Nizam-eWasiyyat

Nizam-eWasiyyat

نظام وصیت

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ و خلفائے سلسلہ
Author: Other Authors

Language: UR

UR
متفرق کتب

Book Content

Page 1

نظام وصیت ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ

Page 2

نام کتاب نظام وصیت ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ

Page 3

عرض ناشر نظام وصیت ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ نظام وصیت سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے سلسلہ کے ارشادات کا مجموعہ قبل ازیں خلافت احمد یہ صد سالہ جوبلی کے بابرکت موقع پر 2008 میں نظارت بہشتی مقبرہ نے شائع کرنے کی توفیق وسعادت پائی.ایڈیشن اوّل میں خلفائے سلسلہ کے بعض ارشادات و خطبات شامل نہ کئے جاسکے تھے نیز ایڈیشن اول حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اپریل 2006 تک کے ارشادات پر مشتمل ہے.اب اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کیا جارہا ہے.اس ایڈیشن میں خلفائے سلسلہ کے وہ ارشادات و خطبات جو قبل از میں شامل نہ کئے جاسکے تھے شامل کئے جارہے ہیں نیز یہ ایڈیشن حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے جولائی 2016 تک کے ارشادات پر مشتمل ہے.اللہ تعالیٰ اس عظیم الشان، با برکت ، آسمانی نظام کی حقیقت و فضیلت کو سمجھنے اور اس کی برکات وحسنات سے حصہ وافر پانے کی ہر ایک کو توفیق دے.(آمین)

Page 4

نظام وصیت ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ نمبر شمار فهرست عناوین عناوین شادات حضرت مسیح موعود 1 ایک مثالی قبرستان کی تجویز 2 قبرستان کی بناء اللہ تعالیٰ کے امر اور وحی سے ڈالی ہے 3 حضرت مسیح موعود کی اپنی جماعت کو نصائح 4 نری لاف گزاف سے کیا ہوسکتا ہے 5 6 مومن اور منافق میں امتیاز کا ذریعہ ہولناک تباہیوں کے وقت کام آنے والا زاد 7 مرکز خدا کے حضور جانا ہے کیا املاک اور جائیدادیں سر پر اُٹھا کر لے جاؤ گے اشتہار الوصیت کی غرض ” تم دین کو دنیا پر مقدم کرلو اسلام کی حالت زار اور نظام وصیت کی ضرورت اور غرض 10 بہشتی مقبرہ اور موصیان کے لئے حضرت مسیح موعود کی دعائیں 11 بہشتی مقبرہ کے متعلق خدا تعالیٰ کی بشارتیں اور تین شرائط 12 نظام وصیت کی اغراض و مقاصد اور اموال کے مصارف تم اس وصیت کی تکمیل میں میرا ہاتھ بٹاؤ صفحہ نمبر 3 4 4 7 8 9 11 13 16 19 20 21 22

Page 5

نظام وصیت ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ صفحہ نمبر 2222 iii نمبر شمار عناوین ارشادات حضرت خليفة المسيح الثانى 14 وصایا کرنے کی تحریک ہو مجبور نہ کرنا چاہیئے 15 سلسلہ کی آمد میں خطر ناک نقص 16 بیعت کا صحیح مفہوم 17 ہماری جماعت کیلئے نہایت اہم اور اصل چیز 18 مالی حالت کو درست کرنے کی ایک صورت 19 جو تھک گیا وہ ہمارا دوست نہیں 20 غرباء کو آرام پہنچانے کیلئے موجودہ زمانہ میں ایک نئے نظام کی ضرورت 21 دنیا سے دکھ دور کرنے کی خاتم الخلفاء کی سکیم کے چارا ہم اصول 22 حضرت مسیح موعود کے ذریعہ دنیا سے دکھ دور کرنے والے نظام نو الوصیت“ کی بنیاد 23 نئے نظام سے باہر رہنے والے کے لئے ایمان کا خطرہ خاتم الخلفاء کی سکیم کے عظیم الشان نتائج اور امتیازی خصوصیات 25 نظام نو کی بنیا در کھنے والے 26 | تحریک جدید نظام نو کا ایک چھوٹا سا نقشہ 27 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت تعمیر ربوہ اور مخالفین بہشتی مقبرہ ربوہ قادیان کے بہشتی مقبرہ کا ہی ایک د 28 تعلق باللہ بہشتی مقبرہ ربوہ کا مقام 29 مزار حضرت مسیح موعود اور تڑپا دینے والے خیالات 30 جوں جوں ہم قربانیاں کرتے چلے جائیں گے ہے توں توں ہمیں تزکیہ اور طہارت حاصل ہوتی چلی جائے گی 30 30 31 34 34 38 38 46 47 48 53 57 58

Page 6

نظام وصیت ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ نمبر شمار iv عناوین صفحہ نمبر 31 جماعت کو وصیت کی اہمیت بتائی جائے دسویں حصہ کی وصیت اقل ترین معیار ہے اصل وصیت 1/3 کا نام ہے 33 وصیت کی اصل غرض اور ضرورت 34 وصیت کرنا دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہد کو پورا کرنا ہے 35 جماعت کے مخلصین سے قربانیوں کا مطالبہ 36 کوئی شخص ظاہر طور پر کسی حکم شریعت کو تو ڑتا تو نہیں 37 وصیت کا ادنی درجہ حضرت مسیح موعود نے دس فیصدی کہا ہے چاہیئے کہ جماعت کا ہر فرد وصیت کر دے 39 نظام وصیت زندہ خدا کا ثبوت دنیا کی ساری دولت احمدیت کے قدموں میں جمع ہو جائے گی 40 ہمیشہ کیلئے با برکت مقام با 41 احباب جماعت کے نام حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کا پیغام 42 امریکہ میں نظام الوصیت“ کے نفاذ کی پر زور تحریک 43 وصیت کے لئے ایسا مال ہونا چاہیئے کہ جسے آئندہ نسلیں یا دکریں 63 63 65 56 76 83 99 818 99 100 101 104 108 109 122 رسالہ الوصیت سے جائیداد کی کوئی تشریح نہیں نکلتی اس لئے اس بارے میں ایسا 123 فیصلہ کرنے کا ہمیں اختیار ہے جو حضرت مسیح موعود کے منشاء کو پورا کرے 45 خاص مومنوں کو قبل از وقت جنت کی بشارت 46 بہشتی مقبرہ کی اصل غرض روپیہ نہیں بلکہ اچھے اعمال اور تقویٰ اور قربانی ہے 126 128

Page 7

نمبر شمار V عناوین ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ صفحہ نمبر ارشادات حضرت خليفة المسيح الثالث 47 بہشتی مقبرہ میں دفن ہونا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک انعام ہے 48 اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کے نزدیک بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے کے قابل نہیں 49 موصی کا معاہدہ اللہ تعالیٰ سے ہے 133 133 133 50 ایک حصہ کو اللہ تعالیٰ نے اس گندی دنیا میں ممتاز کرنے کیلئے نظامِ وصیت قائم فرمایا تھا 134 51 جنت کے فیصلے کا ہمارا کام نہیں 52 سے صرف نظام خلافت پورا فائدہ اٹھا سکتا ہے 53 جب تک موصی اور غیر موصی کے درمیان ما بہ الامتیاز نہ ہو وصیت کی روح قائم نہیں رہ سکتی 54 کو ہم مذاق نہیں بنا سکتے.بڑی اہمیتوں کا مالک ہے یہ نظام 55 شخص نے اللہ کے فضل سے جنت میں جانا ہے 56 ایک مضحکہ خیز طریق بیوی کو دھکا دے کہ جا تو بہشتی مقبرہ میں اور میں باہر کھڑا ہوں 57 ایک موصید اور غیر موصیہ میں جب تک نمایاں فرق نہیں اس وقت تک وصیت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا 58 کی عظمت کے قیام کیلئے کوشش کریں 59 مالی قربانی کے لحاظ سے موصی اور غیر موصی کی زندگی میں کوئی فرقان ہو 60 واقع میں اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا ہے 61 خدا تعالیٰ کے پیار کو پانے والے چنیدہ لوگوں کا گروہ 62 بے پردگی اور وصیت اکٹھی نہیں چل سکتی وصیت کی خواہش رکھنے والا کوئی رعایت نہ مانگے 64 موصی کی تمام صلاحیتوں کے اندر سے تقویٰ پھوٹ پھوٹ کے نکل رہا ہو 134 135 135 136 139 139 140 141 142 142 142 144 145 146

Page 8

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ نمبر شمار vi عناوین صفحہ نمبر 65 بہشتی مقبرہ میں جانے کے دو دروازے ہیں اور ہر دو انتہائی قربانی چاہتے ہیں 147 66 قرآنی انوار کی اشاعت میں موصیان کی ذمہ داری موصیوں کی تنظیم قرآن کریم کی تعلیم کے سلسلہ میں پورے اخلاص ، جوش اور ہمت سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرے 67 68 آسمانی رفعتوں تک پہنچانے والا نظام ہے 69 رسالہ الوصیت میں بیان فرمودہ، دو (۲) انقلابی نظام ارشادات حضرت خليفة المسيح الرابع 70 کے متعلق بنیادی اور اصولی ھدایات 71 غلط مؤقف کہ وصیت کا معیار محض تقویٰ ہے 149 155 163 169 175 176 72 غربت کی وجہ سے اگر کوئی اس نظام میں شامل ہونے کی توفیق نہیں پاسکتا تو اس پر کوئی گناہ نہیں 177 73 سلسلہ کی نظر روپیہ پر نہیں ، آخری حساب دفتر وصیت میں نہیں بلکہ یوم الحساب کو ہو گا 74 ایک غیر معقول اصرار 75 ہمدردی کے متقاضی لوگ 179 179 76 ایسی وصیتیں شروع میں ہی قبول نہیں کرنی چاہئیں 77 اخلاقی اور روحانی لحاظ سے اور مالی قربانی میں بھی صف اول میں ہو 78 آئندہ نسلیں اسکی قربانی کا حال دیکھ کر اس کے لئے دعائیں کریں 79 ایک تمسخر آمیز شکل 80 موصیان اور کے متعلق قیمتی نصائح 81 خدا کے سواء کوئی کسی کو جنتی نہیں بنا سکتا 180 180 181 181 181 199

Page 9

نمبر شمار vii عناوین ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ صفحہ نمبر ارشادات حضرت خليفة المسيح الخامس اپنی اور اپنی نسلوں کی زندگیوں کو پاک کرنے کیلئے حضرت مسیح موعود کی آواز پر 203 لبيك کہتے ہوئے وصیت کے آسمانی نظام میں شامل ہوں 3 نظام خلافت اور نظامِ وصیت کا بڑا گہرا تعلق ہے.نظامِ خلافت کیلئے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہیں اور اسکے لئے قربانیاں بھی دیتے چلے جائیں 209 84 اپنے حسابات صاف رکھیں اور اپنا چندہ، آمد میں سے ساتھ کے ساتھ اداء کرتے رہا کریں 212 85 سب سے پہلے مجلس عاملہ کو وصیت کے نظام میں شامل کریں 86 جب خیال ہو کہ مجھے اس مال کی ضرورت ہے تب قربانی کی جائے 213 213 87 حضرت مسیح موعود نے اس نظام میں شامل ہونے والوں کیلئے بہت دعائیں کی 214 ہیں جس کو یہ دعائیں لگ جائیں اس کی دنیا بھی سنور جائے گی اور آخرت بھی 88 تحریک جدید کا نظام ، کیلئے ارہاص کے طور پر ہے 89 حیتک عہدیدار خود وصیت نہیں کریں گے تو دوسروں کو کسطرح کہیں گے 90 مجلس عاملہ کے جن ممبران نے ابھی تک وصیت نہیں کی پہلے ان کو اس نظام میں شامل ہونا چاہیئے 91 سستیاں ترک کریں اور اس نظام میں شامل ہو جائیں 214 215 215 216 92 سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الخام ایده ال عالی بنصرہ العزیز کا خصوصی پیغام تمام دنیا کے احمدیوں کے نام 217 93 ایک سال میں 16148 نئے موصیان کی درخواستیں مرکز میں پہنچ چکی ہیں 94 مربیان سارے وصیت کریں 95 موصی ذیلی تنظیموں کا چندہ بھی باقاعدہ ادا کیا کریں 221 221 221 96 موصیان کی تعداد بڑھائیں تو تربیت بھی ہو جائے گی 221

Page 10

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ viii نمبر شمار عناوین صفحہ نمبر 97 تربیت اور اصلاح کیلئے موصیوں کی تعداد بڑھائیں 222 98 آگے بڑھیں اس پاک نظام میں شامل ہونے کی کوشش کریں خدا کے مسیح کی آواز پر لبیک کہیں 222 99 ایک موصی کو تمام تحریکات میں چندے دینے چاہیئیں 100 میں شامل ہونے والوں کیلئے حضرت مسیح موعود کی بے شمار دعائیں ہیں 101 سیکرٹری وصایا کو جذباتی نہیں ہونا چاہئے تسلی دینے والا ہونا چاہئے 102 تمام سیکرٹریان وصایا موصی ہونے چاہئیں 103 | موصیان سے متعلق متفرق ہدایات و نصائح 104 پڑھی لکھی لڑکیوں میں وصیت کرنے کی روح پیدا کریں 105 جو میں شامل ہے اسے عہد یدار بنائیں ٹھیک ہے وہ پابند نہیں کہ ضرور وصیت کرے.پھر آپ بھی پابند نہیں کہ اسے عہد یدار بنا ئیں 225 229 229 229 230 230 106 جائزہ لیں کہ میں شمولیت کے بعد تربیت اور جماعتی تعاون میں کیا فرق پڑا 231 107 اللہ تعالیٰ کے فضل سے وصیتوں کی تعداد بڑھ رہی ہے 108 جماعت جرمنی نے چندہ دہندگان کے ٹارگٹ کو حاصل کر لیا.109 | شعبہ وصایا کے کام کا جائزہ 110 خدا کرے کہ اس سال کے آخر تک تعداد ایک لاکھ تک پہنچ جائے 111 اللہ کے فضل سے ایک لاکھ پانچ ہزار تین سوستر وصایا ہو چکی ہیں 231 232 232 233 233 234 112 صف دوم کے انصار کو وصیت کے نظام میں سو فیصد شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہیئے 113 اللہ تعالیٰ ہمیں ہوشیار کر رہا ہے کہ تم دنیا کے کسی کریڈٹ کرنچ کی فکر نہ کرو میرے 235 ساتھ سودا کرتے جاؤ میں انشاء اللہ تمہاری توفیقیں بڑھاتا چلا جاؤں گا

Page 11

ix ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ نمبر شمار عناوین 114 وصیت ایک ایسی تحریک ہے جس میں سب سے پہلے تقویٰ ہے صفحہ نمبر 237 115 موصی کو ہر وقت اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ تقویٰ سے ہٹ کر اپنی کسی آمد کو ظاہر نہ 238 کر کے اللہ تعالیٰ سے کئے گئے عہد میں خیانت تو نہیں کر رہا؟ 116 جولوگ میں شامل ہیں ان کے ایمان، اطاعت اور قربانیوں کے معیار بھی 239 ہمیشہ بڑھتے چلے جانے چاہئیں 117 سب کو تحریک کریں اور تحریک کرتے چلے جائیں یہ مستقل کام تسلسل کے ساتھ ہونا چاہئے 118 کیا کوئی موصی بینک سے قرض لے سکتا ہے؟ 119 کوششیں کرتے رہیں اور مبلغین سلسلہ سے مدد لیں 241 241 243 120 وصیت کی ذمہ داریوں کے حوالہ سے ایک صفحہ تیار کر کے بطور یاد دہانی ہر موصی کو بھجوایا 243 کریں.تقویٰ پیدا کریں کہ چندہ صیح انکم پر دیں 121 موصیان تقویٰ کا معیار بڑھانے کی بھی کوشش کریں 122 موصیان کو نیکی اور تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر قائم ہونا چاہئے 245 245 123 عاملہ کے ممبران کو توجہ دلائیں ، یاددہانی کروائیں کہ ہر ممبر وصیت کے نظام.میں 246 شامل ہولیکن اس کے لئے فورس (Force) نہیں کرنا 124 جولوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم وصیت کی شرائط پوری نہیں کر سکتے 125 موصی کا معیار تقوی نمازوں کی ادائیگی اور اعلی اخلاقی معیار بھی ہونا چاہئے 126 تینوں ذیلی تنظیموں کو Push کریں 246 247 247 127 نظام کو قابل اعتماد بنانا اور مرکز اور مقامی جماعتی نظام میں مضبوط ربط پیدا کرنا 248 : بھی امراء کا کام ہے

Page 12

X ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ

Page 13

1 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ ارشادات حضرت مسیح موعود بالسلسلة و السلام

Page 14

2 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ

Page 15

3 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ ایک مثالی قبرستان کی تجویز میں چاہتا ہوں کہ جماعت کے لیے ایک زمین تلاش کی جاوے جو قبرستان ہو.یادگار ہو اور عبرت کا مقام ہو.قبروں پر جانے کی ابتدا آنحضرت ﷺ نے مخالفت کی تھی جب بت پرستی کا زور تھا.آخر میں اجازت دے دی.مگر عام قبروں پر جا کر کیا اثر ہو گا جن کو جانتے ہی نہیں لیکن جو دوست ہیں اور پار سا طبع ہیں ان کی قبریں دیکھ کر دل نرم ہوتا ہے.اس لیے اس قبرستان میں ہمارا ہر دوست جو فوت ہو اس کی قبر ہو.میرے دل میں خدا تعالیٰ نے پختہ طور پر ڈال دیا ہے کہ ایسا ہی ہو.جو خار جا مخلص ہوا اور وہ فوت ہو جاوے اور اس کا ارادہ ہو کہ اس قبرستان میں دفن ہو.وہ صندوق میں دفن کر کے یہاں لایا جاوے.اس جماعت کو بہ ہیئت مجموعی دیکھنا مفید ہوگا.اس کے لیے اوّل کوئی زمین لینی چاہیے اور میں چاہتا ہوں کہ باغ کے قریب ہو.فرمایا: عجیب مؤثر نظارہ ہوگا جو زندگی میں ایک جماعت تھے مرنے کے بعد بھی ایک جماعت ہی نظر آئے گی.یہ بہت ہی خوب ہے.جو پسند کریں وہ پہلے سے بندو بست کر سکتے ہیں کہ یہاں دفن ہوں.جو لوگ صالح معلوم ہوں ان کی قبریں دور نہ ہوں.ریل نے آسانی کا سامان کر دیا ہے اور اصل تو یہ ہے مَاتَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ اَرْضِ تَمُوتُ (لقمان: 35) مگر اس میں کیا لطیف نکتہ ہے کہ بِأَيِّ أَرضِ تُدُ فَنُ نہیں لکھا.صلحاء کے پہلو میں دفن بھی ایک نعمت ہے.حضرت عمرہ کے متعلق لکھا ہے کہ مرض الموت میں انہوں نے حضرت عائشہ سے کہلا بھیجا کہ آنحضرت ﷺ کے پہلو میں جو جگہ ہے انہیں دی جاوے.حضرت عائشہ نے سے کام لے کر وہ جگہ ان کو دیدی تو فرمایا مَا بَقِيَ لِى هَـمْ بَعْدَ ذالك یعنی اس کے بعد اب مجھے کوئی غم نہیں.جبکہ میں آنحضرت ﷺ کے روضہ میں مدفون ہوں.مجاورت بھی خوشحالی کا موجب ہوتی ہے.میں اس کو پسند کرتا ہوں.اور یہ بدعت نہیں کہ قبروں پر کتبے لگائے جاویں.اس سے عبرت ہوتی ہے اور ہر کتبہ جماعت کی تاریخ ہوتی ہے.ہماری نصیحت یہ ہے کہ ایک طرح سے ہر شخص گور کے کنارے ہے کسی کو موت کی اطلاع مل گئی اور کسی کو اچھا نمک آجاتی ہے

Page 16

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 4 یہ گھر ہے بے بنیاد.بہت سے لوگ ہوتے ہیں کہ ان کے گھر بالکل ویران ہو جاتے ہیں.ایسے واقعات کو انسان دیکھتا ہے جب تک مٹی ڈالتا ہے دل نرم ہوتا ہے.پھر دل سخت ہو جاتا ہے یہ بدقسمتی ہے.( ملفوظات.جلد 4 صفحہ 587,586 قبرستان کی بنا ء اللہ تعالیٰ کے امر اور وحی سے ڈالی ہے میں نے یہ امر پیش کیا تھا کہ ہماری جماعت میں سے ایسے لوگ تیار ہونے چاہئیں جو واقعی طور پر دین سے واقف ہوں اور اس لائق بھی ہوں کہ وہ ان حملوں کا جو بیرونی اور اندرونی طور پر اسلام پر ہو رہے ہیں، پورا پورا جواب دے سکیں.اسلام کی اندرونی بدعات اس حد تک پہنچ گئی ہیں کہ ان کی وجہ اور جہالت سے ہم کا فر ٹھہرائے گئے ہیں.اور ہم ایسی کراہت کی نظر سے دیکھے گئے ہیں کہ حال کے مخالف علماء کے فتووں کے موافق ہماری جماعت مسلمانوں کے قبرستان میں بھی داخل ہونے کے قابل نہیں.اب جو بار بار اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا کہ تیری اجل کے دن قریب ہیں جیسا کہ یہ الہام ہے قَرُبَ اَحَلُكَ الْمُقَدِّرُ وَلَا نُبقى لَكَ مِنَ الْمُحْزِيَاتِ ذِكْراً ایسا ہی اردو زبان میں بھی فرمایا ”بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں.اس دن سب پر اداسی چھا جائے گی.“ غرض جب خدا تعالیٰ نے مجھ پر یہ ظاہر کر دیا کہ اب تھوڑے دن باقی ہیں تو اسی لیے میں نے وہ تجویز سوچی جو قبرستان کی ہے.اور یہ تجویز میں نے اللہ تعالیٰ کے امر اور وحی سے کی ہے اور اسی کے امر سے اس کی بناء ڈالی ہے کیونکہ اس کے متعلق عرصہ سے مجھے خبر دی گئی تھی.( ملفوظات.جلد 4 صفحہ 588 تا 592) حضرت مسیح موعود کی اپنی جماعت کو نصائح چونکہ خدائے عز وجل نے متواتر وجی سے مجھے خبر دی ہے کہ میرا زمانہ وفات نزدیک ہے اور اس بارے میں اس کی وحی اس قدر تواتر سے ہوئی کہ میری ہستی کو بنیاد سے ہلا دیا اور اس زندگی کو میرے

Page 17

5 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ پر سرد کر دیا اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اپنے دوستوں اور ان تمام لوگوں کے لئے جو میرے کلام سے فائدہ اُٹھانا چاہیں چند نصائح لکھوں.الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 301 دنیا کی لذتوں پر فریفتہ مت ہو کہ وہ خدا سے جدا کرتی ہیں اور خدا کے لیے تلخی کی زندگی اختیار کرو.درد جس سے خدا راضی ہوا س لذت سے بہتر ہے جس سے خدا ناراض ہو جائے اور وہ شکست جس سے خدا راضی ہو اس فتح سے بہتر ہے جو موجب غضب الہی ہو.اُس محبت کو چھوڑ دو جو خدا کے غضب کے قریب کرے.اگر تم صاف دل ہو کر اُس کی طرف آجاؤ تو ہر ایک راہ میں وہ تمہاری مدد کرے گا اور کوئی دشمن تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا.خدا کی رضا کو تم کسی طرح پاہی نہیں سکتے جب تک تم اپنی رضا چھوڑ کر اپنی لذات چھوڑ کر اپنی عزت چھوڑ کر اپنا مال چھوڑ کر اپنی جان چھوڑ کر اُس کی راہ میں وہ تلخی نہ اٹھاؤ جو موت کا نظارہ تمہارے سامنے پیش کرتی ہے.لیکن اگر تم تلخی اٹھا لو گے تو ایک پیارے بچے کی طرح خدا کی گود میں آجاؤ گے.اور تم اُن راست بازوں کے وارث کیسے جاؤ گے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں اور ہر ایک نعمت کے دروازے تم پر کھولے جائیں گے.الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 307) تمہیں خوشخبری ہو کہ قرب پانے کا میدان خالی ہے.ہر ایک قوم دنیا سے پیار کر رہی ہے اور وہ بات جس سے خدا راضی ہو اُس کی طرف دنیا کو توجہ نہیں وہ لوگ جو پورے زور سے اس دروازہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں اُن کے لیے موقع ہے کہ اپنے جوھر دکھلا ئیں اور خدا سے خاص انعام پاویں.الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 308-309 اور مجھے ایک جگہ دکھلا دی گئی کہ یہ تیری قبر کی جگہ ہوگی.ایک فرشتہ میں نے دیکھا کہ وہ زمین کو ناپ رہا ہے تب ایک مقام پر اُس نے پہنچ کر مجھے کہا کہ یہ تیری قبر کی جگہ ہے.پھر ایک جگہ مجھے ایک قبر دکھلائی گئی کہ وہ چاندی سے زیادہ چمکتی تھی اور اُس کی تمام مٹی چاندی کی تھی.تب مجھے کہا گیا کہ یہ تیری قبر ہے.اور ایک جگہ مجھے دکھلائی گئی اور اُس کا نام بہشتی مقبرہ رکھا گیا اور ظاہر کیا گیا کہ وہ اُن

Page 18

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 6 برگزیدہ جماعت کے لوگوں کی قبریں ہیں جو بہشتی ہیں تب سے ہمیشہ مجھے یہ فکر رہی کہ جماعت کے لیے ایک قطعہ زمین قبرستان کی غرض سے خریدا جائے.لیکن چونکہ موقعہ کی عمدہ زمینیں بہت قیمت سے ملتی تھیں اس لیے یہ غرض مدت دراز تک معرض التواء میں رہی.اب اخویم مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی وفات کے بعد جب کہ میری وفات کی نسبت بھی متواتر وحی الہی ہوئی.میں نے مناسب سمجھا کہ قبرستان کا جلدی انتظام کیا جائے اس لیے میں نے اپنی ملکیت کی زمین جو ہمارے باغ کے قریب ہے جس کی قیمت ہزار روپیہ سے کم نہیں اس کام کے لیے تجویز کی.(الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 316 ممکن ہے کہ بعض آدمی جن پر بدگمانی کا مادہ غالب ہو وہ اس کا روائی میں ہمیں اعتراضوں کا نشانہ بناویں اور اس انتظام کو اغراض نفسانیہ پر مبنی سمجھیں یا اس کو بدعت قرار دیں لیکن یاد رہے کہ یہ خدا تعالیٰ کے کام ہیں وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے.بلاشبہ اُس نے ارادہ کیا ہے کہ اس انتظام سے منافق اور مومن میں تمیز کرے اور ہم خود محسوس کرتے ہیں کہ جولوگ اس الہی انتظام پر اطلاع پا کر بلا تو قف اس فکر میں پڑتے ہیں کہ دسواں حصہ گل جائیداد کا خدا کی راہ میں دیں بلکہ اس سے زیادہ اپنا جوش دکھلاتے ہیں وہ اپنی ایمانداری پر مہر لگا دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: الم - أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (العنكبوت:3,2) کیا لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ میں اسی قدر پر راضی ہو جاؤں کہ وہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لائے.اور ابھی ان کا امتحان نہ کیا جائے ، اور یہ امتحان تو کچھ بھی چیز نہیں.صحابہ کا امتحان جانوں کے مطالبہ پر کیا گیا.اور انہوں نے اپنے سر خدا کی راہ میں دیئے.پھر ایسا گمان کہ کیوں یونہی عام اجازت ہر ایک کو نہ دی جائے کہ وہ اس قبرستان میں دفن کیا جائے کس قدر دور از حقیقت ہے.اگر یہی روا ہو تو خدا تعالیٰ نے ہر ایک زمانہ میں امتحان کی کیوں بنیاد ڈالی! وہ ہر ایک زمانہ میں چاہتا رہا ہے کہ خبیث اور طیب میں فرق کر کے دکھلاوے اس لئے اب بھی اُس نے ایسا ہی کیا.

Page 19

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بعض خفیف خفیف امتحان بھی رکھے ہوئے تھے جیسا کہ یہ بھی دستور تھا کہ کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی قسم کا مشورہ نہ لے جب تک پہلے نذرانہ داخل نہ کرے.پس اس میں بھی منافقوں کے لئے ابتلاء تھا.ہم خود محسوس کرتے ہیں کہ اس وقت کے امتحان سے بھی اعلیٰ درجہ کے مخلص جنہوں نے درحقیقت دین کو دنیا پر مقدم کیا ہے دوسرے لوگوں سے ممتاز ہو جائیں گے.اور ثابت ہو جائے گا کہ بیعت کا اقرار انہوں نے پورا کر کے دکھلا دیا اور اپنا صدق ظاہر کر دیا.بے شک یہ انتظام منافقوں پر بہت گراں گزرے گا اور اس سے اُنکی پردہ دری ہوگی.اور بعد موت وہ مرد ہوں یا عورت اس قبرستان میں ہرگز دفن نہیں ہو سکیں گے فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللهُ مَرَضاً (البقرة: 11) لیکن اس کام میں سبقت دکھلانے والے راستبازوں میں شمار کئے جائیں گے.اور ابد تک خدا تعالیٰ کی اُن پر رحمتیں ہونگی.الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 327 تا 329) نری لاف گزاف سے کیا ہو سکتا ہے میں جانتا ہوں کہ یہ تجویز بھی بہت سے لوگوں کے لیے ابتلاء کا موجب ہوگی لیکن اس بنا سے غرض یہی ہے کہ تا آنیوالی نسلوں کے لیے ایک ایسی قوم کا نمونہ ہو جیسے صحابہ کا تھا اور تا لوگ جانیں کہ وہ اسلام اور اس کی اشاعت کے لیے فدا شدہ تھے.ابتلاؤں کا آنا ضروری ہے اس سے کوئی بچ نہیں سکتا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے اَحَسِبَ النَّاسُ اَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَ هُمُ لَا يُفْتَنُونَ (العنكبوت :3) یعنی کیا لوگ گمان کر بیٹھے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن سے اتنی ہی بات پر راضی ہو جاوے اور وہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لائے ، حالانکہ وہ ابھی امتحان میں نہیں ڈالے گئے اور پھر دوسری جگہ فرماتا ہے لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (ال عمران: 93) یعنی اس وقت تک تم حقیقی نیکی کو حاصل ہی نہیں کر سکتے جب تک تم اس چیز کو خرچ نہ کرو گے جو تم کو سب سے زیادہ عزیز اور محبوب ہے.اب غور کرو جبکہ حقیقی نیکی اور رضاء الہی کا حصول ان باتوں کے بغیر ممکن ہی نہیں تو پھر نری لاف گزاف سے کیا ہوسکتا ہے.صحابہ کا یہ حال تھا کہ ان میں سے مثلاً ابوبکر کاوہ قدم اور صدق تھا کہ سارا مال ہی

Page 20

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 8 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے.اس کی وجہ کیا تھی ؟ یہ کہ خدا تعالیٰ کے لیے زندگی وقف کر چکے تھے.اور انہوں نے اپنا کچھ بھی نہ رکھا تھا.مومن کی بھلائی کے دن بھلے آتے ہیں تو ایسے موقعوں پر جبکہ اس کو کچھ خرچ کرنا پڑے خوش ہوتا ہے.وہ جانتا ہے کہ وہ جو ہر صدق وصفا کے جو اب تک چھپے ہوئے تھے ظاہر ہوں گے.برخلاف اس کے منافق ڈرتا ہے اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ اب اس کا نفاق ظاہر ہو جائے گا.مومن اور منافق میں امتیاز کا ذریعہ ( ملفوظات.جلد 4 صفحہ 593,592) یہ قبرستان کا امر بھی اسی قسم کا ہے مومن اس سے خوش ہوں گے اور منافقوں کا نفاق ظاہر ہو جائے گا.میں نے اس امر کو جب تک تواتر سے مجھ پر نہ کھلا پیش نہیں کیا.اس میں تو کچھ شک ہی نہیں کہ آخر ہم سب مرنے والے ہیں.اب غور کرو کہ جولوگ اپنے بعد اموال چھوڑ جاتے ہیں وہ اموال ان کی اولاد کے قبضہ میں آتے ہیں.مرنے کے بعد انہیں کیا معلوم کہ اولا دکیسی ہو ؟ بعض اوقات اولاد ایسی شریر اور فاسق فاجر نکلتی ہے کہ وہ سارا مال شراب خانوں اور زنا کاری میں اور ہر قسم کے فسق و فجور میں تباہ کیا جاتا ہے اور اس طرح پر وہ مال بجائے مفید ہونے کے مضر ہوتا ہے اور چھوڑنے والے پر عذاب کا موجب ہو جاتا ہے جبکہ یہ حالت ہے تو پھر کیوں تم اپنے اموال کو ایسے موقع پر خرچ نہ کرو جو تمہارے لیے ثواب اور فائدہ کا باعث ہو.اور وہ یہی صورت ہے کہ تمہارے مال میں دین کا بھی حصہ ہو.اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ اگر تمہارے مال میں دین کا بھی حصہ ہے تو اس بدی کا تدارک ہو جائے گا جو اس مال کی وجہ سے پیدا ہونی ہو.یعنی جو بدی اولا د کرتی ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ تم اس بات کو خوب یا درکھو کہ جیسا قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے اور ایسا ہی دوسرے نبیوں نے بھی کہا ہے یہ سچ ہے کہ دولت مند کا بہشت میں داخل ہونا ایسا ہی ہے جیسے اونٹ کا سوئی کے ناکے میں داخل ہونا.اس کی وجہ یہی

Page 21

9 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ ہے کہ اس کا مال اس کے لیے بہت سی روکوں کا موجب ہو جاتا ہے.اس لیے اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا مال تمہارے واسطے ہلاکت اور ٹھوکر کا باعث نہ ہو تو اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو.اور اُسے دین کی اشاعت اور خدمت کے لیے وقف کرو.( ملفوظات.جلد 4 صفحہ 594,593 ہولناک تباہیوں کے وقت کام آنے والا زاد حوادث کے بارے میں مجھے علم دیا گیا ہے وہ یہی ہے کہ ہر ایک طرف دنیا میں موت اپنا دامن پھیلائے گی اور زلزلے آئیں گے اور شدت سے آئیں گے اور قیامت کا نمونہ ہوں گے اور زمین کو تہ و بالا کر دیں گے اور بہتوں کی زندگی تلخ ہو جائے گی.پھر وہ جو تو بہ کریں گے اور گناہوں سے دستکش ہو جائیں گے خدا ان پر رحم کرے گا.جیسا کہ ہر ایک نبی نے اس زمانہ کی خبر دی تھی ضرور ہے کہ وہ سب کچھ واقع ہو.لیکن وہ جو اپنے دلوں کو درست کر لیں گے اور ان راہوں کو اختیار کریں گے جو خدا کو پسند ہیں اُن کو کچھ خوف نہیں اور نہ کچھ غم.الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 303,302 اور خدا نے فرمایاز لزَلَةُ السَّاعَةِ یعنی وہ زلزلہ قیامت کا نمونہ ہوگا.اور پھر فرما يالك نُــى ايــات و نَهْدِمُ مَا يَعْمُرُونَ یعنی تیرے لیے ہم نشان دکھلائیں گے اور جو عمارتیں بناتے جائیں گے ہم اُن کو گراتے جائیں گے.اور پھر فرمایا بھونچال آیا اور شدت سے آیا زمین تہ و بالا کر دی.یعنی ایک سخت زلزلہ آئے گا اور زمین کو یعنی زمین کے بعض حصوں کو زیروزبر کر دے گا جیسا کہ لوط کے زمانہ میں ہوا.اور پھر فرمایا اإنِّى مَعَ الْأَفْوَاجِ اتِيكَ بَغْتَةً یعنی میں پوشیدہ طور پر فوجوں کے ساتھ آؤں گا اُس دن کی کسی کو بھی خبر نہیں ہوگی جیسا کہ لوظ کی بہتی جب تک زیروز بر نہیں کی گئی کسی کو خبر نہ تھی اور سب کھاتے پیتے اور عیش کرتے تھے کہ نا گہانی طور پر زمین الٹائی گئی.پس خدا فرماتا ہے کہ اس جگہ بھی ایسا ہی ہوگا کیونکہ گناہ حد سے بڑھ گیا اور انسان حد سے زیادہ دنیا سے پیار کر رہے ہیں اور خدا

Page 22

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 10 کی راہ تحقیر کی نظر سے دیکھی جاتی ہے.اور پھر فرمایا " زندگیوں کا خاتمہ.اور پھر مجھے مخاطب کر کے فرما يا قَالَ رَبُّكَ إِنَّهُ نَازِلٌ مِّنَ السَّمَاءِ مَا يُرُضِيُكَ رَحْمَةً مِّنَّا وَ كَانَ أَمْراً مَّقْضِيًّا یعنی تیرا رب کہتا ہے کہ ایک امر آسمان سے اترے گا جس سے تو خوش ہو جائے گا.یہ ہماری طرف سے رحمت ہے اور یہ فیصلہ شدہ بات ہے جو ابتدا سے مقد رتھی اور ضرور ہے کہ آسمان اُس امر کے نازل کرنے سے رُکار ہے جب تک یہ پیشگوئی قوموں میں شائع ہو جائے.کون ہے جو ہماری باتوں پر ایمان لاوے بجز اس کے کہ خوش قسمت ہو.یاد رہے کہ یہ اعلان تشویش کے پھیلانے کے لیے نہیں بلکہ آئندہ تشویش کی پیش بندی کے لیے ہے تا کوئی بے خبری میں ہلاک نہ ہو.الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 315,314 ) بالآخر یہ بھی یادر ہے کہ بلاؤں کے دن نزدیک ہیں اور ایک سخت زلزلہ جو زمین کو تہ و بالا کر دے گا قریب ہے پس وہ جو معائنہ عذاب سے پہلے اپنا تارک الدنیا ہونا ثابت کرائیں گے اور نیز یہ بھی ثابت کر دیں گے کہ کس طرح انہوں نے میرے حکم کی تعمیل کی خدا کے نزدیک حقیقی مومن وہی ہیں اور اُس کے دفتر میں سابقین اولین لکھے جائیں گے اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ زمانہ قریب ہے کہ ایک منافق جس نے دنیا سے محبت کر کے اس حکم کو ٹال دیا ہے وہ عذاب کے وقت آہ مار کر کہے گا کہ کاش میں تمام جائیداد کیا منقولہ اور کیا غیر منقولہ خدا کی راہ میں دے دیتا اور اس عذاب سے بچ جاتا.یا د رکھو کہ اس عذاب کے معائنہ کے بعد ایمان بے سود ہوگا اور صدقہ خیرات محض عبث.دیکھو میں بہت قریب عذاب کی تمہیں خبر دیتا ہوں اپنے لیے وہ زاد جلد تر جمع کرو کہ کام آوے میں یہ نہیں چاہتا کہ تم سے کوئی مال لوں اور اپنے قبضہ میں کرلوں بلکہ تم اشاعت دین کے لیے ایک انجمن کے حوالہ اپنا مال کرو گے اور بہشتی زندگی پاؤ گے بہتیرے ایسے ہیں کہ وہ دنیا سے محبت

Page 23

11 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ کر کے میرے حکم کو ٹال دیں گے مگر بہت جلد دنیا سے جدا کیے جائیں گے تب آخری وقت میں کہیں گے هَذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمَنُ وَ صَدَقَ الْمُرْسَلُونَ ( يس : 53) الوصیت - روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 329,328) مرکر خدا کے حضور جانا ہے کیا املاک اور جائیدادیں سر پر اٹھا کر لے جاؤ گے یقیناً یا درکھو کہ خدا ہے اور مرکر اس کے حضور ہی جانا ہے کون کہہ سکتا ہے کہ سال آئندہ کے انہیں دنوں میں ہم میں سے یہاں کون ہو گا اور کون آگے چلا جائے گا.جبکہ یہ حالت ہے اور یہ یقینی امر ہے پھر کس قدر بد قسمتی ہوگی اگر اپنی زندگی میں قدرت اور طاقت رکھتے ہوئے اس اصل مقصد کے لیے سعی نہ کریں.اسلام تو ضرور پھیلے گا اور وہ غالب آئے گا کیونکہ خدا تعالیٰ نے ایسا ہی ارادہ فرمایا ہے مگر مبارک ہوں گے وہ لوگ جو اس اشاعت میں حصہ لیں گے.یہ خدا تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے جو اُس نے تمہیں موقعہ دیا ہے.یہ زندگی جس پر فخر کیا جاتا ہے بیچ ہے اور ہمیشہ کی خوشی کی وہی زندگی ہے جو مرنے کے بعد عطا ہو گی.ہاں یہ بیچ ہے کہ وہ اسی دنیا اور اسی زندگی سے شروع ہو جاتی ہے اور اس کی تیاری بھی یہاں ہی ہوتی ہے.عرصہ ہوا کہ خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا تھا کہ ایک بہشتی مقبرہ ہو گا گویا اس میں وہ لوگ داخل ہوں گے جواللہ تعالیٰ کے علم اور ارادہ میں جنتی ہیں.پھر اس کے متعلق الہام ہوا.أُنْزِلَ فِيْهَا كُلُّ رَحْمَةٍ.اس سے کوئی نعمت اور رحمت باہر نہیں رہتی.اب جو شخص چاہتا ہے کہ وہ ایسی رحمت کے نزول کی جگہ میں دفن ہو کیا عمدہ موقعہ ہے کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم کر لے اور اللہ تعالی کی مرضی کو اپنی مرضی پر مقدم کر لے.یہ صدی جس کے تمھیں سال گزرنے کو ہیں گزر جائے گی اور اس کے آخر تک موجودہ نسل میں سے کوئی نہ رہے گا اور اگر نکما ہو کر رہا تو کیا فائدہ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اپنا صدقہ پہلے بھیجو.یہ لفظ صدقہ کا صدق سے لیا گیا ہے.جب تک اللہ تعالیٰ کی راہ میں کوئی کامل نمونہ اپنے

Page 24

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 12 صدق اور اخلاص کا نہیں دکھاتا.لاف زنی سے کچھ بن نہیں سکتا.الوصیت اشتہار میں جو میں نے حصہ جائیداد کی اشاعت اسلام کے لیے وصیت کرنے کی قید لگائی ہے میں نے دیکھا کہ گل بعض نے ۱/۶ کی کر دی ہے یہ صدق ہے جو ان سے کراتا ہے اور جب تک صدق ظاہر نہ ہو کوئی مومن نہیں کہلا سکتا.تم اس بات کو کبھی مت بھولو کہ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کے بغیر جی ہی نہیں سکتے چہ جائیکہ موت سر پر ہو.طاعون کا موسم پھر آرہا ہے.زلزلہ کا خوف الگ دامنگیر ہے.وہ تو بڑا ہی بے وقوف ہے جو اپنے آپ کو امن میں سمجھتا ہے امن میں تو وہی ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا سچا فرمانبردار اور اس کی رضا کا جو یاں ہے.ایسی حالت میں بے بنیاد زندگی کے ساتھ دل لگانا کیا فائدہ؟ ( ملفوظات.جلد 4 صفحہ 617,616 ) | اب یاد رکھو وہی خدا جس نے تیرہ سو برس پہلے اس زمانہ کی خبر دی تھی وہی خبر دیتا ہے کہ زمانہ قریب آگیا ہے اور بڑے بڑے حوادث ظاہر ہوں گے.اگر ان نشانوں کا انتظار ہے اور ان کے بعد جوش پیدا ہوا تو اس کا ثواب ایسا نہ ہوگا جیسا آج ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ اس وقت اگر کوئی ایمان پیش کریگا تو ذرہ برابر اس کی قدر نہ ہوگی.کیونکہ اس وقت تو کافر سے کافر بھی سمجھ لے گا کہ دنیا فانی ہے.میں نے سنا ہے کہ طاعون کے زور کے دنوں میں ایک جگہ ایک بڑا متمول ہندو مر گیا.مرتے وقت اس نے اپنے مال و دولت کی کنجیاں اپنے بھائی کو دیں وہ بھی مر گیا.اور اس طرح پران کا سارا خاندان تباہ ہو گیا اور آخری شخص نے مرتے وقت وہاں کے ایک زمیندار کو کنجیاں پیش کیں اس نے انکار کر دیا کہ میں کیا کروں گا بالآخر وہ مال داخل خزانہ سرکار ہوا.یہ سچی بات ہے کہ جب خوف کے دن آتے ہیں تو بڑے بڑے پاجی اور خبیث لوگ بھی صدقات اور خیرات کی طرف مائل ہو جاتے ہیں.اسوقت یہ باتیں کام نہیں آتی ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کا غضب بھڑک چکا ہوتا ہے.لیکن جو شخص عذاب کے آنے سے پہلے خدا تعالیٰ سے ڈرتا اور اس سے صلح کرتا ہے وہ بچالیا جاتا ہے.پس خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کے یہی دن ہیں.میں بلا مبالغہ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے جس قدر اپنی

Page 25

13 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ ہستی کا ثبوت مجھے دیا ہے میرے پاس الفاظ نہیں جن میں میں اُسے ظاہر کر سکوں.وہی خدا ہے جس نے براہین کے زمانہ میں ان تمام امور کی جو آج تم دیکھ رہے ہو خبر دی.اُن ہندوؤں سے جو ہمارے جدی دشمن ہیں پوچھ لو کہ اس زمانہ میں اس جلوہ قدرت کا کہاں نشان تھا جب وہ ساری باتیں پوری ہو چکی ہیں پھر جو باتیں آج وہ بتاتا ہے وہ کیونکر پوری نہ ہوں گی؟ اس خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ عنقریب خطر ناک وقت آنے والا ہے.زلازل آئیں گے اور موتوں کے دروازے کھل جاویں گے.پس اس سے پہلے کہ وہ خطرناک گھڑی آجاوے اور موت اپنا منہ کھول کر حملہ شروع کر دے تم نیکی کرو اور خدا تعالیٰ کو خوش کر لو.میں یہ بھی تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اس زمانہ کی تمام نبیوں نے خبر دی ہے.یہ آخری ہزار کا زمانہ آ گیا ہے.قرآن شریف میں آیا ہے و اِن مِن قَرْيَةٍ إِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ أَوْ مُعَذِّبُوهَا عَذَابًا شَدِيداً كَانَ ذلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا (بنی اسرائیل: 59) اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جب قیامت قریب آجائے گی تو عام طور پر موت کا دروازہ کھولا جاوے گا.طاعون کے متعلق شیعہ کی کتابوں میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ ایسی طاعون ہوگی کہ جہاں دس آدمی ہوں گے ان میں سے سات مر جاویں گے اور حقیقت میں یہ ایسی بلا ہے کہ خاندانوں کے خاندان اس سے مٹ گئے اور بے نام و نشان ہو گئے.کون جانتا ہے کہ کل کیا ہوگا ؟ اس قدر سردی کی شدت میں طاعون ترقی کر رہی ہے.امرتسر میں زور شور ہے.ایسی حالت میں کوئی کیا امید کر سکتا ہے.جبکہ موت کا بازار گرم ہے تو کیا املاک اور جائیداد میں سر پر اٹھا کر لے جاؤ گے؟ ہرگز نہیں.پھر اگران نشانات کو دیکھ کر بھی تبدیلی نہیں کرتے تو کیونکر کہہ سکتے ہو کہ خدا تعالیٰ پر ایمان ہے.( ملفوظات.جلد 4 صفحہ 667 ، 668 | اشتہار الوصیت کی غرض " تم دین کو دنیا پر مقدم کر لو یقیناً یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک وہی مومن اور بیعت میں داخل ہوتا ہے جو دین کو دنیا پر مقدم کرے جیسا کہ وہ بیعت کرتے وقت کہتا ہے.اگر دنیا کی اغراض کو مقدم کرتا ہے تو وہ اس اقرار کو

Page 26

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 14 توڑتا ہے اور خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ مجرم ٹھہرتا ہے.پس اسی غرض سے یہ اشتہار (الوصیت ) میں نے خدا تعالیٰ کے اذن سے دیا ہے.سچی بات یہی ہے.سال دیگر را کہ مے داند حساب.لیکن جبکہ خدا تعالیٰ کی متواتر وحی نے مجھ پر کھولا کہ وقت قریب ہے اور اجل مقدر کا الہام ہوا تو میں نے اللہ تعالیٰ ہی کے اشارہ سے یہ اشتہار دیا کہ تا آئندہ کے لیے اشاعت دین کا سامان ہو اور تا لوگوں کو معلوم ہو کہ آمنا و صدقنا کہنے والوں کی عملی حالت کیا ہے.یقین یا درکھو کہ جب تک انسان کی عملی حالت درست نہ ہو زبان کچھ چیز نہیں.یہ نری لاف گزاف ہے.زبان تک جوایمان رہتا ہے اور دل میں داخل ہو کر اپنا اثر عملی حالت پر نہیں ڈالتا وہ منافق کا ایمان ہے.سچا ایمان وہی ہے جو دل میں داخل ہو اور اسکے اعمال کو اپنے اثر سے رنگین کر دے.سچا ایمان ابو بکڑ اور دوسرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تھا ، کیونکہ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال تو مال جان تک کو دے دیا.اور اس کی پروا بھی نہ کی.جان سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں ہوتی مگر صحابہ نے اُسے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کر دیا.انہوں نے کبھی اس بات کی پروا بھی نہیں کی کہ بیوی بیوہ ہو جائے گی یا بچے یتیم رہ جائیں گے بلکہ وہ ہمیشہ - اسی آرزو میں رہتے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں ہماری زندگیاں قربان ہوں...یہ حالت انسان کے اندر پیدا ہو جانا آسان بات نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دینے کو آمادہ ہو جاوے.مگر صحابہ کی حالت بتاتی ہے کہ انہوں نے اس فرض کو ادا کیا جب انہیں حکم دیا کہ اس راہ میں جان دے دو پھر وہ دنیا کی طرف نہیں جھکے.پس یہ ضروری امر ہے کہ تم دین کو دنیا پر مقدم کر لو.یا درکھو اب جس کا اُصول دنیا ہے اور پھر وہ اس جماعت میں شامل ہے.خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ اس جماعت میں نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی اس جماعت میں داخل اور شامل ہے جو دنیا سے دست بردار ہے.یہ کوئی مت خیال کرے کہ میں ایسے خیال سے تباہ ہو جاؤں گا.یہ خدا شناسی کی راہ سے دور لے جانے والا خیال ہے.

Page 27

15 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ خدا تعالیٰ کبھی اس شخص کو جو محض اسی کا ہو جاتا ہے ضائع نہیں کرتا بلکہ وہ خود اس کا متکفل ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کریم ہے جو شخص اس کی راہ میں کچھ کھوتا ہے وہی کچھ پاتا ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں کو پیار کرتا ہے اور انہیں کی اولاد با برکت ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کے حکموں کی تعمیل کرتا ہے.اور یہ کبھی نہیں ہوا اور نہ ہو گا کہ خدا تعالیٰ کا سچا فرماں بردار ہو وہ یا اس کی اولا د تباہ و برباد ہو جاوے.دنیا ان لوگوں ہی کی برباد ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کو چھوڑتے ہیں اور دنیا پر جھکتے ہیں.کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہرا مر کی طناب اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے.اس کے بغیر کوئی مقدمہ فتح نہیں ہو سکتا.کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی اور کسی قسم کی آسائش اور راحت میسر نہیں آ سکتی دولت ہو سکتی ہے مگر یہ کون کہہ سکتا ہے کہ مرنے کے بعد یہ بیوی یا بچوں کے ضرور کام آئے گی.ان باتوں پر غور کرو اور اپنے اندر ایک نئی تبدیلی پیدا کرو.غرض مجھے افسوس ہوتا ہے جب میں جماعت کو دیکھتا ہوں کہ یہ ابھی تھوڑے ابتلا کے بھی لائق نہیں.وجہ یہ ہے کہ ابھی تک وہ قوت ایمانی پیدا نہیں ہوئی جو ہونی چاہیے.ابھی تک جو تعریف کی جاتی ہے وہ خدا تعالیٰ کی ستاری کرا رہی ہے.لیکن جب کوئی ابتلاء اور آزمائش آتی ہے تو وہ انسان کو ننگا کر کے دکھا دیتی ہے یقیناً سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ لوگ پیارے نہیں ہیں جن کی پوشاکیں عمدہ ہوں اور وہ بڑے دولت مند اور خوش خور ہوں بلکہ خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ پیارے ہیں جو دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں اور خالص خدا ہی کے لیے ہو جاتے ہیں.پس تم اس امر کی طرف توجہ کرو نہ پہلے امر کی طرف.اگر میں جماعت کی موجودہ حالت پر ہی نظر کروں تو مجھے بہت غم ہوتا ہے کہ ابھی بہت ہی کمزور حالت ہے اور بہت سے مراحل باقی ہیں جو اس نے طے کرنے ہیں لیکن جب اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر نظر کرتا ہوں جو اس نے مجھ سے کئے ہیں تو میرا غم امید سے بدل جاتا ہے.منجملہ اس کے وعدوں کے ایک یہ بھی ہے جو فرمایا وَ جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إلى يَوْمِ الْقِيَامَةِ (ال عمران : 56) یہ توسیع ہے کہ وہ میرے متبعین کو میرے منکروں اور میرے مخالفوں پر

Page 28

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 16 غلبہ دے گا.لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ متبعین میں سے ہر شخص محض میرے ہاتھ پر بیعت کرنے سے داخل نہیں ہو سکتا جب تک اپنے اندر وہ اتباع کی پوری کیفیت پیدا نہیں کرتا متبعین میں داخل نہیں ہوسکتا.پوری پوری پیروی جب تک نہیں کرتا.ایسی پیروی کہ گویا اطاعت میں فنا ہو جاوے اور نقش قدم پر چلے اس وقت تک اتباع کا لفظ صادق نہیں آتا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسی جماعت میرے لیے مقدر کی ہے جو میری اطاعت میں فنا ہو اور پورے طور پر میری اتباع کرنے والی ہو.اس سے مجھے تسلی ملتی اور میرا غم امید سے بدل جاتا ہے.مجھے اس بات کا غم نہیں کہ ایسی جماعت نہ ہوگی.نہیں جماعت تو ضرور ہوگی اس لیے کہ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ ایسے لوگ ضرور ہوں گے.مگر غم اس بات کا ہے کہ ابھی جماعت کچی ہے اور پیغام موت آ رہا ہے.گویا جماعت کی حالت اس بچہ کی سی ہے جس نے ابھی دو چار روز دودھ پیا ہو اور اس کی ماں مر جائے.بہر حال خدا تعالیٰ کے وعدوں پر میری نظر ہے اور وہ خدا ہی ہے جو میری تسکین اور تسلی کا باعث ہے.ایسی حالت میں کہ جماعت کمزور اور بہت کچھ تربیت کی محتاج ہے.یہ ضروری امر ہے کہ میں تمہیں توجہ دلاؤں کہ تم خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق پیدا کرو.اور اسی کو مقدم کرلو اور اپنے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک جماعت کو ایک نمونہ سمجھوان کے نقش قدم پر چلو.( ملفوظات.جلد 4 صفحہ 594 تا 597 ) || اسلام کی حالت زار اور نظام وضیت کی ضرورت اور غرض اسلام سخت اور خطر ناک ضعف کی حالت میں ہے.اس پر یہی آفت اور مصیبت نہیں کہ باہر والے اس پر حملے کر رہے ہیں اگر چہ یہ بالکل سچ ہے کہ مخالف سب کے سب مل کر ایک ہی کمان سے تیر ماررہے ہیں اور جہاں تک اُن سے ہو سکتا ہے وہ اس کو مٹا دینے کی سعی اور فکر کرتے ہیں.لیکن اس مصیبت کے علاوہ بڑی بھاری مصیبت یہ ہے کہ اندرونی غلطیوں نے اسلام کے درخشاں چہرہ پر ایک نہایت ہی تاریک حجاب ڈال دیا ہے اور سب سے بڑی آفت یہ ہے کہ اس میں روحانیت نہیں رہی.

Page 29

17 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ اس سے میری مراد یہ ہے کہ ان لوگوں میں جو مسلمان کہلاتے ہیں اور اسلام کے مدعی ہیں روحانیت موجود نہیں ہے اور اس پر دوسری بد قسمتی یہ کہ وہ انکار کر بیٹھے ہیں کہ اب کوئی ہو ہی نہیں سکتا جس سے خدا تعالیٰ کا مکالمہ مخاطبہ ہو اور وہ خدا تعالیٰ پر زندہ اور تازہ یقین پیدا کر سکے.ایسی حالت اور صورت میں اس نے ارادہ فرمایا ہے کہ اسلام کے چہرہ پر سے وہ تاریک حجاب ہٹادے اور اس کی روشنی سے دلوں کو منور کرے اور ان بے جا اتہامات اور حملوں سے جو آئے دن مخالف اس پر لگاتے اور کرتے ہیں اسے محفوظ کیا جاوے.اس غرض سے یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے.وہ چاہتا ہے کہ مسلمان اپنا نمونہ دکھاویں.یہی وجہ ہے جو میں نے پسند کیا ہے کہ ایسے لوگ جو اشاعتِ اسلام کا جوش دل میں رکھتے ہیں اور جو اپنے صدق اور اخلاص کا نمونہ دکھا کر فوت ہوں اور اس مقبرہ میں دفن ہوں اُن کی قبروں پر ایک کتبہ لگا دیا جاوے جس میں اس کے مختصر سوانح ہوں اور اس اخلاص و وفا کا بھی کچھ ذکر ہو جو اس نے اپنی زندگی میں دکھایا تا جو لوگ اس قبرستان میں آویں اور ان کتبوں کو پڑھیں اُن پر ایک اثر ہو اور مخالف قوموں پر بھی ایسے صادقوں اور راستبازوں کے نمونے دیکھ کر ایک خاص اثر پیدا ہو.اگر یہ بھی اسی قدر کرتے ہیں جس قدر مخالف قو میں کر رہی ہیں اور وہ لوگ کر رہے ہیں جن کے پاس حق اور حقیقت نہیں تو انہوں نے کیا کیا.پھر انہیں تو ایسی حالت میں شرمندہ ہونا چاہیے.لعنت ہے ایسے بیعت میں داخل ہونے پر جو کا فرجتنی بھی غیرت نہ رکھتا ہو.اسلام اس وقت یتیم ہو گیا ہے اور کوئی اس کا سر پرست نہیں اور خدا تعالیٰ نے اس جماعت کو اختیار کیا اور پسند فرمایا کہ وہ اس کی سر پرست ہو اور وہ ہر طرح سے ثابت کر کے دکھائے کہ اسلام کی سچی غمگسار اور ہمدرد ہے.وہ چاہتا ہے کہ یہی قوم ہوگی جو بعد میں آنے والوں کے لیے نمونہ ٹھہرے گی.اس کے ثمرات برکات آنے والوں کے لیے ہوں گے اور زمانہ پر محیط ہو جائیں گے.میں سچ کہتا ہوں کہ یہ جماعت بڑھے گی لیکن وہ لوگ جو بعد میں آئیں گے ان مدارج اور مراتب کو نہ پائیں گے جو اس وقت والوں کو ملیں گے.خدا تعالیٰ نے ایسا ہی ارادہ فرمایا کہ وہ اس جماعت کو بڑھائے اور وہ دین اسلام اور توحید کی اشاعت کا باعث بنے.( ملفوظات.جلد 4 صفحہ 618,617

Page 30

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 18 بعض شخصوں کے دل میں خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ آئے دن ہم پر ٹیکس لگائے جاتے ہیں کہاں تک برداشت کریں.میں جانتا ہوں کہ ہر شخص ایسا دل نہیں رکھتا کیونکہ ایک طبیعت کے ہی سب نہیں ہوتے.بہت سے تنگدل اور کم ظرف ہوتے ہیں اور اس قسم کی باتیں کر بیٹھتے ہیں مگر وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ کو ان کی پروا کیا ہے.ایسے شبہات ہمیشہ دنیا داری کے رنگ میں پیدا ہوا کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کو تو فیق بھی نہیں ملتی.لیکن جو لوگ محض خدا تعالیٰ کے لیے قدم اٹھاتے ہیں اور اس کی مرضی کو مقدم کرتے ہیں اور اس بناء پر جو کچھ بھی خدمت دین کرتے ہیں اس کے لیے اللہ تعالیٰ خود انہیں توفیق دے دیتا ہے.اور اعلاء کلمۃ الاسلام کے لیے جن اموال کو وہ خرچ کرتے ہیں ان میں برکت رکھ دیتا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور جو لوگ صدق اور اخلاص سے قدم اٹھاتے ہیں انہوں نے دیکھا ہو گا کہ کس طرح پر اندر ہی اندر انہیں تو فیق دی جاتی ہے.وہ شخص بڑا نادان ہے جو یہ خیال کرتا ہے کہ آئے دن ہم پر بوجھ پڑتا ہے.اللہ تعالیٰ بار بار فرماتا ہے وَلِلهِ خَزَائِنُ السَّمَواتِ وَالأرض (المنافقون: 8) یعنی خدا تعالیٰ کے پاس آسمان و زمین کے خزانے ہیں منافق ان کو سمجھ نہیں سکتے لیکن مومن اس پر ایمان لاتا اور یقین کرتا ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر سب لوگ جو اس وقت موجود ہیں اور اس سلسلہ میں داخل ہیں یہ سمجھ کر کہ آئے دن ہم پر بوجھ پڑتا ہے وہ دست بردار ہو جائیں اور بخل سے یہ کہیں کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے تو خدا تعالیٰ ایک اور قوم پیدا کر دے گا جو ان سب اخراجات کا بوجھ خوشی ہم جوان سے اٹھائے اور پھر بھی سلسلہ کا احسان مانے.( ملفوظات.جلد 4 صفحہ 651,650 ) | ہم اپنے نفس کے لیے کچھ نہیں چاہتے.بارہا یہ خیال کیا ہے کہ اپنے گزارہ کے لیے تو پانچ سات روپیہ ماہوار کافی ہیں اور جائیداد اس سے زیادہ ہے پھر میں جو بار بار تاکید کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو.یہ خدا تعالیٰ کے حکم سے ہے کیونکہ اسلام اس وقت تنزل کی حالت میں ہے بیرونی اور اندرونی کمزوریوں کو دیکھ کر طبیعت بے قرار ہو جاتی ہے.اور

Page 31

19 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ اسلام دوسرے مخالف مذاہب کا شکار بن رہا ہے.پہلے تو صرف عیسائیوں ہی کا شکار ہو رہا تھا مگر اب آریوں نے اس پر دانت تیز کیے ہیں اور وہ بھی چاہتے ہیں کہ اسلام کا نام ونشان مٹا دیں.جب یہ حالت ہو گئی ہے تو کیا اب اسلام کی ترقی کے لیے ہم قدم نہ اٹھائیں ؟ خدا تعالیٰ نے اسی غرض کے لیے تو اس سلسلہ کو قائم کیا ہے.پس اس کی ترقی کے لیے سعی کرنا یہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور منشاء کی تعمیل ہے.اس لیے اس راہ میں جو کچھ بھی خرچ کرو گے وہ سمیع وبصیر ہے.یہ وعدے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں کہ جو شخص خدا تعالیٰ کے لیے دے گا میں اس کو چند گنا برکت دونگا.دنیا ہی میں اُسے بہت کچھ ملے گا اور مرنے کے بعد آخرت کی جزا بھی دیکھ لے گا کہ کس قدر آرام میسر آتا ہے.غرض اس وقت میں اس امر کی طرف تم سب کو توجہ دلاتا ہوں کہ اسلام کی ترقی کے لیے اپنے مالوں کو خرچ کرو.اسی مطلب کے لیے یہ گفتگو ہے.اس وقت جیسا کہ میں شائع کر چکا ہوں اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ تیری وفات کا وقت قریب ہے جیسا کہ اس نے فرمایا قَرُبَ اَحَلُكَ المُقَدَّرُ وَ لَا تُبقِي لَكَ مِنَ الْمُحْزِيَاتِ ذكرا اس وحی سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی ایساذ کر باقی نہ رہنے دے گا جوکسی قسم کی نکتہ چینی اور خری کا باعث ہو.( ملفوظات.جلد 4 صفحہ 669 بہشتی مقبرہ اور موسیان کے لئے حضرت مسیح موعود کی دعائیں میں دعا کرتا ہوں کہ خدا اس میں برکت دے اور اس کو بہشتی مقبرہ بنادے اور یہ اس جماعت کے پاک دل لوگوں کی خواب گاہ ہو جنہوں نے در حقیقت دین کو دنیا پر مقدم کر لیا اور دنیا کی محبت چھوڑ دی صل الله اور خدا کے لیے ہو گئے اور پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کر لی اور رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کی طرح وفاداری اور صدق کا نمونہ دکھلایا.آمین یا رب العالمین

Page 32

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 20 پھر میں دعا کرتا ہوں کہ اے میرے قادر خدا اس زمین کو میری جماعت میں سے اُن پاک دلوں کی قبریں بنا جو فی الواقع تیرے لیے ہو چکے اور دنیا کی اغراض کی ملونی اُن کے کاروبار میں نہیں.آمین یارب العالمین پھر میں تیسری دفعہ دعا کرتا ہوں کہ اے میرے قادر کریم اے خدائے غفور و رحیم تو صرف اُن لوگوں کو اس جگہ قبروں کی جگہ دے جو تیرے اس فرستادہ پر سچا ایمان رکھتے ہیں اور کوئی نفاق اور غرض نفسانی اور بدظنی اپنے اندر نہیں رکھتے اور جیسا کہ حق ایمان اور اطاعت کا ہے بجالاتے ہیں اور تیرے لئے اور تیری راہ میں اپنے دلوں میں جان فدا کر چکے ہیں جن سے تو راضی ہے اور جن کو تو جانتا ہے کہ وہ بلکلی تیری محبت میں کھوئے گئے اور تیرے فرستادہ سے وفاداری اور پورے ب اور انشراحی ایمان کے ساتھ محبت اور جانفشانی کا تعلق رکھتے ہیں.آمین یا رب العالمین الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 316 318 بہشتی مقبرہ کے متعلق خدا تعالیٰ کی بشارتیں اور تین شرائط اور چونکہ اس قبرستان کے لیے بڑی بھاری بشارتیں مجھے ملی ہیں اور نہ صرف خدا نے یہ فرمایا کہ یہ مقبرہ بہشتی ہے بلکہ یہ بھی فرمایا کہ انزل فيها كُلّ رحمة یعنی ہر ایک قسم کی رحمت اس قبرستان میں اُتاری گئی ہے اور کسی قسم کی رحمت نہیں جو اس قبرستان والوں کو اُس سے حصہ نہیں.اس لیے خدا نے میرا دل اپنی وحی خفی سے اس طرف مائل کیا کہ ایسے قبرستان کے لئے ایسے شرائط لگا دیئے جائیں کہ وہی لوگ اس میں داخل ہو سکیں جو اپنے صدق اور کامل راست بازی کی وجہ سے ان شرائط کے پابند ہوں سودہ تین شرطیں ہیں.اور سب کو بجالانا ہوگا.(۱) اس قبرستان کی زمین موجودہ بطور چندہ کے میں نے اپنی طرف سے دی ہے لیکن اس احاطہ کی تکمیل کے لیے کسی قدر اور زمین خریدی جائے گی جس کی قیمت انداز اہزار روپیہ ہوگی اور اس کے خوشنما کرنے کے لیے کچھ درخت لگائے جائیں گے اور ایک کنواں لگایا جائے گا اور اس قبرستان سے

Page 33

21 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ شمالی طرف بہت پانی ٹھہرا رہتا ہے جو گزرگاہ ہے اس لیے وہاں ایک پل تیار کیا جائے گا اور ان متفرق مصارف کے لیے دو ہزار روپیہ درکار ہو گا سو کل یہ تین ہزار روپیہ ہوا جو اس تمام کام کی تکمیل کے لیے خرچ ہو گا.سو پہلی شرط یہ ہے کہ ہر ایک شخص جو اس قبرستان میں مدفون ہونا چاہتا ہے وہ اپنی حیثیت کے لحاظ سے ان مصارف کے لیے چندہ داخل کرے.اور یہ چندہ محض انہیں لوگوں طلب کیا گیا ہے نہ دوسروں سے.بالفعل یہ چندہ اخویم مکرم مولوی نورالدین صاحب کے پاس آنا چاہیے لیکن اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو یہ سلسلہ ہم سب کی موت کے بعد بھی جاری رہے گا.اس صورت میں ایک انجمن چاہیے کہ ایسی آمدنی کا روپیہ جو وقتا فوقتا جمع ہوتا رہے گا.اعلاء کلمہ اسلام اور اشاعت توحید میں جس طرح مناسب سمجھیں خرچ کریں.(۲) دوسری شرط یہ ہے کہ تمام جماعت میں سے اس قبرستان میں وہی مدفون ہو گا جو یہ وصیت کرے جو اُس کی موت کے بعد دسواں حصہ اُس کے تمام ترکہ کا حسب ہدایت اس سلسلہ کے اشاعت اسلام اور تبلیغ احکام قرآن میں خرچ ہوگا.اور ہر ایک صادق کامل الایمان کو اختیار ہوگا کہ اپنی وصیت میں اس سے بھی زیادہ لکھ دے.لیکن اس سے کم نہیں ہوگا.(۳) تیسری شرط یہ ہے کہ اس قبرستان میں دفن ہونے والا متقی ہو اور محرمات سے پر ہیز کرتا اور کوئی شرک اور بدعت کا کام نہ کرتا ہو سچا اور صاف مسلمان ہو.(۴) ہر ایک صالح جو اُس کی کوئی بھی جائیداد نہیں اور کوئی مالی خدمت نہیں کر سکتا اگر یہ ثابت ہو کہ وہ دین کے لیے اپنی زندگی وقف رکھتا تھا اور صالح تھا تو وہ اس قبرستان میں دفن ہوسکتا ہے.الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 318 تا 320 کی اغراض و مقاصد اور اموال کے مصارف یہ مالی آمدنی ایک بادیانت اور اہل علم انجمن کے سپر در ہے گی اور وہ باہمی مشورہ سے ترقی اسلام اور اشاعت علم قرآن و کتب دینیہ اور اس سلسلہ کے واعظوں کے لیے حسب ہدایت مذکورہ بالا خرچ کریں گے.اور خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اس سلسلہ کو ترقی دیگا اس لیے امید کی جاتی ہے کہ اشاعت

Page 34

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 22 اسلام کے لیے ایسے مال بھی بہت اکٹھے ہو جائیں گے اور ہر ایک امر جو مصالح اشاعت اسلام میں داخل ہے جس کی اب تفصیل کرنا قبل از وقت ہے وہ تمام اموران اموال سے انجام پذیر ہو نگے اور جب ایک گروہ جو متکفل اس کام کا ہے فوت ہو جائے گا تو وہ لوگ جو ان کے جانشین ہونگے اُن کا بھی یہی فرض ہو گا کہ اُن تمام خدمات کو حسب ہدایت سلسلہ احمد یہ بجالا و ہیں.ان اموال میں سے اُن یتیموں اور مسکینوں اور نو مسلموں کا بھی حق ہو گا جو کافی طور پر وجوہ معاش نہیں رکھتے اور سلسلہ احمدیہ میں داخل ہیں.اور جائز ہوگا کہ اُن اموال کو بطور تجارت کے ترقی دی جائے.یہ مت خیال کرو کہ یہ صرف دور از قیاس باتیں ہیں بلکہ یہ اُس قادر کا ارادہ ہے جو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے.مجھے اس بات کا غم نہیں کہ یہ اموال جمع کیونکر ہوں گے اور ایسی جماعت کیونکر پیدا ہوگی جوایمانداری کے جوش سے یہ مردانہ کام دکھلائے بلکہ مجھے یہ فکر ہے کہ ہمارے زمانہ کے بعد وہ لوگ جن کے سپرد ایسے مال کیے جائیں وہ کثرت مال کو دیکھ کر ٹھو کر نہ کھاویں اور دنیا سے پیار نہ کریں.سو میں دعا کرتا ہوں کہ ایسے امین ہمیشہ اس سلسلہ کو ہاتھ آتے رہیں جو خدا کے لیے کام کریں ہاں جائز ہوگا کہ جن کا کچھ گزارہ نہ ہو اُن کو بطور مد دخر چ اس میں سے دیا جائے.الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 319) انجمن جس کے ہاتھ میں ایسا روپیہ ہو گا اُس کو اختیار نہیں ہوگا کہ بجز اغراض سلسلہ احمدیہ کے کسی اور جگہ وہ روپیہ خرچ کرے.اور ان اغراض میں سے سب سے مقدم اشاعت اسلام ہوگی اور جائز ہوگا کہ انجمن با تفاق رائے اس روپیہ کو تجارت کے ذریعہ ترقی دے.الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 325) تم اس وصیت کی تکمیل میں میرا ہاتھ بٹاؤ اب میں پھر یہ ذکر کر کے اس کو ختم کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے جہاں میری وفات کی خبر دی ہے یہ بھی فرمایا ہے لَا نُبقى لَكَ مِنَ الْمُخْزِيَاتِ ذِكرًا.جو مامور ہو کر آتا ہے.بڑا اعتراض عظمندوں کا یہ ہوتا ہے کہ وہ مر گیا کام کیا کیا؟ یہ مہذب لوگ کہتے ہیں کہ اتنا بڑا دعویٰ کیا تھا کہ کسر صلیب ہوگا اور یہ

Page 35

23 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ ہوگا اور وہ ہوگا.مگر اب خامی کی حالت میں چلے گئے.اس میں اللہ تعالیٰ پیشگوئی فرماتا ہے.لَا تُبَقِي لَكَ مِنَ الْمُحْزِيَاتِ ذِكْرًا.اور بچے آدمی کو تم بھی یہی ہوتا ہے.جیسے آنحضرت ﷺ کو فرمایا کہ تیرے بوجھ کو جس نے تیری پیٹھ توڑ دی تھی اٹھا دیا.وہ بھی علت غائی کا بوجھ ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے اس وحی میں بشارت دی ہے گویا اس کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے.اب سنو! جبکہ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے تو یہ ہو کر رہے گا.تمہیں مفت کا ثواب ہے پس تم اس وصیت کی تکمیل میں میرا ہاتھ بٹاؤ.وہ قادر خدا جس نے پیدا کیا ہے دنیا اور آخرت کی مرادیں دیدے گا.( ملفوظات.جلد 4 صفحہ 674,673)

Page 36

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 24 ارشادات حضرت خلیفة المسیح الثانی اللہ آپ سے راضی ہو )

Page 37

25 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ وصایا کرنے کی تحریک ہو مجبور نہ کرنا چاہیے وصایا کرنے کی تحریک کرنی چاہیے.ایک دفعہ میں نے دیکھا تھا کہ ایک آدمی کو دو تین آدمی یہ کہہ کر وصیت کرنے کے لئے مجبور کر رہے تھے کہ اگر نہ کرو گے تو منافق ہو گے.اس پر میں نے منع کیا تھا کہ اس طرح مجبور نہیں کرنا چاہیے نہ یہ کہ تحریک ہی نہیں کرنی چاہیے.ہماری جماعت میں ایسے لوگ موجود ہیں کہ اگر ان سے وصیتیں کرائی جائیں تو انہیں سے کم از کم ایک کروڑ روپیہ وصول ہوسکتا ہے.میں نے جماعت کے مال کا اندازہ لگایا تو دیکھا کہ پنجاب کے تین ضلعوں منٹگمری، لائل پور اور سرگودھا کے احمدی اگر اپنی جائیداد کے دسویں حصہ کی وصیت کریں تو دس لاکھ اور اگر زیادہ وصیت کریں تو ۳۳لاکھ تک رقم مل سکتی ہے.اور سارے ہندوستان میں جماعت کی جائیداد کا اندازہ لگایا جائے تو کم از کم دس کروڑ کی ہوگی.جس میں سے ایک کروڑ مل سکتا ہے.جن لوگوں کی جائیدادیں نہیں ان کی ماہوار آمدنی وصیت میں رکھی گئی ہے.اور خواہ کوئی کتنی قلیل تنخواہ کا ملازم ہوا گر وہ اس تنخواہ کا دسواں حصہ دیتا ہے تو واقعی قربانی کرتا ہے اس طرح تین لاکھ کے قریب آمد ہوسکتی ہے.( جماعت احمدیہ کا جدید نظام عمل.انوار العلوم جلد 9 صفحہ 144) سلسلہ کی آمد میں خطر ناک نقص سلسلہ کی آمد میں آج تک ایک خطرناک نقص رہا ہے اور میں اس کا مخالف رہا ہوں اور اب بھی ہوں.اور میری یہ رائے کبھی نہیں بدل سکتی کہ وصیت کے معاملے کو غلط طور پر سمجھا گیا ہے.جن لوگوں کی جائیدادیں نہیں تھیں وہ وصیتیں کرتے چلے گئے ہیں حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وصیت کو مالی قربانی قرار دیا ہے مگر ۶۰ فیصدی وصیتیں ایسی تھی کہ عام لوگ شب برات اور محرم میں جتنا خرچ کرتے ہیں اس سے بھی کم انہوں نے وصیت میں دیا ہوگا.میں اس کی ہمیشہ مخالفت کرتا رہا ہوں اور میں سمجھ نہیں سکتا میری یہ رائے کبھی بدل سکتی ہے کہ ایسے لوگوں کو ایک جگہ جمع کرنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مدنظر نہ تھا.میرے نزدیک ہر وہ جائیداد جس سے کسی کا گزارہ نہیں

Page 38

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 26 چلتا اس کی اگر وصیت کرتا ہے تو وہ وصیت نہیں ہے اس لئے میں نے کارکنوں کو توجہ دلائی ہے کہ اس قسم کی وصیتیں فضول ہیں ان حالات میں چونکہ صاحب جائیدا دلوگوں نے وصیتیں کرنی چھوڑ دی ہیں اس لئے آمد میں کمی آگئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کثرت سے مال آئیں گے.مگر ہم دیکھتے ہیں نہیں آئے.وجہ یہ کہ وصیتوں کے متعلق غلط راستہ اختیار کر لیا گیا ہے.دراصل ایسے رنگ میں اس کی تعمیل ہونی چاہیے کہ وہ لوگ ایک جگہ جمع ہوں جو واقعہ میں قربانی کرنے والے ہوں اور اس کے لئے جائیدادیں رکھنے والوں کو عام تحریک کرتے رہنا چاہیے.( جماعت احمدیہ کا جدید نظام عمل.انوار العلوم جلد 9 صفحہ 145,144) بیعت کا صحیح مفہوم ” جب تک اس بات میں خوشی محسوس نہ ہو کہ اسلام کیلئے سب کچھ قربان کر دیا جائے ایمان کامل نہیں ہو سکتا ، بےشک ہماری جماعت پر بہت بوجھ ہے اور وہ بہت کچھ خدا کی راہ میں خرچ کرتی ہے.مگر جماعت نے ہی سارا بوجھ اُٹھانا ہے غیروں سے تو ہم نے کچھ لینا نہیں.میں نے ابھی کہا ہے کہ ہماری جماعت نے بہت بوجھ اٹھایا ہوا ہے لیکن جماعت کی مجموعی حالت کو دیکھ کر میں کہہ سکتا ہوں کہ ہماری جماعت نے ابھی اتنی مالی قربانی نہیں کی جتنی پہلی جماعتیں قربانی کرتی رہی ہیں.میں نے روم میں وہ مقام دیکھا ہے جہاں حضرت مسیح علیہ السلام کے ماننے والے اپنے دشمنوں کی سختیوں اور ظلموں سے بچنے کے لئے رہے.ہمیں میل کے قریب وہ مقام لمبا ہے.وہاں عیسائی اپنے گھر بار مال و اموال چھوڑ کر چلے گئے تھے اور وہ فاقے پر فاقے اُٹھاتے تھے.سورہ کہف میں ان کا نام اصحاب کہف والرقیم رکھا گیا ہے.ہم چند گھنٹے کے لئے وہاں گئے.مگر کئی دوست وہاں ٹھہر نا برداشت نہ کر سکے حالانکہ وہ لوگ وہاں کئی سال تک دقیانوس کے وقت رہے.وہ نہایت تنگ و تاریک گیلی مٹی کے غار ہیں سرکاری فوجوں نے ان میں سے جن کو وہاں مارا ان کی قبریں بھی وہیں بنی ہوئی ہیں اور

Page 39

27 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ اُن پر کتبے لگے ہیں کہ یہ فلاں وقت مارا گیا.یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے خدا کے لئے سب کچھ چھوڑ دیا تھا اور ایسی ایسی تکلیفیں برداشت کی تھیں جن کا خیال کر کے اب بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.آپ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح موعود حضرت مسیح ناصری علیہ السلام سے بڑے تھے.پھر آپ لوگوں کو یہ بھی یا درکھنا چاہیے کہ ہماری قربانیاں بھی حضرت مسیح علیہ السلام کے ماننے والوں سے بڑی ہوں.مگر کیا اس وقت تک کی ہماری قربانیاں ایسی ہیں؟ دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.جو وصیت نہیں کرتا وہ منافق ہے اور وصیت کا کم از کم چندہ 1/10 حصہ مال کا رکھا ہے جس میں عام چندہ جو وقتا فوقتا کرنا پڑے شامل نہیں.مگر ہماری جماعت اس وقت اپنی آمد کا 1/16 حصہ چندہ میں دیتی ہے اور بعض یہ بھی نہیں دیتے بلکہ اس سے کم شرح سے دیتے ہیں اور بعض بالکل ہی نہیں دیتے مگر باوجود اس کے کہا جاتا ہے ہم پر بڑا بوجھ پڑا ہوا ہے.مگر سوال یہ ہے کہ جو کام کرنے کا ہم نے تہیہ کیا ہے وہ کتنا بڑا ہے.اب جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم پر بڑا بوجھ پڑ گیا اُن کی حالت اُس شخص کی سی ہے جو ہاتھی اُٹھانے کیلئے جائے اور جب اُٹھانے لگے تو کہے یہ تو بڑا بوجھ ہے یا اُس شخص کی سی ہے جو اپنے ہاتھ میں آگ کا انگارا پکڑنا چاہے اور پھر کہے اس سے تو ہاتھ جتا ہے.پس جو قوم یہ کہتی ہے کہ وہ دنیا کو اس طرح اُڑا دینے کی کوشش کر رہی ہے جس طرح ڈائنامیٹ پہاڑ کو اڑا دیتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ڈائنامیٹ کی طرح پھٹ کر اپنے آپ کو تباہ کرلے.کیا کبھی بارود خود قائم رہ کر کسی چیز کو اڑا اسکتا ہے؟ یا ڈائنامیٹ اپنے آپ کو تباہ کئے بغیر کوئی تغیر پیدا کرسکتا ہے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو تمہیں اسی طرح کرنا پڑیگا.اگر تم تھوڑے سے ہو کر دنیا کو فتح کرنا چاہتے ہو تو ڈائنامیٹ بن کر ہی فتح کر سکتے ہو کیونکہ تھوڑا سا ڈائنامیٹ ہی ہوتا ہے جو ایک بڑے خطہ کو تہہ وبالا کر دیتا ہے اور اس کے یہ معنے ہیں کہ ہم دنیا کو اڑانے سے پہلے آپ اُڑ جائیں گے.کیا یہ حالت تم میں پیدا ہو گئی ہے اور اس درجہ تک تم پہنچ گئے ہو؟ اگر نہیں تو ساری دنیا کو فتح کرنے کا ارادہ رکھتے ہوئے کس طرح کہہ سکتے ہو کہ تم پر بہت بوجھ پڑ گیا تم میں سے ہر ایک کو

