Ordinance XX Shariat Court

Ordinance XX Shariat Court

امتناع قادیانیت آرڈیننس 1984ٴ وفاقی شرعی عدالت میں

Author: Other Authors

Language: UR

UR
اختلافی مسائل و اعتراضات

1984 میں ایک فوجی آمر  جنرل ضیاء الحق نے پاکستان میں احمدیوں کے خلاف بدنام زمانہ امتناع قادیانیت آرڈیننس XX جاری کرکے ان کی مذہبی آزادی بلکہ بنیادی انسانی حقوق سلب کرنے کی راہ اپنالی تو فاضل مصنف سمیت چند احمدی وکلاء نے وفاقی شرعی عدالت میں درخواست دی کہ یہ نیا قانون قرآن و سنت سے منافی ہے اس لئے اسے کالعدم قرار دیا جائے۔ فاضل مصنف نے عدالتی کارروائی میں مرکزی کردار خوب نبھایا اور وہاں موجود لوگوں نے  محسوس کیا کہ یہ خلافت کی دعا سے تائیدات، رعب اور نصرت الٰہی کا ناقابل فراموش تجربہ تھا۔ جماعت کی طرف سے جو نکات اٹھائے گئے، وہ علمی اور تاریخی لحاظ سے اہمیت کے حامل اور احمدیہ علم الکلام کی برتری اور فضیلت کو ثابت کرنے والے ہیں، عدالتی کارروائی کی تیاری اور پیش کش کے دوران جو جدوجہد ہوئی، اور جو علمی کارہائے نمایاں سرانجام دیئے گئے وہ جماعتی تاریخ کا حصہ ہیں، فاضل مصنف نے حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی ہدائیت پر اس کارروائی کو مختصر کرکے کتابی شکل میں مدون اور محفوظ کردیا ہے۔ تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ کتاب اسلام انٹرنیشنل پبلی کیشنز کی شائع کردہ ہے۔


Book Content

Page 1

امتناع قادیانیت آرڈینینس 1984ء وفاقی شرعی عدالت میں مجیب الرحمن

Page 2

امتناع قادیانیت آرڈینینس 1984 ء وفاقی شرعی عدالت میں Ordinance XX of 1984 Wafaqi Shar'i Adalat Mein (Urdu) [Ordinance XX of 1984 Before the Federal Shariat Court] By: Mujeeb-ur-Rahman (Advocate Supreme Court of Pakistan) First Published in UK in 2011 Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd."Islamabad", Sheephatch Lane, Tilford, Surrey, GU102AQ Printed at: Cover Design by: Omair Aleem ISBN: 184880110-6

Page 3

انتساب دائمی قدرت ثانیہ کے نام جو ہر دور میں جماعتِ احمدیہ کی جدوجہد کی راہیں متعین کرنے میں دست قبلہ نما ہے.معصوم شہیدانِ با صفا اور اسیران با وفا کے نام جو مذموم آرڈینینس xx کے بطن سے اٹھنے والے ابتلاؤں میں پیسے گئے.جماعت احمد یہ عالمگیر کے نام جسے ابتلاؤں کے میدان میں طاقت بخشی گئی اور جس کے ثبات قدم نے طوفانوں کے منہ موڑ دیئے.

Page 4

Page 5

عرض ناشر سال 1984ء میں جب جنرل ضیاء الحق نے بدنام زمانہ امتناع قادیانیت آرڈینینس XX کے ذریعے احمدیوں کی مذہبی آزادی پر حملہ کیا اور ان پر بعض پابندیاں عائد کر دیں تو چند احمدی وکلاء نے وفاقی شرعی عدالت میں یہ درخواست گزاری که یه قانون قرآن وسنت کے منافی ہے لہذا اسے کالعدم قرار دیا جائے.اپنی اس جدو جہد میں ان وکلاء نے جماعت کے علماء کو بھی شامل کیا جس کا کسی قدر تفصیل سے ذکر اس کتاب میں موجود ہے.عدالتی کارروائی کا مرکزی کردار مجیب الرحمن صاحب ایڈوکیٹ تھے.عدالت میں مقدمہ پیش کرنے کی ذمہ داری بھی اُنہوں نے ہی نبھائی اور حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کی خصوصی رہنمائی ، دعاؤں اور روحانی تو جہات کے فیض سے خدا کے فضل سے خوب نبھائی.راقم الحروف چودہ دن کی عدالتی کارروائی میں شامل رہا اور اس بات کا شاہد ہے کہ چودہ روز کی کارروائی تائیدات اور نصرت الہی کا ایک ناقابلِ فراموش تجربہ تھا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے خبر پا کر بتایا تھا کہ ” میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گئے“.اس پیشگوئی کو ہم نے اس چودہ روزہ عدالتی کارروائی میں بھی بڑی شان کے ساتھ بار بار پورا ہوتے دیکھا.وفاقی شرعی عدالت میں قرآن وسنت سے جو استدلال کیا گیا اور ہماری جانب سے جو نکات اُٹھائے گئے وہ علمی اور تاریخی لحاظ سے اہمیت کے حامل اور احمد یہ علم کلام

Page 6

کی فضلیت و برتری کو ثابت کرنے والے ہیں.جس قدر علمی کام ہوا اور جو جد و جہد کی گئی وہ بھی جماعتی تاریخ کا ایک حصہ ہے.ہر چند کہ عدالتی فیصلے میں اس محنت کی جھلک نظر آتی ہے اور خود عدالت نے اس کا اقرار بھی کیا ، مگر ہمارے استدلال اور بحث کو بھی تاریخ میں محفوظ کرنا ضروری تھا.سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خصوصی ہدایت پر محترم مجیب الرحمن صاحب ایڈوکیٹ نے مختصر طور پر اس کا رروائی کو اس کتاب میں محفوظ کر دیا ہے.چودہ روزہ طویل علمی بحث کی تفصیل تو ٹیپ ریکارڈ ہی سے مل سکتی ہے، مگر خلاصہ بحث کے عنوان میں اس علمی بحث کا ایک نہایت جامع اور مختصر جائزہ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے.بہت سے حوالہ جات اس کتاب میں محفوظ ہو گئے ہیں جو احباب جماعت کے عام مطالعہ کے لئے بھی اور تحقیق کرنے والوں کے لئے بھی مفید اور کارآمد ہوں گے.اسی طرح ضمیمہ موجبات اپیل میں جماعت کے خلاف جملہ اعتراضات کا ایک مختصر جواب بھی یکجائی طور پر احباب جماعت کے لئے مہیا ہو گیا ہے.ہمیں خوشی ہے کہ ہم اس کا رروائی کو شائع کر کے احباب جماعت کی خدمت میں پیش کرنے کی توفیق پار ہے ہیں.اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے اور بہتوں کے لئے حق وصداقت کی طرف رہنمائی اور ہدایت کا موجب بنائے.نصیر احمد قمر ایڈیشنل وکیل الاشاعت لندن ==

Page 7

-1 -2 1 2 3 4 ایک فرض ایک قرض عناوين پس منظر اور تیاری کے مراحل عدالت میں سماعت 3.تائیدات و تصرفات الہی -4 مشیران عدالت اٹارنی جنرل برائے شرعی عدالت علمی سرقہ کا الزام 3 37 13 21 31 43 44 حضرت مسیح موعود کے صحابی پر بدزبانی کا الزام 46 49 49 51 53 62 65 74 78 79 84 خلاصہ بحث آغاز سخن Article 203 D کی حکمت مذہبی آزادی اور روح اسلام اذان مسجد امیر المومنین رضی اللہ عنہ صحافی 1 -5

Page 8

86 87 94 107 115 128 130 131 140 149 158 174 179 184 189 193 203 317 321 أم المؤمنين تبلیغ تعزیر ایمان و اسلام معاہدات جواب الجواب غیر مسلموں کے حقوق شروط عمریه لا تُحِلُّوْا شَعَائِرَ الله نسخ کی تحقیق ضمنی مباحث ختم نبوت ظل و بروز جہاد -6 -7 حرف آخر فوری اور مختصر فیصلہ تفصیلی فیصلہ 8.ضمیمہ موجبات اپیل -9 اپیل کی سماعت اور دستبرداری اظہار تشکر 2

Page 9

ایک فرض ، ایک قرض 1974ء کی دوسری آئینی ترمیم کے بعد پاکستان میں جماعت احمد یہ ایک ابتلاء کے دور سے گزری ہے.اس دوران ملکی قانون کو احمدیوں کے بنیادی حقوق سلب کرنے کے لئے استعمال کیا گیا.قانون ایسے بنادئے گئے تھے جن کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ افرادِ جماعت کو بہت سے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا.جنرل ضیاء الحق اسلام کو سیاسی عزائم کے لئے استعمال کر رہے تھے اور اس غرض کے لئے عدالتوں کے اختیارات پر بھی ضرب لگا رہے تھے.ایک مارشل لاء ترمیم کے ذریعہ آئین تک کو بدل ڈالا تھا.آئینی ترمیم کے ذریعہ وفاقی شرعی عدالت قائم کی گئی تھی جس کا دائرہ اختیار یہ قرار دیا گیا تھا کہ وہ قرآن وسنت سے متصادم قوانین کو کالعدم قرار دے اور دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی تھی کہ ملکی قانون کو قرآن وسنت کے پیمانے پر پرکھنے کے لئے وفاقی شرعی عدالت قائم کی جارہی ہے اور یہ گو یا نفاذ اسلام کی طرف ایک قدم تھا.آئینی اور قانونی معاملات پر نظر رکھنے والوں پر یہ بات واضح تھی کہ ایک متوازی نظام قائم کر کے دراصل اعلیٰ عدالتوں کے اختیارات محدود کرنا مقصود تھا.1984ء میں جنرل ضیاء الحق نے اپنی غیر قانونی آمریت کو سہارا دینے کے لئے مذہبی انتہا پسندوں کا سہارا لیا.اس سلسلہ میں 1984 ء کا آرڈ مینسXX جسے امتناع قادیانیت آرڈینینس کہا گیا ہے، نافذ کیا گیا.اس قانون کے تحت مسجد کو مسجد کہنا اور اذان دینا قابلِ تعزیر جرائم ٹھہرائے گئے تھے.احمدیوں کے لئے خود کو مسلمان ظاہر کرنے پر بھی قید کی سزا 3

Page 10

مقرر کی گئی تھی اور بعض القابات کا استعمال بھی احمدیوں کے لئے قابل تعزیر بنا دیا گیا تھا.اس قانون کے ذریعے احمدیوں کی مذہبی آزادی پر کاری ضرب لگائی گئی تھی اور احمدیوں کیلئے روز مرہ کے سماجی تعلقات اور مذہبی فرائض کی بجا آوری قابل تعزیر ہو کر رہ گئی تھی.قانون کی زد براہِ راست ہر احمدی پر پڑتی تھی.وفاقی شرعی عدالت میں کوئی بھی شہری کسی بھی قانون کو اس بنیاد پر چیلنج کر سکتا تھا کہ مذکورہ قانون قرآن و سنت سے متصادم ہے.اور یہ پابندیاں جواس قانون کے تحت عائد کی گئیں وہ واضح طور پر قرآن وسنت سے معارض تھیں.چنانچہ انفرادی حیثیت سے ہائی کورٹ میں اس قانون کو آئین کے تحت بنیادی حقوق سے متصادم ہونے کی بناء پر چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا گیا.وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس شیخ آفتاب حسین قبل ازیں لاہور ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے ایک Division Bench میں یہ فیصلہ دے چکے تھے کہ آئین کے تحت احمدیوں کو غیر مسلم ٹھہرائے جانے کے باوجود احمدیوں کے لئے اسلامی شعائر کو اپنانے اور اختیار کرنے پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جاسکتی کیونکہ یہ شعائر احمدیوں کے بھی اتنے ہی شعائر ہیں.ان حالات میں راقم الحروف نے مکرم مبشر لطیف احمد صاحب ایڈووکیٹ ، مکرم مرز انصیر احمد صاحب ایڈووکیٹ اور مکرم حافظ مظفر احمد صاحب کے ساتھ مل کر وفاقی شرعی عدالت میں آرڈینینس Xxx کو اس بنیاد پر کالعدم قرار دینے کی درخواست گزاری کہ یہ قانون قرآن وسنت کے منافی ہے.اس درخواست کی مفصل سماعت ہوئی اور دورانِ سماعت قرآن وسنت سے جو استدلال کیا گیا وہ علمی اور تاریخی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے.عدالت کا فیصلہ تو قانونی نظائر کی کتب میں شائع شدہ موجود ہے، مگر ہماری طرف سے کی گئی بحث اور 14 روزہ عدالتی کارروائی کا کوئی ریکارڈ محفوظ نہیں.بہت سے دوستوں کا اصرار تھا کہ وفاقی 4

Page 11

شرعی عدالت میں اُٹھائے گئے نکات اور ہماری طرف سے کی گئی بحث تاریخ میں محفوظ رہنی چاہئے.دوستوں کا مجھ سے یہ مطالبہ تھا کہ چونکہ یہ مقدمہ پیش کرنے اور بحث کرنے کی سعادت میرے حصہ میں آئی تھی اس لیے اس کو مرتب اور مدون کر کے محفوظ کرنا بھی میرا ہی فرض بنتا ہے اور مجھے ہی یہ ذمہ داری اُٹھانی چاہئے.گو یہ کام مشکل اور محنت طلب تھا مگران دوستوں کا کہنا یہ تھا کہ یہ کام اگر میرے لئے مشکل ہے تو کسی اور کے لئے مشکل تر ہو گا.دوستوں کا اصرار بڑھتا رہا.بعض دوستوں اور بزرگوں نے یہ کہہ کر بھی توجہ دلائی کہ ایک قرض ہے اور مجھے یہ قرض چکانا چاہئے.فرض من پسند ہو اور قرض محبت کا ہو تو ادا ئیگی باعث راحت و مسرت ہوتی ہے اور توفیق میسر آجائے تو شکر اور حمد کے جذبات شوق اور ہمت کے لئے مہمیز بن جاتے ہیں.سوخدا کے حضور سجدہ شکر بجالاتے ہوئے اسی کے مقدس نام کے ساتھ اس فرض کی ادائیگی کے لئے قلم اُٹھاتا ہوں کہ وہی ہے جو ہمیں وجود بخشا اور نشو و نمادیتا ہے، اسی کے چشمہ فیض سے نطق و گویائی و بیان کے چشمے پھوٹتے ہیں، وہی زبانوں کی گرہیں کھولتا اور قلم کو روانی عطا کرتا ہے.وہی ہے جو ذہن کو سوچ اور سوچ کو جلاء بخشتا ہے.وہی اظہار و بیان اور تحریر میں تاثیر اور چاشنی پیدا کرتا ہے.وہی ہے جور استوں کو روشن کرتا اور لغزشوں سے محفوظ رکھتا ہے.وہی ہے جو ہماری ناچیز کوششوں کو پذیرائی بخشتا اور قبول فرماتا ہے.خدا کرے کہ یہ نا چیز کوشش قبول ہو اور نیک اثرات پیدا کرنے والی ہو.آمین 5 مجیب الرحمن

Page 12

Page 13

{1} پس منظر اور تیاری کے مراحل پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت میں آرڈینینس XX کے خلاف جو درخواست ہم نے داخل کی تھی اس کی بنیاد یہی تھی کہ یہ آرڈینینس تعلیماتِ اسلامی کے منافی اور قرآن وسنت سے متصادم ہے.آرٹیکل D-203 کے الفاظ یہ ہیں : 203D Powers, Jurisdiction and Functions of the Court (1) The Court may, [210] [either of its own motion or] on the petition of a citizen of Pakistan or the Federal Government or a Provincial Government, examine and decide the question whether or not any law or provision of law is repugnant to the injunctions of Islam, as laid down in the Holy Quran and Sunnah of the Holy Prophet, hereinafter referred to as the Injunctions of Islam.وفاقی شرعی عدالت کے وضع کردہ طریق کار کے مطابق ضروری تھا کہ ان آیات قرآنی یا کتب کا حوالہ بھی دیا جائے جن پر استدلال قائم کیا گیا ہو.ہم نے اس غرض کے لئے ڈیڑھ سو سے زائد حوالہ جات اپنی درخواست کے ساتھ شامل کئے تھے اور معتین طور پر ہر پابندی کے بارے میں آیات قرآنی اور سنت کے حوالے دیئے تھے کہ کون سی پابندی ، کون سی آیت یا سنت سے متصادم ہے.ان حوالوں میں متقدمین ، متاخرین اور عصرِ حاضر کے علماء کے 7

Page 14

حوالے شامل تھے.دورانِ بحث اصل کتب سے وہ حوالے عدالت میں پیش کئے گئے اور ان پر تفصیل سے بحث کی گئی ، فریقین کی بحث کم و بیش چودہ دن جاری رہی.جب مقدمہ عدالت میں داخل کیا گیا تو اس وقت جماعت کے لئے حالات اتنے مخدوش ہو چکے تھے کہ خلیفہ وقت کے لئے پاکستان میں رہتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دینا اور جماعت کی رہنمائی کرناممکن نہیں رہا تھا اور حضرت خلیفتہ امسیح الرابع پاکستان سے ہجرت فرما چکے تھے.مارشل لاء حکومت کے ارادے جماعت کے بارے میں نہایت خطر ناک تھے.چنانچہ جب عدالت میں مقدمہ داخل کرنے کا خیال آیا تو بہت سے خطرات ، اندیشے اور بہت سے دباؤ ذہن پر تھے.یہ بھی اندیشہ تھا کہ Ordinance XX کے بعد بڑی سرعت سے مزید قانون سازی بھی کی جائے گی.اور یہ اندیشہ بھی تھا کہ ہماری درخواست کی سماعت میں ہو سکتا ہے کوئی رکاوٹیں بھی پیدا کی جائیں.یہ خیال بھی تھا کہ ہو سکتا ہے کہ جو بھی درخواست داخل کرے اسے گرفتار کر کے پابند سلاسل کر دیا جائے.یہ طے تھا کہ راقم الحروف مقدمہ میں سائل ہوگا اور راقم الحروف ہی پر دوستوں نے بحث کے لئے اعتماد کا اظہار کیا تھا.لیکن ہمارے اندیشوں کے پیش نظر ضروری سمجھا گیا کہ ایک سے زائد سائل ہوں تا کہ ایک اگر گرفتار ہو جائے تو دوسرا اس کی جگہ لے لے.اس نقطہ نظر کے تحت برادرم مبشر لطیف احمد صاحب ایڈووکیٹ اور برادرم مرزا نصیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کو وکلاء میں سے بطور سائل کے شامل کیا گیا اور مکرم حافظ مظفر احمد صاحب کو اس غرض سے بطور سائل کے شامل کیا گیا کہ وہ قرآن وسنت سے متعلق تحقیق و جستجو میں راقم کی راہنمائی کریں اور خود بطور سائل کے عدالت میں ان کی موجودگی کسی مرحلہ پر بھی قابلِ اعتراض نہ ٹھہرے.تحقیق و جستجو کے دوران ہمیں مرکزی لائبریری کی سہولت میسر رہی اور ہم نے تحقیق وجستجو میں پاکستان کی بعض دوسری چیدہ چیدہ لائبریریوں سے بھی استفادہ کیا.فیصل مسجد میں اسلامی 8

Page 15

یو نیورسٹی کی لائبریری، لاہور میں بادشاہی مسجد کی لائبریری، لائبریری پنجاب یونیورسٹی اور پنجاب پبلک لائبریری اور بعض دیگر لائبریریوں سے بھی حوالہ جات کی تلاش میں استفادہ کیا گیا.حوالہ جات میں پیش ہونے والی عربی عبارتوں کے تراجم سے متعلق پیش آنے والے ممکنہ اشکال کے حل کرنے میں مکرم محترم ملک مبارک احمد صاحب مرحوم اور مکرم محترم مولانا جلال الدین قمر صاحب مرحوم کی راہنمائی ہمیں میسر تھی.لائبریری میں سے کتب مہیا کرنے اور حوالہ جات کی تلاش کے سلسلہ میں مکرم مولانا محمد صدیق صاحب مرحوم ، تاریخی حوالہ جات کی تلاش کے سلسلہ میں مکرم مولانا دوست محمد صاحب شاہد مرحوم، کتب فقہ سے متعلقہ حوالہ جات کے لئے مکرم مشمس الحق صاحب مرحوم اور تفاسیر اور علم کلام سے متعلق حوالہ جات کے لئے مکرم نصیر احمد قمر صاحب اور مکرم مبشر احمد کاہلوں صاحب مستعدی سے بھر پور اور قابلِ قدر معاونت سرانجام دیتے رہے.درخواست دائر کرنے سے قبل ابتدائی تیاری کے لئے بیت الفضل اسلام آباد میں خاکسار اور مکرم حافظ مظفر احمد صاحب کا بھی کئی ہفتے قیام رہا.تیاری کا طریق کار یہ تھا کہ جملہ حوالہ جات کی تلاش کیلئے الگ الگ ٹیمیں کام کر رہی تھیں.کام مکمل ہونے کے بعد یکجائی طور پر مطالعہ کیا گیا اور اس عاجز کی ضروریات کے مطابق ترتیب دے دیا گیا تھا.جب سماعت شروع ہوئی تو وہ حوالہ جات جن کا آئندہ روز کی سماعت میں زیر بحث آنے کا امکان ہوتا تھا، وہ سب رات کو اکٹھے کر کے ان کے سیاق وسباق کا مطالعہ کیا جاتا تھا اور ان حوالہ جات پر اس عاجز کی طرف سے جرح بھی زیر غور آتی تھی.اس طرح تمام حوالہ جات کی چھان پھٹک کے بعد راقم الحروف برادرم محترم حافظ مظفر احمد صاحب کے ساتھ بیٹھ کر آئندہ روز کے لئے اپنی بحث اور استدلال کی ترتیب اپنے ذہن میں متعین کرتا اور حوالہ جات کی اس اعتبار سے ترتیب دے لی جاتی تھی.اس کام سے فارغ ہونے کے بعد راقم الحروف اکیلا بیٹھ کر اپنے خیالات اور استدلال کو اپنے ذہن 9

Page 16

میں مجتمع اور مستحضر کر کے ان کو ذہنی طور پر الٹ پلٹ کر آخری ترتیب اپنے ذہن میں متعین کر لیتا اور اگلے روز دعا کے بعد عدالت کے لئے روانگی ہو جاتی.عدالت کے اندر جو کارروائی ہوتی اس کی رپورٹنگ کے لئے روز نامہ الفضل کی طرف سے مکرم یوسف سہیل شوق صاحب مرحوم اور شعبہ زود نویسی کے مکرم یوسف سلیم صاحب نے گراں قدر خدمات سرانجام دیں.بغرض اطلاع روزانہ رپورٹ حضرت خلیفتہ اسیح کی خدمت میں بذریعہ فیکس بھجوا دی جاتی تھی.آئندہ صفحات میں جہاں کوئی بات مکالمہ کے رنگ میں نظر آئے وہ ان حضرات کی تیار کردہ رپورٹ سے لی گئی ہے.حوالے پہلے سے تیار ہوتے تھے.ان کی پانچ پانچ فوٹوسٹیٹ نقول جوں اور ایک ریڈر کو مہیا کرنے کے لئے تیار کر کے رکھ لی جاتی تھیں.حوالوں کو ترتیب دے دی جاتی تھی.عدالت میں یہ عالم تھا کہ میں اپنی بحث تسلسل اور روانی سے جاری رکھتا تھا اور صرف ہاتھ بڑھا دیتا تھا.حافظ مظفر صاحب متعلقہ کتاب میرے ہاتھ میں پکڑا دیتے تھے اور کوئی نوجوان حوالے کی پانچ نقول متعلقہ عدالت کے افسر کے حوالے کر دیتے تھے اور فوٹوسٹیٹ ہر حج کے سامنے پہنچ جاتی تھی.ہمارا قائم کردہ یہ طریق اتنا مؤ ثر تھا کہ عدالت نے بعد میں فریق مخالف سے بھی ایسی توقع کی مگر کسی کی طرف سے بھی اس انداز میں معاونت پیش نہ کی جاسکی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے عدالت پر بھی اچھا اثر تھا.ہما راٹیم ورک خدا کے فضل سے ایسا تھا کہ اپنوں اور غیروں نے اس کی داد دی.ایک نظام کے تحت ٹیم ورک کے نتیجہ میں تائید الہی کا یہ کرشمہ بھی ہم نے دیکھا کہ بھری عدالت میں بیساختہ بار بار اس امر کا اظہار کیا گیا کہ ہماری ٹیم بہت مضبوط ہے.(الحمد للہ علی ذالک ) عدالت کا یہ تاثر دورونز د یک تک پہنچا.ان دنوں جسٹس گل زرین کیانی لاہور ہائی کورٹ میں حج تھے.راولپنڈی بار سے ان کا تعلق تھا اور یوں میرے ساتھ پیشہ ورانہ تعارف اور شناسائی تھی.ایک روز مجھے ان کا پیغام 10

Page 17

ملا کہ وقفے کے دوران میں اُن سے ملوں.یہ بات خلاف معمول تھی.بہر حال میں وقفے کے دوران ان کے chamber میں حاضر ہو گیا.بڑے تپاک سے ملے اور کہا کہ چائے کے وقفے کے دوران جب حج صاحبان اکٹھے ہوتے ہیں تو شریعت کورٹ کے جج صاحبان تمہاری بحث کا بہت اچھے رنگ میں ذکر کرتے ہیں جس سے مجھے خوشی ہوتی ہے.میں نے چاہا کہ یہ بات تم تک پہنچا دوں.کچھ اس طرح کا اظہار بھی کیا کہ راولپنڈی بار سے تمہارے تعلق کی وجہ سے میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے.میں نے شکریہ ادا کیا اور یہ سوچتا ہوا چلا آیا کہ میں ذاتی طور پر تو اس تعریف کا مستحق نہ تھا مگر اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت نے ایک ایسا خوشگوار اثر اور رعب پیدا کر رکھا تھا جس میں میرا کوئی دخل نہ تھا.ڈاکٹر انوار اللہ ایک دیوبندی عالم اور اسلامیات میں پی ایچ ڈی تھے.یہ اسلامی یونیورسٹی میں پروفیسر بھی تھے اور وفاقی شرعی عدالت میں بطور عدالت کے معاون فرائض انجام دے رہے تھے.عدالت کے لئے حوالہ جات اور نظائر تلاش کرنا اور تحقیق و جستجو ان کا کام تھا.وہ بھی ہمارے طریق کار، ہماری تحقیق اور ہمارے اندازِ استدلال سے خاص طور پر متاثر ہوئے.مقدمہ کی سماعت ختم ہو جانے کے ایک عرصہ بعد میں اسلام آباد بار روم میں بیٹھا تھا کہ ایک نوجوان وکیل میرے پاس آئے اور اپنا تعارف کروانے کے بعد کہنے لگے کہ میں آپ کا شاگرد ہوں.میں نے کہا کہ کہاں پڑھتے رہے ہیں آپ ! تو کہنے لگے کہ میں نے اسلامی یونیورسٹی سے قانون کا امتحان پاس کیا ہے.مجھے حیرت ہوئی کہ میں نے تو کبھی اسلامی یونیورسٹی میں پڑھایا نہیں.تو اس نوجوان نے بتایا کہ ڈاکٹر انوار اللہ نے آپ کی شریعت کورٹ میں بحث کی ریکارڈنگ ایک مثالی انداز بحث کے طور پر کلاس روم میں سنوائی تھی کہ جب کوئی مسئلہ عدالت میں پیش کیا جائے تو اس کا طریق یہ ہونا چاہئے جو آپ نے پیش کیا.11

Page 18

اس بھر پور کوشش کو عدالت میں پیش کرنے کی سعادت اس خاکسار کے حصہ میں آئی.ذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتُيْهِ مَنْ يَشَاءُ.اگر چہ مقدمہ پیش کرنے کے لئے راقم الحروف پر اعتماد کیا گیا تھا مگر راقم الحروف کو ایک پوری ٹیم کی راہنمائی اور تعاون حاصل تھا.اس پہلو سے خاکسار کو پورا اطمینان ہے کہ دوران بحث کوئی غیر مستند اور غیر ثقہ بات بیان نہیں کی گئی.بایں ہمہ جو کچھ عدالت میں گزری اس کا پوری طرح راقم الحروف ذمہ دار ہے اور اس میں اگر کہیں کوئی سقم قارئین کو نظر آئے تو ایسی غلطی یا ستم اس عاجز کی طرف ہی منسوب ہونی چاہئے.☆..(......☆ 12

Page 19

{2} عدالت میں سماعت جس روز بحث کا آغاز ہوا خاکسار نے عدالتی معمولات سے ہٹ کر اپنی بحث کا آغاز تشہد اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مسنون خطبہ الْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللهِ مِنْ شُرُوْرِ أَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَنَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُ سے کیا.کمرہ عدالت مولویوں اور مدرسہ کے طالب علموں سے بھرا ہوا تھا اور یہ ایک عجیب تصرف ہی تھا کہ میں نے یہ غیر معمولی طریق اختیار کیا.یہ گویا پہلا اعلان تھا کہ ہم کلمہ شہادت اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن چھوڑنے والے نہیں.دینی مدارس کے طالب علم سوچتے تو ہوں گے کہ یہ کیسا غیر مسلم ہے جو اپنی گفتگو کا آغاز مسنون خطبہ سے کرتا ہے.سماعت کے پہلے ہی روز ہم نے بحث کا آغاز کرنے سے قبل عدالت سے یہ درخواست کی کہ اگر ہماری درخواست کا کوئی جواب حکومت کی طرف سے داخل کیا گیا ہو تو اس کی نقل مہیا کی جائے.سرکاری وکیل سے استفسار کے بعد عدالت نے بتایا کہ کوئی جواب داخل نہیں کروایا گیا.اس کے بعد عدالت سے یہ درخواست کی گئی کہ آرڈینینس جاری کرنے سے پہلے اخباری اطلاعات کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل سے رپورٹ طلب کی گئی تھی اس رپورٹ 13

Page 20

کی نقل ہمیں مہیا کی جائے.بحث کے دوران بعد میں ایک مرحلہ پر اس رپورٹ کا ذکر ہوا اور وہ عدالت کے سامنے پیش کی گئی.چیف جسٹس نے اس رپورٹ کے بعض حصے پڑھ کر سنائے جو آرڈینینس کی تائید میں تھے ہم نے مکرر یہ درخواست کی کہ اس کی ایک نقل ہمیں مہیا کی جائے.جس پر یہ مکالمہ ہوا.چیف جسٹس : نقل کی ضرورت نہیں انہوں نے جو بھی صحیح یا غلط مشورہ دیا ہے ہم اس کے پابند نہیں.مجیب الرحمن : اسلامک آئیڈیا لوجی کونسل والوں نے بھی کوئی وجہ جوازن قوانین کی بیان نہیں کی.چیف جسٹس اسلامک آئیڈیا لوجی کونسل وجوہات کم ہی بیان کرتی ہے.(اس پر عدالت سمجھتی ہے.میں ایک قہقہہ بلند ہوا) حاجی غیاث محمد وکیل سرکار : وہ اپنے آپ کو چیف جسٹس : اگر انہوں نے کوئی وجہ دی بھی ہوتی تو ہم پر وہBinding نہ ہوتی.اصل زیر بحث تو قانون ہے.Above Reason یوں عدالت میں ہی یہ بات واضح ہوگئی کہ اسلامی نظریاتی کونسل اپنی سفارشات کی تائید میں کوئی وجہ یا دلیل بیان کرنے کی عادی نہیں ہے بلکہ سرکاری وکیل کے نقطہ نظر سے وہ اپنے آپ کو دلیل سے بالا تصور کرتی ہے.عدالت نے اس مرحلہ پر یہ تو کہا کہ ہم نظریاتی کونسل کی سفارشات کے پابند نہیں.یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ جو بھی سفارش تھی اس کی کوئی دلیل یا وجہ بیان نہیں کی گئی.بایں ہمہ جب عدالت کا فیصلہ سامنے آیا تو عدالت نے بھی قانون کو تو جائز قرار دے دیا مگر قرآن و سنت سے اس کی کوئی دلیل بیان نہ کی.پہلے دن کی کارروائی میں ہم نے دوسری درخواست یہ کی کہ ہمیں کارروائی ٹیپ ریکارڈ 14

Page 21

کرنے کی اجازت دی جائے مگر عدالت نے کہا کہ ٹیپ ریکارڈ عدالت خود کرے گی اور ہمیں ٹیپ ریکارڈ کرنے کی اجازت نہیں.دوسرے یا تیسرے دن کا ذکر ہے کہ خاکسار نے عدالت کو توجہ دلائی کہ عدالت کی کارروائی اخبارات میں شائع نہیں ہو رہی اور وہ روک دی گئی ہے اور یوں ہمارا نقطۂ نظر عوام الناس تک نہیں پہنچ رہا.عدالت کا جواب یہ تھا کہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے عوام نے نہیں.چنانچہ عدالت کی کارروائی شائع ہونے سے روک دی گئی.میہ ایک رویہ بن گیا ہے کہ جماعت کے خلاف کارروائی میں تاثر تو یہ دیا جائے کہ جماعت کو پورا موقع دیا گیا مگر کاروائی یکطرفہ طور پر کر دی جائے.یہی کچھ شرعی عدالت میں ہوا.جو ہم نے کہا، جو دلائل ہم نے دیئے ، جو حوالے ہم نے دیئے ان سے جو استنباط کئے وہ تو عوام کے سامنے نہ آئے.عدالت کی طرف سے قرآن وسنت سے کوئی دلیل نہ دی گئی اور یکطرفہ طور پر جماعت کے خلاف زہر یلا مواد عدالت کے فیصلہ میں داخل کر دیا گیا.عدالت میں اپنا مقدمہ پیش کرنے میں بحث کرتے ہوئے خاکسار نے تین حصار قائم کئے اور گزارش کی کہ ساری بحث ان حدود کے اندر ہوگی.ہم بھی اس کی پابندی کریں گے اور عدالت بھی اس کی پابند ہے.پہلا حصار ہم نے یہ قائم کیا کہ شروع ہی میں یہ بات عدالت پر واضح کر دی کہ ہم آئینی ترمیم کو زیر بحث نہیں لانا چاہتے.یہ عدالت آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دینے کی مجاز نہیں ہے.ہم بھی اس بات کو زیر بحث نہیں لائیں گے.ہمارا کہنا صرف یہ ہے کہ آئینی ترمیم کے علی الرغم ،میر امذ ہب کچھ بھی ہو ، آرڈینینس کی عائد کردہ پابندیوں کا جائزہ قرآن وسنت کی روشنی میں لیا جانا چاہئے.اور جو درخواست داخل کی گئی ہے اسے ہم ایک مذہبی فریضہ کے طور پر ملک وملت کی خیر خواہی کے جذبہ سے ادا کر رہے ہیں.کیونکہ جو قانون قرآن وسنت کے منافی ہوا سے ملکی قانون کا حصہ نہیں ہونا چاہئے اور کا اعدم قرار د ید یا جانا چاہئے تا کہ قوم کی 15

Page 22

معصیت کا شکار ہونے سے بچ جائے اور قرآن وسنت کے خلاف تعزیری قوانین نافذ کرنے کے وبال سے بچ جائے.اس بات کا بھی اظہار کیا کہ تعزیری قوانین اگر قرآن وسنت سے متصادم ہوں تو قوم ایک بہت بڑے انتشار کا شکار ہو سکتی ہے کیونکہ قرآن وسنت کے خلاف احکام کی اطاعت لازم نہیں.دوسرا حصار ہم نے یہ قائم کیا کہ قوانین کو جائز ٹھہرانے کے لئے صرف قرآن وسنت ہی پر انحصار کیا جائے گا اور کوئی قیاس، استدلال، استنباط یا فقہ کسوٹی کے طور پر بنیاد نہیں ٹھہرے گا.اور ہم نے عدالت میں یہ بڑی تحدی کے ساتھ کہا کہ فیصلہ صرف قرآن اور سنت پر ہو گا.قرآن اور سنت سے براہِ راست استفادہ کیا جائے گا.اس کے لئے کتب تفاسیر اور آئمہ سلف سے مددضرور لی جائے گی.مگر فیصلہ صرف قرآن وسنت پر ہوگا.کسی فقہ کی تقلید بنیاد نہیں ٹھہرے گی.اور ہم نے یہ بحث کی کہ یہ صرف ہمارا نقطہ نظر نہیں بلکہ خود آئین کے آرٹیکل D-203 سے یہ بات واضح ہے کہ صرف قرآن اور سنت ہی قوانین کے جواز یا بطلان کا معیار ٹھہریں گے.ہم نے عدالت سے یہ کہا کہ آئین نے آپ کو قرآن اور سنت کا پابند کر کے ہر دوسرے کی تقلید سے آزاد کر دیا ہے اور یوں ایک پہلو سے عدالت کا اختیار محدود ہو گیا ہے کیونکہ وہ قرآن وسنت سے باہر نہیں جا سکتی.دوسرے پہلو سے اس کے اختیارات میں بے پناہ وسعت پیدا کر دی گئی ہے کیونکہ اسے ہر تقلید سے آزاد کر دیا گیا ہے.تیسرا حصار ہم نے یہ قائم کیا کہ جب فیصلے کی بنیا د صرف قرآن وسنت ہے تو یہ بات بھی طے ہو جانی چاہئے کہ قرآنی احکام کو سمجھنے کے اصول کیا ہو نگے.اس بارہ میں ہم نے عدالت کے سامنے چند اصول بیان کئے.یہ اصول کم و بیش تمام متقدمین اور متاخرین میں متفق علیہ ہیں.ہم نے اپنی بحث میں جو اصول عدالت کے سامنے پیش کئے وہ یہ تھے : 16

Page 23

قرآن فہمی کا اولین اصول تو یہ ہے کہ قرآنی احکام کی تفسیر قرآن ہی سے حاصل کی جائے کیونکہ قرآن کریم نے کوئی اہم مضمون محض سرسری طور پر بیان کر کے نہیں چھوڑ دیا بلکہ تمام مضامین کو مختلف پیرائے میں پھیر پھیر کر بیان کیا ہے اور تصریف آیات کے ذریعہ ذہن نشین کروایا ہے.کہیں ایک مضمون اجمالاً بیان ہوا ہے تو دوسری جگہ تفصیلاً بیان فرما دیا ہے.اسی طرح آیات قرآنی کا شان نزول بھی آیات کا مفہوم سمجھنے میں محمد ہو سکتا ہے.سبب نزول کی معرفت سے آیات کے معانی سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے مگر نصوص قرآنی میں اعتبار، الفاظ کے عموم کا ہوتا ہے سبب کے خاص ہونے کا نہیں.الغرض ہم نے قرآن حکیم کو سمجھنے کیلئے یہ پانچ بنیادی اصول عدالت کے سامنے رکھے:.-1- تفسیر القرآن بالقرآن 2 آیات کے بارہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال اور سنتِ متواترہ 3 صحابہ و رسول کے اقوال 4 لغت عرب کی طرف رجوع 5- تفسیر بتقاضہ کلام کسی امر میں یا کسی قرآنی حکم کے بارہ میں اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمودہ تفسیر یا تشریح صحیح ثابت ہو جائے تو پھر کسی اور قول کی ضرورت باقی نہیں رہتی، اور اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی واضح قول نہ ملے تو حضور کے بعد صحابہ رسول کے اقوال معتبر ٹھہریں گے.یعنی قرآن کو صاحب قرآن سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا کیونکہ قرآن آپ پر نازل ہوا تھا اور آپ کو اس کی حکمتیں سمجھائی گئی تھیں اور آپ کے صحابہ نے براہ راست وہ حکمتیں آپ سے حاصل کیں.یہ بنیاد میں قائم کرنے کے بعد ہم نے اپنی اصل بحث کا آغاز کیا اور اس میں پھر بعض بنیادی امور کی طرف عدالت کی توجہ مبذول کروائی.مسجد ، اذان ، چند القاب اور تبلیغ وغیرہ 17

Page 24

پر پابندی کے بارہ میں آرڈینینس کا شق وار جائزہ لینے سے پہلے ہم نے یہ بات بھی عدالت پر واضح کی کہ کسی قانون کا جائزہ لیتے وقت متعلقہ نصوص اور آیات کے ساتھ ساتھ اسلام کے عام شرعی اصولوں اور روح اسلام سے ہم آہنگ ہونے کا بھی جائزہ لیا جانا ضروری ہے.یعنی یہ دیکھنا ہوگا کہ متعلقہ امر زیر غور کے بارہ میں قرآن کی عام تعلیم اور اصول کیا ہے.ہم نے یہ بحث بھی اُٹھائی کہ کوئی بھی اولی الامر یا اقتدار اعلیٰ جب وقتی تقاضوں کے تحت کوئی قانون وضع کرنا چاہے، تو ان امور میں قانون سازی کر سکتا ہے جن میں شریعت نے خاموشی اختیار کی ہو.مگر کسی اقتدار وقت کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ حلت و حرمت کی نئی قدریں قائم کرے یا قرآن کی بیان کردہ کسی نیکی کو بدی قرار دے دے، یا بدی کو نیکی ٹھہرائے.حریت فکر حریت فکر کے بارہ میں بھی اسلامی تعلیمات کی روح کا جائزہ لیا گیا اور اس بارہ میں متعد د قرآنی آیات سے مضمون واضح کیا کہ مذہب کے معاملہ میں کسی قسم کا جبر اسلام نے روا نہیں رکھا.اس ضمن میں سورۃ یونس کی آیت نمبر 99 پیش کی جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، لَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَنْ فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعاًن اور قرآنی آیات سے واضح کیا کہ اللہ تعالیٰ چاہتا تو انسان کو اور ہی مخلوق بنا دیتا اس طرح سے کہ وہ نیکی اور بدی سے بے نیاز ہو جاتے.مگر مشیت ایزدی نے ایسا نہیں چاہا بلکہ انسان کو خیر وشر کی پہچان کروائی اور پھر ا سے آزاد چھوڑ دیا اور خود رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس بات کا مکلف نہیں ٹھہرایا کہ وہ لوگوں کے دلوں میں ایمان داخل کریں اور انسان کا شرف ہی اس کی یہ آزادی ہے.اس بارہ میں ہم نے جملہ آیات کی تفاسیر اور ان کی آراء بھی عدالت کے سامنے پیش کیں.قرآن شریف کی آیت لَا إِكْرَاهَ فِی الدِّینِ کی شانِ نزول سے بھی ہم نے استدلال کیا کہ جب 18

Page 25

مدینہ کے مسلمانوں کو قوت حاصل ہوئی اور بنو نضیر کی جلاوطنی کے وقت مسلمانوں کے دل میں یہ معمولی سا خیال پیدا ہوا کہ وہ اپنے بچوں کو جبر ابنو نضیر سے واپس لے لیں تو لَا إِكْرَاهَ فِى الدین کی آیت نازل ہوئی.ہم نے اکراہ کے مضمون و معانی کو بھی لغت وفقہ سے بڑی شرح وبسط کے ساتھ عدالت میں پیش کیا کہ محض دھمکی دینا بھی اکراہ میں شامل ہے اور کسی سے اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام کروانا بھی اکراہ میں شامل ہے.مذہب کی آزادی انسان کا بنیادی حق ہے اور جو شخص یہ حق چھینتا ہے وہ گویا اس کی انسانیت چھینتا ہے اور حدیث صحاح ستہ اور مختلف حوالوں سے ہم نے عدالت پر یہ واضح کیا کہ اگر غور کیا جائے تو مذہبی آزادی کے چار پہلو ہیں :.-1 کسی کو مذہب میں داخل کرنے کے لئے جبر نہ کیا جائے.2 اگر کوئی داخل ہونا چاہے تو اسے داخل ہونے سے جبر اروکا نہ جائے.اگر کوئی مذہب پر رہنا چاہے تو اسے جبر نکالا نہ جائے.-4- اگر کوئی مذہب میں نہ رہنا چاہے تو اسے مذہب میں رہنے پر مجبور نہ کیا جائے.اس کے بعد آرڈینینس کی عائد کردہ پابندیوں پرشق وار بحث کی جس کا خلاصہ قارئین آئندہ صفحات میں ملاحظہ فرمائیں گے.19

Page 26

Page 27

{3} تائیدات و تصرفات الہی دراصل سماعت کے دوران چودہ دن سارے عرصہ میں ہی یہ احساس رہا کہ گو یا اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت کی ایک چادر ہمارے اوپر تنی ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ نے یہ خاص فضل فرمایا کہ کسی موقع پر خفت نہیں اُٹھانی پڑی.سماعت کے دوران ایسے متعدد مواقع پیش آئے کہ اچا نک عدالت نے کوئی ایسا سوال کر دیا جس کیلئے ہم پہلے سے تیار نہیں تھے.ایسے مواقع پر اللہ تعالیٰ کی خاص تائید و نصرت کا احساس ہوا اور ایسے جواب پیش کرنے کی توفیق ملی کہ جس سے نہ صرف ہمارا اپنا ذہن مطمئن ہوا بلکہ عدالت اور دیگر سامعین بھی نمایاں طور پر متاثر نظر آئے.دو علماء جو شریعت کورٹ کے جج کے طور پر بیٹھے تھے ان کی ساری زندگی انہی تفاسیر کو پڑھنے پڑھانے میں گزری تھی.وہ بعض اوقات اچانک کوئی ایسا سوال کر دیتے تھے جو خاکسار کے لئے بالکل نیا ہوتا تھا.یہ خاص اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ اس نے ہر موقعہ پر یوں رہنمائی فرمائی کہ ممسکت اور کافی وشافی طور پر ہر سوال کو حل کرنے کی توفیق ملی.نصرت الہی کے عجیب تصرفات قدم قدم پر تجربہ میں آئے.ایک موقعہ پر علامہ قدوس قاسمی صاحب نے یہ کہا کہ روح المعانی کے حوالے کا ترجمہ جو خاکسار نے کیا ہے وہ درست 21

Page 28

نہیں اور انہوں نے جو ترجمہ وہ درست سمجھتے تھے بیان کیا.خاکسار نے بڑے اعتماد سے جواب دیا کہ جو تر جمہ آپ کر رہے ہیں وہ آپ کی رائے ہے، وہ بھی درست ہوسکتا ہے.لیکن جو ترجمہ میں نے پیش کیا ہے وہ اصل درست اور انسب ترجمہ ہے.عجیب تصرف ایسا ہوا کہ رات کی تیاری میں جو حوالہ جات ترتیب دیئے گئے اس میں ترتیب ایسی واقع ہوئی تھی کہ اگلا حوالہ جو میں نے پیش کیا اس سے اس امر کی تائید ہوتی تھی کہ میرا ترجمہ درست ہے اور جب میں نے وہ حوالہ پڑھا تو قاسمی صاحب نے تسلیم کیا کہ خاکسار کا پیش کردہ ترجمہ درست تھا اور پھر اس بات پر خاموشی اختیار کر لی.یہ ان کی اعلیٰ ظرفی تھی.بحث کے دوران بہت دلچسپ مراحل بھی آئے.خاکسار نے اپنے استدلال کی بنیاد سورۃ المائدہ کی دوسری آیت پر رکھی تھی.اس بارہ میں طویل بحث ہوئی اور ایسے مقامات آئے جس میں فریق مخالف کی طرف سے جواب دینے سے عاجزی اور دلائل کے میدان میں کمزوری اور کم مائیگی کھل کر سامنے آئی.ہم نے جب اپنی درخواست دائر کی تو اس میں ہم نے سورۃ المائدہ کی آیت وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْم الخ.پر انحصار کیا تھا اور اس وقت ہمارے پیش نظر تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ.وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَان كا مضمون بنیادی حیثیت رکھتا تھا.تیاری کے دوران جب آیت نکالی گئی تو اس آیت کے پہلے ٹکڑے نے خصوصیت سے ہماری توجہ کو کھینچا.یعنی يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْالَا تُحِلُّوْا شَعَائِرَ اللهِ.اور جب اس آیت کی شان نزول کے بارہ میں تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ فتح مکہ کے بعد مشرکین مکہ کی ایک جمعیت اپنے قربانی کی جانور ہانکتے ہوئے اپنے مشرکانہ انداز میں حج کے لئے روانہ ہوئے تو صحابہ نے روکنا چاہا صلح حدیبیہ کے موقع پر مشرکین مکہ مسلمانوں کو حج سے روکنے کے مرتکب ہو چکے تھے اور بعض صحابہ نے یہ سمجھا کہ انہیں اب مشرکین مکہ کو روکنے کا حق ہے تو اس موقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی کہ بايُّهَا الَّذِيْنَ 22

Page 29

امَنُوْالَا تُحِلُّوْا شَعَائِرَ الله اور اس بارہ میں مفسرین کی آراء ہم نے پیش کیں جس میں مودودی صاحب کی تفہیم القرآن سمیت دیگر کتب تفسیر کے حوالے پیش کئے گئے.ہمارا استدلال اتنا قوی اور مضبوط تھا کہ جب جواب بن نہ آیا تو سرکاری وکیل سید ریاض الحسن گیلانی نے اپنے علماء کے مشورہ سے بالآخر یہ موقف اختیار کیا کہ یہ آیت منسوخ ہو چکی ہے.دوران بحث ایک موقعہ پر مولوی قدوس قاسمی صاحب نے ایک حوالہ کے شروع میں اس فقرہ کی طرف توجہ دلائی کہ لَا يَصِحُ اذَانُ الْكَافِرِ.کافر کی اذان درست نہیں.تو خاکسار نے برجستہ یہ جواب دیا کہ لا یصح سے اگر یہ مراد ہو کہ کافر کی اذان درست نہیں یا مؤثریا مقبول نہیں تو اس سے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کافر کو اذان دینے سے روکا نہیں جاسکتا کیونکہ اگر روک دیا جا تا تو اس کے صحیح یا غیر صحیح ہونے کا سوال پیدا نہیں ہوسکتا.ایک موقعہ پر عبدالقدوس قاسمی صاحب نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا شعائر غیر مسلموں کے ساتھ مشترک بھی ہو سکتے ہیں تو میں نے یہ عرض کیا جی ہاں ہو سکتے ہیں.داڑھی رکھنا، ختنہ کرانا مسلمانوں اور یہودیوں کے مشترکہ شعائر ہیں.اسلام تو آخری اور ترقی یافتہ دین ہے اس کے شعائر تو بہت سے مذاہب کے ساتھ مشترک ملیں گے.جس پر مولوی غلام علی صاحب نے یہ سوال کیا کہ اگر اصلی کرنسی کے بجائے کوئی جعلی کرنسی چھاپ دے جو ہو بہو اس جیسی ہو تو کیا یہ دوسرے کے شعائر کو غلط طور پر استعمال کرنا نہیں ہوگا.جس پر برجستہ یہ جواب دیا کہ اگر سعودی عرب کی کرنسی کا نام بھی ریال ہوا اور عراق کی کرنسی کا نام بھی ریال ہو، تو وہ اپنی اپنی جگہ پر اسی طرح استعمال ہوسکیں گی اور کوئی انہیں جعلی نہیں کہے گا.اصل بات یہ ہے کہ اذان کو کرنسی یا مادی امور کے ساتھ کوئی نسبت نہیں اور نہ یہ تشبیہ مناسب ہے.اذان میرا مذہبی طریقہ ہے.آپ کا بھی یہی طریق ہے.اس کو جعلسازی نہیں کہا جاسکتا بلکہ نیک کام میں تعاون اور اشتراک کی دعوت قرآن وسنت سے ثابت ہے.23

Page 30

بحث کے دوران چیف جسٹس نے یہ سوال اُٹھایا کہ تاریخی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ فتح مکہ کے بعد کفار کو حج سے روک دیا گیا تھا اور چیف جسٹس نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ کسی تفسیر نے اس سوال کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی کہ سورۃ توبہ کی آیت میں مشرکین کو حج سے روک دینے اور سورۃ المائدہ کی آیت میں مشرکین کو حج سے نہ روکنے کی جو ہدایت ہے اس سے نسخ واقع ہوا یا نہیں اور چیف جسٹس نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس پر تحقیق کی جائے.فریق مخالف نے تو کوئی تحقیق پیش نہ کی ، ہم نے اس پر اپنی تحقیق کی تھی وہ پیش کی اور بتایا کہ بے شک بعض لوگوں نے یہ نسخ مانا ہے اور امام سیوطی نے درمنثور میں یہ لکھا ہے کہ آیت کا صرف ایک حصہ وَلَا امّینَ البَيْتَ الحَرام کا ٹکڑا منسوخ ہوا ہے.اور متعدد ایسی روایات پیش کیں جن سے اس قرآنی آیت کے منسوخ نہ ہونے کا مضمون واضح ہوتا ہے.لیکن ہمارا کہنا یہ تھا کہ ناسخ و منسوخ کی طویل بحث کے باوجود ہمارا استنباط باطل نہیں ہوتا.کیونکہ جس حصہ پر ہم نے بنیادرکھی ہے اس کو ان لوگوں نے بھی منسوخ نہیں مانا جو نسخ کے قائل ہیں.دوران بحث رَضِيَ اللهُ عَنْہ کے لفظ پر بحث جاری تھی کہ جسٹس غلام علی نے جن کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا اعتراض اٹھایا اور یہ مکالمہ ہوا.جسٹس غلام علی: بی تو دعائیہ جملہ ہے یہ توکسی کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے.مجیب الرحمن : میں تو یہی عرض کرتا ہوں کہ مجھے دعا کرنے دیں.ماننا تو خدا کے اختیار میں ہے.مجھے اپنے بزرگوں کیلئے دعا کرنے کا حق ہے اور دعاسے روکنا بندے اور خدا کے درمیان حائل ہونا ہے.دعا کو قابل تعزیر کیسے بناسکتے ہیں.جسٹس قاسمی: آپ عربی میں دعا نہ کیا کریں.مجیب الرحمن : آپ دیکھیں بات کہاں تک پہنچ رہی ہے.کل شاید یہ بھی کہا جائے کہ عربی بھی نہ پڑھو حالانکہ ساری نماز عربی میں ہے.یعنی مجھے یہ بھی کہا جائے گا کہ 24

Page 31

نماز بھی نہ پڑھو.اس بات کے کتنے وسیع اثرات ظاہر ہورہے ہیں.اسی لئے ہمارا کہنا ہے کہ یہ قانون معقولیت کے دائرہ سے باہر ہے.اس موقع پر جسٹس قاسمی صاحب نے سوال کیا کہ صحابہ کے علاوہ کسی کے لئے رضی اللہ عنہ کے استعمال کی مثال دیں.جب یہ مثالیں سورۃ توبہ کی آیت 100 کی روشنی میں پیش کیں تو انہوں نے ایک اور سوال داغ دیا کہ آپ لوگ تو Declared non Muslim ہوکر یہ اصطلاح استعمال کرتے ہیں اس لئے کوئی ایسی مثال دیں کہ غیر مسلم کے لئے یہ الفاظ استعمال ہوئے ہوں.خاکسار نے فی البدیہ عرض کیا کہ حضرت امام حسین کے بارہ میں آپ رضی اللہ عنہ کے الفاظ استعمال کریں گے یا نہیں؟ وہاں شیعہ حضرات بھی موجود تھے، قاسمی صاحب نے کہا بالکل ان کے لئے رضی اللہ عنہ استعمال ہوگا.خاکسار نے عرض کیا کہ آپ کو علم ہے وہ اپنے دور کے Declarednon Muslim تھے اور جنہیں اقتدار وقت نے غیر مسلم قرار دے رکھا تھا.ایک اور موقعہ پر خاکسار قرآن کریم کے حوالے سے بیان کر رہا تھا کہ قرآن کریم نے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے معابد کیلئے مسجد کا لفظ استعمال کیا ہے.اور اس ضمن میں سورۃ بنی اسرائیل کی آیت 2 کا حوالہ دیا اور یہ بتایا کہ اس آیت میں بیت المقدس کو بھی مسجد کہا گیا اور عدالت کے روبرو ایسے حوالے پیش کیے کہ بیت المقدس کو Solomants Temple کہا جاتا تھا اور اس آیت کے نزول کے وقت نہ مسجد حرام مسجد تھی، نہ مسجد اقصی مسجد تھی.مسجد حرام میں تو 365 بتوں کی پرستش ہوتی تھی اور وہ بت خانہ بنا ہوا تھا اور مسجد اقصیٰ تو یہودیوں اور عیسائیوں کی عبادت گاہ تھی.اس مرحلہ پر ایک دلچسپ مکالمہ جسٹس غلام علی اور خاکسار کے درمیان ہوا.جسٹس غلام علی : قبل از اسلام کے لوگ بھی تو مسلمان تھے.مجیب الرحمن : یہ تو ایک اور بحث نکل آئے گی.اس کا مطلب تو پھر یہ بھی ہوگا کہ یہودی بھی 25

Page 32

اذان دے لیا کریں.جسٹس عبد القدوس قاسمی: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام نبیوں کے جانشین تھے آپ نے پہلی اُمتوں کے لئے مسجد کا لفظ منسوخ کر دیا.مجیب الرحمن : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے نبیوں کے جانشین نہیں بلکہ حکم اور خاتم الانبیاء ہیں.اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی امتوں کے لئے مسجد کا لفظ منسوخ کر دیا ہے تو پھر اور بات ہے لیکن اس کا بار ثبوت مخالف وکلاء کے سر ہے کہ کیا منسوخ کیا؟ چیف جسٹس : جہاں اور امتوں کے معاہد کو مسجد کہا گیا ہے وہاں یہ لفظ لغوی معنوں میں استعمال ہوا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اس کے اصطلاحی معنی مروج ہو گئے ہیں.مجیب الرحمن : اس کی سند چاہیے.تاہم اگر آپ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اصطلاحی طور پر نہیں بلکہ لغوی طور پر مسجد کے لفظ کا استعمال درست ہے تو میرا مقصد اس سے حل ہو جائے گا.مجھے لغوی طور پر ہی استعمال کرنے دیں.عبدالقدوس قاسمی صاحب : مسجد کے لفظ کی اجازت نہ دینا تو ایسا ہی ہے جیسے ایک ڈرائیور اچھی گاڑی نہ چلا سکتا ہو اور اس کو گاڑی سے نکال دیا جائے کہ تم اس قابل نہیں ہو کہ گاڑی چلا سکو.مجیب الرحمن : میں جس کے آگے سجدہ کر رہا ہوں اس کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ مجھے قبول کرے یا رڈ کر دے.یہ تو کار کے مالک کا کام ہے کہ وہ ناقص ڈرائیور کو گاڑی چلانے دیتا ہے یا نہیں.کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں.اس کے بعد ہم نے عدالت پر یہ واضح کیا کہ قرآنی آیات سے یہ مستنبط ہوتا ہے کہ 26

Page 33

جہاں خدائے واحد کی عبادت کی جائے وہ مسجد ہے.اسی لئے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں کو جو موحد تھے مسجد نبوی میں عبادت کرنے کی اجازت دی تھی.چیف جسٹس : عیسائی کتب میں کہیں مسجد کا لفظ استعمال نہیں ہوا.مجیب الرحمن : ہمارے پاس تو سب تراجم ہی پہنچے ہیں عین ممکن ہے اصل عبرانی میں یہ لفظ موجود ہو.ایک موقع پر میں نے اپنے استدلال کی تائید میں تفسیر المنار کا حوالہ پیش کیا جس میں لکھا تھا کہ مسجد کا لفظ ان لوگوں کے معاہد کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے جو خالص بت پرست ہیں.اس پر حسب ذیل مکالمہ عدالت میں ہوا.جسٹس قاسمی : کیا عدالت ان علماء کے حوالوں کی پابند ہے.مجیب الرحمن : یہ درست ہے کہ عدالت ان کی پابند نہیں لیکن یہ سب کتب احمد یہ مسلک کے وجود میں آنے سے قبل لکھی گئی ہیں اور ان کا قول اس لئے زیادہ معتبر ہے کہ وہ فریق نہیں تھے اور آزادانہ علمی رائے رکھتے تھے.یہ تو درست ہے کہ عدالت ان کی رائے کی پابند نہیں تاہم یہ نہیں کہا جاسکتا کہ میری رائے کی تائید میں متقدمین اور متاخرین میں سے کوئی سند موجود نہیں.گویا قدم قدم پر یہ نظارہ دیکھا گیا کہ عدالت نے کہیں قرآن کی آیت کو ہی منسوخ قرار دے دیا اور کہیں اپنے بزرگوں کے بارہ میں کہہ دیا کہ ہم ان حوالوں کے پابند نہیں.گویا پابندی نہ قرآن کی ہورہی تھی نہ سنت کی.صرف ازمنہ وسطی کی فقہ اور فرسودہ روایات کی ہورہی تھی.ایک موقع پر تبلیغ کے موضوع پر بات ہورہی تھی تو یہ مکالمہ ہوا: جسٹس : آپ کی تبلیغ سے دوسرے لوگوں کو جو resentment ہوتی ہے اس کا کیا کیہ 27

Page 34

جائے؟ آپ کو چاہیے کہ آپ یہ کہیں کہ ہم غیر مسلم ہیں اور ہم یہ بات کرتے ہیں.جسٹس چوہدری محمد صدیق : آپ تبلیغ اسلام کے نام پر کرتے ہیں.اس سے مشکل پیدا ہوتی ہے.پھر روکنا پڑتا ہے.مجیب الرحمن : دراصل تبلیغ کو روکا نہیں جاسکتا.دو چپڑاسی ہیں ، دوافسر ہیں.اپنی اپنی سطح پر آپس میں گفتگو کرتے ہیں.ایک دوسرے کے عقائد پر تبادلہ خیالات ہوتا ہے.اس کو بھی تبلیغ کہتے ہیں.یہ رو کی نہیں جاسکتی.چیف جسٹس : تبلیغ کے بارے میں کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ انفرادی بحث نہ کریں؟.اخبارات و رسائل اور اشتہار دے دیں.یا کوئی بھی اور طریق استعمال کریں لیکن زبانی تبلیغ نہ کریں.اس ضمن میں احمدی اس عادت میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ہر موقع سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتے ہیں.مجیب الرحمن : تبلیغ کرنے والا بے ساختہ اپنے ضمیر کی بات دوسروں سے کرتا ہے.کوئی احمدی اپنی پوزیشن کا بے جا فائدہ اُٹھا کے تبلیغ نہیں کرتا.چیف جسٹس نہیں یہ عادت کی بات ہے.مجیب الرحمن : ممکن ہے یہ عادت ہو، عادت ، عادت ستیہ ہو یا عادتِ حسنہ.چیف جسٹس میں اپنا تجربہ بتاتا ہوں.میں urine لے کر ڈاکٹر کے پاس گیا.انہوں نے فورا ہی مذہبی گفتگو شروع کر دی.وہ کوئی احمدی ڈاکٹر تھے.مجیب الرحمن : اس قسم کا واقعہ میرے ساتھ بھی پیش آیا.میں نے میٹرک کا امتحان چنیوٹ سے دیا.میں گڑھا محلہ چنیوٹ کی ایک دوکان پر بیٹھا تھا.ایک مولوی عتیق الرحمن صاحب نے ” قادیانی نبوت“ نامی کتاب مجھے دی جو انہوں نے ہمارے خلاف لکھی تھی.میں نے کتاب پڑھی ، بڑا پریشان ہوا.میں نے 28

Page 35

اپنے والد صاحب سے ذکر کیا تو انہوں نے کوئی جواب نہ دیا.صرف یہ کہا: یہ الماریاں ہیں ، ان میں سب کتابیں موجود ہیں، ان کو پڑھو.کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو مجھ سے پوچھ لینا.تب میں نے پہلی مرتبہ احمدیت کا تفصیلی علم حاصل کیا.تو ان مولوی صاحب نے بھی مجھے تبلیغ کی.میرے لئے تو اچھا ہی ہوا.ایک اور موقع پر بحث ہورہی تھی کہ اولوالامر کے اختیارات کیا ہیں؟ اس موقع پر یہ گفتگو ہوئی.چیف جسٹس : اولوالامر کو حالات کو بھی دیکھنا ہوتا ہے.مجیب الرحمن : اولوالامر قرآن وسنت کے احکام کے معاملے میں آزاد نہیں.جب بھی میری اور اولوالامر کی سوچ میں فرق پڑ جائے گا تو یہ دیکھا جائے گا کہ اللہ اور اس کا رسول کیا کہتے ہیں.پھر قرآنی آیت رُدُّوهُ إِلَی اللہ سے بات ہوگی.جسٹس عبدالقدوس کاظمی : بعض فقہاء یہ کہتے ہیں کہ جو اولوالا مرکہ دے وہی حکم ناطق ہے.جسٹس غلام علی : یہ احکام تو صرف مسلمانوں کیلئے ہیں ان میں خطاب مسلمان کو ہے آپ کو نہیں.غیر مسلم تو نماز نہیں پڑھتا.اس کیلئے یہ حکم نہیں ہے.مجیب الرحمن : یعنی یہ بات ہوئی کہ اولوالا مرغیر مسلم کو نماز پڑھنے کا حکم نہیں دے سکتا.اس مرحلہ پر وقفہ ہو گیا.وقفے کے بعد میں نے یہ عرض کیا.مجیب الرحمن : پہلے میں جناب جسٹس غلام علی صاحب کی بات کا جواب دوں گا کہ قرآن کے مخاطب صرف مسلمان ہیں یا نہیں.حقیقت میں تو قرآن کریم کے اولین مخاطب کفار تھے.جسٹس غلام علی : میں نے عبادات کے احکام کی بات کی ہے.مجیب الرحمن : میں آپ کی بات سمجھتا ہوں ، مجھے بات کرنے دیں.قرآن مجید کی موجودہ 29

Page 36

30 80 ترتیب میں سب سے پہلا حکم یا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمْ سے شروع ہوتا ہے.قرآن کا مضمون شروع ہوتا ہے رَبِّ الْعَالَمِین کی حمد سے اور ختم ہوتا ہے رَبِّ النَّاسِ سے پناہ مانگنے پر.خدا صرف رَبِّ الْمُسْلِمین نہیں، رَبُّ الْعَالَمِين ہے اور سارا عالم ، بلکہ جملہ عالمین اس کی روحانی ربوبیت کے فیوض بھی پاتے ہیں.

Page 37

{4} مشیران عدالت ہماری طرف سے جو علمی مواد اور حوالے پیش کئے گئے.پہلے ہی دن سے ان کی دھاک بیٹھ گئی تھی اور مخالف کیمپ میں کھلبلی مچ گئی تھی.ہمارے کسی حوالے پر انگلی نہیں اُٹھائی گئی.جو علماء بحث سننے عدالت میں آتے تھے وہ یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ تیاری بہت ہے.یہ لوگ ہمیں لے بیٹھیں گے.کچھ کرنا چاہئے.جنرل ضیاء الحق کی طرف ہرکارے دوڑائے گئے.چنانچہ میری بحث کے دوران چوتھے روز عدالت نے یہ فیصلہ کیا کہ بحث کو اس مرحلہ پر روک کر مشیرانِ عدالت کو موقع دیا جائے.درمیان میں دو روز کی تعطیل تھی.عدالت نے یہ کہا کہ تعطیل کے بعد مشیرانِ عدالت بحث کریں گے.چنانچہ مشیرانِ عدالت کو دعوت دی گئی.سماعت کے دوران تقریباً آٹھ سکالر ز یا دینی علماء کو بطور مشیران عدالت دعوت دی گئی کہ وہ آرڈینینس کے بارہ میں ہمارے قائم کردہ دلائل کا جواب دیں.مشیران عدالت میں سے قاضی مجیب الرحمن جو پشاور یونیورسٹی میں شیعہ علوم اسلامیہ کے سر براہ تھے ،محمود احمد غازی جو اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن تھے ، اور ڈاکٹر طاہر القادری نے جو بحث کی اس کا انداز عالمانہ تھا مگران حضرات نے سارا زور کتب فقہ کے حوالہ جات پر صرف کیا اور ایک ایسا 31

Page 38

نقشہ کھینچا کہ گویا ایک اسلامی ملک میں غیر مسلم آبادی دوسرے درجے کی شہری بن کر رہ جائے.مسلمانوں کا سالباس نہ پہنیں، مخصوص قسم کی ٹوپیاں پہنا دی جائیں ،مسلمانوں کے ہم پلہ سواریاں استعمال نہ کریں، مسلمان گھوڑے پر ہوں تو غیر مسلم گھوڑے پر سوار نہ ہوں ، بلکہ خچر یا گدھا استعمال کریں، غیر مسلموں کی عمارات مسلمانوں کی عمارات سے بہتر یا بلند نہ ہوں، کسی محفل میں غیر مسلم مسلمان کے برابر یا ہم پلہ نشست پر نہ بیٹھیں.تین روز تک ایک ایسا بھیا نک نقشہ کھینچا گیا کہ جسٹس فخر عالم یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ اس صورت میں کیا ہم موجودہ دنیا میں منہ دکھانے کے قابل رہیں گے.بہر حال قرآن وسنت سے کوئی دلیل نہ دی گئی.علمیت کا مظاہرہ تو خوب ہوا مگر قرآن وسنت کی معرفت کا کوئی نشان ان حضرات کی پوری بحث میں نظر نہ آیا.رہ گئے مولوی حضرات تو ان کے بارہ میں عدالت خود سخت مایوسی کا اظہار کرتی رہی.بار بار کہتی رہی کہ باتیں غیر متعلقہ ہیں مگر یہ مولوی حضرات احمدی عقائد اور احمدیوں کو مرتد قرار دینے کے بارہ میں طویل بحثیں کرتے رہے.عدالت بار بار کہتی رہی کہ احمدیوں کا غیر مسلم ہونا آئین میں طے کر دیا گیا ہے اس پر بحث نہ کریں.اس بات پر بحث کریں کہ آرڈینینس میں جو پابندیاں لگائی گئی ہیں وہ قرآن وسنت کی رو سے درست ہیں یا نہیں.مگر مولوی حضرات عدالت کے تبصروں کو سنی ان سنی کر کے اپنا تیار کردہ مضمون بیان کرتے رہے.شعبہ اسلامیات پشاور یونیورسٹی کے سربراہ قاضی مجیب الرحمن نے بھی اہل ذمہ کا ذکر کرتے ہوئے وہی باتیں دہرائیں جو پروفیسر محمود غازی نے دہرائی تھیں.قاضی صاحب نے میثاق مدینہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ جو ذکر کیا گیا ہے کہ میثاق مدینہ کے ذریعہ یہودیوں کو امت میں شامل کر لیا گیا یہ بات بالکل غلط ہے اور متن کے خلاف ہے.32

Page 39

چیف جسٹس وہاں اُمت واحدہ کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں پر سب کے لئے یہ لفظ Nation کے لئے استعمال ہوا ہے.قاضی مجیب الرحمن: جی نہیں نہیں استعمال ہوا.قاضی مجیب الرحمن : نے غلام رسول مہر کے ترجمہ کے حوالے سے بحث کی.جب وہ ترجمہ پڑھ رہے تھے تو جسٹس قاسمی نے ان کی مدد کرتے ہوئے کہا کہ آگے چلیں آگے آپ کا موقف زیادہ واضح ہو جائے گا.جسٹس قاسمی نے کہا کہ مُنْهُمْ کا لفظ نہیں مَعَهُمْ کا لفظ ہے.چیف جسٹس : اس طرح کے معانی کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، حقیقی مفہوم وہی بنتا ہے جو تر جمہ کیا گیا ہے.قاضی مجیب الرحمن : میں وثوق سے کہ سکتا ہوں کہ یہ مطلب نہیں ہے.چیف جسٹس یعنی اگر آپ ان کو شہری بھی قرار نہیں دینا چاہتے تو 21 That is going too far..قاضی مجیب الرحمن : شہری تو ہیں.چیف جسٹس اس میں سیاسی وحدت کی طرف اشارہ ہے.امت واحدہ کا جو تصور ہے وہ مسلمانوں کے لئے علیحدہ بات ہے لیکن جب وہ سیاسی طور پر غیر مسلموں سے مل جائیں گے تو ایک اُمت بن جائیں گے.قاضی مجیب الرحمن: جی نہیں یہ مطلب نہیں.یہ مکالمہ چلتا رہا اور چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے ذہن پر اکراہ اور قتل والی بات چھائی ہوئی ہے.آخر چیف جسٹس نے کہا کہ اس موضوع کو چھوڑ ہیں.اس بارہ میں میں آپ کے ساتھ نہیں ہوں.قاضی مجیب الرحمن نے کہا کہ اہل ذمہ مسلمانوں کو تعظیم دیں گے.ان کی مجلسوں میں ان کے لئے اٹھیں گے.جوتی ، پگڑی ، لباس میں مسلمانوں کے ساتھ کوئی مشابہت 33

Page 40

نہیں رکھیں گے.اپنی صلیب اور اپنی کتاب کو مسلمانوں کے ساتھ نہیں ملائیں گے.اپنی نمازوں میں آواز بلند نہیں کریں گے.اور اسلامی ریاست میں اہل ذمہ کے ساتھ تعظیم واکرام کا سلوک نہیں کیا جائے گا بلکہ ایسا سلوک کیا جائے گا کہ ان کو اپنی پستی اور کمتری کا احساس ہو.جسٹس فخر عالم یہ باتیں جو آپ کر رہے ہیں اس سے آپ بحیثیت قوم دنیا کا سامنا : کر سکتے ہیں.انٹر نیشنل سطح پر دوسری قوموں سے بات کر سکتے ہیں.دوسرے ممالک میں جو لاکھوں مسلمان بستے ہیں ان کے ساتھ بھی اگر وہاں کی حکومتیں ایسا ہی دوسرے درجے کے شہری کا سلوک کریں تو ان لوگوں کا کیا حال ہو گا.آپ کے بین الاقوامی تعلقات کیا برقرارر ہیں گے؟.قاضی مجیب الرحمن : میں تو شریعت کی بات کر رہا ہوں مجھے اور کسی بات سے غرض نہیں ہے.آرڈینینس کے بارہ میں قاضی مجیب الرحمن نے صرف اتنا کہا کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اس میں غیر مسلم ان اصطلاحات کو استعمال نہیں کر سکتے.پروفیسر غازی نے ایک بحث یہ اُٹھائی کہ قرآن وسنت کے علاوہ سر براہ مملکت کو قانون بنانے کا اختیار چار صورتوں میں ہے.(i) مصلحت وقت (ii) دفع ضرر (ii) ست ذریعہ (iv) فتح ذریعہ جسٹس قاسمی: یہ چار اصول آپ نے کس کتاب سے مستنبط کئے ہیں؟.پروفیسر غازی: جناب یہ میں نے مختلف کتابوں سے اخذ کر کے یکجابیان کر دیئے ہے ف جسٹس مستصطفی نے سد ذرائع کے بارہ میں بہت سی مثالیں لکھی ہیں.لیکن زیر بحث موجودہ موضوع کے بارہ میں ست ذریعہ کی کوئی مثال نہیں ملتی.محمود غازی نے اہل ذمہ کا ذکر کرتے ہوئے کہ اہل شام سے سخت معاہدہ کیا گیا.ان پر 34

Page 41

یہ بھی پابندی تھی کہ وہ مسلمانوں کے لباس اور حلیہ کی تقلید نہیں کریں گے.جسٹس قاسمی نے کہا میثاق مدینہ میں جونرم شرائط دی گئی تھیں ان کو بنیاد بنانا پڑے گا.انہوں نے یہ بھی کہا کہ بعض کے نزدیک اہل ذمہ کی عبادت گاہیں ان کے حوالے نہیں کی جاسکتیں کیونکہ ہر چیز تو مسلمانوں کی ملکیت ہے.ابن قیم کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ غیر مسلموں کا لباس ایسا ہو جس سے ان کی عظمت اور بزرگی ظاہر نہ ہوتی ہو.چیف جسٹس : مسلمان کا کوئی خاص لباس ہے؟ شریعت نے تو کوئی لباس متعین نہیں کیا.غازی عرفاً ایک لباس بن جاتا ہے.چیف جسٹس : لباس مقرر کرنا تو چرچ کا طریق ہے.غازی اس زمانہ میں ٹوپی شیروانی وغیرہ علماء کا بھی لباس ہے اور معززین کا لباس بھی شمار ہوتا ہے.خاکسار نے غازی صاحب کی جدید تراش خراش کی پینٹ بوشرٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عرض کیا کہ عالم دین اس لباس میں بھی ہو سکتا ہے.لباس کی تخصیص تو نہ ہوئی.محمود غازی نے یہ بھی کہا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانہ میں یہ پابندی تھی کہ جمعہ کے دن غیر مسلم لوگ پبلک حمام میں غسل نہ کریں.انہوں نے اور بھی تفاصیل بیان کیں کہ ذمی زنار باندھیں اور خاص طرز کا لباس پہنیں.غازی نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ مرتدین اپنی اولاد کے ولی نہیں رہتے اور ان کی اولا د بھی جوان ہو تو انہیں اسلام کی طرف دعوت دی جائے گی.اگر قبول نہ کریں تو قید میں ڈال دیا جائے گا حتی کہ قید ہی میں مرکھپ جائیں.چیف جسٹس نے انہیں توجہ دلائی کہ مرتد کا معاملہ عدالت کے سامنے نہیں.چیف جسٹس : جہاں تک مرتد کا سوال ہے ہمارے سامنے حوالے ہیں لیکن ہمارا جو موضوع 35

Page 42

غازی ہے ہمیں اس حد تک محدود رہنا چاہئے.ارتداد کا سوال بالواسطہ ہے.بلا واسطہ نہیں.یہ سارے سوال بعد میں پیدا ہو سکتے ہیں.جب پیدا ہوں گے دیکھا جائے گا، سر دست ہمیں موضوع تک محدود رہنا چاہئے.جسٹس قاسمی: قانون نے ہمارے لئے جو پابندی لگائی ہے اس حد تک ہم جاسکتے ہیں.جسٹس فخر عالم : آپ زیادہ تفصیلی باتوں سے گریز کریں.ہمیں نہیں پتہ کل کیا قانون بنے گا اور اس کو چیلنج کیا جائے گا یا نہیں.لیکن کورٹ آبزرویشن تو دے سکتی ہے.غازی چیف جسٹس : نہیں یہ بڑی خطرناک بات ہے.اس مقدمہ میں ( ہنستے ہوئے ) آبزرویشن دینا بڑا خطرناک ہے.چیف جسٹس : جب کانسٹی ٹیوشن ان کو غیر مسلم کہتا ہے تو باقی حقوق دینا حکومت کے ہاتھ میں غازی ہے.حکومت حقوق دے سکتی ہے.یہ لازمی نہیں کہ مرتد مان کر کوئی حق ہی نہ ہو.جیل میں سہولتیں وغیرہ دی جاسکتی ہیں.جسٹس فخر عالم : جیل میں رہنا بھی گویا ان کا حق ہے.جس روز محمود غازی نے اپنی بحث ختم کی تو عدالت کا کچھ وقت باقی تھا.پروفیسر غازی نے اپنی بحث ایک بج کر پندرہ منٹ پر ختم کی.پندرہ منٹ عدالت کا وقت باقی تھا.چیف جسٹس نے یہ کہا مجیب صاحب آج آپ تیار نہیں ہوں گے آپ کل سے بحث شروع کریں.مگر خاکسار غازی صاحب اور دوسرے مشیران عدالت کی بحث 36

Page 43

بڑے صبر سے تین دن تک سنتا رہا تھا اور طبیعت میں ایک جوش تھا.خاکسار نے فوراً کہا کہ میں اب بھی چند منٹ ہلکی سی گفتگو کرنے کو تیار ہوں.اور پھر میں نے ایک لطیفہ سے بات کا آغاز کیا کہ ایک زمیندار چوہدری ایک مراثی کے ساتھ سفر پر نکلا، چوہدری نے مراثی سے کہا کہ میرے برابر نہ بیٹھنا.پہلی جگہ گئے تو لوگ چار پائیوں پر تھے.مراثی نے ادھر ادھر بھاگ کر کوئی پیڑھا ڈھونڈ لیا.آگے لوگ پیڑھوں پر تھے.مراثی نے چھوٹی پیڑھی ڈھونڈ لی.آگے گئے تو لوگ زمین پر تھے.مراثی اِدھر اُدھر بھاگنے لگا.پوچھنے پر بتایا کہ کسی ڈھونڈ رہا ہوں تا کہ زمین کھود کر گڑھے میں بیٹھ سکوں.جناب! میں تو گزشتہ تین دن سے کسی ہی ڈھونڈتا رہا ہوں.اس لطیفہ سے ماحول کافی ہلکا ، شگفتہ اور نرم گوشہ پیدا ہوا.پچھلے دودن کی بحث اس لحاظ سے بہت بوجھل تھی کہ اس بحث کے دوران رحمۃ للعلمین صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے ہاتھوں تلوار اور خون بہانے کا ہی ذکر ہوتا رہا.میں علی وجہ البصیرت اس بات پر قائم ہوں کہ میں ذمی نہیں ہوں اور نہ ذمیوں کے حقوق مانگتا ہوں.مجھے خدا اور اس کے رسول کا ذمہ ہی کافی ہے.اس ملک کی حفاظت میں ہمارا خون کم نہیں بہا.باقی بحث تو میں بعد میں کروں گا اس وقت اتنی توجہ دلاؤں کہ میں نے اپنی ساری بحث کو قرآن وسنت تک محدود رکھا لیکن عدالت کے فاضل مشیران نے فقہاء کے نظریات بیان کرنے پر وقت صرف کر دیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی مثال چھوڑ کر فقہاء کوسند مانا گیا.غرض پندرہ منٹ کی بحث میں ان کے تمام دلائل پر سرسری تبصرہ کیا.خاکسار کے اس بیان پر ہمارے ایک ساتھی نے یوں تبصرہ کیا کہ :.مجیب صاحب کی آخری چودہ منٹ کی تقریر سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ چودہ منٹ میں چودہ صدیوں کا سفر طے کر کے عقل و خرد کو قرآن وسنت کے تابع موجودہ زمانے کے تقاضے پورا کرنے کی طرف دعوت فکر دے رہے ہیں.پچھلے تین دن کا سارا غبار مجیب 37

Page 44

صاحب کے پر جوش بیان سے دھل گیا.اس روز خاکسار کا خطاب واقعی خاص تائید الہی سے تھا.اس کا اثر یوں ظاہر ہوا کہ غیر احمدیوں کی طرف سے آئے ہوئے مولانا عبد المالک کا ندھلوی جو جامعہ اشرفیہ سے آئے ہوئے تھے انہوں نے آگے بڑھ کر خاکسار سے تعارف کروایا اور گفتگو کرتے رہے جو اس بات کی دلیل تھی کہ وہ خاکسار کے خطاب کی علمی حیثیت سے متاثر تھے.علماء میں سے مولوی صدر الدین رفاعی راولپنڈی سے تشریف لائے تھے.راجہ ظفر الحق وزیر مذہبی امور معروف طور پر ان کے مداحوں میں شامل تھے.وہ غالباً وزارت مذہبی امور کی طرف سے بھجوائے گئے تھے.اور انہوں نے خود بھی کچھ ایسا ہی اظہار کیا.مولوی صدر الدین رفاعی نے ارتداد کی بحث کی تو چیف جسٹس نے ان کو بار بار توجہ دلائی اور کہا: چیف جسٹس : ارتداد کا معاملہ ہمارے پاس زیر بحث نہیں آپ نے قرآن وسنت کے حوالہ سے یہ بیان کرنا ہے کہ اگر یہ کافر ہیں تو ان کے کیا حقوق ہیں اور آرڈینینس کی جو دفعات ان کے بارے میں ہیں وہ صیح ہیں کہ نہیں.جسٹس قاسمی : جو آیات پیٹیشن میں پیش کی ہیں ان کا جواب دیں.رفاعی نے اپنی تقریر بدستور جاری رکھی تو چیف جسٹس نے انہیں ٹو کا اور کہا.چیف جسٹس : ایک بات میں آپ کو بتا دوں عدالت میں بحث اور عوامی تقریر میں بڑا فرق ہوتا ہے.آپ کی طرز کی وجہ سے آپ کی بات ہماری سمجھ میں نہیں آ رہی.صدر الدین رفاعی نے پبلک جلسے کے انداز میں خطاب جاری رکھا اور کہا کہ احمدی مرتد ہیں.اس پر چیف جسٹس نے کہا چیف جسٹس : ارتداد کا معاملہ ہمارے سامنے زیر بحث نہیں.آپ نے قرآن وسنت کے 38

Page 45

حوالے سے یہ بیان کرنا ہے.رفاعی بدستور انگریزوں کی حمایت ،اسرائیل کی حمایت وغیرہ کے الزامات دہراتے رہے اور تنسیخ جہاد پر بدستور تقریر جاری رکھی.تو چیف جسٹس نے کہا چیف جسٹس : ہم آپ سے بار بار کہہ رہے ہیں کہ جو اصل چیز ہے اس پر بحث کریں یہ جو ساری باتیں آپ بیان کر رہے ہیں ان کا زیر بحث مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں.ایک دن میں چار مرتبہ رفاعی صاحب کو ٹوکا گیا مگر انہوں نے اپنے ہی انداز میں بحث جاری رکھی اور کہا کہ رابطہ عالم اسلامی کی تنظیم میں 140 علماء یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ مرزا صاحب کے ماننے والے مسلمان نہیں.رفاعی صاحب نے اپنے زور بیان میں یہاں تک کہا کہ سائلین نے اپنی درخواست میں یہ نقطہ اٹھایا ہے کہ آرڈینینس کے حق میں قرآن وسنت کی کوئی دلیل یا نص شرعی نہیں دی گئی.میں کہتا ہوں 1973 ء کی ترمیم بھی شرعاً جائز ہے.دستور کی ہر بات نص شرعی نہ بھی ہو تو اسلام نے ان کو مرتد قرار دیا ہے.رفاعی صاحب نے یہ بھی کہا کہ سائلین نے میثاق مدینہ کا سہارا لیا ہے.اس وقت اسلامی نظام قائم نہیں ہوا تھا.معاہدہ میں دو فریق تھے ان میں مرتد اور منکر ختم نبوت کوئی شامل نہیں تھا.یہودیوں کے ساتھ معاملات کرنے کی بات بلا جواز ہے.انہوں نے کہا کہ درخواست میں آیات قرآنی کی بھر مار کی گئی ہے جس کا کوئی مطلب نہیں.علماء میں سے ایک صاحب مولوی محمد اشرف صاحب بطور مشیر پیش ہوئے اور انہوں نے یہ بحث کی کہ احمدیوں کو اذان سے روکنا صحیح اقدام اس لئے ہے کہ اذان مسلمانوں کا شعار ہے اور اسلام کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے.انہوں نے فقہ کی کتابوں سے مفصل حوالے دیئے جس پر چیف جسٹس نے انہیں روکا اور کہا.چیف جسٹس یہ بات تو petitioner کے دلائل سے بھی ثابت ہے جہاں تک اذان 39

Page 46

کے شعار ہونے کا تعلق ہے اس میں کوئی کلام نہیں.سوال صرف یہ ہے کہ اذان دینا غیر مسلموں کیلئے جائز ہے یا نہیں.مولوی محمد اشرف میں یہ بات عرض کر چکا ہوں کہ اذان کا تعلق تعبدی اعمال سے ہے جس سے ہے جس کا غیر مسلم سے کوئی تعلق نہیں.مشیرانِ عدالت اور مولوی حضرات کی بحث ساری فقہ پر مبنی تھی.اور نہایت دل آزار تھی.وہ احمدیوں کا مقام تو متعین نہ کر سکے کہ وہ ذمی ہیں یا معاہد، مگر ان کے زور بیان سے دو تین فوائد ضرور حاصل ہوئے.-1 ان کا کینہ کھل کر سامنے آگیا یعنی قَدْ بَدَتِ البَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَ مَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَر -2 -3 یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ مزید قانون سازی کے بارے میں ہمارے اندیشے بے بنیاد نہیں تھے.یہ سب حضرات ضیاء الحق کی زبان ہی بول رہے تھے.اور ان کی بحث ضیاء الحق کے ارادوں کی آئینہ دار تھی.یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ قرآن وسنت سے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں.سارا دارو مدار فقہ اور روایات پر ہے.اور یہ بات ارباب اختیار پر بھی مخفی نہ رہی.اس مرحلہ پر ہم اس بات کا اطمینان اور فخر سے اظہار کرتے ہیں کہ ہمارا ساراز در قرآن وسنت پر تھا اور فریق مخالف قرآن وسنت سے تو کوئی دلیل نہ لا سکے فقہ کے میدانوں میں عدالت کو دوڑاتے رہے.غالب تاثر یہ تھا کہ قرآن وسنت کا جادو سر چڑھ کر بولا.ایک مرحلہ پر چیف جسٹس نے کہا : چیف جسٹس : سوال یہ ہے کہ آپ اذان نہ دیں دیگر اسماء گرامی،اصطلاحات وغیرہ استعمال نہ کریں.40

Page 47

مجیب الرحمن : دیکھنا یہی ہے کہ یہ بات قرآن کہتا ہے یا نہیں.میں نے اپنی بحث میں اس ضمن میں سارا انحصار قرآن پر رکھا ہے.میں سمجھتا ہوں قرآن کہتا ہے کہ ہر غیر مسلم اپنے conscience کے مطابق اپنے مذہب پر عمل کرے جو وہ سمجھتا ہے.جسٹس آپ conscience کو اپنے پاس رکھیں.اپنے مذہب کا اعلان نہ کریں، ضمیر کے مطابق بات دوسروں کو نہ سنائیے.مجیب الرحمن : اگر کوئی آدمی اپنے ضمیر کے مطابق عبادت کرنا چا ہے.چیف جسٹس : اس سے پھر یہ ہوگا کہ اس context کے دوسرے افراد کے ساتھ جھگڑا پیدا ہو جائے گا.مجیب الرحمن : اگر تو عدالت نے فیصلہ اس بات پر کرنا ہے کہ کون کس سے جھگڑ رہا ہے تو بات بالکل دوسری ہے.میں تو سمجھتا ہوں کہ قرآن وسنت نے مجھے جو حقوق دے رکھے ہیں میں اس کی بات کر رہا ہوں.جسٹس صدیق: بات تو اتنی ہے کہ آپ اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر بات نہ کریں.مجیب الرحمن : اس طرح تو کل مجھے یہ کہا جائے گا کہ نماز بھی نہ پڑھو.چیف جسٹس : نماز کی بات نہیں، اذان سے منع کیا گیا ہے.اگر آپ چپکے چپکے اذان دے لیں تو کوئی بات نہیں؟ ایک مرحلے پر میں نے کہا.مجیب الرحمن : کیونکہ میں اپنے conscience کے مطابق قرآن کو اپنے اوپر نافذ العمل سمجھتا ہوں.اس لیے مجھے قرآن کے مطابق عمل کرنے کی اجازت دی جائے.چیف جسٹس (مسکراتے ہوئے ) یہاں پر پھر راستہ بند ہے.Ordinance میں لکھا ہے کہ 41

