Nizam-eNau

Nizam-eNau

نظام نو

Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR

حضرت مصلح موعودؓ نے 27 ؍دسمبر 1942 ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر نظام نو کی تعمیر کے عنوان پر یہ معرکۃ الآراء خطاب فرمایا جس میں آپ نے اہم معاصر سیاسی تحریکات، جمہوریت، اشتمالیت اور اشتراکیت وغیرہ پر سیر حاصل روشنی ڈالی اور ان تحریکات کے بنیادی نقائص کی نشاندہی کی۔ بعدازاں غرباء کی حالت سدھارنے کے لئے یہودیت، عیسائیت اور ہندو مت کی پیش کردہ تجاویز کا جائزہ لیااور آخر پر اسلام کی بے نظیر تعلیم بیان کرکے اسلامی نکتہ نگاہ کے مطابق دنیا کے نئے نظام کا نقشہ ایسے دلکش اور موثر انداز میں پیش کیا سننے والے عش عش کر اٹھے۔ اس ضمن میں حضورؓ نے نظام وصیت اور تحریک جدید جیسی عظیم الشان تحریکات کے مستقبل کا ذکر بھی فرمایا اور اس عظیم الشان لیکچر کے آخر پر پرشوکت الفاظ میں فرمایا: ’’جب وصیت کا نظام مکمل ہوگا تو صرف تبلیغ ہی اِ س سے نہ ہوگی بلکہ اسلام کے منشاء کے ماتحت ہر فرد بشر کی ضرورت کو اس سے پورا کیا جائے گا او ردکھ اور تنگی کو دنیا سے مٹا دیا جائے گا۔ ان شاء اللہ۔ یتیم بھیک نہ مانگے گا، بیوہ لوگوں کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے گی، بے سامان پریشان نہ پھرے گا، کیونکہ وصیت بچوں کی ماں ہوگی، جوانوں کی باپ ہوگی، عورتوں کا سہاگ ہوگی، اور جبر کے بغیر محبت اور دلی خوشی کے ساتھ بھائی بھائی کی اس کے ذریعہ سے مدد کر ےگا اور اس کا دینا بے بدلہ نہ ہوگا بلکہ ہر دینے والا خدا تعالیٰ سے بہتر بدلہ پائے گا۔ نہ امیر گھاٹے میں رہے گا نہ غریب، نہ قوم قوم سے لڑے گی پس اس کا احسان سب دنیاپر وسیع ہوگا‘‘  


Book Content

Page 1

نظام نو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 2

يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأرْضـ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَوتُ نظام نو از حضرت مرزا بشیرالدین محموداحم صاحب ندیده ای اشانی شائع کردہ نظارت نشر واشاعت، قادیان

Page 3

نام کتاب نظام کو تصنیف سابقہ اشاعت : حضرت مرزا بشیرالدین محموداحمدخلیفہ مسیح الثانی 2010 2005 حالیہ اشاعت : تعداد شائع کردہ : مطبع $2016 1000 نظارت نشر واشاعت صدر انجمن احمد بیه، قادیان ضلع گورداسپور، پنجاب (بھارت )143516 فضل عمر پرنٹنگ پریس، قادیان ISBN: 9788179122600 Name of the Book : Author Nizam-e-Nou Hadhrat Mirza Bashiruddin Mahmood Ahmad Khalifatul Maseeh IIndra Previous Edition : 2005, 2010 Present Edition : 2016 Quantity : 1000 Publisher Nazarat Nashr-o-lsha'at, Qadian Dist-Gurdaspur, Punjab 143516 Fazl-e-Umar Printing Press-Qadian Printed at :

Page 4

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهِ وَ نُصَلِّي عَلَىٰ رَسُولِهِ الْكَرِيمِ نظام کو کی تعمیر تقریرحضرت امیر المومنین خلیفتہ مسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ فرموده ۲۷ / دسمبر ۱۹۴۲ء بر موقعه جلسه سالانه تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: مضمون کی اہمیت میرا آج کا مضمون وہ ہے جس کے متعلق میں ایک گذشتہ خطبہ جمعہ میں (جوالفضل ۱۰ار دسمبر ۱۹۴۲ء میں شائع ہو چکا ہے ) وعدہ کر چکا ہوں.میں نے کہا تھا کہ میں تحریک جدید کا ایک نیا اور اہم پہلو جماعت کے سامنے اگلے جمعہ کو رکھونگا مگر جب اگلا جمعہ آیا تو میرا ارادہ بدل گیا اور میں نے اس مضمون کی اہمیت پر غور کرتے ہوئے یہی مناسب سمجھا کہ اُسے بجائے کسی خطبہ میں بیان کرنے کے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر جب کہ تمام دوست جمع ہو نگے بیان کر دوں.چنانچہ میں نے اُسوقت اس مضمون کا بیان کرنا ملتوی کر دیا.اور اپنے اگلے خطبہ میں (جو الفضل ۱۶ دسمبر ۱۹۴۲ء میں شائع ہو چکا ہے ) اعلان کر دیا کہ میں سر دست اس مضمون کو ملتوی کرتا ہوں اور اس کی بجائے بعض اور امور کی طرف جماعت کو توجہ دلا دیتا ہوں.بعد میں میری رائے اس طرف سے بھی بدلی اور میں نے چاہا کہ اس مضمون کو ابھی اور ملتوی کر دوں.اور اس کی بجائے سیر روحانی“ کے کچھ اور حصے بیان کر دوں مگر منشائے الہی چونکہ یہی تھا کہ اس مضمون کا جسقد رجلد ہو سکے دنیا میں اعلان 1

Page 5

کر دیا جائے اس لئے ایسا اتفاق ہو گیا کہ میں متواتر بیمار ہوتا چلا گیا اور سیر روحانی والے مضمون کے واسطے حوالے نکالنے کے لئے جو وقت چاہیئے تھا وہ مجھے نہ ملا.آخر میں نے سمجھا کہ ۲۰ / تاریخ سے اس غرض کے لئے وقت نکالنا شروع کر دونگا مگر ان دنوں بہت سا تفسیر کا کام کرنا پڑا.یہ امر میں بتا چکا ہوں کہ آجکل میں تفسیر لکھایا کرتا ہوں.پس ان دنوں ایک دفعہ میں تفسیر لکھاتا اور دوسری دفعہ صاف شدہ مضمون کو دیکھتا اور اسطرح کافی وقت اس پر خرچ ہو جاتا.پھر آجکل ڈاک بھی میں نے خود ہی پڑھنی شروع کر دی ہے اور یہ کام بھی بہت زیادہ ہوتا ہے (ضمنی طور پر میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ پہلے ڈاک میں خود نہیں پڑھا کرتا تھا بلکہ تفسیر کے کام کی وجہ سے دفتر والے خطوط کا خلاصہ میرے سامنے پیش کر دیا کرتے تھے مگر پچھلے چار پانچ ماہ سے میں خود تمام ڈاک پڑھتا ہوں جن کے جواب ضروری ہوں اُن کے جواب خطوط کے حاشیہ میں نوٹ کر دیا کرتا ہوں.اور جن خطوط کے جوابات دفتر والوں کو پہلے سے بتائے جاچکے ہیں اُن خطوط کے وہ خود ہی جواب دے دیا کرتے ہیں.بہر حال اب ڈاک کا کام بھی جاری ہے اور یہ کام بھی بہت بڑا ہوتا ہے ) اس وجہ سے مجھے جلسہ سالانہ کی تقریر کے لئے نوٹ لکھنے اور حوالہ جات نکالنے کی بالکل فرصت نہ ملی.جب ۲۰ تاریخ آئی تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ اب کل صبح سے کام شروع کرونگا.کچھ ڈاک بھی باقی تھی اُدھر تحریک جدید والوں نے مجھے کہلا بھیجا کہ دوستوں کے وعدے نہیں پہنچے ڈاک بھجوائی جائے تاکہ اُن کے وعدے نوٹ کر لئے جائیں چنانچہ میں وہ ڈاک دیکھنے لگ گیا.اسی دوران میں یکدم مجھے ایسی سردی لگی کہ شدت سردی کی وجہ سے مجھے کپکپی شروع ہوگئی اور دانت بجنے لگ گئے اُس وقت مجھے پیشاب کی حاجت محسوس ہوتی تھی اور میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ لوٹا رکھ دو مگر میری طبیعت اُسوقت ایسی خراب ہو گئی کہ میں کوئی منٹ بھر یہ الفاظ تک اپنی زبان سے نہ نکال سکا.اس کے بعد بستر میں میں لیٹ گیا اور لحاف کے اندرر بڑ کی دو گرم بوتلیں رکھیں مگر کسی طرح سردی کم ہونے میں نہ آئی جب صبح ہوئی اور میں نے تھرما میٹر لگا کر دیکھا تو درجہ حرارت ساڑھے ننانوے تھا.دن بھر آرام رہا مگر جب عصر کا وقت آیا تو مجھے اپنی طبیعت خراب 2

Page 6

معلوم ہوئی اُس وقت میں نے پھر تھرما میٹر لگا کر دیکھا.تو معلوم ہوا کہ تبخیری ہے اور 100 یا 100.5 تک حرارت ہے.رات کو درجہ حرارت 103 تک بڑھ گیا.اس وجہ سے میں اُن نوٹوں کو تیار نہ کر سکا.جن کا تیار کرنا سیر روحانی والے مضمون کے لئے ضروری تھا.آخر میں نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت یہی معلوم ہوتی ہے کہ میں اس مضمون کو جو تحریک جدید کے متعلق ہے، ابھی بیان کر دوں چنانچہ میں اس مضمون کے نوٹ لکھنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ وقت آ گیا تھا کہ دنیاکے سامنے اس عظیم الشان پیغام کوظاہر کر دیا جاتا.تحریک جدید کی اہمیت اجتماعی لحاظ سے وہ وہ مضمون جسے میں بیان کرنا چاہتا تھا.وہ یہ تھا کہ تحریک جدید کی خصوصیات ضمنی طور پر اور منفر دانہ طور پر اب تک لوگوں کے سامنے بار ہالائی گئی ہیں مگر تحریک جدید کی اہمیت اجتماعی طور پر جماعت کے سامنے نہیں رکھی گئی.یا یوں کہہ لو کہ اسکی حقیقت کو میں خود بھی آہستہ آہستہ سمجھا.جب میں نے اس کے متعلق پہلا خطبہ پڑھا تو اس میں تحریک جدید کے متعلق جسقد رباتیں میں نے بیان کیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور القاء میرے دل میں ڈالی گئی تھیں اور جس طرح اللہ تعالیٰ میرے دل میں ڈالتا چلا گیا میں اُن باتوں کو بیان کرتا چلا گیا.پس حق یہ ہے کہ تحریک جدید کی کئی اغراض کو پہلے خود میں بھی نہیں سمجھا اور اُس کے کئی فوائد اور حکمتیں میری نظر سے اوجھل رہیں.اسی وجہ سے تحریک جدید کی اجتماعی لحاظ سے اہمیت اب تک جماعت کے سامنے نہیں رکھی گئی یا ممکن ہے خدا تعالیٰ کا منشاء یہ ہو کہ جب اس مضمون کی ضرورت ہو تب اس پر سے پردہ ہٹایا جائے.بہر حال اس تحریک کا ایک عالمگیر اثر بھی ہے اور ضروری ہے کہ اس کو تفصیل سے بیان کیا جائے کیونکہ اب تک اس مضمون کو بیان نہیں کیا گیا.3

Page 7

خلاصہ مضمون میں جس مضمون کو اب بیان کرنے لگا ہوں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تحریک جدید جس کا اجراء میری طرف سے ہوا یا صحیح لفظوں میں یوں کہ لو کہ تحریک جدید جس کا اجراء منشاء الہی کے ماتحت ہوا اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم الشان اسلامی مقصد کو پورا کرنے اور انسانیت کی جڑوں کو مضبوط کرنے کا بیج رکھا گیا ہے.اب میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس فقرہ کے بعد جو مضمون آئے گا وہ بظاہر اس سے بے تعلق ہوگا اور بظاہر یہ جملہ کہ کر میں تحر یک جدید کی طرف آتا ہوا نظر نہیں آؤنگا لیکن میں دوستوں کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر وہ صبر سے کام لیں گے اور توجہ سے تمام مضمون کوئنیں گے تو تحریک جدید کا جو ذکر میں نے کیا ہے اس پر انہیں یہ تمام مضمون چسپاں ہوتا دکھائی دیگا.تحریک جدید کا ماحول دُنیا میں جسقد را شیاء نظر آتی ہیں وہ سب اپنے اپنے ماحول میں اچھی لگتی ہیں.ماحول سے اگر کسی چیز کو نکال لیا جائے.تو اُس کا سارا حسن اور اس کی ساری خوبصورتی ضائع ہو جاتی ہے پس جب تک میں اس تحریک کا ماحول نہ بیان کر لوں اُس وقت تک اصل حقیقت سے دوست آگاہ نہیں ہو سکتے.اس ماحول کا بیان کرنا خصوصاً اس وجہ سے بھی ضروری ہے کہ ہماری جماعت میں سے اکثر زمیندار ہیں اور وہ عموماً علمی باتوں سے ناواقف ہوتے ہیں اسلئے ضروری ہے کہ میں پہلے دنیا کی وہ حالت بیان کروں جس نے ہمیں اس نتیجہ پر پہنچنے پر مجبور کیا.اور بتاؤں کہ دنیا میں اس وقت کیا کیا تغیرات ہو رہے ہیں.ان تغیرات کا مستقبل پر کیا اثر پڑنے والا ہے اور ہماری جماعت اور دوسری مسلمان جماعتوں پر اُن کا کیا اثر ہے اور یہ کہ اگر وہ اثرات بُرے ہیں تو ہمیں اُن سے کس طرح بچنا چاہئیا ور اگر اچھے ہیں تو کس حد تک اُن کو قبول کرنا مناسب ہے.4

Page 8

موجودہ زمانہ کے اُمراء اور غرباء کے آپس کے امتیازات اور ان کا نتیجہ ب سے پہلے تو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ دنیا میں ادنیٰ و اعلیٰ محروم و با نصیب اور حاجت مند اور غنی میں جو امتیاز نظر آرہا ہے اس کی وجہ سے دو تغیر پیدا ہورہے ہیں.ایک تغیر تو یہ پیدا ہورہا ہے کہ یہ امتیاز زیادہ نمایاں ہوتا جا رہا ہے اور دوسرا تغیر یہ پیدا ہورہا ہے کہ اس تغیر کا احساس دنیا میں بڑھتا جارہا ہے.پہلے بھی امیر ہوتے تھے مگر پہلے امیروں اور آجکل کے امیروں میں بہت بڑا فرق ہے.پہلے زمانہ کے جو امراء ہوتے تھے اور جن کی اولاد کا اب بھی کچھ بقیہ پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا ہے اُن کی یہ حالت تھی کہ اُن کے پاس کثرت سے رو پید اور غلہ اور دوسری جنسیں آتی تھیں اور وہ بھی کثرت کے ساتھ ان اشیاء کو لوگوں میں تقسیم کر دیا کرتے تھے.پنجاب کے ایک رئیس ایک دفعہ لاہور میں بیمار ہوئے میں بھی اتفاق سے کسی کام کے لئے لاہور جا نکلا وہاں مجھے معلوم ہوا کہ ایک ایک وقت میں بعض دفعہ اُن کے علاقہ سے تین تین چار چار سو آدمی اُن کی تیمار داری کے لئے آتے ہیں اور آنے والوں میں سے کسی کے پاس دُنبہ ہوتا ہے، کسی کے پاس چاول ہوتے ہیں، کسی کے پاس گڑ ہوتا ہے، کسی کے پاس کوئی چیز ہوتی ہے محض اس لئے کہ سردار صاحب بیمار ہیں خالی ہاتھ کس طرح جائیں.انہوں نے بھی دس پندرہ باورچی رکھے ہوتے تھے جب جانور وغیرہ آتے تو وہ اُن کو ذبح کروا دیتے اور دیکھیں پکوا کر لوگوں کو کھلا دیتے.اس طرح اُن کی بیماری کی وجہ سے اچھا خاصہ مجمع دو تین مہینے تک لگارہا اور برابر وہ ان سینکڑوں لوگوں کو کھانا کھلاتے رہے.گذشتہ زمانہ کے مقابلہ میں موجودہ زمانہ کے اُمراء اور اُن کے ملازمین کی حالت پس بیشک پہلے زمانہ میں بھی مالدار ہوتے تھے مگر اُن کا مال اس رنگ میں تقسیم ہوتا تھا کہ لوگوں کو بُر انہیں لگتا تھا.پھر اُس زمانہ میں نوکر کا مفہوم بالکل اور تھا مگر آج کچھ اور ہے.اُس زمانہ 5

Page 9

میں نوکر خاندان کا جد و سمجھے جاتے تھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض قسم کے امتیازات اُس وقت بھی پائے جاتے تھے مثلاً نوکر سے شادی کرنا یا اُسے لڑکی دینا پسند نہیں کیا جاتا تھا مگر پھر بھی وہ اس رنگ میں پاس رہتے تھے کہ مثلاً مالک بھی فرش پر بیٹھا ہوا ہے اور اُس کا نو کر بھی ساتھ ہی بیٹھا ہوا ہے یا مالکہ بیٹھی ہے تو اُس کے ساتھ اس کی لونڈی بھی بیٹھی ہے مگر اب یہ ہوتا ہے کہ مالک تو کرسی پر بیٹھا ہوا ہوتا ہے اور نو کر ہاتھ باندھے سامنے کھڑا ہوتا ہے وہ چاہے تھک جائے اس کی مجال نہیں ہوتی کہ آقا کے سامنے بیٹھ جائے.اسی طرح سواریوں کو لے لو پہلے اُن میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہوتا تھا.یہ تو ہو جاتا تھا کہ ایک کا گھوڑا زیادہ قیمت کا ہو گیا اور دوسرے کا کم قیمت کا مگر آجکل تھرڈ کے مقابلہ میں فسٹ اور سیکنڈ کلاس کا جو فرق ہے وہ بہت زیادہ نمایاں ہے.اسی طرح مکانوں کی ساخت میں اتنا فرق پیدا ہو گیا ہے کہ غرباء کے مکانوں اور اُمراء کے مکانوں میں زمین و آسمان کا فرق نظر آتا ہے.فرنیچر کی اتنی قسمیں نکل آئی ہیں کہ کوئی غریب ان کو خرید ہی نہیں سکتا.جب تک امراء قالین بچھاتے رہے غرباء اس کے مقابلہ میں کوئی سستا سا قالین یا کپڑا ہی بچھا لیتے مگراب فرنیچر کی اتنی قسمیں ہو گئی ہیں کہ ادنیٰ سے ادنی فرنیچر بھی غریب آدمی خرید نہیں سکتا.پہلے تو امیر لوگوں نے اگر قالین بنائے تو کشمیریوں نے گبھا بنالیا.مگر اب گوچ اور کرسیوں اور میزوں وغیرہ میں امراء کی نقل کرنا غرباء کی طاقت برداشت سے بالکل باہر ہے.غرض بڑوں اور چھوٹوں میں یہ امتیاز اس قدر ترقی کر گیا ہے کہ اب یہ امتیاز آنکھوں میں چھنے لگ گیا ہے.غربت و امارت کے متعلق پرانے نظریہ کے مقابلہ پر نیا نقطہ نگاہ اور اُس کا نتیجہ پھر ایک یہ بھی فرق ہے.کہ اب احساسات بھی تیز ہو گئے ہیں.پہلے زمانہ میں عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ سب دولت اللہ میاں کی ہے.اگر کوئی بھوکا ہے تو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے بھوکا رکھا اور اگر کسی کو روٹی ملتی ہے تو اِس لئے کہ اللہ اس کو روٹی دیتا ہے.مگر اب تعلیم اور فلسفہ کے عام ہو جانے کی وجہ سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر غریب بھوکے ہیں تو اس لئے نہیں کہ 6

Page 10

اللہ نے انہیں بھوکا رکھا ہوا ہے بلکہ اس لئے کہ امراء نے ان کی دولت لوٹ لی ہے اور اگر امیر آرام میں ہیں تو اس لئے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو آرام میں رکھا ہوا ہے بلکہ اس لئے کہ انہوں نے غریبوں کولوٹ لیا ہے.پس آج نقطۂ نگاہ بدل گیا ہے اور اس نقطۂ نگاہ کے بدلنے کی وجہ سے طبائع میں احساس اور اس کے نتیجہ میں اشتعال بہت بڑھ گیا ہے.پہلا شخص صبر سے کام لیتا تھا اور اگر اللہ تعالیٰ سے اُسے محبت ہوتی تھی تو جب اُسے فاقہ آتا تب بھی سبحان اللہ کہتا اور جب پلاؤ کھا تا تب بھی سُبْحَانَ اللہ کہتا.کیونکہ وہ سمجھتا تھا یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اگر کوئی شخص بے ایمان ہوتا تب بھی خیال کرتا تھا کہ میں خدا تک تو نہیں پہنچ سکتا خاموش ہی رہوں مگر اب وہ سارا الزام جو پہلے خدا کو دیا جاتا تھا بندوں کو دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ امیر اور طاقتور لوگ یہ چاہتے ہیں کہ غریبوں کو ماریں پیٹیں اور اُن کا گلا گھونٹیں.پس نقطۂ نگاہ کے بدلنے سے احساس بہت زیادہ تیز ہو گئے ہیں.مشینری کی ایجاد سے امارت و غربت کے امتیاز میں زیادتی یوں تو یہ امتیاز ہمیشہ سے چلا آتا ہے اور شاید اگر اس کا سلسلہ چلایا جائے تو حضرت آدم علیہ السلام کے قریب زمانہ تک پہنچ جائے مگر بظاہر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ جوں جوں تمدن ترقی کریگا یہ امتیاز متا چلا جائیگا چنانچہ اول اول جب مشینیں نکلی تھیں تو لوگوں نے بڑی بڑی بغاوتیں کی تھیں.امراء کہتے تھے اس طرح غرباء کی حالت سدھر جائیگی اور زیادہ لوگوں کو کام ملنے لگ جائیگا اور غرباء کہتے تھے ایک مشین دین مزدوروں کا کام کریگی تو مزدور بے کار ہو جائیں گے.آب واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ خواہ زیادہ لوگوں کو کام ملا ہو یا نہ ملا ہوگر مشینری کی ایجاد نے غریب اور امیر میں امتیاز کو بہت بڑھا دیا ہے.7

