Language: UR
ایک مرتد آریہ دھرم پال نے جس کا پہلا نام عبدالغفور تھا، ترک اسلام کے نام سے ایک کتاب شائع کی تھی، جس میں اس نے اسلام اور قرآن پر بڑے سخت اعتراضات کئے تھے، اس کتاب میں ان تمام اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے مسئلہ جہاد اور حقیقت تناسخ وغیرہ پر بھی بحث کی گئی ہے اور پنڈت دیانند صاحب کے بھی ان اعتراضات کا رد کیا گیا ہے جو انہوں نے قرآن کریم پر کئے ہیں۔ مقطعات قرآنیہ پر بھی بحث کی گئی ہے۔ اولاً یہ کتاب 1904ء میں قادیان سے 256 صفحات پر طبع ہوئی۔ جبکہ موجودہ ایڈیشن ٹائپ شدہ اور ایک تفصیلی فہرست مضامین کے ساتھ قریبا ساڑھے تین صد صفحات پر مشتمل ہے۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ دیباچہ (الانعام : ۲) (التوبۃ : ۳۳) (الفرقان : ۳) لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ سُبْحَانَہ وَ تَعَالٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ.اللّٰھمّ فصلّ و سلّم و بارک علیہ و علٰی خلفائہ کما وعدت فی قولک.ولیمکنن لھم دینھم الذی ارتضی لھم و لیبدلنّھم من بعد خوفھم امناً.و لو کرہ الکافرون.اما بعدخاکسار نورالدین اللّٰھم اجعلہ کاسمہٖ.آمین.گزارش پرداز ہے کہ ہم نے ارادہ کیا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کو پورا کرنے والا اور ہم کو خطاؤں شرارتوں اور ہر قسم کے دھوکوں اور
دھوکہ بازیوں سے بچانے والا ہے کہ اپنے اس دیباچہ کو ان چند ضروری فقروں پر ختم کردیں.فقرہ اوّل: اسلام کا اصلی سر چشمہ اور اس کا حقیقی منبع اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے جس کا نام السلام ۱؎ ہے.قرآن کریم میں اس مبارک نام کا مبارک ذکر اس کلمہ طیبہ میں آیاہے: (الحشر:۲۴) یعنی وہی اللہ ہے کوئی معبود اور کاملہ صفات سے موصوف اس کے سوا نہیں.وہ حقیقی بادشاہ ہر ایک نقص سے منزہ و بے عیب و سلامت ہے.اور اسلام کا حقیقی ثمرہ دارالسلام ہے جس کا آسمان و زمین اور درودیواراور جس کے تمام یار غمگسار طیب ہوں گے اور ان کے میل جول میں سلامتی وسلام ہی ہو گاجیسے فرمایا: (یونس:۱۱) اسی طرح الاسلام کے ظہور کے لئے دو شہر مقدر تھے.ایک ام القرٰی مکہ جس کے لئے ایسی ایک پیشگوئی ہے کہ اگر سوفسطائی اور دہریہ بھی اس پر منصفانہ نظر کرے تو اللہ تعالیٰ کی ہستی کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے علم وقدرت کا بھی دل سے قائل ہو جاوے.اس مختصر تمہید میں ہم صرف دو آیتوںکا ذکر کرتے ہیں.مکہ معظمہ تیسرا مظہر اسلام کا اس دنیا میں ہے اوراس مکہ معظمہ کی نسبت یہ ارشاد ہیں.اول:(پھر ان آیات بینات کا بیان کیا ہے جیسے فرمایا) ؎ اس سے ہمارا یہ مقصد ہے کہ اسلام کے لفظ میں خدائے علیم کی طرف سے پیشگوئی مرکوز ہے کہ اسلام اور اس کے تمام متعلقات ابد تک سلامتی اور حفاظت سے رہیںگے.جیسا کہ اس کے چشمہ یعنی اللہ تعالیٰ کا نام السلام ہے.اس لئے یہ نام اور یہ فخر اور کسی مذہب کو نہیں ملا.منہ
(اٰل عمران:۹۷،۹۸) اور دوسری آیت یہ ہے:(المائدہ:۹۸) ان دو آیتوں میں آٹھ امور کا بیان فرمایا گیاہے اور ان کو آیات بینات کہا ہے.اوّل.یہ کہ مکہ مقام ابراہیم ہے.دوم.اس میں داخل ہونے والوں کے لئے امن ہے.سوئم.اس کا حج کرنا لوگوںکے ذمہ لگایا ہے.چہارم.کعبہ عزت کا گھر ہے.پنجم.یہی مکہ لوگوں کے قیام کا باعث ہے.ششم.اس کا ایک مہینہ معزز بنایا گیا ہے.ہفتم.ہدٰی.ہشتم.قلا ئد کو اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے اور ان امور ہشت گانہ کے بنانے کی وجہ بتائی کہ تم جان لو اللہ تعالیٰ ہے بلکہ علیم ہے.کوئی غور کرنے والا غور کرے کہ کسی مکان کو یا کسی زمانہ کو معزز بنانا کوئی اچنبے کی بات نہیں.لوگ مکانوں اور اوقات کے بعض حصص کو عزت دیا ہی کرتے ہیں.بنایا کرتے ہیں اوران میں چند رسومات کا قائم کرنا بھی کوئی اچنبے کی بات نہیںکیونکہ لوگ رسومات بھی قائم کیا ہی کرتے ہیں.ہزاروں ہزار مکان لوگ بناتے اور لوگوں نے بنائے اور ان پر بڑاروپیہ خرچ کرتے رہے اور کرتے ہیں.لاکھوں معبد بنے اور کروڑوں بلکہ اربوں روپیہ ان پر خرچ ہوا.بنانے والوں کے بڑے بڑے ارادے ان کے متعلق تھے مگر اوّل تو ان مکانات اور ان رسومات کے ادا کے لئے جو اوقات مقرر کئے
گئے بلکہ جو مکانات تجویز کئے ان کے قیام و بقا کا دعویٰ نہیں کیا گیا اور اگر بفرض محال دعویٰ کیا گیا تو باطل ثابت ہوا.بیت الشمس افریقہ کا اور پٹرامون یونا ن کا.ایاصوفیا روم کا.آتش کدہ آذرکا.سومنات جگن ناتھ.کانشی.متھرا.گیاامر ناتھ وغیرہ وغیرہ کچھ کم نہیں گزرے.ان میںسے بعض تو نیست ونابود ہی ہو گئے اور بعض مخالفوں کے مفتوح ہیں.اپنے پرستاروں کے لئے مأمن نہیں رہے اور چونکہ امن ہمیشہ خوف کے مقابلہ میں ہوا کرتا ہے اور دنیا میں ایک ہی عظیم الشان مذہبی خوف تھا جس کا ذکر کتب سابقہ یہود و نصارٰی میں ہے اور صرف وہ ایک ہی فتنہ الٰہی حکمتوں سے مقدر تھا جس سے پناہ مانگنا ہم کو سکھایا گیا.وہ فتنہ ہے دجال کا فتنہ.اب دیکھو دجال اگر دجالہ لفظ سے نکلا ہے جیسے قاموس اور اس کی شرح میں ہے تو وہ ایک فرقہ عظیمہ (کمپنی) کانام ہے جو اپنے مال ومتاع کو تجارت کے لئے پھیرے اور اگر کسی کذب و افتراء والے کا نام ہے تو اس سے زیادہ کیا افتراء ہو گا کہ عورت کا بچہ خدا کا بیٹابلکہ خدا بلکہ جامع روح القدس خدا اور روح الابن خدا اور خدائے مجسم اور روح الانسان مانا ہی نہیں گیا بلکہ اس اعتقاد کی طرف کھینچنے کے لئے اربوں روپیہ پانی کی طرح ہر روز بہایا جاتا ہے.شراب جو جماع الاثم کیا معنے؟ تمام بدکاریوںکا جامع ہے.ان خداؤں کے مجموعہ کے خون کے بدلہ یادگار کے طور پر مذہبی رسم یا عبادت کے وقت پیا اور پلایا جاتا ہے.النساء حبائل الشیطان (کچھ عورتیں شیطان کا کمند ہیں)کو اس کام پر لگایا گیا.اس کام کے واسطے مشنری ہسپتال بنائے گئے.میںنے ایک پرانی مشہور کنچنی سے پوچھا تھا کہ تمہارا پیشہ جو قطعاً قویٰ فطریہ انسانیہ کے خلاف ہے اور ان کا دشمن ہے.مجھے معلوم نہیں ہو سکتا کہ کس طرح پیدا ہو گیا؟ تو اس تجربہ کار نے مجھے جواب دیا.قربان جاؤں !خوش خوراک خوش پوشاک مرد اور با این ہمہ خواہشات پھر کاہل و سست یہ پیشہ اختیار نہ کرے تو کیا کرے ؟مگر اس بیان کے بعد ثابت ہو گیا کہ دام مارگیوں ساکتوں نے مذہبی رنگ میں اس فرقہ کو عورتوں کے جنم سدہارنے
کے لئے بھی بنایا ہے اور کاہلوں سستوں کے لئے تو دوسری جگہ مشن کمپونڈ بھی ہیں اور اس قدر کتابیں اور رسائل اس مطلب کے لئے نکالے گئے کہ ہماری گنتی سے بالکل باہر پڑے ہیں وغیرہ وغیرہ.یہ لوگ مشرق میں کہاں پہنچے ہیںکہ حیرت ہوتی ہے!! مگر دیکھ لو کہ وہ شہر ان فتن سے بالکل امن میں ہے اور جو رسومات اس میں جس عظمت کے لئے لامعلوم زمانہ سے قائم کی گئی وہ اسی طرح ادا کی جاتی ہیں اس موقع پر ابراہیم علیہ السلام کا ذکر اس لئے ہے کہ وہ یہود و نصارٰی،صابئین میں مکرم معظم مانے گئے تھے.چوتھا مظہر الاسلام اور دوسرا شہر اور زمین پر طابہ طیبہ مدینۃ الرسول ہے ﷺ جس کے لئے وہی وعدہ اس فتنہ سے امن کا ہے اور وہ بھی اب تک محفوظ ہے اور ایسا ہی محفوظ رہے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.اور اس دنیا میں پانچواں مظہر الاسلام کا قرآن کریم ہے.اس کی سلام ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اللہ السلام خود اس کا محافظ ہے جیسے فرماتا ہے.(الحجر:۱۰) اس کی حفاظت کا مفصل تذکرہ سوال نمبر ۱۱۲/۱۱۵ کے جواب میں دیکھو.ص ۳۱۱ و ۳۲۱ اور چھٹا مظہر الاسلام اور اس کا مبلغ حضرت محمد رسول اللہ خاتم الرسل والنبیین رسول رب العالمین ہے.غور کرو! زمانہ نبوی میںعرب میں کسی کا مارڈالنا کوئی مشکل امر نہ تھا.بڑے بارعب شخص ہمارے جد امجد عمر رضی اللہ عنہ کو مارنے والے نے مارااور اسلام میں وہ ننگ اسلام بھی ہیں جن کے اعتقادمیں وہ قاتل بابا شجاع کہاجاتاہے.بڑے بہادر اسد اللہ علی مرتضیٰ علیہ السلام کو مارنے والے شقی نے مارا جس نامراد کا ابن ملجم نام مشہور ہے.جناب عثمان رضی اللہ عنہ جیسے مدبر، قوم کے عظیم الشان خلیفہ کو مارنے والوں نے مارا گو کیفرکردار کو پہنچے.اس ملک کے علاوہ ہم تو سنتے ہیں کہ دیانند جی کوبھی کوئی ایسا ہی معاملہ پیش آیا تھا اور آریہ مسافر کو تو اس امن کی سلطنت میںمارنے والے نے مارا اور اس کے لائق اتباع اور پولیس کو اتنا پوچھنے کی یاوری نہ ملی کہ کوئی آریہ مسافر سے پوچھتا کہ آپ کو کس نے مارا ؟ غرض بات صاف ہے مگر نبی کریم ﷺ کے لئے دعویٰ موجود ہے
(المائدۃ : ۶۸) اور دعویٰ بھی ایسے وقت میں کہ ابتدائے اسلام تھا اور آپ کے لئے آپ کے دروازہ دربان کوئی نہ تھا بلکہ اپنے اور بیگانے سب دشمن تھے.آریہ اور عیسائی کہتے ہیں کہ بجبر لوگوںکو مسلمان بنایا جاتا تھا.الّا ان مجبوروں کو جو بقول ان کے دائیں اور بائیں تھے یاوری نہ ملی کہ اس دعویٰ کو باطل کرتے مگر آخر یہ دعویٰ (المائدۃ : ۶۸) صحیح اور یہ پیشگوئی سچی نکلی بلکہ (الحاقۃ : ۴۵) کا مضمون موید ساتھ تھااور مکذب بھی بایں کثرت تھے کہ مشرکین عرب اور یہود و نصارٰی پر بس نہ تھی.شام و روم ،مصروایران.اس لئے مجھے کبھی ذرہ خیال نہیں آیا کہ اسلام دنیا سے نیست و نابود ہو بلکہ(التوبۃ : ۳۳) کا وقت نظر آرہا ہے.علاوہ بریں تجارب گواہ ہیں.دیکھو ہلاکو خان اور اس کے ناکام مشیر نصیرالشرک اور رسالہ مؤید الکفر نے کیا نہ کیامگر آخر ہلاکو کی اولاد خادمِ اسلام ہوئی اور وہ دونوں وزراء ناکام ونامراد دنیا سے چل دئیے.پس یہ بحث اور مضمون جو میں نے لکھا ہے بعض کی بھلائی کے لئے لکھا ہے اور اپنے فہم و فراست کے مطابق سمجھانا مقصود ہے کہ کوئی روح سلامتی پر پہنچ جاوے. (النجم:۴۰تا۴۲) چونکہ اسلام انقیاد وفرمانبرداری،صلح و آشتی کانام ہے اس لئے اسلام کی ابتدائی نشوونما میں جب صنادید عرب علی العموم اور اراکین مکہ نے بالخصوص مسلمانوں کو شدید ایذائیں دینا شروع کیں تو حتی الامکان صبر وحلم وبردباری سے کام لیا گیا.جب ایذا حد سے بڑھی اور ناقابل برداشت ہو گئی تو مسلمانوں نے ملک حبش کو ہجرت کی.عمائد مکہ اس پر بھی باز نہ آئے اور مسلمانوں کا تعاقب ملک حبش تک کیا.اہل مدینہ کے اصرار پر مدینہ کو مسلمانوں نے ہجرت کی اور صاحب اسلام حضرت نبی کریم
علیہ الصلوۃ والسلام مع صحابہ کرام مدینہ کو ہجرت فرما ہوئے.وہاں جاتے ہی بنی اسرائیل و یہود کے ساتھ امن عام کے لئے ایک معاہد ہ کیاجس کا ذکر اس آیت کریمہ میں ہے: الی قولہ (البقرۃ : ۸۴،۸۵) اور اس قسم کی دوسری آیات میں بھی یہ مضمون مفصل ہے.آخر ان میں نہلسٹ،انارکسٹ اور فریمیسن وغیرہ پیدا ہو گئے.اس امر کی تفصیل ہم نے سوال نمبر۱۱۶کے جواب میں لکھ دی ہے اور فرمایا: (البقرۃ : ۱۰۱) اور فرمایا: (البقرۃ : ۲۷،۲۸) آخر حسب پیشگوئی(المومن : ۵۲) سب مخالف خائب وخاسر وناکام ہلاک ہوئے. (المنافقون : ۹) أَ لَا إِنَّ حِزْبَ اللَّہِ ہُمُ الْغٰلِبُوْنَ..(المجادلۃ : ۲۰) پھر جب ہم تمام عرب وعجم حضرت نبی کریم ﷺ کی مخالفت پر بھڑک اٹھے تو پیشگوئی فرمائی گئی..(الانبیاء : ۲تا۴) اور حرف بحرف پوری ہوئی.ہم جانتے ہیں اور واقعی بھی ہے کہ دل بڑھانے کو بھی ایسے کلمات لوگ کہاہی کرتے ہیں مگر کیا ہر جگہ اور ہر ایک مطلب میں وہ ایسے کامیاب ہوتے ہیں کہ
(المائدۃ :۴) کی صدا ان کے کان میں پہنچے اور کیا(المائدۃ : ۴) کا خلعت ایسا ملتا ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺ کو ملا.آپؐ نے آخر ایام میں دنیا سے اس وقت کوچ کیاجب تمام مخالف سر بسجود للہ الکریم ہو گئے اور تمام معبد شرک اور مخالف بے نام و نشان ہوئے.یہ بے نظیر فتح مندی سوائے دھارمک ۱؎ پرش کے ممکن ہی نہیں.جو مانگا سو پایا.جو چاہا سو ملا.پس یہ رضا الٰہی کا ثمرہ تھا.جس طرح ابتداء اسلام میں اسلام نے جنگ میں ابتداء نہیں کی.اسی طرح اِس وقت روحانی اور دلائل کے جنگ کے وقت بھی اسلام نے ابتدا نہیں کی.بعض نادان وبے خبر مسلمان اس حقیقت کو نہ سمجھیں توان کی حماقت وجہالت ہے اور ایسے کم عقل ہر قوم میں ہوا کرتے ہیں مثلاً مسیحی مذہب نے پادری فنڈر کی افسری سے اسلام پر میزان وطریق وغیرہ سے حملہ کیا اور آریہ سماج نے ستیارتھ کے چودہویں پورے سملاس اور بھو مکا وغیرہ رسائل میں جستہ جستہ مقامات میں اسلام پر خطرناک حملہ کیا.اسلام کے خدا پر جو ہمارا اور اس کا ایک ہی خدا تھا.گو ان سے یا ہم سے اس کے صفات کی فہم میں غلطی ہوئی اور اسلام کی کتاب پر اسلام کے ہادی و مصلح پر وہ گالیوں کا طوفان باندھا ہے کہ الامان!اگر صاحب سماج کو کوئی سادہ نام سے یاد کرے تو آریہ سماج آگ ببولا ہو جاوے اور خود جو چاہا اناپ شناپ لکھ دیا ہے.پھر ان کی تاثیر سے آریہ مسافر نے تو خاتمہ کر دیا.اور اس کے پوتے صاحب یوگندر پال اور دھرمپال نے جو شیریں کلامی اور نرمی دکھائی ہے اس کے لئے یہ ترک اسلام کا مختصر رسالہ کافی گواہ ہے.ایک ہمارے نون میانی کے ہم مکتب آریہ سماجی ایک بار مجھے سے فرمانے لگے کہ کہو جی کون دھرم ہے والی نظم پہلے کس نے لکھی.میں نے عرض کیا جناب ! آپ وہ لوگ نہیں جن کے مقابلہ پر وہ نظم ہے بلکہ ان پر تو خود مہارشی آپ کے سرسوتی اور سوامی جی نے وہ لے دے کی ہے کہ جس کے مقابلہ میں ہمارے تحفہ اور اس قصیدہ کی کوئی ہستی ہی نہیں.یہ بتائیے کہ سماج پر کس مسلمان نے پہلے کچھ لکھا ؟ اس پر وہ خاموش تو ہو گئے مگر علاج کے لئے آئے تھے بہت جلد واپس چلے گئے.ہاں ناواقف مسلمان اب بھی کہتے ہیں کہ مرزا جی نے اسلام کو مسیحیوں اور آریہ سے گالیاں دلائی ۱؎ دیندار.صالح.بزرگ
ہیںبلکہ ایک امرتسری متکلّم تو اپنی کتاب میں یہ بھی لکھتا ہے کہ دھرم پال بھی مرزا کی تحریر سے آریہ ہوئے ہیں حالانکہ ترک اسلام میں اس نے اشارہ بھی مرزا کی تعلیم پر نہیں کیا.کہیں پال نے کسی اخبار میں ایسا لکھا تو امرتسر ی صاحب نے اس کو تسلیم کر لیا.اور ایک ایڈیٹر کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور وہ لیکھرام کی کتاب نہ پڑھ سکا.جس نے اسلام کو گالیاں اس لئے دیں کہ مرزا نے اسے گالیاں دلوائیں.وہ کیا تحقیق ہے ؟ستیارتھ کا چودہواں سملاس کیا براہین احمدیہ کے بعد کا لکھا ہوا ہے اور وہ آخری باب کیا گالیاں کا مجموعہ نہیںاور کیا میزان فنڈر کی آئینہ کمالات اسلام سے پیچھے تصنیف ہوئی.ہمیں تو حیرت ہے ایسی تحقیقات پر.انصاف !!! بہرحال ہم مہار شی دیانند جی کے چند اصول کی طرف سماج کو توجہ دلاتے ہیں جو قابل قدر اصول ہیں.وہ بہومکا اور ستیارتھ میں جا بجا ارقام فرماتے ہیں کہ وید میں جو الفاظ آئے ہیں ان کے بہت معانی ہوا کرتے ہیں.مناسب معنے جو پرمیشور کی عظمت و جلال، علیم کل، محیط کل کی شان کے موافق ہوں، مخالف نہ ہوں وہ لینے چاہئے اور اس کا نام انہوں نے شلیشا اَلَنْکَار رکھا ہے.پھر استعارہ وغیرہ صنائع کے متعلق ارشاد فرمایا ہے کہ روپا اَلَنْکَار ہے.پھر ارشاد کیا ہے کہ معانی کے سمجھنے کے لئے مراقبوں (سمادہیوں) مہنتوں کی ضرورت ہے ،منتر سکنتاؤں پر جن رشیوں کے نام ہیں وہ بڑے محنتی مفسر ویدوںکے تھے.پھر اور اصول دیانند جی کے یہ ہیں.جو مذہب دوسرے مذہبوں کو کہ جن کے ہزاروں کروڑوں آدمی معتقد ہوں جھوٹا بتلاوے اور اپنے کو سچا ظاہر کرے اس سے بڑھ کر جھوٹا اور مذہب کون ہو سکتا ہے ؟ستیارتھ ۱۴سملاس صفحہ ۶۹۷فقرہ ۷۳میںیہ لکھا ہے اور اہنسا کے معنے کئے ہیں.اہنسا کا لفظ یوگ درشن کے سادہن پاد کے سوتر ۳۰میں یم کے بیان میں آیا ہے.مہارشی دیاس نے جو یوگ شاستر کے بھاشیہ کار ہیں.اس کا ارتھ یہ کیا ہے کہ ہر حالت میں ہمیشہ ہر ایک جاندار کے ساتھ دشمنی کے خیال کودور کرنا اہنسا کہلاتے ہیں.دیانند اپدیش مَنْجَرِی تیسرا ویاکھیان اور کہا ہے انسان کو مناسب ہے کہ شیریں کلامی کو کام میں لاوے.تیسرا ویاکھیان اور کہا ہے ہر ایک آدمی
جیسا ہوتا ہے وہ عموماً اپنی ہی مانند دوسرے کو سمجھتا ہے.ستیارتھ ۵۷۴.اس قسم کی نصائح دیانند جی کی دیکھو صفحہ نمبر ۵۶۶سے ۵۸۰تک.دھر م پال بلکہ آریہ سماج انصاف کرے کہ وہ عملاً ان میں سے کن اصول کی پابند ہے.آیا ان کلمات پر ہم نہیں کہتے کہ سب آریہ ایسے ہیں.گو وہ کروڑوں نہیں اور پھر ہم کروڑوں ہیںاور ہمیں بُرا کہا گیامگر ہم ایسی سخت کلامی سے کیونکر کام لیں.ہمیں تو قرآن کریم یہود و نصاریٰ کے اس غلط قول کو نصیحت کے طور ہمیں بتاتا ہے: (البقرۃ : ۱۱۴) بیہود نے کہا نصرانی کچھ بھی نہیں.نصرانیوں نے کہا یہود کچھ ہی نہیں.حالانکہ کتاب پڑھتے ہیں.اس طرح تو بے علم لوگوں نے کہا ہے یا کیا ہے.ہمارے نزدیک آریہ سماج کی محنتیں بہت کچھ قابل قدر ہیں.اوّل انہوں نے شرک کے دور کرنے میں بڑاکام کیا جو قابل شکر ہے.دوم ناجائز تقلید کو توڑ کر غلط خیالات کو چھوڑنے اور اس کے بدلہ عمدہ بات کو لینے میں قوم کو دلیر کر دیا ہے.سوم وام مارگیوں.ساکتوں.اگھوریوں.بکالیوں.تالنگیوں کے ہزاروں گندوں کو دور کیا.گو بعض اشیاء کی قدامت اور غیر مخلوق ہونے کا اعتقاد ابھی ساتھ ہے اور دیانندی تقلید بھی کچھ ہے اور نیوگ کو مصلحتاً جائز رکھا ہے مگر جہاں تک نیکی کی وہ قابل شکر گزاری ہے.میرے فہم میں کلام الٰہی کے سمجھنے کے لئے یہ اصول ہیں.اوّل: دعا(پرارتھنا)جناب الٰہی سے صحیح فہم اور حقیقی علم طلب کرنا.قرآن مجید میں آیا ہے.(طٰہٰ :۱۱۵) میرے رب ! میرے علم میں ترقی بخش.اور دعا کے لئے ضرور ہے طیب کھانا،طیب لباس،عقد ہمت،استقلال.دوم: صرف الٰہی رضا مندی اورحق تک پہنچنے کے لئے خدا میں ہوکر کوشش کرنا جیسے فرمایا :
(العنکبوت : ۷۰) سوم: تدبر، تفکر.قرآن مجید میںارشاد ہے:(محمّد : ۲۵) اور فرمایا : (آل عمران : ۱۹۱،۱۹۲) چہارم: حسن اعتقاد وحسن اقوال وحسن اعمال اور فقر ،بیماری، مقدمات و مشکلات میں صبر و استقلال.اس مجموعہ کو قرآن نے تقوٰی کہا ہے.دیکھو رکوع (البقرۃ : ۱۷۸) اور اس کا ایک درجہ سورہ بقرہ کے ابتدا میں ہے جیسے فرمایا ہے کہ اَلْغَیْب پر ایمان لاوے.پرارتھنا اور دعا اور بقدر ہمت وطاقت دوسرں کی ہمدردی کے لئے کوشش کرنے والا متقی ہے اور تقویٰ کے بارے میں ارشاد الٰہی ہے:(البقرۃ : ۲۸۳) ہے لیکن خود پسند آدمی آیات الٰہی کے سمجھنے میں قاصر ہے جیسے فرمایا:(الاعراف : ۱۴۷) پنجم: قرآن کریم کے معانی خود قرآن مجید اور فرقان حمید میں دیکھے جاویں.ششم: اسماء الٰہیہ اور الٰہی تقدیس و تنزیہ کے خلاف کسی لفظ کے معانی نہ لئے جاویں.ہفتم: تعامل سے جس کا نام سنت ہے ،معانی لے اور اس سے باہر نہ نکلے.ہشتم: سنن الٰہیہ ثابتہ کے خلاف ورزی نہ کرے.نہم: لغت عرب و محاورات ثابتہ عن العرب کے خلاف نہ ہو.دہم: عرف عام سے جس کو معروف کہتے ہیں ،معانی باہر نہ نکلیں.یاز دہم: نور قلب کے خلاف نہ ہو.دواز دہم: احادیث صحیحہ ثابتہ کے خلاف نہ ہو.سیزدہم: کتب سابقہ کے ذریعہ بھی بعض معانی قرآن حل کئے جاتے ہیں.
چہار دہم: کسی وحی الٰہی اور الہام صحیح کے ذریعہ سے بھی معانی قرآن حل ہو سکتے ہیں.ہر ایک اصل کی مثالیں دوں تو ایک مجلد ضخیم بن جاوے اور بعض اصول عام لوگوںکے استعمال میں آنے والے نہیں معلوم ہوتے.اس لئے نمونہ کے طور پر بعض ان امور کے استعمال کی مثال بتاتے ہیں.اس لئے گزارش ہے کہ اگر دہرم پال صرف یہ لحاظ رکھتاکہ خدا کی عظمت وجبروت کو مدنظر رکھتا اور اپنے تئیں اس امر کا پابند کرتا کہ لغت عرب کے مختلف معانی سے جو ایک لفظ کے لئے ہوں اور وہ لغت سے ثابت ہوں وہی معنے کئے جاویں جو عظمت و قدوسیت کے منافی نہ ہوںتو اس قاعدہ سے اس کے پینتیس سوالات ترک اسلام کا جواب یکدم مل سکتا تھا.دیکھو سوالات ذیل کے جوابات نمبر ۱،۲،۱۰،۱۳،۵/۱۷،۱۸،۲۱،۲۲،۲۶،۵/۳۰،۳۲،۳۳،۳۴،۳۸،۵/۳۹،۴۶،۴۸،۴۹،۵۰،۵/۵۱، ۵۷،۶۵،۶۸،۷۱،۵/۸۴،۸۷،۸۸،۸۹،۹۰،۵/۹۱،۹۴،۹۸،۱۱۱،۱۱۳،۵/۱۱۵ اس کے علاوہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں کا جواب ہو سکتا تھا.ایک بار میرے سامنے لفظ مکر وکید و استہزاء وغیرہ کی طرح لوگوں نے خدع اور نسیان کا لفظ پیش کیاجو قرآن کریم میں ہیں.میں نے کہا دیکھو لغت عرب کے صنائع و بدائع و استعارات و کنایات جس کا سمجھنا ضروری ہے اور جس کے سمجھانے کو علم معانی ،بیان اور بدیع موجود ہے.اگر اس راہ سے نہ سمجھو تو صرف لغت عرب کو بھی تم ایسے سوالات کے جواب میں کام میں لا سکتے ہو.اگرچہ نسی کے معنی ہیں بھولا.نسیان کے معنے بھولناہیںمگر نسی کے معنی ترک بھی لغت عرب میں ہیں.پس کلمہ طیبہ اِنَّا نَسِیْنَاھُمْ ٭میں یہ معنے کیوں نہیں کئے جاتے جو صفت علیم کے خلاف نہیں.اسی طرح خادع کے معنے ترک کے ہیں.پس جہاں ہے وہاںوہ چھوڑتے ہیںاللہ کو ترجمہ کیوں نہیں کرتے.خدع کے معنے ہیں امسک اور عرب کا محاورہ ہے ٭ ہم نے انہیںچھوڑ دیا نہ یہ کہ ہم انہیں بھول گئے اس لئے کہ یہ معنے صفات الٰہیہ کے خلاف ہیں.۱۲ منہ
فلان کان یعطی فخدع فلا نا دیتا تھااب اس نے دینا چھوڑ دیا.پس (النساء : ۱۴۳) کے معنے یہ کیوں نہیں کرتے کہ اللہ ان منافقوں کو محروم رکھنے والا ہے.اسی طرح تمام الاشباہ والنظائر میں ایسا ہی برتاؤ کرو اور مثلاً (الضحیٰ : ۸) میں ضلال کا اثبات نبی کریم کے لئے ہے مگر (النجم : ۳) میںضلال کی نفی بھی آپ کے حق میں موجود ہے تو دونوں پر ایمان لا کر ایک جگہ ضلال کے معنے محب طالب سائل کے کرو جو (الضحٰی : ۱۱) کی ترتیب سے ظاہر ہوتے ہیں اور دوسری جگہ گمراہ کے معنے لو جوکے مناسبت سے درست ہیں.امام سیوطی رحمۃ اللہ نے صرف اسی بات پر ایک لطیف رسالہ لکھا ہے جس کا نام الوجوہ والنظائر ہے.مگر افسوس ہے کہ دیانند نے خوداپنے قائم کردہ اصول کا لحاظ نہ کیااور کروڑوں معتقدان اسلام کا دل دکھایااور ا ن کو بُرا کہا.آریہ مسافر و دھرمپال تو اس کے اتباع ہیں.اب ہم اس مضمون کو ختم کرتے ہیں مگر شاید اتنااور کہہ دینانا مناسب نہ ہو گا کہ کس قدر آریہ سماج لوگوں کی بے انصافی ہے کہ غیروں پر اعتراض کرتے وقت یا معاملہ و انصاف کرتے وقت عدالت میں مسلمانوں کا سر توڑنے اور جان ومال و عزت تباہ کرنے کو کیسے دم نقد تیار ہیں.محمود غزنوی اور عالمگیر کا خیالی بدلہ لیتے ہیںیا آریہ مسافر کااوراپنے بارے میں اعتراضوں سے یوں بچاؤ کر لیتے ہیںکہ تمام پُران اور آرین تفاسیر بلکہ یورپ کے تراجم وید سب کے سب غلط ہیں.مہارشی کی کتابوںسے کچھ لے کر کوئی اعتراض کرے تو فرماویں سوامی جی بھاشہ زبان نہیں جانتے تھے؟ان کے ستیارتھ اور ویدوں کے بھاو ارتھ اور ناگری ترجمہ میں جاہل،بے ایمان پنڈتوں کی شرارتوں کا دخل ہے یہ قابل اعتماد و اعتقاد نہیں.اب ہم کو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ہزاروں آریہ سماجی کیاحق و حقیقت کو ویدک سنسکرت یا لوکک سنسکرت سے لے کر اپنے اقوال و اعمال کو درست کر رہے ہیں.میں نے تو اب تک ایک بھی
لائق ویدک سنسکرت پڑھا آریہ سماجی نہیں دیکھا بلکہ منشی رام جی جگیا سو کے ترجمہ بہومکا سے یہ عجیب مسئلہ معلوم ہوا کہ ۱۸۹۱ ء میں لیکھرام کے ذریعہ پتہ لگا کہ دیانند جی کے مہان بھاشیہ میں ارتھ انرتھ ہیں اور بھاوارتھ غلط.دیکھو منشی رام کا ترجمہ.دیانندی وید بھومکا صفحہ نمبر ۳،۴،۵ فقرہ دوم : تارک اسلام نے وجوہ ترک اسلام پر جو لیکچر دیا ہے اس میں ایک سو پندرہ سوال بلکہ اعتراض اسلام پر کئے ہیں.جب ان کے جوابات سے محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے فراغت پائی تو لیکچر کی تمہید پر توجہ کی.دیکھا تو اس میں بھی پندرہ بیس اعتراض اسلام پر جڑ دئیے ہیں.اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ ان کا جواب دیباچہ میں دیا جائے اور چونکہ وہ سوال کئی قسم پر منقسم ہیں اس لئے ہم ان کا تین فقروں میں جواب دیتے ہیں.اعتراض قسم اوّل: اسلام کی تعلیم عقل۱ کے خلاف ہے.اسلام کی تعلیم وحشیا۲نہ،ظالما۳نہ اور ادنیٰ۴ تعلیم ہے.اس واسطے ان سوالات کے جواب میں ضروری معلوم ہوا کہ نمونہ کے طور پرتعلیم اسلام کو پیش کر دیا جاوے مگر اسلام تیس پارہ قرآن اور نبی کریم ﷺ کے عمل درآمد کا نام ہے.اس لئے مشتے نمونہ از خروارے اور دانہ از انبارے دکھایا جا سکتا ہے.اور مختصراً ان اعتراضات کا جواب یہ ہے.یہ کہنا کہ اسلام عقل۱ کے خلاف ہے محض بے عقلی بلکہ بے ایمانی کی بات ہے اس لئے کہ قرآن کریم اپنی تعلیم کی خوبی اور سچائی کے اظہار اور ثبوت کے واسطے عقل حاصل کرنے کی ہدایت کرتا ہے جیسے فرماتا ہے: (البقرۃ : ۲۴۳) یعنی اللہ اپنی آیات تمہارے لئے کھول کر بیان کرتا ہے تو کہ تم عقل حاصل کرو یا اسے کام میں لاؤ.اسی طرح عقل اور علم کی طرف مختلف پیرایوں میں اپیل کرتا ہے اور قرآن کریم اس سے بھرا پڑا ہے.باایں ہمہ ایسی کتاب کی تعلیم کو عقل کے خلاف کہنا نادانی یا بے ایمانی نہیں تو کیا ہے؟
قرآن کریم پھر تذلیل اور اہانت کے طور پر ان لوگوں کا حال بیان کرتا ہے جو عقل سے کام نہیں لیتے اور بے عقلی کے بدنتائج میں مبتلا ہوتے ہیں جیسے فرمایا: (المائدۃ : ۵۹) اور جب تم انہیں نماز کو بلاتے ہو اسے حقارت اور کھیل میں اڑاتے ہیں.اس کا سبب یہ ہے کہ یہ لوگ عقل سے کام نہیں لیتے.اور پھر ایک بدقسمت قوم کا ذکر فرماتا ہے: (الملک : ۱۱) یعنی دوزخی (حسرت سے )کہیں گے اگر ہم سنتے یا عقل سے کام لیتے تو دوزخیوں میں شامل نہ ہوتے.پھر ایک جگہ مخالفان اسلام کے نفاق اور غلط کاریوں کے اسباب میںیوں بیان فرماتا ہے:َ(الحشر:۱۵) یعنی تم خیال کرتے ہو کہ ان کے جتھے اور جمعیّتیں ہیں حال یہ ہے کہ ان کے دل الگ الگ ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ عقل سے کام نہیں لیتے.اور قرآنی تعلیم وحشیانہ ہے کا جواب قرآن نے یہ دیا ہے: (التوبۃ : ۹۷) گنوار کفر اور نفاق میں بہت ہی سخت ہیں اور اس لائق ہیںکہ انہیں اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کی حدود کا علم نہ آسکے.سوچو اور غور کرو ! وحشیانہ تعلیم ایسا فقرہ کیونکر کہہ سکتی اور وحشیوں لاعلموں کو نہایت تحقیر سے عتاب کیوںکرتی ہے؟ قرآنی تعلیم کو ظالمانہ کہنے کا جواب قرآن کریم نے یہ دیا ہے: (ھود : ۱۹) دیکھ ! اللہ کی لعنت ظالموں پر ہے: (آل عمران : ۶۲) پھر ہم جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں.
ادنیٰ تعلیم کا جواب یہ دیاہے کہ صاحب شرع اسلام تک کو رغبت دلاتا ہے کہ وہ دائمی اور ابدی ترقیات کیلئے ہمیشہ دعا مانگتا رہے اور ترقی علم چاہتا رہے.جیسے فرمایا: (طٰہٰ :۱۱۵) کہہ اے میرے رب ! میرے علم میں ترقی بخش اور فرمایا: (المجادلۃ : ۱۲) اللہ تم میںسے مومنوں اور عالموں کے درجے بلندکرے گا.اور فرمایاِ: (الزمر : ۱۰) کہہ کیا وہ جو علم رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے برابر ہیں.ہرگز نہیں.اور فرمایا:(الفاطر : ۲۹) اللہ کا خوف اور خشیت انہی لوگوں کو میسر آتاہے جو عالم ہیں.اور فرمایا: (الرعد : ۴۴)کہہ مجھ میں اور تم میں اللہ گواہ ہے.پھر وہ شخص جسے کتاب کا علم دیا گیا ہے اورفرمایا:(العنکبوت : ۴۴) اور ہم یہ مثالیں لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں اور انہیں عالم ہی سمجھتے ہیں.اب تعلیم اسلام کا نمونہ سنو!آدمی جب پیدا ہوتا ہے تو حسب ارشاد الٰہی الٰہی علوم سے عاری ہوتا ہے جیسا فرمایا:(النحل : ۷۹) اور اللہ نے تمہیں نکالا تمہاری ماؤں کے اندر سے اور تمہیں کسی چیز کا علم نہ تھا.جب عاقل و بالغ ہو جاتا ہے.اس وقت اسلام عین تقاضائے فطرت کے موافق مختصر مگر جامع اور کامل آداب سکھاتا ہے جیسے فرماتا ہے: (الاعراف : ۳۲) کھاؤ اور پیو اور بے جا کھانے پینے سے بچو.اللہ نہیں پسند کرتا خطاکاروں کو.
اس آزادی پرکھانے میں پابندی یہ بتائی اور انسان کی ناجائز آزادی کو جسے وہ برت کر تباہی کے نتیجوںتک پہنچتا ہے.اس طرح مقید کیا جیسے فرماتا ہے: (المائدۃ : ۴) حرام کیا گیا تم پر مردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جس پر اللہ کے غیر کا نام پکارا جائے.دیکھو اس آیت پر مفصل بیان سوال نمبر۴۴،۴۵کے جواب میں.یہ تو ہوئیں کھانے کی چیزیں اور پینے میں ہر قسم کے مسکرات اور شراب سے اس طرح منع فرمایا: (المائدۃ :۹۱،۹۲) شراب اور جوأ اور بت اور تقسیم کے تیر شیطانی کام ہیں ان سے بچو تو کہ فلاح پاؤ.شیطان چاہتا ہے کہ تم میں عداوت اور بغض ڈالے شراب اور جوئے کے ذریعہ اور تم کو روک دے اللہ کے ذکر اور نماز سے پھر کیا تم باز آتے ہو کہ نہیں.پھر آداب حفظ بنی نوع اور ہر ایک شخص کی بہتری وفلاح اور نوعی حفاظت کے بارے میں فرمایاکہ نکاح کر لو مگر آریہ ورت کے ماتنگی اور دام مارگی ماں سے، بیٹی سے ،بہن سے بھوگ کر لیتے ہیں اور ان کے اصل گرویا چیلے مُزد کی بھی ایسے ہی تھے بلکہ بڑے بڑے ہندو راجہ دو حقیقی بہنیں ایک وقت میں بیاہتے ہیں اس لئے اس ناپاک رسم کی بیخ کنی کے لئے فرمایا:
(النساء : ۲۴) حرام کی گئیں تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھائی کی بیٹیاں اور وہ تمہاری مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا اور دودھ کی بہنیں اور تمہاری ساسیں اور وہ لڑکیاں جو تمہاری گودوں میں ہیں ان عورتوں سے جن سے تم نے جماع کیا اور اگر تم نے ان سے جماع نہیں کیا تو تم پر ان کے نکاح میں کوئی گناہ نہیں اور حرام کی گئیں تمہاری ان بیٹوں کی جوروئیں جو تمہاری پشت سے ہیں اور حرام کیا گیا تم پر ایک ہی وقت میں دو حقیقی بہنوں سے نکاح کرنا.ہاں جو گزر چکا اسلام سے پہلے تو اللہ غفور رحیم ہے.یہ احکام نکاح کے متعلق فرمائے.پھر شادیوں میں نکاح کے بعد بڑے جھگڑے پیدا ہوتے ہیں اس لئے ارشادات ہیں.اوّل: (النساء :۴) جو عورت تمہیں پسند آئے اس سے نکاح کرو.دوم: (النساء:۴) اور اگر بے انصافی کا خوف ہو تو ایک ہی سے نکاح کرو.سوم:(المائدۃ : ۶) نکاح سے یہ غرض ہو کہ تم پابندی میں رہنے والے ہو نہ مستی نکالنے والے اور نہ یارانہ کے طور پر عورتوں کو رکھنے والے.چہارم: (النساء :۲۰) اور جائز نہیں کہ تم اکراہ سے عورتوں کے وارث بن جاؤ.
پنجم: (البقرۃ:۲۳۲)(الطلاق:۷) اور ان کو ضرر دینے کے لئے مت روکو اور ان کو ضرر مت دو.ششم: (النساء : ۳۵) اور نافرمان عورت کو پہلے وعظ کرو پھر اس کا بسترا الگ کر د و پھر ایک مار سے مارو.ہفتم:(النساء :۳۶) اور پھر بھی پھوٹ رہے اور اصلاح نہ ہو تو دونوں خاندانوں کے چوہدریوں کو جمع کرو.اگر میاں بیوی کا یا ان کا سچا ارادہ اصلاح کا ہو گا تو اللہ انہیں آپس میں موافق بنا دے گا.ہشتم: اور آخر میںفرمایا: (النساء :۲۰) اور عورتوں سے نیک برتاؤ کرو اور اگر تم انہیں ناپسند کرو تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز کو تم ناپسند کرو اور اللہ اس میں بڑی برکت اور خیر ڈال دے.ہاں بے ریب افسوس ہے کہ ان احکام کی نگرانی کے لئے کوئی محکمہ نہیں اور مرد بادشاہ ہوتے رہے.اس لئے انہوں نے بھی حقوق نسواں کا پلّہ کمزور رکھا.آہ! ہزاروں عورتیں ہیں جن کو شریر لوگ نہ طلاق دیتے ہیں اور نہ آباد کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے کلام کو ہنسی میں اوڑاتے یا ان پاک احکام کو ظلم کرنے کا آلہ بنار ہے ہیںاور ملّانے بلکہ ان کے پڑھے لکھے بھی حقوق نسواں کی آیات پر توجہ نہیں کرتے.اسی طرح مفقود الخبر کی بی بی بھی تباہ ہوتی ہے.حفظ نفس وتربیت اولاد پر فرمایا:(البقرۃ :۱۹۶) اپنے تئیں ہلاکت میں مت ڈالو َ(بنی اسرائیل: ۳۲) اپنی اولاد کو ہلاک مت کرو.
سوشل امور پر فرمایا : (النور : ۲۸) اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں داخل مت ہو جب تک ان سے اجازت نہ لو اور داخل ہوتے ہی گھر والوں پر سلام کہو.(البقرۃ :۱۹۰) اور گھروں میں دروازوں کے راہ سے داخل ہو.(النساء :۸۷) اور جب تمہیں سلام کہا جائے اس سے بہتر سلام کہو.(المجادلۃ :۱۲) اور جب تمہیں نشست گاہوں میں کھل جانے کو کہا جائے تو کھل جاؤ. (لقمان :۲۰) اپنی چال میں میانہ روی اختیار کر. (البقرۃ:۸۴) اور ماں باپ سے اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے نیک سلوک کر واور لوگوں سے اچھی باتیں کہو اور خوش معاملگی کا برتاؤ کرو.ترک شر پر فرمایا: (البقرۃ:۱۸۹)آپس میں ایک دوسرے کے مالوں کو ناحق نہ کھاؤ اور حکام تک بواسطہ ان مالوں کے اس لئے نہ پہنچنا کہ کسی طرح لوگوں کا کچھ مال خرد برد کر لو.(النور:۳۱،۳۲) مومنوں کو کہہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور ا پنی شرمگاہوں کی نگہبانی کریں اور مومن عورتوں سے کہہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی نگہبانی کریں.ط(بنی اسرائیل:۳۳) اور زنا کے نزدیک نہ جاؤ وہ بہت کھلی بے حیائی اور بری راہ ہے.
(النور:۲۰) جو لوگ پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی کی باتیں پھیلیں ان کے لئے عذاب الیم ہے،دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے.(النور:۲۴،۲۵) جو لوگ شوہر دار ،سادہ بے خبر مومن عورتوں کو تہمت لگاتے ہیں وہ دربدر ہوئے دنیا اور آخرت میں اور ان کے لئے بڑا عذاب ہو گا جس دن گواہی دیں گی ان کی زبانیں اور ہاتھ اور پاؤں ان کے تمام کرتوتوں کی.ایصال خیر کی بابت فرمایا: (آل عمران:۱۳۵) اور غیظ و غضب کو کھا جانے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے اور دوست رکھتا ہے اللہ احسان کرنے والوں کو.(آل عمران : ۱۱۱)تم برگزیدہ خیر رساں قوم ہو.تمہیں سارے جہان کے لئے نمونہ کے طور پر پیدا کیا گیا ہے.تم نیک باتوں کا امر کرتے اور بُری باتوں سے منع کرتے اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو.(الممتحنۃ :۹) جن لوگوں نے تم سے جنگ نہیں کی دین کے بارے میں اور تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا اللہ تم کو منع نہیں کرتااس بات سے کہ تم ان سے نیک سلوک کرو اور
ان سے انصاف کا برتاؤ کر و.بے شک اللہ پسند کرتا ہے انصاف کرنے والوں کو.امانت ودیانت پر فرمایا: (النساء :۶) کم عقلوں نشیب و فراز نہ سمجھنے والوں کو مال سپرد نہ کرو.(النساء :۵۹) اللہ تم کو حکم کرتا ہے کہ امانتیں ان کے مالکوں کو واپس دو.(النساء :۷)اور یتیموں کو جو تمہاری نگرانی کے نیچے ہیں ان کا حال اچھی طرح معلوم کر لو اور پتا لگاؤ جب وہ سن بلوغ کو پہنچ جائیں.پھر اگر تم دیکھو کہ ان میں رشدوسعادت ہے تو ان کے مال ان کے سپرد کر دو.اور فرمایا:(النساء :۳) اور امانت کی اچھی قیمتی چیزوں کے بدلہ میں خراب ردی چیزیں نہ دو یا حرام حلال کے بدلہ نہ لو. (النساء :۷) پھر جب ان یتیموں کے مال ان کے سپرد کرنے لگو تو گواہ ٹھہرالو.(النساء :۱۱) جو لوگ یتیموں کا مال ظلم سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ کھاتے ہیں.(الانفال :۵۹) اللہ نہیں دوست رکھتا خیانت کرنے والوں کو.ْ(الاعراف :۸۶)(الاعراف :۷۵)اور لوگوںکو ان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں فساد نہ مچاتے پھرو. (المطفّفین : ۲ تا ۴) ہلاکت کم وزن
کرنے والوں کے لئے کہ جب دوسروں سے ماپ کر لیتے ہیں تو پورا لیتے ہیں اور جب انہیں ماپ تول کر دیتے ہیں کم دیتے ہیں.صلح پر ارشاد ہے: (النساء :۱۲۹) صلح خیر وبرکت ہے.(الانفال :۲) اور اپنی باہمی عداوتوں اور کینوں کی صلاح کرو.(الانفال :۶۲) اور اگردشمن صلح کرنے پر مائل ہوں تو تو بھی صلح کی طرف جھک جا. (النساء :۲) اے لوگو! ڈرو اپنے رب سے جس نے تمہیں پیدا کیاایک جی سے اور پیدا کیا اس کی جنس سے اس کا جوڑا اور پھیلائے ان سے بہت مرد اور عورتیں اور ڈرو اللہ سے جس کے نام پر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور بچو قطع رحم سے.بے شک اللہ تم پر نگران ہے.(الفرقان :۶۴) اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر تواضع و انکسار سے چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے خطاب کریں سلامتی کی باتیں کرتے ہیں.(حٰمٓ السجدۃ :۳۵)ہٹا دو عمدہ تدابیرکے ساتھ.اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہارے دشمن ایسے ہو جائیں گے کہ وہ پکے دوست ہیں.(الانعام :۱۰۹) دوسری قوموں کے معبودوں کو گالی مت دو.اس کے بدلہ نادانی سے وہ اللہ کو
گالی دیں گے.حسن خلق پر فرمایا: (الحجرات :۱۲)مرد مردوں سے ہنسی نہ کریں ہو سکتا ہے کہ وہی ان سے اچھے ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے ہو سکتاہے کہ وہی ان سے اچھی ہوں اور ایک دوسرے کی نکتہ چینی اور عیب گیری مت کرو.بُرے بُرے اور چھیڑ کے ناموں سے کسی کو مت پکارو.مومن ہونے کے بعد یہ ناپاک نام بہت بُری بات ہے. (النحل : ۹۱) اللہ حکم کرتا ہے عدل کا اور احسان کا اور رشتہ داروں کو دینے کا اور منع کرتا ہے بدکاری کی باتوں اور بُرے کاموں اور بغاوت سے تمہیں وعظ کرتاہے توکہ دھیان کرو.شجاعت پر فرمایا: (البقرۃ :۱۷۸)دکھوں ،بیماریوں اور قحطوں اور جنگوں میں صبرکرنے والے وہی صادق ہیں اور وہی متقی ہیں.(آل عمران : ۱۷۴) وہ جنہیں منافقوں نے اطلاع دی کہ دشمنوں نے تمہارے مقابلہ میں بڑی فوج جمع کی ہے اب ان سے تمہیں ڈرنا چاہیے لیکن یہ بات سن کر ان کے ایمان بڑھ گئے اور کہنے لگے اللہ ہمارے لئے بس ہے اور
بہت اچھا کارساز ہے.(الانفال : ۴۸) ان لوگوںکی طرح نہ ہو جو اپنے گھروں سے گھمنڈکے طور پر اور لوگوں کو دکھانے کے لئے نکلے.صدق پر فرمایا: (الحج : ۳۱،۳۲) بتوں کی ناپاکی سے بچو اور جھوٹی باتوں سے بچو اور اللہ کی طرف جھکنے والے اور شرک سے بیزار ہو جاؤ.(النساء : ۱۳۶) انصاف پر کھڑے ہونے والے اللہ کے لئے گواہ بنو اگرچہ اپنے یا والدین اور رشتہ داروں کے برخلاف گواہی دینی پڑے. (المائدۃ :۹) کسی قوم کی عداوت کے سبب سے ان سے بے انصافی مت کرو.انصاف کرو.رضا بالقضا پر فرمایا: (البقرۃ :۱۵۶،۱۵۷) اور ہم تم کو انعام دیں گے کسی قدر خوف کے بدلے اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کے کم کرنے کے بدلے اور خوشخبری دو صبر کرنے والوں کو کہ جنہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں ہم تو اللہ کے ہیں اور اسی کی طرف رجوع کرنے والے ہیں.بنی نوع کی ہمدردی اور مواسات پر فرمایا: ف.آریہ وکیل اور جج توجہ کریں ۱۲
(المائدۃ :۳) اور ایک دوسرے کی مدد کرو خدا ترسی اور نیکی کے کاموں میں اور مت مدد کرو بغاوت اور بدکاری کے کاموں میں.سیاست پر فرمایا: ْ(النساء :۶۰) کہا مانو اللہ کا اور رسولؐ کا اور اپنے حکام کا.(آل عمران :۱۶۰) اور معاملات میں ان سے مشورہ کر.(الشوریٰ :۳۹) اور مومن اپنے امور کو مشورہ سے طے کیاکرتے ہیں. (آل عمران:۱۰۴) اور سب کے سب مل کر اللہ کے دین کو مضبوط پکڑو اور فرقہ فرقہ مت بنو.شرک کی مذمت پر فرمایا: (النساء :۱۱۷)اور جو شخص اللہ سے کسی کو شریک ٹھہراتا ہے وہ بہت گمراہ ہوا.(النساء :۴۹)اور جس شخص نے اللہ سے شرک کیا اس نے بڑی بھاری بدی تراشی.ظاہری و باطنی طہارت و پاکیزگی پر فرمایا: (البقرۃ :۲۲۳)اللہ دوست رکھتا ہے توبہ کرنے والوں کو اور دوست رکھتا ہے پاک صاف ہونے والوں کو.ان سب باتوں سے بڑھ کر یہ ہے کہ قرآن کریم ہستی باری تعالیٰ کے ثبوت اور ضرورت کے دلائل بیان کرتا ہے اور یہ ایسا امر ہے کہ دنیا کی ہر ایک کتاب اس خوبی سے قطعاً عاری ہے.از بس کہ تمام اخلاق فاضلہ کی تحریک و ترغیب اور رذائل سے بچنے کی تحریک ہستی باری تعالیٰ پر ایمان لانے کے سبب سے یا یوں کہو کہ صرف اسی ایک وجہ اور سبب سے انسان کے دل میں پیدا
ہو سکتی ہے.خدا تعالیٰ کی زندہ کتاب قرآن کریم نے اس لئے اس اصل پر بہت زور دیا ہے جیسے فرمایا: (البقرۃ:۱۶۴،۱۶۵) تمہارا معبود و مقصود و مطلوب ایک ہی ہے کوئی معبود نہیں بجز اس کے وہ رحمان رحیم ہے.آسمانوں اور زمین کی بناوٹ میں اور رات اور دن کے اختلاف یا آگے پیچھے آنے میں اور جہازوں میں جو سمندر وں میں چلتے ہیں لوگوں کی نافع چیزوں کو اپنے اندر لے کر اور بارش میں جو اللہ نے اوپر سے اتاری.پھر زندہ کیا اس سے زمین کو خشک ہو جانے کے بعد اور پھیلائے اس میں ہر قسم کے رینگنے والے اور ہواؤں کے ادلنے بدلنے میں اور بادل میں جو گھیرے ہوئے ہوتے ہیں آسمان اور زمین کے درمیان.نشان ہیں عقل مندوں کے لئے.چونکہ صرف فلسفیانہ ہستی باری کے ماننے سے انسان کو جناب الٰہی سے محبت اور اس پر ایمان بلکہ اعلیٰ محبت اور اعلیٰ ایمان اور مقامات قرب و رضوان نہیںمل سکتے اس لئے قرآن کریم ہستی باری تعالیٰ کے دلائل کے ساتھ ساتھ اپنے احسانات کا بسیط بیان فرماتا ہے.ازبس کہ فطرت انسانی میں یہ مادہ خمیر کیا گیاہے کہ سلیم اور حق شناس قلوب محسن کے ساتھ محبت کرنے اور اطاعت کرنے میںکمال دلیری دکھاتے ہیں.اس واسطے احسان الٰہی کابیان ان دلائل کے ساتھ ساتھ ہوتاہے اور یہ بھی فطرت انسانیہ کا تقاضا ہے کہ ہر ایک شخص اپنے سے زیادہ قوی، زیادہ علم والے، زیادہ تر دانا کے کہنے کی قدر کرتا ہے اور بڑی قدر کرتا ہے اور ا یسے قادر،حاکم،حکیم کی ماتحتی کو اپنے لئے فخر وعزت یقین
کرتا ہے.اس واسطے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اپنی ربوبیت رحمانیت رحیمیت اور مالکیت اور کاملہ صفات کابیان بڑے زور سے فرماتا ہے توکہ آدمی کا ایمان و یقین احکام الٰہیہ پر بڑھے.پھر اس ذریعہ اس مقام پر پہنچتا ہے جس کا نام ہے.(التوبۃ :۷۲) اور اس مقام کی طرف ارشاد ہے: (الانعام :۱۶۳،۱۶۴) کہہ میری نماز اور قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ کے لئے ہے جو جہانوں کا پروردگار ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور اس بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں پہلا مسلم ہوں.اور ارشاد ہے: (البقرۃ:۱۱۳)ہاں جس نے فرمانبردار کیا اپنی ساری طاقتوں کو اللہ کا اوروہ محسن بھی ہو پس اس کے لئے اجر ہے اس کے پروردگار کے پاس اور ایسے لوگوں پر نہ خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے.فقرہ سوم:ہم نے اسلام کی تعلیم کو بطور نمونہ پیش کیا ہے اور اس میں دکھایا ہے کہ عقل صحیح اور نقل صریح میں قطعاً تعارض نہیں ہوا کرتا.شیخ الاسلام شیخ ابن تیمیہ حرانی نے اس دعویٰ پرتین مجلد ضخیم کی کتاب لکھی ہے جس کا اکثر حصہ راقم کے پاس ہے.والحمد للہ رب العالمین.اسلام کے نہ ماننے والے لوگ جب عذاب میں مبتلا ہوئے تو انہوں نے کہا: (۱) .(الملک :۱۱،۱۲) قرآن میں کامل توحید.تعظیم الٰہی.ابطال شرک.دعائیںاور ابطال باطل ہے.کیا یہ خلاف عقل ہے؟البتہ اللہ تعالیٰ کی خاموشی کا بعد ملہمان وید اور نیوگ کا اس میں
بیان نہیں شاید اس لئے خلاف عقل ہو.(۲) اور وحشیانہ اس لئے نہیں کہ زمانہ قبل اسلام کا نام جاہلیت کا زمانہ بتایا ہے.دیکھ لو !اسلام سے پہلے نہ وہ فاتح تھے نہ آئمہ فنون و علوم اور بعد اسلام کے اس قدر علوم کے جامع ہوئے کہ اب تک ان علوم کی کل کتابیں بڑے بڑے کتب خانہ ہائے روس وجرمن وفرانس و استنبول و مصر میں بھی نہیں.(۳) ظالمانہ اگر ہے تو (ہود :۱۹) اس میں کیوں ہے؟ اور صبر و حلم وحسن و احسان عام کا بیان قرآن کریم میں کیوں؟ اگر اسلامی تعلیم ادنیٰ تھی تو یہ حکم کس کتاب کا ہے؟ (التوبۃ :۱۲۲) ترجمہ: مومنوں کے امکان میں یہ بات نہیں کہ وہ سب کے سب گھروں سے نکل کھڑے ہوں.اس لئے ضروری ہے کہ ہر ایک فرقہ سے ایک چھوٹی سی جماعت اس لئے سفر کرے کہ دین سیکھیں اور پھر وطنوں میں واپس جا کر اپنی قوم کو ڈر سنائیں توکہ وہ خوف کریں.(۴) کیا اسلام کی تعلیم ادنیٰ ہے ؟قرآن کریم میں ہستی باری تعالیٰ کی نسبت دعویٰ ہے اور اس کے دلائل ہیں.ملائکہ مظاہر قدرت الٰہیہ کا بیان اور اس کے دلائل ہیں،کتب الٰہیہ کا بیان ہے.ضرورت نبوت و رسالت و ختم نبوت و رسالت اور مسئلہ تقدیر و تدبیر پر بسیط بحث ہے.جزاء و سزا وجنت ونار پر سیرکن بیان ہے.پھر عبادات ،معاملات،سیاست،تمدن،اخلاق ،معاشرہ کے قواعد اور جناب الٰہی میں دعائیں بیان کی گئی ہیں.کیا یہ ادنیٰ تعلیم ہے اور آج کل تو امام نے وہ راہ بتائی ہے کہ سارا قرآن خود مدلل نظر آتا ہے.فقرہ چہارم : مسلمانوں کی عملی حالت خراب ہے اور یہ دوسرا قسم اعتراض کا ہے اسلام پر.الجواب: اگر مسلمانوں میں برے ہیں تو اصل آریہ ورتی لوگوں میں کیا.(۱) چارواگ والے نہیں جن کا قول ہے.حکمت عملی سے چلو.حشمت بڑھاؤ.حسب خواہش
حظ اٹھاؤ.(۲)حسین عورتوں سے انند،مقصد انسانی ہے.(۵۲۷/۵۲۸ستیارتھ.ماں کوبھی سماگم۱؎ کئے بغیر نہ چھوڑنا چاہیے.(ستیارتھ ۳۸۰) (۳) اگنی ہوتر وید وغیرہ روزی کا ذریعہ ہے.(کیا ممبران سماج جن کے قبضہ میں روپیہ ہے وہ مخاطب ہیں) ستیارتھ ۵۳۰.(۴) وید کے بنانے والے بھانڈ.دھورت (مکار) نشاچر.راکھش (خونخوار ظالم) ہیں ستیارتھ۵۳۲.مہیدہر وغیرہ شارحان وید.بھانڈ.دھورت.نشاچر تھے.عورت سے گھوڑے کا … پکڑ واکر اس سے صحبت کرانا.شراب.زنا وغیرہ وام مارگیوں نے نکالے.۵۳۳ستیارتھ بھومکا کے صفحہ ۲۰۸میں زیادہ تشریح ہے.ایشور کی مذمت.غیروں سے دشمنی میں سب ناستک جین اور بدھ سب ایک ہیں.آنکھ.کان.ناک.زبان اور جلد.زبان.ہاتھ.پاؤں.گدا(پاخانہ کی جگہ) لنگ (عضو خاص)من اور عقل با۱۲رہ ان کے معبود ہیں.کوئی کہتا ہے پانچ ازلی ہیں.کوئی کہتا ہے دو ازلی ہیں.ماتنگی ماں سے زنا کرنے والے ہیں.تمہارے کان پھٹے جوگی اور کتنے سنیاسی.گوسائیں اور کل پچاری کیسے ہیں.اگر کہو کہ آریہ لوگوں میں ایسے بھی ہیں مگر سب بُرے نہیں اور مسلمان سب بُرے ہیں.تو بتاؤ ستیارتھ کے صفحہ ۵۶۶سے ۵۸۰تک یہ کیسے فقرہ ہیںجن میں جَین وغیرہ کو مخاطب کیاہے.ان کی دہرم کی کتابیں کہاں تک مذمت سے بھری ہیں اپنے لئے کیا بُرا مانا ہے اور ستیارتھ کے ۱۴سملاس ستیارتھ دہرم کی کتاب میں مسلمانوں کو وہ گالیاں دیں کہ الامان! اور آریہ مسافر نے تو بھٹیاریوں کے بھی کان کترے ہیں.اب رب کرے کہ آپ کی کتاب خاتمہ سبّ و شتم ہو.آمین یا رب العالمین..صحبت.جماع ف ضرور دیکھو
ستیارتھ صفحہ ۵۶۹میںلکھا ہے.لاکن غیر مذہب کی مذمت کرنا وغیرہ عیبوں کے باعث یہ سب اچھی باتیں معیوب ہو گئی ہیں.ستیارتھ۵۷۰.اپنے منہ سے اپنی تعریف کرنا اور اپنے ہی دہرم کو بڑا کہنا اور دوسرے کی مذمت کرنا جہالت کی بات ہے.(آریہ صاحبان غور کرو اپنے عملدرآمد پر) ستیارتھ صفحہ ۵۷۳میں کہا ہے کہ جیسے جینی دوسرے کا اپکار(بھلا)نہیں چاہتے.اگر دوسرے ان کا بھلا نہ چاہیں تو ان کے بہت کام بگڑ جاویں.آریہ صاحبان کیا یہ آپ کا وطیرہ بھلائی کا ہے ؟ کیا آپ کے سوا دوسرے ملکی مسلمانوں کا بھلا چاہتے اور ان کی بہتری کے خواہش مند ہیں؟ وکلاء.جج.اہل طاقت غور کریں اور سوچیں !! ستیارتھ۵۷۴.ہر ایک آدمی جیساہوتاہے وہ عموماً اپنے ہی مانند دوسرے کو سمجھتا ہے.(دہرمپال اپنی گالیاں پڑھو جو تم نے مسلمانوں کے خدا،ان کی کتاب، ان کے رسول اور خود ان کو دی ہیں)کیا جَین مذہب میں کوئی بُرا آدمی اور نرک میں جانے والا نہیں.سب ہی مکتی پاتے اور دوسرا کوئی نہیں پاتا.کیا یہ بات پاگل پن کی نہیں؟ یہ کتنی بڑی بے انصافی کی بات ہے ! کیا جین مذہب سے باہرکوئی بھی آدمی راست گو نہیں؟کیا اس دھر ماتما آدمی کی تعظیم نہیں کرنا چاہیے ؟ ستیارتھ۵۷۶،۵۷۷.جو دوسرے مذہب میں ہو.اپنی تعریف بازاری عورت کا کام ہے.دوسرے مذہب کو گالیاں دینا بڑے افسوس کی بات ہے.(کیا تم نے، آریہ مسافر نے اور آخر خود دیانند نے مسلمانوں کے مقابل ان نصائح پر عمل کیااور کیا دفتروں،کچہریوں،ریاستوں اور معاملات میں تم نے کہیں رحم سے کام لیا؟میں تجربہ کار ہوں.فیصلوں ، ملازمتوں، گواہیوں، سپارشوں پر نظر ثانی ضرور کرو.) یہاں تک ہم نے لفظی جھگڑا بیان کیا ہے.اب عملی نمونہ سن لو! اوّل تمہاری آرین قوموں نے مشہورضروری العمل کتابوں میں جھوٹ ملایا.مثلاً منو کے دہرم شاستر جس کی عظمت تو یہ ہے کہ اگر اس کو ستیارتھ پرکاش سے الگ کر دیں تو وہ کتاب جسم بلا روح رہ جاوے.آریہ مانتے ہیں کہ اِس میں وام مارگیوں کے تصرف سے شراب،زنا کی اجازت کے شلوک
ملا ئے گئے.مثلاً میںاپنی جگہ امید کرتا ہوں کہ یہ شلوک منو میں،مانس اور شراب ان دونوں کے کھانے میں کچھ دوش نہیں ہے اور جماع میں بھی دوش نہیں کیونکہ یہ تو جیوون کا سبہاؤ ہی ہے لاکن انہوں کو ترک کرنا بڑا پھل ہے.منو کے ۵.۵۶.پھر عادت بدیہاںتک بڑھی کہ لیکھرام نے ایک آیت کا حوالہ دیا کہ سورۃ النجم میں اب موجود ہے.وہ ہے تِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الْعُلیٰ.آخر جھوٹ یہاں تک تم لوگوں میں آیا کہ دیانند نے لکھا ہے.فیضی نے بنا نقط کا قرآن رچا اور رچا بھی اکبر کے زمانہ میں.دوم: شراح وید.ماتنگی(ماں سے بدکار) و دام مارگی.بت پرست.اگھوری.کپال متی.جوگی.گوسائیں اور ایسے ویسے گزرے اور ہیں جن کی بُرائی کو ستیارتھ میں مفصل دیکھ سکتے ہو.سوم: کے آمدی کے پیر شدی.مہارشی سوامی دیانند جی مصلح قوم پیدا ہوئے اور مہابھاش اس لئے لکھا کہ اگلے سب وید بھاش غلط ہیں مگر خودان کی اصل کتاب ستیارتھ میں وہ کچھ ملایا گیا کہ ناگفتہ بہ ہے.ستیارتھ اوّل دوم سوم اور چہارم کو ملا کر دیکھو اور بھومکا میں تو لکھا ہے کہ وید بھاش میں ناگری کے ارتھ انرتھ ہوگئے.فقرہ پنجم: سوالات لیکچر کی تمہید کے جوابات میں.پیدائش عالم کے متعلق ہم نے اس زمانہ میں جب دیانند ۱۸۷۰ء میںلاہور آیا تھا سنا تھا کہ ان کے سوالات پیدائش عالم کے متعلق لاجواب ہیں اور وہ سوال یہ تھے.(۱)یہ عالم کس نے بنایا.(۲)کیوں بنایا.(۳)کب بنایا(۴)کن اشیاء سے (۵)کس طرح بنایا.یہ پانچ ککار پانچ مکار وام مارگیوں پانچ ککار سکھوں کی طرح ہیں.سوقرآن کریم نے ان سوالات کے جواب دئیے ہیں.جواب:سو۱ال اوّل.(الانعام:۲)اور فرمایا:
(الرعد :۱۷) ان آیات میں بتایا ہے کہ تمام بلندیوں ،پستیوں، اندھیروں، نور اور سب کا خالق اللہ تعالیٰ ہے.دوم ۲سوال یہ ہے کہ اس مخلوق کو کیوں بنایا ہے اور ان آیتوں میں اس کا جواب دیا ہے.اوّل غایت بعض خلق کی بیان فرمائی ہے جیسے فرمایا :(الذاریات :۵۷) جن وانس کی پیدائش اس لئے ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کریں اور پھر بتایا کہ اللہ تعالیٰ صفات کاملہ رکھتاہے.جن میں سے مثلاً اس کی ربوبیت، رحمانیت، رحیمیت اور مالکیت ہے.اگر وہ پیدا نہ کرتا تو اس کی صفات باطل ہوتے اور خدا معطل و بیکار ہوتا.مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ محامد کاملہ سے موصوف ہے اور صفات کاملہ کا مقتضا ہے کہ وہ موثر ہوں مثلاً فرمایا:.کیا معنی؟ اللہ تعالیٰ میں یہ صفات ہیں پس جب اس میں یہ صفات ہیں اور اللہ تعالیٰ سوتا یا اونگھتا نہیں تو اگر خلق پیدا نہ کرے تو اس کے لئے حمد.ربوبیت.رحمانیت.رحیمیت.مالکیت کیونکر ثابت ہو؟ کیا آنکھ ہو اور دیکھے نہیں اور کان ہوں اور سنے نہیں.سوم۳ سوال.کب بنایا؟اس کا جواب نہیں دیا کیونکہ زمانہ مقدار فعل کا نام ہے اور مقدارِ فعل فعل سے پیدا ہوتا ہے اور فعل فاعل سے تو زمانہ خود مخلوق ہوا.ہاں یہ بتایا کہ ھوالاول.اس کے معنے نبی کریم نے فرمائے ہیں : لَیْسَ قَبْلَہٗ شَییْئٌ اور فرمایا اِلٰی رَبِّکَ الْمُنْتَھٰی.پس پاک اور حق و حکمت پر مشتمل کتاب اگر پیدا کرنے کا زمانہ بتاتی تو ثابت ہوتا کہ اللہ اس وقت سے معطل و بیکار تھا حالانکہ یہ بات غلط ہے.چو۴تھا سوال.کس سے بنایا؟یہ لفظ گول مول تھا اس لئے اس میں اکثر لوگوں نے دھوکہ کھایا ہے.کس سے کا مطلب مادہ بھی ہوتا ہے اور صفات کاملہ والا فاعل و خالق بھی.چونکہ حسب تعلیم قرآن مادہ عالم کا بھی خالق اللہ ہی ہے.اس لئے کس سے سوال کا جواب دیا ہے کہ اللہ قادر، الغنی
خالق ہے.حقیقی طور پر عالم کا بنانا، اس کے اجزاء کا بنانا اور اس کے مادہ کا بنانا آریہ لوگ اللہ تعالیٰ کو انو پیم اور سرب شکتی مان کہتے ہیں.پہلے لفظ کے معنی لیس کمثلہ کے ہیں اور دوسرے لفظ کے معنے ہیں القادر کے کیا معنے ؟اپنے کاموں میں اللہ کسی کا محتاج نہیں اسی واسطے جب سوال ہوا کہ وید اس نے کس طرح بنائے اور کس زبان سے بولے،کس قلم دوات سے لکھے تو یہی جواب دیا گیا کہ وہ سرب شکتی مان ان آلات کا محتاج نہیں مگر اس منتر کے باعث مادہ عالم کو ازلی مان گئے جس کا ذکر آگے آتاہے.ہاں یہ بات یاد رہے کہ ان سوالات مذکورہ کے جوابات صرف بطور دعویٰ ہی قرآن کریم نے بیان نہیں فرمائے بلکہ ہر ایک دعویٰ کی دلیل بھی دی ہے.مثلاً کس نے بنایا جو پہلا سوال ہے.اس سوال کے جواب پر سینکڑوں دلائل دئیے ہیں.بطور نمونہ یہ ہیں.(۱) لمّی دلیل جس کو سنسکرت میں انومان کی قسم میںپوردت کہتے ہیں.فرمایا ہے: (الرعد :۱۷) اللہ ہر ایک چیزکا خالق ہے اور اس دعویٰ کی یہ دلیل دی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں بے ہمتا،اپنے صفات میں یکتا اور افعال میں وہ لیس کمثلہ ہے اوریہ تمام معانی الواحد کے ہیں.جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی نسبت بولا جاوے اور وہ سب پر حکمران و متصرف ہے اور سب کو اپنے ماتحت رکھتا ہے اور یہ معانی القہّار کے ہیںجب حضرت حق سبحانہ وتعالیٰ پر اس کا اطلاق ہو.آریہ سماج بھی اللہ تعالیٰ کو الواحد، القہّار ان معانی میںمانتے ہیں گو نتیجہ میں غلطی کرتے ہیں کیونکہ یہاں اللہ تعالیٰ ہی کی ذات پاک انوپیم، ست،چت،آنند ہے.اگرچہ عام ہنود بت پرستی کے باعث ایک کا کلمہ زبان پر کم لاتے ہیں کیونکہ عام طور پر یہ لوگ جب وزن کرتے ہیں.اوّل اور ایک کے بدلہ پنجاب میں توبرکت برکت کہتے ہیں اور دوسری بار دوآ دوآ.غالباً تمام ہندوستان میں یہی طرز ہوگا.اور القہّار کے بدلہ اس کے ہم معنے لفظ برہم.پرمیشر اَحْکَمُ الْحَاکِمِیْن.رَبُّ الْعَالَمِیْن کا نام لیتے ہیں.اب اَللّٰہُ خَالِقُ کُلَّ شَیْئٌ کا دعویٰ جس مسلم بات پر مبنی ہے وہ اَلْوَاحِدُ الْقَھَّار ک
ا لفظ ہے کیونکہ اگر وہ ہر ایک چیز کا خالق نہ ہو تو کچھ چیزیں اس کی خلق سے باہر بھی ہوں گی اور جو اشیاء خلق سے باہر ہوںگی بہرحال وہ چیزیں ضرور کسی نہ کسی پہلو میں اللہ تعالیٰ کی شریک ہی ہوں گی جیسے آریہ کہتے ہیں کہ تمام ارواح حتیٰ کہ کیڑے مکوڑے بلکہ درختوں کی روحیں بھی خدا کی بنائی ہوئی نہیں.مادہ عالم اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا نہیں.زمانہ اکاش بھی خدا کا بنایا ہوا نہیں وغیرہ تو یہ چیزیں بھی غیر مخلوق، دائمی اپنی ہستی میں خدا کی شریک ہوئیں.پھر یہ چیزیں نہ اپنی ذات میں خدا کی محتاج نہ اپنے خواص میں نہ اپنے عادات میں اور نہ اپنے افعال میں خدا کی دست نگر.باایں ہمہ خدا کو بے وجہ ان پرحکمران مانتے ہیں بلکہ جیسے منتر آئندہ میں ہے ان اشیاء کو خدا کی مانند مانا ہے.دیکھو صفحہ۳۱ (۲)دوسری دلیل انّی ہے جس کو سنسکرت میں انومان کی قسم میںشیش وت کہتے ہیں.کیا معنے؟ مخلوق سے خالق شناسی حاصل کرنا اور وہ اس طرح ہے کہ قرآن کریم میں ہے: (الفرقان :۳) اللہ تعالیٰ لاشریک ہے سب کا خالق ہے.دلیل یہ ہے کہ ہر ایک چیز ایک اندازہ پر ہے اور محدودہے اور یہ بات اگرچہ آریہ سماج اسے مانتے ہیں مشاہدات اور تجارب سے بھی ظاہر ہے اور ہر ایک محدود کے لئے حدبندی کرنے والا ضروری ہے اور مادہ و جیو کی حدبندی کرنے والا پھر خدا کے سوا کون ہے ؟پس وہ ہر ایک چیز کا خالق اللہ ہی ہے.(۳) دلیل خلف..(الطور :۳۶تا۳۸) کیا یہ لوگ خود بخود ہو گئے.عدم سے وجود بلا مرجح کیونکر ہوا کیا یہ اپنے آپ خالق ہیں ؟یہ بات ہمیں وجدان اور اپنی طاقتوں کے لحاظ سے غلط معلوم ہوتی ہے.اوّل تو اس لئے کہ جوں جوں ہم پیچھے جاویں کمزوری بڑھتی نظرآتی ہے.دوم ہم تجارب کے بعد بھی انسان کیا،کیڑا بنانے کے قابل نہیں.علاوہ بریں( اس میں تقدم اپنی
ذات سے.اور دور لازم آتا ہے)کیا آسمانوں اور زمینوں کے یہ خالق ہیں؟یہ صریح غلط ہے اور اس سے تعداد آلہ بھی لازم آتا ہے.کیا ان کے پاس بے انت خزانے ہیں؟ جن سے ان کو پتہ لگا کہ یہ چیز مثلاً ارواح یا فلاں اشیاء مادہ وزمانہ وغیرہ غیر مخلوق نہیں.نفس انسانی تو محدود ہے.خدا کی بے انت باتوں کا احاطہ کیونکر کر سکتا ہے.کیا یہ آزاد ہیں اور کسی کے تحت و تصرف میں نہیں؟ یہ بات مشاہدہ کے خلاف ہے انسان کھانے پینے جننے مرنے سب میں کسی کے نیچے ہے اور کسی کے قبضہ قدرت میں ہے.پس جب یہ باتیں غلط ہیں تو خدا سب اشیاء کا خالق ہے.(۴) قیاس اقترانی سے فرمایا:(الحشر :۲۵)اللہ تعالیٰ ہے اندازہ کرنے والا(خلق کے معنے لغت عرب میں تقدیر کے بھی آئے ہیں اسی واسطے(البقرۃ :۳۰) بلفظ ماضی صحیح ہے) وجود بخشنے والا اور رنگ برنگ صورتیں عطا کرنے والا.تمام صفات کاملہ سے موصوف تمام نقصوں سے منزہ.نیست سے ہست کرنے والا کیونکہ یہ ایک کمال ہے اور خدا کو سب کمالات حاصل ہیں.خدا کو انسان اپنے پر قیاس نہ کرے کیونکہ انوپیم لیس کمثلہ ہے.غرض اس طرح کہ دلائل کا سمندر قرآن کریم میں موج مارتا نظر آتا ہے.ایک آیت (البقرۃ :۱۶۴،۱۶۵) پر اور اکیس پارہ کے رکوع میں من ایاتہ وغیرہ میں کوئی نظر کرنے والا نظر کرے.پہلی آیت کا ذکر تعلیم اسلام فقرہ نمبر۲ میں ہے.پھر پیدائش کے اقسام قرآن کریم میں بتائے گئے ہیں مثلاً وہ خلق جو بدون وسائط بنائی جیسے فرمایا:(الانعام :۱۰۲) اور اوّل انسان کی نسبت فرمایا: خلقت بیدی اور مثلاً وہ مخلوق جس میں ملائکہ کو مظاہر قدرت بنایا ہے جیسے فرمایا: ِ(الرعد :۱۲) (آل عمران :۱۲۶) (النّازعات :۶)(المرسلات :۲)؎ مٹی سے.پانی ملی مٹی سے.متغیرگارے سے پھر معتدل سے پھر بولنے والے پھر پکے ہوئے بولنے والے مادے سے.۲؎ خلاصہ.پانی ملا.تھوڑے سے مادہ سے ہو جونک یا خون کی طرح تھاپھر اتنا بڑا ہوا جتنا چبانے کا لقمہ یا اس جیسا پھر بڑھا او ر اس پر گوشت چڑھا پھر بولتا چالتا بچہ بن گیا.
اور اس مخلوق کا ذکر کیا جس میں عناصر و ارکان کو اپناظاہر قدرت بنایا مثلاً احراق آگ سے.پیاس بجھانا پانی سے وغیرہ وغیرہ.پھر مثلاًپیدائش انسان اول پر بڑا بسط فرمایا ہے جیسے فرمایا:انسان کو ہم نے ان اشیاء سے بنایا.۱؎.من تراب.من طین.من حماء مسنون.من طین لازب.من صلصال.من حماء.من صلصال کالفخار اور آخر و نفخت فیہ من روحی تک بیان کر دیا ہے یہ ایشری سرشٹی میںانسان کا بیان ہوا اور دیکھو کس تفصیل سے ہوا.میتہنی شرشٹی انسانی پر فرمایا.۲؎ من سلالۃ.من طین.من نطفۃ.علقۃ.مضغۃ.عظام.کسونا العظام لحماً.ثم انشأناہ خلقا اخر فتبارک اللّٰہ اور خلقت کے متعلق یہ بھی ارشاد ہے.ان کے اتقان حکمتوں کے لحاظ سے توان میں یہ حال ہے.ما تری فی خلق الرحمن من تفاوت اوربااعتبار صفات کے ان کی یہ حالت ہے وقد خلقکم اطوارًا کیونکہ اصل میٹر و طین و مٹی میں باہم بڑے بڑے تفاوت تھے.پھر اس پر علاوہ غذاؤں، ہواؤں، روشنیوں، قرب و بُعد پانی کے باعث.جبال و بحار کے سبب.ماں باپ کی نیکی و بدی، بیماری و صحت، رنج و غضب.ماں اور اس کی ان غذاؤں کے باعث جو وہ حالت حمل و دودھ پلانے میں کھاتی ہے.صحبت.تادیب.تلقین.مذاہب.مطالعہ کتب اور لباس.خوراک وغیرہ کے باعث اختلافات پیدا ہوتے ہیں.یہ نکتہ اختلاف کا تناسخ کے غلط مسئلہ کو باطل کر رہاہے.البتہ اسلام اور قرآن ایسی پیدائش کو نہیں مان سکتا جس کے ماننے کا مدار صرف ایسے شلوک یامنتر ہوں جن پر شواہد قدرت وعقل وفطرت کی گواہی نہیں.مثلاً دُوَا.سپرنا.سَیَجَا.سَکھایا.سَمَانم.بِرِکھشم پرکھی سوجاتی.تیوارنیّہ پسپلّم.؎ مٹی سے.پانی ملی مٹی سے.متغیرگارے سے پھر معتدل سے پھر بولنے والے پھر پکے ہوئے بولنے والے مادے سے.۲؎ خلاصہ.پانی ملا.تھوڑے سے مادہ سے ہو جونک یا خون کی طرح تھاپھر اتنا بڑا ہوا جتنا چبانے کا لقمہ یا اس جیسا پھر بڑھا او ر اس پر گوشت چڑھا پھر بولتا چالتا بچہ بن گیا.
سوادت نشینؤا بھی چاک شیت اور اس کے ضروری الفاظ کے معنے یہ ہیں.دو عمدہ پروں والے(یہ ایک خدا ہے اور دوسرا روح ہیں)ملے دوستانہ طور.ایک جیسے.ایک درخت پر.براجے.الگ الگ.ستیارتھ میں صفحہ ۲۷۵میں اس منتر کو لکھا ہے اور رگوید منڈل۱.سکت ۱۶۴منتر۲۰کا حوالہ دیا ہے.لفظی ترجمہ کسی مصلحت سے نہیں کیا گیا مگر یہ تو لکھا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے پرمیشور اور جیو دونوں ذی شعور اور جن میں پرورش وغیرہ صفات یکساں ہیں(یکساں کا لفظ قابل غور ہے الواحد کا مخالف ہے)اورجن میں باہم تعلق ہے (یہاں محیط محاط کا لفظ بڑھایا ہے)جو باہم مانوس اور قدیم اور ازلی ہیں.ویسے ہی برکش درخت مشتمل بر جڑیں بصورت ازلیہ علت اور بصورت شاخیں معلول تیسری ازلی شے ہے.ان تینوں کے اوصاف عادات اور افعال ازلی ہیں.پھر لکھا ہے جیو بھلائی برائی کا پھل پاتاہے.دوسرا پرماتما پھل نہیں بھوگتا اور چاروں طرف جلوہ گرہے.ارواح.خدا اور مادہ تینوں اپنی ماہیت سے تینوں جدا اور ازلی ہیں.میں کہتا ہوں یہی ترمورتی ٹرنٹی باپ بیٹا اور روح القدس ازلی کے لگ بھگ مسئلہ ہے گو مسیحی لوگ ان تینوں میں وحدت ذاتی مان کر وحدہ لا شریک کے بھی معتقد ہیں مگر آریہ اب وحدہ لاشریک انوپیم نہیں کہہ سکتے کیونکہ ان کے نزدیک لاکھوں لاکھ پروں والے اس کے شریک چیلوں کی طرح ایک پیپل یا درخت پر جو ازلی ہے ازل سے رہتے ہیں.ہم مانتے ہیں کہ یہاں کوئی روپا النکار کی گھڑت کام آ سکتی ہے جیسے سکت پرش میں النکار سے کام لیا گیاہے مگر ہم نے انصاف طلبی کے لئے کتاب لکھی ہے.ہم نے اسے ٹرنٹی کے ساتھ تشبیہ دینے میں ممکن ہے کسی کے نزدیک قصور کیا ہو کیونکہ صفحہ۲۸۳ستیارتھ میں لکھا ہے کہ پرمیشور پرکرتی.کال.اکاش.جیئو اور ان کے گن.کرم سبہا وخواص عادات اور افعال بھی سب ازلی ہیں.اس حساب سے کروڑ در کڑور ازلی غیر مخلوق اشیاء ہو گئے اور تین ہی ازلی نہ رہے.پس خدا آریہ کے نزدیک تمام صفات میں ایک نہ رہا.لطیفہ.ہم پر تو فرشتوں کے پروں کا اعتراض ہے.دیکھو سوال نمبر ۸۶.اور اپنے اندر روح بھی
پروں والے.خدا بھی پروں والا اور پھر معلوم نہیں کہ ان کے کتنے کتنے کروڑ پر ہوں گے.اعتقاد کیا ہوا ہے.انصاف!انصاف!!انصاف!!!النکار کو ہم جانتے ہیں.معجزہ قرآنیہ اور ملائکہ کا دست تصرف اسلام کی نصرت کے لئے.اس پیدائش کے مضمون میں ستیارتھ کے صفحہ ۲۷۷میں خدا کی صفت میں لکھا ہے.’’ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا.بھان متی نے کنبہ جوڑا ‘‘ اور یہی اعتراض سوال نمبر۲۵میں تم نے قرآن کریم پر کیا، دیکھا خدا کا دست تصرف! کس طرح ستیارتھ میں لکھوایا کہ تیرے اعتراض کے وقت تیرا منہ سیاہ کر دے.ذرہ دونوں کتابیں کھول کر ترک اسلام صفحہ ۵۷ اور ستیارتھ صفحہ نمبر۲۷۷ دیکھو.ستیارتھ میں ایک سوال لکھاہے.تیتری اُپ نشد کا قول ہے.اس پر میشور اور پرکرتی سے اکاش خلاصہ یعنی جو جوہر بشکل علت سب جگہ پھیل رہا تھا اس کو اکٹھا کرنے سے اوکاش (خلا)پیدا ہوتا ہے.درحقیقت اکاش کی پیدائش نہیں ہوتی کیونکہ بغیر اکاش کے پرکرتی اور پرمانوں کہاں ٹھہر سکیں.اکاش کے بعد وایو.وایو کے بعداگنی.اگنی کے بعد جل.جل کے بعد پرتھوی.پرتھوی سے نباتات.نباتات سے اناج.اناج سے نطفہ.نطفہ سے انسان یعنی جسم پیدا ہوتا ہے.یہاں اکاش وغیرہ کی ترتیب سے اورچہاندوگیہ میں اگنی وغیرہ اتیرے میں جل وغیرہ کی ترتیب سے دنیا کی پیدائش بتائی ہے.ویدوں میں کہیں پُرش(پتی)کہیں ہرنیہ گربھ(پرمیشور)وغیرہ سے.ہیمانسا میں کرم (فعل) دشیشک میں کال (زمان) نیائے میں پرمانو (ذرات) یوگ میںپُرشارتھ (جیو کے لئے) سانگہہ میں پرکرتی (مادہ) اور ویدانت میں برہم (پرمیشور) سے دنیا کی پیدائش مانی ہے اب کس کو سچا اور کس کو جھوٹا مانیں؟دیانند نے ۲۹۰میں جواب دیا ہے.اس میں سب سچے کوئی جھوٹا نہیں.جھوٹا وہ ہے جو الٹا سمجھتا ہے.احکم الحاکمین ۲.ہمہ عالم ۳.ہوا ۴.آگ ۵.پانی
اب ہم اس بحث مبدء کو ختم کرتے ہیں.مگر صرف یجر وید کے پُرش سکت کے تین وید منتر وں کی طرف اشارہ ضروری سمجھتے ہیں تاکہ ناظرین کو انصاف اور غور کا موقع ملے کہ اسلامی صفات الٰہیہ اور آریہ سماج کے ویدک صفات میں کیا تفرقہ ہے.اول یجر وید ۳۱.ادہیا کا پہلا منتر ہے.سَہَسَر.شیرشا پُرشا.سَہسَر.اکشا.سَہُسَر.پات.سبہوی گوانک.سَرْوْتَا.سِپر وتوّا.تت شٹ.دش.انگلم.ترجمہ: ہزاروں سروںوالا.پرش.ہزاروں آنکھوںوالا.ہزاروںپاؤں والا.زمین کے ساتھ سیا ہوا.ہر جگہ ،علیحدہ.قائم.دس.انگلی پرے.ہم نے یہ لفظی ترجمہ کیاہے اور اس کے قرائن بھی ہیں.سہسر سی ہزار پنجابی ہے.ہزاروں اردو ہے.سر سا.سر.اکشا آنکھ.پات پاؤں وغیرہ وغیرہ.یجر وید ادہیا ۳۱کے تیسرے منترمیں ہے.سب زمین اور تمام خلقت خالق کی ایک جزو میںہیں اور اس خالق کے تین حصہ فنا سے محفوظ، عظمت و نور میں ہیں.میں کہتا ہوں یہ جگت تو محدود ہے.پس نعوذ باللہ خدا کا ایک حصہ تو محدود ہوگیا.جب ۴/۱ محدود ہے تو ۴/۳ بھی محدود ہو گیا.اور موجودات کے باہر تین کی تقسیم تثلیث کی مثل ہے.پس آریہ سماج اب کم سے کم مسیحی مذہب کو ضرور مان لے.اور چوتھا منتر بھی قریب اسی کے ہے.ہم آریہ سماج سے بمنّت چاہتے ہیں کہ وہ ان تین منتروں کے لفظی ترجمہ کو شائع کریں اور لفظی ترجمہ کے بعد جو معنے چاہیں لکھیں.تشبیہ بتائیں ، استعارہ کہیں ان کو اختیار ہے.النکار اپا دہیان بنائیں مختار ہیں.نمبر ۲قیامت پر اعتراض قیامت کے ثبوت میں یہ ایک نرالہ مضمون ہے اور اس طرز کو میں نے کہیں اور جگہ دیکھا نہیں.مگر میرے ایک نہایت پیارے دوست جو بسبب مدرس ہونے کے ریاضی دان تھے.انہوں نے مجھ سے محبت اور حسن ظن کے باعث ایک بار فرمایا کہ قرآن کریم میں قیامت کے ثبوت صرف امکان قیامت کو ثابت کرتے ہیں مثلاً کھیتوں سے تشبیہ.سونے اور جاگنے کی تشبیہ سے قیامت اور حشر اجساد
کو بعد الموت ثابت کیا گیا ہے.میں نے عرض کیا نہ مولانا!آپ ریاضی دان ہیں اس لئے میں ایک ریاضی کا مسئلہ عرض کرتاہوںجو مثبت قیامت ہے.اربعہ متناسبہ کا قاعدہ رول آف تھری آپ کے یہاں اور عقلا کے سامنے مسلم اور صحیح ہے کہ نہیں؟ فرمایا کہ صحیح ہے.میں نے عرض کیا کہ نیازمند یہی طریق ثبوت قیامت کا قرآن کریم سے حضور کے سامنے پیش کرتا ہوں اور بطور مثال چند آیات سنا تا ہوں.سورہ بقرہ پہلے پارہ میں آتا ہے.(البقرۃ:۸۶)ترجمہ:کیا اس تحریر کا کچھ حصہ مانتے ہو اور کچھ سے انکار ی ہوگئے ہو.پس کوئی نہیں سزا اس کی جو ایسا کرے تم میں سے مگر یہ کہ ذلیل ہو اس دنیا میں اور قیامت کے دن بڑے عذاب کی طرف بھیجے جاویں گے اور اللہ غافل نہیں تمہاری کرتوتوں سے.تفصیل.مدینہ کے بارعب بنی اسرائیل اور یہود کو یہ خطاب ہے.یہ لوگ مدینہ کے نواح میں خیبر فدک وغیرہ کے مالک تھے اوربڑے جاہ وحشم کی جماعت تھی.نبی کریم ﷺ نے ان سے معاہدہ کیا تھا.آخر ان بدعہدوں نے اس عہد نامہ کے بعض حصوں کی خلاف ورزی کی اور یہاں تک گستاخی میں بڑھے کہ استیصال اسلام کی دھمکیاں دیں.ان کے متعلق یہ آیت قرآن کریم میں ہے.اس میں دو خبریں دی ہیں.اوّل: یہ کہ اس بد عہدی پر تم دنیا میں ذلیل ہو گے اور یہ امر بظاہر محال تھاکیونکہ ایک طرف کمزور قلیل جماعت اسلام کی اور مقابلہ میں یہ زبردست زمینوں کے مالک تجارتوں میں ممتاز.دوسری خبر یہ ہے کہ قیامت میں تم پر عذاب ہو گا.یہ دو اطلاعیں قبل از وقت دی گئیں.پھر تیسری بات یہ ہے کہ وہ قوم بارعب صاحب جاہ و حشم مع تمام قبائل عرب کے جن کو احزاب کہتے ہیں
مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے.مگر آخر وہ یہود عرب سے جلا وطن کئے گئے.ان کا نام بنو نضیر اور بنو قینقاع تھا اور قوم قریظہ کے یہود بالغ سب کے سب مارے گئے.دیکھو دنیوی خبر اور اخروی خبر دو خبریں تھیں اور ان کے مقابلہ میں دو واقعات تھے.جن کے متعلق وہ خبریں تھیں.ایک خبر نے اپنے واقعہ کے ساتھ صداقت کی مہر لگا دی ہے کہ دوسری خبر عذاب قیامت بھی اپنے واقعہ کو ضرور لائے گی.۲.دوسری دلیل. (المؤمن: ۵۲) ترجمہ.ہم اپنے مرسلوں اور کامل مومنوں کو جو ہمارے کہے پر چلتے اور ہمیں مانتے ہیں نصرت و امداد و تائید دیتے رہے اور دیتے رہیں گے.اس دنیا میں اور قیامت کے دن.اب تمام ماموروں اور مرسلوں اور ان کے سچے ساتھ والوںکی تاریخ دیکھ ڈالو کس طرح بے کس وبے بس ،بے یاروغمگسار دنیامیں آتے ہیں.مثلاً یوسف علیہ السلام کو دیکھو.زبردست طاقت ور جماعت نے ان کے ساتھ کیا کیا مگر آخر یوسف علیہ السلام کامیاب اور وہ سب کے سب باہمہ عصبیت ناکام و نادم ہوئے.ہمارے نبی کریم ﷺ کے دشمن کیسے زبردست تھے پھر کیسے نامراد ہلاک ہوئے.تائید ونصرت مرسل کے بارے دو خبریں ہیں ایک دنیا میں تائید و نصرت کی دوسری بعد الموت کی.ان دو میں سے ایک واقعہ نے دنیا میں اپنی خبرکے مطابق ظہور کیا.پس اسی مناسبت سے دوسری خبر جو اسی کے ساتھ ہے اپنے واقعہ کے ساتھ ضرور ظہور پذیر ہو گی.۳.فرعون و موسیٰ علیہ السلام کے مابین جنگ ہو رہی ہے.ایک طر ف ایک طاقتور بادشاہ ہے جو مدمقابل کو کہتاہے تو ہمارا نمک پروردہ اور تیری تمام قوم ہماری غلام ہے.ان دونوں کے درمیان الٰہی نصرت کا وعدہ ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام ان کی شرارتوںسے محفوظ رہیں گے اور فرعونی بالکل غرق ہو کر عذاب آخرت کے مستحق ہوں گے.
(المؤمن:۴۶،۴۷)پھر دیکھ لو ان تینوں علو م نے کیسی زبردست قوت سے قیامت کو ثابت ومحکم کر دیاہے.عمائدمنافقین مدینہ کو کہا کہ شرارتوں سے باز آجاؤ وَ اِلّا اس جہاں اور قیامت میں دکھ پاؤ گے جیسے آیت ذیل میں آیا ہے:(التوبۃ:۷۴) اب غور کرو کہ ان ناعاقبت اندیش لوگوںکی یہ خبر ہے کہ ان کو عذاب دیں گے اس دنیا میں اور ان کے لئے عذاب ہے آخرت میں.پھر ایک اور خبر ہے کہ ان کا کوئی والی وارث یا دوست نہ ہوگا.اور تیسری خبر ہے کہ ان کا کوئی مددگار نہ رہے گا.پھر دیکھو یہ تینوں خبریں کس طرح اپنے وقوع کے ساتھ ہمیں دنیا میں نظر آگئیں.جب یہ دونوں اپنی مناسبت سے صحیح ہو گئیں تو تیسرا علم جو انہیں کا مساوی ہے کیونکر صحیح نہ ہو گا کہ قیامت میں عذاب پاؤ گے.اب بتاؤ کہ اس سے بڑھ کر دیانند نے مابعد الموت حالت کا کیا ثبوت دیاہے؟ ہاں البتہ قرآن اور اسلام یہ نہیںکہہ سکتے کہ آدمی کتّے ،بلے، سؤر اور درخت اور کیڑے مکوڑے بن جاتے ہیں اور نہیں کہہ سکتے کہ ایک مہاں پر لے آئے گی جس میں رات پڑجائے گی اور اللہ تعالیٰ (پرمیشور) اس وقت بالکل اپنی صفات یا اکثر صفات جزا و سزا و رحم، رزق وغیرہ سے معطل و بے کار ہو جائیں گے یا سوئیں گے اور لکھشمی ان کے پاؤں ملے گی.اسلامی اصطلاح میں قیامت کے لفظ کے معنے تو بہت ہیں مگر مشہور یہ دو ہیں.اول: من مات فقد قامت قیامتہ.(احادیث کا فقرہ ہے)جو مر گیا اس کی قیامت قائم ہو گئی.دوم:ما بعدالموت حشر اجسادکے وقت جب سعید و شقی بالکل الگ الگ ہو جائیں گے اس کانام قیامت ہے.مابعدالموت کوئی جیل خانہ نہیں اور وہ کوئی حوالات نہیں.قبر میں داخل کرنا اللہ تعالیٰ کاکام ہے جیسے قرآن کریم میں فرمایا : فاقبرہ کہ قبر میں اللہ تعالیٰ ہی داخل کرتا ہے اور وہ قبر جس میں اللہ تعالیٰ
داخل فرماتا ہے وہ ایک باغ ہے بہشتوں کے باغوں سے جیسے فرمایا ہمارے نبی کریم ﷺ نے القبر روضۃ من ریاض الجنۃ یا وہ گڑھا ہے دوزخ کے گڑھوں سے جیسے فرمایا: او حفرۃ من حفر النیران اور قرآن کریم میں بارہا ذکر ہوا ہے کہ مومن اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والا بعد الموت معاً جنت میں داخل ہو جاتاہے اور شریر نار میں جیسے فرمایا: (یٰسٓ :۲۷،۲۸) اور منکروں اور شریروں کے لئے فرمایا گیا ہے مثلاً فرعون اور فرعون کے ہمراہیوں کیلئے.(نوح : ۲۶) ہاں حشر اجساد کے وقت آخر عظیم الشان تفرقہ سعید وشقی میں کر دیا جائے گا اسی واسطے اس دن کا نام یوم الفصل آیا ہے.پارہ ۳۰کی پہلی سورۃ مگر وہ حالت سردست جنت ونار کے دخول کی مانع نہیں.حضرت امام علیہ السلام نے تقریر جلسہ اعظم مذاہب میں تقریر مفصل کی ہے جو قابل دید ہے.اللہ تعالیٰ توفیق فہم دے.نمبر۳.کفر پر اعتراض کیاہے کہ اسلام مخالفوں کو کافر کیوںکہتاہے بلکہ لکھاہے کہ جو معقول پسندہے اسلام میں وہ کافر ہے.پس اس کا پہلا جواب تو یہ ہے لعنۃ اللہ علی الکاذبین.دوسرا جواب ہے مثلاً ہم روح کو (نفسِ جان)ازلی غیر مخلوق نہ ماننے کے باعث آریہ کے اس قول کے منکرہیں مثلاً میں مادہ عالم کے غیر مخلوق ماننے کا کافر.تناسخ کا کافر ہوں.برہموں انبیاء و رسل کے کافر ہیں.تم لوگ وحدہ لاشریک خالق کل شئی.مرسل آدم ؑ وابراہیم ،ؑ موسیٰ ؑ وخاتم الانبیاء کے کافر ہو.مسیحی وحدہ لاشریک کے کافر ہیں.کافر کے معنی منکر کے ہیں جو کوئی کسی بات کا منکرہے اس کا کافرہے اس پر اعتراض کیا ہے ؟دیکھو صفحہ نمبر۳۳۸ یا آخر کتاب میں لطیفہ تیسرا اعتراض کیا ہوا.نمبر۴.شرک پر اعتراض.شرک کے معنی ہیں ساجھی کرنا.جس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت و تعظیم میں کسی غیر کو اللہ تعالیٰ کا ساجھی بنایا وہ مشرک ہوا جس نے ھُوَ الْاَوَّلُ میں مادہ عالم کو، نفوس
کو ساجھی بنایا وہ مشرک ہے وغیرہ اور اسلام تو شرک کا ایسا دشمن ہے کہ کہتا ہے :(النساء :۴۹) اب اس سے زیادہ نفرت کے کلمات شرک کے متعلق دیکھنا چاہو تو دیکھو جواب نمبر ۸صفحہ ۹۵ سے ۹۹.نمبر۵.اعتراض ہے قرآن صلح کاری کے مخالف ہے.جواب: جھوٹ کہتے ہو.قرآن میںہے..(الشورٰی:۴۱)(الانفال:۶۲)کے ارشادات ہیں.نمبر۶.عورتوں کے متعلق باربار قرآن پر اعتراض کیا ہے اور ہم نے عورتوںکے حقوق کو اوّل تعلیم اسلام میں دکھایا ہے.دیکھو صفحہ ۱۷ تا ۱۹ اور فقرہ نمبر۷ کی فہرست کہ آریہ ورت حقوق نسواں میں بڑے ظالم ہیں.نمبر۷.ذبح و گوشت پر اعتراض جواب دیکھو بحث صفحہ نمبر ۸۰، ۸۱، ۹۳، ۱۰۰، ۱۰۹، ۱۱۳ مگر جانوروں کو معصوم کہا ہے اس پر تعجب ہے کیونکہ اگر جانور معصوم ہیں تو وہ اواگون کے نرگ میں کیوں ہیں کیا ان پر ظلم ہے؟ نمبر۸.شراب پر اعتراض.جواب :شراب قرآن میں ممنوع ہے.دیکھو صفحہ نمبر ۱۷ اور ہم ہرگز پسند نہیں کر سکتے کہ جس کو ہمارے پاک قرآن شریف نے حرام کیا.اس کے جواز کی سندیں تمہارے گھر سے نکالیں اور دکھائیں کہ سام وید نے کیسی تعریف اس کی کی ہے اور سنسکرت میں اس کانام سُراپان کیوں ہے.ہاں اتنا بتاتے ہیں کہ خمر قرآن میں انگور کو کہا ہے اور الخمر مسکر کو فرمایا ہے.اس واسطے الخمر حرام ہے اور خمر بمعنے انگور حرام نہیں.نمبر ۹.حور عمدہ.پاکیزہ بی بی کانا م ہے.اس کا جواب سوال نمبر۴۱صفحہ ۸۸میں دیکھو.نمبر۱۰.غلمان جمع ہے غلام کی اور ولدان جمع ہے ولید کی.یہ دونوں لفظ بیٹوں.جوان خدمت گاروں کے لئے ہیں.اس کا جواب سوال نمبر ۴۲میں دیکھو.
نمبر۱۱.(الدھر:۲۲) اور ذھب کا جواب سوال نمبر ۴۰صفحہ ۸۷ میں آیاہے اور قرآن کریم میں(الرحمٰن :۴۷) میںدو جنتوں کے وعدے ہم کو دئیے ہیں.ایک دنیوی اور دوم بعد الموت.ایک وہ ہے جس کو توریت کے باب ۲۱.۱۵میں جنت عدن کہا ہے اور مسلم کی صحیح میں.ضمنی سوالات۵ سوال اور ان سوالوںکے مختصر جواب جو لاہور کے ایک معززدوست نے پیش کئے کہ دفتروں میں آریہ سماجی کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کرے کہ ہماری جماعت لاہور کے وہ صاحب اور اس کے بچے چراغ ہوں.آمین یا رب العالمین.سوال (۱).مسجد خدا کا گھر ہے.پس خدا محدود ہوا.(۱) الزامی جواب.منو ا.۱۰ میں ہے.سنسکرت میں پانی کو نارا کہتے ہیں وہ پہلے پرماتما کا گھر تھا اس لئے پرماتما کو نرائن کہتے ہیں اور رگوید آدھی بھاشیہ بھومکا ترجمہ نہال سنگھ کرنالی کے صفحہ ۱۴۱بحوالہ وید لکھاہے.جس ملک میں علم اور دھرم کی ترقی اور اشاعت ہوتی ہے وہ میرا مقام مالوف ہے.اصل وید کے منتر بتانے کے لئے آریہ سماج ہی اب ذمہ وار ہے اور اس میں کیا شک ہو سکتاہے کہ مکہ معظمہ سے وعظ توحید شروع ہوا.اسی معظم مکان نے مسئلہ توحید کی تائید کی اور شرک کا استیصال کیا.قومی نفاق اور طوائف الملوکی اور خانہ جنگیاں عرب کی دور کیں.دختر کشی.شراب اور خطرناک قمار کا اس ملک میں نام و نشان نہ چھوڑا.اتباع میں نفاق وکسل و کاہلی کے بدلہ آزادی.صبر وہمت واخوت وہمدردی و شجاعت و استقلال اور عزم کو پیداکر دیا.اب بتاؤ یہ مکان خدا تعالیٰ کا.’’مقام مالوف‘‘اور گھر نہ ہو تو اور کونسا ہو؟ (۲) خاص نسبت اور تعلق کے لئے اضافت ہوا کرتی ہے اس سے کوئی عقل مند منکر نہیں.اسلامی مساجد (سجدہ گاہیں)صرف الٰہی عبادت کی جگہ ہیں اور محض اللہ ہی کی رضا مندی کے لئے
بنائی جاتی ہیں اس واسطے ان کو بیوت اللہ اور ایک ایک کو بیت اللہ کہتے ہیں کیا معنے؟ کہ ان گھروں میں صرف اللہ تعالیٰ کا نام لیا جاتاہے اور بس مثلاً خانہ کعبہ میں اندرجاکر صرف دو رکعت نماز یا دعا کی جاتی ہے اور اس کے اندر کسی مخلوق کا بت نہیں رکھا گیا اس لئے اس کو بھی بیت اللہ کہتے ہیں اور تمہارے ناموں سے زیادہ تر اس نا م میں سچائی مدنظرہے.مثلاً ویدک کالج اس کے معنے ہیں وید کا کالج.بڑے بڑے وید کے عشاق نے اس میں عمریں وقف کیں اپنی محنتوں کا روپیہ دیا مگر کیا اس میںوید ہی سنایا جاتاہے اور کچھ نہیں!!!اسی طرح گرو کُل میں بڑے بڑے ویدوں کے فدائی مہتمم ہیں مگر کیا اس میں صرف ویدکی تعلیم ہے.!!! س۲.مسلمان بڑوں کا ہاتھ چومتے ہیں اور یہ شرک ہے.الجواب: چومنا شرک ہے یا نہیں.اس کا جواب ہم منصف مزاج بیاہے لوگوں پر ڈالتے ہیں گو آریہ ہوں بلکہ آریہ سماج ہوں.مگر ہمیں یہ تردد ضرور رہے گا کہ منو جی ۹.۶۰میں ارشاد ہے کہ بدن پر گھی لگا کرخاموش ہو کر کے بیٹا لینا اور منوجی ۹.۱۴۷میںہے کہ وہ بیٹا کام سے پیدا ہوتاہے تو دولت نہیں پاتااور کام کے پیدا ہوئے بیٹے کے معنے نارورشی نے یہ کئے ہیں کہ وقت جماع عورت کے مونہہ سے مونہہ نہ لگاوے.نہ عضو سے عضو.صرف … اب جس قدر آریہ لوگ اپنی والدہ کے خاوند وںکا مال ودولت لیتے ہیں وہ کیونکر حلال ہو گا اور کیونکر جائز ہو گا؟ کیا وہ اسی طرح پیداہوئے اور کیا اس بات کا کوئی گواہ بھی ہوتاہے کہ نہیں اور کیا آریہ کے عقل مند لوگ اس ترکیب و قانون کو پسند فرمائیں گے؟ گو اس عجیب و غریب حکم کی تلافی مہاں رشی دیانند جی کے اس ارشاد سے ہو سکتی ہے جو ستیارتھ پرکاش میں دیا ہے.ہم تو شرم کے مارے اس کو پورا نقل نہیں کر سکتے مگر سپارش کرتے ہیں کہ گربھا وہاں سنسکار کے فقرہ ۴۳سملاس ۴کا مطالعہ فرمائیں کہ کس طرح کوک شاستر اور اپنے پرانے شیو مت کو نباہا ہے!