Page 48

احمدی کو اجازت نہیں کہ خود کو مسلمان ظاہر کرے.مجیب الرحمن: جناب یہی بات تو زیر بحث ہے.اس مرحلہ پر چیف جسٹس نے بات ختم کرتے ہوئے کہا ) چیف جسٹس : آپ نے اذان پر مسجد پر ، اصطلاحات پر بحث مکمل کر لی ہے.آپ کا اگلا topic اب کیا ہے؟ غیر متعلقہ باتوں پر بحث اب چھوڑ دیں.مجیب الرحمن : ٹھیک ہے.میں نے تو جو دھول عدالتی معاونین نے اڑائی تھی اُس کو صاف کیا ہے.ان کی باتیں بھی غیر متعلقہ تھیں.اس حد تک میرا جواب بھی غیر متعلقہ رہا.چیف جسٹس یہاں ہائی کورٹ کے تین تجربہ کار جج بیٹھے ہیں اور میرے بزرگ جناب جسٹس کا ظمی نے بھی کل عدالتی معاونین کو متوجہ کیا تھا.کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ کیا چیز relevant ہے اور کیا نہیں.مجیب الرحمن: جناب سمجھتے ہیں کہ ان irrelevant باتوں کے جواب کی ضرورت نہیں تو میں یہ سلسلہ ختم کرتا ہوں.اس روز اُٹھتے ہوئے عدالت نے یہ کہا کہ آپ اپنی بحث پہلے ختم کر لیں اور درمیان میں آنے والے مشیرانِ عدالت سے جو بات پیدا ہواس کا جواب بھی سرکاری وکلاء کی بحث کے بعد یکجائی طور پر دے دیں.یہ گفتگو دسویں روز کی بحث کے دن ہوئی.معاہدات کے بارہ میں ہمارا استدلال یہ تھا کہ آرڈینینس اس وجہ سے بھی غلط ہے کہ پاکستان اور اس کے عوام اور حکومت معاہدات کے پابند ہیں.بعض معاہدے بین الاقوامی ہیں.بعض ملت کے اندر ہی کئے جاتے ہیں.قرآن وسنت کا حکم ہے کہ عہد کرنے کے بعد اُس کو نہ تو ڑا کرو.Ordinance میں اس سے انحراف کیا گیا ہے.خاکسار نے عرض کیا کہ 42

Page 49

عقد ذمہ قائم کرنے کی مثالیں تو بہت دی گئی ہیں.کہیں صلح ہوگئی کہیں فتح ہوگئی.لیکن ایسی مثال کوئی نہیں پیش کی گئی کہ مختلف لوگوں نے مل کر ایک نئی مملکت کی بنیاد رکھی ہو.اس کی ایک ہی مثال ملتی ہے اور وہ میثاق مدینہ ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے اور وہاں موجود یہودیوں اور غیر مسلموں سے مل کر ایک نئی حکومت کی بنیا د رکھی.خاکسار نے یہ عرض کیا کہ مسلم لیگ کے اندر بھی جو علماء تھے اس میں حافظ محمد ابراہیم سیالکوٹی نے احمدیوں کو مسلم لیگ میں شامل کرنے کے اعتراض کا جواب دیا اور کہا کہ سیاست میں قوم کو بحیثیت نوع دیکھا جاتا ہے.احمدیوں پر اعتراض بھی ہو رہے تھے اور ان کا دفاع بھی کیا جارہا تھا اور سیاسی طور پر مسلم لیگ احمد یوں کو ساتھ لے کر چل رہی تھی.مولانا شبیر احمد عثمانی سے جب اس بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ کوئی مفتیوں کی جماعت نہیں بلکہ صرف یہ ہے کہ اس شخص کو مسلمان تسلیم کیا گیا ہے جو اسلام کا دعویٰ کرتا ہو اور کلمہ پڑھتا ہو.اس لحاظ سے قادیانیوں، شیعوں ، اسماعیلیوں، رافضیوں سب کو مسلمان گردانا گیا ہے.یہ بھی عرض کیا کہ بعض لوگ قائد اعظم پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قائد اعظم نے پاکستان بنتے ہی دو قومی نظریہ چھوڑ دیا.چوہدری محمد علی نے اپنی کتاب Emergence of Pakistan میں اس کے جواب میں لکھا کہ پاکستان فوجی فتح کے ذریعہ وجود میں نہیں آیا.یہ ایک negotiated agreement کے ذریعے وجود میں آیا ہے.اٹارنی جنرل برائے شرعی عدالت عدالت کا ماحول بالعموم سنجیدہ اور علمی رہا.علمی بحث میں بھی اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت ہر قدم پر شاملِ حال رہی جس کی چند مثالیں پیش کی گئی ہیں.دورانِ بحث بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ فریق مخالف کی طرف سے استہزاء اور تمسخر کا انداز اختیار کیا گیا.ایسے موقعوں 43

Page 50

پر بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم نے سنجیدگی اور وقار کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور اللہ تعالیٰ کی خاص تائید و نصرت سے ایسا جواب دینے کی توفیق ملی کہ خود فریق مخالف کو شرمندگی اُٹھانی پڑی.ریاض الحسن گیلانی عدالت میں بحث کے دوران متعدد اعتراض دہراتے رہے.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ ہم نے مُسکت جواب دینے کی توفیق پائی کہ فریق مخالف کو ایسی شرمندگی اُٹھانی پڑی جو ظاہر و با ہ تھی.علمی سرقہ کا الزام ایک موقع پر ریاض الحسن گیلانی نے حضرت مسیح موعود کی عبارت سے ایک چھوٹا سا ٹکڑا اٹھا کر یہ اعتراض کیا کہ مرزا صاحب نے سرقہ کیا ہے.سرقہ کے اعتراض کا جواب تو دیا ہی گیا جس میں سرقہ اور توارد کا فرق واضح طور پر بیان کیا گیا.اور یہ ظاہر کیا گیا کہ کسی ایک فقرے یا چند الفاظ یا کسی ایک مصرع کا توارد یا برسبیل بیان عبارت میں در آنا سرقہ نہیں ہوتا بلکہ جہاں پورا مضمون اور اس کی عبارت لفظاً لفظاً بغیر حوالہ دیئے نقل کر دی جائے ، وہ سرقہ ہوتا ہے.خاکسار نے مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کی کتاب احکام اسلام عقل کی نظر میں سے چند صفحات مسلسل پڑھ کر سُنائے اور اس کے مقابل پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب دکشتی نوح سے عبارت پڑھ کر سنائی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پنجگانہ نماز کے اوقات کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے انسانی زندگی کے لازم حال پانچ تغیر بیان کئے ہیں جیسے عدالت سے ایک وارنٹ کسی کے خلاف جاری ہو، پھر گرفتار ہو کر حاکم کے سامنے پیش کیا جائے، پھر فرد جرم لکھی جائے ، پھر شہادتوں کے بعد سزا سنادی جائے اور انسان کی زندگی پر سخت اندھیرا چھا جائے.پھر ایک عرصہ تاریکی میں بسر کرنے کے بعد دن کی روشنی اپنی چمک 44

Page 51

کے ساتھ ظاہر ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پنجگانہ نماز کے اوقات کی حکمت بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب دکشتی نوح میں اس فقرے سے آغاز کیا ہے.وو پنجگانہ نمازیں کیا چیز ہیں.وہ تمہارے مختلف حالات کا فوٹو ہے، یعنی تمہاری زندگی کے لازم حال پانچ تغیر ہیں جو بلا کے وقت تم پر وارد ہوتے ہیں اور تمہاری فطرت کیلئے ان کا وارد ہونا ضروری ہے؟ جس کی تفصیل حسب ذیل ہے.وو مثلاً جیسے تمہارے نام عدالت سے ایک وارنٹ جاری ہو!“ مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نے پانچوں نمازوں کے بارے میں پیرا بہ پیراء فقرہ به فقره، لفظ به لفظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ نقل کر دیے ہیں.خاکسار نے عدالت سے کہا کہ مرزا صاحب کی وفات 1908 ء میں ہوگئی تھی ، اور دکشتی نوح 1902ء میں شائع ہو چکی تھی.مولانا کی کتاب 1940 ء کی دہائی میں لکھی گئی.مولانا اشرف علی تھانوی عالم اور بزرگ آدمی تھے.میں ان کی شان میں سرقہ کا لفظ استعمال نہیں کرتا.میں صرف یہ کہتا ہوں کہ مولانا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب کشتی نوح سے استفادہ کیا.میرے اس بیان کا اثر عدالت اور وہاں حاضرین پر دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا اور گیلانی صاحب کا یہ عالم کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں.قربان جائیے اللہ تعالیٰ کی نصرت پر کہ ے ہمارے کر دیئے اونچے منارے اس موقع پر خاکسار یہ عرض کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ امر واقعہ یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود کی تحریرات کا جذب اور اثر آفرینی محسوس ہوئے بغیر نہیں رہتی.مولانا ابوالکلام آزاد جیسے 45

Page 52

صاحب قلم نے یہ لکھا کہ مرزا صاحب کی تحریریں پڑھ کر وجد طاری ہو جاتا ہے اور مولانا اشرف علی تھانوی جیسے اہلِ علم نے ان کے بیان کو مؤ ثر دیکھ کر لفظاً لفظاً نقل کرنے میں عارنہ سمجھا.آج بھی بہت سے لوگ سٹیج اور منبر پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریریں اور قرآنی تفسیر سنا سنا کر داد وصول کرتے ہیں.اور آپ کی تحریروں کو اور اشعار کو بے دھڑک استعمال کرتے اور لوگوں کے دل گرماتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مرزا صاحب کی کتابیں کون پڑھتا ہوگا.جماعت کی کتابیں ضبط کرنے کے بارے میں جو شور مچایا جاتا ہے اس کے پیچھے یہی جذ بہ کار فرما ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی کتابوں پر پابندی عائد کر کے انہیں کی تحریرات پڑھ کر بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اپنے سامعین سے داد وصول کی جاتی ہے.جس کی کئی مثالیں ظاہر وباہر موجود ہیں اور جو علم میں نہیں آتیں ان کا کوئی اندازہ نہیں.یہ صورتحال ہر احمدی سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے مطالعہ کو حرز جان بنائیں اور باقاعدگی سے مطالعہ کا التزام کریں.حضرت مسیح موعود کے صحابی پر بدزبانی کا الزام ایک دوسرے موقع پر سید ریاض الحسن گیلانی نے استہزاء کا رنگ اختیار کیا اور پیر سراج الحق نعمانی صاحب کی کتاب کا ایک صفحہ کھول کر کتاب عدالت کو پکڑا دی اور بڑے ڈرامائی انداز میں کہا کہ یہ ان کے صحابی ہیں اور یہ ان کی تحریریں ہیں.میں تو پڑھ بھی نہیں سکتا.آپ خود ہی پڑھ لیں.عبدالقدوس قاسمی صاحب نے حوالہ دیکھا اور کہا کہ نہیں ایسا نہ کریں یہ ان کے الفاظ نہیں انہوں نے کسی اور کے الفاظ نقل کئے ہیں.تو گیلانی صاحب نے بڑی ڈھٹائی سے کہا کہ جناب کسی اور کے ہی سہی کوئی شریف آدمی یہ الفاظ نقل بھی کیسے کر سکتا ہے.عدالت نے ریاض الحسن گیلانی کا انداز پسند نہ کیا اور کتاب آگے بڑھا دی.خاکسار 46

Page 53

کے ذہن میں وہ حوالہ نہیں تھا اور کچھ معلوم نہیں تھا کہ عبارت کیا ہے.خاکسار نے کتاب ہاتھ میں پکڑی حوالہ کو پڑھا.پیر سراج الحق صاحب نے اپنے ایک سفر کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ریلوے میں ایک سفر کے دوران ایک مخالف نے نہایت گندے الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں استعمال کیے تو پیر صاحب نے غیرت میں آکر اس مخالف کو ایک تھپڑ دے مارا.پیر صاحب نے اس مخالف کے گندے الفاظ ہو بہوا اپنی کتاب میں نقل کر دیئے تھے.مخالف کا خیال تھا کہ اس نے ہمیں خجالت اور شرمندگی سے دو چار کر دیا ہے.ریاض الحسن گیلانی مسکرا کر دا دطلب نظروں سے دیکھتے رہے.گویا کہہ رہے ہوں کیسا وار کیا ہے؟ نصرت الہی کا کرشمہ دیکھئے کہ ایک بجلی سی دماغ میں کوند گئی اور اچانک اللہ تعالیٰ نے جواب سمجھا دیا.خاکسار نے عدالت کو مخاطب کر کے کہا کہ جناب میں بھی یہ حوالہ نہیں پڑھ سکتا.گیلانی صاحب تو اس لئے نہیں پڑھ سکتے کہ یہ الفاظ ان کے کسی بزرگ کے ہیں وہ کس منہ سے اپنے بزرگ کا ایسا حوالہ پڑھیں.مگر میں سوچتا ہوں کہ میرے کسی بزرگ نے ان کے کسی بزرگ کا ایسا گندا قول نقل بھی کیوں کیا تو مجھے یہ سمجھ آتی ہے کہ میرے بزرگ کی طرف سے یہ قول نقل کرنا تصرفات الہی سے تھا.حضرت مرزا صاحب نے بار ہا لکھا ہے کہ اُن کے مخالفین گالیوں سے بھرے ہوئے خط اِن کو لکھا کرتے تھے اور وہ ان کو ایک بوری میں ڈال دیتے تھے.ہم تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ کیسی کیسی گالیاں لوگ لکھتے ہوں گے اور کیسے کیسے الفاظ استعمال کرتے ہوں گے.الہی تصرف نے ایک مثال اس کتاب میں محفوظ کر دی ہے کہ ان کے بزرگ کیسی کیسی زبان استعمال کرتے تھے.اگر یہ حوالہ نقل نہ کیا گیا ہوتا تو کچھ معلوم نہ ہوتا.مگر اس ایک حوالہ سے وہ سارے خطوط جن کو نظر انداز کر کے بوریوں میں پھینک دیا جاتا تھا ان سب کی حقیقت سامنے آگئی ہے اور ان کا تعفن یکلخت محسوس ہونے لگا ہے.یہ بیان کرنے میں خاکسار کا لہجہ اور اس کا درد اور اس کی سنجید گی محسوس ہوئے بغیر نہ 47

Page 54

رہی اور مخالف بغلیں جھانکنے لگے کہ یہ تو ہماری ہی تصویر ہمارے سامنے آگئی ہے.اس وقت خاکسار نے یہ کہا کہ آج بھی ربوہ میں ریلوے سٹیشن کی مسجد سے ایک مولوی لاؤڈ سپیکر پر اسی طرح کی زبان استعمال کرتا ہے.کوئی اُسے پوچھتا نہیں اور شکایت کریں تو کوئی یقین نہیں کرتا کہ مسجد کے منبر سے بھی ایسی زبان استعمال ہو سکتی ہے.ہم نے ٹیپ ریکارڈ کر کے بھی افسران کو پہنچائی.مگر کوئی کاروائی نہ ہوئی.خاکسار یہ بات کر ہی رہا تھا کہ عدالت میں بیٹھا ہوا مولوی اللہ وسایا اُٹھ کر کھڑا ہوا اور شور مچانے لگا.چیف جسٹس آفتاب حسین صاحب نے سختی سے ڈانٹ پلائی.اور کہا ، کون ہے یہ بدتمیز اسے عدالت سے باہر نکالو.کہاں تو ہمیں شرمندہ کرنے کے لئے ایک دُور کی کوڑی لائے تھے اور کہاں ریاض الحسن کو خود شرمندگی اُٹھانی پڑی اور اللہ وسایا کو ذلت کے ساتھ بیک بینی و دو گوش عدالت سے نکال دیا گیا.شریروں پر پڑے ان کے شرارے فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْزَى الْاعَادِي.بحث طویل تھی اور بہت سے مسائل زیر بحث تھے.مکمل بحث جو چودہ دن جاری رہی ضبط تحریر میں نہیں لائی جاسکتی.دورانِ بحث جج صاحبان ساتھ ساتھ نوٹس لے رہے تھے تا ہم اس خیال سے کہ کوئی امر زیر توجہ آنے سے رہ نہ جائے ہم نے یہ مناسب خیال کیا کہ اپنی بحث کے اختتام پر خلاصہ بحث تحریری طور پر عدالت میں داخل کر دیا جائے.جو تحریری خلاصہ بحث داخل کیا گیا وہ قارئین آئندہ صفحات میں ملا حظہ فرمائیں گے.48

Page 55

{5} خلاصہ بحث 49 49

Page 56

Page 57

آغاز سخن موجودہ درخواست دستور پاکستان کے آرٹیکل D-203 کے تحت داخل کی گئی ہے اور اس کے ذریعہ صدر پاکستان کے جاری کردہ حالیہ آرڈینینس نمبر XX کو اس بنیاد پر چیلنج کیا گیا ہے کہ وہ قرآن وسنت کے خلاف ہے.اس درخواست کا مقصد ایک دینی فریضہ کی ادائیگی ہے جو ہم پر ملک وملت کی طرف سے عائد ہوتا ہے.کیونکہ ایک قانون جو قرآن وسنت کے منافی ہوا سے ملکی قانون کا حصہ نہیں رہنا چاہئے اور اسے باطل قرار دیا جانا چاہئے.یہ ایک نہایت اہم اور تاریخی مقدمہ ہے اور اس مقدمہ کے فیصلہ سے پاکستان کی تاریخ پر بڑے گہرے اور دور رس اثرات مرتب ہونگے.اس مقدمے کے فیصلہ ہی سے وہ راہیں متعین ہوں گی جن پر آگے چل کر اس ملک میں اسلامی قانون کا نظام نافذ ہوگا.اس مقدمہ کے فیصلہ ہی سے یہ بات ظاہر ہوگی کہ پاکستان میں مذہبی آزادی کا کس حد تک احترام کیا جائے گا اور کس حد تک اسے پامال ہونے کی اجازت دی جائے گی.اس مقدمہ کے فیصلہ ہی سے یہ بات بھی واضح ہوگی کہ آیا اقتدار وقت کو شریعت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ آبادی کے کسی حصہ کے مذہبی معاملات میں بلا روک ٹوک دخل اندازی کرے اور اس مقدمہ کے فیصلہ پر ہی اس بات کا انحصار ہو گا کہ مذہب، مذہبی اعتقادات اور تعبدی امور میں سیاسی اقتدار وقت کی دخل اندازی شرعاً جائز ہے یا نہیں.اور اس مقدمہ کے فیصلہ کی روشنی میں ہی اس ملک عزیز کے دوسرے شہری اپنے مذہبی حقوق کے بارے میں اپنی امیدوں اور اپنے اندیشوں کا اس نظر سے جائزہ لیں گے کہ وہ اپنے پروردگار کے حضور عبادت بجالانے میں آزاد ہیں یا نہیں.زیر بحث درخواست پر اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کے لئے 1.سب سے پہلے ہم نے از روئے قرآن وسنت اقتدار وقت کی قانون سازی کی حدود 51

Page 58

اور شریعت کورٹ کے دائرہ اختیار کا جائزہ لیا ہے.2.اس کے بعد ہم نے اس امر پر بحث کی ہے کہ قرآن فہمی کے اصول کیا ہیں اور قرآن وسنت کا مفہوم متعین کرنے کیلئے ہمیں کن اصولوں کی پابندی کرنی چاہئے.3.اس کے بعد ہم نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ مذہبی آزادی کے بارہ میں روح اسلام کیا ہے؟ کیونکہ زیر نظر آرڈی نینس مذہبی معاملات سے متعلق ہے اور اس کا اس نظر سے جائزہ لیا جانا ضروری ہے کہ آیا وہ مذہبی آزادی کے اسلامی اصولوں سے متصادم تو نہیں.اس لئے ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ اس بات کا تفصیلی جائزہ لیا جائے کہ مذہبی اعتقادات اور مذہبی معاملات کی آزادی کے بارہ میں اسلام کی روح کیا ہے تا کہ اس روشنی میں زیر نظر قانون کا جائزہ لیا جا سکے.4.اس کے بعد ہم نے آرڈینینس کی مختلف شقوں کا الگ الگ جائزہ لیا ہے اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ قانون کس طرح سے اسلامی اصولوں اور نصوص سے متعارض ہے اور اس ضمن میں اذان، لفظ مسجد، بعض اصطلاحات ، حق تبلیغ اور اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کے حق کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور اس بات کا بھی جائزہ لیا ہے کہ 5.آیا شریعت اسلامیہ کی رُو سے کسی ایسے فعل کو قابل تعزیر بنایا جا سکتا ہے جو اپنی ذات میں معصیت نہ ہو اور جسے شریعتِ اسلامی گناہ ، مکروہ یا مذموم قرار نہ دیتی ہو.اپنی بحث میں ہم نے دستور کی ترمیم کو موضوع بحث نہیں بنایا کیونکہ وہ اس عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر ہے.اس درخواست کے فیصلہ کرنے میں مندرجہ ذیل سوالات عدالت کے زیر غور آئیں گے جن پر عدالت کو کوئی فیصلہ دینا ہوگا.-1.کیا اسلام کسی غیر مسلم کو یہ حق اور اجازت دیتا ہے کہ وہ خدا کی وحدانیت کا اقرار اور 52

Page 59

اعلان کرے؟ 2.کیا اسلام کسی غیر مسلم کو یہ حق اور اجازت دیتا ہے یا نہیں کہ وہ محمد رسول اللہ کو اپنے دعوئی میں سچا تسلیم کرے؟ 3- کیا اسلام کسی غیر مسلم کو یہ حق دیتا ہے یا نہیں کہ وہ قرآن حکیم کو ایک اعلیٰ نظام حیات سمجھ کر اسے واجب الاطاعت تسلیم کرے اور اس پر عمل کرے؟ -4 اگر کوئی غیر مسلم قرآن کے احکام پر عمل کرنا چاہے تو کیا اسے اس کی اجازت ہے یا نہیں؟ 5.اگر وہ ایسا نہیں کر سکتا تو اس حق کی نفی قرآن کریم اور سنت میں کہاں ہے؟ -6 ایسے شخص کے لئے اسلام کیا لائحہ عمل تجویز کرتا ہے جو گوعرفا مسلمان نہ ہو اور اسے قانونی حق نہ بھی ہو مگر دل و دماغ سے خدا کی وحدانیت ، محمد رسول اللہ کی حقانیت اور قرآن کی صداقت پر دل سے یقین رکھتا ہو.آرٹیکل D-203 کی حکمت سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ دستور کی آرٹیکل نمبر D-203 کی حکمت کیا ہے؟ دستور کے آرٹیکل D-203 کے الفاظ یہ ہیں :.1 203- D Powers, Jurisdiction and functions of the Cour.- (1) The Court may [either of its own motion OR] on the petition of a citizen of Pakistan OR the Federal Government OR Provincial Government, examine and decide the question whether OR not any law OR provisions of any law, is repugnant to the Unjunction of Islam as laid down in the Holy Quran and the Sunnah of the Holy Prophet, hereinafter referred to as the injunctions of Islam.اصل منشاء اس آرٹیکل کا یہ ہے کہ قوانین قرآن وسنت کے خلاف نہ بنے پائیں اور اگر بن جائیں تو یہ عدالت انہیں کالعدم قرار دیدے تا کہ قوم کسی معصیت کا شکار ہونے سے بیچ 53

Page 60

جائے.دراصل قوانین اور بالخصوص تعزیری قوانین کے قرآن وسنت کے خلاف ہونے کی صورت میں پوری قوم ایک بہت بڑے ذہنی انتشار کا شکار ہوسکتی ہے کیونکہ اسلامی احکام کے مطابق قرآن وسنت کے خلاف قوانین کی پابندی کسی اسلامی ملک میں نہ صرف یہ کہ لازمی نہیں بلکہ اس کا نہ مانا لا زم اور فرض ہے.ایسی صورت میں اگر کوئی خلاف قرآن وسنت قانون موجود اور نافذ رہے اور شہری اسے نہ مانے پر حکم الہی سے مجبور ہو تو ایک عجیب انتشار کی کیفیت پیدا ہو جائے گی.محدثین نے اس موضوع پر باقاعدہ عنوان باندھے ہیں جس کے تحت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ ارشادات لائے ہیں :.1 - لَاطَاعَةَ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ.(بخاری کتاب احكام باب السمع والطاعة) و بخاری کتاب الاحاد باب ماجاء في اجازة الخبر الواحد) 2 - لاطَاعَةَ لِمَخْلُوقِ فِي مَعْصِيَةِ الله (بحواله مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحه 131) 3 - مَنْ أَمَرَكُمْ مِنْهُمْ بِمَعْصِيَةٍ فَلَا تُطِيعُوهُ - (ابن ماجه كتاب الجهاد باب لاطاعة في معصية الله ومسند احمد بن حنبل ج 3 صفحه 67) دستور کا آرٹیکل D-203 گویا سورۃ نساء کی آیت 59 کے اصول کو نافذ کرنے کے لئے بنایا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.ياَيُّهَا الَّذِيْنَ مَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُوْلَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْ ءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُوْلِ إِنْ كُنتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌو أَحْسَنُ تَأْوِيلاً.(سورة النساء آیت:60) ترجمہ: ” مومنو! خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی.اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف 54

Page 61

واقع ہو تو اگر خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں خدا اور اس کے رسول ( کے حکم ) کی طرف رجوع کرو.یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا ماحصل بھی اچھا ہے“.مفسرین نے اس بارہ میں بڑی تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے کہ خدا اور رسول کے بعد اولی الامر کی اطاعت واجب ہے مگر اولی الامر کی اطاعت منتقلاً فرض نہیں ہے بلکہ اس وقت تک فرض ہے جب کہ وہ خدا اور اس کے رسول کے احکام کے مطابق ہو.اولی الامر کی اطاعت دراصل خدا اور رسول کی اطاعت کی ذیل میں فرض ہے.مشہور مصری مصنف عبد القادر عودہ لکھتے ہیں:.کیونکہ شریعت اسلامیہ میں اقتدار وقت کا حق قانون سازی اس شرط کا پابند ہے کہ اس کی قانون سازی شریعت کے مطابق ہو اور شریعت کے عام اصولوں اور روح اسلام سے ہم آہنگ ہو.(اسلام کا فوجداری قانون صفحه 318 اردو ترجمه التشريع الجنائي مترجم ساجد الرحمن کاندھلوی ایم اے) آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور رسول کی اطاعت کے حکم پر اطاعت کے حکم کا اعادہ کیا گیا ہے.جس سے معلوم ہوا کہ رسول کی اطاعت مستقلاً واجب ہے.خواہ رسول جس بات کا حکم دے رہے ہیں وہ قرآن میں موجود ہو یا نہ ہو.کیونکہ رسول کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ انہیں کتاب بھی دی گئی ہے اور کتاب کا مثل بھی دیا گیا ہے مگر اولوالامر کی اطاعت کے موقع پر لفظ اطاعت کو حذف کر دیا گیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ اولوالامر کی اطاعت مستقلاً واجب نہیں ہے، بلکہ یہ اطاعت اطاعت رسول کے ضمن میں ہے.نیز اللہ رسول کی اطاعت کا ذکر پہلے کر دینے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اولوالامر کی اطاعت اللہ اور رسول کی اطاعت مکمل ہو جانے کے بعد ہے، اس لئے اولوالامر کی اطاعت اللہ اور رسول کی اطاعت کے ذیل میں آتی ہے جن اولوالامر کے احکام خدا کی نازل کردہ شریعت کے مطابق ہوں ان کی اتباع واجب ہے اور جو رسول کے خلاف احکام جاری کرے اس 55

Page 62

کی اطاعت واجب نہیں ہے“.اسلام کا قانون فوجداری صفحه319318 - بحواله اعلام الموقعين جلد 1صفحه 51 ، تفسير المنار پھر لکھتے ہیں :.جلد 5 صفحه 180) تمام فقہائے اُمت اور مجتہدین ملت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ اولوالامر کی اطاعت صرف انہی امور میں واجب ہے جن کا خود اللہ سبحانہ نے حکم دیا ہے اور خلاف شریعت امور میں اولوالامر کی اطاعت قطعا لازم نہیں“.اسلام کا قانون فوجداری صفحه 320 بحواله الشرح الكبير جلد9صفحه 341 المهذب جلد 2 صفحه 189 حاشیه ابن عابدین جلد 3 صفحه 429) اس بارہ میں جب ہم تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات اسلامی نظام کے ایک بنیادی قاعدے کے طور پر سامنے آتی ہے کہ اولی الامر کی اطاعت اس وقت تک واجب ہے جب تک وہ قرآن وسنت سے متصادم نہ ہو.چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے اقوال سے یہ بات واضح ہوتی ہے.علامہ نسفی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:.1.امراء کی اطاعت اس وقت واجب ہے جب وہ حق سے موافقت کریں لیکن جب وہ حق کی مخالفت کریں پھر ان کی اطاعت جائز نہیں“.(تفسير النسفى المسمى بمدارك التنزيل وحقائق التاويل تاليف علامه عبدالله بن احمد بن محمود النسفى المجلد الاوّل صفحه 327 ) 2.”اگر تمہارا اور اولوالامر کا امور دین میں سے کسی امر کے بارہ میں جھگڑا ہو تو کتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف رجوع کرو.(تفسير روح البيان تاليف علامه الشيخ اسماعيل حقى البروسوى المجلد الثاني صفحه 227) 3.” اولوالامر سے مراد مسلمانوں کے اہل حل و عقد اور امراء و حکام ہیں کہ جب وہ کسی معاملے پر متفق ہو جائیں تو ان کی اطاعت واجب ہے بشرطیکہ وہ اللہ کے حکم اور سنت 56

Page 63

رسول کی خلاف ورزی نہ کریں...قیاسات اور استنباط کو ماننا واجب نہیں“.(تفسير القرآن الحكيم المعروف بتفسير المنار للاستاد الشيخ محمد عبده تاليف السيد محمد رشيد رضاء الجزء 19 صفحه 182,181- بيروت) 4.اس آیت میں ملت اسلامیہ کے اساسی نظام کا قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت واجب ہے اور پھر ان کی ماتحتی میں اولی الامر کی اطاعت بھی.اس اصول کے ساتھ اسلام ہر فرد بشر کو شریعت الہیہ اور سنت رسول پر اور اپنے ایمان اور دین پر امین بنا دیتا ہے.کیونکہ شریعت واضح ہے اور حدو د اطاعت بھی واضح ہیں.(في ظلال القرآن للسيد قطب، الجزء الخامس صفحه 111,110) مولوی ثناء اللہ امرتسری اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:.5."کتاب اللہ اور سنت رسول کے بعد اولوالامر کی اطاعت امور جائزہ میں واجب ہے..اولوالامر سے مسلمانوں کے امیر یا حاکم مراد ہیں، علماء و مجتہدین کے قیاسات اور استنباط کے بارہ میں اصول فقہ میں صاف مذکور ہے کہ مجتہد کی بات غلط بھی ہو جاتی ہے.پس اگر اس کے قیاسات قرآن وحدیث سے مستنبط ہوں گے تو ان کے ماننے سے کون مسلمان انکار کرے گا اور اگر بتقاضائے انسانیت ان سے کچھ خلاف ہو گیا تو کیا کسی ایماندار کا ایمان بمقابلہ آیت یا حدیث اس کے ماننے کی اسے ہدایت کرے گا.(ملخص از تفسیر ثنائی جلد اوّل صفحه 411,410 از مولوی ابوالوفاء ثناء الله امرتسری زیر آیت سورة النساء: 59) ابوالاعلیٰ مودودی اس آیت کے ماتحت ایک طویل نوٹ میں رقم طراز ہیں :.6.یہ آیت اسلام کے پورے مذہبی تمدنی اور سیاسی نظام کی بنیاد اور اسلامی ریاست کے دستور کی اولین دفعہ ہے...اسلامی نظام میں خدا کا حکم اور رسول کا طریقہ بنیادی قانون اور آخری سند کی حیثیت رکھتا ہے.مسلمانوں کے درمیان یا حکومت اور 57

Page 64

رعایا کے درمیان جس مسئلہ میں بھی نزاع واقع ہوگی اس میں فیصلہ کے لئے قرآن وسنت کی طرف سے رجوع کیا جائے اور جو فیصلہ وہاں سے حاصل ہوگا اس کے سامنے سب سر تسلیم خم کر دیں گے.اس طرح تمام مسائل زندگی میں کتاب اللہ، سنت رسول اللہ کو سند اور مرجع اور حرف آخر تسلیم کرنا اسلامی نظام کی وہ لازمی خصوصیت ہے جو اسے کافرانہ نظام زندگی سے ممیز کرتی ہے.جس نظام میں یہ چیز نہ پائی جائے وہ بالیقین ایک غیر اسلامی نظام ہے“.(تفهيم القرآن جلد اوّل صفحه 363 تا 365 از ابوالاعلی مودودی) سورۃ نساء کی اسی آیت سے عدالت کے دائرہ کار کا تعین بھی ہو جاتا ہے کیونکہ ارشاد باری یہ ہے:.فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْ ءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَالرَّسُوْل (سورة النساء :60) ترجمہ: یعنی جب اولی الامر سے کسی بات میں اختلاف ہو تو اس کا فیصلہ صرف قرآن وسنت کی روشنی میں ہونا چاہئے.آرٹیکل D-203 بھی اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ قانون کا جائزہ صرف اس نقطۂ نظر سے لیا جائے گا کہ آیاوہ قرآن وسنت سے متعارض یا متصادم تو نہیں ہے.اس آرٹیکل کی رو سے عدالت کو صرف قرآن وسنت کا پابند کیا گیا ہے اور قرآن وسنت کا پابند کرنے کے ساتھ کوئی مزید پابندی عدالت پر عائد نہیں کی گئی اور اس طرح گویا عدالت صرف قرآن وسنت کی پابند ہے اور کسی مخصوص فقہ یا اقوال فقہاء کی پابند نہیں.گویا عدالت کو قرآن وسنت کا پابند کر کے ہر دوسرے کی تقلید سے آزاد کر دیا گیا ہے اور یوں اس آرٹیکل کے ذریعہ ایک پہلو سے عدالت کے اختیار کومحدود کر دیا گیا ہے اور دوسرے پہلو سے اس میں وسعت پیدا کی گئی ہے.اور یہ عدالت مقام اجتہاد پر فائز ہے مقام تقلید پر نہیں.لہذا یہ فیصلہ کرتے وقت کہ کوئی قانون 58

Page 65

خلاف قرآن وسنت ہے یا نہیں گو عدالت قرآن وسنت کا مفہوم متعین کرنے میں دوسری آراء سے مدد تو لے سکتی ہے مگر کسی دوسرے کے قیاس اور استنباط کی مطلقا پابند نہیں ہے ).کسی قانون کے خلاف قرآن وسنت ہونے کی بنیاد پر باطل قرار دیئے جانے کے لئے یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ آیا وہ قانون اسلام کے عام شرعی اصولوں اور روح اسلام سے ہم آہنگ ہے یا نہیں؟ اقتدار وقت جب کوئی قانون وضع کرے تو وہ صرف ان امور میں قانون وضع کر سکتا ہے جس میں شریعت نے خاموشی اختیار کی ہو مگر کسی اقتدار وقت کو یہ اختیار نہیں کہ وہ حلت و حرمت کی نئی قدریں قائم کرے یا کسی نیکی کو بدی قرار دے یا بدی کو نیکی ٹھہرائے اس طرح سے سورۃ نساء کی آیت 59 اور آئین کا D-203 اقتدار وقت کے حدود کی نشاندہی بھی کر رہے ہیں اور شریعت کورٹ کے دائرہ اختیار کی تعیین بھی.موجودہ درخواست کے فیصلے کے لئے ہم اپنے اعتقادات کی بحث از خود اٹھانا نہیں چاہتے.سوائے اس کے کہ آرڈینینس کی کسی دفعہ کے نفاذ کے سلسلے میں کسی حصہ عقائد کا ذکر ضروری ہو اور ہماری ساری بحث اس حد تک محدود ہے کہ آیا آرڈینینس قرآن وسنت اور اس کے وضع کردہ اصولوں سے متصادم تو نہیں.قرآن وسنت کی نصوص اور اصول چونکہ زیر بحث آئیں گے لہذا سب سے پہلے قرآن فہمی کے اصول کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے کہ قرآن کو سمجھنے کے لئے آئمہ سلف نے کیا کیا اصول وضع فرمائے ہیں اور ان سے کس طرح سے استفادہ کیا جا سکتا ہے؟ قرآن فہمی کا اولین اصول تو یہ ہے کہ قرآن ہی سے اس کی تفسیر کی جائے کیونکہ قرآن حکیم کا اپنا دعویٰ یہ ہے کہ وہ تمام مضامین کو پھیر پھیر کر مختلف پیرایوں میں بیان کرتا ہے.قرآن کریم نے کوئی اہم مضمون محض سرسری طور پر بیان کر کے نہیں چھوڑ دیا بلکہ تصریف آیات کے ذریعہ سے مختلف پیرایوں میں مضمون کو بیان کر کے ذہن نشین کر وا دیا ہے اور بعض جگہ جو مضمون اجمالاً بیان ہوئے ہیں ان کو دوسری جگہ تفصیلاً بیان فرما دیا ہے تصریف آیات کے 59

Page 66

سلسلہ میں آیات قرآنی انعام 106 ، بنی اسرائیل 8941، کہف 55 قابل ذکر ہیں.وَكَذلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَتِ وَلِيَقُوْلُوْا دَرَسْتَ وَلِنُبَيِّنَهُ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (سورة الانعام: 106) ترجمہ : ” اور ہم اسی طرح اپنی آیتیں پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں تا کہ کا فریہ نہ کہیں کہ تم ( یہ باتیں اہل کتاب سے ) سیکھے ہوئے ہو اور تا کہ سمجھنے والے لوگوں کے لئے تشریح کر دیں.وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ لِيَذَّكَّرُوْا وَمَا يَزِيْدُهُمْ إِلَّا نُفُوْرًا - (بنی اسرائیل:42) ترجمہ: ” اور ہم نے اس قرآن میں طرح طرح کی باتیں بیان کی ہیں تا کہ لوگ نصیحت پکڑیں مگر وہ اس سے اور بدک جاتے ہیں.وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَذَا الْقُرْآنِ مِن كُلِّ مَثَلٍ فَإِنِّي أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوْرًا - (بنى اسرائيل:90) ترجمہ : ” اور ہم نے قرآن میں سب باتیں طرح طرح سے بیان کر دی ہیں مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا“.وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ لِلنَّاسِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا (الكهف:55) ترجمہ: ”اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں (کے سمجھنے ) کے لئے طرح طرح کی مثالیں بیان فرمائی ہیں لیکن انسان سب چیزوں سے بڑھ کر جھگڑالو ہے“.علاوہ ازیں قرآن فہمی کا ایک دوسرا اصول یہ ہے کہ جن آیات قرآنی کی شان نزول معلوم ہوسکتی ہو ان کا مطالعہ بھی کیا جائے.کیونکہ آیات کا شانِ نزول ان کے مفہوم کو سمجھنے میں بسا اوقات ممد و معاون ہوتا ہے کہ ان کا مضمون شانِ نزول تک محدود یا مخصوص نہیں ہوتا اور جو حکم آیات میں نازل ہو جائے اس میں عموم بھی ہوتا ہے اور قیامت تک کے لئے اصولی 60

Page 67

رہنمائی بھی اس میں موجود ہوتی ہے چنانچہ شانِ نزول کے سلسلہ میں علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب ”الاتقان میں اس امر کی وضاحت کی ہے کہ 1.سبب نزول کی معرفت سے آیات کے معنی منکشف ہو جاتے ہیں اور ان کے سمجھنے میں الجھن نہیں پڑتی.2 ” نصوص قرآنی میں اعتبار الفاظ کے عموم کا ہوتا ہے سبب کے خاص ہونے کا نہیں“.(الاتقان جلد اول ، نویں نوع سبب نزول صفحه 70 تا 78 از مولانا محمد حلیم انصاری اُردو ترجمه) گویا قرآن حکیم کے سمجھنے کے لئے بنیادی اصول یہ ہیں.-1 تفسیر القرآن بالقرآن یعنی قرآن حکیم کے دوسرے مقامات کا مطالعہ.2.ان آیات کے بارہ میں رسول کریم کے اقوال وسنت.3.صحابہ رسول کے اقوال.4.لغت عرب کی طرف رجوع.5.اور تفسیر بتقاضائے کلام.احادیث رسول کے علاوہ علامہ شعرانی اور علامہ سیوطی نے اپنی کتب میں ان اصولوں کی تعیین کی ہے کہ قرآن کریم کی بعض آیات دوسری آیات کی تفسیر کرتی ہیں.اس لئے قرآن کریم کے کسی حکم کی جانچ پڑتال کے لئے دوسری آیات تلاش کی جائیں.(مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحه 185 - مصر) (انمانزل كتاب الله يصدق بعضه بعضاً مشكواة المصابيح كتاب العلم صفحه 35 نور محمد اصح المطابع دهلی) اگر قرآن سے روشنی نہ ملے تو سنت کو دیکھیں، سنت بھی خاموش ہو تو صحابہ کے اقوال سے راہنمائی حاصل کریں.(کتاب المیزان از عبدالوهاب شعرانی صفحه38مطبوعه قاهره) قرآن کریم کی بہترین تفسیر یا خود حامل قرآن کر سکتے ہیں یا ان کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم.لہذا یہ امر بہت ضروری ہے کہ قرآن کریم کی آیت کی روح کو سمجھا جائے.61

Page 68

مذہبی آزادی اور روح اسلام جب مذہبی آزادی اور حریت فکر کے بارے میں اسلامی تعلیمات کی روح کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ حریت فکر اور مذہبی آزادی کا مضمون متعدد آیات قرآنی میں موجود ہے.چنانچہ فرمایا:.اگر اللہ چاہتا تو دنیا میںکوئی شخص ہدایت سے محروم نہ رہتا اور جتنے لوگ زمین پر ہیں سب کے سب ایمان لے آتے“.(سورۃ یونس : 100) اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھایا کہ کیا تو اپنی جان ہلاکت میں ڈال دے گا کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے ہیں.(سورۃ الشعراء:3) اگر اللہ چاہتا تو انسان کو اور ہی مخلوق بنا دیتا اور وہ بدی سے بے نیاز ہوجاتے مگر اللہ نے ایسا نہیں کیا.بلکہ انسان کو خیر وشر کی پہچان کرائی.(البلد:10 الشمس:8) پس دل کے معاملات میں کوئی جبر نہیں ہو سکتا اور ایمان کا تعلق دل سے ہے مذہب کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے کبھی جبر سے کام نہیں لیا.کسی کو دین کے معاملہ میں مجبور کرنا اللہ کی عادت نہیں.(البقره:256) اللہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے اپنے اختیار سے اس پر ایمان لائیں.(الکھف:29) انسان کا شرف ہی اس کی آزادی ہے ورنہ اللہ چاہتا تو انسان کو بھی فرشتوں کی طرح بنا دیتا اور وہ کوئی گناہ کر ہی نہ سکتے.ہم نے آیات قرآنی کے اس مضمون پر وسیع نظر ڈالنے کے لئے ان جملہ آیات کی تفاسیر، پرانی کتب تفاسیر سے بھی اور نئی کتب سے بھی متقدمین اور متاخرین دونوں کی آراء کو مدنظر رکھا ہے تاکہ زیادہ جامع نقطۂ نظر سامنے آسکے.لا إِكْرَاهَ فِی الدّین کے شانِ نزول کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب مدینہ 62

Page 69

میں مسلمانوں کو کچھ قوت حاصل ہوئی اور بنو نضیر کی جلا وطنی کے وقت ان سے اپنے بچے جبراً واپس لینے کا معمولی ساخیال مسلمانوں کے دل میں پیدا ہوا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے لا اكراه فی الدین کی آیت نازل فرمائی.(تفسیر المنار جز 11 صفحه 483 زیر آیت لااکراه فی الدین) ہم نے اکراہ کے بارہ میں فقہاء کی یہ فقہی تعریف پیش کی ہے کہ محض دھمکی دینا بھی اکراہ میں شامل ہے اور اکراہ سے مراد کسی کو ایسے کام پر مجبور کرنا ہے جو کسی کی مرضی کے خلاف ہو.(معين الحكام علامه ابوالحسن حنفی صفحه 311 مطبوعه مصر) دین جو سراسر خیر ہے اس میں تو اکراہ کا تصور ہی نہیں ہوسکتا کیونکہ اکراہ کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کو کسی ایسی بات پر مجبور کرنا جس کو وہ خیر نہیں سمجھتا.لا اکراہ کی تفاسیر کے ضمن میں سید قطب شہید لکھتے ہیں کہ :.مذہب کی آزادی انسان کا بنیادی حق ہے.جو شخص یہ حق چھینتا ہے وہ اس سے گویا اس کی انسانیت چھینتا ہے.(في ظلال القرآن الجزاء الثالث صفحه 27 از سید قطب شهید) اکراہ کا مسئلہ دین سے زیادہ سیاست سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ ایمان تو دلیل اور برہان سے پیدا ہوتا ہے کسی قسم کے اکراہ سے پیدا نہیں ہوتا.احکام قرآنی کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ جہاد کی اجازت بھی فتنہ کو مٹانے اور جبر و اکراہ کو روکنے کے لئے دی گئی ہے.غور کیا جائے تو مذہب کی آزادی کے چار پہلو ہیں :.1.اس میں داخل کرنے پر جبر نہ ہو.2.اگر کوئی داخل ہونا چاہے تو اسے جبرانہ روکا جائے..اگر کوئی کسی مذہب پر رہنا چاہے تو اسے زبردستی نکالا نہ جائے.(جیسا کہ ہمیں نکالا گیا ہے) 4.جو مذہب میں رہنا نہ چاہتا ہو تو اسے زبر دستی روکا نہ جائے.63

Page 70

کوئی عقیدہ جبراً کسی کے سرٹھونسا نہیں جاسکتا اس ضمن میں سورۃ کہف کی آیت وَقُل الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ (سورة الكهف:29) کی تفسیر کے سلسلہ میں ترجمان القرآن (ابوالکلام آزاد ) تفہیم القرآن (مودودی) المراغی، فی ظلال القرآن ( سید قطب ) اور المظہری ( ثناء اللہ پانی پتی ) کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو دین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا آپ کا کام یہ تھا کہ اسے بلا کم و کاست پیش فرما دیں لوگ مانتے ہیں تو فبہا نہیں مانتے تو نہ مانیں.اس معاملہ میں کوئی زبردستی نہیں.انسان کا عقیدہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کا تعلق خدا تعالیٰ سے ہے جو چاہے اس پر ایمان لائے اور جو چاہے ایمان نہ لائے.انسان کو اس معاملہ میں خدا نے آزاد چھوڑا ہے.اسلام نہ صرف مذہبی آزادی کا علمبردار ہے بلکہ حریت فکر اور حریت عقیدہ کی ضمانت بھی دیتا ہے اس ضمن میں سورۃ حج کی آیت الَّذِيْنَ اُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍ إِلَّا أَنْ يقُولُوا رَبُّنَا اللهُ - وَلَوْ لَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وصَلَوَاتٌ ومَسْجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللهِ كَثِيرًا ( الحج : 40) سے یہ امر واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مذہب کی عبادت گاہ کے تحفظ کی ضمانت دی ہے.اس آیت میں مسجد کا لفظ قرآن نے غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کے لئے بھی استعمال کیا ہے اور ہدایت دی ہے کہ عبادت گا ہیں خواہ کسی مذہب کی ہوں ان کی ویرانی کے در پے نہ ہوں.مساجد کی ویرانی کی ایک جزوی صورت اذان پر پابندی بھی ہے.اس امر کی تائید میں روح المعانی اور معارف القرآن کے حوالے بھی پیش کئے گئے ہیں.ان میں بتایا گیا ہے کہ یہ عادۃ اللہ ہے.اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ اگر کوئی شخص حریت فکر کو پامال کرتا ہے تو اللہ اس کی بحالی کا انتظام فرما دیتا ہے اس طرح جنگ و قتال کی اجازت بھی مساجد اور معابد کا 64

Page 71

وجود برقرار رکھنے کے لئے دی گئی ہے.مودودی صاحب نے تفہیم القرآن میں لکھا ہے کہ جہاں تک قرآن کریم کی روح کا تعلق ہے.دین میں کسی پہلو سے جبر جائز نہیں کیونکہ ایمان اور اعتقاد کا محل دل میں ہے اور دل اپنی ذات میں ایسی چیز ہے جس پر کوئی جبر و اکراہ ممکن ہی نہیں.حریت فکر کے بارہ میں روح اسلام کو ذہن نشین کرنے کے بعد صرف یہ بات عرض کر دینا ضروری ہے کہ تمام احکام کو اس نظر سے جانچا جائے گا کہ آیا وہ حریت فکر کی اس روح کے معارض یا منافی تو نہیں ہیں اور احکام شریعت کو سمجھنے میں بھی یہی بنیادی روح ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہنی چاہئے اور احکام شریعت کی کوئی ایسی تعبیر جائز نہیں جو حریت فکر کی اس بنیادی روح کو مجروح کرتی ہو کیونکہ ہر ایسی تعبیر گویا قرآن حکیم میں تضاد تسلیم کر لینے کے مترادف ہوگی.اس بنیادی گزارش کے ساتھ اب ہم آرڈینینس کے مختلف حصوں کا جائزہ لیتے ہیں.ایک امر جس سے آرڈینینس میں روکا گیا وہ اذان ہے.اذان دراصل مقدمتہ الصلوۃ ہے.باجماعت نماز کے لئے اس کی اہمیت اور شرعی وجوب سے انکار نہیں کیا جاسکتا.اذان اذان کی بحث کے شروع میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اذان کیا ہے اور اس کا نفس مضمون کیا ہے؟ یہی کہ اذان ” شہادتین پر مبنی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اعلان ہے.اب اس آرڈینینس کی رو سے صورت حال یہ بنتی ہے کہ ایک مسلمان ملک میں ” شہادتین کے اعلان سے روکا جارہا ہے.ہم عدالت کے سامنے یہ بات پیش کرنا چاہتے ہیں کہ آخر ہمیں کس چیز سے روکا جا رہا ہے.کیا اس سے کسی کو بھی ، چاہے اس کا مذہب کچھ بھی ہو روکا جاسکتا ہے؟ کیا قرآن میں کوئی آیت یا احادیث میں کوئی 65

Page 72

حدیث ایسی ہے جس میں یہ ہدایت ہو کہ کسی شخص کو اذان دینے سے روکا جاسکتا ہے جو قرآن کریم کے نزدیک احسن قول“ ہے؟ اس ضمن میں تین سوال غور طلب ہیں :.1.اگر اذان اسلامی شعائر میں سے ایک ہے تو کیا ایسی چیز یا شعائر جو کسی غیر مسلم میں اور مسلمانوں میں مشترک ہوں اس سے غیر مسلم کو روکا جاسکتا ہے؟ کیا ایسا امر جو مسلمانوں اور غیر مسلموں میں كَلِمَةٍ سَوَاءٍ کی حیثیت رکھتا ہو اس سے غیر مسلموں کو روکا جا سکتا ہے؟ قرآن کریم فرماتا ہے کہ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُم...(آل عمران:64) یعنی تم میں اور غیر مسلموں میں جس بات میں اصولی اختلاف نہ ہو کم از کم اس میں ہی متفق ہو جاؤ.3.جو چیز احسن قول ہے کیا اس کو قابل تعزیر جرم قرار دیا جاسکتا ہے؟ فاضل عدالت کی توجہ اس امر کی طرف بھی مبذول کرائی گئی تھی کہ مکہ میں تعاون کی پیشکش کے دو نمونے نظر آتے تھے.کفار نے کہا کہ کچھ تم ہمارے بتوں کی عبادت کر لو کچھ ہم تمہارے خدا کی عبادت کرلیں گے.اس طرح باہمی تعاون ہو جائے گا.دراصل اس کا مطلب یہ بنتا تھا کہ کچھ تم غلط بات کرو کچھ ہم کرتے ہیں.اس کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا کہ قدر مشترک میں تعاون ہونا چاہئے نہ کہ اس بات میں جس میں کسی کو واضح اختلاف ہے.اذان ایسی چیز ہے جو احمد کی اور غیر احمدی مسلمان میں قدر مشترک ہے اس پر اعتراض اور اختلاف کیوں؟ اس سلسلہ میں سورہ مائدہ کی آیت نمبر 2 ہماری بنیاد ہے:.يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوْا شَعَائِرَ اللهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا امّيْنَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّن رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَنْ صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَن تَعْتَدُوا وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ 66

Page 73

وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَاب (المائده:2) ترجمہ: مومنو! خدا کے نام کی چیزوں کی بے حرمتی نہ کرنا اور نہ ادب کے مہینے کی اور نہ قربانی کے جانوروں کی اور نہ ان جانوروں کی (جو خدا کی نذر کر دیئے گئے ہوں اور ) جن کے گلوں میں پٹے بندھے ہوں اور نہ ان لوگوں کی جو عزت کے گھر ( یعنی بیت اللہ ) کو جا رہے ہوں (اور ) اپنے پروردگار کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار ہوں.اور جب احرام اتار دوتو ( پھر اختیار ہے کہ ) شکار کرو اور لوگوں کی دشمنی اس وجہ سے کہ انہوں نے تم کو عزت والی مسجد سے روکا تھا تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان پر زیادتی کرنے لگو.اور (دیکھو) نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو کچھ شک نہیں کہ خدا کا عذاب سخت ہے.اس آیت میں شعائر اللہ کا ادب کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور کہا کہ لوگوں کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ظلم کرو.قرآن نے کہا کہ تم ان لوگوں کو بیت الحرام میں آنے سے مت روکو جنہوں نے تم سے دشمنی کرتے ہوئے تم کو روکا تھا.اس میں فتح مکہ کے بعد کے واقعات کی طرف اشارہ ہے جب مسلمانوں نے مشرکین کے قربانی کے جانوروں کو چھین کر ان کو حج سے روکنے کی کوشش کی اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو کہا گیا کہ جو شخص بھی اپنے طور پر خواہ کتنی ہی بگڑی شکل میں اللہ کی عبادت کرتا ہے اور اس مقصد کے لئے خانہ کعبہ میں آنا چاہتا ہے چاہے وہ مشرک ہے یا کوئی اور عقیدہ رکھتا ہے تو اس کومت روکو، اسے آنے دو.اس آیت کی شان نزول میں تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى“ کا حکم ظاہر کرتے ہیں کہ جب شعائر مشترک ہوں تو ان میں دخل اندازی نہیں کی جاسکتی.اس 67

Page 74

ضمن میں علامہ نسفی لکھتے ہیں :.کلمۂ سواء سے مراد ایسا کلمہ ہے جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے اور جس میں تورات، انجیل اور قرآن میں کوئی اختلاف نہیں.اور کلمہ سے مراد یہ ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں“.(مدارک التنزیل جلد اول صفحہ 2) وو - اس سے اصول یہ نکلتا ہے کہ اذان بھی شعائر اللہ ہے.جو اذان دینا چاہتا ہے اور خدا تعالیٰ کی کبریائی کا اعلان کرنا چاہتا ہے اسے کرنے دیں آخر وہ ایک نیک کام کر رہا ہے اور نیک کام میں تعاون کرنے کا حکم دیا گیا ہے جب کہ برائی کے کاموں میں تعاون نہ کرنے کا حکم ہے.اب اگر تو اذان نیکی ہے اور ہر میں شامل ہے تو چونکہ امر مامور ہے لہذا اس سے نہیں روکنا چاہئے.فتح مکہ کے وقت جب ایک کافر اپنی جمعیت سمیت بیت اللہ کے طواف کے لئے جا رہا تھا تو مسلمانوں نے اس پر حملہ کرنے کا سوچا کیونکہ وہ مسلمانوں کے مویشی ہنگا کر لے گیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو روکا کہ بے شک یہ مشرک ہے اور کافر ہے لیکن اس وقت خدا کے گھر کے لئے نکلا ہے اس وقت اس سے تعرض نہ کرو.اس سے یہ اصول نکلتا ہے کہ خدا کا نام لینے سے کسی کا فرکو بھی نہیں روکنا چاہئے کیونکہ اذان امر مامور ہے اور قول احسن ہے.اس بارہ میں تعاون ہوسکتا ہے.شعائر اللہ کی وضاحت کرتے ہوئے مودودی صاحب لکھتے ہیں اس سے مراد وہ تمام نشانیاں ہیں جو موحدانہ نظام میں پائی جائیں اور مسلمان شعائر اللہ کے احترام کا پابند ہے کوئی شخص خواہ وہ غیر مسلم ہو بندگی اور اللہ کی عبادت کا کوئی جز ور رکھتا ہو تو اس کی ادائیگی پر مسلمانوں پر اس کا احترام لازمی ہے.(تفہیم القرآن جلد اول صفحہ 439,438 زیر آیت سورۃ المائدہ:2) کسی مذہب میں خدا تعالیٰ پر ایمان کا جتنا حصہ پایا جاتا ہے وہ بجائے خود احترام کا سزاوار ہے.اگر خدا تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ ہے تو جہاں بھی خدا پرستی کی علامات ہوں گی اس جگہ سے محبت کرنی 68

Page 75

چاہئے.اگر کہیں خدا پرستی کی علامات ملیں تو اس پر توحید پرست کو پیار آنا چاہئے غصہ نہیں.چنانچہ علامہ قرطبی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :.” جب مسلمانوں میں اذان کا رواج ہوا تو کفار نے مسلمانوں کی اذان کا مذاق اُڑایا اس پر یہ آیت نازل ہوئی وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللہ کہ تم اس کا مذاق اڑاتے ہو حالانکہ اس اذان سے بہتر اور کونسی بات ہے.یہاں اذان کو احسن قول قرار دیا گیا ہے.(الجامع لاحكام القرآن لابي عبدالله القرطبي الجزء السادس صفحه 225,224 مطبوعه قاهره1938ء) علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ :.كَلِمَةٍ سَوَاءٍ سے مراد ایک اللہ کی عبادت کرنا ہے اور یہی ابنیاء کی ہمیشہ سے مشترکہ دعوت رہی ہے.(تفسير ابن كثير أردو جلد اوّل صفحه 510،509 زیر آیت آل عمران آیت 64) سید قطب کہتے ہیں :.یہ ایک ایسی منصفانہ دعوت ہے جسے کوئی متعصب بھی کبھی رد نہیں کر سکتا“.علامہ سیوطی بیان کرتے ہیں کہ:.(تفسیر فی ظلال القرآن جز 3 صفحه 188ـ طبع رابع بيروت) كَلِمَةٍ سَوَاءٍ سے مراد لا اله الا اللہ ہے.(الدرالمنثور الجزء الثانی صفحه 71 زیر آیت آل عمران آیت 65) یعنی اذان كَلِمَةٍ سَوَاءٍ ہے.اس میں شہادتین ہے.اس کی طرف تو عمل کی دعوت دینی چاہئے نہ کہ اس سے روکا جانا چاہئے.اس ضمن میں مفتی محمد شفیع نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ :.كَلِمَةٍ سَوَاءٍ پر تو اشتراک ہونا چاہئے.(معارف القرآن جلد دوم صفحه 87 زیر آیت آل عمران آیت (64) 69

Page 76

پس اس کو قابل تعزیر جرم نہیں بنایا جاسکتا.علامہ سیوطی نے حضرت عائشہ صدیقہ کی روایت بھی بیان کی ہے کہ احسن قول کہنے والے سے مراد موذن ہے.(الدرالمنثور المجلد الخامس صفحه 684 زیر آیت سورة فصلت آيت (33) اسی طرح سنن ابن ماجہ میں یہ حدیث مروی ہے کہ ایک صحابی رسول حضرت ابومحذورہ نے بیان فرمایا کہ ہم بچے تھے اور میں ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا میری آواز بڑی بلند تھی ہم ایک دفعہ کھیل رہے تھے اس دوران موذن نے اذان دی تو ہم اس کو دہراتے ہوئے اس کا مذاق اُڑانے لگے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سب بچوں کو بلا یا اور مجھے فرمایا کہ تم اذان دو.اس پر میں نے اذان دی حالانکہ اس وقت مجھے اسلام سے بڑی نفرت تھی.(سنن ابن ماجه کتاب الاذان باب الترجيع في الاذان) ابومحذورہ بعد میں مسلمان ہو گئے.اس میں قابل غور بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت ان سے اذان دلوائی جب وہ مسلمان نہیں تھے.اگر میں آپ کی نظر میں مسلمان نہیں ہوں تو نہ سہی مگر مجھے اذان دینے سے روکا نہیں جا سکتا اور نہ اس پر تعزیر لگائی جاسکتی ہے.اذان کی بہت فضیلت احادیث میں بیان ہوئی ہے.یہ کارثواب ہے اسے معصیت اللہ پر محمول کر کے قابل تعزیر جرم کیسے قرار دیا جاسکتا ہے.اذان کی فضیلت کے بارہ میں محدثین نے ابواب باندھے ہیں.لکھا ہے کہ سات سال تک اذان کہنے والے کے لئے آگ سے برات لکھی جاتی ہے.اور موذن ضامن اور امین ہوتا ہے اور اذان سن کر دہرانے والے کے لئے شفاعت رسول کی نوید ہے.(ترمذى كتاب الصلواة باب ماجاء فضل الاذان) فقہاء نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ جو اذان دیتا ہے اسے مسلمان سمجھو اور اس کی شہادت قبول کر لو.پس اذان دینا کوئی قابل مذمت فعل نہیں بلکہ احسن قول ہے جسے قابل تعزیر جرم 70

Page 77

قرار دینا صحیح نہیں.چنانچہ علامہ ابن عابدین نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اذان چونکہ شہادتین پر مشتمل ہے اس لئے ابن شحنہ نے صراحت کی ہے کہ بروقت اذان دینے پر موذن پر اسلام کا حکم لگایا جائے گا خواہ وہ عیسائی ہی کیوں نہ ہو کیونکہ کافر جو مسلمان ہوتا ہے تو دو باتوں سے قول سے.اور فعل سے.اور قول سے مراد شہادتین کے کلے ہیں.البتہ اگر غیر وقت میں اذان دے تو اس کا اعتبار نہ ہوگا.(رد المحتار جز اوّل طبع دوم 1966ء صفحه 259) علامہ ابن نجیم نے اپنی کتاب میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا اذان سے کوئی شخص مسلمان ہو جائے گا؟ پھر کہتے ہیں کہ بزازی نے اپنے فتاوی میں لکھا ہے کہ اگر ذمی کے متعلق یہ گواہی ہو کہ وہ اذان دیتا اور اقامت کہتا تھا تو وہ مسلمان متصور ہو گا خواہ سفر میں ہو یا حضر میں.(البحر الرائق جلد اوّل صفحه 264) آیت لَا تُحِلُوا شَعَائِرَ الله کے شان نزول کی بحث میں یہ امر سامنے آیا تھا کہ آئندہ سال مشرکین کے حج روک دیئے جانے اور اس آیت (مائدہ :2) میں مشرکین کو حج سے نہ روکنے کا جو ذکر ہے اس سے نسخ واقع ہوایا نہیں.علامہ سیوطی کی ایک روایت کے مطابق مائدہ آیت 2 میں صرف وَلَا آمِينَ البَيْتَ الحَرَامَ کا ٹکڑا اسورہ توبہ کی تین آیات سے منسوخ ہوا ہے جب کہ آیت مذکورہ کا ٹکڑا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللهِ منسوخ نہیں.(الدر المنثور المجلد الثاني صفحه 254) اس طرح ناسخ و منسوخ کی لمبی بحث میں پڑے بغیر بھی ہمارا استنباط باطل نہیں ہوتا کیونکہ ہم نے جو تین اصول مستنبط کئے ہیں ان پر انحصار کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ باتیں جو موحدین کی ہیں اگر ان کو دوسرے بھی اپنائیں تو ان کی حرمت کا تقاضا یہ ہے کہ اس پر برا نہ منایا جائے.نیز جب کسی آیت کا شان نزول معتین بھی ہو تو الفاظ کے عموم پر اعتبار کیا جاسکتا ہے.71

Page 78

پس ہمارا مطالبہ تو صرف یہ ہے کہ شعائر اللہ میں سے کسی شعار مثلاً اذان پر کوئی کافر بھی عمل کر سکتا ہے اس کو کوئی روک نہیں ہونی چاہئے.قرآن پاک کے مطابق کوئی اولوالا مرکسی احسن قول یعنی نیک بات پر پابندی نہیں لگا سکتا.پس ہماری دلیل یہ ہے کہ کسی کا فر کو بھی اذان دینے سے نہیں روکا جاسکتا.جیسا کہ ردالمحتار سے اس موقف کی وضاحت ہوتی ہے.لکھا ہے کہ وقت پر اذان دینا ایسی چیز ہے جس سے کافر کو مسلمان قرار دیا جا سکتا ہے.اس سے اذان کی عظمت ظاہر ہے.اپنی کتاب ”اسلام کا نظام مساجد میں مولانا ظفیر الدین صاحب نے احادیث کے حوالے سے اذان کی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:.اذان کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ ایک ایسا شعار دین ہے جس کی وجہ سے دار دارالاسلام کے حکم میں ہو جاتا ہے“.اور اس میں ایک عظیم الشان عبادت اور ایک مہتم بالشان رکن کی طرف ترغیب پائی جاتی ہے.خیر متعدی اور اعلائے کلمہ حق میں اللہ تعالیٰ کی جو خوشنودی ہے کسی اور چیز میں نہیں“.(اسلام کا نظام مساجد صفحه88) حدیث میں ہے شیطان اذان سن کر بھاگ جاتا ہے.(ترمذى كتاب الصلواة باب ماجاء فضل الاذان وهراب الشيطان) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حدیثوں میں آتا ہے کہ حضور جب باہر غزوات پر تشریف لے جاتے تو صحابہ سے فرماتے کہ دیکھو دشمن کے علاقے سے اذان کی آواز تو نہیں آ رہی.اگر کہیں سے وہ اذان کی آواز سن لیتے تو حملہ نہ فرماتے.جس بات سے شیطان بھاگتا ہے اس پر پابندی عائد کرنا گویا شیطان کی طرفداری کرنا ہے اس لئے ایسا کام بجائے خودشیطانی فعل بن جاتا ہے.پس اولوالامر کا ایسا قانون بنانا ہرگز مستحسن نہیں.72

Page 79

اپنے مذہب کا شعار متعین کرنا ہمارا حق ہے.ہمارے مذہب کا نام آپ کچھ بھی رکھ دیں.لیکن اپنے شعائر کو ہم خود طے کریں گے.دستور نے یہ بات تو طے کر دی ہے کہ ہم غیر مسلم ہیں لیکن ہم میں اور ایک ایسے شخص میں جو اپنی زبان اور اپنے آزادانہ اقرار سے خود کو غیر مسلم کہتا ہے یہ فرق ہے کہ ہم ایسے غیر مسلم ہیں جو قرآن اور سنت کو اپنے لئے واجب العمل سمجھتے ہیں.اس قرآن پر ہم بھی اپنا حق سمجھتے ہیں اور یہ بات ہمارے اور آپ کے درمیان قدر مشترک ہے.اذان اسلامی شعائر میں سے ایک اہم شعار ہے اور جو کوئی اسے ترک کر دے تو اس کے خلاف قتال و جہاد کا حکم ہے.پس جو باتیں خدا کی عظمت کی نشانی ہیں ان کو تعزیر کا نشانہ کیوں بنایا گیا ہے.اذان پر پابندی لگا کر ہمارے مذہبی شعائر پر پابندی لگائی گئی ہے.مسلمانوں اور غیر مسلموں کے شعار مشترک بھی ہو سکتے ہیں جیسے داڑھی رکھنا اور ختنے کرانا مسلمانوں اور یہودیوں کے مشترکہ شعائر ہیں.اسلام تو آخری اور ترقی یافتہ دین ہے اس کے شعائر تو بہت سے دینوں میں مشترک ملیں گے.ہم مقدمۃ الصلواۃ کے طور پر اذان دیتے ہیں.نماز ہمارے مذہب کا حصہ ہے اس پر پابندی لگا کر ہمارے مذہب میں عملدرآمد میں رکاوٹ ڈالی گئی ہے.قصہ مختصر یہ کہ اذان کے بارہ میں ہماری معروضات قرآن حکیم کی تین آیات پر مبنی ہیں اور زیر نظر آرڈینینس تعبدی امور میں سے ایک بنیادی مذہبی حکم پر پابندی عائد کرنے کی وجہ سے قرآن وسنت کے احکام اور روح اسلام کے واضح طور پر منافی ہے.یہ پابندی نہ صرف اذان کی عظمت اور حرمت کے تقاضوں کے خلاف ہے بلکہ ہمارے تعبد ی امور میں واضح دخل اندازی ہے.73 الله

Page 80

اب ہم آرڈینینس کے اس حصے کا جائزہ لیتے ہیں جس میں بعض الفاظ ، اصطلاحات اور دعائیہ کلمات پر پابندی عائد کی گئی ہے.سب سے پہلا لفظ جس کا استعمال ہمارے لئے ممنوع قرار دیا گیا ہے وہ مسجد ہے.آرڈینینس میں اگلا قدم یہ اٹھایا گیا ہے کہ ہمارے لئے گویا نئی لغت ایجاد کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ میں فلاں لفظ استعمال کروں اور فلاں نہ کروں.بزرگوں کو رضی اللہ عنہ نہ کہوں.مسجد کا لفظ استعمال نہ کروں وغیرہ وغیرہ.ہمیں اس لئے غیر مسلم قرار دیا گیا ہے کہ ہم ایک مدعی نبوت کو کسی محدود یا مخصوص مشروط معنوں میں نبی مانتے ہیں.گویا اس جرم کی سزا ہمیں دی گئی.اب اس نبی کو نبی سمجھنے کے ساتھ جو ملحقات ہیں اس کا حق کیسے چھینا جا سکتا ہے؟ آپ عیسائیوں کی طرف سے حضرت عیسی علیہ السلام کو ابن اللہ کہنے پر تو معترض نہیں ہیں حالانکہ قرآن کہتا ہے کہ یہ ایسی بات ہے کہ اس سے آسمان پھٹ پڑیں.تكاد السموات يتفطرن...شورى:4) لیکن چندا ایسے الفاظ کے استعمال پر معترض ہیں جو ہمارے درمیان مشترک ہیں.لفظ مسجد کے استعمال کی بحث میں لغوی اور اصطلاحی مطلب کا فرق واضح کرنے کے بعد ہماری بحث کا ماحصل یہ ہے کہ لغت اور اصطلاح دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں.مسجد کے بارہ میں مندرجہ ذیل سوالات عدالت کو زیر غور لانے چاہئیں.1.کیا کوئی ایسا شخص جو قرآن کریم کے نظام حیات کو اپنا لے.اس سے قرآنی اصطلاحات چھینی جاسکتی ہیں؟ 2.جب کوئی لفظ لغوی اور اصطلاحی معنوں میں ساتھ ساتھ استعمال ہو رہا ہو تو کیا اس کے استعمال پر پابندی عائد کی جاسکتی ہے؟ 74

Page 81

3.کیا مسجد کا لفظ خالصتاً اصطلاحی طور پر مسلم معابد کیلئے مخصوص ہے یا اس میں کوئی استثناء بھی ہے.اور اگر کوئی مستثنیات قرآن وحدیث سے ملتی ہیں تو اس کا ماحصل کیا ہے؟ 4.لغوی طور پر مسجد کا لفظ کن معابد کے لئے مستعمل رہا ہے؟ ہم نے لسان العرب بحجم متن اللغۃ ، اصطلاحات العلوم الاسلامیۃ ،شارٹرانسائیکلوپیڈیا آف اسلام ( لندن ) کے حوالوں سے مسجد کے لفظ پر لغوی بحث کر کے یہ بات واضح کی ہے کہ لغت اور اصطلاح ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور لفظ مسجد لغوی طور پر یہود اور نصاری کی عبادتگاہوں کے لئے بھی استعمال ہوا ہے.ایک حدیث میں بھی گرجے کے لئے مسجد کا لفظ استعمال ہوا ہے.(Shorter Encyclopaedia of IslamP.330) اور ابن خلدون لفظ مسجد کو عمومی معنوں میں تمام مذاہب کے معابد کے لئے استعمال کرتے تھے.جب ہم قرآن کریم پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم نے مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کے معابد کے لئے اس لفظ کا اطلاق کیا ہے.چنانچہ سورۃ نبی اسرائیل آیت نمبر 2 میں فرماتا ہے :.سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْاَ قْصَى الَّذِى بَرَكْنَا حَوْلَهُ - (بنی اسرائیل :2) - گویا اس میں مسجد اقصیٰ کو جوقبل از اسلام عیسائیوں اور یہودیوں کی عبادت گاہ تھی مسجد کہا گیا ہے.اب اگر لغوی معنوں میں ان امتوں کے معابد کو مسجد میں کہا گیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اس کے اصطلاحی معنی خالصہ مسلمانوں کے لئے مروج ہو گئے ہیں اور کسی دیگر مذہب کی عبادت گاہ کے لئے کبھی استعمال نہیں ہو سکتے یا نہیں ہوئے.تو اول تو اس کی سند چاہئے.کراچی میں یہود کی عبادت گاہ ” مسجد بنی اسرائیل“ کے نام سے 75

Page 82

موجود ہے جس کے نیچے Synagogue لکھا ہوا موجود ہے.تاہم اگر یہ فیصلہ ہو کہ اصطلاحی طور پر مسجد نہیں بلکہ لغوی طور پر مسجد کا استعمال درست ہے تو زیر نظر قانون روح اسلام سے متصادم ٹھہرے گا.مختلف قرآنی آیات کے یکجائی مطالعہ سے یہ مستنبط ہوتا ہے کہ جہاں خدائے واحد کی عبادت کی جائے وہ مسجد ہے.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے موحد عیسائیوں کو مسجد نبوی میں عبادت کرنے کی اجازت دی تھی.ہم نے سورۃ بقرہ کی آیت 115 وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ.....الخ سے استنباط کیا ہے کہ اس میں دنیا بھر کے مذاہب کے معابد کے لئے مسجد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.کیونکہ اسباب النزول میں اس آیت کی شان نزول یہ بیان کی گئی کہ یہ آیت طیطوس رومی اور بخت نصر کے بارہ میں ہے جس نے یہودیوں کے معاہد کو مسمار کیا تھا اور جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت بیت المقدس مسلمانوں کے قبضہ میں نہ تھا.تیسری وجہ نزول مسلمانوں کو مشرکین کی طرف سے حدیبیہ کے مقام پر روکا جانا بیان ہوئی ہے.اس وقت خانہ کعبہ میں بتوں کی پرستش ہوتی تھی.مساجد اللہ کے الفاظ میں جو مساجد کا عموم ہے اس کا کسی ایک زمانے پر حصر نہیں کیا جا سکتا.علامہ رشید رضا نے لکھا ہے کہ:.مسجد کا لفظ ان لوگوں کی عبادت گاہ کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے جو خالص بت پرست ہیں.جن مفسرین کے ہم نے حوالے دیئے ہیں وہ اس لحاظ سے زیادہ معتبر ہیں کہ وہ فریق نہیں تھے اور آزادانہ علمی رائے رکھتے تھے.یہ درست ہے کہ عدالت ان کی رائے کی پابند نہیں لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ میری رائے کی تائید میں متقدمین اور متأخرین کے اقوال 76

Page 83

وتصنیفات میں کوئی سند موجود نہیں.تفسیر المنار میں یہ بھی ذکر ہے کہ اگر معابد میں بدعتیں بھی شامل ہو جا ئیں تب بھی انہیں مٹانا جائز نہیں.(المنار جلد اول صفحہ 432-433) علامہ نیسفی نے لکھا ہے کہ:.ذکر اللہ سے روکنے والا سخت ظالم ہے“.(مدارک التنزيل وحقائق التاويل جلد اوّل صفحه 81 بيروت) روکنے کا ایک طریق اذان پر پابندی ہے کہ مصروف آدمی کو نماز کا وقت یاد دلانے کا سلسلہ ختم ہو جائے اور وہ مسجد کی حاضری سے محروم ہو جائے.علامہ قرطبی نے فرمایا کہ:." شعائر کا نقطل مسجد کی ویرانی کے مترادف ہے“.(قرطبی جزء ثانی صفحه 77,76 مصر 1935ء) پس ہم احکامات قرآنی کے پابند ہیں.قرآن جوشعائر تجویز کرتا ہے یہ ہمارے بھی ہیں.تفاسیر سے پتہ چلتا ہے کہ مسجد کا لفظ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کے لئے بھی استعمال ہوا ہے.(بیان القرآن از اشرف على صفحه 62 ، معارف القرآن حضرت مولانا مفتی محمد شفیع جلد اوّل صفحه 299 زیر آیت سورة بقره:115، ضیاء القرآن از پیر محمد کرم شاه سجاده نشین بهیره جلد اوّل صفحه 87 تفهيم القرآن از مولانا ابوالاعلی مودودی جلد ششم صفحه 119 زير آيت سورة جن:18) سورۃ کہف کی آیت 22 لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِمْ مَسْجِدًا....الخ بتاتی ہے کہ اصحاب مَسْجِدا.....کہف کی عبادت گاہ کا نام بھی مسجد تھا.حالانکہ وہ عیسائی تھے.معلوم ہوا کہ قرآن نے عیسائیوں کے معابد کا نام بھی مسجد رکھا ہے.اس موقف کی تائید میں مندرجہ ذیل حوالہ جات ملاحظہ ہوں.(روح المعاني في التفسير القرآن العظيم جزء 15صفحه 236 مكتبه امدادیه ملتان از ابوالفضل شهاب الدین محمود آلوسی البغدادی تفسیر کبیر امام رازی جزء 21 صفحه 105 الطبعة الثانية دار الكتب العلمية طهران، فی ظلال القرآن از سید قطب جزء5 صفحه 89 بـ بيروت، معارف القرآن جلد 5 77

Page 84

صفحه 564,562,561 زير آيت سورة الكهف آیت 21 از مولانا مفتی محمد شفیع، ضیاء القرآن جلد سوم صفحه 21 از پیر محمد کرم شاہ زیر آیت سورة كهف:21) پھر حدیث میں آتا ہے کہ یہود و نصاریٰ میں سے جب کوئی نیک آدمی مرجاتا تھا تو وہ اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے تھے.(بخاری کتاب المساجد باب هل تنبش قبور مشركي الجاهلية) قرآن کے شعائر ہمارے بھی شعائر ہیں.چاہئے تو یہ تھا کہ ہمیں بھی دعوت دی جاتی کہ ان پر عمل کیا جائے لیکن اس کے بر عکس ستم یہ ہے کہ ہمیں ان اچھی باتوں پر عمل کرنے سے روکا جا رہا ہے.سوال یہ ہے کہ جہاں یہ لغوی اور اصطلاحی مطالب ساتھ ساتھ چل ہوں.وہاں پر اصطلاحی استعمال سے روکا جاسکتا ہے یا نہیں.جماعت احمدیہ کی ایک منفرد حیثیت ہے.ہم وہ ” غیر مسلم ہیں جو قرآن وسنت پر عمل کرنا چاہتے ہیں.قانون کے جبر سے غیر مسلم قرار دیئے گئے ہیں.ہمارا ان لوگوں سے واضح فرق ہے جو خود کو اعلانیہ غیر مسلم کہتے ہیں.اور ان معنوں میں ہمارا ان سے کوئی موازنہ نہیں.امیر المومنین یہ آرڈینینس ایک مفروضے پر مبنی ہے.اگر وہ غلط ہے تو یہ آرڈینینس بھی غلط ہے.مفروضہ یہ ہے کہ خلفائے راشدین کے علاوہ کسی پر امیر المومنین کا لفظ نہیں بولا جا سکتا.حالانکہ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ جابر سلطان اور بادشاہوں کے لئے امیر المومنین کا لفظ استعمال ہوتا رہا ہے.اور اگر اب بھی یہ لفظ جابر بادشاہوں کے لئے استعمال کیا جائے تو کوئی جرم نہیں.لیکن اگر کوئی احمدی یہ لفظ استعمال کرے تو جرم ہے.ہاں یہ درست ہے کہ اگر امیر المومنین سیاسی طور پر سر براہ مملکت کیلئے استعمال ہو تو پھر محض امیر المومنین کا لفظ استعمال کرنا درست نہ ہوگا، مگر ایسی صورت میں دینی علم رکھنے والوں کو امیر المومنین فی الحدیث کہا گیا ہے.مثلاً امام مالک کو اور فی زمانہ مولوی نذیر حسین دہلوی وغیرہ کو کہا گیا ہے.78

Page 85

رضی اللہ عنہ قرآن کریم میں صحابہ کے علاوہ اور مومنوں کو بھی رضی اللہ عنہ کے خطاب سے نوازا گیا ہے.مثلاً سورۃ توبہ آیت نمبر 100 وَالشَّيقُوْنَ الَّا وَلُوْنَ مِنَ المُهْجِرِيْنَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواعَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّتٍ تَجْرِى تَحْتَهَا الأنْهرُ خَلِدِينَ فِيْهَا اَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (سورة التوبة: 100) ترجمہ: جن لوگوں نے سبقت کی ( یعنی سب سے ) پہلے (ایمان لائے ) مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی اور جنہوں نے نیکوکاری کے ساتھ ان کی پیروی کی خدا ان سے خوش ہے اور وہ خدا سے خوش ہیں اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں (اور ) ہمیشہ ان میں رہیں گے.یہ بڑی کامیابی ہے.اس میں تابعین کے لئے رَضِيَ اللهُ عَنْهُم کا لفظ استعمال ہوا ہے.اسی طرح سورہ تینه آیت 8 جَزَاؤُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنْتُ عَدْنٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيْهَا أَبَدًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ.ترجمہ: ان کا صلہ ان کے پروردگار کے ہاں ہمیشہ رہنے کے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں.ابدالآبادان میں رہیں گے.خدا ان سے خوش اور وہ اس سے خوش.یہ (صلہ ) اس کے لئے ہے جو اپنے پروردگار سے ڈرتا ہے.سورة الفجر آيت 28,27 يَأَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةٌ 79

Page 86

ترجمہ :.اے اطمینان پانے والی روح! اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل.تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی.اور سورہ مائدہ آیت 119 قَالَ اللَّهُ هَذَا يَوْمُ يَنفَعُ الصَّدِقِيْنَ صِدْقُهُمْ لَهُمْ جَنَّتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَلِدِينَ فِيْهَا أَبَدًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ترجمہ: خدا فرمائے گا کہ آج وہ دن ہے کہ راستبازوں کو ان کی سچائی ہی فائدہ دے گی.ان کے لئے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں.ابدالآبادان میں بستے رہیں گے.خدا اُن سے خوش ہے اور وہ خدا سے خوش ہیں.یہ بڑی کامیابی ہے.ان سب آیات میں صحابہ کے علاوہ دیگر نیک لوگوں لئے بھی یہی لفظ استعمال ہوا ہے.پھر متعدد حوالے ایسے ہیں جن میں بزرگان دین کو رضی اللہ عنہ لکھا گیا.مثلاً مہر منیر میں حضرت گنج شکر کو رضی اللہ عنہ کہا گیا ہے.حميل ” جامع الثناء میں حضرت غوث الاعظم عبد القادر جیلانی اور امام لیث بن سعد، امام ابوالحسن الشاذلی ، شیخ احمد بن عطاء اللہ اور حسن البکری کو رضی اللہ عنہ کہا گیا ہے.ہے ”الیواقیت والجواہر" میں امام شعرانی نے شیخ محمد طاہر، محی الدین ابن عربی، ناصرالدین مالکی کو رضی اللہ عنہ لکھا ہے.اور انوار اصفیاء میں مالک بن دینار کے ساتھ رضی اللہ عنہ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں.ہم سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ کیا کسی کافر کے لئے بھی کبھی رضی اللہ عنہ کالفظ استعمال ہوا ہے؟ 80

Page 87

ایسے لوگوں کے بارہ میں بھی رضی اللہ عنہ کا لفظ موجود ہے جن کو اپنے وقت کے اقتدار اعلیٰ نے کافر اور غیر مسلم کہا.مولانا عبد اللہ غزنوی کو کابل کے حکمرانوں نے کافر قرار دیا اور قتل تک کا فتویٰ جاری کیا اور ان کی سوانح عمری کی کتاب میں ان کو رضی اللہ عنہ بھی کہا گیا ہے.(سوانح عمری مولوی عبدالله الغزنوي المرحوم مجموعه مکتوبات صفحه18) دوسری مثال حضرت محی الدین ابن عربی کی ہے جن پر کفر کا فتویٰ لگا اور رضی اللہ عنہ بھی ان کو کہا گیا.(انوارا صفیاء صفحه 184 مطبوعه 1967ء ادارہ تصنیف و تالیف) حضرت امام حسین کو بھی اقتدار وقت نے کا فرقرار دیا.(جواهر الکلام از مرزا حسن صفحه 88 مطبع علمی تبریز ایران) در اصل کا فر ہونا اور بات ہے اور کا فر کہلانا اور بات ہے.ہمارا یہ مطالبہ نہیں ہے کہ عامتہ المسلمین ہمارے بزرگوں کو رضی اللہ عنہ کہیں.ہم تو اپنا یہ حق مانگتے ہیں کہ ہمیں اپنے بزرگوں کو رضی اللہ عنہ کہنے کا حق دیا جائے.دستور نے ہمیں غیر مسلم ضرور قرار دیا ہے مگر اس عدالت کے روبرو ہماری بحث یہ ہے کہ ہر چند کہ دستور نے ہمیں غیر مسلم قرار دیا ہے لیکن خدا اور رسول سہمیں اپنے آپ کو مسلمان کہنے اور کہلانے کا حق دیتے ہیں.ہم دستور کو کالعدم قرار دینے کی بات ہرگز نہیں کر رہے.دستور میں ترمیم اس وقت کے حکمران نے کی تھی اور اس نے یہ نہیں کہا کہ قرآن وسنت بھی احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیتے ہیں.اب رسول کا لفظ بھی ایک اصطلاح ہے.اگرچہ یہ آرڈنینس کے ممنوعہ الفاظ میں شامل نہیں تاہم پنڈت نہرو عرب ملکوں کے دورے پر گئے تو عرب اخبارات نے ان کو سیدنا رسول السّلام“ لکھا.اب یہ لغوی مفہوم استعمال ہو رہا ہے.بائبل میں ہے کرنتھیوں کے نام پولوس رسول کا خط.اب خود عیسائی انہیں اصطلاحی معنوں میں رسول 81

Page 88

قرار نہیں دیتے.قرآن میں ہے وَأَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُوْنَ (النحل:68) ترجمہ: اور تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھیوں کو ارشاد فرمایا کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور ( اونچی اونچی ) چھتریوں میں جولوگ بناتے ہیں گھر بنا.اب یہ عرفی معنوں میں تو استعمال نہیں ہوا.حضرت ابراہیم کے پاس فرشتے آئے ان کو رسول کہا گیا ہے.(الذاریات:31) اس کے علاوہ لفظ نکاح کو ہم یہاں اصطلاحی معنوں میں لیتے ہیں.عربی لغت میں ابھی تک اسے مباشرت کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں.ولیمہ ہم صرف شادی کی ضیافت کو کہتے ہیں.عربی میں اس سے مراد عام دعوت بھی لی جاتی ہے.اصل بات تو دیکھنے والی یہ ہے کہ کیا جو لفظ لغوی معنوں میں استعمال کیا جا رہا ہے اس کو استعمال کرنے پر قرآن وسنت کوئی پابندی عائد کرتے ہیں.اور اگر قرآن خود ایسے الفاظ کو لغوی معنوں میں استعمال کرتا ہے تو پھر اس پر پابندی نہیں عائد ہوسکتی.اس ملک میں جس میں ہم رہتے ہیں یہاں پر بھی لوگ بعض بزرگوں کو کافر بھی کہتے رہے ہیں اور رضی اللہ عنہ بھی کہتے رہے ہیں.اس سلسلے میں ہم نے قریباً ایک سو حوالے نکالے ہیں.بعض پیش کر رہا ہوں.تذکرۃ الاولیاء میں امام جعفر صادق کو رضی اللہ عنہ لکھا ہے.امام باقر اور امام شافعی کو بھی لکھا ہے.(تذکرة الاولیاء از خواجه فرید الدین عطار اُردو صفحه 18 مترجمه پروفیسر عنایت الله ایم.اے 82 در ذکر امام جعفر صادق)

Page 89

خواجہ محمد سلیمان رضی اللہ عنہ ، خواجہ محمد عاقل رضی اللہ عنہ، جمال اللہ ملتانی رضی اللہ عنہ فخر الدین دہلوی رضی اللہ عنہ ، خواجہ تاج محمود رضی اللہ عنہ، شیخ نورمحمد رضی اللہ عنہ، ابوالقاسم گولگانی رضی اللہ عنہ ، خواجہ خدا بخش رضی اللہ عنہ ، خواجہ فخر الدین رضی اللہ عنہ، مولانا فخر جہاں رضی اللہ عنہ، شیخ عبد الحق رو دلوی رضی اللہ عنہ، خواجہ جمال الدین پانی پتی رضی اللہ عنہ.یہ سب بزرگان تابعین بھی نہیں ، اہل بیت بھی نہیں مگر رضی اللہ عنہ ان کے حق میں استعمال ہوا ہے.(مقابيس المجالس ملفوظات حضرت خواجه غلام فرید جمع و ترتیب مولانا ركن الدين صفحه 413 دو (412,271,270, 263,262, 249, 248 نظم الدرر میں پیر صاحب کو ٹھ شریف کو آنحضرت اور رضی اللہ عنہ کہا گیا.(نظم الدرر سلک السير في نظم الدرر مؤلفة المعتلم بالله ملا صنعى الله صفحه335,18 مطبع فاروقی دهلی) ” مناقب الحبو بین میں شیخ اکبر محی الدین ابن عربی ،خواجہ سلیمان ،خواجہ نورمحمد، خواجہ نصیر الدین چراغ سب کو رضی اللہ عنہ لکھا گیا.(مناقب المحبوبین صفحه4) پاکستان میں مسلمانوں کی تعداد 819 کروڑ ہے لیکن مختلف فرقوں کے نزدیک مختلف لوگ مومن ہیں.یہ ساری آبادی ایک ہی قسم کے مومنین پر مشتمل نہیں ہے بلکہ مومن ٹولیوں میں بٹے ہوئے ہیں.جو میرے نزدیک مومن ہیں میں ان کے امیر کو امیر المومنین کہتا ہوں.میں کسی دوسرے کو نہیں کہتا کہ وہ بھی کہے.امیر المومنین کے لفظ کا اطلاق صرف خلفائے راشدین پر نہیں بلکہ اور لوگوں پر بھی کیا گیا ہے.قادیانی مذہب مصنفہ الیاس برنی میں نظام حیدر آباد کے لئے یہ لفظ استعمال ہوا ہے.وو (قادیانی مذهب کا علمی محاسبه مصنفه الیاس برنی صفحه 1 چوتھا ایڈیشن) 83