Page 40

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 28 اپنی حالت پر غور کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ اس نے اس مدعا اور مقصد کے پورا کرنے میں کس قد رسعی اور کوشش کی ہے جو ہر ایک احمدی کا اولین فرض ہے اور جس کے لئے وہ پیدا ہوا ہے.اگر اس بات کو مد نظر رکھ کر تم اس بوجھ کو دیکھو گے جسے تم نے اس وقت تک اٹھایا ہے تو معلوم ہو جائے گا کہ وہ تو کچھ بھی نہیں ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ تم میں سے سارے کے سارے ایسے ہیں جنہیں اس بات کا احساس نہیں کہ وہ کس مقصد اور مدعا کولیکر کھڑے ہوئے ہیں اور اس کے لئے کس قدرسعی اور کوشش کی ضرورت ہے.بڑے بڑے مخلص بھی ہیں.ایک دوست جن کی تنخواہ ساٹھ روپے ماہوار ہے انہوں نے اپنی آمدنی کے ۱/۳ حصہ کی وصیت کی ہوئی ہے یعنی ہیں روپے ماہوار چندہ دیتے ہیں.جب چندہ خاص کی تحریک ہوئی تو اس میں انہوں نے تین ماہ کی تنخواہ دیدی اور اس طرح وہ مقروض ہو گئے.اس پر انہوں نے خط لکھا کہ کیا میں قرضہ ادا ہونے تک ۱/۱۰ حصہ آمد کا چندہ میں دے سکتا ہوں مگر اس سے ۶۰۵ دن بعد ان کا خط آگیا کہ مجھے پہلا خط لکھنے پر بہت افسوس ہوا.میں اپنی آمد کا ۱/۳ حصہ ہی چندہ میں دیا کروں گا.تو ایک حصہ جماعت کا ایسے مخلصین کا بھی ہے اور یہ بڑا حصہ ہے.مگر میں باقیوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ بھی ایسے ہی بنیں.اور ہماری تو یہ حالت ہونی چاہیے کہ ایک قطرہ بھی ہمارے اپنے لئے نہ ہو بلکہ ہمارے لئے وہی رہنا چاہیے جو ہمارا نہیں رہا.یعنی جان بچانے ،ستر ڈھانکنے کیلئے جو خرچ ہو وہ کیا جائے باقی سب کچھ خدا کے لئے سمجھا جائے.دیکھیں آپ لوگ جماعت میں داخل ہو کر جو وعدہ کرتے ہیں وہ کتنا بڑا ہے.اس کا یہ مطلب ہے کہ ہماری جان ، ہمارا مال، ہماری عزت، ہماری آبرو، ہمارا آرام، ہماری آسائش، ہماری دولت، ہماری جائیداد غرضیکہ ہمارا سب کچھ خدا کا ہو گیا.یہ بیعت کے معنے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ جو کچھ میرا ہے وہ میرا نہیں بلکہ خدا ہی کا ہے.مثلاً سور و پیہ تنخواہ ہے تو اس کی نہیں بلکہ خدا کے لئے ہوگئی.پھر جو کچھ میں جان بھی شامل ہے، یہ بھی اس کی نہیں، پھر جو کچھ میں بیوی بچے ہیں یہ بھی اس کے نہیں ، کوئی عزت اور عہدہ ہے یہ بھی اس کا نہیں.یہ اقرار کرنے کے بعد اگر کوئی شخص چندہ خاص کے وقت کہے کہ یہ بہت بڑا

Page 41

29 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ بوجھ ہے تو وہ بتائے بیعت کرتے وقت اس نے جو اقرار کیا تھا اس کا کیا مطلب تھایا تو یہ مانو کہ اس کا یہ مطلب تھا کہ بیعت کرنے یعنی اپنا سب کچھ بیچ دینے سے مراد سارا جسم نہ تھا بلکہ ایک ٹانگ یا ایک ہاتھ مراد تھا یا اس سے مراد سارا مال نہ تھا بلکہ اتنا اتنامال تھا تو ان کی رعایت رکھ لی جائے لیکن اگر یہ اقرار تھا کہ میں اپنا سارا مال، جان، بیوی، بچے ، عہدے سب تجھے دیتا ہوں تو پھر وہ کس منہ سے کہہ سکتا ہے کہ بوجھ پڑ گیا.بوجھ کے معنے تو یہ ہیں کہ گویا وہ کہتا ہے جس قدر دینے کا میں نے اقرار کیا تھا اس سے زیادہ دینا پڑ گیا یا جس چیز کے دینے کا وعدہ کیا تھا اس کے علاوہ اور بھی دینی پڑی حالانکہ اس کا اقرار یہ ہے کہ اس نے اپنا سب کچھ دیدیا ایسی حالت میں وہ بوجھ کس طرح کہہ سکتا ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ تمام دوست بیعت کے صحیح مفہوم کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے اور اسلام کے لئے جو کچھ خرچ کرنا پڑیگا کریں گے اور جب تک خرچ کرنا پڑیگا کریں گے.کیونکہ جب تک اس بات میں خوشی محسوس نہ ہو کہ اسلام کے لئے سب کچھ قربان کر دیا جائے گا اس وقت تک ایمان کامل نہیں ہوسکتا.میں دُعا کرتا ہوں کہ خدا کرے ایسا ہی ہو.منہاج الطالبین.انوار العلوم جلد 9 صفحہ 166 تا 168 ) ہماری جماعت کے لئے نہایت اہم اور اصل چیز اس کے بعد میں دوستوں کو وصیت کی طرف خصوصیت سے توجہ دلاتا ہوں.وصیت ہماری جماعت کے لئے نہایت اہم اور اصل چیز ہے.حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ جو شخص وصیت نہیں کرتا اس کے ایمان میں نفاق کا حصہ ہے.پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں.وصیت کی طرف خاص توجہ کریں.جماعت کا کثیر حصہ ابھی تک وصیتوں سے خالی ہے.اس وقت ہماری جماعت کی ترقی کے لئے مالی قربانیوں کی بہت ضرورت ہے.خدا تعالیٰ کا منشاء ہے کہ ہم مالی قربانیوں میں پورا حصہ لیں.چنانچہ ایک دوست نے خواب دیکھا ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر ہماری جماعت بے نظیر کا میابی اور ترقی دیکھنا چاہتی ہے تو ہر احمدی اپنے مال کا چوتھائی حصہ خدا کے دین کی اشاعت کے لئے قربان کرے.چنانچہ انہوں نے لکھا ہے کہ میں اب سے ایسا ہی ادا

Page 42

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 30 کیا کروں گا.یہ زمانہ ایسا ہے کہ نہایت اہم کاموں کی ضرورت پیش آرہی ہے جس کے لئے روپیہ کی ضرورت بڑھ رہی ہے.تقاریر جلسہ سالانہ 1926 ء.انوار العلوم جلد 9 صفحہ 443 مالی حالت کو درست کرنے کی ایک صورت مالی حالت کو درست کرنے کی ایک صورت وہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے الہام الہی سے مقررفرمائی ہے اور وہ وصیت ہے.مجھے یہ معلوم کر کے تعجب ہوا کہ عورت مرد ملا کر ابھی تک دو ہزار نے بھی وصیت نہیں کی حالانکہ جماعت کی تعداد بہت زیادہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وصیت کو جز و ایمان قرار دیا ہے.احباب کو اس کی طرف توجہ کرنی چاہیے.چند اہم اور ضروری امور انوار العلوم جلد 11 صفحہ 83 جو تھک گیا وہ ہمارا دوست نہیں برادران! مجھ سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے بعض دوست چندے دیتے دیتے تھک گئے ہیں میں ان دوستوں کی رائے کو بالکل غلط سمجھتا ہوں.وہ جو تھک گیا وہ ہمارا دوست نہیں.ہم چندہ دے کر خدا تعالیٰ پر احسان نہیں کرتے بلکہ خدا تعالیٰ ہم پر احسان کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی اولا د کو وصیت سے آزاد رکھا ہے.اس لئے میں وصیت کرنا خلاف شریعت سمجھتا ہوں لیکن اس شکریہ میں کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر یہ احسان کیا ہے اوسطاً پانچواں حصہ اپنی آمد کا چندوں اور لہی کاموں میں خرچ کرتا ہوں بلکہ اس سے بھی زیادہ بلکہ میں تو گھر کے خرچ کے لئے جو قرض لیتا ہوں اس میں سے بھی چندہ ادا کرتا ہوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اپنی ضرورتوں کیلئے قرض لیتے ہیں تو خدا تعالیٰ کیلئے قرض کیوں نہ لیں.حق یہی ہے کہ اگر ہم مالی قربانی جو سب سے ادنی قربانی ہے پوری طرح نہیں کر سکتے تو دوسری قربانیاں جو اس سے زیادہ ہیں کب کر سکیں گے.(مومنوں کیلئے قربانی کا وقت.انوار العلوم جلد 12 صفحہ 306 )

Page 43

31 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ غرباء کو آرام پہنچانے کیلئے موجودہ زمانہ میں ایک نئے نظام کی ضرورت جب حکومت زیادہ پھیلی اور خلفاء کا زمانہ آیا تو اس وقت منظم رنگ میں غرباء کی ضروریات کو پورا کرنے کی جدوجہد کی جاتی تھی چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایسے رجسٹر بنائے گئے جن میں سب لوگوں کے نام ہوتے تھے اور ہر فرد کے لئے روٹی اور کپڑا مہیا کیا جا تا تھا اور فیصلہ کیا جاتا تھا کہ فی مرداتنا غلہ، اتنا گھی، اتنا کپڑا اور اتنی فلاں فلاں چیز دی جائے.اسی طرح ہر شخص کو چاہے وہ امیر ہو یا غریب اس کی ضروریات زندگی مہیا ہو جاتی تھیں اور یہ طریق اس زمانہ کے لحاظ سے بالکل کافی تھا.آج دنیا یہ خیال کرتی ہے کہ بالشوزم نے یہ اصول ایجاد کیا ہے کہ ہر فر دکو اس کی ضروریاتِ زندگی مہیا کی جانی چاہئیں حالانکہ یہ طریق اسلام کا پیش کردہ ہے اور حضرت عمرؓ کے زمانہ میں اس پر منظم رنگ میں عمل بھی کیا جاچکا ہے بلکہ یہاں تک تاریخوں میں آتا ہے کہ شروع میں حضرت عمرؓ نے جو فیصلہ کیا تھا اس میں ان چھوٹے بچوں کا جو شیر خوار ہوں خیال نہیں رکھا گیا تھا اور اسلامی بیت المال سے اُس وقت بچے کو مد دملنی شروع ہوتی تھی جب ماں بچے کا دودھ چھڑا دیتی تھی.یہ دیکھ کر ایک عورت نے اپنے بچے کا دودھ چھڑا دیا تا کہ بیت المال سے اس کا بھی وظیفہ مل سکے.ایک رات حضرت عمر گشت لگا رہے تھے کہ آپ نے ایک جھونپڑی میں سے ایک بچے کے رونے کی آواز سنی حضرت عمر اندر گئے اور پوچھا کہ یہ بچہ کیوں رو رہا ہے.اس عورت نے کہا عمر نے یہ قانون بنادیا ہے کہ جب تک بچہ دودھ پینا نہ چھوڑے اس کا وظیفہ نہیں لگ سکتا اس لئے میں نے اس بچے کا دودھ چھڑا دیا ہے تا کہ وظیفہ لگ جائے اور اسی وجہ سے یہ رورہا ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اپنے دل میں کہا واہ عمر معلوم نہیں تو نے کتنے عرب بچوں کا دودھ چھڑوا کر آئندہ نسل کو کمزور کر دیا ہے چنانچہ اس کے بعد انہوں نے حکم دے دیا کہ پیدائش سے ہی ہر بچے کو وظیفہ ملا کرے.پس اُس وقت یہ انتظام تھا اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ انتظام اس وقت کی ضروریات اور اس زمانہ

Page 44

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 32 22 کے لحاظ سے کافی تھا.ہاں یہ درست ہے کہ اس زمانہ میں غربت اور امارت میں وہ بعد نہ تھا جواب ہے.اس وقت مقررہ ٹیکس اور حکومت اور افراد کو صاحب دولت لوگوں کی بر وقت امدادان اغراض کو پورا کر دیتی تھی.تجارتی مقابلہ اس وقت اس قدر نہ تھا جو اب ہے.مقابل کی حکومتیں اس طرح ہمسایہ ملکوں کی دولت کو با قاعدہ نہ لوٹی تھیں جیسا کہ اب لوٹتی ہیں اس لئے ہم مانتے ہیں کہ وہ انتظام آج کارگر نہیں ہوسکتا لیکن اصولی لحاظ سے وہ تعلیم آج بھی کارگر ہے.اس وقت بغیر اس کے کہ کوئی نیا طریق ایجاد کیا جاتا اسی آمدن سے جو مقررہ ٹیکسوں یا طوعی چندوں سے حاصل ہوتی تھی گذارہ ا چلایا جا سکتا تھا پس اس وقت اسے کافی سمجھا گیا مگر وہ انتظام آج کافی نہیں ہوسکتا.آجکل کا زمانہ منظم زمانہ ہے اس وقت دنیا کی بے چینی کو دیکھ کر حکومتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ملک کی بیشتر دولت ان کے ہاتھ میں ہو اور اگر مذکورہ بالاتحریکیں کامیاب ہوئیں یعنی ان میں سے کوئی ایک کامیاب ہوئی تو لازماً افراد کے ہاتھ میں روپیہ کم رہ جائے گا اور حکومتوں کے ہاتھ میں زیادہ چلا جائے گا.بالشوزم کامیاب ہو تب بھی اور شوشلزم کامیاب ہو تب بھی نتیجہ یہی ہوگا کہ افراد کے ہاتھ میں روپیہ کم رہ جائے گا اور ملک کی بیشتر دولت پر حکومت کا قبضہ ہو جائے گا لیکن علاوہ مذکورہ بالا نقائص کے جو اوپر بیان ہوچکے ہیں یہ نقصان بھی ہوگا کہ گو بعض ممالک زیادہ امن میں آجائیں گے مگر بعض دوسرے ممالک زیادہ دُکھ میں پڑ جائیں گے.اس نظام کے مقابلہ میں اسلامی تعلیم کو معین صورت دینے کے لئے جو جامہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ کے لوگوں کے لئے بنایا گیا تھا وہ آج یقیناً کامیاب نہیں ہوسکتا کیونکہ اب حالات مختلف ہیں.اسی طرح بعد میں حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان اور حضرت علی نے ان احکام کو جو صورت دی تھی وہ آج کامیاب نہیں ہوسکتی پس ضرورت ہے کہ اس موجودہ دور میں اسلامی تعلیم کا نفاذ ایسی صورت میں کیا جائے کہ وہ نقائص بھی پیدا نہ ہوں جو ان دنیوی تحریکوں میں ہیں اور اس قد ر روپیہ بھی اسلامی نظام کے ہاتھ میں آجائے جو موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کے لحاظ سے مساوات کو قائم

Page 45

33 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ رکھنے اور سب لوگوں کی حاجات کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہے.خلفاء نے اپنے زمانہ کی ضرورت کے لحاظ سے اسلام کے احکام کی تعبیر کی جیسے میں نے بتایا ہے کہ حضرت عمر کے زمانہ میں با قاعده مردم شماری ہوتی تھی ہر شخص کا نام رجسٹروں میں درج ہوتا تھا اور اسلامی بیت المال اس امر کا ذمہ دار ہوتا تھا کہ ہر شخص کی جائز ضروریات کو پورا کرے.پہلے جس قد ر روپیہ آتا تھا وہ سپاہیوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا مگر حضرت عمرؓ نے کہا کہ ایک اسلامی خزانہ ہو اور دوسرے لوگوں کے بھی حقوق ہیں اس لئے اب تمام روپیہ سپاہیوں میں تقسیم نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کے ایک بہت بڑے حصہ کو محفوظ رکھا جائے گا چنانچہ اس روپیہ سے ملک کے غرباء کو گذارہ دیا جاتا تھا.غرض خلفاء نے اپنے اپنے زمانہ کی ضرورت کے لحاظ سے اسلام کے احکام کی تعبیر کی مگر موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے کسی اور نظام کی ضرورت تھی اور اس نظام کے قیام کے لئے ضروری تھا کہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے اور وہ ان تمام دکھوں اور دردوں کو مٹانے کے لئے ایسا نظام پیش کرے جوز مینی نہ ہو بلکہ آسمانی ہو اور ایسا ڈھانچہ پیش کرے جو ان تمام ضرورتوں کو پورا کر دے جو غرباء کو لاحق ہیں اور دنیا کی بے چینی کو دور کر دے.اب ہر شخص جو تسلیم کرتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے کسی موعود کی بعثت کی خبر دی ہے، ہر شخص جو تسلیم کرتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ایک مسیح اور مہدی کے آنے کی خوشخبری دی ہے لازماً اسے یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس زمانہ میں جو فتنہ وفساد اور دُکھ نظر آرہا ہے اس کے دور کرنے کا کام بھی اسی ما مور کے سپرد ہونا چاہیے تا کہ وہ نقائص بھی پیدا نہ ہوں جو بالشوزم کے نتیجہ میں پیدا ہوئے ہیں.وہ نتائج بھی پیدا نہ ہوں جو سوشلزم کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں اور وہ نقائص بھی پیدا نہ ہوں جو نیشنل سوشلزم کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں دنیا کو کھانا بھی مل جائے ، دنیا کو کپڑا بھی مل جائے ، دنیا کو مکان بھی مل جائے ، دنیا کو دوا بھی مل جائے اور دنیا کو تعلیم بھی میسر آ جائے پھر دماغ بھی کمزور نہ ہو، انفرادیت اور عائلیت کے اعلیٰ جذبات بھی تباہ نہ ہوں ظلم بھی نہ ہو، لوگوں کو لوٹا بھی نہ جائے ، امن اور محبت بھی قائم رہے لیکن روپیہ بھی مل جائے.نظام نو.انوار العلوم جلد 16 صفحہ 585 تا 587 )

Page 46

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 34 دنیا سے دکھ دور کرنے کی خاتم التخلفاء کی سکیم کے چار اہم اصول پس موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے خاتم الخلفاء کا فرض تھا کہ وہ اسلامی اصول کے مطابق کوئی سکیم تیار کرتا اور دنیا سے اس مصیبت کا خاتمہ کر دیتا.چنانچہ جیسا کہ میں آگے چل کر بتاؤں گا اس نے خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اس اہم ضرورت کو پورا کرنے کے سامان بہم پہنچا دیئے ہیں...اسلامی سکیم کے اہم اصول یہ ہیں :- اول: سب انسانوں کی ضرورتوں کو پورا کیا جائے.دوم: مگر اس کام کو پورا کرتے وقت انفرادیت اور عائلی زندگی کے لطیف جذبات کو تباہ نہ ہونے دیا جائے.تیسرے: یہ کام مالداروں سے طوعی طور پر لیا جائے اور جبر سے کام نہ لیا جائے.چو تھے : یہ نظام ملکی نہ ہو بلکہ بین الاقوامی ہو.آج کل جس قدر تحریکات جاری ہیں وہ سب کی سب ملکی ہیں مگر اسلام نے وہ تحریک پیش کی ہے جو ملکی نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے.نظام نو.انوارالعلوم جلد 16 صفحہ 588,587) حضرت مسیح موعود کے ذریعہ دنیا سے دُکھ دور کرنے والے نظام نو’الوصیت“ کی بنیاد اسلامی تعلیم کی ساری خوبی ان چاروں اصول میں مرکوز ہے.اگر یہ چاروں اصول کسی تحریک میں پائے جاتے ہوں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ تحریک سب سے بہتر اور سب تحریکات سے زیادہ مکمل ہے.اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان چاروں مقاصد کو اس زمانہ کے ما مور، نائب رسول اللہ ﷺ نے خدا تعالیٰ کے حکم سے کس طرح پورا کیا اور کس طرح اسلامی تعلیم کے عین مطابق دنیا کے ایک نئے نظام کی بنیاد رکھ دی.یہ بالشوزم، سوشلزم اور نیشنل سوشلزم کی تحریکیں سب جنگ کے بعد کی پیدائش

Page 47

35 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ رو پیرد ہیں.ہٹلر جنگ کے بعد کی پیدائش ہے، مسولینی جنگ کے بعد کی پیدائش ہے اور سٹالن جنگ کے بعد کی پیدائش ہے.غرض یہ ساری تحریکیں جو دنیا میں ایک نیا نظام قائم کرنے کی دعویدار ہیں.۱۹۱۹ء اور ۱۹۲۱ء کے گرد چکر لگارہی ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے مامور نے نئے نظام کی بنیاد ۱۹۰۵ء میں رکھ دی تھی اور وہ الوصیت کے ذریعہ رکھی تھی.قرآن کریم نے اصولی طور پر فرمایا تھا أَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهَلُكَةِ وَاحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ مگر اس تعلیم میں خدا تعالیٰ نے طوعی قربانیوں کے کوئی معین اصول مقرر نہ فرمائے تھے صرف یہ کہا تھا کہ اے مسلمانو! تمہیں علاوہ جبری ٹیکسوں کے بعض اور ٹیکس بھی دینے پڑیں گے مگر یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ ٹیکس کتنے ہوں گے اور ان کی معین صورت کیا ہوگی.اگر کسی زمانہ میں اسلامی حکومت کوسو میں سے ایک روپیہ کی ضرورت ہوتی تھی تو خلیفہ وقت کہہ دیا کرتا تھا کہ اے بھائیو! اپنی مرضی سے سو میں سے ایک یہ دے دو اور اگر کسی زمانہ میں اسلامی حکومت کو سو میں سے دو روپیہ کی ضرورت ہوتی تھی تو خلیفہ وقت کہہ دیا کرتا تھا کہ اے بھائیو! اپنی مرضی سے سو میں سے دوروپے دے دو اسی وجہ سے ہر زمانہ میں اس کی الگ الگ تعبیر کی گئی.رسول کریم ﷺ نے اس کی تعبیر اس طرح کی کہ وقتا فوقتا زائد چندے مانگ لئے اور خلفاء نے اپنے زمانہ کے مطابق اس کی اس طرح تعبیر کی کہ جو اموال فوجوں میں تقسیم کرنے کے لئے آیا کرتے تھے ان کے ایک بڑے حصہ کو محفوظ کر لیا اور سپاہیوں سے کہا کہ تم اپنی خوشی سے اپنا حق چھوڑ دو اور حضرت مسیح موعود نے اپنے زمانہ کے مطابق تعبیر کر لی.اگر اسلامی حکومت نے ساری دنیا کو کھانا کھلانا ہے، ساری دنیا کو کپڑے پہنانا ہے، ساری دنیا کی رہائش کے لئے مکانات کا انتظام کرنا ہے.ساری دنیا کی بیماریوں کے لئے علاج کا انتظام کرنا ہے، ساری دنیا کی جہالت کو دور کرنے کے لئے تعلیم کا انتظام کرنا ہے تو یقیناً حکومت کے ہاتھ میں اس سے بہت زیادہ روپیہ ہونا چاہیے جتنا پہلے زمانہ میں ہوا کرتا تھا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اعلان فرمایا کہ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کے لئے جو حقیقی جنت حاصل کرنا چاہتے ہیں یہ انتظام فرمایا ہے کہ وہ اپنی خوشی سے اپنے مال کے کم سے کم دسویں حصہ کی اور

Page 48

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 36 زیادہ سے زیادہ تیسرے حصہ کی وصیت کر دیں اور آپ فرماتے ہیں ان وصایا سے جو آمد ہوگی وہ ترقی اسلام اور اشاعت علم قرآن و کتب دینیہ اور اس سلسلہ کے واعظوں کے لئے خرچ ہوگی.اسی طرح ہر ایک امر جو مصالح اشاعت اسلام میں داخل ہے جس کی اب تفصیل کرنا قبل از وقت ہے وہ تمام امور ان اموال سے انجام پذیر ہوں گے.یعنی اسلام کی تعلیم کو دنیا میں قائم اور راسخ کرنے کے لئے جس قدر امور ضروری ہیں اور جن کی تعبیر کر نا قبل از وقت ہے ہاں اپنے زمانہ میں کوئی اور شخص ان امور کو کھولے گا ان تمام امور کی سرانجام دہی کے لئے یہ روپیہ خرچ کیا جائے گا.یہ وہ تعلیم ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دی.آپ صاف فرماتے ہیں کہ ہر ایک امر جو مصالح اشاعت اسلام میں داخل ہے اور جس کی اب تفصیل کرنا قبل از وقت ہے اس پر یہ روپیہ خرچ کیا جائے گا.اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ ایسے امور بھی ہیں جن کو ابھی بیان نہیں کیا جاسکتا اور یہ کہ عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے جب دنیا چلا چلا کر کہے گی کہ ہمیں ایک نئے نظام کی ضرورت ہے تب چاروں طرف سے آوازیں اٹھنی شروع ہو جائیں گی کہ آؤ ہم تمہارے سامنے ایک نیا نظام پیش کرتے ہیں.روس کہے گا آؤ میں تم کو نیا نظام دیتا ہوں، ہندوستان کہے گا آؤ میں تم کو نیا نظام دیتا ہوں، جرمنی اور اٹلی کہے گا آؤ میں تم کو ایک نیا نظام دیتا ہوں ، امریکہ کہے گا آؤ میں تم کو نیا نظام دیتا ہوں، اس وقت میرا قائم مقام قادیان سے کہے گا کہ نیا نظام الوصیت میں موجود ہے اگر دنیا فلاح و بہبود کے رستہ پر چلنا چاہتی ہے تو اس کا ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ کہ ”الوصیت کے پیش کردہ نظام کو دنیا میں جاری کیا جائے.نظام نو.انوار العلوم جلد 16 صفحہ 590t588) غرض نظام نو کی بنیادہ ۱۹۱ء میں روس میں نہیں رکھی گئی نہ وہ آئندہ کسی سال میں موجودہ جنگ کے بعد یورپ میں رکھی جائے گی بلکہ دنیا کو آرام دینے والے ہر فرد بشر کی زندگی کو آسودہ بنانے والے اور ساتھ ہی دین کی حفاظت کرنے والے نظام نو کی بنیاد ۱۹۰۵ء میں قادیان میں رکھی جا چکی ہے اب دنیا کو کسی نظام نو کی ضرورت نہیں ہے اب نظام نو کا شور مچانا ایسا ہی ہے جیسے کہتے ہیں: گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر

Page 49

37 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ جو کام ہونا تھا وہ ہو چکا اب یورپ کے مدبر صرف لکیریں پیٹ رہے ہیں.اسلام اور احمدیت کا نظامِ نو وہ ہے جس کی بنیاد جبر پر نہیں بلکہ محبت اور پیار پر ہے.اس میں انسانی حریت کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے، اس میں افراد کی دماغی ترقی کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے اور اس میں انفراد بیت اور عائکیت جیسے لطیف جذبات کو بھی برقرار رکھا گیا ہے.( نظام نو.انوار العلوم جلد 16 صفحہ 596 ) جب وصیت کا نظام مکمل ہوگا تو صرف تبلیغ ہی اس سے نہ ہوگی بلکہ اسلام کے منشاء کے ماتحت ہرفرد بشر کی ضرورت کو اس سے پورا کیا جائے گا اور دکھ اورتنگی کو دنیا سے مٹا دیا جائے گا انشاء اللہ یتیم بھیک نہ مانگے گا، بیوہ لوگوں کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے گی، بے سامان پریشان نہ پھرے گا کیونکہ وصیت بچوں کی ماں ہوگی ، جوانوں کی باپ ہوگی عورتوں کا سہاگ ہوگی ، اور جبر کے بغیر محبت اور دلی خوشی کے ساتھ بھائی بھائی کی اس کے ذریعہ مدد کرے گا اور اس کا دینا بے بدلہ نہ ہوگا بلکہ ہر دینے والا خدا تعالیٰ سے بہتر بدلہ پائے گا.نہ امیر گھاٹے میں رہے گا نہ غریب، نہ قوم قوم سے لڑے گی بلکہ اس کا احسان سب دنیا پر وسیع ہوگا.پس اے دوستو ! دنیا کا نیا نظام نہ مسٹر چرچل بنا سکتے ہیں نہ مسٹر روز ویلٹ بنا سکتے ہیں.یہ اٹلانٹک چارٹر کے دعوے سب ڈھکو سلے ہیں اور اس میں کئی نقائص ، کئی عیوب اور کئی خامیاں ہیں نئے نظام وہی لاتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں مبعوث کئے جاتے ہیں جن کے دلوں میں نہ امیر کی دشمنی ہوتی ہے نہ غریب کی بے جا محبت ہوتی ہے، جو نہ مشرقی ہوتے ہیں نہ مغربی ، وہ خدا تعالیٰ کے پیغامبر ہوتے ہیں اور وہی تعلیم پیش کرتے ہیں جو امن قائم کرنے کا حقیقی ذریعہ ہوتی ہے پس آج وہی تعلیم امن قائم کرے گی جو حضرت مسیح موعود کے ذریعہ آئی ہے اور جس کی بنیادالوصیۃ کے ذریعہ ۱۹۰۵ء میں رکھ دی گئی ہے.نظام نو.انوار العلوم جلد 16 صفحہ 601,600 )

Page 50

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 38 نئے نظام سے باہر رہنے والے کیلئے ایمان کا خطرہ ہر مؤمن کے ایمان کی آزمائش اس میں ہے کہ وہ اس نظام میں داخل ہوا اور خدا تعالیٰ کے خاص فضل حاصل کرے.صرف منافق ہی اس نظام سے باہر رہے گا.گو یا کسی پر جبر نہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ اس میں تمہارے ایمانوں کی آزمائش ہے اگر تم جنت لینا چاہتے ہو تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ تم یہ قربانی کرو، ہاں اگر جنت کی قدر و قیمت تمہارے دل میں نہیں تو اپنے مال اپنے پاس رکھو ہمیں تمہارے اموال کی ضرورت نہیں.( نظام نو.انوار العلوم جلد 16 صفحہ 590 ، 591) خاتم الخلفاء کی سکیم سے عظیم الشان نتائج اور امتیازی خصوصیات (1) اسلامی مرکز صرف ایک نسل میں تمام دنیا کی جائیدادوں کے 1/10 ہ کا مالک بن جائے گا ، غرباء کی خبرگیری کی جا سکے 1/3 اگر ساری دنیا احمدی ہو جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ساری دنیا سے یہ مطالبہ ہوگا کہ خدا تعالیٰ تمہارے ایمانوں کی آزمائش کرنا چاہتا ہے اگر تم سچے مؤمن ہو، اگر تم جنت کے طلبگار ہو، اگر تم خدا تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنی جائیدادوں کا ۱/۱۰ سے ا حصہ اسلام اور مصالح اسلام کی اشاعت کے لئے دے دو اس طرح ساری دنیا کی جائیدادیں قومی فنڈ میں آجائیں گی اور بغیر کسی قسم کے جبر اور لڑائی کے اسلامی مرکز صرف ایک نسل میں تمام دنیا کی جائیدادوں کے ۱/۱۰ سے ۳/ ۱حصہ کا مالک بن جائے گا اور اس قومی فنڈ سے تمام غرباء کی خبر گیری کی جاسکے گی.نظام نو.انوارالعلوم جلد 16 صفحہ 592,591 ) | (2) چند نسلوں میں انفرادیت کی روح تباہ کئے بغیر قومی فنڈ میں دنیا کی تمام جائیدادیں منتقل ہو جائیں گی: پھر یہ یا درکھو کہ وصیت صرف پہلی نسل کے لئے نہیں ہے بلکہ دوسری نسل کے لئے بھی ہے اور اس سے

Page 51

39 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ بھی انہی قربانیوں کا مطالبہ ہے اور چونکہ وصیت سے دنیا کے سامنے جنت پیش کی جارہی ہے اگلی نسل اس کو لینے سے کس طرح انکار کرے گی پس دوسری نسل پھر اپنی خوشی سے بقیہ جائیداد کا ۱/۱۰ سے ۱/۳ حصہ قومی ضرورتوں کے لئے دے دے گی اور پھر تیسری اور پھر چوتھی نسل بھی ایسا ہی کرے گی اور اس طرح چند نسلوں میں ہی احمدیوں کی جائیداد میں نظام احمدیت کے قبضہ میں آجائیں گی.فرض کرو سب دنیا احمدی ہو جائے تو اس کا نتیجہ جانتے ہو کیا نکلے گا یہی کہ چند نسلوں میں اپنی خوشی سے ساری دنیا اپنی جائیدادیں قومی کاموں کے لئے دے دے گی اور اس کی انفرادیت بھی تباہ نہ ہوگی ، عائلی نظام بھی تباہ نہ ہوگا اور پھر لوگ اپنے لئے اور اپنی اولادوں کے لئے اور دولت پیدا کریں گے اور پھر اپنی خوشی سے اس کا ۱۰/ ۱ سے ۱/۳ حصہ قومی ضرورتوں کے لئے دے دیں گے پھر یہ سارا مال چند نسلوں میں قومی فنڈ میں منتقل ہو جائے گا اور اس طرح یہ سلسلہ چلتا چلا جائے گا.مثال کے طور پر یوں سمجھ لو کہ اگر کسی شخص کے پاس سو روپے ہوں اور وہ پانچویں حصہ کی وصیت کرے تو میں روپے قومی فنڈ میں آجائیں گے اور اسی روپے اس کے پاس رہیں گے جو اس کے لڑکے کو ملیں گے.پھر مثلاً اس کا لڑکا اگر اسی روپے کے ۱/۵حصہ کی وصیت کر دے گا تو سولہ روپے اور قومی فنڈ میں آجائیں گے.گویا ۳۶ فیصدی قومی فنڈ میں آجائے گا اور ۶۴ فیصدی اس کے پاس رہ جائے گا.پھر مثلاً اس کا لڑکا اس ۶۴ فیصدی کے پانچویں حصہ کی وصیت کرے گا تو انداز آبارہ روپے اور قومی فنڈ میں آجائیں گے گویا اڑتالیس فیصدی کی مالک حکومت ہو جائے گی اور باون فیصدی اس خاندان کے پاس رہ جائے گا اس کے بعد اس کا لڑکا مثلاً باون روپوں کے پانچویں حصہ کی وصیت کر دے گا تو دس روپے ان کے ہاتھ سے اور نکل جائیں گے اس طرح قومی فنڈ میں اٹھاون فیصدی آجائے گا اور اس خاندان کے پاس صرف بیالیس فیصدی رہ جائے گا.غرض وہی مقصد جو بالشوزم کے ماتحت تلوار اور خونریزی سے حاصل کیا جاتا ہے اگر وصیت کا نظام وسیع طور پر جاری ہو جائے تو مقصد بھی حل ہو جائے فساد اور خونریزی بھی نظر نہ آئے ، آپس میں محبت اور پیار بھی رہے، دنیا میں کوئی بھوکا اور نگا بھی دکھائی نہ دے

Page 52

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 40 اور چند نسلوں میں انفرادیت کی روح کو تباہ کئے بغیر قومی فنڈ میں دنیا کی تمام جائیدادیں منتقل ہو جائیں.(3) عالمگیر اخوت کو بڑھانے والا نظام : نظام نو.انوارالعلوم جلد 16 صفحہ 593,592 ) پھر یہ نظام ملکی نہ ہوگا بلکہ بوجہ مذہبی ہونے کے بین الاقوامی ہوگا.انگلستان کے سوشلسٹ وہی نظام پسند کرتے ہیں جس کا اثر انگلستان تک محدود ہو، روس کے بالشویک وہی نظام پسند کرتے ہیں جس کا اثر روس تک محدود ہومگر احمدیت ایک مذہب ہے وہ اس نئے نظام کی طرف روس کو بھی بلاتی ہے ، وہ جرمنی کو بھی بلاتی ہے ، وہ انگلستان کو بھی بلاتی ہے، وہ امریکہ کو بھی بلاتی ہے، وہ ہالینڈ کو بھی بلاتی ہے، وہ چین اور جاپان کو بھی بلاتی ہے پس جو روپیہ احمدیت کے ذریعہ اکٹھا ہوگا وہ کسی ایک ملک پر خرچ نہیں کیا جائے گا بلکہ ساری دنیا کے غریبوں کے لئے خرچ کیا جائے گا، وہ ہندوستان کے غرباء کے بھی کام آئے گا، وہ چین کے غرباء کے بھی کام آئے گا، وہ جاپان کے غرباء کے بھی کام آئے گا، وہ افریقہ کے غرباء کے بھی کام آئے گا، وہ عرب کے غرباء کے بھی کام آئے گا ، وہ انگلستان، امریکہ، اٹلی ، جرمنی اور روس کے غرباء کے بھی کام آئے گا.غرض وہ نظام جو دنیوی ہیں وہ قومیت کے جذبہ کو بڑھاتے ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے وہ نظام پیش کیا ہے جو عالمگیر اخوت کو بڑھانے والا ہے.پھر روس میں تو روس کا باشندہ روس کے لئے جبراً اپنی جائیداد دیتا ہے لیکن وصیت کے نظام کے ماتحت ہندوستان کا باشندہ اپنی مرضی سے سب دنیا کے لئے دیتا ہے، مصر کا باشندہ اپنی مرضی سے اپنی جائیدا دسب دنیا کے لئے دیتا ہے، شام کا باشندہ اپنی مرضی سے اپنی جائیداد ساری دنیا کے لئے دیتا ہے یہ کتنا نمایاں فرق ہے اسلامی نظامِ نو اور دنیوی نظامِ نو میں.( نظام نو.انوار العلوم جلد 16 صفحہ (593) (4) جسکی بنیاد جبر پر نہیں بلکه پیار محبت پر ہے : پھر روسی نظام چونکہ جبر سے کام لیتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے مالدار روس سے نکل کر اس کے

Page 53

41 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ خلاف جد و جہد شروع کر دیتے ہیں اور ان کے دلوں میں غریبوں کو جائیدادیں دے کر کوئی خوشی اور بشاشت پیدا نہیں ہوتی ، ایک روسی سے جس وقت اس کی جائیداد چھین لی جاتی ہے وہ ہنستا نہیں بلکہ روتا ہوا اپنے گھر جاتا ہے اور اپنے رشتہ داروں سے کہتا ہے کم بخت حکومت نے میری جائیداد مجھ سے چھین لی لیکن اس نظام نو میں ایک زمیندار جس کے پاس دس ایکڑ زمین ہوتی ہے وہ ایک یا دو یا تین ایکڑ زمین دے کر روتا نہیں بلکہ دوسرے ہی دن اپنے بھائی کے پاس جاتا ہے اور اسے کہتا ہے اے بھائی! مجھے مبارکباد دو کہ میں نے وصیت کی توفیق پائی اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی جس کے دوسرے معنے یہ ہوتے ہیں کہ غریبوں کے لئے دو یا تین ایکڑ زمین مجھ سے چھین لی گئی ہے.مگر وہ روتا نہیں ، وہ غم نہیں کرتا بلکہ کہتا ہے بھائی جان! مجھے مبارکباد دو کہ میں نے وصیت کر دی اور کہتا ہے اللہ اب مجھے وہ دن بھی دکھائے کہ آپ بھی وصیت کر دیں اور میں آپ کو مبارکباد دینے کے قابل ہو جاؤں.جس وقت بیوی کو وہ یہ خبر سناتا ہے بیوی یہ نہیں کہتی کہ خدا تباہ کرے ان لوگوں کو جنہوں نے ہماری جائیداد لوٹ لی بلکہ اس کے ہونٹ کا پنپنے لگ جاتے ہیں اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں اور وہ للچائی ہوئی نگاہوں سے ان نگاہوں سے جن سے وہ اپنے خاوند کے دل کو چھینا کرتی ہے اس کی طرف دیکھتی ہے اور کہتی ہے دیکھو جی! اللہ نے آپ کو یہ توفیق دی کہ آپ نے وصیت کر دی میرے پاس اپنی جائیداد نہیں میں کس طرح وصیت کروں آپ اپنی جائیداد میں سے کچھ مجھے دے دیں تو میں بھی اس نعمت میں شامل ہو جاؤں اور وہ اپنے نسوانی داؤ پیچ اور ان تیروں سے کام لے کر جو کہ خاوند ا بہت کم برداشت کر سکتے ہیں آخرا سے راضی کر ہی لیتی ہے اور وہ اسے اپنی جائیداد میں سے کچھ حصہ دے دیتا ہے اس پر بیوی پھر اسی جائیداد کی وصیت کرتی ہے اور کہتی ہے میں اس کے ۱۰/ ایا ۸/ ای ۱/۶ حصہ کی وصیت کرتی ہوں گویا اس بچی ہوئی جائیداد پر پھر ایمان ڈا کہ مارتا اور اس کا ایک اور حصہ قومی فنڈ میں منتقل ہو جاتا ہے اتنے میں بچہ گھر میں آتا ہے اور جب وہ سنتا ہے کہ اس کے باپ اور اس کی ماں نے وصیت کر دی ہے تو وہ دلگیر ہو کر بیٹھ جاتا ہے اور اپنے باپ سے کہتا ہے ابا جی ! اللہ آپ کو دیر تک ہمارے سروں پر سلامت رکھے.میرے پاس تو کچھ نہیں میں کس طرح اللہ سے یہ ارزاں سو دا

Page 54

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 42 کروں اگر مجھے کچھ دے دو تو میں بھی اللہ میاں سے اپنے لئے جنت کا سودا کرلوں.اگر اس کے باپ کو اس سے زیادہ محبت ہوتی ہے تو وہ یہ خیال کر کے کہ آخر میری جائیداد نے اسی کے پاس جانا ہے اسی وقت اپنی جائیداد کا ایک حصہ اسے دے دیتا ہے اور وہ وصیت کر کے اپنے رب سے جنت کا سودا کر لیتا ہے.اس طرح بقیہ جائیداد کا پھر ایک اور حصہ قومی فنڈ میں آجمع ہوتا ہے اور اگر اس کا باپ نسبتاً سخت ہوتا ہے اور وہ یہ نہیں مانتا کہ اپنی زندگی میں لڑکے کو جائیداد دے دے تو نیک بخت لڑکا اس جائیداد کا جو ابھی اسے نہیں ملی سودا کر دیتا ہے اور وصیت کر دیتا ہے کہ گوابھی میرے پاس کوئی جائیداد نہیں مگر میں وصیت کرتا ہوں کہ اس وقت جو میری آمدن ہے اس کا دسواں حصہ وصیت میں ادا کرتا رہوں گا اور اگر آئندہ میری کوئی جائیداد ہوئی تو اس کا دسواں حصہ بھی ادا کروں گا جس کے دوسرے لفظوں میں یہ معنے ہوتے ہیں کہ جب ابا جان فوت ہو جائیں گے اور ان کی جائیداد میرے قبضہ میں آجائے گی تو جو حصہ مجھے باپ کی وصیت کے بعد بچی ہوئی جائیداد میں سے ملے گا اس کے دسویں حصہ کا ابھی سے وعدہ کرتا ہوں.اس طرح بقیہ جائیداد کا پھر ۱۰/ اقومی فنڈ میں آجاتا ہے.پھر دیکھوڈ نیوی کلام کے ماتحت تو جن لوگوں پر ٹیکس لگتا ہے وہ نا خوش ہوتے ہیں اور جن پر نہیں لگتا وہ خوش ہوتے ہیں.امیر ناراض ہوتے ہیں کہ ہم پر کیوں ٹیکس لگایا گیا اور غرباء خوش ہوتے ہیں کہ امراء کا مال ہمیں ملا لیکن وصیت کے قاعدہ کے ماتحت کیا ہوتا ہے؟ وصیت کو غور سے پڑھ کر دیکھ لو وصیت کی ابتداء جائیداد پر رکھی گئی تھی مگر چونکہ مال جبرا نہیں چھینا جا تا بلکہ اس کے بدلہ میں جنت کی سی نعمت پیش کی جاتی ہے اس لئے وہ لوگ جن کے لئے مال لیا گیا تھا انہوں نے یہ نہیں کہا کہ یہ امراء جن کی جائیداد میں لی گئی ہیں خوب لوٹے گئے بلکہ وہ رنجیدہ ہوئے کہ اس نیک سو دے سے ہمیں کیوں محروم کیا گیا ہے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے درخواست کی کہ ہمارے لئے بھی راستہ نکالا جائے اور خدا تعالیٰ کی اجازت سے آپ نے انہیں اپنی آمدنیوں کی وصیت کرنے کی اجازت دے دی.گویا وہ طریق جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جاری

Page 55

43 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ کیا ہے اس کی ابتداء جائیدادوں سے ہوئی مگر پھر ان لوگوں کے اصرار پر جن کی جائیدادیں نہیں تھیں اللہ تعالیٰ کی اجازت سے آپ نے آمدنیوں کی وصیت کی بھی اجازت دے دی اور اس طرح جائیداد اور آمد دونوں کے مقررہ حصے قومی فنڈ میں جمع ہونے شروع ہو گئے.( نظام نو.انوار العلوم جلد 16 صفحہ 594 تا 596) (5) ہر فرد بشر کی ضرورت پوری کرنے والا نظام: میں بتا چکا ہوں کہ وصیت کے متعلق یہ خیال کرنا غلط ہے کہ اس کا روپیہ صرف تبلیغ اسلام پر خرچ کیا جا سکتا ہے ” الوصیہ“ کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ اس روپیہ سے اور کئی مقاصد کو بھی پورا کیا جائے گا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا ہے ہر ایک امر جو مصالح اشاعت اسلام میں داخل ہے جس کی اب تفصیل کرنا قبل از وقت ہے وہ تمام اموران اموال سے انجام پذیر ہونگے یعنی آئندہ زمانہ میں اشاعت اسلام کی ایسی مصلحتیں ظاہر ہوں گی یعنی اسلام کو عملی جامہ پہنا کر اس کی خوبیوں کے اظہار کے مواقع ایسے نکلیں گے کہ ان پر وصیت کے روپیہ کو خرچ کرنا جائز ہی نہیں بلکہ ضروری ہوگا.پھر ” یتیموں اور مسکینوں کے الفاظ بھی حضرت مسیح موعود نے استعمال فرمائے اور بتایا ہے کہ اس روپیہ پر محتاجوں کا حق ہے.پس در حقیقت ان الفاظ میں اسی نظام کی طرف اشارہ ہے جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے کہ ہر فرد بشر کے لئے کھانا مہیا کیا جائے ، ہر فرد بشر کے لئے کپڑا مہیا کیا جائے، ہر فرد بشر کے لئے مکان مہیا کیا جائے ، ہر فرد بشر کے لئے تعلیم اور علاج کا سامان مہیا کیا جائے اور یہ کام ٹیکسوں سے نہیں ہو سکتا اسی طرح ہو سکتا ہے کہ جائیدادیں لی جائیں اور اس ضرورت پر خرچ کی جائیں.کوئی کہہ سکتا ہے کہ ” کیا پڑی اور کیا پدی کا شور با تمہاری حیثیت ہی کیا ہے کہ تم ایسے دعوے کرو اور اس قسم کی موہوم امیدوں کو جامعہ عمل پہنا سکو گر یہ شبہ بھی درست نہیں اس لئے کہ جب ہم یہ بات پیش کرتے ہیں تو اس لئے پیش کرتے ہیں کہ ہم اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ ہماری جماعت کا دنیا کے تمام ممالک میں پھیل جانا مقدر ہے.پس جبکہ ہم خدا تعالیٰ کے الہامات اور اس کے

Page 56

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 44 وعدوں کے مطابق یہ یقین رکھتے ہیں کہ آج سے پچاس یا ساٹھ یا سوسال کے بعد بہر حال دنیا پر احمدیت کا غلبہ ہو جائے گا تو ہمیں اس بات پر بھی کامل یقین ہے کہ یہ نظام جو حضرت مسیح موعود نے پیش فرمایا ہے ایک دن قائم ہو کر رہے گا.زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں مگر خدا تعالی کی باتیں کبھی ٹل نہیں سکتیں.نظام نو.انوار العلوم جلد 16 صفحہ 597,596) (6) بميشه قائم رہنے والا اور وسعت اختیار کرنے والا نظام : بعض لوگ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ یہ نظام نہ معلوم کب قائم ہوگا جماعت کی ترقی تو نہایت آہستہ آہستہ ہورہی ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ کبھی ہتھیلی پر سرسوں نہیں جمائی جاتی جو عمارت بے بنیاد ہو وہ بہت جلد گر جاتی ہے.یہ جلد بنائے جانے والے نظام جلد گر جائیں گے نظام وہی قائم ہوگا جو ہر کس و ناکس کی دلی خوشنودی کے ساتھ قائم کیا جائے گا.گھاس آج نکلتا اور کل سوکھ جاتا ہے لیکن پھل دار درخت دیر میں تیار ہوتا اور پھر صدیوں کھڑا رہتا ہے.پس آئندہ جوں جوں ہماری جماعت بڑھتی چلی جائے گی وصیت کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے دنیا میں جس نظام کو قائم کیا ہے وہ بھی بڑھتا چلا جائے گا چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی کتاب الوصیۃ میں تحریر فرمایا ہے کہ : یہ مت خیال کرو کہ یہ صرف دور از قیاس با تیں ہیں بلکہ یہ اس قادر کا ارادہ ہے جو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے.مجھے اس بات کا غم نہیں کہ یہ اموال جمع کیونکر ہوں گے اور ایسی جماعت کیونکر پیدا ہوگی جوایمانداری کے جوش سے یہ مردانہ کام دکھلائے بلکہ مجھے یہ فکر ہے کہ ہمارے زمانہ کے بعد وہ لوگ جن کے سپر دایسے مال کئے جائیں وہ کثرت مال کو دیکھ کر ٹھو کر نہ کھاویں اور دنیا سے پیار نہ کریں.سو میں دعا کرتا ہوں کہ ایسے امین ہمیشہ اس سلسلہ کو ہاتھ آتے رہیں جو خدا کے لئے کام کریں ہاں جائز ہوگا کہ جن کا کچھ گزارہ نہ ہو ان کو بطور مد دخرچ اس میں سے دیا جائے.“ یعنی مجھے اس بات کا خیال نہیں کہ وصیت کے نتیجہ میں اتنے روپے کہاں سے آئیں گے بلکہ

Page 57

45 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ مجھے یہ فکر ہے کہ کہیں لوگ کثرت مال کو دیکھ کر ٹھو کر نہ کھا جائیں.گویا تم تو یہ کہتے ہو کہ ساری دنیا کے غریبوں کا انتظام کس طرح کرو گے اور وہ مال کہاں سے آئے گا جس سے ان کی ضروریات پوری کی جائیں گی مگر مجھے اس بات کا کوئی فکر نہیں کہ یہ مال کہاں سے آئے گا یہ مال آئے گا اور ضرور آئے گا مجھے تو فکر یہ ہے کہ کہیں کثرت مال کو دیکھ کر دنیا کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی نہ رہ جائیں اور وہ لوگ جن کے سپر دیہ اموال ہوں وہ دنیا سے پیار نہ کرنے لگ جائیں اور لالچ کی وجہ سے ان مدات میں روپیہ خرچ نہ کریں جن مذات کے لئے یہ رو پیدا کٹھا کیا جائے گا.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ سوال خود ہی اٹھایا ہے اور پھر خود ہی اس کا جواب دیا ہے کہ لوگ یہ خیال نہ کریں کہ اتنے خزانے کہاں سے آئیں گے.آئیں گے اور ضرور آئیں گے مجھے اگر ڈر ہے تو یہ کہ کہیں کثرت مال کو دیکھ کر لوگ دنیا سے پیار نہ کرنے لگ جائیں کیونکہ رو پیدا کٹھا ہو گا اور اتنا اربوں ارب اور اربوں ارب اکٹھا ہو گا کہ اتنا مال نہ امریکہ نے کبھی دیکھا ہوگا نہ روس نے کبھی دیکھا ہوگا ، نہ انگلستان نے کبھی دیکھا ہوگا نہ جرمنی ، اٹلی اور جاپان نے کبھی دیکھا ہوگا بلکہ ساری حکومتوں نے مل کر بھی اتنا روپیہ کبھی جمع نہیں کیا ہو گا جتنا روپیہ اس ذریعہ سے اکٹھا ہو گا ، پس چونکہ اس ذریعہ سے اس قدر دولت اکٹھی ہوگی کہ اس قدر دولت دنیا کی آنکھ نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوگی اس لئے میں ڈرتا ہوں کہ کہیں لوگوں کے دلوں میں بد دیانتی پیدا نہ ہو جائے.پس تم اس بات کا فکر نہ کرو کہ یہ نظام کس طرح قائم ہو گا تم یہ فکر کرو کہ اس کو صحیح استعمال کرنے کا اپنے آپ کو اہل بناؤ.دنیا کی جائیداد میں تمہارے ہاتھ میں ضرور آئیں گی مگر تم کو اپنے نفوس کی ایسی اصلاح کرنی چاہیے کہ وہ جائیدادیں تمہارے ہاتھ سے دنیا کے فائدہ کے لئے صحیح طور پر خرچ کی جائیں.- نظام نو.انوار العلوم جلد 16 صفحہ 598,597 ) (7) ہمیشہ کیلئے انسانیت کی جڑیں مضبوط کرنے والا نظام : جس دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وصیت لکھی اور اُس کا مسودہ باہر بھیجا تو

Page 58

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 46 خواجہ کمال الدین صاحب اس کو پڑھنے لگ گئے جب وہ پڑھتے پڑھتے اس مقام پر پہنچے تو وہ بے خود ہو گئے.ان کی نگاہ نے اس کے حُسن کو ایک حد تک سمجھا وہ پڑھتے جاتے اور اپنی رانوں پر ہاتھ مار مار کر کہتے جاتے کہ واہ اوے مرز یا احمدیت دیاں جڑاں لگا دتیاں ہیں یعنی واہ واہ مرزا تو نے احمدیت کی جڑوں کو مضبوط کر دیا ہے.خواجہ صاحب کی نظر نے بے شک اس کے حسن کو ایک حد تک سمجھا مگر پورا پھر بھی نہیں سمجھا درحقیقت اگر وصیت کو غور سے پڑھا جائے تو یوں کہنا پڑتا ہے کہ واہ او مرزا تو نے اسلام کی جڑیں مضبوط کر دیں، واہ او مرزا تو نے انسانیت کی جڑیں ہمیشہ کے لئے مضبوط کر دیں.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَعَلَى عَبْدِكَ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ وَبَارِك وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ - (نظام نو.انوار العلوم جلد 16 صفحہ 599) نظام نو کی بنیا در کھنے والے پس اے دوستو! جنہوں نے وصیت کی ہوئی ہے سمجھ لو کہ آپ لوگوں میں سے جس جس نے اپنی اپنی جگہ وصیت کی ہے اس نے نظام نو کی بنیا درکھ دی ہے اُس نظام نو کی جو اس کی اور اس کے خاندان کی حفاظت کا بنیادی پتھر ہے اور جس جس نے تحریک جدید میں حصہ لیا ہے اور اگر وہ اپنی ناداری کی وجہ سے اس میں حصہ نہیں لے سکا تو وہ اس تحریک کی کامیابی کے لئے مسلسل دعائیں کرتا ہے اس نے وصیت کے نظام کو وسیع کرنے کی بنیادرکھ دی ہے.پس اے دوستو! دنیا کا نیا نظام دین کومٹا کر بنایا جا رہا ہے تم تحریک جدید اور وصیت کے ذریعہ سے اس سے بہتر نظام دین کو قائم رکھتے ہوئے تیار کرومگر جلدی کرو کہ دوڑ میں جو آگے نکل جائے وہی جیتتا ہے.پس تم جلد سے جلد و میتیں کرو تا کہ جلد سے جلد نظام نو کی تعمیر ہوا اور وہ مبارک دن آ جائے جب کہ چاروں طرف اسلام اور احمدیت کا جھنڈا لہرانے لگے اس کے ساتھ ہی میں ان سب دوستوں کو مبارکباد دیتا ہوں جنہیں وصیت کرنے کی توفیق حاصل ہوئی اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان

Page 59

47 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ لوگوں کو بھی جو ابھی تک اس نظام میں شامل نہیں ہوئے توفیق دے کہ وہ بھی اس میں حصہ لے کر دینی و دنیوی برکات سے مالا مال ہو سکیں اور دنیا اس نظام سے ایسے رنگ میں فائدہ اٹھائے کہ آخر اسے یہ تسلیم کرنا پڑے کہ قادیان کی وہ ہستی جسے کو ردہ کہا جاتا تھا، جسے جہالت کی بستی کہا جاتا تھا اس میں سے وہ نور نکلا جس نے ساری دنیا کی تاریکیوں کو دور کر دیا جس نے ساری دنیا کی جہالت کو دور کر دیا، جس نے ساری دنیا کے دُکھوں اور دردوں کو دور کر دیا اور جس نے ہرا میر اور غریب کو ، ہر چھوٹے اور بڑے کو محبت اور پیار اور الفت با ہمی سے رہنے کی توفیق عطا فرما دی.نظام نو.انوار العلوم جلد 16 صفحہ 602,601 ) تحریک جدید نظام نو کا ایک چھوٹا سا نقشہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں تحریک جدید کا القاء فرمایا تا کہ اس ذریعہ سے ابھی سے ایک مرکزی فنڈ قائم کیا جائے اور ایک مرکزی جائیداد پیدا کی جائے جس کے ذریعہ تبلیغ احمدیت کو وسیع کیا جائے.پس تحریک جدید کیا ہے وہ خدا تعالیٰ کے سامنے عقیدت کی یہ نیاز پیش کرنے کے لئے ہے کہ وصیت کے ذریعہ تو جس نظام کو دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے اس کے آنے میں ابھی دیر ہے اس لئے ہم تیرے حضور اس نظام کا ایک چھوٹا سا نقشہ تحریک جدید کے ذریعہ پیش کرتے ہیں تا کہ اس وقت تک کہ وصیت کا نظام مضبوط ہو اس ذریعہ سے جو مرکزی جائیداد پیدا ہو اس سے تبلیغ احمدیت کو وسیع کیا جائے اور تبلیغ سے وصیت کو وسیع کیا جائے.پس جوں جوں تبلیغ ہوگی اور لوگ احمدی ہوں گے وصیت کا نظام وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے گا اور کثرت سے اموال جمع ہونے شروع ہو جائیں گے.قاعدہ ہے کہ شروع میں ریل آہستہ آہستہ چلتی ہے مگر پھر بہت ہی تیز ہو جاتی ہے اسی طرح اگر خود دوڑ نے لگو تو شروع کی رفتار اور بعد کی رفتار میں بڑا فرق ہوتا ہے.پس وصیت کے ذریعہ اس وقت جو ا موال جمع ہورہے ہیں ان کی رفتار بے شک تیز نہیں مگر جب کثرت سے احمدیت پھیل گئی اور جوق در جوق لوگ ہمارے سلسلہ میں داخل ہونے

Page 60

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 48 شروع ہو گئے اس وقت اموال خاص طور پر جمع ہونے شروع ہو جائیں گے اور قدرتی طور پر جائیدادوں کا ایک جتھا دوسری جائیدادوں کو کھینچنا شروع کر دے گا اور جوں جوں وصیت وسیع ہوگی نظام نو کا دن انشاء اللہ قریب سے قریب تر آجائے گا.غرض تحریک جدید گو وصیت کے بعد آئی ہے مگر اس کے لئے پیشرو کی حیثیت میں ہے گویا وہ نظام اس کے مسیح کے لئے ایک ایلیاہ نبی کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کے ظہور مسیح موعود کے غلبہ والے ظہور کے لئے بطور ا رہاص کے ہے ہر شخص جو تحریک جدید میں حصہ لیتا ہے وصیت کے نظام کو وسیع کرنے میں مدد دیتا ہے اور ہر شخص جو کو وسیع کرتا ہے وہ نظام نو کی تعمیر میں مدد دیتا ہے.نظام نو.انوار العلوم جلد 16 صفحہ 600,599 ) | حضرت اماں جان کے وجو دگرامی کی اہمیت تعمیر ربوہ اور مخالفین (فرمودہ 27 دسمبر 1952ء بر موقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ) بہشتی مقبره ربوہ قادیان کے بہشتی مقبرہ کا ہی ایک حصہ ہے : میرے نزدیک اس سال کا بلکہ ہماری جماعت کی تاریخ میں سے ایک خاص عرصہ کا اہم واقعہ وفات حضرت اماں جان ہے...جماعت کے بعض منافق لوگ جن کا مجھے علم ہے اور جن کی باتیں مجھے پہنچتی رہتی ہیں ان میں سے بعض دلیری سے اپنی مجالس میں اس کا ذکر کرتے رہتے ہیں.ربوہ کا بہشتی مقبرہ بنا تو ایسے لوگ اپنی مجالس میں اکثر کہتے رہتے ہیں کہ یہ بات تو عجیب ہے کہ جہاں چاہا مقبرہ بہشتی بنالیا.وہ احمق یہ نہیں سمجھتے کہ بعض لوگ ایسے مقام پر کھڑے ہوتے ہیں کہ ان کے مقبرہ بہشتی بنانے سے مقبرہ بہشتی بن جاتا ہے.تمہارا اس میں کیا اختیار ہے لیکن چونکہ میں مامور نہیں اس لئے یہ بات بار بارڈ ہرا نہیں سکتا لیکن منافق اپنی مجالس میں اس بات کا ذکر کرتے رہتے ہیں کہ یہاں بھی بہشتی مقبرہ بن گیا ہے.اب اللہ تعالیٰ نے حضرت اماں جان کو یہاں دفن کر وا دیا ہے.ایسا کیوں ہوا.اب یہ لوگ بتائیں کہ یا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ پیشگوئی غلط ہوئی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ یا آدَمُ اسْكُنُ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ -

Page 61

49 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ کیونکہ آپ خود تو قادیان میں دفن ہوئے اور حضرت اماں جان یہاں ربوہ میں دفن ہوئیں اور یا اس الہام نے یہ بتادیا ہے کہ یہ مقبرہ بھی بہشتی مقبرہ ہے اور قادیان کے بہشتی مقبرہ کا ہی ایک حصہ ہے.گویا اس بہشتی مقبرہ کے بنانے میں جو مشکل میرے سامنے آئی تھی الہی فعل نے اسے حل کر دیا.میں مامور نہیں تھا ، میری زبان بند تھی ، ہمیں ایسے مقام پر نہیں تھا کہ اس اعتراض کا جواب دے سکوں.سو خدا تعالیٰ نے حضرت اماں جان کو یہاں دفن کر کے ان لوگوں کا منہ بند کر دیا.اب انہیں یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ نَعُوذُ بِاللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام کہ يا آدَمُ اسْكُنُ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الحنة اوريا أحْمَدُ اسْكُنُ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الحَنْةَ جھوٹا تھا کیونکہ آدم وہاں دفن ہیں اور توا یہاں.احمد وہاں دفن ہیں اور ان کی بیوی یہاں اور یا پھر یہ مانا پڑے گا کہ یہ جگہ بھی بہشتی مقبرہ ہے.غرض اس الہام نے یہ واضح کر دیا کہ میرا قدم خدا تعالیٰ کی منشا کے عین مطابق تھا.اسی طرح وہ پہلی پیشگوئیوں کے بھی عین مطابق تھا.اس مقبرہ کو بلا کم و کاست وہی پوزیشن حاصل ہے جو مقبرہ بہشتی قادیان کو حاصل ہے.پورے سو فیصدی سو میں سے ایک حصہ بھی کم نہیں ورنہ یا آدَمُ اسْكُنُ أنتَ وَزَوْجُكَ الجَنَّةَ والی بات نَعُوذُ بِاللهِ جھوٹی تھی.اوپر کے الہامات کے علاوہ ایک اور الہام بھی تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوا اور وہ یہ ہے إِنِّي مَعَكَ وَ مَعَ أَهْلِكَ ـ یہ الہام 20 ستمبر 1907 کو ہوا اور تذکرہ صفحہ 677 پر درج ہے یعنی میں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں اور اہل میں سے سب سے مقدم بیوی ہوتی ہے.پھر یہی الہام 21 ستمبر 1907 کو بھی ہوا.5 نومبر 1907 کو بھی ہوا پھر 2 دسمبر 1907 کو بھی یہ الہام ہوا.گویا ایک سال کی آخری چہارما ہی میں یہ الہام چار دفعہ ہوا.اب عجیب بات یہ ہے کہ ایک تو شادی سے پہلے یہ الہامات ہوئے جن میں حضرت اماں جان کا ذکر تھا، پھر شادی کے قریب الہام ہوا، پھر یہ سلسلہ ایک لمبے عرصہ تک بند رہا.پھر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہونے والی تھی تو بیوی کا ذکر دوبارہ شروع ہو گیا.یہ کتنا بڑا ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اس کو تو ارد کون کہہ سکتا.ہے.

Page 62

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 50 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے قادیان میں پیدا کیا جو ایک گمنام بستی تھی.آپ کو ایک ایسے خاندان میں پیدا کیا جو اس زمانہ کے اعلیٰ درجہ کے خاندانوں میں سے ایک تھا پھر ایک پیر خاندان میں رشتہ کیا جو یہ دعویٰ کرتا تھا کہ ہمیں وہ کمال ملا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اور کسی کو نہیں ملا.پھر بڑی مشکل یہ تھی کہ حضرت اماں جان کے والد حضرت میر ناصر نواب صاحب اہل حدیث تھے اور حضرت مسیح موعود اہل حدیث کے نام سے گھبراتے تھے.آپ فرماتے تھے کہ ان لوگوں میں روحانیت نہیں ہوتی یہ لوگ متشكك ہوتے ہیں اس خاندان میں آپ کی شادی ہوئی.شادی سے پہلے بیوی کا ذکر الہامات میں آتا ہے لیکن جب شادی ہو جاتی ہے تو یہ ذکر ختم ہو جاتا ہے.پھر عین تمیں سال کے بعد جب حضرت مسیح موعود کی وفات کا وقت قریب آتا ہے تو پھر الہامات میں بیوی کا ذکر آجاتا ہے.یہ کون سے اتفاق کی بات ہے.یہ تو ایک بڑا ثبوت ہے اس بات کا کہ غیب کی طاقت نے یہ خبر دی.پہلے تو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی تھی.اب واقعہ کے بعد یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ اس کا کیا مطلب تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے عین قریب بیوی کا ذکر آتا ہے یعنی إِنِّي مَعَكَ وَ مَعَ أَهْلِكَ -.إِنِّي مَعَكَ وَ مَعَ اهلك کے الہامات بار بار ہوتے ہیں.اس کے صاف معنے یہ ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کی خبر دی جارہی تھی تو ساتھ ہی آپ کو یہ تسلی دی جا رہی تھی کہ تمہارے بعد تمہاری بیوی کے ہم خود کفیل ہوں گے اور حضرت اماں جان کو بھی یہ تسلی دی کہ گوتم سے تمہارا خاوند جُدا ہو گا مگر ہم خدا نہیں ہوں گے.ہم تیرے ساتھ ہوں گے اور تیرے خود کفیل ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات سے پہلے تو آپ کا ذہن اس طرف نہیں جاسکتا تھا لیکن آپ کی وفات کے بعد جو فقرہ حضرت اماں جان کی زبان پر بار بار آیا وہ یہی تھا کہ اے خدا! انہوں نے تو مجھے چھوڑ دیا ہے مگر تو مجھے نہ چھوڑنا.یہ وہی مفہوم تھا جو الہام إِنِّي مَعَكَ وَ مَعَ أَهْلِكَ میں بیان کیا گیا تھا کہ ہم تیرے ساتھ ہوں گے اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں گے اور پھر حضرت اماں جان

Page 63

51 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ کی زبان سے بھی کہلوا دیا.پھر 19 جنوری 1908 کو یہ الہام ہوتا ہے کہ اِنِّي مَعَكَ وَ مَعَ اَهْلِكَ هذه بعض متشکلکین جو ہمیشہ کریدتے رہتے ہیں کہہ سکتے ہیں کہ اس الہام میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آدم کہا ہے.اب جس طرح اس سے مراد اصل آدم نہیں اسی طرح اہل سے مراد بھی اصل بیوی نہیں بلکہ یہاں جماعت مراد ہے.پس اس الہام کے ذریعہ ایسے لوگوں کی تسلی کر دی اور الہام میں بتا دیا کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں جو یہ ہے یعنی اس بیوی کے ساتھ ہوں.جماعت تو ایک تھی دو نہیں تھیں.اس لئے ھذہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی.بیویاں دو تھیں اس لئے هذہ کہہ کر یہ بات پکی کر دی کہ یہ وعدے خاص حضرت اماں جان کے ساتھ ہیں.پھر 19 مارچ 1907 کو خواب میں دیکھا حضرت اماں جان آئی ہیں اور آپ کہتی ہیں کہ "میں نے خدا کی مرضی کے لئے اپنی مرضی چھوڑ دی ہے یہ بھی اسی طرف اشارہ تھا کہ تم وفات پاؤ گے اور یہ صبر کا پورانمونہ دکھا ئیں گی.آپ کہتے ہیں کہ میں نے ان کو جواب میں کہا اس سے تو تم پر خحسن چڑھا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارے اس فعل کو پسند کر کے تمہیں درجہ اور زینت عطا کی ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام تھا کہ "اسی یا اس پر پانچ چار زیادہ یا پانچ چار کم اس الہام پر بعض غیر احمدی ملنٹے اعتراض کرتے ہیں کہ یہ خدا کا کلام نہیں.خدا تعالیٰ کو تو شک نہیں پڑتا.کیا خدا تعالیٰ کو 85 یا 75 اور 76 کے ہند سے نہیں آتے.یہ کیا الہام ہے کہ "استی یا استی پر پانچ چار زیادہ یا پانچ چار کم " یہ خدا تعالیٰ کا کلام نہیں لیکن یہ مولوی بھول جاتے ہیں کہ نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَالِكَ یہ غلطی خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی کی ہے کیونکہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ حضرت یونس کی نسبت فرماتا ہے وَاَرْسَلْنَهُ إِلى مِائَةِ أَلْفِ اَو يَزِيدُونَ یونس کو ہم نے لاکھ یا شاید لاکھ سے کچھ زیادہ کی طرف بھیجا.اب کیا خدا تعالیٰ کو لاکھ کا ہندسہ نہیں آتا تھا.جس خدا کو لاکھ کا ہندسہ نہیں آتا اس کو اسی کا ہندسہ بھی بھول سکتا ہے.کوئی بات نہیں.اصل سوال تو بھول چوک ہے.جب بھول چوک ثابت ہو گئی تو اسی اور لاکھ کا کیا سوال ہے.

Page 64

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 52 دراصل یہ حماقت کی بات ہے.یہاں کلام میں تحسین پیدا کرنے کے لئے ایسا کیا گیا ہے.حسن کلام کے لئے ڈیفینیٹ (DEFINITE) بات پہلے بیان نہیں کی بلکہ الفاظ سے اس طرف اشارہ کر دیا ہے کہ تم اسے لاکھ کہہ لو یا لاکھ سے زیادہ کہہ لو.مطلب یہ ہے کہ ہیں زیادہ.تو ایسے موقع پر اعداد کو ہ بیان نہیں کیا جاتا.اگر خدا تعالیٰ یہاں لاکھ کہہ دیتا تو لوگ کہتے اس کا ثبوت دو کہ وہ واقعی ایک لاکھ تھے.پس ایک طرف لاکھ یا کچھ زیادہ کہ کر کلام میں حُسن پیدا کر دیا اور دوسرے اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں کر سکتا کیونکہ یہ اندازہ ہے اور اندازہ پر کوئی کیا اعتراض کرے گا.پس اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے حُسنِ کلام کے لئے قرآن کریم میں مائةِ ألف أو يَزِيدُون لاکھ یالا کھ سے کچھ زیادہ کہا ہے.اسی طرح یہاں بھی حُسنِ کلام کے لئے یہ طریق اختیار کیا گیا ہے لیکن اس کا ایک دوسرا جواب بھی ہے جو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے يا أَحْمَدُ اسْكُنُ أنتَ وَزَوْجُكَ الجَنَّةَ کہہ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اماں جان کو ایک قبر میں دفن کیا ہے اور دونوں کو ایک جگہ رکھا ہے گویا دونوں وجودوں کو ایک وجود قرار دیا ہے اور عمر کے الہام میں دونوں ہی کی عمر بتائی گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام 75 سال کی عمر میں فوت ہوئے یعنی استی سے پانچ سال کم اور حضرت اماں جان 85 سال کی عمر میں فوت ہوئیں یعنی اتنی سے پانچ سال زیادہ.گویا الہام میں جو وحدت وجود بتائی گئی تھی اس سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اماں جان دونوں کے وجود ہیں.ایک اسی سال سے پانچ سال پہلے فوت ہو جاتا ہے اور ایک اسی سے پانچ سال بعد فوت ہوتا ہے گو یا الہام میں جس وجود کو ثو“ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا تھا اس کا ایک حصہ اسی سے پانچ سال کم میں فوت ہو گیا اور ایک حصہ اسی سے پانچ سال زیادہ عمر پا کر فوت ہو گیا اب یہ کتنی زبر دست پیشگوئی بن جاتی ہے اور کس طرح اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دراصل یہ دو پیشگوئیاں ہیں اور اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ جس وجود کو ہم نے ایک قرار دیا تھا اس کا ایک حصہ اسی سے پانچ سال کم عمر پا کر فوت ہو گیا اور ایک حصہ اسی سے پانچ سال زیادہ عمر میں فوت ہو گیا.اب یہ کسی کے اختیار کی بات نہیں تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام 75 سال کی عمر میں

Page 65

53 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ فوت ہوئے اور آپ کی بیوی جو مریض تھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کا لٹریچر آپ کی مرض سے بھرا پڑا ہے وہ تو 85 سال کی عمر میں فوت ہوں.اس الہام کے یقیناً یہی معنے ہیں کہ اس کے ایک حصہ میں ایک کی موت کی خبر دی گئی ہے اور دوسرے حصہ میں دوسرے کی موت کی خبر دی گئی ہے.(انوار العلوم جلد 23 صفحہ 79 تا 91 ) تعلق با اللہ (فرمودہ 28 دسمبر 1952 ء بر موقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد اصل تقریرہ تعلق بااللہ سے قبل بعض ضروری امور کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا..بہشتی مقبرہ ربوہ کا مقام میں اصل تقریر سے قبل یہ بھی کہ دینا چاہتا ہوں کہ ربوہ کے بہشتی مقبرہ کے متعلق ایک دوست نے سوال کیا ہے کہ جب حضرت اماں جان کی نعش مبارک کو قادیان کے بہشتی مقبرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ دفن کر دیا جائے گا تو اس وقت ربوہ کے بہشتی مقبرہ کی کیا حیثیت رہ جائے گی ؟ یہ سوال تو بالکل سادہ تھا اور اگر کوئی نئی چیز ہوتی تو انہیں پوچھنے کی ضرورت بھی ہوتی مگر پھر بھی میں یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ اسلام میں یہ طریق جاری ہے چنانچہ دیکھ لو مقام ابراہیم مکہ میں ہے مگر حضرت ابراہیم مکہ سے چلے گئے اور بیت المقدس میں دفن ہوئے مگر باوجود اس کے ہم اسے صرف خانہ کعبہ نہیں کہتے بلکہ مقام ابراہیم بھی کہتے ہیں کیونکہ نبی تو دنیا میں آتے اور فوت ہو جاتے ہیں مگر ان کے چلے جانے کی وجہ سے کسی مقام کی برکات نہیں جاتیں چنانچہ کل ہی میں نے بتایا تھا کہ کسی مقدس مقام کی برکت کبھی نہیں جاتی اور جس مقام پر ایک دفعہ اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو جائے تو چونکہ اس مقام نے گناہ نہیں کرنا ہوتا اس لئے وہ فضل چلتا چلا جاتا ہے.باپ بڑا نیک ہو اور بیٹا بُرا ہو تو برکت مٹ جائے گی.مگر جس مقام پر دعائیں کی گئی ہوں اور جہاں خدا نے اپنے

Page 66

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 54 فضل کی بارشیں نازل کی ہوں اس مقام کی برکات کبھی مٹ ہی نہیں سکتیں.آپ لوگوں نے یہ کیوں سمجھا کہ خدا تعالیٰ کے پاس اتنی تھوڑی برکتیں ہیں کہ اگر وہاں برکتیں نازل کرے گا تو یہاں نہیں کرے گا.وَمَا يَعْلَمُ جُنُودُرَتِكَ إِلَّا هُوَ خدا تعالیٰ کے فضل تو اس قدر ہیں کہ اگر زمین کا چپہ چپہ بھی بہشتی مقبرہ بن جائے تو پھر بھی وہ فضل بچاہی رہے گا.ہمیں تو یقین ہے کہ آپ کی نعش قادیان جائے گی.مگر وہ صرف اپنی برکتیں لے جائے گی اس مقام پر اسی طرح اس کی برکتیں نازل ہوتی رہیں گی جس طرح اب نازل ہو رہی ہیں.آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پیدا ہوئے مگر مدفون مدینہ میں ہیں.پس جو خدا مکہ سے اپنی برکتوں کو بچا کر مدینہ لے گیا اور اس نے مدینہ کو بھی با برکت کر دیا اسی خدا نے اس زمانہ میں قادیان کو بھی بابرکت کیا اور پھر قادیان کی برکتوں سے بچا کر اس نے ربوہ کو بھی بابرکت کر دیا.اس قسم کے خیالات محض لوگوں کے اپنے اندازوں پر مبنی ہوتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح ہم غریب ہیں اسی طرح نَعُوذُ بِاللہ خدا بھی غریب ہے.لطیفہ مشہور ہے کہ مسلمانوں کی بادشاہی کے زمانہ میں ایک نائی جو امرا کی حجامتیں بنایا کرتا تھا اسے ایک دفعہ کسی امیر نے دوسو اشرفی انعام دے دی.چونکہ دوسو اشرفی کی تھیلی اسے یکدم ملی اس لئے وہ ہر وقت اسے اچھالتا رہتا اور جب بھی کوئی شخص ملتا اور پوچھتا کہ سنائے شہر کا کیا حال ہے تو وہ کہتا کہ بغداد کا کوئی ہی بدقسمت ہوگا جس کے پاس دوسو اشرفی بھی نہ ہو.چونکہ وہ امراء کا نائی تھا اس لئے وہ تھیلی کے متعلق زیادہ احتیاط نہیں کرتا تھا.ایک دفعہ کسی امیر کو مذاق سوجھا اور اس نے چپکے سے وہ تھیلی کھسکا لی.اب وہ کسی سے پوچھ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ ڈرتا تھا کہ امراء اسے کہیں گے کہ تو ہم پر چوری کا الزام لگاتا ہے مگر دوسری طرف اسے صدمہ بھی سخت تھا.آخر غم کے مارے وہ بیمار ہو گیا.جب لوگ اسے پوچھنے جاتے اور دریافت کرتے کہ بتلائیے اب شہر کا کیا حال ہے تو وہ کہتا کہ شہر کا کیا پوچھتے ہو وہ تو بھو کا مر رہا ہے.آخر اس امیر نے تھیلی نکال کر دے دی اور کہا شہر کو بھوکا نہ مارو اور اپنی تھیلی لے لو.پس اپنی کمزوریوں پر خدا تعالیٰ کی رحمتوں کا کیوں اندازہ لگاتے ہو.خدا تعالیٰ تو یہ چاہتا ہے کہ جگہ جگہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مثیل اور خادم پیدا ہوں.خدا تعالیٰ تو یہ چاہتا ہے کہ ہم جگہ جگہ مقام ابراہیم پیدا کر دیں، خدا تعالیٰ تو یہ چاہتا ہے کہ ہم دنیا کے کونے کونے

Page 67

55 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ میں مدینے قائم کر دیں، خدا تعالیٰ تو یہ چاہتا ہے کہ ہم دنیا کے کونے کونے میں قادیان قائم کر دیں اور سمجھتے ہو کہ خدا تعالیٰ کے پاس جتنی برکتیں تھیں وہ اس نے صرف ایک مقام پر ہی نازل کر دی ہیں.حالانکہ وہ خود کہتا ہے کہ آگے بڑھو اور میری برکتوں سے حصہ لو.روکیں تم نے خود کھڑی کر لی ہیں کہ تم کہتے ہو ہم مقام ابراہیم تک نہیں پہنچ سکتے.ہم ان برکتوں کے وارث نہیں ہو سکتے جن برکتوں سے پہلے لوگوں نے حصہ پایا.پس اگر تم خود ہی ان برکتوں کو نہ لو تو تمہاری مرضی.تم خود پیچھے ہٹتے ہو اور کہتے ہو کہ یہ نہیں ہو سکتا اور وہ نہیں ہو سکتا.میں نے ایک دفعہ تقریر میں کہہ دیا کہ ہر مؤمن کو ایک چھوٹا محمد بنے کی کوشش کرنی چاہئے.اس پر مخالفین نے شور مچادیا کہ ہتک ہوگئی ، ہتک ہوگئی.حالانکہ جب کسی کی اقتداء کرنے کے لئے کہا جائے گا تو ہمیشہ کسی نیک اور پاک آدمی کا نام ہی لیا جائے گا.شیطان کا نام تو نہیں لیا جائے گا.پس سوال یہ ہے کہ آخر ہم کیا کہیں؟ اگر یہ کہیں کہ ابلیس بنوتب مصیبت ہے اور اگر کہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مثیل بنوتب مصیبت ہے.یہ تو ویسی ہی مثال ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی امیر سفر کے لئے نکلا تو اس نے اپنے ساتھ ایک میراثی لے لیا.ایک جگہ پہنچے تو بارش آگئی اور چھت ٹپکنے لگ گئی.میراثی نے کہیں سے چار پائی لی، چوہدری صاحب کو اس پر بٹھایا اور آپ سرک کر اس کی پاکتی پر بیٹھ گیا.چوہدری صاحب نے اس کو دو چار تھپڑ لگائے اور کہا کم بخت تو ہمارا مقابلہ کرتا ہے اور ہمارے ساتھ ایک چارپائی پر بیٹھتا ہے.آگے چلے تو بیٹھنے کے لئے چار پائی بھی نہ ملی وہ کہیں سے ایک گسی لایا اور اس نے زمین کھودنی شروع کر دی.کسی نے اس سے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ اُس نے کہا بات یہ ہے کہ چوہدری صاحب کے برابر تو میں بیٹھ نہیں سکتا، اب یہ زمین پر بیٹھے ہیں تو میرے لئے یہی صورت رہ گئی ہے کہ میں زمین کھود کر ان سے بھی نیچے بیٹھوں.یہی حال ان لوگوں کا ہے.شیطان کہو تب غصہ آتا ہے، محمد رسول اللہ کہو تب غصہ آتا ہے.حالانکہ انسان یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مثیل بنے گا یا شیطان کا.پس انسان حیران ہوتا ہے کہ وہ کہے کیا.غرض اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ تم سارے نبیوں کی برکتیں لو لیکن انسان آپ کمزوری دکھاتا ہے اور کہتا ہے یہ نہیں ہوسکتا، وہ نہیں ہوسکتا.پس میں یہ تو نہیں کہتا کہ ان کی نعش قادیان نہیں جائے گی، جائے گی اور ضرور جائے گی مگر جو برکتیں یہاں

Page 68

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 56 نازل ہو رہی ہیں وہ نازل ہوتی چلی جائیں گی.دیکھو صحابہؓ اس نکتہ کو سمجھتے تھے چنانچہ نماز اور دعا تو الگ رہی وہ اس مقام سے بھی برکت ڈھونڈتے تھے جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی پیشاب کیا ہو.حضرت عبداللہ بن عمر جب بھی حج کے لئے جاتے تو ایک مقام پر وہ خاص طور پر تھوڑی دیر کے لئے قافلہ کو ٹھہراتے اور پیشاب کے لئے بیٹھ جاتے.انہوں نے دو تین حج کئے تھے.ایک صحابی کہتے ہیں میں نے ایک دفعہ دیکھا تو جہاں وہ پیشاب کے لئے بیٹھے تھے وہ جگہ بالکل خشک تھی.میں نے ان سے کہا کہ آپ نے ہمارا اتنا حرج کیا.اگر آپ کو پیشاب آیا نہیں تھا تو آپ نے قافلہ کو ٹھہرایا کیوں، آپ یہاں بیٹھے کس لئے ؟ وہ کہنے لگے یہ بات نہیں اصل بات یہ ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا تو میں نے دیکھا کہ اس مقام پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب کیا تھا.پس میں جب بھی یہاں سے گزرتا ہوں میں کہتا ہوں کہ موقع جانے نہ پائے اور خواہ مجھے پیشاب آیا ہو یا نہ آیا ہو میں یہاں تھوڑی دیر کے لئے برکت حاصل کرنے کے لئے بیٹھ جاتا ہوں.تو صحابہ یہ سمجھتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر کام میں نقل ان کے لئے برکت کا موجب ہے اور در حقیقت یہ بات ہے بھی درست.جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے ، جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے اور جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کام کئے وہاں برکتیں ہی برکتیں ہیں.دیکھو، آپ لوگ ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام پیش کیا کرتے ہیں کہ: " بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے " حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جسم سے آپ کے کپڑے لگے اور وہ بابرکت ہو گئے.پھر اگر کسی زمین پر کوئی مقدس انسان رہے تو وہ کیوں بابرکت نہیں ہوگی.حقیقت یہ ہے کہ روحانی دنیا میں اس کی اتنی مثالیں موجود ہیں کہ یہ سوال ہر شخص کو خود ہی سمجھ لینا چاہئے تھا اور اس بارہ میں کسی سوال کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرنی چاہئے تھی.(انوار العلوم جلد 23 صفحہ 118 تا 122 )

