Nuzul-eMasih

Nuzul-eMasih

نزولِ مسیح

تقریر برموقعہ جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ ١٩٦٢ء
Author: Other Authors

Language: UR

UR
متفرق کتب

Book Content

Page 1

نزول مسیح تقریر حضرت قاضی محمد نزیر صاحب فاضل بر موقعه جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ ۱۹۶۲ء

Page 2

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ نزول مسیح احباب کرام! میری تقریر کا موضوع نزول مسیح " ہے.یہ مضمون تحریک احمدیت کے نقطۂ نگاہ سے اہم ترین مضمون ہے اور سلسلہ احمدیہ کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ تحریک احمدیت حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کے اس دعوئی پر مبنی ہے کہ آپ امت محمدیہ کے مسیح موعود ہیں اور اس دعوئی کی مئوید وہ پیشگوئی ہے جو احادیث نبویہ میں نزول المسیح کے متعلق صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مروی ہے.جس میں آنحضرت ملی یا یو ایم کے ایک امتی ابن مریم کو امت کا امام قرار دیا گیا ہے گو اجتہادی غلطی سے کئی علمائے سابقین اس پیشگوئی کو حضرت عیسی علیہ السلام کے اصالتا دوبارہ نزول سے متعلق سمجھتے ہوئے یہ لکھتے چلے آئے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام اپنے خاکی جسم کے ساتھ کھانے پینے اور دیگر حوائج بشری کے بغیر غیر متغیر حالت میں آسمان پر زندہ موجود ہیں اور وہی آخری زمانہ میں آسمان سے اتریں گے.حضرت مرزا غلام احمد بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی تحقیق اس بارہ میں یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام از روئے آیات قرآنیہ و احادیث نبویہ تمام دوسرے انبیاء کرام علیهم السلام کی طرح وفات پا چکے ہیں اور حدیث معراج نبوی سے بھی ظاہر ہے کہ رسول الله صلی اللہ نے حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمان پر ان کی خالہ کے بیٹے بیجنی علیہ

Page 3

السلام کے ساتھ بیٹھے دیکھا ہے.حضرت عیسی علیہ السلام کا تیجی علیہ السلام کے ساتھ عالم برزخ میں رہنا اس بات کی روشن دلیل ہے کہ وہ بھی وفات پا کر عالم برزخ میں پہنچ چکے ہیں اور احادیث نبویہ میں نزول ابن مریم کی جو پیشگوئی دارد ہے اس میں ابن مریم کے ل اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ ) صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسی ابن مریم اور فَامَّكُم منكُمْ (مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسی ابن مریم) کے الفاظ کہ وہ ابن مریم تم میں سے تمہارا امام ہو گا زبان مبارک نبوی سے اس بات کی روشن دلیل ہیں کہ یہ ابن مریم امت محمدیہ کا ہی ایک فرد ہے جسے امت محمدیہ کا امت میں سے امام قرار دیا گیا ہے اور اس موعود کو ابن مریم کا نام محض استعارہ کے طور پر دیا گیا ہے جس سے یہ مراد ہے کہ یہ موعود حضرت امسیح عیسی ابن مریم علیہ السلام کے رنگ میں آئے گا اور یہ حضرت عیسی علیہ السلام کا مثیل اور بروز ہو گا.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.أَفَمَنْ كَانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهِ وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِنْهُ وَ مِنْ قَبْلِهِ كِتَابٌ مُوسَى إِمَامًا وَّ رَحْمَةٌ (هود :۱۸) ترجمہ :.کیا جو شخص اپنے رب کی طرف سے کھلی دلیل پر ہے (یعنی آنحضرت ی اور اس کے پیچھے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم الشان گواہ آتا ہے اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب امام اور رحمت ہے (کیا وہ شخص جھوٹا ہو سکتا ہے) اس آیت میں زمانہ حال ماضی اور مستقبل کو علی الترتیب آنحضرت مین کے دعوی کی صداقت پر گواہ ٹھرایا گیا ہے زمانہ حال کی شہادت میں خود قرآن مجید کو بطور بینہ اور دلیل کے پیش کیا گیا ہے اور زمانہ مستقبل میں آپ کی سچائی کے ثبوت کے لئے خدا تعالی کی طرف سے آپ کے بعد ایک عظیم الشان گواہ کے بھیجا جانے کی خبر دی گئی ہے اور زمانہ ماضی کی شہادت کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب تو رات کو پیش کیا گیا ہے جس میں آنحضرت ملی کے بارے میں صریح پیشگوئیاں موجود ہیں.جو

Page 4

آنحضرت میم کے وجود باجود میں پوری ہو چکی ہیں اور قرآن مجید نے اس بارہ میں خود بیان فرما دیا ہے کہ آنحضرت میان امام علی النبيُّ الْأُمِّی ہیں.جن کا ذکر تورات و انجیل میں موجود ہے اور آپ ہی موسیٰ کی مانند ایک نبی کے ظاہر ہونے کی پیشگوئی کا جو تورات میں مذکور ہے مصداق ہیں.(استثناء ۱۸/۱۸) اس آیت میں يَتْلُوهُ شَاهِدَ مِنْهُ کی پیٹرکی کا تعلق امت محمدیہ کے مسیح موعود سے ہی ہو سکتا ہے جو آخری زمانہ میں آنحضرت مسلم کی سچائی کو ثابت کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور حکم عدل مبعوث ہونے والا تھا.يَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِنْهُ کی یہ پیشگوئی ہمارے نزدیک حضرت مرزا غلام احمد صاحب بانی سلسلہ احمدیہ علیہ الصلوة و السلام کے وجود میں پوری ہو چکی ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کی بنیاد دعوی کی بنیاد قرآن مجید اور آپ کے اپنے الہامات پر ہے اور احادیث نبویہ اس کی ا موید ہیں.اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو الہامات ہوئے وہ یہ ہیں.الهام اول یہ ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:- " مسیح ابن مریم فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے.وَكَانَ وَعْدُ اللهِ مَفْعُولاً وَاَنْتَ مَعِن وَاَنْتَ عَلَى الْحَقِّ الْمُبِينِ.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۰۲) دوسرا الہام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :- " میں تجھے زمین کے کناروں تک شہرت دوں گا اور تیرا ذکر بلند کروں گا اور تیری محبت دلوں میں ڈال دونگا جَعَلْنَاكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ (یعنی ہم نے تجھے مسیح ابن مریم بنا دیا ہے) ان کو کہہ دے میں عیسیٰ کے قدم پر (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۴۲) آیا ہوں."

Page 5

الہام سوم یہ ہے.ثُمَّ أَحْيَيْنَاكَ بَعْدَ مَا أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الأولى وَجَعَلْنَاكَ الْمَسِيحَ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۶۴ ابْنُ مَرْيَمَ" یعنی ہم نے تجھے پہلی قوموں کو ہلاک کرنے کے بعد زندگی دی ہے اور تجھے مسیح ابن مریم بنایا ہے.ان الهامات کا ماحصل یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام وفات پا چکے ہیں اور وعدہ کے موافق حضرت مرزا غلام احمد صاحب علیہ السلام کو مسیح ابن مریم بنا کر بھیجا گیا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ آپ حضرت عیسی علیہ السلام کے قدم پر آئے ہیں اور ان کے رنگ میں رنگین ہیں.گویا ان العلامات نے نزول المسیح کی پیشگوئی کو حل کر دیا.اور اس بارہ میں یہ فیصلہ دے دیا ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب حضرت مسیح ابن مریم کے مثیل اور بروز ہیں.کیونکہ جو شخص کسی کے قدم پر آئے اور اس کے رنگ میں ہو کر آئے وہ اس کا مثیل اور بروزی ہوتا ہے.احباب کرام! ان الہامات سے ظاہر ہو گیا ہے کہ ان میں آپ کو مجاز اور استعارہ کے طور پر ابن مریم قرار دیا گیا ہے.کیونکہ جب حقیقی ابن مریم وفات پاچکے ہیں اور اس وجہ سے ان کا اصالتا دوبارہ آنا محال ہے لہذا ان کی دوبارہ آمد کا محال ہونا پیشگوئی میں ابن مریم کے نزول کو مجاز اور استعارہ ثابت کرنے کے لئے قلعی قرینہ ہے.استعارہ بھی مجاز کی ایک قسم ہوتا ہے.مجاز کی استعارہ اور تشبیہہ میں فرق ایک قسم سارہ تشبیہہ ہے جیسے زَيْدُ كَا لا سَدِ یعنی زید شیر کی مانند ہے اس قسم مجاز میں زید مشبہ ہے یعنی اسے شیر سے مشابہت دی گئی ہے اور اسد (شیر) مشبہ بہ ہے جس سے زید کو تشبیہہ دی گئی ہے اور ی (معنی مانند) حرف تشبیہہ ہے.مجاز کی ایسی قسم جس میں مشبہ اور مشبہ بہ اور حروف تشبیہہ تینوں

Page 6

مذکور ہوں سادہ تشبیہہ کہلاتی ہے.لیکن مجاز میں اگر مشبہ (مثلا زید) کا ذکر نہ ہو اور حرف تشبیہہ بھی موجود نہ ہو بلکہ صرف مشبه به اسد (شیر) کا ذکر کر کے اس سے مشبہ یعنی زید مراد لیا جائے اور کوئی قرینہ لفظیہ یا قرینہ حالیہ کلام میں اسد کے مجازی معنوں کے لئے قائم ہو تو ایسی مخصوص صورت کی تشبیہہ کو استعارہ کہتے ہیں.جیسے میں اگر زید کو شیر سے بطور استعارہ تشبیہہ دینا چاہوں تو کہوں کہ "ہمارا شیر غسلخانہ میں غسل کر رہا ہے.اس فقرہ میں نہ زید (مشبہ) کا ذکر لفظ کیا گیا ہے اور نہ ہی حرف تشبیہہ استعمال کیا گیا ہے.بلکہ قرینہ سے زید کا شیر ہونا مراد لیا گیا ہے اور بوجہ استعارہ زید کے متعلق یہ دعوی کیا گیا ہے کہ وہ شیر ہی ہے.اس مثال سے ظاہر ہے کہ استعارہ کی صورت میں زید کے لئے اس فقرہ میں بہادری میں کمال رکھنے کا دعوی کیا گیا ہے.اس جگہ الفاظ غسلطانہ میں غسل کر رہا ہے." اس بات کے لئے قرینہ ہے کہ شیر سے مراد کوئی انسان ہے اور استعارہ کی بناء پر اس کے لئے یہ دعوی کیا گیا ہے کہ وہ بہادری میں شیر سے کوئی معمولی مشابہت نہیں رکھتا بلکہ کامل مشابہت رکھتا ہے.خالی تشبیہہ میں مشابہت تو ضرور مقصود ہوتی ہے مگر اس میں کمال کا ادعا نہیں ہوتا.احادیث میں مثیل کا لفظ استعمال نہ کرنے کی وجہ پس اس جگہ یہ سوال پیدا نہیں ہو سکتا کہ اگر نزول ابن مریم کی پیشگوئی میں حضرت عیسی علیہ السلام کا احسان آنا مراد نہیں تھا تو کیوں پیشگوئی میں مثیل ابن مریم کے الفاظ نہیں رکھے گئے.بلکہ صرف " ابن مریم " کے نزول کے الفاظ رکھے گئے ہیں؟ یہ سوال اس لئے پیدا نہیں ہو سکتا کہ استعارہ کی زبان میں حرف تشبیہہ جیسے " مثل " اور مانند " وغیرہ بالکل استعمال نہیں ہوتے.دیکھئے قرآن مجید میں آتا ہے.مَنْ كَانَ فِي هذةٍ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلاً (بنی اسرائیل: (۷۳) یعنی جو