Page 11

غرباء کی حالت کو سدھارنے کی کوششیں اور اُن میں نا کامی کی وجہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض اصلاحیں بھی ہوئیں کوئی نیک دل فلسفی اُٹھا اور اُس نے غرباء کی بہتری کے لئے کوئی تدبیر پیدا کر دی ، کوئی نیک بادشاہ اٹھایا کوئی نیک دل تاجر کھڑا ہوا اور اُس نے حکومت کے کسی شعبہ میں یا کارخانوں میں اصلاح کر دی مگر دنیا کی اصلاح جس پر تمام لوگوں کے امن کا دار ومدار تھا بہ حیثیت مجموعی نہ ہوئی اور عوام کی تکلیفیں بدستور قائم رہیں.چنانچہ اب بھی اکثر یہ نظارہ نظر آتا ہے کہ ایک شخص کے سامنے سے کیکوں کے ٹکڑے اٹھا کر کتوں کے آگے ڈالے جاتے ہیں اور دوسرے شخص کے بچے سوکھی روٹی کے لئے پلکتے ہوئے سو جاتے ہیں.یہ مبالغہ نہیں ہر روز دنیا میں کئی ہزار بلکہ کئی لاکھ ماں باپ ایسے ہیں جو اپنے بچوں کو بھوکا سلاتے ہیں اُمراء اگر چاہیں بھی تو پھر بھی وہ اُن کی مدد نہیں کر سکتے.آخر ایک امیر کو کیا پتہ کہ ہمالیہ پہاڑ کے دامن میں فلاں جھونپڑی کے اندر ایک غریب عورت کا بچہ بھوک سے تڑپ تڑپ کر مر رہا ہے.دتی یا لا ہور کے اُمراء کو کیا علم کہ دنیا کے دُور اُفتادہ علاقوں میں غرباء پر کیا گذر رہی ہے اور وہ کیسے کیسے مشکلات سے دو چار ہو رہے ہیں.اوّل تو اُن کے دلوں میں غرباء کی مدد کی خواہش ہی پیدا نہیں ہوتی اور اگر خواہش پیدا ہو تو اُن کے پاس ایسے سامان نہیں ہیں جن سے کام لے کر وہ تمام دنیا کے غرباء کی تکالیف کو دور کر سکیں.اُنہیں کیا پتہ کہ غرباء کہاں کہاں ہیں اور اُن کی کیا کیا ضرورتیں ہیں.اُمراء کے مقابلہ پر غرباء کی نا قابل برداشت حالت امیر لوگ بیمار ہوتے ہیں تو بعض دفعہ ڈاکٹر انہیں پچاس پچاس روپیہ کی پیٹینٹ دوا ئیں بتا کر چلا جاتا ہے مگر اُن کی حالت یہ ہوتی ہے کہ بازار سے چھ سات شیشیاں منگا کر اُن میں سے کسی ایک کو کھولتے ہیں اور ذرا سا چکھ کر کہتے ہیں یہ دوا ئیں ٹھیک نہیں کوئی اور ڈاکٹر بلا ؤ.چنانچہ 8

Page 12

ایک اور ڈاکٹر آتا اور وہ بھی تمہیں چالیس روپیہ کی کوئی اور پیٹند وائیں لکھ کر چلا جاتا ہے.غرض معمولی معمولی زکاموں اور نزلوں پر وہ دو دو چار چار سور و پیہ کی دوائیں خرچ کر دیتے ہیں.اس کے مقابلہ میں ایک غریب عورت کے بچے کو نمونیہ ہو جاتا ہے اور طبیب اُسے مکو کا عرق یا لسوڑیوں کا جوشاندہ بتاتا ہے اور وہ لسوڑیوں کا جوشاندہ تیار کرنے کے لئے سارے محلہ میں دھیلہ مانگنے کے لئے پھرتی ہے اور کوئی شخص اُسے دھیلا تک نہیں دیتا.آخر ماں کی مامتا تو ایک غریب عورت کے دل میں بھی ویسی ہی ہوتی ہے جیسے امیر عورت کے دل میں مگر وہاں یہ حالت ہوتی ہے کہ بچہ اگر چھینک بھی لے تو ڈاکٹر پر ڈاکٹر آنا شروع ہو جاتا ہے ، دوائیاں شروع ہو جاتی ہیں، کھلائیوں کو ڈانٹا جاتا ہے کہ تم نے بچے کو ہو الگا دی مگر ایک ویسی ہی ماں دَر دَر دھکے کھاتی ہے اور اُسے ایک دھیلا تک میسر نہیں آتا اور اسکا بچہ تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے.تم اپنے ارد گرد کے گھروں پر نگاہ دوڑاؤ تم اپنے محلوں میں پوچھو تمہیں ایسی سینکڑوں نہیں ہزاروں مثالیں مل جائیں گی.یہ غربت بعض دفعہ اس حد تک پہنچی ہوئی ہوتی ہے کہ بالکل نا قابل برداشت ہو جاتی ہے.غرباء کی درد ناک حالت اور اس کا بھیا تک منظر میرے پاس ایک دفعہ ایک غریب عورت آئی اور اس نے اپنا مد عابیان کرنے سے قبل بڑی لمبی تمہید بیان کی اور بڑی لجاجت کی اور بار بار کہا کہ میں آپ کے پاس بڑی آس اور اُمید لے کر آئی ہوں.میں اُسے جتنا کہوں کہ مائی کام بیان کرو ہو سکا تو میں کر دونگا اتنی ہی وہ لجاجت اور خوشامد کرتی چلی جاتی تھی.میں نے سمجھا کہ شاید اس کی کسی لڑکی یا لڑکے کی شادی ہوگی اور اس کے لئے اُسے میں چالیس روپیوں کی ضرورت ہوگی مگر جب میں نے بہت ہی اصرار کیا اور کہا کہ آخر بتاؤ تو سہی تمہیں ضرورت کیا ہے؟ تو وہ کہنے لگی مجھے فلاں ضرورت کے لئے آٹھ آنے چاہئیں.میں آج تک اس کا اثر نہیں بھولا کہ کسقد راس نے لمبی تمہید بیان کی تھی کس قدر لجاجت اور خوشامد کی تھی اور پھر سوال کتنا حقیر تھا کہ مجھے آٹھ آنے دے دیئے جائیں.یہ بات بتاتی ہے کہ 9

Page 13

اس کے نزدیک دو باتوں میں سے ایک بات بالکل یقینی تھی یا تو وہ یہ سمجھتی تھی کہ کوئی شخص جس کی جیب میں پیسے ہوں وہ کسی غریب کے لئے آٹھ آنے دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہوسکتا اور یا پھر کنگال ہونے کی وجہ سے وہ سمجھتی تھی کہ دنیا میں ایسا خوش قسمت انسان کو ئی شاذ و نادر ہی مل سکتا ہے جس کے پاس آٹھ آنے کے پیسے ہوں.ان دونوں میں سے کوئی سا نظریہ لے لو کیسا خطر ناک اور بھیانک ہے.اگر اُس کے دل میں یہ احساس تھا اور یہی احساس اور غرباء کے دل میں بھی ہو کہ ہمیں خواہ کیسی شدید ضرورتیں پیش آئیں کوئی شخص ہمارے لئے آٹھ آنے تک خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا تو اُن کے دلوں میں امراء کا جتنا بھی کینہ اور بغض پیدا ہو کم ہے.اور اگر غرباء کی حالت اسقدر گر چکی ہو کہ وہ اپنے سامنے دوسروں کو اچھا کھانا کھاتے اور اچھے کپڑے پہنتے ہوئے پھر یہ خیال کریں کہ اب کسی کے پاس آٹھ آنے بھی نہیں ہیں اور اگر کسی کے پاس آٹھ آنے ہیں تو وہ بہت بڑا خوش قسمت انسان ہے تو یہ دنیا کے تنزل کے متعلق کیسا خطر ناک نظریہ ہے.غریبوں کی بہبودی کے لئے مختلف تحریکات کا آغاز ڈیماکریسی یہ حالت بہت دیر سے چلی آرہی ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے لوگوں نے اس کی اصلاح کی کوشش بھی کی ہے مگر اب تک کوئی تغیر پیدا نہیں ہوا.اٹھارویں صدی کے آخر سے اس کے متعلق علمی طور پر زیادہ چر چا شروع ہو گیا اور اس احساس بیداری نے جوشکل پہلے اختیار کی دنیا نے اس کا نام ڈیما کریسی (Democracy) رکھا.یعنی فیصلہ کیا کہ یہ غربت افراد نہیں مٹا سکتے بلکہ حکومت ہی مٹاسکتی ہے.جیسے میں نے ابھی کہا ہے کہ لاہور یا دہلی میں بیٹھے ہوئے ایک فرد کو کیا علم ہوسکتا ہے کہ ہمالیہ پہاڑ کے دامن میں کسی غریب عورت کا بچہ بھوک سے مر رہا ہے، یا شہروں میں رہنے 10

Page 14

والوں کو کیا علم ہو سکتا ہے کہ گاؤں میں غرباء پر کیا مشکلات آ رہی ہیں لیکن حکومت ان تمام باتوں کا بآسانی علم رکھ سکتی ہے.پس انہوں نے فیصلہ کیا کہ یہ کام حکومت کو اپنے ذمہ لینا چاہئے لیکن حکومت میں بادشاہ اور وزراء کے علاوہ دوسرے لوگوں کا بھی دخل ہونا ضروری ہے تا کہ سب کی آواز مرکز میں پہنچ سکے اور مرکز کو ان کے ذریعہ تمام حالات کا علم حاصل ہوتا رہے اس کے مطابق پہلے چھوٹے چھوٹے تغیرات کئے گئے مثلاً کہا گیا کہ بادشاہ کو گھر بیٹھے کیا پتہ ہوسکتا ہے کہ شاہ پور کے زمینداروں کی کیا ضروریات ہیں ہاں شاہ پور کے زمیندار اپنی ضرورتوں کو خوب جانتے ہیں.یا بادشاہ کو گھر بیٹھے جھنگ کے لوگوں کی مشکلات کا علم نہیں ہوسکتا مگر جھنگ کے لوگ خوب جانتے ہیں کہ انہیں کیا کیا مشکلات درپیش ہیں پس حکومت کے مرکز تک لوگوں کی آواز پہنچانے کا کوئی انتظام ہونا چاہیے.ڈیماکریسی کے ماتحت پہلا تغیر پس پہلا تغیر ڈیما کریسی کے ماتحت اس رنگ میں ہوا کہ جمہور نے مطالبہ کیا کہ حکومت میں ہمارا بھی حق ہے تا کہ ہم اپنے اپنے علاقوں کی ضروریات بتاسکیں اور اُن کے متعلق حکومت کو مفید مشورہ دے سکیں.کچھ عرصہ تک یہ طریق رائج رہا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس طریق عمل سے فائدہ ہوا.آخر بادشاہ سب کے حالات معلوم نہیں کر سکتا تھا اس طریق کے مطابق لوگوں کے نمائندے آتے ، حالات بتاتے ، حکومت کو مشورہ دیتے اور مطمئن ہو کر واپس چلے جاتے.ڈیما کریسی کے ذریعہ حقوق کا تحفظ اور اس کے لئے تاجروں اور پیشہ وروں کی جدوجہد ابتداء میں یہ نمائندے زیادہ تر زمیندار طبقہ سے تعلق رکھتے تھے اس لئے وہ زمینداروں کے حقوق کے متعلق ہی باتیں کیا کرتے تھے.بڑے بڑے زمیندار آتے اور بڑے بڑے لوگوں سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اپنی قوم کو زیادہ فائدہ پہنچاتے.اس پر ایک نئی تحریک شروع ہوئی جو 11

Page 15

تاجروں اور پیشہ وروں کی تھی اور اس تحریک کے بانیوں نے اپنا کام تاجروں اور حرفہ والوں کے حقوق کی نگہداشت قرار دیا.چنانچہ اس تحریک کے نتیجہ میں جو لبرل ازم (Liberalism) کہلاتی ہے تاجروں اور پیشہ وروں کو بھی زمینداروں کی طرح حریت حاصل ہوگئی اور حکومت میں ایسے تغیرات پیدا کئے گئے جن کے نتیجہ میں تاجروں کی تکالیف دور ہوگئیں اور پیشہ وروں کو ملک میں اور زیادہ آسانیاں حاصل ہو گئیں.سوشلزم یہ صورتِ حالات کچھ دیر تک قائم رہنے کے بعد ایک اور طبقہ کی نگا ہیں اپنے حقوق کو حاصل کرنے کے لئے اٹھیں اور اس نے بھی اس غرض کے لئے جدو جہد شروع کر دی.یہ طبقہ مزدوروں اور ملازم پیشہ لوگوں کا تھا جو کارخانوں اور دفتروں میں کام کرتے تھے.جب انہوں نے دیکھا کہ زمینداروں کو بھی انکے حق مل گئے ، صناعوں کو بھی انکے حق مل گئے اور تاجروں کو بھی اُنکے حق مل گئے تو انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہمارے دکھ کو تم محسوس نہیں کرتے اس لئے اب ہم بھی اپنے نمائندےحکومت میں بھیجیں گے چنانچہ کسی جگہ با قاعدہ انتخاب کے ذریعہ اور کسی جگہ لڑ جھگڑ کر مزدوروں کے نمائندے بھی کھڑے ہونے شروع ہو گئے.آجکل سوشلزم کا بڑا زور ہے اور یہ دراصل اسی تحریک کا نام ہے جس میں مزدوروں کو مالداروں کے مقابلہ میں زیادہ حقوق دلائے جاتے ہیں.ایسے لوگ عام پبلک کے حقوق کی حفاظت کے لئے گورنمنٹ کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے اور سمجھتے ہیں کہ اسطرح مزدوروں کی حق رہی ہو جائیگی.انٹرنیشنل سوشلزم پھر اس سے بھی ترقی کر کے لوگوں نے کہا کہ بے شک یہ سب تحریکیں فائدہ مند ہیں مگر آخر ان کا اثر بعض خاص ممالک تک محدود ہے اور یہ کوئی کامل خوشی کی بات نہیں ہو سکتی.اگر انگلستان 12

Page 16

کے لوگوں کی ہم نے اصلاح کر لی مگر فرانس کے لوگ پھر بھی بھوکے مرتے رہے تو ہمارے لئے کیا خوشی ہوسکتی ہے اس لئے مختلف ملکوں کے غرباء اور مزدوروں کو باہمی تعاون کا اقرار کرنا چاہئے.بظاہر تو یہ کہا جاتا تھا کہ ہم اصلاح کے دائرہ کو وسیع کرتے ہیں مگر اصل بات یہ تھی کہ جب اس تحریک کے نتیجہ میں ایک ملک کے امراء کو نقصان پہنچا تو دوسرے ملک کے اُمراء اس وجہ سے کہ یہ تحریک ہمارے ملک میں نہ آجائے روپیہ سے اس تحریک کے مخالفوں کی مدد کیا کرتے تھے.چنانچہ اس کے مقابل پر مزدوروں نے بھی فیصلہ کیا کہ مختلف ملکوں کے غرباء کو آپس میں تعاون کا اقرار کرنا چاہئے جب تک ایسا نہیں ہوگا کامیابی مشکل ہے.اس طرح سوشل ازم کے بعد انٹر نیشنل سوشلزم کا آغاز ہوا.یعنی مزدور اپنی اپنی جگہ کی ہی خبر نہ رکھیں بلکہ دوسری جگہوں کی بھی خبر رکھیں.غرباء کی حالت سدھارنے کے متعلق کارل مارکس کے تین نظریے اس کے بعد ایک شخص کارل مارکس سے پیدا ہوا.یہ جرمن یہودی النسل تھا مگر مذہب عیسائی تھا اس نے اس مسئلہ پر غور کیا اور غور کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ جوسوشل ازم کہ رہی ہے کہ آہستہ آہستہ اصلاح کی جائے اور امیروں پر دباؤ ڈال کر ان سے مزدوروں اور غرباء کے حق حاصل کئے جائیں اسطرح تو پچاس سو بلکہ ہزار سال میں بھی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی.اصل خرابی یہ ہے کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں حکومت ہے وہ اپنی اصلاح نہیں کرتے پس اس کی اصلاح کا آسان طریق یہ ہے کہ حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی جائے چنانچہ وہ کہتا ہے یہ کیا طریق ہے کہ اگر حکومت کسی جگہ نہر نہیں نکالتی تو نہر کے لئے اس سے سو سال تک جنگ جاری رکھی جائے.حکومت اپنے ہاتھ میں لے لو اور نہر نکال لو.یا یہ کیا کہ فلاں کارخانہ میں چونکہ اصلاح نہیں اس لئے حکومت پر اُسکے متعلق زور دیا جائے اور برسوں اس پر ضائع کئے جائیں سیدھی بات یہ ہے کہ حکومت ہاتھ میں لو اور تمام مفاسد کا علاج کر لو.پس مارکس نے یہ اصول رکھا کہ سیاسیات میں پڑے بغیر ہم تمدنی اصلاح نہیں کر سکتے.جب تک سیاست ہاتھ میں نہ آجائے اور جب تک 13

Page 17

حکومت کے اختیارات قبضہ میں نہ آجائیں اس وقت تک کوئی سیاسی یا تمدنی اصلاح نہیں ہوسکتی.مارکسزم اور اسکا پہلا اُصول پس مارکسزم جو انٹر نیشنل سوشلزم کی ایک شاخ ہے جبر کے ساتھ اپنے مقاصد حاصل کرنے کی مؤید ہے اور اقتصادی تغیرات سے آزادی حاصل کرنے کی بجائے سیاسی تغیرات سے آزادی حاصل کرنے کی حامی ہے.پھر اسی نظریہ کے ساتھ مارکسزم یہ بات بھی پیش کرتی ہے کہ سوشلزم والے اس لئے کامیاب نہیں ہو سکے کہ انہوں نے امیروں سے مل کر کام کرنا شروع کر دیا حالانکہ امیروں کا قبضہ اتنا پرانا ہو چکا ہے کہ اسکے ہوتے ہوئے غرباء کو کوئی حق حاصل ہی نہیں ہوسکتا.مارکس کے نزدیک ڈیما کریسی کا اصول بالکل غلط ہے اور امیروں اور غریبوں کا میل جول بھی غلط ہے.اس کے نزدیک امیروں کو ایسا ہی سمجھنا چاہئے کہ گویا وہ انسان نہیں اور جو اختیار غرباء کو لیں وہ انہیں اپنے قبضہ میں لے لیں.مارکسزم کا دوسرا اُصول دوسرا نظریہ اس نے یہ پیش کیا کہ ہمیں اس غرض کے لئے جبر کرنا چاہئے.جتھا بناؤ ،حملہ کرو اور حکومت پر قبضہ کر لو.یہی کارل مارکس کا نظریہ تھا جس سے بالشوزم پیدا ہوا.مارکسزم کا تیسرا اُصول مارکس نے ایک یہ رائے بھی دی کہ مالدار زمیندار اور صناع اتنی طاقت پکڑ چکے ہیں اور مزدور اتنے بے بس ہو چکے ہیں کہ موجودہ حکومت کے توڑنے پر بھی وہ زیادہ دیر تک اپنے حقوق کی حفاظت نہیں کر سکتے.لطیفہ مشہور ہے کہ کسی کا کوئی سائیں سے تھا جسے آٹھ دس روپے ماہوار ملا کرتے تھے.ایک دفعہ کسی شخص نے اُسے سمجھایا کہ آجکل ہر شخص کو چالیس پچاس روپے ملتے 14