Page 69

57 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ مزار مسیح موعود اور تڑپا دینے والے خیالات جس دن صبح کے وقت چلنا تھا.اس دن رات کے وقت ایک بجے میں اپنے بعد کام کے چلانے کے متعلق ہدایات لکھنے سے فارغ ہوا اور صبح عزیزم عبد السلام ولد حضرت خلیفہ اول کو جو بیمار تھے دیکھ کر اس آخری خوشی کو پورا کرنے کے لئے چلا گیا.جو اس سفر سے پہلے میں قادیان میں حاصل کرنی چاہتا تھا.یعنی آقائی و سیدی و راحتی و سروری و حبیبی مرادی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مزار مبارک پر دعا کرنے کے لئے ایک بے بس عاشق اپنے محبوب کے مزار پر عقیدت کے دو پھول چڑھانے اور اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں دعا کر دینے کے سوا اور کیا کرسکتا ہے.سواس فرض کو ادا کرنے کرنے کے لئے میں وہاں گیا.مگر آہ! وہ زیارت میرے لئے کیسی افسردہ کن تھی.اس میں کوئی شک نہیں کہ مردے اس مٹی کی قبر میں نہیں ہوتے بلکہ ایک اور قبر میں رہتے ہیں.مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس مٹی کی قبر سے بھی ان کو ایک تعلق رہتا ہے اور پھر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ انسانی دل اس قرب سے بھی جو اپنے پیارے کی قبر سے ہو.ایک گہری لذت محسوس کرتا ہے.پس یہ جدائی میرے لئے ایک تلخ پیالہ تھا اور ایسا تلخ کہ اس کی تلخی کو میرے سوا کوئی نہیں سمجھ سکتا.میرے زندگی کی بہت بڑی خواہشات میں سے ہاں ان خواہشات میں سے جن کا خیال کر کے بھی میرے دل میں سرور پیدا ہو جاتا تھا.ایک یہ خواہش تھی کہ جب میں مر جاؤں.تو میرے بھائی جن کی محبت میں میں نے عمر بسر کی ہے اور جن کی خدمت میر اواحد شغل رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عین قدموں کے نیچے میرے جسم کو دفن کر دیں تا کہ اس مبارک وجود کے قرب کی برکت سے میرا مولا مجھ پر بھی رحم فرمادے ہاں شاید اس قرب کی وجہ سے وہ عقیدت کیش احمدی جو جذبہ محبت سے لبریز دل کو لے کر اس مزار پر حاضر ہو.میری قبر بھی اس کو زبان حال سے یہ کہے کہ ع اے خانہ براند از چمن کچھ تو ادھر بھی اور وہ کوئی کلمہ خیر میرے حق میں بھی کہہ دے جس سے میرے رب کا فضل جوش میں آ کر میری کوتاہیوں پر سے چشم پوشی کرے اور مجھے بھی اپنے دامنِ رحمت میں چھپا لے.آہ! اس کی غنامیرے دل کو

Page 70

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 58 کھائے جاتی ہے اور اس کی شان احدیت میرے جسم کے ہر ذرہ پر لرزہ طاری کر دیتی ہے.پس میں سمجھتا تھا کہ شاید یہ جسمانی قرب روحانی قرب کا موجب بن جائے.اللہ تعالیٰ کے فضل تو سب ہی کچھ کر سکتا ہے.مگر اپنی شامت اعمال اور صحت کی کمزوری دل کو شکار اوہام بنا دیتے ہیں.پس میری جدائی حسرت کی جدائی تھی کیونکہ میں دیکھ رہا تھا کہ میری صحت جو پہلے ہی کمزور تھی.پچھلے دنوں کے کام کی وجہ سے بالکل ٹوٹ گئی ہے.میرے اندر اب وہ طاقت نہیں جو بیماریوں کا مقابلہ کر سکے.وہ ہمت نہیں جو مرض کی تکلیف سے مستغنی کر دے.ادھر ایک تکلیف دہ سفر در پیش تھا جو سفر بھی کام ہی کام کا پیش خیمہ تھا اور ان تمام باتوں کو دیکھ کر دل ڈرتا تھا اور کہتا تھا کہ شاید کہ یہ زیارت آخری ہو.شاید وہ امیدحسرت میں تبدیل ہونے والی ہو.سمندر پار کے مردوں کو کون لاسکتا ہے.ان کی قبریا سمندر کی تہ اور مچھلیوں کا پیٹ ہے یا دیار بعیدہ کی زمین جہاں مزار محبوب پر سے ہو کر آنے والی ہوا بھی تو نہیں پہنچ سکتی.اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک وہم تھا.کون کہہ سکتا ہے کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے ہم اللہ تعالیٰ کے فضل کے ہی امیدوار ہیں اور میں تو کبھی اس سے مایوس نہیں ہوا.میں اس کا بندہ ہوں اور میرا حق ہے کہ میں اس سے مانگوں اور وہ میرا رب ہے اور اس کی شان ہے کہ وہ مجھے دے.مگر عشق است و بهزار بدگمانی عشق اور محبت و ہم پیدا کیا ہی کرتے ہیں اور خصوصاً اس قدر لمبا سفر اور ایسی تکلیف کا سفر اور صحت کی خرابی ایسے قوی موجبات ہیں کہ جن کے سبب سے ایسے و ہم بالکل طبعی ہیں.الفضل قادیان 16 اگست 1924 صفحه (4) جوں جوں ہم قربانیاں کرتے چلے جائیں گے توں توں ہمیں تزکیہ اور طہارت حاصل ہوتی چلی جائے گی فرموده 22 جون 1926 ) چند دن ہوئے میں نے سنا بعض لوگ کہتے ہیں حضرت مسیح موعود نے تو لکھا ہے تین ماہ میں اگر ایک پیسہ بھی چندہ دیدو تو کافی ہے.مگر یہاں آپ لحظه بلحظہ اسے بڑھا رہے ہیں.ایک آنہ فی روپیہ ماہوار

Page 71

59 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ آمد پر چندہ کر دیا گیا ہے.اور ابھی اور بھی بڑھانے کا خیال ہے.یہ ٹھیک ہے کہ حضرت مسیح موعود نے ایسا ہی فرمایا ہے.اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ بعد میں آنے والوں نے چندہ کی شرح بڑھا دی.مگر دیکھنا یہ ہے کہ ایسا کیوں کیا جاتا ہے.میں پہلے بتا چکا ہوں کہ مثیل موسٹی کی ترقی جلد ہوتی ہے اور مثیل عیسی کی بتدریج.اور چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مثیل عیسی ہیں.اس نئے یا آپ کے سلسلہ کی ترقی بھی آہستگی کے ساتھ ہونی ہے اور جب ترقی آہستگی کے ساتھ ہونی ہے تو عیسوی سلسلے کی طرح اس کی قربانی بھی آہستہ آہستہ ہوگی جو آہستہ آہستہ بڑھتی رہے گی.اس وجہ سے ضروری ہے کہ مالی قربانی میں دن بدن اضافہ ہو.اسی طرح وصیت کا حصہ ہے.اس کے متعلق بھی کہا گیا ہے کہ یونہی اس کی شرح بڑھائی جارہی ہے.مگر اس کے متعلق بھی سوچنا چاہیے کہ اگر حضرت مسیح موعود کے وقت وہ شرح نہیں تھی جواب ہے.اور جس پر لوگ وصیتیں کر رہے ہیں.تو یہ بھی اسی اصل کے ماتحت ہے کہ یہ ترقی آہستگی کے ساتھ ہوئی تھی.اور جوں جوں قربانیاں بڑھ رہی ہیں تزکیہ اور طہارت بھی بڑھتی چلی جاتی ہے اور ایمانی حالت میں ترقی ہوتی چلی جارہی ہے.جو پھر الٹ کر زیادہ قربانی کرنے کا باعث ہوتی ہے.مجھے اگر سلسلے کی ترقی کے لئے مال زیادہ جمع کرنے کا شوق ہے تو اس سے ہماری جماعت ہی کی شان بڑھتی چلی جاتی ہے.کیونکہ قربانی میں ترقی کرنے سے ہماری ایمانی حالت اور اخلاص لوگوں کے سامنے آتا ہے.حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں اس درجہ پر جماعت کی حالت نہیں آئی تھی جس درجہ پر اب ہے اور جس درجہ پر کھڑے ہو کے جماعت کے تمام افراد یکدم بڑی بڑی قربانیاں کر سکتے.مگر اب جوں جوں زمانہ گذرتا جاتا ہے ایمان اس رنگ میں آتا جاتا ہے جو حضرت مسیح موعود پیدا کرنا چاہتے تھے.اور گو یہ حالت قربانیوں سے ہی پیدا ہو رہی ہے جو آہستہ آہستہ ہو رہی ہیں.وو سہو کتابت.لفظ ” لیے درست معلوم ہوتا ہے

Page 72

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 60 مگر جب یہ حالت پیدا ہو رہی ہے تو اس کا یہ بھی تو تقاضا ہے کہ پہلے سے بڑھ کر قربانیوں کی تحریک کرے پس چندہ اور وصیت وغیرہ کی شرح کا بڑھتا چلا جانا.ایمانی حالت کے ترقی یافتہ ہونے کے نتیجے میں ہے گو یہ ترقی قربانیوں سے حاصل ہو رہی ہے مگر یہ ترقی قربانیوں کے لئے بھی تو ہمت دلا رہی ہے.کہنے والے یہ تو کہہ دیتے ہیں کہ شرح چندہ بڑھائی جا رہی ہے مگر یہ نہیں دیکھتے کہ اس طرح ان کی ایمانی حالتوں کی تصدیق کی جارہی ہے.آخر حضرت مسیح موعود نے کثرت سے مال آنے کے متعلق بھی تو ارشاد فرمایا ہے.کیا اگر جماعت نے اسی حالت پر رہنا ہوتا جس حالت میں وہ حضرت مسیح موعود کے وقت میں تھی تو حضرت مسیح موعود کہہ سکتے تھے کہ کثرت سے مال آئیں گے؟ حضرت صاحب کا یہ کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ جماعت آہستہ آہستہ ترقی کرتی چلی جائے گی اور آخر اس مقام تک پہنچ جائے گی کہ مالوں کی قربانیوں کی ان کے سامنے کوئی حقیقت نہ رہے گی.قرآن شریف میں آتا ہے کہ دس کا فروں کے مقابلہ میں ایک مسلمان کافی ہے اور مسلمانوں کو کہا بھی گیا ہے کہ تم میں سے ایک ایک کو دس دس کا مقابلہ کرنا پڑے گا.مگر باوجود اس کے آنحضرت مالی کے کسی غزوہ میں بھی یہ حالت نہیں ہوئی کہ ایک مسلمان کو دس کا فروں کا مقابلہ کرنا پڑا ہو.زیادہ سے زیادہ ایک مسلمان کو 1/4-3 کافروں کا مقابلہ کرنا پڑا.ہاں حضرت عمرؓ کے وقت میں دس سے بھی زیادہ کا مقابلہ کرنا پڑا.چنانچہ مسلمان ایک جنگ پر گئے ہوئے تھے ابو عبیدہ جرنیل تھے.مسلمانوں کی تعداد کم تھی.ابو عبیدہ نے حضرت عمرؓ کو پیغام بھیجا کہ مرد بھیجی جائے.انہوں نے کہلا بھیجا میں عقبہ کو بھیجتا ہوں.عقبہ ہزار آدمی کے برابر ہے.سمجھ لو کہ ہزار آدمی بھیج دیا.تو حضرت عمر آنحضرت علی سے بڑھ کر قربانی نہیں چاہتے تھے.بلکہ بات یہ تھی کہ آنحضرت ﷺ کے وقت میں وہ حالات پیدا نہیں ہوئے تھے جو حضرت عمرؓ کے وقت میں پیدا ہو گئے تھے اور ادھر مسلمان بھی ترقی کر گئے.بعض وقت ایک عمل ہوتا ہے جو دوسرے دل میں رعب ڈال دیتا ہے اگر انسان خطرہ کے وقت اپنے حواس بجار کھے اور اپنی Accumulative Power کا بجا استعمال کرے.تو ایسا کام بھی کر

Page 73

61 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ لیتا ہے جو اس کی دھاک بٹھا دیتا ہے.خواہ وہ کمزور ہی کیوں نہ ہو.حضرت مسیح موعود فرماتے تھے.رستم کے گھر میں ایک دفعہ چور آیا وہ رستم سے زیادہ طاقتور تھا لیکن رستم کا نام چونکہ طاقت میں مشہور تھا.چور کو اس سے کبھی طاقت آزمائی کا موقعہ نہ ملا تھا اس دن جب رستم نے پکڑا تو اس نے رستم کو گرا لیا.اور اس کی چھاتی پر چڑھ بیٹھا اس پر رستم نے چلا کر کہا آ گیا رستم ! آ گیا رستم ! یہ سنکر چور بھاگ گیا.یہ رستم کے نام کا اثر تھا کہ اس نے ایسے طاقتور کو بھگا دیا جس نے رستم کو گرایا ہوا تھا.تو عقبہ کا معاملہ بھی ایک طرح پر اسی رنگ کا ہے.عقبہ بڑا بہادر تھا.اور حضرت عمرؓ کے یہ کہلا بھیجنے پر کہ یہ ہزار آدمی کے برابر ہے مسلمانوں کے دل میں تسلی پیدا ہوگئی.دنیا میں جب کوئی انسان کوئی کام کرتا ہے تو اسے اس کے لئے طاقت بھی مل جاتی ہے یہی حال یہاں بھی ہے.لیکن کام کرنے کا عزم ہونا چاہیے.پس ہماری جماعت جو کام کرنے کے لئے خدا نے قائم کی ہے کیونکر ہو سکتا ہے کہ اگر وہ کوئی کام کرنا چاہے تو اسے اس کی طاقت نہ ملے لیکن کام حالات کے لحاظ سے کئے جاتے ہیں.چونکہ ابتدائی حالات کمزور ہوتے ہیں اس لئے ابتدائی کام بھی ہلکے ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ابتدائی مطالبوں اور آجکل کے مطالبوں میں فرق نظر آتا ہے.پہلے جو مطالبہ کیا گیا وہ اس کی پہلی حالت کے مطابق تھا پھر جو کیا گیا تو وہ اسکی دوسری حالت کے مطابق تھا.اسی طرح جیسے جیسے حالت ترقی کرتی چلی گئی.مطالبے بھی بڑھتے چلے گئے پس یہ تو صحیح نہیں کہ حضرت مسیح موعود سے بڑھ کر مجھے اشاعت کا شوق ہے اور ان سے بڑھ کر مجھے دین کی خدمت کرنے کا خیال ہے.حضرت مسیح موعود سے بڑھ کر اشاعت اور خدمت دین کا شوق کسے ہوسکتا ہے؟ حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں جاہلیت زیادہ تھی لوگ بالکل ابتدائی حالت میں تھے.لیکن میرے زمانہ میں جو لوگ ہیں وہ حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفہ اول (اللہ آپ سے راضی ہو ) کے تربیت یافتہ ہیں اس لئے اگر ان سے کوئی زیادہ مطالبات کئے جاتے ہیں تو وہ ان کی ترقی یافتہ حالت کے لحاظ سے ہیں اور پھر ان کو اور بھی ترقی دینے کے لئے ہیں.دیکھو اگر ایک مالک بیمار خادم سے تھوڑا سا کام لے کر اسے چھوڑ دے

Page 74

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 62 اور ایک داروغہ اس سے سارا دن کام لے جبکہ وہ تندرست ہے تو کوئی یہ اعتراض نہیں کر سکتا کہ دیکھو جی مالک تو تھوڑا سا کام لے کر چھوڑ دیتا تھا لیکن داروغہ اس سے سارا دن کام لیتا ہے.اس کا یہ جواب ہے کہ اس وقت وہ بیمار تھا اور زیادہ کام نہیں کر سکتا تھا لیکن اس وقت تندرست ہے اور سارا دن کام کرنے کے قابل ہے یہی حال ہماری جماعت کا ہے کہ ابتداء میں وہ ایسی قربانیاں نہیں کر سکتی تھی جیسی اب کر سکتی ہے.اور ایک زمانہ آرہا ہے کہ اس میں جو قربانیاں ہماری جماعت کر سکے گی آج نہیں کر سکتی.پس جن دوستوں نے یہ خیال کیا ہے کہ میں حضرت مسیح موعود سے زیادہ خدمت دین کا شوق رکھتا ہوں یا میں نے آپ کی مقرر کی ہوئی حد سے تجاوز کیا ہے یا میں نے چندوں اور وصیتوں کی شرح میں اپنی طرف سے اضافہ کر دیا ہے.انہوں نے غلطی کی ہے جو اس قسم کے خیال کو دل میں جگہ دی ہے ایسے خیالات ترقی کے راستے میں روک ہو جاتے ہیں پس اگر میں اللہ تعالیٰ کی اس منشاء کو دیکھتے ہوئے کہ ان سلسلوں کی ترقی ان کی قربانیوں کی طرح آہستہ آہستہ ہوتی ہے جو عیسوی مماثلت رکھتے ہیں اس تدریجی ترقی کے ساتھ ساتھ قدم نہ بڑھاؤں تو یہ ایک خلاف قدرت فعل ہوگا.اور ہر وہ فعل جو خلاف قدرت ہو خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہوتا ہے.اور اس کے کرنے سے کوئی شخص خدا کو خوش نہیں کر سکتا.حضرت صاحب نے جو کچھ کیا وہ تمہاری ابتدائی حالت کو مد نظر رکھ کر کیا مگر اب تمہاری ابتداء نہیں.اب خالی ایمان ہی نہیں بلکہ دس یا ہیں یا تمہیں سال کی مجموعی طاقت بھی ساتھ ہے اس لئے آج جس قربانی کی امید تم سے کی جاسکتی ہے اس وقت نہیں کی جاسکتی تھی.اور جیسا کہ میں نے بتایا جو مثیل موسی نبی تھے ان میں پہلے تزکیہ اور طہارت اور بعد میں قربانیاں ہوتی ہیں.اور جو مثیل مسیح ہیں ان میں تزکیہ قربانیوں کے بعد ہوتا ہے یہی اصول یہاں بھی جاری ہے کیونکہ یہ ظاہر ہے کہ حضرت صاحب مثیل مسیح ہیں.پس ہمارا تزکیہ قربانیوں کے بعد ہے.جوں جوں ہم قربانیاں کرتے چلے جائیں گے توں توں ہمیں تزکیہ اور طہارت حاصل ہوتی جائے گی.اور جتنی دیر ہم قربانیوں میں لگائیں گے اتنی دیر ہمیں تزکیہ حاصل کرنے میں ہوگی.پس اگر تز کیہ چاہتے ہو تو قربانی میں جلدی کرو.خطبات محمود جلد 2 صفحہ 98 تا 102 )

Page 75

63 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ جماعت کو وصیت کی اہمیت بتائی جائے (فرموده 7 مئی 1926) وصایا کی آمد غیر معمولی آمد ہے.ایک آدمی فوت ہو جاتا ہے.جس کی دس لاکھ کی جائیداد ہوتی ہے.اس کی جائیداد سے اگر ایک لاکھ روپیہ آجائے.تو یہ غیر معمولی آمد ہوگی....جماعت کو وصیت کی اہمیت بتائی جائے اور بتایا جائے کہ یہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ طریق ہے.تو میں سمجھتا ہوں کہ ہزاروں آدمی جنہیں تاحال اس طرف توجہ نہیں ہوئی وصیت کے ذریعہ اپنے ایمان کامل کر کے دکھائیں گے اور دوسرے اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وصیت کی تحریک خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.اور اس کے ساتھ بہت سے انعامات وابستہ ہیں.ابھی تک جنہوں نے وصیت نہ کی ہو وہ کر کے اپنے ایمان کے کامل ہونے کا ثبوت دیں.کیونکہ حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے جو شخص وصیت نہیں کرتا مجھے اس کے ایمان میں شبہ ہے.پس وصیت معیار ہے ایمان کے کامل ہونے کا.(خطبات محمود دجلد 10 صفحہ 167,166 ) | دسویں حصہ کی وصیت اقل ترین معیار ہے اصل وصیت ۱/۳ کا نام ہے (فرموده 7 مئی 1926) دسویں حصہ کی وصیت اقل ترین معیار ہے یعنی یہ تھوڑے سے تھوڑا حصہ ہے جو وصیت میں دیا جاسکتا ہے.مگر مومن کو یہ نہیں چاہیے کہ چھوٹے سے چھوٹے درجہ کا مؤمن بنے کی کوشش کرے بلکہ بڑے سے بڑے درجہ کا مومن بننا چاہیے.یہ درست ہے کہ رشتہ داروں اور لواحقین کو مدنظر رکھ کر کہا گیا ہے که ۳ ا حصہ سے زیادہ وصیت میں نہ دے.لیکن یہ نہیں کہا گیا کہ دسویں حصہ سے زیادہ وصیت نہ دے.مگر دیکھا گیا ہے کہ اکثر دوست۱/۱۰ حصہ کی وصیت کرنے پر کفایت کرتے ہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاید ان کا خیال ہو کہ وصیت کا مفہوم دسویں حصہ کی وصیت کرنا ہی ہے.حالانکہ یہ ادنی مقدار بیان کی گئی ہے اور مؤمن کے لئے یہی بات مناسب ہے کہ جس قدر زیادہ دے سکے دے.ایمان اور مؤمن کی شان کو مدنظر رکھتے ہوئے تو یہی ہونا چاہیے.جو وصیت کرے۱/۳حصہ کی

Page 76

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 64 وصیت کرے.ہاں جو اتنا حصہ مجبوراً نہ دے سکے وہ اس سے کم دے دے.پس اصل وصیت ا حصہ کا نام ہے ہاں جو یہ نہ دے وہ اس سے کم ۱۰/ ا حصہ تک دے سکتا ہے.میں سمجھتا ہوں اگر ایک شخص اپنی موت کا نظارہ اپنی آنکھوں کے سامنے لائے اور اپنی حالت پر نظر کرے تو اسے معلوم ہو کہ مجھ سے بے شمار غلطیاں اور کمزوریاں سرزد ہو چکی ہیں.اب مرنے کے وقت تو مجھے خدا تعالیٰ سے صلح کر لینی چاہیے.یہ خیال کر کے خدا تعالیٰ کی راہ میں سب کچھ دے دینا بھی اس کے لئے دوبھر نہیں ہوسکتا.دیکھو جو شخص خود جائیداد پیدا کرتا ہے اسے یہ بھی امید رکھنی چاہیے کہ اس کی اولا د بھی ایسی ہی ہوگی کہ جائیداد بڑھائے گی.جو شخص اس بات سے ڈرتا ہے کہ اگر میں وصیت میں جائیداد دے دوں گا تو اولا د کیا کھائے گی.وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اس کی اولاد نالائق ہوگی.ایک شخص جس کے پاس کچھ نہ تھا اس نے کوشش کر کے کئی ہزار کی جائیداد پیدا کر لیں تو اسے امید رکھنی چاہیے کہ اس کی اولا داس سے بھی بڑھ کر ترقی کرے گی.اور اس رنگ میں اولاد کی تربیت کرنی چاہیے کہ وہ دنیا میں ترقی کر سکے.ورنہ جو اولاد کی اسطرح تربیت نہیں کرتا اور یہ سمجھتا ہے جو کچھ میں نے کمایا ہے اسی پر اولاد کا گزارہ ہو گا وہ اپنی اولاد کو نالائق سمجھتا ہے.اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے.انا عند ظن عبدی بی ( بخاری کتاب التوحيد باب قول الله ويحذركم الله نفسه ) بندہ میرے متعلق جیسا خیال کرتا ہے میں ویسا ہی کر دیتا ہوں اگر کسی کو یہ خیال ہو کہ ہماری اولاد دکھی اور نالائق ہوگی ہم جو دے جائیں گے اسی پر اس کا گزارہ ہوگا اسے بڑھا نہیں سکے گی تو خدا تعالیٰ ایسی اولاد سے یہی معاملہ کرے گا کہ اسے نالائق بنادے گا.لیکن اگر یہ خیال ہو کہ ہماری اولا دہم سے بھی زیادہ ہوشیار اور قابل ہوگی اور دین کی خدمت کرنے میں ہم سے بھی بڑھ جائے گی تو میں سمجھتا ہوں ایسی اولا دکو خدا تعالیٰ ضائع نہیں کرے گا.کسی خدا کے بندہ کا قول ہے کہ کسی بچے مومن کی سات پشتوں تک کسی کو سوال کرتے نہیں دیکھا جائے گا.پس وصیت کرتے ہوئے احباب کو یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ نے جو اعلیٰ حصہ مقرر کیا ہے وہ ۱/۳ ہے اور ہر مومن کو کوشش کرنی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ حصہ کی وصیت کرے.ہاں اگر اپنی

Page 77

65 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ مجبوریوں کی وجہ سے ۱/۳ حصہ کی نہ کر سکے تو ۴ / احصہ کی کرے.اگر ۴ / ا حصہ کی نہ کر سکے تو ۱/۵ حصہ کی کرے اگر ۵/ احصہ کی نہ کر سکے تو ۶ / ۱ حصہ کی کرے.اور اگر ۶ / ا حصہ کی نہ کر سکے تو / احصہ کی کرے.اگر احصہ کی نہ کر سکے تو ۱/۸ حصہ کی کرے.اگر ٨/ ا حصہ کی نہ کر سکے تو ۹/ احصہ کی کرے اور اگر کچھ بھی نہ کر سکے تو ۱۰/ ا حصہ کی کرے.میں امید کرتا ہوں کہ اگر دوست اس رنگ میں اپنے فرائض ادا کریں گے تو خدا کے فضل سے بہت جلد کامیابی حاصل ہوگی.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ لوگوں کی کوششوں میں برکت ڈالے.اور جو اسلام کی اشاعت کا کام اس نے ہمارے ذریعہ جاری کیا ہے.اسے ہماری سستی سے نقصان نہ پہنچے بلکہ دن بدن ترقی کرے.(خطبات محمود جلد 10 صفحہ 167 168 ) | وصیت کی اصل غرض اور ضرورت فرموده 14 مئی 1926 ء) جوچیزیهدی به کثیرا ہوگی وہ ساتھ ہی يُضِلُّ بہ کثیرا بھی ہوگی : بعض امور بظاہر چھوٹے نظر آتے ہیں.لیکن ان کے گرد و پیش ایسے حالات جمع ہو جاتے ہیں کہ ان حالات کی وجہ سے غیر معمولی اہمیت پکڑ جاتے ہیں.میں سمجھتا ہوں ہماری جماعت میں ایسے امور کی مثالوں میں سے ایک اہم مثال حصہ وصیت ہے.اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے وہ تو سب باتوں کو جانتا ہے مگر میں سمجھتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب رسالہ الوصیۃ شائع کیا تو آپ کے ذہن میں وہ مشکلات نہ تھیں جو آئندہ زمانہ میں اس سلسلہ کے گرد جمع ہونے والی تھیں.ان مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں وصیت عقلی طور بھی نجات کا ذریعہ ہے.اگر وہ مشکلات نہ پیدا ہوتیں اور اس قسم کے حالات وصیت کے متعلق رونما نہ ہوتے تو خیال ہوسکتا تھا کہ وصیت.جنت کا کیا تعلق؟ مگر اس کے گردو پیش ایسی مشکلات جمع ہو گئی ہیں جو قرآن کریم کے بتائے ہوئے قاعدہ کے ماتحت بتاتی ہیں کہ وہ اس امر کے گرد جمع ہوتی ہیں جو ہدایت کا باعث ہو.دیکھو خدا تعالیٰ

Page 78

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 66 فرماتا ہے يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَ يَهدِی بِه كَثِيرًا (البقره: 27) کہ جو چیز ہدایت دینے والی ہوتی ہے اس کے ذریعہ بہتوں کو ٹھو کر بھی لگتی ہے.چنانچہ قرآن کریم جب بہت بڑی ہدایت لے کر آیا تو اس وقت بڑی ضلالت بھی آئی.توریت میں قرآن کریم کی نسبت ہدایت کم تھی اس وقت ٹھو کر بھی کم تھی.رسول کریم ﷺے چونکہ ہمیشہ ہمیش کے لئے دنیا کے واسطے نبی بنا کر بھیجے گئے اور آپ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ کی نبوت کو منسوخ کر دے.اس لئے آپ کے ذریعہ ہمیشہ کے لئے کفر کا دروازہ بھی کھول دیا گیا.اب موسوی شریعت کا انکار کفر نہیں کیونکہ اس کا زمانہ ختم ہو گیا مگر اس کا کمال بھی ختم ہو گیا اب کوئی شخص موسوی شریعت پر چل کر روحانی کمال حاصل نہیں کر سکتا.اس کے مقابلہ میں اگر اسلام کے ذریعہ خدا کے قرب کا دروازہ ہمیشہ کے لئے کھولا گیا تو اس کے ساتھ ہی کفر کا د روازہ بھی ہمیشہ کے لئے کھل گیا.پس ہر ہدایت کے ساتھ ضلالت برابر چلتی ہے.اور یہ دونوں پیریل لائن (PARALLEL LINE) پر متوازی چلتی ہیں.کیونکہ جو چیز بھدی بہ کثیرا ہوگی وہ ساتھ ہی یضل بہ کثیراً بھی ہوگی.اب اگر وصیت کا مسئلہ یضل بہ نہ ہوتا.تو عقل تسلیم نہ کرتی کہ بھلائی کا باعث بن سکتا.کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ جو چیز ہدایت کا باعث ہوتی ہے اس کے ساتھ ضلالت کا پہلو بھی ہوتا ہے.اور خدا تعالیٰ کی سنت بدلا نہیں کرتی.اب دیکھو وصیت کس طرح ٹھوکر کا موجب ہوئی.پہلے تو غیر احمد یوں کو اس سے ٹھوکر لگی انہوں نے کہا روپیہ کمانے کا ڈھنگ نکالا گیا ہے ورنہ کسی زمین میں دفن ہو کر کوئی بہشتی کیونکر ہوسکتا ہے.یہ بھی وہی بات ہوئی جو کئی مقامات پر بہشتی دروازہ بنا کر کہی جاتی ہے کہ جو اس دروازہ میں سے گذر جائے وہ بہشتی ہو گیا.اس طرح وصیت بہت سے لوگوں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہوئی.کیونکہ انہوں نے اس کی حقیقت اور مغز کو نہ سمجھا.وصیت کے قواعد پورے کرنا علامت ہوگی کہ پورا کرنے والا بہشتی ہے : وصیت کا ہرگز یہ منشاء نہ تھا کہ کوئی اس زمین میں دفن ہونے سے بہشتی ہو جائے گا.اگر کسی کا فرکورات کے وقت لوگ اس میں دفن کر جائیں یا کسی ہندو کو دفن کر دیا جائے.تو کیا وہ اس لئے جنتی ہو جائے گا

Page 79

67 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ کہ اس جگہ دفن کر دیا گیا ہے.ہرگز نہیں.نہ حضرت مسیح موعود کا یہ منشاء تھا اور نہ خدا تعالیٰ کا کہ خواہ کوئی کسی طرح اس زمین میں دفن ہو جنتی ہو گا بلکہ جو اصل منشاء تھاوہ یہ تھا کہ وصیت کے قواعد کو پورا کر کے جو داخل ہوگا وہ جنتی ہوگا گویا وصیت کے قواعد پورے کرنا علامت ہوگی اس بات کی کہ پورا کرنے والا بہشتی ہے.جیسے قرآن کریم میں مومن کی علامتیں بتائی گئی ہیں کہ نماز کا پابند ہو، زکوۃ دے، حج کرے، خدا کی توحید پر ایمان لائے ، رسولوں پر ایمان لائے تو جنتی ہو گا.مگر دوسری جگہ کہا محمد ﷺ پر ایمان لانے والے جنتی ہیں.اس کے یہی معنی ہیں کہ ان شرائط کے ساتھ جو ایمان لائیں صل الله وہ جنتی ہیں.اسی طرح حضرت مسیح موعود نے یہ رکھا کہ جو ان شرائط کے ساتھ اپنے آپ کو پیش کرتا ہے خدا تعالیٰ اسے جنتیوں میں شمار کرتا ہے.کیونکہ انسان کا دل اس بات کا خواہاں ہوتا ہے کہ اسے کس طرح پتہ لگے کہ خدا کی رضا اسے حاصل ہوگئی ہے اور ہر زمانہ میں خدا تعالیٰ کی مرضی اور منشاء معلوم کرنے کے ذرائع مختلف ہوتے ہیں اس زمانہ میں بھی خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں کی تڑپ معلوم کر کے وصیت کے قواعد کے ذریعہ بتایا کہ اگر تم میں ایسا اخلاص ایسا ایمان اور ایسا تعلق باللہ ہوتو سمجھ لو کہ تم جنتی ہو گئے...اس سے کم ہو تو بات مشتبہ ہے.خدا ہی جانتا ہے تمہارا انجام کیا ہو گا تو یہ ایک ذریعہ ہے جس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کون جنتی ہے جیسے کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں خدا تعالیٰ نے آپ کی معرفت فرمایا تھا جنت ان کو ملے گی جو خدا کی راہ میں جان اور مال دیں گے.چونکہ اس وقت جہاد کی ضرورت تھی.اس لئے جان کی بھی شرط تھی اور اس وقت یہی بہشتی مقبرہ تھا اور اس کی علامت ی تھی کہ جان اور مال دیا ہے.مگر اب ایسا زمانہ ہے کہ پہلے زمانہ کی طرح جانیں دینے کی ضرورت نہیں ہے.بلکہ اخلاق اور اعمال اور اموال کی قربانی کی ضرورت ہے.کوئی کہے کہ رسول کریم ہے صلى الله کے وقت بہشتی مقبرہ کیوں نہ بنایا گیا؟ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے اس زمانہ میں حالات ایسے تھے که تاریخی طور پر بہشتی لوگوں کی قبروں کو محفوظ رکھنا مشکل تھا.اس وقت ریلیں نہ تھیں کہ دور دراز.

Page 80

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 99 68 لاشیں لائی جاسکتیں لوگوں میں اتنی جہالت تھی کہ قبروں کو اکھیڑ کر پھینک دینا معمولی بات سمجھتے تھے.اس وجہ سے قبریں قائم نہ رہ سکتی تھیں.اگر اس زمانہ میں بھی اس طرح کی سہولتیں ہوتیں جیسی اب ہیں تو ان کے لئے بھی الگ مقبرہ تجویز کیا جاتا.مگر اس وقت لاشوں کا پہنچا نا بہت مشکل تھا اور اب تو ممکن ہے کہ دنیا کے دوسرے سرے سے بھی لاش آجائے.ہوائی جہاز کے ذریعہ امریکہ سے دو چار دن میں لاش یہاں پہنچ سکتی ہے.پس اب وہ زمانہ ہے جب کہ لاشیں دور دور سے پہنچ سکتی ہیں اور قبروں کی حفاظت کی جاسکتی ہے.اس لئے ظاہری علامت کے طور پر مقبرہ بہشتی بھی مقرر کر دیا گیا ہے.ورنہ مقبرہ بہشتی تو پہلے سے ہی اسلام میں موجود ہے.کئی حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت البقیع میں دفن ہونے والوں کے متعلق رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہ جنتی ہیں.(طبقات ابن سعد القسم الثانی الجزء الثانی) چنانچہ بعض نادانوں نے جب حضرت عثمان شہید ہوئے تو جو ان کے متعلق خیال کرتے تھے کہ کافر ہو گئے انہوں نے کہا ہم اس جگہ دفن نہ ہونے دیں گے.کیونکہ ان کا خیال تھا کہ جو اس جگہ دفن ہوگا وہ جنتی ہو گا.اس وجہ سے وہ جنت کے ٹھیکیدار کہنے لگے ہم دفن نہ ہونے دیں گے.انہوں نے یہ اسی لئے کہا کہ اس زمین کے متعلق رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ اس میں دفن ہونے والا جنتی ہوگا.میں اس کا نام وعدہ نہیں رکھتا نہ اس کا اور نہ اس کا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مقبرہ کے متعلق فرمائی.بلکہ یہ خبر ہے اور وعدہ اور خبر میں فرق ہوتا ہے.اس کے ساتھ علامتیں بتائی گئی ہیں کہ جس میں وہ پائی جائیں.اس کو پہچان لو کہ جنتی ہو گا.پس پہلے تو وصیت سے ٹھو کر غیر احمدیوں کو لگی.اور يضل به كثيرا اس طرح پورا ہوا جس سے معلوم ہوا کہ یہ یهدی به کثیرا بھی ضرور ہوگا.دوسری ٹھوکر کمزور ماننے والوں کو لگی انہوں نے وہی خیال کر لیا جو رسول کریم ﷺ کے اقوال سے کمزور ایمان والے مسلمانوں نے سمجھ لیا تھا کہ جو بقیع میں داخل ہو جائے وہ جنتی ہو گا.اسی طرح انہوں نے خیال کر لیا کہ جو بہشتی مقبرہ میں داخل ہو جائے خواہ کسی طرح داخل ہو جنتی ہو گا.یہ خیال کر کے انہوں نے دھوکہ سے اس میں داخل ہونا چاہا.مثلاً اس طرح کہ کہہ دیا ہمارے مرنے کے بعد اتنی جائیداد لے لینا.حالانکہ اتنی جائیداد ہی نہ تھی.اس طرح

Page 81

69 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ انہوں نے گویا رجسٹر مقبرہ بہشتی میں اپنا نام لکھا جانا کافی سمجھا جنتی بننے کے لئے اگر یہی بات ہو کہ جس طرح بھی کوئی اس زمین میں دفن ہو جائے وہ جنتی بن جائے.تو ہمیں سارا رو پید اس پر خرچ کرنا پڑے کہ مقبرہ کے ارد گرد پہرہ دار مقرر کئے جائیں.جو بندوقیں لے کر کھڑے رہیں تا کہ اس میں کوئی زبر دستی دفن نہ کر جائے.ادھر جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف داخل ہو جانے سے ہی جنت مل سکتی ہے وہ رات کو لاش لا کر دفن کر جائیں.اس طرح مقبرہ تمسخر اور کھیل بن جاتا ہے.پس بعض نے اس طرح ٹھوکر کھائی کہ خیال کر لیا اس زمین میں دفن ہونے سے انسان جنتی بن جاتا ہے.اور اس کے لئے لگے دھو کے کرنے اور بعض نے اس کی غرض اور منشاء کو نہ سمجھ کر دھو کہ کھایا.کوئی کہے ادھر جنتی بنے کی خواہش اور ادھر دھو کہ کرنا یہ دونوں متضاد باتیں کس طرح پائی جاسکتی ہیں.مگر یاد رکھنا چاہیے جو لوگ ایمان کو ٹونے ٹوٹکے کے طور پر سمجھتے ہیں اور جن کے عقیدہ کی بنیاد عقل پر نہیں ہوتی وہ اس قسم کی متضاد با تیں جمع کر لیتے ہیں.ہم اس کا نام ظاہر پرمحمول کر کے دھو کہ رکھتے ہیں.مگر ایسے لوگ حقیقت میں سمجھتے ہیں کہ ایسا ہی ہو سکتا ہے اس لئے وہ اپنے نزدیک دھوکہ نہیں کر رہے ہوتے.عام مسلمانوں میں یہ خیال پایا جاتا ہے اور حضرت خلیفہ اول (اللہ آپ سے راضی ہو ) سناتے تھے کہ بعض لوگ قرآن کریم کی چوری چوری نہیں سمجھتے.اور ان کا خیال ہے.خدا کا کلام چرا لینا گناہ نہیں.ایک دفعہ ایک دوست کے سپر د کچھ روپے تھے اس نے ذاتی مصارف میں اس خیال سے صرف کر لئے کہ جب میرے پاس ہوں گے دے دوں گا.میرا اس شخص سے بہت تعلق تھا.مگر انجمن میں میں نے ہی یہ سوال اُٹھایا کہ اس طرح ان کو خرچ نہیں کرنا چاہیے تھا.اس دوست نے بھی اقرار کر لیا کہ غلطی ہوگئی ہے میں جلد رو پید ادا کر دوں گا.مگر ایک اور دوست کھڑے ہو گئے جنہوں نے یہ بحث شروع کر دی کہ یہ غلطی ہے ہی نہیں کیونکہ روپیہ خدا کے لئے جمع کیا جاتا ہے.اور یہ بھی خدا کی مخلوق ہیں ان کو ضرورت تھی انہوں نے خرچ کر لیا تو حرج کیا ہو گیا اور اس میں غلطی کیا ہوئی.تو ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں.حالانکہ یہ واضح بات ہے کہ خدا کے لئے روپیہ جمع کیا جاتا ہے.اور سب خدا کے بندے ہیں مگر جب اپنی ذات کے متعلق فیصلہ کرنا ہو تو غلطی کر جاتے ہیں.اس کے لئے

Page 82

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 70 فیصلہ کرنے والے اور ہونے چاہئیں.تو بسا اوقات انسان سمجھتا ہے کہ جو کچھ میں کر رہا ہوں دیانت داری کے ماتحت ہے مگر وہ بے وقوفی اور نادانی ہوتی ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ جنہوں نے کسی نہ کسی طرح مقبرہ بہشتی میں داخل ہونے کی کوشش کی وہ دھوکہ باز تھے.بہت سے ان میں ایسے تھے جنہوں نے صرف یہ خیال کیا کہ جنت میں داخل ہونے کے لئے مقبرہ بہشتی میں دفن ہو جانا کافی ہے پھر کیوں نہ ہم دنیا میں بھی مال سے فائدہ اٹھا ئیں.بلکہ میں تو کہوں گا ایک رنگ میں ان کا ایمان بڑھا ہوا تھا کہ انہوں نے سمجھا اگر ہم دھوکہ کر کے بھی مقبرہ میں داخل ہو جائیں گے تو بھی خدا تعالیٰ ہمیں اس میں داخل ہونے کی وجہ سے جنتی قرار دے دیگا.بے شک ایسے لوگ غلطی پر تھے.اور ان کا خیال درست نہ تھا.انہوں نے وصیت کا غلط مفہوم لیا اور دھو کہ میں پڑ گئے مگر وصیت سے سب سے بڑا فتنہ ایک اور پیدا ہوا جو خیال میں بھی نہیں آسکتا.اور وہ خلافت کے متعلق فتنہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خیال بھی نہ ہو گا جب آپ نے وصیت لکھی کہ ایسی جماعت بھی پیدا ہوگی جو اس کے ماتحت کہے گی کہ خلیفہ نہیں ہونا چاہیے.مگر اس طرح بھی وصیت ٹھوکر کا باعث ہوئی.اور ایسا فتنہ پیدا ہوا جس نے جماعت کو تہ و بالا کر دیا.اور ایک وقت تو ایسا آیا کہ سوائے معدودے چند لوگوں کے سب اس طرف ہو گئے کہ خلیفہ کو منتخب کرنا غلط تھا.مگر حضرت خلیفہ اول کی تقریر نے بتا دیا کہ یہ خیال غلط تھا اور خلیفہ کا انتخاب بالکل درست تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد جماعت پر روحانیت اور برکات کے نزول کا خاص وقت تھا.اور ممکن ہی نہیں کہ نبی کے فوت ہونے کے معاً بعد جماعت گمراہی اور ضلالت پر جمع ہو.کیا یہ ممکن ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے نبی کو اٹھا لیا اور جماعت سب سے زیادہ رحم کی مستحق ہو گئی.اس وقت خدا تعالیٰ جماعت کو گمراہ ہونے دے.پس در حقیقت سچا فیصلہ وہی تھا جو جماعت نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد خلیفہ کے انتخاب کے متعلق کیا.لیکن پھر بھی کچھ ایسے لوگ تھے.اور اب تو ان میں اور بھی اضافہ ہو گیا.جن کا خیال ہے کہ خلیفہ نہیں ہونا چاہیے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جماعت کے دوٹکڑے ہو گئے.اور ایک ٹکڑا پرا گندہ ہو کر جماعت سے باہر چلا گیا پراگندہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ اس میں کوئی اتحاد

Page 83

71 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ نہیں مگر ان میں ایسے لوگ شامل ہیں جو کسی وقت جماعت میں اہمیت رکھتے تھے.تو ان کے لئے وصیت ٹھوکر کا موجب ہوئی اور يضل به كثيرا ان کے متعلق بھی ظاہر ہوا ہے.احمدیت ترقی کرے گی تو 1/10 حصہ کی وصیت کافی نہ ہوگی : میں سمجھتا ہوں وصیت کے مسائل ابھی ایسے پیچیدہ ہیں کہ آئندہ بھی ٹھوکر کا موجب ہو سکتے ہیں.مگر میں ”سرود عستان یاد دهانیدن“ کے مطابق ان کا ذکر نہیں کرنا چاہتا.اس وقت میں صرف ایک مسئلہ کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں اور وہ وہ مسئلہ ہے جس کا اس سال کی مجلس مشاورت میں بھی ذکر ہوا تھا کہ کس قدر آمد پر کوئی شخص وصیت کرے.اور آمد اور جائیداد پر وصیت ہو یا نہ ہو میں نے جہاں تک وصیت کو پڑھا ہے کبھی ایک منٹ کے لئے بھی مجھے یہ خیال نہیں آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اس سے منشاء یہ تھا کہ جو اس زمین میں دفن ہو جائے وہ جنتی ہو گا.یہ بات ایسی ہے کہ خدا تعالیٰ تو الگ رہا حضرت مسیح موعود کی طرف بھی منسوب نہیں کی جاسکتی اور یہ وہ تعلیم ہے کہ شروع سے لے کر اخیر تک جس کا قرآن انکار کر رہا ہے.میں تو یہ سمجھ نہیں سکتا کہ کوئی شخص خدا تعالیٰ رسول کریم ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلق رکھنے سے تو جنتی نہ ہو سکے.لیکن اس زمین میں دفن ہونے سے جنتی ہو جائے.اس طرح تو نعوذ باللہ اس زمین کا خدا تعالیٰ سے بھی بڑا درجہ ہوا کہ اس زمین سے تعلق رکھنے والا جنتی بن سکتا ہے.مگر خدا تعالیٰ اور حضرت مسیح موعود سے تعلق رکھ کر کوئی شخص جنتی نہیں بن سکتا تو پھر اس زمین میں کونسی طاقت ہو سکتی ہے کہ جو اس زمین میں دفن ہو جائے.وہ سیدھا جنت میں چلا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ منشاء ہرگز نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ بات قرآن کریم کی تعلیم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم اور خود وصیت کی تعلیم کے خلاف ہے.الله جو منشاء وصیت کا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے ایک ادنیٰ قربانی پیش کی ہے.جو اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ جو شخص اس قدر قربانی کرتا ہے.اس کے نفس میں اصلاح ہے اور جو اتنی قربانی کر دے اس کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ جنتی ہے پس اگر وصیت سے اس قسم کی قربانی مراد ہے تو

Page 84

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ وصیت کو اس کے ماتحت لانا ہوگا.72 اور جس بات میں قربانی نہ پائی جاتی ہوگی وہ وصیت کے خلاف ہوگی.میں اس وقت تفصیلات کے متعلق بولنے کے لئے کھڑا نہیں ہوا.جس بات کے بتانے کے لئے کھڑا ہوا ہوں وہ یہ ہے کہ کسی دوست نے بتایا کہ بعض لوگوں نے کہا ہے چونکہ آج کل روپیہ کی سخت ضرورت ہے.اس لئے وصیت کے نئے معنے کئے جاتے ہیں.جن سے غرض یہ ہے کہ زیادہ روپیہ وصول ہو جائے.گو یہ نہایت نامعقول اعتراض ہے مگر میں اس پر برانہیں منا تا کیونکہ میں کسی سے اپنے لئے روپیہ نہیں مانگتا بلکہ خدا کے دین کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے.اور اسی کے لئے میں روپیہ مانگتا ہوں اگر اس روپیہ سے خلیفہ کی ذاتی جائیداد بنتی اور اس کے رشتہ داروں کو ورثہ میں ملتی تو اعتراض ہو سکتا تھا کہ میں اپنے لئے روپیہ جمع کرنے کے لئے ایسا کر رہا ہوں.لیکن اگر یہ مال دین کی خدمت میں صرف ہوتا ہے.اور مجھ کو ذاتی طور پر اس سے کوئی نفع نہیں پہنچتا تو پھر اگر میں وصیت کے ایسے معنی کرتا ہوں جن کی رو سے خدا تعالیٰ کے دین کے لئے زیادہ روپیہ جمع ہوسکتا ہے تو یہ میرے لئے کونسی شرم کی بات ہے.حضرت مسیح موعود نے بھی وصیت کی غرض یہی بیان فرمائی ہے کہ اس ذریعہ سے جو روپیہ حاصل ہوگا وہ خدا کے دین کی اشاعت کے لئے خرچ کیا جائے گا.پس جب کہ حضرت مسیح موعود کی اس سے یہی غرض ہے کہ روپیہ آئے جو دین کی اشاعت کے لئے خرچ کیا جائے تو پھر اگر ہم نے ایسے معنی کئے کہ زیادہ روپیہ آئے تو یہ کوئی حرج کی بات نہیں ہے.کسی بات سے انسان کی دو غرضیں ایسی ہوتی ہیں جو مذموم ہوتی ہیں.ایک تو یہ کہ وہ ایسے عقائد گھڑنا چاہتا ہے جن کی وجہ سے دوسروں کو شکنجہ میں کس سکے.اور دوسرے ذاتی فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے.وصیت کے معاملہ میں یہ دونوں باتیں نہیں ہیں پھر مجھے اس اعتراض پر کیا رنج ہو سکتا ہے.مگر میں کہتا ہوں کہ اگر اس رنگ میں ہر بات کو بدلا جائے تو کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ جو لوگ وصیت کے یہ معنی کرتے ہیں کہ خواہ کوئی کتنی قلیل ہی رقم ادا کرے اس کی وصیت ہو جاتی ہے.ان کا یہ مقصد ہے کہ وہ بغیر کچھ دیے مقبرہ میں داخل.ہو جائیں.اگر ان کو حق ہے کہ یہ کہیں کہ وصیت کو مال کی قربانی اس لئے قرار دیا جاتا ہے کہ اس طرح

Page 85

73 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ زیادہ روپیہ وصول ہو تو دوسروں کا بھی حق ہے کہ وہ کہیں کہ ان کا یہ مطلب ہے کہ بغیر کچھ دیے داخل ہو جائیں.لیکن میں سمجھتا ہوں کم سے کم اس خیال کے جو لیڈر تھے ان کی یہ نیت نہ تھی.اس خیال کے بہت بڑے مؤید میر محمد اسحاق صاحب تھے.جہاں تک میں سمجھتا ہوں ان کے ذہن میں یہ بات ی تھی کہ یونہی لوگ مقبرہ بہشتی میں دفن ہو جائیں بلکہ یہ تھی کہ وصیت کا منشاء ہی وہ ہے جوانہوں نے سمجھا دوسرے اس خیال کے مؤید شیخ عبد الرحمن صاحب مصری تھے.ان کو بھی میں جانتا ہوں.اور بچپن سے جانتا ہوں ان کا منشاء بھی یہی تھا کہ حضرت صاحب کا منشاء وہی ہے جو انہوں نے سمجھا.انکی تائید میں جو اور لوگ تھے ان کی سخت غلطی تھی.مگر جو کچھ انہوں نے کہا دیانتداری سے کہا اور مجھے ان کے متعلق ایک ذرا بھی شبہ نہیں کہ ان کا خیال تھا کہ بغیر کچھ دیے جنت میں داخل ہو جائیں.پھر جس نے یہ کہا کہ وصیت کے نئے معنی اس لئے کئے جاتے ہیں کہ روپیہ آئے اگر چہ اس کا خیال نہایت بیہودہ ہے.مگر مجھے اس پر غصہ نہیں ہے کیونکہ میں یہی چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لئے زیادہ سے زیادہ روپیہ آئے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں: بعد از خدا بعشق محمد مخمرم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم کہ خدا تعالیٰ کی محبت کے بعد محمد اللہ کے عشق میں مخمور ہوں اگر یہ کفر ہے تو خدا کی قسم میں سب سے بڑا کافر ہوں.اسی طرح میں کہتا ہوں اگر وصیت کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کی خاطر مال جمع کرنے سے مجھ پر لالچ کا الزام آتا ہے تو بخدا میں اس سے بھی بڑا لالچی ہوں جس قدر کوئی مجھے کہہ سکتا ہے.اگر وصیت کے الفاظ مجھے اجازت دیتے تو میں کہتا ۱/۳ سے کم کی وصیت نہیں ہو سکتی لیکن افسوس کہ الفاظ اس لالچ کی اجازت نہیں دیتے.پس مجھے تو خدا کے دین کے لئے روپیہ جمع کرنے کی اس سے زیادہ حرص اور لالچ ہے جس قدر کوئی کہہ سکتا ہے.اگر مجھے حضرت مسیح موعود کے منشاء کے خلاف کا خیال نہ ہوتا اور پھر مختلف طبائع کا خیال نہ ہوتا تو میں اس وقت کی ضروریات کے مطابق یہی فیصلہ

Page 86

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 74 کرتا کہ ۱/۳ حصہ کی وصیت کی جائے.اب میں ایسا تو نہیں کر سکتا لیکن میرا عقیدہ یہی ہے کہ یہ بھی جائز ہے.جب احمدیت ترقی کرے گی ہماری جماعت کے لوگوں کی آمد نیاں زیادہ ہوں گی ہمارے ہاتھ میں حکومت آجائے گی.احمدی امراء اور بادشاہ ہوں گے تو اس وقت ۱۰/ احصہ کی وصیت کافی نہ ہوگی.اس وقت سلسلہ کی باگ جس کے ہاتھ میں ہوگی وہ اگر وصیت کے لئے ۳/ ا حصہ ضروری قرار دے دے تو یہ جائز ہوگا.مگر ابھی وہی زمانہ ہے جو حضرت مسیح موعود کے وقت تھا.اس لئے ابھی یہ حکم نہیں دیا جاسکتا گو دل یہی چاہتا ہے کہ زیادہ روپیہ آئے اور ۳/ احصہ کی وصیت کی جائے مگر ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے...اس وقت حکومت احمدیت کی ہوگی آمدنی زیادہ ہوگی مال و اموال کی کثرت ہوگی اور ۱۰/ ۱حصہ داخل کرنا کوئی بات ہی نہ ہوگی.مگر اب تھوڑی جماعت ہے جس نے بہت بوجھ اُٹھانا ہے.احمدیت کی وجہ سے ہمارے آدمیوں کی ملازمتیں رکی ہوئی ہیں.ترقیاں رکی ہوئی ہیں.تجارتیں رکی ہوئی ہیں.ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ساتھ یا پینسٹھ فیصدی جو چندہ دیتے ہیں وہی بڑا سمجھا جاتا ہے.لیکن جب تجارت اور حکومت ہمارے قبضہ میں ہوگی اس وقت اس قسم کی تکلیفیں نہ ہوں گی.ایسے زمانہ میں اگر وصیت کے چندہ کو انتہائی حد تک بڑھا دیا جائے تو یہ بھی جائز ہوگا.کیونکہ اصل غرض اس سے حضرت مسیح موعود کی مالی قربانی کا موقعہ دینا ہے اور مال زیادہ ہو تو زیادہ دینے سے ہی قربانی ہوسکتی ہے.اگر حضرت مسیح موعود یہ فرماتے کہ جو شخص وصیت کئے بغیر مرے وہ دوزخی ہے تو میں کہتا ہوں وصیت کو وسیع کرو لیکن جب کہ آپ نے یہ نہیں لکھا اور وصیت کے بغیر بھی لوگ جنت میں جا سکتے ہیں.تو معلوم ہوا کہ وصیت اعلیٰ درجہ کے لوگوں کے لئے ہے.اور اگر کسی وقت ۱۰/ احصہ کی قربانی اعلیٰ نمونہ کے لئے کافی نہ ہو تو اس کو بڑھایا جا سکتا ہے میں اس کو جائز سمجھتا ہوں.آگے اس وقت کے فقہاء کیا فقاہت کریں گے.یہ ان کی بات ہے.گو اس اعتراض پر مجھے خوشی ہوئی.اگر یہ کسی نے کیا ہے.لیکن چونکہ میں نے خود معترض سے یہ نہیں سنا اس لئے بالکل قرین قیاس ہے کہ جس دوست نے مجھے سنایا ہے ان کو بات کے سمجھنے میں غلطی لگی ہو.لیکن اگر یہ صحیح ہے.تو میں اعتراض کرنے والے کو نصیحت کرتا ہوں کہ بہت الفاظ ایسے ہوتے ہیں جن کے منہ سے نکل جانے کے بعد انسان کو پچھتانا پڑتا ہے.رسول کریم ﷺ کے متعلق کسی

Page 87

75 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ نے کہا تھا آپ نے انصاف کے ماتحت مال کی تقسیم نہیں کی.آپ نے کہا اگر میں نے انصاف نہیں کیا تو اور کون کر سکتا ہے.اور پھر فرمایا اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ ہوں گے جو دین کو برباد کرنے والے ہوں گے.قرآن ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا.کیسا خطر ناک انجام ہوا.جو کچھ معترض نے کہا ہے اس کا یہی مفہوم ہو سکتا ہے کہ ہم دین کے لئے زیادہ مانگتے ہیں.مگر یہ کونسی بری بات ہے.جو جائز تدبیر ہو وہ تو ثواب کا موجب ہے.مگر ایسی باتیں اپنے نتائج کے لحاظ سے قابلِ اعتراض ہوتی ہیں گو اپنے الفاظ کے لحاظ سے نہ ہو.دیکھو قرآن کریم میں آتا ہے خدا تعالیٰ مسلمانوں کو فرماتا ہے تم رسول کو راعنا ( البقرہ: 105 ) نہ کہو گو تمہاری نیست اس لفظ سے یہ نہیں کہ رسول کی ہتک کر ومگر یہ لفظ ہتک کرنے والا ہے.اگر تم اس لفظ کو استعمال کرو گے تو تم سے انعام چھین لئے جائیں گے.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو انبیاء کے متعلق کس قدر غیرت ہوتی ہے.اور جس طرح اللہ تعالیٰ کو اپنے انبیاء کی غیرت ہوتی ہے.گو ان کی ذاتی خوبیاں بہت بڑھی ہوئی ہیں اور خلفاء میں ان کے مقابلہ میں کمزوریاں ہوتی ہیں.ان میں انبیاء کی طرح معصومیت نہیں ہوتی.مگر جس مقام پر ان کو کھڑا کیا جاتا ہے اس کی غیرت کی وجہ سے ان پر اعتراض کرنے والے بھی ٹھوکر سے نہیں بچ سکتے.تم میں سے اگر کسی کو اپنے ایمان کی فکر نہ ہو تو نہ ہومگر مجھے ہے.کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود کی جماعت جیسی سلامت ایمان والی مجھے ملی تھی.اس سے بڑھ کر چھوڑ کے جاؤں.پس ایسے الفاظ اپنے منہ سے نہ نکالو جو خدا تعالیٰ کی غیرت کو بھڑ کانے والے ہوں.اور ایسی باتیں مت کرو جن کا تمہیں صحیح علم نہ ہو.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے هل شققت قلبه (مسلم کتاب الایمان باب من مات لا یشرک باللہ دخل الجنة ) کیا تم نے اس کا سینہ پھاڑ کر دیکھ لیا.میں کہتا الله ہوں ایک منافق کو جو حق اسلام دیتا ہے وہ خلیفہ کو بھی ضرور ملنا چاہیے.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں ایسا منافق جو تلوار سے جنگ کر رہا ہو وہ بھی اگر کہے کہ میں مسلمان ہوں تو اس کی بات کو قبول کر لینا چاہیے کیونکہ اس کا دل چیر کر کسی نے نہیں دیکھ لیا.جب یاد نی ترین حق ہے جو اسلام منافق کو بھی دیتا ہے.تو میں نہیں سمجھتا خلیفہ ہونے پر یہ حق کیونکر اس سے چھینا جا سکتا ہے.پس ایسی باتیں نہ کروجن کا علم نہ ہو.

Page 88

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 76 پھر میں اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وصیت آزمائش ایمان کا ذریعہ ہے.وصیت پیمانہ ہے ایمان کو ناپنے کا اور وصیت آئینہ ہے اپنی ایمانی شکل دیکھنے کا.میں اس کے متعلق کچھ زیادہ نہیں کہتا.صرف اتنا کہتا ہوں کہ میں تمہاری نسبت اعلم ہوں اس معاملہ کے متعلق اور وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے.ابھی میں اصل مسئلہ کے متعلق کچھ نہیں کہنا چاہتا.مجھے اس بارے میں دوستوں سے مشورہ کرنا ہے.مگر میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہماری جماعت کے لوگوں میں قربانی اور ایثار کے جذبات پیدا کرے.اور ہم اس کے قرب کو حاصل کر سکیں.اور اس کے فضلوں کے وارث ہوں.( خطبات محمود جلد 10 صفحه 170 تا 179 ) وصیت کرنا دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہد کو پورا کرنا ہے (فرمودہ 4 مئی 1928ء) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ایک سال کے قریب ہوا میں نے اپنی جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ وصیت کا معاملہ نہایت اہم معاملہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے ایسی خصوصیت بخشی ہے اور اللہ تعالیٰ کے خاص الہامات کے ماتحت اسے قائم کیا ہے کہ کوئی مؤمن اس کی اہمیت اور عظمت کا انکار نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا قائم کردہ سارا نظام ہی آسمانی اور خدائی اور الہامی نظام ہے مگر وصیت کا نظام ایسا نظام ہے جو خدا تعالیٰ کے خاص الہام کے ماتحت قائم کیا گیا.باقی امور ایسے ہیں جو عام الہام کے ماتحت قائم کئے گئے ہیں مگر وصیت کا مسئلہ ایسا ہے جو خاص الہام کے ماتحت قائم کیا گیا ہے.اور وصیت کا مسئلہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا ایک عملی ثبوت ہے.دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد ایک اقرار تھا.اس کے متعلق مؤمن کیا کرتا.کئی لوگ تو اس اقرار کو پورا کرنے کے لئے بڑی بڑی قربانیاں کرتے اور کئی یہ اقرار کر کے خاموش ہو جاتے.پھر کئی ایسے ہوتے جو چاہتے کہ دین کو دنیا پر مقدم کریں مگر اس کے لئے راہ نہ پاتے اور انہیں معلوم نہ ہوتا کہ کیا کریں؟ پھر بیسیوں تھے جنہوں نے اس اقرار کو پورا کیا اور بیسیوں ایسے تھے جو حیران تھے کہ کیا

Page 89

77 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ کریں؟ پھر جو اقرار کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے تھے وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کا اقرار پورا ہوتا ہے یا نہیں.ان کی مثال حضرت عائشہ صدیقہ کی سی تھی جو کہ اپنے ایک بھانجے پر جب ناراض ہوئیں تو انہوں نے قسم کھائی اور کہا میں اس سے نہ ملوں گی اور اگر ملوں تو کچھ صدقہ دوں گی اس صدقہ کی انہوں نے تعیین نہ کی تھی.آخر صحابہ کے دخل دینے اور بھانجے کی معافی مانگ لینے پر انہوں نے اسے معاف کر دیا اور اپنے ہاں آنے کی اجازت دے دی اور اس کے لئے خاص طور پر صدقہ کرتیں مگر باوجود اس کے حسرت کے ساتھ کہتیں معلوم نہیں میں نے جو اقرار کیا تھا وہ پورا ہوا ہے یا نہیں.میں نے صدقہ کی تعیین کیوں نہ کر دی.تو بہت سے لوگ حیران تھے کہ انہوں نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا جو اقرار کیا ہے وہ پورا ہوا ہے یا نہیں تب خدا تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی اور اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ذریعہ بتایا کہ جو لوگ یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ان کا اقرار پورا ہوایا نہیں ان کے لئے یہ وصیت کا طریق ہے اس پر عمل کرنے سے وہ اپنے اقرار کو پورا کر سکتے ہیں کیونکہ وصیت میں شرط ہے کہ خدا تعالی کا ارادہ ہے کہ ایسے کامل الایمان ایک ہی جگہ دفن ہوں تا آئندہ نسلیں ایک ہی جگہ ان کو دیکھ کر اپنا ایمان تازہ کریں.پس یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے بیان فرمودہ طریق پر وصیت کرے اور اس پر قائم رہے مگر کامل الایمان نہ ہو تو وہ لوگ جن کے دل میں عدم اطمینان تھا اور وہ اس وجہ سے بے چین تھے کہ خبر نہیں ان کا اقرار پورا ہوا ہے یا نہیں ان کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کے الہام کے ماتحت یہ رکھ دیا کہ وہ وصیت کریں.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں: میں دعا کرتا ہوں کہ خدا اس میں برکت دے اور اس کو بہشتی مقبرہ بنادے.اور یہ اس جماعت کے پاک دل لوگوں کی خواب گاہ ہو جنہوں نے در حقیقت دین کو دنیا پر مقدم کرلیا.اور دنیا کی محبت چھوڑ دی.اور خدا کے لئے ہو گئے.اور پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کر لی.اور رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کی طرح وفاداری اور صدق کا نمونہ دکھلایا.

Page 90

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 78 ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ وصیت کرنا اور اس پر قائم رہ کر مقبرہ بہشتی میں دفن ہونا دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے اقرار کو پورا کرنا ہے.اس وصیت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حد بندی کر دی ہے.اور وہ یہ کہ زیادہ سے زیادہ ۳/ احصہ کی وصیت کی جائے اور کم از کم ۱۰/ احصہ کی.یہ تو مرنے کے بعد کے متعلق ہے اور زندگی میں یہ ہے کہ خدا تعالی کی راہ میں انسان اس حد تک خرچ کر سکتا ہے کہ وہ رشتہ دار جو اس کے ذریعہ پل رہے ہوں انہیں دوسروں کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے.اس شرط کے ماتحت خواہ وہ اپنا نصف مال دے دے یا تین چوتھائی دے دے مگر اتنا دے کہ جن لوگوں کی پرورش اس کے ذمہ ہے وہ دوسروں کے محتاج نہ ہو جائیں.غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ ایک ذریعہ رکھا ہے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہد کو پورا کرنے کا.جس وقت آپ نے یہ طریق بیان کیا اسی وقت یہ بھی لکھ دیا تھا کہ ممکن ہے کہ بعض آدمی جن پر بد گمانی کا مادہ غالب ہو وہ اس کا روائی میں ہمیں اعتراضوں کا نشانہ بناویں.اور اس انتظام کو اغراض نفسانیہ پر مبنی سمجھیں یا اس کو بدعت قرار دیں.لیکن یادر ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کے کام ہیں وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے.“ چنا نچہ مخالفین نے اس پر ہنسی اور تمسخر کیا اور کہا پاک پتن کے بہشتی دروازہ کی طرح یہ بہشتی مقبرہ بنالیا گیا ہے حالانکہ اس دروازہ اور بہشتی مقبرہ میں بہت فرق ہے.اپنے مال کی وصیت کرنا علامت ہے نیکی اور تقویٰ کی.دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا اقرار چاہتا تھا کہ اس کا کوئی ظاہری ثبوت ہو اس کی علامت وصیت رکھی گئی اور یہ دائمی قربانی ہے.یعنی جب تک انسان زندہ رہتا ہے اسے یہ قربانی کرنی پڑتی ہے مگر دروازہ سے گذر جانا تو معمولی بات ہے اس کے لئے کوئی قربانی نہیں کرنی پڑتی.تو وصیت معیار ہے مؤمنوں کے ایمان کو پر کھنے کا مگر باوجود اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زور دینے کے بہت سے لوگ ہیں جو ابھی تک اس کی عظمت سے واقف نہیں ہیں.اور جس طرح قاعدہ ہے کہ جب کوئی نیا نظام قائم ہوتا ہے اور نیا مسئلہ جاری ہوتا ہے تو اکثر لوگ اس کے سمجھنے میں کوتاہی کرتے ہیں اسی طرح بہت سے لوگوں نے وصیت کے معاملہ کی حقیقت کو بھی نہ سمجھا

Page 91

79 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ بلکہ انہوں نے بھی نہ سمجھا جن کے سپر د اس کا نظام کیا گیا تھا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایسی ایسی وصیتیں کی گئیں کہ ایک شخص کی ماہوار آمدنی تو کئی سو کی تھی مگر اس کا مکان بہت معمولی حیثیت کا تھا اس نے مکان کی وصیت کر دی اور لکھ دیا کہ اس کا ۱۰ / ا حصہ وصیت میں دیتا ہوں.حالانکہ اگر اندازہ لگایا جاتا تو مکان کا جو حصہ وصیت میں دیا گیا وہ اتنی مالیت کا بھی نہیں تھا کہ ماہوار آمدنی کا بتیسواں (۳۲) حصہ ہی بن سکتا.میں نے اس کی اصلاح کی میں نے کہا مقبرہ بہشتی کی غرض یہ ہے کہ اس میں ایسے لوگوں کو جمع کیا جائے جو دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں مگر کون خیال کر سکتا ہے کہ ایک شخص جو دو تین چار سو روپیہ ماہوار کماتا ہے مگر باپ دادا سے ورثہ میں آئے ہوئے معمولی مکان کے دسویں حصہ کی وصیت کر دیتا ہے تو یہ اس کے لئے بہت بڑی قربانی ہے اور وہ ایسے مخلصوں میں شامل ہو جاتا ہے جو دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں گے اور جن کے متعلق آئندہ نسلوں کا فرض ہو گا کہ خاص طور پر دعا کریں.اگر ایسے آدمی کو کوئی مخلص اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے والا سمجھتا ہے تو وہ جھوٹا نہیں تو میں اسے بے وقوف ضرور کہوں گا اور سمجھا جائے گا کہ اس کے دماغ میں نقص پیدا ہو گیا ہے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو وصیت کا نظام اس لئے قائم کیا ہے کہ مخلصوں کی جماعت کو ایک جگہ اکٹھا کیا جائے مگر ان مخلصوں میں ایسے شخص کو شامل کیا جاتا ہے جو ہر مہینہ اپنے لباس یا کھانے یا اپنی بیوی بچوں کے لباس یا کھانے پر جتنا صرف کرتا ہے اتنا یا اس سے بھی کم چندہ دے دیتا ہے یہ کامل الایمان ہونے کی علامت نہیں ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کی ایسی وصیتیں نکلی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ماہوار آمدنی کو چھوڑ کر معمولی مکان کی وصیت کرنے کا طریق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی منشاء کے مطابق نہ تھا.مثلاً ایک شخص وصیت کرتا ہے جس کا معمولی مکان تھا اس نے اپنی وصیت میں لکھا کہ اس وقت میری کوئی جائیداد نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ملازم ہوں میری تنخواہ چار روپے ہے اس کا دسواں حصہ صدر انجمن احمدیہ کی خدمت میں ادا کرتا رہوں گا.یا اگر آئندہ میری کوئی اور جائیداد یا تنخواہ بڑھ جائے تو اس کے متعلق بھی میری یہی وصیت ہے.اور میرا ایک مکان ریاست

Page 92

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 80 مالیر کوٹلہ میں ہے وہ خاص میری ملکیت ہے.اس میں اور کسی کا کوئی حصہ اور نہ حق ہے اس کے آٹھواں حصہ کی بھی انجمن احمد یہ مالک ہے.“ چونکہ مکان آمد پیدا کرنے والا نہ تھا اس لئے اسے وصیت کے لحاظ سے جائیداد نہ قرار دیا گیا.تو وصیت کے لئے دسواں حصہ سے مراد اسی آمد کا دسواں حصہ ہے جس پر گزارہ ہو.ایک زمیندار ہے اگر وہ اپنی زمین کا دسواں حصہ وصیت میں دے دیتا ہے تو وہ وصیت کا حق ادا کر دیتا ہے کیونکہ اس کے گذارہ کا ذریعہ زمین ہی ہے.مگر ایک ملازم جو تین چارسو ماہوار تنخواہ پاتا ہے یا ایک تاجر جسے تجارت کی آمدنی ہے وہ اگر وصیت میں جدی مکان کا کچھ حصہ دیکر پچاس یا ساٹھ یا سور و پیہ دے دیتا ہے تو وہ وصیت کے منشاء کو پورا نہیں کرتا.وصیت کے لحاظ سے وہ جائیداد والا نہ تھا اس کی آمد تھی اسے آمد سے وصیت کا حصہ دینا چاہیے تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو ترکہ کا لفظ رکھا ہے یعنی وصیت کرنے والے کے ”تمام ترکہ سے مقررہ حصہ وصیت میں لیا جائے.پھر کیا اگر کوئی شخص صرف دھوتی اور گرتا چھوڑ مرے تو اسی کو اس کا ترکہ قرار دیا جائے گا اور پھر اس کا دسواں حصہ لے کر سمجھ لیا جائے گا کہ اس نے وصیت کا حق ادا کر دیا.پس جب کپڑوں کا ایک جوڑا بھی ترکہ کہلا سکتا ہے تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ فرمایا ہے کہ ہر ایک صالح جو اسکی کوئی بھی جائیداد نہیں اور کوئی مالی خدمت نہیں کرسکتا.اگر یہ ثابت ہو کہ وہ دین کے لئے اپنی زندگی وقف رکھتا تھا اور صالح تھا.تو وہ اس قبرستان میں دفن ہوسکتا ہے.“ اس کا کیا مطلب ہوا؟ کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا منشاء جائیداد نہ ہونے سے یہ تھا کہ ایسا شخص جو ننگا پھرتا ہو اسے بغیر وصیت کے دفن کیا جائے.دنیا کے ایک کنارہ سے دوسرے کنارہ تک چلے جاؤ کوئی ایسا انسان نظر نہ آئے گا جو اپنے پاس کچھ بھی نہ رکھتا ہو.اپنے اردگر درسی ہی لیٹے ہوئے ہوگا یا کیلے کے پتے ہی باندھے ہوئے ہو گا وہی اس کا ترکہ اور جائیداد ہوگی.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ کہنا کہ جس کی جائیداد نہ ہو اس کا تقویٰ اور خدمت دین دیکھی جائے گی

Page 93

81 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ بے معنی کلام ہو جاتا ہے کیونکہ یہ کبھی خیال میں بھی نہیں آسکتا کہ ایک شخص دین کی بڑی خدمت کرنے والا ، بڑا متقی ہو مگر مادر زاد ننگا رہتا ہو.اگر اس کے پاس لنگوٹی ہوگی تو وہی اس کا ترکہ ہوگا کیونکہ جو چیز انسان مرنے کے بعد قبر میں نہیں لے جاتا اور پیچھے چھوڑ جاتا ہے وہ اس کا ترکہ ہے.پس اس طرح کوئی انسان ایسا نظر نہیں آتا جس کی کوئی جائیداد نہ ہو.کوئی اگر لنگوٹی باندھے رہتا ہوگا تو اسے بھی مرنے کے بعد کفن پہنا دیا جائے گا اور اس کی لنگوٹی قبر سے باہر رہ جائے گی یا اگر اس کی پھٹی پرانی جوتی ہوگی اور وہ قبر سے باہر رہے گی تو وہی ترکہ ہوگا.پس یہ ناممکن ہے کہ کوئی ایسا انسان ملے جس کی ترکہ کے لحاظ سے کوئی جائیداد نہ ہو.اور جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ لکھا ہے کہ جس کی جائیداد نہ ہو اس کے مقبرہ بہشتی میں دفن ہونے کا اور طریق ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ جائیداد نہ ہونے سے مراد آمدنی کا نہ ہونا ہے.یعنی جس کے گزارہ کی کوئی معین صورت نہ ہو وہ بغیر جائیداد کے وصیت کر سکتا ہے.تھوڑے دن ہوئے مجھے رپورٹ پہنچی تھی کہ کسی شخص نے لکھا ہے وصیت کی اس تشریح کے ماتحت بہت لوگوں کو ابتلاء آرہا ہے.مگر میرے نزدیک یہ میچ نہیں ہے کیونکہ جتنی وصیتیں اس تشریح کے بعد کی گئی ہیں اتنی کبھی پہلے نہیں کی گئیں.اگر ابتلاء کا یہی ثبوت ہے تو میں کہوں گا کہ ایسا ابتلاء روز روز آئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: بعد از خدا بعشق محمد مخمرم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم کہ خدا تعالیٰ کے بعد اگر محمد اللہ کی محبت کفر ہے تو خدا کی قسم میں بڑا کا فر ہوں.پس اگر جماعت کے ابتلاء کا یہی ثبوت ہے کہ بہت لوگ صحیح طریق پر وصیتیں کرنے لگ گئے ہیں اور جنہوں نے پہلے ۱/۱۰ حصہ کی وصیت کی ہوئی تھی ان میں سے ۱/۴ اور ۳/ اتک کی وصیتیں کر رہے ہیں تو ایسا ابتلاء روز روز آئے.ہاں ایسا شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اسے ابتلاء آیا ہے.مگر ابتلاء تو تب کہا جائے جب اس بارے میں کسی قسم کا جبر کیا جائے لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ وصیت کے کرانے کے لئے جبر کیا جاتا ہے.

Page 94

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 82 یہ ایک نیکی ہے جو کر سکتے ہیں کریں.اگر کوئی کہے میں ظہر یا عصر کی چار رکعت فرض نہیں پڑھ سکتا دو پڑھوں گا تو ہم اسے کہیں گے نماز پڑھنا چاہتے تو چار ہی پڑھو اس میں فائدہ ہے.یہ نہیں کہا جاسکتا کہ چلو تم دو یا ایک ہی رکعت پڑھ لو کیونکہ یہ کسی کو نمازی بنانے کے لئے کافی نہیں.نمازی کے لئے ضروری ہے کہ چار ہی پڑھے اسے کوئی ابتلاء نہیں کہہ سکتا.اسی طرح وصیت کے بارے میں احمدی کے لئے ابتلاء کی دوہی صورتیں ہو سکتی ہیں تیسری کوئی نہیں.یا تو یہ کہ ہر ایک احمدی کو مجبور کیا جائے کہ وہ ضرور وصیت کرے تب کمز ور لوگ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری آمدنی اتنی نہیں کہ ہم وصیت کر سکیں.مگر وصیت کرنا تو اپنی مرضی پر ہے اور یہ اخلاص کے پر کھنے کا معیار ہے ایمان کا معیار نہیں ہے.ایمان کے لئے یہ کافی ہے کہ کوئی کہے میں خدا کو وحدہ لا شریک مانتا ہوں اور محمد ﷺ پر ایمان لاتا ہوں کہ وہ خدا کے سچے نبی ہیں اور اپنے زمانہ کے مامور اور مرسل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانتا ہوں.جو شخص یہ اقرار کرتا ہے اسے کوئی اسلام اور احمدیت سے نہیں نکال سکتا.اس کے اگر اعمال خراب ہوں تو اسے خدا تعالیٰ پکڑے گا مگر کسی کے اختیار میں یہ نہیں ہے کہ اسے اسلام سے نکال دے.ہاں اگر وہ ان امور کا جن پر اسلام کی بنیاد ہے انکار کرے گا تو خود اسلام سے نکل جائے گا.البتہ مقررہ نظام سے آدمی کو نکالا جاتا ہے اگر وہ ایسا کام کرے جس سے تفرقہ پیدا ہوتا ہو.کوئی فتنہ برپا ہوتا ہو تو اسے جماعت سے علیحدہ کیا جاتا ہے مگر احمدبیت سے نہیں نکالا جا تا.اور جماعت سے نکالنے اور احمدیت سے علیحدہ کرنے میں فرق ہے.اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ جب کسی کا بیٹا نا فرمان ہو جائے تو اسے عاق کر دیا جاتا ہے مگریہ نہیں کہا جا تا کہ وہ بیٹا ہی نہیں رہا.وہ نطفہ تو اسی کا ہوتا ہے ہاں مل کر کام نہ کرنے کی وجہ سے اسے علیحدہ کر دیا جاتا ہے.اسی طرح جسے جماعت سے نکالا جاتا ہے اسے احمدیت سے نہیں نکالا جا تاجب تک کہ وہ اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے.تو وصیت کے متعلق اگر مجبور کیا جاتا ہو تب کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ ٹھوکر کا باعث ہے یا جو روپیہ وصیت کا آتا ہو وہ کسی ایک شخص کی جائیداد بن رہا ہو.میرے لئے یا میرے بیوی بچوں پر خرچ ہوتا ہو تو کوئی کہ سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو اس روپیہ کو دین کی اشاعت کے لئے خرچ کرنے کو کہا ہے مگر ایسا نہیں ہوتا.پس اگر یہ روپیہ دین کے لئے لیا جاتا ہے اور دین پر خرچ کیا جاتا

Page 95

83 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ ہے تو پھر یہ کہنے سے کہ وصیت خاص لوگوں کے لئے ہے اور ان لوگوں کے لئے ہے جو خاص قربانی کر کے خاص درجہ حاصل کریں تو اس میں ابتلاء کی کونسی بات ہے.یہ ایسی ہی بات ہے کہ گورنمنٹ ایف.اے میں اس طالب علم کو داخل کرتی ہے جو انٹرنس پاس ہو.اب کوئی انٹرنس تو پاس نہ کرے اور کہے گورنمنٹ مجھے ایف اے میں داخل نہیں ہونے دیتی اور مجھ پر بڑا ظلم کرتی ہے تو یہ ظلم کس طرح ہوا.جب تک ایف.اے میں داخل ہونے کی شرط نہ پوری کی جائے اس وقت تک داخلہ کی اجازت کس طرح مل جائے؟ پس ابتلاء کی کوئی بات نہیں جس شخص نے یہ بات لکھی ہے اسے ابتلاء آیا ہو تو خبر نہیں لیکن اور وں کو نہیں آیا بلکہ وصایا میں بہت زیادہ ترقی ہوئی ہے.اس وقت میں پھر دوستوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اگر ان میں سے کوئی یہ چاہتا ہے کہ وہ کون سا کام کرے اسے پتہ لگ جائے کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم کر رہا ہے تو وہ علاوہ اور اصلاح کے اپنے مال کے کم از کم ۱۰ / احصہ کی اور زیادہ سے زیادہ ۱/۳ حصہ کی وصیت کرے.اگر اس کا گزارہ تنخواہ پر ہو تو تنخواہ کے حصہ کی کرے اور اگر جائیداد کی آمدنی پر ہے تو اس کی کرے.اس کے بعد وہ خدا تعالیٰ کے حضور انہی لوگوں میں رکھا جائے گا جو ایفاء عہد کرتے ہیں.(خطبات محمود دجلد 11 صفحہ 370 تا 376 ) جماعت سے مخلصین سے قربانیوں کا مطالبہ (فرمودہ 26 اگست 1932ء ) تمام انسانی ترقیات فرمانبرداری کے ساتھ وابستہ تشہد وتعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - تمام انسانی ترقیات اس تعلق اور فرمانبرداری کے ساتھ وابستہ ہیں جو انسان خدا تعالیٰ کے ساتھ پیدا کرتا یا اس کے احکام کی بجا آوری میں جس کا نمونہ دکھاتا ہے.مونہہ کے خالی الفاظ کبھی انسان کے کام نہیں آتے.اور صرف ظاہری اخلاص انسان کو کچھ بھی نفع نہیں دے سکتا.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی تعریف میں منافق لوگ وہ کچھ کہا کرتے تھے جو مؤمن بھی نہیں کہتے تھے.

