو بزدل بناتے ہیں جب تک ماں باپ یہ نہ سمجھیں کہ بچہ کا دلیری اور جرات کا کام کرتے ہوئے مرجانا اچھا ہے بہ نسبت اس کے لکھا بکر زندہ رہنے کے.اس وقت تک اصلی جرات اور دلیری بچوں میں پیدا نہیں کی جاسکتی مگر یزی خرابی یہ ہے کہ ماں باپ خود بچوں کو نکما اور بزدل بناتے ہیں.ذرا اندھیرا ہو تو کہتے ہیں باہر نہ جانا.ذرا کوئی مشقت کا کام کرنے لگے تو روک دیتے ہیں.وہ یہ چاہتے ہیں کہ چھوٹی موٹی بنار ہے.اور اس طرح بچے کسی کام کے نہیں رہتے.ماں باپ کا تو یہ کام ہونا چاہیئے کہ جان بوجھ کر بچوں کو اندھیرے میں بھیجیں اور ہر طرح جرات اور دلیری سکھائیں.بچوں کو تیراک بنانا وہ بچے جو تیر نا نہیں جانتے ان کو اکیلے پانی میں نہیں جانا چاہیئے مگر تیر نے والے ان کو اپنے ساتھ لے جائیں اور تیرنا سکھائیں.یہ نہایت ضروری ہنر ہے اس لئے ضرور سکھانا چاہیئے اور اپنے بزرگوں کی پیروی

Page 140

133 کرنی چاہیئے.حضرت اسمعیل شہید کے متعلق لکھا ہے وہ ایک جگہ گئے اور سنا کہ ایک سکھ ہے جو بہت تیرتا ہے اور کوئی مسلمان اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.یہ سن کر انہوں نے تیرنا شروع کر دیا اور آخر اس سے بڑھ گئے.تو ہر کام میں مومن کو دوسروں کا مقابلہ کرنا چاہیئے.بشرطیکہ وہ شریفانہ ہنر ہو یہ نہیں کہ کوئی مسلمان کسی ڈاکو سے بڑھ کر ہو جائے یا کسی چور سے بڑھ جائے بلکہ یہ کہ مثلاً کشتی لڑنا سواری کرنا، تیرنا وغیر ہ جسمانی طاقت کے کاموں میں بڑھنے کی کوشش کرنی چاہیئے.پس احمدی بچوں میں قوت اور بہادری پیدا کرنی چاہیئے.انگریزوں میں یہاں تک احتیاط کی جاتی ہے کہ فٹ بال کھیلتے ہوئے یا کسی اور کھیل میں اگر کسی لڑکے کی ہڈی بھی ٹوٹ جائے تو بھی کھیل بند نہیں کریں گے.اس کو کھیل کے میدان سے اٹھا کر علیحدہ لے جائیں گے اور کھیل برابر جاری رہے گا کیونکہ کھیل بند کرنے سے لڑکوں پر برا اثر پڑتا ہے اور ان کے دلوں میں خوف اور بد دلی پیدا ہوتی ہے.اسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ انگریزوں کی چھوٹی سی قوم دنیا پر حکومت کر رہی ہے مگر ہمارے ہاں اگر کسی کو کھیل میں معمولی سی چوٹ آجائے تو آئندہ کھیل کو بند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.تو تیرنا بہت اچھا ہنر ہے ہاں اس ڈھاب کا پانی اس قدر خراب ہے کہ اس میں بچوں کا تیر نا ان کی صحت کے لئے مضر ہے اس کا خیال رکھا جائے اور ایسے دنوں میں انہیں تیرنا سکھا ئیں جبکہ پانی صاف ہو.مجھے یاد ہے جب بچپن میں مجھے تیر نا نہیں آتا تھا تو دوسروں کو دیکھ کر میرے دل پر بہت برا اثر پڑتا تھا کہ کیوں نہیں آتا.اور حضرت مسیح موعود نے ہمیں تیرنے والوں کے سپر د کر دیا کہ تیرنا سکھائیں.تو بچوں کو تیر ناضرور سکھانا چاہیئے.بچوں کو کھلاڑی بنانا اور میرا تو دل چاہتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ روپیہ دے تو گھوڑے رکھے جائیں اور ان پر بچوں کو سواری سکھائی جائے اور وہ پورے پورے سوار ہوں لیکن جب تک اتنا مال نہیں ملتا بچوں کو دوسری کھیلوں کا کھلاڑی بنانا چاہیئے.کیونکہ اچھے کھلاڑی کے اخلاق بھی اچھے ہوتے ہیں.برخلاف اس کے جو بچے بچپن میں ان باتوں میں پڑتے ہیں جو بڑوں سے تعلق رکھتی ہیں وہ بڑے ہو کر بالکل لکھتے ثابت ہوتے ہیں.ایک شخص جو آب وکالت کرتا ہے اور سلسلہ سے اس کو کوئی تعلق نہیں رہا.طالب علمی کی حالت میں بڑی لمبی لیسی نمازیں پڑھتا اور نمازوں میں اتنا رو تا کہ چیخیں نکل جاتیں.مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم جن کے متعلق حضرت مسیح

Page 141

134 موعود علیہ السلام کو الہام ہوا تھا کہ مسلمانوں کا لیڈر.وہ کہتے میرا دل چاہتا ہے کہ اسے مسجد سے اٹھا کر نیچے پھینک دوں.یہ کیوں روتا ہے.اسنے کونسے گناہ کئے ہیں.اسی طرح میاں عبدالسلام حضرت خلیفہ اول کے لڑکے جب دعا ہونے لگے تو رونے لگ جاتے.حضرت مولوی صاحب روکتے اور فرماتے یہ اعصابی کمزوری ہے.بڑا آدمی تو سمجھتا ہے کہ میری عمر کا بڑا حصہ ضائع ہو گیا ہے مجھ سے کئی کوتاہیاں ہوئی ہیں خدا معاف کر دے اس لئے روتا ہے.بچہ اگر اس رنگ میں روتا ہے کہ میری انگلی عمر اتھی اور اعلے ہو تو یہ جائز ہے.اور اگر اس لئے روتا ہے ہے کہ اسکے گناہ بخشے جائیں تو وہ نقال ہے اُس نے گناہ ہی کب کئے ہیں کہ بخشوا تا ہے.ہاں اگر اس کی یہ خواہش اور اُمنگ ہے کہ دین کا خادم بنوں اور اس پر اسے رونا آتا ہے تو جائز ہے.کھیل میں اخلاق سکھانا پس بچوں کے لئے کھیلنا کودنا بہت ضروری ہے.ہاں کھیل میں اخلاق سکھانا چاہئیں.مثلاً یہی کہ کہا جائے کہ اگر کوئی گالی دے تو اس کو گالی نہ دی جائے.اور پھر گروپ کے لڑکوں کے متعلق رپورٹ منگوائی جائے کہ کونسے لڑکے ہیں جنہوں نے گالی کا جواب گالی سے دیا.اگر کوئی ہو تو اس سے تو یہ کرائی جائے.اس طرح یہ کہ ہر ایک غریب اور مسکین کو مدد دیں اور اس قسم کے واقعات آکر سنا ئیں کہ اس طرح کے لڑکے کو مدد کرنے کا موقع ملا ہے مگر اس نے مدد نہیں کی.مثلا کوئی چھوٹا بچہ ہے.ادھر گائے آئی ہے لڑ کا پاس کھڑا تھا اسے چاہئے تھا کہ چھوٹے بچے کو پرے ہٹالیتا مگر اسنے نہ ہٹایا تو اس کی باز پرس کی جائے یا مثلاً کوئی برقع پوش عورت تھی جس پر جانور حملہ کرنے لگا تھا اور لڑ کا پاس کھڑا تھا مگر اسے بچانے کی کوشش کرنے کی بجائے جنس رہا تھا تو اس کو بھی تنبیہہ کی جائے ایسے واقعات پر سرزنش کی جائے اور آئندہ کے لئے عہد لیا جائے کہ ایسانہ کریں گے اس طرح عملی طریق سے اخلاق سیکھ سکتے ہیں.ان کی مثال طوطے کی سی ہوتی ہے جو کہتا ہے میاں مٹھو چوری کھانی ہے مگر نہ یہ جانتا ہے کہ میاں مٹھو کیا ہے اور نہ اسے یہ خبر ہوتی ہے کہ چوری کیا ہے.عملی طریق سے اخلاق سکھانا میچوں کو اگر یوں کہا جائے کہ حاجتمند کی مدد کیا کرو تو کہیں گے ہاں کریں گے مگر انہیں یہ نہیں معلوم ہوگا کہ کیا کرنا ہے لیکن جب عملی طور پر انہیں سکھایا جائے گا اور ہوشیار لڑکے امداد دینے کے واقعات سنائیں گے تو

Page 142

135 دوسروں کو پتہ لگے ؟ا کہ اس طرح مدد کرنی چاہیئے.سکاؤٹ بوائے کو اسی طرح سکھایا جاتا ہے کہ بچوں کے گھر بنا کر اور ان میں ضروری اشیاء رکھ کر آگ لگاتے ہیں اور پھر آگ کو بجھانا اور چیزوں کو بچانا سکھایا جاتا ہے.تو سبقاً سبقاً بچوں کو یہ باتیں سکھانی چاہئیں اور گروپ میں ہی سکھائی جاسکتی ہیں.الگ الگ ایسا انتظام نہیں ہوسکتا.اسی طرح ڈوبتے کو بچانا سکھانے کے لئے بھی گروپ ضروری ہے اور بچوں کو مشق کرانی چاہئے.اس میں دوسرے لوگ بھی اگر دلچسپی لیں تو زیادہ مفید ہوسکتا ہے.مگر ہمارے ملک کے اخلاق ایسے ہیں کہ اگر کوئی بڑی عمر کا آدمی کھیل میں شامل ہو تو حیرت اور تعجب کا اظہار کیا جاتا ہے حالانکہ رسول کریم نے سے متعلق آتا ہے کہ آپ شامل ہو جاتے تھے.ماں باپ کو بھی چاہیئے کہ بچوں کے اس قسم کے کاموں میں کبھی کبھی شامل ہو جایا کریں.پھر غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرنا سکھانا چاہیئے.اس کا مطلب یہ نہیں کہ جیبیں بھری ہوں بلکہ یہ ہے کہ مثلا اگر کوئی تکلیف میں ہے، اندھی ہے اور بچہ اُس کے ساتھ ہے جسے دو اٹھا نہیں سکتی تو لڑکا اٹھالے.اگر کوئی گر جاتا ہے تو اُسے اٹھائے.اسی قسم کے اور بیسیوں کام ہیں.چونکہ اب وقت زیادہ ہو گیا ہے اس لئے باقی باتیں پھر کسی وقت بیان کر دی جائیں گی.(الفضل ۱۰.جولائی ۱۹۲۳ ص ۶ تا ۱۰) تقریر حضرت خلیفہ اسیح الثانی ( جو حضور نے جلسہ سالانہ ۱۹۳۳ کے موقع پر ۲۸.دسمبر کو مستورات میں فرمائی ) حضور نے تشہد اور تعوذ کے بعد سورۂ فاتحہ کی تلاوت کی اور پھر فرمایا:.میں سب سے پیسے اللہ تعالے کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ہماری ہدایت کے لئے مسیح موعود کو بھیجا اور ہمیں اس کے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی.ذَالِكَ فَضُلُ اللهِ يَو تِيهِ مَنْ يَّشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ العظیم پھر میں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ہماری جماعت کے دلوں میں اس بات کا جوش اور تڑپ رکھدی ہے کہ وہ اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیں.اس زمانہ میں مسلمانوں کی جو حالت ہے اور جس حالت میں وہ مبتلا ہورہے ہیں اس کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ بہت بڑا معجزہ ہے کہ آپ کے طفیل عورتوں تک میں بھی یہ خواہش موجود ہے کہ اولاد ایسی ہو جو خادم دین ہو.وہ عورتیں جو پہلے اپنے وقت کو لڑائی جھگڑوں یا غیبت میں گنواتی تھیں اب حضرت مسیح موعود علیہ السلوۃ والسلام کو قبول کر کے دین کی خدمت

Page 143

میں صرف کرتی ہیں.136 اور میں اس امر کے اظہار سے رک نہیں سکتا کہ جہاں ہماری جماعت کے مردوں کے لئے دینی ترقی کے راستے طے کرنے باقی ہیں وہاں ہماری جماعت کی عورتوں کے لئے بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے بلکہ میں یہ کہ سکتا ہوں کہ مردوں کی نسبت عورتوں میں ابھی دینی ترقی کی بہت زیادہ ضرورت ہے.دینی اور دنیاوی حالت اور چیز ہے اور کام کرنے کی قابلیت اور چیز ہے.ایک ہیں کہ انہیں دل میں بہت جوش ہے مگر ان کے لئے سامان نہیں.یا تو سامان ہیں مگر انہیں استعمال نہیں کر سکتے.مثلاً ایک آدمی بیمار ہے اور وہ چاہتا ہے کہ میں اچھا ہو جاؤں اور کونسا بیمار ہے جو یہ نہ چاہتا ہو کہ مجھے صحت ہو جائے.مگر وہ جنگل میں ہے جہاں کوئی معالج یا ڈاکٹر نہیں مل سکتا.یا اگر حسن اتفاق سے مل تو سکتا ہے لیکن اس کے پاس ڈاکٹر کو دینے کے لئے فیس نہ ہو.یا اگر فیس ہو بھی تو دوائی نہیں تو محض اچھا ہونے کی خواہش اور جوش سے وہ تندرست نہیں ہو سکتا.اسی طرح بعض دفعہ انسان کے دل میں جوش تو ہوتا ہے مگر اس کو سامان میسر نہیں آتے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جوش بھی ہوتا ہے اور سامان بھی میسر آ جاتے ہیں مگر اُن سامانوں سے کام نہیں لینا آتا تو وہ جوش اور وہ سامان رکسی کام نہیں آتے.ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے دل میں تڑپ ہو اور جوش ہو پھر سامان ہوں اور اُن سامانوں کے استعمال کا علم ہو.یہی حالت ہماری عورتوں کی ہے.میں دیکھتا ہوں کہ ان کے دل میں دین کی تعلیم اور اسلام کے حاصل کرنے کی خواہش ہے لیکن اس کے پورا کرنے کے سامان میسر نہیں.کتنا ہی شوق اور جوش ہو کہ خدا کی راہ میں کام کریں لیکن اگر سامان ہی نہ ہوں اور نہ اُن کے استعمال کا طریقہ آتا ہو تو کچھ نہیں ہو سکتا.عورتیں جماعت کا ایک ایسا حصہ ہیں کہ جب تک اُن کی تعلیم و تربیت اس طرح نہ ہوئیں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت کی ترقی اور تربیت میں بڑی سخت روک رہے گی.اُن کی مثال اس ہیرے والے کی ہوگی جو اُس کے استعمال سے بے خبر ہو وہ اُسے ایک گولی سمجھ کر پھینک دیتا ہے.مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ میں بمبئی گیا.اُن دنوں وہاں ایک شخص پر مقدمہ چل رہا تھا کہ اُس نے چوری کے میرے خریدے ہیں.بات یہ تھی کہ ایک جو ہری جار ہا تھ جاتے ہوئے اس کے بیروں کی پوڑ یہ گر گئی جو

Page 144

137 ایک لڑکے کے ہاتھ آئی پندرہ سولہ ہیرے تھے.اُس نے سمجھا کہ شیشہ کی گولیاں ہیں حالانکہ وہ کئی لاکھ کے ہیرے تھے.ایک شخص نے دیکھا کہ ہیرے ہیں اُس نے پیسہ کے چار چار خرید کر لئے.اس بچہ کو معلوم نہ تھا کہ کیا چیز ہے اور ان کا استعمال کیا ہے.اسی طرح ہمارے ہاتھ میں کیسی ہی قیمتی چیز ہوا اگر ہمیں علم نہیں یا اس کا استعمال نہیں جانتے تو اس کی گویا کچھ بھی قیمت نہ ہوگی.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری عورتوں کے دل میں جوش ہے ، اُن کو خدا سے ملنے کی تڑپ ہے، خدا کی راہ میں کام کرنے کے لئے بیقرار ہیں مگر ہم اُن کے لئے اب تک کوئی سامان نہیں کر سکے.یورپ کی عورتیں یورپ میں میں نے دیکھا ہے کہ مقابلہ علم کے لحاظ سے وہاں کی عورتوں کا یہاں کی عورتوں سے مقابلہ جانور اور آدمی کا مقابلہ ہے.وہاں ہر اک عورت تعلیم یافتہ ہے.کوئی عورت ایسی نہ ہوگی جو تعلیم یافتہ نہ ہو اور کوئی عورت اس قسم کی نہیں مل سکتی جو اس بات کو بجھتی نہ ہو کہ تعلیم کی کیا قدر ہوتی ہے اور اس کی قوم کو کس طرح فائدہ اٹھانا چاہیئے.وہاں میں نے دیکھا ہے کہ عورتیں مردوں کی طرح میدان عمل میں نکلتی ہیں، وہ ویسی ہی تقریریں کرتی ہیں جیسی مرد تقریر کرتے ہیں ، وہ اسی طرح مختلف قسم کی سوسائٹیوں میں شریک ہوتی ہیں جیسے مرد اُن کے ممبر ہوتے ہیں اور وہ تمام معاملات میں مردوں کی طرح اس سوسائٹی میں دخل دیتی ہیں.ملکی معاملات اور حکومت کے کام میں بھی اسی طرح دخیل ہیں جس طرح مرد، پارلیمنٹ کی ممبر بنتی ہیں ، مردوں کی طرح معقولیت سے پارلیمنٹ کے کاموں میں حصہ لیتی ہیں ، یورپ میں کوئی میدان نہیں جہاں مرد جائیں اور عورتیں نہ جائیں.وہاں عورتیں مردوں سے لڑتی ہیں کہ ہمیں کیوں کام پر نہیں جانے دیتے اور مطالبہ کرتی ہیں اور اپنے مطالبات میں کامیاب ہو جاتی ہیں.انسانیت کے لحاظ سے مرد عورت دونوں برابر ہیں.خدا نے جیسے دو آنکھیں ، دوکان، زبان ، ناک وغیرہ اعضاء برابر بنائے ، دل دونوں میں ہے، ہاتھ دونوں کے ہیں.اپنے علم کے مطابق جو مرد کر سکتا ہے عورت بھی کر سکتی ہے.بے شک بعض کام ہیں جو عور تیں نہیں کر سکتیں جیسے جنگ کا کام مگر پھر بھی بہت سی عورتیں ملتی ہیں جنہوں نے میدانِ جنگ میں اپنی قابلیت کے جو ہر دکھلائے.ایک موقع پر ابوسفیان کی بیوی نے اسلام کی وہ خدمت کی جو مرد نہیں کر سکتے تھے.عیسائیوں کی فوج دس لاکھ تھی اور مسلمان مرد ساٹھ ہزار تھے.کافروں نے ایسا حملہ کیا کہ مسلمان بھاگنے لگے.اسلامی

Page 145

138 لشکر عرب سے دُور تھا اور انہیں بہت خطرہ ہو گیا.جب یہ شکر بھاگتا ہوا عورتوں کے خیمہ کے پاس پہنچا تو ہندہ جس نے کفر کے زمانہ میں حضرت حمزہ کی لاش کے ناک، کان کٹوا دئے تھے اپنے خیمہ کی چوبیں اُٹھا لیں اور عورتوں سے کہا کہ تم میں سے ہر ایک اپنے اپنے باپ بھائی وفیہ کو رو کے کہ وہ یہاں نہ آئیں واپس جا کر لڑیں.ابو سفیان خود بھی آرہے تھے اسلئے ہندہ نے ابو سفیان کے گھوڑے کو ڈنڈا مار کر پیچھے پھیر دیا اور کہا کہ اگر اس طرح بھاگ کر آؤ گے تو اپنے ہاتھ سے قتل کر دوں گی.نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کا لشکر جو بیدل ہو کر واپس آرہا تھا پھر پیچھے مڑا اور دس لاکھ کو شکست فاش دی.وہ فتح محض عورتوں کی بہادری کا نتیجہ تھی.میں یہ کہہ رہا تھا کہ یورپ میں عورتیں مردوں سے ہمیشہ مطالبہ کرتی رہتی ہیں کہ ہمیں کام کیوں نہیں کرنے دیتے.جس کا نفرنس میں میں گیا تھا اس کی سیکر ٹری ایک عورت تھی.محنت سے کام کرتی تھی میں نے وہاں کے حالات مطالعہ کر کے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ہمارے ملک کے مردوں کے دماغ وہاں کے مردوں سے اچھے ہیں اور عورتوں کے دماغ بھی وہاں کی عورتوں سے اچھے ہیں میں نے دیکھا ہے کہ جو بات عورتیں آسانی سے سمجھ سکتی ہیں وہاں کے تعلیم یافتہ مردوں کو سمجھنے میں دقت ہوتی ہے.دماغی حیثیت سے ہمارے دماغ اچھے ہیں.ایسا ہی عورتوں کے :.نوں کی حالت ہے.پس اس افسوس کے بعد کہ ہماری عورتوں کی تعلیم و تربیت کے انتظام میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے میں اپنی جماعت کی عورتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنی کمزوریوں کے خیال کو چھوڑ کر دینی اور دنیاوی تعلیم میں کوشش کریں.وہ یا درکھیں کہ محض جوش کام نہیں آتے جب تک اس کے ساتھ علم و ہنر نہ ہو.میں جانتا ہوں کہ تم میں سے بہتوں کے دل میں جوش ہے کہ وہ خدمت دین کریں مگر یہ جوش اُس وقت کام آئے گا جب علم و تربیت کے ساتھ ہو.اگر تعلیم و تربیت نہ ہو تو کوئی نتیجہ پیدا نہ ہوگا.پس اگر تم چاہتی ہو کہ کوئی کام کریں تو علم حاصل کرو اور سیکھنے کی کوشش کرو.علم تمہیں وہ قابلیت عطا کرے گا کہ تم کام کرنے کے طریق سے واقف ہو جاؤ گی.(الفضل ۵ فروری ۱۹۲۰ء)

Page 146

139 احمدی خواتین کی تعلیم وتربیت کی اہمیت اور ضرورت دار حضرت مسیح موعود میں احمدی خواتین کے سکول کا افتتاح تاریخ سلسلہ میں ۱۷.مارچ ۱۹۲۵ء کا دن ایک قابل یادگار دن ہوگا جبکہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس مقدس اور بابرکت دار میں جس کے متعلق خدا تعالیٰ کی بڑی بڑی بشارتیں موجود ہیں خواتین سلسلہ کی تعلیم کے لئے ایک سکول کا افتتاح فرمایا.حضور کو مستورات سلسلہ کی تعلیم کا جس قدر خیال تھا اس کا اظہار حضور مختلف مواقع پر فرما چکے ہیں اور اسی توجہ اور خیال کا نتیجہ ہے کہ حضور نے مستورات کی تعلیم کو ایک منظم صورت میں لانے کے لئے سکول کا افتتاح فرمایا.مبارک ہیں وہ خواتین جنہیں اس سکول میں داخلہ کا شرف حاصل ہوا اور جو ہماری جماعت کے طبقہ اناث کی تعلیم کے لئے بطور بنیاد ہوں گی.انشاء اللہ.خدا تعالیٰ ان کی ہمتوں میں برکت اور ارادوں میں استقلال بخشے تا وہ ان عظیم الشان ارادوں اور خواہشوں کو پورا کرنے والی ہوں جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ مستورات سلسلہ کی تعلیم کے متعلق رکھتے تھے.اور جو انشا اللہ ایک دن ضرور پورے ہوں گے.مرکز سلسلہ میں اس سکول کا افتتاح اور اس کے متعلق حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خاص کوشش اور سعی جماعت احمدیہ کو مستورات کی تعلیم کی طرف متوجہ کرنے کے لئے ایسا پر اثر اُسوہ ہے کہ اب جس سے ایک لمحہ بھی تغافل نہیں ہونا چاہیئے.....پس تمام احمدی جماعتوں کے ذمہ دار اصحاب کو چاہیئے کہ جلد سے جلد اس طرف توجہ فرمائیں اور مستورات کی تعلیم کی اہمیت اور ضرورت کا انداز و لگانے کے لئے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی حسب ذیل تقریر کو پڑھیں جو حضور نے مرکز سلسلہ میں احمدی مستورات کے ٹرنینگ سکول کا افتتاح کرتے ہوئے ۱۷.مارچ بعد نماز ظہر فرمائی.حضور نے فرمایا:.تعلیم کا مسئلہ ایک ایسا اہم اور ضروری مسئلہ ہے کہ جہاں تک ہم دیکھتے ہیں انسانی تاریخ کی ابتداء سے ہی ہمیں انسان اس طرف توجہ کرتے معلوم ہوتے ہیں.انسان کی پیدائش کے بعد سب سے پہلا کام یا انسان

Page 147

140 کے انسان بننے کے بعد سب سے پہلا سلوک جو اللہ تعالیٰ نے کیا وہ یہ ہے کہ عَلَّمَ ادَمَ الَا سُمَاءَ كُلَّهدَ آدم علیہ السلام کو اشیاء کی حقیقت بتلائی گئی.در حقیقت نام سے اصل غرض یہی ہوتی ہے کہ کسی چیز کو پہنچاتا جائے اور پہچاننے سے مُراد ہوتی ہے کہ کسی چیز کی حقیقت معلوم ہو.ایک چیز کو دوسری چیز کے مقابلہ میں اسی طرح پہچانا جاتا ہے کہ فلاں چیز میں یہ گن اور یہ یہ صفات ہیں اور فلاں میں یہ.مثلاً آم اور خربوزہ ہے.ان کی شکل اور مزے کے اختلاف سے ہی ان کو پہچانا جاتا ہے اگر ان کے گن اور صفات الگ الگ نہ ہوتے تو ان میں امتیاز نہ کیا جاسکتا.یہی وجہ ہے کہ عربی زبان میں جو ابتدائی نام الہامی طور پر اشیا کے رکھے گئے ہیں وہ اُن اشیا کی حقیقت پر دلالت کرتے ہیں.پس عَلَّمَ آدَمَ الا سَمَاءَ کے ایک یہ بھی معنے ہیں کہ حضرت آدم پر حقیقت اشیاء ظاہر کی گئی.اس کا یہ مطلب نہیں کہ سارا فلسفہ، ساری سائنس اور ہر ایک چیز کے متعلق پورا پورا علم انہیں سکھایا گیا بلکہ جس قدر اس زمانہ میں کام چلانے کے لئے ضرورت تھی اس قدر اشیاء کے متعلق انہیں علم سکھایا گیا اور اس سے ظاہر ہو گیا کہ تمام علوم کی ابتداء الہام کے ذریعہ ہوئی ہے اور پہلی چیز جس کی بنیاد انسان کی پیدائش کے بعد رکھی گئی وہ علم ہے.اور جس طرح خدا تعالیٰ نے ساری چیزیں ابتداء میں خود بنائی ہیں اور پھر اُن کی ترقی انسان کے سپرد کی ہے اسی طرح علم کی بنیاد خدا تعالی نے خود رکھی اور اس کی ترقی انسان کے سپرد کر دی جیسے پہلا آدم خدا تعالیٰ نے خود بنایا آگے ترقی انسانوں کے سپرد کر دی.پہلے آگ اللہ تعالیٰ نے خود قائم کی اور انہیں آگے ترقی انسان نے دی.یہی حال علم کا ہے.پہلے علم خدا تعالیٰ نے دیا آگے اس میں ترقی انسان کرتے گئے ، اسے بڑھاتے گئے اور ہم برابر ابتداء سے اب تک دیکھتے چلے آتے ہیں کہ انسان علم میں ترقی کرتا جا رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ اس قسم کے بھی موجود ہوتے ہیں جو علوم کی قدر نہیں کرتے اور ایسے وجود بھی ابتداء سے ہی چلے آئے ہیں.ایسے وجودوں کا نام ابلیس رکھا گیا ہے.یعنی نا امیدی میں جتلا رہنے والا.در حقیقت امید ہی تمام علوم کو بڑھانے اور ترقی دینے والی ہوتی ہے اور جتنی زیادہ امید ہوتی ہے اتنی ہی زیادہ علوم میں ترقی کی جاسکتی ہے.امید کا لفظ ہمیں دو باتیں چلاتا ہے.ایک تو یہ کہ انسان کے لئے ترقیات کے رستے کھلے ہیں اور دوسری یہ کہ ہم ان ترقیوں کو حاصل کر سکتے ہیں.پس جب ہم امید کا لفظ بولتے ہیں تو ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ترقی کا رستہ کھلا ہے اور ہمیں بہت کچھ ملنا باقی ہے.پھر یہ لفظ اس امر پر بھی دلالت کرتا ہے کہ جو

Page 148

141 باقی ہے وہ ہمیں مل بھی سکتا ہے.اور نا امیدی کے معنے ہیں.ہے تو سہی دُنیا میں بہت کچھ مگر ہمیں مل نہیں سکتا.پس علم سیکھنا اور علم میں ترقی کرنا امید کے ساتھ وابستہ ہے.اگر کسی کو امید ہوگی تو وہ علم سیکھے گا اور اگر نہیں ہوگی تو نہیں سیکھے گا.ابلیس کے معنے یہی ہیں کہ اسنے علم حاصل نہ کیا.اس نے سمجھا کہ جو کچھ پل سکتا تھا وہ مجھے مل گیا اور جو مجھے نہیں ملا وہ کسی کو نہیں مل سکتا جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی امید منقطع ہوگئی.خدا تعالیٰ اس کے متعلق فرماتا ہے أَبَىٰ وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَفِرِينَ.اس نے کہا کہ میں اس مصیبت میں نہیں پڑنا چاہتا کہ علم سیکھوں.استکبار کے معنے کسی چیز کو بڑا سمجھنے کے بھی ہیں.اسنے اس کو بڑا سمجھا کہ یہ کہاں ممکن ہے یہ باتیں سیکھی جاسکیں.چونکہ یہ سب ڈھکو نسلے ہیں اس لئے مجھے ضرورت نہیں کہ آدم کا شاگرد بنوں.اس انکار علم کی وجہ سے وہ محروم ہو گیا اور محروم ہونے کا یہ نتیجہ ہوا کہ ذلیل ہو گیا اور آدم جس نے علم حاصل کیا تھا اس کی نسل غالب آگئی.اب بھی ہم دیکھتے ہیں دنیا میں عَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ کا سلسلہ جاری ہے.ایک قوم علوم کے حصول میں کوشش کرتی ہے اور نت نئی باتیں نکالتی رہتی ہے اور ایک دوسری کہتی ہے یہ کہاں ممکن ہے کہ کوئی نیا علم نکلے.اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ علم میں ترقی کرنے والی قومیں غالب آرہی ہیں اور دوسری ذلیل ہورہی ہیں.جب یورپ والے توپ اور بندوق کی ایجاد کر رہے تھے تو ایشیا والے کہتے تھے یہ کہاں ممکن ہے کہ کوئی ایسی چیز بھی بن سکے جو دور سے دشمن کو مارلے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ والے ترقی کر گئے.پس یہ مجھتا کہ فلاں بات حاصل نہیں ہو سکتی انسان کو ابلیس بنا دیتا ہے اور پھر ایسے انسان سے دُنیا میں وہی سلوک ہوتا ہے جو آدم کے مقابلہ میں ابلیس سے ہوا.جس طرح ابلیس کو نکال دیا گیا اُسی طرح ایسے انسانوں کو بھی دُنیا سے نکال دیا جاتا ہے اور دُنیا سے نکال دینے کا یہ مطلب ہے کہ ایسی قوم منادی جاتی ہے یا ذلیل اور خوار کر دی جاتی ہے.اب چونکہ یورپ والے آدم کا کام کر رہے ہیں نئے نئے علوم دریافت کرتے اور تمام علوم کو ترقی دے رہے ہیں اس لئے وہ ترقی کر رہے ہیں اور وہ لوگ جو علوم کی طرف توجہ نہیں کرتے اور نئے علوم نہیں نکالتے وہ مٹ رہے ہیں.امریکہ کے اصلی باشندوں کو دیکھو ان کی کیا حالت ہے.اسی طرح آسٹریلیا میں پرانی نسل کے کروڑوں انسان تھے مگر آب شاید چند ہزار رہ گئے ہوں گے.عقلی طور پر ہندوستانیوں کا بھی یہی حال ہے گو وہ ہندوستان سے نکالے نہیں گئے مگر ان پر بھی حکومت انہی لوگوں کی ہے.

Page 149

142 جنہوں نے علوم کو ترقی دی.ان قوموں کا یہ حال کیوں ہوا؟ اسی لئے کہ اُنہوں نے علم سے استکبار کیا.مختلف زمانوں میں ابلیس مختلف رنگ اختیار کرتا ہے.اس زمانہ میں اُس نے یہ رنگ اختیار کیا کہ ایجادیں نہیں ہو سکتیں اور یہ ناممکن بات ہے.چنانچہ جب پہلے پہل ریل گاڑی ہندوستان میں چلی تو ہندوستان کے لوگ اس بات سے انکار کرتے ہوئے کہ آگ اور پانی میں اس قسم کی طاقت ہو سکتی ہے اُسے دیوتا سمجھنے لگے اور گاڑی کھڑی ہوتی تو انجن پر پھول چڑھاتے کہ یہ بھی ایک دہوتا ہے.یہ اُن کی اس مایوی کا نتیجہ تھا کہ بھلا انسان اس قسم کی ایجاد کہاں کر سکتا ہے.پس جب ابتداء سے انسان کی عظمت اور ترقی آدم سے مشابہ ہونے یعنی علم حاصل کرنے پر ہے اور علم سے مایوس ہونا ابلیس بننا ہے تو سمجھ لو انسان کے لئے کس قد ر ضروری ہے کہ علم حاصل کرے.دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کے معنے علم اور کفر کے معنے جہالت ہیں.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے کئی جگہ جہالت کا لفظ کفر کے معنوں میں استعمال فرمایا ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں مَنْ لَّمْ يَعرِفْ اِمَامَ زَمَانِهِ فَقَدْ مَاتَ مِيْتَةً جَاهِلِيَّةٌ کہ جو اپنے زمانہ کے امام کو نہیں پہچانتا وہ کفر کی موت مرتا ہے.پس ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ خود علم سیکھے اور علم پھیلانے کی کوشش کرے.اور جس طرح مسلمان کے لفظ سے مرد مخاطب ہیں اسی طرح عورتیں بھی ہیں مگر چونکہ خدا تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ نبیوں کو اسی قوم میں مبعوث کرتا ہے جو سب سے زیادہ گری ہوتی ہے تا کہ یہ بتائے کہ کس طرح اس نے گرے ہوئے لوگوں کو بڑھایا اس لئے اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہندوستان میں بھیجا جو تمدنی ، سیاسی اور علمی حالت میں گرا ہوا ہے تا کہ ہندوستان سے ایک ایسی جماعت پیدا کرے جو ساری دنیا کی استاد ہو.مگر قوموں کی حالت ایک دن میں نہیں بدلا کرتی چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلو انا اسلام نے اپنی پہلی جماعت جاہلوں میں سے ہی لی تھی اس لئے ضروری ہے کہ کچھ عرصہ تک اس جماعت کے لوگ بھی جاہل ہی نظر آتے.اس وجہ کے ماتحت ہماری جماعت میں بھی یہ نقص ہے کہ مرد بھی تعلیم میں کم ہیں اور عورتیں بھی اور اس نقص کا دُور کرنا نہایت ضروری ہے مگر ہر کام کے لئے وقت مقرر ہوتا ہے.پہلے مردوں میں سے اس نقائص کو دور کرنے کی ضرورت تھی پھر عورتوں میں سے.گو اس وقت تک مردوں کی طرف بھی ایسی توجہ نہیں کی گئی جو خوشکن ہو مگر ان کے متعلق امید ہے کہ انہیں ایسے رستہ پر ڈال دیا گیا ہے جس پر چل کر ان کی ترقی ہو سکتی ہے اب عورتوں کی طرف توجہ

Page 150

143 کرنے کی ضرورت ہے.اسی غرض کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ سکول جاری کیا گیا ہے جس کا افتتاح اس وقت کیا جا رہا ہے.ابتدائی حالت کی وجہ سے اس کی طرف توجہ کم ہوگی مگر ابتداء میں ہر کام کے متعلق ایسا ہی ہوتا ہے.مجھے یاد ہے ہمارا دو ہائی سکول جس کی اب ایسی عظیم الشان عمارت کھڑی ہے کہ معائنہ کرنے والے انسپکٹر کہتے ہیں پنجاب بلکہ ہندوستان میں کسی سکول کی عمارت ایسی نہیں.اس کا جب پہلے دن افتتاح ہوا تو مرزا نظام الدین صاحب کے کنوئیں کے پاس ٹاٹ بچھا کر لڑکوں کو بٹھایا گیا تھا.پھر کچھ دن تک لڑکے مہمان خانہ میں اٹھائے گئے.پھر ایک کچا مکان بنایا گیا.اس کے مقابلہ میں آج عورتوں کے سکول کی ابتداء بہت اعلیٰ ہے.یہ چوں پر جن کے سامنے میزیں میں بیٹھی ہیں وہ ناٹ پر بیٹھے تھے.یا اپنے مکان میں بیٹھی ہیں وہ کسی کی جگہ پر بٹھائے گئے تھے.پس گو اس سکول کی یہ بنیاد ہے مگر ہائی سکول کی بنیاد سے بہت اعلیٰ ہے.آج یہ بنیا دا دئی معلوم ہوتی ہے لیکن اگر عور تیں شوق سے کام کریں تو جیسا کہ خدا تعالی کی سنت ہے کہ وہ کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا اور یہ صفت رحیمیت اس بات کو ظاہر کرتی ہے.یہ سکول بھی اسی طرح ترقی کرے گا جس طرح ہمارے ہائی سکول نے کی ہے اور ایک وقت آئے گا جب اس درجہ پر پہنچ جائے گا کہ سارے ہندوستان میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں بے نظیر ہوگا.چونکہ قادیان اُم القریٰ ہے اس لئے جس طرح یہاں کے لوگ دین میں نمونہ ہوں گے اسی طرح یہ سکول علم میں دنیا کے لئے نمونہ ہوگا.پس اس کی ابتدائی حالت سے گھبرانا نہیں چاہئے.اپنے وقت پر اس میں ترقی آئینگی اور اس قدر ترقی آئے گی کہ اب اس کا انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک فضل ہوگا.اور خدا تعالیٰ کے فضل کا اندازہ اس کے آنے سے ایک منٹ بھی پہلے کوئی نہیں کرسکتا.اس امید کے ساتھ اور اس درخواست کے ساتھ کہ عورتیں ہمت اور استقلال کے ساتھ کام کریں میں اس سکول کا افتتاح کرتا ہوں.اس کی طرف مردوں کی توجہ کو کھینچنا بھی انہیں کا کام ہوگا اور وہ اگر کوشش کریں گی تو ضرور کھینچ سکیں گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے ماں کی چھاتیوں میں دودھ اسی وقت اترتا ہے جب بچہ روتا ہے.یہ بیچی ہے کہ مردوں کے پاس اسباب اور اختیار ہوتے ہیں اور عورتیں بطور طعنہ کہا بھی کرتی ہیں کہ جب مرد کچھ نہ کریں تو ہم کیا کر سکتی ہیں.مگر انہیں یا درکھنا چاہیئے کہ ماں جس قدر اپنے بچہ سے محبت رکھتی ہے اور خدا تعالی جس قدر اپنے بندہ پر مہربان ہے مرد اس سے

Page 151

144 زیادہ عورتوں پر مہربان نہیں ہو سکتے اور جبکہ ماں بھی بچہ کو رونے پر دودھ دیتی ہے اور خدا بھی بندہ کو بہت سے انعام مانگنے پر دیتا ہے تو مردان سے بڑھ کر مہربان کس طرح ہو سکتے ہیں کہ خود بخو دعورتوں کو امداد دیں.اس وجہ سے عورتوں ہی کی توجہ اور کوشش مردوں کی توجہ کو اس طرف کھینچے گی تا وہ وقت آجائے کہ عورتیں اس کام میں مردوں کی محتاج نہ رہیں.ایک دوسرے کا تعاون تو جاری رہے گا مگر مقدار کا لحاظ کیا جائے گا.اگر سارا کام مرد کریں اور عورتیں کچھ نہ کریں تو عورتوں کے لئے شرم کی بات ہوگی اور اگر سارا کام عور نہیں کریں اور مرد کچھ نہ کریں تو یہ مردوں کے لئے قابل شرم ہو گا اس لئے ایسا وقت نہیں آنا چاہیئے مگر یہ ضرور ہونا چاہئے کہ عورتیں اپنا بوجھ آپ اُٹھا سکیں.چونکہ اس وقت وہ لوگ بھی بیٹھے ہیں جو سلسلہ کے نظم و نسق سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے اُن کو میں اس اہم پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ابلیسیت نہیں نکل سکتی جب تک علم کی طرف خاص توجہ نہ کی جائے اور وہ اُسی وقت نکلے گی جب ہم عورتوں کی تعلیم کی طرف پوری پوری توجہ کریں گے.مجھے افسوس کے ساتھ لڑکیوں کے پرائمری سکول کے متعلق یہ معلوم ہوا کہ اس میں ایک سو ساٹھ لڑکیاں پڑھتی ہیں مگر وہ اس مکان میں کس طرح بیٹھ سکتی ہیں جس میں اُن کا سکول ہے سوائے اس کے کہ بلیک ہول کی طرح اس میں بند ہوں.میں صیغوں کے افسروں کو توجہ دلاتا ہوں کہ عورتوں کی تعلیم کی طرف زیادہ خیال رکھیں اور عورتوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ پورے استقلال سے کام کریں تا کہ نا امیدی اور مایوسی کا جواثر پڑتا ہے وہ دُور ہوکر خدا تعالیٰ کا رحم اور فضل افق سے ظاہر ہو.اخیر میں میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہم پر ایسی برکتیں نازل کرے جو دین ودنیا اور عاقبت کے لئے مفید ہوں اور ایسے نتائج ظاہر نہ ہوں جو مضر ہوں بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا کا باعث ہوں.الفضل ۲۱ مارچ ۱۹۲۵ء جلد ۱۲ نمبر ۱۰۴) کیا لڑ کی اپنا ہر والدین کو دے سکتی ہے؟ عورتوں سے مہر معاف کرانے سے پہلے اُن کو مہر دیا جانا ضروری ہے ۲۴.جولائی ۱۹۲۵ء کو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مہر کے متعلق ایک اہم خطبہ ارشاد فرمایا تھا چونکہ عورتیں بالعموم مہر سے تعلق رکھنے والے مسائل سے ناواقف ہوتی ہیں اس لئے واقفیت عامہ کے

Page 152

لئے وہ خطبہ درج ذیل کیا جاتا ہے:.145 تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.ابھی مجھے ایک دوست نے ایک رقعہ دیا ہے جس میں یہ سوال کیا گیا ہے کہ ایک عورت جو عاقل اور بالغ ہے وہ اگر یہ چاہتی ہے کہ اُس کے نکاح کے وقت اُس کا مہر دے دیا جائے تا کہ وہ اسے اپنے والدین کو دیدے جو قابل امداد ہیں تو آیا یہ جائز ہے یا نہیں؟ چونکہ ہمارے ملک میں لڑکیوں کے متعلق والدین کا فائدہ اُٹھانا ایسا عام ہو رہا ہے کہ پنجاب میں پچاس فی صدی کے قریب لوگ یہ کام کرتے ہیں اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ میں اس مسئلہ کے متعلق جو میری رائے ہے اور قرآن اور حدیث سے جو کچھ پتہ چلتا ہے وہ اس خطبہ میں بیان کروں.والدین کی امدادلر کی کی طرف سے یہ ایک موٹی بات ہے اور اسے ہر شخص آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے جس میں نہ کسی کو انکار ہے اور نہ اختلاف ہے کہ اگر صدقہ اور خیرات ایک اشد ترین مخالف کو جس کے ساتھ کوئی رشتہ نہ ہو، کوئی خونی تعلق نہ کوئی رھی تعلق نہ ہو دیا جا سکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں ہو سکتی کہ عورت والدین کے ساتھ حسن سلوک نہ کرے اور اس روپے کو اشد ترین ضرورتوں کے وقت اُن کو نہ دے اس لئے یہاں یہ سوال نہیں پیدا ہوتا کہ کوئی عورت اپنے ماں باپ کی مدد کر سکتی ہے یا نہیں کیونکہ اس بات میں کسی مذہب والا بھی اختلاف نہیں رکھے گا کہ جس طرح ایک مرد پر ماں باپ کی خدمت فرض ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ جہاں تک اس سے ہو سکے اُن کے ساتھ حسن سلوک کرے، یہ بات نہیں کہ ماں باپ لڑکوں کو تو پالتے ہیں مگر لڑکیوں کو نہیں پالتے.اور نہ یہ ہے کہ لڑکے تو پیدا ہوتے ہیں اور لڑکیاں آسمان سے گرتی ہیں بلکہ دونوں کو ایک ہی طرح پالتے ہیں اور دونوں پیدا ہی ہوتے ہیں اور دونوں کے لئے انہیں ایک ہی طرح کی تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں اس لئے جس طرح لڑکوں کے لئے فرض ہے کہ ماں باپ سے حسن سلوک کریں اسی طرح لڑکیوں پر بھی فرض ہے کہ وہ اُنکی مدد کریں.پس یہاں یہ سوال پیدا نہیں ہو سکتا کہ آیا لڑکیوں کے لئے ماں باپ کی امداد کرنا جائز ہے یا نہیں؟

Page 153

146 سوال کے مختلف پہلو کسی سوال کے مختلف پہلو ہوتے ہیں اور جب تک ان سب پہلوؤں پر غور نہ کیا جائے تب تک سوال اچھی طرح حل نہیں ہو سکتا.ہم نماز کے متعلق ، روزہ کے متعلق ، حج کے متعلق ، زکوۃ کے متعلق بلا استثناء کوئی حکم نہیں دے سکتے.شریعت میں استنشی رکھے گئے ہیں اور ہمیں اُن کا لحاظ رکھنا پڑے گا.پس اگر اس جگہ یہ سوال ہوتا کہ لڑکی اپنے ماں باپ کی مدد کر سکتی ہے یا نہیں تو جواب یہ ہوتا ہے کہ ضروری ہے کہ وہ کرے اور جہاں تک اُس سے ہو سکتا ہے اُن کے ساتھ حسن سلوک اور مروت کرنے سے دریغ نہ کرے لیکن اس سوال کے بعض اور پہلو بھی ہیں اور اُن کا مد نظر رکھنا ضروری ہے.مثلاً پہلی بات جسے مد نظر رکھنا ضروری ہے یہ ہے که انسان مال کو وقتی طور پر قربان کر سکتا ہے، جان کو وقتی طور پر قربان کر سکتا ہے، وقت کو وقتی طور پر قربان کر سکتا ہے، آرام کو وقتی طور قربان کر سکتا ہے، مگر ان میں سے کسی قربانی کو مسلسل جاری نہیں رکھ سکتا.ایک انسان یہ تو کر سکتا ہے کہ ایک وقت کے لئے کسی تکلیف کو برداشت کرلے لیکن یہ نہیں کر سکتا کہ کسی ایک چیز کو بھی ہمیشہ ہمیش کے لئے برداشت کرتا رہے.صلى الله حضرت ابو بکر کا اخلاص حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ایثار کا اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ ایک دفعہ جب رسول کریم ﷺ نے چندہ کی تحریک فرمائی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے دل میں کہا آج ابو بکر (رضی اللہ عنہ ) سے بڑھنے کا میرے لئے موقعہ ہے.یہ خیال کر کے آپ نے اپنا نصف مال لا کر رسول کریم ﷺ کے آگے رکھ دیا.جب رسول کریم ﷺ نے پوچھا کہ کتنا مال لائے ہو ؟ تو انہوں نے کہا حضور نصف لے آیا ہوں اور نصف گھر والوں کے لئے چھوڑ آیا ہوں.پھر آپ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا.انہوں نے کہا میں سب کچھ لے آیا ہوں اور گھر میں خدا اور رسول کا نام چھوڑ آیا ہوں.یہ سنکر حضرت عمر نے سمجھا آج بھی میں حضرت ابو بکر کا مقابلہ نہیں کر سکا.میرے دل میں شرمندگی پیدا ہوئی کہ میں نیت کر کے بھی نہ بڑھ سکا اور یہ بے نیت ہی بڑھ گئے.

Page 154

147 ہر روز قربانی کرنا ناممکن ہے الله سی ایک وقتی قربانی تھی جو پورے اخلاص کے ساتھ کی گئی لیکن اگر یہ ہمیشہ ہمیش کے لئے ہوتی یعنی جو کچھ بھی انہیں میسر آتا وہ سارے کا سارا ہر روز رسول کریم ﷺ کے حضور لا کر رکھ دیتے.تو یہ ابو بکر جیسے انسان کے لئے بھی ناممکن اور نا قابل برداشت ہوتا اور وہ اپنے نفس کے حقوق، اپنے بیوی بچوں کے حقوق، ہمسائیوں کے حقوق قرابتیوں کے حقوق ادا نہ کر سکتے جن کا ادا کرنا بھی انسان پر فرض ہے.پس ہمیشہ ہمیش کے لئے ایسا نہیں ہوسکتا البتہ وقفہ وقفہ کے بعد ہو سکتا ہے اور ہمیشہ کے لیئے ایسا کرنا شرعاً بھی ناجائز تھا کیونکہ مال پر اُن کی اپنی زندگی کا بھی مدار تھا، اُن کے بیوی بچوں کی زندگی کا بھی مدار تھا انہوں نے کھانا کھانا تھا، کپڑے پہنے تھے، مکان کا انتظام کرنا تھا، رہائش کا بندو بست کرتا تھا اور دوسری ضروریات پوری کرنی تھیں.پس اگر وہ ہمیشہ کے لئے ہی اس طریق کو اختیار کر لیتے کہ ہر روز سب کچھ رسول کریم ﷺ کو لا کر دے دیتے تو یہ نبھ نہ سکتا اور اُن کے لئے ایسی مشکلات پیدا ہو جاتیں جو نا قابل برداشت ہوتیں.اسی طرح ایک انسان یہ تو برداشت کرلے گا کہ مال تو مال جان تک بھی ایک دوست کی خاطر دیدے.مثلاً اگر وہ یہ دیکھے کہ اس کا دوست ڈوب رہا ہے تو اس کو بچانے کے لئے خواہ وہ تیرنا بھی نہ جانتا ہو گو د پڑے گا اور یہ بھی وہ خیال نہیں کرے گا کہ مجھے تیر نا نہیں آتا کیونکہ ایک دوست کی خاطر جان دید بیناوہ گوارہ کرے گالیکن یہ نہیں گوارہ کر سکے گا کہ سسک سسک کر جان دے اور متواتر صدمات سہنے کے لئے اپنی جان پیش کر دے.پس یہ تو برداشت ہو سکتا ہے کہ اپنی زندگی کو ایسی تکلیف میں ڈال دے جو وقتی ہو لیکن ہمیشہ کے لئے کوئی تلخی میں پڑنا گوارہ نہیں کر سکتا.ایک دوست ایک دوست کی خاطر ایک گھنٹہ میں تو جان دے دے گا لیکن ساری عمر کے لئے اپنی زندگی اس کی خاطر ایسی بنالے کہ ہر وقت اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈالے رکھے یہ ناممکن ہے.مثلاً ایک شخص کو کسی سے محبت ہو اور وہ اُس سے جان طلب کرے تو وہ دے دیگا لیکن اگر وہ یہ کرے کہ ایک نشتر کے ساتھ اُس کے جسم کو چھیلنا شروع کر دے یا اُس کے بدن سے تھوڑاتھوڑا گوشت کاٹنا شروع کر دے تو اس کے لئے اپنے آپ کو تیار نہیں پائے گا.اسی طرح ایک شخص اپنے کسی دوست یا عزیز کے واسطے کو ٹھے سے گر کر جان دے دینا گوارہ کر سکتا ہے ، آگ میں جل کر جان دینے کے لئے تیار ہو جائے گا لیکن سوئیوں سے چھیدا جا کر جان دینا اس کی برداشت سے باہر ہوگا اور اس کے لئے اپنے آپ کو وہ ہرگز تیار

Page 155

148 نہ پائے گا کیونکہ وقتی طور پر جان دینا ممکن ہے لیکن زندہ رہتے ہوئے ہمیشہ کے لئے تکلیف میں پڑے رہنا بہت عمل ہے بلکہ بعض حالتوں میں ناممکن العمل بات ہے.مہر کیا ہے؟ آب دیکھو ہر کیا چیز ہے؟ مہر عورت کی آئندہ زندگی کے ایسے اخراجات کے پورا کرنے لئے ہے کہ جن میں بعض کا ذکر وہ اپنے خاوند سے بھی نہیں کر سکتی یا جن اخراجات کی اُسے آئندہ زندگی میں ضرورت پیش آتی ہے اور شادی کے وقت وہ انکو جانتی بھی نہیں.پھر عورتوں کی بعض ایسی ضرورتیں ہوتی ہیں کہ وہ خاوندوں کو کہہ تو سکتی ہیں لیکن بعض حالات کے ماتحت خاندان کو پورا نہیں کر سکتے اس لئے ان کے پاس اپ کچھ مال ہوتا چاہیئے.مثلاً ایک عورت اگر اس کے پاس مال ہو تو وہ اپنے غریب رشتہ داروں یا غریب والدین کی مدد کر سکتی ہے.غریب اقرباء کو مدد دے سکتی ہے.مگر یہ اُس کی غیرت کے خلاف ہے کہ خاوند سے کہے کہ میرے ماں باپ قابل اعداد میں اُن کی مدد کرو، یا میرے رشتہ داروں کو کچھ دو، اس بارے میں عورت بڑی غیرت رکھتی ہے اور وہ فطرتا اس بات کو پسند نہیں کرتی کہ اپنے والدین کو خاوند کے سامنے حاجتمند قرار دے.غرض کئی صورتیں ہیں جن کے لئے عورت کا اپنا مال بھی ہونا چاہیئے اسی لئے شریعت نے مہر رکھا ہے تا کہ اگر ضرورت پڑے تو اس سے وہ اپنے ان کاموں میں خرچ کر سکے جن کے لئے وہ اپنے خاوند سے نہیں کہہ سکتی اور ان قابل امدا درشتہ داروں کی مدد کر سکے جن کے لئے وہ اپنے خاوند سے کہنا مناسب نہیں خیال کرتی.پس مہر وہ مال ہے جو عورت کی ساری عمر میں کام آنے کے لئے ہے.نیت پر اثر دوسری بات جس کا مد نظر رکھنا بہت ضروری ہے.نیت ہے.اگر یہ بات رائج ہو جائے کہ لڑکی کا مبر والدین لے لیا کریں تو اس بات کا بہت بڑا خطرہ ہے کہ بہت سے والدین کی نیت اُس شادی میں صاف اور بے لوث نہیں رہے گی.ماں باپ عورت کے لئے آخری اپیل کی جگہ ہوتے ہیں.جب اُسے تکلیف پہنچتی ہے وہ جھٹ ماں باپ سے اس کا ذکر کرتی ہے اور اُسے خیال ہوتا ہے کہ اگر اور کسی جگہ میری بات نہ سنی گئی تو اس جگہ ضرور سنی جائے گی اس لئے ضروری ہے کہ لڑکی کے معاملات میں ماں باپ کی کوئی نفسانی غرض شامل

Page 156

149 نہ ہوتا اُن کی ہمدردی اس سے متاثر نہ ہو اور مصیبت کے وقت لڑکی کے لئے وہ جائے پناہ بن سکیں.نکاح کے وقت ماں باپ کے مہر لینے سے نقصان اس لئے ضروری ہے کہ ماں باپ کی نیت نکاح کے وقت بالکل پاک وصاف ہو لیکن اگر یہ بات جائز رکھ دی جائے کہ وہ مہر کی رقم لے لیا کریں یا اپنے لئے کچھ رکھ لیں تو قطع نظر اس سے کہ اخلاق کیا کہتا ہے قطع نظر اس سے کہ شریعت کا کیا حکم ہے، قطع نظر اس سے کہ تمدن پر اس کا کیا اثر پڑتا ہے اس کا ایک خطر ناک نتیجہ یہ ہوگا کہ اُن کے مد نظر لڑکی کو کسی مناسب جگہ بیاہنا نہیں ہوگا بلکہ یہ ہوگا کہ کہاں سے انہیں زیادہ رقم مل سکتی ہے.یعنی اگر اُن کے لئے یہ اجازت ہو کہ وہ مہر کا روپیہ لے سکیں تو وہ حتی الوسع یہ کوشش کریں گے کہ کسی ایسی جگہ لڑکی بیا ہیں جہاں سے انہیں زیادہ روپیہ ملنے کی امید ہو اور یہ نہیں دیکھیں گے کہ لڑکی کے لئے وہ جگہ موزوں بھی ہے یا نہیں.وہ طبع کے نیچے آکر کسی مناسب جگہ کے بدلے غیر مناسب جگہ بیاہ دینے کی کوشش کریں گے مثلا کسی ایسے امیر سے بیاو دیں گے جو بعض وجوہ کی بنا پرلڑکی کو اچھی طرح نہ رکھے جہاں اس کیلئے بجائے سکھ کے دُکھ اور بجائے راحت کے تکلیف ہو اور وہ ساری عمر مصیبت میں پڑی رہے.ماں باپ کی خاطر لڑ کی ایک وقت تو کنویں میں بھی گو د سکتی ہے لیکن ہمیشہ کی مصیبت اس کے لئے نا قابل برداشت ہوتی ہے اور جولڑ کی والدین کی نفسانی اغراض کا شکار ہو کر کسی ایسی جگہ بیاہی جائے جو اس کے مناسب حال نہ ہو وہ ہمیشہ کے لئے تکلیف میں رہے گی.نا مناسبت کی وجہ سے جب اس کے محبت کے تقاضے ، جذبات کے تقاضے، احساسات کے تقاضے ، ضروریات کے تقاضے ، آرام و آسائش کے تقاضے پورے نہ ہوں گے تو وہ اپنی زندگی کوموت سے بدتر خیال کرے گی.اس وجہ سے کوئی لڑکی اس قسم کی تکلیفوں کو تمام عمر برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتی.حالانکہ اگر ایک وقت اُسے ماں باپ کے لئے جان بھی دینی پڑے تو وہ دیدے گی.نفسانی غرض کے ماتحت شادیوں کا نتیجہ لڑکی فطرنا خواہشمند ہوتی ہے کہ نکاح کے بعد خاوند کے ہاں جا کر آرام و آسائش کی زندگی بسر کرے، خوشی اور مسرت سے دن کاٹے لیکن جب لڑکیوں کی شادیاں بعض اغراض کے ماتحت نا مناسب جگہ کر دی جاتی ہیں وہ ہمیشہ کڑھتی اور غم وغصہ کا اظہار کرتی رہتی ہیں جس سے صاف طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ اس

Page 157

150 شادی سے مطمئن نہیں اور انہیں اس سے بجائے آسائش کے رنج پہنچ رہا ہے میرے پاس چونکہ اس قسم کی شکائتیں آتی رہتی ہیں اس لئے مجھے اس بارے میں کافی علم ہے.انہیں جب سمجھایا جائے ، گزارہ کرنے کی نصیحت کی جائے تو کہتی ہیں ہم کیا کریں اس مصیبت کی زندگی کی وجہ سے ہمارے اندر سے غم وغصہ کی آگ نکل رہی ہے.ہمارے ماں باپ اندھے تھے کہ انہوں نے ہمیں ایسی جگہ دھکیل دیا جہاں ہمارے لئے سوائے رنج اور مصیبت کے اور کچھ نہیں.لڑکیوں کی ماں باپ سے محبت اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان لڑکیوں کو ماں باپ سے محبت نہیں ہوتی یا دو ماں باپ کی خدمت اور ان سے سلوک نہیں کرنا چاہتیں بلکہ وہ اپنے آپ کو ہمیشہ کی مصیبت میں سمجھ کر اور اُسے نا قابل برداشت پا کر اس طرح کہتی ہیں ورنہ وہی ماں باپ جن کے متعلق ایک لڑکی یہ کہہ رہی ہوتی ہے اگر دریا میں بہہ رہے ہوں تو وہ لڑکی اُن کو بچانے کے لئے بلا تامل پانی میں کود پڑے گی اور یہ نہ دیکھے گی کہ وہ انہیں بچا بھی سکتی ہے یا نہیں.اس جوش محبت میں جو اُسے والدین سے ہوگا اُسے یہ بھی محسوس نہ ہو گا کہ خود اس کی اپنی جان بھی تو اس کوشش میں خطرہ میں پڑ جائے گی.لڑکیوں کا نیلام پس اگر اس بات کی اجازت دی جائے کہ ماں باپ مہر کا روپیہ لے لیں تو ہزار ہا ایسی لڑکیاں ہوں گی جو ایسی نامناسب جگہ بیاہی جائیں گی جہاں سے اُن کے والدین کوتو رو پسیل جائے گا لیکن وہ ڈکھ کی زندگی بسر کریں گی.اب بھی بہت سی ایسی مثالیں مل سکتی ہیں جو اس قسم کی اندھادھند شادیوں کے متعلق ہیں اور جولڑکی کو بیاہنے کے لئے نہیں بلکہ بیچنے کے مترادف ہیں.بہت لوگ رو پے کالالچ کرتے ہیں اور جہاں سے اُن کو زیادہ روپیہ ملتا ہے وہاں وہ بغیر دیکھے بھالے لڑکی کا بیاہ کر دیتے ہیں.میں نے اپنی آنکھوں سے ایسے ماں باپ دیکھے ہیں جو اپنی لڑکیوں کو نیلام کرتے ہیں اور کہتے ہیں جو سب سے زیادہ رو پیدے وہی لے جائے.ایسے ماں باپ صرف روپیہ کو دیکھتے ہیں جس سے زیادہ روپیہ ملے اس کے ساتھ اپنی لڑکی کو بیاہ دیتے ہیں خواہ اُن میں کسی قسم کا جوڑ اور مناسبت ہو یا نہ ہو اور بعض ماں باپ تو اس قدر ظلم کرتے ہیں کہ عمر کالحاظ بھی نہیں

Page 158

151 کرتے.چنانچہ ہندوؤں میں یہ عام رواج ہے کہ خواہ اسی برس کا بڈھا ہو اس کی شادی پانچ چھ سال کی لڑکی سے کر دیتے ہیں.یہ شادی نہیں بلکہ بردہ فروشی ہے اور بردہ فروشی کی شریعت اجازت نہیں دیتی کیونکہ آزادی ہر انسان کا حق ہے اور یہ حق چھینے کا کسی کو اختیار نہیں.انسانی آزادی فروخت نہیں کی جا سکتی ممکن ہے کوئی کہے اولاد ماں باپ کی چیز ہوتی ہے اس لئے ان کا حق ہے کہ ان سے فائدہ اٹھا ئیں.مگر یہ بھی جائز نہیں اور میرا تو یہ عقیدہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو بھی نہیں بیچ سکتا اور میرے نزدیک یہ نا جائز ہے کہ کوئی شخص اپنے آپ کو بیچ دے بہ جائیکہ کوئی اُس کی آزادی کو پیسے خواہ وہ ماں باپ ہی ہوں انہیں بھی اپنے بچوں کی خریت اور آزادی کے بیچنے کا حق نہیں لیکن ایسے ماں باپ ہیں جو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرتے.ہمارے گھر میں ہی قریب کے ایک گاؤں کی ایک عورت آیا کرتی تھی جو زمیندار تھی وہ خوشی سے سُنایا کرتی تھی کہ ہم نے اتنے روپے پر فلاں لڑکی کو بیاہ دیا اور اتنے روپے پر فلاں کو اور اس طرح قرض اُتار دیا.ان لڑکیوں کو اتنی ڈور ڈور بیاہ دیا کہ پھر وہ آبھی نہ سکیں.ان حالات میں اگر اس بات کی اجازت دے دیں کہ ماں باپ لڑکیوں کا مہر لیا کریں تو یہ ایک بہت بڑا علم اور احکام الہی کی منشاء کے بالکل خلاف ہو گا اور لڑکیوں کو مصیبت اور تکلیف میں ڈالنے کی کھلی اجازت ہوگی.نیک نیتی سے شادی کرنے کا انجام اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض دفعہ نہایت سوچ سمجھ کر ماں باپ لڑکی کی شادی کرتے ہیں مگر پھر بھی وہ شادی لڑکی کے لئے آرام کا باعث نہیں ہوتی لیکن یہ تو صاف ظاہر ہے کہ اس میں اُن کی بدنیتی نہیں ہوتی اور اس صورت میں لڑکی ماں باپ کو کوستی بھی نہیں کیونکہ وہ مجھتی ہے کہ میرے ماں باپ نے تو دیکھ بھال کر میرا بیاہ کیا تھا آگے میری قسمت کہ مجھے اچھا پر نہ ملا اس پر وہ صبر اور شکر کے ساتھ زندگی گزارنے کی کوشش کرتی ہے.مہر عورت کی ضروریات زندگی کے لئے ہے غرض مہر چونکہ عورت کی ساری عمر کے اخراجات کے لئے ہوتا ہے اور ان ضرورتوں کے لئے ہوتا ہے جو

Page 159

152 اُسے آئندہ زندگی میں پیش آتی ہیں اس لئے اُس کا نکاح کے موقعہ پر اسے اس لئے دے دینا کہ وہ اپنے ماں باپ کو دیدے یا کسی اور ایسے مصرف میں لے آئے جو اتنا ضروری نہیں درست نہیں ہوسکتا کیونکہ اُسے اُس وقت اتنا بھی معلوم نہیں ہوتا کہ مال کی کیا حقیقت ہے اور اس کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ بیا ہتا زندگی کی کیا ضرورتیں ہیں.وہ اُس وقت بجھتی ہے کہ خاوند کے گھر جا کر جو چاہوں گی لے لوں گی لیکن اُسے نہیں معلوم کہ جو کچھ وہ اس وقت سمجھ رہی ہے وہ درست نہیں بلکہ اس کے پاس کچھ اپنا مال ہونا بھی ضروری ہے جسے وہ اپنے طور پر خرچ کر سکے.جیسے مثلا ماں باپ کی مدد ہے یا بھائیوں کی مدد ہے یا رشتہ داروں کی مدد ہے.ان باتوں کے ماسوا مہر کا روپیا اس کے اپنے بال بچوں کے بھی کام آسکتا ہے.خاوند کی زندگی میں بھی وہ اسے خرچ کر سکتی ہے لیکن جب خاوند مر جائے تو پھر وہ اس سے اپنا گزارہ کرسکتی ہے اور یہی روپیہ اُس کی اور اُس کے بال بچوں کی پرورش کا باعث ہو سکتا ہے لیکن اِن حالات سے وہ ابتدا میں ناواقف ہوتی ہے اور اگر ایسے وقت میں اُس کے والدین اس کے مہر کا روپیہ لے لیں تو وہ موقعہ پڑنے پر بالکل تہی دست ہوگی اور مشکلات میں پڑ جائے گی.پس یہ جائز نہیں کہ مہر پہلے ہی ماں باپ لے لیں.ہاں عورت انہیں قابل اعداد کجھ کر اس میں سے اُس وقت دے سکتی ہے جب وہ شادی کے بعد اپنی ضرورتوں اور حاجتوں سے واقف ہو جائے.یوں تو عورت اپنے خاوند کو بھی مہر کا رو پی دے سکتی ہے لیکن یہ نہیں کہ خاوند مہر ادا کئے بغیر ہی لینے کا اقرار کرائے.اس طرح عورت بجھتی ہے مہر پہلے کونسا مجھے ملا ہوا ہے صرف زبانی بات ہے اس کا معاف نہ کرتا کچھ فائدہ نہیں دے سکتا اس لئے کہہ دیتی ہے میں نے معاف کیا.ورنہ اگر اُسے دیدیا جائے اور وہ اسکے مصارف جانتی ہو تو پھر معاف کرا لینا اتنا آسان نہ ہو.حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر ائمہ کہار اور بزرگوں کا فیصلہ تو یہ ہے کہ کم از کم سال کے بعد عورت اپنا مہر اپنے خاوند کو دے سکتی ہے.یعنی مہر وصول کرنے کے بعد ایک سال تک وہ اپنے پاس رکھے اور پھر اگر چاہے تو خاوند کو دیدے.مہر ضرور ادا کرنا چاہئے حکیم فضل دین صاحب جو ہمارے سلسلہ میں السابقون الاولون میں سے ہوئے ہیں انھی دو بیویاں تھیں.ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا مہر شرعی حکم ہے اور ضرور عورتوں کو دینا چاہئے.اس پر حکیم صاحب نے کہا میری بیویوں نے مجھے معاف کر دیا ہوا ہے.حضرت صاحب نے فرمایا کیا

Page 160

153 آپ نے اُن کے ہاتھ میں رکھ کر معاف کرایا تھا؟ کہنے لگے نہیں حضور یو نہی کہا تھا اور اُنہوں نے معاف کر دیا.حضرت صاحب نے فرمایا کہ پہلے آپ اُن کی جھولی میں ڈالیں پھر اُن سے معاف کرائیں ( یہ بھی اوئی درجہ ہے ) اصل بات یہی ہے کہ مال عورت کے پاس کم از کم ایک سال رہنا چاہیئے اور پھر اس عرصہ کے بعد اگر وہ معاف کرے تو درست ہے ) ان کی بیویوں کا مہر پانچ پانچ سورو پیر تھا.حکیم صاحب نے کہیں سے قرض لے کر پانچ پانچ سورو پید ان کو دے دیا اور کہنے لگے تمہیں یاد ہے تم نے اپنا مہر مجھے معاف کیا ہوا ہے..سواب مجھے یہ واپس دیدو.اس پر انہوں نے کہا اُس وقت ہمیں کیا معلوم تھا کہ آپ نے دے دینا ہے اس وجہ سے کہ دیا تھا کہ معاف کیا.اب ہم نہیں دیں گی.حکیم صاحب نے آکر یہ واقعہ حضرت صاحب کو سُنایا کہ میں نے اس خیال سے کہ روپیہ مجھے واپس مل جائے گا ایک ہزار روپیہ قرض لے کر مہر دیا تھا مگر روپیہ لے کر انہوں نے معاف کرنے سے انکار کر دیا.حضرت صاحب یہ منکر بہت ہنسے اور فرمانے لگے.است بات یہی ہے پہلے عورت کو مہر ادا کیا جائے اور کچھ عرصہ کے بعد اگر وہ معاف کرنا چاہے تو کر دے ورنہ دئے بغیر معاف کرانے کی صورت میں تو " مفت کرم داشتن والی بات ہوتی ہے.عورت سمجھتی ہے نہ انہوں نے مہر دیا اور نہ دیں گے.چلو یہ کہتے جو ہیں معاف کر دو مفت کا احسان ہی ہے نا.تو جب عورت کو مہر مل جائے پھر اگر وہ خوشی سے دے تو درست ہے ورنہ دس لاکھ روپیہ بھی لاگر اس کا مہر ہو گا اُس کو ملانہیں تو وہ دیدے گی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ میں نے جیب سے نکال کے تو کچھ دینا نہیں صرف زبانی جمع خرچ ہے اس میں کیا حرج ہے.پس عورتوں سے معاف کرانے سے پہلے اُن کو مہر دیا جانا ضروری ہے.اور اگر یہ مہر ایسے وقت میں دیا جاتا ہے جب اُن کو اپنی ضروریات کی خبر نہیں یا جبکہ والدین اُن سے لینا چاہتے ہیں تو یہ نا جائز ہے اور بردہ فروشی جو کسی طرح درست نہیں ہو سکتی.دھوکہ دہی جائز نہیں اگر بردہ فروشی کی صورت نہ بھی ہو تو بھی نا جائز ہے کہ ایسا فعل کیا جائے جس سے عورت کو نقصان پہنچے.ایسا سودا دھوکہ ہے ، ناجائز ہے.ایک بچہ اگر اپنا مکان بیچ دے تو کیا یہ سودا درست ہوگا ؟ یقینا نہیں.کیونکہ اس کو ابھی اپنے نفع ونقصان کا علم نہیں اس لئے اس حالت میں اگر وہ ایسا کام کرے گا تو درست تصور نہیں کیا جائے گا.اس طرح عورت کا مہر اگر اُس کی نا سمجھی کی حالت میں جبکہ اُس کو آئندہ پیش آنے والے اخراجات

Page 161

154 کا علم نہیں لے لیا جائے تو یہ ٹھیک نہیں.عورت کس وقت مہر دے سکتی ہے ہاں اگر عورت کو مبرمل جائے اور اس پر چار پانچ سال ہو گئے ہوں یا کم از کم ایک سال تک اُس کے پاس رو پی رہ چکا ہوتو پھر اگر وہ اسے اپنے خاوند یا ماں باپ کو دیدے تو میں کہوں گا درست ہے اور پسندیدہ.اگر کسی عورت کا مہر ایک ہزار ہو اور اُسے خاوند ایک لاکھ اپنی طرف سے دیدے تو میں کہتا ہوں وہ عورت اگر گھر بار کی ضروریات اور حالات سے وقف ہونے کے بعد ایک لاکھ ایک ہزار روپیہ بھی ماں باپ کو دیدے تو میں کہوں گا اُس نے بہت اچھا کیا لیکن اگر ماں باپ شادی کے وقت ہی لیتے ہیں تو یہ بردہ فروشی ہے جو گناہ ہے لیکن جو عورت شادی کے بعد ماں باپ کی مدد کرے گی اور اپنی ضروریات کو سمجھتے ہوئے مہر کی رقم ہی نہیں بلکہ صلى الله وہ اس سے بھی زیادہ ماں باپ کو دے گی وہ خدا تعالی کی مقبول ہو گی ، رسول کریم نے کی بھی مقبول ہوگی اور وو ماں باپ کی خدمت کا نیک نمونہ پیش کر یگی.پس اسلام کی یہ تعلیم ہے اس کے خلاف کرنے والا تمدن ، تہذیب اور سیاست کو توڑے گا.( از مصباح جون ۱۹۴۱ء ) بچوں کی اخلاقی تربیت کے لئے ماں باپ کو ضروری ہدایات فرمودہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۱۹۳۵ء میں حضرت خلیفہ انبیع الثانی رضی اللہ تعالی عنہ نے بچوں کی بیت کے متعلق ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں نہایت اہم اور ضروی نصائح فرمائیں.بچپن کی تربیت کا زیادہ تر تعلق چونکہ ماؤں سے ہوتا ہے اس لئے احمدی خواتین کی خاطرہ و نصائح درج ذیل کی جاتی ہیں: تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.اخلاق اور اعمال کی درستگی کے لئے صرف ارادہ ہی کر لینا کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ مشق اور محنت کی بھی ضرورت ہوتی ہے.محنت اور مشق کے بغیر محض ارادہ کچھ فائدہ نہیں دے سکتا.لیکن جہاں ارادہ کے ساتھ مشق کا ہونا ضروری ہے اور بغیر محنت مشقت کے محض ارادہ بے فائدہ ہے وہاں پر یہ بات بھی ہے کہ وہ مشق

Page 162

155 اور محنت بھی خاص حالات اور خاص اوقات سے تعلق رکھتی ہے اور بہترین حالات اور واقعات میں سے جو اخلاق اور اعمال کی درستگی کیلئے مناسب اور موزوں ہیں ان میں سے سب سے بڑھ کر بچپن کا زمانہ ہے.بچپن کے زمانہ میں جس آسانی کے ساتھ ایک بچہ کسی کسب کو سیکھ سکتا ہے اور اس کے لئے محنت اور مشقت کی تکلیف برداشت کر سکتا ہے بڑی عمر میں برداشت نہیں کر سکتا.بچے کے احساسات اس قسم کے ہوتے ہیں کہ وہ محنت اور مشقت کو بہت کم محسوس کرتا ہے.وہ اُس خالی پیالے کی طرح ہوتا ہے جس میں ہر ایک چیز ڈالی جاسکتی ہے بچہ ہر ایک کام کے سیکھنے کے لئے تیار ہوتا ہے اس لئے جس امر کی اُس کو مشق کرائی جائے وہ بآسانی کر سکتا ہے.مجھے اپنے بچپن کا زمانہ یاد آتا ہے اور وہ حالات اور واقعات بالکل میری آنکھوں کے سامنے ہیں کہ سخت سے سخت تپش اور شدید گرمی کے وقت میں باہر نکل جاتا اور تپش اور گرمی بالکل محسوس نہ کرتا بلکہ مجھے خوب یاد ہے کہ میں اپنے نفس میں اپنے اوپر یہ بڑا ظلم سمجھا کرتا تھا جب مجھے والدہ صاحبہ یا دوسرے نگران گرمی میں باہر نکلنے اور کھیلنے سے روکتے تھے.میں اس گرمی میں باہر نکل جاتا اور کچھ محسوس نہ کرتا.میں سمجھتا ہوں کہ جو خیالات بچپن میں میرے ذہن میں پیدا ہوتے تھے وہی دوسرے بچوں کے دلوں میں بھی پیدا ہوتے ہوں گے جبکہ انہیں گرمی کے وقت باہر نکلنے سے روکا جاتا ہو گا.وجہ یہ ہے کہ بچپن میں ایسی باتوں کا احساس نہیں ہوتا.تو جس قدر محنت اور مشقت کی تکلیف کو ایک بڑا آدمی محسوس کرتا ہے بچہ اُس کو محسوس نہیں کرتا.خدا تعالیٰ نے اپنی حکمت کے ماتحت اس کے احساسات کو باطل کیا ہوا ہوتا ہے اس لئے اس کو کسی امر کے لئے مشق کرنے میں اتنی دقت محسوس نہیں ہوتی اور جن باتوں کی اُس وقت مشق کرتا ہے اُن کا آئند و زندگی میں بڑا اثر ہوتا ہے لیکن جن کی مشق بچپن میں نہ ہو اُن میں بڑی عمر میں سخت دقت پیش آتی ہے.تین آدمی مجھے ایسے معلوم ہیں جو نماز میں صحیح طور پر تشہد نہیں بیٹھ سکتے.اس کی وجہ یہی ہے کہ بچپن میں ان کو صیح طور پر تشہد بیٹھنے کی مشق نہیں کرائی گئی یا کسی نے اُن کو ٹو کا نہیں نا وہ صحیح طور تشہد بیٹھنے کی عادت ڈالتے یا ٹوکنے والوں سے اُن کا اس طرح بیٹھنا پوشیدہ رہا اور اب بڑی عمر میں وہ صیح طور پر نہیں بیٹھ سکتے.دو نہایت مخلص اور ہماری جماعت میں شامل ہیں اور ایک کا ہماری جماعت سے تعلق نہیں اگر اب وہ چاہیں اور کوشش بھی کریں تو صحیح طور پر تشہد نہیں بیٹھ سکتے.تو بچپن کا زمانہ ایسا ہوتا ہے کہ بچے کے اس وقت کے حالات کے ماتحت اس سے جس قسم کی مشق کرائیں وہ بآسانی کر سکتا ہے.

Page 163

156 لیکن اگر بچپن میں جھوٹ یا چوری وغیرہ کی بد عادات پڑ جائیں تو بڑے ہو کر ان کو کتنے ہی وعظ ونصیحت کئے جائیں، کتنا ہ سمجھایا جائے اور کتنی ہی ملامت کی جائے لیکن وہ ان افعال کو بُراسمجھتے ہوئے بھی ان میں مبتلا ہو جاتے ہیں.میں نے دیکھا ہے ایسے لوگ جھوٹ بولتے ہیں اور پھر روتے ہیں کہ ہم سے یہ غلطی ہوگئی ، چوری کرتے ہیں اور پھر افسوس کرتے ہیں کہ ہم سے ایسا ہوا بلکہ میں نے دیکھا ہے انہوں نے خود ہی اپنی غلطی کو محسوس کر کے چوری کا اقرار کیا اور اس کا ازالہ بھی کر دیا لیکن پھر بھی چوری کی عادت سے باز نہیں رہ سکتے.تو بچپن کی عادات انسان کے ساتھ جاتی اور باقی رہتی ہیں.الا ماشاء اللہ.اس لئے بچپن میں بچوں کو اخلاق فاضلہ کی مشق کرانی چاہئے اس سے آئندہ نسلوں کے اخلاق کی حفاظت ہو جائے گی.یہ بچپن میں تربیت نہ ہونے کا نتیجہ ہے کہ کئی ایسے آدمی ہیں جو بہت مخلص اور نیک ہیں لیکن بے ساختہ اُن کے منہ سے گالیاں نکل جاتی ہیں.بعض مصنف ہیں جو مخلص ہیں لیکن باوجود احتیاط کے اُن کے قلم سے درشت الفاظ نکل جاتے ہیں اور جب سمجھایا جائے تو نہایت سنجیدگی اور متانت سے کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے تو کوئی سخت لفظ نہیں لکھا.یہ بچپن کی عادت کا نتیجہ ہے کہ وہ اس فعل کی مضرتوں سے واقف ہوتے ہوئے بھی اس سے بچ نہیں سکتے.حضرت خلیفہ اول فر مایا کرتے تھے ایک شخص کی نسبت مجھے خبر دی گئی کہ وہ بہت گالیاں دیتا ہے.ایک روز علیحدگی میں میں نے اُسے نصیحت کی کہ میں نے سُنا ہے کہ آپ گالیاں دیتے ہیں اس سے بچنا چاہیئے کیونکہ اس سے انسان کے اپنے اخلاق بھی خراب ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی تکلیف ہوتی ہے.وہ یہ سنکر بے اختیار نہایت گندی اور بخش گالی دے کر کہنے لگا کون کہتا ہے کہ میں گالیاں دیتا ہوں.تب میں نے سمجھ لیا که به شخص معذور ہے بلا ارادہ گالی اس کے منہ سے نکل جاتی ہے کیونکہ وہ چاہتا نہیں تھا کہ گالی دے مگر بے اختیار اس کے منہ سے گالی نکل گئی اور وہ محسوس بھی نہیں کرتا تھا کہ میں تو اب بھی گالی دے رہا ہوں.تو جب انسان کو کسی عیب کی عادت ہو جاتی ہے پھر وہ اس عیب کو عیب ہی نہیں سمجھتا اور اگر سمجھتا ہے تو کرتے وقت اس کو محسوس نہیں کرتا.ایسے لوگوں کو اگر سمجھایا جائے تو انکار کر دیتے ہیں کہ ہم نے تو ایسا فعل نہیں کیا.مجھے اس بات کا بہت تجربہ ہے کیونکہ ہر روز لوگوں سے معاملہ کرنا پڑتا ہے.میں نے دیکھا ہے کہ بہت لوگ ہیں، ہمیشہ عیب چینی کرتے ہیں مگر وہ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہتے جاتے ہیں ہماری عادت نہیں کہ کسی کی عیب چینی کریں مگر یہ بات یوں ہے.اور غالباً اگر وہ دن میں ہزار باتیں بھی دوسروں کی غیبت اور عیب چینی کی کریں تو ہر بار

Page 164

157 وہ ساتھ یہ بھی کہیں گے ہماری یہ عادت نہیں ہے کہ کسی کی عیب چینی کریں.حالانکہ سو میں سے پچاس باتیں اُن کی عیب چینی کی ہوتی ہیں مگر وہ عیب چینی کرتے ہوئے بھی نہیں سمجھتے کہ ہم عیب چینی کر رہے ہیں.اگر بچپن میں اُن کی اصلاح اور عمرانی کی جاتی تو اُن کی یہ حالت نہ ہوتی.غرض بچپن کا زمانہ اخلاق فاضلہ کے سیکھنے کا بہترین موقع ہے.اگر کوئی قوم اعلے اخلاق اور پسندید و اعمال میں ترقی کر سکتی ہے تو اس کے لئے بہترین ذریعہ یہی ہے کہ وہ اپنی اصلاح کی بھی کوشش کرے مگر اپنی نسل کی اصلاح اور اُس کے اخلاق کی خاص نگرانی کرے.بچپن کے زمانہ میں جہاں بچہ بہت جلد اور آسانی کے ساتھ اخلاق فاضلہ سیکھ سکتا ہے وہاں اگر اُس کی نگرانی نہ کی جائے اور اُس کے اخلاق خراب ہو جائیں تو ایسا خطرناک ہو جاتا ہے کہ دوسرے بچوں کے اخلاق کو بھی بگاڑ دیتا ہے.بڑے بڑے آدمی تو چونکہ عیب کو عیب سمجھنے کی قابلیت رکھتے ہیں.اس لئے اس سے بچنے کی کوشش بھی کرتے ہیں لیکن بچوں میں چونکہ نقل کر نیکی عادت ہوتی ہے اس لئے وہ جو کچھ دوسرے کو کرتے دیکھتے ہیں وہی کرنے لگ جاتے ہیں.ایک لڑکے کو اگر جھوٹ بولنے کی عادت ہوگی یا گالیاں دینے یا چوری کرنے کی تو جتنے لڑکوں کا اُس سے تعلق ہو گا وہ سارے کے سارے ان حرکات میں اُس کی نقل کریں گے اور اس طرح وہ بھی جھوٹ بولنے ، گالیاں دینے اور چوری کرنے کے عادی ہو جائیں گے.تو بچپن کا زمانہ نہ صرف یہ کہ اخلاق فاضلہ سکھنے کا بہت بڑا میدان ہے بلکہ دوسروں کے اخلاق بگاڑنے کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہے.میرے نزدیک بڑے بڑے لیڈر بھی اپنے لیکچروں اور تقریروں میں ایسے کامیاب نہیں ہو سکتے جتنا ایک بچہ دوسرے بچوں کو اپنی باتوں سے متاثر کرنے میں کامیاب ہوتا ہے.میں مذہبی پیشواؤں کو اس سے مستقلی کرتا ہوں کیونکہ اُن کے ساتھ ایماء ملائکہ ہوتا ہے جو اُن کی قبولیت کو پھیلاتے ہیں.ایک بچہ کو جھوٹ بولنے کی عادت ہوتی ہے وہ سو یا دو سولر کے جھوٹ بولنے والے بہت آسانی سے پیدا کر سکتا ہے ایک لڑکا جسے چوری کی عادت ہوتی ہے وہ بآسانی سود و سولڑ کا چوری کرنے والا پیدا کر سکتا ہے.غرض بچپن میں جنکے اخلاق خراب ہو جاتے ہیں وہ نہ صرف اپنے آپ کو تباہ کر لیتے ہیں بلکہ اوروں کی بھی تباہی کا باعث بنتے ہیں اور بچپن کی عادت کا اس قدر اثر ہوتا ہے کہ بڑے ہو کر اُن کی اصلاح مشکل ہو جاتی ہے.حتما کہ بڑے بڑے فلاسفر اور سمجھدار ہو کر بھی اُن کے سامنے عاجز رہ جاتے ہیں.پس اخلاق فاضلہ کے لئے میرے نزدیک سب

Page 165

158 سے زیادہ ضروری امر یہ ہے کہ اپنی آئندہ نسلوں کی اصلاح اور درستی کی پوری پوری فکر اور نگرانی کی جائے اور یہ بات کوئی معمولی نہیں بلکہ بہت بڑی بات ہے.اس کے لئے سب سے پہلا طریق وسطی اور میانہ روی ہے نہ تو بچے پر اتنی سختی کی جائے کہ اُسے دوسرے بچوں سے ملنے کا موقع ہی نہ دیا جائے اور نہ اتنی نرمی کی جائے کہ خواہ وہ کچھ کرتا پھرے اُس کی نگرانی نہ کی جائے.اگر اُسے دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے گودنے سے روک دیا جائے گا تو اس سے اُس کے اخلاق درست نہیں ہو سکیں گے کیونکہ ایسی صورت میں وہ اس بات کے لئے تیار رہتا ہے کہ بدی اُس کے سامنے آئے اور وہ جھٹ اُسے قبول کر لے کیونکہ بدی کا مقابلہ ارادہ کی قوت سے ہوتا ہے اور وہ اس وقت تک نہیں پیدا ہوسکتی جب تک بچہ اچھے اور بُرے دونوں قسم کے بچوں سے نہ ملے.جس بچے کو گھر بند رکھا جائے اور کسی سے ملنے نہ دیا جائے وہ پچاس برس کی عمر میں بھی لڑکا ہی رہے گا.کیونکہ اس کی مثال اُس کانچ کے برتن کی سی ہوگی جسے ذرا ٹھو کر گی اور وہ ٹوٹ گیا.جب بھی کوئی بدی اُس کے سامنے آئے گی وہ مقابلہ نہیں کر سکے گا لیکن اگر وہ لوگوں سے ملتار ہے تو اُس کے اندر شناخت پیدا ہو جاتی ہے کہ نیکی کیا ہے اور بدی کیا ہے اور بدی سے بچنے کی طاقت حاصل ہو جاتی ہے.میں نے دیکھا ہے کہ جن بچوں کی ہمیشہ بختی کے ساتھ نگہداشت کی جاتی ہے وہ بہت کمزور ہوتے ہیں اور وہ اگر نیکی بھی کرتے ہیں تو عادت کے ماتحت نہ کہ بدی کے مقابلہ کی طاقت کی وجہ سے.یہی وجہ ہے کہ بدی کے پیش ہونے پر بہت جلد اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں.اسی طرح جن کو بالکل آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے اور کسی قسم کی نگرانی نہیں کی جاتی اُن کی مثال ان بھیڑوں کی ہے جنہیں بھیڑیوں کے آگے چھوڑ دیا جاتا ہے.اگر وہ بد اخلاقی سے بچے رہیں یا اُن کی کسی طرح اصلاح ہو جائے تو اس میں اُن کے ماں باپ کا کوئی حصہ نہیں ہوتا لیکن اگر وہ تباہ ہو جا ئیں اور اُن کے اخلاق بر باد ہو جا ئیں تو اس کے ذمہ دار ماں باپ ہوتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے فرض کی ادائیگی سے غفلت کی اور اپنی اولاد کی کچھ حکمرانی نہ کی.غرض بچوں کے اخلاق کی درستی میں میانہ روی اختیار کرنی چاہئے نہ تو آنی تھی کرنی چاہیئے کہ وہ کسی سے مل ہی نہ سکیں اور نہ اتنی آزادی دینی چاہیئے کہ وہ جو چاہیں کرتے پھریں اور اُن کی کوئی نگہداشت نہ کی جائے.بچے عام طور پر اخلاق ماں باپ سے نہیں سیکھتے بلکہ زیادہ تر اخلاق دوسرے بچوں سے سیکھتے ہیں مگر ماں باپ یہ پتہ لگاتے رہنا فرض ہے کہ بچے کیا سیکھ رہے ہیں.اور یہ کوئی مشکل بات نہیں کیونکہ بچے جو کچھ

Page 166

159 دوسروں سے سیکھتے ہیں وہ جھٹ دوسروں کے سامنے بھی کرنے لگ جاتے ہیں اس طرح اُن کے عیوب کا پتہ لگ جاتا ہے.اگر ماں باپ عمدگی سے انکی اصلاح کرنی چاہیں تو بہت آسانی سے کر سکتے ہیں لیکن بہت ہیں جو نیچے کی ایسی حرکات پر جو نا پسندیدہ ہوتی ہیں پیار اور محبت کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے اور اگر ایک آدھ دفعہ کہہ بھی دیا تو پھر خیال نہیں رکھتے.اور بہت سے ایسے ہیں کہ اگر اُن کو اُن کے بچوں کے عیب بتلائے جائیں تو وہ لڑنے لگ جاتے اور خواہ مخواہ اپنے بچے کی تائید کرنے لگ جاتے ہیں اور بعض اوقات بچوں کی لڑائی کی وجہ سے بڑوں میں لڑائی شروع ہو جاتی ہے.تو سب سے پہلی اور نہایت ضروری بات یہ ہے کہ ماں باپ بچوں سے ناجائز محبت نہ کریں.اگر کوئی اُن کے بچے کے متعلق شکایت کرے تو اس کی اصلاح کی تجویز کریں.اگر بچہ جھوٹ بولتا ہے یا چوری کرتا ہے یا کوئی اور بدی اس میں ہے تو اسے سرزنش کر یں لیکن ایسی بھی سختی نہ ہو کہ بچہ ان سے چھپ کر بدی کرنے لگے.بعض لوگ اتنی کفتی کرتے ہیں کہ بچہ پھر یہ کوشش کرتا ہے کہ میرے عیب کا ماں باپ یا کسی اور کو پتہ نہ لگے.اس طرح وہ پوشیدہ عیب کرنے کا عادی ہو جاتا ہے اور ایسے بچوں کے عیوب کی اصلاح نا ممکن ہو جاتی ہے اس لئے ہمیشہ اس بات کی بھی نگرانی کرنی چاہیئے کہ بچہ چھپ کر عیب نہ کرے تا اُس کے عیوب کا پتہ لگتار ہے اور اس طرح بڑی آسانی سے اُس کی اصلاح ہو سکتی ہے.عیب کس طرح پیدا ہوتا ہے اور اُسے کس طرح چھڑایا جاسکتا ہے یہ ایک بڑا علم ہے جسے میں اس وقت چھوڑتا ہوں.اس وقت جو بیان کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ اخلاق اور اعمال کی درستی کے لئے نہ تو بچوں پر سخت پابندی کی جائے کہ وہ کسی سے نہ مل سکیں اور نہ اُن کو بالکل آزا اور ہنے دیا جائے کہ وہ جو چاہیں کرتے پھریں ان کی کوئی نگرانی نہ کی جائے.دوسرے یہ کہ بچوں سے ناجائز محبت بھی نہ کی جائے.اس بات کی تفصیل کے بعد اب میں یہ بھی بتلاتا ہوں کہ جہاں اپنے بچوں کی اصلاح کی فکر اور نگہداشت ضروری ہے وہاں دوسرے بچوں کے اخلاق و عادات کی نگہداشت بھی ضروری ہے.پس آپ جب تک دوسروں کے بچوں کے اخلاق کی بھی نگرانی نہیں کریں گے اپنے بچوں کی طرف سے مطمئن نہیں ہو سکتے.عام علاجوں میں سے ایک یہ بھی ہے جو حضرت خلیفہ الاوّل بھی فرمایا کرتے تھے کہ بچوں کو بعض مفید فقرے یاد کرادئے جائیں جن میں اُن کو بتایا جائے کہ ہم یہ کریں گے یہ نہیں کریں گے.اس کا بھی بہت

Page 167

160 الله بڑا اثر ہوتا ہے.دوسری بات جو رسول کریم ﷺ سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ رات کو سونے سے پہلے دعا کی عادت ڈالی جائے.کیونکہ ذکر الہی کئے بغیر سونا جائز بھی نہیں.آنحضرت ﷺ بلا ناغہ آیت الکرسی اور تینوں قل پڑھ کر اپنے بدن پر پھونکا کرتے تھے جس بات کو آپ بلا ناغہ کریں وہ سنت کہلاتی ہے پس جس طرح نماز کی سنتیں ضروری ہیں اسی طرح یہ سنت بھی ضروری ہے اور اگر اُن کو ترک کرنے میں گناہ ہے تو پھر اس کے ترک کرنے میں بھی گناہ ہونا چاہیئے.اگر کہا جائے کہ نماز کی سنتوں کے متعلق تو آنحضرت ﷺ نے خصوصیت سے فرمایا ہے اس لئے وہ ضروری ہیں.تو میں کہتا ہوں سونے سے پہلے دعا کے متعلق بھی آپ نے فرمایا ہے اور ثابت ہے کہ بعض آدمیوں کو آپ نے دعا سکھلائی.آخر کسی خاص اہتمام کے ساتھ نہ نماز کی سنتوں کے متعلق آپ نے عام لیکچر دیا اور تاکید کی اور نہ سونے سے پہلے دعا کے متعلق کوئی ایسی کاروائی کی.جس طرح اُن ستوں کے متعلق آپ نے حکم فرمایا اسی طرح اس سنت کے متعلق بھی ثابت ہے کہ آپ نے بعضوں کو دعا سکھلائی اور اس کی تاکید کی.تو سونے سے پہلے دعا کرنا اسلام کے لئے ایسے امور میں سے ہے جو ایک مومن کے لئے نہایت ضروری ہے اگر بچوں کو بھی ایک ایک دعا یاد کرا دی جائے اور سونے سے پہلے اس دعا کا پڑھانا شروع کرایا جائے تو اس سے بہت بڑا فائدہ ہوسکتا ہے.عیسائیوں میں دیکھا ہے وہ اپنے بچوں کو سونے نہیں دیتے جب تک کہ پہلے اُن سے مذہبی دعا نہ کر لیں.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچہ بڑا ہوکر وہر یہ ہی کیوں نہ ہو جائے عیسائیت کے احکام کا اس کے دل میں خوف اور ڈر ضرور رہتا ہے لیکن مسلمانوں میں یہ بات نہیں.میں نے بتایا ہے کہ خواہ ماں باپ کتنی بھی کوشش کریں کہ ان کا بچہ بداخلاقیوں کے بداثرات سے محفوظ رہے جب تک بچے کی صحبت اور مجلس نیک نہ ہو گی اُس وقت تک ماں باپ کی کوشش بچوں کے اخلاق درست کرنے میں کارگر اور مفید ثابت نہیں ہو سکتی.بے شک ایک حد تک اٹھی اچھی تربیت سے بچوں میں نیک خیالا ت پیدا ہوتے ہیں لیکن اگر بچے کی عمدہ تربیت کے ساتھ اس کی صحبت بھی اچھی نہ ہو تو بد صحبت کا اثر تربیت کے اثر کو اتنا کمزور کر دیتا ہے کہ اس تربیت کا ہونا نہ ہونا قریباً مساوی ہو جاتا ہے.بچپن کی بدصحبت ایسی بد عادات بچے کے اندر پیدا کر دیتی ہے کہ آئندہ عمر میں اُن کا ازالہ ناممکن ہو جاتا ہے.ایسے آدمی کے قلب میں دو متضاد کیفیتیں پیدا ہو جاتی ہیں.ایک طرف تو ماں باپ کی نیک تربیت اس کو نیکی کی طرف کھینچتی ہے اور

Page 168

161 دوسری طرف بد صحبت بدی کا میلا ان اُس کے اندر پیدا کرتی ہے اور وہ ہمیشہ اسی کشمکش میں جتلا رہتا ہے اور نفس لوامہ کے اثر سے اس کو کبھی آزادی حاصل نہیں ہوتی.ماں باپ کی تربیت اگر خشیتہ اللہ اس کے اندر پیدا کرتی ہے تو بد صحبت اُس کے مقابلہ میں اُس کی ہمت اور حوصلے کو پست کر دیتی ہے.پس کامل تربیت اسی وقت ہو سکتی ہے جب اچھی تربیت کے ساتھ محبت بھی اچھی ہو.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا تھا بچوں کو کسی سے نہ ملنے دینا اور انہیں قید رکھنا بھی کوئی نیک نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا کیونکہ اس طرح جہاں اُس کی تربیت نامکمل رہتی ہے وہاں اس کے اعضاء کی نشو و نما بھی اچھی طرح نہیں ہوسکتی.وہ بچہ جسے بدی کے اثر سے بچانے کے لئے ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلنے کا موقعہ نہیں دیا جاتا ایک طرف اُس کی صحت خراب رہتی ہے اور اُس کے اعضاء پوری طرح نشو و نما حاصل نہیں کر سکتے دوسری طرف ایسے بچے ساری عمر بچے ہی رہتے ہیں خواہ اُن کی عمر چالیس پچاس سال کی ہی ہو جائے کیونکہ وہ اُسی وقت تک بدی سے بچے رہ سکتے ہیں جب تک کہ بدی اُن کے سامنے پیش نہیں ہوتی لیکن جب بھی بدی اُن کے سامنے پیش ہو وہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور جھٹ اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں.پس بچوں کو دوسرے بچوں سے نہ ملنے دینے اور علیحدہ قید رکھنے سے ہم اُن کو بدی کے اثرات سے محفوظ نہیں رکھ سکتے بلکہ اس طرح اور بھی زیادہ اُن کو بدیوں کے اثرات کو جلد تر قبول کرنے کے قابل بنا دیتے ہیں.ان حالات میں ہمیں دیکھنا چاہیئے کہ وہ کون سے طریق ہیں جن سے بچوں کی تربیت عمدگی کے ساتھ کی جاسکتی ہے.سب سے پہلی بات جو بچے کی تربیت کے واسطے ماں باپ کے لئے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ بچے کے ذہن میں کسی بدی کی نسبت یہ خیال نہ پیدا ہونے دیں کہ اس کی کوئی اہمیت نہیں تا وہ اس بدی کو حقیر نہ سمجھنے لگ جائے.بہت سے ماں باپ ہیں جو دل سے چاہتے ہیں کہ بدی کا اثر اُن کے بچوں پر نہ ہو لیکن وہ اپنا نمونہ ایسا اُن کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ بچوں کی نگاہ میں وہ بدی حقیر ہو جاتی ہے اور اس کی وجہ سے بدی کا خیال اُن کے دل میں پیدا ہو جاتا ہے.مثلاً عام طور پر ماں باپ یہ چاہتے ہیں کہ بچہ جھوٹ نہ بولے لیکن خود اس کے سامنے جھوٹ بول لیتے ہیں.بعض اوقات ایک کام سے جو انہوں نے کیا ہوتا ہے مگر بچے سے اس کو چھپانے کے لئے ( کیونکہ اُس کا چھپانا بچے کے حق میں مفید ہوتا ہے ) دو انکار کر دیتے ہیں.یا اگر بالکل صاف انکار نہیں کرتے تو ٹال مٹول اور ہیر پھیر کرنے لگ جاتے ہیں تا بچے کا خیال اس کی طرف سے بدل جائے لیکن

Page 169

162 بچے کا ذہن خدا نے ایسا بنایا ہوتا ہے کہ وہ نہایت ہوشیار ہوتا ہے کیونکہ وہ ترقی کر رہا ہوتا ہے اور اپنا علم بڑھا رہا ہوتا ہے اس لئے وہ ہر بات کی زیادہ چھان بین اور جستجو کرنا ہے اور بات کو فورا تاڑ جاتا ہے.ماں باپ تو یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم اسکی خیر خواہی کر رہے ہیں کہ اُس سے اس بات کو چھپارہے ہیں اگر نہ چھپائیں تو اس کو نقصان ہو گا لیکن اُن کی اس روش سے وہ یہ سبق حاصل کر رہا ہوتا ہے کہ ایک کام کر کے پھر اس سے انکار بھی کیا جا سکتا ہے یا اس کو ادھر اُدھر کی باتوں سے چھپایا بھی جاسکتا ہے کیونکہ وہ خوب سمجھتا ہے کہ ماں باپ نے ایسا کام کیا تو ضرور ہے مگر اب وہ اُس سے چھپا رہے ہیں.بچوں کے متعلق یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہ کسی بات کو تاڑ نہیں سکتے.یا کوئی بات اُن کے ذہن سے اتاری جاسکتی ہے.وہ جس طرح جھٹ کسی بات کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں اسی طرح ہر بات جو اُن کے سامنے کی جائے اُسے سمجھ جاتے ہیں.میں نے ایک تماشا گر کی کتاب پڑھی ہے جو کہ بہت بڑے تماشاگروں میں سے ہے وہ خود تماشے کرتا اور بڑے بڑے تماشوں کا موجد ہے وہ اپنی کتاب میں اپنے تجربہ کی بناء پر لکھتا ہے میں نے اپنے کام میں سب سے زیادہ خطر ناک بچوں کو پایا ہے.بڑے بڑے پروفیسروں ،سائنسدانوں اور عقلمندوں کے سامنے میں نے تماشے کئے مگر مجھے کبھی ذرا گھبراہٹ نہیں پیدا ہوئی لیکن میں بچوں کے سامنے تماشہ کرنے سے ہمیشہ گھبراتا ہوں کیونکہ بسا اوقات ایسا ہوا کہ بچوں نے میری چوری پکڑ لی ہے اور اس وجہ سے مجھے اپنے تماشے میں ناکام ہونا پڑا ہے.اس کی وجہ وہ یہ لکھتا ہے کہ بچہ چونکہ خالی الذہن ہوتا ہے اُس نے اپنے دل میں کوئی رائے نہیں قائم کی ہوتی.وہ اس عمر میں سیکھ رہا ہوتا ہے اور اپنے علم کو کامل کر رہا ہوتا ہے اس لئے اُس کی نگاہ معمولی معمولی باتوں پر بھی پڑتی ہے جس سے راز افشاء ہو جاتا ہے.لیکن بڑے آدمی جو تماشہ کو دیکھتے ہیں یہ مجھتے ہیں کہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہم سیکھ چکے ہیں ان کی طرف توجہ کی ضرورت نہیں اس لئے اُن کا ذہن بڑی بڑی باتوں کی طرف جاتا ہے اور ہمارا کھیل اُن کے سامنے بہت کامیاب ہوتا ہے.بچے نے چونکہ یہ رائے نہیں قائم کی ہوتی وہ بہت سادگی سے ہماری معمولی معمولی حرکات پر غور کرتا ہے اور اکثر ایسا ہوا ہے کہ بچوں نے ہمارا خیال خراب کر دیا.پھر وہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ سب سے بڑا اور ہوشیار اور تجربہ کار تماشہ کرنے والا میں اس کو قرار دوں گا جس کا بھید بچے دریافت نہ کر سکیں.غرض بچوں کے ذہن نہایت ہی حساس ہوتے ہیں اور اُن سے کوئی چیز چھپانی بہت مشکل ہوتی ہے.جن حالات اور جن وجوہات کی بناء پر

Page 170

163 ماں باپ بچے سے کوئی چیز چھپا رہے ہوتے ہیں وہ اپنے دل میں خوش ہو رہے ہوتے ہیں کہ اس طرح ہم نے بچے سے اس چیز کو چھپا لیا ورنہ بچے کو اس سے نقصان پہنچتا مگر وہ ایک نقصان سے بچا کر بچہ نو دوسرا نقصان پہنچارہے ہوتے ہیں.خواہ والدین کے نزدیک حالات کچھ ہی ہوں چونکہ بچے کی نگاہ ان حالات پر نہیں پڑتی اسلئے وہ ماں باپ کی اس کاروائی سے یہ سبق حاصل کرتا ہے کہ کسی چیز کو چھپانے کے لئے اس طرح جھوٹ بھی بولا جاتا ہے.کیونکہ جس وقت ماں باپ ایک کام کر کے بچے کے سامنے اس سے انکار کر تے ہیں یا ادھر ادھر کی باتیں کر کے اس کو چھپانا چاہتے ہیں تو وہ خوب سمجھ رہا ہوتا ہے.اور چونکہ بچہ حسّاس اور ذ کی ہوتا ہے اور ماں باپ کا ایک اعلے درجہ کا شاگرد ہوتا ہے اس لئے وہ یہ سبق حاصل کرتا ہے کہ کسی وقت اگر ضرورت پیش آئے اور وہ بھی ایک چیز کو چھپانے کے لئے اپنا طریق بدل ڈالے تو حرج نہیں کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ میرے ماں باپ ایسا ہی کرتے ہیں.پس پہلی غلطی اولاد کی تربیت میں جو والدین سے سرزد ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ گو وہ دل سے چاہتے ہیں کہ بچوں کو نقصان اور عیب سے بچائیں مگر خود پوری پوری احتیاط نہیں کرتے اور اپنا نمونہ اور عمل اُن کے سامنے اچھا پیش نہیں کرتے جس کی وجہ سے وہ خود بچوں کو جھوٹ سکھانے کا موجب ہو جاتے ہیں.مثلاً بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ والدین کوئی چیز گھر میں لاتے ہیں بچہ بیمار ہوتا ہے اُس کو کھلانے میں نقصان کا خطرہ ہوتا ہے اس لئے جب وہ مانگتا ہے تو کہہ دیتے ہیں وہ چیز تو گھر میں آئی ہی نہیں حالانکہ بچے کو اس کی خبر ہو چکی ہوتی ہے.گروہ اپنے ذہن میں سمجھ لیں کہ ہم نے جھوٹ نہیں بولا کیونکہ بچہ کا فائدہ کر رہے ہیں مگر اس میں کیا شک ہے کہ وہ جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں اور دور پر دو بچے کو جھوٹ کی تعلیم دے رہے ہوتے ہیں یا پھر بعض دفعہ وہ انکار تو نہیں کرتے مگر یہ کہہ دیتے ہیں ہم نے وہ چیز کھالی ہے حالانکہ بچہ خوب جانتا ہے کہ انہوں نے ابھی کھائی نہیں یا کہہ دیتے کہ وہ چیز تو کوئی اٹھا لے گیا یا ضائع ہو گئی حالانکہ بچہ جانتا ہے کہ نہ کوئی اٹھا لے گیا اور نہ وہ ضائع ہوئی.وہ چیز واقع میں آئی اور والدین نے اُس سے چھپ کر کھائی جسے اس نے چلمن کے پیچھے سے دیکھا ہوتا ہے.اس طرح وہ ماں باپ سے جھوٹ بولنے کا سبق سیکھتا ہے اور اس کے دل میں اس عیب کی کوئی اہمیت نہیں رہتی اور دو جھوٹ بولنے لگ جاتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ خواہ زبانی میرے ماں باپ مجھے منع کرتے ہیں مگر موقع پر وہ خود بھی جھوٹ بول لیتے ہیں اس لئے یہ کوئی بری بات نہیں.

Page 171

164 اسی طرح ایک اور عیب چوری ہے.میرے نزدیک چوری جھوٹ سے بھی زیادہ دیانتداری کے ساتھ ماں باپ بچوں کو سکھاتے ہیں اور گویا خصوصیت سے بچوں کو اس کی تعلیم دیتے ہیں.مثلاً بعض دفعہ ماں باپ ایک چیز بچے کو نہیں دینا چاہتے لیکن اُس کے اصرار کی وجہ سے اسے دے دیتے ہیں اور پھر نظر بچا کر اس سے چھپا لیتے ہیں.بے شک اُن کا یہ فعل اخلاقا چوری نہیں کہلا سکتا کیونکہ وہ اُن کی اپنی چیز ہے جسے وہ بچہ کونہیں دینا چاہتے اور نظر بچا کر اٹھا لیتے ہیں.مگر اس سے بچوں کے اندر اس بات کی جس پیدا ہو جاتی ہے کہ ایسا بھی کیا جا سکتا ہے اور پھر وہ بھی کوشش کرنے لگ جاتے ہیں کہ ہم بھی چیز چھپائیں.تو ماں باپ کی اس روش کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ جھوٹ سے بڑھ کر نہایت آسانی سے چوری کی عادت اُن سے سیکھ لیتا ہے.الغرض پہلا طریق جو بچوں کی تربیت کے لئے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ماں باپ ایسا طریق اختیار نہ کریں اور اپنے افعال کو ایسے رنگ میں بچے کے سامنے پیش نہ کریں کہ جس سے بچے کے ذہن میں بد افعال کی طرف توجہ پیدا ہو.دوسر انقص بچوں کی تربیت میں میں نے دیکھا ہے اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ ماں باپ غریب ہوتے ہیں یا امیر.ان دونوں صورتوں میں بچوں میں دو نقص پیدا ہو جاتے ہیں جو میں آگے بیان کروں گا.غریبوں کے اندر غربت کی وجہ سے بعض نقائص پیدا ہو جاتے ہیں اور امیروں کی اولاد میں آسودگی اور وسعت مال کی وجہ سے بعض نقائص پیدا ہو جاتے ہیں.بعض امیروں کو میں نے دیکھا ہے بچوں کو اتنا خرچ دے دیتے ہیں جس سے اُن کی عادات اور اخلاق بگڑ جاتے ہیں اور ان میں آوارگی پیدا ہو جاتی ہے.کیونکہ بچے کی وقتی ضرورت سے زیادہ جیب خرچ کا اس کے پاس جمع ہونا تمام بد صحبتوں اور بداخلاقیوں کا منبع ہے کیونکہ وہ بچے جن کے اخلاق خراب ہو چکے ہوتے ہیں جب اُن کے ہاتھ میں اپنا کوئی چیز نہیں ہوتا جن سے وہ اپنی آوارگی کی عادات کو پورا کر سکیں تو وہ پھر امیر لڑکوں کی تلاش میں رہتے ہیں اور اُن سے تعلق پیدا کر کے جہاں وہ اپنی بد عادات کو اُن کے پیسوں کے ذریعہ پورا کرتے ہیں وہاں ان امیر لڑکوں کے اخلاق اور عادات کو بھی بگاڑ دیتے ہیں.اس سے میرا یہ مطلب نہیں کہ بچہ کے ہاتھ میں بالکل ہیسہ دیا ہی نہ جائے کیونکہ بچوں کو ان کی ضرورت کے مطابق دینا بھی ضروری ہے تا کہ اس سے ان کے اندر خرید و فرخت کا ملکہ پیدا ہو لیکن اتنا خرچ ان کو نہیں

Page 172

165 دینا چاہیئے جسے وہ اپنے پاس جمع رکھ سکیں کیونکہ ایسی حالت میں شریر اور آوارہ لڑکے اُن کے پاس جمع ہو کر اُن کے اخلاق کو خراب کر دیتے ہیں اور اُن کو بھی آوارہ بنا دیتے ہیں.چونکہ غریب لڑکوں کے گرد جمع ہو کر اُن کو کچھ حاصل نہیں ہوسکتا اس لئے جن لڑکوں کو بڑی عادتیں پڑ جاتی ہیں وہ امیر لڑکوں کو تاڑتے رہتے ہیں اور آوارہ گر دلڑ کے اپنی بد عادات کے پورا کرنے کے لئے امیروں کے لڑکوں کی تلاش میں لگے رہتے ہیں.مجھے نہایت سخت حیرت ہوئی اپنے ایک معزز دوست پر کہ وہ اپنے بچے کو پچاس روپے ماہوار صرف جیب خرچ دیتے تھے اور ابھی کہتے تھے میں نے اس کا جیب خرچ آگے سے کم کر دیا ہے.میں اس لئے اسے اتنا جیب خرچ دیتا ہوں کہ تا قادیان میں اس کا دل لگا ر ہے.وہ ایک مخلص شخص ہیں اور اُن کا لڑکا بھی ابھی گو بچہ ہے لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں مخلص ہے.مگر یہ طریق بچے کے اخلاق کو سخت بگاڑنے والا ہے.بچے کو اس کا جیب خرچ روزانہ اتنا دینا چاہئے جس سے اس کی اس وقت کی ضرورت پوری ہو جائے.پھر ماں باپ کو یہ بھی دیکھ لینا چاہیئے کہ جس ضرورت کے لئے اُس نے پیسے لئے ہیں اُس پر اُس نے خرچ بھی کئے ہیں یا نہیں.پہلے اس سے دریافت کر لینا چاہیئے کہ کس ضرورت کے لئے وہ پیسے لیتا ہے.مثلاً وہ خربوزے لینا چاہتا ہے یا آم خریدنا چاہتا ہے یا کیا.اور پھر اس بات کی تحقیق کر لینی چاہیئے کہ بتائی ہوئی ضرورت کے مطابق اُس نے چیز لی بھی ہے یا نہیں.اگر اس طرح نگرانی کی جائے تو بچے آوارگی سے بچ جائیں گے اور ان کے پاس آوارہ اور بد عادات کے لڑکے جمع نہ ہو سکیں گے.ایک نقص بچوں کے اخلاق کو بگاڑنے والا غربت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور وہ اس طرح کہ ایسے ماں باپ بعض دفعہ خود حریص ہوتے ہیں وہ کوئی چیز لاتے ہیں تو خود کھا لیتے ہیں اور بچہ کو نہیں دیتے اس لئے بچہ گھر سے چوری نکال کر کھانے کا عادی ہو جاتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ باہر کی بھی چوری کرنے لگ جاتا ہے اس طرح اس کے اخلاق خراب ہو جاتے ہیں اور وہ آوارہ ہو جاتا ہے اس لئے ماں باپ کو چاہئے کہ اگر کوئی چیز گھر میں آئے تو پہلے بچوں کو دیں پھر آپ کھائیں.دوسرا نقص جو اس غربت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے وہ اس طرح کہ بعض ماں باپ ایسا تو نہیں کرتے کہ چیز خود کھالیں اور بچے کو نہ دیں لیکن جب بچے کے دل میں کسی چیز کی خواہش پیدا ہوتی ہے اور وہ خود نہیں خرید سکتے تو دوسروں سے مانگ کر کہ ہمارے بچے کا بھی دل کر رہا ہے اس طرح وہ دے دیتے ہیں.مگر اس طریق

Page 173

166 سے بجائے اس کے کہ بچے کی خواہشات کو مار دیں اور بھی اُس کی خواہشات کو ابھارتے ہیں حالانکہ اگر بچے کو سمجھایا جائے کہ بچہ ہم غریب ہیں ہم یہ چیز نہیں خرید سکتے تو بچے جیسا صابر بھی کوئی نہیں وہ اتنا کہہ دینے سے بھی خوش ہو جاتا ہے.لیکن اگر اپنے پاس کچھ نہیں اور بچے کی خواہش کو دوسروں سے چیز لے کر پوری کریں کے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بچے کے اندر صبر اور قناعت کا مادہ نہیں پیدا ہو گا اور اس کی حرص بہت بڑ ھ جائے گی.پس غرباء کو چاہیئے کہ وہ اپنے بچوں کی خواہشات کو ابھاریں نہیں بلکہ ان کو مارنے کی کوشش کریں تا ان کے اندر صبر اور قناعت کا مادہ پیدا ہو.پھر ایسے مقامات پر بچے کو کھڑا نہیں رہنے دینا چاہیئے جہاں امراء اچھی چیزیں کھارہے ہوں.بچوں کو ہی ایسے مقامات پر کھڑا ہونے سے نہیں روکنا چاہیئے بلکہ بڑوں کو بھی میں حکم ہے.لا تمدن عينيكَ إِلَى مَا متغنابہ کہ جو چیز تمہارے پاس نہیں ہے اگر وہ دوسروں کے پاس ہے تو اس کو دیکھنا بھی گناہ ہے کیونکہ اس ت خواہش بد پیدا ہو گی.بعض غریب آدمی اپنے بچوں کو ایسے مقامات پر کہ جہاں امراء لوگ کھاتے پیتے ہوں کھڑے ہونے اور دیکھنے سے نہیں روکتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس چیز کی اُن کے اندر حرص پیدا ہوتی ہے اور جب ان کی حرص پوری نہیں ہوئی تو پھر کسی نہ کسی طرح اس چیز کے حاصل کرنے کی بے جا کوشش کرتے ہیں.اس لئے ماں باپ کا فرض ہونا چاہیئے کہ وہ بچوں کو ایسی جگہ سے روکیں اور وہاں ان کو کھڑا نہ ہونے دیں اور ایسی حالت میں کسی کا کچھ دیکھنا بھی عیب ہے جس سے لالچ اور حرص پیدا ہوتی ہے جو بچوں کی آوارگی کا موجب ہوتی ہے.غرض والدین اپنے بچوں کی تربیت کے لئے اگر ان باتوں کی احتیاط رکھیں تو ان کے اخلاق کی درستگی میں بہت کچھ تقویت پیدا ہو سکتی ہے.اس کے بعد میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بچوں کے اخلاق اور عادات کی درستی اور اصلاح کے لئے میرے نز دیک سب سے زیادہ ضروری امر نماز با جماعت ادا کرنے کی عادت ڈالنی چاہیئے.میں نے اپنے تجربہ میں نماز با جماعت سے بڑھ کر کوئی چیز نیکی کے لئے ایسی موٹر نہیں دیکھی.سب سے بڑھ کر نیکی کا اثر کر نیوالی نماز با جماعت ہے.اگر میں ان الصلوة تنهى عن الفحشاء والمنکر کی پوری پوری تشریح نہ کر سکوں تو میں اپنی زبان کا قصور سمجھوں گا ورنہ میرے نزدیک نماز با جماعت کا پابند انسان خواہ وہ اپنی بدیوں میں ترقی کرتے کرتے انیس سے بھی آگے نکل جائے پھر بھی میرے نزدیک اُس کی اصلاح کا موقعہ ہاتھ سے نہیں کیا.

Page 174

167 ایک شمہ بھر اور ایک رائی کے برابر بھی میرے خیال میں نہیں آتا کہ کوئی شخص نماز با جماعت کا پابند ہو اور پھر اسکی اصلاح کا کوئی موقعہ نہ رہے.خواہ وہ کتنا ہی بدیوں میں مبتلا کیوں نہ ہو گیا ہو نیکی کے متعلق نماز کے مؤثر ہونے کا مجھے اتنا کامل یقین ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر بھی کہہ سکتا ہوں کہ نماز با جماعت کا پابند خواہ کتنا ہی بد اعمال کیوں نہ ہو گیا ہو اسکی ضرور اصلاح ہو سکتی ہے اور وہ ضائع نہیں ہوتا.اور میں شرح صدر سے کہہ سکتا ہوں کہ آخری وقت تک اس کے لئے اصلاح کا موقع ہے اگر وہ نماز با جماعت کا پابند اس رنگ میں ہو کہ اُس کو اس میں لذت اور سرور حاصل ہو.میرے نزدیک ان ماں باپ سے بڑھ کر اولاد کا کوئی دشمن نہیں جو بچوں کو نماز باجماعت ادا کرنے کی عادت نہیں ڈالتے.مجھے اپنا ایک واقعہ یاد ہے.ایک دفعہ حضرت صاحب کچھ بیمار تھے اس لئے جمعہ کے لئے مسجد میں نہ جا سکے.میں اُس وقت بالغ نہ تھا کہ بلوغت والے احکام مجھ پر جاری ہوں تاہم جمعہ پڑھنے کے لئے مسجد کو آرہا تھا کہ ایک شخص مجھے ملا، اُس وقت کی عمر کے لحاظ سے تو شکل اس وقت یاد نہیں رہ سکتی مگر اس واقعہ کا اثر مجھے پر ایسا ہوا کہ اب تک مجھے اس شخص کی صورت یاد ہے محمد بخش اُن کا نام ہے وہ اب قادیان میں ہی رہتے ہیں.میں نے اُن سے پوچھا آپ واپس آرہے ہیں کیا نماز ہو گئی ہے؟ انہوں نے کہا آدمی بہت ہیں مسجد میں جگہ نہیں تھی میں واپس آگیا میں بھی یہ جواب سنکر واپس آگیا اور گھر میں آکر نماز پڑھ لی.حضرت صاحب نے یہ دیکھ کر مجھ سے پوچھا مسجد میں نماز پڑھنے کیوں نہیں گئے.خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ میں بچپن سے ہی حضرت صاحب کا ادب ان کے نبی ہونے کی حیثیت سے کرتا تھا.میں نے دیکھا آپ کے پوچھنے میں ایک تختی تھی اور آپ کے چہرہ سے غصہ ظاہر ہوتا تھا.آپ کے اس رنگ میں پوچھنے کا مجھ پر بہت ہی اثر ہوا.جواب میں میں نے کہا میں گیا تو تھا لیکن جگہ نہ ہونے کی وجہ سے واپس آگیا.آپ یہ سنکر خاموش ہو گئے لیکن آب جس وقت جمعہ پڑھ کر مولوی عبدالکریم صاحب آپ کی طبیعت کا حال پوچھنے آئے تو سب سے پہلی بات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ سے دریافت کی وہ یہ تھی کہ کیا آج لوگ مسجد میں زیادہ تھے؟ اس وقت میرے دل میں سخت گھبراہٹ پیدا ہوئی کیونکہ میں خود تو مسجد میں گیا نہیں تھا معلوم نہیں بتانے والے کو غلطی لگی یا مجھے اس کی بات مجھنے میں غلام نبی ہوئی ہے میں ان کی بات سے یہ سمجھا تھا کہ مسجد میں جگہ نہیں.مجھے یہ فکر

Page 175

168 ہوئی کہ اگر مجھے غلط نہی ہوئی ہے یا بتانے والے کو ہوئی ہے دونوں صورتوں میں الزام مجھ پر آئے گا کہ میں نے جھوٹ بولا.مولوی عبد الکریم صاحب نے جواب دیا ہاں حضور آج واقعہ میں بہت لوگ تھے.میں اب بھی نہیں جانتا کی اصلیت کیا تھی.خدا نے میری بریت کے لئے یہ سامان کر دیا کہ مولوی صاحب کی زبان سے بھی اس کی تصدیق کرا دی یا فی الواقع اس دن غیر معمولی طور پر زیادہ لوگ آئے تھے.بہر حال یہ ایک واقعہ ہوا ہے جس کا آج تک میرے قلب پر ایک گہرا اثر ہے.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نماز با جماعت کا کتنا خیال رہتا تھا.بڑا آدمی اگر خود با جماعت نماز نہیں پڑھتا تو وہ منافق ہے مگر وہ لوگ جو اپنے بچوں کو نماز با جماعت ادا کرنے کی عادت نہیں ڈالتے وہ اُن کے خونی اور قاتل ہیں.اگر ماں باپ بچوں کو نماز با جماعت کی عادت ڈالیں تو کبھی اُن پر ایسا وقت نہیں آسکتا کہ یہ کہا جا سکے کہ ان کی اصلاح نا ممکن ہے اور وہ قابل علاج نہیں رہے.دوسری بات جو اُن کی تربیت میں نقص ڈالنے والی ہے وہ یہ ہے کہ بے جا محبت کی وجہ سے بچوں کے بے جا آرام و آسائش کا خیال رکھا جاتا ہے اور ان کو سختی اور مشقت کی عادت نہیں ڈالی جاتی.جب بچے کھیلنے گودنے کے لئے سخت گرمی اور دھوپ میں نگے سر ننگے پاؤں نکل جاتے ہیں یا سردی میں پھرتے رہتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ نماز با جماعت پڑھانا ان پر ختی اور مشقت تصور کی جائے.اگر اپنی ضرورتوں کے لئے وہ نہ گرمی کی پرواہ کرتے ہیں نہ سردی کی اور اس میں کسی قسم کی تکلیف محسوس نہیں کرتے تو نماز با جماعت میں اُن کو کیا تکلیف ہو سکتی ہے.غرض بچوں میں برداشت اور جفاکشی کی عادت پیدا کرنی چاہیئے.آج کل بہت سے اس قسم کے سامان پیدا ہو گئے ہیں جو بچوں میں محنت اور جفاکشی کی روح کو فتا کرنے والے ہیں اور عام طور پر سکولوں میں ایسے ناز و نخرے کے سامانوں کا رواج پایا جاتا ہے.مثلاً سر کے اگلے حصہ میں خاص صورت کے لمبے بال رکھنا.اس قسم کے ناز و نخروں کی یہی وجہ ہوتی ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہمیں خوبصورت سمجھا جائے ، ہم سے لوگ پیار کریں یہ بالکل زنانہ خصلتیں ہیں اور میں نے دیکھا ہے ہمیشہ ایسے لڑکوں کی چال ، اُن کا لب ولہجہ، ان کی گفتگو با لکل کرنا نہ طرز پر ہوتی ہے.پس کھانے پینے میں لباس میں بچوں کو ناز نخرے میں نہ ڈالنا چاہیئے.