Page 90

وو اوجز المسالک میں امام مالک کو امیر المومنین فی الحدیث کہا گیا.(مقدمة اوجز المسالک صفحه 14) ”الحیات بعد الممات میں مولانا نذیر حسین دہلوی کو.(الحیات بعد الممات سوانح عمری حضرت علامه مولوی نذیر حسین المعروف میاں صاحب صفحہ544) بال جبریل میں علامہ اقبال نے نادر شاہ کو امیر المومنین کہا.صحابی بال جبریل از علامه اقبال صفحه 37 طبع هفتم 1970ء) اصطلاحات کی بحث میں صحابی کے لفظ کی بحث میں لغات اقرب الموارد اور مفردات سے واضح ہوتا ہے کہ یہ لفظ اضافت کے ساتھ قرآن کریم میں بے شمار جگہ پر آیا ہے.ہمارا یہ کہنا ہے کہ اگر یہ مطلقاً استعمال ہو تو صحابی کے لفظ سے صرف صحابہ رسول کریم مراد ہوں گے لیکن جہاں اضافت کے ساتھ ہو یا قرینہ موجود ہو تو یہ لفظ آنحضرت کے اصحاب کے علاوہ اور جگہ بھی استعمال ہوتا رہا ہے.حمد چنانچہ رسالہ چودہ ستارے میں امام جعفر صادق کے صحابی کا ذکر ہے.(چودہ ستارے مولفه مولوی سید نجم الحسن صاحب کراروی صفحه 256 سن ۱ اشاعت 1973ء) متذکرۃ الاولیاء میں ابن سیرین کے ایک صحابی.(تذكرة الاولياء اردو صفحه88 در ذکر امام ابوحنيفة) تذکرہ کتاب عدل میں محمد صدیق کی مخلص صحابیہ، گلو کے کی ایک مخلص صحابیہ (کتاب عدل صفحه 225,197 از خلیفه محمد سعيد دار الضيف والنشر جامع عاليه صديقه آلو مهار شریف ضلع سیالکوٹ) خزانہ تیراہ شریف میں صحابی کے لفظ کا استعمال.(برکات علی پور المعروف خزانه تیراه شریف صفحه 130 زیر اهتمام یاران طریقت راولپنڈی) اذ کا را برار“ میں سلسلہ مداریہ طیفوریہ کے بزرگوں کے لئے اصحاب کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.84

Page 91

سکینتہ الاولیاء از دارا شکوہ بھی پیش کیا گیا ہے اس میں بھی اصحاب کا لفظ استعمال ہوا ہے.(سكينة الاوليا از داراشکوه صفحه 75 مطبوعات سلسله نمبر 3 اُردو میں) اخبار المنتظر میں تینوں اماموں کے مقدس صحابی کے الفاظ ہیں.(اخبار المنتظر 5 جنوری 1969ء جلد 10 شمارہ 21 صفحہ 7 ادارہ تحریر اے.ایچ جعفری ع غ کرا روی ) لله انوار اصفیاء میں درج ہے کہ خواجہ حسن بصری نے اپنے احباب سے فرمایا تم رسول اللہ کے اصحاب کی مانند ہو.(انوار اصفیاء صفحه 19 مرتبه اداره تصنیف شیخ غلام علی اینڈ سنز کشمیری بازار لاهور) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے علاوہ حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھیوں کے لئے صحابی کا لفظ صحیح مسلم میں آیا ہے.اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دیگر انبیاء کے ساتھیوں کے لئے بھی صحابی کا لفظ استعمال ہوسکتا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصطلاح بننے سے لغوی معنی ختم نہیں ہوتے بلکہ ساتھ ساتھ چلتے ہیں.اگر یہ کہا جائے کہ لغت کچھ کچھ ساتھ چلتی ہے تو یہ درست نہیں بلکہ لغت پورے طور پر ساتھ چلتی ہے.تو اگر خدا اور رسول ہمیں نہیں روکتے ، کوئی نص موجود نہیں تو اقتدار اعلیٰ نے ایسا قانون بنا کر اپنی ان حدود سے تجاوز کیا ہے جو قرآن وسنت نے اس کے لئے مقرر کی ہیں.علاوہ ازیں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب مسلمانوں کے سواد اعظم کے اعتقاد کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام نازل ہوں گے تو ان کے ساتھی آنحضرت کی حدیث کے بموجب صحابہ ہی کہلائیں گے.(صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذكر الدجال وصفته) ہمارے اعتقاد کے مطابق نزول مسیح حضرت مرزا صاحب کے وجود میں ہو چکا اور یہ اعتقاد ر کھنے سے مجھے قانون نہیں روکتا تو اس اعتقاد کے نتیجہ میں جو امور مجھے حاصل ہیں ان سے روکنا مداخلت فی الدین اور اعتقادات میں دخل اندازی ہے جو احکام قرآن اور 85

Page 92

سنت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے.قرآن مذہبی آزادی کا ضامن ہے اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر غیر مسلم کو اپنے مذہب کی آزادی عطا کی ہے.أم المؤمنين جہاں تک اُم المؤمنین کے لقب کا تعلق ہے اس کی بھی وہی کیفیت ہے.یہ لقب جب بغیر قرینے کے ہو تو بلاشبہ امہات المومنین کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر جب قرینہ اس کے خلاف ہو تو اُمت میں یہ لقب پہلے بھی استعمال ہوتا چلا آیا ہے.وو چنانچہ گلدستہ کرامات ( در ذکر کرامات حضرت شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی) میں حضرت پیران پیر کی والدہ محترمہ کے لئے.(در ذکر کرامات حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی گلدسته کرامات صفحه18) اشارات فریدی میں حضرت خواجہ جمال الدین ہانسوی کی اہلیہ کے لئے.(ملفوظات حضرت خواجه غلام فرید در مطبع مفید عام آگرہ 1321ء - اشارات فریدی حصه اوّل صفحه91) سیر الاولیاء اور تاریخ مشائخ چشت میں خواجہ جمال الدین ہانسوی کی خادمہ کے لئے استعمال ہوا ہے.(سیر الاولیاء صفحہ 187 از سید محمد بن مبارک کرمانی ترجمه غلام احمد بریاں) اور "المھدیۃ فی الاسلام میں مہدی سوڈانی کی زوجہ کے لئے اُم المومنین کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.(المهدية في الاسلام صفحہ 201 مطبوعہ 1953 ء مصر تالیف سعد حمد حسن) عليه " موسوعۃ اصطلاحات العلوم الاسلامیہ میں اسلامی اصطلاحات میں اُم المومنین کا لفظ موجود ہی نہیں.ہم اپنے جن مخصوص عقائد کی وجہ سے ساری ملامتوں کا ہدف ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہم ایک شخص کو امام مہدی تسلیم کرتے ہیں اور انہیں مخصوص معنوں میں نبی بھی مانتے 86

Page 93

ہیں.اب سوال یہ ہے کہ جب اور جو بھی عیسی مسیح آئیں گے ان کے ساتھی اصحاب اور صحابہ ہی کہلائیں گے یا نہیں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مہدی کے صحابہ میرے صحابہ کے مانند ہوں گے.یہی کیفیت اُم المومنین کے لقب کی ہے.تبلیغ صدارتی آرڈینینس کے ذریعہ ہمارے عقیدہ اور اس کی تبلیغ پر پابندی لگا کر دین کی آزادی میں رکاوٹ ڈالی گئی اور ہمیں تبلیغ کرنے سے روک دیا گیا ہے جو دستور کے آرٹیکل نمبر 20 کی صریحاً خلاف ورزی ہے.عقیدہ اور اس کی تبلیغ ساتھ ساتھ چلتے ہیں.تبلیغ کا حق سلب کرنا ، قرآن اور سنت کے منافی ہے اس پر پابندی بھی اکراہ کی ایک صورت ہے یعنی تم جو عقیدہ رکھو اس کی تبلیغ نہ کرو.قرآن کریم کی تعلیمات حق و حکمت پر مشتمل ہیں، قرآن کریم نے جو بھی حکم دیا ہے اس کے پیچھے ایک روح کارفرما ہے.ہماری تبلیغ پر جو پابندی لگائی گئی ہے وہ روح قرآن کے خلاف ہے.قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تبلیغ ایک ضروری فریضہ ہے اور اس فریضہ کا تتمہ کفار کا حق تبلیغ ہے چنانچہ قرآن کریم نے جگہ جگہ فرمایا کہ دیکھو قرآن کریم حق و حکمت اور حقیقت و برہان پر مشتمل تعلیم لے کر آیا ہے لیکن جب یہ تعلیم کفار کو پیش کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو جس طریق پر پایا ہے اس کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں.(سورة بقره آیت نمبر 170) چنانچہ قرآن کریم نے اس Dogmatic Spirit ( تقلیدی روح) کو نا پسند کیا ہے اور فرمایا کہ اندھی تقلید ایک طوق ہے جو تمہارے گلے میں پڑا ہوا ہے.پیغام حق پہنچانے کے لئے قرآن کریم نے جو راستہ اختیار فرمایا ہے وہ عقلی اور نقلی دلائل پر مشتمل ہے.دو قسم کے عقلی دلائل بیان فرمائے ایک انفسی اور دوسرے آفاقی.اللہ تعالیٰ نے قرآن 87

Page 94

میں زمین و آسمان کی تخلیق.دن رات کا آگے پیچھے ہونا.ہواؤں کا چلنا اور اس قسم کی دوسری چیزوں کی پیدائش کا ذکر کے کہا ، ان کو دیکھو کتنی خوبصورتی اور کیسا عمدہ تو ازن ہے، اگر خدا دو ہوتے تو کائنات میں ہم آہنگی نہ ہوتی.یہ ایک ایسی معقلی دلیل ہے جو آفاق سے تعلق رکھتی ہے اس کے برعکس انفسی دلیل کے طور پر انسان کو پیش کیا ہے کہ اس کی تخلیق پر غور کرو.اس کی زندگی کے مختلف مراحل پر نظر ڈالو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ ایک خالق حقیقی ہے جس نے انسان کو بنایا.کیا پھر تم خدائے واحد کا انکار کرو گے؟ جہاں تک نقلی دلائل کا تعلق ہے، اللہ تعالیٰ نے کہا سِيرُوا فِي الْأَرْضِ اور پھر قصص الانبیاء وغیرہ بیان کر کے فرما یا لِنتَبتَ بِهِ فُؤَادَكَ (الفرقان: 32) یہ ہم اس لئے بیان کرتے ہیں تا کہ اس سے تمہارا اپنے خالق حقیقی پر ایمان مضبوط ہو.جب یہ ساری باتیں ہو چکتی ہیں یعنی عقلی دلائل اور نقلی دلائل آجاتے ہیں تو قرآن کہتا ہے هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صدِقِينَ (البقرة :112) کہ کافر سے دلیل مانگو اس لئے کہ لِيَهْلِكَ مَنَ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ ويَحْيَى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ (الانفال:42) کی رو سے ہلاک وہی ہے جو دلیل سے ہلاک ہو اور زندہ وہی ہے جو دلیل سے زندہ رہے.تبلیغ امر معروف ہے، پیغام حق پہنچانے کے لئے دلیل دینی پڑے گی اور تبلیغ کی روح یہ ہے کہ لوگوں کو دلیل سے قائل کیا جائے.کیونکہ جب لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ کا حکم ہے تو پھر انفسی اور آفاقی دلائل کی طرف توجہ دلا کر ہی بات مکمل ہوتی ہے.قرآن کریم میں (1) سورۃ بقرہ: آیت 112، (2) المائدہ :105، (3) الشعراء:71 تا75، (4) الزخرف :21 تا 25 کے مفہوم کو مجموعی طور پر سامنے رکھا جائے تو سنت اللہ یہی نظر آتی ہے کہ جب کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت نازل ہوئی اور خدا کے رسول نے لوگوں کو پیغام حق پہنچایا تو انہوں نے کہا کہ ہمارے لئے ہمارے باپ دادا کا طریق کافی ہے.وہ اسی پر 88

Page 95

اصرار کرتے رہتے ہیں اگر چہ ان کے باپ دادا عقل و فہم سے عاری ہی کیوں نہ ہوں.قرآن کریم اپنی صداقت کے دلائل دیتا ہے اور تبلیغ کا حق ادا کرنے کا حکم دیتا ہے اور اصولاً تقلیدی روح کو توڑنا چاہتا ہے لیکن اس کے لئے جو طریقے بتاتا ہے وہ سب سے پہلے سورۃ نحل کے آخری رکوع کی آیات سے ثابت ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اُدْعُ إِلى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (النحل:125) ترجمہ:.کہ حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ دعوت الی اللہ دو اور مد مقابل سے مجادلہ اور بحث بھی احسن طریق سے کرو.مدارک التنزیل از امام نسفی جو حنفی عقائد کی ایک مستند کتاب ہے جلد 2 صفحہ 233 مطبوعہ بیروت میں اس آیت کی تفسیر میں واضح کیا ہے کہ حکمت اور موعظہ حسنہ کیا چیز ہے یعنی اس رنگ میں دلائل پیش کرنا کہ حق واضح اور شبہ زائل ہو جاتا ہے.نصیحت ، تبشیر وانذار اور ترغیب و ترہیب پر مشتمل ہوتی ہے.تفسیر کبیر رازی جلد 20 صفحہ 138 ایڈیشن دوم طہران اور فی ظلال القرآن جلد 14 صفحہ 110 ایڈیشن چہارم مطبوعہ بیروت سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن کریم قواعد اور اصول کے ذریعہ مناظرہ اور بحث مباحثہ اور دعوت الی اللہ کے وسائل اور طریقے متعین کرتا ہے.تبلیغ خدا اور خدا کے دین کی طرف بلانا ہے یہ وہ فرض ہے جس کی ادائیگی ضروری ہے.پیر کرم شاہ صاحب ضیاء القرآن میں لکھتے ہیں کہ اسلام کی نشر و اشاعت کا انحصار تبلیغ پر ہے.سورۃ انفال آیت 43 ( يحيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ ) اگر چہ جنگ بدر کے موقعہ پر نازل ہوئی تھی لیکن اس میں واقعات کی رو سے بتایا گیا ہے کہ یہ حالات اس لئے پیدا کئے جار ہے 89

Page 96

ہیں کہ جو زندہ رہے ، وہ دلیل کے ساتھ زندہ رہے اور جو ہلاک ہو وہ بھی دلیل سے.علامہ نسفی لکھتے ہیں ہلاکت اور زندگی کفر و اسلام سے استعارہ ہے معنوی، ذہنی اور روحانی زندگی مراد ہے.مطلب یہ ہے کہ جس سے کفر صادر ہے وہ بھی دلائل سے ہو.کوئی شبہ نہ رہے اور جس نے اسلام قبول کرنا ہے وہ بھی دلائل سے قبول کرے.مدارک التنزيل جلد 1 صفحه 618 زیر آیت انفال: 44) تفسیر مظہری جلد 4 صفحہ 96 از قاضی محمد شاء اللہ عثمانی دہلی ، معارف القرآن جلد 4 صفحہ 245 زیر آیت الانفال 44 اور تفسیر بیضاوی جزء اول صفحہ 330 کے حوالہ جات سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس آیت میں موت وحیات کے ظاہری معنی مراد نہیں بلکہ معنوی طور پر ہلاکت و زندگی مراد ہے جیسا کہ خود قرآن کریم نے دوسری جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ فرمایا ہے کہ إذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ (الانفال:24) یہ تو وہ کتب ہیں جو سنی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی ہیں.شیعہ مکتبہ فکر بھی ہمارے موقف کی تائید کرتا ہے.چنانچہ تفسیر صافی کی جلد اول صفحہ 670 میں زیر بحث آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ہلاکت اور حیات کو معنوی رنگ میں کفر و ایمان سے مناسبت ہے.(تفسیر صافی جلد اوّل صفحه 670 مطبوعه 1933ء) تیسری آیت سورۃ انعام :150 کے ضمن میں ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم کا منشاء یہ ہے کہ عقلی و نقلی دلائل کو اور سابقہ واقعات کو ملا کر موازنہ کر کے دیکھا جائے گا محض خیالی نظریات اور باپ دادے کے طریق کو درخور اعتنا نہیں سمجھا جائے گا.(تفسیر المنار از سید محمد رشيد رضا جلد 8 صفحه 178 طبع اولی مصر) چوتھی آیت سورۃ الصفت : 158 کی تفسیر میں اس کی وضاحت ہوتی ہے کہ قرآن کریم نہ صرف خود اپنی صداقت کی دلیل دیتا ہے بلکہ اس سورت میں کفار کے اس اعتراض پر کہ 90

Page 97

ملائکہ سچ مچ خدا کی بیٹیاں ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کوئی عقلی دلیل نہیں تو نقلی دلیل پیش کرو.(تفسیر روح البیان جلد 23 صفحه492 از شیخ اسماعیل حقی البروسوی 1331ھ ) پانچویں آیت سورۃ ” قصص‘ کی 76 ویں آیت ہے.مدارک التنزیل میں لکھا ہے کہ قیامت کے روز مشرکین سے کہا جائے گا کہ اپنے شرک پر تمہارے پاس کوئی دلیل ہے تو لاؤ.گویا شرک کے اثبات کے لئے بھی دلیل (مدارک التنزيل المجلد الثاني صفحه 663 بيروت) طلب کی گئی ہے.چھٹی آیت سورۃ نمل کی آیت 65 ہے.روح البیان جلد 6 صفحہ 364 مطبوعہ 1331ھ قل هاتوا برهانكم کہ کر دلائل ہی سے نہایت مضبوط دلیل مانگی گئی ہے کیا خدا کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہو سکتا ہے.تفسیر فی ظلال القرآن جز ء20 صفحہ 16 بیروت، المراغی جزء13 مطبوعہ مصر صفحہ 52 ،25 ضیاء القرآن جلد سوم صفحہ 456 زیر آیت سورۃ نمل آیت 77 اور شیعہ مسلک کی تفسیر کی کتاب عمدة البیان از سید عمار علی جلد 2 صفحہ 199-200 میں ہے کہ اسلام نظریات اور معتقدات پر ہی مشتمل نہیں بلکہ حجت اور دلیل کے ساتھ غالب آیا ہے کیونکہ اس نے عقل و فکر کو خطاب کیا ہے اور نظام اقوام کو پیش کیا ہے تا کہ یقین اور بصیرت کے ساتھ اس طرف لایا جائے.تفسیر ضیاء القران نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات وصفات میں یکتا ہے تو پھر اس کا شریک ٹھہرانا کتنی بڑی حماقت ہے، بایں ہمہ کہا ہے کہ اس کے خلاف دلیل ہو تو اس سلسلہ میں تمہیں اذنِ عام ہے.بیشک پیش کرو.اسی طرح ہمیں بھی اپنے دلائل کی صداقت پیش کرنے کا اذنِ عام ہے.ہمیں کوئی دلیل پیش کرنے سے روکا نہیں جانا چاہئے.ساتویں آیت سورۃ انبیاء : 25.آٹھویں آیت سورۃ بقرہ:18 کے متعلق اولین اور آخرین کے دور کے مفسرین ہمارے ساتھ متفق ہیں کہ جب کہ برہان پر فیصلہ ہوتا ہے تو تقلید 91

Page 98

کس بات کی ، ہر وہ قول جس کی دلیل نہیں ہے باطل ہے اس سلسلے میں ” معارف القرآن جلد 6 صفحہ 175-176 ، کشاف، فی ظلال القرآن تفسیر کبیر رازی، المراغی کے حوالے بڑے واضح ہیں.ان مفسرین کے اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ مدعی کا دعوی نفی ہے یا اثبات ہے.اس کے لئے اس بات کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ اس پر دلیل لائے محض تقلید کی راہ سے نہ اڑار ہے.اس ضمن میں ” نقوش رسول نمبر جلد 3 کے مضمون نگار محمد مظہر الدین صدیقی نے انسانیت اسلام سے پہلے“ کے عنوان سے بڑی پایہ کی بات اپنے مضمون میں کہی ہے.کہ اگر کسی شخص کو وحی یا الہام ہوتو اپنی وحی یا الہام کی اس کے سوا اور کوئی دلیل نہیں دے سکتا کہ میں خود اس کا شاہد ہوں لیکن قرآن کریم جو وحی کا سب سے بڑا مجموعہ ہے نہ صرف اپنی وحی کی صداقت کی دلیل دیتا ہے بلکہ اس کے برعکس مخالفوں سے دلیل طلب کرتا ہے.اسلام ایک علمی مذہب ہے وہ انفس و آفاق کی طرف توجہ دلاتا ہے اور اسلام کی حقانیت ثابت کرتا ہے نہ صرف خود تبلیغ کرتا ہے بلکہ دوسروں کی تبلیغ کا حق بھی تسلیم کرتا ہے.مومن حسین وقتیح دونوں قسم کی باتوں کو سنتا ہے اور پھر اچھی بات کو قبول کر لیتا ہے اور بری باتوں کو بھی تو جہ سے سنتا ہے تا کہ پھر اچھی طرح رڈ کر سکے اور کسی قسم کی بات کو سننے سے نفرت نہیں کرتا، ہاں اختیار کرتے وقت اپنی تحقیق سے کام لیتا ہے ان باتوں میں توحید و کفر، حق و باطل کی باتیں سبھی کچھ شامل ہے اور مسلمان کی تبلیغ کا لازمی حصہ یہ ہے کہ وہ غیر مسلم کی تبلیغ بھی سنے گا اس کے بغیر آپ اپنی بات کر ہی نہیں سکتے.یہ روح اسلام ہے اور اسلام کا تبلیغی نظام اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ غیر مسلموں کو بھی اسی طرح تبلیغ کا حق حاصل ہے اس لئے قرآن کریم بار بار کہتا ہے ھا تو ابرھانکم عبدالقادر عودہ نے اس آیت سے استنباط کیا ہے کہ شریعت اسلامیہ کی رو سے ہر شخص کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جو عقیدہ چاہے اختیار کرے اور شریعت نے صرف عقیدہ کی آزادی کا اعلان ہی نہیں 92

Page 99

کیا بلکہ اس کی حفاظت بھی کی ہے.کسی کے عقیدے کو جبر سے بدلا نہیں جاسکتا.اس کے علاوہ خود صاحب عقیدہ پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ عقیدے کی حفاظت کے لئے جدوجہد کرے.اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کو بھی یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ دین اور عقیدے کی آزادی حاصل کریں اور اپنی مذہبی رسومات اپنے طریق پر انجام دیں.یہودیوں کو بھی اسلامی ریاست میں اپنے مذہب کی سچائی کی تائید میں لکھنے اور اسے اسلام کے مقابل پر برتر مذہب ثابت کرنے کی بھی اجازت تھی.(اسلام کا فوجداری قانون تالیف عبدالقادر عوده ترجمه ساجد الرحمن کاندھلوی صفحه35 تا38) اسلام کوئی شیشے کا گھر نہیں اسلام کی صداقت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.اسلام کسی کو صداقت کے پیش کرنے سے روکتا نہیں بلکہ دعوت دیتا ہے کہ دلیل لاؤ تا کہ وہ اپنی صداقت کو ثابت کر سکے.جہاں تک تبلیغ کے حق کا سوال ہے اگر وسیع تر پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ پابندی خود مصلحت عامہ کے اصول کے بھی خلاف ہے کیونکہ تبلیغ پر پابندی سے خود اسلام کے وسیع تر مفادات پر زد پڑتی ہے.قرآنی نظریہ تو یہ ہے کہ باطل کو کھلی چھٹی ہے کہ اپنا زور لگا لے.اسلام کوئی بیت عنکبوت نہیں جسے باطل سے کچھ خوف ہو، لیکن تبلیغ پر پابندی سے اسلام کا یہ نقشہ اُبھرتا ہے کہ ہم تو تبلیغ کریں گے کیونکہ ہمارے پاس حق ہے لیکن دیگر مذاہب کو اجازت نہیں دیں گے کیونکہ وہ باطل ہیں گو یا دیگر مذاہب کے ہاتھ پاؤں باندھ کر، جکڑ کر ستون کے ساتھ باندھ کر، بے دست و پا کر کے ایک UnEwenFight کا نقشہ پیش کیا جارہا ہے جو کسی طرح بھی اسلام کے بارہ میں کوئی دلکش تصویر پیش نہیں کرتا.قرآن تو یہ کہتا ہے کہ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الباطل کر حق کی روشنی کے سامنے باطل کی تار یکی ٹھہر ہی نہیں سکتی.مگر غیر مسلم کی تبلیغ بند کر دینے کا مطلب یہ ہے کہ گویا باطل کے آنے سے خدانخواستہ ایمان بھی ڈول جائے گا.93

Page 100

مذاہب غیر کو تبلیغ کی اجازت نہ دینا حق کا بھی منہ بند کر دینے کے مترادف ہے اور نقشہ یہ بنتا ہے کہ حق تو بولتا چلا جائے اور باطل چپ کر کے سنتا چلا جائے اور اس مصیبت میں گرفتار ہو کہ بولے تو جان سے ہاتھ دھوئے اور نہ بولے تو ایمان سے ہاتھ دھوئے.یہ تصور قرآن کا ہر گز نہیں ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی سنت کے خلاف ہے.عالمی پیمانے پر اسلام کی تبلیغ اگر اسی اصول پر ہو تو تبلیغ کا دروازہ قطعاً بند ہو جائے گا.تعزیر تعزیر کے موضوع کے تحت ہم نے مندرجہ ذیل امور پر بحث کی ہے.1.تعزیر کی فقہی تعریف کیا ہے؟ 2 تعزیر کے بارہ میں اقتدار اعلیٰ کی حدود کیا ہے؟ 3.کیا ایسے افعال کے بارے میں جو معصیت نہیں ہیں ، کوئی تعزیر مقرر کی جاسکتی ہے یا نہیں؟ 4.کیا ایسے افعال جو معصیت نہ ہوں بلکہ مندوب ہوں ، ان پر تعزیر عائد کی جاسکتی ہے؟ 5.کیا ولی امرکو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی حلال کو حرام یا حرام کو حلال قرار دیدے؟ 6- کیا اولی الامر خیر وشر کی نئی بنیاد میں قرآن وسنت کے خلاف قائم کر سکتا ہے؟ تعزیر کی تعریف کے موضوع پر چاروں مسالک فقہ کے حوالے اس جگہ پیش کئے جاتے ہیں.فقہ حنبلی کے امام علامہ شرف الدین موسی (968ھ ) تعزیر کی تعریف کے بارہ میں لکھتے ہیں کہ یہ وہ تادیب ہے جو ہر ایسی معصیت میں واجب ہے جس میں حد ہو نہ کفارہ.(الاقناء في فقه الامام احمد بن حنبل تاليف قاضی دمشق علامه شرف الدين موسى الجزء الرابع صفحه 268 مطبع المصرية الازهر زير عنوان كتاب الحدود) ابن قدامہ (متوفی 620 ہجری) تعزیر کی تعریف میں بیان کرتے ہیں کہ یہ وہ عقوبت ہے 94

Page 101

جو ہر ایسی جنابت (گناہ) پر مشروع ہے جس میں کوئی حد مقرر نہ ہو.(المغنی لابن قدامه جزء ثامن صفحه 324 مطبوعه 1367ه از ابی محمد عبدالله بن احمد) صاحب نهاية المحتاج لکھتے ہیں کہ تعزیر ہر معصیت پر لگائی جائے گی.(نهاية المحتاج جلد نمبر 8 صفحه 16فصل في التعزير) فقہ شافعی کے امام علامہ ابی اسحق ابراہیم بن علی شیرازی تعزیر کے متعلق لکھتے ہیں کہ جو ایسی معصیت کا مرتکب ہو جس میں کوئی حد اور کفارہ نہیں ( اس پر تعزیر ہوگی ) (المهذب الجزء الثاني صفحه 228) علامہ ابن الحمام الحنفی متوفی 861ھ کے نزدیک تعزیر حد سے نچلے درجہ کی سزا ہے اور اس کا مقصد افعال سیئہ سے روکنا ہے تا کہ وہ ایسے طبعی ملکہ کی صورت اختیار نہ کر لیں جس میں فحش پا یا جائے.(شرح فتح القدیر الجزء الرابع صفحہ 212 مطبوعہ 1306ھ مصر از ابن الهمام الحنفی) مذہب حنفی کے ایک اور امام ابوالحسن الطرابلسی تعزیر کے تحت لکھتے ہیں کہ تعزیر وہ سزا ہے جو اصلاح کی خاطر گناہوں سے روکنے کے لئے ان امور میں دی جائے جن میں حد اور کفارہ مشروع نہیں.اور سزا ہمیشہ فعل حرام یا ترک واجب یا ترک سنت یا مکروہ کام کے کرنے پر ہوتی ہے.ابن قیم جوزیہ نے لکھا ہے کہ تمام علماء کا اس امر پر اتفاق ہے کہ تعزیر ہر اس معصیت میں مشروع ہے جس میں حد نہ ہو.(معين الحكام صفحه 194-195 طبع دوم از امام علاؤ الدین) علامہ ابوالحسن الماوردی متوفی 450 ھ تعزیر کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں کہ تعزیر ایسے گناہوں کی سزا ہے جن میں حدو دمشروع نہ ہوں.(الاحكام السلطانيه صفحه 205 فصل 6 في التعزير مطبوع مصر 1327ھ از ابوالحسن علی بن محمد بن حبیب البصری) یہی مضمون مواہب الجلیل (مواہب الجلیل ج4 صفحہ 319) ،تبصرۃ الحکام فی اصول الافضيه ومناهج الاحكام للقاضی بریان ابو بن ابراهیم بن علی بن ابی قاسیم الطبعة الا خیره مطبع 95

Page 102

مصطفی البابی الحلمی ج2 صفحہ 293 مطبوعہ مصر 1378ھ ) البدائع والصنائع (البدائع والصنائع ج 7 صفحہ 63 مطبوعہ 1910 ء از امام علاؤالدین ابی بکر بن مسعود الکاسانی)، فقہ السنه ( فقه الستة ج2 صفحہ 589 مطبوعہ مصر 1969ء) ، فلسفة التشریع الاسلامی ( فلسفة التشریع الاسلامی صفحہ 173) ، کتاب الفقه ( كتاب الفقه على مذاهب الاربعۃ ج5 صفحہ 756 مطبوعہ 1979 ء از عبدالرحمن الخبریری) اور التشريع الجنائي ( التشريع الجنائی ج 1 صفحہ 173) میں اپنی جملہ تفصیلات کے ساتھ موجود ہے.جس کا خلاصہ یہ ہے کہ تعزیر حد سے نہیں بڑھ سکتی.ہر جرم کی تعزیر نہیں ہوسکتی.تعزیر کے لئے افعال سینہ کا ہونا ضروری ہے اگر افعال حسنہ ہوں تو ان پر تعزیر نہیں ہو سکتی.مفادِ عامہ کو بہانہ بنا کر کوئی اولی الامر سرد ملک میں شراب کو جائز یا گرم ملک میں روزوں کو معاف نہیں کر سکتا.مفاد عامہ میں یہ بھی ضرور دیکھا جائے گا کہ کس قانون سے کون زیادہ متاثر ہو سکتا ہے.(ضرر اور ضرار میں توازن قائم کیا جائے گا ) ان سب کتب میں قدر مشترک یہ ہے کہ تعزیر کے لئے ذنب یا فعل سیئہ کا ہونا ضروری ہے.تعزیر کے بارہ میں جہاں تک اولی الامر کا تعلق ہے، اولی الامر قرآن وسنت کے احکام کے معاملے میں آزاد نہیں.اولی الامر میں اور مجھ میں اگر اختلاف ہو تو گا تو پھر رُدُّوهُ إِلَی اللہ کے مطابق بات ہوگی.آج کے دن اولی الامر میں اور مجھ میں اگر اختلاف ہو تو شرعی عدالت فیصلہ کرے.یہ بنی ہی اس لئے ہے.جب ایسی عدالت نہیں تھی تو چار طرح کے اولی الامر ہوتے تھے.انبیاء، علماء، ولی الامر اور مواعظ حسنہ کرنے والے.اس وقت یہ تھا کہ ادارہ کوئی نہیں تھا.اور ولی امر ، خلافت راشدہ کے دور تک خود متقی تھے اور بعد میں ولی امر کو بتانے والے قاضی اور علماء تھے.یہ بات واضح ہے کہ یقینی طور پر ہمیشہ ایسے اولی الامر موجود نہیں رہے کہ جو قرآن 96

Page 103

وسنت کو سمجھنے والے ہوں.خلافت راشدہ میں تھے بعد میں کوئی تھے، کوئی نہیں تھے.بعض کے بارے میں تو یہ بھی فیصلہ نہیں ہو پاتا کہ وہ مومن بھی تھے یا نہیں.اس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ اولی الامر قاضی سے رابطہ کرتے تھے اور فردِ واحد سے اپنی مرضی کا فیصلہ لیتے تھے.قاضی شریح نے کیا کیا؟ یہ سب کو معلوم ہے.تعزیر کی تعریف کے سلسلہ میں مندرجہ ذیل باتیں سامنے آئیں :.حاکم وقت تا دیباً کسی ایسے جرم کے لئے سزا مقرر کر سکتا ہے جس کے بارہ میں اسلامی (التشريع الجنائی از عبدالقادر عوده) شرع میں سزا مقرر نہ ہو.(فلسفة التشريع الاسلامی“ ( اردو) صفحه 173 از ڈاکٹر صبحی صافی) شریعت نے ان افعال کی نشاندہی کر دی ہے، وہ معصیت میں شمار ہوتے ہیں.تعزیر اس معصیت پر ہے جس کی حرمت پر نص موجود ہو.قاضی کسی ایسے فعل پر سزا نہیں دے سکتا جسے شرع نے ناجائز قرار نہ دیا ہو.تعزیر کے سلسلہ میں بھی یہ بحث اُٹھائی گئی کہ مفادِ عامہ میں تعز یر قائم تو کی جاسکتی ہے لیکن یہ بھی یک طرفہ نہیں بلکہ اس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ جہاں نقصان پہنچتا ہے ،صرف اسی کی تلافی مقصود نہیں بلکہ نقصان پہنچانابھی معصیت میں شامل ہے.اگر کوئی کہتا ہے کہ اذان پر اس لئے پابندی لگادی گئی کہ لَا ضَرَر کی رُو سے لوگوں کی اس سے دل آزاری ہوتی ہے تو دوسری طرف یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ اذان بند کرنے سے جن لوگوں کی عبادت میں خلل ڈالا گیا ہے اور ان کی عبادت کو نقصان پہنچایا گیا ہے ان کے ازالہ کی کیا صورت ہے.خدا کی عبادت کی طرف بلانے سے روکنا دل آزاری کے فرضی مفروضہ سے کہیں زیادہ بڑی معصیت ہے.قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے میزان قرار دیا ہے.اس نے احکام کے ذریعہ توازن پیدا کرنے کی تعلیم دی ہے اور یہ اصول مقرر فرمایا ہے کہ خیر وشر کی قدریں نہیں بدلیں گی.اولی الام حدود کو بدل نہیں سکتا.ان میں توازن پیدا کرنے کے لئے حکم دے سکتا ہے لیکن 97

Page 104

جہاں خیر وشر کے مفہوم میں اختلاف پیدا ہو جائے گا، اس صورت میں قرآن وسنت سے فیصلہ لیا جائے گا.مصلحت عامہ کی تعیین کے سلسلہ میں سورۃ بقرہ کی آیت 217 میں اللہ تعالیٰ نے یہ اصول قائم فرمایا ہے کہ ایک خیر کو تم بہتر سمجھتے ہو در آنحالیکہ وہ تمہارے لئے بری ہے.یا ایک چیز کو اپنے لئے بری سمجھتے ہو جب کہ نتائج کے اعتبار سے وہ تمہارے لئے اچھی ہے.اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے، حقیقی علم خدا کو حاصل ہے.اس لئے جب خیر وشر میں تنازعہ پیدا ہو جائے تو لازمی بات ہے کہ وہ معاملہ خدائے حقیقی کے فرمودات یا اس کے رسول کی سنت کی طرف لوٹا یا جائے گا.جہاں اصلاح بین الناس یا مصلحت عامہ کا سوال پیدا ہو، وہاں بھی یہ دیکھنا ضروری ہے کہ وہ دراصل خیر ہے بھی یا نہیں.جس کو ولی امر خیر سمجھ رہا ہے.پس اذان مسلمانوں کی ہے نہ قادیانیوں کی بلکہ یہ تو شہادتین سے معنون ہے.یہ اذان محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے.اس میں یہ نہیں دیکھا جانا چاہئے کہ کون اذان دے رہا ہے یا کون خدا کی عبادت کی طرف بلا رہا ہے اس کے Content (نفس مضمون ) کو دیکھنا پڑیگا.سورۃ مجادلہ کی آیت 10 کو پیش کر کے بتایا گیا کہ قرآن کریم نے حکم دیا ہے کہ گناہ اور زیادتی کی بات پر خفیہ مشورے اور سرگوشیاں نہ کیا کرو.نیکی کے بارہ میں خدا خوفی سے مشورہ کیا کرو.چنانچہ ان امور کو جب اولوالا مر پیش نظر رکھے گا تو اس کو پتہ لگ جائے گا کہ کون سی بات مصلحت عامہ میں ہے اور کون سی بات مصلحت عامہ میں نہیں ہے.یہ بات بار بار واضح کی گئی کہ صدارتی آرڈینینس قرآن اور سنت کی روح کے خلاف ہے کیونکہ روح یہ ہے کہ توحید کی آواز جہاں سے بلند ہو رہی ہو، اس کا احترام کیا جائے.اس کا روکنا اسلام کی روح کے سراسر خلاف ہے.,, التشريع الجنائی کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ولی امر کن حالات میں قانون وضع 98

Page 105

کر سکتا ہے.مولانا مودودی نے لکھا ہے کہ اسلامی حکومت کا ایک اصول یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ لوگوں کو حکومت عطا کرے تو وہ نماز قائم کریں، زکوۃ دیں اور امر معروف کریں اور وہ بھلائیاں جن کو قرآن بھلائیاں کہتا ہے، ان کو پروان چڑھائیں.کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ جسے چاہے اچھائی اور جسے چاہے برائی قرار دے.(دستوری سفارشات اور ان پر تنقید و تبصره صفحه 153، 154 شعبه نشر و اشاعت جماعت اسلامی) علامہ رشید رضا نے لکھا ہے کہ مفادِ عامہ کے طور پر بنایا جانے والا کوئی قانون اللہ اور اس کے رسول کے فرمودات کے خلاف نہ ہو، لیکن جہاں تک عبادات اور اعتقادات کا تعلق ہے ولی امراس میں دخل نہیں دے سکتا.(تفسیر "المنار" جزء خامس صفحه 181مطبوعه 1328ه) عبدالقادر عودہ نے لکھا ہے:.” اولی الامر کی اطاعت خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کے ذیل میں آتی ہے، مگر اولی الامر کی اطاعت اسی وقت تک ہے جب تک وہ خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرے.لیکن جب وہ روح اسلام سے باہر قدم رکھے تو اس کی اطاعت نہ کرو“.یہ سوال عدالت کے سامنے نمایاں ہو کر ابھرا ہے کہ کیا جائز امور میں مصلحت وقت اور مفاد عامہ کی خاطر یا دفع شر کی خاطر تعزیر نافذ نہیں کی جاسکتی اور اس بارہ میں ایک رائے یہ دی گئی ہے کہ ایسے امور میں تعزیر نافذ کی جاسکتی ہے.اس کے لئے ابن قیم کی کتاب اعلام الموقعین اور علامہ محمود شلتوت اور استاذ مصطفیٰ زرقا کی کتب کا حوالہ بھی دیا گیا.سڈ ذریعہ کا اصول اس عدالت کے ایک فیصلہ میں بھی زیر بحث آیا ہے.اس اصول کے بارہ میں کچھ مزید بیان کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے.یہ عجیب بات ہے کہ سد ذریعہ کے بارہ میں قرآن شریف سے کوئی بنیاد فقہاء نے تلاش نہیں کی حالانکہ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن شریف میں اس کی واضح بنیاد میں موجود ہیں.مندرجہ ذیل آیات قرآنی ملاحظہ ہوں.99

Page 106

قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِكُوْا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِلْ بِهِ سُلْطَانًا وَّأَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ.(الاعراف: 33) ترجمہ: کہہ دو میرے پروردگار نے تو بے حیائی کی باتوں کو ظاہر ہوں یا پوشیدہ اور گناہ کو اور ناحق زیادتی کرنے کو حرام کیا ہے اور اس کو بھی کہ تم کسی کو خدا کا شریک بناؤ جس کی اس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس کو بھی کہ خدا کے بارے میں ایسی باتیں کہو جن کا تمہیں کچھ علم نہیں.وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنِّي إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلاً - (بنی اسرائیل:32) ترجمہ: اور زنا کے بھی پاس نہ جانا کہ وہ بے حیائی اور بری راہ ہے.قُلْ لِلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوْجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُوْنَ.(النور:31) ترجمہ: مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں.یہ ان کے لئے بڑی پاکیزگی کی بات ہے ( اور ) جو کام یہ کرتے ہیں خدا ان سے خبر دار ہے.يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيراً مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُم بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رحيم (سورة الحجرات آیت نمبر12) ترجمہ: اے اہل ایمان ! بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے.کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے 100

Page 107

ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے ( تو غیبت نہ کرو) خدا کا ڈر رکھو.بے شک خدا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے.ذلِكَ وَمَنْ يُعَظَّمْ حُرُمَتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ عِنْدَ رَبِّهِ - وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ النُّورِ (سورة الحج آیت نمبر 30) ترجمہ: یہ ( ہمارا حکم ہے ) اور جو شخص ادب کی چیزوں کو جو خدا نے مقرر کی ہیں عظمت سے رکھے تو یہ پروردگار کے نزدیک اس کے حق میں بہتر ہے اور تمہارے لئے مویشی حلال کر دیئے گئے ہیں سوا ان کے جو تمہیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں.تو بتوں کی پلیدگی سے بچو اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو.سد کے معنے روکنے اور بند کرنے کے ہیں اور ذَرَائِعَ ، ذَرِیعہ کی جمع ہے.ہر کام کا کوئی نہ کوئی محرک ضرور ہوتا ہے اور کام دو قسم کے ہوتے ہیں اچھے اور برے.اچھے کاموں کے لئے بھی وسائل و ذرائع ہوتے ہیں اسی طرح برے کاموں کے لئے بھی محرکات واسباب موجود ہیں.اسلام اس لحاظ سے دیگر مذاہب کے مقابلے میں منفر دحیثیت رکھتا ہے کہ وہ بدی کو جڑھ سے اکھیڑ پھینکتا ہے اور اُسے بالکل ابتدائی مرحلے میں ہی ختم کرنے کے احکام صادر کرتا ہے.اگر بدیوں کو آخری مرحلے تک پہنچنے کی کھلی چھٹی دید بجائے اور اس کے ابتدائی محرکات پر قدغن نہ لگائی جائے تو یہ بدی ایک تن آور درخت کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور انسان کے قابو سے باہر ہو جاتی ہے.فقہاء نے بدی کے محرکات و اسباب کو بند کرنے کا نام ”سَدَّ الذَّرَائِع“ رکھا ہے یعنی ایسا قول یا فعل جو خود تو جائز ہو لیکن ناجائز کام کا ذریعہ بنتا ہو.اللہ تعالیٰ کی حکمت کا ملہ کا تقاضا تھا 101

Page 108

کہ وہ محرمات کی تحریم کے ساتھ ہی ان کے محرکات اور اسباب کو بھی بند کر دیتا، کیونکہ محرکات کے اسباب کو بند کئے بغیر لوگوں کو ان سے دور رکھنا ناممکن تھا.اس سوال کا ایک پہلو یہ ہے کہ آیا مصلحت عامہ کے تحت جو تعزیری اقدامات کئے جائیں گے وہ حقوق کو مستقل طور پر زائل کرنے کا باعث ہوں گے یا نہیں یا بالفاظ دیگر کیا اولی الامر مصلحت عامہ کے تحت مستقل حلت و حرمت قائم کر سکتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ مصلحت عامہ کا اصول خود یہ ظاہر کر رہا ہے کہ جو اقدام کیا جائے وہ دفع شر کی خاطر ہو، نہ کہ حلال کو حرام کرنے کی خاطر ، حلال، حلال ہی رہے گا اور صرف وقتی طور پر اس حلال کے استعمال پر پابندی عائد ہو جائے گی.دائی حلت اور حرمت وہی رہے گی جو شریعت نے قائم کی ہے اس بارہ میں مولانا مودودی صاحب کا حوالہ بڑا واضح ہے کہ خیر و شر کی نئی بنیادیں قدریں ولی امر قائم نہیں کرسکتا.( دستوری سفارشات صفحہ 153-154 از مودودی صاحب) اگر صورتحال یہ ہو تو آرڈنینس میں مندرجہ امور کے بارہ میں کوئی انسدادی ضابطہ تو درست ہو سکتا تھا، تعزیری قانون درست نہیں.انسدادی ضابطہ سے مراد اس قسم کی کارروائی ہے جس طرح کی کارروائی ضابطہ فوجداری کی بعض دفعات کے تحت کی جاتی ہے اور اس کے بغیر جو انتظامی افسران ہیں وہ بعض احکامات صادر کرتے رہتے ہیں.ان احکام کی حد تک مصلحت عامہ کا اصول اطلاق پاسکتا ہے.اس سے تجاوز کرنا شریعت کی رو سے جائز نہیں ہوگا.مصلحت عامہ کے اصول میں جو بنیادی اصول کارفرما ہے وہ الـتـوفيـق بين النصوص ومصالح العامة ہے.(حوالہ الطرق الحکمیہ صفحہ 110 ابن قیم.ترجمہ مولانامحمد تقی امینی ) جیسا کہ اس بارہ میں عدالتی مشیر قاضی مجیب الرحمن صاحب نے بھی یہی رائے دی ہے.توفيق بَيْنَ النُّصُوص وَمَصَالِحُ العَامَّه کے اُصول کے مطابق مصلحت عامہ نصوص پر غالب نہیں آسکتی.دونوں میں موافقت پیدا کی جانی ضروری ہے.کسی ایک کو دوسرے پر 102

Page 109

قربان نہیں کیا جا سکتا.جہاں تک اذان کا سوال ہے، یہ بات واضح ہے کہ اذان احسن قول ہے اور شعائر دینی میں سے ہے.اس کی عظمت واحترام کے اپنے تقاضے ہیں.اس کی عظمت منصوص ہے اس لئے اس کی عظمت کی بقاء زیادہ ضروری ہے.مصلحت عامہ کے اصول پر بھی اذان کو قائم رکھنے کی مصلحت اولیٰ ہے جیسا کہ سورۃ الجمعہ کی آیت میں دنیاوی مفادات اور مصالح چھوڑ کر بیع وشراء کو ترک کر کے اذان پر کان دھرنے کا حکم ہے.عدالتی مشیر پروفیسر اشرف صاحب نے اس آیت سے اذان کے تعبدی امر ہونے کا استدلال فرمایا ہے.اسی استدلال سے قوی تر استدلال یہ ہو سکتا تھا کہ تعبدی امور میں انسان کی حقیقی مصلحت ہے لہذا دوسرے معاملات میں تعزیر نافذ کرنے کی حیثیت کچھ بھی ہو ، اذان میں تعزیر نافذ کرنا مصلحت عامہ کے اصول کے منافی ہے اور لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرار" کے اصول کے بھی خلاف.لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَار" کے اصول کا جہاں تک تعلق ہے اذان کے بند ہو جانے سے ایک دینی اور تعبدی ضر ر واقع ہوتا ہے اور اذان کے دینے سے کوئی حقیقی یا معنوی ضرر واقع نہیں ہوتا ہے.جس ضرر کا احتمال پیدا ہوتا ہے وہ ضر ر اس شورش میں مبنی ہے جو ایک طبقہ کی طرف سے متوقع ہو سکتی ہے.لہذا ضر ر کامل اذان نہیں ، شورش پسند ہیں اس لئے "لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرار“ کا اصول بھی آرڈینینس میں زیر بحث معاملات پر اطلاق نہیں پاتا.تعبدی امور کے بارہ میں ایک پہلو ہنوز وضاحت طلب ہے وہ امور جو اسلام کے تعبدی امور ہیں وہی جماعت احمدیہ کے بھی تعبدی امور ہیں اور یہ بات خود دستور کی ترمیم کے اندر مضمر ہے.اگر ایسا نہ بھی ہو تو بھی چونکہ اسلام کے تمام تعبدی امور نجات اور فلاح کا باعث ہیں ان افعال کا بجالا نافی نفسہ نیک اور مستحسن اور باعث ثواب ہے.حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت حکیم بن حزام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے 103

Page 110

دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! بتائیے کہ زمانہ جاہلیت میں گناہوں سے بچنے کے لئے میں جو صدقہ و خیرات کرتا تھا، غلام آزاد کرتا تھا اور صلہ رحمی کیا کرتا تھا کیا مجھے اس کا ثواب ملے گا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گزشتہ زمانہ کی تیری انہی نیکیوں کے طفیل تو تجھے اسلام لانے کی توفیق ملی ہے.(صحیح البخاری کتاب الزكواة باب من تصدق في الشرك ثم اسلم) مصلحت عامہ کے اصول پر کسی ایک گروہ کو دوسرے پر ترجیح نہیں دی جاسکتی.اگر ایسا " کیا جائے تو وہ مصلحت عامہ نہیں ہوگی وہ مصلحت ” طبقہ مخصوصہ ہوگی.یادر ہے کہ مصلحت عامہ اور مصلحت اکثریت مترادف نہیں ہیں جہاں تک مذہبی امور ومعاملات کے ساتھ مصالح عامہ کا تعلق ہے.مصالح دنیوی پر مصالح مذہبی کو قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے کیونکہ مذہبی امور کا منبع اور سر چشمہ ایک عالم الغیب اور علیم وخبیر ذات ہے جس کی غیب الغیب پر نظر ہے اور کوئی مصلحت اس سے مخفی نہیں اگر دنیا کے امور میں سے رموز مصلحت خویش خسروال دانند ہے تو اعتقادی و مذہبی امور میں یہ بات خدائے علیم وخبیر کے حق میں کہیں زیادہ درست ہے.اسی کی طرف اشارہ اس نص صریح میں ہے.كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوْا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ - وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (البقرة:216) ترجمہ: ( مسلمانو) تم پر ( خدا کے رستے میں ) لڑنا فرض کر دیا گیا ہے وہ تمہیں ناگوار تو ہوگا مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو اور عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمہارے لئے مضر ہو اور ( ان باتوں کو ) خدا ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے.سو یہ آیت یہ اصول طے کرتی ہے کہ مصلحت کا حقیقی علم اللہ کی ذات کو ہے.104

Page 111

بنیادی حقوق سب کے لئے برابر ہوتے ہیں مسلم اور غیر مسلم کے بنیادی حقوق میں کوئی فرق نہیں ہوسکتا.کیونکہ اگر صرف اکثریت کی بنیاد پر بنیادی حقوق نافذ کئے جائیں تو پھر منوشاستر کے قانون کا نفاذ ہندوستان میں بھی جائز ٹھہرے گا.جیسا کہ 1953 ء کی انکوائری میں ایک بزرگ نے بلا تامل یہ فرما دیا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں سے چوڑھوں، چماروں اور شودروں جیسا سلوک ہو تو ہمیں اس پر اعتراض نہیں ہوگا.(Report of the court of inquiry, page 228) یہ صورت حال وسیع تر اسلامی مفاد اور مصلحت عامہ کے خلاف ہے.مصلحت عامہ کے ضمن میں ابن تیمیہ اور ابن قیم جوزیہ نے سد ذریعہ کا جو اصول قائم کیا ہے اس اصول کی بھی کچھ وضاحت ضروری ہے.سد ذریعہ کا یہ عام مفہوم کہ مباح چیزوں کو مصلحت کی خاطر روکا جا سکتا ہے بعینہ اس طرح سے درست نہیں.ست ذریعہ کی تعریف یہ ہے کہ کسی حرام مقصد کے ذرائع ممنوع قرار دے دیئے جائیں.اگر چہ وہ ذرائع اپنی ذات میں حرام نہ ہوں بلکہ مباح اور جائز ہوں.جائز مقصد کے جائز ذرائع کو روکناست ذریعہ نہیں کہلا تا.بلکہ جائز مقاصد کے لئے ذرائع کوکھولنا فتح ذریعہ کہلا سکتا ہے.امام ابن تیمیه مصنفه ابو زهره صفحه 691-692) ابن قیم کی کتاب اعلام الموقعین میں ست ذریعہ کی جو مثالیں دی گئی ہیں ان میں سے پندرہویں مثال کا حوالہ دیا گیا تھا.جس میں داڑھی کو خضاب نہ لگانے کے مباح فعل کو بھی منع کر دیا گیا تا کہ یہود سے مشابہت نہ ہو، مگر اس کی وجہ بھی ساتھ ہی بیان کر دی گئی.یعنی یہ کہ وہ لوگ جو نئے نئے مسلمان ہوئے ہیں.وہ تشابہ کی وجہ سے کوتاہی تربیت کا شکار نہ ہو جائیں.گویا کوتاہی تربیت کے ذریعہ کو روکنے کے لئے ایک جائز امر کو ممنوع قرار دیا گیا.جو دوسری مثالیں دی گئیں ہیں ان سے بھی قدر مشترک کے طور پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ 105

Page 112

ایسے ذرائع جو اپنی ذات میں جائز ہوں اس صورت میں منع کر دیئے جائیں گے جب وہ کسی نا جائز یا حرام مقصد کی طرف بالآ خر لے جانے کا باعث ہوں.(اعلام الموقعين جلد دوم حصه پنجم صفحه 153 - باب ذرائع مة مقاصد کے تابع ھیں.مطبوعه 1909ء) (امام ابن قیم ترجمہ خطیب الہند مولانا محمد جونا گڑھی.مکتبہ قدوسیہ غزنی سٹریٹ اُردو بازار لاہور اشاعت 1999ء) سدّ ذریعہ کا اصول اذان وغیرہ معاملات مندرجہ آرڈ مینس پر اطلاق نہیں پاتا.جتنی مثالیں ست ذریعہ کی بیان کی گئی ہیں اس میں کسی تعبدی امر کو سید ذریعہ کے اصول پر منع نہیں کیا گیا.سید ذریعہ کے اصول پر اس عدالت نے بھی شریعت پٹیشن 3/1983-K کے پیراگراف 144 143 میں روشنی ڈالی ہے.جس سے یہ بات مزید ظاہر ہوتی ہے کہ سید ذریعہ کا اصول ان ذرائع کو مسدوکرنے کے لئے استعمال ہوسکتا ہے جو کسی فعل حرام پر منتج ہوتے ہیں.علاوہ ازیں بعض دیگر اصول بھی قانون سازی کے سلسلہ میں اس عدالت نے بیان کئے ہیں جو یہ ہیں :.1 - دَفْعُ الحَرَج غیر ضروری تنگی کا دور کرنا -2 -3 -4 رَفْعُ الْمَشَقَّة مشقت کو دور کرنا سہولت پیدا کرنا قلة التكليف تکلیف تشریعی کا بار کم سے کم عائد کرنا ایک پہلو اضطراری قانون سازی کا بھی بیان کیا گیا ہے یعنی بالفاظ دیگر دفع ضرر کے لئے قانون سازی.اس بارہ میں قرآن کریم کی دو مختلف آیات سے اصول مستنبط ہوتے ہیں.1 - غَيْرَ بَاغِ وَلَاعَادٍ -2 (البقره:173) غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لايم (المائده : 3) 106

Page 113

لیکن موجودہ آرڈینینس میں ” عدوان“ کا پہلو غالب ہے محض دفع ضرر یا تحفظ مذہب مقصد نظر نہیں آتا.مثال کے طور پر Pose as a Muslim صرف پروفیشن Profession تک بات محدود نہیں رکھی گئی بلکہ ایک ایسالا متناہی سلسلہ مشقت اور تنگی اور حرج کا کھول دیا گیا ہے کہ ایک ہی جست میں کئی اصول پامال کر دیئے گئے ہیں.ضرر اور ضرار کے اصولوں پر اس عدالت کے فیصلہ دوبارہ پیٹیشن نمبر 3/1983-K کے پیرا 149 کے سب پیراC اور D خاص طور پر قابل توجہ ہیں.ایمان و اسلام زیر نظر آرڈی نینس میں اذان مسجد اور اصطلاحات پر جو پابندی عائد کی گئی ہے اور اس کی خلاف ورزی پر جو تعزیر مقرر کی گئی ہے اس کا جائزہ اس نظر سے لیا جا چکا ہے کہ آیا ان معاملات میں شرعاً تعزیر مقرر کی جاسکتی ہے یا نہیں اور ہم یہ ظاہر کر چکے ہیں کہ تعزیر عائد کرنا نصوص قرآنی اور روح اسلام کے منافی ہوگا.یہ بھی ہم عرض کر چکے ہیں کہ ان معاملات میں مفاد عامہ میں تعزیر جاری کرنا بھی درست نہیں کیونکہ یہ تعبدی امور سے متعلق باتیں ہیں اور اس کے بارہ میں مفاد عامہ کے اصول پر تعزیری قوانین بنانا حلت وحرمت کی نئی اور مستقل بنیادیں قائم کرنا ہے جو شرعاً درست نہیں.ایک مزید پابندی زیر نظر آرڈ مینس میں یہ عائد کی گئی ہے کہ احمدی اپنے آپ کو مسلمان ظاہر نہ کریں.گو یہ درست ہے کہ دستور احمدیوں کو اپنی اغراض کی خاطر غیر مسلم قرار دے چکا ہے اور دستور کو اس عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا مگر اس آرڈینینس میں اگر کوئی بات خلاف قرآن وسنت ہو تو اسے یقیناً پینج کیا جا سکتا ہے اور ہمارا موقف یہ ہے کہ قرآن وسنت کے احکام کسی کو مسلمان کہلوانے کے حق کے بارہ میں واضح ہیں اور اگر قرآن وسنت کی رو سے ہمیں اپنے آپ کو مسلمان کہنے کا حق ملتا ہو تو اس حد تک یہ آرڈینینس باطل ہوگا اور اگر دستور مجھے یہ حق نہ بھی دیتا ہو تو آرڈینینس کے ابطال کے 107

Page 114

باوجود وہ حق مجھے حاصل نہیں ہوگا.کیونکہ دستور اس میں مانع ہوگا.مگر آرڈینینس اگر خلاف قرآن وسنت ہے تو اسے ضرور باطل قرار دیا جانا چاہئے اور یہ عدالت کے اختیار میں ہے.جب ہم آئین پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں ہیں کہ آئین نے ہمیں غیر مسلم تو قرار دیا مگر ہمارا خود کو مسلمان کہنے کا حق نہیں چھینا.یہ حق اس آرڈینینس نے چھینا ہے.ہمیں قانون مسلمان نہیں سمجھتا، نہ سمجھے.اگر کوئی عہدہ یا رعایات مسلمانوں کے لئے مخصوص ہیں تو وہ ہمیں بے شک نہ ملیں.اس قانون کو نافذ کرنے والے یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ آئین پر عمل کر رہے ہیں جب کہ درحقیقت ایسا نہیں ہے.قرآن نے واضح ہدایت دی ہے کہ جو خود کو مسلمان کہتا ہے اسے اگر آپ مسلمان نہ بھی کہیں تو اس کے اپنے آپ کو مسلمان کہنے کا حق قائم رہے گا.اس ضمن میں سورۃ نساء کی یہ آیت قابل غور ہے.يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ فَتَبَيَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا فَعِنْدَ اللَّهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ كَذَلِكَ كُنتُمْ مِّن قَبْلُ فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُوا - إِنَّ اللهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيراً ـ (النساء :95) ترجمہ: مومنو! جب تم خدا کی راہ میں باہر نکلا کرو، تو تحقیق سے کام لیا کرو اور جو شخص تم سے سلام علیک کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو.اور اس سے تمہاری غرض یہ ہو کہ دنیا کی زندگی کا فائدہ حاصل کرو.سوخدا کے نزدیک بہت سی قیمتیں ہیں تم بھی تو پہلے ایسے ہی تھے.پھر خدا نے تم پر احسان کیا تو (آئندہ) تحقیق کرلیا کرو.اور جو عمل تم کرتے ہو خدا کو سب کی خبر ہے.اس آیت کو سورۃ الحجرات کی آیت سے ملا کر پڑھا جائے تو مضمون واضح ہوتا ہے.108

Page 115

آیت یہ ہے:.قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّاقُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُوْلُوْا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيْمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ - وَإِن تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُمْ مِّنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا - إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (الحجرات: 15) ترجمہ: دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے.کہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو ہنوز تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا.اور اگر تم خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو گے تو خدا تمہارے اعمال میں سے کچھ کم نہیں کرے گا.بے شک خدا بخشنے والا مہربان ہے.یہ چودہ سو سال میں پہلی بار نہیں ہوا کہ کسی نے کسی کو کافر کہ دیا ہو.اس آیت کی بنیاد پر مفسرین نے کئی فیصلے کئے ہیں.اس آیت میں خدا تعالیٰ نے جس کے بارے میں آسمان سے گواہی دی کہ اس کے دل میں ایمان داخل نہیں ہوا اس کے بارے میں کہا کہ اسے خود کو مسلمان کہنے سے نہ روکو.خدا تعالیٰ نے اس آیت میں جو منافقین کے بارہ میں ہے یہ تو کہہ دیا کہ ان کے دلوں میں ایمان نہیں ہے لیکن ان کو Right to Profess سے محروم نہیں کیا.اسباب النزول میں دو صحابہ کے واقعات درج ہیں جنہوں نے لا الہ الا اللہ کہنے پر دو کفار کوقتل کر دیا تھا.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے تو صحابہ نے کہا کہ وہ اپنی جان بچانے کی خاطر کلمہ پڑھ رہا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا.اور اس پر بار باراظہار نا راضگی فرماتے رہے.(اسباب النزول مؤلفه علامه سیوطی صفحه 134 135 زیر آیت نساء آیت 94 صفحه 99-100 سن اشاعت 2002ء بيروت قاهره) 109

Page 116

مگر ہم قطعی یہ نہیں چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے مسلمان ہونے کا ڈیکلریشن دیں.غیر مسلم بے شک سمجھتے رہیں مگر اپنے عقیدے کا اعلان و اظہار کرنے کی اجازت ہمیں ملنی چاہئے.ہمیں اس بارہ میں کوئی شبہ نہیں کہ فاضل عدالت کے ارکان ہمیں مسلمان نہیں سمجھتے.ہم اس خیال سے یہاں نہیں آئے کہ کوئی ہمیں مسلمان سمجھے یا اس بات کی سند عطا کرے.علامہ قرطبی نے لکھا ہے کہ کوئی کافر لا الہ الا اللہ کہہ دے تو اس کا قتل جائز نہیں اور اگر مسلمان پھر بھی قتل کر دے تو قصاص واجب ہوگا.(تفسیر قرطبی جزء 5صفحہ28-29) اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ سوائے اس کے کہ زبانی اقرار پر اعتبار کیا جائے اور کوئی دوسرا طریقہ اس کے عقیدہ کو جاننے کا نہیں.یہی مضمون روح البیان اور المراغی میں ہے.(روح البيان جزء 5 صفحه 263 تاليف 1908ء ، مـ ء، مراغی جزء 5 طبع اولی صفحه 287تا 290 بیروت) مولانا مودودی نے اپنی تفہیم میں تفصیلی بحث کر کے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کے طور پر پیش کر رہا ہو.اس کے بارے میں سرسری طور پر کوئی فیصلہ نہ کرو.بلکہ یہ لکھا کہ کا فر کو چھوڑ دینا اس سے بدرجہا بہتر ہے کہ کسی مسلمان کو شبے میں قتل کر دیا جائے.تفهيم القرآن جلد اوّل صفحه 384-385 زیر آیت سورة النساء:94) مولانا شیخ محمود الحسن لکھتے ہیں کہ ایک صحابی نے السلام علیکم کہنے کے باوجود ایک مسلمان کو مارڈالا تو یہ آیت نازل ہوئی کہ جو خود کو مسلمان ظاہر کرتا ہے اس کا انکار نہ کرو.(ترجمه قرآن مجید شیخ محمود الحسن صفحه 122 حاشیه زیر آیت سورة النساء آیت 94) مودودی صاحب نے لکھا ہے کہ کسی شخص کے مومن یا غیر مومن ہونے کا تعلق دراصل خدا تعالیٰ سے ہے.بندے تو صرف یہ دیکھ سکتے ہیں کون سرحد اسلام کے اندر ہے اور کون باہر ہے.(تفہیمات جلد دوم صفحہ 142 تا 143 اگست 1951ءاچھرہ لاہور از مولانا ابوالاعلیٰ مودودی) ابوداؤد کی حدیث پیش کرتے ہوئے مودودی صاحب نے لکھا ہے کہ جو ارکان اسلام 110

Page 117

توحید ورسالت نماز، روزہ، حج ، زکوۃ کا اقرار کرے وہ مسلمان ہے.آنحضرت ﷺ نے یہی طریق اپنا یا جب ایک بار مال غنیمت کی تقسیم پر ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اللہ خدا کا خوف کریں اور مال صحیح تقسیم کریں.حضرت خالد نے کہا یا رسول اللہ کیا میں اس شخص کی گردن اڑا دوں ( کہ یہ دل سے مسلمان نہیں معلوم ہوتا ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں مجھے حکم نہیں دیا گیا کہ میں دل کھول کر اور پیٹ چاک کر کے دیکھوں کہ یہ واقعی مسلمان ہے یا نہیں.مودودی صاحب نے لکھا ہے کہ جو شخص کسی ایسے شخص کو کافر قرار دے جو خدا اور رسول پر ایمان رکھتا ہو تو یہ جسارت بندوں کے.مقابلہ میں نہیں بلکہ خدا کے مقابلہ میں ہے.(تفهیمات جلد دوم صفحه 146تا1481) علامہ جصاص نے سورۃ النساء آیت 94 کے بارہ میں لکھا ہے کہ ذلک عَمُومٌ فِي جَمِيعِ الْكُفَّارِ یعنی یہ آیت جملہ کفار کے بارے میں عام ہے کہ اگر ان میں سے کوئی سلام کرے تو یہ نہ (احکام القرآن جصاص جز 2صفحه 351) کہو کہ تم مومن نہیں ہو.سید قطب نے لکھا ہے کہ دل کا ایمان کے مرتبہ تک پہنچنا ضروری نہیں یہ اسلام کافی ہے (في ظلال القرآن جز 26 صفحه 145,144) کہ کوئی خود کو مسلمان کہے.ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری نے لکھا ہے کہ جو کلمہ پڑھتا ہے اس کو ظاہری طور پر مسلمان سمجھا جائے یعنی مردم شماری میں مسلمان درج کیا جائے.(تفسیر ثنائی جلد چهارم صفحه 304 زیر آیت سورة الحجرات: 14) سیه درست ہے کہ سورۃ نساء آیت وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِناً میں یہ ذکر ہے کہ ابتداء کس کو مومن کہا جائے لیکن فتبینوا کے مطابق تحقیق باقی رہتی ہے کہ انجام کار کسے مسلمان سمجھا جائے.جیسا کہ ہم نے بیان کیا ابتدا تو یہ ہے کہ جو 111

Page 118

لا إلهَ إِلَّا اللہ پڑھ لے اس سے تعرض نہ کیا جائے ، البتہ اس کے متعلق تحقیق باقی رہتی ہے لیکن اس سلسلہ میں جو حوالے اب تک ہم نے پیش کئے ہیں، ان سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ دل کی باتوں کا جاننا انسان کے بس کی بات نہیں نہ خدا اور اس کا رسول اس امر کی اجازت دیتے ہیں کہ لوگوں کے دلوں کے حال ان کا جگر چیر کر معلوم کرو.لیکن اب میں جو حدیث پیش کرنا چاہتا ہوں وہ صرف زبانی اقرار کے بعد تحقیق کی حدود بھی متعین کر دیتی ہے.صحیح بخاری کی ایک حدیث میں اس اعتراض کا جواب آجاتا ہے جو مکرم محترم قاسمی صاحب نے اُٹھایا تھا کہ سورۃ نساء کی آیت مذکورہ کا حکم فتبینوا کے تابع ہے اور محض سرسری اقرار باللسان تک محدود ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ اشارہ یہ ہے:.مَنْ صَلَّى صَلَاتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَأَكَلَ ذَبِيْحَتَنَا فَذَالِكَ المُسْلِمُ الَّذِى لَهُ ذِمَّةُ اللهِ وَذِمَّة رَسُوْلِه - - (بخارى كتاب القبلة باب فضل استقبال القبلة) یہ بڑا اہم اور بنیادی ارشاد ہے.اس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ شخص جو مسنون عبادت میں ہمارے پیچھے چلے ، وہ گویا عبادات میں مسلمانوں کے ساتھ شامل ہو گیا.جس نے قبلے کو اپنایا.وہ امت میں شامل ہو گیا اور جس نے ذبیحہ کھایا وہ معاشرت میں شامل ہو گیا.گویا ان ظاہری اعمال کے لحاظ سے اُمت میں شامل ہو جانے والے کا خدا اور اس کے رسول نے ذمہ لیا ہے اور اس ذمہ سے اُس کو کوئی نکال نہیں سکتا.ایک اور حدیث میں مسلمان کہلانے کا حق معین طور پر تسلیم کیا گیا ہے.اور اس حق سے کسی کو محروم نہیں کیا گیا.اس حدیث میں اسلام کے دس حصے بیان کئے گئے ہیں، اس میں سے ایک حصہ شَهَادَةُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَهِيَ المِلة (كنز العمال جلد نمبر 1 صفحه 33) 112

Page 119

یعنی لا اله الا اللہ کہنے سے آدمی ملت اسلامیہ میں شامل ہو جاتا ہے.(طبرانی معجم الكبير جلد 11 صفحه 344 ) مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب نے کہا ہے کہ ایسا شخص مردم شماری میں آ جاتا ہے.یہ حدیث ان کے اس قول کی موید ہے.علامہ شوکانی نے لکھا ہے کہ ہر وہ شخص جو لا الہ الا اللہ پڑھتا ہے وہ اس کے اسلام کے حق میں سمجھا جائے گا.اگر چہ نفس الامر میں اس کے اعمال خلاف اسلام ہی کیوں نہ ہوں.(نيل الأوطار جلد 6 صفحه 537) ایک حدیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ Rights ( حقوق ) اور Obligations ( ذمہ داریوں) کے لحاظ سے مسلمان اور دوسرے لوگ برا بر ہیں.(ترمذی ابواب الایمان باب ماجاء فی قول النبي صلى الله عليه وسلم امرت بقتالهم حتى يقول لا اله الا الله ويقيموا الصلوة) پس ان آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ کا مطلب یہ ہے کہ زبانی اقرار پر حقوق اطلاق پاتے ہیں اور ظاہری اعمال پر حکم لگایا جاتا ہے.کسی کے دل کو چیر کر نہیں دیکھا جاتا.امام راغب نے لکھا ہے کہ شرعاً اسلام کی دو قسمیں ہیں.ایک دون الایمان یعنی ایمان سے نیچے نیچے کی حالت ہے.اور یہ زبان سے اعتراف کا نام ہے.اس سے اعتراف کرنے والے کی جان محفوظ ہو جاتی ہے.خواہ اس کے ساتھ اعتقاد شامل ہو یا نہ ہو اور دوسری قسم فوق الا ایمان ہے.اس میں زبانی اعتراف کے ساتھ دلی اعتقاد بھی شامل ہوتا ہے.(مفردات امام راغب زیر لفظ "سلم) اعتراف باللسان یعنی زبانی اقرار کے متعلق شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بڑی وضاحت سے فرمایا ہے کہ ایمان کی ایک قسم وہ ہے جس پر دنیا کے احکام کا دارومدار ہے اور اس کا تعلق زبانی اقرار سے ہے جب کہ دوسرا حصہ آخرت میں نجات اور جزا سزا سے متعلق ہے.(حجة اللہ البالغہ“ جلد اول صفحہ 386-385 از امام ولی اللہ شاہ محدث دہلوی ترجمہ حضرت علامہ ابومحمد عبد الحق صاحب حقانی) 113

Page 120

اس مرحلہ پر یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ دستور ہمارے مسلم کہلانے میں مانع ہے.یہ بھی کہا گیا تھا کہ ہم نے دوسروں کو کا فرقرار دے کر خود علیحدہ مسجدیں بنالی تھیں.ہم نے یہ وضاحت کی تھی کہ عقیدہ کا اظہار حق ہے اور اس میں استثنیٰ کوئی نہیں.یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہم نے مسجد میں الگ نہیں کیں.ہمیں جبراً مسجدوں سے نکالا گیا.قبروں سے ہمارے جنازے نکلوا کر باہر پھنکوائے گئے اور اس پر فخر کیا گیا.چنانچہ ایک اشد ترین مخالف احمدی مولوی عبد اللہ خانپوری کی کتاب ” اظہار مخادعت مسیلمہ قادیانی کا حوالہ پیش کیا گیا کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ تو اپنے ماننے والوں کو صبر اور صلح کی تلقین کرتے تھے.لیکن معاندین اپنی مسجدوں سے احمدیوں کو نکال کر ذلیل وخوار کرنے اور مردے بے تجہیز وتکفین گڑھوں میں دبائے جانے پر بغلیں بجاتے تھے.اظهار مخادعت قادیانی صفحه 2 یہ الزام کہ ہم نے پہلے کفر کا فتوی لگایا صیح نہیں ہے.ہم پر کفر کا پہلا نوی 1982 ء کے قریب لگا.لیکن میں چینج سے کہتا ہوں کہ کفر کا فتویٰ جماعت احمدیہ کی طرف سے پہلے نہیں آیا.پس مرزا صاحب نے فتویٰ نہیں لگایا.انہوں نے تو یہ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص دوسرے مسلمان کو کافر کہتا ہے وہ خود کافر ہو جاتا ہے.(بخاری کتاب الادب باب من اكفر اخاه بغير تاويل فهو كما قال، مسلم کتاب الایمان باب حال ایمان من قال اخيه المسلم يا كافر) اس کے بعد اپنے اصل مبحث کی طرف رجوع کرتے ہوئے ہم نے عرض کیا تھا کہ فقہاء نے یہ بھی لکھا ہے کہ کوئی چیز کسی کو اسلام سے نکال نہیں سکتی سوائے اس چیز کے انکار کے جس نے اسے اسلام میں داخل کیا ہے.(معین الحکام صفحه 165) اسی طرح فقہ حنفیہ کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ اگر کسی کے کفر کی بہت سی وجوہات ہوں جس سے تکفیر واجب آتی ہو.ان میں سے اگر ایک وجہ بھی تکفیر کے مانع ہو تو مفتی پر واجب ہے 114

Page 121

کہ وہ اس ایک وجہ کی طرف مائل ہو.(لسان الحكام صفحه414) ہماری تو یہی ایک وجہ اسلام کے لئے کافی تھی کہ ووٹ کے حق سے محروم ہو کر اور جانیں قربان کر کے اور مال لٹوا کر پھر بھی کہا کہ ہم مسلمان ہیں تو کیا یہ باتیں ہمارے اسلام کے لئے کافی نہ سمجھی جائیں گی.ابن تیمیہ نے لکھا ہے کہ بعض کفر ایسے ہیں جو ملت سے نہیں نکالتے جن کی وجہ سے انسان ملت سے خارج نہیں ہوتا.(کتاب الايمان ابن تیمیه صفحه 171) مولانا مودودی صاحب نے Rigth to Profess کو بنیادی حق قرار دیتے ہوئے کہا کہ کوئی شخص بنیادی حقوق پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا.ورنہ یہ اللہ اور اللہ کے ذمہ سے دغا بازی کے مترادف ہے.حکومت وقت کو شہریوں کے بنیادی حقوق کی ذمہ داری نیابتہ حاصل ہوتی ہے اگر وہ کسی دوسرے طریقے سے حقوق چھینے تو یہ دراصل خدا سے دغا بازی ہے.معاہدات دستوری سفارشات صفحه 153) زیر نظر آرڈینینس اس وجہ سے بھی باطل ہے کہ وہ پاکستانی قوم اور افراد کے درمیان معاہدات کے منافی ہے.معاہدات کے مضمون میں ہم ان معاہدوں کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جو ہمارے حکمرانوں یا پاکستان کے شہریوں کے ساتھ ہیں.ان کو توڑا نہیں جاسکتا.اس ملک کی تخلیق کے وقت جو لوگ یہ کہتے تھے کہ ہم پاکستان بنے نہیں دیں گے، وہ بھی اس ملک کے شہری ہیں لیکن ہم تو ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے تحریک پاکستان کی مخالفت نہیں کی بلکہ جد و جہد آزادی میں ساتھ ساتھ رہے اور یہ ہمارا دعا ہی نہیں بلکہ دوستوں دشمنوں سب نے مانا ہے یہاں تک کہ تاریخ بھی گواہ ہے اس لئے ہمیں الگ نہیں کیا جا سکتا.بندوں اور بندوں کے درمیان معاہدات کے علاوہ حکومتوں اور حکومتوں کے مابین معاہدہ ہوتا ہے 115

Page 122

چنانچہ حکومت پاکستان نے.U.N.O کے چارٹر پر دستخط کر کے حریت فکر اور آزادی عقیدہ کی ضمانت دی ہے اس کو تو ڑا نہیں جا سکتا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مدینہ میں یہودیوں کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا اور جو میثاق مدینہ“ کے نام سے مشہور ہے اس میں آپ نے معاہدہ کرنے والوں کو ملت واحدہ کا نام دیا ہے اس کی رو سے آپ ہمیں ملت اسلامیہ سے خارج نہیں کر سکتے.کیونکہ تحریک پاکستان کے دوران مسلم لیگ اور مسلمانوں کے ساتھ اتحاد عمل کے نتیجہ میں گویا ایک معاہدہ پروان چڑھتا رہا، قول و قرار ہوتے رہے.جب ملک وجود میں آ گیا تو بابائے قوم نے واشگاف الفاظ میں مذہبی آزادی کا اعلان فرمایا.صرف یہی معاہدہ نہیں بلکہ قرارداد مقاصد میں اظہار رائے اور مذہبی آزادی کے اس اعلان کو شامل کیا گیا.قرار داد مقاصد پہلے 1956 ء کے دستور میں پھر 1962 ء کے دستور پھر بعد میں 1973ء کے آئین میں بھی شامل کی گئی اور عہد گویا دہرایا جاتا رہا کہ اس سے باہر نہیں جائیں گے.ورنہ معاہدہ کو توڑنے والے ہوں گے.اب آپ مذہبی آزادی پر پابندی لگا کر آخر کس کس عہد کو توڑیں گے.زیر بحث آرڈینینس اس وجہ سے بھی خلاف اسلام ہے کہ پاکستان اور اس کے عوام اور حکومت بعض مواشیق کی پابند ہیں.بعض معاہدے بین الاقوامی ہیں اور بعض ملت کے اندر ہی کئے جاتے ہیں.خدا اور اس کے رسول کا حکم ہے کہ عہد قائم کرنے کے بعد اسے توڑا نہ کرو.(النمل: 91) یہ قرآن وسنت کا حکم ہے.اس آرڈینینس میں اس سے انحراف کیا گیا ہے.میثاق صرف وہی نہیں ہوتا جو تحریر کیا گیا ہو بلکہ یہ بھی ثابت ہے کہ اگر ایک شخص راہ جاتے ہوئے اس تاثر کے تحت (Understanding کے ساتھ ) آپ کے ساتھ چل پڑے کہ اس کو امان ہے تو اس کو بھی نہیں تو ڑنا چاہئے.اس معاہدے کا بھی احترام ضروری ہے.116

Page 123

عقد ذمہ قائم کرنے کی مثالیں تو بہت ہیں کہیں صلح ہوگئی کہیں فتح ہو گئی لیکن ایسی مثال کہیں نہیں کہ مختلف لوگوں نے مل کر ایک نئی مملکت کی بنیا د رکھی ہو.اس کی ایک ہی مثال ملتی ہے اور وہ میثاق مدینہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکے سے مدینے تشریف لائے وہاں پر آباد یہودیوں سے مل کر ایک نئی حکومت کی بنیا درکھی گئی.آیت قرآنی اوفوا بالعقود کی تفسیر میں تفسیر قرطبی ( تفسیر قرطبی جلد 6 صفحہ 33،32 مطبوعہ 1937 مصر ) میں لکھا ہے کہ مومن اپنی شرطوں کے خلاف نہیں کرتے.معارف القرآن میں مفتی محمد شفیع صاحب نے عقد کی تعریف بیان کی ہے اس میں ابن جریر نے صحابہ کے اجماع کے حوالے سے لکھا ہے کہ معاہدہ کو پورا کرنا ضروری ہے نیز امام راغب کے حوالے سے لکھا ہے کہ معاہدہ دو شخصوں ، جماعتوں یا حکومتوں کے مابین ہوسکتا ہے اور ہر دوفریق پر اس کی پابندی لازمی ہے.(معارف القرآن جلد 3 صفحه 13,12 زیر آیت مائده آیت 1 از مفتی محمد شفیع) جب پاکستان بن رہا تھا تو بہت سے لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ ہم پاکستان کی پ بھی نہیں بننے دینگے اور یہ پاکستان نہیں بلکہ پلیدستان ہے، جو لوگ اس وقت جب خود مسلمان دو گروہوں میں بٹ گئے تھے پاکستان بننے کی جدو جہد میں شامل ہوئے انہوں نے آپس میں گویا ایک دوسرے کو امان دی گویا ایک معاہدہ کیا.جب یہ قافلہ منزل تک پہنچ گیا تو اب اس امان کو توڑا نہیں جا سکتا.ہمیں سالار کارواں نے آئینی طور پر گارنٹی دی، پھر ملک کی دستور ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں وہی ضمانت دی گئی.چوہدری محمد علی صاحب نے اپنی کتاب میں ایگریمنٹ (Agenent) کا لفظ لکھا.ہے.اور مسلم لیگ کے ایک صدر نے احمدیوں سے معاہدہ کر لیا“ کے الفاظ لکھے.ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ قرآن وسنت کے مطابق ہمارے حقوق ہمیں دیئے جائیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایک عورت کی امان بھی قابل قبول ہے ہمیں 117

Page 124

تو حضرت قائد اعظم بانی پاکستان نے امان دی تھی.قرآن حکیم کی رو سے معاہدات کی پابندی کا مضمون واضح کرنے کے لئے ہم نے تفسیر ضیاء القرآن (از پیر کرم شاہ جلد اول صفحہ 435) اور معارف القرآن (جلد 5 صفحہ 267 زیر آیت بنی اسرائیل آیت 35) پیش کی ہیں اور بتایا ہے کہ انسان کے کسی انسان سے ہر قسم کے معاملات میں معاہدے کی پابندی ضروری ہے.سورۃ مومنون آیت نمبر 8 وَعَهْدِهِمْ رعُونَ کی تفسیر میں مولانا مودودی کی تفسیر تفہیم القرآن (جلد 3 صفحہ 267 زیر آیت المومنون آیت8) سے واضح کیا ہے کہ اس میں وہ سارے معاہدے شامل ہیں جو افراد اور افراد کے مابین ہوتے ہیں.فقہ اور دیگر لٹریچر سے بھی بات واضح کی گئی ہے.امام یوسف ( کتاب الخراج از امام ابو یوسف صفحہ 135 مطبوعہ 1302 ھ مصر) نے کتاب الخراج میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے معاہد کے خلاف ظلم سے کام لیا تو ایسے مظلوم کی طرف سے میں لڑنے والا ہونگا.حضرت عمرؓ نے وفات کے وقت نصیحت کی کہ عہدوں کا پاس کرنا، علاوہ از میں اُم ہانی نے اپنے دیور اور جیٹھ کو پناہ دی مگر اس کے بھائی ان کو قتل کرنا چاہتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کو تم نے پناہ دی اس کو ہم نے پناہ دی.(مغنی لابن قدامه جلد 8 صفحه 97-396مطبوعه 1367ه) حضرت عائشہ نے فرمایا کہ اگر کوئی عورت بھی پناہ دے دے تو اس کا لحاظ رکھنا لازم ہے.(سنن ابی داود کتاب الجهاد باب في امان المرأة جلد ثاني صفحه 24) مولوی محمد حسین بٹالوی نے اپنے ایک مضمون میں جس میں بخاری اور ابوداؤد سے سند لی گئی ہے بتایا کہ اگر کسی سے زبانی یا تحریری پیمان نہ ہو اور فقط ساتھ مل کر چلنے کا اور رہنے کا خیال ہوتو یہ بھی عہد میں شامل ہے اور اس کے خلاف کرنا حرام ہے.(رسالہ اشاعۃ السنہ جلد دوم صفحہ 275) اسی مضمون کو الاقتصاد فی مسائل الجہادصفحہ 46,45 میں واضح کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے اپنے 118

Page 125

ساتھی کو لوٹا اور قتل کیا اور پھر آ کر حضور کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا اور مال بھی پیش کیا.آنحضور نے اس کا اسلام قبول کر لیا مگر اس کا مال قبول نہ کیا اور فرمایا جب انسان کسی کے ساتھ ہو کر چلتا ہے تو اس کا ساتھ دینے کا احترام لازمی ہے.یہ معاہدہ تو ڑا نہیں جا سکتا.سنن ابی داؤد جلد ثانی کے حوالہ سے بتایا کہ عادت جاریہ بھی معاہدے کی ذیل میں آ جاتی ہے.اس بارہ میں اس عدالت کا فیصلہ موجود ہے.(PLD جلد دوم صفحہ 216) جس میں یہ طے کیا گیا ہے کہ معاہدات کی پابندی اسلامی لحاظ سے بھی ضروری ہے.معاہدہ کا تحریری ہونا ضروری نہیں.آپس کا قول وقرار بھی معاہدہ ہوتا ہے.پاکستان بنانے کی جدوجہد میں دو گروہ بڑے واضح تھے اور یہ حض اتفاق نہیں تھا کہ ہم پاکستان کی جدو جہد کرنے والوں کے ساتھ چل پڑے ہوں، بلکہ اس ضمن میں بڑی واضح تقسیم موجود تھی.لوگ بڑے خلوص نیت کے ساتھ اپنے اپنے راستے پر تھے مثلاً ابوالکلام آزاد، پاکستان کے قائل نہیں تھے.وہ کانگریس کے ساتھ تھے.نیشنلسٹ علماء واضح طور پر کانگریس کے ساتھ تھے.اس ضمن میں یہ دیکھنا ہے کہ جو معاہدہ ہو اس کی صورت کیا ہے.سید عطاء اللہ شاہ بخاری امیر شریعت احرار نے پاکستان کا مطالبہ کرنے والوں کو سور قرار دیا اور کہا کہ دس ہزار جینا اور شوکت اور ظفر جواہر لعل نہرو کی جوتی کی نوک پر قربان کئے جاسکتے ہیں.(چمنستان از مولوی ظفر علی خاں صفحہ 165 سن اشاعت 1944 ء مقام چوک انارکلی لاہور ) مولانا مودودی نے تحریک پاکستان اور اس کے قائدین کے بارہ میں قائد اعظم کا نام لے کر کہا کہ ایک بھی شخص ایسا نہیں جو اسلام کو سمجھ سکتا ہو اور قیام پاکستان کی سیاست کو اسلامی سیاست کہنا تو کجا یہ اسلام کے لئے ازالہ حیثیت عرفی سے کم نہیں.مسلمانوں کی مجوزہ حکومت کو مسلمانوں کی ” کافرانہ حکومت اور اس کو الہی حکومت قرار دینا، اس پاک نام کو بد نام کرنا قرار دیا.اس جدو جہد کو اسلام کے رستے میں پہلے قدم کی بجائے الٹا قدم قرار دیا.(مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصه سوم صفحه 105,31,26تا133,108 تا 137 مكتبه جماعت اسلامی اچهره لاهور) 119

Page 126

مفکر احرار چوہدری افضل حق نے کہا کہ ہم پاکستان کو پلیدستان سمجھتے ہیں اور کہا کہ اسلام کے باغی پاکستان کی بجائے ہم ہندو کے ہندوستان کو قبول کر لیں گے.تاریخ احرار صفحہ 60,59 سلسله مطبوعات مجلس احرار اسلام پاکستان نمبر 2 از مفکر احرار امیر افضل حق ) علامہ محمد حفظ الرحمن سیوہاروی نے لکھا کہ پاکستان مسلم لیگ کے قائد اعظم کو بکنگھم پیلیس سے الہام ہوا ہے.پھر لکھا کہ مسٹر جناح بیرسٹر کی بجائے مفتی بن گئے اور بڑے بڑے علماء کی تضحیک اور بے عزتی کرتے ہیں.جن کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ پاکستان کے حامی نہیں ہیں.جمعیت العلمائے اسلام ہند نے فیصلہ کیا کہ پورا ہندوستان ہمارا پاکستان ہے.تحریک پاکستان پر ایک نظر صفحہ 41،40 از علامہ الحاج مولا نا محمد حفظ الرحمن صاحب ناشر جمعیت علماء ہند دہلی ) اس صورتِ حال میں جماعت احمدیہ کا جو کر دار تھا وہ یہ تھا کہ جماعت احمد یہ دل وجان سے تحریک پاکستان میں شامل تھی.اس ضمن میں ” اساس الاتحاد از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد نوراللہ مرقدہ مرقومہ 1924 ء ہم نے پیش کیا ہے.جس میں حضرت صاحب نے مسلم لیگ کی تائید فرمائی اور اس کی جدو جہد میں حصہ لینے کے لئے سیاسی طور پر مسلمان کی یہ تعریف بیان فرمائی کہ جو خود کو مسلمان کہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لائے اور کلمہ پڑھے وہ مسلمان ہو.(اساس الاتحاد صفحہ 4) اس میں امام جماعت احمد یہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ ایسی بھی تدابیر کی جائیں کہ آج ہونے والے معاہدات ہمیشہ قائم رہیں اور یہ نہ ہو کہ کسی وقت کثیر التعداد جماعت یہ محسوس کرے کہ اب اس کو قلیل التعداد جماعت کی ضرورت نہیں اور وہ معاہدہ کے خلاف قانون پاس کر دے.(اساس الاتحاد) اس کے بعد ” نہر ور پورٹ پر تبصرہ از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد نور اللہ مرقدہ کے بعض حصے پیش کئے گئے ہیں جس میں جناب امام جماعت احمدیہ نے ہندوستان کی اقلیتوں (مسلمانوں) کے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ 120