پھر ماں.باپ.اچار۱؎ کی سیوا.خدمت.پرم تپ (عبادت اعظم) ہے کا رپیتہ اگنی پتہ و کشنی اگنی ماتا اور آہوتی اگنی.گروہیں.پہلی عبادت سے بھو لوگ.دوسری سے انترکش لوگ.تیسری سے برہم لوگ ملتا ہے.منو۲شلوک ۲۲۹اور۲۳۱،۲۳۳آپ تو چومنے پر معترض ہیں یہاں عبادت غیر اللہ موجود ہے.س۳.منہ قبلہ کو کرتے ہیں.اس کا مفصل جواب دیکھو.سوال نمبر۱۸اور صفحہ نمبر۴۹ اور الزاماً جواب کے لئے دیکھو منو ۲.اشلوک ۷۵اور۷۵،۷۶.پورب منہ کش کے آسن پر بیٹھ کر پوتر منترسے پوترہو کر تین بار پرانا یام کرے.تب انکارکھنے لائق ہوتا ہے.۷۶.اکار.اکار مکارتین.اکہشر (مقطعات)بھوہ.بھوہ.سوہ.پڑھے یہ عطر وید ہے جو برہما نے نکالا اور حقیقت یہ ہے کہ توجہ مکہ معظمہ کی طرف اسلامی نماز میں پانچ وقت یک جہتی کی تعلیم ہے.بے جہت نفس روح وجان.بے جہت کے صفات الٰہیہ کا دھیان کرے اور اس کے حضور دعا وتعظیم کرے اور باجہت جسم یکسو ہوکر توجہ کرے.شاید آریہ لوگ ہَوَن کے وقت آگ کی طرف پیٹھ دے کر وید منتر پڑھتے ہوں.س۴.نبی کریم ؐپر الصلوٰۃ والسلام کہتے ہیں.جواب:صلوٰہ کے معنی ہیں خاص رحمت کی دعا اور ہر ایک مذہب الہامی میں مسئلہ دعاکرنے کا ثابت ہے.تارک اسلام نے بھی بار بار لیکچر میں ’’دعا‘‘اور’’درددل‘‘سے سامعین کو اپنی طرف متوجہ ہونے کے لئے دعا کا لفظ استعمال کیاہے.بلکہ عام دنیا پرست بھی جس کسی کواپنا نفع رساں سمجھتے ہیںان کے حضور اپنی امید وبیم کو بطور عرض پیش کرتے ہیں.پس حقیقتاً وہ بھی ان کے آگے دعا ۱؎ استاد،رہبر،گرو ۲.مشرق ۳.گھانس ۴.گدیلے۱۲ ف.مکار جس کو سندھیا ودھی میں ’’ ما ‘‘ اور ستیارتھ میں ’’ م ‘‘ کہا ہے ۱۲ منہ
کرتے ہیں.اسی طرح صلوٰۃ ایک خاص دعا ہے جو تمام متبعان نبی کریمﷺ.نبی کریم ﷺ کے حسن و احسان کا مطالعہ کر کے آپ کے حق میں جناب الٰہی میں کرتے ہیں اور از بس کہ یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ دعا ضائع اور اکارت نہیں جاتی اس لئے ثابت ہوا کہ ہمارے نبی کریم ﷺ کے لئے جو تیرہ سوسال سے کروڑ درکروڑ مرد وزن بچے بوڑھے دعائیں لگاتار کرتے رہے اور کرتے ہیں اور اس طرح دنیا کے کسی ہادی کے لئے دعائیں نہیںکی جاتیں.پس وہ مدارج میں تمام دوسرے ہادیوں سے معزز و ممتاز ہیں اور ہوں گے.بڑے بدقسمت ہیںوہ جنہوں نے کے امر کی تعمیل چھوڑ دی ہے.یہاں ہم سورہ ن کا ابتدائی حصہ لکھ کر مضمون کو ختم کرتے مگر مناسب معلوم ہوا کہ اس کا ابتدائی حصہ فقرہ ہشتم میں مرقوم ہو.س ۵.حجر اسود کے چومنے سے لوگوں کے گناہوںکا دور ہونا اور پتھر کا رنگ بہ سبب گناہوں کے سیاہی پر آنا معارج النبوۃ میں لکھا ہے.پس یہ اسلام کی خام خیالی ہے ۱؎.الجواب: اوّل.معارج النبوۃ کے حوالہ پر مکذب نے اسلام پر الزام لگایاہے حالانکہ معارج النبوۃ قرآن کانام نہیں اور نہ کسی حدیث یا الہامی کلام کا.قرآن کریم میں حجر اسود کا تذکرہ ہی نہیں اور اس وقت آپ اسلامی الہامات پر حملہ کر رہے تھے.کیا آپ کو غضب و طیش میں کچھ یاد نہ رہا؟ کہاں سے کہاں نکل گئے.غور کرو ! اپنا قول تکذیب جو صفحہ ۱۰۲میں ہے.’’اس جگہ واجب جانتا ہوں کہ اسلامی الہاموں کی غلطیاں بتاؤں‘‘.پھران غلطیوں میں اس غلطی کو بھی درج کر دیا.بنظر آپ کے فقرہ مرقومہ تکذیب صفحہ ۱۰۱ ہمیں بے اختیار کہنا پڑا کہ مکذب کا یہ دعویٰ بھی مثل اس کے اور دعاوی کے محض بے دلیل ہے.دوم.اصل بات یہ ہے کہ بہت مدت سے تصویری زبان کا دنیا میں رواج تھا اور اب بھی ۱؎ یہ مضمون لیکھرام کے مقابلہ میں تصدیق کے حصہ دوم میں تھا وہی نقل کر دیا گیا ہے۱۲ منہ
ہے.مجھے امید ہے کہ میر ے اس دعویٰ میں کسی کو انکار نہ ہو گا.اگر کسی کو ہو تو سری رام چندر جی اور شیو جی کے تصویری قصص ہندوؤںکے پاس خصوصاً ہند کے قدیم مصوروں کے پاس موجود ہیں دیکھ لے.رومی سکندر جس کو دانیال نے ذوالقرن ایک سینگ کا بکرا خواب میں دیکھا ہے.دیکھو دانیال باب ۸ اور دارا ایرانی بادشاہ کی تصویری زبان میں (گفتگو)عام نظموں میں موجود ہے پڑھ لو.اس تصویری زبان کی کتابیں اور اخبارات ہند میں بکثرت موجود ہیں.تصویری زبان ان بلاد میں جہاں تعلیم کا رواج کم ہوتا ہے یا بالکل نہیں ہوتا زیادہ تر استعمال کی جاتی ہے بلکہ اکثر تصویری زبان بہ نسبت تحریری کے زیادہ قوی ہوا کرتی ہے.اسی واسطے یادگاروں کو عقلاء اور حکماء اکثر تصویری تحریروں میں ادا کرتے ہیں.عیسائی جن کے بھروسہ پر آپ اسلام پر معترض بن بیٹھے ہیں اور اس زمانہ میں جس قوم کے اطوار نیو فیشن لوگوںکے نزدیک آسمانی کتب سے بڑھ کر مستحکم اور قابل اتباع نظر آتے ہیں.وہ قوم تصویری زبان کی کیسی قائل ہیں کہ ان کے اخبار جنہیں گریفک کہتے ہیں تصویری زبان میں شائع ہوتے ہیں.یہود میںایک پولا ہلانے کی رسم تھی.جس کا ذکر احبار ۲۳باب ۱۸میںہے.عیسائیوں نے اس کو مسیح کا جی اٹھنا یقین کیا.قرنتی باب۱۵،۲۰.باب ۲۰یوشع بن نون نے یردن سے گزرتے وقت بارہ پتھر اٹھائے.یوشع باب۶.وہ بقول عیسائیوں کے بارہ حواریوں کی پیشگوئی تھی.یہود اور عیسائی غیر قوموں کو اور بعض خواص کو پتھر کہتے تھے یہ ان کا محاورہ تھا.بطرس کو پتھر اسی واسطے کہاکہ کلیسا کے لئے وہ فونڈیشن سٹون ہوا.ان باتوں پر غور کرو.اب اس تمہید کے بعد واضح رہے کہ کتب مقدسہ میں ایک پیشگوئی بہ نسبت حضرت خاتم الانبیاء، اصفی الاصفیاء بہت زور سے مندرج تھی.دیکھو لوقا۲۰باب۱۶،۱۷.وہ پتھر جسے راج گیروں نے رد کیا وہی کونے کا سرا ہوا.اور دیکھو زبور۱۸.۲۲وہ پتھر جسے معماروں نے رد کیا کونے
کا سرا ہو گیا ہے.متی باب ۲۱آیت ۴۲،۴۴.غرض یہ ایک بشارت ہے جو کئی کتب مقدسہ میں مندرج ہے.اسی بشارت اور اسی پیشین گوئی کے اظہارو تصدیق کے لئے مکہ معظمہ کی بڑی عبادت گاہ میں بطور تصویری زبان کے حجر اسود کونے پر رکھا گیا تھا.محمدیوں سے پہلے سالہا سال سے یہ پتھر ابراہیمی عبادت گاہ کے کونے پر منصوب تھا اور عرب کے لوگ اسے چومتے اور اس سے ہاتھ ملاتے.گویا قدیم زمانے میں نبی عرب سے پہلے یہ فقرہ تصویری طور پر مکہ معظمہ کی مقدس مسجد پر لکھا تھا کہ اس شہر میں وہ کونے کا پتھر جسے یہود اور عیسائی رد کریں گے ظاہر ہو گا جس کا ذکر مقدسہ کتب میں موجود ہے اور روحانی طور پر یوں کہا جائے گا کہ نبوت اور رسالت کی عظیم الشان اور مستحکم عمارت جو انبیاء اور رسولوں کے وجودباجود سے تیار ہوئی ہے.اس میں رسالت مآب کی گرامی ذات کونے کی آخری اینٹ ہے جن سے وہ عمارت پوری ہوئی.ان کی بیعت رحمان کی بیعت اور ان کی اطاعت رحمان کی اطاعت ہے.کیونکہ جو کچھ وہ بولے الٰہی بلانے سے بولے.حضرت رسالت مآب نے بھی یہی تفسیر فرمائی ہے دیکھو مشکوٰۃ وغیرہ.مثلی ومثل الانبیاء کمثل قصراحسن بنیانہ وترک منہ موضع اللبنۃ الی ان قال فکنت انا سددت موضع اللبنۃ وفی روایۃ فانا تلک اللبنۃ.(ترجمہ): میری اور دوسرے نبیوں کی مثال اس محل کی ہے کہ وہ بہت خوبصورت بنایا گیا اور ایک اینٹ کی جگہ اس میں خالی رکھی گئی.میں وہی اینٹ ہوں.کیسی صاف اور واضح صداقت ہے.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جہاں عدو نکتہ چینی کے لئے انگلی رکھتا ہے وہیں سے معارف کا خزانہ نکل آتاہے.اگر مخالف خردہ گیری نہ کرتے تو یہ صداقتیں دنیا پر کیونکر ظاہر ہوتیں.فللّٰہ الحمد فی الاولٰی والاٰخرۃ.فقرہ ششم.آریہ کے احکام جنگ اور اسلام کا مقابلہ:
یہ تمام حوالے ہم نے دیانندی بہاش سے لئے ہیں.۱؎ اے راجہ! تو دشمنوںکے ساتھ دوسروں کو دکھ دینے کے لئے کاٹ کھانے والا ہے.ان کو جیت کی سمت شرق پر چڑھائی کر.یجر وید باب ۱۰منتر۱۰ اے راجا !تو دکہن کی طرف چڑھائی کر اور دشمنوں کو جیت.باب ۱۰منتر۱۱.اے راجا! تو مغرب کی فتح سے مال واسباب اور دولت فراواں حاصل کر.باب ۱۰منتر۱۲.اے راجا! تو شمال کی طرف چڑھائی کر.باب ۱۰منتر۱۳.اے راجا ! تو دشمنوں کے لئے مجسم بجر ہتھیار ہے.باب۱۰ منتر۲۱.اے راجا جیسے تو بردن کو رلانے والا ہے ویسے میں بھی ہو جاؤں.باب۱۰منتر۲۸.(پرمیشورکہتا ہے)جیسے میں بدخصلت آدمیوں کے سر پھوڑتا ہوں.ویسے ویسے تم بھی ان کے سروں کو پھوڑو.باب۵منتر۲۲.اے لوگو ! جیسے تم دکھوں کا ناس کرنے والے ہو ویسے دشمنوں کا بل نکالنے والا میں آپ لوگوں کا ستکار کر کے جہاد میں ہتھیاروں سے غرور کرنے والے لوگوں کو درست کروں جیسے تم بد مذہبوں، بدذاتوں، غلاموں کو مارتے ہو ویسے دشمنوں کی فوج کو تہاہ لینے والا.میں تم کو سکھ دیتا اور بدذاتوںکو دورکرتا ہوںجیسے میں فوج کو لُوٹ پر لانے والا دشمنوں کو مارنے والا تم کو سکھ کے سایہ میں ڈھانکتا ہوں ویسے ہی تم بھی کیا کرو.باب۵منتر۲۵.اے راجا! جیسے میں راکشھوں کے گلے کاٹتا ہوں ویسے ہی تو بھی کاٹ.باب۶منتر ایک.اے راجا جس کام میںبڑے بڑے متکبر دشمن مارے جائیں اس کے لئے تو جہاد وغیرہ کاموں میں باز پرند کی مانند لپٹ جھپٹ مارنے والا ہے.دولت کی جمعیت کے لئے وغیرہ تجھ کو قبول کرتے ہیں.باب ۶منتر ۳۲.اے راجا! (ایسے اور ویسے)تو دشمنوں پر فتح پانے والا ہے.باب ۶ منتر ۳۷.ایشر کہتا ہے اے راجا !تو دشمنوں کاناس کرنے میں بے خوف وغیرہ ہے.خدائی دلوانے والے یہ حوالے مولوی ابو رحمت نے رد خطرات میں دئیے ہیں اور ہم نے مقابلہ کر کے د یکھ لیا ہے ۱۲منہ ۲.کاٹ کھانے والا.۳.لوٹ کے لئے جنگ.۴.رولانے والا.۵.ف.پھوڑنے والے بنو.۶.غلام اوران کا مارنا.۷.لوٹ کرنا.۸.راکہش کا گلا کاٹنا.۹.دولت کے لئے باز کی طرح شے دی.
جہاد کی میں تجھ کو نصیحت کرتا ہوں خاص کرتاہوں.جہاد کے لئے اور جس طرح ہوا بادلوں کو متفرق کر دیتی ہے اور سورج ہر شئے کا سَت کھینچتا ہے ویسے ہی تو بھی ہر شے کا سَت پی.باب۳۷ (جب ہر شے کا سَت پیا تو حرام و حلال کی تمیز کہاں رہی)اے راجا ! آگ کی مانند دشمنوں کو جلانے والے باب۱۳ منتر۱۱.اے اقبال مندراجا! تو سعادت مندی حاصل کراپنے ہم مذہبوں کے لئے سکھ پھیلا اپنے مذہب کے مخالفوں کو بھسم کر ڈال جو ہمارے دشمنوں کی حمایت کرتاہے اس کو نیچے کی طرف سوکھی لکڑی کی طرح ادھر جلا کہ جدھر سے اس کی ہوا بھی نہ آوے.باب ۱۳ منتر ۱۲.اے بُروںکو رلانے اور دشمنوں کو مارنے والے غصہ ور مجاہد تجھے بجر اور روزی حاصل ہو.تیرے ہاتھ سے دشمنوں کو بجر لگے.باب ۱۶منتر۱.اے لوگو ! جو ہمارے دشمن لوگ ہیں وے دور ہوں.ان دشمنوں کو ہم ہوا اور بجلی کے ہتھیاروں اوزاروں سے جیسے ہم رنج دیں ویسے ہی تم لوگ ان کو رنج پہنچاؤ اور میری خدمت کرو.باب ۳۳منتر۴۹.اے سپہ سالار تو اپنے ہاتھ سے تیروں کو کمان کی چانپ میں لگا اور زور سے دشمنوں پر چلا.باب ۱۶ منتر۹.اے انسانوں جو بے حساب طرح کی عقل والا راجا ہے جس سے بے حساب جانیں پرورش پاتی ہیں.ایسے ہتھیار اوزار جیسے بادلوں کو کاٹنے والا سورج بادل کاٹتا ہے ویسے ہی وہ بڑی دولت اور دنیا حاصل کرنے کے لئے دشمنوں کو مارتا ہے اور تمہارے لئے دولت غلہ ومال و اسباب حاصل کرتاہے اس کا تم ستکار کرو.باب۳۳ منتر۹۶ (یجر وید کے منتر تمام ہوئے) راج سبہا اور رعیت پر واجب ہے کہ پرمیشور کو اور سبہا دہکش (میر مجلس)کو راجا سمجھیں اور میر مجلس کے جھنڈے تلے جُدہْ میں مَیں آکر شامل ہوں.فوج کے بہادر جوان بھی پرمیشور اور میر مجلس اور سپہ سالار کے زیر حکم رہ کر جُدھ کریں (اتھر وید کانڈ۱۵.انواک ۲.واگ ۹منتر۲)پرمیشور قتل عام کا حکم فرماتا ہے اس طرح پر کہ اے دشمنوں کو مارنے والے جنگ کے قواعد سے پورے پورے ماہر بے خوف و بے ہراس بڑے جاہ وجلال والے میرے پیارے جوانمردو ! تم سب اپنی رعیت کو ۱.لوگوں کا خون پی لو.۲.مذہب کے مخالفوں کو بھسم کر ڈال.۳.ایسے جلاؤ کہ ہوا بھی نہ آوے.۴.دنیا کے لئے جنگ
خوش رکھو.ایشورکے حکموں پر چلو.بدذات دشمنوں کو شکست دینے کے لئے جُدھ کا پورا پورا بندوبست کرو تم نے پہلے میدانوں میں دشمنوں کی فوج کو جیتا(لوٹا کھسوٹا)ہے تم نے حواس کو مغلوب اور روئے زمین کو فتح کیا ہے.تم روئیں تن ہشتا دبدن اور فولاد بازو ہو.اپنے زور بازو سے دشمنوں کو تہ تیغ کرو تاکہ تمہارے زور بازو کے لطف سے ہماری مدام فتح رہے اور کبھی شکست نہ ہو.(اتھر وید کانڈ ۶.انو۱۰واگ۹۷منتر۳) یہ ہیں نرم دلی کے احکام ،جھوٹ سے نفرت کرنے والوں کے جن کے دل جانوروں کے ذبح کو مہاں پاپ یقین کرتے ہیں.ہمارے شہر کے ایک ممتاز وکیل صاحب کہا کرتے ہیں کہ جس طرح اسپین سے مسلمان نکالے گئے اس طرح انڈیاسے ان کو نکالنا ہے.اب ان کے اساتذہ خاموش برّے کے اتباع جن کے یہاں کوئی گال پر طمانچہ مارے تو دوسری گال سامنے کرنے کا حکم ہے ان کی مقدس کتب کے احکام کا بیان نامناسب نہ ہو گا اگر ذکر کر دیں.(پیدائش باب ۳،۶/ ۶،۷ و باب۷،۱۲/ ۳و۴۸/ ۲۲و۳۴/ ۲۵ و اعداد ۳۱/ ۷و۸و۱۵و ۳۳/۵۵و۳۵/۶.۱۵.استثناء۳/۴و۲/۳۴و۲۰/۱۰،۱۳و۷/۲.۶اعداد۲۱و۶و۳۱ویشوع۵/۴ ۱و ۶/ ۲۱،۲۴و۷/ ۱۵،۲۵و۸/ ۲۴،۲۸و۱۰/ ۲۴و۴/ ۲۱و۵/ ۲۴،۳۰و۹/ ۴۹و۸/ ۱۶.سموئل۱۲/۳۱.اتاریخ ۲۰/۳.سلاطین۱۰/ ۱۱و۱۵/۱۶ و ۲۳/۱۶.متی۲۴/ ۳۰ و ۸/ ۳۲ و ۱۶/۲۷ و ۷/۶) دھو کے سے ایک بادشاہ کے سر میں میخ گاڑدی.آروں کلہاڑوں و ادنی سے چیرا اور اینٹوں کے پزادے میں جلایا.شہر و دھ کو پھونک دیا.بتوں کو توڑا باغوں کو آگ لگا دی.استثناء ۱۲/۲،۴ ان کے مقابلہ میں اسلامی احکام کو ملاحظ کرو.(البقرۃ :۱۹۱) (الحج :۴۰) (التوبۃ:۱۳) لڑو
اللہ کی راہ میں انہی لوگوں سے جو تم سے لڑیں اور حد سے مت بڑھو.اجازت دی جاتی ہے ان لوگوںکو جن سے جنگ کی جارہی ہے (کہ وہ بھی جنگ کریں)اس لئے کہ وہ مظلوم ہیں اور یاد رکھیں کہ اللہ ان کی نصرت پر قادر ہے.تم کیوں جنگ نہیں کرتے ان لوگوںسے جنہوں نے توڑ دیا اپنی قسموں کو عہد کرنے کے بعد اور پختہ ارادہ کر لیا رسول کے نکال دینے کا اور انہی لوگوں نے پہلی دفعہ تم سے جنگ کرنے میں ابتدا کی.اب ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ قرآن کریم کے احکام جنگ محض دفاعی اور خود حفاظتی کے طریق پرمبنی ہیں باوجود یکہ ظالم موذی حملہ آوروں اورا بتداء کرنے والوں کے مقابلہ میں دفاع کا حکم دیتا ہے اور وہ دشمن بھی وہ ہیں جو ناگفتنی ظلم کر چکے ہیں پھر بھی اپنی جماعت کو حکم دیتا ہے : یعنی دفاع میں بھی لحاظ رکھوکہ تم سے کسی قسم کی زیادتی نہ ہوجائے اور پھر ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ اسلام کی کوئی جنگ دولت،ملک گیری اور خواہ نخواہ لوگوںکے پامال کرنے کے لئے واقع نہیں ہوئی.کوئی آیت اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ایسی نہیں جس میں ایسی زیادتی اور اعتدا کی ہدایت یا اجازت ہو.کوئی رشید اور سعیدہے جو خدا ترس دل سے ان آیات طیبات کا مقابلہ کرے وید کی ان لڑائی کی ہدایتوں سے جو مذکور ہو چکی ہیں.فقرہ ہفتم : حقوق نسواں میں آریہ اور اسلام کا مقابلہ : منو باب ۹.شلوک ۱۹میں لکھا ہے’’بدفعلی ۱ـ؎ کرنا عورتوں کی عادت ہے.یہ وید میں پہلے لکھا ہے.‘‘ ’’عورت تدبیر نیک سے محفوظ ہو تاہم اپنی بداطواری وتلون و بے وفائی و عادات ان باتوں سے شوہر کو رنجیدہ کرتی ہے‘‘.باب ۹ شلوک ۱۵.’’عورتوں کی کریا منتروں سے نہیں ہے یہ دھرم میں داخل ہے.اندری اور منتران دونوںسے عورت علیحدہ ہے.دروغ کے مانند نامبارک ہے یہ شاسترکا حکم ہے‘‘.منو باب ۹شلوک ۱۸.’’اہل مطلب سفر کرنے سے پہلے عورت کے کھانے پینے کا قدیم ہندوستان کی عورتوں کا نقشہ ۱۲.منہ.۲.عورت کھیت ہے
بندوبست کر دے تب پردیش کو جائے کیونکہ بھوکھ کی شدت سے حیا دار عورت بھی دوسرے مرد کی خواہش کرے گی‘‘.۷۴.’’رات دن عورتوںکو شوہر وغیرہ کے وسیلہ سے بے اختیار کرنا مناسب ہے جو عورت بشیون میں لگی اس کو اختیار میں رکھنا چاہیے‘‘.۹.۲’’لڑکپن میں باپ اور جوانی میں شوہر اور بڑھاپے میں بیٹا عورتوںکی حفاظت کرے کیونکہ عورتیںخود مختار ہونے کے لائق نہیں ہیں‘‘.۹.۳.’’کنیادان کے وقت کنیا کونہ دیوے تو باپ اس کا پاپی ہوتاہے اور حیض سے فراغت ہوئی پر شوہر اس سے جماع نہ کرے تو وہ پاپی ہوتا ہے اور بحالت وفات شوہر کے بیٹا اپنی ماںکی حفاظت نہ کرے تو وہ پاپی ہوتاہے‘‘.۹.۴’’عورت کی حفاظت کرنے سے اپنے خاندان و اولاد اتمادہرم وغیرہ کی حفاظت ہوتی ہے‘‘.۹.۷’’ حکم کر کے اچھے آدمی سے عورت گھر میں محفوظ کی گئی اس پر بھی محفوظ نہیںہوتی‘‘.۹.۱۲’’عورتیں صورت وعمر کو نہیں دیکھتی ہیں خوبصورت ہو یا بدصورت ہو لیکن مرد ہو.اسی کو بھوگ کرتی ہیں‘‘.۹.۱۴’’گھر میں پیدائش کے واسطے بڑی قسمت والی پوجا کے لائق گھر میں تیج استری اور لکشمی ہیں.ان دونوں میں خصوصیت کچھ نہیں ہے دونوں برابر ہیں‘‘.۹.۲۶.’’عورت ظرف کی صورت ہے اورتخم مرد کی صورت ہے.ظرف اور تخم کی آمیزش سے بہت جسم داروں کی پیدائش ہے‘‘.۹.۳۳’’تخمریزی کے وقت جیسا تخم کھیت میں بویا جاتاہے ویسا ہی مع اپنے صفات کے پیدا ہوتاہے‘‘.۳۶منتر.’’جس طرح گئو گھوڑا اونٹ لونڈی بھینس بکری بھیڑ انہوں میں بچہ پیداکرنے والی کامالک بچہ کو نہیں پاتا اسی طرح دوسرے کی عورت میں تخم ڈالنے والا اولاد کو نہیں پاتا.دوسرے کے کھیت میںتخم ڈالنے والا اس تخم کے ثمر کو کبھی نہیں پاتا‘‘.منتر۴۸.۴۹’’اسی طرح دوسرے کے کھیت میں بیج بونے والا کھیت والے کا مطلب کرتاہے.آپ پھل کو نہیں پاتا‘‘.۵۱ ’’اس عورت میں جو پیدا ہو وہ ہمارا اور تمہارا دونوں کا ہووے ایسے خیال کو دل میں نہ رکھ کہ جو پیدا کیا وہ لڑکا ظرف والی کا ہوتاہے تخم سے ظرف افضل ہے‘‘.منتر۵۲’’اس عورت میں جو پیدا ہو وہ ہمارا اور تمہارا دونوں کا ہووے ایسا دل میں رکھ کر جو پیدا کیا ف.عورت کھیت ہے.
اس کا حصہ دار تخم والا اور کھیت والا دونوں ہوتے ہیں‘‘.۵۳’’ تخم ہوا سے اڑ کر جس کے کھیت میں پڑا اس کا پھل کھیت والا ہی پاتاہے.صاحب تخم نہیں پاتا‘‘.۵۴ نیوگ:.’’اولاد کے نہ ہونے میں سسر وغیرہ کے حکم کو پاکر عورت سپنڈ سے یا دیور سے اولاد دلخواہ حاصل کرے.والدکا حکم پاکر بدن میں گھی لگا کر خاموش ہوکر بیوہ عورت میں لڑکا پیداکرے سوائے ایک لڑکے کے دوسرا لڑکا کبھی نہ پیداکرے‘‘.۵۹.۶۰.نکاح ثانی:’’شراب پینے والی اور سادھوؤں کی سیوا نہ کرنے والی اور دشمنی کرنے والی اور بیماریوںسے بھری ہوئی اور گھات کرنے والی اور ہر روزدولت کونیست ونابود کرنے والی عورت ہو تو دوسرا وواہ کرنا چاہیے‘‘.۸ ’’بانجھ عورت اور جس کی اولاد نہ جیتی ہو اور جو صرف دختر ہی پیداکرتی ہو.ایسی عورت ہونے پر حسب سلسلہ آٹھویں دشویں گیارہویں سال دوسرا وواہ کرنا چاہیے‘‘.۸۱ ’’جو عورت مریض ہو لیکن خیر خواہ اور بامروت ہو تو اس کی اجازت سے دوسرا وواہ کرنا چاہیے مگر اس کی بے قدری ہرگز نہ کرنا چاہیے‘‘.۸۲’’جس عورت کے اوپر دوسرا وواہ شوہرنے کیا اور وہ عورت غصہ ہو کر گھر سے نکل جاتی ہو تو اس کو روک کر گھر میں رکھنا خواہ خاندان کے روبرو ترک کرنا چاہیے‘‘.۸۳’’کشتری وغیرہ کی زو جہ شوہر وغیرہ سے محفوظ ہو اور شادی وغیرہ کاموں میں بھی ممنوع شراب کو پیوے یا ناچ رنگ کے جلسہ عام میں چلی جائے تو چھ رتی سونا ڈنڈ دیوے‘‘.۸۴’’ایک آدمی کی پانچ زو جہ ہوں ان سب میں ایک یُتر وان ہو تو اس کے ہونے سے سب زوجہ پتروان کہلاتی ہیں اس بات کو منوجی نے کہا ہے‘‘.۱۸۳’’بیٹاکے وسیلہ سے اندر لوک وغیرہ کو فتح کرتا ہے اور پوتا کے وسیلہ سے بے انتہا پھل کو پاتا ہے اور پوتا کے بیٹے کے وسیلہ سے سورج لوک کو پاتا ہے‘‘.۱۳۷’’پُت نام دوزخ کا ہے.اُتر بمعنے محافظ کے ہیں.چونکہ بیٹا باپ کو دوزخ سے بچاتا ہے اس سبب سے پُتّر کہاتا ہے.اس بات کو شری برہماجی کہا ہے‘‘.۱۳۸’’جس آدمی کا تخم بیماری وغیرہ سے فانی ہو گیا ہے اس کی عورت میں لاولد دیور نے والد وغیرہ کے حکم سے بیٹا پیدا کیا اور پھر کیا خوب ۲.بیماری کی وجہ ۳.نکاح ثانی
معالجہ وغیرہ سے نطفہ کی ترقی پاکر اس آدمی نے اپنی عورت سے بیٹا پیدا کیا تب اس کی دولت کے مالک کشیترج داَدَرس نام دو بیٹے ہوئے اس پر مُن جی کہتے ہیں کہ جس کے تخم سے جو پیدا ہوا ہو وہ اس کی دولت کو پائے‘‘.۱۶۲ شلوک.’’ مخنث و بیمار ووفات یافتہ اس قسم کے آدمیوں کی زو جہ میں از روئے دھرم والد وغیرہ کے حکم سے دیور وغیرہ نے جو بیٹا پیدا کیا ہے وہ کشیترج کہلاتاہے‘‘.۱۶۷’’مخنث وغیرہ کو شادی کرنے کی خواہش ہو تو شادی کر کے حسب لیاقت اس عورت میں بیٹا کر ا کے اس بیٹے کو حصہ دیوے‘‘.۲۰۳ ’’براہمن سے براہمنی میں جو لڑکا پیدا ہو وہ تیسرا حصہ لیوے اور کشتر یا کا بیٹا دوسرا حصہ لیوے اور شودر کا بیٹا ایک حصہ لیوے‘‘.۱۵۱’’برہمن و کشتری وویشیہ ان تینوں ورن کی عورت میں براہمن سے بیٹا پیدا ہوا ہو یا نہ ہوا ہو لیکن از روئے دھرم کے شودر اکے بیٹے کو دسویں حصہ سے زیادہ نہ دیوے‘‘.۱۵۴’’را جہ برہمن کی دولت کو کبھی نہ لیوے مگر دیگر ورنوں کی دولت کو بحالت عدم موجودگی ان کے فرزند وغیرہ مرقومہ بالا کے لیوے‘‘.۱۸۹’’را جہ وقت مصیبت میں بھی براہمنوں کو خشم گیں نہ کرے کیونکہ ان کے غصہ کرنے سے را جہ مع فوج و سواریوں کے نیست و نابود ہوجاتا ہے‘‘.۳۱۳ ’’جن براہمنوں نے اگن کو سَرب بھکشی اور مہا سَمدر کوکہاری اور چندرمان کو کھئی روک والا کیا ان برہمنوں کو خشم گیں کر ا کے کون فانی نہ ہوگا‘‘.منتر۳۱۴’’جواری.داسی خواہ داسی کی داسی میں شودر سے جو لڑکا پیداہو وہ والد کے حکم سے حصہ پاسکتا ہے یہ دھرم میں داخل ہے‘‘.۱۷۹ یہ ہیں تہذیب یافتہ قوم کے احکام!! اصل بات یہ ہے کہ ایرانی اور ترک اور ہندی قوموں نے عورت کو نہایت حقیر غلام اور قابل نفرت شے سمجھا ہے.ان قوموں کے اصول میں داخل تھا کہ عورت کسی وقت بھی قابل اعتبار نہیں ہوتی.ان باتوں کو صفائی سے سمجھنے کے لئے فارسی زبان کے ان مکروہ اشعار کو پڑھو جن میں عورتوں کو بہت مکروہ ناموں اور مذموم صفتوں سے یاد کیا ہے اور تاکید کی گئی ہے کہ جس کا نام زن ہے وہ گردن زدنی چیز مخنث کی اولاد ۲.ملاحظہ کرو
کبھی بھروسہ کے لائق نہیں ہوتی.انہی آتش پرستوں کے باپ یا بیٹے یا بھائی یہ آریہ قومیں ہیں.ضروری تھا کہ ان کے نزدیک بھی خدا تعالیٰ کی وہ مخلوق جو مرد کے لئے بہترین شریک اور مونس بنائی گئی ہے ذلیل اور حقیر ہوتی.غور کرو حقوق نسواں میں.کیسی شرم اور ڈوب مرنے کی بات ہے کہ جس قوم کے گھر میں یہ ناشدنی ناپاک باتیں ہوں وہ اسلام پر اعتراض کرتے ہیں کہ اس میںعورتوں کے حقوق کی رعایت نہیں کی گئی.ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ قرآن کریم کا ساحت پاک ہے ایسے قابل شرم کاموں سے اور ایسی گھناؤنی صفتوں اور پرخبث تاکیدوں سے جو عورتوں کے متعلق آریوں کی کتب مقدسہ سے مذکور ہوئی ہیں.اب ہم عورتوںکے متعلق قرآن کریم کی آیات لکھتے ہیں اور حق وباطل میں فرق کرنے کا فیصلہ سلیم الفطرت غیرت مندوں پر چھوڑتے ہیں.(النساء :۱۲۵) جو شخص نیک کام کرے مرد ہو یا عورت حال یہ ہے کہ مومن ہو پس ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر ذرا بھی ظلم نہ ہو گا.(النحل :۹۸) جو شخص نیک کام کرے مرد ہو یا عورت ہم اسے پاک سنہری زند گی عطا کریں گے اور ان کے اچھے کاموں کے بدلے میں انہیں اجر دیں گے.
(الاحزاب:۳۶)بے شک اسلام والے اور اسلام والیاں اور ایمان والے اور ایمان والیاں اور فرمانبرداری کرنے والے اور فرمانبرداری کرنے والیاں اور صدق والے اور صدق والیاں اور صبر والے اور صبروالیاں اور فروتنی کرنے والے اور فروتنی کرنے والیاں اور تصدق کرنے والے اور تصدق کرنے والیاں اور روزہ رکھنے والے اور روزہ رکھنے والیاں اور اپنی شرمگاہوں کو نگاہ رکھنے والے اور نگاہ رکھنے والیاں اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے اور بہت یاد کرنے والیاں ایسے لوگوں کے لئے اللہ نے مغفرت اور بڑا اجر تیار کیا ہے.(الزخرف:۷۱)داخل ہو جاؤ جنت میں اور تمہاری بیبیاں بڑی خوشی اور امن میں.(الرعد:۲۴)ہمیشہ اقامت کی جنتیں ان میں داخل ہوں گے اور ان کے ساتھ ان کے صالح باپ اور بیبیاں اور اولاد بھی.صرف ان آیات پر غورکرنا کافی ہے کہ آیا عورتوں کے حقوق کس طرح قائم کئے ہیں اور ان کے اعمال اوراجر کو کیسے مساوی درجہ پر رکھاہے.ان پادریوں کو غورکرنی چاہیے جو نادانی یا تعصب سے اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کی روح کے لئے بقا اور خلود نہیں مانا.افسوس ان پر اور ان کے اتباع پر !! دانش مند غورکریں ! اس مساوات حقوق اور نگہداشت حقوق میں اور مقابلہ کریں ان مکروہ ہدایتوں سے جوعورتوںکے متعلق آریہ کی مقدس کتابوں سے مذکور ہوئی ہیں.اور سنو! (البقرہ :۲۲۹) ترجمہ:ا ور بیبیوں کے لئے پسندیدہ حقوق ایسے ہی ہیں جیسے ان پرکچھ حقوق ہیں.ہاں مردوں کا ایک درجہ ان پر زیادہ ہے. (النساء :۲۰)
ترجمہ: عورتوں سے پسندیدہ معاشرت رکھو.پس اگر تمہیں ناپسند ہوںتو قریب ہے کہ اگر کوئی بات تم کو مکروہ لگے تواللہ تعالیٰ اس میں بہت بہتری رکھ دے.اور وہ آیا ت جن میں ہے.(البقرۃ :۲۳۲)ترجمہ.عورتوں کو دکھ دینے کے لئے مت روک رکھو اور جس میں ہے َ (الطلاق :۷) ترجمہ: ان کو ضرر مت دو.اور جو کچھ آریہ سماج کی معتبر کتابوں میں ہے وہ یہ ہے جو اوپر دکھا آئے ہیں.عورتوںکے حقوق پر ایک مختصر نوٹ:.نکاح کے فوائد دو قسم کے ہوتے ہیں.اول شخصی منافع.دوم نوعی مقاصد.شخصی منافع میں مثلاً حفظ صحت۱ بعض بیماریوں میں.آر۲ام یاروغمگسار کے ساتھ ہونے کا.قوائے۳ شہوانی کے اقتضا کا طرفین سے بلامزاحمت پورا ہونا.ان قوائے۴ انسانیہ کا نشوونما جن کے باعث انسان دوسرے سے تعلق پیدا کرتا یا کسی کا لحاظ کرتاہے.حلم و ۵مروّت و بردباری کا اسی مدرسہ میں سبق حاصل ہوتا ہے.امورخانہ ۶داری کی اصلاح.حفظ ننگ۷ و ناموس وحفظ مال وا۸سباب.نوعی مقاصد مثلاً حفظ نوع.تربیت اولاد.کیونکہ بے تحقیق نطفوں کی علی العموم خبرگیری نہیں ہواکرتی.روسی شاہی خانہ زاد اول توخصوصیت سلطنت کے باعث مستثنیٰ ہیں.پھر سوائے جنگی کاموں کی کیا تربیت پاتے ہیں.اس لئے شادی کا حکم اول تو جسمی طاقت اور مالی وسعت پر صادر ہوا ہے.قرآن کریم میں آیاہے.(النّور :۳۴)اور فرمایا : (الروم :۲۲) اور فرمایا :(البقرۃ :۲۲۴) پس عورت طلاق لے سکتی ہے.(۱)اگر مرد اس کی نفسانی ضرورتوں کو پورا نہ کر سکے.(۲)قابل
ولادت نہ ہو.(۳)معاشرت کے نقائص رکھتا ہو.(۴)نان ونفقہ نہ دے سکے اسی واسطے قرآن کریم میں ہے اور ان احکام کی عام تعمیل پر فرمایا َّ .اسی طرح مرد طلاق دے سکتاہے.اگر عورت تقویٰ کے متعلق نفسانی اغراض پوری نہ کر سکے.قابل ولادت نہ ہو.معاشرت کے نقائص رکھتی ہو.نکاح کے منافع شخصیہ اور نوعیہ کی خلاف ورزی کرتی ہو.بدچلنی کے باعث فسادومزاحمت کا باعث ہو.پھر کبھی طلاق فوری ہو سکتی ہے جیسے لعان.واقعی ہم بستری سے پہلے وعدہ میں اور کبھی تدریجی ہوتی ہے جیسے فہمایش.شروط طلاق اور منصفوں کے فیصلہ کے بعد.تعداد ازواج پرمنع، تعدد ازواج کے نقصانات:.نمبر۱.عورتوں کے قتل کے واقعات ہوں گے جب پہلی بی بی ناپسند ہو اور کوئی دوسری پسند آجاوے تو ان بلاد و اقوام میں جن میں دوسری بی بی کرنا ممنوع ہے اور باایں قوم بہادر ہے پہلی کو ماردیں گے.نمبر۲.خود کشی ہو گی جیسے اسٹریا کے ولی عہد کو یہ مصیبت پیش آئی.جب پسندیدہ بی بی بیاہنے کی اجازت قانون اور قوم نے نہ دی.نمبر۳.یا بے غیرتی ہو گی جیسے … بعض انڈین کے لئے پیش افتاد امر ہے کہ مر د دیکھتا ہے اور بول نہیں سکتا.نمبر۴.زناکاری کی کثرت ہو گی.جب کہ پہلی پسند نہیں اور دوسری کا مجاز نہیں اور قویٰ بہت مضبوط رکھتا ہے.نمبر۵.یا آخر نیوگ کا فتویٰ ہو گا جیسا آریہ میں ہوا.نمبر۶.قطع نسل بعض حالتوں میں ضرور پیش آئے گا.
نکتہ (۱) عورتوں مردوں میں ایک قدرتی فرق ہے.عورت جبر سے بھی اپناکام … دے سکتی ہے.بخلاف مرد کے.اس واسطے علی العموم عدالتوں میں زنا بالجبر کے مقدمات میں عورتیں ہی مدعی ہیں نہ جوان مرد.(۲) عورت کے بہت مر دہوں تو اس کی صحت قطعاً نہ رہے گی.کنچنیوں کے حالات سے یہ تجربہ ہو سکتاہے.(۳) اس کے نطفہ بے تحقیق کی پرورش مشکل ہو گی.کون ذمہ وار ہو گا.(۴) ایک وقت میں اگر کئی طالب اس کے پیش ہو گئے تو مزاحمت اور جنگ ہو گا بشرطیکہ قوم باہمت ہو.(۵) قدرتی طور پر ایک عورت ایک برس میں ایک مرد کے نطفہ سے زیادہ چند مردوں کے نطفوں کے بچہ پیٹ میں نہیں رکھ سکتی اور ایک مرد چند عورتوں میں اپنے بچہ دہ نطفہ رکھ سکتا ہے.یہ قدرتی اجازت تعداد ازواج کی معلوم ہوتی ہے.(۶) قرار حمل میں مشکلات ہو ں گے.وضع حمل کی ضرورتیں پیش آ جائیں گی اور حمل کے بعد مرد کو دیانند جماع کی اجازت نہیں دیتے اگر کثرت ازواج نہ ہو تو قوی مردوں کی جماعت میں ان کا فتویٰ کون سنے گا گو مجھے تو اب بھی یقین ہے کہ بیاہے آریہ لوگ جن کی ایک بی بی ہے اور تندرست ہیں اس دیانندی فتویٰ پر عمل درآمد کم کرتے ہوں گے.ہاں البتہ حیوانات میں خود نر حیوان اور ان کی مادہ حمل کے بعد ضرور متنفر ہو جاتے ہیں مگر انسانوں میں یہ نیچر … قابل غور ہے.فقرہ ہشتم.استغفراللہ ربی!استغفراللہ ربی!!استغفراللہ ربی!!!لاحول ولاقوۃ الا باللہ !لاحول ولاقوۃ الا باللہ !!لاحول ولاقوۃ الا باللہ !!!
کیا ہماری کتاب عام پسند ہو گی؟ ابی اللہ عن تصحیح غیر کتابہ وکل کتاب غیرہ زل کاتبہٖ الٰہی کتابیں بھی اب تک عام پسند نہیں.لاہور جیسے دارالسلطنت شہر میں کوئی قرآن کریم اب تک پوری صحت کے ساتھ طبع نہیں ہوا.نہ کوئی اعلیٰ علمی کتاب جو الکتاب قرآن کی خادم ہو طبع ہوئی.اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ عام پسندیدگی کا کیا حال ہے اور یہ امر کسی مامور و مجدد دین کو بھی نصیب نہیں ہوا کہ اس کی محنت و کاروائی عام پسند ہوئی ہو.کیا یہ امر صحیح نہیں کہ ہزاروں ہیں جو مذہبی باتوں کو جنون یقین کرتے ہیں گو ہمیشہ خائب و خاسر ہیں اور مذہبی مقتداؤں میں تو وہ بھی ہے جس کو کہا گیا.صلّی اللّہ علیک وسلم...... (القلم:۱تا۷) دوات اور قلم اور وہ عظیم الشان صداقتیں جن کو لوگ لکھتے ہیں اور لکھتے رہیں گے (ان کے مطالعہ کا نتیجہ تو یہی ہو گا)کہ تو اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں کیونکہ وہ تمام تحریریں تیری صداقت کی گواہ رہیں گی اور دوسری دلیل یہ ہے کہ تیری محنت و کوشش کا بدلہ.اجر.اس کی مزدوری تیرے لئے غیر منقطع ابدی ہے اور ظاہر ہے کہ مجنون کی محنت وکوشش کا تو کوئی اجر ہی نہیں ہوا کرتا.تیسری دلیل یہ ہے کہ مجنون تو خلیق نہیں ہوتے اور توخلق پر کیا خلق عظیم پر ہے.آپ کی مقناطیسی جذب اور آپ کے اخلاق ہی تھے کہ اڑب عرب آپ کے حکم پر اپنے خون کو پانی کی طرح بہاتے تھے اور چوتھی دلیل یہ ہے کہ مجنون کے افعال و اقوال مثمر ثمرات خیر اور منتج کسی نیک نتیجہ کے نہیں ہوا کرتے اور تیرے اقوال اور تیرے افعال کا نتیجہ تو بھی دیکھ لے گا اور دوسرے لوگ بھی دیکھ لیں گے اور یہ کیسی سچی پیشگوئی نکلی.دنیا میں صرف آپ ہی اکیلے ایسے کامیاب ہوئے
ہیں جنہوں نے (المائدۃ:۴) کی آواز اپنی زندگی میں اپنے کانوں سے سنی اور (النصر :۳)کا نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ﷺ وبارک فانہ حمید مجید.اس پر بھی نہ ماننے والوں نے نہ مانا پر نہ مانا.میں نہ مامور نہ مجدد.پھر میری اس کتاب کو اور اس کے جوابات کو مامور و مجدد اور امام الوقت نے نہ دیکھا اور نہ سنا.پینتیس سوال کے جواب تک ہمیں موقع لگا کہ ہم اپنے جواب حضرت امام علیہ السلام پر عرض کر سکے بلکہ ہمارے بزرگ سید محمد احسن صاحب نے بھی اس کو نہیں دیکھا.ہاں میرے پیارے دوست اور میرے معزز حبیب مولوی عبد الکریم صاحب نے د یکھا اور کہیںکہیں بقدر امکان اصلاح بھی کی.ہمارے مدرسہ کے علماء کو افسوس نہ ان باتوں سے دلچسپی ہے اور نہ اپنے محدود کاموں سے فرصت ہے کہ وہ بھی اس کتاب کو سنتے یا دیکھتے.بہرحال اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ اس کتاب کو ان سعید الفطرتوں کے حق میں نافع کرے گا جو اس کے علم میں ہیں.(غرض) (۱)ہم اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں کہ ہے اور وہ موصوف بصفات کاملہ اور ہر ایک نقص سے منزہ ْ ہے اسی کے ارادہ اور اسی کی خلق سے یہ تمام مخلوق ہے.وہ وراء الوراء محیط کائنات ..وَ ھُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ مُحِیْطٌ.وَ ھُوَ الْاَوَّلُ.وَ اَنَّ اِلٰی رَبِّکَ الْمُنْتَھٰی وَ ھُوَ الْاٰخِرُ ہے.جب کہ ہمارا یہ عقیدہ اور یہ ایمان ہے تو سوفسطائی، دہریہ، مسیحی اور وہ یونانی منطقی اور سناتن جو اللہ تعالیٰ کو علت.لابشرط بشرط لانرگن مانتا ہے اور وجودی، نیچری، آریہ سماجی جس کے نزدیک اللہ خالق ارواح.خالق مادہ.خالق زمانہ.خالق فضا اور ان کے گن.کرم سبہاؤ.خواص افعال.عادات کا خالق نہیں کیوں پسند کرنے لگا.(۲)ہم اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں کہ وہ متکلم ہے.اپنے پیاروں سے کلام کرتا ہے.اسی کے ارادہ و مشیت سے اس کے کام ہوتے ہیں.وہ کلام کرتا رہا.کرتا رہتاہے اور کلام کرے گا.اس
کے کلام وتکلیم پر کبھی مہر نہیں لگی.پس جولوگ اس کو گُم صُم مانتے ہیں مثلاً برہموں اور نیچری اور جو لوگ کہتے ہیں تخمیناً یا قریباًدو ارب برس سے وہ خاموش ہے اور صرف چار ہی آدمیوں سے سرشٹی کے ابتدا میں بولاتھا یا جو کہتے ہیںکہ مسیح ؑ یا نبی کریم خاتم الانبیاء ﷺ تک بات کر کے اب خاموش ہے اور جن کا وہم ہے کہ بیج کی طرح بے اختیار ہے.وہ کیوں پسند کرنے لگے؟ (۳) ہم مانتے ہیں کہ ملائکہ ہیں ان پر اور اللہ تعالیٰ کی تمام کتابوں اور رسولوں نبیوں پر ہمارا ایمان ہے.ہم نبی کریم ﷺ کو خاتم النبیین رسول رب العالمین مانتے ہیں.پھر ان باتوں کے مخالف کیوں پسند کرنے لگے.(۴) ہمارے نزدیک ہر ایک شخص اپنے اعمال کا ذمہ وار اور جواب دہ ہے اور ہم عفو، مغفرت، شفاعت بالاذن کے معتقد ہیں.پس ہماری باتوں سے کفّارہ کا قائل کب راضی ہو اور جو اللہ تعالیٰ کو (کھما)عفو والا نہ مانے وہ کیونکر راضی ہو؟ (۵) ہم صحابہ کرام اور تابعین عظام کو رضوان اللہ علیھم اجمعین.ابو بکر وعمر سے لے کر معاویہ مغیرہ تک اویس قرنی وحسن بصری سے لے کر ابراہیم نخعی ونافع عکرمہ تک اور اہل بیت میں خدیجہ و عائشہ سے لے کر علی المرتضیٰ اور تمام ائمہ اہل بیت کو علیھم السلام ان سب کو بحمداللہ اپنا محبوب اور دل سے پیارا اعتقاد کرتے ہیں.قال الامام امامنا علیہ السلام.جان ودلم فدائے جمالِ محمد است خاکم نثار کوچہ آل محمدا ست پس رافضی.شیعہ.خارجی.ناصبی.جبریہ.قدریہ.مرجیہ.جہمیہ.معتزلہ.تعامل اسلام کے منکر.احادیث صحیحہ کے منکر اور ان کو تودہ طوفان کہنے والے کب پسند کرسکتے ہیں؟ حالانکہ وہ معمولی کتب تواریخ بلکہ امور تاریخیہ.لغت وکتب بیان کو اپنا مقتدا بنائے ہوئے ہیں.باایں کہ اختلاف روایات اور باہمی تعارض و تناقض وضعف و قوۃ کا تفرقہ ان میں بھی ہے اور یہ علوم بھی اب تک کسی ایک مجموعہ یاکتاب میں محدود نہیں.قفٰی نبک جیسا مشہور و معروف قصیدہ صدہا اختلاف اپنے اندر رکھتا ہے اور صرف جیسا محدود علم کسی کے احاطہ میں نہیں اما اور نہ کوئی کتاب دعوی کرتی ہے کہ
اس میں سب صرف و نحو کے مسائل آگئے.ہم ائمہ تصوف.ائمہ فقہ.ائمہ حدیث.ائمہ کلام کی تعظیم وتکریم کو ضروری یقین کرتے ہیں اور ان کی مشترکہ سبیل کو سبیل المومنین مانتے ہیں.ہاں ان لوگوں کے آثار باقیہ.فتوح الغیب وفتح الربانی للسید الشیخ عبد القادر الجیلانی عوارف للشیخ شہاب الدین السہروردی جس کو میرے ابن عم حضرت فرید الدین گنج شکر چشتی ہمیشہ اپنے درس میں رکھتے تھے اور وہ نسخہ جس پر حضرت سلطان نظام الدین نے پڑھا اب تک جمالیوں میں موجو دہے.منازل السائرین.شرح مدارج السالکین.طریق الہجرتین.مجمع الفوائد وزاد المعاد لشیخ الاسلام الشیخ ابن قیم.فصل الخطاب لخواجہ محمد پارسا.مکتوبات لشیخ مشایخنا المجدّد احمدالسرہندی.وفتوحات مکیہ لابن عربی.الکتاب الصحیح للامام البخاری.الموطأ لامام دارالہجرۃ.امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کے آثار باقیہ.تصانیف امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ.امام ائمہ فقہ وحدیث وتصانیف امام محمد الشیبانی وطحاوی.الامام للشافعی محلی اورفصّل لابن حزم.السنن الکبری للبیہقی.ورا تعارض العقل والنقل.والرد علی المنطقیین ومنہاج السنہ للشیخ الاجل رئیس المتکلمین والفقہاء والمحدثین والمفسرین شیخ الاسلام شیخ ابن تیمیہ الحرانی والمطالب العالیہ للامام الرازی.فتح الباری لابن حجر.فتح القدیر وتحریر لابن ہمام.اور تمام تصانیف حافظ ذہبی.جیسے دول الاسلام، میزان وتذکرہ وغیرہ.حجۃ اللہ البالغہ لشیخ مشایخنا شاہ ولی اللہ دہلوی.نیل الاوطار لشوکانی الیمنی موجود ہیں.منصف خدا پرست دیکھ لے.انہیں کے ساتھ ہیں ابن المنذر ابن قدامہ ابو یعلیٰ.میں اللہ تعالیٰ کو گواہ کرتا ہوں اور میں سچے دل سے علیٰ وجہ البصیرت کامل یقین کرتا ہوں کہ بے ریب یہ لوگ مصداق تھے:(السجدۃ :۲۵)اوران کی دعائیں (الفرقان:۷۵) ضرور ہی قبول ہوئیں پس بڑے ہی بے نصیب ہیں وہ لوگ جو انسانی امامت کے منکر ہیں اور(البقرۃ :۱۲۵)کے بھیدسے ناواقف ہیں ان کی عملی حالتیں خود ان پر
ملامت کرتی ہوں گی اگر فطرت سلیمہ باقی ہے.بحمد للہ ہم نے ان سب کے اسفار طیبہ کو خوب غور سے پڑھا ہے اور ہم علیٰ بصیرت اس نتیجہ پر پہنچ گئے ہیںکہ یہ سب لوگ خدا تعالیٰ کے برگزیدوں میں اور ہادیوں میں سے تھے.ہم نے لغت میں بخاری.اصمعی.ابوعبیدہ.مفردات راغب.نہایہ.مجمع البحار اور لسان العرب اور صرف ونحو میں سیبویہ.ابن مالک.ابن ہشام او ر سیوطی اور قرأت میں شاطیی اور ابو عمر دوانی اورمعانی وبیان میں عبدالقاہر جرجانی مصنف دلائل الاعجاز اور اسرار البلاغۃ اور سکاکی مصنف مفتاح العلوم اور ادب میں اصمعی اور تفاسیر میں روایۃً ابن جریر.ابن کثیر.شوکانی کی فتح القدیر اور درایۃً اور روایۃً دونوں میں امام بخاری رحمہ اللہ اور فقط درایت میں تفسیر کبیر کو ائمہ سلف کے بعد انتخاب کیا ہے.قریب زمانے کے ہندوستانیوں میں جو اصحاب تصنیف گزرے ہیں.ان میں صاحب حجۃ اللہ البالغہ اور ازالہ الخفا شاہ ولی اللہ کو میں ممتاز انسان اور صافی الذہن جانتا ہوں.میں حضرت مسیح ؑکی وفات کا قائل ہوں ا ور میراکامل یقین ہے کہ وہ قتل اور پھانسی سے بچ کر اپنی موت سے مرچکے.اس امت میں ، مَغْضُوْب اور ضَال.تینوں قسم کے لوگ موجود ہیں.پس وہ مسیح موعود علیہ السلام بھی موجود ہے جس نے ہم میں نازل ہونا تھا.وہ مہدی معہود اور اس وقت کاامام بھی ہے اور انہی میں موجود ہے.وہ اختلافوں میں حَکَم.ہم نے اس کی آیات بینات کو دیکھا اور ہم گواہی دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ڈرکر جزا سزا حشر اجساد جنت و نار اپنی بے ثبات زندگی کو نصب العین رکھ کر اس کو امام مان لیا ہے.ہم نے اپنے مقتداؤںمیں ابن حزم اور ابن تیمیہ کو بھی شمار کیا ہے.اس کی تائید میں صرف دو قول یہاں لکھتے ہیں.اوّ۱ل ایک شخص اہل اللہ میں سے تھے.راست باز.صالح اور ثقہ امین ان کا نام عبد اللہ الغزنوی کرکے ہمارے ملک پنجاب میں مشہور ہے.ہمارے امام علیہ السلام نے ان کو خاتم النبیین رسول رب العالمین نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی شکل پر رؤیا میں دیکھا ہے اور یہ بسبب ان کے کمال اتباع سنت کے تھا.وہ بہت خوبیوں کے جامع اور علمی اور عملی حصہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کو خصوصیت سے ممتاز فرمایا ہوا تھا.انہوں نے ابن حزم کے بارے میں توجہ کی کہ یہ بہت سخت الفاظ استعمال میں
لاتے ہیں.اس پر عبد اللہ المرحوم کو الہام ہوا.ہاں میں اِس وقت تک عبداللہ مرحوم کو صادق راستباز یقین کرتا ہوں اور اسی یقین پر اس الہام کو شائع کرتا ہوں.؎ گفتگوئی عاشقاں درباب رب جوشش عشق ست نے ترک ادب ہر کہ کرد ازجام حق یک جرعہ نوش نے ادب ماند درو نے عقل وہوش ہاں وہاںترک حسدکن باشہاں ورنہ ابلیسے شوی اندر جہاں با دم شیرے تو بازی مے کنی باملائک ترک وتازی میکنی اس کہانی کی شہادت ایک شخص ساکن لاہور کوچہ کندی گراں کے پاس بھی ہے اور اس کا نام عبدالحق ہے وہ بھی حسن ظن کے قابل ہیںولا ازکی علی اللہ احداً.دو۲م حضرت امام سیوطیؒ نے اپنی بے نظیر کتاب الاشباہ والنظائر کی جلد سوم صفحہ ۳۱۰میں لکھاہے.قال فیہ جواب سائلی سال عن حرف لو لشیخنا وسیدنا.الامام.العالم.العلامۃ.الاوحد.الحافظ.المجتھد.الزاھد.العابد.القدوۃ.امام الائمۃ.قدوہ الامہ.علامۃ العلماء.وارث الانبیاء.آخر المجتھدین اوحدعلماء الدین.برکۃ الاسلام.حجۃ الاعلام.برھان المتکلمین.قامع المبتدعین.ذی العلوم الرفیعہ.والفنون البدیعۃ.محی السنۃ.ومن عظمت بہ علینا المنۃ.وقامت بہ علی الاعداء الحجۃ.واستبانت ببرکتہ وھدیہ المجحۃ.تقی الدین ابی العباس احمد بن عبد الحلیم ابن تیمۃ الحرانی منارہ.وشید من الدین ارکانہ.۵۱.باایں کہ یہ فقرہ ہشتم نورالدین میں موجود ہے.پھر بھی ایک سلفی کہتا ہے کہ کتاب سلف کے خلاف ہے اور اتنی بھی عقل اس میں باقی نہیں کہ صحیح مسلم والے معنعن حدیث پر بحث کرتے کس کو مبتدع فرما رہے ہیں اور وہ مبتدع امام بھی ہے کہ نہیں اور اصح الکتب والے رحمہ اللہ بعض الناس کہہ کر کس پر زد یں مارتے ہیں اور وہ بعض الناس امام ہیں کہ نہیں.ایک اور فرماتے ہیں کہ مرزا کو مجموعہ انبیاء بناتا ہے حالانکہ اس کا جواب کیسا صاف ہے کہ مرزا کو نہیں غلام احمد کو.مگس طینت
انسان ہو تو بھی جب وہ ناپاک پر بیٹھے ہے شیریں حصہ پر توجہ کرے.فقرہ نہم: ہمارا آریہ سماج سے کیا اختلاف ہے کہ وہ تمام دنیا کے مذاہب سے زیادہ تر اسلام کے اور اسلام میں سے مرزایوں کے خطرناک دشمن ہیں.اوّل ہم مسلمان اللہ تعالیٰ کو ارواح.مادہ اور اس کے اجزاء اور ان کے گن کرم سبہاؤ کا خالق مانتے ہیں اور آریہ سماج باایں کہ اللہ تعالیٰ کو سرب شکتی مان وہ کسی کا محتاج نہیں اور باایں کہ دیانند جی نے بہت جگہ مانا ہے کہ یہ اشیاء جن کا ذکر ہم نے کیا ہے.لَییْ ہو کر سامرتھ یعنی الٰہی طاقت میں رہ جاتی ہیںمانتے ہیں اور پھر بھی ارواح و مادہ عالم کو غیر مخلوق کہتے ہیں.دوسرا اختلاف ہمارا ان سے یہ ہے کہ وہ جناب الٰہی کو دیالو اور کرپالو (کھما)والا تو مانتے ہیں مگر باایں عفو و درگزر اور شفاعت کے منکر ہیں.تیسرا مسئلہ تناسخ کا اور چوتھا مسئلہ جس میں ہم ان سے اکٹھے ہیں نبوت کا ہے.مگر وہ اس بات کے قائل ہیں کہ چار مہارشیوں کے سوا خدا کسی سے نہیں بولا اور ہم اس تحدید کے قائل نہیں.پنجم ایک اخلاقی مسئلہ نیوگ کا ہے وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ نطفہ کسی کا ہو تو بیٹا کسی دوسرے کا حقیقۃً ہو سکتا ہے !بلکہ ہوتا ہے!!اور ہم کہتے ہیں کہ جس کا تم بیٹا قرار دیتے ہو.نہ اس کے خط وخال اس میں ہیں نہ وہ قویٰ نہ اس کا نطفہ نہ اس کے عادات اور یہ امر اَسَتْ ہے.ہم خچر کو گھوڑے کا بچہ کیونکر کہہ سکتے ہیں.گو کہ گھوڑی ہی سے پیدا ہوا.ان امور خمسہ کے سوا ئے ان کو ہم سے یا ہم کو ان سے کیا اختلاف ہے.یہ تو دیانند جی اور اس کے بعد آریہ مسافر اور تارک اسلام کی غلطی ہے کہ کہیں ہمارے خدا کو گالیاں دیں جو ان کا بھی وہی خدا ہے وغیرہ وغیرہ.میں تو ان کی ان محنتوں کا شکریہ کرتاہوںجو انہوں نے شرک کے خلاف کیں.ہاں ایک چھٹا اختلاف بھی ہے کہ میں عملی طور پربرہمن سے لے کر چنڈال تک سیّد اور متقی سے
لے کر رنڈیوں تک سب کا سچے دل اور پریم سے علاج کرتا اور ان کا بھلا چاہتا ہوں اور آریہ سماج عملی طور پر مسلمانوں کو بہت ستاتے اوردکھ دیتے ہیں.اس کا ثبوت میں نے خود وکلاء میں اپنی ذات پر تجربہ کیا ہے حالانکہ میرے ایسے وکیلوں پر حقوق تھے.فقرہ دہم:آریہ سماج سے مباحثہ مشکل بھی ہے اور آسان بھی.آسان تو اس لئے ہے کہ حق حقیقت اور سَت اپنے ساتھ خود ایک روشنی اور صداقت رکھتا ہے.خدا تعالیٰ اور راست بازوں کی کتابیں، اللہ تعالیٰ کا نظام قدرت، حقیقی سائنس ،سچا فلسفہ ،پاک وجدان اور فطرت سلیمہ ،حق کے سچے گواہ ہیں اور ان کے اصول میں چوتھا اصل کہتا ہے کہ یہ حق کومان لیں اور ناحق کو ترک کردیں اور مشکل اس لئے ہے کہ آریہ سماج مسلمانوں پر اعتراض کرتے ہوئے اسلام کی جس کتاب سے چاہیں گو وہ خبیث کتاب بہار دانش کیسی ہی کیوں نہ ہو اعتراض کو جڑ دیتے ہیں اور اس کے ساتھ بہت سی گالیاں دیتے ہیں اور جب تحقیق اور حق ثابت کرنے کے لئے ہم الزامی جواب دیں اور الزامی جواب بہت مفید ہوا کرتاہے کیونکہ سامع کا دل حقیقی الزام سے اپنی باتوں اور معتقدات کے مطالعہ اور تنقید کی طرف بے اختیار متوجہ ہوجاتا اور اضطراراً حق کی تلاش اور پیاس اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے.غرض جب ہم انہیں الزامی جواب دیں تو اپنی مسلمہ کتابوں پر ہی ہاتھ صاف کرتے اور سب سے انکا ر کر دیتے ہیں.اس صورت میں ہم اس قوم کے لئے الزامی جواب کہاں سے پیداکریں.تمام آریہ ورتی تفاسیر وید کو خود غلط کہتے ہیں مطلب کے خلاف کوئی امر ہو تو منو اور رامائن اور مہابھارت کو بھی لغو اور محرف بتلاتے ہیں.ہمیں امید تھی کہ مہارشی دیانند کے تفاسیر اور ان کی علم کلام کی کتاب ستیارتھ پرکاش اور ان کی بہومکا.اس مباحثہ کے راستے کو بہت صاف کر دے گی.ہم نے خود سو سے زائد روپیہ صرف اس حق کی جستجو کے لئے اور حق کے سمجھانے کے لئے مہارشی دیانند کے بھاش ستیارتھ اور بھومکا پر خرچ کیا اور تینوں کو بمشکل پڑھا اور سنا او رقریب تھا کہ معیار صداقت ۲.الزامی جواب
ہم ایک بڑی بسیط کتاب اس مذہب کے مقابلہ پر لکھتے اور ایک جلد تصدیق کی شائع بھی کی لیکن اس کتاب کے بعد ہی ہمیں یہ صدا پہنچی کہ ستیارتھ پرکاش غلط ہے اور اس میں پوپوں کی لِیلا ہے حالانکہ چھپوانے والے ایک را جہ اور اس کے مہتمم دیانند جی کے شش تھے.آخر ہمیں سکنڈ ایڈیشن خریدنی پڑی.وہ ہم ابھی پوری پڑھ اور سن بھی نہ چکے تھے کہ آواز آئی کہ اس میں بھی غلطیاں ہیں.پھر ۱۸۹۱ء میں ہمیں بڑی مایوسی ہوئی جب کہ بڑے بڑے آریہ سماج کے مہاتما لوگوں نے یہ شائع کر دیا کہ لیکھرام آریہ مسافر نے ثابت کر دیا ہے کہ دیانند جی کے بھاش میں ناگری ارتھ اور بھاؤ ارتھ غلط ہیں۱؎ اس لئے قابل حجت نہیں.ان میں مہتممان مطبع کی شرارت ہے.ہم آریہ مسافر کے علم.عقل.فراست.سنسکرت اور ویدک دانی کو بھی خوب جانتے تھے جنہوں نے مہابھاش کی غلطیاں نکالیں اور اس بات کو بھی خوب جانتے ہیں کہ دیانند جی ۱۸۷۰ء کے اردگرد بمقام لاہور رتن چند کی کوٹھی پر اپنی سوانح عمری لکھوا رہے تھے.اس وقت وہ نہایت لطیف برج بہاشا بولتے تھے.میرے جیسامسلمان پینتیس پشت کا مُسْلا بھی اس بہاشا کو خوب سمجھتا تھا.پھر ہمارے بعض دوست آریہ سماجی وکیل بھی اس امر کے شاہد ہیں کہ یہ باتیں ہمارے مشاہدہ کی ہیں اوریہ بات ظاہر ہے کہ دیانند جی جب اپنے وطن سے نکلے ہیں تو بچے تھے اور سالہا سال راجپوتانہ اور ممالک مغربی شمالی ہندو پنجاب اور بمبئی کلکتہ کی سیر کرتے رہے اور اسی میں عمر گزاری.باایں ہمہ کیا سوامی جی ایسے کودن تھے کہ وہ بہاشہ بھی نہیں جانتے تھے اور ایسے غبی اور ابلہ تھے کہ مطبع کی مہتممان کی شرارت کو بھی نہ سمجھ سکے اور ہمارے جیسے غریبوں کے ہزاروں روپے بھی تباہ کئے اور پھر اس قوم کی کیسی بدقسمتی ہے کہ لاکھوں روپیہ جمع کیا مگر کامل تفسیر ویدوں کی نہ لکھ سکے.پھر قوم کی بدقسمتی سے مانس اور اس کے خلاف.شدہی اور اس کے خلاف ایسا تفرقہ ہوا کہ اب ایک دوسرے کے تراجم بھی ناقابل اعتبار ہیں.مجھے یقین ہے کہ بہت سارے شریف الطبع اور عاقبت اندیش آریہ اس دکھ کو محسوس کرتے ہوں
گے جو بیان کیا ہے اور امید قوی ہے کہ قوم کے ہمدرد وید کی صحیح تفاسیر شائع کریں گے کیونکہ سچا مذہب خواہ مخواہ کے تحکم اور دھینگا مشتی سے تو پیر جما نہیں سکتا.فقرہ یاز دہم : دہرم پال کی تہذیب کا نمونہ:.ان ناشایستہ اور تہذیب کش باتوں کے لکھنے کی ضرورت اس و جہ سے پیش آئی کہ پنڈت سوامی دیانند نے ا پنی تحریروں میں دعویٰ کیا ہے کہ دوسرے مذاہب کو بُرا کہنا ان کا شیوا نہیں اور بدتہذیب شخص کو وہ بہت بُرا سمجھتے ہیں.اس نامعقول منقول سے ہمیں دکھانا منظور ہے کہ خود پنڈت جی اور ان کے سرگرم چیلے کس قدر پابند ان ہدایات کے ہوئے ہیں.اس راہ کے آداب و اخلاق کے سکھانے میں بھی قرآن کریم کو ہی یہ فخر حاصل ہے کہ اس مبارک کتاب نے تعلیم دی ہے کہ الباطل سے جنگ کرنے کے وقت اس کے قابل اکرام معبودوں اور معظم مقصودوں کی نسبت کس طریق پر کلام کرنا چاہیے جیسے فرمایا: (الا نعام :۱۰۹) ترجمہ.تم لوگوں کے معبودوں کو گالی نہ دو وہ اس کے عوض میں جہالت اور زیادتی سے اللہ کو گالی دیں گے.اس مبارک تعلیم سے وید اور دوسری تمام کتابیں محض برہنہ ہیں.اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کتابوں میں کوئی ذاتی خوبی اور جوہر نہیں.یہ کتابیں اپنی جگہ بے زبان ہیں.کوئی دعویٰ اپنی دلیل کے ساتھ ان میں نہیں.ہاں ! ان کے وکیلوں اور حامیوں کے مونہہ میں لاریب سیاہ زہر دار کو برہ کی دو شاخی زبانیں.یہ لوگ پادری اور آریہ اپنی کامیابی اور ظفر اسی میں سمجھتے ہیں کہ دوسروں کی عیب چینی کریں.اپنی کتابوں اور عقیدوں کے معارف واسرار کے اظہار سے انہیں کوئی غرض نہیں.اگرمذاہب اور ملل اس پر اتفاق کر لیں کہ تمام حامیان دین اپنے مذہب و کتاب کی خوبیوں کے بیان کرنے پر اکتفا کریں اور اس سے تجاوز نہیں کریں گے تو یقینا اس میدان میں گوئی سبقت قرآن کریم کے ہاتھ میں ہے.
الغرض جو شیلے نو تعلیم یافتہ دہرم پال کی شیریں کلامی کا نمونہ مشتے از خر وار ملاحظہ ہو.ذرہ سی ساٹھ صفحہ کی کتاب اور اس میں دھرم پال کے ناپاک الفاظ یہ ہیں اور وہ بھی مختصر جب قرآن کے ریگستانی مسائل میری پیاس کو نہ بجھا سکے.جب قرآن کی خلاف از عقل باتیں میرے بے قرار دماغ کو کچھ تسکین نہ دے سکیں.قرآن کے بہت سے وحشیانہ اور ظالمانہ مسائل میرے نرم دل کو تسکین نہ دے سکے.جب قرآن کی ادنیٰ درجہ کی تعلیم میرے اعلیٰ خیالات کا ساتھ نہ دے سکی.صفحہ۶’’جب میںاس واد ی ظلمت میں ادھر ادھر ہاتھ مار کر حیران و سرگردان ہو رہا تھا.میں عرب کے ریگستانوں سے نکل کر گنگا اور جمنا کے کنارے پر آیا.چاروں طرف عربی ریگستان کے مسائل سے خشک شدہ دل اور دماغ ہی نہیں ہیں‘‘.صفحہ ۷’’میں نے قرآن اور اسلام کو سب سے نچلے درجہ پر پایا‘‘.صفحہ ۹ ’’افسوس ہے ایسی گپوں کے لئے جبرائیل کے پر تھکائے جائیں‘‘.صفحہ۳۷’’میں نے عرصہ دراز تک قرآن کی چھان بین کی مگر مجھے موتیوں اور جواہرات کی بجائے پتھر اور کنکر ہی ملے‘‘.صفحہ ۱۰ ’’قرآن اور روحانیت کو دو متضاد سمتوں میں چلتے ہوئے دیکھتا ہوں‘‘.صفحہ۱۱’’قرآن ایک معمولی مستند کتاب سے ہی نیچے گرا ہوا ہے‘‘.صفحہ۱۱’’ایک مہذب شخص کی معمولی کتاب سے بھی نیچے گرا ہے.صفحہ ۱۱’’قرآنی قلعہ کو قرآنی بارود نے ہی اڑا دیا ہے‘‘.صفحہ۱۱’’الٰہی کلام کا دم بھرنے والی کتاب میں ایسی ایسی لغویات کا ہونا سخت قابل اعتراض ہے‘‘.صفحہ ۲۱’’میر ے خیال میں حوریں محض قرآنی بیوہ ہیں‘‘.صفحہ ۲۳’’قرآن میں دو تین باتوں کے دہرانے کے سوا اور کچھ دماغ کے اندر سے نہیں نکل سکا.آخر انسانی دماغ.انسانی دماغ ہی ہے‘‘.صفحہ۲۳’’یہ سب نادانوںکی باتیں ہیں‘‘.صفحہ۲۶ ’’افسوس ہے ایسے الہامی قصوں پر اور افسوس ہے ایسے الہامی گپوں پر‘‘.صفحہ ۳۵’’مگر قرآن نے اپنے بڑے بھائی سے (پران)ذرا قدم آگے رکھا‘‘.صفحہ ۳۶’’افسو س ہے کہ قرآن جیسی ام الکتاب بجائے الہامی کتاب ہونے کے اس قسم کی گپوں سے ام الگپاپ بن رہی ہے‘‘.صفحہ۴۰’’بہشت کے بارے میں جو قرآن کی تعلیم ہے وہ اور بھی مکروہ اور گھناؤنی ہے.سچ پوچھو تو قرآنی تعلیم نے
بہشت کو وہ خراب خانہ بنا دیاہے کہ جہاں جانا بھلے مانسوں کاکام تو ہرگز نہیں ہے‘‘.صفحہ۲۶ ’’مگر میں اتنی بڑی گپوں اور خلاف ازقانون گپوں کو ہرگز نہیں مان سکتا‘‘.صفحہ۴۳’’یہاں تو پرانوں سے بھی بڑھ کر لِیلا موجود ہے.‘‘ صفحہ۴۳ ’’الہامی گپوں کا گھر ہے‘‘.صفحہ ۴۴’’قرآن اور پران ہم وزن ہونے کے علاوہ فرضی قصّوں کہانیوں سے کس قدر بھرے ہیں.سچ پوچھو تو دونوں سگے بھائی ہیں اور دونوں ہی زمانہ جہالت میں پیدا ہوئے‘‘.صفحہ۴۶’’مگر قرآن کا بخیہ معلوم نہیں کون ادھیڑ دے گا‘‘.صفحہ۴۸’’ماننے والے بھی ہوں تو اہل قرآن ہی ہوں جو پہلے قانون قدرت اور عقل سلیم کو پاگل خانے کے داروغہ کے ہاتھ گروی کر دیں‘‘.صفحہ۳۵’’خدا فریب کرتاہے دھوکہ بازی کرتا ہے‘‘.صفحہ۱۴ ’’خدا بڑا لڑاکا ہے‘‘.صفحہ۱۴’’اس سے بڑھ کر مکروہ تعلیم اور کیا ہو گی‘‘.صفحہ۱۵’’کیا خدا کی غفاری قیامت کے دن اڑجائے گی اور سنگ دل ہوجائے گا.مگر خدا کے کان بہرے ہو گئے ہیں کچھ نہیں سنتا‘‘.صفحہ۱۵،۱۶’’خدا کو شیطان کا شیطان بنا دیا گیا ہے‘‘.صفحہ ۱۷’’خدا بھنگڑوں کا بھنگڑا جہاں بھنگی بھنگ پی کر ایک دوسرے کو مخول کرتے ہیں وہاں خدا بھی بیچ میں آ کودتا ہے اور ویسا ہی بھنگڑاپن شروع کر دیتاہے‘‘.صفحہ ۱۷’’قرآن کو پڑھنے سے معلوم ہوتاہے کہ اس کی روح ایک عورت کے رحم میں بھی جا سکتی ہے اور خون حیض کھا سکتی ہے اور نو مہینے غلاظت میں پڑی رہ کر برسوں تک انسانی جامہ میںہو کر بذریعہ پھانسی نجات پاسکتی ہے‘‘.صفحہ۱۹’’یہ کتنی بڑی گپ بلکہ گپ کا بھائی گپوڑا ہے‘‘.صفحہ۴۵’’بھلا خدا بھی کنکریاں روڑے ماراکرتا ہے.روڑے مارنا نادان بچوں کا کام ہے نہ کہ عقل مند وں کا‘‘.صفحہ’’خدا خود دوزخ میں جاوے‘‘.صفحہ’’عورتوںکو محض جذبہ مخصوصہ کی سیری کا سامان تصور کیا گیا‘‘.صفحہ ۵۵’’معلوم نہیں عربی خدا نے عربوں کی کیوں تقلید کی‘‘.صفحہ۱۸’’کیا وہ پاگل ہو گیا تھا‘‘.صفحہ۱۸’’اب سزا کس کو ملے.خدا کو یا شیطان کو‘‘.صفحہ ۲۰ ’’اب خدا کو دوزخ میں ڈالاجاوے یا جس نے خد ا پر یہ من گھڑت الزام لگائے‘‘.صفحہ۲۰ ’’چاہیے کہ خدا خود دوزخ میںپڑے ان کے سمجھانے کو نبی بھیجنا سراسر حماقت ہے‘‘.صفحہ۲۰
’’اس کے حضور خاصہ اورنگ زیبی دربار لگا ہے‘‘.صفحہ۲۰’’مذکورہ بالا چند باتیں قرآنی خدا کے بارے میں ہیںجن کو پڑھ کر قرآنی خدا کا اندازہ لگ سکتاہے کہ وہ کیا بلا ہے اور کس دماغ نے اس کو گھڑا ہے‘‘.صفحہ ۲۱’’خدا کی اور کند ذہنی دیکھئے قرآن میں آدم کی بیوی کانام بھول گیا‘‘.صفحہ ۲۲ ’’خدا بھی فصلی بٹیروں کی طرح ایک خاص موقع پر ادنیٰ گھر میں ہوتا ہے‘‘.صفحہ ۳۳’’گپ ہانک دی ہے‘‘.صفحہ۳۹ ’’قرآنی بابا آدم کوئی نئی بلا نہیں ہے‘‘.صفحہ۲۱’’آدم کی بیوی کیونکر پیدا ہو گئی.خدا کے ہاں سے نطفہ نازل ہوا یا کسی فرشتے نے آدم کو حمل ٹھہرایا.کیا پھرآدم کا بچہ دان گم ہو گیا.اب آدم کو مذکر کہیں یا مؤنث‘‘.صفحہ۲۲.فقرہ دواز دہم: ہمارے مکرم معظم دوست سید تفضل حسین ڈپٹی کلکٹر جب آخر کے اوراق چھپ رہے تھے.قادیان میں تشریف لائے اور اس رسالہ نورالدین کو پڑھا اور فرمایا کہ سوال نمبر ۲۸ کا جواب ادھورا رہ گیا.میں نے عرض کیا کہ ہرایک پہلو پر گفتگو کرنا اور اس میں توسیع اس مختصر رسالہ کی شان نہیں.اکملت لکم اور اتممت کی صداء کے لئے انسان کامل چاہیے مگر ان کی خاطر ایک طرف اور دیباچہ کا آخری صفحہ خالی نظر آیا.ایک طرف اس واسطے یہ چند سطور گذارش ہیں.’’سوال ہے کہ اسپین.افریقہ اورہند مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا.اگر اسلام کے لئے ملائکہ کا نزول ہوتاہے تو کیوں اس وقت جب یہ بلاد ہاتھ سے نکلے فرشتے نازل نہ ہوئے‘‘؟ میں کہتا ہوں.اسلام سچ.قرآن کریم سچ ہے.پس جو کچھ ہوا قرآن کی تصدیق ہوئی.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (یونس :۱۵) ترجمہ.پھر کیا ہم نے تمہیں اس زمین میں جانشین ان پہلی قوموں کے بعد، انجام یہ ہو گا کہ ہم دیکھیں گے تم کس طرح کے عمل کرتے ہو اور عملوں کے متعلق تو بڑی بحث ہے کہ وہ کیا کیاعمل ہیں جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتاہے اور ملک بخشتا ہے اور
ان کی تفصیل ایک مجلد چاہتی ہے مگر اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک ہے اور وحدت کو پسند فرماتا ہے.وحدت ہی پر بڑے بڑے انعام مرتب فرماتا ہے.مسلمانوں کو اس نے اوّل تو ارشاد فرمایا ہے جو قرآن کریم میں ہے. (آل عمران:۱۰۴) ترجمہ.الٰہی رسن(قرآن)کے ساتھ اکٹھے ہو کر اپنا بچاؤ کرو اور الگ الگ نہ ہونا.اس آیت کریمہ میں ایک حکم ہے کہ ایسا کرو اور دوسری نہی ہے کہ ایسا نہ کرو.امر وحکم میں ارشادہے کہ ایک ہو جاؤ.پس شخصی وحدت تو یہ تھی کہ ہر ایک انسان کا دل و زبان اور اس کے تمام اعضاء میںباہم وحدت ہو.ایسا نہ ہو کہ دل میں کچھ ہے اور زبان پر کچھ اور آنکھ کچھ اشارہ کرتی ہے اور اعضاء کچھ اور کہتے ہیں اور قومی وحدت یہ تھی کہ باہم ایسے تنازع نہ ہوتے.امانت جسے رعایاکہتے ہیں.عام تکلیف نہ پہنچتی بلکہ اس امانت الٰہیہ کو ہر طرح آرام وراحت ملتی اور خود غرضی اور لالچ دینا جو راس کل خطیئۃ ہے.پھوٹ کا موجب نہ ہوتا مگر اس اسلامی حکم پر عمل درآمد نہ ہوا توحسب فرمان الٰہی جو قرآن میں ہے.(الانفال :۴۷) اس کا معنی ہے اور آپس میں تنازع مت کرو اگر کرو گے تو پھسل جاؤ گے اور تمہاری ہوا (قوت.طاقت.رعب.نفاذ حکم)بگڑ جائے گی.سو حکم کی خلاف ورزی کا صحیح نتیجہ نکلا.نہی کا منشاء تھاکہ باہم پھوٹ نہ کرنا.پس جب نہی کی خلاف ورزی ہوئی.اس کا ثمرہ ملا.اب بھی بعض ریاستیں صرف اس لئے قائم ہیںکہ برباد شدہ ریاستوں کی وجوہ بربادگی بیان کریں مگر اسلامی یک جہتی.وحدت کتاب.وحدت کلمہ.وحدت اعمال ضروریہ اور ظہور امام واحد یقین دلاتا ہے کہ بہار کے دن ہیں .کیا روز افزوں ترقی کو ہر روزہم نہیں دیکھتے.دیکھتے ہیں اور آنکھوں کو ٹھنڈا کرتے ہیں کہ اسلام کا انجام بخیر ہے.نور الدین
بسم اللہ الرحمن الرحیم از طرف تارک اسلام سوال نمبر۱.خدا کو معمولی آدمی تصور کر کے اس میں منجملہ چند صفات حسنہ کے وہ تمام صفات بھی بھرے ہوئے دکھائے گئے ہیں جو کسی ادنیٰ سے آدمی میں پائے جاتے ہوں مثلاً مکار.فریبی.مکاروں کا مکار.فریبیوں کا فریبی.اس کا ثبوت ہے (آل عمران:۵۵) الجواب قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے متعلق اعلیٰ درجہ کے صفات اور اسمائے حسنیٰ بیان کئے گئے ہیں.۱.(الشورٰی :۱۲)اللہ کی مانند کوئی شئے ہی نہیں.۲.(النحل :۷۵) اللہ تعالیٰ کے لئے مثلیں نہ بنایا کرو.۳.(الواقعۃ :۷۵) تو اپنے عظمت والے رب کے نام کی تقدیس کر.۴.(الاعلٰی :۲)تو اپنے اعلیٰ رب کے نام کی تقدیس کر.۵.(طٰہٰ :۱۳۱)بے عیب.پاک اپنے رب کی تنزیہ کر ساتھ اس کی حمد کے ۶.(الاعراف :۱۸۱) اللہ کے اچھے نام ہیں تو اسے ان ناموں سے پکارا کر.
.(الفا تحۃ :۲)ہر قسم کی حمد اللہ کے لئے ہے جو جہانوں کا رب ہے.اسی طرح قرآن کریم کے ابتدا میں ہے.۱؎ (الفاتحۃ :۱تا۴) اور قرآ ن کریم کے آخر میں ہے.۲؎ (الاخلاص :۲تا۵) اور بالکل آخر میں ہے.۳؎ ِ(الناس :۲تا۴) جائے غور ہے کہ ایک کتاب جو خدا تعالیٰ کی نسبت ایسے پاک اور بے عیب اسماء اورخوب صورت صفات کے اطلاق اور منسوب کرنے کی تعلیم دے ایک عقل مند کیونکر تصور میں بھی لا سکتا ہے کہ وہی کتاب اسی قدوس خدا کی نسبت معاً اپنے اندر ایسے اسماء اور صفات مندرج کرنا گوارا کرے گی جو سب صفات کاملہ اللہ ہی کے لئے ہیں.سارے جہانوں کا رب.بے مانگے دینے والا اور محنت کو نہ ضائع کرنے والا.مالک وقت جزاوسزا کا.۲؎ تو کہہ دے کہ وہ ہست جس کا نام اللہ ہے تمام کمالات سے موصوف تمام بدیوں سے منزہ معبود (پوجنے)ایک ہے(ذات میں یکتا صفات وافعال میں بے ہمتا)اللہ اصل مقصود و محتاج الیہ سردار.نہ کسی کو اس نے جنا اور نہ کسی سے جنا.کوئی بھی اس کے جوڑ کا نہیں.۳؎ تو کہہ دے حفاظت چاہتا ہوں تمام لوگوں کے رب سے تمام لوگوں کے بادشاہ سے تمام لوگوں کے ایک ہی معبود سے.
اس کی اس تعریف اور تجدید سے سخت مخالف اور مناقض پڑے ہوں جو اس نے خدا تعالیٰ کی ذات کی نسبت کی اور ایک جہاں کو اس کی طرف دعوت کی ہے. ایک عظیم الشان امر ہے جس کی پابندی تمام دنیا سے چاہی گئی ہے باایں ہمہ وہی کتاب پسند کرتی ہے یا بلفظ دیگر یوں کہو کہ اپنی دیوانگی کا ثبوت دیتی ہے کہ خدا کو گھنونے اور ناپاک ناموں سے بھی پکارا کرو؟.ایسی صریح تناقض اور دیوانہ پن کی تعلیم سے سب سے اول نفرت سے گریز کرنے والے وہ لوگ ہوتے جو اس تعلیم کے پہلے مخاطب تھے اور جن کے فہم کی جودت اور ذکاوت دانش مند دنیا میں ضرب المثل ہے مگر وہ اس لغت کو خوب سمجھتے تھے جس میں خدائے قدوس نے ان سے خطاب کیا.اس لئے وہ ہر لفظ کو اس کے درست محل میں اتارتے تھے.افسوس ! تارک اسلام نے نہ صرف کورانہ تعصب کا ثبوت دیا ہے بلکہ اس نکتہ چینی سے صاف طور پر ثابت کر دیا ہے کہ اس آریہ قوم کو لغت اور محاورہ لسان عرب کے سمجھنے سے کس قدر دوری ہے.اگر تارک اسلام میں ذرا بھی حق بینی اور حق فہمی کا مادہ ہوتا تو پہلا سوال اس کے دل میں یہ پیداہونا چاہیے تھا کہ لفظ مکر اور کید اور ایسے الفاظ کے معانی لغت عرب میں تلاش کرنے چاہئیں اور یہ بھی ضروری بات ہے کہ قرآن کریم کی وجاہت اور صاف دعوے اور عام اور بین تعلیم اور عام اصول اور واضح عرف کو مدنظر رکھ کر ان الفاظ کی حقیقت اور مغز کی پیروی کرنی چاہیے مگر افسوس خودغرض جلد باز نے ایسا نہیں کیا !بلکہ اس منشاء اور معنی کو لیا ہے جو ہندوستان اور پنجاب کی وکیبلری نے ان الفاظ کو زبردستی سے بخشا ہے.بہادر اور جری قوم عرب کے الفاظ کے معنے ہند کی کمزور دل مغلوب و مفتوح قوم کی ڈکشنری میں ڈھونڈنے اور ان پر حصر کرنا سچے علوم سے ناواقفیت کی دلیل ہے.ہند وپنجاب نے لفظ مَکَر کے جو معنے کئے وہ ان کے اپنی فطرتوں اور بزدل طبیعتوں کے سچے عکس اور نتائج ہیں.عربی لسان میں ان کا وہ مفہوم نہیں.عربی زبان میں ان کا وہ مفہوم ہے جو ان کی واضح اور بہادر فطرت کے مطابق ہے اور اس کے عمل درآمد پر رسول کریم ﷺ اور صحابہ کی زندگی سچا گواہ ہے اور جسے ہم عنقریب عرب کی
معتبر لغت سے پیش کرتے ہیں.اب خدا ترس ناظرین پر ہم اس امر کا فیصلہ موقوف رکھتے ہیں کہ قرآن کریم کے عام اصول اور حمدالٰہی کو مدنظر رکھ کر اور لغت عرب سے مشورہ لے کر فرمائیں کہ کہاں ہیں وہ گندے فقرے اور ناپاک معنے جو تارک اسلام نے لکھے ہیں؟ اور سنو !مکار کا لفظ اور باقی آپ کے الفاظ اگرچہ قرآن مجید میں قطعاً نہیں مگر وید میں اوم ۱؎ کے آخری لفظ کو آپ کے یہاں مکار کہتے ہیں.اور وہ بھی آدھا مکار.ہوش کرو ترک کرنا تو اس کتاب کا جس میں بسم اللہ الرحمن الرحیم ہو اور لینا اس کتاب کا جس کی ابتدا میں تیسرے حرف مکار کے بعد اگنم ایڑ ہے پروہتم ہے.پھرتارک اپنی کھلی چھٹی میں لکھتا ہے کہ ’’ ہم لغت اور مفسرین کی تاویلیں نہیں مان سکتے‘‘بہت اچھا تو آدھا مکار.اور اگ.نی.کیسا صاف لفظ ہے جس کے معنے پنجابی سے اردو ممعتبر لغت سے پیش کرتے ہیں.اب خدا ترس ناظرین پر ہم اس امر کا فیصلہ موقوف رکھتے ہیں کہ قرآن کریم کے عام اصول اور حمدالٰہی کو مدنظر رکھ کر اور لغت عرب سے مشورہ لے کر فرمائیں کہ کہاں ہیں وہ گندے فقرے اور ناپاک معنے جو تارک اسلام نے لکھے ہیں؟ اور سنو !مکار کا لفظ اور باقی آپ کے الفاظ اگرچہ قرآن مجید میں قطعاً نہیں مگر وید میں اوم ۱؎ کے آخری لفظ کو آپ کے یہاں مکار کہتے ہیں.اور وہ بھی آدھا مکار.ہوش کرو ترک کرنا تو اس کتاب کا جس میں بسم اللہ الرحمن الرحیم ہو اور لینا اس کتاب کا جس کی ابتدا میں تیسرے حرف مکار کے بعد اگنم ایڑ ہے پروہتم ہے.پھرتارک اپنی کھلی چھٹی میں لکھتا ہے کہ ’’ ہم لغت اور مفسرین کی تاویلیں نہیں مان سکتے‘‘بہت اچھا تو آدھا مکار.اور اگ.نی.کیسا صاف لفظ ہے جس کے معنے پنجابی سے اردو میں ’’آدھے مکار‘‘ اور ’’اواگ‘‘کے ہیں.پنجابی زنانہ بولی میں یوں ہوا.’’اگ.نی.اڑئے‘‘نیز اگنی تیسرے خاوند کو کہتے ہیں تو بتاؤ کیا یہ معنے درست ہیں.دیکھو ستیارتھ صفحہ ۱۵۳ آپ کے اس قاعدہ کے موافق آپ کا حق نہیں کہ لغت وید سے.برہمنوں اور مہابھاش تفسیر سے ہمیں جواب دیں.پھر گائتری کے ابتدا جو بھور.بھوہ،سُوہ ہے اس کی تشریح لغت اور تفسیروں سے تو کرنی نہیں چاہیئے اس لئے کہ یہی آپ نے قاعدہ باندھا ہے.اب بولو کہ پنجابی میںیہ کیا الفاظ ہیں پھر اس کا آخری نام بظاہر سُوَہ ہے جس کو اردو والے راکھ کہتے ہیں.کیا پرمیشر سُوَہ ہے.پس سوچو!تمہارا طریق بحث کے ساتھ غلط ہے اور حق طلبی سے کس قدر دور.ستیارتھ پرکاش میں پنڈت دیانند نے جن جن رنگوں سے اس قسم کے الفاظ کو توجیہات کی کرسی پر بٹھایا ہے وہ کارروائی اس کے لئے اور اس کے جانشینوں کے لئے عبرت کا مقام ہے کہ کس طرحیں ’’آدھے مکار‘‘ اور ’’اواگ‘‘کے ہیں.پنجابی زنانہ بولی میں یوں ہوا.’’اگ.نی.اڑئے‘‘نیز اگنی تیسرے خاوند کو کہتے ہیں تو بتاؤ کیا یہ معنے درست ہیں.دیکھو ستیارتھ صفحہ ۱۵۳ آپ کے اس قاعدہ کے موافق آپ کا حق نہیں کہ لغت وید سے.برہمنوں اور مہابھاش تفسیر سے ہمیں جواب دیں.پھر گائتری کے ابتدا جو بھور.بھوہ،سُوہ ہے اس کی تشریح لغت اور تفسیروں سے تو کرنی نہیں چاہیئے اس لئے کہ یہی آپ نے قاعدہ باندھا ہے.اب بولو کہ پنجابی میںیہ کیا الفاظ ہیں پھر اس کا آخری نام بظاہر سُوَہ ہے جس کو اردو والے راکھ کہتے ہیں.کیا پرمیشر سُوَہ ہے.پس سوچو!تمہارا طریق بحث کے ساتھ غلط ہے اور حق طلبی سے کس قدر دور.ستیارتھ پرکاش میں پنڈت دیانند نے جن جن رنگوں سے اس قسم کے الفاظ کو توجیہات کی کرسی پر بٹھایا ہے وہ کارروائی اس کے لئے اور اس کے جانشینوں کے لئے عبرت کا مقام ہے کہ کس طرح
وہ ایسے الفاظ پر منہ آتاہے جب دوسری کتابوں میں انہیں پاتاہے مگر انہیں وید میں پاکر کس طرح بناتا ہے.برخلاف اس قاعدہ کے جو تارک نے پیش کیا ہے.ستیارتھ کے مستند ترجمہ منجانب پرتی ندھی سبہا میں تو لکھا ہے ’’ ویاکرن (علم اللسان) نِرُکت (وید کے لغات) برہمن گرنتھ (قدیمی تفاسیر وید) سوتر وغیرہ رشی سینوں کی شرحو ں سے‘‘ اگنی وغیرہ ناموں کے مقدم معنے سے پرمیشر ہی مفہوم ہوتا ہے.اب اے تارک دیکھ !تمہارے ہادی تو علم اللسان.لغات.تفاسیر.یادداشتوں اور بزرگوں کے اقوال کو پسند کریں اور تم ناپسند کرو.تحقیقی جواب مفردات راغب۱؎ عربی کی مستند لغت قرآن میں لفظ ’’ مکر ‘‘ کے نیچے لکھاہے: ۱.المکر.صرف الغیر عما یقصدہ بحیلۃ.مخالف کے مقاصد کو تدبیر سے رو ک دینا مکر ہے.ابن الاثیر ۲؎ جس نے لغت قرآن وحدیث پر کتاب لکھی ہے لکھتاہے.۲.(مکر اللہ).ایقاع بلا ئہ باعدائہ دون اولیائہ.الٰہی مکر کے معنے ہیں مخالفان الٰہی پر عذاب کا ڈالنا اور مقربوں کو ان عذابوں سے بچانا.لسان العرب میں ہے جو عربی لغت کی بڑی مستند کتاب ہے.۳.المکر احتیال فی خفیۃ یعنی مخفی تدابیر کو مکر کہتے ہیں.بلکہ قرآن کریم نے ان معانی کی خود بھی تفصیل فرمائی ہے جہاں فرمایا ہے. یہ بے بہا کتاب محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ابن الاثیر کے نہایہ لغت قرآن وحدیث کے حاشیہ پر مصر میں طبع ہو گئی ہے والحمد للہ ر ب العالمین ۱۲ ۲؎ یہ کتاب علیحدہ اور مع مفردات راغب اور تقریب النہایہ مصر میں چھپ گئی ہے ۱۲
(الانفال:۳۱) یعنی جب تیرے مقاصد کو ان لوگوں نے جو منکر ہوئے تدابیر سے روکنا چاہا اس طرح پر کہ تجھے قید کر لیں یا تجھے قتل کردیں یا وطن سے تجھے نکال دیں اور وہ تدبیریں کرتے ہیں اور کریں گے اور اللہ تعالیٰ بھی تدبیر کرتا ہے اور کرے گا اور اللہ تعالیٰ ان مخالفوں کی تدبیروں پر غالب آنے والا اور اس کی تدابیر ہمہ خیر ہوتی ہیں.اور دوسرے معنی کے لحاظ سے آیت کے معنے یہ ہوئے: جب منکر تجھے بلاؤں میں پھنسانے لگے کہ تجھے قید کر لیں یا تجھے قتل کر دیں یا تجھے نکال دیں اور پھنساتے ہیں اور پھنسائیں گے اور اللہ تعالیٰ بہت ہی بھلا ہے اپنے مقربوں کے بچانے اور دشمنوں کے عذاب دینے میں.تیسرے معنی کے لحاظ (مخفی تدبیر)سے آیت کے یہ معنے ہوئے.جب مخفی تدبیر کر رہے تھے تیری نسبت وہ جو منکر ہوئے کہ تجھے قید کر لیں یا تجھے قتل کردیں یا تجھے نکال دیں اور مخفی تدبیر کرتے ہیں اور کریں گے اور اللہ مخفی تدبیر کرتاہے اور اللہ بہت ہی بھلا مخفی مدبّروں میں سے ہے.مکر کا لفظ بلااضافت عام مفہوم رکھتا ہے.یہی و جہ ہے کہ جہاں شریروں کے ارادوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے وہاں مَکْرَ السَّیِّء یعنی مکر بد کر کے ذکر کیا گیاہے.اس سے صاف ظاہر ہے کہ مکر بُرا بھی ہوتاہے اور بھلا بھی.اس میں قرآن کریم کا خود ارشاد ہے.(الفاطر :۴۴) اور برے منصوبے کرنے والوں کا وبال خود ان ہی پر پڑتا ہے.(النمل:۵۲) پس تو دیکھ کہ ان کے منصوبوں کا انجام کیا ہوا؟ ہم نے ان سب کو مع ان کی قوم کے تباہ کر دیا.
اور مکرکی دو قسمیں ہیں ایک مکر محمو دہے جس سے نیک اور عمدہ کام کا قصد کرنا مقصود ہے چنانچہ ان ہی معنوں سے خدا تعالیٰ نے اپنی نسبت فرمایا .اور دوسری قسم مکر مذموم ہے یعنی برے فعل کا ارادہ کرنا ہے.یہی معنی ہیں اس آیت کے الخ اصل بات یہ ہے کہ نبی کریم ؐ نے اقوام عرب کو عبادات الٰہیہ کی طرف بلایا اور بت پرستی اور بدچلنی کے اقسام سے روکا اور باہمی خانہ جنگیوں سے ہٹا کر ان میں وحدت واتحاد کی روح پھونکنی شروع کی.اس پر مشرک نادان احمقوں نے آپ کے مقاصد کے برخلاف بڑی بڑی تدابیر شروع کردیں اور آپ کو اس پاک ارادہ سے ہٹانا چاہا اور آپ کو اور آپ کے احباء کو دکھ دئیے اور مخفی تدابیر سے اسلامی کارخانہ کو نابود کرنا چاہا.اس پر اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو تسلی وطمانیت بخشی کہ تیرے مقاصد ومطالب کو کوئی نہیں روک سکتا اور یہ لوگ ناکام رہیں گے اور ان کی مخفی تدبیریں خود ان پر الٹ پڑیں گی.ایک اور جگہ قرآن کریم نے اس واقعہ کا بیان فرمایا ہے جہاں نبی کریم ﷺ کا یہ قو ل حکایت کیا ہے. (المائدۃ :۶۰)اے مخالفو ! تم اسی سبب سے ہم سے بیزار ہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے.معلوم ہوتا ہے کہ آریہ لوگ ہم سے جینیوں اور وید کی شراح ساکتوں کا بدلہ لیتے ہیں جنہوں نے انہیں مکار کہا ہے.دیکھو ستیارتھ صفحہ۵۲۹.’’مکاروں کے بنائے ہوئے وید ہیں‘‘ وید کے بنانے
والے مکار تھے.صفحہ۵۳۲.جن لوگوں نے لیکھرام کی کتابوں کو پڑھا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ تارک مرتد نے تنقیہ دماغ صفحہ ۱۰۸ سے یہ نابکار اور لغو نکتہ چینی سیکھی ہے اور گریجوایٹ ہونے پر سخت بدنما داغ لگایا ہے.سنو ! وہ تمام صحیح صفات الٰہیہ جس کو ستیارتھ کے مصنف نے اپنی کتابوں میں بیان کیاہے قرآن کریم میں موجود ہیں مثلاً .سوال نمبر۲.’’خدا فریب کرتا ہے.دھوکہ بازی کرتاہے.‘‘ جواب نمبر۲.پہلے اعتراض ہی کو دوسرے لفظوں میں تم نے ادا کیا ہے غالباً نمبروں کا ایزاد مطلوب ہو گا یا کوئی اور امر اس کا باعث ہے.کید کے متعلق مفردات راغب میں ہے الکید ضرب من الاحتیال.وقد یکون محموداً ومذموماً وکذٰلک الاستدراج والمکر.لسان العرب میں ہے.الکید.المکر وکل شئی تعالجہ فانت کیدہ والاحتیال والاجتھاد وبہ سمیت الحرب کیداً والتدبیر بباطل او بحق.کید کے معنے مکر ہوئے اور مکر کے لفظ پر ہم سوال اول میں بحث کر چکے ہیں تو اس سوال کاکرنا ہی لغو ہوا.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے : (الطارق :۱۶تا۱۸) تحقیق منکروںنے تدابیر.حیلہ.کوشش اور جنگ خطرناک کرناہے اور میں بھی تدابیر.حیلہ.کوششیں اور جنگ کروں گا.پس تو چھوڑ دے منکروںکو.انہیں چھوڑ دے تھوڑی دیر کے لئے.اور لسان العرب میںکید کے معنے ارادہ کے بھی ہیں پس معنی ہوئے تحقیق یہ منکر ارادے کریں
گے بڑے ارادے اور میں بھی ۱؎ ارادہ کرتاہوں بڑا ارادہ.باقی ترجمہ بالا رہا.ان دعووں اور تحدّیوں کو دیکھو کس طرح پورے اور حرفاً پورے ہوئے.مخالفان اسلام نے کیسے کیسے خطرناک ارادے.تدابیر.حیلے اور کوششیں اور بڑے بڑے جنگ اسلام کو دنیا سے اٹھا دینے کے لئے کئے اور کس طرح اقوام عرب.یہود.مسیحی.مجوس او ر خود وہ قوم جو نبی کریم کی ہم شہر اور رشتہ دار تھی جان توڑ کر سعی کر رہی تھی مگر الٰہی ارادہ نے کس طرح سب کو خا ک میں ملادیا لیکن اس کے خلاف غور تو کرو! تبت میں آریہ سے ڈشٹوں نے جنگ کی مگر آریوں کی تمام شلپ ودّیا(فنون جنگ کا علم) بیکار ہو گئی اور آخر وہ ملک چھوڑ کر غیر ملک انڈیا میں ان کو آنا پڑا اور اب تک پھر وہ تبت کا ملک فتح نہ ہو سکا.بخلاف اس معاملہ کے بانی اسلام سے جن منکروں نے تدابیر اور ارادہ بدسے مقابلہ کیا وہ سب ملیا میٹ ہو گئے.اب دیکھ لو کہ تمام بلاد عرب اور اس کے نواحی میں اسلام کا جھنڈا لہراتا ہے جیسے قرآن کریم نے فرمایا: ۲؎ (الفیل :۳) اس آیت پر سوال نمبر۱۱۶کے دوسرے حصہ میں مفصل بحث ہے.سوال نمبر۳.’’(البقرۃ:۱۱)روحانی بیماری بڑھاتا اور عذاب بھی دیتا ہے.یہ بے رحمی اور ظلم ہے.‘‘ جواب ۳.انسان کو تمہارے دیانند نے خود مختار مانا ہے.دیکھو ستیارتھ صفحہ۲۵۰ اور سزاؤں میں تابع مرضی الٰہی قرار دیا ہے.دیکھو صفحہ سابق اور نویں سملاس کے نمبر ۳۸صفحہ ۳۳۳میں لکھاہے کہ ’’جیو یکساں ہیں مگر پاپ اور پن کی تاثیر سے ناپاک اور پاک ہوتے ہیں‘‘ پھر لکھتاہے ’’جب پاپ بڑھ جاتا ہے اور پن کم ہو تا ہے تو انسان کا جیو حیوان وغیرہ نیچے درجہ کا جسم پاتاہے‘‘تو اب آپ انصاف سے کہیں کہ روحانی امراض کا نتیجہ نیک ہو ا یا بد ہوا؟ جیسے وَمَا کَادُوْا یَفْعَلُوْن.میں ہے ان کو کرنے کا ارادہ نہیں تھا.۱۲ ۲؎ کیا نہیں کر دیا ان کی تدابیر کو انہیں کے ہلاک کا باعث.
اگر بدکاری ،نافرمانی اور شرارت کا بدلہ نیکی حاصل ہوتو تمام لوگ چاہیے کہ بدکاری کریں تاکہ نیک ثمرات حاصل کریں مگر ایسا نہیں ہوتا.تحقیقی جواب اصل بات یہ ہے کہ جب ہمارے نبی کریم اور رسول رؤف رحیم ﷺ مکہ معظمہ سے مدینہ طیبہ میں رونق افروز ہوئے تو چند دشٹ.منافق.دل کے کمزور جن میں نہ قوت فیصلہ تھی اور نہ تاب مقابلہ آپ کے حضور حاضر ہوئے اور بظاہر مسلمان ہوگئے اور آخر بڑے بڑے فسادوں کی جڑ بن گئے.وہ مسلمانوں میں آکر مسلمان بن جاتے اور مخالفان اسلام کے پاس پہنچتے تو مسلمانوں کی بدیاں کرتے جہاں سے آپ نے یا آپ کے کسی پیشوا نے (البقرۃ :۱۱) کا فقرہ نقل کیا ہے.وہاں یہ سارا ماجرا مفصل لکھا ہے.اس شریر گروہ کے متعلق یہ آیت ہے جس کو آپ نے نقل کیا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ سردست جماعت اسلام تعداد میں بہت ہی قلیل اور تھوڑی سی ہے اور مسائل اسلام بھی جو پیش ہوئے ہیں بہت کم ہیں.یہ بدبخت منافق اگر اس قلیل جماعت کے سامنے تاب مقابلہ نہیں لا سکتے اور اپنے دل کی مرض سے بزدل ہو کر مسلمانوں کی ہاں میں بظاہر ہاں ملاتے ہیں تو یاد رکھیں ان کا یہ کمزوری کا مرض اور بڑھے گا کیونکہ یہ جماعت اسلام روز افزوں ترقی کرے گی اور یہ موذی بدمعاش اور بھی کمزور ہوں گے اور ہوں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.نیز اسلام کے مسائل روز بروز ترقی کریں گے جب یہ لوگ تھوڑے سے مسائل کا فیصلہ نہیں کر سکتے تو ان مسائل کثیرہ کا کیا فیصلہ کر سکیں گے جو یوماً فیوماً روز افزوں ہیں بہرحال ان کا مرض اللہ تعالیٰ بڑھائے گا اور اسلام کو ان کے مقابلہ میں ترقی دے گا.ہاں رہی یہ بات کہ یہ سزا ان کو کیوں ملی تو اس کا جواب بھی سچ ہے کہ ان کے اپنے اعمال کا بدنتیجہ تھا اس میں قرآن کریم کا ارشاد یہ ہے.(الشورٰی :۳۱)یعنی
تمہیں ہر ایک مصیبت اپنے ہاتھوں کی کرتوت کے سبب سے پہنچتی ہے.عمدہ غذا، ہوا اور بہار کا مزہ تندرست کو ملتا ہے نہ بیمار کو.یہ قانون قدرت ہے.سوال نمبر۴.خدا بڑا لڑاکا ہے.بھلا جب خدا ہی لڑاکا ہو گیا تو پھر زمین پر صلح وامن کون قائم کر سکتا ہے.لڑاکا شخص خدا کو بھی لڑاکا کہہ سکتا ہے.الجواب.پھر اگر تمہارا پرمیشر لڑاکا نہیں تو اس کانام رُدّر کیوں ہے.رُدّر کے معنے ہیں رلانے والا.دیکھو ستیارتھ صفحہ ۱۹.اور بتاؤ تو سہی کہ باہم لڑنے والے حیوان وانسان کس نے بنائے.اگر وہ لڑاکا نہیں تو یہ احکام آپ کے وید میں کس نے بیان کئے.’’کشتری لوگوںکے واسطے جنگ کے موقع پر ایک ہاتھ سے روٹی کھاتے اور پانی پیتے جانا اور دوسرے ہاتھ سے دشمنوں کو گھوڑے.ہاتھی.گاڑی پر سوار ہو کر یا پاپیادہ مارتے جانا اور ا پنی فتح کرنا ہی آچار اور مفتوح ہوجانا اناچار ہے‘‘پھر اس پر چَو کے کی کچھ مذمت بھی کی ہے دیکھو ستیارتھ صفحہ ۳۵۵ اور خاص الخاص ارشاد وید کا یہ ہے جو دشمنوں میں پھوٹ ڈلوانے کی تاکید پر مشتمل ہے.’’۱؎سبھا دہکش کو چاہیے کہ شانتی بچن کہنے دشٹوں کو ڈنٹ دینے اور شستروں کو پر سپر پھوٹ کرانے کی کریا یونسی نیتی کو اچھے پرکار پراپت ہو کے پرجاجنوں کے دکھ کونت دور کرنے کے لئے اوم کرے‘‘ رگوید بھاش صفحہ ۱۶۶۱ اب بتائیے پھوٹ ڈلوانا لڑاکوں کاکام ہے یا نہیں ؟اور یہ ویدکا ارشاد ہے یا نہیں.’’سبہا دہکش آدمی راج پرشوں (بادشاہ سپہ سالار سے لیکر تمام ممبران سلطنت)اور پرجاکے منشوں (رعایاکے لوگوں)کو چاہیے کہ جس پر کار اگنی آدی پدارتھ (آگ اور آگ جیسے سامان)بَن آدی کو (جنگل وغیرہ کو)بھسم (خاکستر)کر دیتے ہیں ویسے ہی دکھ دینے والے شترو جنوں کے بناش(تباہ) کے سپہ سالار.چکنی چپڑی.بات.بُروں کو سزا.مخالفوں.افعال.سیاست.