Page 96

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 84 اور بسا اوقات وہ اپنے اخلاص کو ایسے الفاظ میں ظاہر کرتے تھے کہ ایک ناواقف سننے والا انسان دھوکا کھا جاتا تھا اور خیال کرتا تھا کہ شاید ان سے بڑھ کر اور کوئی مومن نہیں لیکن جب کام کا وقت آتا، جب قربانی کا مطالبہ کیا جاتا، جب مال اور جان خطرے میں پڑ جاتا اس وقت وہ لوگ بالکل علیحدہ ہو جاتے اور اس طرح آنکھ پھیر لیتے کہ گویا ان کا رسول کریم ﷺ سے کبھی تعلق ہی نہ تھا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے رسول کریم ﷺ کو جو رعب حاصل تھا اور جسکے متعلق آپ خود فرماتے تھے کہ نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ (مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 162) مجھے ایسا رعب دیا گیا ہے کہ ایک مہینہ کی مسافت سے ہی اس کا اثر محسوس ہونے لگتا ہے.اس کی بناء پر منافق یہ تو نہیں کہہ سکتے تھے کہ فَاذْهَبُ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنا ههُنَا قَاعِدُونَ (المائدہ: 25 ) کہ جائو اور تیرا رب دشمنوں سے لڑائی کرو ہم یہیں بیٹھے ہیں.لیکن عملاً انہوں نے نہ ایک دفعہ بلکہ بارہا ایسا کر کے دکھایا.وہ مونہہ سے تو فرمانبرداری کا ہی اظہار کرتے تھے لیکن انہی میں سے وہ لوگ تھے جو احد کی جنگ کے موقع پر شہر سے باہر نکلنے کے بعد واپس لوٹ آئے تھے، انہیں میں سے وہ لوگ تھے جو کہا کرتے تھے کہ ہمارے پاس ہتھیار نہیں اس لئے ہم لڑائی کے لئے نہیں نکل سکتے ، انہیں میں سے وہ لوگ تھے جو بہانے بناتے تھے کہ ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں اور انہی میں سے وہ لوگ تھے جو کہا کرتے تھے کہ ہماری فصلیں کاٹنے کے دن ہیں، اس لئے ہم جنگ پر جانے سے معذور ہیں.وہ اجازتیں طلب کرتے اور درخواستیں کر کر کے رخصتیں حاصل کرتے تھے.یہ نہیں کہتے تھے کہ ہم نہیں جاتے لیکن بہر حال نتیجہ وہی ہوتا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کے جواب کا تھا.ہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کی اکثریت نے کہہ دیا تھا کہ ہم لڑائی پر نہیں جاسکتے لیکن رسول کریم ﷺ کے ساتھیوں کی اقلیت نے کہا کہ ہم جنگ پر جانے سے معذور ہیں کیونکہ منافق اس وقت اقلیت میں تھے اکثریت میں نہ تھے اور گوانہوں نے مونہہ سے ایسا کبھی نہیں کہا لیکن عملاً وہی کچھ کیا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں نے کیا.فرق صرف اتنا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے وقت اکثر نے کہ دیا تھا کہ ہم تیرے ساتھ جنگ پر نہیں جائیں گے اور یہاں اکثر ایسے تھے

Page 97

85 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ الله جنہوں نے رسول کریم ﷺ کے ارشاد پر اپنی جان و مال کو قربان کر دیا.یہاں تک کہ بدر کے موقع پر جبکہ کفار مکہ کا رعب اکثر کے دلوں پر چھایا ہوا تھا اور جبکہ رسول کریم ﷺ کے ساتھی ابھی تازہ تازہ مکہ کے مصائب سے نکلے تھے اور جبکہ بہتوں کے پاس ہتھیار تک نہ تھے اور بہت سے ایسے تھے جو ہتھیار چلانا بھی نہیں جانتے تھے اس وقت رسول کریم ﷺ نے صحابہ سے پوچھا کہ دشمن اس وقت تم سے تعداد میں زیادہ ہے، تیاری میں زیادہ ہے اور ہتھیار بھی زیادہ رکھتا ہے.اب تم لوگوں کا کیا منشاء ہے.مہاجرین نے جواب دیا یا رسول اللہ ﷺ ! ہمارا منشاء یہی ہے کہ ان سے جنگ کی جائے.مگر رسول کریمکے دل میں ایک اور بات کھٹک رہی تھی اور وہ یہ کہ جب آپ مدینہ تشریف لائے تو آپ نے ایک معاہدہ کیا تھا جس کی رو سے انصار کا فرض قرار دیا گیا تھا کہ جب تک آپ مدینہ میں رہیں گے وہ آپ کی حفاظت کریں گے.چونکہ اب آپ مدینہ سے باہر جنگ کے لئے جار ہے تھے اس لئے آپ کو یہ خیال گزرا کہ شاید انصار پر یہ گراں گزرے کہ کیوں انہیں مدینہ سے باہر جنگ کے لئے لے جایا جا رہا ہے جبکہ ان کی ذمہ داری صرف مدینہ کے اندرون حصہ تک محدود ہے اس لئے آپ نے مہاجرین کا جواب سن کر فرمایا کوئی اور بولے.اس پر ایک اور صحابی اٹھے اور انہوں نے بھی جنگ کرنے کی تائید میں تقریر کی.آپ نے فرمایا کوئی اور بولے.انصار اس وقت تک اس لئے خاموش تھے کہ وہ سمجھتے تھے مہاجرین اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ وہ گفتگو کریں کیونکہ ان پر ہی کفار مکہ کی طرف سے مظالم ہوئے ہیں.مگر جب رسول کریم ﷺ نے بار بار اپنی بات کو دُہرایا تو انصار سمجھ گئے کہ آپ کا روئے سخن ہماری طرف ہے.ان لوگوں کا اخلاص اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ باوجود اس بات کے کہ ان کا معاہدہ یہی تھا کہ وہ مدینہ کے اندر رسول کریم ﷺ کی حفاظت کریں گے اور باوجود اس بات کے کہ خدا کے رسول معاہدہ کو تو ڑ نہیں کرتے.اگر انصار اپنے اس معاہدہ پر اصرار کرتے تو ہرگز خدا اور اس کے رسول کا ان پر کوئی گناہ نہ ہوتا لیکن باوجود اس کے کہ بظاہر شرعی ذمہ داری ان پر عائد نہ ہوئی تھی ایک شخص ان میں سے

Page 98

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 86 کھڑا ہوا اور اس نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ! شاید آپ کی مراد ہم انصار سے ہے.آپ نے فرمایا ہاں میرا یہی منشاء ہے.اس صحابی نے کہا یا رسول اللہ علہ ! جب انسان ایمان لے آئے تو پھر یہ سوال ہی کہاں باقی رہ سکتا ہے کہ میرا معاہدہ کیا ہے اور مجھے کس جگہ لڑنا چاہیے.خدا کی قسم! اگر آپ سمندر میں ہمیں گھوڑے ڈالنے کے لئے فرما ئیں تو ہم وہاں بھی گھوڑے ڈال دیں اور دنیا کی کسی جگہ پر آپ جائیں کوئی دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکے گا.آپ کے آگے بھی اور پیچھے بھی دائیں بھی اور بائیں بھی ہم اپنی جانیں لڑا دیں گے اور کوئی شخص آپ تک نہیں پہنچ سکے گا جب تک ہماری لاشوں کو روند تا ہوانہ گزرے.(بخاری.کتاب المغازی باب غزوة بدر ) اگر لڑائی ہی کرنی ہے تو بسم اللہ کیجئے ہم آپ کے ساتھ ہیں.یہ وہ چیز تھی جس کا رسول کریم ﷺ کے ساتھیوں کی اکثریت نے نمونہ دکھایا.اور ایسی ایک ہی نہیں سینکڑوں بلکہ ہزاروں مثالیں ہمیں تاریخ اسلام سے ملتی ہیں جو قربانی کے ایسے اعلیٰ نمونہ پر مشتمل ہیں کہ دنیا کے پردے پر ان کی نظیر تلاش کرنا محال ہے.اور یہ صرف صحابہ کی جماعت سے ہی مخصوص نہیں کسی قوم اور کسی جماعت میں ایسی قربانی نظر آئے خواہ وہ دشمن کی جماعت ہی کیوں نہ ہو دل اس کی عظمت سے لبریز ہو جاتا ہے.غرض یہ وہ نمونے تھے جو ان لوگوں نے دکھائے جو رسول کریم ﷺ کے ساتھی تھے اور پھر اکثریت نے یہ نمونے دکھائے لیکن باوجود اس کے ایک اقلیت ایسی تھی اور ضرور تھی جو اپنے نمونہ میں بالکل حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کی طرح تھی.جس طرح رسول کریم علیہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مثیل تھے اسی طرح آپ کی جماعت کی ایک اقلیت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کی مثیل تھی.اور گوانہوں نے زبان سے ایسا کبھی نہیں کہا کہ فَاذْهَبُ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَاإِنَّا هَهُنَا قَاعِدُون لیکن اس میں شبہ نہیں کہ عملاً انہوں نے ایسا کئی دفعہ کر کے دکھایا اور جب قربانی کا موقع آیا وہ گریز کر گئے.ان کے ظاہری بیانات اور ظاہری اخلاص و محبت کی خدا کے حضور کوئی قدر و قیمت نہ تھی.ان کے ظاہری اخلاص کا قرآن مجید نے بھی نقشہ کھینچا ہے.چنانچہ فرماتا ہے کہ جب منافق

Page 99

87 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ رسول کریم ﷺ کے پاس آتے تو قسمیں کھا کھا کر کہتے کہ تو اللہ کا رسول ہے اور ہمارا اس پر ایمان ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہے تو یہ بیچ مگر یہ جھوٹ بول رہے ہیں.ان کو تجھ پر کچھ ایمان نہیں.(المنفقون: 2) پس ان کی تمام تعریفیں اور تمام تائیدیں جن کا وہ زبانی طور پر اظہار کرتے تھے خدا کے حضور ایک ذرہ بھر بھی قیمت نہیں رکھتی تھیں.باوجود اظہار اخلاص کے ایسے لوگ منافق تھے اور منافقوں میں ہی خدا کے حضور شمار کئے جاتے تھے.ایسے منافق لوگ در حقیقت ہر زمانے میں ہوتے ہیں خواہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ ہو خواہ رسول کریم ﷺ کا.اور خواہ موجودہ زمانہ.پھر ہر زمانہ میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو حقیقی اخلاص رکھتے ہیں.پس ترقی حاصل کرنے والی قوموں کو ابھارنے اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کا انسان کو وارث بنادینے والی وہی قربانی ہوتی ہے جو حقیقی ہو اور جس کا انسانی قلب کے ساتھ تعلق ہو.ورنہ مونہہ کے خالی الفاظ کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتے.مومن اور منافق میں مابه الامتياز ہماری جماعت میں بھی اس وقت دونوں قسم کے لوگ موجود ہیں وہ بھی جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ہی فرما دیا تھا کہ مِنْهُم مِّن قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُم مِّنْ يَنتَظِرُ (الاحزاب : 24) یعنی کچھ تو ایسے لوگ ہیں کہ جو کچھ انہوں نے کہا تھا اسے پورا کر دکھایا اور کچھ ایسے ہیں جو ابھی اس انتظار میں ہیں کہ انہیں کب قربانی کا موقع میسر آئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرسکیں.پھر وہ بھی ہیں جو اپنی زبان کی تائید اور نصرت سے ایسے نمایاں اور بڑھے ہوئے نظر آتے ہیں کہ گویا اگلے پچھلے تمام مومنوں کا اخلاص جمع کر کے انہیں دے دیا گیا ہے.لیکن جب قربانی کا وقت آتا ہے، جب خدمت دین کا موقع آتا ہے تو وہ اس طرح پھسل جاتے ہیں جس طرح مچھلی ہاتھ سے نکل جاتی ہے.وہ ہر مجلس میں آگے بڑھ کر باتیں بنائیں گے، مونہہ پر ان کے قربانی ہوتی ہے، لیکن دل میں نفاق ہوتا ہے.وہ ایک مانگے کی نورانی چادر اوڑھنا چاہتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ جب ان کے دل سیاہ ہیں تو یہ مانگی ہوئی چادر انہیں کیونکر سفید کر سکے گی.اور نہیں سمجھتے کہ دوسرے

Page 100

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 88 سے مانگی ہوئی سفیدی انسان کو روشن نہیں کیا کرتی بلکہ اندر کی سفیدی انسان کو روشن کیا کرتی ہے.جب ایک شخص کے دل میں نور نہ ہو تو اس کے چہرے پر بھی نور نہیں آتا.اسی لئے منافقوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کی باتوں کی طرف نہ دیکھو بلکہ ان کے چہروں کی طرف دیکھو تمہیں نظر آجائے گا کہ ان پر نور نہیں.ان کے چہرے دلالت کرتے ہیں کہ تقوی ، اخلاص، محبت اور قربانی کی ان لوگوں میں کمی ہے.جب کبھی قربانی کا مضمون بیان ہو رہا ہوتو تم دیکھو گے کہ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمُ لوَاذًا (النور : 64) وہ ایچ بیچ کر کے اس سے نکل جاتے ہیں.ہاں جب اپنے فائدہ کی بات ہو تو پھر سب سے بڑے مدعی و ہی بن جائیں گے اور کہیں گے کہ ہم ایسے اور ہم ایسے.یہ دونوں قسم کے لوگ ہمارے اندر بھی ہیں.ہمارا فرض ہے کہ جہاں ہم مخلصین کو بڑھانے کی کوشش کریں، وہاں دوسروں کو گھٹانے کی کوشش کریں.نفاق قوم کے لئے ناسور ہوتا ہے.جس طرح ناسور جس جسم میں پیدا ہو جائے اسے گھلاتا چلا جاتا ہے اسی طرح نفاق بھی جس شخص یا جس قوم میں ہو، اسے ہلاکت کے قریب کرتا چلا جاتا ہے.تم نے ناسور کا مریض دیکھا ہوگا.بظاہر اس کا سارا جسم اچھا ہوتا ہے اور کسی ایک مقام پر باریک سا سوراخ ہوتا ہے.کبھی ہاتھ پر اور کبھی اور کسی حصہ جسم پر لیکن وہ ذرا سا زخم اندر ہی اندر انسان کو کھلا تا چلا جاتا ہے.اگر ایک جگہ سے اچھا ہو جائے تو دوسری جگہ سے نکل آتا ہے اور اگر وہاں سے بھی اچھا ہو جائے تو تیسری جگہ سے پھوٹ پڑتا ہے.یہی کیفیت نفاق کی ہوتی ہے.بظاہر ایسا شخص بالکل تندرست معلوم ہوتا ہے اور خیال ہوتا ہے کہ یہ معمولی بیماری ہے لیکن وہ ایسی خطرناک ہوتی ہے کہ جس طرح ناسور کی بیماری روح اور جان کو گھلائے چلی جاتی ہے.تندرستوں کے زمرہ سے نکال دیتی اور موت کے قریب کر دیتی ہے.اسی طرح نفاق کا بیمار بھی روحانی موت کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے اور روحانی زندگی سے لطف اٹھانے کا موقع اسے میسر نہیں آتا.بظاہر اس کے تمام حالات درست ہوتے ہیں.لیکن وہ چھوٹا سا نظر آنے والا آزار روزانہ اس کی حالت کو بد سے بدتر بنا تا چلا جاتا ہے.یا درکھو نفاق اور ایمان میں لمبا فاصلہ نہیں ہوتا.بہت لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید منافقوں کے سرسینگ

Page 101

89 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ ہوتے ہیں.وہ خود نفاق کی مرض میں مبتلاء ہوتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ نفاق کیا ہوتا ہے.دراصل نفاق بھی جنون کی طرح ہوتا ہے جس طرح پاگل آدمی کبھی یہ نہیں مانتا کہ وہ پاگل ہے بلکہ وہ ہمیشہ یہ سمجھتا ہے کہ میں نہیں دوسرے پاگل ہیں.اور جب اسے علاج کے لئے کہو تو وہ کہے گا میں بالکل اچھا ہوں اسی طرح منافق سمجھتا ہے کہ میں منافق نہیں.اور خیال کرتا ہے کہ میں مصلح ہوں، حالانکہ وہ مفسد ہوتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں بھی آتا ہے کہ جب منافقوں سے کہا جاتا ہے کہ تم زمین میں فساد نہ کرو تو وہ کہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو مصلح ہیں مفسد نہیں.غرض نفاق اور ایمان میں بہت چھوٹی سی دیوار ہے.اتنی چھوٹی کہ وہ ذرا سی ٹھوکر سے ٹوٹ جاتی اور انسان کو مؤمنوں کے زمرہ سے نکال کر منافقوں میں شامل کر دیتی ہے.منافقوں کی علامات بیان کرتے ہوئے رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ ایسا شخص جب روایت کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، تبادلہ کلام ہو تو گالیوں پر اتر آتا ہے، وعدہ کرے تو اسکی خلاف ورزی کرتا ہے.یہ تین منافقوں کی بڑی علامتیں ہیں.منافق ہمیشہ گالیاں دینے والا جھوٹ بولنے والا اور وعدہ خلافی کرنے والا ہوگا.سب سے بڑی وعدہ خلافی تو یہ ہے کہ خدا سے عہد کرتا اور پھر مکر جاتا ہے اور بائیں ہمہ وہ نادان خیال کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سارے انعامات اسے حاصل ہو جائیں گے اور وہ جنت میں داخل ہو سکے گا.حالانکہ وہ یہ نہیں سمجھتا کہ وہ اپنے لئے جہنم تیار کر رہا ہے اور روز بروز اللہ تعالیٰ کے انعامات سے محروم ہورہا ہے.میں اپنی جماعت کے دوستوں کو کہتا ہوں کہ وہ وعدہ جو انہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے کیا ہوا ہے دیکھیں کہ انہیں اس میں کس قدر پختگی حاصل ہے.تم اپنے نفسوں پر غور کرو اور سوچو کہ تم نے جو اللہ تعالیٰ سے عہد کیا تھا اسے کس قدر پورا کیا.مومن اور منافق میں یہی فرق ہے کہ مومن ہمیشہ یہ خواہش کرتا ہے کہ اسے اور قربانی کا موقع ملے اور منافق ہر قربانی پر روتا ہے اور کہتا ہے مصیبت آگئی.چندہ دینا پڑے تبلیغ کے لئے نکلنا پڑے، خدمت دین کے لئے کوئی تحریک کی جائے ہر موقع پر وہ روئے گا اور کہے گا بڑی مصیبت ہے، ہر وقت چندہ ہی چندہ مانگا جاتا ہے.جس کام کو انسان دل

Page 102

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 90 سے نہیں کرتا بلکہ روتے ہوئے کرتا ہے، اس کے کرنے پر اسے ثواب کس طرح مل سکتا ہے.اللہ تعالیٰ کو ہمارے کاموں کی احتیاج نہیں.وہ تو ایک گن کہنے سے قوموں کو بڑھا دیتا اور ایک گن کہنے سے انہیں گرا دیتا ہے.مسلمان کبھی ساری دنیا کے حکمران تھے اور یورپین مادر زاد ننگے پھرا کرتے تھے.لیکن مسلمان کیوں گر گئے اور کس لئے یورپین ترقی کر گئے.یہاں تک کہ آج یورپین کہتے ہیں کہ مسلمان بد تہذیب اور علوم سے نابلد ہیں.کس چیز نے مسلمانوں کو ذلیل اور پست کر دیا اور کس چیز نے یورپین لوگوں کو بڑھا دیا.یہ اللہ تعالیٰ کے گن کا کرشمہ ہے.خدا نے یورپین قوموں سے کہا کہ بڑھو.وہ بڑھنے لگ گئیں.اور مسلمانوں کو سزا کے طور پر کہا کہ گر جاؤ.یہ گرنے لگ گئے.جب قربانی کے بعد دل میں محسوس ہو اس وقت سمجھ لینا چاہیے لینا چاہیے کہ ابھی کامل ایمان حاصل نہیں ہوا پس ہماری قربانیاں کیا چیز ہیں.آج جو قربانیاں مسلمان کر رہے ہیں مجموعی طور پر ان تمام صحابہ کی قربانیوں سے بڑھ کر ہیں جو اپنا سارا مال خدمت دین کے لئے رسول کریم اللہ کے سامنے پیش کر دیا کرتے تھے مگر آج کل کے مسلمانوں کا کروڑوں روپیہ وہ نتیجہ پیدا نہیں کرتا جو رسول کریم نے کے زمانہ کے چند صحابہ تھوڑے سے روپے سے پیدا کرتے تھے.آج کل بمبئی اور کلکتہ میں چلے جاؤ.مسلمانوں کی بڑی بڑی عمارتیں نظر آئیں گی.کالج ہوں گے ،سرائیں ہوں گی، مسجد میں ہوں گی ہیں ہیں لاکھ روپیہ کی عمارتیں بنی ہوئی ہوں گی مگر آج مسلمانوں کی مجموعی قربانیاں وہ رنگ نہیں لاتیں جو مدینہ کے چند مسلمانوں کی قربانیاں رنگ لائیں.وہ تھوڑے تھے اور تھوڑا سرمایہ رکھتے تھے مگر باوجود اس کے جب وہ قدم اٹھاتے تھے تو حکومتیں ان کے سامنے گر جاتی تھیں جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ وہ اخلاص والا دل جس سے قربانی کی جائے، ترقی دیتا ہے.ورنہ اگر صرف مالی قربانی ہی ترقی دے سکتی تو آج مسلمان بہت زیادہ ترقی کر جاتے.اگر کوئی شخص روتا ہوا اپنا آدھا مال بھی اللہ تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کرتا ہے تو اسے فائدہ نہیں پہنچا سکتا.فائدہ ہمیشہ انہی قربانیوں کا ہوتا ہے جو خوشی ، اخلاص اور بشاشت سے کی جائیں.وہ قربانیاں جو بشاشت سے نہیں کی جاتیں ان کا ذرہ بھر بھی

Page 103

91 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ فائدہ نہیں ہوسکتا.یوں قربانی کرنے کو منافق بھی کرتا ہے.کبھی لوگوں کو دکھانے کے لئے کبھی دوسروں کے ضرر سے بچنے کے لئے اور کبھی خود فائدہ حاصل کرنے کے لئے.لیکن چونکہ اس کے دل میں اخلاص، محبت اور بشاشت نہیں ہوتی ، اس لئے اس کی قربانی خواہ وہ کتنی ہی اہم کیوں نہ ہو، اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی قیمت نہیں رکھتی.پس ضروری ہے کہ ہم جماعت میں اخلاص اور تقویٰ پیدا کریں کیونکہ اخلاص اور تقویٰ پر مبنی قربانیاں ہی سلسلہ کو مضبوط کرتی ہیں.اس میں شبہ نہیں جماعت کے مخلصین نہایت شاندار قربانیاں کرتے ہیں مگر منافقوں کی تعداد باقیوں کا کام بھی خراب کر دیتی ہے اور خلوص سے جماعت کا ایک حصہ جو کام کر رہا ہوتا ہے اس میں رخنہ واقع ہو جاتا ہے.پھر چندے ہیں ان کے متعلق بھی میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں سستی پائی جاتی ہے جو فرض چندے ہیں ان کے متعلق بھی ہزار ہا آدمی ہماری جماعت میں ایسے موجود ہیں جو سالہا سال تک ادا نہیں کرتے اور ہزار ہا ایسے آدمی ہیں جو کہتے رہتے ہیں کہ چندے زیادہ ہیں ہم دے نہیں سکتے.حالانکہ اگر ان کی جو چندہ دیتے ہیں ایک فہرست بنائی جائے اور چندہ نہ دینے والوں کی بھی فہرست تیار کی جائے تو چندہ نہ دینے والے ایسے ہوں گے جو دینے والوں سے زیادہ آسودہ اور امیر ہوں گے.فرق صرف یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے نفس پر روپیہ خرچ کرنے کی عادت ڈال لیتے ہیں اور دوسرے خدا کے لئے روپیہ خرچ کرنے کی عادت ڈال لیتے ہیں.پھر ہزار ہا آدمی ہماری جماعت میں ایسے بھی پائے جاتے ہیں جو بسا اوقات چندے کے لئے فاقہ برداشت کرتے ہیں اور بسا اوقات اپنی بیوی بچوں کا پیٹ کاٹ کر مرکز میں روپیہ بھیجتے ہیں اور اس تنگی کے باوجود وہ اپنے دل میں بشاشت پاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ خدا کا قرض اسی لئے ہے کہ اسے ادا کر دیا جائے.در حقیقت وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے خدا نے جماعت احمدیہ کی تعریف کی ہے ورنہ وہ منافق جو سالہا سال چندوں کی ادائیگی کی طرف توجہ نہیں کرتے ان کی وجہ سے کسی جماعت کی کیا تعریف ہو سکتی ہے.ان کے لئے تو لہو لگا کر شہیدوں میں داخل ہونے والی بات ہے بلکہ دراصل وہ جماعت کے لئے نگ و عار کا باعث ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ شاید جماعت کے ساتھ جو الہی وعدے ہیں ان میں وہ

Page 104

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 92 بھی شامل ہو جائیں گے حالانکہ خدا تو دل کو جانتا ہے اور وہ قلبی کیفیات کے مطابق ان سے سلوک کرے گا.وہ سمجھتے ہیں کہ قیامت کے دن خدا صرف اتنا ہی پوچھے گا کہ کون کون احمدی کہلا تا ہے اور جو اپنے آپ کو احمدی کہے گا اسے جنت میں داخل کر دے گا.یہ احمق اتنا نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالیٰ تو منافقوں کے متعلق فرماتا ہے إِنَّ المُنفِقِينَ فِي الدَّرَكِ الا سُفَلِ مِنَ النَّارِ (النساء: 146) منافق دوزخ کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوں گے مگر یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید انہیں جنت میں سب سے اعلیٰ مقام میسر آئے گا.اللہ تعالیٰ کی دلوں پر نگاہ ہے اور قلوب اس کے سامنے اسی طرح کھلے ہیں جس طرح آئینہ میں ہر چیز نظر آجاتی ہے.پس میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جہاں انہیں نفلوں کی طرف توجہ کرنی چاہیئے وہاں فرائض کی طرف سے بھی غافل نہیں ہونا چاہئے.مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جب کبھی کوئی تحریک کی جائے وہ مخلص جو پہلے ہی بوجھ کے نیچے دبے ہوتے ہیں اور زیادہ حصہ لینا شروع کر دیتے ہیں.اور منافق سمجھ لیتا ہے کہ میں اس تحریک سے مستفی ہوں، وہ اپنے آپ کو اسی طرح مستثنی خیال کرتے ہیں جیسا کہ میں نے اکثر دیکھا کہ حضرت خلیفہ اول (اللہ آپ سے راضی ہو ) جب زیادہ بیمار ہوتے تو فرمایا کرتے.لوگ اُٹھ جائیں میں ہمیشہ دیکھتا کہ آپ کے اس کہنے پر کبھی سارے لوگ نہ اٹھتے بلکہ بعض اُٹھ جاتے اور بعض بیٹھے رہتے.جب آپ دیکھتے کہ اب بھی کچھ باقی ہیں تو آپ فرمایا کرتے کہ اب نمبر دار بھی چلے جائیں.ایک دفعہ ہنس کر مجھے فرمانے لگے نمبر دار ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو علاقہ کا نمبر دار خیال کر کے سمجھتے ہیں کہ ہمیں حکم نہیں ملا، دوسروں کو دیا گیا ہے.اسی طرح یہ منافق بھی اپنے آپ کو نمبر دار خیال کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم مستثنیٰ ہیں.لیکن جماعت کا وہ حصہ جو قربانی کرتا ہے میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کے اخلاص اور قربانیوں کو ضائع نہیں کرے گا اور یقیناً وہ اس ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل کو کھینچ رہے ہیں.لیکن ان کی قربانیاں منافقوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھی بھڑ کا رہی ہیں.جب ایک بوجھ کے نیچے دبا ہوا انسان اور زیادہ قربانی کرتا چلا جاتا ہے تو جہاں اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی رحمت بڑھتی ہے، وہاں غافلوں کی طرف اس کا غضب بھی حرکت کرتا اور ان کے نفاق کو بالکل

Page 105

93 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ برہنہ کر دیتا ہے.پس میں ان کو جوست ہیں اور ان کو بھی جو اپنے آپ کو نمبر دار سمجھتے ہیں کہتا ہوں کہ ایک دن وہ بھی مرکز اللہ تعالیٰ کے پاس جانے والے ہیں.یہ دنیا ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں.اس میں نہ پہلے لوگ ہمیشہ زندہ رہے اور نہ وہ ہمیشہ رہیں گے.مونہہ سے کہہ دینا کہ ہم تنگدست ہیں یہ قابل قبول نہیں ہو سکتا.ہم نے کروڑ پتی بھی ایسے نہیں دیکھے جو اپنی حالت پر خوش ہوں.ہم نے لاکھ پتی ایسے دیکھے ہیں جو اپنی تنگدستی کا رونا روتے ہیں.انہیں یہ شکوہ ہوتا ہے کہ وہ کروڑ پتی کیوں نہیں ہو جاتے.جب ایک کروڑ حاصل ہو جائے تو پھر یہ حسرت ہوتی ہے کہ دوسرا کروڑ کیوں حاصل نہیں ہوتا.اور جب دو کروڑ ہو جائے تو تیسرے کروڑ کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے.غرض یہ رونا تو دل سے تعلق رکھتا ہے، روپوں سے نہیں.اس کے مقابلہ میں بعض اخلاص والے ایسے ہوتے ہیں کہ وہ کچھ بھی نہیں رکھتے مگر وہ ایسے خوش ہوتے ہیں گویا انہیں سارے جہان کی بادشاہت میسر ہے.ایک دفعہ یہاں کے ایک غریب شخص نے مجھ سے اصرار شروع کیا کہ میں اس کی دعوت منظور کروں.مجھے اس کی دعوت منظور کرنے سے حجاب آتا کیونکہ میں سمجھتا کہ اسے خود تو کئی کئی دن کے فاقے آتے ہیں اگر میری دعوت کرے گا تو ان فاقوں میں اور اضافہ ہو جائے گا.کیونکہ آخر کہیں سے لے کر ہی خرچ کرے گا، اس لئے میں دعوت منظور نہ کرتا.مگر کچھ مدت کے بعد جب اس کا اصرار حد سے بڑھ گیا تو میں نے دیکھا کہ اب میرا انکار اس کی دل شکنی کا موجب ہوگا.چنانچہ میں نے اس کی دعوت منظور کر لی.اتفاقاً اس دن ہمارے ایک دوست آئے اور دعوت میں شریک ہوئے.ان کی یہ خصوصیت ہے کہ جو ان کے دل میں آتا ہے فوراً کہہ دیتے ہیں.پنجابی زبان میں ایسے لوگوں کو مونہہ پھٹ کہتے ہیں.جب دعوت کھا کر باہر آئے تو وہ مجھ سے کہنے لگے کیا آپ ایسے لوگوں کی دعوت بھی قبول کر لیتے ہیں.میں نے کہا آپ اس شخص کے دل کی حالت کیا جانیں.سالہا سال سے یہ اصرار کرتا چلا آرہا تھا کہ میں اس کی دعوت قبول کروں.اور میں جانتا تھا کہ اس کے ہاں دعوت کھانا اس پر ظلم کرنا ہے.مگر اس کے اصرار کو دیکھ کر میں سمجھا کہ اب دعوت کو رد کرنا اس

Page 106

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 94 سے بھی زیادہ ظلم ہے.پس کئی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو تنگی کی حالت میں بھی دل میں بشاشت پاتے ہیں اور غریب ہو کر بادشاہوں سے بھی زیادہ وسیع الحوصلہ ہوتے ہیں.یہی لوگ ہیں جن کے لئے اللہ تعالیٰ کی تائید نازل ہوتی ہے کیونکہ مؤمن کی تعریف اللہ تعالیٰ یہی بیان فرماتا ہے.الَمُ نَشْرَحُ لَكَ صَدْرَكَ (الانشراح : 2) دوسری جگہ فرماتا ہے کہ ہم جن کی بھلائی چاہتے ہیں ان کے سینے کھول دیتے ہیں.تو ایمان کی علامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے شخص کا سینہ کھل جاتا ہے.جب قربانی کے بعد دل میں تنگی محسوس ہو، اس وقت سمجھ لینا چاہیے کہ ابھی کامل ایمان حاصل نہیں ہوا، ایمان کی حالت میں انسان بشاشت محسوس کرتا ہے اور ایسی حالت میں اگر ادنیٰ سے ادنی چیز بھی خدا کی راہ میں دی جائے تو وہ مقبول ہو جاتی ہے.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ایک صحابی نے سارا دن مزدوری کی اسے تھوڑے سے دانے اجرت میں ملے اس نے ایک مٹھی دانے رسول کریم کی خدمت میں حاضر کئے.منافقوں نے یہ دیکھا تو خوب قہقہے لگائے اور کہنے لگے کیا ان دانوں سے ملک فتح ہوں گے.حالانکہ انہوں نے یہ نہ سمجھا کہ اسے صرف دو مٹھی دانے ملے جن میں سے ایک مٹھی اس نے خدا کی راہ میں دے دیئے.پس اس کا اخلاص ان لوگوں سے ہزاروں درجے بڑھ کر تھا جو بہت سا رو پیدا اپنے گھر میں رکھتے اور خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے.صلى الله مومن ہی وصیت کرتا ہے: تیسرا فرض جس کی طرف میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں ، وہ وصیت کا مسئلہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ وصیت ایمان کی آزمائش کا ذریعہ ہے.اور وہ اس کے ذریعہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کون سچا مومن ہے اور کون نہیں.ہماری جماعت اس وقت لاکھوں کی تعداد میں ہے.مگر وصیت کرنے والے صرف دو تین ہزار ہیں.حالانکہ وصیت ایسی چیز ہے جو یقینی طور پر خدا کا مقرب ہونا ظاہر کرتی ہے.اس میں شبہ نہیں کہ مؤمن ہی وصیت کرتا ہے.لیکن اس میں بھی شبہ نہیں کہ اگر کسی شخص میں کچھ

Page 107

95 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ کمزوریاں بھی پائی جاتی ہوں تو جب وہ وصیت کرے تو اللہ تعالیٰ اپنے اس وعدہ کے مطابق کہ بہشتی مقبرہ میں صرف جنتی ہی مدفون ہوں گے ، اس کے اعمال کو درست کر دیتا ہے.پس وصیت اصلاح نفس کا زبر دست ذریعہ ہے کیونکہ جو بھی وصیت کرے گا اگر وہ ایک وقت میں جنتی نہیں تو بھی وہ جنتی بنا دیا جائے گا اور اگر اعمال اس کے زیادہ خراب ہیں تو خدا اس کے نفاق کو ظاہر کر کے اسے وصیت سے الگ کر دے گا.غرض وصیت کرنے والے کو یا تو اللہ تعالیٰ اصلاح نفس کی توفیق دے کر جنتی بنادے گا یا اسے وصیت سے الگ کر کے اس کے نفاق کو ظاہر کر دے گا.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ادنیٰ سے ادنیٰ قربانی کا درجہ جو حضرت مسیح موعود نے رکھا ہے یعنی دسواں حصہ، جماعت کا معتدبہ حصہ اس میں بھی حصہ نہیں لیتا حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت وصیت کی طرف توجہ کرے تو ایک کثیر حصہ بخوبی وصیت کر سکتا ہے.مگر افسوس یہ ہے کہ لوگ توجہ نہیں کرتے.اب ہمارا سلسلہ خدا کے فضل سے اس مقام تک پہنچا ہوا ہے کہ بہت سی روکیں ہمارے راستہ سے دور ہو گئی ہیں اور کروڑوں آدمی ایسے ہیں جو مانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود بچے تھے.مگر ضرورت یہ ہے کہ ہم ان کے پاس پہنچیں اور انہیں سلسلہ میں داخل کریں.مگر ابھی سامان ہمارے پاس ایسے نہیں.جاہلوں کو جانے دو تم سمجھدار لوگوں سے بات کرو، فورا تمہیں محسوس ہوگا کہ ان کے دل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کے قائل ہیں.ضرورت ہے کہ ان کے پاس پہنچا جائے مگر اس کے لئے تبلیغی وسعت کی ضرورت ہوگی اور یہ وسعت پھر سرمایا چاہتی ہے.اسی طرح سینکڑوں ممالک کے لوگ ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی ہمارا مبلغ جائے ، مگر ہم نہیں بھیج سکتے.گویا ایک زمانہ تو ایسا تھا کہ جب ہم لوگوں کو اپنی باتیں سنانا چاہتے تھے اور وہ سنتے نہیں تھے یا اب یہ حالت ہے کہ لوگ ہماری باتیں سننا چاہتے ہیں اور ہم سنا نہیں سکتے.اس روک کو دور کرنا ہمارا فرض ہے.میں سمجھتا ہوں اگر دوست وصیت کی طرف توجہ کریں تو یہ روک اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت جلد دور ہو سکتی ہے.

Page 108

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 96 جنَّةُ أزلفت کا صحیح ترجمه وصیت ہی ہے : تیسرے وصیت کا مسئلہ ہے.یہ خدا نے ہمارے لئے ایک نہایت ہی اہم چیز رکھی ہے اور اس ذریعہ سے جنت کو ہمارے قریب کر دیا ہے.پس وہ لوگ جن کے دل میں ایمان اور اخلاص تو ہے مگر وہ وصیت کے بارہ میں سنتی دکھلا رہے ہیں، میں انہیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ وصیت کی طرف جلدی بڑھیں.انہی بستیوں کی وجہ سے دیکھا جاتا ہے کہ بڑے بڑے مخلص فوت ہو جاتے ہیں.ان کے آج کل کرتے کرتے موت آجاتی ہے پھر دل کڑھتا ہے اور حسرت پیدا ہوتی ہے کہ کاش یہ بھی مخلصین کے ساتھ دفن کئے جاتے مگر دفن نہیں کئے جاسکتے.سب کے دل ان کی موت پر محسوس کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ مخلص تھے اور اس قابل تھے کہ دوسرے مخلصین کے ساتھ دفن کئے جاتے مگر ان کی ذراسی غفلت اور ذراسی سستی اس امر میں حائل ہو جاتی ہے.پھر بیسیوں ہماری جماعت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو دسویں حصہ سے زیادہ چندہ دیتے ہیں مگر وہ وصیت نہیں کرتے.ایسے دوستوں کو بھی چاہیے کہ وصیت کر دیں بلکہ ایسے دوستوں کیلئے تو کوئی مشکل ہے ہی نہیں پھر کئی ایسے ہیں جو پانچ پیسے یا چھ پیسے فی روپیہ چندہ دے رہے ہوتے ہیں اور صرف دمڑی یا دھیلا انہیں وصیت سے محروم کر رہا ہوتا ہے.غرض تھوڑے تھوڑے پیسوں کے فرق کی وجہ سے ہماری جماعت کے ہزار ہا آدمی وصیت سے محروم ہیں اور جنت کے قریب ہوتے ہوئے اس میں داخل نہیں ہوتے.پھر بعض لوگ مرض الموت میں وصیت کر دیتے ہیں حالانکہ یہ وصیت منظور نہیں ہوتی.رسول کریم علیہ نے اسے ناپسند فرمایا ہے.وصیت وہی ہے جو حیات اور زندگی میں کی جائے اور غیر مشتبہ ہو.پس دوستوں کو چاہیے کہ جو وصیت کے برابر چندہ دیتے ہیں اور ایسے سینکڑوں آدمی ہیں وہ حساب لگا کر وصیت کر دیں.بعض اگر غور کریں گے تو انہیں معلوم ہوگا کہ صرف ایک پیسہ زیادہ چندہ دینے سے ان کے لئے جنت کا وعدہ ہو جاتا ہے.پس جس قدر ہو سکے دوستوں کو چاہیے کہ وہ وصیت کریں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ وصیت کرنے سے ایمانی ترقی ضرور ہوتی ہے.جب اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اس زمین میں متقی کو دفن کرے گا تو جو شخص

Page 109

97 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ وصیت کرتا ہے اسے منتقی بنا بھی دیتا ہے.پس میری تین نصیحتیں ہیں.خصوصیت سے کمزوروں کو نصیحت ہے کہ وہ دوسروں کے لئے ٹھوکر کا موجب نہ بنیں.وہ جنت کے دروازے پر کھڑے ہوکر جنت سے محروم نہ ہوں اور ایسا نہ ہو کہ ان کے لئے وہی الفاظ کہنے پڑیں جو اللہ تعالیٰ نے کہے.ان الْمُنْفِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ کہ منافق دوزخ کے سب سے نچلے حصہ میں جائے گا پس منافقوں کو چاہیے کہ وہ اپنی منافقت کو چھوڑ کر اخلاص کے مقام پر آجا ئیں.عیش کے سامانوں سے کبھی جنت حاصل نہیں ہوتی اور نہ ظاہری تکلیفوں کی وجہ سے جنت ضائع ہوسکتی ہے.جنت ہر انسان کا دل اپنے لئے بنا سکتا ہے جس کا دل مطمئن ہے وہ جنت میں ہے اور جس کا دل مطمئن نہیں خواہ وہ روپوں کے ڈھیر رکھتا ہے تب بھی وہ دوزخ میں ہے.حضرت خلیفہ اول ( اللہ آپ سے راضی ہو ) فرمایا کرتے تھے کہ ایک غریب بیوہ عورت سے میں نے پوچھا تمہیں کوئی ضرورت ہو تو بیان کرو.اس کا ایک لڑکا بھی تھا اور بے حد غریب تھی.میں نے پوچھا کہ کسی مدد کی ضرورت ہو تو بتاؤ.وہ کہنے لگی اللہ نے بہت کچھ دیا ہوا ہے اس کا بڑا فضل ہے.آپ فرماتے میں نے اس کا گھر دیکھا تو اس میں صرف ایک چھوٹا سا لحاف اور معمولی سی چار پائی تھی.میں نے پوچھا مائی تمہیں لحاف چاہیے.کہنے لگی مولوی صاحب میر الحاف بڑا عمدہ ہے.خوب گرم ہو جاتی ہوں.آپ نے فرمایا سردی زیادہ ہے اور لحاف چھوٹا ہے گرم کس طرح ہوتی ہو.کہنے لگی ہم ماں بیٹا ایک ہی جگہ سو جاتے ہیں جب سردی لگتی ہے تو پہلے ایک پہلو کوگرم کر لیتے ہیں، پھر دوسرے کو.آپ اصرار کرنے لگے کہ کوئی ضرورت بیان کرو.مگر وہ یہی کہتی رہی کہ اللہ کا بڑا فضل ہے.آخر جب آپ نے زیادہ زور دیا تو اس نے کہا کہ اگر کچھ دینا ہی ہے تو موٹے حرفوں والا قرآن لے دیں.میری نظر کمزور ہوگئی ہے اور باریک حرفوں والے قرآن سے حروف نظر نہیں آتے.اب دیکھو یہ جنت کہاں سے پیدا ہوئی.اس کے دل میں جنت تھی ، اس لئے باوجود یہ کہ حضرت خلیفہ اول ( اللہ آپ سے راضی ہو ) نے اس کے دل میں کسی چیز کی خواہش پیدا کرنی چاہی پھر بھی پیدا نہ ہوئی.پس خدا نے اسے دنیا میں ہی جنت دے رکھی تھی.دراصل خواہشات کی زیادتی دوزخ ہے.جنت یہی ہے کہ دل

Page 110

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 98 میں اطمینان ہو.یہ جنت ہر شخص کے قبضہ میں ہے اور جو چاہے اسے لے سکتا ہے.امیر بھی لے سکتا ہے اور غریب بھی.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بعض امیر صحابی تھے جو قربانیاں کیا کرتے تھے.جس طرح آج کل بھی بہت سے امیر ہیں جو اخلاص سے قربانیوں میں حصہ لیتے ہیں اور ان کے دل غریبوں سے کم مطمئن نہیں اس وقت بھی ایسے لوگوں کو دیکھ کر غریبوں نے شکایت کی کہ رسول اللہ ظاہری تکلیفیں تو ہیں ہی لیکن ہم سمجھتے تھے کہ جو دل کا اطمینان ہمیں نصیب ہے وہ ان کو نہیں اس لئے ہم خوش ہیں.لیکن اب ہم دیکھتے ہیں کہ ان کا دل بھی اسی طرح مطمئن ہے جس طرح ہمارا.اس طرح یہ دنیا میں بھی آرام میں رہے اور آخرت میں بھی.رسول کریم ﷺ نے ان کے اخلاص کو دیکھ کر فرمایا آؤ میں تمہیں چند کلمات سکھاؤں.اگر ان کا ورد کرو گے تو پانچ سو سال پہلے جنت میں جاؤ گے.اس پر وہ خوش خوش چلے گئے.کچھ دنوں کے بعد انہوں نے پھر شکایت کی کہ یا رسول اللہ وہ کلمات تو امیر بھی کہنے لگ گئے ہیں.دراصل ان امیر لوگوں کے دلوں میں بھی اخلاص تھا.جب انہوں نے رسول کریم ہے کے یہ سکھائے ہوئے کلمات سنے تو وہ بھی پڑھنے لگ گئے.جب آپ کے پاس شکایت کی گئی تو آپ نے فرمایا اگر کی پر اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہورہا ہو تو میں اسے کس طرح روک سکتا ہوں.پس جنت صرف غریبوں کے لئے ہی نہیں بلکہ امیروں کے لئے بھی ہے.جب قربانی اور اخلاص سے انسان جنت کا وارث ہو سکتا ہے تو یہ قربانی اور اخلاص جو بھی دکھائے گا جنت کا وارث ہو جائے گا.خواہ امیر ہو یا غریب ، اور قرآن مجید میں تو یہ مسیح موعود کے زمانہ کی علامت بیان کی گئی ہے کہ وَإِذَا الْجَنَّةُ أزلفت (التکویر : 14) یعنی اس زمانہ میں جنت قریب کی جائے گی.میں سمجھتا ہوں کہ اس کا صحیح ترجمہ وصیت ہی ہے.یعنی مسیح موعود کے زمانہ میں جنت اس طرح قریب کر دی جائے گی کہ لوگوں کو یقین ہو جائے گا کہ فلاں کو جنت مل گئی.( خطبات محمود جلد 13 صفحه 552 تا 566)

Page 111

99 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ کوئی شخص ظاہر طور پر کسی حکم شریعت کو توڑنا تو نہیں؟ وصیت کے متعلق میرے خیالات بہت سخت ہیں.میرے نزدیک وصیت مرض الموت کی درست نہیں.کیونکہ اس وقت انسان خواہ کسی ایمان کا ہو.موت کو قریب سمجھ کر مال کی قربانی کے لئے تیار ہوتا ہے دوم اس سے یہ نقص پیدا ہوتا ہے کہ ایک شخص جواڑ ھائی تین سو روپیہ ماہوارتنخواہ پاتارہتا ہے اور دین کی خدمت سے غافل اور اسکی جائیداد کوئی نہیں ہوتی.وہ ایسے وقت میں وصیت کر کے وصیت کے اصل مفہوم کے خلاف عمل کر کے وصیت کنندوں میں شامل ہو جاتا ہے.سوم میرے نزدیک یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ ایک شخص کا گزارہ اس کی جائیداد پر ہے یا تنخواہ پر اگر اصل چیز اس کی تنخواہ ہے تو اس پر وصیت ہونی ہ چاہیے.ورنہ ایک ہنسی بن جاویگی اسی طرح میرے نزدیک یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ کوئی شخص ظاجہ طور پر کسی حکم شریعت کو توڑتا تو نہیں؟ ظاہر کی شرط اس لئے کہ دل کا حال خدا تعالیٰ جانتا ہے.میرے نزدیک جو داڑھی بھی منڈوا تا ہے اس کی بھی وصیت جائز نہیں.کیونکہ شعار اسلام کی ہتک کرنے والا ہے.( اخبار الفضل نمبر 45 جلد 7 مؤرخہ 8 دسمبر 1919 ء ) وصیت کا ادنی درجہ حضرت مسیح موعود نے دس فیصدی کہا ہے خطبه جمعه فرمودہ 19 مارچ 1926ء) میں نے جلسہ سالانہ میں اعلان کیا تھا کہ مالی مشکلات کی وجہ سے کچھ عرصہ تک ہر سال چندہ خاص لینا پڑے گا.تب جا کر کام چلے گا.میں نے کہا تھا دوست اپنی ایک ماہ کی آمدنی کا چالیس فیصدی ہر سال دیا کریں.یہ ایک مہینہ کی آمد کے لحاظ سے سوا تین فیصد بنتی ہے.اور پہلے جماعتیں ۱/۴-۶ فیصدی چندہ دیتی ہیں یعنی ایک آنہ فی روپیہ ماہوار اس میں اگر ایک ماہ کی آمدنی کے چندہ کی اوسط جمع کر دی جائے تو یہ ۲/ ۱- ۹ فیصدی بنتا ہے.اور یہ وصیت کے ادنی معیار تک بھی نہیں پہنچتا کیونکہ وصیت کا ادنیٰ درجہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دس فیصدی کہا ہے.تو

Page 112

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 100 اس چندہ خاص سے بھی جماعت قربانی کے ادنی درجہ تک نہیں پہنچ سکتی.اور حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے.جو وصیت نہیں کرتا وہ نفاق سے پاک نہیں.پس یہ جسے چندہ خاص کہا جاتا ہے دراصل اسے چندہ خاص نہیں کہنا چاہیے کیونکہ یہ وصیت کے ادنیٰ معیار تک پہنچاتا ہے.اور جو وصیت کر چکے ہیں.انہیں اس معیار سے اوپر لے جاتا ہے.اور ان کا حق بھی ہے کہ اوپر جائیں.الفضل 30 مارچ 1926 نمبر 98 جلد 13 صفحہ 8 چاہیے کہ جماعت کا ہر فر دوصیت کر دے اس وقت میرے نزدیک کم سے کم تحریک یہ ہونی چاہیے کہ جماعت کا ہر فر دوصیت کر دے.دنیا میں ہر چیز کے مظاہرے کا ایک وقت ہوتا ہے.ہمارے ہاتھ سے قادیان نکل جانے کی وجہ سے دشمن کی نظریں اس وقت خاص طور پر اس امر کی طرف لگی ہوئی ہیں کہ بہشتی مقبرہ ان کے ہاتھوں سے نکل گیا ہے.جس کے لئے یہ لوگ وصیت کیا کرتے تھے.اب ہم دیکھیں گے کہ یہ لوگ کیسے وصیت کرتے ہیں.اس اعتراض کو رد کرنے کا ہمارے پاس ایک ہی ذریعہ ہے کہ ہر احمدی وصیت کر دے اور دنیا کو بتا دے کہ ہمیں خدا تعالیٰ کے وعدوں پر جو ایمان اور یقین حاصل ہے وہ قادیان کے ہمارے ہاتھ سے نکلنے یا نہ نکلنے سے وابستہ نہیں.بلکہ ہم ہر حالت میں اپنے ایمان پر قائم رہنے والے ہیں.یہ کم سے کم مظاہرہ ایمان ہے.جس کی اس وقت تم سے امید کی جاتی ہے.پس جو شخص ساڑھے سولہ فیصدی بھی نہیں دے سکتا.میں سمجھتا ہوں اُس کے لئے کم از کم اس قدر ایمان کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے کہ وہ وصیت کر دے اور کوشش کرے کہ ہماری جماعت میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ رہے جس نے وصیت نہ کی ہو.اگر اس تحریک کو پورے زور سے جاری رکھا جائے تو دشمن کا منہ خود بخود بند ہو جائے گا اور وہ سمجھے گا کہ ان لوگوں میں ایمان کی سچی حلاوت پائی جاتی ہے.پس ہر شخص کو چاہیے کہ وہ وصیت کر دے اور اس طرح دنیا کو بتا دے کہ قادیان کے نکلنے سے ہمارا ایمان کمزور نہیں ہوا بلکہ ہم اپنے ایمان میں پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئے ہیں.اور ہم سمجھتے ہیں کہ مقبرہ بہشتی کے وعدے دنیا کے ہر گوشہ میں ہم کو ملتے رہیں گے.روزنامه الفضل 5 جون 1948 صفحہ 5

Page 113

101 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ......زندہ خدا کا ثبوت دنیا کی ساری دولت احمدیت کے قدموں میں جمع ہو جائے گی (فرمودہ 29 جون 1956ء) سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- آج میں اس مضمون پر خطبہ دینا چاہتا ہوں کہ ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے.اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کے نشانات ہمیشہ دکھاتا چلا آیا ہے اور دکھاتا چلا جائے گا.ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا.وہ آدم کے زمانہ میں زندہ تھا.وہ نواح کے زمانہ میں بھی زندہ تھا.وہ ابراہیم کے زمانہ میں بھی زندہ تھا.وہ موسٰی کے زمانہ میں بھی زندہ تھا.وہ عیسی کے زمانہ میں بھی زندہ تھا.وہ محمد رسول ﷺ کے زمانہ میں بھی زندہ تھا اور وہ آج بھی زندہ ہے.اور اگر دنیا اور ہزار سال تک قائم رہے گی.تو ہزار سال تک اور اگر ایک کروڑ سال تک قائم رہے گی تو کروڑ سال تک اور اگر ایک ارب سال تک قائم رہے گی تو ایک ارب سال تک وہ اپنی زندگی کے نشانات دکھاتا چلا جائے گا کیونکہ وہ ”حی و قیوم خدا ہے اور وہ لا تأخذه سنة ولا نوم كا مصداق ہے.اس پر جب اونگھ اور نیند بھی نہیں آتی.تو اس کے زندہ نشانات کا سلسلہ کس طرح ختم ہو سکتا ہے.جب ایسے خدا سے انسان اپنا تعلق پیدا کر لیتا ہے.تو اس کی ساری ضرورتوں کا وہ آپ کفیل ہو جاتا ہے.اور ہمیشہ اس کی تائید کیلئے اپنے غیر معمولی نشانات ظاہر کرتا ہے زمانے ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں اور بدلتے چلے جائیں گے.ایک زمانہ میں لوگ اربوں ارب روپیہ دیں گے اور انہیں پتہ بھی نہیں لگے گا کہ ان کے مال میں سے کچھ کم ہوا ہے.کیونکہ دینے والے کھرب پتی ہوں گے اور جب وہ ہیں یا تیں یا پچاس ارب روپیہ دیں گے تو انہیں پتہ بھی نہیں لگے گا کہ اُن کے خزانہ میں کوئی کمی آئی ہے اس وقت انہیں یاد بھی نہیں رہیگا کہ کسی زمانہ میں پچاس روپیہ کی بھی ضرورت ہوتی تھی.تو ان کے لئے بھی دعا ئیں کرنی پڑتی تھیں.تم تذکرہ پڑھو تو تمہیں اس میں یہ لکھا ہوا دکھائی دے گا کہ ایک دفعہ ہمیں پچاس روپیہ کی ضرورت

Page 114

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 102 پیش آئی اور جیسا کہ اہل اللہ پر کبھی کبھی ایسی حالت گذرتی ہے.اس وقت ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا.تب ہم نے وضو کیا اور جنگل میں جا کر دعا کی اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام نازل ہوا کہ دیکھ میں تیری دعاؤں کو کیسے جلد قبول کرتا ہوں.“ اس کے بعد ہم واپس آئے تو بازار سے گزرے اور ڈاکخانہ والوں سے پوچھا کہ کیا ہمارے نام کوئی منی آرڈر آیا ہے یا نہیں.انہوں نے ایک خط دیا.جس میں لکھا تھا کہ پچاس روپے آپ کے نام بھجوا یا دیئے گئے ہیں.چنانچہ اسی دن یا دوسرے دن وہ روپیہ ہمیں مل گیا.غرض ایک زمانہ ایسا گذرا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پچاس روپوں کے لئے بھی فکر ہوتا تھا.کہ وہ کہاں سے آئیں گے اور یا اب یہ حالت ہے کہ سندھ میں جو میری اور سلسلہ کی زمینیں ہیں ان پر تین ہزار روپیہ ماہوار تک تنخواہوں کا ہی دینا پڑتا ہے.گویا کجا تو یہ حالت تھی کہ پندرہ سو روپیہ ماہوار کا خرچ ساری جماعت کے لئے بوجھ سمجھا جاتا تھا.اور پچاس روپیہ کی ضرورت کو اتنا شدید سمجھا جاتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے لئے خاص طور پر علیحدگی میں دعا کرنا ضروری سمجھا اور کجا یہ حالت ہے کہ اس شخص کا بیٹا سینکڑوں روپیہ ماہوار اپنے کارکنوں کو تنخواہیں دیتا ہے.اور انجمن کے افسروں کو ملا کر وہ رقم ہزاروں روپیہ کی بن جاتی ہے اور ربوہ کے دفتروں کو ملا کر کوئی نوے ہزار ماہوار کی رقم بن جاتی ہے.یہ کتنا عظیم الشان فرق ہے جو ہر شخص کو دکھائی دے سکتا ہے.مگر ابھی کیا ہے ابھی تو صرف ہزاروں روپیہ خرچ ہورہا ہے.پھر کوئی وقت ایسا آئے گا کہ صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کا تین تین ارب کی بجٹ ہوگا.پھر ایسا زمانہ آئے گا کہ ان کا تین تین کھرب کا بجٹ ہوگا.یعنی صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کا سالانہ بجٹ ۷۲ کھرب کا ہوگا.پھر یہ بجٹ پدم پر جا پہنچے گا.کیونکہ دنیا کی ساری دولت سہو کتابت.لفظ ” کا درست معلوم ہوتا ہے

Page 115

103 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ احمدیت کے قدموں میں جمع ہو جائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے صاف طور پر لکھا ہے کہ مجھے یہ فکر نہیں کہ روپیہ کہاں سے آئے گا.مجھے یہ فکر ہے کہ اس روپیہ کو دیانت داری کے ساتھ خرچ کرنے والے کہاں سے آئیں گے.چنانچہ دیکھ لو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وصیت کا نظام جاری فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے اس میں ایسی برکت رکھ دی کہ باوجود اس کے کہ انجمن کے کام ایسے ہیں جو دلوں میں جوش پیدا کرنے والے نہیں.پھر بھی صدرانجمن احمدیہ کا بجٹ تحریک جدید کے بجٹ سے ہمیشہ بڑھارہتا ہے.کیونکہ وصیت ان کے پاس ہے.اس سال کا بجٹ بھی تحریک جدید کے بجٹ سے دو تین لاکھ روپیہ زیادہ ہے.حالانکہ تحریک کے پاس اتنی بڑی جائیداد ہے کہ اگر وہ جرمنی میں ہوتی یا یورپ کے کسی اور ملک میں ہوتی تو ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو کروڑ روپیہ سالانہ انکی آمد ہوتی.مگر اتنی بڑی جائیداد اور بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کرنے کی جوش دلانے والی صورت کے باوجود محض وصیت کے طفیل صدر انجمن احمدیہ کا بجٹ تحریک جدید سے بڑھارہتا ہے.اس لئے اب وصیت کا نظام میں نے امریکہ اور انڈو نیشیا میں بھی جاری کر دیا ہے.اور وہاں سے اطلاعات آرہی ہیں کہ لوگ بڑے شوق سے اس میں حصہ لے رہے ہیں..اگر اس نظام کو بیرونی ملکوں میں بھی جاری کر دیا جائے تو وہاں کے مبلغوں کے لئے اور مشنوں کے لئے اور مسجدوں کی تعمیر کے لئے بہت بڑی سہولت پیدا ہو جائے گی غرض یہ خدا کا ایک بہت بڑا نشان ہے جو اس نے اپنے زندہ ہونے کے ثبوت کے طور پر تمہارے سامنے ظاہر کیا ہے.اب تمہارا کام ہے کہ تم ان نشانات سے فائدہ اٹھاؤ اور خدا تعالیٰ کے دامن کو ایسی مضبوطی سے پکڑ لو کہ وہ تم سے کبھی جدا نہ ہو.تمہیں اگر ایک چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی مل جائے تو تم اسے ضائع کرنا کبھی پسند نہیں کرتے.اگر تمہیں دو آنے مل جائیں تو تم ان دو آنوں کا ضائع ہونا بھی برداشت نہیں کر سکتے.اگر تمہیں کہیں سے ایک روپیل جائے تو تم اس ایک روپیہ کا ضیاع بھی برداشت نہیں کر سکتے.اگر تمہارے پاس ایک زئیل اور مریل گھوڑا ہو تو تم اس مریل گھوڑے کو ضائع کرنا بھی پسند نہیں کرتے پھر یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ تمہارے پاس ایک زندہ خدا ہو اور تم اس سے غافل ہو جب تم اس کا ہاتھ پکڑ لو گے تو وہ تمہیں کبھی نہیں چھوڑے گا.بلکہ ہر موقع پر تمہاری غیر معمولی نشانات سے تائید فرمائے گا.اگر تمہارے جاہل باپ دادا نے یہ ضرب

Page 116

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 104 المثل بنائی ہوئی تھی کہ ”ہتھ پھڑے دی لاج رکھنا اور وہ جس کا ہاتھ پکڑ لیتے تھے اسے کبھی نہیں چھوڑتے تھے تو کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر تم نے مضبوطی کے ساتھ اپنے خدا کے دامن کو پکڑ لیا تو وہ تمہاری لاج نہیں رکھے گا.وہ ایسی لاج رکھے گا کہ دنیا میں کسی نے ایسی لاج نہ رکھی ہوگی.اور وہ تمہارا اس طرح ساتھ دے گا کہ تمہارے ماں باپ نے بھی تمہارا اس طرح کبھی ساتھ نہیں دیا ہو گا.روزنامه الفضل 10 جولائی 1956 ، صفحہ 4 تا 7) ہمیشہ کے لئے بابرکت مقام (فرمودہ 28 دسمبر 1952ء) میں اصل تقریر سے قبل یہ بھی کہ دینا چاہتا ہوں کہ ربوہ کے بہشتی مقبرہ کے متعلق ایک دوست نے سوال کیا ہے کہ جب...( حضرت اماں جان.اللہ آپ سے راضی ہو ) کی نعش مبارک کو قادیان کے بہشتی مقبرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ دفن کر دیا جائے گا تو اس وقت ربوہ کے بہشتی مقبرہ کی کیا حیثیت رہ جائے گی.یہ سوال تو بالکل سادہ تھا اور اگر کوئی نئی چیز ہوتی تو انہیں پوچھنے کی ضرورت بھی ہوتی.مگر پھر بھی میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اسلام میں یہ طریق جاری ہے چنانچہ دیکھ لو مقام ابراہیم مکہ میں ہے مگر حضرت ابراہیم مکہ سے چلے گئے.اور بیت المقدس میں دفن ہوئے مگر باوجود اس کے ہم اسے صرف خانہ کعبہ نہیں کہتے بلکہ مقام ابراہیم بھی کہتے ہیں کیونکہ نبی تو دنیا میں آتے اور فوت ہو جاتے ہیں مگر ان کے چلے جانے کی وجہ سے کسی مقام کی برکات نہیں جاتیں چنانچہ کل ہی میں نے بتایا تھا کہ کسی مقدس مقام کی برکت کبھی نہیں جاتی اور جس مقام پر ایک دفعہ اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو جائے تو چونکہ اس مقام نے گناہ نہیں کرنا ہوتا اس لئے وہ فضل چلتا چلا جاتا ہے باپ بڑا نیک ہو اور بیٹا بُرا ہو تو برکت مٹ جائے گی.مگر جس مقام پر دعائیں کی گئی ہوں اور جہاں خدا نے اپنے فضل کی بارشیں نازل کی ہوں اس مقام کی برکات کبھی مٹ ہی نہیں سکتیں آپ لوگوں نے یہ کیوں سمجھا کہ خدا تعالیٰ کے پاس اتنی تھوڑی برکتیں ہیں کہ اگر وہاں برکتیں نازل کرے گا تو یہاں نہیں کرے گا.لايعلم جنود ربك الاهو

Page 117

105 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ خدا تعالیٰ کے فضل تو اسقدر ہیں کہ اگر زمین کا چپہ چپہ بھی بہشتی مقبرہ بن جائے تو پھر بھی وہ فضل بچا ہی رہیگا.ہمیں تو یقین ہے کہ آپ کی نعش قادیان جائے گی.مگر وہ صرف اپنی برکتیں لے جائے گی اس مقام پر اُسی طرح اس کی برکتیں نازل ہوتی رہیں گی جس طرح اب نازل ہورہی ہیں.آخر رسول کریم ﷺ مکہ میں پیدا ہوئے مگر مدفون مدینہ میں ہیں پس جو خدا مکہ سے اپنی برکتوں کو بچا کر مدینہ لے گیا اور اس نے مدینہ کو بھی بابرکت کر دیا.اسی خدا نے اس زمانہ میں قادیان کو بھی بابرکت کیا اور پھر قادیان کی برکتوں سے بچا کر اس نے ربوہ کو بھی بابرکت کردیا.اس قسم کے خیالات محض لوگوں کے اپنے اندازوں پر مبنی ہوتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح ہم غریب ہیں اسی طرح نعوذ باللہ خدا بھی غریب ہے.لطیفہ مشہور ہے کہ مسلمانوں کی بادشاہی کے زمانہ میں ایک نائی جو امراء کی حجامتیں بنایا کرتا تھا اسے ایک دفعہ کسی امیر نے دوسو اشرفی انعام دیدی چونکہ دوسو اشرفی کی تحصیلی اسے یکدم ملی اس لئے وہ ہر وقت اسے اچھالتارہتا اور جب بھی کوئی شخص ملتا اور پوچھتا کہ سنائیے شہر کا کیا حال ہے تو وہ کہتا کہ بغداد کا کوئی ہی بدقسمت ہوگا جس کے پاس دو سو اشرفی بھی نہ ہو چونکہ وہ امراء کا نائی تھا اس لئے وہ تحصیلی کے متعلق زیادہ احتیاط نہیں کرتا تھا.ایک دفعہ کسی امیر کو مذاق سوجھا اور اس نے چپکے سے وہ تھیلی کھسکالی.اب وہ کسی سے پوچھ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ ڈرتا تھا.کہ امراء اسے کہیں گے کہ تو ہم پر چوری کا الزام لگاتا ہے مگر دوسری طرف اسے صدمہ بھی سخت تھا آخر غم کے مارے وہ بیمار ہو گیا جب لوگ اسے پوچھنے جاتے اور دریافت کرتے کہ بتلائیے اب شہر کا کیا حال ہے تو وہ کہتا کہ شہر کا کیا پوچھتے ہو وہ تو بھوکا مر رہا ہے آخر اس امیر نے تھیلی نکال کر دے دی اور کہا شہر کو بھوکا نہ مارو اور اپنی تھیلی لے لو.پس اپنی کمزوریوں پر خدا تعالیٰ کی رحمتوں کا کیوں اندازہ لگاتے ہو.خدا تعالیٰ تو یہ چاہتا ہے کہ جگہ جگہ محمد رسول اللہ ﷺ کے مثیل اور خادم پیدا ہوں.خدا تعالیٰ تو یہ چاہتا ہے کہ ہم جگہ جگہ مقام ابراہیم پیدا کر دیں.خدا تعالیٰ تو یہ چاہتا ہے کہ ہم دنیا کے کونے کونے میں مدینے قائم کر دیں.خدا تعالیٰ تو یہ چاہتا ہے کہ ہم دنیا کے کونے کونے میں قادیان قائم کر دیں.

Page 118

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 106 اور تم سمجھتے ہو کہ خدا تعالیٰ کے پاس جتنی برکتیں تھیں وہ اس نے صرف ایک مقام پر ہی نازل کر دی ہیں.حالانکہ وہ خود کہتا ہے کہ آگے بڑھو اور میری برکتوں سے حصہ لو.روکیں تم نے خود کھڑی کر لی ہیں کہ تم کہتے ہو ہم مقام ابراہیم تک نہیں پہنچ سکتے ہم ان برکتوں کے وارث نہیں ہو سکتے جن برکتوں سے پہلے لوگوں نے حصہ پایا پس اگر تم خود ہی ان برکتوں کو نہ لو تو تمہاری مرضی.تم خود پیچھے ہتے ہو اور کہتے ہو کہ یہ نہیں ہوسکتا.اور وہ نہیں ہو سکتا میں نے ایک دفعہ تقریر میں کہہ دیا کہ ہر مومن کو ایک چھوٹا محمد ” بننے کی کوشش کرنی چاہیئے اس پر مخالفین نے شور مچا دیا کہ ہتک ہوگئی.ہتک ہوگئی.حالانکہ جب کسی کی اقتداء کرنے کے لئے کہا جائے گا تو ہمیشہ کسی نیک اور پاک آدمی کا نام ہی لیا جائے گا.شیطان کا نام تو نہیں لیا جائیگا پس سوال یہ ہے کہ آخر ہم کیا کہیں.اگر یہ کہیں کہ ابلیس بنوتب مصیبت ہے اور اگر کہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے مثیل بنوتب مصیبت ہے.یہ تو ویسی ہی مثال ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی امیر سفر کے لئے نکلا تو اس نے اپنے ساتھ ایک میراثی لے لیا.ایک جگہ پہنچے تو بارش آگئی.اور چھت ٹپکنے لگ گئی.میراثی نے کہیں سے چار پائی لی چوہدری صاحب کو اس پر بٹھایا اور آپ سرک کر اس کی پائنتی پر بیٹھ گیا.چوہدری صاحب نے اس کو دو چار تھپڑ لگائے اور کہا کم بخت تو ہمارا مقابلہ کرتا ہے اور ہمارے ساتھ ایک چار پائی پر بیٹھتا ہے آگے چلے تو بیٹھنے کے لئے چار پائی بھی نہ ملی وہ کہیں سے ایک کہی لایا.اور اس نے زمین کھودنی شروع کر دی کسی نے اس سے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہو.اس نے کہا بات یہ ہے کہ چو ہدری صاحب کے برابر تو میں بیٹھ نہیں سکتا اب یہ زمین پر بیٹھے ہیں.تو میرے لئے یہی صورت رہ گئی ہے کہ میں زمین کھود کر ان سے بھی نیچے بیٹھوں یہی حال ان لوگوں کا ہے.شیطان کہو تب غصہ آتا ہے.محمد رسول اللہ کہو تب غصہ آتا ہے.حالانکہ انسان یا محمد رسول اللہ ﷺ کا مثیل بنے گا یا شیطان کا.پس انسان حیران ہوتا ہے کہ وہ کہے کیا.غرض اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ تم سارے نبیوں کی برکتیں لو لیکن انسان آپ کمزوری دکھاتا ہے.اور کہتا ہے یہ نہیں ہوسکتا وہ نہیں ہوسکتا پس میں یہ تو نہیں کہتا کہ ان کی نعش قادیان نہیں جائیگی.جائیگی اور ضرور جائے گی.مگر جو برکتیں یہاں

Page 119

107 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ نازل ہورہی ہیں.وہ نازل ہوتی چلی جائیں گی.دیکھ صحابہ اس نکتہ کو سمجھتے تھے چنانچہ نماز اور دعا تو الگ رہی.وہ اس مقام سے بھی برکت ڈھونڈتے تھے.جہاں رسول کریم ﷺ نے کبھی پیشاب کیا ہو.حضرت عبداللہ بن عمر جب بھی حج کے لئے جاتے.تو ایک مقام پر وہ خاص طور پر تھوڑی دیر کے لئے قافلہ کو ٹھہراتے اور پیشاب کیلئے بیٹھ جاتے.انہوں نے دو تین حج کئے تھے.ایک صحابی کہتے ہیں.میں نے ایک دفعہ دیکھا تو جہاں وہ پیشاب کے لئے بیٹھے تھے وہ جگہ بالکل خشک تھی.میں نے ان سے کہا کہ آپ نے ہمارا اتنا حرج کیا.اگر آپ کو پیشاب آیا نہیں تھا تو آپ نے قافلہ کو ٹھہرایا کیوں.آپ یہاں بیٹھے کس لئے وہ کہنے لگے یہ بات نہیں اصل بات یہ ہے کہ جب رسول کریم ہے نے حج کیا تو میں نے دیکھا کہ اس مقام پر رسول کریم ﷺ نے پیشاب کیا تھا.پس میں جب بھی یہاں سے گزرتا ہوں میں کہتا ہوں کہ موقعہ جانے نہ پائے اور خواہ مجھے پیشاب آیا ہو یا نہ آیا ہو میں یہاں تھوڑی دیر کے لئے برکت حاصل کرنے کے لئے بیٹھ جاتا ہوں.تو صحابہ یہ سمجھتے تھے، کہ رسول کریم ﷺ کی ہر کام میں نقل ان کے لئے برکت کا موجب ہے.اور درحقیقت یہ بات ہے بھی درست جہاں رسول کریم ﷺ کھڑے ہوئے جہاں رسول کریم ﷺے بیٹھے اور جہاں رسول کریم ﷺ نے کام کئے وہاں برکتیں ہی برکتیں ہیں.دیکھو آپ لوگ ہمیشہ حضرت مسیح موعود کا یہ الہام پیش کیا کرتے ہیں کہ ”بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.“ حضرت مسیح موعود کے جسم سے آپ کے کپڑے لگے.اور وہ بابرکت ہو گئے.پھر اگر کسی زمین پر کوئی مقدس انسان رہے تو وہ کیوں بابرکت نہیں ہوگی حقیقت یہ ہے کہ روحانی دنیا میں اس کی اتنی مثالیں موجود ہیں کہ یہ سوال ہر شخص کو خود ہی سمجھ لینا چاہئے تھا اور اس بارہ میں کسی سوال کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرنی چاہئے تھی.روزنامه الفضل 7 دسمبر 1960 ، صفحہ 2 ،3

Page 120

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 108 احباب جماعت کے نام حضرت خلیفہ مسیح الثانی کا پیغام جماعت کا ہر فرد میں شامل ہو.مرکزی اور مقامی جماعتوں کے عہدیدار، احباب کو میں شامل کرنے کی طرف خاص طور پر توجہ دیں: برادران جماعت السّلام عليكم ورحمة الله وبركاته ایک گزشتہ مجلس شوریٰ میں میں نے فیصلہ کیا تھا کہ ہر سال ایک ہفتہ وصیت منایا جایا کرے تا کہ وصایا میں اضافہ ہواور تا اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے لوگوں کے اندر زیادہ سے زیادہ قربانی کا جذبہ پیدا ہو.نظارت بہشتی مقبرہ اس فیصلہ کی تعمیل ہر سال کرتی رہی ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس سال بھی ”ہفتہ وصیت“ منانے کے لئے ۱۲ سے ۱۸ مارچ کے ایام مقرر کئے گئے ہیں.سیکرٹری صاحب بہشتی مقبرہ نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ اس موقعہ پر میں بھی جماعت کو کوئی پیغام دوں.میں دوستوں سے صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وصیت کی اہمیت حضرت مسیح موعود نے رسالہ الوصیت میں اچھی طرح واضح کر دی ہے.اس کے بعد میں نے بھی اپنے خطبات اور تقریروں اور تحریروں میں اسکی طرف بارہا توجہ دلائی ہے مگر جیسا کہ مجھے بتایا گیا ہے اب تک وصیت کرنے والوں کی تعداد قریباً ساڑھے سولہ ہزار تک پہنچی ہے جو جماعت کی موجودہ تعداد کے مقابلہ میں بہت کم ہے.اگر نظارت بہشتی مقبرہ کثرت سے اس بارہ میں ”الوصیت‘ اور میری تقریروں اور تحریروں کو شائع کرے تو امید ہے کہ وصایا کی کمی بہت جلد دور ہو جائیگی اور سلسلہ کی مالی حالت بھی پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جائے گی کیونکہ اس کی مضبوطی کا وصایا کی زیادتی کے ساتھ گہرا تعلق ہے.پس میں اس کے ذریعہ جماعت کے ہر فرد کو جس کا گزارہ ماہوار آمدن یا جائیداد پر ہے میں شامل ہونے کی تحریک کرتا ہوں اور ہر مرکزی اور مقامی جماعت کے عہدیداروں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اس طرف خاص طور پر توجہ کریں.اس غرض کے لئے مناسب ہوگا کہ ہر جماعت میں سیکرٹری وصا یا مقرر کئے جائیں جو اس تحریک کو چلاتے رہیں.اسی طرح امراء اور مربیان سلسلہ کو

Page 121

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 109 بھی چاہیے کہ وہ اس تحریک کو زندہ رکھنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو اور وہ ہمیشہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے آپ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ قربانیوں کی توفیق عطا فرمائے.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد 21-02-1962 روزنامه الفضل 23 فروری 1962 ، صفحہ 1 امریکہ میں نظام "الوصیت“ کے نفاذ کی پر زور تحریک حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا پیغام.امریکہ کے احمدیوں کے نام حضرت مصلح موعود ( اللہ آپ سے راضی ہو ) نے اس سال ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے احمدیوں کے نام انگریزی میں ایک اہم پیغام ارسال فرمایا جس میں حضور نے نظامِ وصیت کے عظیم الشان مقصد پر روشنی ڈالی اور اسے امریکہ میں بھی جاری کرنے کی پر زور تحریک فرمائی.اس پیغام کا متن معہ ترجمہ درج ذیل ہے :- My Dear Brethren of America! As you must all be aware the Promissed Messiah (on whom be peace) published his testamentary directions in the document which is known as Al-Wasiyyat two years before his death.This is a document of great importance and must be carefully studied by every Ahmadi.I trust all of you have carefully read its English translation.If the

Page 122

110 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ English translation is not readily available to you I request brother Khalil Ahmad Nasir to translate Al-Wasiyyat into English with such assistance from his colleagues as he may need and to distribute it to all of you as soon as may be.I hope that each of you on studying this document will be inspired with the eager desire to participate in the grand scheme set out therein which is so vital for the advancement of Islam and humanity.When you study this document you will find that the scheme set out in it requires each member of the Movement who wishes to join it to bequeath in favour of the Central Ahmadiyya Association one tenth of his property or an amount in cash corresponding to one tenth of the value of his property or if he owns no substantial property that he should contribute in his lifetime one tenth of his weekly or monthly income to the Central Ahmadiyya Association for the propagation of Islam and for the promotion of human welfare.It is necessary that the document bequeathing the property or setting out the promise in respect of these

Page 123

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 111 contributions should make it clear that the bequest or contributions as the case may be are free from all conditions and limitations and that the donor or his heirs or executors will in no circumstances question the disposal or disbursement of the property or the income by the Central Ahmadiyya Association or by any other authority which may be set up for carrying out the purposes and objectives of the scheme.Once you have studied the whole document carefully you will fully grasp its grand purpose and objective but I also request Brother Khalil Ahmad Nasir that he should arrange that the purpose and objective of Al-Wasiyyat should be explained to you by representatives of the Movement in detail at your respective centres.In compliance with the spirit of Al-Wasiyyat the Ahmadiyya Association of the United State of America will arrange for the purchase as early as may be of a suitable plot of land in some central locality which may be dedicated as place of burial for those who make their wills in compliance with the conditions set out in Al-Wasiyyat and the rules promulgated from time to time by the Head

Page 124

112 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ of the Movement and the Central Ahmadiyya Association and Tahrik-i-Jadid.I am convinced that once this project is put into effect in the States, it will quickly gather force and thousands of your country men may even millions will in due course join this scheme and thus swell the numbers of those who shall continuously devote their efforts and substantial portions of their incomes and properties to the objects mentioned in Al-Wasiyyat.As the number of such sincere and devoted Ahmadis increases it may become necessary to establish similar burial places in different parts of the country and this shall be done from time to time as necessity shall require.The income derived from the property so bequeathed or from the sale thereof and from the contributions made in this behalf shall be disbursed as follows:- (a) One half shall be remitted to the Central Ahmadiyya Association for the maintenance of Central institutions and for the propagation of Islam throughout the world including the United States of America where for a long time to come workers specially trained at the Centre will

Page 125

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 113 continue to be needed.The two central institutions responsible for carrying on the work of propogation of Islam are the Central Ahmadiyya Association and the Tahrik-i-Jadid.The funds to be devoted out of the said income remitted to the Centre for the propagation of Islam in various parts of the world will be divided between these two institutions in accordance with such instructions as may from time to time be laid down by the Head of the Movement.(b) Of the remaining one half, three quarters will be devoted to the propagation of Islam in the States and one quarter shall be devoted to the promotion of the welfare of the poorer and more backward of our brethren wherever they may be, preference being given to making provision for their education and training.As soon as I receive intimation through the representatives of the Movement among you that a substantial number of you are eager to join the scheme set out in Al-Wasiyyat I shall proceed to appoint a committee for the purpose of selecting a site for the first burial ground under the scheme and for carrying out of

Page 126

114 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ the preliminary work necessary for putting the scheme into effect in the United States and for making provision for the scheme and its purposes being effectively carried out in perpetuity.Every person who makes a will or promises to make the minimum contribution under this scheme will, subject to the bequest being carried into effect or the contributions having been duly remitted, as the case may be, be entitled to be buried in one of the burial places dedicated for this purpose in the States or, in case he dies in India in the burial place at Qadian, or, in case he dies in Pakistan, in the burial place at Rabwah, if his body is transported to the site of one of these burial places at the cost of his estate and there are no legal or other impediments in the way of the fulfilment of this purpose.It shall, however, be made clear in the will or in the document setting out the promise in the respect of the said contibutions, that failure to comply with this condition shall not operate to invalidate or otherwise affect the bequest or give rise to any claim in respect of the contributions made.Provision shall further be made that the Central Ahmadiyya Association shall

Page 127

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 115 take steps to have the names of all persons who have joined the scheme and no whose behalf its conditions have been fulfilled inscribed at suitable places in the burial places at Qadian or Rabwah and also that these names shall be inscribed as a record copies of which shall be made available in principal Ahmadiyya Centres so that future generations of Ahmadis may be prompted to pray for the souls of their departed brethren who had devoted themselves and their substance to the service of Islam and humanity.It is essential and full care must be taken that the carrying into effect of the whole of this scheme shall be in accordance with the law of the United States of America so that no objection on that score should at any time operate to defeat or discount the purposes of this scheme.As stated in Al-Wasiyyat this system will multiply its beneficence and shall prove the means of the uplift of all the weaker sections of humanity and for the spread of general prosperity and the promotion of human welfare.Any system which is based on coercion or compulsion

Page 128

116 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ cannot achieve the same result.The scheme set out in Al-Wasiyyat being purely voluntary and a free gift for the service of Islam and humanity will carry with it moral and spiritual benefits which may be lacking in any other system.In course of time country after country will proceed to adopt this scheme and through this process God's name will be glorified throughout the world more particularly on behalf of those who become the recipients of spiritual, moral and material benefits under its operation.The scheme is already in operation in Pakistan and India.I hope and pray that the United States of America may prove to be the third country to adopt this scheme and thus lay to foundations for the promotion of the welfare of humanity on an every expanding scale.Amen.Brethren: We are weak but our God is strong and Almighty.We can do but little, but He can do everything.Be sure that His help is speeding towards you.Indeed, He Himself stands at your door waiting to enter.Spring up therefore and open wide your doors for Him to enter.When God enters your homes and fills your hearts, life

Page 129

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 117 will become radiant for you and you will be glorified on earth as He is glorified in the Heavens.May God be with you.Amen.میرے عزیز امریکن بھائیو! جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی وفات سے دو سال قبل وصیت کے طور پر ضروری ہدایات اس دستاویز کی شکل میں شائع فرما ئیں تھیں جو ” الوصیت“ کے نام سے موسوم ہے.یہ دستاویز بہت اہم ہے.ہر احمدی کو چاہیے کہ وہ اس کا ضرور مطالعہ کرے.میں سمجھتا ہوں کہ آپ سب نے اس کا انگریزی ترجمہ بغور مطالعہ کر لیا ہوگا.اگر اس کا انگریزی ترجمہ آپ لوگوں کو بآسانی دستیاب نہ ہوسکتا ہو تو میں برادرم خلیل احمد ناصر کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اپنے ساتھیوں کی مدد سے الوصیت کا جلد از جلد ترجمہ کر کے آپ سب میں اسے تقسیم کرا دیں.مجھے یقین ہے کہ اس دستاویز کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ میں سے ہر ایک میں یہ شدید خواہش پیدا ہوگی کہ وہ بھی اس عظیم الشان تحریک میں جو اس میں بیان کی گئی ہے اور جو اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے نہایت درجہ اہمیت کی حامل ہے شامل ہونے کی سعادت حاصل کرے.اس دستاویز کا مطالعہ کرنے پر آپ لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اس میں جو سکیم بیان کی گئی ہے اس کے مطابق جماعت کے ہر اس فرد سے جو اس میں حصہ لینا چاہتا ہے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی جائیداد کے دسویں حصہ یا جائیداد کی قیمت کے دسویں حصہ کے برابر نقد رقم بحق صدر انجمن احمدیہ وصیت کرے.یا اگر اس کی کوئی قابل ذکر جائیداد نہ ہو تو وہ اپنی زندگی میں اپنی ہفتہ وار یا ماہوار آمد کا دسواں حصہ اشاعتِ اسلام اور انسانی فلاح و بہبود کی خاطر صدرانجمن احمد یہ کوادا کرتار ہے.یہ ضروری ہے کہ اس تحریر میں جو جائیداد کی وصیت کے طور پر لکھی جائے یا جس کے ذریعہ چندہ وصیت کی ادائیگی کا وعدہ کیا جائے یہ امر بالصراحت مذکور ہو کہ جائیداد کی وصیت یا چندہ وصیت کی ادائیگی ان میں سے جو بھی صورت ہو ہر قسم کی شرائط اور پابندیوں سے آزاد ہوگی.اور موصی یا اس کے

Page 130

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 118 وارث یا اس کے مقرر کردہ منصرم وصیت کردہ جائیدا دیا آمدنی کے مصرف یا خرچ پر کوئی اعتراض نہ کرسکیں گے.صدر انجمن احمد یہ یا کوئی اور با اختیار ادارہ جو اس سلسلہ میں قائم کیا جائے اس تحریک کے اغراض و مقاصد کے تحت جائیداد یا وصول شدہ چندہ جات کو خرچ کرنے کا پوری طرح مجاز ہوگا.بہ تمام و کمال اور بغور مطالعہ کرنے کے بعد اس دستاویز کا عظیم الشان مقصد اور اس کی اغراض آپ لوگوں کو معلوم ہو جائیں گی.تاہم میں برادرم خلیل احمد ناصر کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اس بات کا انتظام کریں کہ آپ کے مختلف مراکز میں سلسلہ کے نمائندے الوصیت کا مقصد اور اس کی اغراض تفصیل کے ساتھ آپ لوگوں کو سمجھا دیں.”الوصیت“ کے منشاء کے مطابق ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی جماعت احمدیہ جتنی جلدی ممکن ہو سکا کسی مرکزی علاقے میں ایک موزوں قطعہ ء زمین خریدنے کا انتظام کرے گی.یہ قطعہ زمین قبرستان کے طور پر ان لوگوں کے لئے مخصوص ہوگا جو ’الوصیت میں بیان کردہ شرائط اور ان قواعد کے مطابق جو امام جماعت احمد یہ اور صدر انجمن اور تحریک جدید کی طرف سے نافذ ہوں وصیت کریں گے.مجھے یقین ہے کہ ریاست ہائے متحدہ میں ایک دفعہ جاری ہونے کے بعد یہ سکیم انشاء اللہ تقویت حاصل کرے گی.اور رفتہ رفتہ تمہارے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ہم وطن اس میں شامل ہو جائینگے.اور اس طرح ان لوگوں کو تعداد میں 66 اضافہ ہوتا چلا جائے گا جو اپنی مساعی اور اپنی آمدنیوں اور جائیدادوں کا ایک معقول حصہ الوصیت کے اغراض و مقاصد کے لئے وقف کریں گے.جوں جوں ایسے مخلص اور فدائی احمدیوں کی تعداد بڑھے گی اس امر کی ضرورت محسوس ہوگی کہ ملک کے مختلف حصوں میں ایسے ہی قبرستان قائم کئے جائیں.چنانچہ حسب ضرورت مختلف اوقات میں ایسے قبرستانوں کا قیام عمل میں آتا رہے گا.ایسی وصیت کردہ جائیداد سے اس کی فروخت یا چندہ جات سے جو آمدنی ہوگی اس کو حسب ذیل طریق پر خرچ کیا جائے گا.(الف) اس آمدنی کا نصف حصہ مرکزی اداروں کو چلانے اور دنیا بھر میں اشاعت اسلام کا کام

Page 131

119 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ کرنے کے لئے صدر انجمن احمدیہ کو ارسال کیا جائے گا.اس میں امریکہ بھی شامل ہوگا.کیونکہ امریکہ میں ابھی لمبے عرصہ تک اسلام کے ایسے خادموں کی ضرورت محسوس ہوتی رہے گی.جو خاص طور پر مرکز کے تربیت یافتہ ہوں.وہ مرکزی ادارے جن کے ذمہ اشاعت اسلام کا کام ہے صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید ہیں دنیا کے مختلف حصوں میں تبلیغ اسلام کی غرض سے مذکورہ بالا آمدنی کا جو حصہ مرکز میں ارسال کیا جائے گا اسے امام جماعت احمدیہ کی ان ہدایات کے مطابق جو وہ وقتا فوقتا جاری کریں گے.ان دونوں اداروں میں تقسیم کیا جائے گا.(ب) آمدنی کے باقی نصف حصے میں سے تین چوتھائی رقم ریاست ہائے متحدہ میں تبلیغ اسلام پر خرچ کی جائے گی.باقی کی چوتھائی رقم ہمارے غریب اور پسماندہ بھائیوں کی فلاح و بہبود کے لئے وقف ہوگی جہاں کہیں بھی ایسے بھائی ہوں گے ان پر یہ رقم خرچ کی جائے گی.اور اس ضمن میں ان کی تعلیم و تربیت کے انتظام کو مقدم رکھا جائے گا.جو نہی جماعت کے نمائندوں کی طرف سے مجھے یہ اطلاع ملے گی کہ آپ لوگوں میں سے ایک خاصی تعدادا ایسے احباب کی ہے جو الوصیت کی بیان کردہ تحریک میں شامل ہونا چاہتے ہیں میں ایک کمیٹی قائم کرنے کا انتظام کروں گا.اس کے قیام کا مقصد یہ ہوگا کہ اس سکیم کے تحت اولین قبرستان کے لئے جگہ منتخب کی جائے.اور اس سکیم پر عملدرآمد کے لئے ضروری اور ابتدائی انتظامات کئے جائیں.اور اس امر کا اہتمام کیا جائے کہ اس سکیم اور اس کے مقاصد کو موثر طریق پر ہمیشہ کے لئے جاری رکھا جاسکے.ہر وہ شخص جو وصیت کرے گا یا اس سکیم کے قواعد کے بموجب کم سے کم شرح کے مطابق چندہ دینے کا وعدہ کرے گا وہ اس شرط پر کہ اس کی وصیت پوری ہو جائے.یا حسب قواعد چندہ جات کی ادا ئیگی عمل میں آجائے.ان دونوں صورتوں میں اس بات کا حقدار ہوگا کہ اسے ایسے قبرستانوں میں سے کسی ایک قبرستان میں دفن کیا جائے.جو ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں اس غرض کے لئے قائم کئے جائیں گے.اور اس صورت میں کہ اس کی موت ہندوستان میں واقع ہو تو وہ قادیان کے قبرستان میں یا اگر پاکستان میں ہو تو ربوہ کے قبرستان میں دفن ہو سکے گا.لیکن یہ ضروری ہوگا کہ اس

Page 132

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 120 کی نعش ان قبرستانوں میں سے کسی ایک قبرستان تک پہنچانے کے اخراجات اس کے اپنے ترکہ یا جائیداد میں سے پورے کئے جائیں.اور اس کی راہ میں کوئی قانونی یا کوئی اور رکاوٹ حائل نہ ہو.وصیت یا چندہ جات کے وعدے کے ضمن میں جو تحریر لکھی جائے گی اس میں یہ صراحت کی جائے گی کہ اس شرط کے پورا نہ ہو سکنے کا یہ مطلب نہ ہوگا کہ وصیت کو نا جائز یا خلاف قاعدہ قرار دیا جا سکے گا.یا اس کی جائز یا قانونی حیثیت پر کوئی حرف آسکے گا یا ادا کردہ چندوں کے بارے میں کسی مطالبہ یا دعوی کا جواز پیدا ہو سکے گا.صدر انجمن ایسے تمام اشخاص کے نام جنہوں نے اس سکیم میں شامل ہونے کے بعد اس کی تمام شرائط کو پورا کر دیا ہوگا قادیان یار بوہ کے قبرستانوں میں مناسب جگہ پر کندہ کرانے کا انتظام کرے گی نیز ان کے نام ایک ریکارڈ کی شکل میں بھی محفوظ رکھے جائیں گے.جن کی نقول بڑے بڑے احمد یہ مراکز میں بھی رکھی جائیں گی.تا کہ احمدیوں کی آنے والی نسلوں کو اپنے ان وفات یافتہ بھائیوں کی روحوں کے واسطے دعا کی تحریک ہوتی رہے.جنہوں نے اپنے آپ کو اور اپنے اموال کو اسلام اور انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کیا..یہ امر بہت ضروری ہے اور اس بارے میں پوری احتیاط کی جائے کہ اس تمام سکیم پر عملدرآمد کے وقت ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے رائج الوقت قوانین کو پوری طرح ملحوظ رکھا جائے تا اس بناء پر کسی وقت بھی کوئی اعتراض پیدا ہو کر اس سکیم یا اس کے مقاصد کو نا کام نہ بنا سکے.جیسا کہ الوصیت میں بیان کیا گیا ہے وصیت کی اس سکیم کے فوائد اور رنگ میں بھی ظاہر ہوں گے اور بالآخر یہ انسانیت کے کمزور طبقوں کو اٹھانے اور انسانی فلاح و بہبود اور خوشحالی کو ترقی دینے کا ذریعہ ثابت ہوگی.کوئی نظام بھی جس کی بنیاد جبر و اکراہ پر ہو اس مقصد میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتا.الوصیت میں جو سکیم پیش کی گئی ہے خالصتاً طوعی اور رضا کارانہ ہے اور خدمت اسلام کے ایک اجر کا درجہ رکھتی ہے.اس لحاظ سے جو اخلاقی اور روحانی فوائد اس تحریک کے ساتھ وابستہ ہوں گے تمام دوسرے نظام ان سے محروم ہیں.رفتہ رفتہ ایک ملک کے بعد دوسرا ملک اس تحریک کو اپنانے کے لئے آگے آتا رہے گا.اور اسطرح ان

Page 133

121 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ لوگوں کی طرف سے جو اس سکیم کے ذریعہ روحانی اخلاقی اور مادی فوائد سے متمتع ہوں گے.دنیا میں خدا کا نام بلند ہوتا رہے گا.اس تحریک پر پاکستان اور ہندستان میں پہلے سے عمل ہو رہا ہے میری خواہش ہے اور میں اس کے لئے دعا بھی کرتا ہوں کہ تحریک کو اپنانے والے ممالک میں سے امریکہ تیسرا ملک ثابت ہو اور اس طرح وسیع سے وسیع تر پیمانے پر انسانیت کی فلاح و بہبود اور اس کی ترقی کی بنیادیں استوار کرنے میں حصہ لے آمین.برادران! ہم کمزور اور نا تواں ہیں لیکن ہمارا خدا طاقتور اور ہمہ قوت ہے.ہمارے بس میں کچھ نہیں ہے لیکن وہ سب کچھ کر سکتا ہے.یقین رکھو کہ اس کی مدد تمہاری طرف دوڑی آرہی ہے.بلاشبہ وہ خود تمہارے دروازے پر کھڑا ہے اور اندر داخل ہونا چاہتا ہے پس اٹھو اور اپنے دروازے کھول دو تا کہ وہ اندر آجائے.جب وہ تمہارے گھروں میں داخل ہو جائے گا اور تمہارے دلوں میں سما جائے گا تو زندگی تمہارے لئے منور ہو جائے گی اور دنیا میں تم اسی طرح عزت دیئے جاؤ گے جس طرح آسمانوں میں اس کو عزت اور عظمت حاصل ہے.خدا تمہارے ساتھ ہو.( آمین ) سید نا حضرت مصلح موعود (اللہ آپ سے راضی ہو) نے یہ خصوصی پیغام چوہدری خلیل احمد ناصر انچارج امریکہ مشن کو ارسال فرمایا اور اس مبارک تحریک کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بذریعہ مکتوب حسب ذیل ہدایات دیں: |RABWAH"---10-1-1956 مکر می خلیل احمد ناصر ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و بر کانت ایک مضمون ارسال ہے.اس کو فوراً شائع کروائیں.اور پھر اس کے مطابق جو جو لوگ وصیتیں کریں ان کے نام اور جائیداد کی تفصیل مرکز کو بھجوائیں.ایک مقبرہ کمیٹی قائم کریں جو زمین خریدے اور اس مقبرے کو بہت خوبصورت بنایا جائے باغ وغیرہ لگایا جائے.میرے مضمون ”نظام نو“ کا انگریزی ترجمہ بھی جلد شائع کیا جائے اس میں تمام تفصیلات اس مضمون کی میں نے بیان کی ہیں.