Page 18

ہیں اور تو آٹھ دس روپیوں پر گزارہ کر رہا ہے اپنے آقا سے کہتا کیوں نہیں کہ میری تنخواہ زیادہ کرو.وہ کہنے لگا میں کس طرح کہوں؟ اُس نے کہا تو کوئی غلام ہے اگرہ وہ تیری تنخواہ بڑھائے تو بہتر نہیں تو کسی اور جگہ ملازمت کر لینا.آخر بہت کچھ سمجھانے پر وہ تیار ہو گیا اور اس نے دل میں عہد کر لیا کہ آج جب آقا آیا تو اُسے صاف صاف کہہ دوں کہ یا تو میری تنخواہ بڑھائی جائے ورنہ میں نوکری چھوڑتا ہوں.اُس کا آقا اُسوقت سواری پر کہیں باہر گیا ہوا تھا جب واپس آیا تو سائیس اُس کے سامنے جا کھڑا ہوا اور کہنے لگا صاحب! ایک بات سُن لیجئے.اُس نے کہا کیا ہے؟ کہنے لگا سب کو تنخواہیں زیادہ ملتی ہیں اور میری تنخواہ بہت کم ہے پس یا تو میری تنخواہ بڑھائیں ورنہ.جب اُس نے کہا کیا تو میری تنخواہ بڑھائیں ورنہ تو اُسکے آقا نے کوڑا اٹھا کر اُسے مارا اور کہا.ورنہ کیا؟ کہنے لگا ور نہ آٹھ پر ہی صبر کرینگے اور کیا کرینگے.گویا یکدم اس کو ساری باتیں بھول گئیں.یعنی یا تو وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ ورنہ میں نوکری چھوڑ دونگا اور یا ایک کوڑا پڑتے ہی یہ کہنے لگا ورنہ پھر آٹھ پر ہی صبر کریں گے اور کیا کرینگے.لمبے عرصہ کی غلامی کا نتیجہ تو ایک لمبے عرصہ کی غلامی کے بعد انسان کی فطرت بالکل بدل جاتی ہے.میں نے دیکھا ہے چوہڑوں اور چماروں کو کتنا ہی اٹھانے کی کوشش کرو اور کتنی ہی دیر اُن سے باتیں کرتے رہو.آخر میں وہ یوں مسکرا کر کہ جیسے ہمارا دماغ پھر گیا ہے کہیں گے کہ رب نے جس طرح بنایا ہے اس میں اب کیا تغیر ہو سکتا ہے.گویا اُن کے نزدیک جس قدر مصلح اور ریفارمر ہیں سب کے دماغ خراب ہیں.یہی کارل مارکس نے کہا کہ ان لوگوں کی حالت بدلنے والی نہیں اگر عوام کو اختیار دے دیئے گئے تو وہ پھر ڈر کر ہتھیار رکھ دیں گے اس لئے شروع میں مزدوروں کے زبر دست ہمدردوں میں سے کسی کو ڈکٹیٹر شپ دینا ضروری ہے.وہ جب عوام کو منظم کرلے مزدوروں کے اندر بیداری پیدا کر دے اُن کے مختلف طبقات کے امتیازات کو مٹا دے اور اگلی نسل میں ایسی 15

Page 19

طاقت پیدا کر دے کہ وہ امیروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کر سکیں تو اُس وقت حکومت گلی طور پر جمہور کے سپر دکر دینی چاہئے مگر اس سے پہلے نہیں ورنہ حکومت جاتی رہے گی.غرباء کی بہبودی کے لئے لینن اور اُسکے ساتھیوں کی کوشش مارکس تو خیر مر گیا.اس کے بعد جب مظالم انتہاء کو پہنچے تو ایک پارٹی ایسی کھڑی ہو گئی جس نے مارکس کی تعلیم کے مطابق لوگوں کو منظم کرنا شروع کر دیا.انہی مختلف لوگوں میں سے جو مارکس کی تعلیم کے مطابق منظم ہوئے ایک لینن کے ہے جو روس کا پہلا عامی ڈکٹیٹر تھا لیکن اور اُس کے ساتھیوں نے مارکس کے خیالات کو زیادہ معتین جامہ پہنایا.کچھ عرصہ تک تو یہ سب مل کر کام کرتے رہے اور غریبوں کو ابھارتے رہے کہ تم ننگے پھرتے ہو ، بھوکے رہتے ہومگر اسی ملک کے امیر ہیں جو عیش و آرام میں اپنی زندگی کے دن بسر کر رہے ہیں.کبھی کہتے یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک ہی کارخانہ میں ایک مزدور صبح سے شام تک کام کرتا ہے اور شام کو اُسے اتنی قلیل مزدوری ملتی ہے کہ جس سے بمشکل وہ اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ بھرتا ہے مگر دوسری طرف اسی کارخانہ کے مالک کے بچے قیمتی سے قیمتی کوٹ پہنے پھرتے ہیں اور اعلیٰ سے اعلیٰ کھانے کھاتے ہیں.اس طرح انہوں نے تمام ملک میں جوش پیدا کر دیا اور امراء کے خلاف کئی پارٹیاں بن گئیں.بالشویک و منشویک پارٹیوں کا آغاز جب اُن کا اقتدار بڑھ گیا اور انہوں نے سمجھا کہ اب ہم ایسے مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ جلد ہی ہم کو حکومت مل جائیگی تو انہوں نے ایک میٹنگ کی اور اس کی غرض یہ قرار دی کہ ہم اپنے لئے ایک معین راستہ قائم کر لیں کہ ہم نے حکومت ملنے پر کس طرح کام کرنا ہے.اس میٹنگ کے دوران میں آپس میں اختلاف پیدا ہوگیا اور مارٹو و جولین کی طرح پارٹی میں مقتدر تھا اس کا لین سے اختلاف ہو گیا چنانچہ دو پارٹیاں بن گئیں جن میں سے ایک بالشویک کہلائی اور دوسری 16

Page 20

منشویک.بالشویک نام اس لئے رکھا گیا کہ بالشویک کے معنے کثرت کے ہیں چونکہ لیٹن کے ساتھ آدمیوں کی کثرت تھی اس لئے اس کی پارٹی بالشویک کہلائی اور منشویک کے معنے کم سے ہیں چونکہ اسکے مخالف کم تھے اس لئے مارٹو و کی پارٹی مینشو یک کہلائی.نظام حکومت کے متعلق لیٹن اور مارٹو کے نظریوں میں اختلاف پہلا اختلاف لیکن زیادہ تر مارکس کا متبع تھا اس نے یہ اصول مقرر کیا ہوا تھا کہ ہمیں ہر دوسری پارٹی سے علیحدہ رہنا چاہیئے اس کے بغیر ہم اپنے مقاصد کو صحیح طور پر نہیں پاسکیں گے لیکن مارٹو و کا یہ خیال تھا کہ طاقت حاصل کرنے سے پہلے ہمیں دوسرے مقتدر عناصر سے جو کہ فعال ہیں تعاون رکھنا چاہئے.غرض لیفن کی تھیوری یہ تھی کہ ہم دوسروں سے کوئی تعلق نہیں رکھتے ہم جو کچھ لائینگے اپنے زور سے لائینگے.کسی کے زیرا احسان ہو کر نہیں لا ئینگے دوسرے الفاظ میں لینن کی پالیسی یہ تھی کہ ہم دوسروں سے نہیں ملیں گے ہمارے پاس سچائی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ہم بالآخر جیت جائینگے.دوسرا اختلاف پھر لیٹن کا یہ خیال تھا کہ شروع میں ڈکٹیٹر شپ کے بغیر گزارہ نہیں چل سکتا لیکن مارٹو و کا یہ خیال تھا کہ شروع سے ہی جمہوری حکومت قائم ہونی چاہیئے.مارٹو و سمجھتا تھا کہ اگر لیڈر بنا تو لینن ہی بنے گا میں نے نہیں بننا اس لئے وہ شروع سے ہی جمہوری حکومت قائم کرنا چاہتا تھا.17

Page 21

مارٹو و کا خیال کہ سزائے موت بالکل ہٹا دی جائے پھر مارٹو ونٹی گورنمنٹ میں سوشلسٹ اصول کے ماتحت چاہتا تھا کہ سزائے موت کو بالکل ہٹا دیا جائے لیکن لینن نے اس بات پر زور دیا کہ میں مانتا ہوں کہ پھانسی کی سزا نہیں ہونی چاہئے لیکن اسوقت اگر یہ بات قانون میں داخل کر دی گئی تو زار کو پھانسی پر لٹکایا نہیں جاسکے گا اور لینن کا خیال تھا کہ زارا گر معطل ہو کر بھی زندہ رہے تو حکومت نہیں چل سکتی اس لئے لینن نے کہا کہ خواہ صرف زار کی جان لینے کے لئے موت کی سزا کی ضرورت ہو تب بھی یہ قائم رہنی چاہئے.گویا زار کی دشمنی اُس کے دل میں اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ اُس نے کہا اگر خالی زار کو پھانسی کے تختہ پر لٹکانے کے لئے اس قانون کی ضرورت ہو تب بھی یہ قانون ضرور قائم رہنا چاہیئے.ان اختلافات کا نتیجہ یہ ہوا کہ لینن کو زیادہ ووٹ ملے اور اُس کے ساتھیوں کو پارٹی کی رہنمائی کا حق دیا گیا اور اپنی کثرت کی وجہ سے وہ بالشویک کہلائے اور اُن کے مخالف اپنی قلت کی وجہ سے مینشو یک کہلائے.زار کے ہٹنے پر پہلے مینشو یک حکومت پر قابض ہوئے کیونکہ ملک کی دوسری پارٹیاں اُن کی حکومت کو اپنے لئے زیادہ آرام دہ بجھتی تھیں پھر بالشویک نے اُن کو دبا کر اپنی حکومت قائم کر لی.بالشوزم کے چھ اقتصادی اصول اور اُن کے نتائج اب میں بتاتا ہوں کہ بولشویک کے اقتصادی اصول کیا ہیں؟ یاد رکھنا چاہیئے کہ ان اقتصادی اصول کو وضع کرنے کا سب سے بڑا محرک یہی تھا کہ کسی طرح غریب اور امیر کا فرق جاتا رہے.جسطرح بیمار ہونے پر ایک امیر کو دو ملتی ہے اسی طرح غریب کو دوا ملے جس طرح امیر کو کپڑا میسر آتا ہے اسی طرح غریب کو پہننے کے لئے کپڑا میسر آئے ، جسطرح امیر پیٹ بھر کر کھانا کھاتا ہے اسی طرح ہر غریب پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور کوئی شخص بھوکا نہ رہے.اسی طرح 18

Page 22

ظلم کم ہوں اور اقتصادی لحاظ سے غرباء کو جو دھنیں پیش آتی رہتی ہیں ان سب کا سد باب ہو اس غرض کے لئے بالشوزم نے جو اقتصادی اصول مقرر کئے وہ مارکس کے اصول کے مطابق یوں ہیں:.پہلا اصول اول جتنی کسی کی طاقت ہو اس سے اُتنا ہی وصول کیا جائے.فرض کرو ایک شخص کے پاس دس ایکٹر زمین ہے اور دوسرے کے پاس منوا ایکڑ زمین ہے تو وہ یہ نہیں کریں گے کہ دس ایکٹر والے سے چند روپے لے لیں اور سوا یکڑ والے سے بھی چند روپے لے لیں بلکہ وہ دیکھیں گے کہ دس ایکڑ والے کی ضروریات کسقدر ہیں اور سو ایکڑ والے کی ضروریات رکس قدر اور پھر جس قدر زائد روپیہ ہو گا اس پر حکومت قبضہ کر لے گی مثلاً وہ دیکھیں گے کہ دس ایکڑ والا اپنی بیوی کو بھی کھلاتا ہے، بچوں کو بھی کھلاتا ہے، آپ بھی کھاتا ہے، بیلوں کو بھی کھلاتا ہے، اور پھر اتنار و پیداس کے پاس بیچ رہتا ہے تو حکومت کہے گی کہ یہ روپیہ تمہارا نہیں بلکہ ہمارا ہے اسی طرح سو یا ہزار ایکڑ والے کی ضروریات دیکھی جائیں گی اور جسقد رزائد روپیہ ہوگا حکومت اُسے اپنے قبضہ میں لے لیگی کیونکہ وہ کہتے ہیں ہمارا اصول یہی ہے کہ جتنا کسی کے پاس زائد ہواُس سے لے لو.دوسرا اصول دوسرا اصول انہوں نے یہ مقرر کیا کہ جتنی کسی کو ضرورت ہو اُس کو دیا جائے گویا پہلے اصول کے مطابق سو یا ہزار ایکڑ والے سے اُس کی زائد آمد وصول کر لی اور اس اصول کے مطابق جتنی کسی کوضرورت ہوئی اتنا اُسے دیدیا.فرض کر وسوا بیکٹڑ والے سے حکومت نے پانچ ہزار روپیہ وصول کیا تھا.مگر اُس کے گھر کے افراد دو تین ہیں تو اُسے زیادہ روپیہ نہیں دیا جائیگا بلکہ افراد کی نسبت سے دیا جائیگا کیونکہ روپیہ لیا اس اصول کے ماتحت گیا تھا کہ جتنا کسی کے پاس ہو لے لو اور دیا اس 19

Page 23

اصول کے ماتحت جائے کہ جتنی کسی کو ضرورت ہو اتنا اس کو دیا جائے.اُسے کہا جائیگا کہ تیرے پاس چونکہ زیادہ تھا اس لئے ہم نے زیادہ لیا اور تجھے چونکہ ضرورت کم ہے اس لئے ہم تجھے کم روپیہ دیتے ہیں.تیسرا اصول تیسرا اصول انہوں نے یہ مقرر کیا کہ انسانی ضرورت سے زائد پیداوار پر حکومت کا حق ہے جو ملک کی عام بہتری پر خرچ ہونی چاہئے.فرض کرو دو زمیندار ہیں اور دونوں کے پاس دس دس ایکٹر زمین ہے ان میں سے ایک نے زیادہ محنت سے کام کیا اور اس کی پیداوار میں من فی ایکڑ کے حساب سے ہو گئی مگر دوسرے کی پیدا وار صرف تین من فی ایکڑ ہوئی گویا ایک کی پیداوار ۳۰۰ من ہو گئی اور دوسرے کی صرف ۳۰ من اب فرض کرو جس کی ۳۰۰ من پیداوار ہوئی ہے اُسے صرف چالیس من پیداوار کی ضرورت ہے تو حکومت اُسے کہے گی چونکہ تمہاری پیداوار زیادہ ہوئی ہے اس لئے تم چالیس من رکھ لو اور ۲۶۰ من ہمارے قبضہ میں دید واسی طرح دوسرا شخص جس کی صرف تیں من پیداوار ہوئی ہے اُسے اگر اپنے لئے صرف دس من غلہ کافی ہوگا تو حکومت کہے گی دس من غلہ رکھ لو اور ہیں ” من ہمیں دید و پس تیسرا اصول اُن کا یہ ہے کہ جو پیداوار ضرورت سے زیادہ ہو جائے چاہے محنت سے ہو اور چاہے اتفاقیہ طور پر وہ لے لی جائے کیونکہ وہ حکومت کا حق ہے.چوتھا اصول چوتھا اصول انہوں نے یہ مقرر کیا کہ حکومت انسانوں پر نہیں بلکہ چیزوں پر ہونی چاہئے وہ کہتے ہیں خالی یہ قانون کافی نہیں کہ زائد پیداوار لے لی جائیگی کیونکہ اسطرح حکومت صرف 20

Page 24

انسانوں پر رہتی ہے حالانکہ حکومت اشیاء پر ہونی چاہئے مثلا کسی علاقہ میں گنا اچھا ہوتا ہے تو وہ کہتے ہیں حکومت کا حق ہونا چاہئے کہ وہ لوگوں کو حکم دے کہ اس علاقہ میں صرف گنا ہوئیں یا کسی علاقہ میں گندم بہت اچھی ہوتی ہو تو حکومت کو اختیار ہونا چاہئے کہ وہ اس علاقہ میں صرف گندم بونے کا حکم دے اور کوئی شخص گندم کے سوا اور کوئی چیز اس زمین میں نہ ہو سکے یا اگر حکومت حکم دینا چاہے کہ فلاں علاقہ میں کپاس ہوئی جائے، فلاں علاقہ میں جوار بوئی جائے تو سب لوگ اس کی تعمیل پر مجبور ہوں اور کوئی شخص خلاف ورزی نہ کر سکے.پس چوتھے اصول کے مطابق انہوں نے فیصلہ کیا کہ پیداوار کی تقسیم ہم کریں گے اور ہم فیصلہ کریں گے کہ فلاں فلاں علاقہ میں فلاں فلاں چیز بوئی جائے ، اور لوگوں کا فرض ہوگا کہ وہی چیز بوئیں.پانچواں اُصول پانچواں اصول انہوں نے یہ مقرر کیا کہ خالص دماغی قابلیتیں بغیر ہاتھ کے کام کے کوئی قیمت نہیں رکھتیں.وہ کہتے ہیں یہ کہنا کہ فلاں شخص کو ئی علمی بات سوچ رہا ہے بالکل لغو ہے اصل چیز ہاتھ سے کام کرنا ہے دماغی کام کرنے والوں کو بھی چاہئے کہ وہ ہاتھ سے کام کریں اور اگر وہ ہاتھ سے کام نہ کریں تو بے شک بھوکے مریں ہم اُن کی مدد نہیں کریں گے.چھٹا اُصول چھٹا اصول انہوں نے یہ مقرر کیا کہ ہمیشہ اپنے اصول کے لئے حملہ کا پہلو اختیار کرنا چاہئے دفاع کا نہیں.یہ نہیں ہونا چاہئے کہ بچاؤ کیا جائے بلکہ اپنے اصول کے لئے دوسروں پر حملہ کرنا چاہئے.21

Page 25

پہلے اصول کا نتیجہ یعنی تمام مالداروں کی جائیدادوں پر قبضہ پہلے اصول کے نتیجہ میں بالشوزم نے تمام مالداروں کی جائیدادوں پر قبضہ کر لیا کیونکہ انہوں نے فیصلہ کر دیا کہ جو کچھ ملتا ہے لے لو، زمینیں لے لو، جائیدادیں لے لو، اموال لے لو اور اسطرح جتنا کسی کے پاس ہو جبرا اپنے قبضہ میں کرلو.دوسرے اصول کا نتیجہ یعنی ہاتھ سے کام کر نیوالے کو ضرورت کے مطابق سامان مہیا کرنا دوسرے اصول کے مطابق بالشوزم نے ہر ہاتھ سے کام کرنے والے کو اُس کی ضرورت کے مطابق سامان مہیا کرنے کا ذمہ لیا.مثلاً ایک گھر کے پانچ افراد ہیں وہ فوراً فیصلہ کر دینگے کہ ان پانچ افراد کو اتنا کپڑا دے دیا جائے، اتناغلہ دے دیا جائے، اتنا ایندھن دے دیا جائے ، اسی طرح ڈاکٹر مقرر کر دئے جائیں گے جو بیماری پر اُن کا مفت علاج کریں گے.گویا اس طریق کے مطابق ہر شخص کو پہننے کے لئے کپڑا، کھانے کے لئے غلہ اور علاج کے لئے دوامل جائیگی.حکومت کا کام ہوگا کہ وہ لسٹیں بنائے اور افراد کی جسقد رضر ور تیں ہوں وہ پوری کر دے اور واقعہ میں اگر غور کیا جائے تو بالشوزم نے اس مشکل کو دور کر دیا ہے اور اگر اس طریق سے کام لیا جائے تو کوئی شخص بھوکا یا نگا نظر نہیں آسکتا سوائے اس کے کہ کوئی مذہبی آدمی ہو جیسے پادری وغیرہ کیونکہ اُن کے نزدیک ہاتھ سے کام کے بغیر خالص دماغی قابلیتیں کسی کام کی نہیں ہوتیں.پس وہ پادریوں اور اسی قسم کے اور مذہبی آدمیوں یا علماء اور فلاسفروں وغیرہ کو نکتا سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں انہیں اپنے ہاتھ سے کوئی کام کرنا چاہئے ورنہ ان کے بھوکا رہنے کی حکومت پر ذمہ داری نہیں ہوگی.22

Page 26

تیسرے اصول کا نتیجہ یعنی حکومت کے مقرر کردہ معیار سے زائد اشیاء پر قبضہ کر لینے کا فیصلہ تیسرے اصول کے مطابق انہوں نے زمینداروں اور تاجروں وغیرہ سے ہر وہ چیز جو حکومت کے مقرر کردہ معیار سے زائد ہولے لینے کا فیصلہ کیا.یعنی اگر کوئی شخص اپنی زمین سے پچاس من غلہ پیدا کرتا ہے اور اس کی ضروریات کے لئے ہیں من غلہ کافی ہے تو تمہیں من غلہ حکومت لے جائیگی اور کہے گی کہ یہ چیز چونکہ تمہاری ضرورت سے زائد ہے اسلئے اس پر حکومت کا حق ہے.یا ایک شخص کے پاس بہت بڑی زمین ہے اور اس کا گزارہ تھوڑی سی زمین پر بھی ہو سکتا ہے تو جتنی زمین پر اُس کا گزارہ ہوسکتا ہے وہ اس کے پاس رہنے دی جائیگی اور باقی زمین پر حکومت قبضہ کر لے گی.چوتھے اصول کا نتیجہ یعنی عملی آزادی کا فقدان چوتھے اصول کے مطابق زمیندار، تاجر اور صنعت پیشہ لوگوں کی عملی آزادی کو اس نے چھین لیا اور حکومت کے منشاء کے مطابق زراعت کرنا، تجارت کرنا اور صنعت و حرفت اختیار کرنا لازمی قرار دیا.مثلا کہ دیا کہ فلاں سو میل کا جو علاقہ ہے اس میں صرف گندم بوئی جائے فلاں علاقہ میں صرف گنا بویا جائے اور فلاں علاقہ میں صرف کپاس بوئی جائے.ہمارے ملک میں تو زمیندار عام طور پر دو مرلہ میں جوار بولیتے ہیں، دو مرلہ میں کپاس بو لیتے ہیں اور دو مرلہ میں گنا بولیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چھوٹے بچے ہیں گنے چوسیں گے اور اگر چھوٹے زمیندار ایسا نہیں کرتے تو جس کے پاس دس بارہ گھماؤں زمین ہو وہ تو ضرور ایسا کرتا ہے مگر بالشویک حکومت والوں نے علاقوں کے علاقوں کے متعلق یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ یہاں گندم نہیں بونی بلکہ گنا ہونا ہے.کئی ضلعے ایسے ہیں جہاں صرف گندم بوئی جاتی ہے.کئی ضلعے ایسے ہیں جہاں صرف گنا بویا جاتا ہے اور کئی ضلعے ایسے ہیں جہاں صرف کپاس ہوئی جاتی ہے، کیونکہ وہ کہتے ہیں یہ علاقے اسی فصل کے لئے موزوں ہیں 23