Page 176

169 میرے نزدیک بچوں کے لئے گوشت کھانے کی کثرت بھی ان کے عدم استقلال کا موجب ہو جاتی ہے کیونکہ اُن کی ہڈیاں ابھی کمزور ہی ہوتی ہیں کہ ضرورت سے پہلے اُن کے اعضاء تناسل اور قومی شہوانیہ جوش میں آجاتے ہیں اس لئے بچوں کے واسطے سبزیاں اور ترکاریاں زیادہ مفید ہوتی ہیں.میرا مطلب یہ نہیں کہ بچوں کو گوشت بالکل ہی نہ دیا جائے بلکہ مطلب یہ ہے کہ کثرت اُن کے حق میں مضر ہے.الا ماشاء اللہ.کیونکہ بعض بچے جن کی چھاتی کمزور ہوتی ہے اُن کے لئے یا جن کے متعلق ڈاکٹری مشورہ ہو ان کو گوشت کھلانا ضروری ہوتا ہے مگر عام حالتوں میں بچوں کے لئے سبزی ہی زیادہ مفید ہوتی ہے.دنیا میں اخلاق کی درستی دو طرح سے ہوتی ہے.ایک تو ایمان کے ذریعہ سے کہ جس وقت اس سے کوئی بد اخلاقی سرزد ہوتی ہے ایمان کی وجہ سے وہ فورا چوکس اور ہوشیار ہو جاتا ہے گویا سوتا تھا پھر یکلخت جاگ اُٹھتا ہے.اور ایک اخلاق کی درستی عادت کی وجہ سے ہوتی ہے اور عادت بھی دو طرح کی ہوتی ہے.ایک عادت وہ ہوتی ہے جو اپنی ذات میں اچھی ہوتی ہے اور ایک عادت وہ ہوتی ہے جو اپنی ذات میں بُری ہوتی ہے.اور پھر جو عادت اپنی ذات میں اچھی ہوتی ہے اس سے اور اچھی عادتیں پیدا ہوتی ہیں جو اپنی ذات میں بُری ہوتی ہے اُس سے اور بُری عادتیں پیدا ہوتی ہیں پس وہ اچھی اور نیک عادت کو جس سے اور بھی اچھی اور نیک عادتیں پیدا ہوتی ہیں انسان طبعا اس کی بیچ اور عزت کرتا ہے..جب وہ اپنے آپ کو اس نیک عادت کی طرف منسوب سمجھتا ہے تو اس کی غیرت اس کے خلاف کرتے ہوئے اس کو ملامت کرتی ہے اور وہ مجبور ہوتا ہے کہ اپنا سائن بورڈ درست رکھے.ایک شخص جس نے سائن بورڈ تو یہ لگایا ہوا ہو کہ اس دوکان پر کوٹ فروخت ہوتے ہیں لیکن اندر اسے چاول ڈال رکھے ہوں تو جب کوئی بوٹوں کا گاہک آئے گا دکان میں چاول دیکھ کر اُسے ملامت کرے گا اور وہ کچھ جواب نہ دے سکے گا.کیونکہ بوٹوں اور چاولوں میں اتنا بڑا فرق ہے کہ اس کے لئے بحث کرنے اور تو جیبین بیان کرنے کی کوئی گنجائش نہیں لہذا اس کو خاموشی کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو گا.ہاں اگر چاولوں کا اُس نے بورڈ لگایا ہوا ہوتا تو موٹے یا بار یک چاولوں کی بحث بھی ہو سکتی تھی.تو بعض باتیں اتنی موٹی اور ایسی واضح اور گھلی ہوتی ہیں کہ جن کے متعلق بحث کا کوئی موقع ہی نہیں ہوتا.مثلاً اگر شریعت میں نماز با جماعت ادا کرنے کا حکم نہ ہوتا تو ایک بے نماز کو یہ بحث کرنے کا موقع مل سکتا تھا کہ میں تو گھر پر نماز پڑھ لیتا ہوں.لیکن

Page 177

170 جس صورت میں نماز با جماعت ادا کرنے کا حکم ہے اور وہ مسجد میں نماز با جماعت ادا کرنے کیلئے نہیں آتا وہ یہ عذر نہیں کر سکتا کہ میں گھر پر پڑھ لیتا ہوں پس ایسے احکام جو کھلے اور نمایاں ہوں ہر ایک کی جن پر نظر پڑتی ہو انکی پابندی سے انسان کے اندر ایک قومی غیرت پیدا ہو جاتی ہے اور اس کی وجہ سے وہ اخلاق سے اتنادُور نہیں جا پڑتا کہ قوم میں مطعون ہو جائے.ان باتوں میں سے ایک ڈاڑھی رکھنا ہے.مجھے ہمیشہ حیرت ہوا کرتی ہے کہ لوگ ڈاڑھی کیوں منڈواتے ہیں میں بھی ڈاڑھی رکھتا ہوں ڈاڑھی منڈوانے کی کوئی وجہ مجھے نظر نہیں آتی.میں نے کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ کوئی شخص سر جھکائے چلا آتا ہو اور دریافت کرنے پر اُس نے یہ کہا ہو کہ ڈاڑھی کے بوجھ سے میرا سر جھکا جاتا ہے یا کسی شخص کو میں نے نہیں دیکھا کہ وہ بیتاب ہور ہا ہو اور گھبرایا ہوا جار ہا ہو اور دریافت کرنے پر اس نے یہ بتلایا ہو کہ سخت گرمی لگ رہی ہے ڈاڑھی منڈوانے جارہا ہوں.اسی طرح میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی ضرورت کی بناء پر لوگ ڈاڑھی منڈواتے ہوں.دوسروں کو دیکھا دیکھی منڈواتے ہیں محض اس وجہ سے کہ دوسرے اُن پر ہنستے ہیں یا یہ کہ دوسرے بھی سب کے سب نہیں رکھتے.جب ڈاڑھی منڈوانے کی کوئی وجہ نہیں تو پھر ضرورت کیا ہے کہ ڈاڑھی منڈوائی جائے.ڈاڑھی اسلام کے شعائر میں سے ایک شعار ہے.اب ایک غیر جو دیکھے گا کہ ایک شخص مسلمان کہلاتا ہے اور پھر ڈاڑھی منڈوا تا ہے تو وہ یہی کہے گا کہ یہ کہلاتا تو مسلمان ہے لیکن اسلامی شعار کی اِس کے دل میں کچھ حرمت اور وقعت نہیں اس لئے وہ ڈاڑھی منڈوا کر اسلام کی ہتک کرتا ہے.جب ڈاڑھی کا کوئی بوجھ نہیں ، نہ یہ کہ اس کی وجہ سے سخت گرمی محسوس ہوتی ہے اور ادھر ڈاڑھی رکھنا اسلام کے شعار میں سے ہے اور آنحضرت ﷺ نے بھی اس کا مطالبہ کیا ہے اور یہ حکم ہے بھی ایسا جس کی تعمیل کو ہر کوئی دیکھ سکتا ہے.سر کے اگلے حصہ پر رکھے ہوئے بڑے بال تو ٹوپی یا پگڑی کے نیچے انسان چھپا بھی سکتا ہے لیکن ٹھوڑی تو چھپائی نہیں جاسکتی.پھر آنحضرت ﷺ کی فرمانبرداری اور اسلامی شعار کی حرمت کے لئے اگر ڈاڑھی رکھ لی جائے تو کونسی بڑی بات ہے.ایک شخص نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا ڈاڑھی رکھنا اسلام کے اصول میں سے ہے؟ دیکھئے سوال کرنے والے بھی کیا کیا راہیں نکالتے ہیں.اُس کا مطلب یہ تھا کہ میں کہہ دوں گا نہیں.تو پھر وہ یہ کہہ دے گا جب ڈاڑھی رکھنا اسلام کے اصول میں سے نہیں تو چاہئے کوئی رکھتے اور چاہے نہ رکھے ایک ہی بات ہے مگر میں نے اُسے جواب دیا کہ ڈاڑھی رکھنا اسلام کے

Page 178

171 اصول میں سے نہیں لیکن آنحضرت نے کی فرمانبر اوری کرنا اسلام کے اصول میں سے ہے.چونکہ آپ نے حکم فرمایا ہے کہ ڈاڑھی رکھو اس لئے رکھنا ضروری ہے.یہ ایسا ہی سوال ہے جیسے مثلاً کوئی پوچھے کیا لکڑیاں اُٹھانا اسلامی اصول میں داخل ہے.اور جب اُسے کہا جائے کہ نہیں تو اس سے دو یہ نتیجہ نکالے کہ جب اس کے باپ نے اُسے لکڑیاں اٹھا کر لانے کے لئے کہا اور اس کے انکار کر دینے پر اُسے مارا تو یہ بڑا ظلم کیا.بیشک لکڑیاں اٹھانا اصول اسلام میں داخل نہیں لیکن جب کوئی یہ سُنے گا باپ نے اسے لکڑیاں اٹھانے کیلئے کہا اور اس نے انکار کر دیا تو کوئی بھی اُسے مظلوم قرار نہیں دے گا بلکہ ہر ایک اس کو ملامت کرے گا کیونکہ اسلام ماں باپ کی فرمانبرادری اور اطاعت کا حکم دیتا ہے.یا مثلا کوئی سوال کرے کہ کیا مجلس میں آگے ہو کر بیٹھنا کوئی اسلامی اصول کی بات؟ تو ہر ایک یہی جواب دے گا کہ نہیں بلکہ پیچھے بیٹھنے کو انکساری بتا ئیں گے لیکن اگر کسی کو یہ پتہ لگے کہ نبی یا خلیفہ نے اُسے آگے بیٹھنے کے لئے کہا تھا اور اس نے انکار کر دیا تو پھر اس کے پیچھے بیٹھنے کو کوئی انکساری نہیں کہے گا کیونکہ اس نے باوجود آقا کے حکم کے صدر میں بیٹھنے سے انکار کر دیا.اسی طرح ایک سپاہی اگر کسی ڈاکٹر سے پوچھے گا کہ کیا رات کو جاگتے رہنا اچھی بات ہے؟ تو ڈاکٹر یہ نہیں کہے گا کہ ہاں اچھی بات ہے بلکہ وہ یہی کہے گا.آرام کرنا چاہیئے لیکن اگر اس سے وہ نتیجہ نکالے کہ رات کو پہرہ کے وقت سو جانے کی سزا میں جو اس کا کوٹ مارشل کیا گیا ہے یہ اس پر ظلم ہوا ہے کیونکہ ڈاکٹر کہتا ہے کہ ساری رات جاگنانہ چاہئے تو یہ درست نہیں ہوگا.اس وقت ڈاکٹر بھی اُسے یہی کہے گا کہ تجھے جاگنا چاہئے تھا کیونکہ فوجی افسر کا تیرے لئے یہ حکم تھا کہ تو جاگے اور پہرہ دے.اسی قسم کا امریکہ کا ایک واقعہ ہے.ایک شخص کو جو ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا نہایت خطرہ کے وقت پہرہ پر مقرر کیا گیا جس دوسرے سپاہی نے اس کا پہرہ بدلوانا تھا وہ نہ آیا اور زیادہ دیر ہو گئی.وہ چونکہ پہرہ دیتا تھک گیا تھا اس لئے اُس نے جب ایک جگہ ٹیک لگائی تو سو گیا اسی حالت میں افسر آ گیا اے گرفتار کر کے اس پر مقدمہ چلایا گیا.چوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ یہ سپاہی تھ کا ہوا تھا جس کی وجہ سے اس کی آنکھ لگ گئی اور پہرہ بدلوانے والے نے غلطی کی مگر ایسی حالت میں اگر دشمن آجاتا اور اس کو غافل پا تا تو ہزاروں جانیں ضائع ہو جا تیں اس لئے باوجود اس کے کہ وہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا اس کو گولی سے مارڈالا گیا.اب اس واقعہ کو اگر کوئی پیش نہ کرے اور کہے اس پر بڑا ظلم ہوا.سونا بھی کوئی جرم ہے ؟ خصوصا جب کہ کوئی شخص سخت تھکا

Page 179

172 ہوا ہو تو یہ اُس کی غلطی ہوگی.ہمیشہ سوال کی نوعیت کو دیکھنا چاہیئے.بعض سوال اخلاقی ہوتے ہیں جن کی نوعیت کو دیکھنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ اُن کے ساتھ حالات اور واقعات بدلتے رہتے ہیں اور بعض سوال مادی ہوتے ہیں جن کی نوعیت کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ ان کی صحت دیکھی جاتی ہے.جتنے اخلاقی امور ہیں اُن کو انسان چھپا سکتا ہے اور اُن کے حالات بدلتے رہتے ہیں لیکن بعض مادی اور ظاہری احکام ہوتے ہیں ان کو چھپانے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی.مثلا سر کے بال ہیں کہ ہر ایک کی نظر ان پر پڑ سکتی ہے بلکہ سر کے بالوں کو تو ٹوپی وغیرہ کے نیچے چھپایا بھی جا سکتا ہے لیکن ٹھوڑی منڈی ہوئی کو تو کوئی نہیں چھپا سکتا.مجھے افسوس ہے کہ بعض بڑے آدمی بھی ڈاڑھی منڈاتے ہیں.بڑے آدمی سے میری مُراد بڑی عمر کے آدمی ہیں.اگر انہیں کوئی منع کرے تو کہہ دیتے ہیں.کیا ڈاڑھی رکھنا اسلام کے اصول میں سے ہے؟ حالانکہ اگر وہ گھر میں بیوی سے کہیں کہ چاول پکانا یا فلاں قسم کا لباس پہنا اور پھر وہ نہ پہنے یانہ پکائے اور کہہ دے کہ یہ کوئی اسلام کے اصول میں سے ہے تو اس جواب کو وہ کبھی پسند نہ کریں گے.میں پوچھتا ہوں جس صورت میں اُن کی بیوی جب یہ جواب اُن کو دے اُسے وہ سٹنا پسند نہیں کرتے.تو جب اپنے او پر بات آتی ہے پھر وہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ کیا یہ کوئی اسلام کے اصول کی بات ہے.پس میں ایک تو اپنے طالب علموں سے یہ چاہتا ہوں کہ وہ ان ظاہری احکام اور شعار اسلام کی پوری پوری پابندی کریں جن کو ہر ایک شخص دیکھ سکتا اور رائے لگا سکتا ہے کہ وہ شعار اسلام کی حرمت کرتے ہیں یا پابندی.دوسری بات جو اخلاق کی درستی کے لئے ضروری ہے اور جس سے اسلام نے اصول ا منع کر دیا ہے وہ یہ ہے کہ کسی نقصان رساں چیز کی عادت نہ ڈالنا چاہیئے.دیکھو شراب سے شریعت نے منع کر دیا ہے کیونکہ اس کی ایسی عادت پڑ جاتی ہے جو چھوٹ نہیں سکتی اور انسان کئی قسم کے گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے.اس قسم کی عادت انسان کی آزادی کو کھو دیتی ہے اور دوسرے کا غلام بنادیتی ہے حلقہ نوشی یا سگریٹ نوشی یہ دونوں باتیں بھی ایسی ہی ہیں جن کی عادت سے بڑی بڑی بد اخلاقیاں پیدا ہوتی ہیں.ایک دفعہ ایک احمدی یہاں آئے انہیں ایسا واقعہ پیش آیا جس سے متاثر ہو کر کہنے لگے اب میں کبھی نہیں پیوں گا اس کی وجہ سے آج مجھے بہت ذلت اٹھانی پڑی.ان ایام میں یہاں عام طور پر حملہ نہیں ملتا تھا اب تو میں دیکھتا ہوں بازاروں بلکہ گلیوں سے بھی ہمارے گھر تک حقہ کی بُو آتی ہے، اُن کو ٹھے کی عادت تھی.وہ تلاش کرتے کرتے مرزا امام دین کے

Page 180

173 حلقے میں چلے گئے ، وہ ہمارے رشتہ دار تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چچا زاد بھائی تھے مگر سلسلہ کے سخت مخالف تھے کی خاطر جب وہ احمدی وہاں جا بیٹھے تو مرزا امام دین نے حضرت صاحب کو گالیاں دینی شروع کر دیں اور لگے ہنسی اور تمسخر کرنے وہ تھے کی خاطر سب کچھ بیٹھے سنتے رہے.وہ کہتے ہیں اُسی وقت میں نے دل میں ارادہ کر لیا کہ اب گلہ نہ پیوں گا اس نے مجھے ذلیل کرایا ہے.اُن کے اندر کچھ ایمان تھا اس لئے وہ بچ گئے ورنہ کئی شخص یہاں آئے اصلاح کے واسطے مگر یلہ کے لئے اُس مجلس میں گئے اور خراب ہو گئے کھئے اور تمباکو کی عادت انسان کو نہایت پست ہمت اور دوسرے کا غلام بنا دیتی ہے.پٹھان کشمیریوں کو حقیر جانتے ہیں گو ہندوستان میں اُن کی ایسی حالت نہیں جیسی کشمیر میں ہے.وہاں سے جو لوگ محنت مزدوری کے لئے آتے ہیں عموماً ان کو لوگ حقیر سمجھتے ہیں.میں نے دیکھا ایک پٹھان جس کی نسوار کی ڈبیہ نہیں گر گئی تھی وہ نسوار کے لئے بیقرار ہو کر ایک کشمیری سے جو اُس کے پاس سے گزرا بڑی لجاحت سے کہنے لگا.بھائی کشمیری جی تمھارے پاس نسوار ہے؟ تو عادت انسان کو غلام بنا دیتی ہے اور اُس کے حوصلہ کو پست کر دیتی ہے.میری تو اللہ تعالے نے ایسی طبیعت بنائی ہے کہ کسی چیز کی مجھے عادت پڑتی ہی نہیں.جب میں بچہ تھا اُس وقت بیماری کی وجہ سے چھ ماہ تک مجھے افیون کھلائی گئی لیکن مجھے اُس وقت بھی اس کی عادت نہ پڑی.والدہ صاحبہ کہتی ہیں جس روز نہیں کھلائی جاتی تھی اُس روز بھی مجھے کوئی تکلیف نہ ہوتی تھی.میں چائے پیتا ہوں گو مجھے عادت نہیں ہوتی تا ہم میں چھوڑ بھی دیا کرتا ہوں کہ ممکن ہے کہ کسی وقت کمزوری پیدا ہو جائے.تو سگریٹ پینے والے اور حلقہ نوش جہاں کہیں لوگوں کو تمبا کو بیتے دیکھتے ہیں طلہ کے لالچ میں اُن کے پاس جا بیٹھتے ہیں.وہ لوگ نیک ہوں یا ہد اللہ کی حرص ان کو وہاں کھینچ لے جاتی ہے.ایک ہندو کا قصہ بیان کرتے ہیں اُسے حلقہ نوشی کی عادت تھی.وہ کہیں جارہا تھا اُسے حقہ کی خواہش ہوئی ایک چوڑھے کا حقہ رکھا تھا وہ لے کر پینے لگ گیا حالانکہ چوڑھے کا حقہ پینا تو درکنار ہند و چوڑھے کو اپنے ساتھ بھی نہیں لگنے دیتے.جب اُس نے چوڑھے کو آتے دیکھا تو دل میں خیال کیا یہ اب مجھے جتلائے گا اس لئے اُسے آواز دے کر کہنے لگا اس بات کا کسی سے ذکر نہ کرنا اور حقہ پی کر خموشی سے اٹھ کر چلا گیا.تو ہر ایک قسم کی بد عادت سے بچے رہنا چاہئے تا انسان غلامی سے آزاد ہے.علاوہ اس کے کہ حلقہ نوشی تمام بد اخلاقیوں کا منبع ہے اور اس سے انسان پست ہمت اور دوسروں کا غلام

Page 181

174 بن جاتا ہے.اس کی عادت سے بہت امراض بھی پیدا ہوتے ہیں.حقہ اعصاب کو نقصان پہنچاتا ہے، دمہ ، رعشہ اور بیسیوں بیماریاں اس سے پیدا ہوتی ہیں.پس دوسری نصیحت میری یہ ہے کہ تمبا کو پینے سے بچنا چاہئے کیونکہ یہ علاوہ بہت کی بد اخلاقیوں کے صحت کی خرابی کا بھی موجب ہے.احمد یہ چوک اور ہمارے بازاروں میں حصہ نہیں ہونا چاہیئے.ہمارے کارکنوں کوفتی کے ساتھ اس امر کی نگرانی کرنی چاہیئے.مجھے افسوس ہے کہ ہمارے بازاروں میں دکانوں پر حقہ پیا جاتا ہے.حضرت صاحب کے زمانے کا ایک واقعہ ہے کہ ایک شخص کی نسبت آپ کو اطلاع دی گئی کہ وہ ہر وقت مہمان خانہ میں بیٹھا حقہ پیتا رہتا ہے.آپ نے اُس کو فوراً نکال دیا.کہاں یہ بات کہ حقہ پینے والے کو حضرت صاحب مہمان خانہ سے نکال دیں اور کہاں یہ کہ اب ہمارے چوک اور بازاروں میں بھی حقہ پیا جاتا ہے.اگر کارکنوں سے غفلت ہوئی تھی تو جماعت کے دوسرے دوستوں کا فرض تھا کہ وہ دکانداروں سے جن کی دکانوں پر حقہ پیا جاتا ہے یا سگریٹ فروخت کئے جاتے ہیں سود الینا بند کر دیتے.اول تو کارکنوں کے اندر اس نقص کو دور کرنے کا احساس پیدا ہونا چاہئے تھا.اگر ان میں نہیں ہوا تھا تو دوسرے لوگوں کا فرض تھا کہ وہ اُن کو یاد دلاتے.عام لوگوں کو تو حقہ پینے سے جبر انہیں روک سکتے مگر چونکہ یہ صحت کو خراب کرتا ہے اس لئے ہم اپنے طالب علموں پر جبر بھی کر سکتے ہیں.اس وقت تک بہت سے لوگوں نے میری نصیحت پر حقہ چھوڑ دیا ہے اور ہر طبقہ کے لوگوں نے چھوڑا ہے.چھوٹوں نے بھی اور بڑوں نے بھی.امراء نے بھی اور غرباء نے بھی.امید ہے کہ بقیہ لوگ بھی اس بات کو چھوڑ دیں گے.دجال کی ایک یہ علامت بتائی گئی ہے کہ اُس کے آگے بھی دھواں ہو اور پیچھے بھی.سگریٹ پینے والا منہ سے دھواں نکالتا ہے پھر وہ دھواں پیچھے کو چلا جاتا ہے.یورپین لوگ جدھر جائینگے سگریٹ پیتے جائیں گے.یہ بھی دجالی عادت ہے اور مسیح موعود د جالی عادتوں کو مٹانے آئے تھے.پس تم بھی دجالی عادات کو چھوڑ دو.یہ دونوں امور جو میں نے بیان کئے ہیں نہ صرف یہ کہ بُری عادتیں ہیں بلکہ دجال کی نشانیاں ہیں اس لئے دجالی نشانیوں کو مٹاؤ اور اپنی اصلاح کرو اور دوسروں کی اصلاح کی کوشش کرو تا دنیا کے لئے نمونہ بنو.اللہ تعالیٰ توفیق عطا کرے اور تمام بد اخلاقیوں کے موجب امور سے بچنے میں تمھاری مددفرمائے.آمین :

Page 182

175 احمد کی خواتین کے متعلق حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کے ارشادات ۱۹۲۵ میں جلسہ سالانہ پر حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی نے خواتین کے جلسہ میں جو تقریر فرمائی وہ مکمل تو نہ لکھی جاسکی البتہ اس کا جو مفہوم مرتب کیا گیا وہ درج ذیل کیا جاتا ہے.حضور نے سورہ دھر کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اس سورۃ میں بلکہ اس رکوع میں جو میں نے پڑھا ہے اللہ تعالے نے انسان کی زندگی کے ابتدائی و درمیانی و آخری انجام بتائے ہیں اس لئے یہ رکوع اپنے مضمون کے لحاظ سے کامل رکوع ہے.اپنی پیدائش پر غور کر و اللہ تعالی فرماتا ہے هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِيْنُ مِّنَ الدَّهْرِلَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَذْكُورًا.دنیا میں انسان گناہ کا مرتکب تکبر کی وجہ سے ہوتا ہے اور تکبر اُس کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے.وہ با وجود آنکھوں کے نہیں دیکھتا اور با وجود کانوں کے نہیں سنتا اور وہ یہ نہیں جانتا کہ ہر ایک انسان پر ایک زمانہ ایسا آیا ہے، خواہ وہ امیر ہو یا غریب، فقیر ہو یا بادشاہ کہ اُس کا ذکر دنیا میں کوئی نہ کرتا تھا.ہر ایک شخص اپنی زندگی پر غور کر کے دیکھ لے جس کی عمر آج چالیس سال کی ہے اکتالیس سال پہلے اُس کو کون جانتا تھا ، اور جس کی عمر پچاس سال کی ہے اکاون سال پہلے اُس کو کوئی جانتا تھا.پس چاہے کتنا ہی بڑا انسان ہو خیال کرے کہ اُس کی زندگی شروع کہاں سے ہوئی ہے.دنیا تو پہلے سے آباد چلی آرہی تھی اور جب اُس کے

Page 183

176 پیدا ہونے سے پہلے بھی دنیا آبادتھی اور یہ بعد میں آیا اور اس کے نہ آنے سے پہلے کوئی نقصان نہیں تھا اور دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا جابر و فاتح بادشاہ جو گزرا ہے اُس کے نہ رہنے اور مر جانے سے دنیا کو کوئی نقصان نہیں ہوا اور دنیا ویسے ہی آباد چلی آرہی ہے.بڑے بڑے بادشاہ جو ایک وقت حکومت کرتے تھے ایک وقت آیا کہ اُن کو کوئی جانتا بھی نہ تھا.انسان کو چاہیئے کہ اپنی پیدائش پر غور کرتا رہے.اس سے اُس میں تکبر پیدا نہیں ہوگا اور وہ بہت سے گنا ہوں سے بیچ جائے گا.بچہ کی پیدائش پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ أَمْشَاجِ نَبْتَلِيْهِ فَجَعَلْنَهُ سَمِيعًا بَصِيرًا.ہر ایک انسان پر ایسا زمانہ آیا ہے کہ دنیا میں اُس کا کوئی مذکور نہیں تھا.پھر ہم نے اُس کو مختلف چیزوں کے خواص سے تسبیح اور بصیر انسان بنا دیا.انسان کیا ہے انہی چیزوں یعنی مختلف قسم کے اناجوں، ہوں بہتر کاریوں اور گوشت کا خلاصہ ہے جو ماں باپ کھاتے ہیں.بچہ ماں باپ سے ہی پیدا ہوتا ہے اور کبھی کوئی محمد آسمان سے نہیں گرا.دیکھو اگر کسی شخص کی غذا بند کر دی جائے تو اُس کے ہاں بچہ پیدا ہونا تو در کنار وہ خود بھی زندہ نہیں رہ سکے گا.روح کی پیدائش پھر بچہ ہی سے رُوح پیدا ہوتی ہے.عام لوگوں کا خیال ہے کہ بچہ تو ماں باپ سے پیدا ہوتا ہے رُوح کہیں آسمان سے آ جاتی ہے جو اللہ تعالے کے پاس پہلے ہی موجود ہوتی ہے مگر یہ خیال روح کی نسبت غلط ہے.صحیح یہ ہے کہ روح بھی ماں باپ سے ہی پیدا ہوتی ہے اور یہ ایک بیہودہ اور لغو خیال ہے کہ بچہ تو ماں.

Page 184

177 باپ سے پیدا ہوتا ہے اور روح آسمان سے آتی ہے.یہ آریوں کا خیال ہے کہ رُوح ہمیشہ سے چلی آتی ہے اس طرح خدا روح کا خالق تو نہ ہوا.سورہ دھر میں اللہ تعالے ماں کے پیٹ میں بچہ کے نشو ونما کو اس طرح بتاتا ہے کہ جس وقت دنیا میں اُس کا کوئی مذکور نہ تھا ہم نے چند چیزوں کے خلاصہ سے اس کو سمیع اور بصیر انسان بنایا اور یہ اس ہی غذا کا خلاصہ ہے جو ماں باپ کھاتے تھے.بچہ کی پیدائش اور رُوح کی مثال اُس طرح ہے جس طرح ہو اور کھجور سے سرکہ بناتے ہیں اور سرکہ سے شراب.اسی طرح بچہ سے رُوح پیدا ہو جاتی ہے.گلاب کا عطر گلاب کے پھولوں کا ایک حصہ ہے جو خاص طریقہ پر تیار کرنے سے بن جاتا ہے.پس جس طرح پھول کی پتیوں سے عطر نکل آتا ہے اور سرکہ سے شراب بن جاتی ہے اسی طرح بچہ کے جسم سے رُوح تیار ہو جاتی ہے.ہمارے ملک میں تو ابھی اس قدر علم نہیں ہے یورپ میں دوائیوں سے عطر تیار کرتے ہیں.دو ایک دوائیاں ملائیں اور خوشبو بن گئی.پس جس طرح پھولوں سے خوشبو اور جو سے شراب بن جاتی ہے اسی طرح جسم سے روح پیدا ہو جاتی ہے.پہلے بچے کا جسم پیدا ہوتا ہے اور پھر جسم میں ہی روح پیدا ہو جاتی ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ که گوشت ، ترکاریاں، پانی، طرح طرح کے پھل، ہر ایک قسم کی دالیں جو ماں باپ کھاتے ہیں، ان مختلف قسم کی غذاؤں کا خلاصہ نکال کر ہم نے انسان کو پیدا کیا.انسان کو مقدرت دی گئی پھر إِنَّا هَدَينه السَّبِيلِ إِمَّا شَاكِرًا إِمَّا كَفُورًا.ہم نے جو سب چیزوں کے نچوڑ سے خلاصہ بن گیا تھا اس پر انعام کیا اور وہ بولنا چاہتا انسان بن گیا.پس تم دیکھو کہ تمھاری ابتداء اس طرح پر ہوئی اور پیدائش کے لحاظ سے تمھارے اور گائے بھیڑ بکری میں کوئی فرق نہیں.اگر فرق ہوا تو احسان سے ہوا ہے اور وہ یہ کہ اس کی طرف وحی بھیجی اس پر اپنا کلام اتارا اور اس کے اندر یہ قوت رکھ دی کہ چاہے تو شکر کرے اور چاہے تو انکار کرے.ہم نے انسان کو ان حقیر چیزوں سے پیدا کیا اور اس میں یہ قوت رکھ دی کہ چاہے ہماری راہ میں جدو جہد کر کے ہماری رضاء کو حاصل کرلے اور چاہے ہمارے نبی کا منکر ہو جائے.اس کو جو اقتدار حاصل ہے ہم اس میں دخل نہیں دیتے.ہاں خدا کا کلام اُس پر اترا اور اسے بتایا کہ اُس پر چل کر ترقی کر سکتے

Page 185

178 مقدرت کیوں دی گئی کوئی کہہ سکتا ہے خدا نے انسان کو یہ قدرت ہی کیوں دی اور اس کو آزاد کیوں چھوڑا، اس سے اُس کی کیا غرض تھی ؟ سو معلوم ہو کہ اگر خدا تعالے انسان کو قدرت نہ دیتا تو وہ ترقی بھی نہ کرتا.دیکھو آگ کی خاصیت جلانا ہے.آگ میں جو چیز بھی پڑے گی وہ اس کو جلا دے گی چاہے وہ چیز آگ جلانے والی ہی کیوں نہ ہو.دیکھو اگر کسی گھر میں چراغ جل رہا ہو اور وہ گر پڑے اور سارا گھر جل جائے تو کوئی چراغ کو ملامت نہیں کرے گا.اسی طرح کوئی شخص آگ کو کبھی الزام نہیں دیتا کیونکہ جانتے ہیں کہ آگ کی خاصیت جلانا ہے لیکن اگر کوئی انسان کسی کو بلا وجہ انگلی بھی لگائے تو لوگ اس کو ملامت کریں گے کیونکہ اس میں یہ بھی مقدرت ہے کہ کسی کو ایذاء نہ پہنچائے.اسی طرح دیکھو مکان بھی انسان کو سردی سے بچاتا ہے مگر کبھی کسی انسان نے مکان کا شکر یہ ادا نہیں کیا.اس کے مقابلہ میں کوئی انسان کسی کو ایک کر نہ دے دیتا ہے تو اُس کا احسان مانتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کو اختیار تھا چاہے دیتا چاہے نہ دیتا.تو آگ اگر بچہ کو جلا دے تو بھی کوئی آگ کی مذمت نہیں کرے گا اور انسان اگر انگلی بھی لگائے تو اُسے بُرا بھلا کہیں گے اس کی کیا وجہ ہے یہی کہ آگ کو اختیار نہیں مگر انسان کو اختیار تھا چاہے دُکھ دیتا چاہے نہ دیتا.اسی طرح پانی کا کام ہے ڈبونا.سمندر میں کئی انسان ڈوبتے رہتے ہیں مگر کبھی کوئی سمندر کو ملامت نہیں کرتا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ قانون ہے اس میں سمندر کو اختیار نہیں.پھر سارے انعام اختیار کے ساتھ وابستہ ہیں.انسان کو اس لئے اختیار دیا گیا کہ اُس کو انعام دیا جائے اور جو انعام کے قابل ہو سکتا ہے وہی سزا کا بھی مستحق ہو سکتا ہے.بعض دفعہ بچہ زمین پر گر پڑتا ہے تو زمین کو پیٹتا ہے یا بعض عورتیں کہتی ہیں آؤزمین کو پیٹیں اس نے کیوں تمھیں گرایا.مگر یہ محض ایک تماشہ ہوتا ہے جو بچہ کے بہلانے کے لئے ہوتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے انسان کو اختیار اس لئے دیا کہ چاہے بڑھ چڑھ کر انعام لے جائے چاہے سزا کا مستحق ہو جائے.کئی مسلمان مرد اور عورتیں کہتی ہیں جو کچھ اللہ تعالے نے ہمیں بنانا تھا بنادیا میں کسی کوشش کی ضرورت نہیں.اگر بیگی ہے تو بتلاؤ پھر آب خدا کا کیا حق ہے کہ ہم میں سے کسی کو سزا دے یا انعام.دیکھو آگ کا کام خدا نے جلانا اور پانی کا کام ڈبونا رکھا ہے.آب اگر کوئی چیز کے جلنے پر آگ کو یا ڈبونے پر پانی کو مارے تو چوڑھی چماری بھی کہے گی یہ پاگل ہے.مگر تم میں سے بہت سی عورتیں ہیں جو کہتی ہیں اگر ہماری تقدیر میں جہنم ہے تو جہنم میں ڈالے جائیں گے اور اگر بہشت

Page 186

179 ہے تو بہشت میں جائیں گے کچھ کوشش کرنے کی کیا ضرورت ہے.دیکھو پانی یا آگ کو مارنے والی عورت کو تمام پاگل کہتے ہیں اس لئے کہ آگ یا پانی کا جو کام تھا اس نے وہی کیا.پھر خدا اگر انسان کو ایک کام کرنے کے لئے مجبور بنا کر پھر سزا دیتا ہے تو کیا نعوذ بااللہ لوگ اُسے پاگل نہ کہتے.کیونکہ اُس آدمی نے تو وہی کام کیا جو اُس کی تقدیر تھا.پھر چور، ڈاکو ، جواری سب انعام کے قابل ہیں کیونکہ انہوں نے وہی کام کیا جو اُن کے مقدر میں تھا اور جس کام کے لئے وہ پیدا کئے گئے تھے.مگر اللہ تعالے اس کی تردید فرماتا ہے اور کہتا ہے اگر جبر ہوتا تو کافر نہ ہوتے.کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جو مار مار کے لوگوں سے کہے کہ مجھ کو گالیاں دو یا میرے بچہ کو مارو.جب تم میں سے کوئی ایسا نہیں کرتا تو خدا نے جو زبان دی ، کان دئے تو کیا اس لئے کہ مجھ کو اور میرے رسولوں کو گالیاں دو.جب دنیا میں کوئی کسی کو اپنے ساتھ بُرائی کرنے کے لئے مجبور نہیں کرتا تو خدا تعالے کیوں لوگوں کو بُرے کاموں کے لئے مجبور کرنے لگا.اگر اُس نے مجبور ہی کرنا ہوتا تو سب کو نیکی کے لئے مجبور کرتا.پس یہ غلط خیال ہے اور خدا تعالے اس کو رد کرتا ہے.تقدیر کے متعلق غلط خیال عورتوں میں یہ مرض زیادہ ہوتا ہے کہ کسی کا بیٹا بیمار ہو جائے تو کہتی ہیں تقدیر یہی تھی کوئی اور بات ہو جائے تو تقدیر کے سر تھوپ دیتی ہیں.میں کہتا ہوں اگر ہر بات تقدیر سے ہی ہوتی ہے اور انسان کا اس میں دخل نہیں ہوتا تو ایک عورت روٹی کیوں پکاتی ہے تقدیر میں ہوگی تو خود بخود پک جائے گی ، رات کو لحاف کیوں اوڑھتی ہے ، اگر تقدیر میں ہوگا تو خود بخود سب کام ہو جائے گا مگر ایسا کوئی نہیں کرتا.ایک دفعہ میں لاہور سے قادیان آ رہا تھا اُسی گاڑی میں پیر جماعت علی شاہ صاحب لاہور سے سوار ہوئے.حضرت صاحب ایک دفعہ سیالکوٹ گئے تو انہوں نے یہ فتوی دیا تھا کہ جو کوئی اُن کے وعظ میں جائے یا اُن سے ملے وہ کافر ہو گا اور اُس کی بیوی کو طلاق ہو جائے گی کیونکہ یہ مسئلہ ہے کہ جب مرد کا فر ہو جائے تو اُس کی بیوی کو طلاق ہو جاتی ہے.ایک دفعہ ایک احمدی اُن کے وعظ میں گیا اور اُن سے کہا آپ نے میری شکل دیکھ لی ہے میں احمدی ہوں اس لئے آپ آب کافر ہو گئے اور آپ کی بیوی کو طلاق ہوگئی.اس پر سب لوگ اُس کو مارنے لگ گئے.خیر انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کہا جائیں گے؟ میں نے کہا بٹالہ.انہوں نے کہا خاص بٹالہ یا کسی اور جگہ ؟ میں نے کہا بٹالہ کے پاس ایک گاؤں ہے وہاں.انہوں نے کہا اُس گاؤں کا کیا نام

Page 187

180 ہے ؟ میں نے کہا قادیان.کہنے لگے وہاں کیوں جاتے ہو؟ میں نے کہا میرا وہاں گھر ہے.کہنے لگے کیا تم مرزا صاحب کے رشتہ دار ہو؟ میں نے کہا میں اُن کا بیٹا ہوں.اُن دنوں اُن کا کسی احمدی کے ساتھ جھگڑا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ میں اُس احمدی سے کہوں کہ مقدمہ چھوڑ دے.مگر انہوں نے پہلے غرض نہ بتائی اور کچھ خشک میوہ منگوا کر کہا کھاؤ.میں نے کہا مجھ کو نزلہ کی شکایت ہے.کہنے لگے جو کچھ تقدیر الہی میں ہوتا ہے وہی ہوتا ہے.میں نے کہا اگر یہی ہے تو آپ سے بڑی غلطی ہوئی ناحق سفر کی تکلیف برداشت کی اگر تقدیر میں ہوتا تو آپ خود بخود جہاں جانا تھا پہنچ جاتے.اس پر خاموش ہو گئے.تو تقدیر کے متعلق بالکل غلط خیال سمجھا گیا ہے اللہ تعالی فرماتا ہے ہم کسی کو مومن یا کا فرنہیں بناتے بلکہ وہ خود ہی شکر گزار بندہ یا کافر بنتا ہے.اور ہم نے جب اُس کو مقدرت دیدی تو حساب بھی لیتا ہے.دیکھو جس نوکر کو مالک اختیار دیتا ہے کہ فلاں کام اپنی مرضی کے مطابق کرو اس سے محاسبہ بھی کرتا ہے.منکروں کی سزا پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَفِرِينَ سَلَا سَلَا وَأَغْلَالًا وَّسَعِيراً.جو لوگ انکار کرتے ہیں اُن کے لئے زنجیریں اور طوق ہیں اور آگ رکھی ہے.(سورۃ دلدھر ) رسوم اور عادات سے بچو وہ زنجیر کیا ہے؟ وہ رسوم ہیں جن کا تعلق قوم کے ساتھ ہوتا ہے.مثلاً بیٹے کا بیاہ کرنا ہے تو خواہ پاس کچھ نہ ہو قرض لے کر رسوم پوری کرنی ہوتی ہیں.یہ زنجیر ہوتی ہے جو کا فرکو جکڑے رہتی اور وہ اس سے علیحدہ نہیں ہونے پاتا.اس کے مقابلہ میں مومن ہے اُس کے نکاح پر کچھ خرچ نہیں ہوتا.اگر توفیق ہے تو چھوہارے بانٹ دو اگر نہیں تو اس کے لئے بھی جبر نہیں.پھر اغلال وہ عادتیں ہیں جن کا اپنی ذات سے تعلق ہے.اسلام عادتوں سے بھی روکتا ہے، شراب، حقہ، چائے کسی چیز کی بھی عادت نہ ہونی چاہئے.انسان عادت کی وجہ سے بھی گناہ کرتا ہے.حضرت صاحب کے زمانہ میں حضرت صاحب کے مخالف رشتہ داروں میں سے بعض لوگ محلہ لے کر بیٹھ جاتے.کوئی نیا آدمی جسے للہ کی عادت ہوتی وہاں چلا جاتا تو وہ خوب گالیاں دیتے.چنانچہ ایک احمدی انکی مجلس میں گیا انہوں نے مطلہ آگے رکھ دیا اور حضرت صاحب کو گالیاں

Page 188

181 دینے لگ گئے.اس سے اُس احمدی کو سخت رنج ہو ا کہ میں ان کی مجلس میں کیوں آیا.انہوں نے جب دیکھا کہ یہ کچھ ہوتا نہیں تو پوچھا میاں تم کچھ بولے نہیں.احمدی نے کہا بولوں کیا میں اپنے آپ کو ملامت کر رہا ہوں کہ حلقہ کی عادت نہ ہوتی تو یہ باتیں نہ ملنی پڑتیں.آخر اس نے عہد کیا کہ میں آئندہ کبھی حلقہ نہ پیوں گا.تو عادت انسان کو گناہ کے لئے مجبور کر دیتی ہے.کافروں کو جلن پھر سعیر وہ آگ ہوتی ہے جو ان کے اندر لگی ہوتی ہے اور انہیں تسلی نہیں ہونے دیتی.دیکھو ایک بت پرست کے سامنے جب ایک مومن اپنے خدا کی وحدانیت بیان کرتا ہے تو وہ کس قد رجلتا ہے.اور ایک عیسائی کے سامنے جب ایک یہودی کہتا ہے کہ تمھارا خداوہی ہے جس کو ہم نے کانٹوں کا تاج پہنایا اور یہ یہ تکلیفیں دیں تو اس کے سینہ میں کس قدر جلن پیدا ہوتی ہے.تو کافروں کے دلوں میں ایک آگ ہوتی ہے جو ان کو جلاتی ہے.ایک دفعہ ایک یہودی حضرت عمر سے کہنے لگا مجھ کو تمھارے مذہب پر رشک آتا ہے اور میرا سینہ جلتا ہے کہ کوئی بات نہیں جو اس شریعت نے چھوڑی ہو کاش کہ یہ سب باتیں ہمارے مذہب میں ہوتیں.تو یہ ایک آگ ہے جو اُن کو جلاتی ہے.اس کے مقابلہ میں اللہ تعالے مومن کا حال اس آیت میں بیان فرماتا ہے إِنَّ الْأَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِن كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُوْرًا.یعنی کافروں کے مقابلہ میں خداوند کریم مومنوں کو کافوری پیالہ پلاتا ہے.کافور کی خاصیت ٹھنڈی ہے.پس جہاں کا فر کا سینہ جلتا ہے اُس کے مقابلہ میں مومن کا مزاج کا فور ہو جاتا ہے.یعنی جہاں کا فر جلتا ہے مومن خوش ہوتا ہے کہ میرے مذہب جیسا کوئی مذہب نہیں.توحید کی تعلیم اور کلام الہی اس کے سامنے ہوتا ہے.ایک مسلمان جس وقت قرآن پڑھتا ہے کہ وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں اُن پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے اُن کو الہام ہوتا ہے تو اس کا دل اس بات پر کس قدرخوش ہوتا ہے کہ میں خدا تعالے سے کس قدر قریب ہوں.اسلام پر چلنے سے ہی خدا سے تعلق ہوتا ہے.اس کے مقابلہ میں وید کا ماننے والا جب وید پڑھتا ہے تو کس قدر کڑھتا ہے کہ خدا جو وید کے رشیوں سے کلام کرتا تھا اب مجھ سے نہیں کرتا میں کیا اس کا سوتیلا بیٹا ہوں.تو مومن خوش ہوتا ہے اور کا فرجاتا ہے.

Page 189

182 مومن بننے کے لئے قربانیوں کی ضرورت مگر وہ کا فوری پیالہ جو مومن کو دیا جاتا ہے مشکل سے ملتا ہے اللہ تعالی فرماتا ہے.عَيْنًا يَّشْرَبُ صلى الله بِهَا عِبَا دُاللَّهِ يُفَجِّرُ ونَهَا تَفجيرًا - جب رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں لوگ ایمان لائے تو قتل کئے گئے.حضرت بلال کو گرم ریت پر لٹا کر مارتے اور کہتے کہولات خدا ہے.فلاں بُت خدا ہے، مگر وہ لا إله الا اللہ ہی کہتے.اور باوجود اس قدر تکلیفوں کے انہوں نے اپنا ایمان نہ چھوڑا.تو ایمان لانا کوئی معمولی بات نہیں.جنت کے اردگرد جو روکیں ہیں وہ مشکل سے ہٹتی ہیں اور جو لوگ ایمان کی نہر کھود کر لاتے ہیں وہ بڑی بڑی قربانیاں کرتے ہیں.یہاں جو نہر سے مشابہت دی ہے تو اسی لئے کہ نہر بڑی مشکل سے کھدتی ہے.اگر اکیلے کسی کو کھودنی پڑے تو کبھی نہ کھود سکے.اب اگر ہماری جماعت کے مرد یا عور تیں خیال کریں کہ ہم کو یونہی ایمان مل جائے اور کوئی قربانی نہ کرنی پڑے تو یہ ناممکن ہے.ایمان کے لئے بہت سی قربانیوں کی ضرورت ہے.قربانیاں دو قسم کی ہوتی ہیں.ایک تو خدا کی طرف سے ہوتی ہیں اور دوسری بندہ آپ اپنے او پر عائد کرتا ہے.پہلی قربانیاں جو خدا کی طرف سے ہوتی ہیں وہ اس قسم کی ہوتی ہیں.مثلا کسی کا بچہ مرجائے یا کسی کی بیوی مر جائے اس میں بندے کا دخل نہیں ہوتا.اس کے علاوہ جو دوسری قربانی ہے اس میں انسان کا دخل ہوتا ہے کہ بھائی بند ، بیٹا بیوی سب مخالف ہیں اور وہ ایمان لاتا ہے اور اُن کی پرواہ نہیں کرتا یہ ہے جو ایمان کی نہر کو چیر کر لاتا ہے.اسی طرح ایک عورت ہے جس کی سمجھ میں حق آ گیا.یا کوئی لڑکا لڑکی ہے جس پر حق کھل گیا اور وہ اپنے ایمان پر قائم رہے اور مخالفت کا خیال نہ کرے تو یہی نہر ہے جو کھود کر لاتے ہیں.بچپن میں ایمان لانے والوں میں بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی ہیں جو پہلے ہندو تھے.اُن کے والد آ کر اُن کو لے گئے اور جا کر ایک کمرہ میں بند کر دیا.چھ مہینے بند رکھا ایک دن انہیں موقعہ ملا تو وہ پھر بھاگ کر یہاں آگئے.تو ایمان کی نہر حاصل کرنے کے لئے بڑی قربانی کی ضرورت ہے.دنیا میں جب کوئی کپڑا، جوتی ، روپیہ، غرض کوئی چیز مفت نہیں ملتی تو ایمان جیسی نعمت کیسے مفت مل جائے اور نہر کا لفظ ہی بتا رہا ہے کہ یہ بڑا مشکل کام ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مومن وہی ہے جو قربانی کرتا ہے.اس سے وہ ترقی کرتا ہے.

Page 190

183 مومن کی صفات پھر اللہ تعالے فرماتا ہے يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ، مُسْتَطِيْرًا.وہ خدا کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور ڈرتے ہیں اُس دن سے کہ انجام کا دن ہوگا انجام کا دن ایک دنیا میں بھی آتا ہے اور ایک آخرت میں آئے گا.اوّل آپ قربانی کرتے ہیں پھر اس سے بڑھ کر دنیا میں خدا کے مظہر بن جاتے ہیں.وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِيْنًا وَيَتِيمَ وَ أَسِیرًا.خدا رزق دیتا ہے وہ بھی لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں حتی کہ آپ محتاج ہوتے ہیں مگر اپنا کھانا غریبوں، مسکینوں اور قیدیوں کو کھلا آتے ہیں.پھر إنما نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا.وہ کھانا کھلا کر احسان نہیں جتاتے کہ فلاں وقت ہم نے یہ احسان کیا تھا ، یہ دعوت دی تھی، بلکہ اُن کا احسان اپنے او پر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ہم کو نیکی کا موقعہ دیا.اُن کو کسی کے ساتھ سلوک کرنے میں مزا آتا ہے.پس مومن جس کے ساتھ سلوک کرتا ہے اسکا احسان سمجھتا ہے کہ اُس نے شکر کا موقعہ دیا.عَلى حُبّہ کا یہ مطلب ہے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے اللہ ہی کے لئے کرتا ہے شہرت کے لئے نہیں کرتا.وہ اللہ تعالے کی رضاء جوئی کے لئے کرتا ہے.اس کا ایک ہی مقصود ہوتا ہے کہ میرا مولا مجھ سے راضی ہو جائے.مومنوں کو کیا بدلہ ملے گا پھر اُن کی احسان کرنے کی ایک اور بھی غرض ہوتی ہے اور وہ یہ کہ إِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَمُطَرِيرًا.اُس دن خدا ہمارے کام آئے جو کہ بہت ڈراؤنا دن ہے.اللہ تعالے ہم کو ان خطرات سے بچائے اور ہم پر رحم کرے.ایسے لوگوں کی نسبت اللہ تعالی فرماتا ہے فَوقَهُمُ اللهُ شَرَّذْلِكَ الْيَوْمِ وَلَقَهُمْ نَضْرَةً وَّ سُرُوْرًا.ایسے ایمان والوں کے ساتھ اللہ تعالے ایسا سلوک کرے گا کہ وہ قیامت کے دن محفوظ رہیں گے اور ان کو اچھا بدلہ دے گا.پھر فرماتا ہے وَجَزْهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةٌ و حَرِيرًا.یہ بدلہ اُن کو اُن کے ایمان کے بدلے میں ملے گا.مُتَّكِثِينَ فِيهَا عَلَى الْأَرَائِكِ لَا يَرَوْنَ فِيهَا شَمْسًا وَلَا زَمْهَرِ يُرًا.وہ سب کے سب بادشاہ ہوں گے.وہاں نہ گرمی ہوگی نہ سردی ، وہ ایک نئی دنیا ہوگی ، وہاں گرمی بھی نہیں ہوگی یعنی نہ

Page 191

184 وہان جوش آئے گا اور نہ ٹھنڈ ہی ہوگی.یعنی نہ ہی جوش کم ہو جائے گا ایک ہی رنگ ہوگا.قرآن کریم کا کمال دیکھو قرآن کریم کی تعلیم کیا پر حکمت ہے.قرآن کریم نے دوزخ کے عذاب میں بتلا دیا کہ وہاں سردی کا بھی عذاب ہوگا اور گرمی کا بھی.سرد ملک کے لوگوں کو سردی کے عذاب سے ڈرایا ہے اور گرم ملکوں کے لوگوں کو گرمی سے.بعض ملک اس قدر برفانی ہیں کہ وہاں کے لوگ برف ہی کے مکان بنا لیتے ہیں.وہاں پر اگر کسی کو پانی پینا ہوتا ہے تو برف کو رگڑ رگڑ کر پانی بناتے ہیں.وہاں آگ ایک نعمت سمجھی جاتی ہے.چونکہ انجیل میں صرف آگ کے عذاب کا ہی ذکر ہے اس لئے جب اس برفانی ملک میں ایک پادری گیا اور وہاں جا کر عیسائیت کی تبلیغ کی اور کہا اگر تم نہ مانو گے تو خدا تم کو آگ میں ڈالے گا تو وہ لوگ سنکر بہت خوش ہوئے کہ او ہو ہم آگ میں ڈالے جائیں گے کیونکہ آگ اُن کے لئے نعمت تھی.اس طرح جب پادریوں نے دیکھا کہ یہ آگ سے نہیں ڈرتے تو انہوں نے ایک کمیٹی کی اور کہا کہ آگ کی جگہ برف کا عذاب لکھ دو.مگر قرآنِ شریف میں کسی انسانی دخل کی ضرورت نہیں ہے.اس میں برف کا عذاب موجود ہے اس میں تبدیلی کی ضرورت نہیں.پھر فرماتا ہے وَدَانِيَّةٌ عَلَيْهِمْ ظِلَلُهَا وَذُلِلَتْ قُطُوْ فُهَا تَذْلِيْلًا.وہاں سائے جھکے ہوئے ہوں گے اور وہاں ہر قسم کے کھانے ہوں گے.بہشت میں چھوٹے بچے حضور نے اسی طرح دیگر آیات کی تفسیر فرماتے ہوئے اس آیت کے متعلق کہ وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُخَلَّدُونَ إِذَا رَأَيْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَّنْتُورًا.فرمایا آب یہ عورتوں کے متعلق ہے اور عورتیں خوش ہوں گی کہ انکے آگے جو بچے پھریں گے وہ وہی ہوں گے جو اُن کے مرجاتے ہیں.وہ خوبصورت موتیوں کی طرح ہوں گے.وہ ہمیشہ ایک ہی سے رہیں گے.اس دنیا میں تو بچہ بیمار ہو جاتا ہے، بعض دفعہ اس کی شکل بگڑ جاتی ہے، پھر کوئی بچہ ذہین ہوتا ہے کوئی کند ذہن ہوتا ہے مگر وہاں سب بچے ایک سے ہوں گے گویا موتی بکھرے ہوئے ہوں گے.

Page 192

185 احمدی عورتوں کو کیسا بننا چاہیئے چونکہ مردانہ جلسہ میں حضور کی تقریر کا وقت ہو گیا تھا اس لئے حضور نے بقیہ آیات کی مختصر تفسیر فرما کر ان الفاظ پر تقریر ختم فرمائی کہ جب تک تم احمدیت کی تعلیم کو پورا نہیں کرو گی احمدی کہلانے کی مستحق نہیں.میں چاہتا ہوں کہ تم پوری احمدی ہو تا کہ اگر ایسا وقت آئے جب ہمیں خدا تعالے کے دین کے لئے تم سے جدا ہونا پڑے تو تم ہمارے بچوں کی پوری پوری تربیت کر سکو.دنیا اس وقت جہالتوں میں پڑی ہوئی ہے.تم قرآن کو سمجھو اور خدا کے حکموں پر چلو.( از مصباح اکتوبر ۱۹۴۵) احمدی خواتین کی تعلیم و تربیت کے متعلق چند ضروری امور (من (1) لجنہ اماءاللہ نے حضرت مولوی محمد دین صاحب سابق مبلغ امریکہ کو ایڈریس دیا.اس موقع پر حضور نے حسب ذیل تقریر فرمائی:.میں اس انتظام دعوت سے پہلے کہ رہا تھا کہ نہ صرف جس کو مدعو کیا جائے اُس کی بیوی کو بھی بلانا چاہیئے بلکہ جیسا کہ اسلامی طریق ہے درمیان میں پردہ ڈال کر دوسری طرف مدعو کرنے والی عورتیں بھی بیٹھی ہوں.ہمارے ہاں پنجابی دعوت کا یہ طریق ہے کہ مہمان بیٹھا کھاتا ہے اور میزبان ہاتھ پر ہاتھ دھرے اس کی طرف دیکھ رہا ہوتا ہے.مگر اسلامی طریق یہ ہے کہ میزبان بھی کھاتا ہے.یورپ کا تمدن اسلام پر حملہ آور ہے میں پچھلے دنوں سے جس کی تاریخ یورپ کے سفر سے بعد کی نہیں بلکہ پہلے کی ہے یہ کجھ رہا تھا اور میں نے اس کا مضمون میں ذکر بھی کیا تھا جو یورپ جانے کے وقت لکھا تھا کہ اسلام پر حملہ کر نیوالا اہل مغرب کا مذہب نہیں بلکہ ان کا تمدن ہے.اس تمدن نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ بعض بڑی باتیں بھی اچھی اور اچھی باتیں بُری ہو گئی ہیں گو ہمارے مذہب نے سب سے اچھی باتیں بیان کی ہیں مگر چونکہ مسلمانی در کتاب والا معاملہ ہے.مسلمانوں کا ان باتوں پر عمل نہیں وہ کتابوں میں بند پڑی ہیں اس لئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ ہم میں پائی جاتی ہیں اور نہ لوگ یہ بات ماننے کے لئے تیار ہیں.ورنہ ہماری مثال آریوں کی طرح ہوگی جو ہر ایجاد کے متعلق کہہ دیتے ہیں کہ اس کا ذکر وید میں موجود ہے.اگر ہم بھی یورپ والوں سے کہیں کہ اچھی

Page 193

186 باتیں ہمارے مذہب میں موجود ہیں تو وہ ہم پر ہنسیں گے جبکہ ہم ان باتوں پر عمل کر کے نہ دکھا ئیں.میں نے بتایا تھا کہ یور چین تمدن کی وہ باتیں جو قرآن کریم اور حدیث کے ماتحت نہیں ان کو تو رڈ کر دینا چاہیئے لیکن جو قرآن اور حدیث میں موجود ہیں انہیں اختیار کر لینا چاہیئے مگر اس طرف توجہ نہ ہوئی.اور اس بارے میں اتنی روک مردوں کی طرف سے نہیں ہے جتنی عورتوں کی طرف سے ہے.عورتوں میں اتنی دلیری نہیں ہے کہ پرانی رسموں اور رواجوں کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہو سکیں.اگر چہ ہم اس وقت پورے طور پر اس بات کا فیصلہ نہ کر سکیں کہ عورتوں کو کس حد تک مردوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیئے.مگر یہ تو موٹی بات ہے کہ اسلام نے مرد وں اور عورتوں کا اتحاد ایک حد تک ضروری قرار دیا ہے.اسلام نے مرد عورت کا ایک حد تک ملنا منع رکھا ہے.حدیث میں آتا ہے اگر مردسوار ہو اور عورت پیدل جارہی ہو تو عورت کو اپنے پیچھے سوار کر لے.جب ایک مرد ایک عورت کو اس طرح سوار کر کے گھر پہنچا سکتا ہے تو قومی اور مذہبی کاموں میں کیوں مرد و عورت بل کر کام نہیں کر سکتے.وہ وقت آئے گا اور ضرور آئے گا کہ جب مرد و عورتیں مل کر کام کریں گے.معلوم نہیں ہماری زندگی میں آتا ہے یا بعد میں مگر آئے گا ضرور.البتہ ڈر ہے تو اس بات کا کہ عورتوں کو اسلام نے جو آزادی دی ہے وہ نہ دینے کی وجہ سے وہ حدود بھی نہ ٹوٹ جائیں جو اسلام نے مقرر کی ہیں.تربیت اولا د اور مائیں ماسٹر محمد الدین صاحب نے اپنی تقریر میں ایک نکتہ بیان کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ماں کے قدموں کے نیچے جت ہے.اگلے جہان کی بخت تو الگ رہی اس دنیا کی رخت بھی ماں کے قدموں کے نیچے ہے.تعلیم و تربیت کا جس قدر اثر بچہ پر ہوتا ہے اتنا اور کسی چیز کا نہیں ہوتا اور یہ ماں کے سپر د ہوتی ہے.ہمیں تعلیم وتربیت میں جس قدر مشکلات در پیش ہیں ان میں عورتوں کا بھی بہت بڑا حصہ ہے.عورتیں کہتی ہیں ہمیں پیچھے رکھا ہوا ہے ہمیں کوئی کام نہیں دیا جاتا.میں کسی پر الزام نہیں لگا تا مگر اس ظلم کی وجہ سے جو متواتر عورتوں پر ہوتا چلا آ رہا ہے اور وہ گری ہوئی ہیں یہ کہنے سے بھی باز نہیں رہ سکتا کہ وہ خود بھی ہمت نہیں کرتیں کہ ہمارا ہاتھ بٹائیں.ہم یہ نہیں کہتے کہ عورتوں کے لئے کوئی باہر کا کام کرنا یا ملازمت کرنا نا جائز ہے مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ عورتوں کے کثیر حصہ کا کام گھر میں ہی ہے.یورپ میں جہاں اتنی آزادی اور اتنی تعلیم ہے وہاں بھی.9 فیصدی عورتیں گھروں میں کام کرتی ہیں کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ عورتیں کثرت سے مردوں کی طرح کاروبار میں حصہ لے

Page 194

187 سکیں جب تک یہ فیصلہ نہ ہو جائے کہ نہ ان کی شادی ہوگی اور نہ بیچے جنیں گی.پس جب یورپ کی عورتیں انتہائی تعلیم پا کر بھی زیادہ تر گھر ہی کام کرتی ہیں تو معلوم ہو اعورتوں کی تعلیم کا جزو اعظم تربیت اولا د اور گھر کا کام ہی ہے.اِس کا یہ مطلب نہیں کہ بچوں کے کپڑے سینا اور پہنانا ہی عورتوں کا کام ہے بلکہ بچوں کو تعلیم دینا بھی ان کا فرض ہے.اس کے علاوہ بچہ کی مذہبی تعلیم ، امور خانہ داری کا انتظام یعنی حساب کتاب رکھنا، بصحت کا خیال رکھنا ، خوراک کے متعلق ضروری معلومات ہونا ، اوقات کی پابندی کا خیال رکھنا ، یہ جاننا کہ سونے جاگنے، اندھیرے روشنی وغیرہ کا صحت پر کیا اثر ہوتا ہے کیونکہ عورت نے بچہ کے متعلق ان باتوں کو اس وقت کرنا ہے جس وقت کے اثرات ساری عمر کی کوششوں سے دُور نہیں کئے جاسکتے.مگر ہماری عورتیں ابھی اِن باتوں کے متعلق کچھ نہیں جانتیں.تعلیمیافتہ عورتوں کی ضروت اس کے لئے سب سے پہلی چیز جو ضروری ہے وہ تعلیم یافتہ عورتوں کا میسر آتا ہے اور سیاسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ پہلے استاد عورتیں میسر آجائیں.مردوں کے ذریعہ لڑکیوں کو ایک عرصہ تک تو تعلیم دی جاسکتی ہے زیادہ عمر تک نہیں دی جاسکتی کیونکہ قدرتی طور پر رسم و رواج کے لحاظ سے لڑکی جب جوانی کی عمر کو پہنچتی ہے تو اس میں ایک حد تک حیا پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے جسے یورپ میں ضروری نہیں سمجھا جاتا لیکن ہم اسے نظر انداز نہیں کر سکتے.آب ادھر لڑکی میں اس کا پیدا ہونا ضروری ہوتا ہے اور ادھر مر د استادا سے پڑھانے والا ہو تو اس کے جذبات اور احساسات دب جائیں گے کیونکہ وہ اس عمر کی امنگیں اور جذبات کا اظہار نہ کر سکے گی جو صورت استاد ہونے پر اس کے سامنے کر سکتی تھی.ہمیں لڑکیوں کے لئے ایسے استادوں کی ضرورت ہے جو موقع اور محل پر سنجیدگی اور متانت سے بھی کام لیتے ہوں لیکن انہیں جنسی بھی آسکتی ہو، کھیل کود میں بھی حصہ لے سکیں اور ان میں خوش طبیعی پیدا کر سکیں.یہ باتیں ہم مردوں کے ذریعہ لڑکیوں میں پیدا نہیں کر سکتے کیونکہ مردوں کے ذریعہ یا تو ان میں وہ باتیں پیدا ہو جائیں گی جنہیں ہم پیدا نہیں کرنا چاہتے اور جن کے پیدا کرنے کی اسلام اجازت نہیں دیتا.یا وہ مردہ ہو جائیں گی.ان میں زندگی کی روح باقی نہ رہے گی اس لئے ضروری ہے کہ لڑکیوں کے لئے عورتیں استاد مہیا کی جائیں.جن عورتوں کی پڑھائی کا علیحدہ انتظام کیا گیا ہے وہ دراصل استانیاں ہیں نہ کہ طالبات.ان میں زیادہ

Page 195

188 شادی شدہ ہیں اور تھوڑی بن بیاہی ہیں.پھر زیادہ ہیں جو پہلے ہی تعلیم یافتہ ہیں اور تھوڑی ایسی ہیں جو کم علم رکھتی ہیں.ان سے ہم امید رکھتے ہیں کہ جو اپنے گھروں میں رہنے والی ہوں گی وہ بھی وقت دیں گی اور سکول میں لڑکیوں کو پڑھائیں گی تاکہ لڑکیوں میں تعلیم بڑھے.دنیا میں یہ جیب بات ہے کہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی چیز کا منبع وسیع ہوتا ہے مگر علم میں یہ بات ہے کہ منبع چھوٹا ہوتا ہے اور آگے جا کر زیادہ وسعت ہو جاتی ہے.استاد سے لڑ کا زیادہ علم رکھتا ہے جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ شاگرد کو استاد سے ورثہ میں تجربہ اور عقل بھی ملتی ہے اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں بے شک یہ عورتیں ایسی نہ ہوں گی جنہیں ہم مکمل استانیاں بنا سکیں مگر ان سے جو تعلیم پائیں گی وہ ان سے اعلے ہوں گی.پھر ان سے جو تعلیم پائیں گی وہ ان سے اعلی ہوں گی.یہی یورپ میں ہوا اور یہی یہاں بھی ہو سکتا ہے.ہم سکول میں بھی مرد مدرس رکھ کر تعلیم دلا سکتے ہیں مگر اس طرح ایسی کامیابی کی امید نہیں ہو سکتی جیسی اس صورت میں ہے کہ مردوں کے ذریعہ استانیاں تیار کی جائیں اور وہ آگے لڑکیوں کو پڑھائیں تا کہ وہ اپنی شاگردوں سے نس کھیل بھی سکیں.تربیت تب ہی عمدگی سے ہو سکتی ہے جبکہ استاد شاگرد آپس میں کھیل بھی سکیں.مرد یہ نہیں کر سکتے.ہاں اگر یہ استانیاں کام کی ہو جائیں تو یہ لڑکیوں سے مل کر رہ سکیں گی جولڑکیوں کی استاد بھی ہوں گی اور ہمجولی بھی.لڑکیاں ان کے ساتھ کھل کر باتیں بھی کرسکیں گی اور ان کے رنگ میں رنگین ہو جائیں گی.ہم امید رکھتے ہیں کہ اگر اللہ تعالے چاہے تو یہ استانیاں تیار ہو کر ہماری جماعت کی تعلیم مکمل ہو سکے گی.ہم پر دوسروں کی نسبت بہت زیادہ ذمہ داریاں ہیں.دوسرے لوگ یا تو جہالت پسند کرتے ہیں کہ عورتوں کو تعلیم ہی نہ دلائی جائے.یا پھر یورپ کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.ہم جہالت کو پسند نہیں کرتے کیونکہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں ہر حکمت کی بات مومن کی گمشدہ چیز ہے جہاں پائے.لے لے.مگر دوسری طرف ہم یورپ کی نقل بھی نہیں کر سکتے اس وجہ سے ہمیں نیا طریق اختیار کرنا ہے.نیا اس لئے کہ اب تک جاری نہیں ورنہ اسلام میں تو موجود ہے.اب ہم نے جو کوشش شروع کی ہے وہ اگر چہ بہت چھوٹے پیمانہ پر ہے لیکن ہر بات جو ابتداء میں چھوٹی معلوم ہوتی ہے اور اپنے وقت پر اس کا نتیجہ نکلتا ہے.یہی مدرسہ احمد یہ جو اس حد تک ترقی کر گیا ہے اس کے متعلق کئی دفعہ بعض لوگوں نے چاہا کہ اسے توڑ دیا جائے مگر جو توڑنے والے تھے وہ خود آج زبان حال سے کہہ رہے ہیں رُبَّمَا يَوَد الَّذِينَ الله

Page 196

189 كَفَرُوْالَوْ كَانُوا مُسْلِمِینَ.کاش! ہم ایسا ہی کرتے.غیر مبائعین کی طرف سے آواز آ رہی ہے کہ مولوی نہیں ہیں اس کے لئے انتظام ہونا چاہیئے.تو خواتین کی تعلیم سے متعلق جو کوشش کی گئی ہے وہ ابتدائی حالت میں ہے اور ہم اس کو کافی نہیں سمجھتے.لیکن ابتدائی کام اس طرح شروع نہ کریں تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بالکل رہ جاتا ہے.اگر تعلیم کا کام اسی طرح جاری رہا تو انشاء اللہ ۲-۳ سال میں ایسی استانیاں تیار ہو جائیں گی کہ ہم مڈل تک لڑکیوں کا سکول جاری کر سکیں گے پھر مڈل تک تعلیم یافتہ لڑکیوں کو پڑھا کر انٹرنس تک کے لئے استانیاں تیار کر سکیں گے.پھر ان سے لے کر اور اعلیٰ تعلیم دلا سکیں گے.ابھی ہمیں ایسی استانیوں کی بھی ضرورت ہے جو لڑکیوں کو نرسنگ اور ڈاکٹری کی تعلیم دے سکیں.اس کے لئے چوہدری غلام محمد صاحب نے اپنی لڑکی کو ڈاکٹری سکول میں داخل کر کے اچھی بنیاد رکھ دی ہے.آگے لڑکی کو بھی اس کام کو پورا کرنے کی اللہ تعالے توفیق دے تو ہمیں بنی بنائی لیڈی ڈاکٹر مل جائے گی.یہ ابتداء ہے اگر یہ کام جاری رہا اور اگر عورتوں نے ہمت کی تو بہت کچھ کا میابی ہو سکتی ہے اور خدا تعالے بھی ان کی مدد کرے گا.عورتیں حجرات سے کام لیں یہی ایڈریس جو اس وقت پیش کیا گیا ہے لجنہ کی سیکرٹری نے جو میری بیوی ہیں بہت کوشش کی کہ میں اس کو دیکھ کر اصلاح کردوں لیکن میں نے کہا میں ایک لفظ کی بھی اس میں کمی بیشی نہ کروں گا.میں نے کہا تم سمجھتی ہو اگر تمہارے لکھے ہوئے ایڈریس میں کوئی غلطی ہوئی تو لوگ تمھیں جاہل کہیں گے مگر مرد بھی غلطیاں کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں پھر تمھیں کیا خوف ہے.وہ ناراض بھی ہوئیں مگر میں نے ان کے مضمون میں دخل نہ دیا.میرا طلب یہ تھا کہ اس طرح امداد دینا اوروں میں بولی پیدا کرتاہے عورتیں بھی کام کرسکتے یں جب وہ جرأت اور دلیری سے کام لیں.مجھے سب سے بڑی تعلیم جو حضرت خلیفتہ امبیع الاول نے دی وہ یہی تھی کہ جب میں پڑھتے ہوئے کوئی سوال کرتا تو آپ فرماتے میاں آگے چلو اس سوال کے متعلق گھر جا کر خود سوچنا.گویا آپ مجھے کوئی سوال نہیں کرنے دیتے تھے.حافظ روشن علی صاحب کی عادت تھی کہ سوال کیا کرتے تھے اور انہیں جواب بھی دیتے تھے مگر مجھے جواب نہ دیتے اور بعض اوقات تو میرے سوال کرنے پر حافظ صاحب پر ناراض بھی ہوتے کہ تم نے اسے بھی سوال کرنے کی عادت ڈال دی ہے.عورتیں کہتی ہیں تم

Page 197

190 ہمیں تعلیم نہیں دیتے اس لئے ہم علم میں پیچھے ہیں.میں پوچھتا ہوں ہمیں کس نے تعلیم دی خدا تعالے نے علم اکٹھا کر کے مردوں کے پاس نہیں بھیج دیا تھا کہ مردوں نے سارے کا سارا خود لے لیا اور عورتوں کو اس میں سے حصہ نہ دیا.مردوں نے خود کوشش کر کے سیکھا انہیں آ گیا تم بھی کوشش کرو اور سیکھو.در اصل بات تو یہ ہے کہ جس قدر مردوں کو علم سیکھنے میں بیرونی مددمل سکتی تھی اس سے زیادہ عورتوں کو مل سکتی ہے کیونکہ مرد انہیں سکھانے کے لئے تیار ہیں مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ عورتیں جرات سے کام لیں.مضمون لکھنے اور تقریر کرنے کی کوشش کریں.زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ لوگ ان کے مضمون پڑھ کر یا تقریریں سن کر اُن کی غلطیوں پر ہنسیں گے مگر ایسے چند ہی لوگ ہوں گے زیادہ تر وہی ہوں گے جو ان کی جد و جہد کو دیکھ کر محسوس کریں گے کہ وہ قابل عزت ہیں.یہ بہترین نصیحت ہے جو میں ممبرات لجنہ کو کر سکتا ہوں.اس کے علاوہ یہ بھی کہتا ہوں کہ وہ ممبر بڑھانے کی کوشش کریں.لجنہ نے ابھی تک اس کے متعلق کچھ نہیں کیا.یہی ضروری نہیں کہ جو پڑھی لکھی عورتیں ہوں اُن کو مبر بنایا جائے بلکہ جو سنجیدگی سے بات کر سکتی ہیں اور سُن سکتی ہیں خواہ وہ ایک لفظ بھی نہ جانتی ہوں ان کو بھی ممبر بنایا جائے.اعلے کام ہمیشہ تعاون سے ہوتے ہیں.پس دوسری عورتوں کو بھی لجنہ میں شامل کرنا چاہیئے.آج اگر لجنہ کی مبرات پچاس ساٹھ عورتیں ہوتیں تو اُن پر بھی کئی قسم کے نیک اثرات ہوتے.آب چونکہ مغرب کی اذان ہوگئی ہے اور میرا گلا بیٹھا ہوا ہے اس لئے میں اس دعا پر تقریر ختم کرتا ہوں کہ خدا تعالے ہماری جماعت کے اس حصہ کو بھی ترقی کی توفیق عطا فرمائے اور اس پر اپنا فضل نازل کرے.الفضل ۱۵ مئی ۱۹۲۶) طالبات مدرسہ خواتین سے خطاب حضور نے یہ تقریر اس دعوت میں فرمائی جو طالبات مدرسہ خواتین نے محترم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور اُن کی اہلیہ صاحبہ کے اعزاز میں دی تھی:.یہ مدرسہ میرا ایک علمی درخت ہے ہر ایک شخص جو اپنے ہاتھ سے کوئی پودا لگا تا ہے اُسے اُس پودے سے قدرتی طور پر انس اور محبت

Page 198

191 ہوتی ہے.خصوصاً اُن پودوں سے جن کے متعلق اُسے خیال ہوتا ہے کہ ہمیشہ اس کے ذکر خیر کو جاری رکھ سکیں گے.جولوگ درخت بھی اپنے ہاتھ سے لگاتے ہیں وہ انہیں پیارے ہوتے ہیں حتی کہ جب اُن کے درخت بعض حادثات یا دشمنوں کے ذریعہ کائے جاتے ہیں تو وہ روتے ہیں حالانکہ درخت بول نہیں سکتا اور ذکر خیر کو زبان کے ذریعہ جاری نہیں رکھ سکتا.گو درخت سے فائدہ اُٹھانیوالے کہہ دیا کرتے ہیں کہ جس نے لگایا خدا اس کا بھلا کرے لیکن ایسے درخت جو علمی درخت ہوتے ہیں جو زبان رکھتے ہیں اور جن سے ذکر خیر قائم رہتا ہے ان سے دوسرے درختوں کی نسبت بدرجہا زیادہ تعلق ہوتا ہے اس وجہ سے مجھے مدرسہ خواتین سے خاص طور پر محبت ہے اور میں اس مدرسہ کے لئے تڑپ رکھتا ہوں کہ جس غرض کے لئے جاری کیا گیا ہے وہ پوری ہو.یعنی ایسی استانیاں تیار ہوں جو اعلے نسلوں کی تربیت کا اعلے نمونہ پیش کر سکیں اور ہمارے مدرسہ کی نکلی ہوئی طالبات باقی تمام طالبات کو مات کر دیں.اسی محبت اور تعلق کی وجہ سے میں سمجھتا ہوں مجھے حق ہے کہ مدرسہ کے متعلق ایسی ہدایات یا نصائح جو مفید ہو سکتی ہوں دوں.مجھے اس بات پر نہایت خوشی ہے کہ طالبات اپنے فرائض کے ساتھ انس اور محبت رکھتی ہیں اور اس بات کو بجھتی ہیں کہ تعلیم کے ذریعہ ان کی علمی اور روحانی ترقی ہوگی اور وہ جماعت کے لئے مفید بن سکیں گی.لیکن خالی احساس کام ہو جانے کے مساوی نہیں ہو جایا کرتا.کیسی ہی تڑپ ہو کتنی ہی خواہش ہو جب تک صحیح ذرائع حاصل نہ ہوں اور اُن پر عمل نہ کیا جاسکے اُس وقت تک کوئی شخص کامیاب نہیں ہو سکتا.دیکھو اگر کوئی سردی کے موسم میں ساری رات کنویں سے پانی نکالنے کی مشقت برداشت کرے تو اس طرح روٹی نہ پک جائے گی.کیوں ؟ اس لئے کہ خدا تعالے نے روٹی پکنے کے لئے جو قانون مقرر کیا ہے اس کی اتباع نہیں کی گئی.میرے نزدیک ہماری غرض تبھی پوری ہو سکتی ہے جب ان اصولوں کے ماتحت عمل کیا جائے جو اس کام کے مفاد کے ساتھ وابستہ کئے گئے ہیں.آواز میں قوت اور شوکت ہونی چاہیئے میں سمجھتا ہوں سب سے اہم بات جس کی ان لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ لڑکیوں اور خواتین کی آواز بلند ہو.اس میں نرمی اور ہچکچاہٹ نہ ہو دلیری، ارادہ اور قوت پائی جائے.میرے نزدیک ہماری عورتیں کوئی کام کرنے میں اُس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتیں جب تک اُن کی

Page 199

192 آواز میں قوت اور شوکت ایسی نہ ہو جو پختہ ارادہ رکھنے والے اور کام کرنے والے لوگوں کی آواز میں ہوتی ہے تقریر کی نصف سے زیادہ طاقت آواز میں ہوتی ہے.اگر آواز اس طرز پر نکلے کہ اس میں شبہ اور تر زرد پایا جائے اور یہ خیال ہو کہ نہ معلوم سننے والے میری بات قبول کریں گے یا نہ کریں گے تو اس کا کچھ اثر نہ ہوگا.ہماری جماعت میں ایک مولوی صاحب ہوتے تھے جو بڑے عالم تھے مگر اس طریق سے گفتگو کرتے تھے کہ گویا انہیں اپنی بات پر آپ شبہ ہے.جب وہ کسی کے سامنے کوئی دلیل پیش کرتے اور وہ اس پر اعتراض کرتا تو ڈر جاتے ایک دفعہ یہ واقعہ ہوا کہ انہوں نے ایک شخص سے کہا حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات تمہیں آیات سے ثابت ہوتی ہے اُس نے کہا آپ کوئی آیت پیش کریں.اس پر انہوں نے ایک آیت پڑھی.اُس شخص نے کہا اس پر تو یہ اعتراض پڑتا ہے کہنے لگے اچھا اسے جانے دو اور سنو.پھر دوسری آیت سنائی.اس پر بھی جب اُس نے اعتراض کیا تو تیسری سنادی حتی کہ ساری آیتیں سنا کرختم کر دیں.آواز میں رُعب ہو تو اس کا خاص اثر ہوتا ہے.پس ضروری ہے کہ خواتین کو اس طرح بولنے کی عادت ہو کہ اُن کی آواز میں شوکت اور رعب پایا جائے.لیکن باوجود اس کے کہ میری یہ خواہش رہی ہے اور باوجود اس کے کہ میں نے اس کے لئے کوشش بھی کی ہے میں اس میں کامیاب نہ ہو سکا.اب میں یہ کام شاہ صاحب کے سپر دکرتا ہوں اور اُمید رکھتا ہوں کہ وہ اس بارے میں خیال رکھیں گے اگر چہ وہ پہلے خیال نہیں رکھتے تھے.مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض طالبات ایسی بھی ہیں جنہوں نے کبھی مدرس کے سوال کا جواب بھی نہیں دیا اور مدرس نے بھی مجبور کر کے اُن سے جواب نہیں لیا.خالی تعلیم کوئی چیز نہیں.قرآن کریم نے اس کی مثال گدھے سے دی ہے.جب تک وثوق ، اُمنگ اور عزم نہیں تعلیم کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا اور اس کے لئے بلند ، پرشوکت، دلیری اور رُعب والی آواز ہونی چاہیئے.میں امید کرتا ہوں کہ مدرسہ خواتین کے مدرس اس امر کا خیال رکھیں گے اور جرات سے بولنے، فوراً بولنے اور صحیح جواب دینے کی عادت ڈالیں گے.چونکہ میں نقائص کے دُور کرنے پر بہت زور دیا کرتا ہوں جسے تختی سمجھا جاتا ہے اس لئے خواتین شاہ صاحب کے آنے پر خوش ہونگی کہ اب میری مفتی جاتی رہے گی.مگر جسے انہوں نے سختی محسوس کیا وہی دراصل اُن کے لئے بہترین چیز تھی.بچپن میں ہم نے ایک کہانی پڑھی تھی کہ ایک ہنری با دشاہ ہوا ہے.لڑکپن میں وو بہت شوخ تھا.ایک گاؤں میں اُسے پرورش کے لئے بھیجدیا گیا.وہاں کسی معاملے میں مجسٹریٹ کے سامنے

Page 200

193 پیش ہوا اُس نے اپنے آپ کو ولی عہد سمجھ کر مجسٹریٹ سے گستاخی کی.اس پر مجسٹریٹ نے سزا دے دی.آخر جب بادشاہ مرا اور ہنری خود بادشاہ ہوا تو اُسنے مجسٹریٹ کو بلایا مجسٹریٹ ڈرا کہ نہ معلوم مجھ سے کیا سلوک کرے گا مگر اُس نے بلا کر کہا اس واقعہ کا مجھ پر ایسا اثر ہے کہ میں آپ کو اپنی حکومت میں سب سے بڑا حج بناتا ہوں.اُس وقت میں اگر قانون کی پابندی نہ کرنا سیکھتا تو آج بادشاہ نہ بن سکتا.تو بعض باتیں تکلیف دہ ہوتی ہیں مگر اُن کے نتائج اچھے نکلتے ہیں.خواتین کو اس قسم کی باتوں سے ہمت نہیں ہارنا چاہیئے اور تکلیف برداشت کرتے ہوئے علمی ترقی کرنی چاہیئے.اُستادوں کو نصیحت اُستادوں کو یہ بات مد نظر رکھنی چاہیئے کہ تمام طالبات میں ایک قسم کی ہم آہنگی ہو میں امید کرتا ہوں شاہ صاحب اس بات کو مد نظر رکھیں گے.بعض لڑکیاں جو ہوشیار اور ذہین ہوں وہ جلدی ترقی کر جاتی ہیں.مگر جب جماعت بنائی جائے تو ضروری ہے کہ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ جو کمزور ہوں ان کو بھی ترقی حاصل ہو.اور اس کا طریق یہی ہے کہ اُن سے زیادہ سوال پوچھے جائیں اور ان کا زیادہ خیال رکھا جائے.میرے نزدیک اس بات کی ضرورت ہے کہ ہر ایک سے سوال کئے جائیں اور ہر ایک کو مجبور کیا جائے کہ جواب دے.مجھے یہ معلوم کر کے حیرت ہوئی کہ میری لڑکی نے کبھی سوال کا جواب نہ دیا تھا.جب مجھے معلوم ہوا تو میں نے اُسے بلا کر سختی سے کہا کہ ضرور جواب دینا چاہیئے.شاہ صاحب کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ جو خواتین نہ بولتی ہوں انہیں بلوا ئیں اور جو پڑھائی میں کمزور ہیں ان کی طرف زیادہ توجہ کریں.میں نے صورتوں میں یہ خوبی دیکھی ہے کہ وہ کمی کو بہت جلد پورا کر لیتی ہیں اگر ان کی طرف خیال رکھا جائے.پھر ایک اور بات جس کا خیال رکھنا چاہیئے یہ ہے کہ خواتین کو علم کے استعمال کی ضرورت پڑے.ہمارے لئے صرف نحو ایک ایسا حصہ ہے کہ جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اب کے کورس میں رکھ دیا ہے.طالبات عموماً کوشش کرتی ہیں کہ غیر زبان بولنے سے پیچھے ہیں لیکن اگر شاہ صاحب عربی پڑھاتے ہوئے مجبور کریں گے کہ عربی میں جواب دیں تو امید ہے عربی میں جواب دینے لگ جائیں گی.اب ان کی تعلیم اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ان سے باتیں کرائی جائیں.میں اس سال خواتین کی پڑھائی کے لئے زیادہ وقت نہیں دے سکا امید ہے کہ شاہ صاحب اس کمی کو پورا کریں گے اور طالبات سے بھی امید

Page 201

194 کرتا ہوں کہ وہ کوشش کریں گی.مجھے افسوس کے ساتھ معلوم ہوا ہے کہ طالبات کی انگریزی کی طرف زیادہ توجہ ہے.گو انگریزی کے ماسٹر (حضرت مولوی شیر علی صاحب) کہتے رہتے ہیں کہ عربی کی طرف زیادہ توجہ ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ انگریزی کی طرف زیادہ ہے شاہ صاحب کو اس کا بھی خیال رکھنا ہوگا تا کہ دوسرا فریق زیادہ توجہ نہ لے جائے.میر انشاء ہے کہ اب سکول ٹائم زیادہ کر دیا جائے اور 1/4-1 گھنٹہ یا 1/2-1 گھنٹہ ہر استاد پڑھایا کرے.اور گفتگو کرنے کی طرف توجہ دی جائے اگر موٹے موٹے فقرے بولنے لگیں تو ان کی توجہ خود بخود بڑھ جائے گی.عربی یا تو قواعد کے ذریعہ آتی ہے یا پھر بولنے سے قواعد چونکہ مشکل ہیں اس لئے انہیں یاد کرتے ہوئے عام طور پر ہمت ٹوٹ جاتی ہے، اور انگریزی آسانی سے آسکتی ہے اس لئے اُدھر زیادہ توجہ دی جاتی ہے.عربی مدرس کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیئے کہ طالبات کی ہمت نہ ٹوٹے.میں نے خواتین سے عربی کے چھوٹے چھوٹے فقرے بنوائے مثلاً یہ کہ کاپی کہاں ہے، کتاب کہاں ہے، کتاب کس نے اٹھائی کی عربی بناؤ.آئندہ گھر کی بول چال کھانے پینے کے متعلق فقرے اگر استعمال کرائے جائیں تو ان کے حوصلے بڑھ جائیں گے یا اور کئی طریق زبان سکھانے کے ہوشیار استاد نکال سکتا ہے.سب سے ضروری بات یہی ہے کہ عربی کی طرف خاص توجہ ہو.یوں تو سارے علوم ہی ضروری ہیں لیکن عربی کے ساتھ ہمارے مذہبی امور وابستہ ہیں اس لئے یہ سب سے ضروری ہے مگر عربی میں طالب علم جلدی ہمت ہار دیتے ہیں اور ابتدائی مشکلات کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ ہم اسے حاصل نہیں کر سکیں گے.حالانکہ یہ بہت تھوڑ اسا رستہ ہوتا ہے اسے اگر طے کر لیں تو پھر آسانی ہو جاتی ہے بشرطیکہ ارد گرد عربی بولنے والے ہوں.اور اگر یہ نہ ہوں تو عالم بھی عربی بولنا جانتے ہیں.طالبات کو ابتدائی مشکلات سے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ کوشش کرنی چاہیئے کہ اس مقام پر پہنچ سکیں کہ زبان دان کہلا سکیں.اور آسانی سے علمی کتابیں پڑھ سکیں.میں اس نصیحت کے ساتھ اس تقریر کوختم کرتا ہوں.امید ہے شاہ صاحب بھی اس بات کی کوشش کریں گے کہ جو خواتین تعلیم میں کمزور ہیں وہ دیکھے نہ ر ہیں.اور خواتین بھی اس وجہ سے کہ کوئی استاد توجہ نہیں کرتا اس کے مضمون میں سستی نہ کریں گی.شرافت سے ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہیئے یا درکھو ہمارے سامنے اتنا عظیم الشان مقصد ہے کہ جس کے پورا کرنے کے لئے مردوں اور عورتوں سب کو مل کر کام کرنا چاہیئے.عورتوں میں کام کرنے کا کچا جذ بہ ہوتا ہے مگر وہ ہمت جلدی ہار دیتی ہیں اس لئے میں نصیحت کرتا ہوں کہ استقلال کے

Page 202

195 ساتھ اپنی کوشش جاری رکھیں.چونکہ اذان (مغرب کی ) ہو چکی ہے اس لئے میں تقریر ختم کرتا ہوں اور دُعا کرتا ہوں.کیونکہ سنت ہے کہ جو دعوت کرے اُس کے لئے دعا کی جائے.اور چونکہ یہ دعوت خواتین کے مدرسہ کی طرف سے دی گئی ہے اس لئے یہ دُعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ دعوت دینے والی خواتین کو علم حاصل کرنے کی توفیق دے اور اس (1 سے اپنے دین کی خدمت کرنے کا موقع بخش (الفضل وہ جولائی 1- صفر ) لمصل تقریر حضرت اصلح الموعود رضی اللہ عنہ بر موقع جلسہ سالانہ ۲۷.دسمبر ۱۹۲۶.۳ بجے سہ پہر ) سورۃ یونس رکوع ۶ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.....مسجد لنڈن کے متعلق پانچ سال ہوئے میں نے تحریک کی تھی.مسجد برلن کا چندہ بھی اس میں شامل کیا گیا.اب میں عورتوں میں تحریک کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں کہ یا تو مسجد لنڈن اپنے اس روپیہ کے معاوضہ میں لے لیں اور یا اپنا روپیہ بطور قرضہ ہمارے پاس رہنے دیں تا ہم اسے سلسلہ کی اور ضروریات کے لئے کام میں لے آئیں ان دو باتوں میں سے جو بات وہ پسند کریں اس کے لئے ہم تیار ہیں.افتتاح مسجد کی اہمیت افتتاح مسجد کا واقعہ اپنے اندر اس قدر اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ اب دنیا کی کوئی تاریخ اس کو نہیں منا سکتی اور معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کے ہاں یہ مقدر ہو چکا ہے کہ یہ مسجد ہمیشہ قائم رہے اور اللہ تعالی نے اسکی تعمیر کے لئے اور اس کی اس شہرت کے لئے ایسے سامان کر دیئے کہ جن سے اس کی اہمیت اس قدر بڑھ رہی ہے کہ حیرانی ہی ہوتی ہے پہلے اللہ تعالی نے اسے میرے ولایت جانے تک روکے رکھا.میرے وہاں جانے سے سلسلہ کی یکدم حیرت انگیز شہرت ہوگئی.کیونکہ ولایت کے لئے یہ عجیب بات تھی کہ ایک نبی کا خلیفہ وہاں پہنچتا ہے.اس لئے ہر اخبار میں ہمارا ذکر متواتر ہوتا رہا اور کثرت کے ساتھ فوٹو چھپتے رہے.چونکہ میرے وہاں جانے پر میرے ہاتھ سے مسجد کی بنیاد رکھی گئی تھی اس لئے پہلے بنیاد کے موقع پر ہی بڑے بڑے وزیر ولارڈ آئے.ان وجوہات کے باعث اب لوگوں کو یہ انتظار گھی ہوئی تھی کہ کب یہ مسجد مکمل ہو تو ہم دیکھیں.

Page 203

196 اور جب پی مکمل ہونے لگی تو شہرت کے اور کئی ایک سامان پیدا ہونے شروع ہو گئے.مثلاً ایک یہ بات شہرت کا باعث بن گئی کہ ابن سعود کے لڑکے کو بلایا جائے.چنانچہ ابن سعود نے بھی اس تحریک کو پسند کیا اور اپنے لڑ کے امیر فیصل کو جو مکہ کا گورنر ہے.بھیجنے کا وعدہ کیا.اب امیر فیصل کے خاص افتتاح مسجد کے لئے آنے کی خبر سے اور بھی شہرت ہونے لگی.جب امیر فیصل ولایت پہنچا تو بیان کیا جاتا ہے کہ ہندوستان سے مولویوں نے تاریں دیں....اسی طرح مصر سے بھی ہمارے خلاف آوازیں اُٹھیں.یہ تاریں گئیں اور اُسے روک دیا گیا.اب اس کے روکنے پر سارے برطانیہ میں اور بھی شور پڑ گیا کہ روکنے کی کیا وجہ ہوئی.یہ کیا بات ہے کہ امیر فیصل مکہ سے چل کر جس کام کے لئے دلایت پہنچتا ہے اُس کام سے اُسے روکا جاتا ہے.کوئی خاص راز ہوگا.ولایت کے لوگ راز کے پیچھے بہت پڑ جاتے ہیں.راز کو معلوم کرنا چاہتے ہیں....وہاں لوگوں میں اور بھی زیادہ ہیجان پیدا ہوا کہ چلو اس مسجد کو چل کر دیکھیں کہ جس کے افتتاح کے لئے امیر فیصل مکہ سے یہاں پہنچا اور یہاں آکر اس کے افتتاح سے رُک گیا دراصل یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اس منشاء کے ماتحت ہو کہ ہمارے سلسلہ کی شہرت بھی ہو جائے اور پھر احسان بھی کسی کا نہ ہو پھر وہ مسجد اتنی بابرکت ہے کہ اس کے افتتاح کے ساتھ ہی اس کی برکات ظاہر ہونی شروع ہو گئیں.افتتاح ہی کے موقع پر چار انگریز مسلمان ہو گئے.پھر افتتاح پر ابھی دو ہفتے ہی گزرے کہ ایک اعلئے درجہ کا تعلیم یافتہ نوجوان انگریز مسلمان ہو گیا جس نے اسلام کی تائید میں ایک نہایت ہی لطیف مضمون شائع کیا ہے.اسی وجہ سے اُس کے باپ نے اس پر تشد د شروع کر دیا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ اب وہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ اسلام تو واقعہ میں پھیلنے لگا ہے.پہلے ہمارے کام کو ایک کھیل سمجھتے تھے لیکن اب محسوس کرنے لگے ہیں کہ اسلام پھیل رہا ہے.وہاں کا ایک اخبار لکھتا ہے کہ ہزاروں تعلیم یافتہ لوگوں کے دلوں میں محسوس ہورہا ہے کہ اب ہمیں عیسائیت کو چھوڑنا ہوگا.اور یادر ہوں نے بھی ہمارے خلاف شور مچانا شروع کیا ہے....آج ہی تار آیا ہے کہ آسٹرین حکومت کا وزیر احمدی ہو گیا ہے.اُس نے احمدیت کا اعلان کر دیا ہے.اور چھ اور انگریزوں نے اس ہفتہ میں احمدیت کا اعلان کیا ہے.غرض اس افتتاح کے بعد ۱۳ بڑے بڑے آدمی سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں.یہ گویا تیرہ حواری ملے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ پہلے مسیح کے ساتھ جو کچھ ہوا یہاں اسکے الٹ ہو گا.اس لئے میں کہہ سکتا ہوں کہ ان تیرہ حواریوں میں یہودا اسکر یولی انشاء اللہ کوئی نہیں ہوگا.( الفضل ۱۴ جنوری ۱۹۴۷ صفر ۳ ۴۰)

Page 204

197 تقریر حضرت امیرالمومنین خلیفه مسیح الثانی رضی الله عنه مندرجہ ذیل تقریر حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ تعالی نے ۲۲.مارچ ۱۹۲۷ء کو فرمائی جبکہ لجنہ اماءاللہ نے صوفی غلام محمد صاحب اور ان کی اہلیہ محترمہ عائشہ بیگم صاحبہ کو ماریشس سے بارہ سال کے بعد واپس آنے پر ایڈریس پیش کیا:.حضور نے فرمایا:.سب سے پہلے میں اس امر پر خوشی کا اظہار کرتا ہوں کہ جو ایڈریس لجنہ کی طرف سے پیش ہوا وہ اگلے ایڈریسوں سے بہت سی باتوں میں بہتر تھا.ایک تو اس لئے کہ اُن حقیقی مطالب پر مشتمل تھا جو ایسے مواقع کے لئے ہوتے ہیں.دوسرے اس لحاظ سے بھی کہ اس کے مطالب نہایت ہی سادہ عبارت میں بغیر کسی تکلف و بناوٹ یا غیر ضروری طوالت کے ظاہر کئے گئے ہیں.اگر کمزوری تھی تو آواز میں.شاید ابھی عورتوں میں یہ ہمت پیدا نہیں ہوئی کہ وہ بغیر ہانے اور کانے کے مجالس میں اپنا مدعا ظاہر کر سکیں اس لئے ابھی ہمیں کچھ مدت اور انتظار کرنا پڑے گا.میرے نزدیک جو خدام اسلام اپنے گھروں کو چھوڑ کر غیر ممالک میں جاتے ہیں جہاں وہ ہمارے قلوب میں اخلاص کی رو پیدا کرتے ہیں وہاں ایک اور بھی خیال پیدا ہونا چاہیئے اور وہ خیال بہت ضروری ہے کیونکہ اس خیال کو پیدا کر نے لئے اظہار امتنان کیا جاتا ہے وہ یہ کہ ہمارے اندر بھی وہ ہمت پیدا ہو جو ان میں ہے.یہ غلط طریق ہے کہ ہم دُور کی چیز کو اچھا سمجھتے ہیں مگر قریب کی چیز کو نظر انداز کرتے ہیں.یہ ہمارے نفسوں کی کاہلی ہے کہ اسے موقع نہ ملنے کے عذر میں چھپانا چاہتے ہیں ورنہ ہم اپنے قریب بھی ایسے بہت سے مواقع پاسکتے ہیں جو غیر ممالک میں جانے والے مبلغوں کو حاصل ہوئے اور جن کی وجہ سے ہم اُن کی واپسی پر اس درجہ خلوص و مسرت ظاہر کرتے ہیں.میں عزیز بہنوں اور ممبرات لجنہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ تبلیغ کیلئے ماریشس.یورپ اور امریکہ جانے کی ہی ضرورت نہیں بلکہ ہمارے اپنے شہروں بلکہ اپنے گھروں میں یہ سامان موجود ہے مگر افسوس ہے کہ ان مواقع کو عرصہ سے کھویا جارہا ہے.آج میں ممبرات لجنہ کو خصوصیت سے توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ادنی اقوام کی عورتوں میں تبلیغ شروع کریں.

Page 205

198 اگر ہماری عورتیں امریکہ.یورپ اور ساترا کو بھلا کر سر دوست اس امر کو مد نظر ر کھ لیں کہ گھر میں آنے والی چوہڑیوں اور دیگر ادنی اقوام کی عورتوں کو اپنے اخلاق سے اپنے وعظ سے اپنی امداد سے اسلام میں لانا ہے تو وہ اور پھر اُن کے ذریعے آٹھ دس سال میں ہزاروں آدمی ہدایت یاب ہو سکتے ہیں.یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان لوگوں کو اسلام میں لانا بھی ایسا ہی ضروری ہے جیسے امریکہ اور یورپ وغیر ہ کے باشندوں کو.کیونکہ بلحاظ انسانیت سب کا حق ہے اور سب ہی قابل قدر ہیں.پس اپنے گھروں میں یہ کام شروع کر دو اور ایک دو ماہ کے اندر اندر کچھ کر دکھاؤ.یہ پھل اپنی شیرینی میں اُن پھلوں سے کم نہیں ہوگا جس کے خواب دیکھے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ مہرات بجمعہ کو توفیق دے کہ وہ ایسے نزدیک مواقع سے فائدہ اٹھائیں جو خدا تعالی نے اُن کے لئے کھول دئے ہیں اور اُس کے لازوال فضلوں کی وارث ہوں." (از مصباح کی اپریل ہے) عورتوں میں بیداری اور احساس پیدا کرو جو عورتیں تعلیم پا جاتی ہیں وہ دوسری عورتوں کو اپنے میں جذب نہیں کر سکتیں.اس وجہ سے ان کے تعلیم پانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا.جب تک ایسا نہ ہو کہ ہر تعلیم یافتہ عورت دوسری عورتوں کو اپنی مائیں اور بہنیں سمجھے اور ان کی حالت درست کرنے کی کوشش کرے اُس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی.ہماری جماعت کے لئے ضروری ہے کہ وہ عورتوں میں بیداری اور احساس پیدا کرنے کی کوشش کرے اور انہیں بتائے کہ اُن کی زندگی صرف خاوند کے لئے نہیں بلکہ اس کی غرض یہ ہے کہ وہ اپنے خاوند کیساتھ مل کر خدا تعالیٰ کے جلال کے اظہار کی کوشش کریں.مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ باوجود بار بار اس طرف توجہ دلانے کے اس وقت تک بہت کم توجہ دلائی گئی ہے اور ابھی تک عورتوں کی حالت بہت گرمی ہوئی ہے.اگر چہ ہماری عورتوں اور دوسری عورتوں کی حالت میں بین فرق ہے اور میں تسلیم کرتا ہوں کہ جس رفتار سے وہ ترقی کر رہی ہیں وہ بہت امید افزا ہے.ایک عورت کے متعلق کئی عورتوں اور مردوں کی طرف سے بار بار مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ وہ خود مضمون نہیں لھتی بلکہ کوئی مرد لکھ کر دیتا ہے مگر اس خاتون کا آج ہی میرے نام خط آیا ہے جس کی وہی طرز تحریر ہے جو اس کے مضامین کی ہے وہی جوش وہی اظہار مطلب کا طریق ہے.خدا کے فضل سے

Page 206

199 ہماری جماعت میں ایسے سامان ہیں کہ عورتیں ترقی کی طرف مائل ہورہی ہیں اور یہ اسی ترقی کا نتیجہ ہے کہ اپنے آپ کو مذہب کا محمود مجھنے لگ گئی ہیں.اگر یہ رو جاری رہی تو ہماری جماعت کی عورتیں بہت جلد ترقی کرلیں گی مگر ضرورت یہ ہے کہ مرد ان کی مدد کریں.ہر باپ کا فرض ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو ترقی کرنے میں مدد دے.ہر خاوند کا فرض ہے کہ اپنی بیوی کی ترقی کا انتظام کرے.ہر بھائی کا فرض ہے کہ اپنی بہن کو امداد دے حتی کہ ہر بیٹے کا فرض ہے کہ اپنی ماں کو اوپر اٹھائے.اگر اس طرز پر ساری جماعت کے لوگ عورتوں کو امداد دینے لگ جائیں تو بہت جلد ترقی ہوسکتی ہے.(اخبار مصباح قادیان مئورخہ یکم فروری ۱۹۳۸ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا مکتوب خواتین کے پردے کے متعلق مکرمی ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتی آپ کے خط مورخہ ۲۸-۱-۲۳ کے جواب میں تحریر ہے کہ رائج الوقت پردہ مسلمانوں میں کئی طرح کا ہے.بعض قوموں اور بعض علاقوں میں ایسا پردہ ہے کہ ڈولیوں کو بھی پردوں میں سے گزارتے ہیں.اور بعض قوموں اور بعض علاقوں میں اس سے بھی بڑھ کر پردہ یہ ہے کہ کہتے ہیں کہ عورت ڈولی میں آئے اور پھر اس کا جنازہ ہی نکلے.یہ پردے صریح ظلم ہیں اور ان کا اثر عورتوں کی صحت ، اخلاق علم اور دین پر بہت ہی گندہ پڑا ہے.قرآن کریم اور حدیث سے اس قسم کے کسی پردے کا پتہ نہیں چلتا.قرآن کریم سے صریح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو باہر نکلنے کی اجازت ہے.اگر انہیں باہر نکلنے کی اجازت نہ ہوتی تو غض بصر کے حکم کی بھی ضرورت نہ ہوتی.تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں خود آپ کی بیویاں.آپ کی بیٹیاں باہر گلتی تھیں.جنگوں پر جانا.کھیتوں وغیرہ پر کام کرنے کے لئے جانا حاجات بشر یہ پورا کرنے کے لئے جانا.علم سیکھنے.علم سکھانے کیلئے جانا یہ نہایت ہی کثرت کے ساتھ ثابت ہے اور چھوٹی سے چھوٹی تاریخوں سے بھی اس کے لئے ثبوت مل سکتے ہیں.ہزاروں واقعات اس قسم کے پائے جاتے ہیں جن میں

Page 207

200 عورتوں کا گھروں سے نکلنا ثابت ہوتا ہے.فطرت انسانی بھی اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتی کہ مرد جو مضبوط ہے اُسے صحت کے درست رکھنے کے لئے باہر کی آب و ہوا کی ضرورت ہو لیکن عورت جو فطر تا کمزور صحت لیکر آئی ہے اُسے کھلی ہوا سے محروم کر دیا جائے.حدیثوں سے تو یہاں تک ثابت ہے کہ رسول کریم ﷺ اپنی بیوی حضرت عائشہ ام المومنین کے ساتھ لوگوں کے سامنے مقابلہ دوڑے اور ایک دفعہ حضرت عائشہ بڑھ گئیں اور ایک دفعہ حضرت نبی کریم سے آگے نکل گئے.پس اگر مروجہ پردے سے مراد آپ کی مذکورہ بالا پردہ ہے تو یہ پردہ نہایت ہی ظالمانہ پردہ ہے اور اسلام اور مسلمانوں پر ایک داغ ہے جسے جس قدر جلد دُور کیا جائے اتنا ہی اسلام کے لئے بہتر اور مسلمانوں کے لئے بہتر ہے.ہماری نسلیں اس پردے سے کمزور ہوگئی ہے، ہماری عورتیں دین و دنیا سے جاتی رہی ہیں، ہم غیر قوموں کا نشانہ طعن بن رہے ہیں اور دین کو لوگوں کی نظروں میں ایک قابل ہنسی چیز بنارہے ہیں.ایک پردہ ہمارے ملک میں یہ ہے کہ عورتیں برقعہ پہن کے باہر نکلتی ہیں ، ایک گھر سے دوسرے گھر تک چلی جاتی ہیں اور اس سے زیادہ باہر نکلنے کی اُن کو اجازت نہیں ہوتی.یہ پردہ کو اوپر کے پردوں کے برابر قابل اعتراض نہیں لیکن اس سے بھی عورتوں کے دینی ارتقاء اور ان کی صحت کی ترقی میں ایسی مدد نہیں ملتی کہ اُسے قومی ترقی کے لئے کافی سمجھا جائے.دوسرا ہمارا پرانا برقعہ یا تو عورت کی صحت کو بر با ذ کرنے والا ہے یا پردے کے نام سے بے پردگی کا موجب ہوتا ہے.اس برقعے میں اوپر سے لے کر نیچے تک ایک گنبد بنا ہوا چلا جاتا ہے، عورت کے ہاتھ بھی اندر بند ہوتے ہیں ، اگر وہ بچے کو اٹھائے تو سر سے پاؤں تک اس کا اگلا حصہ سارے کا سارانگا ہو جاتا ہے اور ایک ایسا حقارت پیدا کرنے والا نظارہ ہوتا ہے کہ ایسے پردے سے طبیعت خود بخود نفرت کرتی ہے.اس سے بہتر اور بہت بہتر وہ چادر کا طریق تھا جو بُرقعے کی ایجاد سے پہلے تھا.عورت اپنے کام بھی کر سکتی تھی اور اپنے آپ کو لپیٹ بھی سکتی تھی.پیکر قعہ جیسا کہ میں اوپر بیان کر آیا ہوں صحت کے لئے مضر ہے اور پردے کے کام کا نہیں.میرے نزدیک نیا بُرقعہ جسے لڑکی بُرقعہ کہتے ہیں پردے کے لحاظ سے تمام برقعوں سے بہتر ہے بشرطیکہ اس میں اتنی اصلاح کرلی جائے کہ وہ جسم کے اوپر لپیٹا ہوا نہ ہو، سیدھا کوٹ ہو جو کندھوں سے پاؤں تک آ تا ہوا ایسا کوٹ نہ ہو جو جسم کے اعضاء کو الگ الگ کر کے دکھاتا ہو، اگر اس قسم کا کپڑا جائز ہوتا تو پھر جسم کے کپڑے کافی تھے اُٹھے او پر کسی اور کھلے کپڑے کے لینے کا قرآن مجید حکم نہ دیتا.اس برقعے میں یہ بھی فائدہ

Page 208

201 ہے کہ چونکہ ہاتھ کھلے ہوتے ہیں عورت سب قسم کے کام اس برقعے میں کر سکتی ہے.اسکی مثال ایسی ہی ہوگی جیسے ڈاکٹر اپریشن کے وقت ایک کھلا کوٹ پہن لیتا ہے.پردے کا قرآن کریم نے ایک اصل بتایا ہے اور وہ یہ ہے کہ عورت کے لئے پردہ ضروری ہے إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ( یعنی سوائے اس کے جو آپ ہی آپ ظاہر ہو ) آپ ہی آپ ظاہر ہونے والی موٹی چیزیں تو دو ہیں یعنی قد اور جسم لیکن عقلاً یہ بات ظاہر ہے کہ عورت کے کام کے لحاظ سے یا وقت کے لحاظ سے جو چیز آپ ہی آپ ظاہر ہو وہ پر دے میں داخل نہیں.چنانچہ اس حکم کے ماتحت طبیب عورتوں کی نبض دیکھتا ہے.بیماری مجبور کرتی ہے، کہ اس چیز کو ظاہر کر دیا جائے.اگر مُنہ پر کوئی جلدی بیماری ہے تو طبیب منہ بھی دیکھے گا ، اگر اندرونی بیماری ہے تو زبان دیکھے گا، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک جنگ میں ہم پانی لاتی تھیں اور ہماری پنڈلیاں ننگی ہو جاتی تھیں.اُس وقت پنڈلیوں کا ننگا ہونا قرآن کریم کے خلاف نہ تھا بلکہ اس قرآنی حکم کے مطابق تھا.جنگی ضرورت کے لحاظ سے ضروری تھا کہ عورتیں کام کرتیں اور دوڑنے کی وجہ سے پنڈلیاں خود بخودنگی ہو جاتی تھیں.اس وقت پانجامے کا نہیں بلکہ تہ بند کا رواج تھا.اسی اصل کے ماتحت اگر کسی گھرانے کے شغل ایسے ہوں کہ عورتوں کو باہر کھیتوں پر یا میدانوں میں کام کرنا پڑے تو ان کے لئے آنکھوں اور ان کے ارد گرد کا علاقہ کھلا ہونا نہایت ضروری ہوگا.پس إِلَّا مَا ظَهَرَ کے ماتحت ماتھے سے لے کر منہ تک کا حصہ کھولنا اُن کے لئے بالکل جائز ہوگا اور پردہ کے حکم کے مطابق بغیر اس کے کھولنے کے وہ کام نہیں کرسکتیں اور جو ضروریات زندگی کے لئے اور ضروریات مصیبت کے لئے کھولنا پڑتا ہے بشرطیکہ وہ مصیبت جائز ہو اس کا کھولنا پر دے کے حکم میں شامل ہی ہے.لیکن جس عورت کے کام اُسے مجبور نہیں کرتے کہ وہ کھلے میدانوں میں نکل کر کام کرے اُس کا منہ اُس پر دے میں شامل ہے جیسا کہ حدیثوں میں صاف آتا ہے کہ ایک شخص نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں ایک عورت سے شادی کرنا چاہتا ہوں مجھے معلوم نہیں اُس کی شکل کیسی ہے اُس کا باپ شکل دکھانے سے انکار کرتا ہے.آپ نے فرمایا کہ شادی کے لئے شکل دیکھنا جائز ہے.جب اس شخص نے جا کر لڑکی کے باپ سے ذکر کیا تو پھر بھی اس نے اپنی ہتک سمجھتے ہوئے لڑکی کی شکل دکھانے سے انکار کیا.لڑکی اندر بات سُن رہی تھی وہ اپنا منہ نگا کر کے باہر آگئی اور اُسنے کہا جب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ منہ دیکھ لو تو پھر ہمیں کیا انکار ہو سکتا ہے اگر ہر طرح کی عورتوں کے لئے منہ کھلا رکھنا

Page 209

202 جائز ہوتا تو یہ سوال بھی پیدا نہ ہوتا.اسی طرح حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺہ ایک دفعہ اپنی ایک بیوی کے ساتھ جن کا نام صفیہ تھا شام کے وقت گلی میں سے گزر رہے تھے آپ نے دیکھا کہ دو آدمی سامنے سے آ رہے ہیں اور آپ کو کسی وجہ سے شبہ ہوا کہ اُن کے دل میں شاید یہ خیال ہو کہ میرے ساتھ کوئی اور عورت ہے آنحضرت ﷺ نے اپنی بیوی کا چہرہ نگا کر دیا کہ دیکھ لو یہ صفیہ ہے اگر منہ کھلا رکھنے کا حکم ہوتا تو اس قسم کے خطرہ کا کوئی احتمال نہیں ہوسکتا تھا.اسی طرح حضرت عائشہ کے متعلق آتا ہے کہ جب وہ جنگ صفین میں فوج کولڑا رہی تھیں اور اُن کی ہورج کی رسیوں کو کاٹ کر گرا دیا گیا تھا تو ایک خبیث الطبع خارجی نے اُن کے ہو رج کا پردہ اٹھا کر کہا تھا کہ او ہو یہ تو سرخ و سفید رنگ کی عورت ہے.اگر رسول کریم نے کی بیویوں میں منہ کھلا رکھنے کا طریق رائج ہوتا تو جب حضرت عائشہ ہودج میں بیٹھی فوج کولڑا رہی تھیں اُس وقت وہ اُنہیں دیکھ چکا ہوتا اور اس کے لئے کوئی تعجب کی بات نہ ہوتی.اسی طرح بہت سے ایسے واقعات ملتے ہیں کہ بعض طبقات کی عورتوں کے لئے مُنہ کو جس قدر ہو سکے چھپانے کا ہی حکم ہے.قرآن کریم کی ایک آیت بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے وَلَيَضْرِبَنَّ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ یعنی اپنے سر کے رومالوں کو کھینچ کر اپنے سینوں تک بلے آیا کریں.خمار کسی چادر یا دوپٹے کا نام نہیں ہے بلکہ اس رومال کا نام ہے جو کام کرتے وقت عورتیں سر پر رکھ لیا کرتی ہیں.پس اس کے یہ معنی نہیں کہ دو بیٹے کی آنچل کو اپنے سینوں پر ڈال لیا کریں کیونکہ خمار کی آنچل نہیں ہوتی چھوٹا ہوتا ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ سر سے رو مال کو اتنا نیچا کرو کہ وہ سینے تک آجائے جس کے معنے یہ ہیں کہ سامنے سے آنے والے آدمی کو منہ نظر نہ آئے.پردے کا سوال ایک حد تک عورتوں اور مردوں کے ملنے جلنے کے ساتھ بھی تعلق رکھتا ہے.اس کے متعلق قرآن وحدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ پردے کے قواعد کو مد نظر رکھتے ہوئے عورت ہر قسم کے کاموں میں مردوں کے شریک حال ہو سکتی ہے.وہ مردوں سے پڑھ سکتی ہے، لیکچر سن سکتی ہے، پیکچر بنا سکتی ہے، مجالس وعظ اور لیکچروں میں مردوں سے الگ ہو کر بیٹھ سکتی ہے، ضرورت کے موقعہ پر اپنی رائے بیان کر سکتی اور بحث کر سکتی ہے.ایسے امور جن میں عورتوں کا دخل ہے اُن امور میں عورتوں کا مشورہ لینا بھی ضروری ہے.عورت حاجت کے وقت مرد کے ساتھ مل کر بیٹھ سکتی ہے جیسے کہ رسول کریم نے نے فرمایا کہ کوئی مخلص سوار چار ہا ہو اور عورت ہو تو اس عورت کو اپنے پیچھے بیٹھا لے.ہمارے ملکی رواج کے مطابق اگر کوئی شخص ایسا

Page 210

203 کرے تو شاید ساری قوم اس کا بائیکاٹ کر دے لیکن شریعت کے احکام آج سے تیرہ سو سال پہلے مل چکے ہیں ان میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا.آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کے ماتحت میں فتویٰ دوں گا کہ عورتوں کی گاڑیوں میں کوئی خطرہ ہو تو مرد عورت کو اپنے پاس مردانہ گاڑی میں بٹھالے یا عورت اکیلی مردانہ گاڑی میں جا بیٹھے جہاں وہ شریف مردوں کی موجودگی میں اپنی عزت کو بہ نسبت اکیلے کمرے میں بیٹھنے کے زیادہ محفوظ بجھتی ہو.جہاں تک اس وقت لکھواتے ہوئے میرے ذہن میں مسائل آئے ہیں میں نے لکھوا دیئے ہیں اگر آپ کو اور دریافت کرنے کی ضرورت ہو تو دریافت فرمائیں.مرزا محمود احمد.قادیان از مصباح یکم اپریل ۲۸) اسلامی پردہ کے متعلق حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی تشریحات (الفضل کے رپورٹر کے قلم سے) البوزی ۲۹ جون ۱۹۲۸ - نماز جمعہ کے بعد شیخ عبدالغفور صاحب میڈیکل سٹوڈنٹ نے پوچھا.اسلامی پردہ کی کیا حدود ہیں.حضور نے فرمایا:.زیادہ سے زیادہ پر وہ تو یہ ہے کہ منہ سوائے آنکھوں کے اور وہ لباس جو جسم کے ساتھ چسپاں ہو چھپایا جائے.باقی الا ماظہر کے ماتحت کسی مجبوری کی وجہ سے جتنا حصہ نگا کرنا پڑے کیا جاسکتا ہے.مثلاً ایک زمیندار عورت منہ پر نقاب ڈال کر گوڈی وغیرہ زمینداری کا کام نہیں کر سکتی اس کے لئے جائز ہے کہ ہاتھ اور مُنہ ننگے رکھے تا کہ کام کر سکے لیکن جن عورتوں کو اس قسم کے کام نہ کرنے ہوں بلکہ یوں سیر کے لئے باہر نکلنا ہوان کے لئے یہی چاہیئے کہ منہ کوڈھانکیں.آج کل پردہ کے متعلق جس طریق پر بحث کی جارہی ہے وہ درست نہیں ہے.کوشش یہ کی جارہی ہے کہ قرآن کریم کی وہ آیت جس میں پردہ کا حکم ہے اسے اور معنے پہنائے جائیں.اگر چہ اس آیت سے وہ بات نہیں نکلتی جو نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر دیکھنا یہ چاہئے کہ رسول کریم ﷺ نے اس کے کیا معنے سمجھے اور پھر صحابہ نے کیا سمجھے اور اس پر کس طرح عمل کیا.اس کے متعلق جب دیکھا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت منہ پردہ میں شامل تھا.صاف طور پر لکھا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے اپنے نواسہ کے لئے شادی کی تجویز کی تو ایک عورت کو بھیجا کہ وہ جا کر دیکھ آئے صلى الله

Page 211

204 لڑکی کا رنگ کیسا ہے.اگر اُس وقت چہرہ چھپایا نہ جاتا تھا تو پھر عورت کو بھیج کر رنگ معلوم کرنے کی کیا ضرورت تھی.اسی طرح حضرت عمر نے ایک عورت سے کہا اُم ہانی میں نے تمہیں پہچان لیا ہے.اس کا مطلب یہی تھا کہ چال دیکھ کر پہچان لیا ہے نہ یہ کہ شکل دیکھ کر.ایسے انسان کو جو واقف ہو یہ کہنا کہ میں نے تمھاری شکل دیکھ کر تمہیں پہچان لیا ہے کوئی خوبی کی بات نہیں ہے.اسی طرح رسول کریم ﷺ ایک دفعہ اعتکاف میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ کی ایک بیوی آپ کے پاس آئیں.شام کا وقت ہو گیا آپ انہیں گھر پہنچانے کے لئے ساتھ جارہے تھے کہ راستہ میں دو آدمی ملے ، غالباً منافق ہوں گے کہ آپ نے خیال کیا ان کے دل میں کوئی بدظنی نہ پیدا ہو آپ نے اپنی بیوی کے منہ سے پردہ ہٹا کر کہا یہ میری بیوی ہے جو میرے ساتھ ہے، اگر منہ کھلا رکھا جاتا تھا تو رسول کریم ﷺے کو اس طرح اپنی بیوی کا چہرہ دکھانے کی کیا ضرورت ہوسکتی تھی.اسی طرح ایک شخص نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا میں فلاں لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں مگر معلوم نہیں وہ کیسی ہے.آپ نے فرما یاد یکھنا جائز ہے تم دیکھ سکتے ہو.اُس شخص نے لڑکی کے باپ سے آکر یہ بات کہی تو اسنے کہا میں اپنی لڑکی دکھانے کے لئے تیار نہیں ہوں.یہ باتیں لڑ کی بھی سن رہی تھی اسنے کہا جب رسول کریم ﷺ نے جائز قرار دیا ہے تو کیوں روکا جاتا ہے.اگر لڑ کی کھلے منہ پھرتی تو اول رسول کریم سے اور پھرلڑکی کے باپ سے کہنے کی کیا ضرورت تھی.اس قسم کے بہت سے واقعات سے پتہ لگتا ہے کہ کھلے منہ عورتیں نہ پھرتی تھیں.ہاں کام کے لئے باہر نکلتی تھیں ، مردوں سے باتیں کرتی تھیں، جنگوں میں شامل ہوتی تھیں.اصل بات یہ ہے کہ پردہ کے متعلق بے جا جو تشدد کیا گیا اس کا یہ نتیجہ ہے کہ پردہ کو بالکل ازادینے کی کوشش کی جارہی ہے.میں نے خود دیکھا ہے عورتوں کو ڈولی میں لاتے اور پھر ڈولی کے ارد گرد پردہ تان کر گاڑی میں سوار کراتے یہ بے جانتی تھی مگر یہ طریق بھی خطرناک ہے کہ اصل مسئلہ کو بگاڑا جارہا ہے اس طرح اسلام پر زد پڑتی ہے.اگر مخالفین یہ کہیں کہ اسلام میں پردہ کا علم تو ہے مگر ہم اس کی پابندی نہیں کرتے تو یہ اور بات ہے.سمجھ لیا جائے کہ جس طرح اور کئی شرعی باتوں پر عمل نہیں کرتے اسی طرح اس پر بھی نہیں کرتے.اور جب یہ سمجھ آ جائے گی کہ اسلامی پردہ کسی لحاظ سے مضر نہیں بلکہ مفید ہے تو لوگ اس کی پابندی

Page 212

205 کرنے لگ جائیں گے مگر یہ کہنا کہ اسلام میں پردہ کا حکم ہی نہیں ہے یہ اسلام پر حملہ کرنا ہے اور جن لوگوں کے دلوں میں یہ بات بٹھا دی جائے گی اُن سے پھر توقع نہیں ہو سکتی کہ اصل پردہ کی پابندی کبھی اختیار کر سکیں گے.موجودہ جو پردہ ہے میں تو اسے سیاسی پردہ کہا کرتا ہوں کیونکہ حالات اس قسم کے ہیں.انگریزی قانون میں عصمت کی قیمت رو پیر رکھی گئی ہے اس لئے احتیاط کی ضرورت ہے ورنہ جہاں مسلمانوں کی حکومت ہو وہاں عورتیں بھی آزادی کے ساتھ چل پھر سکتی ہیں.عرب میں میں نے دیکھا ہے عورتیں بازاروں میں جاتی اور چیزیں خریدتی ہیں اور وہاں کے لوگوں نے بتایا ہے کہ ہماری خریدی ہوئی چیز عورتوں کو پسند بھی نہیں آتی.وہ کہتی ہیں مرد کیا جانیں کپڑا کیا پہننا چاہیئے یا اور چیزوں کے متعلق انہیں کیا واقفیت ہو سکتی ہے وہ خود جا کر خرید وفروخت کرتی ہیں.شیخ عبد الغفور صاحب میں نے مولوی محمد علی صاحب سے پردہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میرا دل تو یہی چاہتا ہے کہ عورتیں ننگے منہ پھریں مگر مجھ میں ابھی تک اتنی طاقت نہیں ہے کہ میں اس کو برداشت کر سکوں میں چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ مجھے توفیق دے کہ جو اسلامی پر دہ ہے وہ کر سکوں یعنی منہ کھلا رکھاؤں.مولوی صاحب نے اس کی تائید میں یہ بات بیان کی تھی کہ اگر منہ کھلا نہ رکھا جاتا تو قرآن میں یہ حکم دینے کی کیا ضرورت تھی کہ مرد اور عورتیں اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں.حضرت خلیفتہ اسیح آنکھیں اور ان کے ارد گرد کا تھوڑا تھوڑا حصہ نگا رکھا جا سکتا ہے اس لئے آنکھیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا.شیخ عبد الغفور صاحب: کیا عورتیں خود کو داخر یہ نے بازاروں میں جاسکتی ہیں ؟ حضرت خلیفہ اسیح: جاسکتی ہیں اگر کوئی خطرہ نہ ہو.موجودہ بُرقعہ بہت تکلیف دہ چیز ہے مجھے یہ نا پسند ہے.مصری طرز کا بُر قعدہ آرام دہ ہے.کہا جاتا ہے کہ پردہ کی وجہ سے عورتیں ترقی نہیں کر سکتیں، ان کی صحت خراب رہتی ہے مگر یہ درست نہیں.وہ عورتیں جو بے پردہ پھرتی ہیں وہ کیا کر رہی ہیں جو پردہ کرنے والی نہیں کر سکتیں.جس وقت عورتیں اسلام کے احکام کے مطابق پردہ کرتی تھیں اس وقت تو ان کی صحتیں بھی

Page 213

206 اچھی تھیں ، وہ جنگوں میں بھی شامل ہوتی تھیں، دشمن کو مارتی بھی تھیں مگر اب بے نقاب پھرنے والی کچھ نہیں کر رہیں.دراصل صحت امید اور امنگ سے قائم رہتی ہے جب کسی میں امنگ ہی نہ ہو تو چاہے اسے پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا کر دو وہ نیچے ہی گری ہوئی ہو گی اور اگر امنگ اور امید ہو تو خواہ لحاف اوڑھا وہ پھر بھی بلند ہوتی جائیگی کلیلہ والے نے ایک چوہے کی مثال لکھی ہے کہ کسی نے کسی شخص سے شکایت کی کہ چوہا ہر چیز خراب کر دیتا ہے.اس نے کہا اونچی جگہ رکھ دیا کرو.اس کے جواب میں شکایت کرنے والے نے کہا چوہا وہاں بھی اُچھل کر پہنچ جاتا ہے اُس نے کہا پھر کوئی بات ہے.تم چوہے کا بل کھو دو جب بل کھودا گیا تو اُس میں سے نقدی نکلی وہ اُس نے لے لی.پھر جب چو ہ باہر آیا تو بالکل ادھ موا تھا.اچھی طرح چل بھی نہ سکتا تھا.یہ چوہے کی تو مثال دی گئی ہے انسانوں کی بھی یہی حالت ہوتی ہے کسی بات پر ہمت اور جوش پیدا ہوتا ہے.وہ عورتیں جو کھلے منہ پھرتی ہیں وہ ان عورتوں کے مقابلہ میں کیا کر سکتی ہیں جو عرب میں منہ پر نقاب ڈال کر رہتی ہیں.وجہ یہ کہ عرب کی عورتوں کو اپنے ملک میں آزادی حاصل ہے اس لئے باوجود پردہ کی پابندی کرنے کے وہ طاقتور اور مضبوط ہوتی ہیں.ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ پر دو کی اصلاح کی جائے جب تک یہ قائم رہے گا اُس وقت تک اُن کا پلہ بھاری رہے گا جو پردہ کے خلاف ہیں اور یہ اصلاح اس طرح ہوسکتی ہے کہ عورتیں تعلیم یافتہ ہوں وہ خود شرعی پردہ پر عمل کریں.پردہ کرتی ہوئی کام کاج کرتی رہیں، اُن کی صحت بھی اچھی ہو، وہ عورتوں کو بتائیں کہ دیکھو پردہ کی پابندی کرتے ہوئے ہر طرح کی ترقی کی جاسکتی ہے.ایسی عورتوں کی باتوں کا عورتوں پر اثر ہو سکتا ہے مردوں کے کہنے کا نہیں ہوتا کیونکہ عورتیں کہہ دیتی ہیں کہ تم باہر پھرتے ہو تمھیں کیا معلوم ہے کہ پردہ کی کیا تکالیف ہیں.میرے نزدیک یہ بھی ظلم کیا جاتا ہے کہ چھوٹی عمر میں ہی لڑکیوں کو بُرقعہ اڑھادیا جاتا ہے اس سے اُن کی صحت پر بھی بُرا اثر پڑتا ہے قد بھی اچھی طرح بڑھ نہیں سکتا.جب لڑکی میں نسائیت پیدا ہونے لگے اُس وقت سے پردہ کرانا چاہیئے.از الفضل ۶.جولائی ۱۹۲۸ نمبر ۲ جلد ۱۶) پردہ کے متعلق مزید گفتگو مغرب کے قریب جناب مشرف حسین صاحب ایم.اے دہلوی انسپکٹر ڈاکخانہ جات حضور کی ملاقات

Page 214

207 کے لئے تشریف لائے جن سے دہلی کے شاہی خاندانوں کی تباہی اور پُر انے اہل علم گھرانوں کی بربادی کے متعلق گفتگو ہوتی رہی پھر انسپکٹر صاحب نے پردہ کے متعلق حضور کی رائے معلوم کرنی چاہی اسپر حضور نے اس گفتگو کا حوالہ دیا جو چند ہی دن قبل ایک میڈیکل سٹوڈنٹ سے ہوئی اور جو الفضل میں شائع ہو چکی ہے الفضل کا یہ پر چہ انسپکٹر صاحب کو دیا گیا.اس گفتگو پر حضور نے مزید اضافہ یہ فرمایا کہ:.ایسے امور جو اعمال سے تعلق رکھتے ہیں اُن کے متعلق الفاظ پر بحث کرنے کی بجائے اُن لوگوں کے اعمال دیکھنے چاہیں جو ان کے پہلے مخاطب تھے.پردہ کے متعلق ہمیں رسول کریم ﷺ اور صحابہ کے عمل کو دیکھنا چاہیئے اس سے پتہ لگتا ہے کہ منہ کا پردہ تھا.اس قسم کے واقعات احادیث میں پائے جاتے جن سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے.یہ واقعات ایسے نہیں جو پردہ کی حمایت میں کسی نے بیان کئے ہوں کہ ان کے متعلق کہا جائے ان میں بیان کرنے والوں کی ذاتی رائے اور رجحان طبیعت کا دخل ہے بلکہ وہ باتیں دوسرے واقعات کے سلسلہ میں بیان ہوئی ہیں اس وجہ سے پردہ کے متعلق فیصلہ کن ہیں کیونکہ یہ واقعات پردہ کا مسئلہ ذہن میں رکھ کر نہیں بنائے گئے بلکہ عام حالات بیان کئے گئے ہیں پس منہ کا چھپانا احادیث اور اسلامی تاریخ کے واقعات سے ثابت ہے.انسپکٹر صاحب :.الا ماظھر کے کیا معنے آپ خیال فرماتے ہیں ؟ حضرت خلیفہ اسی:.اس کے معنے ہیں وہ حصہ جو آپ ہی آپ ظاہر ہو.جس کو کسی مجبوری کی وجہ سے چھپایا نہ جاسکے ، خواہ یہ مجبوری بناوٹ کے لحاظ سے ہو جیسے قد ہے، یا بیماری کے لحاظ سے ہو کہ کوئی حصہ جسم علاج کے لئے دکھانا پڑے یا کام کے لحاظ سے ہو کہ کام کرنے کے لئے کوئی حصہ نگا رکھنا پڑے.قرآن کریم کا یہ حکم ہے کہ زینت کو چھپاؤ، اور سب سے زیادہ زینت کی چیز چہرہ ہے.وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ چہرہ چھپانے کا حکم نہیں ان سے ہم پوچھتے ہیں کہ پھر زبانت ہے کیا چیز جسے چھپانے کا حکم دیا گیا ہے ؟ ہم اس حد تک قائل ہیں کہ چہرہ کو اس طرح چھپایا جائے جس سے صحت پر اثر نہ پڑے.یعنی باریک کپڑا ڈال لیا جا.یا عرب کی طرح نقاب بنالیا جائے.عرب میں اسی طرح کا نقاب ہوتا ہے کہ آنکھیں اور ناک کا کچھ حصہ کھلا رہتا ہے.ڈلہوزی ۹.جولائی از الفضل ۱۷.جولائی ۱۹۲۸ نمبر ۵ جلد ۱۶)

Page 215

208 جماعت احمدیہ کی خواتین توجہ کریں (حضرت خلیفہ المسح الثانی رضی اللہ تعالی عن) میں اس سے پہلے اعلان کر چکا ہوں کہ چونکہ برتن میں روپیہ کی کمی کی وجہ سے مسجد بنی ناممکن ہوگئی تھی اس لئے لنڈن میں عورتوں کے چندہ سے مسجد بنادی گئی ہے.اور میں نے عورتوں سے دریافت کیا تھا کہ اگر وہ چاہیں تو اسی مسجد کو اُن کی طرف منسوب سمجھا جائے اور اگر چاہیں تو مرد اس کی قیمت ان کو ادا کر دیں گے اور اُن کی مسجد کسی اور ملک میں بنوادی جائے گی.چونکہ اس کا جواب عورتوں کی طرف سے نہیں ملا اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت کی خواتین اس امر پر راضی ہیں کہ لنڈن کی مسجد جو اب ایک عالمگیر شہرت حاصل کر چکی ہے اُن کی طرف منسوب کر دی جائے اور میرے خیال میں لنڈن کی عظمت کو مد نظر رکھ کر مناسب بھی یہی ہے کہ اس مسیحیت کے مرکز میں عورتوں کی بنائی ہوئی مسجد ہوتا کہ مسیحیت جو اعتراض کرتی ہے کہ اسلام عورتوں کے حقوق کو پامال کرتا ہے اس کا ایک عملی جواب ہو.مگر پھر بھی میں اس سوال کو آئندہ مجلس شوریٰ میں پیش کروں گا اور اس وقت تک بہنیں بھی غور کر لیں کہ آیا وہ یہ پسند کریں گی کہ مسجد لنڈن اُنکی طرف منسوب کر دی جائے یا یہ کہ جب امریکہ یا یورپ کے کسی اور ملک میں مسجد کی ضرورت پیش آئے تو وہاں اُن کی طرف سے مسجد بنادی جائے.سر دست میں ایک اور معاملہ کی طرف تمام بہنوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اس مسجد کے بن جانے کے سبب سے انگلستان میں تبلیغ کا کام بہت بڑھ گیا ہے اور آب خدا تعالیٰ کے فضل سے کام دو آدمیوں کی طاقت سے زیادہ ہے.اس کے متعلق مجھے پہلے شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے ولایت سے توجہ دلائی تھی اور لکھا تھا کہ اس کا نقص یہ ہوتا ہے کہ بعض اہم کاموں کو چلا کر پھر انہیں بند کر دینا پڑتا ہے اور اس سے وہ مفید نتائج پیدا نہیں ہوتے جو ہونے چاہیں.اسکے بعد اور چند دوستوں نے بھی اس طرف توجہ دلائی اب خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب نے بھی خط لکھا ہے کہ کام زیادہ معلوم ہوتا ہے اور عملہ بڑھانے کی ضرورت ہے.چونکہ مسجد کی تعمیر کے بعد مناسب عملہ کا نہ رکھنا گویا پہلے خرچ کئے ہوئے رو پیسہ کو بھی ضائع کرتا ہے اس

Page 216

209 لئے میں نے تجویز کیا ہے کہ ایک مبلغ وہاں اور بڑھا دیا جائے اور اس دفعہ ایک نیا تجربہ کیا جائے کہ بجائے ہندوستان سے بھیجنے کے نیا مبلغ خود انگلستان کے نومسلموں میں سے ہو جس میں میرے نز و یک کئی فائدے ہیں.ایک تو انگریزوں میں بعض لوگ اسلام کے زیادہ گہرے واقف ہو جائیں گے.دوسرے انسان اپنی قوم کے خیالات کو چونکہ زیادہ سمجھتا ہے لہذا ان کے ذریعہ تبلیغ میں آسانی ہوگی.پہلے میرا ارادہ یہ تھا کہ ایک انگریز کو یہاں بلوا کر اس کی تربیت کی جائے مگر اب میرا خیال ہے کہ پہلے کچھ مدت وہاں کام لے کر پھر اگر مناسب ہو تو یہاں بلوایا جائے تاکہ پہلے تجربہ سے معلوم ہو جائے کہ آیا وہ کام کی اہلیت بھی رکھتا ہے یا نہیں.اور پڑھانے کے بعد پھر علیحدہ کرنے کی مصیبت نہ اٹھانی پڑے.چونکہ ہمارے بجٹ میں گنجائش نہیں ہے اور چونکہ عورتوں کو بھی تبلیغی کاموں میں مناسب حصہ لینا چاہئے اس لئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اس زائد خرچ کو ہماری عورتیں اٹھا ئیں.اس خرچ کا اندازہ چار ہزار روپیہ سالانہ ہے.اس کے علاوہ یہ بھی خان صاحب کے خط سے معلوم ہوا کہ پچھلے چار سالوں میں بجٹ کی کمی کی وجہ سے مشن ولایت مقروض ہوا ہے اور اس وقت وہ پانچہزار روپیہ کے قریب مقروض ہے اور کئی پل لوگوں کے ادا نہیں ہوئے جس کی وجہ سے کام میں خرابی ہورہی ہے.اصول تو یہ ایک سخت نقص ہے کہ جو بجٹ منظور کیا جائے اگر اس سے زائد خرچ ہو تو فور منظوری نہ حاصل کی جائے لیکن چونکہ غلطی ہو چکی ہے جب وہ خرچ جائز اور سلسلہ کی ضروریات پر ہوا ہے تو اسے ہمیں اٹھانا پڑے گا.لیکن چونکہ بجٹ میں اس کی بھی گنجائش نہیں اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اس زائد خرچ کو بھی عورتیں ہی برداشت کریں اور اس سال نو ہزار روپیہ چندہ او پر کے مقاصد کے لئے جمع کر دیں.آئندہ سالوں سے خدا تعالے چاہے تو صرف زائد مبلغ کے اخراجات انہیں دینے ہوں گے جن کا اندازہ اس وقت چار ہزار روپے کا ہے.میں نے قادیان میں اس تحریک کو احمدی خواتین کے سامنے پیش کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے قادیان کی عورتوں نے حسب معمول نہایت اخلاص کا ثبوت دے کر ایک ہزار سے زائد رقم کا وعدہ کیا ہے جس میں سے چھ سو روپیہ کے قریب نقد یا بصورت زیور وصول ہو چکا ہے.میں اب اس تحریک کو اس تحریر کے ذریعہ سے عام کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ دوسری جگہ کی احمدی خواتین قادیان کی بہنوں سے پیچھے نہیں رہیں گیا گر وہ یاد رکھیں کہ مومن مرد اور مومن عورتیں نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے سے پیچھے رہنا کسی

Page 217

210 صورت میں برداشت نہیں کرتے.ہماری جماعت کی عورتیں خدا تعالیٰ کے فضل سے کام کر سکتی ہیں جیسا کہ سیالکوٹ کی احمدی مستورات کے کام سے ظاہر ہے جو ایک کامیاب گرلز سکول چلا رہی ہیں.اسی طرح لا ہور اور امرتسر میں باوجود مخالفت کے ان کا سترہ جون کے جلسوں کے کام کو چلانا بھی اُن کی بڑھی ہوئی ہمت کو ظاہر کرتا ہے.چاہیئے کہ ہر جگہ کی احمدی مستورات جلد سے جلد جلسے کر کے اس رقم کو جمع کرنے کی کوشش کریں اور جلد سے جلد اس رقم کو بھیجواد ہیں تا کہ کام شروع کیا جاسکے.جہاں لجنہ نہیں یا جہاں مستورات کے جمع ہونے کا دستور نہیں وہاں مرد سیکرٹریوں کو چاہئے کہ عورتوں کے اجتماع کے لئے آسانیاں بہم پہنچا ئیں اور اس طرح بالواسطہ طور پر خود بھی شریک ثواب ہوں.میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ عورتوں کو چاہیئے کہ یہ چندہ اپنے پاس سے ہی دیں خواہ نقدی کی صورت میں خواہ زیور کی صورت میں، اور مردوں سے ہرگز اس چندہ کے لئے کچھ طلب نہ کریں.اگر ان کے پاس کم رقم ہے تو اس سے شرما ئیں نہیں کہ اللہ تعالے دلوں کو دیکھتا ہے نہ کہ رقموں کو.وہ اخلاص سے کام کریں تو اللہ تعالے اس امر کی توفیق دے گا کہ ان کا مجموعی چندہ اس سے زیادہ ہو جائے جتنا کہ اُن سے مانگا گیا ہے اور انہیں آئندہ نسلوں کے لئے نمونہ بنا کر ہمیشہ کی رحمتوں کا وارث بنا دیگا.میں یہ بھی ظاہر کر دینا چاہتا ہوں کہ مسجد برلن کی تحریک کے وقت بعض غیر احمدی عورتیں بھی چندہ میں شامل ہونا چاہتی تھیں لیکن چونکہ اس وقت شرط تھی کہ صرف احمدی عورتوں کا چندہ ہو اس لئے اس کی اجازت نہ دی گئی تھی حتی کہ بعض عورتوں نے اس وجہ سے احمدیت بھی قبول کر لی.چونکہ وہ ایک مستقل کام تھا اُس وقت یہ شرط کر دی گئی تھی کہ صرف احمدی عورتوں کا چندہ ہو لیکن اس وقت چونکہ عام تبلیغی امراض کے لئے چندہ ہو رہا ہے اس لئے اس شرط کی ضرورت نہیں.اگر کوئی بہن اپنی خوشی سے اس چندہ میں حصہ لینا چاہیں تو اُن کا چندہ بھی خوشی کے ساتھ قبول کر لینا چاہیئے.چونکہ کام کا فورا شروع کیا جانا ضروری ہے اس لئے ایک دفعہ پھر میں جلدی کی تاکید کرتا ہوں.خاکسار مرز امحمود احمد خلیفہ ایسیح - ۱۷ اکتوبر ۱۹۲۸

Page 218

211 حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی تقریر یکم دسمبر کو لجنہ اماءاللہ قادیان نے جناب مولوی عبد الرحیم صاحب در دایم.اے مرحوم مبلغ انگلستان کے اعزاز میں چائے کی دعوت دی اور ایڈریس پیش کیا.ایڈریس پڑھے جانے کے بعد مولوی صاحب نے تقریر کی.اس کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ذیل کی تقریر فرمائی:.حضور نے فرمایا:.پہلے تو میں سمجھتا ہوں درد صاحب کی ایک ذمہ داری ہے جس کی طرف میں انہیں توجہ دلاؤں گو اب اُن کے لئے بولنے کا موقع نہیں مگر دل میں اس فروگذاشت کا اقرار کر سکتے ہیں جو انہوں نے اپنی تقریر میں عورتوں کو آدمیت سے خارج کرنے میں کی ہے.عورتیں بھی آدمیت کے مقام پر اسی طرح ہیں جس طرح درد صاحب ہیں یا ہم ہیں.اگر انسان آدم کی اولاد ہونے کی وجہ سے آدمی کہلاتے ہیں تو درد صاحب کا یہ حق نہیں کہ خود آدمی بن جائیں اور عورتوں کو آدمیت سے خارج قرار دے دیں.مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس میں عورتوں کا بھی دخل ہے وہ کیا کرتی ہیں کہ پردہ کر لو آدمی آگئے یا اس قسم کے اور فقرات بولتی ہیں.پس چونکہ وہ خود بھی اپنے آپ کو آدمیت سے خارج کرتی ہیں اس لئے در و صاحب کو بھی غلطی لگ گئی.در دصاحب نے اس وقت جو باتیں بیان کی ہیں وہ بہت مفید ہو سکتی ہیں لیکن ایک چیز ہے جو اس قسم کی تحریکیں کرنے والے لیکچرار نظر انداز کر جایا کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اُن کی نگاہ ہمیشہ ولایت کے اعلیٰ طبقہ پر پڑتی ہے اوئی طبقہ یا غرباء کے طبقہ پر وہ نظر نہیں ڈالتے.اس میں شبہ نہیں کہ یورپ کے تعلیم یافتہ طبقہ کی حالت یہاں کے تعلیم یافتہ طبقہ کی نسبت بہتر ہے مگر دوسرے طبقوں میں میں نے خود ایسے لڑکے لڑکیاں دیکھے ہیں جن کے بال بکھرے ہوئے اور چہرے میلے کچیلے تھے ایسے بچے میں نے اٹلی میں بھی دیکھے ہیں اور انگلینڈ میں بھی.دراصل صفائی اور تربیت میں بہت کچھ دخل تعلیم اور مالی حالت کا بھی ہوتا ہے....ہمارے ملک میں بچہ سے پیار کرنے کا یہ مطلب سمجھا جاتا ہے کہ اسے تکتا بنایا جائے مگر اُن ملکوں میں پیار کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ کارآمد بنایا جائے یہ ایک مرض ہے ہمارے ملک میں کہ ماں باپ کوشش کرتے ہیں کہ بچہ کو کوئی تکلیف نہ اٹھانی پڑے حالانکہ بچہ کو تربیت میں جو تکلیف اٹھانی پڑے وہ دراصل اُس کے لئے راحت ہوتی

Page 219

212 ہے کیونکہ آج اگر ہم بچہ میں کام کرنے کی عادت نہیں ڈالتے ، اچھے اخلاق اُس میں پیدا نہیں کرتے تو اس کا لا ز ما یہ نتیجہ نکلے گا کہ بچہ بڑا ہو کر سخت تکلیف اٹھائے گا اور اُس تکلیف میں ہم خود بھی حصہ دار ہوں گے.پس ہمیں ابتداء سے ہی بچوں کی تربیت اور اُن میں اعلیٰ اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے.بے شک ہمارے مد نظر یہ بات بھی رہے کہ وہاں کے ملکی حالات کی وجہ سے بعض خصوصیات ان لوگوں کو حاصل ہیں لیکن جس حصہ میں ہماری غلطی اور کوتا ہی ہو اس کی اصلاح ضرور کرنی چاہیئے.مثلاً ہمارے ملک کے بچوں میں یہ ایک خطر ناک نقص ہوتا ہے کہ ہر ایک الگ الگ چیز لے کر کھانے کی کوشش کرتا ہے اس طرح ایک تو چیز زیادہ خرچ ہوتی ہے دوسرے بچوں میں اسراف کی عادت پیدا ہوتی ہے علاوہ ازیں اُن کے معدے الگ خراب ہوتے ہیں.مگر علیحدہ کھانے کا ہمارے ملک میں اس حد تک رواج ہے کہ اگر کوئی کسی کی دعوت کرتا ہے تو اُس کے آگے کھانا رکھ کر خود رفو چکر ہو جاتا ہے اور مہمان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا اپنی ہتک سمجھتا ہے.پھر گھروں میں اس طرح ہوتا ہے کہ عورت خاوند کے آگے دستر خوان بچھا کر اور اس پر کھانا رکھ کر خود اور کام کرنے چلی جاتی ہے اکٹھے بیٹھ کر کھانا نہیں کھاتے.اگر اکٹھے اور مل کر کھانا کھایا جائے تو بہت سا کھانا ضائع نہ ہو اور انتظام بھی قائم رہے.اس کے لئے تربیت کی ضرورت ہے لیکچروں سے یہ کام نہیں ہوسکتا.اس کے لئے ضرورت ہے کہ قوم کے لئے دستور العمل بنایا جائے.ایک کتاب تیار کی جائے جس میں لکھا جائے کہ عورتوں کو بچوں کی تربیت اس طرح کرنی چاہئے تا کہ عورتیں اسے پڑھ کر اس پر عمل کریں ورنہ یہ کوئی نہیں کر سکتا کہ "افضل" اور "ریویو" کے قائل اپنے پاس رکھ چھوڑے جن کے ان مقامات پر نشان لگے ہوں جہاں تربیت وغیرہ کے متعلق مضامین درج ہوں اور ان کو پڑھ پڑھ کر عمل کرے لیکن اگر ایسی باتیں ایک جگہ جمع ہوں اور ایسی کتاب عورتوں کے کورس میں شامل ہو یا وہ اپنے طور پر پڑھ کر اس پر عمل کریں تو بہت مفید ہو سکتا ہے.مگر جب تک اس قسم کی کوئی کتاب نہ بنے عورتیں اپنے طور پر ان باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کریں.اس وقت اتنا تو ہوا ہے کہ ہم نے عورتوں کو تعلیم کی طرف توجہ دلائی ہے اس کے بعد انشاء اللہ تعالے تربیت کی طرف بھی توجہ ہو جائے گی.تعلیم حاصل کرنے پر انسان سمجھ سکتا ہے کہ اولاد کتنی قیمتی چیز ہے اور اس کی تربیت کرنے کی کتنی ضرورت ہے.میرا منشاء ہے کہ موجودہ گرلز سکول کو ہائی سکول بنادیا جائے اس کے لئے چندہ جمع ہورہا ہے اور امید ہے کہ تین چار ماہ میں ہم گرلز ہائی سکول کے لئے زمین خریدنے کے قابل ہو

Page 220

213 جائیں گے.کچھ گورنمنٹ کی طرف سے ایڈیل جائے گی ، کچھ اور چندہ جمع ہو جائے گا اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم ۱۹۲۹ میں اس کی بنیادر کھنے کے قابل ہو جائیں گے.اور لجنہ کی ممبر جو عورتیں تعلیم پارہی ہیں وہ سکول کی تعلیم میں تو مدد دیں گی اگر فی الحال تربیت میں مدد نہ دے سکیں.میرے نزدیک ہمیں زیادہ توجہ جس طرف دینی چاہیئے وہ تعلیم ہے، اور وہ بھی مذہبی تعلیم.یہی تعلیم ہماری اولاد کے ہوش و حواس قائم رکھ سکتی ہے.میں تو نو جوانوں کی موجودہ رو کو دیکھ کر ایسا بد دل ہوں کہ چاہتا ہوں یورپ کی ہر چیز کو بدل دیا جائے.ہمارے ملک کے لوگ اس طرح دیوانہ وار یورپ کی تقلید کر رہے ہیں کہ اسے دیکھ کر شرم و ندامت سے سر جھک جاتا ہے.آج درد صاحب نے کہا ہے کہ یورپ جن باتوں کو تنگ آ کر چھوڑ رہا ہے ہمارے ملک کے لوگ اُن کی بڑی خوشی اور شوق سے نقل کر رہے ہیں مگر میں دس سال سے کہہ رہا ہوں کہ جن باتوں کے خلاف خود یورپ آواز اُٹھا رہا ہے انہیں ہمارے ملک کے لوگ ترقی کا ذریعہ سمجھتے ہیں.وہاں سود کے خلاف شور برپا ہے مگر یہاں اُسے رائج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.اسی طرح وہاں کے لوگ شراب کی بندش پر زور دے رہے ہیں لیکن یہاں اس کا خاص شوق ظاہر کیا جاتا ہے.غرض یورپ کی تقلید میں لوگ بالکل اندھے ہو رہے ہیں.ہمیں نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ دوسروں کو بھی بچانے کے لئے یہ کوشش کرنی چاہیئے کہ لوگوں کو محسوس کرائیں ہمارا تمدن ناقص اور کمز ور نہیں.نقص یہ ہے کہ اس کا استعمال درست طور پر نہیں کیا گیا.دیکھو ایک رنگ ایک خاص حد تک اچھا لگتا ہے.مثلا تصویر میں ایک حد تک نیلا یا کالا رنگ استعمال کرتے ہیں اور آسمان کا نظارہ نظر آتا ہے لیکن اگر نیلے یا سیا ور تنگ کی بوتل اُنڈیل دی جائے تو اس سے خوبصورتی نہ پیدا ہوگی بلکہ بد صورتی ہو جائے گی.اسی طرح تصویر میں سفید رنگ سے بادل دکھائے جاتے ہیں لیکن اگر کاغذ پر کوئی قلعی پھیر لے تو یہ اس کی نادانی ہوگی.پس ہم نے اپنے تمدن کو غلط طور پر استعمال کر کے نقائص پیدا کر لئے ہیں ورنہ اس میں نقص نہیں.مثلا عورتوں کا پردہ ہے اس کے لئے خود رسول کریم ﷺ نے جہاں تک عورتوں کے لئے آزادی رکھی ہے اس پر اگر کوئی عمل کرے تو اس کے خلاف ایک شور برپا ہو جائے.آپ نے فرمایا کہ اگر کوئی سوار ار ہا ہو اور عورت پیدل چل رہی ہو تو اسے اپنی پیٹھ پیچھے بٹھا لے.اب اگر کوئی اس طرح کرے تو کتنا شور پڑ جائے حالانکہ رسول کریم میں اللہ نے اسے صدقہ کتنی قرار دیا ہے اور مرد کی ذمہ داری فرمائی ہے.