Page 134

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 122 وہاں کے لوگوں میں قادیان کی محبت اور قادیان کو واپس لینے کا جذ بہ بھی پیدا کریں جن لوگوں کو خدا توفیق دے وہ ایسا انتظام کریں کہ ان کی وفات کے بعد قادیان ان کی نعش لے جائی جا سکے تو اس کا بہت اچھا اثر ہوگا.تاریخ احمدیت جلد 18 صفحہ 104 تا 112 وصیت کیلئے ایسا مال ہونا چاہیے کہ جسے آئندہ نسلیں یاد کریں بر موقع مجلس مشاورت منعقدہ 3 تا 5 اپریل 1926ء) بہشتی مقبرہ کے متعلق یہ سوال ہے.کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رسالہ الوصیت کے ما تحت کس قدر آمد یا جائیداد والا شخص وصیت کر سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وصایا کے متعلق لکھا ہے.کہ اس وقت کے امتحان سے بھی اعلیٰ درجہ کے مخلص جنہوں نے درحقیقت دین کو دنیا پر مقدم کیا ہے.دوسرے لوگوں سے ممتاز ہو جائیں گے.اور ثابت ہو جاویگا.کہ بیعت کا اقرار انہوں نے سچا کر کے دکھلا دیا ہے.اور اپنا صدق ظاہر کر دیا ہے.“ مگر میں نے غور کیا ہے کہ موجودہ صورت میں منشاء وصیت پورا نہیں ہو رہا ہے.مثلاً عورتیں اس قسم کی وصیت کرتی ہیں کہ میری دس روپے کی بالیاں ہیں.اس کا دسواں حصہ ایک روپیہ میں وصیت میں دیتی ہوں.یہ کوئی ایسی قربانی نہیں ہے کہ جسے آئندہ نسلیں یاد کریں.ایسی عورت نادار کہلائے گی.اور ناداروں کے لئے جو شرط حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رکھی ہے اس کے رو سے مقبرہ میں داخل ہو سکے گی.یعنی دین کی خدمت کر کے لیکن مالی قربانی کے لحاظ سے اس کی وصیت وصیت نہ ہوگی.اسی طرح ایک آدمی ہے جو مثلاً دوسوروپیہ ماہوار تنخواہ پاتا ہے.اس کا باپ غریب آدمی تھا.اس وجہ سے اس کا مکان فرض کر لو.پانچ سوروپیہ قیمت کا ہے.اب وہ مکان کی وصیت کر دیتا ہے.مگر آمدنی میں سے کچھ نہیں دیتا.بتاؤ.یہ اس کی ایسی قربانی ہے کہ اگلی نسلیں اس کی وجہ سے اس کے لئے دعا کریں.اور وہ حضرت مسیح موعود کے قرب میں دفن کیا جائے.دراصل وصیت کے لئے ایسا مال ہونا چاہیے جس کے متعلق خیال ہو کہ آئندہ نسل کے کام آنا ہے.اسی احساس کی قربانی جنت کے قابل

Page 135

123 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ بناتی ہے.مگر جو عورت دس روپے میں سے ایک روپیہ دیتی ہے وہ کون سے احساسات کی قربانی کرتی ہے.یا جو دوسو یا چارسو ماہوار کما رہا ہے وہ اپنے معمولی مکان کے دسویں حصہ کی وصیت کر کے کون سے احساسات کی قربانی کرتا ہے.میرے نزدیک اس قسم کی وصیتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منشاء کو پورا نہیں کرتیں.اور ایسے لوگ مقبرہ میں داخل ہو جائیں گے جو دراصل داخل ہونے کے قابل قربانی نہ رکھتے ہوں گے.خدا تعالیٰ تو ان کو بھی بخش دے گا کیونکہ یہ اس کا وعدہ ہے.مگر ہماری بخشش مشکل ہو جائے گی کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منشاء کو پورا نہ کیا.اس کے لئے ضروری ہے کہ جو سوال پیش کیا گیا ہے اس پر غور کیا جائے کہ وصایا کے لئے کیا شرائط ہوں اور کس حد تک کی رقم قربانی کہلا سکتی ہے.ان سب امور پر غور کرنے کے لئے سب کمیٹیاں بنائی جائیں گی.آپ لوگوں نے اس روح سے جس کا ذکر میں نے تقریر میں کیا ہے ان امور پر غور کرنا ہے سب کمیٹیوں کو میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ سلسلہ کے وقار اور بوجھوں کو مد نظر رکھتے ہوئے صحیح مشورہ دیں کہ کس طرح کام چلائے جائیں.( احمد یہ گزٹ 26 فروری 1927 نمبر 12 جلد اوّل صفحہ 9،8 ) رسالہ الوصیت سے جائیداد کی کوئی تشریح نہیں نکلتی اس لئے اس بارے میں ایسا فیصلہ کرنے کا ہمیں اختیار ہے جو حضرت مسیح موعود کے منشاء کو پورا کرے بر موقع مجلس مشاورت منعقدہ 3 تا 5 اپریل 1926ء) میں اس امر کے متعلق یہ کہنا چاہتا ہوں کہ رائے دینے والوں نے اس امر پر اس مسئلہ کی بنیا درکھی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وصیت کی اصل بنیاد جائیداد پر رکھی ہے.اس لئے ہمیں اس کی اتباع کرنی چاہیے.لیکن میرے نزدیک یہ دیکھنا چاہیے کہ وصیت کا نفس مضمون الہامی ہے.یا الفاظ الہامی ہیں.اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس بارے میں آپ نے جو الفاظ لکھے ہیں وہ الہامی ہیں تو اس صورت میں ضروری ہے کہ ہر تشریح الفاظ کے نیچے لائی جائے.مثلاً اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وصیت کا جو حصہ مقرر کیا ہے وہ الہامی ہے.تو پھر ہمیں اس

Page 136

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 124 کے متعلق کسی تشریح کی اجازت نہیں ہے.اور اگر وصیت کا نفس مضمون الہامی ہے...تو پھر اس کی تشریح ہوسکتی ہے.کہ کس قدر مال کسی کو قربان کرنا چاہیے کئی صورتیں ایسی پیدا ہوتی رہتی ہیں جن کے متعلق تشریح کی ضرورت پیش آجاتی ہے.مثلاً حضرت صاحب کی زندگی میں ہی رسالہ وصیت لکھے جانے کے بعد یہ صورت پیش آگئی تھی.کہ جن کی کوئی جائیداد نہ ہو وہ کیا کریں.وصیت کے دو سال بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہو گئے.اس وقت تک مقبرہ میں چھ سات قبریں تھیں جن میں سے زیادہ انہی لوگوں کی تھیں جو مساکین تھے.اور مخالفین کے ستائے ہوئے اپنے گھروں سے نکل کر یہاں بیٹھے تھے.ان کی جائیداد ان کی قربانی ہی تھی.پھر اب تک وصیت کے بارے میں نئے نئے جھگڑے پیدا ہوتے رہتے ہیں.وصیت کرنے والے فوت ہو جاتے ہیں.پیچھے ان کے رشتہ دار وصیت کا روپیہ نہیں دیتے.اس کے متعلق سوال پیدا ہوا.کہ کیا کیا جائے.تو تجارب سے اس قسم کی ضرورتیں پیش آتی رہتی ہیں کہ تشریحات کی جائیں.اور اس سے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ بعض شقیں ایسی ہو سکتی ہیں کہ جو حضرت صاحب کی وفات کے بعد پیدا ہوں.....چونکہ رسالہ الوصیت سے جائیداد کی کوئی تشریح نہیں نکلتی.اس لئے اس حصہ میں قیاس سے کام لینا ہمارا حق ہے.اور اس بارے میں ایسا فیصلہ کرنے کا ہمیں اختیار ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منشاء کو پورا کرے..اب یہ سمجھنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جائیداد کا لفظ لکھا ہے اور جائیداد ایک پیسہ بھی ہو تو اس کی وصیت کر دینی چاہیے درست نہیں.کیا جنت ٹونا ہے.کہ جس نے اس کے لئے ایک پیسہ دے دیا وہ بھی داخل ہو گیا.اور کوئی امتیاز حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو ان میں امتیاز قائم کرنا چاہتے ہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ پانچ سو روپیہ ماہوار تنخواہ والا اگر اپنے پیچھے ایک روپیہ چھوڑتا ہے اور وہ وصیت میں داخل کیا جاتا ہے تو اسے کونسا امتیاز حاصل ہو گیا.میرے نزدیک یہ فیصلہ کرنے میں بالکل اس غور سے کام نہیں لیا گیا جو مناسب اور ضروری تھا.اور میں پیلاطوس کی طرح اس سے ہاتھ دھوتے ہوئے اسے منظور کرتا ہوں.اور خود بری الذمہ ہوتا ہوں.مگر

Page 137

125 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ یہ کہتا ہوں کہ یہ فیصلہ کرنے والوں نے ٹھو کر کھائی ہے.چونکہ یہ ایسے مسائل سے نہیں ہے جو شریعت کے بنیادی مسائل ہیں.اس لئے میں کثرت رائے کا احترام کرتا ہوا اسے منظور کرتا ہوں.حضور کی اس تقریر کے بعد نمائندگان نے درخواست کی کہ ہمیں اپنی رائے بدلنے کی اجازت دی جائے.اس پر حضور نے فرمایا اگلے سال دیکھا جائے گا.اب جو کچھ ہونا تھا ہو گیا.مکرر عرض کرنے پر حضور نے فرمایا: ایک صاحب نے لکھا ہے کہ رائے بدلنے کی اجازت دی جائے.ورنہ ڈر ہے کہ لوگ رائے دینا چھوڑ دیں گے.میں کہتا ہوں یہ ایک گناہ کے نتیجہ میں دوسرا گناہ ہوگا.مگر سوال یہ ہے کہ اگر میں کثرت رائے کو رد کر دوں تو زیادہ خطرہ ہے.لوگ کہیں گے جو بات اپنی رائے کے خلاف ہوتی ہے اسے رد کر دیتے ہیں.پھر رائے دینے کا کیا فائدہ.تو یہ آئندہ مشورہ کو تباہ کرنے والی بات ہوگی.چونکہ یہ شریعت کا مسئلہ نہیں ہے اس لئے میں اس میں آزادی دیتا ہوں دوست اس لئے رائے بدلنا چاہتے ہیں کہ میں ناراض ہو گیا ہوں.مگر ایسا نہیں ہے اور اس طرح میں اس آزادی کو قربان نہیں کرنا چاہتا جوخود پیدا کرنا چاہتا ہوں.سوائے اس کے کہ نص صریح کے خلاف ہو.یا نقصان عظیم پہنچ سکتا ہو.یہاں استنباط کا کام ہے.اور اگر آپ ہی آپ لوگوں نے اپنی ذمہ واری کا فیصلہ کرنا ہے میں نے اظہار اس لئے کیا ہے کہ دوست آئندہ ایسی آرائے میں جلد بازی نہ کریں.میں نے اپنے لئے تو یہ رکھا ہے کہ گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے لئے وصیت نہیں رکھی.لیکن ہبہ کرنے سے تو منع نہیں فرمایا.اس لئے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے احترام کے لئے وصیت تو نہ کروں گا.مگر ہبہ ضرور کروں گا.تا کہ ہم بھی اس مالی قربانی میں شریک ہوسکیں.احباب نے پھر رائے بدلنے کی درخواست کی.تو حضور نے فرمایا:- میں دوبارہ اس معاملے میں رائے لے لیتا ہوں.لیکن اپنی جماعت کے لوگوں سے امید کرتا ہوں.کہ وہ آزادانہ رائے دیں گے.محض اس لئے رائے نہیں بدلیں گے.کہ میری رائے ان کے خلاف ہے.میں اپنی کہتا ہوں.حضرت خلیفہ اول ( اللہ آپ سے راضی ہو ) جب مجھے آزادی رائے دیتے تو پھر میری جو رائے ہوتی خواہ وہ آپ کی رائے کے خلاف ہی ہوتی میں نہ بدلا کرتا تھا.آپ لوگوں

Page 138

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 126 نے اگر آزادی سے رائے بدل لی تو خیر ورنہ میں سمجھا کر خطبوں اور دلائل کے ذریعہ قائل کرنے کی کوشش کرونگا.اور پھر اگلے سال اس معاملہ کو پیش کیا جائے گا.ورنہ ہمارا مشورہ ست بچوں کا سا ہوگا.میں جماعت میں آزادی کی روح پیدا کرنا چاہتا ہوں جب میں کوئی بات کہوں کہ یوں ہونی چاہیے تو جب تک نص کے خلاف نہ ہو کر و.اور جو نہ کرے وہ احمدی نہیں ہوسکتا.مگر کوئی اس بات کے لئے مجبور نہیں ہو سکتا کہ اپنی رائے بھی دل سے نکال دے.اس وقت جن دوستوں نے رائے بدلنی ہو وہ کھڑے ہو جائیں.اس پرستتر (۷۷) دوست کھڑے ہوئے اور حضور نے فرمایا :- یہ دوست کہتے ہیں کہ اب ہم اس رائے کے قائل نہیں رہے کہ ایک پیسہ بھی اگر کسی کی تجہیز و تکفین کے بعد بچے تو اسے جائیداد سمجھا جائے.چونکہ یہ کافی تعداد ہے اس لئے میں اس تجویز کو مستر د کرتا ہوں.باقی اس وقت یہ فیصلہ نہیں ہو سکتا کہ کیسی جائیداد کی وصیت ہونی چاہیے.اس کے لئے ایک کمیٹی بنا کر غور کرایا جائے گا عورتوں کی وصیت کے متعلق بھی اسی وقت فیصلہ ہوگا.( احمد یہ گزٹ 11 مارچ 1927 ء نمبر 13 جلد اوّل صفحہ 33 تا 36 ) خاص مومنوں کو قبل از وقت جنت کی بشارت ابھی بہت سے مسائل ہیں جن پر ہمیں غور کرنا ہے.اس لئے چاہتا ہوں.کہ اس کے متعلق دوستوں کی رائے لے لوں.مگر میں ایک بات کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں.جس سے شائد غلط فہمی ہوئی ہو.ایک آیت کا حوالہ دیتے ہوئے میر صاحب کے منہ سے وصیت کا لفظ نکلا ہے.مگر مجھے یاد ہے کہ وہ آیت ترکہ کے متعلق ہے.میر صاحب کے بیان کے مطابق یہ بات بن جاتی ہے کہ اگر وصیت کرنے والے کی جائیداد میں سے وصیت سے کچھ مستثنیٰ کیا جائے.تو یہ اس آیت کے خلاف ہے.مگر یہ آیت ورثاء کے متعلق ہے.چاہے اس کا نام وصیت رکھیں.اور چاہے ترکہ.دونوں صورتوں میں آیت یہ کہتی ہے کہ لرجال نصيب مـمـاتـرك الوالدان والا قربون وللنساء نصيب مماترك الوالدان والاقـــربـون مـمــاقـل مـنــه او كثر نصيباً مفروضا.یعنی کوئی شخص خواہ تھوڑی

Page 139

127 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ جائیداد چھوڑے.یا زیادہ.اس کے بیٹے اور بیٹیاں اس کے وارث ہیں.پس اس آیت کا مسئلہ زیرِ بحث سے کوئی تعلق نہیں ہے.کیونکہ اگر اسکا نام وصیت رکھ لیں.تو کیا ایک شخص بیوی کو اس کا حصہ دے جائے.تو وہ مقبرہ بہشتی میں دفن ہونے کے قابل ہو جائیگا.خواہ وہ دس ہزار روپیہ بھی بیوی کو دے جائے.تو بھی مقبرہ بہشتی میں دفن نہیں ہو سکے گا.اس وقت ہمارے مد نظر وصیت سے وہ خاص امر مراد ہے.جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تجویز کیا ہے.قرآن کریم کی اس آیت میں اس بات کا ذکر نہیں ہے.کہ وصیت جو دین کے لئے کی جائے.وہ کتنے سال کی ہو.بلکہ یہاں یہ ذکر ہے.کہ ایک شخص جو کچھ چھوڑ جائے.وہ اس کے وارثوں کا ہونا چاہئے.خواہ وہ تھوڑا ہو.یا زیادہ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک نئی بات پیدا کی ہے.اور وہ یہ کہ جو احمدی تقویٰ وطہارت اختیار کرے.اسلام کے احکام پر چلے.اور اپنے مال کی دین کے لئے اتنی قربانی کرے.وہ مقبرہ بہشتی میں داخل ہوگا.یہ صحیح ہے کہ ہر مومن جنت میں جائیگا.مگر ہر ایک مومن کو خدا تعالیٰ پہلے نہیں بتا دیتا.کہ وہ جنت میں جائیگا.البتہ خاص مومنوں کو الہام اور رویا سے بتا دیا جاتا ہے.اس زمانہ میں مادیت کی ترقی کو دیکھتے ہوئے خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا.کہ ہم نے جو مومنوں کے لئے وعدہ کیا ہے.کہ وہ جنت میں جائینگے.اگر ایک مومن دین کے لئے اتنی قربانی کرے.تو اسے ہم قبل از وقت خبر دیتے ہیں.کہ وہ جنتی ہو گیا تو اسلام کی تائید اور مدد کر نے والوں کے لئے خدا تعالیٰ نے قومی الہام کے ذریعہ بتا دیا.کہ اگر وہ ان امور پر عمل کریں.تو انہیں اسی دنیا میں سُنا دو.کہ وہ جنت میں جائیں گے.یہ اس وصیت کا مفہوم ہے.جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رکھی ہے.اور یہ عام وصیت کے مفہوم سے علیحدہ ہے.اور اس کے لئے احکام بھی علیحدہ ہیں.اس کے متعلق ہم نے جس بات پر فیصلہ کی بنیاد رکھنی ہے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقوال ہیں.اور اگر آپ کے کلام سے بالنص کوئی مفہوم نہ معلوم ہو.تو یہ دیکھنا ہوگا.کہ استنباط کیا ہوتا ہے اور اگر استنباط سے بھی بات معلوم نہ ہو.تو پھر اسلام کی عام روح کے ماتحت فیصلہ کریں گے.اور اسپر عمل کریں گے.رپورٹ مجلس مشاورت 1932 ، صفحہ 27 تا 29 )

Page 140

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 128 بہشتی مقبرہ کی اصل غرض روپیہ نہیں بلکہ اچھے اعمال اور تقویٰ اور قربانی ہے یہ تو ظاہر ہے کہ مقبرہ بہشتی کی غرض روپیہ حاصل کرنا نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے: اور ایک جگہ مجھے دکھلائی گئی اور اس کا نام بہشتی مقبرہ رکھا گیا.اور ظاہر کیا گیا کہ وہ ان برگزیدہ جماعت کے لوگوں کی قبریں ہیں جو بہشتی ہیں.( الوصیت صفحہ ۲۰) تو قبرستان کا خیال ان شرائط کے بنانے سے پہلے ہوا.اور اس کے بعد ایک تحریک پیدا ہوئی.اب اخویم مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی وفات کے بعد چونکہ میری وفات کی نسبت متواتر وحی الہی ہوئی.میں نے مناسب سمجھا کہ قبرستان کا جلدی انتظام کیا جائے.“ ( الوصیت صفحہ ۲۰) تو یہ الہامات اور مولوی عبد الکریم صاحب کی وفات اس تحریک کو پورا کرنے کا محرک ہو گئے.اس پر حضور نے کیا کیا؟ اس لئے میں نے اپنی ملکیت کی زمین جو ہمارے باغ کے قریب ہے.جس کی قیمت ہزار روپیہ سے کم نہیں ، اس کام کے لئے تجویز کی.“ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہر احمدی اس قبرستان میں داخل ہو سکے گا.اور وہ رؤیا اس طور پر پورا ہو جائے گا.تب وحی خفی نازل ہوئی.اور بتایا کہ یہ رویا اس طرح پورا کرو کہ ایسے قبرستان کے لئے کچھ شرائط لگا دیئے جائیں کہ اس معیار کے مطابق لوگ اس میں داخل ہوں.اور یہ اس جماعت کے پاک " دل لوگوں کی خواب گاہ ہو.جنہوں نے درحقیقت دین کو دنیا پر مقدم کرلیا اور دنیا کی محبت چھوڑ دی.اور خدا کے لئے ہو گئے اور پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرلی.اور رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کی طرح وفاداری اور صدق کا نمونہ دکھلایا.آمین یارب العلمین یہ شرائط حضور نے اپنی سمجھ کے مطابق لگائے ہیں.اگر حضرت مسیح موعود کی یہ شرطیں اپنی نہ ہوں ، تو پھر یہ کہنا جائز ہوگا.کہ ہر شخص جوان شرطوں کے ماتحت وصیت کرے وہ جنتی ہے.حالانکہ یہ واقعہ کے خلاف ہے.کیونکہ اس صورت میں لازم آئیگا کہ ہر وصیت کرنے والا لازما جنتی ہے.حالانکہ

Page 141

129 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ بعض وصیتیں منسوخ بھی ہو سکتی ہیں.گو میرا یہ عقیدہ ہے.کہ جولوگ ہماری نظروں میں کمزور ہوں لیکن وہ مقبرہ میں داخل ہو جائیں.تو یہ ہماری نظروں کی غلطی ہوگی.اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہی درست ہوگا.اور اگر ہم نے اپنے صحیح علم کے مطابق فیصلہ نہیں کیا.تو گو اس میں داخل ہونے والا تو جنتی ہو جائیگا.لیکن ہم نے اپنے لئے دوزخ خرید لیا.پس مقبرہ بہشتی کی اصل غرض روپیہ نہیں بلکہ اچھے اعمال اور تقویٰ اور قربانی ہے چونکہ جب ہم کہتے ہیں، کہ ایک شخص ہمارے علم میں متقی ہے.تو ہوسکتا ہے کہ اس کے بعد کسی زمانہ میں وہ متقی نہ رہے.پس ہم اس کے متعلق ایسی شرائط لگا دیتے ہیں.کہ جن سے آئندہ بھی ہمیں اس کے ایمان کا پتہ لگتا ر ہے اور اس کے ایمان کے بارہ میں اس کے حال سے ہم گواہی لیتے رہتے ہیں.چنانچہ جب اس کی مالی قربانی ایک طرف اور ظاہری حالات دوسری طرف اس کی نیکی پر گواہی دیتے ہیں.اور بتاتے ہیں کہ جس طرح اس کی ابتدا اچھی تھی ، انتہاء بھی اچھی ہے.(رپورٹ مجلس مشاورت 1939 ء صفحہ 129 130 )

Page 142

130 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ

Page 143

131 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ ارشادات حضرت لایه اسبح الاسطه بردار خليفة رحمہ اللہ تعالیٰ

Page 144

132 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ

Page 145

133 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ بہشتی مقبرہ میں دفن ہونا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک انعام ہے بہشتی مقبرہ میں دفن ہونا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بہت بڑا انعام ہے.بہشتی مقبرہ کا قیام گوایک بڑا سستا سودا ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ یہ موصوں کے لئے بہت ڈرنے کا مقام ہے.پس یہ انعام کا معاملہ ہے.احتساب اور سزا دینے کا معاملہ نہیں پھر یہ بات بھی محل نظر ہے کہ جو دوسرے قبرستان میں جائے گا اللہ تعالیٰ اسے معاف نہیں کرے گا خدا کی خدائی میں نہ دخل دینا چاہیے اور نہ اس کے متعلق سوچنا چاہیے.ہم نے ظاہری طور پر سوچنا ہے.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے بہشتی مقبرہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک انعام ہے اور اس میں وہی شخص داخل ہوتا ہے جس نے اپنی زندگی کا آخری امتحان کامیابی کے ساتھ پاس کر لیا اور اسی کو انجام بخیر کہتے ہیں.رپورٹ مجلس مشاورت 1972ء صفحہ 185) اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کے نزدیک بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے کے قابل نہیں اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کے نزدیک اس قابل نہیں کہ وہ بہشتی مقبرہ میں دفن ہوتو اللہ تعالی بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے سے روکنے کے لئے کئی تدبیریں کر سکتا ہے.ایک یہ تدبیر ہے کہ اس کی چھپی ہوئی کوئی بدی ظاہر کر دے.خدا تعالیٰ بڑا غفار ہے.اس واسطے خواہ مخواہ اپنے اعمال پر فخر نہیں کرنا چاہیے.پتہ نہیں ہماری کتنی کمزوریاں اور غفلتیں ہیں جن پر پردہ پڑا رہتا ہے.لیکن اگر کوئی شخص ایسا ہو کہ خدا تعالیٰ فیصلہ کرے کہ یہ شخص بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے کے قابل نہیں ہے تو اس کی ایک بدی سے پردہ ہٹا دیتا ہے اور اسطرح اس کی بدنامی ہوگی اور وہ بہشتی مقبرہ میں دفن ہی نہیں ہوگا.رپورٹ مجلس مشاورت 1972ء صفحہ 197 ) موصی کا معاہدہ اللہ تعالیٰ سے ہے موصی کا چونکہ معاہدہ صدرانجمن احمدیہ سے نہیں ہے.موصی کا معاہدہ اللہ تعالیٰ سے ہے اور چونکہ مادی

Page 146

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 134 دنیا میں اللہ تعالیٰ کے نمائندے کام کرتے ہیں انسانوں کے لئے وہ اپنی تقدیر کا ایک حصہ نافذ کرتا ہے اس واسطے معاہدہ اللہ تعالیٰ سے ہے وَلَقَدْ كَانُوا عَاهَدُو اللَّهَ مِنْ قَبْلُ ( الاحزاب : 16) اس قسم کی بہت ساری آیات ہیں.اللہ تعالیٰ سے یہ معاہدہ ہے اور خدا کا ہمیں یہ حکم ہے کہ نیک یا بد کاموں کا فیصلہ ظاہری حالات کے مطابق دیا کرو.ورنہ ہمارا معاشرہ اور تمدن درست نہیں رہ سکتا.رپورٹ مجلس مشاورت 1972 ء صفحہ 200,199 ) ایک حصہ کو اللہ تعالیٰ نے اس گندی دنیا میں ممتاز کرنے کے لئے قائم فرمایا تھا دراصل لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جنت میں وہی جائے گا جو بہشتی مقبرہ میں دفن ہوگا.دوسرے احمد یوں کے متعلق بھی ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ بھی جنت میں جائیں گے لیکن جنت میں جانے والے اس گروہ میں سے ایک حصہ کو اللہ تعالیٰ نے اس گندی دنیا میں ممتاز کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود کے ذریعہ نظامِ وصیت قائم فرمایا تھا.دراصل اس دنیا کی بہت ساری اقتصادی اور معاشرتی مشکلات کوحل کرنے کے لئے اس نظام کو قائم کیا گیا ہے تو جو غیر موصی ہیں ان کے متعلق بھی ہم امید رکھتے ہیں اور ان کے حق میں دعائیں کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سب کو جنت میں لے جائے.رپورٹ مجلس مشاورت (1973 ء صفحہ 213) جنت کے فیصلے کا ہمارا کام نہیں اب اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ فلاں شخص ۴۵ سال تک تارک نماز رہا ہے اور اس کی وصیت بحال رہنی چاہیے تو میرا دماغ اس کو قبول نہیں کرتا لیکن میں یہ پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ ہمارا یہ کام ہی نہیں ہے کہ یہ فیصلہ کریں کہ فلاں نے جنت میں جانا ہے یا نہیں.یہ میرا کام نہیں ہے اور نہ ہی یہ آپ کا کام ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے وہ مالک یوم الدین ہے وہی جزاوسزا کا مالک ہے اور وہی کسی کے جنت میں جانے نہ جانے کا فیصلہ فرماتا ہے.رپورٹ مجلس مشاورت (1973 صفحہ 216,215)

Page 147

135 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ سے صرف نظام خلافت پور فائدہ اٹھا سکتا ہے جس کی ہم باتیں کر رہے ہیں.اس کے ذریعہ ایک عظیم بیج بو دیا گیا سے صرف نظام خلافت پورا فائدہ اٹھا سکتا ہے.آپ گھروں میں جا کر الوصیت کو پھر پڑھیں آپ کو پتہ لگے گا.جس مقصد کے لئے کو قائم کیا گیا.جس مقصد کو حضرت مصلح موعود (اللہ آپ سے راضی ہو ) نے اپنی ایک تقریر میں صرف ایک پہلو سے بڑا نمایاں کر کے اور بڑے حسین رنگ میں بیان کیا تھا کہ اقتصادی ضروریات کے سلسلہ میں اس کا کیا کردار ہے جو اس نے ادا کرنا ہے اور ہزاروں اس کی برکتیں ہیں.صرف نظامِ خلافت ان برکات سے حصہ دار بنانے کا انتظام کر سکتا ہے.یہ دونوں parallel یعنی پہلو بہ پہلو آگے چل رہے ہیں.رپورٹ مجلس مشاورت 1976 صفحہ 182 ) جب تک موصی اور غیر موصی کے درمیان ما بہ الامتیاز نہ ہو وصیت کی روح قائم نہیں رہ سکتی پچھلے ۳-۴ مہینے میں ہماری بہت سی بہنیں اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے فوت ہو گئیں اور جب ان کی وصایا میرے سامنے آئیں تو مجھے بڑی تشویش پیدا ہوئی کہ وصیت کی جو ساری رپورٹ تھی اس سے یہ پستہ لگتا تھا کہ ان کی حالت روحانی طور پر جس کے لئے اس کو قائم کیا گیا ہے ایک عام اوسط درجہ سے بھی نیچے ہے.ویسے سارے احمدی خدا کے فضل سے سوائے چند ایک منافقین کے مخلص ہیں.تو وہ اس معیار پر بمشکل پوری اترنے والی تھیں اور وصیت ان کی ہوئی ہوئی تھی.مالی لحاظ سے انہوں نے ایک دھیلے کی قربانی نہیں کی.ایک دھیلے کی قربانی نہیں کی اور وہ جو ۳ اور ے کی شرائط ہیں ان کے متعلق کسی نے سوچا ہی نہیں.میں نے اس معاملے کو پیچھے ڈال دیا تھا.میں دعا کرتا رہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے کوئی ہدایت دے تو رات خدا تعالیٰ نے مجھے مسئلہ سمجھا دیا.یہ نہیں کہ الہام ، ویسے ہی روشنی ڈالی خدا نے میرے دماغ میں.تو میرے دماغ میں یہ آیا کہ ایک موصی اور موصیہ اور ایک غیر موصی اور غیر موصیہ کے درمیان کوئی مابہ الامتیاز ہونا چاہیے.دونوں کو آپ ایک جگہ تو کھڑا نہیں کر سکتے ، ایک مقام پر.تو جب تک وہ مابہ

Page 148

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 136 الامتیاز نہ ہو اس وقت تک وصیت کی روح قائم نہیں رہتی.ویسے تو ہمارا یہ کام نہیں اللہ تعالیٰ کا ہی کام ہے لیکن جو ظاہری نظام ہیں ان میں ظاہر پر فیصلہ کیا جاتا ہے اور جو خدا تعالیٰ کا اپنے بندے سے تعلق ہے وہ خدا اور اس کے بندے کا تعلق ہے ہمیں تو نہ جائز ہے کہ اس میں دخل کریں اور نہ ہمیں طاقت ہے.فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمُ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى ( النجم آیت : 33) یہ فیصلہ تو خدا تعالیٰ نے کرنا ہے،کس کی قربانی کو قبول کیا کس کی کو نہ کیا.لیکن ہم نے ظاہری قوانین میں ، وصیت کے نظام کا ایک ظاہری حصہ ہے، اس میں یہ تو فیصلہ کرنا ہے کہ ایک موصیہ میں اور ایک غیر موصیہ احمدی عورت ہماری بہن میں ایک ماہ الامتیاز پایا جاتا ہے؟.اگر کوئی امتیاز نہیں پایا جا تا اور آپ نے یہ تفریق کر دی تو کس نے آپ کو حق دیا ہے.یہ تفریق کرنے کا کہ ایک کو آپ نے بہشتی مقبرے میں دفن کر دیا اور دوسری کو کہا کہ تو بہشتی مقبرہ میں نہیں جاسکتی.یہ بنیادی بات ہے وصیت کے نظام میں.رپورٹ مجلس مشاورت 1978 صفحہ 175,174 ) کو ہم مذاق نہیں بنا سکتے.بڑی اہمیتوں کا مالک ہے یہ نظام میرے سامنے بعض ایسی وصیتیں آئی ہیں کہ ظاہری لحاظ سے جو ظاہری حکم ہم لگا سکتے ہیں بالکل معمولی درجے کی ایک ہماری بہن ہے اور اس کی وصیت ہو گئی.ایسی وصیتیں ہیں کہ جو مثلا کسی وقت آمد تھی جائیداد بھی تھی مہر بھی تھا، مہر لیا اور خرچ کر لیا آمد ختم ہوگئی بوڑھی ہوگئی بیٹے کے گھر بیٹھی ہوئی ہے یا کسی اور رشتے دار کے ہاں رہ رہی ہے اُس وقت انہوں نے وصیت کر دی میری کوئی آمد نہیں میری کوئی جائیداد نہیں میرا کوئی اور اونچا مقام نہیں اور میں وصیت کرتی ہوں اور وصیت ہوگئی.بالکل نظامِ وصیت کی روح کے خلاف ہوگئی.حضرت مصلح موعود ( اللہ آپ سے راضی ہو ) نے جہاں تک مستورات کی وصیت کا تعلق ہے ان کو بعض سہولتیں دی ہیں لیکن اس ضمن میں آپ کے جوارشادات ہیں میرے نزدیک ان کو بالکل غلط سمجھا گیا ہے.میں یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ حضرت مصلح موعود

Page 149

137 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ اللہ آپ سے راضی ہو) نے یہ فیصلہ کیا ہو کہ بغیر کسی قربانی کے اس کو منظور کر لیا جائے.مجھے یہ شبہ ہے، میں نے وصیتوں کے کاغذات منگوائے تھے لیکن اس وقت ان کو پڑھنے کا وقت نہیں ہے.میں نے مستورات کی وہ وصیتیں بہت ساری جو میرے سامنے کا غذ آئے تھے منگوا لئے تھے لیکن اب تو وقت نہیں رہا.رات کو اگر آ جاتے تو میں رات کو دیکھ لیتا.بہر حال ایک یہ تو ہم کر سکتے ہیں کہ میاں اور بیوی دونوں مل کر ہم ایک یونٹ سمجھ لیں ایک خاوند ہے وہ دو ہزار روپے کما رہا ہے، ایک بیوی ہے وہ ایک دھیلہ نہیں کما رہی.وہ اس دو ہزار میں سے ڈیڑھ ہزار روپیہ آ کے بیوی کو دے رہا ہے.اس دو ہزار میں سے اگر ۱/۱۰ کی وصیت ہے تو کم از کم ۲۰۰ روپیہ وصیت میں دے رہا ہے.تو وہ خاندان جس کے سربراہ دو ہیں باپ اور ماں اس خاندان کے.ان کی آمد میں سے ۲۰۰ روپیہ نکل رہا ہے اور وہ دونوں share کر رہے ہیں.بیوی کمانہیں رہی لیکن خاوند کی کمائی میں حصہ دار تو ہے جو اثر دو سور و پیہ وصیت کا چندہ دینے سے خاوند پر پڑ رہا ہے وہی اس کی بیوی پر پڑ رہا ہے.ان کے خرچ میں سے ۲۰۰ روپیہ کم ہو گیا ناں اپنے ذاتی خرچ میں سے.اُس عورت کے متعلق اگر یہ ہو کہ اس کی کوئی آمد نہیں اور میاں کی آمد دو ہزار میں سے ۲۰۰ روپیہ وہ دے رہا ہے تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ مال والے حصہ میں اس نے بھی قربانی کی ہے یا اس کا میاں ۲۰۰ روپیہ دے کر اس کی مالی حالت کو ۲۰۰ روپیہ تک کم کر رہا ہے.جو قوت خرید ہے اس کو ۲۰۰ روپیہ تک کم کر دیا نا اور وہ اس کے علاوہ اور وہ دین میں حصہ لیتی ہے، قرآن کریم پڑھتی پڑھاتی بچوں کی تربیت کر رہی ہے یہ اس کی Contribution ہے دوسروں سے زیادہ.تو یہ ٹھیک ہے.لیکن مجھے شبہ ہے کہ بعض ایسی وصیتیں ہیں کہ کمانے والے باپ نے وصیت ہی نہیں کی کیونکہ اس کو دینا پڑتا تھا مال، اور بیوی کی وصیت کر وادی آرام سے.ایسا ظلم ! اور ہم نے اس کو منظور کر لیا.اس واسطے اس میں میں تو بڑا فکر مند ہو گیا ہوں کہ ہم سے بڑا سخت گناہ ہوا ہے.نظامِ وصیت کو ہم مذاق تو نہیں بناسکتے.بڑی اہمیتوں کا مالک ہے یہ نظام، بڑے دور رس نتائج پر منتج ہونے والا ہے یہ نظام.

Page 150

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 138 اور اس کو ہم مذاق سمجھ لیں اور خاوند کچھ قربانی نہیں کر رہا یعنی خاوند کی کمائی میں سے بیوی پوری حصہ دار بھی ہے اور اس کی کوئی آمد بھی نہیں جس میں سے وہ وصیت ادا کرے اور اس کے کریڈٹ میں روحانی طور پر ظاہر میں، یہ میں بار بار دہرا رہا ہوں کہ میرا یہ کام نہیں ہے کہ کسی کے تقویٰ پر فتویٰ دوں.لیکن میرا یہ کام ہے کہ میں دیکھوں کہ جو ظاہری نظام ہے ظاہری حالات کے لحاظ سے اس کے مطابق فیصلہ ہونا چاہیے، اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے.باقی یہ تو ہمارا نہیں ہے عقیدہ کہ سوائے اس شخص کے جو بہشتی مقبرہ میں دفن ہو اور کوئی جنت میں ہی نہیں جاسکتا.یہ نہیں عقیدہ ہمارا.ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ جنت میں وہی جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جنت میں بھیج دیا جائے اور اپنا عمل جو ہے وہ یہاں کوئی کام نہیں کرتا.لیکن جو نظام بنائے جاتے ہیں دنیا میں نیکی اور تقویٰ کو قائم کرنے کے لئے اور جو نظام بنائے جاتے ہیں اسلامی حسن کو دنیا میں اجاگر کرنے کے لئے اور جو نظام بنائے جاتے ہیں نوع انسانی کے دل خدا اور محمد علے کے لئے جیتنے کے لئے وہ جو نظام ہیں ان میں ظاہری صورت میں یہ چیزیں ہمارے سامنے آنی چاہئیں ورنہ یہ مذاق بن جاتا ہے.تو جماعت کو یہ مذاق نہیں برداشت کرنا چاہیے.خاوند جو ہے وہ اس لئے وصیت نہیں کرتا کہ جی میرے ۳۰ ایکٹر زمین ہے پھر تین ایکٹر مجھے وصیت میں دینی پڑے گی اور بیوی کو کہتا ہے تیرے پاس ایک چپہ زمین نہیں ہے تو کر دے وصیت تجھے تو کچھ نہیں دینا پڑے گا.تو یہ نہیں ہونا چاہیے نہ ہوگا یہ.اگر ہو گیا ہے تو اس کے لئے آپ بھی استغفار کریں میں بھی بہت استغفار کر رہا ہوں.تو آئندہ سے یہ نہیں ہونا چاہیے.بلکہ ساری عورتوں کی وصیتوں کو revise کریں اور نئے سرے سے جائزہ لیں.یہ سمجھنا کہ وصیت کے لئے صرف یہ خواہش کافی ہے کہ میں وصیت کا فارم پر کردوں اور اسے مان لیں یہ درست نہیں.اس کے لئے ہمیں کچھ سوچنا پڑے گا....کیونکہ یہ تو میں نے نہیں کہا کہ ہر عورت ایسی ہے جس کی وصیت مشتبہ ہے.میں یہ کہتا ہوں کہ بعض عورتیں ایسی ہیں جن کی وصیتیں مشتبہ ہیں اور اگر ایک عورت بھی ایسی ہو تو اسے نہیں برداشت کرنا چاہیے.وہ نظامِ

Page 151

139 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ وصیت کے ساتھ تمسخر ہو جائے گا.تو اس کی چھان بین ہونی چاہیے اور کوئی ایسا قاعدہ بننا چاہیے کہ آئندہ آرام سے ایک طرف غلط اقدام ہم نہ اٹھا سکیں اور دوسری طرف بثاشت کے ساتھ ہماری بہنیں دین کی خدمت خولہ اور عائشہ تیموریہ کی طرح نمایاں طور پر آگے بڑھ کر کرنے والی ہوں اور ہم دعا کرتے ہیں اور ہم امید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کو قبول کرے گا اور اپنی رضا کی جنتوں میں انہیں داخل کرے گا.پس میں وہ ایک نمونہ بن کے داخل ہوں.نظامِ وصیت میں ایک مشکوک حیثیت میں پچھلے دروازے سے داخل ہونے کی کوشش نہ کریں.رپورٹ مجلس مشاورت 1978ء صفحہ 176 تا 182) شخص نے اللہ کے فضل سے جنت میں جانا ہے آپ کو یہ غلط نہی ہے کہ بہشت میں صرف وہ احمدی جائے گا جو بہشتی مقبرہ میں دفن ہو گا.بڑی سخت غلط نہی ہے.میں ایسے سینکڑوں آدمیوں کو جانتا ہوں جن کی مالی قربانی ہزاروں موصوں کی مالی قربانی سے زیادہ ہے لیکن ان کی وصیت نہیں ہے اور یہ میں آپ کو سمجھانے کے لئے کہہ رہا ہوں باقی تو ہر شخص نے اللہ کے فضل سے جنت میں جانا ہے.اگر آپ کے دماغ میں یہ ہو کہ مالی قربانی کے نتیجہ میں کسی شخص نے جنت میں جانا ہے تو سینکڑوں غیر موصی ایسے بھی ہیں جن کی مالی قربانیاں ہزاروں موصیوں کی قربانیوں سے زیادہ ہوتی ہیں اور وہ وصیت نہیں کرتے.(رپورٹ مجلس مشاورت 1979ء صفحہ 129) ایک مضحکہ خیز طریق بیوی کو دھکا دے کہ جا تو بہشتی مقبرہ میں اور میں باہر کھڑا ہوں ایک اور بات دیکھنے والی ہے اور وہ بہت ضروری ہے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ خاوند نے وصیت کی ہے یا نہیں کیونکہ میرے علم میں بعض ایسے خاوند ہیں جن کی دس پندرہ بیس ہزار پچاس ہزار لاکھ روپے ماہانہ آمد ہے اور انہوں نے وصیت نہیں کی اور بیوی کا مہر انہوں نے -/500 روپے رکھا ہوا ہے

Page 152

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 140 ا اور -/500روپے پر بیوی کی وصیت کروادی.میرے نزدیک ایسی عورت کی -/500 روپے کے او پر وصیت نہیں ہونی چاہیے ہمیں جہاں مالی قربانی دینی پڑتی ہے وہاں خود تو پیچھے ہٹ گئے اور بیوی کو پکڑ کے زبردستی اور دھکا دے کے کہا جاتو بہشتی مقبرہ میں میں باہر کھڑا ہوں.یہ طریق تو مضحکہ بن جاتا ہے.جب سے میں نے وصایا کو دیکھنا شروع کیا ہے کئی ایسی وصایا میرے سامنے آئی ہیں کہ بڑا اچھا کھاتا پیتا گھرانہ ہے اور خاوند غیر موصی ہے اور بیوی کا-321 روپے شرعی مہر رکھا ہوا یعنی شریعت کو بدنام کرنے کے لئے اس کا نام شرعی مہر رکھا ہوا ہے جب کوئی شخص اپنی بیوی کا اس قسم کا شرعی مہر رکھ دیتا ہے تو یہ غلط ہے.اصل یہ چیز ہے جس کا دیکھنا آپ کا کام ہے آئندہ کے لئے احتیاط کریں.جو پچھلا کام ہے اس کے متعلق تو کمیٹی بن جائے گی وہ بھی کچھ کام کرے گی آپ بھی کچھ کر رہے ہیں لیکن آئندہ کے لئے کوئی وصیت ایسی نہیں ہونی چاہیے جس کی روح کو قائم نہ رکھا گیا ہو.رپورٹ مجلس مشاورت 1979 ء صفحہ 154,153 ) ایک موصیہ اور غیر موصیہ میں جب تک نمایاں فرق نہیں اس وقت تک وصیت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا میں نے پچھلے سال اور اُس سے پچھلے سال بھی کہا تھا کہ ایک موصی اور غیر موصی میں مابہ الامتیاز ہونا چاہیے اسی طرح ایک موصیبہ اور غیر موصیہ میں بھی مابہ الامتیاز ہونا چاہیے.جب تک ان میں نمایاں فرق نہیں ہے اس وقت تک میرے نزدیک وصیت کا سوال ہی کوئی نہیں پیدا ہوتا اور یہ جو بڑے مخلص آدمی میں نے بتائے ہیں ناں کہ ویسے کئی موصیوں سے زیادہ مالی قربانی کرنے والے ہوتے ہیں لیکن وصیت نہیں کرتے وہ بھی بڑے بے نفس انسان ہوتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کس منہ سے ہم خدا کو یہ کہیں کہ ہم نے بڑی قربانی کی ہے ہمیں بہشتی مقبرہ میں دفن کر دیا جائے.میر ان کا اپنا معاملہ ہے خدا تعالیٰ ان پر رحم فرمائے.رپورٹ مجلس مشاورت 1979 ء صفحہ (154)

Page 153

141 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ کی عظمت کے قیام کیلئے کوشش کریں کو جو حضرت مسیح موعود نے سمجھا اور خدا تعالیٰ کے حکم سے جاری فرمایا اور کو جو حضرت مسیح موعود کے نائبین اور خلفاء نے سمجھا اس کے متعلق میں حضرت مصلح موعود ( اللہ آپ سے راضی ہو ) کا ایک حوالہ بتا دیتا ہوں.جو انہوں نے سمجھا وہی میں سمجھتا ہوں اور اس سے پتہ لگ جائے گا کہ نظامِ وصیت جو ہے ہمارے نزدیک اس کی اہمیت اس کی عظمت اس کی وسعت اس کی افادیت کیا ہے.حضرت مصلح موعود ( اللہ آپ سے راضی ہو ) فرماتے ہیں یہ نظام نو کا حوالہ ہے..غرض جیسا کہ میں نے بتایا ہے وصیت حاوی ہے اس تمام نظام پر جو اسلام نے قائم کیا ہے.بعض لوگ غلطی سے یہ خیال کرتے ہیں کہ وصیت کا مال صرف لفظی اشاعت اسلام کے لئے ہے مگر یہ بات درست نہیں.وصیت لفظی اشاعت اور عملی اشاعت دونوں کے لئے ہے.جس طرح اس میں تبلیغ شامل ہے اسی طرح اس میں اس نئے نظام کی تکمیل بھی شامل ہے جس کے ماتحت ہر فرد بشر کی باعزت روٹی کا سامان مہیا کیا جائے گا.جب وصیت کا نظام مکمل ہوگا تو صرف تبلیغ ہی اس سے نہ ہوگی بلکہ اسلام کے منشاء کے ماتحت ہر فرد بشر کی ضرورت کو اس سے پورا کیا جائے گا اور دکھ درد نگی کو انشاء اللہ دنیا سے مٹادیا جائے گا یتیم بھیک نہ مانگے گا، بیوہ لوگوں کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے گی ، بے سامان پریشان نہ پھرے گا کیونکہ وصیت بچوں کی ماں ہوگی جوانوں کی باپ ہوگی عورتوں کا سہاگ ہوگی اور جبر کے بغیر محبت اور دلی خوشی کے ساتھ بھائی بھائی کی اس ذریعہ سے مدد کرے گا اور اس کا دینا بے بدلہ نہ ہوگا بلکہ ہر دینے والا خدا تعالیٰ سے بہتر بدلہ پائے گا.نہ امیر گھاٹے میں رہے گا نہ غریب نہ قوم قوم سے لڑے گی بلکہ اس کا احسان سب دنیا پر وسیع ہوگا.“ یہ ہے ! دوست اس کی عظمت کو قائم کرنے کے لئے کوشش کریں.رپورٹ مجلس مشاورت 1979 ء صفحہ 172,171)

Page 154

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 142 مالی قربانی کے لحاظ سے موصی اور غیر موصی کی زندگی میں کوئی فرقان ہو موصی اور غیر موصی کی زندگی میں کوئی فرقان.کوئی مابہ الامتیاز ہونا چاہیے.خواتین کی وصیتوں میں وہ ا بہ الامتیاز نظر نہیں آتا.دین دار ہے.نمازیں پڑھتی ہے جس طرح اور لاکھوں عورتیں نمازیں پڑھنے والی ہیں اور خوش اخلاق ہے.دکھ سکھ میں شریک ہونے والی ہے.دعائیں کرنے والی ہے لیکن کون نہیں دعا کرنے والی ! مالی قربانی کے لحاظ سے ایک ما بہ الامتیاز ہونا چاہیے.رپورٹ مجلس مشاورت 1980 صفحہ 111 ) واقع میں اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا ہے ایسے Case جو وفات کے بعد آجاتے ہیں میں تو اللہ تعالیٰ کا ایک نالائق مزدور ہوں.میں مسکرایا کرتا ہوں کہ انسان کی نظر نے جو چیز نہیں دیکھی معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی نظر نے دیکھ لی اور قبل اس کے کہ اس کی وصیت منسوخ کر دیں.خدا نے اسے اپنے پاس بلا لیا.میں اس کی منظوری دے دیتا ہوں کہ بہشتی مقبرہ میں دفن کر دیں.اس نے وصیت کی ہوئی ہوتی ہے.ہر چیز ہمیں تو نہیں نظر آتی.ایسے آدمی بھی میں نے دیکھے ہیں کہ بظاہر بڑے آگے نکلے ہوئے اور بڑی مالی قربانیاں کرنے والے اور وفات سے چند مہینے پہلے کوئی ایسا پلٹا طبیعت میں پیدا ہوتا ہے کہ وہ جماعت کو ہی چھوڑ کر چلے جاتے ہیں تو ان چیزوں سے یہ پتہ لگتا ہے کہ واقع میں اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا ہے لیکن جو ہمارا کام ہے ان شرائط کو دیکھنا وہ تو ہمارا کام ہے ناں.رپورٹ مجلس مشاورت 1980ء صفحہ (111) خدا تعالیٰ کے پیار کو پانے والے چنیدہ لوگوں کا گروہ ہر اُس احمدی کے لئے جو حضرت مسیح موعود کی دعوت پر نبی اکرم ﷺ کی اتباع کرتے ہوئے مقبول اعمال صالحہ بجالاتا ہے اس کو جنت کی بشارت دی گئی ہے مگر یہ فیصلہ تو ہمارا جو مالک اور خالق خدا ہے اس نے کرنا ہے.یہ جو مومنوں کی جماعت، غلبہ اسلام کی مہم میں شامل ہونے والی جماعت ہے ان کو

Page 155

143 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ اپنا مقام پہچاننے کے لئے اور اپنی ذمہ داریوں کا علم حاصل کرنے کے لئے ہر جگہ کچھ نمونوں کی ضرورت سمجھی گئی میں اس طرح بھی بیان کر سکتا ہوں ایک مثال کے طور پر کہ ہر جماعت میں کچھ لوگ ہوں جو خاص طور پر ہر میدان میں زیادہ قربانیاں کرنے والے ہوں.دعا گو بزرگ ہوں.ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے والے ہوں.ان کی دعائیں قبول ہوتی ہوں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے.انسان اپنے زور سے تو نہیں کر سکتا.بہر حال ایسے اعمال صالحہ ہوں کہ ہر گاؤں میں ایک نمونہ کے طور پر ہوں اور ان کو دیکھ کے باقی جماعت بھی اپنے اس معیار کو قائم رکھے جس معیار کا قائم رکھنا جماعتی ذمہ وار یوں کو نباہنے کے لئے ضروری ہے.اس کے لئے یہ قائم ہوا ہے.یہ قائدین کی جماعت ہے.یہ لیڈرز کی جماعت ہے.جماعت کے اندر ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو ساری جماعت کو آگے لے کر چلنے والے.سب سے مضبوط اپنے ایمانوں میں اور صاحب فراست اپنے اعمال میں اور سب سے زیادہ عاجزانہ دعائیں کرنے والے لوگ ہیں اور یہ خدا تعالیٰ سے خدا تعالیٰ کے پیار کو پانے والے چنیدہ لوگوں کا گروہ ہے جس طرح مگ کی ڈار جب اڑ رہی ہو تو ان کی تیر کے پھل کی طرح کی flight کی شکل بنتی ہے جو سب سے زیادہ مضبوط مگ ہوتا ہے وہ سب سے آگے ہوتا ہے.یہی حالت ایک موصی کی ہے موصی اُسے نہیں کہتے جو مگ کی ڈار میں سب سے پیچھے تھک کے ڈار بھی چھوڑ رہا ہے اور آپ کہتے ہیں کہ اس بیچارے نے کیا قصور کیا کہ اس کو میں شامل نہیں کر رہے.نظامِ وصیت میں ہم نے شامل نہیں کرنا.میں شامل کرنے والا شامل کر گیا.یہ ہے جو الوصیت میں کہا گیا ہے..اب یہ کہ جی طالبہ ہے اس کا کیا قصور کہ اگر اس کے پاس پیسے نہیں.اس کا کیا قصور کہ اگر ہمارے ملک میں ناولیں چھپنی شروع ہو گئیں اور وہ نماز کی بجائے ناولیں پڑھتی ہے اس طرح تو سارے دروازے آپ نے گندگی اور فسق کے کھول دیئے.یہ موصیان کی جماعت ہے فاسقوں کی جماعت نہیں ہے.یہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں سب سے پیارے وجود ہوتے ہیں جو جماعت احمدیہ میں خود قربانیاں کرنے والے، کہنے والے کہ اس طرح قربانیاں کرو.اپنے ماحول کے اندر دوسروں کو اپنے پیچھے لگا کے آپ آگے بڑھنے والے

Page 156

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 144 اور اپنے ساتھ دوسروں کو آگے بڑھانے والے ہوتے ہیں اگر اس کے برعکس ہوتا ہے تو پھر یہی ہوگا کہ ان کی وصیت منسوخ کر دی جائے گی.ر پورٹ مجلس مشاورت 1980 صفحہ 131 تا 133 ) بے پردگی اور وصیت اکھٹی نہیں چل سکتی یورپ کی طرح بے پردگی پر بھی لوگ زور دے رہے ہیں لیکن یہ ہرگز مناسب نہیں.یہی عورتوں کی آزادی فسق و فجور کی جڑ ہے.جن ممالک نے اس قسم کی آزادی کو روارکھا ہے ذرا انکی اخلاقی حالت کا اندازہ تو کریں.اگر اس آزادی اور بے پردگی سے ان کی عزت اور پاکدامنی بڑھ گئی ہے تو ہم مان لیں گے کہ ہم غلطی پر ہیں.آپ کہتے ہیں کہ ہماری جو عورت بے پرد ہو جاتی ہے اس کی وصیت قائم رہے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ وہ فسق و فجور کا دروازہ کھولنے والی ہے.اس واسطے باقی جو ہیں عورتوں کی وصیت کے بارہ میں فیصلے وہ تو ہوتے رہیں گے بعد میں لیکن آج یہ اعلان کر دیا جائے کہ ہر عورت جو بے پرد ہے اس کی وصیت منسوخ کی جاتی ہے اور ہر مرد جو خدا کا خوف نہیں رکھتا اور اپنے بھائی کو ایذا پہنچاتا ہے اس کا مال غبن کر کے، زبان کی تیزیوں کے ساتھ اس کو طعنے دے کر ، اس کو حقیر سمجھ کر اور اپنے آپ کو کچھ سمجھ کر.اس کی وصیت منسوخ کی جاتی ہے.تکبر تو شیطان تک پہنچانے والی چیز ہے جو لوگ ایسے نمایاں طور پر ہمارے سامنے آجائیں یہ نہیں کہ بدظنی کر کے آپ ایک دوسرے کے اوپر ایک اور قسم کی الزام تراشی شروع کر دیں.یا دوسروں کا مال کھانے والے ہوں.قرآن کریم نے یہ اعلان کیا وَلَا تَأكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الحُكّامِ لِتَا كُلُوا فَرِيقاً مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْم (البقرہ آیت : 189 ) کہ مال کھا کے اور جواز یہ پیدا کرو کہ ہم کورٹ میں گئے تھے اور جھوٹی گواہیاں ہم نے اپنے حق میں پیش کیں اور اپنے حق میں فیصلہ کر والیا.جماعتی نظام کا یہ کام نہیں کہ ایسے حالات میں مثلاً کورٹ میں گئے اور غلط فیصلہ کر والیا کہ وہ رقم دلوائے.لیکن جماعتی نظام کا یہ فرض ہے کہ ایسے آدمی کو وصیت سے

Page 157

145 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ باہر نکال دے....بڑا اہم کام ہے جو ہمارے سپرد ہے اور اس اہم کام کے ایک نہایت اہم موڑ کے اوپر ہم پہنچ چکے ہیں اور غلبہء اسلام کی صدی جو میرے نزدیک ( میں بھی انسان ہوں، غلطی بھی کر سکتا ہوں میں نے بڑا سوچا.دعائیں کیں اسی بات پر میرا انشراح صدر ہے کہ ) جو جماعت احمدیہ کی دوسری صدی ہے ، وہ صدی انشاء اللہ تعالیٰ غلبہ اسلام کی صدی ہے.جماعت اس کے لئے تیاری کرے وہ غلبہ اسلام کی اگر صدی ہے تو انسانیت کے تم استاد ہو گے اور رہبر ہو گے.کچھ کئے بغیر کیسے رہبر بن جاؤ گے اگر تم نہ سوچو گے نہ سمجھو گے نہ قرآن کریم پڑھو گے نہ بچوں کو پڑھاؤ گے نہ اپنی روحوں کو پاک کرو گے نہ خدا تعالیٰ سے تعلق قائم کرو گے نہ اس کے پیار کو حاصل کرو گے نہ دنیا کے لئے نشان بنو گے تو پھر کیسے ان کے قائد بن جاؤ گے.(رپورٹ مجلس مشاورت 1980 ء صفحہ 135,134 ) وصیت کی خواہش رکھنے والا کوئی رعایت نہ مانگے یہ جو ہے ناں الوصیت کی روح اس کو سمجھ کے باتیں کرنی چاہئیں.جماعت کے اندر ایک ایسا گروہ پیدا کرنا مقصود ہے جو با اخلاق ہو، دین اسلام کی تعلیم پر عمل کر رہا ہو.دلوں کا حال اللہ جانتا ہے.ظاہر میں ہم اس سے یہ مطلب لیں گے کہ ہماری نگاہ اس کے اندر بنیادی طور پر کوئی کمزوری نہیں دیکھتی.مثلاً با قاعدہ نمازیں پڑھتا ہے.جو اسلام نے اس کو رعائتیں دی ہیں مثلاً ایک آدمی باہر کام کرتا ہے اس کے لئے ضروری نہیں کہ وہ اپنے محلے کی مسجد میں آکے نماز پڑھے.وہ رستے میں اگر کہیں راجباہ ہے تو اس کے کنارے پر نماز پڑھ سکتا ہے.خوش معاملگی جو ہے اس کی دوسروں کے ساتھ اس کے معاشرتی تعلقات جو ہیں ان میں وہ اسلامی اصول تو ڑتا نہیں.کسی کو دکھ نہیں پہنچا تا ، تو حید پر پوری طرح قائم ہے، کسی قسم کا شرک نہیں کرتا.( یہ شق نمبر ۳ کے اندر آیا ہے شروع میں حضرت مسیح موعود نے تین بنیادی شقیں دی ہیں یہ نمبر ۳ ہے ) اور اس کے ساتھ نمبر ۲ شق یہ ہے کہ وہ مالی

Page 158

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 146 لحاظ سے ایسی قربانی کرتا ہے جو اس احمدی میں اور ایسے احمدی میں جو باقی بہت سارے ہیں جنہوں نے وصیت نہیں کی ، ان کے درمیان ما بہ الامتیاز پیدا کرتا ہے..ایک عورت کی وصیت میرے سامنے آئی کہ اس کا حصہ آمد بشرح چندہ عام واجب الادا ہے، وہ اس نے نہیں دیا کیونکہ اس کی آمد ہی کوئی نہیں اور حصہ جائیداد اس کے ذمے ہی کوئی نہیں کیونکہ اس کی جائیداد ہی کوئی نہیں.وہ وصیت کس کام کی؟ وہ اس گروہ میں کیسے شامل ہو گئی جس کا ذکر اس کتاب الوصیت کے اندر ہے.اس واسطے ان کی ڈرافٹنگ میں غلطی ہوگئی ہوگی.لیکن یہ حقیقت ہے کہ جو شخص یہ خواہش رکھتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کو وحی کے ذریعے جو ایک عظیم نظام کی اطلاع دی گئی اس کے جو اصول ہیں ان پر وہ کار بند ر ہے ، اس پر کار بند رہنے کی کوشش کرے اور کوئی رعایت نہ مانگے.کیونکہ اصولاً کوئی رعایت دی نہیں جاسکتی.66 رپورٹ مجلس مشاورت 1981ء صفحہ 133 موصی کی تمام صلاحیتوں کے اندر سے تقویٰ پھوٹ پھوٹ کے نکل رہا ہو ہر احمدی کو متقی بننا چاہیے.اور ہر موصی کو نمایاں طور پر تقویٰ کی جو ظاہری شکل ہے اس کا ثبوت دینا چاہیے مثلاً میں نے ابھی سوچا کہ اگر کوئی ایسا آدمی میرے دماغ میں آئے کہ اگر اس کے پاس دھیلا بھی نہ ہوتا تو وہ بہشتی مقبرہ میں جانے کا (یعنی اگر مجھ سے رائے لی جاتی تو میں کہتا ) حقدار ہے تیسری شرط کے مطابق.وہ ہمارے نذیر احمد علی صاحب تھے جو افریقہ کے مبلغ تھے انہوں نے بڑی قربانی کی سر کے اوپر کتابیں لے کے اور گاؤں گاؤں گئے.بالکل ابتدائی مبلغین میں سے ہیں.بعض دفعہ ایک دن میں تین تین گاؤں میں گئے.لوگ ان کو کہتے تھے یہاں سے چلے جاؤ.ہم تمہاری بات سننا نہیں چاہتے اور پھر شام کے قریب جس گاؤں میں جاتے وہاں کوئی خدا کا نیک دل بندہ کہتا ٹھہر جاؤ.پھر وہ باتیں سنتا اور اس طرح وہاں جماعت قائم ہو جاتی.ان کے جو دل کی کیفیت ہے وہ میں اب بتاؤں گا.وہ تو بڑے پیار سے کام کر رہے تھے خدا تعالیٰ کے ساتھ ان کا

Page 159

147 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ تعلق تھا اور بڑے اخلاص سے اسلام کی تبلیغ کر رہے تھے وہ ٹی بی کے بیمار ہو گئے.حضرت مصلح موعود( اللہ آپ سے راضی ہو ) نے انہیں یہاں بلالیا.ڈاکٹروں نے کہا کہ ان کو بہت زیادہ تکلیف ہے.ڈاکٹری مشورہ یہ تھا کہ ان سے کام نہ لیا جائے آرام کریں.ڈاکٹروں کا تو یہ بھی خیال تھا کہ ایک سال سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتے.نذیر احمد علی صاحب نے حضرت مصلح موعود (اللہ آپ سے راضی ہو ) کی خدمت میں لکھا کہ میں مرنے سے پہلے وہاں کام کرنا چاہتا ہوں مجھے آپ واپس بھیج دیں.چنانچہ انکو وہاں واپس بھیج دیا گیا اور کچھ عرصے کے بعد ہی وہ فوت ہو گئے اور وہاں ان کی قبر بنی.یعنی یہ ایک نمایاں قربانی ہے.لیکن ایک یہ ہے کہ ایک گاؤں ہے اس میں ایک بڑھیا رہتی ہے جس کا بوڑھیوں والا ایمان ہے وہ قرآن پڑھتی ہے اور بہت درود پڑھتی ہے اور بیٹھے ذکر کرتی رہتی ہے اس کے عزیز ہیں وہ روٹی دے دیتے ہیں اس کو کوئی کام نہیں، کوئی ذمہ داری نہیں ہے.ہم اس کو وہ معیار نہیں دے سکتے جو نذیر احمد علی صاحب کو دے سکتے ہیں.اصل یہ ہے کہ موصی کی تمام صلاحیتوں کے اندر سے تقومی پھوٹ پھوٹ کے نکل رہا ہو یعنی جو صلاحیتیں اللہ تعالیٰ نے کسی فرد واحد کو دی ہیں ان میں تقویٰ کی جھلک نمایاں ہو.(رپورٹ مجلس مشاورت 1981 ء صفحہ 157,156 ) بہشتی مقبرہ میں جانے کے دو دروازے ہیں اور ہر دو انتہائی قربانی چاہتے ہیں موصی کی قربانی کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود نے دو شکلیں بنائی ہیں ایک یہ کہ اس کا ایک عام مقام ہے تقویٰ اور ظاہری ایمان کے لحاظ سے.نمازیں پڑھتا ہے.سچ بولتا ہے.لیکن صاحب کشف والہام نہیں ہے.جماعت کا مبلغ نہیں ہے.اس کے لئے کہا کہ یہ تیرے لئے دروازہ کھول دیتے ہیں.اگر تجھے خدا نے دولت دی ہے تو مالی قربانی کر پلس (Plus) وہ چیز جو ہماری جماعت کا ایک عام معیار ہے نیکی اور تقوی کا یہ وصیت کی انسٹیٹیوشن ہے.تو دومیدان کر دیے ناں.ایک انتہائی مالی قربانی ہے ایک انتہائی غیر مالی قربانی.وصیت کے لئے انتہائی مالی قربانی ہے.کوئی چور آکے

Page 160

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 148 چوری کے مال سے وصیت نہیں کر سکتا کہ میں نے نو لاکھ کا ڈاکہ مارا ہے اور ۱/۳ کی وصیت کرتا ہوں.تین لاکھ لے لیں اور مجھے بہشتی مقبرہ میں جانے دیں.وہ بہشتی مقبرہ میں کیسے جائے گا؟ اسکی عام حالت دین کے لحاظ سے، شریعت کی پابندی کے لحاظ سے، حسن اخلاق کے لحاظ سے ایسی نہیں تھی کہ وہ بہشتی مقبرہ میں جاسکے.اس کو خدا نے دولت دی تھی.وہ کہتا ہے ٹھیک ہے، میں خدا تعالیٰ کے پیار کو اس رنگ میں حاصل نہیں کر سکا کہ بہشتی دروازہ میرے لئے بظاہر کھل سکے.یہ ایک رستہ میرے پاس ہے کہ میں مال کی قربانی دیتا ہوں.حضرت مسیح موعود نے اللہ تعالیٰ کے الہام اور وحی سے اس کو یہ بشارت دی کہ تیری قربانی قبول ہو جائے گی، اگر باقی چیزیں ٹھیک ہیں.یعنی حرام کا مال نہیں ہے.پسینے کی کمائی ہے اور وصیت کے علاوہ جو حقوق ہیں وہ اس میں پورے کئے گئے ہیں.یہ بھی دیکھنے والی بات ہے.ایک یہ ہے کہ اس کے پاس مال نہیں ہے.حضرت مسیح موعود ضمیمہ رسالہ الوصیت میں فرماتے ہیں.اگر کوئی کچھ بھی جائیداد منقولہ یا غیر منقولہ نہ رکھتا ہو اور بایں ہمہ ثابت ہو کہ وہ ایک صالح درویش ہے اور متقی اور خالص مومن ہے اور کوئی حصہ نفاق یا دنیا پرستی یا قصور اطاعت کا اس کے اندر نہ ہو تو وہ بھی میری اجازت سے یا میرے بعد انجمن کی اتفاق رائے سے اس مقبرہ میں جاسکتا ہے.بہشتی مقبرہ میں جانے والے دو ہو گئے ناں.ایک وہ جو پیسہ بھی زیادہ نہیں دے سکتے.تھوڑی سی انکے پاس دولت ہے.مثلاً ہزار روپیہ ہے اس میں سے سوروپیہ دے دیا.اب ایک غیر موصی شخص جو دس دس ہزار روپے چندہ عام دیتا ہے.وہ دس ہزار روپیہ دے کے بھی بہشتی مقبرے میں جانے کا قانونا حقدار نہیں بنتا.لیکن یہ شخص سور و پی دیتا ہے اور حقدار بن جاتا ہے.اس واسطے کہ دوسرا دروازہ اس کے لئے کھلا ہے.پس بہشتی مقبرے میں جانے کے دو دروازے کھلے ہیں.ہر دو انتہائی قربانی چاہتے ہیں اور جو اس کے خلاف ہو گیا وہ غلطی ہوگئی.اس کی درستی ہونی چاہیے.مثلاً ایک وقت میں عورت کے لئے یہ قاعد و مقرر کر دیا کہ اس کا مہر اس کی جائیداد ہو اور مہر تھا بتیس روپے.بتیس روپے کی

Page 161

149 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ قیمت اس وقت جو تھی آج بتیس روپے کی قیمت بتیس ہزار روپے ہے.حضرت مسیح موعود کا زمانہ تو اس سے بھی بہت سستا زمانہ تھا.میں جب ولایت سے آیا اور اپنا گھر بسایا ، النصرت، قادیان میں، تو چار روپے کا لکڑی کا بھرا ہوا گڈا خریدا کرتے تھے.اب یہ چلے ہوئے ہیں آنکھیں بند کر کے کہ بیتیس روپے مہر پر عورت وصیت کر سکتی ہے.میں کہتا ہوں نہیں کر سکتی کیونکہ اس وقت وہ بیتیس روپے کے مہر پر جو قربانی دے رہی تھی آج وہ قربانی نہیں ہے.تو خدا تعالیٰ نے عقل استعمال کرنے کے لئے دی ہے اور جو اصل بنیاد ہے وہ نمایاں قربانی ہے.جو ما بہ الامتیاز پیدا کرنے والی ہے.ایک عورت ایک آواز کے اوپر کوپن ہیگن کی مسجد کے لئے یا لنڈن کی مسجد کے لئے سارا زیور دے دیتی ہے.وہ موصیہ نہیں بنتی اور ایک عورت آج کے بتیس روپے کا دسواں حصہ دے دیتی ہے اور وہ موصیہ بن جاتی ہے.حالات بدل گئے ہیں تبدیلی کرو گے اس کے اندر یعنی ساری عمر میں تین روپے دے رہی ہے اور آپ کہتے ہیں بہت بڑی شان کی عورت ہے.اس نے خدا کی راہ میں بہت بڑی مالی قربانی دی.کبھی نماز چھوڑ بھی دیتی ہے.بھول جاتی ہے بیچاری.اسکو تو یہ چیز Cover نہیں کرتی...حضرت مسیح موعود کے ذریعے ایک عظیم نظام اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا.حضرت مصلح موعود ( اللہ آپ سے راضی ہو ) نے اس کے اوپر ایک زبر دست استدلالی تقریر کی جس میں اس کی شان اور عظمت واضح کی.تو ہر ایک جاکے اس نظام کے متعلق پڑھے یا سنے.رپورٹ مجلس مشاورت 1982 صفحہ 104 تا 107 ) قرآنی انوار کی اشاعت میں موسیان کی ذمہ داری خطبه فرموده 5 اگست 1966 ء) تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: کوئی پانچ ہفتہ کی بات ہے ابھی میں ربوہ سے باہر گھوڑ انگلی کی طرف نہیں گیا تھا.ایک دن جب میری

Page 162

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 150 آنکھ کھلی تو میں بہت دعاؤں میں مصروف تھا اس وقت عالم بیداری میں میں نے دیکھا کہ جس طرح بجلی چمکتی ہے اور زمین کو ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک روشن کردیتی ہے.اسی طرح ایک نور ظاہر ہوا اور اس نے زمین کو ایک کنارے سے لیکر دوسرے کنارے تک ڈھانپ لیا.پھر میں نے دیکھا کہ اس ٹور کا ایک حصہ جیسے جمع ہو رہا ہے.پھر اس نے الفاظ کا جامہ پہنا اور ایک پر شوکت آواز فضا میں گونجی جو اس نور سے ہی بنی ہوئی تھی.اور وہ بیتی برای لگم یہ ایک بڑی بشارت تھی لیکن اس کا ظاہر کرنا ضروری نہ تھا.ہاں دل میں ایک خلش تھی اور خواہش تھی کہ جس نور کو میں نے زمین کو ڈھانپتے ہوئے دیکھا ہے.جس نے ایک سرے سے دوسرے سرے تک زمین کو منور کر دیا ہے.اس کی تعبیر بھی اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے مجھے سمجھائے.چنانچہ وہ ہمارا خدا جو بڑا ہی فضل کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے اس نے خود اس کی تعبیر اس طرح سمجھائی کہ گزشتہ پیر کے دن میں ظہر کی نماز پڑھا رہا تھا اور تیسری رکعت کے قیام میں تھا تو مجھے ایسا معلوم ہوا کہ کسی غیبی طاقت نے مجھے اپنے تصرف میں لے لیا ہے اور اس وقت مجھے یہ تفہیم ہوئی کہ جو نور میں نے اس دن دیکھا تھا وہ قرآن کا نور ہے جو تعلیم القرآن کی سکیم اور عارضی وقف کی سکیم کے ماتحت دنیا میں پھیلایا جارہا ہے.اللہ تعالیٰ اس مہم میں برکت ڈالے گا اور انوار قرآن اسی طرح زمین پر محیط ہو جائیں گے.جس طرح اس نور کو زمین پر محیط ہوتے ہوئے دیکھا ہے.فالحمد لله على ذالك اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی متعدد بار خود قرآن کو اور قرآنی وحی کو نور کے لفظ سے یاد کیا ہے اور مجھے بتایا گیا کہ وہ نور جو تمہیں دکھایا گیا یہی نور ہے.پھر میں اس طرف بھی متوجہ ہوا کہ عارضی وقف کی تحریک جو قرآن کریم سیکھنے سکھانے کے متعلق جاری کی گئی ہے اس کا تعلق کے ساتھ بڑا گہرا ہے.چنانچہ میں نے حضرت مسیح موعود کے رسالہ ” الوصیت کوغور سے پڑھا تو مجھے معلوم ہوا کہ واقع میں اس تحریک کا موصی صاحبان کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے.اس وقت میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا.صرف ایک بات آپ دوستوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رسالہ ” الوصیہ“ کے شروع میں بھی ایک عبارت لکھی ہے اور

Page 163

151 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ حقیقتاً وہ عبارت اس نظام میں منسلک ہونے والے موصی صاحبان ہی کی کیفیت بتا رہی ہے کہ تمہیں وصیت کر کے اس قسم کا انسان بننا پڑے گا.حضور فرماتے ہیں.خدا کی رضا کو تم کسی طرح پاہی نہیں سکتے.جب تک تم اپنی رضا چھوڑ کر ، اپنی لذات چھوڑ کر، اپنی عزت چھوڑ کر، اپنا مال چھوڑ کر، اپنی جان چھوڑ کر اس راہ میں وہ تلخی نہ اٹھاؤ جوموت کا نظارہ تمہارے سامنے پیش کرتی ہے لیکن اگر تم تلخی اٹھا لو گے ( یعنی اس میں شامل ہو جاؤ گے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے والے ہو گے تو حضور فرماتے ہیں ) تو ایک پیارے بچے کی طرح خدا کی گود میں آجاؤ گے اور تم ان راستبازوں کے وارث کئے جاؤ گے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں اور ہر ایک نعمت کے دروازے تم پر کھولے جائیں گے لیکن تھوڑے ہیں جو ایسے ہیں.“ (الوصیت ) ہر ایک نعمت کے دروازے تم پر کھولے جائیں گے.“ دراصل حضرت مسیح موعود کے ایک الہام کا ترجمہ ہی ہے جو بہشتی مقبرہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے آپ پر نازل کیا تھا.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں.چونکہ اس قبرستان کیلئے بڑی بھاری بشارتیں مجھے ملی ہیں اور نہ صرف خدا نے یہ فرمایا کہ یہ بہشتی مقبرہ ہے بلکہ یہ بھی فرمایا أُنزِلَ فِيهَا كُلُّ رَحْمَةٍ یعنی ہر ایک قسم کی رحمت اس قبرستان میں اُتاری گئی ہے اور کسی قسم کی رحمت نہیں جو اس قبرستان والوں کو اس سے حصہ نہیں.(الوصیت ) تو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا أُنزِلَ فِيهَا كُلُّ رَحْمَةٍ - اس قبرستان میں ہر قسم کی رحمت کو نازل کیا گیا ہے یعنی اس میں دفن ہونے والے وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتوں کے وارث ہیں.سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان تمام نعمتوں کا کب اور کس طرح وارث بنتا ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک دوسرے الہام میں بتایا الخَيْرُ كُله فِي القُرآن.ساری بھلائیاں اور نیکیاں اور سب موجبات رحمت قرآن کریم میں ہیں اور رحمت کے کوئی سامان ایسے نہیں جو قرآن کریم کو چھوڑ کر کسی اور جگہ سے حاصل کئے جاسکیں اور رحمت کے ہر قسم کے سامان صرف قرآن کریم سے ہی حاصل کئے جا سکتے ہیں.