Page 127

یہ تحفظ فیڈ ریشن کے قیام سے پہلے ہو جانا چاہئے.(مسلمانوں کے حقوق اور نہرور پورٹ صفحہ 35-36 از مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب) ارجن سنگھ عاجز نے لکھا کہ مسلمانوں کی جماعتوں میں احمد یہ جماعت مسلم لیگ کے طرز عمل کی حامی ہے اور اس کی تائید میں ہزاروں روپیہ خرچ کر رہی ہے.یہی وجہ ہے کہ اگر چہ احرار شدید مخالفت کر رہے ہیں لیکن مسلم لیگ جماعت احمدیہ کے تعاون کو ضروری سمجھتی ہے.(سیر قادیان صفحه 25-26 از ارجن سنگھ عاجز ، ایڈیٹر اخبار رنگین ) مؤرخ پاکستان جناب سید رئیس احمد جعفری نے لکھا کہ قادیانیوں کے دونوں فرقے مسلم لیگ کی تائید کر رہے ہیں اور مسٹر جناح کی سیاسی قیادت کے معترف ہیں.مولوی محمد علی صاحب لا ہوری اور حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد نوراللہ مرقدہ کے تائیدی الفاظ بیان کئے ہیں اور بتایا ہے کہ آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ کی تائید کرنے کے لئے مرزا صاحب موصوف نے خاص ہدایات جاری کیں.(حیات محمد علی جناح 451 تا 453) مسلم لیگ کے اندر جو علماء تھے ان میں سے حافظ محمد ابراہیم سیالکوٹی نے مسلم لیگ میں مرزائیوں کو شامل کرنے کے اعتراض کا دفاع کیا اور کہا کہ سیاست میں قوم کو بحیثیت نوع دیکھا جاتا ہے.( پیغام ہدایت در تائید پاکستان صفحہ 112 تا 114 182,171,170 تا185 مرتب محمد ابراہیم مہرسیالکوٹی) اس کا مطلب یہ ہے کہ ساتھ ساتھ اعتراض ہو رہے تھے اور ساتھ ساتھ ان کا دفاع کیا جا رہا تھا یہاں پر احمدیوں کے عقیدہ کو باطل بھی قرار دیا جا رہا تھا مگر سیاسی طور پر وہ اور دیگر مسلمان ایک وحدت تھے جو ساتھ ساتھ چل رہے تھے.مولانا شبیر احمد عثمانی نے جب ان سے مسلم لیگ میں قادیانیوں کی شمولیت کے بارہ میں سوال کیا گیا تو کہا کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسلم لیگ کوئی مفتیوں کی جماعت ہے جس نے قادیانیوں کو مسلمان قرار دے دیا ہے بلکہ صرف یہ ہے کہ ہر اس شخص کو مسلمان تسلیم کیا گیا 121

Page 128

ہے جو اسلام کا دعویٰ کرتا ہو اور کلمہ پڑھتا ہو.اس لحاظ سے قادیانیوں ،شیعوں ، رافضیوں، اسماعیلیوں وغیرہ سب کو مسلمان گردانا گیا ہے.(خطبہ صدارت 26 جنوری 1936 صفحه 16,15 از مولانا شبیر عثمانی) حسین احمد مدنی صاحب نے قائد اعظم کو کا فراعظم کہا تھا اس کا جواب مولانا شبیر احمد عثمانی نے یہ دیا کہ جس طرح آپ غیر مسلموں میں ہندوؤں ہسکھوں، عیسائیوں وغیرہ سب کو شامل کرتے ہیں اور کسی کو علیحدہ مذہب پر اصرار نہیں کرتے.اسی طرح مسلم لیگ میں سب مسلمان شامل ہیں.(خطبہ صدارت صفحہ 16,15) اس کے بعد سرکاری طور پر شائع ہونے والی کتاب The Partition of Punjab جلد اوّل صفحہ 35 کے حوالہ سے ہم نے ثابت کیا ہے کہ جماعت احمد یہ بطور مسلمان مسلم لیگ کی جدوجہد میں شامل تھی.اور یہ کہ اس میں احمدیہ کمیونٹی قادیان، بٹالہ مسلم لیگ ، پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈ ریشن ، سٹی مسلم لیگ منٹگمری ، سب نے الگ الگ میمورنڈم دیا تھا.بٹالہ مسلم لیگ نے کلیم کیا کہ مسلمانوں کے ایک فرقہ کا مرکز قادیان میں ہے اس لئے اس تحصیل کو پاکستان میں شامل کیا جائے.(477-474 The Partition of Punjab Page) اسی کتاب کی جلد دوم ( 1 Vol ) میں جماعت احمدیہ کے وکیل شیخ بشیر احمد صاحب نے کہا کہ ہم نے پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کیا ہے اس لئے قادیان کو پاکستان میں شامل کیا جائے.(The Partition of Punjab VolII Page 251) جب تقسیم ملک ہوگئی اور پاکستان بن گیا تب بھی یہ معاہدہ برقرار رہا بلکہ اسے دہرایا جاتا رہا.ماہنامہ ” فکر ونظر نومبر 1976 کے حوالے سے ثابت کیا گیا کہ پنڈت نہرو اور قائد اعظم نے مشترکہ طور پر یہ اعلان کیا کہ ہم عہد کرتے ہیں کہ سب شہریوں کے ساتھ بلا تفریق مذہب و ملت یکساں اور مساوی سلوک کریں گے.122

Page 129

پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں قائد اعظم نے فرمایا، ملک میں تمام شہری ایک ہیں اور اب نہ ہندو ہندور ہیں گے اور نہ مسلمان مسلمان بلکہ سب سیاسی طور پر ایک قوم میں ڈھل جائیں گے اور سب مسلم اور غیر مسلم آزاد ہیں کہ اپنے معابد، مساجد، گر جاؤں وغیرہ میں جائیں اور آزادانہ اپنی مذہبی رسومات بجالائیں.(Fundamental law of pakistan by A.KBrohi P.937.938,1958) چوہدری محمد علی صاحب سابق وزیر اعظم پاکستان اپنی کتاب Emergence of Pakistan میں فرماتے ہیں کہ حکومت کا یہ فرض ہوتا ہے کہ عقیدہ کی آزادی کی ضمانت دے.پاکستان فوجی فتح کے ذریعہ سے وجود میں نہیں آیا تھا بلکہ یہ ایک Negotiated Agrement کے ذریعہ وجود میں آیا ہے.(صفحہ 239-240) اور ہم سب شہری اس میں برابر کے شہری ہیں اور ان کو ہر قسم کی مذہبی آزادی حاصل ہوگی اسی کتاب کے صفحہ 386 پر قائد اعظم کا یہ ارشاد درج ہے کہ پاکستان اسلام کے سوشل جسٹس کے اصولوں پر قائم ہو گا.اس میں تھیا کر یہی ہر گز نہیں ہوگی بلکہ ہر شہری کو حکومت میں حصہ حاصل ہوگا.یہ باتیں اس قرار داد مقاصد میں بھی دہرائی گئی ہیں جو بعد میں آئین کا حصہ بنا.اس قرار داد مقاصد کی تشریح کرتے ہوئے مسٹر لیاقت علی خان نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کی ہر طرح سے ضمانت دی جائے گی.پاکستان کی حکومت Technical Sense میں Theocracy نہیں ہوگی.مسلمانوں نے کبھی اقلیتوں پر جبر نہیں کیا.اگر ہندوستان کے مسلمان بادشاہ اقلیتوں پر جبر کرتے تو ہندوستان میں ایک بھی ہندو باقی نہ رہتا.یہ اسلام کی رواداری ہے.لیاقت علی خان صاحب نے کہا ہم کسی غیر مسلم کو اس کے حقوق سے محروم نہیں کریں گے.اور کسی بھی طرح سے اس کے مذہب یا ثقافت پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جائے گی.123

Page 130

لیاقت علی خان نے فرمایا کہ میں اقلیتوں کو مکمل تحفظ کا یقین دلاتا ہوں.اقلیتوں کو مکمل آزادی ہوگی.1958 Fundamentallaw of pakistan by A.KBrohiP.939.942Karachi) 10 دسمبر 1948 ءکو جاری ہونے والے.UN.O کے چارٹر کے آرٹیکل نمبر 18 میں ذکر ہے کہ ہر شخص کو اپنے خیالات ہضمیر اور مذہب کی آزادی ہو گی.مذہب تبدیل کرنے کی بھی آزادی ہوگی اور نہ صرف انفرادی طور پر بلکہ اجتماعی طور پر جماعت بنا کر بھی مذہب کا اظہار کرنے کی آزادی ہوگی.اس میں Religion اور Belief دو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں.ان میں فرق یہ ہے کہ Religion معین مذہب یا طرز فکر کا نام ہے جب کہ بعض ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جن کا معین طور پر کوئی مذہب نہیں ہوتا مگر ان کا کوئی نہ کوئی اعتقاد ضرور ہوتا ہے.ہمارے مذہب کا معاملہ ایسا آ پڑا ہے.کہ کوئی معین تعریف یہاں پر طے نہیں ہو رہی.آئین نے غیر مسلم کہہ دیا.اعتقادات ہمارے کسی دوسرے غیر مسلم سے نہیں ملتے.مسلمان ہمیں آئین نہیں کہنے دیتا.غیر مسلم ، ہمارے اعتقاد ہمیں نہیں بناتے.ہمیں مسلمان نہ کہا جائے مگر اپنے عقیدہ کی تو آزادی چاہئے.اس دستاویز پر پاکستان نے بھی دستخط کئے ہیں اور بین الاقوامی برادری سے یہ قول و قرار کیا ہے کہ مذہبی آزادی دی جائے گی.پھر بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اس چارٹر آف ہیومن رائٹس کو اپنے عمل کا بھی حصہ بنالیا ہے گویا عہد کیا پھر اس کے بارے میں عمل سے اپنی نیت کا اظہار کیا تو اب اس عہد سے پھر جانا مناسب نہیں.یہ اصول کم سے کم تھے اس سے زیادہ حقوق بھی دیئے جاسکتے ہیں.چنانچہ 1956 ء کے دستور میں ان باتوں کو شامل کیا گیا.اس میں ایک اس کا Preamble ہے اور دوسرا آرٹیکل نمبر 18 ہے.Preamble میں درج ہے کہ اجتماعی اور انفرادی طور پر پاکستان کے شہریوں اور اقلیتوں کو مذہب کے اظہار، اس پر عمل کرنے اور پھیلانے کی آزادی ہوگی.جو عہد دورانِ سفر کیا گیا تھا وہ گویا اب دہرایا جارہا ہے.124

Page 131

جب 1956 ء کا دستور منسوخ ہوا تو 1962ء میں دوسرا دستور آیا لیکن اس کے درمیان میں قانون ساز اداروں کے سامنے یہ مسئلہ تھا کہ یہ جو کہا گیا ہے کہ یہ آزادی Public Order اور Morality Lav کے ماتحت ہوگی اس کا کیا مطلب ہے.چنانچہ چندرا کشور (PLD1957P61) کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ اقلیتوں کے حقوق کو Lay کا نام لے کر ختم نہیں کیا جا سکتا.یہ جو کہا گیا ہے کہ یہ آزادی Subject to law ہے یہ صرف غیر مسلموں کے لئے نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے لئے بھی اس کی اسی طرح پابندی ہے.قانون تو حقوق کو Protect کرنے کیلئے ہے نہ کہ سلب کرنے کے لئے چنانچہ 1962 ء کے دستور میں یہ الفاظ اسی طرح شامل رکھے گئے اور ان سے سرِ مو انحراف نہیں کیا گیا.تو گویا سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کی موجودگی میں اسی تعبیر کو تسلیم کرتے ہوئے دوبارہ پھر انہیں الفاظ میں وہ حقوق دیئے گئے.1962 ء کے آئین کے Preamble میں وہی قرار داد مقاصد شامل ہے جو پہلے کے آئین میں شامل تھی اور یہ قرار داد مقاصد Objective Resolotion آج بھی آئین کا اس طرح سے حصہ ہے.کسی مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر نے بھی اسے نہیں چھیڑا.دستور 1962 ء کے آرٹیکل نمبر 10 میں یہ بات طے کی گئی ہے کہ مذہب پر عمل کرنے ، اس کا اظہار کرنے اور اس کی تبلیغ کی اجازت ہوگی.یہ بات 1962ء کے دستور میں شامل تھی یہ دستور منسوخ ہوا اور اس کے بعد 1973 ء کا دستور آیا لیکن اس سے پہلے بھی ایک اہم کیس عاصمہ جیلانی کیس سپریم کورٹ میں زیر بحث آچکا تھا ہم اس پر Usuper والی بحث میں نہیں جائیں گے یہ ہمارا موضوع نہیں تا ہم اس میں بھی یہ بات دوبارہ دہرائی گئی اور چیف جسٹس مسٹر جسٹس حمود الرحمن نے فیصلہ لکھا اور اپنے فیصلہ میں قرار داد مقاصد کو GrundNom قرار دیا اور اسے چھیڑ نے سے انکار کیا اور لکھا کہ یہ قرار داد مقاصد کبھی بھی Abrogate نہیں ہوئی نہ فوجی حکومت کے وقت نہ سول حکومت کے 125

Page 132

وقت (1972.P.L.D سپریم کورٹ صفحہ 137) ایک Complex سوسائٹی میں کوئی شخص قانون سے باہر نہیں ہوتا.یہ جو بار بار یہاں کہا گیا ہے کہ اولی الامر مصلحت عامہ میں جو چاہے قانون پاس کر دے یہ غلط ہے.اس فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ سر براہ حکومت بھی Utterences of Justice کے خلاف کچھ نہیں کر سکتا.چنانچہ 1973ء کے دستور میں بھی اور اس سے پہلے عبوری آئین میں بھی یہ آزادی رکھی گئی.اب عجیب بات کہی جارہی ہے کہ دستور 1973 ء تو منسوخ ہے یا معطل ہے مگر اس کی ترمیم قائم ہے؟ بے شک اکثریت اور اقلیت کو مذہب کی تو آزادی ہے لیکن اگر کبھی ایسی صورت حال پیدا ہو جائے کہ مذہب کے معاملے میں اکثریت اور اقلیت میں جھگڑا ہو جائے تو کیا کیا جائے؟ پاکستان کی تحریک کے دوران جب ہندوستان کی فیڈ ریشن وغیرہ کی باتیں ہو رہی تھیں تو یہ کہا گیا تھا کہ ایک بار جن حقوق پر اتفاق کر لیا جائے گا ان کو بدلا نہیں جائے گا اور اقلیتوں کے بارہ میں کوئی قانون اس وقت تک نہیں بنایا جائے گا جب تک کہ اس مذہب کے لوگوں کے 2/3 حصہ کی رائے ساتھ نہ ہوگی.1973 ء کے آئین میں قرار دادِ مقاصد اسی طرح شامل ہے اس کے Preamble میں بھی مذہب اور عقیدے کی آزادی اور تبلیغ کا حق دیا گیا ہے.اس کے بعد آرٹیکل نمبر 227 میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ تمام قوانین اسلام کے مطابق اور قرآن وسنت کے مطابق بنائے جائیں گے اور یہ کہا گیا کہ جو پرسنل لاء غیر مسلم شہریوں کے حقوق کو متاثر کرے ایسا کوئی نہیں بنایا جائے گا.یعنی اقلیتوں کے ذاتی معاملات میں قانون سازی نہیں کی جائے گی اس کا سٹیٹس تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی.مشیرانِ عدالت کی طرف سے جو بحث کی گئی ہے اس میں ہمارا Status طے کرنے کی 126

Page 133

کوشش کی گئی ہے.آئین 1973 ء کے آرٹیکل (3) 227 کے تحت ہمارا سٹیٹس زیر بحث نہیں لایا جا سکتا.اس لحاظ سے ہمیں غیر مسلم قرار دینے کے لئے جو ترمیم کی گئی وہ خود آئین کے خلاف تھی.تا ہم 1973 ء کے آئین میں بھی قرار داد مقاصد کو چھیڑا نہیں گیا.پھر.p.C.O یعنی عبوری آئینی حکم Provisional Constitutional Order میں بھی مذہبی آزادی کا یہ عہد دہرایا گیا.1974ء میں ہمیں غیر مسلم قرار دینے کے لئے اسمبلی میں جو قرار داد پیش ہوئی اس میں بھی ہمارے حقوق کے تحفظ کا عہد موجود تھا.قادیانیت اور ملت اسلامیہ کا موقف نامی کتاب کے عربی اور اردو متن سے ہم نے وہ عبارت پیش کی ہے جس میں پاکستان کی قومی اسمبلی سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ اسمبلی قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے لئے قانون بنائے، آئین میں ترمیم کرے اور ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے.(موقف الامة الاسلامية صفحه 6 از مولانا محمد يوسف البنورى) جہاں تک غیر مسلموں کے حقوق کا تعلق ہے جو غیر مسلم خود کو غیر مسلم کہنے میں فخر محسوس کرتا ہے اور اسی میں اپنی نجات تصور کرتا ہے وہ اس ” غیر مسلم“ سے مختلف ہے جس کو حکومت غیر مسلم قرار دے رہی ہے مگر وہ خود کو مسلمان سمجھتا ہے.اگر ہمارے ساتھ سلوک کرنے کے بارے میں کوئی نظیر ڈھونڈنی ہے تو ہمارے قریب ترین مطابقت رکھنے والے وہ لوگ ہیں جن کو غیر مسلم کہا گیا، کا فرقرار دیا گیا لیکن وہ خود کو مسلمان کہتے رہے.127

Page 134

جواب الجواب ہماری بحث کے ابتدائی حصہ کے بعد جب فاضل مشیران عدالت نے خطاب کیا تو انہوں نے ذمیوں کے حقوق کے بارے میں گفتگو کی.اور ذمیوں کا وہ نقشہ کھینچا جو انسانیت اور شرف انسانیت کی تذلیل ہے.ہم علی وجہ البصیرت اس بات پر قائم ہیں کہ ہم ذقی نہیں ہیں اور نہ اس کے حقوق مانگتے ہیں.ہاں ہم خدا اور اس کے رسول کے ذمّتی ہیں اور یہی ذمہ ہمیں کافی ہے.اس ملک کی حفاظت میں ہمارا خون کم نہیں بہا.ہم نے اپنی ساری بحث کو قرآن وسنت تک محدود رکھا تھا لیکن عدالت کے فاضل معاونین نے اپنا سارا زور بیان فقہائے اسلام کے نظریات پر خرچ کر دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی مشرکین تھے لیکن ان کی مثال چھوڑ کر سند فقہاء کو مانا گیا ہے.اگر قرآن اور سنت کی سندلاتے تو بات تھی.مشیران عدالت نے ساری بحث کلیۂ ایک فریق کی حیثیت میں کی ہے.عدالت کے معاون ہونے کا مقام و منصب ملحوظ نہیں رکھا.فقہاء کی آراء کو بیان کرنے کے بعد ان کی تان اس بات پر ٹوٹی کہ ہم ان کو یہ سمجھتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں حالانکہ یہ عدالت کی مدد کرنے کے لئے آئے تھے اور عدالت کی مدداسی صورت میں کی جاسکتی تھی کہ وہ قرآن اور سنت کی رو سے زیر بحث مسئلہ پر غیر جانبدار آراء کا اظہار کرتے.ایک مشیر عدالت نے کہا کہ پاکستان قائد اعظم کی میراث نہیں ہے.ہم پوچھتے ہیں تو کیا ان کی میراث ہے یا جواب مسند پر بیٹھے ہیں ان کی میراث ہے.اور یہ کہنا کہ کوئی معاہدہ 128

Page 135

نہیں ہوا تھا.ظفر اللہ خان کے کان میں کہا گیا ہوگا یہ باتیں ایک فریق کی زبان سے بجتی ہیں.مگر غیر جانبدار مشیر کو زیب نہیں دیتی تھیں.جو بحث معاہدات کی پابندی کی ہم نے اُٹھائی ہے اس کے لئے تفصیلی حالات واقعات پر ایک دلیل قائم کی گئی ہے.ہماری نظر میں 1974ء کی دستوری ترمیم نے بھی اس معاہدہ کو ختم نہیں کیا کیونکہ بنیادی حقوق جو قرار داد مقاصد میں متعین کئے گئے تھے وہ پاکستان میں بننے والے ہر دستور میں ہی نہیں بلکہ آج کے مارشل لاء کے زمانہ میں بھی بدستور قائم ہیں.مولا ناحسین احمد مدنی ایک وفد لے کر قائد اعظم کے پاس گئے تھے اور ان سے کہا تھا کہ احمدیوں کو مسلم لیگ میں شامل نہ کریں لیکن قائد اعظم نے ان کا مطالبہ رد کر دیا.جہاں تک اقلیت کا سوال ہے، میں اقلیت اور اکثریت کی بحث میں نہیں پڑتا ، تاریخ عالم میں اقلتیں اکثریتوں میں بدلتی رہی ہیں.پس اقلیت کا اکثریت میں بدلنا ایک Ifreversible حقیقت ہے.یعنی جب اکثریت ظلم میں بڑھ جاتی ہے تو اکثریت اقلیت میں بدل جاتی ہے.آزادی مذہب اور حریت فکر پر پابندی نہیں ہے.جہاں تک کفر اور ایمان کا تعلق ہے اپنی زبان سے کافر ہونا یا ارتداد کا اعلان کرنا اور بات ہے اور کسی کو کا فرکہ دینا اسے مرتد کے فتوے سے نواز نا اور بات ہے.اگر کسی کے کافر کہنے سے کوئی کافر ہو جاتا ہے تو پھر حضرت امام حسین کو بھی کا فر قرار دیا گیا تھا اور اس بات پر انہیں شہید کیا گیا.قانون کسی کو بھی یہ حق نہیں دیتا کہ وہ کسی کو کافر قرار دے.ہمیں کافر ہونے کا سر ٹیفکیٹ دینے والے خود یہ کہتے ہوئے کٹہرے سے گزر گئے کہ مجھے اپنے مسلمان ہونے کے لئے کسی کے سر ٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں.ہم کسی سے اپنے مسلمان ہونے کا سر ٹیفکیٹ طلب نہیں کرتے محض اپنا شرعی حق مانگتے ہیں جو خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دیا.129

Page 136

قائد اعظم نے جو معاہدہ کیا تھا اس کی پابندی کو فرد واحد کا معاہدہ سمجھ کر اگر ٹالا جاسکتا ہے تو اس کا کیا کریں گے کہ حکومت پاکستان نے مذہبی آزادی اور حریت فکر پر مشتمل.UN.O کے چارٹر پر دستخط کئے ہوئے ہیں.ایک مشیر عدالت نے ایک فہرست دی ہے کہ کون کون سے کلمات سے مرتد ہو جاتا ہے.ہم پوچھنا چاہتے ہیں جناب پھر پاکستان میں کون مرتد نہیں ہے اور کیا قائداعظم پر کفر کے فتوے نہیں لگائے گئے تھے؟ غیر مسلموں کے حقوق مشیرانِ عدالت کی طرف سے معاہدات کی بحث میں نان مسلم کے حقوق اور قسموں کا بیان ہو چکا ہے اب ایک نئی قسم کا نان مسلم سامنے ہے جو اپنی رضا اور اپنے اقرار سے نان مسلم نہیں لیکن قانون اس کو جبر آنان مسلم قرار دیتا ہے تو کیا ایسے نان مسلم کے لئے قرآن وسنت میں کوئی سند موجود ہے یعنی ایک آدمی جو اپنی زبان سے کہے کہ وہ مسلمان ہے، دستور اسے کہے کہ تم نان مسلم ہو، کیا اس کے حقوق وہی ہیں جو مسلمان کے ہیں.اس سلسلہ میں تین باتیں Issues کی صورت میں پیش کی جاتی ہیں.اوّل یہ کہ غیر مسلم کی جملہ اقسام میں سے ایسے غیر مسلم کے بارہ میں احکام اور حقوق کیا ہیں جو اپنے اقرار سے تو غیر مسلم نہ ہو، قانون نے اُسے جبر غیر مسلم قرار دیا ہو.دوم کیا ایسا غیر مسلم جو اپنے اقرار سے غیر مسلم نہ ہو، اپنے ضمیر کے مطابق اعتقادات اسلامی اور احکام قرآنی کو اپنانے کا حق رکھتا ہے یا نہیں.اگر نہیں رکھتا تو اس کی نفی قرآن یا سنت کی کس نص میں موجود ہے.سوم : یہ کہ ایسا غیر مسلم جو ذمی کی فقہی اصطلاح میں نہ آتا ہو اس کے حقوق کیا ہیں؟ میثاق مدینہ کی رو سے مدینہ کے یہودی ذمّی قرار نہیں دیئے گئے بلکہ وہ برابر کے شہری تھے 130

Page 137

اور میثاق میں ان کے حقوق ویسے ہی تھے جیسے مسلمانوں کے تھے.رہا یہ کہنا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانے میں اہل جزیرہ (عیسائیوں) سے جو معاہدہ کیا تھا وہ بڑا سخت تھا اس لئے کہ وہاں کے عیسائیوں نے مسلمانوں کے خلاف سازشیں کی تھیں تو یہ بات ایک تو اس لئے بھی صحیح نہیں کہ فلسطین کے عیسائیوں نے بھی کچھ کم دشمنی نہیں کی تھی جہاں تک ہم نے تحقیق کی ہے یہ معاہدہ سرا سر الحاقی نظر آتا ہے کیونکہ یہ دور نبوی اور حضرت ابو بکر کی خلافت میں طے پانے والے معاہدات کے مزاج سے ہٹا ہوا ہے.اس بارہ میں ہم اپنی تحقیق کا شخص یہاں پیش کرتے ہیں.شروط عمریه شروط عمریۃ کے بارے میں ہم تینوں روایات پر غور کرتے ہیں تو یہ امر ہم خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں کہ ان روایات میں باہم بہت اختلاف پایا جاتا ہے.پہلی روایت بطور نص یہ واضح کرتی ہے کہ خود اہل جزیرہ ( دجلہ و فرات کے درمیانی علاقے میں رہنے والوں ) نے عبدالرحمن بن غنم کو یہ شرائط لکھ کر دی تھیں، پھر عبدالرحمن نے یہی لکھی ہوئی شرائط نقل کر کے حضرت عمرؓ کو بھجوائیں.(احکام اهل الـ اهل الذمة جلد دوم صفحه 658 از ابن قیم) جب کہ دوسری روایت بطور نص یہ امر واضح کرتی ہے کہ عبد الرحمن بن غنم نے جب نصاری شام سے مصالحت کی تو انہوں نے براہِ راست خود یہ شرائط حضرت عمر کو لکھ کر بھیجوائیں.(احکام اهل الذمة جلد دوم صفحه 661) تیسری روایت میں یہ امر واضح طور پر نظر آتا ہے کہ عبدالرحمن نے وہی نصاری کی لکھی ہوئی شرائط انہیں کی طرف سے حضرت عمرؓ کے نام ایک خط کی صورت میں بھجوائیں.(احكام اهل الذمة جلد ، دوم صفحه 662) یہ امر انتہائی تعجب انگیز ہے کہ مغلوب لوگ غالب کو اپنی شرائط خودDidate کروا رہے ہیں گو یا غالب کو اس بات کی ضرورت تھی کہ وہ مغلوب لوگ اس سے صلح و امن کا سلوک کریں.131

Page 138

ان تینوں روایات کو ابن قیم نے بغیر ان کی سند کی صحت کی تحقیق کے پیش کیا ہے اور کہا ہے.شُهْرَةَ هَذِهِ الشُّرُوْطِ تُغْنِى عَنْ أَسْنَادِ هَا.یعنی ان شرائط کی شہرت انہیں صحیح سند سے بے نیاز کر دیتی ہے.یہ الفاظ علاوہ اس کے کہ اسناد کے بارے میں گہری چھان بین سے انحراف کے مظہر ہیں، سلفی مدرسہ خیال کے اس طریق سے انتہائی بعید ہیں جو روایات کے متن او رسند کے متعلق گہری تحقیق کا قائل ہے اور جو مندرجہ ذیل اصل پر پختہ یقین رکھتا ہے.مَا كُلُّ مَاصَحْ سَنَداصَحٌ مَتْنا وَلَا كُلُّ مَاصَعٌ مَتْنَا صَحْ سَنَدًا یعنی : ہر وہ روایت جو سند کے لحاظ سے صحیح ہو ضروری نہیں کہ وہ متن کے لحاظ سے بھی صحیح ہو اور نہ ہی ہر وہ روایت جو متن کے لحاظ سے صحیح ہوسند کے لحاظ سے بھی صحیح ہوتی ہے.علاوہ ازیں ان روایات میں نہ صرف اُس شخصیت کے بارے میں اختلاف ہے جس نے یہ شرائط طے کیں کہ وہ غالب ہے یا مغلوب؟ بلکہ خود تحریر شدہ متن میں بھی اختلاف ہے.مثلاً پہلی روایت ان دو اضافی شرطوں پر مشتمل ہے جنہیں حضرت عمر نے خود بعد میں شامل کیا تھا ان میں سے ایک شرط یہ تھی کہ مسلمانوں کے ذریعے قیدی بنائی گئی عورتوں کو ڈمی نہیں خرید سکتے اور دوسری یہ کہ اگر وہ کسی مسلمان کو ماریں تو ان سے معاہدہ ختم کر دیا جائے.(احکام اھل الذمة جلد دوم صفحه 662,661) اسی طرح ان روایات کے متن میں بھی بعض ایسی عبارتیں ہیں جو اشکال پیدا کرتی ہیں جیسے عبدالرحمن بن غنم نے شرائط نصاری پر مشتمل جو خط حضرت عمرؓ کو ارسال کیا تو اس میں اس شہر کا قطعاذ کر نہیں کیا جس میں معاہدہ طے پایا بلکہ اس نے اس خط میں اس بارہ میں ایک بالکل ہی مبہم سی عبارت لکھ دی جو مندرجہ ذیل ہے:.هذَا كِتَابٌ لِعُمَرَ مِنْ نَصَارَى مَدِينَةِ كَذَاوَ كَذَا (احکام اہل الذمۃ جلد دوم صفحہ 662) 132

Page 139

اگر مذکورہ بالا شہر سے مراد صوبے کا دارالحکومت دمشق ہو تو پھر حضرت خالد بن ولیڈ نے جو معاہدہ اہل شام سے کیا تھا اس کی نصوص اس معاہدہ کی نصوص سے بنیادی طور پر مختلف ہیں.اول الذکر خالد بن ولیڈ کے معاہدے میں اسلام کی اُس معروف رواداری کی جھلک نظر آتی ہے جو ابن قیم کی ان تینوں روایات میں مفقود ہے کیونکہ حضرت خالد نے جیسا کہ ابن عساکر کی روایت میں آیا ہے اہل شام کو ان کے نفوس و اموال اور گرجوں کی امان دی تھی اور یہ کہ ان کے شہر کی فصیل نہ گرائی جائے اور نہ ہی ان کے گھروں میں سے کسی گھر میں رہائش رکھی جائے.ان کے حق میں ان شرائط پر مشتمل اللہ کا عہد ہے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان کی حفاظت کی ذمہ داری ہے اور ان کے حق میں خلفاء اور مومنین کی بھی یہی ذمہ داری ہے.اور اگر وہ جزیہ ادا کرتے رہیں تو ان کے ساتھ بہترین حسن سلوک ہی کیا جائے گا اور اگر عہد میں مذکورہ شہر سے مراد دمشق کے سوا شام کا کوئی اور شہر ہے تو عجیب اور نہایت حیران کن بات ہے کہ خود حضرت عمر نے اہل حمص اور مشتمل اہل قدس سے صرف ایسے معاہدات کئے جو انتہائی رواداری اور سادگی اور سہولت پرمش تھے اور سختی اور پیچیدگی سے پاک تھے.چنانچہ اہل حمص کو ان کے نفوس و اموال ، شہر کی فصیل اور گرجوں کی امان دی گئی کہ وہ نہ گرائے جائیں اور اہل بیت المقدس کو ان کے نفوس، اموال، گرجوں صلیبوں، ان کے بیماروں اور صحتمندوں بلکہ تمام افراد کو امان دی گئی ، یہ کہ ان کے گرجے نہ گرائے جائیں اور نہ ان میں رہائش رکھی جائے.....الخ.پس اُس مذکورہ بالا شہر کی تعین نہ کرنا جس میں عہد طے پایا تھا اس روایت کو مشکوک بنا دیتا ہے اور اس کے راویوں کو مشتبہ بنا دیتا ہے بلکہ انہیں عمد أجعلسازی اور ابہام پیدا کرنے کی وجہ سے قابلِ مذمت ٹھہراتا ہے.پس شروط عمریہ پر مشتمل مذکورہ تینوں روایات اپنی سند منتن اور معاہدہ طے کرنے والی 133

Page 140

شخصیت اور معاہدے کے محل وقوع میں اختلاف و اضطراب کی وجہ سے ناقابل اعتماد ہیں.(مقدمة احكام اهل الذمة صفحه 44,42 از ڈاکٹر صبحی صالح، دمشق یونیورسٹی) نیز ان شروط عمری کا کوئی نشان کتاب اللہ اور حدیث نبوی میں نہیں ملتا.(ذكر الشروط العمرية واحكامها و موجبتها مقدمة احكام اهل اللّمة صفحه 661،657 از ڈاکٹر محمد حمید الله) نوٹ:.معاہدہ عبدالرحمن بن غنم کی اندرونی شہادات بھی اُسے مشتبہ کرتی ہیں.اول.تو یہ کہ یہ معاہدہ حمص کے خلاف ہے.دوم.شہر دمشق میں مسلمانوں کی آبادی کے بارہ میں.سوم.مسلمان بچوں کو قرآن نہ پڑھانے کی شرط مجید خدوری اپنی کتاب "War and peace in the law of Islam" وو میں اس معاہدہ کا حضرت عمرؓ کے زمانہ کے بعد کا بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :.یہ ثابت کرنا غیر ضروری ہے کہ اس میثاق کا متن حضرت عمرؓ کے زمانہ کا نہیں بلکہ بعد کے زمانہ کا ہے اس لئے کہ اس کی بیشتر پابندیاں ان ہدایات سے متفاوت ہیں جو حضرت عمرؓ نے اپنے سپہ سالاروں کو دی تھیں نیز متعد د دفعات رواداری اور ظلم وتعدی کے زمانہ کی پیداوار ہیں.اسلام اور قانون جنگ و صلح مترجم مولانا غلام رسول مہر صفحہ 272 مکتبہ معین الادب لاہور ) مولانا غلام رسول مہر اس معاہدہ کو حضرت عمرؓ کے زمانے کے بعد کا قرار دیتے ہیں چنانچہ آپ لکھتے ہیں :.اس مکتوب میں ایسی داخلی شہادتیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بہت بعد میں مرتب ہوا.اس لئے کہ اس میں دمشق کے اندر مسلمانوں کی خاصی وسیع آبادی کا ذکر ہے.وہ آبادی فتح دمشق کے ساتھ ہی موجود نہ ہو سکی تھی نیز بعض ایسی پابندیاں ہیں جنہیں کوئی مسلمان گوارا ہی نہ کر سکتا تھا.مثلاً یہ کہ عیسائی اپنے بچوں کو قرآن نہ پڑھائیں حالانکہ 134

Page 141

قرآن کی عام تعلیم ہر سچے مسلمان کا نصب العین تھی.(اسلام اور قانون جنگ و صلح صفحہ 272 حاشیہ ) پس تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ معاہدۂ شام الحاقی ہے اسی لئے وہ بڑا ظالمانہ ہے جب کہ دوسرے معاہدات بڑے فراخ دلانہ ہیں.ان میں غیر مسلموں کی لغت اور ثقافت کو بھی گزند نہ پہنچانے کا حکم ہے.دائرۃ المعارف جلد 10 صفحہ 27,26.مطبوعہ 1973 ، الاشباہ والنظائر صفحہ 509.منشی نول کشور لکھنو، ” الہارون" صفحہ 239,238.تاریخ طبری حصہ دوم صفحہ 501 - فتوح البلدان صفحہ 636.کتاب الخراج امام ابو یوسف صفحہ 26 حصہ اوّل ، دوم صفحہ 636.احکام اھل الذمة صفحہ 89 مطبوعہ 1415ھ.اسلام کا نظام امن صفحہ 156,155 جون 1981 ء از محمد ظفیر الدین مفتاحی ندوی اور الفاروق‘ از شیلی صفحہ 148 155,154,149 جولائی 1963ء کے حوالوں سے ہم زمیوں کے حقوق پر تفصیل سے روشنی ڈال چکے ہیں کہ غیر مذاہب کے جن لوگوں سے صلح کی گئی یا مفتوحہ علاقے کے لوگوں کو امان دی گئی ان کو مذہبی آزادی تھی جو مذہب وہ چاہتے اختیار کرتے.مذہبی رسومات آزادی سے ادا کرتے ، اپنی عبادت گاہیں تعمیر کرتے ، ان کو آبا در کھتے تھے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں کو یہاں تک فرمایا تھا کہ مذہب کے بارہ میں تمہیں کسی تکلیف یا آزمائش میں نہیں ڈالا جائے گا، موجودہ آرڈینینس میں اس کی صریح خلاف ورزی کی گئی ہے.اذان نہ دینے اور مسجد کو مسجد کہنے سے روک کر ہمیں تکلیف پہنچائی ہے.مصلحتِ عامہ کی آڑ میں بھی اس قسم کے اقدام قطعاً قرآن وسنت کے خلاف ہیں کیونکہ درجنوں معاہدے اپنے اصل الفاظ میں موجود ہیں کہ کسی مذہب سے تعرض نہ کیا جائے.حضرت امام ابو حنیفہ نے فرمایا ہے کہ غیر مذاہب والوں کو ان کے مذہبی احکام پر چھوڑ دو اور ان کے مذہبی امور میں مداخلت نہ کرو.بنو عباس کے دور میں اہل الذمہ میں سے کئی لوگوں کو اہم عہدوں پر فائز کیا گیا حتی کہ اجازت دی گئی کہ وہ وزارت کا عہدہ 135

Page 142

بھی سنبھال سکتا ہے.مولانا مودودی صاحب نے بھی تسلیم کیا ہے کہ فوجداری قانون میں ذمی اور مسلمان برابر ہیں.تحفظ عزت کا پاس کرنا ویسے ہی ضروری ہے جیسے مسلمان کا کیا جاتا ہے اور شخصی معاملات میں اسلامی قانون ان پر نافذ نہیں کیا جائے گا.مودودی صاحب نے یہاں تک لکھا ہے کہ اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کو تقریر و تحریر اور ضمیر کے اظہار کی وہی آزادی ہے جو مسلمانوں کو حاصل ہے اور وہی قانونی پابند یا ں جو مسلمانوں پر عائد ہوتی ہیں.قانونی حدود کے اندر غیر مسلموں کو بحث ومباحثہ کرنے کی بھی اجازت ہے، وہ اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنے میں آزاد ہیں.مختصراً یہ کہ ان کو اپنے عقیدہ اور ضمیر کے خلاف کوئی عقیدہ اختیار کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا.(اسلامی ریاست میں ذمیوں کے حقوق صفحه 33، 34 لاهور 1970ء طبع سوم از مولانا مودودی) اسلام نے معاہدین پر کوئی ایسی شرط عائد نہیں کی جو ان کو دوسرے درجہ کا شہری بنادے یا ان کو پست درجہ دے بلکہ محققین اسلام نے تسلیم کیا ہے کہ موجودہ زمانہ میں مغربی اقوام نے اقلیتوں کو جو حقوق دیئے ہیں اسلام نے اس سے بڑھ کر حقوق دے رکھے ہیں.زمتوں کے لئے صرف آزادی مذہب اور حریت فکر کی ضمانت ہی نہیں دی بلکہ ان کی لغت اور ثقافت حتی کہ زندگی کے تمام مسائل میں ان کو آزادی دی گئی.نہ ان کے مذہب میں مداخلت کی گئی ہے نہ ان پر ان کی مرضی کے خلاف کوئی شرط عائد کی گئی.علماء نے تو لکھا ہے کہ کارِ خیر یا حصول ثواب کے لئے ایک کا فریا مشرک کو مسجد کی تعمیر کی اجازت دینا شرعاً جائز ہے.(اسلام کا نظام مساجد صفحه 147 دار الاشاعت کراچی) تو پھر ہمارے لئے کیوں جائز نہیں جب کہ ہم اس کو نہ صرف کار خیر بلکہ مذہب کا حصہ سمجھتے ہیں.136

Page 143

اس عدالت کے فیصلہ بمقدمہ شریعت پٹیشن 3/1983-K تمثیل جاوید بنام فیڈریشن آف پاکستان کے پیرا گراف 98 میں بھی یہ حق تسلیم کیا گیا ہے کہ مذہبی جذبات کا احترام ہونا چاہئے.ان تمام حقوق کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو اس کی بنیاد دراصل ہمیں اس قرآنی آیت میں نظر آتی ہے اور اگر عدالت اس فیصلہ پر پہنچے کہ وہ حقوق کے سلسلہ میں فقہائے سلف کی مقلد اور پابند ہونے کی بجائے خود اپنے اجتہاد سے کام لے گی تو اس اجتہاد کے لئے یہ آیت بنیاد بن سکتی ہے:.لا يَنْهكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِين (الممتحنه: 8) ترجمہ :.جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا.خدا تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے.اس آیت سے جو اصول مستنبط ہوتا ہے یہ ہے کہ حربی کافر اور غیر حربی کافر میں فرق ہے.اگر چہ انصاف دونوں سے ہونا چاہئے مگر جو غیر حربی ہے وہ سلوک اور رافت کا زیادہ مستحق ہے.اسی اصول کے اوپر ان غیر مسلموں کی حیثیت کچھ اور بھی اوپر ٹھہرے گی جو نہ صرف یہ کہ حربی نہیں بلکہ حالات ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ برابر کے شہری ہیں اور اب تک برابر کے شہری رہے ہیں.اس بارہ میں عدالتی مشیر محمود غازی صاحب نے بھی مشرکین اہلِ حرب اور مشرکین اہل عہد کا فرق نمایاں کیا ہے.خلاصہ بحث یہ ہے کہ مسلمان ملک میں رہنے والے غیر مسلم شہریوں کے جو حقوق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کی سنت سے ثابت ہیں ان کی ایک مختصر 137

Page 144

فہرست پیش کی جاتی ہے:.1.جان، دین، اموال اور جملہ املاک محفوظ ہوں گے.2.کسی کو تبدیلی مذہب پر مجبور نہیں کیا جائے گا.3.عام ذمیوں کے درجہ میں نہیں سمجھا جائے گا.امان نامه اهل مقناو حنين و خيبر) 4.ان کے مذہب اور قرابت داروں کی تذلیل و تحقیر نہ ہوگی.5.مذہب کے بارہ میں ان کو فتنہ میں مبتلا نہیں کیا جائے گا.6.ان کی ماتحتی کی وجہ سے ان پر کسی قسم کی کہتری عائد نہ ہوگی.(نصاری نجران سے معاہدہ) 7.گرجے، عبادت خانے ، خانقاہیں اور مسافر خانے کہیں بھی ہوں ان کی حفاظت کی جائے گی..ان کے عقائد ورسوم اور مذہب کا تحفظ کیا جائے گا.پادری ، راہب جن مناصب پر ہیں انہیں معزول نہ کیا جائے گا.10.عبادت گاہوں میں مداخلت نہیں کی جائے گی.11.نہ انہیں تبدیل کیا جائے گا.12.ان سے مذہبی گفتگو اور بحث و مباحثہ کی آزادی ہوگی.13.عدل وانصاف اور سماجی معاملات میں ان کے حقوق مسلمانوں کے برابر ہوں گے.14.عبادت گاہوں ، خانقاہوں یا قومی عمارتوں کی مرمت وغیرہ بلا روک ٹوک ہوگی.(نصاری نجران سے دوسرا معاهده) 15- طریق عبادت، جملہ منقولہ جائیداد، گھر میں موجود و غیر موجود دونوں کے لئے حمایت.16.کسی کو ان کے مسلک سے برگشتہ نہ کیا جائے گا.(معاهده اهل نجران منجانب حضرت ابوبکر 138

Page 145

17.ان کے دینی اعمال سے مواخذہ نہ ہوگا.18.ان سے بلاوجہ پرسش ہوگی نہ ضرر رسانی ہوگی.19.اپنے مذہب کے ہر ایک شعار کی پابندی کا اختیار ہے.(امان نامه برائے باشندگان بیت المقدس از امیر المومنین حضرت عمر) 20.غیر مسلموں کو ان کی اہلیت اور استعداد کے مطابق اعلیٰ عہدے یہاں تک کہ وزارت تک کے عہدے بنو عباس کے دور میں دیئے گئے.21.فوجداری قانون میں ذمی اور مسلمان برابر ہیں.2.شخصی معاملات میں ان کے مذہب کے مطابق قانون ان پر نافذ کیا جائے گا.(دستوری سفارشات از مودودی صفحه 4 شق 4) 23.غیر مسلموں کو اسلامی ریاست میں تقریر وتحریر اور ضمیر کے اظہار کی وہی آزادی ہے جو مسلمانوں کو حاصل ہے.اسلامی ریاست میں ذمیوں کے حقوق صفحه 33 از مودودی طبع سوم 1970ء) 139

Page 146

لَا تُحِلُّوْا شَعَائِرَ اللَّهِ - نسخ کی تحقیق ہر چند کہ ہم اپنے آپ کو کفار کے زمرہ میں شامل نہیں کرتے اور قرآن وسنت ہمیں کافر نہیں ٹھہراتے مگر موجودہ مقدمہ میں ساری بحث آئینی ترمیم کی وجہ سے، اس بنیاد پر ہوتی رہی ہے کہ جو حقوق قرآن وسنت میں غیر مسلموں کے ثابت ہوتے ہیں کم از کم ان سے انکار نہیں ہو سکتا اور اس بنیاد پر یہ دلیل قائم کی گئی تھی کہ جہاں مسلم اور غیر مسلم کے شعائر مشترک ہوں وہاں غیر مسلم کو اس کے شعائر سے نہیں روکا جاسکتا.ہم نے اس ضمن میں متعدد حوالہ جات پیش کئے تھے جو بڑے واضح اور محکم اور مدلل ہیں.ہم نے اس بارہ میں مختلف زمانوں کی مختلف تفاسیر بھی پیش کی تھیں اور ان میں موجودہ زمانہ کی تفاسیر میں سے ضیاء القرآن، معارف القرآن اور تفہیم القرآن کے حوالے بھی پیش کئے تھے.مولانا مودودی کا قول اس بارہ میں واضح اور مدتل ہے جو پیش کیا جا چکا ہے اور جس کی بنیاد یہ ہے کہ مشرکوں میں بھی جو جو علامات خدا پرستی کی پائی جاتی ہوں ان کا احترام لازم ہے.اسی طرح سے تفسیر ضیاء القرآن کا قول بھی بڑا واضح اور غیر مبہم ہے.اس آیت کے ساتھ سورۃ حم سجدہ کی آیت وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ الخ اور مائدہ کی آیت إِذَا نَادِيتُمْ إِلَى الصلوۃ پر اپنے دلائل کی بنیاد رکھی تھی.فاضل وکیل سر کار ہمارے استدلال کو کسی پہلو سے مجروح نہیں کر سکے اور ہمارا استدلال اتنا محکم اور مضبوط ہے کہ ان کو واحد راہ فرار یہ نظر آتی ہے کہ وہ سورۃ مائدہ کی آیت : 2 کومنسوخ قرار دے دیں.یا اس کی شانِ نزول کے بارہ میں روایت کو کسی طریقے سے مجروح کریں.140

Page 147

شان نزول کی روایت کا مجہول السند ہونا اور اس آیت کا منسوخ قرار دیا جانا یہ دونوں خواہ کتنے ہی کمز ور اعتراض ہوں مگر بہر حال علمی اعتراض ہیں اور ان کا جواب دیا جاناضروری ہے.جہاں تک شانِ نزول کی روایت کے مجہول السند ہونے کا سوال ہے یہ اعتراض واضح طور پر غلط اور بے بنیاد ہے اور ہم اس بات پر مجبور ہیں کہ یا ہم اسے قلتِ تدبر ، قلت مطالعہ اور کوتاہی فہم پر محمول کریں یا اسے صریح مغالطہ آرائی سمجھیں.کیونکہ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ مجہول السند ہونے کا اعتراض اہلِ علم کے نزدیک قابل پذیرائی نہیں ہوسکتا.جہاں تک ہم نے مطالعہ کیا ہے جو سلسلہ روایت اس شان نزول کے بارہ میں بیان کیا گیا ہے وہ اصح الاسانید شمار ہوتا ہے.فاضل وکیل سرکار نے در منثور سے اس کی شان نزول کی روایت عدالت کے سامنے پیش کر کے اسے مجہول السند قرار دیا تھا حالانکہ اس کتاب کے پہلے صفحہ کی پہلی سطر میں ہی علامہ جلال الدین سیوطی نے اس کتاب کی جملہ اسناد کو اسناد عالی قرار دیا ہے نیز یہ وضاحت فرمائی ہے کہ اگر چہ طوالت کے خوف سے انہوں نے تمام سلسلہ روایات در منثور کے متن میں درج نہیں فرمایا مگر جملہ روایات کی تحقیق کے بعد صرف بلند پایہ روایات ہی شامل کی ہیں.چنانچہ علامہ لکھتے ہیں :."فلما الفت كتاب ترجمان القرآن وهو التفسير المسند عن رسول الله صلى الله عليه وسلم واصحابه رضی الله عنهم وتم بحمد الله في مجلدات فكان ما اوردته فيه من الآثار باسانيد الكتب المخرج منها واردات رايت قصور اکثر الهمم عن تحصيله ورغبتهم في الاقتصار على متون الاحاديث دون الاسناد وتطويله فلخصت منه هذا المختصر مقتصراً فيه على متن الاثر مصدرابالعزوواالتخريج الى كل كتاب معتبر وسميته بالدر المنثور في التفسير بالماثور“ (الدر المنثور فى تفسير الماثور المجلد الأوّل صفحه 14 بیروت از امام سیوطی) 141

Page 148

علامہ سیوطی نے سورۃ مائدہ کی آیت لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللہ کی شان نزول کے بارہ میں یہ تحریر کیا ہے کہ ابن جریر طبری نے یہ واقعہ ابن عباس کی روایت سے درج کیا ہے.حضرت ابن عباس بالاتفاق بہترین مستند اور ثقہ روای تسلیم کئے گئے ہیں اور ان کا اپنا پایہ علم اور تفقہ فی الدین اس قدر بلند تھا کہ سیدنا حضرت عمر بن الخطاب تفسیر کے سلسلہ میں ان کی رائے کو متعبر خیال فرماتے تھے.فاضل وکیل سرکار نے اس بنا پر اس روایت کو مجہول السند قرار دیدیا کہ درمنثور کے متن میں سلسلہ روایت درج نہیں ہے.حالانکہ اگر وہ ذراسی تکلیف گوارا کرتے تو سلسلہ اسناد تک بآسانی پہنچ سکتے تھے ابن جریر کا حوالہ خود در منشور نے دیا ہے اور اگر صرف ابن جریر کوکھول کر دیکھ لیتے تو اس میں سلسلۂ روایت یوں درج ہے."حدثنا معاوية عن علي بن أبي طلحة عن ابن عباس 66 (جامع البيان في تفسير القرآن للامام ابی جعفر محمد بن جرير الطبرى الجزء السادس صفحه 31) یہ سلسلہ روایت بلا شبہ اصح الاسانید مانا گیا ہے اس بارہ میں بھی اگر فاضل وکیل سر کا رکو کوئی سند درکار ہو تو خود صاحب در منشور علامہ سیوطی کی کتاب الاتقان میں اس سلسلہ اسناد کے بارہ میں یہ رائے درج ہے کہ یہ بہترین سند ہے اور امام بخاری نے اسی پر اعتماد کیا ہے.لکھتے ہیں :.تفسیر قرآن کے بارہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس قدر کثیر روایتیں آئی ہیں جن کا شمار نہیں ہو سکتا اور ان سے تفسیر کے متعلق کئی کئی روایتیں آئی ہیں اور ان کے اقوال کو مختلف طریقوں سے نقل کیا گیا ہے.چنانچہ تمام ایسے طریقوں میں سے ان سے علی بن ابی طلحہ الہاشمی کا طریق روایت نہایت اعلیٰ درجہ کا ہے.(الاتقان في علوم القرآن أردو جلد 2 صفحه 463) 142

Page 149

پھر ہم حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی کتاب الفوز الکبیر کی طرف توجہ دلاتے ہیں جس میں حضرت شاہ صاحب نے فرمایا ہے:.غرائب قرآن کی شروح میں بہترین شرح مترجم القرآن حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ہے جو ابن ابی طلحہ کے طریق روایت سے صحت کے ساتھ ہم کو پہنچی ہے اور غالباً امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے بھی صحیح بخاری میں اس طریق پر اعتماد فرمایا ہے“.الفوز الكبير في اصول التفسير فصل اوّل باب دوم صفحه 31 سن اشاعت 1979ء از شاه ولی الله محدث دهلوی مترجم مولوی رشید احمد انصاری) یہ توتھی روایت کے مستند ہونے کی بات.دوسرا اعتراض فاضل وکیل سرکار نے ہمارے اس آیت سے استدلال پر یہ کیا ہے ہ یہ آیت منسوخ ہے جناب وکیل سرکار نے مجھ پر یہ ناجائز طعن بھی کیا ہے کہ ہم نے ساری تفاسیر پیش نہیں کیں اور یہ کہ اپنی مخالف آراء کو پیش نہیں کیا حالانکہ عدالت کا ریکارڈ شاہد ہے کہ ہم نے قریباً تمام کی تمام مستند تفاسیر پیش کی ہیں جو متقدمین و متاخرین اور مختلف مکاتیب فکر کا احاطہ کئے ہوئے ہیں.ہم فاضل وکیل سرکار سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ آخر وہ در منثور کو پایہ کے اعتبار سے غیر معتبر سمجھتے ہیں یا روح المعانی کو یا روح البیان کو یا رازی کو یا مدارک التنزیل کو.ضمنا یہاں یہ بات بھی دلچسپی کا باعث ہو گی کہ شاید ہمارے فاضل دوست مدارک التنزیل سے پوری طرح سے متعارف نہیں اور تفسیر نسفی کو مدارک التنزیل سے الگ کوئی چیز سمجھتے ہیں.حالانکہ علامہ نسفی ہی مدارک التنزیل کے مولف ہیں.پھر جناب فاضل وکیل سرکار سے ہم یہ بھی پوچھنا چاہتے ہیں کہ وہ جناب مفتی محمد شفیع صاحب کی تفسیر کو پایہ سے گرا ہوا سمجھتے ہیں یا پیر کرم شاہ صاحب کی ضیاء القرآن کو یا مولانا مودودی صاحب کی تفہیم القرآن کے بارہ میں انہیں کوئی شک ہے.اگر نہیں تو پھر فاضل وکیل سرکار کا یہ کہنا کہ ہم نے ساری تفاسیر پیش نہیں کیں محض اپنے موقف اور استدلال کی 143

Page 150

کمزوری پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے.بہر حال سورۃ مائدہ کی آیت لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ الله کے بارے میں مولانا عبد القدوس قاسمی صاحب کے ایک سوال پر ہم نے اگلے ہی روز بعد تحقیق اس آیت کے نسخ کے بارہ میں جملہ آراء جو در منثور میں درج ہیں عدالت میں پڑھ کر سنا دی تھیں اور یہ بات واضح کر دی تھی کہ تین مختلف آیات سے اس آیت کے نسخ پر استدلال کیا گیا ہے اور اس سے ہمارے استدلال پر کوئی زدنہیں پڑتی تھی بلکہ دستور قائم رہا کہ بہر صورت اس آیت سے مستنبط اصول اور بنیادی ہدایات قائم اور جاری ہیں بالخصوص اس لئے کہ جنہوں نے اس آیت میں کوئی نسخ مانا ہے آیت کے کسی حصہ کو ہی منسوخ تصور کیا ہے پوری آیت کو نہیں.اب جب کہ فاضل وکیل سرکار نے اس آیت کے نسخ میں پناہ تلاش کی ہے ہم ان کا یہاں بھی تعاقب ضروری سمجھتے ہیں.چنانچہ ناسخ و منسوخ کے مضمون میں یہ بات قابل توجہ ہے کہ ایک وقت میں قرآن شریف کی قریباً پانصد آیات منسوخ تصور کی گئیں اور بعد میں آنے والے جوں جوں ان آیات کا باہمی ، ظاہری تضاد دور کرنے میں کامیاب ہوئے منسوخ آیات کی تعداد کم ہوتی چلی گئی.علامہ جلال الدین سیوطی کے زمانہ میں یہ تعداد گھٹتے گھٹتے ہیں پر آ گئی اور حضرت شاہ ولی اللہ نے ان میں آیات میں سے بھی پندرہ حل کر لیں اور شاہ ولی اللہ کے نزدیک صرف پانچ آیات منسوخ تھیں.ہمارے نزدیک وہ پانچ بھی منسوخ نہیں ہیں کیونکہ ان میں بھی کوئی حقیقی تعارض یا تضاد نہیں ہے بہر حال حضرت شاہ ولی اللہ نے منجملہ دیگر آیات کے سورۃ مائدہ کی اس آیت کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے بلکہ محکم ہے.چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں:.میں کہتا ہوں اس آیت کا ناسخ نہ قرآن مجید میں ہے اور نہ حدیث صحیح میں البتہ اس کے یہ معنی ہیں کہ جو قتال حرام ہے وہ شہور محرمہ میں اور زیادہ سنگین ہو جاتا ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ میں فرمایا کہ تمہاری جان و مال تم لوگوں کے اوپر اس طرح 144

Page 151

حرام ہیں جیسے تمہارا یہ دن تمہارے اس مہینہ تمہارے اس شہر میں حرمت رکھتا ہے“.(الفوز الكبير صفحه 36,35 اداره علوم اسلاميه لاهور اپریل 1979ء) شاہ ولی اللہ سے پہلے امام ابن القیم الجوزی اپنی کتاب ”اعلام الموقعین میں یہ فرما چکے ہیں کہ سورۃ مائدہ کی کوئی آیت منسوخ نہیں ہے.لکھتے ہیں :.فَإِنَّ الْمَائِدَةَ مِنْ آخِرِ الْقُرْآن نُزُوْلاً وَلَيْسَ فِيْهَا مَنْسُوخ (اعلام الموقعين جلد اوّل عربی صفحه 106) محض حافظ ابن قیم پر ہی مدار نہیں.تفسیر قرطبی میں بھی اس بارہ میں مفصل بحث موجود ہے اور اس کے مطابق علماء کا ایک گروہ جن میں ابو میسرہ بھی شامل ہیں اس آیت کو محکم قرار دیتا ہے اور اس میں سے کچھ بھی منسوخ نہیں مانتا.مجاہد کے نزدیک آیت کا حصہ ”القلائد“ اور شیعی کے نزدیک آیت کا حصہ "ولا الشهر الحرام ولا الهدى منسوخ ہیں ان میں سے کسی نے بھی لَا تُحِلُوا شَعَائِرَ الله والے حصہ کو منسوخ قرار نہیں دیا جو ہمارے استدلال کی بنیاد ہے اور نہ ہی تعاونوا علی البر والتقوى“ والے حصہ کو منسوخ قراردیا ہے جس سے ہمارے استدلال کو تقویت پہنچتی ہے.اب آئیے ہم ان حصوں کا بھی جائزہ لے لیتے ہیں جن کو بعض بزرگوں نے منسوخ قرار دیا ہے.تفسیر قرطبی میں سورۃ مائدہ کے تعارفی حصے میں علامہ قرطبی نے جبیر بن نفیر کی روایت نقل کی ہے کہ میں حضرت عائشہ کے پاس حاضر ہوا آپ نے پوچھا کیا تم سورۃ مائدہ کی تلاوت کرتے ہو.میں نے کہا ہاں آپ نے فرمایا یہ آخری سورۃ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اتاری.پس اس میں تم جو حلال پاؤ اسے حلال سمجھو اور جو حرام پاؤ اسے حرام قراردو.(تفسير سورة المائده القرطبي الجزء السادس صفحه 31 بيروت) علامہ ابو جعفر النحاس اپنی کتاب ” الناسخ والمنسوخ میں جو 724ھ میں تصنیف کی گئی اس آیت کے بارہ میں لکھتے ہیں کہ :.145

Page 152

" ابو میسرہ کا یہ مذہب ہے کہ یہ آیت محکم ہے اور عطا کے نزدیک کیونکہ لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللہ سے منشاء یہ ہے کہ ایسے امور سے تعرض نہ کرو جو خدا کی ناراضگی کا باعث ہوں اس لئے لَا تُحِلُّوْا شَعَائِرَ الله منسوخ نہیں ہوسکتی.(الناسخ والمنسوخ صفحہ 116) علامہ قرطبی نے یہ روایت بھی درج فرمائی ہے کہ:.آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقعہ پر سورۃ المائدہ کی تلاوت فرمائی اور فرمایا اے لوگو! سورۃ مائدہ آخر میں نازل ہوئی ہے.پس اس کے حلال کو حلال سمجھو اور اس کے حرام کو حرام قرار وو - (فَاحِلُوْا حَلَالَهَا وَحَرِّمُوْا حَرَامَهَا) (تفسير القرطبى الجزاء السادس صفحه 31ـ بيروت) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بیدارشاد مبارک دیگر تفاسیر میں بھی منقول ہے.چنانچہ مفتی محمد شفیع صاحب نے تفسیر معارف القرآن میں روح المعانی کے حوالے سے حضور کا یہی ارشاد درج کیا ہے.(معارف القرآن جلد سوم صفحہ 10 ادارۃ المعارف کراچی 1971 ءاز مولا نا مفتی محمد شفیع) ہم عدالت کو اپنے مقدور کی حد تک کسی اُلجھن میں نہیں چھوڑنا چاہتے.رہا یہ سوال کہ اگر یہ آیت منسوخ نہیں ہے تو سورہ برأت کی آیات اور اس آیت میں ظاہری تعارض کا حل کیا ہے.سو اس بارہ میں عرض یہ ہے کہ اول تو کوئی تعارض ہے نہیں جیسا کہ ایک حصے کے بارہ میں شاہ ولی اللہ نے فرمایا کہ:.جو قتال حرام ہے وہ شہور محرمہ میں اور زیادہ سنگین ہو جاتا ہے“.گو یا صورت تعارض کی نہیں تخصیص اور تاکید کی ہے.الفوز الكبير صفحه 36) جن اصحاب نے آیت کے حصہ مینَ البَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا“ کو منسوخ مانا ہے.اس کی تشریح میں صاحب روح المعافی یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ اس میں بھی کوئی حقیقی تعارض یا تضاد نہیں کیونکہ فضلا سے مراد تجارتی منافع ہیں اور 146

Page 153

رِضْوَانًا کے لفظ سے بھی کوئی تعارض لازم نہیں آتا کیونکہ بقول صاحب روح المعانی مَافِی زَعْمِهِم“ یعنی وہ اپنے خیال میں رضوان الہی کے طالب ہوتے ہیں.(روح المعاني الجزء السادس صفحه 54 مكتبه امدادیه ملتان) جہاں تک سورۃ توبہ کی آیات کی رو سے مشرکین کے حرم کعبہ میں داخل ہونے کی ممانعت کا تعلق ہے.سورۃ برأت کی آیات کا جائزہ لیا جائے تو ان کا مفہوم ومراد حربی مشرکین ہی معلوم ہوتے ہیں اور ہمارے اس خیال کی تائید علامہ سیوطی کی ان روایات سے ہوتی ہے جو انہوں نے در منثور میں درج فرمائی ہیں کہ مسلمان کا کافر غلام اور ذقی حرم کعبہ میں داخل ہونے کی ممانعت سے مستثنیٰ ہیں.علامہ سیوطی نے اس بارہ میں حضرت جابر بن عبد اللہ اور حضرت قتادہ کی تفسیر پر انحصار کیا ہے.(الدرالمنثور في التفسير الماثور المجلد الثالث صفحه408 زیر آیت توبه:48) اور یہ ہم اصول تفسیر کے ضمن میں ظاہر کر چکے ہیں کہ صحابہ کی تفسیر دیگر تفاسیر کی نسبت زیادہ مستند اور معتبر ہے.خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس آیت کے نسخ کے بارہ میں مفصل بحثیں موجود ہیں جن کا ماحصل یہی ہے کہ یہ آیت منسوخ قرار نہیں دی جاسکتی اور سب سے محکم قول خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے آخری بات جو ہم تک پہنچی وہ وہی ہے جو حجتہ الوداع کے موقعہ پر حضور نے فرمائی یعنی یہ کہ اَحِلُّوْاحَلالَهَا وَحَرِّمُوْا حَرَامَهَا اب اگر ہمارے دوست قرآن کی آیت اور اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی تفسیر کو بھی جو تا کیدی حکم کے رنگ میں ہے نہیں ماننا چاہتے تو وہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی میں خود مختار ہیں.جو چاہیں کریں.ہمارے نقطہ نظر کی تائید میں واضح نص قرآنی اور نص سنت رسول موجود ہے.اور اگر ارباب اقتدار نصوص قرآنی اور سنت نبوی کو اپنی سیاسی مصلحتوں کی بھینٹ چڑھانا چاہتے ہیں تو ہم نے تو پہلے دن یہ عرض کیا تھا کہ ہم صرف اتمام حجت کے لئے حاضر 147

Page 154

ہوئے ہیں.وما علینا الا البلاغ لیکن اس عدالت سے ہماری اتنی گزارش ضرور ہے کہ کسی آیت کو منسوخ قرار دینے کے بارے میں کوئی نیا اجتہاد کرنا ایک بہت بڑی جسارت ہے جو خطرے سے خالی نہیں.سورۃ برأت کا شان نزول بالاتفاق 9 ہجری ہے جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر کو سورۃ برأت دے کر حج پر بھیجا تھا اور حجتہ الوداع کے موقعہ پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد آخری قول ہے.اول تو ناسخ و منسوخ کا تصور بنیادی طو ر پر بہت سے خطرات سے پر ہے لیکن اگر کسی معنی میں کوئی نسخ کا تصور موجود بھی ہو تو ائمہ سلف منسوخ آیات کی تعداد پانچ سو سے پانچ تک لا چکے ہیں اور اس ساری چھان پھٹک میں زیر بحث آیت منسوخ آیات کے زمرہ سے عرصہ دراز پہلے نکالی جا چکی ہے آج محض حکومت وقت کے ایک آرڈینینس کے جو از تلاش کرنے کی خاطر قرآن کی ایک آیت کو منسوخ قرار نہ دیں.رہا ہمارے حقوق کا مسئلہ تو اس کے لئے فاضل وکیل کوئی اور عذر تراشیں.خدا کے کلام پر طبع آزمائی نہ کریں.148

Page 155

ضمنی مباحث عدالت کی اعانت کے سلسلہ میں تشریف لانے والے مشیران ڈاکٹر قاضی مجیب الرحمن صاحب پروفیسر محمود احمد غازی صاحب اور مولانا صدرالدین رفاعی کی چیدہ چیدہ باتوں کے جواب میں ہم یہ عرض کر چکے ہیں.ان کی اکثر باتیں بے بنیاد اور غلط تھیں.بعض باتیں غلط اور بے بنیاد تو نہیں تھیں لیکن مغالطہ آرائی کی کوشش کی گئی تھی.مثلاً کہا گیا کہ مرزا صاحب نے کہا ہے.صدحسین است در گریبانم به شعر تو مرزا صاحب کا ہے.لیکن اس کا مفہوم وہ نہیں جو پیش کیا گیا.پھر کہا شاتم رسول مرتد ہوتا ہے لیکن اس بارہ میں کوئی حوالہ پیش نہیں کیا گیا.مولانا صدر الدین صاحب نے یہ کہا تھا کہ احمدیوں نے یہ کہہ کر بہت بڑا جھوٹ بولا ہے کہ آزاد کشمیر کا پہلا صدر غلام نبی گل کار تھا.حالانکہ اس نام کا وہاں کوئی چپڑاسی بھی نہیں تھا.چنانچہ ہم نے مشہور پریم ناتھ بزاز کی ایک کتاب "Struggle for Freedom in Kashmir" کے حوالہ سے اس مغالطہ آرائی کا پردہ چاک کیا ہے.ان لوگوں کو تو شاید پستہ نہ ہو جو کشمیر کی جنگ کو جہاد نہیں سمجھتے تھے اور اس کے خلاف فتوے دیئے تھے لیکن ایک دنیا اس جدو جہد کی حقیقت کو بجھتی ہے.مولا نا رفاعی نے یہ بھی کہا تھا کہ بانی جماعت احمدیہ نے گورونانک کو بھی نبی کہا ہے.یہ سرتا پا غلط ہے.ہاں مرزا صاحب ان کو مسلمان ضرور سمجھتے تھے جیسا کہ بعض دیگر مسلمانوں نے بھی ان کو مسلمان کہا ہے.149

Page 156

وو شیعوں کو اشتعال دلانے کیلئے رفاعی صاحب نے ” صد حسین است در گریبانم کو بار بار پیش کیا ہے.حالانکہ اس سے حضرت امام حسین کی مظلومیت کے حوالے سے اپنی مظلومیت کو ظاہر کرنا مقصد ہے.حضرت مرزا صاحب نے خالص دینی پس منظر میں دین اسلام کی بے بسی اور اپنی کیفیات کے ذکر میں یہ مصرعہ ارشاد فرمایا ہے.مگر امام حسین کی مظلومیت اور کر بلا کا واقعہ عالم ادب وفصاحت و بلاغت میں بطور ضرب المثل کے بیان ہوتا ہے.چنانچہ علامہ نوعی کا شعر ہے.کر بلائے عشقم و لب تشنہ سر تا پائے من صدحسین کشته در ہر گوشہ صحرائے من حضرت امام حسین کی تو ہین کا تو کوئی احمدی سوچ بھی نہیں سکتا.حضرت مرزا صاحب امام حسین کے مقام کے بارہ میں فرماتے ہیں:.حسین رضی اللہ عنہ طاہر ومظہر تھا اور بلاشبہ وہ ان برگزیدوں میں سے ہے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کر دیتا ہے اور بلا شبہ وہ سرداران بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے موجب سلب ایمان ہے اور اس امام کی تقویٰ اور محبت الہی اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوۂ حسنہ ہے اور ہم اس معصوم کی ہدایت کے اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی.تباہ ہو گیاوہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت الہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے جیسا کہ ایک صاف آئینہ میں ایک خوبصورت انسان کا نقش.یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں.کون جانتا ہے ان کا قد رمگر وہی جو ان میں سے ہیں.دنیا کی آنکھ ان کو شناخت نہیں کر سکتی.کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور ہیں.150

Page 157

یہی وجہ حسین کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا.دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اس کے زمانہ میں محبت کی تا حسین سے بھی محبت کی جاتی.غرض یہ امر نہایت درجہ کی شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی تحقیر کی جائے.اور جو شخص حسین یا کسی اور بزرگ کی جو ائمہ مطہرین میں سے ہے تحقیر کرتا ہے یا کوئی کلمہ استخفاف کا اس کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے.وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے کیونکہ اللہ جلشانہ ، اس شخص کا دشمن ہو جاتا ہے جو اس کے برگزیدوں اور پیاروں کا دشمن ہے“.(مجموعه اشتهارات جلد سوم صفحه 545,544) پھر یہ کہا گیا تھا کہ 1973 ء کا آئین نص شرعی نہیں ہے تو ہم یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ اس میں جو ترمیم کی گئی ہے وہ نص شرعی کس طرح بن گئی.اس لئے آپ قرآن وسنت کی روشنی میں فیصلہ فرماویں کہ ان اعتقادات کے ساتھ کون مسلمان ہوتا ہے اور کون نہیں.مشیر عدالت قاضی مجیب صاحب نے اپنے بیان میں هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَة بِالْهُدى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلَّه کا ذکر کیا تھا مگر مفسرین نے بصراحت لکھا ہے کہ اس آیت میں جس غلبہ کا ذکر ہے وہ ظہور مہدی کے وقت ہوگا جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی.( تفسیر حسینی مترجم جلد 2 صفحہ 510 زیر آیت هوالذی ارسل رسله.....الصف جامع البیان طبری جز 28 صفحہ 88 تفسیر مظہری جز 5 صفحہ 260-259 کراچی.از قاضی محمد ثناء اللہ عثمانی بحار الانوار جز 51 صفحه 69 بیروت از محمد باقر مجلسی ) کوئی کہ سکتا ہے کہ یہ وہ نہیں.لیکن جب وہ آئے گا تو اس کو وہ سب کچھ کہیں گے جو ہم کہتے ہیں اور اس کی ویسے ہی اطاعت کی جائے گی جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی واجب ہے کیونکہ وہ آپ کا نائب ہو کر آئے گا.امام مهدی اِمَامًا حَكَمًا عَدَلًا ہوں گے.قرآن کریم کے مفہوم کے بارہ میں اختلافات کا فیصلہ وہی کریں گے.آپ خود بھی تسلیم کریں گے کہ جب آپ کے مہدی 151

Page 158

آجائیں گے تو ان کے مقابلے میں آپ کسی مولوی کی بات نہیں مانیں گے.اس لحاظ سے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے کیا عقائد بیان کئے اور کیا وہ اسلام کے خلاف ہیں یا اُس کے عین مطابق ؟ یہ بھی کہا گیا کہ نعوذ باللہ مرزا صاحب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی ہے.افسوس کہ مرزا صاحب جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے منظوم اور منثور کلام پر نظر نہیں ڈالی گئی جو آپ کے عشق اور محبت سے لبریز ہیں.ہم اس جگہ مرزا صاحب کے اپنے الفاظ میں آپ کا اپنا مذہب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں آپ کی تحریرات میں سے چند ایک پیش کرتے ہیں.حضرت مرزا صاحب اپنے عقائد کے بارہ میں فرماتے ہیں :.;" پیغمبریم عشاق فرقان بدین آمدیم و بدین بگذریم ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ لَا إِله إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلَ الله ہمارا اعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں.جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالیٰ اس عالم گزران سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سید نا ومولینا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین و خیر المرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعے سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدائے تعالیٰ کو پہنچ سکتا ہے اور ہم تہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے اور ایک شعہ یا نقطہ اس کی شرائع اور حدود اور احکام اور اوامر سے زیادہ نہیں ہو سکتا اور نہ کم ہو سکتا ہے.اور اب کوئی ایسی وحی یا ایسا الہام منجانب اللہ نہیں ہوسکتا جو احکام قرآنی کی ترمیم یا تنسیخ یا کسی ایک حکم کے تبدیل یا تغیر کر سکتا ہو اور اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ ہمارے.152

Page 159

نزد یک جماعت مومنین سے خارج اور ملحد اور کافر ہے اور ہمارا اس بات پر بھی ایمان ہے کہ ادنی درجہ صراط مستقیم کا بغیر اتباع ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرگز انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ راہ راست کے اعلیٰ مدارج بجز ا قتداء اس امام الرسل کے حاصل ہوسکیں کوئی مرتبہ شرف و کمال کا اور کوئی مقام عزت اور قرب کا بجز سچی اور کامل متابعت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم ہرگز حاصل کر ہی نہیں سکتے.جو کچھ ہمیں ملتا ہے ظلی اور طفیلی طور پر ملتا ہے“.پھر فرماتے ہیں:.(ازاله اوهام - حصه ه اوّل صفحه 137-138) ” ہم مسلمان ہیں خدائے واحد لا شریک پر ایمان لاتے ہیں اور کلمہ لا الہ الا اللہ کے قائل ہیں اور خدا کی کتاب قرآن اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خاتم الانبیاء ہے مانتے ہیں اور فرشتوں اور یوم البعث اور بہشت اور دوزخ پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں اور اہل قبلہ ہیں اور جو کچھ خدا اور رسول نے حرام کیا.اس کو حرام سمجھتے ہیں اور جو کچھ حلال کیا اس کو حلال قرار دیتے ہیں اور نہ ہم شریعت میں کچھ بڑھاتے اور نہ کم کرتے ہیں اور ایک ذرہ کی کمی بیشی نہیں کرتے اور جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیں پہنچا اس کو قبول کرتے ہیں چاہے ہم اس کو سمجھیں یا اس کے بھی کو سمجھ نہ سکیں اور اس کی حقیقت تک پہنچ نہ سکیں اور ہم اللہ کے فضل سے مومن موحد مسلم ہیں.(نورالحق روحانی خزائن جلد 8 صفحه 7) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات.1.”ہمارے مذہب کا خلاصہ یہی ہے.مگر جو لوگ ناحق خدا سے بے خوف ہوکر ہمارے بزرگ نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو برے الفاظ سے یاد کرتے اور آنجناب پر نا پاک تہمتیں لگاتے اور بد زبانی سے باز نہیں آتے ہیں.ان سے ہم کیونکر صلح کریں.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیٹریوں 153

Page 160

سے صلح کر سکتے ہیں.لیکن ان لوگوں سے صلح نہیں کر سکتے جو ہمارے پیارے نبی پر جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے ناپاک حملے کرتے ہیں.خدا ہمیں اسلام پر موت دے.ہم ایسا کام کرنا نہیں چاہتے جس میں ایمان جاتا رہے.(پیغام صلح صفحه 21) 2.”ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں اعلیٰ درجہ کا جوانمر دنبی اور زندہ نبی اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبی صرف ایک مرد کو جانتے ہیں یعنی وہی نبیوں کا سردار اور رسولوں کا فخر تمام مرسلوں کا سرتاج جس کا نام محمدمصطفی احمد مجتبے صلی اللہ علیہ وسلم ہے.جس کے زیر سایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزار برس تک نہیں مل سکتی تھی.وو (سراج منیر صفحه 80) 3.وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو.وہ ملائک میں نہیں تھا نجوم میں نہیں تھا، قمر میں نہیں تھا آفتاب میں بھی نہیں تھا وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا وہ لعل اور یا قوت اور زمر داور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا.غرض وہ کسی چیز ارضی و سماوی میں نہیں تھا صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولی ، سید الانبیاء سید الا حیا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.آئینه کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحه 160-161 4.” میں ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے.ہزار ہزار در دو اور سلام اس پر یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے اس کے عالی مقام کا انتہاء معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں.افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا.وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا اس نے خدا سے انتہائی درجے پر محبت کی اور 154

Page 161

انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی اس لئے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور اولین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اس کی مرادیں اس کی زندگی میں اس کو دیں.وہی ہے جو سر چشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذریت شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیا گیا ہے جو اس کے ذریعے سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے ہم کا فرنعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اس نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اس کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے ملی ہے.اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں اس بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے.اس آفتاب ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اسی وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہیں.(حقيقة الوحي صفحه 115-116) 5.”اے وہ تمام لو گو جوز مین پر رہتے ہو! اور اسے تمام وہ انسانی روحو جو مشرق اور مغرب میں آباد ہو! میں پورے زور کے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتا ہوں کہ اب زمین پر سچا مذہب صرف اسلام ہے.اور سچا خدا بھی وہی خدا ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے.اور ہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اور جلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کی روحانی زندگی اور پاک جلال کا ہمیں یہ ثبوت ملا ہے کہ اس کی پیروی اور محبت سے ہم روح القدس اور خدا کے مکالمہ اور آسمانی نشانوں کے انعام پاتے ہیں“.(تریاق القلوب صفحہ 8.روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 141) 155

Page 162

6.اس قدر بد گوئی اور اہانت اور دشنام دہی کی کتابیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق پر چھاپی گئیں اور شائع کی گئیں کہ جن کے سننے سے بدن پر لرزہ پڑتا اور دل رورو کر یہ گواہی دیتا ہے کہ اگر یہ لوگ ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے قتل کرتے اور ہمارے جانی اور دلی عزیزوں کو جو دنیا کے عزیز ہیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے اور ہمیں بڑی ذلت سے جان سے مارتے اور ہمارے تمام اموال پر قبضہ کر لیتے تو والله ثم واللہ ہمیں رنج نہ ہوتا اور اس قدر کبھی دل نہ دکھتا جوان گالیوں اور اس تو ہین سے جو ہمارے رسول کریم کی کی گئی دکھا“.(آئینه کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5) صفحه 51-52) کہا گیا تھا کہ مرزا صاحب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سب و شتم کی ہے.یہ ہے وہ سب وشتم جس کی بناء پر ہمیں مرتد قرار دیا گیا ہے.اپنے فارسی کلام میں مرزا دو صاحب فرماتے ہیں:.در دلم جوشد ثنائے سرورے آن که در خوبی ندارد ہمسرے آں کہ جانش عاشق یار ازل آں کہ روحش واصل آں دلبری منگه از حسنش ہے دارم خبر جاں فشانم، گر دل دیگرے وہر می پریدم سوئے کوئے او مدام اگر میداشتم بال و پرے 156 (در ثمین فارسی صفحه 9,5)

Page 163

محمد است جان و دلم فدائے جمال محمد است خاکم نثار کوچه آل محمد بعین قلب و شنیدم و شنیدم بگوش ہوش دیدم در ہر مکاں ندائے جمال محمد است ایں چشمہ رواں که بخلق خدا دہم یک قطره زبحر کمال محمد است این آتشم ز آتش مهر محمدی سرت ویں آب من ، ز آب زلال محمد است بعد از خدا (در ثمین فارسی صفحه 89) بعشق محمد محترم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم در ثمین فارسی صفحه (112) عجب نوریست در جان محمد لعلیست در کان محمد دارم فدائ خاک احمد ہر وقت قربان محمد دریس ره گر کشندم ور بسوزند نتابم رو 6 ز ایوان محمد 157 در ثمین فارسی صفحه (141)

Page 164

ختم نبوت فاضل مشیران عدالت اور وکیل سرکار کی طرف سے مختلف پہلوؤں سے جو بخشیں کی گئی ہیں ان کے ایک حصے کا ماحصل یہ ہے کہ احمدی مرزا صاحب کی نبوت کو تسلیم کر کے ختم نبوت کے منکر ٹھہرے اور ایک نئے نبی کو قبول کر کے امت مسلمہ سے خارج ہو گئے یہ بھی کہا گیا کہ مرزا صاحب نے متعدد دعاوی کئے ہیں جو نا قابل فہم ہیں یہ بھی کہا گیا کہ مرزا صاحب نے بعض انبیاء یا اولیاء اور صلحاء امت سے افضلیت کا دعویٰ کیا ہے یہ بھی کہا گیا کہ اس طرح سے احمدی گویا ایک نئی امت بن گئے ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں رہا.یہ تمام باتیں قلت تذبر کا نتیجہ ہیں.ہم نے اپنی بحث میں اپنے عقائد کا ذکر عمد ا نہیں کیا تھا اور عدالت پر یہ بات واضح کر دی تھی کہ ہم اپنے عقائد کی بحث نہیں چھیڑتے کیونکہ دستوری ترمیم کی وجہ سے عقائد کی بحث غیر متعلق ہو گئی ہے تاہم اگر فریق مخالف کی طرف سے عقائد کی بحث چھیڑی گئی تو ہم اس کا جواب عرض کریں گے.جہاں تک ہمارے عقیدہ کا تعلق ہے ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین اور قرآن شریف کو آخری شریعت تسلیم کرتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب پیشگوئیوں پر صدق دل سے یقین رکھتے ہیں اور حضور کی پیشگوئیوں کے مطابق ہی مسیح موعود د مهدی موعود کے ظہور کا عقیدہ رکھتے ہیں اور ہمارے نزدیک وہ پیشگوئی مرزا صاحب کے وجود میں پوری ہو چکی ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد لَا المَهْدِي الأَعِيْسَى ابْنُ مَرْيَم (ابن ماجه کتاب الفتن باب شدة الزمان کے مطابق مسیح اور مہدی ایک ہی وجود کے دو نام ہیں اور ان دو ناموں کو ایک وجود میں جمع کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دراصل آنے والے موعود کے کام 158

Page 165

اور مشن کی نوعیت اور اس کے مرتبہ کی وضاحت فرمائی ہے.ہمارے اعتقاد کے مطابق عیسی علیہ السلام اور امام مہدی کے ایک ہی وجود ہونے پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی دلیل ہے:.عَدَلًا.يُوشِكُ مَنْ عَاشَ مِنْكُمْ أَنْ يَلْقَىٰ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ إِمَامًا مَهْدِ يًّا حَكَمًا (مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحه 133 حدیث نمبر 9068 بيروت لبنان سن ا اشاعت 1994ء) قریب ہے کہ تم میں سے جو زندہ ہو گا وہ عیسی ابن مریم سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ وہ (عیسی) امام مہدی اور حکم عدل ہوگا.اسی طرح سے احادیث نبوی میں عیسی بن مریم جو نبی اسرائیل میں گزرے اور عیسی بن مریم جن کے آنے کی حضور نے پیشگوئی فرمائی ہے.ان کے حلیہ مبارک بھی مختلف بیان ہوئے ہیں.(بخارى كتاب الانبياء باب واذكر في الكتب (مریم) جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ آنے والا مسیح اسی جسد عنصری کے ساتھ واپس نہیں آئے گا اور اس بات پر کہ عیسی علیہ السلام وفات پاچکے ہیں قرآن شریف کی کم و بیش تمیں آیات دلالت کرتی ہیں.مگر ہم اس تفصیلی بحث میں نہیں پڑنا چاہتے اس قدر گزارش صرف اس لئے کی گئی ہے کہ ہم اپنے عقائد کی وضاحت کر دیں اور یہ واضح کر دیں کہ ہم جو کچھ بھی عقیدہ رکھتے ہیں قرآن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق ہے.ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اس امر کی وضاحت کر دی جائے کہ جماعت احمدیہ نہ تو آیت خاتم النبیین کی منکر ہے نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے مد مقابل یا مخالف کسی نبوت کی قائل ہے بلکہ اس بارہ میں جماعت احمدیہ کا اعتقاد چودہ صدیوں کے تواتر کے مطابق ہے جب کہ بعض مسلمان چودہ صدیوں کے تواتر کو چھوڑ کر اپنے اعتقاد میں تبدیلی پیدا کر رہے ہیں.159

Page 166

اس ضمن میں جو بات خاص طور پر قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ تمام اقوام اور تمام مذاہب میں آخری زمانہ میں آنے والے ایک مصلح کی پیشگوئی موجود ہے.یہودی مسیح کے انتظار میں ہیں، عیسائی عیسی علیہ السلام کی آمد ثانی کے منتظر ہیں اور مسلمان مہدی کے منتظر ہیں.بدھ لٹریچر میں بدھ کے دوبارہ ظہور کا ذکر ہے اور ہندوؤں کے ہاں کرشن جی کا دوبارہ ظہور متوقع ہے.اور حیران کن بات یہ ہے کہ تمام مذاہب کی بیان کردہ علامات کے مطابق مصلح منتظر کا وقت اور علامات ہمارے اس دور کی نشاندہی کرتے ہیں اور مختلف جہتوں سے اٹھتے ہوئے آثار گویا اس دور پر مرکوز ہوتے ہیں.دوسرے مذاہب سے قطع نظر اسلام میں امام مہدی کا ظہور اور نزول حضرت عیسی علیہ السلام ایک متفقہ عقیدہ چلا آ رہا ہے.مسیح اور مہدی کے بارہ میں جو عقائد سارے عالم اسلام کے مجموعی طور پر ہیں وہی عقائد جماعت احمدیہ کے ہیں.اگر مرز اصاحب کی ذات کو درمیان سے نکال کر دیکھا جائے تو المسلمین آنے والے مسیح و مہدی کے بارہ میں وہی عقیدہ رکھتے ہیں اور آنے والے مسیح ومهدی وہی کچھ فرمائیں گے جو مرزا صاحب نے فرمایا ہے.اپنی اس بات کی وضاحت کے لئے ہم اُمت مسلمہ کے مستند ترین لٹریچر سے چند حوالے پیش کرتے ہیں جن سے فاضل وکیل سرکار اور مشیران عدالت کے اٹھائے ہوئے بہت سے اشکال حل ہو جاتے ہیں.کہا گیا ہے کہ مرزا صاحب نے مختلف دعاوی کئے ہیں اور کہا ہے میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں اور اسی طرح سے مسیح و مہدی ہونے کا دعوی کیا ہے مگر حقیقت وہی ہے جو حضرت امام جعفر صادق نے بیان فرمائی ہے کہ جب امام مہدی ظہور فرمائیں گے تو وہ یہی فرمائیں گے:.”اے تمام لوگو! سن لو جو ابراہیم اور اسماعیل کو دیکھنا چاہے تو یا در کھے کہ وہ ابراہیم اور 160

Page 167

اسماعیل میں ہوں اور جو موسیٰ اور یوشع کو دیکھنا چاہے تو وہ موسیٰ اور یوشع میں ہوں اور جو عیسی اور شمعون کو دیکھنا چاہے تو وہ عیسیٰ اور شمعون میں ہوں اور جو محمد اور امیر المومنین کو دیکھنا چاہے تو وہ حمد صلی اللہ علیہ وآلہ اور امیر المومنین میں ہوں اور جوحسن اور حسین کو دیکھنا چاہے تو وہ حسن اور حسین میں ہوں اور جو نسل حسین میں ہونے والے ائمہ کو دیکھنا چاہے تو وہ ائمہ میں ہوں“.چنانچہ فرماتے ہیں امام مہدی آ کر کہے گا:."يا معشر الخلائق الاو من اراد ان ينظر الى ابراهيم واسماعيل فها انا ذا ابراهيم واسماعيل ومن اراد ان ينظر الى موسى ويوشع فها اناذا موسى ويوشع الاومن اراد ان ينظر الى عيسى وشمعون فها اناذا عيسى وشمعون الأومن اراد ان ينظر الى محمد وامير المومنين صلوات الله عليه مخصا اناذا محمدصلی الله عليه واله وامير المومنين الاومن اراد ان ينظر الى الحسن والحسين فها انا ذا الحسن والحسين الاومن اراد ان ينظر الى الائمة من ولد الحسين فها اناذا الائمة (بحار الانورا جز 13صفحه 206) اسی طرح شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ آنے والا ہو بہو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گو یا عکس کامل (True Copy) ہوگا.چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:.حق له ان ينعكس فيه انوار سید المرسلين صلى الله عليه وسلم يزعم العامة انه اذا نزل فى الارض كان واحدامن الامة كلابل هو شرح للاسم الجامع المحمدى ونسخة منتسخة منه وشتان بينه وبين احد من الامة (الخير الكثير زير عنوان الخزانة الخامسة صفحه 69 از شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ترجمہ عبید اللہ سندھی صفحہ 70) 161