Page 221

214 غرض غلط استعمال نے نقائص پیدا کر دیئے ہیں اس کی اصلاح ہونی چاہیئے.عورتوں کو اسلام نے جس حد تک آزادی دی ہے وہ دینی چاہیئے.مثلا وہ باہر نکلیں ، کاموں میں حصہ لیں، مجلسوں میں شریک ہوں ،مگر اسی طریق سے جو اسلام نے بتایا ہے اور جس پر عمل ہوتا رہا ہے.یہاں اب اس قدر تو ہو گیا ہے کہ پردہ قائم رکھتے ہوئے ایڈریس پڑھے جاتے ہیں.بے پردہ مسلمان عورتیں بھی ابھی اس قدر جرات نہیں کر سکتیں تو عورتوں کو اس حد تک آزادی دینی چاہئے جو اسلام نے انہیں دی ہے اور وہی ان کے لئے بہترین اور مفید آزادی ہے اس سے آگے انہیں قدم نہیں بڑھانا چاہیے.میں اس بُرقعہ کو پسند کرتا ہوں جو نئی طرز کا نکلا ہے.اس میں عورت زیادہ آزادی سے چل پھر سکتی ہے مگر بعض نے اس کا بھی غلط استعمال شروع کر دیا ہے.انہوں نے اسے کوٹ بنا لیا ہے جس سے جسم کی بناوٹ نظر آتی ہے اس طرح یہ نا جائز ہو گیا ہے.شریعت نے جلباب کا کیوں حکم دیا ہے، کیوں کر تہ ہی نہیں رہنے دیا، اس لئے کہ جسم کی بناوٹ ظاہر نہ ہو.ڈھیلا ڈھالا کپڑا اوڑھا جائے.اب اس غلط استعمال سے اس بُرقعہ کو برانہیں کہا جائے گا مگر جو نقص ہوا ہے اسے دور کرتا چاہیئے.پس ضرورت ہے نقائص کی اصلاح کی کسی بات کی اندھا دھند تقلید نہ کی جائے.اسلام وہ ہے جو نہ شرقی ہے نہ غربی اس لئے مسلمانوں کو نہ ایشیا کی نقل کرنی چاہئے نہ مغرب کی.اس لئے کسی کی اندھا دھند تقلید نہ کرو نہ یہ کہ ایشیا میں چونکہ پر دو رائج ہے اس لئے جس طرح کا رائج ہے اس کو جاری رکھنا چاہیے نہ یہ کہ یورپ چونکہ پردہ نہیں کرتا اس لئے ہمیں بھی نہیں کرنا چاہئے بلکہ افراط تفریط سے بیچ کر صیح راستہ پر چلنا چاہئے.از الفضل ۱۱.دسمبر ۱۹۲۸ جلد ۶ انمبر ۴۷) تقریر لایه ای را بر موقع جله سالانه ستورات به ۱۹ حضرت ۱۹۲۸ حضور نے تشہد اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالے کا بڑا فضل ہے کہ اس نے مجھے آج بولنے کی توفیق دی ہے.بیماری کی وجہ سے میری آواز اگر کسی تک نہ پہنچ سکے تو اٹھ کر چلی نہ جائے تو اب تو نیت پر موقوف ہے.اگر آواز سننے کی نیت سے بیٹھے گی تو پہنچ جائے گی ورنہ نیت ہو گی تو ثواب تو مل ہی جائے گا.اللہ تعالیٰ کے دین کے لئے اجتماع

Page 222

215 ہوتے ہیں ، لاکھوں بلکہ کرڑوں آدمی ہر سال مکہ معظمہ میں جاتے ہیں، حج کر کے واپس آ جاتے ہیں.بعض طواف کر کے ہی واپس آ جاتے ہیں اور بعض عمرہ کر کے ہی واپس آ جاتے ہیں، حج کا انہیں موقع نہیں ملتا مگر باوجود اس کے اللہ تعالیٰ نے حج کو ایک بہت بڑی تقریب قرار دیا ہے وہاں نہ کوئی تقریر ہوتی ہے، نہ کوئی لیکچر ہوتا ہے، نہ کوئی وعظ ہوتا ہے، صرف ایک خطبہ ہوتا ہے جس کو صرف چند سو آدمی ہی سن سکتے ہیں.خدا تعالے نے اس تقریب حج کو بہت بڑی عزت دی ہے.کئی آدمی باتیں ہی کر کے آ جاتے ہیں لیکن اس کوسب عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کا ادب کرتے ہیں اور وہ حاجی صاحب ہی کہلاتا ہے.صرف اس وجہ سے کہ اس نے خدا کی راہ میں سفر اختیار کیا اور خدا کے لئے تکلیفیں اٹھا ئیں.غرض خدا کی راہ میں سفر کرنا ہی ثواب ہے.ہر وہ شخص جو پاک ارادہ سے اس مقام کو جاتا ہے جہاں خدا تعالے کا جلال ظاہر ہوا ہو دو اس کے خاص فضلوں کا وارث ہو کر آتا ہے.اللہ تعالیٰ تو قربانیوں کو دیکھتا ہے لَنْ يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَا لُهُ التَّقْوَى مِنكُمُ.اس کو قربانی کا گوشت یا خون نہیں پہنچتا اس کو تو نیت اور ارادہ کی ضرورت ہے.پس ہر عمل جو انسان کرتا ہے اس میں نیکی کرتا ہے یا نیکی کی تڑپ رکھتا ہے، تقویٰ کرتا ہے اور وہ خدا تعالی کی طرف مائل ہوتا ہے وہ ضائع نہیں جاتا.ایک آدمی اگر ساری ساری رات میں پڑھتا ہے لیکن ہمسائے کو اس کا کیا فائدہ ہے.وہ کیا جانتے ہیں یہ شخص تمام رات نماز پڑھتا ہے.ہندوؤں میں ہم نے دیکھا ہے بعض ساری ساری رات جاگتے رہتے ہیں اور بعض تو خوراک چھوڑ کر معمولی ساگ پات پر گزارہ کرتے ہیں لیکن با وجود اس کے لوگ ان کو کافر کہتے ہیں.پس یاد رکھو ایمان ایک ایسی چیز ہے جو خدا تعالے کا مقرب بناتی ہے.نیک نیت اور ایمان سے اگر یہاں بھی بیٹھو تو قادیان آنا با برکت ہوگا.رسول کریم نے ایک مجلس میں بیٹھے تھے کہ جگہ کم تھی.تین آدمی آئے اُن میں سے ایک نے جگہ کی تلاش کی اور آنحضرت ﷺ کے قریب بیٹھ گیا.دوسرے نے تلاش کی اور درمیان رستے ہی میں بیٹھ گیا.تیسرے نے ہجوم دیکھا جگہ نہ تلاش کی واپس لوٹ گیا.خدا تعالے نے فرمایا پہلے نے جگہ تلاش کی اور بیٹھ گیا اُسے زیادہ اجر ملے گا اور جو درمیان میں بیٹھ رہا اُس کے لئے بھی اجر ہے لیکن جو جگہ نہ تلاش کرنے کی وجہ سے چلا گیا اُس کو میں بھی جزاء نہ دوں گا.

Page 223

216 پس نیت اور ارادہ ہی ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو ہر فعل اور ہر مقصد میں کامیاب کرتا ہے.اس وقت میں خواتین کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر تمام کے تمام انبیاء اس بات کی خبر دیتے آئے ہیں کہ آخری زمانہ میں ایک بہت فتنہ اٹھے گا.ایک آدمی اگر صبح مسلمان ہوگا تو شام کو کافر، رات کو مسلمان سوئے گا تو صبح اُٹھے گا کافر، سو آج اسلام کی نہایت درد ناک اور نازک حالت ہے.تمام مذاہب اسلام ہی کے کچل ڈالنے کے درپے ہیں.لیکن میں دیکھتا ہوں انسان گھر کے پالتو سکتے یا پالتویلی کی پروا کرتا ہے لیکن آج اسلام کی اتنی بھی پرواہ نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.بیکسے شد دین احمد پیچ خویش و یار نیست کسے درکار خود با دین احمد کار نیست حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے ایک بزرگ نے رویا میں دیکھا بھوپال کے شہر میں ایک کوڑھی ہے جس کا کوئی بھی عضو جسم پر صیح نہ تھا.اس کو پوچھا کہ تو کون ہے تو اُس نے جواب دیا کہ میں اللہ میاں ہوں.وہ بہت پریشان ہوئے کہ اللہ میاں تو مستجمع جمیع صفات حسنہ کاملہ ہے یہ اللہ میاں کیسا؟ کوڑھی نے کہا میں بھو پال والوں کا خدا ہوں انہوں نے مجھے ایسا ہی سمجھ لیا ہے.مگر اس زمانہ میں جو بھو پال کے خدا کی شکل دکھائی گئی تھی وہی آج تمام دنیا کے خدا کی ہے.ایران کیا، ترکستان کیا ، افغانستان کیا، غرض دنیا میں آج اسلام ایسا سمجھا گیا ہے جیسے کلنک کا ٹیکہ ہوتا ہے.اسلام کا وہ نام جو عزت سے لیا جاتا تھا آج اس میں شامل ہونے کو ہتک خیال کیا جاتا ہے.یہ صرف مسلمانوں کے اسلام کو چھوڑ دینے کی وجہ سے ہے.شہروں میں آوارہ گرد مسلمان ، سواتی مسلمان ، جیل میں زیادہ مسلمان عورت و مرد، فاحشہ عورتیں جس قدر ہوتی ہیں مسلمان شہروں میں غنڈے بدمعاش اکثر مسلمان، ملازموں میں کام چور مسلمان بددیانت مسلمان تو مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی ذلت پڑ رہی ہے کہ ہر صورت میں ذلیل ہورہے ہیں صرف اس لئے کہ مسلمان سمجھ بیٹھے ہیں ، اگر اسلام سچا ہے تو ہم ذلیل کیوں اور ہے ہیں، غیر قو میں کہتی ہیں کہ مسلمان نیچے ہیں تو ڈلیاں کیوں ہیں لیکن یہ ساری ذمہ داری مسلمانوں پر آتی ہے.مسلمانوں نے اسلام کو چھوڑ دیا تو ذلیل ہوئے.

Page 224

217 مسلمانوں میں سے جو آسودہ حال لوگ ہیں وہ سمجھتے ہیں گھر میں بیٹھ کر خوب کھالیا ، کام نوکروں سے کرالیا بس یہی ہماری زندگی ہے حالانکہ اسلام انتہائی تن آسانی سے روکتا ہے.دوسرے کو کام کی فرمائش کرنا سوال ہے.ایک صحابی کہیں سفر پر گھوڑے پر سوار ہو کر جا رہے تھے کہ اُن کا کوڑا نیچے گر پڑا پیچھے سے ایک آدمی نے اُٹھا کر دینا چاہا آپ نے انہیں قسم دی.خدا کی قسم کوڑا نہ اُٹھانا.صحابی خود گھوڑے سے اترے اور کوڑا پکڑا تا کہ سوال سے بچیں.رسول کریم ﷺ کی تعلیم عیب یا بیکاری کی نہیں مگر مسلمان عورتیں اکثر بے کار رہتی ہیں یعنی کوئی مفید اور نتیجہ خیز کام نہیں کرتیں جو صرف گھر کا کام ہی کام سمجھ کر کرتی ہیں ، اُن کا کام کھانا پکانا، بستر کرنا.بچوں کے کپڑے دھونا بچوں کا پاخانہ صاف کرنا ہے لیکن اپنے پیٹ کے لئے اور اپنے بچوں کے لئے تو بلی وغیرہ بھی انتظام کر لیتی ہیں انسان میں اور حیوان میں کیا فرق رہا.اپنی زندگی میں سے ضرور کچھ وقت نکالو جو دوسروں کے کام آئے.گھر کا کام بھی کرو لیکن کچھ نہ کچھ دوسروں کے فائدے کے لئے بھی کرو.اپنے نفس سے سوال کرو کہ تم نے اپنی پچھلی زندگی میں دنیا کے فائدے کے لئے کیا کام کیا ہے اگر کچھ نہیں تو اب کرو.آسودہ حال عورتوں کا کام تو صرف نوکروں پر حکم چلاتا ہے.پھر بھی انہیں شکایت رہتی ہے بڑا کام ہے بڑا کام ہے.انگلستان میں عورتیں بڑا کام کرتی ہیں دفتروں میں کلرک تیں ،نرس ، ڈاکٹری وغیرہ کا کام کرتی ہیں.میں نے پچھلے سال عورتوں میں تحریک کی تھی کہ جو یہاں آکر تبلیغ کا کام سیکھنا چاہے ہم اُس کے لئے انتظام کر دیں گے.مردوں میں درس کی تحریک کی تھی جس میں مرد تو پا لچھو آئے لیکن عورتوں کی طرف سے صرف ایک مخط آیا جس نے آمادگی ظاہر کی تھی.عورتوں کو پچھلے سال ہر جگہ لجنہ قائم کرنے اور دستکاری کی تحریک کی تھی باوجود اس کے سوائے چند عورتوں کے کسی نے توجہ نہ کی.دستکاری سیکھ کر تم غریبوں کی مدد کرو.ہاتھ سے کام کرنا بہتک نہیں بلکہ بہترین عزت ہے.بادشاہ اورنگ زیب قرآن شریف کی کتابت کیا کرتا تھا رسول کریم ﷺ گھر کے کام کاج میں عورتوں کا ہاتھ بٹاتے.کام کرنا عیب کی بات یا ہتک نہیں.صلى الله

Page 225

218 یہاں کی عورتیں بجھتی ہیں گویا اُن کے نزدیک اُن کی پیدائش کا مقصد کھانا پینا ہے.خدا نے ہاتھ دئے ہیں ، پاؤں دئے ہیں، زبان دی ہے، آنکھ دی ہے ، ناک دی ہے، ان میں سے اگر کوئی عضو چلا جائے تو قدر آتی ہے.اگر آنکھ چلی جائے یا ناک کٹ جائے تو قد رآتی ہے.ناک کٹنا بڑی ہتک ہے.ناک کی بڑی عزت ہے حالانکہ چھوٹا سا عضو ہے.ناک کے بہت فائدے ہیں آدمی اس سے سانس لیتا ہے.ناک کے اندر جو بال ہیں وہ بھی فائدے سے خالی نہیں.کانوں ہی کو دیکھ لو اگر کٹ جائیں تو انسان کیسا بد نما لگے.تو انسان سوچے خدا نے جو آنکھیں، ناک،کان وغیرہ ہزاروں نعمتیں دی ہیں تو کیوں؟ کیا صرف اس لئے کہ دنیا میں رہ کر روٹی کھاؤں اور مر جاؤں.کونسا کام ہے جوان سے لیا جاتا ہے.پس میں آج یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی زندگی کو کارآمد بناؤ.یہاں تک کہ شہر والے سمجھیں اُن کا مدار تمھاری زندگی پر ہے.یا گاؤں والے دیکھیں اُن کی زندگی تمھیں سے ہے.یا ہمسائے سمجھیں اُن کا مدار تمھاری زندگی پر ہے.عربی میں مثل مشہور ہے مَوتُ الْعالِم مَوْتُ الْعَالَمِ.پس اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اپنی زندگی کومفید بناؤ.غیر قوموں کی ترقی دیکھ کر اپنی زندگی کو کارآمد بناؤ.اگر پہلے تم نے اپنی حالت میں تبدیلی نہیں کی تو اب اپنی حالت میں تغیر پیدا کرو.مخلوق خدا کی ہمدردی کروں کسی کی مصیبت کو اپنی مصیبت سمجھو ، دکھ میں شامل ہو، لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ شخص بڑی نمازیں پڑھتا ہے.اس کا نماز پڑھنا کیا فائدہ دیتا ہے جبکہ اُس کا وجود اُن کے لئے مفید نہ ہوا.پس اپنی زندگی اور اپنے وجود کو مفید بناؤ.از مصباح ۱۵ جنوری ۱۹۲۹) قانون کا احترام کرو اور اختلاف رائے سے مت گھبراؤ لجنہ اماءاللہ قادیان کی طرف سے ایک استقبالیہ تقریب میں حضور نے یہ تقریر فرمائی) ہمیشہ قانون کی پابندی کی جائے میں پہلے تو نمبرات لجنہ کا اپنی طرف سے اور اپنے خاندان اور اپنے ہمراہیوں کی طرف سے اس دعوت کے متعلق شکر یہ ادا کرتا ہوں جو ہماری آمد پر دی گئی ہے.اس کے بعد لجنہ جو اپنے کام کو وسیع کرنے کے متعلق کر رہی ہے اس کی نسبت ایک بات کی طرف توجہ

Page 226

219 ولا نا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ انجمنوں کی زندگی در اصل قانون کی زندگی ہوتی ہے.کسی ایک فرد سے کام لے کر بہت سے افراد کے ہاتھوں میں کام دینے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ افراد متحدہ جدو جہد کے احترام کے عادی ہو جائیں اور ان کے اندر یہ مادہ پیدا ہو جائے کہ اگر کسی وقت ایک لیڈر سے انجمن محروم ہو جائے تو کام کے تسلسل میں فرق نہ پیدا ہو.اس غرض کو پورا کرنے کے لئے یہ اہم اور ضروری بات ہوتی ہے کہ ہمیشہ قانون کی پابندی کی جائے اور قانون کی پابندی کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ قانون مقررہ الفاظ میں موجود ہو.جہاں لجنہ کی میرات اپنے کام کو وسیع کرنے کے لئے جدو جہد کر رہی ہیں وہاں انہیں اپنے ہی قانون سے با ہر نہیں نکلنا چاہئے.اس ایڈریس میں جو اس وقت پڑھا گیا ہے ایک سکول کا ذکر ہے مگر میرے پاس جو اوہ کی رپورٹ پہنچتی رہی ہے اُس میں اس کا ذکر اس رنگ میں نہیں تھا.ممکن ہے لھند نے اس کے متعلق ریزولیوشن پاس کیا ہو اور مجھے وہ ریز رولیوشن نہ پہنچا ہو.اس میں اور جس بات کا ذکر کیا گیا ہے بہت فرق ہے.پس ممبرات لجنہ کو یا درکھنا چاہیئے.قانون پاس کرنے سے قبل کوئی کام نہ شروع کریں خواہ وہ کام کتنا بڑا اور کتنا مفید ہی کیوں نہ ہو.اور میں تو کہوں گا اگر جہاد بھی لجنہ کے فیصلہ پر منحصر ہو تو فیصلہ سے قبل وہ بھی شروع نہیں ہونا چاہیے.اختلاف سے گھبرانا نہیں چاہیئے دوسری بات جس کی طرف میں لجنہ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جب کوئی جماعت نظام کے ماتحت کام کرنا شروع کرتی ہے تو چونکہ وہ پہلے نظام کے ماتحت کام کرنے کی عادی نہیں ہوتی اس لئے کام کرنے والوں میں اختلاف پیدا ہوتا ہے ایسے اختلافات سے گھبرانا نہیں چاہئے.اس قسم کے اختلاف سے نظام کی وہ خامیاں ظاہر ہوتی ہیں جو ابتدائی کاموں میں عموما پائی جاتی ہیں.قانون کی خامیاں وکلاء کے بالمقابل کھڑے ہونے سے ہی ظاہر ہوتی ہیں اور اس طرح قانون مکمل ہوتا چلا جاتا ہے.پس اگر لجنہ کے کاموں میں اختلاف پیدا ہو تو اس سے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ اختلاف تو نقائص کی طرف توجہ دلاتا ہے اور دوسرے کی خامیاں ظاہر کرتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قانون مکمل ہوتا جاتا ہے اور قانون کے مکمل ہونے سے کام کو پختگی حاصل ہوتی جاتی ہے.پس اختلاف سے گھبرانا نہیں چاہیئے بلکہ اس کی قدر کرنی چاہیئے دیکھو

Page 227

220 رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے اِخْتِلَافُ أُمَّتِي رَحْمَة میری امت میں اختلاف رحمت ہے.یہ ایسا اختلاف ہے جو ایک نظام کے ماتحت ، ایک انجمن کے ماتحت اور خلافت کے ماتحت کیا جائے.ہاں جو اختلاف اس کے مقابلہ میں اور اس کے باہر ہو کر کیا جائے وہ تباہی کا موجب ہوتا ہے.ہر فریق جب یہ کہے کہ ہمیں جو اختلاف ہو گا وہ جب قانون اور نظام کے خلاف ہو ہم اُسے چھوڑ دیں اور نظام کے ماتحت کام کریں گے.تو ایسا اختلاف نقصان کا موجب نہیں ہوتا بلکہ فائد و رساں ہوتا ہے.ممرات لجنہ کو یاد رکھنا چاہیئے کہ اُن کے سامنے کاموں کا بہت بڑا میدان پڑا ہے.اور ان کے کرنے کے ایسے ایسے کام ہیں جو ابھی ان کے ذہن میں بھی نہیں آسکتے.ایک زمانہ تھا جب میں ممبرات لجنہ کے سامنے تقریر کرتا اور بتا تا کہ انہیں کیا کرنا چاہیئے تو مہرات تقریر سکر کہتیں ہم خوب اچھی طرح تقریر سمجھ گئی ہیں مگر یہ تو بتا یا جائے ہم کام کیا کریں.میں پھر تقریر کرتا اور پھر اُن کی طرف سے یہی سنتا کہ ہم نے سب باتیں سُن لی ہیں مگر جو کام ہمیں کرنا چاہیئے وہ بتایا جائے ؟ میں اُن کی بات پر حیران ہوتا کہ میں نے تو انہیں دنیا بھر کے کام بنادئے ہیں مگر یہ کہہ رہی ہیں بتاؤ ہم کیا کام کریں.لیکن آپ میں دیکھتا ہوں کہ ان میں کام کرنے کا احساس پیدا ہورہا ہے اور انہوں نے جوش سے کام شروع کئے ہوئے ہیں.لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ ان امور کے ساتھ اختلاف کا ہونالازمی ہے ان کو برداشت کرنے کی عادت ڈالنی چاہیئے.وہ قوم جو ایسے اختلاف کو جو اصولی نہیں ہوتے برداشت نہیں کرتی اور اختلاف کرنے والوں کو اپنے ساتھ نہیں ملاتی بلکہ علیحدہ ہو جانے پر مجبور کرتی ہے وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتی.مسلمانوں کی تباہی کا بہت بڑا باعث یہی ہے کہ جس سے کوئی اختلاف ہو اُسے علیحدہ کر دیا جاتا ہے.حالانکہ اگر اختلاف اصولی نہیں، نظام کو نہیں تو ڑتا اور اصل جڑھ پر ضرب نہیں لگاتا تو اس کا ہونا ضروری ہے اور اسے برداشت کرنا چاہئے.ہاں اگر اختلاف اصولی ہو اس کا جڑھ پر حملہ ہو تو ایسا اختلاف کرنے والے کو علیحدہ کرنا ضروری ہو جاتا ہے جیسے اُس عضو کا کا مناضروری ہوتا ہے جس میں ایسے جراثیم پیدا ہو جائیں جو سارے جسم کو تباہ کر دینے والے ہوں.اس کے بعد چونکہ اس ایڈریس میں اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو یہاں پیش آیا اور جو مذبح کا واقعہ ہے اسکی طرف میں اپنی تقریر کا رخ پھیرتے ہوئے لجنہ کو مخاطب کرتا ہوں.لجنہ اماءاللہ میں گوالیسی

Page 228

221 عورتیں نہیں ہیں جن کی اولا د ہو یا جوان اولاد ہو الا ماشاء اللہ لیکن بوجہ ا سکے کہ یہی عورتوں کی قائمقام ہیں اس لئے میں فرض کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو اِس زمانہ میں عورتوں پر عائد ہوتا ہے.اولاد کو بہادر اور مضبوط بناؤ ہماری جماعت اس موقع پر ہا امن جماعت رہی ہے ، اب بھی با امن ہے اور با امن رہے گی مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ ہم کسی جبر سے اپنے حقوق چھوڑ دیں اور اُن کی حفاظت نہ کریں.دنیا میں سب سے بڑھ کر با ان رسول کریم اے تھے مگر آپ کی آخری عمرلڑائیوں میں ہی گزری.دراصل امن اور جنگ متضاد نہیں.بعض دفعہ امن اور جنگ ایک ہی ہوتا ہے.بعض دفعہ جنگ امن کے خلاف ہوتی ہے اور بعض دفعہ جنگ ایک حد تک امن کے خلاف ہوتی ہے اور ایک حد تک اس کے موافق بعض دفعہ امن کے قیام کے لئے جنگ کرنی پڑتی ہے اور بعض دفعہ امن کی بربادی کے لئے جنگ کی جاتی ہے اور بعض دفعہ تین کمان حالت ہوتی ہے.یعنی نہیں تو امن قائم کرنے کی ہوتی ہے لیکن فعل امن کو برباد کرنے والا ہوتا ہے.پائیں تو امن کو برباد کرنے والی ہوتی ہے لیکن فعل امن قائم کر دیتا ہے.پس جبکہ قیام امن کے لئے جنگ بھی ضروری ہوتی ہے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری اولادیں بہادر اور مضبوط دل کی ہوں.ہمارے ملک میں بہت بڑی مصیبت یہ ہے کہ جب مردوں کے لئے کوئی خاص کام کرنے کا وقت آتا ہے تو عورتوں میں شور پڑ جاتا ہے کہ ہمارے بچے ، ہمارے بھائی ، ہمارے خاوند ، ہمارے دوسرے رشتہ دار تکلیف میں مبتلا ہو جائیں گے.رسول کریم ﷺ کو جہاں مرد جری اور بہادر ملے تھے وہاں عورتیں بھی نہایت قوی دل اور حوصلہ والی ملی تھیں.رسول کریم ﷺ اور آپ کے غلاموں نے بڑے بڑے کا رہائے نمایاں سرانجام دئے ورنہ اگر میدان جنگ میں جانے کے لئے گھر سے نکلنے والا مرد گھر میں ہی روتی ہوئی ماں ، چلاتی ہوئی بیوی ، اور بیہوش بہن کو چھوڑ کر جائے گا تو بہادرانہ کام نہیں کر سکے گا کیونکہ اس کے دل پر غم کا بادل چھایا ہوا ہوگا معلوم نہیں گھر میں کیا کہرام مچا ہوا ہوگا.لیکن اگر وہ گھر والوں کو ہشاش بشاش چھوڑ کر جاتا ہے تو اُس کا دل خوش ہو گا اور وہ سمجھے گا کہ میں اپنے گھر میں کسی کو افسردہ دل نہیں چھوڑ کر آیا اور اس خوشی میں وہ پوری طرح جان کی بازی لگا سکے گا.ہماری جماعت جوں جوں ترقی کر رہی ہے اس کے سامنے نہایت اہم کام آرہے ہیں اور ہم نہیں جانتے

Page 229

222 ہمیں آگے قدم بڑھانے کیلئے کیا کیا قربانیاں دینا پڑیں گی.اور خدا ہی جانتا ہے کتنے مستقبل قریب میں ہمارے سپرد حکومتوں کا انتظام ہو گا اور اس کیلئے ہمیں کن حالات میں سے گزرنا پڑیگا.پس ضروری ہے کہ ہماری جماعت کی عورتیں بہادر اور مضبوط دل ہوں تاکہ ان کی اولاد بہادر اور جری ہو.میں جہاں اپنی جماعت کی عورتوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ تعلیم میں، تربیت میں، نظام میں، خدمت دین میں ترقی کریں وہاں یہ بھی کہتا ہوں کہ اولاد کو بہادر بنائیں اور اس کے دل ایسے مضبوط کریں کہ جو بھی قربانی انہیں کرنی پڑے وہ خوشی سے کریں.وہ جب قربانی کیلئے گھروں سے نکلیں تو خوش خوش نکلیں نہ کہ دل کو ڈکھ دینے والے نظارے دیکھتے ہوئے لکھیں.چونکہ اب مغرب کی اذان ہوگئی ہے اس لئے میں تقریر بند کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں خدا تعالیٰ ہماری جماعت کے مردوں اور عورتوں میں ایسی روح پیدا کرے جس سے بہترین نظام قائم ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی روحانیت بھی عطا کرے تا ایسا نہ ہو کہ نظام باقی رہ جائے اور روحانیت نہ رہے.(الفضل ۱۱ را کتوبر ۱۹۲۹ء)

Page 230

223 تقریر حضرت خلیفة لمسیح الثانی جلسه سالانه مستورات ۲۸ دسمبر ۱۹۲۹ء تشھد اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.عورتوں کی موجودہ علمی قابلیت میں نے ہر سال جماعت کی مستورات کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ جب تک تعلیم نہ ہو خدا سے اُن کا اپنا معاملہ درست نہیں ہو سکتا اور نہ ہی وہ ذمہ داریاں پوری ہو سکتی ہیں جو اپنے رشتہ داروں اور خاندان اور اپنی قوم اور ملک کی طرف سے اُن پر عائد ہوتی ہیں.شاید یہ الفاظ جو اس وقت میں نے بیان کئے ہیں آپ کو بوجھل معلوم ہوتے ہوں کیونکہ ان میں یہ کہا گیا ہے کہ تم میں تعلیم نہیں.مگر حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک تم دوسری زبا نہیں تو در کنار خود اپنی زبان سے بھی ناواقف ہو.مجھے عورتوں میں تقریر کرتے وقت یہ دقت پیش آتی ہے.تقریر میں مشکلات میں کوشش کرتا ہوں کہ میری تقریر میں ایسے الفاظ نہ آئیں جن کو تم سمجھ نہ سکو.حالانکہ میں کسی غیر زبان میں تقریر نہیں کیا کرتا.جب قوم کی ایسی گری ہوئی حالت ہو وہ اپنے ملک کی زبان میں بھی بات سمجھنے کی قابلیت نہ رکھتی ہو تو اس کی کمزور حالت کا اندازہ اس سے ہی ہو سکتا ہے.تقریر میں روز مرہ کی زبان ہوتی ہے.مثلاً اگر دین کا ذکر آئے تو اس میں قیامت ، تقدیر وغیرہ کے الفاظ ضروری ہیں.پھر جو نہ سمجھے تو واعظ کے لئے کتنی مشکلات ہیں.اس کی دو ہی صورتیں رہ جاتی ہیں.یا تو وہ آسان آسان لفظ لا کر عام فہم طریق کے لفظوں ہی کے خیال میں پڑا رہے اور اپنے مضمون کو خراب کر لے یا اصطلاحی لفظ استعمال کر کے اپنے مضمون کو تو ادا کر دے مگر سامعین اس کو نہ سمجھ سکیں.پس ہر ایک عورت کو تعلیم کی ترقی کی طرف متوجہ ہونا چاہیئے.میں مردوں میں ایک آیت کے موضوع پر کئی کئی گھنٹے بول سکتا ہوں مگر عورتوں میں ادھر ہی توجہ رہتی ہے کہ مضمون عام فہم ہو.اسی وجہ سے عورتوں میں درس وعظ وغیرہ بہت آسان رہ جاتا ہے اور اصل مضمون ذہن

Page 231

224 سے اُتر جاتا ہے.میں جب عورتوں میں درس دیتا ہوں تو بعض اوقات ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو رکوع کا درس تھوڑے سے وقت میں دے دیتا ہوں حالانکہ مردوں میں اتنا وقت بعض دفعہ صرف ایک آیت کی تشریح میں لگ جاتا ہے.میں پھر اور بار بار تمہیں اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ سب سے پہلے اپنے ملک کی زبان سیکھو.اپنی ترقی کی طرف توجہ کرو اس کے بعد میں تمہیں توجہ دلاتا ہوں کہ سب سے ضروری تعلیم دینی تعلیم ہے.کس طرح سمجھاؤں کہ تمہیں اس طرف توجہ پیدا ہو.اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کا مامور آیا اور اُس نے چالیس سال تک متواتر خدا کی باتیں سُنا کر ایسی خشیت الہی پیدا کی کہ مردوں میں سے کئی نے غوث، قطب ولی 'صدیق' اور صلحاء کا درجہ حاصل کیا.ان میں سے کئی ہیں جو اپنے رتبے کے لحاظ سے کوئی تو ابوبکر اور کوئی عثمان کوئی علی ، کوئی زبیر کوئی تھ ہے.تم میں سے بھی اکثر کو اس نے مخاطب کیا اور انہیں خدا کی باتیں سُنائیں اور ان کی بھی اسی طرح تربیت کی مگر تب بھی وہ اس رتبہ کو حاصل نہ کر سکیں.اس کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے تم میں ایک صدیقی وجود کو کھڑا کیا مگر اس سے بھی وہ رنگ پیدا نہ ہوا.پھر خدا نے مجھے کو اس مقام پر کھڑا کیا اور پندرہ سال سے متواتر درس اور اکثر وعظ ، نصائح اور لیکچروں میں دین کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور ہمیشہ یہی میری کوشش رہی ہے کہ عورتیں ترقی پائیں مگر پھر بھی اُن میں وہ روح پیدا نہ ہوسکی جس کی مجھے خواہش تھی.اور کوئی عورت تم میں سے اس قابل نظر نہیں آتی جو کسی وقت تمہاری لیڈری اور راہنمائی کر سکے.افسوس وہ کونسی کوشش ہے جس سے میں تمہیں بیدار کروں.دنیا میں ایک آگ لگی ہوئی ہے مگر تم خواب غفلت میں سوتی ہو.کیا تم میں کوئی قرآن مجید جانتی ہے؟ پچھلے دنوں میں نے یہاں کی عورتوں سے ایک سوال کیا تھا کہ تم کسی ایک عورت کا بھی نام بتاؤ جس نے قرآن کریم پر غور کر کے اس کے کسی نکتہ کو معلوم کیا ہو؟ حالانکہ مردوں میں سے عالم کے علاوہ کئی ایسے لوگ ہیں جو ظاہری تعلیم کے لحاظ سے جاہل یا معمولی سے علم کے شہر کے رہنے والے یا گاؤں کے رہنے والے ہیں جو باوجود عدم علم ظاہری کے یا کمی علم کے قرآن کے کئی معرفت کے نکتے بتاسکیں گے جولوگوں کو پہلے معلوم نہ ہوں گے.قادیان کے کئی عربی سے ناواقف بھی عجیب معرفت اور نکات کی باتیں قرآن سے بیان کرتے

Page 232

225 ہیں ایک عورت کی مثال پیش کرو جس نے قرآن کریم سے کوئی نئی بات نکالی ہو اور ایسی بات پیش کی ہو جو دنیا کو پہلے معلوم نہ تھی.اور اب تو آپ میں کچھا ایسی عورتیں بھی موجود ہیں جو مولوی کہلاتی ہیں.میں پھر توجہ دلاتا ہوں اور سوال کرتا ہوں کہ تم میں سے کون ہے جسے قرآن شریف کی معرفت نصیب ہوئی ہو؟ اس کمی کی وجہ کیا ہے؟ تم میں سے کئی عورتیں ہیں جو کہتی ہیں کہ مردوں کی طرفداری کی جاتی ہے مگر میں پوچھتا ہوں کہ کیا خدا تعالی کو بھی تم سے دشمنی ہے کہ وہ تمہاری مدد نہیں کرتا.کیوں خدا کے کلام کا درواز ہ تم پر بند ہے اور کیوں فرشتے خدائی دربار تک تمہاری رسائی نہیں کراتے.آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی صرف یہ وجہ ہے کہ تم قرآن کو قرآن کر کے نہیں پڑھتیں اور نہیں خیال کرتیں کہ اس کے اندر علم ہے، فوائد ہیں، حکمت ہے بلکہ صرف خدائی کتاب سمجھ کر پڑھتی ہو کہ اس کا پڑھنا فرض ہے اس لئے اس کی معرفت کا درواز ہ تم پر بند ہے.دیکھو قرآن خدا کی کتاب ہے اور اپنے اندر علوم رکھتا ہے.قرآن اس لئے نہیں کہ پڑھنے سے جنت ملے گی اور نہ پڑھنے سے دوزخ بلکہ فرمایا کہ فِيهِ ذِكْر كُمْ.اس میں تمہاری روحانی ترقی اور علوم کے سامان ہیں.قرآن کو نہ نہیں.یہ اپنے اندر حکمت اور علوم رکھتا ہے.جب تک اس کی معرفت حاصل نہ کرو گی قرآن کریم تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتا.تم میں سے سینکڑوں ہوں گی جنہوں نے کسی نہ کسی سچائی کا اظہار کیا ہوگا.لیکن اگر پوچھا جائے کہ تمہارے اس علم کا ماخذ کیا ہے تو وہ ہرگز ہرگز قرآن کو پیش نہ کریں گی بلکہ ان کی معلومات کا ذریعہ کتابیں ، رسائل ، ناول یا کسی مصنف کی تصنیف ہوں گی اور غالباً ہماری جماعت کی عورتوں میں حضرت مسیح موعود کی کوئی کتاب ہو گی.تم میں سے کوئی ایک بھی یہ نہ کہے گی کہ میں نے فلاں بات قرآن پر غور کرنے کے نتیجے میں معلوم کی ہے.کتنا بڑا اندھیر ہے کہ قرآن جو دنیا میں اپنے اندر خزانے رکھتا ہے اور سب بنی نوع انسان کے لئے یکساں ہے اُس سے تم اس قدر لا علم ہو.اگر قرآن کا دروازہ تم پر بند ہو تو تم سے کس بات کی توقع ہو سکتی ہے؟ ایک عورت نے کس طرح ترقی کی میں تمہیں ایک عورت کا واقعہ سنا تا ہوں کہ جسے صرف معمولی لکھنا پڑھنا آتا تھا.اس کے لکھنے کے متعلق

Page 233

226 مجھے اس وقت صحیح علم نہیں ہے لیکن بات ضرور تھی کہ اسے پڑھنا آتا تھا.اس نے قرآن کو قرآن کر کے پڑھا، جت کی طمع اور دوزخ کے خوف سے نہیں ، عادت اور دکھاوے کے طور پر نہیں بلکہ خدا کی کتاب سمجھ کر اور یہ سمجھ کر کہ اس کے اندر دنیا کے تمام علوم میں اسے پڑھا.اس کے نتیجہ میں باوجود اس کے کہ اسنے کسی کے پاس زا نوئے شاگردی تبہ نہیں کیا تمام دنیا کی استاد بنی.وہ عورت کون تھی ؟ اُس کا نام عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھا.وہ بی بی فہم قرآن میں اکثر مردوں سے بڑھ گئی اُس نے قرآن کو جیسا کہ سمجھنے کا حق تھا سمجھا.اُن کی صرف ایک مثال سے دنیا کے مرد شرمندہ ہیں.کہ وہ بایں ہمہ عقل و دانش اس فہم و فراست کو حاصل نہ کر سکے.وہ آیت ہے مَا كَانَ مُحَمَّد أَبَا أَحَدٍ مِّنْ رِّجَا لِكُمْ وَلَكِنْ رَّسُوْلَ الله وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ - یعنی حد تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں.ہاں اللہ کے رسول اور نبیوں کے خاتم ہیں.دنیا نے سمجھا کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور ادھر چونکہ آنحضرت ﷺ نے بھی فرما دیا ہے کہ لا نبی بعدی ( جس سے آپ کی یہ مرا تھی کہ میری شریعت کو منسوخ کر نیوالا کوئی نبی نہ آئے گا.) یہ امر ایسے خیال کے لوگوں کے لئے اور بھی موید ثابت ہوا اور سب نے یہ نتیجہ نکالا کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا.مسلمان تمام دنیا میں پھیل گئے اور انہوں نے اپنے اس خیال کی خوب اشاعت کی.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اس قسم کی باتیں ایک مجلس میں ہورہی تھیں حضرت عائشہ وہاں سے گزریں اور آپ نے سنکر فرمایا قولواله عالم الأنبياءِ وَلَا تَقُولُو الا نبي بعده " دیکھو حضرت عائشہ نے قرآن پر غور کرنے سے کس قدر صحیح نتیجہ نکالا کہ آج اس زمانہ کے نبی نے اس سے فائدہ اٹھایا.وہ خیالات جو تیرہ سو سال سے مسلمانوں کو مغالطہ میں ڈالے ہوئے تھے اُن کو کس صفائی کے ساتھ رڈ فرمایا ہے.تو حضرت عائشہ کے قرآن پر غور کرنے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فائدہ اٹھایا اور احمدی جماعت اُن کی ممنون احسان ہے.انہوں نے ان کی مشکلات کو آسان کر دیا.یہ تو ایک واقعہ ان کے فہم قرآن کا ہے.،، اسی بی بی کی فہم حدیث کی ایک مثال دوسرا واقعہ یہ ہے کہ جس سے ان کے کمال فراست اور غور و فکر کا ثبوت ملتا ہے وہ حضرت علی کے بھائی

Page 234

227 حضرت جعفر کی شہادت کا واقعہ ہے.جب اُن کی اطلاع گھر پر آئی تو عور تمیں رونے پیٹنے اور نوحہ کرنے لگیں جیسا کہ عرب کا رواج تھا.اسلام چونکہ نیا نیا تھا اِس لئے اسلامی عادات ابھی پوری طرح لوگوں میں پیدانہ ہوسکی تھیں اور جاہلیت کے زمانے کے اثرات باقی تھے اسی کی پیروی ان عورتوں نے کی.آنحضرت ملا لیا کہ جب کسی نے آکر اس کی اطلاع دی تو آپ نے فرمایا کہ انہیں منع کرو.منع کرنے سے بھی وہ باز نہ آئیں.پھر کسی نے شکایت کی.آپ نے فرمایا احثوا التراب في وجوههن یعنی ان کے منہ پر مٹی ڈالو.وہ لوگ جنہوں نے آپ کے اس ارشاد کو سنافی الواقع مٹی ڈالنے کے لئے دوڑے.حضرت عائشہ کو جب اس واقعہ کا علم ہو اتو بہت ناراض ہوئیں اور فرمایا کہ تم رسول کریم ﷺ کو ایسا بد اخلاق سمجھتے ہو کہ اس مصیبت کے وقت بھی تکلیف پہنچانے کا حکم دیں.آپ کا تو یہ مطلب تھا کہ انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دو.قال اللہ وقال الرسول کا صحیح فہم اسی خاتون کو تھا اب دیکھو جس بات کو مردوں نے نہ سمجھا اُسے ایک عورت یعنی حضرت عائشہ نے سمجھا اور یہی دنیا میں ایک عورت ہے جس نے قرآن کو اور خدا تعالے کے رسول کے کلام کو صحیح معنوں میں سمجھا.اس کا ایک ثبوت افك کے واقعہ سے بھی ملتا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے آپ سے فرمایا کہ عائشہ بچی سچی بات بتا دو کہ کیا معاملہ ہے تو انہوں نے جواب دیا یہ میرا کام نہیں خدا تعالے خود جواب دے گا.چنانچہ قرآن کی بعد کی وحی سے یہی ہوتا ہے.اُن کا یہ خیال درست تھا کیونکہ قرآن نے یہی کہا ہے کہ الزام دینے والا گواہ لائے نہ کہ جس پر الزام ہو وہ اپنی بریت کے لئے قسمیں کھاتا پھرے.حضرت عائشہ نے قرآن کو قرآن کر کے پڑھا اس لئے مردوں سے زیادہ معرفت حاصل کی.اگر آپ بھی اسی طرح اس پر غور کرنے اور سمجھنے کی کوشش کریں گی تو ایسا ہی فائدہ حاصل کریں گی اور کسی علم کے حاصل کرنے میں کسی کی محتاج نہ ہوں گی.قرآن شریف ہر ایک زمانے کے علوم اپنے اندر رکھتا ہے اگر کوئی اس پر غور کرے تو دنیا کو حیران کر دینے والے علوم کا دروازہ اہل دنیا پر خدا کی تائید سے کھول سکتا ہے.قرآن مجید علوم کا خزانہ ہے قرآن کے متعلق ایک موٹی مثال کو لو کہ کس طرح تیرہ سو سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے

Page 235

228 زمانے کے حالات بیان کئے ہیں فرمایاوَإِذَا الْعَشَارُ عُطَلَت یعنی اونٹنیوں کی سواریاں بے کار ہو جائیں گی دنیا نے آج ریل نکالی ہے اِس سے ثابت ہو گیا کہ قرآن نے سالہا سال پہلے بتا دیا تھا کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا یعنی ایسی سواریاں پیدا ہو جائیں گی کہ ان سواریوں کی ضرورت نہ رہے گی.وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَت.یعنی ادنی و جاہل تو میں عزت والی بن جائیں گی اور ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ وہ بھی بیدار ہو کر اپنا حق مانگیں گی اور دنیا کو اُن کے حقوق دینے پڑیں گے.اب الیکشن کے سوال کو ہی دیکھو کس زیر دست طور پر اس پیشگوئی کی تصدیق کر رہا ہے کہ بڑے بڑے علات والے برہمن چوہڑوں کے دروازوں پر ووٹ مانگنے کے لئے جاتے ہیں.وَإِذَ التَّقْوَسُ زُوجَت یعنی لوگ ملا دئیے جائیں گے.یعنی اونی اور اعلیٰ ایک جگہ پر ا کٹھے ہوں گے.اس کا ایک نمونہ آج کا جلسہ ہی ہے.تم میں سے کئی ہیں جن کی مائیں اور دادیاں اپنے سے ادنی لوگوں کے ساتھ مل کر بیٹھنے کو اپنی ہتک خیال کرتی ہوں گی مگر تم خدا کی وحی کے مطابق مل کر بیٹھی ہو اور خدا نے سب کو برابر بنا دیا.زمانہ بدل چکا اس لئے تم بھی تبدیلی پیدا کرو آج تمام سرداریاں ختم ہو گئیں.پہلے زمانہ میں جو حال تھا اس کا نقشہ اس مثال سے خوب ظاہر ہو جاتا ہے.کہتے ہیں کہ ایک چوہدری ایک مراثی کو ساتھ لے کر سفر کو جا رہا تھا راستے میں سرائے میں ٹھہرا جس چار پائی پر وہ جیٹھا اُس کے نیچے بارش کی وجہ سے سخت کچھڑ تھا.ناچار بیچارہ مراثی چوہدری کے پاس بیٹھ گیا چوہدری نے اُسے خوب جوتے لگائے اور کہا تم ہماری برابری کرتے ہو.دوسری منزل پر انہیں چار پائی نہ ملی اور چوہدری کو زمین پر بیٹھنا پڑا.جب مراثی پھاؤڑے سے زمین کھودنے لگا اور قبر کی طرح ایک گڑھا بنانے لگا.چوہدری نے کہا یہ کیا کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا بر ابر کیسے بیٹھوں.اب وہ زمانہ نہیں رہا.آج کئی اونی اقوام کے ڈپٹی ہیں اہل غرض سید ، پٹھان، مغل سلام کرنے اُن کے دروازے پر جاتے ہیں.اب وہ معز ز اور بڑا ہے جو خدا تعالیٰ کے نزدیک مومن اور متقی ہے.اس زمانہ میں یاد رکھو کہ اب تم بھی گھروں میں بیٹھ کر حکومت نہیں کر سکو گی.وہ راج کا زمانہ چلا گیا.ساری بڑائیوں کو مٹا کر خدا تعالیٰ اتحاد پیدا کرنا چاہتا ہے.فیصلہ قرآن کے مطابق آج وہ بڑھایا جائے گا جو نیک ہوگا.اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمْ کے مطابق

Page 236

229 متقی عالم ہوتا ہے.قرآن مجید امیوں کو اعلم الناس بنا دیتا ہے دنیاوی لحاظ سے دیکھو حضرت صاحب کو کوئی ایسا دنیوی علم حاصل نہ تھا گو ہم اعتقادی طور پر آپ کو عالم مانتے ہیں.آپ نے جو کتابیں لکھی ہیں معجزانہ رنگ میں لکھی ہیں مگر ظاہری طور پر آپ عالم نہ تھے اسی لئے مخاطب مولوی آپ کو طعن کے طور پر منشی لکھا کرتے تھے مگر خدا تعالی نے علوم کے دروازے آپ پر کھول دئے.میرا اپنا حال دیکھو زمانہ طالب علمی میں فیل ہی ہوتا رہا.ایک جماعت بھی پاس نہ کر سکا اسی بناء پر حضرت صاحب سے لوگوں نے شکائت کی کہ یہ پڑھائی کی طرف توجہ نہیں دیتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے طلب کیا اور ساتھ حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول گوبلا یا.میں ڈر رہا تھا کہ دیکھئے میرے لئے کیا سزا تجویز ہوتی ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک عبارت لکھ کر مجھے دی کہ اسے نقل کردو.جب میں نے اُسی طرح نقل کر دی تو مولوی صاحب کو دکھا کر فرمایا کہ شکایت تو غلط معلوم ہوتی ہے.یہ میرا امتحان ہوا.پھر اس کے بعد حضرت خلیفہ اول نے مجھے پڑھایا.اُن کے پڑھانے کا یہ طریق تھا کہ آپ ہی ایک ایک سپارہ پڑھتے جاتے سوال کرنے پر فرماتے کہ میاں آپ ہی آجائے گا.علماء زمانہ کو بالمقابل تفسیر القرآن کا چیلنج میرے ظاہری علم کو لیا جائے تو میں کسی صورت میں بھی عالم نہیں کہلا سکتا مگر میں نے قرآن کو قرآن سمجھ کر ھا اور اس سے فائدہ اٹھایا.اور اب اس قابل ہوا کہ میں تمام مخالف علماء کو چیلنج دیتاہوں کہ کوئی آیت لے کر مجھ سے تفسیر کلام الہی میں مقابلہ کر لیں میں انشاء اللہ تعالی تائید الہی سے اُس کے ایسے معنے بیان کروں گا کہ دنیا حیران رہ جائے گی.کوئی مضمون ہو بغیر سوچنے کے کھڑا ہوتا ہوں اور اللہ تعالی مجھ پر علم کے دروازے کھول دیتا ہے.خدا تعالی نے مجھ پر قرآن کریم کے ایسے ایسے نکات ظاہر کئے ہیں جو رسول کریم اللہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مستی کر کے اس تیرہ سو سال کے عرصہ میں کسی سے ظاہر نہیں ہوئے.پس تمام علوم اخلاص اور تقویٰ سے پیدا ہوتے ہیں ظاہر سے نہیں.تم خود اس کو آزماؤ اخلاص سے قرآن کو پڑھو خدا خود تمہیں اس کا علم عطا کرے گا.بسا اوقات مختلف امور کے ماہر میرے پاس آتے ہیں اور وہ اس کے متعلق مجھ سے اس

Page 237

230 مارے میں سوال کرتے ہیں.جب میں اُن کے سوالوں کا ٹھیک جواب دیتا ہوں تو اس وقت حیران ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اسکے متعلق آپ نے کون سی کتاب پڑھی ہے.میرے یہ کہنے پر کہ کوئی نہیں.وہ کہتے ہیں کہ جواب سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس علم کی کتابیں پڑھی ہیں.میں جواب دیتا ہوں کہ میں نے علوم کی جامع کتاب پڑھی ہے.قرآن کے ہر ایک لفظ اور بات پر غور کرو پھر تم پر قرآن کے علوم کا دروازہ کھولا جائیگا معمولی لیاقت کی عورت بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہے.میں نے سالہا سال وعظ کیا لیکن تمھیں کوئی فائدہ نہیں ہوا.خدا کرے کہ اس دفعہ میں دیکھ لوں کہ میری اس نصیحت سے تم کیا فائدہ حاصل کرتی ہو.قرآن کس طرح پڑھنا چاہیئے دینی علوم کے لئے سب سے پہلے قرآن کی ضرورت ہے اس کے پڑھنے میں یہ نیت ہونی چاہیئے کہ یہ خدا کی کتاب ہے ، سارا علم اس میں موجود ہے، ہر لفظ پر اعتراض پیدا کرو خدا تعالے خود اس کا حل بتائے گا.غور کرو کہ صرف الحمد للہ کہنے سے کوئی نکتہ نہیں معلوم ہوسکتا لیکن اگر کوئی تم یہ اعتراض پیدا کرو کہ ہمارے والدین اور ہمارے استاد کیوں قابل تعریف نہیں تو آگے رب العالمین میں خود اس کا جواب موجود ہے کہ تمھارے احسان کرنیوالوں کا رب بھی تو وہی ہے.فوراً سمجھ میں آ جاتا ہے کہ کیوں سب تعریفیں خدا ہی کے لئے ہیں.اس طرح پر معارف آپ پر کھلیں گے لیکن اگر نیت صرف یہ ہو کہ قرآن کے الفاظ پڑھ کر برکت حاصل کی جائے تو کچھ نامعدہ نہ ہوگا.قرآن کے بعد سنت رسول کا علم حاصل کرو دوسری چیز جس کا پڑھنا دینی تعلیم کے لئے ضروری ہے وہ سنت رسول کا علم ہے یعنی احادیث نبی کریمی و دینی تعلیم اس کے بغیر ناقص ہے.اگر چہ قرآن کریم میں سب کچھ ہے مگر اس کا علم حاصل کرنے کے لئے کامل تقویٰ کی ضرورت ہے.وہ باتیں جو تقویٰ کے کامل ہونے پر منحصر ہیں ان کو قرآن نے چھپایا ہوا ہے.وہ پڑھنے والے پھر اس وقت تک نہیں کھلیں گے جب تک وہ درجہ حاصل نہ ہو جائے.انتہائی تقوے سب کو نہیں مل سکتا اس لئے آنحضرت ﷺ نے شریعت کے اہم مسائل اور ابتدائی علوم نکال کر لوگوں پر خود

Page 238

231 ظاہر کر دئے ہیں.جیسے نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ وغیرہ.اور چونکہ ایمان کے لئے عملی اور عمل کے لئے ان مسائل کا جانا ضروری ہے اس لئے آپ لوگ سنت و حدیث کا علم بھی ضرور حاصل کریں.ضروری ہے کہ عورتیں قرآن وحدیث سے واقف ہو کر دوسروں کو پڑھائیں.اپنے گھروں شہروں اور محلوں میں اس کی تعلیم کا انتظام کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھو تیسرے ضروری دینی تعلیم کے لئے وہ چیز جس کا پڑھنا ضروری ہے حضرت بیچ سوز دعا یہ اسلام کی کتابیں ہیں.اللہ تعالے نے تمھاری حالت پر رحم کر کے اس زمانے کے نبی سے اردو کی کتابیں لکھوائیں تا تم انہیں آسانی سے پڑھ کرفائدہ اٹھا سکو.آب تمھیں کوئی عذر نہیں ہوسکتا.قرآن کا اس زمانے سے متعلق ضروری علم آپ کی کتابوں میں موجود ہے.اگر تم اس کے پڑھنے یا سننے کی کوشش کرو تو تم میں وہ قابلیتیں پیدا ہوسکتی ہیں که بار یک دربار یک مسئلوں کو حل کر سکتی ہو.حضرت صاحب کی کتابوں کا امتحان لوں گا اس وقت میں حضرت صاحب کی دو کتابیں مقرر کرتا ہوں جن کو ہر ایک عورت پڑھے یا سنے آئندہ سال میں ان کا امتحان لوں گا تا پتہ لگ جائے کہ تم نے میری نصیحت پر عمل کیا ہے یا نہیں.میں وعظ کر کر کے تھک گیا ہوں مگر تم پر ابھی کوئی اثر نہ ہوا.اب میں چاہتا ہوں کہ تم عملی زندگی کی طرف قدم اٹھاؤ.وہ کتا بیں کشتی نوح اور شہادت القرآن ہیں.ان کو پڑھنے کی کوشش کریں.اور جو نہیں پڑھ سکتیں وہ اپنی اپنی انجمن کے سیکرٹری کی معرفت اس کے سنے کا انتظام کریں.میں اس طرح سوال کروں گا کہ ان پڑھ عورتیں بھی جواب دے سکیں.مثلاً اس طرح سوال کروں گا کہ فلاں کتاب میں فلاں بات ہے یا نہیں ؟ تم میں سے ہر ایک کھڑی ہو سکتی اور بیٹھ سکتی ہے.تو میں یہ کہوں گا جس کے نزدیک اس سوال کے متعلق اس کتاب میں یہ ہے وہ کھڑی ہو جائے.یہ معلوم کرلوں گا کہ آپ لوگوں نے وہ کتاب پڑھی ہے یا نہیں کیونکہ جو بات اس کتاب میں نہ ہوگی جو اس پر کھڑی ہوگی اس کا نہ پڑھنا ظاہر ہو جائے گا.جیسے کہتے ہیں کہ ایک آدمی یونہی حاجی بن بیٹھا تھا

Page 239

232 اور حج کے متعلق سنی سنائی باتیں بیان کیا کرتا تھا.حجر اسود ایک پتھر ہے جسے ہاتھ لگانے چومنے یا اس کی طرف اشارہ کرنے کا طواف کے وقت حکم ہے یہ حاجی اس سے ناواقف تھا.ایک دانا آدمی وہاں آ گیا اور اُس نے اس سے استحان کے طور پر چند ایک اہل مکہ کے نام پوچھے وہ کیسے تھے ، پوچھتے پوچھتے کہا کہ حجر اسود صاحب کا کیا حال ہے؟ جواب دیا اچھے ہیں مگر آپ بوڑھے ہو گئے ہیں اور اس سے اس کا جھوٹ کھل گیا.اس طرح میں اس بات کا علم حاصل کرلوں گا کہ آپ نے وہ کتابیں پڑھی ہیں یا نہیں.مثلاً یہ کہ کشتی نوح میں حضرت مسیح ناصرتی کا ذکر ہے یا نہیں؟ یا شہادت القرآن میں نماز کا ذکر ہے یا نہیں؟ اتنی بات تو جاہل سے جاہل عورت بھی کر سکتی ہے.تمھیں چاہئے کہ ان کتابوں کو اچھی طرح پڑھو تا وقت پر شرمندہ نہ ہونا پڑے.ہماری جماعت کی عورتوں کو دوسری عورتوں سے دینی تعلیم میں زیادہ ہونا چاہیئے.رسول کریم ہونے کے زمانے میں ایک مرد و عورت بھی ان پڑھ نظر نہ آتا تھا.یہ بہت بڑے اخلاص کا ثبوت ہے حالانکہ عرب میں تعلیم کا بالکل رواج نہ تھا.اس زمانے میں تعلیم سے متعلق بہت ہی آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیئے.عام اخبارات بھی پڑھا کرو سب سے آسان ذریعہ کتاب ہے یا تازہ اخبار کا مطالعہ.ہفتہ واری یا دوسرے اخبار گومفید ہوتے ہیں مگر اس سے معلومات روزانہ اخبار کی طرح نہیں ہو سکتے.میرے پاس پانچ روزانہ اخبار، پندرہ سولہ رسالہ آتے ہیں مگر میں اپنے گھر میں دیکھتا ہوں کہ روزانہ اخبار کے مطالعہ کی طرف بہت کم توجہ ہے.رسالے تو پڑھ لیتی ہیں حالانکہ رسالوں سے زیادہ اخباروں میں معلومات ہوتی ہیں.علم کی ترقی خبروں سے ہوتی ہے نہ کہ مضمونوں سے.رائے پڑھنا نبیوقوفی ہے خبریں زیادہ مفید ہوتی ہیں.میں نے اخبار والوں کی رائے کو کبھی نہیں پڑھا کیونکہ میں خود رائے رکھتا ہوں.چاہیئے کہ ہم اپنی رائے رکھیں.خبروں کی طرف خاص توجہ ہو.دوسروں کی راؤں پر کبھی اعتماد نہیں کرنا چاہئے.رائیں تو مختلف بھی ہوا کرتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام سے کوئی کافر ہو جاتا ہے کوئی مومن.یعنی کسی کی رائے ہوتی ہے کہ یہ جھوٹ ہے، کوئی کہتا ہے کہ یہ درست ہے اس پر صداقت کھل جاتی ہے.غرض دونوں رائیں اپنی اپنی طرز کی ہوں گی.رائے پڑھنے والا رائے سے متاثر ہو گا نہ اصل حقیقت سے.میں اس کی مثال کے طور غیر مبائعین کے اخبار پیغام صلح کی ایک خبر بتا تا ہوں.میری خلافت کے شروع ایام میں اس میں ایک خبر شائع ہوئی جس کے عنوان اس قسم کے

Page 240

233 تھے کہ حقیقت کھل گئی راز طشت از بام ہو گیا محمود کی سازش ظاہر ہوگئی.لیکن نیچے میری نسبت یہ خبر دی تھی کہ میں رات کو لوگوں کو جگاتا پھرتا تھا کہ اٹھو اور نمازیں پڑھو اور دعائیں کرو تا اللہ تعالی جماعت کو فتنہ سے بچائے.اس پر کئی دوستوں کے میرے پاس خط آئے کہ کیا یہ سی بات ہے.میں نے لکھا کہ گھبراتے کیوں ہو، کیا دعا کرنا گناہ ہے؟ میں نے یہ تو نہیں کہا کہ چوری کرو ، ڈاکے ڈالو، تو اخباروں کی ہیڈنگ سے ڈرنا نہیں چاہئے.الفضل و مصباح کا مطالعہ ضروری ہے خصوصیات سلسلہ کے لحاظ سے یہاں کے اخبار میں سے دو اخبار الفضل و مصباح کا مطالعہ ضروری ہے.اس سے نظام سلسلہ کا علم ہوگا.بعض لوگ اس وجہ سے ان اخباروں کو نہیں پڑھتے کہ ان کے نزدیک ان میں بڑے اور اُونچے مضامین ہوتے ہیں اُن کے سمجھنے کی قابلیت اُن کے خیال میں ان میں نہیں ہوتی اور بعض کے نزدیک ان میں ایسے چھوٹے اور معمولی مضامین ہوتے ہیں وہ اسے پڑھنا فضول خیال کرتے ہیں دونوں خیالات غلط ہیں.حضرت امام ابو حنیفہ کے متعلق یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو کبھی کوئی لائق استاد بھی ملا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے ایک بچے سے زیادہ کوئی نہیں ملا.اس نے مجھے ایسی نصیحت کی جس کے خیال سے میں آپ بھی کانپ جاتا ہوں.اس بچے کو بارش اور کیچڑ میں دوڑتے ہوئے دیکھ کر میں نے اُسے کہا میاں کہیں پھسل نہ جانا.اُس نے جواب دیا امام صاحب میرے پھسلنے کی فکر نہ کریں اگر میں پھسلا تو اس سے صرف میرے کپڑے ہی آلودہ ہوں گے مگر دیکھیں کہ کہیں آپ نہ پھسل جائیں آپ کے پھسلنے سے ساری امت پھسل جائے گی.پس تکتیر مت کرو اور اپنے علم کی بڑائی میں رسائل اور اخبار کو معمولی نہ سمجھو.قوم میں وحدت پیدا کرنے کے لئے ایک خیال بنانے کے لئے ایک قسم کے رسائل کا پڑھنا ضروری ہے.مصباح کو مفید بنانے کی تجویز اکثر کہا جاتا ہے کہ مصباح میں کوئی علمی مضمون نہیں ہوتا میں اسے دیکھتا ہوں تو بہت مفید یا تا ہوں.ہاں مضمون کی ایک ترتیب چاہیئے.سو یہ تقتص اخباروں میں عام ہوتا ہے اس میں ترتیب نہیں ہوتی.اگر کہیں خدا

Page 241

234 تعالیٰ کے رزاق ہونے کا بیان ہوتا ہے اس کے ساتھ ہی کشیدہ کا ذکر آ جاتا ہے اور اس قسم کے مضامین سے دانی تربیت نہیں ہو سکتی اس لئے ہمارے اخباروں میں مضامین کی ایک ترتیب ہونی چاہئے.اگر تم وعدہ کرو کہ اس کا با قاعدہ مطالعہ کرو گی تو اس ترتیب کا دعدو میں کرتا ہوں اس کی ابتداء پیدائش عالم سے شروع کی جائے گی اور ترتیب وار مفید اور کارآمد معلومات کا سلسلہ جاری رہے گا.ہم ان سبقوں کو ایسا آسان کر دیں گے کہ کسی مجلس میں تم شرمندہ نہ ہوگی.اگر کسی جگہ ویدانتی اور زرتشی فرقوں کا ذکر ہو رہا ہے تو ان کے الفاظ تمہارے لئے موجب حیرت نہ ہوں گے کیونکہ سارے علوم کا تذکرہ اس میں موجود ہو گا.احمدی خواتین مصباح کو باقاعدہ پڑھنے کا اہتمام کریں لجد والیاں یہ کریں اپنے اپنے جائے قیام میں جا کر ریزولیوشن پاس کرائیں کہ ہم مصباح کو با قاعدہ پڑھیں گی یا سنیں گی اور اس کی اشاعت کریں گی.تو دوسولجنہ یا تا مات کی طرف سے اس ریزولیوشن کے متعلق اطلاع آنے پر میں اس سلسلہ مضامین کا انتظام کروں گا.گزشتہ سے گزشتہ سال کا ذکر ہے کہ میں نے اسی جلسہ میں آپ لوگوں سے کہا تھا کہ اگر پیر و نجات کی پندرہ عورتیں یہاں آنے کی کوشش کریں تو میں آسان طریقوں سے تمام سلسلہ کے متعلق ضروری مسائل انہیں پندرہ دن کے اندر سکھا دوں گا مگر سوائے ایک عورت کے کسی نے اس کے متعلق کوئی اطلاع نہ دی.اگر اب بھی تمہارا یہی حال ہوا تو پھر تمہاری قسمت.تیسری نصیحت یہ ہے کہ لجنہ کا قیام خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہو رہا ہے.اس وقت تین لجنا ئیں نہایت عمدہ کام کر رہی ہیں یعنی قادیان، سیالکوٹ، امرتسر کی اور ان سے اتر کر لاہور، پشاور وغیرہ کی بنا ئیں.میں امید کرتا ہوں کہ دوسری جگہوں کی بجا ئیں بھی مفید کام کرنے کی کوشش کریں گی.قادیان کی لجنہ کا کام ابھی مرکز تک محدود ہے میں امید کرتا ہوں کہ وہ آئندہ باہر کے انتظامات کو بھی اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کریں گی.عورتیں اپنا کام آپ سنبھالیں عورتوں کو چاہئے کہ وہ اپنے کام آپ سنبھالیں تبھی وہ ترقی کرسکتی ہیں.ہم نہیں جانتے کہ تمہارے دلوں

Page 242

میں کیا ہے.عورتوں کی ضروریات کا علم عورتوں ہی کے ذریعہ سے ہو سکتا ہے.جس طرح ہمیں مردوں کی ضروریات کا علم ہوتا ہے عورتوں کو نہیں ہو سکتا.ہم نہیں جانتے تمہارے دلوں میں کیا ہے تم خود اپنے خیالات کا اظہار کرو اور جو تمہارے دلوں میں ہے اس کو بیان کرو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ایمان تین قسم کا ہوتا ہے.ایک بوڑھی عورت کا جواگر کسی پہاڑ کو دیکھتی ہے تو کہتی ہے سبحان اللہ اگر کسی ولی کا حال سنتی ہے تو بھی سبحان اللہ کہتی ہے اگر اس کو کہا جائے کہ فلاں ولی کی بات سے درندے تابع ہو گئے تھے تو وہ اسے بھی مان لے گی.اُس نے تو ایک بات پکائی ہوئی ہے کہ اللہ میاں کی تو ایسی ہی باتیں ہوتیں ہیں.حضرت خلیفے اول فرمایا کرتے تھے کہ عوام الناس میں مشہور ہے کہ رسول کریم والے جب معراج کو گئے تو ایک پہاڑ راستے میں آجانے کی وجہ سے راستہ نہ ملا.آسمان سے آوازوں پر آوازیں آرہی تھیں کہ جلدی آؤ جلدی آؤ.وہ ادھر اُدھر دوڑتے پھرتے مگر راستے کا کچھ پتہ نہ چلتا آخر ایک جگہ دو فقیر بیٹھے ہوئے ملے جو بھنگ گھوٹ رہے تھے.اُن سے پوچھا تو انہوں نے کہا ٹھہرو ہمیں بھنگ پینے دو.حضرت جبرائیل اور رسول کریم و تو جلدی کر رہے تھے لیکن فقیر آرام سے بھنگ پیتے رہے.آخر انہوں نے اُسے نچوڑ کر اس کے فضلے کا ایک گولہ بنایا اور یا علی کہ کر پہاڑ کو مارا تو پہاڑ پھٹ گیا اور اُن کے گزرنے کے لئے راستہ بن گیا.ایسے واقعات کو بھی سنگر عورتیں سبحان اللہ کہہ دیتی ہیں، جاہل اور بیوقوف اسے سچ مان لیتے ہیں.وہ خیال نہیں کرتے کہ اس میں خدا صلى الله اور رسول ”سب کی عزت پر حملہ ہے اور علی کی عزت پر بھی حملہ ہے.علی کو عزت رسول کریم ﷺ کی وجہ سے نصیب ہوئی تھی.جب اُن کی بے عزتی کی گئی تو علی کی عزت کس طرح قائم رہ سکتی ہے.ہماری قوم کو دیکھ لو وجہ ہم پر کسی نے غلبہ پا کر ہمیں اسلام نہیں سکھایا بلکہ ہمارے آباء نے اسلامی ممالک کو فتح کیا اور اسلام کی نو بیوں سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گئے.آج ہم کیوں حضرت علی کی عزت کرتے ہیں محض رسول کریم ﷺ کی وجہ ہے.ہم اُن پر ایمان نہ لاتے تو علی محض ایک سردار سے زیادہ ہماری نظروں میں علات نہ پاتے.غرض ایسا جاہلانہ ایمان نہیں رکھنا چاہیئے.یہ شیر خواروں کا سا ایمان ہے کہ ہر وقت دوسروں کے قبضہ میں ہیں.دوسرا ایمان فرماتے تھے کہ فلسفیوں کا ہوتا ہے جو ہر بات ن.شک پیدا کرتے ہیں یہ گویا ذرا بڑے لڑکوں کا سا ایمان ہے جو دوڑتے اور گرتے ہیں.تیسرا ایمان ولیوں کا ایمان ہے جو گو یا بالغ و عاقل کا سا ایمان ہے کہ نہ وہ دوسرے کے ہاتھ میں ہوتے

Page 243

236 ہیں اور نہ حرکت سے معذور اور نہ حرکت کرتے وقت گرتے نہ زخمی ہوتے ہیں بلکہ حرکت بھی کرتے ہیں اور نقصان سے بھی محفوظ رہتے ہیں.ہاں تو یا درکھو کہ عورتیں عورتوں کو اچھی طرح نصیحت کر سکتی ہیں اس لئے لجنہ کا ہونا ضروری ہے.انہیں عورتوں کی ضرورت کا علم ہوگا اور اس علم کے ماتحت اُن کی باتوں کا اُن پر زیادہ گہرا اثر پڑ سکتا ہے.لجنہ کے فرائض :.مجد کے یہ یہ فرائض ہونے چاہئیں.اول دیکھیں کہ اُن کے حلقہ کی ساری احمدی عورتوں کو کلمہ اور نما ز آگئی ہے یا نہیں.اس کے متعلق وہ ہر سال امتحان لیں اور رپوٹ بھیجیں اس کام میں غفلت نہ ہو.دوم یہ کہ تبلیغ کریں.ہر ہر جگہ جلسہ کر کے عورتوں کو بلائیں.لجنہ کو اس کی طرف جلد اور فوراً توجہ کرنی چاہیئے.غیر احمدی عورتوں کو جب تبلیغ کی جائے گی اور ان کی اصلاح ہو جائے گی تو وہ اپنے مردوں کو بھی مجبور کریں گی کہ وہ احمدیت کو قبول کریں.تیسرا کام چندے کا انتظام ہے چندہ اس لئے نہیں ہوتا کہ اس سے ضروریات پوری ہوں گی.خدا کے کام رکے نہیں رہے بلکہ اس لئے ہوتا ہے کہ اس سے ایمان پختہ ہو.دیکھو دنیا میں بہت سے خزانے مدفون ہیں اگر خدا چاہے تو وہ اپنے نیک بندوں کو جہاں ہزار ہا غیب کے علم سے مطلع کرتا ہے وہاں انہیں یہ بھی بتا سکتا ہے کہ فلاح جگہ خزانہ مدفون ہے اُسے دینی ضروریات پر صرف کرو.اللہ تعالیٰ نے بارہا مجھے غیب کی خبریں بتائی ہیں وہ یہ بھی بتا سکتا تھا.مگر وہ چاہتا ہے کہ تمہارے ایمان پختہ ہوں اور تم میں زندگی کی رُوح پیدا ہو.رسول کریم نے نے ایک شخص سے زکوۃ طلب کی اُس نے دینے میں عذر کیا.آپ نے ممانعت کر دی کہ آئندہ اس سے زکو آ نہ لی جائے.اس کے بعد وہ بے شمار اونٹ اور بکریاں لاتا اس سے قبول نہ کئے جاتے اور وہ روتا ہوا واپس جاتا.چندے میں زیادہ کی شرط نہیں صرف نیت نیک ہونی چاہیئے تم اپنے ایمانوں میں ترقی کرو اور جہاں جہاں اب تک لجنہ قائم نہیں ہوئی وہاں لجنہ قائم کرو اور اپنے حقوق خود حاصل کرو.جو حقوق لینے کھڑا ہوتا ہے خدا اس کے حقوق خود دلاتا ہے.نیند سے جاگو، دین کی خدمت کرو تا مردوں کی طرح تم پر بھی خدا کی برکات نازل ہوں اور خدا کے حضور اُن افضال کی مالک بنو جن کا تمہارے آباء واجداد کو وارث بنایا گیا.از مصباح ۱۵ جنوری ۱۹۳۰ء)

Page 244

237 مجلس مشاورت میں عورتوں کا حق نمائندگی مورخہ ۲۸ دسمبر ۱۹۲۹ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر بعض اہم امور کے متعلق تقریر فرماتے ہوئے حضور نے مجلس مشاورت میں عورتوں کے حق نمائندگی کے متعلق فرمایا:.ایک اور مسئلہ جس نے ہماری جماعت میں بہت شور برپا کر دیا ہے وہ مجلس مشاورت میں عورتوں کے حقوق کا مسئلہ ہے.میں نے مجلس مشاورت میں سوال پیش کیا تھا کہ عورتوں کو حق نمائندگی ملنا چاہیئے یا نہیں.کسی مسئلہ کے متعلق اتنا جوش، جوش نہیں بلکہ دیوانگی نہیں پیدا ہوئی جتنی اس بارے میں پیدا ہوئی ہے، عورتوں ہیں تو کمٹر ور مگر معلوم ہوتا ہے اُن میں مردوں کو بہادر بنانے کا خاص ملکہ ہے، بعض دوستوں میں اتنا جوش پایا جاتا ہے کہ وہ کہتے ہیں اگر عورتوں کو حق نمائندگی مل گیا تو اسلام مُردہ ہو جائے گا اس کے مقابلہ میں دوسرے فریق میں جوش نہیں دیکھا گیا لیکن عورتوں میں جوش ہے.الفضل میں ایک مضمون ان کے حق نمائندگی کے خلاف جب چھپا تو لجنہ کی طرف سے میرے پاس شکایت آئی کہ اب ہم کیا کریں.جامعہ احمدیہ میں اس مسئلہ پر بحث ہوئی اور وہاں حق نمائندگی کے مخالفین کو کامیاب قرار دیا گیا ہے.میں نے کہا تم بھی میٹنگ کرو جس میں اس مسئلہ پر بحث کرو کہ مردوں کا مجلس مشاورت میں حق نمائندگی ہے یا نہیں اور پھر فیصلہ کر دو کہ نہیں.جامعہ احمدیہ میں تو بچوں کے مضامین کا فیصلہ کیا گیا ہے نہ کہ حق نمائندگی کا.اگر چہ یہ معمولی سوال نہیں ہے اس میں غلطی بہت خطرناک ہو سکتی ہے تا ہم ایسا اہم بھی نہیں ہے کہ اگر عورتوں کو حق نمائندگی دے دیا جائے تو اسلام کو مردہ قرار دینا پڑے.بے شک یہ سوال بہت اہم ہے مگر اس کا شریعت سے تعلق نہیں.شریعت سے ثابت ہے کہ رسول کریم اللہ نے مرد سے بھی مشورہ لیا اور عورت سے بھی.باقی رہا یہ کہ کس طریق سے مشورہ لینا چاہئے یہ نہ مردوں کے متعلق بتایا نہ عورتوں کے متعلق.یہ بات عورتوں کو حق نمائندگی نہ ملنے کا کوئی بڑے سے بڑا مد بھی ثابت نہیں کر سکتا.شریعت نے کہا ہے مشورہ کرو.آگے یہ کہ کس طریق سے کیا جائے یہ ہم پر چھوڑ دیا کہ زمانہ کے حالات کے مطابق جس طرح مناسب ہو کر و.اگر رسول کریم ﷺ کے وقت اس طرح مشورہ کیا جاتا کہ شام ، یمن ، حلب وغیرہ علاقوں کے نمائندے آتے اور مشورہ میں شریک ہوتے تو ہوسکتا تھا مدینہ میں مشورہ ہی ہو رہا ہوتا اور پیچھے حملہ ہو جاتا اس لئے رسول کریم ﷺ کا یہ طریق تھا کہ نماز کے لئے

Page 245

238 لوگوں کو جمع کرتے اور پھر مشورہ کر لیتے.بعد میں اس طریق کو بدلنا پڑا.پس طریق مشورہ بدلا جاسکتا ہے کیونکہ یہ شریعت میں موجود نہیں یہ ہم نے حالات کے مطابق خود مقرر کرنا ہے اس میں اگر غلطی کریں گے تو نقصان اٹھا ئیں گے مگر شریعت دفن نہ ہو گی وہ زندہ ہی رہے گی.یہ بات ہماری جماعت کے لوگوں کو اچھی طرح یا درکھنی چاہیئے کہ آج وہ زمانہ نہیں کہ کھڑے ہو کر کہہ دیا جائے عورتیں ناقصات العقل ہیں اور اس کے یہ معنے کر لئے جائیں کہ عورتوں میں کوئی معقل نہیں یہ معنے خود رسول کریم ﷺ کے عمل اور آپ کے بعد کے عمل سے غلط ثابت ہوتے ہیں.اگر اس کے یہی معنی ہیں جو عام طور پر سمجھے جاتے ہیں تو رسول کریم ﷺ نے اہم مسلمہ سے کیوں مشورہ لیا.اگر عورتیں ناقصات اعتقل ہوتی مہیں تو کیا وجہ ہے کہ ایسی عورتیں بھی ہوئی ہیں جنہوں نے کامل اعقل مردوں کو عقل کے بارے میں شکست دی اور ان کے پایہ کے مرد نہیں ملتے.میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو پیش کرتا ہوں.قرآن کریم میں خاتم النبین کے الفاظ آئے تھے اُدھر حدیثوں میں لائی بعد می کے الفاظ موجود تھے.جوں جوں زمانہ نبوت سے بعد ہوتا جاتا ان سے یہ نتیجہ نکالا جاتا کہ رسول کریم ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا.اس خطرے کے انسداد کے لئے کسی مرد کو توفیق نہ ملی سوائے حضرت علی یا ایک اور کے.مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دھڑلے سے فرماتی ہیں.قولوا انه خاتم الانبياء وَلَا تَقُولُو الانبي بعده، تو کہو کہ رسول کریم اللہ خاتم العین ہیں مگر یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں.اب دیکھ لو اس زمانہ کے مامور نے کس کی تصدیق کی.اُن کی جنہیں ناقصات اعقل کہا جاتا ہے یا اُن کی جو کامل العقل کہلاتے تھے.اگر اس وقت وہ یہ کہتیں کہ میں جسے ناقصات العقل میں شامل کیا جاتا ہے کیوں بولوں تو آج اس بارے میں کس قدر مشکلات پیش آتیں اور ہم کتنے میدانوں میں شکست کھاتے.جب ہم خاتم انیمین کے یہ معنے پیش کرتے کہ رسول کریم ہے کے بعد آپ کی است میں سے آپ کی غلامی میں نبی آسکتا ہے تو کہا جاتا پہلے کسی نے یہ معنے کیوں نہ سمجھے.اب جب یہ کہا جاتا ہے تو ہم کہتے ہیں دیکھو رسول کریم ﷺ کی بیوی نے یہی معنے سمجھے تھے.در اصل ناقصات العقل نسبتی امر ہے کہ مرد کے مقابلہ میں عورت کم عقل رکھتی ہے یعنی کامل سے کامل مرد سے کامل سے کامل عورت عقل میں کم ہوگی اور دوسرے درجہ کے مرد ہے دوسرے درجہ کی عورت کم ہوگی.اور اس سے کوئی انکار نہیں کرتا.بعض باتیں مردوں سے تعلق رکھنے والی ایسی ہیں جن میں عورتوں کو پیچھے رہنا پڑتا

Page 246

239 ہے.جیسے لڑائیاں اور جنگیں ہیں.پس ناقصات العقل نسبتی امر ہے اور اس سے عورت کا حق نمائندگی نہیں مارا جاسکتا کیونکہ اگر ایسا کیا جائے تو سب کے سب اول درجہ کی عقل رکھنے والے مردوں کو حق نمائندگی ملنا چاہیئے دوسروں کا حق نہیں ہونا چاہئے مگر مجلس مشاورت میں جو نمائندے آتے ہیں ان میں گوا ملے درجہ کی عقل رکھنے والے بھی ہوتے ہیں مگر بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو کچھ نہیں جانتے.اُن سے بڑھ کر بیسیوں مرد دوسرے مقامات پر ہوتے ہیں.اور مرد ہی نہیں بیسیوں عورتیں بڑھ کر ہوتی ہیں.مثلاً ایک ایسا شخص جو کسی گاؤں سے آتا ہے اور مجلس مشاورت کا نمائندہ ہوتا ہے اس سے زیادہ واقفیت رکھنے والے بہت سے ہماری جماعت کے مرولا ہور میں ہوتے ہیں مگر انہیں نمائندگی کا حق نہیں دیا جاتا.غرض عورتوں کو نمائندگی دینا ان کا حق ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ کس طرح انہیں یہ حق دیں.میں سمجھتا ہوں الفضل کے مضامین پڑھ کر بعض لوگوں کو تو یہ خیال پیدا ہو گیا ہو گا کہ جہاد کا موقع آگیا ہے.مگر انہیں یا درکھنا چاہیئے عورتوں کا یہ حق ہے.ہاں سوال یہ ہے کہ کس طریق سے اُن سے مشورہ لیا جائے تا کہ اُن کا حق بھی زائل نہ ہو اور ان کے مشورہ سے ہم فائدہ بھی اُٹھائیں.از (الفضل ۷.جنوری ۱۹۳۰ء جلد ۷ انمبر ۵۳) شادی بیاہ کی رسمیں اور انکی اصلاح حضرت سید محمد الحق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی دختر سیدہ نصیرہ بیگم صاحبہ کے رخصتانہ کی تقریب پر رسوم شادی کے متعلق ایک بیان پڑھا تھا جس کے متعلق حضرت خلیفہ مسیح ثانی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک تقریر فرمائی.اس تقریر سے اصولی طور پر ان رسوم کے متعلق ایک رہنمائی ہوتی ہے.شادی کے متعلق صحیح اسلامی تعلیم نکاح کے متعلق چار باتیں ہیں.دو تو اسلام کا حصہ ہیں.ایک یہ کہ لڑکی کی اجازت کے ساتھ نکاح کیا جائے اور دوسرے اعلان نکاح لیکن دوسری دو اسلام کا حصہ نہیں.پہلی یہ کہ لڑکے والے لڑکی کے مکان پر جا کر لڑکی کو لائیں کیونکہ یہ بات دونوں طرح ثابت ہے.لڑکے والے بھی جا کر لڑکی کو لے آتے ہیں اور ایسا بھی ثابت ہے کہ خودلڑکی والے لڑکے کے گھر لڑکی پہنچا دیتے ہیں بلکہ میرا امطالعہ تو یہ ہے کہ کثرت سے اس کی

Page 247

240 مثالیں ملتی ہیں کہ خود لڑکی والے لڑکے والوں کے گھر لڑکی کو لے آئے.پس ایک نئی پابندی اسلام میں داخل کرنی کہ لڑکے والے ہی ضرور لڑکی کو لینے جائیں ٹھیک نہیں اور اس سے مشکلات ہوں گی.اس میں شبہ نہیں کہ لڑکی کے احترام کو مد نظر رکھتے ہوئے عام طور پر لڑکے والے اُسے لینے جاتے ہیں لیکن اگر لڑکی والے خود پہنچا دیں تو بھی کوئی حرج نہیں.دوسری بات جہیز دینا ہے.جس چیز کو شریعت نے مقرر کیا ہے وہ یہی ہے کہ مرد عورت کو کچھ دے.عورت اپنے ساتھ کچھ لائے یہ ضروری نہیں.اور اگر کوئی اس کے لئے مجبور کرتا ہے تو وہ سخت غلطی کرتا ہے.ہاں اگر اس کے والدین اپنی خوشی سے کچھ دیتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن یہ ضروری نہیں ہاں لڑکے والے نہ دیں گے تو یہ نا جائز ہوگا.شریعت نے ہر مرد کے لئے عورت کا مہر مقرر کرنا ضروری رکھا ہے.میر صاحب کے مضمون میں بعض باتیں اور بھی ہیں جو میری سمجھ میں نہیں آئیں.مثلاً اگر یہ کہ اگر رشتہ دار شامل ہوں گے تو انہیں کپڑوں کا لحاظ رکھنا پڑے گا اور وہ نئے کپڑے بنوائیں گے حالانکہ شمولیت کا لازمی نتیجہ کپڑے بنانا نہیں.ہم یہاں موجود ہیں لیکن ہم نے کوئی نئے کپڑے نہیں بنائے جو موجود تھے وہی پہنے ہوئے ہیں.تو شمولیت کو اس وجہ سے ترک کرنے کی کوشش کی جائے کہ نئے کپڑے بنوانے پڑتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جماعت میں شمولیت کو ہی معیوب سمجھا جانے لگے گا اور آہستہ آہستہ جماعت میں یہ احساس پیدا ہونے لگے گا کہ لوگ ایسے موقعوں پر ایک دوسرے سے تعاون نہ کریں.عورتیں اور مرد سب اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں اس لئے یہ بھی درست نہیں طاقت و استطاعت نہ ہونے کے باوجود محض ایسی تقریب میں شمولیت کی غرض سے نئے کپڑے بنوانے کے خیال کو مٹانے کی ضرورت ہے نہ کہ شمولیت کو ہی.جہیز اور بری کی رسوم کی اصلاح اس میں طلبہ نہیں کہ جہیز اور بری کی رسوم بہت بُری ہیں اس لئے جتنی جلدی ممکن ہو ان کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیئے اور میں اس امر میں میر صاحب کی تھی تائید کرتا ہوں.ایسی و با اور مصیبت جو گھروں کو تباہ کر دیتی ہے اس قابل ہے کہ اسے فی الفور مٹا دیا جائے اور میں نے دیکھا ہے کہ اچھے اچھے گھرانے اس رسم میں بہت بُری طرح مبتلا ہیں اور مجھے اس کے اظہار میں بھی کوئی شرم نہیں محسوس ہوتی کہ ہمارے اپنے گھر کی مستورات کو بھی اس کا خیال رہتا ہے اور میں نے اُن کے مُنہ سے ایسے کلمات ضرور سنے ہیں کہ کچھ نہ کچھ

Page 248

241 ضرور کرنا چاہیئے.عام طور پر اپنی مالی حالت کو دیکھا نہیں جاتا.پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نہ صرف جہیز بلکہ بری بھی بُری چیز ہے اپنی استطاعت کے مطابق جہیز دینا تو پھر بھی ثابت ہے لیکن بُری کا اس رنگ میں جیسے کہ اب مروج ہے مجھے اب تک کوئی حوالہ نہیں ملا لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ جہیز بھی اگر کوئی دے سکے تو نہ دے.ایسے موقعوں پر ہمارے لئے سنت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طرز عمل ہے قرآن کریم سب سے مقدم ہے اور جن مسائل کے متعلق وہ خاموش ہے اُن کے لئے حدیث کو دیکھنا جائز ہے لیکن احادیث کے راوی ہمارے سامنے موجود نہیں اور ہم ذاتی طور پر ان کے اخلاق اور صداقت کے متعلق کچھ نہیں جانتے.عین ممکن ہے کہ ان میں سے بعض وضاع ہوں.اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی حدیث ہو لیکن آج وہ روی کے کاغذ سے زیادہ حیثیت نہ رکھتی ہو اور ایک حدیث جو کہ رڈی میں پھینکنے کے قابل ہو وہ مسیح کبھی جاتی ہو.چنانچہ حضرت مسیح موعود کے متعلق بھی کئی احادیث وضعی ثابت ہوئی ہیں اور کئی ایسی ہیں جو صحیح ہونی چاہیئے تھیں مگر وضعی کبھی جاتی ہیں.لیکن خدا تعالیٰ کی طرف سے جو مامور آیا اس کی وحی تازہ بہ تازہ ہے.اور جو کچھ اسنے کہا ہے وہ اس اس کی طرح سے جو تازہ پھل سے نچوڑا گیا ہو.پس اس کا عمل ہی صحیح سنت اور تعلیم اسلام ہے.چونکہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے.اور احادیث کی مثال تو ایسی ہے جیسے زید آ کر ہم سے کہے قرآن میں یوں لکھا ہے حالانکہ ہم نے خود نہ دیکھا ہو لیکن ہم براہ راست خدا تعالیٰ کے مرسل سے اس کے متعلق جو کچھ سنیں اسے ہم مقدم سمجھیں گے.لڑکی والوں کی طرف سے دعوت لڑکی والوں کی طرف سے دعوت جہاں تک میں نے غور کیا ہے ایک تکلیف دہ چیز ہے لیکن اگر لڑکی والے بغیر دعوت کے آنے والوں کو کچھ کھلا دیں تو یہ ہر گز بدعت نہیں.ہاں اگر یہ کہا جائے جو نہیں کھلاتا وہ غلطی کرتا ہے تو یہ ضرور بدعت ہے.اور اسی طرح جو یہ کہے کہ جو جہیز نہیں دیتا وہ غلطی کرتا ہے اور جہیز ضرور دینا چاہیئے تو وہ بھی بدعت پھیلانے والوں میں سے ہے.لیکن اگر کوئی شخص اپنی خوشی سے لڑکی کو کچھ دیتا ہے یا آنے والے مہمانوں کو کچھ کھلاتا ہے تو یہ ہر گز بدعت نہیں کہلا سکتی.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مبارکہ بیگم کی شادی پر بعض چیزیں اپنے پاس سے روپے دے کر آنیوالے مہمانوں کے لئے امرتسر سے منگوا ئیں.جو شخص یہ سمجھ کر کہ ایسا کرناضروری ہے ایسا کرتا ہے وہ بدعتی ہے لیکن جو شخص اپنے فطری احساس

Page 249

242 اور جذبہ کے ماتحت آنے والوں کی کچھ خاطر کرتا ہے اُسے بدعت نہیں کیا جا سکتا.میر صاحب نے اپنے مضمون میں بیان کیا ہے کہ اوسط درجہ کے لوگوں کو چاہئے کہ کچھ پار چات، کتا ہیں اور ایک ٹریک و غیر لڑکی کو دے کر رخصت کر دیں لیکن اگر لڑکی کو کچھ دینا بدعت ہے تو پھر یہ بات بھی بدعت کو رواج دینے والی ہے ایسا کیوں کیا جائے.اصل بات یہ ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق اگر کوئی دیتا ہے تو اچھی بات ہے لیکن جو شخص یہ معمولی چیزیں بھی دینے کی استطاعت نہیں رکھتا اور پھر زیر بار ہو کر ایسا کرتا ہے تو شریعت اُسے ضرور پکڑے گی.چونکہ اُس نے اسراف سے کام لیا.حالانکہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے اسراف تبذیر سے منع فرمایا ہے.جیسے ارشاد ہے:.لَا تُبَذِّرِ تَبْذِيرًا.اور اسراف کرنیوالوں کو شیطان کا بھائی کہا ہے لیکن اگر کوئی اپنی طاقت اور خوشی کے مطابق اس سے بہت زیادہ بھی دے دیتا ہے تو اس میں مضائقہ نہیں.اگر آج ایک شخص اس قدر حیثیت رکھتا ہے کہ وہ لڑکی کو دس ہزار روپیہ دے سکتا ہے بے شک دے.اگر اس کے بعد اس کی حالت انقلاب دہر کے باعث ایسی ہو جائے کہ دوسری لڑکی کو کچھ بھی نہ دے سکے تو اس میں اس پر کوئی الزام نہیں آسکتا.کیونکہ پہلی کو دیتے وقت اسکی نیت یہی تھی کہ سب کو دے اب حالات بدل گئے.بدعت کی نمائش اور اسراف سے اجتناب مختصر یہ کہ بدعت وہ ہے جسے لوگ قطعی حکم نہ ہونے کے باوجود پابندی سے اختیار کریں اور وہ اسلام سے ثابت نہ ہو لیکن لوگوں کے کہنے سے اس کو ضروری سمجھا جائے.یہ نمائش ہوتی ہے اور اس کو اختیار کرنا اسراف میں داخل ہے اور اسراف کرنے والے کو خدا تعالیٰ نے شیطان کا بھائی قرار دیا ہے.پس اس سے بچنا چاہئے اور تباہ کن بدعات سے جس قدر ممکن ہو مخلصی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے..(مصباح ۱۵.مئی ۱۹۳۰ء ) تقریر حضرت خلیفہ اسیح الثانی بر موقع جلسہ سالانہ دسمبر ۱۹۳۰ء تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد آیات تلاوت کیں:.وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلُ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةٌ قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ، قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُونَ

Page 250

فرمایا:.243 دنیا میں خلیفے دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ جنہیں انسان بناتا ہے دوسرے وہ جنہیں خدا الہام کے ذریعہ بناتا ہے.الہام کی بناء پر ہونے والے خلیفہ کو نبی کہتے ہیں جو لہم خلیفے ہوتے ہیں اُن کے آنے پر دنیا میں فساد برپا ہو جاتا ہے اس لئے نہیں کہ وہ خود فسادی ہوتے ہیں بلکہ وجہ یہ ہوتی ہے کہ طبائع نا موافق ہوتی ہیں.اس رکوع میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کی پیدائش کے واقعہ کے متعلق فرمایا کہ اُس وقت فرشتوں نے بھی یہی کہا کہ آپ دنیا میں ایسے شخص کو پیدا کرنا چاہتے ہیں جو زمین میں فساد کرے.یعنی فرشتوں نے سوال کیا آپ کی غرض اصلاح معلوم ہوتی ہے مگر در حقیقت یہ فساد کا موجب ہے.اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے.میں خلیفہ اس لئے بنا تا ہوں کہ تا اچھے اور خراب علیحد و کئے جائیں.قرآن میں پہلے اسی سوال کو لیا گیا ہے کیونکہ ہر ایک نبی کی بعثت پر فساد بر پا ہوئے اور نبیوں کو ان کا موجب بنایا گیا.دیگر نبیوں کے علاوہ محمد رسول اللہ ﷺ کے وقت بھی یہی عام مقولہ تھا کہ اسنے بھائی بھائی کو الگ کر دیا.اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں بھی لوگ یہی کہتے ہیں کہ آپ بانی فساد ہیں.بہتر ہے فرقے تو پہلے ہی تھے.اب آپ نے احمدیوں کا تہتر و آن فرقہ نکال دیا.چاہئے تو یہ تھا کہ یہ تفرقے کم کئے جاتے آلنا ایک زائد کر دیا.شاید تمہارے خیال میں بھی جو غیر احمدی ہیں انکا یہی خیال ہو اس لئے پہلے میں اسی مسئلہ کو صاف کرتا ہوں.پہلا سوال خون و فساد کا ہے اس کے متعلق یاد رکھو کہ قرآن کریم نے نبی کی آمد سے پہلے کی حقیقت ہوں واضح کی ہے کہ ظَهَرُ الفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ یعنی اس وقت خکلی وتری میں فساد تھے اور ہمیشہ یہی ہوتا ہے.اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کے آنے سے پہلے کیا دنیا ایک ہی فرقہ پر تھی یا یہ فساد موجود پہلے ہی تھے؟ شیعہ خفی پہلے ہی موجود تھے یا نہیں ؟ گیارھویں، آمین، بالجبر ، رفع یدین کے قضیے پہلے ہی تھے یا نہیں؟ وغیرہ وغیرہ.غور کرو تو معلوم ہوگا کہ اتنا فساد تھا جس کی حد نہیں اور جس کے سننے سے بھی شرم آتی ہے.افغانستان میں سینکڑوں آدمیوں کی انگلیاں مروڑ دی گئیں صرف اس لئے کہ الحیات میں تشہد کے وقت د و شہادت کی انگلی کو اٹھاتے تھے اور حنفی اپنے عقیدہ کے مطابق ایسی نماز کو ضائع سمجھتے تھے.ایک دوست نے سُنایا کہ ایک مرتبہ ایک اہلحدیث حنفیوں کی مسجد میں اُن کے ساتھ باجماعت نماز پڑھ

Page 251

244 رہا تھا التحیات میں اس نے انگلی اٹھائی.اُس کا انگلی اٹھانا تھا کہ تمام مقتدی نمازیں تو ڑ کر اس پر ٹوٹ پڑ.اور حرامی.امی کہنا شروع کر دیا.چنانچہ یہ فسادی حضرت مسیح موعود کے آنے سے پہلے ہی تھے.مسیح موعوڈ نے تو آکر اصلاح کی چوٹ لگانے والا فساد ہوتا ہے یا ڈاکٹر جو نشتر لے کر علاج پر آمادہ ہوتا ہے؟ ایک شخص کا بخار سے مُنہ کڑوا ہو ڈاکٹر کو نین دے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ظالم نے منہ کڑوا کر دیا.اگر ڈاکٹر عالم کو نہ پکاتا تو جسم کی خرابی بڑھ جاتی بلغم نکال دینے پر اعتراض کیسا؟ ہڈی ٹوٹی رہتی اگر زخم کو نشتر سے صاف نہ کیا جاتا ، اسپر جلن آمیز ، وائی نہ چھڑ کی جاتی تو مریض کی حالت کس طرح بہتر ہو سکتی ، اُس کی تو جان خطرے میں پڑ جاتی ، اس صورت میں کس طرح کوئی ڈاکٹر کو ملزم بنا سکتا ہے.ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور ای تفرقے کے متعلق سوال کیا.آپ نے فرمایا.اچھا بتاؤ اپنا اچھا دودھ سنبھالنے کے لئے دہی کے ساتھ ملا کر رکھتے ہیں یا علیحد و؟ ظاہر ہے کہ دہی کیساتھ اچھا دودھ ایک منٹ بھی اچھا نہیں رہ سکتا.پس فرستادہ جماعت کا در مائندہ جماعت سے علیحد ہ کیا جانا ضروری تھا.جس طرح بیمار سے پر ہیز نہ ہو تو تندرست بھی ساتھ گرفتار ہو جاتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ روحانی بیماریوں سے فرستادہ جماعت کو علیحدہ رکھے اس لئے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ جنازہ،شادی ، نماز وغیرہ علیحدہ ہو کیونکہ اکثر عورتیں ہی اس میں اختلاف کرتی ہیں.اس لئے میں عورتوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جس طرح مریض کے ساتھ تندرست کی زندگی خطرہ میں پڑ جاتی ہے یاد رکھو یہی حالت تمہاری غیر احمد یوں سے تعلق رکھنے میں ہوگی.اکثر عورتیں کہتی ہیں کہ بہن یا بھائی کا رشتہ ہوا چھوڑا کس طرح جائے.میں بچ بچ کہتا ہوں کہ اگر زلزلہ آ جائے یا آگ لگ جائے تو ایک بہن بھائی کی پروانہ کر کے بلکہ اُس کو پیچھے دھکیل کر خود اس گرتی ہوئی چھت سے جلدی نکل بھاگنے کی کوشش کرے گی تو پھر دین کے معاملہ میں کیوں یہ خیال کیا جاتا ہے؟ دراصل یہ آرام کے وقت کے جذبات ہیں مصیبت کے وقت کے نہیں.اگر خدا رات کو تم میں سے کسی کے پاس فرشتہ ملک الموت بھیجے جو کہے کہ حکم تو تیرے بھائی یا دوسرے عزیز کی جان نکالنے کا ہے مگر خیر میں اس کے بدلے تیری جان لیتا ہوں تو کوئی عورت بھی اس کو قبول نہ کرے گی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَ أَهْلِيكُمْ نَارًا.یعنی بچاؤ اپنی اور اپنے اہل وعیال کی جانوں کو آگ سے

Page 252

245 اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیرو اگر دوسرے غیر احمدی سے بیاہی گئی تو خاوند کی وجہ سے یقیناً وہ احمدیت سے دُور ہو جائے گی یا گوھ گڑھ کر مر جائے گی اپنے رشتہ دوروں سے الگ کی جائے گی بوجہ تعصب مذہبی کے تو یہ ایک آگ ہے.کیا وہ خود اپنے ہاتھ سے اپنی بیٹی کو آگ میں ڈالتی ؟ مگر اس طرح ایک تھوڑے سے تعلقات کے لئے اُسے دائمی آگ میں ڈال دیا.پس اس سے بچو.مسیح موعود کے آنے پر جو تفرقے اُٹھے یہ پہلے ہی تھے نئے نہیں.لیکن اگر تم قربانیاں کرو تو دوسروں کو تحریک ہو کہ اس طرح یہ تفرقے مٹ سکتے ہیں.مثلاً احمدی ہو کر غیروں سے رشتے نہ کرو اپنا نمونہ اچھا دکھاؤ تو اُن کو بھی ترغیب ہو اور اگر احمدی ہو کر بھی تم اُن سے رشتے برابر قائم رکھتی ہو تو وہ کہتے ہیں کہ رشتے تو ہم کو یوں بھی مل جاتے ہیں پھر احمدی ہو کر کیا کرنا.یادرکھو کہ یہ قومی گناہ ہے اگر تم ان سے بکلی ایسے تعلقات قطع کرلو اور خدا کے لئے اس قربانی کو اختیار کرو تو ادھر تو خدا خودان رشتہ داروں کی بجائے تم کو بہتر رشتے دے گا اور پھر تمہارے اس استقلال کے صلے میں تمہارے وہ رشتہ دار بھی واپس ملا دے گا مگر شرط یہی ہے کہ تم استقلال کو ہاتھ سے نہ دو.یہ مت سمجھو کہ خدا تمہیں ہمیشہ کے لئے جدا ہی رکھے گا.نہیں ہرگز نہیں.وہ تمہیں ملائے گا اور دائی طور پر ملائے گا وہ تمہارا استقلال دیکھتا ہے.پس اپنے تعلقات خدا کے لئے قطع کرو اور راضی برضاء ہوتا تمہارے رشتہ دار بھی تم سے بالآخر دائی مل جائیں.میں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ کبڈی ہو رہی ہے احمدی اور غیر احمدی دو پارٹیاں ہیں، احمدیوں کی پارٹی فریق مخالف کو پکڑ پکڑ کر لا رہی ہے یہاں تک کہ سب ختم ہو گئے.فریق مخالف میں سے صرف ایک بڑا سا آدمی رہ گیا جو دیوار کے ساتھ لگ کر رینگتا ہوا آخر احمد یوں میں مل کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ جب سارے ادھر آگئے تو میں تنہا اُدھر کیا کروں.اس میں تمہارے لئے سبق ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے کہ وہ تمہارے رشتہ داروں کو تم سے ملا کر لائے گا لیکن اگر تم خود اس کے فیصلوں کو توڑ کر یہ قرابتیں قائم کرو تو یاد رکھو کہ ہمیشہ کے لئے وہ تم سے دور کئے جائیں گے کیونکہ تمہارا یہ فضل خدا تعالیٰ کی مرضی کے خلاف ہوگا.پس اُس کی ناراضگی ہمیشہ کے لئے تمہیں جدا کر دے گی.حضرت عمرؓ کے متعلق آیا ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کے نہایت سخت مخالف تھے اتنے سخت کہ ایک مرتبہ اپنی ایک لونڈی کو محض اسلام لانے کی وجہ سے اتنا مارا کہ اُس کی آنکھیں ضائع ہوگئیں اور ایک دفعہ جب آنحضرت

Page 253

246 کو مارنے کا کفار نے منصوبہ کیا تو آپ نے اس بیڑے کو اٹھانے کا تہیہ کیا.کسی نے آپ کا ارادہ معلوم کر کے کہا کہ پہلے گھر کی خبر تو لو تمہاری بہن اور بہنوئی بھی تو محمد کے حلقہ بگوش ہیں.اُسی وقت بہن کے گھر گئے ، بہن بہنوئی ایک صحابی سے قرآن شریف سُن رہے تھے قرآن چھپا دیا گیا.عمر نے ان سے دریافت کرنے کے بعد اپنے بہنوئی پر کوار کا حملہ کیا بہن آڑے آگئی اور زخمی ہو گئی.عورت کو مارنا چونکہ بند ولی کی علامت کبھی جاتی ہے عمر شرمندہ ہو گئے.بہن کا خون بہتا دیکھ کر اس ندامت کو مٹانے کے لئے پو چھا تہ و تو کیا پڑھ رہے تھے.بہنوئی نے چاہا کہ قرآن شریف دکھا دیں مگر بہن نے جوش سے کہا تو نا پاک سے وہ مقدس کتاب کیونکر تجھے دکھائی جاسکتی ہے.عمر چونکہ اپنے فضل اور بہن کی قوت ایمانی سے بے حد متاثر ہو چکے تھے نرم ہو گئے اور جھٹ ایمان لے آئے.یہ اس لئے کہ عورت نے تہیہ کر لیا تھا کہ اپنے اس معزز بھائی کو قطعی چھوڑ دیں گے مگر اس مقدس دین کو نہ چھوڑیں گے.پس اُن کے اس استقلال پر اللہ تعالیٰ نے عمر کے دل کو نرم کر دیا.وہ مسلمان ہو کر اسلام کے جاں نارین گئے.اگر غورت یہ ہمت نہ دکھاتی تو عمر پر اتنا اثر نہ ہوتا اور نہ بہن بھائی ابدی طور پر یوں ملتے کہ ذرا بھی جدائی نہ ہوتی.یادرکھو کہ پی محض قربانی کا ثمر ہ تھا.پس اگر تم اپنے رشتہ داروں کو اپنے ساتھ ملانا چاہتی ہو تو قربانی کرو.اللہ تعالی کا نشتر فائدہ کے لئے اور اس کی سزا رحم کے لئے ہوتی ہے.وہ کبھی ظلم سے کسی کو سزا نہیں دیتا.اُس کا رتم بے پایاں ہے.خود فرماتا ہے وَسِعَتْ رَحْمَتِی کہ میری رحمت وسیع ہے.تو وسیع رحمت والے سے کس طرح ظلم کی توقع ہوسکتی ہے اس کے کسی فعل سے ظلم ظاہر نہیں ہوتا.دوزخ محض سزا دی اور تادیب کے لئے ایک ہسپتال ہے جہاں کوئی چند دن رہا، کوئی چند ہفتے کوئی چند مہینے ، کوئی چند سال مگر جس طرح کوئی ہمیشہ دُنیوی ہسپتالوں میں نہیں رہتا اسی طرح وہ ہسپتال (دوزخ) بھی دائی نہیں جنت گھر ہے اور دوزخ ہسپتال.اللہ تعالیٰ کبھی برداشت نہیں کرتا کہ وہ اپنے بندوں کو دائی ڈکھ میں ڈال دے.حدیث میں آتا ہے کہ آخر ایک دن دوزخ کے دروازے جنت کی ہوا میں بلائیں گی اور اُسے ٹھنڈا کر دیں گی.یہ بھی وسیع رحمت کی دلیل ہے.پس تمہارے اقرباء کی جدائیاں تادیب و ترقی کے لئے ہیں نہ ظلم و جور کی وجہ سے.جیسے ماں کے پیٹ سے بچے کا جد اہونا اُس کی ترقیات کے لئے مفید اور ضروری ہے.تو کیا کوئی ماں اپنے بچے کا پیٹ سے جُدا ہونا پسند کرتی ہے؟ کیا وہ کبھی کہتی ہے کہ ہائے کیوں میرا بچہ میرے پیٹ سے الگ کیا گیا ؟ ہرگز نہیں کہتی

Page 254

247 کیونکہ وہ بجھتی ہے کہ اس علیحدگی میں اُس کے بڑھنے اور ترقی کرنے کے راستے نکلیں گے.وہ پیٹ میں کوئی ترقی نہیں کر سکتا تھا.پس خدا تعالیٰ بھی تمہارے رشتہ داروں کو اسی لئے جدا کرتا ہے کہ تا وہ ہمیشہ کے لئے ترقی کر کے تم سے آملیں.عَلَّمَ آدَمَ الَا سُمَاءَ میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو فرمایا ہے کہ اس تفرقے میں ( جو تمہارے نزدیک تفرقہ ہے ) مدرسہ ہے اور اس طرح الگ کر کے علوم سے بہرہ ور کرنا مقصود ہے.دیکھو اگر بہن بھائی ماں باپ سب اکٹھے ہوں تو تعلیم کیونکہ پوری : دمکتی ہے.لیکن سکول علیحد ہ ہوتا ہے تو تعلیم کا انتظام بھی مکمل ہو سکتا ہے.ایک لڑکا جو خاص طور پر سکول بھیجا جائے خیال کرتا ہے کہ میں تمام رشتہ داروں سے محض تعلیمی فرض سے علیحد ہ کیا گیا ہوں.اس طرح پڑھنے اور پڑھانے والے دونوں کو اس فرض کا احساس رہتا ہے اور غرض بھی پوری ہوتی ہے.اکٹھا رہ کر یہ احساس ناممکن ہے پس عَلَّمَ آدَمَ الَّا سَمَاءَ کا یہ مطلب ہوا کہ ہم نے تعلیم کے تمام پہلوؤں یا شعبوں کو مکمل کرنے کیلئے خلیفہ بنایا کہ تاو ہ اس طرح لوگوں کو علیحدہ کر کے تعلیم دے اور خدا تعالیٰ کی صفتوں کا علم مخلوق کو دے.پس یہ علیحد گی زحمت نہیں رحمت ہے.روحانی بیماروں سے علیحدگی کے بغیر خدا کو پالیتا تمہارے لئے ناممکن تھا.اب علیحد ہ ہو کر تم نے خدا کو پالیا.تو یہ تم کو نہایت بیش قیمت نعمت مل گئی جس کا جتنا شکر کرو تھوڑا ہے نہ کہ الٹا اُن اقرباء کی جدائیوں پر گھبراؤ یا لغزش دکھاؤ.میں مگر رنصیحت کرتا ہوں کہ اُن رشتہ داروں سے جن کا روحانی طور پر تم سے قطع تعلق ہو چکا رشتہ داریاں قائم نہ کرو، اُن کے جنازوں وغیرہ میں شرکت نہ کرو، اپنے آپ کو ان تعلقات کی وجہ سے خدا تعالی کے عذاب کے مورد نہ بنو.اب اس کے بعد میں خدا تعالیٰ کے علم سے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.سب سے ضروری چیز خدا کا علم ہے بہت عورتیں سمجھتی ہوں گی کہ ہمیں خدا کا علم ہے مگر نہیں وہ خدا کو نہیں جانتیں.اگر جانتیں تو اس پر پورا ایمان ہوتا.نہ جاننے کے سبب سے ہی عورتیں جھٹ ہر کام اور ہر انجام پر تقدیر کولے بیٹھتی ہیں.یہ ثبوت ہے خُدا کا علم نہ ہونے کا اور اس کی صفات سے بے خبری کا.