لئے اس پر کار(طرح)پر تین (کوشش)کریں‘‘رگوید بھاش صفحہ ۷۰۷.’’جیسی بجلی میگھ(بادل کے ادّیو بدلوں کو تیکہن بیگ سے چھن بھن اور بھومی پرگیر کر اسکو وش میں کرتی ہے ویسے ہی سبہا سینا دھکش (سپہ سالار فوج) کو چاہیے کہ بدھی شریر۱؎، ہل وسینا کے بیگ سے شتر وجن کے بیگ چھن بھن اور شتروں کے اچھے پرکار ہار سے پرتھوی پر گرا کر اپنی سمتی میں لاویں‘‘رگوید بھاش صفحہ۶۱۶ اسی طرح صدہا بار اس بات کا تکرار کیا ہے اور لڑائی کی تاکید کی ہے پس جولڑائی سے نفرت کرتا ہے وہ ہرگز اس ویدک تعلیم کو دیکھ کر وید کے نزدیک نہ جاوے جیسے پال.تحقیقی جواب بأس کے معنے عربی زبان میں عذاب کے ہیں قاموس میں ہے الباس العذاب اور دوسرا لفظ آپ کے سوال کی حوالہ کردہ آیت میں تنکیل ہے اور قاموس میںہے.نکل بہ تنکیلا صَنَعَ بہ صَنْعاً یحذ وغیرہ.ایسے طور سے بدکار کو سزا دینا کہ دوسرں کو عبرت ہو.اس کا ثبوت نیچر میں موجود ہے.کیا صاف ظاہر نہیں کہ ایک زانی.بدکار.بدکاری اور زناکرتاہے اور آتشک کے خطرناک نتائج میںگرفتار ہوتا ہے.بدکاری کی سزادینا اور آتشک کے خطرناک دکھوں میں مبتلا کرنا خود بدکار کے لئے عاقبت اندیشی کا سبق اور دوسروں کے لئے مقام عبرت ہے.غرض وید کا خدا بھی لڑاکا ہے اور قرآن کا خدا بھی لاکن ایک کامیاب اور دوسراناکام ہے.سوال نمبر۵.’’خدا لوگوں میں دشمنی ڈال دیتا ہے اور قیامت تک باہمی کینہ پھیلا دیتا ہے‘‘ الجواب.اس کے متعلق دیکھو نمبر۱۲.اور حقیقی جواب یہ ہے کہ(المائدۃ:۶۵)کے ماقبل ایک ہدایت کا پاک کلمہ آپ نے ترک کیا تو آپ نافہمی کی مرض میں مبتلا ہوئے اور وہ کلمہ یہ ہے. طاقت.اور فوج.زور.مخالف.زور.تباہ.شکست.زمین.جماعت
(المائدۃ:۱۵) کیا معنے ؟جب لوگوں نے ترک کر دیا اس پاک راہ کو جس کی ان کو تعلیم دی گئی تھی تو پھر ہم نے ان میں باہمی عداوت اور بغض کو مسلط کر دیا.بھلا شیر اور اس کے شکار،بلی چوہے کا خالق کوئی صلح کرنے والا ہے یا لڑاکا.جو کوئی قوم باہمی محبت ونیکی وہمدردی و اخلاص اور دوستانہ برتاؤ کی تعلیم کو ترک کر دے اور نہ مانے توان میں باہمی عداوت وبغض لابدی ہے یا نہیں.آریہ سناتن دھرم کے مدعیوں کے درمیان آریہ بدھوں ،آریہ جینیوں.آریہ اور مسیحی لوگوں.آریہ اور مسلمانوں کے درمیان عداوت وبغض آیا ترک احکام الٰہیہ سے ہے یا کسی اور باعث سے ہے اس پر دیکھو نمبر ۱۲سوال کا جواب وغیرہ.سوال نمبر۶.توبہ اور بے انصافی ایک چیز ہے.الجواب.مفردات راغب میں ہے.التوب ترک الذنب علی اجمل الوجوہ وھو ابلغ وجوہ الاعتذار یعنی توبہ کے معنے ہیں بہت ہی عمدہ و جہ سے گناہ کو چھوڑ دینا اور اس سے بڑھ کر عذر خواہی کی اور کوئی عمدہ راہ نہیں ہوسکتی.ایک بدکار.نافرمان جب اپنی غلط کاریوں سے الگ ہو جاوے تو انصاف کا مقتضا ہے کہ اب اس کو بری ہی کیا جاوے مگر محدود العقل.محدود العلم آدمی دلوں کی اندرونی حالات سے ناواقف اگر کسی کے عذر کو نہ مانے تو یہ اس کی نادانی ہے مگر علیم بذات الصدور جو تہہ در تہہ کو جانتا ہے وہ جب جان لے کہ اب یہ شخص سچا بدی کا تارک ہو چکا ہے تو پھر توبہ قبول نہ کرنا ناانصافی ہے.کیا توبہ اور ترک الذنب ہی نجات اور مکتی کا ذریعہ نہیں؟ اس میں ہم نے الزامی جواب اس لئے نہیں دیا کہ اس پاک تعلیم کے سمجھنے کے لئے معمولی عقلیں کافی نہیںورنہ ستیارتھ میں اس کا مذکور ہوتا.ہم خدا کا شکر کرتے ہیں کہ اسلام کو ہی یہ فخر حاصل ہے کہ اس نے انسان کے دل کی سچی آرزو یعنی مسئلہ توبہ کی تبلیغ کی ہے.ہر ایک فطرت خطا اور نسیان
کے بعد دلی جوش سے چاہتی ہے کہ اس کا آقا جس کے حکم کو اس نے توڑا ہے اس کی خطا معاف کر دے اور آئندہ اسے تلافی مافات کا عمدہ موقع دے.قرآن کریم نے انسان کی فطرت کی سچی آرزو کے موافق رحیم کریم توّاب آقا پیش کیا ہے.تناسخ اور کفارہ کا بے ہودہ مسئلہ توبہ کی فلاسفی کے نہ سمجھنے سے پیدا ہوا ہے.بعض بیماریوں کو دیکھو بدی سے پیدا ہوتی ہیں اور جسمانی طور پر جب ان کا علاج کیا جاتا ہے تو وہ بیماریاں دور ہو جاتی ہیں.پس توبہ روحانی علاج ہے روحانی بیماروں کا.جسمانی سلسلہ سے کاش تم لوگ روحانی سلسلہ کو سمجھو.سوال نمبر۷.’’غفار ہے اور توبہ نہیں سنتا.بہرہ اور سنگ دل ہے‘‘ الجواب.لطیفہ.اگر توبہ سن لے اور درگزر کرے تو تمہارے نزدیک جیسے تم نے نمبر۶میں بتایا ہے بے انصاف وظالم ہوا.اب نمبر۷میں آپ کے بیان سے ظاہر ہوتاہے کہ ’’بہرہ وظالم ہے سنگ دل ہے توبہ کیوں نہیں مانتا‘‘دیکھا حق کی مخالفت سے انسان کیسا بہکتاہے کہ متضاد باتوں کا ماننے والا بن جاتا ہے.قرآن کریم میں ہے.(طٰہٰ:۸۳)جو توبہ کر چکا اور ایمان لایا اور اس کے عمل اچھے ہوئے پھر اس سب کے بعد ہدایت کی راہوں پر ثابت قدم رہا.اس کے لئے میں غفار ہوں.مفردات راغب میں لکھا ہے.الغفر.اِلْباس الشیء مایصونہ عن الدنس المغفرۃ من اللہ تعالیٰ.ان یصون العبد من ان یمسّہ العذاب.غفر کے معنے ہیں ایسی شئے کا پہنانا جو میل کچیل سے بچائے.خدا کی مغفرت کے یہ معنے ہیں کہ بندہ عذاب کے لگنے سے بچایا جائے.اسی سے مغفر مشتق ہے جو لوہے کی خود کو کہتے ہیں.اور غفار ہ اس کپڑا کو کہتے ہیں جسے سر پر رکھنے سے کپڑوں کو چکنا تیل نہ لگ سکے.دیکھو مغفرت جس سے غفار کا لفظ نکلا ہے.کس طرح توبہ اور
نصاف اور درگزر کو بیان کرتا ہے.کیا معنے ؟جب انسان بدی اور نافرمانی سے پکی طرح رجوع کرتا ہے اور اس کو چھوڑ دیتا ہے پھر کامل ایمانداری کے ساتھ اچھے اچھے عمل کرنے لگ جاتاہے.تب اس کی حفاظت کی جاتی ہے اور خدا کا فضل اور اس کی حمایت کا ہاتھ گناہوں اور ان کی سزا کے مقابل اس کے لئے محافظ ہو کر رومال اور خود بن جاتاہے.سوال نمبر۸.’’اس کو(خدا کو)بدی کا پیدا کرنے والا مانا گیا ہے.نادان لوگ تقدیر.تدبیر اور آزمائش وغیرہ کا ڈھکوسلا بیچ میں لا کر خدا کو الزام سے پاک کرنا چاہتے ہیں‘‘ الجواب.اصل آیت جس کا تم نے حوالہ دیا ہے وہ یہ ہے. .(النساء:۷۹،۸۰) تم جہاں ہوگے تم کو موت گھیرلے گی اگرچہ تم مستحکم برجوں میں ہو گے اور اگر انہیں کوئی سکھ مل جائے تو کہتے ہیں یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی دکھ پہنچے تو کہتے ہیں یہ تیری طرف سے ہے تو کہہ سب اللہ کی طرف سے ہے پس کیا ہوا ان لوگوں کو کہ بات کو نہیں سمجھتے جو سکھ (فائدہ) تجھے پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو دکھ پہنچے وہ تیرے ہی طرف سے ہے اور ہم نے تجھے لوگوںکے لئے رسول بھیجاہے.اس آیت میں حقیقت واقعیہ اور سچائی کا کامل اظہار جناب الٰہی نے فرمایا ہے.جو لوگ دینی اور قومی لڑائیوں سے سستی اور غفلت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ چند روزہ زندگی تو گزارنے دو.ان کو کہا کہ آخر تم نے مرنا ہے.پھر ان کی نافہمی کا اظہار فرمایا ہے کہ یہ لوگ ایسے ہیں اگر ان کو
کہا کہ آخر تم نے مرنا ہے.پھر ان کی نافہمی کا اظہار فرمایا ہے کہ یہ لوگ ایسے ہیں اگر ان کو سکھ پہنچے تو بول اٹھتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے یہاں سے مل گیا اور اگر انہیں دکھ پہنچے تو پکار اٹھتے ہیں کہ یہ دکھ تیرے (نبی کریم سے)سبب سے پہنچا تو کہہ دے کہ دکھ اور سکھ تو اللہ تعالیٰ سے پہنچتا ہے.یہ نادان بات کی تہہ کو نہیں پہنچتے.پھر فرمایا ہر ایک قسم کا سکھ اللہ تعالیٰ سے تجھے ملا ہے اور جو دکھ تجھے پہنچاہے تیرے اپنے ہی طرف سے پہنچا اور تجھے ہم نے لوگوں کے لئے رسول بھیجا ہے.اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ سکھوں اور دکھوں کا دینے والا حقیقت میں تواللہ تعالیٰ ہے اس لئے کہ اصل خالق اور پیدا کرنے والا اسباب رنج و راحت کا وہی ہے اور یہی نہایت سچی بات ہے کہ سکھ سب اللہ تعالیٰ ہی کے عنایت سے ملتے ہیں اور دکھ تمہارے ا پنے ہی سبب سے تم پر آتے ہیں.اب ہم آریہ سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا آپ کے یہاں مسلم نہیں کہ دکھ خود انسان کے اپنے ہی اعمال کا نتیجہ اور ثمرہ ہوا کرتا ہے اور کیا آپ کو یہ مسلم نہیں کہ سکھوں دکھوں کو دینے والا پرماتما اللہ رب العالمین ہے؟ ہاں مسلم ہے.پس تمہارا اسلام پر اعتراض کرنا کیا دانستہ حق کی مخالفت کرنا اور جھوٹ کو پالنا نہیں؟البتہ اس قدر بھی اس آیت سے نکل سکتا ہے کہ سکھ ابتدائً بھی جناب الٰہی سے آسکتے ہیں اور یہ امر آپ کا مسلم نہیں.مگر اس بات پر آپ نے سوال نہیں اٹھایا شاید کہیں آگے آجاوے اور ہمارے یہاں مسلم ہے کیونکہ اس کی صفت رحمان ہے.البتہ یہ نئی بات ہے اور سچا اور واقعی سائنس ہے جو اس آیت سے نکلتی ہے تمام سکھ ابتداً بھی جناب الٰہی کی طر ف سے آتے ہیں.حقیقی چشمہ ان کا وہی اور خلق اشیاء و اسباب اس کی رحمانیت کا تقاضا ہے مگر یہ سچا اور روحانی علم بجائے خود ایک مستقل مضمون چاہتا ہے اور چونکہ تارک نے اس پر سوال نہیں اٹھایا ہم اسے چھیڑنا پسند نہیں کرتے.تقدیر.تدبیر اور امتحان تو سب سچے مسالہ ہیں اور مطابق واقع ہیں اور تمام نظام عالم اور انسانی افعال واعمال میں نظر آرہے ہیں انہیں ڈھکوسلا کہنا اپنی عقل مندی کا ثبوت دینا ہے.
سنو !تقدیر کے معنے ہیں اندازہ بنا دینا.اس کا ثبوت قرآن کریم میں یہ ہے:.(الفرقان :۳)کیا معنے ؟ہر ایک چیز کو اللہ تعالیٰ نے بنایا پھر اس ہر چیز کے لئے ایک اندازہ اور حد مقرر کر دی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ماسوا سب محدود اور اس کے احاطہ کے ماتحت ہے اب غور کر لو کہ یہ مسئلہ ڈھکوسلا ہے یا تمام ترقیات دینی اور دنیوی اسی تقدیر اور اندازہ سے ہو رہی ہیں اگر اس کو نہ مانا جاوے تو نہ دین رہے اور نہ دنیا.مثلاًہم اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی فرمانبرداری اس لئے کرتے ہیں کہ اس کا اندازہ یہی ہے کہ ان باتوں کا نتیجہ ہمارے حق میں نیک اور عمدہ ہو گا.اگر اس اندازہ پر ایمان نہ ہوتو پھر نیکی کیوں کی جاوے.غرض اس آیت نے بتایا ہے کہ ہر ایک عمل نتیجہ خیز ہے اور بڑے علیم وحکیم نے تمام کارخانہ مضبوط علمی رنگ کا بنایا ہے اس میں کوئی حرکت اور سکون عبث اور بے نتیجہ نہیں.یہ آیت ہر شخص کو چست اور کارکن بننے کی حد سے زیادہ ترغیب دیتی ہے.کس قدر نابینائی یا اعتراض کرنے کی ٹھیکہ داری ہے کہ ایسے حقائق کو ہنسی اور نکتہ چینی کا نشانہ بنایا جاتا ہے.کاش لوگ سمجھیں کہ اس نئے گروہ کو راست بازی سے کس قدر تعلق ہے اور ان کی عملی حالت کیا؟ اور تدبیر کا مسئلہ تو ایسا صحیح ہے کہ دیندار اور بے دین اللہ تعالیٰ کو ماننے والے اور نہ ماننے والے سب اس مسئلہ کو ضروری اور واجب العمل یقین کرتے ہیں اور تدبیر کے معنے ہی یہی ہیں کہ تقدیر کے مطابق تہیہ اسباب کیا جاوے.آپ نے بھی تقدیر اور تدبیر پر اپنے خیال میں عمل کیا ہے.پہلے یقین کیا کہ ترک اسلام اور آریہ طریق پر برہمچریہ بننا آپ کے لئے مفید ہو گا.پھر اس کے مطابق آپ نے یہ تدبیر کی کہ آریہ سے تعلق پیدا کیا.پھر آریہ بنے پھر لیکچر دیا اور آپ نے یا آپ کے رفقاء نے اس کو طبع کرایا کہ مفید ہو گا.اب آپ کی تدبیر تقدیر کے موافق ہو گی نہ ہو گی اس کا پتہ لگ جاوے گا.بہرحال تقدیر اور تدبیر دونوں پر عمل درآمد کیا.
اور امتحان کے اصل معنی ہیں محنت کا لینا.ایک دنیا دار امتحان کے لئے کواغذ امتحان کے جواب مثلاً دیکھتا ہے تو اس لئے کہ طالب العلم کی محنت کا اس کو پتہ لگ جائے اور محنت کا نتیجہ اس کو دے اور اللہ تعالیٰ بھی امتحان لیتا ہے یعنی محنت کرانا چاہتاہے سستی کو ناپسند کرتاہے.ہاں علیم وخبیر ہے جب کوئی محنت کرتاہے جیسے کوئی محنت کرے ویسی ہی جناب الٰہی سے محنت کرنے کا بدلہ ملتا ہے.گندم از گندم بروید جو زجو از مکافاتِ عمل غافل مشو اسی امتحان کے معنوں کو ایک حکیم مسلمان نے نظم کیا ہے اور اسی سچے علم کو قرآن کریم نے یوں بیان کیا ہے(النجم :۴۰تا۴۲)اور انسان کو اس کی سعی کے سوا اورکوئی فائدہ نہیں ملے گا اور یہ پختہ بات ہے کہ اس کی سعی دیکھی جائے گی پھر اسی کے مطابق واقع اسے پورا بدلہ دیاجائے گا.اور فرمایا.َ(الانبیاء :۹۵) ترجمہ.ا ور جو شخص نیک کام کرے گا اور وہ مومن بھی ہو گا تو اس کی سعی کی ناقدری نہیں کی جائے گی اور ہم اس کی سعی اور اعمال کو محفوظ رکھنے والے کے ہیں.پھر تقدیر کے معنے علم الٰہی کے بھی ہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام اشیاء کا علم جناب الٰہی کو قبل از ایجاد اور وجود ان اشیاء کے حاصل ہے اس مسئلہ میں بھی آریہ اسلام کے مخالف نہیں مگر اس بحث کو طول کے باعث سر دست ترک کرتے ہیں.سوال نمبر۹.جو ہوتا ہے خدا کے حکم سے پس زنا.چوری.شراب.ڈاکہ.قتل.خون سب اس کے حکم سے ہوا شیطان بیچارے کو کیوں بدنام کیا جاتاہے.الجواب.اس سوال کے متعلق جو آپ نے حوالہ دیاہے اس کا تذکرہ قرآن کریم میںنہیں.شاید سہوکاتب ہومگراتنابتادیتے ہیں کہ تمام قرآن مجید زناکاری.شراب نوشی.ڈاکہ.چوری.قتل.خون اور لوٹ مار کے ناپاک حکموں سے پاک ہے اور ان حرام کاریوں کا عملاً استیصال کرنے والا ہے
اور ایک ہی کتا ب ہے جس نے سچی پاکیزگی اور تقویٰ کی تعلیم دنیا کو دی.سنو اور غور کرو! ۱.(بنی اسرائیل :۳۳) زنا کے قریب بھی مت جاؤ وہ بہت بُرا اور بے حیائی کاکام ہے اور بُری راہ ہے.۲.(المائدۃ :۹۱) شراب اور جُوا اور بت اور قرعہ کے تیر پلید شیطانی کام ہیں ان سب سے بچو تاکہ تم فلاح پاؤ.۳.(المائدۃ :۳۴) سزا ان کی جو جنگ کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسول سے اور زمین میں بگاڑ پیدا کرنے کے لئے ریشہ دوانیاں کرتے ہیں یہ ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا صلیب دئیے جائیں اس خلاف ورزی یا مخالف سمتوں سے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹے جائیں یا ملک سے نکالے جائیں یہ سزا اس لئے ہے کہ دنیا میں انہیں رسوائی ہواور آخرت میں ان کے لئے بڑا عذاب ہے.۴.(المائدۃ :۳۹) چور مرد اور چور عورت کے ہاتھ کاٹ دو یہ بدلہ ہے ان کے کسب کا اور عبرت کا موجب ہے اللہ کی طرف سے.۵.(بنی اسرائیل :۳۴)کسی جی کو قتل مت کرو.جی کی اللہ نے عزت رکھی ہے ہاں مناسب وقت پر سزا یا قتل کر سکتے ہو.شیطان کی نسبت تم نے بیچارے کا لفظ استعمال کیا ہے جس طرح تم سے پہلے تمہارے آریہ مسافر نے بت پرستی کے حامی ،حق کے دشمن ،راست بازوں کے دشمن ابوالجہل کو ابو الحکم کہا اور
اسی سے دلی دشمنی اور ترک حق کا ثبوت دیا.دانش مند آخر اس نتیجہ پر پہنچ جائیں گے کہ تمہارا ترک اسلام کس حق بینی اور حق جوئی پر مبنی ہے.سنو ! شیطان کا لفظ نکلا ہے شطن سے یا شیط سے.پہلے لفظ کے معنی ہیں ایسا شخص جو جناب الٰہی سے دور ہے اور دوسرے لفظ کے لحاظ سے شیطان سے مراد ہے بدکاریوں میںہلاک ہونے والی چیز.پس آپ کو اختیار ہے اسے پیارا بناؤ.بے چارہ بناؤ.اس پر رحم کر کے اس کے ساتھ اپنا جنم مرن مستحکم کر ویا اس سے الگ ہو جاؤ.اور اگر تم آیت (یونس :۵۰) کو زیر نظر رکھ کر اعتراض کرتے ہو تو اس کی کیفیت بھی سن لو.اس آیت کو سوال سے کوئی تعلق نہیں.یہ تو ایک پیشگوئی ہے اور اس میں جناب الٰہی نے بتایا ہے کہ ہرقوم کے لئے ایک شخص اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا آیا کرتاہے.جب وہ آتاہے تو لوگ اس کے موافق بھی ہوتے ہیں اور مخالف بھی.آخر دونوں کے درمیان انصاف کا فیصلہ ہو جاتاہے.جب یہ پیشگوئی رسول کریم ﷺ مخاطبین کو سناتے ہیں وہ پوچھتے ہیں کہ اگر تم اس پیشگوئی کے کرنے میں صادق ہو تو بتاؤ.یہ وعدہ کب پورا ہو گا.اس پر خدا تعالیٰ اپنے نبیؐ سے فرماتا ہے کہ یوں جواب دو اور کہو کہ میں خود نفع پہنچانے اور ضرر دینے کا مالک نہیں کہ میں وقت بتا دوں.ہاں اللہ ہے جو اللہ چاہتاہے (وہی مل رہتاہے)ہر ایک کے لئے ایک وقت مقررہے اس میں کم وبیش نہیں ہواکرتا.چنانچہ وہ آیات اس طرح ہیں. (یونس :۴۸تا۵۰) ہر ایک گروہ کے لئے ایک رسول ہے جب وہ رسول ان کا آتاہے تو ان میں انصاف سے فیصلہ کیا جاتا
ہے اور ان پر ظلم نہیں کیا جاتا اور وہ کہتے ہیں یہ وعدہ کب پورا ہو گا اگر تم سچے ہو توکہہ میںتوا پنی جان کے لئے نفع اور ضرر کا مالک نہیں مگر جو کچھ چاہے اللہ.ہر ایک گروہ کے لئے وقت اور میعاد مقررہے جب ان کا وقت آجاتا ہے اسے ایک گھڑی پیچھے نہیں کر سکتے اور نہ اس گھڑی کو آپ آگے لا سکتے ہیں.سوال نمبر۱۰.گمراہ کنندہ تو خود خدا ہے.پھر نبیوں کو ہدایت کے لئے اور کتابوں کو نازل کرنا لغو ہے اور شیطان کو خواہ مخواہ بدنام کرناہے.ثبوت کے لئے دیکھو یہ آیت(الکھف:۱۸) الجواب.اضلال جس سے یضلل نکلا ہے نتیجہ ہے ضلال کا اور ضلال پیدا ہوتاہے ان انسانی طاقتوںسے جوانسان کے تابع ہیں.قرآن کریم نے اس مضمون کو خوب صاف کیا ہے جہاں فرمایا ہے.۱.(البقرۃ :۲۷) یعنی اس سے وہ انہیں لوگوں پر ضلال اور گمراہی کا حکم لگاتا ہے جو اس کے حدود اور احکام کو توڑتے ہیں.۲.(ابراہیم :۲۸) اللہ ظالموں پر گمراہی کا حکم لگاتا اور انہیں گمراہ ٹھہراتاہے.۳.(المومن :۳۵) اللہ گمراہ ٹھہراتاہے ایسے شخص کو جو حد سے نکلنے والا مترددہوتاہے.ان آیات سے یہ بات کس قدر صاف ہوجاتی ہے اور خداترس دانش مند کے نزدیک حرف رکھنے کی جگہ نہیں رہتی.جولوگ بدکار اور ظالم اور مسرف اور کذاب ہوتے ہیں وہ اپنے اعمال سے کیا ہر ایک سلیم الفطرت کے نزدیک اس بات کے مستحق نہیں ہوتے کہ وہ انہیں دیکھتے ہی حکم لگا دے کہ یہ تو ہلاک اور تباہ ہونے والے لوگ ہیں.کون ہے جو چوروں اور بدکاروں کو دیکھ کر
ان کی نسبت بڑی قوت سے یہ حکم نہیں لگاتا کہ یہ برباد ہونے والا گروہ ہے اسی طرح خداوند بزرگ کی حکیم کتاب فرماتی ہے.خدا تعالیٰ کی ذات اس سے پاک ہے کہ اسے گمراہ کرنے والا کہا جائے اس لئے کہ خود قرآن مجید نے مختلف مقامات میں بڑے بڑے لوگوں اور شریروں کی نسبت کہاہے کہ وہ گمراہ اور ہلاک کرنے والے ہوتے ہیں چنانچہ دیکھو آیات ذیل کو.(القصص :۱۶) بے شک وہ دشمن ہے ہلاک کرنے والا کھلاکھلا.ُ(طٰہٰ :۸۰) فرعون نے اپنی قوم کو ہلاک کیا.ُّ(طٰہٰ :۸۶)سامری نے انہیں ہلاک کیا.(الانعام:۱۱۷) اگر تو زمین کے بہت عوام لوگوں کی بات مانے تو وہ خدا کے راہ سے ہٹا کر تباہ کر دیں.(محمد :۲) جو لوگ منکر ہوئے اور اللہ کے راہ سے روکتے ہیں اللہ نے ان کے عمل باطل کر دئیے.نیز اس کے علاوہ اضلال کے معنے ابطال اور اہلاک کے ہیں جیسے قرآن مجید کی اس آیت کریمہ سے ظاہر ہے (السجدۃ:۱۱) ترجمہ.اور وہ کہتے ہیں کیا جب ہم زمین میں نابود ہو جاویں گے کیا ہمیں نئی پیدائش ملے گی.اس صورت میں آیت مندرجہ سوال کے یہ معنے ہوئے’’اور جس کو وہ ہلاک کرتاہے تو اس کا کوئی اور والی وراہ نما نہیں پائے گا‘‘اور تمام گذشتہ آیات میں یہ معنے صاف ظاہر ہیں.انصاف تو کر و جب کامل بدکار بدی کا پھل پانے جاتا ہے تو بدکار کو اپنی بدکاری کا لازم پھل پانے کے راستہ سے کون ہٹا سکتا ہے.کیا اعمال سے ہُوا.ہوا.سور(جیسے آپ مانتے ہیں)پنڈت بن سکتا ہے اور کیا وید کے راہ نما اسے اپدیشک کر سکتے ہیں.
بعثت انبیاء ورسل علیھم الصلوٰۃ والسلام اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت کی شان یہ ہے کہ جب کوئی مخلوق سچی محنت وسعی کرے اللہ تعالیٰ اس کی سعی وکوشش پر پاک ثمرات مرتب فرماوے.پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھ پہنچانے کیلئے جس طرح ہم کو بہت سی قوتیں اور طاقتیں ظاہر یہ اور باطنیہ عطا کی ہیں اسی طرح سکھ حاصل کرنے کو طرح طرح کے اور سامان بھی بخشے ہیں.منجملہ ان سامانوں کے پاک کتابیں پاک روحیں اور مزّکی اور مطہّر کرنے والے انبیاء و رسل ہیں جن کاکام علاوہ بریں کہ ہمیں الٰہی کلمات طیبات پڑھ کر سناویں یہ بھی ہے کہ ان کے معانی بھی ہمیں بتائیں اور یہ بھی ان کاکام ہے کہ اپنی مقناطیسی طاقت اور سچی دعاؤں اور کامل کوششوں سے ہمیں مزّکی اور مطہّر بھی کریں.اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتیں ایسی پاک جماعت پر نازل ہوں.ایسی کھلی تعلیم اور واضح اصول ایک کتاب کے ہوں اور اس پر اعتراض کیا جائے حقائق سے ٹھٹھ بازی اور سنگ دلی کا ثبوت دینا ہے.سچی اور خدا کی طرف سے کتاب کا کام اس کے سوا نہیں کہ وہ مطابق واقع امور اور حقائق کو بیان کرے یعنی خدا تعالیٰ کے کام کو جو نظام کائنات میں نظر آتاہے اور اس کے دقائق کا سمجھنا عام سمجھوں پر آسان نہیں صاف لفظوں میں واضح کردے.ہم کہتے ہیں کہ قرآن کریم نے بدی اور اس کے محرکات اور اس کے چشموںکا اور نیکی اور اس کے محرکوں اور بواعث کا فلسفہ بیان کیا ہے.پھر اسے دوسرے لفظوں میں یوں سمجھو کہ قرآن کریم میں مذکور ہوا ہے کہ دنیا میں بدی ایک شئے ہے اور اس کا محرک بھی کوئی وجود ہے جس کا نام شیطان ہے.یہ امر واقع ہے انسان کو خدا کی طرف سے استطاعت ملی ہے کہ وہ بدی کی تحریک سے بچ سکے.یہ امر واقع ہے خدا تعالیٰ کی صفات میں داخل ہے کہ وہ اصلاح عالم کے لئے مصلح اور ہادی بھیجا کرتا ہے.یہ امر واقع ہے انسان کی استطاعت اور وسعت میں ہے کہ ان راہنماؤں کی آوازوں کو سن کر نیکی کی راہ پر قدم مارلے.یہ امر واقع ہے خدا تعالیٰ کی صفات میں داخل نہیں کہ وہ جبر اور اکراہ سے خواہ مخواہ کسی کے دل کو ہدایت کی طرف کھینچے یا کشاں کشاں ہلاکت کی طرف لے جاوے.یہ امر واقع ہے تمام
مذاہب کے نزدیک مسلم ہے کہ خدا کو نیکی سے پیار اور بدی سے نفرت ہے.وہ قادر مطلق ہے جو چاہے کر سکتا ہے اس کی سلطنت میں کوئی شریک اور اس کے ارادوں کے راہ میں کوئی مانع نہیں.باوجود اس کے یہ امر واقع ہے کہ بدی ہے اور ہو رہی ہے اور زور سے اس کی رَو چل رہی ہے اور خدا کے فعل میں اس کی قادر مطلق حکومت میں اس کے آثار اور ظہور نظر آرہے ہیں اور اس کے مقابل ایک گروہ ہمیشہ سے چلا آتاہے جو اس سے کشتی کرتا اور لوگوں کو ا س کی طرف جانے سے روکتا ہے.یہ امور ہیں جو قانون قدرت میں اورخود انسان کی فطرت میں صاف صاف دیکھے جاتے ہیں.انہی نفس الامر ی باتوں کا نقشہ قرآن کریم نے اس مخفی محرک اور طاقت کے ظہوروں کی حقیقت بتا کر دکھایا ہے بدی کا جو محرک اس کا نام شیطان ہے اور نیکی کے محرک ملائکہ اور نیک لوگ ہیں.آریوں کا یہ فرض تھا اور ان کے ذمہ بڑا بھاری قرضہ ہے کہ وہ قرآن کریم کے اس سچے فلسفہ کے مقابل وید سے دکھاتے کہ وہ انسانی فطرت اور قانون قدرت کے مطابق نیکی اور بدی اور ان کے محرکات اور مزیلات کا یہ فلسفہ بیان کرتاہے.یہ سفیہانہ طریق جو انہوں نے اپنے لئے پسند کیا ہے کہ تمام حقائق پر بے باکی سے زبا ن طعن کھولتے ہیںیہ طریق سچے علوم اور تحقیق حق کا دشمن ہے.آریہ کو تو ویدوں کے تراجم سے بھی مضائقہ ہے.سوال نمبر ۱۱.’’خدا پاکیزگی پسند ہے.پھر ناپاک کو پاک کرنا نہ چاہا.ناپاکی اور گمراہی بڑھاتا ہے‘‘ الجواب.تارک نے آیات ذیل سے تمسک کیا ہے اور قرآن کریم کی زبان نہ سمجھنے سے ضلالت کے گڑھے میں گرا ہے.اس کا اعتراض(المائدۃ:۴۲) پر ہے.اب ہم پوری آیتیں لکھ کر اصلی حقیقت کا اظہار کرتے ہیں.۱.
(المائدۃ :۴۲) اے رسول نہ غمگین کریں تجھے وہ لوگ جو کفر میںتیزی سے بڑھتے ہیں ان لوگوں میں سے جنہوں نے اپنے مونہوں سے کہا ہم ایمان لائے اور ان کے دل ایمان نہیں لائے.وہ لوگ کان لگاتے ہیں کہ یہاں سے سن کر باہر جاکر جھوٹ پھیلائیں یا دوسرے مخالفوں کی بھی مان لیتے ہیں جو ابھی تیرے پاس نہیں آئے.ٹھیک موقعوں سے بات کو الٹ پلٹ کر دیتے ہیں کہتے ہیں اگر تم کو یہ تعلیم ملے تو لے لو اور اگر یہ نہ ملے تو پرہیز کرو اور جسے اللہ عذاب دینا چاہے تو اسے اللہ سے بچانے کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا.یہ ایسے لوگ ہیں کہ اللہ نے ان کے دلوں کو پاک کرنا نہیں چاہا ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لئے بڑا عذاب ہے.۲.(التوبۃ :۱۲۴،۱۲۵) اور جب کوئی سورۃاتاری جاتی ہے کوئی تو ان میں سے کہتاہے بتاؤ تو اس سورۃ نے تم میں سے کس کے ایمان کو بڑھایا؟ جو تو مومن ہیں ان کے ایمان کو تو وہ سورۃ بڑھا دیتی ہے اور وہ خوشیاں مناتے ہیں اور جن کے دلوں میں روگ ہیں وہ سورۃ ان کی پلیدی اور بدباطنی کو بھی بدباطنی کے ساتھ ملا کر بڑھاتی ہے اور وہ کفر میں ہی مرتے ہیں.عمدہ عمدہ تندرستوں کے کھانے بیماروں کو نقصان پہنچاتے ہیں اور موسم بہار کی عمدہ ہوا بعض بیماروں میں ضرر کا موجب ہے.
فتنہ کے معنے کے لئے دیکھو مفردات راغب کو جو قرآن کریم کی معتبر لغت اور بہت پرانی کتاب ہے.۱.اصل الفتن ادخال الذھب النار لیظھر جودتہ من ردائتہ.فتنہ کے اصلی معنی ہیں زر کو آگ میں ڈالنا تو کہ اس کی میل کچیل نکل جاوے.اور قرآن کریم میں فرمایا ہے.(الذاریات:۱۴)جب وہ آگ میں ڈالے جا کر عذاب دئیے جائیں گے.۲.الفتنۃ العذاب.فتنہ کے معنے ہیں عذاب.اس کے ثبوت میں قرآن کریم کی اس آیت کو پڑھو.ْ(الذاریات:۱۵)اپنی سزا کا مزا لو.۳.اسباب عذاب کو بھی فتنہ کہتے ہیں.قرآن کریم میں ہے.(التوبۃ :۴۹) دیکھ.وہ عذاب کے موجبات میں جاپڑے ہیں.۴.امتحان لینا.محنت لینا بھی فتنہ کے معنے ہیں.قرآن کریم میں ہے. (طٰہٰ :۴۱) اور ہم نے تیر ا خوب امتحان لیا. (الانبیاء :۳۶) اور ہم امتحان کے طور پر تمہیں بدی اور نیکی میں مبتلا کرتے ہیں.۵.فتنہ کے معنے دکھ بھی قرآن کریم میں آئے ہیں چنانچہ فرمایا ہے. (البقرۃ :۱۹۲)اور دکھ دینا قتل سے بھی سخت تر ہے. (البقرۃ :۱۹۴) اور ان لڑنے والوں سے تم بھی لڑو تا ان کی ایذا رسانی بند ہوجائے.اب واضح ہو گیا کہ فتنہ کے معنے بلا.مصیبت.قتل.عذاب کے ہیں اور معاً ان آیات نے کھول دیاہے کہ وہ کون سے اسباب ان لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے آپ جمع کئے جن پر جناب حق تعالیٰ کا غضب بھڑکا اور ان کی سزا اورعدم تطہیر کا فتویٰ ان کے حق میں لگایا.اب آیت
کا مطلب صاف صاف یہ ہوا کہ جس کو اللہ تعالیٰ عذاب دے اس کو کون بچاوے؟ تم ہی بتاؤ اور اپنے اصول کو مدنظر رکھ کر جواب دو کہ کیا جنم کے عذابوں سے کوئی بچا سکتاہے ؟کیا سؤر اور کتے کو کوئی دہرمپال کیسے جنم میںلاسکتاہے؟علاوہ برآں ان آیات (المائدۃ :۴۲) اور (التوبۃ :۱۲۶) کا ثبوت تو آپ ہی ہیں مثلاً قرآن کریم راہ نما اور یقینا ہادی ہے مگر تمہارے لئے وہ باعث ہلاکت وضلالت ہوا اور اگر ہمارے خلاف یہ کہو کہ وید ہدایت کے لئے آئے تھے مگر دیکھ لو دام مارگیوں اور مہی دہر وغیرہ کے لئے وہ بھی دیانند کے نزدیک رجس اور مرض کا باعث ہوئے توبعینہ یہ بات تم کو اسلامیوں کی طرف سے کیوں سمجھ میں نہیں آسکتی؟ غور کرو ! تمام حکماء اور تمام طبیب اور دانا جانتے ہیں کہ بیمار کے لئے تندرستوں کا عمدہ کھانا بھی مضرہوتا ہے.اگر تم کو اتنا علم نہیں تو کسی آیُر وید والے سے پوچھ لو.سوال نمبر ۱۲.’’اس کا خلاصہ یہ ہے کہ شیطان لوگوں کو بہکاتا ہے.شیطان کا گمراہ کنندہ خدا ہے شیطان نے خدا کے منہ کہہ دیا‘‘الخ الجواب.شیطان کی نسبت ارشاد الٰہی قرآن شریف میں یوں ہے.۱. ٌ(بنی اسرائیل :۶۶) اس کے معنے یہ ہیں کہ بے ریب میرے بندوں پر تیرا کوئی تسلط نہیں.خود بھی شیطان کا ایک قول قرآن مجید میں ہے.۲.(ابراہیم :۲۳) مجھے تم پر کوئی غلبہ اور قدرت نہیں تھی.ہاں اتنی بات ہے کہ میں نے تمہیں بلایا سو تم نے میری بات مان لی.اب مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے تئیں ملامت کرو.ہر ایک بدکار گمراہ کنندہ جو ناپاک باتوں کی طرف لوگوں کو بلاتا اور ہلاکت پر چلاتا ہے ہر وقت اور
ہر زمانہ میں ایسے وجود کو قرآن کریم میں شیطان کہا گیا ہے.کیا کوئی انکار کر سکتاہے کہ ایسے شریر موذی وجودوں سے کبھی کوئی زمانہ خالی ہوا ہے جیسے اس وقت میں مضل اور مغوی وجود ہیں اورسب قوموں کے نزدیک یہ بات مسلم ہے اسی طرح آدم کے وقت میں بھی ایک شریر بلکہ موذی وجود آدم کے مقابل تھا.تو بہکانے والے وجودوں کا کائنات میں موجود ہونا امر واقع ہے.کوئی شخص نادانی سے قرآن شریف کی اصطلاح سے اگر چڑتاہے تو کیا وہ واقعات عالم کی بھی تکذیب کر سکتا ہے؟ ان مغوی شریروں کا ایک نمونہ اور اس کے افعال.اقوال اور نتائج قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں اور اس طرح لوگوں پر احسان کیا ہے کہ بدکاروں کی راہ سے بچنے کی تدبیر بتائی ہے.آدم کے مقابل جو شریر تھا اس کی نسبت قرآن کریم میں ہے.(البقرۃ:۳۵)یعنی اس نے سرکشی کی اور انکار کیا اور وہ کافروں میں سے تھایاہوا.اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہلاکت کو خود اس نے اپنی سرکشی سے خریدا.خدا نے اسے بجبر ہلاک نہیں کیا.ہاں ممکن ہے کہ بدفہمی کی وجہ سے لفظ اَغْوَیْتَنِی سے جو آیت ذیل میں ہے یہ بات تم نے اخذ کی ہو.سنو اور غور کرو ! وہ مقام کیا محل اعتراض ہے.(الحجر :۴۱) شیطان نے کہا میرے رب ! بسبب اس کے کہ تو نے مجھے غوی ٹھہرایا میں بھلے کر دکھاؤں ۱؎ گا ان کے لئے اور ضرور غوی ٹھہراؤں گا ان کوسب کو.۲؎ غی مجرد ہے.اغوا اس کے مزید کے معنے ہیں.اضلال.ا ہلاک.افساد.نامراد کرنا.بدمزہ ۱؎.قرآن کریم میںہے شیطان بھلے کر دکھاتاہے بدعملوں کی بدعملی.منہ ۲ ؎ غی کے معنے ہیں ضلال.ہلاکت نامرادی.بدمزگی.عیش تلخ.بد اعتقادی کی جہالت.ابن الاثیر.راغب.تاج.لسان العرب.منہ
کردینا.زندگی کا تلخ کر دینا.پھر سن !! باری تعالیٰ کی مقدس بابرکت ذات پاک نے انسان کو استطاعت ،نیک وبد کی تمیز.عقل اور فطرت مرحمت فرما کر ہزاروں ہزار انبیاء اور رسول اور کتابیں اور اپنی رضا مندی کے اسباب بتاکر دنیا میں ہدایت کو پھیلایاہے اور انبیاء اور ان کے سچے اتباع اور فرمانبرداروں کی ہمیشہ نصرت اور اعانت فرمائی ہے.ہاں! بااستطاعت انسان پر جبر نہیں فرمایا کہ اس کی گردن پکڑ کر اس سے نیک اعمال کرائے.شیطان اور اس کے ذرّیات کے وجود سے یہ فائد ہ ہے کہ انسانوں میں فرمانبرداروں کو فرمان برداری کی خلعت وعزت عطا فرماوے مگر پھر بھی شیطان کو یہ اختیار نہیں دیا کہ لوگوں کو بجبر گمراہ کرے.چونکہ انسان بڑے درجات کا طالب تھا اور بغیر صدق وصفا انعام نہیں مل سکتا اس واسطے دو محرک نیکی وبدی کے یعنی فرشتہ اور شیطان پیدا کئے.قانون قدرت اس بات پر دلالت کرتاہے.سب لوگ اپنے نفس میں دو محرک محسوس کرتے ہیں.قاتل پہلے قتل کرتا بھی ہے اور پچھتاتا بھی.پس واقعی فرشتہ وشیطان کا وجود عالم میں ہے.اگر وید کامل ہے تو اس میں ضرور یہ فلسفہ ہو گا.فرق الفاظ میں ہو تو کوئی بات نہیں ولکل ان یصطلح.ان محرکات کی اصلاح تم میں کیاہے؟ بتاؤ اورکھول کر بتاؤ !!! شیطان کی منہ درمنہ بات کا جواب اضداد کا مقابلہ ایک واقعی اور صحیح بات ہے کیمسٹری کی شہادت ،مرکبات عالم بلکہ بسائط کی نسبت اگر نہ لیں تو بھی لطیف وکثیف کا سنگرام(جنگ)سعید وشقی.سرپشٹ ودیسیو.مومن وکافر.دیود اسُر کا یُدھ کوئی مخفی راز نہیں.اللہ تعالیٰ ہدایت کے لئے اپنا کلام نازل فرماتا ہے بایں ہمہ ایک عالم اس کے مقابلہ کے لئے بھی اٹھ کھڑاہوتاہے تم اپنی جگہ دیکھو لو.وید جسے تم کلام الٰہی مانتے اور قدامت کو اس کی سچائی کی بڑی دلیل بتاتے ہو ہندوستان کے فرزندوں نے اس کے مقابلہ کے لئے ہتھیار نکالے اور اسے رد کیا.اور اس کی قدامت اور صداقت کے ابطال کی غرض سے تمہارے بھائی جینی
اپنے نوشتوں اور ہادیوں کی اتنی لمبی مدت بیان کرتے ہیں کہ اس کے مقابل ریاضی دان بھی حیران ہو جاتے ہیں اور مجوس اپنی کتابوں کی مدت قدامت کے بیان کرنے میںمہاں سنگھ کے آگے اور سترہ صفر بڑھاتے ہیں.اس سے معلوم ہوا کہ جنگ اور مقابلہ اس عالم میں طبعی امر کی طرح ہمیشہ سے قائم چلا آتاہے اور یہ بھی ثابت ہو گیا کہ آپس میں جنگ تو ایک طرف رہی اشرار ہمیشہ خدا سے مقابلہ کرتے چلے آئے ہیں.ایک عظیم الشان ناصح خود انسان کے اندر موجود ہے مگر اس کے ساتھ بھی وہ مقابلہ ہے کہ الامان ! الامان !تھوڑی دیر کیلئے کچہریوں میں عبرتاًدیکھیں.بازار کے لین دین کو دیدہ بصیرت سے مطالعہ کریں.لیکچراروں کی لفاظیاں اور اس کے ساتھ ان کا عمل درآمد غور سے ملاحظہ کریں.محکمہ جات میں کم سے کم ان لوگوں کی عملی کارروائیوں کو دیکھیں کہ جن کی تمام تعلیم اہنساپرموں دہرما(رحم ہی اعلیٰ مذہب ہے)اور باایں ہمہ ایک جانور(گائے)کی لفظی حفاظت کی ٹھیکہ داری کے بھیس میں اپنے خیال کے مخالفوں.غریبوں.بیکسوں کے ساتھ کیا کیا سلوک کرتے ہیں؟ میں نے ایک ہندو ریاست کے ایک بڑے بااختیارپنڈت سے سوال کیا کہ مساوی الاستعداد مگر مدت کے امیدوار فتح محمد اور نئے امیدوار فتح چند کے لئے آپ کے محکمہ میں اگر موقع پرورش ہوتو آپ کس کو مقرر کریں گے.کہا فتح چند کو.میں نے کہا آپ تو بدھ مذہب کے آدمی ہیں اور آپ نے ہنوز دریافت بھی نہیں کیا کہ فتح چند بدھ مذہب کا آدمی بھی ہے یا نہیں؟کہا مولوی صاحب! ہماری بچپن کی تعلیم ہمیں ایسے سبق سکھاچکی ہے کہ بہتر ہے کہ آپ اس بحث کو ختم کردیں.اس قسم کی صدہا نظیریں اور واقعات ہیں جو دانش مند کو کافی سبق سکھاتے ہیں.غرض یہ مسلّم امر ہے کہ الٰہی فرمان پاک لوگوں کے مفید کلمات.نور قلب.عقل.نظارہ قدرت.تجربہ صحیحہ اور بدی کی خطرناک سزائیں موجود ہیںمگر شریر کا شرارت سے باز آناکوسوںبلکہ بمراحل دور ہے.اس جنگ کو ستیارتھ میں دیانند نے بھی ماناہے اور اس کا دیوا سُر سنگرام نام رکھا ہے یعنی (اچھوں اور بُروں کی جنگ)غرض نور وظلمت.نورانی و ظلمانی.صدق وکذب کا یُدھ ہے.ابلیس وشیطان وہی ظلمت اور شرارت ہے یایوں سمجھو کہ ظالم وشریر.کاذب وجاہل اور
تاریکی کے فرزند کے القاب ہیں.اللہ تعالیٰ اپنے علم کامل.رحمت.قدرت اور تصرف سے ہرجگہ موجود ہے اور شریر جس قدر بکواس کرتا ہے وہ سب خدا کے سامنے کرتاہے اور رُو در رُو کرتا ہے کہ گویا اس سے بالمشافہ جنگ کرتا ہے.کیا تم نے جو بدکلامی رسالہ ترک اسلام میں کی ہے کہیں خدا سے مخفی اور خدا کے بندوں سے مخفی کی ہے.ہوبہو یہی بات ہے جو قرآن کے اندر شیطان وابلیس کے متعلق بیان ہوئی ہے.اس کا مطلب صاف ہے کہ اس نے خدا کے بندوں سے جو شرارت اور جنگ کی ان سے نہیں کی بلکہ خود خدا سے بالمواجہہ تکرار اور جنگ کی.قال کے لفظ سے یہ سمجھنا کہ شیطان نے خدا سے بالمشافہ مکالمہ کیا سخت غلط بات ہے.قرآن کریم میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ خدا کے مکالمہ سے وہی لوگ شرف اندوز ہوتے ہیں جو خدا کی نگاہ میں پاک وصاف ہوتے ہیں.پھر شیطان جیسی نجس ذات کا یہ رتبہ کہاں کہ اسے خدا کی ہم کلامی کی عزت ملے.سارے قرآن میں کَلَّمَ تَکْلِِیْماً کا کوئی صیغہ شیطان کے کلام کے بارہ میں مذکور نہیں ہوا.اصل بات یہ ہے کہ لفظ قال عربی کی زبان میں ہر ایک بات اور کام اور اشارہ اور زبان حال پر بولا جاتاہے.چنانچہ عربی کی لغت میںلکھاہے.العرب تجعل القول عبارۃ عن جمیع الافعال قالت لہ العینان سمعاً وطاعۃ.قالوا صدق واوماؤا برؤسھم.قالت السماء جادت والنسکبت.ویقال للمتصور فی النفس قبل التلفظ.فیقال فی نفسی قول لم اظھرہ.والاعتقاد یقال فلان یقول بقول الشافعی.ویقال للدلالۃ علی الشئی.امتلاء الحوض فقال قطنی.قالت لہ الطیر تقدم راشداً.یعنی قول تمام افعال پر بولا جاتا ہے.اس کی آنکھوں نے کہا کہ ہم سنتے اور مانتے ہیں.صحابہ نے کہا سچ کہتاہے اور یہ بات سر کے اشارہ سے کہی.بادل نے کہا.کیا معنے ؟برسا قال اس خیال پر بھی بولا جاتاہے جو ابھی تلفظ میں نہیں آیا.کہا جاتاہے میرے دل میں بات ہے جس کو میں نے ظاہر نہیں کیا.فلانا اعتقاد کرتا ہے شافعی کا اعتقاد.قول کے معنے اعتقاد کے ہوئے.علی العموم دلالت کو
بھی قول کہتے ہیں.کہا جاتا ہے حوض جب پانی سے بھر گیا تو اس نے کہا اب بس کرو.پرندوں نے اسے کہا اقبال مندی سے آگے بڑھو.غرض جب لفظ قال اتنے بڑے وسیع معنوں پر بولا جاتا ہے تو کس قدر ضروری امر ہے کہ ہر موقع و محل کے مناسب اس کے معنے کئے جائیں.شیطان ایک کافر.متکبر.احکام الٰہی سے منکر خبیث روح ہے.حسد وبغض سے اس نے آدم جیسے راست باز کا مقابلہ کیا اور اس مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف بھی بدی کو منسوب کر دیا اور بے باکی سے بدکلامی کی اور اسی طرح کی ناپاک زبان سے کام لیا جیسا کہ تم نے.اور ہم انشاء اللہ تمہاری گالیوںکی فہرست میں دکھائیں گے اور تمہیں خدا تعالیٰ نے باایں ہمہ ڈھیل دے رکھی ہے اور اغوا کی مہلت دی ہے.چنانچہ تم نے یہ رسالہ شائع کیا اور ایک وقت معلوم تک تم اس اغوا کی کوشش میں لگے رہو گے.اسی طرح خدا نے اس راستی کے دشمن کو بھی ایک وقت معلوم تک مہلت دی.یہ ایسا صاف نظارہ ہے کہ اسے ہر ایک دانش مند اس جہاں میں آنکھوں سے دیکھ رہا ہے اور اپنے برتاؤ سے اس کی صداقت کی شہادت دے رہاہے.خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہم مسلمان نیکی کے محرک کو (تم کچھ نام رکھو)ملک یا فرشتہ کہتے ہیں اور بدی کے محرک کو شیطان وابلیس.ان معنوں کے لحاظ سے ملک وابلیس کا کون منکر ہو سکتا ہے؟یہ پختہ اور یقینی بات ہے کہ جہاں قرآن کریم نے شیطان وابلیس کا ذکر کیا ہے وہاں انہیں اسروں اور بدی کے محرکوں سے مراد ہے.ان واقعات پر اعتراض کرنا خدا تعالیٰ کے قانون قدرت اور اس کے نظام کی نکتہ چینی کرنا ہے.سوال نمبر ۱۳ ’’خدا مسخرہ.مخولیا.ٹھٹھول.بھنگڑ.بھنگیوں میںا ٓکودتاہے بھنگر پن شروع کر دیتا ہے‘‘ الجواب.لعنت اس گندہ د ہنی پر.کیا یہ انصاف ہے ؟ آہ !کاش تم لوگ آدمیت کو اختیار کرتے اور حق کے سچے طالب بنتے.کیا آپ کے نیم نمبر۴ کا یہ عمل درآمد ہے جس میں لکھا ہے:.’’ست کے گرہن کرنے اور اَسَت کے چھوڑنے میں سرودادت رہنا چاہیے‘‘
میں تم کو یقین دلاتا ہوں کہ ایسے اسماء صفاتیہ ہرگز ہرگز ہرگزقرآن مجید میں نہیں اور میں خود یقین کرتا ہوں کہ اتنے بڑے جھوٹ سے جو تمہارے ہمالہ سے بھی بڑاہے تم اسلام کو جیت نہیں سکو گے.تم اس گندے طریق سے جیتنا چاہتے ہو اور یہی تمہاری ہلاکت کا موجب ہو گا انشاء اللہ تعالیٰ.طاعون تمہارے گوجرانوالہ کے علاقہ میں آیا مگر تم کو اب تک اس سے نصیحت نہیں ملی.تمہارے بدلگام آریہ مسافر نے جو ناکامی دیکھی اس نے تم کو کچھ سبق نہ دیا.سنو بدبخت !دیانند نے وید کی نرالی اور گھنونی بات کے سیدھا کرنے کے لئے استعارہ اور مجاز کا دروازہ کھولا اور بڑے زور سے یہ دعویٰ کیا اور لوگوں کو سکھایا کہ وید کے بہت سارے الفاظ کو استعارہ سمجھنا چاہیے.ایسے ایسے گندے الفاظ وید کے جن کا ذکر ہم دیباچہ میں کریں گے اور وہ الفاظ جنہیں دام مارگیوں اور سناتن دہرمیوں نے ان کے ظاہر پر انہیں حمل کیا اور بت پرستی اورلنگ پرستی اور بھگ پرستی کے ثبوت وید سے نکالے.ماں سے،بہن سے،بیٹی سے بھوگ کرنے کے ثبوت وید سے نکالے اور اب تک کروڑوں ہندو صدق دل سے وید کی اس تعلیم پر ایمان رکھتے ہیںاور اس کے مطابق عمل درآمد کرتے ہیں مگر دیانند نے ان سب الفاظ کو النکار یعنی استعارہ قرار دے کر شرمناک داغ سے وید کوبچانے کی کوشش کی.دوسرے مذاہب پر نکتہ چینی کرنے سے قبل کیاضروری نہ تھا کہ آریہ اپنے گرو کی چال کو اپنا رہنما بناتے.سنو ! قرآن کریم تمہاری ناپاک زبان درازی سے کس قدر پاک ہے اور اصل حقیقت ان الفاظ کی کیا ہے اور تمہارے بدزبان حملہ آورں سے صدیوں پہلے قرآن کی لغتیں ان الفاظ کے کیا معنے کرتی ہیں؟ لیکن اس کے مقابل وید کے الفاظ کے کھینچ تان کے ثبوت میں دیانند کے پاس لغات کے ایسے کھلے ثبوت نہیں.۱.ذکر حجۃ الاسلام الغزالی.ان الاستھزاء.الاستحقار والاستھانۃ والتنّبیہ علی العیوب والنقائص علی وجہ یضحک منہ۱۲.روح المعانی.تحقیر کو استہزا کہتے ہیں.۲.الھزأۃ.اصلہ الخفۃ و ھو القتل السریع.ھزأ.یھزأ.مات فجائۃ.و تھزأ بہ ناقہ
ای تسرع بہ وتخف۱۲ فتح ۱؎.ہلکا سمجھنے جلدی قتل کرنے اچانک مرنے کو ہزو کہتے ہیں.پس(البقرۃ:۱۶)کے معنے ہوئے اللہ تحقیر کرے گا اہانت کر ے گا اور ان کو عیوب و نقائص سے خلقت کو ایسی آگہی دے گا کہ ان کی ہنسی ہو اور اللہ تعالیٰ ان کو خفیف کرے گا.جلدی ہلاک کر دے گا.یہ بیان ہے منافقوں کے حالات کا جن کاظاہر کچھ اور باطن کچھ ہوتاہے.دل میں کپٹ ہوتی ہے اور ظاہر میں ہاں میں ہاں ملاتے ہیں.مومنوں کی تحقیر واہانت اور تخفیف کرتے ہیں.آخر اللہ تعالیٰ ان کی تحقیر.اہانت اور تخفیف کرتاہے اور کرتا رہے گا اور ہلاک کر دے گااور ان کے عیوب ونقائص کی اطلاع دیتاہے اور دیتا رہے گا اس لئے کہ دنیا میں ان کی ہنسی ہو.یہ بڑی بھاری پیشگوئی ہے اور وہ روز روشن کی طرح پوری ہوئی کہ تمام وہ لوگ جو اسلام پر ہنسی اڑاتے اوراس کی تحقیر کرتے تھے خدا تعالیٰ نے انہیں ضعیف وحقیر کر دیا.صداقتوں اور واقعات حقہ پر اعتراض کرنا سخت ناپاکی اور جہالت نہیں تو کیا ہے؟ اور سنو!دیانند نے ستیارتھ پرکاش میں کیا قواعد قرار دئیے ہیں.کیا تمہارا فرض نہیں کہ اعتراض سے پہلے ان قواعد کو آنکھ کے سامنے رکھ لیا کرو چنانچہ دیانند لکھتاہے.’’پس جس جس موقع پر ہمہ دانی وغیرہ کے اوصاف پائے جاویں اس موقع پر پرماتما اور جہاں خواہش.نفرت.جدوجہد.راحت.رنج اور ناقص العلم وغیرہ کے اوصاف ہوں وہاں جیو (روح) کے معنے لئے جاتے ہیں ایسا ہی ہر جگھ سمجھنا چاہیے‘‘ صفحہ ۶.مثلاً کسی نے کسی سے کہا … یعنی اے نوکر تو’’ سیندھو‘‘ لے آتو اس کو وقت اور فحوائے کلام کا خیال رکھنا ضروری ہے کیونکہ’’ سیند ھو‘‘.دو چیزوں کا نام ہے ایک گھوڑے کا دوسرا نمک کا.اگر مالک کی روانگی (سیر وغیرہ)کا وقت ہو تو گھوڑا اور اگر کھانے کا وقت ہو تو نمک لانا واجب ہے لیکن اگر سیرکے وقت نمک اور کھانے کے وقت گھوڑا لائے تو اس کا مالک اس پر خفا ہو کر کہے گا
کہ تو بے عقل آدمی ہے سیر کے وقت نمک اور کھانے کے وقت گھوڑا لانے سے کیا مطلب تھا تو فحوائے کلام نہیں سمجھتا ورنہ جس موقع پر جو چیز لانی چاہیے تھی اسی کو لاتا.تجھ کو فحوائے کلام کا خیال کرنا لازمی تھاجو تو نے نہیں کیا تو بے وقوف ہے میرے پاس سے نکل جا.اس سے ثابت کیا ہوا کہ جہاں جس معنے کو لینا واجب ہو وہاں اسی کو لینا چاہیے.تو اندریں صورت ہم کو اور آپ سب کو ایسا ماننا اور عمل میں لانا چاہیے.صفحہ ۲،۳ ستیارتھ ترجمہ رگوید آدھی بھاش بھومکا میں ہے صفحہ ۱۳۶.اردو ترجمہ منشی رام جگیا سو.لطیفہ.’’اور جو کم عقل ،کم علم اور متعصب انسان کا کیا ہوا ارتھ ہے وہ خراب اور جھوٹ ہوتا ہے اس لئے اس کی عزت کسی کو نہ کرنی چاہیے کیونکہ وہ ٹھیک نہیں ہوتا اور اس کی عزت کرنے سے انسانوں میں غلطی گھر کر جاتی ہے‘‘.دیانند نے اور اس کے آریہ مسافر اور آخر دھرم پال نے اس نصیحت پر عمل نہ کیا.قرآن کریم پر اعتراض کرتے وقت آگا پیچھا،لغت وغیرہ پر کچھ دھیان نہ کیا اور کم عقل،کم علم(عربی کے علم سے کمی)اور متعصب انسان کی طرح اعتراض در اعتراض کر دئیے.سوال نمبر۱۴.’’قسموں پر اعتراض.گھوڑوں، اونٹوں، پہاڑوں، درختوں، کتابوں، ہواؤں سورج ، چاند ،ستاروں کی پے در پے قسمیں کھاتا ہے ،ہنسی کی بات ہے‘‘ الجواب.اگر قسم ہنسی کی بات اور بری ہے تو جو یجروید بہاش چھٹاباب منتر بائیس میں بانی آریہ سماج نے لکھاہے وہ توضرور رد کے قابل ہے.’’ہَے (ورن)نیا کرنے والے سبہاپتی (منصف را جہ)کئے ہوئے میں نیا اگھنیا نمار نے یوگ گئو آدی پشئوں کی شپت (قسم.سوگند) ہے.اتی اسی پرکار(اسی طرح)جو آپ کہتے ہیں اور ہم لوگ بھی شیام ہی شپت کرتے ہیں آپ بھی اس پرتگیا (قانون)کو مت چھوڑئیے اور ہم لوگ بھی نہیں چھوڑیں گے.‘‘ نمارنے کے لائق گائے وغیرہ جانوروں کی.
غور کرو ! گئوادی پشئوں میں کس قدر گائے بیل، ہرن ،بکری، اونٹ، سؤر، کوے، مرغ، چیل، کیڑے مکوڑے داخل ہیں انصاف کرو اور پھر سوچو !! وہ جو منوجی اور بہرگ جی کی جامع سنگھتا میں برا بول بولا.جس نے کہا او ر ویدک قانون بتایا.دیکھو منو ۸.۸۸ گئو بیج اور سونا کی قسم دے کر ویشیہ سے پوچھے.منو ۸.۱۰۹میں ہے سوگند کے وسیلہ سے اصلی بات کو دریافت کرے اور کیا غلط کہا جو منو ۸/۱۱۰میں ہے.دیوتا اور بڑے بڑے رشی لوگوں نے کام کے واسطے سوگند کھائی ہے اور بسوامتر کے جھگڑے میں بشثت رشی نے پیون کے بیٹے سدامان را جہ کے روبرو قسم کھائی تھی.ہماری پاک کتاب میں قسموں کا ہونا ایک معجزہ ہے اور عظیم الشان معجزہ ہے بلکہ اسلامی اصطلاح کے مطابق ایک آیت اور نشان نبوت ہے اور عظیم الشان نشان نبوت ہے کیونکہ عرب میں ایک مثل تھی.ان الایمان تدع الارض بلاقع.قسمیں ملک کو ویران کر دیتی ہیں.اور منو کہتا ہے ۸.۱۱۱.کیونکہ جھوٹی قسم کھانے سے اس لوگ میں اور پرلوگ میں نشٹ ہوتا ہے.پنجابی میں مثل ہے جھوٹی قسم تاں پٹ ماردی اے.اب سوچو اور خوب سوچو کہ قرآن اور صاحب قرآن اس قدر قسموں کے ساتھ کیسا فاتح اور کیسا کامیاب ہوا کہ اس کے دشمنوں کا نام ونشان نہ رہا.ذرا اس پر غور وتامل کرو ! ان قسموں کا ثبوت تجارب وضرب المثلوں اور منو کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے اور تمہارے خیال میں ایک مجنون اور جھوٹے کا فعل ہے.جلسہ مہوتسو کے اسلامی مضمون میں امام مہدی نے اور بھی واضح فرما دیا ہے اور بانی اسلام تو تمہارے نزدیک جیسے ہیں تمہارے اقوال و افعال سے ظاہر ہے.مگر دیکھ لو کہ کس طرح روز افزوں ترقی اسلام اور بانی اسلام اور عرب کو ہوئی.پس اگر قسم زہر تھی تو اس نے تریاق کاکام دیا اور اگرحق ہے تو کیسی حقیقت حق کی ظاہر ہوئی کہ تمہارے ملک میں بھی آبراجا.سنو!مطالب دو قسم کے ہوتے ہیں اول بڑے ضروری.دوسرے ان سے کم درجہ کے.بڑے ضروری مطالب کو بہ نسبت دوسرے مطالب کے تاکید اور براہین اور دلائل سے ثابت کیا جاتا ہے.یہ میر ا دعویٰ بہت صاف اور ظاہر ہے.
تاکید کے لئے ہر زبان میں مختلف کلمات ہوا کرتے ہیں ایسے ہی عربی زبان میں بھی تاکید کے لئے بہت الفاظ ہیں.مگر ایشائی زبانوں میں...علی العموم قسم سے بڑھ کر کوئی تاکیدی لفظ نہیں.ایسے ہی عربی کے لٹریچر میں بھی قسم سے زیادہ کوئی تاکید ی لفظ نہیں.قرآن کریم عربی زبان میں نازل ہوا اس لئے اس میںعربی محاورات پر ضروری مطالب میں قسموں کا استعمال بھی ہوا ہے.رہی یہ بات کہ اہم اور ضروری امور میں براہین اور دلائل کا بیان کرنا بھی ضروری ہوتاہے قرآن کریم نے ان مطالب میں قسموں کے علاوہ اور کیا ثبوت دیا ہے.سو یاد رہے جہاں قرآن کریم کسی مطلب پر قسم کو بیان کرتا ہے وہاں جس چیز کے ساتھ قسم کھائی گئی ہے وہ چیز قانون قدرت میں قسم والے مضمون کے لئے ایک قدرتی شاہد ہوتی ہے اور یہ قسم قدرتی نظاروں میں اپنے مطلب کی مثبت ہوتی ہے جو قسم کے بعد مذکور ہوگا.مثلاً.الخ(اللیل:۵) ایک مطلب ہے جس کے معنے ہیں.لوگو!تمہارے کام مختلف ہیں اور ان کے نتائج بھی الگ الگ ہیں.قرآن مجید اس مطلب کو قانون قدرت سے اس طرح ثابت کرتا ہے.(الیل ۲تا۴)کیا معنے ؟ رات پر نظر کرو جب اس کی کالی گھٹا چھا جاتی ہے پھر دن کی بناوٹ پر غور کرو جب وہ اپنے انوار کو ظاہر کرتا ہے پھر مرد اور عورت کی خلقت اور بناوٹ پر نظر ڈالو اور ان کے قدرتی فرائض اور واجبات کو سوچو تو تمہیں صاف طور پر عیاں ہو گا کہ بے ریب تمہاری کوششیں الگ الگ اور ان کے نتائج علیحدہ علیحدہ ہیں ایسے ہی باری تعالیٰ کے نام پر جان ومال کو دینے والے اور نافرمانیوں سے بچنے والے اور اعلیٰ درجہ کی نیکی کے مصداق اور اس کے مقابل جان اور مال سے دریغ کرنے والے نافرمان اور اعلیٰ درجہ کی نیکی کے مکذب بھی الگ الگ نتیجہ حاصل کریں گے.حضرت امام حجۃ الانام نے توضیح میں فرمایا ہے:
’’تمام قرآن شریف میں یہ ایک عام عادت وسنت الٰہی ہے کہ وہ بعض نظری امور کے اثبات واحقاق کے لئے ایسے امور کا حوالہ دیتاہے جو اپنے خواص کا عام طور پر بیّن اور کھلا کھلا اور بدیہی ثبوت رکھتے ہیں جیسا کہ اس میں کسی کو بھی شک نہیں ہو سکتاکہ سورج موجود ہے اور اس کی دھوپ بھی ہے اور چاند موجود ہے اور وہ نور آفتاب سے حاصل کرتا ہے اور روز روشن بھی سب کو نظر آتا ہے اور رات بھی سب کو دکھائی دیتی ہے اور آسمان کا پول بھی سب کی نظر کے سامنے ہے اور زمین تو خود انسانوں کی سکونت کی جگہ ہے اب چونکہ یہ تمام چیزیں اپنا اپنا کھلا کھلا وجود اور کھلے کھلے خواص رکھتی ہیں جن میں کسی کو کلام نہیں ہو سکتا اور نفس انسان کا ایسی چھپی ہوئی اور نظری چیز ہے کہ خود اس کے وجود میں ہی صدہا جھگڑے برپا ہو رہے ہیں.بہت سے فرقے ایسے ہیں کہ وہ اس بات کو مانتے ہی نہیں کہ نفس یعنی روح انسان بھی کوئی مستقل اور قائم بالذات چیز ہے جو بدن کی مفارقت کے بعد ہمیشہ کے لئے قائم رہ سکتی ہے اور جوبعض لوگ نفس کے وجود اور اس کی بقا اور ثبات کے قائل ہیں وہ بھی اس کی باطنی استعدادات کا وہ قدر نہیں کرتے جو کرنا چاہیے تھا بلکہ بعض تو اتنا ہی سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم صرف اسی غرض کے لئے دنیا میں آئے ہیں کہ حیوانات کی طرح کھانے پینے اور حظوظ نفسانی میں عمر بسر کریں وہ اس بات کو جانتے بھی نہیں کہ نفس انسانی کس قدر اعلیٰ درجہ کی طاقتیں اور قوتیں اپنے اندر رکھتا ہے اگروہ کسب کمالات کی طرف متوجہ ہو تو کیسے تھوڑے ہی عرصہ میں تمام عالم کے متفرق کمالات وفضائل وانواع پر ایک دائرہ کی طرح محیط ہو سکتاہے.سو اللہ جلشانہ نے اس ۱؎ سورہ مبارکہ میںنفس انسان اور پھر اس کے بے نہایت خواص فاضلہ کا ثبوت دینا چاہا ہے پس اول اس نے خیالات کو رجوع دلانے کے لئے شمس اور قمر وغیرہ چیزوں کے متفرق خواص بیان کر کے پھر نفس انسان کی طرف اشارہ فرمایا کہ وہ جامع ان تمام کمالات متفرقہ کا ہے اور جس حالت میں نفس میں ایسے اعلیٰ درجے کے کمالات وخاصیات بتمامہا موجود ہیں جو اجرام سماویہ اور ارضیہ میں متفرق طور پر
پائے جاتے ہیںتو کمال درجہ کی نادانی ہو گی کہ ایسے عظیم الشان اور مستجمع کمالات متفرقہ کی نسبت یہ وہم کیا جائے کہ وہ کچھ بھی چیز نہیں جو موت کے بعد باقی رہ سکے یعنی جب کہ یہ تمام خواص جو ان مشہود ومحسوس چیزوں میں ہیں جن کا مستقل وجود ماننے میں تمہیں کچھ کلام نہیں.یہاں تک کہ ایک اندھا بھی دھوپ کا احساس کر کے آفتاب کے وجود کا یقین رکھتا ہے.نفس انسان میں سب کے سب یکجائی طور پرموجود ہیں تو نفس کے مستقل اور قائم بالذات وجود میں تمہیں کیا کلام باقی ہے.کیا ممکن ہے کہ جو چیز اپنی ذات میں کچھ بھی نہیں وہ تمام موجود بالذات چیزوں کے خواص جمع رکھتی ہو؟اور اس جگہ قسم کھانے کی طرز کو اس وجہ سے اللہ جل شانہ نے پسند کیا ہے کہ قسم قائم مقام شہادت کے ہوتی ہے.اسی وجہ سے حکام مجازی بھی جب دوسرے گواہ موجود نہ ہوں تو قسم پر انحصار کر دیتے ہیں اور ایک مرتبہ کی قسم سے وہ فائدہ اٹھا لیتے ہیں جو کم سے کم دو گواہوں سے اٹھا سکتے ہیں.سو چونکہ عقلاً ۱؎ و عرفاً و قانوناً و شرعاً قسم شاہد کے قائم مقام سمجھی جاتی ہے لہٰذا اسی بناء پر خدائے تعالیٰ نے اس جگہ شاہد کے طور پر اس کو قرار دیا ہے.پس خدا تعالیٰ کا یہ کہناہے کہ قسم ہے سورج کی اور اس کی دھوپ کی درحقیقت اپنے مراد ی معنے یہ رکھتا ہے کہ سورج اور اس کی دھوپ یہ دونوں نفس انسان کے موجود بالذات اور قائم بالذات ہونے کے شاہد حال ہیں.کیونکہ سورج میں جو جو خواص گرمی اور روشنی وغیرہ پائے جاتے ہیںیہی خواص مع شئی زائد انسان کے نفس میں بھی موجود ہیں.مکاشفات کی روشنی اور توجہ کی گرمی جو نفوس کاملہ میں پائی جاتی ہے اس کے عجائبات سورج کی گرمی اور روشنی سے کہیں بڑھ کر ہیں.سو جب کہ سورج موجود بالذات ہے تو جو خواص میں اس کا ہم مثل اور ہم پلہ ہے بلکہ اس سے بڑھ کر ہے یعنی نفس انسا ن ہے وہ کیونکر موجود بالذات نہ ہو گا.اسی طرح خدائے تعالیٰ کا یہ کہنا کہ قسم ہے چاند کی جب وہ سورج کی پیروی کرے اس کے مرادی معنے یہ ہیں کہ چاند اپنی اس خاصیت کے ساتھ کہ وہ سورج سے بطور استفادہ نور حاصل کرتا ہے نفس انسان کے موجود بالذات
اور قائم بالذات ہونے پر شاہد حال ہے کیونکہ جس طرح چاند سورج سے اکتساب نورکرتا ہے اسی طرح نفس انسان کا جو مستعد اور طالب حق ہے ایک دوسرے انسان کامل کی پیروی کر کے اس کے نور میں سے لے لیتا ہے اور اس کے باطنی فیض سے فیض یاب ہو جاتاہے بلکہ چاند سے بڑھ کر استفادہ نور کرتا ہے کیونکہ چاند تو نورکو حاصل کر کے پھر چھوڑبھی دیتاہے مگر یہ کبھی نہیں چھوڑتا.پس جب کہ استفادہ نور میں یہ چاند کا شریک غالب ہے اور دوسری تمام صفات اور خواص چاند کے اپنے اندر رکھتا ہے تو پھر کیا وجہ کہ چاند کو تو موجود بالذات اور قائم بالذات مانا جائے مگر نفس انسان کے مستقل طو ر پر موجود ہونے سے بکلی انکار کر دیا جائے.غرض اسی طرح خدائے تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کو جن کا ذکر نفس انسان کی پہلے قسم کھا کر کیا گیا ہے اپنے خواص کے رو سے شواہد اور ناطق گواہ قرار دے کر اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ نفس انسان واقعی طور پر موجو دہے اور اسی طرح ہریک جگہ جو قرآن شریف میں بعض بعض چیزوں کی قسمیں کھائی ہیں.ان قسموں سے ہر جگہ یہی مدعا اور مقصد ہے کہ تا امر بدیہہ کو اسرار مخفیہ کے لئے جو ان کے ہم رنگ ہیں بطور شواہد کے پیش کیا جائے.(توضیح مرام.روحانی خزائن جلد۳ صفحہ۸۰ تا ۸۲) سوال نمبر ۱۵.’’کن سے سب کچھ بنانے والا تھا تو آسمان وزمین کو چھ دن اور تین دن میں کیوں بنایا.‘‘ الجواب.کن کے معنے ہوجا.فیکون کے معنے ہو جاتاہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کسی چیز کے وجود کو چاہتاہے اسی طرح وہ چیز ظہور میں آجاتی ہے.مثلاً بقول دیانند کے جیسا کہ اس نے ستیارتھ پر کاش میں لکھا ہے ’’ابتدائے سرشٹی میں بہت سارے آدمیوں کا وجود یک دم چاہا تو ان کا وجود ایک دم ہو گیا اور ۲۴برس یا چوالیس کے بلکہ اٹھتالیس برس کے جوان پیدا کر دئیے لاکن اب ہمارے زمانہ میں ادھرم پال کے لئے تجویز کیا کہ بی اے ہو کر کچھ دن مدرس رہ کر اور مسلمانوں کا مال کھا کر برہمچریہ بنے.مجھے ٹھیک عمر تو معلوم نہیں مگر بیس تیس کے درمیان یہ وجود
نصیب ہوا.ان حوالہ جات کی تصریح حواو آدم کی پیدائش میں دیں گے.دیکھو ستیارتھ صفحہ۵۱،۵۲.پس سوال کا جواب تو ہو چکا.اصل بات یہ ہے کہ کن کا تعلق بعد الموت ہوا کرتا ہے.تمام قرآن کریم میں مرنے کے بعد پھر جی اٹھنے پر کن فرمایا ہے.قران کریم میں ہے.(الانعام:۷۴)اور عظیم الشان امر یہ ہے کہ وہ اللہ جس نے پیدا کیا آسمانوں،بلندیوں اور زمین کو حکمت کے ساتھ اور جب کہے گا کن تو پھر ہونے والی چیزیں ہو پڑیں گی.اورفرمایا.(النحل:۳۹تا۴۱) اور پکی قسمیں کھا چکے ہیں کہ اللہ زندہ نہ کرے گا مردوں کو ہاں ایسا نہیں بلکہ زندہ کرنا وعدہ سچ ہے ولاکن اکثر لوگ بے خبر ہیں.تو کہ کھول دے ان کے لئے وہ جس میں اختلاف مچاتے ہیں اور منکر جان لیں کہ وہ جھوٹے تھے.بے ریب ہماری بات کسی چیز کے پیدا کرنے میں یوں ہے کہ جب کریں اس کا ارادہ تو کہتے ہیں کہ ہو پس ہو جاتی ہے.(یٰس:۷۹)کھو کھل ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا.اس کلمہ کے بعد ہے.(یٰسٓ : ۸۳) اورآخر کہا ہے اس کی بات ہے کہ جب ارادہ کرتا ہے کسی شئے کا توفرماتا ہے کہ ہو پس ہو پڑتی ہے.(المومن :۶۹) وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے پس جب جاری کرتا ہے حکم تو کہتا ہے ہو جا.پس ہو جاتا ہے.
اور آپ کے یہاں تو پیدائش کا طریق ایسا لکھا ہے جس کی دلیل ہی مفقود ہے.دیکھو ستیارتھ صفحہ۲۹۰.’’پرکرتی سے اکاش اکاش کے بعد وایو.وایو کے بعداگنی.اگنی کے بعد جل.جل کے بعد پرتھوی.پرتھوی سے نباتات.نباتات سے اناج.اناج سے نطفہ.نطفہ سے انسان.‘‘ کیوں دھرم پال یہاں بھی کچھ ستۃ ایام کا پتہ لگ سکتا ہے کہ نہیں اور ہر ایک کمال چھ مراتب طے کرنے کے بعد کامل ہوا کرتا ہے.اور آج کل تو پرائمری ،مڈل.انٹرنس.ایف اے.بی اے.ایم اے.یہ بھی چھ مراتب ہی رکھے گئے ہیں اور یوم کے معنے وقت کے بھی ہیں.سوال نمبر ۱۶.’’خدا کی روح عورت کے رحم میں جا سکتی ہے‘‘ الجواب.او بے حیا !جب خود تمہارا خدا ہر جگہ ہے تو کیا عورت کے رحم میں نہیں اور کیا اس کی روح وہاں سے الگ ہے.سن! تمہارے دیانند گرو نے ستیارتھ میں لکھا ہے.پرمیشر کا نام ہے.کھم.اور یہ پرمیشور کانام اس لئے ہے کہ بمثل خلا محیط ہے.پھر کیا رحم میں خلا نہیں.وشنو.ہر جگہ محیط ہونے کے باعث وہ وشنو ہے.بلارکاوٹ محیط ہونے کے باعث برہم ہے.نیز اگر پر میشور اندر بھی ہے اور باہر بھی تو بہ نسبت دیانند کے ہاتھی اور وہیل مچھلی میں زیادہ ہو گا تو یہ چیزیں دیانند سے اچھی ہوئیں.اور اصل بات یہ ہیہر ایک عمدہ چیز اور پاک شئے کو الٰہی شئے کہا جاتا ہے اسی واسطے تم لوگ ویدوں کو الٰہی کتب.الٰہی علم اور ان کے جاننے والوں کو الٰہی علماء کہتے ہو.اور مسلمان الٰہی کلام کو بھی روح کہتے ہیں.(الا نبیاء :۹۲) کے معنے ہوئے کہ حضرت مریم میں … الٰہی کلام کو پہنچا دیا.اسی طرح حضرت آدم علیہ السلام کی نسبت بھی (صٓ :۷۳) آیا ہے جس کا ترجمہ ہے اور جب میں اپنا کلام اس میں پہنچا دوںیا پھونک دوں.اس کی تفصیل آدم کے قصہ میں آتی ہے.
دوسرا طریق.حضرت مسیح علیہ السلام کو اور ان کی والدہ ماجدہ کو یہود لوگ برے کہتے ہیں اور کہتے تھے.اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید میں فرمایا ہے کہ حضرت مسیح توہماری جانب سے اور ہماری طرف سے ایک پاک روح تھی جو ہمارے حکم سے پیدا ہوئی اور ان کی والدہ بھی صدیقہ تھیں.پاک روحیں اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت پانے کی زیادہ تر مستحق ہیں.اس بات کا ثبوت کہ قرآن میں روح کلام الٰہی کو کہتے ہیں یہ ہے.(الشورٰی:۵۳) (النحل:۳) سوال نمبر ۱۷: ’’(۱)خدا زمین و آسمان پر کرسی نشین ہے گویا ہر جگہ حاضر و ناظر ہے.(۲)عرش پر ہے.(۳)اس کو آٹھ فرشتوں نے اٹھایا ہواہے.(۴)جبرائیل خدا سے نازل ہوتا ہے.(۵)عیسیٰ آسمان پر اڑ گئے (۶)محمد ؐ عربی براق پر سوارہو کر آسمانوں کی سیر اور خدا سے باتوںکے لئے گئے.(۷) شیطان چھپ کر آسمانوں کی باتین سنتے ہیں(۸)فرشتے ستارے توڑ کر شیاطین کو مارتے ہیں‘‘.الجواب.یہ ایک سوال ہے جس میں آٹھ سوال ہیں اور بعض سوال ایسے ہیں کہ ان پر تفصیل چاہیے.مگریہ رسالہ جس قدر گنجائش دے گا اس کے مناسب حال لکھتے ہیں.پہلا سوال محض غلط فہمی اور علوم الٰہیہ حقہ سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے.کیونکہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ تمام آسمانی مذاہب اس پر متفق ہیں.ہاں تارک اسلام کو علوم اسلامی سے نابینائی کی وجہ سے کرسی سے ٹھوکر لگی اور منہ کے بل جہالت کے گڑھے میں گر اہے.سنو!ہماری مکرم کتاب صحیح بخاری میں جسے ہم کتاب اللہ کے بعد اصح الکتب مانتے ہیں لکھا ہے.کرسیّہ علمہ یعنی کرسی کے معنی علم کے ہیں پس معنی (البقرۃ :۲۵۶)کے یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کا علم تمام بلندیوں اور زمین کو وسیع ومحیط
ہو رہا ہے.اب بتاؤ اس مسئلہ میں جو مذاہب اللہ تعالیٰ کے ماننے والے ہیں اور صفات الٰہیہ کے منکر نہیں.ان میں کس کو کلام اور بحث ہے.سوال دوم پر الزامی جواب کو اور سوال سوم کے الزامی کے بعد حقیقی جواب کو ملاحظہ کرو تمہارے یجروید اکتیسویں ادھیائے میں لکھا ہے.دیکھو نمبر ۱’’اسے منشو سب پرانیوں کی ہزاروں آنکھیں ہزاروں پاؤںجس سروتر بیاپک جگ ویشور میں ہیں وہ پرش ہے وہ تمام بھوگول میں سب طرف سے بیاپت یہ پانچ استہول(عناصر خمسہ۱۲) پانچ سوکہشم(حواس ۱۲) یہ دس بہوت جس کے انگ ہیں اور وہ سب جگت ۱؎ کو اولنگھ کر ٹھہراہے.اور منتر نمبر۳.اس ایشور کی سب زمین وغیرہ چراچر جگت (کل مخلوق۱۲)ایک جزو ہیں اس جگت بنانے والے کے تین حصہ ناش رہت مہما اپنے منورسروپ میںہے.اور کہا ہے نمبر۴تین حصوں والا پرمیشور سب سے اور تم سنسار سے الگ مکت سروپ نکلتا ہے اس پرش کا ایک حصہ سے ایک جگت میں پھر ہر پیدائش اور پرلے کا چکر کھاتا ہے.نمبر ۵میں ہے.’’اس براٹ سنسار کے اوپر سردار پورن برہم رہتاہے اس کے بعد بھی وہ پہلے سے ظاہر پرش جگت سے علیحدہ رہتا ہے.‘‘غرض سترہ منتر تک یہی مضمون مکرر کیا گیاہے.پہلے منتر میں یہ لفظ کہ وہ سب جگت کو اولنگھ کر ٹھہراہے منصف انسان کے لئے قابل غور ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ وہ خدا پر میشر سب جگت کو پھاند کر ٹھہرا ہے اور تیسرے منتر کا مطلب ہے کہ خدا پرمیشور کے چار حصہ ہیں ایک حصہ مخلوق میںاور تین حصہ بالاتر ہیں اور نمبر۴ کامطلب ہے کہ پرمیشور سنسار سے الگ ہے اور اس کے تین حصہ خلق سے بالاہیں اور نمبر۵میں ہے اوپر پورن برہم رہتاہے.اور دیوتہ.امرت ناتسو ناس ترتسئے دہام لوگ ندہیر تم کا مطلب اور عرش پر ہے کا مطلب اگر ایک نہ ہوتو ہم ذمہ وار ہیں.تمام مخلوق کو کود کر
سوال سوم.اگر قرآن کریم نے آٹھ کا ذکر کیا ہے تو وہاں فرشتوں کا تذکرہ نہیں مگر آپ کے ہاں صاف مسلم ہے کہ آٹھ دیوتا اس کے تخت سلطنت کو اٹھا رہے ہیں.دیکھو ستیارتھ پرکاش صفحہ ۴۴میں ہے کہ یا گولکیہ جی نے شاکلیئہ کو فرمایا ہے.آٹھ وسو یہ ہیں.پھر ان کی تفصیل کرتے کہا ہے کہ ان سب کو وسو ا س لئے کہتے ہیں کہ ان میں یہ گنج کائنات محفوظ اور قائم ہے.یاگولکیہ کے معتقدو! انسانی بات کو ماننا اور خدائے پاک کی بات کو نہ ماننا کیسی بے انصافی ہے؟ اور حقیقی بات سناتے ہیں.سنو! مسلمانوں کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ عرش کوئی جسمانی اور مخلوق چیز ہے جس پر خدا بیٹھا ہواہے.تمام قرآن شریف کو اول سے آخر تک پڑھو اس میں ہرگز نہیں پاؤ گے کہ عرش کوئی چیز محدود اور مخلوق ہے.خدا نے باربار قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ ہر ایک چیز جو کوئی وجود رکھتی ہے اس کا میں ہی پیدا کرنے والا ہوں.میں ہی زمین و آسمان اور روحوں اور ان کی تمام قوتوں کا خالق ہوں.میں اپنی ذات میں آپ قائم ہوں اور ہر ایک چیز میرے ساتھ قائم ہے ہر ایک ذرہ اور ہر ایک چیزجو موجود ہے وہ میری ہی پیدائش ہے مگر کہیں نہیں فرمایا کہ عرش بھی کوئی جسمانی چیز ہے جس کامیں پیداکرنے والا ہوں.اگر کوئی آریہ قرآن شریف میں سے نکال دے کہ عرش بھی کوئی جسمانی اور مخلوق چیز ہے تو میں اس کوقبل اس کے جوقادیان سے باہر جائے ایک ہزار روپیہ انعام دوں گا.میں اس خدا کی قسم کھاتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتی کاکام ہے کہ میں قرآن شریف کی وہ آیت دکھاتے ہی ہزار روپیہ حوالہ کر دوں گا.ورنہ میں بڑے زورسے کہتا ہوں کہ ایسا شخص خود لعنت کا محل ہو گا جو خدا پر جھوٹ بولتا ہے.اب ظاہر ہے کہ اس اعتراض کی بنیاد تو محض اس بات پر ہے کہ عرش کوئی علیحدہ چیزہے جس پر خدا بیٹھاہوا ہے اور جب یہ امر ثابت نہ ہو سکا تو کچھ اعتراض نہ رہا.خدا صاف فرماتا ہے کہ وہ زمین پر بھی ہے اور آسمانوں پر بھی ہے اور کسی چیز پر نہیں بلکہ اپنے وجود سے آپ قائم ہے اور ہر ایک چیز کو اٹھائے ہوئے ہے اور ہر ایک چیز پر محیط ہے.جہان تین ہوں تو چوتھا ان کا خدا ہے جہاں پانچ ہوں تو چھٹا ان کے ساتھ خدا ہے اور کوئی جگہ نہیں جہاں خدا نہیں.
اور فرماتا ہے.(البقرۃ:۱۱۶)جس طرف تم منہ کرو اسی طرف خدا کا منہ پاؤگے.وہ تم سے تمہاری رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہے.وہی ہے جو پہلے ہے اور وہی ہے جو آخر ہے اور وہ سب چیزوں سے زیادہ ظاہر ہے اور وہ نہاں درنہاں ہے.اور پھر فرماتا ہے.(البقرۃ :۱۸۷) یعنی جب میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں کہ وہ کہاں ہے پس جواب ہے کہ ایسا نزدیک ہوں کہ مجھ سے زیادہ کوئی نزدیک نہیں جو شخص مجھ پر ایمان لا کر مجھے پکارتا ہے تو میں اس کا جواب دیتا ہوں.ہر ایک چیز کی کل میرے ہاتھ میں ہے اور میرا علم سب پر محیط ہے.میں ہی ہوں جوزمین و آسمان کو اٹھارہا ہوں.میں ہی ہوں جو تمہیں خشکی تری میں اٹھا رہاہوں.یہ تمام آیات قرآن شریف میں موجود ہیں.بچہ بچہ مسلمانوں کا ان کو جانتاہے اور پڑھتا ہے.جس کا جی چاہے وہ ہم سے آکرابھی پوچھ لے.پھر ان آیات کو ظاہر نہ کرنا اور ایک استعارہ کو لے کر اس پر اعتراض کر دینا کیا یہی دیانت آریہ سماج کی ہے.ایسا دنیا میںکون مسلمان ہے جو خدا کو محدود جانتاہے یااس کے وسیع اور غیر محدود علم سے منکر ہے.اب یادرکھو کہ قرآن شریف میں یہ تو کہیں نہیں کہ خدا کو کوئی فرشتہ اٹھا رہاہے بلکہ جا بجا یہ لکھاہے کہ خدا ہر ایک کو اٹھا رہا ہے.ہاں بعض جگہ یہ استعارہ مذکور ہے کہ خدا کے عرش کو جو دراصل کوئی جسمانی اور مخلوق چیز نہیں فرشتے اٹھا رہے ہیں.دانش مند اس جگہ سے سمجھ سکتا تھا کہ جب کہ عرش کوئی مجسم چیز ہی نہیںتو فرشتے کس چیز کو اٹھاتے ہیں ضرور کوئی یہ استعارہ ہوگا.مگر آریہ صاحبوں نے اس بات کو نہیں سمجھا کیونکہ انسان خود غرض اور تعصب کے وقت اندھا ہو جاتا ہے.ف.یہ بھی ایک مطلب ہے اور اس کے علاوہ بھی
اب اصل حقیقت سنو کہ قرآن شریف میں لفظ عرش کا جہاں جہاں استعمال ہوا ہے اس سے مراد خدا کی عظمت اور جبروت اور بلندی ہے اسی وجہ سے اس کو مخلوق چیزوں میں داخل نہیں کیا اور خدا تعالیٰ کی عظمت اور جبروت کے مظہر چارہیں جو وید کے رو سے چار دیوتے کہلاتے ہیں مگر قرآنی اصطلاح کے رو سے ان کانام فرشتے بھی ہے اور وہ یہ ہیں.اکاش جس کا نام اندر بھی ہے.سورج دیوتا جس کو عربی میںشمس کہتے ہیں.چاند جس کو عربی میںقمر کہتے ہیں.دہرتی جس کو عربی میں ارض کہتے ہیں.یہ چاروں دیوتا جیسا کہ ہم اس رسالہ میں بیان کر چکے ہیں خدا کی چار صفتوں کو اس کے جبروت اور عظمت کا اتم مظہر ہیں جن کو دوسرے لفظوں میں عرش کہاجاتا ہے اٹھارہے ہیں یعنی عالم پر یہ ظاہر کر رہے ہیں تصریح کی حاجت نہیں اس بیان کو ہم مفصل لکھ آئے ہیں اور قرآن شریف میں تین قسم کے فرشتے لکھے ہیں.(۱)ذرات اجسام ارضی اور روحوں کی قوتیں (۲)اکاش.سورج چاند زمین کی قوتیں جو کام کر رہی ہیں.(۳)ان سب پر اعلیٰ طاقتیں جو جبرئیل ومیکائیل وعزرائیل وغیرہ نام رکھتی ہیں جن کو وید میں جم لکھاہے مگر اس جگہ فرشتوں سے یہ چار دیوتے مراد ہیں یعنی اکاش اور سورج وغیرہ جو خدا تعالیٰ کی چار صفتوں کو اٹھا رہے ہیں.یہ وہی چار صفتیںہیں جن کو دوسرے لفظوں میں عرش کہا گیا ہے.اس فلسفہ کا وید کو بھی اقرار ہے مگر یہ لوگ خوب وید دان ہیں جو اپنے گھر کے مسئلہ سے بھی انکار کر رہے ہیں.اخیر میں سنو.بہولوگ.انترکش.برہم لوگ جس کا ذکر منو ۲.۲۳۳میں ہے اس کے اوپر کس کی حکومت ہے.سوال چہارم.جبرائیل ملک ہے.دیوتا ہے.ملائک اور دیوتا کے متعلق تمہارے گرودیانند کا یہ مذہب تھا کہ وہ مظاہر قدرت ہیں.دیکھو وید بھومکا صفحہ ۴۳.اس کے علاوہ (خدا کے)اور جس قدر دیوتا بتائے گئے ہیں یا آگے بیان کئے جائیں گے وہ سب اسی ایک آتما کے (پرمیشور)پرتی انگ (مظاہر اجزاء قدرت)ہیںکیونکہ وہ اس کے ایک ایک انگ (قدرت کی جزو) کو ظاہر کرتے ہیں انتہیٰ ان دیوتا کا قیام (رتھ.رمن)ٹھہرنے کی
جگہ آتما یعنی پرمیشر ہے.جبرائیل کے اصل معنی جَاوَراَیل ہیں یعنی خدا کا قریب جس طرح تمہاری یہاں آگ قاصد ہے اور ہوم کے ذریعہ تم لوگ(ہب)کستوری.گھی.شہد اور خوشبودار چیزیں وغیرہ اگنی دیوتا کے ذریعہ اور دیوتاؤں کو پہنچاتے ہو اور ان سے نفع حاصل کرتے ہو یا حصول منافع کا خیال کرتے ہو.اس کے بالمقابل انبیاء ورسل اور ان کے ابتاع اولیاء اللہ (یوگی جن)اپنی محنتوں عبادات وذکر الٰہی توجہات اور مراقبوں سے سچے علوم حاصل کرتے ہیں.اور جناب الٰہی ان مظاہر قدرت کو انبیاء ورسل واولیاء کے لئے مفید بناتاہے ان میں سے یہ جبرائیل ہے.تمہارے ہوم اور ہب سے مخلوق دیوتا اگر پرسن ہو سکتے ہیں یا نافع بن سکتے ہیں تو ذکر الٰہی اور عبادت سے خالق دیوتا پرسن ہو کر مکالمہ کا شرف بخشتا ہے اور جبرائیل آدی دیوتا وسائط ہوتے ہیں.سوال پنجم.عیسیٰ آسمان پر اڑ گئے.جواب.عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر نہیں اڑے.قرآن کریم اس کی تکذیب کرتا ہے.قرآن ایک کلی قاعدہ ہر ایک ذی حیات کے لئے باندھتاہے اور اس قاعدہ کلیہ سے کسی کو مستثنیٰ نہیں کرتا.اس کے خلاف اعتقاد رکھنے والا قرآن کریم میں بتائی ہوئی خدا کی سنت کا مکذب اور بے ایمان ہے.وہ آیت یہ ہے.(المرسلات:۲۶،۲۷) ہم نے زمین کو مردوں اور زندوں دونوں کو اپنی طرف جذب کرنے والی بنایا.اس کی کشش ثقل کسی کو اپنے اندر اور اپنے اوپر لینے اور رکھنے کے سوا چھوڑتی ہی نہیں.پھر خدا تعالیٰ نے اسی اپنی سنت کو حضرت خاتم النبیین ﷺکے ایک نمونہ سے اور بھی صاف کر دیا جب کفار مکہ نے آپ سے سوال کیا کہ تو آسمان پر چڑھ جا تو خود خدا تعالیٰ نے اپنے نبی کو ارشاد کیا کہ یوں جواب دو (بنی اسرائیل :۹۴) تو کہہ میرا رب ایسے ناجائز سوالوں کے جواب اور ایسی لغو حرکات سے پاک ہے کہ اپنی سنت کو توڑے.یہ ا س کی مصلحت کے برخلاف ہے.میں تو بشر رسول ہوں اور بشر
رسول کا آسمان پر بجسم عنصری جانا سنن الٰہیہ کے خلاف ہے.سوال ششم.ہمارے نبی کریم براق پرسوار ہوئے اور خدا سے بات چیت کی اور آسمانوں کی سیر کو گئے اس پر ہنسی اور تمسخر کیاہے.الجواب.یہ سب امور حق ہیں ان کی معانی کے لئے اس علم کی لغت کو دیکھو جس کو علم الرؤیا کہتے ہیں.علم الرؤیا کی معتبر کتاب تعطیر الانام میں لکھا ہے.جو کوئی دیکھے کہ براق پر سوارہوا وہ مراتب عالیہ پر پہنچے گا اور اس کو سفر میں عزت ملے گی اور جہاں سے گیا وہاں باعزت واپس ہوگا.چنانچہ ہمارے نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایسا ہی معاملہ ہوا کہ آپ مکہ سے نکلے اور پھر کس شان کے ساتھ جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں بامراد اور منصور مکہ میں داخل ہوئے.پھر اسی میں لکھا ہے جو دیکھے کہ وہ پہلے آسمان پر گیا اس کی عمر بہت بڑی نہ ہو گی اور جو دوسرے پر جاوے وہ عالم وحکیم ہو اور جو تیسرے پر جاوے اس کی عزت واقبال زیادہ ہو اورجو چوتھے پر جاوے وہ بادشاہوں کی نظروں میںمعزز ہو اور جو پانچویں پر جاوے اس کو جزع وفزع اور مشکلات پیش آویں اور جو چھٹے پر پہنچے اس کو سعادت وجاہ حاصل ہو اور جو جنا ب الٰہی کا درشن کرے اس کا انجام بخیر ہو.یہ ساری باتیں جو عزت اور جاہ اور علو اور انجام بخیر اور کامیابی کے متعلق ہیں وہ سب ہمارے نبی کریم ﷺ کے حق میں احسن و جہ سے پوری ہوئیں.یہ سیر آسمان ایک مکاشفہ ہے اس کی تاویل و تعبیر اسی علم کی کتابوں میں دیکھنی چاہیے.افسوس تم پر ! تم نے خواہ مخواہ اعتراض کا ٹھیکہ لے کر ثابت کر دیا ہے کہ کسی سچے علم سے تمہیں کوئی مناسبت نہیں اور التزام کر لیا ہے کہ ہر ایک حق اور حقیقت کا انکار کر دیا جاوے.کون سی قوم ہے جو علم مکاشفہ سے انکار کر سکتی ہے اور اس مکاشفہ کا تو انکار ہو بھی نہیں سکتا کیوں کہ واقعات نفس الامر یہ نے اس کی تصدیق کر دی ہے.پھر یاد رکھو کہ معراج فقط ایک خواب ہی نہیں بلکہ حقیقی معراج تو حضور کی فطرت میں موجود تھا فداہ ابی وامی صلی اللہ علیہ وسلم اور یہ معراج اس حقیقت کا اظہار تھا اور اعلیٰ اظہار تھا اور واقعات نے اس پر مہر لگا دی.
فائدہ.معراج میں ایک لطیف جسم ہوتا ہے جو اس جسم کثیف سے الطف اور قویٰ میں قوی تر ہوتا ہے ہم نے کسی سوال کے جواب میں دکھایا ہے کہ نفس انسانی (روح)کے ساتھ جسم لطیف اور قویٰ قائم رہتے ہیں اور ثم استیقظ کا لفظ جو اصح الکتب بعد کتاب اللہ میں ہے اس ہماری بات کی تصدیق کرتاہے.سوال نمبر ۱۸.’’اللہ تعالیٰ نے شرک کرایا کہ آدم کو فرشتوں سے سجدہ کرایا‘‘ الجواب.اول تو اللہ تعالیٰ احکام شرعیہ کا مکلف نہیں ہو سکتا کیا یک پویت کرتا ہے.کیا برہمچریہ ہے کیا سنیاسی ہے.کیا وواہ یا نیوگ کرتا ہے.نہیں ہرگز نہیں.دوم.سجدہ کے معنے تو فرمانبرداری کے ہیں.خود قرآن میں ہے.(الحج :۱۹) اور اللہ کی فرمانبرداری کرتے ہیں جو آسمانوں میں اور جو زمین میں ہیں.(النحل:۵۰) اور اللہ کی فرمانبرداری کرتا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور زید الخیل قصیدہ میں ہے.بجمع تضل البلق فی حجراتہ تری الاکم فیھا سجد اللحوافر پھر کیا اچھے لوگوں کی خصوصاً ان لوگوں کی فرمانبرداری جو اللہ کی طرف سے خلیفہ ، بادشاہ، حکام رسول ہو کر آتے ہیں شرک ہو سکتی ہے.ہرگز نہیں.الٰہی خلفاء کی اطاعت و انقیاد وفرمانبرداری ،سیاست و تمدن کا اعلیٰ اور ضروری مسالہ ہے بلکہ ان کی فرمانبرداری خود الٰہی فرمانبرداری ہے قرآن میں ہے.(النساء :۸۱) اور فرمایا:(النساء :۶۰) کیا تم نے نہیںسنا یا ستیارتھ میں نہیں پڑھا جہاں لکھا ہے کہ عورتوں کی ہمیشہ پوجا کرنی چاہیے
اگر کوئی معنی پوجا کے کئے جا سکتے ہیں تو سجدہ کے کیوں نہیں کئے جاتے.آج ایسا اعتراض کرنا اور ایسے شخص کے منہ سے ایسا اعتراض نکلنا جو انگریزی پڑھا ہے کس قدر شرم کی بات ہے.انگریزی زبان میں ورشپ کا لفظ کس قدر وسیع اور روز مرہ کی بول چال میں آتا ہے حتیٰ کہ ججوں کو ہزورشپ کہا جاتاہے.اس کے معنے سوائے اس کے اور کیا ہیں کہ وہ قابل اطاعت شخص ہیں.قرآن میں آیا ہے کہ درخت اور چار پائے اور آسمان زمین کی ساری چیزیں خدا کو سجدہ کرتی ہیں اور امرء القیس کے شعر میں ہے کہ تمام جنگل ان گھوڑوں کے سموں کو سجدہ کرتے تھے.اب صاف ظاہر ہے کہ وہ سجدہ عرفی نہیں جو زمین پر گر کر پیشانی کو زمین سے ٹکرا دیتے ہیں.(النحل :۵۰) اللہ کی فرمانبرداری کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں.(الحج :۱۹) اوراللہ کی فرمانبرداری کرتا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے.تو کیا آسمان وآسمان کی چیزیں اور زمین کی زمین پر گرتی ہیں.تمہارے آریہ مسافر کے جواب میں اور تنقیہ والے کے دفاع میں ہم نے ایک مضمون لکھا تھا جب وہ مرگیا توہم نے اس مباحثہ سے اعراض کیا اور یہ مضمون پڑا رہا.اب جو تم نے نئی چھیڑ کی تو اس مضمون کو مختصراً لکھ دیتے ہیں.آریہ مسافر اور تنقیہ والے کا اعتراض حسب ذیل ہے.’’جس زمانہ میں کہ آنحضرت محمد صاحب ہوئے تھے اس وقت بت پرستی بہت پھیلی ہوئی تھی الی ان قال‘‘ ’’مگر چونکہ ان کی سرشت میں بت پرستی بھری ہوئی تھی احکامات مندرجہ عین بت پرستی کے ظاہر وصادر ہوئے‘‘.پہلا حکم.(البقرۃ:۳۵) یہ آدم پرستی ہوئی.
تیسرا حکم.. (النمل:۸تا۱۰) یہاں آگ کو خدا جانا.۱.(النساء:۱۳۷) ۲. (النساء:۱۵) ۳.(التوبۃ:۶۱) ۴. (التوبۃ:۶۲) ۵.(التوبۃ:۶۳) یہ سب رسول پرستی ہے.یہ خلاصہ تنقیہ دماغ کے صفحہ ۱۰۵، ۱۰۶، ۱۰۷ کا ہے.الجواب.قرآن مجید اور اہل القرآن جس قدر شرک وبت پرستی کے مخالف ہیں اتنا تو درکنار اس کے قریب قریب بھی کوئی مذہب دنیا میں بت پرستی کامخالف نہیں.سوچو کس کتاب میں یہ کلمہ لکھا ہے.(حٰم السجدۃ :۳۸)سورج اور چاند کو سجدہ مت کرو.کیا وید میں ایسی باتیں ہیں کہ وایو.آگ.جل.سورج.چاند.زمین کی پرستش نہ کرو اگر ان مادیات کی پرستش کی مخالفت ہوتی تو جل پرست وغیرہ کہاں سے پیدا ہوتے اور کس کتاب میں ہے.(النساء :۴۹)
اللہ معاف نہیں کرتا کہ اس سے شرک کیا جائے اور اس کے نیچے درجے جسے چاہے معاف کرتاہے.(النساء :۱۱۷) اور جس نے اللہ سے شرک کیا وہ سخت بہک گیا. (المائدۃ :۷۳) یہ پختہ بات ہے کہ جو اللہ سے شرک کرے اللہ جنت کو اس پر حرام کر دیتا ہے اور اس کا ٹھکانا آگ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا.(النساء :۴۹) اور جس نے اللہ سے شرک کیا اس نے بڑی بدی کی بات تراشی.(الاحقاف :۶) اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہے جو اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کرتاہے.(بنی اسرائیل:۴۰) اور تو اللہ کے ساتھ اور معبود مت ٹھہرا ورنہ تو ذلیل اور راندہ ہو کر جہنم میں گرایا جائے گا.(الجن:۲۰) اور جب اللہ کابندہ اس کی عبادت کے لئے اٹھا قریب تھا کہ اس پر ٹوٹ پڑتے. (النمل :۶۰)کہہ حمد اللہ کے لئے اور سلام اس کے برگزیدہ بندوں پر بتاؤ اللہ خیروبرکت ہے یا وہ جنہیں شریک ٹھہراتے ہیں.
(النمل :۶۱) کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمہارے لئے بادل سے پانی اتارا.پھر ہم نے اس سے خوش نما باغ اگائے.تمہاری قدرت میں نہ تھا کہ تم درختوں کو اگاتے.بتاؤ کیا اللہ کے ساتھ کوئی معبود ہے.اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ مشرک ہیں.(النمل :۶۲) ترجمہ.کس نے زمین کو تمام چیزوں کے لئے قرار گاہ بنایا اور اس میں دریا رواں کئے اور اس کے لئے پہاڑ بنائے اور دو دریاؤں کے درمیان روک بنائی بتاؤکوئی اور معبود اللہ کے ساتھ ہے.اصل بات یہ ہے کہ یہ نادان لوگ ہیں.(النمل:۶۳) کو ن ہے جو بیچارہ کی آواز سنتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور اس کے دکھوں کو دور کرتا ہے اور تمہیں زمین پر دوسروں کے جانشین بناتا ہے.بتاؤ کوئی اور معبود اللہ کے ساتھ ہے تم نصیحت کو بہت ہی کم قبول کرتے ہو.(النمل:۶۴) کون ہے جو برّ وبحر کی تاریکیوں میں تمہیں راہ دکھاتا ہے اور کون ہے جو اپنی رحمت (باران)کے آگے آگے خوشخبری دینے والی ہواؤں کو بھیجتا ہے.بتاؤ کوئی اورمعبود اللہ کے ساتھ ہے.بلند اور پاک ہے اللہ ا ن کی تمام شرک کی باتوں اور شریکوں سے.