Page 168

یعنی مسیح موعود اس بات کا حقدار ہے کہ اس میں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار منعکس ہوں.عام لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ جب مسیح موعود نازل ہوگا تو محض اُمتی فرد ہوگا ایسا ہر گز نہیں بلکہ وہ اسم جامع محمدی کی شرح اور آپ کی دوسری کا پی ہو گا.پس کہاں وہ اور کہاں محض ایک امتی“.امام عبدالرزاق قاشانی لکھتے ہیں:."المهدى الذى يسجى فى اخر الزمان فانه يكون في الاحكام الشرعية تابعاً لمحمد صلى الله عيه وسلم وفي المعارف والعلوم والحقيقة تكون جميع الانبياء والاولياء تابعين له كلهم ولا يناقض ماذكرناه لان بـاطـنـه باطن محمد عليـه السلام“.(شرح القاشاني على فصوص الحکم صفحه 35) یعنی مہدی آخر الزمان شرعی احکام میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع ہوگا لیکن معارف علوم اور حقیقت میں تمام انبیاء اور اولیاء اس کے تابع ہوں گے کیونکہ اس کا باطن محمد علیہ السلام کا باطن ہوگا.حالانکہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب بروز حقیقی کی اقسام کے ضمن میں فرماتے ہیں:."تارةً اخرى بان تشتبك بحقيقة رجل من اله اوالمتوسلين اليـه كـمـا وقـع لـنـبـيـنـا صلى الله عليه وسلم بالنسبة الى ظهور المهدى“.تفهیمات الهيه تفهیم نمبر 227 جلد دوم صفحه 238) یعنی بروز حقیقی کی ایک قسم یہ ہے کہ کبھی ایک شخص کی حقیقت میں اس کی آل یا اس کے متوسلین داخل ہو جاتے ہیں جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مہدی سے تعلق میں اس 162

Page 169

طرح کی بروزی حقیقت وقوع پذیر ہوگی.پس ماحصل یہ ہوا کہ مہدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی بروز ہے.اسی طرح سے نجح الکرامہ میں نواب صدیق حسن خاں صاحب نے ابن سیرین کا قول یوں نقل کیا ہے:.قال ابن ابي شيبة فى باب المهدى عن محمد بن سيرين قال يكون في هذه الامة خليفة خير من ابي بكر وعمر قيل خير منهما قال قد كا ديفضل على بعض الانبياء وفي لفظ لا يفضل علیه ابوبکر و عمر سیوطی گفته هذا اسناد صحیح“.(حجج الكرمه صفحه 386 مطبع بهوپال از نواب صدیق حسن خان صاحب) ابن ابی شیبہ باب المہدی میں محمد بن سیرین کی یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا اس امت میں ایک ایسا خلیفہ ہوگا جو ابو بکر اور عمر سے بھی بہتر ہو گا.ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ان دونوں سے بہتر ہوگا.انہوں نے جواب دیا ہاں قریب ہے کہ وہ بعض انبیاء سے بھی افضل ہو.اور ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں اس خلیفہ سے ابوبکر اور عمر افضل نہیں ہوں گے.امام سیوطی نے اس قول کی سند کو صحیح قرار دیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مضمون کی ایک اور حدیث علامہ سیوطی نے امام طبرانی کے حوالہ سے یوں درج کی ہے:.ابوبکر خير الناس الا أن يكون نبي (الجامع الصغير للسيوطى باب الالف صفحه 5 بحواله طبرانی و ابن عدی.مکتبه اسلاميه لائلپور) یعنی حضرت ابو بکر تمام لوگوں سے بہتر ہیں سوائے اس کے کہ کوئی نبی پیدا ہو جائے.حضرت عیسی علیہ السلام جب نزول فرمائیں گے تو وہ نبی بھی ہوں گے اور امتی بھی.163

Page 170

چنانچہ بخاری و مسلم میں اس مضمون کی احادیث ہیں کہ عیسی علیہ السلام جب نازل ہوں گے تو وہ نبی ہوں گے.(مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال) اور اس اُمت میں سے اس کے امام ہوں گے.(بخارى كتاب الانبياء باب نزول عيسى بن مريم) ان حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ظہور مسیح و مہدی کا عقیدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کے مطابق اور امت کے نزدیک خاتم النبیین کی آیت سے معارض نہیں ہے.چنانچہ ہر صدی میں اولیاء اللہ نے عقیدہ ختم نبوت پر اس رنگ میں روشنی ڈالی ہے کہ یہ بات واضح ہوتی چلی گئی ہے کہ آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والے مسیح ،مہدی اور مصلح کا ظہور ختم نبوت کے منافی نہیں ہے کیونکہ وہ حضور کی امت کے اندر حضور ہی کی امت کی اصلاح اور اسلام کے غلبہ کے لئے ہوگا.ان بزرگان کے اسماء گرامی اور متعلقہ حوالہ جات صدی وار پیش ہیں:.1.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 2.حضرت امام محمد طاہر گجراتی (متوفی 986ھ) 3.حضرت امام ابن قتیبہ (متوفی 267ھ ) 4.حضرت ابو عبد اللہ محمد بن علی حسین الحکیم الترمذی (متوفی 308ھ) 5.حضرت محی الدین ابن عربی (متوفی 638ھ ) حضرت شیخ فرید الدین عطار (متوفی 620ھ ) 7.حضرت مولانا روم (متوفی 672ھ ).حضرت سید عبدالکریم جیلائی (متوفی 767ھ) 9.حضرت شاہ بدیع الدین مدار ( متوفی 851ھ ) 164

Page 171

10.حضرت امام عبدالوہاب شعرانی (متوفی 976ھ ) 11.حضرت ملا علی قاریؒ 12.حضرت شیخ احمد سرہندی مجددالف ثنائی 13 - حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی (متوفی 1052ھ ) 14.حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی 15.حضرت مولانا ابوالحسنات عبدالحی فرنگی محل (متوفی 1304ھ ) 16.حضرت مولا نا محمد قاسم نانوتوی (متوفی 1297ھ) 1.حضرت عائشہ کا قول ہے:."قولوا خاتم النبيين ولاتقولو الانبي بعده (الدر المنثور لليسوطی زیر آیت خاتم النبيين) اے لوگو! تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین تو کہو اور یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے.2.حضرت امام محمد طاہر گجراتی ( متوفی 986ھ ) حضرت عائشہ کا قول نقل کر کے لکھتے ہیں :.هذا لاينافي حديث لانبی بعدی لانه اراد لانبی ینسخ شرعه (تکمله مجمع البحار صفحه 85) یعنی امام المومنین کا یہ قول حدیث لانبی بعدی“ کے خلاف نہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سے یہ مراد تھی کہ آپ کے بعد کوئی ایسا نبی نہ ہوگا جو آپ کی شرع منسوخ کر دے“.3 - حضرت امام ابن قتیبہ ( متوفی 267ھ ) لکھتے ہیں:."ليس هذا من قولها ناقضاً لقول النبي صلى الله عليه وسلم 165

Page 172

لانبى بعدى لانة اراد لانبی بعدی ینسخ ماجئت به (تاويل مختلف الاحاديث الطبع اولی 1326ھ صفحه 236 مطبوعه مصر) صلى الله حضرت عائشہ کا یہ قول آنحضرت ﷺ کے فرمان لا نبی بعدی کے مخالف نہیں.کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد اس فرمان سے یہ ہے کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو میری شریعت کو منسوخ کر دینے والا ہو.4.نامور صوفی بزرگ حضرت ابو عبداللہ محمد بن علی حسین الحکم الترمذی ( متوفی 308ھ) نے ہزار برس پہلے یہاں تک فرما دیا تھا کہ :.يظن ان خاتم النبيين تاويله انه آخر هم مبعثاً ، فاي منقبة في هذا؟ و ای علم فى هذا ؟؟ هذا تاويل البله لجهلة (ختم الاولیاء از حضرت شیخ ابی عبدالله محمد بن علی حسین الحکم صفحه 341 ترجمہ: خاتم النبیین کی یہ جو تاویل کی جاتی ہے کہ آپ بعثت کے لحاظ سے آخری نبی ہیں اس میں کونسی شان پائی جاتی ہے اور اس تاویل میں کونسی علمی بات ہے.یہ تو بے وقوفوں اور جاہلوں کی تاویل ہے.5.حضرت محی الدین ابن عربی (متوفی 638ھ ) فرماتے ہیں:.الف: "فالنبوة سارية الى يوم القيامة في الخلق ، وان كان التشريح قد انقطع ، فالتشريع جزء من اجزاء النبوة“ بيروت) (فتوحات مکیه جلد2 صفحه 90باب72,73 بيروت) نبوت مخلوق میں قیامت کے دن تک جاری ہے گو تشریعی نبوت منقطع ہو گئی ہے کیونکہ شریعت نبوت کے اجزاء میں سے صرف ایک جزو ہے.ب: "ان النبوة التي انقطعت بوجود رسول الله صلى الله عليه وسلم انماهى نبوة التشريع ، لامقامها، فلاشرع يكون ناسخاً لشرعه صلى الله عليه وسلم، ولايزيد في شرعه حكماً آخر، وهذا معنى قوله صلى الله عليه وسلم، ان الرسالة والنبوة 166

Page 173

قد انقطعت، فلارسول بعدی ولانبی ، اى لانبى يكون على شرع يخالف شرعى، بل اذا كان يكون تحت حکم شریعتی“.(فتوحات مكية جلد 2 صفحه 3 بيروت) وہ نبوت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باوجود پر منقطع ہوئی ہے وہ صرف تشریعی نبوت ہے مقام نبوت بند نہیں ہوا.اب کوئی شریعت نہ ہو گی جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرے یا آپ کی شریعت میں کسی حکم کا اضافہ کرے اور یہی معنی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے كم ان الرسالة والنبوة قد انقطعت، فلارسول بعدی ولانبی یعنی کوئی ایسا نبی نہیں ہو گا جو میری شریعت کے خلاف شریعت رکھتا ہو، بلکہ جب بھی کوئی نبی ہوگا تو میری شریعت کے حکم کے ماتحت ہوگا.6 - حضرت شیخ فریدالدین عطار ( متوفی 620 ھ ) مظہر العجائب میں لکھتے ہیں :.مصطفی ختم رسل شد در جہاں مرتضی ختم ولایت در عیاں (تذكرة الاولياء اردو مقدمه صفحه 28 ناشر اللہ والے کی قومى دكان لاهور 1925ء) " حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جہان میں ختم رسل اور حضرت علی مرتضی هشتم ولایت بن کر ظاہر ہوئے“.7- حضرت مولاناروم (متوفی 672 ) مثنوی جلد ششم میں خاتم کے معنی اس طرح بیان فرماتے ہیں:.بہر ایں خاتم شد است او که بجود مثل او نے بود نے خواهند بود یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس طور پر خاتم النبیین ہیں کہ سخاوت یعنی افاضہ روحانیہ میں نہ آپ جیسا کوئی ہوا نہ ہوگا.167

Page 174

چونکہ در برداستاد تو نہ گوئی ختم صنعت بر تو است یعنی جب کوئی کاریگر اپنی صنعت میں انتہائی کمال کے مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے تو اے مخاطب ! کیا تو نہیں کہتا کہ تجھ پر کار دیگری ختم ہوگئی ہے.فکر کن در راہ نیکو خدمتے.تانبوت یابی اندر امنے یعنی اے مخاطب ! نیکی کی راہ میں ایسی خدمت بجا لا کر تجھے اُمت میں نبوت مل جائے.8 - حضرت سید عبدالکریم جیلائی ( متوفی 767ھ) فرماتے ہیں:.الف: "فانقطع حكم نبوة التشريع بعده، وكان محمد صلى الـلـه عـلـيـه وسـلـم خـاتـم النبيين لانه جاء بالكمال ولم يجى احد بذلک.(الانسان الكامل جلد 1 صفحه 69 طبع اوّل مصرى 1316ھ) پس تشریعی نبوت کا حکم اٹھ گیا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں کیونکہ آپ کمال ( شریعت کا ملہ تامہ ) لے کر آئے ہیں اور کوئی اور نبی ایسے کمال کے ساتھ نہیں آیا.ب.حدیث نبوی و اشو قاه الى اخواني الذین یا تون بعدی“ کی تشریح میں لکھتے ہیں :.فهو لاء انبياء الاولياء يريد بذلك نبوة القرب والاعلام انقطمت والحكم الالهى لانبوة التشريع لان نبوة التشريع بمحمد صلی الله عليه وسلم (الانسان الكامل جلد2صفحه 85 طبع اولى مصر 1316ھ) 168

Page 175

ترجمہ: یہ اخوان جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے والے ہیں (جن کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اظہار اشتیاق فرمایا ہے ) انبیاء الاولیاء ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انہیں اپنا اخوان قرار دینے سے مراد یہ ہے کہ ان کو قرب والی نبوت، علم دیئے جانے والی نبوت اور الہی حکمتوں پر مشتمل نبوت ملتی ہے نہ کہ تشریعی نبوت.کیونکہ تشریعی نبوت آپ پر منقطع ہو گئی ہے..9.حضرت شاہ بدیع الدین مدار ( متوفی 851ھ) فرماتے ہیں:.بعد زمانہ اصحاب المرسلین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درجہ وراء الوراء ان تین اولیاء کے سوا اور کوئی اس مرتبہ علیا پر نہیں پہنچا.اول خواجہ اویس قرنی...دوسرے بہلول دانا اور جناب قطب الاقطاب فرد الا حباب محی الدین اس رتبہ میں لاثانی اور سب سے افضل قرار پائے اور یہ مرتبہ ذات معدن صفات میں آپ کی اس طرح ختم ہوا کہ جس طرح جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت اور اصحاب کرام پر خلافت اور علی المرتضیٰ پر ولایت اور حسنین علیہما السلام پر شہادت تمام ہوئی.(ملفوظ بحواله قرة العينين فى محامدغوث الثقلين صفحه 18 محمد ذاکر حسین علوی 1304هجری مطبع دبدبه احمدی لکهنو ، ناشر محمد عبد الستار خان تاجر کتب چوک لکھنو) 10 - حضرت امام عبدالوہاب شعرانی (متوفی 976ھ) فرماتے ہیں:.الف: اعلم ان النبوة لم ترتفع، مطلق بعد محمد وانما ارتفعت نبوة التشريح فقط (اليواقيت والجواهر جلد.دوم صفحه 39 از عبدالوهاب شعرانی طبع اولی مصر 1351ھ) جان لو کہ مطلق نبوت بند نہیں ہوئی صرف تشریعی نبوت بند ہوئی ہے.نیز فرمایا:.وقوله صلی الله عليه وسلم لانبی بعدی ولارسول“ ای 169

Page 176

ماثم من يشرع بعدى شريعةً خاصةً یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول لانبی بعدی ولا رسول سے مراد یہ ہے کہ آپ کے بعد کوئی شخص شریعت خاصہ کے ساتھ تشریعی نبی نہیں ہوگا.11.حضرت ملاعلی قاری علیہ الرحمہ جو فقہ حنفیہ کے جلیل القدر امام اور ایک مسلم محدث ہیں، فرماتے ہیں:.1ـ امـا الــحـديـث ”لاوحى بعد موتی“ باطل والااصل له نعم ورد لانبى بعدى ، ومعناه عند العلماء لا تحدث بعده نبی بشرع ينسخ شرعه الاشاعة في اشراط الساعة صفحه 226 بيروت) یعنی حدیث لا وحی بعدی باطل اور بے اصل ہے.ہاں حدیث میں لانبی بعدی وارد ہے اور اس کے معنی علماء کے نزدیک یہ ہیں کہ آئندہ کوئی ایسا نبی پیدا نہ ہو گا جو ایسی شریعت لے کر آئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کرے.پھر فرماتے ہیں:.2 قوله تعالى خاتم النبيين اذا المعنى انه لاياتي بعده نبی ينسخ ملته ولم يكن من امته.(موضوعات کبیر صفحه 59 از ملا علی قادی طبع ثانی 1264ھ) خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے بعد کوئی ایسا نبی نہ ہو گا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرے اور آپ کی امت میں سے نہ ہو.3.اقول لامنافاة بين ان يكون نبياً ويكون تابعاً لنبينا صلى الله : عليه وسلم فی بیان احکام شريعتة واتقان طريقته (مرقاة المصابيح شرح مشكواة المصابیح جلد 5 صفحه 564 از علامه علی بن.سلطان سن اشاعت 1306ھ مصر) 170

Page 177

ترجمہ:.میں کہتا ہوں کہ حضرت مسیح کے نبی ہونے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہو کر احکام شریعت کے بیان اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کے پختہ کرنے میں کوئی منافات موجود نہیں.12.حضرت شیخ احمد سرہندی مجددالف ثانی نے تحریر فرمایا ہے:.حصول کمالات نبوت مرتابعان را بطريق تبعیت ووراثت 6 بعد از بعثت خاتم الرسل عليه وعلى جميع الانبياء الصلوات والتحيات ، منافی خاتمیت او نیست فلاتكن من الممترين“.(مکتوبات مجدد الف ثانى جلد اوّل صفحه 432 مکتوب نمبر 301 مطبع نول کشور کانپور) ترجمہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین کے لئے کمالات نبوت حاصل کرنا خاتم الرسل کے بعد آپ پر اور تمام انبیاء پر صلوت وتحیات.آپ کی خاتمیت کے منافی نہیں پس اے مخاطب ! تو شک کرنے والوں میں سے نہ ہو.13 - حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی (متوفی 1052ھ) فرماتے ہیں:.ہر مرتبه که بود در امکان او بروست ہر نعمتے که داشت خدا شد برو تمام (اخبار الاخيار اُردو صفحه22) یعنی جو مرتبہ بلند بھی ممکن ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس پر فائز ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت آپ پر تمام ہوگئی ہے.14.حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:.”ختم بـ به النبيون اى لا يوجد من يامره الله س سبحانه بالتشريع على الناس“ (تفهيمات الهيه جلد 2 صفحه 85 مطبوعه 1967ء از ولی الله محدث دهلوی ) 171

Page 178

ترجمہ:.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نبیوں کے ختم کا یہ مطلب ہے کہ اب کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہو گا جسے خدا تعالیٰ شریعت دیگر لوگوں کی طرف مامور کرے.نیز فرماتے ہیں:.امتنع ان يكون بعده نبى مستقل بالتلقى“ (الخير الكثير حضرت شاہ ولی الله محدث دهلوی صفحه 80 مطبوعه 1352ھ بجنور) یعنی یہ امر متنع ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی مستقل با تلقی ہو.حضرت شاہ صاحب یہ بھی تحریر فرماتے ہیں:."لان النبوة تتجزى ، وجزء منها باق بعد خاتم الانبياء (المسوى شرح الموطا باب رويا صالحه جزء من ستة و اربعين جزو من النبوة جلد2 صفحه 426 مطبع سلفيه مكة 1353ه از ولی الله شاه محدث دهلوی) یعنی نبوت کے کئی حصے ہیں اور اس کی ایک جزء ( یعنی غیر تشریعی نبوت) خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد باقی ہے.حدیث لانبی بعدی کی تشریح میں نواب نور الحسن صاحب فرماتے ہیں:.لانبی بعدی کے معنی نزدیک اہل علم کے یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی شرع ناسخ لے کر نہیں آئے گا.اقتراب الساعة صفحه 162 مطبوعه 1301ھ مطبع مفید عام) 15.حضرت مولانا ابوالحسنات عبدالحی فرنگی محل (متوفی 1304ھ ) کا مشہور ارشاد ہے بعد آنحضرت کے یا زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مجرد کسی نبی کا ہونا محال نہیں بلکہ صاحب شرعی جدید ہونا البتہ منع ہے.(دافع الوسواس في اثر ابن عباس صفحه 16 مطبع یوسفی فرنگی محل ـ طبع دوم) 172

Page 179

یہی مسلک گزشتہ صدی تک بالاتفاق تمام علماء اہل سنت کا تھا.چنانچہ مولا نا عبدائی فرماتے ہیں:.علماء اہل سنت بھی اس امر کی تصریح کرتے ہیں کہ آنحضرت کے عصر میں کوئی نبی صاحب شرع جدید نہیں ہوسکتا اور نبوت آپ کی عام ہے اور جو نبی آپ کے ہمعصر ہوگا وہ متبع شریعت محمدیہ کا ہوگا.(مجموعه فناوی مولوی عبدالحی جلد اوّل صفحه 33 مطبوعہ ایجوکیشنل پریس پاکستان چوک کراچی) 16.بانی دارالعلوم دیو بند حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمتہ اللہ علیہ (متوفی 1297ھ) نے اس مضمون کو نہایت کھول کر بیان فرمایا ہے :.اول معنی خاتم النبین معلوم کرنے چاہئیں تا کہ نہم جواب میں کچھ وقت نہ ہو.سو عوام کے خیال میں تو رسول اللہ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد ہے اور آپ سب میں آخری نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہو گا کہ تقدم یا تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں ولکن رسول الله وخاتم النبيين فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتا ہے.ہاں اگر اس وصف کو اوصاف مدح میں سے نہ کہئے اور اس مقام کو مقام مدح نہ دیجئے تو البتہ خاتمیت باعتبار تاخر زمانی صحیح ہوسکتی ہے مگر میں جانتا ہوں کہ اہل اسلام میں سے کسی کو یہ بات گوارا نہ ہوگی.پھر فرماتے ہیں:.وو (تحذیر الناس از مولانا قاسم نانوتوی صفحه 3 طبع 1309ه سهارنپور) حاصل مطلب آیت کریمہ اس صورت میں یہ ہوگا کہ ایقت معروفہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی مرد کی نسبت حاصل نہیں پر ابوت معنوی امتیوں کی نسبت بھی حاصل ہے اور انبیاء کی نسبت بھی حاصل ہے انبیاء کی 173

Page 180

نسبت تو فقط خاتم النبین شاہد ہے.نیز فرماتے ہیں:." بالفرض اگر بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا.(تحذیر الناس صفحه 28 مطبعه 1309ه سهارنپور) فاضل وکیل سرکار نے اس بات پر بہت کچھ زور مارا ہے کہ مرزا صاحب کو مسیح موعود اور مہدی مان کر جماعت احمد یہ امت مسلمہ سے خارج ہوگئی ہے اور اس کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں رہا.ہم یہ پوچھتے ہیں کہ ان کے عقیدہ کے مطابق جب مسیح موعود اور مہدی موعود ظہور فرمائیں گے تو کیا ان پر ایمان لانے والے اور ان کی بیعت کرنے والے ایک علیحدہ امت بن جائیں گے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد یہ ہے کہ جب وہ ظاہر ہو جائے تو برف کی سلوں پر سے گھٹنوں کے بل گھسٹ کر بھی جانا پڑے تو اس کے پاس جاؤ اور اس کی بیعت کرو.فرمایا:.فَإِذَا رَأَيْتُمُوْهُ فَبَايِعُوهُ ـ (ابوداؤد كتاب الملاحم) تو کیا تو اس کی بیعت کرنے والے اُمت مسلمہ سے کوئی الگ وجود بن جائیں گے.یقینا نہیں.تو پھر اختلاف صرف شخصیت کی تعیین اور شناخت کا ہے.یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ ہم نے شناخت میں غلطی کھائی لیکن جب بھی عیسی علیہ السلام اور مہدی کا ظہور ہو گا اسے وہ سب کچھ مانا جائے گا جو ہم مرزا صاحب کو مانتے ہیں.لہذا اس بات سے کوئی اُلجھن پیدا نہیں ہونی چاہئے.رہی یہ بات کہ ہم نے شناخت میں غلطی کی اور جولوگ انہیں ان کے دعوی میں سچا نہیں سمجھتے تو اس کا انہیں اختیار ہے.ظل و بروز فاضل وکیل سرکار نے ظلی اور بروزی نبوت کا ذکر کرتے ہوئے علامہ اقبال کے حوالے 174

Page 181

سے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ ظل اور بروز اور تناسخ، مجوسی اور ہندوانہ عقائد ہیں اور اسلام میں ان کی کوئی حیثیت نہیں.حالانکہ علامہ اقبال کو اس بات کا خودا قرار تھا کہ مذہب کے بارہ میں ان کی معلومات کا دائرہ نہایت محدود ہے اور وہ مستشرقین سے زیادہ متاثر تھے جیسا کہ انہوں نے صوفی غلام مصطفی تبسم کے نام 2 ستمبر 1925ء کے خط میں لکھا:.” میری عمر زیادہ تر مغربی فلسفہ کے مطالعہ میں گزری ہے.اور یہ نقطۂ خیال ایک حد تک طبیعت ثانیہ بن گیا ہے.دانستہ یا نادانستہ میں اسی نقطۂ نگاہ سے حقائق اسلام کا مطالعہ کرتا ہوں“.وو اقبال نامہ حصہ اوّل مرتبہ شیخ عطاء اللہ ایم اے صفحہ 47 پروفیسر غلام مصطفی تبسم کے نام خط نمبر 1 سن اشاعت 1945ء) ڈاکٹر اقبال نے بروز کے مسئلہ میں سید سلیمان ندوی کے نام ایک خط لکھا کہ :.حال کے ہیئت دان کہتے ہیں کہ بعض سیاروں میں انسان یا انسانوں سے اعلیٰ تر مخلوق کی آبادی ممکن ہے کہ اگر ایسا ہو تو رحمتہ اللعالمین کا ظہور وہاں بھی ضروری ہے.اس صورت میں کم از کم محمدیت کے لئے تناسخ یا بروز لازم آتا ہے.اقبال نامہ حصہ اوّل مرتبہ شیخ عطاء اللہ ایم اے صفحہ 47 خطوط بنام سید سلمان ندوی خط نمبر 24) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر اقبال غالباً آخر تک بروز کے مسئلہ میں الجھن کا شکار تھے.لیکن اس میں شک نہیں کہ تصوف اسلامی کے لٹریچر میں بروز اور ظل کا تصور موجود رہا ہے.اور بالخصوص مہدی کے ظہور کے سلسلہ میں اس کا ذکر آتا رہا ہے.جیسا کہ چشتیہ صابریہ سلسلہ کے مشہور بزرگ اپنی کتاب اقتباس الانور“ میں لکھتے ہیں :."روحانیت کمل گا ہے برار باب ریاضت چناں تصرف می فرمائند که فاعل افعال او میگردو و این مرتبه را صوفیاء بروز می گویند ( اقتباس الانوار صفحه 51 از شیخ محمد اکرم صابری) 175

Page 182

یعنی کاملوں کی روحانیت کبھی ارباب ریاضت پر ایسا تصرف کرتی ہے کہ ان کے افعال کی گویا فاعل ہو جاتی ہے.اس مرتبہ کو صوفیاء بروز کہتے ہیں.اسی طرح سے خواجہ غلام فرید صاحب لکھتے ہیں کہ :.بروز یہ ہے کہ کاملین کی ارواح میں سے کوئی روح کسی کامل انسان پر افاضہ کرے جیسا کہ اس پر تجلیات افاضہ کرتی ہیں اور وہ کامل اس فیض پہنچانے والی روح کا مظہر بن جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں ولی ہوں“.(اشارات فریدی حصه دوم صفحه 110 مطبوعه 1321 مطبع مفید عام) بائی دیو بند مولانامحمد قاسم نانوتوی اسی مضمون کو یوں بیان فرماتے ہیں کہ:.غرض انبیاء میں جو کچھ ہے وہ ظل اور عکس محمدی ہے.کوئی کمال ذاتی نہیں.(تحذیر الناس صفحہ 33 مطبوعہ 1309ھ سہارنپور) اور اس بات کی وضاحت یوں فرماتے ہیں:.” جیسے آئینہ آفتاب اور اس دھوپ میں واسطہ ہوتا ہے جو اس کے وسیلہ سے ان مواضع میں پیدا ہوتی ہے جو مقابل آفتاب نہیں ہوتی ہیں پر آئینہ مقابل آفتاب کے مقابل ہوتی ہیں.ایسے ہی انبیاء باقی بھی مثلِ آئینہ بیچ میں واسطہ فیض ہیں“.(تحذير الناس صفحہ 33 مطبوعہ 1309 ھ سہارنپور) وو اشارات فریدی میں مہدی کے بارہ میں خواجہ غلام فرید فرماتے ہیں:.حضرت آدم صفی اللہ سے لے کر خاتم الولایت امام مہدی تک حضور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بارز ہیں.پہلی بار آپ نے حضرت آدم علیہ السلام میں بروز کیا.(مقابیس المجالس صفحه 419 مقبوس نمبر 62) اس کے بعد جناب خواجہ غلام فرید ذکر فرماتے ہیں کہ حضور نے تمام انبیاء میں بروز فرمایا اور اپنے بعد اولیا ءاُمت میں بروز فر مایا.اور پھر فرماتے ہیں:.وتی کہ امام مہدی میں بروز فرمائیں گئے.( مقاہیں المجالس صفحہ 419) 176

Page 183

نیز فرماتے ہیں:.وو جتنے انبیاء اولیا قطب مدار ہوئے ہیں تمام روح محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے مظاہر ہیں اور روح محمدی نے ان کے اندر بروز فرمایا ہے.پس یہاں دو روح ہوئے ہیں.ایک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روح جو بارز ہے دوسری اس نبی اور ولی کی روح جو مبروز فیہ اور مظہر ہے.نیز شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں :.(مقابيس المجالس صفحه 419) کبھی حقیقی بروز یوں پایا جاتا ہے کہ ایک شخص کی حقیقت اس کی آل اور متوسلین میں داخل ہو جاتی ہے.اسی قسم کا واقعہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم 66 کی نسبت سے امام مہدی کے ظہور کا ہے.تفهيمات الهيه جز 2 صفحه 238 مطبوعه 1967ء) پھر یہی بزرگوار مسجد و مسیح موعود کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:." ينعكس فيه انوار سید المرسلين“ که مسیح موعود جب نازل ہو گا تو اس میں سید المرسلین آنحضرت ﷺ کے انوار منعکس ہوں گے.پھر اس انعکاس کو کامل قرار دینے کے لئے تحریر فرماتے ہیں:."يزعم العامة اذا نزل الى الارض كان واحدًا من الأُمَّةِ كلابل هو شرح للاسم الجامع المحمدى ونسخة منتسخة منه“ (الخير الكثير صفحه 72 مطبع بجنور مطبوعه 1352ھ) ترجمہ:.عوام کا خیال ہے کہ مسیح جب نازل ہوگا تو وہ صرف ایک امتی فرد ہو گا.ایسا ہرگز نہیں بلکہ وہ محمدی جامع نام کی تشریح اور اس کا دوسرا نسخہ ہے جو اصل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے ہوگا.مسیح کے نزول کے متعلق بعض صوفیا کا مذہب لکھا ہے:.177

Page 184

" بعضی برآنند که روح عیسی در مهدی بروز کند و نزول عبارت از همین بروز است مطابق این حدیث که لامهدی الأعيسى بن مريم“.(اقتباس الانوار صفحه52مصنفه شیخ محمد اکرم صابری) و یعنی بعض کا یہ مذہب ہے کہ عیسی علیہ السلام کی روح ( روحانیت ) مہدی میں بروز کرے گی اور نزول عیسی سے مراد امام مہدی کا عیسی علیہ السلام کا بروز ہونا ہی ہے.مطابق اس حدیث کے ہے کہ نہیں مہدی مگر عیسی بن مریم“.صاحب اقتباس الانوار شیخ اکرم صابری اور جناب خواجہ غلام فرید نے بروز اور تناسخ کے فرق کو بھی بیان فرمایا ہے لیکن وہ بار یک مضمون ہماری موجودہ بحث سے غیر متعلق ہے.البتہ یہ بات قطعی اور واضح ہے کہ اولیاء اور صلحائے امت نے امام مہدی کو سیح کا بروز قرار دیا ہے.اور تمام انبیاء کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز.حضرت خواجہ غلام فرید گدی نشین چاچڑاں شریف سے کسی نے عرض کیا کہ سری کرشن جی اور رام چندر صاحب فقیر اور درویش تھے یا نہیں؟ آپ نے فرمایا کہ تمام اوتار اور رشی لوگ اپنے اپنے وقت کے پیغمبر اور نبی تھے.(مقابيس المجالس صفحه 388 ناشر اسلامک بک فاونڈیشن لاهور) حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کا ارشاد ہے:.کیا عجب ہے کہ جس کو ہندو صاحب اوتار کہتے ہیں اپنے زمانے کے نبی یا ولی یعنی نائب نبی ہیں.(مباحثہ شاہجہانپور صفحہ 41 مطبوعہ جنوری 1891 مطبع مجتبائی دہلی مطبوعہ 1977ء) حضرت بانی جماعت احمدیہ فرماتے ہیں:.”راجہ کرشن جیسا کہ مجھ پر ظاہر کیا گیا ہے.درحقیقت ایک کامل انسان تھا جس کی نظیر ہندوؤں کے کسی رشی اور اوتار میں نہیں پائی جاتی اور اپنے وقت کا او تار یعنی نبی تھا“.(لیکچر سیالکوٹ صفحہ 33 روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 228) 178

Page 185

جہاد اگر چہ ہم نے اپنے عقائد کی بحث نہیں چھیڑی تھی اور ہمارا مطالبہ یہی تھا کہ دستوری ترمیم چونکہ زیر بحث نہیں آ سکتی لہذا قطع نظر ہمارے عقائد کے ہمیں آزادی مذہب اور آزادی عبادت کا حق ملنا چاہئے.مگر فاضل مشیران عدالت نے ہمارے عقائد کی بحث بھی چھیڑی اور کہا کہ مرزا صاحب جہاد کے منکر تھے.جہاد کے لئے خدا اور رسول نے شرائط عائد کی ہیں اگر وہ شرائط پوری نہ ہوں تو جہاد فرض نہیں ہوتا.جہاں جہاد فرض نہ ہو وہاں جنگ کرنا جہاں گیری تو ہو سکتی ہے اسلامی جہاد نہیں کہلا سکتا.عدالتی معاونین نے اس بارہ میں بھی بڑی مغالطہ آرائی کی ہے.بقول ان کے یہ تو بڑا ظلم ہو گیا.ہندوستان جو دارالحرب تھا مرزا صاحب نے انگریزوں کی تعریف میں اسے دار السلام بنادیا.ان کے خلاف جہاد بالسیف کو منسوخ قرار دیا جو مسلمانوں کا جزوایمان تھا.انہوں نے اس اہم فریضہ سے توجہ ہٹا دی.عدالتی معاونین اس ضمن میں اپنے ان اکابرین، علماء اور شیوخ حتی کہ ڈاکٹر علامہ اقبال کو بھول گئے جو انگریزی حکومت کی تعریف میں رطب اللسان رہے.انہوں نے ہندوستان میں انگریزی حکومت کو باعث برکت و سعادت سمجھا.ہندوستان کو دار السلام قرار دیا اور صاف لکھا ہے کہ یہاں امن وامان ہے، مذہبی آزادی ہے اس لئے جہاد کی شرائط پوری نہیں ہوتیں بلکہ یہ بھی لکھا کہ انگریزوں کے خلاف جہاد کرنا شرعاً نا جائز ہے اور ان کی اطاعت شرعاً فرض ہے.جہاد کے بارہ میں عام مسلمانوں کا موقف ہم نے پوری وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے.اس سلسلہ میں حضرت مولانا سید احمد بریلوی کے حالات پر مشتمل کتاب ”سوانح احمدی مرتبہ 179

Page 186

مولا نا جعفر تھانیسری کے حوالہ سے ہم بتا چکے ہیں کہ ایک ہی وقت میں وہ سکھوں کے خلاف جنگ کو جائز اور انگریزوں کے خلاف جہاد کو نا جائز سمجھتے تھے اور انہوں نے یہ بھی لکھا کہ اگر سکھ اب بھی اپنی ایسی حرکات سے باز آ جائیں تو وہ جہاد سے رک جائیں گے اور کہا کہ انگریزی حکومت گو کا فر ہے مگر چونکہ مذہب کے بارہ میں ظلم و تعدی نہیں کرتی بلکہ اگر کوئی ہم پر زیادتی کرتا ہے تو اس کو سزا دینے پر تیار ہوتی ہے اس لئے ہم اس کے خلاف جہاد نہیں کریں گے.(سوانح احمدی مرتبه مولوی محمد جعفر تھانیسری صفحه71,45) ان بزرگوں نے انگریز سے ڈر کر نہیں بلکہ درست طور پر انگریزوں کے خلاف جہاد کو نا جائز قرار دیا.یہ ڈرنے والے لوگ نہیں تھے.مولانا سید حسین احمد مدنی کا بھی یہی فتویٰ ہے کہ اگر کسی ملک میں سیاسی اقتدار اعلیٰ کسی غیر مسلم کے ہاتھ میں ہو اور وہاں پر اس کے دینی و مذہبی شعائر کا احترام کیا جاتا ہو وہ دار السلام ہو گا اور از روئے شرع وہاں جہاد جائز نہیں بلکہ یہ فرض ہے کہ وہ اس ملک کو اپنا ملک سمجھ کر اس کے لئے ہر نوع کی خیر خواہی اور خیر اندیشی کا معاملہ کریں.(نقش حیات جلد اوّل، دوم صفحه 418،417 سن اشاعت 1979ء) اس زمانہ میں حنفی مکتب فکر کے مولانا عبدالحی لکھنوی نے بھی یہی فتویٰ جاری کیا کہ:.ہندوستان دار السلام ہے.(مجموعه فتاوی عبدالحی صفحه 123 جز اول 1373ھ) مکہ معظمہ کے جملہ مسالک فقہ کے علماء نے بھی یہی فتوے دیئے کہ ہندوستان دار السلام ہے.(Review of Dr.Hunter's Indian Musalmansمطبوعه بنارس 1872ء اپنڈکس II) اہل حدیث کے علماء میں سے نواب صدیق حسن نے لکھا کہ حنفیوں کے نزدیک ہندوستان دار السلام ہے اور اس میں جہاد نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس میں عزم جہاد گناہ کبیرہ ہے.(ترجمان وهابيه صفحه 15مطبوعه 1312ه لاهور) 180

Page 187

مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے حکومت انگریزی کی مدح سرائی کرتے ہوئے اس کے حق میں دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اس حکومت کا سایہ لمبا کرے کہ اس میں ہمارے فرقہ اہل حدیث کو مذہبی آزادی حاصل ہے.(اشاعة السنه نمبر 1 جز 9 صفحه 16,15 ، 404تا407 ، 354 تا355) مولوی نذیر حسین دہلوی شیخ الگل نے جہاد کی شرائط کا ذکر کر کے اپنے فتویٰ میں کہا کہ ہندوستان میں یہ شرائط موجود نہیں اس لئے یہاں جہاد کرنا معصیت اور ہلاکت ہے.(فتاوای نذیریه جز 3 صفحه 282 تا 285 كتاب الاماره والجهاد طبع دوم 1971ء) مولوی نذیر حسین صاحب کے اس فتویٰ پر درجن بھر علماء کے دستخط ثبت تھے.آپ کے شاگرد مولوی محمد حسین بٹالوی نے جہاد کے مسائل بیان کر کے لکھا کہ ہندوستان دار السلام ہے اور اس کے ساتھ کسی بادشاہ کو مذہبی لڑائی کرنا جائز نہیں.(الاقتصاد في مسائل الجهاد حصه اوّل صفحه 25 بار دوم 1979ء امام ابوحنیفه اکیڈمی بھاولنگر) بریلوی مکتب فکر کے بانی مولوی احمد رضا خاں بریلوی کا بھی یہی فتویٰ ہے کہ ہندوستان دارالحرب نہیں دار السلام ہے.(نصرة الابرا صفحه 29 مطبع صحافی لاهور ايجيسن بریلویوں کی مشہور کتاب بہار شریعت میں صاف مذکور ہے کہ :.وو ہندوستان دار السلام ہے (بہار شریعت حصه نهم صفحه 153) فرقہ امامیہ کے علامہ علی حائری رئیس الشیعہ نے مذہبی آزادی کی بنا پر فرقہ شیعہ کی طرف سے حکومت انگریزی کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے لکھا کہ ہر شیعہ کو اس احسان کے عوض میں جو آزادگی مذہبی کی صورت میں انہیں حاصل ہے صمیم قلب سے برٹش حکومت کا رہین احسان اور شکر گزار ہونا چاہئے اور اس کے لئے شرع اس کو مانع نہیں ہے.موعظه تحریف قرآن صفحه 72 مطبوعہ 1923 مطبع خواجہ بک ایجنسی لاہور ) 181

Page 188

ان سب کتب کا نقطہ مرکزی یہ تھا کہ برصغیر ہندوستان میں چونکہ انگریز نے مذہبی آزادی دے رکھی ہے اس لئے جہاد جائز نہیں.اس کے علاوہ جہاد کی جو دیگر شرائط ہیں وہ بھی پوری نہیں ہو رہی ہیں لہذا ہندوستان میں جہاد جائز نہیں.یہ انگریز کی کسی قسم کی کاسہ لیسی نہیں تھی.اسلام تو عملی مذہب ہے.حالات کے تقاضے کے تحت بہترین راستہ تجویز کرتا ہے.جہاد کا مسئلہ مرزا صاحب کے دعوے سے بہت پہلے طے ہو چکا تھا.آج تو ہم کو یہ کہا جا رہا ہے کہ ہم انگریز کے بڑے وفادار تھے لیکن انگریز کے وقت میں کیفیت یہ تھی کہ انگریزوں سے یہ کہا جاتا تھا کہ یہ انگریزی حکومت کے مخالف ہیں اور اس کو ختم کر دیں گے.چنانچہ مولوی کرم دین صاحب نے اپنی کتاب ” تازیانہ عبرت“ میں لکھا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی مہدی سوڈانی سے زیادہ فساد پھیلائے گا اس لئے انگریزوں کو اس کی کارروائیوں کا نوٹس لینا چاہئے اور خود کو اور دیگر اہل اسلام کو انگریزوں کا وفادار قرار دیا“.تازیانه عبرت صفحه 93) سول اینڈ ملٹری گزٹ نے اپنی 124اکتوبر 1894ء کی اشاعت میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو WellKnown Fanatic قرار دے کر انگریزوں کو مشورہ دیا گیا کہ ان پر پولیس کڑی نظر رکھے.اس کے علاوہ:.مولانا ظفر علی خاں صاحب نے اپنے اخبار زمیندار 11 نومبر 1914ء میں انگریز کی وفاداری کی تائید کی ہے.در اصل جب آزادی ملی تو ذہن بالکل تبدیل ہو گئے.اس ساری جدو جہد آزادی میں ہم تو شامل تھے اور جو ہمارے مخالف ہیں وہ اس وقت تحریک آزادی پاکستان کے مخالف تھے.محترم مولانا مودودی صاحب نے لکھا ہے کہ جب تک انگریز کی حکومت مسلمانوں کی 182

Page 189

حکومت کو مٹانے کی کوشش کر رہی تھی اس وقت تک یہ ملک دارالحرب تھا لیکن جب مسلمان مغلوب ہو گئے اور اپنے اپنے پرسنل لاء کے تحت آزادی سے رہنا قبول کر لیا تو یہ ملک دار الحرب نہیں رہا.(سود حصه اوّل حاشیه صفحه 137از مودودی) مولوی چراغ علی صاحب نے اپنی کتاب " تحقیق الجہاد“ میں لکھا کہ آنحضرت ﷺ نے صرف دفاعی جنگ کی اجازت دی ہے.(تحقيق الجهاد صفحه 156 از مولوی چراغ علی، ترجمه مولوی غلام اکنین و مولوی عبد الغفور مطبوعہ لاہور ) جہاد کے بارہ میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے جو حوالے عموماً پیش کئے جاتے ہیں وہ مذہبی آزادی کے اس دور کے پُر امن حالات کے پیش نظر شرائط جہاد کے مفقود ہونے کی وجہ سے وقتی عدم وجوب کے فتویٰ کی حیثیت رکھتے ہیں.آپ نے غیر مشروط طور پر جہاد کے دائمی منسوخ ہونے کا کبھی ذکر نہیں فرمایا بلکہ اس کے برعکس فرماتے ہیں:.1 قرآن شریف صرف ان لوگوں کے ساتھ لڑنے کا حکم فرماتا ہے جو خدا کے بندوں کو اس پر ایمان لانے اور اس کے دین میں داخل ہونے سے روکتے ہیں اور اس بات سے کہ وہ خدا کے حکموں پر کار بند ہوں اور اس کی عبادت کریں اور وہ ان لوگوں سے لڑنے کیلئے حکم فرماتا ہے جو مسلمانوں سے بے وجہ لڑتے ہیں اور مومنوں کو ان کے گھروں سے اور وطنوں سے نکالتے ہیں اور خلق اللہ کو جبراً اپنے دین میں داخل کرتے ہیں اور دین اسلام کو نابود کرنا چاہتے ہیں اور لوگوں کو مسلمان ہونے سے روکتے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جن پر خدا تعالیٰ کا غضب ہے اور مومنوں پر واجب ہے کہ ان سے لڑیں اگر وہ باز نہ آئیں.(اُردو ترجمه از نورالحق - حصه اوّل صفحه 45 روحانی خزائن جلد8 صفحه 62) 2.اس زمانہ میں جہاد روحانی صورت سے رنگ پکڑ گیا ہے اور اس زمانہ میں جہاد یہی ہے کہ 183

Page 190

اعلائے کلمہ اسلام میں کوشش کریں ،مخالفوں کے الزامات کا جواب دیں، دین متین اسلام کی خوبیاں دنیا میں پھیلائیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی دنیا پر ظاہر کریں.یہی جہاد ہے جب تک کہ خدا تعالیٰ کوئی دوسری صورت دنیا میں ظاہر نہ کرے.( مکتوب حضرت مسیح موعود بنام میر ناصر نواب صاحب مندرجہ رساله در ود شریف صفحہ 113 مرتبہ حضرت محمد اسماعیل حلالپوری) حرف آخر دوران بحث فاضل وکیل سرکار اور مشیران عدالت نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ولی امر ہر طرح کی قانون سازی کر سکتا ہے.اس بحث میں حاکم وقت اور امام وقت کا فرق بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا جو ایک بہت اہم اور بنیادی فرق ہے.اولوالامر کا حقیقی مفہوم اور معنی سمجھنے میں بھی غلطی کی گئی ہے.در اصل اولوالامر خود ایک اضافی اصطلاح Relativetem ہے جو حوالہ جات پیش کئے گئے ہیں ان سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ کسی ایک مہم کے لئے مقرر کئے گئے کمانڈر کو بھی اولوالامر کہتے ہیں کسی مخصوص علاقہ اور مخصوص حالات کے انتظامی سربراہ کو بھی اولی الامر کہا جاتا ہے اور مملکت کے سر براہ کو بھی اولی الامر کہا جاسکتا ہے.یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ ہر اولوالامر امام وقت نہیں ہوتا اور نہ وہ پوری امت کے لئے اولوالامر ہوتا ہے.اس بارہ میں امام راغب کا قول اس کو سمجھنے میں محمد ہوسکتا ہے.امام راغب فرماتے ہیں:.’ اولوالامرجن کی وجہ سے لوگ رکھتے ہیں چار قسم کے ہیں :.1.انبیاء.اور ان کا حکم عام اور خاص لوگوں کے ظاہر و باطن پر ہے اور 2 والی.یعنی بادشاہ.اور ان کا حکم سب کے ظاہر پر ہے باطن پر نہیں اور 3.اہل حکمت یا فلسفی.جن کا حکم خاص لوگوں کے باطن پر ہے اور -4 واعظ.اور ان کا حکم عام لوگوں کے باطن پر ہے ظاہر پر نہیں.(مفردات راغب صفحه 25 زیر لفظ (امر) 184

Page 191

اس سے یہ بات واضح ہے کہ نہ تو اولوالا مرقانون سازی کرسکتا ہے اور نہ ہر قانون سازی کا مجاز اولوالامر مذہبی اور تعبدی امور میں قانون سازی کا مجاز ہے.امام وقت اور اولی الامر کا فرق زیادہ نمایاں طور پر واضح ہو جاتا ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ عالم اسلام میں ایک ہی وقت میں کئی اولوالامر اپنے اپنے دائرہ کار کے اندر موجود ہیں.اگر شرعی نقطۂ نگاہ سے ہر ایک کو اولوالامر سمجھا جائے تو یہ سوال پیدا ہوگا کہ پھر یہ.اولوالامر باہم متصادم کیوں ہیں.مثلاً مینی اور صدام میں سے حقیقی اولوالا مرکون ہے؟ اور اگر صدر قذافی اور حافظ الاسد اور نمیری وغیرہ سب اولوالامر ہیں تو کیا ان کے احکام یکساں طور پر واجب التعمیل ہیں.اس کا واضح جواب یہ ہے کہ نہیں اس صورت میں ہمارا یہ موقف درست ثابت ہوتا ہے کہ گوکسی مخصوص وحدت اور علاقے کے لئے اور بعض مخصوص مقاصد کے لئے کوئی شخص اولوالا مر بھی ہو وہ لازماً ہر معاملے میں اولوالامر نہیں ہوتا اور یوں گویا آخری سند خدا اور اس کا رسول ہی رہتے ہیں اور کسی وقت بھی کوئی اولوالا مرکسی مفہوم میں آخری سند نہیں ٹھہرتا.اس لئے یہ کہنا درست نہیں کہ صدر پاکستان کیونکہ اولوالامر ہیں لہذا وہ جس طرح چاہیں قانون سازی کر سکتے ہیں.اولوالامر کے سلسلے میں ایک بات اور بھی قابل غور ہے کہ جو بھی اولوالامر ہو اس کے اپنے اولوالامر ہونے کی سند یا جواز کیا ہے؟ کیا کوئی متغلب یا فوجی آمر بھی شرعی معنوں میں اولوالامر ہوتا ہے؟ اور کیا اس کا ہرحکم شرعاً اولوالامر کا حکم کہلا سکتا ہے؟ یہ امر بھی غور طلب ہے کہ جن امور میں اولوالامر کو قانون سازی یا احکام نافذ کرنے کا اختیار ہے.اگر ان کی حیثیت واقعی شرعی ہے تو کیا کوئی بعد میں آنے والا اولوالا مران احکام یا قوانین کو باطل کر سکتا ہے؟ اگر کر سکتا ہے تو اس کو یہ اختیار قرآن وسنت نے کہاں دیا ہے؟ مثلاً موجودہ صورتحال میں اگر سر براہ مملکت پاکستان اولوالامر ہے تو قائد اعظم اور ان کے بعد 185

Page 192

دوسرے ادوار کے سربراہان مملکت پاکستان بھی اولوالامر تھے تو احمدیوں کے بارہ میں ان کے نافذ کئے ہوئے قوانین یا ان کی جاری کی ہوئی ضمانتیں کس اختیار سے باطل کی جاسکتی ہیں.جہاں تک شرعی عدالت کا سوال ہے یہ مسئلہ غور طلب ہے کہ شریعت کی رو سے شرعی عدالت کونسی ہے؟ قرآن حکیم کے ارشادات کے مطابق شرعی عدالت خواہ کوئی بھی قائم کرے وہ اسی صورت میں شرعی عدالت کہلائے گی جب وہ قرآن وسنت کے احکام کے مطابق فیصلہ کرے گی.شرعی عدالت کے اختیار کا مصدر کوئی حاکم وقت نہیں ہوتا.بلکہ درحقیقت قرآن وسنت کے مطابق انصاف کے صدور سے ہی کوئی عدالت شرعی عدالت بنتی ہے.اگر محض اقتدار وقت کو شرعاً اولوالا مرسمجھ لیا جائے تو کیا مذہبی امور میں کوئی شیعہ حاکم وقت اہلسنت کے عقائد کے خلاف یاسنی حاکم وقت اہل تشیع کے عقائد کے خلاف قانون سازی کرنے کا مجاز ہے! اگر نہیں تو کسی غیر مسلم کے عقائد اور عبادات پر اثر انداز ہونے والی قانون سازی کا اختیار کہاں سے حاصل ہوا ؟ یہ وہ سوال ہیں جن کا فاضل مشیرانِ عدالت اور فاضل وکیل سرکاری میں سے کسی نے کوئی جواب نہیں دیا.اور جن کا جواب اس عدالت کو تلاش کرنا ہے.ہمارا موقف یہ ہے کہ یہ شرعی عدالت اقتدار وقت نے قائم کی ہے.اور محض عدالت کے قیام سے ہی قرآن وسنت کی بالا دستی قائم کرنا عدالت کا فرض ہو گیا ہے اور یہ عدالت اقتدار وقت کی کسی مصلحت اندیشی کی پابند نہیں ہے.جہاں تک اقتدار وقت کا تعلق ہے امور دنیا اور امور سلطنت میں اقتدار وقت اولوالامر کی حیثیت تو رکھتا ہے اور اس بارہ میں قانون سازی اور احکام بھی نافذ کر سکتا ہے مگر امور دین میں اقتدار وقت کی حیثیت نہ اولوالامر کی ہے نہ شرعی اولوالامر کی ہے اور نہ ان امور میں قانون سازی کا اختیار ہے.لہذاز یر نظر آرڈینینس کو باطل قرار دیا جانا چاہئے.186

Page 193

ہماری آخری گزارش اس عدالت کے سامنے یہ ہے کہ ہم نے اپنی استطاعت کے مطابق زیر نظر امور پر عدالت کی معاونت کی ہے اور مقدور بھر کوشش کی ہے کہ کوئی پہلو عدالت کی نظر سے اوجھل نہ رہے.ہم نے یہ بات بھی واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اکثریت کو اس بات کا کوئی اختیار نہیں کہ وہ ہمیں از خود ایک نام دے کر پھر ہمارے لئے ہمارا مذہب اور عقائد معین کرے ہمارا مذہب وہی ہے جو ہم بیان کریں گے اور ہمارا مذ ہب آئینی ترمیم سے پہلے مشہور ومشہود تھا اور خود زیر نظر آرڈینینس شاہد ہے کہ اذان اور مسجد وغیرہ ہمارے مذہبی اعتقاد اور اس کے عملی اظہار کا حصہ ہیں لہذا اس کو تبدیل کر کے کوئی نیا مذہب تبدیل کرنے کی جو صورت بھی ہو گی وہ قرآن وسنت کے منافی ہوگی اور خدا اور اس کے رسول کے ذمہ سے بغاوت ہوگی.ہم نے اپنا نقطہ نظر کمال ادب اور مقدور بھر وضاحت کے ساتھ پیش کر دیا ہے اور اس کا محرک ملک و قوم کی محبت اور ہمدردی کا جذبہ ہے کہ قوم خدا اور اس کے رسول کے احکام کی خلاف ورزی سے کسی معصیت اور اس کے وبال سے بچ جائے ورنہ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہمارے لئے ہمارے آقا ومولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادڈھارس اور اطمینان کا باعث ہے:.سيكون بعدى ناس من أمتى يسد الله بهم الثغور يؤ خذ منهم الحقوق ولا يعطون حقوقهم اولئك منى وانا منهم (کنز العمال جلد 12 صفحه 182 مطبوعه حلب 1973ء) میرے بعد میری اُمت میں سے ایسے لوگ ہوں گے جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سرحدوں کو محفوظ کرے گا.ان سے حقوق لئے تو جائیں گے مگران کو حقوق دیئے نہیں جائیں گے.یہ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں.ہم اپنے اس تعلق پر راضی ہیں اور ہم بفضل خدا اس یقین پر قائم ہیں کہ خدا اور اس کے رسول 187

Page 194

سے ہمارا تعلق تو ڑا نہیں جاسکتا اور جیسا کہ ہم نے عرض کیا تھا ہم اپنی اذانوں کو سسکیاں بنا کر سینوں میں اتارلیں گے اور ہمیں اصحاب کہف کی طرح غاروں میں چھپ کر یا جنگلوں اور ویرانوں میں جا کر خدا کو یاد کرنا پڑا تو کریں گے مگر خدا اور اس کے رسول کا دامن نہیں چھوڑیں گے.انشاء اللہ.وماعلینا الاالبلاغ.188

Page 195

{6} فوری اور مختصر فیصلہ ( ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے ) چودہ روز تک بحث ہوتی رہی ، بیشمار حوالہ جات پیش کئے گئے ، دونوں طرف سے دلائل دیئے گئے.ہماری طرف سے کوئی درخواست حکم امتناعی یا قانون کو معطل کرنے کے بارہ میں نہیں تھی.ان حالات میں فیصلہ صادر کرنے میں جلدی کی کوئی وجہ نہیں تھی.عموماً ایسی صورت میں فیصلہ محفوظ کر لیا جاتا ہے اور مکمل فیصلہ تحریر کرنے کے بعد سنایا جاتا ہے.مگر اس معاملہ میں عدالت نے یہ مناسب سمجھا کہ ہماری بحث ختم ہوتے ہی تھوڑی دیر کے لئے عدالت اُٹھی اور وقفہ کے بعد واپس آ کر اپنا ایک مختصر فیصلہ سنا دیا جس کی رُو سے ہماری درخواست خارج کر دی گئی.یہ بات ظاہر تھی کہ عدالت کے ذہن پر کوئی ایسا دباؤ تھا جو انہیں مجبور کر رہا تھا کہ مفصل فیصلہ لکھنے سے پہلے ایک مختصر فیصلہ کے ذریعہ درخواست خارج کر دی جائے.در اصل بحث کے دوران یہ محسوس ہو رہا تھا کہ عدالت کی رائے بٹی ہوئی ہے اور فیصلہ شائد متفقہ نہ ہو، اختلافی فیصلہ ہو.سماعت کے دوران جس طرح کے سوالات ہو رہے تھے اس سے چیف جسٹس شیخ آفتاب حسین اور بعض دوسرے جوں کے خیالات کا اندازہ ہو رہا 189

Page 196

تھا.فریق مخالف اپنی جگہ پریشان تھا.ایک کھلبلی مچی ہوئی تھی اور یہ اظہار ہورہا تھا کہ احمدی ہمیں لے بیٹھیں گے.چنانچہ ہر کارے دوڑائے جارہے تھے.چیفس جسٹس کو درمیان میں سماعت روک کر ایک دن کے لئے اسلام آباد جانا پڑا.بہر حال اختلافی فیصلہ کے اندیشہ کے پیش نظر اس بات کا انتظام کرنا ضروری تھا کہ پہلے ایک متفقہ فیصلہ سنا دیا جائے اور پھر بعد میں تفصیلات لکھی جائیں چنانچہ مختصر فیصلہ سنایا گیا اور اس پر پانچوں جوں نے دستخط کئے.فیصلے میں اتفاق رائے تو حاصل کر لیا گیا مگر ہماری بحث کا اثر فیصلے میں نمایاں جھلکتا تھا.عدالت ذہنی طور پر یہ محسوس کر رہی تھی کہ مذہبی آزادی کے حق سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور کسی نہ کسی رنگ میں مذہبی آزادی کا حق تو تسلیم کرنا ہی پڑے گا.ہمارے استدلال سے یہ بات ظاہر ہوتی تھی کہ مذہبی آزادی کسی بھی صورت میں سلب نہیں کی جاسکتی.اور نہ ہی مذہبی آزادی سے محروم کیا جا سکتا ہے.استدلال اتنا بھر پور اور مؤثر تھا کہ اس سے جان چھڑانا مشکل تھا ، جس کا اثر مختصر فیصلہ میں نمایاں تھا.مختصر فیصلے میں عدالت نے لکھا کہ مذکورہ ordinance آئین اور قرآن وسنت کے احکام کے مطابق سائلان اور قادیانیوں کو اپنے مذہب کے اظہار اور اس پر عمل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتا.وہ اس بارے میں آزاد ہیں کہ وہ قادیانیت یا احمدیت کو اپنا مذہب ظاہر کریں اور مرزا غلام احمد قادیانی پر نبی ، مسیح موعود اور مہدی موعود کے طور پر اپنے ایمان کا اظہار کریں.وہ اس بات میں آزاد ہیں کہ وہ اپنی عبادات من جملہ دیگر اپنی عبادت گاہوں میں اپنے مذہب کے مطابق ادا کریں.دوسرے پیرا میں لکھا کہ زیر اعتراض ardinance-1974ء کی آئینی ترمیم کا نتیجہ ہے جس کے ذریعے سے قادیانی اور لاہوری گروپ کو اسلامی شریعت کے احکام کے مطابق غیر مسلم قرار دیا گیا.190

Page 197

ORDER For reasons to be recorded later, we hold, we hold that:- (1) The allegation in the two Petitions as elaborated at the Bar that the impugned Ordinance violates the freedom of faith of the Qadianis of either persuasion or restrains them from practising their religion or affects their right of worship is not correct.The said Ordinance does not interfere with the right of the Petitioners or other Qadianis to profess and practise their religion in accordance with the provisions of the Constitution and the injunctions of the Holy Quran and the Sunnah.They are at liberty to profess Qadianism or Ahmadi-ism as their religion and to profess their faith in Mirza Ghulam Ahmad of Qadian as a prophet or the Promised Messiah or the Promised Mehdi.They are also at liberty to practise their religion and worship inter alia in their places of worship according to the tenets of theirreligion.(2) The impugned Ordinance is consequential to the Constitutional Amendment of 1974 by which the Qadianis, whether belonging to the Lahori Group or others were declared non-Muslims in accordance with the dictates of Islamic Sharia.In implementation of the Constitutional flat which was desregarded with impunity by the qadianis, they have been restrained by the impugned Ordinance from directly or indirectly calling or posing themselves as Muslims or calling their faith as Islam.To call their places of worship by the name of Masjid (mosque) and to call people to prayers by calling Azan which (name for the place of worship and method for calling people to prayer) are exclusive for the Muslims and destinguish Muslims form non-Muslims, amounts to posing as Muslims.By the said name and the said call to prayers, the unwary among the Muslims are likely to be deceived and to be drawn to offer their prayers behind a non-Muslim Imam in a non-Muslims place of worship.The Prohibitim against calling their places of worship as Masjid or calling Azan for prayers is for thus consequential to the declaration of the Ahmadis or Qadianis as non-Muslims or prohibition against posting them as Muslims.The Qadianis can call their places of worship by any orther name and call the adherents of their religion to prayer by use of any other method.This does not amount to interference with the right to profess or practise their religion.(3) The prohibition against the use of epithets, descriptions and titles etc.reserved for holy personages among the Muslims is also likewise consequential and does not amount to interference with profession or practise or religion.The use by the Ahmadies 191

Page 198

of such epithets as Ameer-ul-Momineen, Khalifat-ul-Momineen, Khalifat-ul-Muslimeen in respect of Ahmadis or use of epithet of Ummul-Momineen for the wife of Mirza Sahib amounts to posing themselves as Momen or Muslim.The words Sahaaba or Radi-Allah-Anho are exclusive for the Companions of the Holy Prophet (P.B.H.) and the Muslims.Similarly the epithet Ahle Bait is exclusive for the family of the Holy Prophet (P.B.H.).The use of such epithets by the Ahmadis not only outrages the feelings of the Muslims but also amounts to their posing indirectly as Muslims.The prohibition does not interfere with the right of Ahmadis to profess and practise their religion.(4) The prohibition against propagation of the religion of Ahmadis is not contrary to the Quran and the Sunnah of the Holy Prophet (P.B.H.).This prohibition is also consequential to the declaration of Ahmadis or Qadianis as non-Muslims and restraint against their posing as Muslims.Their entire strategy in preaching is to try to satisfy the Muslim to whom they preach that by conversion to Ahmadi-ism he shall remain a Muslim.This would be contrary to the Constitution.For inter alia the above reasons the two petitions are without force and are dismissed.Sd/-Chief Justice (Aftab Hussain) Sd/-J.(Fakhre Alam) Sd/-J.(Muhammad Siddiq) Sd/-J.(Ghulam Ali) Sd/-J.(Abdul Quddus) LAHORE, THE 12TH AUGUST 1984 اس فیصلے میں آفتاب حسین چیف جسٹس سمیت پانچ ججوں کی شمولیت ظاہر کی گئی ہے.اور فیصلے کی تاریخ 12 اگست 1984ء درج کی گئی ہے.(136 PLD 1984 FSC) 192

Page 199

{7} تفصیلی فیصلہ مختصر فیصلے میں یہ تحریر کیا گیا تھا کہ فیصلے کی وجوہات بعد میں تحریر کی جائیں گی تفصیلی فیصلہ جب جاری ہوا تو فیصلے کی تاریخ 28 / اکتوبر 1984 ء ظاہر کی گئی.اور سماعت کا آخری دن 12/ اگست 1984ء درج کیا گیا ، جس سے فوری تأکثر یہ پیدا ہوتا ہے کہ جیسے 12 اگست کی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا اور اب 28 اکتوبر کو فیصلہ جاری کیا جا رہا ہے تفصیلی فیصلے میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں کہ کوئی مختصر فیصلہ بھی جاری کیا گیا تھا.اور کہ یہ فصیلی فیصلہ کسی مختصر فیصلے کی تفصیلات پر مبنی ہے.تفصیلی فیصلہ چارجوں کے دستخطوں سے جاری ہوا.پانچویں حج کا ذکر تک نہیں تھا کہ ان کی اختلافی رائے یا تائیدی رائے آخر کیا تھی.ہوا یہ کہ چیف جسٹس صاحب کو جنرل ضیاء الحق نے ایک نئی آئینی ترمیم کر کے عہدہ سے الگ کر دیا.ترمیم یہ کی گئی کہ صدر کسی وقت بھی کسی حج کو کسی دیگر منصب پر فائز کر سکتا ہے اور اگر جج وہ عہدہ یا منصب قبول نہ کرے تو وہ اپنے عہدے سے مستعفی متصور ہو گا.چیف جسٹس آفتاب حسین صاحب کسی دورہ پر گئے ہوئے تھے.صدر نے ان کو وزارت مذہبی امور کا مشیر مقرر کر دیا جو چیف جسٹس کے منصب سے بہت کمتر حیثیت کا عہدہ تھا.چنانچہ انہوں نے منصب قبول نہ کیا اور یوں مستعفی ہو کر فارغ ہو گئے اور تفصیلی فیصلہ چار ججوں کے دستخطوں سے جاری ہوا.اختلاف تو ظاہر وباہر تھا ، وہ 193

Page 200

ریکارڈ پر بھی آ گیا.مگر اختلافی رائے دنیا کی نظر سے اوجھل رہی.اس فیصلے میں چیف جسٹس آفتاب حسین کا سرے سے ذکر ہی نہ ہونا اور پہلے سے جاری کردہ مختصر فیصلے کا ذکر بھی غائب کر دینا عدالتی روایات سے انحراف اور حیران کن تھا.چنانچہ جنیوا سے انٹر نیشنل جیوریسٹس کمیشن پاکستان کے دورے پر آیا تو انہوں نے اس بات کا نوٹس لیا، اس پر حیرت کا اظہار کیا اور اپنی رپورٹ میں اس کا ذکر بھی کیا.تفصیلی فیصلہ کا جائزہ لیا جائے تو اسے تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے.پہلا حصہ پہلے چار صفحات میں درخواست کے پس منظر، اس کے مندرجات اور اس سے متعلقہ اُمور کا مختصر ذکر کیا گیا.فیصلے کے پیرا گراف 12 میں عدالت نے لکھا.زیر نظر آرڈنینس کو پینچ کرنے کی جو بنیادی وجہ ان درخواستوں میں بیان کی گئی اور جس پر مختلف زاویوں سے بحث کی گئی تھی کہ آرڈنینس احمدیوں کے شرعی اور آئینی حقوق سے متصادم ہے.پیرا گراف 13 میں لکھا: یہ بات قابل ذکر ہے کہ آئینی ترمیم کے باوجود سائلان نے اپنی بحث کے دوران اپنے آپ کو مسلمان اور اپنے مذہب کو اسلام کہنے پر اصرار کیا.اور یہ کہا کہ احمدیوں کو نان مسلم قرار دینے کی ترمیم ایک برسر اقتدار پارٹی کا فیصلہ تھا، کوئی مذہبی فیصلہ نہیں تھا.پیرا 14 میں لکھا: مسٹر مجیب الرحمن نے یہ کہا کہ چونکہ عدالت آئین کے خلاف فیصلہ نہیں کر سکتی لہذاوہ یہ سوال اُٹھا نا پسند نہیں کریں گے کہ آیا قادیانی مسلمان ہیں یا غیر مسلم.تا ہم انہوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ قادیانی فی الواقع غیر مسلم نہیں بلکہ وقت کے اقتدار اعلیٰ نے انہیں ایسا قرار دیا ہے.194

Page 201

دوسرا حصہ فیصلے کا دوسرا حصہ جو نمایاں طور پر باقی فیصلہ سے الگ نظر آتا ہے 82 صفحات پر پھیلا ہوا ہے جس میں وہ امور بیان کئے گئے اور ان پر رائے دی گئی جن کو عدالت دورانِ سماعت غیر متعلقہ قرار دے چکی تھی.اور خاکسار کو بھی اس پر مزید بحث کرنے سے روک دیا تھا.غیر متعلقہ بحث فیصلے میں داخل کرنے کی دلیل عدالت نے یہ دی کہ احمدیوں کے مسلمان ہونے کے مفروضے پر مسٹر مجیب الرحمن کی بحث اس عدالت کو دعوت دیتی ہے کہ وہ اس سوال کو زیر غور لائے.لہذا عدالت کا اس نقطہ پر فیصلہ دیئے بغیر کوئی چارہ نہیں.اس نقطہ پر پوری بحث ہوئی اور اس فیصلہ میں ہم اس کا جائزہ لیں گے.اپنی تحریری بحث میں سائلان کا یہ بیان کہ وہ خود اس سوال کو نہیں اُٹھانا چاہتے تھے صرف جزوی طور پر ہی درست ہے.“ تیسرا حصہ تفصیلی فیصلے کا تیسرے حصہ میں صفحہ 86 سے لے کر صفحہ 120 تک ہمارے پیش کردہ دلائل کا جائزہ لیا گیا ہے.عدالت نے لکھا:.یکے از سائلان 'مجیب الرحمن، جنہوں نے مقدمے میں بحث کی ، مندرجہ ذیل نکات اٹھائے: 1- Article 203D کا دائرہ کار 2.قرآن نہی کے اُصول 3 روح قرآن -4.مذہب کے اظہار اور اس پر عمل کا دائرہ کار 5.اپنے مذہب کو تبدیل کرنے کا حق 6.قادیانیوں اور مسلمانوں کے مابین تخلیق پاکستان کے دوران ان 195

Page 202

معاہدات کا اثر جن میں تبلیغ سمیت مکمل مذہبی آزادی کی یقین دہانی موجود تھی.پہلے نقطے پر میرے استدلال کا جائزہ لینے کے بعد عدالت نے لکھا کہ : عدالت محمد ریاض وغیرہ بنام فیڈرل گورنمنٹ کے مقدمہ میں یہ قرار دے چکی ہے کہ پبلک لاء کے معاملے میں عدالت تقلید کے اصول کی پابند نہیں.یہ بات مسٹر مجیب الرحمن کے اندیشے رفع کرنے کیلئے کافی ہے.قرآن فہمی اور اُصول تفسیر کے بارے میں جو اُصول میں نے قائم کئے تھے ان کے بارے میں عدالت نے یہ لکھا وو ان اُصولوں پر کوئی اختلاف نہیں.اپنی بحث کے دوران مسٹر مجیب الرحمن نے ہماری توجه قرآن شریف کی متعدد آیات کی طرف مبذول کروائی تھی جس کے مطابق کسی آیت کا مفہوم صرف شان نزول تک محدود نہیں ہوتا بلکہ حکیم عام ہوتا ہے.جو چھ سوال ہم نے عدالت کو پیش کئے تھے ان کا ذکر مطبوعہ فیصلہ کے صفحہ 89 پر کیا گیا ہے، عدالت نے لکھا:.چوتھے نقطہ پر جس میں مذہب کے اظہار اور عمل پر آزادی کا تعلق ہے مسٹر مجیب الرحمن نے چھ سوال کئے تھے.“ 1 - " کیا اسلام کسی غیر مسلم کو یہ حق یا اجازت دیتا ہے کہ وہ اللہ کی وحدانیت کا اظہار کرے.2.کیا اسلام کسی غیر مسلم کو یہ حق یا اجازت دیتا ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دعوئی میں سچا تسلیم کرے.3.کیا اسلام کسی غیر مسلم کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ قرآن کو ایک بہتر نظام حیات کے طور پر قابل عمل تسلیم کرے اور اس کی پابندی کرے 196

Page 203

4.کیا کسی غیر مسلم کو اس بات کی اجازت ہے یا نہیں کہ اگر وہ چاہے تو قرآن کی تعلیمات پر عمل کرے.5.اگر چوتھے سوال کا جواب نفی میں ہو تو قرآن وسنت میں وہ نفی کرنے والی آیت کونسی ہے.6.اسلام ایسے شخص کے لئے کیا لائحہ عمل تجویز یا مہیا کرتا ہے جسے مسلمان تصور نہ کیا جائے اور تصور کئے جانے کا حق نہ ہو اور وہ اللہ کی وحدانیت، قرآن کی حقانیت اور رسول کریم ﷺ کی رسالت کا اقرار کرتا ہو.ان سوالات کا جواب عدالت نے صفحہ 93 پر یوں دیا."مسٹر مجیب الرحمن کے اُٹھائے ہوئے پہلے چار سوالات کا جواب تو اثبات میں ہی دیا جاسکتا ہے.آئین ، قانون اور شریعت میں کسی غیر مسلم پر اس بات کی کوئی پابندی نہیں کہ وہ اللہ کی وحدانیت کا اعلان کرے، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دعوئی میں سچا تسلیم کرے.قرآن کو ایک اچھے نظام حیات کے طور پر قابل عمل تسلیم کرے.پہلے چار سوالوں کو کے نتیجے میں پانچواں سوال پیدا نہیں ہوتا.“ گو چھٹے سوال کا جواب عدالت نے یہ دیا کہ ایسے غیر مسلم کے ساتھ قرآن وسنت کی عائد کردہ شرائط کے تحت دوسری اقلیتوں کی طرح سلوک کیا جائے گا جس کا ہم مناسب مقام پر جائزہ لیں گے.“ آزادی مذہب کے بارے میں عدالت نے میرے معروضات کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد یہ قرار دیا اسلام مکمل مذہبی رواداری کی تعلیم دیتا ہے اور اس بات کو انسان کے ضمیر پر چھوڑتا ہے کہ وہ اسلام کو بطور مذہب قبول کرے یا نہ کرے، کسی جبر کی اجازت نہیں“.197

Page 204

اور پھر لکھا: یہ تمام دلائل غیر متعلقہ ہیں کیونکہ زیر نظر ordinance قادیانیوں کو اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ وہ اپنا اعتقاد تبدیل کر کے اسلام میں داخل ہو جائیں“.عدالت نے مزید یہ قرار دیا." اسلامی شریعت غیر مسلموں کو مذہب کے اظہار اور اس پر عمل درآمد کو پوری طرح تحفظ فراہم کرتی ہے اور اس بات کی تائید قرآن کی مندرجہ بالا آیات اور مفسرین کی تفسیر سے ہوتی ہے.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم اور آپ کے قابل احترام خلفاء نے مذہبی آزادی سے متعلق مشرکوں اور غیر مسلموں سے امن اور جنگ کی حالت میں بہترین شرائط پر معاہدے کئے“." اذان ، اور مسجد کے نام پر پابندی کے بارے میں لکھا: اذان دینا اور عبادت گاہ کو مسجد کا نام دینا خالص مسلمانوں کی نشانی سمجھا جاتا ہے.ان الفاظ یا اصطلاحات پر پابندی آئینی ترمیم کے نفاذ کیلئے ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ قادیانی بلا واسطہ یا بالواسطہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر نہیں کر سکتے.اذان کا ذکر کرتے ہوئے عدالت نے مزید لکھا کہ مسٹر مجیب الرحمن یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اذان ایک اسلامی شعار ہے لیکن ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ قادیانیوں کا بھی شعار ہے جہاں کوئی شعار دونوں میں مشترک ہو قرآن شریف کی آیت 2: 5 اور 3:64 کے مطابق طے ہو گا.اس ضمن میں صفحہ 110 پر فیصلہ کا یہ حصہ دلچسپی کا باعث ہے.وو " قرآن شریف کی آیت 5:2 کی شانِ نزول پر اختلاف موجود ہے.سوال یہ ہے کہ آیا آیت مذکورہ میں بیان کردہ شعائر مشرکین کے شعائر تھے یا مسلمانوں کے.198

Page 205

مسٹر مجیب الرحمن نے مختلف مفسرین کی آراء اس بات کی تائید میں پیش کیں کہ اس آیت میں بیان کردہ شعار مشرکین کے شعار بھی تھے.لیکن مسٹر ریاض الحسن گیلانی نے اس کے برخلاف آراء پر انحصار کیا.پیر محمد کرم شاہ جو کہ اب سپریم کورٹ میں شریعت بینچ کے جج ہیں کی مشہور تفسیر میں بیان کردہ رائے مسٹر مجیب الرحمن کے حق میں ہے.اس کے بعد عدالت نے کوئی رائے نہیں دی کہ عدالت کیلئے کونسی رائے قابل قبول ہے.عدالت نے اس بات پر بھی کوئی رائے دینا مناسب نہ سمجھا کہ آیت کے منسوخ ہونے یا نہ ہونے کا ہمارے مؤقف اور استدلال پر کیا اثر تھا.اس کے بعد تبلیغ کے بارے میں عدالت کے فیصلے کا درج ذیل حصہ دلچسپی سے خالی نہیں جس میں خاکسار کی بحث ذکر کرتے ہوئے عدالت نے لکھا: ”انہوں نے ان آیات کے ضمن میں متعدد تفاسیر کے حوالے بھی دیئے.ان کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان آیات کے معنی بالکل واضح ہیں یعنی کہ مسلمان مشرکوں اور غیر مسلموں کو اس بات کی دعوت دے سکتے ہیں کہ وہ اپنے عقائد کے بارے میں دلائل پیش کریں.لیکن مسٹر مجیب الرحمن کی دلیل یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں غیر مسلموں کو اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کا حق مل جاتا ہے کہ وہ دوسروں کو اپنے مذہب میں شامل کرے.ہم اس بات کو بعید از امکان سمجھتے ہیں.یہ تمام آیات تبلیغ اور اسلام کے پھیلانے سے اور ان ذرائع سے تعلق رکھتی ہیں جو تبلیغ کیلئے استعمال کئے جائیں.اصول یہ ہے کہ تبلیغ اسلام کرتے ہوئے غیر مسلموں سے گفتگو کرتے ہوئے شائستگی اور نرمی سے کام لیا جائے اور نہ صرف یہ کہ منطقی اور عقلی طور پر محاسن بیان کئے جائیں بلکہ غیر مسلم کو بھی یہ موقع دیا جائے کہ وہ اپنے مذہب کے محاسن بیان کرے.یہ ضروری ہے کہ غیر مسلم اپنے مذہب کے بارے میں نقطئہ نظر کو سادگی سے پیش کرے تاکہ مسلمان اس کا جواب دے سکے اور دوسرے مذہب کے فلسفے اور 199

Page 206

تصورات پر اسلام کی برتری ظاہر کر سکے.دراصل قرآن نہ صرف افراد کے درمیان آزادانہ تبادلہ خیال کی اجازت دیتا ہے بلکہ مسلمانوں سے یہ تقاضہ کرتا ہے کہ وہ غیر مسلموں کو چیلنج کریں کہ وہ اپنے عقیدے کے حق میں دلائل پیش کریں جیسا کہ هَا تُوْا بُرْهَانَكُمْ کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ اپنی دلیل پیش کرو.جو غیر مسلموں کے دلیل پیش کرنے کی عاجزی پر دلالت کرتا ہے“.وو آگے چل کر عدالت نے ہماری پیش کردہ آیات کے حوالہ سے لکھا: یہ آیات اور تفاسیر بھی غیر مسلموں کے مسلمانوں کے درمیان سے اپنے مذہب کی تبلیغ کے بنیادی حق کو جائز قرار دینے کیلئے کافی نہیں ہے.بایں ہمہ اسلامی ریاست غیر مسلموں کو اپنے مذہب کی تبلیغ کی اجازت دے سکتی ہے، جیسا کہ آئین کے آرٹیکل 20 کے تحت کیا گیا.لیکن یہ اجازت اسی وقت دی جاسکتی ہے جب غیر مسلم کی حیثیت سے تبلیغ کرے، اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے نہیں.قانون ساز ادارے دوسری شرائط بھی عائد کر سکتے ہیں“.اور آخری نتیجہ یہ نکالا : د مسلمانوں کے متفقہ مطالبے کے نتیجے میں جو قرار داد منظور کی گئی اس کے نتیجے میں ی ممکن نہیں تھا کہ قادیانیوں کو اپنے آپ کو مسلمان کہنے یا اپنے تصویر اسلام کی تبلیغ کرنے کی اجازت دی جائے.مگر انہوں نے آئینی ترمیم کی کوئی پرواہ نہیں کی اور اپنے مذہب کو اسلام کہتے رہے اور وہ آزادانہ طور پر کتب و رسائل کے ذریعے اور انفرادی طور پر اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے رہے.جس سے واضح طور پر امن و امان کی صورتحال پیدا ہونے کے امکان تھے.اور یہ صورتحال موجودہ ordinance کے نافذ ہونے تک جاری رہی.ان حالات میں یہ ordinance آئین کی دفعہ 20 کے استثناء کے ذیل میں آتا ہے کیونکہ 20 Article امنِ عامہ کے تابع ہے.“ 200

Page 207

یہ بات قابل ذکر ہے کہ عدالت نے کم و بیش ہمارے تمام دلائل کا احاطہ کیا اور دلائل کا لب لباب اور مختصر مفہوم بھی اپنے الفاظ میں اپنے فیصلہ میں بیان کیا ہے اور تقریباً تمام دلائل کو تسلیم کیا ہے.کسی دلیل کو تو ڑا نہیں گیا اور جو فیصلہ دیا گیا اس میں الاماشاء اللہ کسی قرآنی آیت سے استدلال نہیں کیا گیا.مختصر فیصلہ اور تفصیلی فیصلہ کو یکجائی طور پر پڑھا جائے تو صورت حال یوں ابھرتی ہے کہ مختصر فیصلہ میں یہ قرار دیا کہ احمدی اس بارہ میں آزاد ہیں کہ مرزا غلام احمد مسیح موعود اور مہدی موعود کے طور پر اپنے ایمان کا اظہار کریں.وہ اس بات میں آزاد ہیں کہ وہ اپنی عبادات من جملہ دیگر اپنی عبادتگاہوں میں اپنے مذہب کے مطابق ادا کریں.اور تفصیلی فیصلہ میں ہمارے چھ سوالات میں سے چار کا جواب اثبات میں دے کر ہمارا یہ حق بھی تسلیم کیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور قرآن پر بطور مکمل ضابطہ حیات ، ایمان رکھیں اور ا اس کے مطابق عمل کریں.رہ گئی اذان اور مسجد کے نام کے استعمال پر پابندی تو اس کی واحد دلیل یہ دی گئی کہ وہ آئینی ترمیم کو مؤثر کرنے کے لئے کی گئی ہے.یہ قرآن وسنت کے مطابق ہے یا نہیں ، یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے.201

Page 208

Page 209

{8} ضمیمہ موجبات اپیل مَالَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ) جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں تفصیلی فیصلہ آیا تو اس میں تقریباً80 سے زائد صفحات ان اُمور سے متعلق تھے جن کو عدالت خود غیر متعلقہ قرار دے کر مشیرانِ عدالت کو ٹوکتی رہی تھی اور جس کا جواب دینے کی کوشش پر مجھے یہ کہا گیا تھا کہ آپ اس بحث کو چھوڑ دیں ہم اسے غیر متعلقہ قرار دے چکے ہیں.اس پہلو سے فیصلہ نہایت دل آزار تھا کہ جماعت اور بائی جماعت کے خلاف ان اعتراضات کو جن کا سو سالہ تاریخ میں متعدد بار رڈ کیا جا چکا تھا اپنے فیصلے میں داخل کر دیا اور یوں اس زہریلے پروپیگنڈہ کو عدالتی سہارا میسر کیا.ہم مختصر فیصلہ پر بناء کر کے اپنی اپیل داخل کر چکے تھے لہذا ہم نے تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد سپریم کورٹ کے قواعد کے تحت ایک علیحده درخواست داخل کی جس میں یہ استدعا کی گئی کہ اس حصے کو عدالتی فیصلہ سے حذف کر دیا جائے.ہماری درخواست میں ان تمام اعتراضات کا مختصر اور اصولی جواب دیا گیا جو عدالت نے اپنے فیصلہ میں بے جاطور پر داخل کئے تھے.یہ جوابات لکھتے وقت ہمارے پیش نظر وقت کی قلت اور درخواست کی ضخامت کو کم رکھنے کے تقاضے بھی تھے.یہ جوابات ہماری ٹیم کے مہیا کردہ ایک ضخیم مضمون کو مختصر انداز میں پیش کرنے اور عدالتی تقاضوں کے مطابق عبارت میں ڈھالنے کی ذمہ داری اس عاجز پر ہے.یہ اصولی جوابات کچھ تشنہ بھی ہوں تو بھی اٹھائے گئے 203

Page 210

اعتراضات کا ایک مکمل جواب ہیں.مذکوره درخواست قارئین کی آگہی کیلئے پیش کی جارہی ہے.درخواست زیر آرڈر 33 رول 6 سپریم کورٹ رولز مجریہ 1980ء بدیں امر کہ وفاقی شرعی عدالت کے مفصل فیصلہ مورخہ 28/10/84 کے بعض حصے فیصلہ سے حذف کئے جانے کا حکم صادر فرما یا جاوے.سائلان حسب ذیل عرض پرداز ہیں :.1.یہ کہ سائلان نے وفاقی شرعی عدالت کے روبرو ایک درخواست آئین کے آرٹیکل 203-1 کے تحت قادیانی آرڈینینس مجریہ 1984ء کو خلاف قرآن وسنت قرار دیئے جانے کی بابت داخل کی جو شریعت پٹیشن نمبر 1 -17 کے طور پر درج رجسٹر ہو کر زیر سماعت آئی.2.یہ کہ وفاقی شرعی عدالت نے اپنے مختصر حکم مورخہ 12/8/84 کے ذریعہ درخواست مذکورہ بالا خارج کر دی اور مفصل حکم مورخہ 28/10/84 کو سنایا.جو 224 صفحات پر مشتمل ہے.-3.یہ کہ مفصل حکم کافی تاخیر سے لکھا گیا.لہذا سائلان نے مختصر حکم 12/8/84 پر بناء کر کے 10/10/84 کو ایک اپیل زیر آرٹیکل F-203 اس فاضل عدالت کے رو برو داخل کر دی جو شریعت اپیل 25/84 کے طور پر درج ہو چکی ہے.اب مفصل فیصلہ کی بنیاد پر مزید اور تفصیلی موجبات اپیل داخل کی جارہی ہیں.-4 یہ کہ وفاقی شرعی عدالت کے مفصل فیصلہ مورخہ 28/10/84 کے مطالعہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اس کے بیشتر حصے غیر ضروری ، غیر متعلق اور دلآ زار مواد پر مبنی ہیں اور 204

Page 211

سائلان کے علاوہ پاکستان کے شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے والے ہیں.مذکورہ حصہ جات زیر بحث آرڈینینس کے جواز یا بطلان کے تصفیہ کے لئے کسی طرح بھی متعلق اور ضروری نہ تھے.5.یہ کہ وفاقی شرعی عدالت نے ایک فریق مقدمہ کے خلاف غیر متعلق، غیر ضروری، غیر ثقہ، مذہبی تعصب پر مبنی اور دلآزار اور مذہبی جذبات کو مجروح کرنے والا مواد ناروا طور پر فیصلہ میں شامل کیا اور اس کی تشہیر کا باعث بنی.اور ایک عدالتی فیصلہ کے لبادہ میں ایک فریق مقدمہ کے نقطۂ نظر کو یکطرفہ طور پر شائع کرنے کا موقع بہم پہنچایا جو عدالتی منصب اور طریق کار کے بے جا استعمال کے مترادف ہے.لہذا فیصلہ کے مذکورہ حصہ جات اس قابل ہیں کہ انہیں فیصلہ سے حذف کئے جانے کا حکم صادر فرمایا جائے.یہ کہ عدالت کے مفصل فیصلہ کے وہ حصہ جات جو حذف کئے جانے کے لائق ہیں اور جو فیصلہ کے صفحات سے لے کر 152 تک پھیلے ہوئے ہیں.ان کی تفصیل اور ان کے حذف کئے جانے کی وجوہات درج ذیل ہیں :.وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلہ کا ایک حصہ حضرت مرزا صاحب کی ذات ، آپ کے دعاوی اور آپ کی پیشگوئیوں پر تبصرہ کرنے میں صرف کیا، حالانکہ وفاقی شرعی عدالت کے سامنے زیر غور سوال صرف یہ تھا کہ آیا قادیانی آرڈنینس ( مجریہ 1984ء) خلاف قرآن وسنت ہے یا نہیں؟ سائلان کی طرف سے مفصل بحث اسی نقطۂ نگاہ سے کی گئی تھی کہ زیر نظر آرڈنینس کس طرح قرآن وسنت کے واضح احکام اور اصولوں سے متصادم ہے.آرٹیکل D-203 کی حدود کے اندر رہتے ہوئے عدالت صرف اس امر کا فیصلہ کرنے کی پابند تھی کہ آیا آرڈینینس فی الواقعہ قرآن وسنت کے خلاف ہے یا نہیں ؟ کسی فریق کے عقائد 205

Page 212

نہ تو زیر بحث تھے نہ ہی درخواست کے فیصلہ سے ان کا کوئی تعلق تھا.سائلان جماعت احمد یہ کے افراد ہیں.اور علی وجہ البصیرت حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کے جملہ دعاوی پر ایمان رکھتے ہیں اور حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق صدق دل سے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی فرزند، خادم اور غلام اور مسیح موعود و مہدی معہود تسلیم کرتے ہیں.سائلان کو اپنے ایمان کی کوئی تصدیق عدالت سے مطلوب نہ تھی اور نہ ہی سائلان عدالت سے یہ پوچھنے گئے تھے کہ حضرت مرزا صاحب اپنے دعوئی میں سچے ہیں یا نعوذ باللہ جھوٹے ؟ اسی طرح سائلان کو عدالت کے ایمان اور اعتقاد کے بارہ میں بھی کوئی شبہ نہیں تھا.سائلان خوب واقف تھے کہ عدالت کے جملہ ارکان حضرت مرزا صاحب کے انکار کو باعث فخر سمجھتے ہیں سائلان اس بات سے بھی خوب آگاہ تھے کہ جملہ ممبران عدالت حضرت مرزا صاحب کے انکار اور تکفیر کا حلف اٹھا کر ہی عدالت کے منصب بالا تک پہنچے ہیں.لہذا نہ تو سائلان کا منشاء عدالت سے حضرت مرزا صاحب کے دعاوی پر کوئی فیصلہ حاصل کرنا تھا اور نہ قانون کی رو سے عدالت کو کوئی ایسا اختیار حاصل تھا.اسی طرح سے سائلان کی درخواست کے فیصلہ کے لئے یہ بات قطعا غیر متعلق تھی کہ آیا احمدی مسلمان ہیں یا نہیں ؟ کیونکہ اگر عدالت احمدیوں کے عقائد سے پوری طرح مطمئن ہو بھی جاتی تو بھی 1974 ء کی ترمیم کو غلط اور کالعدم قرار دینے کا اختیار نہیں رکھتی تھی.لہذام و غیر مسلم کی بحث قطعاً غیر متعلق تھی اور جیسا کہ عدالت کے فیصلہ کے صفحہ 8 پر درج ہے.سائلان کی طرف سے یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ وہ یہ سوال اٹھانا نہیں چاہتے کہ آیا قادیانی مسلمان ہیں یا غیر مسلم؟ سائلان نے یہ واضح اور دوٹوک موقف اس لئے اختیار کیا تھا کہ آرٹیکل نمبر 203 کی عائد کردہ پابندی کی وجہ سے عدالت دستوری ترمیم پر کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار نہ رکھتی تھی نیز کوئی بھی عدالت ایمانیات اور اعتقادات کے بارہ میں فیصلہ صادر کرنے 206