Page 255

248 یا درکھو یہ تمھارا تقدیر کا مسئلہ غلط ہے.اپنی کوتاہیوں کے صلہ میں جو بد انجامیاں ظاہر ہوتی ہیں اُن کا نام تم تقدیر رکھ کر خدا تعالیٰ پر الزام رکھتی ہو.یہ نہیں خیال کرتیں کہ خدا جو اتنا بڑ از مین و آسمان کا بادشاہ ہے اُس کو کیا ضرورت ہے تم میں سے کسی کو دُکھ دے کسی کو سکھ کسی کوڑ لائے کسی کو ہنسائے اُس کا اِس میں کیا فائدہ ہے.کیا کوئی ماں پسند کرتی ہے کہ ایک بیٹا جئے ایک مرجائے ، ایک اندھا ہوا ایک سوجا کھا، ایک بیمار ہو ایک تندرست؟ یہ جاہلانہ خیال ہے.ہماری قوم کی بہت سی تباہی یہی تقدیر کا مسئلہ ہے.اسی مسئلہ کی طفیل ہماری کوششیں ضائع ہو گئیں ، ہماری محنتیں برباد ہو گئیں اور ہماری تمام سرگرمیاں بے شمر رہ گئیں.تم خوب یاد رکھو کہ یہ تقدیری مسئلہ بالکل غلط ہے.اللہ تعالی نے قانون بنائے ہیں جو ان پرسید ھے چلے انہوں نے کامیابی پائی جو الٹے چلے وہ نا کام رہ گئے.مثلاً یہی جلسہ ہے جس میں کئی پیچھے بیٹھی ہیں کئی آگے.لیکن کیا اس طرح ان کو خدا نے بھلایا ہے؟ مانا کہ منتظمات کو بھی ایک حد تک اس میں دخل ہو گا مگر پھر بھی پہلے اور پیچھے کا فرق ضرور ہے.پہلے آنے والی کو اچھی اور قریب جگہ مل گئی پیچھے آنے والی کو دور اِس میں تقدیر کا کیا دخل ہے.حضرت عمر کے زمانہ میں ایک دفعہ طاعون کے موقع پر لوگوں نے کہا یہاں سے چلے جانا چاہیے حضرت عمر کی بھی یہی رائے تھی مگر آجکل کے مسئلہ کے مطابق اُس وقت بھی چند لوگ ایسے تھے جنہوں نے اختلاف کیا اور اسی تقدیر کو پیش کر کے کہا ا تَفِرُّونَ مِنْ قَدَرِ اللهِ یعنی کیا تم تقدیر سے بھاگتے ہو؟ مگر اس کا جواب حضرت عمرؓ نے کیا ہی لطیف دیا.فرمایا اَفِرُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ إِلَى قَدَرِ اللَّهِ سوچوا گر یہ تقدیر ہے کہ ایک کیڑے کا کاٹنے سے آدمی بیمار ہو تو یہ بھی تقدیر ہے کہ ڈاکٹر دوائی دے اور وہ اچھا ہو جائے.تم ایک تقدیر پر ایمان لاتی ہو دوسری پر نہیں.تمہاری مثال اُس میراثی کی سی ہے جو کھتو تھا.بیوی معاش کے لئے مجبور کرتی تھی اور وہ عذر کرتا تھا کہ کوئی کام ہی نہیں ملتا.آخر ایک دفعہ فوج میں بھرتی ہوئی بیوی نے کہا کہ تو اس میں ہی شامل ہو جا.کہنے لگا شاید تو میری موت کی خواہشمند ہے.کیونکہ بھرتی جنگ کے لئے ہے اور جنگ میں موت ہی ہے.بیوی نے اس کو سبق دینے کے لئے چوکی میں دانے پیسے جن میں کچھ ثابت رہے کچھ پس گئے اور خاوند سے کہا کہ دیکھے سارے ہی دانے چکی میں پس نہیں جاتے ثابت بھی تو رہتے ہیں.پس تو نے کیونکر کہا جنگ میں سب کی

Page 256

249 موت ہی ہے.وہ کہنے لگا تو مجھے پسے ہوئے دانوں میں شمار کر.کیا تم یہ بجھتی ہو کہ بچہ ماں کی پھٹکار سے بیمار ہوا یا ماں کی بددعا سے مرا؟ مگر اللہ تعالیٰ کے متعلق تم نہایت بے باکی اور بے خوفی سے کہہ دیتی ہو کہ یہ علم خدا کی تقدیر ہے.تم خدا کو مالک خیال کرتی ہو تو ساتھ رحیم بھی خیال کرو ظالم کیوں خیال کرتی ہو.خدا کا کیا فائدہ ہے کہ تمہارے بچے کو بیمار کرے تم نے اس کو نگا رکھا تم نے بے احتیاطی کی، تم نے بد پرہیزی کی وہ نمونیا میں مبتلا ہو گیا.اب تم خدا پر الزام رکھتی ہو اپنی غفلت نہیں کہتیں.تمہارا بچہ جاہل رہا اس لئے کہ تم نے اُسے پڑھنے کا شوق نہ دلایا، اس کی تادیب نہ کہ، اُس کو آوارگی سے نہ بچایا مگر اپنے اس قصور پر اب تقدیر کا حوالہ دیتی ہو.بھلا کب خدا کے فرشتوں نے تمہارے بچے کو جاہل رہنے کی ترغیب دی؟ کب اُنہوں نے تمہارے بچے کی کتابیں چھین لیں؟ کب اُس کے سکول کے راستے کو روکا.یہی وہ تقدیر کا مسئلہ ہے جس پر ایمان لا کر ہمارا ملک خدا کے فضلوں سے محروم ہو گیا.دیکھو اسی ملک کے انگریز پیچ تندرست اور تمہارے بیمار ہیں، اس میں انگریز تعلیم یافتہ اور تم جاہل ، انگریز آسودہ حال تم فلاکت زردہ ، وہ عالی مرتبہ اور بغاش تم سراپا عکسبت اور نگین ، ا کی وجہ یہ نہیں کہ تقدیر کی اُن سے دوستی اور تم سے دشمنی ہے بلکہ وہ محض یہ ہے کہ انہوں نے قانون قدرت کے مطابق کام کیا یا یوں کہو کہ دنیا کی مشینری کا صحیح استعمال کیا اور فائدہ اٹھایا مگر تم نے نافرمانی اور خلاف قائدگی سے نقصان پایا.جب کچھ بیمار ہو جاتا ہے تمہاری غفلت کی وجہ سے تمہاری بے وقوفی کی وجہ سے ، تمہاری جہالت کی وجہ سے ، تو تم اس کو تقدیر سے وابستہ کرتی ہو اپنی غلطی کو نہیں مانتیں اور نہ اپنی اصلاح کی کوشش کرتی ہو.خود تربیت کا خیال نہیں رکھتیں مگر جب وہ خراب اور اوباش ہو جاتا ہے تو کہتی ہو " جی تقدیر ".یا د رکھو یہ تمام باتیں غفلت اور قانون شکنی کی ہیں.خدا نے قانون بنائے ہیں اُن پر چلنے والے کامیاب ہوں گے خلاف ورزی کرنے والے تباہ.پس میں پھر کہتا ہوں کہ اس تقدیر کی آڑ میں خدا پر الزام نہ رکھو.عَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ کا یہی مطلب ہے کہ خدا کا علم یعنی اس کی صفات سے واقفیت تم خدا کی فرستادہ جماعت کا حصہ ہو تم کو اُس کی ذات کا علم ہونا ضروری ہے.تم تقدیر کو چھوڑ و تقدیر خدا کے ساتھ اچھے موقعوں پر منسوب کرو.جانو کہ وہ قادر ہے، وہ رحیم ہے، وہ رحمن ہے ، وہ عقدہ کشاہ ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس مسئلہ تقدیر کو کیسی لطیف شان دی ہے.فرماتے ہیں بیمار میں پڑتا ہوں شفا خدا دیتا ہے، جاہل میں رہتا ہوں علم خدا دیتا ہے غفلت میں کرتا ہوں ہوش میں و دلاتا ہے،

Page 257

250 پس تم بھی ظالمانہ باتیں خدا تعالیٰ کی طرف منسوب نہ کرو.اپنی غفلتوں اور کوتاہیوں کو دُور کرو.اُس کے بنائے ہوئے تو انہیں کو صحیح طریق سے عمل میں لاؤ تا یاد بار تم سے ڈور ہو.اور یہ بات یاد رکھو کہ آئندہ ہماری جماعت میں یہ مسئلہ نہ اُٹھے.دوسرا مسئلہ دُعا ہے یہ ایسا ہتھیار ہے کہ جہاں پڑے کاٹ دیتا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے رسول سے فرماتا ہے کہ اے میرے رسول ! ہمارے بندوں سے کہدے کہ میرا رب تمھاری کیا پرواہ کرتا ہے اگر تم دعا سے اسکے ساتھ تعلق نہ رکھو مگر افسوس ہمارے ملک میں دعا کی ایسی بے قدری ہوئی ہے کہ ٹوٹی ہوتی کی بھی نہ ہوتی ہو حالانکہ اسلام نے مسلمانوں کو یہ ایک ایسا ہتھیار دیا ہے جس پر مسلمان جتنا بھی ناز کرتے کم تھا.دعا خالق اور مخلوق کے مابین راستے کی سیڑھی ہے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے خواب میں دیکھا کہ ایک کھائی کھدی ہوئی ہے اور بھیٹر میں لیٹی ہوئی ہیں گویا ذبح کرنی ہیں.جب حضرت مسیح موعود علیہ اسلام وہاں پہنچے تو لوگوں نے کہا کہ ہم آپ کے منتظر تھے کہ ان کو ذبح کریں.اس وقت کشفی طور پر آپ کو معلوم ہوا کہ بھیریں گناہ گار انسان ہیں.پھر آواز آئی که قُلْ ما يَعْبُقُ بِكُمُ رَبِّيٌّ لَوْ لَا دُعَاءُ كُم خدا سے دعا کرو کہ تمھاری سختیاں معاف ہوں مگو یا سخت سے سخت مشکلات کامل دعا سے ہو سکتا ہے.اگر دعا نہ ہوتی تو انسانی زندگی بالکل بے کیف رہتی.حضرت مسیح ناصری نے کیا لطیف فرمایا کہ انسان روٹی سے نہیں خدا کے کلام سے زندہ رہتا ہے پس خدا کا علم اور اس کے بعد دعا انسانی زندگی کے لئے ضروری ہیں اس کے بغیر تمھاری زندگیاں بریکار تمھارے کام بے ثمر ہیں.یہ مت خیال کرو دنیا میں بڑے بڑے بادشاہت خدا کو نہیں مانتے اور وہ پھر بھی بڑے خوش نصیب ہیں.یہ صحیح ہے مگر بادشاہ کوئی کامیابی نہیں.اگر کوئی اس پر گھمنڈ کرتا ہے تو اس کی بیوقوفی ہے.کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جس طرح ایک کسمپرس چوڑا.جان کندنی یا تکلیف جسمانی کے وقت درد و کرب سے کراہتا ہے اسی طرح ایک طاقت ور مگر خدا کو نہ ماننے والا بادشاہ بھی.نبیوں کی زندگی دیکھو کہ جن کو زمانہ کے معدومد کی کچھ پرواہ نہیں، دکھوں کا غم نہیں ، مصائب میں سینہ سپر بھی ہیں اور بے فکر بھی.غرض ان کا دل اس طرح مطمئن ہے کہ تمام جہان کی بادشاہت حاصل کر کے ایک

Page 258

251 دنیاوی بادشاہ کو بھی نہیں ہو سکتا.وجہ یہ کہ دنیاوی بادشاہ کا بھروسہ اسباب مادی پر ہوتا ہے مگر خدا کے فرستادہ کا چونکہ خدا کے ساتھ تعلق مضبوط ہوتا ہے پس وہ اپنے اس حامی کی حمایت میں ہر طرح بے فکر رہتا ہے.گو اس کے پاس مادی اسباب کی قلت ہو بلکہ نہ ہونے کے برابر.مگر اس کی مسرت اور اس کے اطمینان کو کوئی نہیں پاسکتا.حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے پاس کونسی سلطنت یا طاقت تھی.مگر آپ مصائب اور شدا نکر زمانہ سے بے فکر تھے.زار روس جو ایک نہایت بلند بادشاہ تھا اُس کے متعلق آپ نے پیشگوئی فرمائی کہ وہ نہایت بے کسی کی حالت میں تباہ ہو گا.پھر اسی طرح ہوا.اب شہنشاہ زار کی پہلی قوت دیکھو پھر اس پیشگوئی کے بعد اس کی بے کسی.پس معلوم ہوا کہ بادشاہوں کی کچھ حقیقت نہیں ہوتی.وہ بالکل مُردہ بدست زندہ کی مثال ہیں مگر خدا کے پیارے ہر طرح با اقتدار.ایک ولی بزرگ کا واقعہ ہے جو دہلی میں رہتے تھے بادشاہ وقت ان سے ناراض ہو گیا.کہیں دہلی سے باہر گیا ہوا تھا.دشمن نے کوئی چغلی لگائی اور بادشاہ نے فیصلہ کیا کہ دہلی پہنچتے ہی اس بزرگ کو سزائے موت دوں گا لوگوں نے آپ سے کہا کہ آپ بادشاہ کے آنے سے پہلے ہی یہاں سے کہیں چلے جائیں یا معافی مانگیں مگر آپ خاموش رہے یہاں تک کہ بادشاہ دہلی کے قریب پہنچ گیا.خبریں آتی تھیں کہ بادشاہان بزرگ پر غضب ناک ہو رہا ہے او آتے ہی عبرت ناک سزا دے گا.خیر خواہوں نے پھر وہی مشورہ دیا مگر آپ نے کہا ، آنے دو ہوا کیا آخر بادشاہ ہے خدا تو نہیں ، یہاں تک کہ سنا گیا کہ کل صبح بادشاہ کی سواری شہر میں داخل ہوگی.بادشاہ آب دہلی کے بہت نزدیک ہے مگر ان بزرگ نے بڑے اطمینان سے فرمایا ، ہنوز دتی دو راست، سننے والے حیران تھے کہ بادشاہ چند لمحوں میں آیا چاہتا ہے یہ دلی دور بتاتے ہیں مگر اُسی رات کو بادشاہ قولنج سے مر گیا اور اسے دتی میں داخل ہونا نصیب ہی نہ ہوا.آنحضرت ﷺ کے متعلق واقعہ ہے کہ دنیوی حالت نہایت غربت میں تھی ہاں ظاہری حالت بے بسی کی سی مگر باوجود اس ظاہری بے سرو سامانی کے ایران کے بادشاہ کے پاس آپ کی نبوت اور ترقی کی رپوٹیں برابر پہنچتی تھیں اور وہ آپ سے باوجود بادشاہ ہونے کے خائف تھا آخر اس نے عرب کے گورنر کو آپ کی گرفتاری کا حکم بھیجا.آدمی شاہی حکم لے کر آپ کے پاس آئے اور صاف صاف عرض کر دیا اور کہا کہ نا فرمانی

Page 259

252 نہ کیجیئے بے چون و چرا ہمارے ہاتھ اپنے آپ کو دے دیکھیئے بادشاہ بہت بڑا ہے اس کے حکم کی تعمیل میں ایران چلئے اسی میں آپ کا بھلا ہے.آپ نے فرمایا کہ کل اس کا جواب دوں گا، دوسرے دن آپ نے ان سے فرمایا.سنو! آج رات میرے خدا نے تمھارے خدا کو مار دیا ہے.جاؤ واپس.انہوں نے واپس جا کرسن وعن گورنر کو کہہ دیا.گورنر حیران ہو گیا وہ ایران کی ڈاک کا منتظر رہا یہاں تک کہ وہی اطلاع اس کو پہنچی کہ خود اس کے بیٹے نے اس کے قتل کر دیا ہے اور اسی رات جس رات آپ نے فرمایا تھا خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ ہمارا باپ بڑا ظالم تھا ہم نے اس کو مار دیا ہے اب ہم خود بادشاہ ہیں.ہمارے باپ نے از راہ ظلم عرب کے ایک شخص کو قتل کا حکم دیا ہے اب چونکہ وہ مار دیا گیا ہم اس کے حکم کو منسوخ کرتے ہیں.تو اب دیکھو بادشاہت دنیا میں کوئی چیز نہیں.اصل مقصود تو یہ ہے کہ خطروں سے محفوظ ہو جائیں اور خطروں سے وہی محفوظ ہو سکتے ہیں جو خدا کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں خدا کی صفات پر ایمان لاتے اور دعاؤں سے اس کی مد کو پاتے ہیں.ہاں تو یا درکھو کہ خدا سنتا ہے مگر قاعدے سے قانون قدرت کے مطابق.کیا دیوار پر آٹا دے مارنے سے روٹی پک سکتی ہے؟ بلکہ روٹی اس قاعدے سے بچے گی جو قواعد اس کے لئے بنائے ہیں.پس دعا بھی اسی قاعدے سے قبول ہوگی جو اس کے لئے مقرر ہے.اب میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالے تمہیں سمجھنے کی توفیق دے.آمین.از مصباح ۱۵- جنوری ۱۹۳۱ء) احمدی خواتین کا فریضئہ وقت آج سے پچاس سال قبل اگر ہندوستان کی اہلے خاندان کی ایک مسلمان عورت کو کہا جا تا کہ برقعہ پہین کر اسٹیشن پر چلی جاؤ تو وہ کبھی یہ بات نہ مان سکتی تھی.وہ ڈولی میں جاتی، پھر پر دو تان کر گاڑی میں اسے داخل کیا جاتا جس کی تمام کھڑکیاں بند کر دی جائیں اور منزل پر پہنچ کر پھر اسی طرح اسے اتارا جاتا.اس وقت سے یہ خیال آ سکتا تھا کہ اس حالت میں کبھی تغیر ہو جائے گا مگر آج دیکھو ہزاروں میل سے ایک وبا آتی ہے اور اس کے ماتحت وہ ہندوستانی عورتیں جن کی نانیاں اور دادیاں ڈولی میں اپنے گھر میں آئیں اور پھر وہاں سے ان کے تابوت نکلے آج بے تکلفی سے مردوں کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے سڑکوں پر پھر رہی ہیں.اس وقت ہندوستانی مسلمان خیال کرتے تھے کہ ہم بالکل محفوظ ہیں کیونکہ اپنی رسوم اور رواج کو چھوڑ نے کا کوئی خیال

Page 260

253 ہمارے دل میں نہیں مگر یہ کس طرح ممکن تھا کہ ایک انسان دوسرے سے اثر قبول نہ کرتا.جس طرح ہزاروں میل سے آئے ہوئے بادل اور ٹڈی فصل کو تباہ کر دیتی ہے اسی طرح ہزاروں میل سے آئے ہوئے خیالات بھی ہمارے خیالات کو تباہ کر سکتے ہیں اور جب تک کہ ہم ایک ایسا دائرہ نہ بنائیں جس سے کوئی چیز گزر نہ سکے ہم محفوظ نہیں رہ سکتے.یہ دائرے دو قسم کے ہوتے ہیں ایک آسمانی اور ایک زمینی.آسمانی دائرہ تو یہ ہے کہ قریب کے زمانہ میں مامور کے ہاتھ میں ہاتھ دیا ہو یا اس کے ہاتھ میں ہاتھ دینے والوں کے ہاتھ میں ہاتھ دیا ہو.یا انکے ہاتھ میں ہاتھ دینے والوں سے تعلق پیدا کیا جائے یہ آسمانی دائرہ ہے جس میں آنے والی جماعتیں باوجود شرارت اور بدی کی فروانی کے زیادہ تر محفوظ رہتی ہیں اور اللہ تعالے اُن کی دستگیری فرماتا ہے.چنانچہ دیکھ لو آج ساری دنیا میں جو فسادات پھیل رہے ہیں احمدی جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے ان سے محفوظ ہے.احمدی جماعت محض حضرت مسیح موعود علیہ اسلام سے تعلق کی وجہ سے اُن سے اٹھی حفاظت میں ہے.پس حفاظت کا ایک ذریعہ تو نبی کا قرب ہے اور دوسرا ذریعہ قرآن کریم نے یہ بیان کیا ہے وَمَا كَانَ الله مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتغفرون یعنی جو لوگ بدی کے سامانوں کو تباہ کر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں وہ بھی عذاب سے بچائے جاتے ہیں.مگر مومن کا کام یہ ہے کہ وہ ہدی کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے.جس طرح گندگی کو بالکل تو نا بود نہیں کیا جاسکتا لیکن گڑھا کھود کر اس میں ڈال کر او پر مٹی ڈالی جاسکتی ہے اور اس طرح اس کی عفونت سے انسان بچ سکتا ہے اسی طرح ہم بدی کو دنیا سے بالکل مٹا نہیں سکتے مگر اُسے دبا سکتے ہیں.پس دوسرا ذریعہ یہ ہے کہ بدی کو دبا دیا جائے اور اسے پھیلنے سے روکا جائے.اس کا طریق یہی ہے کہ ان لوگوں کو جو بدی پھیلانے والے ہیں اپنے اندر شامل کر لیا جائے اور اس طرح اُن کے بد ارادوں کو دور کر دیا جائے.پس تباہی سے بچنے کے یہ دونوں طریق ہیں.ایک نبی کا قرب اور اُس کی جماعت میں شمولیت یا یہ کہ کوشش کر کے بدی کو دبادیا جائے.اور جہاں یہ دونوں باتیں جمع ہو جائیں وہ تو نُور علی نُور ہے.پردہ کے متعلق ہندوستان میں پیزو پیدا ہورہی ہے کہ اسے بالکل چھوڑ دیا جائے.ایسے لوگ اپنی پستی کے تمام الزامات پر دہ پر لگاتے ہیں حالانکہ جو پر دو ترک کر رہے ہیں وہ دل سے بھی دوسروں کے غلام بنتے

Page 261

254 صلى الله جارہے ہیں.یعنی ذہنی اور روحانی غلامی اختیار کر رہے ہیں اور ہم جو پردہ ضروری سمجھتے ہیں اس سے آزاد ہیں کیونکہ ہم اس تہذیب کے سخت مخالف ہیں جسے وہ اپنی ترقی کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور ظاہری غلامی ہمارے نزدیک کوئی چیز نہیں.ظاہری حکومت آخر کسی نے تو کرنی ہے.اگر ہندوستانیوں کی اپنی حکومت ہو تو بھی کیا سارے ہی حکمران ہوں گے ایک حصہ ہی حکومت کریگا پس ظاہری غلامی کوئی چیز نہیں.غلامی دراصل دماغی خطرناک ہوتی ہے.پس پردہ چھوڑنے والے پورے طور پر یورپ کے غلام بنتے جارہے ہیں.لیکن پردہ جس کے متعلق کہتے ہیں کہ اس نے اسے زوال تک پہنچایا اسے مسلمانوں نے اختیار کرنے کے باوجود تمام دنیا کو فتح کر لیا تھا.رسول کریم نے کی بیویاں پردہ کرتی تھیں مگر جنگوں میں شامل ہوتی تھیں.جنگ صفین میں حضرت عائشہ خود کمان کرتی رہیں بڑے بڑے جرنیل بھی اس وقت پیچھے ہٹ گئے مگر وہ برابر میدان میں موجود ہیں.پس اپنا نقص کسی اور طرف منسوب کرنا حماقت ہے یہاں قادیان میں پردہ ہے مگر یہاں کی عورتیں دوسری اقوام کی عورتوں کی نسبت زیادہ پڑھی ہوئی ہیں.میں نے ایک دفعہ معلوم کرایا تو پڑھ لگا کہ ان پڑھ لڑکیاں بہت کم ہیں مگر ان پڑھ لڑ کے بہت زیادہ ہیں مگر پردہ با قاعدہ ہے.پھر کئی ایک لڑکیاں مولوی کا امتحان دے چکی ہیں، کئی نے انٹرنس کا امتحان پاس کر لیا ہے اور اب ایف.اے کی تیاری کر رہی ہیں.اس کے مقابلہ میں ان میں جو پردہ کی مخالف ہیں ابھی تک وہی جہالت اور تاریکی پھیلی ہوئی ہے.بے شک اُن کے پاس سامان زیادہ ہیں اور اگر وہ کوشش کریں تو ہم سے بڑھ جائیں گی لیکن ان کی ترقی مال و دولت کی وجہ سے ہوگی نہ کہ پردہ چھوڑنے کی باعث.پھر یہ بھی دیکھنا چاہیئے کہ پردہ چھوڑنے والوں کو حکومت کی امداد بھی حاصل ہے.گورنر صاحب کی بیوئی پردہ کی سخت مخالف تھیں حتی کہ انہوں نے پر دو کلب میں جانا ترک کر دیا تھا کیونکہ وہ اسے بنک بجھتی تھیں اور بہت سے مسلمانوں کی بیویوں نے محض اس وجہ سے پردہ ترک کر دیا کہ لاٹ صاحب کی بیوی کی ملاقات سے محروم نہ رہ جائیں.ہماری جماعت کے لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارا کام صرف وفات مسیح ہی منوانا نہیں.بے شک یہ بھی بہت ضروری ہے مگر یہ روئیں جو چل رہی ہیں دہریت کی اور اسلامی احکام سے روگردانی کی اور یہ کہ اسلام نے عورتوں کو حقوق نہیں دیئے ان کا مقابلہ کرنا بھی ہمارا فرض ہے اور اس کا بہترین طریق یہ ہے کہ عورتوں کی تعلیم کا پورا انتظام کریں.اگر ان عورتوں سے جو اسلامی احکام کی خلاف ورزی کرنے پرتلی ہوئی ہیں ہم خود

Page 262

255 کہیں گے کہ یہ طریق تمھارے لئے مفید نہیں بلکہ نقصان رساں ہوگا تو سابقہ اثرات کے ماتحت وہ ہماری بات نہیں سنیں گی اور کہہ دیں گی تم ظالم مرد ہو تم نے عورتوں کے حقوق غصب کر رکھے ہیں لیکن اگر عورتیں جا کر انہیں کہ دیں کہ ہم علی وجہ البصیرت اور تجربہ کی بناء پر کہتی ہیں کہ اسلام کی تعلیم اسلئے اور فائدہ بخش ہے تو اس کا اُن پر اثر ہوگا.عورتوں کے متعلق جو رو چل رہی ہے اس کا اگر مرد مقابلہ کریں تو اس کامیابی سے نہیں کر سکیں گے جس طرح صرف عور تیں کر سکتی ہیں.اگر عورتیں کہیں ہم اسلامی احکام کی پابندی کرتی ہوئی تمام حقوق سے فائدہ اٹھارہی ہیں تو ان کو خیال ہوگا کہ اگر یہ فائدہ اٹھا رہی ہیں تو ہم کیوں نہیں اٹھا سکتیں.اسی وجہ سے میں نے مجلس مشاورت میں عورتوں کے حق رائے دہندگی کے متعلق سوال اٹھایا تھا.میں نے ۱۹۲۴ء میں ولایت سے ایک چٹھی لکھی تھی جس میں بتایا تھا کہ اب ہندوستان میں پردہ کے خلاف رو چلے گی.میرے اُس وقت کے مضامین الفضل میں چھپے تھے ان میں یہ چٹھی بھی تھی.آب گزشتہ دو سال سے پردہ کے خلاف جو تحریک شروع ہوگئی ہے میں نے کئی سال قبل اس کے متعلق خبر دی تھی اور مجلس شوری میں اسی وجہ سے عورتوں کے حقوق رائے دہندگی کا سوال اٹھایا تھا کہ جس حد تک شریعت عورتوں کو حق دیتی ہے ہمارا فرض ہے کہ دیں تا انہیں اسلامی تعلیم سے ہمدردی پیدا ہو اور جب تک اُن کے اندر یہ جذبہ پیدا نہ ہو وہ عورتوں کو اسلامی احکام پر چلنے کی دعوت نہیں دے سکتیں اور عورتوں میں تبلیغ نہیں کر سکتیں.تم میں سے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا که مدرسه احمد یہ یا جامعہ احمد یہ اڑا دیا جائے کیونکہ سب جانتے ہیں کہ جب تک مبلغ نہ ہو تبلیغ نہیں ہوسکتی.یہی وجہ ہے کہ مجلس شوری پر زور دیا جاتا ہے کہ مبلغین کی تعداد زیادہ کی جائے.پھر یہ کس طرح خیال کیا جاسکتا ہے کہ عورتوں میں اسلامی احکام کے خلاف جور و چل رہی ہے جب تک عور تیں تبلیغ کا کام نہ کریں اُسے روکا جاسکتا ہے.لیکن جو عورت خود اپنے کو مظلومہ سمجھے وہ دوسری کو کیا تبلیغ کر سکے گی.پس دونوں چیزیں ضروری ہیں.عورتوں کو تعلیم بھی دی جائے اور ان کے حقوق بھی.جو حقوق اسلام نے انہیں دیئے ہیں ہمیں چاہیئے کہ خودہی انہیں دیدیں تا ان کے اندر جوش پیدا ہو اور وہ اسلام کی جنگ اپنی جنگ سمجھ کر لڑیں.عورتوں کے جلسوں میں مرد تقریریں نہیں کر سکتے عورتیں ہی کر سکتی ہیں اور عورتوں کے جلسوں میں جو کچھ بیان کیا جاتا ہے اس کے نوٹ بھی عورتیں ہی لے سکتی ہیں اس لئے عورتوں کو ہی اس کام کے لئے تیار کرنا چاہیئے اور انہیں جو حقوق اسلام نے دیئے ہیں دے دینے چاہئیں.

Page 263

256 پچھلے دنوں باہر سے ایک نوجوان یہاں آیا ہوا تھا اس کا اپنی بیوی سے جھگڑا تھا.اسنے مجھے لکھا کہ ایک بزرگ نے مجھے کہا اگر تمھارا کہنا نہیں مانتی تو ڈنڈا لے کر سیدھا کرو.یہ پڑھ کر مجھے تو بہت شرم آئی کہ کس طرح ایسے شخص کو بزرگ سمجھ رہا ہے جو بیوی کو مارنے کی تلقین کرتا ہے.بزرگی اسلام کی تعلیم جاری کرنے میں ہے نہ کہ ہو کرنے میں ممکن ہے کہ کوئی شخص بیوی کو مار کر چپ کرا دے مگر وہ بیوی کو نہیں اسلام کو مارتا ہے.کیونکہ وہ عورت اور اس سے تعلق رکھنے والی دوسری عورتیں ایسے مذہب سے بیزاری کا اظہار کریں گی.پھر مارنے سے ممکن ہے اس کے گھر میں تو امن ہو جائے مگر وہ اسلام کے گھر کو اجاڑنے کی کوشش کرے گا.پس وہ بزرگ کہلانے والے اگر اس وقت یہاں موجود ہوں وہ سن لیں کہ وہ خدا کی نگاہ میں بزرگ نہیں بلکہ خورد.سے بھی چھوٹے ہیں.دنیا میں انصاف ، عدل اور رحم سے ہی امن قائم ہو سکتا ہے جب تک یہ نہیں اس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی.فرض عورتوں کو تعلیم دینی چاہیئے.اچھی تربیت بھی کرنی چاہیئے اور آزادی بھی جس حد تک اسلام نے اجازت دی ہے دینی چاہیئے.بلکہ اسلام نے تو آزادی ہی دی ہے.اس لئے کہنا چاہئے کہ جس حد تک اُس نے قید کا حکم دیا ہے اُس سے زیادہ کے لئے مردوں کو کوشش نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ جیسے دماغ ہمارے ہیں ویسے ہی عورتوں کے بھی ہیں.میں امید کرتا ہوں کہ قادیان کے عموماً اور باہر کی جماعتیں خصوصاً اس طرف متوجہ ہوں گی.کئی کام ایسے ہیں جن میں مرکزی جماعت کو زیادہ توجہ دینی پڑتی ہے اور کئی ایسے ہیں جن میں باہر کی جماعتوں کو زیادہ متوجہ ہونا ضروری ہے اور یہ بات زیادہ تر باہر کی جماعتوں سے تعلق رکھتی ہے انہیں چاہیئے کہ عورتوں کو پردہ وغیرہ کے مسائل اچھی طرح سمجھا کر اور پوری طرح مطمئن کر کے ان کے ذریعہ خلاف اسلام باتوں کو دور کریں اور انہیں اسلام سے واقف و آگاہ کر کے کوشش کریں کہ وہ دوسری عورتوں سے مل کر انکے خیالات کی اصلاح کریں ورنہ اگر یہ تو زیادہ بڑھی تو اس کا مقابلہ مشکل ہوگا.ابتداء میں جو کام آسانی سے ہو سکتا ہے بعد میں مشکل سے ہوتا ہے.( مصباح یکم فروری ۱۹۳۱)

Page 264

257 ایف اے کلاس کے افتتاح کے موقع پر حضور کی تقریر ۱۹۳۵ میں میں نے اس نیت سے کہ عورتوں کی تعلیم ایسے اصول پر ہو کہ دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم کی بھی تکمیل ہو سکے اور اس خیال سے کہ مذہبی تعلیم اپنے ساتھ دلچسپی اور دلکشی کے زیادہ سامان نہیں رکھتی اور بعد میں اس کا حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے مذہبی تعلیم کو پہلے رکھا تا کہ ایک حد تک دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد لڑکیاں انگریزی تعلیم حاصل کر سکیں.اور چونکہ اس سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے اس لئے یہ بڑی عمر میں بھی اگر حاصل کرنی پڑے تو گراں نہ گزرے گی لڑکیوں کے لئے پہلے عربی کلاسیں کھولیں.اس وقت قادیان میں بھی ایسے لوگ تھے جو اس پر معترض تھے اور باہر بھی.خاص کر پیغامی سیکشن نے بہت ہنسی اڑائی لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے پنجاب میں ہی نہیں بلکہ ہندوستان میں یہ پہلی مثال ہے کہ اس کثرت سے مولوی کا امتحان ہماری جماعت کی لڑکیوں نے پاس کیا.میرا خیال ہے سارے ہندوستان میں اتنے عرصہ میں مولوی کا امتحان پاس کرنے والی اتنی لڑکیاں نہ ہوں گی جتنی ایک سال میں ہماری لڑکیوں نے یہ امتحان پاس کیا.اس کے بعد چونکہ زنانہ سکول کی ہائی کلاسوں کی تعلیم پاسکتی تھیں اس لئے مدرسہ ہائی کے استادوں کی امداد سے ہائی کلاسیں کھولی گئیں ان میں بھی خدا کے فضل سے اچھی کامیابی ہوئی اور اس سال سات طالبات انٹرنس کے امتحان میں کامیاب ہوئیں.یہ بھی اپنی ذات میں پہلی مثال ہے کیونکہ کسی سکول سے سات مسلمان لڑکیاں آج تک ایک سال میں کامیاب نہیں ہوئیں.اور چونکہ لڑکیوں کی تعلیم کے لئے ہم اپنی جماعت کو بھی تحریک کرتے رہتے ہیں اس لئے قادیان سے باہر بھی کئی لڑکیوں نے انٹرنس کا امتحان پاس کیا اور اچھے نمبروں پر پاس کیا ہے.چنانچہ ایک احمدی لڑکی لڑکیوں کے مقابلہ میں سیکنڈ رہی اور لڑکوں کے مقابلہ میں اس کا ۳ اوان یا ۴ اواں نمبر ہے.میرانشاء یہ ہے کہ اس تعلیم کو جاری رکھا جائے حتی کہ اتنی کثیر تعداد گر یجو یٹ خواتین کی پیدا ہو جائے کہ ہم سکول میں بھی زنانہ شاف رکھ سکیں اور کالج بھی قائم کر سکیں.گورنمنٹ نے اب مردوں کے لئے یہ شرط عائد کر دی ہے کہ وہ پرائیویٹ امتحان نہیں دے سکتے لیکن عورتوں کے لئے یہ شرما نہیں.پیشتر اس کے کہ عورتوں کے لئے بھی پرائیویٹ امتحان نہ دینے کی شرط پنجاب یونیورسٹی عائد کر دے ہم اتنی تعداد پیدا کر لیں

Page 265

258 جو کہ ہماری آئندہ نسلوں کو تعلیم دینے اور ہماری تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے کافی ہو.میں نے جہاں تک غور کیا ہے جب تک عورتیں ہمارے کاموں میں شریک نہ ہوں ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.زیادہ تر امور ایسے ہیں جن میں عورتوں کا سوال پیش آتا ہے.اسی طرح تربیت اولا د کا سوال ہے جو عورتوں سے خاص طور پر تعلق رکھتا ہے.اور یہ حل نہیں ہو سکتا جب تک کہ عور تیں تعلیم یافتہ نہ ہوں اور یہ کام اُن کے سپرد نہ کر دیا جائے.کسی گھر میں کتنی ہی تعلیم یافتہ عورت ہو اور وہ بچوں کی کتنی ہی اعلے تربیت کرتی ہو اس میں کامیاب نہیں ہو سکتی.کیونکہ اولاد پر ارد گرد کے بچوں کا بھی اثر پڑتا ہے اور تمام بچوں کی صحیح تربیت اسی وقت ہوسکتی ہے جبکہ کافی تعداد میں تعلیم یافتہ عورتیں مل جائیں.اور چھوٹی عمر کے بچوں کے بورڈ نگ بنا کر اُن کا انتظام عورتوں کے سپرد کر دیا جائے تاکہ وہ ان میں بچپن میں ہی خاص اخلاق پیدا کریں اور پھر وہ بچے بڑے ہو کر دوسروں کے اخلاق کو اپنے اخلاق کے سانچے میں ڈھالیں.بغیر ایسی اجتماعی جدو جہد کے کامیابی نہیں ہو سکتی.نہ تقریروں سے نہ وعظوں سے نہ درس سے اس میں کامیابی کی یہی صورت ہے اور قومی کیریکٹر اسی طرح بن سکتا ہے کہ ایسے ہو مز قائم کئے جائیں اور جنہیں خدا تعالے توفیق دے وہ ان میں اپنے بچوں کو داخل کریں.عورتیں ان کی نگران ہوں.بچے چھوٹی عمر سے لے کرے.۸ سال تک ان میں رہیں اور اس عرصہ میں اُن میں اعلے اخلاق پیدا کئے جائیں.پھر یہ جماعت دوسروں کو اپنے رنگ میں ڈھالے.یہ لڑ کے اور لڑکیاں جن کے لے.۸ سال تک کی عمر میں ایک جگہ تربیت پانے میں کوئی حرج نہیں قوم کے لئے بہت مفید ہو سکتے ہیں.اگر ہم ایسے ہو مز قائم کر سکیں تو اس کے ذریعہ سے اخلاق پیدا کئے جاسکتے ہیں اور ایسی تربیت ہو سکتی ہے جو ہماری جماعت کو دوسروں سے بالکل ممتاز کردے.مگر یہ بات بھی حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کافی تعلیم یافتہ عورتیں نہ ہوں.اس وجہ سے میں سمجھتا ہوں زنانہ کالج مردانہ کالج سے بھی زیادہ اہم ہیں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں مردانہ کالج کی ضرورت نہیں.ضرورت ہے مگر اس کے متعلق سرکاری طور پر جو شرائکے ہیں وہ ہم ابھی پورے نہیں کر سکتے.لیکن اگر ہم ان شرائط کو پورا کر سکیں تو بھی میرے نزدیک لڑکیوں کے لئے کالج ضروری ہے کیونکہ لڑکے تو باہر بھی رہ سکتے ہیں لیکن لڑکیوں کے لئے باہر رہنا مشکل ہے.ان حالات کو مد نظر رکھ کر جیسا کہ ناظر صاحب نے بیان کیا ہے بے سروسامانی کی حالت میں کام شروع کیا جارہا ہے.ہم امید کرتے ہیں کہ ہائی سکول کے اساتذہ نے لڑکیوں کی تعلیم کے متعلق جیسے پہلے محنت کی ہے آپ بھی کریں

Page 266

259 گے.مجھے معلوم ہوا ہے کہ لڑکیوں کی ایف.اے کلاس کے لئے مضمون جغرافیہ مقرر کیا گیا ہے.میں نے سنا ہے عام طور طالب علم یہ مضمون نہیں لیتے.شاید اس لئے کہ اسے مفید نہیں سمجھا جاتا.اس لئے کہ اس میں امتحان سخت ہوتا ہے اور لڑکے کم پاس ہوتے ہیں.دراصل یہ ایسا علم ہے جس کی زنجیر نہیں ہوتی اور اسی وجہ سے یہ مشکل سے یاد ہوتا ہے.جن علوم میں زنجیر ہوتی ہے وہ جلد یاد ہوتے ہیں کیونکہ ایک بات سے دوسری بات یاد آ جاتی ہے.مجھے معلوم ہوا ہے کہ فلاسفی میں امتحان دینے والے زیادہ نمبر حاصل کرتے ہیں کیونکہ اس میں زنجیر چلتی ہے.میرے خیال میں یہ زیادہ بہتر ہوگا کہ اس مضمون کے لئے آدمی تیار کر لیا جائے.ہمارے قاضی محمد اسلم صاحب پروفیسر اس میں ماہر ہیں.سکول میں آپ جو چھٹیاں ہونے والی ہیں اُن میں اُن سے یا کسی اور سے ضروری ضروری باتیں پڑھ لی جائیں اور یہ مضمون لڑکیوں کے لئے رکھا جائے اس میں کامیابی کی زیادہ توقع ہوسکتی ہے چونکہ یہ ہماری پہلی کوشش ہے اس لئے ایسی راہ اختیار کرنی چاہیئے جس سے کامیابی کی زیادہ تو قع ہو.فلاسفی تربیت اولاد میں بھی بہت امداد دیتی ہے اس لئے یہی پڑھانی چاہئے.میں امید کرتا ہوں منتظمین اس کے لئے کوشش کریں گے.اس کے بعد میں دعا کرتا ہوں جس میں سب احباب شامل ہوں اللہ تعالے ہمیں اپنے مقاصد میں کامیاب کرے.ہمارے اسباب میں جو کمزوری ہے اُسے دور کر کے اعلیٰ درجہ کا نتیجہ پیدا کرے اور ایسے فوائد عطا کرے کہ جن سے نہ صرف عورتوں کی ذہنی ترقی ہو بلکہ آئندہ اولاد کی تربیت کے لئے بہتر سے بہتر سامان پیدا ہوں.(الفضل ۷.جولائی ۱۹۳۱ ص ۶.۷) عورتوں کے اندر تجرأت و بہادری پیدا کی جائے حضرت خلف المسیح الثانی کے خطبہ جمعہ کا اقتباس رسول اللہ اللہ کا عملی نمونہ رسول کریم ﷺہ امن کے زمانہ میں بھی صحابہ کرام کے دوستانہ مقابلے کرایا کرتے تھے جن میں تیر اندازی اور دوسرے فنون حرب اور قوت و طاقت کے مظاہرے ہوتے تھے اور حدیث میں آتا ہے اس قسم کے کھیل آپ نے مسجد میں بھی کرائے اور حضرت عائشہ سے فرمایا اگر دیکھنا چا ہو تو میرے پیچھے کھڑی ہو

Page 267

260 کندھوں کے اوپر سے دیکھ لو.نادان کہتے ہیں یہ حدیث غلط ہے کیونکہ اس سے رسول کریم ﷺ پر اعتراض ہوتا ہے کہ آپ کھیل دیکھتے تھے حالانکہ یہی وہ خوبی ہے جسے چھوڑ کر مسلمان آج تباہ ہور ہے ہیں.اسلام نے ہر وقت ہوشیار اور دشمن کے مقابلہ کے لئے تیار رہنے کا حکم دیا ہے اور اس کے ساتھ ہی عورت کو بھی بزدلی سے بچانا چاہا ہے.مغلیہ حکومت کے تباہ ہونے کی ایک وجہ ہندوستان میں مغلیہ حکومت کی تباہی میں عورت کی بزدلی اور مرد کے دل میں عورت کی بے جا محبت کا بہت دخل ہے.غدر کے زمانہ میں انگریزوں کے ہمدردوں نے جب دیکھا کہ باغی فوج نے ایک ایسے مقام پر تو نہیں رکھی ہیں جہاں سے صاف انگریزی فوجوں پر زد پڑتی ہے اور وہ تباہ ہو جائیں گی تو انہوں نے زینت محل کو ( جو بادشاہ کی چہیتی بیوی تھی مگر اس خیال سے کہ میرا بیٹا تخت نشین ہو انگریزوں سے بھی ساز باز رکھتی تھی.گو اس وقت تخت اور بادشاہت برائے نام ہی تھی مگر پھر بھی اُسے خواہش تھی کہ میرا بیٹا اسے حاصل کرے) یہ پیغام بھیجا کہ اگر کچھ فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہو تو یہاں سے تو پیں اٹھواد و کیونکہ وہ جگہ انگریزی فوجوں کے لئے نہایت خطرناک ہو سکتی تھی اور خیال ہے کہ اگر وہاں سے تو میں بنائی نہ جائیں تو شاید ندر کا نتیجہ بالکل الٹ ہوتا.زینت محل نے بادشاہ سے کہا میرا دل تو گھٹتا ہے میں بیہوش ہو جاؤں گی یا تو یہاں سے تو ہیں اُٹھوا دو اور یا پہلے مجھے مار دو.بادشاہ نے اس کے کہنے پر تو ہیں وہاں سے ہٹوا دیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کے ہاتھ سے حکومت نکل گئی.اگر یہ واقعہ صحیح ہے تو بادشاہ پر زینت محمل کے اس بہانہ کا اُسی وجہ سے اثر ہوا کہ وہ جانتا تھا یہ توپوں کی آوازیں سننے کی عادی نہیں.اگر اس کے سامنے پہلے بھی تو میں چلتی رہی ہو تیں تو اُس وقت وہ ہرگز یہ بہانہ بنا سکتی کیونکہ بادشاہ کہ سکتا تھا کہ جب پہلے تم ان کی آواز میں سنتی رہی ہو تو آج کیوں بیہوش ہو جاؤ گی.تو عورتوں کو دلیری اور حوصلہ کے کاموں سے الگ رکھنے کا یہ نتیجہ ہوا کہ زینت محل نے بادشاہ کو دھوکا دے دیا.حضرت عائشہ کو جنگی کرتب دکھانے کی حکمت حضرت عائشہ کوئی جنگی منظر دیکھ کر ہر گز یہ نہ کہ سکتی تھیں کہ میرا دل گھٹتا ہے کیونکہ رسول کریم نے

Page 268

261 انہیں جنگی کرتب دکھاتے اور جنگ میں ہمیشہ کسی نہ کسی بیوی کو ساتھ رکھتے تھے.اس سے بعض نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ سفر میں بیوی کو ساتھ رکھنا سنت ہے.بے شک ہے مگر اس سے بڑی سنت یہ ہے کہ عورتوں کے اندر جرات اور بہادری پیدا کی جائے کیونکہ جب تک ان میں بہادری نہ ہو کوئی قوم جیت نہیں سکتی.قومی ترقی میں سب سے بڑی روک عورت کی بزدلی ہوتی ہے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ ہمارے گھر میں کوئی سیڑھی سے گر پڑا میں اُسے بچانے کے لئے گودنے لگا تو میری بیوی مجھے چمٹ گئی کہ ایسا نہ کرو.آخر مجھے دھکا دے کر اُسے ہٹانا پڑا.بجائے اس کے کہ وہ یہ خیال کرتی کہ میرا خاوند اُسی وقت محبت کے قابل ہو سکتا ہے جب اس کے دل میں جرات اور بہادری ہو اُس نے اُلٹا مجھے روکنا چاہا پس ہماری جماعت کا فرض ہے کہ عورتوں کو دلیر بنائے.صحابہ نے عورتوں کی بہادری سے بڑے بڑے فائدے اُٹھائے ہیں.جنگ یرموک میں ایک نازک موقعہ پر مسلمان عورتوں کا کارنامہ جنگ یرموک میں مسلمانوں کے لئے نہایت ہی نازک موقع تھا.اس میں عیسائیوں کے لشکر کی تعداد چھ سے دس لاکھ بیان کی جاتی ہے اور روم کا بادشاہ یہ عہد کر کے آیا تھا کہ یا تو میں مسلمانوں کو تباہ کر دونگا یا خود واپس نہیں آؤں گا.اور اگر چہ وہ خود جنگ میں تو شامل نہ ہوا مگر فوج کے پیچھے تمام انتظامات کرتار ہا تھا اور اس نے اپنے لشکر کے کمانڈر سے جس کا نام غالباً ماہان تھا وعدہ کیا تھا کہ اگر تم کامیاب ہو گئے تو میں اپنی لڑکی کی شادی تمہارے ساتھ کر دوں گا.اس جنگ میں مسلمانوں کی تعداد ساٹھ ہزارتھی اور اُن کے میسرہ کو شکست ہو گئی.اوّل تو کسی وقت بھی پہلو کو شکست ہو تو بہت خطرہ ہوتا ہے کیونکہ دشمن گھیرا ڈال کر ساری فوج کو تباہ کر سکتا ہے.مگر جس صورت میں فوج پہلے ہی قلیل ہو تو پھر اس کے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہو سکتی اور دشمن ایک ایک آدمی چن کر قتل کر سکتا ہے.اگر خدا کی نصرت شامل حال نہ ہوتی تو اُس دن ایک مسلمان کا بچنا بھی محال تھا کیونکہ دشمن کی تعداد بہت زیادہ تھی اور پھر بازو سے شکست ہو چکی تھی.اُس وقت مسلمان عورتوں نے لشکر کو بچایا.جو لوگ پیچھے ہے اُن میں ابو سفیان بھی تھے.وہ اگر چہ بڑے بہادر تھے اسلام میں بڑے بڑے کام کر چکے تھے اور اعلی درجہ کے جرنیل تھے مگر جب باقی لشکر پیچھے بنا تو ان کو بھی لڑنا پڑا اُس وقت اُن کی بیوی ہندہ جو مسلمانوں میں غضب ناک نگاہوں سے دیکھی جاتی تھی لکڑی ہاتھ میں لے کر آگے بڑھی اور اپنے خاوند کے گھوڑے پر مار کر کہنے لگی تمہیں شرم نہیں آتی کفر کی حالت میں تو اسلام کا اس قدر مقابلہ اور اب اسلام کی

Page 269

262 حالت میں پیچھے بھاگتے ہو.ابو سفیان کی طبیعت با مذاق تھی.دو یقینا بہادر آدمی تھے صرف ساتھیوں کے پیچھے بنے نے انہیں مجبور کر دیا تھا کہ پیچھے ہیں لیکن جس وقت ہندہ نے یہ فقرہ کہا تو انہوں نے بیچ کر ساتھیوں کو پکارا اور کہا واپس آؤ یہ بھاگنے کی موت اُس موت سے بدتر ہے جو میدان جنگ میں آئے.چنانچہ مسلمان پھر آگے بڑھے اور میدان مارلیا.تو یہ عورت کا ایک فقرہ تھا جس نے جنگ کا نقشہ بدل دیا اور یہاں تک لکھا ہے کہ نصف گھنٹہ تک عورتیں خود لڑتی رہیں اور جو gap ہو گیا تھا چو ہیں، قناتیں غرضیکہ جو کچھ کسی کے ہاتھ میں آیا لے کر اُس کی حفاظت کرتی رہیں یہاں تک کہ مسلمانوں کا لشکر لوٹ کر واپس آ گیا.ایران سے ایک جنگ میں خنساء کی بہادری کا نتیجہ اسی طرح ایران سے ایک جنگ کے موقعہ پر بھی یہ خیال کیا جا تا تھا کہ مسلمان پیس ڈالے جائیں گے کیونکہ اس سے پہلے روز مسلمان سخت زک اُٹھا چکے تھے اور اُن کے قریباً بیس ہزار آدمی شہید ہو چکے تھے.مسلمانوں کا اس قدر جانی نقصان اس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا.اس وقت ایک عورت تھی جس کے تین چار لڑکے لڑائی میں شریک تھے.ہمارے ملک کی اگر عورت ہوتی تو اول تو وہ اپنے ایک بچہ کو بھی جنگ میں شامل نہ ہونے دیتی اور اگر بہت ہی مجبور کیا جاتا تو ایک دو کو بھیجتی اور ایک دو اپنے پاس رکھتی اور جسے بھیجتی اُسے بھی یہی نصیحت کرتی کہ بیٹا دیکھنا بڑھیا ماں کا خیال کرنا اور اپنی جان کی فکر رکھنا.مگر وہ ماں اور بُڑھیا ماں جس کا نام خنساء تھا تین دن کی لڑائی کے بعد جب بظاہر مسلمانوں کے بچنے کی کوئی امید نہ تھی کیونکہ مسلمانوں کو پہلی دفعہ ہاتھیوں سے مقابلہ پڑا تھا اور وہ انہیں پاؤں میں کچلتے جاتے تھے آئی اور بیٹوں سے کہا میں نے تمہارے باپ دادا کی عزت میں کبھی خیانت نہیں کی اور میں امید کرتی ہوں کہ اس خدمت کے صلہ میں جو میں تمہارے آباؤ واجداد کی عزت کی حفاظت کرنے میں کی ہے تم آج میری عزت کی حفاظت کرو گے اور میدان سے پیٹھ دکھا کر نہیں بھا گو گے.اگر خدا تعالیٰ زندگی دے تو کامیاب ہو کر آؤ وگرنہ پیٹھ دکھا کر نہ آؤ.اس شیر دل عورت کے لڑکوں نے بھی اس دن ایسی جنگ کی کہ سب نے اُن کی تعریف کی اور اللہ تعالیٰ کو بھی اس کا اخلاص ایسا پسند آیا کہ اُس کے سب بیٹے زندہ واپس آگئے.

Page 270

263 صلى الله ایک مسلمان جرنیل کی بیوی پھر عورت کی بہادری کا ایک اور واقعہ بیان کرتا ہوں.حضرت سعد بن وقاص بڑے بہادر آدمی تھے اور رسول کریم ﷺ کے ساتھ کئی جنگوں میں شریک رہ چکے تھے اور اس میں کیا شبہ ہے رسول کریم ﷺ کی زندگی میں لڑائی جیسی سخت ہوتی تھی بعد میں کبھی نہیں ہوئی کیونکہ اُس وقت آپ کی حفاظت کا سوال بھی ہوتا تھا.تو آپ کے بعد ایک جنگ میں آپ جرنیل تھے اور آپ کی بیوی بھی ساتھ تھی جو ایک مسلمان جرنیل کی بیوہ تھیں مگر ان کی وفات کے بعد سعد بن وقاص سے شادی کر لی تھی.آپ کے بدن پر بہت پھوڑے نکلے ہوئے تھے اس لئے جنگ میں شامل نہ ہو سکے.عورت کی یہ فطرت ہے کہ بیوہ یا مطلقہ ہونے کی صورت میں وہ دوسرے خاوند کے سامنے اپنے پہلے خاوند کا ذکر نہیں کرتی کیونکہ اگر اُس کے دل میں واقعی اس کا احترام ہو اور وہ اس کا نام لیتے ہوئے اس کا اظہار نہ کرے تو یہ غداری ہوتی ہے اور اگر کرے تو دوسرے خاوند کے دل میں شک پیدا ہوتا ہے.حضرت سعد ایک اونچی جگہ پر بیٹھے تھے اور وہیں سے احکام صادر کر رہے تھے.آپ پرچے لکھ لکھ کر پھینکتے جاتے تھے اور سپاہی آگے لے جا کر افسروں کو پہنچاتے جاتے تھے.ایرانیوں کا ایک سفید ہاتھی تھا جو قد وقامت میں بھی بہت بڑا تھا اور لڑائی کے لئے بھی اسے خاص طور پر تیار کیا گیا تھا اس نے مسلمانوں کا ایک قبیلہ سارے کا سارا مارڈالا اور اس میں سے ایک بھی زندہ نہ چھوڑا سعد بیٹھے پہلو پر پہلو بدلتے مگر بیماری کی وجہ سے کچھ نہ کر سکتے تھے صرف حکم لکھتے جاتے.اُن کی بیوی کو بھی سخت اضطراب تھا.جب اُسنے دیکھا مسلمان اس طرح ہے جا رہے ہیں تو وہ بے اختیار اپنے پہلے خاوند کا نام لے کر چلا اٹھی.کاش آج منے ہوتا! یہ ایک ایسی طنز تھی جو سعد سے برداشت نہ ہوسکی.وہ وہ شخص تھے جنہوں نے رسول کریم ﷺ کے ساتھ لڑائیوں میں بڑے بڑے کار ہائے نمایاں کئے تھے اور اب اگر معذور نہ ہوتے تو ضرور میدان جنگ میں ہوتے تاہم اُن کی بیوی کا منشاء یہ تھا کہ خواہ کچھ ہوضر ور میدان میں جاؤ.بیوی کی اس طئر سے انہیں سخت غصہ آیا اور انہوں نے اُسے ایک تھپڑ مار دیا.بیوی نے کہا یہ کیا بہادری ہے کہ ایک عورت کو تو تھپڑ مارتے ہو اور دشمن مسلمانوں کو شہید کرتے جارہے ہیں ان کے مقابلے کے لئے نہیں نکلتے.حضرت سعد پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے خیال کیا جب میری بیوی کو یہ خیال ہے تو ممکن ہے دوسرے مسلمان بھی یہی مجھتے ہوں کہ میں ڈر کی وجہ سے میدان میں نہیں آتا اس لئے شام کو انہوں نے سارا لشکر جمع کیا اور کپڑے

Page 271

264 اُتار کر دکھائے کہ دیکھو میرے بدن پر سر سے پاؤں تک پھوڑے نکلے ہوئے ہیں.لجنات اما ء اللہ کا فرض تو ابتدائی ایام میں مسلمان عورتوں نے بڑا کام کیا مگر اسی وجہ سے کہ انہیں جنگوں میں شامل ہونے کا موقع دیا گیا.رسول کریم نے ہمیشہ انہیں جنگوں میں شامل رکھتے تھے.لڑائی کے فنون سکھاتے تھے اور مشق کراتے تھے.مگر اب مسلمانوں نے یہ بات چھوڑ دی ہے.میں نے لجنات اماءاللہ قائم کی ہیں مگر وہ ابتدائی حالت میں ہیں.بعض عورتیں بعض اوقات ہمت دکھاتی ہیں مگر کئی ہمت مار کر بیٹھ جاتی ہیں.ہمارا فرض ہے کہ انہیں دلیر بنائیں اور اگر لڑائی میں شامل ہونے کے لئے تیار نہیں کر سکتے تو کم از کم اُن کے اندر اتنی جرات تو پیدا کر دیں کہ اگر ہم میں سے کوئی اسلام کے لئے جان دینے کے لئے جائے تو انہیں بجائے صدمہ کے اس خیال سے خوشی ہو کہ اس ثواب میں ہم بھی شریک ہیں.جو آدمی جنگ کے لئے ایسی حالت میں نکلتا ہے کہ اپنے گھر والوں کے دل ٹوٹے ہوئے دیکھتا ہے وہ شکستہ دل ہو جاتا ہے.لیکن اگر اسے یہ محسوس ہو کہ گوفطری طور پر میرے گھر والوں کو میری جدائی کا غم ہے مگر وہ خوش بھی ہیں.اور اگر چہ دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ میری حفاظت کرے لیکن اگر میں شہید ہو جاؤں تو بھی انہیں خوشی ہوگی تو وہ اپنے اندر خاص دلیری اور نجرات محسوس کرے گا.اگر ہم مذہب کو سچا سمجھتے ہیں تو موت کیا چیز ہے؟ یہ تو ایک دروازہ ہے خدا تعالے تک پہنچنے کا اور خداتعالے کے راستہ میں تکالیف اٹھانے سے بڑھ کر انعام اور کیا ہوسکتا ہے؟ ( از مصباح یکم مئی ۱۹۳۱ء) مسجد لنڈن کی مرمت کے لئے احمد کی خواتین کو تحریک تمام احمدی خواتین کے لئے میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ انگلستان کے خطوط سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسجد لنڈن جو صرف احمدی خواتین کے روپیہ سے تیار ہوئی تھی اور جس کی وجہ سے ہماری جماعت کی مستورات کے اخلاص اور قربانی کی تمام دنیا میں دھوم پڑ گئی تھی اس کا گنبد کسی انجینئر میں نقص کی وجہ سے خطرہ کی حالت میں ہے اور عمارت کے فن کے ماہروں نے مشورہ دیا ہے کہ فورا گنبد کی مرمت کی جائے اور ایسے خول چڑھائے جائیں جن سے وہ کلی طور پر محفوظ ہو جائے ورنہ مسجد کی تمام عمارت کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہی نہیں بلکہ غالب یقین ہے.

Page 272

265 اس اطلاع کے ملنے پر میں نے مناسب سمجھا کہ کئی کمپنیوں کی رائے معلوم کر لی جائے تا کہ اس تنگی کے زمانہ میں کوئی ناواجب بوجھ جماعت پر نہ پڑے لیکن ہر ایک ماہرفن جس سے مشورہ لیا گیا اسنے یہی مشورہ دیا ہے کہ مسجد کی فوری مرمت نہایت ضروری ہے ورنہ سب عمارت کے ضائع ہو جانے کا احتمال ہے.پس اس مجبوری کی وجہ سے میں نے خانصاحب فرزند علی خاں صاحب امام مسجد لنڈن کو ہدایت کر دی ہے کہ وہ کسی معتبر کمپنی کے ذریعہ سے مسجد کی مرمت کرانی شروع کریں اور میں اس عرصہ میں جماعت احمدیہ کی خواتین سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنی یادگار کو قائم رکھنے کے لئے چندہ کریں تا کہ یہ مسجد گلی طور پر انہی کی طرف منسوب ہوتی رہے.ضروری مرمت کے اندازے بھی میں نے لگوائے ہیں اور کم سے کم انداز و نچھ ہزار روپے کا ہے لیکن چونکہ اخراجات عام طور پر اندازے سے بڑھ جایا کرتے ہیں اس لئے اصل اندازہ سات آٹھ ہزار کے درمیان لگانا چاہیئے.پس اس رقم کے جمع کرنے کے لئے میں خواتین جماعت احمدیہ سے اپیل کرتا ہوں.گو اس میں کوئی تک نہیں کہ اس قدر عظیم الشان یادگار قائم کرنے کے بعد اگر انہوں نے اس کی ضرروری مرمت سے بے تہ بہی برتی تو جس طرح دنیا میں ان کی پہلی قربانی کی وجہ سے ان کی شہرت ہوئی ہے اسی طرح ان کی دوسری سستی کی وجہ سے بدنامی ہوگی کیونکہ ان کی تیار کردہ مسجد دنیا کے اقتصادی مرکز کے اندر ہے اور سب دنیا کے لوگ وہاں آتے رہتے ہیں.لیکن میرے نزدیک مسلمان کا کام نمود کے لئے نہیں بلکہ خدا تعالے کے لئے ہوتا ہے پس دنیا میں اپنے نام کو بلند کرنے کے لئے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے حضور میں اپنا درجہ بڑھانے کے لئے ہماری جماعت کی مستورات کو اس وقت کہ سخت مالی پریشانی کا وقت ہے ایک اعلیٰ نمونہ قربانی کا دکھا کر ثابت کر دینا چاہیئے کہ مومن کی قربانی مال کی وسعت کے مطابق نہیں بلکہ اس کے دل کی وسعت کے مطابق ہوتی ہے اور وہ تنگی کے وقت میں بھی دین کے کام کو ہر ایک دوسرے امر سے مقدم رکھتا ہے.اے بہنو! یا درکھو کہ اس وقت ساری دنیا میں اسلام کی خدمت احمدیوں کے ذمہ لگائی گئی ہے اور اللہ تعالے کی طرف سے کسی قوم کو اس قدر عظیم الشان ذمہ داری کا ملنا کوئی معمولی انعام نہیں ہے.یہ وہ انعام ہے جس کے لئے جسم کا ہر ذرہ بھی اگر قربان کرنا پڑے تو یہ قربانی اس انعام کے مقابلہ میں بالکل بیچ ہوگی.

Page 273

266 پس اپنے عمل سے یہ ثابت کرو کہ اگر دوسری قوموں کی عورتیں مذہبی اور قومی کاموں سے بے پرواہ اور غافل ہیں تو احمدی جماعت کی مستورات ایسی نہیں ہیں.انہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے وہ دل وگردہ دیا ہے کہ ہر ایک آواز جو دین کی خدمت کے لئے اُٹھتی ہے وہ اس پر لبیک کہتی ہیں اور دین کی خدمت میں ان کے دل میں ملال نہیں پیدا ہوتا بلکہ ان کا دل اس خوشی سے بھر جاتا ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ایک کام کرنے کا موقع ملا.چونکہ مسجد کی مرمت شروع ہو گئی ہے اور روپیہ کی فوری ضرورت ہے اس لئے ہر جگہ لجنہ اماءاللہ کو اور جس جگہ بجلد نہ ہو وہاں انجمن احمد یہ فورا عورتوں میں تحریک کر کے مسجد کی مرمت کا چندہ احمدی عورتوں سے جمع کرنا شروع کر دیں اور جس قدر چندہ ہو محاسب صاحب صدر انجمن احمد یہ کے نام پر ارسال کر دیں.چونکہ ہر ایسی تحریک کے موقع پر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کوئی شخص جو جماعت میں نہ ہو چندو دے تو اس سے چند ولے لیا جائے یا نہیں.اس لئے میں اس سوال کا جواب بھی ابھی دے دیتا ہوں کہ گو تعمیر مسجد کے وقت میری ہدایت تھی کہ اس عمارت کو صرف احمدی خواتین کے روپیہ سے تیار کیا جائے لیکن اب جبکہ عمارت بن چکی ہے اور صرف مرمت اور حفاظت کا سوال ہے اگر کسی بہن کی کوئی سہیلی خوشی سے اس میں روپیہ دینے کے لئے تیار ہو تو شوق سے اس روپیہ کو قبول کر لیا جائے کیونکہ شاید اللہ تعالے اس امداد کے طفیل اس پر اپنے فضلوں کے دروازے کھول دے اور مزید برکتوں کا وارث کر دے.میں ناظر صاحب بیت المال اور کل صوبائی ، اضلاعی یا مقامی انجمنوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ چونکہ ہماری عورتیں اس طرح ابھی منظم نہیں جس طرح کہ مرد ہیں اس لئے اس کا خاص انتظام کیا جائے کہ ہر جگہ تک یہ آواز آتی جائے اور مرد خواتین کو جمع کرنے اور ان تک یہ آواز پہنچانے کا ذمہ اپنے اوپر لیں اور کوشش کریں کہ کسی جگہ کی مستورات بھی اس کام میں حصہ لینے سے محروم نہ رہ جائیں.وہ حصہ خواہ کم ہو یا زیادہ کیونکہ تھوڑا تھوڑا کر کے بھی بہت برکت ہو جاتی ہے.نیز یہ مناسب نہیں کہ جماعت کا کوئی حصہ بھی ثواب کے کاموں میں حصہ لینے سے محروم رہ جائے کہ یہ امر اس حصہ کے اخلاص کے جن مات کو ئند کر کے آخر سب جماعت پر مضر اثر ڈالتا ہے.اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ بہت جلد احمدی خواتین کو توفیق عطا فرمائے کہ اس ذمہ کی کہ ادا کر سکیں.

Page 274

267 اور اُن کی یہ عظیم الشان یادگار نہ صرف قائم رہے بلکہ اللہ تعالیٰ اسے بڑھانے کی بھی توفیق دے.واجِرُدَ عُوْنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِين خاکسار میرزامحمود احمد خلیلة امسیح الثانی احمدی خواتین کی تعلیمی ترقی مورخہ یکم ستمبر ۱۹۳۱ ( اخبار مصباح) ۱۳ ستمبر بعد نماز عصر لجنہ اماءاللہ شہر سیالکوٹ نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے اعزاز میں ایک شان دار دعوت چائے دی جس میں شہر کے بعض معززین بھی مدعو تھے اس موقع پر حضور نے حسب ذیل مختصری تقریر فرمائی:.میں سب سے پہلے اپنی ، اپنے ساتھیوں اور دوسرے مہمانوں کی طرف سے لجنہ اماءاللہ کا اس چائے کی دعوت کے لئے شکر یہ ادا کرتا ہوں.دعوتیں دنیا میں ہوتی رہتی ہیں اور یہ ایک ایسا رواج ہو گیا ہے جو شاید اپنی کثرت کی وجہ سے بہت سی خوبصورتی کھو بیٹھتا ہے لیکن وہ دعوت جو جوش اور اخلاص کے نتیجہ میں ہو وہ دل کے لئے نہایت ہی مسرت کا موجب اور قلب کے لئے فرحت کا باعث ہوتی ہے.رسول کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کو محبت اور تعلق بڑھانے کا ایک ذریعہ یہ بھی بتایا ہے کہ اگر توفیق ہو تو ایک دوسرے کی دعوت کرتے رہنا چاہیئے.خود رسول کریم نے بھی لوگوں کو دعوت پر بلاتے تھے اور اس کو اتنی اہمیت دیتے کہ فرماتے دعوت کارڈ کرنا میری سُنت کے خلاف ہے.اور میں چونکہ جانتا ہوں کہ لجنہ کی یہ دعوت اخلاص اور اسی روح کے ساتھ ہے جو رسول کریم نے اپنی امت میں پیدا کرنا چاہتے تھے اس لئے میں اللہ تعالے سے دُعا کرتا ہوں کہ ان کھانوں کی قیمت کے مطابق نہیں بلکہ اس نیت کی قیمت کے مطابق ان سے فضل و برکت کا سلوک کرے.سیالکوٹ کی لجنہ باوجود اس کے کہ اس سے پہلے مجھے انہیں مخاطب کرنے کا موقع نہیں ملا لیکن اُن کی محترم اور مخلص کارکن جو یہاں کی جماعت کے امیر کی اہلیہ ہیں کے بعض خطوط اور بیانات سے پتہ لگتا ہے کہ نہایت اعلے درجہ کا کام کرنے والی اور بہت ہی بات کے لئے نمونہ ہے.بلکہ بسا اوقات مجھے سیالکوٹ کی لجنہ کے کام بتا کر مرکزی لجنہ کو شرمندہ کرنا پڑا ہے.اگر چہ اس میں شک نہیں کہ مرکزی لجنہ کی نوعیت مختلف ہے

Page 275

268 لیکن پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ جس استقلال کے ساتھ سیالکوٹ کی لجنہ نے کام کیا ہے وہ ہر ایک کے لئے نمونہ ہے.عورتوں کی تعلیم سے مجھے اللہ تعالی اسکے فضل سے خاص دلچسپی ہے.میں نے اس کی وجہ سے لوگوں کے اعتراضات بھی سنے ہیں اور اختلافی آراء بھی سنی ہیں لیکن پھر بھی پورے یقین کے ساتھ اس رائے پر قائم ہوں کہ عورتوں کی تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی.جب جماعت احمدیہ کا انتظام میرے ہاتھ میں آیا اُس وقت قادیان میں عورتوں کا صرف پرائمری سکول تھا لیکن میں نے اپنی بیویوں اور بیٹیوں کو قرآن کریم اور عربی کی تعلیم دی اور انہیں تحریک کی کہ مقامی عورتوں کو قرآن کریم کا ترجمہ اور حدیث وغیرہ پڑھائیں میں نے اپنی ایک بیوی کو خصوصیت کے ساتھ اس کے لئے تیار کیا اور میرا خیال تھا کہ وہ اپنی تعلیمی ترقی کے ساتھ دوسری عورتوں کو فائدہ پہنچا ئیں گی لیکن خدا تعالے کی مشیت تھی کہ میرے سفر ولایت سے واپسی پر وہ فوت ہو گئیں اس پر میں نے سمجھا کہ صرف ایک عورت تیار کرنے سے کام نہیں چلے گا کیونکہ اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اگر وہ فوت ہو جائے تو دوسری کو تیار کرنے کے لئے چھ سات سال مزید عرصہ درکار ہو گا.اس پر میں نے یہ انتظام کیا کہ طالبات چکوں کے پیچھے بیٹھ کر اُستادوں سے تعلیم حاصل کریں.اس پر قادیان میں بھی اور باہر بھی اعتراض ہوئے کہ یہ اچھی تعلیم ہے کہ عورتوں کو مرد پڑھاتے ہیں لیکن میں نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی کیونکہ ثابت ہے کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ضرورت کے موقع پر مرد عورت ایک دوسرے سے پڑھتے پڑھاتے رہے ہیں.خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا صحابیوں اور نو مسلموں کو رسول کریم ہے کلمات طیبات سکھاتی رہی ہیں اور ہماری عورتوں کی عزت رسول کریم کے زمانہ کی عورتوں کی عزت سے زیادہ نہیں ہو سکتی.اور جو فعل اُن کی عزت کے مطابق ہے اُس سے ہماری عزت میں فرق نہیں آسکتا.پس میں نے اس سلسلہ کو جاری رکھا یہاں تک کہ پچھلے سال عورتوں کی کافی تعداد نے مولوی کا امتحان پاس کر لیا.گویا وہ ڈگری حاصل کی جو عربی میں ایف ائے کے برابر ہے.اس کے ساتھ ہی میں نے پرائمری سکول کو مڈل تک پہنچا دیا.اور چونکہ عربی کا امتحان دے کر انٹرنس پاس کیا جا سکتا ہے اس لئے مولوی پاس عورتوں نے اور کچھ با قاعدہ سکول میں پڑھانے والیوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے انٹرنس بھی پاس کر لیا اور اس سال سے قادیان میں عورتوں کے لئے کالج بھی جاری ہو چکا ہے امید ہے دو سال تک کئی عورتیں ایف.اے پاس کر لیں گی اور

Page 276

269 میر افشاء ہے کہ اسی طرح کم از کم پندرہ سالہ عورتوں کو بی.اے، ایم.اے تک تعلیم دلائی جائے تا عورتیں خود دوسری عورتوں کو تعلیم دے سکیں.مردوں کیلئے کالم قائم کرنے کی شرائط سخت ہیں.یعنی جب تک ایک خاص رقم جمع نہ کی جائے اور عمارت تعمیر نہ ہو اس کی اجازت نہیں ہو سکتی.لیکن عورتوں کے لئے ایسی شرائط نہیں اس لئے ہمیں ان کے لئے انتظام کرنے میں تھوڑے سے خرچ پر بہت سی سہولتیں مل سکتی ہیں اور جب قادیان میں ہی تعلیم دینے کے لئے تیار ہو جائیں تو میرا ارادہ ہے وہاں ہوٹل قائم کر کے باہر کی عورتوں کے لئے بھی وہاں رہ کر تعلیم حاصل کرنے کا انتظام کر دیا جائے گا.یہ امر کس قدر افسوسناک ہے کہ سارے پنجاب میں مسلمانوں کا ایک بھی زنانہ کالج نہیں اور قادیان کا کالج پہلا زنانہ کالج ہے اور خدا کے فضل سے وہاں عورتوں کی تعلیم اس قدر زیادہ ہے کہ چند ماہ ہوئے میں علی گڑھ گیا تو مجھے بتایا گیا کہ صرف چار لڑکیوں نے انٹرنس کا امتحان دیا ہے لیکن قادیان میں پہلے ہی سال سولہ لڑکیوں نے امتحان دیا اور ہم نے اندازہ کیا کہ قادیان میں قریباً سو فیصد لڑکیاں تعلیم حاصل کرتی ہیں گویا ان کی شرح لڑکوں سے بھی زیادہ ہے اور یہ خوشی کی بات ہے کہ ہماری جماعت میں عورتوں کی تعلیم اس سرعت سے پھیل رہی ہے، خصوصاً قادیان میں انشاء اللہ بہت جلد عورتوں کی جہالت سے ہم بچ جائیں گے.“ سیالکوٹ کی بجد نے جو کام جاری کیا ہے مجھے امید ہے ان کی کوشش سے یہاں بھی تعلیم کا خچر چا وسیع ہو جائے گا.مجھے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی کہ یہاں کی احمدی مستورات نے اپنے حسن اخلاق سے دوسرے طبقوں میں بھی ایسی قبولیت حاصل کر لی ہے کہ سب کی لڑکیاں ان کے سکول میں تعلیم حاصل کرتی ہیں اور کسی قسم کی Friction نہیں.یہ ان کے کام کی روح کے متعلق ایک نباعت عمدہ شہادت ہے.اگر مردوں میں نہیں تو کم از کم عورتوں میں اس روح کا پیدا ہونا کہ اسلامی کاموں کو مل کر کرنا چاہیے نہایت مسرت بخش ہے اور جب عورتوں میں یہ روح پیدا ہو جائے تو پھر مرد بھی متحدہ جدوجہد کیلئے مجبور ہو جائیں گے.میں اس وقت زیادہ نہیں بول سکتا کیونکہ میں جب کبھی کسی شہر میں جاتا ہوں تو چونکہ میری صحت بھی خراب ہے اور اس وجہ سے بھی کہ ہم دیہات کے

Page 277

270 رہنے والے لوگ شہروں کا ناقص گھی کھانے کے عادی نہیں ہوتے اس لئے لاہور میں تو پہلا ہی کھانا کھانے کے بعد میرا گلا خراب ہو جایا کرتا ہے لیکن یہاں تیسرے کھانے کے بعد یہ تکلیف ہو گئی ہے.اس کے علاوہ شام کے بعد بھی مجھے ایک تقریر کرتی ہے اس لئے اختصار کے ساتھ یہ کہہ کر میں اپنی تقریر ختم کرتا ہوں کہ عورتوں کے اندر عام طور پر یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم کسی کام کی نہیں.یہ خیال قطعاً بے بنیاد ہے اور اسے جس قدر جلد ممکن ہو دل سے نکال دینا چاہیے.سیالکوٹ کی لجنہ نے ثابت کر دیا ہے کہ عورتیں بھی کام کر سکتی ہیں.عورتوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالی کے حضور مرد و عورت برابر ہیں اور مردوں کی طرح وہ بھی ترقی کے مدارج طے کر سکتی ہیں.رسول کریم اللہ نے اپنی ایک بیوی کے متعلق فرمایا ہے حلوا نِصْفَ دِينِكُمْ مِنْ هذِهِ الْحُمَيْرَاءِ یعنی نصف دین عائشہ سے سیکھو اور ہم دیکھتے ہیں حضرت عائشہ نے ایسے ایسے اہم امور میں مردوں کی راہنمائی کی ہے کہ حیرت ہوتی ہے.رسول کریم کی باتوں کے سمجھنے میں انہیں کمال حاصل تھا.بسا اوقات مردوں کی عقل وہاں تک نہ پہنچتی تھی جہاں ان کا دماغ پہنچ جاتا تھا.ایک لطیفہ مشہور ہے کہ رسول کریم ﷺ کے خاندان میں ایک میت ہو گئی اور غالباً حضرت علی کے بھائی لڑائی میں شہید ہو گئے.عورتوں کو سخت صدمہ تھا وہ نہین کرنے لگیں اور چونکہ یہ بات منع ہے اس لئے کسی نے آکر رسول کریم سے ذکر کیا.آپ نے فرمایا جاؤ جا کر ان کو منع کرو.اس نے منع کیا مگر وہ نہ رکیں.اسلام اس وقت ابتدائی حالات میں تھا اور عورتوں کی تربیت مکمل نہ ہوئی تھی.اس نے پھر آ کر رسول کریم نے سے عرض کیا کہ وہ باز نہیں آتیں.آپ نے فرمایا:.فَاجِتُ فِي أفْوَاهِهِنَّ التراب یعنی ان کے منہ پر مٹی ڈالوں اس شخص نے واقعی مٹی اٹھائی اور جا کر اُن پر ڈالنی شروع کر دی.حضرت عائشہ کو علم ہوا تو آپ نے اُس شخص کو ڈانٹا اور فرمایا تم مرد ہو لیکن اتنی عقل نہیں رکھتے کہ رسول کریم کے اس ارشاد کا مطلب کجھو.آپ کا مطلب یہ تھا کہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو یہ نہیں کہ واقعی ان پر مٹی ڈالو.تو

Page 278

271 حضرت عائشہ نہایت فہیم عورت تھیں.اسی طرح حضرت فاطمہ تقویٰ اور طہارت میں بے نظیر تھیں شی که رسول کریم بعض راز کی باتیں آپ سے کہہ دیتے تھے.یہی حال اور عورتوں کا بھی تھا.تو عورتوں کے لئے ترقی کے ذرائع ویسے ہی ہیں جیسے مردوں کے لئے اور میں امید کرتا ہوں کہ احمدی مستورات کبھی یہ خیال بھی دل میں نہ لائیں گی کہ ان کے لئے ترقی کی گنجائش نہیں بلکہ ان کا ہر قدم آگے ہی بڑھے گا اور وہ مسلمانوں کی قوت، طاقت کو ترقی دینے، دنیا میں اخلاص کی روح پھونکنے اور انسانوں کو انسانیت کے مقام پر کھڑا کرنے کے لئے اسی طرح کام میں لگی رہیں گی جس طرح ہم مردوں سے امید رکھتے ہیں یا جس طرح ہمارا اللہ ہم سے امید رکھتا ہے.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ انہیں جماعت، دین اور مسلمانوں کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے اور ہر قسم کی ترقیات جن کا اس نے اپنے نبی سے وعدہ فرمایا ہے انہیں عطا کرنے اور وہ دوسری جماعتوں کیلئے نمونہ ہوں.آمین الفضل (۲۹ ستمبر ۱۹۳۱ء) خلاصہ تقریر حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ یہ تقریر حضور نے دسمبر 1931ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر مستورات میں فرمائی لیکن بوجہ مشق نہ ہونے کے کوئی خاتون مکمل طور پر تقریر نوٹ نہ کر سکی لہذا تقریر کے جستہ جستہ حصوں کے کچھ نوٹ شائع کئے جاتے ہیں.فرمایا:- میں نے پچھلے سال غالباً کشی نوح پڑھنے کی ہدایت کی تھی آپ میں سننا چاہتا ہوں.جن بہنوں نے شی نوح پڑھی اور سنی ہے وہ کھڑی ہو جائیں.( جب عورتیں کھڑی ہوئیں تو فرمایا) معلوم ہوتا ہے کہ ابھی جماعت میں زیادہ چرچا نہیں ہو اگر ایک حد تک لجنہ اماء اللہ قصور وار ہے کہ اُسکے عام اعلان پر جوش کا

Page 279

272 اظہار نہیں کیا ہے.میں نے قرآن کریم کا ایک رکوع جو اس وقت پڑھا ہے بغیر کسی ارادے کے یونہی کھول کر پڑھا ہے کیونکہ میں عورتوں کے جلسے میں کبھی سوچ کر نہیں مضمون کہتا کیونکہ جانتا ہوں کہ عورتیں سنتی ہی نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بادلوں سے پانی برساتا ہوں.اکثر عورتوں اور مردوں کا خیال ہو گا کہ بادل کوئی جانور ہے جو سمندر سے جا کر پانی پی آتا ہے مگر بارش بھاپ کے برسنے کا نام ہے.بے شک گندے پانی سے بادل بنتا ہے مگر وہ اللہ تعالیٰ کی مشین میں جا کر مصفا ہو کر برستا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے اسی طرح تم لوگوں کو ہر ایک نعمت ، دماغ ،سمجھ وغیرہ دی ہے جو اللہ تعالیٰ کے الہام سے صاف ہو کر تم نیک بنتے ہو.انسان بھی اللہ تعالی کے الہام کے پانی کو جس رنگ میں قبول کرتا ہے اسی طرح کا انسان بنتا ہے.دیکھو سرسوں اور ہرڑ اور آلو مختلف پھل ہیں اور اللہ تعالیٰ کا پانی ایک ہی چیز ہے مگر چیزیں اپنے اپنے اثر قبول کرتی ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ کے کلام سے مومن اپنے ایمان میں بڑھ جاتا ہے، کافر اپنے کفر میں بڑھ جاتا ہے اور منافق اپنے نفاق میں بڑھ جاتا ہے.دل کا بدلنا بندے کا اپنا کام ہے.اللہ تعالی کی رحمت تو وسیع اور عام ہے.دیکھو یہی کلام الہی ہے جس سے حضرت ابو بکر صدیق ہے یعنی جن کا ذرہ ذرہ کی بولنے والا تھا.کہاں تو اتنے رقیق القلب انسان تھے اور پھر ایسے بہادر ہو گئے کہ حضرت عمر سے کہا کہ کوئی بات بھی حضرت رسول کریم نے کی منسوخ نہیں کروں گا.قرآن کریم نے ہی ابو جہل جو ابو الحکم تھا پیدا کیا تو کلام الہی سے اسی طرح انسان اپنی سمجھ کے مطابق فائدہ اٹھاتا ہے ورنہ کچھ فائدہ نہیں ہوتا.دیکھو میری تقریر سے بھی اپنی اپنی سمجھ کے موافق فائدہ اُٹھا سکو گی.اللہ تعالیٰ تو بارش برساتا ہے مگر فائدہ اٹھانا انسان کا اپنا کام ہے.اسی طرح تم اگر کسی سچائی کو قبول کرو تو اس میں اپنی محنت بھی کرو.دیکھو سلائی کرتی ہوتو کیا سوئی خود بخودی سکتی ہے؟ نہ خود بخو روٹی پک سکتی ہے.اگر چہ آنا، پانی آگ موجود ہو.پس جب خود محنت نہ کرو گی تو کیا خود بخو د روٹی تیار ہو جائے گی ؟ ہر گز نہیں اسی طرح اللہ تعالی نے اپنا الہام نازل کر دیا اب اسے سیکھنے اور رکھنے کی کوشش کر وتب فائدہ ہوگا.ویسے کچھ نہیں بن سکتا.علم دین سیکھو.یہ مت سمجھو کہ ہم گنہگار ہیں ہم کو علم دین سیکھنے کی بھلا کیا تو فیق حاصل ہوگی.خوب جان لو کہ اگر تم بہت بڑے گنہگار ہو تو اللہ

Page 280

273 تعالیٰ ہی سب سے بڑا غفور رحیم ہے.کیا پھر تم بہت بڑے ہو یا اللہ بہت بڑاز بردست ہے.اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگو وہ ضرور بخش دے گا.اسی طرح قرآن کریم میں حکم ہے اقامت نماز کا.عورتیں جماعت سے نماز پڑھیں تو بہت بہتر ہو.نماز با جماعت پڑھو تو ہزاروں طورت فائدے حاصل کروا کیلے نماز پڑھنا درست نہیں.اگر عورتیں یہ عزم کریں تو کچھ مشکل نہیں اور نہ عورتوں کو کوئی ممانعت ہے.عورتیں جماعت کر سکتی ہیں.جماعت سے کوئی تکلیف نہیں نہ فرق صرف اتنا فرق ہے کہ ثواب ستر گنا زیادہ ملے گا اور اسی طرح روحانیت اور دین میں عورتیں زیادہ ترقی کر سکتی ہیں.اسی طرح خرج اللہ تعالیٰ کے راہ میں کرنا ہے.میں جماعت کی عورتوں کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ انہوں نے ساری دوسری عورتوں کی نسبت بہت زیادہ ایثار اور مالی قربانیوں میں حصہ لیا ہے ہماری بہنیں چندے دینے میں بہت بہادر ہیں مگر پوشیدہ طور سے دینا اور مخفی طور سے دینا بہت زیادہ ثواب رکھتا ہے ہمارے ملک میں جبر ادینے اور دکھلا کر دینے کی بہت زیادہ رسم ہوگئی ہے.اس کی مثال اس عورت کی ہے جس نے ایک انگوٹھی دکھلانے کے لئے اپنا گھر جلا دیا تھا.تو کسی غریب کی امداد کرو مگر وہ نر ا کرو اس میں تمہیں گھانا نہیں ہوگا نہ اللہ تعالی اسے ضائع کرے گا کیونکہ وہ تو دونوں جہاں کا مالک اور شہنشاہ ہے.قرآن کریم کی پیشگوئیوں کو اگلے انبیاء بیان کرتے آئے ہیں اور گویا رشک کرتے آئے ہیں.پھر کسقد رافسوس ہے کہ تم اس کی وحی سے فائدہ نہ اٹھاؤ.اس کے احکام کی تعمیل نہ کرو.یادرکھو اس کی مخالفت سے سزا بھی عبرتناک ہوگی.عورتیں اپنے آپ کو کمزور جانتی ہیں مگر یہ کوئی خوبی کی بات نہیں.مرد بھی تھکنے کی شکایت نہیں کرتے مگر عورتیں گاڑی تک چلنے سے بھی اپنی کمزوری اور نزاکت ہی ظاہر کرتی ہیں.پھر افسوس یہ ہے کہ اپنی لڑکیوں کو بھی یہی سکھاتی ہیں یہ کوئی اچھی خوبی نہیں.جن لوگوں کو ترقی کرنی ہوتی ہے وہ کبھی بھی اپنی کمزوریاں ظاہر نہیں کرتے.جتنا انسان اپنے نفس پر جبر کرے وہ ترقی میں بڑھتا جاتا ہے.تو دین میں روحانیات میں ترقی کرنے میں اپنے نفس پر جبر کرو.پھر خود بخو دمشق ہو جائے گی.دوسرں سے آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرتے مسلمان قوم اس لئے سب قوموں سے پیچھے رہ چلی ہے.مولانا اسمعیل شہید نے دوسروں کو شکست دینے کے

Page 281

274 لئے تیرنے میں ترقی کی.پس چاہیئے کہ تم سلائی میں، تعلیم میں، معلمی میں لیکچروں میں دوسری قوم کی عورتوں کو شکست دو.سابق بالخیرات ہو.اپنے نفسوں کو ٹولو کہ کیا تم میں یہ مادہ ہے.کوشش کرو کہ دوسری عورتوں سے بڑھ جاؤ.اگر تم نے چندہ میں زیورات دئے ہیں تو اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ تم کو اس سے کئی گنا سونے وچاندی کا زیور دیا جائے گا.ایک زمانہ تھا کہ جب مسلمان دنیا میں غالب تھے مگر اب ذلیل ہو گئے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو ہمارے قوانین کو توڑے گا اس کا یہی بدلہ ملے گا.غلام بنا دئے گئے.غفلت وستی چھوڑو.اپنے اندر ہمت و استقلال پیدا کرو.اللہ تعالیٰ اولا دہے تو اولاد کی تربیت بھی سکھا دے.میں بھی دعا کر دیتا ہوں.یدا کرد ا ای اولاد سے اولاد کی بھی کھادے دعا کردیتا ہوں.تقریر حضرت خلیفہ اسیح الثانی بر موقع جلسہ سالانہ خواتین ۱۹۳۲ء حضور نے تشہد اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.جس طرح اعصاب اور رگوں کا آپس میں تعلق ہوتا ہے اسی طرح عورتوں اور مردوں کے تعاون کے ساتھ دُنیا کا نظام چلتا ہے مگر آج کل کے زمانہ میں ہر طرف جنگ شروع ہے.آپس میں نا اتفاقی بڑھ رہی ہے اور پیشگوئی ہے کہ قیامت کے قریب سب نعمتیں مٹادی جائیں گی.سب وحوش یعنی غیر تعلیم یافتہ قو میں اور ادی قو میں ملائی جائیں گی اور ان کو اٹھایا جائے گا.تمام بنی آدم مساوات چاہیں گے.اس واسطے بنی آدم کے اس حصہ کو بھی یعنی عورتوں کو احساس ہوا کہ ہم بھی مساوات وغیرہ میں حصہ لیں اس لئے عورتوں نے بھی جنگ اور جھگڑوں میں حصہ لینا شروع کیا.ہمارے ملک میں مثل مشہور ہے کہ خربوزہ کودیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے اور اس کا نام بھیڑ چال بھی رکھا ہے.گو یہ ملکہ اور جذبہ ہر ایک ملک میں پایا جاتا ہے مگر ہمارے ملک میں یہ بہت زیادہ ہے.جس طرح ایک گیدڑ بھاگا جاتا تھا کسی نے پوچھا کہاں بھاگے جاتے ہو.کہنے لگا بادشاہ سلامت نے حکم دیا ہے کہ شہر کے تمام اونٹ پکڑ لئے جائیں.اسنے کہا تم تو گیدڑ ہو اور حکم اونٹوں کے لئے ہے.کہنے لگا شاید گیدڑ بھی پکڑے جائیں.تو بعینہ یہی طریقہ ہمارے ملک کی عورتوں نے اختیار کیا کہ عیسائی اور ہندو وغیرہ عورتوں کی ریس میں آکر کہہ دیا کہ ہمیں ہمارے حقوق دئے جائیں حالانکہ مرد کون ہوتے ہیں اُن کو حقوق دینے والے.اُن کو خود خدا تعالیٰ نے حقوق دئے ہیں.قرآن کریم میں جس طرح مسلمان عورت

Page 282

275 کی تعریف آئی ہے کسی کتاب یا مذہب میں نہیں پائی جاتی.عیسائیوں کا مذہب ہے کہ عورت میں روح ہی نہیں.دوسرے مذاہب میں کہیں تو عورت کو شیطان کا آلہ اور کہیں شر کی جڑ اور کہیں کچھ کہیں کچھ کہہ دیا ہے مگر اسلام نے قرآن نے جہاں مومن مرد کا ذکر فرمایا وہیں مومنات عورتوں کا ذکر بھی فرمایا.حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی رسول کریم ﷺ کی بیوی کی حیثیت سے ہی قدر نہیں بلکہ عائشہ عائشہ ہو کر مشہور ہوئیں.چھر صلى الله عیسائیت میں عورت کا حق کوئی نہیں رکھا گیا.بلکہ ماں کا بھی حق نہیں رکھا ہے کیونکہ حضرت مسیح کو جب یہ کہا گیا کہ مریم ملنے آئی ہے تو کہا مریم کون ہے.جا اے عورت میں تجھ کو نہیں جانتا.سوجبکہ ماں کا حق نہیں جانا تو بیوی کا حق بھلا کیا جانے گا تو عیسائی جبکہ عورت میں روح ہی نہیں مانتے تو حق کیا دیں گے اور مسلمان عورتوں نے اُن کی ریس کی معقلمند آدمی کا قاعدہ ہے کہ وہ کسی کے زیر اثر نہ ہو.اسلام نے عورت کو مساوی حقوق دئے ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر.دیکھو عورت کے نکاح پر مہر پہلے دلواتا ہے اور وہ محض اس کی ملکیت قرار دیا گیا جس پر کسی اور کا تصرف نہیں ہو سکتا.فرانس ایسا ملک ہے کہ وہاں کی تہذیب و تمدن سب یورپ میں آزادانہ ہے.چونکہ عورت کو کوئی حق نہیں دیا گیا.اس لئے وہاں کی عورتوں نے اپنے حقوق لینے کے لئے جنگ شروع کی اور محض بھیڑ چال کے طور پر ہماری مسلم عورتوں نے بھی اپنے حقوق لینے کا مطالبہ کیا حالانکہ ان کو خدا نے سب حقوق دئے تھے مگر خدا جانے وہ کیوں مانگنے لگیں.ہاں انہوں نے اپنے ملے ہوئے حقوق کو استعمال نہیں کیا.غیر مسلم عورتوں کو تو حقوق ملے ہی نہیں تھے تب ان کا مطالبہ تھا.مگر مسلم عورت کو تو خود خدا نے حقوق دئے.اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے حقوق کو استعمال کرنا نہیں سیکھا اور نہ اُن کو استعمال کرنے آتے ہیں.سو تم بجائے جھگڑے اور حقوق طلبی کی جدو جہد کے اپنے حقوق کو جو اسلام نے تم کو دئے ہیں استعمال کرنا سیکھو.یونہی غلطی کھا کر شور و غل کرنا پھر وہی مثال ہوگی جیسا کہ ایک بادشاہ کے کسی قابل سپاہی کو تلوار چلانا عمدگی سے آتی تھی اور شہزادہ صاحب کو ریس آئی کہ بادشاہ سلامت کی اس پر اتنی مہربانی اور شفقت ہے کہ ہر روز انعامات دیتے اور قدر افزائی کرتے ہیں بادشاہ کے حضور عرض کیا کہ مجھے ایک عمدہ تلوار دی جائے.بادشاہ نے سپاہی کو بلایا کہ تلوار شہزادہ کو دے دو.بہادر سپاہی نے بہتیر ا عرض کیا کہ حضور ان کو چلانی نہیں آتی کہیں ٹیڑھی اور غلط چلا کر الٹا نقصان کریں گے مگر شہزادہ کی ضد برابر جاری رہی.آخر تلوار حاصل کر لی اور غلط

Page 283

276 انداز سے چلا کر اپنا بازو کاٹ لیا اس پر بادشاہ نے ڈانٹا اور وہ مور دعتاب ہوا.تو ٹھیک اسی طرح مسلمان عورتوں کو حقوق کا استعمال کرنا نہیں آتا.دیکھو اسلام میں بچے کو ماں کا دودھ چھڑانے کے متعلق بھی حکم ہے کہ آپس کے مشورے سے چھڑاؤ مہر کے متعلق فرمایا تمہاری ملکیت ہے چاہے جس طرح استعمال کرو.تو لوگوں نے اس پر غلطی یہ کی کہ مہر دس لاکھ یا اس سے بھی زیادہ باندھنے شروع کئے.کیا فائدہ اگر کسی کی آمدنی ایک پیسہ کی بھی نہ ہو اور مہر باندھ لے لاکھ دولاکھ تا کہ وہ ادا نہ ہو سکے.یہ کوئی فخر یا اظہار دولتمندی کا طریقہ نہیں.ایسی ایسی مشکلات لوگوں نے صحیح طور سے حقوق کا استعمال نہ سیکھنے کی وجہ سے خود بخود اپنے اوپر ڈال لی ہیں.الفرض مسلمان عورت کو خدا نے ہر طرح کے حقوق دئے ہیں چاہئے کہ ان کا صحیح استعمال کرنا سیکھے.اگر انسان کے پاس ایک بہت عمدہ گھوڑا ہے مگر وہ اُس پر چڑھنا نہیں جانتا تو گھوڑا بے فائدہ ہے.صحیح استعمال کے بعد ارادہ کی ضرورت ہے.اگر انسان کو علم بھی ہو ، قابلیت بھی ہو، ارادہ نہ ہو تو وہ قابلیت بھی کچھ مفید نہیں.بعض لوگ عالم اور قابل ہوتے ہیں مگر ارادہ نہیں ہوتا تو وہ کچھ بھی کام نہیں کر سکتے.پھر نیٹ ہفتہ اور عمل ہو.جب کام کا ارادہ کرے اُس پر عمل کرے.بعض لوگ کسی کام کا علم رکھتے ہیں، قابلیت بھی ہوتی ہے، ارادہ بھی کرتے ہیں مگر اس پر عمل نہیں کرتے تو اُن کی مثال اُس بڑھیا کی سی ہوتی ہے جس نے اپنے گھر کا دروازہ لگوا کر بھی اُسے کتوں کے لئے کھلا چھوڑ دیا تھا.ہمارے ملک میں عورتوں نے غلطی سے سمجھ لیا ہے کہ ہمارے حقوق پر مردوں نے قبضہ مخالفانہ کر رکھا ہے.سو مسلمان عورتوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ کہ اگر وہ اپنے اسلام کے دے ہوئے حقوق کا استعمال کرنا نہ سیکھیں گی تو شکوہ بے فائدہ ہوگا.اسلام میں دئے ہوئے حقوق اگر دریافت کرنے ہوں تو قرآن پڑھو، حدیث کا مطالعہ کرو، پھر اس کی صحیح تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے ملے گی.دیکھو حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے ایک دفعہ اپنی بیوی سے کوئی سخت بات کی تو الہام ہوا کہ مسلمانوں کے لیڈر سے کہہ دو کہ یہ بات اچھی نہیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طرز عمل اور عمدہ معاشرت سے سبق سیکھو کہ آپ نے اصل اسلام کے طریق پر عمل کر کے دکھا دیا کہ عورت کی کتنی قدر اسلام نے رکھی ہے.بے شک لوگ دعوی کرتے ہیں اور بڑے بڑے لیڈران ملک حامی حقوق نسواں بھی ہیں اور سرسید احمد خان وغیرہ بہت لائق لیڈر تھے مگر اُن کی جماعت خود اسلام پر اعتراض کرتی ہے.دوسرے مذہب عیسائی تو خیر ہیں ہی دشمن اسلام ان کا تو کام ہی یہی ہے مگر

Page 284

277 ہماری عورتیں اگر اپنا دین سیکھیں، قرآن مجید کو پڑھیں تو ان کو معلوم ہوگا کہ غیر مذہب کے اعتراضات کا کیا جواب ہو سکتا ہے.قرآن شریف ایک جامع کتاب ہے اس میں سے سب کچھ معلوم ہو سکتا ہے بشرطیکہ تدبر اور غور سے پڑھا جائے.دیکھو میں چونکہ صحت کا کمزور تھا اور شروع سے ہی مدرسہ میں میر الحاظ کیا جاتا تھا اس لئے پرائمری سے انفرنس تک میں نے کوئی امتحان پاس نہیں کیا مگر میں نے صرف قرآن مجید پڑھا.فلسفہ منطق وغیرہ میں نے نہیں پڑھا مگر اب تک خدا کے فضل سے اور صرف قرآن مجید پڑھنے کے باعث ہر ایک بڑے انسان سے، غیر مذاہب کے پیشواؤں سے، بڑے سے بڑے لیکچراروں اور مدبروں سے گفتگو کرنے پر کبھی بھی نہیں جھجکا اور نہ کسی بڑے بڑے لیکچرار، پرنسپل ، بشپ تک نے میرے سامنے کبھی گفتگو کی جرأت کی.میں یورپ میں گیا تو بھی انگریزی میں برابر مضمون بیان کرتا اور بڑے بڑے فلسفیوں کی مجالس میں برابرگفتگو کرتا اور دل میں کوئی رکاوٹ نہ ہوئی مگر یہ میرے ذہن کی کوئی خوبی نہیں بلکہ میرے پاس قرآن کی تلوار ہے.پس اگر تم بھی قرآن، حدیث اور احمدیت کی کتابیں پڑھوگی تو پتہ لگے گا کہ اسلام کیسا عمدہ مذہب ہے.کوئی عیسائی جرات نہیں کر سکتا کہ احمدیوں کے سامنے آئے.تمہارے پاس قرآن کا ہتھیار ہونا چاہیئے.دیکھو کوئی ڈاکٹر کامیاب نہیں ہو سکتا محض اپنی دواؤں یا عدہ چمکدار اوزاروں سے بلکہ خود اس کی دماغی قابلیت ہونی چاہیئے.اگر قابلیت نہ ہو تو اوزار یا دوا میں کچھ بھی مفید نہیں ہو سکتیں.چند اخلاق کے ساتھ قابلیت پیدا ہوتی ہے.ایک مشکر ہے.شکر گزاری کے ساتھ بہت سے نیک اخلاق پیدا ہوتے ہیں اور شکر گزاری کے ساتھ ترقی اور بہتری کے سامان پیدا ہوتے ہیں شکر یہ ادا کرنے کا فعل قوم کے اندر محبت اور اتحاد پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے.جب کسی نیک تحریک پر شکر یہ ادا کر کے اپنا فرض ادا کرتے ہیں تو بہت سے نیک اخلاق پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں.حضرت جنید (یا شیلی فرمایا ) رحمتہ اللہ علیہ ایک بزرگ گزرے ہیں وہ پہلے کسی صوبہ کے گورنر تھے ایسے نیک اور صالح بزرگ تھے کہ اولیاء کرام میں سے ہوئے.چنانچہ ان کے نام پر لوگ بچوں کے نام رکھتے ہیں.(چنانچہ ہمارے قاضی اکمل صاحب کے بچوں کے نام بھی جنید و شبلی ہیں ) اُن کا ذکر ہے کہ بادشاہ نے اُن کو زمانہ گورنری میں انکی حسن خدمات کے صلہ میں بہت اعلیٰ درجہ کا خلعت بخشا.جب وہ خلعت پہن کر دربار میں بادشاہ کے حضور بیٹھے تھے چھینک آ گئی تو اپنی ناک اسی خلعت فاخرہ کے دامن سے پونچھ لی.بادشاہ نے دیکھ لیا اور سمجھا کہ ہمارے خلعت کی بے حرمتی

Page 285

278 کی ہے.غلاموں کو حکم دیا فوراً اُن سے چھین لو چنا نچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور دربار سے نکال دیا کہ جاؤ تم میں اعزاز شاہی کے شکریہ کی قابلیت نہیں.کہتے ہیں کہ یہ بہت سخت حاکم اور ظالم گورنر تھے مگر پھر ایسے نرم دل اور عاجز بندے خدا کے ہو گئے کہ جن جن افراد رعیت کو ستایا تھا اُن کے دروازے پر جا کر معافی طلب کی اور تقصیریں معاف کروائیں اور توبہ کی اور عبادت الہی میں مصروف ہوئے.یہ اس خلعت کے واقعہ کا اثر تھا.آپ سمجھ گئے کہ اے مولا ! جب انسان کے ایک خلعت کی تحقیر کر کے ایسی سزا پائی ہے تو ٹو نے جو نعمتیں بخشیں اُن کا شکر یہ ادا نہ کرنے پر تو بہت زیادہ مستحق سزا ہوں گا.چنانچہ پھر وہ شکر یہ ربی ادا کرنے سے اولیاء کرام میں سے ہو گئے.سو تم زیادہ شکر گزار بنو.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے میں نے دوزخ میں زیادہ حصہ عورتوں کا دیکھا کیونکہ وہ ناشکر ہوتی ہیں.پھر عورتوں میں تعاون نہیں ہوتا اور یہ ہمارے ملک میں ہی نہیں بلکہ یورپ کی عورتیں بھی تعاون نہیں کر سکتیں ( اسی سلسلہ میں حضور نے فرمایا) میں یورپ میں گیا تو ایک عورت نے سوال کیا کہ کیا تمہارے ملک میں دروازے ہوتے ہیں ( یورپ کے لوگ عموماً دروازے بند رکھتے ہیں ) تو میں نے کہا دروازے ہوتے ہیں اور پھر کھلے رہتے ہیں تو اس عورت نے غلطی سے سمجھا کہ ہم پر اعتراض کیا ہے کہ یورپ کے لوگ مہمان نواز نہیں ہوتے اور ہم مہمان نواز ہیں.پھر شکر کے ساتھ آپس میں ہمدردی ہونی چاہیئے.پھر عورتوں کو بہت زیادہ صبر کرنے کی بھی مشق چاہیئے جو ان میں بہت کم ہے.صبر کا جذ بہ مشق کرنے سے پیدا ہوتا ہے.جو ہمارے ملک کی عورتوں میں بہت ہی نایاب ہے کیونکہ ان کو عادت نہیں اور یہ محنت اور بہادری سے آتا ہے.یہاں تو اگر کوئی ذرا بھی تکلیف پہنچ جائے تو یہ رونے لگ جاتی ہیں حالانکہ ملکوں کے ساتھ جنگ ہو تو رونا کیسا ؟ تحمل، برداشت اور صبر کی صحابیات میں بہت مشق تھی.ایک صحابیہ کا ذکر ہے کہ ان کا جنگ میں باپ، بیٹا ، خاوند شہید ہوئے تو کچھ پرواہ نہ کی اور بار بار رسول اللہ ﷺ کی خیریت دریافت فرماتیں اور پھر حضور کی زندگی کی خوشخبری سنکر کہا رسول اللہ ﷺ زندہ ہیں تو کچھ پرواہ نہیں.اسی طرح ایک صحابیہ بی بی نے جنگ میں دشمنوں میں گھرے ہونے پر خیموں کے ڈنڈے اکھاڑ کر اتنی جنگ کی کہ دشمن کا ناطقہ بند کر دیا اور ان کو بھگا دیا مگر ہمارے ملک کی عورتیں ہیں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر رونے لگ جاتی ہیں کہ الله میر امبر.یہ صبر کوئی صبر نہیں ہوتا.چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی نسبت آیا ہے آپ کہیں تشریف لے جارہے تھے

Page 286

279 ایک عورت بے تابی سے رورہی تھی.آپ نے دریافت فرمایا کیوں روتی ہے؟ عرض کیا گیا حضور اس کا بچہ فوت ہو گیا ہے.آپ نے اُس عورت کے پاس جا کر فرمایا صبر کرو.وہ جواب دیتی ہے کہ جس کے دل کو لگے وہی جانے.اے شخص (اسنے رسول کریم کو پہچان نہ تھا) تیرا بھی کوئی بچہ مرتا تو جانتا کتنا دکھ ہوتا ہے.آپ نے فرمایا میرے تو کئی بچے مر گئے ہیں.پیچھے جب اس کو کسی نے بتایا کہ آپ رسول کریم مانتے تھے تو وہ عورت دوڑی آئی کہ یارسول اللہ ہے میں نے آپ کو پہچانا نہ تھا اب صبر کرتی ہوں معاف فرما ئیں.آپ نے فرمایا اب کیا صبر ہے! اصبر تو پہلے کرنا تھا رو دھو کر صبر کرتا ہے فائدہ ہے.تو تم بھی اگر صحابیات کی طرح صبر کرنے کی مشق کرو گی تب کچھ ملکی معاملات اور حقوق کو استعمال کرنے کی قابلیت پیدا کرو گی.ورنہ جو آ دمی ذراذرا بات میں صبر اور تحمل برداشت کی عادت نہیں رکھتا وہ ملکی معاملات میں کیا ہمت دکھلا سکتا ہے.تمھا راد ماغ غم والم وغیرہ سے خالی ہو گا تب کچھ کام کر سکو گی ورنہ یوں ہی زبانی واویلا بے کار ہے.پھر جرآت ہے یا درکھو انسان سے جرآت سب کام کرواتی ہے.اگر دل میں جرات ہو تو انسان بہادری سے کام کر سکتا ہے ورنہ کچھ نہیں کر سکتا.اپنی وکی جرات جس طرح کام کروا سکتی ہے کسی دوسرے کی امداد سے وہ کام ہرگز نہیں ہوسکتا.ایک واقعہ کشمیریوں کا لکھا ہے کہ کشمیری قوم کے لوگ ایک فوج میں بھرتی ہوئے.جب جنگ ہونے لگی جرنیل نے حکم دیا کہ فلاں جگہ فوج کھڑی ہو تو ایک دو سپاری افسر کے پاس جا کر عرض کرنے لگے کہ حضور ہمارے ساتھ کوئی پہرہ دار ہونا چاہیئے جو ہماری حفاظت کرے.افسر نے سمجھ لیا کہ یہ بزدل ہیں چنانچہ آب کشمیریوں کو فوج میں بھرتی نہیں کیا جاتا.مگر ہمارے ایک بزرگ بادشاہ ہوئے ہیں انہوں نے چیونٹی سے سبق لیا کہ وہ کئی بار اُن کے سامنے دیوار سے گرمی اور پھر چڑھی.آخر پوری دیوار طے کر کے کامیاب ہوگئی تو اس سے بادشاہ نے سبق لیا اور کئی بار ہارنے پر آخر فاتح شہنشاہ بن گئے.یہ جرآت اور ہمت تھی.کہتے ہیں رستم ایک بار کسی پہلوان سے شکست کھا کر نیچے گر پڑا مگر اس کی بہادری اور ہمت کا رعب مشہور تھا.تو اُس نے سوچا کی آؤ ہمت کر کے چھوٹ جاؤں.چنانچہ جبکہ دشمن اس کی پیٹھ پر سوار تھا اور گردن وہائے بیٹا تھا اس نے جرآت کر کے اسے زور کی آواز سے ڈرایا کہ رستم آ گیا.رستم آ گیا تو دشمن بہ نام سنکر سہم گیا اور بھاگ گیا.اپنے نام کی آڑ لے کر رستم زندہ و سلامت رہ گیا.تو جرآت اور ہمت کے بغیر بھی

Page 287

280 انسان ناکام رہتا ہے.پھر انکسار اور تواضع ہے.ہمارے ملک میں تواضع بہت اچھا لفظ رائج ہے مگر اس کے معنے کم لوگ جانتے ہیں.اگر کوئی کسی کو اچھی طرح روٹی کھلا دے تو کہتے ہیں بھئی بڑی تواضع کی.یا کوئی حاکم تھانیدار کسی گاؤں میں چلا جائے تو اُس کی خاطر تواضع کرنا بولتے ہیں مگر اصل ترجمہ تواضع کا نہیں جانتے.ذکر ہے کہ ایک بادشاہ بذات خود بھیس بدل کر شہروں میں پھر ا کرتا.ایک دن کسی ایسے مقام پر جانکلا جہاں ایک جمعدار پہرہ پر کھڑا تھا اُس نے بادشاہ کو بھی جو بھیس بدلے ہوئے تھا معمولی آدمی سمجھ کر نخوت اور غرور سے گزرنے نہ دیا اور کہا تو جانتا نہیں میرا کیا عہدہ ہے؟ بادشاہ نے پوچھا حضور آپ کا کیا عہدہ ہے.کیا سپاہی ؟ کہا ذرا اوپر چڑھو.اُس نے کہا کیا جمعدار؟ کہاہوں.پھر سپاہی نے پوچھا تو کون ہے تھانیدار؟ بادشاہ نے بھی کہا ذرا اور اوپر بڑھو.پھر اس نے کہا اور اوپر بڑھو.سپاہی نے کہا ڈپٹی ؟ اس نے کہا ذرا اور اوپر بڑھو.اسی طرح سوال و جواب سے بادشاہ کے عہدہ تک پہنچا.آخر سپاہی نے شرمندہ ہو کر معافی طلب کی تو بعض لوگ تو اضع اور انکسار کرنا نہیں جانتے کسی کو ذرا دنیاوی قد رمل جائے پھر نخوت اور تکبر سے بھر جاتے ہیں.غرور سے پاؤں زمین پر رکھنا بھول جاتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ بڑے لوگ اگر انکسار کریں تو ان کی قدر افزائی ہوتی ہے اور عزت بڑھتی ہے.دیکھو زار روس کی تباہی قیصر جرمنی کی شکست محض غرور اور نخوت اور انکسار نہ کرنے کے سبب سے ہوئی مگر شاہ جارج پنجم کی بہت بڑی عزت ہے.رعیت کو اگر انکسار اور تواضع سے پیش آئیں تو ہزار گنا زیادہ عزت ہوتی ہے.شہنشاہ معظم کی رعایا اُن کے انکسار کے طرز عمل سے قدر کرتی ہے.بڑے لوگ اگر انکسار کریں تو لوگ اُن کو آنکھوں پر بٹھاتے ہیں.اُن کی دل و جان سے خدمت کرتے ہیں.قوم کا امیر اُن کا خادم ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عین اسلام پر عمل درآمد فرماتے ہوئے ایک فارسی شعر لکھا ہے.منہ کرسی ز بهر ما که ماموریم خدمت را یعنی میرے لئے کرسی مت رکھو کہ میں ایک غریب اور عاجز انسان ہوں.تو بہت سے فوائد انکسار کرنے اور عاجز بننے میں ہوتے ہیں.یہ ایک نفس کی اصلاح اور اپنی قدر کروانے کا طریقہ ہے.پھر ایک قابل قدر چیز قربانی ہے.اگر اپنے حقوق سے فائدہ لینا چاہتی ہو تو قربانیاں کر نفس کی

Page 288

281 قربانیاں، مال کی قربانیاں ، اپنی خواہشات کی قربانیاں ، دوسروں کی خدمت کرو ، خدمت کرنے والا آدمی بڑا ہوتا ہے دوسرے سب چھوٹے ہیں.دیکھو اگر یورپ کی کوئی بڑی شہزادی خدمت کرتی ہے، ہسپتالوں میں جا کر بیماروں ،معذوروں کو دیکھتی ہے، اُن کو کچھ دیتی ہے یا پوچھتی ہے تو کتنا بڑا رتبہ پاتی ہے.سوتم بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں سے ہو جو اپنے آپ کو خادم اسلام سمجھتے تھے.تم بھی ہر قسم کی قربانیاں کر کے خدمت خلق میں مصروف ہو جاؤ تا کہ دین و دنیا کی کامیابیاں حاصل کرو.آخر میں ضروری نصیحت کرتا ہوں کہ اتحاد کے لئے ایک نظام اور پابندی کی ضرورت ہے عورتوں میں نظام اور پابندی قوانین بالکل نہیں یہ بہت ضروری بات ہے کوشش سے اس پر عامل ہونا چاہیئے.دیکھو اسلام میں جب شراب کی حرمت کا حکم ہوا ہے فور اصحابہ کرام نے تعمیل کی.پھر ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ حضرت رسول کریم ﷺ نے بلند آواز سے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ تو سب لوگ جہاں بھی آپ کی آواز پہنچی بیٹھ گئے.کسی صحابی نے دوسرے کو ایک راستہ میں غیر مانوس کی جگہ پر بیٹھے دیکھ کر پوچھا.یہاں کیوں بیٹھے ہو تو اُس نے کہا میں نے رسول اللہ نے کی آواز سنی تو تعمیل ارشاد کے لئے نہیں بیٹھ گیا.مجھے یہ نہیں معلوم کہ کیا بات ہے نہیں نے صرف تعمیل ارشاد کی.سو تم بھی یہ ضروری اور نہایت ضروری بات سیکھو کہ نظام اور پابندی قوانین کے لئے ہر ایک حکم ماننا ضروری ہے.اس کے بعد میں عورتوں کو دو کام بتا تا ہوں چاہئے کہ کوشش کر کے سوچیں اور مجھے نتیجہ سے اطلاع دیں تا کہ پھر ہم اپنی ساری جماعت میں اس کو رائج کریں.اس میں اول تو یہ قعدہ اور پردہ کا سوال ہے.شرعی پردہ کے لئے نہ تو وہ پرانا بر قعہ کچھ مفید ہوا کیونکہ پردہ کے علاوہ عورت کو تازہ ہوا اور صحت کی بھی ضرورت ہے جو اس برقعہ میں نہیں اور نہ اس میں بچہ گود میں اٹھایا جاسکتا ہے.اگر آگے سے ہوا سے کھل جائے یا اُٹھانا پڑے تو صرف پچھلا حصہ ہی چھپ سکتا ہے سامنے کا سب لباس نظر آتا ہے.اور نئے فیشن کا برقعہ بھی بعض کو پسند نہیں شاید.اس لئے بھی کہ اس میں زینت اور خوبصورتی نمایاں پائی جاتی ہے اس لئے رڈی سمجھتے ہیں اور چادر سے بھی وقت ہوتی ہے.اس لئے میں سلسلہ کی قابل خواتین اور سلائی کی ماہر بہنوں سے خواہش رکھتا ہوں کہ وہ اپنے لئے کوئی

Page 289

282 ایسا برقعہ سوچیں کہ جو صحت اور شرعی پردہ کے لحاظ سے آرام دہ ہو پھر ہمیں بتا ئیں.میں تو سینا پرونا نہیں جانتا خواتین خود ہی بہتر طور سے جانتی ہیں.امید ہے کہ وہ سوچ کر ہمیں اطلاع دیں گی اور ہم اس پر غور کر کے پھر اسے رائج کردیں گے.دوسری بات زنانہ نمائش کی نسبت ہے جو صنعت و حرفت کے لحاظ سے ہو.ہر قسم کے نمونے کی اشیاء جو آپ کے شہروں میں بنتی ہوں وہ مرکز میں لانی چاہئیں.موجودہ نمائش تو بجائے اشیاء کی نمائش کے خود لجنہ کی زمائش ہو جاتی ہے.سو ہماری خواتین کو اس پر توجہ کرنی چاہیئے کہ ہر ایک چیز جو ان کے شہر میں عمدہ بنتی ہے اس کے بھیجنے کا انتظام کریں یا مجھے بتلائیں پھر میں اس کا انتظام کر کے لجنہ کو بتاؤں گا کہ نمائش کس کو کہتے ہیں.دو تین سال سے تو تجربہ کر کے دیکھا ہے یہ کچھ نہیں کر سکتیں.سو ہماری خواتین کو ضرور اس کی کوشش کرنی چاہیئے.یہ دو کام ان کے ذمہ ہیں.امید ہے کہ آئندہ سال اس پر عمل درآمد ہوگا.اخیر میں میں دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالے تم کو ان نیک کاموں کے کرنے کی توفیق عطا فرمائے.حقیقی علم حاصل کرو! از مصباح ۱۵ جنوری ۱۹۳۳) تقریر حضرت خلیفہ اسیح الثانی بر موقع جلسہ سالانہ خواتین ۱۹۳) تشہد اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.سیدہ فضیلت بیگم صاحبہ کی آواز چونکہ بلند ہے اس لئے وہ سٹیج کے چاروں طرف کہدیں کہ چونکہ میں ابھی کل ہی انفلوئنزا کے باعث بستر سے اٹھا ہوں اس لئے بلند آواز سے نہیں بول سکوں گا اگر وہ خاموشی سے سُن لیں تو بہتر ہے.جن کو آواز نہ پہنچے وہ بھی اگر خاموشی سے سنیں گی اور تقریر کے دوران خاموش رہیں گی تو کم از کم ثواب ہی حاصل کریں گی.اس پر سیدہ فضیلت بیگم صاحبہ نے سٹیج کے چاروں طرف حضور کا پیغام پہنچا دیا ) اس کے بعد حضور نے فرمایا:.ہر زمانہ میں جو گزرا ہے مرد ہو یا عورت یہ خیال کرتے رہے کہ اپنے آپ کو بلند مرتبہ یا بڑائی کے اظہار کے لئے خوبصورت بنائے رکھیں اور نہیں تو اپنے جسم کو ہی سرمہ سے گود دیں یا عمارتیں ایسی بلند بنائیں کہ

Page 290

283 خوبصورتی اور تفاخر کا اظہار ہو اور اُس کو فخر یا بلندی مرتبہ کا معیار رکھا.چنانچہ دہلی ، بغداد اور قرطبہ وغیرہ میں ایسی عمارتیں بکثرت تھیں اور ہیں.بعض گانا بجانا ہی خوبی سمجھتے تھے.بعض ممالک میں لباس اعلیٰ اور خوبصورت پسند کیا جاتا تھا.چنانچہ بعض لوگ شلواریں ۴۰.۵۰ گز کی پہنتے تھے ایک زمانہ ہندوستان پر بھی ایسا آیا کہ لباس تفاخرانہ پہنتے اور موجودہ شلواروں یا پاجاموں کو بُرا جانتے تھے مگر رفتہ رفتہ فیشن اور کا اور ہو گیا.غرض ہر زمانہ میں کوئی نہ کوئی بڑائی اور نئی ایجاد کا طریقہ اکتا رہا.چنانچہ آج کل ہمارے ملک میں بھی اعلی تعلیم پانے کا فیشن ہے اور ڈگریاں حاصل کرنیکا بھی نہیں نہیں سمجھتا کہ سکندر یا تیمور کو ملک فتح کرنے کا اتنا شوق ہو گا جتنا کہ آج کل کے ماں باپ لڑکیوں کو اعلیٰ ڈگریاں دلانے کے شائق ہیں.یہ ایک فیشن ہو گیا ہے جو انگریزوں کی ریس اور تقلید میں ہے اور اس فیشن کی رو جنون کی حد تک پہنچ چکی ہے اور ہمارے ملک میں دوسرے ممالک کی ریس سے لڑکیوں کو ڈگریاں حاصل کرنے کی ترقی ہو رہی ہے اور یہ بھی ایک جنون ہے.پہلے جنون تھا جہالت کا اور اب جنون ہے موجودہ طریق تعلیم کا.حالانکہ یہ بھی ایک جہالت دوسرے ممالک والے انگریزوں کو دیوانہ علم قرار دیتے ہیں مگر وہ غلط سمجھتے ہیں.انگریز قوم علم جہالت کے لئے نہیں سیکھتی بلکہ وہ ضرورت کے ماتحت مفید علم سیکھتی ہے اور اپنے ملک و ملت کے لئے مفید اور فیض رساں ہوتی ہے.اگر چہ ہمارے ملک کو انگریزی تعلیم حاصل کرنے کی ریس تو پیدا ہورہی ہے مگر نقصان کرنے کے لئے.ابھی چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے سنایا کہ ایک شخص نے یورپ میں اپنے لڑکے کو اصلے تعلیم پانے کے لئے کالج میں بھیجا مگر کہا کہ خود ملا کر اور خرچ مہیا کر کے ڈگری لو ہمارے پاس تمہیں دینے کو روپے نہیں ہیں.تو یہ ایک مفید بات ہوئی مال ضائع نہیں کیا گیا بلکہ بچے کو اپنی قوت بازو پر انحصار رکھنے کی تلقین کی گئی..آج کل عورتوں میں ڈگریاں پانے کا جنون پیدا ہو رہا ہے.وہ بجھتی ہیں کہ ہم مہذب نہیں کہلا سکتیں جب تک کہ کوئی علمی ڈگری ہمارے پاس نہ ہو.مگر یہ اُن کی جہالت کا ثبوت ہے.میں نے ارادہ کر لیا ہے کہ اپنی جماعت کی عورتوں کو جہاں تعلیم کرنے کی ترغیب دوں وہاں یہ بھی بتاؤں کہ کتنی تعلیم اور کیسی تعلیم حاصل کرنی چاہیئے.

Page 291

284 ہر ایک انسان کو خدا تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی نعمت دی ہے.بعض کی آواز اچھی ہوتی ہے اور بعض کی تحریر.بے شک تحریر بھی اچھی چیز ہے اس کے ذریعہ سے انسان ہزاروں میل پر اثر پیدا کر سکتا ہے اور اظہار مدعا کا یہ بہترین طریق ہے.پھر عورتوں کے لئے میں ایک آسان مثال دیتا ہوں.پہلے سوئی استعمال ہوتی تھی لیکن آب سلائی مشین سے فائدہ اُٹھایا جاتا ہے.پس علم کے معنے ہیں اپنی طاقتوں کو وسیع کرنا اور ضرورت کے مطابق اپنی زندگی کے آرام و آسائش کی چیزیں مہیا کر لینا.اور اچھی چیزوں سے فائدہ اٹھانا اور اسے اپنی قوم اور مذہب کے لئے مفید بنانا.علم دو قسم کا ہے.علم الادیان جس سے دین کو فائدہ پہنچتا ہے اور علم الا بدان جس سے جسم کو فائدہ پہنچتا ہے.ان دونوں چیزوں کا نام علم ہے اور کسی دوسری شئے کا نہیں.مثلاً ایک عورت ہے جو اپنی عمر کو ریاضی کے مسئلے سیکھنے میں گزار دے اور بچوں کی تربیت اور خانہ داری کے فرائض کو چھوڑ دے تو اُسے عقلمند یا علم سیکھنے والی کون کہے گا.مرد تو ایسا علم سیکھنے کے لئے مجبور ہے کیونکہ اسنے روزی پیدا کرنی ہے مگر عورت کو ریاضی کے سوال حل کرنے کی کیا ضرورت ہے یہ علم نہیں یہ جہالت ہے.عورتوں کا کام ہے گھر کا انتظام اور بچوں کی پرورش ہنگر لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ دوسرے کی چیز کو اچھی جانتے ہیں اور اپنی شئے پسند نہیں کرتے اس لئے یورپ کی عورتوں کی ریس کر کے ہماری مسلمان قوم اپنی لڑکیوں کو ڈگریاں دلانا چاہتی ہے حالانکہ عورت گھر کی سلطنت کی ایک مالکہ ہے اور ایک فوجی محکمہ کی گویا آفیسر ہے کیونکہ اسنے پر ورش اولا د کرنی ہے.عورتیں جھتی ہیں کہ مردوں کے کام شاید زیادہ سہولت اور عزت کے ہیں اور کالجوں میں پڑھنا اور ڈگری پا نا کوئی آسان امر ہے اور یہ اعزاز کا موجب ہے.لیکن اگر عورتوں نے مردوں کا کام لے لیا اور مردوں نے عورتوں کا تو یہ ایک ذلّت ہوگی.کوئی زمانہ تھا کہ لکھنو میں شاعر بھی زنانہ پن سے شعر کہنے لگے اور عورتوں کی زبان اختیار کی مگر دیکھو اودھ کے بادشاہ جب نسوانی با تیں سیکھنے لگے تو سلطنت کھودی.ہندوستان کے مسلمانوں کے بچے اس لئے خراب ہیں کہ مائیں نالائق ہیں ان کو تربیت نہیں آتی.میں ولایت گیا تو جہاز پر ایک انگریزی طرز رہائش کا ہندوستانی تعلیم یافتہ دیکھا جو بالکل یورپ کا تمدن رکھتا تھا حتی کہ اپنی ہندوستانی زبان کا ایک لفظ بھی اُسے نہ آتا تھا.تو یہ ہے ڈگریاں پانے کا نتیجہ.گویا وہ ہندوستان سے ایک

Page 292

285 طرح بالکل الگ ہو گیا.تو ہمارے ملک میں اگر کسی کو کھانے پینے کومل جائے تو سمجھتا ہے کہ میں دوسروں سے الگ ہوں.انگریزوں کے ملک میں یہ دستور نہیں کیونکہ وہ لوگ علم سے فائدہ اٹھاتے ہیں نہ کہ بجائے قوم کو فائدہ پہنچانے کے الگ رہ کر نقصان پہنچاتے ہیں.دیکھو ہماری سٹیج پر ہی یہ بات ہوئی ہے کہ لوگوں کو یہ نظر ہو گیا ہے کہ وہ بیج کی بیوی یا بیرسٹر کی ماں یا ڈ پٹی کی بیوی ہیں اس لئے انہیں اونچی جگہ ملنی چاہیئے حالانکہ اُن کو یہ خیال رکھنا چاہئے تھا کہ فلاں بہن چونکہ پریذیڈنٹ ہے یا سیکرٹری ہے یا قومی کار گن ہے اس لئے ان کا یہاں ہونا ضروری ہے.دنیا میں عزت پیسوں سے نہیں ہوا کرتی.روپے ملنے سے آدمی بڑا نہیں بن جایا کرتا اور کوئی آدمی نہ تو الی بھر کدار لباس پہننے سے یا بیش قیمت زیورات پہن لینے سے قدر پاتا ہے بلکہ نیچی تعلیم انسان کے اندر وقار پیدا کرتی ہے.قابل عزت وہی ہوتا ہے جو تعلیم یافتہ ہو.گری ہوئی قوموں میں اچھے کپڑوں کا بےشک لحاظ کیا جاتا ہے مگر اصل نیک لوگوں میں ایسا نہیں ہوتا.حضرت شیخ سعدی کا قصہ آتا ہے کہ ایک امیرانہ دعوت میں اُن کی عزت نہ ہوئی کیونکہ وہ سادہ لباس پہنا کرتے تھے.دوسرے دن جبکہ وہ اعلیٰ لباس پہن کر گئے تو عزت کی اُونچی جگہ دی گئی اور آپ نے اپنے کپڑوں کو کھلانا شروع کیا.جب لوگوں نے استفسار کیا تو فرمایا کہ میری نہیں بلکہ میرے لباس کی عزت کی گئی ہے.ہندوستان میں یہ جو بڑے بڑے بیج اور گورنر ہیں ان کو اپنے بڑے لوگوں میں کوئی پوچھتا بھی نہیں.ایک فنانشنل کمشنر تھا اسنے تصویر کھنچوانے کے وقت حافظ روشن علی صاحب مرحوم کے پیچھے کھڑا ہونے کی اجازت حاصل کی حالانکہ وہ ہمارے ہندوستان میں جب حاکم تھا بہت جابر اورا علے عزت کا مالک تھا کیونکہ تنخواہ زیادہ تھی اور لوگ زیادہ پیسوں والے کی عزت کرتے ہیں مگر یہ غلط ہے دولت سے عزت حاصل نہیں ہوتی.خیر ہماری جماعت میں تو ابھی یہ دنیوی عزت آئی ہی نہیں.عزت ابھی کہاں.یادر کو حقیقی عزت روحانیت سے نیکی تقویٰ اور طہارت سے پیدا ہوتی ہے.ترقی کرنے کا زریعہ ہی نیک عملی ہے.عزت خدمت سے حاصل ہوتی ہے.دینی تعلیم حاصل کرنی چاہیئے جس سے قوم اور ملت کو فائدہ ہو.تم میں سے کتنی ہیں جو خدمت دین اور تبلیغ اسلام کرتی ہیں.ئیس خدا اور رسول کی باتیں سنو ، حضرت صاحب کی کتابیں پڑھو، ناولوں اور رسالوں کے پڑھنے کی فرصت مل جاتی ہے لیکن دینی کتابوں کے لئے وقت نہیں ملتا؟ کتنی شرم کی بات ہے کہ اب انگریز تو مسلمان

Page 293

286 ہو کر اُردو سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضرت صاحب کی کتابیں پڑھیں مگر ہماری عورتیں اُردو نہیں سیکھتیں.اور اگر کچھ شدید پڑھ لیتی ہیں تو ناول پڑھنے شروع کر دیتی ہیں.علم دین سیکھو، قرآن پڑھو، حدیث پڑھو، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں میں علم و حکمت کی باتیں لکھی ہیں ان سے مفید علم سیکھو، لی.ائے ایم.اے کی ڈگریاں لینی دین کے لئے مفید نہیں ہیں.پچھلے سال ایک لڑکی جو بی.اے میں تعلیم پاتی تھی اُسے کہا گیا کہ اپنی ہمجولیوں میں تبلیغ احمدیت کیا کرو اُس نے جواب دیا کہ میں آپس میں تفرقہ ڈالنا پسند نہیں کرتی مگر وہ عالم نہیں جاہل تھی.آپ کیا فائدہ دیا اُسے ایسے علم نے ؟ اگر بعض باتیں سیکھنے کا نام علم ہے تو کیا بعض باتیں لوہاروں اور تر کھانوں کو نہیں آئیں ؟ علم کے معنے ہیں اپنے مطلب کی چیزوں کو حاصل کرنا.ضرورت پوری کرنے والی شئے کا نام علم ہے.ایک بی.اے کو فوج میں بھرتی نہ کیا گیا اس لئے کہ وہ فوجی کرتبوں سے ناواقف تھا اور وہ فوجی لوگوں کا علم نہیں جانتا تھا.ایک طبیب اگر موسیقی جانتا ہے تو اسے لائق کون کہے گا.پس ہمیں دیکھنا چاہیئے کہ ہمیں کن علوم کی ضرورت ہے ہمیں علم دین کی ضرورت ہے.کوئی لڑکی اگر ایم.اے پاس کر لے اور اس کو تربیت اولا د یا خانہ داری نہ آئے تو وہ عالم نہیں جاہل ہے.ماں کا پہلا فرض بچوں کی تربیت ہے اور پھر خانہ داری ہے.جو حدیث پڑھے ، قرآن کریم پڑھے وہ ایک دیندار اور مسلمان خاتون ہے.اگر کوئی عورت عام کتابوں کے پڑھنے میں ترقی حاصل کرے تا کہ وہ مدرس بن سکے یا ڈاکٹری کی تعلیم سیکھے تو یہ مفید ہے کیونکہ اس کی ہمیں ضرورت ہے لیکن باقی سب علم لغو ہیں.میں کہتا ہوں بی.اے، ایم.اے ہو کر کرو گی کیا؟ میں اپنی جماعت کی عورتوں کو کہتا ہوں کہ دین سیکھو اور روحانی علم حاصل کرو.حضرت رابعہ بصریہ یا عائشہ صدیقہ کے پاس ڈگریاں نہیں تمھیں دیکھو حضرت عائشہ نے علم دین سیکھا اور وہ نصف دین کی مالک ہیں.مسئلہ نبوت میں جب ہمیں ایک حدیث کی ضرورت ہوئی تو ہم کہتے ہیں کہ جاؤ عائشہ سے سیکھو.شیر محمد ایک یکہ بان ان پڑھ جاہل تھا مگر تبلیغ کرنے کا اُسے سلیقہ آتا تھا.جب یکہ چلانے بیٹھتا تو ایک کتاب حضرت صاحب کی ہاتھ میں لے لیتا اور کسی پاس بیٹھے ہوئے کو کہتا کہ مجھے سناؤ.اس طرح سے وہ تبلیغ کرتا تھا.غرض جاہل ، ان پڑھ اگر مطلب کی مفید باتیں جانتا ہے تو وہ عالم ہے جاہل نہیں ہے.حضرت

Page 294

287 صاحب فرماتے تھے کہ خدمت دین میں ترقی علم کا راز ہے.امیر انسان تکبر سے نہیں ہوتا.نہ روپے سے بلکہ سچے علم.اب میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تم سب کو سچا علم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور تم حقیقی علم حاصل کرو.(از مصباح ۱۵- جنوری ۱۹۳۴ء) تقریر جلسه سالانه ۱۹۳۷ء خواتین جماعت احمدیہ حضور نے تشہد اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.ہمارے ملک بلکہ تمام ملکوں میں یہ بات پھیل گئی ہے کہ عورتیں جو ہیں وہ طبیعی طور پر اور فطری طور پر کوئی بڑا کام کرنے کی اہل نہیں تو عورتوں کو چاہیئے تھا کہ وہ بڑے کام کر کے اُن کے اس خیال کو غلط ثابت کرتیں لیکن برخلاف اس کے وہ بھی اس پر قانع ہو گئیں.کیا واقعی وہ کسی بڑے کام کی اہل نہیں ؟ اور کیا اس کی بڑی الله بھاری وجہ یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے حدیث شریف میں فرمایا ہے کہ دوزخ میں میں نے بہت سی عورتیں دیکھیں بوجہ احسان فراموش ہونے اور بہیجہ ناقص اعتقل اور بوجہ ناقص الدین ہونے کے ؟ حضور کا یہ فرمانا تو عورتوں کو اُن کے نفس سے آگاہ کرنے کے لئے تھا کہ دیکھو تمہارے یہ نقص تم کو دوزخ میں لے جانے کے محرک ہیں.احسان کی قدر نہ کرنا یہ فطرت نہیں ہو سکتی بلکہ یہ عادت ہے دیکھو اگر ایک چور چوری کرتا ہے تو چوری اس کی فطرت نہیں بلکہ عادت ہے، اگر عورتوں کی عادت احسان فراموشی کرنا ہے تو یہ عادت جو ہے وہ بدلی جاسکتی ہے لیکن اس وقت کے جاہل علماء نے عورتوں کو بجائے یہ بتانے کے کہ تم میں یہ عادات خراب ہیں ان کو چھوڑ دوان کو یہ بتلایا کہ تمہاری فطرت ہی ایسی ہے کہ تم اس کو چھوڑ ہی نہیں سکتیں اور عورتوں نے بھی کہہ دیا کہ اچھا ایسا ہی سہی.پس جب طبعیت کسی بیماری کا علاج نہ کرے اور مریض تسلی پا جائے تو پھر نتیجہ ہلاکت ہی ہے.لیکن رسول کریم ﷺ نے یہ فرما کر کہ عورتیں بوجہ اسکے دوزخ میں جائیں گی کہ وہ احسان فراموش ہیں، ناقص ہیں دین میں اور ناقص ہیں عقل میں ، اُن کو غیرت دلائی کہ تم ان عادتوں کو چھوڑ دو تو جنت میں داخل ہو جاؤ گی جیسا کہ رسول کریم ﷺ کی دایہ آپ کے پاس آئیں تو آپ نے خوش طبعی کے طور پر کہا کہ بوڑھا تو جنت میں داخل ہوہی نہیں سکتا.وہ بہت پریشان ہو ئیں تو آپ نے فرمایا کہ جنت میں سب جوان ہو

Page 295

288 کر داخل ہوں گے.تو مطلب آپ کا عورتوں کو کہنے کا یہی تھا کہ تم احسان فرموشی چھوڑ دو اور اپنی عقلوں کو بڑھاؤ.اکثر بچوں کو دیکھا ہے کہ پہلے عقل کم ہوتی ہے لیکن عمر کے ساتھ ساتھ عقل درست ہو جاتی ہے.تو اب اگر عورتوں کو بھی ایسا کہا کہ تم عقل میں یادین میں ناقص ہو تو کیا وہ معقل یا دین چھوڑ کر بیٹھ جائیں.نہیں ہرگز نہیں.کیونکہ تم ناقص ہو دین میں اس کا مطلب یہ نہ تھا کہ تم دین چھوڑ کر بیٹھ جاؤ بلکہ یہ تھا کہ تم دین سیکھو.ہم دیکھتے ہیں بچے سکولوں میں جاتے ہیں اور شروع میں کچھ نہیں جانتے لیکن آخر سیکھ کر جانتے ہیں.تو کیا شروع میں پڑھنا نہ آئے تو پڑھنا ہی چھوڑ دیا جائے ؟ یہ تو نصیحت تھی کہ احسان فراموشی چھوڑ دو.دیکھو رسول کریم ﷺ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ آپ سے پہلے عورتوں کو جانورں کی طرح سمجھا جاتا تھا اور طرح طرح کے ناقص نام رکھے جاتے تھے اور اب بھی اکثر قو میں اُن میں روح ہی نہیں مانتیں.تو رسول کریم ﷺ نے کس قدر احسان کیا ہے یہ فرما کر کہ عورت اور مرد انسانیت میں برابر ہیں.ہم دیکھتے ہیں ایسا ہو سکتا ہے کہ عورت دیندار ہوتی ہے اور مرددین میں کمزور ، عورت عقلمند ہوتی ہے اور مرد عقل میں کمزور، یہ کتنا بڑا رسول کریم ہے نے عورتوں پر احسان کیا تو عورتوں کا فرض تھا کہ اس احسان کے شکریہ میں اشاعت اسلام کرتیں لیکن یہ سب قصور علماء زمانہ کا ہے.انہو یا نے عورتوں کو یہ بتلایا کہ تمہاری عقل اور ذہن کمزور ہے تم کچھ کر ہی نہیں سکتیں.حالانکہ رسول کریم میں نے نے عورتوں کو غیرت دلائی تھی تم کہاں بغیر امر صالح کے جنت میں داخل ہو سکتی ہو عقل نہیں سیکھتی ہو ، دین کے کام نہیں کرتی ہو عقل کام سے آتی ہے اور کام سیکھنے سے آتے ہیں.لیکن اس کا النا مفہوم سمجھانے کا قصور مولویوں کا ہے.آج میں نے تمہیں حدیث کی حقیقت سمجھا دی ہے تا کہ تم اچھی طرح سمجھ لو کہ اس کا مطلب یہ تھا.اب اس نصیحت کے بعد جو تمہید ہے میرے مضمون کی یہ اختلا نا چاہتا ہوں کہ اسلام کی خدمت کا یہ نادر موقع ہے کیونکہ اسلام کا آدھا دھڑ مولویوں نے مار دیا تھا کہ عورتیں ناقص العقل ہیں وہ کچھ کر ہی نہیں سکتیں اور اسلام کے متعلق ایسی ایسی باتیں مسلمانوں میں پیدا کی تھیں کہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہو گیا کہ تمام انبیاء مسن شیطان سے مبر انہیں.الغرض سارے انبیاء پر کچھ نہ کچھ عیب لگائے ہوئے تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آکر اسلام کی اصل تصویر پیش کی.علماء نے لوگوں میں یہ پھیلایا ہوا تھا کہ قرآن کریم کی بہت کو ایسی باتیں ہیں جو ماننے کے قابل نہیں.اگر وہ سب میں تم کو بتاؤں تو تم حیران ہو جاؤ.یادرکھو اسلام و ؟

Page 296

289 ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش کیا ہے حقیقی اسلام ہے تو وہ احمدیت ہی ہے.پس اگر اس وقت احمدیت خطرے میں ہے تو اسلام خطرے میں ہے.اب جو اسلام مولوی پیش کرتے ہیں وہ ہرگز ماننے کے قابل نہیں.غیر مسلموں کے سامنے یہ اسلام کی تعلیم بُرے رنگ میں پیش کرتے ہیں.مثلاً اگر کوئی غیر مسلم مسافرا کیلامل جائے تو اُس کا مال چھین لو ، اگر کسی کافر کی بیوی مل جائے تو بغیر نکاح کے جائز ، تو ایسے اسلام کو کون مانے گا.پھر علماء کہتے ہیں کہ جہاد کا مسئلہ اصل اسلام ہے ، ہندو، عیسائی سکھ جو بھی ہو اُس کا قتل جائز ،اُس کا مال لے لینا جائز ، حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میں ایک دفعہ امرتسر گیا اور ایک آدمی کو چار آنے دئے کہ کچھ مٹھائی خرید لاؤ.جب وہ چیز لے کر واپس آیا تو پیسے بھی اُس کے ہاتھ میں تھے.میں نے پوچھا تم چیز بھی لائے ہو اور پیسے بھی واپس لائے ہو.کہنے لگا کہ یہ مال غنیمت کا ہے میں نے دکان دار کو کہا کہ اندر سے دوسری چیز مجھے لا کر دکھاؤ وہ اندر سے چیز لینے گیا تو میں نے اٹھنی اُس کی اُٹھالی.میں نے کہا تم نے یہ چوری کی ہے.کہنے لگا وہ تو ہندو تھا مسلمان نہ تھا.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ احسان ہے کہ اسلام کی صحیح تعلیم پیش کی ہے.اگر کوئی اسلام کی یہ تعلیم پیش کرے کہ ہندو ہو، سکھ ہو، عیسائی ہو، ان کو مارڈان کی چوری کرو تو کیا کوئی ایسے اسلام کو مانے گا؟ ہرگز کوئی ماننے کو تیار نہ ہو گا.اس بناء پر وہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاد کو منسوخ کر دیا ہے اور آج کل مولویوں نے جگہ جگہ جتھے بنائے ہیں اور کہتے ہیں چونکہ اسلام جہاد کا حکم دیتا ہے اور یہ اس کے برخلاف ہیں اس لئے ان کو اور ان کی جماعت کو تباہ کر دو کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کی تلوار توڑ دی.وہ جماعت احمدیہ کی تباہی و ایذارسانی کے کیوں درپے ہیں؟ اسی لئے کہ حضرت صاحب نے ظلم اور بے ایمانی دُور کی.حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کو کابل والوں نے اسی لئے مروایا تھا کہ وہ کہتے تھے انگریزوں کو نہ مارو.اسی طرح ایک اور احمدی تھا جوا کیلا تھا ، اُس کا باپ اور رشتہ دار غیر احمدی تھے ، اُس کو کھانا کھلانے سے پہلے اس طرح مارا جاتا تھا جیسے کھانے کے ساتھ سالن لیا جاتا ہے اور ہر روز اُسے اسی طرح مارا جاتا تھا.ایک دفعہ اُس کے بھائی اُس کو مار رہے تھے کہ اُس کا باپ آ گیا اور وہ چلایا کہ میں مر گیا تو اس کے باپ کو کچھ رحم آ گیا اور کہا کہ اس کو چھوڑ دو.دو سال برابر اس کی یہی حالت رہی صرف اس پر غصہ یہی تھا کہ وہ احمدی ہو گیا ہے.اسی طرح نارووال کا ایک شخص جو تجارت کیا کرتا تھا اس کو بڑی تکلیفیں پہنچائی گئیں.کابل کی حالت تم سن چکی ہو جو جو حالات وہاں

Page 297

290 پیش آتے رہے ہیں.پھر لاہور اور بعض جماعتوں کے احمدی تبلیغ کے لئے گئے تو کئی سو آدمی اُن کے پیچھے پڑے.مٹتے اُن کے پیچھے ڈالے گئے.بعض عورتیں جو احمد ی ہو گئیں یا غلطی سے غیر احمدیوں کے ہاں بیاہی گئیں اُن کے میرے پاس اکثر خطوط آتے ہیں.اُن کو گالیاں دی جاتی ہیں اور طرح طرح کی تکلیفیں پہنچاتے ہیں.اکثر غیر احمدی جو دفتروں میں افسر ہیں وہ احمدیوں کو تکلیفیں دیتے ہیں اور اُن کو چھٹیاں نہیں دیتے کہ وہ جلسہ سالانہ میں شمولیت کر سکیں.یا برخاست کرا دیتے ہیں.پھر تعلیم یافتہ جو دفتروں میں ملازمت کے لئے جاتے ہیں اُن کی ملازمت میں طرح طرح کی روک ڈالتے ہیں محض اس لئے کہ ملازمت چاہنے والے احمدی ہیں.پھر کئی احمدی ایسے ہیں جن کی بیوی بچوں نے اُن کا بائیکاٹ کر دیا اور سالہا سال کے بعد بیوی احمدی ہوئی اور وہ کئی سال تکلیفیں اٹھاتے رہے.پھر گورنمنٹ کے پاس جا کر اطلاع دی جاتی ہے کہ یہ گورنمنٹ کے بر خلاف ہیں.ادھر ہمیں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ گورنمنٹ کے جاسوس ہیں اور گورنمنٹ کو یہ کہہ کر ہمارے برخلاف کرتے ہیں اور اُدھر پبلک کو اُکساتے ہیں کہ ان پر حملہ کر دو، ان کے اسباب توڑ دو.مسجدوں میں کہا جاتا ہے کہ احمدی سور ہیں ان کو مسجدوں میں نہ آنے دو.نکاحوں کے فسخ کرنے کی تجویز ہیں پاس کرتے ہیں.غرض اس وقت ہماری حالت ایسی ہی ہے جیسے کہ رسول کریم اللہ کے زمانہ میں مسلمانوں کی تھی.باوجود زمین وسیع ہونے کے ہم پر تنگ ہے.ابھی حال میں قادیان میں جلسے ہوئے اور ہمیں گالیاں دی گئیں اور گورنمنٹ کے بعض افسروں نے بھی اُن کا ساتھ دیا.ادھر گورنمنٹ کو بر خلاف کیا جاتا ہے، ادھر لوگوں کو بر کا یا جارہا ہے.بہر حال ہمارے دشمن یا درکھیں وہ ناکام رہیں گے.بے شک بیوی بچے اور خاوند کو چھوڑ دے اور خاوند بچوں اور بیوی کو چھوڑ دے لیکن احمدیت نہیں چھوڑی جاسکتی.ابھی حال ہی کا واقعہ ہے ایک بچہ آیا اُس کے ماں باپ نے اُس پر بڑی سختیاں کیں ، اُس کے کپڑے تک اُتار لئے ، ہماری جماعت اس کو کپڑے پہنا کر لائی ہے.سو جو آنے والے ہیں آئیں گے خواہ کچھ بھی ہو.جسے خدا نے لانا تھا وہ کپڑے تک اُتر وا آیا اور آ گیا.جسے خدا لاتا ہے کون ہے جو اُس کو روک سکتا ہے؟ ایمان کو کوئی تلوار سے کاٹ کر پتھروں سے مار کر ہٹا نہیں سکتا.کابل کے حالات، صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کے حالات اور نعمت اللہ خان شہید کے حالات سب جانتے ہیں کہ اُن کو بازاروں میں پھر اتے تھے.بعض کو نکیل ڈال کر کہا کہ تم احمدیت چھوڑ دو لیکن وہ احمدیت سے نہ پھرے.صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کو جب میدان میں لایا گیا تو