Page 7

شخص اس دنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا ہو گا اور راستہ سے بہت بھٹکا ہوا ہو گا.اس آیت میں آغمی (اندھا) سے مراد روحانی بصیرت سے محروم انسان ہے جسے ظاہری اعمی (نابینا) سے بطور استعارہ تشبیہہ دی گئی ہے اور اعلی کو استعارہ قرار دینے کے لئے حرف تشبیہہ ترک کر دیا گیا ہے اور أَضَلُّ سَبِيلاً ( راستہ سے بہت بھٹکا ہوا) کے الفاظ اعمی کے لفظ کے استعارہ کے طور پر استعمال ہونے کے لئے بطور قرینہ لائے گئے ہیں.یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ استعارہ میں دو قسم کے قرائن ہوتے ہیں.اقسام قرائن اول یہ کہ استعارہ میں کوئی لفظی قرینہ قائم کیا جاتا ہے.جیسے "ہمارا شیر غسل خانہ میں غسل کر رہا ہے." کے استعارہ میں غسل خانہ میں غسل کر رہا ہے" استعارہ کو ظاہر کرنے کے لئے لفظی قرینہ ہے.دوم یہ کہ اگر لفظی قرینہ قائم نہ کیا جائے تو پھر استعارہ کے لئے قرینہ حالیہ کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے.تا حقیقی معنی کا احتمال اٹھ جائے اور صرف مجاز مراد لیا جا سکے.قرینہ حالیہ سے مراد یہ ہے کہ جس کو ہم کوئی نام بطور وصف دے رہے ہیں اس کا در حقیقت وہ نام نہ ہو.جیسے میں زید کو حاتم کا نام دوں تو اس جگہ قرینہ حالیہ زید کا حقیقتاً حاتم نہ ہونا ہو گا اور استعارہ حاتم کے وصف سخاوت میں ہو گا نہ کہ علم (ذاتی نام) میں.کیونکہ علم اگر استعارہ کی زبان میں استعمال ہو تو اس علم کے کسی خاص وصف میں استعارہ مراد ہوتا ہے.پس مشبہ کے لئے حقیقی معنی کا محال ہونا قرینہ حالیہ ہوتا ہے.اسی طرح اگر میں زید کے لئے جو سامنے سے آ رہا ہو کہوں " وہ دیکھو! ہمارا شیر آ رہا ہے" تو چونکہ سامنے سے آنے والے زید کا حقیقت میں شیر ہونا امر محال ہے اس لئے اس بات کا محال ہو نا استعارہ کے لئے قرینہ حالیہ ہو گا.

Page 8

ابن مریم کے نزول کی پیشگوئی میں قرائن احباب کرام ۱ حدیثوں میں ابن مریم کے نزول کی جو پیشگوئی ہے اس میں استعارہ کے لئے دونوں قسم کے قرائن موجود ہیں جو اس پیشگوئی کے استعارہ پر مشتمل ہونے کے لئے قطعی دلیل میں چنانچہ رسول کریم میں یہ فرماتے ہیں:.كيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيْكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ نیز فرماتے ہیں:." (صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسی ابن مریم) (٢) كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيْكُمْ فَاتَكُمْ مِنْكُمْ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسی ابن مریم یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امت کو فرماتے ہیں تم کیسے ہو گے جب " ابن مریم " تم میں نازل ہو گا اور وہ تم میں سے تمہارا امام ہو گا.اس جگہ اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ یا فَاقَكُمْ مِنْكُمْ (تم میں سے تمہارا امام ہو گا) اس بات کے لئے لفظی قرینہ ہیں کہ پیشگوئی میں " ابن "مریم" سے مراد اسرائیلی مسیح ابن مریم نہیں ہیں.بلکہ یہ مسیح موعود امت محمدیہ کا ہی ایک فرد ہے جو ابن مریم اسرائیلی کے رنگ میں رنگین اور اس کا مثیل ہونے والا تھا اس کے علاوہ قرینہ حالیہ بھی اس جگہ موجود ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام کی طبیعی وفات پا جانے کے متعلق قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کے دلائل ہیں کیونکہ وفات یافتہ کا اصان نزول محال ہے جیسا کہ میں آگے چل کر بیان کروں گا.

Page 9

^ پیشگوئیوں کا طریق احباب کرام! انبیاء کی پیشگوئیوں کے متعلق عام طریق یہ ہے کہ وہ عموماً تمثیلی زبان میں ہوتی ہیں بالخصوص احادیث نبویہ کی وہ پیشگوئیاں جو وحی خفی کے ماتحت ہوتی ہیں ، لیکن پیشگوئیاں اگر وحی جلی میں بھی مذکور ہوں تب بھی ان میں ضرور کچھ نہ کچھ اخفاء کا پہلو رکھا جاتا ہے.کیونکہ ایمان بالغیب کے لئے آزمائش اور امتحان کا پایا جاتا ضروری ہے.امتحان کے بغیر ایمان کوئی فائدہ نہیں دیتا.دیکھئے اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام بیچ بیچ دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے دمشق کے مشرق میں سفید منارہ کے پاس آسمان سے اتر آئیں اور لوگ انہیں بائیں ہیئت آسمان سے اتر تا دیکھ لیں تو پھر امتحان اور آزمائش جو ایمان کے لئے ضروری ہے مفقود ہو جانے سے ان پر ایمان لانے میں کیا کمال ہو گا؟ پس پیشگوئیاں تمثیلی زبان میں ہوتی ہیں اور تعبیر طلب ہوتی ہیں اور ان میں ضرور اخفاء اور پردہ رکھا جاتا ہے.کیونکہ ایمان کا سارا حسن در اصل ایمان بالغیب میں ہی ہے واشگاف طور پر پردہ کا اٹھا دینا سنت الیہ کے خلاف ہے.مامور کے زمانہ میں امتحان پس جب بھی خدا تعالیٰ کا مامور آتا ہے تو اس وقت قوم کو ایک امتحان در پیش ہو تا ہے.یوں سمجھئے کہ ساری قوم کو امتحان کا ایک پرچہ دیا جانے والا ہوتا ہے.اور مامور من اللہ لوگوں کو ان اہم سوالات کا جواب سمجھاتا ہے جو امتحان میں رکھے جانے والے ہوتے ہیں.اس پر جو لوگ مامور من اللہ کو استاد مان کر اس کی طرف سے سکھائے گئے جوابات کو درست سمجھ کر اس کے مطابق اپنا پرچہ حل کر لیتے ہیں.وہ خدا تعالی کے حضور کامیاب سمجھے جاتے ہیں.اور جو لوگ مامور من اللہ کے جوابات کے مطابق پرچہ

Page 10

4 حل نہیں کرتے وہ ناکام رہ جاتے ہیں.یاد رہے کہ کبھی کوئی مامور من اللہ دنیا میں ایسا نہیں آیا جس کے موافق یا مخالف دلائل موجود نہ ہوں کیونکہ کسی مامور من اللہ کے متعلق بھی سابق پیشگوئیاں ایسی صاف اور واضح نہیں ہوتیں کہ ان میں آزمائش بالکل مفقود ہو جائے.دیکھئے آج سے قریبا دو ہزار سال حضرت عیسی علیہ السلام کے وقت امتحان پہلے جب حضرت عیسی علیہ السلام خدا تعالیٰ کی طرف سے بنی اسرائیل کے موعود صحیح کے طور پر مبعوث ہوئے تو یہودی اس وقت اپنے انبیاء کی سابقہ پیشگوئیوں کی بنا پر یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ ان کے موعود مسیح کو خدا تعالیٰ اس کے باپ داؤد کا تخت دے گا.پھر ایک پیشگوئی تھی کہ ان کے مسیح موعود سے پہلے ایلیا (الیاس نبی) کا دوبارہ دنیا میں آنا ضروری ہے.چنانچہ ملا کی ۴/۵ میں لکھا تھا کہ :."دیکھو خداوند کے بزرگ اور ہولناک دن کے آنے سے پہلے میں ایلیا کو تمہارے پاس بھیجوں گا." اور الیاس کے متعلق سلاطین کی کتاب نمبر ۲ میں لکھا تھا کہ وہ ایک رتھ میں بیٹھے ہوئے بگولے کے ذریعہ آسمان پر چلا گیا.(دیکھو نمبر ۲ سلاطین ۲/۱۳) ملاکی نبی کی پیشگوئی کے مطابق یہودی ایلیا کا ہولناک دن آنے سے پہلے (یعنی مسیح کے آنے سے پہلے) آنا ضروری سمجھتے تھے.اس لئے جب حضرت عیسی علیہ السلام نے دعوی نبوت کیا اور ظاہر کیا کہ میں اسرائیل کے لئے مسیح موعود ہوں اور یہودیوں کا بادشاہ ہوں تو چونکہ حضرت عیسی علیہ السلام بظاہر بادشاہ نہیں تھے بلکہ مسکینی کی زندگی بسر کر رہے تھے اس لئے یہودیوں نے آپ کے صحیح موعود ہونے سے انکار کر دیا کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام کے وجود میں انہیں ظاہری طور پر بادشاہت ملنے کی وہ امید پوری ہوتی نظر نہ آئی جو امید

Page 11

.وہ صدیوں سے لگائے بیٹھے تھے.ان کی طرف سے حضرت مسیح ابن مریم پر یہ سوال بھی ہوا کہ اگر یسوع اسرائیلیوں کا مسیح موعود ہے تو پھر ایلیا کہاں ہے؟ جب حضرت مسیح ابن مریم کے سامنے یہ سوال پیش ہوا تو انہوں نے اس کا یہ جواب دیا کہ ایلیا تو آچکا اور لوگوں نے اسے نہیں پہچانا.بلکہ جو چاہا اس سے کیا.اس سے حواری جان گئے کہ ایلیا سے مراد حضرت عیسی علیہ السلام کی یوحنا یعنی حضرت یحی ہیں جو ان کے نزدیک ایلیا کی روح اور قوت میں آئے ہیں.(متی باب ۱۱ آیت ۱۴ ۱۵ متی باب ۱۷ آیت ۱۰ تا ۱۳) یہودیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کے اس تاویلی جواب کو درست نہ سمجھا اور پیشگوئی کے ظاہر لفظ ایلیا پر اڑ کر اس کے احسان آنے کے قائل رہے.اس طرح وہ حضرت عیسی علیہ السلام کے تادیلی معنی نہ ماننے کی وجہ سے امتحان میں فیل ہو گئے.پھر حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ کیا تم یہودیوں کے بادشاہ ہو ؟ حضرت مسیح علیہ السلام نے اس کا جواب دیا کہ میری بادشاہت اس دنیا کی نہیں اور اس طرح بتایا کہ میری بادشاہت آسمانی اور روحانی ہے نہ کہ زمینی بادشاہت.یہودیوں نے مسیح کی بادشاہت سے متعلقہ پیشگوئی کی اس تعبیر کو بھی قبول نہ کیا اور اکثر ان میں سے حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان لانے سے اس وجہ سے محروم رہ گئے کہ یسوع داؤد علیہ السلام کی طرح تخت سلطنت پر نہیں بیٹھا.اس کے بالمقابل عیسائیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کے دونوں جوابوں کو درست سمجھا اور ان کی تاویلات کو قبول کر لیا اور اپنے زمانہ کے امتحان میں کامیاب ہو گئے اور حضرت مسیح علیہ السلام پر ایمان لے آئے.ہمارے رسول کریم آنحضرت مال کے متعلق پیشگوئیوں میں اختفاء صلی اللہ علیہ وسلم کے صلا