Page 213

کی مجاز ہے اور نہ ہی کسی عدالت کا یہ حق تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ وہ ایمانیات پر کوئی فیصلہ صادر کرے.کیونکہ ایمانی امور کا معاملہ خدا اور بندے کے درمیان ہے اور کوئی عدالت نہ اس میں دخل دے سکتی ہے اور نہ کسی عدالت کا یہ اختیار تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے مذہبی عقائد کی قبا اوڑھ کر مسند انصاف پر بیٹھے اور سائل کو اعتقادی طور پر فریق مخالف قرار دے کر اس کے عقائد کو متہم کرے یا ان پر رائے زنی کرے.وفاقی شرعی عدالت کلیۂ ایسے ارکان پر مشتمل تھی جو احمدی نہیں تھے اور عقید تا اس بات پر مجبور تھے کہ وہ مرزا صاحب کو سچا نہ سمجھیں اور یوں اعتقادی لحاظ سے گویا ایک فریق تھے مگر نہ تو ان کا یہ عقیدہ فیصلے کی بنیاد بن سکتا تھا اور نہ ہی کوئی بھی متنازع امرزیر بحث آ سکتا تھا.زیر بحث سوال صرف قرآن وسنت کی تعبیر اور نفاذ کا جو فریقین میں مسلمہ قدر مشترک ہے اور قانون بھی اسی کو فیصلے کا معیار ٹھہراتا ہے.لہذا فیصلہ کلیۂ قرآن وسنت کی تعبیر پر مبنی ہونا چاہئے تھا اور عقائد کی بحث قطعاً غیر متعلق تھی.ورنہ اگر کسی ایک فرقے کے افراد پر مشتمل عدالت دوسرے فرقے کے اعتقادات پر رائے زنی کرنے لگے او راپنے متنازع فیہ اعتقادات کو بنیاد بنا کر فیصلہ کرنے لگے تو انصاف ناممکن الحصول ہو جائے.مثلاً خود وفاقی شرعی عدالت میں شیعہ حضرات کی طرف سے بعض قوانین کو خلاف قرآن وسنت قرار دئے جانے کی درخواستیں داخل ہوئی ہیں.کیا ان درخواستوں کا فیصلہ کرتے وقت سنی العقیدہ ستعد کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ اپنے فیصلہ میں شیعہ عقائد کی بحث اٹھائیں.اور یہ فیصلہ صادر کرنے کی سعی فرما ئیں کہ شیعہ اپنے عقائد میں بچے ہیں یا جھوٹے ؟ خلافت بلافصل کا عقیدہ درست ہے یا غلط؟ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی دیگر خلفائے راشدین کے مقابل پر کیا حیثیت تھی؟ کیا سنی العقیدہ عدالت سیدنا حضرت ابو بکرؓ کے بارہ میں شیعوں کے اقوال لکھ کر یہ کہنے 207

Page 214

کی مجاز ہو گی کہ ایسے خیال والے لوگ ہرگز مسلمان نہیں روکتے اور کیا عدالت علامہ ابن نجیم کی کتاب بحر الرائق ( بحر الرائق جلد 5 صفحہ 136.مطبوعہ مصر) پر انحصار کر کے شیخین کی دُشنام دہی اور ان پر طعن کی بنیاد پر فتاوی عالمگیری ( فتاوی عالمگیری جز نمبر 2 صفحہ 283) پر انحصار کر کے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کے انکار کی وجہ سے شیعوں کو کا فرقراردے دے گی.کیا یہ درست اور جائز ہوگا کہ سنی عدالت علمائے کرام کے متفقہ فتوے کے حوالے سے شیعوں کو مرتد اور کا فرقرار دے کر یہ قرار دے کہ ان سے مناکحت اور تعلقات رکھنا حرام ہے“.اور یہ کہ ان کی ” شادی نمی جنازہ میں شرکت ہرگز نہ کی جائے.کیونکہ ایسے عقیدہ کے شیعہ کافر ہی نہیں بلکہ اکفر ہیں.اور اثنا عشریہ شیعہ خارج از اسلام ہیں.( علمائے کرام کا متفقہ فتوی درباب ارتداد شیعه اثنا عشریه ناشر مولوی محمد عبدالشكور مدير انجم لكهنئو) کیا سنی العقیدہ حنفی عدالت فیضان دار العلوم حزب الاحناف کا یہ فتوی نقل کرے گی کہ :."جو شخص سید نا ابو بکر صدیق اور سید نا عمر فاروق رضی اللہ عنہما کو (نعوذ باللہ ) منافق ، غاصب اور شیطان کہتا ہے وہ کافر و مرتد ہے دائرہ اسلام سے خارج ہے.دو اور کیا یہ درست ہوگا کہ عدالت صدر الشہید کا یہ قول نقل کرے کہ :.جو شیخین کو بُرا کہے یا ان پر لعنت کرے وہ کافر ہو جائے گا اور اس کا قتل کرنا واجب ہے ( مرتد کوقتل کرنا حکام کا کام ہے ) اور اس قسم کے بدعقیدہ اور گمراہوں کے حق میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ان کے ساتھ مت بیٹھو، مت کھاؤ ، مت پیو، نماز جنازہ نہ پڑھو، ان کے ساتھ نماز مت پڑھو، ان کی بیمار پرسی نہ کر والہذا ایسے بھائیوں سے میل جول رکھنا جائز نہیں اور نہ ان کو مسلمان سمجھنا روا.208

Page 215

(فتوى مولوی ابوالريان محمد رمضان وابوالبرکات سید احمد ناظم و مفتی دارالعلوم مرکزی انجمن حزب الاحناف لاهور حواله از شیعه سنی اتحاد کے لئے مخلصانہ اپیل مرتبه ابویزید محمد دین بٹ چوک شہید گنج لنڈا بازار لاهور) ظاہر ہے کہ شیعوں کے خلاف فتاویٰ کا اس سوال سے کوئی تعلق نہیں ہوگا کہ وہ قانون جسے کوئی شیعہ خلاف قرآن وسنت خیال کر رہا ہے.اسے اس بنیاد پر جائز قرار دے دیا جائے کہ ان کے عقائد غلط ہیں.اور ان کی تکفیر لازم.اگر ایسا نہیں اور یقیناً نہیں تو پھر سائلان کی درخواست پر یہ بحث اُٹھانا کہ ان کے عقائد یا حضرت مرزا صاحب کے دعاوی غلط ہیں اور ان سے تکفیر لازم آتی ہے واضح طور پر غلط طرز استدلال ہے.اسی طرح سے اگر عدالت کے جملہ اراکین بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں اور کوئی سائل دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہو اور کسی قانون کو خلاف قرآن وسنت ہونے کی وجہ سے اس عدالت میں چیلنج کر دے تو کیا بریلوی منصفین اس بات میں حق بجانب ہوں گے کہ وو دیو بندیوں کے خلاف جناب احمد رضا خاں بریلوی کے فتاوی درج کر کے یہ قرار دیں کہ یہ سب کے سب مرتد ہیں.” باجماع امت اسلام سے خارج ہیں“.” ان کے کفر میں کوئی شبہ نہیں نہ شک کی مجال.یہ گمراہان گمراہ گر فاجر کا فردین سے خارج ” بد مذہب مفسد گمراہ طاعت سے نکلے ہوئے دہریے دین سے خارج سو کافروں سے دین میں ان کی مضرت سخت تر ہے.(حسام الحرمين على منحر الكفر والمين صفحه 73 تا 76 مصنفه مولوی احمد رضا خان بریلوی مطبع اهل سنت جماعت بریلوی 1324ھ) اور کیا اسماعیلی خلیلی عالم مکہ کے اس فتویٰ پر انحصار ہوگا جس میں دیوبندیوں کے بارہ میں قادیانیوں کے ساتھ بیک قلم یہ فتویٰ دیا گیا کہ:.وو جو ان کے کفر میں شک کرے بلکہ کسی طرح کسی حال میں انہیں کافر کہنے میں توقف کرے اس کے کفر میں بھی شبہ نہیں“.209

Page 216

اور کیا مولانا قاسم نانوتوی ، رشید احمد گنگوہی، خلیل احمد انہی اور اشرف علی تھانوی اور ان کے ساتھ والوں کے خلاف عبدالکریم طرابلسی حنفی کے قول کے مطابق ” ان پر کفر کا حکم ہوگا اور مرتدوں کی طرح ان کو قتل کر دیا جائے گا“.(حسام الحرمين على.الكفر والمين صفحه 73 تا 76 مصنفه مولوی احمد رضا خان بریلوی مطبع اهل سنت جماعت بریلوی 1324ھ) کیا بریلوی منصفین اس بنیاد پر دیوبندیوں کی درخواست خارج کر دیں گے کہ چونکہ ان کے عقائد سے کفر لازم آتا ہے لہذا جس قانون کو وہ خلاف قرآن وسنت ہونے کی بنیاد پر چیلنج کر رہے ہیں وہ خلاف قرآن وسنت نہیں رہا.اسی طرح اگر بریلوی مکتب فکر کا کوئی سائل کسی قانون کو خلاف قرآن وسنت ہونے کی بنیاد پر چیلنج کرے اور عدالت کے ارکان دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں تو کیا ان کے لئے یہ جائز اور روا ہو گا کہ وہ قرآن وسنت کی بحث اُٹھانے کی بجائے بریلویوں کے خلاف لکھی گئی کتابوں سے دیوبندی حضرات کے فتاوی فیصلہ میں شامل کریں اور کہیں کہ فتاوی رشد یہ کے مطابق :- وو ” جب انبیاء کو علم غیب نہیں تو یا رسول اللہ بھی کہنا نا جائز ہوگا.اگر یہ عقیدہ کر کے کہے کہ وہ دور سے سنتے ہیں بسبب علم غیب کے تو خود کفر ہے“.(فتاوی رشدیه صفحه 176 جلد 3 از مولانا حافظ رشید احمد گنگوہی ، مطبع کاروان پرنٹنگ پریس لاہور ) یا کیا عدالت یہ فیصلہ کرے گی کہ مولوی فردوس علی قصوری کے فتویٰ کے مطابق :- حضور کو حاضر و ناظر عالم غیب ماننے والے سب کا فر و مشرک ہیں فتوی مولوی فردوس علی قصوری از اصلوۃ والسلام صفحہ 12 بحوالہ کتاب علماء دیوبند از علامہ محمد شریف نوری) یا دیوبندیوں کے شیخ القرآن مولوی غلام اللہ خان کے فتویٰ کے مطابق قرار دے گی کہ:.حضور کو حاضر ناظر جاننے والے پکے کافر ہیں.جو ان کو کافر نہ کہے وہ 210

Page 217

بھی کا فراور ان کا نکاح کوئی نہیں“.(جواهر القرآن صفحه60 مولوی غلام اللہ خان راولپنڈی) جو انہیں کا فرومشرک نہ کہے وہ بھی ایسا ہی کافر ہے.(جواهر القرآن صفحه 77) اگر ایسا طرز استدلال درست نہیں تو پھر فاضل عدالت کا اپنے فیصلہ میں 152 صفحات تک محض سائلان کے عقائد یا مرزا صاحب کے دعاوی کو زیر بحث لانا الٹی منطق اور انصاف کا خون ہے.در اصل کسی قانون یا آرڈنینس کے قرآن وسنت کے احکام کی روشنی میں جواز یا بطلان کی بحث میں کسی فریق کے عقائد کو زیر بحث لانا ہی غلط اور غیر ضروری ہے.آرٹیکل نمبر D-203 میں کوئی بھی شہری کسی قانون کو اس بنیاد پر چیلنج کر سکتا ہے کہ وہ قرآن وسنت کے اصولوں سے متصادم ہے.اگر پاکستان کا کوئی عیسائی کسی قانون کو D-203 کے تحت چیلنج کرے تو اس کے عقائد زیر بحث نہیں آئیں گے.صرف قرآن وحدیث ہی زیر بحث آئیں گے.یہ اصول اتنا واضح اور روشن ہے کہ اس کے لئے کسی دقیق نکتہ رسی کی ضرورت نہیں.اسی سوال کو ذرا وسیع تناظر میں دیکھیں تو بات اور واضح ہو جائے گی.اگر عیسائی ملک میں مسلمان اقلیت کی دینی سرگرمیوں پر کوئی قانونی قدغن عائد کر دیجائے اور مسلمان اس بنیاد پر اسے چیلنج کریں کہ ایسا قانون اس ملک کی مسلمہ دستوری بنیادوں کے خلاف ہے تو کیا عدالت کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ حضرت اقدس محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر عائد کردہ تمام ایسے نا پاک اور گندے اور ذلیل اعتراضات جو عیسائی مستشرقین نے کئے ہیں اپنے فیصلہ میں جڑ دیں.جن کے پڑھنے سے خون کھولتا اور جن کے بیان سے زبان لرزتی اور جن کے لکھنے سے قلم 211

Page 218

لڑکھڑاتا ہے.مثلاً کیا اس عیسائی عدالت کے لئے یہ جائز ہوگا کہ اپنے ملک کی آئینی قدروں پر فیصلہ کرنے کی بجائے پادری رانکلین ( واقع البرجان مصنفه پادری را نکلین مطبوعہ مشن پریس الہ آباد 1845ء) سے ہم زبان ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہرزہ سرائی کرے اور اس کو فیصلہ کی بنیاد بنائے.اور کیا اس عیسائی عدالت کے لئے جائز ہوگا کہ وہ مظلوم اور بے بس اور اقلیت میں بسنے والے مسلمان سائل کی درخواست پر پادری ٹھا کر داس (سیرت المحمد و مسیح مصنفہ ٹھا کر داس مشنری امریکن مشن 1882ء) کی کتاب پر انحصار کرے.یا پادری ولیم آف ریواڑی کی کتاب ( محمد کی تواریخ کا اجمال مطبوعہ کر سیٹن مشن ریواڑی 1891ء) میں ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کئے گئے اعتراضات نقل کرے.اور کیا عدالت کے لئے جائز ہوگا کہ وہ پادری اور نگ واشنگٹن (سوانح عمری محمد صاحب مصنفہ اورنگ واشنگٹن ترجمہ لالہ رلیا رام گھولائی مطبوعہ مطبع اڑور بنس لاہور ) کے حضور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دل آزار حوالے لکھ کر اپنے ملک کے غریب اور بے بس مسلمانوں کی دلآ زاری کرے.( نوٹ : ان جملہ حوالوں کی زبان ایسی ہے کہ ان کا یہاں نقل کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا.البتہ نکتہ زیر بحث کی وضاحت کے لئے حوالوں کی نشاندہی کر دی گئی ہے.مقصود یہ ظاہر کرنا ہے کہ عدالت کا انداز فکر غیر مسلم معترضین اسلام کا سا ہے.) اور کیا انصاف سے دور کا بھی لگاؤ رکھنے والا کوئی شخص اس بات کو جائز قرار دے گا کہ وہ عیسائی عدالت مسلمان کی درخواست پر فیصلہ کرتے ہوئے پادری را جرس ( تفتیش الاسلام مصنفہ پادری را جرس صفحہ 97,65,57,56) کی تحریرات کو بنیاد بنا کر وہ تمام ذلیل اور گندے 212

Page 219

اعتراضات جنہیں پڑھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے زبان کا نپتی اور خون کھول اٹھتا ہے آنکھیں چھلک جاتی ہیں وہ یہ سب کفریہ اور دل آزار کلمات نقل کر کے یہ قرار دے کہ چونکہ ہمارے پادریوں نے مسلمانوں کے رسول کے بارہ میں یہ کچھ لکھا ہے لہذا ہماری اپنی بنیادی دستوری قدروں سے قطع نظر ہم اس قانون کے جواز کا فتویٰ دیتے ہیں جو مسلمانوں پر پابندی کرنے کے لئے بنایا گیا ہے اگر نہیں تو پھر وفاقی شرعی عدالت کو یہ اختیار کہاں سے ملا اور قانون، منطق اور شائستگی کے کن اصولوں پر بنیاد کر کے عدالت نے احمدیوں کے عقائد اور حضرت مرزا صاحب کے دعاوی پر تمسخر اور استہزاء کے انداز میں قلم اٹھانے کو جائز سمجھا اور روا رکھا.عدالتی اصول اور روایات اور روح انصاف کا فتویٰ یہی ہوگا کہ یہ بحث اور استدلال کا یہ انداز سراسر غیر ضروری اور غیر متعلق تھا.مگر عدالت نے تمام عدالتی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایسے متعدد امور فیصلہ میں داخل کئے جو مسئلہ زیر بحث کے فیصلہ کے لئے قطعاً غیر ضروری تھے.عدالت خود ایک فریق مقدمہ بن گئی اور یکطرفہ طور پر بلا جواز غیر ضروری مباحث فیصلہ میں داخل کئے اور اپنے فیصلہ میں ایسا مواد شامل کیا جو تاریخی شواہد کے سراسر خلاف اور غلط مفروضوں پر مبنی ہے اور اس بارہ میں جماعت احمدیہ کے مخالفانہ لٹریچر سے متاثر ہو کر اور منتشر اقتباسات پر انحصار کرتے ہوئے، جلد بازی سے بلاتحقیق نازک اعتقادی امور پر رائے زنی کی جو واضح طور پر کوتاہی فکر، کم علمی ، قلت تذ بر اور مذہبی امور سے ناواقفیت کی آئینہ دار ہے.عدالت کے فیصلہ میں جگہ جگہ ایسے زہر آلود فقرات بکھرے پڑے ہیں جو محض طعنہ زنی اور دلآزاری کا باعث ہیں اور جو عدالت کے انتہائی تعصب کا منہ بولتا ثبوت ہیں.اور عدالت کے فیصلہ کا ایک بہت بڑا حصہ (صفحہ 9 تا صفحہ 152) ایسے ہی مباحث پر مشتمل ہے اور چونکہ ان مباحث کا زیر غور سوال سے کوئی تعلق نہ تھا.فیصلہ کے یہ 213

Page 220

حصے حذف کئے جانے کے لائق ہیں.مگر عدالت موصوف نے اپنے فیصلہ میں تعصب کی راہ سے ان امور کو شامل کر کے سائلان کے خلاف جو دلآزار مخالفانہ مواد فیصلہ کے ذریعہ سے شائع کیا ہے اس کا ایک اجمالی محاکمہ اس غرض سے پیش ہے تا یہ واضح ہو سکے کہ نہ صرف یہ.کہ ان مسائل کا مقدمہ کے فیصلہ سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ یہ بھی ظاہر کیا جا سکے کہ یہ حصہ خالص تعصب اور جانبداری کی وجہ سے فیصلہ میں شامل کیا گیا ہے جس سے فیصلہ کا تقدس پامال ہوا ہے اور پورا فیصلہ ہی رڈ کئے جانے کے لائق ہے.(1) وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلہ میں صفحہ 9 کے آخری پیرا گراف میں لکھا ہے کہ:.تمام مکاتب فکر کے مسلمان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قطعی اور غیر مشروط آخری نبی ہونے پر یقین رکھتے ہیں اور اس بات کو اپنا جزو ایمان سمجھتے ہیں اور یہ متفقہ اعتقاد قرآن شریف کی آیت 40/33 پر مبنی ہے.مذکورہ آیت، اس کا ترجمہ اور اس کی تشریحات و تفسیرات ذیل میں لکھی جاتی ہیں:.مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً - ترجمہ: محمد تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں.اور ایک پیغمبر ہیں اور نبیوں کی مہر ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے.زیر نظر اقتباس میں آیت خاتم النبیین کا ترجمہ کرتے ہوئے عدالت نے بھی لفظ خاتم النبیین کا ترجمہ آخری نبی نہیں کیا.بلکہ نبیوں کی مہر ہی ترجمہ کیا ہے.جہاں تک لغوی ترجمہ کا تعلق ہے جماعت احمدیہ کا دیگر مسلمانوں کے ساتھ کوئی اختلاف 214

Page 221

نہیں.عدالت نے اپنے فیصلہ کے صفحہ 10 سے لے کر صفحہ 13 تک لفظ ختم “ اور ” خائم کے معانی کی بحث کی ہے لیکن جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں لغت مختلف فیہ نہیں.لفظ خاتم کے خواہ حقیقی معنی یعنی نبیوں کی مہر لئے جائیں.خواہ مجازی معنی یعنی آخری نبی کئے جائیں.دونوں صورتوں میں کوئی اختلاف نہیں.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبیوں کی مہر بھی ہیں اور مخصوص معنوں میں آخری نبی بھی.البتہ آیت کے معنوں میں اختلاف ” مطلق اور غیر مشروط آخری نبی کے الفاظ سے پیدا ہوتا ہے.جو نہ تو آیت خاتم النبین میں موجود ہیں نہ خاتم کے لغوی معنی میں شامل ہیں اور نہ ہی اُمت مسلمہ کے مسلّمہ عقیدہ ختم نبوت کا حصہ ہو سکتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت عیسی نبی اللہ کی دوبارہ آمد کا عقیدہ رکھتی ہے.اس پہلو سے عدالت کا یہ مفروضہ کہ تمام مکاتب فکر کے مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو غیر مشروط اور قطعی طور پر آخری نبی تصور کرتے ہیں.فی الواقعہ غلط ، تاریخی شواہد کے خلاف کم علمی اور قلت تذبر پر مبنی ہے.اس امر کا ثبوت کہ عدالت کا یہ مفروضہ بالبداہت غلط ہے خود عدالت کے فیصلہ میں موجود ہے چنانچہ عدالت نے اپنے فیصلہ کے صفحہ 14 پر واشگاف الفاظ میں یہ قرار دیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اس امت میں سے ہو کر تشریف لائیں گے گویا ایک پرانے نبی کا آنا اور امت میں سے ہو کر آنا یہ دوشرائط ایسی ہیں جو حضور کے آخری نبی ہونے کو مشروط کر رہی ہیں.لہذا خود عدالت کے فیصلہ کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم قطعی اور غیر مشروط طور پر آخری نبی نہیں.مگر قطع نظر اس کے کہ عدالت کے فیصلہ میں تضاد ہے خود امت مسلمہ کی تاریخ اور تمام مسلمان فرقوں کے عقائد کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہے کہ آنحضور گو غیر مشروط آخری نبی ماننے میں تمام فرقوں کا آپس میں اتفاق نہیں.دور کیوں جائیے خود دیوبندی فرقہ کے بانی مولا نا محمد قاسم صاحب نانوتوی کا عقیدہ اس 215

Page 222

مسئلہ میں بڑا واضح اور عیاں ہے اور عدالت سے یقینا مخفی نہیں ہوسکتا تھا.کیونکہ عدالت کے دو فاضل حج ارکان خورد یو بندی مسلک سے تعلق رکھتے تھے اور بانی دیوبند کا مسلک سائلان کی طرف سے اختصار کے ساتھ ضمنی بحث میں تحریری طور پر پیش کر دیا گیا تھا اور اگر ان کا عقیدہ عدالت کے علم میں کسی سہو کی وجہ سے نہیں آسکا تھا تو سائلان کا خلاصہ بحث مطالعہ کر لینے کے بعد یقیناً عدالت کے علم میں آچکا تھا.مگر عدالت نے اس بارے میں کوئی رائے یا تبصرہ کرنا مناسب نہیں سمجھا.بائی دیوبند کی تحریرات اور ان کا عقیدہ اگر اہل دیوبند کو قبول نہیں تو اس کا طبعی نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ بانی دیوبند پر بھی کفر کا فتویٰ صادر ہو.کیونکہ عقیدہ ختم نبوت میں ان کا اور جماعت احمدیہ کا اتفاق ہے.بہر صورت بانی دیوبند کے عقیدہ کو اگر اہل دیو بندامت کے متفقہ عقیدہ کے خلاف سمجھتے ہوں یا اسے غلط تصور کرتے ہوں تو بھی عدالت کا یہ ارشاد یقینا غلط ثابت ہوتا ہے کہ تمام مکاتب فکر کا متفقہ عقیدہ حضور کے قطعی اور غیر مشروط طور پر آخری نبی ہونے کا ہے.حضرت مولا نا محمد قاسم صاحب نانوتوی اپنی کتاب تحذیر الناس میں لکھتے ہیں:.سو عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلعم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں.مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم و تأخیر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں ولکن رسول الله وخاتم النبیین فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتا ہے".پھر فرمایا:.( تحذیر الناس صفحہ 28 مطبوعہ خیر خواہ سرکار پر میں سہارنپور 1309ھ ) اگر بالفرض بعد زمانہ نبی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدیؒ 216

Page 223

میں کچھ فرق نہ آئے گا.( تحذیرالناس صفحہ 28 مطبوعہ خیر خواہ سرکار پر میں سہارنپور 1309ھ ) گویا پرانا نبی تو درکنار کوئی نیا نبی پیدا ہوتو پھر بھی خاتمیت محمدی کے منافی نہ ہوگا.عدالت نے اپنے فیصلہ میں عامتہ المسلمین کے عقیدہ پر بھی تو جہ نہیں کی اور بی تا ثر قائم کیا کہ ختم نبوت کے اس مفہوم پر جملہ مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمان باہم متفق ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کی قسم کا نبی نہیں آ سکتا.جب کہ عامتہ المسلمین کے عقیدہ کی رو سے امت مسلمہ کی اصلاح نو کے لئے مسیح نبی اللہ اور مہدی کے ظہور پر اجماعی اتفاق پایا جاتا ہے اور یہی عقیدہ احمدیوں کا بھی ہے.مولا نا محمد قاسم صاحب نانوتوی کا یہ عقیدہ امت میں نہ تو کوئی نئی بات تھی اور نہ ہی امت کے عقائد کے خلاف تھی.چنانچہ سائلان نے اپنے ” خلاصہ بحث کے صفحہ 97 سے لے کر صفحہ 105 تک چودہ صدیوں پر پھیلے ہوئے بزرگان امت کے حوالے اختصار کے ساتھ پیش کر دیئے تھے.مولا نا محمد قاسم نانوتوی سے ایک ہزار برس پہلے حضرت ابو عبد اللہ محمد بن علی حسین الحکیم الترمذی نے تو یہاں تک فرمایا :.يظن ان خاتم النبيين تاويله انه آخر هم مبعثاً ـ فاي منقبة في هذا؟ واي علم فى هذا؟ هذا تاويل البله الجهلة (ختم الاولیاء از شیخ ابی عبدالله محمد بن علی حسين الحكيم صفحه341 بيروت) ترجمہ:.خاتم النبین کی یہ جو تاویل کی جاتی ہے کہ آپ بعثت کے لحاظ سے آخری نبی ہیں اس میں کونسی شان پائی جاتی ہے اور اس تاویل میں کونسی علمی بات ہے یہ تو بے وقوفوں اور جاہلوں کی تاویل ہے.حضرت محی الدین ابن عربی کا ارشاد ہے:.217

Page 224

ان النبوة التي انقطعت بوجود رسول الله صلى الله عليه وسلم انما هي نبوة التشريع لامقامها فلا شرع يكون ناسخاً لشرعه صلى الله عليه وسلم ولا يزيدفي حكمه آخر وهذا معنى قوله صلى الله عليه وسلم ان الرسالة والنبوة قد انقطعت فلا رسول بعدى ولا نبى اى لانبى بعدى يكون على شرع يخالف شرعى بل اذا كان يكون تحت حكم شريعتي (فتوحات مکیه جلد2 صفحه 73 بيروت) ترجمہ:.” وہ نبوت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود پر منقطع ہوئی ہے.وہ صرف تشریعی نبوت ہے مقام نبوت بند نہیں ہوا.اب کوئی شریعت نہ ہو گی جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرے.یا آپ کی شریعت میں کسی حکم کا اضافہ کرے اور یہی معنی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے کہ ان الرسالة والنبوة قد انقطعت فلا رسول بعدى ولا نبی.یعنی ایسا کوئی نبی نہیں ہوگا جو میری شریعت کے خلاف شریعت رکھتا ہو.بلکہ جب بھی کوئی نبی ہوگا تو میری شریعت کے حکم کے ماتحت ہوگا“.ایسا ہی حضرت امام عبدالوہاب شعرائی کا ارشاد ہے:.اعلم ان النبوة لم ترتفع مطلقاً بعد محمد صلى الله عليه وسلم وانما ارتفع نبوة التشريع فقط“.(اليواقيت والجواهر جلد2 صفحه 24 سن اشاعت 1351ھ مصر) یعنی جان لو کہ مطلق نبوت بند نہیں ہوئی صرف تشریعی نبوت بند ہوئی ہے.218

Page 225

اور نیز فرمایا:.قوله صلی الله عليه وسلم لانبی بعدی ولارسول بعدی ای مَاثُمَّ من يشرع بعدى شريعة خاصةً“.(اليواقيت والجواهر جلد2صفحه 39 مطبوعه 1351 مصر) دو یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول لانبـي بـعـدى ولارسول سے مراد یہ ہے کہ آپ کے بعد کوئی شخص شریعت خاصہ کے ساتھ تشریعی نبی نہیں ہوگا“.اور فقہ حنفیہ کے جلیل القدر امام حضرت ملاعلی قاری فرماتے ہیں:.66 اما الحديث "لا وحى بعد موتى باطل ولا اصل لهـ نعم ورد لانبى بعدى ومعناه عند العلماء لا يحدث بعده نبی بشرع ينسخ شرعه الاشاعة فى اشراط الساعة صفحه149 بيروت) یعنی حدیث لاوحـى بـعـدمـوتـی “باطل اور بے اصل ہے.ہاں حدیث میں ” لانبی بعدی وارد ہے اور اس کے معنے علماء کے نزدیک یہ ہیں کہ آئندہ کوئی ایسا نبی پیدا نہ ہو گا جو ایسی شریعت لے کر آئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کرے“.غرض یہ ایک طویل علمی بحث ہے اور اس کے بہت سے پہلو ہیں اور جس قدر تفصیل سے مطالعہ کیا جائے.اس مضمون کے مختلف گوشے واضح ہوتے چلے جاتے ہیں اور سائلان اہل نظر کو کھلی دعوت دیتے ہیں کہ اس مسئلہ پر تحقیق و جستجو سے کام لیں.مگر عدالت کا یہ ارشاد بہر حال درست نہیں کہ تمام مکاتب فکر کے مسلمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلق طور پر آخری نبی مانتے ہیں.جملہ حوالہ جات جو ہم نے پیش کئے ہیں وہ امت مسلمہ کے جلیل القدر ائمہ اور اولیاء کے ہیں اور ان کے مندرجہ بالا ارشادات سے واضح ہے کہ وہ قطعی طور 219

Page 226

پر غیر مشروط آخری نبی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں سمجھتے تھے اور آخری نبی ہونا ان کے نزدیک مخصوص معنوں میں تھا مگر ان حوالہ جات سے قطع نظر خود عدالت نے اپنے فیصلہ میں جن بزرگوں کے حوالہ جات نقل کئے ہیں وہ بھی عدالت کے اس ادعا اور مفروضہ کی نفی کرتے ہیں کہ تمام مکاتب فکر کے مسلمان قطعی طور پر حضور کو آخری نبی مانتے ہیں.چنانچہ عدالت نے علامہ زمخشری کی تفسیر کشاف میں سے جوحوالہ نقل کیا ہے وہ یہ ہے:.اگر آپ سوال کریں کہ جب یہ عقیدہ ہو کہ اللہ کے نبی حضرت عیسی قیامت سے پہلے آخری زمانہ میں نازل ہونگے تو پھر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی کیسے ہو سکتے ہیں؟ میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس معنی میں آخری نبی ہیں کہ ان کے بعد کوئی اور شخص نبی کی حیثیت سے مبعوث نہ ہوگا.رہا حضرت عیسی کا معاملہ تو وہ ان انبیاء میں سے ہیں جنہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نبوت سے سرفراز کیا گیا تھا اور جب وہ دوبارہ آئیں گے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے متبع ہوں گے اور انہیں کے قبلہ (الکعبہ) کی طرف رخ کر کے نماز پڑھیں گے جیسا کہ امت کے دوسرے افراد کرتے ہیں.(الكشاف جلد 3 صفحه 265 زیر آیت سورۃ احزاب آیت ماكان محمد اباء بيروت) اسی طرح عدالت نے علامہ بیضاوی کی تفسیر انوار التنزیل کا بھی حوالہ درج کیا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے:.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء کی آخری کڑی ہیں جنہوں نے ان کے سلسلہ کو ختم کر دیا ہے اور سلسلہ نبوت پر مہر لگا دی ہے اور حضرت عیسی کی بعثت ثانیہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کی تردید نہیں ہوتی.کیوں کہ جب وہ آئیں گے تو انہی کی شریعت کے پیروکار ہوں گئے“.(انوار التنزيل جلد4صفحه 233 زیر آیت احزاب آیت ماکان محمد ابا احد......آیت 40 (بیروت 220

Page 227

اسی پر بس نہیں.علامہ نسفی کی تفسیر مدارک التنزیل کا حوالہ بھی عدالت نے نقل کیا ہے اور اس کا جو تر جمہ عدالت نے کیا ہے وہ یہ ہے:." کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین یعنی آخری نبی ہیں آپ کے بعد کوئی اور شخص نبوت پر فائز نہ ہوگا.رہے حضرت عیسی تو وہ ان انبیاء میں سے ہیں جو آپ سے پہلے مبعوث ہو چکے اور جب وہ دوبارہ تشریف لائیں گے تو وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر عمل پیرا ہوں گے اور آپ ہی کی امت کے فرد کی طرح ہوں گے.اسی طرح علامہ جلال الدین سیوطی کی تفسیر جلالین کا حوالہ بھی عدالت نے نقل کیا ہےکہ:." رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا اور حضرت عیسی جب نازل ہونگے تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے پیرو ہوں گے.شیخ اسماعیل حقی کی تفسیر روح البیان کا حوالہ بھی عدالت نے دیا ہے اور اس حوالہ کا یہ حصہ قابل توجہ ہے کہ :." حضرت عیسی کی بعثت ثانیہ سے رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کی حیثیت متاثر نہیں ہوتی اور یہ کہ حضرت عیسی بعثت ثانیہ کے وقت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے متبع ہونگے اور آپ دوسرے امتیوں کی طرح انہی کے قبلہ کی جانب رخ کر کے نماز ادا کریں گے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ہونگے“.یہ حوالہ جات جو خود عدالت نے نقل کئے ہیں عدالت کے اس ادعا کی نفی کر رہے ہیں کہ تمام مکاتب فکر متفقہ طور پر حضور کو قطعی و غیر مشروط طور پر آخری نبی تصور کرتے ہیں.221

Page 228

ان جملہ بزرگوں کے نزدیک حضور کا آخری نبی ہونا قطعی اور غیر مشروط معنوں میں نہیں بلکہ ان مخصوص معنوں میں ہے کہ آپ ہی کی امت میں سے ہو کر آنے والا ، آپ ہی کی شریعت پر عمل کرنے والا اور آپ ہی کے قبلہ کو اپنانے والا ایک سابق نبی ظہور پذیر ہو تو ان بزرگوں کے نزدیک ختم نبوت متاثر نہیں ہوگی گویا محدود اور مخصوص معنوں میں ایک نبی کے ظہور کے یہ بزرگان بھی قائل ہیں اور یہ ہماری بات نہیں عدالت نے بھی اپنے فیصلہ میں صفحہ 22 پر تسلیم کیا ہے کہ امام زمخشری تفسیر کشاف میں، قاضی بیضاوی انوار التنزیل میں، امام رازی تفسیر کبیر میں ، امام نووی شرح مسلم میں، امام علاؤ الدین بغدادی تفسیر خازن میں، علامہ تفتازانی شرح عقائد نسفی میں ، ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں ، بدرالدین عینی عمدۃ القاری میں ، امام قسطلانی ارشاد الساری میں، ابن بشیمی فتاوی حدیثیہ میں، شیخ عبدالحق محدث دہلوی اشعۃ اللمعات میں، علامہ زرقانی شرح مواہب اللہ نیہ میں اسی نقطہ نظر کی تائید کرتے ہیں کہ حضرت عیسی کی بعثت ثانیہ کے بارے میں قرآن کریم اور احادیث میں کوئی تعارض نہیں.گویا عدالت کے اپنے پیش کردہ حوالہ جات اس مفروضہ کی تائید نہیں کر رہے جو عدالت نے اپنے فیصلہ کے صفحہ 9 میں لکھ دیا کہ تمام مکاتب فکر قطعی اور غیر مشروط طور پر حضور کے آخری نبی ہونے کے قائل ہیں.مندرجہ بالا سبھی ائمہ اور اولیاء کرام حضور کو ان مخصوص معنوں میں آخری نبی قرار دے رہے ہیں کہ آپ کے بعد ایک نبی بہر حال ظاہر ہوگا.لہذا عدالت کا یہ مفروضہ درست نہیں کہ حضور کے قطعی اور غیر مشروط طور پر آخری نبی ہونے پر اُمت کا اتفاق یا اجماع ہے بلکہ امت کا اس کے بالکل بر عکس مخصوص اور محدود معنوں میں آخری نبی ہونے پر اجماع مندرجہ بالا تمام حوالہ جات سے جو خود عدالت نے درج کئے ہیں، ظاہر ہوتا ہے.قرآن کریم ، احادیث نبویہ اور امت مسلمہ کے بزرگ علماء کے اقوال کا تفصیلی جائزہ 222

Page 229

لینے کے بعد حسب ذیل امور نمایاں ہو کر سامنے آتے ہیں:.اول : یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا.جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کرے اور شریعت جدیدہ پیش کرے.دوم : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت مسلمہ میں ایسے نبی کی آمد کو جائز سمجھا گیا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہو اور آپ ہی کی شریعت کے تابع رہ کر اس کے احیاء کا فریضہ بجالائے اور اپنا کوئی نیا کلمہ جاری نہ کرے.سوم : ایسی آیات یا احادیث جو ختم نبوت سے تعلق رکھتی ہیں بزرگان دین نے ان کی تشریح اور وضاحت کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ اسی قدر استنباط کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد شارع نبی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت جدیدہ کے تابع اور امتی نبی آسکتا ہے.مندرجہ بالا تینوں شقیں آنحضرت ﷺ کے مبارک عہد سے لے کر حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے ظہور تک امت میں بالا تفاق مسلم رہی ہیں.یہ تینوں باتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں موجود و مسلم تھیں.خلفائے راشدین کے زمانہ میں بھی امت مسلمہ انہی عقائد پر متفق تھی.اسلام کی ابتدائی تین صدیوں میں بھی اُمت مسلمہ ان عقائد پر قائم تھی ( اور اس کے بعد حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے دعوی تک ان تینوں باتوں میں کسی اختلاف کا ادنی سا ثبوت تو کیا کوئی اشارہ بھی نہیں مانتا ) اب محض حضرت مرزا صاحب کی مخالفت میں ان مسلمات کو چھوڑ نا تیرہ صدیوں کے اجماعی عقیدہ سے انحراف ہے.فاضل عدالت نے امام غزالی کی کتاب "الاقتصاد فی الاعتقاد کا حوالہ بھی اس امر کی تائید کے لئے درج کیا ہے کہ ختم نبوت کے عقیدہ پر اجماع سے انکار کرنے والا صریحاً دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے.حالانکہ امام غزالی کی کتاب ” الاقتصاد فی الاعتقاد کا نام ہی 223

Page 230

اس امر پر شاہد ہے کہ وہ اعتقاد میں میانہ روی کی تلقین کر رہے ہیں اور خود امام غزالی نے اس کتاب میں ہی واضح الفاظ میں یہ لکھا ہے کہ اجماع کا حجت ہونا بوجوہ مشتبہ امر ہے اور اجماع کا منکر یا نصوص کی تاویل کرنے والا کا فرنہیں ہوتا اور اس کی تکفیر درست نہیں.گویا امام غزالی کے قول سے عدالت نے وہ نتائج اخذ کیے جو امام غزالی کی عبارت کا منشاء و مقصود نہیں.جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جو عدالت نے اپنے فیصلہ میں نقل کی ہیں اور جس میں حضور نے لانبی بعدی یا اس سے ملتے جلتے مفہوم والے الفاظ استعمال فرمائے ہیں ان احادیث کا سیاق و سباق اور مفہوم ایک طویل بحث کا متقاضی ہے، لیکن جیسا کہ خود عدالت نے اپنے فیصلہ میں تسلیم کیا ہے حضور نے یہ ارشادات مختلف مواقع پر فرمائے اور ان کا مفہوم ان مواقع کے پورے پس منظر میں ہی متعین ہوسکتا ہے.عدالت نے ختم نبوت کی بحث میں احادیث کے ضمن میں یہ حدیث تو نقل کر دی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بھی آخری نبی تھے جب کہ آدم ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے مگر اس کے لازمی اور منطقی نتیجہ پر غور نہیں فرمایا کہ یہ حدیث بھی ”غیر مشروط آخری نبی“ کے مضمون کو رڈ کر رہی ہے کیونکہ یہ حدیث بھی اس مضمون کو واضح کر رہی ہے کہ ختم نبوت زمانے کے لحاظ سے نہیں بلکہ مقام کے لحاظ سے ہے ورنہ اگر ختم نبوت کا زمانی مفہوم لیا جائے تو حضور سے پہلے سارے انبیاء جھوٹے ٹھہریں گے.جیسا کہ عدالت نے اپنے فیصلہ میں بجاطور پر لکھا ہے کہ لفظ خاتم النبین کی تشریح حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا.مگر حضور کی تشریح متعین کرنے کے لئے صرف ایک قول پر ہی نہیں تمام اقوال پر بیک وقت نظر رکھنی چاہئے.حضور کے بعض اقوال کو تسلیم کر لینا اور بعض کو نظر انداز کر دینا سوء ادب اور گستاخی ہے جب حضور کے تمام اقوال پر نظر ڈالیں گے تو یہ بات واضح طور پر نظر آئے گی کہ لانبی بعدی فرمانے کے باوجود حضور 224

Page 231

وو ایک آنے والے کی خبر بھی دے رہے ہیں جس کے بارے میں امت کا کوئی اختلاف نہیں.” لانبی بعدی“ کا لفظ حضور نے اپنے معابعد کے زمانہ کے لئے استعمال فرمایا ہے اور اس بات کی نفی فرمائی ہے کہ جس طرح بنی اسرائیل میں تواتر کے ساتھ ایک کے بعد دوسرا نبی آتا چلا گیا حضور کے معابعد نبوت نہیں بلکہ خلافت قائم ہوگی اور جب آنے والے کا وقت آئے گا تو وہ یعنی عیسی نبی اللہ بھی آئے گا اور یہ بھی فرمایا کہ میرے اور اس کے درمیان کوئی نبی نہیں.بعض دوسرے مقامات پر ” بعد کا لفظ مقام اور مکانی اعتبار سے ایک بالکل مختلف مفہوم میں بھی استعمال ہوا ہے.الغرض جب متفقہ طور پر عیسی علیہ السلام کی آمد ثانی مسلّمہ ہے تو آخری نبی کے معنی کا مخصوص اور مقید ہونا بھی تمام امت میں متفق علیہ ہے.(اس امر کی تائیدان احادیث سے بھی ہوتی ہے جو عدالت نے درج کی ہیں ) خلاصہ بحث یہ ہے کہ تمام مسائل اور پہلو جو ایک تفصیلی بحث کے متقاضی تھے جس میں متعدد آیات قرآنی اور حضور کے بہت سے اقوال کی چھان بین حضور کے ارشادات کی باہم موافقت اور تطبیق ضروری تھی اور اس بارہ میں جماعت احمدیہ کی مخالف آراء یک طرفہ طور پر زیر غور لا کر کوئی رائے قائم کرنا یا ان کو فیصلے میں شامل کر لینا قریں انصاف نہیں لہذا فیصلے کا یہ حصہ بھی حذف کئے جانے کے لائق ہے.بالخصوص اس لئے کہ آئینی ترمیم کی موجودگی میں یہ بحث غیر متعلق تھی.یہ ایک خالص اعتقادی سوال تھا جو نہ عدالت کے زیر غور تھا اور نہ عدالت فیصلہ دینے کی مجاز تھی.حقیقت الامر یہ ہے کہ مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر اور جماعت احمدیہ کے عقیدہ میں ختم نبوت کے بارے میں کوئی حقیقی اختلاف نہیں ہے اصل اختلاف حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد ثانی کے بارے میں ہے.فریقین کا اس بارے میں اتفاق ہے کہ حضور کے آخری نبی ہونے کے جو معنی بھی ہوں.حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد اس سے متعارض نہیں.225

Page 232

چنانچہ خود عدالت نے حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد ثانی کے بارے میں علامہ زمخشری کی تفسیر کشاف علامہ بیضاوی کی ” انوار التنزیل“ علامہ نسفی کی ”مدارک التنزیل“ علامہ سیوطی کی ” جلالین ، علامہ آلوسی کی ”روح المعانی وغیرہ تفاسیر کے حوالے درج کئے ہیں.جن کا ماحصل یہ ہے کہ بیشک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین اور آخری نبی ہیں مگر حضرت عیسی علیہ السلام بھی ضرور تشریف لائیں گے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کا مطلب صرف یہ ہے کہ آپ کے بعد کسی کو نبی بنایا نہیں جائے گا یا یوں کہئے کہ کسی کو نبوت عطا نہیں ہوگی.گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اللہ تعالیٰ کی جانب سے نبوت کا منصب ختم ہو گیا.حضرت عیسیٰ علیہ السلام چونکہ آنحضور سے پہلے مبعوث ہو چکے اور دوسری مرتبہ آپ کی شریعت کے پیرو اور امت کے فرد ہو کر آئیں گے لہذا ان کی آمد سے ختم نبوت کی مہر متاثر نہیں ہوگی.گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوز مانی لحاظ سے آخری نبی قرار دینے والوں کی دلیل یہ ٹھہری کہ چونکہ آپ خاتم النبیین ہیں اس لئے آپ کے بعد کوئی نبی بن تو نہیں سکتا.البتہ اگر کوئی نبی زندہ ہے اور اس کی نبوت سلب نہیں ہوئی تو وہ آسکتا ہے.غور کیجئے تو اصل سوال یہ ہے کہ مسیح بنی اسرائیل کی دوبارہ آمد آخر کیوں؟ اس کا ایک ہی جواب ہے اور وہ ہے ” ضرورت گویا حضرت مسیح نبی اللہ کی آمد ثانی کا اقرار دراصل ضرورت نبوت کا اقرار ہے اور جب نبوت کی ضرورت موجود ہے تو ” مہر نبوت کو تو اس ضرورت نے ہی ختم کر دیا.یہ امر عقلاً محال اور شان خدائی کے خلاف ہے کہ ضرورت تو پیدا ہو جائے لیکن خدا اسے پورا نہ کر سکے یا نہ کرے اور جب خدا تعالیٰ کو اس ضرورت کے پورا کرنے پر قادر سمجھا جائے تو یہ بحث خود بخو دا تعلق ہو جاتی ہے کہ نبی نیا ہو یا پرانا.کیونکہ یہ وو اصول تو تسلیم ہو گیا کہ آنے والا شریعت محمدیہ کے اندر ہے تو کوئی حرج نہیں.اگر بوجہ ضرورت پرانے نبی کے آنے سے نبوت کی مہر نہیں ٹوٹتی تو اسی ضرورت کے 226

Page 233

ہوتے ہوئے شریعت محمدیہ کے تابع ہو کر کسی آنے والے سے کیسے ختم نبوت ٹوٹ جاتی ہے.آئیے اب اس دلیل کو ذرا قرآن شریف کے سامنے پیش کر کے دیکھیں.حضرت عیسی علیہ السلام قرآن حکیم کے مطابق رَسُولًا إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ (آل عمران:50) یعنی صرف بنی اسرائیل کی طرف رسول تھے اور تورات کے پابند تھے.پھر انجیل میں بھی حضرت مسیح کا یہ قول موجود ہے کہ ” میں اسرائیل کے گھر کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا کسی اور کی طرف نہیں بھیجا گیا.پس مسیح بنی اسرائیل کی دعوت قرآن اور انجیل کی رو سے بنی اسرائیل تک ہی محدود تھی.وہ سب مسلمانوں کو دعوت کیسے کر سکتے ہیں اور وہ توریت کے پابند ہوکر قرآن کو کیسے حکم مانیں گے.قرآن شریف تو یہ گواہی دیتا ہے کہ وہ جہاں بھی ہوں اور جب تک زندہ رہیں نبی ہوں گے اور انہیں احکام کے پابند ہونگے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو دیئے گئے تھے جیسا کہ فرمایا قَالَ إِنِّی عَبْدُ الله النِيَ الْكِتَب وَجَعَلَنِي نَبِيِّاً وَجَعَلَنِي مُبَارَكاً أَيْنَمَا كُنْتُ وَأَرْضنِى بالصلوةِ وَالزَّكواةِ مَا دُمْتُ حَيًّا (مريم: 32,31) یعنی مسیح نے کہا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور مجھے اس نے کتاب بخشی ہے اور مجھے بنی بنایا ہے اور میں جہاں کہیں بھی ہوں اس نے مجھے بابرکت وجود بنایا ہے اور جب تک میں زندہ ہوں مجھے نماز اور زکوۃ کی تاکید کی ہے لہذا مسیح جو ”رسولاً الى بنی اسرائیل“ تھے اور صرف اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کی طرف بھیجے گئے تھے.خود قرآن اور انجیل کی رو سے امت مسلمہ کی طرف رسول بن کر نہیں آسکتے دونوں کتابوں کی تعلیمات کی تفاصیل اور تشریعی احکام کا فرق واضح ہے، صرف کلمہ، نماز ، روزہ ، حج اور زکوۃ کا فرق ہی کتنا بین ہے.پھر اس کے باوجود تو رات کا پابند قرآن کا پابند کیسے ہو سکتا ہے.بات آنے یا نہ آنے کی نہیں.بات یہ ہے کہ آتا ہے تو کس حیثیت سے آتا ہے؟ اختلاف کا باعث یہ امر ہے کہ مسلمانوں کے بیشتر مکاتب فکر کے نزدیک حضرت عیسی ابن مریم جو بنی اسرائیل کے سلسلہ انبیاء کے ایک 227

Page 234

نبی تھے اور جو حضور کی بعثت سے قریباً چھ صد سال قبل مبعوث ہوئے تھے وہ اپنے جسد عنصری کے ساتھ انہیں سوسال سے آسمان پر زندہ موجود ہیں اور وہ دوبارہ تشریف لائیں گے اور ان کے دوبارہ تشریف لانے سے حضور کے آخری نبی ہونے کی حیثیت متاثر نہیں ہوتی جب کہ جماعت احمدیہ کے نزدیک حضرت عیسی ابن مریم طبعی موت سے وفات پاچکے ہیں اور ان کی آمد ثانی کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات مثیل مسیح کی آمد سے ہی پورے ہو سکتے ہیں.یہی رائے صوفیائے اُمت کے ایک گروہ کی ہے گو یا بنیادی اختلاف تعیین شخصی کا ہے.پس جماعت احمدیہ اور چودھویں صدی کے علماء کے درمیان اصل اور بنیادی اختلاف ختم نبوت یا آیت خاتم النبین کا نہیں ہے بلکہ بنیادی اختلاف حضرت عیسی کی وفات یا حیات کے بارے میں ہے.یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ حضرت عیسی کی دوبارہ آمد سے ختم نبوت پر زد اس لئے نہیں پڑتی کہ وہ آنحضرت صلعم کی امت میں سے ہو کر آئیں گے.آپ ہی کا قبلہ اپنا ئیں گے اور کوئی نئی شریعت نہیں لے کر آئیں گے.اگر تو وہ زندہ بجسد عنصری آسمان پر موجود ہیں تو بعینہ انہی کی واپسی متوقع ہے اور اگر قرآن حکیم پکار پکار کر یہ اعلان کرے کہ حضرت عیسی وفات پاچکے ہیں تو پھر ان کی دوبارہ آمد کی پیشگوئی ان کے کسی مثیل کی آمد کی پیشگوئی ٹھہرے گی.لہذا اصل قضیہ حضرت عیسی کی حیات یا وفات ہے.جب ہم اس امر کا جائزہ لینے کیلئے تحقیق اور جستجو سے کام لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت میسی کی وفات از روئے قرآن از روئے اناجیل اور از روئے احادیث ایک ثابت شدہ حقیقت ہے.چنانچہ سورۃ مائدہ میں حضرت عیسی اور خدا تعالیٰ کے درمیان ایک مکالمہ درج ہے جو قیامت کے روز ہوگا فرماتا ہے :.228

Page 235

وَإِذْ قَالَ اللهُ يَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنْتَ قُلتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِي وَأُمِّى إِلهَيْنِ مِنْ دُوْنِ اللهِ قَالَ سُبْحَنَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُوْلَ مَا لَيْسَ لِيْ بِحَقِّ - إِنْ كُنْتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ إِنَّكَ أَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيداً مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ(المائده : 118,117) اس آیت میں حضرت مسیح اپنی وفات کا اقرار کرتے ہیں اور آپ کا اپنی قوم کے بارہ میں یہ کہنا کہ خداوندا! جب تو نے مجھے وفات دیدی تو میرے بعد تو ہی ان کا نگہبان تھا.صاف شہادت دے رہا ہے کہ وہ دنیا سے ہمیشہ کے لئے وفات پاگئے.کیونکہ اگر ان کا دنیا میں پھر آنا مقدر ہوتا تو ضرور ان دونوں واقعات کا ذکر کرتے اور اپنے نزول کے بعد کی تبلیغ کا بھی ذکر کرتے.اس صورت میں حضرت عیسی یہ نہیں کہہ سکتے کہ مجھے عیسائیوں کے بگڑنے کی کوئی خبر نہیں جو شخص دوبارہ دنیا میں آیا اور چالیس برس رہا اور جس نے صلیب کو توڑا اور تمام عیسائیوں کو مسلمان کیا ہو وہ کیونکر قیامت کے روز جناب الہی میں یہ عرض کر سکتا ہے کہ مجھے عیسائیوں کے بگڑنے کی کوئی خبر نہیں.حقیقت یہ ہے کہ قرآن شریف میں حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کا مضمون کئی پہلوؤں سے مذکور ہے اور جتنا زور اور وضاحت قرآن شریف میں آپ کی وفات سے متعلق ہے کسی اور نبی کی وفات کے بارہ میں نہیں.سورہ مائدہ کی مذکورہ بالا آیت میں آپ کی وفات کے ذکر کے ساتھ ضمنا آپ کی طرف منسوب کئے جانے والے الوہیت مسیح و تثلیث کے عقیدہ کا رڈ بھی ہے.اس کے علاوہ بھی 229

Page 236

متعدد دیگر مقامات پر قرآن شریف میں کہیں الوہیت مسیح کی تردید میں وفات مسیح کا ذکر ملتا ہے کہ خدا نے ان کو وفات دی اور مسیح وفات پا گئے اور کہیں ان کی بشریت ورسالت کے ثبوت میں دلیل استقراء کے طور پر آپ کی طبعی موت کا ذکر ہے کیونکہ آپ رسول تھے اور سب رسول وفات پاچکے.چنانچہ فرمایا :.مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ (المائده : 76) یعنی مسیح ابن مریم صرف ایک رسول تھے اور ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے.اس آیت سے گو اس بات کا ثبوت تو ملتا تھا کہ حضرت مسیح سے پہلے تمام رسول وفات پا چکے ہیں اور مسیح رسول اللہ کا وفات پا جانا اس کا منطقی استقرائی نتیجہ تھا مگر معین طور پر یہ مذکور نہ تھا کہ دراصل وہ وفات پا بھی گئے اور اشتباہ کی گنجائش موجود تھی مگر قرآن حکیم نے اس اشتباہ کو بھی سورۂ آل عمران کی اس آیت سے دور کر دیا جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں یہی مضمون مذکور ہے جیسا کہ فرمایا :.وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ (آل عمران 145) و یعنی محمدصلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک رسول ہیں اور آپ سے پہلے سب رسول وفات پاچکے ہیں.یہی وہ آیت ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے موقع پر صحابہ کرام کے لئے ڈھارس بنی.جب رسول اللہ کی وفات کی خبر سن کر صحابہ مارے غم کے دیوانے ہوئے جا رہے تھے اور حضرت عمر جیسا جری اور زیرک انسان بھی یہ باور کرنے کے لئے تیار نہ تھا کہ ان کے پیارے آقا وفات پاچکے ہیں اس وقت جناب صدیق اکبر نے اسی آیت کی تلاوت 230

Page 237

فرما کر صحابہ کرام کو تسلی دلائی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے سب رسول وفات پاچکے ہیں اور آپ کا وفات پانا بھی مقدر تھا.پس اس آیت کے اندر رسول اللہ سے پہلے تمام انبیاء کی وفات کا مضمون واضح طور پر بیان ہوا ہے.گویا اس آیت کے ذریعہ سے صحابہ کا پہلا اجماع ہی عیسی علیہ السلام کی وفات پر ہوا.آیت کے اگلے حصہ میں آفَائِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ فرما کر خلا کے معنی واضح کر دیئے گئے اور خلا ( یعنی گزر جانے ) کوموت اور قتل کی دو صورتوں میں حصر کر دیا گیا ہے چنانچہ خلا کے معنی موت یا قتل کے سوا کچھ نہیں.مبادا کوئی یہ کہے کہ خلا یعنی گزر جانے کے معنی فوت ہو جانے کے کہاں ہیں تو ہم صرف اتنا عرض کریں گے کہ قرآن شریف میں متعدد مقامات پر خلا یعنی گزر جانے کا مفہوم فوت ہو جانا ہی ہے.خود اس آیت کی شان نزول کو دیکھئے.جنگ اُحد کا موقعہ ہے حضور زخمی ہیں.صحابہ پریشان ہیں.سراسیمہ ہیں.حضور کی موت کی خبر اڑ گئی ہے.پسپائی کا عالم ہے تو خدا آسمان سے پکارتا ہے.محمد ایک رسول ہی تو ہیں آپ سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں اگر آپ قتل کر دیئے جائیں یا وفات پا جائیں تو کیا تم ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گئے.یہ موقعہ یہ شان نزول، یہ انداز تخاطب صاف کہہ رہا ہے کہ آپ سے پہلے رسولوں کے فوت ہو جانے کا ذکر ہے جبھی تو ڈھارس بندھائی جارہی ہے.کوئی صحابی پلٹ کر نہیں کہتا کہ سارے نبی تو فوت نہیں ہوئے ایک تو زندہ موجود ہے ہمارے آقا کیوں زندہ نہ رہیں.دیکھئے خود صحابہ نے اسے کیسے سمجھا.اُحد کے روز جس سانحہ سے صحابہ گھبرا رہے تھے اور جس اٹل گھڑی کے بارے میں خدا دلا سے دے رہا تھا.جب وہ گھڑی واقعی آ پہنچی اور حضور وفات پا گئے تو اس وقت صحابہ نے اس آیت کے مفہوم سے کیا سمجھا؟ حضرت ابوبکر نے 231

Page 238

اپنے پہلے خطبہ میں کیا ارشاد فرمایا ؟ جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے یہی آیت تلاوت فرمائی کہ محمد رسول ہی تو تھے اگر آپ وفات پا جائیں یا قتل کئے جائیں تو کیا تم ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے.گو یا واقعی اُحد والی بات یاد دلائی اور پھر کہا کہ دیکھو حضور کو فوت ہونا ہی تھا حضور قوت ہو گئے اور خدا کی سنت کی دلیل ٹھہرایا کہ آپ سے پہلے سارے رسول فوت ہو چکے ہیں.گویا اس ایک آیت کا مفہوم دو مرتبہ صحابہ کی زندگی میں واضح ہو کر سامنے آیا.ایک اس وقت جب یہ آیت نازل ہوئی اور ایک اس وقت جب حضور نے وفات پائی.دونوں موقعوں پر وفات کا مضمون ہی بیان کرنا مقصود نظر آتا ہے.غرضیکہ ایک دو مقام پر نہیں.درجنوں مقامات پر عیسی کی وفات مذکور ہے اور اب تو جب سے حضرت مرزا صاحب نے اس عقدے کو حل کیا ہے تاریخ نے اپنے دفینے اگل دیئے ہیں اور زمانہ نت نئے شوہر اس بات کے پیش کر رہا ہے کہ عیسی کو اللہ تعالیٰ نے واقعہ صلیب کے بعد ایک لمبی عمر عطا کی اور وہ اپنے مشن کی تکمیل کے بعد طبعی موت سے دو چار ہوئے.تاریخ اور سائنس کے شواہد اور انجیل اور بائیبل کی شہادت سب اسی حقیقت کی نشاندہی کر رہے ہیں اور اس بارے میں دلائل کا اتنا انبار لگ چکا ہے کہ اس حقیقت سے اب انکار ممکن نہیں رہا اور مسلمانوں میں سے اہل علم حیات مسیح کا عقیدہ چھوڑ کر وفات مسیح کے قائل ہوتے جارہے ہیں.وفات مسیح ناصری علیہ السلام کے بارے میں ایک مختصر بحث ہم نے نمونتاً پیش کی ہے.ور نہ قرآن کریم میں کم و بیش تمہیں آیات حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کی خبر دے رہی ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث اور بزرگان سلف کے اقوال کی رو سے حضرت عیسی علیہ السلام وفات پاچکے ہیں.بزرگان امت محمدیہ میں سے حضرت ابوبکر 232

Page 239

صدیق، حضرت جارو د بن معلی (صحابی رسول) ، حضرت حسن بن علی، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت امام مالک، حضرت امام عبدالوہاب جبائی، حضرت ابو جعفر محمد بن علی بن حسین بن موسیٰ، حضرت امام ابن حزم، حضرت سید علی ہجویری داتا گنج بخش ، حضرت امام ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، علامہ زمخشری، امام فخر الدین رازگی، حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی ، حضرت شمس تبریز ، امام سراج الدین عمر بن الوردی، حضرت امام ابن قیم، حضرت امام عبدالوہاب شعرائی، حضرت محمد اکرم صابری ، علامہ شوکانی ، علامہ ابو عبد اللہ محمد بن یوسف اور عصر حاضر میں سے علامہ مفتی محمد عبدہ ، علامہ رشید رضا ایڈیٹر المنارمصر،الاستاذ محمود شلتوت سابق مفتی مصر، الاستاذ مصطفى المراغى، الاستاذ عبدالکریم شریف ، الاستاذ عبدالوہاب النجار، ڈاکٹر احمد ز کی ابو شادی اور علماء ہند و پاکستان میں سے مولا نا عبید اللہ سندھی ،سرسید احمد خاں، مولانا ابوالکلام آزاد، علامہ اقبال ، علامہ مشرقی ، غلام احمد پرویز، سبھی وفات مسیح کے قائل ہیں.اور اگر حضرت عیسی علیہ السلام وفات پاچکے ہیں اور ان کی آمد ثانی کا عقیدہ بھی جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے حضور ہی کے ارشادات پر مبنی ہے تو پھر حضرت عیسی علیہ السلام کی آمدان کے ایک مثیل کی آمد ہی ہو سکتی ہے.اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں.مسیح کی آمد ثانی کے عقیدہ میں تیرہ صدیوں کا تواتر ہے.عدالت نے بھی اس کی تائید میں حوالہ جات نقل کئے ہیں.لہذا جماعت احمدیہ کے بارے میں یہ قرار دینا کہ گویا عقائد کا بنیادی اختلاف مسلمانوں اور احمدیوں کے درمیان موجود ہے.بالبداہت غلط ہے.الغرض فاضل عدالت نے ختم نبوت کے عقیدہ کو احمدیوں اور مسلمانوں کے دیگر مکاتب فکر کے درمیان بنیادی اختلاف قرار دینے میں صریحاً غلطی کی ہے اور یہ حصہ خالص عقائد کی بحث سے تعلق رکھتا ہے اور عدالت اس میں دخل اندازی کی مجاز نہ تھی اور یہ حصہ حذف کئے جانے کے لائق ہے.233

Page 240

جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں اعتقادی امور پر بحث سرے سے ہی عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں تھی.تاہم عدالت نے تمام عدالتی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایسے متعدد امور اپنے فیصلہ میں شامل کئے جو قطعاً غیر متعلق اور مسئلہ زیر بحث کے تصفیہ کے لئے قطعا غیر ضروری تھے.چنانچہ مسئلہ ختم نبوت کے بارے میں ہم واضح کر چکے ہیں کہ کس طرح عدالت نے اس مسئلہ پر ایک غلط مفروضہ کو بنیاد بنا کر بحث اٹھائی اور کس طرح غلط نتائج اخذ کر کے یکطرفہ طور پر فیصلہ میں شامل کر دیئے.جو گزارشات ہم اوپر کر آئے ہیں ان میں یہ بات واضح ہے کہ ختم نبوت کے بارہ میں نہ تو عدالت نے اولیاء اور صلحائے امت کے تواتر اور مسلک کو صحیح طور پر سمجھا اور نہ ہی اس مسئلہ پر محققانہ طو پر کوئی رائے قائم کی.(2) ایک قطعی طور پر غیر متعلقہ سوال جو عدالت نے اُٹھایا وہ حضرت مرزا صاحب کی تاریخ پیدائش اور عمر سے تعلق رکھتا ہے.عدالت نے فیصلہ کے صفحہ 34 تا 38 میں اس غیر متعلقہ بحث کو جگہ دی اور مرزا صاحب کی تاریخ پیدائش کے بارہ میں ایک علمی تحقیق کو وجہ اعتراض بنایا.حالانکہ اہل علم پر یہ بات روشن ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں میں سے کسی ایک کی بھی متفق علیہ تاریخ پیدائش محفوظ نہیں.وہ یگانہ روزگار وجود جو دنیا کی تاریخ میں مینار ہدایت بن کر ابھرتے ہیں ان کی پیدائش کے وقت دنیا کی نظر کبھی یہ نہیں دیکھ سکتی کہ وہ تاریخ انسانی میں کیا مقام پیدا کریں گے اور جب وہ صفحہ تاریخ پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں تو ان کی تاریخ پیدائش کی تلاش اور جستجو اور تحقیق شروع ہو جاتی ہے.حضرت عیسی علیہ السلام جن سے حضرت مرزا صاحب کو اپنے مقام کے اعتبار سے ایک گونہ مماثلت کا دعویٰ تھا.خودان 234

Page 241

کی تاریخ پیدائش عیسائی محققین کے نزدیک بھی صدیوں سے باعث نزاع رہی اور ایک قول کے مطابق سال کے بارہ مہینوں میں کوئی مہینہ ایسا نہیں جس میں حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش کا دن کسی محقق نے تجویز نہ کیا ہو.آج بھی عیسائی دنیا 25 دسمبر کو یوم ولادت مسیح کے طور پر مناتی ہے.حالانکہ قرآن کریم کی رو سے حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش ایسے موسم میں ہوئی جب کہ کجھوریں پکی ہوئی تھیں اور اناجیل کے بیان کے مطابق گڈریئے بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ باہر کھلے کھیتوں میں رات گزار رہے تھے.تاریخ انسانی کے اشرف ترین وجود فخر موجودات سید نا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف اور تاریخ پیدائش کے بارے میں بھی اہل علم اور اہل تحقیق نے اختلاف کیا اور بحثیں کیں.چنانچہ لکھا ہے:.عمر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض ساٹھ برس کی اور بعضے باسٹھ برس چھ مہینے کی اور بعضے پینسٹھ برس کی کہتے ہیں.مگر ارباب تحقیق ترسٹھ برس لکھتے ہیں“.(احوال الانبیاءجلد 2 صفحہ 330 مطبوعہ 1924 ءاز مولوی ابوالحسن کا کوروی ) اگر احمدی محققین حضرت مرزا صاحب کی تاریخ پیدائش کے بارے میں تحقیق و جستجو سے کام لیں اور اس کے بارے میں مختلف دلائل و قرائن اور واقعات وشواہد یا روایات و بیانات کی چھان پھٹک کریں تو کسی اہل علم کے نزدیک محل اعتراض نہیں ہوسکتا تھا.مگر عدالت نے جس انداز میں اس علمی تحقیق کو بھی محل اعتراض ٹھہرایا وہ عدالت کے اندرونی تعصب اور بغض کی نشاندہی کرنے کے لئے کافی ہے اور جو نتیجہ عدالت نے اخذ کیا وہ یقیناً مبنی بر تعصب ،غلط اور بے بنیاد ہے.حضرت مرزا صاحب کے سوانح نگاروں نے مرزا صاحب کی تاریخ پیدائش کے بارے میں قابل تعریف تحقیق و تدقیق سے کام لیا، حضرت مرزا صاحب کی تاریخ پیدائش معین طور پر 235

Page 242

کسی یادداشت میں ریکارڈ نہیں تھی.کیونکہ ان کے زمانہ میں نہ ایسی یادداشت رکھنے کا رواج تھا اور نہ ہی اس زمانے کا کوئی سرکاری رجسٹر یا ریکارڈ موجود ہے.چنانچہ ان کی تاریخ پیدائش یا عمر کے بارے میں کوئی اندازہ ان کے اپنے الہامات، یا ان کی تحریرات یا ان کے ہمعصروں کی روایات سے ہی لگایا جا سکتا تھا.خود اپنی عمر کے بارے میں حضرت مرزا صاحب نے براہین احمدیہ میں لکھا:.عمر کا اصل اندازہ تو خدا تعالیٰ کو معلوم ہے مگر جہاں تک مجھے معلوم ہے اب اس وقت تک جو سنہ ہجری 1323 ہے میری عمر ستر 70 برس کے قریب ہے.واللہ اعلم.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 193) مرزا صاحب کے اپنے الہامات اور نعمت اللہ ولی کی پیشگوئی پوری طرح سے حضرت مرزا صاحب پر صادق آتی ہے اور مرزا صاحب کی عمر اور نعمت اللہ ولی کی پیشگوئی کے پورا ہونے کے بارے میں کوئی بات مبہم نہیں رہتی.کیونکہ مرزا صاحب کو قریباً40 سال کا عرصہ حسب پیشگوئی نعمت اللہ ولی اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا تھا.مرزا صاحب کے سوانح نگاروں نے علم تقویم کے ذریعے بھی مرزا صاحب کی تاریخ پیدائش اور عمر متعین کی ہے.1.حضرت مرز اصاحب فرماتے ہیں:.وو یہ عاجز بروز جمعہ چاند کی چودھویں تاریخ میں پیدا ہوا ہے“.(روحانی خزائن جلد17 صفحه 281 ـ تحفہ گولڑویہ طبع اوّل صفحه110 حاشیه) 2 ” میری پیدائش کا مہینہ پھا گن تھا.چاند کی چودھویں تاریخ تھی جمعہ کا دن تھا اور پچھلی رات کا وقت تھا.(ذکر حبیب صفحہ 239,238 از حضرت مولوی محمد صادق) اب مندرجہ بالا قطعی اور یقینی تعین سے کہ جس میں کسی غلطی یا غلط فہمی کی گنجائش نہیں.236

Page 243

حضرت مرزا صاحب کی تاریخ پیدائش کا از روئے حساب معلوم کرنا نہایت آسان ہے کیونکہ بھا گن کے مہینہ میں جمعہ کا دن اور چاند کی چودھویں تاریخ صرف 2 سالوں میں آئی.یعنی 17-1 فروری 1832ء 13-2 فروری 1835 ء مطابق 14 شوال 1250ھ مندرجہ بالا تحقیق کی رو سے قطعی اور یقینی طور پر معلوم ہو گیا کہ حضرت اقدس کی تاریخ ولادت 14 شوال 1250ھ مطابق 13 فروری 1835ء بروز جمعہ ہے.حضرت اقدس کی وفات 24 ربیع الثانی 1326 ھ مطابق 26 مئی 1908 ء کو ہوئی.اب 1326 ھ - 1250=76 سال.گویا حضور کی عمر 75 سال 6 ماہ اور دس دن ہوئی جو الہامات کے عین مطابق ہے.لہذا ایک علمی تحقیق کے بارے میں فاضل عدالت کا یہ کہنا کہ وہ محض پیشگوئی کو پورا کرنے کی خاطر تھا درست نہیں.غرضیکہ عدالت نے حضرت مرزا صاحب کی تاریخ پیدائش پر ایک علمی تحقیق کو بھی اپنے تعصب کے اظہار کا آلہ بنانے سے گریز نہیں کیا.حالانکہ مندرجہ بالامختصر معروضات سے یہ بات واضح ہے کہ اگر حضرت مرزا صاحب کے الہامات کی صداقت پر کھنے کا ہی سوال تھا تو یہ سوال دوران بحث اگر اٹھایا جاتا تو مندرجہ بالا مختصر بحث کے علاوہ نہایت تفصیل کے ساتھ کافی وشافی مواد تمام شبہات کو دور کرنے کے لئے پیش کیا جا سکتا تھا.مگر فاضل عدالت نے محض یکطرفہ طور پر معاندین سلسلہ احمدیہ کی کتب سے متأثر ہوکر ایک فریق مقدمہ کے مقام پر کھڑے ہو کر محض اعتراض کرنے کی خاطر ایک سوال کو اٹھا کر اپنے عدالتی فیصلہ کو مجروح کر کے غیر متعلقہ بحث اُٹھائی جس نے فیصلے کی غیر جانبدارانہ حیثیت کو مجروح کیا.اور یہ حصہ بھی عدالت کے فیصلے سے حذف کیا جانا ضروری ہے.یا اس حصہ پر سائلان کے مفصل دلائل کا 237

Page 244

بھی صفحہ ریکارڈ پر لایا جانا ضروری ہے.عدالت نے اس کے بعد مزید غیر متعلقہ مباحث کو فیصلہ میں داخل کیا اور مرزا صاحب کے دعوی نبوت کی تاریخ اور ارتقاء کو بیان کر کے اپنے اندرونی تعصب کا اظہار کیا اور فیصلہ کے تقدس کو پامال کیا.(3) عدالت نے فیصلے کے صفحہ 39 تا 50 میں حضرت مرزا صاحب کی معرکۃ الآراء تصنیف براہین احمدیہ کو اعتراض کا نشانہ بنایا ہے.براہین احمدیہ کی تصنیف اس کی اشاعت کے وسائل اس کے مضامین کا حجم ، اس کے دلائل کی عظمت کسی مرحلہ پر بھی زیر بحث نہیں آئے مگر عدالت نے ان امور پر مخالفانہ تبصرہ کرنا ضروری سمجھا.جو عدالت کے تعصب اور جانبداری پر دلالت کرتے ہیں.عدالت نے جو معاندانہ تبصرہ براہین احمدیہ سے متعلق امور پر کیا ہے.وہ بھی یکطرفہ، بلا جواز اور غیر متعلق ہے.زیر نظر سوال کا تعلق صرف آرڈنینس کے قرآن وسنت سے متصادم ہونے یا نہ ہونے سے تھا.براہین احمدیہ ایک بلند پایہ علمی تصنیف تھی یا کوئی بے مایہ کتاب؟ اس کا مسئلہ زیر بحث سے کوئی تعلق نہیں تھا.اگر براہین احمدیہ کے دلائل کمزور اور بے حقیقت تھے تو اس سے آرڈینینس قرآن وسنت کے مطابق نہیں ٹھہر سکتا تھا اور اگر مرزا صاحب نے یہ کتاب دنیاوی مقام مرتبہ اور شہرت کے حصول کے لئے ہی لکھی تھی اور مالی منفعت ہی ان کا مقصود تھا تو پھر بھی آرڈینینس قرآن وسنت کے مطابق کیسے ہو گیا؟ آرڈینینس کے جواز یا بطلان کا براہین احمدیہ کے مقام ومرتبہ یا اس کی تصنیف کے اغراض ومقاصد کا قطعاً اس بات سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں تھا مگر عدالت نے اپنے فیصلہ میں 238

Page 245

براہین احمدیہ پر بھی متعصبانہ تبصرہ روارکھا جو نہ صرف غیر متعلق بلکہ سراسر خلاف واقعہ ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ براہین احمدیہ ایک ایسی نادر اور عظیم الشان تصنیف ہے کہ جو آج بھی اہل علم کی عقل کو خیرہ کئے دیتی ہے.براہین احمدیہ کی عظمت سے نہ مرزا صاحب کے ہمعصر انکار کر سکے نہ ان کے معاندین کو ہی اس سے انکار کی جرأت ہوئی.ہر چند کہ عدالت نے اظہار تعصب کے طور پر براہین احمدیہ کی مختلف جلدوں کے حجم پر تبصرہ کیا.اس کے مضامین کا اشارہ یا کنایہ بھی ذکر کرنا مناسب نہ سمجھا.یا تو عدالت نے براہین احمدیہ کے مضامین کا مطالعہ ہی نہیں کیا اگر ایسا ہے تو بغیر مطالعہ کئے کتاب پر تبصرہ کرنا علمی دیانتداری کی کوئی قابل رشک مثال نہیں.اور اگر عدالت براہین احمدیہ کے مضامین سے واقف تھی تو ان مضامین سے صرف نظر کر کے غیر متعلقہ ضمنی امور پر تبصرہ تعصب کی بدترین مثال ہے.جہاں تک براہین احمدیہ کے مضامین کا تعلق ہے ان کی مختصر فہرست پر ہی نظر ڈال کر ایک صاحب عقل اور صاحب انصاف انسان اس کتاب کی عظمت و اہمیت کا اندازہ کر سکتا ہے.براہین احمدیہ کے مضامین کا ایک خا کہ یہ ہے.1.عقیدہ توحید کے فضائل.2.شرک کے نقصانات.-3 شرک کی نفی میں دلائل عقلیہ و نقلیہ - -4 خلق اللہ اور امر اللہ کے لطیف مضامین.5.صفات الہیہ کا باریک مضمون.قرب الہی سے متعلق مضامین.7.ضرورت قرآن.کلام الہی کا اپنی ذات میں غیر محدود ہونا.239

Page 246

قرآن کریم کی تعلیم کا ہر قسم کی افراط و تفریط سے پاک ہونا.10.قرآن شریف کا تحریف سے ہمیشہ کے لئے محفوظ رہنا اور اس کے نصف درجن دلائل.11.دیگر مذاہب کی تعلیمات سے قرآن حکیم کی تعلیم کا موازنہ.12.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اتنی ہونا اور اس سے صداقت قرآن کریم کی دلیل.13.قرآن کریم کے تمام علوم اورا دلہ کاملہ سے صداقت قرآنی پر استدلال.14 علوم الہیات کی تفاصیل جو قرآن میں موجود ہیں سے قرآنی صداقت کا ثبوت.15.قرآن شریف کی افضلیت پر اندرونی شہادتیں.16.قرآن کریم کی افضلیت پر بیرونی شہادتیں.17.افضلیت قرآن پر امور محتاج الاصلاح، اُمور محتاج التکمیل ،امورقدرتی اور امور غیبیہ سے استدلال و استنباط.18.قرآن کریم کی لفظی و معنوی خوبیوں پر دلائل.19.قرآن کریم سے استقرائی دلائل.20.قرآن کریم کے عربی نزول کی حکمت.21.عربی زبان کے بار یک در بار یک لطائف.22.قرآن حکیم میں علوم اولین و آخرین کا اجتماع.23.صداقت قرآن کریم از روئے طبیعات.24.قرآن حکیم میں اخبار غیبیہ.25.قرآن کریم میں بیان کردہ اصول صداقتِ انبیاء.26.قرآن حکیم کی تاثیرات و معجزات.27.قرآن حکیم کا مختلف قومی اور صلاحیتوں کے افراد کے لئے یکساں طور پر ہدایت ہونا.240

Page 247

28.قرآن حکیم کی علت فاعلی، علت صوری، علت مادی اور علت غائی کے بار یک مضامین.29 کلام الہی اور قانونِ قدرت کا باہمی ربط.30.انسانی قوی کی تہذیب اور تربیت کے بارہ میں قرآنی علوم.31.علم معاد کے بارہ میں قرآنی حقائق اور ان سے صداقت قرآن پر استدلال.32.قرآن حکیم کی فصاحت و بلاغت.33.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے دلائل.34.عالم روحانی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام.35.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افضل الرسل اور زندہ نبی ہونے پر دلائل.36.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام خاتم النبین کے متعلق امور ومعارف.37.مقام دنا فتدلی کی حقیقت.38.مقام قاب قوسین کا بیان.39.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہادی برحق ہونے کا مضمون اور اس کے دلائل.40.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں تائیدات الہیہ.41.نور محمدی کی لطیف تفسیر.42.شجرۂ مبارکہ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت مبارکہ میں مماثلت.43.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تم اخلاق فاضلہ کا بیان.44.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جملہ اخلاق فاضلہ کا ظہور.45.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے ثمرات اور اس بارہ میں اپنا وجود بطور شہادت پیش کرنا.46.ضرورت الہام.241

Page 248

47.عقل اور الہام کا باہمی تعلق.48.مجرد عقل کے نقصانات.49.قوائے اخلاقیہ اور انوار قلبیہ میں انسانوں کے درمیان تفاوت اور ان سے استدلال.50.حق الیقین کے حصول کے لئے عقل کے ساتھ الہام کی ضرورت.51.معجزات کی حقیقت.52.معرفت کا ملہ کے لئے قانونِ قدرت کا مطالعہ.53.عملِ صالح کی حقیقت.54.مذاہب غیر کی جہالتیں اور گمراہیاں.55.انسان کی ترقیات ثلاثہ.56.سلوک کے مراتب.57 کشوف صادقہ.58.عالم روحانی اور عالم جسمانی کی مماثلت.غرضیکہ ایک طویل سلسلہ مضامین کا اس شان کے ساتھ بیان کیا ہے کہ عصر حاضر کے فلسفہ سے متاثر ذہنوں کو ہر پہلو سے مطمئن کر دے.اس شان اور اس عظمت کی کتاب کا ذکر یوں کر دینا کہ گویا یہ چند صفحوں کی کتاب ہے اور اس کی عظمت کا اندازہ محض اس کے حجم سے لگانے کی کوشش نہایت غیر عالمانہ اور غیر ثقہ انداز فکر کا آئینہ دار ہے.وہ لوگ جن کو اُس دور کی ظلمتوں کا سامنا تھا اور جن کی آنکھوں کے سامنے مغربی تعلیم کی یلغار ایک ریلے کی صورت میں مسلمانوں کو بہائے لئے جارہی تھی انہوں نے اس کتاب کو کس نظر سے دیکھا.اس بارہ میں آپ کے ایک ہمعصر مولوی محمد حسین بٹالوی نے جو ر یو یو اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں کئی اقساط میں شائع کیا اس کتاب کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے.چنانچہ 242

Page 249

لکھتے ہیں :.”ہماری رائے میں یہ کتاب (براہین احمدیہ ناقل ) اس زمانہ میں اور موجودہ حالات کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی اور آئندہ کی خبر نہیں.لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ امراً.اور اس کا مؤلّف بھی اسلام کی مالی و جانی قلمی اور لسانی و حالی وقالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے.(رسالہ اشاعت السنہ نمبر 6 جلد 7 صفحہ 169) (4) براہین احمدیہ پر عامیانہ اعتراض کرنے کے بعد عدالت نے اس کتاب کے مضامین سے یہ اعتراض اُٹھایا کہ ”مرزا صاحب کے دعاوی بتدریج ظہور میں آئے.1882ء میں انہوں نے مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کیا اور اس کے بعد مجد دکا دعویٰ کرنے میں دوسال لگادیئے مسیح موعود کا دعویٰ کرنے کے لئے انہوں نے لکھا کہ وہ حضرت عیسی علیہ السلام سے مماثلت رکھتے ہیں.اور ظلی نبوت کے دعوی کے لئے انہوں نے کہا کہ ان کی طرف وحی نازل ہوتی ہے اور عیسی علیہ السلام کی طبعی وفات اور ان کا کشمیر میں مدفون ہونا گویا صرف اس لئے تراش لیا گیا تھا تا کہ خود مثیل مسیح بن سکیں اور خاتم النبیین کی رکاوٹ دور کرنے کے لئے لفظ خاتم کے نئے معنی دریافت کر لئے.یہاں پھر وہی سوال ابھر کر سامنے آتا ہے کہ آخر آرڈینینس کے جواز یا بطلان کا مرزا صاحب کے دعاوی کی تدریج سے کیا تعلق؟ اگر حضرت مرزا صاحب کے دعاوی تدریجا نہ ہوتے تو کیا اس وجہ سے آرڈینینس قرآن وسنت کے خلاف قرار پاتا ؟ اور اگر حضرت مرزا صاحب کے دعاوی 243

Page 250

تدریجاً ظہور میں آئے تو کیا اس وجہ سے آرڈنینس قرآن وسنت کے مطابق ہو جائے گا؟.جب کوئی نسبت اور کوئی تعلق دونوں باتوں میں سرے سے موجود ہی نہیں تو آرڈنینس کے خلاف قرآن وسنت کی بحث میں حضرت مرزا صاحب کے دعاوی کا ذکر ہی غیر متعلق اور بے ربط ہے.مگر عدالت کا حضرت مرزا صاحب کے دعاوی میں تدریج کا الزام بھی کوتاہی فکر اور قلت تدبر اور کم علمی پر مبنی ہے.اگر عدالت کو یہ علم ہوتا کہ انبیاء کی تاریخ میں اس قسم کا الزام کوئی نئی بات نہیں اور اس اعتراض کی زد خود ہمارے سید و مولا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑتی ہے تو عدالت یہ اعتراض اُٹھانے کی جسارت نہ کرتی.وہی تدریج جو عدالت کو حضرت مرزا صاحب کے دعاوی میں نظر آئی عیسائی مستشرقین کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعاوی میں بھی نظر آتی تھی.ڈاکٹر ز و یمر اپنی کتاب Sudies in Popular Islam میں لکھتا ہے:.محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء تعلیم اور تبلیغ اور دلائل کے ذریعہ سے اپنے مذہب کی اشاعت کی.ابتدائی سورتوں میں اس نے صرف ایک نذیر (Wamer) ہونے کا دعویٰ کیا، لیکن جب وہ طاقتور ہو گیا اور اپنی نئی حیثیت کا احساس اُسے ہونے لگا تو اس نے تلوار کے استعمال کی اجازت دیدی.تلوار کے استعمال کے اصول کا یہ ارتقاء ایک اسلامی مصنف ابن عابدین نے بھی تسلیم کیا ہے.جس کے مطابق جہاد کا حکم تدریجا نازل ہوا.کیونکہ پہلے پہل رسول اللہ کو صرف اپنا پیغام پہنچانے کا حکم ہوا.پھر بحث ومباحثہ اور دلائل کے ساتھ قائل کرنے کا ارشاد ہوا.اور تیسرے مرحلہ پر مومنوں کو سوائے حرمت والے مہینوں کے لڑنے کی اجازت دیدی گئی اور اس کے بعد بلا استثناء ہر موسم میں لڑنے کی مکمل اجازت دیدی گئی.(سٹڈیز ان پاپولر اسلام صفحہ38مصنفہ ڈاکٹر زویمر) 244

Page 251

غور سے دیکھا جائے تو مامورین کی زندگی میں دعوی کا تدریجی ارتقاء دراصل ان کی صداقت کی ایک دلیل بن جاتا ہے.کیونکہ اگر کوئی مدعی اپنے دعوی میں جھوٹا ہو تو مخالفت کی وجہ سے قدم پیچھے کی طرف ہٹنا چاہئے.اگر مقصد شہرت عام یا سرداری حاصل کرنا یا دولت کمانا ہو تو کوئی جھوٹا مدعی مخالفت کے باوجود اپنے دعوی میں آگے کو نہیں بڑھ سکتا.مگر مامورین الہی کی عجیب کیفیت ہوتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے علم کی وجہ سے جو بات کہتے ہیں اس کی بناء پر زمانہ ان کا مخالف ہو جاتا ہے ، ان کی ساری عظمت گو یا کھوئی جاتی ہے اور ایک شدید ابتلاء کا دور شروع ہو جاتا ہے مگر وہ الہی اشاروں پر اپنا قدم اور آگے بڑھاتے ہیں اور انہیں اس بات کی پرکاہ کے برابر بھی پروانہیں ہوتی کہ ان کا ہر نیا دعویٰ اہل دنیا کے نزدیک ان کی شہرت کو ختم کر دیتا ہے.(5) ایک اور امر جس کو عدالت موصوف نے ناروا اور نا جائز طور پر اپنے فیصلہ میں شامل کیا وہ مرز اصاحب کی بعض پیشگوئیوں سے تعلق رکھتا ہے.مرزا صاحب کی پیشگوئیاں جھوٹی نکلیں یا روز روشن کی طرف پوری آب و تاب کے ساتھ سچی ثابت ہوئیں اور دلوں کی تاریکیاں دور کرنے کا باعث بنیں یہ امر عدالت کے زیر غور ہی نہیں تھا.اگر یہ بات ثابت ہو جائے کہ مرزا صاحب کی پیشگوئیاں بچی نکلیں تو بھی آئینی ترمیم کو عدالت مسترد نہیں کر سکتی تھی اور مرزا صاحب کو سچا قرار دے کر احمدیوں کو مسلمان قرار دینے کی مجاز نہیں تھی اور نہ ہی پیشگوئیوں کی صداقت کو بنیاد بنا کر عدالت یہ فیصلہ کر سکتی تھی کہ زیر نظر آرڈینینس قرآن وسنت کے منافی ہے لہذا یہ ساری بحث ہی لاتعلق اور غیر ضروری تھی.عدالت نے یہ امر اپنے فیصلہ میں شامل 245