Page 298

291 بادشاہ نے کہا اب بھی احمدیت کو چھوڑ دو.علماء پتھر مارتے تھے.آپ کے مرید ہتھکڑیاں دیکھ کر روتے تو آپ فرماتے یہ سونے کے کنگن ہیں.ایک ہندوستان کا تاجر جو اُس وقت وہاں موجود تھا اور وہ اب احمدی ہے وہ کہتا ہے کہ میں نے بھی کئی پتھر مارے تھے.خون بہہ رہا تھا اور آپ یہ کہتے جاتے تھے کہ میری قوم نادانی سے یہ کر رہی ہے.لوگ شکاری کتوں کی طرح لپک رہے ہیں، ہڈیاں پتھروں سے چور ہورہی ہیں لیکن آپ ہاتھ اُٹھائے دعا کرتے ہیں.یہ تھا ایمان ایک احمدی کا....تو ایمان کسی کے مٹانے سے مٹ نہیں سکتا.غرض کوئی بھی ایمان کو مٹا نہیں سکتا.حکومتیں ہوں، رعایا ہوں امیر ہو یا علماء ہوں وہ ہمارے جسم اور جان کو مار سکتے ہیں لیکن ایمان کو خراب نہیں کر سکتے.تو ہمارا فرض ہے مردوں ہی کا نہیں بلکہ عورتوں کا بھی ویسا ہی فرض ہے کہ سلسلہ کے لئے قربانیوں کے لئے تیار رہیں ایک نہیں بلکہ سینکڑوں مثالیں ایسی ہیں جنہوں نے سلسلہ کے لئے بڑی بڑی تکلیفیں اٹھا ئیں جب تک کہ خدا نے انہیں موت نہیں دی.اس لئے تمہارا فرض ہے کہ مردوں کے دوش بدوش رہو.اگر تمہیں دین سے محبت ہے تو ان فتنوں کے زمانے میں میں نے جو سکیم مقرر کی ہے اُس کی پابند رہو.دیکھو ماں ساری رات بچے کے لئے جاگتی ہے تو کیا وہ کسی پر احسان کرتی ہے؟ تو اگر دین کی محبت ہے تو اس کے لئے ہر ایک قسم کی تکلیف برداشت کرو.میں سب راز تو آپ کو بتلا نہیں سکتا کیونکہ جرنیل کا کام نہیں کہ ہر ایک راز سپاہیوں کو بتلا دے.میں نے ساڑھے ستائیس ہزار روپے کی اپیل کی تھی لیکن ہم صرف روپے سے مقابلہ نہیں کر سکتے.دشمنوں کے پاس ایسے کئی آدمی ہیں جو بڑے معمول ہیں وہ یکمشت ساٹھ ہزار روپے دے سکتے ہیں.بمبئی میں کئی سوداگر ہیں جو دس دس بیس بیس لاکھ کے مالک ہوں گے.تو اگر ہم ایک کروڑ روپیہ بھی جمع کر لیں تو تب بھی مقابلہ نہیں کر سکتے.دین کی خاطر قربانی سادہ زندگی اصل کام ہر احمدی مرد اور احمدی عورت کا قربانی ہے تو ہر ایک عورت مرد سادہ زندگی بسر کرے کیونکہ ہم کو نہیں معلوم ہمیں کیا کیا قربانیاں کرنی پڑیں گی.دیکھو اگر یہ ہی عادت ڈالیں کہ جو ہوا وہ خرچ کر دیا، حالانکہ قرآن مجید میں صاف حکم ہے کہ اپنے مال میں نہ نکل کرو نہ اسراف تو نتیجہ یہ ہوگا کہ جب دین کے لئے ضرورت ہوگی تو کچھ بھی دینے کے لئے نہ ہوگا.پس میں یہ کہتا ہوں کہ سادہ زندگی بسر کرو اور محنت کی عادت ڈالو.اچھے کھانے کھانے والے یا جن کے گھر سامانوں سے بھرے پڑے ہوں وہ کس طرح ہجرت کریں

Page 299

292 صلى الله گے ( اگر ہجرت کی ضرورت پڑ جائے یا کسی کو دین کی خدمت کے لئے کسی دوسرے علاقے میں بُو دو باش رکھنی پڑے ) رسول کریم کے کے زمانہ میں ایک دفعہ جانا پڑا اور میں ہزار مسلمان گئے تین مسلمان نہ گئے.جو مسلمان نہ گئے وہ بہت مالدار تھے.اُن کو یہ خیال تھا کہ ہمارے پاس بار برداری وغیرہ سب کچھ ہے ہم پیچھے جا شامل ہوں گے اور وہ اسی سال کے گھمنڈ میں نہ گئے.حضور علیہ السلام کی عادت تھی کہ آپ ٹھہر تے ہوئے جایا کرتے تھے.اس دفعہ آپ نے شہر کے قریب ڈیرہ نہ لگایا اور چلے گئے اور جب وہ اپنے گھروں سے پیچھے نکلے اور آپ کو نہ پایا.راستہ میں خطرہ تھا آخر واپس آنا پڑا.اللہ تعالے کو اُن کا فعل پسند نہ آیا اور پہچاس دن کی سزا ان کے لئے مقرر کی کہ کوئی اُن سے کلام نہ کرے.نوکر چاکر اور بیوی بچے اور کسی مسلمان کو اجازت نہ تھی کہ اُن سے کلام کرے.ایک مرد نے تو خود اپنی بیوی کو اس کی ماں کے گھر بھیج دیا کہ ایسانہ ہوئیں بھول جاؤں اور اس سے کلام کرلوں.ایک شخص کو بولنے کی زیادہ عادت تھی.وہ کہتے ہیں کہ میں سب سے بولتا اور کوئی مجھے جواب نہ دیتا.ایک روز میں اپنے چا زاد بھائی کے پاس گیا وہ اپنے باغ میں بیٹھا ہوا تھا اُسے کہا اے میرے بھائی میرا کھانا اور میرا بیٹھنا ایک ہے اور تو میرا ہمراز ہے.کیا میں منافق ہوں ؟ مطلب یہ تھا کہ اس کے منہ سے سن لوں کہ میں مومن ہوں یا منافق لیکن اُس نے کوئی جواب نہ دیا تو آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر کہا اللہ اور اُس کا رسول بہتر جانتے ہیں.جب میں نے یہ رنگ دیکھا تو دل میں یہ کہتا تھا کہ زمین پھٹ جائے اور میں سما جاؤں.میری آنکھوں کے سامنے اتنا اندھیرا ہوگیا کہ مجھ کو اس باغ کے دروازے نظر نہیں آتے تھے اور میں دیوار پھاند کر باہر آیا.میں بازار میں سے گزر رہا تھا تو ایک شخص نے میری طرف اشارہ کر کے ایک دوسرے شخص کو بتایا کہ یہ ہیں.اُس آدمی نے مجھے ایک خط دیا جب دیکھا تو وہ خط ایک بادشاہ کا تھا جس میں لکھا تھا سنا ہے کہ محمد (ﷺ) نے تمھاری عزت کا کوئی پاس نہیں کیا تم میرے پاس چلے آؤ.تب میں سمجھا یہ شیطان ہے اور مجھ کو دھوکا دینا چاہتا ہے.میں نے اُس آدمی کو کہا میرے پیچھے چلے آؤ اور جاتے جاتے جب میں ایک تنور کے پاس پہنچا تو وہ خط میں نے تنور میں ڈال دیا.اُس کو کہا جا اپنے بادشاہ کو کہ یہ تیرے خط کا جواب ہے.میں روز رسول کریم ﷺ کی خدمت میں جاتا اور سلام کر کے حضور کامنہ دیکھتا شاید آہستہ سے جواب دیا ہو اور چلا جاتا اور تھوڑی دور جا کر پھر واپس آتا کہ شاید حضور نے سنا نہ ہو اور پھر سلام کر کے مُنہ دیکھتا کہ شاید ہونٹ ہلیں اور آہستہ سے جواب دیتے ہوں.غرض با وجود زمین وسیع ہونے

Page 300

293 کے ہم پر تنگ تھی.ایک روز صبح کے وقت جب ہمارے گناہوں کی معافی کا حکم نازل ہوا تو بہت سے لوگ خبر دینے کے لئے دوڑے.ایک شخص بہت ہوشیار تھا وہ ایک چھت پر چڑھ گیا اور چلا یا اے مالک تیرا قصور خدا نے معاف کر دیا (میں اس لئے یہ بتلارہا ہوں کہ مال روک ہو جاتا ہے.دیکھو غریب لوگ چل پڑے لیکن جو مالدار تھا مال اس کی راہ میں روک ہو گیا ) جو آدمی سب سے پہلے میرے پاس آیا میں نے اس کو ایک جوڑا دیا اور کہا میرے پاس یہی مال ہے باقی سب دولت باغ و زمین چونکہ یہی سامان میرے راستے میں روک ہوئے میں نے عہد کر لیا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے سپر د کروں گا.تو یہی جوڑا میرا مال ہے جو میں آپ کو دیتا ہوں.اس تاریخی واقعہ سے فائدہ اٹھاؤ اور یہ اقرار کرو ہم کھانے پینے میں سادگی اختیار کریں گی.ایک کھانا کھائیں گی.اکثر زمیندار عورتیں بھی کئی قسم کی سبزیاں پکا لیتی ہیں.ہر احمدی نچہ عورت اقرار کرے کہ لباس سادہ رکھیں گے.جتنے جوڑے پہلے بناتے تھے آپ کم بنا ئیں گے اور گولہ کناری آئندہ نہ خریدیں گے پہلا نا ہوا منع نہیں.ڈاکٹر ایسے نسخے تجویز کریں جو ملکی قیمت کے ہوں، کھیل تماشے نہ دیکھیں ، بیاہ شادی میں نقد روپیہ دیں.یا بالکل تھوڑا روپیہ دیں، رسم و رواج میں مکان کی آرائش پر زیادہ نہ خرچ کریں، اگر کوئی چیز ٹوٹ پھوٹ جائے تو بنا سکتے ہیں.اس میں بہت سے حکم امراء کے لئے ہیں، کچھ درمیانے لوگوں کے لئے ، کچھ غرباء کے لئے.جو بچت ہو اس کی جائداد میں بنائی جائیں.اس طرح اس میں غربا، عورتیں بھی شامل ہو سکتی ہیں.گاؤں کی عورتیں باہم مل جائیں اور دو دو روپے ملا کر ایک رقم جمع کریں اور دوسو کی کوئی جائداد لے لیں اور کرائے کی جو آمد ہو اس کو آپس میں تقسیم کر لیں.اگر کسی وقت چندے کی ضرورت ہو تو اس میں سے دے سکتی ہیں.اگر اسی طرح ہر ایک شخص کچھ نہ کچھ بچا کر اپنی جائداد میں بنانے لگ جائے تو تھوڑے عرصے میں بہت کچھ بنا سکتے ہیں.پھر جب مالی حالت مضبوط ہو جائے گی تو خدمت دین کا بھی موقع مل جائے گا.اگر ہزار کازیور کسی جائداد کی صورت میں تبدیل کر لیں تو پانچ روپے ماہوار کم از کم آمد ہو سکتی ہے لیکن میں یہ حکم نہیں دیتا کہ کمزور ابتلاء میں نہ پڑ جائیں کیونکہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ عورت کو زیورات اپنے عزیزوں سے زیادہ پیارے ہوتے ہیں.تم میں سے اکثر ہیں جن کے زیور تو ہیں لیکن زکوۃ نہیں دیتی ہو.اسی طرح سے تم ان عذابوں سے بچ جاؤ گی جو ز کو نہ دینے کی وجہ سے ہوتے ہیں.اگر تمھارے پاس زیور ہیں تم کو پھر زکوة

Page 301

294 دینی پڑے گی.اُسی زیور کی جائداد خرید لوتو تمھاری آمد کا حصہ ہو جائیں گے.تم بھی آسانی سے خرچ کر سکوگی اور دین کی راہ میں بھی خرچ کرنے کی سہولت ہوگی اور تم مل کر بھی جائداد بناسکتی ہو.جہاں لجنہ ہو وہاں لجنہ والیاں کوشش کریں.جہاں لجنہ نہ ہو وہاں لجنہ بنائی جائیں.زمیندار عورتیں بھی اپنے کام کاج کرنے کے درمیان میں گھنٹہ آدھ گھنٹہ وقت نکال لیں اور چھٹو اور ٹوکریاں ہی بنالیں تو آنہ دو آ نہ ضرور کماسکتی ہیں اور بڑی ہر والیاں ہیں نہیں روپے ماہوار تک کما سکتی ہیں.لیکن میں نے چونکہ آج کل حکم دیا ہے کہ آرائش نہ کرو اس لئے ایسی سادہ چیزیں بنائیں.مثلاً پراندے، ازار بند.آئندہ کے لئے میں تجویز کرتا ہوں ۱۹۳۶ فروری سے نمائش ہوا کرے اور اس میں سب جگہ کی عورتیں چیزیں بھیجا کریں وہاں یہ چیزیں پک سکتی ہیں اور یہ لاہور میں نمائش ہو.اس میں ہر جگہ کی عورتیں شامل ہوں.حیدر آباد دکن ، بنگال ، یو، پی ، سرحد پنجاب کی عورتیں بھی آئیں اور اس وقت جو مخالفت ہو رہی ہے اُس کے جواب میں ہماری عورتیں عورتوں میں تبلیغ کریں اور اس کانفرنس و نمائش...میں قصور ، امرتسر ، فیروز پور، گوجرانوالا ، ہر ضلع کی عورتیں ہوں.لیکچراروں کو عمدگی سے لیکچروں کے لئے تیار کرایا جائے میں اس کی مدد کے لئے مرد بھی مقرر کروں گا.اسی طرح عورتیں بھی تبلیغ میں حصہ لے سکتی ہیں.رفتہ رفتہ دوسری جگہوں میں بھی تبلیغی مرکز بنائے جائیں.مثلاً لاہور، امرتسر سیالکوٹ تا دوسری جگہ بھی عورتیں تبلیغ کر سکیں.اب میں نے تمہارے لئے بھی کام بتا دئے ہیں آئندہ تم یہ نہیں کہ سکتیں کہ تم کو خدمت کا موقع نہیں ملا.اپنی زندگیوں کو سادہ بناؤ تبلیغی کاموں میں حصہ لور اگر تم اب بھی عذر کرو تو جائز نہ ہوگا.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آئندہ اسلام کی خدمت کی توفیق ہماری عورتوں اور ہمارے بچوں اور مردوں کو دے.اور تم کوشش کرو کہ دشمن تمہاری کوششوں کو دیکھ کر تم میں داخل ہوں.اب تمہارے لئے کوئی عذر کی گنجائش نہیں.ہر ایک کے لئے علیحدہ علیحدہ کام مقرر ہیں.ستی کرو گی تو خدا کے حضور جوابدہ ہوگی.اللہ تعالی مجھ کو اور آپ کو توفیق دے کہ ہم اس کی رضا پر چلیں.آمین.از مصباح ۱۵- جنوری ۱۹۳۵ء) تربیت اولاد کے متعلق حضرت مسیح الثانی کے ارشادات حضرت خلیہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ نے ۱۹۳۵ء کے جلسہ سالانہ پر تربیت اولاد کے متعلق ایک تقریر فرمائی تھی جس میں بتایا تھا کہ اگر اولاد کی تربیت شروع سے ہی اسلامی تعلیم کے مطابق کی جائے تو اولاد

Page 302

295 گناہوں سے پاک اور اعلیٰ اخلاق والی پیدا ہو سکتی ہے.چونکہ یہ نہایت ہی ضروری اور اہم امر ہے اور خواتین جماعت احمدیہ کے ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہیئے اس لئے اس بارہ میں حضور کے بعض ارشادات پیش کئے جاتے ہیں :.حضور نے فرمایا:.اسلام نے دوسرے مذاہب کے برخلاف صرف اسی طرف توجہ نہیں دلائی کہ گناہ کا قلع قمع کس طرح کیا جائے بلکہ اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ سب سے پہلے یہ کوشش کرو کہ گناہ پیدا ہی نہ ہو.مگر میں افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ باوجود اس کے کہ قرآن کریم نے ادھر توجہ دلائی ہے اور بعض اسلامی بزرگوں نے بھی اس پر زور دیا ہے بحیثیت قوم مسلمانوں نے ادھر پوری توجہ نہیں کی اور اس امر کو نظر انداز کر دیا ہے کہ گناہ انسان کے بلوغ سے پہلے پیدا ہوتا ہے.جب لوگ کہتے ہیں کہ فلاں اب گناہ کرنے لگا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ گناہ کا پیج جو اس کے اندر تھاوہ درخت بن کر ظاہر ہو رہا ہے ورنہ کیسے ہوسکتا ہے کہ بیج نہ ہو اور درخت پیدا ہو جائے ؟ ہر گز نہیں.اگر گناہ کی قابلیت پہلے ہی نہ تھی تو پھر وہ بالغ ہونے پر کہاں سے آگئی.پس اصل بات یہ ہے کہ گناہ بچپن سے پیدا ہوتا ہے اور ہر ایک بدی بلوغ سے پہلے انسان کے دل میں جاگزیں ہو جاتی ہے بلکہ بعض دفعہ تو پیدا ہونے سے بھی پہلے بعض بدیوں کی ابتداء شروع ہو جاتی ہے.جب ایک شخص بالغ ہو جاتا ہے اور علماء کہتے ہیں اسے بدیوں سے بچاؤ تو اس وقت وہ شخص پورے طور پر شیطان کے قبضہ میں جاچکا ہوتا ہے.میرے اس کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں سب بدیاں پائی جاتی ہیں بلکہ یہ ہے کہ اُس میں گناہ کی طاقت اور ان کا شکار ہو جانے کا میلان ہو چکا ہوتا ہے.میں پہلے بتا چکا ہوں کہ اخلاق میلان کی چند خاصیتوں سے پیدا ہوتے ہیں.وہی میلان اگر بچپن میں خراب ہو جا ئیں تو کو بچہ بالکل بے گناہ آئے مگر اس کے اندر گناہ کے ارتکاب کا پورا سامان موجود ہو گا.اب ذرا سوچو تو سہی کہ گناہ کہاں سے پیدا ہوتا ہے.کیا گناہ ورثہ سے نہیں پیدا ہوتے.وہ قو میں جو کوئی خاص کام کرنے والی ہوتی ہیں اسی قسم کا میلان اُن کی اولاد میں پایا جاتا ہے.ایک ایسی قوم جس میں نسلاً بعد نسلاً بہادری کی روح نہ ہو اور اسے بہادر بنانے کی کوشش کی جائے وہ لڑائی کے وقت بُز دلی دکھائے گی یا ویسی بہادری نہیں اس سے ظاہر ہوئی جیسی کہ ایک نسلی بہادر قوم سے ظاہر ہوگی.تو گو اس قسم کی باتوں سے اصلاح ہو

Page 303

296 سکتی ہے مگر پھر بھی ورثہ میں اثر ضرور ہوتا ہے.اسی طرح گناہ، لالچ ، غصہ، ڈر محبت خواہش کی زیادتی وغیرہ سے پیدا ہوتا ہے.آب غور کرو کیا یہ وہی خصلتیں نہیں جو بچپن میں بچہ سیکھتا ہے کہ اس کی چھوٹی چھوٹی بے ضرر آنے والی عادتیں ہی نہیں ہیں جو سارے گناہوں کا موجب ہوتی ہیں.ماں باپ کہتے ہیں کہ جی بچہ ہے اس لئے فلاں فعل کرتا ہے مگر کیا بچپن ہی کا زمانہ وہ زمانہ نہیں ہے جب سب سے زیادہ گہری جگہ پکڑنے والے نقش جمتے ہیں.ایک شخص جو کسی کا مال چوری کر کے لے جاتا ہے اسے اگر بچپن میں اپنے نفس پر قابو پانا سکھایا جاتا تو وہ بڑا ہوکر چوری کا کیوں مرتکب ہوتا.ایک شخص جہاد کے لئے جاتا ہے مگر دشمن سے ڈر کر بھاگ آتا ہے.لوگ کہتے ہیں کیسا خبیث ہے.مگر غور کرو کیا اسے وہی بُزدلی پیدا کرنے والے قصے نہیں بھگا لائے جو ماں اُسے بچپن میں سنایا کرتی تھی.ہے.اسی طرح غصہ ہے.بچپن میں ماں باپ خیال نہیں رکھتے اس وجہ سے بچہ بڑا ہو کر ہر ایک سے لڑتا پھرتا پھر کیا گناہ قوت ارادی کی کمی سے پیدا نہیں ہوتا ؟ اور کیا یہ کی کسی سبب کے بغیر ہی پیدا ہو جاتی ہے؟ آخر وجہ کیا ہے کہ انسان ساری عمر ارادے کر کے توڑتا رہتا ہے مگر اُس سے کچھ نہیں بنتا ؟ یا ارادہ کی کمی ایک ہی دن میں تو نہیں پیدا ہو جاتی بلکہ یہ بھی بچپن میں صرف بچپن میں پیدا ہوتی ہے.ورنہ کیا سبب ہے کہ باجود کچی خواہش کے کہ میں فلاں بدی کو چھوڑ دوں یہ اسے چھوڑ نہیں سکتا.اگر تربیت خراب نہ ہوتی تو انسان کی اصلاح کے لئے صرف اس قدر کہہ دینا ہی کافی تھا کہ فلاں بات بُری ہے اور وہ اُسے چھوڑ دیتا اور وہ بات اچھی ہے وہ اسے اختیار کر لیتا.اب میں اس نقص سے اولاد کو محفوظ کرنے کا طریق بتاتا ہوں.پہلا دروازہ جوانسان کے اندر گناہ کا کھلتا ہے وہ ماں باپ کے ان خیالات کا اثر ہے جو اس کی پیدائش سے پہلے اُن کے دلوں میں موجزن تھے.اور اس دروازو کا بند کرنا پہلے ضروری ہے.پس چاہیئے کہ اپنی اولادوں پر رقم کر کے لوگ اپنے خیالات کو پاکیزہ بنا ئیں لیکن اگر ہر وقت پاکیزہ نہ رکھ سکیں تو اسلام کے بتائے ہوئے علاج پر عمل کریں تا اولا دہی ایک حد تک محفوظ رہے.اسلام ورثہ میں ملنے والے گناہ کا یہ علاج بتاتا ہے کہ جب مرد و عورت ہم صحبت ہوں تو یہ دعا

Page 304

297 پڑھیں اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطن ما رزقتنا اے خدا ہمیں شیطان سے بچا اور جو اولاد ہمیں دے اُسے شیطان سے محفوظ رکھ.یہ کوئی ٹو نہ نہیں، جادو نہیں اور ضروری نہیں کہ عربی کے الفاظ ہی بولے جائیں بلکہ اپنی زبان میں ہی انسان کہہ سکتا ہے کہ انہی گناہ ایک بری چیز ہے اس سے ہمیں بچا اور بچہ کو بچا.اس وقت کا یہ خیال اس کے اور بچہ کے درمیان دیوار ہو جائے گا اور رسول کریم اللہ نے فرمایا ہے یہ دعا کرنے سے جو بچہ پیدا ہوگا اس میں شیطان کا دخل نہیں ہوگا.کئی لوگ حیران ہوں گے کہ ہم نے کئی دفعہ دعا پڑھی مگر اس کا وہ نتیجہ نہیں نکلا جو بتایا گیا ہے انکے طلبہ کا جواب یہ ہے کہ اول تو وہ لوگ اس دعا کو صحیح طور پر نہیں پڑھتے صرف ٹونے کے طور پر پڑھتے ہیں.دوسرے سب گناہوں کا اس دُعا سے علاج نہیں ہوتا بلکہ صرف ورثہ کے گناہوں کے لئے ہے.ورثہ کے گناہ کے بعد گناہ کی آمیزش انسان کے خیالات میں اس کے بچپن کے زمانہ میں ہوتی ہے اس کا علاج اسلام نے یہ کیا ہے کہ بچہ کی تربیت کا زمانہ رسول کریم نے نے وہ قرار دیا ہے جبکہ بچہ بھی پیدا ہی ہوا ہوتا ہے.میرا خیال ہے کہ اگر ہو سکتا تو رسول کریم یہ فرماتے کہ جب بچہ رحم میں ہو اسی وقت سے اس کی تربیت کا وقت شروع ہو جانا چاہئے مگر یہ چونکہ ہو نہیں سکتا تھا اس لئے پیدائش کے وقت سے تربیت ضروری قرار دی اور وہ اس طرح که فرما دیا کہ جب بچہ پیدا ہو اسی وقت اس کے کان میں اذان کہی جائے اذان کے الفاظ نو نے یا جادو کے طور پر بچہ کے کان میں نہیں ڈالے جاتے بلکہ اس وقت بچہ کے کان میں اذان کا حکم دینے سے ماں باپ کو یہ امر سمجھانا مطلوب ہے کہ بچہ کی تربیت کا وقت ابھی شروع ہو گیا ہے.اذان کے علاوہ بھی رسول کریم ہے نے بچوں کو بچپن سے ہی آداب سکھانے کا حکم دیا ہے اور اپنے عزیزوں کو بھی بچپن میں آداب سکھا کر علمی ثبوت دیا ہے.حدیثوں میں آتا ہے کہ امام حسن " جب چھوٹے تھے تو ایک دن کھانا کھاتے وقت آپ نے اُن سے فرمایا بيمينك و كل ممّا يليك كہ دائیں سے کھاؤ اور اپنے آگے سے کھاؤ.حضرت امام حسن کی عمر اس وقت اڑھائی برس کے قریب ہوگی.ہمارے ملک میں اگر بچہ سارے کھانے میں ہاتھ ڈالتا اور سارامنہ بھر لیتا ہے بلکہ اردگرد بیٹھنے والوں کے کپڑے بھی خراب کرتا ہے تو ماں باپ بیٹھے جنتے ہیں اور کچھ پروا نہیں کرتے یا یونہی معمولی بات کہہ دیتے ہیں جس سے اُن کا مقصد بچہ کو سمجھانا نہیں بلکہ دوسروں کو دکھانا ہوتا ہے.حدیث میں

Page 305

298 الله ایک اور واقعہ بھی آتا ہے کہ ایک دفعہ بچپن میں امام حسن نے صدقہ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور منہ میں ڈال لی تو رسول کریم ﷺ نے اُن کے مُنہ سے اُنگلی ڈال کر نکال لی.جس کا یہ مطلب تھا کہ تمہارا کام خود کام کر کے کھانا ہے نہ کہ دوسرے کے لئے بوجھ بننا.غرض بچوں کی تربیت ہی ہوتی ہے انسان کو وہ کچھ بناتی ہے جو آئندہ زندگی میں وہ بنتا ہے.چنانچہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے مامن مولود الايولد على الفطرة فابوا ه يهودانه او ينصر انه اویمجسانه (بخاری.مسلم ) کہ بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے آگے ماں باپ اُسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں.اس طرح یہ بھی سچ ہے ماں باپ اسے گر جا میں لے جا کر عیسائی بناتے ہیں بلکہ یہ ہے کہ بچہ ماں باپ کے اعمال کی نقل کر کے اور اُن کی باتیں سنگر وہی بنتا ہے جو اُس کے ماں باپ ہوتے ہیں.بات یہ ہے کہ بچہ میں نقل کی عادت ہوتی ہے.اگر ماں باپ اُسے اچھی باتیں نہ سکھائیں گے تو وہ دوسروں کے افعال کی نقل کرے گا.بعض لوگ کہتے ہیں بچوں کو آزاد چھوڑ دینا چاہئے خود بڑے ہو کر احمدی ہو جائیں گے.میں کہتا ہوں اگر بچوں کے کان میں کسی اور کی آواز نہیں پڑتی تب تو ہوسکتا ہے کہ جب وہ بڑا ہو کر احمد بیت کے متعلق سنے تو احمدی ہو جائے لیکن جب اور آواز میں اُسکے کان میں اب بھی پڑ رہی ہیں اور بچہ ساتھ کے ساتھ سیکھ رہا ہے تو وہ وہی بنے گا جو دیکھے گا اور سنے گا.اگر فرشتے اسے اپنی بات نہیں سنا ئیں گے تو شیطان اُس کا ساتھی بن جائے گا.اگر نیک باتیں اُس کے کانوں میں نہ پڑیں گی تو بد پڑیں گی اور وہ بد ہو جائے گا.(مصباح مئی ۱۹۴۵ء) ( منهاج الطالبین صفحه ۵۰ تا ۵۴ ) تقریر حضرت خلیفہ اسی اشانی بر موقع جلسه سلانه مستورات دسمبر ۱۹۳۷ء مندرجہ ذیل حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی تقریر کا ہلکا ساخا کہ ہے.اگر بعض جگہ مفہوم ٹھیک ادانہ ہو یا عبادت میں وہ خصوصیت نہ پائی جائے جو حضور کی تقاریر کا خاصہ ہے تو یہ مرتب کرنے کی کمی ہے.تشہد.الحمد شریف اور سورۃ اَلَمُ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَک کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.ہر ایک کام جو ہم کرتے ہیں اس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ ضرور لکھتا ہوتا ہے اور جو کام بے نتیجہ ہو اس کو کوئی عقلمند انسان پسند نہیں کرتا.مثلاً زمیندار کو ہی دیکھو وہ ایک نتیجہ کی امید پر کس قدر محنت کرتا ہے.پہلے زمین پر ہل چلاتا ہے

Page 306

299 پھر اس پر سہاگا پھیرتا ہے.پھر اس میں بیج بکھیرتا ہے.پانی دیتا ہے.اور وہ جانتا ہے کہ میرا ایسا کرنا ضائع نہیں جائے گا بلکہ میری یہ محنت کئی گنا زیادہ پھل لائے گی کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ میرے باپ دادا نے ہمیشہ اسی طرح ہل چلایا ، بیج بویا، تب غلہ ملا لیکن اگر زمیندار دیکھتا کہ میرے ہل چلانے سہا گہ پھیر نے اور پیج بکھیر نے ، کھاد ڈالنے اور پانی دینے کا نتیجہ کچھ نہیں ہوا یا پانچ دس دفعہ تو ہو گیا اور پھر کھیتی نہیں ہوئی تو وہ اتنی محنت نہ کرتا.لیکن وہ دیکھتا ہے کہ نتیجہ ہمیشہ ہی نکل آتا ہے بھی شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ کھیتی خراب ہو جائے کھیتی خراب ہونے پر وہ اس کے ماہرین کے پاس جا کر پوچھتا ہے کہ کیا وجہ ہے ہماری کھیتی خراب ہو گئی ؟ پھر جو اس کو مشورہ ملتا ہے زمیندار جا کر اس پر عمل کرتا ہے اور اس کو پورا یقین ہوتا ہے اپنے کام کے نتیجہ نکلنے کا.اسی وجہ سے وہ سردی کے موسم میں صبح سویرے جا کر پانی دیتا ہے اور گرمی کے دنوں میں دو پہر کے وقت خوشی سے اپنے کھیتوں میں کام کرتا رہتا ہے اور بھی محنت سے نہیں اکتا تا.ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس لئے کہ اُسے پورا یقین ہوتا ہے کہ میری محنت ضائع نہیں جائے گی بلکہ یقیناً اس کا نتیجہ نکلے گا.تو سوال یہ ہے کہ اگر ایک زمیندار تھوڑا بیج بکھیر کر جو چند روپوں کا ہوتا ہے ایک سال کے غلہ کے لئے اس قدر محنت کرتا اور یقین رکھتا ہے کہ محنت ضائع نہ جائے گی تو کیا جو کام ہماری جماعت کے لاکھوں آدمی کر رہے ہیں اور اپنے پیٹ کاٹ کر چاند ے دیتے ہیں ، اپنے عزیزوں سے رشتہ توڑ کر جماعت سے رشتہ جوڑتے ہیں تو اگر لاکھوں روپیہ خرچ کرنے اور اس قدر تکلیفیں اٹھانے کا نتیجہ نہ نکلے تو ہم سب سے بڑھ کر بد نصیب کون ہوگا ؟ جب زمیندار چند روپوں کا بیج ڈال کر نتیجہ لے لیتا ہے تو ہم جو ہزار ہا روپیہ خرچ کرتے ہیں پھر اس کا نتیجہ نہ پائیں تو اس کی دو ہی وجہ ہو سکتی ہیں یا تو راستہ غلط ہے جو ہم نے اختیار کیا ہے یا ہم صحیح ذرائع استعمال نہیں کرتے.زمیندار کی کھیتی خراب ہو جائے تو وہ زمین کے ماہرین سے جا کر پوچھتا ہے اور جو وہ نقص بتاتے ہیں اس کی اصلاح کر لی جاتی ہے اسیطرح جو راستہ ہم نے التیار کیا ہے اس کی صحت کا علم ہو سکتا ہے.کہ آیا وہ غلط ہے یا صحیح.مثلاً ہمارے سلسلہ کی پہلی بنیادی باتیں جن میں ہم دوسروں سے اختلاف رکھتے ہیں وہ یہ ہیں.پہلی بات اختلاف کی.وہ کہتے ہیں کہ ایک مامور آنے والا ہے ہماری اصلاح کے لئے اور ہم لوگ کہتے ہیں وہ مہدی علیہ السلام آچکے جو بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ تھے.اور جس عیسی کے متعلق وہ کہتے ہیں آئیں گے ہم کہتے ہیں وہ آچکے، دوسری بات ہم کہتے ہیں کہ قرآن ایک زندہ کتاب ہے اور انسان قرآن مجید کی فرمانبرادی میں نبی کا درجہ بھی پا

Page 307

300 سکتا ہے.جن لوگوں سے ہمیں اختلاف ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا.یہ دو موٹے اور اہم اختلاف ہیں.اس کے علاوہ ہم میں اور اُن میں بہت سے اختلاف ہیں.مثلاً ایک احمدی کہتا ہے آنیوالا باہر سے نہیں آئے گا بلکہ ہم سے ہی ہوگا.غیر احمدی کہتے ہیں کہ آسمان سے آئیگا.احمدی کہتے ہیں قرآن پر چل کر انسان وہ انعامات حاصل کر سکتا ہے جن کا قرآن میں ذکر ہے.غیر احمدی کہتے ہیں قرآن مجید خواہ کیا بتائے لیکن جو ہمارے عقیدے ہیں وہی درست ہیں.ان کے دل میں قرآن کریم کی اتنی عظمت نہیں جتنی اُن کے اپنے خیال کی لیکن بہت کم عورتیں ان مسئلوں پر غور کرتی ہیں.صرف چند عورتیں ہیں جو ان مسئلوں کو جانتی ہیں یا ان کو اچھی طرح بجھتی ہیں اسی وجہ سے وہ دوسری عورتوں کے سامنے ٹھہر نہیں سکتیں.اگر ہماری عورتیں ان مسئلوں کو سمجھ لیں تو پھر کوئی عورت ان کے مقابلہ پر ٹھہر نہیں سکتی.پس راستہ اختیار کرنے میں ہماری غلطی نہیں.اگر نتیجہ نہیں نکلتا تو عمل کی غلطی ہے.مثلاً اگر قرآن شریف کوئی اپنے سامنے انٹار کھلے اور اُلٹا ہونے کی وجہ سے نہ پڑھا جائے تو کیا قرآن غلط ہے یا پڑھنے والے کی اپنی عقل؟ پس اسی طرح پر احمدی عورت جان لے کہ عیسے کے متعلق قرآن شریف میں اور حدیث میں صفائی سے یہ موجود ہے کہ عیلئے جو پہلے تھے وہ دوبارہ نہیں آئیں گے بلکہ آنے والا اس امت میں سے ہوگا.پس پہلی چیز جس کو دیکھنا ہے وہ ہے کہ خدا کا کلام اور اس کے رسول کا کلام کیا بتا تا ہے.رسول کریم کے ارشادات کو وہی لوگ جان سکتے تھے جنہوں نے اپنی زندگیاں رسول کریم ﷺ کی خدمت میں گزاریں یعنی صحابہ رسول کریم.جیسا کہ حدیثوں سے ثابت ہے رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ میں ایک شور پڑ گیا کیونکہ رسول کریم ﷺ کی وفات اچانک ہوئی.ان صحابہ کو خبر نہ تھی کہ آپ کی وفات اس قدر جلدی ہو جائے گی.وفات کے قریب حضور انور ﷺ پر یہ سورۃ نازل ہوئی.إِذَا جَاءَ نَصْرُ الله وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجاه فَسَبِحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرُهُ، ط إِنَّهُ كَانَ تَوَّاباً ٥ یعنی اے لوگوں! جب تم دیکھو کہ لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگ گئے تو خدا تعالیٰ کی تسبیح کرو ساتھ حمد اپنے رب کی اور غفران و حفاظت مانگمو یقینا وہ ہے رجوع برحمت ہونے والا.یعنی نبی کریم ﷺ کو بتلا یا کہ تو خدا کے قرب میں حاضر ہونے والا ہے اور کامیابی کا زمانہ آ گیا.اس پر صحابہ بہت خوش ہو گئے مگر حضرت

Page 308

301 ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ رو پڑے اور اس قدر روئے کہ گھنگی بندھ گئی.پھر حضرت ابو بکر صدیق سنبھل کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ! ہم اپنی جانیں، اپنے ماں باپ اپنے بیوی بچوں کی جو نہیں قربان کرنے کو تیار ہیں.لوگ حیران تھے اور کہتے تھے کہ بڑھے کی عقل کو کیا ہو گیا ہے لیکن رسول کریم ﷺ نے فرمایا اس کو ابو بکر نے خوب سمجھا.رسول کریم حضرت ابوبکر سے بہت محبت کرتے تھے.چنانچہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے سب سے زیادہ پیارا ابو بکر ہے.اگر خدا کے سوا کسی کو خلیل بنانا جائز ہوتا تو ابوبکر کو بناتا.پھر آپ نے فرمایا سب کھڑکیاں بند ہو جائیں گی صرف ابو بکر کے لئے کھڑ کی کھلی رہے گی.ایسا فرمانا بطور پیشنگوئی کے تھا کہ ابوبکر خلیفہ ہوکر نماز پڑھانے کی کھڑکی سے مسجد میں داخل ہوا کریں گے.پس رسول کریم ﷺ کو جو محبت حضرت ابو بکر سے تھی اور جو ابو بکر کو رسول کریم سے تھی اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابو بکر کا درجہ کس قدر بلند تھا لوگوں نے حضرت ابو بکر سے پوچھا کہ آپ اس بشارت نصرت پر کیوں روئے.آپ نے کہا خدا کے نبی دین پھیلانے کے لئے آتے ہیں.جب دین کی ترقی ہو گئی تو آپ بالضرور اپنے مولی کے حضور واپس چلے جائیں گے.اسی لئے حضرت ابو بکر نے قرآن کی یہ آیت سنکر کہا کہ یا رسول اللہ ہماری جانیں ، ہمارے ماں باپ کی جائیں ہمارے بیوی بچوں کی جانیں آپ کی جان پر قربان ہوں.اب اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت ابو بکر صحابہ میں سب سے بہتر قرآن مجید کو سمجھنے والے تھے.رسول کریم ﷺ کی جب وفات ہوئی تو اُس وقت حضرت ابو بکر صدیق باہر تھے.حضرت عمر کو جب علم ہوا کہ رسول کریم ﷺ فوت ہو چکے ہیں تو آپ میان سے تلوار نکال کر کھڑے ہو گئے اور کہا کہ اگر کوئی کہے کہ رسول کریم ﷺ فوت ہو گئے تو میں تلوار سے سر اُڑا دوں گا.رسول کریم فوت نہیں ہوئے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے ملنے گئے ہیں جیسا حضرت موسئے اللہ تعالیٰ سے ملنے گئے تھے اور حضرت عمرؓ کی اس بات کا اثر تمام مسلمانوں پر ہوا.ایک صحابی مسلمانوں کی حالت دیکھ کر بہت گھبرائے ، وہ بہت سمجھدار تھے انہوں نے کہا دوڑ کر جاؤ اور حضرت ابو بکر کو خبر کر دو کہ مسلمان بگڑ رہے ہیں جلدی آئیں.پس ابو بکر جو اتفاق سے باہر گئے ہوئے تھے فورا پہنچے اور آپ کے پاس گئے اور کپڑا چہرے پر سے ہٹا یا زیارت کی اور کہا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں خدا تعالی آپ پر دو موتیں وارد نہیں کرے گا.ایک آپکی موت اور دوسری قوم گمراہ ہو.ہر چند ابو بکر کمزور اور نرم مزاج آدمی تھے.حضرت عمر جو تلوار لئے کھڑے تھے ان کے پاس آئے اور کہا اے عمر بیٹھ جاؤا لیکن حضرت عمر جوش میں آکر پھر کھڑے ہو جاتے.

Page 309

302 حضرت ابو بکر ان کے اس جوش کو دیکھ کر کھڑے ہو گئے اور یہ آیت پڑھی.وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُول قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُل.اے لوگو محمد یا اللہ تو فوت ہو چکے ہیں.جو کوئی (سیدنا محمد ﷺ کو پوجتا ہے وہ سُن لے کہ خدا کبھی نہیں مرتا.محمد خدا کے ایک رسول تھے.اگر محمد فوت ہو جا ئیں تو کیا تم پھر جاؤ گے؟ حضرت عمر کہتے ہیں کہ جب میں نے یہ آیت سنی میری یہ حالت تھی کہ میری ٹانگیں مجھ کو کھڑا نہیں کرسکتیں تھیں اور مجھ کو یہ معلوم ہوتا تھا کہ قرآن کریم میں یہ آیت آج ہی نازل ہو رہی ہے.دیکھو یہ ایک واقعہ ہے جو رسول کریم ہے کی زندگی کے معا بعد ظاہر ہو گیا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ منا یہ عقیدہ نہ تھا کہ حضرت عیسے زندہ ہیں.اگر حضرت عمرہ کا یہ عقیدہ ہوتا کہ حضرت عیسے آسمان پر ابھی تک زندہ ہیں تو وہ اپنی بات کی تائید میں یہ بات ضرور پیش کرتے.کیا حضرت عمر بھول گئے تھے؟ فرض کیا حضرت عمرؓ بھول گئے تو کوئی صحابی تو کہتے کہ عیسئے نبی تو زندہ ہیں.اب بتاؤ صحابہ سے بہتر کون دین جانتا تھا.پنجابی کی ایک مثال ہے کہ گھروں میں آواں سُنیے توں دیویں سب سے بہتر جاننے والے صحابہ، برکات حاصل کرنے والے صحابہ، وہ اس بات کو نہ سمجھے اور پیچھے آنے والے جان گئے.تعجب ہے کہ حضرت عمر موموسیٰ علیہ السلام کی طور پر جانے والی مثال تو سوجھہ گئی مگر عیسی کا ذکر یاد نہ رہا.دوسری عجیب بات یہ ہے کہ مَا مُحَمَّد" إِلَّا رَسُول کی آیت اسی صورت میں بطور دلیل ہو سکتی ہے جبکہ پہلے سب رسول فوت ہو گئے ہوں تو یہ آیت جب بطور دلیل ہوئی اور کوئی نہیں کہتا کہ حضرت عیسی تو فوت نہیں ہوئے یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ صحابہ میں سے کسی کے دماغ میں یہ بات نہ تھی.اگر کسی صحابی کے دماغ میں حضرت عیسی کی زندگی کا خیال ہوتا تو وہ مر جاتا.یہ سنکر کہ عیسی زندہ ہوں اور رسول کریم ﷺ فوت ہو جائیں.ایک شاعر نے صحابہ کے دلی خیالات کو ان اشعار میں نہایت خوبصورتی سے قلمبند کیا ہے.كنت السواد لناظري - فعمى عليك الناظر من شاء بعدك فليمت فعليك كنت احاذر 7 تو ہماری آنکھو کی پتلی تھا.اب جہان تیرے جانے سے ہماری نظروں میں تاریک ہے.تیرے بعد جو چاہے مرے ہمیں تو صرف تیرا ہی خطرہ تھا.جب تو نہیں جہان میں کچھ بھی نہیں.یہ ایک ایسا اہم واقعہ ہے کہ اس کے بعد کوئی خیال ہی نہیں کر سکتا کہ عیسی علیہ السلام زندہ ہیں.کوئی

Page 310

303 عیسائی کرے تو کر سکتا ہے.اس کے بعد پھر اختلاف پیدا ہوا عبد اللہ بن سبا سے.اُس نے یہ عقیدہ پھیلانا شروع کیا کہ وہ خدا جس نے قرآن نازل کیا تم کو پھر اس مقام پر لائے گا تو صحابہ نے اُس کو مرتد خیال کیا.اگر عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ رسول کریم بھی زندہ ہیں.جو آیت ابو بکڑ نے پڑھی اس کے تو یہی معانی ہو سکتے ہیں کہ یا تو عیسے کو رسول نہ مانا جائے اور یا پھر رسول کریم نے پہلے اور عیسیٰ علیہ السلام بعد میں.مگر یہ سب پر واضح ہے کہ عیسی علیہ السلام پہلے آئے اور وہ رسول بھی تھے.پس اس آیت کے موجب وہ 63 فوت ہو گئے.کیونکہ مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُول قَد خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُل.اس آیت سے ظاہر ہے کہ نبی کریم نے سے پہلے کے تمام رسول فوت ہو چکے ہیں.پس صحابہ کی گواہی اور قرآن مجید کی گواہی کے بعد اور کونسا گواہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موٹی دلیل پیش کی ہے.یاد رکھیں تین آیتیں قرآن مجید کی ہیں.جو عورتیں یاد کر لیں پھر اُن کا مقابلہ نہیں کر سکتا.ایک تو وہ آیت جو ابو بکڑ نے پڑھی ما مُحَمَّدُ إِلَّا رَسُول قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُل اور دوسری آیت قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سورہ مائدہ کے آخری رکوع میں فرمایا :.وَاذْ قَالَ الله يَعِسَى ابْنَ مَرْيَمَ وَاَنْتَ قُلْتَ للنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ الْهَيْنَ مِنْ دُونِ اللهِ ، قَالَ سُبُحْنَكَ مَا يَكُونُ لِى أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقِّ وَ إِنْ كُنْتُ قُلْتُه فَقَدْ عَلِمْتَهُ طَ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ طَ إِنَّكَ أَنْتَ عَلَّامُ الْغَيُوبِ مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا آمَرُ تَنِي بِهِ أَن عُبُدُوا الله رَبِّي وَرَبَّكُمُ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدٌ َامَّا دُمْتُ فِيهِمُ ، فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيْبَ ج عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَبِيءٍ شَهِيدًا هِ یعنی جب خدا پوچھے گا کہ اے عیسی مریم کے بیٹے ! کیا تو نے لوگوں کو کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو دو خدا مانو ؟ عیسی جناب الہی میں عرض کریں گے.اے خدا میری کیا مجال تھی کہ میں وہ بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے حق نہیں.اگر میں نے ایسا کہا تو حضور کو علم ہے.تو جانتا ہے جو میرے دل میں ہے اور مجھے تیرے علم کا احاطہ نہیں.تو ہی غیبوں کو جانے والا ہے.میں نے وہی کہا جس کا تو نے مجھے حکم دیا.یہی کہ ایک اللہ کی عبادت کرو جو میرا رب ہے اور تمہارا رب ہے اور میں اُن پر نگران رہا جب تک اُن میں زندہ موجودرہا اور وہ توحید پر قائم رہے.پھر جب تو نے مجھے وفات دی تو تو ہی اُن کا نگران حال تھا.اللہ تعالیٰ یہ سوال قیامت کو کرے

Page 311

304 گا.تو اس آیت سے صاف پتہ چلتا ہے کہ عیسی علیہ السلام کہہ رہے ہیں کہ قوم کے لوگ گمراہ نہیں ہوئے ہیں اور ان کی گمراں اُن کی وفات کے بعد ہوئی.پس اگر عیسی علیہ السلام زندہ موجود ہیں تو پھر اُن کی امت گمراہ نہیں ہوئی لیکن امت گمراہ ہو چکی ہے کیونکہ وہ توحید پر قائم نہیں.پس امت کی گمراہی بتاتی ہے کہ عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں.قرآن کا یہی فیصلہ ہے ، صحابہ کا بھی فیصلہ ہے کہ عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں.پس اس بارے میں ہم نے جو راستہ اختیار کیا ہے ٹھیک ہے اور ہم نے اس راستہ کے اختیار کرنے میں کوئی غلطی نہیں دکھائی اور خدا ہم سے ناراض نہیں ہوا.دوسری بات یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کی برکات سے کوئی استی آدمی خاص برکات حاصل نہیں کر سکتا.یہ ایک موٹی مثال ہے جس سے پتہ چل جاتا ہے.دیکھو نماز ہر مسلمان بالغ عورت یا مرد سب پر فرض ہے.اسلام کا حکم ہے سات سال کے بچے کو نماز سکھاؤ اور دس سال کا بچہ اگر نماز نہ پڑھے تو اسے مار کر نماز پڑھاؤ اور ایک دن میں پانچ وقت نماز میں فرض ہیں اور ہر رکعت میں الحمد شریف پڑھنے کا حکم دیا.دیکھو دوسری سورتیں ہیں بعض رکعتوں میں چھوڑ دیتے ہیں.مگر الحمد شریف یعنی سورۃ فاتحہ ہر رکعت میں فرض ٹھہرائی.پس ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس سورۃ کے اس قدرسکھانے کی کیا وجہ ہے.سو وہ آیت ہے اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمُ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یعنی یا اللہ ہم کو سیدھا راستہ دکھا.راستہ اُن لوگوں کا جن پر تو نے انعام کیا.اور رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ کوئی نماز بغیر سورۃ فارتحہ کے نہیں ہوسکتی.اب یہ دیکھنا ہے کہ یہ سیدھا راستہ کونسا ہے اور قرآن شریف اس کی کیا تشریح کرتا ہے.سورۃ النساء میں فرمایا:.وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ أَوِا خُرُ جُوا مِنْ دِيَارِكُمْ مَّا فَعَلُوهُ إِلَّا قَلِيلٌ مِّنْهُمْ وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَشَدَّ تثبيتاء وَإِذَ إِلَّا تَيْنَهُمْ مِنْ لَّدُنَا أَجْرًا عَظِيمًا، وَلَهَدَ يُنْهُمْ صِرَاطًا مُسْتَقِياً ه وَمَنْ يُطِعِ اللَّهِ وَالرَّسُوْلَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّنَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَ الصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا هَ ذَلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللَّهَ ، وَكَفَى بِاللهِ عَلِيمًاه مسلمانوں کو سمجھ لینا چاہیئے کہ اگر ہم لکھ دیتے اُن پر کر قتل کر واپنے نفسوں کو.یا نکل جاؤ اپنے گھروں سے نہ کرتے وہ اس کو سوائے چند ایک کے اُن میں سے.اور اگر وہ کرتے جس کی وہ نصیحت دئے گئے تھے البتہ

Page 312

305 ہوتا بہتر اُن کے لئے اور زیادہ پختہ ہوتے ثابت قدمی میں اور تب ہم دیتے اُن کو اپنے ہاں سے اجر بڑا اور البتہ ہدایت کرتے ہم اُن کو راہ راست کی.اور جو اطاعت کرتے ہیں اللہ اور رسول کی.پس یہ لوگ ساتھ اُن کے ہیں کہ انعام کیا جن پر نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں اور نیک لوگوں میں سے اور اچھے ہیں یہ رفیق.یہ فضل ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ کافی ہے جاننے والا.یہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے.دیکھو خدا تعالیٰ خود تو سکھاتا ہے کہ مجھ سے طلب کرو اور وہ طلب کرنا کیسا فرض ٹھہرایا کہ اس کے بغیر نماز ہی نہیں ہو سکتی.اگر کوئی نہی ہو ہی نہیں سکتا تھا پھر پانچ وقت یہ دعا کیوں سکھائی.کوئی عقلمند انسان بھی ایسا کرنا پسند نہیں کرتا کہ جس کام کو کرنا نہ ہو اُس کو کہے تو وہ خدا ایسا کیوں کرتا ؟ ایک قصہ ہے کہ ایک آدمی اپنی کھڑکی میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک لڑکے نے ایک گتے کو روٹی دکھا کر بلایا جب گتا پاس آیا تو لڑکے نے اُس کوڈ نہ امارا.وہ آدمی جو بیٹا ہوا دیکھ رہا تھا اس کوثر کے کی اس حرکت پر بہت غصہ آیا اور اُس نے لڑکے کو پیسہ دکھا کر بلایا.جب لڑکا اُس کے پاس آیا تو اُس کو مارا.لڑکا رویا اور کہا کہ پیسہ دینے کو بلایا اور پھر مارا.اُس نے کہا کہ میں نے تمہیں سبق دینے کے لئے ایسا کیا ہے.تم جو گتے کو روٹی دکھلا کر بلاتے تھے اور پھر مارتے تھے.تو دیکھو نہ سکتے میں عقل تھی نہ لڑ کے میں تو کیا تم خدا میں اُس آدمی جتنی بھی عقل مانتے ہو؟ جو خدا ہم کو اُٹھاتا ہے اور کہتا ہے کہ مانگو میں دونگا لیکن دیتا نہیں تو کیا خدا تعالیٰ نے کروڑ ہا مسلمانوں کو یو نہی حکم دیا اور وعدہ کیا کہ میں تم کو وہی اگلے منعم علیہم کے انعام دوں گا.مسلمان رات کو اُٹھ کر سردی کے موسم میں اپنے بستر چھوڑ دیتے ہیں ، گرمی کی راتیں چھوٹی ہوتی ہیں لیکن وہ اپنا آرام ترک کر کے اُٹھتے ہیں، پھر ایک آدمی نہیں کروڑ ہا آدمیوں سے خدا نے محول کیا کہ مانگو لیکن جب مانگ رہے ہیں تو دیتا نہیں.غور کی بات ہے کہ قرآن مجید میں بھی ہدایت نازل کر دی.یہ لوگ خدا پر الزام لگاتے ہیں کہ خدا جھوٹے وعدے کرتا ہے.ایک مثال ہے کہ مالک دے اور بھنڈاری کا پیٹ پھٹے.اللہ تعالیٰ دیتا ہے اور مولوی کہتے ہیں کہ اُس کے خزانے کے مالک ہم ہیں ہم دینے نہیں دیتے.ہمارا خدا تو کہتا ہے کہ تمہارے درجہ کے مطابق سب کچھ دوں گا اور مولوی کہتے کہ ہم دینے نہیں دیتے.دیکھو یہ ایک عجیب بات ہے کہ نبوت کا مسئلہ عورتوں سے منقول ہے اور سورۃ النساء میں اسکا ذکر ہے یعنی

Page 313

.306 عورتوں کی ہی سورۃ میں اس کا ذکر ہے.یوں سمجھ لو کہ جب عورتوں ہی کی سورۃ میں ذکر ہے گویا عورت ہی نے یہ مسئلہ حل کیا ہے.جب مردوں میں اس مسئلہ پر اختلاف ہوا تو اس کو حل کرنے والی ایک عورت ہی تھیں.حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا.خدا تعالیٰ نے تو عورتوں کی سورۃ میں اس کو نازل کیا اور عورت سے ہی حل کرایا.لیکن ہماری عورتیں کہتی ہیں کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا ہے اس کو سمجھ لو.ہر روز دُعا کی جاتی ہے کہ ابے خدا ہم کو یہ یہ انعام دے.خدا تعالیٰ نے سورۃ النساء میں وعدہ فرمایا کہ جس درجہ کا کوئی ہو ہم اُس کے درجہ کے مطابق اُس کو بنا دیتے ہیں.اب یہ مسئلہ حل ہو گیا.تیسرا مسئلہ جس میں ہمارا اُن کا اختلاف ہے.ہم کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود جنہوں نے آنا تھا وہ آچکے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ابھی آئیں گے.یہ مسئلہ بھی ایک دو دلیلوں میں سمجھ آسکتا ہے جو رسول کریم ہے نے اپنی سچائی میں پیش کیں.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں رسول کریم کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ اپنے دشمنوں سے کہو کہ میں نے نبوت سے پہلے تم میں ایک عمر گزاری ہے اور تم اقرار کرتے ہو کہ میں نے بندوں پر کبھی جھوٹ نہیں بولا تو کیا جب میں رات کو سویا صبح اٹھ کر خدا پر جھوٹ بولنے لگ گیا ؟ رسول کریم ﷺ کی امانت اور دیانت کا یہ حال تھا کہ حضرت خدیجہ جو مکہ میں سب سے زیادہ مال دار عورت تھی اور آپ گنگال.اور آپ کے کنگال ہونے کا یہ ثبوت تھا.عرب کا دستور تھا کہ اپنے بچے باہر دائیوں کے پاس بھیجدیتے تھے تو اس سال جو دائیاں مکہ میں اچھہ لینے آئیں تو ہر دوائی آپ کے لیجانے سے انکار کرتی رہی کیونکہ دائیاں جب بچے پال کر لا تمہیں تو اُن کو خوب انعام و کرام ملاتا.اُن کا خیال تھا کہ یہاں سے ہم کو کیا ملے گا.چنانچہ مائی حلیمہ بھی ایک دفعہ آپ کو دیکھ کر چھوڑ گئیں لیکن پھر جب شہر میں دوسرا کوئی بچہ نہ ملاتو پھر واپس آکر وہی بچہ لے گئیں تو آپ کی مالی حالت یہ تھی کہ دایہ بھی نہ ملتی تھی.پھر جب والدہ فوت ہو گئیں تو اپنے چا کے پاس رہے.گویا وہ تمام زمانہ ہے کسی کی حالت میں گزارا.چا کے بچے کھانے پینے کے وقت شور شر کرتے لیکن آپ آرام سے ایک طرف بیٹھے رہتے.کیونکہ چچا کے لڑکے جانتے تھے کہ یہ تو ہمارے ٹکڑوں پر پل رہا ہے اصل مالک تو ہم ہیں.اکثر آپ کے چا کہتے.بچہ تو نہیں ہنستا کھیلتا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بچی کے دل میں بھی وہ محبت نہ تھی.آپ کے مقابلہ میں خدیجہ بہت مال دار عورت تھی، کئی تو اُن کے غلام تھے، اُن کی تجارت کے قافلے دُور دُور جاتے ، ان کی عادت تھی کہ اپنے غلاموں سے سب حالات دریافت کرتی رہتیں.رسول کریم نے آپ کے صلى الله.

Page 314

307 صلى الله پاس نوکر ہو گئے اور ان کو ایک قافلہ کے ساتھ باہر بھیجا گیا.جب واپس آئے تو بہت نفع ہوا انہوں نے جب آپ کی نسبت دریافت کیا تو غلاموں نے کہا کہ پہلے لوگ بہت سے نفعے خود رکھ لیتے تھے لیکن ہم نے ان کو بہت امین پایا ہے.وہ آپ کی تعریف سنکر اس قدر متاثر ہوئیں کہ اپنے چا کو ملا کر پیغام شادی بھیجا.رسول کریم نے کہا کہ میرے پچا سے پوچھ لو.اگر وہ رضامند ہوں تو پھر میں نکاح کرلوں گا.پھر چچا کی رضا سے اپنا نکاح حضرت خدیجہ سے کر لیا.آپ کی امانت اور دیانت کا یہ حال تھا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں حضرت خدیجہ نے آپ کے اس جو ہر کو پہچان لیا اور حضرت خدیجہ نے اپنا تمام مال وزر آپ کے سپرد کر دیا.جب حضرت خدیجہ نے کہا کہ یہ میرا امال تمام آپ کا ہے تو آپ نے فرمایا کہ خدیجہ بھی کہتی ہو.پھر جس طرح میرا اختیار ہے میں کروں ؟ پس آپ نے کہا سب سے پہلے یہ جو غلام ہیں ان کو آزاد کر دو.حضرت خدیجہ کے دل پر آپ کی نیکی کا اس قدر اثر تھا کہ انہوں نے کہا بے شک آپ کو اختیار ہے.ان غلاموں میں ایک غلام زید بھی تھے یہ ایک بہت بڑے رئیس کے لڑکے تھے.بچپن میں کوئی اُن کو پکڑ کر بیچ گیا تھا.اُن کا باپ تمام جگہ اُن کی تلاش کرتا کرتا بہت سا روپیہ لے کر مکہ پہنچا اور کہا کہ جس قدر آپ مال لینا چاہتے ہیں لے لیں اور لڑکا ہمارے ساتھ کر دیں.اس کی ماں دس سال سے روتی روتی اندھی ہوگئی ہے اور میں دس سال سے اس کو ڈھونڈتا پھرتا ہوں.رسول کریم ﷺ نے خانہ کعبہ میں جا کر کہا.لوگو گواہ رہو یہ آزاد ہے اور کہا یہ تیرا باپ ہے اس کے ساتھ چلا جا.دس سال سے اُس نے اپنا کاروبار چھوڑ کر تیری خاطر اپنی عمر کا ایک حصہ یوں برباد کیا ہے.زیڈ نے کہا بے شک یہ میرا باپ ہے اور ایک مدت کے بعد ملا ہے اور اس نے میری خاطر بہت تکلیف اُٹھائی ہے اور کون ہے جس کو اپنے ماں باپ سے محبت نہیں ہوتی بے شک اس نے دس سال میری محبت کے پیچھے برباد کئے ہیں.لیکن مجھ کو تو آپ کے سوا کوئی ماں باپ نظر نہیں آتا.خیال کرو کہ آپکو کس قدر انس تھا.باپ روتا ہوا چلا جاتا ہے لیکن وہ آپکی جدائی کو پسند نہیں کرتا.پس یہ تھا آپ کی دیانت ، امانت ،صداقت ، راستبازی کا حال.آپ نے علانیہ فرمایا کہ اے لوگو ! میں نے تم میں عمر گزاری ہے بتلاؤ میں نے کبھی جھوٹ بولا ہے تو کیا میں خدا پر ہی جھوٹ بولوں گا.یہی وجہ تھی کہ حضرت ابو بکر سنکر فورا ایمان لے آئے.کہتے ہیں کہ جب آپ نے نبوت کا دعویٰ کیا تو حضرت ابو بکر صدیق باہر گئے ہوئے تھے اور وہ واپس آتے ہوئے راستہ میں اپنے ایک دوست کے مکان پر ٹھہرے اور آپ اپنی چادر ہٹا کر لیٹنے ہی لگے تھے کہ اس گھر کی لونڈی

Page 315

308 نے آکر کہا افسوس تمہارا دوست پاگل ہو گیا اور کہتا ہے مجھ پر فرشتے نازل ہوتے ہیں.حضرت ابو بکر فرماتے ہیں کہ وہ لیٹے بھی نہیں اور فورا چادر سنبھال کر بیٹھ گئے اور رسول کریم ہونے کے گھر پہنچے اور کہنے لگے کہ میں نے سُنا ہے کہ آپ پر فرشتے نازل ہوتے ہیں.کیا یہ درست ہے؟ حضرت ابو بکر چونکہ آنحضرت ﷺ کے گہرے دوست تھے.آپ کو یہ خیال تھا کہ کہیں ان کو ٹھوکر نہ لگ جائے آپ ان کو تسلی سے بتانا چاہتے تھے لیکن حضرت ابو بکڑ نے آپ کو قسم دے کر کہا آپ صاف بتا ئیں.آپ نے کہا درست ہے.حضرت ابو بکر صدیق نے کہا پس میرے ایمان کے گواہ رہیں اور کہنے لگے کہ آپ مجھ کو دلیلیں دے کر میرا ثواب کیوں کم کرتے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد رسول اللہ والے کو دیکھا یعنی یہی دلیل خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح لکھنے موعود علیہ السلام کو دی.آپ کے دعوئی سے پہلےمحمد حسین بٹالوی نے اپنے ایک رسالہ میں براہین احمدیہ کیا کے بعد حضرت صاحب کی اس قدر تعریف لکھی ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں.وہ اپنے رسالہ میں لکھتا ہے کہ یہ شخص ایسا ولی ہے کہ اس نے جو خدمات دین کی کی ہیں تیرہ سو سال میں کسی نے نہیں کیں.حالانکہ دیکھو اس تیرہ سوسال میں بڑے بڑے صلحاء، فضلاء، اور اولیا، لوگ گزرے ہیں اس کی نظر میں ان سب سے بڑھ کر حضرت صاحب تھے لیکن دعوئی کے بعد اُس نے جو مخالفت کی ہے اس میں سب سے بڑھ کر رہا.لیکن سوال تو یہ ہے کہ دھوئی سے پہلی زندگی دیکھتے ہیں بعد میں تو رسول کریم پالنے کو بھی دشمن نے بہت بُرا بھلا کہا لیکن بعد کی باتیں دشمنی کی ہوتی ہیں گواہی تو دشمنی سے پہلے کی ہوتی ہے.یہ تینوں باتیں ہیں جن میں قرآن مجید ہمارے ساتھ ہے.ایک لطیفہ ہے میاں نظام الدین صاحب ایک سادہ لوح، نیک اور متقی آدمی تھے.جن لوگوں نے ان کو دیکھا ہے وہ جانتے ہیں.میں چھوٹا بچہ تھا اُن کو چائے کی بہت عادت تھی.وہ کیا کرتے کہ چائے کی خشک پتی منہ میں رکھ لیتے اور پھر جب پانی ملتا تو گرم پانی اوپر سے پی لیتے.وہ محمد حسین بٹالوی کے دوست تھے اور حضرت صاحب کے بھی.محمد حسین نے اُن سے کہا حضرت صاحب نے تو ایسا دعویٰ کیا ہے تو ان کو یقین نہ آیا.کہنے لگے کہ مرزا صاحب تو بہت نیک آدمی ہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے اور وہ حضرت صاحب کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میں نے سُنا ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ عیسے فوت ہو گئے ہیں.حضرت صاحب نے فرمایا کہ قرآن میں اس طرح ہے.وہ کہنے لگے کہ قرآن میں تو لکھا ہے وہ زندہ ہیں.حضرت صاحب نے کہا قرآن ہمارا حاکم ہے اگر آپ قرآن سے ایک آیت بھی لے آئیں تو ہم مان لیں گے کہ حضرت عیسے زندہ ہیں

Page 316

309.نظام الدین کہنے لگے کہ میں پچاس آیتیں ایسی لے آؤں تو پھر تو آپ مان لیں گے.حضرت صاحبہ نے فرمایا میں کہتا ہوں کہ اگر تم ایک آیت بھی لے آؤ گے تو میں مان لوں گا.کہنے لگے کہ میں جاتا ہوں اور ہیں آیتیں محمد حسین سے لکھوا لاتا ہوں.حضرت صاحب نے فرمایا کہ آپ ایک ہی لے آئیں تو ہم مان لیں گے....وہ کہنے لگے کہ اچھا میں آج ہی لاہور جاتا ہوں اور دس ہی لکھوا لاتا ہوں.وہ لاہور گئے.اُن دنوں میں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ بھی لاہور کسی کام آئے ہوئے تھے.لوگوں کا خیال تھا کہ مولوی محمد حسین اور حضرت خلیفہ اول کا مباحثہ ہو جائے.مولوی محمد حسین کہتا تھا کہ مباحثہ حدیث سے ہو اور حضرت خلیفہ اول کہتے تھے کہ قرآن سے ہو.اتنے میں نظام الدین صاحب بھی لاہور پہنچے تو مولوی محمد حسین چینیاں کی مسجد میں بیٹھے تھے میاں نظام الدین جاتے ہی کہنے لگے مولوی صاحب چھوڑو اس اشتہار بازی میں کیا رکھا ہے میں حضرت صاحب سے آسان فیصلہ کر آیا ہوں کہ آپ قرآن سے دس آیت حیات مسیح کی تائید میں لکھ دیں اور حضرت صاحب تو کہتے تھے کہ ایک ہی لے آؤ مگر آپ دس لکھ دیں.مولوی صاحب سخت برہم ہوئے اور کہنے لگے میں تو دو مہینے کی سخت تکلیف اور بحث کے بعد نور الدین کو حدیث کی طرف لا رہا تھا اور تم پھر قرآن کی طرف لے جارہے ہو.میاں نظام الدین ایک منصف مزاج آدمی تھے کہنے لگے کہ اچھا جدھر قرآن ادھر ہم.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم بچے راستے پر ہیں اور قرآن وحدیث اور صلحاء امت ہمارے ساتھ ہیں.ایسے ہی طریق ہیں سیدھا راستہ چلنے کے لئے جن پر تحریک جدید جاری کی گئی ہے.اگر مرد و عورت اس کو اچھی طرح سمجھ لیں تو بس خدا کی نصرت ہمارے ساتھ ہوگی.راستہ درست ہے اور اگر ترقی نہیں ہو رہی تو یہ ہماری کمزوری ہے.مثلا تلوار تو ہے لیکن تلوار چلانی نہیں آتی.قصہ ہے کہ ایک بادشاہ کا ایک اردو لی تھا جو تلوار کے ایک وار میں گھوڑے کے چاروں پیر کاٹ دیا کرتا تھا.بادشاہ کے لڑکے نے دیکھا کہ یہ تلوار ایک وار میں گھوڑے کے چاروں پیر کاٹ دیتی ہے پس یہ تلوار بہت اچھی ہے.اُس نے اردلی سے کہا کہ یہ تلوار مجھے دیدو.اُس نے تلوار نہ دی.وہ روتا ہوا بادشاہ کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ میں نے اردلی سے تلوار مانگی تھی لیکن اُسنے نہ دی.بادشاہ نے اردلی کو بلا کر کہا تم کیسے نمک حرام نوکر ہو کہ ہمارا لڑکا تم سے تلوار مانگتا ہے اور تم نہیں دیتے.سپاہی نے لڑکے کو تلوار دیدی لڑکے نے گھوڑے کے پاؤں کاٹنے چاہے مگر وہ نہ کئے وہ روتا ہوا پھر

Page 317

310 باپ کے پاس گیا بادشاہ نے پھر سپاہی کو بلا یا کہ تم نے ہمارے لڑکے کو وہ تلوار نہیں دی.سپاہی نے کہا حضور بات یہ ہے کہ تلوار تو وہی ہے لیکن ان کو چلانی نہیں آتی.تو بات یہ ہے کہ چلانے والا تو سپاہی تھا تلوار کی اس میں کیا خوبی ہے.پس اسی طرح دیکھو کہ قرآن ایک تلوار ہے.یہی قرآن مولویوں کے ہاتھ میں مُردہ تھا.یہی قرآن ہمارے ہاتھ میں تلوار ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں قرآن کی تلوار چلانی سکھائی اب اس تلوار کے ہوتے ہوئے فائدہ نہ اٹھاؤ تو تمہارا اپنا قصور ہے.تمہیں اپنے نفسوں پر غور کرنا چاہیئے کہ احمدی ہو کر تم نے کیا فائدہ اٹھایا.لاکھوں روپیہ خرچ کر کے کوئی نتیجہ نہ نکلے تو کس قد رافسوس کی بات ہے.ایک جلسہ ہی کو دیکھو ا کثر ہمارے گاؤں کی عورتیں کہتی ہیں ہم جلسہ کھانے چلی ہیں.کیا یہی فرض ہے.اور اس سردی کے موسم میں بڑی بڑی تکلیفیں اُٹھا کر یہاں آتی ہو، اُن ریلوں میں سفر کرتی ہو جن میں دم گھٹتا ہے، یہاں آکر کھوری پر سوتی ہو، پکی دال کھاتی ہو یہ سب تکلیفیں اٹھاتی ہو، اگر یہ تین دن تین سو ساٹھ دن کے لئے بیج بن کر نالہ کا کام نہیں دیتے تو بہت افسوس کا مقام ہے اور واقعی تم ان تین دنوں میں معرفت کا بیج لے کر تین سو ساٹھ دن میں ہوتی ہو تو خدا کی نصرت اور مدد تم کو مل گئی.جب خدا کی نصرت اور مد دل گئی تو سب کچھ پل گیا.تو پھر جو تکلیفیں تم اُٹھا کر آتی ہو تکلیفیں نہیں بلکہ آرام ہیں، دال نہیں کھاتی ہو بلکہ سونا کھاتی ہوں، تم کسیر پر نہیں سوتیں بلکہ گرمیلوں پر سوتی ہو، تم اعلیٰ ریلوں پر سفر کرتی ہولیکن یہ سب اسی حالت میں ہو سکتا ہے جب کچھ فائدہ اٹھاؤ.دیکھو ایک ہی چیز ہوتی ہے ایک اُس سے فائدہ اٹھاتا ہے اور ایک نقصان.مثلاً ایک سالن ہوتا ہے ایک کھا کر اُس سے طاقت حاصل کرتا ہے اور دوسرا اُسی سالن کو کھا کر پیٹ پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے.دیکھو وہی انگور اور ا مرود جو دل اور دماغ کو راحت دیتے ہیں ایک کے اندر خون بن جاتے ہیں اور دوسرے کے اندر ہیضہ کے جراثیم.دیکھو ایک گھاس ہے بکری کھاتی ہے دودھ دیتی ہے.وہی گھاس بکرا کھاتا ہے بھینسا کھاتا ہے بیل کھاتا ہے.وہی گھاس پیشاب اور گوبر بن کر خارج ہو جاتی ہے.بیشک قرآن اعلیٰ ہے مگر جیسی تمہارے اندرمشین ہوگی ویسا ہی تمہارے اندر کام کرے گی.دیکھو جیسا بکری اور بکرا ایک ہی گھاس کھاتے ہیں ایک کے اندر دودھ کی مشین ہے وہی گھاس دودھ بن جاتا ہے دوسرے کے اندر صرف پاخانہ کی مشین ہے وہ پاخانہ بن کر خارج ہو جاتا ہے.پس اگر تمہارے دل کے اندر نیکی اور تقولٰی ہے تو تمہارے اندر روحانی دُودھ بن جائے گا اور جس سے تم دنیا کی مائیں بن جاؤ گی.اور اگر تم میں نیکی اور تقویٰ نہیں تو یہ اعلیٰ سے

Page 318

311 اعلیٰ تعلیم پاخانہ بن کر نکل جائے گی جس سے تم بھی بھا کوئی اور لوگ بھی.پس اپنے اندر خدا کی محبت پیدا کرو.تم میں کتنی ہیں جن کو خدا سے محبت ، بچوں اور خاوندوں کی محبت سے زیادہ ہے؟ ایمان سے بتاؤ اگر تمہارے بیچے قربانی کے لئے بلائے جائیں تو تم خوشی سے پیش کروگی ؟ دیکھو خنساء ایک عورت تھیں وہ بہت مال دار تھیں.اُن کے خاوند نے اُن کی تمام دولت جوئے میں برباد کر دی اور وہ بار بار اپنے بھائیوں سے بہت دولت لائیں اور اُن کے خاوند نے برباد کر دی اور خاوند جوانی میں ہی مر گیا.اُن کے چارلڑ کے تھے اُن کو پالا.بڑھاپے میں اسلام لائیں.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک لڑائی ہوئی سب سپاہی قسم کھا کر گئے کہ فتح لے کر آئیں گے یاد ہیں مرکز ڈھیر ہو جائیں گے.خنساء نے اپنے چاروں بیٹوں کو بلا کر کہا اور ان کو اپنے احسان یاد دلائے کہ دیکھو میں جوانی میں بیوہ ہوئی تمہارا باپ جواری تھا اور میری تمام دولت کھا چکا تھا اور میں نے محنت کر کے تمہیں پالا تھا آج میں تم سے کہتی ہوں کہ تم جنگ میں جاؤ یا تو فتح کر کے آنا یا اپنی جانیں وہیں دے دینا دشمن کو نا کامی کی پیٹھ نہ دکھانا.بیٹوں کو رخصت کر کے خدا کا فرض ادا کیا.پھر جنگل میں جا کر خدا کے حضور نہایت گریہ وزاری سے دُعا کی اور مامتا کا حق ادا کیا.خدا تعالیٰ نے شام کو فتح دیدی.اس وقت بھی محمد شریف ایک لڑکا گجرات کا رہنے والا ہے جہاں وہ رہتا ہے وہاں لڑائی ہے.انگریزوں کے قونصل نے اُسے بلا کر کہا کہ تم یہاں سے چلے جاؤ تا کہ تمہیں کوئی تکلیف نہ پہنچے.اس نے جانے سے انکار کیا.قونصل نے کہا ہم تمہیں سرکاری خرچ پر پہنچا دیں گے لیکن اسنے کہا میں یہاں مرنے ہی کو آیا ہوں آخر اسکو وہاں سے زبردستی باہر بھجوایا گیا.پس اگر تمہارے ہمسایہ کے بچے ایسا کرتے ہیں تو تم اس سے خوش مت ہو جاؤ بلکہ کوشش کردو کہ تمہارا اپنا بچہ بھی ایسا کرے.دیکھو میں نے چھوٹی چھوٹی تحریکیں کی ہوئی ہیں مثلا ایک کھانا کھاؤ ، سادہ زندگی بسر کرو مگر ابھی بہت سے مرد عورت اور لڑکیاں ہیں جو اس تحریک پر عمل نہیں کر ر ہیں.غریب لوگ تو پہلے ہی ایک کھانا کھاتے ہیں پس غریبوں کے لئے تو یہ مفت کا ثواب ہے.میں نے تحریک کی تھی کہ گوٹہ کناری مت لگاؤ مگر جو پہلے کسی کے پاس ہوں اُن کو سوائے شادی بیاہ کے مت پہنو.بعض غریب عورتیں سوال کرتی ہیں کہ جھوٹا گوٹہ اور ٹھپہ لگا ئیں ؟ دیکھونچے ہونے لگانے والیاں تو پھر بھی کچھ مال دار ہوتی ہیں مگر جھوٹا لگانے والی تو اس بات کا ثبوت دیتی ہے کہ وہ غریب ہے پھر بھی فضولی سے باز نہیں آئی.دیکھو ایک ایک پیسہ کی قدر کرنی چاہیئے.پیسوں سے

Page 319

312 روپے بنتے ہیں.پس جیسوں کی قدر کرو انہی پیسوں کا بھی بچوں کو کھلاؤ تو صحت اچھی ہوگی.چھوٹے ہوئے کناری سے کیا فائدہ.جھوٹا زیور بھی مت خرید و.پہلے جو گزرا سو گز را اب تم پیشتر اس کے کہ نئے قانون بنائے جائیں پہلے پر عمل کرو.خواہ مخواہ پھیری والوں سے کوئی سودا نہ خریدو.پھیری والوں سے جو چیزیں لی جاتی ہیں غیر ضروری ہوتی ہیں.دیکھو اگر تم کو ضرورت ہوتی تو تم اپنے خاوند کو بازار بھیجتیں اور وہ چیز منگواتیں لیکن پھیری والے کا کپڑا دیکھ کر پسند کرنا ہی بتاتا ہے کہ اصلی ضرورت نہ تھی دیکھ کر پسند آ گیا.پس یا درکھو کوئی چیز بغیر ضرورت نہ خرید و اور سادہ زندگی بسر کرو میں امید کرتا ہوں خدا کی آواز آنے سے ہی اپنے آپ کو تیار کر لوگی.شرعی حکم کے ماتحت روزے رکھو.سوچو تم میں کتنی ایسی ہیں جن کے ذمے روزے تھے اور دوسرے روزے آنے سے پہلے ان روزوں کو پورا کیا.پس دوسرے روزے آنے سے پہلے اپنے پہلے روزے پورے کرو.سادہ زندگیاں بناؤ تا تمہارے لڑکے اور لڑکیاں تمہارے نیک نمونے حاصل کریں اور خدا تعالیٰ بھی تم پر رحم کرے اور ایسے ماں باپ جنہوں نے ایسے بچے پیدا کئے وہ ان کے لئے دعا کریں گے اور قوم کے لئے بھی رحمت بنیں گے.پس تم اپنے اندر احمدیت کی ایسی روح پیدا کرو اور ایسے بیج لے کر جاؤ کہ تمہارے دلوں میں نو راور عرفان پیدا ہو.اور ایسا بیج ہو کہ تمہارے اندر ایسا پھل لائے جو تم سال بھر کھاؤ اور تمہارے بچوں اور خاوندوں اور تمہارے بہن بھائیوں اور ہمسائیوں کی زندگی سنور جائے.ماں کی تربیت پر ہی بچہ کی تربیت کا انحصار ہوتا ہے ایک نکاح کے خطبہ میں حضرت طلیقہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:.رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ ظاہری طور پر جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے بلکہ یہ ہے کہ ماں کی اچھی تربیت سے جنت مل جاتی ہے اور اگر ماں اچھی تربیت نہ کرے، بچہ کے اخلاق کی اصلاح نہ کرے، اس کو مذہب سے واقف نہ کرے تو بچہ کی حالت تباہ ہو جاتی ہے اور قطعا ایسی ماں کے قدموں کے نیچے جنت نہیں ہوتی.بے شک باپ معلوم ہوتا ہے، قسیم ہوتا ہے انگران ہوتا ہے وہ اکثر معیشت کی فکر میں گھر سے باہر رہتا ہے اور بہت کم وقت اُسے گھر میں رہنے کے لئے ملتا ہے اور اس تھوڑے سے عرصے میں وہ بچوں کی پوری نگرانی نہیں کر سکتا.بچے کی وہ عمر جس میں وہ

Page 320

313 تقال ہوتا ہے اور باتیں سیکھتا ہے پانچ چھ سال کی ہوتی ہے.اس وقت نہ باپ اس کی اصلاح اور نگرانی کر سکتا ہے اور نہ وہ اس عمر میں کسی استاد یا ادب سکھانے والے کے پاس جا سکتا ہے جس سے وہ اخلاق سیکھے.صرف مان جس کے پاس وہ ہر وقت رہتا ہے اُس کی نگرانی کر سکتی ہے.اگر ماں بچے کے سامنے جھوٹ بولے گی تو بچہ بھی جھوٹ بولنا سیکھ لے گا اور ماں چوری کرے گی تو بچہ بھی چوری کرنا سیکھ جائیگا اور اگر ماں دین سے بے پروائی اور غفلت اختیار کرے گی تو بچہ بھی دین سے بے پروا اور غافل ہو جائیگا لیکن اگر ماں اسکے سامنے بچ بولے گی تو بچہ بھی سچ بولنے کا عادی ہوگا.اور اگر ماں دوسروں سے ملتے وقت اخلاق فاضلہ سے پیش آئے گی تو بچے میں بھی اخلاق فاضلہ پیدا ہو جائیں گے.اگر ماں غریبوں اور مسکینوں پر رحم کرے گی تو بچہ میں بھی رحم کا مادہ پیدا ہو جائے گا.اگر ماں دیندار اور تقوی شعار ہوگی تو بچہ بھی دیندار اور تقوی شعار ہو جائے گا.غرض ماؤں کی تربیت پر ہی بچہ کے مستقبل کا انحصار ہوتا ہے اور رسول کریم ﷺ کے اس ارشاد کا کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے یہی مطلب ہے.دُنیا میں کئی مائیں ایسی ہوتی ہیں جو بچوں کی اچھی تربیت نہیں کرتیں بلکہ بجائے درست کرنے کے بگاڑ دیتی ہیں.مذہب سے لا پرواہ بنا دیتی ہیں ایسی ماؤں کے قدموں کے نیچے جنت کا ہونا کوئی معنے نہیں رکھتا.جو او لا دا چھی نہ ہو لوگ اس کی ماں کو بُرا کہیں گے اور اگر اولا د اچھی ہو تو لوگ اس کی ماں کی تعریف کریں گے.کیونکہ ابتدائی تربیت جس کا اثر بعد کی زندگی پر پڑتا ہے ماں ہی کرتی ہے.باپ کا نام اس لئے نہیں لیا جاتا کہ اُسے نگرانی کے لئے موقع بہت کم ملتا ہے.مگر ماں کو ہر وقت نگرانی اور اصلاح کرنے کا موقع ملتا رہتا ہے.وہ ہر وقت بچہ کے ساتھ رہتی ہے اور بچہ بھی ہر وقت ماں کی امداد کا طالب ہوتا ہے.بچہ ہر وقت اپنی ماں کا سلوک اور محبت دیکھتا ہے.پھر وہی عادات جو اس کی ماں کی ہوتی ہیں خواہ اچھی ہوں یا ئمری اس بچہ میں پیدا ہو جاتی ہیں کہ اس کے ذریعے انسان میں ایسا اہم تغیر پیدا ہو جاتا ہے جس کا بعد میں آنے والی زندگی پر بہت بڑا اثر پڑتا ہے." (۳۰ جون ۱۹۳۷ء خطبہ نکاح ) " ہمیں اصلاح کی فکر رکھنی چاہیئے ( خطبه جمعه فرموده یکم اپریل ۱۹۳۸ء)...حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا عورتوں کے حقوق کی ہمیشہ حفاظت کیا کرتی تھیں اور بعض

Page 321

314 صلى الله دفعہ جب کوئی عورت اپنے خاوند کی شکایت رسول کریم ﷺ کے پاس لاتی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بڑے زور سے اس کی تائید کیا کرتیں اور بار بارفرما ہیں کہ حقوق تلف ہورہے ہیں ایسا نہیں ہونا چاہیئے.یہاں تک کہ رسول کریم ﷺ بھی بعض دفعہ فرماتے کہ عائشہ تم تو عورتوں کی بڑے زور سے حمایت کرتی ہو پھر بھی ان کے کاموں میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بڑا حصہ لیتی تھیں.ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے ارادہ فرمایا کہ اعتکاف بیٹھیں.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کواس کا علم ہوا تو انہوں نے اسی وقت مسجد میں خیمہ جالگایا باقی امہات المومنین نے یہ دیکھا تو انہوں نے بھی اپنے اپنے خیمے مسجد میں آکر لگا دیئے.رسول کریم ہے جب مسجد میں تشریف لائے تو آپ دیکھتے ہیں کہ جس طرح کہیں فوج اُتری ہوتی ہے اسی طرح مسجد میں خیمے لگے ہوئے ہیں.آپ نے فرمایا یہ کیا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا یہ امہات المومنین کے خیمے ہیں جو انہوں نے مختلف ہونے کے لئے لگائے ہیں.آپ نے فرمایا اٹھا دو سب کو.اگر یہ خیمے یہاں لگے رہیں تو لوگوں کو نماز پڑھنے کی جگہ نہیں ملے گی.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا عورتوں کے حقوق کا ہمیشہ خاص خیال رکھا کرتی تھیں.صلى الله مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق ہی آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد ایک موقع پر آپ نے فرمایا اگر عورتوں کے رسول کریم ہے کے زمانہ میں ویسے ہی حالات ظاہر ہوتے جیسے آج کل ظاہر ہیں تو رسول کریم نے عورتوں کو مسجد میں نماز پڑھنے سے روک دیتے.اب یہ بالکل قریب زمانہ کی بات ہے.صلى الله زیادہ سے زیادہ رسول کریم ﷺ کی وفات کو تمیں چالیس برس ہوئے ہوں گے مگر آپ فرماتی ہیں اگر آج سے چند سال پہلے یہ حالت ظاہر ہوتی تو رسول کریم ﷺ عورتوں کو مساجد میں آنے کی ممانعت فرما دیتے.آپ نے جواجازت دے رکھی تھی اسے منسوخ فرما دیتے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض حدیث العہد عورتیں یا غیر قوموں کی عورتیں پردہ میں پوری احتیاط لموظ نہیں رکھتی ہوں گی اور لوگ اعتراض کرتے ہوں گے جس پر آپ نے یہ فرمایا.جیسے قادیان میں بھی بعض ایسی باتوں پر لوگ اعتراض کر دیا کرتے ہیں مگر باوجود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس اعتراض کے وہ زمانہ خیرالقرون ہی کہلاتا ہے کیونکہ انہوں نے اصلاحی پہلو سے اعتراض کیا تھا یہ نہیں کہا کہ قوم گندی ہوگئی.مگر اسکے یہ معنے نہیں کہ ان چیزوں کو قائم رکھا جا تا بلکہ ہمیں ان امور کی اصلاح کی فکر کرنا چاہیئے اور وہ اصلاح اسی رنگ میں ہوسکتی ہے کہ نوجوانوں کو اس امر کی تلقین کی جائے کہ وہ اپنے اندر ایسی رُوح پیدا کریں کہ اسلام اور احمدیت کا حقیقی مغز انہیں میتر آ جائے......" الفضل ۱۰.اپریل ۱۹۳۸ء صفحہ ۳)

Page 322

315 ہر جگہ لجنہ قائم ہو اور سب بالغ احمدی عورتیں اُس میں شامل ہوں اقتباس از خطبه جمعه فرموده ۲۸ اکتوبر ۱۹۳۸ء بمقام نئی دہلی ) جماعت کے تینوں طبقوں یعنی مردوں، عورتوں اور بچوں کو اپنی اپنی تنظیم میں منسلک ہو کر صحیح رنگ میں تربیت حاصل کرنی چاہیئے.اس تحریک کے تین بڑے حصے ہیں.اوّل مردوں کی اصلاح دوسرے عورتوں کی اصلاح اور تیسر کے بچوں کی اصلاح.دنیا میں کوئی قوم کامیابی حاصل نہیں کر سکتی جب تک کوئی مقصد اُس کے سامنے نہ ہو اور اس کے لئے مرد، عورت اور بچے سب مل کر کام نہ کریں.پس ہر جماعت کا فرض ہے کہ اپنے ہاں کے مردوں بمورتوں اور بچوں کی اصلاح کرے.عورتوں کی اصلاح کے لئے لجنہ کا قیام نہایت ضروری ہے لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسے فرض کفایہ سمجھ لیا گیا ہے.چند عورتیں لجنہ میں شامل ہو جاتی ہیں اور باقی اپنے لئے اس میں شامل ہونا ضروری نہیں سمجھتیں.پس ضرورت ہے کہ ہر جگہ لجنہ اماءاللہ قائم ہو اور بالغ عورتیں اس میں شامل ہوں اور کوئی ایک عورت بھی ایسی نہ رہے جو اس سے باہر ہو یہی ایک ذریعہ ہے جس سے عورتوں کی اصلاح ہو سکتی ہے.دہلی کے متعلق مجھے رپورٹوں سے معلوم ہوتا رہتا ہے کہ یہاں صرف دس بارہ عورتیں جمع ہوتی ہیں اور وہی لیکچر دے لیتی ہیں حالانکہ جب تک ایک عورت بھی باہر ہے اس وقت تک ہماری تنظیم مکمل نہیں ہو سکتی.لجنہ میں داخلہ کو اگر ہم نے ضروری قرار نہیں دیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ عورتیں اس میں شمولیت کو غیر ضروری سمجھ لیں بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنی مرضی اور خوشی سے اس میں شامل ہوں اور اس طرح انہیں ثواب اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو.اس کی ایسی مثال ہے جیسے رسول اللہ ﷺ نے نوافل کو قرب الہی کا ذریعہ بتایا ہے لیکن آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ہم نوافل کے متعلق کوئی پابندی عائد نہیں کرتے.اسی طرح مثلاً میری خواہش یہی ہے کہ میرے بچے سرکاری ملازمت اختیار نہ کریں لیکن میں نے اُن سے کبھی ایسا کہا نہیں.کیونکہ اگر وہ میرے کہنے سے ایسا کریں گے تو اس کا ثواب مجھے ملے گا نہ کہ اُن کو.یہی فائدہ اُمت کو پہنچا نا رسول کریم والے کے مد نظر تھا اور اسی لئے آپ نے نوافل کے متعلق کوئی پابندی عائد نہیں کی.“

Page 323

316 تربیت اولاد کے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو تحریک جدید کے تمام مطالبات پر عمل پیرا ہو جاؤ ۲۷.دسمبر ۱۹۳۸ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے خواتین جماعت احمدیہ کو مخاطب کر کے مندرجہ ذیل تقریر فرمائی:.تشہد اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.ہمارے ملک میں ایک کہانی مشہور ہے بلکہ اس کے متعلق ایک ضرب المثل بنی ہوئی ہے کہ کو انس کی چال چلا اور اپنی بھی بھول گیا.کہانی یوں بیان کرتے ہیں کہ کسی کوے نے ہنسوں کی چال جود دیکھی تو وہ اُسے پسند آئی.اُس نے سمجھا کہ میری چال اچھی نہیں.آخر اس نے کچھ ہنسوں کے پر اٹھائے اور اپنے پروں میں اُڑس لئے اور لگا اُن کی سی چال چلنے.مگر وہ اُن کی چال کب چل سکتا تھا.ہنسوں نے اُسے اجنبی پرندہ سمجھ کر اُسے مارنا شروع کیا یہ وہاں سے نکل کر اپنے گووں میں آشامل ہوا مگر چونکہ یہ کچھ مدت ہنسوں کی چال چل کر اپنی بھول گیا تھا اس لئے کووں نے بھی اُسے چونچیں مار مار کر اپنے میں سے نکال باہر کیا.اب پیدا کیلارہ گیا، نہ ادھر کا رہانہ ادھر کا رہا، نہ ہنسوں نے اُسے ساتھ ملایا نہ کو وں نے اُسے شامل کیا اس مثال یا اس کہانی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے جس چیز کو جس کام کے لئے پیدا کیا وہی اس کام کو بخوبی سمجھ سکتی اور احسن طور پر سرانجام دے سکتی ہے.اُردو میں ایک اور ضرب المثل ہے کہ " جس کا کام اُسی کو ساجھے جب ایک کا کام دوسرا کرنے لگے تولا ز ما خرابی پیدا ہوگی اور وہ ایک مجو بہ بن جائے گی اور کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا.اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے.ایک مرد دوسری عورت.ان میں اللہ تعالیٰ نے بعض اشتراک رکھے ہیں اور بعض اختلاف بھی رکھے ہیں.مثلا کھانے پینے میں مرد اور عورت ایک ہی قسم کے ہیں یہ بھی نہیں ہوا کہ مرد کھاتے ہیں اور عورتیں نہ کھاتی ہوں گو غذاؤں میں تھوڑ اسا فرق ہوتا ہے مثلا بعض حصے عورتوں کے اور تم کی غذا چاہتے ہیں اور مردوں کے اور قسم کی.مثلا عورتوں کے جسم پر چربی زیادہ آجاتی ہے

Page 324

317 اس لئے عورتیں سردی زیادہ برداشت کر سکتی ہیں.اور یہ اس لئے ہے کہ عورت اپنے بچوں کو دودھ پلا سکے.تو اس طرح خدا تعالیٰ نے بچے کی حفاظت فرما دی.تو یہ صرف خدا تعالی کی حکمت کے ماتحت فرق ہے.اسی طرح مرد اور عورت میں اللہ تعالیٰ نے یکساں طور پر ترقی کرنے یعنی عقل کا مادہ رکھا ہے.نہ مرد کہہ سکتا ہے کہ عقل اور دماغ مجھے ہی دیا اور نہ عورت ایسا دعویٰ کر سکتی ہے.اسی طرح زبان مرد و عورت کو ایک سی دی ہے.اگر مرد بڑے بڑے مقرر ہوتے ہیں تو عورتیں بھی.ہاتھ پاؤں وغیرہ بھی اللہ تعالیٰ نے دونوں کو برابر دئے ہیں مگر قوتوں میں اللہ تعالیٰ نے فرق رکھا ہے.بعض قوتیں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو زیادہ دی ہیں اور عورتوں میں کم ہیں.مثلاً اعصاب کی طاقت مرد میں عورت کی نسبت بہت زیادہ ہے.مرد عورت کی نسبت بہت زیادہ پوجھ اُٹھا سکتا ہے.مگر اس کے مقابل میں عورت میں اللہ تعالیٰ نے صبر کی طاقت بہت زیادہ رکھی ہے.صبر سے مراد ایک مشکل کو لمبے عرصہ تک برداشت کرنا ہے.یہ طاقت مرد میں یا تو ہے ہی نہیں یا بالکل کم ہے.اس کی مونی مثال بچے کی ہے.بچہ روتا ہے چلاتا ہے مگر عورت کے ماتھے پر بل تک نہیں پڑتا.سو میں سے ایک مرد ہو گا جو عورت کا یہ کام کرے گا.اس معاملہ میں عورت کا دل خدا تعالیٰ نے پہاڑ بنایا ہے.دنیا کے بڑے سے بڑے فلاسفر کو ایک دن کے لئے بچہ دے دو شام تک وہ نیم پاگل ہو جائے گا.اس کے مقابلے میں سفر میں جنگ میں مرد ہی کام آتے ہیں یہاں عورت کتنی ہی ہوشیار کیوں نہ ہو گھبرا جائے گی.حالانکہ بچوں کی پرورش کے معاملے میں جاہل سے جاہل عورت عقلمند سے عقلمند مرد سے زیادہ معاملہ نہم اور عقلمند ثابت ہوگی.یہ طاقت عورتوں میں اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ مردوں میں مقابلہ اس کا سینٹر واں حصہ بھی نہیں.مردوں میں بھی بعض ایسے ہوتے ہیں جو بچے پالنے جانتے ہیں.میں نے اپنے تجر بہ میں کئی ایسے آدمی دیکھتے ہیں جنہوں نے بچوں کی پرورش اچھی طرح کی.مثلاً ایک مرد کی بیوی مرگئی تھی اُس کا ایک لڑکا اور ایک لڑکی تھی اُس نے دوسری شادی نہیں کی اور خود اپنے بچوں کی پرورش کی.اسی طرح ہمارے ایک دوست قادیان کے ہیں پیر افتخار احمد صاحب یہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے سالے اور منشی احمد جان صاحب کے بیٹے ہیں.منشی احمد جان صاحب کو خدا تعالیٰ نے ایسی بصیرت عطا کی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی دعویٰ مسیحت بھی نہیں کیا تھا کہ انہوں نے حضور کو لکھا.ہم مریضوں کی ہے تہی پہ نظر تم مسیحا بنو خدا کے لئے تم مسیحا نوخدا کے لئے.

Page 325

318 تو وہ بہت بڑے بزرگ اور ولی اللہ تھے.اُن کے بیٹے پیر افتخار احمد صاحب بچوں کے پالنے میں بڑے ماہر ہیں.مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم سلسلہ کے بہت بڑے رُکن تھے.اُن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حضور ایک قرب حاصل تھا اور سلسلہ کے معاملات میں بہت غیرت رکھتے تھے.اُس زمانہ میں تکلف اور آسائش وغیرہ کا خیال تو ہوتا ہی نہیں تھا.پیر صاحب کے رہنے کے لئے ایک کوٹھری حضرت صاحب کے گھر میں تھی اور اُس کے اوپر والی کوٹھری میں مولوی عبد الکریم صاحب رہا کرتے تھے.پیر صاحب کے بچوں کے رونے چلانے کی آواز آنے پر اُن کو غصہ آیا کرتا تھا اور اکثر پیر صاحب سے فرمایا کرتے تھے پیر صاحب آپ بھی کیسے ہیں بچوں کو چُپ کیوں نہیں کراتے مجھے تو اُن کے رونے کی آواز سے سخت گھبراہٹ ہوتی ہے جب ۱۹۰۵ ء میں زلزلہ آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام مع اپنے دوستوں کے باغ میں رہنے لگے تو ان دونوں کے جھونپڑے بھی پاس پاس تھے وہاں ایک دن مولوی صاحب نے پیر صاحب سے کہا " پیر صاحب ! میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کے بچے روتے ہیں اور آپ نے اُن میں سے ایک کو نہایت اطمینان سے کندھے سے لگایا ہوا ہوتا ہے اور دوسرے کو نرمی سے پچکارتے رہتے ہیں.اگر میرے پاس ہوں تو ایسا نہ ہو سکے بلکہ مجھے تو یہ دیکھ کری گھبراہٹ ہوتی ہے پیر صاحب مسکرائے اور کہنے لگے میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ بچوں کو تو میں نے اٹھایا ہوتا ہے اور آپ کو یونہی گھبراہٹ کیوں ہوتی ہے.تو بعض مرد ایسے ہوتے ہیں.مگر بالعموم مردوں کو اگر بچے سنبھالنے پڑیں تو تھوڑی ہی دیر میں گھبرا جائیں.مجھے تو پانچ منٹ بھی اگر بچہ رکھنا پڑے تو گھبرا جا تا ہوں.لیکن محور میں کھانا پکانا، پڑھنا لکھنا سب کام کرتی ہیں.اور بچوں کی نگہداشت سے اور اُن کے رونے چلانے سے ذرا نہیں کمبرا تیں.اگرگھبر ابھی جائیں تو ذراسی چپت رسید کی اور ایک منٹ کے بعد پھر گلے لگا لیا.غرض فطرتیں اللہ تعالیٰ نے مختلف رکھی ہیں.اگر کوئی چاہے کہ دونوں کے فرائض بدل دئے جائیں تو دونوں اپنے کاموں میں ناقص رہ جائیں گے.ہر ایک اپنا کام کر سکتا ہے.جیسا کہ اگر کوئی ہاتھ کا کام پیر سے لینا چاہے یا پیر کا کام ہاتھ سے لینا چا ہے تو یہ ناممکن ہے.بیسیوں کام ہاتھ کے ایسے ہیں جو پیر یا تو بالکل کر ہی نہیں سکے گا یا اگر کرنیکی کوشش کرے گا تو خراب کر دے گا.دونوں کے کام مختلف ہیں اور علیحدہ علیحدہ کاموں کے لئے خدا تعالیٰ نے ہاتھ اور پاؤں بنائے ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے جہاں بعض باتوں میں مرد اور عورت میں اتفاق رکھا ہے وہاں دونوں کے مختلف کاموں

Page 326

319 کے مدنظر اختلافات بھی رکھتے ہیں.مگر افسوس کہ ہمارے مرد اور عورتیں اس فرق کو نہیں سمجھتے.مرد تو اختلافات پر زور دیتے ہیں مگر عورتیں اتحاد و اتفاق پر زور دیتی ہیں.حالانکہ دونوں غلطی پر ہیں.مرد شادی کے بعد عورت کو ایک حقیر جانور خیال کرتا ہے جو اس کے پاس آنے کے بعد اپنے تمام تعلقات کو بھول جائے.اور وہ یہ امید کرتا ہے کہ وہ بالکل میرے ہی اندر جذب ہو جائے اور میرے رشتہ داروں میں مل جائے.اگر وہ اپنے رشتہ داروں کی خدمت یا ملاقات کرنا چاہے تو یہ بات مرد پر گراں گزرتی ہے اور بعض اوقات تو وہ دیدہ دلیری سے ایسی بات یا حرکت کا مرتکب ہوتا ہے جو اُس عورت کے خاندان کے لئے ذلت کا باعث ہوتی ہے.وہ نہیں سوچتا کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کے اندر بھی ویسا ہی دل رکھا ہے جیسا کہ اُس کے اپنے اندر.ان باتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عورت کی صحت خراب ہو جاتی ہے اور وہ بچاری اپنے جذبات کو دبا دبا کر رکھتی ہے اور اس کے نتیجہ میں رسل اور دق کا شکار ہو جاتی ہے اور میرے خیال میں آج کل ہسٹیر یا وغیرہ کی بیماریاں ہیں اُن کا یہی سبب ہے.پس مرد سمجھتا ہے کہ عورت میں جس ہی نہیں حالانکہ اُس کے پہلو میں بھی ویسا ہی دل ہے جیسا کہ اُس کے اپنے پہلو میں.اگر وہ سمجھتا ہے کہ اُس کی بیوی کے اندر ایک محبت کرنے والا دل ہے تو کیونکر ہو سکتا ہے کہ وہ ماں جس نے اپنی بیٹی کو ایسی حالت میں پالا تھا جبکہ اگر وہ مرد اُس کود یکھتا تو ہر گز دیکھنا بھی پسند نہ کرتا.اُسے وہ چھوڑ دے؟ یہی حال آج کل کی ساسوں کا ہے وہ بھول جاتی ہیں اپنے زمانہ کو، وہ بھول جاتی ہیں اُس سلوک کو جو اُن کے خاوندوں نے یا اُن کی ساسوں نے اُن سے کیا تھا.اسی طرح عورتیں اپنی بہوؤں کے جذبات اور طبعی تقاضوں کا خیال نہیں کرتیں اور بات بات پر لڑائی شروع کر دیتی ہیں حالانکہ یہ طریق غلط ہے.دنیا میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مرد عورت کے جذبات کے متعلق اتنی بد خیالی کرتا ہے گویا عورت میں دل ہی نہیں یا عورت کے جذبات ہی نہیں.لیکن عورتوں میں یہ بات بہت ہی کم دیکھی گئی ہے.بعض عورتیں ہوتی ہیں.جوز بر دست ہوتی ہیں جو کہتی ہیں کہ مرد سب کچھ بھول جائیں اور صرف اُنہی میں محو ہو جائیں مگر بہت ہی کم.رسول کریم ﷺ کو ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کس قدر اپنے رشتہ داروں کے جذبات کا خیال رکھتے تھے.ایک دفعہ آپ گھر میں تشریف لائے دیکھا کہ آپ کی بیوی ام حبیبہ ( جو ابو سفیان کی بیٹی تھی ) کی ران پر اپنے بھائی کا سر ہے اور وہ اُن کے بالوں سے کھیل رہی ہیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اہم حبیبہ کیا آپ کو

Page 327

320 معاویہ بہت پیارا ہے؟ انہوں نے جواب دیا.ہاں.آپ نے فرمایا مجھے بھی بہت پیارا ہے.آج کل کی تعلیم یافتہ عورتیں یہ سمجھنے لگ گئی ہیں کہ ہم بھی وہ سب کام کر سکتی ہیں جو مر د کر سکتے ہیں.اگر گشتی کرتے ہیں تو عورتوں نے بھی کشتی لڑنی شروع کر دی ہے.حالانکہ کجا عورتوں کی شرم و حیا اور کجا کشتی.اسی طرح عورتیں کہتی ہیں کہ ہم نوکریاں کریں گی.حالانکہ اگر وہ نوکریاں کریں گی تو اُن کی اولادیں تباہ ہو جائیں گی.وہ بچوں کی تربیت کیونکر کر سکیں گی.یہ غلط قسم کی تعلیم ہی ہے جس نے عورتوں میں اس قسم کے خیالات پیدا کر دئے ہیں.ولایت میں عورتوں کے اس قسم کے طریق اختیار کرنے پر ایک شور برپا ہے.چنانچہ جن ملکوں کے لوگوں میں اولادیں پیدا کرنے کی خواہش ہے وہ یہی چاہتے ہیں کہ عورتوں کے لئے تمام ملازمتوں کے دروازے بند کر دئے جائیں اور جس کام کے لئے عورتیں پیدا کی گئی ہیں وہی کام کریں حالانکہ گھر میں سب سے قیمتی امانت بچہ ہے اور بچہ کی تعلیم و تربیت ماں کا اولین فرض ہے.اگر عورتیں نوکری کریں گی تو بچوں کی تربیت ناممکن ہے.میری غرض اس تمہید سے یہ ہے کہ جہاں خدا تعالیٰ نے عورت کوفکر اور دل و دماغ بخشا ہے تا کہ وہ عرفان حاصل کرے وہاں مردوں اور عورتوں میں اختلاف و اشتراک بھی رکھا ہے اور مردوں کو اپنے اختلاف دیکھتے ہوئے اپنے کام کرنے چاہئیں اور عورتوں کو اپنے.ہاں جن باتوں میں اشتراک ہے وہ مرد اور عورت دونوں پر فرض ہیں.مثلاً جہاں مرد کے لئے نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ فرض ہیں وہاں عورتوں پر بھی فرض ہیں تا دونوں اپنے اپنے اعمال کی جزا سزا حاصل کریں اور یہ قانون بھی خدا تعالی کی حکمت کے ماتحت ہے.لیکن جہاد کے متعلق رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جہاد عورتوں پر فرض نہیں مجھے مردوں کے لئے جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے.ہاں جنگ میں عورتیں مرہم پٹی کرسکتی ہیں.اصل ذمہ داری عورتوں پر بچوں کی تعلیم و تربیت کی ہے اور یہ ذمہ داری جہاد کی ذمہ داری سے کچھ کم نہیں.اگر بچوں کی تربیت اچھی ہو تو قوم کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے اور قوم ترقی کرتی ہے اگر اُن کی تربیت اچھی نہ ہو تو قوم ضرور ایک نہ ایک دن تباہ ہو جاتی ہے.پس کسی قوم کی ترقی اور تباہی کا دارومدار اس قوم کی عورتوں پر ہی ہے.اگر آجکل کی مائیں اپنی اولادوں کی تربیت اسی طرح کریں جس طرح صحابیات نے کی تو کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ اُن کے بچے بھی ویسے ہی قوم کے جان نثار سپاہی ہوتے جیسے صحابیات کی اولادیں تھیں.اگر

Page 328

321 آج بھی خدا نخواستہ جماعت احمدیہ میں کوئی خرابی واقعہ ہوئی تو اس کی عورتیں ہی ذمہ دار ہوں گی.الغرض ماؤں کی ذمہ داری اس قدر اہم ہے کہ اگر مخلص مرد چاہیں کہ وہ اپنی اولادوں کی تربیت کریں تو اُن میں ایسا کرنے کی طاقت نہ ہوگی.کیونکہ بچوں کی تربیت کرنے کی طاقت اور ملکہ عورت میں ہی ہے اس لئے تمہیں چاہئے کہ تم اپنی اس اہم ذمہ داری کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہ کرو بلکہ پوری توجہ سے اس فریضہ کو ادا کرو.تم میں سے کتنی ہیں جو یہ چاہتی ہیں کہ تمہارا بچہ خوبصورت ہو، تندرست ہو، اگر وہ بدصورت ہوتا ہے یا کالا ہوتا ہے تو تم سارے جہاں کے پوڈر لگا لگا کر اُس کو خوبصورت بنا کر دیکھنے کی کوشش کرتی ہو.لیکن اگر تم اُس کو انسانوں والی شکل دے بھی دو مگر اُس کی رُوح انسانوں والی نہ ہو تو کیا تم اس کو دیکھ کر خوش ہو گی ؟ اگر تم اپنے بچوں کی رُوح کی خوبصورتی کی پرواہ نہ کرو گی تو تم اُس کی سخت ترین دشمن ثابت ہوگی کیونکہ تم نے ظاہری زیبائش اور آرائش میں کوئی کمی نہ کی مگر اُس کے اندر شیطان پیدا ہو گیا.پس اگر آج کی عورتیں اپنے بچوں کی تربیت کا خیال چھوڑ دیں گی تو آئندہ نسل انسان نہیں بلکہ سانپ اور بچھو پیدا ہوں گے.تو پھر کیا تم اُس وقت جب سانپ اور بچھو انسانوں کی شکل میں آجائیں اُن کو دیکھ کر خوش ہو گی ؟ اگر تمہارے ہی بیچے تمہاری تربیت کے نتیجہ میں کسی دن نیک ہوں گے تو تمہارے لئے اور تمہاری رُوحوں کے لئے دعا ئیں کریں گے ورنہ وہ تم پر لعنت کے سوا اور کیا بھیجیں گے.ایسی کئی مثالیں ہیں کہ مائیں اپنے بچوں کو چوری اور ڈاکے اور جھوٹ کی عادتیں ڈالتی ہیں.مثلاً ایک بچہ کو چوری کی عادت تھی وہ باہر سے سکول سے چیزیں پھر اپر اگر گھر لا تا اور ماں اُس سے وہ چیزیں لے لیتی.ایسی ہی باتوں کے نتیجہ میں وہ پکا چور اور قاتل بن گیا.اُسے پھانسی کی سزاملی جیسا کہ قاعدہ ہے.اُس لڑکے سے بھی پھانسی دئے جانے سے قبل پوچھا گیا تمہاری آخری خواہش کیا ہے؟ اُسنے کہا کہ مجھے میری ماں سے ملا دو.جب اُس کی ماں آئی تو اس نے اس کے کان میں بات کہنے کے بہانے پر اس کے کان کو دانتوں سے کاٹ ڈالا.لڑکے نے اس فعل کی نسبت دریافت کئے جانے پر بتلایا کہ اگر یہ میری ماں نہ ہوتی تو آج میں پھانسی نہ چڑھتا.اس نے ہی مجھے انسان سے شیطان بنایا ہے.یہ ضروری نہیں کہ عملی طور پر ہی بدیاں اور بری باتیں مائیں اپنے بچوں کو سکھائیں بلکہ بے پروائی اور بے تو جہی سے جو بدیاں بچے میں پیدا ہو جائیں یا جو بری عادتیں وہ سیکھ لیتا ہے اس کی ذمہ داری بھی عورتوں پر ہی آتی ہے.تم میں سے بہت ہیں جو یہ کہیں گی کہ میرا بچہ بے شک کلمہ نہ پڑھے لیکن زندہ رہے.لیکن تم میں سے

Page 329

322 کتنی ہیں جو یہ کہیں کہ میرا انچہ کلمہ پڑھ لے پھر بے شک مرجائے.ایک عورت اپنے بیمار بچہ کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے پاس آئی اور کہنے لگی میرا بچہ عیسائی ہو گیا ہے آپ اس کا علاج بھی کریں لیکن جو بات وہ اصرار کے ساتھ کہتی تھی وہ یہ تھی کہ آپ اس سے ایک کلمہ پڑھوا دیں پھر بے شک یہ مرجائے مجھے کوئی پروا نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ اصلاۃ والسلام نے اس لڑکے کو چونکہ وہ بیمار تھا حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجاتا آپ اس کی بیماری کا علاج بھی کریں اور کچھ تبلیغ بھی کریں لیکن وہلڑ کا بڑا پتہ تھا وہ کلمہ پڑھنے سے بچنے کی خاطر ایک رات بھاگ کر چلا گیا.رات کو ہی اُس کی ماں کو بھی پتہ چل گیا وہ بھی اُس کے پیچھے دوڑ پڑی اور بٹالہ کے نزدیک سے اُسے پکڑ کر پھر واپس لائی.آخر خدا نے اُس کی سنی اُس کا بیٹا ایمان لے آیا.بعد میں گو وہ فوت بھی جلد ہو گیا مگر اس عورت نے کہا میرے دل کو ٹھنڈ پڑ گئی ہے موت سے پہلے اُس نے کلمہ تو پڑھ لیا ہے.یہ ہوتی ہے صحیح تربیت اور یہ ہوتی ہے وہ روح جو اسلام عورت میں پھونکنا چاہتا ہے.اس قسم کی تربیت کرنے والی عورتیں جو اپنے بچوں کو نیک اور تربیت یافتہ دیکھنا پسند کرتی ہیں.وہ اپنے لئے ہی نہیں بلکہ ساری قوم کے لئے فائدہ مند ہوتی ہیں.وہ ساری قوم کو زندہ کرنے والی ہوتی ہیں.امام بخاری بہت بڑے آدمی تھے.اُن کے بڑے آدمی ہونے میں اُن کی ماں کا بہت بڑا حصہ تھا.تو کیا تم مجھتی ہو کہ ایسی ماں سے فائدہ اُٹھانے والے کا ثواب اُن کی ماں کو نہ ملتا تھا ؟ نہیں امام بخاری کی نیکیوں کے ثواب میں اُن کی ماں بہت حد تک حصہ دار تھیں.اسی طرح حضرت امام ابو حنیفہ کی والد ہ تم نہیں کہ سکتیں کہ معمولی عورت تھیں.وہ ہرگز معمولی صورت نہ تھیں.کیا ابو حنیفہ کو بنانے والی معمولی عورت ہو سکتی ہے؟ قرآن کریم میں خدا تعالی فرماتا ہے کہ جب کوئی انسان کسی بڑے درجے کو پہنچے گا تو اس کے ماں باپ اور دیگر رشتہ داروں کو اس کے ساتھ رکھا جائے گا اور وہ بھی اس کے ثواب کے مستحق ہوں گے.مومن کے بنانے میں اُس کے ماں باپ کا حصہ ہوتا ہے.ایک ہندو ماں کا یا ایک عیسائی ماں کا بچہ اگر مسلمان ہو جائے گا تو یہ مت خیال کرو کہ اُس کی ماں کو ثواب نہ ملا ہوگا.اگر چہ اُس کی ماں پوری طرح نہ بخشی جائے گی لیکن پھر بھی اُس کے گناہوں میں کمی ہو گی.تم میں سے اکثر جہاد کی خواہش مند ہیں لیکن آؤ میں تمہیں بتلا دوں کہ یہ جہادی ہے اگر تم اپنے بچوں کی صحیح تربیت کرو گی اور اُن کو نیک بناؤ گی.تم اور حکومتوں میں تو کہہ سکتی ہو کہ اگر بچوں کی خدمت میں لگی رہیں گی تو ہم تاجر کیسے بنیں گی.اگر ان

Page 330

323 کی تربیت میں ہی لگی رہیں تو وزیر وکیل اور جرنیل کیسے بنیں گی اور دنیا میں امن قائم نہیں کر سکتیں.لیکن تم اسلام میں رہ کر یہ نہیں کہ سکتیں.بے شک تم عیسائی قوم کو اس کا جواب نہیں دے سکتیں لیکن اسلام نے تو تمہارا یہ اعتراض دُور کر دیا ہے.اسلام کہتا ہے کہ اگر تمہارا بیٹا جرنیل بنے گا اور وزارت کے کام کر کے دُنیا میں امن قائم کرے گا تو اس کا ثواب بھی تم کو ملے گا کیونکہ یہ تم ہی تھیں جس نے ایسا بیٹا بنایا جس نے دنیا میں کا رہائے نمایاں کئے.غرض جس جنت کا تمہارا بیٹا وارث ہو گا اُسی جنت کی اسلام نے تم کو حقدار ٹھہرایا ہے.پس تمہاری تمام تر کامیابی کا انحصار تمہاری اولاد کی تربیت پر ہی تھی.تم نماز و روزہ اور صدقہ و خیرات کی پابند رہو.اگر تم ان باتوں پر کار بند نہ ہو گی تو تمہاری اولادیں کس طرح احکام شریعت کی پابند ہوں گی.تم اپنے نیک نمونہ سے ہی ایک حد تک اپنی اولاد کی تربیت کر سکتی ہو کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ انسان جو نمونہ دکھاتا ہے اردگرد کے لوگ اس کا نمونہ قبول کرتے ہیں اور بچہ میں تو نقل کا مادہ بہت زیادہ ہوتا ہے.اگر مائیں اپنی اولادوں کے لئے نیک نمونہ نہیں بنتیں تو یقیناً اُن کی اولادوں کی تربیت اچھی طرح ہونا ناممکن ہے.پھر قر آن کریم میں اللہ تعالیٰ نے علم کی شرط مرد اور عورت کے لئے برابر رکھی ہے.وہ تعلیم جو دُنیا کی اغراض کے لئے حاصل کی جاتی ہے اُس کا ثواب نہیں ملتا.خدا تعالیٰ اُن نیکیوں کا بدلہ دیتا ہے جن کا بدلہ اس دُنیا میں نہیں ملتا.مرد بیشک اکثر دنیا کی اغراض کے لئے تعلیم حاصل کرتے ہیں مگر ایسی تعلیم کا اُن کو کوئی ثواب نہیں ملتا.ہاں عورتوں کے لئے تعلیم مکمل کر کے ثواب حاصل کرنے کا زریں موقع ہے کیونکہ عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے میں دنیاوی غرض کوئی نہیں ہوتی بلکہ تعلیم کی غرض محض تعلیم ہی ہے اس لئے عور تمیں تعلیم حاصل کر کے ثواب حاصل کر سکتی ہیں.جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے تم روزہ رکھتے ہو، تم نمازیں پڑھتے ہولیکن اس دُنیا میں تمہیں اس کا بدلہ نہیں ملتا اس لئے میں آخر میں تم کو اس کا بدلہ دوں گا.تم اپنے لڑکوں کو تعلیم دلواتے ہو، وہ پڑھ کرنوکر ہوتے ہیں تمہیں کھلاتے ہیں، پہناتے ہیں تو تم نے اُن کو تعلیم دلوانے کا بدلہ پالیا.لیکن جولڑ کی کی تعلیم پر تم خرچ کرتی ہو اس کا ثواب تمہیں اس دُنیا میں نہیں ملتا.اس کے لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس شخص کی دولڑکیاں ہوں وہ اُن کو اعلی تعلیم دلواتا ہے اور اُن کی اچھی تربیت کرتا ہے تو وہ جنت میں جائے گا.تو لڑکیوں کی تعلیم کے لئے جنت کا وعدہ ہے مگر لڑکوں کے لئے نہیں.یہ تربیت کا کام معمولی نہیں.تمہیں خود علم ہو گا تو دوسروں کو علم سکھاؤ گی اس لئے تم پہلے خود تعلیم حاصل کر دتا اپنی اولادوں کی صحیح

Page 331

324 معنوں میں تربیت کر سکو.تم لوگوں کا فرض ہے کہ جس قدر جلدی ہو سکے اپنی تعلیم و تربیت کا خیال کرو.اگر اپنی تعلیم کی طرف توجہ نہ کرو گی تو قوم درست نہیں ہوگی اور یقینا سلسلہ کی جو خدمت تمہارے ذریعہ ہوسکتی ہے اور جو معمولی خدمت نہیں وہ تم سے بالکل نہیں ہو سکے گی.یہ اچھی طرح یاد رکھو کہ اسلام اور سلسلہ کی جو خدمت تم اپنی اولاد کی صحیح تربیت کر کے کر سکتی ہو وہ اور کوئی نہیں کر سکتا.تم کوشش کر کے اُن کی بچپن سے ہی اس رنگ میں تربیت کرو تا ان کی جانیں سلسلہ کی خدمت کے لئے تیار ہوں.تم اُن کو بچپن ہی سے یہ تعلیم دو کہ سچائی پر عامل ہوئی ، وہ جھوٹ نہ بولیں کیونکہ اگر تمہارا بچہ جھوٹ بولتا ہے تو وہ تم کو بھی بدنام کرتا ہے اور خدا کو بھی ناراض کرتا ہے.تم ان کو یہ تعلیم دو کہ تمہاری جانیں سلسلہ کے لئے ہیں کیونکہ جانی قربانی کرتے وقت سب سے پہلے جو اُن کے دل میں جذبہ پیدا ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ ہمارے پیچھے ہماری ماؤں کا اور ہماری بیویوں کا کیا حال ہوگا.اگر تم ہی اُن کو یہ کہہ دو کہ ہم تب ہی خوش ہوں گی جب تم یا تو فتح پا کر آؤ یا وہاں ہی مارے جاؤ تو پھر اُن کے بوجھ ہلکے ہو جائیں گے اور قربانیاں کرنے کے میدان میں وہ دلیر اور چست گام ہو جائیں گے وہ اپنی زندگیاں قربان کرنے میں ذرہ بھی لرزہ نہ کھائیں گے.صحابہ نے فتوحات پر فتوحات حاصل کیں لیکن کیوں؟ اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ ہماری موت ہماری ماؤں کو کوئی صدمہ نہیں پہنچائے گی ، وہ جانتے تھے کہ ہماری موت ہماری بیوی کو کوئی صدمہ نہیں پہنچائے گی بلکہ اُن کے لئے فرحت و خوشی کا موجب ہوگی اس لئے وہ نڈر ہو کر نکلتے تھے اور فتح حاصل کر کے آتے تھے.جنگِ اُحد کے موقع پر ایک عورت نے اپنی قوت ایمان کا وہ مظاہرہ کیا کہ دُنیا اُس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے.اس جنگ کے موقع پر مشہور ہو گیا کہ رسول کریم وہ شہید ہو گئے ہیں عورتیں بیتاب ہو کر میدان جنگ کی طرف بھاگ نکلیں.ایک عورت نے آگے بڑھ کر پوچھا تو ایک سپاہی نے جواب دیا.اے عورت تیرا خاوند شہید ہو گیا.لیکن اُس عورت نے کہا میں رسول اللہ اللہ سے متعلق پوچھتی ہوں تم مجھے ان کا حال بتاؤ.لیکن پھر اُس آدمی نے کہا کہ تمہارا باپ مارا گیا.اُس عورت نے پھر بھی پروانہ کی اور پوچھا کہ مجھے رسول کریم ﷺ کے متعلق خبر دو.لیکن اس سپاہی نے اس کے کرب و بیقراری کا صحیح علم نہ رکھتے ہوئے اُس کے بھائی کے متعلق کہا کہ وہ بھی مارا گیا.لیکن پھر اُس عورت نے غصہ کے ساتھ بڑے زور سے پوچھا کہ

Page 332

325 میں تو رسول اللہ ﷺ کا حال تم سے پوچھ رہی ہوں اپنے باپ یا بھائی یا خاوند کا نہیں پوچھ رہی.تو پھر سپاہی نے جواب دیا کہ رسول اللہ یہ تو خیریت سے ہیں.یہ خبر پا کر اُس عورت کے دل میں خوشی اور اطمینان کی لہر دوڑ گئی اور بے اختیار کہنے لگی.الحمد للہ اللہ تعالیٰ کا رسول خیریت سے ہے دوسرے مارے گئے تو کوئی پروا نہیں.پس سوچو کہ اُس عورت کے بھائی ، باپ اور خاند کیوں میدانِ جنگ میں گئے اس لئے کہ اُس کا خاوند جانتا تھا کہ اگر میں مارا گیا تو میری بیوی کو میری وفات کا کوئی صدمہ نہ ہوگا اُس کے بھائی یہ سمجھتے تھے کہ ہماری بہن ہماری شکست پر زندہ درگور ہوگی مگر تمہارے بچوں کے دل کیوں ڈرتے ہیں؟ اس لئے کہ وہ دیکھتے ہیں کہ ہماری ماں جاتے وقت روتی ہے.اس طرح دو یہ دل ہو جاتے ہیں.پس تم اسلام کی ایک عظیم الشان خدمت کر سکتی ہو.اگر تم اپنے بیٹوں کو ابو بکڑ یا عمر بنا دو گی اور یقیناً جو مقام تمہارے بیٹے کو ملے گا وہی تمہیں ملے گا.اس کے بعد میں تحریک جدید کی طرف عورتوں کو خاص طور پر توجہ دلاتا ہوں.اس میں جو بات عورتوں کے ساتھ خاص طور پر تعلق رکھتی ہے وہ سادہ زندگی ہے.یعنی لباس ، زیور اور کھانے پینے میں سادگی.اس وقت ہندوستانیوں کی حالت نہایت گری ہوئی ہے سارے ملکوں کی دولت یورپ میں جا رہی ہے.مسلمان بھی نہایت ذلت کی حالت میں ہیں.ایک ہندوستانی کی ایک ادنیٰ سے ادنی انگریز کے سامنے کوئی ہستی ہی نہیں.ایک انگریز چوہڑا ہی اگر ہندوستان میں آجائے تو وہ عزت والا ہوتا ہے مگر ہندوستانی کوکوئی پوچھتا بھی نہیں.یہ اس لئے کہ انگریز حاکم ہے اور ہندوستانی محکوم.اسی وجہ سے ہمارا ملک روز بروز کمزور ہورہا ہے.اور عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کے لوگ بھی اپنی حالت کو آپ خراب کر رہے ہیں وہ اپنے زیور اور مال و دولت سے ہی اپنے ملک کو کمزور کرنے پر تلے ہوئے ہیں.زمیندار لوگوں میں بے شک سادگی ہے مگر وہ اپنے بیا ہوں شادیوں پر ضرورت سے زیادہ خرچ کرتے ہیں اور ساری عمر اس کے سود سے نجات نہیں پاسکتے.ہمارے سامنے اس قسم کی زندہ مثال فیروز پور کے ایک شخص کی ہے جس نے شروع میں پچاس روپے قرض لئے مگر اس قرضے کے سُود در سُود کے نتیجہ میں وہ لاکھوں کا مقروض ہو گیا.اسی طرح شہری لوگ بھی حد سے زیادہ اسراف کرتے ہیں.میں نے کئی مرتبہ جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے اور آج پھر تمہاری توجہ اس طرف مبذول کرتا ہوں کہ بجائے قرضہ اُٹھانے کے تم کیوں نہیں یہ کرتیں کہ پہلے بچا لیا کر دتا تمہیں قرضہ

Page 333

326 لینے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے.تم کہہ سکتی ہو کہ ہمارے پاس بچانے کے لئے کچھ نہیں.لیکن کیا جب تمہارے پاس کھانا کھانے کو چند پیسے نہیں ہوتے تو تم فاقہ کرتی ہو نہیں بلکہ قرضہ لیتی ہو اور کھانے کا سامان کرتی ہو.میں تمہیں کہتا ہوں کہ تم فاقے کرو تا آئندہ تمہاری اولا دین تمہارے لئے دعا کریں.ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق کچھ نہ کچھ ضرور جمع کر سکتا ہے.اگر تم بھی کچھ نہ کچھ پس انداز کرتی جاؤ گی تو تمہارا خاوند بنٹے کے پاس نہیں جائیگا.آخر خود ہی سوچو کہ تم کس لئے اپنی اولادوں کو مقروض بناتی ہو چار پانچ روپے کے لئے ؟ اور اس معمولی سی رقم کی وجہ سے تمہاری اولادیں اپنی ساری عمر غلامی میں بسر کرتی ہیں اور کہتی رہتی ہیں کہ خدارحم کرے ہمارے دادا پر کہ اُس نے دس ہزار روپیہ ہمارے سر چڑھا دیا اور ساری عمر کے لئے بننے کا غلام بنا دیا.اگر اُن کی مائیں تھوڑا تھوڑا بھی جمع کرتی رہتیں اور اپنے نفس کو قابو میں رکھتیں اور قرضہ نہ لیتیں تو غلامی سے نجات ہو جاتی.کفایت شعاری کسی قوم کے افراد کا پہلا اور اہم فرض ہے.اور کفایت شعاری ہی وہ اصل ہے جس پر عمل کر کے کوئی قوم ترقی کر سکتی ہے.تم اپنے خاوندوں کو اسراف سے روکو اور اپنے بچوں کو غلامی سے بچاؤ.پس کچھ نہ کچھ پس انداز کرتے رہنا چاہیئے اور کھانے اور پینے میں سادگی اختیار کرنی چاہیئے.ایک کھانا کھانے سے ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ امیر اور غریب آپس میں مل بیٹھیں گے اور امارت و غربت کا امتیاز مٹ جائے گا.دوسرا اس کا فائدہ ہے کہ ایک کھانا کھانے سے انسان کی صحت اچھی رہتی ہے.زیادہ کھانا کھانے سے ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ معدے کمزور ہو جاتے ہیں.پیچش اور کسل کی شکایت رہتی ہے.ایسے لوگ نہ تو نماز پڑھ سکتے ہیں نہ روزہ رکھ سکتے ہیں.کھانوں کے شوقین نمازوں میں بھی مرغن کباب اور متنجن کے خواب دیکھتے رہتے ہیں.مگر اس کے مقابلہ میں سادہ زندگی میں ایسی لذت ہے کہ عبادتوں میں بھی ایک لذت محسوس ہوتی ہے.ایک صوفی صاحب سے جب پوچھا گیا کہ خدا کس طرح مل سکتا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ کم کھانے ہم سونے اور کم بولنے سے یہ تین چیزیں خدا سے ملاتی ہیں.پس تحریک جدید جو ہے وہ کم خوردن پر زور دیتی ہے.سادہ زندگی اختیار کرنے سے تم شور بہ پکاؤ گی تو تم آسانی سے دو اور غریبوں کو اپنے ساتھ کھانا کھلا سکو گی.اس طرح تمہارا دل بھی خوش ہو جائے گا اور غریب کا دل خوش کرنے سے تو خدا تعالیٰ بھی خوش ہو جاتا

Page 334

327 ہے.اسی طرح اگر تم کھانوں میں کمی کروگی تو تمہاری دعوتیں وسیع ہو جائیں گی اور روپیہ بھی کم خرچ ہوگا.جو روپیہ بچے گا تم اپنے بچوں کی تعلیم پر خرچ کر سکو گی.اور تم چندے بھی دے سکو گی اور دوسرے دینی مشاغل میں بھی وہ بچایا ہوا رو پیہ صرف کر سکو گی اگر امیر عورتیں ایسی عادت ڈالیں تو وہ اپنے خاوندوں کو بھی سدھار سکتی ہیں.اور میں نے کئی ایسی مثالیں دیکھی ہیں جہاں عورتوں نے مردوں کو سدھارا.اور انہوں نے اپنے خاوندوں کو بھی تقلص بنا دیا.وہ چونکہ خود سادہ زندگی بسر کرتی تھیں اس لئے انہوں نے اپنے خاوندوں کو بھی ایسا بنا دیا.پس تحریک جدید میں عورتوں کا بہت بڑا دخل ہے.تم اقتصادی طور پر اپنے خاوندوں کی مدد کرو سادہ خوراک اور سادہ کھانے کی عادات ڈالو.جو عورت زیور سے خوش ہو جاتی ہے وہ بڑے کام نہیں کرسکتی.پس سادہ کھانا کھاؤ سادہ کپڑے پہنو اور مساوات قائم کرو ورنہ خدا تعالیٰ خود تمہارے اندر مساوات قائم کر دے گا.آج کل خدا تعالیٰ ایک نئی بادشاہت قائم کرنا چاہتا ہے.نئی بادشاہت میں امیر غریب ہو جائیں گے اور غریب امیر.جو مصیبت امیر اپنے اوپر عائد کریں گے اس کا کوئی دوسرا ذمہ دار نہ ہو گا بلکہ وہی خود زمہ دار ہوں گے.اگر تم دنیا میں سکھ حاصل کرنا چاہتی ہو اور خدا کو بھی خوش کرنا چاہتی ہو تو اپنے مالوں میں سے غریبوں کو بھی حصہ دو.اگر تم ایسا نہیں کرو گی تو وہ دن نزدیک ہیں کہ خدا اس کا انتظام کرے.تم اُن دنوں کا انتظارمت کرو بلکہ خود ہی ثواب اٹھاؤ.میں امید کرتا ہوں کہ تم اپنی اولادوں کی تربیت کی طرف خاص توجہ کروگی اور دنیا کے لئے اپنے آپکو ایک نمونہ بناؤ گی.از مصباح ۱/۱۵ جنوری ۱۹۳۹ء ) جلسی خلافت جو بلی کی مبارک تقریب کے موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا خواتین جماعت سے خطاب لجنہ اماءاللہ قادیان کے ایڈریس کا جواب اور عورتوں کو ضروری نصائح ۲۷.دسمبر ۱۹۳۹ء کو جلسہ خلافت جو بلی کی مبارک تقریب پر حضرت خلیفتہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے حضور سیدہ ام طاہر احمد صاحبہ مرحومہ جنرل سیکرٹری لجنہ اماءاللہ قادیان نے تہنیت نامہ پیش کیا جس میں حضور