Page 27

اس لئے ہم حکم دیتے ہیں کہ اس کے علاوہ اور کوئی فصل اس موسم کی وہاں نہ ہوئی جائے.اگر کوئی کہے کہ پھر میں کھاؤ نگا کہاں سے؟ تو وہ کہہ دیتے ہیں روٹی کپڑا ہم دیں گے تمہیں اس کا کیا فکر ہے تمہیں فصل وہی بونی پڑے گی جس کا ہم تمہیں حکم دیتے ہیں.اس طرح زمیندار کی حیثیت وہاں ایک مزدور کی سی ہوگئی ہے.پانچویں اصول کا نتیجہ یعنی مذہبی نظام میں دخل پانچویں اصول کے مطابق انہوں نے مذہبی نظام میں دخل دیا اور پادریوں وغیرہ کو بغیر ہاتھ کی مزدوری کے روزی کا مستحق قرار نہ دیا.انہوں نے کہا کہ جب پادری کوئی ہاتھ کا کام نہیں کرتے تو یہ نکتے ہوئے اور سکتے لوگوں کو روزی نہیں دی جاسکتی پس وہ انہیں مجبور کر کے یا تو اور کاموں پر لگاتے ہیں اور یا پادری وغیرہ تھوڑا سا وقت عبادات میں گزار لیتے ہیں اور باقی وقت کسی کام میں بسر کر دیتے ہیں.دہریت پیدا کرنے کی تدبیر اسی مذہبی دشمنی کے سلسلہ میں انہوں نے ایک اور نئی تجویز نکالی اور مذہب کے متعلق انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ مذہب انفرادی آزادی کا نتیجہ ہونا چاہئے.ماں باپ اور بزرگوں کو بچپن میں مذہبی تعلیم دینے کا کوئی حق نہیں تعلیم گلی طور پر حکومت کے ہاتھ میں ہونی چاہئے.وہ کہتے ہیں دیکھو! بچوں پر یہ کیسا ظلم کیا جاتا ہے کہ بچپن میں ہی اُن کے دلوں پر مذہب کا اثر ڈالا جاتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو مسلمان ہوتے ہیں اُن کے بچے مسلمان بن جاتے ہیں، جو ہندو ہوتے ہیں اُن کے بچے ہندو بن جاتے ہیں اور جو پارسی ہوتے ہیں اُن کے بچے پارسی بن جاتے ہیں.ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے بلکہ بچوں کو ہر قسم کے مذہبی اثرات سے آزا درکھنا چاہیئے.جب بچہ جوان ہو جائے تو وہ جو چاہے مذہب اختیار کرلے جوانی سے پہلے ہی زبردستی اس کے دل پر اپنے مذہب کا 24

Page 28

اثر ڈالنا صریح ظلم ہے چنانچہ اس اصل کا نتیجہ مذہب کے حق میں زہر نکلا.وہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو ان کے ماں باپ سے جدا کر لیتے ہیں اور اپنے سکولوں میں تعلیم دلاتے ہیں جہاں مذہب کا نام تک بچہ کے کانوں میں نہیں پڑتا.جب وہ اٹھارہ بیس سال کی عمر کو پہنچ جاتا ہے اور پکا دہر یہ بن جاتا ہے تو کہتے ہیں اب یہ جوان ہو گیا ہے اور اب اسکے سمجھنے کا زمانہ آ گیا ہے اب یہ جو چاہے مذہب اختیار کر لے.حالانکہ اُس وقت اُس نے کیا سمجھنا ہے اُسوقت تو دہریت اُس کی رگ رگ میں سرایت کر چکی ہوتی ہے.غرض وہ کہتے ہیں ہم بچوں پر ظلم نہیں کرتے بلکہ اُن کی سختی صاف رکھتے ہیں تاکہ بعد میں اس پر جو نقش چاہیں ثبت کر لیں حالانکہ اس رنگ میں دل کی سختی صاف رکھنے کے معنے سوائے دہریت کے اور کچھ نہیں.جب وہ اٹھارہ بیس سال تک اپنے مطلب کی باتیں اُن کے کانوں میں ڈالتے رہتے ہیں تو جوان ہونے پر اُن کا یہ کہنا کہ ہم نے ان کے دل کی تختی بالکل صاف رکھی تھی صریح جھوٹ ہے حقیقت یہ ہے کہ وہ اسطرح دل کی تختی صاف نہیں رکھتے بلکہ انہیں دہریت کے گڑھے میں گرا دیتے ہیں پس اس اصل نے آئندہ نسلوں کو بالکل دہر یہ بنا دیا ہے.چھٹے اصول کا نتیجہ یعنی غیر ممالک میں اپنے خیالات کا پروپیگنڈا چھٹے اصول کے مطابق انہوں نے اپنے ملک سے باہر دوسرے ممالک میں جا کر اپنے خیالات پھیلانے اور ریشہ دوانیاں کرنی شروع کر دیں.چونکہ انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ ہمیشہ اپنے اصول کے لئے حملہ کا پہلو اختیار کرنا چاہئے دفاع کا نہیں اس لئے انہوں نے اپنے ایجنٹ جرمنی اور جاپان اور اٹلی وغیرہ میں بھجوانے شروع کر دیئے اور بیرونی ممالک میں اُن کا نام کمیونسٹ پڑا.پنجاب میں بھی کمیونسٹ پائے جاتے ہیں، ہندوستان کے باقی صوبہ جات مثلاً بہار وغیرہ میں بھی ہیں.اس طرح مارکس (بنی اسرائیلی النسل المانوي المولد )کے اصول کی حکومت روس پر ہوگئی اور یہ تحریک اس رنگ میں جاری ہوگئی کہ اسکے نتیجہ میں ہر شخص کو 25

Page 29

روٹی کپڑا ملے گا، غربت دُور ہوگی ، اور امراء اور غرباء میں مساوات قائم ہو جائیگی چونکہ اس تحریک کا اثر آہستہ آہستہ ساری دنیا پر پڑنے لگا اس لئے اس تحریک کا ایک اور نتیجہ بھی برآمد ہوا.یورپ میں بالشوزم کا ردعمل تین تحریکات کی صورت میں یعنی فیتزم ، ناسرم در فینس کا آغاز و فیلینگس وہ یہ کہ جب بالشوزم کے ایجنٹ سارے ملکوں میں پھیل گئے اور وہ دوسرے ممالک کو بھی اس تحریک کے زیر اثر لانے لگے تو یورپ کے بعض دوسرے ممالک جیسے جرمنی اور اٹلی جو اس بات کی خواہیں دیکھ رہے تھے کہ موجودہ طاقتور حکومتوں کے زوال پر دنیا کی سیاست اور اقتصاد پر قابض ہونگے انہوں نے اس میں اپنے خواب کی تخریب دیکھی.یہ ممالک سوچ رہے تھے کہ فرانس، انگلستان اور امریکہ بہت دیر تک دنیا پر حکومت کر چکے ہیں اور اب ایک لمبے عرصہ کی حکومت کے بعد ان میں تعیش پیدا ہو چکا ہے اور یہ حکومتیں کمزور ہورہی ہیں اب دنیا پر حکومت کرنا ہما راحق ہے.پس جرمنی، اٹلی اور سپین والے جو یہ خواہیں دیکھ رہے تھے کہ انگلستان، فرانس اور امریکہ کی حکومتیں اب بوڑھی ہو چکی ہیں اُن کی جگہ اب ہمیں موقعہ ملنا چاہیئے تا کہ ہم بھی حکومت کا مزا اٹھا ئیں وہاں جب یہ تحریک پہنچی تو ان کے دلوں میں سخت گھبراہٹ اور تشویش پیدا ہوئی.اُنکی حالت ایسی ہی تھی جیسے چیلیں اور گدھیں جب کسی بیل کو دم تو ڑتا ہوا دیکھتی ہیں تو بڑے مزے سے اس انتظار میں بیٹھ رہتی ہیں کہ کب یہ بیل مرے کہ ہم اسے نوچ نوچ کر کھا جائیں اسی طرح جرمن اور اٹلی والے دیکھ رہے تھے کہ کب انگلستان، فرانس اور امریکہ کا زور ٹوٹے کہ ہم اُن کی حکومتوں پر قابض ہو جائیں اور جس طرح ایک لمبے عرصہ تک انہوں نے دنیا کی دولت سے فائدہ اٹھایا ہے اسی طرح ہم بھی اٹھا ئیں.ان لوگوں کو اس تحریک سے سخت تشویش پیدا ہوئی کہ ہم تو کہتے ہیں کہ ہمیں آئندہ حکومت ملے اور یہ تحریک سب حکومتوں کو تباہ کرنا چاہتی ہے نتیجہ یہ ہوا کہ اس تحریک کا رد عمل ان ممالک میں پیدا ہوا.چنانچہ اٹلی میں مسولینی کے ذریعہ فیسزم پیدا ہوا جرمنی میں اس کا توڑ ہٹلر نے ناسزم کے ذریعہ نکالا اور سپین میں فرینکو اور 26

Page 30

فیلنکس تحریک نے سر اٹھایا.بالشوزم کے مقابلہ میں نئی تحریکات کا مقصد ان تینوں تحریکات کا مقصد ایک ہی تھا اور وہ تھا بالشوزم کا مقابلہ کرنا انہوں نے سمجھا کہ اگر یہ خیالات لوگوں میں پھیل گئے تو ہماری ترقی بالکل رُک جائیگی.چونکہ عوام الناس پر بالشویک تحریک کا اثر لازمی تھا اس لئے غرباء اس تحریک کے حامی تھے کیونکہ وہ کہتے تھے اس ذریعہ سے ہمیں کپڑے ملیں گے ، کھانا ملے گا، دوا ملے گی اور ہماری تمام ضروریات کو پورا کیا جائیگا.دُور کے ڈھول ہمیشہ سہانے ہوتے ہیں.ہندوستان میں بھی کئی لوگ بالشویک تحریک کے حامی ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس حکومت میں سرکار کے آدمی ہر شخص کے پاس آتے اور اُسے سلا سلا یا پاجامہ اور سیلی سلائی قمیص دے دیتے ہیں، اسی طرح کھانے کے لئے جسقد رغلہ ضروری ہو وہ دے دیتے ہیں یا اور جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے حکومت فورأ مہیا کر دیتی ہے.وہ یہ نہیں جانتے کہ اگر یہ تحریک جاری ہو جائے تو دنیا کا تمام موجودہ نظام توڑ کر بے شک ہر شخص کو روٹی کپڑا ملے گالیکن جو بچے گا وہ سرکار لے جائیگی مگر عام لوگ ان باتوں کو نہیں دیکھتے وہ صرف اتنا دیکھتے ہیں کہ اس تحریک کے نتیجہ میں ہمیں روٹی کپڑا ملے گا اور کوئی شخص بنگا یا بھوکا نہیں رہے گا.اٹلی اور جرمنی کی طرف سے بالشوزم کے خلاف اور نائسزم اور فیسزم کی حمایت میں پرو پیگنڈا کے مختلف ذرائع غرض جرمنی اور اٹلی میں بھی عوام الناس پر اس تحریک کا اثر ہونے لگا اور لوگ یہ کہنے لگ گئے کہ ہمارے ملک میں بھی ایسا ہی ہونا چاہئے.اس سے ہر شخص کو آرام حاصل ہو جائیگا اور دکھ درد جاتا رہیگا.27

Page 31

جرمنی اور اٹلی کی طرف سے بالشوزم کے خلاف پروپیگینڈا کا پہلا ذریعہ آخر ہٹلر اور مسولینی نے اس کا توڑ نکالا اور لوگوں سے کہا کہ تم فکر نہ کرو ناسزم اور فیسر م بھی امیروں کے مالوں پر قبضہ کریگی اور ملک کی تمام تجارتوں اور صنعت و حرفت پر قبضہ کر کے غریبوں کو اُن کا حق دلوائیگی.پس آئندہ براہ راست مزدور اور سرمایہ دار کا تعلق نہیں ہوگا بلکہ حکومت کے توسط سے ہوگا اور اس طرح انہیں وہ تکلیف نہیں ہوگی جو تاجروں سے پہنچتی ہے یا کارخانہ داروں سے پہنچتی ہے کیونکہ ہماری حکومتیں تجارتوں اور صنعت و حرفت پر خود قبضہ رکھیں گی اور اس طرح غریبوں کا حق انہیں دلوائیں گی.ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک کو مالدار بنانے کے لئے بڑے بڑے کارخانوں کی ضرورت ہے بڑی بڑی تجارتوں کی ضرورت ہے تاکہ مالداروں سے مال لیکر تمہاری بہتری پر خرچ کیا جا سکے اس غرض کے لئے ضروری ہے کہ بیرونی ممالک سے تجارت جاری رکھی جائے اور اس طرح اُنکے مال کو لوٹ کر اپنے ملک کے غرباء کی ترقی کے لئے خرچ کیا جائے مثلاً انہوں نے لوگوں سے کہا کہ تم چین کو نہیں لوٹ سکتے.تم امریکہ، انگلستان یا فرانس کو نہیں لوٹ سکتے ، لوٹنے کا طریق یہی ہے کہ ہمارے پاس بڑے بڑے جہاز ہوں ، بڑے بڑے کارخانے ہوں، بڑی بڑی تجارتیں ہوں اور ہمارے تاجر باہر جائیں اور ان ممالک کے اموال لوٹ کر لے آئیں.پس انہوں نے اپنے ملک کے لوگوں کو سبق دیا کہ تم ان بڑے بڑے تاجروں کو مال کمانے دو پھر اُن سے مال چھین کر ہم تمہیں دے دیں گے.اگر ایسا نہ ہوا تو وہی مثال ہو جا ئیگی جیسے کہتے ہیں کہ کسی شخص کے پاس ایک مرغی تھی جو روزانہ ایک سونے کا انڈہ دیا کرتی تھی اُس کے دل میں حرص پیدا ہوئی کہ اگر میں اسے زیادہ کھلا ؤ نگا تو یہ دو انڈے روزانہ دیا کریگی چنانچہ ایک دن اس نے اسے خوب کھلایا مگر نتیجہ یہ نکلا کہ وہ مرگئی اور آئندہ سونے کا انڈہ ملنا بند ہو گیا.یہی بات جرمنی اور اٹلی کی حکومتوں نے اپنی رعایا کے کانوں میں ڈالی کہ اگر امراء کو ایک دفعہ لوٹ لیا اور پھر انہیں کمانے کا موقعہ نہ دیا تو وہ غریب ہو جا ئینگے اور اُن کی لوٹ میں تم ایک 28

Page 32

دفعہ ہی حصہ لے سکو گے لیکن اگر تم ایک دفعہ لوٹ لو اور پھر انہیں کمانے کی اجازت دیدو اور جب کچھ عرصہ کما چکیں تو پھر لوٹ لو تو اسطرح بار بار اُن کے مال تمہارے قبضہ میں آتے چلے جائیں گے.پس انہوں نے کہا کہ ان بڑے بڑے تاجروں کو مال کمانے دو جب یہ مال کما کر لائیں گے تو وہ تمہیں دے دیئے جائیں گے.بالشوزم کے خلاف پروپیگنڈے کا دوسرا ذریعہ دوسرے انہوں نے اپنے ملک کے لوگوں کو یہ بتایا کہ بالشوزم امپیریلزم کی مخالف ہے اور چاہتی ہے کہ غیر ملکیوں کی حکومت نہ ہو مگر حالت یہ ہے کہ انگریزوں نے ایک مدت تک ملکوں پر حکومت کر کے دنیا کے اموال خوب جمع کر لئے ہیں یہی حال امریکہ اور فرانس کا ہے کہ وہ دنیا کی سیاست اور اقتصاد پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں مگر جب ہماری باری آئی ہے تو اب یہ دلیلیں دی جاتی ہیں کہ اس کا یہ نقصان ہے وہ نقصان ہے ہم ان دلیلوں کو نہیں مانتے.ہم بھی ان کی طرح غیر ملکوں پر قبضہ کرینگے اور ان کے اموال لا کر اپنے ملک کے غرباء میں تقسیم کرینگے.غریبوں کو یہ بات طبعاً بہت اچھی لگی اور انہوں نے بھی آخر اس تحریک کی تائید کرنی شروع کر دی.بالشوزم کے خلاف پروپیگنڈے کا تیسرا ذریعہ پھر انہوں نے اپنے ملک کے لوگوں کو بتایا کہ بالشویک تحریک خود بخود دز ور نہیں پکڑ رہی بلکہ در اصل امریکہ، فرانس اور انگلستان والے اس کی مدد کر رہے ہیں تا کہ جرمنی اور اٹلی والے ان کی دولت میں حصہ دار نہ بن سکیں.اس سے ملک میں بالشوزم کے خلاف اور بھی جوش پیدا ہوگیا.بالشوزم کے خلاف پروپیگنڈے کا چوتھا ذریعہ پھر انہوں نے اپنے ملک کے لوگوں کو ایک اور بات بتائی اور کہا دیکھو! اگر آج ہم اپنے 29

Page 33

ملک کے امیروں کو لوٹ لیں گے تب بھی ہمارا اقتصادی معیار زیادہ بلند نہیں ہوگا کیونکہ ہمارا ملک پہلے ہی غریب ہے اور اس کے پاس دولت بہت کم ہے اور تھوڑی دولت کی تقسیم ملک کے افراد کو آسودہ حال نہیں بنا سکتی.فرض کرو سوغرباء ہوں اور پچاس روپے ہوں تو ہر غریب کو آٹھ آٹھ آنے ملیں گے مگر آٹھ آنے سے اس کی مالی حالت سدھر نہیں سکتی پس انہوں نے غرباء سے کہا کہ ہمارے ملک پہلے سے غریب ہیں اگران میں بالشویک تحریک آبھی جائے تب بھی سارے ملک کا اقتصادی معیار اتنا بلند نہیں ہوگا جتنا کہ بغیر بالشوزم کے انگلستان، فرانس اور امریکہ میں ہے پس بالشوزم ان ممالک کے لئے زہر قاتل ثابت ہوگی ہاں اگر فیسزم اور ناٹسزم کی جارحانہ پالیسی کو تسلیم کر لیا جائے تو ایک طرف تو ان کا طاقت پکڑنے والا نظام امریکہ، انگلستان اور فرانس کو شکست دے کر اُن کی دولت کو کھینچ لائیگا اور دوسری طرف دوسرے ممالک پر قبضہ کر کے اُن کی دولت سے ان ممالک کو مالا مال کیا جا سکے گا.نتیجہ یہ ہوگا کہ دولت کی فراوانی کے بعد نیشنل سوشلسٹ حکومت کے نظام کے ماتحت غرباء کی حالت اس سے کہیں بہتر ہوگی جتنی کہ بالشویک رواج کے ماتحت ہو سکتی ہے کیونکہ تھوڑی دولت کی تقسیم آخر ملک کے ہر فرد کو آسودہ نہیں بنا سکتی مگر زیادہ دولت کی تقسیم نیشنلسٹ انتظام کے ماتحت ملک کے تمام افراد کو زیادہ سکھیا بنادیگی.اٹلی اور جرمنی میں نائسزم اور فیزم کی قبولیت یہ سارے نظریے ایسے تھے کہ باجود اسکے کہ اٹلی، جرمنی اور سپین میں بالشوزم کے ایجنٹ موجود تھے ،لوگوں نے ناٹزم اور فیسزم کی طرف توجہ کرنی شروع کر دی کیونکہ انہوں نے کہا ہمارا پیٹ فیسزم اور نائسزم سے زیادہ بھرتا ہے بالشوزم سے زیادہ نہیں بھرتا.پس انہوں نے اپنے ملک کے لیڈروں کو طاقت دینے کا تہیہ کر لیا تا کہ وہ انگلستان ، فرانس اور امریکہ کو شکست دے کر ان ملکوں کی دولت کو کھینچ لائیں اور جرمنی اٹلی اور سپین میں تقسیم کر دیں.30