(النمل :۶۵،۶۶)کون ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے بتاؤ کوئی معبود اللہ کے ساتھ ہے کہہ کوئی دلیل تو لاؤ اگر سچے ہو.کہہ آسمانوں اور زمین میں جو ہیں وہ غیب کو نہیں جانتے سوا اللہ کے انہیں کوئی پتا نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے.یہ نمونہ ہے ان کلمات طیبات کا جن میں شرک کا استیصال کیا گیا ہے اور قرآن میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس میں اختلاف اور تناقض نہیں.پھر کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ایسی صریح اور پُرشوکت تعلیم کے خلاف یہ الزام لگایا جائے کہ اس میں شرک کی تعلیم ہے.اگر آریہ میں غیرت ہے تو ہم ا نہیں بلاتے ہیں کہ ایسی پاک تعلیم شرک کے خلاف وید سے نکال کر دکھائیں.کاش وید میں کوئی صاف فقرہ ایسا ایک ہی ہوتا تو اتنی مخلوق ناپاک بت پرستی میں گرفتار نہ ہوتی.یہ وید کی بقول دیانند کے استعارہ آمیز تعلیم کا نتیجہ ہے کہ کل ہندوستان لامعلوم برسوں سے طرح طرح کی مخلوق پرستیوں کی نحوست میں مبتلا ہے.قرآن کریم اپنی نسبت دعویٰ کرتاہے جیسے فرمایا.(النساء:۸۳)اگر قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتا تو اس میں بہت اختلاف پاتے.بلکہ قرآن مجید کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(النحل:۶۵) قرآن اسی لئے اتارا ہے کہ لوگوں کی تمام اختلافی باتوں کا حَکم بن کر فیصلہ کرے.اس صورت میں کیونکر ہو سکتاہے کہ قرآن کریم میں شرک کی تعلیم ہے. (الکھف:۶) اب اس اعتراض کا جواب سنئے جس کو تنقیہ کے نہایت نافہم مگر تکذیب والے سے کسی قدر مہذب نے بیا ن کیا ہے.تنقیہ کا مؤلف کہتا ہے کہ قرآن مجید اور حضرت ہادی اسلام نے آدم پرستی.
کعبہ پرستی.آگ پرستی.رسول پرستی سکھائی ہے.لاحول و لا قوۃ الا باللہ.میں نے تکذیب والے سے تنقیہ والے کو مہذب اس لئے کہا ہے کہ اس نافہم نے تکذیب کے صفحہ ۲۱۰میں پیر پرستی.سخی سرورپرستی.شمس پرستی.تابوت سکینہ پرستی.کو اسلام کی طرف منسوب کیا ہے بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ یاجبرائیل کا وظیفہ کرتے ہیں.مؤلف تنقیہ کوتو دلیل کا خیال بھی آیاہے مگر مکذب نے سب کچھ بے دلیل ہانک دیا.بہرحال سنو! پرستش کے معنے عبادت اور پوجا کے ہیں.عبادت عربی زبان میں کس کو کہتے ہیں.قاموس اللغہ اور ا س کی شرح تاج العروس میں لکھا ہے.العبادۃ : فعل مایرضی بہ الرب.عبد عبادۃ وعبودۃ وعبودیۃ.اطاعہ اعبدوا ربکم.اطیعوا ربکم.پھر سوچنا چاہیے علاوہ بریں آدم علیہ السلام کا قصہ ایک تاریخی واقعہ کا بیان ہے.اس واقعہ کے بیان سے یہ کہاں سے نکلا کہ حضور علیہ السلام ہمارے نبی کریم نے ملائکہ کو آدم کے سجدہ کا حکم دیا.بت پرستی اور بتوں کو قرآن نے رجس فرمایا جیسے فرمایا (الحج:۳۱)اور (البقرۃ :۱۲۶) کامطلب یہ ہے کہ مکہ معظمہ کو بت پرستی اور بتوں سے پاک کر دو.یہاں بت پرستی کا استیصال ہوا یا بت پرستی ہے؟ نیز ملائکہ کا آدم کو سجدہ کرنا اور اہل اسلام کا بیت اللہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا یا مکہ معظمہ میں اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنا اور پیغمبر صاحب کی بات کو ماننا کیا اپنے نفس وہوا کی فرمانبرداری ہے.کیا آدم کا حکم ہے کیا کعبہ کا حکم.کیا حضرت نبی عرب کا اپنا حکم ہے یا حسب اعتقاد اہل اسلام کے اللہ تعالیٰ کا حکم.اگر باعتقاد اہل اسلام اللہ تعالیٰ کا حکم ہے تو اللہ کی عبادت ہوئی نہ آدم اور کعبہ اور رسالت مآب کی.ہاں بت پرست کی بت پرستی شرک ہو گی کیونکہ اس پر الٰہی فرمان نہیں.پھر حضرت سیدنا ابو البشر آدم خلیفہ تھے.الٰہی خلفاء کی فرمانبرداری اور الٰہی رسولوں کی فرمانبرداری
ی اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری ہوا کرتی ہے.کیا تم کو اتنی بھی خبر نہیں کہ رسول کے معنے ایلچی کے ہیں.ایلچی پیام رساں کی اس امر میں فرمانبرداری جس میں وہ پیامبر ہو کر کسی کے حکم کو پہنچاتا ہے حکم بھیجنے والے کی فرمانبرداری ہوا کرتی ہے اسی واسطے صحابہ کرام کو جب حضرت سرور عالم کوئی حکم فرماتے تو بعض وقت وہ پوچھ لیا کرتے کہ اَوَحْیاً اَمْ مَشْوَرَۃ.آگ پرستی کا تو قرآن میں کہیں ذکر ہی نہیں اور جس آیت سے استدلال کیا ہے اس آیت کی تفسیر بتفصیل میں نے تصدیق براہین احمدیہ کے صفحہ نمبر ۱۳۰،۱۳۵میں کر دی ہے.علاوہ بریں کعبہ پرستی کے اتہام پر گزارش ہے کہ اہل اسلام کا کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا کعبہ پرستی ہرگز نہیں ہو سکتی.اوّل.تو اس لئے کہ استقبال کعبہ کے صرف اتنے معنے ہیں کہ کعبہ کی طرف منہ ہو اور بت پرستی کا حاصل یہ ہے کہ بت معبود ہوں.دوم.نماز میں کعبہ کی طرف منہ ہونا چاہیے.اس امر کی نیت بھی شرط نہیں کہ کعبہ کی طرف منہ ہوچہ جا ئیکہ کعبہ کی عبادت کی نیت ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی نیت ضرور ہے.سوم.ابتدا نماز سے نماز کے آخر تک اسلامی نماز میں تعظیم کعبہ کا کوئی لفظ نہیں.نماز اللہ اکبر کے لفظ سے شروع ہوتی ہے اوررحمۃ اللہ کے لفظ پر ختم ہوجاتی ہے اللہ ہی کے نام سے شروع اور اسی کے نام پر ختم ہوتی ہے.چہارم.کعبہ کی دیواروں کا نمازی کے مقابل ہونا بالکل شر ط نہیں اگر بالفرض کعبہ کی دیواریں منہدم ہو جاویں جیسے حضرت عبد اللہ بن زبیر کے وقت نئے سرے کعبہ کی تعمیر کے وقت اتفاق ہواتو بھی نماز ادا کی جاتی ہے.اگر کعبہ کی دیوار معبود ومسجود ہوتی تو ضرور تھا کہ اتنے دنوں نماز موقوف رہتی.غور کرو ! اگر شیو دوارے اور رگہنا تھ جی کے مندر کے بت اٹھوا کر کہیں اور جگہ رکھوا دیں تو پھر بت پرست لوگ تمام بت پرستی کے فرائض اسی دوسری جگہ ادا کرتے ہیں اور پہلی جگہ کو کوئی نہیں پوچھتا.
پنجم.خانہ کعبہ کو اسلام والے بیت اللہ کہتے ہیں اور بالکل ظاہر ہے کہ کوئی شخص کسی کے مکان کو جاتا ہے تو اس کا مطلب مکان والا ہوا کرتاہے.کسی تخت نشین بادشاہ اور بزرگ کے آداب ونیاز اس کے تخت کے سامنے تخت کے آداب نہیں ہوا کرتے اور بت پرست بتوں کو خدا نہیں جانتے بلکہ جن کے بت ہوا کرتے ہیں ان کامظہر جانتے ہیں.ششم.مستحق عبادت اسلام کے نزدیک صرف وہ ہے جو خود موجود کل کے نفع و ضرر کا مالک و مختار ہو اور اس کا نفع وضرر کسی سے ممکن نہ ہو.وہی جس کا کمال جلال وجمال ذاتی ہو اور تمام اس کے سوا اپنے وجود وبقا میں اسی کے محتاج سب کے کمالات جمال وجلال اسی کے عطا ہوں اور ایسی چیز اللہ تعالیٰ کے ماسوا اہل اسلام کے نزدیک کوئی بھی نہیں.سب سے افضل ،اکمل ،اتم حضرت سید ولد آدم ﷺ کا وجود باجود ہے.ان کی پاک جناب کو بھی اسلامی اللہ کا بندہ اللہ کا رسول ہی اعتقاد کرتے ہیں.اسلام کا اعتقاد ہے کہ ایک ذرہ کے بنانے کا بھی اختیار انہیں نہیں.ایک رتی برابر کسی کے نقصان دینے کی قدرت نہیں.آپ خالق کائنات نہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.. . .. (الجن :۱۹تا۲۴) اور مسجدیں اللہ کے لئے ہیں پس اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو.اور جب اللہ کا بندہ اس کی عبادت کے لئے اوٹھا تو اس پر ٹوٹ پڑنے لگے.کہہ میں اپنے رب کی عبادت کرتا ہوں اور کسی کو اس کے ساتھ شریک نہیں کرتا.کہہ میں تمہارے ضرر اور نفع کا اختیار نہیں رکھتا.کہہ کوئی مجھے خدائی عذاب سے پناہ نہیں دے سکتا اور نہ میرے لئے اس کے سوا کوئی پناہ کی جگہ ہے میرا کام تو
صرف خدا کے پیغام پہنچا دینا ہے.عبادت واطاعت اور فرمانبرداری کا اصل باعث امید وبیم ہے اسی واسطے بت پرست بتو ں کی عبادت کرتے ہیں کہ ان سے ان کو نفع کی امید وضرر کا ڈر ہے اور اہل اسلام کو کعبہ کی نسبت یہ اعتقاد نہیں.ہندی بت پرست اور عیسائی قوموں کا یہ حال ہے کہ ہندو بت پرست تو پرمیشر کو اکرتا اور نرنکار شترتا اور مترتا سے پوتر جان کرشیو اور بشنو وغیرہ ہزاروں دیوتا کی پرستش کیا کرتے ہیں جن سے ان کو امید وخوف ہوتاہے اور عیسائی باری تعالیٰ کو ایسا عادل جو نجات نہ دے سکے یقین کر کے حضرت سیدنا مسیح علیہ السلام کو منجی نجات دینے والا اعتقاد کر کے ان کی پرستش کرتے اور عبادت کرکے شرک میں گرفتار ہیں.ہفتم.علم اگر معلوم کا تابع ہے تو حکم محکوم کا تابع نہیں.حکم ہمیشہ حاکم کا تابع ہوا کرتا ہے کیا معنے؟ علم میں عالم کی رضا واختیار کو دخل نہیںجیسا معلوم ہوتا ہے ویسا ہی سچا علم ہوا کرتا ہے اور حکم میں حاکم کو اختیار ہوتا ہے اپنی مرضی کے مطابق جو چاہے حکم کر دے.محکوم کی مرضی کو اس میں دخل نہیں.محکوم کا فرض ہے کہ حاکم کا حکم سن کر اس میں چون وچرا نہ کرے بلکہ حاکم کی مرضی کا تابع رہے.مگر ہاں قابل لحاظ یہ امر ہے کہ اگر وہ حکم ایسے علم واعتقاد پر مبنی ہو جو خلاف واقعہ ہے تو پھر اس حکم کو بلاتامل اغواء شیطانی سمجھے نہ ارشاد ربانی کیونکہ لاجرم علم معلوم کے تابع ہوا کرتا ہے مثل حکم تابع حاکم نہیں.اگر یہ بات ہے تو پھر استقبال کعبہ میں حکم الٰہی کی تعمیل لازم ہے.اس لئے کہ اس حکم کا مدار کسی اعتقاد خلاف واقعہ امر پر نہیں بلکہ کسی واقعی اعتقاد کی بھی ضرورت نہیں فقط حکم کی ضرورت ہے.البتہ اگر اسلام میں استقبال کعبہ میں کعبہ پرستی ہوتی تو بے ریب مثل بت پرستی کے یہاں بھی اس اعتقاد کی ضرورت ہوتی کہ کعبہ عبادت کا مستحق ہے مگر اسلام میں استقبال کعبہ کا مطلب اتنا ہے کہ خدا کی عبادت اس طرف کرو کیونکہ اوّل تو انسان مقید فی الجہت ہے اگر اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم ہوتا کہ جہت سے علیحدہ ہو کر جسمانی عبادت کرے تو انسان پر تکلیف مالایطاق کا بوجھ ڈالا جاتا
اس لئے جسم کے لئے چونکہ جہت لازمی تھی اس کے لئے جہت تجویز ہوئی.قبلہ نما قاسم العلوم.ہاں پورب کو منہ کرکے عبادت کرنا سورج پرستی معلوم ہوتی ہے.منو ۲.۷۵ اور ہوم کے وقت آگ کی طرف منہ کر کے اہوتی دیتے ہو جو آگ پرستی ہے.سوال نمبر ۱۹.’’ظالم نہیں تو نوح کی خاطر تمام دنیا کو کیوں غرق کیا‘‘ الجواب.تمام دنیا کو غرق کر دینا قرآن کریم میں ہرگز نہیں.اس کی عربی تو اغرقنا الدنیا کلّھاہے اور یہ لفظ قرآن میں ہرگز نہیں مگر بتاؤ جل سے سرشٹی کیونکر ہوتی ہے او رکیوں ہوتی ہے.جل پرلے اور اس کے نیچے کی پرلے آپ کو معلوم نہ ہوں تو دیکھو ستیارتھ صفحہ ۲۹۰.’’جب مہاپرلے ہوتا ہے تب اس کے بعد اکاش وغیرہ کی ترتیب ہے اور جب اکاش اور وایو کا پرلے نہیں ہوتا اور اگنی وغیرہ کا ہوتا ہے تو اگنی (حرارت) وغیرہ کی ترتیب سے اورجب ودیت اگنی (حرارت برق) کا بھی ناش نہیںہوتا تب پانی کی ترتیب سے دنیا پیدا ہوتی ہے.‘‘ یہاں دیکھ لو کہ ایک وقت میں تمام دنیا پر جل آتا اور سب کچھ ہلاک ہوجاتا ہے گوہم ایسی باتوں کے قائل نہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ طاعون کی سزا میں پہلے کیڑے مکوڑے پھر چوہے ہلاک ہوتے ہیں.سنو ! خالق کو جس طرح پیدا کرنے کا اختیار مارنے کابھی ہے.سوال نمبر۲۰.’’خدا نے خود دلوں پر مہر لگا دی اور کانوں میں پردے ڈال دئیے تو انبیاء کا بھیجنا حماقت ہے خدا خود دوزخ میںجاوے‘‘ الجواب. (البقرۃ :۸) ھمکا لفظ یہاں تین بار آیا ہے اور یہ ضمیر جمع مذکر غائب کی ہے جس کے معنے ہیں ’’وہ لوگ‘‘پس معلوم ہوا کہ یہ ذکر ایسے لوگوں کا ہے جن کا پہلے کوئی ذکر آچکا ہے.اس لئے ھم کے معنے سمجھنے کے لئے ضرور ہوا کہ ماقبل کو ہم دیکھ لیں.تو جب ہم نے ماقبل کو دیکھا تو یہ آیت موجود ہے.
(البقرۃ :۷) اس بیان سے اتنا تو معلوم ہوا کہ وہ ایسے منکرلوگ ہیں جن کے لئے ختم اللہ کا ارشاد ہے.عام نہیں.پھر قرآن کریم نے صاف صاف بیان فرمایا ہے جہاں ارشاد کیا ہے. (النساء :۱۵۶) یعنی ان کے کفر کے سبب ان کے دلوںپر مہر لگا دی.اس سے معلوم ہوا کہ مہر کا باعث کفر ہے.انسان کفر کو چھوڑے تو مہر ٹوٹ جاتی ہے.اسی طرح فرمایا: (المومن :۳۶) پس تفصیل دونوں آیتوں کی یہ ہے (البقرۃ : ۷) (تحقیق جن لوگوں نے کفر کیا)یاد رکھو کہ کفر کرنا کافر انسان کا اپنا فعل ہے.جیسے قرآن کریم نے بتایا اور یہ پہلی بات ہے جو کافر سے سرزد ہوئی ہے اور یہ کفر خدا داد روحانی قوتوں طاقتوں سے کام نہ لینے سے شروع ہوا جو دل کی خرابی کانشا ن ہے.(برابر ہو رہا ہے ان کے نزدیک خواہ ڈرایا تو نے یا نہ ڈرایا تو نے)یعنی تیرے ڈرانے کی کچھ پرواہ نہیں کرتے.یہ دوسرا فعل کافر انسان کا ہے کہ اس نے اپنی عقل وفکر سے اتنا کام بھی نہیں لیا اگر اس میں یہ خوبی نہ تھی کہ ایان کے لئے خود فکر کرتا سوچتا.عقل سے اپنا کام لیتا تو کم سے کم رسول کریم کے بیانات کو ہی سنتا کہ کفر کا نتیجہ کیسا برا اور اس کفر کا انجام کیسا برا ہے.نہیں مانتے یہ تیسرا فعل کا فر انسان کا ہے اول توضرور تھا کہ قلب سے کام لیتاجو روحانی قوت کامرکز ہے.اگر اس موقعہ کو ضائع کر چکا تھا تو مناسب یہ تھا کہ نبی کریم کی باتیں سنتا پس کان ہی اس کے لئے ذریعہ ہوجاتے کہ ایماندار بن جاتا اور یہ دوسرا موقع حصول ایمان کا تھا.پھر اگر یہ بھی کھو بیٹھا تو مناسب تھا کہ پکے ایمانداروں کے چال چلن کو دیکھتا جو ایسے موقع پر اسی کے شہر میں موجود تھے اور یہ بات اس کافر کو آنکھ سے حاصل ہو سکتی تھی.مگر اس نے یہ تیسرا موقع بھی ضائع کر دیا.
غو ر کرو ! اگر کوئی دانا حاکم کسی کو مختلف عہدے سپرد کرے لاکن وہ عہدہ دار کہیں بھی اپنی طاقت سے کام نہ لے تو کیا حاکم کو مناسب نہیں کہ ایسے نکمے شخص کو عہدہ سے اس وقت تک معزول کر دے جب تک وہ خاص تبدیلی نہ کرے.اب اسی ترتیب سے دوسری آیت پر غو ر کرو.مہر لگا دی اللہ نے ان کے دلوں پر.اس لئے کہ انہوںنے پہلے دل کا ستیاناس خو دکیا اور کفر کیا. اور ان کے کانوںپر یہ دوسری سز اہے.کیونکہ انہوں نے اپنے کانوںسے کام نہ لیا..یہ تیسری سزاہے کہ ان کے آنکھوں پر پٹی ہے کیونکہ انہوں نے آنکھ سے بھی کام نہ لیا.ظاہری مثال.آپ نے قرآن کریم کے فہم میں دل سے اب تک کچھ کام نہ لیا اور یہ بات مجھے تمہارے سوالوں سے ظاہر ہوئی ہے اور نہ یہ کوشش کی کہ پہلے ان سوالات کے جوابات کسی متکلم سے سنتے.اب میںآپ کے آگے آپ کی آنکھ کے آگے یہ رسالہ رکھتا ہوں.دیکھیے آپ روحانی آنکھ سے کام لیتے ہیں یا نہیں.اگر توجہ کی اور کفر چھوڑا تو دیکھ لینا مہر ٹو ٹ جائے گی.بات یہ ہے کہ ایک عام قانون جناب الٰہی نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے جس سے یہ تمام سوال حل ہوجاتے ہیں اور وہ یہ ہے.(الصّف :۶) جب وہ کج ہوئے خدا نے ان کے دلوں کو کج کر دیا.یہ بات انسانی فطرت کے دیکھنے سے عیاں ہوتی ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے کچھ قوتیں عطا فرما کر ان قوتوں کے دینے کے بعد ان قوتوں کے افعال کے متعلق انسان کو جواب دہ کیا ہے اور انہیں طاقتوںکے متعلق نافرمانی کے باعث انسان عذاب پاتا ہے.مثلاً ایک ہوا دار روشن کمرہ کی کھڑکیاں عمدہ طو ر پر بند کی جاویں تو اس بند کرنے کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ کمرہ کے اندر اندھیرا ہو اور
کمرہ کی ہوا رک جاوے.یہ مثل ٹھیک ان اعمال پر صادق آتی ہے جن کا انسان جواب دہ ہے.اسی طرح آتشک اور خاص سوزاک ان لوگوں کو ہوگا جو بدی کے مرتکب ہوئے.پس جب کھڑکیاں کھول دی گئیں اور پورا اور صحیح علاج کر لیا گیا تو کمرہ پھر ہوا دار روشن اور مریض اچھا ہوجائے گا.مہریں اسلام کے رو سے ٹوٹ بھی جاتی ہیں.اسی واسطے قرآن کریم میں آیا ہے.(البقرۃ :۱۸۶) مہریں ہی ٹوٹیں تو نبی کریم سے لے کر کروڑ در کروڑ آج تک مسلمان ہوئے.ہاں ! تمہارے مذہب کے رو سے مہر کا ٹوٹناضرور محال ہے کیونکہ اگر مہروں کا ٹوٹنا محال نہیں تو آپ کم سے کم اپنی گاؤ ماتا کو اس کے بہرشٹ جنم سے چھوڑاتے.ہمیں اسے پنڈتانی بنا کر دکھاؤ تو سہی ! اس بیچاری کا جنم صرف سزا ہی بھوگ رہا ہے.کاش اس کی مہر ٹوٹتی تو نہ انگریز اسے مارتے اورنہ ہم پر اتنے مقدمات قائم ہوتے.سوال نمبر۲۱.’’خدا کے ہاں سفارش منظورنہیں پھر کہا بعض کی منظور ہے.سپارش اور گناہ کا کیا تعلق ہے.‘‘ ’’قرآنی خدا مطلق العنان ہے.قیدی لائے جاتے ہیں وزیر سپارش کررہا ہے اور اورنگ زیبی دربار لگا ہے.‘‘ الجواب.میں اپنے فن طبابت میں دیکھتا ہوں کہ میری کوشش کی سپارش،میری دی ہوئی دواؤں کی سپارش کہیں منظور ہے اور کہیں نامنظور.اسی طرح سائنس دانوں کی سپارشیں کہیں منظور ہیں کہیں نامنظور.بادشاہوں کے وزراء امراء سپہ سالاروں کی سپارشیں کہیں منظور ہیں کہیں نامنظور.دعائیں کہیں کامیاب کر کے شکر کے انعامات کا موجب ہوتی ہیں اور کہیں ناکامی سے صبر کے انعامات دلاتی ہیں.پس اس قاعدہ کے مطابق بعضوں کے حق میں لکھاہے کہ ان کے لئے سپارش نامنظور ہے اور بعض کے لئے سپارش منظور ہے.اسی طرح بعض کی سپارش منظور اور بعض کی نامنظور.سپارش
اورگناہ کا یہ تعلق ہے کہ گناہ اخذ کا موجب ہے اور سپارش کنندہ کی سپارش اس کے نیک اعمال کے باعث الٰہی عفو(کھما)کو حاصل کر کے ایک قسم کے گناہ گار کے لئے تو کھما کو موجب ہوتی ہے اور سپارش کنندہ کے واسطے باعث اعزاز و امتیاز.شفاعت ایک دعا بلکہ دعا سے بڑھ کر ایک درجہ کی پرارتھنا ہے.پس اس پر انکار کیا؟ سوال نمبر۲۲.’’آدم کی پیدائش اور اس کی روح افسانہ ہے‘‘ الجواب.نادان !! انسان !ستیارتھ پرکا ش میں لکھا ہے صفحہ ۲۹۴.۴۲سوال کے جواب میں.سوال یہ ہے آغاز دنیا میں ایک یا کئی انسان پیدا کئے اور جواب یہ دیا ہے کہ کئی اور پھر دوسرے سوال کے جواب میں کہا ہے.ابتدا دنیا میں انسان وغیرہ کی پیدائش بچپن جوانی یا بڑھاپے کی عمر میں ہوئی.جواب جوانی کی عمر میں.تم کو ایک بابا آدم کی پیدائش سے یہ دکھ پہنچا کہ ترک اسلام کیا اور یہاں تم کو آریہ سماج بننے کے لئے کئی آدم ماننے پڑے.میں نے قرآن کریم کے مخالفوں اسلام کے مخالفوں کی نسبت یہ تجربہ کیا ہے کہ جوکوئی وہمی طور پر قرآن واسلام پر اعتراض کرتاہے اس نادان کو بڑھ چڑھ کر اعتراضوں کا نشانہ بننا پڑتا ہے جو وہمی طور پر کئے تھے.مثلاً مسیحی لوگوں نے اعتراض کیا کہ فلاں جزوی اور فروعی مسئلہ میںقرآن واسلام بائبل کا خلاف کرتا ہے اس لئے ہم اسے نہیں مان سکتے.اس کا نتیجہ ہم دیکھتے ہیں کہ تمام شریعت کو وہ لوگ لعنت اور پرانی چادر یقین کرکے از سر تا پا چھوڑ بیٹھے اور مثلاآریہ نے ہماری توحید پر اعتراض کئے تو ان کو ماننا پڑا ازلی ہستیاں تین ہیں،بلکہ پانچ بلکہ لاکھوں لاکھ.اللہ تعالیٰ ازلی.تمام روحیں ازلی غیر مخلوق تمام ذرات عالم روحوں کے صفات،افعال اور عادات.ذرات کے صفات اور افعال او ر عادات بلکہ زمانہ اور اکاش بھی سب کچھ الٰہی مخلوق نہیں اورنگ زیب کو اپنے رسالہ میں بہت یاد کیا ہے مگر تمہاری قوم نے جہاں جہاں کچھ طاقت پائی ہے
کیا کیا ؟ماتحت مسلمانوں کے ساتھ بدسلوکیاں کیں اور کررہے ہیں.اس پر اگلا آنے والا جنم یاد کرو.سوال نمبر ۲۳.’’خدا نے آدم سے اس کی بی بی پیدا کی.‘‘ الجواب.دیکھو جواب سوال نمبر۲۲.جہاں ہزاروں ہزار لاکھوں لاکھ جوا ن جناب الٰہی نے پیدا کئے.آپ کو کب صاف معلوم ہوا کہ کن بچہ دانوں اور رحموں سے پیدا ہوئے اور وہ لاکھوں لاکھ نطفے کہا ں سے آئے اور وہ بچہ دان کیونکر گم ہو گئے.جہاں سے اگنی،وایو،انگراوتیہ وغیرہ پیدا ہوئے اب وہاں سے کیوں نہیں ہوتے.اب ہم ان وسائط کو مذکر کہیں یا مؤنث وغیرہ؟؟ پسلی کا لفظ بھی قرآن کریم میں نہیں.ہاں (النساء :۲) کا لفظ ہے مگر اس مِن کے معنے سمجھنے کے لئے قرآن کریم میں جابجا ہدایت نامے موجود ہیں.غور کرو! (الفاطر:۱۲) (الروم:۲۲) کیاتم ہر روز دیکھتے ہو کہ لوگوںکی پسلیوں سے ان کی بی بیاں پیدا ہوتی ہیں.اور سنو!منو ۱/۳۲میں لکھا ہے.’’پھر برہما جی نے اپنے قالب کے دوحصے کئے.نصف سے صورت مرد نصف سے صورت عورت پیدا ہوئی ان دونوں کے ملانے سے شخص وارث کو پیدا کیا اور ۳۳شلوک میں لکھاہے کہ وہ خود منوجی کے باپ تھے.تماشا ئیست دیدنی !! سوال نمبر ۲۴.’’آدم کو مع اس کی بی بی کے بہشت میں رکھا.مگر ایک درخت سے منع کیا اس کانام کیوں نہ بتایا.پھر بائبل دیکھنی پڑتی ہے.‘‘ الجواب.اللہ تعالیٰ نے تم کو کیسا ہلاک کیا.غور کر! تو توبائبل ڈھونڈنے لگا تھا پھر کہاں چلا گیا اور اصل اعتراض سے الگ ہو گیا.کیا تم کو پہلے پرمیشر نے ملک تبت میں نہیں رکھا تھا پھر تم کیوں آریہ ورت میں آگئے.ستیارتھ صفحہ۲۹۶ میں لکھا ہے.اس کے پہلے اس ملک کا نام کچھ بھی نہ تھا اور نہ کوئی آریوں سے پہلے اس ملک میں بستے تھے.کیونکہ آریہ لوگ ابتدائے عالم میں کچھ عرصہ کے بعد
تبت سے سیدھے اسی ملک میں آکر بسے تھے.ہمارے سردار رحمۃ للعالمین ﷺ سے جن نابکاروں نے مکہ والوں سے چھیڑ کی تھی دیکھو کس طرح خائب وخاسر ہو کر دنیا کے پردہ سے نابود ہو گئے اور وہ فتح کا جھنڈا ہاتھ میں لئے کس طرح مکہ میں جا براجے ؟ ہم اس کو انشاء اللہ تعالیٰ مقدمہ میں زیادہ واضح بیان کریں گے.سوال نمبر ۲۵.’’آدم کا قصہ مسلسل نہیں حالانکہ بیسیوں دفعہ شروع ہوا.‘‘ الجواب.قرآن کریم تاریخ کی کتاب نہیں جس قدر روحانی تعلیم کے متعلق کسی قصہ کی ضرورت ہوتی ہے صرف اتنا ہی قرآن کریم میں بیان ہوتا ہے.مجھے پہلے خیال تھا کہ گریجوائٹ ہے.مگر اب یقین آگیا کہ تجھے اکائی کی گنتی بھی نہیں آتی.تو لکھتا ہے کہ بیسیوں دفعہ (آدم کا قصہ شروع ہوا)میں تجھے سچ کہتا ہوں تو جھوٹا اور احمق ہے.ایک بیس دفعہ بھی نہیں نصف بیس دفعہ نہیں.اب قرآن مجید پر پھر نظر کر.البتہ یجروید میں ہزاروں باریگ کا بیان ہے.اور سام میں اندر ،اگنی سوم کی ہزاربار تکرار سے شاعرانہ تعریف ہے.رگوید کی اگنی،وایو، جل کا تکرار بکثرت بے ترتیب پایا جاتاہے.سوال نمبر۲۶.’’ایک دن نرسنگھا پھونکا جاوے گا اور لوگ مر جائیں گے.سوالات کس جگہ کس طرح آواز پہنچے گی کیونکر مریں گے.یہ واقعات کب ہوں گے.کیا خدا معطل ہو جائے گا‘‘ الجواب.یہ سوال ایسا ہے جیسے کوئی کہے کہ پال مرجائے گا.تو آپ اس لئے انکار کر دیں کہ کس جگہ،کس طرح،کیونکر،کب اور کیا پھر خدا معطل ہو جائے گا.کیا یہ سوال مہا پرلے پر آپ کو پیش نہیں آیا.دیکھو جواب سوال نمبر۲۲.سوال نمبر۲۷.(الفجر:۲۳) (الحاقۃ:۱۸) الجواب.جَاء فعل ہے.افعال اور صفات کا طریق کیا ہے؟ یہ ہے کہ فاعل اور موصوف کے لحاظ سے افعال اور صفات کا رنگ اور حالت بدلتی رہتی ہے.غور کرو مثلاً بیٹھنا ایک فعل ہے.
ایک آپ کا بیٹھناہے اور ایک کسی جانور کا بیٹھنا.دیکھو اس بیٹھنے میں ایک جسم خاص کی ضرورت ہے.مکان کی ضرورت ہے.پھر کہا جاتاہے کہ یہ بڑا ساہوکار تھا مگر اب بیٹھ گیا ہے.دیکھو یہ بیٹھنا اور طرح کا ہے یا کہا جاتا ہے کہ آج کل ہندو انگلستان کے تخت پر ایڈورڈ ہفتم بیٹھا ہے.اس بیٹھنے میں ایڈورڈ سوتا ہو،چلتا ہو،کہیں کھڑا ہو،بہرحال بیٹھاہے.اب اس سے بھی لطیف موصوف اور فاعل کا حال سنو.تمہارے دل میں اسلام کا بغض بیٹھ گیا ہے.تمہارے دل میں آریہ سماج کی محبت بیٹھ گئی ہے کیا محبت کوئی جسم ہے؟نہیں.اسی طرح آنا اور حرکت کرنا ایک صفت اور فعل ہے.فلانا آدمی آیا.یہ آنا ایک طرف ایک مکان کے چھوڑنے کو چاہتا ہے اور دوسری طرف ایک مکان کی طرف آنے کو.سرور میرے دل میں آیا.علم میرے قلب میں آیا.مجھے سکھ ملا.اگر بولا جاوے تو یہ لازم نہیں آتا کہ سرور اور علم اور سکھ کوئی جسم ہے اور اس نے کوئی مکان ترک کیا اور سنو! تمہارے گرو نے تو اپنی دعاؤں میں الٰہی حرکت کو بھی مانا ہے دیکھو صفحہ نمبر۴ستیارتھ پرکاش.’’اے پرمیشور جس جس مقام سے آپ دنیا کے بنانے اور پالنے کے لئے حرکت کریں اس اس مقام سے ہمارا خوف دور ہو.‘‘ سنو ! پال اگر پرمیشر حرکت کر سکتا ہے تو ملائکہ (دیو)تو محدود ہوتے ہیں ان کا حرکت کرنا کیوں حیرت انگیز ہے؟ اگر حرکت کے کوئی معنی سماج کر سکتی ہے اور روپک النکار میں اس کو لے سکتی ہے تو قرآن کریم میں مسلمان کیوں مجاز نہیں کیا جاتا.اللہ تعالیٰ اپنے مظاہر قدرت میں جلوہ گری کرتاہے وہ حلول و اتحاد سے منزہ وراء الوراء مظاہر قدرت میں اپنی قدرتوں، طاقتوں بلکہ ذات سے جیسے اس کی لیس کمثلہ ذات اور انوپیم کی شان ہے.آتا ہے اور کہیں سے جاتاہے.کیا جیسے ودوان دہارمک کے ہردے میں آتاہے.ویسا ہی دشٹ اناڑی کے ہردے میں بھی ہوتا ہے اور آتاہے.ہرگز نہیں بلکہ تمہارے ہاں تو پھاند کر
بھی جاتا ہے.پھر اتنا کیا مشکل ہے.یجروید اکتیسواں ادہیا کے پہلے اشلوک میں لکھا ہے وہ سب جگت کو النگہہ کر ٹھہرا ہے.پورا ترجمہ ہم نے سوال نمبر۱۷میں لکھا ہے.عرش اور آٹھ فرشتوں کے متعلق بھی سوال نمبر ۱۷ میں جواب دیا ہے.سوال نمبر ۲۸.مردے جاگ اٹھیں گے جو جلادئیے گئے جن کی راکھ اڑا دی گئی جن کو شیر بھی کھا گئے.کیوں کر اٹھیں گے؟ الجواب.توکیا آپ لوگ سزا وجزا کے قائل نہیں اور کیا جب آپ مر جائیں گے تو کیا آریہ کا پرمیشر معطل ہو جائے گا یا تمہارے سرسوتی نام ہادی نے جھوٹ بولا ہے جہاں کہا ہے؟ دیکھو جواب نمبر۲۲ ’’اور کیا مر کر جی اٹھنا غلط ہے اور جن کو آرین جلاتے ہیں وہ پھر نہیں اٹھیں گے اور کیا جب تم کو جلایا گیا تو تم بالکل فناہو جاؤ گے؟مجھے معلوم نہیں ہو سکتا کہ تم کس مذہب کے آدمی ہوکیونکہ تمام ایسے مذاہب جو خدا کے قائل ہیں مردوں کے جی اٹھنے سے منکر نہیں.‘‘ سوال نمبر۳۰.’’خدا ترازو لے کر بیٹھے گا.خدا کو تکڑی بٹے کی کیا ضرورت پڑی.اعمال کوئی مادی چیز ہیں.‘‘ الجواب.بٹے کا ذکر تو قرآن مجید میں نہیں اور نہ یہ کہ اعمال مادی ہیں.ہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (الانبیاء :۴۸) اور ہم قیامت کے دن انصاف کی میزانیں رکھیں گے.تم کیسے نادان ہو کہ میزان کو مادیات میں منحصر سمجھتے ہو.میزان کو تم کیوں وسیع نہیں خیال کرتے.دیکھو ! جب تم نے حساب پڑھا تھا اس وقت تم کو جمع کی میزان ، تفریق کی میزان،ضرب کی میزان،تقسیم کی میزان علم حساب میں نہیں بتائی گئی.اس سے تم اندھے کیوں ہوئے اور کیوں میزان کی حقیقت میں غور نہیں کرتے کہ وہ بہت ہی وسیع ہو سکتی ہے ؟ پھر تم نے مذہب اسلام اور آریہ مت پر میزان نہیں لگائی اور ترک اسلام ایک رسالہ نہیں لکھا جس میں
ان موازین کا تذکرہ کیا.پھر وزن اعمال میں تمہیں بٹوں کا خیال کیوں پیدا ہوا؟ اب (الاعراف :۹) (یعنی جس کی میزانیں بھاری ہوں گی) اس کا بیان سن لو.تمہاری ستیارتھ میں لکھا ہے ’’جب پاپ بڑھ جاتاہے اور پُن کم تو انسان کا جیئو حیوان وغیرہ نیچے درجہ کا جسم پاتا ہے اور جب دہرم زیادہ اور ادھرم کم ہوتاہے تو دیو یعنی عالموں کا جسم ملتا ہے اور جب پن پاپ برابر ہوتاہے تو معمولی انسانی جسم ملتا ہے‘‘.صفحہ ۳۳۳ اب یہ بڑھنا اور گھٹنا پرمیشر کو کس طرح معلوم ہوا اور کیا یہ موازنہ نیکی اور بدی کا نہیں اور کیا پرمیشر نے ان اعمال کے لئے میزانیں قائم نہیں کی ہیں ؟ اے نادان تارک اسلام! تجھ پر افسوس کس نے تجھے سکھایا کہ تو آنے والے غضب سے ان زبان کی چالاکیوں سے بچ جائے گا.؟ سوال نمبر ۳۱’’پہاڑروئی کی طرح اڑیں گے.بھلا ہمالہ بھی اور یورپ امریکہ کے پہاڑبھی‘‘ الجواب.ستیارتھ پرکاش کے صفحہ ۲۷۴.آٹھویں سملاس کے ابتداء میںہے.’’اے (انگ)انسان! جس سے یہ گونا گوں خلقت ظاہر ہوئی ہے جو اس کو قائم رکھتا اور فنا کرتا ہے اور جو اس دنیا کا مالک ہے.جس محیط کل میں یہ سب دنیا اتپتی (پیدائش)سہتتی (قیام) پرلے (فنا) پاتی ہے وہ پرمیشور ہے.اس کو تو جان اور دوسرے کو صانع کائنات نہ مان.‘‘ پھر کہا ہے.جس کے ہاتھ میں اس عالم کی پیدائش قیام اور فنا ہے وہی برہم جاننے کے لائق ہے.اور کہا ہے کہ سب سو عالم پیدائش سے پیشتر تاریکی میں چھپاہوا بشکل رات ناقابل تمیز اور اکاش کی مثل تھا اور تجھ غیر محدود پرمیشر کے مقابل میںمحدود اور اس سے محاط تھان.پھر سوچو!!! اس قادر کے مقابل یہ ہمالہ اور کہستان یورپ وامریکہ کیا ہستی رکھتا ہے.آہ! تمہیں اللہ تعالیٰ کی عظمت کا پتہ ہی نہیں اور معلوم نہیں کہ تم کس مذہب میں تھے اور کس میں ہو ؟کیا تمہاری خیالی پرلے اور مہاپرلے میں سب فنا نہ ہوں گے؟
سوال نمبر۳۲.چاند سورج سے جا ملے گا.الجواب.جس آیت کا حوالہ دیاہے اس میں تو ہے (القیامۃ:۱۰) اس کے یہ معنے ہرگز نہیں کہ چاند سورج سے جا ملے گا اس کے تومعنے ہیں کہ چاند اور سورج جمع کئے جائیں گے.اور جو تم نے ترجمہ کیا ہے اس کے خلاف قرآن مجید میں یہ لکھاہے اور تمہاری تردید کی ہے.(یٰسٓ :۴۱)سورج کو طاقت نہیں کہ چاند کو دبوچ لے یا اس سے جا ملے اور نہ رات دن سے آگے نکل سکتی ہے بلکہ یہ سب کے سب اپنے اپنے فلک میں تیرتے ہیں.اور فرمایا ہے.(یٰسٓ :۴۰) اور چاند کے لئے ہم نے منزلیں مقرر کر دیں یہاں تک کہ آخرکاروہ چاند پرانی ٹہنی کی طرح ہو جاتاہے.اور فرمایا ہے.(الرّحمٰن :۶) اور سورج اور چاند اپنے اپنے محوروں پر چکر کھاتے ہیں.پس دونوں یوں توجمع نہیں ہوتے جیسے تم نے غلطی سے وہم کیا ہے.بلکہ ان کا اجتماع بعض صفات میں ہوتاہے مثلاً دونوں کا گرہن ایک مہینہ میں ہوجاوے جیسے چاند گرہن کے لئے تین تاریخیں جناب الٰہی نے مقرر کر دی ہیں.تیرہ چودہ اور پندرہ قمری مہینہ کی تاریخیں اور سورج گرہن کے لئے بھی سنن الٰہیہ میں تاریخیں مقرر ہیں.۲۷،۲۸،۲۹.ستائیس اٹھائیس اور انتیس چاند کی تاریخیں سنن الٰہیہ میں مقرر ہیں ان کے خلاف نہیں ہوا اور نہ ہوگا.اب جمع کی صورتیں تو بہت ہیں.ان میں سے جو اس زمانہ میں آیات اللہ کی طرح جو صورت واقع ہوئی ہے وہ یہ صورت ہے کہ ہماری کتب میں لکھاہوا ہے کہ مہدی کے زمانہ میں چاند گرہن پہلی رمضان میں اور سورج گرہن
نصف رمضان میں ہو گا اور یہ مہدی کا نشان ہو گا.چنانچہ ۱۳۱۱ہجری میں رمضان شریف کی ۱۳تیرہ تاریخ کو جو چاند گرہن کے لحاظ سے پہلی تاریخ ہے اور اسی رمضان کی اٹھائیس تاریخ کو جو سورج گرہن کے لئے درمیانی وقت ہے اور تواریخ سورج گرہن کے لحاظ سے نصف ہے سورج گرہن ہوا اوریہ واقعہ ایشیا ،یورپ اور افریقہ کے لئے ظہور مہدی کا نشان ہوا اور پھر ۱۳۱۲ہجری میں اسی طرح امریکہ میں گرہن ہوا اور یہ دوسرا آسمانی نشان مہدی کا تھا جو ظہور پذیر ہوا اور وہ مہدی جس کا یہ نشان ظاہر ہوا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود ہیں.صلوات اللہ علیہ وعلیٰ مطاعہ محمد سید الرسل وخاتم الانبیاء.سوال نمبر ۳۳.’’ستارے گر پڑیں گے.گر کر کہاں جائیںگے.کیا زمین پر اگرہاں‘‘ الجواب.اگرہاں کا مقابلہ آپ بھول گئے.سنو ! انتشر کے معنے ہیں ،جو انتشرت میں آیاہے تفرق کے ہیں.کیا معنے؟ ان کا اجتماع اور نظام موجودہ متفرق ہوجائے گا.اب اس میں تو قیامت پرلے کا حال ہوا.پھر آپ کو کیونکر انکار ہو سکتا ہے؟ ہاں سائنس دان ہو کر،اسٹرانمر ہو کر اعتراض کرتے تو بجا تھا.میرا یقین کامل ہے کہ مذاہب میں ایک مذہب بھی نہیں جو اسلام پرکوئی اعتراض کرے اور خود اس کے گھر میں اس سے بڑھ چڑھ کر نشانہ اعتراض چیز موجود نہ ہو.سوال نمبر۳۴.’’زمین باتیں کرے گی.سورج چاند کیوں نہ کریں گے،ستارے کیوں خاموش ہیں.‘‘ الجواب.۱.اوّل تو سورج اور چاند کی خاموشی کا ذکر نہیں جو آپ کو اس پر تعجب ہوا.۲.دوم ستارے بھی تمہارے دیانند کے اعتقاد میں زمین ہی ہیں پس ان کی خاموشی بھی ثابت نہیں کیونکہ وہ بھی زمین ہیں یا زمین کی طرح ہیں.پس جیسے یہ زمین باتیں کرے گی وہ بھی باتیں کریں گے.۳.سوم.یہ تاتستھ اوپادہی ہے اگر تم کو اس کی سمجھ نہیں تو پڑھو ستیارتھ پرکاش صفحہ نمبر ۲۵۴.
اہم برہم اسمی کے ارتھ میں لکھا ہے.اس موقع پر تاتستھ اوپادہی استعارہ ظرف و مظروف کا استعمال ہے جیسے (منچا کری شرنتا)منچ پکارتے ہیں.چونکہ منچ جڑ ہیں ان میں پکارنے کی طاقت نہیں اس لئے منچ کے جاگزین آدمی پکارتے ہیں.پس اسی طرح اس موقع پر بھی سمجھنا چاہیے.۴.چہارم.کے ساتھ ہے (الزلزال:۵،۶) بیان کرے گی زمین اپنی خبریں اس لئے کہ تیرے رب نے اسے وحی کے ذریعہ حکم کیا ہے.پس ہمہ سامرتھ(القادر).سرب شکتی مان.(الغنی.القادر)جو دوسرے کا محتاج نہیں.اگر وہ زمین کو فرماوے کہ توبیان کر تو کیا و جہ ہے کہ پھر بیان نہ کر سکے.تم بھی تو قویٰ خداداد سے ہی بولتے ہو.زمین بھی قوی خداداد سے بول سکتی یا بیا ن کرسکتی ہے.۵.پنجم.تحدث میں یہ ضرور نہیں کہ ہماری تمہاری طرح پنجابی یا اردو بولے.ہرایک کا بولنا اس کے مناسب حال ہوا کرتا ہے.پھر الفاظ کی ضرورت بھی نہیں.ایک لسان الحال اور ایک لسان الافعال بھی ہوتی ہے.اب تم خود سمجھ لو کہ زمین کی لسان کس نوع کی ہے جس سے وہ بولے گی اور ظرف ومظروف کے استعارہ پر کیوں تم خود سمجھ نہیں سکتے؟ سوال نمبر ۳۵.(حٰم السجدہ:۲۱)(یٰسٓ :۶۶)یہ بڑی عجیب بات ہے کہ آدمی کے ہاتھ پاؤں وغیرہ زبان کاکام دیں گے.یہ ڈھکونسلا ہے.قرآنی بہشت خراب خانہ ہے.الجواب.شہادت تحریری بھی ہوتی ہے اور تقریری بھی.اور تقریر زبان سے اور ایماء وکنایہ سے بھی.اسی طرح یاد رکھو کہ کلام بھی دو قسم کا ہوتا ہے.ایسا ہی نطق بھی دو قسم کا ہوتا ہے.ایسے ہی شہادت، تحدیث اور قول کے اقسام بھی ہوتے ہیں.تم ایوروید تو پڑھے ہوئے نہیں مگر سنو ! ایک آتشک کا مارا ہوا ہمارے سامنے آتاہے تو اس کے ہاتھ اور پاؤں کے نقش و نگار جو آتشک سے پیدا ہوتے ہیں اور اس کے آنکھ کان کی حالت صاف صاف گواہی دیتی ہے کہ یہ آتشک کا مبتلا ہے.
ایک شخص مجلوق اور جریان کا مبتلا ہمارے سامنے آتا ہے اس کاآنکھ سے ہم پتہ لگا سکتے ہیں اور اسی طرح ہزاروں بیماروں میںیہ امر مشہود ہے.پھر کیا علیم وخبیر ذات پاک کے سامنے ہی سمع وبصر گواہی نہیں دے سکتے.یہ کیا عجیب بات ہے اس میں ڈھکونسلا کیا ہوا ! بہشت کے متعلق جو کچھ تم نے کہاہے اس کا جواب آگے آتا ہے دیکھو نمبر۳۶.سوال نمبر۳۶.بہشت میں رہو جہاں غم کا نشان نہیں.انسان ایک حالت میں رہنا پسند نہیں کرتا.مدامی خوشی وبال جان ہو جائے گی.انسان نعمتوں سے تھک جاتاہے.الجواب.اللہ تعالیٰ تمہیں فہم دے.اب تمہارے تبدیل مذہب کا باعث معلوم ہوا.جب تم ایک حالت پر نہیں رہ سکتے تو تمہارا آریہ سماج دہرم پر استقلال بھی معلوم ہو گیا.اگر مدامی خوشی وبال جا ن ہے تو جو سچد۱؎ انندہے پس وہ ہمیشہ کی خوشی چھوڑ کر ضرور کسی نہ کسی دکھ دائک جسم میں جاتاہے اس لئے ثابت ہوا کہ وہ ضرور جنم دہاری ہے اور پرانے آریہ ورت والے اوتاروں کے ماننے میں و جہ رکھتے ہیں.بنی اسرائیل پر اگر قیاس ہے تو معلوم ہوا کہ چالیس برس کی خوشی پربھی انسان کو رہنا محال ہے کہ کوئی پسند کرے تو اس حساب سے کئی ارب۲؎ کی مکتی ایک عذاب ہے جو روح پرکسی ظالم کا کام ہو گا.تعجب تعجب!! اصل بات سنو ! بنی اسرائیل مدت تک مصر میں فرعون کے تحت ذلت میں رہے تھے.اس لئے ان کے واسطے موسیٰ علیہ السلام کا منشا تھا کہ یہ قوم کسی طرح فاتح بنے.قوم نے رسول اللہ کی نافرمانی کی تو جنگل میں سزایابوں کی طرح چالیس برس رہنا پڑا.اس پر وہ تنگ ہو گئے تو زمیندار بننا چاہا نہ خوشی کے باعث.اس پر حضرت حق سبحانہ نے فرمایا.اھبطوا مصراً.۱؎ حقیقی ہستی،علیم اور ہمہ سرور.یہ خدا کے وہ صفات ہیں جن کو آریہ مانتے ہیں ۱۲ منہ ۲؎ اربوں برس خوشی و آزادی سے رہنا آریہ کی نجات ہے۱۲
بہشت کے متعلق اور حور اور ولدان قصور اورغلمان کے متعلق بحث اس بحث میں ایک طویل مضمون لکھنا چاہتا تھا مگر اصل رسالہ جس کا جواب دیناہے چھوٹا ہے اور یہ مضمون بذات خود ایک بڑے رسالہ میں درج ہونے کے قابل ہے اس کے ایک ایک سوال پر اگر جواب لکھاجائے تو مجلد ضخیم چاہیے اس لئے ہم اس مضمون کو تین حصوں میں تقسیم کرکے یہاں مختصراً لکھتے ہیں.اوّل.صرف آریہ کو خطاب کرتے ہیں کہ جان جس کو عام لوگ روح کہتے ہیں اور سنسکرت میں جیو آتما ہے اس کی نسبت یہ اعتقادہے اور رہے گا.یہ امر ہمارے اور آریہ کے مسلمات میں ہے اور یہ بات کہ یہ جان ہم سے پہلے تھی اور اس جسم سے سابق اس کا وجود تھا یہ امر ایسا ہے کہ اس کا یہاں بیان کرنا کچھ ضروری نہیں.ہاں جان ہے اور رہے گی کا ثبوت ستیارتھ پرکا ش نویں سملاس کے پندرہویں سوال میں لکھا ہے.’’مکتی میں جیو لے ہو جاتا ہے یا قائم رہتاہے‘‘اس کا جواب خود دیانند دیتا ہے کہ قائم رہتا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ وہ جیو ایک لطیف جسم بھی رکھتاہے اور پھر بھی رکھے گا.ستیارتھ پرکاش کے صفحہ ۳۱۴میں لکھا ہے ’’جینمی اچار مکت پرش کے لطیف جسم حواس اور پران وغیرہ کا بھی بمثل من کے موجود رہنا مانتے ہیں نہ کہ معدوم ہوجانا‘‘ اور صفحہ ۳۱۳میں سترہ سوال کے جواب میں کہا ہے.’’کہ جیو میں مقدم تو ایک قسم کی طاقت ہے مگر ۱؎چوبیس قسم کی طاقتیں جیو رکھتا ہے.اس وجہ سے مکتی میں بھی آنند کے حصول سے محظوظ ہوتا ہے.اگر مکتی میں جیو لے ہوجاتا تو مکتی کے سکھ کوکون بھوگتا اور جو جیو کے فنا ہونے کو مکتی سمجھتے ہیں وہ تو سخت جاہل ہیں‘‘یاد ر کھو! اور پھر یہ بھی لکھا ہے چھتیس سوال صفحہ ۳۲۱کہ ایک جیو عالم نیک نہاد صاحب حشمت را جہ کی رانی کے حمل میں جاگزین ہوتا ہے.پھر صفحہ ۳۴۲میں لکھا ہے کہ جو متوسط درجہ کے رجوگنی ہوتے ہیں وہ
را جہ وغیرہ کا جنم پاتے ہیں اور یہ باتیں مکت اور نجات سے بھی پیشتر حاصل ہوتی ہیں.اب ان اصول کو مدنظر رکھ کر کوئی شخص مسلمانوں کے ان عقائد پر جو وہ مابعد الموت بیان کرتے ہیں کیا اعتراض کر سکتا ہے؟ ان باتوں سے جو خود پنڈت دیانند نے تسلیم کی ہیں کیسی صفائی سے ثابت ہو جاتاہے کہ جنت کی نعمتیں سچی اور حق ہیں.صاف ظاہر ہے کہ جب ارواح اپنی طاقتوں اور خواہشوں کے ساتھ موت کے بعد بھی قائم رہتے ہیں اور اگر وہ طاقتیں نہ ہوں تو بقول دیانند کے مکتی کے انندسے کیونکر محظوظ ہو سکیں تو از بس ضروری ہے کہ ان طاقتوں کے مظاہر بھی موجود ہوں.جس قدر حواس روح اپنے ساتھ رکھتی ہے ضروری ہے کہ ان حواس کو مسرور ومحظوظ کرنے کے سامان اور آلات اور جلوہ گاہیں بھی مہیا ہوں.کان کے سرور اور آنند کے سامان اگر ضروری ہیں تو آنکھ کے سرور اور آنند کے آلات بھی از بس ضروری ہیں.پھر قوت لامسہ اور قوت ذائقہ اور شامہ کو بھی اپنے مظاہر سے محروم نہیں ہونا چاہیے اور جب ان طاقتوں کے لئے اسباب سرور کا ہونا ضروری ہے تو کیا وجہ ہے کہ دوسرے جذبات اور قویٰ کے سامان نہ ہوں جنہیں اس عالم میں زندگی کے حظوظ میں اعلیٰ ترین مانا گیاہے اور موت کے بعد بھی وہ طاقتیں اور جذبات روح میں مرکوز ہو کر اس کے ساتھ ہوں گی.اب ہم کسی قدر تفصیل کے ساتھ جواب دیتے ہیں.مسلمانوں کے نزدیک بہشت نام ہے اس جگہ کا جہاں جیو(نفس)یا روح کو ہر طرح کی راحت اور آرام ملے وہ ایک اعلیٰ سرور کا مقام ہے جس میں انسانی حالت خدا تعالیٰ کے متعلق تویہ ہو گی جس کا بیان قرآن میں یہ آیا ہے.(یونس :۱۱) اور ان کی پکار اس میں یہ ہو گی کہ اے اللہ تو پاک ہے اور آپس میں ایک دوسرے پر ان کاقول سلام اور سلامتی ہو گا اور آخری پکار ان کی یہ
ہو گی کہ سب حمد اللہ کے لئے جو رب العالمین ہے.اس آیت پر غورکرنے والا غور کر لے کہ کس طرح بہشت میں جناب الٰہی کی تسبیحیں اور تحمیدیں کی جائیں گی اور کس طرح روحانی مزہ اٹھایا جائے گا اور باہمی بہشت میں وہ تعلقات ہوں گے جن کا بیان آیت ذیل میں ہے.(الحجر :۴۶تا۴۸)تحقیق متقی لوگ باغوں اور چشموں میں ہوںگے انہیں کہا جائے گا کہ ان میں سلامتی سے داخل ہو جاؤ اور امن میں رہو اور جو کینہ اور کپٹ دنیا میں ان کے دلوں میں تھا بہشت میںہم ان کے دلوں سے نکال ڈالیں گے وہ بھائی بن کر تختوں پر آمنے سامنے بیٹھیں گے.اور اسی پر غور کرو کہ جب غیروں کے ساتھ بہشت والوں کا یہ سلوک ہوگا جس کا ذکر آیت بالا میں ہے تو اپنوں کے ساتھ کیا ہو گا مگر مزید تشریح کے لئے ہم دو تین حوالے دیتے ہیں جو سعادت مند کے لئے کافی ہیں.(الرحمٰن :۷۱) ان میں اعلیٰ درجہ کی نہایت خوبصورت عورتیں ہوں گی.(الواقعۃ :۳۸) خاوند سے پیار کرنے والیاں ہم عمر.(الرّحمٰن :۵۸) جن کی نگاہیں ہر بدی سے کوتاہ ہوتی ہیں.صرف خاوندوں تک محدود ہیں.جس جنت میں ایک نیک سیرت خدا پرست مخلوق سے کامل سلوک کرنے والا رکھاجاوے اور اس میں کئی قسم کے قویٰ موجود ہوں تو اسے کیا بیوی نہیں ملنی چاہیے.ہمارے نزدیک تو تمام فطری قویٰ جو اس وقت انسان کو دئیے گئے ہیں وہ نہایت اعلیٰ مدارج پر وہاں بھی عطا ہوں گے مگر سر دست ہم ان قوتوں کا بیان کرتے ہیں جن کا مکتی کی حالت میں بھی روحوں کے ساتھ موجود ہونا تمہارے ہاں ثابت ہے.دیکھو ستیارتھ پرکاش صفحہ ۳۱۳جواب سوال ۱۷.مقدم تو ایک قسم کی طاقت ہے مگر
زور، ہمت، کشش، تحریک، حرکت، جوف، امتیاز، فعل، حوصلہ، یاد، یقین، خواہش، محبت، نفرت، ملاپ، جدائی ، ملانا ، جداکرنا، سننا، چھونا، دیکھنا، چکھنا، سونگھنا اور گیان یہ چوبیس قسم کی طاقتیں جیو رکھتا ہے.اسی و جہ سے مکتی میں بھی آنند کے حصول سے محظوظ ہوتاہے.اب ان قویٰ کو چند بار مطالعہ کرو زورہمت، کشش، تحریک، حرکت، جوف، خواہش، محبت، ملاپ، ملانا، جداکرنا.ذرہ ان سب کو ملاؤ تو سہی پھر حوروں پر اعتراض کرو.یہ تو مانتا ہوں کہ لفظوں کے معانی ادنیٰ بھی ہوتے ہیں اور اوسط اور اعلیٰ بھی.مگر خدائی عبادت میں تو کسی جوف اور ملاپ چھونے اور ملانے اور جداکرنے کا کچھ ذکر کم ہی آتاہے اور اگر کھانے پینے کے تذکروں سے آپ کو ہمارے بہشت سے انکار ہے تو کیا چکھنا سونگھنا کچھ اور ہوتا ہے کھانے اور پینے کی چیزوں میںنہیں ہوتا.اور اگر بہشت میں خوبصورت آوازوں کا سننا آپ کے نزدیک معیوب ہے تو روح کو سننا وہاں کیوں لگایا گیا ہے اور ستیارتھ پرکاش میںتو اور ذریعہ بھی لکھاہے دیکھو صفحہ ۳۳۵ اور اتنا سنئے جس طرح دنیوی سکھ جسم کے سہارے سے بھوگتاہے اسی طرح پرمیشورکے سہارے جیو آتما مکتی کے آنند کو پاتا ہے وہ مکت جیو غیر متناہی محیط کل برہم کے اندر اپنی خوشی کے موافق گھومتا ہے.پاک علم سے تمام کائنات کو دیکھتاہے.دوسرے مکتی پائے ہوؤں کے ساتھ ملتا ہے.علم پیدائش کو ترتیب وار دیکھتا ہوا تمام مختلف دنیاؤں میں یعنی جتنی یہ دنیا ئیں نظر آتی ہیں اور نظر نہیں آتیں ان سب میں گھومتا ہے.وہ تمام اشیاء کو جوا س کے علم کے آگے آتی ہیں دیکھتا ہے.جس قدر گیان بڑھتا ہے اس کو اتنا ہی زیادہ آنند ہوتا ہے.مکتی میں جیو آتما بے لوث ہونے کی وجہ سے پورا گیانی ہوتا ہے اور تمام اشیاء کو جو اس کے قریب ہوتی ہیں بخوبی معلوم کرتا ہے.اب مکش اور نجات کے ورے سے اس جنم کے بعد اگر کوئی شخص ان نیک اعمال کو کرتا ہو امر جائے جن کے بدلے وہ ہندو ستان کا را جہ بنے اور اس کی بہت سی بیبیاں جو نیک نہاد اور پاک سرشت ہوں اور ان بیبیوں کے ماورائے کچھ اور بیبیاں بھی جن کے اعمال نیک ہوں اور وہ نیکی کے باعث اپسرہ (حوریں) بنیں اور اس را جہ ہند کے کچھ عمل ایسے بھی ہوں جن کے باعث ان اپنی بیبیوں اور
چند غیر بیبیوں کے باہم تعلقات پیدا ہوں تو ایسی صورت میں آپ کسی وید کے بہاگ منتر سے یا برہمنوں اور سوتروں سے کیا ایسا جنم محال ثابت کر سکتے ہیں.انصاف سے غور ہو !! بہشت اور وہاں بیبیوں کے ہونے اور عمدہ کھانے پینے کا انکار وہ کرے جو موت کے بعد روحوں کے فنا ہونے کا قائل ہو.پھر وہ کرے جو روح میں کسی لطیف جسم کے ہونے کا قائل نہیں کیونکہ جب اس کے نزدیک روح کے پاس کوئی آلہ خوشبوئی کے حاصل کرنے کا نہیں تو وہ حوروں کو کیا کرے گا کیونکہ روح بلاجسم ایسے کام کچھ نہیں کر سکتی.پھربہشت کی ایسی نعمتوں سے وہ انکار کرے جس کو بیبیوں سے صدمات شدیدہ یا خفیفہ پہنچے ہوں.پھر وہ کمزور انسان بہشتی بیبیوںسے انکار کرے جس کو جریان سرعت انزال اور اس خاص جسم کی خاص خاص کمزوریاں لاحق ہوں.پھر اس نے ہزاروں ہزار روپیہ اشتہاریوں کو دے کر کچھ کامیابی حاصل نہیں کی.پھر وہ جس کو یہ ابتلا آیا ہے کہ ہزاروں روپیہ خرچ کر کے شادی کی اور اس سے لوگ ہی متمتع ہوئے ہوتے ہیں اور باایں کچھ بول نہیں سکتا!آخر اس کو نیوگ کرانا پڑا.پھر وہ جن کو تمام دن کی مزدوری سے اپنا پیٹ بھی بھرنا مشکل ہے وہ بی بی اور بچوں کو کس طرح اورکہاں سے پرورش کرے.پھر وہ بڈھا جس کو بچے ملے نہایت گندے شرابی بدنام کنندہ خاندان.ممکن ہے اس کی فطرت نے اس کو بتایا ہو کہ یہ صاحبزادے تمہیں اپنی کوٹھیوں سے بھی نکال دیں گے اور اس پر کوئی ایسا وقت آئے گا کہ وہ پکار اٹھے گا.کاش کہ کوئی پھوس کا ہی گھر ملتا،پر وہ اپنا ہوتا.پھر وہ کاہل وکاسل جن کو نشہ چنڈ ومدک نے بیکار کر دیا اور وہ اور گھروں کے ٹکڑے مانگ کر لایا اور کھا کر سو رہا.پھر یورپ کے مزدوری پیشہ انکار کریں جن کو سارے دن کی ہلاکت کے بعد بھی رہنے کوعمدہ مکان نہیں ملتا.پھر وہ انکار کریں جن کو صبح اٹھتے ہی اخباروں میں پڑھنا پڑھتا ہے کہ فلانا فوجی خدمات کے سبب سے لارڈ بنا ،فلانا مسٹر ہو کر قومی خدمات سے گورنر بنا،فلانا ملکی نفع رسانی کی باعث
مارکوئیس بنا، فلانا جدید ایجاد کے سبب سے آج ملک میں ممتاز ہے آہ !وہ ہمارا ہم مکتب تھا یا ہمارا غریب پڑوسی تھا اور ان کی طبیعتیں ان اخباری حوالوں کے ساتھ سست وکاہل بھی نہیں تھیں.جوش میں اٹھے سیلف ہلپ کی خوبصورت جلد ہاتھ میں آئی تو وہ اور بھی تازیانہ ہوا.ادھر دیکھا کہ بیوی بچے ان ترقیات کے حارج ہیں جب اس چند روزہ زندگی میں بیبیاں ترقیات کی حارج ہیں تو بہشت میں بھی غالباً وہ ہمیں حرج دیں.پھر وہ جن کو شادی کے اخراجات نے پھر بچوں کی شادیوں کے اخراجات نے حیران کر دیاہے.ہمارے سامنے اچھے ساہوکاروں نے ہاتھ باندھ باندھ کر درخواست کی ہے کہ کوئی انسداد اولادکی راہ بتاؤ.ہم شادیوںکا خرچ برداشت نہیں کرسکتے.سر تقدم الانکلیز کتاب میںایک فرانسیسی واویلا مچاتا ہے کہ شادیوں کے اخراجات نے ہماری نسل کو انگریزوں کے مقابلہ میں بہت ہی کم تعداد اور کمزور کر دیا ہے.پھر وہ جنہوں نے دوسروں کی بیبیوں سے عیاشی کی اور یقین کر لیا کہ جس طرح ہم دوسرے کے غمگسار کو اپنے کاموں میں لاتے ہیں اسی طرح وہ دوسرے ہمارے غمگساروں کو اپنے کام میںلائیں گے.پھر وہ جن کی فطرتیں بہت ہی پاکیزہ ہیںمگر قومی رواجوں اور بے پردگیوں میں عورتوں کو خطرناک آزادیوں میں دیکھتے ہیں تو گھبرا کر بہشتی بیبیوں سے بھی نفرت کا اظہار کرتے ہیں مگر جن کو یقین ہے کہ (النور :۲۷)اور اعتقاد رکھتے ہیں اور ان کا اعتقاد واقعی ہے کہ جنت پاکیزگی اور پاکبازوں کی جگہ ہے.وہاں کے پڑوسی بھی طیب بیبیاں بھی طیبہ آپ بھی طیب اور ضعف وپیری کانام نہیں نہ ان خطرات کا کوئی موقعہ ہے جو صدمات اور امراض سے پیدا ہوتے ہیں اور افکار اور افلاس کاہلی اور سستی ترقیات کے مشکلات اور حرجوں اور کسی قسم کے انفعالات نفسانیہ کا موقعہ وہاں نہ ہوگا.اور وہ لوگ بھی کیونکر انکار کریں جن کا اعتقاد ہے کہ پرمیشر سرب شکتی مان ہے اور وہ اپنے کاموں میں
میں کسی کا محتاج نہیں اگر ان کے دل میں آوے بھی کہ ان بیبیوں کے لئے ہم ریشمی کپڑے سلوائیں گے تو وہ کپڑے کہاں سے آئیں گے اور اتنی کلیں کہاں سے آئیں گی ان کا ایمان انہیں بہت جلد مطمئن کر دیتا ہے کہ ہمارا پرمیشر سرب شکتی مان ہے اور پرکرتی کی نہایت عظیم الشان سامگری اس کے پاس ہے اور اس کا وہ خالق ہے.اس کو کیا فکر ہے.اب بھی کس قدر ہاتھیوں وہیل مچھلیوں بجلیوں روشنیوں ایتھروں اور اربوں کیڑوں مکوڑوں کا اور جیون کا سامان کیا اس کے پاس نہیں.روح ہے اور رہے گی ہمارے آریہ مخالفوں کو یہ امر مسلم ہے دیکھو حوالاجات بالا پھر روحوں کو بقا اور آنند کی خواہش بھی ہے ہم سب یا کم سے کم میں تو اپنے اندر یہ شوق پاتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اسی طرح اوروں میں بھی یہ خواہش ہو گی پرم ایشر ست چتآنند کے پاس کچھ کمی نہیں اور ہماری خواہش بقا اور آنند کے علاوہ اس میں دیالتا کی صفت بھی ہے پھر اس دیالتا کے ساتھ انتریامی بھی ہے اور بخیل نہیں اور نہ کنجوس پھر جس شخص کی نیک اعمال میں بدیاں حارج بھی نہ ہوں تو اس کو سرگ میں پہنچنے کے لئے مشکلات کیا ہیں.ہم اوپر ثابت کر آئے ہیں کہ آریہ کے نزدیک بھی یہ چار صفات رو ح میں موجود ہیں روح کی طلب موجود روح طلب کنندہ موجود اس روح کے مطالب کے لئے نفع اٹھانے کے لئے قوتیں موجود.پھر پرمیشر جیسا داتا موجود.طالب بھگت ہے شریر نہیں.پس کیا ہے جو وہ چاہے اور وہ نہ ہو.ہم تو یقین کرتے ہیں کہ جہاں شیو ہیں وہاں پاربتی بھی ہیں.ہمارے نزدیک نہیں مگر روح ابتداء سے غیر متناہی زمانہ سے ہے اور یہ تمہارا مسلّم اصل ہے اور آئندہ کے لئے بھی غیر متناہی ہے.یہ بھی تمہارا ہمارا مسلم مسئلہ ہے اور ہر روزہ ترقی ہمارا مشاہدہ ہے پھر سوچو کہ ترقی کن ہستی کو ترقی پسند ہے یا تنزل.اور سوچو کہ بہشت کی نعمتیں قویٰ کی ترقی کے نتائج ہیں یا نہیں اور اس کے نہ مٹنے والے اور ساتھ جانے والے جذبات کے مظاہر ہیں یا نہیں؟ اور ہوں گے یا نہیں؟ ا ) ۱.اللہ رب العالمین الحاکمین القادر ہے.۲.مادہ۱۲ ۳.سامان۱۲ ب ) ۱.ہی ۲.علیم ۳،۴.سرور ۵.رحم ۱۲ ۶.علیم بالذات الصدور ۱۲
ور ہوں گے یا نہیں؟ ہم تمہیں ایک بات سناتے ہیں.دیانند نے لکھا ہے سرشٹی کی ابتدا سے لے کر ایک ارب چھیانوے کروڑ برس تک آریہ لوگ چکر ورتی را جہ رہے ہیں صرف پانچ ہزار برس سے بدبختی اور شقاوت نے انہیں دبایا ہے اور تم نے کہاہے کہ لمبا سکھ بھی ایک مصیبت ہے.بنی اسرائیل کی پھر تم نے مثال بھی دی ہے وہ بیچارے تو صرف چالیس ہی برس جنگل میں رہے تھے تم دو ارب برس بھی مزہ اٹھا کر پھر بھی چین نہیں لیتے اور ہنوز مزہ اور آنند سے سیر نہیں ہوئے.ہمیں تو تمہارے آریہ ورت میں آنند بھوگتے ہوئے گیارہ سو برس بھی نہیں ہوئے ہیں اور ابھی گویا ہم تھوڑے دنوں سے یہاں مہمان ہو کر آئے اور تم لوگ دو ارب برس سے ہو.پھر بھی آریہ ورت کے پہلے سکھ تمہیں یاد آتے ہیں اور ان کے حاصل کرنے کی فکر لگی رہتی ہے اور آریہ اس کوشش میں لگے رہتے ہیںکہ دوسروں کی جگہ چھین کر خود ہر قسم کے سامان کے مالک ہوجائیں.اگر میری بات میں شک ہو تو اپنے افسروں،مہارشیوں سے پوچھ لو یا اگر وہ علانیہ اعتراف نہ کر سکیں تو ان کے چال چلن اور برتاؤ سے خود پتا لگاؤ کہ وہ اپنے ماتحت مسلمانوں سے کیا سلوک کرتے ہیں اور تمہارے وکلاء اور جج اور افسر کن پسندیدہ اطوار سے مسلمانوں کے پاس آتے ہیں.الانسان علی نفسہ بصیرہ ولو القی معاذیرہ.فقرہ نمبر۲میں ارادہ تھا کہ برہموں لوگوں سے بہشت کے بارے گفتگو کریں کیونکہ وہ صرف روحانی بہشت کے قائل ہیں.حالانکہ روح اور جان آدمیوں میں بلاجسم کوئی راحت اور رنج حاصل نہیں کر سکتی.اور فقرہ نمبر۳میں نیچریوں اور حکماء سے گفتگو کرتے جو برہموں کے قریب قریب ہیں مگریہ آریہ کے بے جا اعتراضوں کا دماغ ہے.اس لئے انسب معلوم ہوا کہ ایک خاص رسالہ بہشت و دوزخ پر لکھاجاوے.سوال نمبر۳۷.’’دنیا میں روح کو فنا کرنے والا سب سے بڑا گناہ یا مہاں پاپ گوشت خوری ہے.‘‘
الجواب.اس مضمون پر میرے دل نے وچار کرنے اور غوروتامل سے کام لینے کے بعدجو راہ اختیار کی ہے وہ یہ ہے کہ ہماری رحم دلی اورنیکی اور سلوک بہرحال اللہ کے وسیع رحم اور اس کی نیکی اور اس کے سلوک کے مقابلہ میں ہیچ ہے مگر خدا تعالیٰ نے اپنے قانون میں جس کو ہم دیکھ سکتے ہیں اور اس سے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں ذبح کرنے اورجان نکالنے میں کس طرح کا سلوک ہمیں تعلیماً دکھایا ہے اس میں غور کرنی چاہیے.ہم اپنے قریب زمین کے اندربلی اور چوہے کی حالت کو مطالعہ کرتے ہیں اور بچوں کی ابتدائی تعلیم میں پیارے بچے پڑھتے بھی ہیں بلکہ اس کی اس حالت کو جب وہ اپنے بچہ کو چوہے کا شکار کرنا سکھاتی ہے اس کا نظارہ کراتے ہیں کہ کس طرح ایک چوہے کو پکڑ کر اپنے بچہ کے ا ٓگے ڈالتی ہے اور وہ اس کے پیٹ کو مسلتا اور پھر وقفہ کے بعد اسے چھوڑتا ہے اور جب وہ آہستہ آہستہ اس سے جدا ہوتا ہے تو پھر کس طرح اپنے بچہ کے آگے لا کر ڈالتی ہے.پھر کس طرح قتل کرتی ہے.اور بڑا سانپ جنگلی جانوروں اور دوسرے مرغوں کو پکڑ کر کس طرح اپنے پیچوں میں لاکر ان کی ہڈیاں توڑ کر انہیں لقمہ بناتا ہے.پانی کے مگر مچھ اور بڑی مچھلیاں کس طرح اپنے سے چھوٹے جانوروں کو ہلاک کرتے ہیں.جنگلوں میں چیتے اور شیر اور کتّے اپنے شکاروں کے ساتھ کیا کیا سلوک کرتے ہیں؟ اور باز اور شکرہ پرند جانوروں سے کیا معاملہ کرتاہے.اس نظارہ اور اس نظارہ کے متعلق رحیم دیالوکی دیالتا کو دیکھ کر اور اس قانون بنانے والے کی مہربانیوں پر نظر کرکے خدا کے پرستار کے اندر کیا اثر پیدا ہوتا ہے.اگر فرض کریں کہ یہ نپر جنم کی سزائیں ہیں تو اوّل تو نپر جنم خود گورکھ دھندا ہے.دوم دیالو نے ایسی خطرناک سزا کیوں تجویز کی اور اور راہ کیوں نہ نکالی؟ آریوں سے جینی الگ ہو کر اسی رحم کامطالعہ کرکے غلطی میں پڑ گئے اور خدا کے منکر ہو گئے.ہمیں ایک بڑے عالم جموں کے پنڈت کا یہ قول اب تک یاد ہے جس نے کہا تھا کہ گوشت خوری وشراب اور خدا کا ماننا لازم ملزوم ہے.دوسرا نظارہ وہ ہے جو مجھے خود علم طب میں ہر روز کرنا پڑتا ہے.وہ یہ ہے ایک انسان کے کسی زخم
میں ہزاروں کیڑے پڑتے ہیں اور انتٹریوں میں صدہا قسم قسم کے،اس وقت ہمارا سچا رحم اقتضا کرتاہے کہ اس شخص کی ہمدردی کی جاوے اور میں سچ کہتا ہوں کہ ان کیڑوں کی جان کا خیال تک بھی ہمیں پیدا نہیں ہوتا.ہمارے پاس تو جینی اور آریہ سماج بہت سے ایسے امراض کے مبتلا آئے اورہم نے خدا کی بنائی ہوئی وہ دوائیں جو ہمیں آیو ر۱ ؎وید نے سکھائی ہیں استعمال کیں.جب ہم نے ایک جان کے بدلے ہزاروں کو قتل کیا تو اس جینی یا آریہ نے بڑی خوشی اور شکر سے بھر کر ہمیں یہی کہا کہ آپ نے بڑی کرپاکی اور آپ تو ہمارے پرمیشر ہو گئے اور آپ کی دیالتا سے ہمیں امن ملا.تیسرا نظارہ اس وقت ہمارے سامنے آیا جب ہم نے جہازوں کا سفر کیا اور بعض وقت مچھلی کے سوا کچھ بھی نہ مل سکا اور لاچار گوشت خوری سے کام لینا پڑا ورنہ ہلاکت کا مونہہ دیکھنا پڑتا.اور چوتھا نظارہ ہمیں ان تعلیمات سے حاصل ہوا ہے جن کو ہر ایک عقل مند مذہب نے سیاست اور راج نیتی دہرم کے اندر بیان کیا ہے.ایک را جہ اور اس کی پرجا کے خاطر اورا ن کے فتح مند کرنے کے لئے کس قدر فوجیں اور آگ اور بجلی اور اس سے بڑھ کر دشمن کش ہتھیار ایجاد کئے گئے اور ان کی تعریف کی گئی ہے اور خود منو جی اور ستیارتھ کے مصنف اور یورپ کے غریب دل برّے کے اتباع نے تجویز کئے ہیں اور رات دن ایک عالم سیاسیوں کا ان کے ایجاد میں مصروف ہے.یہ فطری تحریک بھی جو ہر زمانہ اور ہر قوم میں جاری رہی ہے گوشت خوری کی بڑی مؤید ہے.اس کے خلاف ہمارے نبی کریم ﷺ نے یہ کہا ہے کہ لایعذب بالنار الا رب النار اور نہ آگ کے ہتھیار بنانے کی تاکید قرآن کریم نے کی ہے مگر منو جی او ر وید نے بقول دیانند کے بڑے زور سے ایسے ہتھیاروں کے بنانے کی تاکید کی ہے.دیکھو ستیارتھ صفحہ ۳۷۰.چنانچہ جیسے کوئی ایک لوہے کا بان یا گولا بنا کر اس میں ایسی اشیاء رکھے کہ جو آگ کے لگانے سے ہوا میں دھواں پھیلنے اور سورج کی کرن یا ہوا کے مس ہونے سے آگ روشن ہو جائے اسی کانام اگنی آستر (آگ کا ہتھیار )ہے.
جب دوسرا اس کا دفعیہ کرنا چاہے تو اسی پر واُرن آستر چھوڑ دے یعنی جیسے دشمن نے دشمن کی فوج پر اگنی ا ٓستر چھوڑ کر تباہ کرنا چاہا ویسے ہی اپنی فوج کی حفاظت کے لئے سنیاپتی (سردار فوج)واُرن آستر سے اگنی آستر کا دفعیہ کرے وہ ایسی اشیاء کے ملانے سے ہوتا ہے کہ جن کا دھواں ہوا کے مس ہوتے ہی بادل ہو کر جھٹ برسنے لگ جاوے اور آگ کو بجھا دیوے.ایسے ہی ناگ پھانس یعنی جو دشمن پر چھوڑنے سے اس کے اعضاء کو جکڑ کر باندھ لیتا ہے.ویسے ہی ایک موہن آستر یعنی ایسی نشیلی ۱؎ چیزیںڈالنے سے (بنایا جاوے کہ)جس کے دہوئیں کے لگنے سے دشمن کی سب فوج سو جائے یعنی بے ہو ش ہوجائے اسی طرح سب شستر آستر ہتھیار اوزار ہوتے تھے اور ایک تار سے یا شیشے سے یا کسی اورچیز سے بجلی پیدا کر کے دشمنوں کو ہلاک کرتے تھے.اس کو بھی اگنی آستر نیزپاشو پتا ستر کہتے ہیں.توپ اور بندوق یہ نام غیر ملک کی زبان کے ہیں.سنسکرت اور آریہ ورت ملک کی بھاشہ کے نہیں.البتہ جس کو غیر ملک والے توپ کہتے ہیں سنسکرت اور بھاشہ میں اس کا نام شتگھنی اور جس کو بندوق کہتے ہیں اس کو سنسکرت اور آریہ بھاشہ میں بھشنڈی کہتے ہیں.جو سنسکرت ودیا نہیں پڑھے وے غلطی میں پڑ کر کچھ کا کچھ لکھتے اور کچھ کا کچھ بکتے ہیں اس کو دانا لوگ مان نہیں سکتے.پانچواں نظارہ موت ایک شدنی اور ضروری بات ہے جو ذی روح کے واسطے لازمی ہے کوئی دوسرا اسے قتل کرے یا نہ کرے کیونکہ اسے دیالوکرپالو نے آخر ضرور مارنا ہے.پس اگر جانور دوسرے کے قتل سے نہ ماراجاوے تو بھی اس کوایک مدت کے بعد قسم قسم کے دکھوںمیں مبتلا ہو کر آخر مرنا ہوگا اور اس کو جو بیماری میں کیڑے پڑیں گے وہ بھی آخر ہلاک ہوجائیں گے اور اس کے تعفن سے بہت سے ذی روحوں اور انسانوں کو شدیدتکلیف پہنچے گی.پس کیا مناسب نہیں کہ جانوروں کو ان دکھوں سے بچانے کے لئے قتل کیا جائے اور پھر ان سے کوئی کام بھی لیا جائے قتل کا دکھ بہرحال عام بیماریوں
سے بہت ہی تھوڑاہے کیونکہ وہ آنی ۱؎ہے اور شدنی.مرض الموت کا آخر ایک زمانہ کے بعد اور زمانہ تک آنا ضروری ہے اگر کہا جاوے کہ آدمیوں کے لئے بھی کیوں ایسی موت تجویز نہ ہو تو اوّل تو یہ ظاہر ہے کہ ایسی اضطراری موت فوجی جوانوں کے لئے تجویز کی گئی ہے اور عام اس لئے نہیں کہ انسان کے ساتھ بہت سے حقوق متعلق ہوتے ہیں ان کا ضائع ہونا زیادہ دکھوں کاموجب ہے.چھٹا نظارہ دیانندی طرز پر یہ ہے کہ درخت بھی ان کے نزدیک وہی روحیں رکھتے ہیں جو انسان رکھتے ہیں دیکھو صفحہ ۳۴۲ ستیارتھ پرکاش جہاں لکھاہے جو نہایت درجہ کے تموگنی ہیں وہ غیر متحرک درخت وغیرہ کیڑے مکوڑوں کا مچھلی،سانپ ،کچھوے،مویشی اور مرگ (جنگلی چوپایہ) کا جنم پاتے ہیں.منو ۱۲/۴۲.اس قانون اور اعتقاد کی بناء پر ایک درخت کا کاٹنا اورمویشی اور مرگ کا قتل کرنا برابر ہو جاتا ہے.اس اصول کو مدنظر رکھ کر آریوں پر فرض ہے کہ ایک درخت کے کاٹنے پر بھی وہی کائیں کائیں کریں جو گائے کے قتل پر حشر برپا کرتے ہیں.ورنہ دیانند کے بنائے ہوئے اصول کو وہ جوتیوں کے نیچے روندتے ہیں اور درختوں میں بے ہوشی کا دعویٰ بے دلیل ہے.سوال نمبر۳۸.ریشمی کپڑے اتنا سامان کہاں سے آئے گا.کون بُنے گا.ریشم کیڑوں کا فضلہ اور لعاب ہے.الجواب.سرب شکتی مان کے خزانہ سے جہان سے تمام جگ کو ملتا ہے سورج کی تیزی قائم رکھنے کے لئے زمین کے لئے نباتات کو اگانے کے لئے اور حیوانات کے لئے کس قدر چیزوں کی ضرورت ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ الٰہی کارخانہ میں سب کے لئے پورا سامان موجود ہے.زمین.پانی.ہوا اور خلا میں جس قدر ذی حیات ہیں سب کے لئے کس قدر کثرت سے سامان مطلوب ہے مگر سرب شکتی مان ہمہ قدرت کے کارخانہ میں سب کچھ موجود ہے ذرہ کمی نہیں.
سرب شکتی مان اور قادر کسی کا محتاج نہیں ہوتا اس کے ارادہ سے سب کچھ ہوتاہے اور سنو! یہ ریشمی کپڑے وغیرہ نعمتیں تو عظیم الشان پیشگوئی ہے.عرب خشن یعنی کھردرے اور سادہ لباس کے عادی تھے.خدا تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کی جزا میں ان کو بشارت دی گئی کہ عنقریب شام وایران کے شاہی ریشمی لباس تم کو دئیے جائیں گے یہ فتح مندی کا وعدہ ہے.آخر ریشمی لباس اسی کو پہنایا جاتا ہے جس کے مناسب حال ہوتا ہے.ہم کو بعض وقت ریشمی لباس،ریشمی تھان،اور زیو ر اُمراء نے دئیے ہیں مگر کبھی ہمارے یا ان کے خیال میں نہیں آیا کہ وہ لباس یا زیور ہم پہنیں گے وہ جن کے مناسب حال تھا ان کو پہنا دیا گیا.اور سنو!یہ قبل از وقت ہمارے سرور کامشاہدہ ہے اور قبل از وقت نظارہ کو عربی میں رؤیا کہتے ہیں اور ریشمی لباس کے متعلق علم رؤیا کا پرما ن یہ ہے اس کو غور کرو اور دیکھو کہ ہمارے نبی کریم ؐ کے مکاشفات آخر کار کس قدر صحیح اور صادق ثابت ہوئے اور جو باتیں اس جہان میں قبل از وقت بطور دعوے کے بتائی جاکر روز روشن کی طرح اپنا ثبوت آشکار کر دیں ان سے بڑھ کر اورکون شے صدق کی مہر اپنے اوپر رکھ سکتی ہے.اب ان معانی کو رؤیا کی کتابوں میں دکھاتے ہیں.الثیاب الخضر.قوۃ و دین و زیادہ عبادۃ للاحیاء و للاموات حسن حال عند اللّٰہ تعالٰی.(منتخب الکلام صفحہ۱۱۰) لباس سبز سے مراد ہے زندوں کے لئے قوت اور دین اور عبادت میں ترقی اور مردوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے نزدیک خوشحالی ہے.الدیباج و الحریر و جمیع ثیاب الابریسم ھی صالحۃ لغیر الفقہاء فانّھا تدلّ علٰی انھم یعملون اعمالا یستوجبون بھا الجنۃ و یصیبون مع ذٰلک ریاسۃ.والثیاب المنسوجۃ بالذھب والفضّۃ صلاح فی الدین و الدنیا و بلوغ المنٰی.ومن رای انہ یملک حللا من حریر او استبرق او یلبسھا علی انہ تاج او اکلیل من یاقوت فانہ رجل ورع متدین غازٍ و ینال مع ذٰلک ریاسۃ.(منتخب صفحہ۱۱۱) دیباج اور ریشم اور ہر قسم کے ریشمی کپڑے فقہاء کے سوا اوروں کے لئے بہت اچھے ہیں ا ن کے
معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ لوگ ایسے عمل کریں گے کہ جن سے جنت کے حقدار بن جائیں گے اور اس کے علاوہ انہیں ریاست بھی ملے گی.اور سونے اور چاندی کے ساتھ بنُے ہوئے کپڑوں سے مراد ہے بہتری دین میں اور دنیا میں اور مقصد پر پہنچ جانا.جوشخص دیکھے کہ اس کی ملک میں ریشم اور استبرق کے لباس ہیں یا انہیں پہن رکھاہے یا یاقوت کا تاج سر پر دیکھے ایسا شخص پرہیز گار دیانت دار،غازی ہوتاہے اور علاوہ برآں اسے سلطنت بھی نصیب ہوتی ہے اور دیکھو سوال نمبر۴۰کا جواب.سوال نمبر ۳۹.بہشت میں نہریں ہوں گی.بعض کہتے ہیں کہ دودھ اور شہد کی نہریں.الجواب.او بد بخت! اسلامی نہروں سے محروم! دیکھ تیرے سام وید نے تجھے اب وید سے بھی متنفر کرانے کی تجویز کی ہے.جو کوئی کہ اُس خلاصی یعنی پومن (سوم) بھجن کو جسے خدا رسیدہ لوگوں نے جمع کیا پڑھتا ہے اس کے لئے سرسوتی،پانی،مکھن،دودھ اور مدہ برساتا ہے.دیکھو سام وید پر پاٹھک ۸سوم پومن صفحہ۱۲۹ (پرپاٹھک ۹، سرسوتی) ہاں اُس سات بہنوں والی پیاری نہروں میں نہایت پیاری سرسوتی نے ہماری تعریف حاصل کی ہے.وہ رس کی نہر کے ساتھ اپنے تئیں صاف کر کے زردو سُرخ رنگ ہو کر چمکتا ہے.اس وقت جب کہ وہ مدح گویوں کے ساتھ سات مُونہہ رکھنے والا تعریف کرنے والوں کے ساتھ کل شکلوں کا احاطہ کرتا ہے.صفحہ ۵۱.وہ مضبوط پہاڑی ڈنٹھل مستانہ خوشی کے لئے نہروں میں نچوڑا گیا ہے باز کی طرح وہ اپنی جگہ قرار پذیر ہوتا ہے.صفحہ ۵۳.اے اندر! تیری نہر قوت کے ساتھ دیوتاؤں کی ضیافت کے لئے بہتی ہے.اے سوم مدہ سے مالا مال! ہمارے برتن میں نشست گاہ اختیار کر.صفحہ ۶۴.دودھ ان کی طرف اِس طرح دوڑا ہے جس طرح طُغیانیاں کسی چٹان پر دھکیلتی آتی ہیں.وہ اِندر
کے پاس صاف ہو کر آتے ہیں.صفحہ۹۷ نیز اگر نہروں والی بہشت ناپسند تھی تو تمہارے آریہ کو جو تبت میں آباد تھے جب اپنے ملکوں سے اپنے کرموں انسار سے (نتائج اعمال ) جلاوطنی کا انعام ملا تھا تو چاہیئے تھا کہ افریقہ کے ریگستان میں جاتے انہوں نے انڈیا کو کیوں پسند کیا جس میں دُودھ اور شہد اورہر قسم تعیش اور تنعم کی نہریں بہتی ہیں.تم کیسے شریر ہو مکہ معظمہ کا تذکرہ ہو تو اُسے ریگستان سمجھتے ہو اور اگر نہروں کا تذکرہ ہو تو اس پر ہنسی ٹھٹھا کرتے ہو.تم اس پر راضی ہو کہ تمہیں نرگ میں بھیج دیا جاوے.حقیقی جواب نَھَر کے معنے کثرت کے ہیں اور نَھر کے معنے ندی کے ہیں اور وہ آیات جن میں نہروں کے عطیہ کا تذکرہ ہے وہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اصحاب کرامؓ کے حق میں ان کی محنتوں، مشقتوں اور تکالیف کے بدلہ جو انہوں نے اپنے پاک نبیؐ کی اتباع میں اُٹھائیں اﷲ کی طرف سے وعدہ تھا کہ انہیں اِسی جنم میں ریگستان عرب کے بدلہ نہروں والے ملک عطا کروں گا.چنانچہ جیسے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا اور آپؐ کے سچّے اور مخلص اتباع ان بلاد کے مالک ہو گئے جن میں دجلہ ،فرات، جیحون، سیحون، یردن اور نیل بہت تھے اور اسی پیروی کی برکت سے مسلمانوں نے آریہ ورت کو بھی لے لیا جس میں گنگا ،جمنا اور سرسوتی بہتے ہیں.سوچو اور خوب غور کرو کیسے قبل از وقت بتایا ہوا وعدہ پورا ہوا اور مفصل بہشت کے مضمون میں آچکا ہے اور جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں ان الفاظ کے حقائق کے سمجھنے کے لئے ہمیں کتب تعبیر الرُّؤیا کی طرف رجوع کرنا چاہیئے چنانچہ نھر کے حقائق کی نسبت ان میں ہم یہ پاتے ہیں.اَلنَّھْرُ یَدُلُّ عَلٰی اِقْلِیْمِہٖ کَسَیْحُوْنَ وَ جَیْحُوَْنَ وَالْفُرَات َوالنِّیْلَ.نہر سے مراد یہ ہے کہ ایسی اقلیمیں جن میں نہریں بہتی ہیں جیسے سیحون اور جیحون اور فرات اور نیل اسلام کے قبضہ میں آ جائیں گی اور آخر وہ آ گئیں.وَ النَّھْرُ فِی الْمَنَامِ عَمَلٌ صَالِحٌ أَوْرِزْقٌ وَ نَھْرُ اللَّبَنِ دَلِیْلٌ عَلَی الْفِطْرَۃِ وَنَھْرُ
ُ الْخَمْرِ دَلِیْلٌ عَلَی السُّکرِ مِنْ حُبِّ اﷲِ تَعَالٰی وَ الْبُغْضِ عَنْ مَحَارِمِہٖ وَ نَھْرُالْعَسْلِ دَلِیْلٌ عَلَی الْعِلْمِ وَالْقُرْاٰنِ (تعطیر الانام صفحہ ۳۲۶) اور خواب میں نہر کو دیکھنے سے مراد ہوتا ہے عملِ صالح اور دائمی رزق.یہ بھی مسلمانوں کوملا.دُودھ کی نہر دیکھنے سے مراد ہے فطرتِ صحیحہ اور شراب کی نہر سے مراد ہے اﷲ تعالیٰ کی محبّت کے نشہ سے سرشار ہونا اور اس کی حرام کردہ اشیاء سے بُغض رکھنا اور شہد کی نہر سے مراد ہے علم اور قرآن کا حاصل ہونا.نَھْرُالْکَوْثَرِ فِی الْمَنَامِ نُصْرَۃٌ عَلَی الْاَعْدَائِ بِقَوْلِہٖ تَعَالٰی اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ (تعطیرالانام صفحہ ۳۲۵) نہر کوثر کا رؤیا میں دیکھنا دلیل ہوتا ہے اَعداء پر مظفّر و منصور ہونے پر جیسا کہ خدا تعالیٰ کے کلام اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ سے مستنبط ہوتا ہے.چنانچہ بے چارگی اور بے سامانی کے زمانہ میں جبکہ ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ معظمہ میں دشمنوں کے ہاتھوں سے شکارِ لاغر کی طرح دُکھ اُٹھا رہے تھے.یہ وحی آپ کو عالم الغیب قادر خدا کی طرف سے ہوئی کہ ہم نے تجھ کو الکوثر عطا فرمایا ہے.دنیا جانتی ہے کہ وہ مظلوم بیکس انسان جسے اپنے بیگانوں نے پاؤں کے نیچے مسلنا چاہا تھا کس طرح اپنے اَعداء پر منصور و مظفر ہوا اور اس کے قوی اور متکبر دشمن خاک میں مل گئے.سوچو اور غور کرو کہ یہ غیب کی باتیں کس طرح حرفاً حرفاً پوری ہوئیں اور خدا کے غضب سے ڈرو.من رای الملا ئکۃ یدخلون علیہ و یسلّمون علیہ فی الجنۃ فانہ یصیر الی امر یصل بہ الی الجنۃ لقولہ تعالٰی و الملا ئکۃ یدخلون علیھم من کل باب الایۃ ویختم لہ بالخیر.( منتخب الکلام صفحہ۵۵) جوکوئی دیکھے کہ فرشتے جنت میں اس پر داخل ہوتے اور سلام کرتے ہیں وہ ایسے کام کرے گا جن کے باعث جنت میں پہنچے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور فرشتے داخل ہوں گے ان پر ہر ایک
دروازے سے اور ایسے آدمی کا انجام اچھا ہو گا.ومن رای غلمانھا یطوفون حولہ نال مملکۃ ونعیماً لقولہ تعالیٰ ویطوف علیھم ولدان مخلدون۱؎ (منتخب الکلام جلد اول صفحہ۵۴) اورجوکوئی جنت کے نوجوانوں کو دیکھے کہ اس کے اردگرد پھرتے ہیں وہ بادشاہ ہوجائے گا اور نعمتیں حاصل کرلے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور خدمت کو پھرتے ہوں گے ولدان جن کے بالوں میں سفیدی آگئی.سوال نمبر۴۰. (الدھر :۲۲) (الکھف :۳۲) بھلا کوئی شائستگی ہے کہ عورتوں کا گہنا آدمی پہننے لگ جاویں.کیا بی اے مولوی ہیجڑوں کی طرح کنگن پہن کر پھریں گے.پھر ہنسی کی ہے.الجواب.حُلُّوا کا ترجمہ زیور دئیے گئے.یحلون کا ترجمہ ہے زیور دئیے جائیں گے.یہ بھی غریب عرب کو ایک وعدہ تھا اور زبردست پیشگوئی ہے.چنانچہ ایک شخص سراقہ بن مالک بن جعشم المدلجی نامی کو حضرت نبی کریم نے اس کے خالی ہاتھ دیکھ کر (ا ن پر بال بہت تھے اور ہاتھ نہایت پتلے تھے) فرمایا: کانی بک قد لبست سواری کسرٰی.میں دیکھ رہا ہوں کہ تجھے کسرٰی کے کنگن پہنائے گئے.مدتو ں کے بعد جب خدا تعالیٰ کے وعدہ کے دن آئے اور خدا کے برگزیدہ بندوں نے آریوں کے بھائی ایرانیوں کے ملک کو فتح کیا اور فتوحات ایران کامال سونا، یاقوت، زبرجد اور لؤلؤ بکثرت آیا اور اس میں خاندان شاہی کے زیورات آئے تو حضرت عمر ؓ نے خاص کسریٰ شہنشاہ کے کنگن اس عربی مدلجی کو پہنا دئیے اس لئے کہ وہ پیشگوئی پوری ہوجو نبی کریم ﷺ نے کی تھی اور جو قرآن کریم میں مفصل مذکور ہے.دیکھو امام شافعی کی روایت ازالۃ الخفا صفحہ ۱۳۰ جلد۲
اب ہم اسے رؤیا کی کتابوں سے حل کرتے ہیں.سوار.ان کان اسورۃ من فضۃ فھو رجل صالح للسعی فی الخیرات لقولہ تعالٰی وحلوا اساور من فضۃ فان سورت یدالسلطان فھو فتح یفتح علی یدیہ مع ذکر وصوت وان کان لہ اعداء فان اللہ یعینہ.(منتخب الکلام جلد۱) اگر کسی کو رؤیا میں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں تو وہ شخص صالح آدمی اور اس قابل ہوتا ہے کہ بڑے بڑے نیک کام اس کے ہاتھ سے نکلیں اور یہ معنی مستنبط کئے گئے ہیں خدا تعالیٰ کے قول حلوا اساور من فضہسے.اگر سلطان کے ہاتھ پر کنگن پہنائے جائیں تو اس کے معنی ہوں گے کہ اسے فتوحات نصیب ہوں گی اور اس کا آوازہ شہرت دنیا میں مشتہر اور شائع ہو گی اور اگر اس کے دشمن ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان پر اسے فتح مند کرے گا.واقعات عالم اور ہمارے نبی کریم ﷺ کی لائف پرنگاہ کرکے دیکھ لو کہ یہ ساری باتیں کس طرح احسن طریق سے پوری ہوئیں اور بعد الموت اس سے اتم اکمل طور پر پوری ہوں گی.سوال نمبر ۴۱.حوروں پر اعتراض.گوری.کنواری.ہم عمر،نوجوان.سیاہ آنکھوں والی دوشیزہ عورتیں ملیں گی.برہمچاری اس قسم کی شلیل باتوں کو مونہہ پر لانا بھی مہان پاپ سمجھتا ہے.قرآن کریم کے کلمہ طیبہ اَبْکَاراً،عُرباً.اَتْرَاباً پر اعتراض کیاہے.الجواب.کیا الٰہی کتب صرف برہمچریہ کے لئے ہوا کرتی ہیں.نادان انسان! اگر خاص خاص مذاق کے لئے الٰہی کتابیں ہوں تو دوسرے مذاق والے کیا کریں وہ شتر بے مہار ر ہیں.بتاان کی اصلاح کون کرے؟ نیز چاہیے کہ نہ تم نے ستیارتھ پرکاش پڑھنا اور نہ منو کا شاستر اور چاہیے کہ تم وید کو بھی نہ پڑھو کیونکہ ۱۰۴اور۱۰۵صفحہ ستیارتھ پرکاش میںلکھا ہے.اشونی.بھرنی وغیرہ ستاروں کے نام والی.تلسی گلابی وغیرہ پودوں کے نام والی.گنگا جمنا ندی کے
نام والی.پاربتی پہاڑ کے نام والی.پرندوں کے نام والی اور اس قسم کے نام والیوں سے نکاح نہ کرنا.نمبر۹ میں کہا ہے نہ زرد رنگ والی.نہ بھوری آنکھ والی وغیرہ.نمبر۱۱میں کہا ہے جس کانام زیبا جیسے بشودہا.سکہدا وغیرہ ہنس اور ہتھنی کے برابر جس کی چال ہو جس کے باریک بال.سر کے بال اور چھوٹے دانت والی ہو اور جس کے سب اعضاء ملائم ہوں ایسی عورت کے ساتھ بیاہ کرنا.اس قدر حوالے غالباً اگر تم شریف الطبع ہو تو کافی ہیں.پس بڑا اور مہان پاپ کیا اس پاپی نے جس نے ست کے ارتھ میں ایسی شلیل باتوں کا ذکر کیا اور اس کے پڑھنے کو کہا.بدبخت!کامل کتاب ضروریات اور حقیقی راحت بخش بات کا بیان نہ کرے تو کیا چنڈالوں کی کتابیں سچائی بیان کریں.کامل کتاب وہ نہیں ہو سکتی جس میں صرف برہمچریہ زندگی کا ہی تذکرہ ہو، نہ وہ جس میں صرف چند اخلاقی باتوں کا ہی تذکرہ ہو،نہ وہ جس میں صرف سوشل امور کا بیان ہو، نہ وہ جس میں صرف سیاست وانتظام کامعاملہ بیان ہو،نہ وہ جو صرف امور آخرت کے متعلق بحث کرے، نہ وہ جس میں صرف عبادات کا ذکر ہو.کامل کتاب تو وہ ہے جس میں انسانی اخلاق وعادات، معاملات،سیاست ،تمدن ،اموربعدالموت اور الٰہی تعظیمات کی تعلیم بو جہ اتم بیان ہو.یہ بھی ایک موقع اسلام پر اعتراض کا بعض احمقوں کو ملا ہے.مثلاً کسی نے دیکھا کہ عورتوں کے متعلق قرآن شریف میں بحث ہے.پولٹیکل بحثیں ہیں توا یک نامرد ونامراد کس مپرس بول اٹھا کہ ا ن مباحث کی کتاب الٰہی میں کیا ضرورت ہے؟ صرف بہجن اور توصیف الٰہی کے گیت کافی تھے.چند لڑکے ان کو یاد کر لیتے اور وہ ڈھولکی پر گاتے اور نگرکیرتن کرتے.ایک کنجوس اور غریب ومفلس بول اٹھتا ہے کہ زکوٰۃ اور اعطاء صدقات کا کیوں قرآن شریف میں ارشاد ہے؟ ہمیشہ کا مفتوح ملک اور جس نے کبھی ذرہ سر اٹھایا تو مونہہ کے بل گرا.شریروں ،بدمعاشوں سے جنگ کا تذکرہ سن کر کیا خوشی حاصل کر سکتا ہے؟ جس کو کبھی مکالمات الٰہیہ کا شرف حاصل نہیں ہوا وہ برہمو مت کا آدمی یاعام طور کا غافل یا جس کو یقین ہے کہ الٰہی مکالمہ کا شرف دوارب برس کے قریب
ملہمان وید کے بعد پھر کسی کو بھی نصیب نہیں.وہ انبیاء کی وحی ومکالمہ کو ڈھکونسلہ نہ سمجھے تو کیا کرے؟ یا جس قوم کو باہر نکلنے کا اتفاق نہیں ہوا اور نہ ا ن کو ضرورتیں پیش آئیں اور وہ نہیں جانتے تھے کہ بعض جگہ گائے کا دودھ اور جَو کے ستّو اور ساگ نہیں مل سکتا.گو بے ہودہ لاف زنی سے کہتے ہوں کہ ہمارے بزرگ چکر ورتی راجہ تھے.وہ (المائدۃ :۶)کا سرکس طرح سمجھے؟ تجربہ کے سوا کچھ بھی سمجھ میں نہیں آسکتا.غرض جامع کتاب کو سب کچھ جو انسان کے لئے ضروری البیان ہے بیان کرنا پڑتا ہے اگر وہ کتاب بیان نہ کرے جو اپنے آپ کو کامل وجامع کہتی ہے تو کون بیان کرے.اگر آپ نہ سمجھیں یا نہ چاہیں تو آپ کی خاطر کیوں ضرورتوں کے بیان کو ترک کیا جاوے.کیا ساری دنیا برہمچریہ مذہب رکھتی ہے.اللہ تعالیٰ نے دماغ، برین اور اعصاب میں مختلف خواص رکھے ہیں ان خواص کو مدنظر رکھنا کامل کتاب کاکام ہے.شلیل کہنا تمہاری شریں کلامی کا ثبوت ہے اَبْکَاراً، عُرباً.اَتْرَاباً کے معنی کنواریاں اپنے خاوندوں سے محبت کرنے والیاں،قریب العمر.کیا نیکوں کو ایسی نہ ملیں تو چڑیلیں ملیں؟ سوال نمبر ۴۲.(الدھر :۲۰)پر اعتراض.کیا یہ لڑکے آدمیوں کو ملیںگے یا عورتوں کو.پھر آپ ہی جواب دیا ہے کہ تارک اسلام کے نزدیک انصاف ہے کہ عورتوں کو بہت نوجوان یکدم بطور خاوند وپتی کے ملیں کیونکہ جب ایک ایک آدمی کو بہت سی حوریں ملیں گی تو ایک ایک عورت کو بہت نوجوان لڑکے ملنے چاہئیں.الجواب.آپ کا انصاف ایک شریف الطبع انسان پسند نہیں کر سکتا.نادان غور کر!ایک عورت ایک خاوند کے ایک بچہ کو یا اس کے دو تین بچوں کو ایک وقت میں بمشکل پیٹ میں رکھ سکتی ہے.ایک مرد آج کسی عورت کے بچہ دان کو اپنے نطفے سے مشغول کردے اور دوسرے دن دوسرے
کے تیسرے دن تیسرے کے.علیٰ ہذ ا سال بھر تین سو ساٹھ بچہ مختلف رحموں میں پرورش کے لئے دے سکتا ہے.ہاں مرد قوی بہت عورتوں کے رحم میں بیج ڈال سکتا ہے.اس لئے عورتوں کو بہت نوجوانوں کا ملنا بے انصافی ہے اور اس پر دکھ ہے.نیز مرد ایک گونہ عورتوں پر حکمران ہے پس ایک مرد کے لئے بہت عورتیں ہوں تو عورت کو آرام ہے کہ مرد کی حکومت اس کے سر سے کچھ ہٹ گئی یا ایک عورت کے لئے بہت خاوند ہوں تو کیا عورت کو آرام مل سکتا ہے.کیا جس کے اوپر بہت سارے حکمران ہوں وہ آسودہ حال ہو سکتا ہے.علاوہ اس کے خاوند کیا آپس میں جنگ نہ کریں گے کیونکہ اگر بہت سارے مرد ایک عورت کے خاوند ہوئے تو ایک وقت ایک چاہتاہے کہ یہ عورت میرے پاس اور دوسرا چاہے کہ میرے پا س آوے اس لئے اول تو وہ آپس میں جوت پیزار کریں گے پھر وہ عورت بہرحال مصیبتوں میں مبتلا ہوگی.نافہم انسان !سوچ اور غور کر!مگر تم کو غور کا مادہ کیونکر ملے گا تمہارا مذہب تو ایسے امور کی پروا نہیں کرتا.کیونکہ نیوگ میں ایسے امور بہت پیش آتے ہیں.سُن !بہشتی نعمتوں میں اسلام بیان کرتا ہے کہ بڑی نعمت خدا کی رضا مندی ہے.دیکھوقرآن کریم (التوبۃ:۷۲) (یونس:۱۱) اور اللہ کی خوشنودی تمام نعمتوں سے بڑی ہے وہ اللہ کی پاکیزگی بیان کریں گے اور آپس میں سلامتی اور صلح سے رہیں گے اور آخری پکار ان کی یہ ہو گی کہ حمد ہے اللہ پروردگار کے لئے.پس سچے مسلمان الٰہی رضا مندی کے گرویدہ ہو کر اس کی عبادت کرتے ہیں نہ اس بات کے لئے جس کی نسبت تم نے فضول گوئی کی ہے.ہاں دنیا کی نعمتیں اور دنیوی عیش و آرام اور دولت مندی آریوں کے اعتقاد میں نیکیوں کا پھل ہے اور ظاہر ہے کہ غلمان بعض دولت مند ہندوؤں کے لوازمات میں داخل ہیں.پس کیا یقینا یہ الزام آپ لوگوں پر نہیں ہو سکتا؟بلکہ جب دیانند کے
نزدیک بھی دنیاہی سورگ اور نیکی کے ثمرات لینے کی جگہ ہے گو چنداعمال کے بدلے ارواح چندے شواغل دنیا سے بھی آزادی اور انند میں رہیں گے تو اس صورت میں دیانندی پنتھ کے مطابق غلمان نیکی کے ثمرات نہیں تو اور کیا ہیں!بات یہ ہے کہ سخت عداوت کے سبب تمہیں غلمان کا قصہ سمجھ میں نہیں آیا.یا قرآن کریم کو نہ دیکھا ہے اور نہ سمجھا ہے.افسوس کہ اس ادعائی تہذیب کے زمانہ میں یہ درشت زبانی!تمام قرآن کریم کا اردو ترجمہ بھی تم دیکھ لیتے اور تھوڑا سا ماقبل سے پڑھ لیتے تو بشرط انصاف تم ایسے خلاف تہذیب امر کے مرتکب نہ ہوتے.سنئے ! قرآن میں ہے.(الطور :۲۲تا۲۵) ہم مومنوں کے ساتھ ان کی مومن اولاد کو ملا دیں گے اور ان کے عملوں سے کچھ بھی کم نہ کریں گے ہر شخص کو اپنی اپنی کمائی کا بدلہ ملے گا اور ہم انہیں میوے اور ان کے پسند کے گوشت دیں گے اور اس میں ایسے پیالے پئیں گے کہ ان کا نتیجہ بے ہودہ خیالات اور بدکاری نہیں اور ان کے اردگرد موتیوں کے دانہ جیسے بچے پھریںگے.باری تعالیٰ فرماتا ہے.بہشتیوں کی اولاد ان کے پاس پھرے گی وہاں مومن اولاد کی جدائی کا غم نہ دیکھیں گے اور ان کے لئے نہ ترسیں گے.جب لفظ تاثیم صریح اس کی صفت میں موجود ہے جس کے معنی ہیں نہ گناہ میں ڈالنا.پھر آپ کو ایسا ناشان خیال کیوں گزرا؟ اس معنی کی تفسیر خود قرآن کریم نے سورہ دہر میں اور لفظوں کے ساتھ کی ہے اور وہاں غلمان کے بدلہ ولدان کا لفظ جو ولدیا ولید کی جمع ہے فرمایا ہے: (الدھر :۲۰) اور ان کے اردگرد عمر دراز بچے پھریں گے تم انہیں دیکھ کر یہی
سمجھو کہ بکھرے ہوئے موتی ہیں. (الواقعہ :۱۸،۱۹)اور ان کے اردگرد عمر دراز بچے کوزوں اور لوٹوں اور خالص نتھرے صاف پانی کو لئے پھریں گے.اور اصل بات یہ ہے کہ یہ ایک بشارت ہے جو فتوحات ایران وروم میں اپنے جلال کے ساتھ ظاہر ہوئی.جوان اور ادھیڑ شاہی خاندان کے شاہزادے اور شہزادیاں مسلمانوں کے خادم ہوئے.مخلد ادہیڑ کو بھی کہتے ہیں جس کے بال سفید ہو گئے ہوں.اور سن! حضرت زکریا فرماتے ہیں.(مریم :۹).اے اللہ مجھے کب بچہ عطا ہووے اور ابراہیم علیہ السلام کی نسبت ارشاد ہے..(الصّافات :۱۰۲) ہم نے ابراہیم کو خوشخبری دی ایک عقل مند بچہ کی اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے قصہ میں آیا ہے (الکھف :۷۵) موسیٰ اور خضر کے سامنے ایک جوان آیا اور خضرنے اس کو قتل کر دیا.وغیرہ وغیرہ میں دیکھو.اولاد اور جوانوں کو غلام کہا گیا ہے بلکہ قاموس میں لکھاہے کہ غلام وہ ہوتا ہے جس کی موچھیں نکل چکیں.نیز تجھے خبر نہیں کہ عورت اور مرد میں جناب الٰہی نے قدرت میں مساوات رکھی ہی نہیں بچہ جننے میں جو تکالیف عورتوں کو ہوتی ہیں ان میں مردوں کا کتنا حصہ ہے کیا مساوات ہے؟ کیا قوٰے میں مساوات ہے ؟ ہرگز نہیں.میں ہمیشہ حیران کہ مرد و عورت میں مساوات کا خیال کس احمق نے نکالا؟ سوال نمبر ۴۳.قربا نی لغو حرکت ہے.جس کا گلا کاٹ دیا جاوے وہ باعث آرام کیونکر ہو سکتاہے.الجواب.یہ کلمہ یاد رکھنا چاہیے کہ جس کا گلا کاٹ دیا جاوے وہ باعث آرام کیونکر ہو سکتا ہے.قربانی کے مضمون کو ہم تین حصوں پر منقسم کرتے ہیں توکہ سہولت ہو اور آسانی سے جواب سمجھا جاوے.