Page 335

328 کے ان گراں مایہ احسانات کا ذکر کیا گیا جو حضور نے طبقہ نسواں پر فرمائے ہیں.حضور نے تشہد اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد ایڈریس کے جواب میں مندرجہ ذیل تقریر فرمائی:.لجنہ اماءاللہ قادیان کی طرف سے جو ایڈریس اس وقت پڑھا گیا ہے میں پہلے تو اس کے متعلق انہیں جزاكم الله احسن الجزاء کہتا ہوں پھر انہیں یقین دلاتا ہوں کہ طبقہ نسواں کی اصلاح کا کام ہرگز کسی شخص کا احسان نہیں بلکہ یہ ایک فرض ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس کے رسولوں اور اُن کے جانشینوں کے کندھوں پر عائد کیا جاتا ہے.پس جو فرض میں خدا تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے ادا کرتا ہوں وہ کوئی احسان نہیں بلکہ اپنی عاقبت کے لئے میں ایک ذخیرہ جمع کرتا ہوں.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں اور مرد سب کے سب ایک ہی مقصد کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور وہ مقصد خدا تعالیٰ کے قرب کا حصول ہے.اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ سب مرد اور عورتیں مل کر اُس کے حضور پاک دل اور نیک ارادہ لے کر آئیں اور خدا تعالیٰ کے قرب میں وہ اعلے اسے اعلے اور جے حاصل کریں.سارا قرآن اسی سے بھرا پڑا ہے.چنانچہ جہاں جنت کا ذکر ہے وہاں مردوں اور عورتوں کو اکٹھا شامل کر لیا گیا ہے.گو احکام میں مردوں اور عورتوں کا اکٹھا کر نہیں بلکہ مردوں کے ذکر میں ہی عورتوں کو شامل کر لیا گیا ہے اور در حقیقت قرآن حکیم ہی وہ واحد اور کامل کتاب ہے جس نے عورتوں کے حقوق قائم کئے.اس سے پہلے نہ موسیٰ کی کتاب میں ان تمام حقوق کا ذکر تھا، نہ میسی کی تعلیمات میں یہ تمام باتیں پائی جاتی تھیں ، نہ حضرت نوح، حضرت ابراھیم اور دیگر انبیاء نے ان امور کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا.صرف قرآن کریم ہی ہے جس نے دنیا کو بتلایا کہ عورت بھی ویسی ہی ترقی کی تڑپ اپنے اندر رکھتی ہے جس طرح مرد اور ویسی ہی اُمنگیں، ویسے ہی جذبات اور ویسی ہی قربانی کی روح اور ارادے رکھتی ہے جس طرح مر در کھتے ہیں.وہ قرآن کریم ہی ہے جس کے ذریعہ پہلی دفعہ دُنیا میں یہ آواز بلند ہوئی کہ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ اے مردو! جو عورتوں کے حقوق تلف کرتے آئے ہو اب ہم اعلان کرتے ہیں کہ جس طرح تمہارے بعض حقوق عورتوں پر ہیں اسی طرح عورتوں کے بعض حقوق تم پر ہیں.ویسے ہی اختیارات حاصل ہیں جس طرح مردوں کو تو آج دنیا اس تعلیم سے بے بہرہ نہ رہتی اور نہ ذلت میں پھنستی.اس کی ذمہ داری تم پر ہے اگر تم نے اپنے بیٹوں کو یہ تعلیم دی ہوتی کہ عورتوں کے حقوق شریعت اسلامیہ نے قائم کئے ہوئے ہیں جنہیں تو ڑنا شدید ترین گناہ ہے

Page 336

329 تو تم کبھی غلامی کی زنجیروں میں نہ جکڑی جاتیں.پس یہ قرآنی تعلیم ہے اور اس پر عمل کرنا اور دوسروں سے کرانا ہر مومن کا فرض ہے کسی کا احسان نہیں.اور میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اس معاملہ میں ہماری طرف سے کوئی کوتا ہی نہیں ہو سکتی.اور جب تک کوئی خدا تعالیٰ کو ماننے والا ہے عورتوں کی ترقی و تنظیم کے لئے اس کی طرف سے ضرور کوششیں جاری رہیں گی کیونکہ اگر وہ کوتاہی کرے تو وہ تمہارا گنہگار نہیں بلکہ خدا کا گنہگار ہوگا.لیکن اس وقت عورتوں کا ایک حصہ بعض ایسے حقوق طلب کرنے لگ گیا ہے جو قرآن کے خلاف ہیں.مثلا یہ کہ عورتیں پارلیمنٹ کی ممبر بنیں ، گھوڑے کی سواری کریں، ظاہر ہے کہ ایسی عورت بچوں کی تربیت نہیں کر سکتی یہی وجہ ہے کہ یورپ میں ماں کی گود تربیت کا موجب نہیں ہے بلکہ اس کے لئے نرسنگ ہوم مقرر میں جہاں بچے بھیج دئے جاتے ہیں.دائیاں دودھ پلاتی اور کھلاتی ہیں.جب بچے بڑے ہوتے ہیں تو بورڈنگ میں داخل کر دیئے جاتے ہیں کیونکہ مائیں ناچ گانے میں لگی رہتی ہیں.حالانکہ خدا تعالیٰ نے انسانی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے.جس طرح ڈاکٹر اور وکیل دونوں اپنی اپنی جگہ مفید کام کرتے ہیں اسی طرح عورتیں اپنی جگہ کام کر رہی ہیں اور مرد اپنی جگہ.اور مرد اور عورت دونوں کے کاموں کے دائرے الگ الگ ہیں.لیکن اگر یہ اصول رائج کیا جائے کہ سب لوگوں کو وکیل ہونا چاہیئے یا ساری دنیاڈاکٹر ہونی چاہیئے یا سارے ہی لو ہار یا ترکھان ہونے چاہئیں تو دنیا کا کارخانہ تباہ ہو جائے.برابری کے یہ معنے نہیں کہ عورت اور مرد دونوں ایک کام کریں بلکہ یہ ہیں کہ قومی طور پر دونوں پر یکساں طور پر ذمہ داریاں عائد ہیں.چنانچہ دیکھ لو اللہ تعالیٰ نے عورت پر یہ کتنی بڑی ذمہ داری عائد کی ہوئی ہے کہ ایک طرف وہ لڑکے کی تربیت کرتی ہے اور دوسری طرف لڑکی کی.گویا ایک طرح سارے زمانہ کو اُس کی غلامی میں دیدیا جاتا ہے.اسی حقیقت کو رسول کریم نے اس حدیث میں فرمایا ہے کہ عورت کے قدموں کے نیچے جنت ہے.اسی طرح مرد کو کہا گیا کہ فلاں بات تم عورت سے منوا سکتے ہو اور فلاں نہیں.مثلاً اپنے مال میں وہ بالکل آزاد ہے.عجیب بات ہے کہ یورپ جو آج شور مچا رہا ہے کہ اس نے عورت کی عزت اور آزادی قائم کی وہاں بھی عورت کے حقوق صرف بیس سال سے رائج ہوئے لیکن اسلام نے ساڑھے تیرہ سو سال سے عورت کے حقوق کو قائم کیا ہوا ہے.ضرورت اس امر کی ہے کہ عورتیں نہ تو یورپ کی آزادی اختیار کریں اور نہ جہالت میں گرفتار ہیں.مثلاً بعض عورتیں کہہ دیا کرتی ہیں کہ مذہب خدا کی مرضی کا نام ہے.اور جب خدا کی مرضی سمجھ میں آجائے تو خاوند کی

Page 337

330 مرضی اُس کے متعلق ضروری ہوتی ہے.حالانکہ یہ بالکل غلط ہے کہ خاوند کو یا بھائی کو یا باپ کو مذہب کے معاملہ میں عورت پر کسی قسم کا تصرف حاصل ہے.ہر عورت کو حق ہے کہ جب دین کی کوئی بات سمجھ میں آجائے تو اس پر عمل کرے خواہ سب اس کے مخالف ہوں.وہ یہ عذر نہیں کر سکتی کہ میرے باپ یا بھائی یا خاوند نے اجازت نہیں دی.خدا کہے گا کہ صداقت کے معاملہ میں میں نے تجھے کسی کے ماتحت نہیں رکھا تھا.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کا تعلق دماغ سے رکھا ہے اور دماغ میں جو کچھ ہوتا ہے اُس کا دوسرے کو علم نہیں ہوتا.اب تم اتنی عورتیں یہاں بیٹھی ہو ممکن ہے کسی عورت کا بچہ شور مچارہا ہو اور تم اپنے دل میں یہ کہہ رہی ہو کہ کیسی نالائق ہے اس نے لیکچر خراب کر دیا مگر وہ تمہارے ان خیالات سے بالکل ناواقف ہوگی.تو دماغ کو اللہ تعالیٰ نے ایک مخفی خزانہ کی صورت میں بنایا ہے جس کے اوپر نہ بادشاہ کوحکومت حاصل ہے نہ باپ یا بیٹے یا استاد کو.گو یا خدا تعالیٰ نے تمہیں یہ ایک ایسا صندوق دیا ہے جس میں تم اپنے ضروری راز رکھ سکتی ہو.اگر تم کسی کو دس سال بھی اپنے پاس رکھو تو اس کو پتہ نہیں لگے گا کہ تمہارے اس صندوق میں کیا ہے جب تک تم خود شد بتلاؤ کہ میرے دماغ میں کیا ہے.وہ تمہارا ذاتی ٹرتک ہے.اگر تم کوئی راز کسی کو جتلانا چاہتی ہوتو کنجی لگا کر کھول لیتی ہو اور جو نہیں بتلانا چاہتی کنجی نہیں لگاتیں.پس خدا تعالیٰ نے ہر ایک کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اس خزانہ کو محفوظ رکھے یہ ہر ایک کا ذاتی ٹرنک ہے جس میں کسی کو اگر کوئی شریک کرنا چاہتا ہے تو اس کا دروازہ کھول دیتا ہے اور اگر شریک نہیں کرنا چاہتا تو اس کو نہیں کھولتا.پس اللہ تعالی نے دماغ کی کبھی تمہارے ہاتھ میں دی ہے اور سچائی کے معاملے میں نہ تو مرد کو اس پر حق حاصل ہے نہ بھائی کو.ہزار ہا عورتیں ایسی ہیں جو سچائی کے کھلنے پر بھی نہیں مانتیں اور ایمان کو محض باپ یا ماں یا خاوند وغیرہ کے ڈر کی وجہ سے حاصل نہیں کر سکتیں.آنحضرت ﷺ کے پاس ایک دفعہ ایک عورت آئی اور اُس نے کہا یا رسول اللہ! میرا خاوند صدقہ دینے سے منع کرتا ہے کیا میں پوشیدہ طور پر صدقہ دیدیا کروں؟ آپ نے فرمایا.ہاں.گویا ان معاملات میں عورت کو حق دیا گیا ہے کہ وہ خاوند کے مال سے بغیر دریافت کئے خرچ کر سکتی ہے.پس ان حقوق کو جو خدا تعالیٰ نے تمہیں دئے ہیں.یادرکھو اور اس کے احسانات کی قدر کرو تا کہ تمہاری ترقی ہو.الله اب میں ایڈریس کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.اس میں ایک غلطی کی گئی ہے.اور وہ یہ کہ صرف قادیان کی لجنہ کا حق نہیں تھا کہ وہ انفرادی رنگ میں اپنی طرف سے ایڈریس پیش کر دیتی بلکہ باہر کی لجنات کا بھی حق

Page 338

331 تھا اور کوئی وجہ نہ تھی کہ اُن کو شامل نہ کیا جاتا.قادیان کی لجنہ کو اس لئے خصوصیت حاصل نہیں کہ وہ ایک ممتاز لجنہ ہے بلکہ اس لئے فوقیت حاصل ہے کہ وہ مرکزی لجنہ ہے.اگر وہ اپنے نام کے ساتھ صرف قادیان کا نام نہ لکھتیں تو دوسروں کے حوصلے وسیع ہو جاتے اور رتمام لجنات کی طرف سے مشترکہ ایڈریس ہو جاتا.اس کے بعد میں جماعت کی مستورات کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں اپنے اپنے مقام پر بنات قائم کرنی چاہئیں اور کام کرنے والی عورتیں اس میں داخل کرنی چاہئیں.جس طرح دماغ بات نہیں کر سکتا اسی طرح جب تک ہاتھ نہ ہوں انسان کوئی کام نہیں کر سکتا.اگر کسی جگہ آگ لگ جائے اور ایک لنگڑا آدمی وہاں ہو تو اُس کا دماغ فورا یہ فیصلہ کر دے گا کہ بھاگ جا.لیکن اس کے پاؤں جواب دے رہے ہوں گے اور باوجود دماغ کے فیصلہ کے وہ بھاگ نہیں سکے گا.اسی طرح اگر ایک عورت کا بچہ گڑھے میں گر جائے تو باوجود اس کے کہ عورت کا دماغ کہے گا کہ اسے نکال.اگر اُس کے ہاتھ نہیں تو وہ نکال نہیں سکے گی.بجنات بھی نظام سلسلہ میں بازو کی حیثیت رکھتی ہیں اور ضروری ہے کہ تمام مقامات پر ان کا قیام کیا جائے.پس اپنی اپنی جگہ لبنات قائم کرو اور اپنی اخلاقی تعلیمی اور دینی تربیت کا سامان کرو.اس وقت تک صرف ۲۵ لبنات قائم ہیں حالانکہ مردوں کی ساڑھے سات سو انجمنیں ہیں.تمہیں چاہیئے کہ اس ستی کو دور کر واور ہر جگہ لجنہ اماء اللہ قائم کرنے کی کوشش کرو.ایک انگریز نومسلم خاتون کا تہنیت نامہ حضور کی تقریر بھی جاری تھی کہ انگلستان کی احمدی خواتین کی نمائندہ انگریز نومسلم خاتون محترمہ سلیمہ صاحبہ تشریف لائیں.حضور نے از راہ کرم اپنی تقریر کو بند کرتے ہوئے انہیں اپنا ایڈریس پیش کرنے کا موقع دیا.چنانچہ خاتون موصوفہ نے اپنا ایڈریس انگریزی زبان میں حضور کی خدمت میں پیش کیا اور حضور نے انگریزی ہی میں اُس کا موزوں جواب دیا.بعد ازاں فرمایا :.یہ ہماری نومسلمہ بہن ہے جس کا نام سلیمہ ہے.انگلستان کی رہنے والی ہیں.ان کی تار مجھے صبح ملی تھی کہ وہ آرہی ہیں اور انہیں اپنا ایڈریس سنانا ہے.دس بجے آنے کا خیال تھا لیکن وقت پر نہ پہنچ سکیں.تم نے دیکھا ہے کہ کس خوبصورتی کے ساتھ انہوں نے بسم اللہ پڑھی ہے.تم میں سے بہت کم ہونگی جو اس رنگ میں صحیح بسم اللہ پڑھ سکتی ہوں.انگریز لوگ عربی نہیں پڑھ سکتے.پھر یہ کیسے افسوس کی بات ہے کہ عیسائی

Page 339

332 عورت تو اس خوبصورتی سے پڑھے اور تم اس ملک کی ہو کر بسم اللہ صبح نہ پڑھ سکو.یہ چند باتیں بطور نصیحت میں نے مختصر بیان کر دی ہیں.کیونکہ آج اس قسم کی مصروفیت ہے کہ میرے لئے لمبی تقریر کرنا مشکل ہے.دوسرے مردوں میں جو تقریر ہوتی ہے وہ بھی چونکہ لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ عورتیں سُن سکتی ہیں اس لئے بظاہر کسی علیحدہ تقریر کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن چونکہ رسول کریم نے کبھی کبھی عورتوں میں تقریر فرمایا کرتے تھے اس لئے باجود لاؤڈ سپیکر کے میں نے اس سلسلہ کو جاری رکھا.اسی سنت کے ماتحت میں آج بھی ایک مختصر سی تقریر کر دینا چاہتا ہوں.اس کے بعد حضور نے مستقل تقریرفرمائی جو درج ذیل کی جاتی ہے.تشہد تعوذ کے بعد حضور نے حسب ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت کی :.وَالَّذِيْنَ لَا يَشْهَدُونَ الرُّوْرَ وَإِذَ مَرُّوْ ابِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَاماً ، وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِايَتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمَّا وَعُمْيَانًا وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَاسِنُ أَزْوَجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًاهُ أَوْلَئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةُ بِمَا صَبَرُوا وَيُلْقُونَ فِيهَا تَحَيَّةٌ وَسَلَمًا هِ خَلِدِينَ فِيهَا ط حَسُنَتْ مُسْتَقَرٌّ أَو مُقَاماً ه قُلْ مَا يَعْبَوابِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ ج فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونَ لِزَامًاه (الفرقان ۶ ع٤) اس کے بعد فر مایا:.بعض مرضیں بعض قوموں میں زیادہ ہوتی ہیں.مثلاً ہمارے ملک میں سینکڑوں خون ہر سال ہو جاتے ہیں ذرا غصہ آیا مرد نے گنڈاسا اُٹھایا اور دوسرے کا سرکاٹ دیا.کسی جگہ زمین کا جھگڑا ہوگیا یا شادی بیاہ یالین دین کے معاملہ میں اختلاف ہو گیا تو قتل کر دیا.یہ بات عورتوں میں بہت کم ہے.اگر سارے سال میں سینکڑوں مرد پھانسی پاتے ہیں تو اس کے مقابلہ میں عورت صرف ایک ہوگئی.مگر بعض ایسی باتیں ہیں جو عورتوں میں زیادہ ہوتی ہیں.جس طرح مردوں میں قتل و خونریزی زیادہ ہے اسی طرح عورتوں میں جھوٹ زیادہ ہے اور جہاں مرد گنڈ ا سالئے پھرتا ہے وہاں عورت زبان سے قتل عام کرتی پھرتی ہے اس لئے رسول کریم نے بیعت لیتے وقت عورتوں سے یہ عہد لیا کرتے تھے کہ ہم جھوٹے اتہام نہیں باندھیں گی.معلوم ہوتا ہے عرب عورتوں میں اتہام لگانے کی عام عادت تھی پھر جھوٹ بولنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچوں کو بھی اس کی

Page 340

333 عادت پڑ جاتی ہے.وہ مجھتے ہیں کہ جب ہماری ماں جھوٹ بولتی ہے تو ہم اس سے زیادہ کیوں نہ بولیں.ایک قصہ مشہور ہے کہتے ہیں دو دوستوں نے آپس میں کہا کہ اپنے اپنے خاندان کی کوئی بات سُناؤ.اس پر ایک کہنے لگا کہ اب تو وہ بات نہیں رہی ہم تو بڑے رئیس ہوا کرتے تھے.چنانچہ ہمارے نانا کا اتنا بڑا طویلہ تھا کہ جب قحط پڑا کرتا تو سارے شہر کے جانور اس کے ایک کونے میں سما جاتے.دوسرا کہنے لگا ہمارے نانا جان کے پاس ایک ایسا بانس تھا کہ کبھی بارش نہ ہوتی تو وہ بانس سے بادلوں کو چھید کر بارش برسا لیتے.دوسرے کو غصہ آگیا کہنے لگا تمہارے نانا جان یہ بانس رکھا کہاں کرتے تھے.وہ کہنے لگا تمہارے نانا جان کے طویلہ میں.اب دیکھو یہ کتنا بڑا جھوٹ ہے جو ان دونوں نے بولا.تھوڑے ہی دن ہوئے میں نے ایک اور قصہ پڑھا ہے کہ ایک رنگریز کی لڑکی سکول میں داخل ہوئی.اُدھر سے ایک حلوائی کی لڑکی بھی داخل ہوئی.اُس نے اُس سے پوچھا کہ تم کون ہو تو حلوائی کی لڑکی کہنے لگی کہ میرے لیا ڈپٹی ہیں.دوسری کہنے لگی کہ میرے لیا بڑے بینکر ہیں.ساہوکارہ کا کام ہے اور بیسیوں ہمارے مکان ہیں.ایک دفعہ اُس نے اپنی سہیلی کی دعوت کر دی.اب بینکر کی لڑکی کے ہاں نوکر تو تھے نہیں اُسنے اپنے بھائی بہنوں کو نوکر بنایا، پیسٹری رکھی جلیبیاں منگوائیں ، بازار سے چائے کے برتن منگوائے اور جب ڈپٹی کی لڑکی آئی تو دونوں طرف سے باتیں ہونے لگیں.ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ ایک ہمسائی آئی.جب اُس کی نظر دوسری لڑکی پر پڑی تو کہنے لگی یہ تو ہمارے رنگریز بھائی کی لڑکی ہے.حلوائی کی لڑکی کہنے لگی یہ تو بینکر کی لڑکی ہے وہ کہنے لگی ٹینکر کی بیٹی ہے، یہ تو ہمارے محلہ کے فلاں رنگریز کی لڑکی ہے.تو یہ پاکھنڈ محض اس لئے بنایا کہ وہ اس کو امیر سمجھے اور یہ اُس کو.تو اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ النُّور.مومن جھوٹ سے الگ رہتا ہے.اگر اُسے پتہ لگے کہ فلاں نے جھوٹ بولا ہے تو اُس کی دوستی چھوڑ دیتا ہے اور وہ کسی جھوٹے سے تعلق نہیں رکھتا.اور گو اس تعلیم کے مرد بھی مخاطب ہیں مگر عورتیں اس کی زیادہ مخاطب ہیں.اسی وجہ سے بیعت کی شرطوں میں آپ جھوٹ سے بچنے کے عہد کو بھی شامل کر لیا گیا ہے.پہلے بیعت کے الفاظ یہ تھے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھو گی مگر اب اس کے ساتھ یہ زیادہ کر دیا گیا ہے کہ میں جھوٹ نہیں بولوں گی.پس تم اپنے دلوں میں یہ قرار کرو کہ جھوٹ نہیں بولوں گی.جھوٹ کے یہ معنے نہیں کہ تم ہر ایک کو اپنی بات بتلاؤ.مثلا اگر کسی چور کی بیوی تمہارے پاس راز لینے آتی ہے تو تم اس سے کہہ سکتی ہو کہ میں نہیں بتاتی جاؤ نکل جاؤ.یہ جھوٹ نہیں ہوگا.

Page 341

334 لیکن یہ ضرور جھوٹ ہو گا کہ تم اُسے اصل جگہ چُھپا کر دوسری جگہ بتاؤ.پس آج تمام احمدی عورتیں کان کھول کر سُن لیں کہ عورت کی بیعت میں یہ عہد شامل ہے.اور جو جھوٹ بولے گی وہ خود اپنی بیعت کی شرط کوتوڑنے والی قرار پائے گی.وَإِذَ امَرُّ وَبِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا پھر مومن کی یہ علامت بتلائی کہ جب وہ کوئی لغو بات دیکھتا ہے تو اُس کے پاس سے گزر جاتا ہے.لیکن یہ بات نہایت ہی افسوس ناک ہے کہ عورت ہمیشہ لغویات کی طرف متوجہ ہوتی ہے.مثلاً بلا وجہ دوسری سے پوچھتی رہتی ہے کہ یہ کپڑا کتنے کالیا، یہ زیور کہاں سے بنوایا اور جب تک اس کی ساری ہسٹری معلوم نہ کر لے اُسے چین نہیں آتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سُنایا کرتے تھے کہ ایک عورت نے انگوٹھی بنائی لیکن کسی نے اس کی طرف توجہ نہ کی.اُس نے تنگ آکر اپنے گھر کو آگ لگا دی.لوگوں نے پوچھا کچھ بچا بھی ؟ اس نے کیا سوائے اس انگوٹھی کے کچھ نہیں بچا.ایک عورت نے کہا تم نے یہ انگوٹھی کب بنوائی تھی ؟ یہ تو بہت خوبصورت ہے.وہ کہنے لگی اگر یہی بات تم پہلے ہو چھولیتیں تو میرا گھر کیوں جاتا.یہ عادت عورتوں سے ہی مخصوص نہیں بلکہ مردوں میں بھی ہے.السلام علیکم کے بعد پوچھنے لگ جاتے ہیں کہاں سے آئے ہو؟ کہاں جاؤ گے؟ کیا کام ہے؟ آمدنی کیا ہے؟ بھلا دوسرے کو اس معاملہ میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ انگریزوں میں یہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ ایک دوسرے سے پوچھیں کہ تو کہاں ملازم ہے؟ تعلیم کتنی ہے ؟ تنخواہ کیا ملتی ہے؟ وہ کبھی کریدنے کا خیال نہیں کرتے.غرض عورتوں میں یہ لغویت انتہاء درجہ کی ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن لغو کام نہیں کرتا جن لوگوں کو بڑی باتوں کا خیال ہوتا ہے اُن کو چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف توجہ کرنے کی بھلا فرصت ہی کب ہو سکتی ہے.اگر تمہیں دین کا فکر ہو اور تمہیں معلوم ہو کہ اسلام ایک خطر ناک مصیبت میں گھرا ہوا ہے تو تم کو دوسری طرف توجہ ہوہی نہیں سکتی.تمہارے گھر میں آگ لگی ہوئی ہو تو تم کسی طرح چھین لے سکتی ہو.اسی طرح آج جبکہ مسلمانوں کے گھروں میں آگ لگی ہوئی ہے تم کس طرح یہ برداشت کر سکتی ہو کہ گوٹہ کناری میں مشغول رہو.کیوں نہیں تم وہ وقت اللہ تعالیٰ کے دین کے لئے وقف کر دیتیں اور کیوں تم وہی وقت دینی تعلیم کے لیے وقف نہیں کر دیتیں ؟ تمہارے دل مردہ ہیں جبھی تو خدا کے دین کی مصیبت تمہیں نہیں زلاتی اور تم لغو باتوں کی طرف متوجہ رہتی ہو.

Page 342

335 وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُو ابايتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًا وَّعُمْيَانًا.پھر مومن مرد اور مومن عورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جب اُن کے سامنے خدا کی باتیں بیان کی جاتی ہیں تو وہ بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گزر جاتے.یعنی جب ان کے سامنے خدا کی باتیں بیان کی جائیں تو یہ نہیں کہ عمل نہ کریں بلکہ فورا عمل پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی باتوں کو توجہ سے سنتے ہیں.میں نے مردوں میں دیکھا ہے کہ مرد گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں اور آواز تک نہیں نکالتے مگر عورتیں برداشت نہیں کر سکتیں اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد باتیں کرنے لگ جاتی ہیں.گویا اُن کی توجہ دین کی باتوں کی طرف ہوتی ہی نہیں.ہمارے ملک میں قصہ مشہور ہے کہ ایک بزرگ مسجد میں نماز پڑھنے گئے.امام کے خیالات پریشان تھے اسے نماز میں پندرہ روپوں کا خیال آ گیا.ادھر مقتدیوں کا خیال تھا کہ امام صاحب سورہ فاتحہ پڑھ رہے ہیں.مگر اُسے خیال تھا کہ پندرہ روپوں سے دلی سے فلاں فلاں چیزیں خریدوں گا.اسی طرح ہوتے ہوتے پانچ ہزار ہو گئے.رکوع میں خیال آیا کہ جب پانچ ہزار ہو جائیں گے تو بخارا جاؤں گا وہاں سے گھوڑے خریدوں گا اور اس طرح ہیں ہزار ہو جائیں گے پھر واپس دنی آکر میں سے چالیس ہزار بنالوں گا.اُدھر اللہ تعالی نے اُس بزرگ کو کشف میں یہ تمام باتیں بتا دیں اور وہ نماز توڑ کر الگ ہو گئے.سلام پھیر کر امام نے کہا تم کافر ہو.مسلمان ہوتے تو ہمارے ساتھ نماز کیوں نہ پڑھتے.وہ کہنے لگے میں کمزور ہوں زیادہ چل پھر نہیں سکتا.آپ تو دتی گئے پھر بخارا گئے وہاں سے گھوڑے لے کر پھر دتی آئے مجھ سے یہ سفر نہ ہو سکا اور میں آپ سے علیحدہ ہو گیا.وہ شرمندہ ہو کر معافی مانگنے لگا اور کہنے لگا آپ بزرگ معلوم ہوتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ذکر الہی کے موقع پر مومن پوری طرح متوجہ رہتے ہیں مگر تم میں سے بعضوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ ادھر نماز میں مصروف ہوئیں اور اُدھر تمہارا دماغ شامی کباب کا نسخہ تیار کرنے لگایا کسی اور دنیاوی کام کو سوچنے میں مصروف ہو گیا.غرض بہت سی عورتوں میں یہ مرض ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے ایک دفعہ عورتوں میں روزانہ لیکچر دینے شروع کئے.ایک دن کسی نے عرض کیا کہ حضور پوچھئے تو سہی یہ بھی کیا ہے.آپ نے ایک عورت کو بلا کر پو چھاوہ برابر پندرہ روز سے لیکچر سن رہی تھی مگر کہنے لگی یہی نماز روزہ کی باتیں ہوئی ہوں گی.یہ منکر آپ نے لیکچر ہی بند کر دئے.تو عورتیں بہت کم توجہ سے سنتی ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایمان کی علامت یہ ہے کہ تم تو جہ سے خدا تعالی کی باتیں سنو.

Page 343

336 پھر فرمایا.مومن کی علامت یہ ہے کہ وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ اِمَامًا - ہر انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات رکھی ہے وہ بڑائی چاہتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم تمہاری اس فطرت سے آگاہ ہیں اور ہم بھی چاہتے ہیں کہ تمہیں بڑائی مل جائے مگر اس کے حصول کا ذریعہ یہ ہے کہ تم اپنے لئے امام بننے کی دعا کرتے رہا کرو.اس میں بتایا کہ مومن کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر راضی نہیں رہنا چاہئے بلکہ لیڈر اور امام بنے کی خواہش کرنی چاہیئے.مگر کس کا امام؟ متقیوں کا امام غیر متقیوں کا نہیں.ممکن ہے تمہیں خیال پیدا ہو کہ ہر شخص کس طرح لیڈر اور امام بن سکتا ہے.سو میں بتاتا ہوں کہ اس سے مرد اور عورتیں دونوں حصہ لے سکتے ہیں.مرد اگر کوشش کرے کہ میری بیوی سمجھدار ہو، اسکو اعلیٰ ترقیات حاصل ہو جائیں، تو جب وہ تمہارے تابع چلے گی تو تم امام ہو گے اور بیوی ماموم اسی طرح اگر بیوی اپنی اولاد کی اعلیٰ تربیت کرے تو وہ امام ہو گی اور اولاد ماموم اور اولاد کے نیک کام بھی تمہاری طرف منسوب کئے جائیں گے.تم قبر میں سورہی ہوگی مگر جب تمہارے بچے صبح کی نماز پڑھیں گے تو فرشتے لکھ رہے ہوں گے کہ اس بی بی نے صبح کی نماز پڑھی.تم قبر میں سورہی ہوگی اور فرشتے لکھ رہے ہوں گے کہ اس بی بی نے ظہر کی نماز پڑھی.تم قبر میں سورہی ہوگی اور فرشتے لکھ رہے ہو تجھے کہ اس بیا بی نے عصر کی نماز پڑھی.چاروں طرف خاموشی ہوگی.تارے جگہ گار ہے ہوں گے.لوگ سورہے ہوں گے.لیکن تم نے اپنی اولا د کو تہجد کی عادت ڈالی ہوگی تو فرشتے لکھ رہے ہوں گے کہ اس نے تہجد کی نماز پڑھی.کتنی عظیم الشان ترقی ہے جو تم حاصل کر سکتی ہو اولئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرُفَةً بِمَا صَبَرُوا - جو لوگ خدا تعالیٰ کے لئے اس قسم کے نیک کام کریں گے.کوشش کریں گے کہ ان کے بچے نیک ہو جائیں.فرمایا قیامت کے دن ہم ان کو اعلیٰ سے اعلی جگہ دیں گے.جس طرح دنیا میں انہوں نے بچوں کو چوری سے ، جھوٹ سے، فریب سے اور اسی طرح اور بدیوں سے بچایا.اور جس طرح انہوں نے دنیا میں سلامتی پھیلائی اسی طرح جب وہ جنت میں جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا یہ وہ بندے ہیں جن سے میرے بندے امن میں رہے.جاؤ آج اُن کو سلامتی دو اور انہیں دار السلام میں داخل کر دو.خَالِدینَ فِيْهَا ، اس کے بدلہ میں وہ ہمیشہ ہمیش جنت میں رہیں گے.قُلْ مَا يَعْبَوابِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ فَقَد كُل يَتُمْ فَسَوْفَ يَكون براما -

Page 344

337 فرماتا ہے.یادرکھو! تم اُسی وقت تک مجھے پسندیدہ ہو جب تک تم ہماری باتیں مانو گی اگر تم ہماری باتیں نہ سُنو گی تو تمہارا خدا تمہاری کوئی پرواہ نہیں کرے گا اور اس کا وبال تمہارے سر پر پڑے گا.تم اس دنیا میں بھی ذلیل ہوگی اور تمہاری اولا د بھی برکتوں سے محروم رہے گی.کتنا خطر ناک وعید اور انداز ہے.کاش تم سمجھو.کاش تم اپنی اصلاح کرو.کاش ! تم خدا کی باتوں کی طرف توجہ دو.اور کاش ! خدا تمہارے دلوں کو پاک کر دے.اگر تمہاری اولادیں دین کی خدمت کریں گی تو بھی اُن کی نیکیوں میں حصہ دار ہوگی.اس دُنیا میں بھی اور اگلے جہاں میں بھی.میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تم کو نیک عمل کرنے کی توفیق دے اور اپنی برکتیں تمہارے گھروں پر نازل فرمائے.(از مصباح مارچ ۱۹۴۰ء) عورتیں مردوں سے کوئی علیحدہ چیز نہیں ہیں ! ۲۷ دسمبر ۱۹۴۰.حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جلسہ سالانہ میں خواتین جماعت احمدیہ کے سامنے مندرجہ ذیل تقریر فرمائی:.تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.عورتوں کے متعلق ایک مسئلہ ایسا ہے کہ اگر اُسے رات دن عورتوں کے کان میں ڈالا جائے اور صبح شام اُن کو اور مردوں کو اس کی اہمیت بتائی جائے تو بھی اس زمانہ کے لحاظ سے یہ کوشش تھوڑی ہوگی.کیونکہ یہ مرض جس کی طرف میں اشارہ کر رہاں ہوں ہزاروں سال سے دُنیا میں چلا آتا ہے.اور جو مرض ہزاروں سالوں سے چلا آئے اُس کا ازالہ ایک دفعہ کہنے سے نہیں ہو سکتا.مردوں اور عورتوں دونوں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ عورتیں مردوں سے علیحدہ چیز ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت سی ذمہ داریاں جو ان پر عائد ہوتی ہیں اُن کی طرف یا تو وہ توجہ نہیں دیتیں یا اُن کو وہ اہمیت نہیں دیتیں جو دینی چاہیئے.یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ اس کی اہمیت کو جتنا بھی ظاہر کیا جائے اتنا ہی اُن کے لئے فائدہ مند ہے.میں نے دیکھا ہے یہ خیال اتنا وسیع ہو گیا ہے کہ مرد خیال کرتے ہیں کہ عورتیں کوئی الگ چیز ہیں اور عورتیں بھی اپنے آپ کو ان سے علیحدہ چیز خیال کرتی ہیں.

Page 345

338 عورتیں ہمیشہ آدمی کے معنے مرد لیتی ہیں.اگر کسی مجلس میں مرد بیٹھے ہوں اور عورتوں سے پوچھا جائے کہ وہاں کون ہیں تو جواب دیتی ہیں کہ آدمی بیٹھے ہیں.حالانکہ آدمی کا مطلب انسانوں سے ہے.اور جس آدم کی اولا دمرد ہیں اسی طرح عورتیں.پھر جب عورتیں بیٹھی ہوں تو مرد کہہ دیتے ہیں کہ کوئی آدمی اندر نہ آئے وہاں عورتیں بیٹھی ہیں.اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ دو نسلیں ہیں.ایک آدم کی دوسری شیطان کی.جب مرد اپنے آپ کو آدم کی اور عورتوں کو شیطان کی ذریت قرار دیں گے تو کیسے ترقی کر سکیں گی.یہ خیال اتنا غالب آگیا ہے کہ جب بھی پڑھی لکھی عورت خواہ وہ گریجویٹ ہو یا مولوی مردوں کا ذکر کرے گی تو آدمی کہہ کر کرے گی حالانکہ خدا تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں میں انسانیت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں رکھا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:.يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوَجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرٌ أَوَّنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالا رُحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا فرمایا ! اے مرد اور عورتوں ! ہم تمہیں ایک بات بتاتے ہیں اسے یادرکھو.تم پر کئی دفعہ مصیبتیں آتی ہیں.کبھی ایسا ہوتا ہے کہ عورت کا بچہ بہار ہوتا ہے، کبھی خاوند، کبھی قرضہ ہو جاتا ہے، کبھی محلے والے دشمن ہو جاتے ہیں، کبھی تجارتوں میں نقصان ہو جاتا ہے، کبھی کوئی مقدمہ ہو جاتا ہے، اس وقت تمہیں بڑی گھبراہٹ ہوتی ہے.تم ادھر ادھر پھرتے ہو کہ کوئی پناول جائے ، کوئی دوست تلاش کرتا ہے ، کوئی وکیل تلاش کرتا ہے، کوئی رشتہ دار کے پاس جاتا ہے.فرماتا ہے.اتنی تکلیف کیوں اٹھاتے ہو.ہم تمہیں ایک آسان راستہ بناتے ہیں - وه يه كه اتَّقُوا رَبَّكُمْ.تم اس تکلیف کے وقت اللہ تعالیٰ کو ڈھال کیوں نہیں بنا لیتے.چھوٹے بچے میں سمجھ نہیں ہوتی لیکن اس پر بھی جب مصیبت آئے تو سید ھاماں کی طرف بھاگتا ہے.مگر بڑے آدمیوں کو دیکھو کوئی مشرق کی طرف جائے گا کوئی مغرب کی طرف کوئی جنوب کی طرف اور کوئی شمال کی طرف اور ان میں یہ پرا گندگی پائی جائے گی.تو فرمایا کہ اے انسان تو بچپن میں سمجھ نہیں رکھتا تھا.تو ماں کی طرف بھاگتا تھا.اب تو تو جوان ہو گیا ہے.اب اُس خدا کی طرف کیوں نہیں بھاگتا جس نے تجھ کو پیدا کیا.بچپن میں تمہیں خدا کی سمجھ نہیں تھی اب تو تم بڑے ہو گئے ہو.تم کیوں یہ خیال نہیں کرتے ہو کہ تمہارے ماں تو تمہاری حفاظت کر سکتی تھی مگر خدا نہیں کرسکتا.

Page 346

339 اتَّقُوْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم ان مصیبتوں کے وقت اپنے رب کو ڈھال بنا لیا کرو.اموں نے تم سب کو ایک جان سے پیدا کیا.ایک جان سے مراد مرد اور عورت کا مجموعہ ہے بعض لوگ اس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ یہاں آدم اور کو امراد ہیں کیونکہ آدم کی پسلی سے خوا پیدا ہو گئی.اگر آدم کی پسلی سے تو پیدا ہو گئی تھی تو عورت کو تکلیف دینے کی کیا ضرورت تھی.ہمیشہ مرد کی پسلی سے بچہ پیدا ہو جاتا.تو نفس واحدہ سے مراد یہ ہے کہ مرد اور عورت ایک ہی چیز ہیں.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں نے کہا لَنْ نَّصْبِرَ عَلَى طَعَامٍ وَاحِدٍ.اے موسے ہم ایک کھانے پر کفایت نہیں کر سکتے.حالانکہ وہ من اور سلوٹی دو کھانے کھاتے تھے لیکن چونکہ دونوں کو ملا کر کھاتے تھے اس لئے انہوں نے ایسا کہا.ماں کو بچے سے محبت ہوتی ہے مگر وہ پہلی میں سے پیدا نہیں ہوتا.اسی طرح ہر نر و مادہ میں محبت ہوتی ہے.سارس ایک جانور ہے اُن میں اس قدر محبت ہوتی ہے کہ یا مادہ مر جائے تو دوسرا بھوکا رہ کر مر جاتا ہے.تو محبت کا مادہ اللہ تعالیٰ نے فطرت میں رکھا ہے.جس طرح نر اور مادہ میں اُس نے محبت رکھی ہے اسی طرح مرد اور عورت میں رکھی ہے.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ مرد اور عورت نفس واحدہ ہیں.وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا.اور اس کی جنس میں سے ہی جوڑا بنایا ہے.مرد کی جنس عورت ہے اور عورت کی جنس مرد.مِنْهَا سے مرد مِنْ نَفْسِهَا ہے.عورت کا زوج مرد اور مرد کا زوج عورت ہے.مرد عورت کی قسم سے اور عورت مرد کی قسم سے ہے.اس آیت میں یہ بتایا کہ عورت کے زوج کا لفظ مرد کے لئے بولا جاتا ہے.اور مرد کے زوج کا لفظ عورت کے لئے بولا جاتا ہے.جسے کہتے ہیں جوتی کا جوڑا.ایک پاؤں ہو تو کہتے ہیں اس کا ر ا جوڑا کہاں ہے وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيراً.پھر ہر مرد اور عورت کی آگے نسل چلائی.وَاتَّقُو اللَّهَ الَّذی تسَاءَلُونَ یہ والا ز کام.اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو.جس کے ذریعے تم سوال کرتے ہو.اور تقویٰ اختیار کرو اُس خدا کا جس نے تمہارے اندر محبت پیدا کی.اور تمہاری اولاد کا سلسلہ جاری کیا.بے شک تم اپنے ماں باپ کا بھی خیال رکھو مگر خدا کو کبھی نہ کھولو.کیونکہ ماں باپ نے تم کو عارضی زندگی دی لیکن خدا نے تم کو دائی زندگی دی.اسی طرح بے شک رشتہ داروں کا بھی خیر : نو لیکن جس کا تعلق تمہارے ساتھ سب سے زیادہ ہے یعنی خدا اُس کا بھی خیال رکھو.إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا - جس طرح ماں بچے کی نگران ہوتی ہے اسیطرح خدا

Page 347

340 تمہارا نگران ہے.پس یہ خیال غلط ہے کہ مرد کوئی اور چیز ہے اور عورت کوئی اور چیز.جیسے مرد انسان ہے ویسے ہی عورت انسان ہے.ہاں کاموں میں فرق ہے.عورت بچہ جنتی ہے، بچے کی پرورش کرتی ہے، مرد روزی کماتا ہے اور بچوں کا پیٹ پالتا ہے.یہ کاموں کا جو فرق ہے اس سے میرے دل میں کبھی بھی یہ خیال نہیں آیا کہ یہ بھی کوئی ایسی چیز ہے جو عورت کے درجہ کو کم کرنے والی ہو.کاموں کے فرق مردوں میں بھی پائے جاتے ہیں.میں خلیفہ ہوں لیکن ہر مرد خلیفہ نہیں اور نہ میرے خلیفہ ہونے سے باقی احمدی مرد ہونے سے خارج ہو گئے.قوموں کے فرق کی وجہ سے کوئی جنس بدل جاتی ہے؟ عام طور پر خاندان میں کوئی بچہ کلرک ، کوئی مدرس اور کوئی پٹواری ہوتا ہے، اور باپ کا کام اور ہوتا ہے، بیٹے کا اور.اور پٹواری بھی مرد کہلاتا ہے، ڈاکٹر بھی مرد کہلاتا.تجارت کر نیوالا بھی مرد کہلاتا ہے.اسی طرح عورتوں میں دھوبن ، نائن ہوتی ہیں.اب دھوبن بھی عورت ہے اور نائن بھی عورت.یہ تو نہیں ہوتا کہ دھو بن اور نائن ہونے سے وہ عورت نہیں رہتیں.اسی طرح ایک نوکر ہوتا ہے اور ایک آقا.تو کاموں کے فرق کی وجہ سے جنس نہیں بدلتی.مردوں کے پیشوں میں بھی فرق ہے اور عورتوں کے کاموں میں بھی فرق ہے.وہ دونوں آدمی ہیں صرف کام الگ الگ ہیں.یہ مسئلہ اگر عورتیں سمجھ لیں تو وہ اپنے حقوق کی خود ہی حفاظت کرنے لگ جائیں.اگر ان کو یہ خیال ہو کہ ہم بھی آدمی ہیں اور مرد بھی انہیں آدمی سمجھنے لگ جائیں تو کسی کی طرف سے ایک دوسرے کے حقوق غصب نہ ہوں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کاموں کے لحاظ سے مردوں اور عورتوں میں فرق ہے لیکن خدا تعالیٰ نے عقائد میں کوئی فرق نہیں رکھا.سب سے بڑا عقیدہ یہ ہے کہ اُعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِ كُوا بِهِ شَيْئًا خدا تعالی پر ایمان لاؤ اور اُس کا کوئی شریک نہ ٹھہراؤ.اب کیا مردوں کو یہ حکم ہے عورتوں کو نہیں ؟ اسی طرح ملائکہ پر ایمان لانا ہے.جس طرح مردوں سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے فرشتوں پر ایمان لاؤ اسی طرح عورتوں سے بھی یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ فرشتوں پر ایمان لاؤ.تیسری بات الہام یعنی اللہ تعالیٰ کی کتابوں پر ایمان لانا ہے.نبیوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ اے مردو اسی کام کرو بلکہ انہوں نے یہی کہا کہ اے مردو اور اسے عور تو ! یہ کام کرو.پھر رسول کریم ﷺ جب تشریف لائے تو آپ نے بھی یہی فرمایا کہ اے مرد و اور عورتو! یہ کام کرو.بلکہ رسول

Page 348

341 صلى الله الله کریم ﷺ کے زمانہ میں سب سے پہلے ایمان لانے والی ایک عورت ہی تھی.چنانچہ جب آنحضرت ﷺ کو پہلی مرتبہ الہام ہوا تو آپ بہت گھبر ائے اور اُم المومنین حضرت خدیجہ سے گھبراتے ہوئے کہا کہ میں یہ کام کس طرح کروں گا.مجھے تو سخت فکر لگ گیا ہے.حضرت خدیجہ نے جواب دیا كُلًّا وَاللَّهِ لَا يُخْزِ يُكَ الله اَبَدًا.خدا کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ آپ کے سپر داتنا بڑا کام کرے اور آپ گوڑ سوا کر دے.آپ مہمان نواز ہیں.رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتے ہیں وہ ضرور آپ کی مدد کرے گا.تو رسول کریم نے پر سب سے پہلے ایمان لانے والی ایک عورت ہی تھی.فرض انبیاء جب کبھی کلام الہی لے کر آتے ہیں تو ان کے مخاطب عورتیں اور مرد یکساں ہوتے ہیں.اسی طرح قضاء قدر کے مسائل ہیں ان میں بھی مرد اور عورت یکساں مخاطب ہوتے ہیں.جزاء وسزا پر ایمان لانا بھی جس طرح مردوں کے لئے ضروری ہے اسی طرح عورتوں کے لئے ضروری ہے.غرض عقیدوں کو دیکھ لو ایک عقیدہ بھی ایسا نہیں جو مردوں کے لئے ہو اور عورتوں کے لئے نہ ہو.اس کے بعد ہم عمل کی طرف آتے ہیں.تو ہمیں عمل میں بھی کوئی فرق نظر نہیں آتا مثلا عمل میں نماز کا حکم ہے.نماز کا حکم جیسا مردوں کے لئے ہے ویسا ہی عورتوں کو ہے.وہی رکھتیں مردوں کے لئے ہیں اور وہی عورتوں کے لئے.پھر ز کوۃ کا حکم ہے.اس کا حکم بھی جیسا عورتوں کو دیا ویسا ہی مردوں کو....روزوں کا حکم ہے اس میں بھی کوئی فرق نہیں.حج میں بھی سب برابر ہیں.صدقہ و خیرات کے حکم میں بھی دونوں برابر ہیں.پس عقائد ایک سے ہیں اور اعمال ایک سے ہیں.پھر اگر کوئی یہ کہے کہ عورتیں الگ جنس ہیں تو ہم کیسے مان سکتے ہیں.تعجب ہے کہ وہ اسلام جو اس لئے آیا تھا کہ عورت کی عزت قائم کرے آج اُسی کو ماننے والی عورتیں اپنے آپ کو نالائق قرار دے کر اعلے دینی خدمات سے محروم ہورہی ہیں.اسی طرح مرد بھی اس اہم فرض سے غافل ہیں.گویا دونوں نسل انسانی کو ختم کر رہے ہیں اور اپنی ذلت و رسوائی کا باعث بن رہے ہیں.قرآن کریم میں آتا ہے وَإِذَ الْمَوْءُ وُدَةُ سُئِلَتْ.یعنی عورت کے متعلق سوال کیا جائے گا کہ اُسے زندہ کیوں گا ڑا گیا.اس میں اسی طرف اشارہ ہے کہ عورت کی تباہی کی ذمہ دار صرف مردوں پر نہیں اور نہ صرف عورتوں پر بلکہ دونوں اس کی تباہی کے ذمہ دار ہیں.آج جب قریبا ہر عورت یہ خیال کر رہی ہے کہ میرے اندر

Page 349

342 کام کرنے کی طاقت نہیں تو ہر ایک عورت اپنے آپ کو نہیں بلکہ ساری نسل کو زندہ درگور کر رہی ہے جس طرح مرد ان کو زندہ درگور کیا کرتے تھے.یہ وہ عورتیں ہیں جن کی آنکھیں تو کھلی ہیں لیکن دیکھتی نہیں.اور سانس تو لے رہی ہیں مگر دل مردہ ہیں.اس موت کے ذمہ دار سب سے پہلے ماں باپ ہیں جنہوں نے اُن کو جنا.پھر اُن کی موت کے ذمہ دار بڑے بھائی بہن ہیں.پھر اُن کی موت کے ذمہ دار خاوند ہیں.پھر اُن کی موت کے ذمہ داران کے بیٹے ہیں.ان سب نے مل کر انکو مار ڈالا.اگر تمہارے اندر بیداری پیدا ہو جائے تو سمجھ لو کہ عقائد اور کاموں کے لحاظ سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں.صرف ایک کام ہے جس میں مرد اور عورت کا فرق ہے اور وہ جہاد ہے.مگر اس میں عورت کو یہ اجازت دی گئی ہے، کہ وہ پانی پلا سکتی ہے، مرہم پٹی کر سکتی ہے اور زخمیوں کی خدمت کر سکتی ہے.چنانچہ حضرت بلال کی بہن نے رسول کریم ہے سے جب اس بارہ میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ تمہارا کام مرہم پٹی کرنا اور کھانا وغیرہ تیار کرنا ہے.پھر حضرت رسول کریم ﷺ مال غنیمت میں بھی عورت اور مرد کو برابر حصہ دیا ہے.صرف عورتوں کو لڑائی کے میدان سے الگ رکھا ہے جس میں حکمت یہ ہے کہ اُن کا پردہ قائم رہے.اگر وہ بھی لڑائی میں شامل ہوں تو نتیجہ یہ ہو کہ دشمن انہیں قید کر کے لے جائے.کیونکہ جب دو ملک آپس میں لڑتے ہیں تو لڑنے والوں میں سے کئی لوگوں کو قید کر لیا جاتا ہے.پس خدا تعالیٰ نے ان کو جہاد سے الگ کر دیا.اور مرہم پٹی کا کام اُن کے سپرد کر دیا.اگر عورتیں لڑائی میں حصہ لیتیں تو لازماً اُن کو بھی قید کیا جاتا.پس اُن کی عزت قائم رکھنے کے لئے انہیں لڑائی میں شامل ہونے سے روک دیا.ورنہ دنیا میں ایسی ایسی عورتیں گزری ہیں جو بڑے بڑے جرنیلوں سے مقابلہ کرتی رہی ہیں.مثلاً چاند بی بی نے بہت سے کارنامے دکھائے.حضرت ضرار کی بہن نے بھی کئی لڑائیوں میں حصہ لیا.ایک دفعہ عیسائی لشکر کا بہت زیادہ دباؤ پڑا اتنا کہ مسلمانوں کے قدم اکھٹر گئے.ضرار کی بہن نے ہندہ کو آواز دی کہ ہند و نکلو یہ مروانے کے قابل نہیں ہم لڑیں گی.انہوں نے خیمے اُکھاڑ کر ڈنڈے ہاتھ میں لے لئے اور اُنکے گھوڑوں کو مارنے لگیں.ابوسفیان نے اپنے بیٹے معاویہ سے کہا" ان عورتوں کی تلواریں عیسائیوں کی تلواروں سے زیادہ سخت ہیں.میں مرنا پسند کروں گا لیکن پیچھے نہیں لوٹوں گا.چنانچہ سب کے سب میدان جنگ میں لوٹ آئے.تو عورت لڑ بھی سکتی ہے مگر جولڑے اُس کے قید ہونے کا بھی چونکہ احتمال ہوتا ہے اس لئے اسلام یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ مسلمان عورت غیر کے ہاں جائے.

Page 350

343 پھر جہاد کے علاوہ ایک اور بات بھی ایسی ہے جس میں یہ امتیاز پایا جاتا ہے اور یہ کہ مرد نبی ہو سکتا ہے لیکن عورت نبی نہیں ہو سکتی.البتہ صدیق کا درجہ جو نبوت سے اتر کر دوسرا مقام ہے عورت کو مل سکتا ہے.تم نے سُنا ہوگا کہ حضرت ابوبکر کو ابو بکر صدیق کہا جاتا ہے.اسی طرح کہا جاتا ہے مریم صدیقہ.عائشہ صدیقہ.گویا جو درجہ خدا تعالیٰ نے مردوں کو دیا وہی عورتوں کو دیا.اسی طرح شہادت کا درجہ بھی عورت کو مل سکتا ہے.کوئی عورت اگر ز چکی کی تکلیف سے مرجائے تو شہید ہوگی.کیونکہ وہ نسل انسانی کے چلانے کا کام کر رہی تھی.اسی طرح عورت صالح بھی ہو سکتی ہے صرف نبوت کا درجہ عورت کو نہیں مل سکتا.لیکن نبی کو جو جنت میں انعام ملے گا اس میں عورت بھی حصہ دار ہو گی.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:.الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَولَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحَمَةٌ وَعِلْمًا فَاغْفِرُ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبيْلَكَ وَقِهِمْ عَذَابِ الْجَحِيمُ.“ فر مایا خدا کا عرش اُٹھانے والے کچھ فرشتے ہیں.وہ اپنے رب کی حمد اور تسبیح کرتے ہیں.اور جو مومن مرد اور مومن عورتیں ہیں اُن کے لئے دعائیں کرتے ہیں کہ اے خدا ہر بات کا تجھے علم ہے ہم تجھ سے عرض کرتے ہیں کہ وہ جو مومن بندے ہیں جو گناہ کر کے تو بہ کر لیتے ہیں تو اُن کو دوزخ کے عذاب سے بچا.اور اے ہمارے رب تو ان سارے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو جنت میں داخل کر جن کا تو نے اُن سے وعدہ کیا ہے.اگر بڑا مقام پانے والی عورت ہے تو اُس کے خاوند کو بھی وہاں رکھ.اور اگر بڑا مقام پانے والا کوئی مرد ہے تو اس کی بیوی کو بھی وہاں رکھ.اسی طرح باپ کے ساتھ اولا دکو اور اولاد کے ساتھ والدین کو رکھ.اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ.تو بڑا غالب اور بڑی حکمت والا ہے.اب ہم کہتے ہیں کہ کیا یہ دعا قبول ہوئی یا نہیں.اس کے لئے ہمیں قرآن کریم میں یہ آیات نظر آتی ہیں 66 جَنَّتَ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَ مَنْ صَلَحَ مِنْ أَبَا نِهِمْ وَأَزْواجِهِمْ وَذُرِّيَّتِهِمُ وَالْمَمْلَكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابِ ، سَلَام عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرُ تُم فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّاره (رعد رکوع ۳)

Page 351

344 یعنی مومنوں کو جنت ملے گی ہمیشہ رہنے والی.اور فرشتوں نے دعا کی تھی وہ ہم نے سُن لی.جو بڑے درجہ کے لوگ ہوں گے اُن کے ساتھ ہم چھوٹے درجہ کے مومنوں کو بھی جو اُن کے رشتہ دار ہوں گے رکھیں گے.ان کے باپ دادے اور بیویاں سب کے سب اعلیٰ درجہ کے لوگ ہوں گے.اور فرشتے ان خاندانوں کے پاس ہر روز دروازے سے آئیں گے اور کہیں گے کہ تمہارے رب نے تم کو سلام کہا ہے کیونکہ دُنیا میں تم نے خدا کے لئے تکالیف اٹھائیں.اب مرنے کے بعد تم میری حفاظت میں آگئے ہو.ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کی دعا قبول ہوگی اور اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اعلیٰ درجہ کے مومن کے ساتھ اُس کے باپ، ماں، دادا، دادی ، اولا د اور بیوی سب رکھے جائیں گے.اور جب خدا تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہے تو عورت کے سب حقوق اس میں آگئے.بے شک موسی نبی تھے اُن کی بیوی نہیں.مگر جنت میں جو انعام موسے علیہ السلام کو ملے گا وہی اُن کی بیوی کو ملے گا.اسی طرح سب سے بڑے نبی رسول کریم ﷺ تھے اور سب سے بڑا مقام بھی آپ کا ہی ہو گا مگر آپ کی گیارہ بیویاں بھی جنت میں آپ کے ساتھ ہی ہوں گی.غرض اعمال اور افعال کے لحاظ سے مردوں اور عورتوں میں کوئی فرق نہیں.اور جہاں کوئی فرق ہے وہاں صلى الله JU بدلہ ان کو زیادہ دے دیا ہے.اگر رسول کریم اے کی ایک بیوی ہوتی تو جنت میں وہ اکیلی آپ کے انعام میں شریک ہوتی مگر آپ کی گیارہ بیویاں تھیں اور تین بیٹیاں.اس طرح چودہ عورتیں وہی انعامات حاصل کریں گی جو رسول کریم ﷺ کو حاصل ہوں گے.پس یہ خیال اپنے دلوں سے نکال ڈالو کہ عورت کوئی کام نہیں کر سکتی.میں آج کہنا چاہتا ہوں کہ اے احمدی عورتو! تم اپنی ذہنیت کو بدل ڈالو.آدمی کے معنے مرد کے ہیں.تم بھی ویسی ہی آدمی ہو جیسے مرد.خدا نے جو عقیدے مردوں کے لئے مقرر کئے ہیں وہی عورتوں کے لئے مقرر کئے ہیں.اور جو انعام اور افضال مردوں کے لئے مقرر ہیں وہی عورتوں کے لئے ہیں.پھر جب خدا نے فرق نہیں کیا تو تم نے کیوں کیا.جب تک تم یہ خیال اپنے دل سے نہ نکال دو گی کوئی کام نہیں کر سکو گی.جب کوئی شخص یہ سمجھ لیتا ہے کہ میں مر گیا ہوں تو مر جاتا ہے.اور جب کوئی شخص یہ سمجھ لیتا ہے کہ میں کام کر سکتا ہوں تو وہ کر لیتا ہے.جو ذمہ داریاں مردوں کی ہیں تو انہیں پورا کر رہے ہیں.مردوں کی انجمنیں تو پنجاب میں ہر جگہ

Page 352

345 ہیں لیکن لبنات اماءاللہ سارے پنجاب میں نہیں بلکہ بہت تھوڑی جگہوں پر قائم ہیں.پس اول اپنی ذہنیت بدلو اور سمجھ لو کہ تم کو خدا نے دین کی خدمت کے لئے پیدا کیا ہے.ہر عورت کا فرض ہے کہ ہر گاؤوں میں لجنہ قائم کرے.جہاں جہاں احمدی ہیں وہاں مجعدہ بنا لوگی تو خدا تعالیٰ کام کرنے کی بھی توفیق دے دیگا.حق بات تو یہ ہے کہ جتنی عورتوں کے ذریعے تبلیغ ہو سکتی ہے مردوں کے ذریعے نہیں ہو سکتی اگر عورتیں تبلیغ کرنے لگ جائیں تو ملک کی کایا پلٹ جائے.مگر بہت کم عورتیں ہیں جو اس کی طرف توجہ کرتی ہیں.عورت کو خدا نے ایسے ہتھیار دئے ہیں کہ مرد مقابلہ نہیں کر سکتے مگر وہ غفلت کرتی ہے اور یہ خیال کرتی ہے کہ قیامت کے دن شاید میرا خاوند تو جنت میں چلا جائے اور میں جہنم میں چلی جاؤں.اس کی وجہ یہی ہے کہ میں کچھ کر نہیں سکتی.پس تم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو ہر جگہ لجنہ قائم کرو مرکز میں لکھوا کر جواب نہ آئے تو مجھے لکھو مصباح میں مضامین دو.تعلیم یافتہ مستورات یہ کام اپنی اپنی جگہوں پر فرد فردا کریں اور ہر جگہ لجنہ قائم کریں اللہ تعالی تم کو اس کام کی توفیق دے تا کہ تم بھی وہی انعامات حاصل کر سکو جو مومن کے لئے مقرر ہیں.(از مصباح جنوری ۱۹۴۱ء) تقریر حضرت خلیفہ امسیح الثانی بر موقع جلسہ سالانہ مستورات ۱۹۳۱ء ۲۷.دسمبر ۱۹۴۱ء.حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جلسہ سالانہ میں جماعت احمدیہ کی خواتین کے سامنے جو تقریر فرمائی وہ حسب دستور محترمہ امتہ السلام صاحبہ معلمہ نصرت گرلز سکول نے قلمبند کر کے بھیجی جسے شکریہ کے ساتھ درج ذیل کیا جاتا ہے لیکن اس امر کا ذکر کر دینا ضروری ہے کہ محترمہ موصوفہ چونکہ زودنویس نہیں ہیں اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حضور کی تقریر مکمل طور پر قلمبند کی گئی ہے مگر بہر حال ان کی کوشش قابل تعریف ہے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ انہیں اس محنت کی جزائے خیر عطا فرمائے.(مدیره مصباح) تشہد، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حسب ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت کی:.وَأدْ خِلَ الَّذينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْانُهُرُ خَالِدِينَ فِيهَا بإِذْنِ رَبِّهِمْ ط تَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَام أَلَمْ تَرَكَيْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلاً كَلِمَةٌ طَيِّبَةٌ كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِت وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ.

Page 353

346 تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِيْنِ بِإِذْنِ رَبِّهَاطَ وَيَضْرِبُ اللَّهُ إِلَّا مُثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمُ تذَكَّرُونَ اس کے بعد فرمایا:.پہلے تو میں اس امر کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں کہ میرے خیال میں عورتوں کے جلسہ میں میری تقریر اب کچھ زائدی چیز ہو گئی ہے اس لئے کہ پہلے عورتوں کا جال.الگ ہوتا تھا اور مردوں کا الگ.مگر اب جو تقریر میری مردوں میں ہوتی ہے وہ لاؤڈ سپیکر کے ذریعے عورتیں بھی سن لیتی ہیں اس لئے عورتوں میں علیحد و تقریر کی بظاہر کوئی خاص ضرورت نظر نہیں آتی.بے شک بعض مسائل ایسے ہوتے ہیں جن کی طرف عورتوں کو متوجہ کرنا ضروری ہوتا ہے مگر اس کے لئے ہر سال علیحدہ تقریر کرنے کی ضرورت نہیں.اگر کبھی لجنہ اماء اللہ کو ایسی ضرورت محسوس ہو تو وہ مضمون پیش کر سکتی ہے اور کہہ سکتی ہے کہ فلاں مضمون کے متعلق عورتوں کے سامنے تقریر کر دی جائے.اس صورت میں میں اس موضوع کے متعلق عورتوں میں تقریر کر سکتا ہوں.لیکن موجودہ صورت حال میں چونکہ مردوں میں جو تقریریں ہوتی ہیں وہ لاؤڈ سپیکر کے ذریعے چار سال سے یہاں پہنچ جاتی ہیں اس لئے میرے نزدیک عورتوں کے لئے وہی کافی ہیں.سوائے اس کے کہ تم یہ مطالبہ کرو کہ ان چار سالوں سے پہلے مرد و تقریریں سنتے آرہے ہیں اور ہم ایک.اب ۲۱ سال تک ہم میں بھی ایک زائد تقریر ہوتا برابر ہو جا ئیں.مگر میں نے ابھی اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا اور نہ اس پر غور کیا ہے.اگر خدا تعالیٰ نے موقع دیا تو میں مزید غور کروں گا اور پھر جو فیصلہ ہو گا اس کے مطابق عمل کیا جائے گا.اس کے بعد میں اُن آیات کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کے متعلق بیان فریا ہے کہ ان سب کو جنت میں داخل کیا جائے گا.ایسی جنت میں جس کے نیچے نہریں چلتی ہوں گی.یہاں سرگودہا، گجرات اور لائکپور کی مستورات آئی ہوئی ہوں گی.دو نئی آبادیوں میں رہنے کی وجہ سے جانتی ہیں کہ نہر کیا ہوتی ہے اور نہر کے کیا کام ہوتے ہیں لیکن وہ نہریں جو جنت میں چلیں گی سرگودھا اور گجرات کی نہروں سے مختلف ہوں گی.ان شہروں کی باریاں مقرر ہوتی ہیں اور خواہ کسی کا کھیت سوکھے یا جلے پانی باری پر ہی ملتا ہے.پھر گورنمنٹ کے بعض ملازم شرارتیں کرتے رہتے ہیں اور بعض دفعہ نہریں کاٹ دیتے ہیں جس سے سارا علاقہ تباہ ہو جاتا ہے.اسی طرح

Page 354

347 زمیندارا گر نہر کاٹ کر پانی لیں تو سال دو سال کے لئے قید ہو جاتے ہیں یہ تو دنیا کی نہروں کا حال ہے.لیکن ان نہروں کے متعلق فرماتا ہے کہ وہ ان باغوں کے ساتھ ہوں گی.یعنی وہ جنتیوں کے ہاتھ میں ہوں گی کوئی اور اُن کا حاکم اور مالک نہیں ہو گا.وہ جس وقت چاہیں گے پانی ان کو مل جائے گا.خَالِدِينَ فِيهَا اور پھر وہ اس میں بستے ہی چلے جائیں گے.وہ لوگ جنہوں نے سرگودھا اور لائلپور بسایا وہ آج کہاں ہیں، وہ جنہوں نے درخت لگائے بڑی بڑی مصیبتوں کے بعد زمین کی کاشت کی ، ہل چلائے اور تکلیف کا مقابلہ کیا ان میں سے کوئی دو سال زندور ہا، کوئی چار سال زندہ رہا، اور آخر ایک ایک کر کے سب فوت ہو گئے.وہ آب یہ نہیں جانتے کہ ہماری زمینیں اب کہاں گئیں اور ہماری اولا د نے کیا پھل کھایا.کئی ایسے ہیں جن کی اولادیں آج شرا میں پی رہی ہیں، کئی ایسے ہیں جن کی اولادیں آج جو اکھیل رہی ہیں، کئی ایسے ہیں جن کی اولادیں آج سینما میں اپنا وقت ضائع کر رہی ہیں، گویا ان کی محنتیں اکارت چلی گئیں.مگر فرمایا خلد بمن فيها جنتیوں کی محنتیں ضائع نہیں ہوں گی بلکہ جس نے جو کچھ بویا وہی کچھ کاٹے گا اور پھر کاٹتا ہی چلا جائے گا.پھر ایک اور فرق دنیا کی نہروں، باغوں اور زمینوں میں اور اگلے جہان کی زمینوں باغوں اور نہروں میں یہ ہے کہ یہاں تو کئی لوگوں کے پاس حرام مال ہوتے ہیں.چنانچہ مربعوں میں سے اکثر جانگلیوں کے تھے جو گورنمنٹ نے زبردستی چھین لئے اور دوسرے لوگوں کو دے دیئے.جن کی زمینیں تھیں وہ بھو کے مر گئے اور دوسرے لوگ عیش و آرام سے رہنے لگے.مگر فرمایا باذنِ رَبِّهَا وہ زمینیں لوگوں کی چھینی ہوئی نہیں ہوں گی بلکہ جائز مال ہوگا جو خدا کی طرف سے ملے گا.دنیا میں تو کتنے گھر اس لئے برباد ہو گئے کہ ماں باپ نے محنت سے مال جمع کیا مگر ان کی اولادوں نے لغو باتوں میں اُسے ضائع کر دیا.مگر وہاں جو کچھ ملے گا خدا کی طرف سے ملے گا اور اس کی برکت قائم رہے گی.تَحِيَّتُهُم فِيهَا سَلَام.ہمارے ملک میں لوگ کہا کرتے ہیں کہ جتنی لڑائیاں ہوتی ہیں وہ زمین ، روپیہ یا عورت کی وجہ سے ہوتی ہیں.یہاں بھی چونکہ نہروں اور زمینوں کا ذکر تھا اس لئے قدرتی طور پر سوال پیدا ہوتا تھا کہ کیا جنت میں بھی لڑائیاں ہوں گی ؟ اور کیا وہاں جا کر بھی یہی جگزار ہے گا کہ ایک جنتی کہے گا میری پہیلی ہے اور دوسرا کہے گا میری ؟ اس لئے فرمایا کہ ہر آدمی جو جنت میں دوسرے سے ملے گا کہے گا میری طرف سے تم اپنا دل صاف رکھو.میری طرف سے تم کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور دعا کرے گا

Page 355

348 کہ تم پر خدا کی طرف سے سلامتی نازل ہو.پھر فرمایا:.اَلَمْ تَرَكَيْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلاً كَلِمَة طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِت وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ تُؤْتِي أكلها كُلَّ حِينِ بِاِذْنِ رَبِّهَا وَيَضْرِبُ اللهُ إِلَّا مُثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونْ ان آیات کے شروع میں اللہ تعالے نے بتایا تھا کہ جنت میں ایمان لانے والے اور اعمال صالحہ کرنے والے جائیں گے.آب کہنے کو تو سارے ہی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور جس کو پوچھو وہ کہتا ہے میں خدا کے فضل سے مسلمان ہوں.مگر اللہ تعالے فرماتا ہے محض زبان سے اپنے آپ کو مومن کہہ لینے سے کوئی شخص مومن نہیں ہو جاتا.تمھیں یا درکھنا چاہئے کہ ایمان با اللہ اور اعمال صالح کی مثال اچھے درخت کی ہی ہے.جس طرح دنیا میں پھل دار درخت توجہ چاہتے ہیں اور کوئی شجرہ طیبہ نہیں پھلتا جب تک کہ اسے پانی نہ ملے اور جب تک اس کی نگرانی نہ کی جائے سوائے جنگلی درختوں کے.اسی طرح صرف منہ سے ایمان اور اعمال صالحہ کا دعوے کرنا ٹھیک نہیں ہوتا.یہ کبھی نہیں ہوتا کہ جنگلی درختوں میں اعلیٰ قسم کے پھل لگے ہوں.اعلے قسم کے پھل ہمیشہ اعلے درختوں پر لگتے ہیں اور اعلیٰ درخت انسانی کوشش سے پھل لاتے ہیں.پس ایمان اور اعمال صالحہ کی مثال شجرہ طبیہ یعنی اصلے قسم کے درختوں کی کی ہے جنگلی درختوں کی نہیں.اور یہ شجرہ طبیہ اعمال صالحہ کے پانی کے بغیر پھل نہیں دیتا.جس طرح درخت ہونے کے بعد اگر اسے پانی نہ دیا جائے تو وہ خراب ہو جاتا ہے لیکن اگر اسے پانی ملتا ہے تو وہ عمدہ پھل دیتا ہے اور اس کی عمر بھی لمبی ہوتی ہے.اسی طرح خالی ایمان پر خوش نہ ہو جاؤ بلکہ سمجھ لوکہ شجر طفیہ پانی چاہتا ہے جب تک اسے اعمال صالحہ کا پانی نہ ملے گا وہ شجر طیبہ نہ بن سکے گا.پس صرف کلمہ پڑھ کر تمھیں خوش نہیں ہو جانا چاہئے جب تک لاإله إلا اللہ کے درخت کو اعمال صالحہ کا پانی نہ دو گی تمھارا درخت پھل نہیں لائے گا بلکہ خشک ہو جائے گا.حقیقت یہ ہے کہ جس طرح درخت کئی قسم کے ہوتے ہیں اسی طرح لا اله الا اللہ بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں.کوئی اچھے ہوتے ہیں اور کوئی سڑے ہوئے ہوتے ہیں.قرآن شریف میں سڑے ہوئے کلمہ کی مثال اس طرح دی گئی ہے کہ

Page 356

349 إِذَا جَاءَ كَ الْمُنْفِقُونَ قَالُوْا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ الله وَاللَّهِ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُه ط وَالله يَشْهدَ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَذِبُونَ.یعنی اے محمد ہے تیرے پاس منافق آتے ہیں اور کہتے ہیں نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ کہ یقینی اور قطعی بات ہے کہ خدا موجود ہے اور تو اُس کا رسول ہے.مگر اس پر بجائے اس کے خدا خوش ہو کہ آخر انہوں نے صداقت کا اقرار کر لیا فرماتا ہے کہ اللہ تعالی جانتا ہے کہ تو اللہ کا رسول ہے.وہ کہتے ہیں ہم بھی گواہی دیتے ہیں کہ تو اللہ کا رسول ہے.اب اگر اللہ تعالی کہے اور وہ نہ کہیں تو جھوٹ ہے.مگر جب انہوں نے بھی کہہ دیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی گواہی دیدی کہ تو ہمارا رسول ہے تو پھر کہنا یہ چاہئے تھا کہ وہ بڑے بچے ہیں کہ انہوں نے وہ بات کہی جو خدا نے کہی.مگر فرماتا ہے یہ منافق بڑے جھوٹے ہیں.باوجود اس کے کہ تو اللہ کا رسول ہے اور باوجود اس کے کہ انہوں نے کہا کہ تو اُس کا رسول ہے پھر بھی جھوٹے ہیں اور اُن کا کلمہ طیبہ نہیں بلکہ کلمہ خبیثہ ہے.کیونکہ وہ دل سے نہیں کہہ رہے بلکہ منافقت سے کہہ رہے ہیں.پھر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو گو کچے دل سے ایمان لاتے ہیں مگر اُن کا ایمان ناقص ہوتا ہے.اُن کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے کوئی شخص آم تو ہوئے مگر اسے پانی نہ دے اور نہ اُس کی نگرانی کر نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ہو گا تو آم ہی مگر پھل ناقص دے گا ، کھٹا دے گا اور تھوڑے دے گا.ایسے درخت کے آموں کو گدھے بھی سونگھ کر پھینک دیتے ہیں اور جب بازار میں جاتے ہیں تو ردی کی ٹوکری میں پڑے رہتے ہیں اور کوئی اُن کو نہیں خریدتا.اس کے مقابلہ میں اہلے قسم کے آموں کو کاغذ کا لباس پہنایا جاتا ہے اور اوپر لکھا جاتا ہے کہ فلاں قسم کا آم اور رئیسوں کے آرڈر پر آرڈر آتے ہیں اور بڑے بڑے امیر اُن کو خریدتے ہیں.مگر باقص آم میلی اور گندی نوکری میں پڑے ہوتے ہیں اور پیسے پیسے ولی کہہ کر دکاندار آواز دے رہا ہوتا ہے اور پھر بھی انہیں کوئی نہیں خریدتا.پھر ایک آم ایسا ہوتا ہے کہ پاس سے گزرنے پر سر سے لے کر پیر تک اُس کی خوشبو برقی رو کی طرح اثر کر جاتی ہے.اور ایک آم ایسا ہوتا ہے کہ اُسے دیکھنے تک کو جی نہیں چاہتا.یہی حال دوسرے پھلوں کا ہے.ایک وقت خربوزے روپے روپے وٹی تک بکتے ہیں اور دوسرے وقت اُن میں کیڑے پڑے ہوئے ہوتے ہیں.تو فرمایا تم ہمیشہ کلمہ کلمہ پکارتے ہو تمہیں سوچنا چاہیئے کہ کیا کلمہ پڑھتے ہو.کلمہ طیبہ تو ابو بکڑ بھی پڑھتا تھا، عمر بھی پڑھتا تھا، عثمان بھی پڑھتا تھا پہلی بھی پڑھتا تھا.اگر تم کہو کہ تم بھی وہی کلمہ پڑھتے ہو جو ابو بکر اور عمر پڑھتے تھے تو

Page 357

350 یہ درست نہیں.کیونکہ اُن کا کلمہ کلمہ طیبہ تھا.اور طیبہ کے معنے عربی زبان میں خوش شکل ، خوشبو دار لذیز اور شیریں کے ہیں.طیبہ کے اور بھی معنے ہیں لیکن چاروں معنے خاص طور پر طیب میں پائے جاتے ہیں.یہ ضروری نہیں کہ جو چیز خوش شکل ہو خوشبودار بھی ہو.انسانوں میں کئی ایسے ہوتے ہیں جن کی شکل اچھی ہوتی ہے مگر انہیں بغل گند ہوتا ہے اور کئی لوگوں سے بد بو تو نہیں آتی نگر شکل دیکھ کر کراہت آتی ہے.پھر کئی ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کو کوئی بیماری تو نہیں ہوتی مگر وہ جاہل اور اُجڈ ہوتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں جو خوبصورت بھی ہوتے ہیں، خوشبو بھی اُن میں سے آتی ہے، عالم بھی ہوتے ہیں مگر شیریں نہیں ہوتے یعنی ان کی باتوں میں مزہ نہیں آتا.پس طیب وہ ہے جس میں چاروں باتیں پائی جائیں.یعنی خوش شکل بھی ہو، خوشبودار بھی ہو، خوش ذائقہ بھی ہو اور شیر میں بھی ہو.پس کلمہ طیبہ پر ایمان لانے والے کو سوچنا چاہیئے کہ کیا اس میں یہ چاروں باتیں پائی جاتی ہیں.طیبہ کے پہلے معنے خوش شکل کے ہیں.اب تم سوچو کہ کیا تمہارا ایمان خوش شکل ہے؟ تم منہ سے تو کہتی ہو کہ احمدی میں مگر کیا ظاہر میں بھی تمہاری شکل احمد یوں والی ہے؟ کیا اگر آم کی شکل بیر جیسی ہو تو لوگ اُسے پسند کریں گے؟ اسی طرح جب تک تمہاری نمازیں احمدیوں والی نہ ہوں ، تمہارے روزے احمدیوں والے نہ ہوں ، تمہاری ز کو ۃ احمد یوں والی نہ ہو.تمہارا حج احمد یوں والا نہ ہو تم کس طرح کہہ سکتی ہو کہ ہم نے کلمہ طیبہ پڑھ لیا.کتنا ہی اچھا آم ہو لیکن اگر وہ داغدار ہو یا پچکا ہوا ہو تو لوگ اسے نہیں خریدتے.اسی طرح اگر تم صرف اس بات پر خوش ہو جاؤ کہ ہم نے کلمہ طیبہ کہ لیا تو ہماری نمازیں ، ہمارے روزے، ہماری زکوۃ ، ہماراحج اور ہمارے صدقے خود بخود اچھے ہو جائیں گے تو یہ درست نہیں.جس طرح داغدار آم کو کوئی شخص نہیں خرید تا اسی طرح تمہاری نمازیں اور تمہارے روزے بھی قبول نہیں ہو سکتے.صرف اسی صورت میں یہ عبادتیں قبول ہو سکتی ہیں جب وہ انہی شرائط کے ساتھ ادا کی جائیں جن شرائط کے ساتھ ادا کرنے کا اسلام نے حکم دیا ہے.دوسری چیز کلمہ کا خوشبودار ہوتا ہے.جو چیز انسان خریدتا ہے اس کے متعلق یہ بھی دیکھ لیتا ہے کہ آیا اُس کی خوشبو اچھی ہے یا نہیں.خربوزے ہوں تو ان کی خوشبو سونگھتا ہے اور چاہتا ہے کہ خربوزہ سے اچھی خوشبو آئے.یہی حال باقی پچھلوں کا ہے.آم جتنا اچھا ہو گا اُتنی ہی اس کی خوشبو اچھی ہو گی.اسی طرح سیب ، انار ، انگور اور کیلا وغیرہ کی لوگ شکل بھی دیکھتے ہیں اور ساتھ ہی خوشبو بھی سو نکھتے ہیں.

Page 358

351 پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم ایمان لائے ہو تو تمہارے ایمان کے اندر خوشبو بھی ہونی چاہیئے.یعنی تمہارے اردگرد کے ہمسائے تمہیں دیکھیں تو تمہاری نیکیوں کی خوشبو اُن کو آ جائے.اور وہ کہہ اٹھیں کہ واقعی یہ مذہب اچھا ہے.پہلے تو لوگ شکل دیکھیں گے کہ تمہاری نمازیں مسلمانوں والی ہیں یا نہیں.فرض کرو ایک عورت احمدی کہلاتی ہے مگر نماز نہیں پڑھتی تو اُس کی ہمسایہ عورت کو یقین ہو جائیگا کہ ہمارا مولوی ٹھیک کہتا تھا کہ احمدی جماعت کی عورتیں نماز نہیں پڑھتیں یا احمدی نماز کو جائز ہی نہیں سمجھتے.کیونکہ غیر احمدی مولویوں نے اُن کو یہی بتایا ہوتا ہے کہ احمدی کا نماز روزہ الگ ہے.پس ایک غیر احمدی عورت نماز چھوڑ کر صرف اپنے لئے دوزخ مول لیتی ہے لیکن ایک احمدی عورت نماز نہ پڑھ کر صرف اپنے لئے نہیں بلکہ اُن دوسری پچاس عورتوں کے لئے بھی دوزخ مول لیتی ہے جو اس کو دیکھتی ہیں.تو فرمایا شجر وطنیہ بنو.تم وہ درخت انو جو نہ صرف خوش شکل ہو بلکہ خوشبودار بھی ہو.تم جس محلہ میں جاؤ وہاں نمازیں پڑھو، صدقات دو، خیرات کرو اور اس قدر نیکیوں میں حصہ لو کہ سب کہیں کہ معلوم نہیں کون آگئی ہے جو اس قدرنمازیں پڑھتی اور خیرات کرتی ہے.پھر جب وہ تمہارے پاس آئیں گی تو تم دیکھو گی کہ وہ اپنے مولوی کو وہاں سے سینکڑوں گالیاں دیتی ہوئی اٹھیں گی کیونکہ تمہاری خوشبو ان کو احمدیت کے چمن کی طرف کھینچ رہی ہوگی.پس چاہئے کہ تمہاری نماز میں ایسی خوشبودار ہوں.صدقہ و خیرات ایسا خوشبودار ہو کہ خود بخود دوسرے لوگ متاثر ہوتے چلے جائیں.جب تمہارے اندر یہ خوشبو پیدا ہو جائے گی تو نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ بھاگ بھاگ کر تمہاری طرف آئیں گے اور تم لوگوں کو احمدیت کی طرف کھینچے کاذریعہ بن جاؤ گی.طیبہ کے تیسرے معنے خوش ذائقہ کے ہیں ایسی چیز جس کا مزا اچھا ہو اور انسان کی زبان اس سے حلاوت محسوس کرے.یہ چیز بھی ایسی ہے جس کا مومن میں پایا جانا ضروری ہے.فرض کرو ایک عورت نمازیں بھی پڑھتی ہے، روزے بھی رکھتی ہے مگر اس کے ساتھ ہی صبح شام غیبت میں مشغول رہتی ہے کہ فلاں نے یوں کیا اور فلاں نے یوں کیا.تو اس سے اُس کی نیکی کا اثر زائل ہو جائے گا.یہ باتیں ایسی ہی گندی ہیں جیسے بعض عورتیں مٹی کھانے لگ جاتی ہیں.بے شک یہ باتیں ہیں مگر ایسی جن کی کوئی قیمت نہیں.نہ سُننے والے کو کوئی فائدہ ہوتا ہے اور نہ سُنانے والے کو.لیکن اگر وہ اس قسم کی باتیں کرے کہ اے بہن رسول کریم ﷺ نے یوں فرمایا ہے،اے بہن خدا کا یہ حکم ہے، نماز کے متعلق یہ حکم ہے ، روزوں کے یہ احکام ہیں تو سننے والے اس کا اثر

Page 359

352 محسوس کریں گے اور انہیں اس کی باتوں میں لذت آئے گی.پس پہلی بات تو یہ ہے کہ دین پر عمل کرو.دوسری بات یہ ہے کہ اتنا اچھا عمل کرو کہ لوگوں میں شہرت ہو جائے.تیسرا یہ کہ ایسی باتیں کرو جن سے لوگ فائدہ اٹھائیں.پھر طیبہ کے چوتھے معنے شیریں کے ہیں.یعنی تمہاری باتیں ایسی ہوں جو نہ صرف لوگوں کو فائدہ بخشیں بلکہ عملی بھی ہوں اور صرف دماغ سے تعلق نہ رکھتی ہوں بلکہ ایسی شیریں ہوں جو دل سے تعلق رکھیں اور جن سے حلاوت ایمان نصیب ہو.عقلی باتوں سے لذت تو آتی ہے لیکن حلاوت نصیب نہیں ہوتی.شاعر کتنے اچھے کہتے ہیں لیکن وہ تھے نہیں ہوتے.پھر ایک شخص خدا کی باتیں سناتا ہے اور نہایت فصیح و بلیغ طریق پر الفاظ لاتا ہے لیکن اس کی باتیں بھی لذیز ہوتی ہیں شیر یں نہیں ہوتیں.اس کے مقابلہ میں ایک اور شخص ہوتا ہے جو ایسی باتیں کرتا ہے جن میں گو لفاظی نہیں ہوتی مگر ان باتوں سے دلوں پر اثر ہوتا ہے اور تقویٰ پیدا ہوتا ہے.اسکی باتیں شیریں کہلائیں گی کیونکہ وہ دلوں پر اثر کرنے والی ہوں گی.یہ چار باتیں ہیں جن کا مومن کے اندر پایا جانا ضروری ہے.اگر تم ایسی بن جاؤ تو تم جنت کی وارث بن سکتی ہو.جنت کیا ہے.جنت کے درخت مومن ہیں اور جنت کی نہریں مومنوں کے اعمال.جب یہ سارے وہاں اکھٹے ہو جائیں گے تو سب لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیں گے.اس دُنیا اور اگلے جہان میں یہ فرق ہے کہ یہاں مومن چھپے ہوئے ہیں اگلے جہاں میں اُن سب کو اکٹھا کر دیا جائے گا تب دنیا حیران رہ جائے گی کہ واہ کیسے شان دار لوگ ہیں.حضرت شاہ ولی اللہ صاحب، حضرت خواجہ باقی باللہ صاحب ، حضرت قطب الدین صاحب ، حضرت خواجہ نظام الدین صاحب، حضرت سید احمد صاحب بریلوی اور دوسرے ہزاروں بزرگ جو امت محمدیہ میں گزرے ہیں جب یہ سارے وہاں اکٹھے ہو جائیں گے تو لوگ ان کو دیکھ کر حیران رہ جائیں گے.دنیا میں تو الگ الگ درخت تھے لیکن وہاں میٹھے پھلوں والے باغات کی صورت میں دکھائی دیں گے اور اُن کے عمال اور ایمان کو دیکھ کر لوگ کہہ اُٹھیں گے کہ اس سے بڑھ کر کوئی جنت نہیں.جس گاؤں میں جھوٹ بول کر لوگ فتنہ ڈلواتے ہیں.لوگوں کا مال فلنا چھین لیتے ہوں، بھو کے کا خیال نہ کرتے ہوں اور ڈاکے ڈالتے ہوں اس کو کیسے جنت کہہ سکتے ہیں؟ اس کے مقابلہ میں اگلے جہاں کی سب سے بڑی جنت یہ ہے کہ اس میں تمام

Page 360

353 الله نیکوں کو اکٹھا کر دیا جائے گا اور بدوں کو الگ کر دیا جائے گا.نماز پڑھنے والی عورتیں اور نماز پڑھنے والے مرد سچ بولنے والی عورتیں اور سچ بولنے والے مرد اور رسول کریم ﷺ پر ایمان لانے والی عورتیں اور رسول کریم ﷺ پر ایمان والے مردہ قرآن کریم پر ایمان لانے والی عورتیں اور قرآن کریم پر ایمان لانے والے مرد ، پہلے نبیوں پر ایمان لانے والی عورتیں اور پہلے نبیوں پر ایمان لانے والے مرد، لوگوں کی خدمت کرنے والی عورتیں اور لوگوں کی خدمت کرنے والے مرد، جھوٹ فریب اور جھگڑے سے بچنے والی عورتیں اور جھوٹ غریب اور جھگڑے سے بچنے والے مرد جس جگہ جمع ہوں گے وہاں رہنے کو کس کا دل نہ چاہے گا.بے شک وہاں باغ بھی ہوں گے لیکن اصل مطلب یہی ہے کہ وہ ایسی جگہ ہوگی جہاں تمام نیک لوگ جمع ہوں گے.پس میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ کلمہ تو تمہیں پڑھا دیا گیا ہے اب اس کو طیبہ بنانا تمہارے اختیار میں ہے.لوگ بڑے بڑے نام رکھتے ہیں لیکن نام سے کچھ نہیں بنتا.اسی طرح صرف کلمہ پڑھنے سے عزت نہیں ملتی بلکہ طیبہ سے ملتی ہے.جب یہ دونوں چیزیں مل جائیں تو پھر مومن جنت کا درخت بن جاتا ہے.پس جب تک تم کلمہ طیبہ نہ بنو گی جنت کا درخت نہیں بن سکو گی.قرآن کریم نے تمہارے سامنے ایک موٹی مثال درخت کی پیش کی ہے.وہ تم کو چاند یا سورج کی طرف نہیں لے گیا ، اُس نے سکندر یا ارسطو کی کوئی مثال پیش نہیں کی ، اس نے الجبرا کا کوئی سوال نہیں ڈالا ، اس نے تم کو کسی عمارت کے گنبدوں کی طرف نہیں لے جانا چاہا بلکہ خدا نے وہ بات کہی ہے جو تم میں سے ہر ایک نے دیکھی اور جس کو بچہ بچہ جانتا ہے.خدا نے کہا ہے کہ ہم تم کو پہاڑ اور دریا کی طرف نہیں لے جاتے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ کبھی تم نے درخت کو دیکھا ہے یا نہیں.جس طرح درخت کو پانی دیا جاتا ہے اسی طرح تم اپنے ایمان کو مل کا پانی دو.اپنے اندر اچھی باتیں پیدا کر و.جب تم ایسا کروگی تو تم جنت کا درخت بن جاؤ گی.پھر جس طرح اچھے درخت پر اچھی شکل اور اچھی خوشبو کے لذیذ اور شیریں پھل پیدا ہوتے ہیں اسی طرح تم اپنے ایمان کو خوش شکل ، خوشبودار، لذیذ اور شیر میں اناؤ.جب تم ایسا درخت بن جاؤ گی تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے تم جہاں بھی ہوگی وہاں سے اٹھا کر تمہیں اللہ تعالیٰ کی جنت میں لے جائیں گے کیونکہ خدا تعالیٰ کہے گا کہ ان درختوں کے بغیر میراباغ مکمل نہیں ہوسکتا.لوگ اپنے باغوں کے سجانے کے لئے دُور دُور سے درخت منگواتے ہیں تا کہ اُن کا باغ خوبصورت معلوم ہو اسی طرح خدا تعالی کے فرشتے ہر جگہ کے نیک لوگوں کو جنت میں لائیں گے تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ اللہ

Page 361

354 تعالیٰ کے باغ میں فلاں درخت نہیں.یہ کیا ہی اچھا سودا ہے جو مومن اپنے رب سے کرتا ہے مگر افسوس کہ لوگوں کو اس سودے کی طرف بہت کم توجہ ہے.آپ میں دُعا کرتا ہوں کہ خدا تعالی تم کو توفیق دے کہ تم اپنے آپ کو جنت کا پودا بناؤ.اپنے کلمہ کوکلمہ طیبہ بناؤ اور اس کے فضل سے شجرہ طیبہ کی مانند ہو جاؤ.وا خرد عو نا ان الحمد لله رب العلمين.( از مصباح فروری ۱۹۴۲، ) تقریب حضرت خلیفه استحاشانی بر موقع جلس سالانه مستورات ۱۹۳۲ء اپنی عملی زندگی میں اصلاح کرو اور ہر جگہ بجنہ اماءاللہ قائم کرنیکی کوشش کرو! ۲۶.دسمبر ۱۹۴۲ء.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جلسہ سالانہ میں جماعت احمدیہ کی خواتین کے سامنے جو تقریرفرمائی وہ درج ذیل کی جاتی ہے:.تشہد ،تعوذ اور سُورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فر مایا:.میں نے ابھی موٹر پر آتے ہوئے دیکھا ہے کہ تمام سڑکیں اور بازار مردوں سے بھرے ہوئے ہیں اور جلسہ گاہ قریباً خالی پڑا ہوا ہے.میں دیکھ رہاں ہوں کہ اس وقت تمہاری بھی یہی حالت ہے.قادیان کا جلسہ ایک مذہبی فریضہ ہے یہ دین سیکھنے کی جگہ ہے کھیل کود کی جگہ نہیں ، میلا نہیں کہ جس کی روٹیاں تم کھانے آتی ہو.۳۶۵ دنوں میں سے ۳۶۲ دن تم اپنے کاموں کے لئے خرچ کر دیتی ہو صرف 3 دن کے لئے تم قادیان میں آتی ہو وہ بھی ادھر ادھر خرچ کر دیتی ہو اور بجھتی ہو کہ تم نے خدا تعالی کا حق پو را کر دیا.درحقیقت میرے قلب کی حالت اس وقت ایسی ہے کہ میرا دل اس وقت کوئی تقریر کرنے کو نہیں چاہتا اور جو کچھ میں اس وقت کہوں گا اپنے نفس پر جبر کر کے کہوں گا.دیکھومنہ سے باتیں کرنا کسی کام نہیں آتا.دنیا میں کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی خواہ وہ دینی ہو یا دنیاوی

Page 362

355 الله جب تک اس کا عمل اس کے قول کے مطابق نہ ہو.صحابہ کام زیادہ کرتے تھے اور باتیں کم.قرآن کریم میں آتا ہے کہ منافق رسول کریم ﷺ کے متعلق زیادہ باتیں کیا کرتے تھے.منافق رسول کریم ﷺ کی مجلس میں آکر کہا کرتے کہ ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ تو اللہ کا رسول ہے.مومن تو بغیر قسمیں کھائے کہتے تھے.مومنوں کے متعلق کہیں ذکر نہیں آتا کہ اُنہوں نے قسمیں کھائی ہوں لیکن منافقوں کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے کہ وہ قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ واللہ کا رسول ہے حالانکہ وہ جھوٹے ہوتے تھے.عورتوں کے لئے ایک بہت بڑے تغیر کی ضرورت ہے.تمہاری حالت تو بالکل مُردوں کی سی ہے.نہ تمہارے دماغوں میں اتنی روشنی ہے کہ مفہوم کو عدگی کے ساتھ سمجھ سکو، نہ تمہاری زبانوں میں اتنی طاقت ہے کہ مافی الضمیر کوادا کر سکو.کئی عورتیں آتی ہیں کہ جی ہم مصیبت زدہ ہیں ہماری بات سن لیجیے.وہ مجھے کئی ضروری کاموں سے روک لیتی ہیں.مرد ایسے دوسو میں سے دس ہوتے ہیں مگر عورتیں سو میں سے نوے ہوتی ہیں.میں سو کام چھوڑ کر اُس کی بات سنتا ہوں کہ احمدی جماعت میں سے ہے، مصیبت زدہ ہے ، ہمدردی کروں، لیکن وہ میرا اوقت ضائع کر دیتی ہے.عورتیں بہت لمبی چوڑی باتیں شروع کر دیتی ہیں.مثلا میں فلاں کے گھر اس کے جنوبی دروازہ سے اُس کے صحن میں داخل ہوئی.اُس کا صحن بس یہی کوئی تین چار چار پائیوں کا ہوگا.صحن سے گزر کر میں برآمدہ میں داخل ہوئی پھر میں اندر گئی.یہ طریق گفتگو بتاتا ہے کہ کام ہے ہی نہیں.سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ تم اپنے لئے کام تجویز کرو.زمیندار عورتیں گھروں میں کام کرتی ہیں.انہیں محنت کی عادت ہوتی ہے.لیکن شہری عورتوں کو سوائے باتوں کے اور کچھ آتا ہی نہیں.امراء کی عورتیں نوکروں کو گالیاں دیتی رہتی ہیں.سارا دن جھک جھک کرنے میں گزر جاتا ہے.وہ پانچ منٹ نوکر کو صرف اس لئے جھاڑتی ہے کہ تو نے پیالی کیوں صاف نہیں کی حالانکہ اگر وہ خود کرے تو ایک منٹ میں پیالی صاف ہو سکتی ہے بعض لوگ قطب مینار پر صرف دو منٹ کے لئے چڑھتے ہیں لیکن اس پر اپنا نام لکھ جاتے ہیں کہ فلاں بن فلاں اس جگہ فلاں دن آیا تھا.وہ گوارا نہیں کرتے کہ صرف دو منٹ کے لئے بھی آکر یونہی واپس چلے جائیں بلکہ اپنی نشانی چھوڑ جاتے ہیں.مینارہ مسیح ایک مقدس جگہ ہے بعض نادان اس پر چڑھ کر اپنا نام لکھ جاتے ہیں.تم خدا کی اس دنیا میں پچاس ساٹھ سال رو کر جاتی ہو لیکن اتنا بھی نشان چھوڑ کر نہیں جاتی ہو.کیا تم کہہ سکتی ہو کہ تمھاری ماں تمھاری دادی، تمھاری نانی وغیرہ تمھارے لئے کوئی نشان چھوڑ کر گئی ہیں.بائبیل

Page 363

356 میں آتا ہے کہ آدم تیرے گناہ کی یہ سزا ہے کہ تیری بیٹی تجھے نہیں بلکہ اپنے خاوند کو چاہے گی اور تیرا بیٹا تجھے نہیں بلکہ اپنی بیوی کو چاہے گا.ایک شخص آتا ہے کہتا ہے اباجان خط آیا ہے بچہ بیمار ہے میں جاؤں تو باپ اُس کے احساسات کو مد نظر رکھ کر اجازت دیدیتا ہے کہ جاؤ.حالانکہ اگر وہ احسان شناس ہوتا احساس رکھتا تو ماں کو نہ چھوڑ تا باپ کو نہ چھوڑتا بلکہ اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ دیتا وہ کہتا کہ سارے مر جائیں میں اپنے ماں باپ کو نہ چھوڑوں گا.تو دنیا میں جن چیزوں کو تم نشان بجھتی ہو وہ نشان نہیں بلکہ نشان مٹانے والے ہیں.ایک ہی چیز ہے جو باقی رہنے والی ہے اور وہ ہے الباقیات الصالحات.وہ کام جو خدا کے لئے کروگی باقی رہے گا.آج ابو ہریرہ کی اولا د کہاں ہے ، مکان کہاں ہیں لیکن ہم جنہوں نے نہ اولا د دیکھی نہ مکان دیکھے نہ جائداد دیکھی ہم جب ان کا نام لیتے ہیں تو کہتے ہیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ.چند دن ہوئے ایک عرب آیا اُس نے کہا کہ میں بلال کی اولاد میں سے ہوں.اُس نے معلوم نہیں سچ کہا یا جھوٹ مگر میرا دل اس وقت چاہتا تھا کہ میں اس سے چھٹ جاؤں کہ یہ اس شخص کی اولاد میں سے ہے جس نے محمد رسول اللہ اللہ کی مسجد میں اذان دی تھی.آج بلال کی اولاد کہاں ہے، اسکے مکان کہاں ہیں ، اس کی جائداد کہاں ہے ؟ مگر وہ جو اس نے محمد رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں اذان دی تھی وہ اب تک باقی ہے اور باقی رہے گی.پس سب چیزیں فنا ہو جاتی ہیں لیکن انسان کا عمل فنانہیں ہوتا اور تم اس طرف توجہ نہیں دیتی ہو.خدا تعالے فرماتا ہے کہ ہر شخص کا پرندہ ہم نے اس کی گردن پر باندھ رکھا ہے.اور وہ پرندہ کیا ہے؟ اس کا عمل.اگر وہ نیک ہوگا تو اس کا پرندہ بھی نیک ہوگا.اگر وہ بد ہوگا تو وہ بھی ہو.پس عملی زندگی میں اصلاح کی کوشش کر و سینکڑوں ایسی ہوں گی جو دس سال سے آتی ہوں گی مگر انہوں نے ہر سال جلسہ پر آ کر کیا فائدہ اٹھایا؟ عمل دو قسم کے ہوتے ہیں (۱) انفرادی (۴) اجتماعی.جب تک یہ دونوں قسم کے عمل مکمل نہ ہوں تمھاری زندگی سدھر نہیں سکتی.نہ اللہ تعالے خوش ہوتا ہے.انفرادی اعمال نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ ، چندے دینا اور بچ بولنا.اس میں کوئی ضرورت نہیں کہ بیس پچیس اور عورتیں ہوں جو تمھارے ساتھ مل کر یہ کام کریں.یہ انفرادی اعمال ہیں جو ایک آدمی سے تعلق رکھتے ہیں کسی جتھے کی ضرورت نہیں یہ کام ایسے ہیں کہ ان کے متعلق یہ نہیں کہ سکتیں کہ چونکہ ہمارے ساتھ اور عورتیں شامل نہ تھیں اس لئے میں نے نماز نہیں پڑھی.یا اس لئے روزہ نہیں رکھا کہ اور روزہ رکھنے والے نہ تھے.خدا تعالے قیامت کے دن اس آدمی کو نہیں چھوڑے گا جو کہے گا

Page 364

357 کہ میں نے نماز اس لئے نہیں پڑھی کہ جماعت نہ تھی یا روزہ اس لئے نہیں رکھا کہ اور جماعت نہ تھی ، زکو و اس لئے نہیں دی کہ جماعت نہ تھی ، قیامت کے دن تم ہرگز یہ نہیں کہہ سکتیں کہ چونکہ جماعت ساتھ نہ تھی اس لئے ہم یہ کام نہ کرسکیں ، اس لئے نماز چھٹ گئی ، حج چھٹ گیا، یہ انفرادی کام ہیں ان کو ایک آدمی اپنے طور پر کر سکتا ہے خواہ اس کے ساتھ اور کوئی لوگ ہوں یا نہ ہوں.دوسرے اعمال اجتماعی اعمال ہیں.وہ ایسے کام ہیں جو مل کر کئے جاتے ہیں.جب تک جماعت ساتھ نہ ہو وہ کام مکمل نہیں ہو سکتے.مثلاً با جماعت نماز مردوں کے لئے ہے عورتوں کے لئے نہیں گو پسندیدہ ہے فیکن مرد اگر با جماعت نماز نہیں پڑھے گا تو باوجود اس کے کہ وہ نمازیں پڑھتا ہو گا وہ قیامت کے دن مجرم ہوگا.اگر تم با جماعت نماز نہیں پڑھوگی تو اللہ تعالے یہ نہیں کہے گا کہ تم مجرم ہو.اگر تم نماز باجماعت پڑھو گی تو مردوں سے اچھی ہوگی وہ دوسروں سے تمھیں زیادہ ثواب دے گا.لیکن مرداگر باجماعت نماز نہ پڑھے گا تو باوجود اس کے کہ وہ وقت خرچ کرے گا ، دعا کرے گا خدا کے حضور اسے کہا جائیگا کہ تمھاری نماز ناقص رہ گئی میں یہ نہیں کہتا کہ وہ جہنم میں جائے گا.ہو سکتا ہے کہ اس کی دوسری نیکیاں اس قدر ہوں کہ وہ اس گناہ کو ڈھانپ لیں.اللہ تعالے کے ہاں تول ہوتا ہے نیکیوں کا مقابلہ ہوتا ہے.بعض بدیان ایسی ہیں کہ وہ اکیلی جہنم میں لے جاتی ہیں.مثلاً شرک ، اللہ کا انکار ، اس کے فرشتوں کا انکار ،حشر نشر کا انکار ، رسول پر ایمان نہ لا نا خدا کی کتابوں کا انکار، یہ ایسی بدیاں ہیں جو کیلی جہنم میں لے جاتی ہیں.یہ بڑے بڑے پہاڑ ہیں.ان کے مقابلہ میں تمھاری نیکیاں چھٹانک کی رو جاتی ہیں.ان کے علاوہ کچھ اور بدیاں ہیں جن کا نیکیوں سے مقابلہ کیا جائے گا ، وزن کیا جائے گا، ستی سے نماز پڑھنا، چغلی ،غیبت وغیرہ.یہ ایسی بدیاں ہیں جن کا مقابلہ کیا جائے گا.کسی نیکی کے زیادہ ہو جانے سے انسان جنت میں جاسکتا ہے لیکن اگر رسول کا انکار کرے تو پھر جنت میں نہیں جاسکتا.خدا تعالیٰ رحیم ہے اگر چا ہے تو سب گنہ گاروں کو معاف کر دے.باقی قانون یہی ہے.تو ایک گناہ وہ ہیں جن کا پلڑا بھاری رہے گا دوسرے وہ جن کا نیکیوں سے مقابلہ کیا جائے گا.اگر نیکیوں کی روح بڑھی ہوئی ہو تو خدا تعالیٰ جنت میں لے جائے گا.اگر بدیوں کی روح بڑھی ہوئی ہو تو خدا تعالے جہنم میں لے جائے گا.باجماعت نماز مردوں کے لئے فرض ہے اگر مرد نہیں پڑھتے تو اس کا گناہ لکھا جائے گا اور اُس کا نمبر کٹ جائے گا.لیکن اگر تم جماعت

Page 365

358 کے ساتھ نماز نہیں پڑھتیں تو گناہ نہیں ہو گا لیکن با جماعت نماز پڑھو گی تو ثواب ہوگا.اگر تم کہو کہ با جماعت نماز پڑھنے کو دل تو بہت چاہتا ہے لیکن چونکہ ہمارے ہاں کوئی جماعت نہیں اس لئے ہم با جماعت نماز نہیں پڑھ سکتیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو کام جماعت کے ساتھ ہوتے ہیں اگر تم ان کی نیت کر لو گی تو تمہیں اُتنا ہی ثواب ملے گا.کیونکہ تمہارا دل تو چاہتا ہو گا.تمہاری خطا تو نہ ہوگی سامانوں کی خطا ہوگی.خدا کہے گا کہ اس کی نیت نیک تھی قصور مال میسر نہ ہونے کا ہے.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بندہ کسی بندے کے ساتھ جیسا سلوک کرتا ہے گویا وہ میرے ساتھ کرتا ہے.اگر اُس نے میرے بندوں کو روٹی کھلائی تو گویا اُس نے مجھے کھلائی، اگر اس کے لئے مکان بنایا ہے تو خدا کہے گا اُس نے میرے لئے مکان بنایا ہے اس لئے اس کا اس سے بہتر مکان جنت میں بناؤ.اسی طرح اولاد کی تربیت ہے.یہ اجتماعی کام ہے.نہیں بڑا شوق ہے کہ تمہارا بچہ بھی ہولے.تم رات دن اُسے کہتی ہو کہ بچہ بیچ بول بچہ بیچ بول لیکن تم اکیلے اُسے کس طرح سکھا سکتی ہو.تمہارا بچہ باہر کھیلنے جاتا ہے تو دوسرے کو کہتا ہے کہ بھائی ابا کو نہ بتانا کہ میں سکول نہیں گیا.تم گھر میں کہتی ہو کہ بچہ سچ بول.تم اس کشمکش کے بعد کبھی تو تمہاری تعلیم اثر کرتی ہے کبھی بھائی کی.اگر اس بھائی کی ماں اُسے کہنے والی ہوتی تو سچ بولا کر تو وہ فورا تمہارے بچہ کو کہہ دیتا کہ میں جھوٹ نہیں بول سکتا میری ماں نے منع کیا ہوا ہے تو تربیت اولا د بھی اجتماع کے بغیر نہیں ہو سکتی.عورتوں کو چاہیئے کہ وہ چل کر بیٹھیں اور سوچیں کہ ہمارے بچوں میں کیا کیا خرابیاں ہیں.عورتیں تدابیر کریں اور عہد کریں کہ وہ ان کمزوریوں کو دُور کریں گی اس میں تعاون کی ضرورت ہے.اگر ساری عورتیں اپنے بچوں کو سچ بولنے کی ترغیب دیں گی تو کوئی بچہ جھوٹ بولنے والا نہیں ہوگا.اگر پندرہ بچے کھیلنے والے ہوں گے اور ان میں سے ایک جھوٹ بولنے والا ہو گا تو پندرہ دوسرے کہیں گے کہ ہم نے جھوٹ نہیں بولنا ہماری اماں نے منع کیا ہوا ہے تو تمہارا بچہ بھی سچ بولنے لگ جائے گا.غرض یہ اجتماعی نیکیاں ہیں جو مل کر کرنے کے بغیر نہیں ہوسکتیں.اسی طرح بہادری ہے اگر ہمارے بچے کمزور ہوں گے تو انہوں نے اپنی کیا اصلاح کرنی ہے اور جماعت کی کیا کرتی ہے.انہوں نے ملک کی کیا خدمت کرنی ہے اور قوم کی کیا خدمت کرنی ہے.بہادر آدمی کو لوگ گیند کی طرح اچھال اچھال کر پھینکتے ہیں لیکن وہ اپنے کاموں سے باز نہیں آتا.

Page 366

359 حضرت ابوذرغفاری نے سنا کہ ملکہ میں ایک شخص نے دعوی نبوت کیا ہے.انہوں نے اپنے بھائی کو تحقیقات کے لئے بھیجا لیکن اُس نے واپس جا کر کوئی تسلی بخش جواب نہ دیا.پھر وہ خود مکہ گئے.لوگوں سے دریافت کیا کفار نے آنحضرت ﷺ تک نہ پہنچنے دیا.یہی کہا کہ ایک شخص ہے جو اپنی سحر بیانی سے بھائی کو بھائی سے بیوی کو خاوند سے جدا کرتا چلا جاتا ہے لیکن یہ چُپ چاپ گلیوں میں چکر لگایا کرتے.حضرت علیؓ نے انہیں ایک دن دیکھا ، دوسرے دن دیکھا، تیسرے دن دیکھا تو پوچھا کیا بات ہے آپ چکر لگایا کرتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا شاید تم بھی مجھے ٹھیک ٹھیک نہ بتا سکو میں ایک کام کے لئے آیا ہوں حالانکہ حضرت علی تو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے ماننے والوں میں سے تھے.حضرت علیؓ نے پوچھا اور اصرار کیا تو انہوں نے بتادیا.وہ آنحضرت ﷺ کے پاس لے گئے.وہ مسلمان ہو گئے.دشمن اسلام بڑے دھڑلے سے خانہ کعبہ میں گالیاں دیا کرتے تھے.وہ ایک دن گالیاں دے رہے تھے تو یہ وہاں گئے.انہوں نے کہا تم گالیاں دے رہے ہو.سُنو! أَشْهَد أَنْ لَّا إِلَهَ الله وَ اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدَ اعْبُدُه وَرَسُولُه کفار نے پکڑ کر خوب پیٹا.پیٹنے کے بعد پھر پوچھا.تو چونکہ دل بہادر تھا پھر کہا اَشْهَد اَنْ لا اله اللَّهِ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدَ اعْبُدُه و رسوله - تو یہ اُن کی جرات اور بہادری تھی.اتنے میں حضرت عباس آپہنچے.یہ اس وقت مسلمان تھے ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ بڑے ہیں یا محمد کے بڑے ہیں ؟ حضرت عباس نے جواب دیا کہ درجے میں محمد کے بڑے ہیں پیدا پہلے میں ہوا تھا.تو جب یہ وہاں آئے تب حضرت ابوذر کو ان کے ہاتھوں چھڑایا.تو جب دل میں ایمان پیدا ہو جاتا ہے تو جو شخص بہادر ہوتا ہے وہ ہر جگہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے.دین کے لئے بہادری کی ضرورت ہے اور دنیوی کاموں کے لئے بھی بہادری کی ضرورت ہے.بُزدلی ہر صورت میں بُری ہے اور بہادری ہر لحاظ سے اچھی ہے.اگر جاپانی ٹھس آئیں تو کیا تمہار دل یہ چاہتاہے کہ تمہارا بیٹا کھیت میں کس جائے اور وہ گھروں کولوٹ لے جائیں یا تمہارا دل یہ چاہتا ہے کہ تمہارا بیٹا دروازے میں کھڑا ہو کر بہادری سے مقابلہ کرے اور لوگ کہیں واہ ب حسی نوجوان مرتو گیا لیکن اپنی عورتوں کی جان بچائی.یا تمہیں یہی اچھا لگتا ہے کہ اُس وقت تمہارا بیٹا گھر میں گھس جائے اور دشمن عورتوں کی چوٹیاں پکڑ کر گھسٹتے پھریں ؟ تم کو تو وہی بچہ اچھا لگے گا جو گھر کی حفاظت میں اپنی جان تک دیدے گا.ایک کا ڈر دوسرے کو بھی ڈرا دیتا ہے.ڈرائیسی چیز ہے جو ایک سے دوسرے کی طرف منتقل ہو جاتی ہے.اگر تم نے اپنے نیچے کے دل میں ڈر پیدا کیا ہے تو وہ

Page 367

360 بہادری کس طرح دکھائے گا.اور اگر تم صرف اُس کو بہادری کی تعلیم دیتی ہو اور وہ دوسرے بچوں کو ڈرتے دیکھتا ہو تو خود ڈرنے لگتا ہے.رسول کریم نے جنگ حسین میں گئے.غزوہ حنین میں نئے نئے مسلمان شامل تھے.ذرا تیر پڑے تو وہ بھاگے.جب وہ بھاگے تو سارا لشکر اسلامی بھاگ پڑا یہاں تک کہ صرف بارہ آدمی رسول کریم اے کے پاس رہ گئے.دوسری طرف چار ہزار آدمی تیر برسانے والے تھے وہ اپنی ذات میں ڈرپوک نہیں تھے.بزدل نہیں تھے بلکہ بزدلوں کو دیکھ کر بزدل بن گئے تھے.کوئی عورت اپنے بچے کا دل مضبور نہیں کر سکتی جب تک کہ سارے گاؤں کی عورتیں اپنے بچوں کے دل مضبوط نہ کریں.اسی طرح تعلیم کو دیکھ لو امیر سے امیر آدمی بھی اکیلا سکول کو نہیں چلا سکتا لیکن مل کر غریب سے غریب آدمی بھی شان دار کالج تیار کر سکتے ہیں.یہاں سکول کا ۲۵ ۲۶ ہزار خرچ ہے.یہ کوئی اکیلا امیر آدمی خرچ نہیں کر رہا بلکہ تم میں سے ہی وہ مرد ہیں جن کی چار روپے آمد ہے اور وہ پیسہ پیسہ دے رہے ہیں.اکٹھے کاموں کے لئے ضرورت ہوا کرتی ہے جماعت کی اس کے لئے یہ قانون ہم نے بنایا ہے کہ جہاں کہیں بھی احمدی عورتیں ہیں وہاں لجنہ اماءاللہ بنالیں.لجنہ اماءاللہ کے معنے ہیں اللہ کی نیک بندیوں کی انجمن‘ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک ہر جگہ انجمنیں قائم نہیں ہوئیں.جہان لجند قائم ہو وہاں کی ہر عورت نمبر ہوگی اور ہر عورت یہ اقرار کرے کہ خدا کے دین کو پھیلانے کے لئے میں مرجاؤں گی سر دے دوں گی لیکن پیچھے نہیں ہٹوں گی.ہفتہ میں ایک یا دو دن وقف کر دے بجائے اس کے کہ ہمسایہ کی غیبت کرو دین کی باتیں کرو.آپس میں نیک مشورے کرو.میں نے بار ہا توجہ دلائی ہے کہ تم اپنے قومی کام کیسے کر سکتی ہو جب تمھارے پاس ہتھیار نہیں.لجنہ اماء اللہ تمھارے لئے ہتھیار ہے.اجتماعی کام تم کس طرح کر سکتی ہو جب تک تم مل کر کام نہیں کرتیں.کوشش تو یہ کرنی چاہیئے کہ پانچ نمازوں میں سے ایک نماز باجماعت ادا کرو.اگر تم با جماعت نماز پڑھوگی تو بہت ممکن ہے کہ تمھارا یہی ثواب تمھیں جنت میں لے جانے کا موجب ہو جائے.اسی طرح تم اقرار کرو کہ ہم اپنے بچوں کو کہیں گی کہ تم دلیر ہوں، انہیں بیچ بولنا سکھائیں گی ، نماز سکھائیں گی.یا اسی طرح مثلا یہ نیکیاں کہ ان کے متعلق فیصلہ کرو.تعلیم کے لئے کوئی استاد رکھو کہ وہ دین سکھائے.یہ سارے کام ایسے ہیں جو تم مل کر کر سکتی

Page 368

361 ہو.اسی طرح قرآن کریم کا ترجمہ ہے.اکٹھی ہوئیں ایک رکوع با تر جمہ سنا دیا.عورتوں کے فائدے کے لئے اخبار مصباح جاری ہے.چندہ اکٹھا کر کے منگواؤ اور جلسوں میں پڑھ کر سنا دیا کرو.اسی طرح چندہ اکٹھا کر کے کبھی بخاری منگوالی یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی کتاب منگوالی - تا تمھاری تبلیغ وسیع ہو جائے تمھاری تعلیم وسیع ہو جائے اور اچھی اچھی باتیں دوسروں کو سنانے کا موقع مل جائے.اسی طرح اخبار الفضل منگوالیا تا قادیان کے حالات تمھیں معلوم ہوتے رہیں.خدا تعالیٰ نے تمھیں جماعت دی ہے جماعت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے.پس اگلے سال تک کوئی جماعت ایسی نہ رہ جائے جہاں لجنہ کا قیام نہ ہو.لجنہ کے لئے کام یہ ہے:.اول : تھوڑا تھوڑا ہر ایک اپنی توفیق کے مطابق چندہ دے اور چندہ جمع کر کے مصباح منگوا ئیں.دوئم : کم از کم ایک نماز با جماعت ادا کریں.اس کے بعد دو چار آنتیوں کا تر جمعہ سنا دیا.سوئم : لجنہ رجسٹر کرالو اور مرکز سے قواعد منگوالو.اس سال خصوصیت کے ساتھ یہ عملی تجاویز پیش کرتا ہوں.(اس کے بعد حضور نے دعا فرمائی) تقریر حضرت خلیفہ اسی الثانی بر موقع جلسه سالانه مستورات ۱۹۴۳ء تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے سورۃ الکوثر کی تلاوت فرمائی اور پھر فرمایا:.جیسا کہ جماعت کے بھائی بہن اخبارات کے ذریعہ واقف ہیں گزشتہ مئی سے میری طبیعت بہت خراب چلی آتی ہے.کھانسی اور گلے کی خرابی کی وجہ سے میں اچھی طرح بول نہیں سکتا اس وجہ سے آج میں مستورات کے جلسہ میں صرف تھوڑی دیر بولنے کا ارادہ رکھتا ہوں.اسی طرح مردوں میں جو تقریر ہوگی وہ بھی گزشتہ سالوں کی نسبت مختصر کرنی پڑے گی.چونکہ مردوں کے جلسہ کی تقریر آب لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ عورتیں بھی سن سکتی ہیں اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اس تیسری تقریر کی کوئی خاص ضرورت نہیں.مگر چونکہ فطری طور پر

Page 369

362 اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں میں مقابلہ کی روح پیدا کی ہے اس لئے ان کے احساسات کا خیال رکھتے ہوئے چند منٹ بولنے کے لئے یہاں آ گیا ہوں.پیشتر اس کے کہ میں سورۃ کے متعلق کچھ بیان کروں ناظمات جلسہ کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ میرے پاس شکایت آئی ہے کہ سٹیج پر بیٹھنے والی عورتوں میں چائے تقسیم ہوتی ہے جس پر دوسری عورتیں برا مناتی ہیں میرے نزدیک پیج پر بیٹھنے والی بہنوں کو اپنی دوسری بہنوں کے احساسات کا خیال رکھنا چاہئے اور آ کند وایسی غلطی نہیں ہونی چاہیئے.اگر پہلے اس قسم کی کوئی غلطی ہوتی رہی ہے تو آئندہ اس سے اجتناب کیا جائے.بھوک اور پیاس ایسی چیزیں ہیں کہ سٹیج پر بیٹھنے والیوں کو ویسی ہی بھوک اور پیاس لگتی ہے جیسی کہ نیچے بیٹھنے والیوں کو.وہ عورتیں جو نیچے بیٹھی ہوئی ہیں جب وہ باوجو دتنگ اور سمٹ کر بیٹھنے کے اور دھوپ میں ہونے کے بھوک اور پیاس کو روک سکتی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ مسیح والی روک نہیں سکتیں ؟ ہاں بیمار اس سے مستنی ہے.اکا دکا بیمار ہوتی رہتی ہیں مگر یہ خیال کرنا کہ سب یہاں بیمار بیٹھی ہیں غلط ہے.شاذ و نادر ہی کوئی بیمار ہے.مثال اس کا دل کمزور ہے تو اس پر رقم کرنا چاہیئے نہ کہ اعتراض.بہر حال مستورات کے سٹیج سے متعلق موجود و نظام درست نہیں.اس سلسلہ میں میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ شینج کا نظام قابل اصلاح ہے.مردوں کے سٹیج پر کسی کو اس لئے جگہ نہیں دی جاتی کہ وہ مال دار ہے.یا کسی اونچے طبقے سے تعلق رکھتا ہے.وہاں صرف ان کو جگہ دی جاتی ہے کہ جو بیرونی جماعتوں کے پریذیڈنٹ یا سیکرٹری ہیں اور ان سے امید کی جاتی ہے کہ جب وہ اپنے گھروں کو واپس جائیں گے تو جماعتوں کو یہاں کے حالات سنائیں گے سوائے اُن کے جو غیر احمدی ہوتے ہیں یا بیمار یا اونچا سننے والے کہ وہ اس سے مستثنی ہیں.میں سمجھتا ہوں مستورات میں بھی ایسا ہی نظام ہونا چاہیے مختلف انجمنوں کی پریزیڈینٹ اور سیکرٹریوں کو بیٹھنے کا موقع دیا جائے یا مرکزی انتظام جن کے سپر د ہو وہ بیٹھ سکتی ہیں یا غیر احمدی جو باہر سے آتے ہیں وہ اتنی تکلیف برداشت کر سکتی ہیں اور یا پھر وہ بیٹھ سکتی ہیں جو معذور ہوں جو زمین پر زیادہ دیر نہ بیٹھ سکتی ہوں.اسی طرح جلسہ گاہ کے آخر میں بیج لگا دئے جائیں تا کہ بیمار اور معذور عورتیں بیٹھ سکیں میں امید کرتا ہوں کہ لجنہ اس بات کو نوٹ کر لے گی اور آئندہ سال اس قانون پر عمل کیا جائے گا.صرف لجنات کی پریذیڈنٹ سیکرٹری یا بیمار یا پھر غیر احمدی عورتوں اور منتظلمات کو ہی سٹیج پر جگہ دی جائے

Page 370

363.جن کو ان قواعد کے ماتحت بیٹھنے کا موقع نہ مل سکتا ہو آئندہ وہ نیچے بیٹھا کریں.اس موقع پر افسر صاحب جلسہ سالانہ کی طرف سے رقعہ پیش کیا گیا کہ کل اور آج سیج پر کھانا نہیں کھایا گیا اور نہ ہی چائے تقسیم ہوئی ہے) حضور نے فرمایا :.یہ خوشی کی بات ہے کہ اس دفعہ کھانا نہیں کھایا گیا.مگر اس قسم کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی.جو کام انسان خدا کی خاطر کرتا ہے اس پر جو اعتراض کئے جائیں وہ انسان کو بخوشی برداشت کرنے چاہئیں.اللہ تعالے کی خاطر کام کرنے والا اعتراضوں پر خوش ہوتا ہے نہ کہ ناراض.پس اعتراض ایک کان سے سننے چاہئیں دوسرے کان سے نکال دینے چاہئیں.دین میں خدا کی خاطر گالیاں سننے سے بڑھ کر اور کیا خوشی ہوسکتی ہے.سچا احمدی تو وہی ہے جو خدا کی خاطر اعتر انسوں کو برداشت کرتا ہے.حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں کسی دوست نے ایک نیک تحریک جاری کی.کچھ عرصہ کے بعد اُن سے پو چھا گیا کہ کام کیسا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اچھا کام نظر نہیں آتا.معلوم ہوتا ہے کہ خدا کو پسند نہیں کیونکہ نہ کسی نے گالی دی اور نہ اعتراض کیا.تو خدا کی خاطر جو تحریک ہوتی ہے اس پر ضرور اعتراض ہوتے ہیں.اُن پر یہ انہیں منانا چاہیئے.پھر کچھ عرصہ کے بعد وہ کہنے لگے مبارک ہو یہ تحریک مبارک ہے.گالیوں سے بھرا ہوا ایک خط آیا ہے.تو خدا کی خاطر اعتراضات کو برداشت کرنا حقیقی قومی ترقی کی رُوح ہے.اعتراضات کا فورا جواب دینا تھڑا دلی کی علامت ہے.مولوی بُرہان الدین صاحب سلسلہ کے بزرگوں میں سے تھے.۱۹۰۳ء کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ تشریف لے گئے.بڑاشان وار استقبال ہوا.لیکن وہاں دشمنوں نے گالیاں بھی دیں.جب حضور واپس آنے لگے تو لوگ پتھر مارنے لگے.پتھروں کی کثرت کی وجہ سے گاڑی کی کھڑکیاں بند کر دی گئیں.مولوی صاحب بیچارے بوڑھے آدمی تھے.وہ ان لوگوں کے قابو چڑھ گئے.کبھی ڈاڑھی کھینچتے ، کبھی ملتے مارتے، کبھی دھکے دیتے، وہ چلتے جائیں اور کہتے جائیں" سبحان اللہ ساڈیاں ایسیاں قسمتاں کتھوں“.آخر لوگوں نے پکڑ کر اُن کے منہ میں گوبر ڈال دیا تو کہنے لگے.”سبحان اللہ ساڈی قسمت وچ ایہ نعمتاں کتھوں.تو مومن پر دین کی وجہ سے جو اعتراض کیا جاتا ہے وہ اُس کی نجات کا موجب ہوتا ہے اس سے اُسے گھبرانا نہیں چاہیئے.

Page 371

364 حضرت ابوطلحہ رسول کریم اللہ کے عزیز صحابی تھے.جنگ اُحد میں جب حضور چند دوستوں کے ساتھ اکیلے رہ گئے تو حضرت طلحہ حضور کے سامنے کھڑے ہو گئے اور حضور کے منہ کے سامنے اپنا ہاتھ رکھ دیا.دشمن نے اس قدر تیر پھینکے کہ اُن کا ہاتھ شل ہو گیا.کئی سال کے بعد کسی نے اُن کا ہاتھ دیکھا تو کہا.ٹھنڈا.حضرت الله ابوطلحہ نے کہا میرے لئے ساری برکتوں کا موجب یہ ہاتھ ہے جنگ اُحد میں جب رسول کریم ہے پر دشمن نے وار کیا تو میں نے یہ ہاتھ حضور کے منہ کے آگے رکھ دیا.وار ہوا تو میرا ہاتھ چھلنی ہو گیا.کسی سے پوچھا آپ کو درد نہیں ہوا تھا؟ کہنے لگے اُس وقت تو میرے منہ سے سی تک نہیں نکلی.درد تو ہوتا تھا مگر میں اس ڈر کے مارے کہ کہیں میرا ہاتھ نہ بہل جائے رسول کریم نے کو کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے کسی تک نہیں کرتا تھا.تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں گالیاں کھانا ، ماریں کھانا اور بے عزتی برداشت کر نا رتبہ کو حاصل کرنا ہے.اب میں اختصار کے ساتھ اس سورۃ کے متعلق جو میں نے ابھی پڑھی ہے کچھ باتیں کہنی چاہتا ہوں اللہ تعالے اس سورۃ میں فرماتا ہے کہ اے رسول اِنا اَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَر ہم نے تجھ کو کوثر عطا فرمائی.کوثر کے معنے میں کثرت بھلائی اور ایسا شخص جو بہت صدقہ و خیرات کرنے والا ہو.پس اس کے معنے یہ ہوں گے کہ اے محمد ہے ہم نے آپ کو کوثر عطا فرمائی ہے.یعنی ہر وہ چیز جو دنیا کی نعمت ہو سکتی ہے آپ کو دی ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سورۃ ایسے وقت میں نازل ہوئی جبکہ رسول اللہ نے کے ساتھ بہت کم لوگ تھے.آپکے ملنے جلنے والے ،رشته دار ، عزیز سب مخالف تھے.دشمنوں کی تعداد بہت زیادہ تھی.دشمن اتنے طاقتور تھے کہ کوئی خیال بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اللہ تعالے آپ کو ترقی دے گا.اس وقت اور ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِناً أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَر.ہم نے تجھ کو ہر نعمت بڑی تعداد میں دی ہے.یہ اس وقت کا الہام ہے جبکہ مسلمان بہت تھوڑی تعداد میں تھے.ان کے لئے گلیوں میں چلنا پھرنا بھی مشکل تھا.خدا تعالیٰ نے اس وقت رسول کریم سے وعدہ کیا کہ ہم تجھے بہتات دیں گے اور ترقی دیں گے.حضرت عمر اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے.ایک دن وہ گھر سے اس امر کا ارادہ کر کے نکلے کہ میں نعوذ بااللہ رسول اللہ ﷺ کو قتل کر دوں گا راستے میں کسی نے پوچھا عمر یہ تلوار لگائے کہاں جارہے ہو؟ کہنے لگے محمد (ﷺ) کو مارنے جارہا ہوں.اس نے کہا تمھارے بہن اور بہنوئی مسلمان ہو چکے ہیں پہلے ان کو قتل کرو.حضرت عمر نے کہا ہیں یہ بات ہے ! حضرت عمر لوٹے اور اپنی بہن کے گھر کی طرف پہلے.ان کا دروازہ بند تھا.وہ کسی سے قرآن سن رہے صلى الله

Page 372

365 تھے.انہوں نے جاتے ہی دروازہ کھٹکھٹایا.انہوں نے جواب دیا ٹھہر وکھولتے ہیں اول تو گھر کا دروازہ بند ہونا ہی بہت بڑی بات تھی پھر ان کا یہ کہنا کہ ٹھہر کھولتے ہیں حضرت عمر کا شبہ بہت بڑھ گیا.پوچھا کہ دروازہ کیوں بند کیا تھا.کہنے لگے یونہی.حضرت عمر نے کہا تمھاری آوازیں آ رہی تھیں اور آگے بڑھ کر بہنوئی کو مارنا شروع کر دیا.ان کی بیوی خاوند کی محبت کی وجہ سے برداشت نہ کر سکیں آگے آ کر کھڑی ہو گئیں.کہنے لگیں کہ مارنا ہے تو مجھے مارو میں تمھاری بہن ہوں ان کو کیوں مارتے ہو.حضرت عمرؓ نے مارنے کے لئے ہاتھ اٹھایا ہوا تھا اور وہ آگے کی طرف حرکت کر رہا تھا رک نہ سکا اور پورے زور کے ساتھ ان کی بہن کے منہ پر لگا اور ناک سے خون بہنے لگا.ایک بہادر آدمی کے لئے یہ چیز پریشان کر دینے والی تھی.بہن کا خون دیکھ کر ان کا غصہ اتر گیا اور کہنے لگے بہن معاف کرنا غلطی ہو گئی.جب دیکھا کہ بہن کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا تو کہنے گئے اچھا وہ جو سن رہے تھے مجھے بھی دکھاؤ بہنوئی تو کچھ ڈرے مگر وہ صحابی جو سنارہے تھے جوش سے باہر نکلے که عمر جیسا انسان قرآن شریف سننے کے لئے تیار ہے.حضرت عمرؓ نے ورق کو ہاتھ لگایا ہی تھا کہ ان کی بہن نے ورق ہاتھ سے چھین لیا اور کہا کہ نا پاک ہاتھ نہ لگاؤ پہلے قبل کرو اور پھر اس پاک کلام کو ہاتھ لگاؤ.ندامت اور شرمندگی تھی.نہائے.اس کے بعد آیت پڑھی تو دل نرم ہوا، دوسری پڑھی اور نرم ہوا، تیسری پڑھی تو اور حالت ہوئی ، چوتھی پڑھی تو اور ، پانچویں پڑھی تو دل کی حالت اور ہوئی ، چھٹی پڑھی تو بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے.سورۃ ختم ہوئی تو خاموشی سے اٹھے اور رسول کریم والے کے پاس پہنچے.ان کا بھی دروازہ بند تھا دستک دی.کسی نے پوچھا کون ہے؟ جواب دیا عمر بن الخطاب.عمر مکہ کے بہادر اور لڑا کے آدمی تھے.صحابہ نے آواز سنتے ہی عرض کیا یا رسول اللہ سمراڑا کا آدمی ہے دروازہ نہ کھولنا چاہیئے.رسول کریم والے نے فرمایا کھول دو.رسول کریم نے کے چا حضرت حمزہ بہت بہادر سپاہی تھے انہوں نے کہا درواز کھول دو میں دیکھوں گا عمر کس طرح گستاخی کا معاملہ کرتا ہے.عمر مجرموں کی طرح داخل ہوئے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا.عمرکس طرح آئے ہو؟ کہنے لگے یا رسول اللہ ! آپ کا غلام ہونے آیا ہوں.صحابہ نے سنتے ہی اس قدر زور سے تکبیر کا نعرہ بلند کیا کہ مکہ گونج اٹھا.تو مسلمان اتنے تنگ تھے کہ کھلے بندوں نماز نہیں پڑھ سکتے تھے.اس وقت خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اے محمد میں تجھے ہر چیز کی کثرت دوں گا.اتنی قوتیں تیرے مذہب میں داخل

Page 373

366 ہوں گی کہ گئی نہ جاسکیں گی.یہ غریب اور کنگال لوگ اتنے مالدار ہو جائیں گے کہ ان کے مال کا کوئی حساب نہ ہو سکے گا.وہ بات کس رنگ میں پوری ہوئی.فتح مکہ کے موقع پر رسول کریم نے دس ہزار قد دسیوں سمیت مکہ میں داخل ہوئے.ابو سفیان نے دور سے لشکر دیکھا اور دیکھ کر کہا کہ یہ کونسا لشکر ہے ؟ اس کے ساتھیوں نے کہا فلاں قبیلہ کا ہے.اس نے کہاں نہیں ان کے پاس اس قدر لشکر کہاں.اس کے ساتھیوں نے تمام بڑے بڑے قبائل کا نام لیا.اس نے کہا کسی کے پاس بھی اتنا لشکر نہیں صلى الله پھر انہوں نے کہا محمد (ﷺ ہوں گے.ابوسفیان نے جواب دیا میں ابھی ان کو مدینہ چھوڑ کر آیا ہوں.یہ محمد(ﷺ) کیسے ہو سکتے ہیں.تو آپ کے پاس اتنابد الشکر تھا کہ عرب کی کسی قوم کے پاس اتنا بڑ الشکر نہیں تھا.ایک وہ وقت تھا کہ آپ ایک دوست کے ساتھ مکہ سے تن تنہا نکلنے کے لئے تیار ہوئے اس وقت خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تجھے غریب و کنگال کہتے ہیں ہر چیز کی تجھے اتنی کثرت ملے گی کہ اس کا شمار نہ ہو گا.اِنا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَر ہم نے تجھے کثرت دی اور برکت دی اعلے سے اعلے چیزیں عطا کیں.خیر کثیر میں قرآن کریم بھی شامل ہے جس کے مقابلہ میں دنیا کی سب کتابیں بیچ ہیں.ہزاروں لاکھوں کتابیں دنیا میں تصنیف کی گئی ہیں.ہندوستان اور بیسیوں ملکوں میں کتب موجود ہیں.ہندوستان ایک غریب ملک ہے اور پنجاب ایک غریب صوبہ ہے مگر صرف اسی کے کتب خانوں میں لاکھوں کتابیں موجود ہیں.اسی طرح دنیا میں ہزاروں لائبریریاں ہیں اور ان میں لاکھوں کتابیں موجود ہیں اور اس سے پہلے کروڑوں کتابیں لکھی گئیں اور تباہ ہو گئیں.بعض کتا ہمیں ایسی ہیں کہ ان کی سوسو جلد میں ہیں مگران صلى الله سب کتابوں کے مقابلہ میں رسول کریم نے کو ایک چھوٹی سی کتاب ملی جسے لوگ حفظ بھی کر لیتے ہیں مگر اس کے نو راور اس کے عرفان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.اس کا ایک ایک لفظ اپنے اندر وسیع معانی و مفہوم رکھتا ہے.اس کی ایک آیت کے مقابلہ میں بڑی سے بڑی کتاب بیچ ہے.زبان اتنی شیریں ہے کہ بڑے سے بڑا ماہر اس کو سن کر دنگ رہ جاتا ہے.عرب میں سات بڑے شاعر ہوئے جن کے قصیدے سونے کے حروف سے لکھ کر خانہ کعبہ کے دروازوں پر لٹکائے گئے.ان میں سے ایک شاعر لبید مسلمان ہو گئے.حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ انہیں بلایا اور کہا کوئی اچھا سا شعر سنا ئیں.انہوں نے الم ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ پڑھ کر سنانا شروع کر دیا.حضرت عمرؓ نے کہا آپ اچھے شاعر ہیں! انہوں نے کہا اے خلیفہ الرسول! کیا قرآن کے ہوتے

Page 374

367 ہوئے کسی شعر کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ اسکے مقابلہ میں تو دنیا کی ساری شاعری ختم ہوگئی.عرب کا ایک دہر یہ شاعر تھا.بادشاہ بھی دہریہ تھا.اس نے کہا کہ تمھاری ہمیشہ مسلمانوں سے بحث ہوتی رہتی ہے تم کیوں کوئی ایسی آیت نہیں لکھ دیتے جو مسلمانوں کے قرآن کے مقابلہ میں پیش کر دیں.شاعر نے کیا ہم لوگ کھانے پینے کے محتاج ہیں.لوگوں کی تعریف کرتے ہیں.اگر آپ کھانے پینے کا سامان کر دیں تو پھر لکھوں.بادشاہ نے کہا کیا چاہیئے.اس نے کہا ایک باغ ہو ،لونڈیاں ہوں ، ہر قسم کا سامان موجود ہو اور چھ مہینے کی مہلت دی جائے.چھ مہینے بادشاہ اس خوشی میں بیٹھا رہا کہ اب مسلمانوں کے مقابلہ کی سورۃ تیار ہو جائے گی.جب چھ مہینے گزر گئے.پوچھا تیار ہو گئی ؟ کہنے لگا.نہیں.بادشاہ کو سخت غصہ آیا کہ لاکھوں روپیہ اس نے کھا لیا پھر کہتا ہے کہ نہیں تیار ہوئی.وہ کہنے لگا اے بادشاہ میں نے اپنی کوشش میں کمی نہیں کی.اس بات کا ثبوت آپ اندر جا کر دیکھ سکتے ہیں.بادشاہ نے دیکھا کہ کاغذوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے.وہ کہنے لگا قرآن کی مثال جب میں لکھنے لگتا تھا تو میری قلم رک جاتی تھی مجھے تو ہر قدم پر شرمندگی اور ذلت اٹھانی پڑی ہے.تو قرآن اتنی اعلیٰ درجہ کی کتاب ہے کہ تمام انسانی ضرورتوں کا علاج اور ہر قسم کی ہدایات اس میں موجود ہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے قرآن ایسی نعمت بنائی ہے کہ اس میں تمام انسانی ضرورتوں کا بیان ہے.اِنا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَر ہم نے تجھے ہر چیز کی کثرت دی ہے.ہم بچے تھے تو ایک قصہ پڑھا کرتے تھے کہ عمر عیار کے پاس ایک زنبیل تھی جس میں سے سب کچھ نکل آتا تھا.کھانا ہوتا تو اس میں سے اعلیٰ قسم کے کھانے نکل آتے.مقابلہ کے لئے لشکر، ہاتھی گھوڑے سب نکل آتا.وہ تو ایک کہانی تھی مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کریم ایسی زنبیل رسول کریم ﷺ کو دی گئی کہ دنیا کی کوئی حاجت، کوئی سوال عقلی اور نقلی ایسا نہیں جس کا کامل جواب اس میں موجود نہ ہو.اچھی باتوں کی تعریف ، بری باتوں کا رد عورت اور مرد کے تعلقات مصلح اور جنگ کے احکام شادی بیاہ ،تجارت اور اقتصاد کے احکام ، لین دین کے معاملات ، غرض کوئی ایسی چیز نہیں کہ اس کے متعلق سوال کیا جائے اور اس کا جواب اس میں موجود نہ ہو.محمد رسول اللہ ﷺ کو ایسی چیز ملی کہ اس کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی.