Page 34

بالشوزم کے خلاف پروپیگنڈے کا پانچواں ذریعہ یعنی بیرونی اقتدار کے ماتحت مذاہب کو مٹانے کی کوشش یہ جو نیشنل سوشلزم والے لوگ تھے انہوں نے ایک اور بات بھی پھیلائی اور وہ یہ کہ جس طرح بالشویک تحریک کے ذریعہ امریکہ، انگلستان اور فرانس والے ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں اسی طرح یہ مالدار اقوام اپنے بیرونی مذہبی اثر سے ملک میں تفرقہ پیدا کئے رکھتی ہیں اس لئے کوئی ایسا مذہب ملک میں مقتدر نہیں ہونا چاہئے جو بیرونی اقتدار کے اثر کے نیچے ہو.چنانچہ اسی بنا پر ہٹلر نے رومن کیتھولک اور یہودی مذہب کو مٹانا شروع کیا بلکہ اس ڈر سے کہ آئندہ اسرائیلی نسل کے لوگ بالشوزم کا اثر نہ پھیلائیں کیونکہ روس میں اسرائیلیوں کو اقتدار حاصل ہے اس نے عیسائی اسرائیلیوں کو بھی تباہ کرنے کا فیصلہ کر لیا.ہٹلر یہودیوں کا اسی لئے مخالف ہے کہ اس کا اصل یہ ہے کہ ایسے تمام مذاہب جن کے مرکز جرمنی سے باہر ہیں انہیں ملک میں طاقت پکڑنے نہیں دینا چاہئے.یہی بنا اس کی رومن کیتھولک سے مخالفت کی ہے.باقی لوگوں کا چونکہ باہر کوئی مذہبی مرکز نہیں اس لئے وہ سمجھتا ہے اُن کی نگاہ جرمنی سے باہر کسی اور طرف نہیں اٹھے گی.گویا اُن کا جو مذہب ہوگا اس میں وہ منفرد ہونگے خواہ اس میں کس قد روحشیانہ احکام کیوں نہ پائے جاتے ہوں.بیرونی اقتدار کے ماتحت مذاہب کو مٹانے کی کوششوں کا نتیجہ اس اثر کے ماتحت جرمنی میں ایسی مذہبی تحریکیں شروع ہوگئی ہیں جو پرانے اصنام پرستی کے عقائد کی طرف لوگوں کو لے جاتی ہیں چنانچہ ایک تحریک جس میں جنرل لوڈن ڈروف اور اُن کی بیوی نے بہت سرگرمی دکھائی ، یہ ہے کہ پرانے زمانہ میں جرمن کتے کی پوجا کیا کرتے تھے اب پھر جرمنوں کو اسی طرف توجہ کرنی چاہئے.یہ ہٹلر کی اسی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ ایسا طریق اختیار کرو کہ کوئی قوم اپنے بیرونی مذہبی اثر سے ملک میں تفرقہ پیدا نہ کر سکے اور چاہئے کہ کوئی ایسا مذ ہب ملک میں نہ 31

Page 35

ہو جس کا مرکز جرمن سے باہر ہو اسی بنا پر جرمنی نے رومن کیتھولک اور یہودی مذہب کو مٹانا شروع کیا ہے.اٹلی والوں نے ایسا نہیں کیا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ روم ہی رومن کیتھولک مذہب کا مرکز تھا اور اس وجہ سے فاشسٹ پارٹی نے اس مذہب کی اتنی مخالفت نہیں کی مگر اس کے اقتدار کو کم کرنے کی ضرور کوشش کی تاکہ ملک کی مذہبی جماعت سیاسی جماعت کے کام میں رخنہ پیدا نہ کرے بعد میں ہٹلر کے اثر کے ماتحت اسرائیلیوں کی مخالفت بھی انہوں نے شروع کر دی کیونکہ انہیں بتایا گیا کہ ایک طرف یہ قوم بالشویک اثر کو پھیلاتی ہے اور دوسری طرف برسر اقتدارحکومتوں میں خاص نفوذ رکھنے کی وجہ سے اُن کے اثر کو مضبوط رکھتی ہے.سپین نے بالشویک اور موجودہ برسر اقتدار اقوام کی مخالفت تو کرنی شروع کی لیکن یہودیوں کی ابھی اتنی مخالفت شروع نہیں کی جتنی جرمنی اور اٹلی میں ہوتی ہے.بالشوزم کے خلاف پروپیگنڈے کا چھٹا ذریعہ یعنی آرین نسل کے لئے استحقاق حکومت کے خیال کی اشاعت پھر ایک اور نظریہ ہٹلر اور مسولینی نے پبلک کو جوش دلانے اور انکو اپنے ساتھ ملانے کے لئے یہ پھیلایا کہ دنیا میں ارتقاء کے مسئلہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں سب سے بہتر چیز ہی آگے بڑھتی ہے اور اس کے بڑھنے سے ہی دنیا کا ہرا گلا قدم ترقی کی طرف جاتا ہے.اسی نظریہ کے ماتحت اس نے کہا کہ چونکہ آرین نسل سب قوموں سے زیادہ قابل ہے اس لئے جرمن نسل کو خصوصاً اور باقی آرین نسلوں کو عموماً آگے لانا چاہئے.اس موقعہ پر میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ہٹلر اس بات میں پنڈت دیا نند کا شاگرد ہے کیونکہ سب سے پہلے پنڈت دیانند صاحب دیانند - نے ہی یہ خیال پھیلایا کہ آرین نسل سب نسلوں سے اعلیٰ ہے بہر حال جرمن چونکہ آرین نسل میں سے ہیں اور آرین نسل ہٹلر کے اصول کے مطابق سب سے اچھی ہے اس لئے ہٹلر نے لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا کیا کہ جو اعلیٰ نسل ہوا سے ہی حکومت ملنی چاہئے.وہ کہتا ہے دیکھو! لوگ 32

Page 36

اچھا گھوڑا پیدا کرتے ہیں اچھی گائے پیدا کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ناقص گھوڑوں اور ناقص گائیوں کی بجائے اعلیٰ عمدہ نسل کے گھوڑے اور گائیں رکھیں پھر یہ کیسی عجیب بات ہے کہ حکومت میں اس امر کو مد نظر نہیں رکھا جاتا اور اس بات کو نظر انداز کیا جاتا ہے کہ دنیا میں زیادہ قابل لوگ ہی حکومت کے اہل ہوتے ہیں.چونکہ اس وقت ہماری نسل سب سے اعلیٰ ہے اس لئے ہمارا حق ہے کہ ہم دوسروں کو غلام بنا کر رکھیں جیسے انسان گدھے کو غلام بنا کر رکھتا ہے.یہ تو نہیں ہوتا کہ وہ گدھے کے تابع ہو کر چلے جس طرح گدھے کو اپنے ماتحت رکھنا ظلم نہیں کہلا سکتا اسی طرح ہمارا فرض ہے کہ ہم لوگوں کو اپنے ماتحت کریں اور اُن پر حکومت کریں.یہ نظریہ بھی لوگوں کو بڑا پسند آیا اور اس طرح ہٹلر اور مسولینی کے ساتھ اُن کا تمام ملک ہو گیا.خلاصہ یہ کہ غربت کے دکھ درد کو دور کرنے کے لئے اس وقت تین تحریکیں دنیا میں زور پر ہیں.سوشلزم کے ذریعہ انگلستان، فرانس اور امریکہ کے مزدوروں کو فائدہ اول برسراقتدار ممالک کی سوشلزم جو آہستہ آہستہ اپنے ملکوں میں غرباء کو زیادہ حقوق دلانے اور حکومت کو ملک کی دولت پر زیادہ تصرف دلانے کی تائید میں ہے یہ تحر یک انگلستان ، فرانس اور امریکہ میں جاری ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ آہستہ آہستہ مزدور پیشہ لوگوں کو حکومت میں زیادہ تصرف دلایا جائے غرباء کو زیادہ حقوق دلائے جائیں اور ملک کی تجارت کو اتنا بڑھایا جائے کہ غرباء کی غربت دور ہو جائے.ان ممالک میں چونکہ یہ تحریک ایک عرصہ سے جاری ہے اس لئے اس کا ان ممالک کے غرباء کو اس حد تک فائدہ ضرور ہوا ہے کہ ہمارے ملک کا امیر اور انگلستان کا غریب دونوں برابر ہوتے ہیں.یہاں کسی کی تنخواہ تین سوروپے ہو جائے تو وہ اپنے آپ کو رئیس سمجھنے لگتا ہے.ہمارے ملک میں بڑا عہدہ ڈپٹی کا ہے یا حج کا ہے اور سب حج اور ڈپٹی کو اڑھائی سوروپے تنخواہ ملا کرتی ہے مگر یہ انگلستان میں ایک مزدور کی تنخواہ ہے.امریکہ میں تو اس سے بھی زیادہ تنخواہیں ہیں وہاں بعض جگہ معمولی مزدور کی ماہوار تنخواہ ڈیڑھ ڈیڑھ سو دودوسوڈالر ہوتی ہے 33

Page 37

جس کے معنے یہ ہیں کہ پانچ سو یا سات سو روپیہ ماہوا مگر وہ کہلا تا مزدور ہے.غرض انہوں نے ایک تو معیار زندگی کو بڑھا لیا ہے دوسرے انہوں نے یہ اصول مقرر کیا ہوا ہے کہ ملک کی تجارت اور اقتصادی حالت کو زیادہ سے زیادہ ترقی دی جائے اس طرح ملک کی دولت بڑھے گی اور جب ملک کی دولت بڑھے گی تو غرباء کو بھی ترقی حاصل ہوگی.یہ انگلستان، فرانس اور امریکہ کی تحریک سوشلزم کے نتائج ہیں لیکن اس تحریک کی ہمدردی زیادہ تر اپنے ملک کے غرباء کے ساتھ ہے.وہ یہ تو چاہتے ہیں کہ دوسرے ممالک کی بھی کچھ اشک شوئی کریں مگر یہ نہیں چاہتے کہ دوسرے ممالک میں جو اُن کی اقوام کو نفوذ اور اقتدار حاصل ہے وہ مٹ جائے.ہندوستان کا سوال آجائے تو وہ ضرور اشک شوئی کرنے کی کوشش کریں گے مگر جب بھی وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان کو کچھ دے دیا جائے اُسوقت وہ یہ نہیں چاہتے کہ اُن کے اقتدار میں کوئی فرق آئے.گویا اُن کا ہندوستانیوں سے ایسا ہی سلوک ہوتا ہے جیسے ایک پالتو جانور کو اچھی غذا دی جاتی ہے.پالتو جانور کو اچھی غذا دینے والا اچھی غذا تو دیتا ہے مگر اپنی غذا کو نقصان نہیں پہنچنے دیتا اسی طرح یہ لوگ ہندوستان کو جب بھی کوئی حق دینا چاہتے ہیں ساتھ ہی یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک کی امپیریلزم کو کوئی نقصان نہ پہنچے.آج ہمارا مزدور چار سو روپیہ ماہوار لیتا ہے اگر کل وہ دوسو روپیہ تک پہنچ گیا تو ہماری حالت بھی وہی ہو جائیگی جو ہندوستان اور افغانستان کے غرباء کی ہے.اس تحریک کے دو عظیم الشان نقصانات ہیں.سوشلزم تحریک کے دو عظیم الشان نقصانات یعنی غیر ملکوں سے ہمدردی کا فقدان اور مذہب سے بے تو نبی اول اس تحریک کو ساری دنیا سے ہمدردی نہیں بلکہ اپنے اپنے ملک سے ہمدردی ہے.گویا یہ تحریک مخفی امپیریلزم کی شریک حال ہے اور انٹرنیشنلزم کا ساتھ صرف اس لئے دیتی ہے کہ دوسری اقوام آگے نہ بڑھیں.دوسرا نقص اس تحریک میں یہ ہے کہ اس میں صرف دنیوی پہلو کو مد نظر رکھا 34

Page 38

گیا ہے مذہبی پہلو کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے.گویا اگر پہلے نقص کو یہ تحریک دُور بھی کر دے اور اس نظام کے اصول میں ساری دنیا سے ہمدردی کرنا شامل کر لیا جائے تب بھی مذہب کا خانہ خالی ہے حالانکہ جسمانی ضرورتوں سے مذہبی اور دینی ضرورتیں زیادہ اہم ہوا کرتی ہیں.یہ لوگ مذہب کے دشمن نہیں مگر انہیں مذہب سے ہمدردی بھی نہیں اور جب ہمدردی نہیں تو انہوں نے مذہب کے لئے خرچ کیا کرنا ہے؟ دوسری تحریک اس مرض کا علاج کرنے کے لئے وہ جاری کی گئی ہے جو روس میں پائی جاتی ہے اور جس کا نقطۂ مرکزی یہ ہے کہ انفرادی جد و جہد کو بالکل مٹادیا جائے اور جسقدر دولت ہو وہ حکومت کے ہاتھ میں آجائے جو لوگ ہاتھ سے کام کرنے والے ہوں اُن کے لئے تو مناسب گذارے مقرر کر دیئے جائیں مگر خالص علمی اور مذہبی کام کرنے والوں کو عضو بے کار قرار دیکر حکومت کی مدد سے محروم کر دیا جائے اور عام گذارہ سے زیادہ بچی ہوئی تمام دولت حکومت کے ہاتھ میں ہو.اور کام اور مقام کا فیصلہ بھی حکومت کرے اور ماں باپ کو مذہب کی تعلیم دینے کا اختیار نہ دیا جائے اور اس تحریک کو ساری دنیا میں پھیلایا جائے یہاں تک کہ دنیا کی سب اقوام اس تحریک میں شامل ہو جائیں.گو یہ لوگ اقتدار عوام کے حامی ہیں مگر شروع میں ایک لمبے عرصے تک یہ اقتدار عوام کو سونپنے کے لئے تیار نہیں.یہ تحریک روس میں بالشوزم اور کمیونزم (COMMUNISM)اور دوسرے ممالک میں کمیونزم کہلاتی ہے اس تحریک کے اصولی نقائص یہ ہیں : کمیونزم کے سات اصولی نقائص.پہلا نقص یعنی انفرادی جد و جہد کے رستہ کی بندش اوّل.انفرادی جد وجہد کا راستہ بالکل بند کر دیا گیا ہے یہ اس تحریک میں ایک خطرناک نقص ہے جو گو اسوقت محسوس نہیں کیا جاتا مگر بعد میں کسی وقت ضرور محسوس کیا جائیگا.اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں یہ مادہ رکھا ہے کہ جس کام سے اس کا ذاتی فائدہ ہو یا جس کام کے نتیجہ میں اس 35

Page 39

کے ذریعہ سے دوسروں کا فائدہ ہو اس میں تو وہ دلچسپی لیتا ہے مگر جس کام کا فائدہ اُسے یا دوسروں کو کسی دوسرے کے ہاتھ سے پہنچے اس میں وہ زیادہ دلچسپی نہیں لیتا.جب تم کسی کے دماغ سے اس رنگ میں کام لو گے کہ خواہ اس کام کا نتیجہ اُسے نظر آئے یا نہ آئے وہ کرتا چلا جائے تو یہ لازمی بات ہے کہ وہ اس کام میں دلچسپی نہیں لیگا کیونکہ دلچسپی نتیجہ نظر آنے سے ہوتی ہے.اب تو جو شخص تعلیم حاصل کرتا ہے وہ سمجھتا ہے اگر میں ایم اے ہو گیا یا یونیورسٹی امتحان میں فرسٹ (First) نکل آیا تو مجھے کوئی اعلیٰ ملازمت مل جائے گی یا کوئی خیال کرتا ہے کہ میں فوج میں لیفٹیننٹ ہو جاؤنگا، کوئی خیال کرتا ہے میں ای.اے بی ہو جاؤنگا، کوئی خیال کرتا ہے میں بڑا تاجر ہو جاؤ نگا اور اسطرح خود بھی رو پید کاؤنگا اور اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں کی بھی خدمت کرونگا.اس وجہ سے وہ اپنی تعلیم میں بڑی دلچسپی لیتا ہے لیکن فرض کرو یہ محرک جاتا رہے اور حکومت فیصلہ کر دے کہ جسقدر طالب علم پڑھ رہے ہیں سب کو پندرہ پندرہ روپے ملیں گے، جو پرائمری پاس ہوا سے بھی پندرہ روپے ملیں گے، جو پرائمری فیل ہوا سے بھی پندرہ روپے ملیں گے، جو ایم.اے پاس ہوا سے بھی پندرہ روپے ملیں گے اور جو انٹرنس پاس ہوا سے بھی پندرہ روپے ملیں گے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ پیدا ہوگا کہ دماغ کی کاوش محنت اور جوش سب ختم ہو جائیگا اور ایک عام انسان کہے گا.مجھے محنت کی کیا ضرورت ہے.میرا دوست روز سینما دیکھتا ہے میں بھی کیوں سینمانہ دیکھا کروں اور کیوں ایم.اے بنے کی کوشش کروں ایف اے تک ہی تعلیم حاصل کر کے کیوں نہ ختم کر دوں.جب مجھے آخر میں پندرہ روپے ہی ملنے ہیں تو زیادہ تعلیم حاصل کرنے اور زیادہ جد و جہد کرنے کی کیا ضرورت ہے.بہت تھوڑی تعداد ایسے لوگوں کی نکلے گی جنہیں علم سے ذاتی شغف ہو اور جنہیں اگر مار پیٹ کر بھی تعلیم سے ہٹانا چاہیں تو وہ نہ ہیں.زیادہ تر ایسے لوگ ہی نکلیں گے جو ان حالات میں تعلیم سے دلچسپی لینا ترک کر دیں گے اسی طرح ہر فن کے لوگ اپنے اپنے فن میں دلچسپی لینا ترک کر دینگے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آہستہ آہستہ انسانی دماغ گرنا شروع ہو جائیگا اور وہ خواص جو نسلاً بعد نسل منتقل ہوتے چلے جاتے ہیں مٹ جائیں گے.36

Page 40

یہ مت سمجھو کہ باپ کے خواص بیٹے میں منتقل نہیں ہو سکتے کیونکہ تجر بہ بتا تا ہے کہ جولوگ اچھے حساب دان ہوں اُن کی اولاد میں عام طور پر اچھے حساب دان پیدا ہوتے ہیں.اسی طرح جو شخص جس فن کا ماہر ہو وہ فن بالعموم ورثہ کے طور پر اسکی اولاد میں منتقل ہو جاتا ہے.اسی وجہ سے بعض خاندان اور بعض اقوام خاص خاص علوم اور خاص خاص فنون میں ماہر سبھی جاتی ہیں.مثلاً اٹلی میں اچھے مصوّر اور اچھا با جا بجانے والے پائے جاتے ہیں، کشمیری کھانا پکانے کا فن اور خوشخطی کا فن خوب جانتے ہیں، یہی حال بعض اور قوموں کا ہے یہ چیز نسلی طور پر بھی ترقی کرتی ہے.چنانچہ جو شخص بہادر ہو اس کا بیٹا بالعموم بہادر ہی ہوتا ہے پنجابی میں اسے تخم تاثیر کہتے ہیں.اور سائنس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ انسان کے اخلاق کے ذرات خواہ وہ اچھے ہوں یا بُرے نسل میں منتقل ہوتے رہتے ہیں جس قسم کے اخلاق کسی انسان میں پائے جاتے ہیں اسی قسم کے ذرے اس کی نسل میں منتقل ہوتے رہتے ہیں.شجاعت صداقت، عفت ، علم سے شغف یا اسی قسم کے اور اخلاق نسلوں میں منتقل ہو جاتے ہیں.ایسے ذرات کبھی دوسری پشت میں کبھی چوتھی پشت میں اور کبھی آٹھویں یا دسویں پشت میں ظاہر ہو جاتے ہیں حالانکہ وہ ذرات اُس کے کسی پڑدادا بلکہ نکٹر دادا میں پائے جاتے تھے.پنجابیوں نے اسی سے تخم تاثیر کا اصل نکالا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صحبت کا اثر بھی بہت بڑا ہوتا ہے مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ نسلاً بعد نسل بعض اخلاق وصفات منتقل ہوتی چلی جاتی ہیں مگر یہ چیز قدرتی طور پر ان قوموں میں بہت کم ہو جائیگی جن پر بالشویک تحریک کا اثر ہو کیونکہ ترقی کے لئے وسعتِ خیال کے مادہ کا ہونا اور کسی محترک کا ہونا ضروری ہوتا ہے اور اس تحریک میں اس محترک کو بہت کمزور کر دیا گیا ہے.کمیونزم کا دوسرا نقص یعنی جبر و اکراہ اور اُسکا نتیجہ دوسرا نقص اس تحریک میں یہ ہے کہ جبر کا دروازہ کھول کر فساد کو جاری کر دیا گیا ہے.اگر اس تحریک کے بانی یہ کرتے کہ آہستگی سے اُمراء کو عادی بنا کر اُن سے دولت لے لیتے تو اس 37