حصہ اول قربانی کا مسئلہ بھی عجیب وغریب مسئلہ ہے تمام دنیا میں بسائط عالم سے لے کر اعلیٰ مرکبات تک کی قربانی ہور ہی ہے اور ایشیا کا مذہبی دارالعلوم مع یورپ وقدیم امریکہ افریقہ اور پولنشیا کے اس کا عامل ہے مگر آج کل کی دنیا انکار کی طرف مائل ہے.اوکسیجن ہر متنفس میں انسانی آرام کے لئے قربان ہوتی ہے.کاربن درختوں کے لئے قربا ن ہوتی ہے.کروڑوں من لکڑی اور کوئلہ اگنی دیوتا کے لئے اسٹیمروں.ریلوں اور ورک شاپوں میں قربان ہوتاہے.تب انسان کے سامان اگنی جی کی پرستنا پرہمیں ملتا ہے اور کہنے والے کہے جاتے ہیں قربانی لغو حرکت ہے اور ہمارے نزدیک تو ہر ایک چیز میں روح ہوتی ہے اور آریہ بھی درختوں میں روح مانتے ہیں.ستیارتھ میں بحوالہ منوجی لکھا ہے جو نہایت درجہ کے تموگنی ہیں وہ درخت کیڑے مکوڑے کا جنم پاتے ہیں.اس لئے درختوں کا کاٹنا اور اپنے کام میں لانا ایسا ہی ہوا جیسا حیوان کامارنا.پس درخت کیوں قربان کئے جاتے ہیں اور انسان کی خاطر ان کی قربانی کیو ں جائز ہے.عذر کیا جاسکتا ہے کہ ان کی روح بے ہوشی کی حالت میں ہے پس یہ قربانی اس لئے جائز ہے جیسے ستیارتھ پرکاش صفحہ ۶۰۲میںہے.اپنے مطالب حل کرنے کو خوب عذر ہے بھلا اس دعویٰ کا ثبوت کیاہے.کند مول وغیرہ چیزوںمیں رہنے والے جیون کو سکھ دکھ محسوس نہیں ہوتا.دیکھو صفحہ ۵۹۹ تو کیا پھر بے ہوش کرکے قربان کر لیں اور اسی طرح بے ہوشی کے بعد قربانی کا فتویٰ آریہ سماج کیا دے گی؟پھر جب ہم غور کرتے ہیں تو حیوانی قربانی کامسئلہ بھی وسیع نظر آتا ہے.ایک انسان کو ویدان کا مرض ہوتا ہے تو الٰہی کارخانہ میں ہزاروں ہزار ایسی دوائیں ہیںجن کو استعمال کرکے ان جانوروں کی قربانی اس مریض کے لئے کی جاتی ہے اور ہزاروں ہزار جانور اس ایک جان کی خاطر ہلاک کئے جاتے ہیں تب وہ جانور ہلاک ہو کرمریض انسان کو اورحکیم کو راحت بخش ہوتے ہیں.صرف تقریریں بنانا قوت رحم کو ضرور جوش دیتا ہے مگر عملی حالت بتاتی ہے کہ انسان اپنی ضرورت و آرام
کے لئے کس قدر جانوں کو قربان کرنا لابدسمجھتا ہے.اس سے آگے چل کر دیکھیں تو سیاست مدن میں ادنیٰ آدمی اعلیٰ کے لئے ہمیشہ قربان ہوتا ہے.سفر مینااور دیسی ادنیٰ سپاہی پہلے مارے جاتے ہیں پھر ادنیٰ افیسر اور اسی طرح درجہ بدرجہ اور بادشاہ کی نوبت نہیں آتی.ہم نے ویدک احکام دکھائے ہیں ویدوں میں لکھا ہے کہ جس طرح بجلی بادلوں کو اور آگ بَن کے گھاس کو فنا کرتی ہے اسی طرح سپہ سالاروں کو چاہیے کہ مخالفوں کو ہلاک کر دیں.دیکھو ہمار ا صفحہ ۱۰رگوید ۶۱۶.بلکہ دیانندی خیال کے مطابق تو جانوروں اور مویشی بلکہ گائیوں اور آدمیوں کو بھوکا مار کر اپنی فتح واقبال کی خاطر قربان کرنا جائز ہے.دیکھو ستیارتھ صفحہ ۲۱۱.اور نوح کے وقت جل تھل کرنے پر اعتراض کہ بہت جیو اس وقت مارے گئے ہوں گے اور یہ ظلم ہے.ایسے واقعات بیان کرنے والی کتاب خدا کی کتاب نہیں ہوسکتی.کسی وقت مناسب سمجھے تو دشمن کوچاروں طرف محاصرہ کرکے روک رکھے اور اس کے ملک کو تکلیف پہنچا کر چارہ،خوراک،پانی اور ہیزم کو تلف وخراب کردے.منو ۷.۱۹۶.دشمن کے تالاب شہر کی فصیل اور کھائی کو توڑپھوڑ دیوے.رات کے وقت ان کو خوف دیوے اور فتح پانے کی تجویز کرے.منو صفحہ۱۹۷ ذرہ ان الفاظ (ملک کو تکلیف پہنچاکر چارہ،خوراک،پانی،ہیزم کا تلف کرنا تالاب توڑ دینا)پر غور کرو.کیانرم دل کے مناسب حال قواعد ہیں.جیسے پال کا دل ہے.آہ ! دوسرے مذہب کی تردید کے وقت کہنے کو انسان کو نرم دلی کا وعظ یاد آتا ہے مگر اپنے گھرکی ضرورتوں پر کیسے احکام جاری کئے جاتے ہیں اور جب اپنا نفع ونقصان ملحوظ ہو تو کن قوٰی سے کام لیا جاتاہے.دھرم پال کا نرم رحیم دل اور جنگوں سے متنفر دیکھئے کیا تأویل گھڑتاہے یا ویدک مت کو ترک کرتا ہے مگر اغراض کے سامنے ایسے لوگ میری کیونکر سنیں گے!! انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کی جلد۲۱صفحہ ۱۳ اور انسائیکلو پیڈیا ببلیکا جلد۴صفحہ ۴۱۸۷تا۴۲۴۰میں ہے.ایران.انڈیا.یونان.روم.عرب.افریقہ.قدیم امریکہ اور روما میں قربانی کا عام رواج
تھا اور قربانیاں رضا ئے الٰہی.کفارہ معاصی.ازالہ غضب اصنام کے لئے.غریب کی غربت.شاعر کی قوت بڑھانے.بیمار کی شفا کے واسطے قربانی ہوا کرتی تھیں.ایرانیوںمیں شکریہ.کفارہ اور حمد الٰہی کے لئے لڑکے کے تولد.ختنہ.شادی پر اور مہمان کے آنے پر.فتح مندی.زمین کے جوتنے.کنوئیں کی بنا.بنیاد عمارت.باہمی معاہدہ.مردہ کی سالانہ رسم، شکار کے بعد اور جب کسی کا جانور پہلا بچہ دے تو قربانی ہوا کرتی تھی.بابلی لوگ قیدیوں میں ایک انسان کی قربانی اور افریقہ میں حسین آدمی کی قربانی ہوتی تھی.بابلیوں میں ہرن کی قربانی اور عبرانیوں میں بادشاہ اور رعایا کی طرف سے شاہی قربانی چھ لیلے اور ایک دنبہ ضروری تھا.سوختنی قربانی بھی اگنی دیوتا کے لئے ہوتی تھی اور اس کو عولی کہتے تھے.حضرت سلیمان نے جب ہیکل تیار کی تو قربانیوں کی نوبت لاکھوں تک پہنچی.روما میں سور کی.یونان میں شراب کی قربانی بھی معمول تھا.میکسیکو میں تین منزلہ مندر میں سبز پتھر پر قربانی ہوتی تھی.برٹانیکا جلد۱۶.۲۲۰ضرور ملاحظہ ہو.دعا اور قربانی لازم و ملزوم.جلد ۲۴.۳۰۰ ڈاہومی میں بادشاہ کی وفات پر دو ہزار آدمی کی قربانی ہوتی ہے.جلد۱نمبر۵۱ انگلستان میں دوروایڈسن قوم میں قربانی تھی.انڈیا کی تمام اقوام میں جلد ۲۹.۲۸۱سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانیاں ہوتی تھیں.میں نے اپنی آنکھ سے جے پور کے پرانے محلات میں وہ مقام دیکھا ہے جس میں انسانی قربانی ہوتی تھی اور اب انگریزی امن کے باعث وہاں ہر روز ایک بکرے کی قربانی ہوتی ہے.میں نے جب اس پیچ در پیچ مکان کو دیکھا تو مجھے انگریزی حکومت کی بعض برکتیں یاد آگئیں.مہاراج کشمیر کی بیماری میں جس قدر قربانیاں چرند اور پرند کی ہمارے سامنے پنڈت لوگوں نے کرائی ہیں ان کی تعداد کو میں گن بھی نہیں سکتا اور مذہبی ناٹکوں میں ہم نے بچوں کی قربانی اور اس پر والدین کا منگل گانا ہماری آنکھ کے سامنے کا نظارہ ہے اور وہ ناٹک والے بھی پنڈت دیانند کے ملک کے ہی تھے.
مسیحی دین میں مسیح نے قربانی کا بہت لحاظ رکھا ہے اور تمام انبیاء بنی اسرائیل قربانی کے موید رہے مگر مسیحی مذہب میں آپ کے ہم نام صاحب پال نے انکار کیا.پھر بھی ابتدا میں مسیحی لوگ قربانیاں کرتے رہے اور برے کی اتباع اور نربلی میں خدا کی اقتداء ہوتی رہی.اور سچ پوچھو تو عیسائیوں کی نجات ہی ایک انسانی قربانی یا خود کشی پر موقوف ہے.جب دنیا طلبی غالب ہو گئی تو قربانیوں کا روپیہ قربانیوں کے قائم مقام ہو گیا اور اس بہار کے بدلہ اصل قربانی موقوف ہو گئی برائے نام یا حقیقت اب بھی مسیح کا لہو اور گوشت عشاء ربانی میں کھایا جاتا ہے.پر جیسے آپ نے حق کا خون کرکے ہزاروں ہزار مسلمانوں کا دل دکھایا ہے کیا تمہارے دل اور نرم دل نے اسے جائز کر لیاہے دل سے پوچھو؟اگر ستیارتھ کے مصنف کو کوئی حقارت سے یاد کرے تو کس طرح آریہ سماج آگ ببولا ہوتی ہے مگر کیسی بے انصافی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک اور قرآن اور بانی اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحقیر کرتے ہوئے آپ لوگ دل کی نرمی اور شیریں کلامی اختیار نہیں کر سکتے اور کروڑوں مسلمانوں کا اس سے زیادہ دل دکھاتے ہیں جتنا کہ مذبوح جانور اور اس کی ماں بہن کا دل دکھتا ہو کیا حیوانات کا دل دکھتا ہے.برٹانیکا انسائیکلو پیڈیا کی جلد نمبر۱صفحہ نمبر۵۵میں لکھا ہے اسحاق کی قربانی کا باب اصلی نہیں اور نہ پرانا ہے اور سچ بھی ہے کیونکہ اسماعیل کے جیتے اس کی جوانی کے قریب زمانہ میں اسحاق کا ذبح کرنا کوئی عظیم الشان امر نہیں.ایک تیرہ برس کا بچہ موجود ہے اس وقت ایک سالہ کا قربان کرنا ایسا خطرناک نہیں جیسے تیرہ سالہ اکلوتے کا قربان کرنا.پھر اسی کے جلد نمبر۱صفحہ ۵۵میں لکھا ہے کہ کنعانیوں میں جو قدیم استثناء فلسطین کے تھے ان میں انسانی قربانی کا رواج تھا.جناب ابراہیم علیہ السلام نے اپنی رؤیا کے مطابق جب بجائے لڑکے کے مینڈہا ذبح فرمایا تو اس طریق سے انسانی قربانی کا ازالہ فرما کر حیوانی قربانی اس کے قائم مقام کر دی.ہا ں پال !یہ تو بتاؤکہ تمہارے یہاں اگنی کنڈ میں اگنی دیوتا کے لئے جو کچھ ڈالا جاتا ہے اور اسے تم لوگ ہب کہتے ہو اور ہب میں کیا ہوتا ہے دیکھو یجروید صفحہ ۴۶ تیسرا ادھیا منتر نمبر۱ کی تفسیر.
خوشبودار کیسرکستوری وغیرہ.میٹھا گوڑ.شکر وغیرہ پشت گھی دودھ وغیرہ روگ ناشک گورچ وغیرہ چار قسم کا ساکل.اس پر غور کرو.جب گھر گھر تمام دنیا میں ہر روز کستوری جلائی گئی تو اس قیمتی چیز کے طمع پر کس قدر کستوری کے ہرن مارے جائیں گے اور شکاری ان کے تباہ کرنے میں کس قدر کوشش کریں گے شہد کے لئے کس قدر مکھیوں کی خانہ ویرانی کرنی پڑے گی.اب ہم اسلامی قربانی اور اس کے مقابل آریہ ورتی قربانیوں کا بھی ذکر کرتے ہیں.انبیاء علیھم الصلوٰۃ والسلام قوموں کے مصلح ہو کر آتے ہیں وہ کل رسومات سابقہ کا استیصال کرنا نہیں چاہتے بلکہ ان میں جو رسم محض غلط اور توہم پرمبنی ہو اس کو تو باطل کردیتے ہیں اور جس رسم کی اصل صحیح ہو مگر اس کے ساتھ کچھ غلطی مل گئی ہو اس میں صرف غلطی کی اصلاح فرما دیتے ہیں.اس نکتہ کو یاد رکھ کہ مضمون آئندہ پر نظر کرو.دوسرا مضمون قربانی پر اسلام نے بعض قربانیوں کو قطعاً حرام اورنیست ونابود کر دیا ہے.اول وہ قربانیاں جن میں بت پرستی اور شرک ہو کیونکہ شرک میں مبتلا انسان بحیثیت مشرک ہونے کے حقیقی اسباب کو ترک کرکے اپنی دیوی دیوتا سے امیدوار کامیابی کا ہوتا ہے اس لئے حقیقی کامیابی سے محروم رہتا ہے اور دوسرے ان مشرکوں اورپجاریوں کو اپنی اپنی دکان گرم کرنے کے لئے صدہا جھوٹے قصے بنانے پڑتے ہیں اس لئے توحید کی حامی شریعت نے ایسی تمام قربانیوں کو باطل کر دیا اور محرمات میں اس کو رکھ دیا اور فرمایا : (المائدۃ :۴) حرام کیا گیا تم پر مردار اورخون اور سور کا گوشت اور وہ چیز یں جن پر اللہ کے سوا کانام پکارا جاوے.
اور ہمارے صوفیاء کرام نے تو یہاں تک احتیاط اور تاکید کو اختیارفرمایا ہے کہ وہ کہتے ہیں مَا کا لفظ جو مَااُھِلَّ میں آیاہے وہ عام اور وسیع ہے.پھر حضرت شیخ ابن عربی نے فتوحات مکیہ میں لکھا ہے دیکھو فتوحات مکیہ جلد نمبر۳ صفحہ نمبر ۶۲۱ باب۳۹۸ وَالشِّعْرُ فِیْ غَیْرِ اللّٰہِ مَا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ فَاِنَّہُ لِلنِّیَّۃِ بِہٖ اَثَر فی الاَشْیَاء واللّٰہ یقول (البینۃ :۶) غیر اللہ کے لئے شعر کہنا مَااُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ سے ہے کیونکہ نیت کا اثر چیزوں میں ہواکرتاہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور نہیں حکم کئے گئے وہ لوگ مگر اس بات کا کہ عبادت و پرستش کریں اللہ کی صرف اس لئے خالص کرنے والے ہوں اپنے آپ کو.ہم نے اپنی کتاب میںایسے شعروں سے پرہیز کیا ہے جو کسی محبوب مجازی کے حق میں یا غیر اللہ کے لئے وہ شعر بولے گئے کیونکہ وہ مَااُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ ہیں اور وہ حرام ہیں.دوم ان تمام سوختنی قربانیوں سے روک دیا گیا ہے جو اشیاء آگ میں تباہ کی جاتی ہیں اور جن کا ذکر صدہا بلکہ ہزارہا بار یجر.رگ.سام ویدوں میں ہوا ہے تمہارے مشرک بھائیوں نے اس وقت بھی حضرت نبی کریم پر یہی اعتراض کیا جیسے ان کاقول خدا تعالیٰ نے نقل کیا ہے اور فرمایا ہے. (آل عمران:۱۸۲) اللہ نے سنی بات ان کی جنہوں نے کہا کہ اللہ محتاج ہے اور ہم دولت مند ہیں.اور پھر یہ تمہارا اعتراض نقل کیا اور کہا ہے (آل عمران :۱۸۴) وہ جنہوں نے کہا کہ ہم رسول کی بات نہیں مانیں گے جب تک ہمارے پاس
ایسی قربانی نہ لائے جسے آگ کھاجاتی (سوختنی قربانی)تو کہہ مجھ سے پہلے رسول بینات لے کر اور تمہاری مانگی ہوئی چیز (سوختنی قربانی)کو بھی لے کر آئے پھر تم نے انھیں کیوں قتل کیا.اگر تم صادق ہو.تیسری وہ تمام قربانیاں موقوف کر دیں جن میں یہ خیال پیدا ہو سکے کہ وہ تراکیب ہمارے گناہوں.بدکاریوں.نافرمانیوں کا کفارہ ہوں گی ایسی ہی قربانیوں نے جو ایک برّے کی ہوئی یا نہ ہوئی تمام عیسائیوں کو دلیر وبے باک کر دیا ہے.ایسی ہی قربانیاں بعض جگہ منوجی نے ویدوں سے بیان کی ہیں چونکہ منوجی ایسی معتبر کتاب ہے جس کے ذریعہ سے تمام ستیارتھ بھرا پڑا ہے.ہمیں امید ہے کہ آریہ سماج اس کو تسلیم کرے گی والّا دکھائے گی کہ منو جی کے وہ اقوال کس ویدک منتر کے وردہ ہیں.منوجی ادھیاتین شلوک نمبر ۶۸میں لکھتے ہیں.گرستھ کے گھر میں چولہا.سل بٹہ.جھاڑو.اوکھلی.موسل.پانی کاگھڑا ان سب سے کام لینے میں جئو مرتے ہیں.شلوک نمبر ۶۹.ان پانچوں کے پرائشپحت کے لئے پانچ مہان یگیہ کو گرستھ لوگ نتیہ ہی کریں.شلوک نمبر۷۰.پانچ مہایگہ یہ ہیں.وید کا پڑھنا.برہم یگیہ.پترون کا ترپن.پنر یگیہ.ہون کرنا.دیو یگیہ.بل دینا.اتتھ کا پوچن.منشہ یگیہ.شلوک نمبر ۷۱.جو کوئی سامرتھ کے موافق ان مہا یگیہ کو کرتاہے وہ روزمرہ کی ہنسا(جان کشی) کے پاپ سے چھوٹا رہتا ہے.قربانی کے مضمون کا آخری تیسر ابقیہ ہم نے اس مضمون کے پہلے حصہ میں بتایا ہے کہ قربانیاں کرنا انسانی فطرتوں کا مقتضی ہے اور اس کو واضح کر کے دکھایا ہے کہ قربانی کرنے میں شامیوں.یافث اور عامیوں کی کوئی خصوصیت نہیں.پھر دوسرے حصے میں یہ بھی بتایا ہے کہ اسلام نے قربانی میں کیا اصلاح فرمائی ہے اور کن
قربانیوں سے روکا ہے.اب ہم تیسرے حصہ کو جو اس مضمون کے متعلق ہے بیان کرتے ہیں اور دکھاتے ہیں کہ اسلام نے کن قربانیوں کو جائز رکھا ہے ؟ سو اول انسانی قربانی کا ذکر کرتے ہیں مگر قبل اس کے کہ اس کا بیان کریں قربان کے لفظ کی جس سے قربانی کا لفظ نکلا ہے تشریح کرتے ہیں.سنو !اس لفظ قربان کے لغت عرب میں کیا معنی ہیں.قرب الشی قرباناً.خوب ہی نزدیک ہوئی یہ چیز.القربان بالضم ماقرب الی اللہ.قربان پیش کے ساتھ جو اللہ کی طرف نزدیک کرے.وما تقربت بہ.اور قربان وہ ہے جس کے ذریعہ تو اللہ کے نزدیک ہو.والقربان جلیس الملک وخاصۃ.قربان بادشاہ کا مجلسی اور اس کا ممتاز.ومنہ الصلوٰۃ قربان کل تقی.اسی محاورہ پرہے کہ نماز ہر ایک متقی کے لئے قربان ہے.اور حدیث میں آیا ہے.ما یزال عبدی یتقرب الی بالنوافل حتی احببتہ.فاذا احببتہ کنت سمعہ الذی یسمع بہ و بصرہ الذی یبصر بہ و یدہ الذی یبطش بھا و رجلہ التی یمشی بھا.(بخاری) میرابندہ نفلوںکے ذریعہ میرے قریب ہوتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے پیار کرتا ہوں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور ہاتھ جس سے وہ پکڑتاہے اور پاؤں جس سے چلتاہے.پس قربان کے معنی ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا مندیوں میں اپنے آپ کو محو کر دینا اور اس ذریعہ سے اپنے آپ کو اس کے نزدیک کرنا اور اس کے خاصوں میں ہوجانا.جب کوئی انسان ایسا ہوتا ہے کہ نہ اس کو کسی کے ساتھ مخلوق میں ذاتی رنج وغضب ہوتا ہے اور نہ کسی کے ساتھ مخلوق میں سے ذاتی محبت اور تعلق ہوتا ہے اس کی محبت خلق سے ہوتی ہے مگر للہ وباللہ وفی اللہ ہوتی ہے اور اس کا بغض بھی ہوتا ہے مگر للّٰہ وباللہ وفی اللہ ہوتا ہے وہ فانی باللہ اور باقی باللہ ہو جاتا ہے.
اس لئے ہوتا ہے کہ اس کو پینے میں الٰہی ارشادہے وَاشْرَبُوْا اور اس کا بی بی سے محبت وپیار اسی واسطے ہوتا ہے کہ(النساء :۲۰) کا حکم ہے.پس شہوت و غضب.طمع و جزع.عجز و کسل.بے استقلالی وغیرہ رذائل اس میں نہیں رہتے.وہ انعامات کے وقت اگر شکر کرتا ہے تو ارشاد الٰہی سے اگر مصائب پر صبر کرتا ہے تو رضا الٰہی کے لئے.وہ اپنے اور دوسرے کے معاصی پر اس لئے ناراض ہوتاہے کہ اس کا مولیٰ ان باتوں پر ناراض ہے.وہ مشرکوں بے ایمانوں.شریروں پرتلوار اٹھاتاہے مگر الٰہی ہتھیار بن کر.یہی قربانی ہے جس کے بارے ارشاد ہے.(المائدۃ :۲۸) جب ان دونوں نے قربانی دی آخر ایک کی قبول ہوئی اور دوسرے کی رد ہوئی.اس نے کہا میں تجھے مارڈالوں گا.اس نے کہا اللہ متقیوں کی قربانی قبول کیا کرتا ہے.دوسری انسانی قربانی جس کو اسلام نے جائز رکھا ہے.جوانان قوم اور مدبران ملک کی قربانی ہے مگر اس وقت کی بڑے بڑے سیاسی بلاد یورپ وامریکہ ہاں عام بلاد کا ذکر کیوں کریں خود انگلستان نے میری ذرہ سی شخصی زندگی میں جہاں انڈیا، کابل، پنجاب، دہلی کے غدر.سوڈان.خرطوم.ٹرنسفال اور سمالی لینڈ وغیرہ جزائر میں صرف تجارت یا یوں کہو حکومت کے لئے لاکھوں نیئر اور ڈیر قربانی کئے ہیں تو وہاں ان تراشے گلوں نے اپنے ملک وقوم کو تو دنیا کے صراط پر سے کیا گزارا دنیاکی جنت میں پہنچا دیا ہے اور وید کی تعلیم نے تو ہزارہا منتروں میں اس نرمیدہ انسانی قربانی کی تاکید لکھی ہے میں کہاں تک گن کر دکھاؤں مشتے بطور نمونہ یادانہ از خروارے لکھتا ہوں.اوّل دیکھو سوال نمبر ۴کو جہاں میں نے مفصل حوالے دئیے ہیں ستیارتھ صفحہ ۳۵۵رگوید بھاش
نمبر۶۶۱اور نمبر ۷۰۷ونمبر۶۱۶اور ا س کے علاوہ دیکھو یجروید ادہیائے نمبر۱ منتر ۵ حصول راج اور لکشمی کے لئے کیا شغل تجویز کیا ہے.اور اسی ادھیاکے منتر نمبر ۶ومنتر۲۶میں جہاں دشمن کے باندھنے اور نہ چھوڑنے کا حکم ہے قابل غور ہے اور منتر ۲۸میں ہے بغیر لڑائی اور طاقت کے دشمن کبھی نہیں ڈرتے.یجروید ادہیا پانچ منتر ۲۲میںہے جیسے میں ڈشٹ سبھاؤ شتروںکے شر کاٹتا ہوں توبھی کاٹ.یجروید ادہیا نمبر ۶منتر۱ جیسے میں بداطوار وں کی گلوتراشی کرتا ہوں ویسی ہی آپ بھی کیجئے.اسلام نے اس قربانی کو صرف دفاعی جنگوں میں منحصر اور محدود کر دیا ہے.جب مخالف دشمن مسلمانوں کو قتل کریں اور اسلام کا استیصال کرنے لگیں تو اس وقت کے لئے فرمایا.(الحج :۴۰)اجازت دی گئی ان لوگوں کو جن سے لڑائی کی گئی اس لئے کہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ انہیں دشمن پر غالب کردینے پر قادر ہے.اور فرمایا ہے.(البقرۃ :۱۹۱) مقابلہ کرو اعلاء کلمۃ اللہ میں ان سے جو تم سے مقابلہ کرتے ہیں اور حد سے نہ بڑھنا.اس کے معنی نبی کریم ﷺ اور آ پ کے جانشین نے یہ کئے ہیں کہ لڑکے ،عورتیں.بڈھے.فقیر اور تمام صلح جو نہ مارے جائیں.اور فرمایا (البقرۃ:۱۹۴)مقابلہ کرو یہاں تک کہ فتنہ اور شرارت نہ رہے.اسلام کا خدا تعالیٰ نے دونوں طرح کا غلبہ دکھانا چاہا ہے.ایک وقت تھا جب دشمن نے اسلام کے استیصال کے لئے تلوار اٹھائی مسلمانوں کو قتل کرنا شروع کر دیا تو اسلام نے مسلمانوں کو
بغاوت سے روک دیا کہ غدر نہ کرنا.اس ملک سے نکل جاؤجہاں تکلیف ہے اس لئے مکہ معظمہ کا ملک چھوڑ دیا گیا.جب دشمن کو اس پر صبر نہ آیا اور اس نے تعاقب کیا تو آخر اسلام نے تلوار اٹھائی اور کامیاب ہوگیا.پھر اس وقت چودہویں صدی میں صرف حجج کے اسلحہ سے اسلام سے جنگ شروع ہو گئی.اسلام کے باعث کوئی قوم کسی مسلمان پر ہتھیاروں سے اب کام نہیں لیتی تو اسلام نے بھی براہین نیرّہ اور حجج ساطعہ اور دلائل واضحہ (ترک رشی)سے مقابلہ شروع کیا.بت پرست قومیں اسلام کے مقابلہ سے ہار کر بت پرستی کے دعویٰ سے باز آرہی ہیں اور بالکل اس مسالہ میں صلح جو ہورہی ہیں کیونکہ انڈیا میں کچھ برہموں ہو گئے ہیں اور کچھ آریہ سماج.ادھر یورپ وامریکہ میں یونی ٹیرین.فری تھنکروں کا سمندر موج مار رہا ہے اور کیا خوب ہوا حضرت مسیح کی خدائی نیست ونابود ہورہی ہے.(الحشر :۳) مخلوق اسلام کے مقدس مذہب میں آرہی ہے.دھرم پال یا اور اس کے چند بھائی اس طرح اسلام سے نکل گئے جس طرح بال مکھن سے الگ ہوجاتا ہے توکہ مقدس مذہب اس وقت خس وخاشاک سے پاک ہو جاوے.ہمارے مولوی علی العموم سمجھیں یا نہ سمجھیں اگر اس وقت وہ مہدی آنے والا ہوتا جس کو خونی جنگ کرنی ہے تو ایجاد اسلحہ اور اتحاد قومی وملکی اور عصبیت کا جلوہ مسلمانوں میں روز افزوں ہوتا نہ یورپ میں.عصبیت کے سوائے جنگ کی وساطت سے دنیوی سلطنت کا ملنا خیالست ومحال ست و جنون.میرے دیکھتے ایک طرف سلطنت اودہ.دہلی.زنجبار.مراکش.مسقط.مصر اور دوسری طرف یارقند.سمرقند.خیوا.بخارا.سرویہ.مانٹی نیگرو.ہرز یگونیا وجزائر سائپرس.کریٹ بلکہ اور حصص مملکت ترک بھی اور عرب کے حصہ ہائے کویت اور عدن ویمن بتدریج کچھ نکل گئے اور باقی نکل رہے ہیں اسی واسطے تو مہدی صادق علیہ السلام نے یہ نظم لکھی ہے.
بسم اللہ الرحمن الرحیم دینی جہاد کی ممانعت کا فتویٰ مسیح موعود کی طرف سے اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال دیں کیلئے حرام ہے اب جنگ اور قتال اب آگیا مسیح جو دیں کا امام ہے دیں کی تمام جنگوں کا اب اختتام ہے اب آسماں سے نورِ خدا کا نزول ہے اب جنگ اور جہاد کا فتویٰ فضول ہے دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد کیوں چھوڑتے ہو لوگو نبی کی حدیث کو جو چھوڑتا ہے چھوڑ دو تم اس خبیث کو کیوں بھولتے ہو تم یضع الحرب کی خبر کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو کھول کر فرما چکا ہے سید کونین مصطفٰے عیسیٰ مسیح جنگوں کا کردے گا التوا جب آئے گا تو صلح کو وہ ساتھ لائے گا جنگوں کے سِلسلہ کو وہ یکسر مٹائے گا پیویں گے ایک گھاٹ پہ شیر اور گوسپند کھیلیں گے بچے سانپوں سے بے خوف وبے گزند یعنی وہ وقت امن کا ہوگا نہ جنگ کا بُھولیں گے لوگ مشغلہ تیر و تفنگ کا یہ حکم سُن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا وہ کافروں سے سخت ہزیمت اُٹھائے گا اِک معجزہ کے طور سے یہ پیشگوئی ہے کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے القصہ یہ مسیح کے آنے کا ہے نشاں کردے گا ختم آکے وہ دیں کی لڑائیاں ظاہر ہیں خود نشاں کہ زماں وہ زماں نہیں اب قوم میں ہماری وہ تاب و تواں نہیں اب تم میں خود وہ قوت و طاقت نہیں رہی وہ سلطنت وہ رعب وہ شوکت نہیں رہی وہ نام وہ نمود وہ دولت نہیں رہی وہ عزمِ مقبلانہ وہ ہمت نہیں رہی وہ علم وہ صلاح وہ عفت نہیں رہی وہ نور اور وہ چاند سی طلعت نہیں رہی وہ ؔ درد وہ گداز وہ رقت نہیں رہی خلقِ خدا پہ شفقت و رحمت نہیں رہی
دل میں تمہارے یار کی اُلفت نہیں رہی حالت تمہاری جاذب نصرت نہیں رہی حمق آگیا ہے سر میں وہ فطنت نہیں رہی کسل آگیا ہے دل میں جلادت نہیں رہی وہ علم و معرفت وہ فراست نہیں رہی وہ فکر وہ قیاس وہ حکمت نہیں رہی دُنیا و دیں میں کچھ بھی لیاقت نہیں رہی اب تم کو غیر قوموں پہ سبقت نہیں رہی وہ اُنس و شوق و وجد وہ طاعت نہیں رہی ظلمت کی کچھ بھی حدّو نہایت نہیں رہی ہر وقت جھوٹ.سچ کی تو عادت نہیں رہی نورِ خدا کی کچھ بھی علامت نہیں رہی سو سو ہے گند دل میں طہارت نہیں رہی نیکی کے کام کرنے کی رغبت نہیں رہی خوانِ تہی پڑا ہے وہ نعمت نہیں رہی دیں بھی ہے ایک قشر حقیقت نہیں رہی مولیٰ سے اپنے کچھ بھی محبت نہیں رہی دل مر گئے ہیں نیکی کی قدرت نہیں رہی سب پر یہ اِک بلا ہے کہ وحدت نہیں رہی اِک پُھوٹ پڑ رہی ہے مودّت نہیں رہی تم مر گئے تمہاری وہ عظمت نہیں رہی صورت بگڑ گئی ہے وہ صورت نہیں رہی اب تم میں کیوں وہ سیف کی طاقت نہیں رہی بھید اس میں ہے یہی کہ وہ حاجت نہیں رہی اب کوئی تم پہ جبر نہیں غیر قوم سے کرتی نہیں ہے منع صلوٰۃ اور صوم سے ہاں آپ تم نے چھوڑ دیا دیں کی راہ کو عادت میں اپنے کر لیا فسق و گناہ کو اب زندگی تمہاری تو سب فاسقانہ ہے مومن نہیں ہو تم کہ قدم کافرانہ ہے اے قوم تم پہ یار کی اب وہ نظر نہیں روتے رہو دعائوں میں بھی وہ اثر نہیں کیونکر ہو وہ نظر کہ تمہارے وہ دل نہیں شیطاں کے ہیں خدا کے پیارے وہ دل نہیں تقویٰ کے جامے جتنے تھے سب چاک ہو گئے جتنے خیال دل میں تھے ناپاک ہو گئے کچھ کچھ جو نیک مرد تھے وہ خاک ہو گئے باقی جو تھے وہ ظالم و سفّاک ہو گئے اب تم تو خود ہی موردِ خشمِ خدا ہوئے اُس یار سے بشامتِ عصیاں جدا ہوئے
اب غیروں سے لڑائی کے معنے ہی کیا ہوئے تم خود ہی غیر بن کے محلِ سزا ہوئے سچ سچ کہو کہ تم میں امانت ہے اب کہاں وہ صدق اور وہ دین و دیانت ہے اب کہاں پھر جبکہ تم میں خود ہی وہ ایماں نہیں رہا وہ نور مومنانہ وہ عرفاں نہیں رہا پھر اپنے کفر کی خبر اے قوم لیجئے آیت علیکم انفسکم یاد کیجئے ایسا گماں کہ مہدیٔ خونی بھی آئے گا اور کافروں کے قتل سے دیں کو بڑھائے گا اے غافلو! یہ باتیں سراسر دروغ ہیں بہتاں ہیں بے ثبوت ہیں اور بے فروغ ہیں یارو جو مرد آنے کو تھا وہ تو آچکا یہ راز تم کو شمس و قمر بھی بتا چکا اب سال ستر۱۷ہ بھی صدی سے گذر گئے تیسری قربانی جس کو اسلام نے بعض جانوروں کو اللہ تعالیٰ کی عظمت وکبریائی یاد کرکے ذبح کرنے اور ان کا گوشت پکاکر استعمال کرنے کا حکم دیا ہے اس قربانی کے منشاء بہت ہیں.تم میں سے ہائے سوچنے والے کِدھر گئے تھوڑے نہیں نشاں جو دکھائے گئے تمہیں کیا پاک راز تھے جو بتائے گئے تمہیں پر تم نے اُن سے کچھ بھی اُٹھایا نہ فائدہ مُنہ پھیر کر ہٹا دیا تم نے یہ مائدہ بخلوں سے یارو باز بھی آئوگے یا نہیں خُو اپنی پاک صاف بنائو گے یا نہیں باطل سے میل دل کی ہٹائو گے یا نہیں حق کی طرف رجوع بھی لائو گے یا نہیں اب عذر کیا ہے کچھ بھی بتائوگے یا نہیں مخفی جو دل میں ہے وہ سُنائو گے یا نہیں آخر خدا کے پاس بھی جائو گے یا نہیں اُس وقت اُس کو مُنہ بھی دکھائو گے یا نہیں تم میں سے جس کو دین و دیانت سے ہے پیار اب اُس کا فرض ہے کہ وہ دل کرکے اُستوار لوگوں کو یہ بتائے کہ وقتِ مسیح ہے اب جنگ اور جہاد حرام اور قبیح ہے ہم اپنا فرض دوستو اب کر چکے ادا اب بھی اگر نہ سمجھو تو سمجھائے گا خُدا
اوّل تو وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کی اس سچی قربانی کی یادگار ہے جو ان دونوںنے اس فرمانبرداری میں کر دکھائی اور جس کا بیان اس آیت میں ہے.(الصّٰفّٰت :۱۰۳ تا ۱۰۶) میںخواب دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کرتا ہوں اب تو غور کر کے بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟ اس نے کہا اے میرے باپ! تو وہ بات کر جس کا تجھے حکم دیا جاوے.تو مجھے انشاء اللہ صابر پائے گا اور جب وہ دونوں اللہ تعالیٰ کے حکموں پر راضی ہوگئے اور اسے ماتھے کے بل لٹایا.ہم نے اسے آواز دی کہ اے ابراہیم! تو نے خواب کو سچا کر دکھایا.اور فرمایا : (الانعام :۱۶۳،۱۶۴) میری نماز میری قربانی میرا جینا اور میرامرنا اللہ کے ہاتھ ہے جو پروردگار ہے جہانوں کا.اس کاکوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں پہلا فرمانبردار ہوں.دوم.مشرکوں.بت پرستوں کو دکھایا ہے کہ تمہاری دیوی دیوتا کی قربانیاں سب لغو ہیں ان کی ذرہ ضرورت نہیں.اگر یہ ضروری ہیں تو دیکھو میں جانوروں کو ذبح کرتاہوں مگر پھر بھی ان دیوی دیوتا کی نذر ونیاز میں نہیں چڑھاتا اور نہ ان کے نام سے ذبح کرتا ہوں اور نہ میں اگنی دیوتا میں ان کو ڈالتا ہوں مگر میرا ذرا نقصان نہیں ہوتا.اگر کوئی خونخوار دیوی اور دیوتا ہے اور میں اس کی مخالفت میں اس کے نام کی قربانی نہیں کرتا تو چاہیے کہ میرا کوئی بال تو بیکا کرکے دکھائے.جب نہیں کرسکتا تو معلوم ہوا کہ یہ قربانیاں لغو ہیں.
پس جیسے ہمارے سب کام الٰہی رضا مندی کے لئے ہونے چاہئیں اسی طرح قربانیاں بھی اسی کے نام کی ہونی چاہئیں.سجدہ ہو تو اسی کا.تعظیم ہو تو اسی کی.ذبح ہو تو اسی کے نام کا وغیرہ وغیرہ.سوم.چونکہ ظاہر کا اثر باطن پر پڑتا ہے اس لئے یہ ظاہری نظارہ کہ ہم نے کس طرح ایک جانور کو جو ہمارے ماتحت ہے ذبح کر دیا ہے جناب الٰہی کی کبریائی کویا ددلاتاہے کہ ہم اور ہمارے اطباء اور ہمارے مدبر ومحافظ اور دعائیں اور شفاعت کرنے والوں کی تمام کوششیں اس محدود زندگی کے لئے ان کی محنتیں بے سود ہو جائیں گی اور بے سود ہوجاتی ہیں.اسی طرح حق سبحانہ وتعالیٰ کی طر ف سے جب حقیقی طور پر وفات وموت کا وقت آتا آگیا جو ہمارے لئے مقدر ہے ہزار ہاتھ پاؤں ہلائیں گے کچھ مفید نہ ہوگا.اس قربانی کے اس نظارہ سے انشاء اللہ امید ہے کہ آخر انسان اس نتیجہ پر پہنچ جاوے اگر سلیم الفطرت ہے کہ دنیا روزے چند عاقبت کاربا خداوند مجھے کامل فرمانبرداری حق سبحانہٗ وتعالیٰ کی چاہیے.چہارم.جہاں تک نظام کائنات کا مطالعہ کیا جاتا ہے اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ عناصر بسیط سے لے کر حیوانات تک بلکہ ادنیٰ انسانوں سے لے کر متوسطین تک اعلیٰ درجہ کے انسان کے لئے نیابت کرتے ہیں.اور نظارے جانے دو.بیل جی زمین کے پھاڑنے.پانی کے دینے.باربرداری کے لئے ہروقت انسان کی محنتوں کے بدلہ اپنے آپ کو لگائے ہوئے ہیں اور کوئی عقل مند یا رحیم مذہب اس سے مضائقہ نہیں کرتا.خود گاؤ تمہاری ماتا جی چرواہے کے قبضہ میں تمام دن کاٹتی ہے اور اس کا بچہ اس سے الگ’’ بلبلاتاہے‘‘ اور تڑپتا ہے‘‘.پرمہاتما لوگ اپنے لئے اور اپنے ہب اور ہون کے لئے کوئی آریہ سماجی رحم نہیں کھاتا.اسی طرح فوجیں اور اس کے متوسط افسر اعلیٰ انسان کے لئے کٹوائے جاتے ہیں اور مارے جاتے ہیں تو کیا اس سے یہ چوتھی وجہ قربانی کی نہیں نکل سکتی کہ ہم بیماروں کی جان کے بدلہ بھی ان کو قربان کریں.
سوال نمبر ۴۴.مردار.سؤر اور خون حرا م ہے‘‘.(۱)مردار کی تعریف کہ جس کی روح الگ ہو گئی ہو گو ذبح ہو(۲)خون حرام ہے تو گوشت کیوں حلال ہے تمام جسم کی بالیدگی خون سے ہوتی ہے.(۳) مادہ کے رحم میں نطفہ مادہ کے خون سے بنتا ہے اور اسی سے پرورش پاتا ہے.(۴) سؤر کیوں حرام ہے‘‘.الجواب.(۱)جو تعریف آپ نے مردار کی ہے وہ غلط ہے اور بالکل غلط ہے.اسلام میں مردار اس جانور کو کہتے ہیں جو ذبح اور نحر اور شکار کے سوا خود بخود مرگیا ہو.مردار سے علی العموم خون نہیں نکلتا.(۲)خون میں تیس سے زائد قسم کی زہریں ہوتی ہیں.خون کھانے والے لوگوں میں ان زہروں کے استعمال سے بہت سے قویٰ تباہ ہوجاتے ہیں اور یہ ظاہر بات ہے کہ مردار خوار اور خونخوار قوموں کی عقل اور ذہنی قویٰ نہایت کثیف اور کودن ہوتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ شدید تغیرات سے احکام بدل جاتے ہیں چنانچہ تمہارے نزدیک بھی یہ امر مسلّم ہے کہ ہر ایک جزو حیوان کاخون سے بنتا ہے مگر تم لوگ دودھ کو جو خون سے بنتا ہے پیتے ہو اور ذرہ تامل نہیں کرتے گوشت اگر خون سے بنتا ہے تو دودھ.دہی.مکھن.بالائی بھی خون سے ہی بنتی ہے.غور کرو اور نکتہ چینی کے وقت عقل اور انصاف کی حد سے باہر نہ نکل جاؤ.اور یہ بھی مسلّم امر ہے کہ غذا کا اثر غذا خور پر پڑتا ہے اسی واسطے لکھا ہے کہ برہمن،کھشتری.ویشون کو ناپاک یعنی بول وبراز وغیرہ کی میل سے پیدا ہوئے ساگ.پھل.مول وغیرہ نہ کھانا چاہیے اور جوجو چیزیں عقل کوکھونے والی ہیں ان کا استعمال کبھی نہ کریں دیکھو صفحہ ۳۵۷،۳۵۸ ستیارتھ پرکاش.(۱) سؤر نر سے میل کرتاہے اس واسطے اکثر سؤر خور ساڈومی کے مرتکب ہوتے ہیں.(۲)جماع کابڑا خواہش مند ہے اس واسطے وہ لوگ زیادہ تر زانی ہوتے ہیں.(۳)گند سے اسے محبت ہے.اسی واسطے کل جلالہ گندخور جانور اسلام میں حرام ہیں.(۴)ہاگ کالراکی جڑ ہے.(۵) سؤر
اپنے بچوں اور سانپ کو بھی کھا تاہے.(۶) بڑا حریص ہے.سؤرمیں نقصانات ذیل اور بھی ہیں.(۱) ٹی نیا سولیم.یعنی کدودانے (۲)ٹی نیا سپائی ریلس.یہ بھی ایک قسم کا کیڑا ہوتا ہے جو سؤرکے گوشت کے ساتھ پیٹ میں چلاجاتا ہے اور انتٹریوں میں انڈے بچے دے کر اس کی نسل پھیل جاتی ہے بچے اور خود کیڑے بھی امعاء کی دیواروں میں سوراخ کرکے شریانوں میں گھس جاتے ہیں اور خون کے ساتھ عضلات میں چلے جاتے ہیں اور وہاں بڑے ہوجاتے ہیں اور اپنے اوپر تھیلی بنا لیتے ہیں اس سبب سے عضلات خراب اور کمزور ہوجاتے ہیں اور امعاء میں جریان خون اور جگر میں چربی پیداہوجاتی ہے.عضلات میں درد اور تکلیف رہتی ہے اور اگرچہ امعاء کے کیڑے جلاب سے دور بھی ہوسکتے ہیں مگرجو عضلات میں پہنچ چکے ان کا کچھ علاج نہیں.سوائے اس کے کہ خود ہی مر جائیں.(۳) ہائی ڈے ٹڈ آف دی لور.جگر کی رسولی جس میں ٹی نیائی کائی نوکاکس کا کیڑا جگر میں گھر بنا لیتا ہے اس کیڑے کا اصل تخم بھیڑ یا سؤر میں پایا جاتاہے اور پھر وہاں سے منتقل ہو کر کتے میں آتا ہے اور کتے میں سے نکل کر اگر انسان میں داخل ہوجائے تو یہ جگری رسولی پیدا کرتا ہے انتہیٰ.سوال نمبر ۴۵.خون حرام ہے.گوشت بھی منجمد خون ہے وہ کیوں حلال ہوا.الجواب.قرآن مجید میں جس خون کو حرام فرمایا ہے اس کی تفصیل بھی کر دی ہے جیسے فرمایا ہے.(الانعام :۱۴۶) تو کہہ میں اپنی وحی میں کسی کھانے والے پر کوئی شئے حرام نہیں پاتا سوائے اس کے کہ مردار ہو یا گراہوا خون ہو.آیروید کو پڑھو اس میںبھی تو لکھا ہے کہ خون میں اقسام اقسام کی زہریں ہوتی ہیں جو پیشاب کے ذریعہ خارج ہوتی ہیں منجملہ ان کے کاربانک ایسڈ اور ٹومین تو عام مشہور ہیں جن سے فالج یا استرخاء اور تشنج پیدا ہوتے ہیں.
پیشاب کے اجزاء ۱.یوریا.اس کا اچھی طرح خارج نہ ہونا مرض یوریمیاپیداکرتاہے اوراکثر گردوں کی بیماری میں جب پیشاپ خارج نہیں ہوتایہی بیماری ہلاکت کاباعث ہوتی ہے.۲.یورک ایسڈ.(۱.ایسڈ سوڈیم یوریٹ.۲.سودیم یوریٹ)ان کی زیادتی سے مرض گوٹ پیدا ہوتی ہے خاص کر ایسڈ سوڈیم یوریٹ سے ۳.کری ایٹے نین.اس پر مصنوعی طورسے تجربہ کیا گیا ہے کہ جب یہ دماغ پر لگائی جاوے تو تشنج شروع ہوجاتا ہے.۴.ہپ یورک ایسڈ.۵.کیلسیم اکسیلیٹ ۶.سلفیٹس.(۱.ایتھیریل مثلا ً پوٹاشیم فی نل سلفیٹ.۲.دھاتی.مثلاً پوٹاشیم اور سوڈیم کے.) ۷.کلورائڈز.ان میںسے سب سے زیادہ نمک ہوتاہے.۸.فاسفیٹس (۱.سوڈیم اور پوٹاسیم کے.۲.کیلسیم اور مکنیزیم کے)یہ خاص کر اعصاب کا فضلہ ہوتے ہیں.۹.رنگ وغیرہ مثلاً (۱)یوروکرم(۲)یورو بائی لین(۳)انڈی کین.پوٹاسیم کے جتنے نمک ہیں ان پر تجربہ کیا گیا ہے اگر وہ دماغ کی سطح پرلگائے جائیں تو تشنج پیداکرتے ہیں اور اگرخون میں زیادہ ہوجاویں یا دوا کے طور پر استعمال کئے جائیں تو دل کو کمزور
کرتے اور دماغ کو صدمہ پہنچاتے ہیں اسی واسطے ان دواؤں کو جن میں پوٹاسیم ہو دماغ اور دل کی بیماری میں نہیںدیتے علاوہ اس کے یہ عام طورپر عضلات کو بھی ضعیف کرتے ہیں.زیادہ تر یہی چیزیں پیشاب کے راستہ خارج ہوتی ہیں اور ان کانقصان اسی وقت بہت جلد اور بہت سخت ہوتا ہے جب یہ خون میں رہیں اور پیشاب کے راستہ صاف نہ کر لئے جائیں.خون.خون میں سے جو فضلات نکلتے ہیں وہ اکثر وہی ہیں جو پیشاب کے راستے نکل جاتے ہیں البتہ کاربونک ایسڈ گاس پھیپھڑوں کے ذریعہ سے نکلتی ہے.چنداور بھی ہیں مثلاً لیوسین.ٹاٹروسین.کولیسٹرین اور لیک ٹک ایسڈ وغیرہ وغیرہ اور ایمونیاکے نمک یہ آخر سب تغیر پاکر یوریا میں تبدیل ہوکر پیشاب کی راہ سے خارج ہوجاتے ہیں.ان میں سے لیک ٹک ایسڈ ایسی چیز ہے جو عضلات کا فضلہ ہے اور جب آدمی بہت کام کرتاہے تو یہ چیز عضلات میںجمع ہوجاتی ہے اور آدمی تھک جاتا ہے.دوسرے الفاظ میں یوں کہئے کہ تھکان کا باعث یہ چیز ہے جب یہ دور ہوجاوے تو پھر عضلات کام کرنے کے لائق ہوجاتے ہیں اورتکان دور ہوجاتی ہے اور قرآن کریم نے تو اصول محرمات کے چار بتائے ہیں.اوّل.وہ چیزیں جن سے صرف جسمانی قویٰ پر برا اثرہوتاہے جیسے مردار خوار حیوانوں اور انسانوں میں ہم مشاہدہ کرتے ہیں.مثال کے طور پر مردار خور چوہڑوں.بھنگیوں.سانسیوں اور بعض اگہوریوں کے بدنون.چمڑوںاور زبان کی کرختی کو غور سے دیکھو اور ان سے اتر کر باز کی شکل چیل.کرگس اور مردار خور سیاہ کوّے کو دیکھو کیسے بدشکل.دون ہمت.سست اور کاہل ہوتے ہیں.دوم.وہ چیزیں جن سے دقیق فطری قویٰ پر بد اثر پڑتا ہے جیسے خون کوکھانے والی قومیں موٹے موٹے مسائل سے بھی ناواقف ہیں.مثال کے طور.چوہڑوں.بھنگیوں.سانسیوں.اگہوریوں اور کانگڑہ ویلی اور جموں کے پہاڑوں میں خون کھانے والے لوگوں کو دیکھو کیا ممکن ہے کہ کوئی باریک مسئلہ الٓہیات کا یا سوشیل اور مارل کے دقائق ان کو کوئی سمجھا سکے.میں نے تجربتاً بارہا ان لوگوں کو سمجھانا چاہا ہے مگر حیرت زدہ رہ کر کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ باتیں داناؤں اور پنڈتوں کے
سمجھنے کی ہیں.سوم.وہ جن سے اخلاقی قویٰ تباہ ہوتے ہیں جیسے سُؤر اور شراب.چہارم.وہ اشیاء حرام ہیں جو روحانی اور اعتقادی قوتوں کو تباہ اور ہلاک کرتی ہیں جیسے خدا کے نام کے سوا بتوں کے نام اور غیراللہ سے تقرب کے لئے ذبح کئے جانور بلکہ تمام وہ چیزیں جو بت پرست بتوں پر چڑھاتے ہیں.گوشت تو منجمد خون نہیں یہ تشریح شاید آپ نے من گھڑت تجویز کی ہے جس طرح گوشت خون سے بنتا ہے اسی طرح دودھ.دہی.مکھن.گھی اور بہت ساری چیزیں جن سے تمہاری پرورش ہوتی ہے خون سے بنی ہیں.کیوں تم استعمال میں لاتے ہو.ہاں بیدوں سے معلوم ہوتاہے کہ جَل آگ سے بنا ہے جل تو پیتے ہو آگ کیوں نہیں کھاتے.سوال نمبر ۴۶.بیت اللہ میں خون مت گراؤ.کیا خدا کا گھر عرب کے ایک کونے کی چاردیواری میں محدود ہے باقی دنیا شیطان کا گھر ہے.کب ہو گا کہ بے کس اور معصوم لیلے اور بکری کے بچہ کی دردناک آواز ہمیں ایسی بے چین اور بے قرار کر دے گی جیسے ان کے عزیزبچہ کی بلبلاہٹ.ثبوت کے لئے پیش کیا ہے.۱.(البقرۃ:۱۹۲) ۲.(المائدۃ:۹۷) ۳.(المائدۃ:۳) الجواب.قربانیوں میں ہمارے نبی کریم ﷺ اور ان کے اتباع تو نردنبہ (گوسپند)سینگوں والا قربانی فرمایا کرتے تھے اور دودھ والی بکریاں جن کے نیچے بچے ہوں اور دودھ والی گوسپند مادہ قربانیوں میں ذبح نہیں کی جاتی تھیںمگر تم یہ تو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ کو تم رحیم.کریم.دَیالو.کرپالو مانتے
ہو یا نہیں؟پھر یہ بھی مانتے ہو کہ نہیں کہ وہی موت دیتا ہے.اگر مانتے ہو تو بتاؤ مخلوقات میں ہزاروں عورتیں بچے والیاں بیمار ہوتی ہیں ہزاروں مرتی ہیں اور ان کے بچے بلبلاتے ہیں ان کی دردناک آوازیں آپ کو بے چین وبے قرار کرتی ہیں یا نہیں.اگر آپ کو بے قرار کرتی ہیں تو خدا کو کہو کہ ایسا انتظام تونے کیوں کر رکھا ہے؟ نیز تمہاری گائیں اور بکریاں باہر چرنے کوجاتی ہیں اور تم لوگ اپنے دودھ کے طمع سے ان کے بچوں کو مادہ سے الگ کر دیتے ہو اور وہ بے قرار بلبلاتے اور چلاتے ہیں مگر تم لوگ ذرا پروا اپنی طمع کے لئے نہیں کرتے اور ہر روز یہی معاملہ درپیش ہے.نیز گاؤ ماتا کے خاوند صاحب کو صبح سے اپنے اقسام اقسام کاموں اور ہل میں لگاتے ہو اور دوپہر تک چابک مارتے اور اس پر کیسے کیسے آوازے کستے ہو کہ الامان! تم کو رحم نہیں آتا کہ کھیتی باڑی چھوڑا دو اور بچوں اور ان کی ماؤں کو آزاد کرو.تمہاری گاؤ ماتا کے خاوند اور ٹٹوجن عذابوں میں گرفتار ہیں کیا وہ ذبح سے کم ہے؟ آیات کا مطلب تو صاف ہے.پہلی آیت کا مطلب یہ ہے کہ عزت والی مسجد کے پاس ان سے (مکہ والوں سے)جنگ مت کرو.جب تک وہ تم سے وہاں جنگ نہ کریں.اس آیت کامنشاء صرف یہ ہے کہ عبادت گاہ مقام جنگ نہیں اور دوسری آیت کامنشاء یہ ہے کہ حالت احرام میں شکار مت کرو.احرام کی حالت حج کی عبادت میں داخل ہونے کا نشان ہے اور ظاہر ہے کہ عبادت کے وقت شکار کا وقت نہیں.بیت اللہ کو خدا کا گھر کہنے پر اعتراض بھی عجیب ہے.اوّل.تو اس لئے کہ تمہارے منّو کے پہلے ادّھیانمبر ۱۰.اشلوک میں ہے.سنسکرت میں پانی کو نارا کہتے ہیں وہ پہلے پرماتما کاگھر تھا اس وجہ سے پرماتما کوناراین کہتے ہیں.دویم.اس لئے کہ آپ کے یہاں لکھا ہے ہمیشہ سرشٹی کے پہلے چار آدمیوں کے ہردے پرمیشور کا گیان ویدجلوہ گر ہوا تو کیا دوسرے تمہارے بزرگ لوگوںکے ہردوں میں شیطانی گیان تھا.سوم.نسبت تو دوسرے تعلق سے پیدا ہوجاتی جیسے تم اب سماجی ہو یا ہم عربی ہیں.اس طرح
مکہ معظمہ کی مسجد چونکہ ابو الحنفاء شرک سے پورے بیزار ابراہیم سے بلکہ اس سے بھی پہلے الٰہی عبادت کے لئے بنائی گئی اس واسطے وہ بیت اللہ کہلائی جیسے فرمایا.(آل عمران:۹۷)پہلا گھر جو (خدا کی عبادت کے لئے)قوموںکے لئے بنایا گیا وہ مکہ میں ہے مبارک اور ہدایت ہے لوگوں کے لئے.سوال نمبر۴۷.احرام کے دنوں میںشکار نہ کرو.الجواب.احرام سے عبادت حج شروع ہوتی ہے تو کیا عبادت کے وقت اور اشغال مناسب ہیں.تم نہیں جانتے کہ ایک شغل دوسرے شغلوںکا مانع ہوتا ہے.تمہارے یہاں سینت کے وقت گرہ آشرم کب جائز ہے اور شکار تو بڑے اشغال کاموجب ہے.سوال نمبر ۴۸.(۱) موسیٰ کی لاٹھی کو خدا نے سانپ بنادیا.(۲) ساحروں کے ڈنڈوں کو جو سانپ بن گئے تھے کھا گئی.(۳) وہ ڈنڈے ساحروں کے چالیس گدھوں کا بوجھ تھا.(۴) کئی سو من وزن موسیٰ کی لاٹھی سب کوکھا گئی.(۵) ڈکار بھی نہ لیا.جگالی بھی نہ کی.(۶) لوگ جو ڈر کر بھاگے چالیس ہزار آدمی اس گھمسان میں مرگئے.(۷) موسیٰ کو اس کثرت سے لوگوں کے مرنے پر رحم آیا.(۸) اس اپنے سانپ کو جو پکڑا پھر لاٹھی کی لاٹھی.(۹) ایک ریفارمر نے اس قصہ پر ملمع چڑھانا چاہا مگر سب بے سود.الجواب.تمہارے اصل نمبر ۴میں ہے سَت کولینا اور اسَت کوچھوڑنا چاہیے پس کیا اس سوال نمبر ۴۸ کے نمبر۳،۴،۵،۶،۷میں ذرہ بھی تم نے صداقت.راست بازی اور شرم وحیا سے کام لیا ہے اور نمبر ۹میں جس ریفارمر کا ذکر کیا ہے اس نے تو بقدر اپنے فہم وفراست کے نیک نیتی سے کام لیا ہے اور یہی ہمارا اس کی نسبت اعتقاد اور یقین ہے مگر دیانند نے جس ملمع سازی اور روبہ بازی سے کام لیا ہے اور وید کے چہرہ پر تہ برتہ برقعے چڑھائے ہیں اس سے ایک جہاں واقف ہے اس کی یہ چالاکی
کیا چشم پوشی کے لائق ہے کہ طبع اول کی ستیارتھ کو جو اس کے شاگرد اور ایک را جہ کے اہتمام سے تیار ہوا تھا رد کر دیا اور وید بہاش کے متعلق آخر آریہ مسافر نے یہ پردہ براندازی کی کہ اس کا ناگری ترجمہ اور بہاؤ ارتھ غلط ہے اور پوپون کی دست برد سے محفوظ نہیں رہا.غور کرو دیانند نے وید کا بہاش لکھا اس خیال سے کہ پرانے بہاش غلط ہیں مگر بدقسمتی اور خذلان کو دیکھئے کہ اول تو اپنا بہاش تمام نہ کر سکا.پھر اس میں اس کی مرضی کے خلاف پوپون کاوار چل گیا.دانشمند خداترس اس کارروائی سے صاف سمجھ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی مشیت ہمیشہ سے ویدوں کے ابطال واعدام کے درپئے ہے ان کی اشاعت اس کامقصود کبھی نہیں ہوا.اب رہا نمبر۱،۲،۸اس میں نمبر ۲کے بیان میں تم نے حماقت اور جھوٹ سے کام لیا ہے اور بے ہودہ فقرہ بازی کی ہے.قرآن کریم میں تویوں آیا ہے.(طٰہٰ :۶۷)ان کی رسیاں اور سونٹے قوت متخیلہ کو چلتے معلوم ہوتے تھے.اور ایک فرمایا ہے (الاعراف:۱۱۷) اور ان ہتکنڈے بازوں نے لوگوں کی آنکھوں کو دھوکا دیا اور انہیں ڈرانے کی کوشش کی اور بڑا دھوکا کیا.اب ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ یہ کہاں لکھاہے کہ ساحروں کے ڈنڈے اور رسّے واقعی سانپ بن گئے تھے.خدا کی کتاب صرف یہ کہتی ہے کہ ان کے رسّے اور ڈنڈے ان کے واہموں اور تخیلوں کو چلتے نظر آئے اور ساحروں نے عام لوگوں کی آنکھوں کو دھوکے میں ڈالا اور ڈرانا چاہا اور بڑا دھوکہ کیا یہ نظارہ قانون قدرت اور سائنس کے نزدیک ایسا واقعی اور صاف ہے کہ بڑی تشریح کی بھی ضرورت نہیں.
اور نمبر ۲میں جس لفظ کا ترجمہ تم نے ’’سانپ بن گئی تھی اور کھاگئی ‘‘کیا ہے.وہ لفظ ہے (الاعراف:۱۱۸)اس میں تَلْقَف اور یَاْفِکُوْنَ کے معنوں پر غورکرنی چاہیے.تلقف مجرد ہے قاموس اللغۃ میں ہے لقفہ کسمع لقفا ولقفا نامحرکۃ تناولہ بسرعۃ.اس کا ترجمہ ہوا کسی چیز کو جلدی سے پکڑ لینا.یَاْفِکُون بھی مجرد ہے اس کے معنی قاموس اللغۃ میں لکھے ہیں افک کضرب وعلم افکا وافوکاکذب.ترجمہ.جھوٹ بولا.جھوٹی کارروائی کی اور سارے جملہ کا ترجمہ ہے کہ وہ ان کی جھوٹی کارروائی کو جلدی سے پکڑ لیتا یعنی ان کاتانا بانا ادھیڑ دیتا ہے.اب رہا نمبر ۱ ونمبر۸ اس کے جواب کے لئے پہلے میں تم کو ملزم کرتا ہوں.منوکے ۱۲.۵۰اور ستیارتھ کے ۴۴۲میں ہے.’’جو اعلیٰ درجہ کے ستوگنی ہو کرعمدہ ترین کام کرتے ہیں وہ برہما یعنی سب ویدوں کے جاننے والے وشوسرج یعنی علم قانون کوجان کر قسم قسم کے وبان.غبارہ وغیرہ سواریاں بنانے والے دھارمک اور سب سے اعلیٰ عقل والے ہوتے ہیں اور اویکت یعنی لطیف ترین مادہ کو شکل میں لانے اور پرکرتی (یعنی علت مادی) پرقابو پانے میں کامیابی حاصل کرتے ہیں.پھر تم کو بتاتے ہیں پاتنجل سوتر نمبر۱ پادچہارم میں لکھا ہے اور پاتنجل کو دیانند نے تسلیم کیاہے یوگی جب ریاضت کرتاہے تو اس کو اشٹ سدہیان نصیب ہوتی ہیں.۱.اتما.لطیف صورت بن جانا.۲.مہما.بڑاجسم بن جانا.۳.گرما.وزن دار ہوجانا.۴.لگھما.ہلکا ہو کر اڑجانا.۵.پراپتی.سورج چاند کو ہاتھ سے چھو لینا.
پراکابھ.ناکام نہ ہونا.کامیاب ہونا.۷.انشنوم.الٰہی طاقتیں حاصل کرنا.۸.بشتوم.ہرایک شئے اپنے قابو میں کر لینا.ان اشٹ سدہیوں کو مدنظر رکھ کرتم اپنے اعتراض نمبر۴۸کے تمام نونمبروں کو سیدھا کر لو اور شرم کرو یا ویدک دہرم چھو ڑکر سائنس دانوں اور فلاسفران یورپ کامذہب اختیار کرو مگر یاد رکھو تمہیں وہاں سے بھی دھتکار ہی ملے گی.کیونکہ وہاں بھی پہلے مسمریزم نے ان معجزات کی حقانیت کی طرف توجہ دلائی اور اس کے بعد اسپریچولزم نے ثابت کر دیا ہے کہ تمام صداقتیں ہیں جن کا ذکر انبیاء ورسل کی پاک کتابوں میں ہے اور جس کے دکھانے والے انبیاء ورسل کے صادق اتباع ہمیشہ اور اب بھی موجود ہیں.ساحروں کے سحر یعنی دھوکے بازوں کے ڈھکوسلے جہاں غیر واقعی طور پر اپنا جلوہ دکھاتے ہیں وہاں بڑے مرتاض یوگی جن اور ان سب سے برتر جناب الٰہی سے مؤید ومنصور قوم انبیاء ورسل اوران کے مخلص اتباع کی حقیقت بھرے آیات ومعجزات دھوکے بازوں کے جھوٹ اور افترا کو تباہ کرکے واقعات کا اظہار دنیا پر کردیتے ہیں مگر تم لوگ جو دنیا پرست ہوا ورجن کو کھانے پینے،پہننے اور دیگر اغراض خسیسہ کے سوا اور کوئی مطلوب ومقصود نہیں اس صداقت تک کیونکر پہنچ سکتے ہو.ایک نہایت لطیف اورضروری نکتہ میں نے اس مضمون کو قبل از نماز عشاء حضرت امام خلیفۃ اللہ مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا.آپ نے فرمایا ان اعتراضوں کی اصل ہے معجزات اور خوارق کا انکار.لوگ اسے ایک مدّمیں ان تمام ہزاروں معجزات کو شامل کرتے ہیں جو ہمارے نبی کریم ﷺ سے ظہور میں آئے اور یہ لوگ اور ان کے دل ودماغ کے نیچری بھی بدقسمتی سے اسی قسم کے اعتراضوں یا وسوسوں میں مبتلا ہیں اور جہاں کسی معجزہ کا ذکرہوا اسے ہنسی اور ٹھٹھے میں اڑا دیا.اس وقت مناسب یہ ہے کہ ان تمام
سوالات کا ایک ہی جواب بڑی قوت اور تحدی سے دیاجاوے کہ جس قدر معجزات اور خوارق انبیاء علیھم السلام کے اور ہمارے نبی ﷺ کے قرآن میں مذکور ہیں ان سب کے صدق اور حقیّت کے ثابت کرنے کے لئے آج اس زمانہ میں ایک شخص موجود ہے جس کا یہ دعویٰ ہے کہ اسے وہ تمام طاقتیں کامل طور پر خدا تعالیٰ کی طرف سے عطاہوئی ہیں جو انبیاء علیھم السلام کو ملی تھیں.جو عجائبات خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم اور موسیٰ علیھما السلام کے ہاتھ پرمنکروں کو دکھائے وہی عجائبات زندہ اور قادر خدا آج اس کے ہاتھوں پر دکھانے کوموجود اور تیار ہے.کوئی ہے جو آزمائش کے لئے قدم اٹھائے.غلام کے ہاتھ سے آقا کی صداقت کو دیکھے.سوال نمبر ۴۹.موسیٰ نے لاٹھی مار کر سمندر کو پھاڑ دیا اور فرعون معہ لشکر کے غرق ہوا اور موسیٰ کی قوم بچ گئی.الجواب.دیکھو جواب نمبر ۴۸نیز پھر منو کے ۱۲.۵۰ اورستیارتھ ۴۴۳میں جو لکھا ہے وہ جھوٹ ہے.جو اعلیٰ درجہ کے ستوگنی ہو کرعمدہ ترین کام کرتے ہیں وہ برہما یعنی ست ویدوں کے جاننے وشو سرج یعنی علم قانون قدرت کو جان کر قسم قسم کے دبان غبارہ وغیرہ سواریاں بنانے والے دہارمک اور سب سے اعلیٰ عقل والے ہوتے ہیں اور آویکت یعنی لطیف ترین مادہ کو شکل میں لانے اور پرکرتی (یعنی علّت مادی)پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کرتے ہیں.اگر تم یوگا ابھیاس.اسپریچولیزم وغیرہ اور اشٹ سدھیان اور اہل کمال کے علوم مصدقہ آیات ومعجزات کوجانتے تو ایسے بے ہودہ اعتراض نہ کرتے.ایسے اعتراض کرنا اہل مذاہب اور ارباب نقل کاکام نہیں.بہرحال اگر تم وہ راہ راست نہیں جانتے تو آپ کو ایک راہ دکھاتے ہیں اصل آیت یہ ہے.(البقرۃ:۵۱)اور جب الگ کر دیا ہم نے تمہارے لئے دریا کو پھر بچالیا تمہیں اور غرق کر دیا ہم نے
فرعونیوں کو اور تم دیکھتے رہے.اور سورہ طٰہٰ میں ہے.(طٰہٰ :۷۸)یہ کہ رات کو لے چل میرے بندوں کو پھر چل ان کے لئے ایک خشک راہ جو دریا میں ہے.مت ڈر یو کسی کے احاطہ سے اور نہ کسی قسم کا خوف کرنا.(الشعراء :۶۴)چل اپنی فرمانبردار جماعت کے ساتھ اس بحر میں پس وہ کھلاتھااور ہر ایک ٹکڑا تھا جیسے بڑے ریتے کا ٹیلا.اضرب بعصاک کے بدلہ سورہ طٰہٰ میں اسر بعبادی اور فاضرب لھم طریقا.پس معنی ہوئے لے جا جماعت فرمانبردار کو یاجاساتھ جماعت اسلام کے بحر میں جو خشک پڑا ہے پھر بچایا تم کو اور غرق کر دیا فرعونیوں کو تمہارے دیکھتے.سوال نمبر ۵۰.موسیٰ نے ڈنڈا مارا بارہ چشمے نکال دئیے.الجواب.دیکھو جواب نمبر ۴۸،۴۹.اچھے لوگ مادہ اور پرکرتی پر قابو رکھتے ہیں دیکھو منو ۱۲.۵۰اور ستیارتھ صفحہ ۴۴۳.پھر اشٹ سدھی اور اسپریچولیزم.مسمریزم وغیرہ فنون کے عجائبات سے تو تم آگاہ نہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں معجزات کے منوانے کے لئے دنیا میں بہت سامان رکھے ہیں ان کے لئے یوگا ابہاس والوں سے پوچھو اگر شک رہے تو پھر دیکھو ہمارا صفحہ نمبر۷۰،۱۵۲،۱۵۳،۱۵۴ معجزات پر.اگر تم ایسی ہی محرومی میں ہوتو تم کو ایک آسان راہ بتاتے ہیں سنو !لکھا ہے جب کہ موسیٰ علیہ السلام نے پانی طلب کیا اس پر خدا تعالیٰ نے فرمایا.(البقرۃ:۶۱)
اپنی جماعت کو لے کر پہاڑ پر چلاجا پس بارہ چشمے ایسے جاری ہیں.اس آیت میں تین لفظ ہیں ان کے معنے سنو! ۱.الضرب.ایقاع شیء علٰی شئی منہ ضرب الرقاب ثم ضرب الخیمۃ وضرب الذلۃ.ضرب کے معنی ہیں ایک چیز کا دوسری پر مارنا.گردن کا مارنا.خیمہ کا لگانا اور ذلت کی مار مارنا.اسی سے نکلا ہے.۲.والضرب فی الارض الذھاب فیہ ومنہ اذا ضربتم فی الارض واضربوا مشارق الارض ومغاربھا.ومنہ ضرب یعسوب الدین ای اسرع الذھاب فی الارض فواراً من الفتن.لسان.تاج.مجمع البحرین.اور ضرب کے معنی ہیں زمین پرجانا اور اسی سے ہے جب تم زمین میں جاؤ اور زمین کی مشرق ومغرب میں جاؤ.اور اسی محاورہ سے ہے یعسوب دین چلایعنی فتنوںسے بھاگ کر جلدی کہیں کو نکل گیا.(یعسوب الدین مولیٰ مرتضیٰ علیہ السلام کا لقب ہے) ۳.والضرب الاقامۃ حتی ضرب النّاس بعطن ای رویت ابلھم حتی برکت واقامت یقال ضرب بنفسہ الارض ای اقام.والضرب یقع علی کل فعل وعلیٰ جمیع الاعمال الا قلیلا.تاج.لسان اور ضرب کے معنی ہیں اقامت کرنا.محاورہ ہے لوگوںنے اپنے اپنے ڈیروں میں آرام کیا.کیا معنی اونٹ پانی پی کر بیٹھ گئے اور ٹھہرے.اپنے آپ کو زمین میں ٹھہرایا.ضرب کا لفظ ہر فعل پراور تمام اعمال پر بجز اندک کے اطلاق پاتا ہے.خلاصہ.ضرب کے معنے ہوئے کسی چیز کا کسی پر ڈالنا.کہیں جانا.کہیں اقامت کرنا یا کوئی کام کرنا.۲.العصا.جماعۃ الاسلام.قاموس اور صحاح میں ہے.شقوا عصاالمسلمین.ای اجتماعھم وایتلافھم.
مسلمان لوگوں کے اتفاق اور باہمی محبت والفت کو توڑ دیاانہوں نے اور لاٹھی کو اس لئے عصا کہتے ہیں کہ اس پر انگلیاں اور ہاتھ جمع ہوتے ہیں.۳.حَجَرکے معنی بادیہ.وادی.ویلی.پتھر.حدیث جساسہ ودجال میں ہے یتبعہ اھل الحجر.ای اھل البادیۃ.پس آیت کاترجمہ ہوا پس کہا ہم نے لے جااپنی فرمانبردار جماعت کو یاجا ساتھ اپنی فرمانبردار جماعت کے فلاں بادیہ یا وادی میں پس چل رہے تھے وہاں بارہ چشمے.تاؤ اس ترجمہ پر اعتراض کیا ہو سکتا ہے؟ اعتراض نمبر ۵۱.پہاڑ بنی اسرائیل کے سر پر کھڑا کردیا.الجواب.(البقرۃ :۶۴) اور جب لیاہم نے مضبوط وعدہ تمہارا اور اوپر رکھا ہم نے تم پر طور کو.لو جو دیا ہم نے تمہیں قوت سے اور عمل کرو جواس میں ہے توکہ تم متقی بن جاؤ.دوسرے مقام پر رفعنا کے بدلہ آیا ہے.(الاعراف:۱۷۲) مجاہد جو قرآن کے معانی بیان کرنے میں عظیم الشان تابعی ہیں اس نے کہا ہے نَتَقْنَا کے معنی زَعْزَعْنَا کے کئے ہیں.زعزعنا کے معنی ہوئے ہلادیا ہم نے.اور فرّا نے کہا ہے نتقنا کے معنی رفعنا کے ہیں اور رفعنا کے معنی ہیں اوپر رکھا ہم نے.کیا تم نے نہیں سنا کہ راوی لاہور کے نیچے بہتی ہے اور لاہور راوی کے اوپر آباد ہے.ٹیمس لنڈن کے نیچے بہتا ہے.پہاڑوں میں ایسے نظارے عام ہیں کہ پہاڑ سر پر ہوتا ہے اور اگر زلزلہ پہاڑ میں آرہا ہو اور پہاڑ آتش فشاں ہو تو اور بھی وہ نظارہ بھیانک ہوجاتا ہے.سنو! اگر تمہیں فہم وفراست ہوتی اور تمہاری فطرت سلیم ہوتی تو تم کو تمہارے مذہب کے رو سے
اور بھی اس کے فہم میں سہولت ہوتی ستیارتھ کے صفحہ ۲۵۴.اہم.برہم.اسمی کے ارتھ میں لکھا ہے کہ یہاں تاتستھ اپادھی ہے.کیا معنی.یہاں استعارہ ظرف ومظروف کا ہے.پس معنی آیت کے اس صورت میں یوں ہوئے.جب بلند کیا تم پر اس چیز کو جو طور میں نازل ہوئی.آگے کافقرہ اس معنی کی طرف راہ نمائی بھی کرتاہے.(البقرۃ:۶۴)لو جو دیا ہم نے تم کو بڑی قوت سے اور عمل درآمد میںلاؤ جو اس میں ہے.سوال نمبر ۵۲.سلیمان سے چیونٹے نے بات کی.الجواب.اوّل دیکھو سوال نمبر ۵۳کا جواب اور پھر سنو!اگر سلیمان نملہ سے بات نہیں کرسکے اور نہ اس کی بات سن سکے ہیں تو یقین پڑتا ہے کہ اگنی.وایو.ادت.انگرہ کے ذریعہ وید کا پہنچنا بھی غلط ہے.سنو!نملہ کیڑے تو آخر حیوان ہے.آگ.ہوا.ادت.سورج.انگرہ تو بسائط وعناصر ہیں.جب ایک حیوان بات نہیں کرسکتا تو عناصر کیونکر بات کرسکتے تھے.پھر مادری اور کنتی کے متعلق یہ کہنا کہ انہوںنے سورج.وایو.چندرمان سے بیٹے لئے کیونکر صحیح ہو گا.عناصر کیونکر جماع کر سکتے تھے اور ان کا نطفہ کیوں کر رہ سکتا تھا.پھر ارجن نے ناگنی (سانپنی)سے شادی کس طرح کی.سملاس نمبر۸صفحہ ۲۹۸.دیانند نے ستیارتھ میں پاربتی.ناگی.تلسی.گلابی.گیندا.گنگا.کوکلا سے شادی کرنے کی کیوں ممانعت کردی.بتاؤ تو سہی کیا کوئی ان نباتات وحیوان سے شادی کر سکتا ہے؟اور سنو! تمہارے آریہ ورتی اعتقاد رکھتے تھے کہ زمین بیل کے سہارے قائم ہے مگر آج کل کی نکتہ چینی سے بچنے کے لئے تمہارے مہارشی نے اکہشا کے معنی میں جس کی سنسکرت میں بیل کے معنے بھی ہیں کہہ دیا کہ یہاں یہ معنی مناسب نہیں کیونکہ یہاں سورج کو زمین کے سیراب کرنے کی وجہ سے سورج کو اکہشا کہا گیا ہے.
اب ہم اصل حقیقت کا اظہار کرتے ہیں قاموس اللغہ میں برقہ لغت کے نیچے لکھا ہے البرقۃ من میاہ نملۃ یعنی برقہ نملہ قوم کے پانیوں (چشموں)سے ایک چشمہ ہے.طائف عرب کا ایک مشہور شہر ہے اس کے اور یمن کے درمیان یہ وادی نملہ واقع ہے اس وادی میں سے سونا نکلتاہے.سونے کے باریک ذروں کو جو قوم چنتی اور اکٹھا کرتی ہے اس کو نمل کہتے ہیں کیونکہ چھوٹے چھوٹے ذرات کاجمع کرنا کیڑوں کاکام ہے.ہمارے ملک میں بھی تھوڑا تھوڑا طعام جمع کرنے والوں کو کیرا کہتے ہیں اور ایسی عورتیں اپنے آپ کو اور لوگ ان کو کیری کہتے ہیں اور کیری کا ٹھیک ترجمہ نملہ ہے.گوندل کی بارمیں ڈڈ.چوہے اور مالیر کوٹلہ میں مور کٹانے قومیں اب بھی موجود ہیں.اکھشا کا ترجمہ بیل کی جگہ سورج بنانے والو!تمہیں سمجھ پیدا ہو.بیل کے بدلہ سورج تو بنا لیتے ہو اور دوسری قوموں پر اعتراض کرنے کو تیار ہوجاتے ہو اگرچہ ان کے ہاں قرائن قویہ مرجحہ موجود ہوں اس بیداد گری اور ناحق کی دل آزاری سے تم کس برومندی اور بہبود کی توقع رکھتے ہو!!! سوال نمبر ۵۳.سلیمان جانوروں کی باتیں سنتے تھے جیسے ہدہد کی.الجواب.اس کا جواب سننے کے لئے ہمارے سوال نمبر ۵۲پر نظر کرو اور سنو! کیا تم مانتے ہو کہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ جانوروں کی باتیں سنتا اورسمجھتا ہے.اگر سنتا ہے اور سمجھتا ہے کیونکہ وہ گیانمے چت سروپ ہے تو پھر اس کے مقرب اوراس میں لَے ہونے والے پاک بندے ان جانوروں کی باتیں کیوں نہیں سن سکتے.ہم نے پرتیکش تجربہ کیا ہے کہ ایک دنیا کے جاہ وحشم والے کے ساتھ جس قدرکسی کا تعلق بڑھتا جاتاہے اسی قدر جاہ وحشم والے کی طاقتیں اس مقرب پر اپنا عکس (پرتے بمب)ڈالتی ہیں اور وہ مقرب بھی صاحب گونہ جاہ وحشم ہو جاتاہے.تو سرب شکتی مان عالم کل.ہمہ طاقت جناب الٰہی کے
قرب سے مقرب کو ان طاقتوں سے ذرا اثر نہ ہو یہ کیونکر خیال میں آسکتا ہے؟ ہم نے توجانوروں سے بدتر کلام کرنے والے پال کی بات کو سمجھ لیا.سلیمان جانوروں کی باتیں کیوں نہ سمجھے ہوں اور سنو! اگر ہدہد سے بات نہیں ہوسکتی تو اگنی سے رگوید کو تمہارے بڑوں نے کس طرح اور کیونکر سنا؟ کیا آگ بات کر سکتی ہے کہ وید جیسی بانی تم کو سنا گئی اور آئندہ بھی سنائے گی؟ سنو اور غورکرو! تمہیں کچھ معلوم ہے کہ انڈیا میں مشہور نیک بخت والدین کے فرمانبردار فرزند را جہ رامچندر جی گزرے ہیں جب ان کو بن باس کے وقت لنکا کے شریر را جہ نے دکھ دیا تو ہنومان جی ان کے بیر اور داس نے ان کی کیسی خدمت کی.ہنومان کو تم خوب جانتے ہو کہ وہ بانر (بندر) تھے اور رات دن رامچندر جی سے باتیں کرتے اور رام جی اس بندر سے باتیں کرتے.اسی بندر کی وجہ سے آریہ ورت کے بندر آج تک مکرم ومعظم ہیں.اگر یہ سچ ہے کہ ہنومان جی بندر تھے اور رامچندر سے ان کا مکالمہ ہوتا تھا تو ہدہد اور سلیمان کے مکالمہ پر تمہیں تعجب کیوں ہے ؟سنو ! جو حقیقت ہنومان کے لفظ کے نیچے ہے وہی ہدہد کے نیچے ہے کاش تم سمجھو.سوال نمبر ۵۴.ہوا سلیمان کے حکم سے چلتی تھی.کوئی بیلون اور ریل پیش نہ کری.الجواب.کیوں پیش نہ کری.تمہیں شرم نہیں آتی.تمہارے دیانند نے لکھا ہے دیکھو ستیارتھ ۴۲۷.جب رامچندر جی سیتاجی کو لے کر ہنومان وغیرہ کے ساتھ لنکا سے چلے.اکاش کے راستہ غبارہ پر بیٹھ ایودھیا کو آرہے تھے تب سیتا جی کو کہا تھا کہ یہاں آہ.او ظالم !رام چندرلنکا سے ایودھیا کو بیلون میں آسکیں اور سلیمان علیہ السلام کے قصہ میں کوئی بیلون کو پیش نہ کر سکے.کیا یہ عقل وانصاف ہے.او ظالم !انصاف بابرکت چیز ہے.اور یہاں قرآن کریم میں توصاف صاف بتایا گیا ہے کہ بادی جہازوں کے ذریعہ حضرت سلیمان سفر کیا کرتے تھے اور پھر وہاں تو بحر قلزم بحیرہ روم اور خلیج فارس تھے.یہاں سیلون.لنکا.ایودھیا کے درمیان خشکی ہی خشکی ہے.تم کیا عذر تراش سکتے ہو؟
قرآن کریم میں حضرت سلیمان کے قصہ میں یہ الفاظ کس قدر وضاحت سے بیان کرتے ہیں کہ آپ کا سفر بادی جہازوں کے ذریعہ ہوتا تھا چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.(صٓ :۳۷) ہم نے ہوا کو اس کے کام میں لگایا وہ اس کے حالات اور مقاصد کے موافق چلتی تھی.اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے جہازوں کے سفر میں باد موافق چلاکر تی تھی اور اس کے سفر کامیابی اور شادکامی کو ہمراہ لئے ہوتی تھی اور جیسا کہ ا ٓج کل یورپ کے سٹیمر باوجود قسم قسم کے بچاؤ کی تدابیر کے ا ٓئے دن سمند ر کی خونخوار موجوں کے لقمہ تر بنتے ہیں حضرت سلیمان کو اس کے خلاف کبھی تباہی پیش نہیں آئی.ایسے صاف واقعہ پر اعتراض کرنا اور لنکا سے ایودھیا تک بیلون کے سفر کو تسلیم کرنا کوئی رشید ہے کہ اس قوم کے ظلم عظیم کی داد دے!اپنی مطلب براری کے وقت دعاوی بے دلیل اور توجیہات رکیکہ اور النکاراور اپادہیان صنائع بدائع اور استعارات میں پناہ ڈھونڈنی اور دوسروں پر اعتراض اور ظلم کرتے وقت جو مونہہ میں آئے کہتے چلے جاویں خدا تم کو راہ نمائی کرے.سوال نمبر ۵۵.شہد کی مکھی کو بھی وحی ہوئی.الجواب.کلما القیتہ الی غیرک فھو وحی.جو بات کسی کو پہنچائی جاوے وہ وحی ہے.قرآن کریم میں یہ لفظ عام ہے حتیٰ کہ زمین کی نسبت بھی فرمایا ہے کہ اسے وحی ہوتی ہے چنانچہ فرمایا ہے.(الزلزال :۵،۶) اس دن وہ اپنی خبریں بیان کرے گی اس لئے کہ تیرے رب نے اسے وحی کی.ہاں انبیاء اور رسل کی وحی او ر چیز ہے اس وحی کے ذریعہ الٰہی علوم اور سچے حقائق اور پاک تعلیمات کا فیضان جہان کو ہوتا ہے.غرض ہر ایک شئے کو اس کی استطاعت اور قویٰ کے موافق خدا تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوتی ہے اور یہ بات قانون قدرت کے مشاہدہ سے عیاں ہے.آفرین اے نکتہ چین تیر ی عقل ودانش پر ! ایسی صاف اور موٹی باتیں اور ان پر اعتراض.ارتداد کی خلعت
آپ نے انہی وجوہ سے زیب تن فرمائی ہے.!!! سوال نمبر ۵۶.’’طیراً ابابیل.کجا ہاتھی اور کجا کرم خور جانور‘‘.الجواب.قبل اس کے کہ ہم آپ کو اس سوال کا جواب دیں ضروری سمجھتے ہیں کہ آپ کے سوال میں جو الفاظ آئے ہیں ا ن کے معانی بتلائیں.پہلا لفظ کَیْد ہے کید کے معنی مفصل ہم نے سوال نمبر ۲میں لکھ دئیے ہیں مگر یہاں یاد رہے کہ کید کے معنے لڑائی کے ہیں.دوسرا لفظ تضلیلہے.تضلیل کے معنی باطل کرنے اور اہلاک کے ہیں.تیسرا لفظ ابابیل ہے ابابیل جمع ہے ابّیل اور ابوّل کی.ابّیل اور ابوّل کے معنی جماعت کے ہیں ابابیل کے معنی ہوئے بہت سی جماعتیں.ہماری زبان میں ترجمہ ہوا ڈاروں کی ڈار.چنانچہ لسان العرب میں لکھا ہے قال الزجاج فی قولہ تعالٰی طیرا ابابیل جماعات من ھٰھنا جماعات من ھٰھنا.و قیل یتبع بعضھا بعضاً ابّیلا ابّیلا ای قطیعا خلف قطیع.دوسرا سوال اس کے بعد یہ پیش آتا ہے کہ دشمن کی فوج کی ہلاکت کو جانوروں سے کیا تعلق ہے.سواس کے واسطے سام وید فصل نمبر ۳پرپاٹیک نمبر۱کی عبارت دیکھو.اس میں لکھا ہے (۱)کوّوں اور مضبوط بازو والوں پرندوں کو ان کے تعاقب میں بھیج.ہاں تو اس فوج کو کرگسوں کی غذا بنا.اے اندر ! ایسا کر کہ کوئی ان میں سے نہ بچے کوئی نیک بھی نہ بچے ان کے پیچھے تو تعاقب کرنے والے پرندوں کو جمع کردے.پھر سام وید فصل دوم پر پاٹیک نمبر۳میں یوں ہے.اے روشن اشاس جب تیرے وقت رجوع کرتے ہیں تو کل چوپائے اور دریاؤں والے حرکت کرتے ہیں اور تیرے گرد بازووالے پرندے آسمان کی تمام حدود سے اکٹھے ہوجاتے ہیں.عربی میں بھی ایسے محاورات بکثرت ہیں اور انہی معنوں اور استعاروں میں پرندوں کے الفاظ وہاں مستعمل ہوتے ہیں چنانچہ النابغۃ الذبیانی کا شعر ہے.
اذا ما غزا بالجیش حلق فوقھم عصائب طیر تھتذی بعصائب جب وہ لشکر لے کر دشمنوں پر چڑھتا تو پرندوں کے غولوں کے غول دشمنوں کے لاشوں کے کھانے کو جمع ہوجاتے ہیں.ایک مولوی صاحب نے اس موقعہ پر ایک شعر لطیف لکھا ہے وہ ہمارے جواب کے ساتھ بڑی مناسبت رکھتا ہے گو مولوی صاحب نے اس کے معنی کچھ ہی کئے ہوں مگر وہ ہماری وہ ذکرکردہ دلیل کا ہی مثبت ہے اور وہ شعر یہ ہے.این المفر لمن عاداہ من یدہ والوحش والطیر اتباع تسائرہ یہاں طیر سے مراد وہی مردار خور پرندے ہیں اور سباع بھی وہی مردار خور ہیں جو فتح مندی کا نشان ہیں.اسی قسم کے انداز بیان میں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اشارہ کرتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے دشمن ہلاک کئے جاویں گے جیسے فرماتا ہے.(النحل :۸۰)کیا وہ ان پرندوں کے حالات پر غور نہیں کرتے جنہیں ہم نے آسمان کے جوّ میں قابو کر رکھا ہے ہم ہی نے تو انہیں تھام رکھا ہے (اور ایک وقت آنے والا ہے کہ انہیں نبی کریم کے دشمنوں کی لاشوں پر چھوڑ دیں گے.)مومنوں کے لئے ان باتوں میں نشان ہیں.یہا ں بھی پہلے ایک شریرقوم کا بیان کیاہے جو بڑی نکتہ چینی کی عادی اور موذی تھی اور اسلام کو عیب لگاتی تھی اور بہت سے اموال جمع کر کے فتح کے گھمنڈ میں مکہ پر انہوں نے چڑھائی کی.یہ ایک حبشیوں کا بادشاہ تھا جس نے اسی سال مکہ معظمہ پر چڑھائی کی جب کہ حضرت رحمۃ للعالمین نبی کریم ؐ پیدا ہوئے.جب یہ شخص وادی محصّرمیں پہنچا اس نے عمائد مکہ کو کہلا بھیجا کہ کسی معزز آدمی کو بھیجو.تب اہل مکہ نے عبدالمطلب نامی ایک شخص کو بھیجا جو ہمارے نبی کریم ﷺ کے دادا تھے
جب عبدالمطلب اس ابرہ نام بادشاہ کے پاس پہنچے وہ مدارات سے پیش آیا.جب عبد المطلب چلنے لگے اس نے کہا کہ آپ کچھ مانگ لیں.انہوںنے کہا کہ میری سو اونٹنیاں تمہارے آدمیوں نے پکڑی ہیں وہ واپس بھیج دو.تب اس بادشاہ نے حقارت کی نظر سے عبدالمطلب کو کہا.کہ مجھے بڑا تعجب ہے کہ تمہیں ا پنی اونٹنیوں کی فکر لگ رہی ہے اور ہم تمہارے اس معبد کو تباہ کرنے کے لئے آئے ہیں.عبد المطلب نے کہا.کیا ہمارا مولیٰ جو ذرہ ذرہ کا مالک ہے جب یہ معبد اسی کے نام کا ہے اور اسی کی طرف منسوب ہے وہ اس کی حفاظت نہیں کرے گا؟اگر وہ اپنے معبد کی خود حفاظت نہیں کرنا چاہتا تو ہم کیا کر سکتے ہیں.آخر اس بادشاہ کے لشکر میں خطرناک وبا پڑی اور چیچک کا مرض جو حبشیوں میں عام طور پر پھیل جاتاہے ان پر حملہ آور ہوا اور اوپر سے بارش ہوئی اور اس وادی میں سیلاب آیا.بہت سارے لشکری ہلاک ہوگئے اور جیسے عام قاعدہ ہے کہ جب کثرت سے مردے ہوجاتے ہیں اور ان کو کوئی جلانے والا اور گاڑنے والا نہیں رہتا تو ان کو پرندے کھاتے ہیں.ان موذیوں کوبھی اسی طرح جانوروں نے کھایا.یہ کوئی پہیلی اور معما نہیں.تاریخی واقعہ ہے.پر افسوس تمہاری عقلوں پر!!! مکہ معظمہ کی حفاظت ہمیشہ ہوتی رہی اور ہوتی رہے گی.کوئی تاریخ دنیا میں ایسی نہیں جو یہ بتا سکے کہ اسلام کے مدعیوں یا ابراہیم ؑ کے تعظیم کرنے والوں کے سوا کوئی اور بھی اس کامالک ہواہو.یونانی سکندر بگولے کی طرح یونان سے اٹھ کر تمہارے ملک میں پہنچا اور اسے پامال کیا.اور رچرڈ سارے یورپ کے ساتھ اسلام کی بربادی کو اٹھا اور نیپولین مصرتک پہنچ گیامگر عرب کی فتح سے یہ سب ناکام اور نامراد رہے.اس میں خداترسوں کے لئے بڑے نشان ہیں.پہلا بابل میں ہلاک ہوا اور دوسرا ملک شام سے نامراد واپس ہوا اور تیسرا سینٹ ہلینا کے قلعہ میں بے انتہا حسرتوں کو دل میں لے کر مرا.تمہارے آریہ ورت کو ہم دیکھتے ہیں اہل اسلام اس کے مالک ہوئے یا ان کے ساتھی اب اہل کتاب ہیں.تمہارے ہری دواراور کاشی وغیرہ کی حکومت دوسروں کے قبضہ میں ہے.تمہارا کوئی معبد غیرمفتوح نہیں رہا.غیر قوموں کے گھوڑوں کے سموں نے سدا ا نہیں پامال کیا یہ عجائبات اور معجزات ہیں !!
سوال نمبر۵۷.معتقد بنانے کو خاص اونٹنی پیدا کی.الجواب.قرآن کریم میں تو کہیں نہیں لکھا کہ خاص اونٹنی اس وقت پیدا کر دی.صرف اتنی بات قرآن میں ہے.(الاعراف:۷۴)یہ خدا کی اونٹنی تمہارے لئے ایک نشا ن ہے اسے خدا کی زمین میں چرنے چگنے دواور دکھ نہ دو ورنہ سخت عذاب میں گرفتار ہوجاؤگے.اس بات کے حل کرنے کے لئے خود تمہارے ملک کی رسوم اور عادات بڑی چابی ہیں.اس ملک میں جہاں جہاںسکھ مالک ونمبردار ہیں وہاں کیا ہوتا ہے ؟کون نہیں جانتا ایک بیل اگر کسی مسلمان کے ہاتھ سے مارا جاوے تو انسانی جسم کی اس ایک حیوان کے بدلہ میں کیا گت بنتی ہے.تمہارے بازاروں میں بیکار.نکمے.مال مردم خوربیل پھرتے ہیں بتاؤ؟کوئی مسلم ان کو چھیڑ سکتاہے اگر اتفاقی بھی چھیڑے تو تم کیسے اس کے گردہوتے ہو.تم مفتوح.دبیل.نرم دلوں کا تو حال یہ ہے.اگر اللہ تعالیٰ نے جو بادشاہوں کا بادشاہ.حاکموں کا حاکم ہے کہہ دیا کہ میرے رسول صالح کی سچائی کا یہ نشان ہے کہ اگر اس کی خلاف ورزی کرو گے اور اس اونٹنی کو جو اَب خصوصیت رکھنے والی اونٹنی ہے ستاؤ گے تو ہلاک ہو گے.عرب کے ملکوں میں دشمنوں پر رعب ڈالنے اور اپنی شوکت کے اظہار کے لئے نہ صرف اونٹ چھوڑے جاتے تھے بلکہ گھوڑے اور دنبے بھی اور قوم کلیب کے جنگوں سے معلوم ہوتاہے کہ کتوں کے بچوں کو بھی اس طرح آزاد کرتے تھے.ناقہ صالح کی مثال رسومات عرب میں میدانی نے امثال میں لکھا ہے کہ حیرہ کے بادشاہ کسریٰ نے اپنی قوت، سلطنت اور بطش کے باعث عربوں میں بڑا رعب جما یا تھا اس کو مضرط الحجر کہتے تھے اس نے شدید قحط کے زمانہ میں ایک دنبہ کو خوب پالا اور پوسا.پھر اس کے گلے میں چھری اور چقماق ڈال دیا اور اسے جنگل میں چھوڑ دیا
اور کہا کون ہے جو اسے ذبح کر سکتا ہے.عربوں میں کوئی بھی اس سے تعرض نہیں کر سکتا تھا آخر بنو یشکر قوم تک پہنچا اور علیاء بن ارقم کی نظر پڑا.تب وہ بول اٹھا میں اس دنبہ کو کھالوں گا.تب قوم کے لوگوں نے اسے روکا اور ملامت کی لیکن علیا ء اپنے ارادہ پر قائم رہا.تب انہوں نے اس بات کو اپنے سردار تک پہنچایا.اس نے یہ فقرہ کہا جو اب کہاوت کے طور پر مشہور ہے.انک لا تعدم الضان ولکن تعدم النفع.لوگوں نے ملامت تو بہت کی مگر علیاء نہ ٹلا اور دنبہ کو ذبح کر کے کھاگیا اور بادشاہ کے پاس چلاگیا اور کہا کہ میں نے ایک بدی کی ہے اور بہت بڑی بدی کی ہے لیکن آپ کا عفو اس سے بھی بڑھ کر ہے اور اپنا سارا ماجرا سنایا تب بادشاہ نے کہا اب میں تجھے قتل کر دوں گا تب علیا ء نے وہ مشہور قصیدہ پڑھا جس کا ایک شعر ہم نقل کرتے ہیں.وان ید الجبار لیست بصعقۃ ولکن سماء تمطر الوبل والدیم سوال نمبر ۵۸.بنی اسرائیل کو بجلی سے ہلاک کیا.الجواب.انتشاری بجلی سے ہلاکت اور نقصان اگر تم نے نہیں سنا تو کسی سائنس دان سے دریافت کرو اور کچھ ہم بھی بتا دیتے ہیں یہ تو ظاہر ہے کہ جس وقت جناب موسٰی علیہ السلام چند منتخب لوگوں کو طورکے قریب لے گئے اس وقت پہاڑ پر آتش افشانی ہو رہی تھی اور بجلیاں اپنی چمک دمک دکھلا رہی تھیں.جناب موسٰی ؑ نے حسب ارشاد الٰہی قوم کو روک دیا تھا کہ پہاڑ کے اوپر کوئی نہ جاوے اور ہم نے ظاہر کا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ بائبل کو قرآن پر پال نے ترجیح دی ہے پس اس نے بائبل کو پڑھا ہوگا.کتاب خروج میں مفصل موجود ہے.اور قرآن کریم کے ان کلمات طیبات پر اعتراض کیا ہے.۱. ۲.(البقرۃ:۵۶،۵۷) پکڑلیا تم کو کڑک نے اور حال یہ ہے کہ تم دیکھتے تھے.پھر اٹھایا تم کو تمہاری موت کے بعد
تو کہ تم قدردانی کرو.صاعقہ صعق سے نکلا ہے.صعق کے معنی میں لکھا ہے.الصعق ان یغشی علیہ من صوت شدید یسمعہ وربما مات منہ.(مجمع البحار) صعق یہ ہے کہ بے ہوشی پڑ جاوے کسی پر کسی سخت آواز سے جس کو اس بے ہوش ہونے والے شخص نے سنا اور کبھی اس سے موت بھی ہوجاتی ہے.قرآن کریم میں آیا ہے.(الاعراف:۱۴۴) موسٰی بے ہوش ہو کر گر پڑے پس جب افاقہ آیا.پھر مجمع البحار میں لکھا ہے ینتظر بالمعصوق ثلاثا مالم یخافوا علیہ نتناوھو المغشی علیہ او من یموت فجاء ۃ ولا یعجل دفنہ.جس پر صاعقہ گرے اور اس کو تین دن تک دفن نہ کیا جاوے.جب تک سڑجانے کا ڈرنہ ہو اور یہ وہ ہے جس پر غشی ہو یا اچانک مرجاوے دفن میں جلدبازی نہ کی جاوے.مفردات راغب میں لکھاہے الصاعقہ تین قسم کا ہوتا ہے.۱.موت: فرمایا ہے(الزمر:۶۹) ۲.عذاب: فرمایا ہے.(حٰمٓ السجدۃ:۱۴) ۳.آگ :فرمایا ہے.(الرعد :۱۴) اس بیان سے اتنا معلوم ہو گیا کہ صاعقہ.بے ہوشی.موت.عذاب اور نار کوکہتے ہیں.دوسرالفظ قابل غور موت کا لفظ ہے.موت کے معنی مجمع البحار میں جولغت قرآن وحدیث کی جامع کتاب ہے یہ ہیں.۱.موت کے معنی سوجانا.حدیث میں آیا ہے.احیانا بعد ما اماتنا.
موت کے معنی سکون.کیا معنی؟ حرکت نہ کرنا.ماتت الریح.ہوا ٹھہر گئی.۳.موت ،حیات کے مقابلہ ہوا کرتی ہے اور حیات کے معنی میں آیا ہے قوت نامیہ کا بڑھنا قرآن کریم میں آیاہے.(الحدید :۱۸)زمین کو اللہ تعالیٰ اس کی موت کے بعد زندہ کرتا ہے.۴.قوت حسیہ کے زوال پر موت بولتے ہیں.قرآن کریم میں آیا ہے.(مریم :۲۴) کیا معنی ؟بچہ جننے سے پہلے میری قوت حسیہ نہ رہتی کہ درد تکلیف دہ ہوتا.۵.جہل و نادانی کو موت کہتے ہیں.قرآن میں یہ معنے آئے ہیں.(الانعام:۱۲۳) ۶.حزن.۷.خوف مکدر کو موت کہتے ہیں.قرآن میںیہ محاورہ آیاہے.(ابراہیم :۱۸) ہر طرف سے اس پر خوف اور غم آتے تھے.۸.احوال شاقہ.فقر.ذلت.سوال کرنا.بڑھاپا ۹.اور معصیت وغیرہ کو موت کہتے ہیں حدیث میں آیا ہے اوّل من مات ابلیس.۱۰.اور آیا ہے اللبن لایموت زندہ سے جو جزو الگ ہو وہ مردہ ہے مگر دودھ.بال.اون.مردہ نہیں ہوتے.یہ موت کے معنے ہوئے اور اسی طرح مفردات راغب میں موت کے بہت معنی بتائے ہیں.اور تیسرا لفظ بعث کا ہے.۱.بعث کے معنے بھیجنا.قرآن میں ہے.(النحل :۳۷) ۲.اٹھانا.قرآن میں ہے.(الکھف:۱۳).حدیث میں ہے فَبَعَثناَ البَعِیْرَ.۳.متوجہ کرنا.قرآن میںہے.(التوبۃ :۴۶) لیکن
خدا نے انہیں متوجہ کرنا نہ چاہا.۴.جگا دینا.اتانی اٰ تیان فبعثانی ای ایقظانی من النوم.انہوںنے مجھے نیند سے جگایا.۵.بھڑک اٹھنا.قرآن میں ہے.(الشمس :۱۳) جب کہ انہیں کا بڑا بدبخت بھڑک اٹھا.اور بعث بمقابلہ موت کے بھی ہوتا ہے اس لئے جس قدر موت کے معنی ہیں ان کے مقابلہ میں بعث ہوگا.قرآن میں ہے.(البقرۃ:۵۷) صاعقہ.موت اور بعث کے معنی جب معلوم ہوئے اور سمجھے گئے تو معلوم رہے کہ صاعقہ کے دوطریق ہیں اس کا آنا اور گرنا.اس میں تو نقصان کم پڑتا ہے اور ایک دوتین سے زیادہ آدمی اس میںنہیں مرتے.دوسرا واپس ہونا اور اس کاانتشار کرنا.واپسی کے وقت بجلی یا صاعقہ بہت لوگوں کودکھ دیتی ہے.غشی ہوتی.ہڈیاں ٹوٹتی.نفاطات نکلتے ہیں.اب ہر دوآیہ کریمہ کے معنی بتاتے ہیں مگر اتنا اور یاد رہے کہ یہا ں جناب الٰہی نے (البقرۃ:۵۶)فرمایا ہے اَھْلَکَکُمُ الصَّاعِقَۃ نہیں فرمایا.پھر اس کے ساتھ بتایا ہے کہ اس کے کیا معنے کہ جنہیں بجلی یا صاعقہ نے پکڑا وہ دیکھ رہے تھے.لہذا اس آیت شریفہ (البقرۃ:۵۶)کے یہ معنی ہوئے کہ تم کو خاص صاعقہ نے پکڑ لیا اور تم دیکھ رہے تھے.خاص کا ترجمہ ہم نے لفظ اَلْ سے لیا ہے جو الصاعقہ کے پہلے ہے اور اس صاعقہ سے مراد وہ صاعقہ ہے جو رجعت کے وقت انتشار کرتی ہے اور دوسری آیت کریمہ کا ترجمہ یہ ہے (البقرۃ:۵۷)پھر اٹھایا ہم نے تم کو تمہاری موت کے بعد.چونکہ موت کے معنی ہیں دکھ اور تکلیف بھی آیا ہے اس لئے یہاں تکلیف ہی لیں گے کیونکہ معانی مختلفہ میں حسب قرینہ وامکان معنی لئے جاتے ہیں.