Page 252

کر کے غلط اور بے بنیا دباتوں سے سائلان کے جذبات کو مجروح کیا ہے اور غلط نتائج اخذ کئے ہیں.پیشگوئیاں ،منجزات اور نشانات مذہبی دنیا کے مہتم بالشان واقعات ہوتے ہیں، مگر تاریخ مذاہب شاہد ہے کہ منکرین کبھی معجزات کو دیکھ کر یا پیشگوئیوں کو پورا ہوتے دیکھ کر ایمان نہیں لائے.حضرت عیسی مردوں کو جلا بخشتے رہے کوڑھیوں کو چنگا کر دیا.اندھوں کو بینائی بخشی مگر ان تمام بدیہی نشانات کے باوجودلوگوں کی اکثریت ان پر ایمان نہ لائی اور عیسائی لٹریچر کے مطابق صرف بارہ حواری انہیں میسر آئے.حضرت موسی نے کیا کیا نشانات دکھائے.ساحروں میں سے سعید روحیں تو ایمان لے آئیں لیکن انہی نشانات کو فرعون نے سچا تسلیم نہ کیا اور ایمان نہ لایا.خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں شق القمر کو دیکھ کر کتنے لوگ ایمان لے آئے؟ ہر نبی کے زمانے میں مکذب رہے ہیں.جب کسی نے دعوی کیا اس کا انکار کرنے والے پیدا ہو گئے.جو لوگ مکذب ہونے پر فخر کرتے ہیں وہ تو لازما نبی کی پیش گوئیوں کو جھوٹا قرار دیتے ہیں اس کے علاوہ ان کے لئے اور کوئی چارہ ہی نہیں.اگر ان مکذبین کی عدالت قائم ہو تو یقیناً ان کے جھوٹا ہونے کا ہی فیصلہ دیں گے.اس طرح تو ہر وہ نبی جس کو عدالت مسلمہ طور پر سچا تسلیم کرتی ہے اپنے مکذبین کے جھٹلانے کی وجہ سے جھوٹا ثابت ہو جائے گا.عدالت نے حضرت مرزا صاحب کی پیشگوئیوں کو موضوع بحث بنا کر خواہ نخواہ کی تکلیف گوارا کی.کون نہیں جانتا کہ اگر فاضل عدالت کے ارکان مرزا صاحب کی پیشگوئیوں کو سچا سمجھتے تو آج عدالت کی کرسی پر نہ ہوتے.کیونکہ عدالت کی کرسی پر بیٹھنے سے پہلے انہیں مرزا صاحب کی تکذیب کا فارم پر کرنا پڑتا ہے.اور عدالت کے سب ارکان یہ فارم پُر کر کے ہی کرسی عدالت پر رونق افروز ہو سکے تھے.لہذا یہ عدالت کی مجبوری تھی کہ مرزا صاحب کی پیشگوئیوں کو غلط قرار دیتی.246

Page 253

پیشگوئیوں اور معجزات کی دنیا ایک بار یک امر ہے اور اس پر کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے عدالت کے لئے ضروری تھا کہ قرآن وحدیث کا مطالعہ کرتی ، سائلان کو بحث کے لئے موقعہ بہم پہنچاتی تو یہ امر واضح ہو جاتا کہ انبیاء بشیر اور نذیر ہوتے ہیں وہ خوشخبریاں بھی سناتے ہیں اور انذاری پیشگوئیاں بھی ان سے ظہور میں آتی ہیں.جو پیشگوئیاں تبشیری رنگ رکھتی ہیں وہ تو مومنوں کو حوصلہ دلانے اور از دیا دایمان کے لئے ہوتی ہیں اور انذاری پیشگوئیاں تخویف یعنی ڈرانے کے لئے ہوتی ہیں تا کہ غافل اور ضدی لوگ فائدہ اٹھائیں جیسا کہ قرآن شریف میں ہے.وَمَا نُرْسِلُ بِالْآیتِ إِلَّا تَخْوِيْفاً ( بنی اسرائیل : 60 ) اور جیسا کہ امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر جز نمبر 2 میں فرماتے ہیں:.خوشخبری تو حفظ صحت کے قائم مقام ہے اور انذار بیماری کے ازالہ کے قائمقام اور کوئی شک نہیں کہ مقصود پہلی بات ہی ہے“.انداری پیشگوئیوں کے مطابق جس عذاب کی خبر دی جاتی ہے اس کا مقصد خوف دلانا ہی ہوتا ہے اور ان اقوام کو تباہ کر دینا بھی جو انذار سے فائدہ نہیں اٹھا تیں اور سرکشی میں بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں.جیسا کہ سورۃ سجدہ کی آیت 21 سے واضح ہے.گو یا وعید کی اصل غرض رجوع کی طرف مائل کرنا ہوتا ہے نہ کہ عذاب دینا جیسا کہ سورۃ اعراف کی آیت 95 میں لعلهم يضرعون سے واضح ہے اور عذاب کی پیشگوئیاں تو بہ اور استغفار سے ٹل جاتی ہیں جیسا کہ سورۃ انفال کی آیت 34 سے واضح ہے.فرماتا ہے:.یہ بات خدا تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو عذاب دے جو استغفار کر رہے ہوں“.آیات قرآنی، تاریخی واقعات اور ائمہ سلف کی تحریر میں اس امر پر شاہد ہیں کہ اگر کسی کے استغفار کی وجہ سے عذاب ٹل جائے تو پیشگوئی جھوٹی نہیں کہلا سکتی.کیونکہ ہر انذاری 247

Page 254

پیشگوئی میں تو بہ ایک مخفی شرط ہوتی ہے.جیسا کہ امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 404 میں فرماتے ہیں کہ:.وعندى جميع الوعيدات مشروطة بعدم العفوفلا يلزم من تركه دخول الكذب فى كلام الله تعالى اور حضرت محی الدین ابن عربی فتوحات مکیہ میں لکھتے ہیں کہ :.وعید کی پیشگوئیاں ٹل جایا کرتی ہیں“.خود قرآن کریم کی سورۃ یونس کی آیت 98 اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دعا سے عذاب ٹل جایا کرتے ہیں.امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر جلد5 صفحہ 29 میں لکھتے ہیں کہ :.جب حضرت یونس کی قوم پر عذاب آنے کا وقت قریب آیا تو تضرعات اور دعائیں بلند ہوئیں اور انہوں نے تو بہ اور تضرع سے کام لیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم کر کے عذاب ڈال دیا.علامہ آلوسی روح المعانی میں فرماتے ہیں:.” وعید کی پیشگوئیوں کاٹل جانا ہی سنت الہی ہے اور اس سے نفس پیشگوئی پر کوئی حرف نہیں آتا.(روح المعانی جلد 3 صفحہ 112 زيرآيت من يقتل مومنا......اور امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 505 پر فرماتے ہیں کہ:.اصل مقصد انذاری پیشگوئیوں اور عذابوں سے توجہ پیدا کرنا ہوتا ہے اس لئے سب کی سب پیشگوئیاں مشروط بہ تو بہ ہوتی ہیں.خواہ وہ شرط صراحتاً الفاظ میں مذکور ہو یا نہ ہو.یہ سارے امور ظاہر کرتے ہیں کہ پیشگوئیوں کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے سے 248

Page 255

پہلے پیشگوئیوں کا پس منظر، ان کے مصداق افراد کی پوری واقفیت اور حالات و واقعات کی پوری تفصیلات پر نظر ڈالنا ضروری ہوتا ہے.عدالت نے مرزا صاحب کی جن پیشگوئیوں کو محل اعتراض بنایا ہے ان میں سے تین پیشگوئیاں وعید و انذار کی پیشگوئیاں ہیں اور عدالت نے ان کے پس منظر اور متعلقہ افراد کے اپنے حالات و واقعات کی نہ تو چھان بین کی اور نہ اس پر تفصیلاً نظر ڈالی.محض مخالفین کے لٹریچر سے متاثر ہو کر اور ادھر اُدھر سے چند ایک اقتباسات لے کر ایک رائے قائم کی ہے.جوسراسر خلاف واقعہ ہے اور مبنی بر انصاف نہیں.ایک پیشگوئی جس پر عدالت نے رائے زنی کی ہے وہ پادری عبداللہ آتھم سے تعلق رکھتی ہے عدالت نے نہ تو عبد اللہ آتھم کے حالات کو مد نظر رکھا نہ پیشگوئی کے الفاظ کو ہی سمجھا اور نہ اس وقت کے واقعات کو پیش نظر رکھا، ورنہ عدالت کے علم میں یہ بات آ جاتی کہ عبد اللہ آتھم کی پیش گوئی کے بارے میں یہ بات بڑی وضاحت سے ثابت ہو چکی تھی کہ اس نے تو بہ کی اور رجوع کیا اور اپنی بدزبانی سے باز آ گیا اور اس طرح سے وہ فوری عذاب کی گرفت سے بچ گیا کیونکہ یہی سنت الہی ہے عدالت نے اس پیشگوئی کے پس منظر پر نظر نہیں ڈالی جو یہ تھی کہ امرتسر کے عیسائیوں نے ایک کھلے اشتہار کے ذریعہ اہل اسلام کو ایک مقابلے کی دعوت دی اور چیلنج کیا کہ اگر وہ اس مناظرے میں شریک نہ ہوئے تو آئندہ عیسائیت کی تبلیغ کے مقابل پر خاموشی اختیار کریں.ایک طرف تو عیسائیوں کی طرف سے کھلا چیلنج تھا.عالم یہ تھا کہ علماء میں سے کوئی اس چیلنج کو قبول کرنے کے لئے آگے نہیں بڑھا.چنانچہ میاں محمد بخش صاحب جو جنڈیالہ کے ایک معزز مسلمان تھے اور حضرت مرزا صاحب کے پیروکاروں میں سے نہ تھے انہوں نے مرزا صاحب سے درخواست کی کہ وہ اہل اسلام کی جانب سے مباحثہ میں شریک ہوں ، عیسائیوں کی طرف سے پادری عبد اللہ آتھم مناظر مقرر ہوئے.249

Page 256

عبد اللہ آتھم کون تھا؟ وہ عیسائیت کا ایک نہایت ہی سرگرم مبلغ اور مناظر مشہور تھا ایسے شخص کے مقابل میں جو مباحثہ مرزا صاحب نے کیا وہ رہتی دنیا تک یادگار رہے گا.بنیادی عیسائی اور اسلامی عقائد منطق کی اصطلاحیں اور بحث مباحثہ کے کون کون سے طریق عبداللہ آتھم نے استعمال نہ کئے اور ان کا جواب کس شان سے دیا گیا.یہ تاریخ کا ایک زریں باب ہے وہ مباحثہ کوئی زبانی مباحثہ نہ تھا، جو فضا میں تحلیل ہو گیا ہو بلکہ یہ مباحثہ تحریری طور پر عمل میں آیا اور جنگ مقدس کے نام سے شائع ہوا.عدالت نے نہ صرف احمد یہ جماعت بلکہ اہل اسلام کی دل آزاری یہ کہہ کر کی کہ مرزا صاحب نے پادری کے دلائل سے عاجز آ کر مباہلہ کا اعلان یا مذکورہ پیش گوئی کر دی.حق یہ ہے کہ عیسائیت اور اسلام کے درمیان اس معرکے میں اہل اسلام کی طرف سے پیش ہونے والے جری مناظر کو ہزیمت زدہ قرار دینا خود اسلام کے لئے غیرت کی نفی ہے.مگر قطع نظر اس کے کہ اگر مرزا صاحب ہی دلائل میں عاجز آ گئے تھے تو مباحثہ تحریری موجود تھا وہ عیسائیوں کی طرف سے شائع ہونا چاہئے تھا، مگر انہوں نے اسے شائع نہ کیا اور مرزا صاحب نے پورا کا پورا مباحثہ شائع کر دیا تو ہزیمت زدہ کون تھا ؟ مرزا صاحب کی شائع کردہ مباحثہ کی یہ کارروائی آج بھی اہل علم کے مطالعہ کے لئے موجود ہے ہزیمت کسے ہوئی؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ مباحثے میں عبداللہ آ تھم کی بیچارگی کا یہ عالم تھا کہ وہ بار بار اپنا بیان بدلتا تھا اور اس کو خود عیسائی سامعین اور پادری محسوس کرتے تھے اور دوران مباحثہ عبد اللہ آتھم بیماری کا عذر کر کے مناظرے سے الگ ہو گیا.اور اس کی جگہ ہنری مارٹن کلارک کو پیش کیا گیا مناظر کا یوں میدانِ مناظرہ سے فرار مناظرے کو ختم کر دینے کے لئے کافی ہو سکتا تھا مگر مرزا صاحب تو حق کے قائل تھے چنانچہ مباحثہ جاری رہا.غرضیکہ مباحثے سے پہلے اور بعد کے واقعات کا علم پیشگوئی کو سمجھنے کے لئے ضروری تھا 250

Page 257

مگر عدالت نے ان تمام حقائق سے گریز کرتے ہوئے یہ لکھنے میں کوئی عار نہ سمجھا کہ حضرت مرزا صاحب دلائل میں عاجز آگئے.وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ عدالت نے ان دلائل کو ایک نظر بھی نہیں دیکھا.لائق صد افسوس امر یہ ہے کہ عدالت نے یہ بھی جاننے کی کوشش نہیں کی کہ آیا یہ پیشگوئی مرزا صاحب نے اپنی سچائی کے سلسلہ میں کہ تھی یا اسلام کی سچائی میں.اس بات کا ذکر بھی نہیں کیا کہ مسائل مناظرہ کیا تھے.الوہیت مسیح کے لئے پادری صاحب کیا کیا دلائل دیتے رہے اور مرزا صاحب نے کیسے کیسے ان کو توڑا اور کیا الوہیت مسیح کے دلائل ہی کا پلڑا بھاری تھا؟ یا اس کی نفی میں قرآن کریم کے دلائل غالب تھے؟ عاجز کون آیا ؟ یہ امر مطالعہ سے تعلق رکھتا ہے.یہ بات گو مباحثہ کی کارروائی دیکھنے سے بھی عیاں ہوگی مگر مرزا صاحب نے جو پیلگوئی کی وہ کیا تھی ؟ وہ میتھی :.” مجھے یہ نشان بشارت کے طور پر دیا ہے کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی پندرہ ماہ تک ہادیہ میں گرایا جاویگا اور اس کو سخت ذلّت پہنچے گی بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے.اس کے ساتھ ہی مرزا صاحب نے یہ سوال کیا:.اب ڈپٹی صاحب سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ نشان پورا ہو گیا تو کیا یہ سب آپ کے منشاء کے موافق کامل پیشین گوئی اور خدا کی پیشین گوئی ٹھہرے گی یا نہیں ٹھہرے گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے نبی ہونے کے بارے میں جن کو اندرونہ بائبل میں دجال کے لفظ سے آپ نامزد کرتے ہیں محکم دلیل ہو جائے گی یا نہیں“.251

Page 258

عدالت نے نہ تو پوری عبارت نقل کی نہ اس کی طرف توجہ کی اور ایسے نتائج اخذ کیے جو خلاف واقعہ ہیں.ہم یہ واضح کر چکے ہیں کہ وعید کی پیشگوئیوں میں اگر صراحنا الفاظ موجود نہ بھی ہوں تو بھی رجوع اور تو بہ ایک مخفی شرط ہوا کرتی ہے اور اس بارہ میں ہم قرآنی آیات اور امام فخر الدین رازی کا قول نقل کر چکے ہیں مگر اس پیشگوئی میں تو بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے“ کی شرط واضح الفاظ میں موجود ہے.عبد اللہ آنتقم کار جوع تو اس مجلس میں ظاہر ہو گیا تھا جب پیشگوئی سنتے ہی :.اس نے فوراً زبان باہر نکالی اور کانوں پر ہاتھ رکھے رنگ زرد ہو گیا، آنکھیں پتھرا گئیں اور سر ہلا کر کہا کہ میں نے تو ایسا نہیں لکھا (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق دجال کا لفظ استعمال نہیں کیا “ (رساله نو راحمد صفحه 31 مطبع ریاض هند) اسی وقت کی روایات میں یہ بات بھی ریکارڈ پر آ گئی کہ:.و تھم اُٹھا اور گر پڑا حالانکہ وہ بہت قوی آدمی تھا اور دو عیسائیوں نے بغلوں میں ہاتھ دے کر اسے اٹھایا اور اس کی یہ حالت دیکھ کر خود بعض عیسائی یہ کہنے لگے کہ آتھم بے ایمان ہو گیا ہے اور ڈر گیا ہے“.(اصحاب احمد جلد 4 صفحه 149 روایت نمبر 28 روایت منشی ظفر احمد کپورتھلوی) عبداللہ آتھم کے رجوع کے بارے میں بہت کچھ مواد تاریخ میں محفوظ ہے یہ پیشگوئی اسلام کے مقابلے میں عیسائیت کی شکست کا ایک عظیم نشان تھا.آتھم ایک مشہور منا داور مبلغ تھا مگر اس پیشگوئی کے بعد اس نے مسیحیت کی تائید میں کتب اور رسالہ جات کا کام بند کر دیا اور آخر دم تک خاموشی اختیار کئے رہا.رجوع کی اس سے زیادہ واقعاتی شہادت اور کیا ہوسکتی ہے مگر صرف رجوع نہیں وہ عملاً ایک ہاویہ میں گرایا گیا.حواس کا یہ عالم تھا کہ اسے عجیب عجیب قسم کے نظارے نظر آنے لگے اس کے دوستوں اور رشتہ داروں نے بیان کیا کہ اسے 252

Page 259

کبھی سانپ نظر آتے ہیں جو اسے کاٹنے کو دوڑتے ہیں اور کبھی کتے اسے کاٹنے کے لئے دوڑتے ہیں اور کبھی نیزہ اُٹھائے ہوئے لوگ اس کی طرف بڑھتے ہیں.وہ خوف کے مارے ایک جگہ سے دوسری جگہ شہر بہ شہر بھاگتا رہا اور پوری طرح خوف کی گرفت میں آ گیا اور اپنی زبان کو اسلام اور رسول اسلام کی دشنام دہی سے روک لیا اور رجوع آخر کیا چیز ہوتی ہے؟ اس سے بڑھ کر یہ کہ اس نے اخبار نور افشاں 21 دسمبر 1894ء میں یہ اعلان کیا کہ:.میں عام عیسائیوں کے عقیدۂ ابنیت والوہیت کے ساتھ متفق نہیں اور نہ میں اُن عیسائیوں سے متفق ہوں جنہوں نے آپ کے ساتھ بے ہودگی کی“.مرزا صاحب کی پیشگوئی کے الفاظ یہ تھے کہ ” جو ایک عاجز بندے کو خدا بنا رہا ہے.گویا پیشگوئی کی بنیاد الوہیت مسیح تھی.آتھم نے اپنے اقرار کے مطابق اس سے رجوع کیا اور رجوع کیا چیز ہوتی ہے؟ آتھم کے پندرہ ماہ کے بعد زندہ رہنے پر جب مخالفین نے یہ شور مچایا کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.تو پوری دنیا کے اعتراضات کے جواب میں جو کچھ مرزا صاحب کی طرف سے لکھا گیا وہ ایک الگ باب ہے مگر اہل اللہ میں سے تو یہی شہادت آئی کہ آتھم کی پیش گوئی پوری ہو چکی ہے.چنانچہ انجام آتھم جب حضرت خواجہ غلام فرید نے پڑھی تو انہوں نے یہی لکھا کہ مرزا صاحب نیک اور مرد صادق ہیں.انہوں نے مجھے اپنے الہامات کی ایک کتاب ( انجام آتھم ) بھیجی ہے ان کا کمال اس کتاب سے ظاہر ہے اسی اثناء میں علماء ظواہر میں سے کسی نے ( جو حضرت خواجہ صاحب کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا ) حضرت مرزا صاحب کے متعلق زبان دراز کی اور آپ کا رڈ وانکار کیا.حضرت خواجہ صاحب ابقاه اللہ تعالیٰ نے اس کو جواب میں فرمایا کہ ”نہیں نہیں وہ مرد صادق ہیں.مفتری اور کا ذب نہیں ہیں.ان کا دعویٰ جعلی اور خود ساختہ نہیں ہے“.مزید لکھا: ” میں 253

Page 260

یقین رکھتا ہوں کہ آپ خدا تعالیٰ کے صالح بندوں میں سے ہیں.یہ بھی لکھا: ” اگر مرزا صاحب مہدی ہوں تو کونسی بات مانع ہے“.اور مزید لکھا:.حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی حق پر ہیں اور وہ اپنے دعویٰ میں راستباز اور صادق ہیں.پادری آتھم کا ذکر حضرت خواجہ صاحب کی مجلس میں ہوا تو فرمایا کہ اگر عبد اللہ آ تھم حضرت مرزا صاحب کی پیشگوئی کی مقررہ مدت کے اندازہ اور حد سے باہر چلا گیا یعنی پیشگوئی کی میعاد کے بعد فوت ہوالیکن مرز اصاحب کے سانس (یعنی بددعا ) سے مرا‘.(اشارات فریدی حصه سوم صفحه 43,42 مطبع مفید عام اگر 13200ھ) الغرض آتھم کی پیشگوئی بہت سے پہلو اپنے اندر رکھتی تھی.بہت سی باتیں سمجھنے اور بہت سے واقعات کا علم ضروری تھا.پینگوئیوں کے بارے میں سنت اللہ اور قرآن حکیم کے بیان فرمودہ فلسفے کی معرفت ضروری تھی اور اس سارے معاملے میں ایک فریق بن کر محض طعنہ زنی کے لئے اس پیشنگوئی کا ذکر ایک یکطرفہ کارروائی تھی جو عدالت کے منصب کے خلاف تھی.اس پیشگوئی کی تفصیلات کے بارے میں احمدیہ لٹریچر اور مخالفانہ لٹریچر دونوں ہی ارباب دانش کے لئے کھلی دعوت ہیں.عدالت کا فیصلہ اس بحث کا کوئی مناسب محل نہ تھا.اور اس حصہ کو بھی فیصلے میں سے حذف کیا جانا ضروری ہے.عدالت نے اپنے فیصلہ کے صفحہ 54 میں یہ لکھا کہ پیشگوئی میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں تھا کہ آتھم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دی تھیں.حالانکہ یہ بات واقعتہ غلط ہے کیونکہ عبداللہ آتھم نے اپنی کتاب موسومہ اندرونہ بائبل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ دجال قرار دیا تھا.اور اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت مرزا صاحب نے یہ فرمایا تھا:.254

Page 261

وو ” اب ڈپٹی صاحب سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ نشان پورا ہو گیا تو کیا یہ.آپ کے منشاء کے موافق کامل پیشگوئی اور خدا کی پیشگوئی ٹھہرے گی یا نہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے نبی ہونے کے بارے میں جن کو اندرونہ بائبل میں دجال کے لفظ سے آپ نامزد کرتے ہیں محکم دلیل ہو جائے گی یا نہیں“.اس کے علاوہ ایک عاجز بندے کو خدا بنانے کے اعتقاد کا ذکر اور اس کا پیشگوئی کی بنیاد ہونا عدالت کو تسلیم ہے اور اس عقیدے سے رجوع ہم آتھم کی اپنی تحریر سے ظاہر کر چکے ہیں.دوسری پیشگوئی جس پر عدالت نے رائے زنی کی ہے.اس کا تعلق محمدی بیگم کے نکاح اور بعض دیگر امور سے ہے.عدالت نے فیصلہ کے صفحہ 59 سے لے کر صفحہ 65 تک محمدی بیگم کی پیشگوئی پر تبصرہ کیا ہے.اصولی طور پر یہ بات بیان کی جا چکی ہے کہ پیشگوئی کے پورا ہونے یا نہ ہونے کا واقعات مقدمہ سے کوئی تعلق نہ تھا اور پیشگوئی کے پورا ہونے یا نہ ہونے سے مقدمے کے فیصلہ پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا تھا جو بات اہم اور قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ ان امور کا ذکر اور انداز بیان عدالت کی غیر جانبدارانہ حیثیت کو مجروح کرتا ہے.عدالت نے اس پیشگوئی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:.محمدی بیگم سے مرزا صاحب کی شادی کی کوششیں اور ان کی ناکامی معلوم و مشہور ہیں.اور اس کے بعد پیشگوئی پر اعتراض اور اس کے نہ پورا ہونے کا ذکر کیا گیا ہے.انداز بیان یہ ہے کہ گویا محمدی بیگم سے شادی پیشگوئی کا بنیادی نقطہ تھی اور گویا شادی کی خاطر اپنی طرف سے الہام بنالیا تھا.یہ انداز اختیار کر کے بد قسمتی سے عدالت نے اپنے آپ کو سرولیم 255

Page 262

میور اور دیگر مستشرقین کی صف میں لا کھڑا کیا ہے جو ان بار یک امور سے آگاہی نہ ہونے کے باعث محض دنیا دارانہ نگاہ سے ایسی پیشگوئیوں کو دیکھتے اور ان پر محض اپنی زمینی خرد کے زیر اثر زبان طعن دراز کرتے ہیں.شادی کی خاطر الہام بنا لینے کا اعتراض اس وقت بھی کم فہمی پر مبنی تھا جب عیسائی مستشرقین نے ہمارے آقا ومولا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا.اور اب بھی ان امور سے عدم واقفیت کی وجہ سے ہے.عدالت کے لئے ہرگز روانہ تھا کہ وہ ان نازک امور میں رائے زنی کرتی.اور ایسے میدانوں میں قدم رکھتی جن سے وہ آشنا نہیں.عدالت نے یہ رویہ اختیار کر کے ایک ایسے اصول کو تسلیم کیا ہے جسے قرآن تسلیم نہیں کرتا.اور جس کی بنیاد پر عیسائیوں اور آریوں کو محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرنے کی گنجائش اور موقعہ میسر آتا ہے.بد زبان اور گندہ دہن پادری ولیم آف ریواڑی نے جب حضرت زینب کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کو اعتراض کا نشانہ بنایا اور شادی کی خاطر وحی تراش لینے کا الزام دھرا تو وہ وہی بات کہ رہا تھا جو عدالت نے کی.بات اس کی بھی غاہ تھی اور عدالت کی بھی.اسی طرح پنڈت کر پارام شرمانے جب اسی ضمن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے بارے میں بد زبانی سے کام لیا.(نوٹ : جن دوحوالوں کا یہاں اجمالاً ذکر کیا گیا ہے وہ پادری ولیم آف ریواڑی کی کتاب محمد کی تاریخ کا اجمال (صفحہ 14) مطبوعہ کر چین مشن ریواڑی 1897ء اور پنڈت کر پارام شرما کی کتاب عقائد اسلام پر علی نظر ( صفحہ 15) میں دیکھے جا سکتے ہیں ان حوالوں کی زبان ایسی ہے کہ اس کا نقل کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا.تاہم ان حوالوں کی نشاندہی سے مقصد صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ عدالت کا انداز فکر حتی کہ طرز بیان بھی غیر مسلم معترضین اسلام سے نہ صرف مماثلت رکھتا ہے بلکہ اس کا مؤید ہے) تو اُس نے بھی وحی قرآنی کو محض شادی کی خواہش پر محمول کر لیا تھا.اور یہ گمان کر لیا کہ گو یا حضور نے نعوذ باللہ خاکم بدہن ہوائے نفس کی خاطر وحی تراش لی تھی.مگر قرآن حکیم 256

Page 263

اصولاً اس حق کو تسلیم نہیں کرتا کہ کوئی کسی شخص کے بارہ میں یہ کہے کہ خدا تعالیٰ نے اسے کوئی بات الہاماً کہی یا نہیں؟ کیونکہ اگر یہ حق تسلیم کر لیا جائے تو تمام انبیاء پر حملے ہوں گے اور میور اور کر پارام کی قبیل کے تمام ابوالہوس انبیاء کے الہامات پر ہوس کی عینک لگا کر اعتراضات کریں گے.محمدی بیگم کی پیشگوئی بھی محض شادی کی ایک پیشگوئی نہیں تھی.حضرت مرزا صاحب اس بارہ میں بالوضاحت لکھ چکے تھے کہ ہمیں اس رشتہ کی درخواست کی کچھ ضرورت نہ تھی.سب ضرورتوں کو خدا نے پورا کر دیا تھا.اولا د بھی عطا کی اور ان میں سے وہ لڑکا بھی جو دین کا چراغ ہو گا.لیکن ایک اور لڑ کا قریب مدت میں ہونے کا وعدہ دیا جا چکا ہے جس کا نام محمود احمد ہوگا وہ اپنے کاموں میں اولوالعزم ہو گا.پس یہ رشتہ کی درخواست محض بطور نشان ہے تا خدا تعالیٰ اس کنبہ کے منکرین کو عجوبہ قدرت دکھائے.اگر وہ قبول کریں تو برکت اور رحمت کے نشان اس پر نازل کرے اور ان بلاؤں کو دفع کرے جو نز دیک ہیں.لیکن اگر وہ رو کر دیں تو ان پر قہری نشان نازل کر کے ان کو متنبہ کرے.یہ لوگ خود مرزا صاحب کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے.اور ملحدانہ خیالات کے پیروکار تھے.دین خداوندی سے مرتد ہو چکے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے تھے اور ایسے کلمات بولتے تھے جن کے نقل کرنے سے زبان کا نپتی ہے.خدا کے وجود کے سرے سے منکر تھے اور مرزا صاحب کے سخت مکفر اور مکذب تھے.(بحواله مکتوب شائع شده اخبار چشمه نور اگست 1885ء) غرضیکہ ان حالات میں محمدی بیگم کے بارے میں پیشگوئی کی گئی تھی اور یہ امر مامورین کی سنت کے خلاف نہیں تھا.کیونکہ اقر بین کو انذار اور ان کو مختلف طریقوں سے قریب لانے کی کوشش سنتِ انبیاء میں سے ہے.بسا اوقات نکاح واز دواج کے تعلقات سے خاندانوں میں اخوت و مودت بڑھتی اور خیالات میں تبدیلی واقع ہوتی ہے.اپنے ہی خاندان کے 257

Page 264

افراد جو دین اسلام سے دُور جا چکے تھے ان کو واپس لانے کی خواہش کوئی عجب بات نہ تھی.پیشگوئی کی اصل غرض اور اس میں مضمر حکمت الہی یہی تھی کہ ان لوگوں کو تنبیہ ہو.لہذا اس پیشگوئی کو محض محمدی بیگم سے شادی کی کوشش اور نا کامی قرار دینا درست نہیں تھا.عدالت نے اس بارے میں مخالف لٹریچر سے حوالے لے کر اعتراضات کی عمارت کھڑی کی ہے.مثلاً صفحہ 62 پر حوالہ ” نوشتہ غیب“ مصنفہ ایم ایس خالد سے الیاس برنی صاحب نے ” قادیانی مذہب میں دیا اور عدالت نے تیسری جگہ الیاس برنی صاحب کی کتاب ” قادیانی مذہب سے نقل کیا ہے.اسی طرح سے ” کلمات فضل رحمن" کا حوالہ قادیانی مذہب کے توسط سے نقل کیا گیا صفحہ 63 پر بھی ” قادیانی مذہب مصنفہ الیاس برنی سے حوالہ نقل کیا گیا.اس پیشگوئی کے بارے میں جو ایک انداری پیشگوئی تھی اور ان تمام شرائط سے مشروط تھی جو نہ صرف پیشگوئی کے اندر موجود ہیں.بلکہ ان بنیادی اصولوں کے مطابق جو ہم نے قرآن کریم اور اقوال ائمہ سلف سے بیان کئے ہیں.ایک وعید کی پیشگوئی تھی.یعنی عدالت نے نہ تو ان اصولوں کو زیر نظر رکھا جو وعید کی پیشگوئیوں کے بارہ میں مسلمہ ہیں.اور نہ ہی حالات و واقعات کا پوری طرح سے جائزہ لیا.اس بارے میں جماعت احمدیہ کا اپنا لٹریچر اور مخالف لٹریچر گزشتہ نوے سال پر پھیلا ہوا ہے اور پیشگوئی کی جزئیات اور تفصیلات تک زیر بحت آ چکی ہیں اور جماعت احمدیہ با رہا یہ ثابت کر چکی ہے کہ پیشگوئی اپنے تمام شرائط کے ساتھ اپنی تمام جزئیات کے ساتھ پوری ہو چکی ہے.اس پیشگوئی کے جو حصے رجوع سے مشروط تھے وہ رجوع کی وجہ سے معلق ہو گئے.اور باقی تفصیلات جس طرح بیان کی گئی تھیں ، پوری ہوئیں، مخالفانہ اعتراض تو موجود ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ خود مرزا احمد بیگ کے خاندان اور محمدی بیگم کے خاندان کے افراد پیشگوئی کے پورا ہونے کے قائل ہیں.اور اس پیشگوئی کے بعد سلسلہ 258

Page 265

احمدیہ میں داخل ہوئے.مرزا احمد بیگ کے خاندان میں سے بہت سے افراد اس پیشگوئی پر ایمان لا چکے ہیں جن میں سے چند خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں.محمد اسحاق پسر مرزا سلطان محمد یعنی محمدی بیگم کا بیٹا.محمدی بیگم کی والدہ یعنی اہلیہ مرزا احمد بیگ ،محمدی بیگم کی ہمشیرگان، محمودہ بیگم و عنایت بیگم، محمدی بیگم کے بہنوئی مرزا احمد حسین محمدی بیگم کے بھائی مرزا احمد بیگ سبھی اس پیشگوئی کے پورا ہونے پر ایمان لانے والوں میں سے ہیں.محمدی بیگم کے خاوند مرزا سلطان محمد تکذیب سے باز آ گئے اور تو بہ اور رجوع کیا اور یوں وعید سے بچ گئے.محمدی بیگم کے خاوند کا انٹرویو 1921ء میں اخبار میں چھپا.جس میں انہوں نے اقرار کیا کہ ” میرے خسر مرزا احمد بیگ صاحب واقعہ میں پیشگوئی کے عین مطابق فوت ہوئے“.اور اس بات کا اقرار کیا کہ :.یہ پیشگوئی میرے لئے کسی قسم کا شبہ کا باعث نہیں ہوئی“.اور یہ اقرار کیا میں قسمیہ کہتا ہوں کہ جو ایمان و اعتقاد مجھے حضرت مرزا صاحب پر ہے میرا خیال ہے کہ آپ کو بھی جو بیعت کر چکے ہیں اتنا نہیں ہوگا“.اور ان کے بیعت نہ کرنے کے بارے میں یوں کہا ” اس کی وجوہات کچھ اور ہیں جن کا اس وقت بیان کرنا میں مصلحت کے خلاف سمجھتا ہوں.اور یہ کہا کہ ” میرے دل کی حالت کا آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پیشگوئی کے وقت آریوں نے لیکھرام کی وجہ سے اور عیسائیوں نے آتھم کی وجہ سے مجھے لاکھ لاکھ روپیہ دینا چاہا تا میں مرزا صاحب پر نالش کروں.اگر وہ روپیہ میں لے لیتا تو امیر کبیر بن سکتا تھا مگر وہی ایمان و اعتقاد تھا.جس نے مجھے اس فعل سے روکے رکھا.259

Page 266

غرض وہ خاندان جس کے بارے میں پیشگوئی تھی.اس خاندان نے اس پیشگوئی کو قبول کیا.وہ افراد جن کے متعلق یہ پیشگوئی تھی انہوں نے تو بہ اور رجوع اختیار کیا اور اس پیشگوئی پر اعتراض نہ کیا.وہ خاوند جس کی بیوی کے بارے میں پیشگوئی تھی وہ اس پیشگوئی کی صداقت کا گواہ بنا.ان تمام باتوں کے باوجود اگر مخالفین یہ کہیں کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی تو یہ فریقین کے درمیان زیادہ سے زیادہ متنازعہ امر ٹھہرے گا.ایک اس پیشگوئی کے بارے میں جس کی نصف درجن سے زائد شقیں تھیں اور جس کے بارے میں جماعت احمد یہ علی وجہ البصیرت اس ایمان پر قائم ہے کہ وہ پیشگوئی پوری ہوئی.مرز احمد بیگ کی موت سے اور مرزا سلطان محمد کے رجوع اور اس کی زندگی سے.محمدی بیگم کی اولاد کے احمدی ہونے سے.اس پیشگوئی کے بارے میں عدالت کی رائے زنی یک طرفہ، غیر منصفانہ، متعصبانہ اور امور متعلقہ مقدمہ زیر نظر سے قطعالا تعلق اور غیر ضروری ہے.جس کو حذف کیا جانا چاہئے.مرزا احمد بیگ کے بارے میں پیشگوئی ی تھی کہ اگر مرزا احمد بیگ اپنی بڑی لڑکی محمدی بیگم کا نکاح حضرت مرز اصاحب سے نہیں کریں گے اور کسی دوسری جگہ کر دیں گے تو دوسری جگہ نکاح کر دینے کے بعد تین سال کے اندر بلکہ بہت جلد ہلاک ہو جائیں گے.مرزا احمد بیگ نے محمدی بیگم کا نکاح جب مرزا سلطان محمد سے کر دیا تو نکاح کے پانچ ماہ چار دن کے بعد 30 دسمبر 1892ء کو ہلاک ہو گیا اور اس کی وجہ سے پورے خاندان پر ایک ہیبت طاری ہوگئی اور رجوع کا سلسلہ شروع ہو گیا.جس کی شہادت خود محمدی بیگم کے خاوند نے دی.غرضیکہ اس پیشگوئی کے نتیجے میں :.مرزا احمد بیگ کی موت سے مرزا سلطان محمد نے عبرت حاصل کی.مرزا سلطان محمد پر خوف و ہیبت طاری ہوئی.اس نے توبہ کی اور تو بہ کے باعث موت سے بچ گیا.نیز ان کے سارے خاندان نے شوخی و شرارت اور استہزاء کو ترک کر دیا.260

Page 267

ہو حضور اقدس کی خدمت میں عجز و انکسار اور تو بہ کے خطوط لکھے اور پیغام بھجوائے.حضور نے اس خاندان کی تو بہ اور رجوع کا ذکر اپنی کتابوں میں کر دیا تھا مگر ان لوگوں میں سے کسی نے بھی اپنے عجز و انکسار کی تردید نہ کی.حضور اقدس نے اپنی زندگی میں فیصلہ کا آسان طریق معاندین کے اعتراضات کے پیش نظر بیان فرمایا تھا کہ اگر سلطان محمد نے تو بہ کا اظہار نہیں کیا تو اس سے تردیدی اشتہار شائع کروایا جائے.اور پھر قدرت کا تماشہ دیکھو مگر اس کی طرف سے کوئی اشتہار شائع نہ ہوا.مرزا سلطان محمد کے تصدیقی خط کا چربہ الفضل“ اور جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں شائع ہو چکا ہے.جس میں اس نے حضرت مرزا صاحب کو نیک اور بزرگ اور اسلام کا خدمت گار شریف النفس تحریر کیا.مرزا سلطان محمد کا اپنا بیان الفضل میں شائع ہو چکا ہے کہ آریوں اور عیسائیوں نے لاکھ لاکھ روپیہ کالالچ دیا تا کہ حضور اقدس کے خلاف کوئی تحریر حاصل کریں.مگر اس نے کوئی تحریر نہ دی.مرزا سلطان محمد کے بیٹے مرزا محمد اسحاق بیگ نے الفضل میں اپنے احمدیت قبول کرنے اور پیشگوئی کے من وعن پورا ہونے کے متعلق مفصل بیان شائع کروایا.مرزا احمد بیگ کے خاندان کے اکثر افراد احمدیت میں داخل ہوئے اور ان افراد کا بکثرت احمدیت میں داخل ہونا اس پیشگوئی کی صداقت کا زبردست ثبوت ہے.جن کے بارہ میں یہ پیشگوئی براہ راست تھی وہ تو اکثر احمدی ہو گئے اور حضرت اقدس کے روحانی عقد ( عقد بیعت ) میں آگئے اور معترضین پیشگوئی کے اس حصہ کو پورا کر رہے ہیں کہ وہ اسے تنقید و اعتراض کا ہدف بنائے ہوئے ہیں.اور درحقیقت پیشگوئی 261

Page 268

کی صداقت کو اظہر من الشمس ثابت کر رہے ہیں.تیسری انذاری پیشگوئی جس پر عدالت نے تبصرہ کیا ہے وہ مولوی ثناء اللہ امرتسری کے بارہ میں ہے.اس معاملہ کا بھی سائلان کی درخواست سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں تھا.مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب کی وفات کے بارہ میں حضرت مرزا صاحب نے کوئی پیشگوئی کی تھی یا نہیں اور قرآن شریف کی شرائط کے مطابق مولوی ثناء اللہ صاحب نے مباہلہ قبول کیا یا نہیں اس کا معاملہ زیر بحث سے کوئی تعلق نہیں.اس بارہ میں مرزا صاحب کی پیشگوئی سچی یا جھوٹی ہونے سے آرڈینینس کا جواز یا عدم جواز متاثر نہیں ہوتا.اگر مرزا صاحب کی پیشگوئی جھوٹی ہی نکلی تو کیا محض اس وجہ سے آرڈینینس قرآن وسنت کے مطابق ٹھہرے گا ؟ اور سائلان کی درخواست قابل اخراج قرار پائے گی یا اس کے برعکس صورت میں محض حضرت مرزا صاحب کی پیشگوئی کے سچا نکلنے سے آرڈینینس قرآن وسنت کے خلاف قرار پائے گا اور درخواست قبول کر لی جائے گی.اگر نہیں تو پھر اس بحث کو فیصلہ میں داخل کرنا بھی ناروا اور نامناسب تھا.علاوہ ازیں یہ معاملہ بھی یکطرفہ طور پر فیصلہ میں زیر بحث لایا گیا.حالانکہ عدالت میں دوران بحث کسی فریق کی طرف سے نہ یہ معاملہ اٹھایا گیا اور نہ اس پر بحث ہوئی.یہ امر کہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کی وفات کے بارے میں پیشگوئی کی گئی یا نہیں کی گئی قرآن کریم کی شرائط کے مطابق مولوی ثناء اللہ نے مباہلہ قبول کیا یا نہیں.اس کے نتائج کیا تھے.ی تفصیل چاہتا تھا اور اس پر سینکڑوں صفحات پر پھیلی ہوئی بحثیں موجود ہیں.جن کی حقیقت اور ماحصل یہ ہے کہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے مباہلہ سے گریز کیا اور اسے قبول ہی نہیں کیا.اور مرزا صاحب کی دعائے مباہلہ کے جواب میں انہوں نے خود یہ لکھا کہ :.262

Page 269

یہ تحریر تمہاری مجھے منظور نہیں اور نہ کوئی دانا اسے منظور کر سکتا ہے“.اور ایک دوسرے موقعہ پر لکھا:.وو اهل حدیث 26 اپریل 1907ء) چونکہ یہ خاکسار نہ واقعہ میں اور نہ آپ کی طرح نبی یا رسول، ابن اللہ یا الہامی ہے اس لئے ایسے مقابلہ کی جرأت نہیں کر سکتا.اور ایک اور موقعہ پر لکھا:.(الهامات مرزا صفحه 102 طبع سوم 1904ء) ” میں نے آپ کو مباہلہ کے لئے نہیں بلایا.میں نے تو قسم کھانے پر آمادگی کی ہے.مگر آپ اس کو مباہلہ کہتے ہیں حالانکہ مباہلہ اس کو کہتے ہیں جو فریقین مقابلہ پر قسمیں کھائیں.میں نے حلف اُٹھانا کہا ہے مباہلہ نہیں کہا.قسم اور ہے، مباہلہ اور.(اهلحديث صفحه 4 - 19 اپریل 1907ء) در اصل مباہلہ قرآن کریم کا قائم کردہ ایک معیار ہے اور یہ بات اہل علم پر روشن ہے کہ مباہلہ کا لفظ باب مفاعلہ سے ہے جو مقابلہ کو چاہتا ہے اور مباہلہ اسی صورت میں ہوتا ہے جب فریقین مقابل پر جمع ہو کر قسمیں کھائیں.جیسا کہ قرآن شریف کی آیت مباہلہ سے واضح ہے.تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَ كُمْ وَنِسَاءَ نَا وَنِسَاءَ كُمْ وَأَنْفُسَنَا وأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَةَ اللَّهِ عَلَى الْكَذِبِينَ (ال عمران:62) یعنی تو کہہ دے کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو اور ہم اپنی عورتوں کو اور تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنے نفوس کو اور تم اپنے نفوس کو.پھر گڑ گڑا کر دعا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں.263

Page 270

مولوی ثناء اللہ صاحب کا مباہلہ کو قبول کرنا یا نہ کرنا پہلا سوال تھا.جسے حل کیا جانا ضروری تھا.مگر عدالت نے ان تفصیلات میں جانے کی ضرورت ہی نہ سمجھی اور یہ کہہ کر طعنہ زنی کی کہ اپنی سچائی ثابت کرنے کے لئے مرزا صاحب نے جو طریقے اختیار کئے ان میں مخالفین کی موت کی پیشگوئی کرنا بھی شامل ہے.جب کوئی مخالف مرتا کہ اسے ایک نہ ایک دن تو مرنا ہی تھا.تو یہ مرزا صاحب کی مزعومہ سچائی کا ثبوت تصور کیا جاتا“.گویا موت سے متعلق پیشگوئیاں یا نشانات عدالت کے نزدیک بے حقیقت چیز ہیں.عدالت کا یہ انداز فکر بھی قرآنی علوم سے عدم واقفیت اور قلت تدبر کا نتیجہ ہے.مباہلہ کے لئے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مخالفین کو جو پہیلنج دیاوہ قرآن حکیم کے الفاظ میں یہ ہے تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَ نَا وَأَبْنَاءَ كُمْ.(آل عمران:62) اسی طرح سے سورۃ جمعہ میں موت کی خواہش خدا تعالیٰ نے حق و باطل کا معیار ٹھہرایا.جیسا کہ فرمایا ہے:.فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ (الجمعه:7) اور ساتھ ہی کلام الہی نے یہ وضاحت بھی کر دی کہ جھوٹے کبھی موت کی تمنا نہیں کرتے.جیسا کہ فرمایا وَلَا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ (الجمعه:8) چنانچہ یہ کہنا کہ موت کی پیشگوئی گویا کوئی بے حقیقت شئے تھی.عدالت کے اپنے عدم علم پر دلالت کرتا ہے.اور بہتر ہوتا کہ عدالت ایسے نازک امور میں یکطرفہ طور پر دخل اندازی نہ کرتی جس کا اسے علم ہی نہ تھا.لا تقف مالیس لک به علم حضرت مرزا صاحب اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں:.قدیر و خالق ارض اے و سما اے رحیم و مهربان ورہنما 264

Page 271

اے کہ مے داری تو بردلها نظر اے کہ از تو نیست چیزی مستتر گر تو بینی مرا فق وشر گر تو دیداستی که هستم بد گہر بدکاررا پاره پاره کن من شاد کن این زمرہ اغیار را آتش افشاں بر درو دیوار من دشمنم باش و تباه کن کارمن یعنی ”اے میرے خدا! تو خالق ارض و سما ہے، تو ہر چیز پر قادر ہے تو رحیم و مہربان اور رہنما ہے.تیری تو دلوں پر نظر رہتی ہے.تجھ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں اگر تو مجھے نافرمانی اور شرارت سے بھرا ہوا دیکھتا ہے اگر تو جانتا ہے کہ میں برا آدمی ہوں تو اے خدا مجھ ایسے بدکار کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے اور میرے زمرہ اغیار کو شادمان کر.میرے در و دیوار پر آگ برسا.خود میرا دشمن ہوجا اور میرے سارے کام کو تباہ کر دے“.کہاں تو یہ عالم کہ خدا کے علم اور اس کی قدرت کو ذہن میں مستحضر کر کے اپنے لئے اس انداز سے موت طلب کرنے کا حوصلہ مرزا صاحب میں تھا.اور کہاں یہ عالم کہ مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب مباہلے کے سوال پر ایک مستقل آنکھ مچولی کھیلتے رہے اور مقابلہ پر نہیں آئے کبھی لکھا:.یہ تحریر تمہاری مجھے منظور نہیں اور نہ کوئی دانا اسے منظور کر سکتا ہے“ القصہ مختصر اگر اعتراض دعوت مباہلہ پر ہے تو وہ تو مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب نے 265

Page 272

کبھی قبول ہی نہیں کی اور وہ خود سمجھتے تھے کہ وہ نہ اہم ہیں نہ مامور اور مباہلہ کی جرأت نہ کی.مگر جہاں قرآن کریم کا قائم کردہ معیار مباہلہ اور حضرت مرز اصاحب کی دعوت مباہلہ مولوی ثناء اللہ کو منظور نہ تھی.کیونکہ بقول ان کے کوئی دانا اس کو منظور نہ کر سکتا تھا.مگر مولوی ثناء اللہ امرتسری نے اپنے زبان اور قلم اور قول و فعل سے خود کو ایک معیار کا پابند کرلیا اور گو یا خدا سے اس معیار کے مطابق فیصلہ چاہا.مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب نے اپنے اخبار اہلحدیث میں لکھا ہے کہ :.” خدا تعالیٰ جھوٹے دغا بازمفتری اور نافرمان لوگوں کو لمبی عمریں دیا کرتا ہے تا کہ وہ اس مہلت میں اور بھی برے کام کریں.پھر تم کیسے من گھڑت اصول بتلاتے ہو کہ ایسے لوگوں کو بہت عمر نہیں ملتی.(اهلحديث صفحه 4.26 اپریل 1907ء) مولوی ثناء اللہ صاحب نے جھوٹے کی لمبی عمر کو معیار قرار دیا اور سیلکھا کہ:.یہ سرے سے حق و باطل کا معیار ہی نہیں کہ جھوٹا بچے کی زندگی میں ہلاک ہو اور خدا تعالیٰ نے ان کے منہ مانگے معیار کے مطابق ان سے سلوک کیا.بات مولوی ثناء اللہ صاحب کی غلط نہ تھی.مباہلہ واقعی کچھ اور چیز ہے اور مباہلہ کے نتیجہ میں جھوٹا ضرور بچے کی زندگی میں ہلاک ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے منہ سے اپنی موت کو بطور نشان طلب کرتا ہے.مگر خود قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ جھوٹے ایسی موت کی تمنا نہیں کرتے فـلایـتـمـنـونـه ابدا بما قدمت ايديهم جو میعار مولوی ثناء اللہ صاحب نے اپنے لئے خود ٹھہرایا خدا نے اسی کے مطابق ان کو ڈھیل دی اور لمبی عمر دی اور ان کو اپنے اس قول کے مطابق ” مہلت دی کہ وہ حضرت مرزا صاحب کی جی بھر کے مخالفت کر لیں.اور حضرت مرزا صاحب کے بعد جماعت احمدیہ کی ایک خلافت بھی دیکھیں، دوسری خلافت بھی دیکھیں اور حضرت مرزا صاحب کے سلسلہ کو 266

Page 273

پھلتا پھولتا بھی دیکھیں.ہم نے اختصار کے ساتھ عرض کر دیا ہے کہ یہ پیشگوئی بھی تفصیلی مطالعہ کی متقاضی تھی اور عدالت نے اس کے مالہ وماعلیہ پر غور کئے بغیر قرآنی اصولوں کے خلاف بے دھڑک یہ بات کہہ دی کہ موت کی پیشگوئیاں کرنا بھی گویا ایک کھیل تماشا ہے.غرضیکہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کا قصہ بھی ان امور میں سے ہے جو عدالت نے اپنے تعصب کے اظہار کے لئے اور جماعت احمدیہ کے معاندانہ لٹریچر سے یکطرفہ طور پر متاثر ہو کر جماعت احمدیہ کے خلاف دلآزاری کے لئے اپنے فیصلہ میں شامل کیا جو حذف کئے جانے کے لائق ہے.عدالت نے اپنے فیصلہ کے صفحہ 57 پر حضرت مرزا صاحب کی ایک اور پیشگوئی کے بارہ میں اظہار خیال کیا ہے.یہ بھی معاملہ زیر نظر سے قطعاً غیر متعلق اور غیر ضروری ہونے کی وجہ سے حذف کئے جانے کے لائق ہے.اس پیشگوئی کے سلسلہ میں عدالت نے اپنے تعصب کے اظہار میں انتہاء کر دی ہے.عدالت نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ مرزا صاحب نے ایک بیٹے کی پیشگوئی کی تھی.پھر ایک بیٹی اور ایک بیٹے کی پیدائش اور ان کی کم عمری میں وفات کے ذکر پر بات کو یوں نامکمل چھوڑ دیا گویا یہ باب ختم ہو گیا.یہ باور کرنا مشکل ہے کہ جس عدالت نے پیشگوئی کے پورا نہ ہونے کی مزعومہ دو مثالیں سلسلے کی تاریخ اور لٹریچر سے تلاش کر کے نکالیں.اسے یہ معلوم نہ ہوگا کہ مرزا صاحب کے موعود بیٹے کے بارے میں جماعت احمدیہ کا مسلک اور موقف کیا ہے.بات کو یوں ادھورا چھوڑا گیا.گویا بشیر اول کی وفات کے بعد مرزا صاحب کے ہاں کوئی بیٹا پیدا ہی نہیں ہوا.اور بیٹے کے تولد کی پیشگوئی غلط ثابت ہوئی.حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ اس پیشگوئی کے بعد اور بشیر اوّل کی وفات کے بعد مرزا صاحب کے تین بیٹے مزید پیدا 267

Page 274

ہوئے جنہوں نے بفضل خدا لمبی عمر پائی اور ایک بیٹا ان میں سے وہ موعود بیٹا تھا جس کی خاص بشارت خدا کی طرف سے دی گئی تھی.اس بیٹے کے بارے میں اشتہار 22 مارچ 1886ء میں مرزا صاحب نے لکھا:.ایسا لڑکا بموجب وعدہ الہی نو سال کے عرصہ تک ضرور پیدا ہو گا خواہ وو جلد ہو خواہ دیر سے.بہر حال اس عرصہ کے اندر پیدا ہو جائے گا“.عدالت نے 20 فروری 1886ء کے اشتہار کا ذکر بھی کیا اور 8 اپریل کے اشتہار کا بھی اور 22 مارچ 1886ء کے اشتہار کا تذکرہ بھی کیا.مگر اس بات کو نظر انداز کر دیا کہ صاحب الہام نے خدا کے الہام کے مطابق اس بیٹے کی پیدائش کی معیاد نو سال متعین کر دی تھی.اور مرزا بشیر الدین محمود احمد اس عرصہ میں 12 جنوری 1889 ء میں پیدا ہوئے اور تقریباً 77 سال عمر پائی.52 سال کے طویل عرصہ تک خلافت احمدیہ کے منصب پر متمکن رہے.اس پیشگوئی کے مصداق ہونے کے مدعی تھے اور جماعت احمد یہ انہی کو اس پیشگوئی کے مطابق موعود بیٹا اور مصلح موعود تصور کرتی ہے.جو بات عدالت کے طرز عمل کو مزید محل نظر اور قابل اعتراض ٹھہراتی ہے وہ یہ ہے کہ عدالت اس امر کو مکمل طور پر حذف کر گئی کہ 1889 ء میں نو سال کے عرصہ کے اندر پیشگوئی کے مطابق ایک بیٹا ہوا.عدالت کا یہ طرز عمل ، واقعات کے بیان کا یہ سرسری انداز اور ان سے توڑ مروڑ کر نتائج اخذ کر کے پیش کر دینا اور انہیں ایک عدالتی فیصلہ کا حصہ بنا دینا کسی طرح بھی مناسب اور جائز نہیں تھا.بالخصوص ایسے امور میں جو پیشگوئیوں سے متعلق ہوں جو ایک فریق کے اعتقاد اور ایمان اور نازک مذہبی جذبات سے تعلق رکھتے ہوں اور جن پر مستزاد یہ کہ ان کے بارے میں کوئی بحث نہ ہوئی اور جو معاملہ زیر نظر کے فیصلے کے لئے ضروری بھی نہ ہوں، لا تعلق امور فیصلے میں داخل کرنے کی بدترین مثال ہے.لہذا عدالت کے صفحات نمبر 57 کے 268

Page 275

دوسرے پیرا گراف سے لے کر صفحہ 59 کے دوسرے پیراگراف تک حذف کئے جانے کے لائق ہیں چونکہ یہ غیر متعلق، غیر ضروری، دلآ زار، خلاف واقعہ اور بدنیتی پر مبنی ہیں.موعود بیٹے کی پیدائش کی بشارت جماعت احمدیہ کی تاریخ کا زریں باب ہے اور وہ پیشگوئی ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے جو اس شان سے پوری ہوئی کہ دوستوں اور دشمنوں نے اس بیٹے کے علم و عظمت کا اقرار کیا جو تاریخ کے صفحات پر ایک انمٹ نقش کے طور پر محفوظ ہے.پیشگوئی کس شان سے پوری ہوئی.اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے.پیشگوئی کے الفاظ یہ تھے:.تادین اسلام کا شرف اور مرتبہ ظاہر ہو“.وہ علوم ظاہری اور باطنی وو سے پر کیا جائے گا.وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایسا وجود نہیں تھے جن کے بارے میں عدالت کو علم نہ ہو.یا جن کا مقام، مرتبہ اور علم و دانش کسی پڑھے لکھے انسان سے مخفی ہو.مرزا بشیر الدین محمود احمد نے جب وفات پائی تو مولا نا عبد الماجد دریا آبادی نے اپنے رسالہ ” صدق جدید“ میں لکھا:.قرآن و علوم قرآن کی عالمگیر اشاعت اور اسلام کی آفاق گیر تبلیغ میں جو کوششیں انہوں نے سرگرمی اور اولوالعزمی سے اپنی طویل عمری میں جاری رکھیں ان کا اللہ انہیں صلہ عطا فرمائے.علمی حیثیت سے قرآنی حقائق ومعارف کی جو تشریح تبیین و ترجمانی وہ کر گئے ہیں اس کا بھی ایک بلند وممتاز مرتبہ ہے“.(صدق جدید لکھنو 18 نومبر 1965ء) مولوی ظفر علی خان ایڈیٹر اخبار زمیندار باوجود یکہ جماعت احمدیہ کے معاند تھے لیکن 269

Page 276

انہیں بھی اس حقیقت کو تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں.حضرت مرزا محمود احمد صاحب کو خدا نے خاص علم قرآن عطا کیا تھا.چنانچہ انہوں نے ایک تقریر میں کہا! احرار یو! کان کھول کر سن لو! تم اور تمہارے لگے بندھے میرزا محمود کا مقابلہ قیامت تک نہیں کر سکتے.میرزا محمود کے پاس قرآن کا علم ہے تمہارے پاس کیا دھرا ہے.تم نے کبھی خواب میں بھی قرآن نہیں پڑھا...میرزا محمود کے پاس ایسی جماعت ہے جو تن من دھن اس کے ایک اشارے پر اس کے پاؤں پر نچھاور کرنے کو تیار ہے...میرزا محمود کے پاس مبلغ ہیں.مختلف علوم کے ماہر ہیں.دنیا کے ہر ملک میں اس نے جھنڈا گاڑ رکھا ہے.(ایک خوفناک سازش صفحه 196 مؤلفه مولانا مظهر على اظهر) ایک موقع پر جب اسلامیہ کالج لاہور کے ہسٹار یکل سوسائٹی کے زیر اہتمام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد نے ” اسلام میں اختلافات کا آغاز“ کے عنوان سے لیکچر دیا تو سید عبد القادر صاحب نے صدارتی خطاب میں فرمایا :.آج شام جب میں اس ہال میں آیا تو مجھے خیال تھا کہ اسلامی تاریخ کا بہت سا حصہ مجھے بھی معلوم ہے اور اس پر میں اچھی طرح رائے زنی کر سکتا ہوں.لیکن اب جناب مرزا صاحب کی تقریر کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ میں ابھی طفل مکتب ہوں“.(الفضل 8 مارچ1919 صفحہ 5) اور جب یہ لیکچر ایک کتاب کی شکل میں شائع ہوا تو سر عبد القادر نے لکھا:.فاضل باپ کے فاضل بیٹے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا نام نامی اس بات کی کافی ضمانت ہے کہ تقریر نہایت عالمانہ ہے.مجھے بھی اسلامی تاریخ سے کچھ مھد بد ہے اور میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ کیا 270

Page 277

مسلمان اور کیا غیر مسلمان بہت تھوڑے مورخ ہیں جو حضرت عثمان کے عہد کے اختلافات کی تہہ تک پہنچ سکے ہیں.اور اس مہلک اور پہلی خانہ جنگی کے فتنہ کی اصلی وجوہات کو سمجھنے میں کامیاب ہوئے ہیں.حضرت مرز اصاحب کو نہ صرف خانہ جنگی کے اسباب سمجھنے میں کامیابی ہوئی ہے.بلکہ انہوں نے نہایت واضح اور مسلسل پیرائے میں اُن واقعات کو بیان فرمایا ہے جن کی وجہ سے ایوانِ خلافت مدت تک تزلزل میں رہا.میرا خیال ہے کہ ایسا مد تل مضمون اسلامی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے احباب کی نظر سے پہلے کبھی نہیں گذرا ہوگا“.( پیش لفظ اسلام میں اختلافات کا آغاز صفحہ 3) اور جماعت احمدیہ کے ایک معاند، مفکر احرار چوہدری افضل حق نے اپنے اخبار ” مجاہد“ میں مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے بارے میں اقرار کیا کہ:.وو جو عظیم الشان دماغ اس کی پشت پر ہے وہ بڑی سے بڑی سلطنت کو پل بھر میں درہم برہم کرنے کے لئے کافی تھا.حضرت مرزا بشیر الدین صاحب کی تفسیر کبیر کے شیدائی جماعت احمدیہ سے باہر بھی لا تعداد ہیں جو علوم قرآن کی خاطر تمام تر تعصبات کو بالائے طاق رکھ کر تفسیر کبیر کے مطالعہ کو باعث فخر سمجھتے ہیں.کشمیر کمیٹی کے صدر کے طور پر آپ کی خدمات تحریک شدھی کے دوران آپ کی تڑپ اور جماعت احمدیہ کی خدمات، آپ کے علم قرآن کے بارے میں مولانا ظفر علی خاں کا اقرار، دنیا کے گوشے گوشے تک آپ کے دور خلافت میں جماعت احمدیہ کا قیام، ایک بے خانماں ، بدحال اور آشفتہ حال اُجڑی ہوئی جماعت کا تقسیم ملک کے بعد ربوہ کے بے آب و گیاہ بنجر زمین میں مرکز کا قیام اُس اولوالعزم کے عزم کا منہ بولتا ثبوت ہے.جب 271

Page 278

ساری قوم ہندوؤں کی چھوڑی ہوئی الائمنٹوں کے چکر میں سرگرداں تھی.اس وقت اس صاحب عزم نے چند خیموں کے ساتھ جس مرکز کا آغاز کیا اور اس مرکز سے جس فقال جماعت کو جس شان کے ساتھ سر گرم عمل کر دیا.اس کی وجہ سے آج ربوہ معاندین احمدیت کی نظروں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے.یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے اور اس بات کو چھپانے میں کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب یقیناً حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ایسے بیٹے تھے جو بہت سی خوبیوں کے مالک تھے.لہذا بہت سی خوبیوں والے بچے کی پیدائش کی پیشگوئی تو یقیناً پوری ہوئی.باقی اس بیٹے کی پیدائش کے وقت کا تعین ایک ایسا معاملہ تھا جس کو اگر عدالت سمجھنا چاہتی اور محض تعصب کی بناء پر اور دلآ زاری کے شوق میں مخالفانہ لٹریچر سے عمد امتأثر ہو کر غیر ضروری طور پر طعنہ زنی کرنا نہ چاہتی تو یہ امور بھی ایسے نہیں تھے جو عدالت کی سمجھ میں نہ آ سکتے.نو سال کے عرصہ کا ذکر خود عدالت کے فیصلے میں موجود ہے اور عدالت کے فیصلے ہی سے یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ اشتہار 1886ء میں دیا گیا اور یہ بات بھی تاریخ میں ایسی متحکم ہے کہ جس کا انکار ممکن نہیں کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی پیدائش 1889ء میں ہوئی.رہا یہ امر کہ بعض دوسری ولادتوں کو موعود بیٹے کی ولادت سمجھا گیا یا بعض لوگ اس پیشگوئی کے فوری طور پر پورا نہ ہونے پر بد دل ہو گئے.تو یہ سوائے طعنہ زنی کے اور کچھ نہیں اور عدالت نے دلائل کی بجائے غیظ و غضب کا اظہار کیا ہے.سوال یہ ہے کہ اگر بعض لوگ برگشتہ ہو بھی جائیں یا ہو گئے تو کیا آرڈ مینس قرآن وسنت کے مطابق ہو جائے گا؟ برگشتگی تو سلسلہ انبیاء کے ساتھ لگی ہوئی ہے.ابتلاء میں پڑ کر بعض لوگ تو علیحدہ ہو ہی جاتے ہیں اور قرآن کریم میں بھی ارتداد کا مفصل ذکر موجود ہے.متلون 272

Page 279

مزاج یا سطحی نظر سے معاملات کو دیکھنے والے لوگوں کا پیشگوئیوں جیسے نازک امور میں ٹھوکر کھا جانا یا برگشتہ ہوجانا بعید از قیاس نہیں اور ابنیاء کی تاریخ میں جگہ جگہ اس کی مثالیں موجود ہیں.ضعیف الاعتقاد لوگوں کی برگشتگی کا تو کیا ذ کر بعض دفعہ ”راسخون فی العلم بھی وقتی طور پر ابتلاء کا شکار دکھائی دیتے ہیں.مگر بالآخر ان کا پختہ ایمان اور راسخ عقیدہ انہیں اس ابتلاء سے نکال باہر لے آتا ہے.ہم قرآن حکیم اور سنت رسول اللہ علیہ وسلم سے پیشگوئیوں کے بارے میں اصولی بحث کے دوران بھی یہ واضح کر چکے ہیں کہ تاریخ مذاہب میں متعدد ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جب انبیاء کرام اور مامورین مسن اللہ خود اپنے الہام کا منشاء و مفہوم اور مصداق صحیح طور پر متعین نہ حضرت یونس عذاب الہی کی وعید میں مضمر تو بہ کی شرط کو نہ سمجھ سکنے کی وجہ سے عذاب کو ناگزیر جان کر نینوا سے نکل کھڑے ہوئے مگر عذاب بعد میں ٹل گیا.انبیاء علیہم السلام کے تو رویاء بھی وحی کا درجہ رکھتے ہیں.حدیبیہ کے موقع پر صحابہ کرام کو کیسا ابتلاء پیش آیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ایک صاف رویا کی بناء پر جس میں آپ نے اپنے صحابہ کے ساتھ المسجد الحرام میں داخل ہو کر امن کے ساتھ طواف کرتے دیکھا تھا تو عمرہ کرنے کی غرض سے روانہ ہوئے.خود آنحضور اور 1400 کے قریب صحابہ سب کے سب اس رؤیا کی یہی تعبیر سمجھتے تھے.مگر تقدیر الہی کسی اور رنگ میں ظاہر ہوئی اور اس سال عمرہ نہ ہو سکا تو صحابہ کو ایسا جھٹکا لگا کہ حضور کے ارشاد کے باوجود انہوں نے اپنی قربانیاں ذبح کرنے میں تامل کیا اور حضرت عمر جیسے جلیل القدر صحابی کی زبان پر یہ سوال آ گیا کہ یا رسول اللہ ! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ کیا یہ خدا کا وعدہ کہ ہم طواف کریں گے سچا نہیں تھا؟ اور حضور" کو یہ وضاحت کرنا پڑی کہ خدا کے وعدے تو بچے ہیں مگر رو یا میں اسی سال کی تعیین تو نہیں تھی.273

Page 280

بات کتنی واضح اور صاف اور رسول اللہ اور آپ کے صحابہ ارشاد الہی کی ایک دوسری تعبیر سمجھ کر تشریف لے جاتے ہیں مگر تقدیر الہی کسی اور رنگ میں ظاہر ہوتی ہے پس اگر حضرت مرزا صاحب کے زمانے میں بھی بعض لوگوں نے کسی دوسرے بچے کی ولادت کو موعود بیٹے کی ولادت سمجھا تو ایسے طعن کی کونسی بات تھی کیونکہ موعود بیٹے کی ولادت خود الہام کے الفاظ کے مطابق نو سال کے اندر ہونے کی بشارت تھی اور وہ بشارت کے مطابق نوسال کے عرصہ میں پیدا بھی ہو گیا.جو بات عدالت کے طرز عمل کو مزید محلِ نظر اور قابل اعتراض ٹھہراتی ہے وہ یہ ہے کہ عدالت اس امر کو مکمل طور پر حذف کرگئی کہ 1889ء میں نو سال کے عرصہ کے اندر ایک بیٹا پیدا ہوا.عدالت کا یہ طرز عمل، واقعات کے بیان کا یہ سرسری انداز اور ان سے توڑ مروڑ کر نتائج اخذ کر کے پیش کر دینا اور انہیں ایک عدالتی فیصلہ کا حصہ بنادینا کسی طرح بھی مناسب اور جائز نہیں تھا.بالخصوص ایسے امور میں جو پیشگوئیوں سے متعلق ہوں جو ایک فریق کے اعتقاد اور ایمان اور نازک مذہبی جذبات سے تعلق رکھتے ہوں اور جن پر مستزاد یہ کہ اُن کے بارے میں کوئی بحث نہ ہوئی ہو اور جو معاملہ زیر نظر کے فیصلے کے لئے ضروری بھی نہ ہوں، لاتعلق امور فیصلہ میں داخل کرنے کی بدترین مثال ہے.لہذا عدالت کے فیصلے کے صفحات نمبر 57 کے دوسرے پیراگراف سے لے کر صفحہ 59 کے دوسرے پیراگراف تک حذف کئے جانے کے لائق ہیں، چونکہ یہ غیر متعلق غیر ضروری ، دلآ زار، خلاف واقعہ اور بدنیتی پر مبنی ہیں.پیشگوئیوں کے ضمن میں عدالت نے حضرت مرزا صاحب کی تصنیف براہین احمدیہ جلد پنجم میں سے یہ عبارت نقل کی ہے کہ :.وو مقتدریوں ہے کہ وہ لوگ جو اس جماعت سے باہر ہیں وہ دن بدن کم ہوتے جائیں گے اور تمام فرقے مسلمانوں کے جو اس سلسلہ سے 274

Page 281

باہر ہیں وہ دن بدن کم ہو کر اس سلسلہ میں داخل ہوتے جائیں گے یا نابود ہو جائیں گے“.اور اس کے بعد عدالت نے یہ تبصرہ کیا ہے کہ:.اس پیشگوئی کا بطلان اس قدر عیاں اور ظاہر ہے کہ اس بارہ میں کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں“.بزعم خود اس عیاں اور ظاہر بطلان کے اظہار کے لئے عدالت نے 1981ء کی مردم شماری کے مطابق احمدیوں کی تعداد ایک لاکھ تین ہزار بتائی ہے.اور یہ ذکر کیا ہے کہ مسلمانوں کی تعداد میں کئی گناہ اضافہ ہو چکا ہے.جس بات پر عدالت نے توجہ نہیں کہ وہ یہ ہے کہ جو مسلمانوں میں کئی گناہ اضافہ بیان کیا جا رہا ہے وہ کون سے فرقے مسلمانوں میں داخل ہوئے.عیسائیوں سے مسلمان ہوئے یا ہندؤوں سے یا محض آبادی کے اضافہ سے.اور احمدیوں کی جو تعداد بیان کی گئی ہے اور جس مردم شماری کو بنیاد بنایا گیا ہے.اس کا پایہ استناد کیا ہے؟ یہ تصور کرنا ناممکن ہے کہ 1981 ء کی مردم شماری اور اس میں احمدیوں کی تعداد کے بارہ میں عدالت کو کوئی خوش فہمی یا غلط فہمی ہو.دنیا جانتی ہے کہ 1974 ء کی ترمیم کے بعد احمدیوں نے اپنے آپ کو غیر مسلموں کے زمرہ میں شمار کروانا اپنے ایمان کی توہین سمجھا اور اپنے تمام حقوق پر پڑنے والی ہر ممکنہ زدکو نظر انداز کرتے ہوئے اور مادی منفعتوں کی پرکاہ کے برابر بھی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو مردم شماری میں غیر مسلموں کے زمرہ میں شامل نہیں کروایا.اور خود کو مسلمان ہی کہتے رہے تا آنکہ ضیاء الحق صاحب کا زیر نظر آرڈینینس نافذ ہوا جس کی وجہ عدالت کے فیصلے میں یہ بیان کی گئی ہے کہ احمدی خود کو مسلمان کہنے سے باز نہیں آتے.گویا 1981 ء کی مردم شماری میں احمدیوں نے خود کو مسلمان ہی ظاہر کیا اور ایک لاکھ تین ہزار وہ اشخاص ہیں جو کسی ابہام یا 275

Page 282

الجھن کی وجہ سے احمدی شمار کئے گئے.اور وہ احمدیوں کی تعداد کا ایک نہایت نا قابل ذکر قلیل حصہ ہی ہو سکتا ہے.اگر ایسے لوگوں کی تعداد دو یا تین فیصد بھی سمجھی جائے تو احمدیوں کی مجموعی تعداد چالیس پچاس لاکھ کے درمیان بنتی ہے.یہ تصور کرنا بھی ناممکن ہے کہ عدالت 1981 ء کی مردم شماری کے بارہ میں ان واضح حقائق سے ناواقف تھی.اگر یہ واقعات واقعی عدالت کے علم میں نہیں تھے تو عدالت کی کم علمی قابل افسوس ہے.دو جس پیشگوئی کے بطلان پر عدالت طعنہ زنی کر رہی ہے.اس میں مضمون یہ تھا کہ دوسرے فرقوں کے مسلمان اس سلسلہ میں داخل ہوتے جائیں گے“.کیا عدالت واقعی سمجھ رہی تھی کہ دوسرے فرقوں کے مسلمان سلسلہ احمدیہ میں مسلسل داخل نہیں ہو رہے؟ کیا حکومت پاکستان اور پاکستان کے علماء اس بات پر مطمئن ہیں کہ واقعی اس پیشگوئی کا بطلان عیاں ہے.اور دوسرے فرقوں کے مسلمان سلسلہ احمدیہ میں داخل نہیں ہور ہے.اگر ایسا ہے تو پھر تبلیغ کی پابندی پر اس قدر اصرار کے کیا معنی ؟ تعصب ہمیشہ اندھا کر دیا کرتا ہے.عدالت نے مذہب اور اخلاقیات کے انسائیکلو پیڈیا 1931 ء کی مردم شماری اور یونٹی unity کلکتہ کے ایک مضمون کا بھی جماعت احمدیہ کی تعداد متعین کرنے کے سلسلے میں ذکر کیا ہے.اور اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ احمدی ہمیشہ اپنی تعداد بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں.دراصل کسی بھی طبقہ کی تعداد متعین کرنا ایک مشکل امر ہے.خود مردم شماری کے ماہرین اس عمل کی مشکلات سے آگاہ ہیں.اور وہ اپنے اعداد وشمار کو ہمیشہ ہی مشروط قرار دیتے ہیں.مگر بعض نمایاں عناصر ہمیشہ تعداد متعین کرنے میں ممد و معاون بھی ہوتے ہیں.نسلی ، لسانی اور ثقافتی یا جغرافیائی بنیا دوں پر مردم شماری نسبتاً آسان ہوتی ہے.مگر جہاں اعتقادات کی بنیاد پر مردم شماری مقصود ہو وہاں بہت سی مشکلات حائل ہو جاتی ہیں.بالخصوص ایسے معاشروں میں جہاں ہر قسم کے اعتقادات کے لوگ یکجا طور پر آباد ہوں.احمدیوں کی کوئی معین مردم 276

Page 283

شماری آج تک نہیں ہوئی.مگر پاکستان میں احمدیوں کی تعداد کے بارہ میں مختلف بنیادوں پر جو اندازے لگائے گئے ہیں.ان کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اکانومسٹ لندن کی بیان کردہ ایک کروڑ کی تعداد یقیناً ایک محتاط اندازہ ہے.پاکستان کے قومی اخبارات کی رپورٹنگ کے مطابق 1962 ء 1963 ء.ء کے جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ میں حاضرین کی تعداد اڑھائی لاکھ سے ساڑھے تین لاکھ تک بیان کی گئی ہے.(1982ء میں روزنامہ جنگ 29 دسمبر 1982 ء کے مطابق تین لاکھ، روزنامہ امروز 8 دسمبر 1982ء صفحہ 8 کے مطابق اڑھائی لاکھ اور 1983 ء میں روز نامہ مشرق 30 دسمبر 1983 ء صفحہ 5 کے مطابق ساڑھے تین لاکھ افراد جلسہ سالانہ میں شریک تھے.) اور اس تعداد میں بیرون ملک سے آنے والے احمدیوں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں.اور اندرون پاکستان سے بھی ہر احمدی جلسہ میں شامل نہیں ہوتا ، نہ ہی ایسا ممکن ہے.جلسہ سالا نہ ایک نمائندہ اجتماع ہی ہوتا ہے.یہ توصرف ایک انڈیکس ہے.ایک دوسرا انڈیکس ووٹروں کی تعداد بھی ہے.1970 ء کے الیکشن میں جماعت احمدیہ کے بعض مخالف اخبارات کے اندازہ کے مطابق پاکستان میں چالیس لاکھ احمدی ووٹر تھا.اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ ووٹروں کی تعداد کل تعداد کا کبھی بھی 30 فیصد سے زیادہ نہیں ہوتی.پاکستان کی نو کروڑ آبادی میں ووٹروں کی تعداد کل تین کروڑ بیان کی جاتی ہے اور اس اعتبار سے مخالفانہ اندازوں کے مطابق احمدیوں کی تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ ٹھہرتی ہے.مگر ظاہر ہے کہ یہ مخالفانہ مبالغہ آرائی ہے جو جماعت کے فعال ہونے کی وجہ سے اس کے اثر ورسوخ کو دیکھ کر کی گئی ہے.ایک اور اندازے کے مطابق 1970 ء کے انتخابات میں 22لاکھ سے زائد احمدی رضا کار بیان کئے گئے ہیں.( ہفت روزہ چٹان 22 فروری 1971، صفحہ 9) اس سے جماعت احمدیہ کی کل تعداد کا کچھ اندازہ ہو سکتا ہے.بہر حال یہ بات ناقابل فہم ہے کہ جس جماعت کے صرف رضا کاروں کی تعداد 1970 میں 22 لاکھ سے زائد تھی اس پوری جماعت کی تعداد 1983 ء میں گھٹ کر ایک لاکھ تین ہزار & 277

Page 284

کیسے رہ گئی اور اگر کسی شعبدہ سے واقعی تعداد اتنی ہی رہ گئی تھی تو اس کا مقدمہ کے فیصلہ سے کیا تعلق تھا کیا شرعی عدالتوں کے فیصلے اکثریت یا اقلیت کی بنیادوں پر ہوں گے.کیا کوئی قانون محض اس لئے قرآن وسنت کے مطابق ٹھہرے گا کہ اس کی زد محض ایک لاکھ تین ہزار افراد پر پڑتی ہے.کیا کوئی غیر اسلامی قانون محض اس لئے قرآن وسنت کے مطابق قرار دیا جا سکتا ہے کہ اس کے خلاف اُٹھنے والی آوازوں کی تعداد کم ہے.اگر نہیں تو آخر ہندسوں کے اُلٹ پھیر سے سائلان کی درخواست کا کیا تعلق؟ غرضیکہ مختلف جہات سے دیکھا جائے تو محتاط اندازہ کے مطابق بھی احمدیوں کی تعداد صرف پاکستان میں چالیس لاکھ کے لگ بھگ یقینی معلوم ہوتی ہے.1981 ء کی مردم شماری کی بنیاد پر کل تعداد ایک لاکھ تین ہزار بیان کرنا سادہ لوحی کی انتہاء ہے.یہ تو اندرون پاکستان احمدیوں کی تعداد کا ذکر ہے ورنہ افریقہ کے بعض ممالک میں احمدیوں کی تعداد لاکھوں سے تجاوز کر چکی ہے اور جماعت احمد یہ اس وقت ان ممالک میں 86 پرائمری سکول ،34 سیکنڈری سکول ،51 دینی مدارس، 2 کالج ، 23 ہسپتال چلا رہی ہے.بیرونی ممالک میں جماعت احمد یہ کی تعمیر کردہ مساجد کی تعداد 901 ہے.دس زبانوں میں جماعت کے تراجم قرآن کریم مختلف ممالک میں ہزاروں کی تعداد میں شائع ہو چکے ہیں.اس کے علاوہ جماعت احمد یہ دنیا کے پچاس سے زائد ممالک میں قائم ہے.لہذا جماعت احمدیہ کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ایک نا قابل انکار حقیقت ہے.فاضل عدالت تو جماعت کی ترقی کے بارہ میں پیشگوئی کے بطلان کو ظاہر بیان کرتی ہے.اور فاضل وکیل سرکار عدالت میں پانچ روز تک ایک جارح اقلیت“ کی طرف سے اکثریت کو درپیش خطرے کا ذکر کرتے رہے.اگر دوسرے فرقوں سے لوگ خاصی تعداد میں سلسلہ احمدیہ میں داخل نہیں ہور ہے تو یہ خطرہ کیا تھا؟ اور یہ خوف کیسا تھا؟ 278

Page 285

بہر حال یہ بات بھی زیر بحث سوال کے فیصلہ کے لئے غیر متعلق تھی.احمدیوں کی تعداد تھوڑی ہو یا زیادہ ، ترقی پذیر ہو یا انحطاط پذیر اس بارہ میں پیشگوئی سچی ہو یا نہ ہوان امور کا آرڈینینس کے خلاف قرآن وسنت ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا تھا.اور فیصلہ میں ان امور کا ذکر عدالت کے تعصب کی غمازی کرتا ہے اور یہ حصہ بھی حذف کئے جانے کے لائق ہے.(6) عدالت نے اپنے فیصلہ کے صفحہ نمبر 111 اور اس کے بعد کے صفحات میں یہ اعتراض کیا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے اپنی تحریرات میں حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں ناروا الفاظ استعمال کئے ہیں.ہر چند کہ یہ بات ضمنا عدالت کے روبرو زیر بحث آئی تھی اور سائلان کی جانب سے اس کا شافی جواب دے دیا گیا تھا جس کا ٹیپ ریکارڈ عدالت کے پاس موجود ہے.عدالت نے سائلان کے پیش کردہ جواب کو قطعاً نظر انداز کر کے یک طرفہ طور پر اعتراض کو تو دھرایا اور سائلان کے جواب کا ذکر کرنا بھی مناسب نہ سمجھا.حقیقت یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام جو خدا کے ایک برگزیدہ نبی تھے اور جن کا ذکر قرآن حکیم میں موجود ہے اور جن پر ایمان لانا ہر مسلمان کا جزو ایمان ہے ان کے بارے میں کسی قسم کے نازیبا الفاظ کے استعمال کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا.یہ الزام سراسر غلط ہے، خصوصاً مرزا صاحب جو مثیل مسیح ہونے کے مدعی تھے ان کے بارے میں یہ الزام یوں بھی خلاف عقل ہے.مرزا صاحب لکھتے ہیں:." جس حالت میں مجھے دعوی ہے کہ میں مسیح موعود ہوں اور حضرت عیسی سے مجھے مشابہت ہے تو ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ میں اگر نعوذ باللہ حضرت 279

Page 286

عیسی کو بُرا کہتا تو اپنی مشابہت ان سے کیوں بتلاتا“.(اشتہار 27 دسمبر 1897ء حاشیہ مندرجہ بلیغ رسالت جلد 7 صفحہ 70 مجموع اشتہارات حضرت مسیح موعود علیہ السلام) چنانچہ حضرت مرزا صاحب نے بار بار اس الزام کی تردید کی اور فرمایا:.ہم اس بات کے لئے بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا سچا اور پاک اور راستباز نبی مانیں اور ان کی نبوت پر ایمان لاویں.سوہماری کسی کتاب میں کوئی ایسا لفظ بھی نہیں ہے جو ان کی شانِ بزرگ کے برخلاف ہو اور اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ دھوکا کھانے والا اور جھوٹا ہے“.(ایام الصلح ٹائیٹل پیچ صفحہ 2) نیز فرماتے ہیں:.حضرت مسیح کے حق میں کوئی بے ادبی کا کلمہ میرے منہ سے نہیں نکلا، یہ سب مخالفوں کا افترا ہے.ہاں چونکہ در حقیقت کوئی ایسا یسوع مسیح نہیں گزرا جس نے خدائی کا دعویٰ کیا ہو.اور آنے والے نبی خاتم الانبیاء کو جھوٹا قرار دیا ہو.اور حضرت موسی کو ڈا کو کہا ہو.اس لئے میں نے فرض محال کے طور پر اس کی نسبت ضرور بیان کیا ہے کہ ایسا مسیح جس کے یہ کلمات ہوں راستباز نہیں ٹھہر سکتا.لیکن ہمارا مسیح ابن مریم جو اپنے تئیں بندہ اور رسول کہلاتا ہے اور خاتم الانبیاء کا مصدق ہے.اس پر ہم ایمان لاتے ہیں.تریاق القلوب حاشیه صفحه 77 - روحانی خزائن جلد 15 صفحه 305) غرضیکہ جو مبینہ سخت الفاظ حضرت مسیح کے بارے میں بیان کئے جاتے ہیں.وہ دراصل اُس فرضی مسیح کے بارے میں ہیں جس کو عیسائی بطور خدا کے پیش کرتے تھے.اس مسیح کا جو نقشہ بائبل سے اُبھرتا تھاوہ گویا عیسائیوں کو بطور آئینہ کے دکھایا گیا.چنانچہ فرماتے ہیں:.280

Page 287

وو بالآخر ہم لکھتے ہیں کہ ہمیں پادریوں کے یسوع اور اس کے چال چلن سے کچھ غرض نہ تھی.انہوں نے ناحق ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے کر ہمیں آمادہ کیا کہ اُن کے یسوع کا کچھ تھوڑا سا حال ان پر ظاہر کریں اور مسلمانوں پر واضح رہے کہ خدا تعالیٰ نے یسوع کی قرآن شریف میں کچھ خبر نہیں دی کہ وہ کون تھا اور پادری اس بات کے قائل ہیں کہ یسوع وہ شخص تھا جس نے خدائی کا دعویٰ کیا اور حضرت موسیقی کا نام ڈاکو اور بٹھا رکھا اور آنے والے مقدس نبی کے وجود سے انکار کیا.اور کہا کہ میرے بعد سب جھوٹے نبی آئیں گے.پس ہم ایسے ناپاک خیال اور متکبر اور راستبازوں کے دشمن کو ایک بھلا مانس آدمی بھی قرار نہیں دے سکتے.چہ جائیکہ اس کو نبی قرار دیں.نادان پادریوں کو چاہئے کہ بدزبانی اور گالیوں کا طریق چھوڑ دیں ورنہ نا معلوم خدا کی غیرت کیا کیا ان کو دکھلائے گی“.(روحانی خزائن جلد 11 صفحه 292 293 ضمیمه انجام آتهم صفحه 9,8) اس فرضی مسیح کے بارے میں خود مولانا مودودی لکھتے ہیں:.حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ ( یعنی عیسائی ) اس تاریخی مسیح کے قائل ہی نہیں ہیں جو عالم واقع میں ظاہر ہوا تھا.بلکہ انہوں نے خود اپنے وہم وگمان 66 سے ایک خیالی مسیح تصنیف کر کے اسے خدا بنا لیا ہے.تفهيم القرآن جلد 1 صفحه 491 زیر آیت سوره مائده آیت 75) اور اس طرز خطاب کا پس منظر بیان کرتے ہوئے مرزا صاحب لکھتے ہیں:.چونکہ پادری فتح مسح متعین فتح گڑھ ضلع گورداسپور نے ہماری طرف ایک خط نہایت گندہ بھیجا اور اس میں ہمارے سید و مولی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر...تہمت لگائی اور سوا اس کے اور بہت سے الفاظ بطریق سب و شتم استعمال کئے.اس 281

Page 288

لئے قرین مصلحت معلوم ہوا کہ اس کے خط کا جواب شائع کر دیا جاوے.لہذا یہ رسالہ لکھا گیا.امید ہے کہ پادری صاحبان اس کو غور سے پڑھیں اور اس کے الفاظ سے رنجیدہ خاطر نہ ہوں کیونکہ یہ تمام پیرایہ میاں فتح مسیح کے سخت الفاظ اور نہایت ناپاک گالیوں کا نتیجہ ہے تاہم ہمیں حضرت مسیح علیہ السلام کی شان مقدس کا بہر حال لحاظ ہے اور صرف فتح مسیح کے سخت الفاظ کے عوض ایک فرضی مسیح کا بالمقابل ذکر کیا گیا ہے وہ بھی سخت مجبوری سے.کیونکہ اس نادان (فتح مسیح) نے بہت ہی شدت سے گالیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نکالی ہیں اور ہمارا دل دُکھایا ہے.نور القرآن“ نمبر 2 صفحه 1 رساله فتح مبین) مگریہ وضاحت مرزا صاحب کی تحریرات میں موجود ہے کہ :.وو پڑھنے والوں کو چاہئے کہ ہمارے بعض سخت الفاظ کا مصداق حضرت عیسی کو نہ سمجھ لیں بلکہ وہ کلمات اُس یسوع کی نسبت لکھے گئے ہیں جس کا قرآن وحدیث میں نام ونشان نہیں“.تبلیغ رسالت جلد 5 صفحه 80 مجموعه اشتهارات حضرت مسیح موعود عليه السلام) پھر فرماتے ہیں:.سو ہم نے اپنے کلام میں ہر جگہ عیسائیوں کا فرضی یسوع مرادلیا ہے اور خدا تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ عیسی ابن مریم جو نبی تھا اور جس کا ذکر قرآن میں ہے.وہ ہمارے درشت مخاطبات میں ہرگز مراد نہیں اور یہ طریق ہم نے برابر چالیس برس تک پادری صاحبوں کی گالیاں سن کر اختیار کیا ہے.ہمارے پاس ایسے پادریوں کی کتابوں کا ایک ذخیرہ ہے جنہوں نے اپنی عبارت کو صدہا گالیوں سے بھر دیا ہے.جس مولوی کی خواہش ہو وہ آکر دیکھ لئے“.( تبلیغ رسالت جلد 4 صفحہ 66,65) پھر فرماتے ہیں:.282