Page 12

# متعلق بھی تورات و انجیل میں پینگوئیاں موجود تھیں مگر ان میں بھی آزمائش اور امتحان رکھا گیا تھا.اگر وہ ایسی ہوتیں کہ ان کے کوئی غلط معنی نہ لئے جاسکتے تو یہودی اور عیسائی علماء آپ کا انکار کیوں کرتے.پس پیشگوئیوں میں ضرور بعض اسرار مخفی ہوتے ہیں تاکہ قوم کی آزمائش ہو سکے تادہ امتحان کے بعد ایمان لانے پر ثواب کی مستحق ہو.پیشگوئیوں میں ایمان بالغیب کی خاطر انفاء کا پردہ ضرور ہوتا ہے.ہاں پیشگوئی کے ظہور پر ہوتا ہے تو صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ مامور من اللہ جس کے متعلق پیشگوئی ہوتی ہے وہ مبعوث ہو کر خدا تعالیٰ کے الہام سے یا اپنے اجتہاد کے ذریعہ ان پیشگوئیوں کا صحیح حل پیش کر دیتا ہے جو لوگ اس حل کو معقول اور درست کچھ کر اس مامور من اللہ پر ایمان لے آتے ہیں وہ امتحان میں پاس ہو جاتے ہیں.مگر جو لوگ مامور من اللہ کے پیش کردہ حل کو درست نہیں سمجھتے وہ پیشگوئیوں کے بعض ظاہری الفاظ پر اڑ بیٹھتے ہیں اور امتحان میں فیل ہو جاتے ہیں اور اس طرح مامور من اللہ پر ایمان لانے سے محروم رہ جاتے ہیں.ہاں اگر مامور من اللہ کے اس حل کی کوئی نظیر بھی پہلے سے موجود ہو پھر وہ حل سونے پر سہاگے کا کام دیتا ہے اور ایمان لانے کی راہ میں اس سے آسانی پیدا ہو جاتی ہے.چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام کا یہ فیصلہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا فیصلہ ہوتا نہی ہی ایلیا ہے اور ایلیا کی آمد کی جو پیشگوئی تھی وہ یوجنا کے وجود میں پوری ہو گئی ہے.یہی فیصلہ اسلام کے زمانہ میں نزول مسیح" سے متعلقہ پیشگوئی کو حل کر دیتا ہے اور انجیل کی اس پیشگوئی کو بھی حل کر دیتا ہے جسے عیسائی حضرت مسیح کی آمد ثانی سے متعلق سمجھتے ہیں.یہ ایک حقیقت ہے کہ کبھی کوئی پہلا نبی آسمان سے امان نہیں اترا.لہذا جس طرح ایلیا کی آمد کی پیچگوئی یونا کے وجود میں پوری ہوئی تھی کیونکہ یوحنا ایلیا کی روح اور قوت میں آیا تھا اور حضرت

Page 13

عیسی علیہ السلام کا قطعی فیصلہ ہے کہ یوحنا ہی خدا کے نزدیک ایلیا ہے اسی طرح ” ابن مریم " کے نزول کی جو پینگوئیاں احادیث نبویہ میں مذکور ہیں یا مسیح کی آمد کی جو پیشگوئی انجیل میں مذکور ہے وہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کے وجود میں پوری ہو گئی ہیں.کیونکہ آپ ہی حضرت عیسی علیہ السلام کے مثیل اور بروز ہو کر آئے ہیں.جیسا کہ آپ کے الہامات نے اس بارہ میں فیصلہ دے دیا ہے کہ آپ مسیح ابن مریم کے قدم پر اور ان کے رنگ میں ہو کر آئے ہیں.نزول کی حقیقت پیشگوئیوں میں " ابن مریم " کے نزول کی خبر میں " نزول" کے لفظ سے اہل علم کو کوئی غلطی نہیں لگنی چاہئے.بے شک نزول کے لغوی معنی نیچے اترنا ہیں مگر محاورہ زبان عربی میں یہ لفظ کسی معزز آدمی کی آمد و ظہور کے لئے بطور اعزاز و اکرام استعمال ہوتا ہے.چنانچہ خود اللہ تعالی نے سرور کائنات فخر موجودات سید ولد آدم حضرت محمد مصطفی کی شان میں قرآن مجید میں فرمایا ہے.قَدْ اَنْزَلَ اللهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًا رَسُولاً تَتْلُوا عَلَيْكُمْ آيَاتِ اللهِ مُبَيِّنَاتٍ ليُخْرِجَ الَّذِيْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَتِ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلى النور (الطلاق: ۱۱-۱۲) یعنی اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف بہت بلند شان والے رسول کو نازل کیا ہے جو تم پر خدا تعالی کی روشن اور واضح آیات پڑھتا ہے تاکہ ایمان لانے والوں کو ظلمتوں سے نکال کر نور کی طرف لے آئے.اس آیت میں آنحضرت میں کے لئے انزل اللہ کے الفاظ اعزاز و اکرام اور تائیدات و علوم سماریہ کے ساتھ آنے کے لئے استعمال ہوئے ہیں.

Page 14

" جن حدیثوں میں ابن مریم " کسر صلیب اور قتل خنزیر کی مودودی تفسیر کے نزول کی خبر دی گئی ہے.ان میں مسیح موعود کا کام کسر صلیب اور قتل خنزیر تایا گیا ہے پیشگوئی کے یہ الفاظ بھی بطور استعارہ کے ہیں.چنانچہ مولوی ابو الاعلیٰ صاحب مودودی نے اپنے رسالہ "ختم نبوت" میں ان کاموں کی یہ تاویل کی ہے کہ جب عیسی علیہ السلام نازل ہونگے تو سب عیسائی انہیں مان لیں گے گویا کسر صلیب ہو جائے گی اور پھر عیسائی ان کی ہدایت پر سور کھانا چھوڑ دیں گے اس طرح قتل خنزیر ہو جائے گا.پس اگر سوروں کا اس طرح قتل سے بچایا جانا يَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ (وہ خنزیر کو قتل کرے گا) کی تاویل ہو سکتی ہے اور عیسائیوں کا ایمان لے آنا کسر صلیب ہے اور حدیث نبوی کا یہ حصہ جناب مودودی صاحب نے بھی تمثیلی تسلیم کر لیا ہے تو پھر ان کے لئے ابن مریم " کا لفظ جو ان حدیثوں میں وارد ہے بطور استعارہ مان لینے میں کیا مشکل ہے جب کہ خدا تعالٰی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اپنے الہامات کے ذریعہ یہ امر کھول دیا ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم فوت ہو چکے ہیں.اور آپ ابن مریم " کے رنگ میں ہو کر آئے ہیں اور عیسی علیہ السلام کے قدم پر ہیں.گویا آپ کو الہامات میں حضرت مسیح ابن مریم کا مثیل قرار دیا گیا ہے، اور جَعَلْنَكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ کہہ کر واضح کر دیا گیا ہے کہ حدیث نبویہ کی نزول ابن مریم کی پیشگوئی آپ کے وجود میں پوری ہو گئی ہے." ایک بادشاہ کا ذکر ہے کہ اس نے اپنا ایک لڑکا ایک ایک بادشاہ اور نجومی کا قصہ ماہر نجومی کے پاس علم نجوم کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجا.جب وہ لڑکا تعلیم پا کر فارغ ہو گیا تو نجومی نے اسے بادشاہ کی خدمت میں پیش کیا اور کہا کہ میں اب اس کی تعلیم سے فارغ ہو چکا ہوں.میں نے اسے علم نجوم کی

Page 15

۱۴ تمام ضروری تعلیم دے دی ہے.بادشاہ نے امتحان کے طور پر ایک چیز اپنی مٹھی میں رکھ کر لڑکے سے پوچھا.بیٹا بتاؤ میرے ہاتھ میں کیا ہے؟ لڑکے نے اپنے علم کی رو سے جواب دیا کہ کوئی گول گول چیز ہے.اس پر بادشاہ نے پوچھا.اس کے متعلق کچھ اور بتاؤ ؟ اس نے کہا جناب پھر کی قسم کی کوئی چیز ہے.بادشاہ نے کہا.بیٹا کچھ اور تفصیل بتاؤ.لڑکے نے کہا.اس کے درمیان سوراخ بھی ہے.بادشاہ نے کہا ذرا اور وضاحت کرو تو لڑکے نے جواب دیا.جناب یہ چکی کا پاٹ ہے.بادشاہ یہ جواب سن کر حیران رو گیا.دراصل بادشاہ کے ہاتھ میں ایک قیمتی پتھر تھا جس کے درمیان سوراخ تھا.نجومی نے کہا.جناب! میں نے اسے سارا علم پڑھا دیا ہے اور اس نے اس پتھر کے متعلق کنی باتیں آپ کو صحیح بتائی ہیں.مگر جہاں کچھ فکر کا دخل تھا اس میں یہ غلطی کر گیا ہے.گویا اس کا اجتہاد ناقص ہے.اس طرح پیشگوئی کی تاویل میں اجتہادی غلطیاں ہو جاتی ہیں.حدیثوں کی پیشگوئیاں تو صحیح ہیں مگر ان کی تعبیر میں بعض اوقات علماء اپنے اجتہاد میں غلطی کھا جاتے ہیں جس طرح بادشاہ کے اس نجومی لڑکے نے اجتہاد کے موقع پر غلطی کھائی.چونکہ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات پر قطعی گواہ ہیں.اس لئے جس شخص پر بعد از غور و فکر یہ حقیقت کھل جائے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں وہ تو " ابن مریم کے نزول کے متعلق پیشگوئیوں کی وہی تعبیر درست قرار دے سکتا ہے جو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مسیح موعود علیہ السلام نے کی ہے.پس ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی کی صداقت معلوم کرنے کے لئے سب سے پہلے اس بات کو حل کیا جائے کہ آیا حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام وفات پاگئے ہیں یا وہ اپنے خاکی جسم کے ساتھ آسمان پر زندہ اٹھائے گئے ہیں.حیات مسیح کے قائلین کے برخلاف مسلمانوں میں سے ایک گروہ پہلے سے اس

Page 16

۱۵ بات کو مانتا چلا آیا ہے کہ نزول مسیح کی پیشگوئی جو احادیث نبویہ میں بیان ہوئی ہے وہ امام میدی کے وجود میں پوری ہو گئی اور امام مہدی علیہ السلام بموجب حديث لا الْمَهْدِى الا عيسى له معینی علیہ السلام کے بروز ہونگے.چنانچہ اقتباس الانوار مصنف مولانا شیخ محمد اکرم صابری صفحہ ۵۲ پر لکھا ہے:.و بعض بر آنند که روح عیسی در مهدی بروز کند و از نزول عبارت ہمیں بروز است مطابق ایس حدیث لَا الْمَهْدِيُّ الا عيسى - یعنی بعض کا یہ مذہب ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی روح یعنی روحانیت مہدی میں بروز کرے گی اور نزول (ابن مریم) سے مراد یہی بروز ہے اور یہ امر حدیث لا الْمَهْدِيُّ الأَعِيْس کے مطابق ہے.وفات مسیح میں بتا چکا ہوں کہ حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام کی وفات ثابت ہو جانے کے بعد ان کا اصالتا نزول محال قرار پاتا ہے کیونکہ خدا تعالی کا قانون مستمر جو قرآن و حدیث سے ثابت ہے یہی ہے کہ جو لوگ وفات پا جائیں وہ اس دنیا میں واپس نہیں آسکتے.قرآن مجید سے یہ امر آفتاب نصف النہار کی وفات مسیح کا ثبوت از قرآن مجید طرح ثابت ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام وفات پاچکے ہیں اور اب وہ قیامت کے دن تک دوبارہ قوم میں واپس نہیں آئیں گے.چنانچہ سورۃ مائدہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام سے سوال ہو گا یعنی قیامت کے دن پوچھا جائے گا."وَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّي الْهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ کہ کیا اے عیسی ابن مریم.تو نے ان لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو دو (ابن ماجه ابواب الفتن باب شدة الزمان)