Page 41

میں کوئی ہرج نہ تھا مگر انہوں نے یکدم اُن کی دولت کولوٹ لیا اور وہ جو ہر وقت نوکروں کے جمگھٹے میں رہتے تھے انہیں اس سے محروم کر دیا.گویا دوسرے لفظوں میں اُن کے ساتھ یہ سلوک کیا کہ انہیں محلات سے اٹھا کر چوہڑوں کے مکانوں میں بھیج دیا.اس قسم کے تغیرات کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فساد شروع ہو جاتا ہے کیونکہ ہر تغیر سے پہلے اُس کے مناسب حال ماحول پیدا کرنا بھی ضروری ہوتا ہے اچھا باغبان جب کسی درخت کو اکھیڑتا ہے تو مناسب ماحول میں اُکھیڑتا اور مناسب ماحول میں ہی دوسری جگہ لگاتا ہے اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو وہ درخت کبھی پھل نہیں لاسکتا.اس تحریک میں چونکہ اس اصل کو مد نظر نہیں رکھا گیا اس لئے نتیجہ یہ ہوا کہ پرانے اُمراء بھاگ بھاگ کر دوسرے ملکوں میں چلے گئے اور وہاں کے رہنے والوں کو روس کے خلاف اُکسانے لگ گئے.کبھی امریکہ کو کبھی انگلستان کو اور کبھی فرانس کو تا کہ وہ ان ملکوں کو اُکسا کر روس کے خلاف کھڑا کر دیں اور اس طرح اگر وہ خود تباہ ہوئے ہیں تو روس بھی تباہ ہو جائے.کمیونزم کا تیر القص یعنی مذہب کی مخالفت اور اسکا نتیجہ تیسر کے انہوں نے مذہب کی مخالفت کر کے سب مذہبی دنیا کو اپنا مخالف بنالیا ہے.یہ لازمی بات ہے کہ جولوگ مذہب سے محبت رکھنے والے ہوں گے وہ اس تحریک کے کبھی حامی اور مؤید نہیں ہونگے.کمیونزم کا چوتھا نقص یعنی ملک میں ڈکٹیٹری کی ترویج چوتھے انہوں نے ڈکٹیٹری کے لئے رستہ کھولا ہے.بیشک یہ لوگ اصولاً اقتدار عوام کے حامی ہیں مگر جیسا کہ میں ابھی بتا چکا ہوں وہ شروع میں ہی یہ اقتدار عوام الناس کو سونپنے کیلئے تیار نہیں بلکہ کہتے ہیں ابتداء میں ڈکٹیٹر شپ ضروری چیز ہے مگر اس کی کوئی حد مقر ر ہیں.لیٹن کے 38

Page 42

بعد سٹالن ڈکٹیٹر بن گیا.سٹالن کے بعد مولوٹو ف کے بن جائیگا پھر کسی اور ٹوف کی باری آجائیگی.اس طرح یہ تحریک عملی رنگ میں ڈکٹیٹری کے لئے راستہ کھولنے والی ہے.کمیونزم کا پانچواں نقص یعنی علم کے راستہ میں رکاوٹ پانچواں اس تحریک کا ایک لازمی نتیجہ علم کے راستہ میں رکاوٹ کا پیدا ہونا ہے.اس رنگ میں بھی کہ جب ہر شخص کو پندرہ پندرہ یا بیس بیس روپے ملیں تو علمی ترقی کی تڑپ اس کے دل میں نہیں رہ سکتی اور وہ سمجھ لیتا ہے کہ خواہ میں تھوڑ اعلم حاصل کروں یا بہت جب مجھے معاوضہ میرے گزارہ کے مطابق مل جائیگا تو میں زیادہ علم کیوں حاصل کروں اور اس رنگ میں بھی کہ دماغی اور علمی ترقی کے لئے دوسرے ملکوں میں جانا اور ان کے حالات کا دیکھنا ضروری ہوتا ہے اور تاریخ بتاتی ہے کہ وہی تو میں دنیا میں ترقی کیا کرتی ہیں جن کے افراد کثرت سے غیر ملکوں میں جاتے اور وہاں سے مفید معلومات حاصل کرتے ہیں.اگر چند مخصوص آدمی غیر ممالک کی سیر کے لئے جائیں تو وہ کبھی بھی وہ معلومات حاصل نہیں کر سکتے جو مختلف ممالک اور مختلف اقوام کے لوگ غیر ممالک میں جا کر حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے دماغ میں مختلف قسم کی قابلیتیں رکھی ہیں.کسی بات میں چینی دماغ اچھا کام کرتا ہے، کسی بات میں جاپانی دماغ اچھا کام کرتا ہے، کسی بات میں ایرانی دماغ اچھا کام کرتا ہے، کسی بات میں فرانسیسی دماغ اچھا کام کرتا ہے اور کسی بات میں ہندوستانی دماغ اچھا کام کرتا ہے.ڈھاکہ کی ململ بڑی مشہور تھی جو یہاں کے جولا ہے تیار کیا کرتے تھے.انگریزوں نے بڑی بڑی مشینیں نکالیں اور اچھے سے اچھے کپڑے تیار کئے مگر ڈھاکہ کی ململ وہ اب تک نہیں بنا سکے.اسی طرح مصری لوگ میں بنانے میں بڑے مشہور تھے.اب بظاہر انگریز اور فرانسیسی علم میں بہت بڑھے ہوئے ہیں مگر سارا زور لگانے کے باوجود وہ اب تک ویسا مصالحہ تیار نہیں کر سکے جو مصری تیار کیا کرتے تھے.میں نے خود ہی کی ہوئی لاشیں دیکھی ہیں ایسی تازہ معلوم ہوتی ہیں کہ گویا ابھی انہوں نے دم تو ڑا ہے حالانکہ انہیں فوت 39

Page 43

ہوئے کئی کئی ہزار سال گذر چکے ہیں یہاں تک کہ اُن کے جسم کی چکنائی تک صاف نظر آتی ہے اس کے مقابلہ میں اب جو لاشوں کی حفاظت کے لئے مصالحہ لگایا جاتا ہے.وہ تھوڑے عرصہ میں ہی خراب ہو جاتا ہے.اب دیکھو یہ مصریوں کے دماغ کی ایک ایجاد تھی جس کا اب تک لوگ پر یہ نہیں لگا سکے.اسی طرح دہلی میں ایک حمام تھا جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اسکے نیچے ایک دیا جلا کرتا تھا اور اس دیے کی وجہ سے وہ حمام ہمیشہ گرم رہتا.کہتے ہیں جب دہلی میں انگریزوں کا تصرف بڑھا تو انہوں نے کہا ہم اسے توڑ کر دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ حمام کس طرح ایک دیے سے گرم ہوتا ہے چنانچہ انہوں نے اُسے توڑ دیا مگر پھر دوبارہ اُن سے ویسا نہیں بن سکا.تو مختلف دماغ مختلف کاموں سے شغف رکھتے ہیں جب وہ آپس میں ملتے ہیں تو ایک کے دماغ کو دوسرے سے روشنی ملتی ہے اور اس طرح ذہنی اور علمی ترقی ہوتی رہتی ہے.جب ہم کسی.زمیندار کے پاس بیٹھتے اور اس سے باتیں کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کی کیا کیا خصوصیات ہیں، بڑھی کے پاس بیٹھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس بڑھئی کی کیا کیا خصوصیات ہیں اور اُن سے مل کر اور باتیں کر کے ہمیں کئی نئی باتیں معلوم ہوتی ہیں اور ہماری روح میں بھی زندگی پیدا ہوتی ہے.اسی طرح جب ہم کشمیر یا یو.پی میں چلے جاتے ہیں تو ہمیں نیا علم حاصل ہوتا ہے اسی لئے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ سِيرُوا فِی الأَرْضِ.یعنی اگر تمہیں توفیق ملے تو تم دنیا کی سیر کیا کرو تا کہ تمہاری معلومات میں اضافہ ہو اور تمہاری دماغی اور علمی ترقی ہو.جب کوئی شخص عرب جائیگا تو ایک طرف وہ سمندر کی سیر کا لطف اٹھائیگا ، دوسری طرف وہ اس سفر میں ایران اور عراق اور دوسرے کئی ملکوں کو دیکھ لے گا اور اس طرح بہت سی مفید معلومات حاصل کر لیگا لیکن اگر سارے ملک کے لوگوں کو ایک جیسے پیسے ملیں ، ایک جیسا نمک اور ایک جیسا مرچ مصالحہ ملے تو وہ غیر ملکوں کی سیر کے لئے کس طرح جا سکتے ہیں.پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ کوئی مالدار ہوتا تھا اور کوئی غریب.مالدار سیر کے لئے غیر ممالک میں چلے جاتے تھے لیکن اس تحریک کے بعد جب سب کو ایک معیار پر 40

Page 44

کھڑا کر دیا جائیگا اور اُن کی مالی حالت ایسی ہوگی کہ سب کو صرف گزارہ کے مطابق اخراجات ملیں گے تو وہ غیر ملکوں کی سیاحت کس طرح کریں گے اور جب سیاحت نہیں کریں گے تو علمی ترقی کا یہ دروازہ اُن پر بند ہو جائیگا حالانکہ ترقی کے لئے ضروری ہے کہ کچھ جماعتیں ایسی ہوں جو اپنا فارغ وقت اس کام میں صرف کریں کہ غیر ملکوں میں جائیں، سیریں کریں اور وہاں کے اچھے خیالات اپنے ملک میں پھیلائیں.وہ کہہ سکتے ہیں کہ حکومت کے کارندے ایسے سفر کر سکتے ہیں مگر یہ ضروری نہیں کہ حکومت کے افراد جو سیاست میں اچھے ہوں وہ سیاحت میں بھی اچھے ہوں.اگر عام لوگ غیر ملکوں کی سیر کیلئے جائیں تو وکیل اپنے دماغ کی مناسبت کے لحاظ سے کوئی جنس لے آئیگا ،ڈاکٹر اپنے دماغ کی مناسبت کے لحاظ سے کوئی جنس لے آئیگا، انجنیئر اپنے دماغ کی مناسبت کے لحاظ سے کوئی جنس لے آئیگا ، مصوّرا اپنے دماغ کی مناسبت سے کوئی جنس لے آئیگا ، شاعر اپنے دماغ کی مناسبت سے کوئی جنس لے آئیگا ، اسی طرح کوئی مذہبی لیڈر جائے گا تو وہ اپنے دماغ کی مناسبت سے کوئی جنس لے آئے گا لیکن قونصل خانہ کے سیاسی دماغ کیا لائیں گے؟ وہ تو اپنے ماحول میں محدود ہونگے اور اسوجہ سے اُن کی نظر بھی نہایت محدود ہوگی وہ تو اگر لائیں گے تو چند چیزیں ہی لائیں گے اور اس طرح انکی وجہ سے ملک کو وہ فائدہ نہیں پہنچ سکتا جو عام لوگوں کی سیاحت سے پہنچ سکتا ہے.اگر وہ کہیں کہ حکومت خود اپنے خرچ پر عام لوگوں کو اس غرض کے لئے بھیج سکتی ہے تو سوال یہ ہے کہ اس طرح پھر تفرقہ پیدا ہو جائیگا اور عدم مساوات کا وہ اصول قائم ہو جائیگا جس کو توڑنے کے لئے یہ تحریک جاری کی گئی تھی اور یہ سوال پیدا ہوگا کہ کیا زید کا دل امریکہ جانے کو چاہتا ہے اور بکر کا دل نہیں چاہتا.انصاف تو پھر بھی رہ جائیگا اور اس طرح جو کچھ کیا جائیگا اس تحریک کی اصل روح کے خلاف کیا جائیگا.41

Page 45

کمیونزم کا چھٹا نقص یعنی قو می افتراق چھٹے اس تحریک کے نتیجے میں قوم کے کئی ٹکڑے ہو جائیں گے اور امیروں کا قتل شروع ہو جائے گا.کمیونزم کا ساتواں نقص ساتویں بالشویک اصول میں ایک اور بڑی غلطی یہ ہے کہ اس کا زوال نہایت خطرناک ہوگا.دوسری تحریکات میں تو یہ ہوتا ہے کہ ایک بادشاہ مرتا ہے تو اس کی جگہ دوسرا بادشاہ تخت حکومت پر بیٹھ جاتا ہے، ایک پارلیمنٹ ٹوٹتی ہے تو دوسری پارلیمنٹ بن جاتی ہے لیکن بالشویک تحریک میں اگر کبھی کمزوری آئی تو یہ یکدم تباہ ہوگی اور اسکی جگہ زار ہی آئیگا کوئی دوسری حکومت نہیں آئیگی کیونکہ اس میں نیابت کی کوئی صورت نہیں جیسے دوسری تحریکات میں ہوتی ہے.وجہ یہ کہ قابلیت کو مٹا دیا گیا ہے اور جب قابلیت کو مٹا کر دماغ کو نیچا کر دیا جائے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ جب تنزل ہوگا تو اس وقت کوئی ایسا دماغ والا نہیں ہو گا جو اس تنزل کو دور کر سکے.پس جب یہ تحریک گرے گی کلی طور پر گرے گی.جیسا کہ فرانس میں ہوا کہ جب فرانس کے باغیوں میں تنزل پیدا ہوا تو اُن کی جگہ نپولین جیسے کامل الاقتدار آدمی نے لی خود جمہور میں سے جمہوریت کا کوئی دلدادہ یہ جگہ نہ لے سکا.نیشنلسٹ سوشلزم اور اسکے نقائص تیسری تحریک نیشنلسٹ سوشلزم کی ہے.اس تحریک کا مقصد یہ ہے کہ غرباء کو کچھ حقوق تو ضرور دیئے جائیں لیکن فردی جو ہر کو بھی کچلا نہ جائے اور چونکہ اس تحریک کے حامی فردی جو ہر کو اپنی اقوام سے مخصوص سمجھتے ہیں اس لئے اُنکی پالیسی یہ ہے کہ جرمن اور رومی اور ہسپانوی غریبوں 42

Page 46

کو تو ابھارا جائے لیکن باقی اقوام کو دبا کر اُنکی دولت سے جرمن ، رومی اور ہسپانوی باشندوں کو مالا مال کیا جائے.اب اس آخری تحریک میں جاپان بھی آکر شامل ہو گیا ہے.اس تحریک کے اصولی نقائص یہ ہیں : - پہلا نقص اوّل یہ تحریک چند اقوام کی بہتری کے حق میں ہے ساری دنیا کی بہتری کے حق میں نہیں ہے.دوسر انقص دوم اس تحریک میں بھی روحانی سکھ یعنی مذہب کے لئے کوئی راستہ نہیں رکھا گیا بلکہ یہ بھی مذہب پر کئی قسم کی پابندیاں عائد کرتی ہے حالانکہ وہ مذہب ہی کیا ہے جس پر انسانوں کی طرف سے پابندیاں عائد کی جاسکیں.مذہب تو خدا کی طرف سے نازل کیا جاتا ہے اور وہی اس کی حدود مقرر کرتا ہے.تیر انقص تیسرے اس تحریک میں انفرادیت کو اتنا ابھارا گیا ہے کہ ملک کی اجتماعی آواز کو اس کے مقابلہ میں بالکل دبا دیا گیا ہے حالانکہ ہزاروں دفعہ ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک آدمی کا دماغ خواہ کتنا ہی اعلیٰ ہو جو بات اس کے دماغ میں آئے اُس سے دوسروں کی رائے خواہ اُن کے دماغ اعلیٰ نہ ہوں بہتر ہو اسی لئے ہماری شریعت نے یہ قرار دیا ہے کہ مسلمانوں کا ایک خلیفہ ہو جو اہم امور میں مسلمانوں سے مشورہ لے اور جہاں تک ہو سکے اُن کے مشورہ کو قبول کرے ہاں اگر کوئی اختلاف ایسا اہم ہو جس میں وہ یہ سمجھتا ہو کہ اگر میں نے اس وقت عام لوگوں کی رائے کی تقلید کی تو ملک اور 43

Page 47

قوم کو نقصان پہنچے گا اُس وقت وہ اُن کے مشورہ کے خلاف بھی فیصلہ کر سکتا ہے.بہر حال اسلام کے طریق کے مطابق دونوں امور کو بیک وقت ملحوظ رکھ لیا جاتا ہے.ایک طرف عوام کی رائے لی جاتی ہے اور دوسری طرف جو دماغ اعلیٰ ہوا سے اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ موازنہ کرلے اور جو مشورہ قوم اور ملک کے لئے مہلک ہو اُسے قبول نہ کرے باقی مشوروں کو قبول کر لے.مگر نیشنلسٹ سوشلزم کی تحریک میں انفرادیت پر حد سے زیادہ زور دیا گیا ہے حالانکہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ سارا گاؤں غلطی پر ہوتا ہے اور ایک بڑھا زمیندار صحیح بات کہتا ہے اور کبھی بڑھا غلطی پر ہوتا ہے اور نوجوان صحیح بات کہہ رہے ہوتے ہیں.بہر حال یہ سب افراط اور تفریط کی طرف نکل گئے ہیں.موجودہ جنگ اور اس کا نتیجہ موجودہ جنگ اسی باہمی کشمکش کا نتیجہ ہے.روس والے چاہتے ہیں کہ ہمارا نظریہ قائم ہو جائے اور وہ حالات جو روس میں پیدا ہیں وہی باقی تمام ممالک میں پیدا ہو جا ئیں اور انگلستان، فرانس اور امریکہ والے سوشلسٹ کہتے ہیں کہ جو دولتیں ہم کھینچ چکے ہیں وہ ہمارے ہاتھ میں ہی رہیں جرمن، روم، جاپان اور ہسپانیہ والوں کے ہاتھ میں نہ چلی جائیں.پہلی لڑائی سوشلزم اور نیشنل سوشلزم کے درمیان ہوئی.سوشلزم والوں نے اس لئے جنگ کی کہ اُن کے موجودہ اقتدار میں فرق نہ آئے اور نیشنل سوشلزم والوں نے اسلئے حملہ کیا کہ صاحب اقتدار لوگوں کی دولت کھینچ کر اپنے ملک میں لے آئیں.تیسری تحریک بالشوزم کی تھی.جرمن والوں نے ہوشیاری کر کے اس موقعہ پر روس سے سمجھوتا کر لیا اور اُسے یہ دھوکا دیا کہ اگر برسر اقتدار طاقتوں کو زوال آیا تو بولشویک بھی اس لوٹ میں حصہ دار ہونگے.بولشویکس اس دھوکہ میں آگئے اور انہوں نے نیشنلسٹ سوشلزم والوں سے سمجھوتہ کر لیا لیکن جب فرانس کا زور ٹوٹ گیا.اور ادھر مشرقی ممالک کوشکستیں ہونی شروع ہوئیں تو ہٹلر نے کچھ ضروریات جنگ کی وجہ سے اور کچھ اس خیال سے کہ انگلستان پر فوری حملہ تو کیا نہیں جاسکتا اگر سپاہی بیٹھے رہے تو گھبرا جائیں گے اور کچھ اس 44

Page 48

خیال سے کہ اب مقابلہ کرنے والا تو کوئی ہے نہیں لگے ہاتھوں بالشوزم کا بھی خاتمہ کر دیں اس نے روس پر حملہ کر دیا نتیجہ یہ ہوا کہ بالشوزم بر سر اقتدار (اتحادی ) حکومتوں سے مل گئی اور اب دو تحریکیں ایک طرف ہیں اور ایک تحریک ایک طرف.اگر نیشنلسٹ سوشلزم والے جیتے تو جرمن ، اٹلی، ہسپانیہ اور جاپان کے غرباء کو تو ضرور فائدہ پہنچے گا.مگر باقی اقوام کے غرباء کی حالت پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو جائیگی.گویا چار ملکوں سے غربت مٹے گی اور سینکڑوں ملکوں میں پہلے سے بھی زیادہ قائم ہو جائیگی اور اگر دوسرا فریق جیتا تو دنیا کا کچھ حصہ سوشلزم کے اثر کے ماتحت نسبتی سیاسی آزادی حاصل کر لیگا، کچھ حقوق ہندوستان کو بھی مل جائیں گے لیکن جہاں تک تجارتی اور اقتصادی آزادی کا سوال ہے اس کے لئے ان ممالک کو لمبی جدو جہد کرنی پڑیگی کیونکہ اس آزادی میں روک نہ صرف قدامت پسند اور لبرل جماعتیں ہونگی بلکہ معاشرتی معیار کے گر جانے کے ڈر سے سوشلسٹ جماعتوں سے بھی دوسرے ممالک کا مقابلہ ہوتار ہیگا مگر جہاں تک نسبت کا سوال ہے ان لوگوں کے جیتنے سے دوسرے ممالک کی حالت یقیناً اس سے زیادہ اچھی ہوگی جو نیشنل سوشلسٹ کے غلبہ کی صورت میں ہو سکتی ہے.موجودہ جنگ میں انگریزوں کی فتح سے ہندوستان کا فائدہ اس بارہ میں میری جو کچھ رائے ہے.اور جسے میں پہلے بھی کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر جرمنی جیتا تو ہمارے ملک کی حالت پہلے سے بہت زیادہ خراب ہو جائے گی اور اگر انگریز جیتیں تو ہمارے ملک کی حالت پہلے سے یقیناً اچھی ہو جائیگی.عام طور پر ہمارے ملک میں خیال کیا جاتا ہے کہ جب غلام ہی بننا ہے تو خواہ اسکے غلام بنے یا اُن کے اس میں فرق ہی کیا ہے مگر یہ بات درست نہیں.اور اس کی تائید میں ایک بہت بڑی دلیل جس کو میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں یہ ہیکہ یہ (اتحادی) طاقتیں بہت مدت تک اقتصادی اقتدار حاصل کرنے کی وجہ سے اب اُس قوت اقدام کو کھو بیٹھی ہیں جو لا زمانی بڑھنے والی قوموں میں پائی جاسکتی ہے.پس نئی 45