Page 289

ہم اس بات کو افسوس سے ظاہر کرتے ہیں کہ ایک ایسے شخص کے مقابل پر یہ نمبر نور القرآن کا جاری ہوا ہے جس نے بجائے مہذبانہ کلام کے ہمارے سید و مولا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت گالیوں سے کام لیا ہے اور اپنی ذاتی خباثت سے اس امام الطیبین وسید المطہرین پر سراسر افتراء سے ایسی تہمتیں لگائی ہیں کہ ایک پاک دل انسان کا ان کے سننے سے بدن کانپ جاتا ہے لہذا محض ایسے یا وہ لوگوں کے علاج کے لئے جواب ترکی بہ ترکی دینا پڑا.ہم ناظرین پر ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارا عقیدہ حضرت مسیح علیہ السلام پر نہایت نیک عقیدہ ہے اور ہم دل سے یقین رکھتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے سچے نبی اور اُس کے پیارے تھے اور ہمارا اس بات پر ایمان ہے کہ وہ جیسا کہ قرآن شریف ہمیں خبر دیتا ہے اپنی نجات کے لئے ہمارے سید و مولیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر دل و جان سے ایمان لائے تھے اور حضرت موسی علیہ السلام کی شریعت کے صد ہا خادموں میں سے ایک مخلص خادم وہ بھی تھے پس ہم ان کی حیثیت کے موافق ہر طرح اُن کا ادب ملحوظ رکھتے ہیں لیکن عیسائیوں نے جو ایک ایسا یسوع پیش کیا ہے جو خدائی کا دعوی کرتا تھا اور بجز اپنے نفس کے تمام اولین آخرین کو لعنتی سمجھتا تھا یعنی ان بدکاریوں کا مرتکب خیال کرتا تھا جن کی سز العنت ہے ایسے شخص کو ہم بھی رحمت الہی سے بے نصیب سمجھتے ہیں...ہم نے اپنے کلام میں ہر جگہ عیسائیوں کا فرضی یسوع مراد لیا ہے اور خدا تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ عیسی ابن مریم جو نبی تھا جس کا ذکر قرآن میں ہے وہ ہمارے درشت 283

Page 290

مخاطبات میں ہرگز مراد نہیں.اور یہ طریق ہم نے برابر چالیس برس تک پادری صاحبوں کی گالیاں سن کر اختیار کیا ہے.(روحانی خزائن جلد 9 صفحه 374، 375ـ نورالقرآن“ نمبر 2 بعنوان ناظرین کے لئے ضروری اطلاع) ظلم و تعدی کرنے والے بد زبان معترضین کے لئے الزامی جواب کا یہ انداز قرآن حکیم کی اس تعلیم کے عین مطابق تھا.وَلَا تُجَادِلُوْا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ (العنكبوبت: 47) اور یہ انداز دیگر علماء نے بھی استعمال کیا ہے.چنانچہ اہل حدیث کے عالم نواب صدیق حسن خان صاحب ایک واقعہ یوں لکھتے ہیں :.ایک بار پیچی روم پاس بادشاہ انگلستان کے گیا تھا اس مجلس میں ایک عیسائی نے اس کو مسلمان دیکھ کر یہ طعن کیا کہ تم کو کچھ خبر ہے کہ تمہارے پیغمبر کی بی بی کولوگوں نے کیا کہا تھا اس نے جواب دیا ہاں مجھ کو یہ خبر ہے کہ اس طرح کی دو بیبیاں تھیں جن پر تہمت زنا کی لگائی گئی مگر اتنا فرق ہوا کہ ایک بی بی پر فقط اتہام ہوا، دوسری بی بی ایک بچہ بھی جن لا ئیں وہ نصرانی مبہوت ہو کر رہ گیا.(ترجمان القرآن جلد اول صفحه 430 از نواب صدیق حسن خان صاحب سورة آل عمران زیر آیت از قالت الملئكة يمريم ان الله يبشرك بكلمة منه - مطبوعه مطبع احمدی لاهور) " مولوی آل حسن صاحب اپنی کتاب ” استفسار میں جو ازالۃ الا وہام“ مولفہ مولوی رحمت اللہ صاحب کرانوی مہاجر مکی کے حاشیہ پر چھپی ہے تحریر فرماتے ہیں:." حضرت عیسی کا بن باپ پیدا ہونا تو عقلاً مشتبہ ہے اس لئے کہ حضرت مریم یوسف کے نکاح میں تھیں، چنانچہ اس زمانہ کے معاصرین لوگ یعنی یہود جو کچھ کہتے ہیں سو ظاہر ہے“.(صفحہ 22) 284

Page 291

وو اور ذرے گر بیان میں سر ڈال کر دیکھو کہ معاذ اللہ حضرت عیسی کے نسب نامہ مادری میں دو جگہ تم آپ ہی زنا ثابت کرتے ہو“.(صفحہ 73) از انجملہ کلیہ یہ بات ہے کہ اکثر پیشنگوئیاں انبیاء بنی اسرائیل اور حواریوں کی ایسی ہیں جیسی خواب اور مجذوبوں کی بڑ...پس اگر انہیں باتوں کا نام پیشگوئی ہے تو ہر ایک آدمی کے خواب اور ہر دیوانہ کی بات کو ہم پیشگوئی ٹھہرا سکتے ہیں“.(صفحہ 133) عیسی بن مریم که آخر در ماندہ ہوکر دنیا سے انہوں نے وفات پائی.(صفحه 232) ” اور سب عقلاء جانتے ہیں کہ بہت سے اقسام سحر کے مشابہ ہیں معجزات سے.خصوصاً معجزات موسویہ اور عیسویہ سے“.(صفحہ 336) اشعیاہ اور ارمیاہ اور عیسی کی غیبت گوئیاں قواعد نجوم اور ریل سے بخوبی وو نکل سکتی ہیں بلکہ اس سے بہتر.(صفحہ 336) وو " حضرت عیسی کا معجزہ احیاء میت کا بعضے بھان متی کرتے پھرتے ہیں کہ ایک آدمی کا سرکاٹ ڈالا ، بعد اس کے سب کے سامنے دھڑ سے ملا کر کہا اُٹھ کھڑ ہو اور وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور سانپ کو نیولے سے ٹکڑے ٹکڑے کروا دیا بعد اس کے سب ٹکڑے اس کے برابر رکھ کر تو نبی بجائی اور وہ رینگنے لگا اور اچھا بھلا ہو گیا اور منتر سے جھاڑ پھونک کر دیو بھوت کو دفع کرنا اور بعض بیماریوں سے چنگا کرنا یہ سینکڑوں سے ہوتا دیکھا ہے“.(صفحہ 336) ان (پادری صاحبان ) کا اصل دین وایمان آ کر یہ ٹھہرا ہے کہ خدا مریم کے رحم میں جنین بن کر خون حیض کا کئی مہینے تک کھاتا رہا اور علقہ سے مضغہ بنا اور مضغہ سے گوشت اور اس میں ہڈیاں بنیں اور اس کے مخرج معلوم سے نکلا اور ہگنتا مو تتارہا.یہاں تک کہ جوان ہو کر اپنے بندے بھیجی کا 285

Page 292

مرید ہوا اور آخر کو ملعون ہو کر تین دن دوزخ میں رہا.(صفحہ 351,350) پس معلوم ہوا کہ حضرت عیسی کا سب بیان معاذ اللہ جھوٹ ہے اور کرامتیں اگر بالفرض ہوئی بھی ہوں تو ویسی ہی ہونگی جیسی مسیح دجال کی ہونے والی ہیں“.(صفحہ 369) ” یہودی لوگ کہتے ہیں کہ ہم میں سے جو لوگ توریت کے عالم تھے انہوں نے تو حضرت عیسی سے کوئی معجزہ دیکھا نہیں اور چند مچھووں اور ملاحوں احمقوں کا کیا اعتبار ، عوام الناس تو ذرے سے شعبدہ میں آ جاتے ہیں.(صفحہ 371) بارہویں صدی کے مجد د حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے بیٹے حضرت شاہ عبدالعزیز کی نسبت لکھا ہے کہ ایک دفعہ ایک پادری صاحب شاہ صاحب کی خدمت میں آئے اور سوال کیا.کیا آپ کے پیغمبر حبیب اللہ ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں.وہ کہنے لگا تو پھر انہوں نے بوقت قتل امام حسین فریاد نہ کی یا یہ فریاد سنی نہ گئی ؟ اس پر شاہ صاحب نے کہا کہ نبی صاحب نے فریاد تو کی لیکن انہیں جواب آیا کہ تمہارے نواسے کو قوم نے ظلم سے شہید کیا ہے لیکن ہمیں اس وقت اپنے بیٹے عیسی کا صلیب پر چڑھنا یا د آ رہا ہے.رود کوثر“ از شیخ محمد اکرم ایم ای صفحه 590 مطبوعه 1979ء) بریلوی فرقہ کے لوگ مولوی احمد رضا خاں صاحب بریلوی کو چودہویں صدی کا مجدد مانتے ہیں اور پاکستانی عوام کی اکثریت بریلوی ہے وہ لکھتے ہیں :.نصاری ایسے کو خدا کہتے ہیں جو مسیح کا با ایسے کو جو یقیناً دغاباز ہے، پچھتاتا بھی ہے تھک جاتا بھی ہے..66 (العطايا النبويه في الفتاوى الرضوية» صفحه 741,740 ناشران شیخ غلام علی اینڈ سنز کشمیری بازار لاہور) انجیل کے مطالعہ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مسیح نے اجنبی عورتوں سے 286

Page 293

اپنے سر پر عطر ڈلوایا.(متى 26/6، مرقس 14/3، يوحنا 12/6 ـ اهل حدیث امرتسر 31 مارچ 1939ء) چنانچہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے بھی گزشتہ علماء کی طرح پادریوں کی اس ظالمانہ زہریلی روش کے بالمقابل مسیحی مسلمات اور انجیلی بیانات کی روشنی میں الزامی جوابات پیش کئے ہیں جنہیں عدالت نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ پر حضرت مسیح کی تو ہین ثابت کرنے کے لئے پیش کیا ہے.رہا یہ اعتراض کہ حضرت مرزا صاحب حضرت مسیح کے معجزات کے قائل نہ تھے تو یہ بھی ایک علمی سوال تھا جس کو اگر عدالت زیر بحث لاتی تو عدالت کو مطمئن کیا جا سکتا تھا، لیکن یہاں بھی عدالت نے محض یکطرفہ طور پر اور طعنہ زنی کے رنگ میں اعتراض کر دیا ہے اور حقیقت کو نہیں سمجھا.حقیقت یہ ہے کہ حضرت عیسی کی طرف جس رنگ کے معجزات منسوب کئے جاتے ہیں وہ کسی اور نبی سے منسوب نہیں کئے جاتے حتی کہ خود نبیوں کے سردار خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس نوعیت کے معجزات منسوب نہیں ہیں.مسیح سے جو معجزے منسوب کئے گئے وہ مسیح کی الوہیت اور مسیح کے ابن اللہ ہونے کی دلیل ٹھہرائے گئے اور اسی حیثیت میں عیسائی پادری انہیں پیش کرتے تھے، حضرت مرزا صاحب نے عیسائی پادریوں کے اس ادعاء الوہیت مسیح کے رد میں خود بائیبل سے مسیح کے معجزات کی حقیقت واضح کی اور یہ دکھایا کہ خودانا جیل کی رُو سے ان معجزات کی حقیقت کیا بنتی ہے اور اگر وہ معجزات اسی طرح ہیں جس طرح پادری بیان کر کے الوہیت مسیح ثابت کرنا چاہتے ہیں تو مسیح کے زمانے میں ایک آدمی بھی ایسانہ رہتا جو اتنے واضح معجزات دیکھ کر ایمان نہ لے آتا مگر تاریخی طور پر امر واقعہ یہ ہے کہ خود بائبل کے مطابق مسیح پر ایمان لانے والوں 287

Page 294

کی تعداد بہت تھوڑی تھی.لہذا مسیح کے معجزات کے بارے میں جو کچھ کہا گیا وہ بھی از روئے بائبل تھا ، قرآن حکیم سے معجزات کے بارے میں جو پُر معارف مضامین نکلتے ہیں ان کا ذکر ان اعتراضات میں نہیں.یہ ایک الگ مضمون ہے اور مذہبی اور روحانی دنیا کے لئے ایک نہایت پر معارف خزانہ ہے.جہاں تک مسیح کی بن باپ ولادت کا تعلق ہے مرزا صاحب حسب ارشاد قرآنی مسیح کی بن باپ ولادت کے قائل تھے مگر جس طرح پادری صاحبان ان کی اس بن باپ ولا دت کو مسیح کی رسول اکرم پر افضلیت کی بنیاد ٹھہراتے تھے اور مسیح کے ابن اللہ ہونے کی دلیل بناتے تھے،مرزا صاحب اس کا سختی سے رد فرماتے تھے اور استدلال یہ تھا کہ محض بن باپ پیدائش نہ افضلیت کی دلیل ہے نہ ابن اللہ ہونے کی ، کیونکہ حضرت آدم تو صرف بن باپ ہی نہیں بغیر ماں اور باپ کے تھے.اس علمی مضمون کو بغیر مطالعہ کیے، بغیر اس کی گہرائیوں میں اترے، بغیر اس کے حسن و قبح پر غور کئے ، اس کے مالہ وماعلیہ کا جائزہ لئے بغیر محض طنز ا اعتراض کر دینا خود عدالت کی غیر جانبدار نہ حیثیت کے منافی تھا.اس مضمون پر بھی مرزا صاحب کی تصنیفات اور جماعت احمدیہ کے لٹریچر اور اس مضمون پر قرآنی آیات کی تفسیر اہل علم کے لئے ایک روحانی مائدہ ہے جس کے لئے صلائے عام ہے.مگر فیصلے کا یہ حصہ بنی بر طعن اور یکطرفہ اور جانبدار نہ ہونے کی وجہ سے حذف کئے جانے کے لائق ہے.معجزات کے بارہ میں آپ کی اصولی رائے یہ ہے کہ بعض لوگ :.” ہماری...بعض عبارتوں سے یہ نکالتے ہیں کہ گویا ہم نعوذ باللہ سرے سے حضرت مسیح کے معجزات سے منکر ہیں مگر واضح رہے کہ ایسے لوگوں 288

Page 295

کی اپنی نظر اور فہم کی غلطی ہے ہمیں حضرت مسیح کے صاحب معجزات ہونے سے انکار نہیں“.(روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 373,372 " شہادة القرآن صفحہ 78.77 ماشیر) حضرت مرزا صاحب کو دراصل جس امر سے انکار تھاوہ حضرت مسیح کے معجزات کو ایسے غلو کا رنگ دینے سے تھا جس کے نتیجہ میں عیسائیوں کو یہ موقعہ مل سکے کہ وہ ایک طرف حضرت مسیح کو خدائی کا مقام دیں اور دوسری طرف یہ کہ اُن کے معجزات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی نسبت بڑھا چڑھا کر پیش کریں.چنانچہ آپ نے عیسائیت کے انجیلی بیانات پر سخت تنقید اور جرح کی ہے جن میں یسوع نامی شخصیت کی طرف معجزات منسوب کر کے اسے خدائی کا درجہ دیا جاتا ہے اور اسی تنقید کو غلط رنگ میں عدالت نے فیصلہ میں ذکر کیا ہے البتہ بحیثیت ایک پاکباز نبی کے ان کے قرآن میں مذکور معجزات سے حضرت مرزا صاحب انکار نہیں کرتے.مگر قرآن کے بیان کردہ نشانات کو اگر انجیلی رنگ سے رنگین کر دیا جائے تو اُن کی حقیقت صداقت کے نشان کی بجائے محض شعبدہ بازی اور تماشے کی رہ جاتی ہے.اور حضرت مرزا صاحب کے نزدیک حضرت مسیح کا مقام ایسی شعبدہ بازی سے پاک اور اعلیٰ تھا.اگر حضرت مسیح لوگوں کے مردوں کو زندہ کر دیتے تھے ، بیماروں کو تندرست کر دیتے تھے غیب دانی کے تحت اُن کے کھانے دانے تک بتا دیتے تھے تو چاہئے تھا کہ ایسے ظاہری رنگ کے نشانات دیکھ کر لوگ غیر معمولی تعداد میں آپ پر ایمان لے آتے لیکن ایمان لانے والوں کی تعداد تو بارہ حواریوں سے زائد نہیں بتائی جاتی، جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ دیگر راستباز انبیاء کی طرح آپ کے نشانات بھی مادی اور ظاہری رنگ کی بجائے روحانی رنگ رکھتے تھے اور روحانی رنگ کے نشانات اور معجزات سے اہل دنیا ہمیشہ کم ہی فائدہ اٹھاتے رہے ہیں.چنانچہ آپ فرماتے ہیں:.” ہم حضرت مسیح کے اعجازی احیاء اور اعجازی خلق کو مانتے ہیں ہاں 289

Page 296

گا.اس بات کو نہیں مانتے کہ حضرت مسیح نے خدا تعالیٰ کی طرح حقیقی طور پر کسی مُردہ کو زندہ کیا ہو یا حقیقی طور پر کسی پرندہ کو پیدا کیا ہو کیونکہ اگر حقیقی طور پر حضرت مسیح کے مُردہ زندہ کرنے اور پرندہ پیدا کرنے کو تسلیم کیا جائے تو اس سے خدا تعالیٰ کی خلق اور اس کا احیاء مشتبہ ہو جائے مسیح کے پرندوں کا حال عصائے موسیٰ کی طرح ہے جیسے وہ سانپ کی طرح دوڑتا تھا مگر ہمیشہ کے لئے اس نے اپنی اصلی حالت کو نہ چھوڑا تھا ایسا ہی محققین نے لکھا ہے کہ مسیح کے پرندے لوگوں کے نظر آنے تک اڑتے تھے لیکن جب نظر سے اوجھل ہو جاتے تھے تو زمین پر گر پڑتے اور اپنی پہلی حالت پر آ جاتے تھے.پس اس سے حقیقی زندگی کب حاصل ہوئی؟.(روحانی خزائن جلد 7 صفحه -315- حمامة البشرى صفحه 90 ترجمه از عربی) نظروں سے اوجھل ہونے پر گر پڑنے کے بارے میں امام سیوطی نے ” جلالین، مطبع مجتبائی زیر آیت ال عمران آیت نمبر 49 صفحہ 49 پر، علامہ ابن حیان نے ”البحر المحیط جلد 2 صفحہ 466 پر اور امام وہب نے ” تفسیر نیشاپوری“ میں حاشیہ ابن جریر جلد نمبر 3 صفحہ 195 پر لکھا ہے.پس حضرت مرزا صاحب نے انجیل کے افسانوی رنگ کے معجزات جو یسوع نے دکھائے ان سے انکار فرمایا ہے.(7) عدالت نے اپنے فیصلہ صفحہ 137 تا 143 میں یہ پٹا ہوا اعتراض بھی اٹھایا ہے کہ احمدی 290

Page 297

دیگر سب مسلمانوں کو کا فرقرار دیتے ہیں.رشتہ ناطہ اور معاشرت کے تعلقات بھی مسلمانوں سے نہیں رکھتے اور غیر احمدی امام کے پیچھے نماز ادا نہیں کرتے.لہذا وہ اپنے قول وفعل سے خود ایک الگ اُمت بن چکے ہیں.عدالت کا یہ کہنا ہے کہ مسلمان انہیں اُمت سے خارج تصور کرتے ہیں اور عجیب بات ہے کہ احمدی بھی مسلمانوں کو اسی اُمت سے باہر خیال کرتے ہیں اور یوں گویا یہ بالکل واضح ہے کہ دونوں ایک اُمت سے تعلق نہیں رکھتے.سوال یہ نہیں تھا کہ احمدی اور پاکستان کے دیگر مسلمان ایک ہی اُمت کا حصہ ہیں یا نہیں.سوال صرف اس قدر تھا کہ احمدی جو کچھ بھی ہیں کیا اذان کو ممنوع قرار دینا اور آرڈینینس کے دیگر تقاضے قرآن وسنت کے مطابق ہیں یا نہیں؟ اگر اس سوال کا کوئی بھی تعلق آرڈینینس کے جواز یا بطلان سے ہے تو اس اصول کے مطابق مسلمان فرقوں کے ایک دوسرے کے خلاف تکفیر کے فتاوی کی وجہ سے ایسے لاتعداد آرڈینینس جاری کرنے پڑیں گے جس کے نتیجہ میں روئے زمین پر کوئی بھی اذان نہ دے سکے گا.بایں ہمہ اگر احمدی اس وجہ سے ایک الگ اُمت ہیں کہ مسلمان انہیں اُمت سے خارج تصور کرتے ہیں تو دیوبندی بھی یقیناً ایک الگ اُمت ہیں.کیونکہ بریلویوں کے نزدیک دیو بندیوں کی عبارات نا قابل تاویل ہیں.توہین و تنقیص رسالت کا کفر ہونا اُمت کا اجماعی عقیدہ ہے اس لئے تو ہین اور تنقیص کرنے والے اور تنقیص شان رسالت پر مطلع ہو کر حق ماننے والے یقیناً کافر ہیں.ان کے کفر میں شک کرنے والے بھی کافر و مرتد ہیں.دیوبندی مذہب کا علمی محاسبہ صفحہ 507.مصنفہ مولوی غلام مہر علی صاحب گولڑوی مطبوعہ کتب خانہ مہریہ مسجد نور منڈی چشتیاں شریف ضلع بہاولنگر جولائی 1956ء) 291

Page 298

اور اگر علماء کے فتوے سے الگ اُمت وجود میں آتی ہو تو دیوبندی حضرات کے بارہ میں مولا نا احمد رضا خان بریلوی کا یہ فتویٰ توجہ کے لائق ہے.” جب علمائے حرمین طیبین زاد ہم اللہ شرف و تکریما نانوتوی و گنگوہی وتھانوی کی نسبت نام بنام کفر کی تصریح فرما چکے ہیں کہ یہ سب کفار مرتدین ہیں اور یہ که من شک فـی کـفـره وعذابه فقد کفر.جوان کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ، نہ کہ اس کو پیشوا وسرتاج اہل سنت جاننا، بلاشبہ جو ایسا جانے ہرگز ہرگز صرف بدعتی و بد مذہب نہیں قطعاً کافر و مرتد ہے اور ان تمام احادیث کا کہ سوال میں فتاویٰ الحرمین سے منقول ہوئیں مورد ہے.بلاشبہ اس سے دُور بھاگنا اور اسے اپنے سے دور کرنا.اس سے بغض اس کی اہانیت اس کارڈ فرض ہے اور تو قیر حرام اور ہم اسلام، اسے سلام کرنا حرام ، اس کے پاس بیٹھنا حرام، اس کے ساتھ کھانا پینا حرام، اس کے ساتھ شادی بیاہت حرام اور قربت زنائے خالص اور بیمار پڑے تو اُسے پوچھنے جانا حرام، مر جائے تو اس کے جنازے میں شرکت، اسے مسلمان کا سا غسل و کفن دینا حرام، اس پر نماز جنازہ پڑھنا حرام بلکہ کفر، اس کا جنازہ اپنے کندھوں پر اُٹھانا، اس کے جنازہ کی مشایعت حرام، اسے مسلمانوں کے مقابر میں دفن کرنا حرام، اس کی قبر پر کھڑا ہونا حرام، اس کے لئے دعائے مغفرت یا ایصالِ ثواب حرام بلکہ کفر.(فقیر احمد رضا قادری عفى عنه مهر عبدالمصطفى احمد رضا خان محمدی، سنی، حنفی، قادری.عرفان شریعت حصه دوم صفحه 58,57 نوری کتب خانه بازار داتا صاحب لاهور گلزار عالم پریس لاهور) اور دیوبندی حضرات کو بریلوی حضرات کے کفر کے بارہ میں قطعاً کوئی شبہ نہیں ہے دیوبندی حضرات کے نزدیک وو رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم دجالِ بریلوی اور اُن کے اتباع کو محقاً محقاً 292

Page 299

فرما کر اپنے حوض مورود اور شفاعتِ محمود سے کتوں سے بدتر کر کے دھتکار دیں گئے“.(الشہاب الثاقب على المسترق الكاذب صفحہ 111) اسی طرح سے بریلوی حضرات کے بارہ میں دیوبندیوں کے شیخ القرآن کا یہ فتویٰ ہے کہ:.نبی کو جو حاضر ناظر کہے بلا شک شرع اس کو کافر کہئے“.” اور جو انہیں کافر و مشرک نہ کہے وہ بھی ایسا ہی کا فر ہے“.”ایسے عقائد والے لوگ پکے کافر ہیں اور ان کا کوئی نکاح نہیں“.اور ان کے نزدیک اگر اس عقیدہ کے ساتھ کوئی مر گیا تو ان کیلئے نہ دعا مانگنی چاہئے نہ صدقہ خیرات کرنی چاہئے نہ ان کی نماز جنازہ پڑھنی چاہیئے“.(جواہر القرآن صفحہ 60 77 78 131) رہ گئے شیعہ حضرات تو ان کے بارہ میں حضرت سید عبدالقادر جیلانی کا فتویٰ یہ ہے کہ:.انہوں نے اسلام کو چھوڑ دیا ہے اور ایمان سے الگ ہو گئے ہیں.غنية الطالبين تالیف عبد القادر جیلانی صفحه 220,218 مطبع حامی لاهور اکتوبر 1965ء) علمائے ماوراء النہر کے نزدیک :.”بادشاہ اسلام بلکہ تمام انسانوں پر ان کا قتل کرنا اور ان کو مٹادینا دین حق کی سر بلندی کیلئے لازمی ہے اور ان کے مکانوں کو تباہ کرنا اور مال و اسباب کو لوٹ لینا جائز ہے.(ردروافض صفحہ 67 مشمولہ مکتوبات امام ربانی جلد سوم مطبع نامی منشی نول کشور لکھنو ) اور شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے نزدیک فرقہ امامیہ حضرت صدیق اکبر کی خلافت کے منکر ہیں اور کتب فقہ میں لکھا ہے کہ جو صدیق اکبر کی خلافت کا انکار کرے گا وہ اجماع قطعی کا منکر اور کا فر ہو گا.( مجموعہ فتاوی عزیزی کامل صفحه 377 ناشر مولوی محمد عبدالاحد مطبع مجتبائی دیلی از مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی باب العقائد ) 293

Page 300

اسی طرح سے غیر مقلدین کے بارہ میں مقلدین کے فتاویٰ بھی بڑے واضح اور دوٹوک ہیں اور اُن کے نزدیک اور تقلید کو حرام اور مقلدین کو مشرک کہنے والا شرعاً کافر بلکہ مرتد ہوا.اور حکام اہل اسلام کو لازم ہے کہ اُسے قتل کریں اور عذر داری اس کی بائیں وجہ کہ مجھ کو اس کا علم نہیں تھا شرعاً قابل پذیرائی نہیں.بلکہ بعد تو بہ کے بھی اس کو مارنا لازم ہے.یعنی اگر چہ تو بہ کرنے سے مسلمان ہو جاتا ہے لیکن ایسے شخص کے واسطے شرعاً یہی سزا ہے کہ اس کو حکام اہل اسلام قتل کر ڈالیں.یعنی حد زنا تو بہ کرنے سے ساقط نہیں ہوتی اسی طرح یہ حد بھی تائب ہونے سے دور نہیں ہوتی.اور علماء اور مفتیانِ وقت پر لازم ہے کہ بجر دمسموع ہونے ایسے امر کے اس کے کفر اور ارتداد کے فتوی دینے میں تردد نہ کریں.ور نہ زمرہ مرتدین میں یہ بھی داخل ہوں گئے.انتظام المساجد باخراج اهل الفتن والمكاسد والمفاسد صفحه 5 تا صفحه 7 مطبوعه جعفری پریس لاهور مصنفه مولوی محمد بن مولوی عبدالقادر لدھیانوی) ”غیر مقلدین تو مسلمان ہی نہیں ہیں، بلکہ مرتد ہیں...یہ غیر مقلدین......وہابی نجدی خود اپنے ہی پیغمبروں کے قول کے مطابق اسلام سے خارج ہیں.پس ان کے پیچھے نماز پڑھنا قطعاً حرام ہے.الغرض یہ غیر مقلدین ملحدین کسی طرح مسلمان نہیں ہو سکتے“.(ارتداد الوهابيين في جواب اهل الذكره تکفیر صفحه 26 تا30 مرتبه ابو المحامد احمد علی مطبوعه روز بازار الیکٹرک سٹیم پریس امرتسر) صرف تکفیر اور ارتداد یا اخراج از اسلام کا ہی سوال نہیں جنازہ اور نکاح کے معاملات میں بھی کوئی دو فرقے آپس میں راضی نہیں.مولانا احمد رضا خان کے نزدیک تو دیو بندیوں 294

Page 301

کے ساتھ شادی بیاہت حرام اور قربت زنائے خالص ہے اور ” جنازے میں " شرکت“ اور ” نماز جنازہ پڑھنا حرام بلکہ کفر ہے اور جنازہ کندھوں پر اُٹھانا بھی حرام ہے“.(عرفان شریعت حصه دوم صفحه 39,38 نوری کتب خانه بازار داتا صاحب لاهور گلزار عالم پریس لاهور) سنیوں کے نزدیک شیعہ حضرات :.اہل کتاب بھی نہیں اُن سے مناکحت اور تعلقات رکھنا حرام اور ناظم شعبہ تعلیمات دارالعلوم دیو بند محمد مرتضی حسن کے نزدیک :.شیعوں سے جمیع مراسم اسلامیہ ترک کرنا چاہئے بالخصوص مناکحت کیونکہ اس میں خود یا دوسروں کوز نا اور فواحش میں مبتلا کرنا ہے.(علمائے کرام کا متفقہ فتوی در باب ارتداد شیعہ اثناعشریہ ناشر مولوی محم عبد الشکور مدیر انجم لکنھو 1920ء) رہ گئے شیعہ حضرات تو ان کا فتویٰ یہ ہے کہ :.شیعہ سنی کا نکاح جائز نہیں“.اور (الفروع من الجامع الكافي جلد1صفحه 142 كتاب النكاح مولفه ابوجعفر محمد بن يعقوب) نزدیک محققین کے حرام ہے عقد مومنہ شیعہ کا مردسنی سے“ (تحفة العوام صفحه 273 بارچهارم مرتبه سید تصدق حسین مطبع نامی منشی نول کشور لکھنو 1897ء) الغرض اگر اصول یہی ٹھہرے کہ جس فرقہ کو دوسرے فرقے کا فرقرار دیتے ہوں اور جو دوسرے فرقوں کو کا فرقرار دیتا ہو رشتہ ناطہ اور معاشرت کے تعلقات بھی آپس میں نہ ہو تو ایک الگ اُمت وجود میں آجاتی ہے تو پھر اس مملکت خداداد میں درجنوں اُمتیں آباد ہیں.سب خود کو مسلمان کہلانے والی اور دوسروں کو اُمت سے خارج سمجھنے والی.295

Page 302

اور اگر آرڈنینس کے جواز و بطلان کا مدار اس اصول پر ہو جو عدالت نے قائم کیا ہے تو پھر اس سرزمین پاک میں خدا کی توحید اور اس کے نام کی کبریائی کی اذانیں نہیں گونجیں گی.محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت بلند نہیں ہوگی اور حی علی الصلوۃ اور حی علی الفلاح کی آوازیں بھی سنائی نہ دیں گی.چونکہ ہر فرقہ اس وجہ سے اذان سے محروم ٹھہرے گا کہ وہ دوسروں کو اور دوسرے اُسے کافر قرار دیتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ احمدیوں کے اُمتِ مسلمہ سے خارج ہونے کا سوال غیر متعلق اور غیر ضروری تھا.اس سوال کو اپنے فیصلے میں زیر غور لا کر عدالت نے احمدیوں کے خلاف ایک غلط اور متعصبانہ اعتراض کی اشاعت و ترویج میں جماعت احمدیہ کے معاندین کے مقاصد کو آگے بڑھایا ہے.مگر یہ اعتراض خود اسلامی تعلیمات قرآنی احکام ارشادات رسول اور مسائل دینیہ کے علاوہ تاریخی حقائق و واقعات سے عدم واقفیت اور قلت تد بر کا نتیجہ ہیں.یہ کسی طویل بحث کا موقعہ نہیں ہے اور نہ ہی مختصر درخواست مکمل حوالہ جات کی متحمل ہو سکتی ہے مگر بات نہایت آسان اور سہل ہے صرف تھوڑے سے تدبر اور مطالعے اور تاریخی واقعات کو اپنے صحیح پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے جہاں تک اس سوال کے علمی پہلو کا تعلق ہے لفظ ملت اور لفظ امت کا تفصیلی مطالعہ ساری ذہنی الجھن کو بآسانی رفع کرسکتا ہے.خود عدالت کے فیصلے میں صفحہ 125 سے 130 تک لفظ اُمت کے مختلف معانی اور استعمال زیر بحث آئے ہیں.اور جیسا کہ فیصلے کے صفحہ 126 میں درج ہے.امت کے معنی لوگ اور افراد، اصول، دور یا زمانہ، ہادی، راہنما، قوم، ایک ہی نبی یا مذہب کے پیروکار.یہ بھی معنی لغت میں مذکور ہیں.اور امام راغب کے قول کے مطابق امت کے معانی قوم اور جماعت کے ہیں.بالخصوص جب کہ کوئی جماعت مشترک معاملات سے پہچانی جائے جس میں نظریاتی ، معاشرتی ، ثقافتی ، اقتصادی، سیاسی اور مذہبی مقاصد کا اشتراک شامل ہے.296

Page 303

قرآن حکیم سے لفظ اُمت کے مختلف استعمال خود عدالت کے فیصلہ میں صفحہ 127 و128 پر درج ہیں.خود درسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ اُمت کو اپنے متبعین کے لئے استعمال کیا.جیسا کہ عدالت کے فیصلہ کے صفحہ 128 میں مذکور ہے.خود میثاق مدینہ میں رسول کریم نے یہ لفظ دونوں معنوں میں استعمال کیا میثاق مدینہ کے ابتدائیہ میں قریش میثرب کو، مومنوں ، مسلمانوں ان کے بعد میں آنے والوں کو ، جو ان کے ساتھ جہاد میں شامل ہوں ایک اُمت قرار دیا گیا اور تسلیم کیا گیا کہ وہ باقی سب مسلمانوں سے الگ ایک اُمت ہیں.فانهم امة من دون الناس“.پھر اس میثاق مدینہ کی دفعہ 126 میں بنی عوف کے یہود کو مسلمانوں کے ساتھ ایک امت قرار دیا گیا.گویا معاہدے کے فریقین کے لئے الگ الگ بھی اُمت کا لفظ استعمال ہوا اور انہیں مجموعی طور پر بھی ایک امت قرار دیا گیا.عدالت نے اپنے فیصلہ کے صفحہ 128 پر تسلیم کیا ہے کہ میثاق مدینہ میں مسلم اکثریت اور غیر مسلم اقلیت پر مبنی ایک سیاسی وحدت کے لئے لفظ امت استعمال کیا گیا ہے.غرضیکہ یہ بات واضح ہے کہ لفظ اُمت کے دینی اور سیاسی مفہوم الگ الگ موجود ہیں اور لفظ اُمت کے اپنے مذہبی ،معاشرتی اور ثقافتی تقاضے ہیں.قرآن حکیم اور ارشادات نبوی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دینِ اسلام کی کامل اطاعت اور اسلام اور ایمان کے مختلف مدارج اور کیفیات کے باوجود عام مفہوم کے مطابق مسلمان کہلانا اور اسلام کی حقیقی روح کے مطابق اسلام کے تقاضوں پر پورا اتر نا دومختلف کیفیات ہیں اور اس بات کو قرآن حکیم نے یکجائی طور پر سورۃ حجرات کی آیت نمبر 15 میں ایمان اور اسلام کے ناموں سے موسوم کیا ہے امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں کہ :.شریعت میں اسلام دو طرح کا ہوتا ہے.ایک دُون الایمان جس سے مراد زبانی اقرار ہے اور اس اقرار سے جانی تحفظ حاصل ہو جاتا 297

Page 304

ہے.خواہ اس اقرار کے ساتھ اعتقاد موجود ہو یا نہ ہوا اور قرآن حکیم کی آیت قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلَكِنْ قُوْلُوْا اَسْلَمْنَا ، کا یہی مقصود ہے.دوسرا اسلام وہ ہوتا ہے جو فوق الایمان ہے اور وہ اقرار کے علاوہ دلی اعتقاد عملی وفا اور خدا تعالیٰ کی تمام قضاء وقدر کے سامنے مکمل تسلیم و رضا کا نام ہے.جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں ان کے اس قول میں مذکور ہے.اذقــال لــه ربــه اسـلـم قـال اسلمت لرب العالمین.اسی بات کو حضرت شاہ ولی اللہ حجتہ البالغہ میں بیان فرماتے ہیں کہ:.اصل ایمان میں سے یہ ہے کہ جو شخص لَا إِلهَ إِلَّا اللہ کہہ دے تو اس کے ساتھ کسی قسم کی لڑائی نہ کر.ہم اس کو کسی گناہ کی وجہ سے کا فرقرار نہیں دیں گے اور نہ اُسے اسلام سے خارج کریں گے.(حجة الله البالغه مترجم جز اول صفحه 223) یہ بات اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے جب ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر غور کرتے ہیں کہ الاسلام عشرة اسهم قد خاب من لاسهـم لـه شهـادة ان لاالـه الا الله وهي الملة - (كنز العمال جلد 1 صفحہ 9) یعنی اسلام کے دس حصے ہیں جس شخص کو ایک حصہ بھی نہ ملا وہ تباہ ہو گیا اور پہلا حصہ یہ ہے کہ وہ لَا إِله إِلَّا اللہ کی گواہی دے اور پھر فرمایا.وَهِيَ الْمِلَّة.یہی ملت ہے.یعنی اتنے اقرار سے وہ ملت میں داخل ہو جاتا ہے گویا اس سے بعد کی باتیں ایمان کے مدارج سے تعلق رکھتی ہیں.یہ جو آئے دن مختلف فرقے ایک دوسرے کے بارہ میں کفر کے فتوے صادر کرتے ہیں تو ان کا مفہوم بھی یہی ہوتا ہے کہ جس کو کافر قرار دیا جا رہا ہے اسے ایمان کے 298

Page 305

دائرے سے خارج کیا جا رہا ہے.دائرہ اسلام سے کوئی کسی کو خارج نہیں کرسکتا.جیسا کہ فقہ کہ مشہور کتاب ” معین الحکام ، صفحہ 202 میں لکھا ہے کہ کلمہ کے انکار کے علاوہ کوئی چیز کسی کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کرتی.جماعت احمدیہ نے بھی جب کافر کا لفظ استعمال کیا تو وہ دون الایمان کفر کے معنوں میں استعمال کیا.جیسا کہ حضرت مرزا صاحب نے لیکچر لدھیانہ کے صفحہ 47 پر فرمایا:.نہیں اس وقت مسلمان اسلمنا میں تو بیشک داخل ہیں مگر امنا کی ذیل میں جماعت احمد یہ کلمہ گو ہے اور خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور دیگر تمام ضروریات دین پر کامل ایمان رکھتی ہے جہاں تک تاریخی واقعہ کا تعلق ہے جماعت احمد یہ خود کسی کلمہ گوگو کا فرنہیں ٹھہراتی جیسا کہ مرزا صاحب نے حقیقت الوحی کے صفحہ 120 پر لکھا:.کیا کوئی مولوی یا کوئی اور مخالف یا کوئی سجادہ نشین یہ ثبوت دے سکتا ہے کہ پہلے ہم نے ان لوگوں کو کا فر ٹھہرایا تھا اگر کوئی ایسا کاغذ یا اشتہار یا رسالہ ہماری طرف سے ان لوگوں کے فتویٰ کفر سے پہلے شائع ہوا ہے جس میں ہم نے مخالف مسلمانوں کو کا فرٹھہرایا ہو تو وہ پیش کریں.ورنہ خود سوچ لیں کہ یہ کس قدر خیانت ہے کہ کافر تو ٹھہر اومیں آپ اور پھر ہم پر یہ الزام لگاویں کہ گویا ہم نے تمام مسلمانوں کو کا فرٹھہرایا ہے“.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے:.ايـمـارجـل مسـلـم كفر رجلاً مسلماً فان كان كافراً والاكان 299

Page 306

هو الكافر (ابوداؤد كتاب السنه حديث نمبر 1626) کہ جب کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کافر ٹھہرائے تو خود کا فر ہو جاتا ہے.جہاں تک نکاح کا سوال ہے.یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جماعت احمدیہ نے کسی احمدی لڑکی کا کسی غیر احمدی مسلمان سے نکاح کے باطل ہونے کا فتویٰ نہیں دیا.یہ حفظ ما تقدم کے طور پر ایک خالص انتظامی سہولت کا مسئلہ ہے تا کہ بعد میں پیچیدگیاں پیدا نہ ہوں.شادی بیاہ سے پہلے معاشرتی ہم آہنگی اور کفو کی بناء پر ہی رشتے طے کئے جاتے ہیں اور اگر معاشرتی تفاوت اور دیگر ذاتی وجوہ کی بناء پر کوئی رشتہ نہ کیا جائے تو اس سے تکفیر لازم نہیں آتی.شادی بیاہ سے پہلے لوگ خاندانی پیشہ ورانہ، اقتصادی ، مذہبی ، ذہنی اور ثقافتی حالات کو مد نظر رکھتے ہی ہیں اور اسی بناء پر رشتے قبول یا رڈ کیے جاتے ہیں.غرضیکہ یہ کوئی ایسے معاملات نہیں ہیں جو اساس دین ہوں.جہاں تک احمدیوں کے اُمت مسلمہ کے تناظر میں قول وفعل کا تعلق ہے تاریخ میں جماعت احمدیہ کی ملتی خدمات سنہری حروف میں لکھی جانے کے قابل ہیں.جماعت احمد یہ نے ہمیشہ ہی مسلم ملتی مفاد کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ رکھا.کوئی ایک موقعہ بھی ایسا نہیں جب جماعت احمدیہ نے مسلمانوں کے ساتھ ملتی یگانگت کا ثبوت نہ دیا ہو.وہ مسلم لیگ کی تحریک ہو یا کشمیری مسلمانوں کے بہبود کا سوال شدھی کی تحریک ہو یا آریوں اور عیسائیوں کے خلاف جہاد کا مسئلہ فلسطین کا قضیہ ہو یا کشمیر کا جھگڑا، ہر دور میں ہر موڑ پر جماعت احمد یہ ملت اسلامیہ کے ساتھ ہمیشہ بنیان مرصوص بن کر کھڑی ہوئی.عدالت نے اپنے فیصلہ کے صفحات نمبر 95 سے نمبر 100 تک یہ اعتراض بھی کیا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے دیگر انبیاء سے برابری یا ان میں سے بعض سے افضلیت کا دعویٰ کیا ہے.عدالت کے فیصلہ کا یہ حصہ بھی عدم واقفیت اور مذہبی علوم سے لاعلمی کا نتیجہ ہے.300

Page 307

قطع نظر اس کے کہ یہ امر مقدمہ کے بنیادی مباحث سے غیر متعلق تھا اس معاملے پر کوئی رائے زنی کرنے سے پہلے اُمت مسلمہ میں ظاہر ہونے والے امام مہدی اور مسیح کے مقام کا تعین قرآن و حدیث کی روشنی میں ضروری تھا.کیونکہ مرزا صاحب کے مخالفین کو اس بات کا تو یقیناً اختیار ہے کہ وہ مرزا صاحب کو دعویٰ میں سچا نہ جانیں اور ان کو امام مہدی یا مسیح تسلیم نہ کریں مگر امام مہدی یا مسیح جب بھی وہ ظاہر ہوں تو ان کا مقام قرآن وحدیث سے ہی متعین کیا جائے گا اور جب ہم اس خیال سے اسلامی لٹریچر پر نظر دوڑاتے ہیں تو حضرت امام جعفر صادق کا یہ ارشاد ملتا ہے کہ امام مہدی آ کر کہے گا.” يا معشر الخلائق الاومن ارادان ينظر الى ابراهيم واسماعيل فها انا ذا ابراهيم واسماعيل ومن اراد ان ينظر الى موسى ويوشع فها انا ذا موسى ويوشع الاومن ارادان ينظر الى عيسى وشمعون فها انا ذا عيسى وشمعون الاومن ارادان ينظر الى محمد وامير المومنين صلوات الله عليه فها انا ذا محمد صلى الله عليه واله وسلم وامير المومنين الأومن ارادان ينظر الى الحسن والحسين فها انا ذا الحسن والحسين ومن ارادان ينظر الى الائمة من ولد الحسين فها انا ذا الائمة (بحار الانوار جلد13صفحه 202) اے تمام لوگو! سن لو جو ابراہیم اور اسماعیل کو دیکھنا چاہے تو یا درکھے کہ وہ ابراہیم اور اسمعیل میں ہوں اور جو موسیٰ اور یوشع کو دیکھنا چاہے تو وہ موسیٰ اور یوشع میں ہوں اور جو عیسی اور شمعون کو دیکھنا چاہے تو وہ عیسٰی اور شمعون میں ہوں اور جو محمد اور امیر المومنین کو دیکھنا چاہے تو وہ محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیر المومنین میں ہوں اور جوحسن اور حسین کو دیکھنا چاہے تو وہ حسن اور حسین میں ہوں اور جو نسل حسین میں ہونے والے ائمہ کو دیکھنا چاہے تو وہ ائمہ میں 301

Page 308

ہوں.اسی طرح شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ آنے والا ہو بہو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس کامل (True Copy) ہوگا چنا نچہ فرماتے ہیں :.حق له ان ينعكس فيه انوار سيد المرسلين صلى الله عليه وسلم يزعم العامة انه اذانزل فى الارض كان واحد من الامة كلابل هو شرح للاسم الجامع المحمدى ونسخة منتسخة منه وشتان بينه وبين احد من الامة“ (الخير الكثير مترجم صفحه 236 و 237) یعنی مسیح موعود اس بات کا حقدار ہے کہ اس میں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار منعکس ہوں عام لوگ یہ خیال کرتے ہی کہ جب مسیح موعود نازل ہو گا تو محض امتی فرد ہوگا ایسا ہر گز نہیں بلکہ وہ اسم جامع محمدی کی شرح اور آپ کی دوسری کا پی ہوگا پس کہاں وہ اور کہاں محض ایک امتی.امام عبدالرزاق قاشانی لکھتے ہیں:.المهديّ الذي يجي في اخر الزمان فانه يكون في احكام الشـريـعـة تـابـعـاً لـمـحـمـد صلى الله عليه وسلم وفي المعارف والعلوم والحقيقة تكون جميع الانبياء والاولياء تابعين له كلهم ولا يناقض ماذكرناه لان باطنه باطن محمد (صلى الله عليه وسلم عليه السلام - شرح القاشانى على فصوص الحكم صفحه35) یعنی مہدی آخر الزمان شرعی احکام میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع ہوگا.لیکن معارف علوم اور حقیقت میں تمام انبیاء اور اولیاء اس کے تابع ہوں گے کیونکہ اس کا باطن محمد علیہ السلام کا باطن ہوگا.حضرت شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں:.تارة اخرى بان تشتبك بحقيقة رجل من آله او المتوسلين 302

Page 309

اليه كما وقع بنينا صلى الله عليه وسلم بالنسبة الى ظهور المهدى“.تفهيمات الهيه جلد ثانی صفحه 198 تفهیم نمبر 227) یعنی بروز حقیقی کی ایک قسم یہ ہے کہ کبھی ایک شخص کی حقیقت میں اس کی آل یا اس کے متوسلین داخل ہو جاتے ہیں جیسا کہ ہمارے نبی صلعم کے مہدی سے تعلق میں اس طرح کی بروزی حقیقت وقوع پذیر ہوگی.اسی طرح حج الکرامہ میں نواب صدیق حسن خان صاحب نے ابن سیرین کا قول یوں نقل کیا ہے.قال ابن ابي شيبة في باب المهدى عن محمد بن سيرين قال يكون هذا الامة خليفة خير من ابي بكر وعمر قيل خير منهما قال قد كاد يفضل على بعض الانبياء وفي لفظ لا يفضل عليه ابوبکر و عمر سیوطی گفته هذا اسناد صحیح“.(حجج الكرامة صفحه 386) ابن ابی شیبہ باب المہدی میں محمد بن سیرین کی یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا اس امت میں ایک ایسا خلیفہ ہوگا جو ابو بکر اور عمر سے بھی بہتر ہوگا ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ان دونوں سے بہتر ہوگا انہوں نے جواب دیا کہ ہاں قریب ہے وہ بعض انبیاء سے بھی افضل ہو اور ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں اس خلیفہ سے ابو بکر اور عمر افضل نہیں ہوں گے.امام سیوطی نے اس قول کی سند کو صحیح قرار دیا ہے.غرضیکہ آنے والے کے مقام اور مرتبے کے بارہ میں امت مسلمہ کا عقیدہ جو بھی ہے وہی جماعت احمدیہ کا حضرت مرزا صاحب کے بارے میں ہے.لہذا جو لوگ مرزا صاحب 303

Page 310

کے دعوی کو تسلیم نہیں کرتے ان کو یہ اختیار تو ہے کہ وہ اس دعوی کو تسلیم نہ کریں مگر اس بات کا کوئی مجاز نہیں کہ قرآن وحدیث اور ائمہ سلف نے جو مقام آنے والے کا متعین کیا ہے اس کو نظر انداز کر دے.جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے کہ مرزا صاحب نے حضرت مسیح سے افضلیت کا دعویٰ کیا ہے تو وہ بھی دراصل اپنی فضیلت نہیں بلکہ سلسلہ محمدیہ کی سلسلۂ موسویہ پر فضیلت کا ذکر ہے.کیونکہ مرزا صاحب حقیقت الوحی صفحہ 150 پر لکھتے ہیں:.مسیح ابن مریم آخری خلیفہ موسیٰ علیہ السلام کا ہے اور میں آخری خلیفہ اس نبی کا ہوں جو خیر الرسل ہے اس لئے خدا نے چاہا کہ مجھے اس سے کم نہ رکھے میں خوب جانتا ہوں کہ یہ الفاظ میرے ان لوگوں کو گوارا نہ ہوں گے جن کے دلوں میں حضرت مسیح کی محبت پرستش تک پہنچ گئی مگر میں ان کی پرواہ نہیں کرتا.میں کیا کروں کس طرح خدا کے حکم کو چھوڑ سکتا ہوں“.غرضیکہ مسیح علیہ السلام پر مرزا صاحب کی فضلیت کے دعوی کا سوال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کی روشنی میں ہی سمجھا جا سکتا ہے اور یہ ضروری ہے کہ قرآنی تعلیمات اور حضور کے ارشادات کے پیش نظر حضرت مسیح علیہ السلام اور آنے والے مسیح موعود کے حقیقی مقام کو ذہن میں متحضر رکھا جائے.عیسائی دنیا نے حضرت مسیح علیہ السلام کو الوہیت کے رنگ میں پیش کر رکھا ہے.اور ان کی خدائی کے چرچے کئے جا رہے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو کم دکھانے بلکہ توہین کے ارتکاب میں عیسائی دنیا دن رات کوشان ہے.اللہ تعالیٰ کی غیرت نے یہ صورت حال برداشت نہ کی اور مسیح کی خدائی کو باطل کرنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو ظاہر کرنے کے لئے ایک ایسے شخص کو مسیح پر فضیلت بخش دی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا چاکر اور غلام ہے.چنانچہ مرزا صاحب حقیقت 304

Page 311

الوحی صفحہ 150 پر لکھتے ہیں:.دوسری بات یہ کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام مختص الز ماں اور مختص القوم تعلیم اور مشن لے کر آئے تھے جس کا تعلق توریت اور بنی اسرائیل سے تھا.مگر مرزا صاحب قرآن جیسی اکمل کتاب اور آنحضرت صلی علیہ وسلم جیسے عظیم المرتبت رسول کے تابع اور اسلام کے عالمگیر مشن کی خدمت کے ساتھ بھیجے گئے ہیں.جس کا نتیجہ یہ ٹھہرتا ہے کہ آپ کے دائرہ اصلاح میں دنیا کی ساری اقوام ہیں اور قرآن کریم کے جامع اور دائی شریعت کے تقاضے توریت اور انجیل کی نسبت کہیں زیادہ اور بلند وبالا ہیں.لہذا اس بناء پر آپ اپنی فضیلت مسیح ناصری علیہ السلام پر بیان کرتے ہیں.چنانچہ آپ فرماتے ہیں:.اس جگہ یہ بھی یادر ہے کہ جب کہ مجھ کو تمام دنیا کی اصلاح کے لئے ایک خدمت سپرد کی گئی ہے.اس وجہ سے کہ ہما را آقا اور مخدوم تمام دنیا کے لئے آیا تھا.تو اس عظیم الشان خدمت کے لحاظ سے مجھے وہ طاقتیں اور قو تیں بھی دی گئی ہیں جو اس بوجھ کے اٹھانے کے لئے ضروری تھیں اور وہ معارف اور نشان بھی دیئے گئے ہیں جن کا دیا جانا اتمام حجت کے لئے مناسب وقت تھا.مگر ضروری نہ تھا کہ حضرت عیسی کو وہ معارف اور نشان دیئے جاتے.کیونکہ اُس وقت اُن کی ضرورت نہ تھی اس لئے حضرت عیسی کی سرشت کو وہ قوتیں اور طاقتیں دی گئیں جو یہودیوں کے ایک تھوڑے سے فرقے کی اصلاح کے لئے ضروری تھیں اور ہم قرآن شریف کے وارث ہیں جس کی تعلیم جامع تمام کمالات ہے اور تمام دنیا کے لئے ہے.مگر حضرت عیسی صرف توریت کے وارث تھے جس کی تعلیم ناقص اور مختص القوم ہے.اسی وجہ سے انجیل میں ان کو وہ باتیں تاکید کے ساتھ بیان کرنی پڑیں جو توریت میں مخفی اور مستور تھیں لیکن قرآن شریف سے ہم کوئی امر زیادہ بیان نہیں کر 305

Page 312

سکتے کیونکہ اس کی تعلیم اتم اور اکمل ہے اور وہ توریت کی طرح کسی انجیل کا محتاج نہیں.(روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 155.حقیقۃ الوحی صفحہ 151) لیکن اس دعوئی فضلیت کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عالی منصب سے مرزا صاحب انکاری نہیں ہیں جیسا کہ آپ فرماتے ہیں:.اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت با ہم نہایت ہی متشابہ واقع ہوئی ہے گویا ایک ہی جو ہر کے دوٹکڑے یا ایک ہی درخت کے دو پھل ہیں اور بحری اتحاد ہے کہ نظر کشفی میں نہایت ہی بار یک امتیاز ہے.(روحانی خزائن جلد اوّل صفحه 593 براهين احمدیه حصه چهارم صفحه 499 حاشیه در حاشیه) نیز فرمایا:.موسیٰ کے سلسلے میں ابن مریم مسیح موعود تھا اور محمدی سلسلہ میں میں مسیح موعود ہوں سو میں اس کی عزت کرتا ہوں جس کا ہم نام ہوں اور مفسد اور مفتری ہے وہ شخص جو مجھے کہتا ہے کہ میں مسیح ابن مریم کی عزت نہیں کرتا“.پھر فرماتے ہیں:.(روحانی خزائن جلد 19 صفحه 187 کشتی نوح صفحه 16) ” ہم اس بات کے لئے بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا سچا اور پاک اور راستباز نبی مانتیں اور ان کی نبوت پر ایمان لاویں سو ہماری کسی کتاب میں کوئی ایسا لفظ بھی نہیں ہے جو ان کی شان بزرگ کے خلاف ہو“.(روحانی خزائن جلد14 صفحہ 28.ایام الصلح سرورق نمبر2 ) الغرض یہ اشکال بھی اس لئے پیدا ہوا کہ مسیح موعود اور امام مہدی کے عقیدہ کے بارے میں قرآن وحدیث اور اسلامی لٹریچر اور مرزا صاحب کی تحریرات عدالت کے پیش نظر نہ تھیں اور سائلان کو اس امر کا موقعہ فراہم نہ کیا گیا کہ وہ ایک جامع تصویر عدالت کے سامنے 306

Page 313

پیش کرتے.محض مخالفین کی تحریرات سے ادھورے اور نامکمل اقتباسات کی بنیاد پر غلط استدلال قائم کیا گیا اور ناروا نتائج اخذ کئے گئے لہذا یہ حصہ بھی حذف کئے جانے کے لائق ہے.(8) عدالت نے فیصلہ کے صفحہ نمبر 91,92 اور صفحات نمبر 146 تا نمبر 149 پر اس امر کا ذکر کیا ہے کہ مرزا صاحب نے جہاد کو منسوخ قرار دے دیا تھا.جیسا کہ اصولی طور پر یہ بات بیان کی جا چکی ہے اس امر کا بھی مقدمہ کے فیصلہ سے کوئی دور کا تعلق بھی نہ تھا.اور عدالت نے محض اپنے تعصب کی بناء پر جماعت احمدیہ کے خلاف فضاء کو مسموم کرنے کے لئے یکطرفہ طور پر معاندین احمدیت کے ایسے حوالہ جات پر انحصار کیا جو مرزا صاحب کی تحریرات سے قطع و برید کر کے غلط نتائج اخذ کر کے تیار کئے گئے تھے.جہاد کے بارے میں وکیل سرکار نے جو بحث اٹھائی تھی اور جو استدلال کیا تھا اس کے جواب میں سائلان کی نہایت جامع و مانع مدلل بحث کا ایک مختصر خلاصہ، خلاصہ بحث کے صفحات نمبر 110 سے 114 میں پیش کیا گیا.جس میں سائلان کی طرف سے یہ بات بڑی وضاحت کے ساتھ عدالت میں پیش کر دی گئی تھی کہ مرزا صاحب نے ہرگز ہرگز جہاد کو منسوخ قرار نہیں دیا.صفحہ نمبر 92 میں عدالت کا یہ کہنا کہ:.وو مرزا صاحب نے قرآنی نصوص پر مبنی جہاد کو منسوخ کرنے کا حق بطور نبی کے استعمال کیا“.سراسر غلط اور خلاف واقعہ ہے.مرزا صاحب اور جماعت احمدیہ قرآن شریف کی کسی آیت بلکہ کسی آیت کے کسی حصہ کو بھی کسی مفہوم میں منسوخ نہیں مانتے بلکہ مرزا صاحب نے 307

Page 314

سب سے پہلے نسخ فی القرآن کے عقیدہ کو رڈ کیا جب کہ ان سے پہلے لوگ کبھی پانچ سو بھی ہیں اور کبھی پانچ آیات کو منسوخ قرار دیتے رہے.جماعت احمدیہ کسی ایک آیت کو بھی منسوخ نہیں مانتی.ایسے شخص کے بارے میں یہ کہنا کہ اُس نے نصوص قرآن پر مبنی جہاد کو منسوخ کر د یا سراسر غلط اور بے بنیاد ہے.عدالت نے جہاد کے موضوع پر بھی یکطرفہ طور پر قلم اُٹھایا ہے اور وہ امور جن پر استدلال کیا گیا ہے وہ عدالت کے زیر بحث نہ لائے گئے اور نہ ہی عدالت نے سائلان کی بحث کو سمجھا اور نہ ہی جہاد کے بارے میں قرآن حکیم کی پُر حکمت تعلیم پر غور کیا.آج جب کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک آزاد ملک عطا کیا ہے اور انگریز کی حکومت یہاں ختم ہو چکی ہے اس زمانہ کے ماحول اور پس منظر کو نظر انداز کر کے اعتراضات کی ایک بنیاد اُٹھانا اور بات ہے اور تاریخ پر نظر رکھتے ہوئے اس دور کے حالات اور ماحول کو سمجھنا اور بات ہے جب تک انگریز کی حکومت یہاں قائم تھی جماعت احمدیہ کے وہی معاندین جن کی تحریروں کی بنیاد پر عدالت نے حضرت مرزا صاحب کے خلاف منسوخی جہاد کے الزام کو اپنے فیصلہ میں جگہ دینے کو روا سمجھا ہے وہی حکومت برطانیہ کے پاس یہ نالش لے لے کر جاتے تھے کہ مرزا صاحب مہدی ہونے کے دعویدار ہیں اس لئے مہدی سوڈانی کی طرح حکومت کے لئے خطرہ ہیں اور حکومت کے خلاف جہاد کے قائل ہیں اور آج وہی علماء ان پر منسوخی جہاد کا الزام عائد کرتے ہیں.جہاں تک برطانوی حکومت ہند سے ہندوستان میں جنگ نہ کرنے اور ہندوستان کے دار الحرب یا دار السلام ہونے کا سوال تھا وہ سوال مرزا صاحب کے دعویٰ سے بہت پہلے ہندوستان کے علماء اور مجتہدین طے کر چکے تھے اور اس بارہ میں جو دلائل اور حوالہ جات سائلان کی طرف سے پیش کئے گئے عدالت ان کو ر ڈ نہیں کرسکی اور ان کا سرسری ذکر کر کے اپنے پہلے سے طے شدہ نتائج پر پہنچ گئی ہے.ہر چند کہ یہ معاملہ بھی مقدمہ کے تصفیہ کے لئے 308

Page 315

ضروری نہیں تھا.لیکن چونکہ عدالت نے فیصلے میں ان امور کو شامل کر کے سائلان کے خلاف مواد مہیا کیا ہے اس لئے یہ حصہ بھی حذف کئے جانے کے لائق ہے.اگر عدالت سائلان کو موقعہ ہم پہنچاتی تو سائلان قرآن حکیم کی تعلیم عدالت کے سامنے پیش کرتے اور یہ بات واضح ہو جاتی کہ قرآن شریف کی رو سے جہاد کی تین اقسام ہیں:.اول : جہاد کبیر یعنی تبلیغ _ فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِيْنَ وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَاداً كَبِيراً (فرقان : 53) اے نبی کفار کے ساتھ قرآن کریم کے دلائل کے ذریعہ جہاد کر یعنی انہیں تبلیغ کر.یہ جہاد ہر مسلمان پر ہر وقت فرض ہے.دوم: جہادا کبر.یعنی تربیت نفس.چنانچہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک سے واپس تشریف لائے تو آپ نے فرمایا:.رَجَعْنَا مِنَ الْجِهَادِ الْأَصْغَرِ إِلَى الْجِهَادِ الْاكْبَرِ (ردالمختار کتاب الجهاد صفحه 120 جلد نمبر 4 از محمد امین کہ ہم جہادِ اصغر یعنی جنگ سے واپس ہو کر جہادا کبر یعنی اپنی تربیت اور اصلاح نفس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں.سوم : جہاد اصغر یعنی جنگ.مذکورہ بالا حدیث سے دشمن کے ساتھ جنگ کا جہاد اصغر ہونا ثابت ہوتا ہے.جہاد بالسیف کے لئے اسلام نے کچھ شرائط مقرر کی ہیں.جب وہ شرائط موجود ہوں گی تو جہاد بالسیف فرض ہو جائے گا اور جب وہ شرائط مفقود ہوں گی تو جہاد بالسیف جائز نہ ہوگا.جس طرح سے اسلامی عبادت سے دوسرے احکام، اوقات اور دیگر شرائط کی پابندی سے ادا کئے جاتے ہیں جہاد اور قتال کی بھی مختلف اور معین شرائط ہیں جن کے بغیر جہاد فرض نہیں ہوتا فرض نماز اپنے وقت پر ادا ہوتی ہے اور جو وقت پر ادا نہ ہو وہ قضا ہو جاتی ہے لیکن 309

Page 316

نوافل کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں.ایسے اوقات بھی ہیں جن میں نماز پڑھنا ممنوع ہے.لہذا نماز کا حکم بھی وضو ، طہارت ، وقت اور دیگر شرائط کی پابندی کے ساتھ ہے.روزہ ماہِ رمضان میں فرض ہے.دیگر ایام میں رکھا بھی جائے تو نفل ہے.روزے کی شرائط میں بھی سحری اور افطاری کے اوقات کی پابندی لازمی ہے.زکوۃ اپنی شرائط کے ساتھ فرض ہے.ان شرائط کے بغیر نہیں.حج کو دیکھئے وہی ارکان اور مناسک حج ایام حج کے علاوہ ادا کئے جائیں تو وہ عمرہ ہوتے ہیں اور اُن سے حج کا فرض ادا نہیں ہوتا.حج کی بھی شرائط ہیں جن کے بغیر حج فرض نہیں ہوتا.یہی کیفیت جہاد کی بھی ہے.جماعت احمد یہ اس بات کی قائل ہے کہ جہاد خواہ وہ تبلیغ کی صورت میں ہو یا تربیت نفس یا قتال کی صورت میں کسی نہ کسی رنگ میں ہر وقت فرض رہتا ہے اور جماعت احمدیہ نے ہمیشہ اس فرض کو فرض جانا اور پورا کیا.تیسری قسم کا جہاد جسے جہادِ اصغر یا قتال کہا گیا اس کی شرائط برطانوی ہند میں موجود نہ تھیں اور یہ بات جماعت احمد یہ یا مرزا صاحب کے قول پر موقوف نہیں.جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے مرزا صاحب کے دعوے سے پہلے یہ بات طے ہو چکی تھی اور ہندوستان کے ہر طبقہ فکر کے علماء مجتہدین حتی کہ مکہ اور مدینہ کے علماء ہندوستان کے دارالسلام ہونے کا فتویٰ دے چکے تھے اور اس بات کو عدالت نے بھی فیصلہ کے صفحہ 148 پر تسلیم کیا ہے.عدالت کا یہ کہنا غلط ہے کہ جہاد کی عدم فرضیت کے بارے میں اکا دُکا علماء کے فتوے تھے.امر 664 واقعہ یہ ہے کہ حضرت سید احمد بریلوی ، مولانا محمد اسماعیل شہید ، نواب صدیق حسن خان، مولا نا محمد حسین بٹالوی، شیعہ مجتہد السید علی الحائری، شیخ الہند علامہ نذیرحسین دہلوی ، مولانا احمد رضا خان بریلوی مولوی عبدالحی لکھنوی، علامہ شبلی نعمانی اور فقیہان مکہ میں سے جمال الدین بن عبداللہ حسین ابن ابراہیم مالکی مفتی مکه، احمد بن زینی شافعی مفتی مکہ شمس العلماء مولوی 310

Page 317

نذیر احمد ، سرسید احمد خاں، مولانا ظفر علی خان صاحب غرضیکہ عالم اسلام کے ہر طبقہ فکر کے علاوہ مجہتدین اور رائے عامہ کے لیڈ ر اس بارے میں یک زبان تھے کہ ہندوستان دار السلام ہے اور اس میں جہاد فرض نہیں.یہ کسی اکا دُکا فتوے کا معاملہ نہ تھا اور جن بزرگوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ کسی مسجد کے عام ملاں نہ تھے.اُن کا قد وقامت عالم اسلام میں بہت بلند تھا.جوفتو کی انہوں نے دیا اور جن حالات میں دیا ان کا یکجائی طور پر مطالعہ کیا جائے تو صورت یہی ابھرتی ہے کہ اُن کے نزدیک ہندوستان میں جہاد اس لئے فرض نہ تھا کہ انگریزی حکومت مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی نہ کرتی تھی.اور ہندوستان کے ہر طبقے کو اپنے مذہب پر عمل کی پوری آزادی حاصل تھی اور یہ بات غلط بھی نہ تھی.حضرت مرزا صاحب نے جہاد کے بارے میں جو کچھ لکھا وہ صرف یہ تھا کہ جہاد کی شرائط ان کے زمانہ میں سرزمین ہند میں مفقود تھیں.اس لئے یہی فتویٰ دیا کہ اس وقت جہاد جائز نہیں.چنانچہ آپ نے لکھا.ان وجوه الجهاد معدومة فى هذا الزمن وهذه البلاد کہ اس زمانے میں اس ملک میں جہاد کے اسباب موجود نہیں.(روحانی خزائن جلد 17 صفحه 82- ضمیمه تحفه گولڑویه صفحه30) اور اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:.اس زمانہ میں جہاد روحانی صورت سے رنگ پکڑ گیا ہے اور اس زمانے کا جہاد یہی ہے کہ اعلائے کلمہ اسلام میں کوشش کریں.مخالفوں کے الزامات کا جواب دیں.دین اسلام کی خوبیاں دنیا میں پھیلائیں.یہی جہاد ہے جب تک کہ خدا کوئی دوسری صورت دنیا میں نہ ظاہر کر دے.جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں جہاد تین پہلوؤں سے فرض ہے.جہاں مرزا صاحب نے انگریزوں کے خلاف قتال کو ناجائز قرار دیا وہاں مذہبی سطح پر ایک بھر پور جہاد مرزا صاحب نے 311

Page 318

عیسائیت کے خلاف جاری رکھا.اور مرزا صاحب کی وفات پر تبصرہ نگاروں نے اس بناء پر انہیں ( اسلام کا فتح نصیب جرنیل ) قرارد یا اور یہ تسلیم کیا کہ مرزا صاحب کا لٹریچر جو سیحیوں اور آریوں کے مقابل پر اُن سے ظہور میں آیا ہے قبول عام کی سند حاصل کر چکا ہے، اور یہ بھی تسلیم کیا کہ اس مدافعت نے صرف عیسائی مذہب کے اس ابتدائی اثر کے پر خچے اڑا دیئے جو سلطنت کے زیر سایہ ہونے کی وجہ سے حقیقت میں اس کی جان تھا.بلکہ خود عیسائیت کا طلسم دھواں ہو کر اڑنے لگا“.اور جہاں تک تبلیغ کے جہاد کا تعلق ہے جماعت احمدیہ کے معاند مفکر احرار چوہدری افضل حق کو بھی مرزا صاحب کے بارے میں تسلیم کرنا پڑا کہ :.ایک دل مسلمانوں کی غفلت سے مضطرب ہو کر اٹھا اور ایک مختصرسی جماعت اپنے گرد جمع کر کے اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے بڑھا اور اپنی جماعت میں وہ اشاعتی تڑپ پیدا کر گیا جو نہ صرف مسلمانوں کے فرقوں کے لئے قابل تقلید ہے بلکہ دنیا کے تمام اشاعتی فرقوں کے لئے نمونہ ہے.جہاد کے بارے میں مرزا صاحب نے جو کچھ لکھا وہ قرآن وسنت کے عین مطابق تھا اور جہاں تک جہاد کی فرضیت کا سوال ہے مرزا صاحب کے مسلک میں کسی کلام کی گنجائش نہیں اور اگر عدالت اس مسئلے کو تفصیلی طور پر زیر بحث لاتی تو قرآن حکیم کی آیات اور اسوۂ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات واضح کی جاتی کہ جہاد کی شرائط کیا ہیں اور کب بصورت قتال جہاد فرض ہوتا ہے.بہر صورت یہ سوال بھی مسئلہ زیر غور سے غیر متعلق تھا.اور فیصلے کا یہ حصہ یعنی صفحہ نمبر 192191 اور نمبر 110 سے 114 تک فیصلے میں سے حذف کئے جانے کے لائق ہیں.عدالت نے اپنے فیصلے میں اس امر پر بھی طعن کیا کہ حضرت مرزا صاحب نے حکومت برطانیہ کی اپنی تحریرات میں تعریف کی ہے.فیصلے کا یہ حصہ بھی معاملہ زیر غور سے غیر متعلق تھا.مگر مرزا صاحب کی تحریرات کا اُس دور کے حالات کی روشنی میں جائزہ لیا جانا ضروری ہے کہ جب سکھوں 312

Page 319

کی ظالمانہ حکومت سے نجات پانے کے بعد مسلمان انگریزوں کی عملداری میں مذہبی آزادی اور سکھ کا سانس لے رہے تھے محض یہ بات کہ مرزا صاحب نے ایک غیر مسلم حکومت کی تعریف کی محل اعتراض نہیں ٹھہر سکتی.کیونکہ انصاف پسند حکومتوں کی تعریف سنت انبیاء میں سے ہے خود ہمارے آ قا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صحابہ کو حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا تو یہی فرمایا کہ وہاں ایک ایسا بادشاہ ہے جس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا.صحابہ حبشہ تشریف لے گئے.وہاں کی عیسائی حکومت میں رہے اس کی اطاعت کرتے رہے.اس کے خلاف کوئی بغاوت نہ کی.بلکہ جب ملک میں بغاوت ہوئی تو صحابہ شاہ حبشہ کی فتح کے لئے رو رو کر دعائیں کرتے رہے.پس انگریزی سلطنت کی انصاف پسندی کی تعریف شریعت کے مطابق تھی اور عین واجب تھی.مگر اسی سلطنت کے عدل گستری کی تعریف کے ساتھ مرزا صاحب اس کے مذہبی اعتقادات کے لئے ساری عمر ایک تیغ برہنہ رہے اور رسول خدا کے مقابلے میں عیسائی پادریوں کی ایسی سرکوبی کی کہ جو اپنی مثال آپ ہے.مرزا صاحب کی ان تحریرات کو اپنے سیاق و سباق سے کاٹ کر ان سے خود تراشیدہ مفہوم اور نتائج اخذ کرنا عدالت کا منصب نہ تھا.لہذا یہ حصہ بھی فیصلے سے حذف کئے جانے کے لائق ہے.اس بارے میں سینکڑوں صفحات پر پھیلا ہوا لٹریچر اہل تحقیق کے لئے ہر وقت ایک کھلی دعوت فکر ہے اور ایسا واضح روشن اور صاف ہے کہ جماعت احمدیہ کے معاندین ان واضح حقائق کی تاب نہ لا کر بالآ خر جماعت احمدیہ کی تبلیغ پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہیں.مگر عدالت کے لئے یہ مناسب نہ تھا کہ وہ ایک فریق بن کر دوسرے فریق کے مخالفانہ خیالات کی ترویج و اشاعت کے لئے اپنے فیصلے کا دامن کھول دیتی.عدالت نے اپنے فیصلے میں ایک سے زائد مرتبہ ایک بات کو دہرایا کہ مرزا صاحب کے بعض رشتہ دار ان کے مخالف تھے اور ان کو اپنے دعوئی میں سچا نہ مانتے تھے اور جھوٹا سمجھتے تھے اور 313

Page 320

اس سے یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی کہ کیونکہ وہ مرزا صاحب کو بہتر جانتے تھے ان کی رائے زیادہ وقیع ہے مگر عدالت کا یہ استدلال اور استنباط بھی مذہب کی تاریخ کو پیش نظر نہ رکھنے کی وجہ سے پیدا ہوا جو غلط ہے مذاہب عالم کی تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا ما مورگز را ہو جس کو اس کے اپنے قریبی رشتہ داروں نے جھوٹا سمجھ کر ٹھکرانہ دیا ہو.مگر ہر چند کہ مامورین سب سے پہلے انذر عشیرتک الاقربین کے مصداق اپنے رشتہ داروں کو ہی پیغام حق پہنچاتے ہیں.ان کا انکار کرنے والوں میں بھی ان کے رشتے دار ہی پیش پیش ہوتے ہیں.رشتہ داروں کی موافقت یا مخالفت کسی بھی مدعی ماموریت کی سچائی کو پرکھنے کا کوئی معیار نہیں اور یہ ایک منفی انداز فکر ہے.ورنہ حضرت نوح علیہ السلام کا نافرمان بیٹا بھی اُن کے دعویٰ کا مکذب تھا.اور ابولہب بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں میں سے ہی تھا مگر ہر ذی ہوش آدمی رسول کریم کے بارے میں ابولہب اور ابو جہل کی شہادت کی بجائے ابوبکر کی شہادت کو ہی زیادہ وزن دے گا.عدالت نے ہزاروں صفحات پر پھیلے ہوئے مرزا صاحب کے سوانحی لٹریچر سے یہ بات تو اخذ کر لی کہ مرزا صاحب کے بعض رشتہ دار ان کے دعوئی کے مکذب تھے.مگر اس بات پر غور نہ کیا کہ حکیم نورالدین بھیروی جن کے علم وفضل کی دھوم پورے ہندوستان اور حرمین شریفین تک تھی.اور جن کے علم وفضل کا یہ عالم تھا کہ نواب بہاولپور ان کو بہاولپور میں قیام کے عوض سینکڑوں ایکڑ اراضی دینے کو تیار تھے.انہوں نے مرزا صاحب کے دعوی کوعلی وجہ البصیرت صحیح پایا اور بدل و جان تسلیم کیا.مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری جن کی اسلامی خدمات کا یہ عالم تھا کہ ان کے بارے میں لوگ یہ گمان کرنے لگے تھے کہ شاید وہی صدی کے مجدد ہوں گے.انہوں نے مرزا صاحب کے دعوئی کو سچا سمجھا.صاحبزادہ عبداللطیف شہید کا بل جن کے علم وفضل کا چرچا پورے افغانستان میں تھا اور ہزاروں لوگ آپ کے حلقہ ارادت میں شامل تھے.انہوں نے آپ کو قبول کیا اور اس راہ میں جان تک سے دریغ نہ کیا مولوی عبدالکریم صاحب 314

Page 321

سیالکوٹی اور دیگر ایسے بزرگ جو زہد و تقویٰ اور علم وفضل کے بلند مقام پر تھے.اس قد وقامت کے بزرگ مرزا صاحب کے دعوے کو پرکھ کر آپ پر ایمان لائے عدالت کو نظر آئے تو صرف وہ دو ایک رشتہ دار جو علم و فضل یا تقوی وطہارت کے کسی مقام پر نہ تھے.عدالت کے فیصلے میں اس طرح کے بکھرے ہوئے زہر آلود فقرے عدالت کے متعصبانہ رویے کی نشاندہی کرتے ہیں.جس کی وجہ سے عدالت کا پورا فیصلہ ہی رڈ کیے جانے کے لائق ٹھہرتا ہے.مگر یہ حصے جن کا مقدمہ کے مباحث سے کوئی تعلق نہیں تھا.یقینا حذف کیے جانے کے لائق ہیں.اندریں حالات استدعا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے مفصل فیصلہ کے صفحات 9 سے 152 تک کے مذکورہ بالا حصے فیصلہ سے حذف کئے جانے کا حکم صادر فرما یا جاوے.سائلان مجیب الرحمن..مبشر احمد لطیف مرز انصیر احمد..حافظ مظفر احمد 315

Page 322

Page 323

{9} اپیل کی سماعت برسوں بعد جب سپریم کورٹ کے شریعت اپیل بینچ میں سماعت کیلئے مقدمہ لسٹ میں شامل ہوا تو اس وقت اپیل پہینچ میں مولانا تقی عثمانی اور پیر کرم شاہ آف بھیرہ شامل تھے.یہ دونوں حضرات ordinance کے نفاذ پر اپنی رائے کا اظہار ordinance کے حق میں کر چکے تھے اور اس کو جاری کروانے کا سہرا بھی اپنے سر باندھ چکے تھے.مولانا تقی عثمانی نے تو روزنامہ جنگ میں مضمون لکھا تھا اور پیر کرم شاہ صاحب نے ایک ٹی وی پروگرام میں ordinance کی حمائت کی تھی اور خود اس کو جاری کروانے کا کریڈٹ لے چکے تھے.قانونی نظائر اس بات پر بڑی واضح ہیں کہ بینچ میں ایک حج بھی تعصب رکھتا ہو یا اس کی غیر جانب داری متنازع ہو یا پختہ رائے قائم کر چکنے کے باعث زیر غور معاملہ میں بند ذہن رکھتا ہو تو یہ طے کرنا مشکل ہے کہ وہ فیصلے پر کس حد تک اثر انداز ہوگا.اس لئے ایسے حج کا سماعت سے الگ ہو جانا ہی مناسب ہوتا ہے.چنانچہ ہم نے الگ سے ایک درخواست سپریم کورٹ میں گزاری کہ ہماری اپیل کی سماعت میں ان دو حضرات کو بینچ میں شامل ہونا قرین انصاف نہ ہوگا.جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں تفصیلی فیصلے میں ایسی باتیں درج تھیں جن میں ہماری بحث کو 317

Page 324

درست طور پہ بیان نہیں کیا گیا تھا.چنانچہ ہم نے ایک دوسری درخواست یہ گزاری کہ ریکارڈ شدہ کارروائی کی ٹیپ ہمیں مہیا کی جائے.ہمیں اپیل کی تیاری کے لئے اس کی ضرورت ہے.جب سماعت کے لئے ہماری اپیل پیش ہوئی تو چیف جسٹس صاحب نے مجھ سے استفسار کیا کہ ان دونوں حضرات کے اظہارِ رائے کا میرے پاس کیا ثبوت ہے.میں نے جنگ اخبار کا تراشہ پیش کیا جو تمام جج صاحبان قریباً پڑھ چکے تھے.پیر کرم شاہ صاحب کے TV پروگرام کی نقل تو پیش نہیں کر سکتے تھے.چیف جسٹس صاحب کے کہنے پر ان کے انٹرویو کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھ کر دے دیا.جب وہ حج صاحبان نے پڑھا اور پیر کرم شاہ صاحب کی طرف بڑھایا تو انہوں نے بلا تامل اسے قبول کیا اور کہا کہ ہاں میں نے ایسا اظہار کیا تھا.تقی عثمانی صاحب نے بھی اپنے مضمون کو تسلیم کیا.اس پر چیف جسٹس نے بعض قانونی نظائر کے حوالے سے یہ کہا کہ یہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ہے اس کی حیثیت دوسری عدالتوں سے یوں مختلف ہے کہ مقدمہ کسی دوسری عدالت کو منتقل نہیں کیا جاسکتا.اور سپریم کورٹ کی روائت یہ ہے کہ ہم اپنے برادر جوں سے یہ نہیں کہتے کہ وہ سماعت سے الگ ہو جائیں.وہ اگر خود سماعت سے الگ ہونا چاہیں تو ہو سکتے ہیں انہیں پابند نہیں کیا جاسکتا.اور ہم نے اپنے دونوں ساتھیوں سے پوچھا ہے ان کا کہنا یہ ہے کہ وہ بینچ میں بیٹھنا پسند کریں گے.جس پر میں نے یہ کہا کہ ہم نے تو یہ پڑھا تھا کہ حضرت امام ابوحنیفہ کو جب قضا کا عہدہ پیش کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے گند چھری سے ذبح کر دو مگر عدالت کا منصب مجھے قبول نہیں اور ہمارے محترم جج صاحبان کو عدالت میں بیٹھنے پر اصرار ہے تو میں اس پر کیا کہہ سکتا ہوں.دونوں حضرات نے کہا کہ ہم اپنی رائے سے رجوع کر سکتے ہیں.بہر حال ہماری یہ درخواست نامنظور کر دی گئی.پھر ریکارڈ مہیا کرنے والی درخواست بھی کھڑے کھڑے اس بنیاد پر رد کر دی گئی کہ وہ 318

Page 325

عدالت کا نجی ریکارڈ ہے.چیف جسٹس نے کہا کہ کل کلاں آپ ہماری نوٹ بگوں کی نقل بھی مانگیں گے، تو وہ تو نہیں دی جاسکتی.حالانکہ میں تو اپنی بحث کی ٹیپ مانگ رہا تھا، عدالت کی باہمی مشاورت کی نہیں.اسی طرح ہماری تیسری درخواست یعنی تفصیلی فیصلہ کے غیر متعلقہ حصے حذف کرنے کی درخواست بھی خارج کر دی گئی.جب تینوں درخواستیں خارج کرنے کا حکم سنادیا گیا تو میں نے بڑی سنجیدگی سے کہا کہ جناب میں اپنی اپیل واپس لیتا ہوں.چیف جسٹس حیرت سے چونک اٹھے اور مجھے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ بہت بڑی ذمہ داری اور اہم فیصلہ ہے.آپ کی پوری جماعت کے حقوق کا معاملہ ہے.آپ سوچ لیں ، مشورہ کر لیں وغیرہ.میں نے یہی عرض کیا کہ میں اپنی اپیل واپس لیتا ہوں.میں اپنی دادرسی آئینی دائرہ میں حاصل کرنے کی کوشش کروں گا.تو چیف جسٹس نے کہا بہت اچھا.آپ کی اپیل بوجہ دستبرداری خارج کر دی جائے گی.میں نے عرض کیا: جناب والا میری تین درخواستیں عدالت نے خارج کی ہیں، میں نے واپس نہیں لیں.فیصلہ یوں ہونا چاہئے کہ ” درخواستیں خارج کی گئیں ، اپیل واپس لی گئی.چیف جسٹس نے کہا درست ہے، ایسا ہی ہے.درخواستیں خارج کی گئیں ، اپیل واپس لی گئی ، اور یوں شرعی عدالت میں اپنے قانونی حقوق حاصل کرنے کی ہماری جد و جہد اختتام پذیر ہوئی.چنانچہ ہماری آئین کے تحت دادرسی والا معاملہ ظہیر الدین بنام سرکار“ کے عنوان سے سپریم کورٹ میں زیر غور آیا جس میں 18 پیلوں کا ایک ساتھ فیصلہ کیا گیا جو اسی عنوان سے قانونی نظائر کی کتب میں شائع شدہ ہے.(1718 SCMR 1993) یہ فیصلہ بھی اختلافی فیصلہ تھا جس میں بینچ کے سربراہ جسٹس شفیع الرحمن نے اختلافی فیصلہ رقم فرمایا تھا.اس فیصلہ پر 319

Page 326

ایک تفصیلی تبصرہ میری Emor at the Apex نامی کتاب میں شائع ہو چکا ہے.1974 ء میں آئینی ترمیم کے بعد ڈیرہ غازیخان والی مسجد کے معاملہ پر لاہور ہائی کورٹ نے ایک متفقہ فیصلہ ہمارے حق میں دیا اور یہ قرار دیا کہ اذان، نماز، مسجد، درود، سلام، رکوع و سجود احمدیوں کے بھی شعائر ہیں جن پر گزشتہ ایک سو سال سے عمل کیا جا رہا ہے.لہذا دوسری آئینی ترمیم کے ذریعہ غیر مسلم قرار دئے جانے کے با وجو د احمدیوں کو ان شعائر سے روکا نہیں جا سکتا.یہ فیصلہ جسٹس صمدانی اور جسٹس شیخ آفتاب حسین پر مشتمل بینچ نے صادر کیا.جو 113 PLD 1978LAH کے طور پر شائع ہوا.اس فیصلہ کے خلاف اپیل کرنے کا کسی کو حوصلہ نہ ہوا اور یوں یہ فیصلہ قطعی اور ناطق ہو گیا.اس کا حل یہ نکالا گیا کہ جنرل ضیاء الحق کی مارشل لاء حکومت کے دران آرڈینینس جاری کر کے اس کے ذریعہ وہی شعائر ہمارے لئے ممنوع قرار دئے گئے جو 1978 ء میں ہائی کورٹ کے مذکورہ بالا فیصلہ میں ہماری مذہبی شعائر تسلیم کئے جاچکے تھے.اور یہ آرڈینینس وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا گیا تو وہی شیخ آفتاب حسین وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس تھے.تاریخ اس بات پر گواہ رہے گی کہ آرڈینینس کے آئینی اور شرعی جواز کے بارہ میں ہماری اعلیٰ عدالتوں کا فیصلہ اختلافی ہی رہا.وکلاء اور قانون دانوں کے لئے یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ شریعت کورٹ کے فیصلہ پر بھی چیف جسٹس کا اختلاف ظاہر و باہر تھا مگر ریکارڈ پر نہیں لایا گیا.اور ظہیر الدین والے کیس میں بھی سپریم کورٹ کے سینیئر جج نے باقی جوں سے اختلاف کیا.گویا دونوں صورتوں میں ہی اختلاف موجودرہا.لہذا آئندہ کسی مناسب موقع پر یا کسی دیگر مقدمہ میں، اس معاملہ کو دوبارہ زیر غور لانے کیلئے کافی وجوہ ، قوی دلائل اور گنجائش ہمیشہ موجودرہے گی.ہم مایوس ہرگز نہیں.معاشرے کا جبر اور مصلحتوں کا دباؤ ہمیشہ نہیں رہے گا.آج نہیں تو کل دلیل غالب آئے گی، انشاء اللہ.وَاللهُ الْمُسْتَعَان 320

Page 327

اظہار تشکر الحمدللہ ثم احمد للہ کہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی دی ہوئی توفیق سے یہ کتاب اشاعت کے لیے تیار ہو گئی ہے.اس منزل تک پہنچنے میں مکرم حافظ مظفر احمد صاحب، مکرم نصیر احمد قمر صاحب اور بعض دوسرے احباب کے مسلسل اصرار اور حوصلہ افزائی نے میری ہمت بندھائی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں اس پر مستعد ہو گیا.جملہ احباب میرے دلی شکریہ کے مستحق ہیں اور میں اُن کے اس محبت بھرے اصرار اور حوصلہ افزائی کا احسان مند رہوں گا.عدالت میں سماعت کے دوران پیش کردہ علمی تحقیق اور میری یادداشتوں کو محفوظ کرنے میں راولپنڈی کے ایک دوست مکرم رشید احمد بھٹی صاحب ( حال مقیم امریکہ ) نے گرانقدر خدمت سرانجام دی.اسی طرح ادارہ الفضل کے برادرم یوسف سہیل شوق صاحب ( مرحوم ) اور شعبہ زود نویسی کے برادرم یوسف سلیم صاحب نے عدالتی کارروائی کی جور پورٹ مرتب کی تھی وہ بھی میرے لئے بہت مفید ثابت ہوئی.ابتدائی طور پر اس کتاب کا مسودہ تیار کرنے میں مربی سلسلہ مکرم مولانا عبدالرشید تبسم صاحب ( مرحوم ) نے بھی بڑی محبت کے ساتھ کام شروع کیا تھا جو بوجوہ التواء میں پڑ گیا.میں اپنے ان ابتدائی ساتھیوں کو فراموش نہیں کر سکتا.ان کا ممنون ہوں اور ان کے لئے دعا گو ہوں.کتاب کی ابتدائی کمپوزنگ میں الفضل انٹر نیشنل لندن کے عزیزم تنویر احمد صاحب نے بڑی محنت اور جانفشانی سے بڑے مختصر وقت میں کام کو مکمل کیا.اللہ تعالیٰ انہیں 321

Page 328

جزائے خیر دے.دوسرے مرحلے پر میرے بیٹے عزیزم وقاص ایڈووکیٹ نے بڑے صبر اور حوصلے کے ساتھ نظر ثانی کے کام میں میری مدد کی اور اس کے بعد کے مرحلہ میں ربوہ کے عزیزم مقصود اظہر گوندل صاحب ( خالد کمپوزنگ سنٹر ) نے کمپوزنگ کو آخری شکل دے کر کتاب کو طباعت کیلئے تیار کیا.اس اثناء میں مکرم محمد ارشاد انور مربی سلسلہ، سابق مبلغ تنزانیہ اور مکرم شکیل احمد قمر صاحب مربی سلسلہ نے حوالہ جات کی پڑتال اور تفصیلات مہیا کرنے میں بڑی محنت سے تعاون فرمایا اور میری مدد کی.آخر میں مکرم محمد انور نسیم صاحب اور مکرم منور احمد شاہد صاحب نے پروف ریڈنگ کا اہم کام سرانجام دیا.میں ان سب دوستوں کا اس للہی خدمت کے لیے شکر گزار ہوں.اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان سب کی بے لوث خدمت کو اپنی جناب میں قبول فرمائے اور ان سب کو پیشتر سے بیشتر خدمات کی توفیق عطا فرمائے.آمین وآخر دعوانا ان الحمدلله رب العلمين 322 مجیب الرحمن ایڈووکیٹ

Page 328