آریہ سماج کابانی اس بات کو تسلیم کرتاہے وہ صفحہ ۲۴وید بہاش بہومکا کے دیباچہ مترجم میں لکھا ہے ۳۸شپتتھ براہمن میں لفظ سوم کے سولہ معنی لکھے ہیں پھر اس کا نقشہ دیا ہے.پس ویدوں میں لفظ سوم کے معنی محل وموقع کے مناسب ان سولہ میںسے کوئی ایک لئے جاویں گے.جائے غور ہے کہ ویدوں کی قدیم تفسیروں میں سوم کے معنی ایشور.عالم.چانداور نباتات وغیرہ کے لکھے ہیں.اسی طرح ستیارتھ میں ویدوں کی پیدائش پر کہاہے جہاں معنی میں غیر امکان پایا جاتا ہے وہاں لکہشنا ہوتا ہے (لکہشنا کے معنی استعارہ کے ہیں)پر جلد بازی سے کام لینا اور ذرا غوروفکرنہ کرنا کیا شریف عاقبت اندیش ،خداترس اور سعادت مندانسان کاکام ہے؟نہیں ہرگز نہیں.خلاصہ جواب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم صاعقہ میں سخت مبتلاہوئی اور امید زیست نہ رہی اور ایک قسم کی موت ان پر طاری ہو گئی تو جناب موسیٰ کی اس قوم پر الٰہی رحم ہوا اور آخر وہ بچ گئی.سوال نمبر ۵۹.من وسلوی بنی اسرائیل کے لئے نازل کیا.الجواب.سخت محنت کے بغیر جورزق ملتاہے اسکو عربی میں منّ کہتے ہیں اس لئے لکھا کہ الکمأۃ من المن یعنی کھمبی بھی مَنّ سے ہے اور ترنجبین اور اسی کے معنی میں شیر خشت اور تمام جنگل کی اشیاء ان سب کو من میں داخل کیا گیا ہے ایک دفعہ پنجاب میں قحط پڑا تھا بہت بڈھے ابھی تک اس کو جاننے والے موجود ہیں.اس میں مرکن نام ایک بوٹی بہت پیدا ہوئی تھی اسی پر لوگوں کا گذارہ تھا اسی واسطے اس سال کو مرکن کہتے ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو جنگل کے درمیان مصیبت کے ایام میں جنگلی اشیاء سے سہارا بخشا اور بھوک کے عذاب سے ہلاک نہ ہونے دیا.ٓؑسوال نمبر ۶۰:.(البقرۃ :۵۸ ) پر اعتراض کیا ہے بنی اسرائیل کو دھوپ نے ستایا تو خدا نے ان پر بادل بھیج دیا اور بطور سائبان کام دینے لگا.الجواب:.بات توصرف یہ ہے کہ بنی اسرائیل چالیس برس اس ملک میں رہے جو ملک فلسطین اور بحیرہ قلز م کے درمیان ہے انسانی ضرورتیں بغیر پانی کے پوری نہیں ہوسکتیں.اللہ تعالیٰ نے
دنوں ضروری وقتوں پر مینہ برسائے یہ ان پر خاص فضل تھااور کرم کی نگاہ تھی والّا خشک سالیوں میںہلاک ہوجاتے.جب موسٰی ؑ کے قصہ میں مشکلات پیش آویں تو ہماری نبی کریم ﷺ کے معاملات سے وہ مشکل بخوبی حل ہوسکتی ہے.موسٰی ؑ کا قصہ بسط کے ساتھ قرآن کریم میں صرف اسی واسطے ہے کہ ہمارے نبی کریم ﷺ کو موسیٰ علیہ السلام کا مثیل قرار دیاگیاہے چنانچہ آپ کے لئے ضرورت کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے بادل کا سایہ کردیا جیسے کہ غزوہ بدر اور احزاب میں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح بارش کی سخت ضرورت پیش آئی تواس وقت خدا تعالیٰ نے بارش کے ذریعہ مومنوں کو ہلاکت سے محفوظ رکھا.استسقاء کی نماز ایسے ہی وقتوں کے لیے مسنون ہوئی.تعجب اور پھر تعجب ہے کہ ایسے واقعات پر انسانی زندگیوں میں قانون قدرت کے موافق ہمیشہ واقع ہوتے رہے ہیں.اعتراض کرنا اورپھر یہ دعویٰ کرنا کہ ہم لوگ سچ کو لینے والے ہیں.اے عقل مندو!غور کرو اور ان تیز ذہن نکتہ چینیوں کی خردہ گیری کی داد دو.سوال نمبر۶۱:.گاؤ کا ذبح کرنا بنی اسرائیل میں.الجواب:.گائے اور پھر وہ ذبح ہو تمہارادل تو بہت دکھا ہوگا.مگر جس طرح نند جو اورآریہ مسافر نے اور پھر تم نے راستبازوں کو گالیاں دے کر مومنوں کا دل دکھایا اتنا تو نہیں دکھا ہوگا سنو!انبیاء بنی اسرائیل شرک اور بت پرستی کے دشمن تھے بعض نادان فرقوں میں ایک گائے کی پرستش ہوتی تھی اور وہ ان میں درشنی گائے تھی چنانچہ اور(البقرۃ :۷۲) اس کا صاف پتہ لگتا ہے اسکا ذبح کرنا بت پرستی کی جڑ کاٹنی تھی تم لوگوں نے بھی اپنے زعم میں بت پرستی کی بیخ کنی میں بڑی کوشش کی ہے مگر اس جانور کی عظمت کچھ ایسی دل میں جاگزیں ہے کہ باوجود اس قدر دعوے کے جو تم توحید کی نسبت کرتے ہو اس جانور کی تعظیم تمہارے نزدیک بت پرستی اور دیوتاپرستی سے کم نہیں.زبانوں سے کچھ
کہو یا نہ کہوبت پرستوں کے افعال میںاور تمہارے اعمال میں اس لحاظ اور خصوص میں ذرابھی فرق نہیں آ یا.عملی طوروہی رویہ ہے جو تھا ہاں اب ظلم زیادہ کرتے ہو.سوال نمبر۶۲:.ٹڈی.مینڈک.چیچڑی وغیرہ کا عذاب نازل کیا.الجواب:.ایسے عذاب ہمیشہ نازل ہواکرتے ہیں ہماری عمرمیں بارہاٹڈی دَل آیا اور کھیت والوں کے لیے عذاب کاباعث ہوا.جب کثرت سے بارشیں ہوتی ہیں اور نشیب زمین نمناک ہوجاتی ہیں وہاں مینڈک علی العموم پیداہوجاتے ہیں اسی طرح جب عفونت زیادہ ہوجاتی ہے وہاں قسم قسم کے ہوام.حشرات الارض چیچڑیاں بہت پیداہوجاتی ہیں او یہ سب عذاب ہیں کیونکہ دکھ دائک امور ہیں ان صریح نظاروں کا انکار کرنا کیا عقل مندی ہے.سوال نمبر۶۳.بچھڑے کی پرستش سامری نے کرائی.جبرائیل کے گھوڑے کے سم کی مٹی سے ایک بچھڑابنایا.۲.دھات سے بناہوا بچھڑاکس طرح بولا.بالکل گپ ہے.الجواب.جبرائیل کے گھوڑے کا ذکر تمام قرآن کریم اور احادیث صحیحہ نبی رئوف رحیم ﷺ میں ہرگز ہرگز نہیں.دھات سے بنے ہوئے کھلونے ہر روز یورپ سے آتے ہیں کیا وہ نہیں بولتے.ہم نے چہچہاتی چڑیاں اوراور مصنوعی جانور ایسے دیکھے ہیں کہ بعض عامی ان کو اصلی یقین کرتے ہیں تمہارے سرسوتی نے ستیارتھ کے ۴۲۵،۴۲۶ صفحہ میں لکھا ہے کالیا کنت کا بت سیوکون کو حقہ پلاتا ہے اور شعر بھی لکھا ہے رنگ سے کالیا کنت کو جس نے حقہ پلایا سنت کو جگن ناتھ ، جوالا مکھی ،ہنگ لاج کے عجائبات اور امر ناتھ کے کبوتروں کے بارے میں جو لکھا ہے اگر تم پڑھتے تو سامری کے کرشمہ پر تعجب نہ کرتے.اب ہم آپ کو ان آیات کا پتہ دیتے ہیں جن میں بچھڑے کا ذکر ہے.اوّل:. (الاعراف:۱۴۹)
دوم:(طٰہٰ :۹۶،۹۷) پہلی آیت شریفہ کا مطلب اتنا ہے کہ موسیٰ کی قوم نے موسیٰ کے بعد موسٰی علیہ السلام کی غیر حاضری میں اپنے زیور سے ایک بچھڑا بنایا جو صرف جسم تھا اس میں روح نہ تھی ہا ں اسکی آواز تھی اور ایک جگہ قرآن کریم میں لکھا ہے اور اس مہمل آواز کی حالت بتائی ہے.۱؎ (طٰہٰ :۹۰) اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ محض بے جان چیز تھی اس میں نفع رسانی یا ایذاء دینے کی کوئی طاقت نہ تھی.دوسری آیت شریفہ کا مطلب یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے سامری کو فرمایا : اے سامری ! تیری یہ بڑی بھاری کارروائی کیوں ہوئی ؟بولا کہ میں بصیرت حاصل کر چکا ہوں.ساتھ ایسے کام کے کہ اس کام کے ساتھ ان لوگوں کو بصیرت نہیں پھر قبض کر لیا تھا میں نے ایک قبضہ اس رسول کے اثر میں سے پھر پھینک دیا اسے اور اسی طرح یہ کام میری جان نے مجھے بہلا کر دکھایا.اس مقام پر تسویل کا لفظ قابل غور و تامل ہے.التسویل تزئین النفس لما یحرص علیہ و تصویر القبح منہ بصورۃ الحسن قال اللّٰہ تعالٰی بل سولّت لکم انفسکم امرا.تسویل کے معنی ہیں نفس کا اپنی پسندیدہ چیز کو خوبصورت کر دکھانا چنانچہ اس کی گواہی قرآن شریف کی اس آیت سے ملتی ہے جو حضرت یعقوب ؑ نے اپنے بیٹوں سے بات کی بلکہ تمہارے نفسوں نے بری بات کو خوبصورت کر دکھایا.پس اس آیت کا مطلب صرف اسی قدر ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام نے اس بت پرستی کے بانی سامری سے
دریافت فرمایا کہ تو نے یہ کیا کام کیا تو اس نے بتایا کہ میں ایک بصیرت پر ہوں جس بصیرت سے یہ لوگ ناآشنا ہیں.میں نے موسیٰ رسول کے احکام سے کچھ مانا ہوا تھا سو اب میں اس موسوی مذہب کے مانے ہوئے حصہ کو ترک کر بیٹھا ہوں.سوال نمبر ۶۴:.ابراہیم کو کہا بیٹاذبح کر.چھری نے کاٹ نہ کی.ایک دنبہ بدست جبرائیل بہشت سے بھیج دیا اسمٰعیل کی گردن تانبہ کی بن گئی.یا کٹ جاتی تو پھر مل جاتی.یہ دنبہ ہابیل والا تھاجو دوبارہ زندہ ہوا.الجواب :قرآن کریم میں صرف اس قدر آیا ہے.باقی محض جھوٹ اور قرآن کریم پر افتراء ہے.........(الصّافات : ۱۰۳تا۱۱۲) میرے پیارے بیٹے ! مجھے خواب میں دکھایا گیا ہے کہ میں تجھے ذبح کرتا ہوںاب تو سوچ کر بتا تیری کیا رائے ہے.اس نے کہا میرے پیارے باپ! تو اپنی ماموریت پر عمل کر.مجھے تو انشاء اللہ صابر پائے گا.جب وہ دونوں خدا تعالیٰ کے حکم پر راضی ہوگئے اور ابراہیم نے اسے منہ کے بل زمین پر لٹایا.ہم نے آواز دی.اے ابراہیم! تو نے اپنی رؤیا کو سچا کردکھایا ہم محسنوں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں.یہ بڑا بھا ری امتحان او ر انعام ہے اور ہم نے اس کے عوض میںایک بڑی قربانی کو فدیہ دیا اور آئندہ آنے والی نسلوں میں اس کا ذکر خیر باقی رکھا ابراہیم پر سلا متی.ہم اسی طرح
محسنوں کو بدلہ دیا کرتے ہیں.وہ ہمارے مومن بندوں سے تھا.باقی جو کچھ آپ نے لکھا ہے سب کا سب جھوٹ اور افتراء اورمحض لغو ہے اورقرآن اور احادیث صحیحہ میں اس کاذرہ ذکر نہیںاورجس قدر قرآن میں ہے اس پر کوئی اعتراض نہیں.کیوںکہ اس سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم ؑ نے خواب دیکھاکہ وہ بیٹے کو ذبح کرتے ہیںنہ یہ کہ ذبح کر دیا جیسے قرآنی لفظ (الصّافات :۱۰۳) گواہی دیتا ہے اس قابل قدر عرفان سے بھرے ہوئے واقعہ پر اعتراض بجز سیاہ دل کو رباطن حقیقت نا آ شنا کے اور کون کر سکتا ہے؟ سنو! ابرا ہیم علیہ السلام کی عمر اس وقت ننا نو ے برس کی تھی اور اسماعیل اس کے اکلوتے بیٹے کی تیرہ برس کی.اتنے عمر کے با پ کو آئندہ اور اولاد کی ا مید کہاں اور بیٹے کی ا مید یں اور ا منگیں مر نے کے بعد کہا ں !با پ کا اپنے خواب کے خیال کو ا ظہا ر کر نا اور بیٹے کا یہ کہہ د ینا سچی الٰہی محبت کا نشا ن ہے جس کی قدر بدوں زندہ دل کے کون کر سکتا ہے ؟ اس بات کو ہم قر بانی کے مسئلے میں کسی قدر تفصیل سے لکھ چکے ہیں.انسا ئیکلو پیڈیا بر ٹینیکا جلد ۱ ص ۵۵ میں ہے کنعا نیوں میں جو قدیم با شندے فلسطین کے تھے انسانی قربا نی کا رواج تھا.حضرت ابرا ہیم علیہ السلام نے جو ان میں ما نے ہو ئے بز رگ اور ذی رعب تھے با ہمہ جا ہ وحشمت بیٹے کی قر با نی پر با ا یں کہ بیٹا بھی را ضی ہو چکا تھا مینڈھا ذ بح کر دیا اور اس طریق سے انسا نی قر با نی کے بجا ئے حیوانی قر با نی قا ئم کر دی اور اب تک گو یا کروڑوں جا نو ں کو بچا لیا با رک اللّٰہ علیک یا ابراہیم.سوال نمبر ۶۵.ابراہیم کے لیے آگ سرد ہو ئی.پھول کھل پڑے.چشمے جاری ہو گئے.لٹیمر کر نیمر کے لیے کیوں سرد نہ ہوئی جیسے لکھا ہے (الا نبیاء :۷۰) الجوا ب.پھول کھلے، چشمے جاری ہوئے، قرآن کر یم میں تو نہیں مگر یہ تو بتا ؤ کہ تمھا رے
یہاں کی متواتر کہا نی پہلا دکی کیا بتا تی ہے؟ متواتر کا منکرا حمق اور ضدی ہو تا ہے اور اگر اس کے منکر ہو تو منو جی اور بھرگ سنگتا میں کیا لکھا ہے اسے پڑ ھو دیکھو ! اس کا ا دھیا ۸ شلو ک ۱۱۶.’’ اگلے زمانے میں تبش رشی کے چھو ٹے بھا ئی نے ان کو عیب لگایا اورتبش رش نے اپنی صفائی کے واسطے آگ کو اٹھا یالیکن تمام دنیا کے عمل نیک وبد جاننے والے اگن نے رش کا ایک بال بھی نہ جلایا‘‘ کیا تم اب اپنی کسی نیکی پر اگنی کو اٹھا سکتے ہو یا اس شلوک کوغلط قرار دیتے ہو یا اس کی کوئی تاویل کرتے ہو یا یہ قول منّو کاوید کے کسی شلوک کے خلاف سمجھ کر رد کرتے ہو؟ اصل بات قرآن کریم میں اس قدر ہے....(الانبیآء:۶۹تا۷۲) انھوں نے کہا اسے جلا دو اور اپنے معبودوںکی مدد کرو اگر کچھ کرنا ہے.ہم نے کہا اے آگ ! تو ابراہیم پر سرد اور سلامتی ہو جا.انھوں نے ابراہیم سے جنگ کرنی اور خفیہ تدابیر سے انھیں ایذا دینی چاہی مگر ہم نے انھیں زیاں کار کیا اور ہم نے ابراہیم اور لوط کو مبارک زمین میںپہنچایا.اور دوسری جگہ ہے.(العنکبوت:۲۵) اس کی قوم کا جواب یہی تھا کہ اسے مار ڈالو یا جلا دو.سو خدا نے اسے آگ سے بچا لیا.اور تیسری جگہ ہے.(الصّافات :۹۸،۹۹)
انھوں نے مشورہ کیا کہ اس کے لئے ایک مکان بناؤاور اسے آگ میں ڈالو.انھوں نے ابراہیم کی نسبت ایذاء رسانی کا منصوبہ کیا.سو ہم نے انھیںاس منصوبہ میںپست اور ذلیل کیا.ان آیتوں سے کس قدر صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جو تم نے سمجھا ہے بالکل لغو اور غلط ہے.اس قصہ میںیہ چند کلمات طیبات ہیں جو مقام غور اور توجہ کے قابل ہیں.پہلا کلمہ ہےدوسرا تیسرا چوتھا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ ہر ایک گذشتہ نبی کا قصہ ہمارے نبی ﷺاور آپ کے پیرؤوں کے صدق اورحقیقت کے ثبوت کے لئے ہوتا ہے اس لئے ہمیں اور ہر ایک مسلمان کو ضرور ہوا کہ حضرت نبی کریم اور مولانا رؤف رحیم کا ماجرا اس بارے میں دیکھیں.اس لحاظ سے جب قرآن کریم کو پڑھتے ہیں تو اپنے نبی رحمۃ للعالمین ﷺ الیٰ یوم الدین کے بارہ میںیہ کلمات ہمیں ملتے ہیں.(۱)(الانفال :۳۱)اور (الطارق :۱۶) (۲) آپ کے دشمنوں کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (المجادلۃ :۲۰) (۳)کلمہ طیبہ ہے جو بخوبی آگ کے مسئلہ کو حل کر تا ہے.(المائدۃ:۶۵) (۴)کلمہ ہے(المومن:۵۲) ان مقامات کا مقابلہ دونوں قصوں، قصہ حضرت نبی کریم اور قصہ حضرت ابراہیم کے ساتھ کرو.وہاں اگر جناب ابراہیم ؑکے مخالفوں نے آگ جلائی اور حرّقوا کا فتویٰ دیا تو یہاں تمام بلاد عرب نے
نار الحرب۱؎ کو جلایا اور صدہا مسعر الحرب ۲؎ اٹھ کھڑے ہوئے اور جس طرح وہاں ابراہیم علیہ السلام کے لیے آگ کو برد اور سلام بنایا اسی طرح ہمارے ہادی اور مقتدا کے لیے خاص اللہ تعالیٰ نے اس آگ کو بجھا دیا اور فرما دیا : (المائدۃ :۶۵) یعنی جب کبھی ہمارے نبی کریم کے دشمنوں نے آتش جنگ جلائی اللہ نے اسے بجھا دیا.سن اے نکتہ چیں!ابراہیم ؑکے زمانے پر ہزاروں برس اور ہمارے شفیع پر ﷺ چودہ سو برس گزرتے ہیں اور تو نے اور ایک تیرے اس معاملہ میں مؤید و ہم زبان تیز زبان نو جوان امرتسری مولوی نے ہمیں اس طرح خطاب کیا ہے.چاہیے کہ آجکل کسی اہل اسلام کو جو ملہم اور پیغمبر ہو کر خدا کے ساتھ عیسیٰ یا موسیٰ کی طرح باتیں کرنے کا دم بھرتا ہے ایک لمبی چوڑی بھٹی کو آگ سے بھر کر بیچ میں پھینک دیا جاوے اگر آگ گلزار ہو جاوے تو سمجھے کہ قرآنی معجزے سب سچ ہیں.امرتسری مولوی پھر اپنی کتاب میں فرماتے ہیں یہ مرزا صاحب قادیانی کی طرف اشارہ ہے.مرزا جی کے دوستو ! کیا کہتے ہو (ترک اسلام) سن اے تارک اسلام! اور دیکھ اے بزدل نادان ترک اسلام !ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے کامل یقین اور پورے اعتقاد سے دعویٰ کرتے ہیں اور تمہیں اور تمام جہاں کو سناتے ہیں کہ ہمارا مہدی اور عیسیٰ ابن مریم اس وقت موجود ہے اور اس کو وحی ہو چکی ہے پھر سنو! اور غور سے سنو!! وہ وحی الٰہی جو امام زمان کو ہوئی ہے یہ ہے.نظرنا الیک معطرًا و قلنا یا نار کونی بردًا وّ سلاماً علٰی ابراہیم.اس وحی الٰہی میں ہمارے امام مہدی موعود ؑحضرت مرزا غلام احمد کو ابراہیم کہا گیا ہے اس کے علاوہ عالم الغیب قادر خدا نے آپ کو یہ بھی وحی کی ہے’’ آگ سے ہمیں مت ڈراؤ.آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے ‘‘اور پھر خدا تعالیٰ نے فرمایا ’’ کمثلک در لا یضاع‘‘یعنی تیرے
جیسا موتی ہر گز ضائع نہیں کیا جاتا.غور کرو ! تمھاری ان فضول گوئیوں کا جواب برسوں پیشتر خدا تعالیٰ دے چکا ہے اور تم نے اپنے ہاتھو ں سے ایک عظیم الشان پیشگوئی پوری کر دی اور خدا کے منہ کی باتیں تمھارے منہ سے سچی ثابت ہو گئیں مگر کون جانتاہے کہ تمھاری خوش قسمتی ہے یا بد قسمتی.اس لئے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.(البقرۃ:۲۷ ) مگر از بس کہ تم لوگ کو دن ہو اس لئے ضروری ہے کہ بات کو کھول کر بیان کیا جائے.سنو!تبش رشی نے تو خود آگ میں ہاتھ ڈالاتھا مگر ابراہیم علیہ السلام خود آگ میں نہیں کودے تھے اور نہ مومنوں، مخلصوں، راستبازوں اور اللہ کے رسولو ں کا یہ فعل ہوتا ہے کہ اللہ کو آزمائیں بلکہ ان کو حکم ہے (البقرۃ :۱۹۶) یعنی اپنے تیئں خود ہلاکت میں نہ ڈالو.اسی سنت الٰہی کی اتباع میںحضرت ابراہیم علیہ السلام خود آگ میں کود کر نہیں گرے تھے بلکہ لوگوں نے کہا.(الانبیآء :۶۹) اب خدا تعالیٰ کی اسی سنت کے مطابق تم اور سارا جہان اور اس سفلی جہان کی ساری طاقتیںاور شوکتیںاور عداوتیںہمارے امام مہدی اور مسیح کو آگ میںڈال کر دیکھ لیں.یقینا خدا تعالیٰ اپنے زندہ او رتازہ وعدہ کے موافق اس مہدی کو اسی طرح محفوظ رکھے گا جیسے پہلے زمانے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اور ہمارے نبی کریم ﷺ کو محفوظ رکھا.یہ ہمارا آقا غلام احمد ہے اس لئے ضرور ہے کہ احمد محمد ﷺ کی غلامی او راتباع کی برکات اورثمرات اسے حاصل ہوںجیسے خدا تعالیٰ نے اس کے متبوع کو واللّہ یعصمک من الناس کا وعدہ دیااسی طرح اسے بھی برسوں پیشتر ’’یعصمک اللّہ ولو لم یعصمک الناس‘‘ کا وعدہ دیا.یہ خدا کا مسیح او ر مہدی یقیناتمھاری آگ سے بچے گا اورضرور بچے گا.اس نے طاعون جیسی آگ کی خبر دی کہ آنے والی ہے اور کہا کہ میرے لئے آسمان پر ٹیکہ لگ چکاہے آخر وہی ٹیکا سچا نکلا اور زمینی ٹیکہ بیکار ہوگیا.عیسائی لوگوں ،برہموؤں،سکھوںاور آریہ سماج نے پھر خصو صیت سے لیکھرام کے واقعہ پر کیا
گ نہیںلگائی اور شیعہ، سنی،مقلد ،غیر مقلد،متصوفوںاور ا ن کے شرکاء نے کیا کوشش میں کمی کی ہے اورکیسی کیسی آگیں نہیںجلائیںمگر سب خائب و خاسرہوئے.اب ظاہری آگ یا اس سے بھی زیادہ آگ کو لگا کر دیکھو پھر تم دیکھو گے تمھاری یہ آگیں بھسم ہوتی ہیںیا نہیں.یہ بھی رسولوں کے رنگ میں ہے.تم اعداء الرسل کی طرح اس کامقابلہ کرو اوردیکھو اس موعودانبیاء اورجانشین خاتم الرسل و خاتم النبیین کے لئے بھی اسی طرح تمھاری آگ برد و سلام ہوتی ہے یا نہیں.یاد رکھو ! وہ برد و سلام ہوگی اورضرورہو گی مگر تم نادانی سے کہتے ہوکہ وہ خود آگ میںجاویں.کیا یہ اتباع انبیاء و رسل ہے؟ دیکھو قرآن میںہے حرّقوہ.سو تم بھی حرّقوہ کا حکم اپنے ذرّیات اور سواروںاورپیا دوںکو کرو اور پس پھر دیکھو ابراہیم کی طرح آگ برد و سلام ہوتی ہے کہ نہیں.ہاں بے ریب لے ٹی مر بشپ بادشاہ انگلینڈایڈورڈششم کا درباری تھا.۱۵؍ اکتوبر ۱۵۵۸ء کو ملکہ میری کے عہد سلطنت میں پروٹسٹنٹ مذہب پر قائم رہنے اور وعظ کرنے کے سبب آگ میں جلایا گیا.رڈلے بشپ پروٹسٹنٹ مذہب پر قائم رہنے اور وعظ کرنے کے سبب لے ٹی مر کے ساتھ آگ میں جلایا گیا.کر ینمر آرچ بشپ پراٹسٹنٹ ہو نے کی وجہ سے قید کیا گیا تھا اس نے تو بہ کی مگروہ خفیہ تھی با ہر آکر پھر پراٹسٹنٹ ہو نے کا ا قرار کیا اور یہ بھی اقرارکیا کہ مو ت کے ڈر سے میں نے ا پنا مذ ہب چھوڑنے کا و عدہ کیا تھا ۱۵۵۶ء میں آگ میں جلا یا گیا مگر یہ تو بتایہ ثالوثی.مثلث خدا کو ما ننے والے تین میں ایک.ایک میں تین کے معتقد، تما م ا لٰہی شر یعت کو جو تو ر یت میں تھیں لعنت کہہ کر اس پر پا نی پھیرنے وا لے، کفا رہ مسیح پر ا عتقادکر کے بد وں ا عما ل بہشت کے وا رث بننے والے، ابرا ہیم کی طرح کیو ں بچائے جا تے؟ کیا خدا تعا لیٰ ا یسے ناپا ک مشر کو ں کو پا ک مو حدو ں کی جگہ پر ا تا را کر تا ہے ؟ نادا ن پال! یہ سب لو گ ابرا ہیم کے ا یما ن کے با لکل مخا لف اور ضد ہیں جہا ں تک تا ر یخ پتہ دے سکتی ہے اللہ تعالیٰ کے مرسل و مامور اعداء کے سامنے ناکام ہو کر نہیں مرتے اورنہ ہلاک ہوتے اور نہ
مارے جاتے ہیں.مامورین کے ساتھ جدال و قتال ہوتا ہے جس کا ذکر (آل عمران :۱۸۴)اور(البقرۃ :۹۲)میںہے مگر یہ مقاتلہ ومقابلہ کرنے والے ناکام ونامرا د مرتے ہیں اورمامور لوگ اللہ کے فضل سے مظفر ومنصور اورکامیاب ہوکر دنیا سے جاتے ہیں.کیا تم نے نہیں سنا(المائدۃ :۴) کی آواز کس نے سنی؟ کیا اس بد انجام نے جو ویدوں کا ترجمہ بھی کامل نہ کر سکا اور جو کیا اس میںبھی پنڈت لوگوںکا تصرف و دخل شامل ہو گیا جس کے باعث وہ ترجمہ بے اعتبار ہے اور تم کو آگاہی نہیں. (النصر :۲،۳)کی وحی کسی کو ہوئی ؟ حزب اللہ ہمیشہ غالب ہوتا ہے اور حزب الشیطان ہمیشہ خائب وخاسر مرتا ہے.یہی بات تو ہے جس پر ہمارا امام اور ہم خوشیاںمناتے ہیں.لیکھرام کو آگ لگی اورجل کر کباب ہو گیا اور اس کا مخالف اب تک عیش وآرام میںہے.اس کے لئے اس کے گھر میںباغ ہے اور چشمے جاری ہیں.خدا خود سوز دآں کرمے دنی را کہ ہست از کینہ دارانِ محمد سوال نمبر ۶۶.موسیٰ ایک خدا رسیدہ شخص سے ملنے گئے پتہ یہ کہ جہاں بھونی مچھلی زندہ ہو کر پانی میںچلی جائے وہاں پر ہے.الجواب.بھونی مچھلی کا پتہ قرآن میں نہیں اور نہ احادیث صحیحہ میں اور نہ ہمارا عقیدہ ہے کہ بھونی مچھلی زندہ ہو جائے اس قصہ میں تین واقعات کا ذکر ہے جو خود موسیٰ علیہ السلام کے کاموں کے قریب قریب تھے.قرآن کریم میں ہے.(الکھف :۶۲) جب وہ ملنے کے موقعہ پر پہنچے مچھلی
کو بھول گئے.بتاؤ اس میں بھونی ہوئی مچھلی اور اس کی زندگی کا ذکر کہاں ہے کیا تمہارا سفید جھوٹ ثابت نہیں ہوا.اس میں تو اتنا ہی ذکر ہے کہ مچھلی ان کی یاد سے اتر گئی اور ندی میں چلی گئی اور یہ ان کے لئے مقرر نشان تھا کہ جہاں انھیں مچھلی کو بھول جانے کا واقعہ پیش آئے گا وہاں وہ مرد خداانہیں ملے گا.سو ایسا ہی ہوا.خدا تعالیٰ نے جو غیب سے انھیں ایک نشان دیا تھا وہ پورا ہوا.یہ ایسے واقعات ہیں جو مردان خدا کی سوانح زندگی میں ملتے ہیں اور یہ ایسے واقعات ہیں کہ ان سے سالکان منازل الٰہیہ کے قلوب وایمان تازہ ہوتے ہیں.سوال نمبر ۶۷.حضرت عیسیٰ مٹی کے کھلونے بناکر ان میں روح ڈال دیتا تھا.الجواب.قرآن کریم میں نہ تو کھلونے کا کوئی لفظ ہے نہ روح ڈالنے کا.قرآن کریم میں صرف دو جگہ ایک ذکرہے (آل عمران :۵۰) میں مٹی سے پرندہ کیسی ایک چیز بناتا ہوں او ر پھر اس میں پھونک مارتا ہوں پھر وہ خدا کی اذن سے اڑنے لگتا ہے.دوسرا مقام یہ ہے.(المائدۃ :۱۱۱) جب تو مٹی سے پرندہ کیسی ایک چیز بناتامیری اذن سے اور اس میں پھونک مارتا پھر وہ اڑنے والا ہوجاتا میرے اذن سے.اب بتاؤ یہاں کھلونے اور روح کا کون سا لفظ ہے کیا تمہارا صریح کذب نہیں اور کیا یہ بے ایمانی اور فریب سے لوگوں کو دھوکہ میں ڈالنے کی چال نہیں.دوسرے سوال کے جواب میں اس کا حل پڑھو.سوال نمبر۶۸.حضرت عیسیٰ مردوں کو زندہ کرتے تھے.الجواب.جب بیمار بہت ہی خطرناک حالت اور غشی کی شدت میں مبتلا ہو جاتا ہے یاسکتہ اور صرع کی ناامید کردینے والے دَوروں میں پکڑاجاتا ہے اس وقت راست بازوں کی دعائیں اس کو زندہ کر دیتی ہیں.ہم نے ان نظاروں کو اپنی آنکھ سے دیکھا ہے اور یہی معنی مسیح کے احیاء کے ہیں.اور سنو ! مردے تین قسم کے ہوتے ہیں اور ان کو تین ہی اشیاء زندہ کرتی ہیں ایک معمولی مردے
جن کے جسم سے روح کا تعلق الگ ہو جاتا ہے ان کی نسبت قرآن کا فرمان یہ ہے.(البقرۃ :۲۹) اور (البقرۃ :۲۵۹) اس سے صاف ثابت ہوا کہ اس قسم کا زندہ کرنا تو صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے اور دوسرے انبیاء ورسول اور کاملین کے ہاتھ سے مردے زندہ ہوتے ہیں ان کی نسبت قرآن کریم میں ہے. (الانفال :۲۵) ایمان والو ! مان لو اللہ اور اس کے رسول کی بات کو جب وہ تمہیں بلائیں ایسی باتوں کے لئے کہ جس سے تمہیں زندہ کرے.تیسرا.بھان متیوں کا زندہ کرنا کہ وہ بازاروں میں رسیوں کے سانپ بنادیا کرتے ہیں.یہ بات تو ظاہر ہے کہ حضرت مسیح نہ خدا تھے کہ ان کی طرف پہلی قسم کے زندہ کرنے کو منسوب کیا جاسکے اور نہ بھان متیوں کے بھائی تھے کہ ان کی طرف لہو اور تماشا کو نسبت دی جائے وہ رسول تھے اور یقینا خدا کے پیغمبر تھے ان کی طرف وہی بات منسوب ہو گی جو منہاج نبوت کے موافق اور انبیاء کی شان اور افعال کے مطابق ہو گی.اس راہ کے لئے قرآن کریم امام اور رہبر ہے اس نے اس عظیم الشان رسول کی سنت سے جسے اس نے تمام جہاں کے لئے اسوئہ اور رسولوں کا نمونہ بنایا ہے یہ دکھا دیا ہے کہ انبیاء علیھم السلام کا مردوں کوزندہ کرنا کس رنگ کا ہوا کرتا ہے اس کے خلاف جو شخص حضرت مسیح کی طرف خدا کی مانند احیاء موتیٰ کو منسوب کرے وہ خدا کی کتاب کے انکار کا داغ اپنی پیشانی پر لگاتا ہے ایسا ہی قرآن نے قاعدہ بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ کے سوا اورکوئی خالق نہیں چنانچہ فرمایا ہے:(النحل :۲۱،۲۲) اللہ کے سوا جو لوگ معبود بنائے گئے ہیں ان کے معبود نہ ہو سکنے کا نشان یہ ہے کہ وہ کسی شیء کے خالق نہیں بلکہ وہ خود مخلوق ہیں.یہ تو خدا کی صفات کے بارے میں قول فیصل ہے کہ حقیقی خالق وہی ہے.اب لفظ خلق جو وسیع
معنی رکھتا ہے اگر مخلوق کا فعل اسے کہا جائے گا تو ضرور ہے کہ مخلوق ضعیف کی شان اور حیثیت کے لائق ہو گا اس سے سمجھ لو کہ ایک ناتواں انسان مسیح کی گھڑت اور خلق کیسی ہو گی وہ مٹی تھی اور مٹی ہی رہتی تھی زندہ حیوان نہ تھی.سوال نمبر ۶۹.یہود نے نہ عیسیٰ کومارا اور نہ پھانسی دیابلکہ وہ اڑ گئے اور ان کی جنس ومشابہت کا مارا گیا.چالیس پچاس کوس اوپر سانس کس طرح لے سکتے ہیں.الجواب.یہود نے نہ عیسیٰ کو مارا اور نہ پھانسی دیا بلکہ وہ اپنی طبعی موت سے مرگئے.اڑ گئے جس لفظ کا ترجمہ ہو سکتا ہے وہ لفظ نہ قرآن میں ہے اور نہ حدیث میں.قرآن شریف کو سنو وہ کہتا ہے.(المائدۃ :۷۶) مسیح ابن مریم رسول تھا اور اس سے پہلے اس جنس کے رسول سب مرگئے.اس آیت میں قد خلت کا لفظ ایسا صاف ہے کہ ہمارے نبی کریم ﷺ کے جانشین اول نے اس لفظ سے استدلال فرما کر تمام ان صحابہ کرام کو جن کووفات میں تامل ہوا تھا اپنے نبی کے وفات کا قائل کر دیا.چنانچہ وہ آیت جس میں ویسا ہی قدخلت موجود ہے یہ ہے.(آل عمران :۱۴۵) محمد ایک رسول ہے اس سے پہلے رسول مر چکے ہیں کیا کوئی شخص ان دونوں آیتوں میں لفظ قد خلت کو یکساں دیکھ کر جس کا ترجمہ ہے.’مرچکے‘‘.حضرت مسیح اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی وفات میں فرق اور شک کر سکتا ہے؟ قرآن کریم کے نزدیک گزشتہ نبیوں کے حالات سربستہ کے حل کے لئے ہمارے نبی کریم کی زندگی کے واقعات کلید ہیں پھر حضرت مسیح کے حق میں فرمایا ہے.(آل عمران :۶۰) ہم نے ایک جگہ کن کے سوال کے جواب میں بتایا ہے کہ یہ بعد الموت حالت سے تعلق رکھتا ہے.دیکھو سوال کن نمبر ۱۵ اور فرمایا:
(آل عمران:۵۶) میں تجھے وفات دینے والا اور اپنی طرف اٹھانے والا اور کافروں سے پاک کرنے والا اور تیرے پیرؤوں کو تیرے منکروں پر قیامت تک غالب کرنے والا ہوں.غور کرو یہ کیسی عظیم الشان اور صادق پیشگوئی ہے کہ مسیح کے اتباع ہمیشہ مسیح کے منکروں پر غالب اور فوق رہیں گے اس کی تصدیق کے لئے دیکھ لو کہ ایک طرف مسلمان یہود کے ا صلی مرکز سنٹر بیت المقدس پر قابض ہیں یہود اصلی منکر اور مسلمان اصلی پیروان مسیح ہیں.دوسری طرف آریہ ورتی عارضی منکروں پر عارضی اتباع نصاریٰ حکمران ہیں اور یوںہی ہمیشہ رہے گا.ممکن ہے کہ جملہ رافعک الی کو نہ سمجھ کر تم ضلالت کے گڑھے میں گرے ہو سو یاد رکھو اس کی تصریح بل رفعہ اللّٰہ نے کر دی ہے.جو قرآن کریم کی دوسری جگہ میں ہے.اس کے معنی ہیں اللہ نے اسے رفعت اور بلندی بخشی یعنی جسے خد ا بلند اور رفع کرنا چاہے اور کر دے کوئی دشمن اسے گرا نہیں سکتا.چنانچہ خدا نے یہود کے گندے اور ذلیل منصوبوں سے اسے بچایا اور رفعت دی.یہی وحی خدا تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود ومہدی مسعود علیہ السلام کو بھی ایک عرصہ سے ہو چکی ہے اور براہین احمدیہ میں موجود ہے اور وہ یہ ہے. اس نمونہ سے جو ہمارے زمانہ کے راست باز سے ظاہر ہے خدا کی واقعی وحی کا پتہ لگ سکتا ہے اس لئے کہ جو وعدہ تطہیر اور رفع اور توفی اور فوق کا حضرت مسیح کو دیا گیا تھا وہی ہمارے آقا حضرت مسیح موعود کو دیا گیاہے آپ کے حالات و واقعات بڑی بھاری چابی ہیں گزشتہ حالات کے قفلوں کے لئے.اور پھر بڑا قابل غور لفظ توفی ہے یہ بھی ایسا صاف اور واضح ہے کہ عام بول چال میں ہر ایک
اور پھر بڑا قابل غور لفظ توفی ہے یہ بھی ایسا صاف اور واضح ہے کہ عام بول چال میں ہر ایک شخص جانتا ہے کہ متوفی مردہ کو کہتے ہیں.پھر اس کے حل کے لئے بڑا عجیب موقع وہ ہے جہاں حضرت یوسف کے باپ نے بیٹوں سے کہا: (البقرۃ:۱۳۳) کہ تم نہ مرو مگر مسلمان ہونے کی حالت میں.اس ارشاد کی تعمیل میں اس شخص نے جو اس کے بیٹوں میں سب سے افضل واکرم اور احب تھا جب اپنی کامیابی کے لئے دعا کی تو انہی لفظوں میں کی (یوسف :۱۰۲) اے خدا! مجھے مسلم ہونے کی حالت میں وفات دے.اس بین دلیل اور صداقت کے بعد اور کیا دلیل چاہتے ہو.ان کی جنس کا کون مارا گیا تھا وہ دوست تھا یا دشمن اگر وہ دشمن تھا تو چپ کیوں رہا اور کیوں شور اور پکار نہ کی اور دوست بے قصور کیوں پکڑا گیا؟؟ احمق انسان ! اگر مسیح اڑ گیا تھا تو کہتا لو میں اڑا جاتا ہوںمجھے پکڑو.بدلہ میں دوسرے کو پھانسی کیا معنی اور پھر اڑتا کسی کو نظر نہ آیا؟ اور تمہارا کہنا کہ چالیس پچاس کوس اوپر سانس کیونکر.جب اصل ہی غلط ہے تو فرع کا کیا ذکر مگر بتائیے تم کو اوپر کے پچاس کو س حالت کا کیونکر پتہ لگا اور یہ بھی بتا دیجئے کہ جس بیان میں رام چندر جی لنکا سے اجودہیا تک آئے اس میں کس طرح سانس لیتے تھے؟ سوال نمبر۷۰.ایک شخص کو قیامت کا یقین دلانے کے لئے مار دیا ،سوسال بعد زندہ کیا.گدھے کی ہڈیا ں بوسیدہ ہیں پھر گدھا زندہ اور اس کا کھانا بھی سو سال تک نہ سڑا.خواب ہو گا ؟ الجواب:تم نے پہلا جھوٹ اس سوال میں یہ بولا ہے کہ قیامت کا یقین دلانے کو ایسا کیا گیاحالانکہ یہ بات قرآن مجید میںنہیں.دوسرا جھوٹ تم نے بولا گدھے کی ہڈیاں بوسیدہ ہیں.تیسرا جھوٹ تمھارا یہ ہے پھر گدھا زندہ کیا گیا.اڑھائی تین سطر میں تین جھوٹ.یہ ہوا تمہارا ست کا لینا اور است کا ترک کرنا!!میں نے جو جھوٹ ثابت کئے ہیں اگر شریف ہو تو ایک کو قرآن واحادیث صحیحہ سے یا عقل سے ثابت کر کے دکھاؤ.اگر عام کتب سے دکھاؤ تو ہم وید کی تفا سیر سے وہ کچھ
عجائبات تم کو ثا بت کر کے د کھا ئیں گے جو کم سے کم غیرت مند کیلئے شر م کا موجب ہوں.او زہر یلے سا نپو! تم کو کیوں اور کس وجہ سے یقین ہوا کہ تم ان بہا نوں سے آنے والے غضب الٰہی سے بچ جاؤ گے؟ اللہ تعالیٰ کے راستبازوں سے اور راستبازی سے عداوت کرنا اور ابطال حق کے لیے یہ شوخی اور حیلہ بازی اللہ تعالیٰ جانے تمہیں کہا ں پہنچا ئے گی ؟مانا کہ کسی باعث گورنمنٹ تم کو اعلیٰ عہدہ نہ دیتی مگر ان شرار توں سے تم کو حقیقی کا میا بی کا کیوں یقین ہوا؟ ہم تمہار ے آریہ سماج میں جانے سے نا راض نہیں کیونکہ ہمارے لیے تمہا را ا رتداد بھی خوشی کا با عث ہے کیو نکہ قرآن کریم میں ایسے ارتداد اور مر تدوں کے بد لہ ہم کو وعدہ دیا گیا ہے.ــ (المائدۃ : ۵۵) سنو! قصہ تو بہت ہی صا ف تھا جس پر ا عتراض ہے.۱.ایک شخص کی نسبت قرآن مجید میں ہے کہ اس کو اللہ تعا لیٰ نے سو برس ما ر دیا اللہ تعا لیٰ سچا اور اس کا کہنا سچ ہے.(النساء :۱۲۳) ۲.وہ شخص کہتا ہے کہ میں ٹھہرا ایک دن یا اس کا کچھ حصہ ممکن تھا کہ اس شخص کا کہا بمقا بلہ فرمان الٰہی غلط مانا جاتا مگر حضرت حق نے اس کے قول کی بھی تصدیق کر دی جبکہ فر ما یا کہ تیرے کھانے اور پینے پر برس نہیں گزرے اور نہ سڑا نہ بُسا اور گد ھے کو دیکھ مو جو د ہے اور ظا ہر ہے کہ سو برس کھانے پینے اور گدھے پر تو نہیں گزرا والّا وہ رہتے ہی نہ.پس یہ دونوں با تیں سچ ہو ئیں.۳.سو برس گزرا اور یوم اور بعض یوم بھی سو ایسا وا قعہ عا لم رؤیا میں ممکن ہے نہ اس کے سوااور اس کی نظیر قرآن کر یم میں مو جو د ہے سورہ یو سف میں ہے کہ ایک با دشا ہ نے سات برس کا قحط اور سات برس کا سما اسی ایک یوم اور بعض یوم میں دیکھا اور اکثر لوگ طول مدت کو رؤیا میں چھوٹے سے وقت میں دیکھتے ہیں.۴.ہڈ یوں پر گو شت کا چڑ ھنا اوّل تو عام نظا رہ قدرت ہے جس کا ذکر قرآن
(المومنون:۱۵)کے کلما ت میں فرماتا ہے.۵.اس واقعہ کا مختصر بیان کتاب حزقیل میں مو جود ہے اور حزقیل کی کتاب آجکل میسر ہے کیو نکہ بائبل کی جزو قرار دی گئی ہے.د یکھو حز قیل ۳۷ باب ایک آیت سے ۱۳ تک.خداوند کا ہاتھ مجھ پر تھا اور اس نے مجھے خداوند کی روح میں ا ٹھا لیا اور اس وادی میں جو ہڈیوں سے بھر پور تھی مجھے اتار دیا.اور مجھے ان کے آس پاس چو گرد پھرایا.اور دیکھ وے وادی کے میدان میں بہت تھیں اور دیکھ وے نہایت سو کھی تھیں اور اس نے مجھے کہا اے آدم زاد کیا یہ ہڈیاں جی سکتی ہیں.میں نے خواب میں کہا کہ اے خدا وند یہوواہ تو ہی جا نتا ہے پھر اس نے مجھے کہا کہ تو ان ہڈیوں کے اوپر نبوت کراسی نبوت سے وہ (آیت ہوئی ) اور ان سے کہہ اے سو کھی ہڈیو تم خداوند کاکلام سنو.خداوند یہوواہ ان ہڈیوں کو یوں فرماتا ہے کہ دیکھو تمہارے اندر میں روح داخل کروں گا اور تم جئیوگے اور تم پر نسیں بٹھلائوں گا اور گوشت چڑہا وںگا اور تمہیں چمڑے سے مڑہو ں گا.اور تم میں روح ڈالوںگا اور تم جیو گے اورجانو گے کہ میں خداوند ہوں سو میںنے حکم کے بموجب نبوت کی اور جب میں نبوت کرتاتھا تو ایک شور ہوا.اور دیکھ ایک جنبش اور ہڈیاں آپس میں مل گئیں ہر ایک ہڈی اپنی ہڈی سے اور جو میں نے نگاہ کی تو دیکھ نسیںاور گوشت ان پر چڑھ آئے اورچمڑے کی ان پر پوشش ہو گئی.پر ان میں روح نہ تھی تب اس نے مجھے کہاکہ نبوت کر تو ہواسے نبوت کر اے آدم زاد اور ہو اسے کہہ کہ خداوند یہوواہ یوں کہتاہے کہ اے سانس تو چاروں ہواؤں میں سے آ.اور ان مقتولوں پر پھونک کہ وے جئیں.سو میں نے حکم کے بموجب نبوت کی اور اس میں روح آئی اور وے جی اٹھے اور اپنے پاؤں پرکھڑے ہوئے.ایک نہایت بڑا لشکر.تب اس نے مجھ سے کہا اے آدم زاد یہ ہڈیاں سارے اسرائیل ہیں دیکھ یہ کہتے ہیں کہ ہماری ہڈیاں سوکھ گئیں اور ہماری امید جاتی رہی ہم تو بالکل فنا ہو گئے.اس لئے تو نبوت کر اوران سے کہو کہ خداوند یہوواہ یو ںکہتاہے
کہ دیکھ اے میرے لوگ میں تمہاری قبروں کو کھولوں گا اور تمھیں تمھاری قبروں سے باہرنکالو ںگا اور اسرائیل کی سر زمین میں لائوںگا.آہ ! اب غور کرو کہ یہاں اسرائیلی لوگوں کی تباہی اور پھر ان کی آبادی کی پیشگوئی ہے کہ یہ لوگ کامل تکلیف بد حالی کے بعد اپنے ملک میں آباد ہو جائیں گے.یہاں قرآن میں بھی سورہ بقرہ میں صحابہ کوجو تکالیف مکہ میں پہنچیں اور وطن سے بے وطن ہو کر کہیں حبش میں اورکہیں مدینہ طیبہ میں حیران ہوتے تھے ان کو تسلی دی جاتی ہے کسی کا زندہ و آبادکرنا ، کسی کوہلاک کرنا اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے.اس سے تھوڑے فاصلہ پرپہلے فرمایا جالوت کو طالوت نے ہلاک کر دیا.حالانکہ وہ غریب اور بنی اسرائیل کی نظر میں ذلیل تھا.اورپھر داؤدعلیہ السلام نے کس طرح ایک اور جالوت کو تباہ کیا.حالانکہ حضرت داؤدؑاس وقت تک بچے اور بہت غریب تھے.اور جالوت بڑازبردست اورچالاک تھا قتل کا وقوعہ تو لابد ہے مگر تم تسلی رکھو تمہاراہی رب القادر جو زندہ کرتاہے اور وہی تمہیں طیبہ زندگی عطا کرے گا جس طرح اس نے بنی اسرائیل کوزندہ کیا.جب بابلیوں نے انہیں خاک میں ملایا تھا ان کا بیت المقدس آخر سو برس کے عرصہ میں آباد ہوہی گیا.سوال نمبر ۷۱.ابراہیم علیہ السلام سے چار پرندے ٹکڑے کرا کے زندہ کئے مفسروں نے کوا.کبوتر.فاختہ.مینا کہاہے اور سر اپنے پاس رکھے.الجواب.وہ ا ٓیت جس پر دارومدار اعتراض کا ہے وہ یہ ہے.(البقرۃ :۲۶۱)اس میں پہلا قابل بحث لفظ ہے سو سنو! صُرْھُنَّ اَمِلْھُنَّ نحوک من الصور ای المیل پس صرھن کے معنی ہوئے اپنی طرف مائل کر لے.مفردات القرآن اور کتب لغت میں ہے.حضر ت ابراہیم کو ان کے ایک سوال پر اللہ تعالیٰ نے ایک دلیل بتائی ہے کہ کس طرح مردے زندہ ہو ں گے.اس پر فرمایا دیکھ ان جانوروں کو جو جسم اور روح کا مجموعہ ہیں تیری ذرہ سی پرورش
کے سبب سے تیرے بلانے پر پہاڑیوں سے تیری آواز سن کر چلے آئیں گے تو کیا میں جو ان کا حقیقی مالک اور رب پرورش کنندہ ہوں میرے بلائے پر یہ ذرات حیوان کے جمع نہیں ہو سکیں گے ؟ اس نظارہ اور فعل پر بتاؤ کیا اعتراض ہے؟ پس ترجمہ آیت کریمہ کا یہ ہوا فرمایا.پس لے پرندوں سے چار پھر ان کو مائل کر لے اپنی طرف یعنی اپنے ساتھ ہلا لے پھر رکھ پہاڑی پر ان میں سے ایک ایک کو.پس بلا ان کو.تیرے پاس آئیں گے دوڑتے.سوال نمبر ۷۲.ہفتہ کے دن مچھلی پکڑنے والوں کو خدا نے سؤر.بندر بنا دیا.الجواب.اس کا جواب ایسا صاف ہے کہ اس کے لئے ان آیات کا لکھنا اور ترجمہ ہی کافی ہے جن میں یہ واقعہ مذکور ہے ہر ایک پڑھنے والا ذرا سی غور سے سمجھ لے گا کہ بات کس قدر صاف ہے اور یہ دنیا کی پرستار قوم حقائق کے فہم سے کس قدر دور اور کورانہ تعصب سے کس قدر قریب ہے.ہمارے نزدیک اس کے حل کے لئے اس سے زیادہ بہتر طریق نہیں کہ ان آیات کو یکجا لکھ کر دکھایا جاوے جن میں یہ قصہ ہے خاص غور کے لئے ایک لفظ جس کے معنی ہیں کہ ان میں اچھے صالح ہونے والے بھی ہیں اور دوسرا لفظ جس کا ترجمہ ہے کہ یہ سب کچھ اس لئے کیا کہ یہ باز آجائیں اور تیسرا لفظ کہ یہ بندر وسؤر شیطان کے بندے تمہارے یہاں بھی آئے.اور چوتھا لفظ (المائدۃ :۶۲) ہے جس کے معنی ہیں کہ یہ کافر آئے اور کافر ہی نکلے.ان پر اور ایسے الفاظ پر عقل مند غور کریں جو اس قصہ میں آئے.
..(الاعراف:۱۶۷تا۱۷۰) جب وہ ہماری منع کردی ہوئی باتوں سے باز نہ آئے ہم نے کہا جاؤ ذلیل بندر بن جاؤ اور تیرے رب نے خبر دی ہے کہ ایسا ہو گا کہ میں قیامت تک ایسے لوگوں کو ان پر حکمران کروں گا جو انہیں بُرے عذاب دیں گے بے شک تیرا رب جلد سزا دینے والا ہے اور غفور رحیم بھی ہے.ہم نے انہیں گروہ گروہ بنا کر زمین میں منتشر کر دیا.بعض ان میں اچھے نکلے اور بعض ان کے خلاف اور ہم نے بھلائی اور برائی پہنچا کر انہیں امتحان میں ڈالا توکہ باز آئیں اور ان کے بعد ان کے ایسے جانشین کتاب کے وارث ہوئے جو رشوت کے طور پر اس دنیا کا مال لیتے اور کہتے کیا پڑا ہے ہم بخشے جائیں گے.....(المائدۃ :۶۰تا۶۴) انہیں کہہ اے کتاب والو! تم اس لئے ہم سے بیزار ہو کہ ہم ایمان لائے اللہ پر
اور اس پر جو ہم پرنازل کیا گیا اور اس پر جو پہلے نازل کیا گیا اور تمہاری ناراضی کی جڑ یہ ہے کہ تم حدود الٰہیہ کو توڑنے والے ہو.ان سے کہہ میں تمہیں ان قوموں کی خبر دوں جنہیں خدا کی طرف سے ان کے ایسے افعال کا بہت برا بدلا ملا.وہ وہ ہیں جنہیںخدا نے بندر اور سؤر اور شیطان کے پرستار بنادیا.یہ بہت برے پایہ کے لوگ ہیں اور سب سے زیادہ راہ حق سے دور بھٹکے ہوئے ہیں.جب تمہارے پاس آتے ہیں اٰمنّا کہتے ہیں حالانکہ کفر دل میں لے کر آتے ہیں اور کفر کو لے کر نکلتے ہیں اور جو کچھ دل میں مخفی رکھتے ہیں اسے خدا خوب جانتا ہے.بہت سے ان میں سے تم خوب دیکھتے ہو بدکاری اور بغاوت اور حرام خواری میں بڑھ بڑھ کر قدم مارتے ہیں بہت ہی بُرے کام ہیں جو یہ کرتے ہیں.ان کے عالموں اور درویشوں کو چاہیے تھاکہ انہیں ناجائز باتوں اور حرام خوری سے روکتے بہت ہی بری کرتوتیں ہیں جو یہ کرتے ہیں.یہ آیتیں بغیر کسی تفسیر اور شرح کرنے کے صاف بتا رہی ہیں کہ بندر اور سؤر بن جانے کی حقیقت کیا ہے اور بندر اور سؤر کے ساتھ جو لفظ یعنی شیطان کے پرستار لکھ دیا ہے وہ اور بھی حقیقت امر کو واضح کئے دیتا ہے.اس میں مدینہ کے یہود کو جو آنحضرت ﷺ کے مخاطب اور مخالف تھے اور اسلام کی بیخ کنی کے لئے طرح طرح کے منصوبے اور ناجائز حیلے کرتے تھے ملزم کرنے اور ان کے انجام بد کی آئندہ خبر دینے کے لئے اللہ تعالیٰ ان کے باب دادوں کا واقعہ سناتا ہے جنہوں نے اپنے وقت کے ماموروں کے مقابل ایسی ہی گستاخیاں اور بے اندامیاں کیں اور آخر سؤر اور بندروں کی طرح طرح کی ذلتیں اور عذاب انھیں پہنچے.خدا کی کتاب مدینہ کے یہود کو اطلاع دیتی ہے کہ اس نبی کی مخالفت میں بھی تم پر ویسی ہی سزائیں نازل ہوں گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا جو اسلام کی تاریخ کے پڑھنے والے پر مخفی نہیں.کیا ان خسیس یہودیوں کے جو افعال واعمال ان آیتوں میں مذکورہوئے ہیں اور جن قباحتوں اور شناعتوں سے ان کی خدا نے پردہ اٹھایا ہے وہ بندروں اور سؤروں کیسی عادت اور افعال نہیں ہیں؟ سوال نمبر ۷۳.چند فٹ لمبی چوڑی کشتی میں روئے زمین کے تمام چرند، پرند، درند
مع خوراک، گپ ہے.الجواب.نوح کی کشتی کتنے فیٹ تھی چند فیٹ تھی.یہ تم نے قرآن پر افتراء کیا ہے.چند فیٹ لمبی یہ بھی جھوٹ اور افتراء ہے چند فیٹ چوڑی یہ بھی افتراء ہے.روئے زمین یہ بھی افتراء ہے.تمام چرند.پرند.درند یہ بھی افتراء ہے.مع خوراک یہ بھی افتراء ہے.اتنے افتراء اور راست بازوں سے جنگ کرکے کامیابی کی امید! زیر اعتراض یہ آیت ہے.(ھود :۴۱)اول اس میں من کا لفظ ہے جس کا ترجمہ ’’سے ‘‘ اور ’’بعض‘‘ ہے کل کا لفظ ہر ایک موقعہ کے لئے الگ الگ معنی دیتا ہے قرآن کریم کے محاورات دیکھو.ایک عورت یمن کے بادشاہ کی نسبت فرماتی ہے.(النمل :۲۴) مجھے کل شئی دی گئی اورذوالقرنین کی نسبت ہے.(الکھف :۸۵) ہم نے اسے کل قسم کے اسباب دئیے.اب کیا اس کل سے یہ مطلب ہے کہ دنیا کے جزوی وکلی اسباب سے ایک ذرہ بھر باقی نہیں رہا تھا جو ان کے قبضہ میں نہ آیا ہو.یہ توقانون قدرت اور عادت اللہ اور عادت الناس کے خلاف ہے ہر ایک بولی میں یہ لفظ اپنے اپنے رنگ میں آتاہے جیسے ہماری زبان میں ’’سب‘‘کا لفظ ہے اور متکلم ذہن میں ایک بات رکھ کر بولتا ہے اور مخاطب متکلم کے معہود فی الذہن منشاء کے موافق عین موقعہ پر اسے اتارتا ہے.اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہر قسم کی ضروری اشیاء میں سے جو تجھے مطلوب اور تیرے کام کی ہیں کشتی میں اٹھا لے اس میں کہاں لکھا ہے کہ تمام چرند ، پرند اور درخت اس میں رکھ لئے گئے.سوال نمبر ۷۴.عورت مرد کا چہرہ بھی نہ دیکھے توبچہ جن سکتی ہے جیسے مسیح علیہ السلام کی پیدائش میں دکھایا گیا.الجواب.(۱) جو اسلام قرآ ن کے صحیفہ فطرت نے ہم کو سکھایا ہے اس میں تو کہیں نہیں لکھا کہ تم اسلام لاؤ کہ مسیح بے باپ تھے.(۲)ہم کو نبی کریم نے نہیں فرمایا کہ اسلام میں یہ بھی ہے کہ تم مان لو
کہ مسیح بے پدر تھا.(۳)ہمارے پیارے صحابہ کرام اور ہمارے آئمہ اربعہ فقہاء اور دیگرائمہ عظام نے ہمیں کہیں ہدایت نہیں کی کہ اسلامی ضروریات سے ہے کہ مان لو مسیح بے باپ تھا.(۴)ہم کو ہمارے صوفیاء کرام نے اپنی تعلیمات میں کہیں تاکید نہیں فرمائی کہ اسلام میں قرب الٰہی کے مدارج ومسالک واصلاح نفس وحصول اخلاق فاضلہ کے لئے لابدہے کہ یہ بھی یقین کرو کہ مسیح بے باپ تھے.(۵)مسیح علیہ السلام کے ماسوا کس قدر انبیاء ورسل اور اللہ تعالیٰ کے مامور گزرے ہیں کسی کا نسب نامہ قرآن کریم میں لکھا ہے؟بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (المدثر :۳۲) پس سب کے وجود کا علم بھی ضروری نہیں چہ جائیکہ وہ کس طرح پیداہوئے.پھر عیسائیوں کے مذہب میں بلاباپ پیداہونا مسیح کی الوہیت کی دلیل ہی نہیں ان کے یہاں تو ملک صدق آدم سب بلاباپ پیدا ہوئے.پھر یہ مسئلہ اسلام کا جزو نہیں تو یہ مسئلہ تم کوباعث ترک اسلام کیوں ہوا.عام تحقیقات کے مسائل میں یہ مسئلہ بھی ہے.میں خود مدت تک باایں کہ اسلام میرا ایمان اور میری جان ہے اس بات کو مانتا رہا گو اب میں اس بات کا قائل نہیں رہا مگر آریہ صاحب تمہارے نزدیک تو بے با پ ہونے میں تو تامل نہیں ہو سکتا کیونکہ دیانند نے تو سملاس فقرہ ۴۰ صفحہ ۳۳۴میں لکھا ہے.’’دہرم راج یعنی پرمیشور اس جیئو کے پاپ پن کے مطابق جنم دیتا ہے وہ (روح) ہوا ، اناج، پانی، خواہ جسم کے مساموں کے ذ ریعہ سے دوسرے کے جسم میں ایشور کی تحریک سے داخل ہوتا ہے بعد داخل ہونے کے سلسلہ وارمنی میں جاکر حمل میں قائم ہو کر جسم اختیار کر کے باہر آتاہے نیز اگنی، وایو، ادت اور انگرہ کا کون باپ تھا.یہ تو تمہارے مہارشی اور ویدوں کے مصنف اور تمہارے سلسلہ مذہب کے اصل بانی ہیں کیا سبب بلاباپ نہیں؟‘‘ دیکھو ستیارتھ سملاس نمبر۸ فقرہ۴۰ وغیرہ میں بتایا ہے کہ ایشری سرشٹی اور میتہنے سرشٹی اور اور قسم کی ہوا کرتی ہیں.یہ تو تمہاری اور ہر ایک بدقسمت قوم اور متنزل لوگوںکی عادت ہے کہ غیر ضروری مسائل پر بہت بحثیں کی جاویں اور ان کو مذہبی رنگ دیا جاوے بہر حال شائد تمہیں ہدایت ہو جاوے کچھ اور سنو.
جب نطفہ فضا ء فرج میں جاتاہے تو اس میں سے اسپر ماٹوزوا الگ حرکت کرتے ہیں تو بہت سارے اسپرمسیٹوزوا رحم میں چلے جاتے ہیں اور ان میں سے ایک اس کرّہ میں جو خصیۃ الرحم سے آتاہے داخل ہوجاتا ہے پھر اس نشوونما میں جو غالباً رحم میں ہوتاہے یہ کرّہ جو مجموعہ دو چیزوں اسپرماٹوزون اور ادووم کا ہے منقسم ہونا شروع ہوتاہے.اسی طرح ایک سے دو.دو سے چار.چار سے آٹھ.آٹھ سے سولہ.اس طرح بے شمار کرات بن جاتے ہیں اور ان سے تین دائرہ نما پردے بنتے ہیں جن میں سے صرف ایک ضلع بچہ بننے کو مخصوص ہو جاتا ہے اور باقی سے جھلیاں وغیرہ بن کر آخر الگ ہوجاتی ہیں کوئی ہے جو بتاوے کہ وہ ضلع کس کے اجزا میں سے نشوونما یافتہ ہے.پھر خط وخال عادات واطوار.معتقدات ویقینیات میںیہ نظارہ دیکھتے ہیں کہ کوئی لڑکا اپنے باپ کے رنگ وروپ.اخلاق وعادات پر ہوتا ہے یا باپ کے خاندان پر اور کوئی ماں یا ماں کے خاندان پر خط وخال.اخلاق وعادات میں ہوتاہے بعض کی حالت دونوں میں مشترک.ادھر قرآن کریم میں پاتے ہیں کہ حضرت زکریا بالکل بوڑھے تھے اور ان کی بیوی بانجھ تھی گویا ان کی پیدائش عام نظارہ ہائے قدرت سے الگ تھی اور ان کے بعد حضرت مسیح کا قصہ بیان فرمایا ہے.گویا ترقی ان مظاہر قدرت میں بتائی ہے کہ اللہ تعالیٰ جس طرح اور جس کی جزو میں چاہتا ہے بناتا ہے.سوال نمبر۷۵.قوم لوط کی بستیاں الٹ کر پھینک دیں.پتھروں کا مینہ برسایا جبرائیل نے پروں سے وہ شہر الٹادیا.الجواب.پھر کیا الٰہی کاموں میں یہ بڑی بات ہے تمہارے مذہب کی روسے تمام پرتھوی تباہ ہو جاتی ہے سب کچھ جل بن جاتا ہے اور جل بھی تباہ ہو جاتا ہے تو آگ بن جاتا ہے.سو وہ بھی تباہ ہو کر ہوا بن جاتا ہے پھر وہ بھی تباہ ہوجاتی ہے بلکہ سب کچھ تباہ ہو کر صرف ایشورسا مرتہیہ ہی باقی رہ جاتی ہے.بدکاروں شریروں کے لئے ایسے نمونے ہمیشہ موجود رہتے ہیں کیا تم نے جاوا.پمپاے کی تباہی کی آگہی حاصل نہیں کی اور جاوا سینٹ پیری تو انہیں دنوں کے واقعات ہیں.
لوط کی قوم شریر.حق کی دشمن.حقیقت کی عدو تھی.گندے اعمال اور خلاف فطرت کاموں میں منہمک تھی اللہ تعالیٰ نے ان کو تباہ کر دیا.ڈیڈ سی (بحر مردار)کی جھیل ان کی تباہی کی زندہ نشانی ہے اور ان کی بدعملی کا نمونہ بتانے کو انگریزی زبان میں سا ڈومی کا لفظ موجود ہے.اس جہاں میں ہمیشہ نظارہ ہائے قدرت خدا تعالیٰ کے نبیوں کی تعلیم کی تصدیق کے لئے واقع ہوتے رہتے ہیں.شریر ان کی خلاف ورزی میں تباہ ہوتے ہیں.اور راست بازوں کی صداقت پر اپنی بربادی سے مہر کر جاتے ہیں.پتھروں کا مینہ ہی تھا جس نے حال میں سینٹ پیری برباد کیا اور وہ بھی پتھروں کا ہی مینہ ہوتا ہے جس کا ذکر سوال نمبر ۸۱ صفحہ۲۸۵ کے جواب میں می ٹی ی ارز کے بیان میں لکھا ہے.سوال نمبر۷۶.شعیب پیغمبر کی قوم کو چیخ مار کر تباہ کیا.الجواب.وہ لفظ جس کاترجمہ تم نے چیخ کیا ہے وہ صیحۃ کا لفظ ہے لغات القرآن میں لکھا ہے.اَلصَّیْحَۃ قد تفزفعبر بھا عن الفزع صاح الزمان لال برمک صیحۃ خروا الصیحتہ علی الاذقان.یعنی صیحہ سے مراد آفت اور مصیبت ہوتی ہے چنانچہ لکھاہے.کیا معنے ؟زمانہ نے برمکیوں پر ایک بلا ڈالی اس بلا کے سبب سے ٹھوڑیوں کے بل گر پڑے.اور یہ بھی ظاہر بات ہے کہ جس شخص پر مصائب پڑتے ہیں وہ روتا چیختا چلاتا بھی ہے.اب بتاؤ کہ اس واقعہ میں کون سی ناممکن بات ہے کہ شعیب کی قوم عذاب الٰہی سے چیختی چلاتی ہلاک ہو گئی.سوال نمبر۷۷.مٹھی بھر کنکریاں مار کو فوج مخالف اسلام کو بھگا دیا.اللہ تعالیٰ کے قول (الانفال :۱۸) پر اعتراض کیا ہے.الجواب.کیسا سچا کلمہ توحید اور راست بازی کا بھرا ہواہے.نبی کریم ﷺ کو ارشادہوتاہے کہ تیری رمی اللہ تعالیٰ کی رمی ہے.کیا ہی سچ ہے کہ دشمن کو تیر مارنا یا اپنی مار کا دشمن کو نشانہ بنانا اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور اس کے ارادہ سے وابستہ ہے والّا ہاتھ خطا بھی جاتا ہے.اب
کیسا سیدھا و صاف مطلب آیت شریفہ کا ہے(الانفال :۱۸) یعنی تو نے دشمنوں پر نہیں پھینکا جو کچھ پھینکا بلکہ خدا نے پھینکا یعنی اللہ نے تجھے مظفر ومنصور کیا اور درحقیقت اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت کے سوا کون اپنی طاقت اور تدبیر سے فتح مند ہو سکتاہے.غور سے سنو!جوکچھ حال میں ہو رہا ہے وہ ماضی کا نتیجہ ہے اور جو کچھ مستقبل میں ہو گا وہ حاضر کا ثمرہ ہو گا.پرتکیش پرمان ظاہری مثال اس پر یہ ہے کہ آج رمضان کی ۲۲، سن ۱۳۲۱ھ ہے اور دسمبر ۱۹۰۳ء کی ۱۱تاریخ.کیا اس میں شک ہوسکتا ہے کہ ۲۱.۲۲کے بعد ہوئی اور ۲۳ہجری ۲۲ہجری کے بعد آئے گا.۱۱.۱۰کے بعد ہی آسکتی تھی اور سن ۳سن ۲کے بعد ہی ہوسکتا تھا.پھر ۲۴.۲۲اور۲۳کے گزرنے پرہی ا ٓئے گا.اب جن بلاد میں گیہوں بویا گیا ہے ان میں ربیع کا کاٹنا اس کے پک جانے کے بعد ہی ہو گا.ہزاروں لاکھوں امور کو اسی پر قیاس کرلو.اب تم کو آیات کے متعلق جن کو دوسرے لفظوں میں لوگ معجزات کہتے ہیں ایک لطیف نکتہ سناتے ہیں تم فائدہ اٹھا ؤ گے تو تمہارا بھلا ہوگا والّا کوئی سخن شناس اس سے حظ اٹھائے گا.بہرحال موجودہ امور گزشتہ امور کے نتائج ہوتے ہیں اور مستقبل حال کا ثمرہ یہ سلسلہ ماضی کی طرف اگرچہ ان لوگوں کے نزدیک جو الٰہی ہستی سے بے خبر ہیں لامنتہیٰ ہے مگر خدا کے ماننے والے جانتے ہیں کہ بات یہی سچ ہے.(النجم :۴۳) یعنی سب چیزوں کا منتہے اور انجام تیرے رب کی طرف ہے.زمانہ بھی ا ٓخر مخلوق ہے کیونکہ زمانہ مقدار فعل کانام ہے مقدار فعل فعل سے پیدا ہوسکتا ہے اور فعل فاعل سے.جناب الٰہی کی ذات پاک چونکہ ازلی ہمہ دان.ست اور چت (عالم)ہمہ قدرت اور سامرتھ ہے وہ اپنے ازلی علم سے جانتا تھا کہ فلاں اپنے پیارے بندے کو مجھے فلاں وقت مؤید ومظفر اور منصورکرنا ہے اور فلاں وقت فلاںشریر کو جو اس کے مقابل ہو گا ذ لیل اور خوار اور خائب وخاسر کردیناہے اس لئے اس نے ابتدا ہی سے ایسے اسباب اور مواد مہیا کر دئیے کہ اس وقت
معین اور مقدر میں اس کا مخلص مومن متقی محسن اور برگزیدہ بندہ لامحالہ فتح مندہو جاتا ہے اور اس کا دشمن شیطان، اللہ سے دور، فضل سے ناامید، ابلیس شریر اور شرارت پیشہ تباہ وہلاک ہو جاتا ہے.اسی سنت کے موافق خدا تعالیٰ اپنے ازلی علم اور ارادہ میں مقرراور مقدر کرچکا تھا کہ ہمارے ہادی وشفیع خاتم الانبیاء والمرسلین رحمۃ للعالمین ﷺ وبارک وسلم الی یوم الدین کے جانشینوں کو بلاد ایران وتوران اور شام ومصر وغیرہ پر تسلط بخشے گا اور ہر قسم کے فتوحات کا فتح مند اور منصور وغالب کرے گا.اس ارادہ کے پورا کرنے کے لئے اس قادر حکیم علیم خدا نے ایک طرف ایسی حالت پیدا کردی کہ تمام عرب میں نیکیوں کے ساتھ ہمت واستقلال بخشا اور اس کے ساتھ وحدت کی روح پھونک دی اور دوسری طرف ان تمام بلاد میں جن کامفتوح ہونا مقدر تھا تباہی کے اسباب یعنی فسق وفجور.زنا.بدکاری.کسل.تفرقہ اور طوائف الملوکی پھیل گئی اور تمام باتیں عین نظام کائنات کے مطابق الٰہی ارادہ کے ماتحت اس کے فرستادوں کی پیشگوئیوں کے موافق واقع ہوئیں او ر ہوتی ہیں.اسی سنت کے موافق جن لوگوںکو حضرت نبی کریم کی اتباع اورمعیت کا شرف بخشا اور چاہا کہ انہیں دنیا پر حق کو پھیلانے کا آلہ اور ذریعہ بنائے ان پر یہ فضل کیا کہ ان میں اخلاص.وحدت خداترسی.شجاعت.عفت.صلح.خودداری.استقلال اور توجہ الی اللہ کی قوت بڑھتی جاتی تھی اور ان کے مخالفوں میں نفاق.غرور.کبر.تہور.جبن.فسق.فجور.غضب.عجزوکسل اور غفلت ترقی پر تھی اس روحانی لعنت کے قبضہ میں ہوکر اگرچہ وہ لوگ ان برگزیدوں کے مقابل پر اپنی ساری طاقتوں اور مال اور جان کو خرچ کرتے مگر نامراد اور ناکام رہ جاتے.اس قصہ کو اب ہم لمبا نہیں کرتے اصل بات سناتے ہیں.عرب میں ان دنوں میں جنگ کا یہ دستور تھا کہ پہلے مبارزہ ہوا کرتا تھا یعنی ایک آدمی دوسرے کے مقابلہ نکلتا.پھر مبارزہ کے بعد تیروں سے جنگ کی ابتدا ہوتی تھی اور قاعدہ ہے کہ اگر ایسی جنگ کے وقت تیز ہوا چل پڑے تو اس وقت جس لڑنے والی فوج کی پیٹھ کی طر ف سے ہوا
آئے گی اس کی آنکھوںکو کچھ حرج نہیں پہنچے گا اور ان لوگوں کے تیروں کو مدد دے گی مگرجس فوج کے سامنے ہوا کا دھکّا ہو گا ان کی ا ٓنکھوں میں پڑے گا نہ وہ ٹھیک نشانہ لگا سکیں گے اور نہ مقابل کو اچھی طرح دیکھ سکیں گے.ایسی باتیں بہت جنگوں میں ہمارے نبی کریم کے عہد سعادت مہدمیں پیش آئیں چنانچہ بدر اور حنین بلکہ جنگ احزاب و خندق میں بھی ایسے ہی واقعات وقوع میں آئے.اسی نعمت کے یاد دلانے کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(الاحزاب:۱۰)(التوبۃ:۲۶)جب حضرت ہادی کامل (ﷺ) نے مخالف کا زور زیادہ دیکھا تو ایک مٹھی کنکروں کی مخالف کی طرف پھینکی اور دوسری طرف اس وقت جناب الٰہی نے اپنی سنن میں وہ وقت رکھا تھا کہ کنکر پھینکنے والی تیز ہوا چل پڑے اسی طرح عادۃ اللہ ہے.اسی طریق سے سلسلہ نظام کائنات یعنی جسمانی سلسلہ بھی قائم رہتاہے اور روحانی سلسلہ اور الٰہی سلسلہ یعنی انبیاء واولیاء اور مومنین کی فتح ونصرت کا سلسلہ بھی قائم ہے اور روحانی سلسلہ اور الٰہی سلسلہ یعنی انبیاء اولیاء مومنین کی فتح ونصرت کا سلسلہ بھی قائم رہتا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدوں کی نصرت کے وقت ایسے اسباب پیدا کردیتا ہے جو انسانی طاقت سے بالاتر ہوتے ہیں اور ہوتے ہیں اس کی سنت اور قانون قدرت کے موافق.چنانچہ میں ایک ذاتی واقعہ سناتا ہوں جو اسی طرح تہی اسباب اور اسی قسم کی خدا کی نصرت کا ثبوت ہے.مرزا نظام الدین اور مرزا امام الدین نے ایک مقدمہ کیا جس میں شیخ خدا بخش جج تھے میںاس مقدمہ میں گواہ کیا گیا.ان دنوں ایک شخص مخدوم پیرزادہ ٹنڈو الہ یار علاقہ حیدرآباد سندھ کا رہنے والا علاج کے لئے قادیان میں آیا اور اس نے مجھے نذر کے طورپر آخر ایک سور وپیہ دیا اور بایں کہ امام الدین نظام الدین نے اس کی دعوت بھی کی تھی مگر قدرت الٰہیہ نے ان دونوں کو پتہ نہ لگنے دیا کہ اس مخدوم نے مجھے ایک سو روپیہ دیا ہے.گواہی کے وقت جب مجھ پر جرح ہونے لگی تو آریہ وکیل نے مجھ پر سوا ل کیا.کیا آپ کو اس سال کسی نے یکدفعہ ایک سو روپیہ بھی اس پیشہ طبابت
میں دیا ہے میں دل میں حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے لئے سجدات شکر ادا کرتا ہوا بول اٹھا کہ ہاں فلاں مخدوم سندھی نے دیا ہے.تب ہمارے مخالف ایسے مبہوت ہوئے کہ آئندہ سوالات جرح سے خاموش ہوگئے.منشاء مخالف کا اس سوال جرح سے اتنا ہی تھا کہ میری حیثیت خداداد کو باطل کرے مگر اس داؤ میں خائب وخاسر ہو گیا.میں نے اس شکریہ میں پچاس روپیہ مخدوم صاحب کو بذریعہ منی ا ٓرڈر واپس کردئیے.اب سوچو مخدوم کا بیمار ہونا اس کو میرا پتہ لگنا اور سوروپیہ مجھے دینا اور اس کے اظہار کا موقع ایسے وقت پر ہونا کہ دشمن خاک میں مل جاوے کیسا تعجب انگیز ہے اور خدا پرست کے لئے کس طرح مقام شکر کا ہے.حقیقی فلسفہ اور سائنس دانوں نے ثابت کردیا ہے کہ امور اتفاقی طور پر نہیں ہوا کرتے اس طرح کے واقعات جن کو میں نے اپنے متعلق بیان کیا ہے ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں.خدا پرست ان کے وقوع سے شکر گزار ہوتے اور سجدات شکر کرتے ہیں.غافلوں بدمستوں کے سامنے یوں ہی گزرجاتے ہیں کہ گویا وقوع پذیر ہی نہیں ہوئے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فلق بحر (دریا کا پھٹ جانا) انفجار العیون (بارہ چشموں کا پھوٹنا) اور ہمارے ہادی کامل رحمۃ للعالمین ﷺ کے دشمن بلکہ حق کے دشمنوں کاموقع موقع پرکامل شکست وہزیمت کھانا، آپ کا او ر ا ٓ پ کے پاک جانشینوں کا برغم الف اعداء ان پر ہمیشہ کامیاب ومظفر منصور ہونا اور بت پرستی ملک عرب سے استیصال کردینا یہ سب آیات بینات اور حجج نیّرہ اور سچے معجزات ہیں ان کے وقوع سے اللہ تعالیٰ کی ہمہ دانی اور ازل سے علم کامل اور قدرت کاملہ کا پتہ لگتاہے.والحمد للّٰہ رب العالمین.سوال نمبر۷۸.فرشتے اہل اسلام کی طر ف سے اہل اسلام کی خاطر لڑنے آئے.مسلمان اسپین اسٹریا سے نکالے گئے یورپ میں شکست کھائی افریقہ میں خستہ ہوئے.ہندوستان کی سلطنت کھو بیٹھے وہاں فرشتے کیوںنہ آئے.
الجواب.اہل اسلام کی خاطر ہمیشہ فرشتے آیا کرتے ہیں اور آیا کریں گے.اگر فرشتے اسلام کی خاطر نہ آیا کریں اور نہ آیا کرتے تو جس قدر اسلام کے نابودکرنے کے لئے ہمیشہ دشمنان حق زور لگاتے تھے اور لگاتے ہیں اب تک اسلام نابودہوجاتا.ہمیشہ اسلام کے مقابلہ میں کافر ذلیل وخوار ہی رہے.ہمارے نبی کریم ﷺ کے مقابلہ میں تمام عرب وعجم نے کیا کیا زور لگائے مگر کیا اس ایک انسان کاکام تھا کہ کامیاب ہوتا.کیا اس سے صاف ثابت نہیں ہوتا کہ حقیقی دیوتا اور اس کے مظاہر قدرت دیوتے اس کے ساتھ تھے جب ہی تو دنیا کو حیران کرنے والی فتوحات انہیں نصیب ہوئیں.آج بھی ہمارے زمانہ میں ہم میںایک حامی اسلام اور سچا مسلمان موجود ہے اس کے استیصال کے لئے بیرورنی دنیا میں تما م عیسائیوں تمہارے نئے بہائیوں، سکھوں وغیر ھم نے اور اندرونی طور پر شیعہ ، سجادہ نشین مولویوں وغیرھم نے کیسے کیسے زور لگائے آخر وہ ملائکہ کا ہی لشکر ہے جو سب مخالفوں کے حملوں کا دفاع کرتا اوران کی آرزؤں کے خلاف ہزاروں ہزار کو اس کے جھنڈے کے نیچے لارہاہے.تمہاری عادت جھوٹ بولنے کی بہت ہے.یہ تمہارا سفید جھوٹ ہے جو تم نے کہا ہے کہ تم مرزا کی تعلیم کو دیکھ کر آریہ ہوئے.اپنے ہی دل میں مطالعہ کرو اور بتاؤ کیا یہ سچ ہے؟نہیں ہرگز نہیں !! تمہارا ہم زبان امرتسری مولوی بھی یقین کرتاہے کہ جھوٹ بولنا تمہاری عادت ہے مگر پھر بھی تمہاری تائید میں تمہارا ہم آوازہو کر ہمیں پکارتاہے کہ مرزا کے دوستو جواب دو.اس ہی سے سوچ لو کہ ہماری مخالفت میں کیسے کیسے زور لگائے جاتے ہیں.کہاں تمہاری تردید اور تمہارے سیاہ جھوٹ پر اتنا نہیں کہا کہ تو جھوٹ بولتاہے نیز تم نے مرزا صاحب کی کسی تعلیم پر کوئی اعتراض نہیں کیا اور نہ تم نے یہ ظاہر کیا ہے کہ مرزا نے فلاں آیت کے یہ معنے کئے ہیں اس لئے ترک اسلام کرکے دہرم پال بنا.امرتسری تُرک کی اندرونی عداوت کا سرجوش تھا کہ کہیں تو لکھ دیا چواز قومے یکے بیدانشی کرد اور کہیں ابراہیم ؑ کی آگ کے سوال پر کہہ دیا.مرزائیو! کہو.اس سے تو قیاس کر کہ
ہمارے مولوی ہمارا استیصال میں کیا زور لگارہے ہیں.لیکھرام کے قتل پر جو جو زور تم لوگوں نے لگائے تم سے مخفی نہیں.غیروں کے مقدمات میں تمہارے دت وغیرہ آکودتے اور ناخنوں تک زور لگاتے ہیں اور ایک بال بیکا نہیں کر سکے اور نہ کر سکیں گے.ربّ کل شئی خادمک رب فاحفظنا وانصرنا وارحمنا غرض اب آگ لگا کر دیکھو.کیونکہ ابراہیم کی نسبت بھی ا ٓخر یہی ہوا تھا.یہ نہیں ہوا کہ ابراہیم ؑ آپ دیدہ دانستہ آگ میں کودے تھے.مخالفوں نے ڈالا اور ابراہیم بچ گئے.سوال نمبر۷۹.ذوالقرنین نے مغرب میں جا کر دیکھا کہ سورج دلدل میں غروب ہوتاہے.الجواب.قرن کے معنے شجاعت وقوت کے ہیں.جانوروں کے سینگ کو بھی قرن اس لئے کہتے ہیں کہ وہ سینگ ان کی قوت میں مدد دیتے ہیں.مید وفارس کے بادشاہ چونکہ دو مملکتیں اپنے ماتحت رکھتے تھے اور بلاد کی ماتحتی سے بادشاہوں کو قوت ہوتی ہے اس لئے ان کے بادشاہوں کو خصوصا ً ان کے پہلے بادشاہ کو ذوالقرنین کہا ہے.دیکھو دانیال باب۸.۴.اور اس کے ساتھ آٹھ باب کی آیت ۲۰ جس میں تفصیل کی ہے اور اسکندر رومی کو دانیا ل کی کتاب میں ایک سینگ کا بکرا کہا ہے.دیکھو دانیال باب ۸.۶ اور آیت ۲۱جس کا ترجمہ یہ ہے وہ بال والا بکرا یونان کا بادشاہ اور وہ بڑا سینگ جو اس کی آنکھوں کے درمیان ہے سو اس کا پہلا بادشاہ ہے.یہ وہی میخو ارسکندر ہے جس نے تمہارے ملک کو بھی زیروزبر کر دیا تھا اور مکہ معظمہ اس کی دست وبرد سے محفوظ رہا.گو بدقسمت مسلمانوں کے لئے اس کے مشیر سلطنت ارسطو کی غلط منطق اور اس کاوہمی فلسفہ اب تک نوجوانان اسلام کابرباد کن اور موجب جہالت ہو رہاہے.کاش وہ رد المنطقیین شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور تحریم المنطق امام سیوطی کو پڑھیں یا کم سے کم غور کریں کہ ان کو ایسی منطق سے دین ودنیا میں کیا مل رہا ہے جس کو پڑھتے ہیں.غرض اس مید وفارس کے بادشاہوں سے پہلے اس بادشاہ نے اپنی حفاظت کے لئے بہت سی تدبیریں کی.ہم نمبر ۸۰میں ان کا ذکر کریں گے.اس نے دور دراز ملکوں کا سفر کیا
اور ملک کی دیکھ بھال کی.اس کے مغرب کی طرف اس وقت دلدلیں کنارہ ہائے بحیرہ خضر تھیں.اس وقت جہاز رانی کا پورا سامان کہاں تھا اور کناروں پر ایسے عمدہ گھاٹ کہاں تھے جیسے اب روز بروز ہوتے چلے جاتے ہیں.ہاں تم لوگوں کا احمقانہ خیال ہے کہ پرانے زمانہ میںہی سٹیمر.تاروریل وغیرہ فنون تھے اور ان کے موجد آریہ ورتی تھے جس لفظ کا ترجمہ تم نے جاکر دیکھا.کیا ہے وہ لفظ وجدھا تغرب ہے اس کے معنے ہیں اس نے سورج کو ایسا معلوم کیا اور اس کی آنکھ سے ایسا معلوم ہوا کہ وہ دلدل میں ڈوبتا ہے.اب سوچو یہ لفظ ایسا صاف ہے کہ اس میں ذرا اعتراض کا موقع نہیں.اس نظارہ کو ہر شخص ہر روز اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ سورج اسے اگر جنگل میں ہوتو درختوں میں ڈوبتا نظر آتاہے اور اگر سمندر میں ہو تو پانی سے نکلتا اور آخر پانی میں ہی ڈوبتا نظر آتا ہے ایسے بدیہی نظاروں پر اعتراض کرنا سوائے اندھے کے اور کس کاکام ہے !! ایک قابل قدر لطیفہ اور باریک نکتہ القرن من القوم سیدھم.قرن سردار کے معنی میں بھی آتاہے اور قرن سوبرس کوبھی کہتے ہیں.یہ امر صاحب قاموس اللغہ نے بھی لکھاہے.یہ معنی بہ نسبت اور معنوں کے جو زمانہ کے متعلق اہل لغت نے کئے ہیں بہت صحیح ہیں کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریم نے ایک غلام (جوان یا لڑکے) کو کہا تھا عش قرنا تو ایک قرن زندہ رہ.تو وہ ایک سوسال زندہ رہااور علی رضی اللہ عنہ کو بھی ذوالقرنین کہتے ہیں کیونکہ نبی کریم نے فرمایا ہے ان لک بیتا فی الجنۃ وانک لذو قرنیھا کہ تو دونوں طرف جنت کا بڑا بادشاہ ہو گا.ظاہر میں تو یہ بات اس طرح صادق ہو گئی کہ آپ اپنے عہد مبارک میں عراقین کے مالک تھے اور دجلہ و فرات و جیحون و سیحون آپ کے تحت حکومت تھے اور اب بھی مدعیان اتباع مولیٰ مرتضیٰ علیہ السلام ہی اس ملک کے اکثر حصہ کے مالک وحاکم ہیں اور صحیح مسلم میں اس ملک کو جنت عدن کہا ہے پس ان روایات سے جن کو لغت والوں نے بیان کیا ہے ذوالقرنین کے معنی وسیع ہوگئے یہاں تک کہ اس امت میں بھی ایک ذوالقرنین گذرا.
اب ہم اپنے عہد مبارک میں جودیکھتے ہیں تو اس میں ایک امام ہمام اور مہدی آخر الزمان عیسیٰ دوران کو پاتے ہیں کہ وہ بلحاظ اس معنے قرن کے جس میں سو برس قرن کے معنی لئے گئے ہیں ذوالقرنین ہے جیسے ہمارے نقشہ سے ظاہر ہے اور اس قدر دونوں صدیوںکو اس ذوالقرنین نے لیا ہے کہ ایک سعادت مند کو اعتراض کا موقع نہیں رہتا بلکہ حیرت اور یقین ہوتا ہے کہ یہ کیسی آیہ بیّنہ اور دلیل نیّر اس امام کے لئے ہے اور اس ذوالقرنین نے بھی نہایت مستحکم دیوار دعاؤں اور حجج و دلائل نیرّہ کی بلکہ یوں کہیں کہ مسئلہ وفات مسیح اور ابطال الوہیت مسیح کی بنادی ہے کہ اب ممکن ہی نہیں یاجوج ماجوج ہماری جنت اسلام پر حملہ کر سکیں اور کبھی اس میں داخل ہو سکے.فجزاہ اللہ احسن الجزاء وعن الاسلام والمسلمین.سعدی نے مال وزر کو بھی سدّ بنایا تھا مگر وہ سدّ کیا سدّ تھی جیسے سعدی علیہ الرحمۃ نے کہا ہے.ترا سدّ یاجوج کفر از ز راست سنہ پیدائش حضرت صاحب مسیح موعود ومہدی ۱۸۳۹ء سنہ پیدائش حضرت صاحب مسیح موعود ومہدی ۱۸۳۹ء عمر حضرت صاحب سن عیسوی کس سن کی ایک صدی کا اختتام اور دوسرے کا آغاز ہوا.۱ ۱۸۴۰ء ۵۶۰۰ یہود ۸ ۱۸۴۷ء ۲۶۰۰ رومی ۹ ۱۸۴۸ء ۱۹۰۰ بکرمی ۱۳ ۱۸۵۲ء ۱۹۰۰ عیسوی انطاکیہ ۱۴ ۱۸۵۳ء ۲۶۰۰ بنونضر ۱۶ ۱۸۵۵ء ۱۹۰۰ حبولین عیسوی ۲۳ ۱۸۶۲ء ۱۹۰۰ ہسپانی
۲۷ ۱۸۶۶ء ۱۸۰۰ مکابیز ۲۹ ۱۸۶۸ء ۲۳۰۰ مٹانک سائیکل ۳۱ ۱۸۷۰ء ۱۹۰۰ اکشن ۳۴ ۱۸۷۳ء ۱۹۰۰ اکتیسی ۳۶ ۱۸۷۵ء ۲۰۰۰ صوریہ ۴۰ ۱۸۷۹ء ۱۸۰۰ تباہی یوروشلم ۴۳ ۱۸۸۲ء ۱۳۰۰ ہجری علی صاحبھا التحیۃ والسلام ۴۵ ۱۸۸۴ء ۱۶۰۰ ڈایو کلیشن ۴۶ ۱۸۸۵ء ۳۹۰۰ ابراہیمی ۴۸ ۱۸۸۷ء ۶۶۰۰ جولین ۴۹ ۱۸۸۸ء ۲۲۰۰ مقدونی ۵۱ ۱۸۹۰ء ۲۰۰۰ صدونیہ ۵۳ ۱۸۹۲ء ۵۹۰۰ منڈین ۵۳ ۱۸۹۲ء ۴۷۰۰ قسطنطنیہ ملکی ۵۵ ۱۸۹۴ء ۱۳۰۰ فضلی ۵۶ ۱۸۹۵ء ۱۶۰۰ صعودی ۵۹ ۱۸۹۸ء ۴۷۰۰ سکندری ۶۱ ۱۹۰۰ء ۱۹۰۰ عیسوی ۶۳ ۱۹۰۲ء ۷۵۰۰ یونانی منڈین
۶۹ ۱۹۰۸ء ۴۷۰۰ انطاقیہ مذہبی ۵۱ ۱۸۹۰ء ۱۳۰۰ فصلی الٰہی ۵۳ ۱۸۹۲ء ۱۳۰۰ فصلی ۵۴ ۱۸۹۳ء ۱۳۰۰ بنگلہ ۴ ۱۸۴۳ء ۱۹۰۰ بروسٹہ ۶۱ ۱۹۰۰ء ۱۹۶۰۸۵۳۰۰۰ آریہ سوال نمبر ۸۰.ذوالقرنین نے یاجوج ماجوج کو ا ٓ ہنی دیوار سے سمندر کے بیچ میں قید کر دیا.الجواب.آ ہنی دیوار سے سمندر کے بیچ میں قید کر دیا.یہ ایسا سیا ہ جھوٹ ہے جیسے تمہارا دل سیاہ اور دماغ سیاہ ہے اور تمہارا یہ نیا چنا ہوا مذہب تاریک ہے جس میں حق و حقیقت اور روحانی تعلیم کا نام ونشان نہیں.ذوالقرنین کی حقیقت تو ہم نے سوال نمبر۷۹میں لکھ دی ہے اور تمہارے جھوٹ کا جواب یہ ہے لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین.ہاں یاجوج وماجوج اور دیوار کا تذکرہ ضروری ہے سوسنو!مقدمہ تاریخ ابن خلدون میں جہاں اقلیم چہارم کا حال لکھا ہے وہاں لکھاہے کہ اس اقلیم کا دسواں حصہ جھیل قوقیاتک ہے اور اسی پہاڑ کو جھیل یاجوج ماجوج کہتے ہیں آخر کہا ہے کہ یہ تمام ترکوںکی شاخیں ہیں.صفحہ نمبر۶۰ ابن خلدون.پھر اقلیم خامس میں لکھا ہے کہ اس کا نواں جزوارض یاجوج وماجوج ہے اور اسی اقلیم کی جزو عاشر میں کہا ہے اور اس کی جزو عاشر میں ارض یاجوج ہے صفحہ ۶۵.پھر اقلیم ششم کابیان کرتے ہوئے صفحہ نمبر۶۷میں لکھاہے اور اسی اقلیم کی دسویں جزو میں بلاد ماجوج ہے پھر اقلیم ہفتم کے بیان میں کہا ہے کہ جبل قوقیا یہاں بھی ہے اور اس کی مشرق میںتمام ارض یاجوج ہے.اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ یاجوج بڑی بڑی شمالی بلاد میں پھیلی ہوئی قوم ہے.بائبل کی کتاب حزقیل کے باب ۳۸میں ہے اور میں ماجوج پر اور ان پر جو جزیروں میں بے پروائی سے سکونت کرتے ہیں ایک آ گ بھیجوں گا
اور وے جانیں گے کہ میں خداوند ہوں.‘‘اور اسی باب میں ہے توجوج کے مقابل جوماجوج کے سرزمین کا ہے اور روس مسک توبال کا سردار ہے‘‘.تمام ہمارے جغرافیوں میں جوعربی میں ہیں اور وہ جرمن.فرانس وغیرہ میں طبع ہوئے اور ہئیت کی کتابوں میں جیسے چغمینی اور اس کی شروح ہیں اور تمام بڑی لغت اور طب کے علمی حصہ کی کتابوں میں اس قوم کا ذکر ملتا ہے اور یہاں ہمیں کتابوں کے دکھانے کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ یہ یاجوج ماجوج کا لفظ اج سے نکلا ہے اور اسی سے اگ پنجابی میں اور آگ اردو میں بولاجاتاہے اور یہ تمام قومیں جوشیلی آگ کی طرح اور رنگت میں آگ سے تیز ہیں.اگنی ہوتر اور آگ میں اعلیٰ اعلیٰ چیزیں.مشک.دودھ.شہد ڈالتے ہیں اور اس وقت تمام یورپ کو آگ سے خاص تعلق ہے.آگ سے ایسے ایسے بڑے کام لے رہا ہے کہ حیرت ہوتی ہے.سورج کو بڑا عظیم الشان مرکز آگ کا یقین کرکے اس کی پرستش ہوتی ہے بلکہ عیسائی مذہب نے تو توریت کا عظیم الشان حکم سبت کا توڑکر سن ڈے بزرگ دن مانا ہے نیز اگر دیانند نے راست بازی اور تحقیق سے کہا ہے کہ آریہ ورتی شمال سے آئے توکوئی تعجب نہیں کہ یہ لوگ بھی انہیں یاجوج ماجوج کی شاخ ہوں لاکن اگر یہ ایران سے آئے ہیں تو پھر ذوالقرنین کے ملک سے ہیں جو یاجوج ماجوج کا مخالف تھا.پھر میں کہتا ہوں اس قوم یاجوج ماجوج کے ثابت کرنے کے لئے ہمیں کہیں دوردراز جانے کی ضرورت نہیں حقیقۃً ضرورت نہیں اس لئے کہ لنڈن میں ان دونوں قوموں کے مورثان اعظم کے اسٹیچو (بت)موجود ہیں غورکرو اور سنو! اس تحقیق میں بحمد اللہ نورالدین اول انسان ہے جس نے اردو میں اس کو شائع کیاہے افسوس ہمارے یہاں آج کل فوٹو گرافر نہیں والّا ہم ان کی تصویر بڑی خوشی سے شائع کرتے.اصل رسالہ میں یاجوج ماجوج کی تصویر بھی دی ہے اس تصویر سے ظاہر ہے کہ دوبڑے بڑے کندہ کئے ہوئے بت گلڈہال کی دیوار کے دوزاویوں پر دھرے ہوئے ہیں یہ دنیا بھر کے مشہور ومعروف دیویاجوج ماجوج ہیں ان کا گلڈہال سے ایک ایسا خاص تعلق ہے کہ اس پر کچھ لکھنا ضروری معلوم ہوتاہے.
اگلے زمانہ میں … لارڈ مئیر کی نمائش کے دن ان کو باہر لایاجاتا تھا کہتے ہیں کہ یہ بت اس لئے بنائے گئے تھے کہ زمانہ قدیم کے یاجوج ماجوج اور کارنیس (cornius)کی یادگار قائم رہیں جو اس جزیرہ (انگلستان)پر قدیم باشندوں سے جنگ کیا کرتے تھے.ایک عرصہ بعد ان دو لڑانے والوں میں سے ایک کانام بھول گیا تو دوسرے کے نام کودو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا (تاکہ دونوںکی یادگار قائم رہے)پھر یہ بھی روایتاً یقین کیا گیا ہے کہ ہمارے شہر لنڈن کی بنیاد اسی حملہ ا ٓور یاجوج ماجوج نے ڈالی تھی اوراوّل ہی اوّل اس کانام (Troy Vacum) یعنی نیاٹراے رکھا.یہ شہر سن عیسوی سے ایک ہزار سال پیشتر انگلستان بڑامشہور شہر ہوتا تھا.دونوں بت جو گلڈہال کے ورانڈے میں رکھے ہیں ہر ایک ساڑھے چودہ فٹ بلند ہے یاجوج جوبائیں پہلو کو ہے اس کے ہاتھ ایک لمبا عصاہے جس کے ساتھ زنجیر سے ایک گولا (کرہ)بندہا ہواہے وہ گولا میخوں سے پُر ہے.یہ ایک اوزار تھا جس کو تاریخ زمانہ وسطی میں صبح کا تارا بولتے تھے.علاوہ ازیں یاجوج کی پشت پر ایک کمان اور ترکش ہے جو تیروں سے پُر ہے.دائیں طرف دوسرابت ماجوج کا ہے جو ڈھال اور برچھی سے مسلح ہے اس نے ایسا لباس پہنا ہواہے جو رومیوں کی مذہبی سوسائٹی کے لوگ پہنا کرتے تھے جن کے زمانہ میں یہ بت بنائے گئے.(دیکھو صفحہ ۶۵،۶۶،۶۷،۶۸)رسالہ گائیڈ ٹودی گلڈہال لنڈن.ایک کتاب مصنفہ ٹامس بارہم مطبوعہ ۱۷۵۰ء میں لکھا ہے کہ موجودہ بتوں سے پہلے ان کی جگہ دو اوردیوتے تھے جو وصلی اور ٹہنیوں اور چھڑیوں سے بنے ہوئے تھے اور وہ لارڈ مئیر کے دن نمائش کے لئے باہر لائے جاتے تھے لیکن جب بسبب مدید زمانہ کے بوسیدہ ہوگئے تو ان کے قائم مقام موجودہ عظیم ا لشان ٹھوس بت تراش کر بنائے گئے وہ شخص جس نے ان کو بنایا تھا اس کانام کپتان رچرڈ سانڈرس تھا جس کو اس کاریگری کے عوض میں سترپونڈدئیے گئے.ہمارے مفسرین نے تو فرمایا ہے کہ وہ پہاڑ چاٹتے ہیں اور ان کو پیاز کے برابر کردیتے ہیں مگر میں بحمداللہ دیکھتا ہوں کہ انہوں نے پہاڑ.دریا.لوگوں کا مال.عزت.جاہ وسلطنت.بلند پروازی.
ہمت واستقلال سب کچھ کھا کر موسیٰ کے سانپ کی طرح تم دیکھ لو ڈکار بھی نہیں لیا بلکہ جیسے ہمارے ملک میں پادعیب ہے ان کے یہاں تو ڈکارعیب ہو گیا ہے اور ان کے کان تو اتنے لمبے ہیں کہ مشرق ومغرب تک کی آواز ہر روز سن کر سوتے اور اٹھتے ہی سنتے ہیں.زمانہ سابق میں جب کہ تارپیڈ و اور توپ کا عام موقع نہ تھا لوگ دیواروں سے حفاظت کاکام لیتے تھے جنہیں فصیل کہتے تھے.چنانچہ لاہور کی فصیل ہمارے سامنے گرائی گئی.امرتسر کی خندق وفصیل ہمارے سامنے ضائع کی گئی وغیرہ وغیرہ بلکہ دیانند اور منو جی نے فصیلوںکا اپنے شاستروںمیں ذکر فرمایا ہے جن کا آگے حوالہ آتاہے غرض اپنے اپنے وقتوں میں حملہ آورں کی حفاظت کے لئے لوگوں نے ایسی دیواریں بنائی ہیں اسی طرح چین کی دیوار مشہور عالم ہے.فضل بن یحیٰ برمکی نے اسلام میں ایک ایسی دیوار بنوائی.دیکھومقدمہ ابن خلدون اقلیم ثالث کابیان صفحہ ۵۴میں ہے کہ ترک اور بلادختل میں ایک ہی مسلک مشرق میں وہاں فضل نے ایک سدّ بنوائی.سدّ سبا ۸۱ ۹۷ سدّمآرب ۹۶ ۹۷ سدّیاجوج ماجوج ۲۰۶ تقویم البلدان اور بنام دربند صفحہ ۳۵ اور بنام حصن ذوالقرنین ۹۳ کتاب البلدان میں صفحہ۷۱، ۲۹۸، ۳۰۱ اور مراصدالاطلاع کے صفحہ ۱۱۱میں ہے دیکھو مراصد الاطلاع باب الباء والالف طبع فرانس جلد اول اور اسی کی تائید آثار باقیہ سے بھی ہوتی ہے.صفحہ ۴۱ کہ باب الابواب ایک شہر ہے بحر طبرستان پر جس کو لوگ بحر خرز کہتے ہیں اور وہ جبل قبق کے بہت دروں میں سے ایک درہ ہے اس درہ میں ایک دیوار کو انوشیروان (یہ نیا انوشیروان نہیں پرانا ہے) نے قوم خرز کے حملوں سے بچنے کے لئے بنوایا تھا کیونکہ خرزقوم فارس پر (یہ وہی فارس ہے جو میدیا
کی جزو ہے)ایسے حملے کرتے تھے کہ ہمدان اور موصل تک پہنچ جاتے تھے اور مراصدالاطلاع کی جلد نمبر ۲ باب السین والدال کے صفحہ نمبر ۱۷میں ہے کہ سدّ یاجوج ماجوج جس کا ذکر قرآن کریم میںہے وہ ترکوں کی آخری حد پر مشرق وغیرہ میں ہے اور اس کی خبر عام شہرت رکھتی ہے.سلام ترجمان کی خبرمیں اس کا مفصل بیان ہے پھر صاحب مراصد نے اس کی تفصیل کی ہے.غرض ایسی دیواریں ہوئی ہیں.چین کی دیوار بہت مشہور ہے حاجت ذکر نہیں اور اس کو ہم کسی صورت میں سدّ ذوالقرنین تسلیم نہیں کر سکتے اس لئے کہ قرآن کا طرز ہے کہ اہل کتاب کے جھگڑوں میں ایسے امور کو بیان کرتاہے جو غالباً اہل کتاب کی کتابوں میں ہوں اور اہل کتاب کی کتاب دانیا ل میں ہمیں ذوالقرنین کا حال صاف صاف ملتا ہے کسی چینی بادشاہ کا نام ذوالقرنین کتب سابقہ اور اسلامی روایات ولغت سے ثابت نہیں.یورال کی گھاٹیوں میں بھی ایسی دیواروں کا پتہ عرب کے بڑے بڑے جغرافیوں سے ملتا ہے.(۱).مراصد یاقوت حموی.مطبوعہ فرانس (۲).مسالک الممالک ابواسحاق ابراہیم الاصطخری الکرخی مطبوعہ برازیل (۳).تقویم البلدان.سلطان عمادالدین اسماعیل.پیرس (۴).نزہۃ المشتاق للادریسی (۵).آثار الباقیہ.احمد بیرونی.مطبوعہ جرمن (۶).مقدمہ ابن خلدون.طبع مصر (۷).المسالک والممالک.ابن حوقل.طبع لنڈن.یہ میرے پاس بحمد اللہ ہیں.ا ن میں یہی یاجوج وماجوج کا ذکر ہے.کتاب البلدان کے صفحہ ۳.۵.۹۵.۱۰۴.۱۹۳.۱۹۸.۳۰۱ اور مسالک الممالک ۶.۷ بلکہ ستیارتھ صفحہ۱۹۲
سملاس نمبر ۶فقرہ ۲۳۵میں شہر پناہ کے بارہ میں بھی حکم ہے کہ شہر کے چاروں طرف شہر پناہ رکھنا چاہیے.اسی قاعدہ کے موافق اس بادشاہ نے آرمینیہ اور آذربائجان کے درمیان جیسا بیضاوی وغیرہ مفسروں نے لکھاہے دیوار بنائی بلکہ اور اور دیواریں بھی ان بادشاہان میدوفارس نے بنائیں اور ایسی دیوار کیونکر تعجب اورانکار کا موجب ہو سکتی ہے جب کہ تمہارا منہ سیاہ کرنے کو سینکڑوں کوس کی لمبی دیوار چین میں اب بھی موجود ہے بلکہ ہم نے ایک دیوار کانٹے دار جھاڑیوںکی سینکڑوں کوس تک ہندوستان میں صرف سانبہر کی حفاظت کے لئے دیکھی ہے.اب بتاؤ ایسی صاف اور واقعی بات کیا اعتراض کا محل ہوسکتی ہے.سوال نمبر ۸۱.آسمان بغیر ستونوں کے ہیں.یہ (لقمان :۱۱) پر اعتراض کیا ہے اور کلمہ طیبہ (الجن :۱۰) پراعتراض کیا ہے جیسے کہا ہے چوکی پہروں سے آراستہ پیدا کئے گئے ہیں.جب شیطان چپ چاپ بات سننا چاہے تو ان کو ستارے توڑ کر مارتے ہیں.یہ آیات ہیں جن پر اعتراض کیا ہے ان آیات کو ہم آگے لکھیں گے.الجواب.آیت سوال نمبر1کا تویہ منشاء ہے کہ تمام بلندیاں کسی ایسے سہارے سے قائم نہیں جن کوتم دیکھ سکو.قرآن کریم میں ہے.(لقمان :۱۱) ترجمہ.پیدا کیا اس نے تمام آسمانوں کو بغیر کسی ایسے ستونوں کے کہ جو تم دیکھو ان کو.پس یہ کیسی صاف صداقت ہے جس کے خلاف کوئی عقل مند چون و چرا نہیں کر سکتا.نادان انسان !کیا تونے ان کرّوں کے باہر کسی ستون کو دیکھا ہے جو اعتراض کرتاہے.تمہارے مذہب میں ایشور کو محیط کل مانا ہے جب وہ ان آسمانوں کو محیط ہوا تو کیا وہ ستون تم دیکھ سکتے ہو؟نہیں ہرگز نہیں.سنو !اس کا نام آتما ہے جس کے معنی محیط کے ہیں پس اس صداقت پر کیا اعتراض ہے پھر اس کانام پرش ہے جس کے معنی محیط کے ہیں دیکھو ستیارتھ پرکاش صفحہ ۱۲،۲۴.دوسرے اور تیسرے نمبر کے جواب دینے
سے پہلے مجھے ضروری معلوم ہوتاہے کہ چند ایسے صاف اور بدیہی امور کوبیان کردوں جن کے ملحوظ رکھنے سے آیات نمبر۲ اور نمبر۳کے فہم میں بہت سہولت ہو کیونکہ اس سوال پر آج کل بہت زور دیا جاتا ہے اور عام کالجوں کے لڑکے اور وہاں سے نکل کر بڑے عہدوں پر ممتاز اور ان کے ہم صحبت ایسی باتوں پر بہت تمسخر کرتے ہیں.پس چند امور بدیہی کابیان کرنا ضروری معلوم ہوا.اوّل.مناظر قدرت کو دیکھنے والے مختلف الاستعداد لوگ ہوا کرتے ہیں مثلاً دوسرے کی آنکھوں کو ایک بچہ بھی دیکھتا ہے جو مصنوعی اور اصلی آنکھ میں تمیز نہیں کر سکتا.پھر ایک عقل مند بھی دیکھتاہے گو وہ اصلی اور مصنوعی میں فرق کر لیتا ہے مگر آنکھ کے ا مراض سے واقف نہیں ہوسکتا اور نہ اس کی خوبیوں اور نقصانوں سے آگاہ ہوتا ہے پھر شاعر دیکھتا ہے جو اس کے حسن و قبح پر سینکڑوں شعر لکھ مارتاہے.پھر طبیب وڈاکٹر دیکھتا ہے جو اس کی بناوٹ اور امراض پر صدہا ورق لکھ دیتا ہے.پھر موجد ین دیکھتے ہیں جیسے فوٹو گرافی کے موجد نے دیکھا اور دیکھ کر فوٹو گرافی جیسی مفید ایجادیں کیں.پھر اس کے اور وہ بہائی دیکھتے ہیں جنہوں نے عجیب درعجیب ٹیلس کوپ وغیرہ ایجاد کئے.پھر ان سے بالاتر صوفی دیکھتا ہے اوراس سے بھی اوپر انبیاء ورسل دیکھتے ہیں اور ان سب سے بڑھ چڑھ کر اللہ کریم دیکھتا ہے.غرض اسی طرح پر ہزاروں ہزار نظارہ ہائے قدرت ہیں اور ان کے دیکھنے والے الگ الگ نتیجے نکالتے ہیں.اب ہم شہاب ثاقبوں کے متعلق لکھتے ہیں.شہاب وہ چیزیں ہیں جنہیں انگریزی میں میٹارز کہتے ہیں.یہ توبچہ عامی.شاعر.حکیم سب یکساں دیکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ شہب گاہے گاہ نظر آتے ہیں اس سے توکوئی انکار نہیں کر سکتا.اب یہ بات کہ کیوں گرتے ہیں؟ اس پر خدا داد عقل والے بھی غور کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی جانتا ہے کہ کیوں گرتے ہیں اور نیز یہ بھی ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ حکیم ہے اس کاکوئی کام لغو اور بے حکمت نہیں ہوتا اس لئے ہم میٹارز کے متعلق عامیوں کے بے فائدہ نظارہ کو چھوڑ کر پہلے حکماء کا نظارہ بیان کرتے ہیں.