Page 49

ابھر نیوالی اقوام کا سلوک دوسرے ممالک کے لوگوں سے بھو کے جاٹ والا ہوگا اور برسر اقتدار حکومتوں کا ایک بوڑھے تاجر جیسا.جو تاجر بہت ساروپیہ کمالیتا ہے کنجوس تو وہ بھی ہوتا ہے اور وہ بھی اپنے مال میں اور زیادتی کا طالب رہتا ہے لیکن وہ اس پر بھی خوش ہوتا ہے کہ موجودہ حالت ہی قائم رہے اور کبھی کبھی اُسکے دل میں یہ خیال بھی آجاتا ہے کہ اب میں نے بہت کمالیا ہے اب میں اپنے کام سے پنشن لے لوں.پس یہ جو بر سر اقتدار حکومتیں ہیں ان میں اب اتنا جوش نہیں جتنا نئی حکومتوں میں جوش ہو سکتا ہے چنانچہ دیکھ لو کہاں انگلستان ہے اور کہاں انگریز لوگ چین کے کناروں تک حکومت کر رہے ہیں.اسی طرح امریکہ کا اقتصادی اقتدار تمام دنیا پر چھایا ہوا ہے اور اب انکا پیٹ اتنا بھرا ہوا ہے کہ چلنا پھرنا بھی ان کے لئے مشکل ہو رہا ہے اور جو شخص استقدر سیر ہو وہ ظلم نہیں کرتا یا کم کرتا ہے.اس کی مثال تم ایسی ہی سمجھ لو کہ جس شخص کا پیٹ بھرا ہوا ہو اس کے سامنے اگر تم پلاؤ بھی رکھو تو وہ دو چار تھے لے کر بس کر دیگا لیکن اگر وہی پلاؤ کی تھالی کسی بھوکے کے سامنے رکھو تو وہ نہ صرف یہ پلاؤ ہی کھا جائیگا بلکہ ممکن ہے کہ تمہارا کھانا بھی کھا جائے.جرمن اور رومی اور ہسپانوی اس وقت بھوکے ہیں اس لئے اگر اُن کا اقتدار آیا تو وہ کچھ مدت تک خوب بڑھ بڑھ کر ہاتھ ماریں گے اور مال و دولت کو لوٹتے چلے جائینگے جیسے ہندوستان جب انگریزوں کے قبضہ میں آیا تو انہوں نے بھی ہندوستان کی اقتصادی حالت پر خوب قبضہ جمایا تھا.یہی خواہش جرمن اور رومی لوگوں کی ہوگی.وہ بھی کہیں گے کہ اب ہم نے ان کانوں پر قبضہ کیا ہے اب ہم بھی یہاں کے تیل اور سونے اور دوسری چیزوں سے فائدہ اٹھا ئیں اور سوڈیڑھ سوسال تک وہ ایسا کرتے چلے جائیں گے مگر انگریزوں کی مثال بوڑھے تاجر کی سی ہے جو بڑھا ہو جاتا ہے، مال بڑھانے کی خواہش تو بیشک اس کی طبیعت میں موجود ہوتی ہے مگر کبھی کبھی اُسے یہ بھی خیال آجاتا ہے کہ دولت بہت کمالی ہے اب پنشن لے لینی چاہئے.اسی طرح ان قوموں کے دلوں میں بھی کبھی زیادہ طلبی کا خیال آجاتا ہے مگر کبھی یہ خیال بھی آجاتا ہے کہ ہم نے بہت کمالیا اب قناعت کرنی چاہئے.اسی طرح اگر انہیں کبھی ظلم کا خیال پیدا ہوتا ہے تو کبھی رحم کا خیال بھی 46

Page 50

آ جاتا ہے اور جن لوگوں کی دماغی حالت اس قسم کی ہو اُن سے یقیناً زیادہ آرام حاصل ہوتا ہے کیونکہ وہ حکومت کر کے تھک چکے ہوتے ہیں.دوسرے یہ اقوام مذہب میں دخل اندازی کو پسند نہیں کرتیں اور سوائے کسی اشد سیاسی یا اقتصادی ضرورت کے مذہب کے بارہ میں مخفی دباؤ کو بھی پسند نہیں کرتیں.اور اگر کوئی خدا ہے اور اس کی طرف سے رسول دنیا میں آتے رہے ہیں اور اگر انکی تعلیمات پر عمل ہماری اُخروی زندگی کو سنوارنے کے لئے ضروری ہے تو پھر با وجود اس کے کہ ان اقوام کا طریق عمل بھی پورا منصفانہ نہیں بلکہ ایک حد تک خودغرضانہ ہے ، ہر مذہب کا دلدادہ شخص ان اقوام کی فتح کو نیشنلسٹ سوشلزم والوں کی فتح پر بہت زیادہ ترجیح دیگا.انگریزوں کی فتح سے نتیجہ میں بالشوزم کی فتح اور اسکا نتیجہ لیکن یہ بھی یادر ہے کہ موجودہ حالات میں ان اقوام کی فتح کے ساتھ بالشوزم کی فتح بھی ضروری ہے اور بالشوزم مذہب کی نیشنلسٹ سوشلزم والوں سے بھی زیادہ دشمن ہے.پس یقیناً ان کی فتح سے گو دنیا کو نیشنلسٹ سوشلزم کے خطرہ سے نجات ہوگی مگر ایک نئی رسہ کشی مذہب اور لامذہبیت میں شروع ہو جائیگی.غرباء کی حالت سدھارنے کے لئے مختلف مذاہب کی تدابیر میں نے اسوقت تک دنیوی تحریکات کا ذکر کیا ہے اب میں اُن تدبیروں کا ذکر کرتا ہوں جو مختلف مذاہب کے پیرو دنیا کے ایک نئے نظام کی تکمیل کے لئے پیش کر رہے ہیں.ان مذاہب میں سے سب سے بڑے مذہب یہ ہیں.ہندو، مسیحی ، یہودی اور اسلام.اس وقت اگر ان تمام مذاہب کے پیروؤں کا جائزہ لیا جائے تو ہر مذہب کا پیرو یہ دعوی کرت سنائی دیگا کہ وہی مذہب سب سے اعلیٰ ہے جس کا وہ پیرو ہے اور اس کی تعلیم دنیا کے دکھ اور درد کو دور کرسکتی ہے.ہندو کہتے ہیں 47

Page 51

ہم ایک دن میں اوم کا جھنڈا (نعوذ باللہ ) مکہ معظمہ پر گاڑیں گے، یہودی کہتے ہیں یہودیت کی تعلیم ہی سب سے اعلیٰ ہے، عیسائی کہتے ہیں ہمارے یسوع مسیح نے جو کچھ کہا وہی قابل عمل ہے،اس کے مقابلہ میں مسلمانوں میں بھی جوش ہے اور وہ یہ دعویٰ کرتے اور بجاطور پر کرتے ہیں کہ اسلام ہی تمام دکھوں اور دردوں کا کامیاب علاج پیش کرتا ہے.بہر حال بڑے مذاہب یہی ہیں.ہندو، مسیحی ، یہودی اور اسلام.میں اس وقت نماز روزہ کی طرف نہیں جارہا بلکہ میں یہ مضمون بیان کر رہا ہوں کہ دنیا فاقے سے مر رہی ہے.دنیا نے اس کے علاج کے لئے بعض تحریکات جاری کی ہیں ان دنیوی تحریکات کے مقابلہ میں مذاہب اس کے متعلق کیا نظریہ پیش کرتے ہیں اور وہ کونسا نیا نظام ہے جو یہ مذاہب دنیا میں قائم کرنا چاہتے ہیں.اس غرض کے لئے میں سب سے پہلے یہودیت کو لے لیتا ہوں.یہودیت میں نئے نظام کی شکل اور اسکا نتیجہ یہودیت دنیا کے لئے جو نظام پیش کرتی ہے وہ محض قومی ہے اُس میں کوئی بات عالمگیر نہیں.مثلاً یہودیت کہتی ہے کہ یعقوب کی اولاد ہی خدا کو پیاری ہے باقی سب اس کی غلامی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.اگر اس مذہب کی کسی وقت دنیا پر حکومت ہو جائے تو یقیناً اس تعلیم کے ماتحت ظلم بڑھے گا.گھٹے گا نہیں.یا مثلاً یہودیت کہتی ہے تو اپنے بھائی سے سود نہ لے اور اُسے چھوڑ کر جس سے چاہے سود لے لے.اب اگر سود لینابُرا ہے تو وجہ کیا ہے کہ ایک یہودی سے نہ لیا جائے اور غیر یہودی سے لے لیا جائے.اس کی وجہ بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ یہودیت ایک قومی مذہب ہے.وہ کہتی ہے کہ اوروں سے بے شک لے لو مگر اپنوں سے نہ لو.پس اس مذہب کو اگر دنیا پر غلبہ حاصل ہو جائے تو اس کا کام یہ ہوگا کہ وہ اور سب سے ٹیکس وصول کر یگی اور یہودیوں میں اس کو تقسیم کر دیگی.اسی طرح یہودیت صدقہ و خیرات کا تو حکم دیتی ہے مگر کہتی ہے صدقہ و خیرات صرف اپنے ہی ہم قوموں کیلئے ہو.اب اگر کوئی یہودی بادشاہ ہو تو اس تعلیم 48

Page 52

کے ماتحت جتنے ٹیکس ہونگے سب یہودیوں کو ملیں گے.اسی طرح یہودیت یہ نہیں کہتی کہ تو کسی کو غلام نہ بنا بلکہ وہ کہتی ہے اپنے بھائی کو ہمیشہ کے لئے غلام نہ بناؤ.گویا اول تو اپنے بھائی کو غلام بناؤ ہی نہیں اور اگر بناؤ تو ہمیشہ کے لئے نہ بناؤ.اس کے متعلق یہودی مذہب میں یہ حکم ہے کہ ہر غلام ساتویں سال آزاد کر دیا جائے لی.اگر کوئی شخص ساتویں سال کے معا بعد کوئی غلام خریدے تو اس تعلیم کے ماتحت وہ چھ سال کے بعد آزاد ہو جائیگا.اگر ایک سال گذر چکا ہو تو وہ پانچ سال کے بعد آزاد ہو جائیگا، دو سال گذر چکے ہوں تو چار سال کے بعد آزاد ہو جائیگا تین سال گذر چکے ہوں تو تین سال کے بعد اور اگر چار سال گذر چکے ہوں تو دوسال کے بعد آزاد ہو جائیگا اور اگر کوئی چھٹے سال کسی غلام کو خریدے تو وہ اگلے سال خود بخود آزاد ہو جائیگا.گویا زیادہ سے زیادہ سات سال تک ایک یہودی کو غلام بنایا جا سکتا ہے اس سے زیادہ عرصہ کسی کو غلام بنا کر نہیں رکھا جا سکتا.باقی دنیا کے لوگ خواہ ساری عمر غلام رہیں اسکی یہودیت کوئی پرواہ نہیں کرتی.پھر یہودیت کی تعلیم میں ایک اور بات یہ پائی جاتی ہے کہ وہ غیر قوموں کے ساتھ بہت سخت سلوک کرنے کا حکم دیتی ہے.چنانچہ توریت میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ:.” جب تو کسی شہر کے پاس اس سے لڑنے کے لئے آپہنچے تو پہلے اس سے صلح کا پیغام کر تب یوں ہوگا کہ اگر وہ تجھے جواب دے کہ صلح منظور اور دروازہ تیرے لئے کھول دے تو ساری خلق جو اس شہر میں پائی جاوے تیری خراج گزار ہوگی اور تیری خدمت کریگی.اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ تجھ سے جنگ کرے تو تو اس کا محاصرہ کر.اور جب خداوند تیرا خدا اُسے تیرے قبضہ میں کر دیوے تو وہاں کے ہر ایک مرد کو تلوار کی دھار سے قتل کر مگر عورتوں اور لڑکوں اور مواشی کو اور جو کچھ اس شہر میں ہو اس کا سارا لوٹ اپنے لئے لے.اور تو اپنے دشمنوں کی اس لوٹ کو جو خداوند تیرے خدا نے تجھے دی ہے کھائی.اسی طرح سے تو ان سب شہروں سے جو تجھ سے بہت جو دور ہیں اور اُن قوموں کے شہروں میں سے نہیں ہیں، کیجئیو.یہ تو غیر ملکوں کے متعلق حکم ہے کنعان کی سرزمین جو موعود سر زمین تھی اس کے متعلق یہ حکم 49

Page 53

نہیں بلکہ وہاں کے متعلق یہ حکم ہے کہ :.اُن قوموں کے شہروں میں جنہیں خداوند تیرا خدا تیری میراث کر دیتا ہے.کسی چیز کو جو سانس لیتی ہے جیتا نہ چھوڑیو بلکہ تو ان کو حرام کیجئیو.“ یہ نظام ہے جو یہودیت پیش کرتی ہے.اگر یہودیت برسراقتدار آ جائے تو ہر مرد مارا جائیگا ، ہر عورت اور بچے کو غلام بنایا جائیگا اور کنعان میں بسنے والے عیسائی مرد اور عورتیں اور بچے تو کیا وہاں کے گھوڑے اور گدھے اور کتے اور بلیاں اور سانپ اور چھپکلی سب مارے جائیں گے کیونکہ حکم یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو سانس لیتی ہو اس کو جان سے مار دیا جائے.اس نظام کے ماتحت یہودیوں کو تھوڑا بہت آرام میسر ہو تو ہو اور قو میں تو بالکل تباہ ہو جائیں گی.عیسائیت کا دنیا کے لئے پیغام عیسائیت کا پیغام دنیا کے لئے صرف یہی ہے کہ شریعت ایک لعنت ہے.جب شریعت لعنت ہے تو پھر اس کا جو بھی پیغام ہے وہ لعنت ہے، عیسائیت صرف محبت کی تعلیم دیتی ہے جس پر خود عمل نہیں کرتی.اگر اس کی محبت کی تعلیم پر کوئی عمل کرنے والا ہوتا تو آج یورپ میں لڑائیاں کیوں ہوتیں.شریعت کو لعنت قرار دے کر دنیا کے لئے کوئی معین پروگرام پیش کرنا مسیحیت کے لئے ناممکن ہے کیونکہ جو بھی پروگرام ہوگا وہ لعنت ہوگا اور اس پر عمل لوگوں کی مشکلات کو بڑھائیگا کم نہیں کریگا.پھر یہ عجیب بات ہے کہ اُس کے نز د یک خدا کی شریعت خواہ وہ کتنی ہی مختصر کیوں نہ ہولعنت ہے لیکن بندوں کی تعزیرات خواہ کتنی بڑی ہوں رحمت ہیں.اس کا نتیجہ یہ پیدا ہوا ہے کہ دنیا میں جو مسیحی قوم بھی غالب ہو اس کے مقاصد کو مسیحی مقاصد کہا جاتا ہے.جو فلسفہ غالب آ جاۓ وہ مسیحی فلسفہ ہوتا ہے اور جو تمدن غالب آ جائے وہ مسیحی تمدن ہوتا ہے.اگر جرمن غالب ہوا تو وہ کہہ دیں گے کہ کرسچن سوشلزم غالب آ گیا.اگر انگلستان غالب ہوا تو کہہ دینگے کرسچن 50

Page 54

سوشلزم غالب ہوا.اگر یو نائٹڈ سٹیٹس امریکہ والے جیتے تو کہہ دیں گے کہ کرسچن سوشلزم غالب ہوا.گویا وہ ہمیشہ کیلئے غالب کے یار بن گئے ہیں اور جو چیز بھی دنیا میں ترقی کرتی ہے اُسے کر سچن سویلزیشن (Civilisation) کا غلبہ قرار دے دیا جاتا ہے.ایک وقت تھا کہ طلاق نہ دینا مسیحیت کا خاصہ تھا اور اب یہ حالت ہے کہ طلاق دینا مسیحیوں کا خاصہ ہے.گویا ان کا مذہب کیا ہے موم کی ناک ہے جس طرح چاہو موڑ لو اس نے ٹوٹنا تو ہے ہی نہیں.پس میسحیت بطور مذہب کے دنیا کے سامنے نہ کوئی پروگرام رکھ سکی نہ رکھ سکتی ہے اور نہ رکھ سکے گی.ہندو مذہب کے نظریہ کے ماتحت نئے نظام کا قیام ناممکن ہے ہندومت نے دنیا کے سامنے تناسخ اور ورنوں کی تعلیم پیش کر کے اپنے لئے اور دوسری اقوام کے لئے امن کا راستہ بالکل بند کر دیا ہے کیونکہ تناسخ کے ماتحت یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی ایسا نیا نظام قائم ہو جس میں غریب اور امیر کا فرق جاتا رہے.جب تناسخ کو ماننے والے تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اگر ایک شخص کو غریب پیدا کیا ہے تو یہ اس کے پچھلے جنم کے اعمال کی سزا ہے تو اس عقیدہ کے ہوتے ہوئے امیر اور غریب کے امتیاز کوکس طرح مٹایا جاسکتا ہے.اس عقیدہ کے ماتحت تو اگر خدا نے کسی کو زار بنایا ہے تو پچھلے جنم کے اعمال کا انعام دینے کے لئے اور اگر کسی کو غریب بنایا ہے تو اُسے اس کے اعمال کی سزا دینے کے لئے اب کوئی نہیں جو اس کو بدل سکے.پس تناسخ کے ہوتے ہوئے ہندومت دنیا کی ترقی کے لئے کوئی نیا پروگرام پیش نہیں کر سکتا کیونکہ نیا پروگرام وہی ہو سکتا ہے جو موجودہ حالت کو بدل کر ایک نئی حالت پیدا کر دے اور جب دنیا کی موجودہ حالت پُرانے جنم کے اعمال کا اٹل نتیجہ ہے تو دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائیگا کہ یہی حالت دنیا کے لئے مقدر ہے اور جب یہی حالت دنیا کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے مقدر ہے تو کس کی طاقت ہے کہ اس حالت کو بدل سکے.51

Page 55

دوسرے اس مذہب میں ورنوں کا اصول ہے جس کے ماتحت براہمن کے کام شودر نہیں کر سکتا اور شودر کے کام ویش نہیں کر سکتا.اسی طرح ویش کے کام کشتر کی نہیں کرسکتا.گویا ہر ایک کا الگ الگ دائرہ عمل ہے اور ایک شخص دوسرے کے دائرہ عمل میں دخل نہیں دے سکتا.یہ اصول بھی ایسا ہے جس کے ماتحت امیر اور غریب کا امتیاز کبھی مٹ نہیں سکتا کیونکہ نیا نظام جو اس امتیاز کو دور کرے وہ وہی ہو سکتا ہے جس میں ایک غریب اور کنگال کا بھی خیال رکھا جائے.اگر کوئی چوہڑہ یا ساہنسی ہو تو اس کے حقوق کو بھی محفوظ کیا جائے اور ہر شخص کے لئے گورنمنٹ کھانے اور کپڑے کا انتظام کرے.اسی طرح غرباء کے لئے مال کا انتظام کرے تا کہ وہ اپنی اور ضروریات پوری کر سکیں.مگر منو کہتے ہیں کہ :- اگر شودر دھن جمع کرے تو راجہ کا فرض ہے کہ وہ اس سے چھین لے کیونکہ شودر مالدار ہو کر √..برہمنوں کو دکھ دیتا ہے.اس قانون کے ماتحت اگر برہمن یا ولیش کے پاس دس لاکھ روپیہ ہو اور شودر کو خیال آئے کہ پانچ روپیہ ماہوار میں بھی جمع کرلوں اگلے سال بچی کی شادی ہے اُسوقت یہ روپیہ کام آئیگا تو راجہ کا فرض ہے کہ وہ اس سے تمام روپیہ چھین لے کیونکہ وہ شودر ہے اور شودر کا حق نہیں کہ اس کے پاس روپیہ جمع ہو.اب بتاؤ اس اصول کے ماتحت نیا نظام کس طرح قائم ہوسکتا ہے اور اگر یہ نظام قائم ہو تو اس کے ماتحت غرباء کی حالت کس طرح سدھر سکتی ہے.اسی طرح لکھا ہیکہ :.اگر برہمن نے ایک نیچ سے قرض لیا لیکن وہ ادا نہیں کر سکتا تو شودر کا فرض ہے کہ وہ براہمن سے کوئی روپیہ نہ لے لیکن اگر شودر نے براہمن کا روپیہ دینا ہواور شودرغریب ہو تو اونچی ذات والوں کی مزدوری کر کے براہمن کے قرض کو ادا کرے هاے ، گویا اگر برہمن قرض لینے والا ہو اور جس سے قرض لیا گیا ہو وہ نیچ قوم سے تعلق رکھتا ہو تو اگر وہ قرض ادا نہیں کر سکتا تو بیچ قوم والے کا فرض ہے کہ برہمن سے اپنے روپیہ کا تقاضہ نہ کرے.ایسی صورت میں وہ یہ نہیں کر 52