Page 17

17 معبود مانو؟ (جیسا کہ رومن کیتھولک عیسائیوں کا مذہب ہے) حضرت عیسی علیہ السلام جواب میں کہیں گے:.H سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِى أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِى بِحَقِّ إِنْ كُنْتُ (المائدہ:۱۱۷ ۱۱۸) قُلْتُه فَقَدْ عَلِمْتَهُ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِ وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ إِنَّكَ اَنْتَ عَلامُ الْغُيُوبِ مَا قُلْتُ لَهُمْ إلا ما أمرتين به أنِ اعْبُدُوا الله ربي ورَبَّكُمْ.یعنی اے خدا! تو اس عیب سے پاک ہے کہ کوئی تیرا شریک ہو اور تیرے علاوہ عبادت کیا جانے کا مستحق ہو اور میری شان کے خلاف تھا کہ میں انہیں وہ بات کہوں جس کا مجھے حق نہیں.اگر میں نے انہیں ایسی بات کہی ہے تو تو جانتا ہے.تو میرے نفس کی بات کو جانتا ہے اور میں تیرے نفس کی بات نہیں جانتا بے شک تو خیوں کا خوب جانے والا ہے.میں نے انہیں وہی بات کسی تھی جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے.اس بیان سے حضرت مسیح علیہ السلام کی بظاہر پوری براء ت نظر آتی ہے.مگر ایک پہلو ابھی باقی تھا.یعنی اگر یہ سوال ہو کہ اچھا تم نے تو یہ تعلیم نہ دی.مگر یہ بتاؤ کہ تمہاری موجودگی میں اگر یہ عقیدہ پیدا ہوا تو کیا تم نے انہیں ایسا عقیدہ اختیار کرنے سے منع بھی کیا تھا یا نہیں؟ اگر منع نہیں کیا تھا تو تب بھی تم مورد الزام ہو.اس متوقع سوال کے جواب میں حضرت مسیح علیہ السلام اوپر کے جواب کے بعد کہیں گے.وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا قَادُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ انْتَ الرَّقِيبٌ عَلَيْهِمْ " (المائده : ۱۱۸ ) یعنی جب تک میں ان لوگوں میں موجود رہا.میں ان لوگوں کا نگران

Page 18

12 رہا.پس جب (اے خدا) تو نے مجھے وفات دے دی تو ان پر تو ہی نگران تھا.یعنی وفات کے بعد تو مجھے پھر ان کی نگرانی کا موقعہ ہی نہیں ملا.لہذا مجھ پر ان کے بگاڑ کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی.كُنْتَ أنتَ میں ضمیر انت كا دو دفعہ آنا تاکید للحصر کا فائدہ دے رہا ہے.یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کہیں گے میری وفات کے بعد تو ہی نگران تھا تو مجھے ان کے بگاڑ کا مشاہداتی علم کیسے ہو سکتا ہے؟ قیامت کے دن حضرت عیسی علیہ السلام کے اس جواب سے ظاہر ہے کہ ان کی قوم میں بگاڑ ان کی توفی یا وفات کے بعد ہوا ہے اور وفات کے ساتھ ہی وہ قوم کو خدا کی نگرانی میں چھوڑ گئے اور پھر قیامت کے دن تک انہیں قوم میں دوبارہ آکر اصلاح کرنے کا موقع ہی نہیں ملا ہو گا اور اپنی قوم کے بگاڑ کے متعلق انہیں کوئی مشاہداتی علم نہیں ہو گا.اگر حضرت عیسی علیہ السلام کو توفی کے بعد اصالتاً قوم میں دوبارہ آکر اصلاح کرنے کا موقعہ ملے تو پھر وہ خدا کے حضور یہ نہیں کہہ سکتے کہ میری توفی کے بعد ان کا تو ہی نگران تھا.بلکہ اس کی بجائے یہ جواب دیتے کہ جب تو نے مجھے دوبارہ دنیا میں بھیجا تو میں نے ان کی اصلاح کی.ان میں توحید کا عقیدہ بھی قائم کر دیا اور ان کے صلیبی عقیدہ کو بھی پاش پاش کر دیا.ان کی دوبارہ آمد کی صورت میں تو ان کا فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي کے بعد كُنْتَ اَنْتَ الرَّيْبَ عَلَيْهِمُ کہنا جھوٹ بن جاتا ہے کہ مجھے پھر ان کی نگرانی کا موقعہ نہیں ملا.لہذا ان کے بگاڑ کے متعلق میں مشاہداتی علم نہیں رکھتا.كُنتَ اَنتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ کے الفاظ تو اسی بات کو مستلزم ہیں کہ آپ کو قیامت کے دن تک قوم میں دوبارہ آنے کا موقعہ ہی نہیں ملا ہو گا.خدا تعالیٰ کے انبیاء معصوم ہوتے ہیں وہ اپنی برأت میں کوئی جھوٹا بیان نہیں دے سکتے.پس اگر حضرت عیسی علیہ السلام قوم میں

Page 19

IA دوبارہ آئے ہوں تو ان کا كُنتَ أنتَ الرَّيْبَ عَلَيْهِمْ کرنا جھوٹ بن جاتا ہے.اس صورت میں ان کی طرف سے یوں واقعاتی شہادت پیش کی جاتی جس سے ان کی کامل برات ہو جاتی کہ جب قوم میں دوبارہ واپس جانے پر میں نے انہیں بگڑا ہوا پایا.اور ان کی اصلاح کی تو پھر مجھ پر یہ الزام کیسے عائد ہو سکتا ہے کہ میں نے انہیں کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو دو معبود مانو؟ وہ لوگ جو حیات مسیح کے قائل ہیں انہوں حیات مسیح کے قائلین کی تاویل نے اس آیت کے الفاظ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی کی یہ تاویل کی ہے کہ توفی سے اس جگہ زندہ کا مع روح و جسم پورے کا پورا لے لینا مراد ہے.چنانچہ مولوی ابو الاعلیٰ صاحب مودودی نے اپنی تفسیر تفہیم القرآن جلد اول میں اس کے معنی "جب تو نے مجھے واپس بلا لیا.کئے ہیں اور مراد یہ لی ہے کہ یہودیوں کی ان سے بدسلوکی اور ان کے قتل کے درپے ہونے کی وجہ سے خدا تعالی نے ناراض ہو کر انہیں اپنے منصب سے ہٹا کر واپس بلا لیا.مگر اس قسم کے اصحاب نے غور نہیں فرمایا کہ یہ سوال و جواب جب اللہ تعالی اور حضرت مسیح علیہ السلام کے درمیان قیامت کے دن ہو گا تو اگر توفی کے معنی اس جگہ موت کے نہیں بلکہ زندہ واپس لے لینے کے ہیں تو پھر از روئے آیت ہزارہ قیامت کے دن تک زندہ ہی رہیں گے کیونکہ اس توفی کا دامن قیامت تک ممتد ہے اور اس سے واپسی پر دوبارہ قوم میں کسی کام پر مقرر ہونے سے حضرت عیسی علیہ السلام كُنتَ أنتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ کہہ کر انکار کر رہے ہیں.کیونکہ كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبٌ عَلَيْهِمْ کے الفاظ ان کی عدم واپسی اور قوم کی حالت سے قیامت کے دن تک مشاہداتی علم کے لحاظ سے ناواقفی پر دلالت کر رہے ہیں اگر مودودی صاحب کے معنی لئے جائیں تو پھر تو وہ قیامت تک زندہ ہی رہیں گے اور خدا تعالیٰ کے قانون كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ

Page 20

14 (آل عمران: ۱۸۶) سے بچے رہیں گے.کیونکہ خدا کی طرف سے مفروض واپسی والی توفی کے بعد ان کی قوم میں دوبارہ واپسی کا ذکر موجود نہیں بلکہ اس کے بر خلاف محنت اَنْتَ الرَّيْبَ عَلَيْهِمُ میں ان کی عدم واپسی کا اظہار کیا گیا ہے.پس تَوَفَّيْتَنِی کو وفات طبعی کے معنی سے پھرانا اور اس لفظ کی اس جگہ منصب سے واپس لے لینے کی تاویل یا پورے کا پورا مع روح و جسم اٹھا لینے کے معنی لاحاصل ہیں کیونکہ اگر وہ زندہ ہی اٹھالیے گئے ہوں یا زندہ ہی واپس بلا لئے گئے ہوں تو ان کی قوم میں دوبارہ واپسی کا كُنت أنْتَ الرَّANGELKA KO میں انکار کر دیا گیا ہے.جب اس جواب میں ان کی قوم میں دوبارہ واپسی سے انکار ظاہر ہے تو انہیں كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ کے قانون سے باہر رکھنے اور قیامت تک زندہ رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں.پس كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمُ کے الفاظ اس بات پر شاہد ناطق ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی توفی وفات کی صورت میں ہی ہوئی ہے نہ کسی اور طرح.حدیث نبوی بھی توفی کے اس آیت میں وفات کے معنوں کی ہی مؤید ہے.چنانچہ صحیح بخاری کتاب التفسیر میں امام بخاری علیہ الرحمتہ حضرت عیسی علیہ السلام کے بيان و كُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أنتَ الرقيب عَلَيْهِمْ وَ اَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ کی تفسیر میں ایک حدیث نبوی لائے ہیں.جس میں آنحضرت میں ای میل فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن کچھ لوگ گرفتار ہونگے تو میں کہوں گا یہ تو میرے دوست ہیں.مجھے جواب دیا جائے گا.إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ إِنَّهُمْ لَمْ يَزَالُوْ مُرْتَدِيْنَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَ قَتَهُمْ یعنی بے شک اے نبی تو نہیں جانتا کہ تیرے بعد انہوں نے کیا بدعات اختیار کیں.یقینا یہ لوگ جب تو ان سے جدا ہوا اپنی اپنی ایڑیوں پر واپس پھر گئے تھے.یعنی مرتد ہو گئے تھے.آنحضرت می یہ فرماتے ہیں:.