Page 375

368 میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کا تجربہ کیا ہے میں کہتا ہوں کہ کوئی شخص ایسی بات پیش کرے جس کا جواب قرآن کریم میں موجود نہ ہو مگر آج تک کوئی ایسی بات پیش نہیں کر سکا.ایک دفعہ کوئی غیر احمدی مولوی آیا اور کہنے لگا مرزا صاحب کی سچائی قرآن کی آیت سے بتائیں.میں نے کہا مرزا صاحب کی سچائی ہر آیت سے ثابت ہو سکتی ہے.وہ کہنے لگا اچھا اس آیت سے ثابت کریں وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللهِ وَبِالْيَومِ الْآخِرِ وَمَاهُمُ بِمُو مِنِینَ.میں نے کہا یہ آیت ہمیشہ کے لئے ہے یا صرف اس زمانہ کے لئے ؟ کہنے لگے ہمیشہ کے لئے.میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا یہ کتنا بڑا ثبوت ہے.اللہ تعالے صاف فرماتا ہے کہ قرآن کی موجودگی میں بھی ایسے لوگ ہوں گے جو منہ سے تو کہیں گے کہ ہم قرآن پر یقین رکھتے ہیں مگر وہ مسلمان نہیں ہوں گے.اگر اُمت محمدیہ میں سب نیک لوگ ہی پیدا ہوتے تو پھر نبی کی کوئی ضرورت تھی.چنانچہ اس آیت میں اللہ تعالے یہی بتاتا ہے کہ ہمیشہ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو منافق ہونگے جو منہ سے تو کہیں گے کہ ہم مسلمان ہیں مگر دل سے نہیں ہوں گے.تو ضروری ہے کہ کوئی ایسا شخص ہو جو ان کو حقیقت میں محمد رسول اللہ ﷺ کی امت بنائے.تو بعض دفعہ ایسا خدائی تصرف ہوتا ہے کہ اللہ تعالے دشمنوں کے منہ سے بھی تائید کر دیتا ہے.ایک دفعہ ایک پادری حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آیا.اس بات پر بحث ہو رہی تھی کہ عربی زبان مختصر ہے کہ انگریزی.آپ نے فرمایا اچھا ”میرا پانی اس کی انگریزی کیا ہے؟ کہنے لگا ”مائی واٹر (My Water) حضرت صاحب نے فرمایا عربی میں صرف ”مائی" کا لفظ کہنا کافی ہے.اس پر وہ شرمندہ ہو گیا.تو یہ خدائی تصرف تھا کہ خدا نے آپ کے منہ سے ایسا ہی لفظ نکلوا دیا جو عربی میں اپنے اندر اختصار رکھتا تھا.تو محمد رسول اللہ ﷺ کوخدا تعالے نے کوثر دی.کیا بلحاظ اس زمانہ کے کہ آپ کے مانے والے ساری دنیا میں پیدا ہو گئے.یہ خدائی طاقت ہے کہ اس نے آپ کے ماننے والے ساری دنیا میں پھیلا دئے.ہم اتنے عرصہ کے بعد بھی یہاں بیٹھے محمد رسول اللہ ﷺ پر درود بھیج رہے ہیں.تیسرے معنے اس زمانہ کے متعلق ہیں یعنی میں تم کو ایسا آدمی دینے والا ہوں جو بہت بڑا سخی ہوگا اور صلى الله کثرت سے صدقہ و خیرات کر نیوالا ہوگا.رسول کریم ﷺ اس زمانہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ مسیح موعودلوگوں میں رو پے تقسیم کر یگا مگر لوگ رڈ کر دیں گے.لوگ غلطی سے اس کے معنے سونے چاندی کے لیتے ہیں حالانکہ

Page 376

369 سونے چاندی کوکوئی رہ نہیں کیا کرتا.ایک دفعہ ایک شخص نے کسی کو رات کے وقت صدقہ دیا.وہ چور تھا جسے اس نے صدقہ دیا.چور نے ایک اور آدمی کے ہاتھ پر رکھ کر کہا کہ کوئی بیوقوف مجھے خود ہی روپیہ دے گیا ہے صبح کو اُس نے اس کی ہنسی اُڑائی کہ ایک چور کو صدقہ دیا گیا.دوسرے دن اُس نے پھر صدقہ دیا وہ کوئی فاحشہ عورت تھی.لوگوں نے اس کی ہنسی اڑائی کہ ایسی عورت کو صدقہ دیا جس کا رو یہ شخص اور بدکاری میں صرف ہوتا ہے.تیسرے دن اُس نے پھر ایک اور آدمی کے ہاتھ پر سو پچاس روپیہ رکھ دیا.وہ کوئی امیر کبیر آدمی تھا.تو صبح کو شور پڑ گیا کہ ایک امیر کبیر آدمی کو صدقہ دیا گیا بھلا اسے کیا ضرورت تھی.تو سب نے روپیہ قبول کر لیا.سونے چاندی کو تو کوئی چھوڑ نہیں سکتا.اصل بات یہ ہے کہ حدیثوں میں جو آتا ہے کہ مسیح خزانے تقسیم کرے گا ایسے مسلمانوں کو جو محمد رسول اللہ کے ماننے والے ہیں مسیح موعود اُن کے آگے قرآن کے خزانے رکھے گا مگر وہ اسے اٹھا اٹھا کر پھینک دیں گے اور قبول نہیں کریں گے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكُوتَرَاے محمد ﷺ ہم تیری اولاد میں سے ایک روحانی بیٹا پیدا کریں گے جو علوم روحانی میں بڑی برکت والا ہوگا.وہ ان روحانی خزانوں کو دنیا کے چاروں طرف تقسیم کرے گا مگر بد قسمت لوگ ان خزانوں کو ر ڈ کر دیں گے.فَضَلَّ لِرَبِّكَ وَانْخَرُ جب کسی کو غیر ملے تو وہ بہت قربانیاں کرے اور بہت عبادت بجا لائے.تم میں سے کئی ہوں گی جن کے دل میں خیال آتا ہوگا کہ ہماری بھی کیا قسمت ہے.ہماری اولاد نہیں ہے یا ہماری جائداد نہیں ہے یا ہمارے خاوند کا رتبہ بڑا نہیں ہے یا ہمارے پاس دُنیا کے علوم نہیں.مگر تم کو وہ چیز ملی ہے جو دُنیا کے بادشاہوں کو نہیں ملی.سینکڑوں بادشاہ اس خزانے سے محروم ہیں.اُن کی اولادیں ، اُن کے رشتہ دار، اُن کی عزتیں سب کی سب اس دُنیا میں موت سے پہلے ختم ہو جائیں گی ، فرشتے آئیں گے تو انہیں کوڑے لگائیں گے کہ نکالو اپنی جانیں.وہ لوگ اسی دنیا میں اپنی چیزیں چھوڑ کر چلے جائیں گے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے ذریعہ جو چیز تم کو ملی وہ آخرت میں بھی تمہارے ساتھ جائے گی.خدا تعالیٰ نے عزت کے وہ خزانے تمہیں دئے ہیں کہ جو کبھی ختم نہ ہوں گے.وہ لوگ جو سردار کہلاتے ہیں ، آقا کہلاتے ہیں، حاکم کہلاتے ہیں دوزخ میں ہاتھ پھیلا پھیلا کر کہیں گے کہ ہمیں ایک قطرہ پانی دے دو مگر مومن کہیں گے ہمیں خدا نے اجازت نہیں دی.

Page 377

370 پس ہر وہ شخص جس کو خدا کی طرف سے خیر کثیر ملی ہے اُس کا فرض ہے کہ زیادہ سے زیادہ عبادت میں مصروف رہے.وَانْحَرُ اور زیادہ سے زیادہ قربانیاں کرنے والا ہو.خدا نے تم کو خیر کثیر دی ہے جس کے مقابلہ کی دُنیا میں اور کوئی چیز نہیں ہے.دو چیزیں ہیں جن کا خدا تعالیٰ مطالبہ کرتا ہے.نماز سے اُس کا شکر ادا کر و یعنی قدردان اور شکر گزار بنو.اور پھر وہ انسان جن کو اس خیر کثیر سے حصہ نہیں ملا اُن کو دینے کی کوشش کرو.بنی نوع انسان کی اصلاح کی کوشش کرو.اُن کی حالت کو سدھارنے کے لئے اپنے اوپر مشقتیں برداشت کرو.جو شخص دین کی خدمت کرتا ہے وہ مال دار ہے.اُسی کے پاس سونا ہے اُسی کے پاس چاندی ہے جس کے پاس یہ نہیں وہ کنگال اور بھوکا ہے.وہ ایک لمبا عذاب مرنے کے بعد اٹھانے والا ہے.پس تم اپنی زندگی میں ایک تبدیلی پیدا کرو.عورتیں نماز میں بہت سستی کرتی ہیں.عبادت تو خدا اور بندے کے درمیاں تعلق پیدا کرنے کا ذریعہ ہے.تم اپنے خاوندوں کے متعلق شکایت کرتی ہو کہ وہ باہر رہتے ہیں باتیں کرنے کا موقع نہیں ملتا.مگر خدا خود کہتا ہے کہ آؤ میرے ساتھ باتیں کر یں.وہ محسن اور حسین ہے.کیا تمہارا خاوند اتنی محبت کر سکتا ہے جتنی کہ خدا کر نیوالا ہے؟ جس مومن کو کوثر مل جائے اور اس کے احکام پر عمل کرنے کا اُسے موقع مل جائے اس سے بڑھ کر اور کون خوش قسمت ہوسکتا ہے.پھر فرماتا ہے إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْابْتَرُ.اے محمد رسول اللہ ﷺ س خیر کثر کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تیرا دشن جو تیرے مقابلہ میں کھڑا ہوگا وہ ناکام و نامراد ہوگا.جب تم اس مقام پر پہنچ جاؤ تو پھر تمہیں دشمن کی کوئی پروا نہیں ہو سکتی تم کامیاب ہو جاؤ گی تمہارے دشمنوں کی جڑیں کاٹ دی جائیں گی اور سب لوگ تمہارے مقابلے میں شکست کھا جائیں گے.کوثر والا مومن بڑی شان والا ہو گا اور بادشاہوں کا بادشاہ ہو جائے گا.اس کا ہر دشمن ذلیل وخوار ہوگا رسول کریم منہ کو ایک دفعہ گرفتار کرنے کے لئے ایران کے بادشاہ نے سپاہی بھیجے.قاصدوں نے کہا کہ آپ کو ایران کے بادشاہ نے نکلا یا ہے.آپ چپ چاپ ہمارے ساتھ چلیں.آپ نے فرمایا تین دن کے بعد جواب دوں گا.آپ تین دن دُعا میں لگے رہے.تین دن کے بعد فرمایا جاؤ اپنے بادشاہ سے کہہ دو میرے خدا نے تمہارے خدا کو مار دیا.

Page 378

371 لجنہ اماءاللہ کے جلسہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی تقریر مرتب سیده مریم صدیقہ صاحبہ حرم حضرت خلیفتہ مسیح الثانی رضی اللہ عن) حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ نے ۲۰.ماہ ہجرت ۱۳۲۳ ہش لجنہ اماءاللہ کے جلسہ میں جو تقریر فرمائی وہ درج ذیل کی جاتی ہے.سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فر مایا:.دُنیا میں انسان کے لئے سب سے قیمتی جو ہر سنجیدگی ہے.قرآن کریم نے اس کا نام اخلاص اور ایمان رکھا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ویل" للمُصَلِّینَ.ایک طرف تو فرماتا ہے کہ نمازیں پڑھو مگر دوسری طرف نماز پڑھنے والوں کے لئے ہلاکت کا لفظ کہا ہے.اس سے مراد وہی نماز ہے جس میں اخلاص نہ ہو.نماز انسان اور خدا کے درمیان ملاقات کا ذریعہ ہے.اخلاص نہ ہونے کی وجہ سے نماز خدا کے حضور حقیقی نماز نہیں کہلا سکتی.روزہ حقیقی روزہ نہیں کہلا سکتا اگر اخلاص نہ ہو.اگر اخلاص ہے تو حج بھی ہے.زکوۃ اور صدقہ بھی ہے.اگر اخلاص نہیں تو کچھ بھی نہیں.ایک ایکٹر بادشاہ بنتا ہے تو لوگ اس سے نہیں ڈرتے.لیکن ایک پندرہ ہیں گھماؤں کا چودھری آتا ہے تو لوگ اُس کی عزت کرتے ہیں کیونکہ اس میں اصلیت ہے.ایک ایکڑ بڑا چور بنتا ہے تو لوگ اس سے نہیں ڈرتے کیونکہ اس کا چور ہونا ایک تماشہ ہوتا ہے لیکن ایک شخص معمولی چوری کرنے والا ہوتا ہے جو دو آنے چرا لیتا ہے تو لوگ اس کے آنے پر ڈرنے لگ جاتے ہیں کہ دیکھو چور آ گیا ہے ہوشیار رہنا لوگ تھیٹر میں جاتے ہیں اور وہاں ایک درزی دیکھتے ہیں جس کے پاس بڑے بڑے لارڈ وغیرہ کپڑے لے کے جاتے ہیں.مگر دوسرے دن وہ اس کے پاس اپنا کپڑا نہیں لے جاتے بلکہ اپنے معمولی درزی کے پاس جس کی سلائی چار آنے ہوتی ہے اپنا کپڑ ا سلانے کے لئے لے جاتے ہیں.کیونکہ وہ سچا درزی ہے اور اوّل الذکر جھوٹا.اسی طرح ڈاکٹر کے بیٹے کے پاس لوگ نہیں جاتے حالانکہ بعض دفعہ وہ غرفاً ڈاکٹر کہلاتا ہے کیونکہ حقیقت میں ڈاکٹر نہیں.اسی طرح لوگ معمولی عطار کے پاس جا کر علاج کرا لیتے ہیں مگر نا تک کے ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے.پس جب تم دنیاوی کاموں میں اتنی احتیاط کرتے ہو تو کیا تم کھتے ہو کہ خدا اپنے کاموں میں احتیاط

Page 379

372 نہیں کرتا.اگر تم سو فی صدی احتیاط کرتے ہو تو خدا تعالیٰ دوسو فیصدی کرتا ہے.اور جب تم اپنے آپ کو اس قدر عقلمند سمجھتے ہو تو کیا خدا تعالیٰ نعوذ بالله من ذالك اتنا بیوقوف ہے کہ وہ تمہاری بغیر اخلاص کے نماز قبول کرلے تمہارے کھوٹے سے کھوٹے روپے کو صدقہ کے طور پر قبول کر لے.اصل چیز اخلاص ہے جب تک اخلاص پیدا نہ ہو جائے تب تک ترقی ممکن نہیں.بڑی وقت یہی ہے کہ لوگ اخلاص سے بہت دُور ہیں.عورتیں بالعموم لفاظی کو قبول کر لیتی ہیں.عورتیں احمدی کہلاتی ہیں لیکن سب بُرائیاں ان میں پائی جاتی ہیں حا لانکہ عمل اور اخلاص کی ضرورت ہے جس کے بغیر ترقی ناممکن ہے.موجودہ حالت میں مردوں کے پاس اس کے سوا کیا چارہ ہے کہ یا تو احمدی عورتیں اخلاص پیدا کریں یا پھر وہ ان کو چھوڑ دیں.اس وقت تک ایک بھی مثال ہمارے پاس ایسی نہیں کہ مرد مرتد ہو اہوا اور عورت بچ گئی ہو.مردوں کے ساتھ عورتیں بھی مرتد ہو جاتی ہیں.جس کے یہ معنے ہیں کہ عورت کا اپنا کوئی ایمان نہیں.اس کا ایمان اس کے خاوند کا ایمان تھا.دس بیس میں سے کوئی ایک عورت تو ایسی ہوتی جس کے متعلق ہم کہہ سکتے کہ اس کا اپنا ایمان تھا.ان کے ایمان اپنے ایمان نہیں بلکہ خاوندوں اور باپوں اور بیٹوں کے ایمان تھے.دیگ ایک چاول سے پہچانی جاتی ہے یہ ایک نمونہ ہمارے سامنے ہے.شاید خدا تعالیٰ نے بھی اسی لئے یہ ارتداد دو کھایا کہ عورتوں کے ایمان کا پتہ لگ جائے.جب عبدالرحمن مصری مرتد ہوا تو میرا خیال تھا کہ اس کی بیوی شاید اس کے ساتھ مرتد نہ ہو.میرے استاد کی وہ بنی تھی.بڑے پختہ ایمان کی عورت معلوم ہوتی تھی لیکن آخر خاوند کے ساتھ وہ بھی مرتد ہوئی.تو یہ باتیں بتاتی ہیں کہ جو اخلاص اور ایمان چاہیئے وہ ہماری عورتوں میں نہیں ہے اور اس کے بغیر ترقی ناممکن ہے.میں خصوصاًلجنہ کو خطاب کرتا ہوں.ہر محلہ کی لجنہ اپنے آپ کو منظم کرے اور ایک ہفتہ کے اندر اندر سب جوان، بوڑھی عورتوں کو جمع کرکے ان کی تعداد معلوم کرے اور جبراً اُن کو لجنہ میں داخل کرے اور جو داخل نہ ہو اُس کے متعلق سمجھ لو کہ وہ احمدی نہیں ہے.پہلے لجنہ کا ایک ہی اجلاس ہوتا تھا جس میں سب ممبرات شامل ہوتی تھیں.مگر ستی طاری ہوتی گئی اور محلہ وار کام شروع ہوا.اب صرف چندہ لینے تک کام محدود رہ گیا.کئی سال سے کوئی رپورٹ میرے پاس نہیں آئی اس لئے میں یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہوں کہ کام ہوتا ہی نہیں.میں نے اس لئے آج تم کو جمع کیا ہے کہ

Page 380

373 اصولی ہدایات تم کو دوں.ایک ہفتہ کے اندراندرا اپنے آپکو منظم کر لو اور ہر احمدی عورت کو لجنہ میں شامل کرو اور پھر جمع ہو کر اپنے لئے کام متعین کرو.بہت سی عور تیں صحیح پر دو نہیں کرتیں.غیر احمد ہوں ، بد معاشوں کے اڈے یہاں بن چکے ہیں جن کی وجہ سے بہت بدنامی ہورہی ہے.ایسی آوارہ عورتوں کا جس گھر میں جانا ہوگا وہ ایک غیر مرد کے آنے کے برابر ہے.پھر عورت کا اپنے مرد کے بغیر سفر پر جانا خلاف شریعت ہے مگر مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض عورتیں بغیر اپنے مرد کے بٹالہ یا امرتسر کا سفر کرتی ہیں.پھر سینمادیکھنے سے ہم نے روکا ہوا ہے مگر محلوں کے لڑکے بعض ریلوے گارڈوں سے دوستانہ کر کے بغیر ٹکٹ سفر کرتے ہیں اور بٹالہ جا کر سینما دیکھتے ہیں.آخر سینما والے انہیں مفت کیوں تماشہ دکھاتے ہیں.ظاہر ہے کہ اُن سے اُن کے دوستانہ ہوتے ہیں اور ہر دوستانہ جو جُرم میں مد ہوتا ہے خود بھی ایک جرم ہے.اگر اُن کی مائیں اُن کی نگرانی کریں تو وہ کبھی نہ جاسکیں.پھر قادیان میں بیسیوں ریڈ یو لگے ہوئے ہیں اور گانے سُنے جاتے ہیں.ریڈ یو خبروں کے لئے علمی و ادبی مضامین کے لئے ہیں.اگر اس دن کے بعد کوئی رپورٹ میرے پاس آئی کہ کسی نے گا نائنا ہے خواہ تم کہو کہ نعت سنی ہے تو اس کا مقاطعہ کر دیا جائے گا.علمی وادبی تقاریر اور خبروں کے ملنے کے لئے ریڈ یو مفید ہے یا کوئی ادبی مضمون یا ڈرامہ جس میں گانا نہ ہو.باقی قوالی نعت وغیرہ سب نا جائز ہے.بچہ بھی آ آکرتا ہے اور ننگا پھرتا ہے.قوالی گانے والے بھی آ آ کر تے ہیں.اگر گانے والے آ آکریں تو تم شوق سے سنو اور اگر وہ نگے آ کھڑے ہوں تو تم اُن سے دُور بھاگتی ہو.تو گانے میں وہی حرکت جو بچے کرتے ہیں وہی گانے والے بھی کرتے ہیں.یہ ساری باتیں گندی ذہنیت کو ظاہر کرتی ہیں اور وقار کو تباہ کرنے والی ہیں.یہ لجنہ کا فرض ہے کہ وہ ان کی اصلاح کرے.مجھے جو سیا الہام ہوا ہے کہ اگر تم پچاس فی صد عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی.پچاس فی صد سے یہی مراد ہے کہ پچاس فی صد کی اصلاح بھی بہت بڑی بات ہے.تم میں اور غیر احمدی عورتوں میں اس کے سوا کیا فرق ہے کہ تم اپنے پیسے چندے میں دے دیتی ہو اور وہ

Page 381

374 سینما میں دے دیتی ہیں.حقیقی روح ایمان کی ابھی تم کو بھی حاصل نہیں ہوئی.تم میں سے کوئی عورت علمی بات کرنے کے قابل نہیں.کسی مجلس میں بول نہیں سکتی.تم گھر کے کاموں سے فارغ ہو کر اپنے بچے ہوئے اوقات کو جو تم خدا کو دے سکتی تھیں جب خدا کو دینے کی بجائے ریڈ یونکر میراثیوں اور کچلیوں کو دے دیئے تو خدا کے گھر میں تمہارے لئے کیا حصہ ہو گا.تمہاری نسلیں کس طرح اصلاح پذیر ہوں گی.آئندہ نسلوں کی اصلاح کا کون ذمہ دار ہوگا.رسول کریم ﷺ تو فرماتے ہیں کہ تم شادیاں کرو تا تمہاری نسل بڑھے اور اسلام ترقی کرے.مگر ایسی نسل سے کیا فائدہ جو اسلام کے سپاہی نہ ہوں.پھر تعلیم جو تم پاتی ہو اس سے تمہارا مقصد نوکری کرنا ہوتا ہے.اگر نوکری کروگی تو بچوں کو کون سنبھالے گا ؟ خود تعلیم انگریزی بُری نہیں لیکن نیت بد ہوتی ہے.اور اگر نیت بد ہے تو نتیجہ بھی بد ہو گا.اگر غلط راستے پر چلو گی تو غلط نتیجے ہی پیدا ہوں گے.جب لڑکیاں زیادہ پڑھ جاتی ہیں تو پھر اُن کے لئے رشتے ملنے مشکل ہو جاتے ہیں.ہاں اگر لڑکیاں نوکریاں نہ کریں اور پڑھائی کو صرف پڑھائی کے لئے حاصل کریں.اگر ایک لڑکی میٹرک پاس ہے اور پرائمری پاس لڑکے سے شادی کر لیتی ہے تو ہم قائل ہو جائیں گے کہ اُس نے دیانتداری سے تعلیم حاصل کی ہے.یہ ساری باتیں لجنہ سے تعلق رکھتی ہیں جن کی وہ اصلاح کرے.مرکزی لجنہ کی سیکرٹری تمام محلہ جات سے رپورٹ لے کر مجھے دکھائے.اور میں یہ قانون بنا تا ہوں کہ مہینے میں کم از کم ایک دفعہ پافی الحال دو ماہ میں ایک دفعہ قادیان کی سب عورتیں اکٹھی ہوں.اور اُن کو غور کرنا چاہیئے کہ ہمارے محلہ میں کون کون سے نقائص ہیں اور ان کو کیسے دُور کیا جاسکتا ہے.محلہ کی پریزیڈنٹ اور سیکرٹری کا فرض ہوگا کہ وہ سب عورتوں کو جلسہ میں شریک کرے.اگر تم صرف پچاس فیصدی عورتوں کو جلسہ میں لاؤ گی تو باقی پچاس فیصدی عورتوں کو تم مار رہی ہوگی.کیونکہ وہ اپنے اخلاص میں کم ہوتی جائیں گی.پندرہ روزہ جلسہ محلہ کا ہوا اور پندرہ روز و مرکز کا.ایک جمعہ یا ہفتہ کو حملہ کا جلسہ ہو اور ایک ہفتہ مرکز کا.کام کو باقاعدگی سے کرنے سے ہی فائدہ ہوگا.تھوڑا کام کرو اور اس کی عادت ڈالو.پھر اس کو اور بڑھاؤ اور بڑھاؤ.ہر عورت سے عہد لیا جائے کہ وہ لجنہ کے جلسہ میں شامل ہونے کے لئے گھر سے نکلتے وقت کسی اور کے گھر نہ جائے اور اپنے کام کو پورا کرے تا کوئی مرد یہ نہ کہہ سکے کہ بعد کے جلسہ کے بہانے سے عورتیں بے فائدہ دوسرے گھروں میں پھرتی ہیں.( از اخبار الفضل ۲۴ مئی ۱۹۴۴، نمبر ۱۲۰ جلد۳۲)

Page 382

375 عورتوں کی دینی تعلیم و تربیت کے طریق (بیان فرموده حضرت خليفة المسيح الثاني رضى الله عنه) کچھ عرصہ ہوا حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی مجلس میں عورتوں کی دینی تعلیم وتربیت کے متعلق تقریر فرمائی جو مستورات کے پڑھنے اور عمل کرنے کے لئے درج ذیل کی جاتی ہے:.فرمایا:.تربیت کا اصل طریق تو یہی ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے اس سے عورتوں کو پوری طرح آگاہ کر دیا جائے.اس فرض کے لئے سب سے پہلے عورتوں کو قرآن شریف پڑھنا چاہیئے.میں نے دیکھا ہے جتنی تربیت علم سے ہوتی ہے اتنی کسی اور چیز سے نہیں ہوتی.علم ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے کئی باتیں جو علم نہ ہونے کی صورت میں بڑی جدو جہد کے بعد بھی پیدا نہیں ہو تیں یا اگر ہوتی ہیں تو بڑی مشکل سے نہایت آسانی اور سہولت کے ساتھ انسان کے اندر پیدا ہو جاتی ہیں.پس میرے نزدیک عورتوں کی تربیت میں جو چیز سب سے زیادہ مد ہو سکتی ہے وہ علم ہے اور اس سے کئی قسم کے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں.چنانچہ پہلی بات تو یہ ہے کہ علم خود اپنی ذات میں انسان کی تربیت کر نیوالی چیز ہے.علم صحیح خیالات کے پیدا کرنے میں مددیتا ہے.اور بتاتا ہے کہ کونسی بات اچھی ہے اور کوئی بری.دوسرے جب انسان کو لکھنا پڑھنا آجاتا ہے تو پھر اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اُس کے شامل حال ہو تو اُسے ایسی کتابیں پڑھنے کی توفیق مل جاتی ہے جن میں وہ باتیں درج ہوتی ہیں جو تربیتی نقطہ نگاہ سے ضروری ہوتی ہیں.گویا علاوہ قرآن شریف پڑھنے کے یا ان کتب کے پڑھنے کے جن میں رسول کریم ﷺ کی باتیں درج ہیں.یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لکھی ہوئی کتب ہیں.اور وہ نیک اور عالم لوگوں کی لکھی ہوئی کتابوں سے بھی فائدہ حاصل کر لیتا ہے.پھر علم سے اس بات کا بھی امتیاز ہو جاتا ہے کہ کیا کیا خرابیاں ہوتی ہیں اور ان خرابیوں کا کیسا عبرتناک انجام ہوتا ہے گویا علم سے انسان کو برائیوں کے اسباب اور اُن کے انجام سے واقفیت ہو جاتی ہے.اسی طرح نیکیوں کے اسباب اور اُن کے حسن انجام سے بھی انسان آگاہ ہو جاتا ہے اور اسی طرح وہ کوشش کرتا ہے کہ میں بدیوں سے بچوں اور نیکی میں ترقی کروں.پس تربیت کا اصل طریق یہی ہے کہ عورتوں کو قرآن کریم اور حدیث کی تعلیم دی جائے.

Page 383

376 لڑکیوں کی دینی تعلیم کے متلعق قادیان والوں کی کوتاہی میں نے بارہا کہا ہے مرد تو اس بات پر مجبور ہیں کہ ملازمتوں وغیرہ کے لئے انگریزی پڑھیں لیکن عورتیں مجبور نہیں ہیں.ان کے لئے زیادہ تر دینی تعلیم ہی ہونی چاہیئے.مگر مجھے افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک اس کی طرف پوری توجہ نہیں کی گئی.لڑکیوں کی تعلیم کے لئے دینیات کلا سر کھولی گئی ہیں مگر میں نے دیکھا ہے ان میں ایسی ہی لڑکیاں آتی ہیں جو انٹرس میں نہیں جاسکتیں اور جن کے نمبر زیادہ نہیں ہوتے.جب قادیان والوں کا یہ حال ہے تو باہر کی جماعتوں کا اسی پر قیاس کیا جا سکتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے دینی تعلیم کے لئے ہر قسم کی سہولتیں مہیا فرما دی ہیں.اور عورتیں اگر چاہیں تو آسانی سے دینی معلومات حاصل کر سکتی ہیں مگر باوجود ہر قسم کے سامان میسر آنے کے پھر بھی قادیان کے رہنے والوں میں کوتاہی پائی جاتی ہے اور دینیات کلاسز کی طرف زیادہ توجہ نہیں کرتے.کام کی ذمہ داری ڈالنا پھر بڑی چیز یہ ہے کہ عورتوں پر کام کی ذمہ داری ڈال دی جائے.ذمہ داری کے کام پر جب کسی کو مقرر کیا جاتا ہے تو اس میں سوچنے اور غور کرنے کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے.اور انسانی فطرت اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے کہ وہ جتنا سوچے اُتنے ہی اُسے علوم کے مخفی خزانے ملتے جاتے ہیں اسی لئے قرآن کریم کا ایک پرت اللہ تعالی کی طرف سے انسانی دماغ میں رکھا گیا ہے اور اسی بناء پر اسے کتاب مکنون قرار دیا گیا ہے.ایک قرآن تو ظاہر ہے.اور چھپا ہوا ہر شخص کے پاس موجود ہوتا ہے.لیکن اللہ تعالی نے اس کے ساتھ ہی قرآن کریم کا ایک اور ورق چھپا کر انسان کے دماغ میں رکھ دیا ہے.جب انسان قرآن پڑھتا ہے اور اس کے احکام پر غور و فکر شروع کرتا ہے تو اس کی فطرت اس نذیر کے نتیجہ میں بیدار ہونا شروع ہو جاتی ہے اور وہ بجھتا ہے کہ یہ وہی باتیں ہیں جن کو میں پہلے سے مانتا ہوں.یہی وجہ ہے کہ سچائی کو لوگ قبول کر لیتے ہیں کیونکہ ان کا اپنا دل بھی مانتا ہے کہ یہ باتیں سچی ہیں.مگر فطرت کو اُبھارنے اور اس کے مخفی جو ہروں کو ظاہر کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ انسان پر ذمہ داری ڈال دی جائے.جس کے سپر د ذمہ داری کا کوئی کام کیا جاتا ہے وہ غور کرنے کا عادی ہو جاتا ہے.اور جب وہ غور کرتا ہے تو قرآن کریم کا وہ دوسرا ورق جو اس کے دماغ میں مخفی ہوتا ہے

Page 384

377 اپنے خزانے اُگلنے لگ جاتا ہے تب اس کے اندر قرآن فہمی کا مادہ ترقی کرتا ہے اور اس کے ذاتی علم میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے.لجنہ اماءاللہ کے قیام کی غرض یہ ایک بہت بڑی غلطی ہے جو مسلمانوں سے ہوئی کہ انہوں نے عورتوں پر ذمہ داری نہ ڈالی.اور اس طرح اُن کی فطر میں بیدار نہ ہوئیں.لجنہ اماءاللہ کا قیام میں نے اسی لئے کیا ہے کہ عورتوں میں بھی اپنی ذمہ داری کا احساس پیدا ہو.چنانچہ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب عورتوں میں سے کوئی پریذیڈنٹ ہوتی ہے کوئی سیکرٹری ہوتی ہے.کوئی چندہ وصول کرنے پر مقرر ہوتی ہے.کوئی نگرانی کا کام کرتی ہے.اسی طرح اُن کے جلسے ہوتے ہیں جن کا انتظام عورتیں خود کرتی ہیں.ان میں تقریریں کرتی ہیں.پردہ کی پابندی کراتی ہیں.لڑائی جھگڑوں کو دُور کرنے کی کوشش کرتی ہیں.نماز با جماعت کی ادائیگی کے لئے عورتوں کو ایک جگہ جمع کرتی ہیں.اسی طرح اور کئی قسم کے دینی کام ہیں جو ذمہ داری کے اس بوجھ کے نتیجہ میں عورتیں بڑی خوش اسلوبی سے سر انجام دے رہی ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہورہا ہے کہ ذمہ داری کے ان کاموں کی وجہ سے کسی عورت میں قاضی کی قابلیت پیدا ہو جاتی ہے.کسی میں محتسب کی قابلیت پیدا ہو جاتی ہے.کسی میں انتظام کی قابلیت پیدا ہو جاتی ہے اور کسی میں معلمہ بننے کی قابلیت پیدا ہو جاتی ہے.پس ذمہ داری کا احساس بھی عورتوں کی تربیت میں بہت محمد ہو سکتا ہے مگر ابھی اس کی طرف بہت کم توجہ کی گئی ہے قادیان میں لجنہ اماءاللہ نے اچھا کام کیا ہے مگر ابھی اس طرح کام نہیں کیا کہ ہر عورت اس نظام کا پُرزہ بن گئی ہو لیکن بہر حال لجنہ اماءاللہ کے قیام سے عورتوں میں بہت بڑی تبدیلی پیدا ہوئی ہے.کئی عورتیں ایسی ہیں جنہیں اگر باہر جانے کا موقع ملے تو وہ تبلیغ کر سکتی ہیں.دوسروں کو اپنی باتیں سمجھا سکتی ہیں اور ضرورت کے موقع پر اپنے جذبات کو قابو میں رکھ کر نہایت حجرات اور دلیری کا ثبوت دے سکتی ہیں.احمدی عورتوں کی بہادری گزشتہ دنوں جب دہلی میں جلسہ کے موقع پر مخالفین نے شور مچایا اور پتھر پھینکے تو اس وقت سب عورتوں نے یہ شہادت دی کہ جس قدر غیر عورتیں جلسہ میں شامل تھی وہ گھبرا کر بولنے لگ گئیں.مگر قادیان کی عورتوں

Page 385

378 نے کسی قسم کی گھبراہٹ کا اظہار نہیں کیا اور وہ خاموش بیٹھی رہیں.بلکہ جب غیر احمدی عورتوں میں زیادہ گھبراہٹ پیدا ہوگئی تو قادیان کی احمدی عورتوں نے اُن کے اردگرد حفاظت کیلئے حلقہ باندھ لیا اور اپنی بہادری کا ثبوت پیش کیا.یہ روح جس کا مظاہرہ احمدی عورتوں نے وہاں کیا باہر کی عورتوں میں نہیں تھی.جس کی وجہ یہی ہے کہ یہاں کی عورتیں دین کی باتیں سنتی رہتی ہیں اور لجنہ کے ذریعہ انہیں مختلف مواقع پر دینی کام کرنے کا موقع ملتارہتا ہے اور وہ بجھتی ہیں کہ شور یا گھبراہٹ سے کام نہیں بنتا بلکہ تنظیم سے کامیابی حاصل ہوا کرتی ہے.چنانچہ انہوں نے تنظیم سے کام لیا اور کسی قسم کی گھبراہٹ کا اظہار نہ کیا.لیکن دوسری عورتوں کو نہ تنظیم کی عادت نہ تھی اس لئے جس طرح جاہل عورتیں مصیبت کے موقع پر گھبراہٹ سے کام لیتی ہیں اور دانائی سے اس مصیبت کو دور کرنے کی کوشش نہیں کرتیں.اسی طرح انہوں نے گھبراہٹ کا اظہار شروع کر دیا.اگر کسی کے گھر میں چور آ جائے تو محض گھبراہٹ کا اظہار کرنے سے کیا بنتا ہے.ہاں اگر ایسے رنگ میں اپنے آپ کو منظم کیا جائے کہ وہ چور پکڑا جائے تو یہ بات واقعہ میں قابل تعریف ہو سکتی ہے.یہ چیزیں ہیں جو عورتوں کی تربیت میں محمد ہو سکتی ہیں باقی وعظ و نصیحت کی مجالس کے ذریعہ عورتوں کی خفیہ طاقتوں کو بیدار کرنا بھی ضروری ہوتا ہے.بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری جب اس رنگ میں عورتوں کی تربیت ہو جائے تو اُن کے متعلق یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ مردوں کے باہر جانے کے بعد وہ بچوں کی عمدگی سے نگرانی کر لیں گی.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ کلام راع وكلكم مَسْئُول عَنْ رَعَيَّتِهِ تم میں سے ہر شخص رائی کی حیثیت رکھتا ہے اور اس سے اپنی اپنی رعیت کے بارہ میں جس کا وہ نگران مقرر ہے سوال کیا جائے گا کہ اس کی نگہداشت اور تربیت میں اُس نے کہاں تک حصہ لیا اور کس حد تک اپنے فرائض کو ادا کیا.اگر خاوند اپنی بیویوں کو اس امر کا ذمہ دار قرار دیں کہ بچوں کے اخلاق اور اُن کی تربیت اور نماز اور ان کے روزے اور اُن کی اپنی تعلیم کی ذمہ داری اُن پر ہے تو یہ لازمی بات ہے کہ عورتیں خود بھی ان باتوں کو سیکھیں گی اور اپنے بچوں کو بھی سکھائیں گی.اور جب اس کام کی ذمہ داری عورت پر ڈال دی جائے گی تو لاز م وہ اس امر پر بھی غور کرے گی کہ اخلاق کس طرح درست ہو سکتے ہیں اور پھر ان ذرائع سے کام لیکر اپنے بچوں کی اصلاح کی کوشش کرے گی جس طرح مدرسوں کو تعلیمی ٹریننگ دی جاتی ہے

Page 386

379 اور بی.اے یا ایم.اے کے بعد بی ٹی بنایا جاتا ہے جو در حقیقت ایک ذریعہ ہوتا ہے لڑکوں کو زیادہ اعلیٰ تعلیم دلانے کا.اسیطرح اگر عورتوں کو بتایا جائے کہ وہ بچوں کی کس رنگ میں تربیت کر سکتی ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عورتیں زیادہ عمدگی سے اپنے فرائض کو ادا کرسکیں گی اور وہ اپنے کام کو دلچسپی اور شوق سے سرانجام دینے کی کوشش کریں گی.مگر عام طور پر مردوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ رکھتے ہیں عورت کا ذمہ دارانہ کاموں میں کوئی دخل نہیں ہوتا.چنانچہ عورت ذرا بھی اپنی رائے کا اظہار کرے تو وہ سختی سے اُس کو ڈانٹ دیتے ہیں اور کہتے ہیں تمہارا اس معاملہ میں کیا واسطہ ہے.اس طرح نہ صرف عورت کی دل شکنی ہوتی ہے بلکہ اُس کی وہ قابلیتیں بھی مخفی رہتی ہیں جن سے وہ نمایاں طور پر تربیت کا فرض سرانجام دے سکتی ہے.عورتوں کو اپنے جائز حقوق سے محروم رکھنے والے پس عورت کی تربیت کا بہترین ذریعہ علم اور اس کے اندر اپنی ذمہ داری کا احساس پیدا کرنا ہے مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک بعض احمدیوں میں بھی یہ نقص پایا جاتا ہے کہ وہ عورتوں کو اُن کے جائز حقوق سے محروم رکھتے ہیں اور پھر یہ توقع کرتے ہیں کہ عورت اُن کے پہلو بہ پہلو خدمت دین میں حصہ لے سکے حالانکہ جب تک عورت کو اس کے حقوق نہیں دئے جائیں گے اُس وقت تک وہ مرد کے لئے ہمیشہ گلے کا ہار بنی رہے گی اور کبھی بھی خدمات دین میں دلی جوش سے حصہ نہیں لے سکے گی.آخر یہ کتنے ظلم کی بات ہے کہ خدا نے تو ایک عورت کے سینہ میں بھی ویسا ہی دل رکھا جیسا مرد کے سینے میں ہے، اس کو بھی ویسا دماغ دیا جیسا مرد کو دیا ہے، اس کو بھی ویسے ہی قولی دئے جیسے مرد کو دیئے ہیں، مگر مردوں کی طرف سے عورتوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں ایسا طریق اختیار کیا جاتا ہے کہ گویا عورت کے سینہ میں نہ اللہ تعالیٰ نے دل رکھا ہے، نہ اس کو دماغ عطا کیا ہے اور نہ اس کے اندر جذبات و احساسات رکھے ہیں.عورت کے ساتھ جب بھی اس قسم کا ظالمانہ سلوک کیا جائے گا دو صورتوں میں سے ایک صورت ضرور ظاہر ہوگی یا تو عورت ایک مردہ جسم کی طرح بن جائے گی جس سے مرد کوئی راحت حاصل نہیں کر سکے گا اور یا پھر اس کی فطرت بغاوت کرے گی اور کہے گی کہ مذہب مجھے میرے جائز حقوق دینے کے لئے بھی تیار نہیں.وہ ہرگز اس قابل نہیں ہے کہ میں اس کو

Page 387

380 اختیار کروں.آخر یہ کیا بات ہے کہ خدا نے میرے سینہ میں بھی دل رکھا، میرے اندر میرے جذبات و احساسات پیدا کئے ، مجھے بھی عقل و فہم کا مادہ عطا کیا اور میرے اندر بھی شعور کی قوت اس نے رکھی مگر باوجود اس کے اُسنے مرد کو اختیار دیا کہ وہ جو سلوک چاہے میرے ساتھ کرے چاہے تو اچھا کرے اور چاہے تو بُرا میرا اختیار نہیں کہ میں اُس کے کسی فعل پر اعتراض کر سکوں.پس مردوں کے ایسے غیر منصفانہ طریق عمل کے بعد اگر عورت بغاوت اختیار کرے تو وہ بالکل حق بجانب سمجھی جائے گی.وہ کہے گی کہ اگر یہ تعلیم قرآن نے دی ہے تو پھر یہ قرآن اُس خدا کی کتاب نہیں جس نے مجھے دل دیا ہے.اگر اس تعلیم کے ماتحت مجھے کہا جاتا ہے کہ میں اپنی قوت فکر سے کام نہ لوں تو یہ تعلیم دینے والا وہ خدا نہیں ہو سکتا جس نے مجھے قوت فکر یہ عطا کی ہے.گویا اُس کے اندر مذہب اور اس کی تعلیم کے خلاف جذبات پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں.کبھی اسے خیال آتا ہے کہ ممکن ہے یہ بات ہی غلط ہو اور مذہب نے یہ تعلیم نہ دی بلکہ قصور مرد کا ہی ہو لیکن کبھی اسے یہ بھی خیال آجاتا ہے کہ ممکن ہے یہی مذہب نے تعلیم دی ہو.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ بغیر کسی ارادہ اور بغیر کسی معین خیال کے اُس کے دل میں دین سے نفرت پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے یا کم سے کم دین کی رغبت اس کے دل میں نہیں رہتی اور اس کی تمام ذمہ داری ان مردوں پر ہوتی ہے جو اپنے کرے نمونہ سے عورتوں کو دین سے متنفر کرنے کا موجب بنتے ہیں.پس عورتوں کی تربیت کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ ان کو علم دین سکھایا جائے اور انہیں وہ حقوق دئے جائیں جو خدا نے مقرر کئے ہیں.جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے ذمہ عورتوں کے کچھ حقوق ہیں جیسے عورتوں پر مردوں کے کچھ حقوق ہیں.پس عورتوں کو اُن کے جائز حقوق دئے جائیں اور اُن کے دلوں میں یہ احساس پیدا کیا جائے کہ شریعت نے اُن کے جو حقوق مقرر کئے ہیں مرد اُن کے دینے میں کبھی تامل سے کام نہیں لیتے.اگر عورتوں کے ساتھ اس رنگ میں سلوک کیا جائے تو لازماً اُن کی تربیت بھی زیادہ عمدہ ہوگی.اُن کے اندر بیداری پیدا ہو جائے گی اصل بیداری باہر سے نہیں آتی بلکہ اندر سے پیدا ہوتی ہے اور اندرونی طور پر قلب میں بیداری کا احساس اُس وانت پیدا ہوتا ہے جب سوچنے اور غور و فکر سے کام لینے کا مادہ ترقی کرے.جب تک انسان کے اندر سوچنے کا یادہ نہ ہو.اور جب تک اس کے اندر اپنی ذمہ داری کو محسوس کرنے کا مادہ نہ ہو وہ ترقی نہیں کر سکتا ہے.یہی

Page 388

381 باتیں ہیں جو عورتوں کی ترقی اور ان کی تربیت میں مد ہو سکتی ہیں.ان کے بغیر ان کی صحیح رنگ میں تربیت نہیں ہوسکتی.از مصباح فروری ۱۹۴۵ء) 66 مبشر الهام (۲۶.اپریل بعد نماز مغرب_مجلس علم و عرفان قادیان) دوسرا ایک الہام ہے جو اپنے اندر بڑی بشارت رکھتا ہے.گو اس فکر کا پہلو بھی ہے کیونکہ اس کے ذریعہ ایک ذبتہ داری عائد کی گئی ہے اور ذمہ داری بہت کم لوگ ادا کیا کرتے ہیں.بہر حال آج رات مجھے یوں معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ مجھے مخاطب کر کے فرماتا ہے اگر تم پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی.“ گویا اسلامی فتوحات جو آئندہ آنے والی ہیں ان میں عورتوں کی اصلاح کا بہت بڑا دخل ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اگر اس کے فضل و کرم سے جماعت کی پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح ہو جائے یا شاید قادیان کی عورتیں مراد ہوں تو ترقی اسلام کے سامان مہیا ہو جا ئینگے اس الہام کے ذریعہ جماعت کے افراد پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ ان میں سے ہر شخص عورتوں اور لڑکیوں کی اصلاح کی طرف توجہ کرے اور کوشش کرے کہ انہیں اسلامی تعلیم حاصل ہو.ان میں اسلامی اخلاق پیدا ہوں اور اسلام کی خدمت کا احساس اُن کے دلوں میں موجزن ہو.پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کے معنے یہ ہیں کہ ہم ایسا کر لیں تو پچاس فیصدی مرد خدمت دین کے تیار ہو جائیں گے.کیونکہ بسا اوقات مردوں کی قربانی میں عورتیں ہی روک بن کر کھڑی ہوتی ہیں.لیکن اگر پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح ہو جائے اور وہ بجائے اس کے کہ اپنے مردوں کو خدمت دین سے روکیں اُن کو ترغیب و تحریص دلائیں کہ جاؤ اسلام کی خدمت کرو تو نتیجہ یہ ہوگا کہ پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کے ساتھ ہی پچاس فیصدی مردوں کی بھی اصلاح ہو جائے گئی.اور اگر جماعت میں اتنی قربانی پیدا ہو جائے کہ اس میں نصف ہی اسلام کی خدمت کے لئے ہر قسم کی قربانیوں پر آمادہ ہو جائیں تو اس الہام کی رو سے یہ بھی اسلام کی ترقی کے لئے کافی ہوگا.اور اس کے نیک تائج خدا تعالیٰ کے فضل سے ظاہر ہونے شروع ہو جائیں گے.“ الفضل قادیان دارلامان مورخہ ۲۹.اپریل ۱۹۴۴ء

Page 389

382 دو قرآن کریم کے غیر ملکی زبانوں میں تراجم اور لبجنات اماءاللہ....میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اطالین زبان میں قرآن مجید کے ترجمہ کا خرچ میں ادا کروں گا.باقی جو تر جمے رہ جاتے ہیں اُن چھ میں سے ایک ترجمہ کے لئے میں نے تجویز کیا ہے کہ سارے ہندوستان کی لجنہ مل کر ایک ترجمہ کا خرچ ادا کرے اور یہ ترجمہ جرمن زبان کا ہو.کیونکہ جرمنی میں مسجد کی تعمیر کا ارادہ بھی لجنہ نے ہی کیا تھا..دو.....عورتوں کا حق تھا کہ اس کام میں ان کا حصہ ہو اِسی لئے میں نے عورتوں کا نام لے دیا ہے.جن کے حقوق ظاہر تھے اُن کے نام میں نے لے دئے ہیں........اور یہ چندہ مارچ ۱۹۴۵ء کے آخر تک پہنچ جانا چاہیئے."..مجھے بتایا گیا ہے کہ.......لجنہ اماءاللہ بھی دو تراجم کا خرچ دیگی اگر ایسا ہوا تو صرف ایک ترجمہ بہ ونجات کی جماعت کے حصہ میں آتا ہے.......66 ( مصباح نومبر ۱۹۴۴ء صفحه ۹۷۸) خواتین کے جلسہ سالانہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی تقر ہر احمدی عورت جو ا کی حقیقی بیٹی ہے احمدی خواتین کی تنظیم کے متعلق مرکزی لجنہ اماءاللہ کو ضروری ہدایات سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.فرموده ۲۷ دسمبر ۱۹۴۴ء چونکہ اب ایسا انتظام موجود ہے کہ باہر (مردانہ جلسہ ) سے بھی یہاں تقریر میں سُن لی جاتی ہیں اور باہر بھی مجھے تقریر کرنی ہوتی ہے اس لئے عورتوں اور مردوں میں مشترک تقریریں ہو جاتیں ہیں.اور جیسا کہ

Page 390

383 میں نے پہلے کہا تھا کہ ضرورت تو نہیں تھی کہ میں عورتوں کے جلسہ میں الگ تقریر کروں مگر پھر بھی چونکہ بعض امورایسے ہوتے ہیں جو عورتوں کے ساتھ خصوصیت سے تعلق رکھتے ہیں اور بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کی طرف عورتوں کو توجہ دلانا ضروری ہوتا ہے اس لئے بعض دفعہ ضرورت پیش آسکتی ہے کہ میں عورتوں کے جلسہ میں الگ تقریری بھی کروں مگر گزشتہ سالوں میں عورتوں کی طرف سے اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ میں ضرور اُن کے جلسہ میں الگ تقریر کیا کروں.یہ ایک فطری تقاضا ہے کہ ہر انسان اپنا حق چاہتا ہے میں اس تقاضا کو بھی رد نہیں کر سکتا.لیکن میرے گلے کی حالت اس قسم کی ہے کہ تقریر بھی شروع نہیں کی اور گلا بیٹھ گیا ہے.میں حیران ہوں کہ اس دفعہ میں کیونکر اپنی تقریریں مناسب طور پر کرسکوں گا.بہر حال میں کچھ نہ کچھ عورتوں کے جلسہ میں بھی کہنا چاہتا ہوں.خصوصاً اس لئے اس دفعہ بعض باتیں ایسی بھی ہیں جو عورتوں کے ساتھ مخصوص ہیں.ہماری الہامی کتاب یعنی قرآن مجید ایک ایسی زبان میں نازل ہوئی ہے جو زبان اپنے اندر معنے رکھتی ہے یعنی اس میں ہر نام کے کوئی معنے ہوتے ہیں.باقی زبانوں میں اگر کسی چیز کا نام بدل کر اس کی جگہ اور نام رکھ لیا جائے تو اُس کے معنوں میں فرق نہیں پڑے گا.لیکن عربی کا نام اگر بدل کر اور نام رکھ دیا جائے تو یقیناً اس کے معنوں میں فرق پر جائے گا.مثلاً اُتم کا لفظ لے لو.اُتم کے معنے عربی زبان میں جڑ اور مقصود کے ہیں یعنی ایسی چیز جس میں سے اور چیزیں نکلیں.اور جس کی طرف دوسرے متوجہ ہوں.آپ اگر ماں کے لئے اتم کی جگہ عربی میں کوئی اور لفظ رکھ دیا جائے تو یہ معنے بالکل بدل جائیں گے.لیکن اگر پنجابی میں یا اُردو میں ماں کی جگہ کوئی اور لفظ رکھ دیا جائے.مثلا یاں کہ لیا جائے یا تاں کہہ لیا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا.چاہے ب، ان کہہ لیں یات.ان کہہ لیں یا د ا ن کہہ لیں اور جو چاہیں اس سے مراد لے لیں معنوں پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا.لیکن عربی کے لحاظ سے اگر ہم نام کو بدل دیں تو وہ نام بے معنی ہو جائے گا.وہ صرف علامت ہو گی اُس کے کوئی معنے نہیں ہونگے جیسے ام کا لفظ ہے.اس کی بجائے عربی میں اگر ہم گم کہہ دیں تو وہ صرف علامت رہ جائے گی.اسکے دو معنے نہیں ہوں گے جو اتم کے لفظ میں پائے جاتے ہیں.ماں کو عربی میں ام اس لئے کہتے ہیں کہ یہ بطور جڑ ہے بچوں کے لئے.دوسرے بچے اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اس کے محتاج ہوتے ہیں.پس اُتم کے معنے عربی زبان میں اس چیز کے ہیں جو بطور جڑ کے ہو اور جس کی طرف

Page 391

384 دوسرے لوگ متوجہ ہوں اور ماں کو اسی لئے اُتم کہتے ہیں کہ یہ بطور جڑ ہے نیز بچوں کی تربیت کا مرکزی مقام ہے جس کی طرف بچے اپنی ضروریات کو پورا کرنے لئے متوجہ ہوتے ہیں.اب اگر اتم کا لفظ بدل کر اس کی جگہ پر کوئی اور لفظ رکھ لیا جائے تو لفظ سے ہر گز یہ معنے پیدا نہیں ہوں گے جوام کے لفظ سے پیدا ہوتے ہیں.صرف ایک علامت رہ جائے گی.اسی طرح ہمارے قرآن مجید میں بنی نوع یعنی مرد اور عورت کا جو مشتر کہ نام ”انسان“ رکھا ہے.یہ انسان کا لفظ بھی ایک بامعنے لفظ ہے.اصل میں یہ لفظ انسان ہے جسکے معنے ہیں دو محبتیں.پس یہ لفظ مرد اور عورت دونوں پر مشتمل ہے اس کے معنے ہیں ایسا وجود جودو محسبتوں کا ظاہر کرنے والا ہے.یعنی ایک طرف یہ لفظ اس تعلق کو ظاہر کرتا ہے جو خدا اور بندے کے درمیان ہے.اور دوسری طرف اس تعلق کو ظاہر کرتا ہے جو بندوں کو بندوں سے ہے.پس انسان کے معنے ہیں وہ وجود جو ایک طرف خدا سے محبت کرنے والا ہو اور دوسری طرف بندوں سے محبت کرنے والا ہو.ایسا وجو د سوائے انسان کے دُنیا میں اور کوئی نہیں.انسان میں اگر حیات پائی جاتی ہے تو دوسرے جانوروں میں بھی حیات پائی جاتی ہے.انسان دیکھتا ہے تو دوسرے جانوروں کی بھی آنکھیں ہوتی ہیں اور وہ بھی دیکھتے ہیں.انسان کے کان ہیں ، تو دوسرے جانوروں کے بھی کان ہوتے ہیں.جس طرح انسان کھاتا پیتا ہے اسی طرح وہ بھی کھاتے پیتے ہیں.انسان میں چلنے اور دوڑنے کی صفت پائی جاتی ہے تو باقی جانور بھی چلتے پھرتے اور دوڑتے ہیں......انسان کے نر اور مادہ ہوتے ہیں تو باقی جانوروں میں بھی نرومادہ ہوتے ہیں اور وہ بھی بیچے جنتے ہیں اور پالتے ہیں.لیکن ایک چیز جو انسان کو باقی جانوروں سے ممتاز کرتی ہے اور جو چیز باقی جانوروں میں نہیں پائی جاتی وہ اُنسیت ہے جو بندے کو خدا سے ہوتی ہے انسانوں میں ہی وہ لوگ نظر آتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں.اور ان کو خدا تعالیٰ سے محبت کا ایسا تعلق ہوتا ہے کہ وہ ایک منٹ کے لئے بھی اس کے دروز و سے الگ نہیں ہوتے لیکن کسی حیوان میں یہ ملکہ نہیں پایا جاتا اس لئے حیوان اس دنیا میں اپنی زندگی کو پورا کر لیتے ہیں اور مرنے کے بعد اُن کو دوبارہ زندگی نہیں ملتی لیکن انسان مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوتا ہے اور اپنی دائمی زندگی گزارنے کے لئے وہ ایک نئی سڑک پر قدم مارتا ہے جو سڑک کبھی جنت میں سے ہو کر گزرتی ہے اور کبھی دوزخ میں سے ہو کر گزرتی ہے.پس انسان کے معنے ہیں دو جنتیں رکھنے والا وجود ایک خدا تعالی سے محبت اور دوسرے بنی نوح انسان سے محبت.چنانچہ اسی نام کی وجہ سے اسلام نے مذہب کی جو حقیقت.

Page 392

385 بیان کی ہے وہ یہی ہے کہ مذہب اس لئے دنیا میں آتا ہے کہ انسان کا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرے اور انسان کو بنی نوح انسان سے ہمدردی اور محبت کرنا سکھائے.مذہب کی ساری تفاصیل یا خدا تعالیٰ سے محبت اور تعلق پیدا کرنے کے متعلق ہوتی ہیں.اور یا بنی نوع انسان سے نیک تعلق رکھنے کے متعلق ہوتی ہیں.نماز کیا ہے.یہ اس تعلق کا اور اس محبت کا اظہار ہے جو بندے اور خدا کے درمیان ہوتی ہے.جس طرح ایک ماں اپنے بچے کو یاد کرتی ہے.جس طرح ایک بچہ اپنی ماں کو یاد کرتا ہے.جس طرح بھائی ، بھائی کو یاد کرتا ہے.جس طرح دوست، دوست کو یاد کرتا ہے جس طرح خاوند بیوی کو یاد کرتا ہے.جس طرح بیوی خاوند کو یاد کرتی ہے اسی طرح ایک نیک انسان اپنے خدا کو فراموش نہیں کرتا اور دن میں متعدد بار اپنے خدا کو یاد کرتا ہے اسی کا نام عبادت ہے اور یہی نماز ہے.ہم دیکھتے ہیں جہاں حقیقی محبت ہو وہاں کوئی شخص کسی کو اس کی یاد سے روک نہیں سکتا.ایک ماں کو کتنا ہی سمجھاؤ کہ وہ اپنے بچہ کی یاد چھوڑ دے، بچہ کو کتناہی کہو کہ وہ اپنی ماں کو یاد نہ کرے، دوست کو کتنا ہی کہو کہ وہ اپنے دوست کو یاد نہ کرے، بھائی کو کتنا ہی کہو کہ وہ اپنے بھائی کو یاد نہ کرے، باپ کو کتنا ہی کہو کہ وہ اپنے بیٹوں کو یاد نہ کرے، بیٹوں کو کتناہی کہو کہ وہ اپنے باپ کو یاد نہ کریں، بیوی کو کتنا ہی کہو کہ اپنے خاند کو یاد نہ کرے یا خاوند کو کتنا ہی کہو کہ وہ اپنی بیوی کو یاد نہ کرے، وہ قطعاً اس بات کے لئے تیار نہیں ہوتے کہ جن کے ساتھ اُن کو محبت ہے وہ اُن کی یاد چھوڑ دیں کیونکہ اُن میں حقیقی محبت ہوتی ہے.مگر انسانوں میں سے ہم دیکھتے ہیں کہ کئی ایسے ہیں جو اپنے اندر انسانیت کی حقیقت نہیں رکھتے.وہ اپنے خدا کو کھلا بیٹھے ہیں.اور وہ اس بات کے محتاج ہوتے ہیں کہ اُن کو یاد دلایا جائے کہ اُن کو کوئی پیدا کرنے والا ہے.اور وہی اُن کا حقیقی مالک ہے.اگر اُن کو یہ بات یاد کرا دی جائے تو پھر وہ اس بات کے محتاج ہوتے ہیں کہ اُن کے دل میں خدا تعالیٰ کی یاد تازہ رکھی جائے اور پھر وہ اس بات کے محتاج ہوتے ہیں کہ یاد دلا دلا کر خدا تعالیٰ سے اُن کا تعلق مضبوط کیا جائے.یہ ایک کمزوری ہے جو انسان میں حیوانیت کی وجہ سے آئی ہے.انسان چونکہ پیدائش کے لحاظ سے حیوانوں سے تعلق رکھتا ہے اس لئے جب اس پر حیوانیت غالب آجاتی ہے تو جہاں ہمیں ایسے انسان نظر آتے ہیں جو ہر قسم کے تعلقات پر خدا تعالی کو ترجیح دیتے ہیں اور دنیا کی محبت پر خدا تعالیٰ کی محبت کو مقدم رکھتے ہیں وہاں اس حیوانیت کے غالب آجانے کی وجہ سے ایسے انسان بھی نظر آتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے تعلق کو بھلا کر حیوانوں کی طرح کھانے پینے ، عیش و آرام کرنے ، عمدہ اور آرائش کے سامان

Page 393

386 مہیا کرنے ، سیر و تفریح کرنے اور دُنیا کی لذات حاصل کرنے میں ہی زندگی سمجھتے ہیں اور اُخروی زندگی سے اُن کا کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ ان کی ساری کی ساری خواہشات اس دُنیا کی زندگی سے وابستہ ہوتی ہیں مجھے اس پر تعجب آتا ہے.جس طرح ہر انسان موت سے ڈرتا ہے اور اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور جس طرح موت کو اپنے سے دور رکھنے کے لئے ایک انسان ہزاروں اور لاکھوں روپے خرچ کرتا ہے.اگر ہماری زندگی صرف اسی دنیا کے ساتھ وابستہ ہے تو کیا وجہ ہے کہ وہ موت سے بچنا چاہتا ہے.ہمیں اس زندگی میں ہزار ہا بلکہ کروڑہا انسان ایسے نظر آتے ہیں جن کے پاس دنیا کے بہترین سامانوں سے مال و دولت ، آرام و آسائش اور اس دُنیا کی باقی لذتوں سے کچھ بھی موجود نہیں مگر باوجود اس کے وہ اس دُنیا میں زندہ رہنا چاہتے ہیں.ان کے اندر اس خواہش کا پایا جاتا بتاتا ہے کہ کسی اور اہم مقصد کو پورا کرنے کے لئے ان کو پیدا کیا گیا ہے.اگر کسی اور اہم مقصد کے لئے ان کو پیدا نہیں کیا گیا تو پھر وہ کونسی چیز ہے جو باوجود تکالیف کے ان کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور زندہ رہنے کی اور موت سے بھاگنے کی تلقین کرتی ہے.پس یہ وہی خواہش اور وہی جس ہے جو خدا تعالی نے قرآن مجید میں بیان فرمائی ہے کہ ماطلقت الجن والانس الا لیجنڈ ون کہ جن و انس کو صرف اس لئے پیدا کیا گیا ہے تا کہ وہ عبادت الہی میں اپنا وقت گزاریں اور آئندہ زندگی کے لئے روحانی آنکھیں پیدا کریں جو خدا تعالی کو دیکھنے کے قابل ہوں.خدا تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے من گان می طلہ اعظمی تصوفی لاخرة اٹھی.یعنی جو شخص اس دنیا میں اندھا ہے اور اس کی روحانی آنکھیں نہیں جو خدا تعالی کو دیکھ سکیں آخرت میں بھی وہ اندھا ہی اُٹھایا جائے گا.کیونکہ آخرت میں اس کی روحانی آنکھیں اسی دنیا کی رؤیت الہی سے پیدا ہوں گی.پس جس نے اس دنیا میں خدا تعالی کو دیکھنے والی روحانی آنکھیں پیدا نہ کی ہوں گی وہ اگلے جہان میں بھی نا بینا اُٹھایا جائے گا.اور خدا تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکے گا.قرآن مجید میں آتا ہے کہ اس قسم کے لوگ جب اندھے اُٹھائے جائیں گے تو وہ کہیں گے ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ کچھ نظر نہیں آتا.تو خدا تعالی ان کو یہ جواب دے گا کہ تم پچھلے جہان میں اندھے تھے اور تم نے میرے دیکھنے والی آنکھیں پیدا نہیں کیں جو اسی جہان میں پیدا ہوتی ہیں اس لئے اب تم مجھے نہیں دیکھ سکتے.اُس وقت ایسے لوگ کہیں گے کہ اگر ہم تجھے دیکھنے کے قابل نہیں تو ہماری اس زندگی کا فائدہ ہی کیا ہے.پس یہ خدا سے تعلق پیدا کرنے اور دائی زندگی حاصل کرنے کی خواہش انسان کے اندر مخفی ہے جسے یہ ظاہر میں بھلا بیٹھا ہے.مگر یہی خواہش اس کو اندر ہی

Page 394

387 اندر زندہ رہنے کی تلقین کرتی ہے.یہی وجہ ہے کہ اسلام نے خود کشی سے منع کیا ہے.اگر انسان کو کھانے پینے کے لئے ہی پیدا کیا گیا ہے تو کیا وجہ ہے کہ پھر اس کو خود کشی پر سزا ملتی ہے؟ ایک انسان کی اپنی مرضی ہے خواہ وہ کھانے پینے کے لئے زندہ رہے خواہ زندہ نہ رہے اُس کو اس دنیا سے جدا ہونے پر سزا دینے کی وجہ کیا ہے؟ یہی اور صرف یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ اِس دُنیا میں انسان اگلے جہان کے لئے تیاری کرے.اگر وہ اگلے جہان کے لئے تیاری کرنے میں ستی یا غفلت کرتا ہے اور اس وقت کو ضائع کر دیتا ہے تو وہ مُجرم ہے.کیونکہ یہ وقت ایسا ہی ہے جس طرح سکول میں طالب علم کی پڑھائی کا وقت ہوتا ہے.اگر کوئی طالب علم کلاس سے غیر حاضر رہے تو اُس کو سزاملتی ہے کہ اُس نے پڑھائی کے وقت کو ضائع کیا اور تعلیم حاصل کرنے میں کوتا ہی کی.اسیطرح اگر کوئی شخص اس دُنیا کی زندگی میں انگلی زندگی کے لئے تیاری نہیں کرتا تو وہ سزا کا مستحق ہے کہ اپنے اپنے وقت کو ضائع کر دیا.پس انسان کے لفظ میں خدا تعالی نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ تمہارا نام انسان اس لئے رکھا گیا ہے کہ تم دو محبتیں اور دو تعلیق پیدا کرو.ایک خدا سے محبت کرو اور اس سے تعلق پیدا کرو اور دوسرے بنی نوع انسان سے محبت اور اس سے تعلق پیدا کرو.عبادت کے جتنے حصے ہیں وہ سارے کے سارے پہلی شق کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.یعنی خدا تعالیٰ سے محبت کرنے کے ساتھ اُن کا تعلق ہے اور باقی جتنے اس قسم کے احکام ہیں کہ جھوٹ نہ بولو ، چوری نہ کرو، خیانت نہ کرو، فریب نہ کرو، دھوکا نہ دو، غیبت نہ کر، چغلخوری نہ کرو، ترش روئی سے پیش نہ آؤ ، ہشاش بشاش رہو ، نیک سلوک کرو، بزرگوں کی عزت کرو، اپنے اموال میں مستحقین کا حصہ قائم کرو، دوسروں کے دکھوں اور غموں میں شریک ہوو، عدل و انصاف کا معاملہ کرو، رشتہ داروں سے نیک سلوک کرو، یہ سارے کے سارے احکام ایسے ہیں جو بنی نوع انسان سے تعلق رکھتے ہیں.پس انسان اس وجود کا نام ہے جود و محبتیں اور دوم تعلق رکھنے والا ہو.ایک خدا سے اور دوسرے بنی نوع انسان سے.اگر یہ دونوں باتیں اس میں پائی جاتی ہیں تو وہ انسان ہے.اور اگر یہ دونوں باتیں نہیں پائی جاتیں تو وہ حیوان ہے خواہ اس کی شکل انسانوں جیسی ہو.کیونکہ خالی شکل کوئی چیز نہیں.صرف حقیقت ہی ہے جو انسان کو انسان بناتی ہے ورنہ خالی شکل تو ایسی ہی ہے جیسی کسی چیز کی تصویر ہوتی ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی.بڑے سے بڑے پہلوان کی تصویر ایک بچہ پھاڑ کر پھینک سکتا ہے.اگر رستم کی تصویر کاغذ پر بنی ہوئی ہوتو دو سال کا بچہ آسانی سے اُسے پھاڑ سکتا ہے.پس وہ انسان جس

Page 395

388 کے اندر انسانیت والی یہ دو باتیں نہیں پائی جاتیں وہ محض ایک تصویر ہے جس کی خدا تعالیٰ کے نزدیک کوئی قدر اور کوئی عزت نہیں.آگے پھر انسان کے دو حصے ہیں ایک آدم کہلاتا ہے اور ایک کو تو ا کا نام دیا گیا ہے.اور جب آدمی کا لفظ بولتے ہیں تو اس کے معنے ہوتے ہیں آدم کی اولاد مرد ہو یا عورت.بچوں کو ڈرانا ہو تو عورتیں تو ا کا نام لے کر ڈراتی ہیں.وہ بھی یہی تو ا ہے.بعض بُڑھیا عورتیں جن کے دانت نکل چکے ہوں، کمر خمیدہ ہو چکی ہو اس کے قریبی رشتہ دار بچے بھی اس کو دیکھ کر ڈرنے لگتے ہیں یہ خیال کر کے کہ اتنے ہزار سال پہلے کی دادی تو اگر آجا ئیں تو یقیاً اس کو دیکھ کر ڈر کے مارے بچے بھاگتے پھریں.ہوا ہو ا کہہ کر عورتیں اپنے بچوں کو ڈراتی ہیں مگر یہ ہو اور اصل وہی دادی تو ہیں جو آدم علیہ السلام کی بیوی تھیں.آدم علیہ السلام کا نام تو قرآن مجید میں آتا ہے اور حوا کا نام اسلامی لڑیچر اور احادیث وغیرہ میں مذکور ہے.یہ دونوں نام یعنی آدم اور تو ابا معنی لفظ ہیں.آدم کے معنے ہیں سطح زمین پر رہنے والا جو کھیتوں میں کام کرتا ہے، تجارتیں کرتا ہے، سفر کرتا ہے،عربی میں اديم الارض سطح زمین کو کہتے ہیں اور آدم اس وجود کا نام ہے جو سطح زمین پر رہتا ہے اور میدانوں میں کام کر کے اپنی روزی کماتا ہے.اور تو ا کا لفظ حَويَ يَحْوِی سے نکلا ہے جس کے معنے ہیں کسی چیز کو ڈھانپ لینا.کسی چیز کو جمع کر لینا یا کسی چیز کا مالک ہو جانا.تو ھوا کے معنے ہیں جو بچوں کو گھیر کر اپنے ارد گرد جمع کر لیتی ہے اور اُن پر حکومت کرتی ہے اور گھر کی مالکہ کہلاتی ہے.پس یہ دونوں نام با معنے ہیں.ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ جس کو ہم آدم کہتے ہیں واقعہ میں اس کا نام ہی آدم تھایا اس کی ان صفات کی وجہ سے اس کا نام آدم رکھا گیا ہے.اور ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ حدیثوں میں جس وجود کا نام تو ارکھا گیا ہے واقعہ میں اس کا نام ہی تو ا تھا یا اس کی صفات کو ظاہر کرنے کے لئے اس کا یہ نام حوا رکھا گیا ہے.بہر حال جو کچھ بھی ہو.اگر فی الواقعہ یہ اُن کے نام تھے تو ان کے یہ نام حقیقت کو ظاہر کرنے والے تھے.اور اگر سی ان کی صفات تھیں تو پھر تو صفات ہی تھیں.پس آدم کے معنے ہیں جو محنت کرے میدانوں میں کام کاج کرے.کھیتوں میں ہل چلائے اور زمین کو درست کر کے رہنے کے قابل بنائے.اور حوا کے معنے ہیں وہ عورت جو گھر میں بیٹھتی ہے بچوں کی نگرانی کرتی ہے اور گھر کی رانی کہلاتی ہے پس ہر عورت جو آج بھی ان صفات کو اپنے اندر رکھتی ہے یعنی گھر کی نگرانی کرتی ہے.بچوں کی تربیت کرتی ہے وہ جوا ہے.اور شریف آدمی جو محنت کرتا ہے اور کام کرتا ہے اور زمین کو

Page 396

389 رہنے کے قابل بناتا ہے وہی انسان صحیح معنوں میں آدمی ہے.اور جو لوگ غفلت کی وجہ سے گھر میں بیٹھے کھیاں مارتے ہیں اور محنت نہیں کرتے.یا بعض امراء اور عیاش لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے باپ دادا کی کمائیاں کھاتے ہیں اور کوئی کام نہیں کرتے وہ آدمی تو ہیں مگر صرف نام کے.کام کے آدم نہیں.کیونکہ آدم کے معنے ہیں جو باہر نکل کر کام کرے اور زمین کی درستی کر کے اُسے رہنے کے قابل بنائے.اسی طرح وہ عورتیں جو گھر کی خبر گیری نہیں کرتیں، بچوں کی تربیت نہیں کرتیں، گھر کے تمام سامانوں کا انتظام نہیں کرتیں اور اپنی اولاد کی تربیت اس رنگ میں نہیں کرتیں کہ آئندہ نسل نیک متقی ، بہادر اور جری اور دین کی خاطر ہر طرح کی قربانی کرنے والی اور دین کا علم حاصل کرنے والی ہو.وہ اور ہیں.حوا کی بیٹیاں صرف نام کی ہیں کام کی نہیں.کیونکہ انہوں نے اپنے بچوں کو اپنے ارد گرد جمع نہیں کیا اور صحیح طور پر گھر کی مالکہ ہونے کا ثبوت نہیں دیا.اور جیسا کہ گھر کی مالکہ کا حق تھا بچوں کی بہتری اور ان کی تربیت کا خیال رکھے اس حق کو ادا نہیں کیا.اور اولاد کی نگرانی کا جو ان پر فرض تھا اس فرض کو ادا نہیں کیا.پس وہ عورت جو بچوں کو اپنے ارد گرد جمع کر کے اُن کی بہتری اور ان کی تربیت کے سامان نہیں کرتی اور گھر کے کاموں کی نگرانی نہیں کرتی وہ تو ہے مگر صرف نام کی نہ کہ کام کی.پس اگر ایک عورت ھوا کی حقیقی بیٹی کہلانا چاہتی ہے تو اُس کا فرض ہے کہ گھر کے انتظام کو درست رکھے ، اولاد کی صحیح تربیت کرے، ایسی تربیت کہ وہ گھر کی مالکہ کہلانے کی مستحق ہو.مالک کے یہ معنے ہیں کہ اس کے ماتحت اس کے فرمانبردار ہوں.لیکن اگر ایک عورت بچوں کی صحیح رنگ میں تربیت نہیں کرتی تو اولادنا فرمان ہوگی کیونکہ صحیح تربیت نہ ہونے کی وجہ سے بچوں میں یہ عادت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ بات نہیں مانتے اور پھر اُن میں بدی کی عادت ترقی کرتی چلی جاتی ہے.کہتے ہیں ایک آوارہ گر دلڑکا تھا.اس کی ماں اس سے محبت کرتی تھی.جو محبت غلط قسم کی تھی.وہ اس کو کسی بُرائی سے نہیں روکتی تھی.شروع شروع میں جب وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کی چوری کرتا تو وہ اُسے منع نہ کرتی.اور اگر کوئی اس کی ماں سے شکایت کرتا تو کہہ دیتی کہ میرا بچہ تو ایسا نہیں.یہاں تک کہ بڑھتے بڑھتے اُس نے بڑی بڑی چوریاں شروع کر دیں اور قتل و غارت تک نوبت پہنچی.آخر کسی کوقتل کرنے کے جرم میں پکڑا گیا اور اس کو پھانسی کی سزا ملی.جب پھانسی کا وقت قریب آیا تو حکام نے کہا اگر تمہاری کوئی خواہش ہویا

Page 397

390 کسی سے ملنا چاہو تو ہم اس کا انتظام کر دیں.اس نے کہا ہاں میری ماں کو بلا دو.میں اُس سے ملنا چاہتا ہوں.چنانچہ جب اس کی ماں کو بلایا گیا تو اس نے اپنی ماں سے کہا میں کان میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں.ماں نے جب اپنا کان اس کے قریب کیا تو اُس نے اتنے زور سے اس کے کان پر کاٹا کہ وہ تڑپ اُٹھی.جیل کے ملازم جو قریب تھے یہ نظارہ دیکھ کر کہنے لگے.ارے ظالم تم ابھی چند منٹ کے اندر پھانسی کے تختے پر چڑھنے والے ہو پھر ایسا ظلم کر رہے ہو یہ کہاں کی شرافت ہے کہ تم نے اس آخری وقت میں اپنی ماں کا کان کاٹ کھایا.اُس نے کہا آج اسی ماں کی وجہ سے تو مجھے پھانسی کی سزا ملی ہے اگر یہ میری صحیح تربیت کرتی تو آج میں بھی نیک انسان ہوتا.لیکن اس نے میری صحیح تربیت نہ کی بچپن میں جب میں غلطیاں کرتا تو یہ ماں اُن غلطیوں پر پردہ ڈالتی.اگر میں کسی کی کوئی چیز اٹھاتا اور وہ اس کی تلاش میں میرے پیچھے آتے تو یہ کہہ دیتی کہ میرا بچہ تو تمہاری چیز نہیں لایا.اسی طرح آہستہ آہستہ میرے اخلاق بگڑتے گئے یہاں تک کہ میں ظالم، چور اور ڈاکو بن گیا اور آج میں ان گناہوں کی وجہ سے پھانسی کی سزا پانے والا ہوں.پس عورت اس صورت میں صحیح معنوں میں حوا کی بیٹی کہلا سکتی ہے جب وہ بچوں کی صحیح تربیت کرے.اور اُن کے اخلاق کی نگرانی کرے اگر بچوں کے اخلاق کی نگرانی نہیں کرتی تو وہ ہرگز ھوا کی بیٹی اور گھر کی مالکہ کہلانے کی مستحق نہیں.پس حوا کی بیٹیوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی صحیح رنگ میں تربیت کریں.قوم میں جنت ماؤں کے ذریعے ہی آتی ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے.یہ کتنا لطیف فقرہ ہے.اور آنحضرت ﷺ نے ماں کی کتنی اہمیت بیان فرمائی ہے.عام طور پر لوگ اس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ ماں کی اطاعت اور فرمانبرادری میں جنت ملتی ہے یہ بھی درست ہے.لیکن اس کے اصل معنے یہ ہیں کہ در حقیقت قوم میں جنت تبھی آتی ہے جب مائیں اچھی ہوں اور اولاد کی صحیح تربیت کرنے والی ہوں.اگر مائیں اچھی نہ ہوں اور اولاد کی صحیح تربیت نہ کریں تو اولاد بھی کبھی اچھی نہیں ہوگی.اور جس قوم کی اولا دا اچھی نہیں ہوگی اُس قوم میں جنت بھی نہیں آئے گی.پس در حقیقت قوم میں جنت ماؤں کے ذریعے سے ہی آتی ہے.قوم کی مائیں جس رنگ میں بچوں کی تربیت کریں گی اُسی رنگ میں اُس قوم کے کاموں کے نتائج بھی اچھے یا برے پیدا

Page 398

391 الله ہوں گے.اگر مائیں بچوں کی صحیح تربیت کریں گی تو اُس قوم کے کاموں کے نتائج اچھے پیدا ہوں گے اور وہ قوم اپنے مقصد میں کامیاب ہوگی.اور اگر مائیں بچوں کی صحیح تربیت نہیں کریں گی تو اس قوم کے کاموں کے نتائج بھی اچھے پیدا نہیں ہوں گے اور وہ قوم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے گی.یہی وجہ ہے کہ اسلام نے عورتوں کی تعلیم پر خاص زور دیا ہے.رسول کریم ﷺ ایک دفعہ وعظ فرمار ہے تھے کہ اگر کسی شخص کے ہاں تین لڑکیاں ہوں اور وہ اُن کو اچھی تعلیم دلائے اور اچھی تربیت کرے تو وہ شخص جنت کا مستحق ہو جائے گا.ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ اگر کسی کے ہاں تین لڑکیاں نہ ہوں بلکہ دو ہوں تو آپ نے فرمایا کہ اگر کسی کے دولڑکیاں ہوں اور وہ اُن کو اچھی تعلیم دلائے اور اچھی تربیت کرے تو وہ بھی جنت کا مستحق ہو جائیگا.پھر آپ نے فرمایا کہ اگر کسی کے ہاں ایک ہی لڑکی ہو اور وہ اس کو اچھی تعلیم دلائے اور اچھی تربیت کرے تو وہ جنت کا مستحق ہو جائے گا.آب دیکھو رسول کریم ﷺ نے عورتوں کو تعلیم دلانے کی کتنی اہمیت بیان فرمائی ہے.حقیقت یہی ہے کہ عورتوں کی تعلیم وتربیت کے بغیر کام نہیں چل سکتا.مجھے خدا تعالیٰ نے الہاما فرمایا ہے کہ اگر پچاس فیصد عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی.گویا خدا تعالی نے اسلام کی ترقی کو تمہاری اصلاح کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے.جب تک تم اپنی اصلاح نہ کر لو ہمارے مبلغ خواہ کچھ کریں کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.حقیقت یہی ہے کہ جب تک دُنیا پر یہ ظاہر نہ کر دیا جائے کہ اسلام نے عورت کو وہ درجہ دیا ہے اور عورتوں کو ایسے اعلیٰ مقام پر کھڑا کیا ہے دنیا کی کوئی قوم اس میں اسلام کا مقابلہ نہیں کر سکتی اس وقت تک ہم غیروں کو اسلام کی طرف لانے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.کیونکہ ایک غیر مذہب کا آدمی قرآن مجید کا مطالعہ اور اس پر غور اور اس پر عمل تو تب کرے گا جب وہ مسلمان ہو جائے گا.مسلمان ہونے سے پہلے تو وہ ہمارے عمل اور ہمارے نمونہ سے ہی اسلام کی طرف متوجہ ہو سکتا ہے.پس عورتوں کی اصلاح نہایت ضروری ہے.قادیان میں تو اس کام کے لئے ہر قسم کی جد و جہد ہورہی ہے.یہاں تعلیم کا انتظام بھی موجود ہے ،لڑکیوں کے لئے مدرسہ اور دینیات کا کالج بھی ہے، مگر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں اور جیسا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے یہ کام ہمارے بس کا نہیں بلکہ یہ کام تمہارے ہاتھوں سے ہو سکتا ہے.جب تک ہماری مدد نہ کرو اور ہمارے ساتھ تعاون نہ کرو.اور جب تک تم اپنی زندگیوں کو اسلام کے فائدہ کے

Page 399

392 لئے نہ لگاؤ گی اُس وقت تک ہم کچھ نہیں کر سکتے.اللہ تعالیٰ نے انسان کے دو حصے کر کے اس کے اندر الگ الگ جذبات پیدا کئے ہیں.عورت مرد کے جذبات کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکتی اور مرد عورت کے جذبات کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکتا پس چونکہ ہم ایک دوسرے کے جذبات پہنچانے سے قاصر ہیں اس لئے مردوں کی صحیح تربیت مردہی کر سکتے ہیں اور عورتوں کی صحیح تربیت عورتیں ہی کر سکتی ہیں.ہم عورتوں کے خیالات کی صحیح ترجمانی نہیں کر سکتے.ہمارے دلوں میں تو مردوں والے جذبات ہیں عورتوں کے دکھ اور اُن کی ضروریات عورتیں ہی سمجھ سکتی ہیں اور وہی اُن کے شکوک کا ازالہ اور اُن کی مشکلات کا حل اور ان کی صحیح اصلاح کر سکتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید فرماتا ہے کہ بنی نوع انسان کے لئے وہی مذہب مفید ہو سکتا ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو.اگر انسان مذہب بنائے گا اور اس کر سب کا بنانے والا مرد ہو گا تو وہ صرف مردوں کے جذبات اور مردوں کے خیالات کو ہی ملحوظ رکھے گا وہ ورنتو ریا کے جذبات اور عورتوں کے خیالات کی صحیح ترجمانی نہیں کر سکے گا.اور اگر اس مذہب کو بنانے والی دارت ہوگی تو وہ صرف عورتوں کے جذبات اور عورتوں کے خیالات کو ملحوظ رکھ سکے گی اور مردوں کے جذبات اور مردوں کے خیالات کی صحیح ترجمانی نہیں کر سکے گی.پس اس خلیج کو جومرد اور عورت کے درمیان حائل ہے اگر کوئی وجود پاٹ سکتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ ہی ہے.اور وہی مذہب ساری دنیا کے لئے مفید ہوسکتا ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو.خدا تعالیٰ ہی ہے جس نے مردوں کو بھی پیدا کیا ہے اور عورتوں کو بھی اور جو عورتوں کی کمزوریوں سے بھی واقف ہے اور مردوں کی کمزوریوں سے بھی واقف ہے ، جو عورتوں کی خوبیوں سے بھی واقف ہے اور مردوں کی خوبیوں سے بھی واقف ہے، جو عورتوں کی قابلیت سے بھی واقف ہے اور مردوں کی قابلیت سے بھی واقف ہے، جو عورتوں کے جذبات کو بھی سمجھتا ہے اور مردوں کے جذبات کو ہی جانتا ہے، قرآن مجید میں آتا ہے.مَرَجُ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيْنِ بَيْنَهُمَا بَرْ رَحْ لَا يَبْغِيْنِ.کہ اس دنیا میں دو دریا پاس پاس اور اکٹھے بہتے ہیں مگر باوجود پاس پاس اور اکٹھے بہنے کے وہ آپس میں ملتے نہیں.یہ انی مرد اور عورت ہی ہیں جو ایک دوسرے کے پاس پاس رہتے ہیں اور ایک دوسرے سے اُن کو محبت اور پیار بھی ہوتا ہے.بہن بھائی سے محبت کرتی ہے اور بھائی بہن سے محبت کرتا ہے.خاوند بیوی سے محبت کرتا ہے اور بیوئی خاوند سے محبت کرتی ہے.یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کی خاطر بعض دفعہ اپنی جانیں بھی قربان

Page 400

393 کر دیتے ہیں.لیکن پھر بھی عورت عورت ہی ہے اور مردہ مرد ہی ہے.ان دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے اور یہ ایک دوسرے سے مل نہیں سکتے سوائے اس کے کہ خدا تعالے میں ہو کر آپس میں مل جائیں.وہی ایک رشتہ ہے جو ایک دوسرے کو آپس میں ملاتا ہے.خدا تعالیٰ نے اس لئے مجھے کہا ہے کہ عورتوں کی اصلاح کرو کہ میں امام ہوں.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ کام تمھاری مدد کے بغیر نہیں ہوسکتا.تم ہی ہو جو یہ کام کرسکتی ہو، تم ہی ہو جو اسلام کی ترقی کی داغ بیل ڈال سکتی ہو ، یہ کام صرف تمھارے ذریعہ سے ہی ہو سکتا ہے اور تمھاری مدد اور تعاون کے بغیر اس کام میں کامیاب ہو نا ممکن نہیں.پس میں یہ اللہ تعالے کے پیغام تم تک پہنچاتا ہوں کہ اگر تم پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی.پس جو عورتیں اسلام کا در درکھتی ہیں اور اسلام کی ترقی چاہتی ہیں اور اپنے اندر اخلاص رکھتی ہیں اُن کا فرض ہے کہ عورتوں کی اصلاح کے لئے کھڑی ہوں.میں نے عورتوں کی اصلاح کے لئے لجنہ اماءاللہ قائم کی ہوئی ہے لجنہ کو چاہیئے کہ وہ اپنی تنظیم کو مکمل کرے اور عورتوں کی اصلاح اور اُن کی تربیت اور اُن کے اخلاق کی درستی کی کوشش کرے اور عورتوں کی اصلاح اور تربیت کے لئے جن سامانوں کی ضرورت ہے وہ سامان مہیا کرے.قادیان میں تو لجنہ اماءاللہ دیر سے قائم ہے باقی سارے ہندوستان میں چالیس پچاس بتا ئیں ہیں حالانکہ اس کے مقابل مردوں کی آٹھ سو سے اوپر انجمنیں ہیں.جہاں مردوں کی آٹھ سو سے اوپر انجمنیں ہیں وہاں عورتوں کی چالیس پچاس بناؤں کے معنے یہ ہیں کہ ابھی تک عورتوں کا بیسواں حصہ بھی منظم نہیں ہوا.کام کا سوال تو دوسری چیز ہے پہلا کام تو یہی ہوتا ہے کہ تعظیم مکمل کی جائے.جب تک تعلیم کے سامان ہی پیدا نہ ہوں اس وقت تک آگے کام کس طرح ہو سکتا ہے.پس آج میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جتنی عورتیں یہاں جلسہ پر آئی ہوئی ہیں اگر اُن کے ہاں لجنہ اماءاللہ قائم نہیں ہے تو وہ یہاں سے واپس جا کر لجنہ اماءاللہ قائم کریں.اور اگر وہاں لجنہ اماءاللہ قائم کرنے کے سامان نہ ہوں.مثلاً وہاں کوئی پڑھی لکھی عورت نہ ہو جو کام کر سکے تو وہ مرکزی لجنہ اماءاللہ سے میل کر بات کرتی جائیں اور ہدایات لے لیں اور اپنا نام و پتہ وغیرہ اُن کو لکھاتی جائیں تا کہ ان کے ہاں لینہ کے قیام کا سامان کیا جائے.اگر ہم عورتوں کی اصلاح کا کام کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ضروری ہے کہ جہاں ایک سے زیادہ عورتیں ہوں وہاں لجنہ اماءاللہ قائم کی جائے.بعد کے معنے ہیں.کمیٹی.اردو میں جس کو

Page 401

394 کمیٹی کہتے ہیں عربی میں اس کا نام لجنہ ہے.پس ہر احمدیہ جماعت میں مستورات کی ایک کمیٹی ہو.جہاں پڑھی لکھی عورتیں موجود ہوں وہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ سے خط و کتابت کر کے قواعد وغیرہ منگوالیں اور اپنے ہاں کی عورتوں کو جمع کر کے اُن کو وہ قواعد وغیرہ سنائیں اور لجنہ قائم کریں اور جہاں پڑھی لکھی عورتیں موجود نہ ہوں وہ کسی مرد سے خط لکھوا لیں اور مرکزی لجنہ کو اطلاع دیں اور اپنی ضروریات اُن کے سامنے بیان کریں.اور اگر وہ عورتیں یہاں جلسہ پر آئی ہوئی ہوں تو وہ خود لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی کارکنوں سے مل کر اپنی ضرورتیں ان کے سامنے بیان کریں تا کہ مرکزی لجنہ ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے مسئلہ کو حل کر سکے اور ہر جماعت میں لجنہ قائم ہو سکے.پس جب تک تمام عورتوں تک آواز نہ پہنچائی جاسکے اس وقت تک کام نہیں ہو سکتا.اور آواز پہنچانے کے لئے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ تمام عورتوں کو منظم کیا جائے اور ہر گاؤں اور ہر قصبہ اور ہر شہر میں بنائیں قائم کی جائیں.اس وقت ہندوستان سے باہر بھی بعض جگہوں پر لجنا ئیں قائم ہیں لیکن نہ تو ہندوستان کے اندر پوری طرح کام ہو رہا ہے اور نہ باہر ہی کام ہورہا ہے.پس میں جماعت کی خواتین کو خصوصیت کے ساتھ یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ یہاں سے یہ پختہ ارادہ کر کے جائیں کہ اپنے شہر اور اپنے گاؤں میں لجنہ قائم کئے بغیر وہ دم نہیں لیں گی.اور اگر ان کے ہاں پڑھی لکھی عورتیں نہ ہوں اور خط و کتابت کرنے میں دقت ہو تو وہ کسی مرد سے خط لکھوائیں اور لجنہ مرکزیہ کو اطلاع دیں اور اپنی ضروریات اُن کے سامنے بیان کریں یا مجھے خط لکھوادیں میں اُن کی ضروریات پورا کرنے کا انتظام کرادوں گا.میرا منشاء ہے مبلغین کے سپر د بھی یہ کام کیا جائے کہ جہاں جہاں وہ جائیں وہاں لجنہ اماءاللہ ضرور قائم کریں اور اس سال کے اندر اندر ہر گاؤں ہر قصبہ اور ہر شہر میں یہ کام ہو جائے.اس وقت گاؤں تو الگ رہے کئی شہروں میں بھی ابھی بنا ئیں قائم نہیں.پس اس سال اس کے لئے پوری پوری کوشش ہونی چاہیے کہ ۱۹۳۵ کے اندراندر میر جماعت میں عورتوں کی تعظیم اور لجنہ کا قیام ہو جائے تا کہ اگر خدا تعالے توفیق دے تو دوسرے سال عورتوں کی اصلاح اور تربیت کی طرف قدم اٹھا سکیں.لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کو بھی میں ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اپنے دفتر کو مضبوط کرے اور اپنے کام کی اہمیت کو سمجھے.اس وقت تک قادیان کی لجنہ اماءاللہ کو ہی لجنہ مرکز یہ سمجھا جاتا ہے.حالانکہ ہونا یہ چاہیئے کہ قادیان کی لجنہ دوسرے شہروں کی بناؤں کی طرح الگ ہو اور لجنہ مرکز یہ الگ ہو پھر لجنہ مرکز یہ چھ سات مختلف کاموں

Page 402

395 کے لئے مختلف سیکرٹری مقرر کرے اور اُن کے الگ الگ دفاتر بنا کر جن جماعتوں کا انہیں پتہ ہواُن کے ساتھ خط و کتابت کریں اور جن جماعتوں کا انہیں علم نہ ہو اُن کا پتہ صدرانجمن احمد یہ کے دفتر سے لے لیں اور پھر وہاں کے مرد سیکرٹری سے خط و کتابت کر کے وہاں کی عورتوں کے متعلق دریافت کر لیں اور پھر وہاں پر لجنہ قائم کرنے کی کوشش کریں.پس ایک طرف تو میں ہر عورت کو نصیحت کرتا ہوں کہ یہاں سے وہ اس ارادہ کے ساتھ اپنے وطن واپس جائے کہ وہاں جا کر ضرور لجنہ اماءاللہ قائم کرے گی.اور دوسری طرف میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کو اس ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ اس سال کے اندر اندر ہندوستان کے ہر شہر، ہر قصبہ، ہر گاؤں میں ضرور لجنہ اماءاللہ قائم کر دے گی اور نہ صرف ہندوستان میں بلکہ ہندوستان سے باہر بھی لجنا ئیں قائم کرنے کی کوشش کرے گی.میں دونوں کو اس لئے توجہ دلاتا ہوں کہ بعض دفعہ افراد ستی کر جاتے ہیں اور بعض دفعہ مرکز سستی کر جاتا ہے اس لئے میں نے دونوں کو توجہ دلا دی ہے کہ اگر مرکز ستی کرے گا تو افراد اس ستی کو دُور کرنے کی طرف مرکز کو توجہ دلا سکیں گے اور اگر افراد ستی کریں گے تو مرکز اُن کی اصلاح کی کوشش کرے گا.اُس وقت تک مرکزی لجنہ کا قصور ہے اور اُن کی غلطی ہے کہ ابھی تک اُنہوں نے اپنے دفتر کو حکم نہیں کیا بڑے کام بغیر کسی عملہ کے نہیں ہو سکتے.میں نے کئی دفعہ بوند کی عورتوں کو توجہ دلائی کہ وہ دفتر میں ایسی مستقل کارکن عورتیں مقرر کریں جو پور ا وقت دفتر میں کام کریں.آخر عورتیں مدرسوں میں پڑھاتی ہیں ،ڈاکٹری کرتی ہیں ، پھر کیا وجہ ہے کہ مستقل طور پر کام کرنے والی عورتیں دفتر کو نہ مل سکیں.پس میں سمجھتا ہوں کہ ایسی عورتیں مل سکتی ہیں جو مناسب گزارہ پر کلرک یا سیکرٹری کے طور پر با قاعدہ دفتر میں کام کریں اور باہر کی لجنات سے خط و کتابت کریں.اس وقت یہ کام ایسی عورتوں کے سپرد ہے جن کو کبھی فرصت ہوتی ہے اور کبھی نہیں ہوتی اس لئے وہ اس رنگ میں کام نہیں کر سکتیں جس رنگ میں کہ ہونا چاہیئے میں نے خدام کو بھی شروع شروع میں نصیحت کی تھی کہ اپنے دفتر میں مستقل کارکن رکھو اور اس بات کی پرواہ نہ کرو کہ ایسے کارکنوں کو گزارے کے لئے کچھ رقم دینی پڑے گی.کیونکہ جب تک تم مستقل کار کن نہیں رکھو گے اُس وقت تک تم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.چنانچہ خدام نے ایسے کارکن رکھے اور بہت حد تک ہندوستان میں اُن کی تنظیم ہو چکی ہے.اسی طرح لجنہ بھی جب تک مستقل کارکن دفتر میں مقرر نہیں کرے گی اُس وقت تک وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی.یہ خیال بالکل غلط ہے کہ بغیر مستقل طور پر کام کرنے والی عورتوں کے وہ اس کام

Page 403

396 میں کامیاب ہو سکیں گی.شاید عورتیں آج سے پانچ سال پہلے منظم ہو جاتیں اگر مرکزی دفتر میں مستقل طور پر کام کرنے والی کلرک عورتیں مقرر ہوتیں جو باقاعدہ باہر کی عورتوں سے خط و کتابت کرتیں.پس میں لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ جنوری ۱۹۴۵ میں وہ اپنے کام کی سکیم مرتب کر لیں اور ایسی کلرک عورتیں اپنے دفتر میں مقرر کریں جن کا یہ کام ہو کہ وہ ہر روز بیرونجات کی عورتوں سے خط و کتابت کریں.اور جہاں کے پتے اُن کو معلوم نہ ہوں صدر انجمن احمدیہ کے ذریعہ سے وہاں کے مرد سیکرٹریوں کے پتے دریافت کر کے اُن کو خط لکھ کر وہاں کی عورتوں کے متعلق دریافت کرلیں اور پھر ان عورتوں سے خط و کتابت کر کے وہاں لجنہ قائم کریں.اس طرح جب ہر جگہ لجنہ اماءاللہ قائم ہو جائے گی تو اُن کی ضرورتوں کا لجنہ مرکز یہ کوعلم ہوتا رہے گا اور اُن کی اصلاح اور تربیت کی طرف توجہ ہو سکے گی.اگر کسی جگہ قرآن مجید جاننے والی کوئی عورت نہ ہو گی تو وہاں کی عورتیں لجنہ مرکز کو یہ لکھیں گی کہ ہمارے لئے استانی مقرر کرو جو ہمیں قرآن شریف پڑھائے.اگر کسی جگہ اُردو جاننے والی کوئی عورت نہیں ہوگی تو وہاں کی عورتیں لجنہ مرکزیہ کو لکھیں گی کہ کسی اُستانی کا انتظام کیا جائے جو میں اردو پڑھائے تا کہ ہم سلسلہ کے اخبار اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھ سکیں.تو وہاں کی لجنہ مرکزی لجنہ سے خط و کتابت کر کے اپنی ضرورتیں اُن کے سامنے بیان کرے گی.اور لجنہ مرکزیہ کا کام ہوگا کہ اُن کی اس قسم کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرے.پس جب تک عورتوں کی تربیت کے مسئلہ کو حل نہیں کیا جائے گا اُس وقت تک کام نہیں بن سکتا.عورت نہایت قیمتی ہیرا ہے لیکن اگر اس کی تربیت نہ ہو تو اس کی قیمت کچے شیشہ کے برابر بھی نہیں.کیونکہ شیشہ تو پھر بھی کسی نہ کسی کام آ سکتا ہے لیکن اُس عورت کی کوئی قیمت نہیں جس کی تعلیم و تربیت اچھی نہ ہو.اور وہ دین کے کسی کام نہ آسکے.پس جب تک افراد کی درستی نہ ہو اس وقت تک قوم کبھی درست نہیں ہو سکتی کیونکہ قوم افراد کے مجموعہ کا نام ہے پس لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے بہت بڑا کام کرنا ہے جو یہ ہے کہ جماعت کی تمام عورتوں کو اس قابل بنادیا جائے کہ وہ دین کی باتوں کو پڑھ کر ان پرغور کرسکیں اور اُن کوسمجھ سکیں.جب دینی باتوں کی تفصیلات پر غور کرنے کا مادہ اُن کے اندر پیدا ہو جائے گا اس کے بعد پھر یہ امید ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھ سکیں اور دین کے لئے مفید کام کر سکیں.جس طرح انسان کا ہاتھ ہی ہوتا ہے جو سارے کام کرتا ہے.لیکن بندھا ہوا یا زخمی ہاتھ کیا کام کر سکتا ہے.اسی طرح عورتیں بے شک قیمتی اور مفید وجود ہیں

Page 404

397 جو بہت کام کر سکتی ہیں لیکن پہلے ان کو مفید اور کام دینے کے قابل بنانا پڑے گا.اور جس طرح پہلے ہیرے کو تراشا جاتا ہے اور پھر وہ مفید اور زینت کا موجب ہوتا ہے اسی طرح عورتوں کی بھی اصلاح کرنی پڑے گی پھر وہ دین کے لئے مفید ہو سکیں گی.پس لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے ابھی بہت لمبی منزل طے کرنی ہے اور بہت بڑا کام اُس کے سامنے ہے جس کے لئے رات اور دن قربانی کی ضرورت ہے.اور ایسی عورتوں کی ضرورت ہے جو اپنے آپ کو دین کے لئے وقف کریں جس طرح مردوں نے اپنے آپ کو وقف کیا ہے.پس میں لجند مرکز یہ کو ایک مہینہ کی مہلت دیتا ہوں کہ اس مہینہ کے اندر اندر یعنی جنوری ۱۹۴۵ ختم ہونے سے پہلے وہ اپنے دفتر کو منظم کرلیں.دفتر کے لئے زمین بھی خریدی جا چکی ہے جو اہم طاہر مرحومہ کی یادگار ہے.اس کی قیمت قرض لے کر ادا کر دی تھی.یہ جگہ دارالا نوار کو جاتے ہوئے پریس کے قریب ہے جہاں سڑک کا موڑ ہے.وہاں لجنہ کے دفاتر اچھی طرح بن سکتے ہیں.یہ جگہ خالص احمدی علاقہ میں ہے جہاں عورتوں کو جمع ہونے میں کسی قسم کی تکلیف نہیں ہو سکتی.اور پھر صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر بھی وہاں سے قریب ہیں جہاں سے ضرورت کے موقع پر ہر قسم کی معلومات حاصل ہو سکتی ہیں.جنگ کی وجہ سے پیدا شدہ مشکلات کی وجہ سے ہم فی الحال وہاں پر عمارت تو نہیں بنا سکتے.زمین وقت پر ملک عمر علی صاحب سے خرید لی گئی تھی.جو اس وقت ملک صاحب نے سلسلہ کی خاطر قربانی کر کے چار ہزار روپیہ میں دیدی تھی جو اُس وقت کی فیتوں کے لحاظ سے بھی سستی تھی.اگر وہ اس سے زیادہ قیمت کا مطالبہ کرتے تو اُن کا حق تھا.میں نے اُئِم طاہر مرحومہ سے کہا کہ تم ملک صاحب سے کہو کہ سلسلہ کے لئے اس زمین کی ضرورت ہے بغیر کسی نفع کے وہ یہ زمین سلسلہ کے لئے دیدیں.چنانچہ انہوں نے بغیر کسی نفع لئے کے دیدی.حالانکہ اس وقت بھی اس کی قیمت اس رقم سے زیادہ تھی جو انہوں نے لی.اور اب تو موجودہ قیمتوں کے لحاظ سے وہ چھپیں تھیں ہزار روپیہ کی ہے.اگر جنگ کے بعد وہاں عمارت بنائی جائے تو میرا اندازہ ہے کہ میں چالیس ہزار روپیہ عمارت پر خرچ آئے گا.جس میں کچھ کمرے دفاتر کے لئے مخصوص ہوں ، تقریروں وغیرہ کے لئے ایک ہال ہو جس میں ہزار ڈیڑھ ہزار عورتیں جمع ہو کر اپنے اجلاس وغیرہ کرسکیں.کچھ کمرے بطور مدرسہ کے ہوں.کچھ کوارٹر بن جائیں تا کہ دفاتر وغیرہ میں کام کرنے والیاں وہاں رہ سکیں.ایک لائبریری بھی ہو.اِن سب کاموں کے لئے کم از کم پندرہ ہیں کمرے ہوں اور ایک ہال ہو جس میں اجلاس وغیرہ ہو سکیں.میرا اندازہ ہے کہ غالبا تمیں چالیس ہزار

Page 405

398 روپیہ اس عمارت پر خرچ آئے گا.میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت کی مستورات کے لئے اس رقم کا جمع کرنا کوئی بڑی بات نہیں.میں نے دیکھا ہے باوجود اس کے کہ گو ہماری جماعت کی مستورات دوسری مستورات سے تعلیم میں زیادہ نہیں ہیں مگر اُن کے اندر خدا کے فضل سے قربانی کی ایسی روح اور ایسا اخلاص پایا جاتا ہے کہ چندہ کی جو تحریک بھی اُن کے سامنے پیش کی جائے فورا ہی وہ تحریک کامیاب ہو جاتی ہے.آج سے میں سال قبل میں نے برتن میں مسجد بنانے کے لئے جماعت کی عورتوں میں چندہ کی تحریک کی تو اس میں نمایاں کامیابی ہوئی اور فوراہی ستر ہزار روپیہ عورتوں نے جمع کر دیا.میں سمجھتا ہوں ہندوستان میں کسی قوم کی عورتیں بھی ایسی نہیں جن کے اندر قربانی کا ایسا مادہ پایا جاتا ہو جیسا کہ ہماری جماعت کی عورتوں کے اندر پایا جاتا ہے.اگر ہندوستان کی چھوٹی سے چھوٹی قوم کے برابر بھی ہماری تعداد ہوتی تو آج خدا کے فضل سے ہمارے مرد تو مرد ہماری عورتیں بھی دین کی خاطر اتنی رقم پیش کر دیتیں کہ یورپ کے مال دار ممالک کے لوگ بھی مذہب کی خاطر اتنی رقم پیش نہ کر سکتے.اور نہیں کیا کرتے.اس وقت ہماری کل تعداد چار پانچ لاکھ ہے اور سکھوں کی تعداد جو ہندوستان میں سب سے چھوٹی اقلیت میں چالیس لاکھ ہے.گویا ہم اُن سے بھی آٹھواں دسواں حصہ ہیں.لیکن اگر ہماری تعداد سکھوں کے برابر بھی ہوتی تو ہماری جماعت کی عورتیں مذہب کی خاطر ا تا چندہ جمع کر دیتیں کہ یورپ کی بڑی بڑی مال دار قومیں بھی مذہب کی خاطر اتنا چندہ جمع نہ کر سکتیں.اور نہیں کیا کرتیں.پس قربانی کا مادہ تو ہماری جماعت کے اندر خدا تعالیٰ کے فضل سے پایا جاتا ہے اور وہ ایمان بھی اسے حاصل ہے جو قربانی کرایا کرتا ہے.صرف ہماری طرف سے ہی کوشش میں کوتاہی ہوتی ہے.پس یہ سوال تو پیدا ہی نہیں ہوتا کہ یہ روپیہ کہاں سے آئے گا.کیونکہ جب ہم خدا تعالیٰ کے دین کی خاطر کسی کام کا ارادہ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ کام ہو جائے تو خدا تعالئے فرماتا ہے گن.اور وہ ہو جاتا ہے.پس روپیہ کی دقت نہیں.روپیہ تو ہماری جماعت کی عورتیں خدا تعالیٰ کے فضل سے آسانی سے ادا کر دیں گی.ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ لجنہ اماء اللہ کے مرکزی دفتر کو منظم کیا جائے اور مستقل کام کرنے والی عورتیں دفتر میں رکھی جائیں اور ہر جگہ کی عورتوں کے پتے دریافت کر کے اُن کے ساتھ خط و کتابت کی جائے اور ہر جگہ لجنہ قائم کی جائے اور وہاں کی عورتوں کو مظلم کیا جائے.اس کے بعد جس طرح مردوں کے دو اجتماع ہوتے ہیں.ایک یہ جلسہ سالانہ اور ایک مجلس شوری.اسی طرح عورتیں بھی اس جلسہ

Page 406

399 کے علاوہ کسی اور موقع پر اپنا ایک دوسرا اجتماع کیا کریں اور ہندوستان کی تمام لجنات کی طرف سے نمائندہ عورتیں اس اجتماع میں شامل ہو کر اپنے کاموں پر غور کریں اور ایسے قواعد مرتب کریں جن سے وہ مزید ترقی کر سکیں.لجند مرکز یہ کو چاہیئے کہ اس موقع ( جلسہ سالانہ ) پر جو عورتیں باہر سے آئی ہوئی ہیں اُن سے مل کر مشورہ کرے کہ وہ اجتماع کس موقع پر رکھا جائے.اگر وہ اجتماع مجلس شوری کے موقع پر رکھ لیا جائے اور تمام لجنات کی مختلف کاموں کی سیکرٹریوں کو اس موقع پر بلا لیا جائے تو شاید میں بھی اس موقع پر وقت نکال کر انہیں ہدایات دے سکوں کہ وہ کس طرح اپنے کام کو متکلم بنا سکتی ہیں.جب وہ منظم ہو جائیں گی تو پھر ان کی اصلاح کے لئے اگلا قدم یہ اٹھایا جائے گا کہ ہر ایک عورت اپنی مروجہ زبان میں لکھنا پڑھنا سیکھ لے.درحقیقت جس قوم کو اپنی زبان میں لکھنا اور پڑھنا آ جائے اس کے لئے باقی سارے علوم حاصل کرنا آسان ہو جاتا ہے.جس کو ہم منطق یالا جک کہتے ہیں.یہ وہی چیز ہے جو ہر مرد اور ہر عورت روزمرہ کی بول چال میں استعمال کرتے ہیں.جب تم کسی کی بیوقوفی پر ہنستی ہو تو اس کی یہی وجہ ہوتی ہے اور دوسرے لفظوں میں اس کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ تم اس کی بات کو غیر منطقی یا آن لاجیکل سمجھتی ہو.جب تم کسی بات پر کہتی ہو کہ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی یا یہ بات خلاف عقل ہے تو اسی کا نام غیر منطقی یا آن لاجیکل رکھ کر تمھیں ڈرایا جاتا ہے.ورنہ وہ کوئی اور علم نہیں جو مردوں کو آتا ہے اور تمھیں نہیں آتا.بلکہ یہ وہی چیز ہے جو تم روز مرہ کی بول چال میں استعمال کرتی ہو.اسی قسم کی ہزار ہاہا تیں ہیں جن کا نام تم غیر زبان میں سن کر حیران اور مرعوب ہو جاتی ہو.ورنہ وہ کوئی اور چیز نہیں ہوتی.وہی چیز ہوتی ہے جو عام بول چال میں پائی جاتی ہے.پس اگر تم اپنی اُردو زبان میں لکھنا اور پڑھنا سیکھ لوتو ان تمام باتوں کو تم آسانی سے سمجھ سکتی ہو اور ہر علم سے فائدہ اٹھا سکتی ہو.اور آج جن علوم کے بڑے بڑے نام رکھ کر تمھیں مرعوب کیا جاتا ہے اُردو جان لینے پر ان تمام باتوں کا سمجھناتمھارے لئے بالکل معمولی معلوم ہوگا.پس لجنہ اماءاللہ کا پہلا قدم یہ ہونا چاہیئے کہ جب اُن کی تنظیم ہو جائے تو جماعت کی تمام عورتوں کو لکھنا اور پڑھنا سکھا دے.پھر دوسرا قدم یہ ہونا چاہیئے کہ نماز ، روزہ اور شریعت کے دوسرے موٹے موٹے احکام کے متعلق آسان اُردو زبان میں مسائل لکھ کر تمام عورتوں کو سکھا دئے جائیں.اور پھر تیسرا قدم یہ ہونا چاہیئے کہ ہر ایک عورت کو نماز کا ترجمہ یاد ہو جائے تاکہ اُن کی نماز طوطے کی طرح نہ ہو کہ وہ نماز پڑھ رہی ہوں مگر اُن کو یہ علم نہ ہو کہ وہ

Page 407

400 نماز میں کیا کہہ رہی ہیں.اور آخری اور اصل قدم یہ ہونا چاہئے کہ تمام عورتوں کو باترجمہ قرآن مجید آ جائے اور چند سالوں کے بعد ہماری جماعت میں سے کوئی عورت ایسی نہ نکلے جو فرآن مجید کا ترجمہ نہ جانتی ہو.اس وقت شاید ہزار میں سے ایک عورت بھی نہیں ہوگی جس کو قرآن مجید کا ترجمہ آتا ہو.میری حیثیت اُستاد کی ہے اس لئے کوئی حرج نہیں اگر میں تم سے یہ پوچھ لوں کہ جو عور تیں قرآن مجید کا ترجمہ جانتی ہیں وہ کھڑی ہو جائیں اور جن کو ترجمہ نہیں آتا وہ بیٹھی رہیں.میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ تم میں سے کتنی عورتیں ایسی ہیں جو قرآن مجید کا ترجمہ جانتی ہیں.اس لئے جو تر جمہ جانتی ہیں وہ کھڑی ہو جائیں (حضور کے ارشاد پر بہت سی عورتیں کھڑی ہو گئیں جن کو دیکھ کر حضور نے فرمایا ) بہت خوشکن بات ہے کہ میرے اندازہ سے بہت زیادہ عورتیں کھڑی ہیں.الحمد للہ.آب بیٹھ جاؤ.میرے لئے یہ خوشی عید کی خوشی سے بھی زیادہ ہے.میرا اندازہ تھا کہ جتنی عورتیں کھڑی ہوئی ہیں اس کے دسویں حصہ سے بھی کم عورتیں ہوں گی جو قرآن مجید کا ترجمہ جانتی ہوں.مگر خدا تعالے کا فضل ہے کہ میرے اندازہ سے بہت زیادہ عورتیں کھڑی ہوئی ہیں.مگر میرے لئے یہ تسلی کا موجب نہیں.میرے لئے تسلی کا موجب تو یہ بات ہوگی جب تم میں سے ہر ایک عورت قرآن مجید کا ترجمہ جانتی ہوگی.اور مجھے خوشی اُس وقت ہوگی جب تم میں سے ہر ایک عورت صرف ترجمہ ہی نہ جانتی ہو بلکہ قرآن مجید کو بھتی بھی ہو اور مجھے حقیقی خوشی اس وقت ہوگی جب تم میں سے ہر ایک عورت دوسروں کو قرآن مجید سمجھا سکتی ہو.اور پھر اس سے بھی زیادہ خوشی کا دن تو وہ ہو گا جس دن خدا تعالے تمھارے متعلق یہ گواہی دے گا کہ تم نے قرآن مجید کو سمجھ لیا ہے اور اس پر عمل بھی کیا ہے.میں سمجھتا ہوں اس تقریر سے میری جو غرض تھی وہ پوری ہو چکی ہے پرسوں سے نزلہ میرے گلے میں گر رہا ہے جس کی وجہ سے آواز بیٹھی جارہی ہے.ابھی میں نے باہر جا کر مردوں میں لمبی تقریر کرنی ہے جو یہاں بھی آپ سن لیں گی.اس لئے اب میں اسی پر بس کرتا ہوں اور جو باتیں میں نے بیان کی ہیں انہیں پھر دُہرا دیتا ہوں کہ (۱) آپ میں سے ہر خاتون یہاں سے اس ارادہ کے ساتھ اپنے وطن واپس جائے کہ جاتے ہی اپنے ہاں لجنہ قائم کرے گی.(۲) اور لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ایک ماہ کے اندر اندر متکم ہو جائے.اور ایسی کوشش اور محنت کے ساتھ کام

Page 408

401 کرے کہ اس سال کم از کم تمام عورتوں کی تنظیم ہو جائے اور تمام ممالک میں بالخصوص ہندوستان میں ہر گاؤں ہر قصبہ اور ہر شہر میں لجنہ اماءاللہ قائم ہو جائے.اس کے بعد میں یہ اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ گزشتہ دنوں میں نے جو قرآن مجید کے سات زبانوں میں تراجم کی تحریک کی تھی اس میں سے ایک زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ اور اس کی اشاعت کا خرچ اور کسی ایک اسلامی کتاب کا ایک زبان میں ترجمہ اور اُس کی اشاعت کا خرچ یعنی اٹھائیس ہزار روپیہ میں نے عورتوں کے ذمہ لگایا تھا اور میں نے کہا تھا کہ جرمن زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کرانے اور جرمن زبان میں اس کے چھپوانے کا خرچ اور جرمن زبان میں کسی ایک اسلامی کتاب کا ترجمہ کرانے اور جرمن زبان میں اس کے چھپوانے کا خرچ جس کے لئے اٹھائیس ہزار روپیہ کا اندازہ ہے یہ رقم جماعت کی عورتیں مل کر ادا کر یں، چنانچہ ہماری جماعت کی عورتوں نے اپنی قدیم روایتوں کو قائم رکھا ہے اور اس وقت تک ۳۴ ہزار روپے کے وعدے ہو چکے ہیں.گو خدا تعالیٰ کے فضل سے رقم پوری ہو چکی ہے بلکہ جو نا مطالبہ کیا گیا تھا اس سے زائد وعدے ہو چکے ہیں.لیکن ابھی جماعت کی عورتوں کا ایسا حصہ باقی ہے جنہوں نے اس میں حصہ نہیں لیا.اور میں چاہتا ہوں کہ ہر ایک عورت اس میں شامل ہو چاہے وہ ایک یا ایک پاؤ ہی دے مگر اس نیکی میں شامل ہونے سے محروم نہ رہے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ جن عورتوں نے ابھی تک حضہ نہیں لیاوہ بھی ضرور حصہ لیں.اگر کوئی عورت ادھنی دے سکتی ہے تو وہ ارجنی دے کر ہی اس نیکی میں شامل ہو جائے کیونکہ رقم کا سوال نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ جس وقت جرمن زبان میں یہ ترجمہ شائع ہوگا تو ہر آدمی جو اس ترجمہ سے فائدہ اُٹھائے گا وہ ان عورتوں کو دعا دے گا کہ اُن پر خدا تعالے کی رحمتیں نازل ہوں جن کے ذریعہ یہ نعمت ہم تک پہنچی.اور جو شخص بھی اس ترجمہ کے ذریعہ مسلمان ہوگا اس کے ایمان لانے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی رحمتیں اُن عورتوں پر نازل ہوں گی جنہوں نے اس ترجمہ میں حصہ لیا ہو گا.پس میں یہ چاہتا ہوں کہ تم میں سے کوئی عورت بھی اس ثواب سے محروم نہ رہے.اور تم میں سے کوئی عورت بھی ایسی نہ رہے جو ان رحمتوں سے حصہ لینے والی نہ ہو.اگر وہ ایک کوڑی دینے کی ہی حیثیت رکھتی ہے تو ایک کوڑی دے کر ہی اس میں شامل ہو جائے.اگر کسی کی حیثیت کوڑی دینے کی ہی ہے تو خدا تعالیٰ کے نزدیک اُس کی کوڑی ہی کروڑ روپیہ کے برابر ہے.کیونکہ خدا تعالے اس رقم کو نہیں دیکھتا کہ وہ کتنی ہے بلکہ خدا تعالئے اس اخلاص اور اس نیت کو دیکھتا ہے جس اخلاص

Page 409

402 اور جس نیت کے ساتھ وہ دی گئی ہے.اس کے علاوہ میں ایک اور بات کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری گولڈ کوسٹ کی جماعت نے فیصلہ کیا ہے کہ اب وہاں ایک زنانہ سکول بھی جاری کیا جائے جس کے لئے وہاں کے ایک احمدی نے پندرہ ہزار روپیہ کی زمین دیدی ہے.اور اب وہاں کی لجنہ نے فیصلہ کیا ہے کہ عورتیں چندہ جمع کر کے وہاں سکول بنائیں مجھے وہاں سے چٹھی آئی ہے جس میں اُنہوں نے لکھا ہے کہ ہندوستان کی احمدی بہنوں سے کہیں کہ وہ بھی اس کام میں ہماری مدد کریں.چنانچہ میں نے اس کے متعلق لجنہ اماء اللہ مرکزیہ سے بات کی ہے اور انہوں نے چار ہزار روپیہ بھجوانے کا وعدہ کیا ہے.اس چار ہزار میں سے پندرہ سو کا وعدہ تو دہلی کی لجنہ اماءاللہ نے چودھری سرمحمد ظفر اللہ خان صاحب کی معرفت کیا ہے اور باقی رقم لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے مختلف لجناؤں پر ڈال دی ہے جس کی اطلاع ہر ایک لجنہ کے پاس پہنچ جائیگی بہت تھوڑی تھوڑی رقم بنات کے ذمہ ڈالی گئی ہے حتی کہ بعض کے ذمہ تو صرف چار چار پانچ پانچ روپے ڈالے گئے ہیں.میں امید کرتا ہوں کہ جب اس کی اطلاع ہر ایک لجنہ کے پاس پہنچے گی تو اس چندہ میں بھی ضرور حصہ لیں گی.گویا چار ہزار روپیہ کی رقم اتنی تھوڑی ہے کہ میں اگر چاہتا تو قادیان سے ہی بھیجوائی جاسکتی تھی.لیکن میں چاہتا ہوں کہ ساری جماعت کے اندر قربانی کی روح اور بیداری پیدا کیجائے.اور اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہر ایک فرد کو دین کے کاموں میں شامل کیا جائے.اس لئے میں نے یہ رقم جماعت کی مستورات پر پھیلا دی ہے.ہر لجنہ کو اسکی اطلاع پہنچ جائے گی.جب ان کو یہ اطلاع ملے تو ہر ایک عورت اس میں شامل ہوتا کہ وہ ثواب سے محروم نہ رہے.گولڈ کوسٹ مغربی افریقہ کے اس علاقہ میں ہے جہاں ایسے لوگ بھی رہتے ہیں جو نگے پھرتے ہیں اور کچی چیزیں کھاتے ہیں اور درختوں کے نیچے رہتے ہیں.وہاں ہمارے مبلغ خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسا عظیم الشان کام کر رہے ہیں کہ مردوں اور عورتوں کے لئے سکول اور بورڈنگ جاری ہیں جس میں وہ لوگ تعلیم حاصل کر رہے ہیں.ننگے پھرنے والے کپڑے پہن رہے ہیں.درختوں کے نیچے رہنے والے مکان بتا رہے ہیں اور بشی قرآن مجید اور نمازیں پڑھتے ہیں اور اس طرح وہاں اسلام ترقی کر رہا ہے اور رسول کریم کا جھنڈا وہاں گاڑا جارہا ہے اور ہمارے مبلغوں کے سامنے عیسائی مبلغ بھاگ رہے ہیں.پس اس صلى الله

Page 410

#403 چندہ میں جس سے اس ملک میں زنانہ سکول جاری کیا جائے گا ہر ایک عورت ضرور حصہ لے اور یہ سمجھ کر حصہ لے کہ اس چندہ سے جو سکول بنے گا اُس کے ذریعہ سے ایسی جاہل عورتیں دین کی تعلیم حاصل کریں گی جو رسول کریم اللہ کے نام سے بھی واقف نہیں تھیں.ایک اور بات بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اس سال قادیان میں زنانہ بورڈنگ کے قیام کے لئے کوشش شروع کر دی جائے.باہر کے لوگ ہمیشہ یہ شکایت کیا کرتے تھے کہ قادیان میں زنانہ بورڈنگ نہ ہونے کی وجہ سے ہماری لڑکیاں اعلیٰ دینی تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں.اب میں اعلان کرتا ہوں کہ اس سال انشاء اللہ یہ کام شروع ہو جائے گا.میں یہ نہیں کہ سکتا کہ بورڈنگ کی عمارت بھی بن جائے گی کیونکہ جنگ کی وجہ سے عمارت بنانے میں بہت مشکلات ہیں.بہر حال اس سال بورڈنگ شروع کر دیا جائے گا.اللہ تعالے تمھیں زیادہ سے زیادہ تو فیق دے کہ تم دینی تعلیم حاصل کرو اور سلسلہ کے لئے ایسا مفید وجود بنو کہ جب تک تم دنیا میں رہو تو دنیا تم سے علم سیکھے اور فائدہ اٹھائے اور جب تم خدا کے پاس جاؤ تو خدا تعالیٰ کے فضلوں کی وارث بنو اور دنیا تمھاری نیکیوں کی وجہ سے تمھارے لئے دعائیں کرتی رہے.آپ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالے تمھارے اندر تیچی محبت اپنی پیدا کرے اور سچی محبت رسول کریم کی پیدا کرے اور نچی محبت قرآن کریم اور دین اسلام کی پیدا کرے اور سچی محبت بنی نوع انسان کی پیدا کرے اور تم دنیا میں ایسا بہترین وجود بنو کہ دنیا میں تمھاری مثال نہ ہو اور جب تم اس دنیا سے جاؤ تو خدا تعالے بھی تم سے خوش ہو، خدا تعالے کا رسول بھی تم سے خوش ہو گھر والے بھی تم سے خوش ہوں، محلہ والے بھی تم سے خوش ہوں اور دنیا بھی تم سے خوش ہو.تم میں سے کئی مائیں ہیں اور کئی مائیں بننے والی ہیں اور جیسا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے خدا کرے تم حقیقی مائیں بنواور تمھارے ذریعہ سے اس دنیا میں ہماری قوم میں جنت پیدا ہو اور جب تم اس سے جدا ہو کر اگلے جہان میں جاؤ تو خدا تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں تم پر نازل ہوں اور تم خدا کی جنت حاصل کرنے والی بنو.آمین.