Page 164

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 152 تو فرما يا أُنْزِلَ فِيهَا كُلُّ رَحْمَةٍ کہ اس بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے والے وہ لوگ ہونگے جو قرآن کریم کی تمام برکتوں کے وارث ہونگے.کیونکہ کوئی برکت بھی قرآن کریم سے باہر نہیں اور نہ کسی اور جگہ سے حاصل کی جاسکتی ہے.اس لئے ایسے لوگوں پر ہر قسم کی نعمت کے دروازے کھولے جائیں گے.اس سے ظاہر ہے کہ موصی صاحبان کا ایک بڑا گہرا اور دائمی تعلق قرآن کریم ، قرآن کریم سیکھنے ، قرآن کریم کے نور سے منور ہونے ، قرآن کریم کی برکات سے مستفیض ہونے اور قرآن کریم کے فضلوں کا وارث بننے سے ہے اسی طرح قرآنِ کریم کے انوار کی اشاعت کی ذمہ داری بھی ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے.کیونکہ قرآن کریم کی بعض برکات ایسی بھی ہیں جن کا تعلق اشاعتِ قرآن سے ہے.جیسا کہ خود قرآن متعدد جگہ اسے بیان فرماتا ہے اور جس کی تفصیل میں جانا اس وقت میرے لئے ممکن نہیں.پس اللہ تعالیٰ نے ان دو و حیوں کے ذریعہ ہمیں اس طرف متوجہ کیا کہ موصی حقیقتاً وہی ہوتا ہے کہ جس پر اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتیں ، اس کے فضل، اس کی رحمت اور اس کے احسان کی وجہ سے اس لئے نازل ہوتی ہیں کہ اس شخص نے اپنی گردن کلیۂ قرآن کریم کے جوا کے نیچے رکھی ہوتی ہے.اپنے پر وہ ایک موت وارد کرتا ہے اور خدا میں ہو کر ایک نئی زندگی پاتا ہے اور اس وحی کی زندہ تصویر ہوتا ہے کہ الخَیرُ كله فِی القُرآنِ.پس چونکہ وصیت کا یا کا یا موصی صاحبان کا ، قرآن کریم کی تعلیم ، اس کے سیکھنے اور اس کے سکھانے سے ایک گہرا تعلق ہے.اس لئے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تعلیم قرآن اور وقف عارضی کی تحریکوں کو موصی صاحبان کی تنظیم کے ساتھ ملحق کر دیا جائے اور یہ سارے کام ان کے سپر د کئے جائیں.مجلس موصيان کا اجراء اور سیکرٹریان وصایا کی ذمہ داریاں : اس لئے آج میں موصی صاحبان کی تنظیم کا ، خدا کے نام کے ساتھ اور اس کے فضل پر بھروسہ کرتے ہوئے اجراء کرتا ہوں.تمام ایسی جماعتوں میں جہاں موصی صاحبان پائے جاتے ہیں اُن کی ایک

Page 165

153 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ مجلس قائم ہونی چاہیے.یہ مجلس باہمی مشورے کے ساتھ اپنے صدر کا انتخاب کرے.منتخب صدر جماعتی نظام میں سیکرٹری وصایا ہوگا.ممکن ہے بعد میں ہم اس کا نام بھی بدل دیں لیکن فی الحال منتخب صدر ہی سیکرٹری وصایا ہوگا.اور اس صدر کے ذمہ علاوہ وصیتیں کرانے کے یہ کام بھی ہوگا کہ وہ گا ہے گا ہے مرکز کی ہدایت کے مطابق وصیت کرنے والوں کے اجلاس بلائے.اس اجلاس میں وہ ایک دوسرے کو ان ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کریں جو ایک موصی کی ذمہ داریاں ہیں.یعنی اس شخص کی ذمہ داریاں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کی بشارت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ خدا کے سارے فضلوں ، اور اس کی ساری رحمتوں اور اس کی ساری نعمتوں کا وہ وارث ہے.اور وہ صدران کو یاد دلاتا رہے کہ تمام خیر چونکہ قرآن میں ہی ہے اس لئے وہ قرآن کریم کے نور سے پورا حصہ لینے کی کوشش کریں اور ان کو بتایا جائے کہ قرآن کریم کے انوار کی اشاعت کرنا ہر موصی کا بحیثیت فرد اور اب موصیوں کی مجلس کا بحیثیت مجلس پہلا اور آخری فرض ہے.اور اس بات کی نگرانی کرنا کہ وقف عارضی کی سکیم کے ماتحت زیادہ سے زیادہ موصی اصحاب اور ان کی تحریک پر وہ لوگ حصہ لیں جنہوں نے ابھی تک وصیت نہیں کی.اور ان پر یہ فرض ہے کہ پہلے وہ اپنے گھر سے یہ کام شروع کریں حتی کہ ان کے گھر میں کوئی مرد، کوئی عورت کوئی بچہ یا کوئی دیگر فرد جو ان کے اثر کے نیچے ہو یا ان کے پاس رہتا ہوا ایسا نہ رہے کہ جسے قرآن نہ آتا ہو.پہلے ناظرہ پڑھنا سکھانا ہے پھر ترجمہ سکھانا ہے.پھر قرآن کریم کے معانی پھر اس کے علوم اور اس کی حکمتوں سے آگاہ کرنا ہے.پھر ان علوم کو ایک سخی کی طرح دوسروں تک پہنچانا ہے تا کہ جس فیض سے، جس برکت سے اور جس نعمت سے ہم نے حصہ لیا ہے.اسی فیض ، برکت اور نعمت سے ہمارے دوسرے بھائی بھی حصہ لینے والے ہوں.وقف عارضی میں مجھے ہر سال کم از کم پانچ ہزار واقف چاہئیں.اس کے بغیر ہم صحیح رنگ میں جماعت کی تربیت نہیں کر سکتے.اس لئے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم سب خصوصاً موصی صاحبان پوری کوشش اور جد و جہد سے کام لیں کہ واقفین عارضی کی تعداد اس سال بھی جو پہلا سال ہے پانچ ہزار تک پہنچ جائے تا تعلیم قرآن کا کام احسن طریق پر کیا جا سکے.

Page 166

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ موصی صاحبان کے کام : 154 ہمارے موصی صاحبان کا پہلا کام یہ ہے کہ اپنے گھروں میں قرآن کریم کی تعلیم کا انتظام کریں.دوسرا یہ کہ واقفین عارضی (جن کے سپر دقرآن کریم پڑھانے کا کام کیا جاتا ہے) کی تعداد کو پانچ ہزار تک پہنچانے کی کوشش کریں.تیسرے یہ کہ وہ اپنی جماعت کی نگرانی کریں (عمومی نگرانی، امیر یا پریذیڈنٹ کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ) کہ نہ صرف ان کے گھر میں بلکہ ان کی جماعت میں بھی کوئی مرد اور کوئی عورت ایسی نہ رہے جو قرآن کریم نہ جانتی ہو ہر ایک عورت قرآن کریم پڑھ سکتی ہو تر جمہ جانتی ہو.اسی طرح تمام مرد بھی قرآن کریم پڑھ سکتے ہوں.ترجمہ بھی جانتے ہوں اور قرآن کریم کے نور سے حصہ لینے والے ہوں تا کہ قیام احمدیت کا مقصد پورا ہو.اسی طرح وصیت کرنے والی بہنیں بھی ہر جماعت میں اپنی ایک علیحدہ مجلس بنا ئیں اور اپنا ایک صدر منتخب کریں جو نائب صدر کہلائے گی اور وہ جماعت سے تعاون کریں اور موصی مردوں کی مجلس سے بھی تعاون کریں اور ان روحانی ذمہ داریوں کو نبھانے کی کوشش کریں جو مالی قربانیوں کے علاوہ اُن پر عائد کر رہا ہے.آپ دوست یہ سن کر خوش ہونگے کہ بہت سے مقامات پر مردوں کی نسبت ہماری احمدی بہنیں قرآن کریم ناظرہ زیادہ جاننے والی ہیں.ایک تو ہمیں شرم اور غیرت آنی چاہیے.دوسری ہمیں خدا تعالیٰ کا شکر بھی بجالانا چاہیے کیونکہ جس گھر کی عورت قرآن کریم جانتی ہوگی اس کے متعلق ہم اُمید رکھ سکتے ہیں کہ اس گھر کے بچے اچھی تربیت حاصل کر سکیں گے.پس جیسا کہ نور کے اس نظارہ سے جسے میں نے ساری دنیا میں پھیلتے دیکھا ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی کامیاب اشاعت اور اسلام کے غلبہ کے متعلق قرآن کریم میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وجی اور ارشادات میں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں جو خو شخبریاں اور بشارتیں پائی جاتی ہیں ان کے پورا ہونے کا وقت قریب آگیا ہے اس لئے میں پھر اپنے دوستوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہم پر

Page 167

155 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ واجب ہے کہ ہر احمدی مرد اور ہر احمدی عورت، ہر احمدی بچہ، ہر احمدی جوان اور ہر احمدی بوڑھا پہلے اپنے دل کو نور قرآن سے منور کرے.قرآن کریم سیکھے، قرآن پڑھے اور قرآن کے معارف سے اپنا سینہ و دل بھر لے اور معمور کر لے.ایک نور مجسم بن جائے.قرآن کریم میں ایسا محو ہو جائے.قرآن کریم میں ایسا گم ہو جائے.قرآن کریم میں ایسا فنا ہو جائے کہ دیکھنے والوں کو اس کے وجود میں قرآن کریم کا ہی نور نظر آئے اور پھر ایک معلم اور استاد کی حیثیت سے تمام دنیا کے سینوں کو انوار قرآنی سے منور کرنے میں ہمہ تن مشغول ہو جائے.اے خدا! تو اپنے فضل سے ایسا ہی کر کہ تیرے فضل کے بغیر ایسا ممکن نہیں.اے زمین اور آسمان کے نور! تو ایسے حالات پیدا کر دے کہ دنیا کا مشرق بھی اور دنیا کا مغرب بھی ، دنیا کا جنوب بھی اور دنیا کا شمال بھی نور قرآن سے بھر جائے اور سب شیطانی اندھیرے ہمیشہ کیلئے دور ہو جائیں.ہمیں ہمیشہ یہ دعائیں کرتے رہنا چاہیے کہ واقعتا اور حقیقتا خدا ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ ہم قرآنی انوار میں ایسے گم ہو جائیں کہ سوائے انوار قرآنی کے ہمارے وجود میں اور کوئی چیز نظر نہ آئے.آمین موصوں کی تنظیم قرآن کریم کی تعلیم کے سلسلہ میں پورے اخلاص، جوش اور ہمت سے اپنی ذمہ واریوں کو ادا کرے سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ( خطبه فرمودہ 4 اپریل 1969 ء) مشاورت کے ایام میں شدید کھانسی کے دوران بھی مجھے کام کرنا پڑا جس سے جسم بہر حال کوفت اور ضعف محسوس کرتا ہے.بہر حال وہ فریضہ بھی اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ادا ہو گیا.ویسے تو اللہ تعالی ہی حافظ ہے لیکن آج کل ٹائیفائیڈ سے بچنے کے لئے ٹیکہ لگوانے کا موسم ہے.میں نے وہ ٹیکہ لگوایا جس کے نتیجہ میں دو تین دن سے سارے جسم میں شدید درد ہے.سر جکڑا ہوا ہے اور حرارت اور بے چینی کی تکلیف رہی ہے.اور اب تک یہ تکلیف چلی آرہی ہے.گو آج نسبتا افاقہ ہے.کھانسی میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے فرق ہے مگر نقاہت بہت ہے لیکن چونکہ قرآن کریم کی تعلیم کا مسئلہ بڑی

Page 168

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 156 ہی اہمیت رکھتا ہے اور اس سلسلہ میں میں بعض باتیں کہنا چاہتا تھا اس لئے میں نے اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ اپنی بیماری کے باوجود اس خطبہ کے ذریعہ جماعت کے سامنے مختصر اوہ باتیں رکھوں اور ہدایات دوں.سب سے پہلے موصی صاحبان کو مخاطب کرنا چاہتا ہوں کچھ عرصہ ہوا موصیوں اور موصیات کی تنظیم قائم کی گئی تھی اور میرا ارادہ تھا کہ بعض کام اس تنظیم کے سپر د کروں لیکن کچھ روکیں بیچ میں پیدا ہوتی رہیں اور صرف تنظیم ہی قائم ہوئی اور شائد اس میں بھی کچھ ستی پیدا ہوگئی ہو.کیونکہ ابھی تک ان سے کوئی خاص کام نہیں لیا گیا.خدا چاہتا تھا کہ یہ تنظیم قرآن کریم کے پڑھنے اور پڑھانے سے اپنا کام شروع کرے اس لئے جہاں جہاں بھی یہ تنظیم قائم ہوئی ہو اس کے صدر صاحبان اور موصیات میں سے جو نائب صدر ہیں وہ: ا.ایک ماہ کے اندر اندر جائزہ لے کر رپورٹ کریں کہ ان کے حلقہ میں کس قدر موصی ہیں.۲.ان میں سے کس قدر قرآن کریم ناظرہ جانتے ہیں جو قرآن کریم ناظرہ جانتے ہیں ان میں سے کتنے قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہیں اور جو موصی اور موصیات قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہیں یا جانتی ہیں ان میں سے کتنے قرآن کریم کی تفسیر سیکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.حضرت مسیح موعود نے کی بنیاد اپنے اموال کے دسویں حصہ کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے پر نہیں رکھی تھی بلکہ یہ تو ایک نچلا درجہ تھا جو موصیوں کے سامنے رکھا گیا تھا.اصل غرض جس کے لئے کو قائم کیا گیا تھا وہ کامل تقویٰ کا حصول اور انسان کو ان روحانی رفعتوں کے حصول کے مواقع حسب استعداد بہم پہنچانا تھا جو انسان اپنے رب سے نئی زندگی حاصل کرنے کے بعد حاصل کرسکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک ہی فقرہ میں جو بڑا جامع ہے ہر موصی پر اس فریضہ کو قائم کرتے ہیں.آپ فرماتے ہیں:.تیسری شرط یہ ہے کہ اس قبرستان میں دفن ہونے والا متقی ہو اور محرمات سے پر ہیز کرتا اور کوئی شرک اور بدعت کا کام نہ کرتا ہو سچا اور صاف مسلمان ہو.“

Page 169

157 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ دراصل ایسے گروہ کے قیام کے لئے ہی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی بناء پڑی کہ ایک ایسی جماعت بھی قائم ہو جو ہر قسم کی قربانی دے کر اپنے نفسوں میں دین اسلام کو قائم کرتی اور دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کی کوشش کرتی ہے.ظاہر ہے کہ اگر کوئی موصی قرآن کریم کا علم ہی نہ رکھتا ہوتو پھر وہ اس تیسری شرط کو کیسے پورا کر سکتا ہے.وہ اسے ہرگز پورا نہیں کر سکتا اس لئے کی جو بنیا دی غرض ہے اس کے حصول کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہر موصی قرآن کریم پڑھنا جانتا ہو اس کا ترجمہ جانتا ہو اور اس کی تفسیر کے حصول میں ہمہ تن اور ہر وقت کوشاں رہے.قرآن کریم کی تفسیر قرآن کریم کے ترجمہ کی طرح ایسی نہیں کہ پڑھ لیا اور آ گیا اور کام ختم ہو گیا کیونکہ قرآن کریم میں تو علوم کے غیر محدود خزانے ہیں.اسی لئے میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہر موصی کو قرآن کریم کی تفسیر آتی ہو.دنیا میں ہمیں ایسا کوئی شخص نظر نہیں آئے گا جو قر آن کریم کی پوری تفسیر جانتا ہو.کیونکہ اس کتاب مکنون سے نئے سے نئے علوم ظاہر ہوتے رہتے ہیں اور وہ انسان کے علم میں زیادتی کرتے رہتے ہیں.قرآن کریم مختلف علوم کی طرف راہنمائی کرتا ہے.بہر حال قرآن کریم کی تفسیر کو پورے طور پر حاصل کر لینا تو ممکن نہیں.ہاں یہ ممکن ہے اور یہ فرض ہے ہر مسلمان کا ( خصوصاً نظامِ وصیت میں منسلک ہونے والوں کا) کہ وہ ہمہ تن اور ہر آن علوم قرآنی کے حصول کی کوشش میں مصروف رہے.اللہ تعالیٰ اس کی کوششوں میں برکت ڈالتا رہے.موصی ہونے کی بنیادی شرط : اگر موصی قرآن کریم سے غافل ہوں اور جاہل ہوں تو وہ موصی ہونے کی بنیادی شرط کو پورا نہیں کر سکتے.اس لئے ہر وہ شخص جو موصی ہے اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ قرآن کریم ناظرہ جانتا ہو.قرآن کریم کا ترجمہ جانتا ہو.قرآن کریم کی تفسیر پڑھنے کی کوشش کرتا رہتا ہو.اور اگر پہلے غفلت ہو چکی ہو تو اس غفلت کو دور کیا جائے.میں سمجھتا ہوں کہ چھ مہینے کا عرصہ کافی ہے.چھ مہینے کے اندراندر ہر موصی کو اس کی استعداد کے مطابق قرآن کریم آجانا چاہیے جو بڑی عمر کے دیہات میں رہنے والے موصی ہیں انہوں نے بیشک ایک حد تک قرآن کریم کو بزرگوں کی زبان سے سُن

Page 170

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 158 کر سیکھا ہے.اور ان میں سے بعض قرآن کریم کے احکام کو ان افراد سے بھی شاید زیادہ جانتے ہیں جنہوں نے با قاعدہ طور پر جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کی.میں سمجھتا ہوں کہ ایسے لوگ بھی اس طرف متوجہ ہونے چاہئیں کہ وہ قرآن کریم کو پڑھنا سیکھیں قرآن کریم کا ترجمہ سیکھیں اور پھر تفسیر پڑھ پڑھ کر اپنے علم کو بڑھانے کی کوشش کریں.کوشش خود اگر نیک نیتی کے ساتھ ہو تو کامیاب کوشش کا نتیجہ پیدا کر دیتی ہے یعنی اگر ایسی کوشش ہو جو حالاتِ زمانہ کی وجہ سے یا اللہ تعالیٰ کی بعض دیگر مصلحتوں کی وجہ سے اپنے کامیاب اختتام تک نہ پہنچ سکے تو وہ بھی خلوص نیت کی وجہ سے وہی پھل پاتی ہے جو ایسی کوشش پا رہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اپنے نیک انجام کو پہنچ گئی مثلاً جولوگ جنگِ بدر میں (جو اسلام کی پہلی جنگ تھی ) میں شریک ہوئے ان کی دو طرح کی کوششیں ہمیں نظر آتی ہیں.ان میں سے ایک تو وہ تھے جن کی کوشش اسی میدان میں ختم ہوگئی.انہوں نے جام شہادت پی لیا اور وہاں خدا کی راہ میں اور اس کی رضا کے حصول کے لئے ایک قربانی دیدی.لیکن کچھ اور لوگ تھے جو بدر کے میدان میں بھی اللہ کی رضا کے حصول کے لئے موت سے کھیلتے رہے اور اس کے بعد ہر جنگ کے میدان میں اور ہر مجاہدہ کے میدان میں انہوں نے خلوص.نیک نیتی اور اللہ تعالیٰ سے ذاتی محبت کے تعلقات کا مظاہرہ کیا.دیکھنے میں ان لوگوں کی قربانیوں کا مجموعہ ظاہری طور پر اس قربانی سے مختلف اور بڑا ہے جو شروع میں ہی پیش کی گئی اور پھر قربانی کا زمانہ ختم ہوگیا اور جزاء کا زمانہ شروع ہو گیا.لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جن لوگوں کی قربانیوں کا زمانہ ابتدائے اسلام ہی میں ختم ہو گیا ان کی جزاء ان لوگوں کی جزاء سے کم ہوگی جن کی قربانیوں کا زمانہ لمبا ہوگیا کیونکہ جن کی قربانیوں کا زمانہ ابتدائے اسلام ہی میں ختم ہوا ان کی نیت اور ان کا اخلاص اس بات کا تقاضا نہیں کرتا تھا کہ وہ محدود عرصہ تک قربانی دیں اور پھر خدا تعالیٰ سے غفلت برتنے لگ جائیں اور محمد رسول اللہ ﷺ سے دوری کی راہ کو اختیار کریں.ان کے دل میں یہی تڑپ تھی کہ وہ اپنی زندگی کے آخری سانس تک اللہ کے لئے سانس لینے والے ہوں اور جب تک ان کے سانس میں سانس رہا وہ اپنی نیت کے مطابق قربانیاں دیتے چلے گئے.اور جب اللہ تعالیٰ نے اپنی کامل مصلحت سے ان

Page 171

159 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ کی قربانی اور ان کے عمل کے زمانہ کو ختم کر کے ان کی جزا ء اور ثواب اور اجر کا زمانہ شروع کر دیا تو وہ یہی تڑپ لے کر اس دنیا سے اُس دنیا میں داخل ہوئے کہ اگر اللہ انہیں پھر زندگی دے تو وہ اسی طرح موت سے لپیٹیں گے.اور اگر پھر اللہ تعالیٰ انہیں زندگی دے تو پھر بھی وہ ایسا ہی کریں گے.اسی تڑپ کے ساتھ انہوں نے اس دنیا کو چھوڑا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے اس جذبہ کی جزاء دوسروں کی جزاء کے برابر ہی ان کو بھی دی.اگر کوئی موصی یہ مجھتا ہو کہ اس وقت میری عمر ۷۵ سال ہے اور آج تک میں نے کبھی پڑھنے کی کوشش نہیں کی اگر میں اب قرآن کریم پڑھنا اور سیکھنا شروع کروں تو میں اسے ختم نہیں کر سکتا.تو میں اس کو کہوں گا کہ جو مثال میں نے ابھی دی ہے اس پر غور کرو.اگر تم قرآن کریم پڑھنا یا اس کا ترجمہ سیکھنا یا اس کی تفسیر سیکھنا شروع کر دو گے تو اگر ایک آیت پڑھنے کے بعد تم اس دنیا سے رخصت ہو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں وہی جزاء دے گا جو اس نے ان لوگوں کے لئے مقدر کی ہے جن کو اس کی طرف سے سارا قرآن کریم ناظرہ پڑھنے اس کا ترجمہ سیکھنے اور اس کی تفسیر جاننے کی توفیق ملی.کیونکہ جو کوشش بدنیتی کی وجہ سے نہیں بلکہ آسمانی فیصلہ کے نتیجہ میں بظاہر بند ہوتی نظر آتی ہے وہ بند نہیں ہوا کرتی اپنی جزاء کے لحاظ سے.وہ کوشش اور وہ عمل اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اور اس کی قدرت کاملہ میں جاری ہی سمجھا جاتا ہے اور اسی کے مطابق ہمارا رب اپنے حقیر اور نا اہل بندوں کو جزاء دیا کرتا ہے.ورنہ کون انسان ابدی جزاء کا مستحق ہو سکتا ہے یہ تو اس کی رحمت کا سلوک ہی ہے کہ اس کے ایک عاجز بندے کو اس کے محدود اعمال کا غیر محدود بدلہ مل جاتا ہے.پس اس خیال سے مت ڈرو کی شاید ہم قرآن کریم ناظرہ ختم کرنے سے قبل اس دنیا کو چھوڑ جائیں یا قرآن کریم کا ترجمہ ختم کرنے سے قبل اس دنیا کو چھوڑ جائیں.اگر آپ نے پہلے غفلت کی ہے تو اس غفلت کے بد نتائج سے بچنے کا یہی ایک ذریعہ ہے کہ اب آپ جس عمر میں بھی ہوں پوری محنت اور جانفشانی کے ساتھ قرآن کریم کو پڑھنے اور سیکھنے کی کوشش کریں.

Page 172

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 160 صدر و نائب صدر مجلس موصیان کی ذمہ داری : پس ایک تو موصیوں کے صدر اور نائب صدر کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے حلقہ کے موصیوں کا جائزہ لے کر ایک ماہ کے اندر اندر ہمیں اس بات کی اطلاع دیں کہ کس قدر موصی قرآن کریم ناظرہ جانتے ہیں.اور جو موصی قرآن کریم ناظرہ جانتے ہیں ان میں سے کس قدر موصی قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہیں.اور جو موصی قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہیں ان میں کس قدر قرآن کریم کی تفسیر سیکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ ہر موصی کو ( تینوں معنی میں جن کی تشریح میں پہلے کر چکا ہوں اب دہرانے کی ضرورت نہیں ) قرآن کریم آتا ہو.اور تیسری ذمہ داری آج میں ہراس موصی پر جو قرآن کریم جانتا ہے یہ ڈالنا چاہتا ہوں کہ وہ دو ایسے دوستوں کو قرآن کریم پڑھائے جو قرآن کریم پڑھے ہوئے نہیں.اور یہ کام باقاعدہ ایک نظام کے ماتحت ہوا اور اس کی اطلاع نظارت متعلقہ کو دی جائے.انصار الله کی ذمه داری : انصار اللہ کو آج میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے طوعی اور رضا کارانہ چندوں کی ادائیگی میں شست ہو چکے ہیں (اللہ تعالیٰ آپ کو پچست ہو جانے کی توفیق عطا کرے) لیکن مجھے اس کی اتنی فکر نہیں جتنی اس بات کی فکر ہے کہ آپ ان ذمہ داریوں کو ادا کریں جو تعلیم القرآن کے سلسلہ میں آپ پر عائد ہوتی ہیں.قرآن کریم کی تعلیم کے سلسلہ میں آپ پر دوذ مہ داریاں عائد ہوتی ہیں.ایک ذمہ داری تو خود قرآن کریم سیکھنے کی ہے اور ایک ذمہ داری ان لوگوں ( مردوں اور عورتوں ) کو قرآن کریم سیکھانے کی آپ پر عائد ہوتی ہے کہ جن کے آپ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اور محمد رسول اللہ علے کے ارشاد کے مطابق راعی بنائے گئے ہیں.آپ ان دونوں ذمہ داریوں کو سمجھیں اور جلد تر ان کی طرف متوجہ ہوں.ہر رکن انصار اللہ کا یہ فرض ہے کہ وہ اس بات کی ذمہ داری اُٹھائے کہ اس کے گھر میں اس کی بیوی اور بچے یا اور ایسے احمدی کہ جن کا خدا کی نگاہ میں وہ راعی ہے قرآن کریم پڑھتے ہیں اور قرآن کریم کے سیکھنے کا وہ حق ادا کرتے ہیں جو حق ادا ہونا چاہیے اور انصار اللہ کی تنظیم کا یہ فرض ہے کہ

Page 173

161 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ وہ انصار اللہ مرکز یہ کو اس بات کی اطلاع دے اور ہر مہینہ اطلاع دیتی رہے کہ انصار اللہ نے اپنی ذمہ داری کو کس حد تک نبھایا ہے اور اس کے کیا نتائج نکلے ہیں.خدام الاحمدیہ کی ذمہ داری : خدام الاحمدیہ کو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آئندہ اشاعت اسلام کا بڑا بوجھ آپ کے کندھوں پر پڑنے والا ہے کوئی ایک طفل یا کوئی ایک نو جوان بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے جو احمدیت کے مقصد سے غافل رہے اور اس ذمہ داری کی ادائیگی سے غافل رہے جو ہمارے رب نے ہمارے کمزور کندھوں پر ڈالا ہے.گو ہر عمر میں انسان کے ساتھ موت لگی ہوئی ہے لیکن عام حالات میں ایک ساٹھ سالہ ادھیڑ عمر کے انسان کی طبعی عمر اس نوجوان کی عمر سے کم ہوتی ہے جو ابھی سولہ یا سترہ سال کا ہے.آپ اپنے روحانی بنک یا خزانہ (اگر یہ لفظ اس جگہ کے لئے استعمال ہو جہاں خزانہ رکھا جاتا ہے ) کو اگر آپ چاہیں تو بہت زیادہ بھر سکتے ہیں.لمبی عمر ہے.جس شخص نے کئی فصلیں کاٹنی ہوں اس کے گھر میں دانے بہت زیادہ ہوں گے اگر وہ دانے جمع کرے.اور اگر دانے بیچے تو مال زیادہ ہو گا.لیکن جس شخص نے ایک ہی فصل کاٹنی ہو یا دو فصلیں کاٹنی ہوں تو اگر اس کا پیٹ بھر جائے تو وہ راضی ہو جاتا ہے.لیکن اس دنیا میں تو پیٹ بھر جاتا ہے مگر اُخروی زندگی کی جو نعماء ہیں ان کے متعلق کوئی شخص یہ سوچ نہیں سکتا کہ بے شک وہ نعماء ہمیں تھوڑی مقدار میں مل جائیں زیادہ کے ہم امیدوار نہیں.ان نعمتوں کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق کے مطابق کوشش ہونی چاہیے.پس خدام الاحمدیہ کی تنظیم اپنے طور پر بحیثیت خدام الاحمدیہ اس بات کا جائزہ لے اور نگرانی کرے کہ کوئی خادم اور طفل ایسا نہ رہے جو قرآن کریم نہ جانتا ہو یا مزید علم حاصل کرنے کی کوشش نہ کر رہا ہو.لجنہ اماء الله کی ذمہ داری: اسی طرح لجنہ اماء اللہ کا یہ فرض ہے کہ وہ اس بات کی نگرانی کرے کہ ہر جگہ لجنہ اماءاللہ کی ممبرات اور

Page 174

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 162 ناصرات الاحمدیہ ان لوگوں کی نگرانی میں جن کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے قرآن کریم پڑھ رہی ہیں یا نہیں.میں لجنہ اماءاللہ پر یہ ذمہ داری عائد نہیں کر رہا کہ وہ سب کو قرآن کریم پڑھائیں.کیونکہ اس سے تو باہم تصادم ہو جائے گا.کیونکہ میں نے کہا ہے کہ ہر ایک موصی دو اور افراد کو قرآن کریم پڑھائے.اگر مثلاً اس کی بیوی قرآن کریم پڑھنا نہیں جانتی تو وہ پہلے اپنی بیوی کو ہی پڑھائے گا.یا میں نے یہ ہدایت دی ہے کہ ہر رکن انصار اللہ اس ماحول میں جس ماحول کا وہ راعی ہے قرآن کریم کی تعلیم کو جاری کرے.لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ آپ کی یہ ذمہ داری ہے کہ آپ یہ دیکھیں کہ جن پر قرآن کریم پڑھانے کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے (جہاں تک مستورات اور ناصرات کا تعلق ہے ) وہ اپنی ذمہ داری کو نباہ رہے ہیں یا نہیں.اگر وہ اپنی ذمہ داری کو نباہ نہیں رہے تو آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ اس ذمہ داری کو نبا ہیں اور مستورات اور ناصرات کو پڑھانا شروع کر دیں.اور اس کی اطلاع مرکز میں ہونی چاہیے.کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ ہم پوری طاقت کے ساتھ پوری ہمت کے ساتھ اور انتہائی کوشش کے ساتھ تعلیم القرآن کے اس دوسرے دور میں داخل ہوں اور خدا کرے کہ کامیابی کے ساتھ (جہاں تک موجودہ احمدیوں کا تعلق ہے ) اس سے باہر نکلیں.ویسے یہ سلسلہ جاری رہے گا کیونکہ نئے بچے.نئے افراد.نئی جماعتیں اور نئی قو میں اسلام میں داخل ہوں گی اور اسلام ساری دنیا میں غالب آئے گا.تو ساری دنیا کا معلم بننے کی تربیت آپ ہی کو کرنی چاہیے.خدا جانے آپ میں سے کس کو یہ توفیق ملے کہ وہ ساری دنیا میں تعلیم القرآن کی کلاسیں کھولنے کا کام کرے لیکن اگر ہم آج تیاری نہ کریں تو اس وقت اس ذمہ داری کو جو اُس وقت کی ذمہ داری ہوگی ہم نباہ نہیں سکیں گے.غرض موصیوں کی تنظیم بھی اور انصار اللہ کی تنظیم بھی اور خدام الاحمدیہ کی تنظیم بھی اور لجنہ اماءاللہ اور ناصرات الاحمدیہ کی تنظیم بھی اس طرف پورے اخلاص اور جوش اور ہمت کے ساتھ متوجہ ہو جا ئیں اور کوشش کریں کہ جلد سے جلد ہم اپنے ابتدائی کام کو پورا کر لیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے تفسیر القرآن تو نہ ختم ہونے والا کام ہے وہ تو جاری رہے گا.اس سلسلہ میں میں سمجھتا ہوں کہ جن دوستوں کے

Page 175

163 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ پاس تفسیر صغیر نہیں ہے انہیں تفسیر صغیر خرید لینی چاہیے.کیونکہ وہ ترجمہ بھی ہے اور مختصر تفسیری نوٹ بھی اس میں ہیں.عام سمجھ کا آدمی بھی بہت سی جگہوں میں صحیح حل تلاش کر لیتا ہے جو اس کے بغیر اس کے لئے مہم رہیں.جماعتی نظام کا کام : جماعتی تنظیم کا یہ کام ہے وہ تعلیم القرآن کے کام کو کامیاب بنانے کی کوشش کرے نیز وہ یہ دیکھے کہ انصار اللہ.موصیان.خدام.لجنہ اور ناصرات کے سپر د جو کام کیا گیا ہے وہ ادا کر رہے ہیں یا نہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.(روز نامه الفضل 10 اپریل 1969، صفحہ 2 تا 5 آسمانی رفعتوں تک پہنچانے والا نظام ہے (خطبہ جمعہ فرمودہ 30 اپریل 1982ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:- اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ جماعت احمدیہ میں نظامِ وصیت کو قائم کیا.ایک عظیم نظام ہے ہر پہلو کے لحاظ سے.کے ذریعہ یہ کوشش کی گئی ہے کہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے جو مبر ہیں یا داخل ہیں سلسلہ عالیہ احمدیہ میں ، ان میں سے ایک گروہ ایسا ہو جو اسلامی تعلیم کی رو سے ذمہ داریوں کو اس قدر توجہ اور قربانی سے ادا کرنے والا ہو کہ ان میں اور دوسرے گروہ میں ایک مابہ الامتیاز پیدا ہو جائے.صرف ۱۱۱۰ مالی قربانی کا نام نہیں.یہ نظام ہے زمین کی پستیوں سے اٹھا کر آسمانی رفعتوں تک پہنچانے کا اور جہاں اس نظام میں مالی قربانی کی امید رکھی جاتی ہے وہاں ہر دوسرے پہلو سے ایک نمایاں، بھر پور اسلامی زندگی جو ہر لحاظ سے منور ہو اور حسین ہو اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں رفعتوں کی طرف لے جانے والی ہو اور خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والی ہو.جہاں تک مالی قربانی کا سوال ہے عملی زندگی میں الجھنیں پیدا بھی ہوتی ہیں.الجھنیں دور بھی کی جاتی

Page 176

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 164 ہیں یا دور کرنے کے لئے کوشش کی جاتی ہے.الجھنوں کو جب دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو الجھن دور بھی ہو جاتی ہے اور نئی الجھنیں پیدا بھی ہو سکتی ہیں اور بسا اوقات پیدا بھی ہو جاتی ہیں.اس وقت اس وجہ سے اس نظام کے متعلق جماعت کو ہر آن چوکس اور بیدار رہنے کی ضرورت ہے مثلاً عورت کی وصیت.ایک وقت میں جماعت نے محسوس کیا کہ اچھے کھاتے پیتے دولت مند امیر خاوند بتیس روپے مہر رکھ کر جو کسی وقت سمجھا جاتا تھا اسلامی مہر یا ایک ہزار مہر رکھ کر اس کو اُس دولت سے محروم کر دیتے تھے جس کی وہ مستحق تھی اور جو اسے ملنی چاہیئے تھی.اس واسطے جماعت نے یہ ایک روایت قائم کی کہ کم سے کم اپنی سالانہ آمد کا پچاس فیصد یعنی چھ ماہ کی آمد مہر رکھو.بعض لوگ اس کے برعکس دس سال یا ہیں سال کی جو آمد ہے وہ رقم مہر میں رکھ دیتے تھے اور نیت یہ ہوتی تھی کہ دوں گا نہیں.اور اگر بیوی مطالبہ کرے گی تو پیسے دینے کی بجائے اس کو چپیڑ لگا دوں گا کہ میرے سامنے بولتی ہے تو.ایک اور فتنہ تو مہر کا تھوڑا ہونا یا بہت ہونا اور صرف مہر کے اوپر وصیت کا قائم کر دینا عقلاً اور جو قربانی کی روح ہے اور جو نظامِ وصیت کی روح ہے وہ جائز نہیں.جب میری پہلی شادی ہوئی تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک ہزار مہر رکھا.جب حالات سے مجبور ہو کر مجھے دوسری شادی کرنی پڑی تو میرے جذبات نے یہ تقاضا کیا کہ میں ایک ہزار سے زیادہ مہر نہ رکھوں.بعض جگہ شیطانی وسوسہ یہ پیدا ہوا کہ اتنا تھوڑا مہر رکھ کر وصیت کے نظام میں آپ نے خلل ڈال دیا.وصیت کے نظام کا مہر کے ساتھ کیا تعلق.منصورہ بیگم کا مہر تھا ایک ہزار اور ان کی وصیت کی ادا ئیگی جس میں اُلجھن کو ئی نہیں تھی.صاف تشخیص ہو سکتی تھی اس لحاظ سے اٹھاون ہزار سے زیادہ رقم انہی کی جائیداد میں سے ہم ادا کر چکے ہیں.تو مہر کا ایک ہزار روپے ہونا ان کے مالی قربانی کرنے کے راستہ میں تو روک نہیں بنا اور میرا خیال ہے کہ ایک زمین ہے پہلے مقدمہ تھا اس کے اوپر وہ مقدمہ تو حق میں ہو گیا لیکن بعض اور الجھنیں دور ہونے والی ہیں.انشاء اللہ وہ دور ہو جائیں گی.تو شاید اس کا حصہ وصیت کا منصورہ بیگم نے ۷ا کی وصیت کی ہوئی تھی تو وہ ستر یا پچھتر یا اسی ہزار روپیہ اور انہی کی جائیداد میں سے ادا ہوگا اور یہ سارامل کے قریباً

Page 177

165 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ سوالاکھ روپیہ بن جاتا ہے.تو ایک ہزار روپیہ مہر سوالاکھ وصیت کی ادائیگی میں تو روک نہیں بنا.اسی طرح کسی کے متعلق کچھ اور اعتراض بھی پیدا ہوئے مجھے خیال آیا کہ میں وصیت کی وضاحت کر دوں.اصل چیز ایک ہزار یا دس ہزار نہیں.اصل چیز ہے اسلامی زندگی گزارنا اور بشاشت کے ساتھ خدا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے لئے ہر قسم کی جن میں ایک صرف مالی قربانی ہے.ہر وقت قربانی دینے کے لئے تیار رہنا.جس دوست نے یہ اعتراض کیا کہ آپ نے نئی شادی میں ایک ہزار روپے مہر رکھا تو وصیت کے اوپر اس کا برا اثر پڑ گیا ان کو میں نے جواب یہی دیا تھا کہ میں نے کسی بھک منگی سے شادی نہیں کی.تو ایک تو ابھی انہوں نے وصیت نہیں کی ہوئی لیکن میں نے کہا ہے کہ وصیت کر دو.تو شاید پہلی قسط جو وہ ادا کریں گی وہ ایک ہزار سے بہر حال بڑھی ہوئی ہوگی یعنی پورے مہر سے آگے نکل جائے گی اور اللہ تعالی زندگی دے اور توفیق دے ان کو اسی ہمت کے ساتھ مالی قربانی کرنے کی بھی تو لاکھ تک پہنچ جائے بشاشت سے دیں گی.یہ جو شیطانی وسوسے دماغ میں آتے ہیں خدا تعالیٰ کی عطا کردہ جو فراست ہے مومن کو چاہیئے کہ آپ ہی حل کر لیا کرے.ایک ایسا نظام جو اپنی عظمتوں کی وجہ سے مثالی بنتا تھا اسلام کی خدمت کے میدان میں اس کے اوپر بعض لوگوں کی غلطی کی وجہ سے دھبے پڑرہے ہیں اور جہاں تک اللہ تعالیٰ نے مجھے فراست اور ہمت دی.میں کوشش کروں گا کہ ان دھبوں سے اسے صاف کیا جائے.اس وقت بنیادی چیز میں جماعت کے سامنے یہ رکھنا چاہتا ہوں کہ کا ہر احمدی مرد اور عورت سے یہ مطالبہ ہے بلوغت کے بعد کہ وہ مالی میدان میں اس قدر قربانی کرنے والی ہو کہ جو غیر موصی مرد و زن جماعت احمدیہ کے ممبر ہیں ان سے کہیں آگے بڑھ جانے والے ہوں احمدی مردوزن سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ جہاں تک اوقات کی قربانی یا نفس کی قربانی ہے یعنی زندگی کے جو لحات ہیں ان کی قربانی ہے وہ غیر موصی سے زیادہ قربانی دینے والے ہوں، یہ مطالبہ کرتا ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ اعلان فرمایا بعثت

Page 178

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 166 لاتمِّمَ مَكَارِمَ الْاَخْلَاقِ (الشفاء - الباب الثانی ) میری بعثت کی ایک غرض یہ ہے کہ میں مکارم اخلاق کو اپنے پورے کمال تک پہنچا دوں جس سے بڑھ کر اور کوئی کمال ممکن نہیں.عربی زبان میں اتمام کے یہ معنی ہیں.تو نظامِ وصیت یہ مطالبہ کرتا ہے کہ مکارم اخلاق کے میدانوں میں موصیوں کی گرد کو بھی غیر موصی پہنچنے والے نہ ہوں.ہر ایک سے پیار کرنے والے ہر ایک کو عزت سے پکارنے والے، جھگڑا نہ کرنے والے کا فرومومن سے ہمدردی اور خیر خواہی کرنے والے.دنیا کی بھلائی کے لئے راتوں کو جاگ کر خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ جھک کر دعائیں کرنے والے.غرض وہ سینکڑوں شعبے مکارم اخلاق کے جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے اور عملی زندگی میں جن کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا ان شعبوں میں غیر موصی سے کہیں آگے بڑھنا اس کا مطالبہ کرتا ہے.اس کا مطالبہ کرتا ہے کہ حقوق العباد کی ادائیگی میں موصی پر کوئی دھبہ ایک سوئی کے Point کے برابر بھی نہ پڑے.نظامِ وصیت یہ مطالبہ کرتا ہے کہ حقوق اللہ جسے کہا جاتا ہے چکر کھا کے وہ پھر حقوق العباد ہی بنتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ تو کسی کا محتاج نہیں بہر حال ایک ہماری اصطلاح ہے حقوق اللہ کی ادائیگی میں سب کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اتنی دور آگے نکل جائیں گے غیر موصی سے کہ غیر موصی کی نگاہ بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکے گی.یہ ہے ! اس کو بگاڑ کر اس عظیم احسان کی ناقدری نہ کرو جو عظیم احسان اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام کے ذریعے نوع انسانی پر کیا.جو منتظمین ہیں وہ بھی نہیں سمجھتے.عجیب و غریب وصیتیں میرے پاس آ جاتی ہیں منظوری کے لئے.مجھے غصے بھی آتا ہے.غصے کو پیتا بھی ہوں.مجھے دکھ بھی پہنچتا ہے.اس دکھ کو میں سہتا بھی ہوں لیکن میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ جس غرض کے لئے خدا تعالیٰ کے پیارے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن سے بڑا کوئی نبی نہیں جن سے بڑا کوئی انسان نہیں.جن سے بڑا کوئی محسن نہیں.انہوں نے اس زمانہ میں اپنی روحانی قوت کے نتیجہ میں مہدی اور مسیح کے ذریعہ سے نوع انسانی پر احسان کرتے

Page 179

167 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ ہوئے رحمتہ للعالمین ہوتے ہوئے ، رحمت کا عظیم مظاہرہ کرتے ہوئے جو احسان کیا ہے اس میں کمزوری نہ پیدا ہو.یہ میرا فرض ہے.یہ جماعت کا فرض ہے.سمجھتے ہیں کہ بیوی نے بتیس مہر میں سے تین روپے کی قربانی ساری عمر میں دی اور وہ کے لحاظ سے موصیہ بن گئی إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُونَ.اس کے مقابلہ میں میں جانتا ہوں کہ احمدی بہنوں میں سے وہ بھی ہیں جو تین روپے کے مقابلہ میں تین لاکھ روپے مالی قربانی دے کر بھی اپنے آپ کو کے مرتبہ پر نہیں سمجھتیں اور وصیت نہیں کرتیں.پس جو صاحب فراست عورت یا جو صاحب فراست مرد نظامِ وصیت کی حقیقت سمجھتا ہے، منتظمین کو کم از کم اتنی سمجھ تو ہونی چاہئے.باقی یہ جو مثلا نئی شادی ہوئی ایک ہزار مہر رکھا.وہ ایک ہزار مہر اس لئے رکھا کہ بتیس روپے مہر سے عورتوں کو چھٹکارا دلا دیا اور نا جائز بوجھوں سے اپنے غریب بھائیوں کو چھٹکارا دلا دیا.اب موجودہ زمانہ میں ایک یہ رسم ہے کہ کہہ دیتے ہیں منہ سے کہ فارم کے اوپر لکھ دو پچاس ہزار، نہ دینا، کسے دھوکہ دے رہے ہو.دنیا کو یا خدا تعالیٰ کو یا اپنی ضمیر کو یا اپنی بیوی کو یا اپنے سسرال کو یا اپنے میکے کو یعنی اپنے ہی خاندان کو ، کسے دھوکا دے رہے ہو؟ یہ نمائش دائرہ احمدیت و اسلام سے باہر ہوسکتی یہ جھوٹی نمائش دائرہ اسلام واحمد بیت کے اندر نہیں ہوسکتی.سیدھے سادے مسلمان مومن بننے کی کوشش کرو.خدا سے پیار کرواتنا کہ کوئی دوسرا انسان وہ پیار خدا کونہ دے سکے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق اور محبت کرو اتنی کہ دوسرے سمجھ ہی نہ سکیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا عشق ہو سکتا ہے.قرآن کریم اتنی عظیم کتاب ہے قرآن کے گردگھومو کہ تمہاری ساری ضرورتوں کو وہ پورا کرنے والی تعلیم ہے.اور جماعت احمدیہ میں ایک بڑا گروہ ان موصیان کا ہونا چاہیئے جو اس ارفع مقام تک پہنچنے والے ہوں جن کا میں نے ذکر کیا.پھر یہ جو انتہائی قربانیاں دینے والا جو خدا تعالیٰ کے عشق میں مست اپنی زندگیاں گزارنے والا ہے.وہ کمزوروں کے بوجھ اٹھا لیتے ہیں اور جماعت کو پھر کسی قسم کی کمزوری نہیں پہنچتی ، نقصان نہیں پہنچتا.تو

Page 180

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 168 وہ موصی آگے بڑھیں جو وصیت کے نظام کے مقام کو پہنچاننے والے اور عزم اور ہمت رکھنے والے.میں اپنے گھر کی مثال دیتا ہوں.اب منصورہ بیگم نے ۱/۷ کی وصیت کر دی.میرے ذہن میں کم از کم نہیں تھا اور مجھے عجیب لگتا تھا کہ بعض دفعہ کسی Source سے کوئی آمد ہوتی تو ایک ناظر صاحب کو انہوں نے کہا ہوا تھا کہ مجھ سے پیسے لے کر وصیت ادا کیا کریں.وہ گئے ہوئے تھے باہر اور یہ تھیں بے چین کہ میرے پاس پڑے ہوئے ہیں پیسے.بار بار مجھ سے پوچھیں کہ کب آ رہے ہیں وہ.میں نے وصیت کی رقم ادا کرنی ہے.وہ بے چینی دیکھ کے میں نے کہا کہ مجھے دے دیں میں وہاں بھجوا دیتا ہوں اور رسید آ جائے گی.کہا کہ نہیں آپ کو نہیں دینے اور دراصل مجھ سے بھی یہ چھپا رہی تھیں کہ میں نے ۱۰ سے اٹھا کے ۱/۷ کی وصیت کی ہوئی ہے.وہ مجھتی تھیں کہ وصیت کے لحاظ سے موصیہ کا جو مقام ہے وہ اپنے خاوند کے ساتھ جو تعلق ہے اس سے بہت بڑا ہے.خدا تعالیٰ کے لئے میں دے رہی ہوں مجھے اپنے خاوند کو بھی بتانے کی ضرورت نہیں کہ میں اپنے خدا کے حضور کیا پیش کر رہی ہوں.پس ایسے مرد اور عورتیں کہ جو اس قسم کی قربانیاں دے سکتے ہیں.دیں گے انشاء اللہ تعالیٰ اگر ان کی گائیڈنس (Guidance) اور راہنمائی اور ہدایت کے سامان صحیح ہوتے رہیں.جو ایسے نہیں وہ اپنے مقام کو وصیت کر کے خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ذلیل کرنے کی کوشش نہ کریں.نظامِ وصیت سے باہر بھی وہ راہیں اسی طرح کھلی ہیں جس طرح پہلے کھلی تھیں جو خدا تعالیٰ کی محبت کو پاتیں اور خدا تعالیٰ کی جنتوں کی طرف لے جانے والی ہیں لیکن قرآن کریم کی ہدایت کی روشنی میں مومن اور مومن میں فرق ہے.بعض جگہ خالی مومنین کہا گیا یا مومنون کہا گیا اور بعض جگہ مُؤمِنُونَ حَقًّا کہا گیا.اور فرق بھی کیا ہے.وہ میرا مضمون نہیں اس کی تفصیل میں میں نہیں جاتا لیکن مُؤْمِنُونَ حَقًّا وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والے اتنا کہ اپنے آپ کو فانی کر دینے والے.جہاں سے تمہیں کچھ چیز ملے اس کے لئے محبت پیدا ہوتی ہے جہاں تم خوبصورتی دیکھو اس کے لئے پیار

Page 181

169 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ پیدا ہوتا ہے جس شخص پر خدا تعالیٰ اپنے احسان اور اپنے حسن کے انتہائی ارفع جلوے ظاہر کر دے.وہ تو بس مرہی جاتا ہے خدا کے لئے.یہ ہے نظامِ وصیت اسے پہچان کر میں داخل ہوں.خدا کرے کہ ہزاروں میں داخل ہوں لاکھوں میں داخل ہوں لیکن اس مقام سے نیچے رہ کر نہیں کہ اپنے لئے بھی ذلت کا سامان پیدا کریں گے اور جماعت کے اوپر بھی ایک دھبہ سا لگے گا.خدا تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے اور خدا تعالیٰ ہمیں عزم اور ہمت دے کہ جس غرض کے لئے قائم کیا گیا ہے اس غرض کو پورا کرنے کے لئے ہزاروں لاکھوں آدمی ہماری نسل میں ، آنے والی نسلوں میں پیدا ہوں اور پیدا ہوتے رہیں اور ہم اپنے مقصود کو پانے میں کامیاب ہو جائیں.خدا تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے ہماری حقیر کوششوں کے نتیجہ میں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کی عظمتوں کو نوع انسانی پہنچانے لگے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سایہ تلے وہ سب اکٹھے ہو کر ایک خاندان بن جائیں.آمین (خطبات ناصر جلد نهم صفحه 449 تا 454 - روزنامه الفضل ربوہ 5 دسمبر 1982 ء صفحه 2 تا 4 ) رسالہ الوصیت میں بیان فرمودہ دو انقلابی نظام (فرموده 30 اکتوبر 1977 اختتامی خطاب سالانہ اجتماع انصار الله ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رسالہ الوصیت میں دو انقلابی نظام قائم کئے ہیں.ایک مادی دنیا میں ہے.جو چندہ وصیت آپ دیتے ہیں اس کے ذریعہ سے یہ نظام قائم ہے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنی بعض تقاریر میں اس پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے.میں اس وقت اس تفصیل میں نہیں جاؤں گا.آپ نے فرمایا کہ اگر سارے احمدی اپنی جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ کا 1/10 دینے لگیں تو ایک ایسا زمانہ آ جائے گا کہ مرکز کے پاس اتنی دولت ہوگی کہ جس سے کوئی آدمی ایسا نہیں رہے گا جس کے حقوق پورے نہ ہورہے ہوں.یہ عمل تو شروع ہے.گوا بھی

Page 182

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 170 ابتداء میں ہے اس میں شک نہیں لیکن وہ ایک نظام ہے جس کی طرف ساری دنیا میں توجہ پیدا ہورہی ہے.مثلاً امریکہ جو مادی دنیا میں پھنسا ہوا ہے وہاں ہمارے احمدی دوستوں میں یہ رو پیدا ہوگئی ہے کہ وصیت کرنی چاہئے پھر ان میں یہ خیال پیدا ہوا کہ بہشتی مقبرے میں کیسے جائیں گے.بہشتی مقبرہ کی شاخیں ہونی چاہئیں یا کوئی ایسا انتظام ہونا چاہئے جہاں اکٹھے ہو کر دعائیں ہو جائیں.وہ بہشتی مقبرہ تو نہیں ہو گا لیکن بہر حال اس سے ملتی جلتی کوئی چیز ہوگی کہ جس سے وہ مقصد پورا ہو جائے کہ جو مالی قربانیاں کرنے والے ہیں اُن کے لئے دعائیں ہوتی رہیں.پس یہ ہے جو د نیوی لحاظ سے ایک انقلابی نظام ہے.رسالہ الوصیت کی رُو سے دوسرا نظام ایک روحانی نظام اور نہایت عظیم نظام ہے اور وہ ہے نظام خلافت اور یہی جماعت احمدیہ کا مرکزی نقطہ ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رسالہ الوصیت میں فرمایا ہے کہ جس قسم کی زبر دست قدرت کا ہاتھ خدا تعالیٰ میری زندگی میں دکھا رہا ہے ( جو لوگ آپ کی کتابوں کو پڑھتے ہیں وہ پھر غور سے پڑھیں بہت کم لوگ اس طرف توجہ کرتے ہیں ) آپ نے فرمایا ہے کہ جس قسم کی زبر دست قدرت کا ہاتھ خدا تعالیٰ میرے ذریعہ سے دکھا رہا ہے اور جس زبر دست قدرت کا میں مظہر ہوں.میں تمہیں کہتا ہوں کہ قیامت تک اس قسم کی قدرت اب تم میں نہیں آئے گی.لیکن آپ نے فرمایا کہ مایوس ہونے کی کوئی بات نہیں.خدا تعالیٰ اپنی زبر دست قدرت کا ایک اور ہاتھ دکھائے گا اور اسے آپ نے قدرت ثانیہ کہا ہے.آپ نے فرمایا میرے بعد ایسے وجود ہوں گے جو قدرت ثانیہ کے مظہر بنیں گے اور اس زبر دست قدرت یعنی قدرت ثانیہ کا ظہور میرے مرنے کے معا بعد شروع ہو جائے گا.اس میں کوئی فاصلہ نہیں ہو گا کہ تمہیں سو سال تک انتظار کرنا پڑے.دوسرے آپ نے فرمایا کہ قدرت ثانیہ کے ظہور کا سلسلہ قیامت تک ممتد ہے یہ منقطع نہیں ہوگا.خدا تعالیٰ اپنی زبر دست قدرتوں کا ہاتھ قیامت تک دکھاتا رہے گا مظاہر قدرت ثانیہ کے ذریعہ سے.اور یہ سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.پس جب یہ قدرت ثانیہ کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہونا.تو ظاہر ہے کہ قدرت اولی تو بیچ میں نہیں آئے گی.

Page 183

171 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ باتیں کھول کر بیان کر دی ہیں....جیسا کہ میں نے ابھی رسالہ الوصیت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس پڑھ کر سنایا ہے.اس میں جہاں خلافت کا ذکر ہے وہیں آپ نے فرمایا ہے: ”خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جوز مین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں تو حید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا.“ اور یہی مقصد ہے جس کے حصول کے لئے خلافت احمدیہ کو قائم کیا گیا ہے.خلافت احمدیہ کو اس لئے قائم کیا گیا ہے کہ حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِہ کی جو بشارت دی گئی تھی.اس کے مطابق جو روحانی انقلاب پیدا کرنا ہے اس کے لئے ایک منصوبہ بنایا جائے اور اس پر عمل کروایا جائے.پس خلافت احمدیہ کو اس لئے قائم کیا گیا ہے کہ دعاؤں کے ساتھ ، اخلاق کے ساتھ،حسنِ معاملہ کے ساتھ اور حسن مجادلہ کے ساتھ یعنی احسن رنگ میں تبادلہ خیالات کرتے ہوئے دنیا کے دل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتے جائیں.قرآنی تعلیم اور اسلامی شریعت میں بڑی طاقت ہے.اسلامی شریعت و ہدایت کو کسی مادی طاقت کی ضرورت نہیں.اسلامی تعلیم کے اندر اس قدر حسن پایا جاتا ہے اور اس کے اندر اس قدر احسان پایا جاتا ہے کہ کوئی بھی انسان جس کے سامنے اس کے حسن و احسان کی باتیں کی جائیں اس کا دل اس کی طرف مائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.پس یہ وہ غرض اور مقصد ہے جس کے لئے مہدی و مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا گیا اور اس مقصد کے حصول کے لئے یعنی بنی نوع انسان کو امت واحدہ بنانے کے لئے ایک مرکزی نقطہ یعنی خلافت احمدیہ کو قائم کر دیا.گیا ہے.اب یہ آپ کا کام ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے اور خدا تعالیٰ کے ارادوں کو پورا کرنے کے لئے اور خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کے لئے اور خدا تعالیٰ کی جنتوں میں بطور لیڈر داخل ہونے کے لئے یعنی ساری دنیا آپ کے پیچھے چل کر خدا کی جنتوں میں داخل ہونے والی ہو، آپ خلافت احمدیہ کے اس مرکزی نقطہ کو مضبوطی سے پکڑ رکھیں اور اپنی نسلوں کو بھی اس کی اہمیت بتائیں سبیل الرشاد جلد دوم صفحه 351 تا 353

Page 184

Page 185

173 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ ارشادات فطرت خلایق مسیح الرابع الان ا رحمہ تعالیٰ

Page 186

Page 187

175 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ کے متعلق بنیادی اور اصولی ہدایات پانچ معلق شدہ وصایا کی بحالی کے تعلق میں صدرانجمن احمدیہ کے فیصلہ جات پر مبنی رپورٹ حضور انور کی خدمت میں پیش ہونے پر حضور انور نے بنیادی اور اصولی ہدایات دیتے ہوئے تحریر فرمایا کہ:- جب کوئی فرد جماعت اپنے آپ کو میں شامل کرنے کی درخواست کرتا ہے تو سب سے اوّل یہ بات دیکھنی چاہیے کہ اس کی اخلاقی حالت ، دینداری اور عام شہرت کیسی ہے.اگر یہ قابلِ اعتراض نہ ہو تو پھر اس کے بعد اس پہلو سے بھی جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا اس کی مالی حالت ایسی ہے کہ اگر اس کی وصیت منظور ہو جائے تو اس کو غیر معمولی قربانی قرار دیا جا سکے.یہ اس لئے ضروری ہے کہ کے قیام کا ایک بڑا مقصد عالمگیر غلبہء اسلام کے لئے غیر معمولی قربانی کی صورت میں جماعت کی مالی امداد کرنا بھی تھا.اگر کسی فرد جماعت کی باقاعدہ کوئی آمد نہیں ہے اور وہ اپنے آپ کو میں شامل کرنے کا خواہاں ہے تو ایسی صورت میں یہ دیکھا جائے کہ کیا اس کی جائیداد اتنی ہے کہ اسے آمد کا متبادل قرار دیا جاسکے نیز یہ کہ اسکی جائیداد پر وصیت منظور ہونے کی صورت میں اسکی قربانی غیر معمولی قربانی کی شکل اختیار کر جائے.لہذا آئیندہ سے اس ہدایت کو مد نظر رکھ کر نئی وصایا پر منظوری کی کاروائی ہونی چاہیے.اس طریق سے مضبوط بنیادوں پر جو وصایا منظور ہونگی ان میں سے اگر بعد میں کوئی غریب بھی ہو جاتا ہے تو کوئی حرج نہیں اور اسکی وصیت معلق یا منسوخ نہیں ہوگی.سوائے اس کے کہ کوئی بالکل ہی لوگوں کے صدقہ و خیرات کا محتاج ہو جائے.ایسی صورت میں وہ نظامِ وصیت میں شامل رہنے کا اہل نہیں رہتا.( رجسٹر ارشادات حضور ایدہ اللہ تعالی.رجسٹر نمبر 3 ارشاد نمبر (292

Page 188

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 176 غلط مؤقف کہ وصیت کا معیار محض تقویٰ ہے ایک دوست نے اپنی والدہ کی وصیت کے بارہ میں نظام سلسلہ پر اعتراض کرتے ہوئے حضرت خلیفہ امسیح الرابع کو خط لکھا جسکے جواب میں حضورا نور نے فرمایا:- آپ نے اپنی والدہ کی وصیت کے بارہ میں نظام سلسلہ پر اعتراض کئے ہیں جبکہ آ پکوان سب امور کا پورا علم ہی نہیں ہے.ان امور پر تفصیلی طور پر صاحب علم اور متقی لوگوں کے اجلاسات ہو چکے ہیں اور حضرت مسیح موعود کے تمام ارشادات اور سلسلہ کے خلفاء کے ارشادات اور مجالس کی رپورٹیں دیکھنے کے بعد وہ ایک طریق کار طے کرتے ہیں.لیکن آپ نے دو چار باتوں کے علم کے بعد ہی اعتراض شروع کر دیئے ہیں.کیا آپکا خیال ہے کہ میں آپ سے ایک نئی لمبی بحث شروع کر دوں اور وہ ساری باتیں جو کئی سال کے غور کے بعد نتھر کر سامنے آئی ہیں ان کا سارا پس منظر آپ کے سامنے دوبارہ پیش کروں اس میں ہرگز شک نہیں کہ محض پیسے یا دولت کی وجہ سے کبھی کوئی وصیت منظور نہیں ہوتی اور ظاہری طور پر ایک متقیانہ مخلصانہ زندگی (جہاں تک انسان کے علم میں آسکتی ہے ) وصیت کی بنیادی روح ہے.لیکن دوسری طرف مہمات دینیہ کے لئے غیر معمولی مالی قربانی بھی وصیت کے لئے نہایت ضروری ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود نے جائیداد کی 1/10 کی وصیت کے متعلق بڑی وضاحت سے بار بار تفسیر فرمائی.جماعت نے ایک لمبے عرصہ کے غور کے بعد عورتوں سے رعایت برتنے کی خاطر عورت کے حق مہر کو بھی جائیداد قرار دے دیا تو یہ محض ایک رعایت تھی جو مہم شکل میں تھی اور یہ احتمالات اس وقت مد نظر نہیں رکھے گئے کہ اگر کسی عورت کا سو روپیہ یا پچاس روپیہ یا 32 روپے مزعومہ شرعی حق مہر ہو تو معقولات کی دنیا میں اسے کیسے جائیداد سمجھا جا سکتا ہے.اس لحاظ ہو جا سے جب حضرت خلیفتہ امیج الثالث نے وصیتوں کا جائزہ لینے کی ہدایت فرمائی تو معلوم ہوا کہ عورتوں کی وصایا کی بھاری تعداد کی اس روح کے منافی ہے جو رسالہ الوصیت.ثابت ہوتی ہے اور حق مہر کو جائیداد کا متبادل قرار دینے کا فیصلہ بہت بے احتیاطی سے غلط معنوں میں استعمال ہونا شروع ہو گیا ہے.

Page 189

177 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ اس پس منظر میں وصیتیں معلق ہوئیں اور دوبارہ چھان بین شروع ہوئی.فی زمانہ روپے کی قیمت اتنی گر چکی ہے کہ اگر دس ہزار بھی حق مہر ہو تو عملاً اسے جائیداد قرار نہیں دیا جانا چاہیے لیکن چونکہ ایک دفعہ د میتیں قبول کی جا چکی تھیں اس لئے تا حال جماعت اس معاملہ میں بھی جہاں تک ممکن ہے نرمی سے کام لے رہی ہے مگر اس نرمی کی بہر حال کوئی حد ہونی چاہیے.آپ کا یہ موقف بالکل غلط ہے کہ وصیت کا معیار محض تقویٰ ہے اور مالی قربانی کے عصر کو اس میں کوئی دخل نہیں.مالی قربانی کے عصر کو لازما بہت بڑا دخل ہے.صرف شرط یہ ہے کہ متقیوں سے یہ قربانی قبول کی جائے گی اور جن کو ظاہری نظر میں تقویٰ سے گرا دیکھا جائے گا(باطن کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے ) ان سے یہ مالی قربانی قبول نہیں کی جائے گی.آخری بات یہ ہے کہ بہت غیر معمولی حالات میں مجلس کار پرداز اگر متفقہ طور پر کسی مرحوم کے حق میں یہ سفارش کرے کہ اسکا تقویٰ کا معیار غیر معمولی تھا اور اس لائق تھا کہ اسے وصیت کی مالی قربانی کی شرط سے مستثنیٰ قرار دیا جائے تو اس صورت میں حضرت مسیح موعود کی ہدایت کی روشنی میں خلیفہ وقت مجاز ہے کہ وہ اس سفارش کو قبول کرے.یا از خود استثنائی طور پر کسی کیلئے مقبرہ موصیان میں دفن ہونے کی اجازت دے دے.آپ کے اصرار کی وجہ سے یہ فصیلی خط لکھوار ہا ہوں لیکن اس معاملہ میں براہ راست مزید کسی بحث میں نہیں المجھوں گا.آئیندہ جو خط و کتابت کرنی ہو شعبہ متعلقہ سے کریں اور یاد رکھیں کہ بخشش کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے.ضروری نہیں کہ کوئی موصی ہی ہو تو بخشا جائے گا.(رجسٹر ارشادات حضور ایدہ اللہ رجسٹر نمبر 3.ارشاد نمبر (211) غربت کی وجہ سے اگر کوئی اس نظام میں شامل ہونے کی توفیق نہیں پا سکتا تو اس پر کوئی گناہ نہیں مجلس عاملہ جماعت احمدیہ کر ڈا پلی انڈیا کی طرف سے حضور کی خدمت میں بعض امور تحریر کر کے بھجوائے گئے حضور نے بعد ملاحظہ تحریر فرمایا کہ:- آپکی مجلس عاملہ کا مشترکہ خط ملا.آپ نے جو صورت حال بیان کی ہے یہ نظامِ وصیت کی بنیادی روح

Page 190

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 178 کو نظر انداز کر دینے سے پیدا ہوئی ہے.کے قیام کا ایک بڑا مقصد عالمگیر غلبہ اسلام کی خاطر غیر معمولی قربانی کی صورت میں سلسلہ حقہ کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے مالی مدد کرنا بھی تھا.معلوم ہوتا ہے کہ جن موصوں کے حوالہ سے آپ نے معاملہ اٹھایا ہے انہیں وصیت کرنے سے پہلے یہ بات بتائی نہیں گئی.لیکن اب میں اس بارہ میں سختی سے عمل کروا رہا ہوں.اور جو وصیتیں کی بنیادی روح کو نظر انداز رکھنے کے نتیجہ میں منظور ہو چکی ہیں ان پر نظر ثانی کرنے کی ہدایت بھی کر چکا ہوں.پس جن کو عام قربانی سے بڑھ کر غیر معمولی قربانی کی توفیق نہیں ہے.اور وہ اگر اس وجہ سے میں نہ رہ سکیں تو ان کا کوئی قصور نہیں ہوگا.غربت کی وجہ سے اگر کوئی اس نظام میں شامل ہونے کی توفیق نہیں پاسکتا تو اس پر کوئی گناہ نہیں.جزاء سزا ء اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور وہ دلوں کے حال خوب جانتا ہے اس لئے فکر نہ کریں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.( رجسٹر ارشادات حضور ایدہ اللہ.رجسٹر نمبر 3.ارشاد نمبر (300 سلسلہ کی نظر روپیہ پر نہیں آخری حساب دفتر وصیت میں نہیں بلکہ یوم الحساب کو ہو گا ایک خط کے جواب میں حضور نے تحریر فرمایا کہ:- افسوس ہے کہ آپ ابھی تک وصیت سے متعلق سلسلہ کی مشکلات اور مجبوریوں کو سمجھ نہیں پائے.بعض دفعہ ایک ایسے شخص کی وصیت بھی بلاتر در قبول کر لی جاتی ہے جس نے ساری عمر میں سلسلہ کو سو دوسو روپے سے زائد حصہ آمد وحصہ جائیداد میں ادا نہ کیا ہو.بعض دفعہ لاکھوں کی وصیت والے کی وصیت بعض پیچیدگیوں کی وجہ سے رد کر دی جاتی ہے کیونکہ سلسلہ کی نظر روپیہ پر نہیں بلکہ ان کڑی شرائط پر ہے جو وصیت کے ساتھ مامور زمانہ نے وابستہ کر دی ہیں لیکن اگر نعوذ باللہ تحقیق کے دوران یہ ثابت ہو کہ بعض ایسے معاملات کو موصی نے اخفاء میں رکھا جن کے متعلق اسکی عقل سلیم کے لئے یہ انتباہ کرنا ضروری تھا کہ یہ اخفاء تقویٰ کے خلاف ہے.ایسے موصی کی وصیت کو خواہ اس سے لاکھوں کی

Page 191

179 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ.آمد کی توقع ہو، رد کر دیا جاتا ہے.یہ بھی ہر گز بعید نہیں کہ کے فیصلہ کی رُو سے ایک شخص غیر موصی قرار پا جائے لیکن خدا تعالیٰ کی اس کے تقویٰ پر نظر ہو اور اس کی کتاب میں وہ موصی لکھا جائے.اس لئے ایک متقی کو اسبارہ میں اتنی پریشانی کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ آخری حساب تو دفتر وصیت میں نہیں بلکہ یوم الحساب کو ہوگا.اللہ تعالیٰ ہم سب سے حِســابــا يسيراكا معاملہ فرمائے.رجسٹر ارشادات حضور ایدہ اللہ.رجسٹر نمبر 3.ارشاد نمبر 206 ایک غیر معقول اصرار حضرت خلیفہ المسح الرابع کی خدمت میں بعض املہ وصایا میں سے تاریخی موادکا مجموعہ پیش ہونے پر حضور انور نے ایک مسل کی بابت فرمایا: - کسی کا یہ مؤقف کہ نہ معقول جائیداد ہو جس پر وصیت ہو جو حضرت مسیح موعود کا اصل منشاء ہے، نہ متبادل غیر معمولی قربانی ہو اور اسے نظامِ وصیت میں شامل کر لیا جائے تو یہ ایک غیر معقول اصرار ہے.رجسٹر ارشادات حضور ایدہ اللہ.رجسٹر نمبر 3 ارشاد نمبر (223) ہمدردی کے متقاضی لوگ ایک موبیہ کی مد کے جائزہ کی رپورٹ جب حضرت خلیفہ مسیح الرابع کی خدمت میں پیش ہوئی تو آپ نے فرمایا : - رپورٹ میں جو حالات بیان کئے گئے ہیں اگر واقعی وہ اتنے غریب ہیں تو وصیت کا باران پر ڈالا ہی نہیں جاسکتا کیونکہ وصیت تو غیر معمولی قربانی کا تقاضا کرتی ہے اور ایسے لوگ تو ہمدردی کے متقاضی ہیں اور جماعت کو حسب توفیق ان کی مدد کے لئے غور کرنا چاہیے.( رجسٹر ارشادات حضور ایدہ اللہ.رجسٹر نمبر 3.ارشاد نمبر (226

Page 192

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 180 ایسی وصیتیں شروع میں ہی قبول نہیں کرنی چاہئیں عمر کے آخری حصہ میں وصیت کرنے والوں کے متعلق فرمایا : - جو شخص ساری عمر کی کمائیاں کھانے ، جائیدادیں بنانے اور انہیں آگے تقسیم کرنے اور زندگی کی رونقوں سے لطف اندوز ہونے کے بعد ایسی لمبی عمر میں جا کر وصیت کرے اس کا یہ عمل وصیت کرنے کی روح کے ہی خلاف ہے.اس لئے ایسی وصیتیں شروع میں ہی قبول نہیں کرنی چاہیں.(رجسٹر ارشادات حضور ایدہ اللہ.رجسٹر نمبر 3.ارشاد نمبر 258 اخلاقی اور روحانی لحاظ سے اور مالی قربانی میں بھی صف اول میں ہو آنحضرت ﷺ کے زمانے میں بعض صحابہ نے یہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ مالی قربانی میں امیر ہم سے بہت آگے بڑھ گئے اور ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ان کا مقابلہ کرسکیں تو اس پر آنحضور نے نے وہ ذکر الہی کی تعلیم دی کہ تم نماز کے بعد بیٹھ کر ذکر الہی کرو تو تم ان سے آگے نکل جاؤ گے.پس اموال میں جو خدا کا فضل ہے کہ وہ بعض کو بعض پر فضیلت دیتا ہے اس سے متعلق آپ ایسا کوئی قانون بنائیں کہ وہ فرق مٹ جائے اور ہر شخص اس چیز میں حصہ لے سکے جس کے لئے خدا تعالیٰ نے اس کو استطاعت نہیں دی تو سارے کو توڑنے پھوڑنے والی بات ہو جائے گی کیونکہ میں مالی قربانی میں پیش پیش ہونے والوں کا گروہ بھی شامل ہے جس کے لئے شرط یہ ہے کہ دینی قربانی میں بھی صف اول میں ہو، اخلاقی اور روحانی لحاظ سے بھی اور مالی قربانی میں بھی صف اول میں ہو تو جو شخص صف اول میں اس لحاظ سے نہیں آسکتا اس میں نہ نظام جماعت کا قصور ہے نہ اس کا قصور ہے.بخشنے والا خدا ہے خدا تعالیٰ نے یہ کہاں فرمایا ہے کہ اگر تم وصیت نہیں کر و گے تو میں تمہیں نہیں بخشوں گا اس لئے اس کی عاقبت کی فکر کرتے کرتے کو ہم تو ڑ بیٹھیں یہ درست نہیں ہے.رپورٹ مجلس مشاورت 1983 صفحہ نمبر 135,134)

Page 193

181 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ آئندہ نسلیں اسکی قربانی کا حال دیکھ کر اس کے لئے دعائیں کریں وصیت کی بنیا د وہ روح ہے جس کے پیش نظر حضرت مسیح موعود نے جاری فرمایا اور وہ روح یہ ہے کہ وہی شخص موصی کہلائے گا جود ینی عمل اور اعتقادات کے لحاظ سے بھی صف اول پر ہواور مالی قربانی میں بھی ایسی شاندار قربانی پیش کرنے والا ہو کہ آئیندہ نسلیں اس کی قربانی کا حال دیکھ کر اس کے لئے دعائیں کریں.(رپورٹ مجلس مشاورت 1983ء صفحہ 142,141 ) ایک تمسخر آمیز شکل ایک اور شکل یہ ہے کہ ایک آدمی انتظار کر رہا ہے کہ اپنی ساری ذمہ داریوں سے فارغ ہو جائے اور جب اس کی آمد خوب تھی اس وقت وصیت نہ کروائے جب جائیدادیں اپنے پاس تھیں اس وقت وصیت نہ کر وائے جب وہ سب کچھ تقسیم کر بیٹھے پھر وہ موصی بن جائے اور اس قاعدے کی رو سے میں داخل ہو کہ اب تو میری کوئی آمد نہیں ہے.وصیت کا میرا حق ہے اس لئے مجھ سے کچھ نہ لیا جائے تو یہ ساری تمسخر آمیز شکلیں بن جاتی ہیں.رپورٹ مجلس مشاورت 1983 صفحہ نمبر 147 ) موسیان اور کے متعلق قیمتی نصائح مقامات مقدسه قادیان کی ضرورت کے لئے مالی تحریک (خطبہ جمعہ فرمودہ 28 مارچ 1986ء بمقام بيت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ تلاوت کی : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لا بَيْعٌ فِيهِ و پھر فرمایا: خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ - وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُون - (البقرة: 255) یہ آیت کریمہ جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ یہ نصیحت فرماتا ہے کہ اے وہ لوگو! جو ایمان

Page 194

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 182 لائے ہو پیشتر اس کے کہ وہ دن آجائے جب نہ تو کوئی سودا بازی ہوگی ، نہ کوئی دوستی کام آئے گی ، نہ کوئی سفارش چلے گی تم اللہ کی راہ میں جو کچھ اس نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو.اس آیت میں سودا بازی والا حصہ ہے اس کے سمجھنے میں کچھ اشکال ہیں کچھ مشکلات پیش آتی ہیں.جب اسی مضمون کو قرآن کریم کی دوسری آیات کی روشنی میں زیادہ وضاحت سے دیکھتے ہیں تو اور بھی زیادہ اس معاملے کو سمجھنے میں دقت پیش آتی ہے.دوسری جگہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ اُس دن سے ڈرو جس دن تمہارے گناہوں کے بدلے میں کوئی بھی اس کے برابر وزن کا مال قبول نہیں کیا جائے گا.مطلب یہ ہے کہ تم اموال دے کر خدا سے اپنی جانوں کو چھڑا نہیں سکو گے.ایک اور جگہ یہ فرمایا کہ اگر پہاڑوں کے برابر سونا بھی پیش کرو تو وہ بھی قبول نہیں کیا جائے گا اور ر د کر دیا جائے گا.دو باتیں ذہن میں اُبھرتی ہیں.اول یہ کہ مرنے کے بعد تو انسان مادی دنیا کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے اور کچھ بھی یہاں سے وہاں منتقل نہیں کر سکتا اس لئے کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ وہ کوئی عدل پیش کرے یا اس سے بڑھ کر کچھ پیش کرے یا سودا بازی کا کسی قسم گمان بھی اس کے دل میں پیدا ہو.دوسرے قرآن کریم تو خود وضاحت سے فرما رہا ہے کہ يَوْمُ الدِّينِ تو وہ دن ہے يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِنَفْسٍ شَيْئًا وَالْأَمْرُ يَوْمَبِذٍ لِلَّهِ (الانفطار :۲۰) کہ جو کچھ کسی کا تھا بھی وہ بھی اس کا نہیں رہے گا ، تمام ملکیت ، تمام کائنات کلیہ اپنے مالک رب کی طرف لوٹ چکی ہوگی.يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِنَفْسٍ شَيْئًا نہ کوئی اپنی جان کے لئے کسی چیز کا مالک ہوگا نہ کسی دوسری جان کے لئے کسی چیز کا مالک ہوگا.تو اس کے بعد اس بے چارے نے سودا بازی کیا کرنی ہے اور کیا پیش کرنا ہے ، کیا عدل کا خیال، کیا اس سے بڑھ کر دینے کا تصور، یہ ساری باتیں موہوم اور بے تعلق ہی دکھائی دینے لگتی ہیں.اس لئے لازماً اس آیت کا کوئی ایسا مفہوم ہے جو اطلاق پاتا ہے، جو ایک حقیقت رکھتا ہے اور اسے سمجھے بغیر اس مضمون کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا جس کی طرف خدا تعالیٰ توجہ دلا رہا ہے.جب ہم دنیا میں مالی قربانی پر نظر ڈالتے ہیں تو دو قسم کی مالی قربانی دکھائی دیتی ہے اور قسموں کے علاوہ

Page 195

183 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ ایک جہت سے اسے ہم دو قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں.اول وہ مالی قربانی جو خالصہ للہ کی جاتی ہے، جو تقویٰ پر مبنی ہوتی ہے.اس کے متعلق الہی قانون یہ ہے کہ وہ تھوڑی بھی ہو تو خدا کی نظر میں بے شمار کے طور پر مقبول ہوگی اور ایک مالی قربانی وہ ہے جو دنیا کے دکھاوے کے لئے یا دیگر اغراض کی خاطر کی جاتی ہے.وہ اگر سونے کے پہاڑوں کے برابر بھی ہو تو وہ نا مقبول ہوگی.تو اس آیت میں اسی مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب تک تمہیں دنیا میں خدا تعالیٰ نے خرچ کی توفیق بخشی تم اس غلط نہی میں مبتلا نہ ہونا کہ تم نے سونے کے پہاڑوں کے برابر اس کی راہ میں خرچ کیا اگر کسی تقوی کی کمزوری کی وجہ سے کسی اندرونی گناہ کی وجہ سے خدا تعالیٰ کو دنیا میں وہ نا مقبول ہوا تو آخرت میں بھی تمہارے حصے میں کچھ بھی لکھا نہیں جائے گا اور اس وقت تمہارا یہ اصرار کہ میں نے تو خدا کی راہ میں اتنا سونا خرچ کیا تھا، اتنے خزانے لٹائے تھے اس اعتراض کی، اس وہم کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہوگی.اس وقت خدا کے سامنے اپنی مالی قربانیاں پیش کرنا کہ فلاں گناہ کے بدلے یہ قربانیاں قبول فرما اور مجھے بخش دو.یہ خیال، یہ وہم رد کر دیا جائے گا.ایک تو اس کا یہ معنی ہے.دوسرا اس کا اور معنی بھی ہے کہ مرنے کے بعد جب انسان کا دارالعمل سے تعلق کٹ جاتا ہے تو اکثر صورتوں میں اس کی طرف سے پھر وہ قربانیاں پیش نہیں کی جاسکتیں جو اس نے خود اپنی زندگی میں نہیں پیش کیں اور اگر اس کی اولاد اس کے مرنے کے بعد کروڑ ہا روپیہ بھی خرچ کرے تو اکثر صورتوں میں وہ اس کو نہیں پہنچے گا.یہ مضمون کچھ مزید وضاحت چاہتا ہے کیونکہ ہمیں علم ہے کہ ماں باپ کے لئے اپنے مرحوم پیاروں کے لئے ہم خرچ کرتے ہیں، چندے بھی دیتے ہیں، زکوۃ بھی دیتے ہیں.تو وہ پھر کیوں مقبول ہو گا جب دار العمل سے اس کا تعلق کٹ گیا ؟ اس مسئلہ کو خود حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھول دیا ہے.پس اس استثناء کو بہر حال پیش نظر رکھا جائے گا جو استثناء اصدق الصادقین حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود فرمایا ہے اور وہ استثناء یہ ہے کہ آنحضور علیہ کی خدمت میں یہ سوال کیا گیا کہ یا رسول اللہ ! میری والدہ جب زندہ تھی تو یہ یہ نیک خرچ کرنے کی تمنا

Page 196

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 184 رکھتی تھی ، نذر باندھے ہوئے تھی اور بہت اس کی خواہش تھی کہ میں خدا کی راہ میں اس اس طرح خرچ کروں لیکن پیشتر اس کے کہ اس کی یہ خواہش پوری ہوتی خدا نے اسے واپس بلا لیا.اب کیا یہ ممکن ہے کہ میں اس خواہش کو اس کے مرنے کے بعد پورا کردوں اور اس کے نام پر صدقات دیتا رہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا درست ہے تم ایسا کر سکتے ہو.(مسلم کتاب النذ رحدیث نمبر ۳۰۹۲۰) اسی طرح اور بھی مختلف شکلوں میں یہ روایت آتی ہے جس سے قطعی طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ نیکی جوانسان زندگی میں کرتا رہا ہو خصوصاً مالی قربانی اور اس کی حسرت پوری نہ ہوئی ہو، وہ چاہتا ہو کہ اور دے لیکن توفیق نہ پانے کی وجہ سے آگے اور مزید دے نہ سکا ہو.اس کی اولا د جب اس کے نام پر اس کی خاطر خدا تعالیٰ کے حضور کچھ پیش کرے گی تو اللہ تعالیٰ اسے پہنچا دے گا اور یہ وہ حصہ ہے جومرنے کے بعد بھی اس کے لئے خرچ کیا جاسکتا ہے.لیکن جو شخص دنیا میں نادہند ہو، دنیا میں خدا کے مال کھاتا ہو یا بنی نوع انسان کے مال کھاتا ہو.اگر وہ مرجاتا ہے تو اس کی امیر وکبیر اولاد کے دل میں اگر یہ وہم پیدا ہو جائے کہ وہ کروڑوں روپیہ دے کر خدا سے اس کی گردن چھڑالیں گے یہ محض وہم ہے.وہ آیات جن کے مضمون کا میں نے ذکر کیا ہے وہ اس کی راہ میں کھڑی ہو جائیں گی.لا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خُلَةٌ وَ لَا شَفَاعَةُ کی آواز آئے گی.نہ دوستی کام آئے گی نہ سودے بازی کام آئے گی ، نہ کسی قسم کی سفارش چلے گی.پس اس آیت کے مضمون کو اس رنگ میں سمجھنے کے بعد ہمیں اپنے چندوں کو نکھارنے کے لئے دو بہت ہی اہم گر مل گئے.اول یہ کہ جب ہم خدا کی راہ میں کچھ پیش کریں تو اپنے نفس کو خوب کھنگال کر، ہر غیر اللہ کے تصور سے پاک کرنے کے بعد خدا کے حضور پیش کریں.نہ اس میں ریاء کا شائبہ ہو نہ اور کسی قسم کی نفس کی ملونی ہو.کوئی دھوکہ نہ ہو، تقویٰ سے گری ہوئی کسی قسم کی کوئی بات نہ ہو صاف ستھرا کر کے جس طرح مالی اپنا پھل سجا کر منڈی میں لے کر جاتا ہے جس طرح زمیندار بعض دفعہ شلغم دھو دھو کر اس کی سفیدی نکھار کر منڈی میں لے کر جاتا ہے.اس طرح اپنے اعمال کو خوب

Page 197

185 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ نکھار کر اس کا گند دھو کر پھر خدا کے حضور میں مالی قربانی پیش کرو اور وہ جو یہاں مقبول ہو جائے گی وہ وہاں ضرور مقبول رہے گی.اس کے بدلے یقینا گناہ معاف کئے جائیں گے.اس کے بدلے یقیناً خدا تعالیٰ کے اور کثرت سے انعامات کی بارش نازل ہوگی لیکن جو قربانی یہاں رد کئے جانیکے لائق ٹھہرائی گئی اس نے آگے نہیں جانا.جو مردود ہو گئی وہ ہمیشہ کے لئے مردود ہوگئی.اس لئے وہ لوگ جو خدا کی راہ میں اموال خرچ کرتے ہیں ان کو جہاں یہ ایک عظیم سعادت نصیب ہوتی ہے وہاں ان کے لئے خوف کا بھی بہت مقام ہے.مال خرچ کرنا کافی نہیں مال کو صاف اور پاک نیتوں کے ساتھ خرچ کرنا ضروری ہے.رقم کے کوئی معنی نہیں ہیں.اس کے پیچھے قربانی کی روح کیا تھی؟ کیا تناسب تھا اس قربانی میں؟ یہ وہ چیز ہے جو خدا کے نزدیک اہمیت رکھتی ہے.اور پھر اگر ایسی نیکیاں آپ کرتے ہیں جن کی نیکیاں کرتے کرتے حسرت لے کر اس دنیا سے اٹھ جاتے ہیں.اگر اولاد اس نیت سے ان نیکیوں کو جاری رکھے کہ ہمارے والدین کی یہ حسرتیں رہ گئی تھیں تو قیامت تک کے لئے وہ خزا نے آپ کے لئے جمع ہوتے رہیں گے اور اس مضمون کی راہ میں کوئی قرآن کریم کی آیت کا مفہوم حائل نہیں ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہتر کوئی قرآن کریم کوسمجھ نہیں سکتا تھا.جس کے دل پر الہاما نازل ہو رہا تھا قرآن کا اس سے بہتر کون سمجھ سکتا تھا.ان دو پہلوؤں کو ملحوظ رکھتے ہوئے میں آج وصیت سے متعلق چند باتیں احباب کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.یہ دوراہنما اصول ہیں جن کے تابع ہمیں اپنے انتظامی معاملات کو بھی کھنگالنا ہوگا جو مال سے تعلق رکھتے ہیں اور دینے والوں کو اپنی انفرادی قربانی کو بھی اپنی انہی دو کسوٹیوں کے اوپر پورا اترتے ہوئے دیکھنے کی تمنا کرنی چاہئے.یہ عموماً دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی نظام کچھ پرانا ہونے لگتا ہے تو اس میں قانونی اسی بیچ اور الجھنوں کا اضافہ ہونے لگتا ہے.قانون تو اس لئے بنایا جاتا ہے کہ کسی مقصد کی روح کی حفاظت کی جائے لیکن

Page 198

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 186 جب زیادہ قانون بننے شروع ہو جائیں تو بعض دفعہ چھلکا ہی چھلکا رہ جاتا ہے اندر سے گودا غا ئب ہونے لگتا ہے.بہت موٹے چھلکوں والے پھل بعض دفعہ اتنے موٹے چھلکوں والے ہو جاتے ہیں کہ اندر نام کا گودا باقی رہ جاتا ہے.تو تنظیموں کو وقتاً فوقتاً اس بات کی جانچ پڑتال کرنی چاہئے کہ قانون روح کی حفاظت کر بھی رہا ہے یا نہیں یا خودروح کو مارنے کا موجب بن رہا ہے.وصیت کے معاملہ میں بھی کچھ خرابیاں زائد قوانین بنانے کے نتیجہ میں پیدا ہوئیں.مثلاً عورتوں کی طرف سے یہ شکوہ پیدا ہوا کہ صاحب جائیداد کے لئے وصیت آسان ہے وہ چاہے تو جائیداد کی 1/10 کی وصیت کر کے اس نظام میں شامل ہو سکتا ہے.مگر اکثر عورتیں صاحب جائیداد نہیں ہوتیں اور آمد بھی ان کی براہ راست نہیں ہوتی بلکہ خاوند کی آمد ہوتی ہے.تو وہ بیچاریاں جو ویسے نیکی اور تقویٰ کے معیار میں اعلیٰ درجہ پر یا صف اول میں ہیں محض اس لئے کہ جائیداد نہیں ہے وہ کیوں اس نیکی عظیم الشان قربانی سے محروم کی جاتی ہیں؟ اس کے کئی پہلو سے جواب دیئے جاسکتے تھے لیکن ان کی مشکل حل کرنے کے لئے ایک یہ قانون بنا دیا گیا کہ حق مہر بھی عورت کی جائیداد متصور ہوگا.جو شخص کسی عورت کے لئے حق مہر مقرر کرتا ہے اس کی بیوی کو گو یا جائیدا دل گئی اور وہ چاہے تو اس کے 1/10 کی وصیت کر سکتی ہے.قانون تو اس لئے بنایا گیا تھا کہ جو اعلیٰ مالی قربانی کی روح رکھنے والے لوگ ہیں وہ محروم نہ رہیں.مگر اس قانون کے چور دروازے سے وہ لوگ داخل ہونے لگ گئے جو اعلیٰ قربانی کی روح نہیں رکھتے تھے.کسی خاوند نے فرضی ایک تمہیں روپے کسی کا مہر رکھا ہوا ہے اور ویسے بہت صاحب حیثیت ہے.بعض دفعہ پرانے زمانوں میں دس، دس روپے مہر بھی رکھے گئے اور مہر رکھتے وقت بعض دفعہ خاوند کی حیثیت اور تھی اور بعد میں جب عورت نے وصیت کی اس وقت خاوند کی حیثیت اور ہو چکی تھی.بعض دفعہ اچھی حیثیت کے باوجو د رسماً اور رواج یا ویسے ہی عورتوں کی حق تلفی کرتے ہوئے پورا حق مہر نہیں رکھا گیا.تو قانون جو بن گیا کہ حق مہر جائیداد متصور ہوگا تو کثرت سے ایسی وصیتیں آنی شروع ہو گئیں جن میں وصیت کی روح موجود نہیں تھی قانون کا تقاضا پورا ہو رہا تھا.