Page 21

أقُولُ كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ كُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا قَادُمْتُ فِيْهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ وَاَنْتَ عَلى كُلّ شَيْ شَهِيدٌ - إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وإِن تَغْفِرْ لَهُمْ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ یعنی میں اس وقت وہی کہوں گا جس طرح خدا کے نیک بندے عیسی بن مریم نے کہا کہ میں ان کا اس وقت تک ہی نگران تھا.جب تک ان میں موجود تھا.پس جب تو نے مجھے وفات دے دی تو ان کا تو ہی نگران تھا.جب آنحضرت میں ایم کے اس بیان میں فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي کے معنی ” وفات دے دی تو نے مجھے " کئے جاتے ہیں تو یہی معنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بیان کے ہونگے.رسول الله من عالم نے حضرت عیسی علیہ السلام کے الفاظ میں ہی یہ بیان اپنی برأت میں دے کر اس امر پر خود روشنی ڈال دی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے بیان میں بھی تَوَفَّيْتَنِن کے معنی وفات دی تو نے مجھے " ہی مراد ہیں.اسی تقسیم کے ماتحت امام بخاری علیہ الرحمہ اس حدیث کو حضرت مسیح علیہ السلام کے قرآن مجید میں ذکر کردہ بیان کی تفسیر میں لائے ہیں.بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس حدیث میں رسول اللہ الم نے اقول ایک سوال ما قَالَ نہیں فرمایا بلکہ اقولُ كَمَا قَالَ فرمایا ہے یعنی یہ نہیں فرمایا کہ میں وہ بات کہوں گا جو عیسی بن مریم نے کی بلکہ یہ فرمایا ہے کہ میں اس جیسی بات یعنی اس کے لگ بھگ بات کہوں گا.پس رسول اللہ اور ان کے الفاظ اور ہوں گے اور حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے الفاظ اور ہونگے.دونوں کے الفاظ کا ایک ہونا اس جگہ کیسے مراد لیا جا سکتا ہے؟

Page 22

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایک دوسری حدیث میں رسول الله لعلم العلوم الجواب نے معین طور پر وہ الفاظ بھی بیان فرما دیئے ہیں.جو آپ استعمال فرما میں گے.چنانچہ تفسیر در منشور میں بحوالہ ابن جریر حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے.إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهِيدًا عَلَيْهِمْ مَا دُمْتُ فِيْهِمْ فَإِذَا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ" - در منشور مصنف جلال الدین سیوطی جلد ۲ صفحه ۱۷۴ دار المعرفه الطباعة والنشر بیروت لبنان) یعنی آیت إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيْدٍ کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول اللہ علی نے فرمایا.میں ان لوگوں پر گواہ ہوں جب تک میں ان میں رہا.جب تو نے مجھے وفات دے دی تو (اے خدا) ان پر تو ہی نگران تھا.اس بیان کا حضرت عیسی علیہ السلام کے بیان سے سوائے لفظ فَإِذَا کے لفظ لفظاً مطابق ہے.آنحضرت مال کے بیان میں فاذا کا لفظ ہے اور حضرت عیسی علیہ السلام کے بیان میں فَلَمَّا کا لفظ ہے.اِذا اور لَمَّا دونوں ہم معنی لفظ ہیں.اور حرف شرط (جب) کے معنوں میں استعمال ہوتے ہیں.اس اونی لفظی عادت سے اقولُ كَمَا قَالَ کے مطابق بیان لگ بھگ بھی ہو جاتا ہے اور كُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ اور تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيبٌ عَلَيْهِمْ میں دونوں بیانوں میں لفظی تطابق بھی ثابت ہو جاتا ہے.پس جب تَوَفَّيْتَنِی کے معنی "وفات دی تو نے مجھے " آنحضرت میں ایم کے بیان میں لیے جاتے ہیں تو حضرت عیسی علیہ السلام کے بیان میں بھی تُو فَيْتَنِی کے یہی معنی لئے جائیں گے.کیونکہ رسول اللہ میں نے حضرت عیسی علیہ السلام کے الفاظ

Page 23

میں اپنی وفات کو ہی الزام سے برأت کے ثبوت میں پیش کیا ہے.حضرت بانی سلسلہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا توفی کے متعلق انعامی چیلنج احمدیہ کی تحقیقات قرآن مجید احادیث نبویہ اور اہل عرب کے قدیم و جدید کلام کے استقراء کی بناء پر یہ ہے کہ توفی اور اس کے مشتقات کا جب اللہ تعالیٰ فاعل ہو اور کسی ذی روح کے لئے یہ استعمال ہوں تو اس جگہ معنی ہمیشہ قبض روح کے ہوتے ہیں.عربی زبان میں تو فی کا ایسی صورت میں استعمال کبھی بھی قبض الروح مع الجسم کے معنوں میں نہیں ہوا.قرآن و حدیث اور اقوال عرب سے ایسی صورت میں استعمال کی کوئی مثال جس میں تو فى قبض الروح مع الجسم کے معنوں میں استعمال ہوا ہو پیش کرنے والے کو آپ نے ایک ہزار روپیہ لے علم کے لئے استعمال دکھانے کی صورت میں مزید دو صد روپیہ انعام دینے کا وعدہ فرمایا ہے.۲ مگر آج تک کوئی عالم ایسی مثال پیش نہیں کر سکا.پس جب لغت عربی میں اس شرط کے ساتھ تو فی کا لفظ ہمیشہ قبض روح کے معنوں میں ہی استعمال ہوتا ہے تو حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق قرآن مجید میں مُتَوَفِیک اور فَلَمَّا تَوَفَيْتَنِی کے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان میں تو فی سے مراد وفات دینا ہی ہے.کیونکہ محاورہ زبان عربی میں توفی کا قبض الروح مع الجسم کے معنوں میں استعمال خدا کے فاعل اور ذی روح کے مفعول ہونے کی صورت میں پایا ہی نہیں جاتا تو حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے اس لفظ کے استعمال میں قبض الروح مع الجسم کے معنی لینے کا محاورہ زبان کے لحاظ سے حق ہی پیدا نہیں ہوتا.پس یہ معنی نئی لغت بنانا تو کہلا سکتا ہے.محاوره زبان عربی ان معنوں کا متحمل نہیں.مولوی ابوالاعلیٰ مودودی اس چیلنج کے پیش نظر مودودی صاحب کا جواب رقمطراز ہیں:.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه (۲۰۳) گه (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۸۳) J

Page 24

۲۳ " بعض لوگ جن کو مسیح کی طبعی موت کا حکم لگانے پر اصرار ہے سوال کرتے ہیں کہ توفی کا لفظ قبض روح و جسم پر استعمال ہونے کی کوئی اور نظیر بھی ہے؟ لیکن جب کہ قبض روح و جسم کا واقعہ تمام بنی نوع انسان کی تاریخ میں پیش ہی ایک مرتبہ آیا ہو تو اس معنی پر اس لفظ کے استعمال کی نظیر پوچھنا محض ایک بے معنی بات ہے." احباب کرام! سن لیا ہے آپ نے یہ فاضل فرماتے ہیں چونکہ توفی کا لفظ کبھی قبض الروح مع الجسم کے معنوں میں ایک دفعہ کے سوا استعمال ہی نہیں ہوا یعنی صرف حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے ان معنوں میں استعمال ہوا ہے.تو اس کی نظیر کہاں سے پیش کی جائے اس کی نظیر طلب کرنا تو ان کے نزدیک بے معنی بات ہے.مگر نظیر کے بغیر توفی کے معنی قبض الروح مع الجسم لینا جب کہ یہ لفظ ۲۳ مرتبہ قرآن مجید میں حضرت مسیح علیہ السلام سے متعلقہ دو آیتوں کے علاوہ اور ساڑھے تین سو مرتبہ احادیث نبویہ میں صرف قبض روح کے معنوں میں ہی استعمال ہوا ہے اور جب سے لغت عربی رائج ہے کبھی ایک دفعہ بھی خدا کے فاعل اور ذی روح کے مفعول ہونے کی صورت میں قبض الروح مع الجسم کے معنوں میں استعمال نہیں ہوا تو محض ایک بے معنی بات وہ مطالبہ نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا ہے بلکہ محض ایک بے معنی بات حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے اس کا قبض الروح مع الجسم کے معنوں میں استعمال ہوگا.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا یہ مطالبہ تو ان لوگوں کا بجز ظاہر کرنے کے لئے ہے جو اس لفظ کا کو حضرت معینی السلام کے لئے قبض الروح مع الجسم کے معنوں میں لیتے ہیں حالانکہ ان معنوں میں یہ لفظ کبھی عربی زبان میں استعمال ہی نہیں ہوا.اس جگہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ حیات مسیح کے قائلین کی ایک دلیل علیہ السلام کے لئے قرآن مجید میں

Page 25

مَا قَتَلُوهُ يَقِيْنَا بَلْ تَفَعَهُ اللهِ إِلَيْهِ کے الفاظ وارد ہیں جن کا مطلب حیات مسیح کے کا سکین یہ بیان کرتے ہیں کہ یہودیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو یقیناً قتل نہیں کیا بلکہ خدا تعالی نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا.یعنی زندہ مع جسم و روح کے آسمان پر اٹھا لیا.واضح ہو کہ اس آیت میں بے شک یہ تو دلیل کی تردید اور ایک ضروری نکتہ آیا ہے کہ خدا تعالٰی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی طرف اٹھا لیا مگر یہ نہیں آیا کہ خدا تعالٰی نے انہیں آسمان پر اٹھالیا.اس آیت میں جسمانی رفع مراد لینے میں کئی قباحتیں ہیں جو یہ ہیں.اول یہ کہ ان معنوں سے خدا تعالیٰ کا محدود المکان ہونا لازم آتا ہے کیونکہ رفع جسمانی صرف ایسی دو چیزوں میں ہی محصور ہو سکتا ہے جو دونوں ہی محدود المکان ہوں اور دونوں کے مکانوں کے درمیان ایک فاصلہ ہو.جو اٹھایا جانے سے طے ہو.مثلاً میری یہ عینک میز پر پڑی ہے.میں اسے اٹھا کر آنکھوں پر لگاتا ہوں تو اس اٹھا کر لگانے میں کئی فٹ کا فاصلہ طے ہوا ہے.یہ ٹینک بھی محدود المکان تھی اور میری آنکھیں بھی محدود المکان ہیں.چونکہ خدا تعالیٰ کی شان سے یہ بعید ہے کہ وہ خود محدود المکان ہو اور خدا کی طرف رفع جسمانی کے معنے چونکہ خدا تعالیٰ کے محدود المکان ہونے کو چاہتے ہیں اور خدا تعالی کا محدود المکان ہونا محال ہے لہذا خدا کی طرف رفع جسمانی محال ہونے کی وجہ سے باطل ہے.دوم یہ کہ عربی زبان میں رفع الی اللہ کے معنی استعارة قرب منزلت ، درجہ کی بلندی یا با عزت وفات پا کر خدا کی حضوری پانا ہی ہوتے ہیں.یہ قرب و حضوری فاصلہ سے تعلق نہیں رکھتی.درجات کی بلندی سے تعلق رکھتی ہے.بحوالہ ابن مردویہ بہتی حضرت انسؓ سے مروی ہے.