وہ لکھتے ہیں کہ میٹارز آسمان میں سے کرّہ ہوائی میں داخل ہو کرروشن ہوجاتے ہیں.ایسے ہر روز ۲۰ملین ہوا میں داخل ہوتے ہیں یہ چھوٹے اور عام اور روزانہ ہیں.رات کے پچھلے حصہ میں پہلے کی نسبت تین گنے زیادہ ہوتے ہیں.میٹارز کی فوج دورے کے ساتھ آتی ہے یہ دورہ صدی میں تین بارہوتاہے عموماً نومبر کے مہینہ میں اور بڑے بڑے دورے مفصلہ ذیل ہیں.۲۸۶ ہجری و ۵۹۹ ہجری (مئی ۶۱۰ء) ۹۰۲ء و ۹۳۱ء و ۱۰۰۲ء و ۱۱۰۱ء و ۱۹جنوری ۱۱۳۵ء و ۱۲۰۲ء و ۱۳۶۶ء و ۱۰مارچ ۱۵۲۱ (میں حیرت بخش رمی ہوئی) ۱۵۳۳ء و ۱۶۰۲ء و ۱۶۹۸ء و ۱۷۹۹ء و ۱۸۲۳ء و ۱۸۶۶ء و ۱۸۷۲.بعض میٹیارز سورج کے گرد شکل کانک سکشن (انقطاع خرطومی) میں دورہ کرتے ہیں.میٹیارز کائٹ کے گرد بہت ہوتے ہیں وہیں سے آتے ہیں جن دنوں کائٹ نمودار ہوتاہے ان دنوں میں یہ بھی کثرت سے گرتے ہیں خود کائٹ بھی ایک میٹیارز ہے.کیمیکل (کیمیاوی) امتحان سے معلوم ہوا ہے کہ مفصلہ ذیل اشیاء میٹیارز میں پائے جاتے ہیں اور کوئی چیز نہیں پائی جاتی.لوہا.ایکومینی ام.میگ نے سی ام.پوٹاسی ام.سی لی کن.سوڈیم.اکسیجن.کیل کی ام.نکل.آرسینک.کابلٹ.فاسفورس.کرونیئم.نائیٹروجن.مگیے نیسی.سلفر.کلورائین.کاربن.ٹی ٹے نی ام.ہائی ڈروجن.ٹین.تانبا.تمام مقامات جن میں میٹیارز جمع کئے گئے ہیں یورپ میں وائنا.پیرس.لنڈن.برلن اور امریکہ میں نیو ہیون ایمہرسٹ.لوئزول.یہ پتھر عموماً بڑے نہیں ہوتے.عجائب خانہ میں ایک سوپونڈ سے زیادہ وزن کے کم پتھر کم ہی پائے جاتے ہیں ایسی بارش ان پتھروں کی شاذ ونادر ہی ہوئی ہوگی جس میں کل پتھروں کا وزن ہزار پونڈ تک پہنچا ہو.مقام پلٹسک کے نوسو پچاس سالم پتھر پیرس کے عجائب خانہ میں موجود ہیں جن میں سے ہر ایک کا اوسط وزن ۶۷گرام ہے یعنی اڑھائی اونس سے بھی کم ہے.سٹاک ہولم کے عجائب خانہ میں ایک پتھر کا وزن ایک گرین سے بھی کم ہے.مقام ایمٹ کی بارش میں ایک پتھر قریباً ۵۰۰پونڈ کاگرا تھا.
میٹی ارک آیرن.اس قسم کا ایک ٹکڑا ۱۶۳۵ پونڈ وزنی بیل کالج میوزیم میںموجود ہے.قریباً اتنے ہی حجم کا ایک ٹکڑا پیرس کے میوزیم میں ہے.اس سے کسی قدر چھوٹا ٹکڑا شہر واشنگٹن کے نیشنل میوزیم میں ہے اور ا ن سے ایک بہت بڑا ٹکڑابرٹش میوزیم میں ہے.دوسرا امر یہ ہے کہ ہم اس مذہب کی تحقیق بیان کرتے ہیں جس کو پال نے مذہب اسلام سے اوپر یقین کیا ہے اور بتایا ہے کہ اسلام سے وہ مذہب اچھا ہے اس کی ا ٓ خری تحقیقات کی کتاب مکاشفات کے باب ۱۲میں ہے.’’ایک بڑا سرخ اژدہا جس کے سات سر اور دس سینگ اور اس کے سروں پر سات تاج تھے ظاہر ہوا اور اس کی دم نے ا ٓسمان کے تہائی ستارے کھینچے اور انہیں زمین پر ڈالا‘‘ اور اسی باب میں ہے پھر آسمان پر لڑائی ہوئی میکائیل اور اس کے فرشتے اژد ہے سے لڑے اور اژدہا اور اس کے فرشتے لڑے.پھر متی ۲۴باب ۲۹آیت’’ ستارے گریں گے‘‘اور بروج کے متعلق مسیحی کتابوں میں ہے.دیکھو ایوب ۳۸باب ۳۲آیت.’’کیا تجھ میں قدرت ہے کہ منطق البروج ایک ایک اس کے موسم پر پیش کرے.‘‘ اور شہابوںکے بارے ان میں لکھا ہے دیکھو ایوب ۳۸باب۳۶ آیت میں ہے.یا کس نے شہابوں کو فہمید عطا کی.اس سے اتنا پتہ لگتا ہے کہ شہابوں کو بھی فہمید ہے پر آگے بیان نہیں کیا کہ کیا فہمید ہے اور اس فہمید سے کیا کام لیتے ہیں؟ اور زبور ۱۰۴میں ہے وہ اپنے فرشتوں کو روحیں بناتاہے اور اپنے خدمت گزاروں کو آگ کا شعلہ.اب تک ہم نے یہ باتیں بیان کی ہیں کہ می ٹی ارز.الکاپات.شہاب ثاقب اور شعلہ ہائے نار آسمان سے گرتے نظر آتے ہیں اور کتب یہود اور مسیحیوں نے بھی نہیں بتایا کہ کیوں گرتے ہیں او ر یہ بات ظاہر ہے کہ یہ فعل الٰہی ہے اس لئے لغو بھی نہیں بلکہ ضرور ہے کہ عادۃ اللہ کے موافق اس میں بڑی حکمتیں ہوں.اب تیسرا امرجو اس مضمون میں مجھے بیان کرنا ہے یہ ہے کہ الہامی مذاہب قائل ہیں کہ
دیوتا.ملک اور فرشتے موجود ہیں اور ان کا ماننا ضروری ہے کیونکہ الٰہی کلام میں ان کا ذکر ہے اور شیاطین اور جنّ بھی ہوتے ہیں اور ان کی مخالفت کرنا ضروری ہے میں بھی الہامی مذہب اسلام کا معتقد ہوں اور اس کی پاک کتاب میں پاتاہوں.(البقرۃ:۲۸۶)رسول ایمان لایااس پر جو اتارا گیا اس کی طرف اس کے رب سے اور مومن بھی سب کے سب ایمان لائے اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر.اس لئے میں فلاسفروں.سائنس دانوں.برہموؤں اور آریہ سماجیوں کے لئے ایک دلیل وجود ملائکہ پراور ان پرایمان لانے کی ضرورت کی وجہ بیان کرتاہوں شائد کوئی رشید اور سعادت مند اس پر توجہ کرے.سب سے پہلے میرے نزدیک ہزاروں ہزار انبیاء ورسول جو راست بازی میںضرب المثل تھے اور ان کے مخلص اتباع کا اعتقاد اس بارے میں کہ ملائکہ اور شیاطین ہیں بہت بڑی دلیل ہے مگر ایک دلیل مجھے بہت پسند آئی ہے جسے میں پیش کرتاہوں اور دلیری سے پیش کرتا ہوںکیونکہ وہ میرے باربار کے تجارب میں آچکی ہے اور وہ یہ ہے تما م عقلاء میں یہ امر مسلّم ہے کہ اس زمین کاکوئی واقعہ بدوں کسی سبب کے ظہور پذیر نہیں ہوتا بلکہ صوفیاء کرام اور حکمائے عظام اس بات پر متفق ہیں کہ کوئی امر حقیقت میں اتفاقی نہیں ہواکرتا تمام امور علل اور حکم سے وابستہ ہوتے ہیں اب میں پوچھتا ہوں کہ تنہائی میں بیٹھے بیٹھے نیکی کاخیال بدوں کسی تحریک کے کیوں اٹھتا ہے بلکہ بعض وقت ایسا ہوتاہے کہ ارد گرد بدکاربدیوں کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ بعض لوگوں کو دیکھا ہے کہ بدی کے عین ارتکاب و ابتلاء میں ان کو نیکی کی تحریک اور رغبت پیداہوجاتی ہے.کوئی بتائے کہ اس تحریک نیک اور رغبت پسندیدہ کا وقوع کیوں ہوا؟آیا بلاسبب اور اتفاقی طور پر؟یہ توباطل ہے کیونکہ تجارب نے اس کو باطل ٹھہرایاہے.پس لامحالہ نیکی کا محرک ضرور ہے اسی نیکی کے محرک کو
اسلامی کتب اور شریعت میں ملک کہتے ہیں اور ان کے اس تعلق و تحریک کو لمۃ الملک کہا گیاہے وہ ملک لطیف اور پاک روحیں ہیں جنہیں قلوب انسانی سے تعلق ہوتاہے اور ہر وقت قلوب کی تحریک میں لگے رہتے ہیں اور ان کے مدمقابل اور ان کی تحریک کے مخالف شیاطین اور ابلیسوں کی روحیں ہیں جوبدی اوربدکاری کی محرک ہیں ا ن کے اس تعلق کانام لمۃ الشیطان ہے.ایمان بالملائکہ کے معنی اور اس کا فائدہ شریعت اسلام میں حکم ہے کہ فرشتوں پر ایمان لاؤ.اس کامطلب یہ ہے کہ جب جب وہ تم کو نیکی کی تحریک کریں تو معاً اسی وقت اس نیکی کو کر لو توکہ اس نیکی کے محرک کا تعلق تم سے بڑھے اور وہ زیادہ نیکی کی تحریک دے بلکہ اس کی جماعت کے اور ملائکہ بھی تمہارے اندر نیکی کی تحریکیں کریں اور اگر اس تحریک کونہ مانوںگے تو اس ملک نیکی کے محرک کو تم سے نفرت ہوجائے گی اس لئے ضروری ہوا کہ ملائکہ سے تعلق بڑھاؤ توکہ نیکی کی تحریک بڑھے اور آخر وہ تمہارے دوست بن جاویں.قرآن کریم میں اس نکتہ کو یوں بیان فرمایا ہے: . (حٰمٓ السّجدہ : ۳۱،۳۲) جن لوگوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر اس اقرار پر پختہ ہوگئے ان پر فرشتے اترتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ نہ ڈرو اور نہ غمگین ہو اور خوشی مناؤ اس جنت کی کہ جس کا تمہیں وعدہ دیاجاتاتھا.ہم دنیا میں اور آخرت میں تمہارے ساتھی ہیں.اور فرمایا ہے : (الانفال :۲۵) اور یقین جانو کہ اللہ انسان اور اس کے دل کے درمیان روک ہوجاتا ہے اور اسی کی طرف تم اٹھائے جاؤ گے.
اوران ملائکہ کے مدمقابل یاضد ظلمت وہلاکت دوری اور عدم کے فرزند شیاطین اور ارواح خبیثہ ہیں.ان کے تعلقات سے ان کی جماعت دوست بنتی ہے آخر اللہ تعالیٰ پھر فرشتوں.ملائکہ.دیوتا.اہرمن.ارواح خبیثہ.اسر.شیاطین کے تعلقات سے ان مظاہر قدرت سے تعلقات پیدا ہوجاتے ہیں.پھر آخرکار اچھے لوگوں کو اور اچھے لوگوں سے پیوستگی ہوجاتی ہے اور بروں کو اور بروں سے بلکہ یہ تعلقات اس قدر ترقی پذیر ہوتے ہیں کہ ذرات عالم میں اچھے ذرات کا اچھوں سے تعلق ہوتاہے اور برے موذی دکھ دائک ذرات کا بروں سے.کیا کوئی شخص تاریخی مشاہدات اور تجارب صحیحہ سے ہمیں بتا سکتاہے کہ آتشک اور خاص سوزاک.جذام اور گھناؤنے اور گندے گندے امراض اور جان گداز ناکامیاں ماموروں.مرسلوں اوران کے پاک جانشینوں کولاحق ہوتی ہیں یا ان کے مخالفوں کو؟ قرآن کریم کیسے زور سے دعویٰ فرماتا ہے کہ مقبولان ومقربان الٰہی کے یہ سچے نشان ہیں اسی واسطے کوئی صحابی حضرت خاتم النبیین بہرہ نہیں ہوا.(المجادلۃ :۲۳) یہی لوگ خدا کی جماعت ہیں اور یادرکھو خد ا کی جماعت مظفر ومنصور ہے.(المنافقون :۹) اور غلبہ سدا اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کے لئے ہے لیکن منافق نہیں جانتے.(المومن :۵۲) ہم ضرور کامیاب کرتے ہیں اپنے رسولوں اور مومنوں کو دنیا کی زندگی میں اور پیش ہونے والوں کے پیش ہونے کے دن میں.اس جنگ اور اولیاء اللہ کی کامیابی کے متعلق جسے دیو اسر سنگرام کہتے ہیں ہم نے اس رسالہ میں بہت جگہ تذکرہ کیاہے.
چوتھا امرقابل بیان یہ ہے کہ وسائل ووسائط کو تمام دنیا کے مذاہب ضروری تسلیم کرتے ہیں کافر ومومن.جاہل و عالم.بت پرست و خدا پرست.سو فسطائی دہریہ جناب الٰہی کا معتقد غرض سب کے سب وسائل ووسائط کو عملاً مانتے ہیں.کون ہے جو بھوک کے وقت کھانا.پیاس کے وقت پینا.سردی کے وقت کوئی دوائی یا گرمی حاصل کرنے کاذریعہ اختیار نہیں کرتا.مقام مطلوب پرجلدی پہنچنے کے لئے میل ٹرین یا اسٹیمرکو پسند نہیں کرتا.اگر مومن صرف حضرت حق سبحانہٗ کی مخلصانہ عبادت کرتا اور شرک اور بدعت اور اہواسے پرہیز کرتاہے تو غرض اس کی اسے ذریعہ قرب الٰہی بنانا ہوتا ہے اور بت پرست اگرچہ حماقت سے بت پرست ہے مگر کہتاوہ بھی یہی ہے کہ (الزمر :۴) ہم تو ان کو خدا کے قرب کا ذریعہ سمجھ کر پوجتے ہیں.اگرچہ یہ ان کا کہنا اور اس کا عمل درآمد غلط ہی ہے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اسباب صحیحہ بھی ہوتے ہیں اور ایسے اسباب بھی ہیں جن کا مہیا کرنا مومن کا کام ہے اور ایسے بھی ہیں جن کا مہیا کرنا عام عقل مندوں اور داناؤں کاحصہ ہے.اور ایسے بھی ہیں جن کو سبب ماننا باعث شرک ہے اور ایسے بھی ہیں جن کوسبب خیال کرنا جہالت اور وہم اور حماقت ہے.تعجب انگیز بات ہے کہ بہت سے فلاسفر.سائنس دان اور حکماء علل مادیہ اور اسباب عادیہ پر بحث کرتے کرتے ہزارہا نکات عجیبہ اور دنیوی امور میں راحت بخش نتائج پر پہنچ جاتے ہیں مگر روحانی ثمرات پر ہنسی ٹھٹھے کرجاتے ہیں وجنوب شمال کو قطب اور قطب نما کی تحقیق میں اور اس پر مشرق ومغرب کو چھان مارا ہے اور سورج اور چاند کی کرنوں سے اور روشنیوں سے بے شمار مزے لوٹے ہیں لیکن اگر کسی کو انہیں نظاموں سے ہستی باری پر بحث کرتا دیکھ لیں تو اس کے لئے مذہبی جنون اور اس کو مجنون قرار دیتے ہیں کیسا بے نظیر نظارہ ہے جس کوایک اسلام کا حکیم نظم کرتاہے.اشقیا درکار عقبیٰ جبری اند اولیاء درکار دنیاجبری اند علم ہندسہ جس کی بناء پر آج انجینئرنگ اور اسٹرانومی معراج پر پہنچ گئی ہے.سوچ لو کیسے فرضی امور
ر سطح مستوی اور نقطہ سے جس کو سیاہی سے بناتے ہیں اور قلم کے خط سے شروع ہوتا ہے خط استویٰ.جدی سرطان.افق نصف النہار وغیرہ سب فرضی باتیں ہیں مگرا س فرض سے کیسے حقائق مادیہ تک پہنچ گئے ہیں لیکن اگر ان بدنصیبوں کو کہیں کہ مومن بالغیب ہوکر دعاؤں اور نبیوں کی راہوں پر چل کر دیکھو تو کیا ملتاہے! تو ہنس کر کہتے ہیں کیا آپ ہمیں وحشی بنانا چاہتے ہیں ؟میں نے بارہا ان (مادیوں) کو کہاہے تندرست آنکھ بدوں اس خارجی روشنی اور تندرست کان بدوں خارجی ہوا کے اورہمارا نطفہ بدوں ہم سے خارج رحم کے بہت دور کی اشیاء بدوں ٹلس کوپ کے باریک درباریک اشیاء بدوں مائکرس کو پ کے.دوردراز ملکوں کے دوستوں کی آوازیں بدوں فونوگراف کے اور ا ن کی شکلیں بدوں فوٹوگرافی کے نہیں دکھائی دیتیں.اب جب کہ تم ان وسائط کے قائل ہو اور اضطراراً قائل ہوناپڑتا ہے تو روحانی امور میں کیوں وسائط کے منکر ہو؟ خدا تعالیٰ کی ہستی کو مان کر بھی تم ملک اور شیاطین کے وجود پر کیوں ہنسی کرتے ہو افسو س اس کا معقول جواب آج تک کسی نے نہیں دیا.ناظرین! جس طرح سچے وسائط ہمارے مشاہدات میں ہیں اسی طرح سچے وسائط مکشوفات میں بھی ہیں.جس طرح مشاہدات میں الٰہی ذات وراء الورا ہے اور ضرور ہے.اسی طرح الٰہی ذات روحانیت میں بھی وراء الورا ہے.اگر روحانیت میں بھی بعض وسائط غلط اور وہم ہیں تو مشاہدات بھی اس غلطی سے اوروہم سے کب خالی ہیں! فرشتے آسمان اور آسمانی اجرام اور ان کے ارواح کے لئے بطورجان کے ہیں شیاطین بھی ہلاکت ظلمت اور جناب الٰہی سے دوری اور دکھوں کے پیداکرنے کے لئے بمنزلہ اسٹیم کے اسٹیم انجن کے لئے ہے.خلاصہ امور چہار گانہ مذکور (۱) مظاہر قدرت کے دیکھنے والے اعلیٰ بھی ہوتے ہیں اور ادنیٰ بھی.ادنیٰ کو اعلیٰ کی رویت.رویت کا انکار مناسب نہیں.(۲) الکاپات.مٹی ارز.شعلے ایک عظیم الشان کارخانہ ہے اور اس میں اس قدر مواد ہوتے ہیں کہ اسلحہ کے بنانے والوں نے اورٍ
ستیارتھ والے نے جو ہتھیار لکھے ہیں ان میںا تنے مواد مشتعل نہیں ہوتے.پس کیا وہ صرف اس لئے گرتے ہیں کہ چند عجائب خانوں میں پڑے رہیںاور خدا کایہ عظیم الشان فعل لغوہے؟ نہیں ہرگز نہیں.(۳)فرشتے ملک.سر.شیاطین.اہرمن اسر ہیں اور ان کا باہم عداوت کا رشتہ ہے ا ن کی جنگ نوروظلمت بلکہ عدم ووجود کے جنگ ہے.(۴)اگر وسائط غلط اور برے ہیں تو وسائل صحیحہ اور عمدہ بھی ہیں.اب ہم آیات کاترجمہ لکھتے ہیں جن میں اس جنگ کا تذکرہ ہے اور پوچھتے ہیں انصاف سے بتاؤ کہ آریو !کیا تمہارا کام تھا کہ تم انکار کرتے.۱. (الحجر:۱۷تا۱۹) ضرور ہم نے ہی بنائے آسمان میں روشن اجرام اور خوبصورت بنایا انہیں دیکھنے والوں کے لئے اور محفوظ رکھا ہم نے انہیں ہر ایک خدا سے دور یا ہلاک شوندہ تکہ باز یا مردود سے ہاں اگر کوئی چھپ کر سننا چاہے تو اس کے پیچھے لگتے ہیں شہاب ثاقب.میٹیارز.الکاپات.۲.(الصّٰفّٰت :۷تا۱۱) ہم نے خوشنما بنایا اس ورلے آسمان کو کواکب کی زینت سے اور محفوظ کر دیا ہم نے اسے ہر ایک خدا سے دور یا ہلاک ہونے والے متکبر ضدی سے.ملاء اعلیٰ کی باتیں نہیں سن سکتے اور ہرجانب سے دھکیلے جاتے ہیں دھتکارے جاتے اور ان کے لئے دائمی دکھ دینے والا عذاب ہے ہاں اگر کوئی جھٹی مارے تو اس کے پیچھے لگتے ہیںشہاب ثاقب.میٹیارز.الکاپات.۳.
(الملک :۶)ہم ہی نے مزین کیا اس ورلے آسمان کو روشن چراغوں سے اور کردیا ہم نے انہیں مار شیاطین کے لئے اور تیار کردیا ہم نے ان کے لئے جلنے کا عذاب.۴.(الجن :۱۰) تحقیق ہم بیٹھتے تھے بیٹھنے کی جگہوںمیں سننے کے لئے.پس اب اگر کوئی بات سننا چاہے پاتا ہے اپنے لئے شہاب انتظار میں.تم ہندیوں اور عام یورپ والوں سے تو طائف کے عرب نمبردار ہی اچھے نکلے.اس کی تفصیل یہ ہے کہ نبی کریم کے عہد ۶۱۰ء سعادت مہد میں مٹی ارز غیر معمولی بکثرت نظر آئے تو عام طور پر لوگوں نے خیال کیا کہ آسمان تباہ ہو چلا.اس لئے لگے اپنی مویشیوں کو ذبح کرنے.تب ا ن کے نمبردار عبد یا لیل نے کہا کہ اگر وہ ستارے نظر آتے ہیں جن سے تم لوگ راہنمائی حاصل کرتے ہو تو جہان خراب نہیں ہو گا.یہ ابن ابی کبشہ (ہمارے نبی کریم کی طرف اشارہ کرتا ہے)کے ظہور کا نشان ہے.ابن کثیر میںہے انالمسنا السماء کے نیچے ہی ابن جریر کہتاہے اس آیت کے نیچے کہ آسمان کی حفاظت دوباتوں کے وقت ہوتی ہے یا عذاب کے وقت یا ارادہ الٰہی ہوکہ زمین پر اچانک عذاب آجاوے یا کسی مصلح راہ نما نبی کے وقت اور یہی معنے ہیں اس آیت شریفہ کے.(الجن :۱۱) یعنی ستاروں کے گرنے کو دیکھ کر وہ لوگ کہنے لگے کہ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ آیا زمین والوں کے لئے تباہی کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے رب نے انہیں کوئی فائدہ پہنچانا ہے.خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ مصلح کے تولد، ظہور اور اس کی فتح مندی پر حزب الرحمن اور حزب الشیطان کی جنگ پہلے اوپر ہوتی ہے پھر زمین پر.آیت کریمہ (النازعات : ۶)(الذاریات :۵)(الطارق :۵) کے نیچے حضرت شاہ عبد العزیز صاحب نے مفصل لکھا ہے کہ فرشتے بروج پر اثر ڈالتے ہیں اور
ان سے ایک اثرہوا اور دیگر اشیاء پر پڑتا ہے اور ملائکہ کا اثر شہب میں بھی نفوذ کرتاہے.۲۸نومبر ۱۸۸۵میں ۲۷اور ۲۸نومبر کی درمیانی رات میں غیر معمولی کثرت سے شہب گرے تو اس وقت ہمارے امام ہمام علیہ السلام کو اس نظارہ پر یہ وحی بکثرت ہوئی.دیکھو صفحہ ۲۳۸.براہین احمدیہ.یا احمد بارک اللہ فیک.ما رمیت اذ رمیت و لٰکن اللّٰہ رمٰی اور اسی کے بعد دمدار ذوالسنین نظر آیا اور ۱۸۷۲ء کی رمی شہب غیر معمولی تھی.والحمد للّٰہ رب العالمین.پس یہ اور کل کواکب زینت سماء الدنیا ہیں اور روحانی عجائبات کی علامات ہیں اور نیز ان سے راہ نمائی حاصل ہوتی ہے یہی تین فائدے بخاری صاحب نے اپنی صحیح میں بیان فرمائے ہیں.اب اس سوال کا جواب ختم کرتے ہیں مگر قبل اس کے کہ ختم کریں آیات ذیل کا بیان بھی مناسب معلوم ہوتاہے.(الشعرآء : ۲۱۱تا۲۱۳)(الشعرآء : ۲۲۳) اللہ سے دور ہلاک ہونے والی خبیث روحوںکے ذریعہ یہ کلام الٰہی نازل نہیں ہوا اور ان کے مناسب حال بھی نہیں اور ایسا کلام لانے کے لئے و ہ طاقت ہی نہیں رکھتے بے ریب ایسا کلام سننے سے وہ الگ کئے گئے ہیں کیونکہ تمام شیطانی کاموں کا قرآن مجید میں استیصال ہے بھلا شیطان اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مارتاہے ؟شیاطین تو ہر ایک کذاب ،مفتری،بہتانی،بدکار پرنازل ہوا کرتے ہیں.سوال نمبر ۸۲.رمضان میں رات کوکھایا کرو.چرند پرند اور کیڑے رات کو آرام کرتے ہیں مگر روزہ دار کو پیٹ کی پڑی.غرب میں تویہ قانون چل گیا مگر قطب شمالی وجنوبی میں کیا کیا جاوے گا.الجواب.انسان چرند پرند نہیں نہ ان پر اور ان کے کاموں پر انسان کے کام چلتے ہیں.وہ تو وید بھی نہیں پڑھتے کیا انسان بھی نہ پڑھیں.مگر یہ تو بتاؤ کہ رگوید آوی بھاش بہومکا کے لکھنے والا اتنی
عقل بھی نہیں رکھتا تھا جس قدر تمہاری عقل ہے.گو وہ گریجوایٹ بی اے نہ تھا کہ وہ ۱۸۴ میں لکھتا ہے جو شخص اتی راتربرت کو پیرایہ مینیہ یگیہ کا جزو ہے پورا کر کے اسنان کرتا ہے اسے تیرتھ کہتے ہیں سوم یگیہ کے موقعہ پر آدھی رات کے قریب یگیہ سے فارغ ہوکر دودھ وغیرہ پینے کو کہتے ہیں.یہ آدھی رات کو دودھ وغیرہ پینا کیسا ہے؟ قطب شمالی پر وہی کیا جاوے گا جو اب تک کیا جاتا ہے اور قرآن نے ہم کو بتایا کیا تم کو نہیں پڑھایا گیا کہ دو وقت سندھیا کرو تین وقت نہیں.سندھیا کے لئے رات اور دن کا باہمی ملنا یہ مقرر وقت ہے اس لئے دن اور رات کے ملاپ میں یعنی طلوع اور غروب آفتاب کے وقت پرمیشور کا دھیان اور اگنی ہوتر ضرور کرنا چاہئے.جو شخص یہ دونوں کام صبح و شام کے وقت نہ کرے اس کو بھلے لوگ سب دو جون کے ناموںسے باہر نکال دیں یعنی اس کو شودر کی مانند سمجھیں.سوال تین وقت سندھیا کیوں نہیں کرتے؟ جواب تین وقت میں سندہی اتصال نہیں ہوتی.روشنی اور تاریکی کا ملاپ بھی شام اور صبح دو وقت ہی ہوتا ہے.سملاس نمبر ۲ نمبر ۶ صفحہ ۱۲۷.پس عبادت کے دو ہی وقت ہیں اس سے زیادہ نہیں.اب بتاؤ کہ گرین لینڈ میں یہ قاعدہ وید کا کس طرح چلتا ہے اور کیونکر.ایک بار مَیں لاہور میں گیا تو وہاں کئی ایک نوجوان میرے پاس آئے اور یہی گرین لینڈ کا سوال پیش کیا اور قریب تھا کہ وہ کہہ دے کہ صاحبِ اسلام کو اس ملک کی آگہی نہ تھی.مَیں نے اس سے کہا کہ چور کا ہاتھ کاٹنا قرآنی حکم اور اسلام کا عملدرآمد تھا اور ہاتھ کٹے چور مسلمان بھی ہوجاتے اور ہوتے تھے.نمازیں بھی پڑھتے تھے اور قرآن کریم میں وضو اور تیمم کے وقت دونوں ہاتھوں کا دھونا یا مسح کرنا ضروری تھا.پر چور ہاتھ کٹے ہاں ہاتھ کا مسئلہ کیوں چھوڑ دیا گیا.بات یہ ہے کہ عقلمند انسان کو اللہ تعالیٰ نے عقلمند بنایا ہے.کیا مناسب نہیں انسان کہیں عقل سے بھی کام لے جہاں ہاتھ ہی نہیں انکا دھونا کیسا اور جہاں ماہ رمضان نہیں وہاں رمضان کے روزے کیا معنی اور بھی بہت قسم کے جواب ہیں مگر تمہارے مذاق کے لئے ایک راہ پر ہمیں چلنا ہے اور چونکہ تم
مذہبی آدمی کہلاتے ہو تمہیں اسی رنگ کا جواب دینا ضروری معلوم ہوا.اگر سائنس دان اس طرح کا اعتراض کرتا تو اس کے مناسب حال اس کے جواب کو حاضر ہیں.ہم نے اسلام کو مذاہب الہامیہ.سوفسطائیہ.دہریہ اور سائنس دان سب کے سامنے کیا ہے اور کریں گے اور کامیا ب ہوئے اور ہوں گے.دیانند نے تو دوپہر اور نصف اللیل کی سندھیا سے انکار کر دیا ہے کہ وہ وقت لیل ونہار کے ملنے کا نہیں تو گرین لینڈ میں بتاؤ سندھیا کیونکر کی جاوے مگر وید سے جواب دینا ہمارے جواب سے جی نہ چرانا انصاف شرط ہے اگر طلب حق کی پیاس ہے.کیا روزے دار مسلمان فاتح نہیں ہوئے اور کیا روزے دار کراڑوں.ہندؤوں آریہ سے کمزور ہیں.کیا روزے دار آریہ ورت کے فاتح نہیں ہوئے.روزے دار کا سرّیہ ہے کہ سلیم الفطرت پیاس کے وقت گھر میں دودھ.بالائی.برف رکھتا ہے کوئی اس کو روکنے والا نہیں.بھوک کے وقت گھر میں انڈے مرغیاں پلاؤ موجود اور کوئی روکنے والا نہیں.قوت شہوانیہ موجود گھر میں اپسرا دلربا موجود پھر اس کے نزدیک نہیں جاتا صرف الٰہی حکم کی پابندی سے وہ رکتا ہے.اس مشق سے وہ حرامکاری حرامخوری سے کس قدر بچے گا ! مگر یہ تو بتاؤ کہ سمادھی کا حبس نفس چرند پرند کرتے ہیں اور کاربن کا روکنا مفید ہو سکتا ہے؟پرانا یام میں آریہ سانس بند کرتے ہیں.سوال نمبر ۸۳.خدا نے زمین وآسمان کو اپنے ہاتھ سے بنایا اور خدا کوتھکان نہ ہوئی.ہاتھ سے بنانے کی کیا ضرورت تھی.کن سے بناتا وغیرہ وغیرہ.الجواب.کیا اللہ تعالیٰ کے حضور تمہارے مشورے کی بھی ضرورت ہے ؟پرمیشر احکم الحاکمین حضرت رب العٰلمین سرب شکتیمان ہیں.القادر الصمد اور الغنی ہیں.پھر سرشٹی کو میتہنی کیوں بنایا.پھر کیا ضرورت تھی کہ عورتوں سے صحبت ہو.ان میں مرد کا نطفہ پڑے اور بشکل لڑکا ایک تنگ سوراخ سے نکل کر محنت و مشقت سے جوان ہو.زمیندار اور گاؤماتا کے بچے دکھ اٹھاویں اور غلہ پیدا ہو.
زیر اعتراض یہ آیتیں ہیں:(الذاریات :۴۸) (قٓ:۳۹) کس قدر صاف اور صریح بات ہے مگر بد فطرت نکتہ چین ہر ایک حسن کو بدصورتی ہی قرار دیتا ہے.اس میں ایک لفظ ید ہے.جس پر صفات الٰہیہ سے جاہل کو اعتراض کا موقعہ مل سکتا ہے.اس لفظ اور صفات الٰہیہ کی حقیقت ہم پہلے صفحہ ۱۴۴ سوال ۲۷ میں بیان کر چکے ہیں.ہم نے وہاں بیان کیا ہے کہ صفات اپنے موصوف کی حیثیت اور طرز پر واقع ہوتی ہیں.مثلاً چیونٹی کا ہاتھ،میرا ہاتھ ،شیر کاہاتھ اور مثلاً اس وقت ہند کی حکومت لارڈ کرزن کے ہاتھ میں ہے.بے ہودہ بکواس کرنا،اناپ شناپ کہہ دینا اور بدوں علم وفہم کے اوربدوں اس کے کہ ویدوں کا تمہیں علم ہو ویدوں کی تائید میں گالی دینا جھوٹ بولنا تمھارے ہاتھ میںہے اور اس کے سوا تمھارے ہاتھ میں کچھ نہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میںتمام جہان کاتصرف ہے وغیرہ وغیرہ.اسی طرح ضروری ہے کہ جناب الٰہی کی شان کے مطابق اس کے ہاتھ مانو اور اگر یوں نہیں مانتے تو سنو سام وید فصل دوم حصہ دو کا پر پھاٹک نمبر ۶ صفحہ نمبر۷۴ میں ہے اندر بطور اس دیوتا کے جسکا بازو قوی ہے ہمارے لیے اپنے ہاتھ سے بہت سی پرورش کر نے والی لوٹ جمع کر.بتاؤ اندر کون ہے پھر اسکا داہنہ ہاتھ کیا ہے اور اس سے لوٹ کرنا یہ کیسے الفاظ ہیں.کیا تم نے پرمیشر کا نام سہنسر باہو نہیں پڑھا اگر نہیں پڑھا تو یجر وید کا پرش سکت دیکھو.پھر اور سنو! ید کے معنی قوت کے ہیں.قرآن کریم میں ہے حضرت داؤ دعلیہ السلام کی نسبت ارشاد ہے.(ص:۱۸) یعنی یاد کرو ہمارے بندے داؤد کو بہت ہاتھوں والا (بڑا طاقت ور)وہ جناب الٰہی کی طرف توجہ کرنے والا ہے اور ید کے معنی نصرت وغیرہ کے بھی ہیں.راغب میں ہے (الفتح :۱۱) ای نصرتہٗ ونعمتہ و قوتہ.ید کے معنی ملک و تصرف کے بھی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے. (البقرۃ :۲۳۸)ان معنوں میں سے ہر ایک یہاں چسپاں ہو سکتا ہے اور
عام انسانی بول چال میں بھی ہاتھ کا لفظ ان سب معنوں پر بولا جاتاہے بتائو تو تمہاری سمجھ میں کوئی معنی بھی ان معنوں سے آتے ہیں یا نہیں؟ سوال نمبر۸۴.زمین پر پہاڑ اس لیے رکھے کہ وہ آدمیوں کے بوجھ سے ہل نہ جاوے.الجواب.قرآن کریم میں اس مضمون کی آیت تو کوئی نہیں البتہ یہ آیت ہے (النحل :۱۶)اس آیت میںکا لفظ ہے جس کے معنی تمہیں بتاتے ہیں اور دوسری آیت اسی مضمون کی یہ ہے (الانبیاء:۳۲) دونوں میں تمید کا لفظ ہے جو جہالت کے سبب سے دشمن ِ اسلام کی سمجھ میں نہیں آیا.سنو ! لغت عرب میں مادنی یمدنی اطعمنی (مفرادت القرآن للراغب )اور مید کے معنی ہیں ہلنا دیکھو ماد یمید میداً ومیداناً تحرک (قاموس اللغۃ ) مادھم اصابھم دوار (قاموس) والمائدۃ الدائرۃ من الارض (قاموس) ان معنوں کے لحاظ سے جو مادنی یمیدنی کے کئے گئے ہیں اس آیت کے یہ معنی ہوئے کہ رکھے زمین میں پہاڑ اس لیے کہ کھانادیں تمہیں اور یہ ظاہر بات ہے کہ پہاڑوں کو اللہ تعالیٰ نے بنا یا ہے کہ ان میں برفیں پگھلیں چشمیں جاری ہوں ندیاں نکلیں پھر ان کے سیل پر اس سطح سے جس میں ریگ ہوتی ہے پانی مصفّٰی ہوکر کنوئوں میں آتاہے پھر اس سے کھیت سرسبزہوتے ہیں یہ بھی ایک سلسلہ علاوہ رحمت کے سلسلے کے ہے جو باران رحمتِ الٰہیہ سے ہے جس کا ذکر اس کلمہ طیبہ میں ہے(البقرۃ :۲۳) اور دوسرے معنوں کے لحاظ سے آیت کے یہ معنی ہوئے کہ ہم نے زمین پر پہاڑ رکھے کہ چکر کھاتے ہیں ساتھ تمہارے یہ الٰہی طاقت کا ذکر ہے کہ اس نے اتنے بڑے مستحکم مضبوط پہاڑوں کو بھی زمین کے ساتھ چکر دے رکھا ہے اورنظام ارضی میں کوئی خلل نہیں آتا
اب کوئی انصاف کرے کہ کن معنی پر اعتراض کی جگہ ہے.ہم نے تصدیق براہینِ احمدیہ کی جلد دوئم میں اس مضمون پر بسط سے کلام کیا تھا.اس مسودہ سے بھی یہاں مختصراً کچھ نقل کرتے ہیں اور وہ یہ ہے.مکذب براہین احمدیہ کے اعتراض کا تیسراحصہ یہ تھا ’’اہل اسلام کے نزدیک پہاڑ بمنزلہ میخوں کے زمین پر ٹھونکے گئے.یہ خام خیالی ہے.‘‘ الجواب.خام خیالی کا دعویٰ کرنا اور ثبوت نہ دینا یہ بھی معترض کی خام خیالی ہے.(لقمان :۱۱) اور آیت کریمہ(النباء :۸) ایک نہایت سچی فلسفی ہے اور اس سچی فلسفی پر جدیدہ علوم اور حال کے مشاہدات گواہی دیتے ہیں اور انہیں مشاہدات سے بھی ہم گذشتہ دیرینہ حوادثات کا علم حاصل کرسکتے ہیں.طبقات الارض کی تحقیقات اور مشاہدات سے اچھی طر ح ثابت ہو سکتا ہے کہ اس زمین کا ثبات وقرار اضطرابات وزلازل سے خالق السمٰوات والارض نے تکوین جبال اور خلق کوہسار سے ہی فرمایا ہے اور زمین کے تپ لرزہ کو اس علیم وقدیر نے تکوین جبال سے تسکین دی ہے.چنانچہ علم طبقات الارض میں تسلیم کیا گیاہے کہ یہ زمین ابتداء میں ایک آتشیں گیس تھا جس کی بالائی سطح پر دھواں اور دخان تھا اور اس امر کی تصدیق قرآن کریم سے بھی ہوتی ہے جہاں فرمایا ہے (حٰم السجدہ:۱۲) پھروہ آتشی مادہ اوپر سے بتدریج سرد ہوکر ایک سیال چیز بن گیا جس کی طرف قرآن شریف نے ان لفظوں میں ارشاد فرمایا ہے (ہود :۸) پھر وہ مادہ زیادہ سرد ہوکر اوپر سے سخت اور منجمد ہوتاگیا اب بھی جس قدراس کی عمق کو غورسے دیکھتے جاویں اس کا بالائی حصہ سرداور نیچے کا حصہ گرم ہے کوئلوں اور کانوں کے کھودنے والوں نے اپنی مختلف تحقیقات سے یہ نتیجہ نکالا ہے گو اس نتیجہ میں فلاسفروں کو اختلاف ہے کہ ۳۶مائل عمق سے نیچے اب تک ایک ایسا ذوبانی اور ناری مادہ موجود ہے جس کی گرمی تصور سے بالاہے.(اسلام نے بھی دوزخ کو نیچے بتایا ہے) جب
زمین کی بالائی سطح زیادہ موٹی نہ تھی اس وقت زمین کے اس آتشیں سمندر کی موجوں کا کوئی مانع نہ تھا اور اس لیے کہ اس وقت حرارت زیادہ قوی تھی اور حرارت حرکت کو موجب ہواکرتی ہے.زمین کی اندرونی موجوں سے بڑے بڑے مواد نکلے جن سے پہاڑوں کے سلسلے پیداہوگئے آخر جب زمین کی بالائی سطح زیادہ موٹی ہوگئی اور اس کے ثبات وثقل نے اس آتشی سمندر کی موجوں کو دبادیا تب وہ زمین حیوانات کی بودوباش کے قابل ہوگئی.اسی واسطے قرآن کریم نے فرمایا ہے (لقمان :۱۱) اور اس کے بعد فرمایا: .کا لفظ جو آیت میں آیا ہے اس کے معنی ہیں بنایا کیونکہ قرآن مجید کی دوسری آیت میں بجائے القی کے جعل کا لفظ آیا ہے جس کے صاف معنی ہیں بنایا اور ان امور کی کیفیت آیت ذیل سے بخوبی ظاہر ہوتی ہے. (حٰم السجدۃ :۱۱) اور زمین کے اوپر پہاڑ بنائے اور اس میں برکت رکھی اور اس پر ہرقسم کی کھانے کی چیزیں پیداکیں.ایک عجیب نکتہ آپ کو سناتے ہیں آپ سے میری مراد وہ سعادت مند ہیں جو اس نکتہ سے فائدہ اٹھاویں.قرآن کریم میں ایک آیت ہے اس کا مطلب ایسا لطیف ہے کہ جس سے یہ تمہارا سوال بھی حل ہوجاوے اور قرآن کی عظمت بھی ظاہر ہو.غورکرواس آیت پر(النمل :۸۹) اور تو پہاڑوں کودیکھ کر گمان کرتاہے کہ وہ مضبوط جمے ہوئے اور وہ بادل کی طرح اڑ رہے ہیں یہ اللہ کی کاری گری قابل دید ہے جس نے ہر شے کو خوب مضبوط بنایا ہے.غور کرو یہاں ارشاد فرمایا ہے کہ پہاڑ تمہارے گمان میں ایک جگہ جمے ہوئے نظر آتے ہیں اور وہ بادلوں کی طرح چلے جاتے ہیں.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پہاڑ زمین کے ساتھ حرکت کرتے ہیں اور یہ کیسا عجیب نکتہ ہے.
سوال نمبر۸۵.خداآسمانوں و زمین کو تھا م رہاہے.افسوس خدا کی قدرت کتنی کمزور ہے کہ زمین بنا کر اس کو تھامنا پڑا اسی واسطے اس کو اونگھ اور نیند نہیں آتی اتنے بکھیڑے ڈال کر بھلا خدا کو نیند کہاں نصیب ہو.الجواب.تھامنا اور پھر آسمانوں اور زمین کا تھامنا.او احمق انسان! کیا کسی کے ضعف کا نشا ن ہے یا قوت کاملہ کا.پھر یہ تو بتاکہ کیاپران نام اس کا غلط ہے( اور جیسے پران کے اختیار میں تمام جسم اور حواس ہوتے ہیں ویسے ہی پرمیشور کے قابو میں تما م جہان رہتاہے غلط ہے ).اور پھر کیا ہرنیہ گربھ جس کے معنی کسی نے سہارا لکھے ہیں دیکھو ستیارتھ پرکاش صفحہ ۷ اس نے کوئی حماقت کی ہے اور کیا وایو جس کا ترجمہ ساکن جہان کو زندہ اور قائم رکھنا کئے ہیں کسی مست میخوار کی بڑ ہے.ستیارتھ صفحہ۸.ہاں شاید فناکرتاہے کا لفظ دیکھ کر آپ نے ہم پر اعتراض کیاہے تو پھر کیا برسپتی نام غلط ہے جس کا مصدر پاہے اور جس کے معنے حفاظت ہیں اور کیایہ جھوٹ ہے.اچھاقیوم لفظ پر آپ کا اعتراض ہے تو پھر کیا کیتوجس کا مصدر کت ہے اس کے معنی قیوم نہیں ؟پھر کیا وہ پتا نہیں جس کا مصدر پابمعنے حفاظت کے ہیں ہمارا خداتو نہ سوتاہے نہ اونگھتاہے پر کیا وید کا خداسوتاہے اور اونگھتاہے کہ تم نے ہم پر اعتراض کیا ہے.اگر قدیم ہندیوں کے حوالے تم تسلیم کرنے والے ہوتے تو(البقرۃ :۲۵۶) کے مقابلہ میں خداسوتااور لکھشمی اس کے پائوں ملتی دکھلاتے.سوال نمبر۸۶.فرشتوں کے پَر ہوتے ہیں.الجواب.تمہارے ابا گوروجی تو کشف والہام کے قائل نہیں تھے کہ فرشتوں کو دیکھتے اور ہوتے بھی کیوں کر ان کے نزدیک تو قریباً دو ارب برس گزراہے کہ جو الہام ہوچکا سو ہوچکا.پھر تو خدا ابھی تک خاموش ہے.رہے فرشتے سو ان کی آنکھیں ہی نہ تھیں کہ وہ ان کو دیکھتے تم میں سے جنہوں نے دیکھا ان کی باتوں کوتم پوپ لیلہ مانتے ہو.خود تم واقف نہیں کہ ہم تم کو وید کی رچین سناتے
نہ تمہارا گورو اس علم تک پہنچاکہ ہم تم کو الزامی جواب دے کر خوش کرتے.دوسروں کا حوالہ دیتے تو آپ تسلیم کس طرح کرتے اس لیے اب ہم وقت ضائع نہیں کرتے اگرآپ ویدک دھرم چھوڑ کر فلسفہ کا مذہب اختیار کریں اور پھر اعتراض کریں تو اس کا بھی ہم جواب دینے کو تیار ہیں مگر سعادت مندوں کے لئے مناسب ہے کہ دیکھیں فقرہ نمبر ۵دیباچہ کا.سوال نمبر۸۷.خدادوزخ سے پوچھے گا کہ کیا تو اتنے آدمی اور پتھر کھا کر سیر ہوئی ہے کہ نہیں.پیٹو جہنم بولے گی کیا کچھ اور بھی ہے.یعنی اگر کچھ اور باقی ہے تو دیجئیے.مفسر کہتے ہیں خدااپنے دونوں پائوں دوزخ میں ڈال دے گا اور جہنم کو سیر کرے گا.الجواب.تمہارے یہاں پرمیشور کا نام سرب بیاپک ہے تو کیا وہ نرک میں نہیں ہے.قرآ ن کریم میں صرف اس قدر ہے (قٓ:۳۱) اورجو تم نے مفسروں کا قول نقل کیا ہے اس میں یہ ہے جہنم ہل من مزید کہتی رہے گی حتّی یضع رب العزۃ قدمہ اورکہیں ہے یضع الجبار قدمہ اور کہیں ہے حتی یضع اللہ رجلہ پس قبل اس کے کہ تم کو مفصل جواب دیں ضروری معلوم ہوتاہے کہ الفاظ ذیل کے معنی لغت عرب سے لکھ دیں.جہنم ، رب ، عزت، جبار، قدم ، رجل.(۱) جہنم.دوزخ.نرک.عذاب کی جگہ.(۲)رب کے معنی بڑاپالنہار.یہ لفظ اللہ تعالیٰ پر بھی بولا گیا ہے اور دنیا داروں بڑے آدمیوں پر بھی.فرعون نے کہا (النازعات:۲۵)یوسف علیہ السلام نے ایک قیدی کو جو رہاہونے والا تھا فرمایا کہ(یوسف :۴۳) یعنی اپنے مالک وامیر کے پاس میرا ذکر کیجو اور اسی رب کی جمع ارباب ہے جس کے متعلق فرمایا: (یوسف:۴۰) (۳) عزت:.بڑائی.حمایت ،جاہلوں کی ہٹ.قرآن کریم میں شریروں کے متعلق فرمایا
(البقرۃ :۲۰۷ ) اور فرمایا ہے کہ جب شریر کو عذاب اور دکھ دیا گیا تو کہاجاوے گا.(الدّخان : ۵۰) پس رب العزت کے یہ معنی بھی ہوئے متکبر، ضدی ، ہٹ والا.(۴) جبار کے معنی مصلح کے بھی ہیں اور ظالم کے بھی.مصلح کو تو عذاب ہونہیں سکتاہے اور ظالم کے حق میں آیا ہے خاب کل جبار عنید.مشکوٰۃ صفحہ ۴۹۶میں ہے ہب ہب دوزخ میں ایک وادی ہے اس میں جبارلوگ داخل ہوں گے.(۵) قدم.جس شخص کو کہیں بھیجاجاوے اس کو قدم کہتے ہیں.قاموس اللغۃ میں ہے.قدمہ الذین قدمھم من الاشرار فھم قدم اللہ للنار کما ان الخیار قدم اللہ للجنۃ ووضع القدم مثل للردع والقمح.احادیث میں ہے.دماء الجاھلیۃ موضوعۃ تحت قدمی.ترجمہ.قدم اس کا وہ بد لوگ ہیں جن کو وہ حسب ان کے اعمال کے آگ میں بھیجے گا جیسے کہ برگزیدہ لوگ بہشت کے لیے قد م اللہ ہیں یعنی وہ جنہیں حسب ان کے اعمال کے اللہ تعالیٰ بہشت میں بھیجے گا اور قدم رکھنے کے اصل معنی ہیں روک دینا اور بیخ کنی کر دینا جیسے آنحضرت ﷺ نے فرمایا جاہلیت کے خون میرے قدم کے نیچے رکھے گئے ہیں یعنی میں ان کے انتقاموں سے قوم کو منع کرتاہوں اور ان کو مسلتاہوں.(۶) رجل کے معنی قدم ،جماعت.عربی زبان میں آتاہے رجل من جراد.یعنی ٹڈیوں کا ٹڈی دل جماعت.اب کس قدر صاف معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ جہنم کو فرمائے گا کیا تو بھر چکی وہ عرض کرے گی کیا کچھ اور بھی ہے.تب اللہ تعالیٰ شریروں اور ظالموں اور ان کی جماعت کو جو جہنم کے لائق ہیں سب کو جہنم میں ڈال دے گا.خلاصہ مطلب یہ ہواکہ نرکی اور جہنمی نرک اور جہنم میں داخل کئے جائیں گے اور یہی انصاف و عدل
ہے.اب بتاؤ اس پر اعتراض کیا ہوا؟ سوال نمبر۸۸.دوزخ کو آدمیوں.جنوں.پتھروں سے بھرے گا معلوم نہیں کہ جنّ کون ہیں پتھروں نے کیا گنا ہ کیا ہے؟ کسی نے سچ کہا ہے کہ خداہر ایک چیز کا سامان اس کے ساتھ رکھتاہے.الجواب:.کیا شریر آدمی تمہارے ہاں نرک میں نہیں جائیں گے.جنّ بھی ایک اگنی سے پیدا ہوئی ہوئی مخلوق ہے.کیا اگنی کی مخلوق اگ میں نہیں رہتی.ہمارے ناظرین کو تعجب ہواہوگا کہ کیا اگنی سے بھی کوئی مخلوق پیداہوئی ہے.ہم انہیں بتاتے ہیں کہ آریہ میں اگنی سے پیداہوئی ہوئی بھی ایک مخلوق ہے.ستیارتھ پرکاش کے صفحہ ۲۷۷میں لکھا ہے کہ اے شویت تو پانی سے اس کی علت آگ کو جان.معلوم ہواکہ آریہ کے نزدیک پانی آگ سے بنتاہے.جنّ.اس لفظ کے معنی لغت عرب میں دیکھو.قاموس میں لکھا ہے جن الناس بالکسر وجنانہم بالفتح معظمھم یعنی انسانوں میں جن بڑے آدمی کو کہتے ہیں اور جن ایک مخلوق بھی ہے.جن میں نیک و بد ہوتے ہیں.یاد رکھو بڑے شریر تو ضرور دوزخ میںجائیں گے.آدمی ہوں یا کوئی اور خبیث روح.(البقرۃ :۲۵ )کے معنی یہ ہیں کہ انسانوں اور پتھروں میں جو تعلق پیداہوا ہے کہ انسانوں نے پتھروں کی پرستش شروع کردی ہے یہی تعلق دوزخ کے اشتعال کا باعث اور اس کا ہیزم ہے.آپ کے سوال کا آخری حصہ تو بڑاسچاہے کہ خداہر ایک چیز کا سامان اس کے ساتھ ہی رکھتاہے اسی واسطے اس روشنی کے زمانہ میں چھاپہ کی کلیں نکال کرقرآن کریم کی کثرت کر دی ہے.کیا ہی اچھا ہواکہ تمہاری بیہودہ صلاح پر وہ چلنے والا خدا نہیں.سوال نمبر۸۹.خدا کو خوب قرضہ دو وہ دگنا واپس کردے گا.خداسود حرام کرے خود دگنے سود پر قرضہ لے.دوکانداروں کو مات کیا ہے.پھر حسب عادت بکواس کی ہے.الجواب:.بہکے ہوئے پال !تجھے کہیں بھی آدمیت.شرافت، انسانیت سے کام لینے کا موقع
ہاتھ لگتاہے یا نہیں.شریر! تو لیلے بکریوں کے بچوں پر ترس کھا تاہے اور انسانوں کو جھوٹ بول کر دکھ دینے سے خوف نہیں کرتا.کیا تو اس بدزبانی سے کامیاب ہوگا ؟سن! قرض بھی عربی لفظ ہے پنجابی نہیں.قرض کے معنی.القرض ویکسر ما سلفت من اساۃ واحسان.وماتعطیہ لتقضیہ لتقضاہ واقرضہ و اعطاہ قرضاً و قطع لہ قطعۃ ً یجازی علیھا.(قاموس اللغۃ) پہلے معنی کے لحاظ سے ایسے فعل کا نام قرض ہے جس کا بدلہ ہم نے پایاہے.یہ قرضہ دو قسم کا ہوا کرتاہے ایک برااور ایک بھلا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.(الانعام :۱۶۱) یعنی کون ہے جو صرف اللہ کے واسطے اچھے اعمال کرے پس اللہ تعالیٰ اس کو اس کابڑھا کر اجر دے جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (البقرۃ :۲۴۶) جیسے ترک اسلام لکھ کر تو نے ہم کو مقروض کیا تو ہم نے خداکے فضل سے الزامی جوابوں سے اور پھر تحقیقی جوابوں سے مع تمہارے اصل سوالوں کے وہ قرضہ مع شی زائد اداکردیا.اللہ تعالیٰ اس دینے والے کو اس کے اجر میں بہت بڑھا کر دے.یادرکھو! اللہ تعالیٰ ہر ایک نیکی کا بدلہ بڑھ چڑھ کر دیتاہے.دوسری ایک آیت ا س کی تصریح کرتی ہے اور وہ یہ ہے.(البقرۃ:۲۶۲ )خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے والوں کی مثال اس دانہ کی ہے جس نے سات بالیاں نکالیں ہر بالی میں سو دانے اور اللہ جس کے لیے چاہتاہے اس سے بھی بڑھ چڑھ کر دیتاہے.اگر آریہ کے وکیل کو قرآن پر ذرابھی غور کرنے کی طاقت ہوتی تو ایسی ہرزہ درائی نہ کرتا کیونکہ قرآن مجید میں صاف موجود ہے. .(آل عمران :۱۸۲) یعنی کافرہیں جنہوں نے کہاہے کہ اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں کیا معنی ہم ان کی بات کو محفوظ رکھیں گے؟ اور فرمایا (الفاطر :۱۶) اے لوگو
تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ ہی غنی ہے.اگر آریہ کے وکیل کو قرآنی سمجھ نہ تھی تو کا ش دنیا کے معاملات پر ہی نظرہوتی.قرآنی صداقتیں تو ہر جگہ اور ہر وقت نمایا ں ہیں.کیا جو شخص پرامیسری نوٹ لیتایا سیونگ بینک میں ایک غریب سود خوار اپنا روپیہ رکھتاہے ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ گورنمنٹ غریب ہے.ہر گز نہیں.رہی یہ بات کہ خداکے سپر د کیا ہوا مال بڑھتا ہے یا نہیں اس امر کی صداقت تمام جہان کو کھیتوں کے نظارہ سے ظاہر ہوجاتی ہے کہ ایک ایک دانہ سے کتنا غلہ حاصل ہوجاتا ہے یہی مطلب ہے اس آیت کا جس میں لکھا ہے (البقرۃ :۲۴۶) اس کا ترجمہ ہواکہ کون ہے جو اللہ کے حضور اعلیٰ نیکی کرے( یا ا س کی رضا کے لیے مال کو دے) بڑھا کر دے گا اس کے لیے اللہ تعالیٰ اور اللہ لیتا ہے اور بڑھا تاہے اور اسی کی طرف تم جائو گے اور بدلہ پائو گے.(قرضہ کا الزامی جواب دیکھو منو ادہیائے نمبر۶.۹۴) بے فکر ہو کر اس دہرم کو کرتا ہوا بدہ پوروک.دیدانت شاستر کو سن کر تینوں ر ن یعنی قرض کو ادا کر کے سنیاس دہارن کرے.سوال نمبر۹۰.خدا چا ہتا تو سب کو ایک دین پر کر دیتا.سوالات.ایسا کیوں نہیں کیا ،مذا ہب کاخون بہتا دیکھنا اسے خوش ہے.شیر بھیڑیا کا جنگ رو میوں کی طرح دیکھتا ہے ٹیلی میگس ایلی میگس آکر خون بہا ئے.الجواب.پھر اعتراض کیا ہوا.کیا تما م مخلوق الٰہی ایک ہی دین پر ہے اور قرآن نے واقعہ کے خلاف کہا ہے.خدا ہے تو بھی ما نتا ہے.سرب شکتیما ن ہے تو ما نتا ہے.تمام خلقت اسکے قا بو میں ہے تو مانتا ہے سب کے اندر ہے یہ آریہ سماج کا عقیدہ ہے کیا تم نہیںما نتے اور نہیں جانتے کہ وہ
سرب بیاپک ہے اور سب کا پران (اعضاء)ہے اس صورت میںضروری تھا کہ کل دنیا تمہا رے اس عقیدہ اور اصطلاح کے موافق بھی ایک ہی دین پر ہوتی مگر نظا رہ دکھا رہا ہے کہ واقعہ اس طرح نہیں اور یہ قانون قدرت ہے اس سے صاف معلوم ہوا کہ اس نے نہیں چا ہا کہ سب ایک مذہب پر ہوں ایسا کیوں نہیں چاہا اس کا جواب صاف یہ ہے کہ اس کی اچھیا.خون بہتا دیکھنا اسے خوش ہے دیکھتا ہے اور بجبر نہیں روکتا اور برابر دیکھتا ہے.واقعا ت عالم اس کی تصدیق کے عادل گواہ موجود ہیں.ٹیلی میگس ایلی میگس تھیٹر میں آیا تو کیا کشت و خون بند ہو گیا اب تک فرانس میں ڈویل ہو تا ہے.تمام یورپ اور امریکہ بڑھ چڑھ کر آئے دن خونخوار تیز سے تیز ہتھیا ر بنا رہے ہیں.ٹرنسفال اور انگلستان کے ڈیئر اور نیئر ہزا روں نہیں لاکھوں ہلاک ہوئے اور سیری نہیں ہوئی اور نہ کوئی ٹیلی میگس ایلی میگس وحشی روک سکا بلکہ دیانند نے بھی تم کو اکسایا ہے جہا ں کہا ہے کہ سیواجی اور گوروگوبند جی ایک ایک نے مسلما نوں کو تبا ہ کر دیا سلطنت کی کو شش کرو.پھر شستروں کے بنانے اور سمجھا نے کی تحریک کی ہے ہمارے شہر کے ایک مشہوروکیل نے مجھے کہا تھا کہ اسپین سے بھی تو آخر اہل ملک نے مسلمانوں کو نکال دیا تھا اگر آریہ مسلمانوں کو انڈیا سے نکال دیں تو کو ئی تعجب کی با ت ہے ایک نظیر موجود ہے چنانچہ دفتروںمیں جہا ں جہاں ان ازلی غلاموں کا بس چل رہا ہے اپنی پست فطرتی اور کینہ کشی اور تنگ ظرفی کا اظہا ر برابر کر تے اور خدا کی مخلوق کو دکھ دے رہے ہیںاور ادھر یہ خدا سے مہجور لوگ یہ کارروائی کررہے ہیں ادھرخدا کے فرشتے یورپ اور امریکہ کے لوگوں کو اسلام کی طرف کھینچ رہے ہیں اس لیے کہ خدا کی منہ کی باتیں سچی ثابت ہوں جو فرمائی ہیں کہ (آل عمران :۵۶) سوال نمبر ۹۱.جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے.الجواب.دیکھو سوال نمبر ۸،۹،۱۰،۱۱،۱۲کے جواب.
سوال نمبر ۹۲.خداشرک کے سواباقی تمام گنا ہ معاف کردیتاہے.افسوس ہے کہ کرم تھیوری کو چھوڑ کر توبہ.عفو اور شفاعت کے مسئلے گھڑ ے گئے.الجواب.بی اے گریجویٹ بننے کا دعویٰ، ہیڈ ماسڑی کا فخر، برہمچریہ بننے کا شوق، آریہ سماج سریشٹ قوم میں بیٹھنے کاشوق اور تکرار اور بکواس اور بیہودہ باربار اعتراض کرنے اور دل دکھانے کی دھت کیا توبہ.عفواور شفاعت پر سوال نمبر ۶،۷،۲۱میں تم اعتراض نہیںکرچکے.کر م کے تھیوری کو تو خو د تھیوری کہتاہے سائنس نہیں کہتاکیاتھیوری اور واقعات ایک چیز ہیں.سن !شرک ایسی بری بلاہے کہ ستیارتھ پرکاش کے بنانے والے نے بھی اسے بد کاریوں کا جامع قرار دیاہے دیکھ سملاس نمبراا فقرہ نمبر ۵۰ صفحہ۴۱۹.(۱) بت پرستی ادہرم ہے.کفر بے ایمانی ہے.(۲) کروڑوں روپیہ مندروں پر خرچ کرکے (لوگ )مفلس ہوتے ہیں اور اس میں کاہلی ہوتی ہے.(۳) عورتوں مردوں کا مندروں میںمیل ہونے سے زناکاری.لڑائی.بکھیڑا اور بیماریاں وغیرہ پیدا ہوئی ہیں.(۴) اسی کو دھر م ارتھ کام اور مکتی کاذریعہ مان کر سست ہوکر انسانی جامہ رائیگاں کھوتے ہیں.(۵) مختلف قسم کی متضاد اشکال،نام اور حالات والے بتوں کے پوجاریوں کا ایک عقیدہ نہیں رہتااور متضاد عقیدے رکھ کر اورباہمی نفاق بڑھا کر ملک کی بربادی کرتے ہیں.(۶)اسی کے بھروسے دشمن کی شکست اوراپنی فتح مان بیٹھے رہتے ہیں.ان کے ہار ہوکر سلطنت، آزادی اور دولت کا آرام ان کے دشمنوں کے قبضہ میں ہو جاتا ہے.اور آپ محتاج بغیر بھٹیارے کے ٹٹو اور کمہار کے گدھے کی مانند دشمنوں کے بس ہوکر کئی طرح کی تکلیف پاتے ہیں.(۷) جب کوئی کسی کو کہے کہ ہم تیری نشست گاہ یا نام پر پتھر دھریں تو جیسے وہ ا س پر خفا ہوکر مارتا یا گالی دیتاہے ویسے ہی جو پرمیشور کی عبادت کی جگہ دل اور نا م پر پتھر وغیرہ بت دھرتے
ہیں ان بری عقل والوں کی تباہی پرمیشور کیوں نہ کرے.(۸) وہم میں پڑکر مندر بہ مندر ، ملک بہ ملک پھرتے پھرتے تکلیف پاتے.دھر م، دنیا اور عاقبت برباد کرتے ، چور وغیرہ سے عذاب پاتے اور ٹھگوں سے لٹتے رہتے ہیں.(۹) بدچلن پوجاریوں (مجاوروں) کو دولت دیتے ہیں.وے اس دولت کو بیسوا، زناکاری، شراب گوشت کے کھانے لڑائی بکھیڑوں میں خرچ کرتے ہیں جس سے دینے والے کے آرام کی جڑ کٹ کر تکلیف ہوتی ہے.(۱۰) ماں باپ وغیرہ قابل تعظیم لوگوں کی بے عزتی کر، پتھر وغیرہ بتوں کی عزت کر کے محسن کش ہوجاتے ہیں.(۱۱) ان بتوں کو کوئی توڑ ڈالتایا چور لے جاتاہے تب ہائے ہائے کرکے روتے رہتے ہیں.(۱۲) پوجاری غیرعورتوں کی صحبت اور پوجارن غیرمردوں کی صحبت سے اکثر معیوب ہوکر عورت مرد کی محبت کی راحت کو ہاتھ سے کھو بیٹھتے ہیں.(۱۳) سوآمی (آقا)،سیوک(نوکر) کی آگیا کی فرمانبرداری پوری طرح نہ ہونے سے باہم مخالفت ہوکر تباہ وبرباد ہوجاتے ہیں.(۱۴) غیرمدرک کا دھیان کرنے والے کی روح بھی کند ہوجاتی ہے کیونکہ دھیان کی گئی چیز کی جڑپن کا خاصہ انتھ کرن کے ذریعے روح ضرور آتاہے.(۱۵) پرمیشور نے خوشبو دار پھول وغیرہ اشیاء ہوا،پانی کی بدبو دور کرنے اور صحت کے لیے بنائے ہیں ان کو پوجاری جی توڑ کر یہ نہ جانتے ہوئے کہ ان پھولوں کی کتنے دن تک خوشبو آکاش میں پھیل کر ہوا، پانی کی صفائی (کرتی ) اور پوری خوشبو کے وقت تک ان میں رہتی اس کی بربادی درمیان میں ہی کردیتے ہے.پھول وغیرہ کیچڑ کے ساتھ مل سڑکر الٹی بدبو پیدا کردیتے ہیں.کیا پرمیشر نے پتھر پر چڑھانے کے لیے پھول وغیرہ خوشبو دار اشیاء بنائی ہیں.
(۱۶)پتھر پر چڑھے ہوئے پھول صندل اور چاول وغیرہ سب پانی اور مٹی کے ساتھ ملنے سے موری یا حوض میں آکر سڑ جاتے ہیں اس سے اتنی بدبو آکاش میں پھیلتی ہے کہ جتنی انسان کے براز کی اور ہزاروں جاندار اسی میں پڑتے اسی میں مرتے سڑتے ہیں.ایسے ایسے کئی بت پرستی کرنے سے عیب واقع ہوتے ہیں اس لیے پتھر وغیرہ کی بت پرستی شریف لوگوں کے لیے قطعی طور پر ممنوع ہے.اور جنہوں نے پتھر کی بت پرستش کی ہے کرتے ہیں اورکریں گے وے مذکورہ بالاعیبوں سے نہ بچے نہ بچتے ہیں اور نہ بچیں گے.اب تم ہی بتائو کہ جس بت پرستی میں اس قدر عیوب ہوں جو خود تمہارے گرو نے تسلیم کیے ہیں او ر اسی لعنتی شے کو قرآن کریم میں شر ک کہاگیاہے.کیا اس شرک کا گناہ سب گناہوں سے بڑا نہیں اور جب بڑاہے تو قابل عفو کیونکر ہوا ؟اور مسئلہ توبہ اور شفاعت پر جو انسانی فطرت کے موافق سچے امو ر ہیں ہم لکھ چکے ہے.سوال نمبر۹۳.مسلمانوں اور کافروں کے درمیان خدا پردہ ڈالتا ہے.الجواب.دیکھو جواب سوال نمبر۲۰ سوال نمبر۹۴.مشرک اور کافر ناپا ک ہیںان سے دوستی مت لگاؤ.الجواب: (۱) مشرک کی بحث تو ہم سوال نمبر ۹۲ میں ہم کر چکے ہیں.(۲)کافر کی بحث اب سن لو ! منّو ادھیا نمبر ۲سلوک نمبر ۱۱.جو شخص وید کے احکام کوبذریعہ علم منطق سمجھ کر وید شاستر کی توہین کرتا ہے وہ ناستک یعنی کافر ہے.اس کو سادھ لوگ اپنی منڈلی سے باہر کر دیں.کافر کا لفظ بعینہٖ مطبوع نول کشور میںہے.پھر ستیارتھ پرکاش سملاس نمبر۱۰ صفحہ ۳۵۲ فقرہ نمبر ۶ میں ہے کبھی ناستک شہوت پرست،دغا باز،دروغگو،خود غرض ،فریبی ، حیلاباز وغیرہ برے آدمیوںکی صحبت نہ کرے.آپت (اہل کمال)یعنی جو سچ بولنے والے دھرماتما اوردوسروںکی بہبودی جن کو عزیز ہے ہمیشہ ان کی صحبت کرنے کانام سریشٹ آچار(پاکیزہ چلن)ہے.
ستیارتھ سملاس نمبر ۶ستیارتھ صفحہ ۲۱۱فقرہ ۵۳.منّو۷.۱۹۵،۱۹۶.دشمن کو چاروںطرف محاصرہ کر کے روک رکھے اوراس کے ملک کو تکلیف پہنچا کر چارہ،خوراک ،پانی اور ہیزم کو تلف وخراب کردیوے.دشمن کے تالاب ،شہر کی فصیل اور کھائی کو توڑ پھوڑدیوے.رات کے وقت ان کو خوف دیوے اور فتح پانے کی تجاویز کرے.او نادان !کیا ناپاک اور بے ایمان اور منکر سے پاک اور ایماندار اور حق کے ماننے والے دلی تعلق پیدا کر سکتے ہیں ؟چیت رامیون.اگھوریون.ناستکون سے اب تجھے تعلق ہو سکتا ہے اور کیا سعید و شقی ،برے بھلے ، دیوا سر میں سنگرام (جنگ) چاہئے یا باہم پریم؟ اے سچائی سے دانستہ دشمنی کر نے والے فلاح سے کو سوں بھاگنے والے ! کبھی تو غور سے کام لے کیا یہ تیرے اعتراض کچھ بھی راستی اپنے اندررکھتے ہیں ؟ اور اظہار حق کے لیے ایک اور آیت جو تمہا رے اعتراض کی بیخ کنی کر دے تجھ کو سناتا ہوں.. (الممتحنۃ :۹،۱۰) نہیں روکتا تمہیں اللہ ان لوگوں سے جنہوں نے تم سے دینی لڑائی نہیں کی اور تمہیں گھروں سے نہیں نکالا کہ تم ان سے نیکی کرو اور ان سے انصاف کا برتاؤ کرو.بے شک اللہ پیار کرتاہے انصاف کرنے والوں کو.بلکہ روکتا ہے تم کو ان لوگوں سے جنہوں نے تم سے دینی لڑائی کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں دشمنوں کی مدد کی کہ تم ان سے دوستی کرو اور جو لوگ ایسوں سے دوستی لگائیں وہ ظالم ہیں.سوال نمبر ۹۵:کافروں کو جہاں پاؤقتل کر ڈالو یہ تعلیم امن وچین کا کس قدر خون کر نے والی ہے.
سوال نمبر ۹۵:کافروں کو جہاں پاؤقتل کر ڈالو یہ تعلیم امن وچین کا کس قدر خون کر نے والی ہے.الجواب: مگر نہ ایسی جیسے خطرناک ویدک تعلیم ہے کیو نکہ ستیا رتھ ۱۸۱میں لکھا ہے ایشر ہدایت فرماتا ہے کہ اے فر ما ن روا لو گو!تمہا رے اسلحہ (ہتھیا ر ) آتشین وغیر ہ از قسم شستر توپ ، تفنگ ، تیروتلوار وغیرہ شستر مخالفوں کو مغلوب کرنے اور ان کو روکنے کے لیے قابل تعریف اور بااستحکام ہوں.تمہاری فوج مستوجب توصیف ہو تا کہ تم لوگ ہمیشہ فتح یاب ہو تے رہو.پھر سفیر کا خاص کام ستیارتھ پرکاش کے صفحہ ۱۹۲ میں لکھا ہے اور بد اندیشوں کے جتھوں کو توڑپھوڑ دے.سفیر کاعمل ایسا ہو نا چاہیے جس سے دشمنوں میں پھوٹ پڑجاوے.منو ۷.۶۸.ستیارتھ ۲۱۱.منو ۷.۱۹۵ کسی وقت مناسب سمجھے تو دشمن کو چاروں طرف سے محاصرہ کر کے اور اس کے ملک کو تکلیف پہنچا کر چارہ ، خوراک ،پانی اور ہیزم کو تلف و خراب کر دے.منو ۷.۱۹۶،ستیارتھ ۲۲۴.بد اعمال آدمیوں کے مارنے میں قاتل کو پاپ نہیں ہوتا خواہ اعلانیہ مارے خواہ غیر اعلانیہ کیونکہ غضب والے کو غضب سے مارنا گویا غضب سے غضب کی لڑائی ہے.منو ۸.۳۵۱.جرائم میں سخت سزا دینا دراصل سختی نہیں ستیارتھ۲۲۰.جو اس کو سخت سزا جانتے ہیں وہ سیاست ملکی کے اصول کو نہیں سمجھتے اور ایسے حوالے بیسیوں نہیں صدہا نہیں، ہزاروں ہیں.جس آیت پر تم نے نا فہمی سے اعتراض کیا ہے اس کے پہلے ہے.(الاحزاب :۵۹) یعنی مومن مردوں اور عورتوں کو بے جا اور ناحق دکھ دینے والے بہتان اور بھاری گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں.پھر فرماتا ہے.(الاحزاب :۶۱،۶۲) یعنی اگر یہ منافق اور دل کے بیمار اور مدینہ میںبری خبریں اڑانے والے اب بھی باز نہ آئیں تو
ہم تجھے اے پیغمبر! ان کی سزا دہی پر متوجہ کریں گے.پھر یہ لوگ تیرے پڑوس میں نہیں رہنے پائیں گے.ہر طرف سے دھکے دیئے جائیں گے.جہاں کہیں پائے جائیں گے پکڑے جائیں گے اور قتل کیے جائیں گے.اب تم نے سمجھا کہ یہ قتل کے احکام ان بدمعاشوں کے متعلق ہیں جنہوں نے مومن ایماندار مردوں کی اور مومنہ ایماندار عورتوں کو بے و جہ دکھ دینا اپنا پیشہ بنا رکھا تھا.اورپھر با ایں کہ ان کو سمجھایا گیا جب بھی فساداور بغاوت پر تلے رہے.اگر تم کو ذرابھی عقل ہوتی تو تم سیاست ملکی کے احکام کی قدر کرتے مگر کیا کوئی تو بد معاش ہے یا نیچ ہے جو احکا م سیاست کو برا مانتا ہے؟ تم نے جو رسالہ لکھا ہے کیا یہ امن و چین کا خون کرنے والا نہیں ؟ایک دفعہ ایک بڑے آریہ نے مجھ سے کہا (البقرۃ:۱۹۲)بڑا خطرناک حکم ہے.میں نے کہ آپ عربی جانتے ہیں ہیں.یہاںھم سے کون لوگ مراد ہیں اگر آپ کو معلوم نہیں تو ذرا اس حکم کے پہلے دیکھو کیا لکھاہے.(البقرۃ:۱۹۱) اور خدا کی راہ میں انہیں سے لڑو جو تم سے لڑیں اور حد سے مت بڑھو اللہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا.اس جواب پر معترض مبہوت رہ گیا.خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے اپنے کلام کوایسے طور پر اورایسے اسلوب پر رکھاہے کہ کسی نکتہ چیں کاہاتھ اس پر پڑ نہیںسکتا.یہ عجیب بات ہے کہ جس موقع پر عیب گیر اعتراض کی انگلی رکھتا ہے اسی جگہ معانی اوراسرار اورحکمتوں کاخزانہ ہوتاہے.یہ نکتہ چینیاں بے جا اورلغو ثابت ہو جانے کے بعدآخر ایک وقت میںہزارہا سعید الفطرتوں کو ہدایت کی طرف کھینچ لائیںگے.ہم مسلمان ان خردہ گیروں کواسلام کے خادم یقین کرتے ہیں اور خوب سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ اسلام کے لئے راہ صاف کر رہے ہیں.قومی، مذہبی، ملکی اور جوشیلے نو جوانوں میں جب بڑے بڑے اختلاف ہوتے ہیںاوریہ سمندر عام جوش مارتا ہے تو آخر اس اختلاف کاثمرہ وحدت ہی ہوتاہے.سکھوں ،مرہٹہ نے اگر
طوائف الملوکی پیدا کر دی جیسا کہ تمھارے سماج کے آوہ گرو نے لکھا ہے.تو دیکھ لوآخر انڈیا میں کیسی وحدت والی سلطنت اللہ تعالیٰ نے پیدا کر دی.یقیناًمجھے خوشبو آ رہی ہے کہ صرف باتوں کا مذہب مذہب نہیں رہ سکتاآخر حق غالب آتا ہے اور حقیقی علم کے ساتھ حقیقی عمل ہی نافع وبابرکت ہوتا ہے.سوال نمبر ۹۶.لوٹ کا مال خدا کا اوراس کے رسول کا حق ہے.خدا کو مال کا پانچواں حصہ ملنا چاہیے.بھلا محمود کا کیا قصور.الجواب: تم کو نہ اللہ تعالیٰ نے سلطنت د ی نہ اس کا کچھ حصہ عطا کیا.لیکھرامی آریہ کا ملک ہو تو تمھارے ارادوں کا پتہ لگے.تم تو عجیب دماغ کے ہو.تمھیں نفع پہنچے یا نہ پہنچے مگر شائد کسی کو تو فائدہ پہنچے ہی گا اس لئے چند باتیں لکھتے ہیں.سنو! تمھارے ہاں لکھاہے اور راجا بھی اس دولت میں جو سب نے مل کر فتح کی ہو سولہواں حصہ فوج کے سپاہیوں کو دیوے.دیکھو ! تمھارے ہاںکی تقسیم جور اور حیف پر مبنی ہے.اس میں یہ ہے کہ سولہواں حصہ فوج کو دیا جائے اور پندرہ حصے ر ا جہ لیوے مگر قرآن کریم یوں تقسیم فرماتا ہے کہ چار حصہ فوج لے اور پانچواں حصہ الٰہی کاموں اور رسول کے مصارف میں صرف ہو.ہے کوئی رشید جو انصاف اور امتیاز کی نگاہ سے ان دونوں قانون کو دیکھے.سام وید باب ۸فصل ۲پرپھاٹک ۹.اے وہ اندر کہ تیری دولت تجھ ہی میں ہے.اس آدمی پر کون متنفس حملہ کرے گا.فیصلہ کے دن اے مگھاون قوی دل تیرے عقیدے کے طفیل سے لوٹ کا مال جیتے ہیں اور محمود کو کون عقلمند انڈین حملوں میں قصور وار ٹھہرا سکتا ہے؟ سوال نمبر۹۷.دین اسلام خدا کی طرف سے نہیںکیونکہ اس میں سب برائیاںخدا کے ذمہ لگائی گئی ہیں.گمراہ کنندہ ہے،شیطان منجانب اللہ ہے.عورتوں سے نہ اتفاق نہ سلوک ہے؟ الجواب:اسلام کے معنی ہیں فرمانبرداری اور اطاعت.الاسلام کے معنی ہیں خاص اطاعت.انقیاد حکم حاکم پر کاربند ہونا اور اس کی منع کردہ باتوں سے رک جانا اور حاکم پر کوئی اعتراض نہ
کرنا (اقرب)یہ لفظ سلم سے نکلا ہے جس کے معنی صلح وآتشی کے ہیں.اس کا مادہ السلام اور السلامۃ بھی کہا گیا ہے.جس کے معنی ہیں ہر قسم کے الزاموں سے بری ہونا.عافیت کی زندگی بسر کرنا ،باہمی صلح سے رہنا ،جنگ نہ کرنا ،عمدہ عزت وپیار کے الفاظ سے ایک دوسرے کے ساتھ سے پیش آنا جناب الٰہی کے حضور خشوع و انکسار سے رہنا، نبی کریم ﷺ جو کچھ لائے ہیں سب کا کاربند ہونا (لسان)کامل اخلاص عبادت میں اختیار کرنا (مجمع البحرین) خلاصہ معانی فرمانبرداری ،صلح ، سلامت روی ،پاک وبے عیب زندگی بسر کرنا ،بغاوت سے بچنا ،عبادت میں شرک سے بچنا ،کامل انسان اور صاحب خلق عظیم کا اتباع کرنا.ترک اسلام کے معنی ہوئے شریر ،سرکش ،جنگجو،عیب دار، باغی اور مشرک ہونا.کامل اور خلق عظیم والے کی مخالفت کرنا.ببین کہ از کہ بریدی وبا کہ پیوستی.ہمارے ہادی نے فرمایا ہے المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ یعنی مسلم وہ ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلم بچے رہیں.اب کیا اس میں کوئی شک ہے کہ تو اور تیرامہان گرو یقیناتارکِ اسلام ہو.اس کا ثبوت یہ ہے کہ دیانند نے ستیارتھ پرکاش کا خاتمہ ترک اسلام پر کیا.کوئی کتاب مسلمانوں کی طرف سے آریہ کے مقابلے پر ستیارتھ سے پہلے نہیں لکھی گئی.بت پرستوں کے بالمقابل کتابیں تصنیف ہوئیں ان کے اسباب ہم علیحدہ بتاسکتے ہیں اور وہ خود آریہ سماج کے مدمقابل ہیں.ستیارتھ والے نے خود ان کی مخالفت بہت کی ہے.دیانندیوں کا مقابلہ اسلامیوں کی طرف سے ابتداء ً نہیں ہوا.دیانند نے اسلام کی کتاب کو اسلام کے رسول کو اسلام کے خدا کو دل کھول کرگالیاں دیں جیسے ستیارتھ کے ۱۴سملاس سے ظاہر ہے اور اسی پر اپنا اور اپنی کتاب کے کمالات کا خاتمہ کیا ہے.بعض احمق اور نادان لوگوں نے مجھے کہا کہ ہندو مذہب کا مقابلہ ابتداء ً اسلام نے کیا.میں نے ان سے کہا کہ کیا آپ ہندو ہیں.اس مقابلہ میں بھگ ولنگ کی پرستش پر اعتراض تھا.کیا آپ ا س کے پوجاری ہیں اس پر وہ حیران سے رہ گئے.ایک اور تھے جنہوں نے کہا کہ مرزا غلام احمدصاحب نے آریہ سے گالیاں دلائیں.میں نے کہاآپ نے ستیارتھ پرکاش کا آخر پڑھاہے.اس میں کیا
لکھا ہے اس پر وہ صاحب کھسیانے ہوکر بولے کہ نہیں.میں نے کہا کہ جب اس قدر اپنے مذہب پر حملوں سے ناواقف ہیں تو آپ شرم کریں انسان پیدائش میں تعلیم یافتہ نہیں ہواکرتا.قرآن میں ہے (النحل:۷۹( اور سچ بھی ہے کیونکہ ابتداء انسان اس طرح ہوئی ہے عناصر کی ترکیب سے نباتات ہوئے.نباتات اور عناصر کی ترکیب سے حیوانات اور دونوں قسم نباتات وحیوانات کے استعمال اور عناصر سے انسانی خون ہوا اس سے نطفہ بنااور اس سے انسان بنتاہے.دیکھو کس طرح تدریجی ترقی پر انسان آتاہے.کہاں کا پز جنم.آخر آدمی پیدا ہوتاہے کھانا ،پینا، پہننا، سونا ،جاگنا، ہنسنا، رونا، محبت اور غضب یہی اس کے ابتدائی کام ہوتے ہیں.جب بڑھا عام حیوانات سے ترقی کرنے لگا کھانے میں پینے میں وپہننے میں، سونے، جاگنے، ہنسنے، رونے، محبت اور غضب میں اس نے اصلاح شروع کی اور ان کو اعتدال پر لانے لگا.بدیوں پر اور ان کے ارتکاب پر اندر ہی اندر بلکہ عملاً بھی اپنے آپ کو ملامت کرتاہے اور اگر ایسے لوگ اس کے ارد گرد ہوں جنہوں نے اپنے اس مرتبہ میں اپنے فطرت ووجدان، نورمعرفت اور نورایمان کو قتل کر دیا ہے تو ان کی حالت مستثنیٰ ہے.کھانے میں اصلاح یہ ہے کہ سڑا گلاکتے کی طرح بلکہ مردار خوار دنی الطبع لوگوں کی طرح خون وسؤر نہیں کھاتا.پینے میں اصلاح یہ ہے کہ بدمزہ،زہر دار،مضر ،مسکر،اور مفتر کو استعمال نہیں کرتا.غرض کُلُوا وَ اشرَبُوامیں وَ لَا تُسرِفُوا کا کار بند بن جاتا ہے اور اپنی عام چال میں واقصد فِی مَشیِک کا عامل بن جاتا ہے.لباس پہننے میں ننگا رہنا خلاف انسانیت یقین کرتا ہے.شہوانی قویٰ کے لیے تخصیص سے کام لیتا ہے.پھر اس طرح ترقی کرتا ہواعلوم جسمانیہ وروحانیہ میں اپنی اور اپنے بنی نوع کی بہتری چاہتا ہے اور الٰہی رضامندی اور اس کی محبت کے لیے تڑپتا ہے مگر بعض لوگ زہد خشک اور من مانی راہیں نکالتے یا اختراعی راہوں پر چلتے ہیں جیسے اکثر زاہد خشک اور نیشنیلٹیوں کے گرویدہ اور اکثر ممبرانِ انجمن اور سعید الفطرت اسلامی راہ یعنی خدا کی بتائی ہوئی راہ کو اختیار کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ہر ایک طبعی حالت کو اخلاقی رنگ میں الٰہی احکام کے ذریعہ لانا اصل شائستگی اور حقیقی مذہب ہے.
صرف طبعی حالت پر رہنا کوئی عمدہ صفت نہیں.مثلاََ نرم دِلی ،دل کی غریبی اور جھگڑے کو پسند نہ کرنا اور مقابلہ سے گریز ایسی صفات ہیں کہ بہت حیوانات ان سے موصوف ہیں.کتوں کی صلح کاری باہمہ دھتکار عیاں ہے حاجت بیان نہیں.جوؤںتک نہ مارنا بلکہ ہوم کو ترک کر دینا کہ اس میں شہد ڈالنا پڑتا ہے اور اس میں مکھیوں کی خانہ بربادی ہے.ہوم میں مشک ڈالنا پڑتا ہے اس کی گرانی کے باعث شکاری لوگ ہرنوں کا استیصال کر دیں گے.موتیوں اور ریشم کو استعمال میں نہ لانا اس خوف سے کہ ہزاروں سیپ کے کیڑے اور ریشم کے کیڑے تباہ ہوں گے بلکہ گھی بھی ترک کر دینا اس خیال سے کہ اس میں بچھڑوں کی حق تلفی ہے یہ سب باتیں خوبی کی باتیں نہیں ان کے خلاف اسلام کیا ہے؟ وہ ہے تمام ترقیات میں اللہ تعالیٰ کا فرما ں بردار ہونا.قرآن مجید میں لکھا ہے.(البقرۃ:۱۱۳ ) (الانعام:۱۶۳،۱۶۴) پس اسلام یہ چیز ہے جس کو تم نے ترک کیا.اس مضمون کو تفصیل کے ساتھ ہم دیباچہ میں لکھیںگے انشاء اللہ تعالیٰ.باقی حصہ اعتراضات کا جواب دیکھو سوال نمبر۱۳اور سوال ۱۴اور آخر دیباچہ میں.سوال نمبر۹۸.عورتیں تمہاری کھیتی ہیں آدمیوں کے برابر ان کے حقوق نہیں.الجواب: ان تراکیب سے آپ کو عمدہ اور اعلیٰ قوم کی بی بی نہیں مل سکتی.افسوس تجھ پر اور تیرے اعوان اور انصار پر ! دیکھ تیرے دیانند نے کیا کہا ہے اور کس طرح عورت کو کھیت سے تشبیہ دی ہے! نابکار ! یہ قرآنی معجزہ ہے کہ جس کا تم نے انکار کیا.وہی بات تمہارے گھر میں ہم دکھاویں اگرچہ ہماری باتیں اس سے اعلیٰ ہوتی ہیں.دیانند کا قول ہے ’’ جو کوئی اس بیش قیمت چیز کو بیگانی
عورت ، رنڈی یا بُرے مردوں کی صحبت میں کھوتے ہیں وے بڑے بے عقل ہوتے ہیں کیونکہ کسان یا مالی جاہل ہو کر بھی اپنے کھیت یا باغیچہ کے سوا اور کہیںبیج نہیںبوتے.جبکہ معمولی بیج اور جاہل کا ایسادستور ہے تو جو شخص سب سے اعلیٰ انسانی جسم کے درخت کے بیج کو برے کھیت میںکھوتا ہے وہ بھاری بے وقوف کہلاتا ہے کیونکہ اس کا پھل سب کو نہیں ملتا.(ستیارتھ.۱۵۶) اور اسی واسطے نیوگ کا بچہ دوسرے کا ہوتا ہے.گو دیانندپر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ نیوگی کو بھی اس میں سے حصہ مل سکتا ہے.اس سے نیوگ والے بھی بیوقوف نادان ثابت ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنے سے ادنیٰ میں بھی ویرج دان کرتے ہیں.منو ادھیائے ۹ شلوک ۴۸ تا۵۱ صفحہ۳۳۵،۴۸،جس طرح گئو،گھوڑا ،اونٹ ،لونڈی،بھینس ، بکری،بھیڑانہوں میں بچہ پیدا کرنے والے کا مالک بچہ کو نہیں پاتا اسی طرح دوسرے کی عورت میں تخم ڈالنے والا اولاد کو نہیں پاتا.۴۹.دوسرے کے کھیت میں تخم ڈالنے والا اس تخم کے ثمر کو کبھی نہیں پاتا.۵۰.دو سرے کی گئو میں دو سرے کا بیل بچھڑا پیدا کرے تو گئو کا مالک ان بچھڑو ں کو پاتا ہے اور بیل کا نطفہ بے فائدہ جاتا ہے.۵۱.اسی طرح دوسرے کے کھیت میں بیج بونے والا کھیت والے کا مطلب کرتاہے آپ پھل کو نہیں پاتا ہے.منو ادھیادس کے شلوک ۷۰ میں بحث کی ہے کہ اولاد میں اثر ماں کا ہوتا ہے یا باپ کااور ۷۱میںکہا ہے کہ اس زمین میں جو بیج پڑتا ہے وہ برباد جاتاہے اور کھیت اچھا ہے مگر اس میںبیج نہیںتو وہ صرف چبوترہ ہے دیکھو کھیت سے تشبیہ کیسی دی ہے:.عورتوں کو کھیت کہنے کی غرض کیا ہے ؟اول یہ کہ عورت سے خلاف وضع فطرت عمل نہ کیا جاوے.دوم.اس سے بکثرت جماع نہ کیا جاوے.سوم.اس کی اور اس کے حمل کی ہمیشہ حفاظت ہو.چہارم.جن کے بچے گر جاتے یا مر جاتے ہیں وہ اس تشبیہ سے یہ فائدہ اٹھائیں کہ ایک سال صحبت ترک کر دیں جس طرح زمین اس ترک سے مضبوط ہوجاتی ہے اسی طرح وہ عورت قابل حمل
رکھنے کے ہو جاوے گی.پنجم.اپنے کھیت میں دوسرے کا بیج پڑنے نہ دے اس لئے کہ اس سے فساد ہو گا اورعورتوں کے حقوق کے متعلق سنو! کیا تمہارے قانون میںعورت و مرد کے حقوق مساوی ہیں.دیکھو منو ادھیائے ۵ شلوک ۱۴۷.۱۴۸صفحہ ۱۸۵.۱۴۷عورت نا بالغ ہو یا جوان یا بڈھی ہو گھر میں کوئی کام خود مختاری سے نہ کرے.(دیکھو اپنے گھر کی مساوات کو)۱۴۸.عورت لڑکپن میں اپنے باپ کے اختیار میں رہے اور جوانی میں اپنے شوہر کے اختیار میں اور بعد وفات شوہر کے اپنے بیٹوں کے اختیار میں رہے خود مختار ہو کر کبھی نہ رہے.منو ادھیائے ۹شلوک ۳صفحہ۳۲۷.لڑکپن میںباپ اور جوانی میں شوہر اور بڑھاپے میں بیٹا عورتوںکی حفاظت کرے کیونکہ عورتین خود مختار ہونے کے لائق نہیں ہیں.منو۹ادھیائے شلوک ۱۵،۱۸ صفحہ۳۲۹.عورت تدبیر نیک سے محفوظ بھی ہو تاہم اپنی بداطواری و تلون طبعی و بیوفائی و عادات بد ان باتوں سے شوہر کو رنجیدہ کرتی ہے.اور قدرت نے کیا مرد و عورت میں مساوات رکھی ہے.بچہ کے پیٹ میں رکھنے ،جننے ،پرورش کرنے میں کیا عورت مرد مساوی ہیں ؟ ہرگز نہیں.سوال نمبر۹۹.اگر کوئی عورت بدکاری کرے تو اس کو پیٹو اور گھر میں قید رکھو کہ مر جاوے.بدکار مرد کو عورت جوتے کیوں نہ لگائے ؟عورت غلاموںکی طرح ملکیت تصور کی گئی ہے.الجواب:.(النساء.۱۶،۱۷) اس کا مطلب تو صاف تھا کہ شریر عورت کو بے وجہ سزا نہ دی جاوے بلکہ اس کی شرارت پر چار گواہ گواہی دیں کہ یہ عورت شریر ہے تو اس کو قید کر دو جب تک خدا تعالیٰ کوئی راہ نہ نکالے اور اگر
میاں بیوی دونوں شرارت کا ارتکاب کریں تو دونوں کو سزا دو اور اگر شرارت کرنے سے باز آجاویں اور سنوار کر لیں تو ان سے اعراض کر لو.اگر یہ حکم خاوند کا تجویز کریں جیسے تم کہتے ہو تو پھر خاوند کیا خود اپنے آپ کو سزا دے گا ؟ احمقوں کے اکثر کام حماقت کے ہی ہوتے ہیں تو سنو! یہ احکام سلطنت کے متعلق ہیں جن کو سزاؤں کا اختیار ہوتا ہے اور وہی امر فامسکو ھن کے مخاطب ہیں اس کے معنی ہیں بند کر و.اب ہم تمہیں تمہارے گھر سے پتہ دیں جس با ت پر تو نے اعتراض کیا وہ بعینہٖ لفظ بہ لفظ تمہارے گھر میں موجود ہے.منو ادھیائے ۹ شلوک نمبر ۸۲ص ۳۴۲.جس عورت کے اوپر دوسر اوواہ شوہر نے کیا اور وہ عورت غصہ ہو کر گھر سے نکلی جاتی ہوتو اس کو روک کر گھر میں رکھنا خواہ خاندان کی روڑہ ترک کرنا چاہے اور منو ۹.۷ میں ہے عورت کی حفاظت کرنے سے اپنے خاندان و اولاد و اتحاد و دھرم وغیرہ کی حفاظت ہوتی ہے پس جو اعتراض تم نے کیا ہے بعینہٖ وہ تمہارے منو شاستر پر آتا ہے.رات دن عورتوں کو شوہر وغیرہ کے وسیلہ سے بے اختیار کرنا مناسب ہے جو عورت بشیون میں لگی ہے اس کو اختیار میں رکھنا چاہئے.منو ادھیا۹.۲.عورتوں کو مشورے سے الگ رکھے.منو ۷.۱۴۹.سوال نمبر۱۰۰.طلاق پر اعتراض عورت بد صورت ہو لڑکیاں پیدا کرے ،خراب ہو تو مرد طلاق دے اور اگر مرد بد صورت ہو ،لڑکیاں پیدا کرے ،خراب ہو تو عورت طلاق نہ دے.الجواب: عورت کو پسند کرکے بیاہ کرنا شرع اسلام کا حکم ہے اور پھر ایک ایسا حکم ہے کہ تمہاری کسی کتاب میں نہیں اور نہ دنیا کی کسی کتاب اور قانون نے ایسی سفارش مردوںکو کی ہے جیسی قرآن کریم نے عورتوں کی بہتری کے لئے فرمائی ہے. (النساء:۲۰) ترجمہ.اور تم عورتوں سے اچھی طرح برتاؤ کرو پس اگر تمہیں بری لگیں تو سمجھ لو کہ ہو سکتا ہے
کہ ایک چیز تمہیں بری لگے اور اللہ اس میں خیر کثیر رکھ دے.پھر فرمایا ہے.(النساء:۳۵) انہیں نصیحت کرو اور ان کی چارپائی الگ کر دو اور سزا دو اور اگر اس پر بھی باز نہ آئے تو عورت کے رشتہ دار اور مرد کے رشتہ دار دونوں کورٹ کرکے صلح کرا دیں جیسے فرمایا.(النساء:۳۶) (یعنی حتی المقدور سمجھاؤ کبھی سرزنش سے ،کبھی الگ سونے سے ،اگر اس طرح بھی نہ سمجھیں تو جیسے مذکور ہوا) پھر مرد اور عورت کے رشتہ داروں سے حکم بلاؤ.اس تدبیر کے موافق اگرعورت اور مردکا ارادہ اصلاح کاہو گا تو اللہ ان میں موافقت پیدا کر دے گا.اور یہ تمہارا اعتراض کہ’’ عورت طلاق نہ دے ‘‘کورانہ تعصب یا جہالت سے پیدا ہوا ہے.اسلام نے عورت کو صاف اجازت دے دی ہے وہ بھی واقعات ضروری کے پیش آنے پر مرد سے طلاق لے سکتی ہے اسے اسلا م کی اصطلاح میں خلع کہتے ہیں با این ہمہ خدا تعالیٰ کی کتاب فرماتی ہے.(البقرۃ:۲۲۹) اور عورتوں کے حقوق کی رعایت مردوںکے ذمہ ویسی ہے جیسی کہ عورتوں پر مردوں کے حقوق کی.ہم نے تمام دنیا کے قوانین اور آسمانی کتابوں میں وہ آزادی اور حقوق عورتوں کے نہیں دیکھے جو قرآن کریم میں بیان کئے ہیں اور ہندوؤں کے قوانین تو سن ہی چکے ہو اب فیصلہ کرو کہ قدرتی اور سچی مساوات کہاں ہے؟ سوال نمبر ۱۰۱.مرد ایک وقت میں دودو ،تین تین،چار چار کرے اورعورتیں ایک ہی وقت میں دو دو،تین تین ،چار چار خاوند کیوں نہ کریں؟ الجواب: غالباً عقل مند بی.اے کی مراد ایک وقت سے ایک دو منٹ تو نہیں ہو گی.ہم فرض
کرتے ہیںکہ مثلاًایک مہینہ ایک برس یا تین برس مراد ہو گی مگر تم ہی بتاؤ کہ ایک عورت ایک وقت میں ایک مرد کابچہ تو پیٹ میں رکھ سکتی ہے.تو کیا بہت سارے مردوں کا بیرج (منی) نطفہ بھی اسی پیٹ میں رکھ کر بچہ دے سکتی ہے ؟اگر تم بلاواسطہ اس مشکل کو حل نہ کر سکو تو آریہ سماج کے لائق استریوں سے یہ مسئلہ دریافت کر لو.اب رہی یہ بات کہ مرد ایک وقت میں کس قدر عورتوںمیں اپنا بیج ڈال سکتا ہے تو یہ بڑی بدیہی اور مشاہدہ کی بات ہے.زمانہ میں یہ نظارہ نظر آ رہا ہے عورتوں کا مکان مردوں کی کثرت کا مقتضی نہیں.قدرت نے ایسا نہیں بنایا اس واسطے ’’کیوں نہ کریں ‘‘کا جواب ہے کہ نہ کریںکیوںکہ قانون الٰہی اجازت نہیں دیتا اور قانون قدرت کی عدم اجازت سے منہ پھیر کر اس کی نہی پر اقدام کرنے والاآتشک اور ایسی طرح طرح کی لعنتوںمیںگرفتار ہوتا ہے.تعدّد ازواج بے وجہ جائز نہیں.اصل سبب تعدّد ازواج کابد کاریوں سے بچنا ہے.جو لوگ بحثوں میں تعدّد ازواج کے مخالف ہیں وہ اندرونی خو اہشات او ر افعال کا مطالعہ فرماویں.صرف کمزور ،جلق کے عادی ،مخنث طبع اور عدیم الفرصت لوگ اس فکر سے مستثنیٰ ہیں.جس قوم نے زبان سے تعدّد ازواج کا انکار کیا ہے وہ عملی طور پر ناجائزاور ناپاک تعدّدازواج یعنی زناکاری میںمبتلا ہوئے ہیں.ان کی خواہشوںکی وسعت اوردست درازی نے ایک عورت پر قناعت نہ کر کے ثابت کر دیا ہے کہ فطرت میںتعدّد اور تنوّع کی آرزو ضرور ہے.خدا تعالیٰ کے قانون کا یہ مقتضاء ہونا چاہیے کہ وہ انسان کی وسیع خواہشوںاور اندرونی میلانوں پر مطلع اور حاوی ہو کر ایسی ترتیب اور طرزپر واقع ہو کہ مختلف جذبات والی طبائع کو بھی تقویٰ اور طہارت کے دائرہ میں محدود رکھے.ستیارتھ کے صفحہ۱۲۰میںلکھا ہے ’’جب مہینہ بھر میںحیض نہ آنے سے حمل کے ٹھہر نے کا یقین ہو جائے تب سے ایک برس تک عورت مرد ہم بستر کبھی نہ ہوں‘‘.انصاف کے لیے میںتمام آریہ سماج اور ناظرین کتاب کے حضور میںاپیل کرتا ہوں کہ یہ عمل درآمد عام خلقت کا ہے اور جن کی بیبیاںحمل کے بعد حمل میںرہتی ہیںوہ دو تین سال صرف دو تین بار جماع کر کے تندرست ،قوی المزاج مجرد رہ کر متقی بنے رہ سکتے ہیں؟
اورصفحہ ۱۵۷ میں لکھا ہے اگر حاملہ عورت سے ایک سال صحبت نہ کرنے کے عرصہ میں مرد سے یا دائم المرض مرد کی عورت سے نہ رہا جاوے تو کسی سے نیوگ کر کے اس کے لیے اولاد پیدا کردے.کیا یہ دیانند کے احکام تقویٰ اورراستی کی ہدایتیں ہیں؟ بد قسمت مصلح ناپاک تعدّدازواج کی اجازت دیتا ہے مگر خدا کے پاک نبیوں کے پاک فعل کی پیروی سے روکتا ہے.اب تعدّدازواج کے اصول اپنے ہاں سے سن لو.منّو۷.۲۲۱ص۲۴۸ میں ہے کھانا کھا کر عورتوںکے ساتھ محل میںبہار کرے.اس کے بعد بوقت موقع پھر امو رسلطنت کو دیکھے.پھر منّو ۹.۱۲۴ص۲۴۹میںہے.بڑی عورت میں پہلے لڑکا پیدا ہوا ہوتو پندرہ گئو اورایک بیل لیوے.اسکے بعد چھوٹی عورت میںجو لڑکے پیدا ہوئے ہیں وہ اپنی والدہ کی شادی کے سلسلہ سے بزرگی کو پاکر یقیناًبا قی ماندہ گئو ں کا حصہ لیویں.پھرمنو.۹.۱۸۳صفحہ ۳۶۰ میں ہے ایک آدمی کی چار پانچ زوجہ ہوں ان سب میں ایک پتر دان ہو تواس کے ہونے سے سب زوجہ پتر دان کہلاتی ہیں سب اس بات کو من جی نے کہا ہے.پھر منو.۱۱.۵.۴۱۷ میں ہے پہلے عورت موجود ہو اور بہکشا سے دولت فراہم کر کے اس روپیہ سے دوسری شادی کرے تو اس کو صرف جماع کا لطف ملتا ہے.اور اولاد اسی کی ہے جس نے دولت دی.اسی قدر حوالے طالب حق اور خدا ترس کے لیے کافی ہیں.ان کے بعد پھر اسلام پر اعتراض کرنا ایسے شخص کاکام ہے جسے حق اور حقیقت سے دراصل کوئی تعلق نہیں.سوال نمبر ۱۰۲.عورتیں پردہ کریں مرد کیوں نہ کریں.الجواب: اوّل تو مرد و عورت میں مساوات کہاں کہ مساوی حقوق دیے جاویں.دوم.عورت کے لیے جو حمل بچہ جننے دودھ پلانے کی تکلیف ہوتی ہے اس میں مرد کو کس طرح عورت کے ساتھ مساوات کا حصہ ہے.
سوم.عورت کے لیے یہ تکالیف با اسباب پنر جنم خیال کی جاویں تو بقیہ عدمِ مساوات کا عذر وسیع کیوں نہ کیا جاوے.چہارم.یہ آیت جس کا حوالہ سوال میں دیا گیا ہے یہ ہے.(الاحزاب:۶۰) ترجمہ.اے نبی! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ کہ بڑی چادریں اُوڑھ لیا کریں اس سے یہ فائدہ ہو گا کہ وہ پہچانی جائیں گی اور ستائی نہ جائیں گی اور اللہ غفور و رحیم ہے.اور اس کے ماقبل یوں ہے(الاحزاب:۵۹) اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو خواہ مخواہ بغیر ان کے اکتساب کے ایذاء دیتے ہیں وہ بہتان اور بڑی بد کاری کا ارتکاب کرتے ہیں.اور اس کے بعد یہ آیت ہے (الاحزاب:۶۱) یعنی اگر یہ منافق اور دل کے بیمار اور مدینہ میں بری خبریں اڑانے والے باز نہیں آئیں گے تو ہم تجھے ان کی سزا دہی پر آمادہ کریں گے پھر یہ مدینہ میں تیرے قرب وجوار میں رہنے نہیں پائیں گے.ان آیات کا مطلب اور قصہ یہ ہے کہ مدینہ کے بعض بدمعاش مسلمان عورتوں کو چھیڑتے تھے اور عورتوں کو دکھ دے کر ان کے متعلق لوگوں کو تکلیف پہنچاتے تھے.چونکہ بظاہر مومن ہونے کے مدعی تھے اس لیے جب پکڑے جاتے تو عذر کر دیتے کہ اس کو ہم نے پہچانا نہیں.اس واسطہ یہ
نشان لگایا گیا غور کرو یہ کلمہ قرآن کریم کا اور ماقبل کی آیت کس قدر صفائی سے بتاتی ہے کہ بڑی چادر ایک نشان تھا اور ان سے واضح ہوتا ہے کہ ایک شرارت کی بندش اسلام نے کی ہے اس لیے اس نشان کے بعد فرمایا کہ اب بھی اگر شریر شرارت سے باز نہ آئے تو ہم ان کو خوفناک سزا دیں گے.افسوس ایسے نشانوں اور سچی باتوں پر اعتراض کیا جاتا ہے سنو! اس قسم کے نشان کیسے ہر جگہ موجود ہیں غور کرو منو ادھیا ۲ کے شلوک ۲۱۵ ماں بہن لڑکی ان سب کے ساتھ اکیلے مکان میں نہ رہے کیونکہ اندری بہت بلوان ہیں پنڈتوں کو بھی بری راہ پر کھینچ لاتی ہیں اور ۲۱۴ میں ہے کام، کرودھ ، سہت پنڈت ہو یا مورکھ ہو اس کو بری راہ میں لے جانے کے واسطے استری لوگ سامرتھ رکھتی ہیں ستیارتھ کے تیسرے سملاس فقرہ ۴ صفحہ ۴۲.لڑکوں اور لڑکیوں کی پاٹھ شالا ایک دوسرے سے دوکوس دور ہونی چاہئے جو معلمہ یا معلم یا نوکر چاکر ہوں لڑکیوں کے مدرسہ میں سب عورتیں اور مردانہ مدرسہ میں مرد ہوں.زنانہ مدرسہ میں پانچ برس کا لڑکا اور مردانہ پاٹھ شالا میں پانچ برس کی لڑکی بھی نہ جانے پاوے.مطلب یہ کہ جب تک وہ برہم چاری یا برہم چارنی رہیں تب تک عورت و مرد کے باہمی دیدار ، مس ،اکیلا رہنے ، بات چیت کرنے ،شہوتی کھانے ، باہم کھیلنے، شہوت کا خیال اور شہوتی صحبت ان آٹھ قسم کی زنا کاری سے الگ رہیں.سوچو اگر پردہ کی رسم جو اسلام نے قائم کی ہے نہ رہے توان آٹھ قسم کے زنا میںدیدار اورشہوت کے خیال کاکیاحال ہو گا؟او تار ک اسلام نوجوان! سوچ کر تو ہی کچھ اس کا جواب دے.سوال نمبر۱۰۳.لے پالک بیٹے کی بیوی حلال ہے اس طرح تو لوگ لے پالک بنا کر اور جائیداد کاطمع دے کر جوڑتوڑ سے عورت اڑالیںگے بغیر نکاح وگواہ تصرف میں لانے کے لئے آیت قرآن پیش ہو گی.الجواب: لے پالک بناکر.پال !لے پالک بنانا شرع اسلام میں جائز نہیں تو آپ کا اعتراض
کیونکر چسپاں ہو گا.لے پالک بیٹا حقیقتاً بیٹا ہی نہیں اور اس کو بیٹا کہنا سچ نہیں.اسی واسطے قرآن نے جو حقیقت کا کاشف ہے اس کو بیٹا کہنا جائز قرار نہیں دیا کیونکہ بیٹا باپ کی جز ہو تا ہے اور لے پالک غیر اور غیر کی نسل سے ہے.مجھے ہمیشہ خیال آتاہے کہ حقیقی علوم کا معلم نیوگ کو کیونکر جائز کر سکتاہے کیونکہ نیوگی بیٹا نیوگ کنندہ کا نطفہ اور اس کا جزو ہوتا ہے.نیوگ کنندہ اولاد کا لالچ دیکر لذت و مزہ بھی اٹھا لے اور پھر اپنے بیرج کی اولاد کو دوسرے کے مال ودولت کا مالک بھی بنا لے اور آہستہ آہستہ جوڑ توڑ کر کے آخر عورت بھی اڑا لے اور اپنا ہی بیٹا جائداد کا مالک کر دے اور پھر عذر کر دے کہ یہ وید کا ارشاد ہے.آہ کوئی سمجھنے والا ہو!! پھر اسلام میں لے پالک کی بیوی کیونکر جائز ہو گی جبکہ لے پالک بنانا ہی جائز نہیں پھر کسی دوسرے کی بی بی بدوں طلاق کے اور اس کی عدت گذرنے سے پہلے جائز نہیں.پھر بدوں نکاح اور گواہوں بلکہ بلا رضامندی ان والیوں کے جو عورت کے مہتمم ہو ں ہمارے مذہب میں کسی عورت کا بیاہنا جائز نہیں ہاں نیوگ میں یہ سب کچھ ہو سکتاہے.سو وہ ہمارے یہاں ممنوع او ر آپ کے یہاں ضروری ہے.سوچو اور غور کرو کہ اس خبیث الزام کا نشانہ وید کا مذہب ہے یا کوئی اور ! خدا تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس کا کلام قرآن کریم ہر قسم کے ناپاک الزاموں سے پاک اور اس کے غیر ہر طرح کی نجاستوں میں آلودہ ہیں.کوئی رشید ہے جو غور کرے!!! سوال نمبر ۱۰۴.غریبی سے مت ڈرو نکاح کر لو خدا تم کو غنی کر دے گا.اس پر ہنسی کی ہے اور تمسخر سے کام لیا ہے.الجواب:.منو میں تو یہ لکھا ہے کہ عورت کی حفا ظت کرنے سے اپنے خاندان ،اولاد ،آتمہ ، دھرم وغیرہ کی حفاظت ہوتی ہے.منو ادھیا۹.۷.اور اسی منو کے ادھیا ۹شلوک ۳۰میں ہے پت نام ہے دوزخ کا اور اتر بمعنی محافظ کے ہیں چونکہ بیٹا باپ کو دوزخ سے بچاتا ہے اس سبب سے پتر کہاتاہے اس بات کو شری برہما جی نے کہا ہے.