Page 411

404 تربیت اولا د اور احمد کی خواتین فرموده ۲۵ جنوری ۱۹۴۶ میرے نزدیک نوجوانوں میں محنت سے کام کرنے کی عادت کی ذمہ داری استادوں اور والدین پر عائد ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے بچوں کو محنت اور مشقت کرنے کا عادی نہیں بنایا.ہمارا مقابلہ تو اُن قوموں سے ہے جن سے نو جوانوں نے چالیس چالیس سال تک شادی نہیں کی اور اپنی عمریں لیبارٹریوں میں گزار دیں اور کام کرتے کرتے میز پر ہی مر گئے اور جاتے ہوئے بعض نہایت مفید ایجادیں اپنی قوم کو دے گئے.مقابلہ تو ایسے لوگوں سے ہے کہ جن کے پاس گولہ بارود اور دوسرے لڑائی کے ہتھیار نہ رہے تو انہوں نے امریکہ سے روی شدہ بندوقیں منگوا ئیں اور انہی سے اپنے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو گئے.انگلستان والوں نے کہا کہ بے شک جرمن آ جائے ہم اس سے سمندر میں لڑیں گے.اگر سمندر میں لڑنے کے قابل نہ رہے تو پھر اس سے سمندر کے کناروں پر لڑیں گے اور اگر سمندر کے کناروں پر لڑنے کے قابل نہ رہے تو ہم اس سے شہروں کی گلیوں میں لڑیں گے اور اگر گلیوں میں لڑنے کے قابل نہ رہے تو ہم گھروں کے دروازوں تک مقابلہ کریں گے اور اگر پھر بھی مقابلہ نہ کر سکے تو کشتیوں میں بیٹھ کر امریکہ چلے جائیں گے مگر اس سے جنگ کرنا ترک نہیں کریں گے.ہمارا مقابلہ تو ایسے لوگوں سے ہے اور ہمیں اُن کا مقابلہ کرنے کے لئے ایسے نو جوان دئے جاتے ہیں جو کہتے تو یہ ہیں کہ ہم بھوکے رہیں گے ، کہتے تو یہ ہیں کہ ہم جنگلوں اور پہاڑوں اور ویرانوں میں جائیں گے، کہتے تو یہ ہیں کہ ہم وطن سے بے وطن ہوں گے ، کہتے تو یہ ہیں کہ ہم اپنی ہر ایک عزیز چیز کو قربان کرنے کے لئے تیاررہیں گے لیکن جب اُن کو کام پر لگایا جاتا ہے تو کوئی کہ دیتا ہے کہ میرا چالیس روپیہ میں گزارہ نہیں ہو سکتا تھا اس لئے بھاگ آیا ہوں.کوئی کہہ دیتا ہے کہ میر ا وہاں دل نہیں لگتا تھا اس لئے میں کام چھوڑنے پر مجبور ہوا اور ساتھ ہی لکھ دیتا ہے کہ سلسلہ میرے اس فعل پر بُرا نہ منائے اور میرا وقف قائم رکھا جائے.جاتا تو وہ اپنے ماں باپ یا بیوی کی معیت میں وقت گزارنے کے لئے ہے کیونکہ وہ اُداس ہو گیا تھا لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی کہتا جاتا ہے کہ میر اوقف قائم رکھا جائے.ایسے نو جوان ہیں جو ہمیں دئے جاتے ہیں ان سے کسی نے کام کیا لینا ہے.ہمیں تو ایسے آدمیوں کی

Page 412

405 ضرورت ہے کہ جہاں اُن کو کھڑا کیا جائے وہ وہاں سے ایک قدم بھی نہ ہمیں سوائے اس کے کہ اُن کی لاش ایک فٹ ہماری طرف گرے تو گرے لیکن زندہ انسان کا قدم ایک فٹ آگے پڑے پیچھے نہ آئے.ہمیں تو ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے.اور یہی لوگ ہیں جو قوموں کی بنیاد کا کام کر دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کے صحابہ کے متعلق فرماتا ہے کہ ان میں سے ہر آدمی کفن بردوش ہے منهم من قضى نحبه ومنهم من ينتظر کہ ان میں سے کچھ لوگوں نے اسلام کی راہ میں اپنی جانیں دے دی ہیں اور کچھا نتظار کر رہے ہیں یہ وقف ہے جودنیا میں تغیر پیدا کیا کرتا ہے.پس اساتذہ اور والدین کا فرض ہے کہ وہ بچوں کی پورے طور پر نگرانی کریں اور انہیں محنت کا عادی بنا ئیں.نماز ، روزہ اور دیگر اسلامی احکام کا اُن کو پابند کریں.دین کے حکموں کے متعلق انکے اندر دلچسپی پیدا کریں.اساتذہ طالب علموں کے ماں باپ کو انگیٹ کریں کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم کا پورا پورا خیال رکھیں.اور حقیقت یہ ہے کہ مائیں ہی آئندہ اچھے یا برے مستقبل کی ذمہ دار ہوتی ہیں کیونکہ بچہ اکثر اخلاق چھوٹی عمر میں سیکھتا ہے.اگر مائیں کڑی نگرانی کریں اور اُن کے اندر کوئی بری بات نہ پیدا ہونے دیں تو وہ بڑے ہو کر بہت حد تک بُری عادات سے محفوظ رہتے ہیں.لیکن اگر بچپن میں ہی بچے کو چوری کی یا جھوٹ بولنے کی یا کوئی اور بری عادت سے باز نہ رکھیں تو وہ بڑا ہو کر اس عادت کو نہیں چھوڑ سکتا.ہمارے ملک میں مشہور ہے کہتے ہیں کہ کوئی ماں تھی اُس کالڑ کا چور ہو گیا، پھر چور سے ڈاکو بنا.ایک دفعہ ڈا کہ میں اس سے قتل ہو گیا.اس قتل کی وجہ سے اسے پھانسی کی سزا ملی جب اُسے پھانسی دینے لگے تو اُس نے کہا کہ مجھے اجازت دی جائے کہ اپنی ماں سے ایک بات کرلوں.اس پر ماں کو بلایا گیا.جب وہ آئی تو اُس نے کہا میں اس سے کان میں بات کرنا چاہتا ہوں.انہوں نے کہا اس طرح کر لو.اُس نے اپنی ماں کے قریب ہو کر زور سے اس کے کلے کو کاٹا.ماں چیچنیں مارتی ہوئی پیچھے کو بھاگی لوگوں نے اس کو لعنت ملامت کی کہ تم بڑے بدکردار آدمی ہو.تمہیں پھانسی مل رہی ہے اور پھر بھی تم نے اس سے عبرت حاصل نہیں کی.اور تمھارا دل نرم نہیں ہوا.اب تم نے ماں کے گلے پر کاٹ کھایا ہے.اس نے کہا آپ لوگوں کو علم نہیں کہ مجھ کو یہ پھانسی ماں کی وجہ سے مل رہی ہے میرا کلہ کا نا پھانسی کے مقابلہ میں کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتا.اصل بات یہ ہے کہ میری ماں کو میری جگہ پھانسی مالنی چاہیئے تھی.پھر اس نے بتایا کہ میں چھوٹا بچہ تھا لیکن آوارہ پھرا کرتا تھا.اگر کوئی شخص میری ماں سے میرے متعلق

Page 413

406 کوئی شکایت کرتا تو میری ماں اُس سے لڑتی تھی کہ میرا بچہ تو ایسا نہیں یہ لوگ دشمنی سے ایسا کہتے ہیں.پتہ نہیں کیوں ان کو میرے بچے سے دشمنی ہوگئی ہے.میرا بچہ تو نالائق نہیں.میں مدرسہ سے پنسل ، کاغذ قلم ، دوات وغیرہ چڑا کر لاتا تو میری ماں مجھے کہتی یہاں نہ رکھو کوئی دیکھ لے گا وہاں رکھو.اگر کوئی شخص میری چوری کے متعلق شکایت کرتا تو میری ماں اسے گالیاں دیتی کہ ناحق میرے بچے کو بد نام کر رکھا ہے.ابن باتوں سے میں چور بنا اور پھر چور سے ڈا کو بنا، پھر ڈا کہ میں مجھ سے یہ قتل ہو ا جس کی وجہ سے مجھے پھانسی پر لٹکایا جا رہا ہے.اس قتل کی ساری ذمہ داری میری ماں پر ہے.اس لئے اس کا کالہ کا ٹا جانے کی بجائے در حقیقت پھانسی کی سزا اسے ملنی چاہئے تھی نہ کہ مجھے.اسی طرح بعض لڑکے اپنے آپ کو وقف کرنا چاہتے ہیں اور ماں باپ رو سکتے ہیں کہ زندگی وقف نہ کرو بلکہ کسی دوسری جگہ ملازمت کرلو چندہ سے دین کی خدمت کرتے رہنا.حالانکہ جہاں آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے وہاں چندہ سے کام نہیں بنتا.میرے نزدیک اس کی ایک حد تک ذمہ داری لجنہ اماءاللہ پر بھی ہے.اگر لجنہ اماءاللہ دین کی ضرورتوں اور وقف کی اہمیت کو اچھی طرح عورتوں کے ذہن نشین کرا دے تو سال کے اندر اندر جس طرح کہتے ہیں کہ زمین نے اپنا کلیجہ نکال کر باہر رکھ دیا اسی طرح عورتیں بھی اپنا کلیجہ نکال کر باہر رکھ دیں.عورتوں کا کلیجہ اولاد ہوتی ہے.اگر مائیں اپنے لڑکوں کو زندگی وقف کرنے اور دوسرے کاموں میں حصہ لینے کی تحریک کریں تو میں سمجھتا ہوں کہ بہت زیادہ نوجوان اپنے آپ کو وقف کرنے لگ جائیں.اسلامی تاریخ میں ایک واقعہ آتا ہے کہ اسلامی لشکر کو ایک جگہ شکست ہوئی.حضرت عمر نے تمام آدمی جو مہیا کئے جاسکتے تھے.اس لشکر کی مدد کے لئے بھیج دئے.مگر لشکر پھر بھی کم تھا.ایرانی لشکر کی تعداد میں ہزارتھی.اور جس مقام پر یہ جنگ ہو رہی تھی اس مقام کے درمیان اور مدینہ کے درمیان کوئی روک نہ تھی.اسلامی جرنیل نے اس وقت ایک تقریر کی کہ تم آج اسلام کے احیاء اور بقا کے ذمہ دار ہو.اگر تم آج شکست کھا گئے تو تمھارے اور مدینہ کے درمیان کوئی فوج نہیں جو اس لشکر کو روک سکے.اگر دشمن یہاں سے نکل گیا تو سیدھا مدینہ پر جا کر حملہ کرے گا اس وقت خنساء نامی ایک مشہور شاعرہ عورت نے اپنے تین لڑکوں کو بلایا اور کہا تمھارا باپ بد کار تھا.میں اپنے بھائی سے قرض لا لا کر اُسے دیتی رہی آخر وہ مر گیا اور تم چھوٹے چھوٹے رہ گئے میں نے محنت مزدوری کر کے تمھیں پالا اور اپنی ساری زندگی پاکیزگی اور پاکدامنی سے گزاری اور تم ان تمام

Page 414

407 باتوں کے گواہ ہو، انہوں نے کہا ہاں.پھر خنساء نے کہا تمھیں معلوم ہے کہ میں نے تمھیں بہت محنت مشقت سے پالا ہے اور اس کے بدلہ میں میں نے تم سے کوئی خدمت نہیں لی.انہوں نے کہا ہاں ٹھیک ہے.پھر ماں نے کہا تم میرے تین بچے ہو اور تمھارے بغیر میرا دنیا میں کوئی نہیں اور میری محبت تمھاری خدمت سے ظاہر ہے.دیکھو آج اسلام پر ایسا وقت ہے کہ اسے لڑائی کے لئے آدمیوں کی ضرورت ہے اس لئے تم لڑائی میں جاؤ.اگر شام میں فتح پا کر لوٹے تو زندہ لوٹنا نہیں تو تمھاری لاشیں میدان جنگ میں پڑی ہوئی نظر آئیں.اگر تم نے میرا یہ حکم نہ مانا تو میں قیامت کے دن تمھیں دودھ نہیں بخشوں گی.لڑکوں نے کہا ہاں اماں ہمیں منظور ہے.یہ کہہ کر وہ روانہ ہو گئے.سب سے بڑی مصیبت جو مسلمانوں کو اس جنگ میں پیش آئی وہ یہ تھی کہ ایرانی این جنگ میں لڑائی کے سدھائے ہوئے ہاتھی مقابلہ پر لے آئے تھے.جب کوئی گھوڑا یا اونٹ ہاتھیوں کے سامنے آتا تھا تو بھاگ جاتا تھا.ایک مسلمان جرنیل آیا اور اس نے ان تینوں میں سے دو بھائیوں کو کہا کہ تم میرے ساتھ مل کر چلو.ہم سامنے سے ہاتھیوں پر حملہ کر دیں گے.کوموت یقینی ہے لیکن امید ہے کہ اس طرح باقی مسلمان بچ جائیں گے.انہوں نے کہا ہمیں منظور ہے.ہاتھی پر سامنے سے حملہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے.کیونکہ جولڑائی کے سدھائے ہوئے ہاتھی ہوتے ہیں وہ آدمی کو سونڈ ھ میں لپیٹ کر زمین سے اٹھا کر دے مارتے ہیں.انہوں نے جاتے ہی سردار لشکر کے ہاتھی پر حملہ کر دیا.دونوں بھائیوں میں سے ایک ہاتھی کے دائیں طرف ہو گیا اور دوسرا بائیں طرف ، اور وہ جرنیل خود سامنے کھڑا ہو گیا جب سامنے سے جرنیل حملہ کرتا تو ہاتھی دائیں بائیں منہ پھیر تا.جب ہاتھی دائیں منہ کرتا تو دائیں طرف والا اس کی سونڈھ پر تلوار مارنے کی کوشش کرتا.ہاتھی اسے اپنی سونڈھ سے اٹھا کر زمین پر دے مارتا.پھر جب ہاتھی بائیں طرف منہ کرتا تو دوسرا بھائی اس کی سوندھے پر تلوار مارنے کی کوشش کرتا ہا تھی اسے بھی اپنی سونڈھ سے اٹھا کر زمین پر دے مارتا لیکن وہ دونوں بھائی اس کے پہلوؤں سے نہ ہٹے بخشی کہ انہوں نے اسے بری طرح زخمی کر دیا آخر ہاتھی گھبرا کر پیچھے بھاگا.اس ہاتھی کا بھا گنا تھا کہ دوسرے اس کے ساتھ کے ہاتھی بھی بھاگ نکلے.اور ہاتھیوں کے بھاگنے سے دوسرے لشکر میں کھلبلی مچ گئی اور سارا ایرانی لشکر بھاگ نکلا اور اسلامی لشکر نے فتح پائی.پس یہ بھی مور نہیں تھیں جنہوں نے اپنے بچوں کا میدان جنگ میں شہید ہونا پسند کیا اور ناکامی کی صورت میں اُن کا منہ دیکھنا پسند نہ کیا.اور آج وہ عورتیں ہیں کہ بچوں کو زندگی قربان کرنے کی تعلیم دینا تو الگ رہا -

Page 415

408 انہیں زندگی وقف کرنے سے روکتی ہیں.اصل بات یہ ہے کہ عورتوں میں جذباتی رنگ بہت غالب ہوتا ہے.اگر اُن کے جذبات سے اپیل کی جائے تو وہ نیکی میں کہیں کی کہیں نکل جاتی ہیں.ایک جنگ میں حضرت سعد ممانڈ رتھے.اُن کو ایک نو مسلم سپاہی کے متعلق شکایت پہنچی کہ اس نے شراب پیا ہے.حضرت سعد نے اسے قید کر دیا.حضرت سعد کے سرین پر گھمبیر تھا اس لئے سواری پر نہ بیٹھ سکتے تھے.آخر عرشہ بنوایا گیا اور عرشہ پر نیم دراز ہو کر حضرت سعد ا حکام فرماتے رہے.جہاں حضرت سعد کا خیمہ تھا اس کے پاس ہی وہ سپاہی قید تھا.جس وقت لڑائی کے نعرے بلند ہوتے یا لڑائی کے میدان سے کوئی افسوسناک آواز آئی تو یہ نومسلم غصے کی وجہ سے زنجیر کو کھینچتا اور کہتا اے کاش ! میں آج جنگ میں شریک ہوتا.کوئی مسلمان ایسا ہے جو مجھے آزاد کردے.گو میں گنہگار تو ہوں لیکن اسلام کا در دمیرے سینے میں دوسروں سے کم نہیں.مگر مسلمان سپاہی اُس کو آزاد کرنے کی جرات نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ حضرت سعد کی ناراضگی سے ڈرتے تھے.آخر ان کی بیوی نے کہا کہ خواہ کچھ ہو جائے میں اس کی زنجیر کھول دیتی ہوں مجھ سے اس کی یہ حالت دیکھی نہیں جاتی.انہوں نے اس کی زنجیر کھول دی اور اسے آزاد کر دیا.وہ منہ پر نقاب ڈال کر مسلمانوں میں شامل ہو گیا.مسلمان لشکر کے ساتھ مل کر وہ جس جگہ حملہ کرنا باقی لشکر کے دل بھی بڑھ جاتے تھے.جب شام کو لڑائی بند ہوئی تو وہ بھاگ کر اپنی جگہ پر آ گیا اور حضرت سعد کی بیوی نے اس کو پھر ز بیر لگادی.حضرت سعد کو شک پڑتا تھا کہ آج حملہ کے وقت فلاں آدمی معلوم ہوتا تھا.کیونکہ حملہ تو اسی طرح کرتا تھا.پھر کہتے ہیں وہ تو قید ہے.وہ نہیں کوئی اور ہوگا.اگلے دن پھر جب لڑائی شروع ہوئی تو حضرت سعد کی بیوی نے پھر اسے کھول دیا اور وہ پھر مسلمان لشکر میں حاملا اور نہایت شجاعت اور بہادری سے دشمن کے لشکر پر حملہ کرتارہا.آخر شام کو جب سلمانوں کو فتح ہوئی اور حضرت سعد کو شک پڑ گیا کہ حملہ کے وقت مجھے وہی سپاہی معلوم ہوتا تھا جسے میں نے قید کیا ہوا ہے.بیوی سے کیا تمھاری شرارت معلوم ہوتی ہے.معلوم ہوتا ہے تم نے اسے کھولا تھا میں تمھیں قانون شکنی کی سزا دوں گا.بیوی نے کہا آپ جو سزا چاہیں مجھے دیں.لیکن میری غیرت نے یہ برداشت نہ کیا کہ میرا خاوند تو محض لڑائی کا نظارہ دیکھتار ہے اور جس شخص کو اسلام کا اس قدر درد ہو کہ وہ لڑائی کی آواز پر زنجیر کوتوڑنے کی کوشش کرے اُسے اس طرح قید رکھا جائے.بیوی کی یہ دلیرانہ بات سن کر حضرت سعد کا غصہ جاتا رہا اور

Page 416

4096 انہوں نے اس نو مسلم کو معاف کر دیا.پس عورتوں میں جذباتی رنگ غالب ہوتا ہے.لجنہ اماءاللہ کا فرض تھا کہ وہ عورتوں کے سامنے بیان کرتی کہ آج اسلام کو ان کے نوجوان لڑکوں کی ضرورت ہے ، آج اسلام کو اُن کے خاوندوں کی ضرورت ہے، آج اسلام کو مالوں کی ضرورت ہے اور اُن کا فرض ہے کہ وہ ہر چیز بلا دریغ پیش کر دیں.اگر یہ طریق اختیار کیا جاتا تو مجھے یقین ہے کہ وہ لوگ جو ایمان میں کمزور تھے وہ بھی اسے اخلاص کا نمونہ پیش کرتے.ایک شخص نے مجھے بتایا کہ مجھے تو میری بیوی نے پختہ احمدی بنایا ہے.جب میں تنخواہ لے کر آتا تو وہ مجھے کہتی کہ کیا آپ چندہ دے آئے ہیں.میں کہتا کل دیدوں گا تو وہ کہتی اس مال سے کھانا نہیں پکاؤں گی.اس پر بسا اوقات مجھے آدھی آدھی رات کو جا کر چندہ دینا پڑا.اور جب میں رسید دکھا تا تب وہ کھانا پکاتی نہیں تو کہہ دیتی کہ میں حرام روپیہ سے کھانا نہیں پکاؤں گی.پس اگر عور تیں ہمارا ساتھ دیں اور وہ بچوں سے کہیں کہ اگر تم وقف نہ کرو گے ، اگر تم اپنے اندر دینداری پیدا نہ کرو گے تو میں تمھیں اپنا دودھ نہیں بخشوں گی اور میں خدا سے کہوں گی کہ اس نے میرا حق ادا نہیں کیا.میرا بیٹا میرا سا ہے اس نے میرا کہنا نہیں مانا تو تھوڑے ہی عرصہ میں کایا پلٹ سکتی ہے.اگر مائیں یہ طریق اختیار کریں تو نانوے فیصدی لڑکوں کی اصلاح ہو جائے اور نانوے فیصدی لڑکے تعلیم میں تیز ہو جائیں اور ان کے اندر بیداری اور قربانی کی رُوح پیدا ہو جائے.میں اس موقع پر جماعت کی عورتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے لڑکوں کو تحریک کریں کہ وہ دین کے لئے اپنی زندگی وقف کریں.اور جن لڑکوں کو سلسلہ قبول نہیں کرتا ان کو تحریک کریں کہ اپنے خرچ سے بچا ہوا رو پنیا اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے دیں.اگر ان کے لڑکے اس کام کے لئے تیار نہ ہوں تو ہر ماں کا فرض ہے کہ وہ اپنے بیٹے سے کہہ دے کہ تم نے میرا حق ادا نہیں کیا اور میں قیامت کے دن خدا کے سامنے تمھارے متعلق کہہ دوں گی کہ یہ میرا نا فرمان بیٹا ہے اس نے میرا کہا نہیں مانا.میں دیکھتا ہوں کہ سلسلہ کے کاموں کو عظیم الشان طور پر چلانے کا وقت آ گیا ہے لیکن ہم اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک عورتیں ہمارے ساتھ تعاون نہ کریں.جس دن عورتیں یہ طریق اختیار کرلیں گی تم سمجھ لو کہ لڑکوں کی اصلاح کرنا بہت آسان ہو جائے گا اور وہ زندگی کے ہر شعبہ میں بیداری سے کام کرنے لگیں گے.پس تعلیم کی ترقی ہماری جماعت کے لئے از حد ضروری ہے.تعلیم انسان کو صحیح راستہ تلاش کرنے اور حقیقت کے سمجھنے میں بہت مدد دیتی ہے.اور جو کام بھی انسان کرے اس کے لئے اس میں آسانیاں پیدا کرتی ہے.ایک

Page 417

410 دوست نے ذکر کیا کہ میرا دادا احمدی تھا لیکن باپ غیر احمدی.میں نے خیال کیا کہ میرا دادا بزرگ آدمی تھاوہ ناحق پر نہیں ہو سکتا.کوئی صداقت ضرور ہوگی جس کی وجہ سے اُس نے احمدیت کو قبول کیا.چنانچہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا اور میں احمدی ہو گیا.اب یہ نتیجہ اس کی تعلیم کا نکلا.اگر غیر تعلیم یافتہ ہوتا تو خیال بھی نہ آتا.خیال آتا تو ان پڑھ ہونے کے سبب سے کتب نہ پڑھ سکتا.پس جماعت کو اس وقت سینکڑوں نہیں ہزاروں تعلیم یافتہ آدمیوں کی ضرورت ہے.صدر انجمن احمدیہ کے لئے بہت سے کارکنوں کی ضرورت ہے.تحریک جدید کے لئے بہت سے کارکنوں کی ضرورت ہے علاوہ ان کے پانچ ہزارہ واقفین تجارت کی ضرورت ہے.اور ہماری یہ ضرورت پوری نہیں ہو سکتی جب تک جماعت تعلیم کو زیادہ سے زیادہ مضبوط نہ کرے.ہماری جماعت میں اس قدر بی.اے اور اہم.اے ہونے چاہئیں کہ ہم پہلے اپنی ضرورت کو پورا کریں اور جو ہماری ضرورت سے بچیں وہ ہم گورنمنٹ کو دے سکیں.میں دیکھتا ہوں کہ بہت سُرعت کے ساتھ جماعت کی ترقی کے دروازے کھل رہے ہیں.اور وہ چیز جو ہمیں ڈور نظر آتی تھی بہت جلد آنے والی ہے.جس رنگ میں لوگوں میں بیداری اور توجہ پیدا ہورہی ہے وہ بتاتی ہے کہ یوسف گم گشتہ کی خوشبو آب آرہی ہے.یہ ہماری ہی کو تا ہی اور غفلت ہوگی کہ ہم قافلہ نہ لے جائیں اور وہاں سے یوسف کو اپنے گھر نہ لے آئیں.(مصباح فروری ۱۹۴۶ ص ۳ تا ۱۰) قادیان کی احمدی خواتین کے کام کی تعریف اور اظہار خوشنودی ایک خطبہ میں حضور نے فرمایا:.فرموده ۱۵- فروری ۱۹۴۶ مردوں کے مقابلہ میں عورتوں نے قربانی کا نہایت اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے.گو حساب نہ جاننے کی وجہ سے ان سے بعض غلطیاں ہو میں لیکن اُن کا مجھے وقت پر پتہ لگ گیا اور میں نے ان غلطیوں کو دور کرنے کے متعلق ہدایات دیدیں جن کے مطابق انہوں نے نہایت تندہی اور محنت سے کام کیا.میں سمجھتا ہوں کہ جو رُوح ہماری عورتوں نے دکھائی ہے اگر وہی روح ہمارے مردوں کے اندر کام کرنے لگ جائے تو ہمارا غلبہ

Page 418

411 سو سال پہلے آجائے.اگر مردوں میں بھی وہی دیوانگی اور وہی جنون پیدا ہو جائے جس کا عورتوں نے اس موقع پر مظاہرہ کیا ہے تو ہماری فتح کا دن بہت قریب آ جائے.عورتوں نے اس دیوانگی سے کام کیا ہے کہ اُن میں سے بعض کی شکلیں تک پہچانی نہیں جاتیں.اُنہوں نے کھانے کی پرواہ نہیں کی.انہوں نے آرام کی پرواہ نہیں کی اور ایسی محنت سے کام کیا ہے کہ میں سمجھتا ہوں اُن میں سے کسی کا تین سیر کسی کا چار سیر کسی کا پانچ سیر وزن کم ہو گیا ہے مگر مردوں نے عورتوں کے مقابلہ پر بہت کم کام کیا ہے.جو قربانی عورتوں نے کی اس کا بھی دیکھنے والوں اور فریق مخالف کے نمائندوں اور پولنگ آفیسر پر بہت ہی گہرا اثر پڑا ہے.جو عور تیں پولنگ آفیسر کی امداد کے لئے گورنمنٹ کی طرف سے آئی تھیں وہ اس قدر متاثر ہوئیں کہ ان کے یہ الفاظ تھے کہ ہم نہیں سمجھ سکتیں کہ یہ جماعت کیسی ہے اور اس میں قربانی کی یہ روح کیسے پیدا ہوگئی ہے.بعض عورتیں ایسی حالت میں ووٹ دینے کے لئے آئیں کہ ان کو بچہ ہونے والا تھا اور در روزہ شروع تھا.بعض ایسی تکلیف کی حالت میں آئیں کہ ووٹ دیتے ہی وہ بیہوش ہو گئیں.بعض ایسی تھیں کہ ان کو بچہ ہوئے صرف بارہ گھنٹے گزرے تھے کہ وہ اس حالت میں سٹر پچر پر لیٹ کر ووٹ دینے کے لئے آگئیں ،ایک واقعہ ہو تو انسان اسے نظر انداز کر سکتا ہے مگر یہاں تو ایک درجن سے زائد ایسی عورتیں تھیں کہ بعض کو در دوزه لگی ہوئی تھی اور وہ ووٹ دینے کے لئے آگئیں اور بعض ایسی تھیں کہ ان کو بچہ ہوئے چند گھنٹے گزرے تھے اور وہ ووٹ دینے کے لئے آ گئیں.اور بعض عورتیں ایسی حالت میں ووٹ دینے کے لئے آئیں کہ وہ بیٹھ ہی نہ سکتی تھیں اُن کو ڈولی میں لایا گیا.اور ایک رشتہ دار نے دائیں طرف سے اور دوسرے نے بائیں طرف نے اُن کو پکڑا ہو ا تھا کہ کہیں گر نہ پڑیں.ایک درجن سے زیادہ مثالیں اس قربانی کی موجود ہیں.اور اس قربانی کا اس قدر اثر تھا کہ وہ عورتیں جو مخالف پارٹی کی طرف سے بطور ایجنٹ کے تھیں وہ بھی عورتوں کی اس قربانی پر حیرت کا اظہار کر رہی تھیں.عورتوں نے الیکشن میں قربانی کر کے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اس بات کی مستحق ہیں کہ اُن کے اس ذکر کو ہمیشہ تازہ رکھا جائے اور بار بار اس واقعہ کو جماعت کے سامنے لایا جائے.انہوں نے بے نظیر قربانیوں اور نہایت اعلیٰ درجہ کی جاشاری کا ثبوت دے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ مردوں سے قومی کاموں میں آگے نکل گئی ہیں.مردوں کو میں دیکھتا ہوں کہ وہ قومی کاموں میں ست ہیں اور وہ قومی قربانی کے مفہوم کو پوری طرح نہیں سمجھتے.دین کے لئے قربانی کا ذکر آئے تو اس کے لئے تیار نظر آتے ہیں

Page 419

412 لیکن قومی مفاد کو برقرار رکھنے کے لئے اگر کسی قربانی کا مطالبہ کیا جائے تو اس کی طرف پوری توجہ نہیں دیتے.مصباح مارچ ۱۹۴۶ ص ۱۶ تا ۱۷) فریضہ تبلیغ اور احمدی خواتین فرموده یکم اکتوبر ۱۹۴۶ جلسه لجنہ اماء اللہ وہلی ( بمقام ۸ یارک روڈ نئی دھلی ) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: قرآن کریم میں جہاں جہاں انسان کی پیدائش کا ذکر آیا ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ پہلے ہم نے ایک نفس کو پیدا کیا پھر خَلَقَ مِنْهَا زَوْ چُھا پھر اس میں سے اس کا جوڑا پیدا کیا ، اس نفس سے جوڑا پیدا کرنے کے متعلق بائیل نے یہ تشریح کی ہے کہ حضرت آدم کی پسلی کو چیر کر اس میں سے عورت نکالی گئی لیکن قرآن کریم نے یہ نہیں کہا کہ حضرت آدم کی پسلی کو چیر کر اس میں سے عورت کو پیدا کیا گیا بلکہ قرآن مجید کہتا ہے کہ خلق منھا زوجھا کہ اس نفس سے ہی اس کا جوڑا پیدا کیا ، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی جنس سے ہی اللہ تعالیٰ نے عورت کو پیدا کیا.مین کے معنی یہاں جنس کے ہیں.جیسا کہ قرآن مجید میں اس کی کئی مثالیں پائی جاتی ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَطِيْعُو اللَّهَ وَاَ طبعو الرسول وأولي الأمر مِنكُمُ کہ تم اپنے میں سے اُن لوگوں کو حاکم بناؤ جو تمھاری قسم میں سے ہیں.اس جگہ کوئی شخص بھی بنگم' کے معنے یہ نہیں کرے گا کہ تم ان لوگوں کو حاکم بناؤ جو تمھاری پسلیوں میں سے چیر کر نکالے گئے ہیں اور منکم کا لفظ صاف بتاتا ہے کہ اس جگہ مُراد یہ ہے کہ جو لوگ تمھاری قسم کے ہوں.جس قسم کے تمھارے حالات ہیں اسی قسم کے ان کے حالات ہیں اور جن چیزوں کی تھیں ضرورت ہے انہی چیزوں کی انہیں بھی ضرورت ہے.وہ تمھارے جیسے انسان اور تمھارے سے جذبات ان میں بھی ہیں.تمھاری ضرورت کو سمجھتے ہیں.ان کی حکومت کو تسلیم کرو اور خیالی حاکم نہ تلاش کرو کہ نہ ملیں گے نہ مفید ہوں گے.قرآن کریم میں کثرت سے مِنھا اور مِنكُمُ کے الفاظ آئے ہیں لیکن اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ ان چیزوں کو تمھاری پہلی کاٹ کر بنایا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس قسم کے تم ہو اسی قسم کے دو ہیں پس جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا کہ انسان کی قسم سے ہی اس کی بیوی کو پیدا کیا ، اس

Page 420

413 سے ہمیں یہ پتا لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس قسم کے مردوں کے دل اور دماغ بنائے ہیں اس قسم کے عورتوں کے دل اور دماغ بنائے ہیں.پس وہاں پہلی کا ذکر نہیں بلکہ مردوں اور عورتوں کا آپس میں تشابہ اور ملتے جلتے ہونے کا ذکر ہے.لیکن جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے بعض دور ایسے آئے ہیں کہ مردوں نے عورتوں کو اُن کی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے روکنے کی کوشش کی اور بعض دور ایسے آئے ہیں کہ عورتوں نے مردوں کو ان کی ذمہ داریوں کے ادا کرنے سے روکنے کی کوشش کی.جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے بعض دور ایسے آئے ہیں کہ مردوں نے عورتوں کو ایک الگ مخلوق سمجھا اور بعض دور ایسے آئے ہیں کہ عورتوں نے مردوں کو ایک الگ وجود سمجھا لیکن قرآن کریم کے نزول سے یہ چیز مٹادی گئی اور قرآن کریم نے خَلَقَ مِنْهَازَوُ جَهَا کہہ کر اس تفاوت کو مٹادیا اور بتایا کہ عورتوں کی ویسی ہی ذمہ داریاں ہیں جیسی مردوں کی اور عورتوں میں ویسے ہی احساسات اور جذبات ہیں جیسے مردوں میں اور مرد اور عورت دونوں ہی اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہیں.یہ الگ بات ہے کہ مردوں کے کام اور قسم کے ہیں اور عورتوں کے کام اور قسم کے ہیں.لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ عورتیں مردوں کی ذمہ داریوں کو سمجھ نہیں سکتیں.مردوں میں بھی کاموں اور پیشوں کا اختلاف ہوتا ہے.کوئی تحصیلدار ہوتا ہے، کوئی تھانیدار ہوتا ہے، کوئی ڈاکٹر ہوتا ہے لیکن باوجود ان کے پیشوں کے اختلاف کے ان کے احساسات ان کے جذبات اور ان کی ذمہ داریوں میں کوئی فرق نہیں جس طرح ان کاموں کے اختلاف کی وجہ سے ان کے احساسات اور ان کے جذبات ان کی ذمہ داریوں میں فرق نہیں پڑتا اسی طرح عورت کے کام کے اختلاف کی وجہ سے اس کی ذمہ داریوں اور اس کے احساسات اور جذبات میں فرق نہیں ہو سکتا.اگر فرق ہے تو صرف تقسیم عمل میں ، کہ بعض قسم کے کام مرد کے سپرد ہیں اور بعض قسم کے کام صلى الله عورتوں کے سپرد ہیں لیکن ذمہ داری دونوں پر ہے.جیسا کہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ.كُلكم رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ کہ تم میں سے ہر ایک اپنے فرائض کے متعلق اور اپنی ذمہ داریوں کے متعلق پوچھا جائے گا جس طرح گڈریے کا فرض ہے کہ وہ اپنی بھیڑوں کی حفاظت کرے اسی طرح ہر مرد اور عورت اپنے کاموں کے متعلق ذمہ دار ہے.اگر عورت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ بچوں کی نگرانی کرے اور خاوند کے گھر اور مال کی حفاظت کرے تو اس سے انہی چیزوں کے متعلق پوچھا جائے گا.اگر مرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بال بچوں کی

Page 421

414 پرورش کا انتظام کرے تو اس سے اس کے متعلق سوال کیا جائے گا.اسی طرح جو چیزیں نوکر کے سپر د تھیں اور جو کام نوکر کے سپرد تھے اس سے ان کے متعلق سوال کیا جائے گا.پس مردوں کا یہ خیال کرنا کہ عورتیں کسی قربانی میں حصہ نہ لیں اور دین کے کاموں سے علیحدہ رہیں اور اُن کے لئے کھلونا بنی رہیں یا عورتوں کا یہ سمجھنا کہ انہیں کسی قسم کی قربانی میں حصہ نہیں لینا چاہیئے یہ دونوں نقطہ نگاہ غلط ہیں.جب تک ہماری عورتیں اور ہمارے مرد اپنی ذمہ داریوں کو محسوس نہیں کریں گے اور اور اس اختلاف کو دور کرنے کی کوشش نہیں کریں گے اُس وقت تک کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتے.اسی اختلاف کو دُور کرنے کے لئے میں نے لجنہ اماء اللہ کی مجلس قائم کی.اور لجنہ اماء اللہ کے معنے ہیں اللہ تعالے کی لونڈیوں کی مجلس.جس طرح مرد کے لئے سب سے پسندیدہ نام عبداللہ ہے اسی طرح عورت کے لئے سب سے پسندیدہ نام لمتہ اللہ ہے.قرآن کریم میں رسول کریم ﷺ کی خوبیوں میں سے جس خوبی کا نام اللہ تعالیٰ نے لیا ہے وہ عبداللہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کا بندہ گویا اللہ تعالے کا بندہ ہونا سب سے بڑی خوبی ہے.اسی طرح عورت کے لئے سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالے کی لونڈی ہو.جس طرح غلام پر فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے آقا کے تمام حکموں کو پورا کرے اسی طرح میں نے تمھیں یہ نام دے کر توجہ دلائی تھی کہ تم اللہ تعالے کی لونڈیاں بننے کی کوشش کرو اس وقت تمھارے لئے موقعہ ہے کہ تم ایسے کام کرو جن سے تم اپنے آقا کو راضی کر لو اور جب تم اس کے سامنے جاؤ تو تم اس سے انعام کی امیدوار ہو اور تمھارے لئے یہ بھی موقعہ ہے کہ تم فرائض کو پس پشت ڈال کر اللہ تعالیٰ کی ناراستگی کی مورد بنو اور مجرم کی حیثیت میں اس کے سامنے پیش ہو.اس شخص میں جو اللہ تعالیٰ سے انعام حاصل کرنے کے لئے پیش کیا جائے گا اور اس شخص میں جو اللہ تعالے کے سامنے مجرم کی حیثیت میں پیش ہوگا زمین اور آسمان کا فرق ہے.ایک شخص جو بادشاہ کے سامنے مجرم کی حیثیت میں پیش ہوتا ہے اور ایک جرنیل جو بادشاہ کے دربار میں انعام حاصل کرنے کے لئے پیش ہوتا ہے ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے جرنیل پر لوگ رشک کرتے ہیں لیکن مجرم کی حالت پر افسوس کرتے ہیں حالانکہ دونوں ایک ہی بادشاہ کے سامنے پیش ہوئے لیکن ایک مجرم کی حیثیت میں ندامت سے اپنا سر جھکائے ہوئے تھا اور دوسرا اپنی کامیابی پر خوش تھا اور دنیا اُس پر رشک کرتی تھی.پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور انکے مطابق اپنے اندر بیداری پیدا کرو، اللہ تعالے کی نگاہ میں مرد اور عورت دونوں برابر ہیں، اور دونوں کی ذمہ دایاں یکساں ہیں.

Page 422

415 جب ہم تاریخ پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ دو نبی ایسے ہیں جن کی تاریخ محفوظ ہے.ان میں سے ایک نبی کی تاریخ بہت ہی محفوظ ہے اور وہ رسول کریم تے ہیں.آپ کی زندگی کے تمام حالات کچے طور پر محفوظ ہیں اور دوسرے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں.ان کی زندگی کے چند سالوں کے تفصیلی حالات موجود ہیں.ان کے زمانہ ء نبوت کے متعلق ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے زمانہ میں عورتوں نے قربانیوں میں بہت خاصہ حصہ لیا.حضرت عیسے علیہ السلام کے حواریوں میں سے بعض عورتیں بھی تھیں جو اپنا دن رات تبلیغ میں صرف کرتی تھیں.عیسائی عورتیں آج تک اُن عورتوں کی قربانی پر فخر کرتی ہیں.حضرت عیسے علیہ السلام کو صلیب کے تختے سے جب اُتارا گیا تو انہیں ایک قبر میں رکھا گیا جیسا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی پیشگوئی تھی کہ میں تین دن رات قبر میں رہنے کے بعد زندہ باہر نکلوں گا.حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب قبر سے باہر نکلے تو ان کے ملنے کے لئے عورتیں ہی پہلے وہاں پہنچیں.مرد تو ڈر کے مارے بھاگ چکے تھے.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس صبح سویرے ہی مریم مگر لینی اور اس کے ساتھ دو اور عور تیں پہنچ گئیں اور وہ حکومت کے ڈر سے مرعوب نہ ہوئیں.اس موقع پر مردوں سے بڑھ کر عورتوں نے جو دلیری دکھائی اور ایمان کا نمونہ دکھایا عیسائی عورتیں اس پر فخر کرتی ہیں.اس کے بعد رسول کریم والے کے زمانہ کی عورتوں نے قربانی کا جو نمونہ قائم کیا اُس کی نظیر آج تک نہیں ملتی اور ان قربانیوں کو پڑھ کر ایک مسلمان کا دل وجد کرنے لگتا ہے کہ اس کی مائیں اور دادیاں کس شان کی عورتیں تھیں اور انہوں نے کیسا اعلے معیار قربانی کا قائم کیا.اس میں شبہ نہیں کہ رسول کریم ﷺ پر ایمان لانے والی یہ صحابیات عرب تھیں اور اس میں بھی شبہ نہیں کہ اکثر مسلمان عرب نہیں.لیکن مذہب کے لحاظ سے رسول کریم ہونے کی صحابیات ہر مسلمان کی مائیں اور دادیاں ہیں.چنانچہ اللہ تعالے قرآن کریم میں رسول کریم ﷺ کو تمام مسلمانوں کا باپ قرار دیتا ہے.اس لحاظ سے آپ صرف عرب کے مسلمانوں کے ہی باپ نہیں بلکہ آپ مسلمان پٹھانوں کے بھی باپ ہیں، مسلمان راجپوتوں کے بھی باپ ہیں، مسلمان جانوں کے بھی باپ ہیں، بلکہ آپ اونی اقوام سے مسلمان ہونے والوں کے بھی باپ ہیں.ہر ایک شخص جو کلمہ پڑھتا ہے اس کے آپ باپ ہیں.اسی طرح آپ کی صحابیات آپ کے زمانہ کے لوگوں کی مائیں اور بہنیں تھیں اور اس زمانہ کے مسلمانوں کی دادیاں ہیں.جب ایک مسلمان ان واقعات کو پڑھتا ہے تو وہ جو حیرت ہو جاتا ہے کہ میری دادیاں کیسی شان دار قربانی کرنے والی تھیں.

Page 423

416 مثلا رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں مسلمانوں پر بہت مظالم ہوتے تھے اور مسلمانوں کو قسم قسم کے دیکھ دئے جاتے تھے.ان مسلمانوں میں کچھ لوگ آزاد تھے اور کچھ غلام تھے.جو لوگ غلام تھے اُن کو بہت زیادہ تکلیفیں دی جاتی تھیں اور وہ اکثر مصائب کا نشانہ بنے رہتے تھے لیکن آزاد مسلمانوں پر دشمنوں کا زور کم چلتا تھا اس لئے ان کو بہت زیادہ تکلیفیں نہ دے سکتے تھے.ان غلاموں میں دومیاں بیوی بھی تھے ان کا مالک اس قسم کے ظلم اُن پر کرتا تھا کہ ان کو پڑھ کر انسان کا دل کا پہنے لگتا ہے.ان کا مالک انہیں تپتی ہوئی ریت پر لنا دینا اور ان کی چھاتیوں پر چڑھ کر کودتا اور انہیں دھوپ میں ڈال دیتا.ان کی آنکھیں سرخ ہو کر سوج جاتیں اور اُسے ذرا بھی رحم نہ آتا.ایک دفعہ رسول کریم ﷺ ان کے پاس سے گزرے.آپ نے دیکھا کہ ان پر سخت ظلم ہور ہے ہیں.ان کے مالک نے میاں بیوی کو تپتی ہوئی ریت پر لٹایا ہوا تھا اور انہیں سخت دُکھ دے رہا تھا اور کہتا جا تا تھا کہ محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کا انکار کرو اور کہو کہ خدا کے سوا اور معبود بھی ہیں.جب ایک باپ اپنی اولاد کی یہ کیفیت دیکھ کر بے چین ہو جاتا ہے تو رسول کریم ہے جو کہ ماں باپ سے زیادہ محبت کرنے والے تھے یہ تکلیف کب برداشت کر سکتے تھے.آپ کو سخت تکلیف ہوئی.آپ اُن کے پاس کھڑے ہو گئے اور شایدان کے لئے دعا کی اور خدا تعالے سے ان کے متعلق خبر پائی.اس پر اُن سے مخاطب ہو کر فرمایا صبر کر و صبر کر واللہ تعالے تمھاری یہ تکلیفیں بہت جلد دور کرے گا اور تمھیں ان تکلیفوں سے نجات دے گا.اس کے دو تین دن بعد وہ مرد تو ان تکالیف کو برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے اس جہان سے کوچ کر گیا اور اس عورت کو مالک نے نیزہ مار کر مار دیا.صلى الله یہ لوگ غلام تھے آزاد خاندانوں میں سے نہ تھے.اور غلاموں کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ ان کے ذہن بلند نہیں ہوتے.ان کی عقل معمولی نوکروں سے بھی کم ہوتی ہے کیونکہ وہ نسلاً بعد نسل غلام چلے آتے ہیں لیکن رسول کریم ﷺ پر ایمان لے آنے کی وجہ سے وہ ایسے ذہین اور بلند حوصلہ ہو گئے کہ انہوں نے ہر قربانی کی مگر خدائے واحد کی توحید کا انکار نہ کیا.انہی غلاموں میں سے حضرت بلال بھی تھے جن کو ان کا مالک شدید سے شدید تکلیفیں دیتا تھا مگر میں تمھیں عورتوں کی مثالیں بتانا چاہتا ہوں.ایک مثال او پر بیان کر آیا ہوں اور عورتوں کی قربانی کا کچھ اور ذکر تمھارے سامنے کرتا ہوں.

Page 424

417 الله مکہ میں جب تکلیفیں حد سے بڑھ گئیں اور دشمن شرارتوں میں دن بدن بڑھتے جارہے تھے.جب تکلیفیں برداشت سے باہر ہو گئیں تو رسول کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کو مشورہ دیا کہ وہ ایسے سینیا کی طرف ہجرت کر جائیں.انہوں نے عرض کی یارسول اللہ آپ تو یہاں تکلیفوں میں رہیں اور ہم دوسرے ملک جا کر آرام سے زندگی بسر کریں.آپ نے فرمایا ابھی میرے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کرنے کی اجازت نہیں آئی تم ہجرت کر جاؤ.جب مجھے اللہ تعالے کی طرف سے اجازت مل جائے گی تو میں ہجرت کروں گا.ان ہجرت کرنے والوں میں ایک عورت بھی تھی جو کہ اپنے خاوند کے ساتھ اونٹوں پر صبح سویرے سامان لدوار ہی تھی.حضرت عمر اس وقت اسلام نہیں لائے تھے.آپ پھرتے پھراتے اس رستہ سے گزرے.آپ نے جب یہ نظارہ دیکھا تو آپ کی طبیعت پر اس نظارہ کا بہت گہرا اثر ہوا.عربوں میں بے شک کفر تھا.گناہ تھا لیکن وہ بہادر تھے اور کمزور اور ضعیف پر اُن کا ہاتھ نہ اُٹھتا تھا.حضرت عمرؓ نے دیکھا کہ صبح صبح ایک عورت مکہ کو ہمیشہ کے لئے چھوڑنے والی ہے تو آپ نے رقت بھری آواز میں اُس عورت سے پوچھا.بی بی ! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم سفر کی تیاری کر رہی ہو.اُس عورت نے کہا ہم نے یہاں سے چلے جانے کا ارادہ کیا ہے اب تمھاری تکلیفیں برداشت سے باہر ہو گئی ہیں آخر ہم نے تمھارا کیا قصور کیا ہے.ہم یہی کہتے ہیں نا کہ اللہ تعالے ایک ہے لیکن تم ہمیں اس سے بھی روکتے ہو.اس لئے ہم جارہے ہیں.یہ بے بسی اور بے کسی کا منظر دیکھ کر سنگدل عمر جس کے دل میں مسلمانوں کے لئے ذرا تم نہ تھا اُس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور کہا.اچھا بی بی تمھارا خدا حافظ.یہ کہہ کر منہ پھیر لیا.پس عورتوں نے وطن بھی چھوڑے.ماریں بھی کھائیں اور موت کو بھی قبول کیا لیکن خدائے واحد کے نام کو چھپانا پسند نہ کیا.یہ عورتیں بھی تمھارے جیسی عورتیں تھیں.جس طرح تمھارے سینوں میں دل ہیں ان کے سینوں میں بھی دل تھے.جس طرح تمھاری اولادیں ہیں اُن کی بھی اولاد میں تھیں لیکن خدا کے رستے میں انہوں نے ہر چیز قربان کر دی.حضرت عمر کی بہن بھی عورت ہی تھیں جن کے ذریعے حضرت عمرؓ کو تبلیغ ہوئی.حضرت عمرہ کے متعلق آتا ہے کہ آپ ہاتھ میں تلوار لے کر باہر نکلے.کسی نے پوچھا کہ عمر کہاں جار ہے ہو؟ حضرت عمر نے کہا کہ محمد ( ) کو قتل کرنے جارہا ہوں.اُس نے کہا کہ محمد (ﷺ) کو قتل کر کے

Page 425

418 تمھیں کیا ملے گا.اگر تم اسے قتل کرو گے تو اس کا خاندان تمھیں اور تمھارے خاندان کو قتل کر دے گا.اس لئے بہتر ہے کہ پہلے تم اپنے خاندان کی خبر لو تمھاری اپنی بہن مسلمان ہو چکی ہے تم دوسروں کو کیا کہتے ہو حضرت عمر یہ سن کر سیدھے اپنی بہن کے گھر کی طرف آئے.جس وقت حضرت عمران کے گھر پر پہنچے اُس وقت ایک صحابی ان کی بہن کو اور بہنوئی کو قرآن مجید پڑھا رہے تھے.حضرت عمرؓ نے دروازہ پر دستک دی آپ کی بہن اور بہنوئی نے اس صحابی کو چھپا دیا اور قرآن کریم کے پرچے بھی چھپادئے.جب حضرت عمر اندر داخل ہوئے تو آپ نے اپنی بہن سے پوچھا کیا چیز تھی جو تم پڑھ رہے تھے.انہوں نے کہا قرآن تھا.حضرت عمر نے پو چھا تمھیں کون پڑھارہا تھا ؟ انہوں نے کہا کہ آپ کو اس سے کیا تعلق.پھر حضرت مڑنے پوچھا.سنا ہے تم صابی ہو گئے اور یہ کہ کر اپنے بہنوئی کو مارنے کے لئے آگے بڑھے.جب آپ نے ہاتھ اوپر اٹھا کر بازوؤں کو زور سے حرکت دی تو ان کی بیوی کو یہ دیکھ کر کہ ان کا خاوند اسلام لانے کی وجہ سے پٹنے لگا ہے جوش آ گیا اور وہ دوڑ کر حضرت عمر اور اپنے خاوند کے درمیان آکر کھڑی ہوگئیں اور کہا.ہاں ہاں ہم مسلمان ہو گئے ہیں مارنا چاہتے ہو تو بے شک مارلو.عمر کا ہاتھ بلند ہو چکا تھا اور زور سے گھوم کر نیچے کی طرف آ رہا تھا.اب اس ہاتھ کو روکنا خود عمر کے اختیار میں بھی نہ تھا.چنانچہ بازوزور سے جنبش کھا کر نیچے گرا.اور حضرت عمرؓ کی بہن کے مُنہ پر اس زناٹے سے آکر لگا کہ کمرہ گونج گیا.حضرت عمر کی بہن کے ناک سے خون کا فوارہ پھوٹ پڑا.اور وہ عمر جو ابھی اپنے بہنوئی کو مار مار کر زمین پر لٹا دینے کے لئے تیار ہورہا تھا حیرت زدہ ہو کر اس نظارہ کو دیکھنے لگا.دولاکھ ظالم تھا.کافر تھا مگر عرب کے ایک شریف خاندان کا چشم و چراغ تھا.اس کی حمیت اور اس کی بہادری کی عمارت متزلزل ہوگئی.اچانک اپنے آپ کو ایک مجرم کی حیثیت میں کھڑا پایا.اس نے ایک عورت پر ہاتھ اٹھایا تھا.وہ اپنی بہن کے خون بہانے کا مجرم تھا جس کی حفاظت اس کا اولین فرض تھا.اس گھبراہٹ میں عمر کو اس کے سوا اور کچھ نہ سوچھا.نہایت مسکینی کے ساتھ اپنی بہن سے بولے.بہن الا و وہ کلام جو تم لوگ سن رہے تھے میں بھی اسے پڑھونگا.عمر کی بہن کے ایمان کا شعلہ اب بھڑک چکا تھا.اب وہ عورت نہ تھی ایک شیرنی تھی اب عمر مرد نہ تھا ایک گیدڑ تھا جو شیر کے حملہ کا انتظار کر رہا ہو.بہن نے کہا.کیا تم قرآن کو ہاتھ لگا سکتے ہو.تم جو پاک اور ناپاک میں فرق نہیں کر سکتے میں ہرگز تمھیں قرآن کریم کو ہاتھ لگانے دوں گی

Page 426

419 عمر نے حواینی ظالمانہ کرتوت کی ندامت کے اثر سے بھیگی تبھی بنے سامنے کھڑے تھے لجاجت کرتے ہوئے بہن سے کہا کہ بہن میں کیا کروں جس سے قرآن کریم کو ہاتھ لگانے کے قابل بن جاؤں.بہن نے کہا وہ سامنے غسل خانہ ہے وہاں جاؤ اور غسل کر کے آؤ پھر قرآن کریم کو ہاتھ لگانے دوں گی.عمر خاموشی سے وہاں گئے اور غسل کیا.پھر بہن کے سامنے آئے.اب بہن کے دل میں بھی امید کی شعاع پیدا ہونے لگی اور اس نے دھڑکتے دل سے سوچنا شروع کیا کہ شاید میرا کافر بھائی اسلام کی روشنی سے حصہ پالے.اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے قرآن کے وہ ورق جس کا سبق میاں بیوی لے رہے تھے عمر کے ہاتھ میں دیئے.عمرؓ نے قرآن کریم کو آج پہلے دن اس حالت میں پڑھا کہ ان کا دل تعصب سے آزاد تھا.ابھی چند آیات ہی پڑھی تھیں کہ قرآن کریم نے ان کے دل کو رام کرنا شروع کیا.کچھ آیتیں اور پڑھیں تو آنکھوں سے آنسو بہنے لگے.کچھ اور بڑھے تو اپنے کفر سے گھن آنے لگی.اپنی سابق زندگی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگے کچھ اور آیتیں پڑھیں تو دل ہاتھ سے صلى الله جاتا رہا.دیوانہ وار اٹھے اور بہن سے کہا محمد (ﷺ) کہاں رہتے ہیں.بہن بھائی کو محبت کی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی اور اس کے دل سے دعائیں نکل رہی تھیں کہ کاش میری ماں کا جایا دوزخ سے نجات پائے.اتنے میں کان میں آواز آئی بہن ! محمد کہاں رہتے ہیں.بھائی کی محبت کو اس آواز نے ہوا میں اُڑا دیا.محمد رسول اللہ کی محبت اب پورے جوش سے اس کے دل کے فوارہ سے پھوٹنے لگی.اس نے سوچا اگر عمر کا یہ جوش عارضی ہؤا.اگر اس کے دل میں بدنیتی کے خیال پوشیدہ ہوں.اگر اس نے میرے محبوب محمد کو قتل کرنے کا اردو کیا ہوتو پھر کیا میں کروں گی.اس نے عمر کے اسلام کے خیال کو دماغ کے پچھلے خلیوں میں دھکیل دیا اور محمد اللہ کی محبت کے جوش سے متوالی ہو کر عمرہ کا گریبان پکڑ لیا اور اس دیوانگی سے جسے محبت کے سوا اور کوئی چیز نہیں پیدا کر سکتی.چلائی خدا کی قسم میں تم کو میدے کے پاس جانے نہیں دوں گی پہلے قسم کھاؤ کہ تم کسی بد ارادہ سے نہیں جار ہے.عمرؓ نے بہن کی طرف مسکین نگاہوں سے دیکھا جس طرح مُرغ بسمل ذبح کے وقت دیکھتا ہے.اور کہا بہن ! میں مسلمان ہونے جارہا ہوں یہ کلام کیا تھا مر دہ بہن کو زندہ کرنے والا تھا.اس نے عمر کا گریبان چھوڑ دیا اور اپنے خدا کا شکر ادا کیا جس نے بچھڑے ہوئے بھائی کو پھر سے بہن کو ملا دیا جس نے خطاب کے گھرانہ کی دوزخ کو جنت سے بدل دیا اور کہا رسول ام ہانی کے گھر پر ہیں اور عمر خاموشی سے

Page 427

420 اس گھر کی طرف چل پڑے.جب آپ رسول کریم ہے کے مکان پر پہنچے اور دستک دی تو صحابہ نے دروازوں کی دراڑوں میں سے دیکھ کر رسول کریم ﷺ کو بتایا کہ باہر عمر تلوار لئے کھڑے دستک دے رہے ہیں اور مشورہ دیا کہ اس وقت دروازہ کھولنا مناسب نہ ہوگا لیکن رسول کریم ﷺ نے فرمایا.کوئی حرج نہیں تم دروازہ کھول دو.حضرت عمرؓ اسی طرح تلوار لئے اندر داخل ہوئے رسول کریم علیہ آگے بڑھے اور عمر کا گریبان پکڑ کر کھینچا اور فرمایا عمر تمھارے بد ارادے ابھی تک بدلے نہیں.حضرت عمرؓ نے آنکھیں نیچی کر لیں اور کہا یا رسول اللہ ! میں کسی بد ارادے سے نہیں آیا بلکہ آپ کے غلاموں میں شامل ہونے آیا ہوں.ران کلمات کا سننا تھا کہ مسلمانوں نے جوش سے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا جس سے مکہ کی فضا ایک سرے سے دوسرے سرے تک گونج گئی.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر کا اسلام لانا ایک عورت کی تبلیغ اور قربانی کے نتیجہ میں تھا.اور جو جو کام حضرت عمر نے اسلام لانے کے بعد کئے ان میں حضرت عمر کی بہن برابر کی شریک تھیں کہ آپ کے اسلام لانے کا وہی موجب ہوئیں.رسول کریم نے کو ہجرت کی تحریک کرنے کے لئے جو وفد مدینے سے رسول کریم اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اس وفد میں ایک عورت بھی تھی جو اصرار کے ساتھ اس وفد میں شامل ہوئی تھی.یہ وفد رسول کریم کو رات کے ایک بجے ملا اُس وقت بھی وہ عورت اس وفد کے ساتھ تھی.اس وفد نے رسول کریم سے یہ خواہش ظاہر کی کہ آپ جب بھی ہجرت کریں تو مدینہ تشریف لائیں.یہ عورت اس جوش اور اخلاص کی مالک تھی کہ ہمیشہ جہاد میں حصہ لیتی اور اپنی اولاد کی اس طرح تربیت کی کہ وہ اسلام کے جانثار سپاہی ثابت ہوئے.جب رسول کریم ﷺ نے ہجرت کا ارادہ کیا اس وقت بھی آپ کی ہجرت میں ایک عورت نے خاص طور پر حصہ لیا.رسول کریم ہے کے لئے مکہ سے روانگی کے وقت آخری کھانا حضرت عائشہ کی بڑی بہن اسماء نے بنایا.اس زمانہ میں کپڑے بہت کم ہوتے تھے.عورتوں کے پاس ایک ہی بڑی سی چادر ہوتی تھی جس کو وہ ساڑھی کی طرح اپنے ارد گرد لپیٹ لیتی تھیں.بہت سے مردوں کو ایسی چادر بھی نہیں ملتی تھی وہ صرف تہ بندی باندھتے تھے.حضرت اسماء جس وقت رسول کریم ہے کے لئے کھانا باندھنے لگیں تو انہیں کوئی کپڑا نہ

Page 428

421 ملا.انہوں نے اپنی ساڑھی سے ہی ایک ٹکڑا پھاڑ کر اس میں کھانا باندھا اور ساڑھی کے پھٹ جانے کی وجہ سے جہاں سے کپڑا پھاڑا تھا وہاں دوٹکڑے ہو گئے.وہ ایک ٹکڑے کو کمر کے گرد لپیٹ لیا کرتی تھیں اس وجہ سے ان کا نام ذات النطاقین پڑ گیا.عام طور پر ایسی پھٹی ہوئی ساڑھی لونڈیاں باندھتی تھیں.ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کے بعد ایک موقع پر عبداللہ بن زبیر کو کسی شخص نے کہا کہ وہ ذات النطاقین کے بیٹے ہیں یعنی لونڈی کے.ایک صحابی نے جب یہ سنا تو اُس نے کہا تمھیں یہ طعنہ دیتے ہوئے خیال نہیں آیا کہ اس کی ماں کو ذات النطاقین کیوں کہا جاتا تھا.جس لباس کے نام کی وجہ سے تم اسے لونڈی کا طعنہ دیتے ہو اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنی ساڑھی کا ایک ٹکڑا پھاڑ کر رسول کریم نے کے لئے کھانا باندھا تھا.پس یہ طعنہ نہیں یہ اس کی ماں کی فضلیت کی دلیل ہے.جب رسول کریم اللہ مدینہ تشریف لے گئے تو جیسی مردوں کو خوشی تھی ویسی ہی عورتوں کو خوشی تھی.مدینہ کی عورتیں دیوانہ وار گیت گاتی ہوئی رسول کریم ﷺ کے استقبال کو نکلیں.وہ اللہ تعالے کا شکر ادا کرتی تھیں کہ اس نے ان کے لئے ثنية الوداع سے چاند چڑھا دیا ہے.وہ والہانہ طور پر شعر گاتی تھیں طلع البدر علينا من ثنية الوداع اے لوگو دیکھو تو.لوگوں کا چاند مشرق سے نکلتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمارا چاند ثنیۃ الوداع سے چڑھا دیا.اس کے بعد مدینہ کی مسلمان عورتوں نے اپنی متواتر قربانیوں سے شان دار مثالیں قائم کیں.قربانی کی وہ مثالیں جو صحابیات نے قائم کیں ان کی نظیر آج تک کسی قوم کی عورتوں میں نہیں ملتی.اُحد کی جنگ میں جب رسول کریم مہ کے شہید ہونے کی خبر پھیل گئی اور جب کمزور اور بزدل لوگ میدانِ جنگ سے بھاگ کر مدینہ کی طرف آرہے تھے.مدینہ کی عورتیں اُحد کے میدان کی طرف دیوانہ وار دوڑی جاتی تھیں اور بعض عورتیں تو میدانِ جنگ تک جاپہنچیں.ایک عورت کے متعلق آتا ہے کہ جب وہ میدانِ جنگ میں پہنچیں تو انہوں نے ایک مسلمان سے رسول کریم ﷺ کی خیریت کے متعلق پوچھا تو اس شخص نے جواب دیا کہ بی بی تمھارا باپ مارا گیا ہے.اسنے کہا میں تم سے اپنے باپ کے متعلق نہیں ہر چھو رہی میں تو رسول کریم کے متعلق پوچھتی ہوں.بعض روایتوں میں آتا ہے کہ اس شخص نے اس کے باپ، بھائی، بیٹا اور خاوند

Page 429

422 صلى الله صلى الله چاروں کے مرنے کی اطلاع اسے دی.اور بعض روایات میں آتا ہے کہ اسنے اس کے تین رشتہ داروں یعنی باپ.بھائی اور خاوند کے مرنے کی اطلاع دی لیکن ہر دفعہ اس عورت نے یہی کہا کہ میں تم سے رشتہ داروں کے متعلق نہیں پوچھتی میں تو یہ پوچھتی ہوں کہ رسول کریم ﷺ کا کیا حال ہے.اسنے کہا کہ رسول کریم خیریت سے ہیں.اس کے بعد پھر وہ میدانِ جنگ کی طرف بھاگ پڑی اور وہ فقرہ جو وہ کہتی تھی اس سے پرچ لگتا ہے کہ اس کے دل میں رسول کریم ہی اے کی کتنی محبت تھی.وواحد کے میدان کی طرف دوڑی جاتی تھی اسے جو سیاہی ما اسے کہتی مافعل رَسُولُ الله (ﷺ ) ارے.رسول کریم ﷺ نے یہ کیا کیا.یہ فقرہ خالص طور پر عورتوں کا فقرہ ہے.کوئی مرد اپنے پاس سے یہ فقرہ نہیں بنا سکتا کیونکہ جب کسی عورت کا بچہ یا اس کا خاوند فوت ہو جائے تو وہ کہتی ہے ارے تم نے یہ کیا کیا تم ہمیں چھوڑ کر چلے گئے.پس یہ فقرہ کہ رسول کریم ﷺ نے یہ کیا کیا ایک زنانہ آواز ہے اور کوئی مورخ ایسا جھوٹا فقر نہیں بنا سکتا.کیونکہ عورتوں کے سوا یہ فقرہ کسی اور کے منہ سے نہیں نکل سکتا.وہ عورت یہ کہتی جاتی تھی کہ ہائے رسول اللہ (ﷺ) نے یہ کیا کیا الله کہ آپ شہید ہو گئے اور ہمیں چھوڑ کر چلے گئے.اسے صحابہ کے بتا دینے پر بھی تسلی نہ ہوئی اور اصرار کیا کہ تم مجھے رسول کریم ﷺ کے پاس لے چلو.جب اسے رسول کریم نے نظر آئے تو وہ بھاگتی ہوئی آپ کے پاس پہنچی اور آپ کا دامن پکڑ لیا.رسول کریم ﷺ نے فرمایا.بی بی امجھے افسوس ہے کہ تیرا باپ اور تیرا بھائی اور تیرا خاوند لڑائی میں مارے گئے.اُس عورت نے جواب دیا جب آپ زندہ ہیں تو مجھے کسی اور کی موت کی پرواہ نہیں.یہ وہ عشق تھا جو ان عورتوں کو پروانہ وار قربانیوں کے میدان میں کھینچے لئے آتا تھا.جو عہد انہوں نے اللہ تعالے سے کیا اس کو سچا کر دکھایا.جنگ سے واپسی پر رسول کریم ﷺ کی سواری کی باگ حضرت سعد بن معاذ پکڑے ہوئے فخر سے چلے آرہے تھے.جنگ میں آپ کا بھائی بھی مارا گیا تھا.مدینہ کے قریب پہنچ کر حضرت سعد نے اپنی ماں کو آتے ہوئے دیکھا اور کہا.یا رسول اللہ میری ماں آ رہی ہے.حضرت سعد کی والدہ کی عمر اسی بیاسی سال کی تھی.آنکھوں کا نُور جا چکا تھا.دھوپ چھاؤں مشکل.نظر آتی تھی.رسول کریم منانے کی شہادت کی خبر سن کر وہ بڑھیا بھی لڑکھڑاتی ہوئی مدینہ سے باہر نکلی جارہی ނ

Page 430

423 جب حضرت سعد نے کہا.یا رسول اللہ میری ماں آ رہی ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری سواری کو شہر الو.جب آپ اس بوڑھی عورت کے قریب آئے تو اس نے اپنے بیٹوں کے متعلق کوئی خبر نہیں پوچھی.صلى الله پوچھا تو یہ پوچھا کہ رسول کریم ہے کہاں ہیں.حضرت سعد نے جواب دیا.آپ کے سامنے ہیں.اس الله بوڑھی عورت نے او پر نظر اٹھائی اور اس کی کمزور نگاہیں رسول کریم ﷺ کے چہرے پر پھیل کر رہ گئیں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا.بی بی ! مجھے افسوس ہے تمھارا جوان بیٹا اس جنگ میں شہید ہو گیا ہے.بڑھاپے میں کوئی شخص ایسی خبر سنتا ہے تو اس کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں لیکن اس بڑھیا نے کیسا محبت بھرا جواب دیا کہ یا رسول اللہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں مجھے تو آپ کی خیریت کا فکر تھا.یہی وہ عورتیں تھیں جو اسلام کی اشاعت اور تبلیغ میں مردوں کے دوش بدوش چلتی تھیں.اور یہی وہ عورتیں تھیں جن کی قربانیوں پر اسلامی دنیا فخر کرتی ہے تمھارا بھی دعوی ہے کہ تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لائی ہو.اور حضرت مسیح موعود سول کریم کے بروز ہیں.گویا دوسرے لفظوں میں تم صحابیات کی بروز ہو لیکن تم صحیح طور پر بتاؤ کہ کیا تمھارے اندر دین کا وہی جذبہ موجزن ہے جو صحابیات میں تھا، کیا تمھارے اندر وہی نور موجود ہے جو صحابیات میں تھا ،کیاتمھاری اولادیں ویسی نیک ہیں جیسی صحابیات کی تھیں، اگر تم غور کرو تو تم اپنے آپ کو صحابیات سے بہت پیچھے پاؤ گی.سحابیات نے جو قربانیاں کیں آج تک دنیا کے پردے پر اس کی مثال نہیں ملتی.ان کی قربانیاں جو انہوں نے اپنی جان پر کھیل کر کیسں اللہ تعالے کو ایسی پیاری لگیں کہ اللہ تعالے نے بہت جلد اُن کو کا میابی عطا کی اور دوسری قومیں جس کام کو صدیوں میں نہ کر سکیں ان کو صحابہ اور صحابیات نے چند سالوں کے اندر اندر کر کے دکھا دیا.رسول کریم ﷺ ہجرت کر کے جب مدینہ پہنچے اس وقت آپ تن تنہا تھے.آپ ایک بے کس اور بے بس وجود تھے لیکن ابھی آٹھ سال نہیں گزرے تھے کہ آپ فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے.آٹھ سال کے اندراندر مردوں اور عورتوں نے ایسے رنگ میں قربانیاں کیں کہ اللہ تعالے کا فضل

Page 431

424 ان کے لئے جوش میں آیا اور ان پر کامیابی کے دروازے کھول دئے.رسول کریم ﷺ کی وفات کے وقت تمام عرب میں اسلام پھیل چکا تھا.رسول کریم ﷺ کی صحابیات ہر قربانی پر آپ سے یہ عرض کرتی تھیں کہ یا رسول اللہ ! کیا ان قربانیوں میں ہمارا حصہ نہیں ہے.مرد ہر میدان میں قربانی کے لئے اپنے آپکو پیش کرتے ہیں لیکن ہم جہاد وغیرہ میں حصہ نہیں لے سکتیں آپ ہمیں کیوں اس میں حصہ نہیں لینے دیتے.اُس زمانہ کی عورتیں قربانی کے کام کر کے مردوں کا مقابلہ کرتی تھیں.اور آج کل کی عورتیں اپنے تجھے مین سے مردوں کا مقابلہ کرتی ہیں.رسول کریم ﷺ ایک دفعہ جنگ کے لئے جانے لگے تو ایک صحابیہ بھی لشکر میں آشامل ہوئیں.جب صحابہ نے اس کو منع کیا تو اس عورت نے کہا کیوں ، ہم کیوں نہ جائیں، کیا ہم پر اسلام کی خدمت فرض نہیں.اس کا یہ جواب سنکر رسول کریم میں نے ہنس پڑے اور فرمایا اسے بھی ساتھ لے چلو.زخمیوں کو پانی پلانا اور ان کی مرہم پٹی کرنے کا کام اس کے سپرد کر دیا.فتح کے بعد جب مال غنیمت تقسیم ہو ا تو مال غنیمت میں اس عورت کا حصہ بھی ایک مرد کے برابر رکھا گیا.اس کے بعد رسول کریم ﷺ کا یہ معمول تھا کہ جب آپ جنگ کے لئے جاتے تو کچھ عورتوں کو بھی ساتھ لے جاتے جو نرسنگ کا کام کرتیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتیں.اکثر دفعہ آپ کی بیویاں بھی جنگ میں شامل ہوتیں اور نرسنگ کا کام کرتیں.جنگ اُحد میں رسول کریم ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ بھی شامل تھیں.کوئی جنگ ایسی نہیں جس میں صحابیات پیچھے رہی ہوں.اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالے جہاں مومن مردوں کا ذکر کرتا ہے وہاں مقابل میں عورتوں کا بھی ذکر کرتا ہے.اگر یہی جذ بہ آج ہماری عورتوں میں بھی پیدا ہو جائے تو احمدیت بہت جلد ترقی کرنے لگے.لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری عورتیں یہ مجھتی ہیں کہ تبلیغ کرنا اور اسلام کے لئے قربانی کرنا صرف مردوں کا کام ہے ہمارا کام صرف کھانا پکانا اور بچوں کو پالنا ہے.تم میں سے کتنی ہیں جو باقاعدہ طور پر تبلیغ کرتی ہیں؟ میرا خیال ہے کہ عورتوں کی تبلیغ سے ہزار میں سے ایک عورت بھی ایسی نہیں جو کسی احمدی عورت کی تبلیغ کی وجہ سے احمدی ہوئی ہو.اکثر عورتیں ایسی ہیں کہ جن

Page 432

425 کے خاوند احمدی ہوئے اور وہ احمدی ہو گئیں یا جن کے بھائی احمدی ہوئے اور وہ احمدی ہوگئیں یا جن کے باپ احمد کی ہوئے اور وہ احمدی ہو گئیں.یا جن کے بیٹے احمدی ہوئے اور وہ احمدی ہو گئیں.ان عورتوں کا ایمان مرہونِ منت ہے مردوں کا.تمھارے ہمسایہ میں ہزاروں ہزار عورتیں رہتی ہیں.مرد عورتوں کو تبلیغ نہیں کر سکتے عورتیں ہی عورتوں کو تبلیغ کر سکتی ہیں.اگر تم اپنے فرض کو سمجھو اور ہر سال دہلی میں دو چار سو مرد مردوں کی تبلیغ کے ذریعے احمدیت میں داخل ہوں اور دو چار سو عورتیں عورتوں کی تبلیغ کے ذریعے احمدیت میں داخل ہوں تو یہ دو چار سو مرد اور دو چار سو عورتیں ہی صرف احمدیت میں داخل نہیں ہوں گے بلکہ ان کے ساتھ ان کے بھائی بہنیں اور بیٹے اور بچے بھی احمدیت میں داخل ہوں گے اور اس طرح تبلیغ کی رفتارو گتی ہو جائے گی.لیکن میں تم سے پوچھتا ہوں کہ کیا تم نے کبھی تبلیغ کے لئے اپنے دل میں درد محسوس کیا ہے اور کیا کبھی تم نے یہ سمجھنے کی کوشش بھی کی ہے کہ احمدیت میں داخل ہونے کی وجہ سے تم پر کیا کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.احمد بیت اس کا نام نہیں کہ چند روپے چندہ دے دیا یا منہ پر پانی کے چند چھینٹے ڈالے اور وضو کر کے دو چارسجدے اور رکوع کردئے.بلکہ احمدیت اللہ تعالیٰ سے ایسے تعلق کا نام ہے کہ جس کی وجہ سے اللہ تعالے سے بندے کا اتصال ہو جائے اور بندہ اللہ تعالیٰ کے پیاروں اور محبوبوں میں شامل ہو جائے.اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں فرق نہیں کرتا.اس کا دروازہ ہر ایک بندے کے لئے کھلا ہے.لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ بندہ اپنے اندر یہ تڑپ پیدا کرلے کہ میں اللہ تعالیٰ سے ملے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اور میری زندگی کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں جس طرح مردوں نے قربانیاں کیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے مورد بنے اسی طرح جن عورتوں نے اللہ تعالیٰ کے رستے میں قربانیاں کیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی مورد ہنیں.بلکہ وہ بعض باتوں میں مردوں سے بھی آگے نکل گئیں.تفقہ میں جو درجہ حضرت عائشہ کو حاصل ہے وہ کسی مرد کو حاصل نہیں.

Page 433

426 آج خاتم النبیین کا مسئلہ ہمارے اور غیر احمدیوں کے درمیان ما بہ النزاع مسئلہ ہے.ہم یہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے بعد آپ کے تابع نبی آسکتے ہیں.لیکن غیر احمدی یہ کہتے ہیں کہ رسول کریم اے کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہے اور کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آ سکتا.اور اسی اختلاف کی وجہ سے سالہا سال سے ہمارے اور ان کے درمیان یہ جھگڑا چلا آتا ہے.اس جھگڑے کو ایک عورت نے کیا اچھاحل کیا ہے.رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد حضرت عائشہ نے کچھ لوگوں کو باتیں کرتے سنا جو خاتم النبیین کی جگہ لانبی بعدہ کے الفاظ پر زور دیتے تھے.حضرت عائشہ نے ان کی باتیں سنیں تو فرمایا:.قُولُوا انّه ، خَاتَمَ الأنْبِيَاءِ وَلَا تَقُولُوا لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ تم یہ تو بے شک کہو کہ آپ خاتم الانبیاء ہیں لیکن یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا.آپ نے یہ فقرہ کہہ کر اُن لوگوں پر واضح کر دیا کہ خاتم انہین کے یہ معنی نہیں کہ آپ کے بعد نبی نہیں آسکتا.حضرت عائشہ نے اس خطرہ کو محسوس کیا کہ لوگ اس غلطی میں مبتلا نہ ہو جائیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا.کیونکہ آپ یہ جانتی تھیں کہ خود رسول کریم ﷺ نے اپنے بعد ایک نبی کے آنے کی پیشگوئی فرمائی ہے اور قرآن کریم میں آپ کے متعلق یہ پیشگوئی ہے کہ آپ کی بعثت دوبارہ ہوگی.اور آپ یہ بھی جانتی تھیں کہ مردے دوبارہ زندہ نہیں ہوتے اور آپ کی اس بعثت سے مراد آپ کا بروز ہے.حضرت عائشہ اس بات کو سمجھ گئیں.لیکن بعض دوسرے جلیل القدر صحابہ اس بات کو نہ سمجھ سکے.بے شک حضرت عائشہ کا ایک قول بھی اس قسم کا ہے لیکن حضرت علیؓ کا قول سب سے زیادہ زور دار ہے.حضرت علی کے بیٹوں حسن اور حسین کو ایک شخص پڑھایا کرتا تھا.حضرت علی ایک دفعہ اپنے بچوں کے پاس سے گزرے تو آپ نے سنا کہ آپ کے بچوں کو ان کا استاد خاتم الیقین پڑھار ہا تھا.حضرت علی نے فرمایا میرے بچوں کو خاتم انھین نہ پڑھاؤ بلکہ خاتم انہیں پڑھایا کرو.یعنی بے شک یہ دونوں قرآتیں ہیں لیکن میں خاتم النبیین کی قرآت کو زیادہ پسند کرتا ہوں.کیونکہ خاتم النبیین کے معنی ہیں نبیوں کی مہر اور خاتم النبیین کے معنے ہیں نہیوں کو ختم کرنے والا.میرے بچوں کو تا کی زہر سے پڑھایا کرو.آج ہر مسلمان خواہ وہ عالم ہو یا جاہل ہو احمدیوں کے سوا یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ رسول کریم نے کے بعد کوئی

Page 434

427 نبی نہیں آسکتا.لیکن آج سے تیرہ سو سال قبل حضرت عائشہ نے اس غلطی کو تاڑ لیا اور بہت زور دار لفظوں میں اس کی تردید کی.کتنا عظیم الشان حل ہے جو حضرت عائشہ نے پیش کیا.اس قسم کی اور بہت سی مثالیں ہیں اور بہت سے مواقع ہیں جن میں عورتیں مردوں پر سبقت لے گئیں.ایک دفعہ رسول کریم اللہ نے ایک لشکر جنگ کے لئے بھیجا اور اس کا سردار حضرت زید کو بنایا.حضرت زید رسول کریم اللہ کے غلام تھے جن کو آپ نے آزاد کر دیا تھا.آزاد ہونے کے بعد حضرت زید نے رسول کریم اللہ کا ساتھ چھوڑنا پسند نہ کیا.حضرت زید کے چچا اور ان کے والد ان کو لینے کے لئے آئے.انہوں نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ آپ زید کو ہمارے ساتھ جانے کی اجازت دے دیں اس کی والدہ روتے روتے اندھی ہوگئی ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا.میں زید کو آزاد کر چکا ہوں اور اس کو میری طرف سے اجازت ہے کہ وہ خوشی کے ساتھ چلا جائے آپ نے زیڈ کو بلایا اور فرمایا کہ دیکھو تمھارا باپ اور تمھارا چا تمھیں لینے آئے ہیں تم ان کے ساتھ چلے جاؤ.حضرت زید اصل میں آزاد خاندان سے تعلق رکھتے تھے.ان کو بچپن میں عیسائی ڈا کو پکڑ کر لے گئے تھے اور کسی کے ہاتھ فروخت کر دیا تھا.آخر بسکتے سکتے وہ حضرت خدیجہ کے ہاتھ پک گئے تھے.جب رسول کریم کی حضرت خدیجہ سے شادی ہوئی تو حضرت خدیجہ نے یہ غلام آپ کی نذر کر دیا اور رسول کریم نے اسے آزاد کر دیا.حضرت زید کے والد نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ آپ جتنا روپیہ لینا چاہتے ہیں لے لیں اور زید کو آزاد کر دیں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں تو اُس کو پہلے ہی آزاد کر چکا ہوں اور اسے میری طرف سے اجازت ہے کہ وہ تمھارے ساتھ چلا جائے.آپ نے زید کو فرمایا کہ تمھارے ماں باپ کو تمھاری جدائی کی وجہ سے صدمہ ہے اب تم اپنے باپ کے ساتھ چلے جاؤ.لیکن حضرت زید نے کہا آپ بے شک مجھے آزاد کر چکے ہیں لیکن میں اپنے آپکو آزاد نہیں سمجھتا.میں آپ کو کسی حالت میں بھی چھوڑنے کے لئے تیار نہیں اور آپ مجھے ماں باپ سے بھی زیادہ عزیز ہیں.پھر اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اپنی ماں سے بہت محبت ہے میری ماں کو میری طرف صلى الله سے سلام کہنا اور یہ عرض کرنا کہ مجھے تیری محبت سے رسول کریم ﷺ کے ساتھ زیادہ محبت ہے.جب حضرت

Page 435

428 صلى الله زید نے اپنے باپ کو یہ جواب دیا تو رسول کریم ﷺ کا دل محبت سے بھر گیا اور آپ نے کھڑے ہو کر اعلان کیا لوگو سن لو.آج سے زید میرا بیٹا ہے.اس وقت تک ابھی معنی کی رسم جاری تھی اور اس کے امتناع کا حکم نازل نہیں ہوا تھا.وہ لشکر جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے اس کا افسر آ نحضرت ﷺ نے ان ہی زید کو مقرر کیا تھا.مگر ساتھ ہی سید ارشاد فرمایا کہ میں اس وقت زید کو لشکر کا سردار بناتا ہوں.اگر زید لڑائی میں مارے جائیں تو ان کی جگہ جعفر" لشکر کی کمان کریں.اگر وہ بھی مارے جائیں تو عبد اللہ بن روائح کمان کریں.اگر وہ بھی مارے جائیں تو پھر جس پر مسلمان متفق ہوں وہ فوج کی کمان کرے.جس وقت آپ نے یہ ارشاد فرمایا اُس وقت ایک یہودی بھی آپ کے پاس بیٹھا ہو ا تھا.اُس نے کہا میں آپ کو نبی تو نہیں مانتا لیکن اگر آپ کچے نبی ہیں تو ان تینوں میں سے کوئی بھی زندہ بچ کر نہیں آئے گا.کیونکہ نبی کے منہ سے جو بات نکلتی ہے وہ پوری ہو کر رہتی ہے.وہ یہودی حضرت زید کے پاس گیا اور انہیں بتایا کہ اگر تمھارا رسول سچا ہے تو تم زندہ واپس نہیں آؤ گے.حضرت زید نے فرمایا میں زندہ آؤں گا یا نہیں آؤں گا اس کو تو اللہ ہی جانے مگر ہمارا رسول ضرور سچا ہے.اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ یہ واقعہ بالکل اسی طرح پورا ہوا پہلے زید شہید ہوئے اور ان کے بعد حضرت جعفر نے لشکر کی کمان سنبھالی وہ بھی شہید ہو گئے اور ان کے بعد حضرت عبداللہ بن رواغ نے لشکر کی کمان سنبھالی لیکن وہ بھی مارے گئے اور قریب تھا کہ لشکر میں انتشار پیدا ہو جاتا کہ حضرت خالد بن ولید نے بعض مسلمانوں کے کہنے سے جھنڈے کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا.اللہ تعالے انے ان کے ذریعہ مسلمانوں کو فتح دی اور وہ خیریت سے لشکر کو واپس لے آئے.جب یہ لشکر مدینہ پہنچا تو جو مسلمان جنگ میں شہید ہوئے تھے ان کے رشتہ داروں نے ان پر واویلا کرنا شروع کیا.اس وقت رسول کریم ﷺ نے محسوس کیا کہ جعفر کے گھر میں سے چیخنے چلانے کی آواز میں نہیں آتی تھیں شاید اس وجہ سے کہ حضرت جعفر رسول کریم اللہ کے بھائی تھے اس لئے ان کے گھر والے شریعت کے زیادہ واقف تھے اور انہوں نے صبر کا اعلیٰ نمونہ دکھایا.یا اس وجہ سے کہ بوجہ مہاجر ہونے کے گھر میں صرف ان کی بیوی ہی تھیں اور کوئی ہمدرد نہ تھا.

Page 436

429 اُس وقت سارے مدینے میں ایک گہرام مچا ہوا تھا اور عورتیں اپنے اپنے رشتہ داروں پر رورہی تھیں لیکن جعفر کا گھر سنسان پڑا تھا.غرض اس فرق کو دیکھ کر آپ کے منہ سے یہ فقرہ نکلا کہ جعفر پر رونے والا کوئی نہیں.آپ کے منہ سے اس فقرہ کا نکلنا تھا کہ صحابہ کے سرندامت کے مارے جھک گئے اور اُن میں سے کئی مجلس سے اُٹھ کر اپنے اپنے گھروں کو گئے اور اپنی بہنوں اور بیویوں سے کہا تم یہاں کیا کر رہی ہو رسول کریم اللہ فرماتے ہیں کہ سب لوگ اپنے رشتہ داروں پر رور ہے ہیں لیکن جعفر کے گھر میں رونے والا کوئی نہیں.یہ بات سنتے ہی مدینے کی تمام عورتیں حضرت جعفر" کے گھر جمع ہو گئیں (اس وقت عربوں میں بین کرنے کا رواج موجود تھا اور ابھی تک اس کی ممانعت نہیں ہوئی تھی ) عورتوں نے زور زور سے رونا اور پیٹنا شروع کیا.ان کے رونے کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا مد ینہ میں ایک کہرام بچ گیا ہے.رسول کریم ﷺ نے یہ شور سن کر صحابہ سے پوچھا کہ یہ شور کیسا ہے.صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ ! آپ نے جو کہا تھا کہ جعفر کے گھر میں رونے والا کوئی نہیں آپ کے اس فقرہ کو سکر تمام مدینہ کی عورتیں جعفر کے گھر جمع ہوگئی ہیں وہ جعفر پر رورہی ہیں.آپ نے فرمایا میرا یہ مطلب تو نہیں تھا.میں رونے کو پسند نہیں کرتا جاؤ اور ان کو منع کرو.لیکن اب عورتیں بھی اس جذبہ کے ماتحت رورہی تھیں کہ رسول کریم مہینے کا بھائی شہید ہو گیا ہے.اُن کے دلوں میں ندامت پیدا ہو چکی تھی کہ ہم اپنے خاوندوں اور بھائیوں پر تو رورہی تھیں لیکن رسول کریمہ کے بھائی پر رونے والا کوئی نہیں اس لئے یہ رونا محبت و عشق کا رونا تھا اور سچا جوش اس میں پایا جاتا تھا.اتنے میں ایک صحابی وہاں آگئے اور کہا چُپ کرو چپ کرو.روؤ نہیں کیونکہ اس طرح رونے کو رسول کریم ﷺے پسند نہیں کرتے.عورتوں نے اُسے جواب دیا.جا جا اپنے گھر بیٹھ.رسول کریم کے کا بھائی شہید ہو جائے اور ہم نہ روئیں.جب وہ عورتیں رونے سے باز نہ آئیں تو وہ صحابی رسول کریم ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ میں نے ان کو بہت منع کیا لیکن وہ رونے سے باز نہیں آتیں.آپ نے فرمایا جانے دو رو رو کر خود خاموش ہو جائینگی آپ نے اس موقع پر یہ الفاظ بیان فرمائے احث التراب على وجوههن.کہ ان کے مونہوں پر مٹی ڈالو.مطلب یہ تھا کہ ان کو چھوڑ دو.پنجابی میں بھی کہتی ہیں اس نوں کھیہہ کھان دے.مطلب یہ کہ اس کو چھوڑ دے.معلوم ہوتا ہے کہ وہ صحابی کوئی زیادہ ذہین نہ تھے انہوں نے احث التراب علی وجوھھن.کے الفاظ سنے اور واپس آگئے.آ کر اپنی چادر میں مٹی

Page 437

430 ڈالی اور عورتوں کے مونہوں پر ڈالنی شروع کر دی.حضرت عائشہ نے دیکھ لیا اور اُس صحابی سے پوچھا یہ کیا کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے احث التراب على وجو ھھن.حضرت عائشہ نے فرمایا تم کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ اس سے آپ کا منشاء کیا ہے آپ کا منشاء ہے کہ ان کو چھوڑ دو وہ خود بخود خاموش ہو جائیں گی.اب دیکھو رسول کریم ﷺ کے اس فقرہ کو ایک صحابی مر نہیں سمجھ سکا لیکن حضرت عائشہ اس کو سمجھ گئیں.پس کوئی صیغہ دین کا اور قربانی کا ایسا نہیں تھا جس میں عورتیں پیچھے ہوں.جن عورتوں کی مثالیں میں نے تمھارے سامنے بیان کی ہیں وہ بھی عورتیں ہی تھیں.فرق صرف اتنا ہے کہ وہ تمھاری طرح نازک اندام نہ تھیں اور وہ اپنے فرائض کو بجھنے والی تھیں.اگر تم چاہتی ہو کہ انہی انعامات کی وارث بنو جو صحابہ اور صحابیات پر ہوئے تو ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرو.اب باتیں کرنے کے دن نہیں رہے اب ہر دن جو مسلمانوں پر چڑھتا ہے ان کے لئے زیادہ سے زیادہ آفتیں اور مصائب لاتا ہے.اور جو آ سکند و مردوں پر آئیں گی اُس میں تم بھی اسی طرح شریک ہوگی جس طرح مردان مصائب میں حصہ دار ہوں گے.کابل میں جو احمدی شہید کئے گئے ان میں سے اکثر کی بیویوں اور بچوں کو سخت سے سخت مصائب کا سامنا کرنا پڑا.عورتیں بیوہ ہو گئیں اور بچے یتیم ہو گئے.اور ایک لمبے عرصہ تک انہیں قید کی مصیبتیں برداشت کرنا پڑیں.اسی طرح اگر آئندہ زمانہ میں احمدیت کے لئے مصائب پیدا ہوں گے تو اس میں تم بھی برابر کی حصہ دار ہوگی.پس ہوشیار ہو جاؤ اور سُستیوں کو ترک کرو.جب تک عورتیں مردوں کے ساتھ ہر کام میں اُن کے دوش بدوش نہیں چلتیں اُس وقت تک تبلیغ کامیاب نہیں ہو سکتی.اور اس وقت تک اسلام دنیا پر غالب نہیں ہو سکتا.مجھے یہاں کی لجنہ اماءاللہ کی سیکرٹری سے یہ بات سن کر بہت تکلیف ہوئی کہ عورتیں دینی کاموں میں بہت کم حصہ لیتی ہیں اور لجنہ کے اجلاس میں بہت کم عورتیں حاضر ہوتی ہیں.اکثر عورتیں یہ کہ دیتی ہیں کہ ہمیں اپنے کاموں سے فرصت نہیں ہوتی.بعض کہ دیتی ہیں کہ ہمارے مرد ہمیں باہر نہیں نکلنے دیتے.کیا تم مجھتی ہو کہ تمھارا ایمان تمھارے خاوندوں اور تمھارے بھائیوں کے ماتحت ہے.ایسے موقع پر تمھیں چاہیئے کہ اگر تمھارا بھائی یا تمھارا خاوند تمھیں دینی کاموں میں حصہ لینے سے روکے تو تم اُسے صاف کہہ دو کہ اس معاملہ میں میں تمھاری بات ماننے کو تیار نہیں.مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب میں نے دینا ہے.

Page 438

نہ کہ تم نے.431 جب پردے کا حکم نیانیا نازل ہوا تو ایک صحابی نے ایک شخص سے درخواست کی کہ میں آپکی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں.وہ شخص رضا مند ہو گیا.لیکن شادی کرنے والے نے یہ شرط لگائی کہ جب تک میں لڑکی کو دیکھ نہ لوں اُس وقت تک شادی نہیں کروں گا.جب اس نے یہ شرط پیش کی تو لڑکی والے نے انکار کر دیا کہ ہم لڑکی دکھانے کے لئے تیار نہیں.وہ صحابی جو شادی کا خواہشمند تھا رسول کریم نے کی مجلس میں صلى الله حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ایک آدمی شادی کرنا چاہتا ہے لیکن لڑکی والے دکھانے سے انکار کرتے ہیں ایسی صورت میں کیا کیا جائے.آپ نے فرمایا کہ اسلام نے عورتوں کے لئے پردے کا حکم دیا ہے لیکن شادی کے موقع پر اسلام نے اجازت دی ہے کہ مرد عورت کو دیکھ سکتا ہے.رسول کریم میلے کا یہ جواب سنکر وہ شخص پھر لڑکی والوں کے پاس گیا اور کہا کہ میں نے رسول کریم نے سے پو چھا ہے آپ فرماتے ہیں کہ ایسے موقع پر عورت کا منہ دیکھنا جائز ہے.لڑکی کے باپ نے کہا جائز نا جائز کا سوال نہیں میں لڑکی دکھانے کو تیار نہیں اس میں میری ہتک ہے.لڑکی نے اندر بیٹھے ہوئے ان دونوں کی گفتگو کوسن لیا اور جوش سے پردہ ایک طرف کر کے اُس مرد کے سامنے آکھڑی ہوئی اور کہا اگر رسول کریم ﷺ کا یہ فرمان ہے تو میرے باپ کا کوئی حق نہیں کہ مجھے دکھانے سے انکار کرے میں تمھارے سامنے کھڑی ہوں مجھے دیکھ لو.چونکہ اُس وقت مردوں اور عورتوں میں اعلیٰ درجہ کا ایمان پایا جاتا تھا جونہی وہ لڑکی یہ کہتے ہوئے سامنے آئی کہ اگر آنحضرت یہ کہتے ہیں تو میرے باپ کا کیا حق ہے کہ مجھے دکھانے سے انکار کرے اس شخص کی آنکھیں معارُعب سے نیچے جھک گئیں.اُس نے کہا جس لڑکی کو رسول کریم اللہ کے فرمان کا اس قدر پاس ہے خدا کی قسم میں اس سے بے دیکھے شادی کروں گا.چنانچہ اس شخص نے اس لڑکی سے بے دیکھے شادی کی.یہ وہ عورتیں تھیں جن کے دلوں میں اللہ اور اُس کے رسول کی عظمت تھی.پس تمھارے باپ یا تمھارے بھائی کی تم پر اس وقت تک حکومت ہے جب تک وہ دین کے رستے میں روک نہیں بنتے لیکن اگر وہ تمھیں دینی کاموں میں حصہ لینے سے روکتے ہیں اور تم ان کی بات مان لیتی ہو تو تم نے خدا کی بجائے اپنے بھائی یا اپنے خاوند کو اپنا خدا سمجھا اور تم نے نیکی حاصل کرنے کی بجائے گناہ کا ارتکاب کیا اور ایمان دار بنے کی بجائے تم بے ایمان بن گئیں.تم کو سب سے زیادہ عزیز اپنا ایمان ہونا چاہئے اور

Page 439

432 اپنے ایمان کے مقابلہ میں کسی کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے.سید احمد صاحب بریلوی جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پہلے مجدد تھے جب وہ حج کے لئے گئے تو ان کے قافلہ میں سو کے قریب ایسی عورتیں بھی تھیں جو کہ کبھی گھر سے باہر بے پردہ نہ نکلی تھیں.جب وہ باہر جاتیں تو ان کے کمرے میں ڈولی لے جائی جاتی اور وہ وہیں سے سوار ہو کر باہر نکلتیں.اور اگر کبھی انہیں ایک گلی سے دوسری گلی میں جانا ہوتا تو پہلے بہت سے پردے کئے جاتے تب وہ اس جگہ سے گزرتیں.یہ سو عورتیں جب حج کے لئے مکہ پہنچیں اور خانہ کعبہ میں طواف کا وقت آیا تو سید احمد صاحب نے کہا.اے بہنو! جس خدا کا یہ حکم تھا کہ تم پردہ کیا کرو اسی خدا کا اب یہ حکم ہے کہ تم یہاں طواف کے وقت پردہ نہ کرو.تاریخ بتاتی ہے کہ تمام کی تمام عورتوں نے اسی وقت نقاب چہرہ پر سے الٹ دیئے اور کوئی ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکالا.سید ایمان تیرھویں صدی کی عورتوں میں تھا جن کے پاس نور کا ایسا سر چشمہ نہ تھا جیسا تمھارے پاس ہے اور انہوں نے اس قدر نشانات اور معجزات نہیں دیکھے تھے جتنے تم نے دیکھے ہیں.پھر کیا وجہ ہے کہ تم ستی کو ترک نہیں کر سکتیں.اگر تم تبلیغ نہیں کرو گی تو اور کون کرے گا.مرد تو عورتوں کو ان کے پردہ کی وجہ سے تبلیغ نہیں کر سکتے.اگر تم بھی ان کو تبلیغ نہ کرو تو عورتوں میں احمدیت کس طرح پھیلے گی.جو عورتیں بے پردہو چکی ہیں ان کو دین سے کوئی دلچسپی نہیں رہی.وہ تو بے دین ہو چکی ہیں.اور نہ ہی دینی باتیں سننے کے لئے تیار ہیں.دین کی باتیں پردہ دار عورتیں ہی زیادہ کر سکیں گی.اور ان تک تم ہی پہنچ سکتی ہو.پس تم پر بھی تبلیغ اسی طرح فرض ہے جس طرح مردوں پر فرض ہے.اگر تم دینی کاموں میں مردوں کے ساتھ ساتھ نہیں چلو گی تو تم جماعت کا مفید جزو نہیں بلکہ پھوڑے کی طرح ہوگی جو انسان کو اس کے فرائض سر انجام دینے سے روک دیتا ہے.پھوڑا نکلنے کی وجہ سے بے شک کچھ گوشت بڑھ جاتا ہے لیکن وہ جسم کی طاقت بڑھانے کا موجب نہیں ہوتا بلکہ بیماری کی علامت ہوتی ہے اور کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ پھوڑا اس کے جسم کا جزو بنا رہا ہے.اسی طرح ہم بھی یہ پسند نہیں کرتے کہ ہماری عورتیں گندے عضو کی طرح ہمارے باقی جسم کو بھی خراب کریں ، اگر وہ ایسی رہیں گی تو یقینا اس قابل ہوں گی کہ انہیں جسم سے علیحد ہ کر دیا جائے.پس تم اپنی مستیوں اور غفلتوں کو ترک کرو اور اپنے آپ کو احمدیت کے لئے ایک مفید جز و بناؤ اور تم کو یہ عزم کر لینا چاہیئے کہ یا تو ہم احمدیت قائم کر دیں گی یا مر جائیں گی.

Page 440

433 جب تک تم یہ عزم نہیں کرتیں اس وقت تک تم احمدیت کے لئے مفید وجود ثابت نہیں ہوسکتیں.تم پر جو ذمہ داریاں ہیں ان کو پورا کرنے کی کوشش کرو تا کہ تم اللہ تعالے کے سامنے ایک کامیاب خادم کی حیثیت میں کھڑی ہو.اور اس کے لئے ضروری ہے کہ تم اپنے اندر ایک عظیم الشان تبدیلی پیدا کرو جس کو تم بھی اور تمھارے ہمسائے بھی اور باقی دنیا بھی محسوس کرے کہ اب تم میں ایک نئی روح پھونکی گئی ہے.تم خود بھی دین سیکھو اور اپنی اولا دوں کو بھی دین سکھاؤ.اگر تم خود دین نہیں سیکھوگی تو دوسری عورتوں کو تبلیغ کس طرح کرو گی.تمھیں تبلیغ کا اس قدر شوق ہونا چاہئے.اگر تمھیں ایک مکان میں رہتے رہتے ایک دو سال گزر جائیں اور تمھاری تبلیغ وہاں مؤثر ثابت نہ ہو تو تمھیں چاہیئے کہ اپنے بھائی یا اپنے خاوند سے کہو کہ اب کسی اور محلہ میں مکان ہوتا کہ ہم کسی دوسری جگہ چل کر احمد بیت کو پھیلائیں.گی.پس میں امید کرتا ہوں کہ وقت نکلنے سے پہلے تم اپنے نفسوں کی اصلاح کروگی اور اپنی آخرت کی فکر کرو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمھارے دلوں کی اصلاح کرے اور تمھاری جہالتوں اور بے ایمانیوں کو دور کرے تاکہ تم پکی مومن بن جاؤ.اور ہمارے لئے بھی عزت کا موجب بنو.اس کے بعد میں دعا کروں گا تم بھی میرے ساتھ شامل ہو جاؤ تاکہ تمھارے دلوں کے زنگ دور ہوں اور تم اللہ تعالیٰ کے سامنے سرخرو ہوکر پیش ہوسکو.آمین جذبات صحیحہ کو بیدار کرو اور دین کی طرف توجہ دو مورخہ ۲۷ دسمبر ۱۹۴۶ کو خواتین کے جلسہ سالانہ میں حضور نے جو تقریر فرمائی اس کا خلاصہ اپنے الفاظ میں درج کیا جاتا ہے:.حضور نے فرمایا.لاؤڈ سپیکر کی موجودگی میں گو اس امر کی ضرورت نہیں کہ عورتوں میں الگ تقریر کی جائے لیکن ثانوی حیثیت کے لحاظ سے ضروری ہے کہ عورتوں میں بھی تقریر ہو جائے.مردوں کا عورتوں میں رقم ہو جانے کا سوال اسلام نے رد کر دیا ہے.ابظاہر یہ دو وجود نظر آتے ہیں مگر در حقیقت ایک ہیں.مرد عورت کا رشتہ قانون کا نہیں محبت کا ہے.ماں کو بچہ سے جو محبت ہوتی ہے وہ کسی سے سیکھتی نہیں.اس کے لئے

Page 441

434 کوئی قانون نہیں ہے.فطرت نے جو مادہ اس کے اندر رکھ دیا ہے اس کے ماتحت وہ اپنے بچہ سے سلوک کرتی ہے.در حقیقت یہ رشتے قانون اور قاعدے کے نہیں ہوتے.اگر مردعورت کے تعلقات کی بنیاد محبت پر ہو تو کوئی الجھن پیدا نہیں ہوتی.لوگ اپنے لڑکے لڑکیوں کے رشتے کرتے ہیں تو شرائط لکھواتے ہیں.میں نے اکثر دیکھا ہے جو لوگ شرائط لکھواتے ہیں وہی زیادہ مقدمات بھی کرتے پھرتے ہیں.اس قسم کے شرائط ہمیشہ فتنہ وفساد پیدا کرتے ہیں.اگر مرد و عورت کے تعلقات جذبات شریفہ پر قائم رہیں تو ان کی گاڑی اچھی چلتی چلی جائے گی.جب جذبات شریفہ نہیں رہیں گے تو فتنہ وفساد بڑھتے چلے جائیں گے.شرائط اور قواعد تو حالات کے بدلنے کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں.ہاں اگر بنیاد محبت پر قائم ہو تو کوئی شرائط قائم نہیں رہ سکتیں.اور اگر شرائط قائم رہیں تو محبت قائم نہیں رہتی.دونوں میں سے ایک چیز ضرور نو نے گی.جب خدا تعالیٰ نے مرد کی اہمیت عورت کے لئے اور عورت کی اہمیت مرد کے لئے قائم کر دی.تو عورت اپنے جذبات کے ماتحت یہ محسوس کرتی ہے کہ مرد کے بغیر گزارہ نہیں.مرد محسوس کرتا ہے کہ عورت کے بغیر گزارہ نہیں.یہ جذبات بتلا رہے ہیں کہ ایسے شرائط طے کرنے والے احمق ہوتے ہیں.جذبات کے لئے قانون بنانا ایک حماقت ہے.اس کا قانون تو اس وقت بنا دیا گیا تھا جب آدم کا خمیر بن رہا تھا.ہمارا کام صرف یہ ہے کہ ہم جذبات صحیحہ اور جذبات شریفہ کو بیدار کرتے رہیں.ماں اپنے بچے کی اچھی طرح نگہداشت اور تربیت کرنا جانتی ہے.اب اگر اس کے بچے کے لئے قانون بنادیا جائے کہ پانچ گھنٹے کے بعد اس کا بستر بدلا جائے تو وہ بچہ جسے اسہال کی بیماری ہے کس طرح پانچ گھنٹے ایک بستر میں رہ سکتا ہے.خدا تعالے نے ماں کی فطرت میں یہ رکھ دیا ہے وہ سب کچھ خود کر سکتی ہے.بے وقت ہونے والی چیز کے لئے جب بھی قانون بنا دیا جائے گا وہ ہمیشہ انسان کو خراب کرے گا.پس انسانی زندگی سے متعلق قانون بنانے کی ضرورت نہیں.اسی طرح بعض مخصوص قسم کی تعلیمات کی عورتوں میں ضرورت ہے.اس لحاظ سے بعض لیکچر عورتوں میں مفید ہوتے ہیں.مخصوص تعلیم کے لحاظ سے گزشتہ سے پیوستہ سال میں نے تحریک کی کہ لجنہ اماءاللہ قائم کی جائیں.اس وقت چالیس پچاس لجنات تھیں اس وقت سوا دو سو قائم ہو چکی ہیں.مردوں کی جماعتیں ہزار کے قریب ہیں.اگر مساوات کا قانون عورتوں کے لئے ہے تو اس کے برابر لبنات ہونی چاہئیں.اگر آدھا ہو تو پھر بھی پانچ سو ہونی چاہئیں.

Page 442

435 عورتیں شور مچاتی ہیں کہ ہمیں مردوں کے برابر ملازمتیں ملنی چاہئیں.اگر ڈاکخانوں میں ،ہسپتالوں میں وہ مردوں کے برابر کام کر سکتی ہیں تو ان کو دین کے معاملے میں بھی برابر کا کام کرنا چاہیئے.جس طرح خدا نے مردوں کو پانچ نمازوں کا حکم دیا اسی طرح عورتوں کو بھی یہی حکم ہے.جس طرح روزے عورتوں کے لئے ہیں اسی طرح مردوں کے لئے ہیں.تو دین کے لئے جس طرح مردوں نے کام کرنا ہے اسی طرح عورتوں نے.کوئی وجہ نہیں کہ وہ دین کے میدان میں پیچھے رہیں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ نصف دین عائشہ سے سیکھو.اس کا یہ مطلب ہے کہ آدھا دین مردوں کے حصہ میں ہے اور آدھا عورتوں کے حصہ میں ہے.اس کے یہ معنے ہیں کہ آدھا دین ایک عورت کے پاس ہے اور باقی آدھا دین تمام دنیا کے مرد و عورت کے پاس ہے.کوئی پہلو بھی لے لو تو عورتیں پیچھے نہیں رہ سکتیں.پس تمھیں چاہئے کہ تم دین کی طرف توجہ کرو.جوان پڑھ ہیں انہیں پڑھاؤ.اگر کسی جگہ کوئی پڑھی ہوئی نہیں اس جگہ قادیان سے ایسی بوڑھی ادھیڑ عمر کی عورتیں منگوائی جاسکتی ہیں جن کے ساتھ مرد کے جانے کی ضرورت نہ ہو.اور جو پانچ چھ ماہ رہ کر انہیں پڑھنا لکھنا سکھائیں.جب تم اپنی زبان میں لکھنا پڑھنا سیکھ لوگی تو تمھارے لئے دین کا سمجھنا آسان ہو جائے گا.جہاں کچھ پڑھی ہوئی اور کچھ ان پڑھ عورتیں ہوں وہ آپس میں ایک دوسری کو پڑھا ئیں.میں تمھیں نصیحت کرتا ہوں کہ پہلے لبنات بنائی جائیں پھر تعلیم کا انتظام کیا جائے.اپنی تنظیم کرو.اگر تم صحیح طور پر لکھنا پڑھنا سیکھ لوگی تو اپنے علاقہ میں آسانی سے تبلیغ کر سکوگی.اس کے بعد تم دیکھو گی کہ جماعت کی تعداد سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں گنے بڑھ جائے گی.انشاء اللہ.اس کے بعد حضور نے دعا فرمائی.چارا ہم نصیحتیں (۱) حماز با جماعت (۲) لجنہ اماء اللہ کا قیام (۳) سچائی (۴) محنت کی عادت مورخہ ۲۸.دسمبر ۱۹۴۶ کو جلسہ سالانہ کے موقع پر حضور کی تقریر کا اقتباس).....مردوں کو چاہیئے کہ جہاں لجنہ اماءاللہ قائم نہیں وہاں لجنہ اماءاللہ قائم کریں.میرے پاس بہت

Page 443

436 سی عورتوں نے شکایت کی ہے کہ مردان کے ساتھ تعاون نہیں کرتے.بعض تو انہیں روکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ لجنہ کے جلسوں میں نہ جایا کرو اور بعض ایسے ہیں کہ اگر عورتیں لجنہ اماءاللہ قائم کرنا چاہیں تو وہ اس میں روک بن جاتے ہیں.یہ ایک خطر ناک بات ہے.جب تک عورتیں بھی دین کی خدمت کے لئے مردوں کے پہلو بہ پہلو کام نہیں کرتیں اس وقت تک ہم صحیح طور پر ترقی نہیں کر سکتے.اسلام کی جو عمارت ہم باہر تیار کرتے ہیں اگر اس عمارت کی تیاری میں عورت ہمارے ساتھ شریک نہیں تو وہ گھر میں اس عمارت کو تباہ کر دیتی ہے.تم بچے کو مجلس میں اپنے ساتھ لاؤ.اسے وعظ و نصیحت کی باتیں سناؤ.دین کی باتیں اس کے کان میں ڈالو لیکن گھر جانے پر اگر تمھاری عورت میں وہ روح نہیں جو اسلام عورتوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے تو بچے سے کہے گی کہ بچے تمھارے باپ کی متقل ماری ہوئی ہے وہ تمھیں یونہی مسجدوں میں لئے پھرتا ہے.تمھاری صحت اس سے تباہ ہو جائے گی تم ایسا نہ کیا کرو.باپ اپنے بچے کو اقتصادی زندگی بسر کرنے کی طرف ترغیب دے تو ماں کہنے لگ جائے گی کہ بیٹا تمھارا باپ محض بخل کی وجہ سے تمھیں یہ نصیحت کر رہا ہے اور نام اس کا دین رکھ رہا ہے ور نہ اصل وجہ یہ ہے کہ اس کا دل تمھاری ضرورت کے لئے روپیہ خرچ کرنے کو نہیں چاہتا تم بے شک اپنے دل کے حو صلے نکال لو.میں تمھاری مدد کے لئے تیار ہوں.دیکھو اگر کسی گھر میں ایسا ہو تو ایک ہی وقت میں دو تلوار میں چل رہی ہونگی ایک سامنے سے اور ایک پیچھے سے.اور یہ لازمی بات ہے کہ جہاں دو تلوار میں چل رہی ہونگی وہاں امن نہیں ہو سکتا.پس اول ہماری جماعت کو نماز با جماعت کی پابندی کی عادت اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے.اور دوسرے جماعت کو خصوصیت سے اپنے فرائض کی ادائیگی کے لئے محنت کی عادت اختیار کرنی چاہیئے.اور جس کام کے لئے کسی کو مقرر کیا جائے اس کے متعلق وہ اس اصول کو اپنے مد نظر رکھے کہ مجھے اب دیکھتے نہیں ہٹنا چاہیئے خواہ میری جان چلی جائے.جب تک اس قسم کی روح اپنے اندر پیدا نہیں کی جائے گی جماعت پوری طرح ترقی نہیں کر سکتی.تیسرے ہر جگہ لجنہ اماءاللہ قائم کی جائے اور عورتوں کی تعلیم اور ان کی اصلاح کا خیال رکھا جائے.چوتھے جماعت کے اندر سچائی کو قائم کیا جائے.جب تک کسی قوم میں سچائی قائم رہتی ہے وہ ہارا نہیں کرتی.میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں ابھی اس پہلو کے لحاظ سے بھی کمزوری پائی جاتی ہے.مقدمات پیش ہوتے ہیں تو ان میں گواہی دیتے وقت بعض لوگ ایسی اینجا بچی سے کام لیتے ہیں کہ قاضی

Page 444

437 حیران رہ جاتا ہے کہ میں اس طرح فیصلہ کروں یا اُس طرح.حالانکہ مومنوں کے مقدمات کا بڑی آسانی سے فیصلہ ہو جانا چاہئے.قرآن کریم نے ہر مومن کو سچائی سے کام لینے کی تاکید فرمائی ہے بلکہ قرآن کریم نے تو یہاں تک کہا ہے کہ تمھیں صرف سچ سے ہی نہیں بلکہ سداد سے بھی کام لینا چاہیئے.یعنی تمھاری طرف سے جو بات پیش ہو وہ صرف بچی ہی نہ ہو بلکہ اس میں کسی قسم کا بیچ بھی نہ ہو.کئی باتیں بھی تو ہوتی ہیں مگر بیچ کے ساتھ جھوٹ بنادی جاتی ہیں.اس لئے قرآن کریم نے صدق وسداد دونوں سے کام لینے کی نصیحت فرمائی ہے.چار صیحتیں : صیحتیں آپ لوگوں کو کرنے کے بعد میں دعا کے ساتھ آپ سب کو رخصت کرتا ہوں.اگر لوگ ان باتوں پر عمل کرلیں گے تو پھر خدا تعالئے آپ لوگوں کی تبلیغ میں بھی برکت پیدا کر دے گا.آپ کے کاموں میں بھی برکت پیدا کر دے گا.اور اسلام کی فتح کو قریب سے قریب ترلے آئے گا.یہ چار دیوار میں ہیں جن پر اسلام کی عمارت قائم ہے.میں اب دعا کر کے آپ لوگوں کو رخصت کرتا ہوں.دعا میں اس امر کا خیال رکھا جائے کہ جہاں اپنے لئے اور اپنے رشتہ داروں کے لئے بھی دعائیں کی جائیں وہاں اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے اور ان مبلغین کی کامیابی کے لئے دعائیں کی جائیں جو اسلام کی خدمت کے لئے دور دراز ملکوں میں گئے ہوئے ہیں.ایسے ایسے ملکوں میں جہاں انہیں کسی قسم کی راحت اور آرام کے سامان میسر نہیں.اُن کی باتیں سننے والا کوئی نہیں.ان کے ساتھ ہمدردی کرنے والا کوئی نہیں.ان کے بوجھ کو ہٹانے والا کوئی نہیں مگر پھر بھی وہ رات دن اسلام کی خدمت میں مشغول رہتے ہیں.حکومتیں ان کی دشمن ہیں.پبلک ان کی مخالف ہے.سوسائٹی ان کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتی.غرض ہر طبقہ کے لوگ ان کی مخالفت کرتے ہیں مگر وہ اسلام اور احمدیت کی تعلیم برا برلوگوں تک پہنچاتے چلے جاتے ہیں.پس آپ لوگوں کا فرض ہے کہ جہاں آپ اسلام کی ترقی کے لئے جو کچھ کر سکتے ہوں اس سے دریغ نہ کریں وہاں ان زیادہ قربانی کرنے والے مبلغین کے لئے بھی دعائیں کریں.اس اجتماع کے موقع پر مجھے دعا کے لئے بہت ہی تاریں موصول ہوئی ہیں مگر میں وہ تاریں اب سنا نہیں سکتا.صرف اسی قدر کہنے پر اکتفا کرتا ہوں کہ ان سب دوستوں کے لئے دعائیں کی جائیں بالخصوص مبلغین

Page 445

438 کے لئے کہ وہ خاص دعاؤں کے محتاج ہیں.بلکہ انہیں دعاؤں کا محتاج کہنا بھی درست نہیں.درحقیقت ان کے لئے دعا کرنا ہمارا اپنا غرض ہے کیونکہ وہ ہمارا کام کرنے کے لئے اپنے وطنوں کو چھوڑ کر گئے ہوئے ہیں.اور ہم پر اُن کا ایک ایسا حق قائم ہو چکا ہے جو کامل طور پر دعائیں اور التجائیں کر کے ہی ہم ادا کر سکتے ہیں.ان کے سوا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں.جس سے ان کا یہ حق ادا ہو سکے.اب میں دعا کروں گا آپ لوگوں کے لئے ، اسلام اور احمدیت کے لئے بھی.آپ میرے لئے بھی اور سلسلہ کے مبلغین کے لئے بھی دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کو بار آور فرمائے.پھر خاص طور پر اس امر کے لئے دعائیں کی جائیں جو چار باتیں میں نے اس وقت بیان کی ہیں ہماری جماعت کو اس پر قائم ہونے کی توفیق مل جائے.یعنی نماز با جماعت کی پابندی سوائے کسی خاص مجبوری کے.یہاں تک کہ اگر گھر میں بھی فرض نماز پڑھی جائے تو اپنے بیوی بچوں کو شامل کر کے نماز باجماعت ادا کی جائے.دوسرے سچائی پر قیام.ایسی سچائی کہ دشمن بھی اسے دیکھ کر حیران رہ جائے.تیسرے محنت کی عادت ایسی محنت کہ بہانہ سازی اور عذر تراشی کی روح ہماری جماعت میں سے بالکل مٹ جائے.اور جس کے سپر دکوئی کام کیا جائے وہی اس کام کو پوری تن دہی سے سرانجام دے یا اس کام میں فنا ہو جائے.چوتھے عورتوں کی اصلاح.ہر جگہ لجنہ اماء اللہ کا قیام اور عورتوں میں دینی تعلیم پھیلانے کی کوشش.یہ چار چیزیں ہیں جن کے متعلق میں نے اس وقت توجہ دلائی ہے.آپ لوگ دعا کریں کہ اللہ تعالے آپ سب کو ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے تا کہ اگلے سال جب آپ جلسہ سالانہ پر آئیں تو آپ میں سے ہر شخص اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکے کہ ہم نے ان باتوں پر عمل کر لیا ہے.بلکہ دل پر ہاتھ رکھنے کا سوال ہی نہیں.حقیقت یہ ہے کہ آپ لوگ ان باتوں پر عمل کر لیں گے تو خود بخود ایسے تغیرات پیدا ہوں گے کہ آپ لوگوں کی کسی گواہی کی ضرورت ہی نہیں رہے گی خدا اور اس کے فرشتے خود گواہی دیں گے کہ آپ نے ان باتوں پر عمل کیا ہے.اب میں دعا کرتا ہوں.اس کے بعد حضور نے لمبی دعافرمائی اور پھر السلام علیکم کہ کر دوستوں کو رخصت کی اجازت مرحمت فرمائی.

Page 446

439 فرمایا:.عورتوں کے حقوق کی نگہداشت ( مؤرخہ ۳۱.جنوری ہی بعد نماز مغرب.قادیان ملخص ) عورت کے حقوق آج میں اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جہاں تک انسانیت کا سوال ہے عورت اور مرد کے جذبات اور احساسات ایک ہی قسم کے ہیں.بعض چھوٹی چھوٹی غلطیاں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کے نتیجہ میں انسان بڑے بڑے امور میں ٹھوکریں کھا جاتا اور کچھ کے کچھ خیالات اور توہمات میں پڑ جاتا ہے.ان میں سے ایک امر جس کو میں بیان کرنے لگا ہوں عورت کے حقوق کے متعلق ہے.قرآن کریم نے اس نکتہ کی طرف توجہ دلانے کے لئے فرمایا ہے:.يا ايها الناس اتقواربكم الذي خلقكم من نفس واحده وخلق منها زوجھا.کہ انسانو! تم سب کو ہم نے ایک نفس سے پیدا کیا اور ایک ہی جو ہر سے تمھاری زوج یعنی عورت کو پیدا کیا ہے.جہاں تک انسانی فطرت کا سوال ہے اس میں عورت کی تخلیق بھی ویسے ہی ہوتی ہے جیسے مرد کی.خلق منهازوجھا کے الفاظ میں اس نکتہ کی طرف اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے کہ عورت اور مرد کے جو ہر میں کوئی فرق نہیں.جیسی عورت کی فطرت اور خواہشات ہیں ویسے ہی مرد کی.اس لئے جیسے حقوق مرد کے ہیں ویسے عورت کو بھی ملنے چاہئیں.اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ تمام انسانوں کو صرف ایک انسان سے پیدا کیا ہے.کیونکہ اس میں تو کوئی حکمت کی بات معلوم نہیں ہوتی.عورتوں کے حقوق ادا نہ کرنے کے نقصانات افسوس ہے کہ عرصہ دراز سے عورت کو اس کے فطری حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے.صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ یورپ اور امریکہ میں بھی.چنانچہ اسی لئے آئے دن وہاں عورتوں کی طرف سے مردوں کے خلاف بغاوتیں ہوتی رہتی ہیں.کیونکہ فطرت انسانی لمبی غلامی اور دیر بین ظلم کے بعد لازما اس کے مقابلہ کے

Page 447

440 لئے کھڑی ہو جاتی ہے اور بغاوت پر آمادہ ہو جاتی ہے.اچھوتوں اور مزدوروں کی بغاوتیں اسی علم کے نتیجہ میں آئے دن ہوتی رہتی ہیں.مگر جہاں تک انسانی ضرورتوں کا سوال ہے وہ اچھوتوں کے بغیر بھی ہوسکتی ہیں اور مزدوروں کے بغیر بھی دنیا کے کاروبار چل سکتے ہیں.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ میں نہ ہی اچھوت ہوتے ہیں اور نہ ہی زیادہ مزدور.لوگ اپنے کام کرتے ہی رہتے ہیں.مگر عورتوں کی بغاوت سے دنیا کا کاروبار ہی بند نہ ہو بلکہ ساری دنیا ہی ختم ہو جائے.ذرا اس بغاوت کا تصور تو کرو کتنا بھیانک ہے کہ جب عورتیں مردوں کے خلاف بغاوت کے لئے کھڑی ہو جائیں.بچے پیدا کرنے سے انکار کر دیں تو یہ دنیا کس طرح قائم رہ سکتی ہے.لازماً اس کا نتیجہ نسل کشی اور بدکاری ہوگا.پس جس علم کے اتنے خطرناک نتائج نکلنے والے ہوں اسے روا رکھنا سخت حماقت ہے.نیکی میں عورتوں کی شرکت ضروری ہے.آپ لوگوں کو عورت کے حقوق کی ادائیگی کی طرف خاص توجہ دینی چاہیئے اور نیکی کے کاموں میں جس طرح مردوں کی شمولیت لازمی ہے اسی طرح عورتوں کو بھی موقع دینا چاہیئے.مجھے ایک عورت کا خط موصول ہوا ہے جس میں اس نے لکھا ہے کہ میرا خاوند مجھے علیحدہ چندہ دینے نہیں دیتا وہ کہتا ہے میرے چندہ میں تم بھی شریک ہو.حالانکہ یہ غلط ہے.جس طرح مرد کی فطرت تقاضا کرتی ہے کہ اپنے ہاتھ سے نیکی کرے اسی طرح عورت کی فطرت بھی اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ خود نیکی بجالا کر اپنے لئے ثواب کمائے.نیکی سے دل کی صفائی ہوتی ہے.جب تک ہر شخص خود نہ کرے اس کے دل کی صفائی کس طرح ہو سکتی ہے.جس طرح نماز دوسرے کی طرف سے نہیں پڑھی جاسکتی اسی طرح چندہ بھی دوسرے کی طرف سے نہیں دیا جاسکتا.پس آپ لوگوں کو عورتوں کو بھی چندوں وغیرہ میں شمولیت کا موقع دینا چاہئے تاکہ ان کی فطرت کا تقاضا بھی پورا ہوتار ہے صرف چندہ ہی نہیں یہ تو مثال کے طور پر میں نے بیان کیا ہے ہر شعبہ حیات میں عورت کو برابر کا شریک سمجھنا چاہیئے اور اُسے اُس کے حقوق دینے چاہیں.مرد کے حقوق کو جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ.الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ اس کی وجہ یہ ہے کہ مرد کو گھریلو معاملات میں ویٹو پاور کا درجہ حاصل ہے.جب میاں بیوی میں اختلاف کی صورت پیدا ہو جائے تو اس وقت مرد کا فیصلہ ناطق ہوگا.لیکن جب اختلاف بڑھ جائے اور مردو بیٹو پاور کا

Page 448

441 ناجائز استعمال کرے تو عورت کو عدالت کی رُو سے اپنے حقوق لینے کی اجازت ہے.پس میں مردوں خصوصاً نو جوانوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ عدل قائم کریں اور اسلام کے رستے میں دیوار حائل نہ کریں.الفضل ۳ فروری ۱۹۴۷ ص ۴) زیورات اور جائداد میں سے چندوں کی ادائیگی (۱۱ اپریل ۱۹۴۷ بمقام قادیان) زیورات اور جائداد میں سے چندوں کی ادائیگی...ہم اکثر عورتوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ کچھ نہ کچھ زیور ضرور رکھتی ہیں.عورتوں کو زیور پہننے کا شوق ہوتا ہے خواہ ایک دو روپے کی چیز ہی کیوں نہ پہنیں.اور غریب سے غریب عورت بھی آٹھ آنے کی بالی ضرور پہنتی ہے.ہر شخص جو دیتا ہے اس کے مطابق ہی ثواب ملتا ہے......تو ایک اٹھنی کی بالی پہنچنے والی ایک پائی دے کر اس کے برابر ثواب حاصل کر لیتی ہے اور وہ دونوں ثواب میں ایک جیسے شریک ہیں.میں بیان کر رہا تھا کہ اکثر عورتوں کے پاس کچھ نہ کچھ زیور ضرور ہوتا ہے.اگر ہم سمجھیں کہ ہماری جماعت میں ہیں ہزار عورتیں ہیں اور ہم اوسط قیمت ہر ایک کے زیور کی پچاس روپے رکھیں تو دس لاکھ روپیہ بنتا ہے اور اس طرح دس ہزار روپیہ چندہ آ سکتا ہے.....مجھے عورتوں نے لکھا ہے کہ ہم اپنے زیور بیچ کر بھی یہ رقم پوری کرنے کو تیار ہیں میں نے ان کو جواب دیا ہے کہ تم بھی اپنے حصہ کے مطابق قربانی کرو لیکن عام رقم کے پورا کرنے کے لئے یہ ہو جو تم پرنہیں ڈالا جا سکتا مرد پہلے ہیں.اور تم بعد میں ہو.پہلا قدم مردوں کے لئے ہے اور دوسرا قدم تمہارے لئے چونکہ مردوں کو دہری جائداد ملتی ہے اس لئے دہری قربانی کا بار بھی ان پر پڑنا چاہیئے.باپ کے ورثہ میں دو روپے بھائی کو اور ایک روپیہ بہن کو ملتا ہے.اس لئے چندے کے وقت بھی بھائی کو آگے آنا چاہئے نہ کہ بہن کو.انگلستان میں یہ رواج ہے کہ وہ عزت کے ہر کام میں عورتوں کو آگے رکھتے ہیں.ہر عزت کے موقع پر وہ کہیں گے ( (first) بیگمات پہلے چلیں.اگر کمرے میں داخل ہونا ہو تو کہیں گے لیڈیز فرسٹ کھانے پر بیٹھیں گے تو کہیں گے لیڈیز فرسٹ.غرض ہر کام میں وہ عورتوں کا بہت احترام کرتے ہیں.....خدا تعالیٰ کے فضل Ladies

Page 449

442 سے ہمارے مرد ایسے نہیں کہ وہ خود پیچھے بیٹھ ر ہیں اور عورتوں سے کہیں کہ تم آگے بڑھو.غیر معمولی حالات میں عورتوں کی ذمہ داری کوئی ایسا وقت بھی آ سکتا ہے کہ جب مرد تمام کے تمام مارے جائیں.اس وقت عورتوں کا کام ہے کہ وہ دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہادیں اور ایمان کا تقاضا بھی یہی ہے.لیکن جب تک مرد موجود ہیں ہماری جماعت کا یہ طریق نہیں کہ وہ عورتوں سے بھی نعرے لگوائیں.ہاں جب مرد فنا ہو جائیں تو پھر بے شک عورتیں آگے آئیں اور دین کے جھنڈے کو بلند رکھنے کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہادیں لیکن عام حالات میں ان کا یہ کام نہیں.کیونکہ ان کے ساتھ حاملہ ہونے اور حائضہ ہونے کے جو عوارض ہیں وہ بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں گھر بیٹھنے کے لئے بنایا ہے.پس جب تک ایک مرد بھی زندہ ہے اس کا کام ہے کہ وہ عورتوں کی حفاظت کے لئے جان دیدے اس کے بعد عورتیں بے شک میدان میں آئیں.کیونکہ وہ بھی خدا کی بندیاں ہیں اور دین کے جھنڈے کو بلند رکھنا ان کا بھی فرض ہے.اس لئے وہ لڑتی ہوئی میدان جنگ میں ہی جان دیدیں لیکن دین کے جھنڈے کو سرنگوں نہ ہونے دیں.بہر حال اس وقت مخاطب دونوں ہی ہیں.مرد بھی میرے مخاطب ہیں اور عورتیں بھی میری مخاطب ہیں...عورتوں میں سے بھی جو صاحب جائداد ہوں ان کو چاہیئے کہ وہ اپنی جائداد کا ایک فیصدی دیں اور جن کو خاوند کچھ رقم بطور جیب خرچ دیتے ہیں وہ اس کے برابر دیں.اور جن کی جائداد آمد سے زیادہ ہے وہ جائداد کا حصہ دیں کیونکہ مومن قربانی کی زیادتی کو پسند کرتا ہے کمی کی طرف مائل نہیں ہوتا...یہ وقت جماعت کے امتحان کا ہے.ہر فرد کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اس امتحان میں کامیاب ہو.ڈیڑھ ماہ کے اندر وقف کرنے والے بھی واقفین کی صف اول میں کھڑے ہوں گے....پھر میں نے توجہ دلائی تھی کہ زیادہ سے زیادہ وقتیتیں کرو اور کوئی مرد اور عورت ایسا نہ رہے جو موصی نہ ہو.اپنے ایمان اور اخلاص میں ترقی کرو نیکی میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرو.میں یہ بھی بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس تحریک کے چندے کا دوسرے چندوں پر اثر نہیں پڑنا چاہیئے.ایسا نہ ہو کہ ماہوار چندوں یا وصیت کے چندوں یا تحریک جدید کے چندوں میں کمی واقع ہو جائے.اللہ تعالے کا ایک حق دبا کر دوسرا حق ادا کرنا کبھی بھی مائندے کا موجب نہیں ہوتا.اس طرح ثواب کم ہو جاتا ہے....(الفضل ۱۶.اپریل ۹۴۷اص ا تا۶ )

Page 450

443 نوازا.رسالہ مصباح کا نیا دور قادیان میں مصباح کے نئے دور کے پرچہ میں حضور نے مندرجہ ذیل مبارک تحریر سے رسالہ مصباح کو آپ نے الفضل اور دوسرے ذرائع سے معلوم کر لیا ہو گا کہ مصباح اب بلجنہ اماءاللہ کی نگرانی میں دے دیا گیا ہے.اب مرد اس کے بار سے آزاد ہوتے ہیں لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ وہ اس سے دستبردار ہوتے ہیں.عورت اور مرد اسلام کی رُو سے دو کل نہیں نہ دو جزو ہیں بلکہ ایک گل کے دو جزو ہیں.وہ ایک کل نہیں کیونکہ وہ دونوں کے الگ الگ حق مقرر کرتا ہے.وہ دو جزو نہیں کیونکہ وہ دونوں کو الگ الگ رہنے کی اجازت نہیں دیتا.پس اسلام کی رو سے وہ ایک کل کے دو جز ہیں اس لئے وہ ایک دوسرے کی ذمہ داری سے کسی صورت میں بھی دستبردار نہیں ہو سکتے.پس جس طرح مردوں کے اخباروں میں آپ کی دلچسپی ختم نہیں ہوسکتی اسی طرح آپ کے اخباروں میں مردوں کی دلچسپی ختم نہیں ہوسکتی.ایک کل کے دو جزووں کا پوری طرح اتحاد ضروری ہے ورنہ دونوں بیکار ہو جائیں گے.وہ علیحدہ نہیں رہ سکتے کیونکہ وہ ایک کل کے جزو ہیں.وہ متضاد حالات میں بھی نہیں رہ سکتے کیونکہ اس صورت میں ان کا اجتماع دونوں ہی کو بے کار کر دے گا.ایک جزو دوسرے کی طاقت میں نہ ہو گا بلکہ اسے توڑنے والا ثابت ہوگا اور اس طرح ان کا وجود الگ الگ جو کام کر سکتا تھا اکٹھے رہ کر اتنا کام بھی نہ کر سکے گا.پس اپنے الگ رسالہ کو ایک علیحدہ وجود نہ سمجھو بلکہ ایک ہی کام کا ایک ہی جزو سمجھو.جس طرح ایک سکول میں ایک ہی جماعت کے دو یا تین فریق ہوتے ہیں.جماعت ایک ہی ہوتی ہے مگر کام کی سہولت کے لئے اسے فریقوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے ہر فریق کا استاد پڑھاتا وہی کچھ ہے جو دوسرا.لیکن کئی استاد تھوڑی تھوڑی تعداد طالبعلموں کی لے کر شاگردوں کی طرف زیادہ توجہ دے سکتے ہیں.اسلام کا قانون دہندہ خدا ہے اور وہ مرد ہے نہ عورت.اس لئے نہ وہ مرد کا طرفدار ہے نہ عورت کا.پس آؤ اپنے پیدا کرنے والے عادل خدا کے حکموں کے مطابق مل کر کام کریں.مرز امحمود احمد ( خليفة المسيح الثاني)

Page 451

444 چندہ مسجد برتن کے لئے تحریک (۲۰.جولائی ۱۹۲۳ بعد نماز مغرب) (نوٹ ) یہ اقتباس بعد میں ملا ہے اس لئے اس کتاب کے اس حصہ میں شائع نہیں ہو سکا جس میں حضور کی ۱۹۲۳ کی تقاریر درج ہیں...........جیسا کہ میں نے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں اعلان کیا تھا آج اللہ تعالیٰ کے فضل کے ماتحت برلن میں مسجد کی بنیاد رکھی جائے گی اور اس کا وقت جیسا کہ تار سے معلوم ہوا ہے۳ بجے بعد دو پہر ہے جو کہ وقتوں کے فرق کے لحاظ سے یہاں کا یہ وقت ہے.اس کے متعلق باہر بھی اعلان کیا گیا ہے اور یہاں بھی ہم اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ دعا کریں خدا تعالے اس مسجد کی تعمیر میں برکت ڈالے.گولنڈن کی مسجد کے لئے پہلے مکان خریدا گیا ہے مگر مسجد کے لحاظ سے تا حال وہ تغیر نہیں ہو سکا کیونکہ اس کے لئے انفار و پیہ جمع نہیں ہوا جتنے کی ضرورت ہے.اس لئے یورپ میں سب سے پہلی ہماری مسجد یہی برلن کی مسجد ہے.بلکہ یہی مسجد مسلمانوں کی بنائی ہوئی پہلی مسجد ہے.اگر چہ یورپ میں تین مسجد میں اس سے پہلے تعمیر ہو چکی ہیں.ایک وو کنگ میں ہے جو ایک انگریز نے بنوائی ہے.ایک برلن میں بھی پرانی مسجد ہے جو غیر آباد ہے.وہ بھی گورنمنٹ نے بنوائی تھی.جب روس سے بہت سے جنگی قیدی پکڑے آئے تو ان میں سے بہت سے مسلمان بھی تھے جن کی تعداد ہزار کے قریب تھی.ان کے لئے گورنمنٹ نے وہ مسجد بنوائی تھی.اس وجہ سے مسلمانوں کی بنائی ہوئی مسجد موجودہ یورپ میں پہلی مسجد ہوگی.موجودہ یورپ میں نے اس لئے کہا ہے کہ ہوں تو مسلمان یورپ کے مختلف علاقوں میں ہزاروں سال رہے.وہاں انہوں نے مساجد تعمیر کیں.مگر جب ان کو جبر عیسائی بنا لیا گیا تو مساجد مٹ گئیں.اب بھی یورپ میں مسلمانوں کے علاقہ میں مسجد میں ہیں مگران علاقوں کو یورپ کا جزو نہیں سمجھا جاتا بلکہ الگ قرار دیا جاتا ہے.پس اس علاقہ میں جسے یورپ سمجھا جاتا ہے" اور جہاں سے اس وقت مسلمانوں کو خارج کر دیا گیا ہے وہاں یہی مسجد پہلی مسجد ہے.اس لئے میں نے چاہا کہ سب دوست مل کر دعا کریں کہ خدا تعالے اس مسجد کو با برکت کرے اور اسلام کی اشاعت اور ترقی کا ( الفضل ۱۰ اگست ۱۹۲۳ ص۲) موجب بنائے“

Page 452

445 خطبہ جمعہ فرموده ۲۷.جولائی ۱۹۲۳ء تھوڑا عرصہ ہوا میں نے اسی مسجد میں کھڑے ہوکر اپنا منشاء ظاہر کیا تھا کہ برلن میں مسجد تعمیر کی جائے اور یہ بھی کہا تھا کہ گو ہماری جماعت پہلے ہی کمزور ہے اور اخراجات کا بہت بوجھ اٹھائے ہوئے ہے مگر اس کا بھی جو کمزور حصہ ہے اس کے سرمائے سے مسجد بنے.گویا دنیا میں سب سے زیادہ کمزور جماعت جو ہے اس کا بھی کمزور حصہ ( یعنی مستورات جو اس لحاظ سے بھی کمزور ہیں کہ ان کی کوئی علیحدہ کمائی نہیں ہوتی اور اس لحاظ سے بھی کہ مردوں جتنا علم نہیں ہوتا ) یہ اس کام کو کرے.تا کہ یہ ایک زبر دست نشان ہو.جب میں نے عورتوں میں یہ تحریک کی تو ہماری جماعت کے بعض لوگ بھی سمجھے کہ اتنا روپیہ نہ جمع ہو سکے گا.پہلے میں نے تمیں ہزار کا اندازہ لگایا تھا لیکن تحریک کرنے کے وقت پچاس ہزار کر دیا جسے ہماری جماعت کے لوگوں نے بھی بہت بڑی رقم سمجھا.اور جب یہ رقم ۲۰ ہزار کے قریب وصول ہو چکی تو غیر اخباروں نے حیرت اور استعجاب کے ساتھ اس کا ذکر کیا اور لکھا کہ احمدی عورتوں نے اس قدر رو پیہ جمع کر دیا ہے.پھر ابھی و مدت مقررہ گزری نہ تھی جو اس چندہ کی فراہمی کے لئے مقرر کی گئی تھی کہ مطلوبہ رقم سے زیادہ روپیہ یعنی ۲۰ ہزار جمع ہو گیا.اس کے بعد میں نے ایک اور اعلان کیا جس میں لکھا کہ روپیہ کی ابھی اور ضرورت ہے.اب اگر وعدے وغیرہ بھی ملالئے جائیں تو ستر ہزار کے قریب چندہ ہو گیا.یہ اس جماعت کے کمزور قصہ کا کارنامہ ہے جو اس وقت دنیا میں سب سے کمزور ہے.ہماری جماعت کی تعداد مسلمانوں کے مقابلہ میں کیا ہے.کچھ بھی نہیں.لیکن اگر عام مسلمانوں میں بھی اعلان کیا جاتا کہ ان کی عورتیں تین ماہ کے عرصہ میں اس قدر چندہ دیں تو اگر چہ ان میں کروڑ پتی اور لاکھ پتی بھی ہیں.نواب اور راہے بھی ہیں تو بھی آسانی سے اتنا چندہ جمع نہ ہو سکتا...(الفضل ۳- اگست ۱۹۲۳ ص ۸)

Page 452