Page 26

۲۵ اَكْرَمَ اللهُ نَبِيَّة صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُرِيَهُ فِي أُمَّتِهِ مَا يَكْرَهُ فَرَفَعَهُ إِلَيْهِ وَبَقِيَتِ الثَّقَمَةُ (بحوالہ کیل المونی صفحه ۲۸ مولوی عنایت الله و زیر آبادی) یعنی خدا تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعزاز کی وجہ سے رویا میں آپ کو آپ کی امت میں واقع ہونے والی وہ بات دکھا دی جسے آپ نا پسند کرتے تھے تو (پھر) آپ کو اپنی طرف اٹھا لیا.(یعنی باعزت وفات دے دی) اور فتنہ اور عذاب باقی رہ گیا.فَرَفَعَTAKANGLA اس جگہ حضرت انسؓ فَرَفَعَهُ إِلَيْهِ کے الفاظ آنحضرت میال کے لئے "خدا تعالٰی نے آپ کو باعزت وفات دی" کے معنوں میں استعمال فرما رہے ہیں.اسی طرح یہ لفظ حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے بھی باعزت وفات کے معنوں میں استعمال ہوا ہے.کیونکہ یہودی آپ کو مصلوب کر کے بموجب تورات لعنتی ثابت کرنا چاہتے تھے.خدا تعالی نے فرمایا.وہ آپ کو قتل نہیں کر سکے.یعنی صلیب پر نہیں مار سکے بلکہ خدا تعالی نے آپ کو صلیب کی لعنتی موت سے بچا کر باعزت وفات دی ہے.اس جگہ یہ نکتہ احباب کرام کے یاد رکھنے کے قابل ہے کہ توفی کے معنی ایک نکتہ طبعی موت کے ہوتے ہیں جو باعزت بھی ہو سکتی ہے اور بے عزتی کی حالت میں بھی.رفع والی موت ہمیشہ باعزت موت ہوتی ہے خواہ طبعی ہو یا غیر طبعی.قرآن مجید میں دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.مَكَرُوا وَ مَكَرَ اللهُ وَالله خَيْرُ الْمَاكِرِينَ إِذْ قَالَ اللهُ يَا عِيسَى إِنَّن مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلى يَوْمِ الْقِيَامَةِ (آل عمران:۵۵-۵۶)

Page 27

ترجمہ اس آیت کا یہ ہے کہ :."یہودیوں نے تدبیر کی (یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب پر مارنے کا منصوبہ کیا) اور خدا نے بھی تدبیر کی (ان کو بچانے کی) اور خدا تدبیر کرنے والوں میں سے بہتر ہے.جب اللہ تعالیٰ نے کہا.اے عیسی ! میں تجھے طبعی موت دینے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں (یعنی طبیعی موت بھی با عزت حالت دوں گا) اور تجھے کافروں کے الزاموں سے پاک کرنے والا ہوں اور تیرے متبعین کو تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رکھنے والا ہوں." اس آیت میں رَافِعُكَ إِلَى کا وعدہ مُتَوَفِّیک کے وعدہ کے بعد مذکور ہے.چنانچہ اس وعدہ کے مطابق خدا تعالی نے آپ کو صلیبی موت سے بچا کر طبیعی وفات بھی دی اور پھر باعزت طریق سے کامیابی کی حالت میں وفات دے کر اپنے حضور آپ کے مدارج بلند کر دیئے.اس وعدہ رَافِعُكَ إِلَى کا ایجاد آیت بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ مِیں مذکور ہے.پس اس جگہ رفع جسمانی ہرگز مقصود نہیں.خدا کی طرف بندے کا رفع جسمانی محال ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ ہر بندے کے ساتھ ہے.وہ فرماتا ہے نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ (ق:۱۷) کہ ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں.پس خدا اور بندے کے درمیان کوئی فاصلہ تجویز نہیں ہو سکتا کہ اس کی طرف رفع جسمانی مراد لیا جا سکے کیونکہ رفع جسمانی مراد لینے سے خدا تعالی کا محدود المکان ہونا لازم آتا ہے.اس جگہ یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایک اور ضروری نکتہ آیت إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ سے پہلے مَكَرُوا ومكر الله وَ اللهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ کے الفاظ میں یہود کی تدبیر کا مقابلہ تدبیر سے کرنے کا ذکر فرمایا ہے اور حضرت عیسی علیہ السلام کو زندہ مع روح و جسم آسمان پر اٹھا لینا

Page 28

۲۷ قدرت نمائی اور معجزہ تو کہلا سکتا ہے مگر تدبیر نہیں کہلا سکتا.اعجاز اور تدبیر آپس میں نمایاں فرق رکھتے ہیں.جس بات میں مخالف کسی حیلہ کے ذریعہ مقابلہ نہ کر سکتے ہوں وہ معجزہ ہے اور جس امر میں کسی حیلہ کے ذریعہ سے مقابلہ کر سکتے ہوں وہ حیلہ تدبیر ہوتی ہے.پس خدا تعالیٰ کی تدبیر تو کوئی ایسا امر ہی ہو سکتی ہے جس کا مقابلہ یہودی بھی تدبیر سے کر سکتے ہوں اور پھر خدا تعالیٰ کے خَيْرُ الْمَاكِرِينَ ہونے کی وجہ سے وہ خدا کی تدبیر کے مقابلہ میں ناکام رہیں اور زندہ شخص کو آسمان پر اٹھا لینا معجزہ نمائی تو کھلا سکتا ہے مگر تدبیر نہیں کہلا سکتا.لہذا صاف ظاہر ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے صلیبی موت سے زندہ آسمان پر اٹھا لینے سے نہیں بچایا بلکہ کسی مخفی تدبیر سے بچایا ہے.ہمارے سید و مولی فخر الانبیاء حضرت محمد مصطفی ملی و الم کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپ کے مخالف آپ کے قتل کرنے یا قید کرنے یا جلاوطنی کی تدبیریں کر رہے ہیں ويمكرون ويمكر الله والله خَيْرُ الْمَاكِرِينَ وہ بھی تدبیر کر رہے تھے اور خدا تعالیٰ بھی ان کے بالمقابل تدبیر کر رہا تھا اور اللہ تدبیر کرنے والوں میں سے بہتر ہے.لہذا خدا تعالی تو کامیاب ہوا اور آنحضرت مل کے دشمن آپ کے قتل کی تدبیر سمجھوتہ کرلینے کے بعد سراسر نا کام رہے اور وہ آنحضرت میم کا بال بیکا بھی نہ پر کر سکے کیونکہ خدا تعالیٰ اپنی تدبیر کے ذریعے آنحضرت ملی ایم کو دشمنوں کے درمیان سے نکال کر لے گیا.اور پھر ہجرت کے بعد آپ کو ایسی کامیاب زندگی عطا فرمائی جس کی کامل مثال کسی نبی میں موجود نہیں.حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق بھی اللہ تعالٰی فرماتا ہے.جَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَ أُمَّةٌ آيَةٌ وَأَوَيْنَهُمَا إِلَى رَبُوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ ومَعِينٍ (المومنون (۵۱) کہ ہم نے ابن مریم اور اس کی والدہ کو نشان بنایا اور ان دونوں کو ایک بلند زمین کی طرف پناہ دی.جو آرام والی اور چشموں والی ہے.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پہاڑی علاقہ کی طرف یہ ہجرت بھی اس تدبیر کا ہی حصہ

Page 29

PA ہے جو خدا تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیبی موت سے بچا کر ان کے متعلق اختیار کی.مودودی تفسیر مولوی ابوالاعلیٰ صاحب مودودی يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:.اصل میں مُتَوَفِّیک کا استعمال ہوا.توفی کے اصل معنی لینے اور وصول کرنے کے ہیں.روح قبض کرنا اس لفظ کا مجازی استعمال ہے نہ کہ اصل لغوی معنی.یہاں یہ لفظ انگریزی لفظ To recall کے معنوں میں مستعمل ہوا ہے یعنی کسی عہدہ دار کو اس کے منصب سے واپس بلا لینا." ( تقسیم القرآن جلد ا صفحه ۲۵۷ مطبوعہ مرکشائل پریس لاہور طبع اول ۱۹۵۱ء) اس موقعہ پر مولوی ابو الاعلیٰ صاحب سے میرا مطالبہ یہ ہے کہ وہ توفی کا استعمال لغت عربی میں منصب سے واپس بلا لینے کے معنوں میں ہی رکھا ایک مطالبہ دیں اور اس کی ایک مثال ہی پیش کر دیں.مگر وہ ایسا بھی نہیں کر سکیں گے بلکہ وہ کہہ دیں گے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح کوئی شخص جب خدا تعالی نے منصب سے واپس بلایا ہی نہیں تو میں اس کی مثال کیسے پیش کر سکتا ہوں.ایسا مطالبہ تو ایک بے معنی بات ہے" یہ لفظ تو صرف حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے ہی جب سے لغت عربی وجود میں آئی ہے.ڈیوٹی سے واپس بلا لینے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے مگر کیا اگر وہ اس جگہ بھی یہی جواب دیں تو ان کا یہ جواب معقول کہلا سکتا ہے؟ میں اس امر کا فیصلہ صرف ادبی ذوق رکھنے والوں پر ہی چھوڑتا ہوں کہ کیا یہ امرنئی لغت ایجاد کرنا نہیں؟ احباب کرام! مودودی صاحب کا اتنا بیان تو قابل تسلیم ہے کہ توفی کے اصل معنی لینے اور وصول کرنے کے ہیں.مگر منصب سے ہٹانے کے معنے ہر گز درست نہیں.

Page 30

۲۹ بے شک وہ کہہ سکتے ہیں کہ روح قبض کرنا اس کے مجازی معنے ہیں.مگر کسی لفظ کے استعمال میں زبان کے اصولوں کو ملحوظ رکھنا تو ضروری امر ہے.مودودی صاحب نے توفی کے مجازی معنی قبض روح کرنا تسلیم کرلئے ہیں.پر اور علم بیان میں یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ جس مجاز کے متعلق علم بیان کا قاعدہ محل پر کوئی لفظ مجازی معنوں میں استعمال ہوا ہو.اس محل میں وہ لفظ حقیقی اور اصلی لغوی معنوں میں استعمال شدہ قرار نہیں دیا جا سکتا.ایسے محل پر اس کے اصلی لغوی معنی لینے محال ہوتے ہیں.مثلاً قرآن شریف میں آیا ہے مَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى (بنی اسرائیل : ۷۳ ) کہ جو شخص اس دنیا میں اندھا ہو گا وہ آخرت میں بھی اندھا ہو گا.اندھے کے لغوی معنی ہیں جو آنکھوں سے اندھا ہو.مگر اس کے مجازی معنی بصیرت روحانیہ سے عاری کے ہیں.لہذا اس جگہ ظاہری نابینائی کے معنی سراسر غلط اور نا معقول ہوں گے.کیونکہ محل استعمال مجازی معنوں کا ہے.توفی کے مجازی معنی قبض روح کے ہیں اور ان معنوں کا محل استعمال یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالی تو فی کرنے والا ہو اور انسان کی توفی کی جائے.اس موقعہ پر اس لفظ کے معنی قبض روح ہی ہوتے ہیں.گو یہ مجازی معنی قرار دیئے جائیں.مجازی معنی کے محل پر یہ لفظ اپنے اصلی لغوی معنی " پورا لے لینا اور وصول کر لینا" میں استعمال نہیں ہوتا پس چونکہ آیت يَا عِیسَی انّي مُتَوَفِيْكَ میں اور آیت فَلَمَّا تَوَفِّيتَنِي كُنتَ أنتَ الرَّيْبَ عَلَيْهِمْ میں دونوں جگہ خدا تعالیٰ فاعل ہے اور حضرت عیسی علیہ السلام جو انسان ہیں تو فی کا مفعول یہ ہیں لہذا دونوں آچوں میں توفی کے معنی وفات دیتا ہی ضروری ہو نگے.اس محل پر کوئی دوسرے معنی کرنا علم بیان کے اصول کا خون کرنے کے مترادف ہے.