اور یہ تو ظاہر ہے غریبی بھی تمہارے یہاں ایک نرک ہے ذراسوچو !پتر تمہارا آریہ مسافراور اس کے اوپر مہارشی دونوں بلاپتر مر گئے.غوروتامل کرو! مخلوق میں حیوانات کو پھر خاص انسانوں میںہم دیکھتے ہیں کہ لوگ مختلف القویٰ یعنی الگ الگ قویٰ کے پیدا ہوتے ہیں.بعض کے قویٰ شہوانیہ قویٰ اور بعض کے بہت ضعیف ہواکرتے ہیں جس آیت کریمہ کا تم نے حوالہ دیاہے وہ آیت کریمہ یہ ہے. (النور :۳۳) یعنی اپنے میں سے بیوہ عورتوں اور قابل اور لائق لونڈیوں کا نکاح کردو اگر وہ مفلس ہوں اور اس خوف سے نکاح نہ کریں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کردے گا.اس آیت کریمہ کے پہلے بدکاریوں سے بچنے کا وعظ ہے اور تاکید ہے کہ بدوں اجازت صاحب خانہ کسی کے گھر مت جائو.اپنی نگاہیں نیچے رکھو.پھر یہ حکم دیاہے کہ بے بیاہے مردوں اور عورتوں اور اپنے اچھے غلاموں داسوں اور لونڈیوں کا باذن ان کے والیوں کے بیاہ کردو.دیکھ کیساپاک اصل ہے اور پاک حکم ہے کہ اپنے لڑکوں لڑکیوں کا بیاہ تو کرتے ہو.داسوں اور داسیوں کے بیاہ بھی کردو نیز شرع اسلام میںغلاموں اور لونڈے کے لیے گھرمیں آنے جانے کی اجازت ہے او ر ان سے پردہ نہیں.اب اگر ان کی شادی نہ کی جاوے توآخر گھروں میںبدکاریوں کے مرتکب ہوں گے.پس ضرور ہوا کہ ان کی شادیاں کردی جاویں کیونکہ آخر وہ بھی ہمارے ہی بچے بچیاں ہیں اور بتایاہے کہ وہ قابل شادی ہوں اورشادی کی صلاحیت ان میں ہو تو ان کی شادی کرو.علی العموم شادی شدہ انسا ن کاہل و سست نہیں رہ سکتا.نیز تعلقات کے باعث اس کے اخلاق میں بہت اصلاح ہوجاتی ہے اور بی بی بچوںاور بیبیوں کے کنبہ اور تمام وسیع متعلقوں سے اسے بہت کچھ اخلاق سے کام لینا پڑے گا.آخر تو بھی انسان ہے سوچ تو سہی غلام اور لونڈیاں اور بے بیاہے مرد اور عورت جن کو شہوت کے اسباب وہتھیار دئیے گئے ہیں غریبی کے باعث اگر بیاہ نہ کریں تو اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے اور
اس کے پیدا کردہ اعضاء شہوت کے متعلق کیا یقین کریں کہ ہم غریبوں کویہ سامان حکیم خدا نے نعوذباللہ نادانی اورناعاقبت اندیشی سے دیا ہے.سوال نمبر ۱۰۵.ماموں چچاکی لڑکیاں بیاہ کرنا معیوب ہے کیونکہ بھائی بہن کا میاں بی بی بننا معیوب ہے.الجواب.تم لوگوں کے فضول لفظ اور دعویٰ ہی ہوتے ہیں.ا س پر دلیل کیاکہ وہ معیوب ہیں اور بھائی بہن کا بیاہ ہیں.کیاوید میں ممنوع ہے.کیانیچر نے، عقل نے، کانشنس نے، تجربہ نے او ر بالآخر مشاہد ہ نے اس تعلق کو منع کیاہے.ہمارے ضلع شاہ پور ہڈالی تحصیل خوشاب اور اس کے ارد گر بہت گائوں ہیں.اروڑا قوم ہندو نے تمہارے اس غلط خیال اور اسلامی تعلیم کی حقیقت کو سمجھ کر چچااور ماموں جیسے قریب رشتوں میں شادیاں شروع کردی ہیں جیسے یورپ کی قوموں نے آخر مسئلہ طلاق کو اور مارمن قوم نے یورپ و امریکہ میں کثرت ازدواج کو قبول کرلیا.سوال نمبر۱۰۶.مسلمانوں کے لیے چار اور نبی کریم کے لیے زیادہ.قانون کو مقنّن خود توڑتاہے.الجواب.تم نے سورہ احزاب کا حوالہ دیاہے.میں نے سورہ احزاب کو پڑھا ہے.وہاں ہرگز نہیں لکھا کہ نبی کریم عام مسلمانوں سے زیادہ کے ساتھ شادی کرلیں.دوم.اگر ایسا حکم سوائے سورہ احزاب کے قرآن کے باہر بھی ہو تب بھی موجب اعتراض نہیں.اوّل تو اس لیے کہ تم ایسااعتراض پیش نہیں کرسکتے کیونکہ تمہارے ہاں نیوگ کے احکام میں لکھا ہے.(۱۵۰) ستیارتھ کہ برہمن اپنی بی بی سے دوبیٹے اور دوسرے کی بیبیوں سے دودوبیٹے ان کے لئے.پھر برہمن اپنی بی بی کے علاوہ اپنی برہمنی سے، کھترانی سے، ویشنی سے نیوگ کرے مگر کھتری برہمنی سے نہیں بلکہ کھترانی اور ویشنی سے اور ویش صرف ویشنی سے نیوگ کرسکتاہے.
دیکھو برہمنوں نے جنہوں نے ویدوں کی شرح لکھی ہے اپنے حقوق کو کیسامستثنیٰ کیاہے بلکہ یوں کہیں کہ وید نے ہی مستثنیٰ کیاہو.اگر کہوکہ ان کے علم وہنر و فضل نے یہ امتیاز ان کو بخشاہے تو مسلمان اپنے رسول کو بہت بڑا عظیم الشان اور بے نظیر انسان مانتے ہیں پھر وہ کیوں ممتاز نہ مانے جائیں.سوال نمبر ۱۰۷.ـ اے رسول ہم تم کوخبریں غیب کی سناتے ہیں.حالانکہ یہ قصہ ہائے بائبل میںموجود ہیں.ان میںغیب اور وحی کی کیا ضرورت تھی.الجواب:(دیکھ سورۃ ہود)عقل مند انسان.پال !یہ آیت شریفہ جس پر تیرا اعتراض ہے اس کے پہلے یہ ذکر ہے. (ہود:۳،۴) اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی پرستش مت کرو،بے ریب میں تمھارے لیے ہوں ڈرانے والا اور بشارت دینے والااور یہ کہ عفو مانگواپنے رب سے اور حفاظت طلب کروپھر اسی کی طرف متوجہ ہو جاؤ.مخالفت پر بتاتا ہوںکہ تم پر میری مخالفت کا وبال آئے گااور ناکام رہو گے اور موافقت پر تمہیں بشارت اور خوشخبری سناتا ہوں.پھر اس وعظ امید وبیم کے بعد فرماتا ہے.(ہود :۴) یعنی اگر تم منہ پھیرو گے تو بے ریب میں ڈرتا ہوں تم پر بڑے دن کے عذاب سے.پھر حضرت نبی کریم ﷺ کے مخالفو ں کی شرارتوںکا ذکر کیا ہے جو آپ کے مقابلہ میں کرتے رہے.پھر عظمت الٰہیہ کا بیان ہے.پھر یہ کہ اللہ تعالیٰ مہلت دیتا ہے تو منکر مہلت پر بھی ہنسی کرتے ہیں.پھر عام انسانی حا لت کاتذکرہ کیا.پھر بتایا ہے کہ علی العموم انسانی محنت اگر دنیا کے لئے ہو تو انسان کو دنیا میں فائدہ ہوتاہے مگر تیرے مقابلہ میں ان کی محنتیں بیکار ہیں.پھر فرمایاجو شخص ہو کھلے عظیم الشان نشان پر اپنے رب کی طرف سے اور اس کے ساتھ ہو ایک
عظیم الشان گواہ رب کی طرف سے اور پہلے سے کتاب موسٰی بھی ایک بڑاامام اور رحمت ہے وہ تو ایمان لاتے ہیں.پھر اشارہ فرمایا ہے کہ جب عر ب کی اقوام واحزاب چڑھائی کریںگے تو اس کا خمیازہ دیکھیں گے.اس قصہ کی تفصیل سورہ احزاب میںکی ہے.پھر کلمہ طیّبہ(ھود :۲۱) میں بتایا کہ یہ مخالف منکر تم کواس زمین عرب میں عاجز کرنے والے نہ ہوئے.پھر مؤمنین کو بشارت دی ہے کہ یہ جنت والے ہیںاسی واسطے صحابہ کرام اس جنت کے بھی وارث ہوئے جس کاوعدہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا اور اس جنت عدن کے بھی وارث ہوئے جس کو تو ریت نے اور مسلم کی حدیث میں جنت عدن فرمایا اور اس کے بھی جس کا فرعون فخر کرتا ہے.(الزخرف:۵۲) بلکہ اس سورن کی زمین کی بھی جس کو دیانند سونے کی زمین کہتا ہے.اسی سے ہم کو کامل یقین ہو گیا ہے کہ بعد الموت روضہ ریا ض جنت کے بھی مالک ہو ں گے اور بعد الحشر اس کامل الجنۃ کے وارث بھی ضرور ہوں گے جن کی یہ آرام گاہیں مثل ہیں.پھر بتایا ہے کہ ان صداقتوں سے تم بے خبر ہو ہماری تمہاری مثل حق سے اندھے اور حق کے بینا.اور بہرے اور حق کے شنوا کی مثل ہے پھر نوح علیہ السلام کا قصہ بیا ن کیا ہے کیونکہ نوح ؑ رسول اللہ تھے اور ان کے مخالف حق کے دشمن رسول کے مخالف تھے اور قرآن کریم میں ارشاد ہے.(یوسف :۱۱۲) اس عبرت کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جس طرح نوح رسول اللہ کامیاب ہوئے اور ان کے منکر مخالف ناکام رہے مخالفوں کا بیڑا آخر غرق ہوا اسی طرح میرے مخالفو! تمہارا حال ہوگا.پھر آخری قصہ حضرت نوح ؑ پر فرمایا ہے. (ہود:۵۰)
یہ باتیں جو اب تک کہی گئیں غیب کی خبروں سے جو وحی کی ہم نے ان کی تیری طرف تو نہیں جانتا تھا ان باتوں کو (کہ تیر اا ور تیرے اتبا ع کا انجام کیا ہوگا اور نہ اس سے پہلے تیری قوم جا نتی تھی کہ ان کا انجام کیا ہو گا ) ہاں صبر اور انتظار سے دیکھ.بے ریب آخرمیدان متقی کے لیے ہے.سوال نمبر۱۰۸.انبیا ء کے چند ناموں کا ذکر ہے باقی کیوں نہیں ؟ الجواب:انبیاء و رسل اس قدر گزرے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے. (المدثر : ۳۲) اور فرماتا ہے : (المؤمن :۷۹) خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ ہم نے تمام دنیا کے شہروں میں راستباز بھیجے ہیں.پھر اس مشترک اور یکساں راستی کا ذکر کیا ہے جو تمام راستبازوں میں مسلم تھی اور جسے ان سب نے دنیا کو تبلیغ کیا اور نمونہ کے طور پرایک مخاطب قوم کے مسلم راستبازوں کا ذکر کیا اور ان کا نمونہ بتا کر یہ پُر تحدی اور پُر شوکت پیشگوئی کی کہ میری تعلیم بھی وہی تعلیم ہے جو کل راستباز دیتے آئے ہیں اور میں اسی طرح کامیاب ہوں گا جس طرح وہ سب راستبازکامیاب ہوئے جن کی کامیابی تمہارے نزدیک بھی مسلم ہے.نادان معترض اتنا نہیں سوچتا کہ خدا کی کتاب بے فائدہ اسماء شماری کر کے ہزاروں جلدیں ان بے شمار نبیوں اور مصلحوں کے اسماء کی تدوین میں جمع کر دیتی تو مخلوق کو اس سے کیا سبق دیتی.قرآن کریم کا یہ زریں اور بلند دعویٰ کافی ہے کہ کل راستبازوں کی ایک ہی تعلیم تھی اور میری وہی تعلیم ہے اور میںضرور کامیاب ہو جاؤں گا اور ایسا ہی ہوا کہ خدا تعالیٰ کا وہ آخری عظیم الشان نبی ہر قسم کی کامیابی کا تاج پہن کر دنیا سے رخصت ہوا.سوال نمبر۱۰۹.ویدوں کا ذکر کیوں قرآن میں نہیں؟ الجواب: قرآن تذکرۃ الکتب کی کتاب نہیں.وہ علم الٰہی کی کتا ب ہے،کتنے رسائل یہودونصاریٰ کے پاس ہیں کسی کا ذکر نہیں.صحف ابراہیم کا ذکر ہے اور وہ اب تک موجود نہیں.یہ امر ہنوز فیصلہ
طلب ہے کہ وید کوئی خاص متحقق متعیّن شئے بھی ہے.اس اختلاف پربحث کرنے کا یہ محل نہیںمگر یہ امرمسلّم ہے کہ وید علم صحیح کا نام ہے.اس لیے وید کے معنی ہیں وہ چیز جس کے ذریعہ سے علم صحیح حاصل ہوتا ہے یا جس کے ذریعہ لوگ عالم ہوتے ہیں یا جس کے ذریعہ سکھ حاصل ہوتا ہے یا جس کے ذریعہ ہم سوچتے اور بچارتے ہیں.اس معنی کے لحاظ سے تمام وہ ذرائع جن سے سچے علوم حاصل ہوتے ہیںوید ہیں.سو قرآن کریم نے وہ تمام ذرائع صحیحہ واقعیہ بیان کر دئیے ہیں مثلاً فرمایا.(البقرۃ :۲۸۳) تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو.اللہ تعالیٰ خودتمھارا معلم ہو گا.یہاں تقویٰ کو ذریعہ علم بتایا ہے.تقویٰ کیا ہے عقائد صحیحہ.راستبازی کے اقوال یا یوں کہیں ایمان بالغیب.اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس سے دعا اور مخلوق کی بہتری کے لیے اپنے خداداد قویٰ اور زبان و اعضاء سے اور اموال سے کوشش کرنا.پہلے معنی رکوع۶ پارہ۲ اور دوسرے معنی سورئہ بقرہ پار ئہ اول کے پہلے رکوع میںبیان کئے گئے ہیں اور ہم نے اپنی کتاب میں بہت جگہ ذکر کیا ہے.دعا، دھیان و کوشش یہی ذرائع علم صحیح ہیں جن کی ہدایت اس آیت میں ہے.(۲) (طٰہٰ :۱۱۵) اے میرے رب !مجھے علم میںترقی بخش.(۳) اور فرمایا ہے.(محمد :۲۵) وہ کیوںقرآن کو غور سے نہیں پڑھتے.(۴) اور فرمایا: (العنکبوت :۷۰) جو لوگ بہت کوشش کرتے ہیں ہماری راہوںکے پانے میں ہم ان کو اپنی راہیں دکھادیا کرتے ہیں.(۵،۶) اور ذکر الٰہی اور تفکر بھی علم صحیح کا باعث ہے چنانچہ فرمایا: (آل عمران:۱۹۱،۱۹۲)
یعنی نشان ہیں دانش مندوں کے لیے جو یاد رکھتے ہیںاللہ کو کھڑے اور بیٹھے اورلیٹے لیٹے اور تفکر کرتے ہیں آسمانوں اور زمین کی بناوٹ میں.دیانند نے بھی لکھا ہے کہ رشی لوگو ں کو مراقبوں ،سمادھوں وغیرہ سے یہ سچے علوم حاصل ہوتے ہیں.غرض وہ تمام سچے علوم قرآن کریم میں مذکور ہیں جو انسان کی فلاح دنیوی و اخروی کے لئے ضروری ہیں اور حقیقی وید کے یہی معنی ہیں.اب بتاؤ ویدوں کا ذکر قرآن میںموجود ہے یا نہیں.سوال نمبر۱۱۰.قسم مت کھاؤ.پھر خود گھوڑوں، ہواؤں وغیرہ کی قسمیں کھائی ہیں.ہمالہ.ایلپس.بندھیاچل.اڑد وغیرہ بھینس.ہاتھی.گنگا.جمنا وغیرہ کی قسمیں کیوں نہ کھائیں.دماغ میں نہ تھیں.الجواب.سنو!قسموںکا جواب تو مفصل سوال نمبر۱۴کے جواب میں موجود ہے پر تمہاری عادت ہے کہ تکرار اور بے وجہ تکرار کرتے ہو اور یہ تمہاری بے ایمانی ہے کہ تم نے تکرار کا عیب قرآن پر بے وجہ لگایا ہے نادان! تم کو ہمالہ، بندھیا چل، اڑد، بھینس، ہاتھی، گنگا ،جمنا یاد آئیں اور کشمیری.کابلی.چینی.روسی وغیرہ کو اپنے اپنے ملک کے نظارے ہائے قدرت یا د آجائیں گے تو کیا قرا ٓن شریف تمام نظارہ ہائے قدرت کی تفصیل کرتا؟ پھران پر حوادث جدیدہ کی تفصیل کرتا جو روز مرہ نئے نئے واقع ہوتے ہیں مگر یہ تو بتاؤ کہ تمہارے منوجی اور یاگ ولک جی نے قسموں میں کیوں خصوصیت کی ہے.منو ادھیا۸.۸۸ گئو بیج اور سونا کی قسم دے کر دیشیہ سے پوچھے.دیکھو خصوصیت ہے یا نہیں اور قرآن کریم میں تو (الحاقۃ :۳۹،۴۰)موجود ہے.پھر یہ تو بتاؤ کہ دیانند نے وید سے جو شلیپ ودیا نکال کر دکھائیں.وہ صرف وہی دکھائیں جو یورپ والوں میں موجود سنیں زیادہ کیوں نہ دکھائیں.بات یہ ہے.مناظرات قدرت کو دعاوی کے ثبوت میں وہاں تک پیش کیا جاتاہے جہاں تک مخاطب کی سمجھ پہنچ سکتی ہے.فہم سے بالا تربات کرنا حکیم کاکام نہیں.انبیاء اور رسل پھر اللہ جلشانہ جیسا علیم وحکیم کیوں ایسی لغو حرکت کرتا.
سوال نمبر۱۱۱.(الجمعۃ:۳)پر اعتراض کیا ہے کہ پڑھے لکھے عالم فاضل ،ان پڑھ کی بات کو کیوں مانیں.سورج کا دلدل میں غروب ہونا.عیسیٰ بلاباپ پیدا ہو گیا.لاٹھی کا سانپ بن گیا.یہ باتیں معقول پسند آدمی کی کتاب میں نہیں ہو سکتیں.الجواب :آیت کے صحیح معنی ہم بتاتے ہیں مگر اس کے معنی کو بیان کرنے سے پہلے میں پوچھتا ہوں کہ سورج کا دلدل میں ڈوبنا کتنی بار بیان کر چکے ہو.تم لوگوں کو تکرار مضامین کلام مجید پر اعتراض ہے اور ذرا سے رسالہ میں یہ تکرار.دیکھو سوال نمبر۷۹،۸۰پھر عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش پر سوال دیکھو سوال نمبر۱۶،۷۴پھر لاٹھی کے سانپ پر اعتراض دیکھو سوال نمبر۴۸،۴۹،۵۰.(۱)بھلا یہ تو بتاؤ کہ قرآن کریم میں کہاں لکھا ہے کہ سورج دلدل میں غروب ہوتا ہے تم جھوٹ بولتے ہو.ہاں قرآن میں ہرگز ہرگز نہیں لکھا بلکہ وہاں لکھا ہے (الکھف:۸۷)یہاں لفظ جس کے معنی ہیں ’’سمجھا اس نے‘‘سورج کو کئے ہیں.پھرہمارے نبی کریم ﷺ کو کون کہتا ہے کہ ان پڑھ تھے.ہمارے جس قرآ ن مجید پر تم کو اعتراض ہے اس میں تو لکھا ہے اور ہمارے ہادی کو خطاب ہے. (النساء :۱۱۴) اور فرمایا (النجم :۶،۷)اور فرمایا : (طٰہٰ :۱۱۵) اور فرمایا: (العلق :۶) پس آپؐ کا معلّم وہ علیم وخبیر ہے جس کا دوسرا نام رب العلمین ہے.وہ ہر ایک کو اس طرح اب بھی سکھانے کو تیار ہے جس طرح اس نے پہلے سکھایا.جیسے فرمایا: (البقرہ:۲۸۳) ہاں تم بتاؤ کہ اگنی ،ادت ،انگرہ ،وایو جو تمھارے اصل معلّم و بانیء دین خیال کیے گئے ہیں.کیا پڑھے لکھے تھے.ان کے کسی استاد کا نام بتاؤ مگر آپ نے نور الدین کی شاگردی تو کرنا نہیں.کیا پال ،وہ پڑھے لکھے تھے.اگر ہاں کہو تو ثبوت دو وید سے اور اگر کہو کہ نہیں تو دستبرداری کرو
اعتراض سے.بات یہ ہے کہ اوّل تو رشی بے باپ تھے.دوم تمھا رے اعتقاد کے مطابق یہ خلاف قانون قدرت ہے کہ خدا ان سے بولا ہو.سوم بہر حال ان پڑھ تھے.منیو ،رشیو ں نے جب یہ کلام ان سے سنا تو وہ خود عملاًکچھ نہیںبتا سکے.بلکہ ان رشیوں کو بھی صرف اپنے فکرو خیالات سے خود بخودبرہموںکی طرح ہی ویدک معانی سمجھنے پڑے.بخلاف ہادی اسلام کے کہ آپ نے قرآن کریم کا اوّل عملی نمونہ بن کر دکھایاآپ نے عمل کرکے دکھایا.عمل درآمد کرا کر دکھایا.تو تُو بھی اے نعوذباللہ اسلامی سکول کا ہیڈ ماسٹر رہا تھا.کیا سچ مچ ملہمان وید پڑھے لکھے تھے.کیا پڑھا ہوا تھا اور کیا لکھا تھا.آریہ ورت کی تمام تفاسیر وید تو غلط ہیں.دیکھو ستیا رتھ ص۵۳۳اور رگ وید بھومکا ص۲۰۰ اور آریہ ورت کا عمل درآمد قبل ازآریہ سماج از سر تا پا غلط تھا.آریہ ورت کے مصلح شنکرا چارج بھی تمہارے نزدیک غلطی پر تھے.کیونکہ شنکراچارج ویدانتی تھے.مگر ایسا دعویٰ اسلام اپنے ہادی کی نسبت نہیںکر سکتا.دیکھو عمل درآمد میں تعامل اسلام کیساصحیح ہے.او بد قسمت !پہلی تفاسیریں تو حسب تحقیق دیانند غلط تھیںاور دیانندی تفسیر حسب تحقیق آریہ مسافر و تصدیق منشی رام وغیرہ غلط ہیں.دیکھو ترجمہ رگ وید بھاشی بھومکا منشی رام کا ابتداء ،منشی رام کاترجمہ صفحہ۵،۶،۷.اب آیت کے معنی سنو !امّ القریٰ کی طرف نسبت کرنے میں امّی بولتے ہیں.تم نے مکر، مکرا، مکروا کی گردان کر کے دکھایا ہے کہ تم عربی جانتے ہیں.پس کیا یہ سچ نہیں ؟پس امی کے معانی ہوئے امّ القر یٰ کا رہنے والااور امّ القریٰ مکہ کا نام ہے.پس ان پڑھ کے معنے خواہ مخواہ لے لئے.موقع مناسب آگا پیچھادیکھ کر معنی کرنا چاہیئے تھا.اور سچ یہ ہے کہ جہاں کوئی ہادی بھیجا جاتاہے اسی بستی کو اس ہادی کے زمانے میںاور بستیوں کا امّ جس کے معنی اصل کے ہیںکہا جاتا ہے.ثبوت (القصص :۶۰)قرآن میں ہے.پھر اس لحاظ سے بھی مکہ معظمہ کو امّ اور امّ القریٰ کہا گیااور ہر مامور کی بستی امّ ہواکرتی ہے.
سوال نمبر۱۱۲.بلسان عربی مبین پر اعتراض کیا ہے.اگر عرب عذر کر سکتے تھے کہ ہم عجمی نہیں جانتے تو عرب کے ماورا ء اور بلاد کے لوگ عذر کر سکتے ہیںکہ ہم عربی نہیں جانتے پھر کتاب الٰہی اسی زبان میںآنی چاہیے جو کسی قوم و ملک سے خصوصیت نہ رکھے اور سب السنہ کی جڑہو.الجواب.عرب لوگ تو عذر کر سکتے تھے اور ان کا حق تھا اور انہوںنے عذر کیا.تم لوگ عذر نہیں کر سکتے اور نہ تم نے اب تک عذر کیا اور نہ تمھارا حق ہے کہ عذر کرو.یہ میری بات معمّہ پہیلی نہیںتم کو ذرا تفصیل سے سناتا ہوں سنو اور پھر دیدہ ٔبصیرت سے دیکھو.مذہبی طور پر اگر دیکھا جاوے تو تمام بلاد مذہبی تقسیم سے دو حصوں پر منقسم ہیں اول مشرقی بلاد.مشرق سے میری مر اد اس وقت ایران سے لے کر جاپان تک ہے.دوم بلاد مغرب.مغرب سے مراد میری بلاد شام سے لے کر یورپ و امریکہ تک ہے.کون منکر ہے یا انکار کر سکتا ہے کہ ایران یا تمہارا کہا مان لیتے ہیں کہ ہندوستان مرکز ہے ایک مذہب کا جس کو ہندوستان یا ایران نے مانا اور انہیں کا اثر چین و جاپان تک پہنچاکیونکہ بدھ جی آرین تھے اور گیا اس کا مرکز ہے اور امریکہ و یورپ مسیحی مذہب کے ما تحت ہے اور مسیح علیہ السلام یروشلم کے باشندے تھے اور عبرانی تھے.پس ایرانی یا آرین یا عبرانی انبیاء و اولیاء و اصحاب کے ہی مذہب کی حکومت ان تمام بلاد میں رہی.پس جو لوگ عبرانیوں کے ماتحت حکومت رہ چکے ہیں وہ کیونکر عذر کر سکتے ہیں کہ اپنی بولی کے سوا دوسری زبان کی کتاب کے ہم ماتحت نہیں ہو سکتے.اسی طرح جو لوگ وید کی زبان جو کسی ملک کی زبان نہیں یا ایرانی زبان کے ماتحت رہ چکے وہ کیونکر عذر کر سکتے ہیں کہ ہم اپنی زبان کے ماوراء کسی زبان کی کتاب کے ماتحت نہیں ہو سکتے.ہاں عرب عذر کر سکتے ہیں کیونکہ ان کے مرکز نے غیر زبان کو نہیں مانا اور مرکز عرب پر دونو ں کی سلطنت قطعاًنہیں ہوئی اور دونوں کا کوئی اثر مر کز عرب پر نہیں پڑا.غور کرو ارمیاہ کی کتاب کے ابتداء میں مانا گیا ہے کہ عرب پر کوئی اثر تعلیم عبرانیوں کا نہ تھا اور تم تو مانتے ہی ہو کہ ان پڑھو ں میں ان پڑھ رسول ہمارے رسول تھے ﷺ.پس ان کویا ان کی
کی قوم کو تمہارے ویدوں نے کیا نفع دیا.اگر نفع دیتا تو ان پڑھ کیوں رہتے اور کیا امید ویدوں سے ہوسکتی تھی.دیانند نے خود لکھا ہے کہ اور بلاد میں جو لوگ آباد ہوئے وہ برہمن نہ تھے بلکہ.....وغیرہ تھے.پس ثابت ہوا کہ عرب عذر کر سکتے ہیں نہ غیر عرب.سوال نمبر۱۱۳.لا تبدیل لکلمات اللہ پر اعتراض کیا ہے.اگر کلمات سے مراد قانون قدرت ہے تو قرآن میں خلاف قانون قدرت کیوں.پھر گالی دی ہے.اور اگر آیات ہیں تو نسخ کیوں.محقق کتنے ہی احکام قرآن سے دکھا سکتا ہے جو پہلے جائز کئے اور پھر ممنوع.شراب پہلے حرام نہیں کیا پھر حرام کیا.اسی طرح بیت المقدس قبلہ تھا پھر نہ رہا ؟ الجواب:جس کو تم لوگ قانون قد رت کہتے ہو اس کے خلاف بھی قرآن کریم میں ایک کلمہ نہیں.مگر یہ یاد رہے کہ قانون قدرت میں تھیو ریاں خیالی فلسفہ پیش نہیںکرنا.سائنس کے خلاف کچھ دکھاؤ.اور نسخ بمعنے ابطال حکم بھی قرآن کریم میں قطعاً نہیں کیا معنی؟ قرآن کریم میں کوئی ایسا حکم موجود نہیںجس پر کسی زمانہ میںتو ہم کوعمل درآمد کرنا ضرور تھا اور اب اس پر عمل درآمد کسی طرح جائز نہ ہو بلکہ قطعاًممنوع ہو.مثلاًبیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم جس آیت میں ہووہ آیت قرآن کریم میںتو قطعاًموجود نہیں.اسی طرح ایسی آ یت بھی کوئی نہیں اور قطعاً قرآن کریم میں نہیںکہ جس میں لکھاہو شراب حلال ہے تم پیا کرو.ہاں یہ بات ہے کہ شراب پہلے ہی حرام کیوں نہ کیا دیر کے بعد کیوں حرام کیا.مگر اس میں نسخ کس حکم موجو د فی القرآن کا ہوا.نزول ارشادات آخر بتدریج ہوا کرتا ہے.کیا وید کے تمام احکام بلا کسی ترتیب کے یکدم رشیوں نے سمجھے تھے ؟نہیںاور ہرگز نہیں.آپ تو کہتے ہیںکہ محقق کتنے احکا م نکال سکتا ہے کہ پہلے جائز کئے پھر ممنوع.ہاں مجھے تو کوئی آیت ایسی معلوم نہیںجس سے یہ پایا جائے کہ فلاں حکم جائز یا ضرور ہے.پھر بعینہ اسی حکم کو کہا گیا ہو کہ یہ حکم ممنوع ہے.نہیںنہیںاور ہر گز نہیں.ہم کو ہمارے قرآن نے کہیں نہیں کہا کہ فلاں حکم جو فلاں آیت میں ہے اب قطعاًمنسوخ ہو گیا.ہمارے ہادی نبی کریم ﷺنے نہیںفرمایا کہ فلاں
حکم قرآنی اب منسوخ ہے.آپ کے پاک جانشینوںابو بکر ؓو عمرؓنے جنکی نسبت الٰہی ارشاد ہے.(التوبۃ:۱۰۰) اور ان کے اتباع کو باعث اپنی رضامندی کا فرمایا ہے.انہوں نے بھی نہیںفرمایا کہ فلاں حکم قرآنی اب منسوخ ہے.اس پربالکل عمل درست نہیں.نسخ کے معنی اگر ابطال حکم کے ہیں کہ قرآن میں ایک حکم موجود ہو اور وہ منسوخ کیا گیا ہو تو ایسا حکم بھی مجھے ہر گز معلوم نہیں.اگر کسی کواس کے خلاف دعویٰ ہو تو ثبوت دے.قرآن کریم حسب ارشاد الٰہی اکمال کے لئے آیا ہے.جیسا اس نے فرمایا.(المائدۃ:۴) پس وہ حقائق ثابتہ کے ابطال کے لئے نہیں آیا بلکہ اثبات حقائق کی خاتم الکتب ہے.ترک اسلام کے صفحہ ۶۲کے سوال ۱۱۳کاایک طریق سے جواب.حکم کہیںبوجہ غلطی اور ناسمجھی حاکم کے بدلا جاتا ہے اور کبھی بوجہ تبدّل مصلحت بدلا جاتا ہے.طبیب کہیں تشخیص میںغلطی کرتا ہے اوراس و جہ سے اپنی غلطی پر اطلاع پاکر پہلے نسخہ کو بدل دیتا ہے اور کبھی بوجہ تبدل حالات مریض یا اس لئے کہ پہلی دوائی کا وقت گزر گیا اس پہلی دوائی کو بدل دیتا ہے.مثلاًاثناء علاج بخار میںاگر سرسام ہوجائے توبو جہ تبدل احوال مریض نسخہ بدلا جاتاہے اور بعد مسہل کے جومقوی نسخہ لکھا جاتا ہے تو یہ تبدیل بو جہ اختتام پہلی دوائی کے وقت کے ہوتی ہے مگر ہرچہ باداباد.ان دونوں صورتوں میںتغییر وتبدیل اس و جہ سے نہیں ہوتی کہ طبیب نے اپنی غلطی پر اطلا ع پائی.اسی طرح سوچو خدا کے احکام میں تبدل وتغیّر بھی اسی دو سری قسم کاہوا کرتا ہے پہلی قسم کا نہیں ہوتا.مگر حضرت معترض کوان دونوں صورتوںکی خبر ہی نہ ہو تو وہ کیا کریں.معذور ہیں.(انتصار الاسلام سعیریسیر) للمولوی محمد قاسم.
والجواب الثانی.اگر حکم خداوندی میں تغییر وتبدیل خلاف عقل ہے تو ارادہ خداوندی میں بھی تغییر وتبدیل خلا ف عقل ہی ہو گا.حکم کے تبدیل میں اگر یہ خرابی ہے کہ خدا کی طرف غلط فہمی کا الزام آئے گا تو ارادہ کی تغییر وتبدیل میں بھی یہی خرابی ہے کیونکہ ارادہ بھی مثل حکم کے فہم پر موقوف ہے یعنی جس طرح حکم جب دیتے ہیں جب پہلے اپنے دل میں کچھ سمجھ لیتے ہیں ایسے سمجھ والے ارادہ بھی جب ہی کرتے ہیں جب اس مراد میں کوئی فائدہ خیال کر لیتے ہیں.مگر یہ ہے تو پھر پیدا کرنے کے بعد معدوم کر دینا اور جلانے کے بعد مارنا اور عطائے صحت کے بعد مریض کر دینا اور راحت کے بعد تکلیف میں ڈال دینا علٰی ہٰذالقیاس اس کا الٹا بھی خدا سے ممکن نہ ہوسکے کیونکہ یہ سب بارادہ خدا ہوتے ہیں.سو ایک ارادہ کے بعد دوسرا ارادہ مخالف اگر خدا کرے تو یوں کہو پہلے بے سوچے سمجھے خدا نے ارادہ کر لیا تھا(انتصارالاسلام)قاسم العلوم.۱۲.اور سنو.قرآن مجید اور فرقان حمید میں اختلاف نہیں.اوّل اس لئے کہ اختلاف کے یہ معنی بھی ہیں کہ سنیوں کا قرآن اور ہو شیعوں کا اور.روافض کا اور ہو خوارج کا اور.ظاہری لوگوں کا اور قرآن ہو اور اہل تصوف کا اور.مقلدوں کا اور.غیر مقلدوں کا اور جیسے سناتن اور تمہارا باہم اختلاف ہے کہ وہ برہمنوں اور اپنشدوں کو بھی ویدہی یقین کرتے ہیں اور آریہ سماج صرف منتر بھاگ اور سنگہتا کو.قرآن کریم کی محافظت کا ٹھیکیدار خود اللہ رب العالمین ہے فرماتا ہے. ( الحجر :۱۰) اور فرماتا ہے. (القیامۃ :۱۸) اور فرمایا. (حٰمٓ السجدۃ :۴۳) جیسے میں نے بارہا بیان کیا ہے کہ ایک سلسلہ جسمانی امور کا ہوتا ہے اور دوسرا سلسلہ روحانی امور کا.پس اس کے ظاہری سلسلہ کو دیکھو.پانچ وقت کے فرائض اور ا ٓٹھ وقت کے نوافل ہیں.قرآن مجید پڑھاجاتا ہے کم سے کم چالیس رکعتوں میں اور زیادہ سے زیادہ ساٹھ بلکہ
اسّی رکعتوں میں اور حفاظ وعلماء اور اہل دل ہررکعت میںمختلف سورتیںپڑھتے ہیں.یہی تعامل اہل اسلام کا اب تک تیرہ سوسال سے ہے اور اس میں اصل کتاب کے محفوظ رہنے کا بڑا سرّ ہے.میں ان نادان.ناعاقبت اندیش اور کلام الٰہی کے مزہ سے ناواقف لوگوں کو کسی شمار میں نہیں لا سکتا جو تیرہ سو برس کے حقیقی تعامل کے خلاف ترجمہ قرآن کے نماز میں مجوز ہیں گو وہ کئی رنگوں میں رسائل شائع کریں یا کسی سلطانی درہ کا قرب رکھتے ہوں.نماز میں قرآن کریم پڑھنے کا ارشاد ہے اور قرآن بلسان عربی ہے اور قرآن قرآناً عربیاً ہے اور ترجمہ ہمیشہ مترجم کا خیال ہوتا ہے اور مترجم حسب استعداد و علم وفہم واطلاع ووسعت علم ترجمہ الگ الگ کرتے ہیں.دنیا میں کوئی کتاب دیکھو اس کا ترجمہ ایک مذہب و ملک کے چند لوگ کریں سب مختلف ہی ہو گا.دوم.ضروری ہے کہ مسلمان لوگ قرآن کریم کا تدارس اور دَور کریں اور یہ دور باہم مل کر پڑھنا قرآن کی حفاظت کا بڑا باعث ہے.سوم.مریضوں کے سامنے حتیٰ کہ خطرناک حالت میں بھی قرآن کا پڑھنا مسلمانوں میں معمول ہے اور اسے ختم کہتے ہیں اور یٰسین و تبارک تو عام ملوانے بھی جانتے ہیں.یہ عمل درآمد بھی حفظ کا مؤید ہے اور خوب مؤید ہے.چہارم.ہر سال رمضان شریف میں قرآن کریم بکثرت پڑھاجاتا ہے تم کو تو خبر نہیں کیونکہ تم تو مسلمانوں کی گو دمیں نہیں پلے اور بعض ناعاقبت اندیشوں نے اس کو ترک کر دیا.پنجم.حفاظ کے مجمعوں میں قرآن کریم دعویٰ سے یاد سنایا جاتا ہے اور اس سے خوب حفاظت ہوتی ہے.ششم.ہر روز ہم لوگ خطوط تصانیف اور ہر روزہ بات چیت میں بہت بہت آیات پڑھتے ہیں اور اس قدر پڑھی جاتی ہیں کہ غالباً کل قرآن پڑھاجاتا ہے.ہفتم.مسلمان اور مخالفان اسلام بھی قرآن پر تفسیریں لکھتے ہیں اور لکھتے آئے.
ہشتم.باہمہ سخت عداوت ومخالفت ،متکلمان شیعہ وسنی.خوارج.روافض وغیرہ فرق اسلام ایک ہی قرآن کو پیش کرتے ہیں.نہم.اسلامی سلطنتیں.انجمنیں اور جماعتیں گو اب سب کمزور ہیں پھر باوجود افلاس کے فضول خرچ، سست، باہم نفاق میں مبتلا مگر پھر بھی ہزاروں ہزار حافظ عورتیں اور مرد اس وقت بھی موجود ہیں اب جب یہ حال ہے تو قوت وشوکت جاہ وجلال کے وقت قرآن کریم کا کیا چرچا ہو گا.پھر غور کرو نبی کریم کے وقت جب مذہب اسلام میں نئے نئے جوشیلے داخل ہوئے باایں کہ ان کی قوت حفظ ضرب المثل تھی ان کو تئیس برس میںبتدریج قرآن کریم سنایا گیا.نہم.ہر ملک وہر ایک قوم میں بڑوں اور چھوٹوں کا امتیاز ہوتا ہے اور قرآن کی یہ قدر ومنزلت اسلام نے کی تھی کہ کہا یؤم القوم اقرء ھم لکتاب اللہ.قوم کا امام وہی ہو جو سب سے بہتر کتاب اللہ کو پڑھ سکتا ہو.مطلب یہ کہ تمام محلوں اور جمعہ اور عیدین وغیرہ ایام میں پیش نماز سب لوگوں سے آگے وہ کھڑا ہو جو کوئی قرآن کریم زیادہ جانتا ہو.پس اب غور کرو اس حکم سے قرآن کریم کی طرف عوام اور خواص کیسے جھکے ہوں گے اسی واسطے ہماری تواریخوں میں ہے کہ ایک یمامہ کی لڑائی میں ستّر قاری شہید ہو گئے تھے.ادنیٰ درجہ اور قوم کے لوگ اسی واسطے پڑھتے تھے کہ ا ٓگے بڑھیں اور اعلیٰ لوگ اس لئے کہ پیچھے نہ رہیں.دہم.قرآن کریم نزول کے وقت معاً لکھوایا جاتا تھا اس واسطے فرمایا.(الطور:۲تا۴)اور وغیرہ اورلکھا محفوظ رہتا ہے.یاز دہم.یہی قرآن.تفاسیر.حدیث،فقہ واصول وغیرہ اسلامیہ علوم کی جڑ تھا بلکہ مباحثات میں بھی اول دلیل تھا پھر یہ کیونکر ضائع ہو سکتا.دواز دہم.وعظوں میں اسی کی آیات پڑھی جاتی ہیں اور مقدمات میںبھی اسی سے اولاً مقدم طور
پر استدلال کیا جاتا تھا اور کیا جاتا ہے.عبادات خلوت کی ہوں یا جلوت کی سب میں قرآن کریم مقدم تھا اور ہے اور ان میں پڑھاجاتا تھا اور پڑھاجاتا ہے.سیز دہم.جس قدر لوگ اور قومیں مسلمان ہوتی تھیں ان کے مذہبی رسوم اور مقدمات کے لئے ماہران قرآن کو ان قوموں کے پاس روانہ کیا جاتا تھا اور ان کا امیر بنایا جاتا تھا.چہاردہم.اس کے لکھنے والے بنصّ قطعی قرآن کے معزز بنائے گئے تھے جیسے فرمایا (عبس:۱۴تا۱۷) پانز دہم.ثابت ہوتاہے کہ زمانہ پاک میں اس کے نسخے موجود تھے اسی واسطے فرمایا (الواقعۃ :۸۰) کیسا مشہور قصہ ہے کہ جب حضرت عمرؓایمان لائے تو اس وقت آپ نے اپنی بہن کے پاس سے بیسویں سورۃ کی نقل لینی چاہی.ان تمام وجوہ کو جو قرآن کریم کی عصمت اور حفاظت کے ہم نے بیان کئے پڑھ کر اور ان میں غور کرنے کے بعد کون ایسا صاحب دل ہے جو قر آن کریم کی لانظیر عظمت میں شک کر سکتا اور معاً اس نتیجہ صحیحہ پر پہنچنے سے رُک سکتا ہے کہ دنیا میں قدیم سے اب تک کوئی ایسی کتاب نہیں جسے اکرام اور حفاظت کا شرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا ہو.سوال نمبر ۱۱۴.(البقرۃ :۲۴) پر اعتراض کیا ہے کہ شیکسپیئر کے ناٹک، مکالے کے مضامین اور لڑکوں کی اونٹ پٹانگ، کوے، چیل، بندر، چڑیوں کی بولیاں بے نظیر ی میںقرآن کی طرح خدا کا کلام ہوں.الجواب: اوّل: سنو جی ! شیکسپیئر، مکالے، لڑکے، کوے، چیلوں، بندروں، چڑیوں نے کبھی دعویٰ اور تحدی نہیں کی اور قرآن کریم کی بے نظیری کا ایک انسان دعویٰ کرتا ہے اور بار بار کرتا ہے.دوم:.غور کرو فصاحت بلاغت ،پیشگوئیاں ،اعلیٰ تعلیم ،اعلیٰ کامیابی کا نام نہیں لیاکہ قرآن کریم کی مثل فلاں فلاںبات میںتم پیش کرکے دکھاؤ بلکہ عام دعویٰ بے نظیری کا کیا ہے.مخالفان اسلام کو موقع
تھا کہ کوئی کلا م پیش کر دیتے گو وہ کاگ بھا ش ہی ہو تا … ساور کہہ دیتے کہ قرآن نے (البقرۃ :۲۴) عام کہا ہے اورتخصیص نہیں کی.قرآن بھی ایک کلام ہے اور جو ہم پیش کرتے ہیںوہ بھی کلام ہے.قرآن عربی ہے تو کیا.آخرکلام ہے اور ہمارا پیش کردہ کلام گو مہمل یا کاگ بہاش ہے مگر آخر کلام ہے مگر کسی نے ایسا نہ کیا اور نہ کر سکے.یہی تو اعجاز ہے.آپ کے بھائی امرتسری مولوی یہاں بھی نہیں چوکے.ہمیں تعریض وتمسخر اور طنز سے کہتے ہیںکہ مرزا اپنے کلام کی بے نظیری کامدعی ہے مگر محدود کیوں کرتا ہے کہ فلاں مدت تک کوئی میرے جیسا کلام بنا کر پیش کرے.میںکہتا ہوں اجی مولوی جی ! مرزا زمانی تحدیدبھی کرتا ہے بلکہ کہتا ہے ایسا بے نظیر کلام فصیح و بلیغ عربی میں پیش کرو.پس دونوں قیود سے قرآن کی طر ح توسیع نہیں کرتا.آپ اس نکتہ پر نہیں پہنچے.مجھ خادم سے سنیئے.مرزا حقیقتاًواقعی طور پر عین محمد واحمد نہیں بلکہ غلامِ احمد ہے.پنجہ در پنجہ خدا دارم من چہ پروائے مصطفٰے دارم کو کفر اور بے ادبی یقین کرتا اور اس کے خلاف یوںکہتا ہے.بعد از خدا بعشق محمدؐ مخمرّم گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم آقا کی برابری پسند نہیںکرتا اور اس کو بے ادبی جا نتا ہے اور تم نے تو مخالفت اور تصنیف کا ٹھیکہ لیاہوا ہے.تم نے بھی کبھی عربی میں مقابلہ کر کے ہم کو نہ دکھا یا.دیانند جیسے مہارشی نے بڑی تحقیق و تدقیق سے ملا پھیجی کا اکبر کے سمے بنانقطہ کے قرآن رچا ہوا بتایا ہے.حضرت فیضی رحمۃ اللہ نے محمد جلال الدین اکبررحمۃ اللہ کے زمانہ میں قرآن کر یم کی خدمت کے لئے بلا نقط الفاظ میںایک تفسیر قرآن کی لکھی تھی جس کے ساطعہ نمبر ۸ میں لکھا ہے.’’العلوم کلھا صداع الاعلم کلام اللہ وکل علم سواہ عطّلہ و اھملہ وکلام اللہ لا عد لمحا مدہ ولا حد لمکارمہ ولاحصرلرسومہ ولا احصاء لعلومہ وھو امام اھل الاسلام ومدار اصل المرام ‘‘
تمام علم سر دردی ہیں سوائے علم کلام اللہ کے.اس کے سوا سب کو چھوڑدے او ر بیکار کر دے اور کلام اللہ کے محامد کا شمار نہیںاور نہ اس کے مکارم کی حد ہے.اس کی بیان کردہ باتوں کا حصر نہیںاور اس کے علوم کی گنتی نہیں.و ہ اہل اسلام کا امام ہے اوراصل مطلبوںکا دارو مدار ہے.پھر آخر اسی ساطعہ میں لکھا ہے.وما علم علوم کلام اللہ کلھا احد الا اللہ ورسولہ واولوا العلم کلام الٰہی کے سب علوم کو کسی نے نہ جانامگر اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول اور اولواالعلم نے.فرحمک اللہ بخدمتک القرآن و تسوید و جہ زعیم الاریۃ و ارحم سلطانک الذی عظمک واکرمک وجعلک من المقربین.یہ دیانندی تحقیق کا ثمرہ ہوا.رہی یہ بات کہ قرآن کریم کی مثل جو طلب کی گئی وہ کس امر میں مثل مطلوب تھی.اس پر علماء نے طبع آزمائیاں کی ہیںاور ہر ایک نے اپنے اپنے مذاق پربے نظیری کو قائم کیا ہے.۱.کسی نے کہا ہے قرآن کریم اپنی بے نظیر تاثیر میں بے مثل ہے یہ بات بے ریب قابل قدر ہے کیونکہ قرآن کی ہی تاثیر تھی کہ عرب جن پر کبھی کسی کتاب کا اثر نہ ہوا اس کتاب سے مؤثر ہوئے.وید کے مدعیو !حالانکہ صرف دعویٰ بلادلیل کوئی چیز ہی نہیں.کیا آریہ ورت میں ویدک وحدت مذہبی دکھا سکتے ہو.کیا جینی وید کے قائل دکھا سکتے ہو ؟کیا بدھ و جینی وید کے قائل ہیں ؟تاثیر کا پتہ مرکزکو دیکھنے سے لگتا ہے.کیا کاشی جی ہری دوا ر پیراک راج میں ویدک دھرم کا مرکز ہے.۲:.کسی نے کہا ہے قرآن کریم تمام انسانی جماعت کے مشترکہ ضروریات کا جامع ہے.علوم الٰہیہ، اخلاق ،معاشرت ،تمدن اور سیاست کے اصول مسائل کا جامع ہے.پھر انسانی عقل کو استنباط و استخراج مسائل کے لیے بیکا ر نہیں کرتا.حوادث جدیدہ کے واسطے استنباط مسائل کی اجازت دیتا ہے.تمام علم سر دردی ہیں سوائے علم کلام اللہ کے.اس کے سوا سب کو چھوڑدے او ر بیکار کر دے اور کلام اللہ کے محامد کا شمار نہیںاور نہ اس کے مکارم کی حد ہے.اس کی بیان کردہ باتوں کا حصر نہیںاور اس کے علوم کی گنتی نہیں.و ہ اہل اسلام کا امام ہے اوراصل مطلبوںکا دارو مدار ہے.پھر آخر اسی ساطعہ میں لکھا ہے.وما علم علوم کلام اللہ کلھا احد الا اللہ ورسولہ واولوا العلم کلام الٰہی کے سب علوم کو کسی نے نہ جانامگر اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول اور اولواالعلم نے.فرحمک اللہ بخدمتک القرآن و تسوید و جہ زعیم الاریۃ و ارحم سلطانک الذی عظمک واکرمک وجعلک من المقربین.یہ دیانندی تحقیق کا ثمرہ ہوا.رہی یہ بات کہ قرآن کریم کی مثل جو طلب کی گئی وہ کس امر میں مثل مطلوب تھی.اس پر علماء نے طبع آزمائیاں کی ہیںاور ہر ایک نے اپنے اپنے مذاق پربے نظیری کو قائم کیا ہے.۱.کسی نے کہا ہے قرآن کریم اپنی بے نظیر تاثیر میں بے مثل ہے یہ بات بے ریب قابل قدر ہے کیونکہ قرآن کی ہی تاثیر تھی کہ عرب جن پر کبھی کسی کتاب کا اثر نہ ہوا اس کتاب سے مؤثر ہوئے.وید کے مدعیو !حالانکہ صرف دعویٰ بلادلیل کوئی چیز ہی نہیں.کیا آریہ ورت میں ویدک وحدت مذہبی دکھا سکتے ہو.کیا جینی وید کے قائل دکھا سکتے ہو ؟کیا بدھ و جینی وید کے قائل ہیں ؟تاثیر کا پتہ مرکزکو دیکھنے سے لگتا ہے.کیا کاشی جی ہری دوا ر پیراک راج میں ویدک دھرم کا مرکز ہے.۲:.کسی نے کہا ہے قرآن کریم تمام انسانی جماعت کے مشترکہ ضروریات کا جامع ہے.علوم الٰہیہ، اخلاق ،معاشرت ،تمدن اور سیاست کے اصول مسائل کا جامع ہے.پھر انسانی عقل کو استنباط و استخراج مسائل کے لیے بیکا ر نہیں کرتا.حوادث جدیدہ کے واسطے استنباط مسائل کی اجازت دیتا ہے.
۳:.کسی نے کہا کہ تمام کتب الٰہیہ دعاوی ہیں مگر دلائل سے ساکت ہیں بخلاف اس کے قرآن کریم الٰہیات میں دعاوی کے دلائل بھی بیا ن کرتا ہے اور اسی لیے مجھے امام غزالی کا یہ قول ہمیشہ ناپسند ہے جو انہوں نے فرمایا ہے تحقیقات میں میرا مذہب برہان ہے اور سمعیات میں قرآن.مگر میرا ایمان ہے کہ سمعیات کو عقلی بنا دینا اور تحقیقات کو برہان و وجدان اور سنن الٰہیہ سے ثابت کر دینا قرآن کا کام ہے.موضوع کتاب سے بات باہر نکل جاتی ہے ورنہ میں بیان کرتا کہ کس طرح میں نے سو فسطائیوں ، دہریوں ، برہموں ،عیسائیوں،آریہ ،سکھ،شیعہ ،خوارج ،زمانہ کے عوام متصوفین ، جہلا اور جامد مقلدین سے قرآن سے مباحثہ کئے ہیں اور ہر ایک پر حجت پوری کی ہے.۴:.کسی نے کہا ہے قرآن کریم واقعات کو قبل از وقوع بیان کرنے میں بے نظیر ہے اس نے اتباع قرآن کی کامیابی اور منکرین کی ناکامی کو پکار پکار کر بیان کیا ہے اور آخر دیکھ لو بلاد عرب ، عراق عرب ، عراق عجم ،خراسان اور ہندو شام ،روم ،مصرو بربر اور بلاد مغرب گواہی دیتے ہیں کہ اس کے یہ دعاوی سچ ہیں.مثلاً یہ خبر کہ مکہ معظمہ معظم و مکرم رہے گا اور معہ مدینہ طیبہ کے فتن دجال سے مصئون و مامون رہے گا.اب دیکھ لو فتن دجال سے تمام بلاد سوائے مکہ و مدینہ کے پامال ہو گئے ہیں.۵:.کسی نے کہا عرب کے قلوب نے معارضہ سے اعراض کیا.۶:.کسی نے کہا قرآن کریم تمام کتب سماویہ کی اصل تعلیم کا جامع ہے اس کا دعویٰ ہے (البیّنۃ :۴) ۷:.کسی نے کہا قرآن کریم فصاحت و بلاغت میں بے نظیر ہے.یہ وجہ اس وقت کے لحاظ سے جب مکہ معظّمہ میں بے نظیر ی کا دعویٰ کیا گیا تھا قوی ہے کیونکہ اس وقت تاثیرات وجامعیت وغیرہ کے بیان کاکامل وجودنہ تھا جیسے پیچھے ظاہرہوا کیونکہ یہ دعویٰ مختلف سورتوں میں کیاگیا ہے.بقرہ، یونس، ہود اور بنی اسرائیل میں اور ہومر،ملٹن،شکسپیئر،مکالے،کالیداس،بالمیک.وارث نے کب دعویٰ کیا کہ ہمارا کلام ایسا بینظیر ہے کہ انسانی کلام نہیں بلکہ الٰہی کلام ہے.پس بات یہی
صحیح ہے کہ مثل کی کوئی قید نہیں کی مطلق مثل قرآن کریم طلب کی گئی تھی اور مخالف نہ لاسکے.سوال نمبر ۱۱۵.(النساء :۸۳) پر اعتراض کیا ہے.چھ دن میں آسمان و زمین بنائے.ماں باپ سے انسانی نطفہ کی پیدائش.پھر ا ٓدم و مسیح کی پیدائش.سونٹے کا سانپ.پتھر سے اونٹنی.خدا مکار.فریبی.ان باتوں پر اعتراض کیا ہے.الجواب:چھ دن کا جواب دیکھو سوال نمبر۱۵، صفحہ۱۱۹،۱۲۰ میں اور ستیارتھ ۲۹۰میں انسانی پیدائش کو دوطرح بتایا ہے.ایک کو ایشری سرشٹی کہا ہے الٰہی پیدائش اور اس کو بلانطفہ مانا ہے اور دوسری میتہنی سرشٹی.کیا معنے جماع سے بال بچہ کا پیدا ہونا.جب کئی قسم کی پیدائش دیانند کے نزدیک مسلم ہے تو پیدائش آدم اور پیدائش مسیح پر اعتراض ہی کیا رہا.آدم بلاماں باپ اور مسیح بلا باپ پیدا ہوئے.اقسام سرشٹی میں یہ بھی ایک سرشٹی ہے.دیکھو جواب سوال نمبر ۲۲،۲۳اور پتھرسے اونٹنی کا پیداہونا میں نے قرآن وحدیث آثار صحابہ اور اقوال ائمہ اربعہ میں ہرگز نہیں دیکھا.سانپ کا سوٹا دیکھو جواب نمبر ۴۸صفحہ ۱۹۷.اور ستیارتھ پرکاش صفحہ ۳۴۳.اعلیٰ ستوگنیوں کاحال کہ وہ آویکت (لطیف ترین مادہ )کوشکل میں لانے اور پرکرتی (علۃ مادہ)پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کرتے ہیں.پس معجزات کے ماننے میں تم لوگ کیوں کر انکار کر سکتے ہو؟ (النساء:۸۳) کہ معانی ہیںاگر قرآن جناب الٰہی کی طرف سے نہ ہوتا تو اس میں بڑا اختلاف ہوتا.بات یہ ہے کہ لمبے چوڑے دعویٰ کرنے والے کئی قسم کے ہوتے ہیں.اوّل پاگل:.اور ظاہر ہے کہ ان کے تمام دعاوی صرف مہمل اورنقش بر آب ہوتے ہیں.ان کی دشمنی اور دوستی کچھ بھی قابل اعتماد نہیں ہوتی.قرآن کریم نے نبی کریم کو اس اتہام سے یوں بری کیا.
(القلم:۳تا۷) اس کاخلاصہ یہ ہے کہ اپنے رب کے فضل سے تو مجنون نہیں کیونکہ تو اعلیٰ اخلاق پر ہے ا ور مجنون کے اخلاق و فضائل اعلیٰ کیا ادنیٰ درجہ پر بھی نہیں ہوتے.اور پھر مجنون تمام دن اور رات میں کوئی کام کرے اس کے کاموں پر کچھ نتائج وثمرات صحیحہ وا قعیہ مرتب نہیں ہوا کرتے اور جو تونے کام کیے ہیں ان کے نتائج تو بھی دیکھ لے گا اور تیرے مخالف بھی دیکھ لیں گے کہ مجنون کون ہے.اب غور کرو کہ جابجا قرآن کریم میں دعویٰ کیا گیا کہ ہم( اللہ تعالیٰ)رسولوںاو ران کے ساتھ والوں کی نصرت و تائید کرتے ہیں اور یہ گروہ ہمیشہ مظفر ومنصور ہوتا ہے.غور کرو ! جب رسول آئے وہ ہمیشہ منصور اور ان کے مخالف ذلیل اور خوار ہوئے.جیسے فرمایا.(المومن:۵۲) بے ریب ہم(اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ) نصرت دیتے ہیں اپنے مرسلوں کو اوران کو جو ایما ن لائے (مانا ان رسولوں کو) اسی ورلی زندگی میں اور فرمایا : (المنافقون :۹) اور اللہ کے لئے عزت ہے اور اس کے رسول کے لئے اور مومنوں کے لئے اور فرمایا.(البقرۃ :۶) وہی ہدایت پر ہیں اور وہی مظفر و منصور اور بامراد ہیں.دیکھ !فرمایا سر مو تفاوت اس میں نہ ہوا.نبی کریم اور آپ کے جان نثار صحابہ کر ام تمام مخالفوں کے سامنے مظفر منصوربامراد رہے.اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بات نہ ہوتی تو اس کے خلاف ہوتا او ر یہ بات مجنون کی بڑ بن جاتی.مخالفوں کے حق میں فرمایا: (المجادلۃ :۲۰) یہ مخالف شیطانی گروہ ہے.خبردار رہو ! بے ریب شیطانی گروہ ناکا م رہے گا.
اور فرمایا.(الانفال:۳۷) تیرے مخالف مال و دولت خرچ کریں گے.پھر ان پر افسوس ہو گا اور مغلوب ہوںگے.(۱ب ہمارے مخالف بھی اموال خرچ کرتے ہیں دیکھیں کہ کس قدر وہ خرچ مفید ہوتاہے) پھر باربار بتایا کہ منکروں پر عذاب عظیم ہو گا.پھر دیکھ تمام عرب و عرا ق عرب و عراق عجم، شام و روم ومصر وبربر کے مخالفوں پر کیسے کیسے عذاب آئے.عرب ریگستان کے باشندے خشن پوش کھجور پر زندگی بسر کرتے تھے ان کے لئے کہا گیا. (البقرۃ :۲۶) پھر دیکھا اب تک ہم لوگ قریش اس جنت کے مالک ہیں.وہ بصیرت تو تم کو نہیں کہ اتباع نبی کریم کو حقیقی جنتوں کے بھی وارث ہوئے دیکھے مگر ظاہری جنت کی وراثت سے تم بے خبر نہیں ہو سکتے.جناب الٰہی نے آپ کے مخالف منافقوں کے لئے خبر دی اور فرمایا.(الانفال :۷۴) انھوں نے بڑے بڑے ارادے کئے مگر کامیاب نہ ہوئے.پھر دیکھا کوئی کامیاب ہوا؟ نہیں اور ہر گز نہیں.اگر قرآن کریم اللہ القادر اور العالم کی طرف سے نہ ہوتا تو اس کی کوئی تعلیم تو سنن الٰہیہ ثابتہ کے خلاف ہوتی.کیونکہ تم مانتے ہو کہ ان پڑھوں میں ان پڑھ رسول تھے.عرب میں کوئی کتا ب ،مدرسہ ،یونیورسٹی قرآن کے لئے نہ تھی.وہاںاگر یہ کتا ب تصنیف ہوئی تھی تو تیرہ سو برس کی تحقیقات یورپ نے کوئی امر قرآن کریم کا خلاف سائنس ثابت کر دیا ہوتامگر میں چیلنج کرتا ہوں کہ ایسا نہیں ہوسکا.پھر قرآن کریم کی تعلیم مشترکہ تعلیم انبیاء ورسل کے خلاف نہیں.اٹکل پچو باتیں کرنے والے کی باتیں اکثرغلط نکلتی ہیں.پس اگر قرآن کریم اللہ کی طرف سے نہ ہوتا تو اس کی اکثر باتیں غلط نکلتیں.
سوال نمبر۱۱۶.قرآن ہدایت کے لئے ہے مگر اس میں معمولی بجھارتوں کا کیا مطلب.حروف مقطع کا اصل کسی کی سمجھ میں نہیں ا ٓیا.اصحاب بھی زور لگا چکے.پھر قصہ اصحاب الفیل کا ذکر کیا ہے.(الکوثر :۴) کا ترجمہ کیا ہے تیری بزرگی کی قسم کہ وہ شخص ابتر ہے.اور قرآنی خدا اور شیطان کے جھگڑے.آدم وحوا کے فسانے.گھناؤنی بہشت.ڈراؤنے دوزخ.توبہ واستغفار.شفاعت.حشرونشر.حساب وکتاب.ترازو.پلڑا.فرشتہ.جن.گوشت خوری.حیوانی قربانی.پتھروں کے چومنے مکان کے اردگرد گھومنے.دن کو بھوکا رکھنے.رات کوخلاف قاعدہ کھانے.عبادت میں ٹانگ ہاتھ ہلانے.اٹھنے.بیٹھنے.عورتوں پر جبر.مالایعنی باتوں کو نہ ماننے والے مگر اعلیٰ زندگی رکھنے والوں کو کافر کہنے.ان سے نفرت.لڑنے بھڑنے.لوٹنے.گھسوٹنے.قید کرنے.قتل کرنے.خدا کے ساتھ دوسرے کو شریک کرنے کی باتیں قرآن میں ہیں.نیوگ زنا کا بیخ کن ہے.عورت کوبجائے کھیتی اور غلام کہنے کے اروہ انگنی اور اولاد کے لئے بتایا گیا ہے مگر عورت کو اسلام نے گائے بکری سمجھا ہے جب چاہا رکھ لی اور جب چاہا نکال دی.بال برہم چاریہ دیانند تھے.الجواب.منصف ناظرین ذراسوال کو دیکھیں کہنے کو تو ایک سوال ہے اور لکھنے کو چھتیس بلکہ چالیس سوال ہیں.ان میں جتنی گندی باتیں ہیں اور جتنی اچھی ہیں سب ہی ویدک دھرم میں موجود ہیں مگراتنی بات ہے کہ اسلام ان میں سے سچی اور صحیح باتوں کاقائل ہے اور تمام گندی اور قابل نفرت باتوں سے پاک ہے.علاوہ بریں قرآن کریم تمام خوبیوں سے موصوف ہے اور ہماری گواہی تو سچ ہے کیونکہ ہم نے اسلام کے اندرونی اور بیرونی حالات سے پوری آگہی کے بعد لکھا ہے اور تمہاری گواہی غلط ہے کیونکہ تم قرآن ووید دونو ں میں سے بے خبر ہو.قرآن مجید سے بے خبری کا ثبوت تمہارا رسالہ ترک اسلام ہے اور ویدوں میں سے بے خبری یہ ہے کہ تم جس روز یہ لیکچر دیتے ہو اس روز تم آریہ سماجی ہوئے.کے آمدی وکے پیرشدی.
بہرحال سنئے.ہم نے مقطعات کا جواب کچھ تو پہلے ہی سوال کے جواب میں صفحہ نمبر۳میں دیا ہے مگر شاید کسی سلیم الفطرت کو فائدہ ہو اس لئے تفصیل کے ساتھ جواب لکھتے ہیں.ہمارا جواب الزامی بھی ہو گا اور نقلی بھی مگر آخر عقلی بھی.والحمد للہ رب العالمین.پھر الزامی جواب کی تین قسمیں ہوں گی.ایک خود تمہارے ساتھ خاص ہو گا اور دوسرا تم سے علاوہ مناظر قدرت میں دکھائیں گے کہ اللہ تعالیٰ کو اسلام کی کس قدر خاطر منظور ہے کہ جو سوال مخالفوں نے اسلام پر کیا ہے خو د اس اعتراض کے ہدف ہیں اور محض ہٹ دہرمی سے اسلام پر نکتہ چینی کرتے ہیں.(الانفال :۴۳) اور تیسرا جواب خود وید سے اور آریہ کی مسلّم کتب سے دیں گے.ہمارا نقلی جواب بھی تین ہی حصوں پر منقسم ہو گا.اوّل اقوال صحابہ کرام سے دوم تابعین صحابہ کے کلمات صحیحہ سے اور علماء سے اور دکھائیںگے کہ ہمارے ائمہ میں اختلاف وتضادان کے معانی میں نہ تھا بلکہ عربی علوم میں یہ عام رواج ہے.پھر ساتواں جواب عقلی ہو گا کیونکہ سات کا عدد کامل عدد ہے اسی واسطے سات طبقات پر زمین.بحار اور آسمانوں کا قیام ہے دیکھو بھومکا رگوید کا ترجمہ صفحہ ۸۱.اوّل اگر مقطعات کا استعمال معمے وچیستان اور پہیلی ہے اور اس لئے تم کو اس سے تنفر ہے تو ایف اے اور پھر بی اے کیوں ہوئے اور اس پر تمہارا فخر کیوں ہے.تم نے بی اے ہونے سے دکھایا ہے کہ تم نے دھوکا نہیں کھایا اور بی اے وغیرہ تو مقطعات ہیں مطلب تم نے خوب سمجھ لیا کہ بی اے اگر معمّا نہیں تو الٓمّٓ کیوں ۱؎ معمّاہے.دوم تمہارا منہ کالا کرنے کو اس وقت تمام دنیا کے مہذب بلاد اور تعلیم یافتہ قوموں کی دکانوں، مکانوں، چیزوں، ناموں، عہدوں، ڈگریوں اور اعلیٰ عزت و عظمت کے خطابوں میں انہی معمے و پہیلی ومقطعات کا استعمال ہو رہا ہے لوگوں نے ہی عام طورپر اس کو قبول نہیں کیا بلکہ گورنمنٹ نے
اپنے محکموں، ریلوں، سٹیشنوں کو بھی یہی ٹیکا لگایا ہے.فارن آفس کی تمام تحریروں کا انہیں پر مدار ہے جو حکومت کی اصل کل ہے.ڈی.ای.وی دیانندی کالج اس پہیلی سے زینت یافتہ ہے.یونانی (ا) اغطس.اگست.ایلوس.برس.سال.ایٹیکو.پرانے وغیرہ پندرہ کلمات کے اختصار پر بولا کرتے تھے.(ل) لوئیس.لوکس جگہ کے معنی میں(م) مجسٹریٹ.مانومنٹ بمعنے یادگار پر بولتے ہیں.سوم.تمہارے کیا تم تو غالباً دہریہ ہو بلکہ آریہ کے وید کے سر پر اور اس کے اندر اور تمہاری سندھیا ودہی کے سر پر اور اس کے اندر تمہارے منو شاستر کے ادھیا ۲شلوک ۷۵.تمہاری گایتری کے سر پر.تمہارے لیکچر کے ابتدا میں تمہارے عام لیکچروں کے ابتدا میں تمہارے دیاکہیانوں کتابوں کے سرے پر.قرآنی صداقت کے لئے اوم کا لفظ جو آ.اُ.م کے مقطعات سے بنا ہے زور سے گواہی دیتا ہے کہ خبردار قرآن کریم پر ایسا اعتراض مت کرنا.میرا لحاظ تو کرنا مگر (الانبیاء :۶۸) تم اس کے شنوا نہ ہوئے.تمہاری ستیارتھ کا پہلا صفحہ اسی مقطعات کی تشریح میں سیاہ کیا گیا ہے مگر حیف کہ تم شنوا اور بینا نہ ہوئے.تمہاری منو جی ادھیا دو کے شلوک ۷۶میں بول اٹھے کہ(۱)کار(اُ)اُکار(م)مکار ان تین الگ الگ اکھروں کو اور بہو.بہواہ.سواہ ان کو بھی برہما جی نے بیدوں سے نکالا.مگر تم نے بجائے اس کے کہ اس سے سبق لیتے الٹا اس میں شرارت سے کام لیا اور جن کو ملیچھ کہتے تھے ان کی اتباع کی.یہ ہیں الٰہی آیات اور معجزات اور یہ ہیں ثبوت تمہاری شرارت اور بے ایمانی کے.لطیفہ.اوم کے تیسرے حرف کانام مکار کے بدلہ میں آریہ نے اپنی سندہیا ودہی میں ما کا لفظ رکھا ہے حالانکہ ان کی زبان میں ما کا لفظ نہیں اور ستیارتھ پرکاش کے ترجمہ پرتی مذہبی میں (م) رکھا ہے جو اسلامی طرز کا لفظ ہے.یہ ہے روزانہ مذہبی اصلاح جس کو تم ہر روز کرتے ہو.دوسرا لطیفہ اوم کا پہلا لفظ اصل میں الف ہے اور ا ٓ خری لفظ میم ہے پس اوم کا سارا لفظ اپنے ابتدا اور انتہا
سے قرآن کے مقطع الم کے الف پہلے حرف اور میم آخری کاحرف شاہد ہے.اس شہادت پر بھی تم معترض ہی رہے.افسوس !! نقلی جواب صحابہ کرام نے فرمایا ہے.(دیکھ یہ وہی اصحاب الرسول ہیں جن کی نسبت تو نے بکواس کی ہے کہ اصحاب الرسو ل بھی زور لگا چکے مگر … ) ابن جریر.معالم التنزیل.ابن کثیر.تفسیر کبیر.درمنثور وغیرہ میں لکھا ہے علی المرتضیٰ، ابن مسعود اور ناس من اکثر اصحاب النبیاور ابن عباس کے نزدیک یہ تمام حروف جو سورتوں کے ابتداء میں آئے ہیںاسمائِ الہٰیہ کے پہلے اجزاء ہیں.ابن جریر نے بہت بسط سے اِس بحث کو بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ قرآن کریم کھلی عربی میں ہے پس ممکن نہیں کہ اس میں ایسے الفاظ ہوں جو ہدایتِ عامہ کے لئے نہ ہوں پھر صحابہؓ و تابعین کی روایات کا بسط کیا ہے.آخر کہا ہے کہ ان مقطّعات کو صحابہ کرامؓ نے اسماء الہٰیہ کا جزو مانا ہے اور بعض نے ان پر اسمائِ الہٰیّہ کا اطلاق کیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ ان سے قسم لی گئی ہے ان کو اسماء السور، اسماء القرآن، مفتاح القرآن بھی کہتے ہیں.آخر مجاہد کی روایت لی ہے کہ یہ بامعنی الفاظ ہیں اور الربیع بن انس تابعی کا قول نقل کیا ہے کہ ان کے بہت معنی لینے چاہئیں اور یہ بھی کہا ہے کہ یہ اسماء و افعال کے اجزاء ہیں.بالآخر الربیع بن انس کی روایت پرکہا ہے کہ یہ سب معانی صحیح ہیں اور ان میں تطبیق دی ہے.میں کہتا ہوں بات کیسی آسان ہے کیونکہ ان حروف کا اسمائِ الہٰیہ کی جزو ہونا تو قول حضرت علی المرتضیٰ علیہ السّلام کا ہے اور ابن مسعود اور بہت صحابہ اور ابن عبّاس کا، رضوان اﷲ علیہم اجمعین.پس یہ معنے اصل ہوئے اور جن لوگوں نے کہا کہ یہ اسمائِ الہٰیہ ہیں انہوں نے اصل بات بیان کر دی کیونکہ آخر ان اسماء سے اسمائِ الہٰیہ ہی لئے گئے اور چونکہ اسماء الہٰیہ کے ساتھ قسم بھی ہوتی ہے اِس لئے یہ تیسرا قول بھی پہلا قول ہی ہوا.پھر چونکہ سورتوں کے نام ان کے ابتدائی کلمات سے بھی لئے
جاتے ہیں اِسی واسطے فاتحۃ الکتاب کو اور سورہ اِخلاص کوکہتے ہیںاور اِسی لئے یہ حروف مفاتح السور اور اسماء السور ہوئے اور چونکہ ہر ایک سورۃ کو قرآن کہتے ہیں جیسے آیا ہے (الجنّ :۲) اور فرمایا ہے (الاعراف :۲۵).اِس لئے بعض نے ان کو اسماء القرآن بھی کہا ہے.پس مجاہد کا قول کہ یہ حروف موضوع ہیں معانی کے لئے.اور ربیع بن انس کا یہ قول کہ ان کے بہت معانی ہیں درست و صحیح ہے اور یہ تمام اقوال پہلے قول کے موید ہیں اور انہی معنوں کے قریب بلکہ عین ہے وہ قول جو ابن جریر میں ہے کہ الٓم کے معنی اَنَا اللّٰہُ اَعْلَمُ ہیں.پس جو معانی صحابہ کرامؓ نے کئے ہیں وہ بالکل صحیح ہوئے.اوّل تو اس لئے کسی نے ان صحابہ کرامؓ پر اعتراض نہیں کیا.نہ صحابہ ؓ نے اور نہ تابعین نے.نہ پچھلے علماء نے اور اگر کسی نے ان کے علاوہ کہا ہے تو اس کا کہنا صحیح ہے جیسا ہم نے دکھایا ہے.ابن جریر نے ان کل معانی بلکہ ان کے سوا اور معانی لے کر سب کو جمع کرنے کو بہت پسند کیا ہے اور اپنے طورپر ان کو جمع کر کے بھی دکھایا ہے.ابن جریر کی یہ عبارت بڑی قابل قدر ہے جو آخر مقطّعات پر لکھی ہے اِنَّہٗ عَز ذِکْرِہٖ اَرَادَ بِلَفْظِہِ الدَّلَالَۃَ بِکُلِّ حَرْفٍ مِّنْہُ عَلٰی مَعَانٍ کِثَیْرَۃٍ لَا مَعْنَی وَاحِدٍ کَمَا قَالَ الرَّبِیْعُ بنْ اَنَسٍ وَ اِنَّ کَانَ الرَّبِیْعَ قَدْ اِقْتَصَرَ عَلٰی مَعَانٍ ثَلٰثۃٍ دُوْنَ مَازَادَ علیھا.وَالصَّوَابُ فِیْ ذٰلِکَ عِنْدِیْ اَنَّ کُلَّ حَرْفٍ مِّنْہُ یَحْوِی مَا قَالَہُ الرَّبِیْعُ وَمَا قَالَہٗ سَائِرُ الْمُفَسِّرِیْنَ وَاسْتَثْنٰی شَیْئًا.ربیع کے تین معنی یہ ہیں.اوّلؔ الم میں الف سے اﷲ.لام سے لطیف اور میم سے مجید.دومؔ.الف سے اﷲ تعالیٰ کے آلاء و انعامات اور لام سے اس کا لطف اور میم سے اس کا مجد پھر الف سے ایک لام سے تیس.میم سے چالیس عدد.ابن جریر کا منشاء یہ ہے کہ اگر کوئی اور معانی بھی لے لے ( جیسے کہا گیا ہے کہ الف سے قصہ آدم اور لام سے حالات بنی اسرائیل اور میم سے قصّہ ابراہیم مراد ہے) جب بھی درست ہے.زمخشری اور بیضاوی نے علومِ قراء ت و صرف کے بڑے بڑے ابواب کا
پتہ ان سے لگایا ہے اور شاہ ولی اﷲنے غیب غیر متعیّن کو متعیّن اِس عالم میں مانا ہے اور مبرد اور دیگر محققین، فراء و قطرب و شیخ الاسلام الامام العلّامہ ابوالعباس.ابن تیمیہ اور الشیخ الحافظ المجتہد ابوالحجاج المزی اور زمخشری کا قول ہے کہ یہ منکروں کو ملزم کرنے کے لئے بھی بیان کئے گئے ہیں مثلاً مخالفوں کو تحدّی سے کہا گیا کہ الف حرف ہے جو گلے سے نکلتا ہے اور لام درمیانی مخارج سے اور میم آخری مخرج ہونٹ سے ہے.پس جبکہ ان معمولی لفظوں سے قرآن کریم بنا ہوا ہے تو تم اس کی مثل کیوں نہیں بنا سکتے؟ اب ہم تینوں الزامی اور تینوں نقلی جوابوں سے فارغ ہو کر عقلی جواب دیتے ہیں.ناظرین ! کیا معجزہ قرآنی نہیں کہ مقطّعات قرآن کریم پر مخالفان اسلام کا اعتراض ہو اور تمام دنیا کے مخالفان اسلام اسلامیوں سے بڑھ چڑھ کر ان حروفِ مقطّعہ کے استعمال میں مبتلا دکھائے جائیں اور ہم نے تو صحابہ کرامؓ کے اقوال سے ان کے معانی کو ثابت کیا ہے مگر معترض لوگ اَ.اُ.م کے معنی ملہمان وید کے صحابہ سے بتائیں تو سہی.دو اَرب برس کی تصنیف کتاب کونسی ہے جس میں یہ معانی لکھے ہوئے ہیں جو سندھیا دہی بلکہ ستیارتھ کے پہلے ہی صفحے میں لکھے ہیں اور پھر جب اسلام کی کتب میں یہ معانی موجود ہیں تو ان پر اعتراض کیوں ہے اور اِس طرح اختصار سے کلام کرنا تو عربی علوم میں عام مروّج ہے بلکہ اس کے علاوہ کئی طریق سے اختصار کیا جاتا ہے.مثلاً بَسْمَلَ.حَمْدَلَ.حَوْتَلَ.رَجَّعَ.ھَلَّلَ اورمثلاً خود قرآن کریم کے آیات کے نشان پر ط مطلق اور ج جائز.ص صلی کا اختصار ہے اور قرآنوں کے اُوپر ع رکوع کا چنانچہ ع اِس طرح کے نشانوں میں اُوپر کا نشان پارہ کا یا سورۃ کا اور اُوپر والا اگر پارہ کا نشان ہے تو نیچے والا سورۃ کا اور اگر اُوپر والا سورۃ کا ہے تو نیچے والا پارہ کا.درمیانی ہندسہ آیات رکوع کا نشان ہے.علمِ قراء ت میں فمی بشوق کے مقطّعات سات منازل قراء ت کا نشان ہے.
علمِ حدیث میں نا.انا.ح.ت.ن.د.ق.م.خ.حدّثنا.اخبرنا.حول السند.ترمذی.نسائی.ابوداؤد.متفق علیہ.مسلم و بخاری کے نشان ہؤا کرتے ہیں.علمِ فِقہ میں صدہا علامات ہوتی ہیں.ان کا ایک فقرہ ہے مسئلہ البئر حجط.کنوئیں کے پانی میں ایک خاص امر میں اختلاف پر لکھا ہے کہ اِس وقت پانی نجس ہؤا ہے یا بر حال رہتا ہے یا طاہر و پاک رہتا ہے.علمِ صَرف میں سؔ سمع یسمع کا نشان، ک کرم، ن نصر ،ض ضرب کا،ف فتح یفتح کا.نحو میں ط عطف کا نشان ، حد تعلق کا، مف مفعول کا وغیرہ.لغتؔ میں ۃبلدۃ کا،ج جمع کا، کاف کسرہ عین ماضی، فتح عین مضارع کا نشان ہے.طِبّ میں مکد من کل واحد کا نشان جس کے معنٰی ہیں ہر ایک سے.عقلی جواب قبل اِس کے کہ عقلی جواب بیان ہو ہمیں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ عقلاء کی بعض اصطلاحات بیان کی جاویں اور اِس وقت ہم صرف ویدک معتقدوں اور اسلامی فلسفوں کی اصطلاحات پر اکتفا کرتے ہیں.علّتِ فاعلیہ یا فاعل کام کرنے والے کو کہتے ہیں.سنسکرت میں اِس کا نام نمتکارن ہے، علّتِ مادیہ.مادہ جس سے کوئی چیز بنتی ہے اس کو اپاوان کارن کہتے ہیں.علّتِ صوریہ صورت.شکل اور آلات وغیرہ کو سادہارن کارن کہتے ہیں.علّتِ غایۃ اصل مقصود کو پریوجن کہتے ہیں مثلا اِس کتاب کا مصنّف و متکلّم فاعل ہے اور اس کا نمت کارن.مصنّف کے علوم وغیرہ او پادان کارن ہے اور اس کے آلات و اسباب مثلاً قلم و سیاہی کاغذ وغیرہ سادہارن کارن ہیں.اس کا اصل مقصود یعنی نافہموں کے سامنے صداقتوں کا اظہار اس کا پریوجن ہے.دلائل کی چند اور اصطلاحیں (۱) الٰہی اقوال یا اچھے لوگوں کی بات سے سَند لینا سمعی دلیل ہے اور اس کو سنسکرت میں شَبد
۱) الٰہی اقوال یا اچھے لوگوں کی بات سے سَند لینا سمعی دلیل ہے اور اس کو سنسکرت میں شَبد کہتے ہیں (۲) تشبیہ کو اپمان کہتے ہیں.عِلّت سے معلول کو سمجھنا لم کہلاتا اور معلول سے علّت کو سمجھنا اِنّ ہے(۳) اور استقراء سے پتہ لگانا تمثیل ہے اور ان سب کو انومان کہتے ہیں.(۴) مشاہدات سے استدلال سنسکرت میں پرتیکش ہے حو اس ظاہرہ سے استدلال ہو یا حواسِ باطنہ سے.دلائل میں پہلی دلیل شبد ہے اِس سے ہم نے استدلال نقلی دلائل میں کیا ہے.دوسری دلیل اپمان یا تشبیہ ہے.اِس دلیل سے ہم نے یوں کام لیا ہے کہ جس طرح مقطّعات تمہارے مقدس وید میں ہیں اسی طرح ہماری مقدّس کتاب میں ہیں.جس طرح وہاں اسمائِ الہٰیہ لئے گئے ہیں اسی طرح یہاں لئے گئے ہیں فرق اتنا ہے کہ اسلامیوں کے پاس ایک قاعدہ ہے اور تمہارے یہاں دھینگا دھانگی ہے کہ ’’ آ ‘‘ سے یہ لو اور’’ اُ ‘ ‘ سے یہ اور ’’ م ‘‘ سے یہ مراد لو.تیسری دلیل انومان سے ہم نے یوں کام لیا ہے کہ ہم نے استقراء کیا ہے کہ ہندو، سناتن، آریہ، یورپ، امریکہ کے لوگ مقطّعات کو اجزاء کلمات تجویز کرتے ہیں تو ہم نے اسی استقراء سے مقطّعات قرآنیہ کو اجزاء کلماتِ طیّبات لیا ہے.اب چوتھی دلیل پرتیکش یُوں ہے کہ کلمہ طیّبہ ... چار جملے ہیں.چوتھا جملہ مطلب وغایت کو ادا کرتا ہے اور تیسرا جملہ سروپ کو.دوسرا جملہ مادہ کتاب کو تو ان مشاہداتِ ثلٰثہ سے یہ پتہ لگا کہ پہلا جملہ اِس کتاب کے متکلّم و مصنّف کا پتہ دیتا ہے.جواب سوال نمبر۱۱۶کا بقیہ کچھ تو صفحات ذیل میں ہے.نمبر شمار جواب صفحہ ۱ مقطعات پر ۲۶۰،۲۶۵ ۲ اصحاب الفیل وابابیل ۱۷۲.۱۷۵ ۳ ہوالابتر ۵،۶دیباچہ
۴ شیطان کا جھگڑا ۸۶.۹۰ ۵ آدم وحوا ۱۱۸.۱۲۰ ۶ بہشت ۱۴۳ ۷ توبہ ۷۴ ۸ استغفار ۷۴،۷۵ ۹ شفاعت ۱۱۷،۱۱۸ ۱۰ حشر وقیامت ۱۲۲،۱۲۳ ۱۱ ترازو باٹ ۱۲۲ ۱۲ فرشتہ ۱۲۱ ۱۳ گوشت خوری ۱۴۶.۱۵۹ ۱۴ قربانی ۱۷۴، ۱۹۵، ۳۲۴ ۱۵ پتھر چومنا ۴۰.۴۲دیباچہ ۱۶ روزہ ۲۱۵.۲۱۷ ۱۷ رات کوکھانا ۲۱۵.۲۱۷ ۱۸ جبرعورتوں پر ۴۵.۵۲دیباچہ ۱۹ کافر کہنا ۳۶،۳۷ ۲۰ کافرسے نفرت ۳۶،۳۷ ۲۱ لڑائی ۴۲.۴۵دیباچہ ۲۲ لوٹ کھسوٹ ۲۲۸
۲۳ قید ۴۳دیباچہ ۲۴ قتل ۴۲،۴۳دیباچہ ۲۵ شرک ۱۰۵.۱۱۴ ۲۶ عورت کوکھیت کہنا ۲۳۲تا۲۳۴،۴۷دیباچہ ۲۷ گویا عورت گائے بکری ہے ۵۰دیباچہ اور بقیہ کو ذیل میں مختصر ظاہر کرتے ہیں اور مفصل انشاء اللہ تعالیٰ دیانند کی ستیارتھ پرکاش کے جواب میں لکھیں گے.جواب سوال نمبر۱۱۶کا بقیہ کچھ تو صفحات ذیل میں ہے.نمبر شمار جواب صفحہ ۱ مقطعات پر ۲۶۰،۲۶۵ ۲ اصحاب الفیل وابابیل ۱۷۲.۱۷۵ ۳ ہوالابتر ۵،۶دیباچہ ۴ شیطان کا جھگڑا ۸۶.۹۰ ۵ آدم وحوا ۱۱۸.۱۲۰ ۶ بہشت ۱۴۳ ۷ توبہ ۷۴ ۸ استغفار ۷۴،۷۵ ۹ شفاعت ۱۱۷،۱۱۸ ۱۰ حشر وقیامت ۱۲۲،۱۲۳ ۱۱ ترازو باٹ ۱۲۲ ۱۲ فرشتہ ۱۲۱ ۱۳ گوشت خوری ۱۴۶.۱۵۹ ۱۴ قربانی ۱۷۴، ۱۹۵، ۳۲۴ ۱۵ پتھر چومنا ۴۰.۴۲دیباچہ ۱۶ روزہ ۲۱۵.۲۱۷ ۱۷ رات کوکھانا ۲۱۵.۲۱۷ ۱۸ جبرعورتوں پر ۴۵.۵۲دیباچہ ۱۹ کافر کہنا ۳۶،۳۷ ۲۰ کافرسے نفرت ۳۶،۳۷ ۲۱ لڑائی ۴۲.۴۵دیباچہ ۲۲ لوٹ کھسوٹ ۲۲۸ ۲۳ قید ۴۳دیباچہ ۲۴ قتل ۴۲،۴۳دیباچہ ۲۵ شرک ۱۰۵.۱۱۴ ۲۶ عورت کوکھیت کہنا ۲۳۲تا۲۳۴،۴۷دیباچہ ۲۷ گویا عورت گائے بکری ہے ۵۰دیباچہ اور بقیہ کو ذیل میں مختصر ظاہر کرتے ہیں اور مفصل انشاء اللہ تعالیٰ دیانند کی ستیارتھ پرکاش کے جواب میں لکھیں گے.۱.طواف پر مختصر سا نوٹ.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس مسجد کی تعمیر کے وقت سات دعائیں کی ہیں.(۱).(البقرۃ:۱۲۸)اے ہمارے رب !قبول ہی کر لے ہم سے.(۲) (البقرۃ:۱۲۹)اے ہمارے رب !اپنا ہی ہمیں فرمانبردار بنا دے اور ہماری اولاد سے ایک گروہ معلم الخیر تیرا فرمانبردار ہو اور دکھا ہمیں اپنی عبادت گاہیں اور طریق عبادت.(۳).(ابراہیم:۳۶)بچا لے مجھے اور میری اولاد کو اس سے کہ بت پرستی کریں.(۴).(البقرۃ:۱۲۷)اور رزق دے مکہ والوں کو پھلوں سے.(۵).(ابراہیم:۳۸) کچھ لوگوں کے دل اس شہر والوں کی طرف جھکا دے.(۶).(البقرۃ:۱۳۰)ان میں عظیم الشان رسول بھیج.
(۷).(ابراہیم:۳۶)اس شہر کو امن والا بنا.اور قرآن کریم میں ان دعاؤں کے قبول ہونے کا ذکر آیات ذیل میں ہے جو سات ہیں.اوّل.(المائدۃ :۹۸) اللہ نے کعبہ کو عزت والا اور حرمت والا گھر بنایا.دوم.(البقرہ:۱۳۱) اور بے ریب برگزیدہ کیا ہم نے اسے اس دنیا میں اور بے ریب آخرت میں سنوار والوں سے ہے.سوم.(البقرۃ:۱۲۶) ستھرا رکھو اس میرے گھر کو طواف کرنے والوں.اعتکاف کرنے والوں اور رکوع وسجود کرنے والوں کے لئے.اور فرمایا وَھُدًی للنَّاسِ ہدایت کا مقام ہے لوگوں کے لئے.چہارم.(قریش :۵) کھانا دیا ان کو بھوک کے بعد.پنجم.(البقرۃ :۱۲۶) بیت اللہ کو لوگوں کے لئے جھنڈ در جھنڈ آنے کی جگہ بنایا.ششم.(الجمعۃ :۳) اللہ وہ ہے جس نے بھیجا مکہ والوں میں رسول انہی میں سے پڑھتا ہے ان پر اللہ کی آیتیں.پاک کرتا ہے انہیں اور سکھاتا ہے ان کو کتاب اور حکمت.ہفتم.(آل عمران:۹۸) اور جو داخل ہوا مکہ میں ہوا امن پانے والا.سات دعائیں حضرت ابراہیم علیہ السلام وبرکاتہ نے مانگیں اور ساتوں قبول ہوئیں.اسی طرح
جناب ہاجرہ علیھا السلام کو ایک بڑا ابتلا پیش آیا جس کا اشارہ ان باتوں سے ہوا. (البقرۃ :۱۵۶)اور انعام دیں گے ہم تم کو بدلہ میں تھوڑے سے خوف اور بھوک اور مالوں کی کمی اور جانوں کے اور پھلوں کے نقصان کے اور ان پانچوں پر اُمّنا ہاجرہ نے اور کہا ہم سب اللہ کے ہیں اور اسی کی طرف جانا ہے.پس اپنے دو اقوال سے صبر واستقلال اور ایمان کا اظہار فرمایا اس واسطے اللہ تعالیٰ کریم ورحیم نے اس کی اولاد کو (قریش:۴)امن دیا ان کو عظیم الشان ڈر سے (قریش :۴)کھانا دیا ان کو بھوک سے اور بلدہ کو بلدہ مبارک فرما کر کثرت اموال و انفس و ثمرات اور الصبر کا نعم الاجر صلوات ورحمت عطا فرماکر اس کی اولاد کو ہدایت یافتہ فرمایا اور اسی واسطے اس قصہ کے بعد کے طواف کا ارشاد فرمایا.جن پر اُمّنا ہاجرہ باربار غرض سات بار پھرتی رہیں توکہ اللہ تعالیٰ کے فضل واحسان کا نشان ہو.یہ اصل بھید کی راہ ہے کہ جامع کمالات عمارت جوانبیاء علیھم السلام کے متفرق کمالات کے جامع خاتم النبیین کی جگہ اور مسجد ہے اور جس جگہ کی کتاب جامع ومہیمن اور ہے اس عمارت کو ظاہری آنکھ سے مطالعہ کر کے اس جامع تعلیم کادل میں ہر پہلو سے مطالعہ کرو اور ہاجرہ کی تکالیف کے موقع پر اس فضل و انعام کامطالعہ کرو جو اس پر اور اس کی اولاد پر اللہ تعالیٰ سے ہوا.۲.دوزخ کے وجود پر اعتراض کیا ہے.دوزخ پر اعتراض کرنے والو!دوزخ کانمونہ اس دنیا میں جذام گلت کوڑہ.محرقہ تپ.طاعون کالرہ.اور ہموم وغموم اور افکار مخلوق میں موجود ہیں.کیا آخر آتشک اس آتشک کایاد دہندہ اور سوزاک اس سوزش کا نمونہ نہیں ؟کیا یہاں اس دنیا میں بدکاریوںکے بدنتائج دوزخ کے ایگزی بیشن نہیں ہیں اور ضرور ہیں پھر تعجب ہے تم منکر کیوں؟ ۳.اور حساب وکتاب پر اعتراض کیا ہے.حالانکہ جیسا کوئی کرے ویسا پاتا ہے سچا مسئلہ
کیا تم نے کسی سچے مذہب میں نہیں سنا کہ خدا تعالیٰ کے یہاں جزا و سزا ضروری ہے.اگر مذہب سے ناواقف ہو تو دیکھ لو.آتشک والوں سے پوچھو کیا ان کو بے و جہ عذاب ہوتا ہے ؟خاص سوزاک والے بدوں خاص بدی کے مبتلا ہیں؟مضامین کو صاف نہ لکھنے والے دماغ کے وہ کمزور جو اچھے بھلے چنگے تھے بدیوں اور بدکاریوں سے تباہ حال نہیں؟ ۴.نماز پر اعتراض کیا ہے.مگر نماز میں کمربستہ حاضر ہونا خدا ماننے والے کی فطرت کا تقاضا ہے اور فرمانبرداری کے لئے جھکنا ایک تواضع ہے اور سجدہ میں گرنا کمال عبودیت کا اظہارہے.۵.جنّ کے وجود پر اعتراض کا جواب.جنّ مخفی در مخفی ارواح خبیثہ کانام ہے اس زمانہ میں جب سے ارواح کا انکار ہونے لگا ہے تو پہلے اللہ تعالیٰ نے مائکرس کوپ کی ایجاد کی راہ نکالی ہے.پھر آخر اب اشیاء کی تحقیق پر توجہ دی ہے اور ہزاروں باریک اجسام ارواح خبیثہ کے نظر آنے لگے ہیں اور اس علم کانام بکڑیالوجی ہے جس میں ان ارواح کے اجسام لطیفہ دکھائے جاتے ہیں.۶.اسلام تمہاری ان بے جا کوششوں کے ذریعہ دنیا سے اٹھ جاوے.ایں خیالست و محالست وجنون اسلام پر خطرناک حملہ ترکوں کاتھا مگر تم نے نہیں دیکھا کہ آخر ترک ہی مسلمان اور خادم اسلام بن گئے.عیسائیوں سے زیادہ تم طاقت ور نہیں ہو سکتے وہ بھی اسلام کے معدوم کرنے میں ناکام ہیں.جن تدابیر پر تم چل رہے ہو اور تمہارے چھوٹے بڑے دہرماتما پارٹی اور گریجویٹ، جج، وکیل وغیرہ جس راہ سے اسلام پر حملہ آور ہیں یہ راہ کامیابی کے نہیں.تم سے بہت پہلے مدینہ کے یہود نے اسی راہ کو اختیار کیا تھا اور ان کی مخفی کمیٹیاںاستیصال اسلام کے لئے جان توڑ کوشش کر رہی تھیںجن کا ذکر اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب میںیوں آیا ہے.(المجادلۃ :۹) ترجمہ: کیا نہیں دیکھا تو نے ان لوگوں کی طرف کہ منع کئے گئے مخفی کانا پھوسی سے پھر باز نہیں آتے اور کمیٹئیں کئے جاتے ہیں اور فرمایا
(المجادلۃ :۱۱)یہ کانا پھوسی اور مشورہ اللہ سے دور ہلاک ہونے والی خبیث روح شیطان سے ہے کہ غم میں ڈالے مومنوں کو اور یہ لوگ کچھ بھی مومنوں کو ضرر نہیں دے سکیں گے.پہلے سپارے میں بھی ایسی مخفی مجالس کا ذکر ہے مگر دیکھ لو وہ تمام ممبران اور گرینڈ ماسٹر خائب وخاسر ہوگئے.آخر اللہ تعالیٰ سمیع بصیر.علیم وخبیر ہے اپنی مخلوق کی حرکت وسکون جانتا ہے.آج ہم محض اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے تارک اسلام کے جوابوں سے فارغ ہوتے ہیں اور ہمیں کامل یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ جیسے اس نے ہم سے وعدہ فرمایا ہے. (المائدۃ :۵۵)اگر تم میں سے کوئی ایک مرتد ہوجاوے تو اس کے بدلہ اللہ تعالیٰ ایک بڑی قوم لائے گا جو اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والی اور اللہ تعالیٰ ان سے محبت کرنے والا ہوگا.اس تارک اور اس کے اور مرتد بھائیوں کے بدلہ ہمیں قوموں کی قومیں مسلمان اور نیک مسلمان جو محبوب الٰہی ہوں گے ،عطا کرے گا اور ضرور عطا کرے گا.فالحمد للہ رب العالمین.ان جوابات میں ہم نے علم معانی.بیان.بدیع.غرض علم فصاحت وبلاغت سے کام نہیں لیا.اور نہ کوئی اور دقیق راہ جوابوں میں اختیار کی ہے جس کو وقت اور نازک خیال لوگ پسند کرتے ہیں اور اردو تو پنجابیوں کی خود نرالی اردو ہوا کرتی ہے.دہلی.لکھنؤکے اہل لسان شاید بعض مقامات کو سمجھیں بھی نہیں تو ممکن ہے کیونکہ یہ رسالہ صرف اللہ تعالیٰ کے نام پر ڈیڈی کیٹ کیا گیا ہے صرف اسی کی رضا مندی اصل غرض ہے اسی نے فرمایا کہ حق کا اظہارکرو پس جس کو میں نے حق یقین کیا اس کو مختصر لفظوں میں پیش کیا.وانما لامر ء مانوی.نیز ہمیں اوّل تو آریہ سماج کا عام مذاق معلوم ہے اور انصاف یہی ہے کہ یہ لوگ معذور ہیں.
اپنے ہی علوم سے ناواقفی ہے دوسرے کے علوم تو دوسرے کے ہیں پھر مسلمان ان کے نزدیک جیسے ہیں اس کا پتہ ان کی عملی کارروائیوں سے جویہ لوگ محکموں میں.معاملات میں اپنی مقدرت کے موافق کرتے ہیں ظاہر وعیاں ہے.پس مسلمانوں کے علوم سے آگہی کیونکر کریں.دھرم پال نے جو دہرم پالنا کی ہے اس کا نمونہ دیکھو دیباچہ کے صفحہ ۵۲تا۵۹میں.دوم.آریہ کی کثیر التعداد اور دہرماتما پارٹی کے مہابیر.قومی شہید.قوم جاں نثار پنڈت لیکھرام آریہ مسافر پکے پنڈت تھے.بلکہ منشی رام جکیا سونے تو اپنے ترجمہ رگوید آدی بہاش بہومکا کے ابتدا میں ظاہر فرمایا ہے کہ دیانند ی وید بہاش کی غلطیاں بھی انہوں ہی نے ثابت کر کے دکھائیں اور اس پارٹی بلکہ عام آریہ سماج کے مذہب کا تمام دارومدار نیشنلٹی اور صرف مخالف کو دکھ پہنچانا اور اپنے خیال میں مسلمانوں سے عالمگیر کا بے جا بدلہ لینا ہے حالانکہ اس نیک بادشاہ نے ان کو حقیقتًا کوئی ضرر نہیں پہنچایا اور نہ یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ ہم لوگ عالمگیر کے ساتھ تھے نہ یہ دکھا سکتے ہیں کہ عالمگیری محاصل انگریزوں کے محصولات سے زیادہ تھے.یہ ہے نیکی اور اس پارٹی کا خاص الخاص اصل.عام خوش کن بنانے کے لئے صرف گوشت خوری کا مسئلہ ہے اور گوشت خوری ہی مہان پاپ ہے اور اس کا ترک ہی دھرم کی جڑ ہے حالانکہ نہیں جانتے کہ قانون قدرت میں ماں کے پیٹ میں کیا کھاکر بچہ باہر آئے ہیں اور دودھ پینے میں گائے کے بچے کو دھوکا دے کر دودھ لیا جاتا ہے یا نہیں اور کھیتی وغیر ہ میں جانوروں سے کیا جاسکتا ہے.سوم.لطیفہ.اور آریہ سماج کامعقول عذر اور ان پر اتما م حجت بھی.دہرم پال نے اعتراض کیا ہے کہ اسلام میں کافر کون ہے.دیکھو اعتراض نمبر۹۳ صفحہ (۲۸۵)اس لئے بھی اس کو ہم بتاتے ہیں کہ کافر کون ہے اور حوالہ بھی عظیم الشان دیتے ہیں.منو ۲.۱۱.صفحہ۲۳.جو شخص وید کے احکام کو بذریعہ علم منطق غلط سمجھ کر وید شاستر کی توہین کرتا ہے وہ ناستک یعنی کافر ہے اس کو سادہ لوگ اپنی منڈلی سے باہر کر دیں منو صفحہ نمبر۲۳.کافر کون ہے اور اس کا حکم کیا ہے
اس کا خوب پتہ لگتا ہے اور کیا ان کے بزرگ رشی منوجی معقول پسند تھے؟ ہمارے پیارے دوست سردار فضل حق صاحب سابق سردار سندر سنگھ ساکن دہرمکوٹ بگہ نے اتفاقاً پروفوں کا مجموعہ پڑھا اور کہا کہ اگر دہرم پال کی فطرت باقی ہے اور اس کو اس کتاب کے پڑھنے کا اس کی کسی سعادت کے باعث موقع ہوا تو وہ یہاں آجائے گا.میں نے عرض کیا یہ گالیاں اور راہ راست کی کامیابی.عجب عجب!! سردار صاحب نے مجھے یہ بھی کہا ہے کہ بعض جواب بہت اختصار سے دئیے گئے ہیں اور الزامی جواب بکثرت نہیں.مثلاً سوال نمبر۱۰۰ مسئلہ طلاق میں تارک اسلام نے لکھا ہے کہ بدشکل لڑکیاں پیدا کرنے والی کو طلاق دی جاتی ہے حالانکہ یہ بات قرآن کریم میں کہیں نہیں.قرآن کریم نے نہیں فرمایا کہ ایسی عورت کو طلاق دی جاوے ہاں آریہ سماج نے نیوگ کے ذکر میں اس بات کو لکھا ہے اسی طرح سوال نمبر ۱۰۵میں قریب رشتہ میں شادی کرنے پر جو اعتراض ہے اس پر اتنا بھی نہیں بتایا گیا کہ جب آریہ دھرم اپنی معراج پر تھا اس وقت سری کرشن جی کی بہن کی شادی ارجن جی کے ساتھ کی گئی حالانکہ وہ پھوپھی کی لڑکی تھی.نیز تارک اسلام نے اسلام پر ہنسی کی ہے اسلام پر نہیں بلکہ دیانند جی پر کی ہے جہاں کہا ہے دیکھو صفحہ ۳۰۱سوال نمبر۱۰۴ جہاں کہا ہے اسلام نے نکاح کو دولت کمانے کا نسخہ بتایا ہے کیونکہ رگوید آدی بہاش بہومکا ترجمہ نہال سنگھ کرنالی صفحہ ۱۵۲میں لکھا ہے.گرہ اشرم (نکاح کرنے)میں داخل ہونے پر خوف مت کرو اور اس سے مت کانپو.تم کو قوت اور حوصلہ کے ساتھ یہ ارادہ رکھنا چاہیے کہ ہم جملہ سامان راحت حاصل کریں.میں تم کو کل سامان راحت عطا کروں گا.لاکن میں نے عرض کیا کہ اس کتاب کو سردست شائع ہونے دو.میں اللہ تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ کرکے امیدوار ہوں کہ اللہ تعالیٰ محض اپنی رحمت سے اس محنت کو مثمر ثمرات خیر فرماوے.نقص سے میرے جیسے انسان کا کلام محفوظ ہو یہ خیال صحیح نہیں.ہاں طبائع مختلف ہیں
.بعض لوگ مگس طینت بھی ہوتے ہیں جو صرف غلطی پر ان کی نگاہ پڑتی ہے اور عیب دار حصہ کو ہی لیتے ہیں گو آخر لوگوںمیں حق پسند بھی ضرور ہیں جو سعید وسلیم الفطرت ہیں.ہماری یہ کتاب اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ان کے لئے بابرکت ہوگی اور اس کاو اُن کا انجام وآخر بخیر ہو گا.نورالدین.تمت نظم مولٰنا مولوی عبید اللہ صاحب احمدی بتخلص بسمل مدرس فارسی کالج مدرسہ تعلیم الاسلام دارالامان قادیان خرددادہ زان بندہ را کبریا کہ تا سازد ازنیک بدراجدا کندمیل ازدل سوئے راستی بتابد رُخِ خویش از کاستی منورکندجان خوداز یقین شودرستہ از بنددیولعین اگر خود نہ میدارداین منزلت زارباب معنے کند مسئلت بسے ملت ومذہب وکیش ودین زندلاف ورزیر چرخ برین ولے زندگی دارد آن دین پاک کہ باشد زروحانیت تابناک زروحانیت نیست گر بہرہ ور بود جسم بے جان مثل حجر وزان کیش امید بہبود نیست کہ راہش بدرگاہ معبود نیست بہ قومیکہ نیکی پسندد خدا فرستدزافضال خود انبیاء بدایشان تکلم کند ازکرم بیا موزو ازعلم فضل وحکم شودختم چون دورئہ انبیاء فرستد بتائید شان اولیا بہر قرن ازبہرتجدیددین چراغے فروزدزنوریقین کہ یابدازان خلق راہ خدا گرآیدزدل سوئے علم الہدا دلے ہرکر ابہرہ نبودزنور چوخفاش زان نور باشد نفور
پذیر دہمے طبع اوانقباض کندازسرہرزگی اعتراض بدان سان کہ اکنوں یکے تیرہ ہوش برادردازخبث باطن خروش زنابخردی ترک اسلام گفت رخ خویش ازدین ودانش نہفت چودردہرشدرازاوآشکار بہ پیچیدہ برخود یکے نامدار خطیبے کہ اومصقع امت است ادیبے کہ مصطع درین ملت است محقق سمیدع باحکام نص مدقق ہمیسع بکنہ قصص بعلم وعمل صلح وبلغ البیان بہ فضل وہنر شرخ وفصح اللسان ادیب است وتفسیر وشیخ جلیل لبیب است تحریروشہم نبیل باخبار وآثار ندس الفطن بعلم وعمل رہبر ذی اللقن درخشندہ نبراس حق نوردین زفضل خدا حجتے برزمین قوی پایہ شد علم زین لوذعی سنن تازہ گردید زین یلمعی جزا وکیست درفقہ ناطور شرع جزاوکیست دردین ر موزورع چنوے درین دہر غتریف نیست چنوئے خردمند عریف نیست چنون کیست ناقد بصر درکلام بشرع محمد علیہ السلام بپاسخ زبان بلاغت کشود مراو راطریق ہدایت نمود براہین قاطع بسویش نوشت کہ تاپائے خود پیچدازراہ رشت الا ایکہ آریہ گر دیدئہ جزاز نیوگ دروے چہادیدئہ زقومیکہ غیرت ندارد ززن بہ بیہودگی لاف مردی مزن توصانع شماری نہ خالق خدا ازان ماندہ از ہدایت جدا بہ نزد تو خلاق اشباح نیست بہ کیش توخلاق ارواح نیست
ہیولا وروح وخدا پیش تو قدیم اندافسوس برکیش تو چہ خندی بہ تثلیث عیسائیان چو خود گشتہ منہمک اندران دریغاکہ نفست ملامت نکرد ترامطلع برغرامت نکرد بودترک اسلام روتافتن ردرگاہ خلاق سر و علن شرہ چشم ادراک تودوخت است ازان رخت انصاف توسوخت است جنون بردماغ تو پیچیدہ است زسرعقل وہوش تو دزدیدہ است چہ برتافتی رخ زرب غفور کہ گشتت کہ گشتی زغفران نفور چرارخت ہوش وخرد سوختی کہ از بہر خود حسرت انددختی بہش باش وفرزانگی پیشہ کن زروز پسنین یکرہ اندیشہ کن بیاراستی پیشہ کن حق شنو