Page 199

187 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ پھر اسی طرح اور بھی بہت سے ایسے معاملات سامنے آنے لگے جن سے معلوم ہوتا تھا کہ قانون کے لفظی پیمانے تو بھرے جا رہے ہیں مگر ان میں روح وصیت موجود نہیں ہے.ایک والدین ہیں مثلاً وہ ریٹائر ہو گئے.اگر بچوں کو اعلی تعلیم دی یار یٹائر ڈ ہو گئے یا پینشن کمیوٹ کرالی اور اس کے بعد ان کے پاس براہ راست کوئی آمد نہ رہی ، سب کچھ اپنے بچوں کو دے دیا اور اس کے بعد وصیت کر دی اور وصیت میں ہیں ، پھپیں چالیس روپے جو ان کو سمجھا کہ ہم اس کو تحفہ کے طور پر شمار کر سکتے ہیں وہ پیش کر دیا اور آنکھیں بند کر کے نے وہ وصیتیں قبول کر لیں.کیونکہ یہ اصول تھا کہ جس کے پاس جو ہے اس کے مطابق وصیت کرے گا ، اس کے پاس اتنا ہی تھا اس لئے انہوں نے اس وصیت کو قبول کر لیا.حالانکہ بچے ان کے بہت خوشحال.بعض ایسی صورتیں بھی میرے سامنے آئیں کہ لکھ پتی تھے لیکن والدین کے حساب جب دیکھے گئے تو ان میں سے کسی ایک فوت شدہ کا تو پتہ چلا کہ سال ہا سال سے ایک پیسہ بھی ادا نہیں ہوا.اس لئے کہ ہم بچوں کے پاس رہتے ہیں بس وہی ہمارا گزارہ تھا اور میں موصی.تو قانون کا تقاضا تو بظاہر پورا کر لیا لیکن جس مقصد کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے یہ تحریک عطا فرمائی تھی کہ وہ لوگ جو نفس کی قربانی میں پورے اترتے ہیں مال کی قربانی میں بھی اگر وہ نمایاں صورت اختیار کریں تو ان کو بہشتی مقبرہ میں دفن کیا جائے.نمازی ہوں دین میں ویسے اچھے ہوں ، ظاہری طور پر شریعت کے تقاضے پورے کرنے والے ہوں وہ بہر حال خدا کے نزدیک مقبول ہیں لیکن اگر مال کی قربانی میں بھی عام لوگوں سے بڑھ کر قربانی کرنے والے ہوں تو پھر وہ موصی بننے کے مستحق ہوں گے.تو یہ جو شکلیں ہیں یہ تو مالی لحاظ سے قربانی کے اعلیٰ معیار پر شمار کی ہی نہیں جاسکتی.پھر جب مزید چھان بین کی گئی بعض معاملات میں تو ایسی صورتیں بھی سامنے آئیں کہ موصی کا چندہ وصیت تو ہزار روپیہ ہے لیکن وصیت آنہ بھی نہیں کیونکہ اس کی آمد کوئی نہیں.چندہ وقف جدید تو سو، دوسوروپے ہے لیکن وصیت کوئی نہیں کیونکہ کہا جاتا ہے کہ اس کی آمد کوئی نہیں.ورثہ چھوڑا ہے اور اس میں سے وصیت ادا کی نقد رقم کی صورت میں اور حساب میں گذشتہ دس بارہ سال سے کوئی آمد

Page 200

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 188 نہیں ہے تو روپیہ کس طرح چھوڑ دیا پیچھے؟ اس قسم کے سوالات ایسے ہیں جن میں بہت سی وقتیں سامنے آنے لگیں.ایک رحجان تو یہ تھا کہ اور قانون بنائے جائیں لیکن حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ ایسی وصیتوں کو سرسری جائزہ لے کر معلق کر دیا جائے اور ان کی تحقیق کی جائے.یہ بھی اپنی ذات میں قانون بن گیا اور اس کا بھی غلط مفہوم سمجھ کر غلط طور پر اس پر عمل ہونے لگا.مثلاً ایک عورت جو فوت ہوگئی اس کے خاوند نے دس روپے مہر لکھوایا ہوا تھا اس کے بچوں نے کہا کہ ہم اس کا مہر پچاس روپے یا ہزار روپے یا لاکھ روپے کر دیتے ہیں وصیت منسوخ نہ کرو اور محکمے نے چپ کر کے منظور کر لیا یعنی سفارش کر دی.ایک فوت شدہ ماں یا باپ اپنی زندگی میں تو کچھ نہیں دے سکا اس عذر کے تابع کہ میں اپنے بچوں پر انحصار کرتا ہوں اس لئے مجھے مالی قربانی کی اولین صف میں ضرور شمار کر لیا جائے لیکن مالی قربانی کوئی پیش نہ کی اور فوت ہونے کے بعد جب رد کیا گیا تو وصیت والوں نے سفارشیں شروع کر دیں کہ بیٹے یا دوسرے ذی حیثیت عزیز لاکھ روپیہ دینے کے لئے بھی تیار ہیں، دس لاکھ روپیہ دینے کے لئے بھی تیار ہیں، ان کی وصیت مقبول ہو اور اگر گزشتہ نہیں دے سکے تھے تو اب قبول کر لیں.یہ وہ معاملات ہیں جن پر اس آیت کا اطلاق ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد ان سے کوئی عدل قبول نہیں کیا جائے گا.اگر سونے کے پہاڑ بھی پیش کریں گے تو وہ کوتاہی جو زندگی میں ہوگئی ہے اسکی وہ خامی دور نہیں ہوسکتی.وہ حق مہر جو زندگی میں مقررہی نہیں ہو اس کو اولاد کیسے مقرر کرسکتی ہے.تو جب میرے علم میں ایسی باتیں آئیں تو میں نے دفتر وصیت والوں کو بھی پکڑا جو ان کے منتظم تھے ان کو کہا کہ صرف موصی کے تقویٰ کا معیار اونچا ہونا ضروری نہیں تمہارے تقویٰ کا معیار اونچا ہونا بھی ضروری ہے.مال کون دیتا ہے یا کتنا دیتا ہے یہ بحث ہی نہیں ہے.اگر مال کی بحث ہوتی تو خدا تعالیٰ یہ نہ فرماتا کہ سونے کے پہاڑ بھی رد کر دیئے جائیں گے.بحث صرف یہ ہے کہ جو کچھ دیا گیا تھا اس کے پیچھے روح تقومی تھی کہ نہیں.اور اگر روح تقویٰ تھی تو پھر خواہ تھوڑا بھی تھا تو تمہیں رد کرنے کا کوئی حق نہیں.لیکن اگر روح تقوی نظر نہیں آتی یا زندگی میں تو کچھ نہیں ہو سکا مرنے کے بعد اولا داس کا

Page 201

189 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ تقویٰ پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہو تو اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی.اس لئے میں موصیان کو نصیحت کرتا ہوں کہ ابھی وقت ہے زندگی میں خدا تعالیٰ سے اپنے معاملات درست کر لینے کا.اگر اس دور میں آپ نے اپنے معاملات درست نہ کئے یا بعض باتیں مخفی رکھیں اور کسی پہلو سے بھی تقوی کے معیار پر پورا نہ اترے تو یہ وہم و گمان دل سے نکال دیں کہ قیامت کے دن آپ اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کے بدلے اس دنیا کی مالی قربانیاں پیش کریں گے.یہاں کھاتے میں جو کچھ مرضی لکھا ہوا ہو یہ دفتر وصیت کا کھاتہ وہاں منتقل نہیں ہوگا.وہاں تو كرَامًا كَاتِبِينَ (الانفطار : 1) کے کھاتے اور ہیں.وہ جو خدا کے فرشتے کھاتے تیار کرتے ہیں ان کے لکھنے کا طر ز بھی اور ہے ان کی Accountancy کا نظام بھی بالکل مختلف ہے.انہوں نے کوئی Charted Accountancy تو نہیں کی یہاں بیٹھ کر کہ وہ ظاہری طور پر اعداد و شمار کے پیچھے جائیں.انہوں نے اللہ تعالیٰ سے وہ گر سیکھے ہیں کہ کس کی قربانی کو جس کے پیچھے خاص روح تھی کتنا بڑھا کر لکھنا ہے اور کس کی قربانی کو کتنا کم دکھا کے لکھنا ہے یا بالکل صفحہ ہستی سے ملیا میٹ کر دینا ہے.تو خدا کی Accountancy کے حساب اور ہیں ان کو پیش نظر رکھ کر اپنے معاملات درست کریں.دنیا کی Accountancy کے دھوکہ میں مبتلا نہ رہیں.بہر حال ایک دور تو وہ تھا جب اس قسم کی وصیتیں معلق کی گئیں اور ابھی تک معاملے لٹک رہے تھے.یہاں تک کہ وفات کے بعد بڑی افسوس ناک صورتیں سامنے آنے لگیں عزیزوں اور خاندانوں کے لئے ٹھوکر کا موجب بنیں یہ باتیں بعض لوگوں نے کہا کہ ہم اتنا چندہ دینے والے، ہماری والدہ اتنی بزرگ ، ہمارے والد اتنے بزرگ ، اتنے پرانے احمدی، اس قسم کے لوگ ، آپ ہوتے کون ہیں وصیت رد کرنے والے.ٹھیک ہے انسان کی کوئی حیثیت نہیں ہے کسی کی وصیت رد کرنے کی مگر انسان کی یہ حیثیت بھی نہیں ہے کہ جس وصیت کو خدا تعالیٰ کا قرآن رد کر رہا ہو اور اصول بیان کر چکا ہو کہ اس کو رد کرنا ہے اسے ادنی انسان قبول کر لے، میں تو اس پہلو سے ان باتوں کو دیکھتا ہوں.اس

Page 202

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 190 لئے اس میں کوئی تکبر نہیں ہے کہ کسی کی وصیت رد کی جارہی ہے، اس پر کوئی فضیلت کا اظہار نہیں ہے، اس کی کوئی تحقیر نہیں ہے.مجبوریاں اور بے اختیار یاں ہیں.قرآن کریم نے جو حساب مقرر کئے ہیں، جو معیار مقرر کئے ہیں ان کے پیش نظر فیصلہ ہوگا.یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے کسی کا حال دنیا میں کھول دے اور کسی کا نہ کھولے.کسی کا کھول کر اسے معاف کر دے اور کسی کا نہ کھولنے کے باوجود معاف نہ کرے.یہ ایسے معاملات ہیں جن کے اوپر نہ میں فتوی دے سکتا ہوں نہ کبھی کوئی انسان فتوی دے سکے گا.ان کا اللہ سے تعلق ہے اور اللہ ہی فیصلہ کرنے والا ہے.لیکن بہر حال ایک اور پہلو بھی ہے کہ عموماً اب تک جو وصیتیں معلق ہو ئیں ان کا تعلق زیادہ تر غرباء سے تھا اور امراء کی وصیت کے پہلو پر زیادہ نظر نہیں کی گئی.دوسرا وصیت کے مالی پہلو پر تو نظر کی گئی لیکن تقویٰ کے جو معیار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مالی پہلو کے تقویٰ کے علاوہ بھی بیان فرمائے ہیں ان کو زیادہ تر نہیں دیکھا گیا.اگر چھان بین ہوئی بھی تو یہ کہ جائیداد کتنی تھی ؟ واقعہ کوئی مخفی رکھی گئی یا نہیں رکھی گئی؟ اور یہ نہیں دیکھا گیا کہ جہاں تک عام انسانی نظر کا تعلق ہے دل کا تقویٰ تو خدا جانتا ہے.جہاں تک انسانی نظر کا تعلق ہے وہ تقویٰ کی ظاہری شرائط کو پورا کرنے والا تھایا نہیں تھا.اس پہلو پر زور نہیں دیا گیا.چنانچہ میں نے دفتر وصیت کو اور انجمن کو یہ ہدایت کی ہے کہ ان دونوں استقام کو یعنی جو خامیاں رہ گئی ہیں ان کو دور کیا جائے.جو امراء ہیں ان کے وصیت کے نقائص اپنے رنگ کے اور ہیں.مثلاً بعض معاملات علم میں ایسے آتے ہیں کہ ایک شخص خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت صاحب جائیداد ہے لیکن وہ اپنی جائیداد کو اپنی زندگی میں اپنے بچوں کے نام پر خرید رہا ہوتا ہے جو موصی نہیں ہے یعنی یہ نہیں کرتا کہ میں اپنے نام لے کر پھر منتقل کراؤں کیونکہ اس طرح وہ پکڑا جاتا ہے.وہ سمجھتا ہے قانون کی زد میں آجاؤں گا اور کہا جائے گا تم نے وارث کے نام جائیداد منتقل کی ہے اس لئے اس میں حصہ وصیت دو.اس لئے شروع سے ہی خریدتے ہی دوسرے کے نام پر ہیں.لکھوکھا روپیہ کی جائیداد زندگی میں بن رہی ہوتی ہے لیکن بحیثیت موصی کے وہ یا تہی دامن رہتا ہے یا اور بہت معمولی سا جو اس نے پہلے لکھوایا تھا بس وہی

Page 203

191 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ کچھ اس کا خزانہ باقی رہتا ہے.عجیب بات ہے یہ وہم، یہ گمان کیسے اس کے دل میں پیدا ہوتا ہے کہ وہ پکڑا نہیں جائے گا.اللہ تعالیٰ نے معاملہ کرنا ہے قیامت کے دن اور اسی اصول کے تابع کرنا ہے جو میں نے آپ کے سامنے قرآن کریم کی زبان میں پیش کیا ہے.جس وقت اس نے یہ حرکت کی اور کجی دکھائی تو وہ پکڑا گیا اور اگر نظام جماعت کے سامنے کوئی ایسا واقعہ آئے تو پھر بھی اس کے لئے کوئی بچنے کی صورت نہیں ہے.اور بھی کئی قسم کے نقائص ہیں.تاجر یہ حرکت کرتے ہیں کہ اپنے سارے اخراجات تجارتی کمپنیوں پر ڈال دیتے ہیں اس سے ٹیکس بھی بچتا ہے اور وصیت بھی بچ جاتی ہے.اور اپنے نام ایک سرسری سی رقم رکھ لیتے ہیں کہ ہم مہینہ میں پانچ سو روپے گھر لے کر گئے تھے اور وصیت پانچ سوروپے پر لکھ پتی ہیں، ہزار ہارو پیدان کا ہفتہ کا خرچ ہورہا ہوتا ہے، اولا دیں اعلی تعلیم حاصل کر رہی ہوتی ہیں، ہر قسم کی نعمتیں حاصل ہیں مگر سب کے سب یا اکثر حصہ وہ کسی نہ کسی کمپنی کے نام کے اوپر کسی حساب میں وصول کیا جا رہا ہوتا ہے.حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ چاہے ڈائر یکٹر کے نام لکھ دو یا بچوں کے نام پر جو چاہو کرو ، کمانے والے کی اپنی کمائی ہے.اللہ کو علم ہے کہ کس کی کمائی ہے اور وہ اگر دنیا کے قوانین سے استفادہ کی خاطر یہ حرکتیں کرتا ہے تو بعض دفعہ دنیا کا قانون اجازت بھی دیتا ہے لیکن خدا کے قانون کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا ، وہ دنیا کے قانون کے تابع نہیں ہے، وہ الگ معاملہ کرے گا.اس لئے ایسے لوگ بھی بعض دفعہ جب نظر پڑتی ہے ان خامیوں کی طرف تو یہ عذر پیش کر دیتے ہیں کہ اچھا جی اب ہم اپنا سابقہ دینے کے لئے تیار ہیں یا بعضوں نے تھوڑی جائیداد لکھوائی اور بعد میں جب جائیداد منفی معلوم ہوئی تو اولاد نے کہہ دیا کہ اچھا ہم اس جائیداد پہ بھی دے دیتے ہیں.اب والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصیت کے نظام پر ظلم کریں گے اگر ایسا کروڑ روپیہ بھی وصول کر لیں اور وصیت کو بحال کریں کیونکہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کسی نے عمداً اخفا کیا تھا تو تقویٰ کے اس معیار سے گر گیا جس پر وصیت قبول کی جاتی ہے.پھر یہ بحث ہی نہیں رہے گی کہ کتنا رو پید اس کی اولا د دینے کے لئے تیار ہے.اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کوئی شخص اپنی زندگی

Page 204

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 192 میں مالی معاملات میں خدا تعالیٰ سے بددیانتی کر رہا تھا، چھپارہا تھا، جو خدا نے اس کو دیا تھا اس سے کم ظاہر کر رہا تھا واپسی کے وقت تو پھر یہ بحث ہی نہیں ہے کہ اس نے روپیہ دیا ہے یا نہیں دیا پھر تو اس کی وصیت منسوخ ہونی چاہئے.اس لئے جب ایسے لوگوں کی وصیت منسوخ کی جاتی ہے تو پھر شور اٹھتا ہے.بڑا ظلم ہو رہا ہے جماعت میں اس نے ساری عمر اتنا دیا، لاکھوں دیا اب فلاں ایک جائیداد تھی اس کی وجہ سے ایک جھگڑا کھڑا کر دیا گیا، خواہ مخواہ شور ڈالا گیا.تو یہ بد دیانتی ایک تو اس دنیا میں ہی ان کے لئے نقصان کا موجب بن گئی بہر حال.آئندہ اعلیٰ معیار کے اوپر پر کھے جانے کا تو کیا سوال دنیا میں اس بد دیانتی نے اولا د کو ضائع کر دیا، رشتہ داروں کے ایمان کو ہلاک کر دیا.تو یہ تو دوہرے نقصان کا موجب بنی ہے.اس لئے تقویٰ اختیار کرو اور تقویٰ کا معنی یہ ہے ہر نقصان سے بیچ کر چلو ایک یہ بھی معنی ہے.ہر دینی نقصان سے بچ کر چلو.اگر تم تقویٰ اختیار کرتے ہو تو پھر ہر جگہ فائدہ ہی فائدہ ہے ہر سودا ہی فائدے کا ہوگا اور اگر وہاں ٹھوکر کھا گئے تو پھر جتنا مرضی دنیا میں خرچ کرو یا مرنے کے بعد جتنا چاہیں تمہاری اولادیں پیش کرتی چلی جائیں اس کا کوئی بھی فائدہ تمہیں حاصل نہیں ہو سکتا.وصیت کو میں نے چونکہ ہدایت کی ہے کہ اب اس طرف بھی نگاہ کریں.وہ نظام جو امراء سے اور سلوک کرے غرباء سے اور سلوک کرے وہ روحانی اور الہی نظام نہیں کہلا سکتا.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فتوی ہی چلے گا.آپ کے دل کے جھوٹے خیال اور جھوٹے و ہم نہیں چلیں گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے پہلے قو میں اس لئے ہلاک ہو گئیں کہ جب ان کے بڑے لوگ جرم کرتے تھے تو ان سے اعراض کر لیا کرتے تھے.ان سے در گذر کا سلوک کرتے تھے اور جب غریب لوگ گناہ کرتے تھے تو بڑی سختی سے ان کو پکڑتے تھے.(مسلم کتاب الحدود حدیث نمبر: ۳۱۹۶) اس لئے نظام جماعت کی تو اس معاملہ میں صرف ایک آنکھ ہے اور وہ تقویٰ کی آنکھ ہے.تقویٰ کی آنکھ یہ فرق کر ہی نہیں سکتی اگر اس میں کوئی نقص نہ پیدا ہو گیا ہو.اس لئے نظام جماعت تو اب ہر

Page 205

193 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ ایک کے ساتھ وہی سلوک کرے گا جو خدا کا کلام ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ایک ہی طرح کا سلوک کیا جائے.اگر کسی کو ٹھوکر لگتی ہے تو میں ذمہ دار نہیں ہوں.وہ پہلا نفس کا کیٹر ا ذمہ دار ہے جس نے اس کی قربانیوں کو تباہ کیا اور اس نے اس وقت اس کی فکر نہیں کی.اگر کسی کی اولاد کوٹھوکر لگتی ہے تو میں ہرگز ذمہ دار نہیں ہوں کیونکہ ذمہ دار خدا کا کلام ہے جس کے تابع میں ایک ادنی غلام سے بھی کم حیثیت رکھتا ہوں اور نظام جماعت کی بھی اس کے مقابل پر کوئی حیثیت نہیں ، یہ بے اختیار لوگ ہیں.اس لئے خدا کا کلام جاری ہوگا اور لازما جاری ہوگا.وہ لوگ جو اپنے نفس کی بڑائی یا اپنی عظمتوں کی بڑائی لئے پھرتے ہیں ، دنیا کی عظمتوں کی بڑائی لئے پھرتے ہیں وہ دھو کہ میں نہ رہیں.یہ اس لئے کیا جا رہا ہے تا کہ آپ بچیں.آپ کو نقصان پہنچانے کے لئے نہیں کیا جارہا.اس لئے کیا جا رہا ہے دنیا میں آپ کو پتا چل جائے کہ آپ کیا کر رہے ہیں بجائے اس کے کہ مرنے کے بعد یہ آوازیں بلند ہوں کہ آج تو سودوں کا دن نہیں رہا.آج تو کوئی شفاعت کام نہیں آئے گی.آج تو کسی قسم کی دوستی تمہیں فائدہ نہیں پہنچائے گی.اس لئے یہ کوئی نعوذ باللہ من ذالك دشمنی کی باتیں نہیں ہور ہیں یا سختی کی باتیں نہیں ہور ہیں.اس سے بہتر آپ کے حق میں یعنی احباب جماعت کے حق میں اور کوئی اچھا طریق نظام جماعت اختیار نہیں کر سکتا، اسی میں فائدہ ہے.اس لئے بجائے اس کے کہ نظام کی نظر بعض خامیوں پر پڑے اور پھر وہ اس کو پکڑے.اپنے دل کا محاسبہ کریں، اپنے حالات کا محاسبہ کریں اور اپنی قربانی کو تقوی کے کم سے کم معیار کے اوپر تو لے کر آئیں.آگے بہت بلند معیار ہیں.آگے بہت ترقی کی منازل ہیں.تقویٰ کے اندر بار یک در باریک راہیں ہیں ان کو اختیار کرنے کے نتیجہ میں معمولی بھی خدا کے نزدیک اتنا بڑھتا ہے کہ حیرت میں انسان مبتلا ہو جاتا ہے.لیکن ادنی معیار پر پورا اتر نا تو بہر حال ضروری ہے.اس مضمون کے اور بہت سے پہلو ہیں مال اور تقویٰ کے تعلق میں جو بیان ہونے والے ہیں باقی انشاء اللہ میں بعد میں بیان کروں گا.اس وقت ایک ضروری معاملہ کے متعلق جماعت کی سامنے بعض باتیں رکھنی چاہتا ہوں.قادیان سے

Page 206

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 194 جب ہجرت ہوئی تو اس وقت ہندوستان کی جماعتوں کی حالت بہت کمزور تھی الا ماشاء اللہ اور قادیان میں بھی آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں تھا.اس وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے یہ تحریک کی کہ ساری دنیا کی جماعتوں پر مرکز اول قادیان کی ذمہ داری ہے اس لئے وہ اس کے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے مالی قربانیاں کریں اور صرف ہندوستان والوں پر یہ ذمہ داری عاید نہیں ہوتی.مختلف ادوار میں اس بیرونی امداد کی مختلف شکلیں بنتی رہیں.یہاں تک کہ بالآخر الا ماشاء اللہ سوائے صدقہ و خیرات کے اور کوئی رقم باہر سے قادیان نہ بھجوائی گئی.یا قربانی کی کھالیں یا صدقہ کی رقوم.اس کے کئی قسم کے نقصانات پہنچے ہیں ان کی تفصیل میں اس وقت جانے کی ضرورت نہیں.جو قادیان کے درویشوں کے نفس کا وقار تھا، ان کی قربانی کی عظمت تھی وہ بھی مجروح ہوئی ان باتوں سے اور ہندوستان کی جماعتوں کی مالی قربانی کے معیار پر بھی برا اثر پڑا.مگر پہلے ایک وقت ایسا تھا جب کہ ہندوستان میں بھی ایسے لوگ موجود تھے جو ان صدقہ وخیرات کے علاوہ بھی جماعت کی بڑی بڑی ضروریات پر خرچ کرنے پر تیار رہتے تھے.گو چند تھے گنتی کے لیکن اس معاملہ میں نمایاں حیثیت رکھنے والے لوگ تھے.اس کے فوائد بھی بہت ہوئے.قادیان کی اور ہندوستان کی جماعتوں کی ضرورتیں بڑی دیر تک ان قربانی کرنے والوں کے ذریعہ پوری ہوتی رہیں.لیکن اللہ تعالی ایک الہی جماعت تیار کرنا چاہتا ہے قربانی کرنے والوں کی.ایک یا دو یا چند آدمیوں کی قربانی سے جماعت کی قربانی کا فرض پورا نہیں ہوتا اور قربانی کا یہ مفہوم کہ ضرورت پوری ہو جائے یہ تو محض دنیاوی مفہوم ہے.دین میں قربانی پیش کرنے کا مفہوم صرف یہ نہیں ہے کہ کوئی اہم ضرورت پوری ہو بلکہ ایک لازمی اثر اس کا یہ ہے کہ جو شخص قربانی کرنے والا ہے اس کا دل پاک اور صاف ہو.اس کا مرتبہ خدا کے نزدیک بلند ہو اور اس کے اندار ایک پاکیزگی پیدا ہو، اس کی روح میں ایک جلا آ جائے اسکے نتیجہ میں.چنانچہ اگر جماعت پوری کی پوری قربانی میں شامل نہ ہو یا اپنے معیار کو بلند نہ کر رہی ہو تو چند آدمیوں کی قربانی چاہے آسمان سے باتیں کر رہی ہو عمومی طور پر جماعت نقصان میں رہے گی.

Page 207

195 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ چنانچہ ان کی اس قربانی کا ایک نقصان عموماً یہ دیکھا گیا کہ ہندوستان کی جماعت کے بہت سارے دوستوں نے یہ سمجھ لیا کہ ضرورتیں تو فلاں صاحب پوری کر رہے ہیں فلاں سیٹھ صاحب کو خدا تعالیٰ توفیق دے رہا ہے، اب ٹھیک ہے ضرورت پوری ہو گئی اب ہمیں کیا ضرورت ہے خواہ مخواہ اپنے بچوں کو تکلیف میں مبتلا کرنے کی.دوسری طرف کچھ شریکے ہوتے ہیں کچھ اور رشک کے مادے یا حسد کے مواجہات ہوتی ہیں.نتیجہ یہ نکلا کہ ان برادریوں میں سے جن میں بڑی قربانی کرنے والے آئے بہت سے لوگ عام قربانی کے معیار سے بھی گر گئے.انہوں نے ان قربانی کرنے والے کی نیکی کا مقابلہ اس طرح شروع کیا کہ اس کے مال تو گندے مال ہیں.یہ جماعت بھی عجیب جماعت ہے پیسے کے پیچھے پڑی ہوئی ہے، یہ نہیں دیکھتی کہ اس شخص کے کتنے نیک اعمال ہیں اس نے پیسہ کس طریق سے حاصل کیا تھا.کتنی ٹیکس کی چوری کی تھی ،کتنی فلاں چوری کی تھی اور کتنی فلاں چوری کی تھی؟ اب جماعت میں نہ اس بات کی استطاعت ہے اور نہ جماعتی روایات کا یہ تقاضا ہے کہ ہر چندہ دینے والے کی نفسی کمزوریوں کی جستجو کرے تجسس کر کے معلوم کرے.جب نظام کے سامنے باتیں آتی ہیں تو نظام ضرور پکڑتا ہے لیکن مالی کمزوریوں میں خصوصاً وہ جو دنیا کے اموال کے روز مرہ کے دستور سے تعلق رکھنے والی کمزوریاں ہیں ان میں نہ کبھی جماعت نے تجسس کیا ہے نہ جماعت کو یہ توفیق ہے کہ تجسس کر سکے اور اس کے پورے تقاضے پورے کرنے کے بعد فیصلہ دے کہ یہ مال حرام ہو گیا اور یہ مال حلال ہو گیا.بہر حال وہ زبانیں کھلنے لگیں اور اعتراض ہونے لگے جو صرف ان افراد تک نہ رہے بلکہ جماعت کے نظام تک پہنچے اور اس قسم کی باتیں شروع ہو گئیں کہ جو روپیہ زیادہ دے دے اس کی عزت ہے اور جو روپیہ نہیں دیتا اس کی عزت نہیں.حالانکہ ایسی باتیں کرنے والے خود ان سب برائیوں میں مبتلا تھے.اگر وہ برائیاں اس شخص میں موجود تھیں.بعینہ ان کے وہی دستور تھے کمانے کے.کوئی فرق نہیں تھا اور کچھ نہ کچھ چندے وہ بھی دیتے تھے.پس اگر زیادہ مالی قربانی مال کمانے کے طریق میں کوتاہیوں کے نتیجہ میں حرام ہو گئی تو تھوڑی کس طرح حلال ہوگی.تو بجائے اس کے کہ رشک کا مقابلہ کرتے ، حسد سے مقابلہ شروع کر دیتے اور کثرت کے ساتھ بعض

Page 208

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 196 خاص گروہوں سے تعلق رکھنے والے لوگ جو تاجر پیشہ تھے ان کے دین کو بھی شدید نقصان پہنچا اور چندوں کے عمومی معیار کو بھی بہت بڑا نقصان پہنچا اور اس کی سزا بھی ان کو ملی ان کی اولادیں ضائع ہونی شروع ہوئیں کیونکہ جو نیکی کی وجہ سے نہیں بلکہ نفس کے حسد کی وجہ سے تنقید کرتا ہے، وہ خود اپنا نقصان کر رہا ہوتا ہے.جس پر تنقید کی جاتی ہے اس میں کمزوریاں بھی ہوں تو خدا تعالیٰ اس سے درگزر کا معاملہ کر لیتا ہے لیکن نفس کی خاطر تنقید کرنے والے کو ہم نے اکثر بچتے ہوئے نہیں دیکھا.جو نفس کی اندرونی خرابیوں کی وجہ سے یا رعونت کی وجہ سے تنقید کرتا ہے اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ان کی اولا دضائع ہو جاتی ہے.چنانچہ یہ نقصان بھی پہنچا.بہر حال اب صورت حال یہ ہے کہ ہندوستان کی جماعتی ضروریات تو بہت تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہیں اور ہندوستان کی جماعتوں میں خدا تعالیٰ کے فضل سے تعداد کے لحاظ سے بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے اور اموال کے لحاظ سے بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہر رنگ میں برکت کا سلوک ہوا ہے.اس کے باوجود ہندوستان کی جماعت اپنے پاؤں پر نہیں کھڑی.یہ سارے جو تاریخی پس منظر میں نے بیان کئے ہیں ان کے بداثرات ایسے پھیلے ہیں اور اب تک ان کا نقصان پہنچ رہا ہے جماعت کو.وہ ساری ضرورتیں جو میں جانتا ہوں کہ جماعت ہندوستان خود پوری کر سکتی ہے وہ دیکھتے ہوئے بھی نہیں کر رہی.چندہ عام کا معیار گر گیا، وصیت کا معیار گر گیا، طوعی چندوں کا معیار گر گیا.تبلیغ کے لئے جو دوسری تحریکات کی جاتی ہیں ان میں رد عمل بالکل مردہ سی کیفیت رکھتا ہے.درویشوں کی ضروریات پوری کرنے کا معیار گر گیا.وہی صدقہ خیرات ہی ہے.صدقہ و خیرات بھیج دو.حالانکہ در ویش تو ہماری سوسائٹی کی روح ہیں.وہ تو اصحاب الصفہ کی تمثیل ہیں.ان کے ساتھ یہ معاملہ کہ صرف صدقہ کی رقم وہاں جائے یہ تو بڑا اندھیر ہے، بڑا ظلم کا معاملہ ہے.اپنے نفس سے ظلم کرنے والی بات ہے.ان کو تو عزت کے ساتھ پیش کرنا چاہئے تھا جو کچھ بھی پیش کرنا چاہئے تھا.اب جو جماعت کی طرف سے فوری ضروریات میرے سامنے آئی ہیں ان میں کچھ تو مقامات مقدسہ کی مرمتیں ہیں.اگر وہ تعمیری مرمتیں پوری نہ کی گئیں عمارتوں سے تعلق رکھنے والی مرمتیں تو بہت سی

Page 209

197 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ یادگار اور بہت ہی مقدس ایسے کمرے یا گھر ہیں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام چلتے پھرتے رہے، جہاں آپ پر الہامات کی بارش ہوئی ، جہاں آپ نے تصنیفات کیں ، جہاں آپ اور ذکر الہی میں مصروف رہے ان کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے.بہشتی مقبرہ ہے اس کی حفاظت کے تقاضے ہیں اور کئی قسم کے ہیں.جو انہوں نے اندازہ لگایا وہ قادیان سے تعلق رکھنے والے اخراجات کا پندرہ لاکھ روپے کا اندازہ تھا اور جو کل سرمایہ انجمن کے ہاتھ میں اس وقت ہر قسم کا روپیا اکٹھا کر کے یعنی اس میں صد سالہ جو بلی کا روپیہ بھی شامل ہے وہ دو تین لاکھ سے زیادہ نہیں بنتا اور اس کے علاوہ دلی میں ایک شاندار مرکز جو ہندوستان کی جماعتوں کے شایان شان ہو اور ضرورتیں پوری کر سکے وہاں بننے والا ہے.کانپور میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ کی طرف رجحان ہے، مخالفت بھی ہے بڑی دیر کے بعد اللہ کے فضل سے وہاں تبلیغ کا غنچہ کھلا ہے اور رونق بنی شروع ہوئی ہے.نئے احمدیوں کے خطوط آ رہے ہیں کہ خدا کے فضل سے ہم قربانی بھی دے رہے ہیں آگے تبلیغ کر رہے ہیں.مگر مرکز کوئی نہیں کہاں بیٹھیں، کس جگہ ہم اجتماع کریں اور بھی بہت سی ضرورتیں ہیں ان کو ملحوظ رکھتے ہوئے میں نے جو اندازہ لگایا تو میرے خیال میں چالیس پچاس لاکھ روپے تک کی ضرورت ہے.مگر میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان کو واپس اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ بیرون ہندوستان عام تحریک نہ کی جائے.اس لئے اس تحریک کی جو میں کرنے لگا ہوں اس کی دو تین صورتیں ہیں جن کو ملحوظ رکھ کر جن لوگوں نے قربانی کرنی ہے وہ قربانی پیش کریں.1.ہندوستان کی جماعتیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کریں اور گذشتہ کوتاہیوں سے اور غفلتوں سے معافی مانگیں اور قربانی کے معیار میں دنیا کی باقی جماعتوں کے ساتھ چلنے کا عزم کرلیں.عزم کریں گے ، دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ توفیق بھی عطا فرما دے گا.میں جانتا ہوں کہ ہندوستان کی جماعتوں میں یہ توفیق ہے کہ اگر چاہیں تو بہت آسانی کے ساتھ یہ معمولی رقم پوری کر سکتے ہیں.بعض شہر ہی یہ رقم پوری کر سکتے ہیں.مگر بہر حال توفیق تو اللہ عطا فرماتا ہے اور یہ دل سے تعلق رکھنے والی چیز ہے.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے.

Page 210

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 198 2.دوسرے درجہ پر وہ لوگ ہیں جو ہندوستان کی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن باہر چلے گئے ہیں مثلاً امریکہ میں ڈاکٹر ہیں دوسرے پیشہ ور ہیں.ابوظہبی ، Middle East وغیرہ میں سعودی عرب کے ملحقہ ممالک میں اور یورپ میں بھی خود انگلستان میں بھی ہیں.اکثر وہ جو ہندوستان کے باشندے باہر گئے ہیں ان کی مالی حالت خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی تبدیل ہو چکی ہے.کوئی نسبت ہی نہیں رہی اس حالت سے جو ہندوستان میں چھوڑ کر آئے تھے اور اگر یہ سارے چاہیں تو چالیس لاکھ کیا سارے چندوں کے علاوہ بھی یہ کروڑوں روپیہ پیش کر سکتے ہیں.بعض ان میں سے ایک ایک شخص پر خدا کا اتنا افضل ہے کہ وہ بلا مبالغہ کروڑ پتی ہو چکے ہیں.اس لئے دوسرے نمبر پران کی ذمہ داری ہے.پہلے میں نے قادیان کو منع کیا تھا کہ وہ براہ راست باہر بسنے والے ہندوستانیوں کو کوئی اپیل نہیں کریں گے.ابھی بھی یہ جاری ہے اس کو میں منسوخ نہیں کر رہا.مگر میں اپیل کر رہا ہوں ان ہندوستان نژاد احمدیوں سے کہ وہ اس مالی قربانی میں آگے آئیں اور ہندوستان کی ساری ضرورتیں پوری کریں.3.اور تیسرے درجے پر میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اگر کوئی انفرادی طور پر یہ حق جتلاے، جماعتی تحریک نہیں ہوگی کہ قادیان کا تعلق ساری دنیا کی جماعتوں سے ہے ہمیں بھی تعلق ہے، ہم اپنے دل کے جذبہ سے مجبور ہو کر انفرادی طور پر حق مانگتے ہیں کہ ہمیں شامل کر لیا جائے تو ایسے شخص کی قربانی کو رد نہیں کیا جائے گا.کسی جماعت کو یہ حق نہیں کہ یہ سمجھے چونکہ عام تحریک ان سے نہیں کی گئی تھی اس لئے ان سے قبول ہی کچھ نہیں کرنا.ان تین اصولوں کے تابع میں اس تحریک کا اعلان کرتا ہوں کہ ہندوستان کی ضرورتوں اور فوری ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے جماعت کو کم از کم چالیس لاکھ رو پیدا کٹھا کرنا چاہئے اور ساتھ یہ بھی آپ کو ضمانت دیتا ہوں کہ ضرورتیں بہر حال پوری ہوں گی.اول تو مجھے یقین ہے انشاء اللہ کہ جس طرح آج تک ہمیشہ خدا نے سلوک فرمایا ہے.تنگی کے باوجود ہر قسم کے حالات کی خرابی کے باوجود جماعت مالی قربانی میں ایسا اعلیٰ معیار دکھاتی ہے کہ عقل ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتی ہے.یقین نہیں

Page 211

199 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ آتا کہ انہی جیبوں میں جن کو بظاہر خالی کر دیا گیا تھا ان سے پھر دوبارہ اللہ تعالیٰ نے یہ خزانے پیدا کر دیئے ہیں.بہر حال خدا کے کام ہیں وہ تو کرے گا.اگر بامر مجبوری یہ رقم پوری نہ ہوئی تو تحریک جدید انجمن احمد یہ ربوہ اور صدر انجمن احمد یہ ربوہ باقی ضرورتیں آسانی سے پوری کر دیں گی میں ضامن ہوں انشاء اللہ تعالیٰ.اس لئے قادیان والے اس کے مطابق اپنے پروگرام بنا ئیں.اپنی ساری ضروریات معین کریں اور بڑی تیزی کے ساتھ ان کو پورا کرنے کی طرف توجہ کریں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے روپیہ مہیا کر دیا جائے گا.خطبات طاہر جلد 5 صفحہ 241 تا 257 ) خدا کے سوا کوئی کسی کو جنتی نہیں بنا سکتا مجلس عرفان منعقدہ 14 ، 19 فروری 1983 نمبرات لجنہ کراچی و غیر از جماعت خواتین کے ساتھ نشست) کراچی کی ایک غیر از جماعت نے سوال کیا کہ آپ کس طرح کہتے ہیں کہ بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے والے سارے جنتی ہیں؟ حضور نے فرمایا: یہ امر واقعہ ہے کہ ہر چیز میں غلو نقصان پہنچاتا ہے.اگر ہم یہ عقیدہ بنائیں کہ بہشتی مقبرہ میں مدفون ہر آدمی جنتی ہو گا تو عملاً یہ عقیدہ بن جائے گا کہ مجلس کار پرداز جو Certificate جاری کرتی ہے وہ گویا جنت کا پروانہ ہوتا ہے.یہ بات درست نہیں ہے.ہم اس پر ہرگز یقین نہیں رکھتے.بہشتی مقبرہ اصل وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آسمان پر قائم کیا جا رہا ہے.تا ہم حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو ) کے میں جو شخص پورے اخلاص سے شامل ہوتا ہے اور اخلاص کے ساتھ اس پر قائم رہتا ہے اور وصیت کی شرائط کو پورا کرتا ہے.ایسے لوگوں کے متعلق ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے متعلق یہ خوشخبری ہے کہ وہ جنتی ہیں.وہ بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے سے محروم بھی رہ جائیں گے.تب بھی جنتی ہوں گے.لیکن اگر کوئی شخص بظاہر اس قربانی کی روح کے ساتھ آگے آتا ہے اور اپنی آمد ہی صحیح نہیں بتاتا اور دنیا کے علم کے مطابق نہیں پکڑا جاتا تو آپ کس طرح کہہ سکتی ہیں کہ وہ بہشتی

Page 212

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 200 ہے.پس یہ نیک اعمال ہیں جو کسی کو بہشتی بناتے ہیں.اس لئے یہ تو ہوسکتا ہے کہ کوئی دھوکا دے کر میں داخل ہو جائے گا لیکن خدا کو وہ Gate Crash نہیں کرسکتا.اس لئے ایسا دعویٰ نہیں کرنا چاہئے ہاں ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے خدا پر حسن ظن رکھتے ہیں.ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ شخص جس کو ساری عمر قربانی کی ایک غیر معمولی توفیق ملی اور اللہ تعالی نے اس کی پردہ پوشی فرمائی.ہم امید کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے مغفرت کا سلوک فرمائے گا اور غالب امید ہے کہ وہ جنت میں جائے گا.لیکن دنیا میں کسی انسان کا فیصلہ خواہ وہ کسی مقام کا بھی ہو جب تک خدا اسے خبر نہ دے دے وہ کسی کو جنتی نہیں بنا سکتا.“ ( حضرت مرزا طاہر احمد امام جماعت احمد یہ عالمگیر کی مجالس عرفان منعقدہ زیر اہتمام لجنہ اماءاللہ کراچی.صفحہ 140,139)

Page 213

201 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ ارشادات حضرت خلیفہ اسیح الخام خلیفہ المسیح الخامس أَيَّدَهُ اللَّهُ تَعَالَى بِنَصْرِهِ الْعَزِيزِ

Page 214

Page 215

203 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ اپنی اور اپنی نسلوں کی زندگیوں کو پاک کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے وصیت کے آسمانی نظام میں شامل ہوں ( جلسہ سالانہ یو کے یکم اگست 2004 ء اختتامی خطاب) انجام بخیر حاصل کرنے کے لئے انتہائی اہم نسخہ : الہی جماعتوں کی یہ نشانی ہے کہ وہ ہر وقت اس کوشش میں ہوتی ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کیا جائے اور کس طرح اس کی خوشنودی حاصل کی جائے...کیونکہ شیطان نے تو برائیوں کو اس قدر خوبصورت کر کے دکھایا ہے کہ آج کل کے معاشرے میں نیکیوں پر چلنا بہت مشکل نظر آتا ہے....جہاں شیطان مختلف رستوں سے بہکاتا ہے وہاں اللہ کے پیارے بھی راہنمائی کرنے والے بھی ہمیں رستے بتاتے رہتے ہیں تا کہ انسان انجام بخیر کی طرف سفر کرتا رہے اور اللہ تعالیٰ کی جنتوں کا وارث ٹھہرے اور ایسی صورت پیدا ہو جائے ایسا وقت آجائے کہ اللہ تعالیٰ کہے فَادُ خُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي ( الفجر: 30-31) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں وہ طریقے بتائے ہیں جن کو میں مختصر بیان کروں گا.اللہ تعالیٰ کا قرب پانے اور انجام بخیر حاصل کرنے کے لئے ایک اور ذریعہ بھی ہے جو تمہیں نیکیوں پر قائم رہنے اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے میں مددگار ہوگا بلکہ انتہائی اہم نسخہ ہے.اس سے اللہ تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے سامان بھی پیدا ہور ہے ہو نگے اور حقوق العباد ادا کرنے کے سامان بھی پیدا ہور ہے ہوں گے اور وہ ہے.اس کی اہمیت کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ :- تمہیں خوشخبری ہو کہ قرب پانے کا میدان خالی ہے.ہر ایک قوم دنیا سے پیار کر رہی ہے اور وہ بات جس سے خدا راضی ہو اُس کی طرف دنیا کو توجہ نہیں.وہ لوگ جو پورے زور سے اس دروازہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں اُن کے لئے موقع ہے کہ اپنے جو ہر دکھلائیں اور خدا سے خاص انعام پاویں.“

Page 216

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 204 پس آپ نے وصیت کا نظام جاری کرتے ہوئے یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ یہ نظام خدا تعالیٰ کا قرب پانے کا ایک ذریعہ ہے اور اس لئے اگر تم چاہتے ہو کہ تمہیں خدا تعالیٰ سے خاص انعام ملے تو اس وو نظام میں شامل ہو جاؤ اور اس دروازے میں داخل ہو جاؤ.ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ : دنیا کے کام کسی نے نہ تو کبھی پورے کئے ہیں اور نہ ہی کرے گا.دنیا دار لوگ نہیں سمجھتے کہ ہم کیوں دنیا میں آئے اور کیوں جائیں گے.کون سمجھا وے جب کہ خدائے تعالیٰ نے نہ سمجھایا ہو.دنیا کے کام کرنا گناہ نہیں مگر مومن وہ ہے جو در حقیقت دین کو مقدم سمجھے اور جس طرح اس ناچیز اور پلید دنیا کی کامیابیوں کے لئے دن رات سوچتا یہاں تک کہ پلنگ پر لیٹے بھی فکر کرتا ہے اور اس کی ناکامی پر سخت رنج اٹھاتا ہے ایسا ہی دین کی غمخواری میں بھی مشغول رہے.دنیا سے دل لگانا بڑا دھوکہ ہے.موت کا ذرا اعتبار نہیں.“ 66 ایک جگہ آپ نے فرمایا...مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر چہارم مکتوب نمبر 9 صفحہ نمبر 73,72 ) ”دنیا کی لذتوں پر فریفتہ مت ہو کہ وہ خدا سے جدا کرتی ہیں.اور خدا کے لئے تلخی کی زندگی اختیار کرو.وہ درد جس سے خدا راضی ہو اُس لذت سے بہتر ہے جس سے خدا ناراض ہو جائے.اور وہ شکست جس سے خدا راضی ہو اُس فتح سے بہتر ہے جو موجب غضب الہی ہو.اُس محبت کو چھوڑ دو جو خدا کے غضب کے قریب کرے.اگر تم صاف دل ہو کر اُس کی طرف آجاؤ تو ہر ایک راہ میں وہ تمہاری مدد کرے گا اور کوئی دشمن تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا.خدا کی رضا کو تم کسی طرح پاہی نہیں سکتے جب تک تم اپنی رضا چھوڑ کر، اپنی لذات چھوڑ کر، اپنی عزت چھوڑ کر، اپنا مال چھوڑ کر، اپنی جان چھوڑ کر اس کی راہ میں وہ تلخی نہ اُٹھاؤ جو موت کا نظارہ تمہارے سامنے پیش کرتی ہے.لیکن اگر تم تلخی اُٹھا لو گے تو ایک پیارے بچے کی طرح خدا کی گود میں آجاؤ گے.اور تم اُن راستبازوں کے وارث کئے جاؤ گے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں.ہر ایک راہ نیکی کی اختیار کرو.نہ معلوم کس راہ سے تم قبول کئے جاؤ.“ الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 308,307

Page 217

205 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ تو یہ وصیت کا جب نظام جاری فرمایا تو اُس وقت کا آپ کا یہ ارشاد ہے.ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا کی آخرت کے مقابلہ میں اتنی حیثیت ہے جتنی کہ تم میں سے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈبوئے اور پھر وہ نکال کر دیکھے کہ اُس پر کتنا پانی لگا ہوا ہے.“ 66 ( ترمذی کتاب الزھد - باب ماجاء في هوان الدنيا على الله) تو جب دنیا کی اتنی بھی حیثیت نہیں ہے تو ہمیں کس قدر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے.جس چیز کے ہم پیچھے پڑے ہوئے ہیں اُس کی تو کوئی حیثیت نہیں اور جو اصل مقصود ہونا چاہیئے اُس کی طرف توجہ ہی نہیں.یہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہی ہے جو انجام بخیر کی طرف لے جاتی ہے....جب وصیت کا نظام شروع کیا اُس وقت 1905ء میں آپ نے یہ رسالہ لکھا تھا اور اس کو لکھنے کی وجہ یہ فرمائی تھی کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ میرا وقت قریب ہے اور اب ایک تو نظام خلافت کا سلسلہ شروع ہوگا جو میرے بعد میرے کاموں کی تکمیل کرے گا.اور دوسرا اس سلسلہ کو چلانے کے لئے ایسے مخلصین جماعت میں پیدا ہوتے رہیں گے جن کا پہلے ذکر آچکا ہے جو روحانیت کے بھی اعلیٰ معیار تک پہنچنے والے ہوں گے اور مالی قربانیوں کو بھی اعلیٰ معیار تک پہنچانے والے ہوں گے.اور ایسے مخلصین جو ہوں گے اُن کی انفرادیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں بہشتی قرار دیا ہے اور اس وجہ سے اُن کا ایک علیحدہ قبرستان بھی ہوگا جہاں اُن کی تدفین ہوگی.اس لئے بہشتی مقبرہ کا قیام عمل میں آیا تھا.پس یہ وہ نظام ہے جو اس زمانے میں خدا تعالیٰ کا قرب پانے کی یقین دہانی کرانے والا نظام ہے.یہ وہ نظام ہے جو دین کی خاطر قربانیاں دینے والی جماعت کا نظام ہے.اور یہ وہ جماعت ہے جو دنیا میں دکھی انسانیت کی خدمت کرتی ہے.پس ہر احمدی ان باتوں کے سننے کے بعد غور کرے اور دیکھے کہ کس قدر فکر سے اور کوشش سے اس نظام میں شامل ہونا چاہیئے.ہماری نیکی کے معیار وہاں تک نہیں پہنچے کہ شرائط کو پورا کر سکیں : بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہماری نیکی کے معیار وہاں تک نہیں پہنچے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس معیار کی شرائط کو پورا کرسکیں تو وہ سن لیں کہ یہ نظام ایک ایسا انقلابی نظام ہے کہ اگر نیک نیتی سے اس میں شامل ہوا جائے اور شامل ہونے کے بعد جیسا کہ آپ نے فرمایا اپنے اندر بہتری کی کوشش

Page 218

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 206 بھی کی جائے تو اس نظام کی برکت سے روحانی تبدیلی جو کئی سالوں کی مسافت ہے وہ دنوں میں اور دنوں کی گھنٹوں میں طے ہو جائے گی.پس اپنی اصلاح کی خاطر بھی اس نظام میں احمد یوں کو شامل ہونا چاہیئے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی اس نظام میں شامل ہونے والوں کے لئے جو دعائیں ہیں اُن سے حصہ لینا چاہیئے.کے قیام پر سو سال اور حضور انور کی خواہش : اس نظام کو قائم کئے 2005ء میں انشاء اللہ تعالیٰ ایک سو سال ہو جائیں گے.جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ 1905ء میں آپ نے اسے جاری فرمایا تھا لیکن جیسا کہ متعدد جگہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس میں شامل ہونے والوں کو خوشخبریاں دے چکے ہیں.آپ نے جماعت پر حسن ظن فرمایا ہے کہ ایسے مومنین ملتے رہیں گے اور ضرور ملتے رہیں گے جو اس طرح اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنی مالی قربانیاں پیش کرنے والے ہوں گے.لیکن جس رفتار سے جماعت کے افراد کو اس نظام میں شامل ہونا چاہیئے تھا نہیں ہورہے.جس سے مجھے فکر بھی پیدا ہوئی ہے اور میں نے سوچا ہے کہ آپ کے سامنے اعداد و شمار بھی رکھوں تو آپ بھی پریشان ہو جائیں گے.وہ اعداد و شمار یہ ہیں کہ آج ننانوے سال پورے ہونے کے بعد بھی تقریباً 1905 ء سے لے کر آج تک صرف اڑ نہیں ہزار کے قریب احمدیوں نے وصیت کی ہے.اگلے سال انشاء اللہ تعالیٰ وصیت کے نظام کو قائم ہوئے سو سال ہو جائیں گے.میری یہ خواہش ہے اور میں یہ تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ اس آسمانی نظام میں اپنی زندگیوں کو پاک کرنے کے لئے اپنی نسلوں کی زندگیوں کو پاک کرنے کے لئے شامل ہوں.آگے آئیں اور اس ایک سال میں کم از کم پندرہ ہزار نئی وصایا ہوجائیں تا کہ کم از کم پچاس ہزار وصایا تو ایسی ہوں کہ جو ہم کہ سکیں کہ سو سال میں ہوئیں.تو ایسے مومن نکلیں کہ کہا جاسکے کہ انہوں نے خدا کے مسیح کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کئے.خلافت احمدیہ کی سوسالہ جوبلی اور حضور انور کی خواہش : پھر بہت سے لوگوں کی طرف سے یہ تجویزیں بھی آئی ہیں کہ 2008ء میں خلافت کو بھی سوسال پورے ہو جائیں گے اس وقت خلافت کی بھی سو سالہ جوبلی منانی چاہیئے تو بہر حال وہ تو ایک کمیٹی کام

Page 219

207 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ کر رہی ہے.وہ کیا کرتے ہیں، رپورٹس دیں گے تو پتہ لگے گا.لیکن میری یہ خواہش ہے کہ 2008ء میں جو خلافت کو قائم ہوئے انشاء اللہ تعالیٰ سو سال ہو جائیں گے تو دنیا کے ہر ملک میں، ہر جماعت میں جو کمانے والے افراد ہیں، جو چندہ دہند ہیں اُن میں سے کم از کم پچاس فیصد تو ایسے ہوں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اس عظیم الشان نظام میں شامل ہو چکے ہوں.اور روحانیت کو بڑھانے کے اور قربانیوں کے یہ اعلیٰ معیار قائم کرنے والے بن چکے ہوں.اور یہ بھی جماعت کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے حضور ایک حقیر سا نذرانہ ہوگا جو جماعت خلافت کے سو سال پورے ہونے پر شکرانے کے طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر رہی ہوگی.اور اس میں جیسا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے ایسے لوگ شامل ہونے چاہئیں جو انجام بالخیر کی فکر کرنے والے اور عبادات بجالانے والے ہیں.خدام الاحمدیہ، انصار الله صف دوم اور لجنہ اماء اللہ کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیئے : جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے اس لئے خدام الاحمدیہ، انصار اللہ صف دوم جو ہے اور لجنہ اماءاللہ کو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیئے.کیونکہ ستر پچھتر سال کی عمر میں پہنچ کر جب قبر میں پاؤں لٹکائے ہوئے ہوں تو اُس وقت وصیت تو بچا کھچا ہی ہے جو پیش کیا جاتا ہے.امید ہے کہ احمدی نو جوان بھی اور خواتین بھی اس میں بھر پور کوشش کریں گے اور اس کے ساتھ ساتھ عورتوں کو خاص طور پر میں کہہ رہا ہوں کہ اپنے ساتھ اپنے خاوندوں اور بچوں کو بھی اس عظیم انقلابی نظام میں شامل کرنے کی کوشش کریں.دنیاوی لحاظ سے بھی اگر اس نظام کی اہمیت کا اندازہ لگانا ہے تو آج سے ساٹھ سال پہلے حضرت مصلح موعود ( اللہ آپ سے راضی ہو) نے ایک تقریر فرمائی جلسے کے موقع پر نظام نو کے نام سے چھپی ہوئی کتاب ہے.اُسے پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہو کہ آج کل دنیا کے ازموں اور مختلف نظاموں کے جو نعرے لگائے جارہے ہیں وہ سب کھو کھلے ہیں.اور اگر اس زمانے میں کوئی انقلابی نظام ہے جو دنیا کی تسکین کا باعث بن سکتا ہے، جو روح کی تسکین کا باعث بن سکتا ہے، جو انسانیت کی خدمت کرنے کا دعویٰ حقیقت میں کر سکتا ہے تو وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا پیش کردہ ہی ہے.

Page 220

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 208 اس نظام کی قدر نہ کرنے والوں کو حضرت مسیح موعود کا انذار: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس نظام کی قدر نہ کرنے والوں کو انذار بھی بہت فرمایا ہے، ڈرایا بھی بہت ہے.آپ فرماتے ہیں کہ: بلا شبہ اُس نے ارادہ کیا ہے کہ اس انتظام سے منافق اور مومن میں تمیز کرے.اور ہم خود محسوس کرتے ہیں کہ جو لوگ اس الہی انتظام پر اطلاع پا کر بلا توقف اس فکر میں پڑتے ہیں کہ دسواں حصہ گل جائیداد کا خدا کی راہ میں دیں بلکہ اس سے زیادہ اپنا جوش دکھلاتے ہیں وہ اپنی ایمانداری پر مہر لگا دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الم أَحَسِبَ الناسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُو المَـــا وَهُمْ لَا يفتتون (العنكبوت : 2-3 ) کیا لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ میں اسی قدر پر راضی ہو جاؤں کہ وہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لائے اور ابھی اُن کا امتحان نہ کیا جائے؟ اور یہ امتحان تو کچھ بھی چیز نہیں.صحابہ کا امتحان جانوں کے مطالبہ پر کیا گیا اور انہوں نے اپنے سر خدا کی راہ میں دئے.پھر ایسا گمان کہ کیوں یونہی عام اجازت ہر ایک کو نہ دی جائے کہ وہ اس قبرستان میں دفن کیا جائے کس قدر دور از حقیقت ہے.اگر یہی روا ہو تو خدا تعالیٰ نے ہر ایک زمانہ میں امتحان کی کیوں بنیاد ڈالی؟ وہ ہر ایک زمانہ میں چاہتا 66 رہا ہے کہ خبیث اور طیب میں فرق کر کے دکھلاوے اس لئے اب بھی اُس نے ایسا ہی کیا.“ الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 328,327) فرمایا : یہ بھی یادر ہے کہ بلاؤں کے دن نزدیک ہیں اور ایک سخت زلزلہ جوزمین کو تہ و بالا کر دے گا قریب ہے.پس وہ جو معائنہ عذاب سے پہلے اپنا تارک الدنیا ہونا ثابت کر دیں گے اور نیز یہ بھی ثابت کردیں گے کہ کس طرح انہوں نے میرے حکم کی تعمیل کی خدا کے نزدیک حقیقی مومن وہی ہیں اور اُس کے دفتر میں سابقین اولین لکھے جائیں گے.اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ زمانہ قریب ہے کہ ایک منافق جس نے دنیا سے محبت کر کے اس حکم کو ٹال دیا ہے وہ عذاب کے وقت آہ مار کر کہے گا کہ کاش میں تمام جائیداد کیا منقولہ اور کیا غیر منقولہ خدا کی راہ میں دے دیتا اور اس عذاب سے بیچ جاتا.یادرکھو! کہ اس عذاب کے معائنہ کے بعد ایمان بے سود ہوگا اور صدقہ خیرات محض عبث.دیکھو! میں بہت قریب عذاب کی تمہیں خبر دیتا ہوں.اپنے لئے وہ زاد جلد تر جمع کرو کہ کام آوے.

Page 221

209 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ میں یہ نہیں چاہتا کہ تم سے کوئی مال لوں اور اپنے قبضہ میں کرلوں.بلکہ تم اشاعت دین کے لئے ایک انجمن کے حوالے اپنا مال کرو گے اور بہشتی زندگی پاؤ گے.بہتیرے ایسے ہیں کہ وہ دنیا سے محبت کر کے میرے حکم کو ٹال دیں گے مگر بہت جلد دنیا سے جدا کئے جائیں گے.تب آخری وقت میں کہیں گے.هذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمَنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ رساله الوصیت - روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 329,328 ) پس غور کریں ، فکر کریں.جو سستیاں، کوتاہیاں ہو چکی ہیں اُن پر استغفار کرتے ہوئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جلد از جلد اس نظام میں شامل ہو جائیں.اور اپنے آپ کو بھی بچائیں اور اپنی نسلوں کو بھی بچائیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے بھی حصہ پائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.(الفضل انٹر نیشنل 3 دسمبر و 10 دسمبر 2004ء صفحہ 3,4,9,10) نظام خلافت اور کا بڑا گہرا تعلق ہے.نظام خلافت کے لئے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہیں اور اس کے لئے قربانیاں بھی دیتے چلے جائیں ( خطبه جمعه فرموده 6 اگست 2004 ء بمقام بیت الفتوح یوکے) صاحب حیثیت لوگ سب سے پہلے شکرانے کے طور پر اس نظام میں شامل ہوں : جلسے کی آخری تقریر میں میں نے احباب جماعت کو وصیت کرنے اور اس بابرکت نظام میں شامل ہونے کی طرف بھی توجہ دلائی تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتوں اور احباب جماعت نے ذاتی طور پر بھی اس سلسلہ میں وعدے کئے ہیں اور وعدے آ بھی رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے اور انہیں تو فیق دے کہ وہ اس عہد کو جلد از جلد نبھا سکیں اور جتنی تعداد میں میں نے خواہش کی تھی اس سے بڑھ کر اس بابرکت نظام میں شامل ہوں.بعض دفعہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض اچھے بھلے کھاتے پیتے لوگ ہوتے ہیں جو دوسری جماعتی خدمات میں بعض دفعہ جب ان کو کوئی تحریک کی جائے تو پیش پیش ہوتے ہیں یا کم از کم اتنا ضرور ہوتا ہے کہ جتنا زیادہ سے زیادہ حصہ لے سکتے ہیں

Page 222

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 210 اس میں حصہ لیں لیکن وہ میں شامل ہونے سے محروم ہیں.ان میں سے بھی کئی لوگوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اب اس نظام میں شامل ہوں گے.ایسے صاحب حیثیت لوگوں کو ایسے احمدیوں کو تو سب سے پہلے چھلانگ مار کر آگے آنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضل فرمائے ہیں.ان کے شکرانے کے طور پر ہم اس نظام میں شامل ہوں تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دروازے مزید کھلیں.اللہ تعالیٰ نے جو ان پر نعمتیں نازل فرمائی ہیں ان کا اظہار ہونا چاہئے.یہ بھی ذہنوں اور مالوں کو پاک کرنے کا ذریعہ ہے.اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جس طرح بعض مسلمان کرتے ہیں کہ غلط طریق سے مال کمایا اور پھر بازار میں ٹھنڈے پانی کی سبیل لگادی یا برف ڈلوادی یا مسجد بنوادی یا اس کا کچھ حصہ بنوادیا.یا حج کر آئے اور سمجھ لیا کہ ہمارے ناجائز ذریعے سے کمائے ہوئے مال پاک ہو گئے ہیں.ایسے لوگ تو دین کے ساتھ مذاق کرنے والے ہوتے ہیں.بلکہ یہاں پاک کرنے کے ذریعے سے یہ مطلب ہے کہ پاک ذرائع سے کمائی ہوئی جو دولت ہے اس کو جب پاک مقصد کے لئے خرچ کیا جائے گا تو اس سے تمہارے اندر جہاں روحانی تبدیلیاں پیدا ہوں گی وہاں تمہارے اموال ونفوس میں بے انتہا برکت پڑے گی.جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے دعا کی ہے رسالہ الوصیت میں اور تین دفعہ یہ دعا کی ہے کہ ایسے لوگوں کو جو اس نظام میں شامل ہوں نیک اور پاک لوگوں کی جماعت بنادے.نظام وصيت كواتنا فعال ہوجانا چاہیئے کہ سو سال بعد تقویٰ کے معیار نہ صرف قائم رہیں بلکه بڑه بڑھیں مختصراً آج میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ جہاں جلسے کے بابرکت اختتام پر آپ نے شکرانے کا اظہار کیا اور شکرانے کا اظہار کر رہے ہیں وہاں اس شکرانے کا عملی اظہار بھی کریں کیونکہ جہاں اس نظام میں شامل ہونے والے تقویٰ میں ترقی کریں گے وہاں جماعت کی مضبوطی کا باعث بھی بنیں گے.جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود نے رسالہ الوصیت میں دو باتوں کا ذکر فرمایا ہے کہ ایک تو یہ ہے کہ آپ کی وفات کے بعد نظام خلافت کا اجراء اور دوسرے اپنی وفات پر آپ کو یہ فکر پیدا ہونا کہ

Page 223

211 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ ایسا نظام جاری کیا جائے جس سے افراد جماعت میں تقویٰ بھی پیدا ہو اور اس میں ترقی بھی ہو اور دوسرے مالی قربانی کا بھی ایسا نظام جاری ہو جائے جس سے کھرے اور کھوٹے میں تمیز ہو جائے اور جماعت کی مالی ضروریات بھی باحسن پوری ہو سکیں.اس لئے وصیت کا نظام جاری فرمایا تھا.تو اس لحاظ سے میرے نزدیک میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ نظام خلافت اور کا بڑا گہراتعلق ہے اور ضروری نہیں کہ ضروریات کے تحت پہلے خلفاء جس طرح تحریکات کرتے رہے ہیں، آئندہ بھی اسی طرح مالی تحریکات ہوتی رہیں بلکہ کو اب اتنا فعال ہو جانا چاہیئے کہ سوسال بعد تقویٰ کے معیار بجائے گرنے کے نہ صرف قائم رہیں بلکہ بڑھیں اور اپنے اندر روحانی تبدیلیاں پیدا کرنے والے بھی پیدا ہوتے رہیں اور قربانیاں کرنے والے بھی پیدا ہوتے رہیں.یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والے پیدا ہوتے رہیں.اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے پیدا ہوتے رہیں.جب اس طرح کے معیار قائم ہوں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ خلافت حقہ بھی قائم رہے گی اور جماعتی ضروریات بھی پوری ہوتی رہیں گی.کیونکہ متقیوں کی جماعت کے ساتھ ہی خلافت کا ایک بہت بڑا تعلق ہے.اللہ تعالیٰ جماعت کو اس کی توفیق دے اور ہمیشہ خلافت کی نعمت کا شکر ادا کرنے والے پیدا ہوتے رہیں اور کوئی احمدی بھی ناشکری کرنے والا نہ ہو.کبھی دنیاداری میں اتنے محو نہ ہو جائیں کہ دین کو بھلادیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ بچی راحت دنیا اور دنیا کی چیزوں میں ہرگز نہیں ہے.حقیقت یہی ہے کہ دنیا کے تمام شعبے دیکھ کر بھی انسان سچا اور دانگی سرور حاصل نہیں کر سکتا.تم دیکھتے ہو کہ دولتمند زیادہ مال و دولت رکھنے والے ہر وقت خنداں رہتے ہیں.“ نیز فرمایا کہ: ”مگر ان کی حالت جرب یعنی خارش کے مریض کی سی ہوتی ہے جس کو کھجلانے سے راحت ملتی ہے.کھجلی کا مریض جب کھجلی کرتا ہے تو اس کو بڑا مزا آرہا ہوتا ہے ) لیکن اس خارش کا آخری نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ یہی کہ خون نکل آتا ہے.پس ان دنیوی اور عارضی کا میابیوں پر اس قدرخوش مت ہو کہ حقیقی کامیابی سے دور چلے جاؤ بلکہ ان کامیابیوں کو خداشناسی کا ایک ذریعہ قراردو، اپنی

Page 224

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 212 ہمت اور کوشش پر نازمت کرو اور مت سمجھو کہ ہماری کامیابی کسی قابلیت اور محنت کا نتیجہ ہے.بلکہ یہ سوچو کہ اس رحیم خدا نے جو کبھی کسی کی سچی محنت کو ضائع نہیں کرتا ہے ہماری محنت کو بار آور کیا.“ پھر فرمایا: ” اس لئے واجب اور ضروری ہے کہ ہر کامیابی پر مومن خدا کے حضور سجدات شکر بجالائے کہ اس نے محنت کو اکارت تو نہیں جانے دیا.اس شکر کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خدا تعالیٰ سے محبت بڑھے گی اور ایمان میں ترقی ہوگی اور نہ صرف یہی بلکہ اور بھی کامیابیاں ملیں گی.کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم میری نعمتوں کا شکر کرو گے تو البتہ میں نعمتوں کو زیادہ کروں گا.اور اگر کفران نعمت کرو گے تو یاد رکھو کہ عذاب سخت میں گرفتار ہو گے.اس اصول کو ہمیشہ مد نظر رکھو.مومن کا کام یہ ہے کسی کامیابی پر جو اسے دی جاتی ہے شرمندہ ہوتا ہے اور خدا کی حمد کرتا ہے کہ اس نے اپنا فضل کیا اور اس طرح پر وہ قدم آگے رکھتا ہے اور ہر ابتلاء میں وہ ثابت قدم رہ کر ایمان پاتا ہے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 98-99 جدید ایڈیشن) اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ شکر گزار بندہ بنائے.حضرت اقدس مسیح موعود کی نصائح پر عمل کرنے والا بنائے.تقویٰ کی راہوں پر چلتے ہوئے چھوٹی سے چھوٹی نعمت سے لے کر بڑی بڑی نعمتوں کے ملنے پر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والے بنیں.اس کے شکر گزار رہیں.ہمیشہ عہد شکور بنے رہیں اور.نظام خلافت اور نظام جماعت کے لئے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہیں.اور اس کے لئے قربانیاں بھی دیتے چلے جائیں اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے.الفضل انٹر نیشنل 20 اگست 2004 ، صفحہ 12,11 ) اپنے حسابات صاف رکھیں اور اپنا چند وہ آمد میں سے ساتھ کے ساتھ اداء کرتے رہا کریں ( خطبہ جمعہ فرمودہ 28 مئی 2004ء بمقام گروس گراؤ.جرمنی) خاص طور پر موصی صاحبان کے لئے میں یہاں کہتا ہوں، ان کو تو خاص طور پر اس بارے میں بڑی احتیاط کرنی چاہئے.اس انتظار میں نہ بیٹھے رہیں کہ دفتر ہمارا حساب بھیجے گا یا شعبہ مال یاد کروائے گا تو پھر ہم نے چندہ ادا کرنا ہے کیونکہ پھر یہ بڑھتے بڑھتے اس قدر ہو جاتا ہے کہ پھر دینے میں مشکل پیش آتی ہے.چندے کی ادائیگی میں مشکل پیش آتی ہے.پھر اتنی طاقت ہی نہیں رہتی کہ یکمشت چندہ ادا کر سکیں.اور پھر یہ لکھتے ہیں کہ کچھ رعایت کی جائے اور رعایت کی قسطیں بھی اگر مقرر کی

Page 225

213 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ جائیں تو وہ چھ ماہ سے زیادہ کی تو نہیں ہوسکتیں.اس طرح خاص طور پر موصیان کی وصیت پر زد پڑتی ہے تو پھر ظاہر ہے ان کو تکلیف بھی ہوتی ہے اور پھر اس تکلیف کا اظہار بھی کرتے ہیں.تو اس لئے پہلے ہی چاہئے کہ سوچ سمجھ کر اپنے حسابات صاف رکھیں اور اللہ تعالیٰ سے کئے عہد کو پورا کرنے کی کوشش کریں.اور جب بھی آمد ہو اس آمد میں جو حصہ بھی ہے نکالیں ، موصی صاحبان بھی اور دوسرے کمانے والے بھی جنہوں نے چندہ عام دینا ہے، اپنا چندہ اپنی آمد میں سے ساتھ کے ساتھ ادا کرتے رہا کریں.(روز نامہ الفضل 24 اگست 2004 صفحہ 3 سب سے پہلے مجلس عاملہ کو وصیت کے نظام میں شامل کریں میٹنگ نیشنل مجلس عاملہ سوئٹزر لینڈ (6 ستمبر 2004) : نیشنل مجلس عاملہ سوئٹزرلینڈ کے ساتھ میٹنگ میں حضور انور نے موصیان کی تعداد کا بھی جائزہ لیا اور ہدایت فرمائی کہ سب سے پہلے اپنی مجلس عاملہ کو وصیت کے نظام میں شامل کریں.اس طرح دوسری جماعتوں کے عہدیدار بھی وصیت کے نظام میں شامل ہوں.الفضل انٹر نیشنل 1 اکتوبر 2004 صفحہ 12 ) جب خیال ہو کہ مجھے اس مال کی ضرورت ہے تب قربانی کی جائے (خطبہ جمعہ 10 ستمبر 2004 ء بمقام بیت السلام، برسلز ( جیم ) وصیت کے ضمن میں بھی میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ بعض لوگ جوانی میں یا اچھی عمر میں جب اچھی کمائی ہو رہی ہو ، مال ہو، اس وقت وصیت نہیں کرتے اور بڑھاپے کے وقت جب مرنے کا بالکل قریب وقت ہوتا ہے تو وصیت کے فارم فل (Fill) کرتے ہیں اور شکوہ یہ ہوتا ہے کہ ہماری وصیت منظور نہیں ہوئی تو نیکی جب کرنی ہے تو نیکی کرنے کی عمر یہی ہے کہ اچھے حالات میں نیکی کی جائے جب خیال ہو کہ مجھے اس کی ضرورت ہے تب 1/10 حصہ کی قربانی کی جائے.“ الفضل انٹرنیشنل 24 ستمبر 2004 صفحہ 9،8 )

Page 226

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 214 حضرت مسیح موعود نے اس نظام میں شامل ہونے والوں کے لئے بہت دعائیں کی ہیں جسکو یہ دعائیں لگ جائیں اسکی دنیا بھی سنور جائے گی اور آخرت بھی سالانہ اجتماع مجلس انصاراللہ یو کے 26 ستمبر 2004) میں نے جلسہ کی تقریر کے دوران آخری دنوں میں انصار اللہ کے ذمہ بھی یہ لگایا تھا کہ وہ میں شامل ہونے کی طرف توجہ دیں، اس بارے میں بھی کوشش کریں.ایک بہت بڑی تعداد ہے جو صف دوم کے انصار پر مشتمل ہے.یادرکھیں کہ آپ کی تلقین بھی تبھی کامیاب ہوگی تبھی کارآمد ہوگی جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس نظام میں بھی شامل ہوں گے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس میں شامل ہونے والوں کے لئے بہت دعائیں کی ہوئی ہیں.اور جس کو یہ دعا ئیں لگ جائیں اس کی دنیا بھی سنور جائے گی اور اس کی آخرت بھی سنور جائے گی.پس اس طرف بھی توجہ کریں.اور سب سے پہلے میں یہاں کہوں گا کہ تمام عہدیداران جو ہیں ان کو اس نظام میں شامل ہونا چاہیئے ، نیشنل عاملہ سے لیکر نچلی سے نچلی سطح تک جو بھی عاملہ ہے اس کے لیول تک ہر عاملہ کا ممبر اس نظام میں شامل ہو، تبھی وہ تلقین کرنے کے قابل بھی ہو گا.الفضل انٹر نیشنل 31 دسمبر 2004 صفحہ 4 تحریک جدید کا نظام ، کے لئے ارہاص کے طور پر ہے ( خطبه جمعه فرموده 5 نومبر 2004ء) حضرت مصلح موعود (اللہ آپ سے راضی ہو) نے ایک وقت فرمایا تھا کہ تحریک جدید کا جو نظام ہے، تحریک ہے، یہ کے لئے ارہاص کے طور پر ہے یعنی اس کی وجہ سے بھی مضبوط ہوگا.یہ مالی قربانیوں کی عادت ڈالنے کی بنیاد ہوگی.یہ پیشرو ہے، یہ آگے چلنے والی چیز ہے، اطلاع دینے والا جو ایک دستہ ہوتا ہے اس طرح ہے.لوگوں کو اطلاع دیتا

Page 227

215 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ چلا جائے گا کہ ایک عظیم نظام اس کے پیچھے آرہا ہے یہ کہلائے گا.اور جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ کے ساتھ نظام خلافت کا بھی بڑا گہرا تعلق ہے.اب اس کے ساتھ ہی قربانیوں کے معیار بھی بڑھنے ہیں.تو پہلے قربانیوں کی عادت ڈالنے کے لئے تحریک جدید کا نظام ہی ہے.اور پھر ان قربانیوں کے معیار بڑھنے سے حقوق العباد کے ادا کرنے کے معیار بھی بڑھیں گے.پس جماعتیں اس طرف بھر پور توجہ دیں، خاص طور پر توجہ دیں تا کہ آئندہ بھی مضبوط بنیادوں پر اس قربانی کی وجہ سے قائم ہو.الفضل انٹر نیشنل 19 نومبر 2004 صفحہ 8 جب تک عہد یدار خود وصیت نہیں کریں گے تو دوسروں کو کس طرح کہیں گے میٹنگ نیشنل مجلس عامله خدام الاحمديه فرانس (29دسمبر 2004) : وصیت کے بارہ میں حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کتنے خدام ایسے ہیں جنہوں نے وصیت کی ہے.حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ پہلے اپنی مجلس عاملہ سے شروع کریں.جب تک عہد یدار خود وصیت نہیں کریں گے تو دوسروں کو کس طرح کہیں گے.الفضل انٹر نیشنل 11 فروری 2005 ، صفحہ 11) مجلس عاملہ کے جن ممبران نے ابھی تک وصیت نہیں کی پہلے ان کو وصیت کے نظام میں شامل ہونا چاہیئے میٹنگ نیشنل مجلس عامله كينياء 4 مئی 2005) : حضور انور نے موصیان کی تعداد اور ان کے چندوں کا بھی جائزہ لیا اور ہدایات سے نوازا، نیز فرمایا مجلس عاملہ کے جن ممبران نے ابھی تک وصیت نہیں کی پہلے ان کو وصیت کے نظام میں شامل ہونا چاہیئے.پھر دوسروں کو اس نظام میں شامل کریں.الفضل انٹر نیشنل 27 مئی 2005 صفحہ 16 |

Page 228

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 216 ستیاں ترک کریں اور اس نظام میں شامل ہو جائیں ما بنامه انصار الله وصیت نمبر کے لئے خصوصی پیغام (جون 2005) : میں اپنے انصار بھائیوں اور خاص طور پر صف دوم کے انصار کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس طرف خاص توجہ دیں.وہ انصار جو اپنے دلوں میں ایمان اور اخلاص تو رکھتے ہیں مگر وصیت کے بارہ میں ستی دکھلا رہے ہیں میری ان کو یہ نصیحت ہے کہ وہ اشاعت (دین) کی خاطر اور اپنے نفوس میں نیک اور پاک تبدیلیوں کے لئے وصیت کی طرف جلدی بڑھیں.زندگی بہت مختصر ہے اور نہیں معلوم کہ کس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے بلاوا آ جائے.بعض بڑے مخلصین بغیر وصیت کے نظام میں شامل ہوئے.وفات پا جاتے ہیں اور پھر حسرت پیدا ہوتی ہے کہ کاش یہ بھی مخلصین کے ساتھ مقبرہ موصیان میں دفن کئے جاتے.ہماری جماعت میں سینکڑوں ایسے قربانی کرنے والے ہیں کہ وہ اپنے اموال کے دسویں حصہ سے زیادہ چندہ دیتے ہیں اور مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں مگر وصیت کرنے میں سستی کرتے ہیں.ایسے دوستوں کو میرا یہ پیغام ہے کہ وہ سستیاں ترک کریں اور اس نظام میں شامل ہو جائیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.انصار کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ اپنے گھروں میں اپنی بیویوں اور اپنی اولا دوں کو بھی دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے لئے تیار کریں.اپنے بچوں کی بچپن سے ہی دینی ماحول میں تربیت کریں.نمازوں کی عادت ڈالیں.مالی قربانی کا جذبہ ان کے دلوں میں پیدا کریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت اقدس مسیح موعود اور نظام خلافت سے محبت اور اطاعت کا جذبہ ان میں اجاگر کریں.اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ خدا تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوں گے.اپنی نسلوں کو دنیا کے عذاب سے بچانے والے ہوں گے.روز نامه الفضل 13 مارچ 2008 صفحہ 4

Page 229

217 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خصوصی پیغام تمام دنیا کے احمدیوں کے نام ( 21 جولائی 2005 ء بروز جمعرات) پیارے احباب جماعت احمد یہ عالمگیر السلام عليكم ورحمة الله وبركاته الحمد للہ کہ الفضل انٹر نیشنل الوصیت نمبر شائع کر رہی ہے.اللہ کرے کہ اس کے ذریعے سے جماعت کے ہر فرد کو کی اہمیت اور برکات کا علم ہو جائے.اور اُن کے اندر نیک اور پاک تبدیلیاں پیدا ہوں.سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود کے آنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ کے ذریعہ ایک ایسی جماعت قائم ہو جو صرف دنیا پر ہی نہ ٹوٹی پڑے بلکہ اُس کو آخرت کی بھی فکر ہو کہ مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا ہے.اس لئے ایسے اعمال بجالائے جائیں جو خاتمہ بالخیر کی طرف لے جانے والے ہوں.آپ نے اپنی ساری زندگی اس اہم کام میں صرف کی اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے مخلصین کی ایک جماعت تیار کی دسمبر 1905ء میں جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو بار بار یہ خبر دی که قَرُبَ اَحَلُكَ الْمُقَدِّرُ اور آپ کو ایک قبر دکھلائی گئی جو چاندی سے زیادہ چمکتی تھی.اور اسکی تمام مٹی چاندی کی تھی.اور بتایا گیا کہ یہ آپ کی قبر ہے نیز آپ کو ایک اور جگہ دکھلائی گئی جس کا نام بہشتی مقبرہ رکھا گیا تو الہی اشاروں پر آپ کے ذہن میں ایک ایسے قبرستان کی تجویز آئی جو جماعت کے ایسے پاک دل لوگوں کی خواب گاہ ہو جنہوں نے در حقیقت دین کو دنیا پر مقدم کر لیا اور جنہوں نے دنیا کی محبت چھوڑ دی اور خدا کے لئے ہو گئے.اور نیکیوں پر قدم مارنے والے بن گئے.اور ایسی پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کر لی کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کی طرح وفاداری اور صدق کا نمونہ دکھلایا.چنانچہ آپ نے فرمایا کہ: تمام جماعت میں سے اس قبرستان میں وہی مدفون ہوگا جو یہ وصیت کرے جو اُس کی موت کے

Page 230

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 218 بعد دسواں حصہ اُس کے تمام ترکہ کا حسب ہدایت اس سلسلہ کے اشاعت اسلام اور تبلیغ احکام قرآن میں خرچ ہو گا.“ اس طرح آپ نے مالی قربانی کا ایک ایسا اہم نظام جاری فرمایا جو آپ کے ماننے والوں کے لئے تزکیہ نفس کا بھی ذریعہ ہو.اس سے اللہ تعالیٰ کے دین کی اشاعت بھی ہو اور حقوق العباد کے سامان بھی ہوں.جیسا کہ آپ نے فرمایا: ان اموال میں اُن تیموں اور مسکینوں اور نومسلموں کا بھی حق ہوگا.جو کافی طور پر وجو ہ معاش نہیں رکھتے.اور سلسلہ احمدیہ میں داخل ہیں.“ آپ نے اپنی جماعت کے افراد کو اس مالی نظام میں شامل ہونے کی یوں تلقین فرمائی کہ تم اس وصیت کی تعمیل میں میرا ہاتھ بٹاؤ وہ قادر خدا جس نے پیدا کیا ہے دنیا اور آخرت کی مرادیں دے دے گا.پھر آپ نے فرمایا: بلاؤں کے دن نزدیک ہیں اور ایک سخت زلزلہ جو زمین کو تہہ و بالا کر دے گا قریب ہے.پس وہ جو معائنہ عذاب سے پہلے اپنا تارک الدنیا ہونا ثابت کر دیں گے اور نیز یہ ثابت کر دیں گے کہ کسطرح انہوں نے میرے حکم کی تعمیل کی.خدا کے نزدیک حقیقی مومن وہی ہیں اور اسکے دفتر میں سابقین اولین لکھے جائیں گے...میں یہ نہیں چاہتا کہ تم سے کوئی مال لوں اور اپنے قبضہ میں کرلوں بلکہ تم اشاعت دین کے لئے ایک انجمن کے حوالے اپنا مال کرو گے اور بہشتی زندگی پاؤ گے.“ نیز فرمایا: ”خدا کی رضا کو تم کسی طرح پاہی نہیں سکتے جب تک تم اپنی رضا چھوڑ کر، اپنی لذات چھوڑ کر، اپنی عزت چھوڑ کر، اپنا مال چھوڑ کر، اپنی جان چھوڑ کر اُس کی راہ میں وہ تلخی نہ اٹھا لو گے (یعنی اس نظامِ وصیت میں شامل ہو جاؤ گے.اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی دل و جان سے کوشش کرتے رہو گے.) تو ایک پیارے بچے کی طرح خدا کی گود میں آجاؤ گے....اور ہر ایک نعمت کے دروازے تم پر کھولے جائیں گے تمہیں خوشخبری ہو کہ قرب پانے کا میدان خالی ہے.ہرایک قوم دنیا سے پیار کر رہی ہے اور وہ بات جس سے خدا راضی ہو اُس کی طرف دنیا کو توجہ نہیں.وہ لوگ جو

Page 231

219 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ پورے زور سے اس دروازہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں اُن کے لئے موقع ہے کہ اپنے جو ہر دکھلائیں اور خدا سے خاص انعام پاویں.“ پس میرا تمام دنیا کے احمدیوں کے لئے یہ پیغام ہے کہ حضرت مسیح موعود کے ان ارشادات کی روشنی میں ، آپ کی خواہشات کے تابع آگے بڑھیں اور مالی قربانی کے اس نظام میں شامل ہو جائیں.اپنی اصلاح کی خاطر اور اپنے انجام بالخیر کی خاطر اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے قدم آگے بڑھائیں اور اُس کی جنتوں کے وارث بنیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ان برگزیدہ لوگوں کی قبریں بھی دکھائی گئیں جو اس نظام میں شامل ہو کر بہشتی ہو چکے ہیں.خدا نے آپ کو فر مایا کہ یہ بہشتی مقبرہ ہے.بلکہ یہ بھی فرمایا کہ انزِلَ فِيهَا كُلُّ رَحْمَةٍ یعنی ہر ایک قسم کی رحمت اس قبرستان میں اُتاری گئی ہے.پس جیسا کہ میں نے کہا ہے اس نظام میں پوری مستعدی کے ساتھ شامل ہوں.جو خود شامل ہیں وہ اپنے بیوی بچوں کو اور دوسرے عزیزوں کو بھی اس میں شامل کرنے کی کوشش کریں.اور خدا کے مسیح کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کریں.میں اپنی اس خواہش کا اظہار پہلے بھی ایک موقع پر کر چکا ہوں کہ 2008 میں جب خلافت احمدیہ کو قائم ہوئے انشاء اللہ 100 سال پورے ہو جائیں گے تو دنیا کے ہر ملک میں، ہر جماعت میں جو کمانے والے افراد ہیں جو چندہ دہند ہیں اُن میں سے کم از کم 150 ایسے ہوں جو حضرت اقدس مسیح موعود کے اس عظیم الشان نظام میں شامل ہو چکے ہوں اور یہ افراد جماعت کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے حضور ایک حقیر سا نذرانہ ہوگا.جو جماعت خلافت کے سوسال پورے ہونے پر شکرانے کے طور اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر رہی ہوگی.یہ بھی یا درکھیں کہ کا نظامِ خلافت کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی وفات کی خبروں پر جہاں جماعت کی تربیت کی فکر پیدا ہوئی اور آپ نے مالی قربانی کے نظام کو جاری فرمایا وہاں آپ نے جماعت کو یہ خوشخبری بھی دی کہ میری وفات کی خبروں سے غمگین مت ہو کیونکہ خدا تعالیٰ اس سلسلہ کو ضائع نہیں کرے گا.بلکہ ایک دوسری قدرت کا ہاتھ سب کو تھام لے گا.