Page 31

مگر مولوی ابو الاعلیٰ صاحب فرماتے مودودی صاحب کی بے سلیقہ بات ہیں:." جو لوگ قرآن کی آیات سے مسیح کی وفات کا مفہوم نکالنے کی کوشش کرتے ہیں وہ دراصل یہ ثابت کرتے ہیں کہ اللہ میاں کو صاف سلجھی ہوئی عبارت میں اپنا مطلب ظاہر کرنے کا سلیقہ نہیں ہے." ( تفسیم القرآن صفحه ۲۵۸ جلد اول مرکنٹائل پریس لاہور طبع اول ۱۹۵۱ء) مودودی صاحب نے اس جگہ کیا عجیب بات کہی ہے جو خود ان کے اپنے ہی بیان پر چسپاں ہوتی ہے نہ کہ ہمارے بیان پر.ہمارا بیان تو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق متنازع فیہ دو آیتوں کے علاوہ تیئیس جگہ تو فی کا لفظ انسانوں کے قبض روح اور وفات کے معنوں میں ہی استعمال فرمایا ہے نہ کہ واپس لے لینے کے معنوں میں.اگر ان سب مقامات میں قبض روح اور وفات کے معنوں میں خدا تعالی کا یہ لفظ استعمال کرنا عین سلیقہ شعاری اور سلجھا ہوا طریق ہے تو حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے یہ لفظ وفات کے معنوں میں استعمال شدہ تصور کرنے میں کیا الجھن اور بے سلیقگی متصور ہو سکتی ہے ؟ خدا تعالی کا تو طریق ہی یہ ہے کہ وہ جہاں انسان کے لئے توفی کا لفظ استعمال فرماتا ہے.اس سے اس کی مراد قبض روح یا وفات دیتا ہی ہوتی ہے.لہذا ان معنوں میں حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق تو فی کا لفظ استعمال کرنے میں خدا تعالی کا بے سلیقہ ہونا تو لازم نہیں آتا البتہ مودودی صاحب کی بے سلیقگی اور طبیعت کا الجھاؤ ضرور ظاہر ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اس لفظ کے مجازی معنی میں استعمال کے محل پر اس کے لغوی معنوں میں استعمال کا دعوی کر کے لاریب اپنی بے سلیفگی کا ثبوت دے رہے ہیں.

Page 32

۳۱ مودودی تقیم صاحب مودودی صاحب کے نزدیک قرآن مجید کا بیان واضح نہیں القرآن جلد اول صفحه ۴۲۰ پر آیت بَلْ رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ کی تفسیر میں رقمطراز ہیں:." قرآن نہ اس کی تصریح کرتا ہے کہ اللہ ان کو جسم روح کے ساتھ کرہ زمین سے اٹھا کر آسمان پر لے گیا اور نہ ہی صاف کہتا ہے کہ انہوں نے زمین پر طبعی موت پائی اور صرف ان کی روح اٹھائی گئی.اس لئے قرآن کی بنیاد پر نہ تو ان میں سے کسی ایک پہلو کی قطعی نفی کی جاسکتی ہے نہ اثبات " ( تقيم القرآن جلد اول صفحه ۴۲۰ مطبوعہ مر کٹائل پریس لاہور طبع اول ۱۹۵۱ء) احباب کرام دیکھئے جناب مولوی مودودی صاحب اس عبارت میں آیت مبل رفَعَهُ اللهُ اللہ کی تفسیر میں خدا تعالٰی کی طرف کوئی سلجھا ہوا مضمون پیش کرنا منسوب کر رہے ہیں یا بے حد الجھا ہوا؟ جو خدا کی شان کے صریح منافی ہے.مگر یہ الجھاؤ صرف مولوی صاحب موصوف کی طبیعت کا ہے ورنہ قرآن مجید کا یہ بیان بھی صرف ایک ہی پہلو رکھتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے باعزت طبعی وفات پائی.مولوی مودودی صاحب کے نزدیک ان کی تفسیر کی رو سے از روئے قرآن مجید حضرت عیسی علیہ السلام کا آسمان پر مع روح و جسم جانا تو قطعی نہ ہوا مگر کرہ زمین پر رہنا تو ان کے نزدیک قطعی ہے.کیونکہ زمین پر تو وہ پہلے سے ہی قطعی طور پر موجود تھے.پس مودودی صاحب اگر انہیں اب تک کہیں کرہ زمین پر ہی زندہ مانتے ہیں تو پھر انہیں ان کی تلاش کرنی چاہئے.خدا تعالیٰ نے وہ زمین قرآن مجید میں وَأوَيْنَهُمَا إِلى رَبوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِيْنِ (المومنون (۵) کے الفاظ میں بتا دی ہوئی ہے.پس ایسی پہاڑی وادیوں میں انہیں ان کی تلاش ضرور کرنی چاہئے کیونکہ رفع الی اللہ کے معنی آسمان پر جانا تو ان کے نزدیک معین نہیں اور کسی اونچے پہاڑی علاقہ میں ان کی ہجرت قرآن

Page 33

۳۲ کریم میں مذکور ہے.ہاں اس موقعہ پر مودودی صاحب سے یہ پوچھنا بھی ضروری ہے کہ اگر ایک سوال حضرت عیسی علیہ السلام کرہ زمین پر ہی کسی جگہ مخفی ہیں تو پھر ان کے فرشتوں کے کندھوں پر منارۃ البیضاء کے پاس نازل ہونے والی حدیث کی آپ کیا تشریح فرمائیں گے.کیونکہ وہ تو پھر زمین سے بر آمد ہونے چاہئیں.آسمان سے تو نہیں آ خدا کے بندو! کیوں سیدھے طور پر یہ نہیں مان لیتے کہ نزول مسیح سے مراد حضرت عیسی علیہ السلام کے کسی مثیل کا آتا ہے اور دو فرشتوں کے کندھوں پر نازل ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس مسیح موعود کو آسمانی مدد حاصل ہوگی.وہ صاحب وحی و الہام ہو گا اور ملائکہ کا تائید یافتہ ہو گا.تا ہر قسم کی الجھنوں سے بچ جاؤ.خلاصہ کلام تو چونکہ سورۃ مائدہ کی آیت كُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ دم فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ اَنْتَ الرَّيْبَ عَلَيْهِمْ سے واضح اور روشن طور پر حضرت عیسی علیہ السلام کا وفات پا کر دوبارہ واپس نہ آنا ثابت ہے.اس لئے نزول مسیح ابن مریم سے متعلقہ پیشگوئیوں میں ابن مریم کا لفظ بطور استعارہ تسلیم کرنا ضروری ہے کیونکہ جو شخص وفات پا جائے وہ بموجب نصوص قرآنیہ اس دنیا میں واپس نہیں آسکتا.چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے.ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذلِكَ لَمَيِّتُونَ ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ (المومنون: ۱۶ ۱۷) یعنی تم پھر اس کے بعد (یعنی پیدا ہونے کے بعد) ضرور مرنے والے ہو پھر یقینا تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے.لیکن اگر یہ قانون بھی ہو تاکہ کوئی وفات یافتہ زندہ ہو کر اس دنیا میں واپس آسکتا ہے تو حضرت عیسی علیہ السلام پھر بھی واپس نہیں آسکتے کیونکہ قیامت کے دن فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أنتَ الرَّيْبَ عَلَيْهِمْ کے الفاظ میں وہ جو جواب دیں گے اس سے

Page 34

ظاہر ہے کہ توفی کے بعد انہیں قوم میں دوبارہ آنے کا موقع نہیں ملا ہو گا.کیونکہ وہ کہیں گے.میری توفی کے بعد (اے خدا) ان پر تو ہی نگران تھا.یعنی توفی کے بعد مجھے پھر قوم میں دوبارہ جانے کا موقع ہی نہیں ملا.اور توفی سے پہلے کی حالت کا ذکر وہ كُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ کے الفاظ سے کریں گے کہ میں ان کا اس وقت تک نگران رہا جب تک ان میں موجود رہا.پس قوم میں موجودگی کے بعد ان کی جو توفی ہوئی اس سے قوم میں واپسی اور قوم کے بگڑنے کی حالت کے متعلق مشاہداتی علم رکھنے سے وہ انکار کر رہے ہیں.لہذا اس آیت سے حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات روز روشن کی طرح ظاہر ہے.اس لئے نزول ابن مریم کی پیشگوئی میں "ابن مریم " کا لفظ بطور استعارہ تسلیم کرنا ضروری ہوا.وَهَذَا هُوَ الْمُرَادُ.بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ علم معانی والے کہتے ہیں لا ایک اعتراض کا جواب اِسْتَعَارَةَ فِي الْأَعْلَامِ مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ علم یعنی نام بطور استعارہ کسی صورت میں استعمال ہی نہیں ہو تا بلکہ مراد یہ ہے کہ استعارہ اس علم کے کسی خاص وصف میں ہوتا ہے.جیسے کسی کو مٹی ہونے کی وجہ سے حاتم کہہ دیا جاتا ہے نیز دیکھئے ! ابو سفیان نے ہر قل قیصر روم کے دربار میں لقد امر أَمْرُ ابْنِ ابی کبشہ کے الفاظ میں آنحضرت تمام ایام کو جو ابن عبداللہ تھے.استعارہ کے طور پر ہی ابنِ ابن كَبْشَةَ کہا ہے یہ روایت صحیح بخاری میں درج ہے.اس جگہ ابو سفیان کی مراد یہ ہے کہ آپ ایک وصف میں ابن ابی کبشہ کے مثیل ہیں.علاوہ ازیں صحیح بخاری میں ایک اور حدیث بھی موجود ہے جس میں رسول کریم فرماتے ہیں:.مَا مِنْ مُوْلُودٍ يُولَدُ إِلَّا وَالشَّيْطَانُ يَمَسُّهُ فَيَسْتَهِلُ صَارِ خَامِنْ مَسَ الشَّيْطَنِ إِيَّاهُ إِلَّا مَرْيَمَ وَابْنَهَا

Page 35

(بخاری کتاب الاحياء باب وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِبْرَا نَتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيَا " یعنی کوئی مولود پیدا نہیں ہو گا مگر شیطان اسے ولادت کے وقت چھوٹے گا.پس وہ شیطان کے اسے چھونے پر پھیچے چلائے گا بجز مریم اور ابن مریم کے.اس حدیث نبوی میں بتایا گیا ہے کہ جب بلوغت پر انسان کی معنوی ولادت ہوتی ہے اور اس طرح کوئی انسان ایک صحیح مذہب میں جنم لیتا ہے تو اس معنوی ولادت پر شیطان اس کے پیچھے پڑ جاتا ہے.اور اسے گمراہ کرنا چاہتا ہے.اس موقعہ پر یہ روحانی مولود دعاؤں میں لگ جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کے حضور گڑ گڑاتا ہے کہ وہ اسے شیطان کے حملے سے محفوظ رکھے.مگر جو شخص ولادت معنوی کے موقع پر مربی مقام یا ابن مریم کا مقام رکھے وہ مس شیطان سے پاک ہو گا.اس حدیث میں " مریم " اور " ابن مریم " کا لفظ ایسے بزرگان امت کے لئے بطور مجاز و استعارہ استعمال ہوا ہے جو مقام ولایت یا مقام نبوت تک پہنچے ہوں.ایسے لوگ مس شیطان سے بالکل پاک رہتے ہیں.اس قسم کے لوگوں کا ذکر سورۃ تحریم میں بھی کیا گیا ہے.چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے:.وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً لِلَّذِيْنَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَ نَجْنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ ، وَ مَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيْهِ مِنْ تُوْحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَتِ رَتِهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ (التحریم: ۱۳۱۲) اللہ تعالی نے مومنوں کی مثال فرعون کی عورت سے بیان کی ہے.جب اس نے کہا.اے میرے رب! تو میرا گھر اپنے پاس جنت میں بنا اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے نجات دے اور مجھے ظالم لوگوں سے نجات دے

Page 36

۳۵ اور (مومنوں کی) مریم بنت عمران سے مثال دی ہے جس نے اپنی شرمگاہ کو بچایا.پس ہم نے اس میں روح پھونکی اور اس نے خدا کے کلمات کو سچا جاتا اور فرمانبرداروں میں سے تھی.ان آیات میں مومنوں کے لئے دو تمثیلیں دی گئی ہیں.چنانچہ پہلی آیت میں بعض مومنوں کو فرعون کی بیوی سے مشابہ قرار دیا گیا ہے.جو فرعون اور اس کے عمل اور ظالموں سے نجات پانے کے لئے دعائیں کرتی تھی.اسی قسم کے مومن وہ ہوتے ہیں جن کا ذکر حدیث نبوی میں انہیں شیطان کے چھونے اور ان کے چیخنے چلانے کے الفاظ میں کیا گیا ہے.دوسری قسم کے مومنوں کی مثال مریم بنت عمران سے دی گئی ہے جس میں نفخ روح سے حضرت ابن مریم پیدا ہوئے.حدیث نبوی میں ان دونوں کا ذکر الَّا مَ_يَمَ وَابْنَهَا میں کیا گیا ہے اور انہیں میں شیطان سے پاک قرار دیا گیا ہے.پس اس حدیث میں "مریم " اور " ابن مریم " کے الفاظ استعار تا وصف مریمی لئے استعمال ہوئے ہیں حضرت مریم اور وصف ابن مریم رکھنے والے انا ولایت کی صفت سے متصف اور ابن مریم نبی اللہ تھے.اور امسیح کی صفت سے متصف تھے اور بتایا گیا ہے کہ امت میں مریخی صفات و ابن مریم کی صفات سے متصف ہونے والے یا دوسرے لفظوں میں ان کے مثیل مس شیطان سے پاک رہتے ہیں.ورنہ یہ ماننا پڑے گا کہ کوئی نبی اور ولی سوائے مریم اور ابن مریم کے مس شیطان سے پاک نہیں.پس حدیث نبوی میں ابن مریم کے نزول کی پیچھوئی میں ایسے شخص کا امت محمدیہ سے ظہوری مراد ہو سکتا ہے جو مثیل مسیح ابن مریم ہو کر امت محمدیہ کا المسیح الموعود ہے.صحیح بخاری میں نازل ہونے مسیح موعود آنحضرت علی الا اللہ کا خلیفہ والے " ابن مریم " کو اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ و حدیث کہہ کر اور حدیث صحیح مسلم میں فَامَّكُم مِنْكُمْ کہہ کر اور حدیث مسند احمد بن حبل

Page 37

۳۶ میں إمَامًا مَهْدِيا کہہ کر اس ابن مریم کو امت محمدیہ میں سے امت کا امام قرار دیا گیا ہے.طبرانی کی ایک حدیث میں آیا ہے.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَا إِنَّ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيَّ وَلَا رَسُولَ - أَلَا إِنَّهُ خَلِيفَتِن فِي أُمَّتِن مِنْ بَعْدِى أَلَا إِنَّهُ يَقْتُلُ الدَّجَالَ وَيَكْسِرُ الصَّلِيْب وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ وَ تَضَعُ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا مَنْ أَدْرَكَهُ فَلْيَقْرَهُ عَلَيْهِ السَّلَام - (المعجم الاوسط جلد۵ صفحه ۴۶۶ حدیث ۲۸۹۵ مصنف ابو القاسم سلمان بن احمد الطبرانی مكتبه المعارف والنشر والتوزيع الرياض) یعنی ابو ہریرہ سے مروی ہے انہوں نے کہا رسول خدا میں نے فرمایا.بے شک میرے اور عیسی بن مریم کے درمیان کوئی نبی اور رسول نہیں سنو ا یقینا وہ میری امت میں میرے بعد میرا خلیفہ ہے.سنو! بے شک وہ دجال کو قتل کرے گا اور صلیب کو توڑے گا اور جزیہ موقوف کر دے گا اور لڑائی اپنے اوزار رکھ دے گی.سنو ا جو تم میں سے اسے پائے اسے السلام علیکم کے.احباب کرام ! یہ حدیث میں اس بات کے ثبوت میں پیش کر رہا ہوں کہ امت محمدیہ میں موعود عیسی بن مریم کو آنحضرت مالی نے نبی اور رسول کہا ہے اور اس کے متعلق یہ بھی بتایا ہے کہ وہ آپ کے بعد آپ کا خلیفہ اور جانشین ہو گا.اور قرآن مجید کی آیت استخلاف سے جو سورہ نور میں نازل ہوئی ہے یہ امر روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ آنحضرت میں کے بعد آپ کے تمام خلفاء آپ کی امت میں سے ہوں گے اور یہ سب خلفاء اسلام سے پہلے گذرے ہوئے خلفاء کے مثیل ہونگے.یہ آیت کسی پہلے نبی کے آنحضرت اللہ کے خلیفہ ہونے کو امر محال قرار دیتی

Page 38

۳۷ ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(النور : ۵۶) وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحْتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا - یعنی اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لا کر اعمال صالحہ بجالا ئیں گے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا.جس طرح اس نے ان لوگوں کو خلیفہ بنایا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں اور ضرور ان کا وہ دین ان کے لئے مضبوط کرے گا جو اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے اور ضرور ان کو خوف کے بعد امن سے بدل دے گا." یہ آیت اس بات پر نص صریح ہے کہ امت محمدیہ میں موعودہ خلافت کا وعدہ آنحضرت می و تحلیل مل کے امتیوں کو دیا گیا ہے اور امت محمدیہ کے خلفاء کو پہلے گذرے ہوئے خلفاء سے كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ کہہ کر لفظ كَمَا کے ذریعہ تشبیہ دی گئی ہے.پس اس امت کے خلفاء مشبہ ہیں اور پہلی امتوں کے خلفاء مشبہ به چونکه شبہ اور مشبہ بہ میں از روئے علم بیان مغائرت کا ہونا ضروری ہے اس لئے امت محمدیہ کے خلفاء پہلے گزرے ہوئے خلفاء کے غیر ہونگے.یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی پہلا خلیفہ آکر امت محمدیہ میں آنحضرت لی لی اور اللہ کا خلیفہ بن جائے.کیونکہ اس سے مشبہ اور مشبہ بہ کا عین ہو جانا لازم آتا ہے جو محال ہے اور جس امر سے ایک محال امر لازم آئے وہ امر باطل ہوتا ہے چونکہ حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے اماناً آنحضرت اللہ کا خلیفہ بننا محال ہے.لہذا ان کا دوبارہ آکر آنحضرت میر کا خلیفہ بننا مستلزم محال ہونے کی وجہ سے باطل ہے اور ثابت ہو گیا کہ حدیث نبوی کی یہی تعبیر درست ہے کہ اس حدیث کے موعود عیسی بن مریم سے مراد در حقیقت امت محمدیہ کا ایک فرد

Page 39

FA ہے جو امت میں سے آنحضرت میر کا ایک خلیفہ ہو گا اور اسے عیسی ابن مریم کا نام النسيج کا وصف رکھنے کی وجہ سے دیا گیا ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ صحیح بخاری کی حدیث كيف غیر احمدیوں کی غلط تعبیر آنتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ میں امام سے مراد امام مہدی ہے اور حدیث ہذا میں وَ اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ کے الفاظ نازل ہونے والے " ابن مریم " کے متعلق استعمال نہیں کئے گئے بلکہ ایک دو سرے شخص امام مہدی کے متعلق بیان کئے گئے ہیں.اس کے جواب میں واضح ہو کہ حدیث ہذا میں وَ اِمَامُكُمْ مِنْكُم جملہ اسمید بطور حال کے واقع ہوا ہے اور ذوالحال اس کا اِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيْكُمْ ہے اور اس حدیث میں " ابن مریم " سے کسی الگ امام کا ذکر نہیں بلکہ اسے امت میں سے قرار دیا " گیا ہے.چنانچہ ہمارے ان معنوں کی تائید صحیح مسلم کی ایک دوسری حدیث كيف انتم إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيْكُمْ فَاتَكُمْ مِنْكُمْ سے ہو رہی ہے.صحیح بخاری کی حدیث میں وَاِمَامُكُمْ مِنْكُم جملہ اسمیہ ہے اور اس کا مبتدا هو محذوف ہے.دوسری حدیث میں جو صحیح مسلم میں وارد ہے.اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ کی بجائے فَامَّكُم مِنْكُمْ پورا جملہ فعلیہ استعمال ہوا ہے.ام فعل ماضی ہے جس میں هُوَ ضمیر غائب مستتر ہے.اس کا مرجع صرف ابن مریم ہی ہو سکتا ہے لہذا جس طرح دوسری حدیث میں ابن مریم کو ہی است میں امت کا امام قرار دیا گیا ہے اسی طرح صحیح بخاری کی حدیث میں بطور جملہ اسمیہ یہی مضمون بیان ہوا ہے.ایک تیسری حدیث میں وارد ہے يُوْشَكُ مَنْ عَاشَ ایک تیسری حدیث منكُم اَنْ تَلْقَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ إِمَا مَامَهْدِيًّا حَكَمًا عد لا يَكْسِرُ الصَّلِيْب وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ : سلے مسند احمد بن حنبل بروایت ابو هریره جلد ۲ صفحه ۲۱۱ مطبوعہ مصر

Page 40

قریب ہے کہ جو تم میں سے زندہ ہو وہ عیسی بن مریم سے ملے اس کے امام مہدی حکم اور عدل ہونے کی حالت میں وہ صلیب کو توڑے گا اور خنزیر کو قتل کرے گا.پس ان حدیثوں میں امام اور مسیح ابن مریم کو ایک ہی وجود قرار دیا گیا ہے اس کے علاوہ مہدی کے متعلق جس قدر احادیث مروی ہیں جن میں بعض مجروح اور ضعیف بھی ہیں وہ سب مہدی کو امت کا ایک فرد ہی قرار دیتی ہیں.صحیح بخاری میں دو اور حدیثیں وارد ہیں ایک میں ذکر ہے کہ ایک اور حدیث معراج کی رات آنحضرت میم نے عیسی ابن مریم کو بھی نبی کے ساتھ دوسرے آسمان پر دیکھا.اس سے ظاہر ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام وفات پا کر حضرت یحی علیہ السلام کے ساتھ برزخی زندگی گذار رہے ہیں.لہذا ان کی جسمانی زندگی کا خیال باطل ہے اس حدیث سے صرف ان کی برزخی زندگی کا ثبوت ملتا ہے ورنہ زندہ کا وفات یافتہ کے ساتھ رہنے کا کوئی جوڑ نہیں.پھر حدیث معراج میں آنحضرت نے حضرت عیسی علیہ السلام کا حلیہ اَحْمَرُ جَعْدل کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کا رنگ سرخ اور گھنگھرالے بال تھے.ایک دوسری حدیث میں وارد ہے کہ آنحضرت نے رویا میں دجال کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور اس کے پیچھے عیسی بن مریم کو طواف کرتے دیکھا اس جگہ آپ نے عیسی بن مریم کا حلیہ أدم سبط الشعر، بیان فرمایا ہے کہ اس کا رنگ گندمی ہے اور بال تک رہے ہیں.پس بھی علیہ السلام کا ساتھی عیسی بن مریم اور شخص ہے اور دجال کا پیچھا کرنے والا عیسی ابن مریم اور شخص ہے کیونکہ دونوں کے حلیے الگ الگ ہیں جو دو الگ الگ شخصوں پر دلالت کر رہے ہیں.اللهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ بخاری کتاب الانبياء باب وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا

Page 40