Page 232

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 220 آپ نے فرمایا: تم میری اس بات سے غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جا ئیں کیونکہ تمہارے لئے ہوجائیں دوسری قدرت کا دیکھنا بھی ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے.کیونکہ وہ دائمی ہے.جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.“ پس رسالہ الوصیت میں نظام خلافت کی پیشگوئی فرمانا یہ ثابت کرتا ہے کہ ان دو نظاموں کا آپس میں گہرا تعلق ہے.اور جس طرح میں شامل ہو کر انسان تقویٰ کے اعلیٰ معیار اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے اسی طرح خلافت احمدیہ کی اطاعت کا جو آگر دن پر رکھنے سے اس کی روحانی زندگی کی بقاممکن ہے.مالی قربانی کا نظام بھی خلافت کے بابرکت سائے میں ہی مضبوط ہو سکتا ہے.پس جب تک خلافت قائم رہے گی جماعت کی مالی قربانیوں کے معیار بڑھتے رہیں گے.اور دین بھی ترقی کرتا چلا جائیگا.پس میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ان دونوں نظاموں سے وابستہ رکھے جو ابھی تک نظامِ وصیت میں شامل نہیں ہوئے اللہ تعالیٰ اُن کو بھی توفیق عطا فرمائے کہ وہ اس میں حصہ لے کر دینی اور دنیوی برکات سے مالا مال ہو سکیں اور اللہ کرے کہ ہر احمدی ہمیشہ نظام خلافت سے اخلاص اور وفا کا تعلق قائم رکھے اور خلافت کی بقا کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے.اور اپنی تمام تر ترقیات کے لئے خلافت کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھے اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اپنی ذمہ داریاں سمجھنے اور اُن کو پورا کرنے کی توفیق دے اور سب کو اپنی رضا کی راہوں پر چلاتے ہوئے ہم سب کا انجام بالخیر فرمائے.( آمین ) والسلام خاکسار مرزا مسرور احمد خلیفة اصیح الخامس الفضل انٹر نیشنل 29 جولائی 2005 صفحہ 2,1)

Page 233

221 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ ایک سال میں 16148 نئے موصیان کی درخواستیں مرکز میں پہنچ چکی ہیں (جلسہ سالانہ یو کے 2005 ء دوسرے دن کا خطاب) میں نے گزشتہ سال تحریک کی تھی کہ مزید 15 ہزار وصیتیں ایک سال میں ہو جائیں اور کم از کم 50 ہزار افراد اس عظیم الشان روحانی نظام میں منسلک ہو جائیں.الحمد للہ.اب تک مرکز میں 16148 نئے موصیان کے فارمز پہنچ چکے ہیں.مربيار مربیان سارے وصیت کریں ملاقات 3 اگست : 2005 الفضل انٹر نیشنل 19 اگست 2005 صفحه 2 جن مربیان کی وصیت نہیں ہے وہ سارے وصیت کریں.چونکہ مربی نے وصیت کی طرف دوست احباب کو راغب کرنا ہوتا ہے اس لئے وصیت ہوگی تو لوگوں کو وصیت کے نظام سے منسلک ہونے کی تلقین کر سکتا ہے.روزنامه الفضل 13 مارچ 2008 صفحہ 4 موسی ذیلی تنظیموں کا چندہ بھی باقاعدہ ادا کیا کریں میٹنگ نیشنل مجلس عامله انصار الله جرمنی (31 اگست 2005) : جو موصی ہے اس کو سمجھانا چاہئے کہ وصیت کرنے کے بعد تم نے اعلیٰ معیار کی قربانی کا وعدہ کیا ہے.ایک عہد کیا ہے.جو موصی نہیں ہیں ان کو بھی سمجھاتے رہنا چاہئے کہ یہ چندہ بھی جماعت کی طرف سے مقرر شدہ ہے.ذیلی تنظیموں کا بھی مقرر شدہ ہے اس کو بھی باقاعدہ ادا کرو.الفضل انٹرنیشنل 7 اکتوبر 2005 صفحه 12 موسیان کی تعداد بڑھائیں تو تربیت بھی ہو جائے گی میٹنگ نیشنل مجلس عامله جرمنی (4 ستمبر 2005) : حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ آپ موصیان کی تعداد بڑھائیں آپ کے مسائل ختم ہو جائیں گے.تربیت بھی

Page 234

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 222 ہو جائے گی.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا وصیت میں مردوں کی تعداد بڑھائیں.الفضل انٹر نیشنل 14 اکتوبر 2005 صفحه 10 تربیت اور اصلاح کیلئے موصیوں کی تعداد بڑھائیں میٹنگ نیشنل مجلس عاملہ ڈنمارک (11 ستمبر 2005) : سیکرٹری وصیت کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ جو مرد زیادہ کماتے ہیں ان کو توجہ دلائیں کہ وہ وصیت کے نظام میں شامل ہوں.حضور انور نے فرمایا تربیت اور اصلاح کے لئے موصوں کی تعداد بڑھائیں.الفضل انٹرنیشنل 21 اکتوبر 2005، صفحه 12 آگے بڑھیں ! اس پاک نظام میں شامل ہونے کی کوشش کریں خدا کے مسیح کی آواز پر لبیک کہیں (جلسه سالانه قادیان 26 دسمبر 2005 ء افتتاحی خطاب ) آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے قادیان کے 114 ویں جلسہ سالانہ کا آغاز ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ اس جلسہ کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور شامل ہونے والوں کو اُس مقصد کو حاصل کرنے والا بنائے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس جلسہ کا آغا ز فرمایا تھا.اور تمام شاملین کو اُن تمام دعاؤں کا وارث بنائے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس جلسہ میں شامل ہونے والوں کے لئے کیں ہیں...حضور انور نے فرمایا کہ گزشتہ سال.U.K کے جلسہ سالانہ میں میں نے تحریک کی تھی کہ وصیت کی اس مبارک تحریک میں حصہ لیں اور اس پاک نظام میں اپنی اور اپنی نسلوں کی زندگی پاک کرنے کے لئے شامل ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کے وارث بنیں.میں نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا تھا کہ سوسال پورے ہونے پر کم از کم پچاس ہزار موصیان ہو جائیں.اس کا مطلب یہ تھا کہ اُس وقت جو تعداد تھی اس میں تقریباً پندرہ ہزار اور شامل ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے U.K کے جلسہ تک درخواست دہندگان کی تعداد پوری ہوگئی تھی.سو سال تو آج دسمبر میں پورے ہورہے ہیں لیکن جو مجلس کارپرداز پاکستان کو درخواستیں پہنچی ہیں وہ تقریبا ساڑھے سترہ ہزار

Page 235

223 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ ہیں.میں نے پندرہ ہزار کہا تھا.ابھی بہت سے وصیت فارم جماعتوں میں پڑے ہوئے ہیں.اور میرے خیال میں اس سے کہیں زیادہ درخواستیں آچکی ہیں جتنا کار پرداز کا خیال ہے.بہر حال جماعت نے اس تحریک پر لبیک کہتے ہوئے توجہ دی.حضور نے فرمایا: اب اگلا ٹارگٹ تھا کہ اس وقت جو کمانے والے ہیں یا 2008 ء تک جو بھی کمانے والے ہوں گے اس کا پچاس فیصد میں شامل کرنا ہے.انشاء اللہ حضور نے فرمایا: بعض چھوٹی چھوٹی جماعتوں نے یہ ٹارگٹ حاصل بھی کرلیا ہے.اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس نظام کو افراد جماعت سمجھنے لگ گئے ہیں.اور اپنے تقویٰ کے معیار کو بڑھانے کی کوشش میں لگ گئے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ آج سے سو سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس نظام کا اعلان اس شہر میں فرمایا تھا اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور اس کی تقدیر کے تحت ہی اس شہر سے میں آپ کو اگلا ٹارگٹ جس کی گزشتہ سال تحریک کی گئی تھی اس کی طرف توجہ دلا رہا ہوں.حضور انور نے فرمایا کہ : بہت سارے لوگ لکھتے ہیں کہ ہم اس فکر میں تو ہیں کہ وصیت کر لیں لیکن اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتے.حضور انور نے فرمایا: یاد رکھیں کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو دعائیں پڑھی ہیں یہ اس لئے پڑھ کر سنائی ہیں کہ جب نیک نیتی کے ساتھ اس نظام میں وابستہ ہوں گے تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کے طفیل آپ کو اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی طرف توجہ ہوگی.پس آگے بڑھیں اور اس پاک نظام میں شامل ہونے کی کوشش کریں.خدا کے مسیح کی آواز پر لبیک کہیں اور اُن حقوق کی ادائیگی کے معیار حاصل کرتے جائیں جن کی طرف تقویٰ کی راہوں پر چلتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے توجہ دلائی ہے.حضور نے فرمایا: بہر حال تقویٰ پر چلنے کا عزم اور اسکے لئے دعا ضرور کریں.اللہ کے خوف اور آنکھ کے پانی سے تقویٰ کی جڑوں کو مضبوط کریں اور نیکیوں کی لہلہاتی فصلوں سے اپنی خوبصورتی اور حسن

Page 236

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 224 میں اضافہ کریں.اس رسالہ الوصیت میں حضرت مسیح موعود نے ہمیں یہ خوشخبری بھی دی کہ اگر تم تقویٰ پر قائم رہے.اسکی جڑیں مضبوطی سے تمہارے دلوں میں قائم رہیں تو اسکے رسیلے اور میٹھے پھلوں میں سے ایک نعمت جو خلافت کی نعمت ہے اس کا بھی جماعت میں قیام رہے گا.حضور نے فرمایا کہ: اس نعمت سے بھی اگر فائدہ اٹھانا ہے تو تقویٰ کی جڑوں کو اپنے دلوں میں مضبوط کرنا ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خدا کا وعدہ ہے اور وہ سچے وعدوں والا خدا آج تک اپنے وعدے پورے کرتا آیا ہے اس انعام سے فیض اٹھانے والے انشاء اللہ پیدا ہوتے چلے جائیں گے.لیکن ساتھ ہر ایک کو یہ فکر بھی ہونی چاہیئے کہ تقویٰ سے خالی ہوکر ہم کہیں جڑی بوٹیوں کی طرح جماعت کے اس حسین باغ سے کہیں باہر نہ نکال دیئے جائیں.ہم کہیں اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں نہ آجائیں.اس لئے اللہ نہ کرے کہ کبھی ایسا دن آئے جب کسی احمدی کے دل میں ہدایت کے بعد کسی قسم کی بھی کمی پیدا ہو.اس لئے اپنے ایمانوں کی مضبوطی کے لئے دعائیں مانگتے رہنا چاہیئے.حضور نے فرمایا: مجھے گزشتہ سال کسی نے یہ بھی لکھا تھا کہ ہجری قمری کے لحاظ سے 2005ء میں خلافت کو بھی سو سال پورے ہورہے ہیں.لیکن بہر حال اس لحاظ سے آج وصیت کے نظام کو سو سال پورے ہونے کے علاوہ قمری سال کے لحاظ سے خلافت احمدیہ کو بھی سو سال پورے ہو گئے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائید کا یہ بھی ایک نشان ہے کہ باوجود اس کے کہ پہلے اس لحاظ سے سوچ کر یہاں آنے کا پروگرام نہیں بنا تھا اور باوجود ایسے حالات کے جن کو موافق نہیں کہہ سکتے اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا فرمائے کہ دونوں لحاظ سے صدیوں کے پورا ہونے پر خلیفہ وقت وہاں موجود ہے جہاں سے یہ پیغام دنیا کو دیا گیا تھا، جہاں سے خلافت احمدیہ کا آغاز ہوا تھا.حضور انور نے فرمایا: اللہ کرے جہاں سے دنیا کے مالی نظام فائدہ اٹھانے والے ہوں، جہاں غریبوں ، یتیموں اور بیواؤں کے حقوق قائم ہوں.جہاں محض اور محض خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے حقوق العباد کی ادائیگی ہو.جہاں اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے کے اعلیٰ معیار قائم ہوں

Page 237

225 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ وہاں تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے ہم میں سے ہر ایک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس خوشخبری کا بھی مصداق ٹھہرے کہ میں جب جاؤں گا تو پھر خدا تعالیٰ اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا.جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ براہین احمدیہ میں وعدہ ہے.اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں بلکہ تمہاری ذات کی نسبت وعدہ ہے.جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا.حضور نے فرمایا: پس اے مسیح محمدی کی سرسبز شا خو! خوش ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے روشن تابناک چمکدار مستقبل کی ضمانت دی ہے.پس تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اس سے فیض پاتے چلے جاؤ.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے درخت وجود کی سرسبز اور ثمر دار شاخیں بنتے چلے جاؤ.آج تمام دنیا میں حضرت محمد مصطفی ﷺ کا جھنڈا اس مسیح محمدی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے تم نے لہرانا ہے.آج اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو دنیا میں قائم کرنے کیلئے قربانیوں کے اعلیٰ معیار تم نے قائم کرنے ہیں.ہمارے بزرگوں نے تقویٰ کی جڑ کو اپنے دلوں میں مضبوط کرتے ہوئے یہ سب کچھ حاصل کیا اور انشاء اللہ ہم نے بھی حاصل کرنا ہے تاکہ نسلاً بعد نسل اللہ تعالیٰ کے انعاموں سے حصہ پاتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل اند نیشنل 3 فروری 2006 صفحه 12,11 ) ایک موصی کو تمام تحریکات میں چندے دینے چاہئیں ( خطبه جمعه فرمودہ 31 مارچ 2006ء بمقام بیت الفتوح یوکے) چندوں کے بارہ میں بعض جماعتوں کے بعض استفسار ہوتے ہیں جو بعض لوگوں کی طرف سے ہوتے ہیں جن کے بارے میں سمجھتا ہوں کہ وضاحت کر دوں.ایک تو یہ کہ آج کل وصیت کی طرف بہت توجہ ہے.اور وصیت کی طرف توجہ تو ہو گئی ہے لیکن تربیت کی کافی کمی ہے.اس لئے بعض موصیان یہ سمجھتے ہیں کہ کیونکہ ہم نے وصیت کی ہوئی ہے اس لئے ہم صرف وصیت کا چندہ دیں گے باقی ذیلی تنظیموں کے چندے یا مختلف تحریکات کے چندے ہم پر لاگو نہیں

Page 238

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 226 ہوتے.تو یہ واضح ہو جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ اگر تو حالات ایسے ہوں کہ تمام چندے نہ دے سکتے ہوں تو اس کی اجازت لے لیں.ورنہ توقع ایک موصی سے یہ کی جاتی ہے کہ ایک موصی کا معیار قربانی دوسروں کی نسبت ، غیر موصی کی نسبت زیادہ ہونا چاہیئے.تو اگر وصیت کا صرف کم سے کم 1/10 حصہ دے کر باقی چندے نہیں دے رہے تو ہوسکتا ہے غیر موصی دوسرے چندے شامل کر کے موصیان سے زیادہ قربانی کر رہے ہوں.تو اس لحاظ سے واضح کر دوں کہ کوئی بھی چندہ دینے والا ، چاہے وہ موصی ہیں یا غیر موصی ہیں اگر تو فیق ہے تو تمام تحریکات میں چندے دینے چاہئیں کیونکہ ہر تحریک اپنی اپنی ضرورت کے لحاظ سے بڑی اہم ہے.پھر ایک چیز یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے کہا کہ اصل مقصد چندوں کا اللہ تعالیٰ کا قرب پانا ہے، نہ کہ پیسے اکھٹے کرنا.اس لئے بالکل صحیح طریق سے بغیر کسی چیز کو، اپنی آمد کو چھپائے بغیر ، اپنے بجٹ بنوانے چاہئیں جو کہ سال کے شروع میں جماعتوں میں بنتے ہیں.اور بجٹ بہر حال صحیح آمد پہ بنا چاہیئے.اس کے بعد اگر توفیق نہیں تو چندوں کی چھوٹ لی جاسکتی ہے.الفضل انٹر نیشنل 21 اپریل 2006ء صفحہ 7 میں شامل ہونے والوں کے لئے حضرت مسیح موعود کی بے شمار دعائیں ہیں (خطبہ جمعہ فرمودہ 14 اپریل 2006ء بمقام سڈنی آسٹریلیا) ہمارے تقویٰ کے معیار کو اونچا کرنے اور ہمیشہ جماعت میں اطاعت اور فرمانبرداری کی مثالیں قائم کرنے کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے بعد ایک ایسا انتظام فرمایا جو نظام خلافت کے ذریعے سے ہے.اور اس نظام خلافت کے ساتھ ایک اور بھی نظام تھا.ایک تو فرمانبرداری اور اطاعت کا نظام دوسرے خدا اور رسول کا پیغام پہنچانے کے لئے اور دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے کا اجراء.اور آج سے تقریباً 100 سال پہلے یہ اجراء

Page 239

227 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ ہوا تھا.اور یہ جو وصیت کا نظام آپ نے جاری فرمایا تھا یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق تھا.اور اس نظام میں شامل ہونے والوں کے لئے آپ نے بیشمار دعائیں کی ہیں....اللہ تعالیٰ کے فضل سے دسمبر 2005ء میں حضرت مسیح موعود کے کو جاری ہوئے 100 سال پورے ہوگئے ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا اور 2004 ء کے جلسہ UK میں میں نے تحریک کی تھی کہ 2005ء میں 100 سال پورے ہوں گے تو کم از کم 50 ہزار موصیان ہونے چاہئیں.تو جیسا کہ میں جلسہ سالانہ قادیان میں اعلان کر چکا ہوں کہ اللہ کے فضل سے یہ تعداد پوری ہو چکی ہے بلکہ اس تعداد سے بہت آگے جاچکے ہیں.اب تو جماعتیں اپنا اگلا ٹارگٹ پورا کرنے کی کوشش میں ہیں.لیکن یہاں آپ لوگوں کی دلچسپی کے لئے میں جو بات بتانے لگا ہوں وہ یہ ہے کہ یہاں کی جو تاریخ مرتب ہوئی ہے اس کے مطابق حضرت صوفی صاحب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ بیرون ہندوستان میں شامل ہونے والے اولین موصی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب وصیت کا اعلان فرمایا تو اس کے تین مہینے کے بعد ہی انہوں نے وصیت کر دی تھی اور اس طرح آپ کی وصیت مارچ 1906ء کی ہے.پھر اس لحاظ سے اس ملک میں یعنی اس براعظم میں کے پہلے پھل کو بھی 100 سال ہو گئے ہیں.یہ اپریل کا مہینہ ہے.صرف ایک مہینہ ہی اوپر ہوا ہے.حضرت صوفی صاحب نے یقینا ایک تڑپ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس دروازے میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی.اور یقینا یہ کامیاب کوشش تھی، کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں انجام بخیر ہونے کی خبر الہاما دی تھی.اور آپ یقیناً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کے بھی وارث بنے جو آپ نے اس نظام میں شامل ہونے والوں کے لئے کی ہیں اور بے شمار دعائیں ہیں جو آپ نے کی ہیں کہ اللہ تعالیٰ تقوی میں ترقی دے، ایمان میں ترقی دے، نفاق سے پاک کرے تو یہ صرف اتفاق نہیں ہے.اب میں سمجھتا ہوں 100 سال کے بعد بیرون ہندوستان کے پہلے موصی کے ملک میں یہ میرا دورہ ہے اور اس سے پہلے میں وصیت کرنے کی تحریک بھی کر چکا ہوں.یہاں آنے سے پہلے مجھے علم بھی نہیں تھا کہ یہاں بھی حضرت مسیح موعود کے کا پہلا پھل آج سے 100 سال پہلے لگ

Page 240

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 228 چکا ہے.حضرت مسیح موعود کے زمانے میں یہ پھل لگا اور آج سے پورے 100 سال پہلے ایک ایسا کامیاب پھل تھا جس کی اللہ تعالیٰ نے تسلی بھی کروائی کہ تمہارا انجام بھی بخیر ہوگا.تو کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ بیرون پاکستان اور ہندوستان کی طرف توجہ اس ملک کے احمدیوں کو اس لحاظ سے بھی خاص طور پر کرنی چاہیئے کہ وہ ایک شخص تھا یا چند ایک اشخاص تھے جو یہاں رہتے تھے ان میں سے ایک نے لبیک کہتے ہوئے فوری طور پر وصیت کے نظام میں شمولیت اختیار کی.آج آپ کی تعداد سینکڑوں، ہزاروں میں ہے.اور اللہ تعالیٰ کے فضل بھی بہت زیادہ ہیں.اور 100 سال بعد اور تقریباً اس تاریخ کو 100 سال بھی پورے ہو چکے ہیں اس لئے اس لحاظ سے آپ لوگوں کو جو کمانے والے لوگ ہیں جو اچھے حالات میں رہنے والے لوگ ہیں ان کو اس نظام میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہیئے.اور سب سے پہلے عہدیداران اپنا جائزہ لیں اور امیر صاحب بھی اس بات کا جائزہ لیں کہ 100 فیصد جماعتی عہدیداران اس نظام میں شامل ہوں، چاہے وہ مرکزی عہد یداران ہوں یا مرکزی ذیلی تنظیموں کے عہدیداران ہوں یا مقامی جماعتوں کے عہد یداران ہوں یا مقامی ذیلی تنظیموں کے عہدیداران ہوں.گو کہ اللہ کے فضل سے مجھے بتایا گیا کہ یہاں موصیان کی تعداد کافی اچھی ہے لیکن حضرت صوفی صاحب کے حالات پڑھ کر جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ یہاں کا ہر احمدی موصی ہو اور تقویٰ پر قدم مارنے والا ہو.ید ایسا با برکت نظام ہے جو دلوں کو پاک کرنے والا نظام ہے.اس میں شامل ہو کے انسان اپنے اندر تبدیلیاں محسوس کرتا ہے.اب سالو من آئی لینڈز (Soloman Islands) میں وہاں کے ایک نئے احمدی ہیں، انہوں نے بھی وصیت کی ہے تو جس طرح نئے آنے والے اخلاص و وفا میں بڑھ رہے ہیں اور انشاء اللہ بڑھیں گے ان لوگوں کو دیکھ کر آپ لوگوں کو بھی فکر ہونی چاہیئے کہ کہیں یہ پرانے احمدیوں کو پیچھے نہ چھوڑ جائیں.الفضل انٹر نیشنل 5 مئی 2006 ء صفحہ 8,7 )

Page 241

229 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ سیکرٹری وصایا کو جذباتی نہیں ہونا چاہئے تسلی دینے والا ہونا چاہئے میٹنگ نیشنل مجلس عاملہ آسٹریلیا (18 اپریل 2006) : سیکرٹری وصیت سے حضور انور نے موصیان کی تعداد کے بارہ میں دریافت فرمایا.حضور انور نے فرمایا جو با قاعدہ کمانے والے ہیں ان کے پچاس فیصد کو آپ نے وصیت کے نظام میں شامل کرنا ہے.اس ٹارگٹ کو مدنظر رکھیں.حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ سیکرٹری وصایا کو جذباتی نہیں ہونا چاہئے.تسلی دینے والا ہونا چاہئے.مرکز میں وصیت کا پراسس ہوتا ہے اس میں کچھ وقت لگتا ہے.اس لئے احباب کو تسلی دیا کریں.الفضل انٹرنیشنل 26 رمئی 2006 صفحہ 12 | تمام سیکرٹریان وصایا موصی ہونے چاہئیں میٹنگ نیشنل مجلس عامله نائجیریا 5 مئی 2006) : حضور انور نے سیکرٹری وصایا سے دریافت فرمایا کہ گزشتہ تین سالوں میں کل کتنے موصی ہوئے ہیں.سیکرٹری وصایا نے بتایا کہ دو ہزار سے زائد ہیں.حضور کے دریافت کرنے پر بتایا گیا کہ کل چندہ دہندگان 22 ہزار سے زائد ہیں اور گیارہ ہزار کا ٹارگٹ موصی بنانے کا ہے.حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ بہت بڑا ٹارگٹ ہے اور وقت ختم ہو رہا ہے.آپ بہت پیچھے ہیں.سب سیکرٹریان کو ہدایت دیں اور زیادہ کوشش کریں.آپ کے تمام سیکرٹریان وصایا موصی ہونے چاہئیں.اگر کہیں سیکرٹری وصایا غیر موصی ہے تو اس کی جگہ موصی کو سیکر ٹری وصایا مقرر کیا جائے.اگر کسی جماعت میں صرف ایک ہی موصی ہے تو اس کو سیکرٹری وصایا ہونا چاہئے.جو انسان خود موصی نہیں وہ دوسرے کو کیسے کہہ سکتا ہے کہ وصیت کریں.الفضل انٹرنیشنل 11 جولائی 2008 صفحہ 16 | موصیان سے متعلق متفرق ہدایات و نصائح میٹنگ نیشنل مجلس عاملہ جاپان (13 مئی 2006) : حضور انور نے ہدایت فرمائی ساری عاملہ پہلے خود موصی بنے ، نمازوں کی حفاظت کرنے والی

Page 242

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 230 ہو.قرآن کریم پڑھنے والی ہو اور وصیت کرنے والی ہو.حضور انور نے فرمایا اگر کوئی موصی اپنی انکم سے کم دیتا ہے تو وہ موصی نہیں رہ سکتا.اسی طرح اگر کوئی موسی چھ ماہ سے زیادہ بقایا دار ہے تو وہ موصی نہیں رہ سکتا.اسی طرح کوئی موصی جس کو تعزیر ہو وہ موصی نہیں رہ سکتا.حضور انور نے ہدایت فرمائی موصیان کا حساب با قاعدہ ربوہ بھجوائیں اور اب اس میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے اور یہ حساب ریگولر جانا چاہئے.حضور انور نے فرمایا آپ کے چندوں میں بے برکتی اس لئے پڑ رہی ہے کہ آپس میں اتفاق نہیں ہے ایک دوسرے کا احترام نہیں ہے.حضور انور نے فرمایا کہ چندہ کے بارہ میں سمجھا ئیں کہ یہ ٹیکس نہیں ہے.خدا کی خاطر دے رہے ہو.ان کی اپنی تربیت کے لئے ہے، ان کو پتہ ہونا چاہئے کہ خدا کی خاطر دینا ہے.اس لئے چندہ کی ادائیگی میں اور اپنی آمد ظاہر کرنے میں غلط بیانی نہ کریں.الفضل انٹرنیشنل 30 جون 2006 صفحہ 13 | پڑھی لکھی لڑکیوں میں وصیت کرنے کی روح پیدا کریں میٹنگ نیشنل مجلس عامله لجنه اماء الله جرمنی (9جون 2006) : وصیتوں کا جائزہ لیتے ہوئے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ عموماً یہاں پر لجنات نہیں کما تیں.جو کام کرتی ہیں اور ان کا کام بھی مناسب ہے انہیں وصیت کی تحریک کریں.اگر کوئی میکڈونلڈ میں سور کے برگر بناتی ہو ایسی عورتوں کو تحریک کرنے کی ضرورت نہیں.فرمایا جو پڑھی لکھی لڑکیاں ہیں ان میں وصیت کرنے کی روح پیدا کریں.16-15 سال کی عمر میں وصیت ہوسکتی ہے پھر 18 سال کی عمر میں وہ اسے renew کرسکتی ہیں.الفضل انٹر نیشنل 07 جولائی 2006 صفحہ 9 جو میں شامل ہے اسے عہد یدار بنا ئیں ہے وہ پابند نہیں کہ ضرور وصیت کرے.پھر آپ بھی پابند نہیں کہ اسے عہد یدار بنا ئیں میٹنگ نیشنل مجلس عامله لجنه اماء الله جرمنی (25 دسمبر 2006) : عہد یداران کا پردہ بہر حال صحیح ہونا چاہئے.یو کے کی لجنہ کو میں نے کہہ دیا ہے کہ جو اسلامی احکامات

Page 243

231 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ پر عمل کرنے والی اور موصیہ ہو، اسے عہد یدار بنا ئیں.وصیت اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے مومن اور منافق میں فرق کی علامت قرار دیا ہے اور حضرت خلیفتہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اس موضوع پر باقاعدہ ایک تقریر بھی فرمائی تھی.آپ عہد یداران کو وصیت کی تحریک ضرور کریں.ٹھیک ہے وہ پابند نہیں ہے کہ ضرور وصیت کرے لیکن پھر آپ بھی پابند نہیں ہیں کہ اسے عہد یدار بنا ئیں.اس لئے کہ اس نے گریجوایشن کی ہوئی ہے اور وہ عقل کی باتیں کر لیتی ہے.اس کی بجائے اسے عہد یدار بنائیں جو اسلامی احکامات پر عمل پیرا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کے بعد آپ کے جاری کردہ میں بھی شامل ہے تو گو وہ کچھ کم پڑھی ہوئی ہے اسے عہد یدار بنا ئیں.الفضل انٹر نیشنل 19 جنوری 2007 صفحہ 13 ) جائزہ لیں کہ میں شمولیت کے بعد تربیت اور جماعتی تعاون میں کیا فرق پڑا میٹنگ نیشنل مجلس عامله خدام الاحمدیه جرمنی (25 دسمبر 2006) : جو افراد وصیت کرتے ہیں ، ان سے مل کر یہ جائزہ لیں کہ اس نظام میں شمولیت کے بعد ان کی طبیعت ، تربیت اور جماعتی تعاون میں کیا فرق پڑا ہے.پھر ان باتوں سے دوسرے خدام کو آگاہ کر کے انہیں بھی اس نظام میں شامل کرنے کی کوشش کریں.الفضل انٹر نیشنل 19 جنوری 2007 صفحہ 13 ) اللہ تعالی کے فضل سے وصیتوں کی تعداد بڑھ رہی ہے (جلسہ سالانہ یو کے 2007 ء دوسرے دن کا خطاب) حضور انور نے فرمایا کہ 2004ء میں میں نے بتایا تھا کہ 38000 ہزار وصیتیں ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک آخری مسل 71 ہزار 700 کی ہو چکی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے

Page 244

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 232 وصیتوں کی تعداد بڑھ رہی ہے.ہر لحاظ سے مالی قربانی میں بھی جماعت آگے سے آگے بڑھ رہی ہے.الفضل انٹرنیشنل 31 اگست 2007 صفحه (2) جماعت جرمنی نے چندہ دہندگان کے ٹارگٹ کو حاصل کر لیا ہے جلسہ سالانہ جرمنی 2007 اختتامی خطاب) میں نے آج سے تین سال پہلے وصیت کے بارہ میں بیان کیا تھا کہ نظام خلافت کا وصیت کے نظام سے گہرا تعلق ہے اور جماعت کو تحریک کی تھی کہ چندہ دہندگان کی نصف تعداد کو خلافت جو بلی.پہلے میں شامل کرنے کی کوشش کریں.حضور نے اعلان فرمایا کہ جرمنی کی رپورٹ کے مطابق جماعت جرمنی نے یہ ٹارگٹ پورا کرلیا ہے.شعبہ وصایا کے کام کا جائزہ الفضل انٹرنیشنل 05اکتوبر 2007 صفحہ 8 میٹنگ نیشنل مجلس عامله امریکه (23 جون 2008) : شعبہ وصایا کے کام کا جائزہ لیتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے دریافت کرنے پر سیکرٹری صاحب وصایا نے بتایا کہ موصیوں کی تعداد 1316 ہے اور ابھی بہت سی وصایا ایسی ہیں جو پراسس میں ہیں.حضور انور کے دریافت کرنے پر سیکرٹری صاحب مال نے بتایا کہ چندہ ادا کر نے والے 4225 ہیں.اس پر حضور انور نے سیکرٹری وصایا سے فرمایا کہ آپ ٹارگٹ کے قریب ہیں.سیکرٹری صاحب نے بتایا کہ ہم انشاء اللہ سال کے آخر پر پچاس فیصد کے ہدف کو پہنچ جائیں گے.حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ پچاس فیصد کمانے والے اور چندہ ادا کرنے والوں میں سے ہے.طلباء اور گھر یلو خواتین کو شامل کر کے نہیں ہے.حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ جو 70 سال یا اس کے اوپر کے ہیں ان کو چھوڑ دیں.اگر ساٹھ سال سے کم ہیں ان کو میں

Page 245

233 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ شامل کریں.حضور انور نے دریافت فرمایا کہ جو اس وقت موصی ہیں ان میں طلباء اور گھر یلو خواتین کی تعداد کیا ہے؟ حضور انور کو بتایا گیا کہ 40 فیصد ہے.حضور انور نے ارشاد فرمایا کہ با قاعدہ اس کا بریک ڈاؤن کریں اور معین ریکارڈ ہو.الفضل انٹر نیشنل 15 اگست 2008 صفحه (16) خدا کرے کہ اس سال کے آخر تک تعداد ایک لاکھ تک پہنچ جائے (جلسہ سالانہ یو کے 2008 ء دوسرے دن کا خطاب ) میں نے 2004ء میں وصیت کے نظام میں شامل ہونے کی تحریک کی تھی.اس وقت آخری مسل 38,183 تھی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ رپورٹ جب تیار کی گئی ہے تو اس وقت آخری مسل 88,500 کی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وصیت کے نظام میں پاکستان سے سب سے زیادہ احمدی شامل ہوئے ہیں.پھر دوسرے نمبر پر جرمنی ہے اور تیسرے نمبر پر انڈونیشیا ہے اور جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے خدا کرے کہ اس سال کے آخر تک یہ تعداد ایک لاکھ تک پہنچ جائے.اس کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعتوں کے بجٹ بھی بڑھ گئے ہیں اور غیر معمولی ترقی ہوئی ہے.الفضل انٹر نیشنل 12 ستمبر 2014ء صفحہ 4 اللہ کے فضل سے ایک لاکھ پانچ ہزار تین سوستر وصایا ہو چکی ہیں جب سے وصیت کی ہے بھی بھی اس کا اکاؤنٹ خالی نہیں ہوتا (جلسہ سالانہ یو کے 2009 دوسرے دن کا خطاب) میں شامل ہونے والوں کی تعداد 2004 میں اڑ میں ہزار ایک سو تراسی (38,183) تھی.اور ایک لاکھ جو میں نے خواہش ظاہر کی تھی، اُس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور اب ایک لاکھ پانچ ہزار تین سوستنتر (1,05,377) ہو چکی ہے.اس وقت تک بفضل خدا اٹھانوے (98) ممالک میں قائم ہو چکا ہے اور ان میں سرفہرست تو پاکستان ہے.دوسرے نمبر پر جرمنی ، پھر انڈونیشیا ہے.چوتھے پر نمبر کینیڈا ہے اور پانچویں نمبر پر برطانیہ ہے.

Page 246

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 234 جاوید اقبال ناصر صاحب مبلغ کو سود لکھتے ہیں کہ ہماری جماعت میں ایک دوست رجب حاسانی ہیں، جو اب موصی بھی ہیں اور اس سلسلے میں سیکرٹری مال کی ذمہ داری ان کے پاس ہے.ایک ہسپتال میں کام کرتے تھے اور کسی اچھی نوکری کی تلاش میں تھے.کافی عرصہ تلاش کرنے کے باوجود کسی اچھی جگہ نوکری نہ مل رہی تھی.انہوں نے وصیت کرنے کا ارادہ کیا اور وصیت فارم پر بھی نہ کیا بلکہ صرف چندہ وصیت ہی دینا شروع کیا تھا کہ فوراً ان کو شہر میں ان کی خواہش کے مطابق سروس مل گئی.انہوں نے کئی بار اس کا ذکر کیا کہ یہ صرف وصیت کی برکت اور خلیفہ وقت کی دعاؤں کا نتیجہ ہے.ایک خاص بات جس کا انہوں نے ذکر کیا وہ یہ ہے کہ وصیت کرنے سے قبل تنخواہ لینے جب بنک جاتا تھا تو اکثر اکاونٹ خالی ہوتا تھا.لیکن اب جب سے وصیت کی ہے کبھی بھی اس کا اکاؤنٹ خالی نہیں ہوتا.پس یہ قربانیاں ہیں جو جماعت دے رہی ہے اور اس حقیقت کو سمجھ رہی ہے کہ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے سے ہی اللہ تعالیٰ کا قرب بھی حاصل ہوتا ہے اور دینی اور دنیاوی ترقیات بھی ملتی ہیں.الفضل انٹر نیشنل 15 اگست 2014 ، صفحه 4 صف دوم کے انصار کو وصیت کے نظام میں سو فیصد شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے سالانہ اجتماع مجلس انصاراللہ یو کے 4 اکتوبر 2009ء) پھر ایک بات دین کی خاطر مالی قربانیوں کی ہے.میں پہلے بھی اس طرف توجہ دلا چکا ہوں کہ انصار اللہ کی عمر میں ایک ایسا طبقہ بھی ہوتا ہے جو اپنے پیشہ ورانہ صلاحیتوں یا ہنر کے کمال کو پہنچ چکا ہوتا ہے.اسی طرح اپنی آمدنیوں کے تنخواہوں کے اجرتوں کے جو Maximum سکیل ہوتے ہیں اُن کو حاصل کر رہا ہوتا ہے.اس وجہ سے آپ کی آمدنیوں میں جو ترقی ہے اس میں دین کا حق بھی اپنی قربانی کے معیاروں کو بلند کرتے ہوئے ادا کریں.ایک تو میں نے کہا تھا کہ صف دوم کے جو انصار ہیں وہ میں شامل ہونے کی کوشش کریں.اگر صف دوم کے انصار نے اس طرف توجہ دی ہے اور ان کی اکثریت، بلکہ صف دوم کے

Page 247

235 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ انصار کو تو سو فیصد شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے.اگر تو اکثریت شامل ہو گئی ہے تو الحمد للہ اور اگر کوئی مزید گنجائش ہے تو اسے بھی پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور یہ کوشش مجلس انصار اللہ کی سطح پر ہونی چاہئے....بعض لوگ کہہ دیتے ہیں ہمارے عمل ایسے ہیں کہ ہمیں وصیت کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے.اگر ایسے عمل ہیں تب بھی وصیت کرنی چاہئے.ہو سکتا ہے کہ اس کی بدولت اللہ تعالیٰ ان میں نیکی کی روح پھونک دے بلکہ وصیت کرنے کے بعد بہت سے لوگ ایسے ہیں مجھے لکھتے ہیں کہ خود بخود توجہ پیدا ہوتی چلی جا رہی ہے جو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی وجہ بھی بن رہی ہے، دعاؤں کی طرف توجہ ہو رہی ہے.نمازوں کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ پیدا ہورہی ہے.قربانیوں کے معیار بلند ہورہے ہیں.ستر یا پیچتبر سال کے جو انصار ہوتے ہیں ان میں سے بعض کی وصیت تو مرکز منظور کرتا ہے اور بعضوں کی نہیں کرتا.لیکن صف دوم کے جو انصار ہیں ان کو خاص طور پر اس طرف توجہ کرنی چاہئے.پھر اسی طرح دوسری مالی تحریکات ہیں ان کی طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے.اپنے نام کو دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے مددگار اور ناصر بننے کا اعلان کر رہے ہیں، پھر اپنی قربانیوں کو دیکھیں ، خود اپنے جائزے لیں اور پھر اپنے دل سے فتویٰ لیں کہ کیا ہم انصار اللہ ہونے کا حق ادا کر رہے ہیں.جب خود اپنی سوچ کو اس نہج پر لائیں گے تو مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ ہر ایک کے اندر پاک تبدیلیوں کے اور قربانیوں کے معیار بڑھتے چلے جائیں گے اور جب یہ بڑھیں تو یہی چیز ہے اور من حیث الجماعت، جماعت کی بقا اور ترقی کے سامان کرتی ہے.الفضل انٹر نیشنل 25 دسمبر 2009 صفحہ 8,2 اللہ تعالیٰ ہمیں ہوشیار کر رہا ہے کہ تم دنیا کے کسی کریڈٹ کرنچ کی فکر نہ کرو میرے ساتھ سودا کرتے جاؤ میں انشاء اللہ تمہاری توفیقیں بڑھاتا چلا جاؤں گا (خطبہ جمعہ فرمودہ 6 نومبر 2009ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن) وصیتوں کی تحریک کرنے پر جب جماعت کا وصیت کی طرف رجحان ہوا تو بعض کا خیال تھا کہ باقی

Page 248

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 236 چندوں میں ادا ئیگی کی رفتار شاید اتنی نہ رہے جتنی پہلے تھی.لیکن جیسا کہ ہم نے دیکھا اور کوائف نے ثابت کر دیا کہ چندہ دہندگان کی تعداد میں بھی خوش کن اضافہ ہے اور وصولی میں بھی الحمد لله.جہاں اللہ تعالیٰ کی حمد سے دل بھرتا ہے وہاں اس طرف بھی توجہ جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کاموں میں مزید وسعت بھی انشاء اللہ تعالیٰ پیدا فرمانے والا ہے اور جو پہلے سے انتظام کر رہا ہے اور ہمیں ہوشیار بھی کر رہا ہے.قربانیوں کی طرف بھی مائل کر رہا ہے.جو کام ہمارے سپرد ہیں ، ان میں انشاء اللہ بہت وسعت پیدا ہونے والی ہے اور یہ بھی کہ تم دنیا کے کسی کریڈٹ کرنچ (Credit Crunch) کی فکر نہ کرو.میرے ساتھ سودا کرتے جاؤ میں انشاء اللہ تعالیٰ تمہاری توفیقیں بڑھاتا چلا جاؤں گا.اللہ کرے کہ ہمارے ایمان بھی ان کو دیکھ کر بڑھتے چلے جائیں.ہماری قربانیاں بھی بڑھیں.ہماری ترقی کی رفتار بھی بڑھے اور ہم فتح کے نظارے بھی دیکھنے والے ہوں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحریک جدید کے بارے میں فرمایا تھا کہ یہ وصیت کی ارہاص کے طور پر ہے.وصیت کے لئے ایک بنیادی اینٹ ہے.اس سے وصیت کی طرف بھی توجہ پیدا ہوگی اور قربانی کی طرف بھی توجہ پیدا ہوگی.لیکن جیسا کہ میں نے کہا جہاں جماعت کو وصیت کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے وہاں تحریک جدید میں بھی اضافہ ہوا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ وصیت کرنے والوں کے بچے اور آئندہ جو ہماری نئی نسل آرہی ہے بچپن سے لڑکپن میں یا 7 سال کی عمر میں، اطفال الاحمدیہ میں شامل ہورہے ہیں وہ بھی تحریک جدید میں قربانی کر کے آئندہ کے لئے اپنے آپ کو وصیت کے لئے بھی تیار کر رہے ہیں اور قربانیوں کے لئے بھی تیار کر رہے ہیں.دنیا کہتی ہے اور معیشت دان یہ کہا کرتے ہیں کہ جب معاشی کرائسز آتے ہیں تو غربت کا ایک شیطانی چکر جو ہے وہ شروع ہو جاتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ جنہیں خیر امت بناتا ہے ان کے لئے معاشی کرائسز کے باوجود چندوں میں اضافہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کو سمیٹنے اور نیکیوں کی طرف مائل ہونے کا ذریعہ بنتا ہے اور یوں ہمار ا رحمان خدا ہمیں اپنی رحمت کی آغوش میں لے لیتا ہے اور فـــاسـتـقـبــوا الخیرات کا ادراک ہم میں پیدا ہوتا ہے اور جب تک ہم نیکیوں میں بڑھتے چلے جانے کی سوچ کو

Page 249

237 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ صیقل کرتے چلے جائیں گے، روشن کرتے چلے جائیں گے، چمکاتے چلے جائیں گے، خیر امت کہلانے والے بنے رہیں گے انشاء اللہ.ایک معمولی قربانی کرنے والا غریب آدمی اور ایک بچہ جو چند پیس (Pense) اپنے جیب خرچ میں سے دیتا ہے وہ اس قربانی کی وجہ سے تبلیغ اسلام اور تعمیر مساجد اور نیکیوں کو پھیلانے اور برائیوں کو روکنے میں حصہ دار بنتا چلا جائے گا.اللہ تعالیٰ ہم میں اور ہماری نسلوں میں قربانی کی یہ روح ہمیشہ قائم رکھے اور ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے اس کے انعامات کے وارث بنتے چلے جائیں.الفضل انٹر نیشنل 27 نومبر 2009 صفحہ 8 وصیت ایک ایسی تحریک ہے جس میں سب سے پہلے تقویٰ ہے میٹنگ نيشنل مجلس عامله بيلجيئم (13 دسمبر 2009) : وصیت کے چندہ کی ادائیگی کے بارہ میں سیکرٹری صاحب وصایا کے ایک سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ وصیت ایک ایسی تحریک ہے جس میں سب سے پہلے تقویٰ ہے.ایک موصی کا تقویٰ کا معیارسب سے زیادہ بلند ہونا چاہئے.اگر وہ اللہ کو حاضر ناظر جان کر چندہ دے رہا ہے کہ میرا، اتنا ہی معیار ہے تو پھر اس کے مطابق دے.کم آمد ہے تو کم دے، زیادہ آمد ہے تو زیادہ دے.جو بھی آمد ہے اس پر تقویٰ کے ساتھ دے.چندہ کے بقایا دار ہونے کے لحاظ سے ایک سوال پر حضور نے فرمایا کہ جو چھ ماہ کی شرط ہے یہ ایک انتظامی معاملہ ہے اور عموماً کسانوں وغیرہ کے لئے ہے جن کو فصل آنے پر آمد ہوتی ہے.باقی ہر شخص کو اپنی ماہانہ آمد پر ہر ماہ چندہ ادا کرنا چاہئے.جو مہینے کے مہینے کما رہا ہے اس کو ہر ماہ چندہ دینا چاہئے.جو لازمی ضروری چندے ہیں وہ ہر وقت دینے چاہئیں.چندہ وصیت ہر ماہ نیک نیتی کے ساتھ اپنی آمد پر دینا چاہئے.ایک موصی کے تعلق میں حضور انور کی خدمت میں یہ سوال پیش کیا گیا ہے کہ وہ چھ ماہ کا بقایا دار ہو گیا ہے.حضور نے فرمایا قواعد وصیت پڑھیں.آپ کی طرف سے اب تک مرکز کو اطلاع آجانی چاہئے

Page 250

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 238 تھی کہ اس کی وصیت منسوخ کی جائے.حضور نے فرمایا اگر انکم نہیں ہے تو دو صورتیں ہیں.یہ کہہ کر کہ آج کل آمد نہیں ہے جو بھی گھر کا گزارہ ہے اس میں سے چندہ ادا کیا جائے.یا یہ لکھ دیں کہ میری آمد نہیں ہے میری وصیت منسوخ کر دی جائے اور جب حالات درست ہوں گے تو بحالی کی کوشش کروں گا.تقویٰ اور نیکی کی روح پیدا ہونی چاہئے.ایسا موصی خود لکھ کر دے یا پھر انتظامیہ لکھ کر بھجوائے.چندہ عام میں تو یہ شرط ہے کہ مجبوری کی صورت میں اجازت حاصل کر کے کم ادا کر دو لیکن چندہ وصیت میں ایسی کوئی شرط نہیں ہے.حضور انور نے فرمایا کہ لوگ قرض لے کر خرچ کرتے ہیں لیکن اس پر بھی چندہ وصیت ادا کرتے ہیں.پھر جب ان کی آمد ہوتی ہے تو قرض اتارتے ہیں اور لکھ دیتے ہیں کہ آمد میں سے اتنی رقم قرض اتارنے پر صرف ہوگی اور اس پر چندہ ادا نہیں کروں گا کیونکہ اس پر چندہ پہلے ہی ادا ہو چکا ہے.الفضل انٹر نیشنل 08 جنوری 2010 صفحہ 9 موصی کو ہر وقت اپنا جائز دیتے رہنا چاہئے کہ تقویٰ سے ہٹ کر اپنی کسی آمد کو ظاہر نہ کر کے اللہ تعالی سے کئے گئے عہد میں خیانت تو نہیں کر رہا؟ ( خطبہ جمعہ فرمودہ 8 جنوری 2010ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن ) یہ وصیت کا چندہ ایک ایسا چندہ ہے جو کے جاری ہونے کے ساتھ جاری ہوا.جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ 1905ء میں اللہ تعالیٰ سے حکم پا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو جاری فرمایا اور اس نظام میں شامل ہونے والے ہر شخص کے لئے ضروری قرار دیا کہ وہ 1/10 سے لے کر 1/3 تک اپنی آمد اور جائیداد کی وصیت کر سکتا ہے اور وصیت کرنے کے بعد یہ عہد کرتا ہے کہ میں تا زندگی اپنی آمد کا 1/10 سے 1/3 تک (جو بھی کوئی اپنے حالات کے مطابق خوشی سے شرح مقرر کرتا ہے ) ادا کروں گا.اسی طرح اگر زندگی میں نہ ادا کیا گیا ہوتو مرنے کے بعد بھی جائیداد میں اسی شرح کے اندر رہتے ہوئے جو پیش کی گئی ہو اپنے عہد کے مطابق اس کی ادائیگی

Page 251

239 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ کے لئے اپنے ورثاء کو کہہ کے جاتا ہے اور ہر موصی سے یہی توقع رکھی جاتی ہے اور رکھی جانی چاہئے کہ وہ تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اپنی حقیقی آمد میں سے چندہ ادا کرے اور اس بارہ میں کسی قسم کا عذر نہ کرے اور عموماً موصی نہیں کرتے.پس ہر موصی کو خود بھی ہر وقت اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ کہیں تقویٰ سے ہٹ کر میں اپنی کسی آمد کو چاہے وہ معمولی سی کیوں نہ ہو ظاہر نہ کر کے اللہ تعالیٰ سے کئے عہد میں خیانت تو نہیں کر رہا؟ پس موصیان اور موصیات جماعت میں چندہ دینے والوں کا وہ گروہ ہے جس کے متعلق یہی خیال کیا جاتا ہے کہ وہ تقویٰ کے اعلیٰ معیاروں کے حصول کی کوشش کرنے والے ہیں اور ہر لحاظ سے قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے ہیں جو اپنی آمد اور جائیداد کا ایک حصہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنی خوشی سے پیش کرتے ہیں.نیز اپنے اعمال پر نظر رکھنے والے ہیں اور اس کے لئے کوشش کرنے والے ہیں.اپنی عبادتوں کے معیار بلند تر کرنے کی کوشش کرنے والے ہیں.اپنے اخلاق بہترین رنگ میں سنوارنے کی کوشش کرنے والے ہیں.حقیقی مومن بننے کی طرف ہر طرح سے کوشش کرتے ہوئے قدم بڑھانے والے ہیں.اللہ کرے کہ ہر موصی اسی جذ بہ سے وصیت کرنے والا اور اس کو قائم رکھنے والا ہو.الفضل انٹرنیشنل 29 جنوری 2010ء صفحہ 6,5 جولوگ میں شامل ہیں ان کے ایمان ، اطاعت اور قربانیوں کے معیار بھی ہمیشہ بڑھتے چلے جانے چاہئیں ( خطبہ جمعہ فرمودہ 27 رمئی 2011ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو اور نظام خلافت کو اکٹھا بیان فرمایا ہے تو اس میں ان تمام ضروریات کو پورا کرنے کا بھی ذکر فرمایا ہے اور پھر لوگ جو چندہ دیتے ہیں وہ خلافت کے نظام کی وجہ سے اس اعتماد پر بھی قائم ہیں کہ اُن کا چندہ فضولیات میں ضائع نہیں ہوگا بلکہ ایک نیک مقصد کے لئے استعمال ہوگا.بلکہ غیر از جماعت بھی یہ اعتما در کھتے ہیں کہ اگر ہم زکوۃ احمدیوں کو.

Page 252

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 240 دیں تو اس کا صحیح مصرف ہو گا.....اس کتاب ”رسالہ الوصیت کے آخر میں آپ نے ان تقویٰ شعار لوگوں اور ایمان میں بڑھنے والوں کے لئے جنہوں نے اعلیٰ ترین معیار کے حصول کے لئے کوشش کی اور اس مالی نظام کا حصہ بنے جو آپ نے جاری فرمایا تھا اور جس کا اعلان آپ نے فرمایا تھا کہ جو اپنی آمد اور جائیدادوں کی وصیت کریں گے، اس سے ترقی اسلام اور اشاعت علم قرآن اور کتب دینیہ اور سلسلہ کے واعظوں کے لئے خرچ ہوں گے.آپ نے فرمایا ان اموال میں سے ان خر چوں کے علاوہ ان یتیموں اور مسکینوں اور نومسلموں کا بھی حق ہو گا جو کافی طور پر وجوہ معاش نہیں رکھتے اور سلسلہ احمدیہ میں داخل ہیں.“ رساله الوصیت روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ 319) آپ نے فرمایا کہ مجھے یقین ہے یہ اموال جمع ہوں گے اور کام جاری ہوں گے کیونکہ یہ اُس خدا کا وعدہ ہے جو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے.آپ نے ایسے لوگوں کو جو اس وصیت کے نظام میں شامل ہوں گے اور دین اور مخلوق کی مالی اعانت کریں گے.دعاؤں سے بھی نوازا.یہ وصیت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو مقبرہ موصیان یا بہشتی مقبرے میں دفن ہوں گے فرمایا: ”اے میرے قادر کریم ! اے خدائے غفور و رحیم ! تو صرف ان لوگوں کو اس جگہ قبروں کی جگہ دے جو تیرے اس فرستادہ پر سچا ایمان رکھتے ہیں اور کوئی نفاق اور غرض نفسانی اور بدظنی اپنے اندر نہیں رکھتے اور جیسا کہ حق ایمان اور اطاعت کا ہے بجالاتے ہیں.رساله الوصیت روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ 317) پس جو لوگ میں شامل ہیں اُن کے ایمان، اطاعت اور قربانیوں کے معیار بھی ہمیشہ بڑھتے چلے جانے چاہئیں.انہوں نے ایک عہد کیا ہے.اس لئے وصیت کرنے کے بعد پھر تقویٰ میں بڑھنے کی کوشش بھی پہلے سے زیادہ ہونی چاہئے.خلافت سے وفا کا تعلق بھی پہلے سے بڑھ کر ہونا چاہئے.خدا تعالیٰ ہر احمدی کو اس میں ترقی کرتے چلے جانے کی توفیق عطا فرما تار ہے.نظام خلافت کے انہی وعدوں سے فیض پانے کی ہر احمدی کو تو فیق ملتی رہے تا کہ یہ نظام ہمیشہ جاری

Page 253

241 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ رہے اور ہم اس سے فیض پاتے چلے جائیں.الفضل انٹر نیشنل 17 جون 2011ء صفحہ 7 ، 9 ) سب کو تحریک کریں اور تحریک کرتے چلے جائیں یہ مستقل کام تسلسل کے ساتھ ہونا چاہئے میٹنگ نیشنل مجلس عامله ناروے ( 03 اکتوبر 2011) : حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے وصیت کے حوالہ سے فرمایا کہ نیشنل عاملہ کے ممبران، صدران جماعت، ذیلی تنظیموں کے صدران اور ان کی عاملہ کے ممبران پھر لوکل جماعتوں اور مجالس کی عاملہ سب کو تحریک کریں اور تحریک کرتے چلے جائیں.یہ مستقل کام تسلسل کے ساتھ ہونا چاہئے.باقی کچھ پر اثر ہوگا اور کچھ پر نہیں ہو گا.لیکن ایک وقت آئے گا کہ ان میں بھی احساس پیدا ہو جائے گا.حضور انور نے فرمایا کہ لجنہ میں جو معاون صد ر ہے اس کے سپر د لجنہ وصیت کے حوالہ سے کام سپر دکر سکتی ہے.وصیت کے کام کے لئے مدد لے سکتی ہے.لجنہ تو اپنی طرف سے کوشش کرے گی اور کرتی رہے گی.لیکن جماعتی طور پر تحریک کرنا یہ آپ کا کام ہے...حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بڑی تفصیل کے ساتھ احباب جماعت کی ماہانہ آمدنی اور اس ملک میں کم سے کم ماہانہ آمدنی کا جائزہ لیا اور فرمایا ابھی آپ کے چندہ بڑھانے میں بہت گنجائش ہے.اصل یہ ہے کہ مالی قربانی کی روح پیدا ہو.غلط بیانی پر کسی کو مجبور نہ کریں.ہر ایک کو یہ علم ہونا چاہئے کہ چندہ خدا کی رضا کی خاطر دینا ہے، یہ کوئی ٹیکس نہیں ہے.حضور انور نے فرمایا کہ موصیان کا چندہ سچائی کا معیار ظاہر کر رہا ہے.یہ تربیت کے لحاظ سے بہت اچھی چیز ہے.شرح کے لحاظ سے دینے کا یہی معیار دوسروں کا بھی ہونا چاہئے.الفضل انٹرنیشنل 30 دسمبر 2011ء صفحہ 2) کیا کوئی موصی بینک سے قرض لے سکتا ہے؟ یو نیورسٹیز اور کالجز میں زیر تعلیم احمدی طالبات کی حضور انور کے ساتھ سوال و جواب کی نشست 2 جون 2012ء ) ایک لجنہ نے سوال کیا کہ کیا کوئی موصی بینک سے قرض لے سکتا ہے؟ اس سوال پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بات یہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے کہاں لکھا ہے کہ جو میں شامل نہیں وہ

Page 254

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 242 Bank Loan لے سکتے ہیں؟ اصل چیز تو قرآن ہے.جو چیز منع کی گئی ہے Interest ہے لیکن آج کل جو بینکنگ سسٹم ہے اس میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے جہاں Interest نہ ہو.یہ کپڑے پہنے ہوئے ہیں اس کے اوپر بھی Interest ہے.فیکٹریاں جو کھانا بنا کے دیتی ہیں ان کے او پر بھی Interest ہے.تو ہر نظام اوپر نیچے ہو گیا ہے.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ بینکنگ سٹم کے اوپر سوچنے کی ضرورت ہے اجتہاد کی ضرورت ہے.باقی یہ جو بڑے بڑے لون (Loan) بلا وجہ لے لیتے ہیں مثلائی وی خرید نا ہو تو Loanلے لیا.یہ تو ویسے ہی نا جائز ہے چاہے ہے یا نہیں ہے.گھر کا صوفہ خریدنا ہے، چارسال پرانا ہو گیا ہے تو نیا Interest پر لے کے آگئے.آپ Credit Card کے اوپر چلتے رہتے ہیں اور آخر میں وہی حال ہوتا ہے جو 2008ء کے Credit کرنچ سے ہوا ہے یا اب تک جو چل رہا ہے.اس لئے بلاوجہ Interest پر Loan لینے کی ضرورت نہیں ہے.ہاں بعض ایسی Properties ہیں مثلاً گھر جس میں آپ رہنا چاہتی ہیں، وہ مورگیج پر لے لیتی ہیں اور اس کے لئے آپ اتنی ہی رقم بینک کو Pay کر رہی ہیں، جتنی کرایہ کی کرتی ہیں تو وہ اس لحاظ سے جائز بن جاتا ہے کہ چلو کرائے کے مطابق رقم جارہی ہے.آپ زائد ادا نہیں کر رہیں.مثلاً تیسری دنیا کے ممالک کے بارہ میں ایک ماہر معاشیات نے لکھا ہے: "Born in debt, lives in debt,dies in debt" قرضوں میں ہی چلا جاتا ہے پھر نسلوں پر قرضے آ جاتے ہیں.ایسی صورت حال نہیں ہونی چاہئے.یعنی عیاشیوں کے لئے بلاوجہ قرضے لینے کی ضرورت نہیں ہے.صرف گھر کی حد تک اس لئے کہ Mortgage کا کرایہ چل رہا ہوتا ہے.اتنا دے سکتی ہیں تو ٹھیک ہے.لیکن یہ کہ میں نے کپڑے بنانے ہیں، میں نے صوفہ خریدنا ہے، میری سہیلی کے ہاں نیائی وی آ گیا ہے اب میں نے بھی لینا ہے تو بینک سے Loan لے لوں.یہ نا جائز ہے، غلط ہے، چاہے موصی ہیں یا نہیں.لیکن بہر حال موصی کو دیکھنا چاہئے.تقویٰ کی باریک راہیں تلاش کریں اور اس کے لئے اپنے ضمیر سے فتویٰ لیں کہ یہ جائز ہو رہا ہے یا صرف دنیاوی خواہش ہے.الفضل انٹر نیشنل 24 اگست 2012 صفحه 13

Page 255

243 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ کوششیں کرتے رہیں اور مبلغین سلسلہ سے مدد لیں میٹنگ نیشنل مجلس عامله امریکه (30 جون 2012) : نیشنل سیکرٹری وصایا نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ کمانے والے ممبران کی تعداد 4850 ہے اور موصیان کی مجموعی تعداد 2273 ہے.اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اس تعداد میں ہاؤس وائف اور طالب علم بھی ہیں.اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ ابھی تک کمانے والوں کا پچاس فیصد ٹارگٹ حاصل نہیں کر سکے.نیشنل سیکرٹری وصایا نے بتایا کہ ابھی تک بعض جماعتی عہد یداران نے بھی وصیت نہیں کی.اس پر حضور انور نے فرمایا کہ کوششیں کرتے رہیں اور مبلغین سلسلہ- سے مدد لیں اور ان کو ان کی ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتے رہیں.الفضل انٹر نیشنل 07 ستمبر 2012 ، صفحہ 31 وصیت کی ذمہ داریوں کے حوالہ سے ایک صفحہ تیار کر کے بطور یاد دہانی ہر موصی کو بھجوایا کریں تقویٰ پیدا کریں کہ چندہ صحیح انم پر دیں نيشنل مجلس عامله، مبلغین کرام ریجنل امراء ولوكل امراء جرمنی (15 دسمبر 2012) : نیشنل سیکرٹری وصایا نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دریافت فرمانے پر بتایا کہ جرمنی میں کل کمانے والے 9225 ہیں اور ان میں سے 5510 موصیان ہیں.اس طرح کمانے والوں میں 60 فیصد میں شامل ہو گئے ہیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ ان موصیان کو سرکلر بھیجا کریں کہ وصیت کے ساتھ پانچ وقت کی نمازیں بھی ضروری ہیں.قرآن کریم کی تلاوت بھی ضروری ہے.خطبات سننا اور ان پر عمل کرنا بھی ضروری ہے اور وصیت کے ساتھ جماعت میں اطاعت کا اعلیٰ معیار قائم کرنا بھی ضروری ہے.عاجزی کا اظہار بھی ضروری ہے.پوائنٹس نکال کر سر کلر بنا ئیں اور موصیان کو بھجوائیں.سیکرٹری وصایا نے بتایا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا تھا کہ مجالس موصیان کو فعال کرنا ضروری ہے.اس پر ہم نے کام کیا ہے اور اللہ کے فضل سے تمام جماعتوں میں اجلاس مجلس موصیان

Page 256

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 244 منعقد کئے ہیں.اس کے لئے وہی طریقہ کار اختیار کیا تھا جو حضور انور نے بیان فرمایا تھا.یہاں نیشنل لیول پر ہم ہدایات دیتے رہتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اور خلفاء کی ہدایات پر مشتمل با قاعدہ ایک نصاب تیار کر کے جماعتوں میں بھجواتے ہیں اور پھر وہ وہاں پڑھ کر سناتے ہیں.حضورا نور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ وصیت کی ذمہ داریوں“ کے حوالہ سے ایک صفحہ تیار کر کے بطور یاد دہانی ہر موصی کو بھجوایا کریں.موصیان کے اجلاس میں لجنہ موصیات کی شرکت کے حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اگر لجنہ پردہ کے پیچھے ہیں تو پھر لجنہ بھی اس اجلاس میں بیٹھ سکتی ہیں.سیکرٹری صاحب وصیت نے کہا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا تھا کہ بعض موصیان اپنی اصل آمد پر چندہ وصیت ادا نہیں کرتے تو اس بارہ میں کام کرنے کی ضرورت ہے.اس سلسلہ میں دورہ جات کئے گئے اور 450 موصی احباب سے انفرادی رابطہ کیا گیا.اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے دولاکھ سے زیادہ وصولی ہوئی ہے اور چندہ بڑھا ہے اور ان کا معیار بھی بڑھا ہے.اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آپ نے رپورٹ لکھ کر بھیجی تھی کہ فلاں آدمی کا اتنا اضافہ ہوا.پہلے وہ ہزار یورو دیتا تھا اور اب اس نے کہا ہے کہ وہ تیرہ سو یورو دے گا.سوال یہ نہیں ہے کہ وہ 1300 یورو ادا کرتا ہے یا 1000 یورو ادا کرتا ہے.سوال یہ ہے کہ جو اس کی اصل انکم ہے اس پر چندہ دینا ہے.اگر وہ 1200 ، 1100 ،1500 پر دے رہا ہے تو اس بات پر خوش نہ ہو جائیں کہ اتنا اضافہ ہو گیا ہے.اسے کہیں کہ جس پر بھی تم دو یہ سوچ کر دو کہ موصی کے لئے کوئی رعایت نہیں ہے.چندہ عام دینے والے کے لئے تو رعایت ہے لیکن موصی کے لئے کوئی رعایت نہیں ہے.اگر مالی حالات خراب ہیں تو وصیت منسوخ کر والو یا پھر چندہ عام ادا کرنے والے کے مالی حالات خراب ہیں تو باقاعدہ طریق کے مطابق لکھ کر رعایت لے لیں.لیکن ایک موصی کے تقویٰ کا معیار ایسا ہونا چاہئے کہ اس کو بہر حال بغیر کسی رعایت کے صحیح وصیت ادا کرنی چاہئے.حضور انو رایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آپ نے پیسوں میں جو اضافہ کیا ہے بڑا اچھا کیا ہے.لیکن یہ نہیں کہ صرف پیسے ہی اکٹھے کرنے ہیں.میں نے پیسے اکٹھے کرنے کے لئے نہیں کہا تھا بلکہ میں نے تو کہا تھا کہ تقویٰ پیدا کریں کہ چندہ صحیح انکم پر دیں.

Page 257

245 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اگر کوئی موصی اپنی انکم پر چندہ دے رہا ہے تو اسے و آپ کے خوف سے نہیں دینا چاہئے بلکہ اسے اللہ کی خاطر دینا چاہئے اور جو بھی اس کی حقیقی انکم ہے اس پر دینا چاہئے.الفضل انٹر نیشنل 08 فروری 2013 صفحہ 16 | موصیان تقویٰ کا معیار بڑھانے کی بھی کوشش کریں میٹنگ نیشنل مجلس عامله جرمنی (15 دسمبر 2012) : اب موصیان کی تعداد بڑھ گئی ہے.سیکرٹری تربیت کے ساتھ مل کر ان کے تقویٰ کا معیار بڑھانے کی بھی کوشش کریں.اگر تقویٰ بڑھا ئیں گے تو اس پیسہ میں برکت پڑے گی اور وہ پیسہ بھی بڑھ جائے گا.الفضل انٹرنیشنل 15 فروری 2013 صفحہ 15) موصیان کو نیکی اور تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر قائم ہونا چاہئے میٹنگ نیشنل مجلس عاملہ آسٹریلیا (20 اکتوبر 2013) : سیکرٹری وصایا سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ موصی خواتین کی تعداد کیا ہے جس پر موصوف نے بتایا کہ 874 موصیان میں سے 327 خواتین موصی ہیں.جن میں سے چند ایک کمانے والی ہیں اور اپنی انکم پر چندہ ادا کرتی ہیں باقی نہ کمانے والی ہیں وہ سالانہ 180 ڈالر چندہ ادا کرتی ہیں.پندرہ ڈالر ہر ماہ کے حساب سے.حضور انور نے فرمایا: جو کمانے والے ہیں ان کا پچاس فیصد موصی ہونے چاہئیں.آپ کے موصیان کی جو مجموعی تعداد ہے اس میں ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو کمانے والی نہیں ہے.اس لئے اس پہلو سے جائزہ لے کر اپنا پچاس فیصد ہدف پورا کریں.حضور انور نے فرمایا ابھی آپ کمانے والوں میں سے مزید 150 سے زیادہ موصیان بنا سکتے ہیں.اتنی گنجائش موجود ہے.حضور انور نے فرمایا آپ نے موصیان سے صرف پیسے اکٹھے نہیں کرنے بلکہ ان کی ساتھ ساتھ تربیت بھی ہونی چاہئے.چندہ کوئی Tax نہیں ہے.موصیان کو نیکی اور تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر قائم

Page 258

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 246 ہونا چاہئے اور اس طرف زیادہ توجہ ہونی چاہئے اور جو ان کا چندہ ہے وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہونا چاہئے.الفضل انٹر نیشنل 13 دسمبر 2013ء صفحہ 14 عاملہ کے ممبران کو توجہ دلائیں، یاددہانی کروائیں کہ ہر ممبر وصیت کے نظام میں شامل ہو لیکن اس کے لئے فورس (Force) نہیں کرنا میٹنگ نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ نیوزی لینڈ (یکم نومبر 2013) : وصیت کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ اپنی عاملہ کے ممبران کو توجہ دلائیں اور یاد دہانی کروائیں کہ ہر ممبر وصیت کے نظام میں شامل ہو لیکن اس کے لئے آپ نے فورس ( Force) نہیں کرنا.اگر کوئی کہتا ہے کہ میں اس لئے وصیت نہیں کرتا کہ میں شرائط وصیت کو پورا نہیں کر سکتا تو اس سے پوچھیں کیا جو دس شرائط بیعت ہیں وہ تم پوری کر رہے ہو.اس طرح تو پھر پورا نہ کرنے کے نتیجہ میں احمدی بھی نہیں رہتا.بہر حال ان شرائط پر عمل پیرا ہونے کی ایک کوشش ہوتی ہے اور وہ کوشش کرتے رہنا چاہئے.میٹنگ الفضل انٹرنیشنل 03 جنوری 2014 صفحه (12) جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم وصیت کی شرائط پوری نہیں کر سکتے نيشنل مجلس عاملہ نیوزی لینڈ (3 نومبر 2013) : نیشنل سیکرٹری وصایا نے حضور انور کے دریافت فرمانے پر بتایا کہ یہاں موصیان کی تعداد 51 ہے.کمانے والوں کی تعداد 162 ہے.حضور انور نے فرمایا جو 51 موصی ہیں اس میں ایسی خواتین بھی ہوں گی اور طلباء بھی ہوں گے جو کمانے والے نہیں ہیں تو اس لحاظ سے آپ اپنا ٹارگٹ حاصل کرنے میں بہت پیچھے ہیں.آٹھ سال ہو گئے ہیں آپ کو ٹارگٹ دیا ہوا ہے کہ کمانے والوں کا پچاس فیصد موصی بنا ئیں.اس طرف توجہ دیں اور یہ ہدف حاصل کریں.حضور انور نے فرمایا موصیان کی تعداد بھی بڑھائیں.جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم وصیت کی شرائط پوری نہیں کر سکتے.اس لئے ہم وصیت نہیں کرتے تو ایسے لوگ بہانہ کرتے ہیں.ایسے لوگوں سے پوچھنا چاہئے کہ کیا وہ

Page 259

247 ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ شرائط بیعت کی تمام شرطیں پوری کرتے ہیں اور اگر نہیں تو کیا پھر وہ احمدیت چھوڑ دیں گے.اصل چیز یہ ہے کہ کوشش ہوتی ہے اور ایک عزم اور ارادہ ہوتا ہے کہ شرائط کی بجا آوری ہو اور حتی المقدور ان پر عمل کرنے کی سعی ہو.اللہ تعالیٰ سے اس کی توفیق مانگتے رہنا چاہیئے.الفضل انٹر نیشنل 10 جنوری 2014 صفحہ 13 موصی کا معیار تقوی ،نمازوں کی ادائیگی اور اعلیٰ اخلاقی معیار بھی ہونا چاہیئے میٹنگ نیشنل مجلس عاملہ جاپان (11 نومبر 2013) : آپ نے جو پچاس فیصد موصیان کا ٹارگٹ پورا کرنا ہے وہ 90 جو کمانے والے لوگ ہیں ان کا پچاس فیصد کرنا ہے.اس لحاظ سے آپ اپنے ٹارگٹ سے پیچھے ہیں.اس لئے اس کمی کو دور کریں اور اپنا ہدف پورا کریں.حضور انور نے فرمایا ایک موصی کا معیار تقویٰ اور نمازوں کی ادائیگی کا بہت اچھا ہونا چاہئے.صرف یہ نہیں کہ چندہ کا معیار بہتر ہو اور چندہ کی طرف ہی توجہ ہو بلکہ اعلیٰ اخلاقی معیار بھی ہونا چاہئے.الفضل انٹرنیشنل 07 فروری 2014 ء صفحہ 11 تینوں ذیلی تنظیموں کو Push کریں تینوں ذیلی تنظیموں کو Push کریں اور صرف Youngster کے پیچھے نہ پڑے رہیں.تا کہ زیادہ سے موصی حاصل ہو سکیں اور یہ بھی کوشش کریں کہ اکثر وصیت کرنے والے کمانے والے لوگ ہوں بجائے اس کے کہ خانہ دارخواتین اور طالب علم وغیرہ اس میں شامل ہوں.ان سے کہیں کہ وہ Easy Target نہ بنائیں بلکہ ایسا منتظم کام کریں جس سے ٹھوس کوشش نظر آتی ہو.روزنامه الفضل 13 / مارچ 2008 صفحہ 4 اس نظام کو قابل اعتماد بنانا اور مرکز اور مقامی جماعتی نظام میں مضبوط ربط پیدا کرنا بھی امراء کا کام ہے (خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جولائی 2016ء بمقام بیت الفتوح لندن ) موصیان کے بارے میں بھی میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پہلی بات تو موصیان کو یہ یاد رکھنی چاہئے کہ اپنے چندے کی باقاعدہ ادائیگی اور اس کا حساب رکھنا ہر موصی کی اپنی ذمہ داری ہے لیکن مرکزی دفتر اور متعلقہ سیکرٹریان کا بھی کام ہے کہ ہر موصی کا حساب مکمل رکھیں اور جب ضرورت ہو انہیں یاد دہانی بھی

Page 260

ارشادات حضرت مسیح موعود وخلفائے سلسلہ 248 کروائیں کہ ان کے چندے کی کیا صورتحال ہے؟ ملکی جماعت کا کام ہے کہ مقامی جماعتوں کے سیکرٹریان کو فعال کریں اور ہر موصی ان کے رابطے میں ہو.بعض دفعہ دیکھنے میں آتا ہے کہ کسی معاملے میں کسی شخص کے بارے میں رپورٹ منگوائی جاتی ہے اور وہ شخص موصی ہوتا ہے.رپورٹ میں ذکر کر دیا جاتا ہے کہ اس نے اتنے عرصے سے وصیت کا چندہ نہیں دیا.جب پوچھا جائے کہ وصیت کا چندہ نہیں دیا تو وصیت کس طرح قائم ہے؟ تو پھر تحقیق کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ موصی کا قصور نہیں تھا اس نے تو چندہ دیا تھا لیکن ریکارڈ رکھنے والوں نے دفتر نے صحیح ریکارڈ نہیں رکھا.ایک تو ایسی رپورٹ بلا وجہ موصی کو پریشان کرنے کا موجب بنتی ہے.دوسرے جماعتی نظام کی کمزوری کا بھی برا اثر پڑتا ہے.اب تو ٹھوس حسابات کا انتظام ہو چکا ہے، بڑا Systematic طریقہ ہے، کمپیوٹر ہیں، سب کچھ ہے.ایسی غلطی ہونی نہیں چاہئے.ہر ملک کے سیکرٹریان وصایا اور سیکرٹریان مال اپنے ملک کی ہر جماعت کے متعلقہ سیکرٹریان کو فعال کریں اور امراء جماعت کا بھی یہ کام ہے کہ اس کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیتے رہا کریں.صرف چندہ جمع کرنا اور اس کی رپورٹ کرنا ان کا کام نہیں ہے بلکہ اس نظام کو قابل اعتماد بنانا اور مرکز اور مقامی جماعتی نظام میں مضبوط ربط پیدا کرنا بھی امراء کا کام ہے.(روزنامه الفضل 23/ اگست 2016 ، صفحہ 6،5

Page 260