Page 56

سکتا کہ عدالت میں برہمن کے خلاف دعوی دائر کر دے اور اس سے اپناروپیہ وصول کرے بلکہ اس صورت میں معاملہ کو ختم سمجھنا چاہیئے اور شودر کو روپیہ کی وصولی کا خیال اپنے دل سے نکال دینا چاہئے.لیکن اگر شودر کسی برہمن سے قرض لے بیٹھتا ہے اور پھر ادا ئیگی کی طاقت نہیں رکھتا تو منو کے احکام کے مطابق اس کا فرض ہے کہ وہ اونچی ذات والوں کی نوکری کرے اور اسطرح قرض کو ادا کرے.پھر یہیں تک بس نہیں بلکہ اس تعلیم کا اثر اور آگے چلتا ہے.چنانچہ لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص مر جائے اور اس کی کئی بیویاں ہوں تو ایسی حالت میں :.ایک کی اولاد جو براہمنی سے ہے وہ اس کی جائیداد کے تین حصہ لے اور جو کشترانی سے ہے اس کی اولاد دو حصے لے اور جو ویشیا ہے اس کی اولا د ڈیڑھ حصہ لے اور شودرانی کی اولا دایک حصہ لے.17..اس تعلیم کے ماتحت مرنے والے کی جائیداد میں سے برہمنی کی اولاد کو تین حصے کھترانی کی اولا د کو دو حصے، ولیش کی اولاد کو ڈیڑھ حصہ اور شود رانی کی اولاد کو ایک حصہ ملے گا.اب بتاؤ اس نظام کے ماتحت وہ ادنیٰ حالت سے اونچے کسطرح ہو سکتے ہیں.پھر لکھا ہے کہ:.براہمن شو در سے دولت لے لے.اس میں کوئی وچار نہ کرے کیونکہ وہ دولت جو اس ✓..نے جمع کی ہے وہ اس کی نہیں بلکہ براہمن کی ہے.اس تعلیم کے ماتحت براہمنوں کو اور زیادہ آسانی حاصل ہوگئی کیونکہ انہیں اس بات کی اجازتدے دی گئی ہے کہ شودروں کے پاس جب بھی تمہیں دولت نظر آئے فور لوٹ لو اور کوئی و چار یعنی فکر نہ کرو کہ اس لوٹ سے گناہ ہوگا کیونکہ شودر کا مال اس کا نہیں بلکہ تمہارا ہے جب بھی تم کسی شودر کے پاس مال و دولت جمع دیکھو فوراً لوٹ لو اور اپنے قبضہ میں کرلو.یہ وہ تعلیم ہے جو ہندو مذہب پیش کرتا ہے اور چونکہ ہندو مذہب میں سوائے برہمنوں کھتریوں اور ویشوں کے 53

Page 57

سب کو شو در سمجھا جاتا ہے اس لئے جس قد رسید مغل اور پٹھان وغیرہ ہیں سب ہندوؤں کے نزدیک شودر ہیں اور ان سب کے متعلق برہمنوں کو اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ ان کی دولت کو لوٹ لیں.اگر کوئی شخص روپیہ کمائے اور برہمن اس سے وہ روپیہ لوٹ لے تو اس کا کوئی حق نہیں کہ عدالت میں دعویٰ دائر کرے اور اگر وہ عدالت میں دعوی دائر کر یگا تو منوکی اس تعلیم کے ماتحت اُسے کہا جائیگا تو جھوٹا ہے تیرا تو وہ مال تھا ہی نہیں وہ تو براہمن کا مال تھا.گویا اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی شخص کہیں سے گذر رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ لوگ ایک شخص کو چار پائی پر اٹھا کر اُسے دفن کرنے کے لئے لے جارہے ہیں اور چار پائی پر جو شخص ہے وہ شور مچار ہا ہے کہ خدا کے واسطے مجھے بچاؤ خدا کے واسطے مجھے بچاؤ.لوگوں کے ہجوم کو دیکھ کر وہ بھی ٹھہر گیا اور کہنے لگا بات کیا ہے؟ انہوں نے کہا حج صاحب نے حکم دیا ہے کہ اس شخص کو دفن کر دیا جائے کیونکہ یہ مر چکا ہے.وہ کہنے لگا یہ تو زندہ ہے اور شور مچا رہا ہے کہ مجھے بچایا جائے.وہ کہنے لگے خواہ کچھ ہو جج صاحب کا یہی حکم ہے کہ یہ شخص مر چکا ہے اور اسے دفن کر دینا چاہئے.سیاح نے کہا یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی.جنازہ اٹھا نیوالوں نے جواب دیا کہ آپ کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے جو کچھ حج صاحب نے کہا وہی ٹھیک ہے یہ شخص یو نبی جھوٹ بول رہا ہے اور کہتا ہے کہ میں مرا ہیں.آخر وہ سیاح حج صاحب کے پاس گیا اور اُسے جا کر کہا کہ میں نے آج ایک نظارہ دیکھا ہے اور میں اس پر حیران ہوں میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک زندہ شخص کو آپ نے مرا ہوا کس طرح قرار دے دیا؟ حج نے جواب دیا تم تو بیوقوف ہو تمہیں حالات کا علم نہیں اگر علم سے کام لیتے تو اُسے مرا ہوا ہی سمجھتے.اصل بات یہ ہے کہ ایک سال ہوا میرے پاس ایک عورت آئی اور اس نے کہا کہ میرا خاوند باہر گیا ہوا تھا اب میں نے سنا ہے کہ وہ مر گیا ہے مجھے اجازت دیجئے کہ میں کسی اور شخص سے شادی کرلوں.میں نے کہا کہ گواہیاں لاؤ.وہ دو معتبر گواہ میرے پاس لائی جنہوں نے قسم کھا کر کہا کہ انہوں نے فلاں سرائے میں اس کے خاوند کو مرتے ہوئے دیکھا تھا اور انہوں نے خود ہی اُسے دفن کیا تھا.چنانچہ اس عورت کو شادی کی اجازت دے دی گئی.اب کچھ عرصہ کے بعد یہ شخص 54

Page 58

آیا اور کہا کہ میں اس عورت کا خاوند ہوں اور زندہ ہوں وہ عورت مجھے دلوائی جائے.میں نے اُسے بہتیر سمجھایا کہ تو اس عورت کا خاوند نہیں ہوسکتا وہ تو مر چکا ہے اور دو گواہیاں ہمارے پاس موجود ہیں مگر وہ یہی کہتا چلا گیا کہ نہیں میں تو زندہ ہوں.آخر میں نے کہا میں اسے مان نہیں سکتا دو معتبر گواہ موجود ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ اس عورت کا خاوندان کے سامنے مرا اور چونکہ ان گواہوں کے بیانات کے رو سے خاوند کا مرنا یقینی ہے اس لئے میں سوائے اس کے اور کچھ نہیں کر سکتا کہ اگر تیرا یہ دعوی سچا ہے کہ تو اس عورت کا خاوند ہے تو سرکاری خرچ پر تجھے دفن کرا دوں.چنانچہ اسی غرض کے لئے میں نے اپنے آدمیوں کو بھجوایا ہے تا کہ وہ اُسے دفن کر دیں.یہی حال ہندومت کا ہے کسی شخص کے پاس روپیہ جمع ہو برہمن اس سے لوٹ لے اور وہ بیچارہ عدالت میں دعوئی دائر کرے تو مجسٹریٹ کہے گا یہ بالکل جھوٹ بولتا ہے اس کے پاس روپیہ تھا کہاں وہ تو فلاں ادھیائے اور فلاں شلوک کے ماتحت برہمن کا روپیہ تھا جو اس نے لے لیا.مگر یہ یا درکھو کہ میں یہ نہیں کہتا کہ جب ان مذاہب کی بنیاد پڑی تھی تو اُس وقت وہی تعلیم ان کے نبیوں نے دی تھی جو آج پیش کی جاتی ہے بلکہ کچھ تعلیم تو ایسی ہے جو وقتی اور قومی ہونے کی وجہ سے اُس زمانہ میں ٹھیک تھی اور اب غلط ہے اور کچھ تعلیم ایسی ہے جو ان نبیوں نے دی ہی نہیں وہ یونہی اُن کے ذمہ لگا دی گئی ہے.بہر حال ایسی تعلیم سے موجودہ زمانہ میں کوئی امن اور چین نصیب نہیں ہوسکتا.دوسرے مذاہب کے مقابل پر اسلام کی بے نظیر تعلیم اور اسلامی نقطہء نگاہ کے مطابق نئے نظام کا نقشہ اب میں اسلام کو لیتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ اسلام اس مصیبت کا کیا علاج تجویز کرتا ہے؟ اسلام دنیا کی اس مصیبت اور دکھ کا علاج جسے میں نے تمہید میں بیان کیا ہے یوں فرماتا ہے.55

Page 59

دنیا سے غلامی کی بیخ کنی اول غلامی جو ہزاروں سال سے چلی آرہی تھی اُسے اسلام نے دُور کیا اور غلامی کو کلیۂ مٹا کر رکھ دیا.میرے نزدیک دنیا کے تمام مذاہب میں سے اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے دنیا کے پردہ پر سے غلامی کو مٹایا ورنہ پہلے مذاہب میں غلامی کا رواج تھا اور اُسے کسی مذہب نے منسوخ قرار نہیں دیا.یہودی اور ہندو مذہب کے اصول کے ماتحت تو غلامی ایک مذہبی انسٹیٹیوشن ہے اور اسے منسوخ نہیں کیا جا سکتا.عیسائیت یہودیت کی شاخ ہے اُس میں بھی غلامی رہی اور اگر عیسائیوں میں غلامی مٹی تو اُس کے مثانے کا موجب عیسائیت نہیں بلکہ فلسفہ اخلاق کی ترقی تھی.تاریخ کلیسیا سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ غلامی کے مٹانے کے لئے عیسائی ممالک میں کئی بار کوششیں ہوئیں مگر اس کے سب سے بڑے مخالف پادری ہی تھے اسی طرح ہندو مذہب نے ورنوں کے ذریعہ غلامیت کو اتنا وسیع کر دیا کہ اس کے مقابلہ میں محدود غلامی بھی مات ہوگئی بھلا زرخرید غلام کو دوران کے غلام سے کیا نسبت؟ مگر اسلام نے اس غلامی کو سرے سے مٹادیا.اسلام میں جنگی قیدی بنانے کے متعلق پابندیاں ہاں ایک چیز اسلام میں موجود ہے جسے لوگ غلامی قرار دیتے ہیں اور وہ چیز جنگی قیدیوں کا پکڑنا ہے مگر کیا دنیا میں کہیں بھی ایسا دستور ہے کہ جب دو قوموں میں لڑائی ہو اور دن کے دوران میں ایک دوسرے کے قیدی پکڑے جائیں اور شام کو اُن سب قیدیوں کو رہا کر دیا جائے اور کہہ دیا جائے کہ اب اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ کل پھر ہم سے لڑائی کرنے کے لئے آجانا.ہم تو دیکھتے ہیں کہ لوگ کبڈی کھیلتے ہیں تو اس وقت بھی جن کھلا ڑیوں کو پکڑتے ہیں چھوڑتے نہیں بلکہ پکڑ کر بٹھا لیتے ہیں پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ جنگ ہو اور جنگ کے بعد سب قیدیوں کو رہا کر 56

Page 60

دیا جائے.اگر کبڈی تک نہیں کھیلی جاسکتی بغیر اس کے کہ جب کوئی شکست کھا جائے تو اُسے پکڑ کر بٹھا دیا جائے تو جنگیں اس کے بغیر کس طرح ختم کی جاسکتی ہیں.پس اسلام میں کوئی غلام نہیں مگر جنگی قیدی.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.مَا كَانَ لِنَبِيَّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرِى حَتَّى يُفْحِنَ فِي الْأَرْضِ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا صلح وَاللَّهُ يُرِيْدُ الْآخِرَةَ، وَاللهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ - ط یعنی کسی نبی کے لئے جائز نہیں کہ وہ یونہی لوگوں کو غلام بناتا جائے.ان الفاظ کے ذریعہ نہ صرف خدا تعالیٰ نے یہ اعلان کیا کہ کسی انسان کو غلام بنا نا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جائز نہیں بلکہ یہودیت، عیسائیت اور ہندومت کی وجہ سے جو اعتراضات اُن کے نبیوں پر عائد ہوتے تھے خدا تعالیٰ نے ان تمام اعتراضات کا بھی ازالہ کر دیا کیونکہ فرمایا مَا كَانَ لِنَبِي أَنْ يَكُونَ لَهُ اَسْرَى یعنی کسی نبی کے لئے بھی یہ جائز نہیں تھا کہ وہ یونہی لوگوں کو غلام بنا تا پھرتا.پس نہ کرشن نے ایسا کیا، نہ رام چندر نے ایسا کیا.نہ موسیٰ اور عیسی نے ایسا کیا، جو لوگ ایسا کہتے ہیں وہ اُن کی طرف جھوٹ منسوب کرتے ہیں.ہاں فرماتا ہے کہ ایک چیز ہے جو جائز ہے وہ یہ کہ حَتَّى يُشْخِنَ فِي الْأَرْضِ إِثْخَانَ فِي الْأَرْض ہو تو اس وقت قیدی بنانے جائز ہوتے ہیں یعنی جنگ ہو اور ایسی شدید ہو کہ اُس میں خون کی ندیاں بہہ جائیں قوم قوم پر اور ملک ملک پر حملہ آور ہو اور شدید خونریزی ہو ایسی حالت میں بیشک قیدی بنانے جائز ہیں مگر معمولی لڑائیوں میں بھی قیدی بنانے جائز نہیں جو مثلاً خاندانوں یا افراد میں ہوتی ہیں.تُرِيْدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا اے ہر وہ شخص جو چاہتا ہے کہ بغیر لڑائی کے لوگوں کو قیدی بنائے یا اُن کو غلام بنائے.دوسرے الفاظ میں تو یہ چاہتا ہے کہ تجھے دنیا مل جائے.اگر تم ایسا کرو گے تو تم دنیا کے طلب گار سمجھے جاؤ گے خدا تعالیٰ کے طلب گار نہیں رہو گے وَاللهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ.حالانکہ اللہ چاہتا ہے کہ تم آخرت کے طلب گار بنو.وَاللهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے.اُس کے تمام احکام بڑی بڑی حکمتوں پر مشتمل ہوا کرتے ہیں.اگر غلام بناتے رہو گے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ خود بھی 57

Page 61

غلام بن کر رہ جاؤ گے چنانچہ تاریخ بتاتی ہے کہ جن قوموں میں غلاموں کی کثرت ہوئی وہی قو میں آخر غلام کہلائیں.بنو عباس کے عہد میں غلاموں کی کثرت تھی نتیجہ یہ ہوا کہ تمام بادشاہ لونڈی زادے ہوا کرتے تھے.اور چونکہ غلام میں غلامی کے خیالات ہی ہوتے ہیں اس لئے گو وہ لفظاً آزاد تھے مگر معنا غلام ہی تھے.الحان کے معنے عربی میں ایسی جنگ کے ہوتے ہیں جس میں خطرناک خونریزی ہو.گویا معمولی جنگ میں غلام بنانا جائز نہیں بلکہ غلام ایسی حالت میں ہی بنائے جاسکتے ہیں کہ جب شدید جنگ ہو.معمولی لڑائیاں تو انگریزوں اور پٹھانوں کے درمیان سرحد پر ہوتی ہی رہتی ہیں مگران جنگوں میں قیدی نہیں بنائے جاتے.پر زنر آف وار Prisoner of war) اسی وقت جائز ہوتے ہیں جب باقاعدہ ڈی کلیرڈ وار(Declared war) ہو.معمولی شبخونوں میں ایسے قیدی بنانے جائز نہیں ہوتے.اگر کوئی قوم اپنے لوگوں کو غلام بنانا نہیں چاہے گی تو وہ حملہ ہی کیوں کرے گی.اور اگر حملہ کرے اور لڑائی اِثْخَانِ فِي الْأَرْضِ کی صورت اختیار کرلے تو پھر قیدی بنانا کسی صورت میں بھی قابل اعتراض نہیں سمجھا جاسکتا.اسلام کی تعلیم کہ کوئی جنگ جائز نہیں مگر دفاعی پھر جنگ کے متعلق اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ کوئی جنگ جائز نہیں مگر دفاعی.یعنی یہ جائز نہیں کہ خود ہی دوسروں پر حملہ کر دیا جائے اور لوگوں کو غلام بنالیا جائے.چنانچہ فرماتا ہے: أُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقَاتَلُوْنَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوْا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُه نِ الَّذِيْنَ أُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍ إِلَّا أَنْ يَقُوْلُوْا رَبُّنَا اللهُ وَلَوْ لَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيْهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنْصُرَنَّ اللهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌهِ الَّذِيْنَ إِنْ مَّكَّنَّا هُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلوةَ 19 وَاتَوُا الزَّكوة وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ فرماتا 58

Page 62

ہے جنگ کی اجازت صرف انہی کو دی گئی ہے جن پر پہلے دوسروں نے حملہ کیا اور اس وجہ سے دی گئی ہے کہ اُن پر ظلم کیا گیا.وانَّ اللَّهَ عَلى نَصْرِهِمْ لَقَدِير.اور اس لئے دی گئی ہے کہ مسلمانوں پر ایسا حملہ ہوا ہے کہ اب خدا چاہتا ہے اُس کی تقدیر دنیا میں جاری ہو.اور ظالم کو اسکے ظلم کی سزادے اور مظلوم کی مدد کرے.ایسا ہو سکتا ہے کہ ظالم طاقتور ہو.اور مظلوم کمزور ہو، ایسی صورت میں اگر کمزور آدمی لڑیگا تو بجائے غالب آنے کے وہ تباہ ہی ہوگا.قصہ مشہور ہے کہ کوئی پہلوان ایک جگہ سے گزر رہا تھا اور اس کے پیچھے پیچھے ایک دبلا پتلا شخص جا رہا تھا.پہلوان نے اپنے سر کومنڈ وا کر اس پر چکنائی لگائی ہوئی تھی.اس کمزور آدمی نے جب پہلوان کو اس حالت میں دیکھا تو اُس کی طبیعت میں مذاق کے لئے ایسا جوش پیدا ہوا کہ وہ برداشت نہ کر سکا اور اس نے انگلی سے اس کے سر پر ایک ٹھینگا مارا.پہلوان کو یہ دیکھ کر سخت غصہ آیا اور وہ اُسے زمین پر گرا کر ٹھڈے مارنے لگا.وہ مار کھاتا جاتا تھا.اور کہتا جاتا تھا کہ جتنا جی چاہے مار لو مگر جو مزا مجھے ٹھینگا مارنے میں آیا ہے وہ تم کو ساری عمر مار کر بھی نہیں آئیگا.اب دیکھو وہ چونکہ کمزور تھا اس لئے اُس نے اسی بات کو بڑے فخر کا موجب سمجھا کہ اُس نے ایک طاقتور کے جسم کو چھولیا.پس ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک شخص ظالم ہومگر طاقتور ہو اور مظلوم اس پر غلبہ نہ پاسکتا ہو.مگر فرماتا ہے ہم نے جواجازت دی ہے وہ اس لئے دی ہے کہ ان پر حملہ کیا گیا اور اس لئے اجازت دی ہے کہ ان ظلم کیا گیا اور اس لئے اجازت دی ہے کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی مدد کریں اور ہمارا فرض ہے کہ ان کمزوروں کو طاقتوروں پر غالب کر دیں.پس ہم نے انہیں خالی لڑنے کی اجازت نہیں دی بلکہ ہمارا ان کے ساتھ وعدہ ہے کہ ہم تمہارے ساتھ رہیں گے جب تک تم ظالم کو مغلوب نہیں کر لیتے.پھر فرماتا ہے: الَّذِيْنَ أُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْر حق.وہ گھروں سے نکالے گئے بغیر اس کے کہ انہوں نے کوئی قصور کیا ہو.إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللهُ.ان کا گناہ صرف یہ تھا کہ انہوں نے اسلام کو سچا مان لیا تھا اور وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا رب ہے.وَلَوْ لَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللهِ 59

Page 63

كَثِيرًا فرماتا ہے آئندہ زمانہ میں ایسے ایسے لوگ پیدا ہونے والے ہیں جو محبت اور انسانیت کے نام پر اپیلیں کرینگے اور کہیں گے کہ لڑائی بہر حال بُری چیز ہے اور وہ کسی صورت میں نہیں ہونی چاہئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم ایسے لوگوں سے کہو کہ اگر اللہ کا یہ قانون نہ ہوتا کہ بعض کے مظالم بعض کے ذریعہ مٹا دئیے جائیں تو عبادت خانے اور علماء کے رہنے کی جگہیں اور بدھوں اور عیسائیوں اور یہودیوں کی عبادت گاہیں اور مسجدمیں سب برباد ہو جاتیں.اور اُن میں اللہ کا نام لیا جانا بند ہو جاتا کیونکہ تمہارے جنگ نہ کرنے سے اِن لوگوں کے ارادے کس طرح بدل سکتے ہیں جو حکومت کا دائرہ وسیع کر کے مذہب پر بھی حکومت کرنا چاہتے ہیں اور لوگوں کو اپنے منشاء کے مطابق مذہب رکھنے یا نہ رکھنے پر مجبور کرتے ہیں.یہ لوگ جنگ کی قطعی ممانعت کے اعلان کو سنکر دلیر ہو جائیں گے اور نہ صرف دنیوی امور میں دست اندازی شروع کر دینگے بلکہ لوگوں کے دین کو مٹادیں گے اور عبادت کی جگہوں کو گرادینگے وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَّنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عزيز فرماتا ہے جو بھی اس لئے اٹھے گا.کہ خدا کے دین کو آزاد کرے خدا اس کی مدد کریگا اور وہ قوی اور عزیز ہے.جس قوم کیسا تھ اس کی مدد ہو وہ کبھی مغلوب نہیں ہوا کرتی.پھر فرماتا ہے ایسے لوگ جو مذہبی آزادی کے قیام کے لئے اپنی جانوں اور مالوں کو قربان کرتے ہیں وہ ایسے لوگ ہیں کہ الَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّتُهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلوةَ وَاتَوُا الزَّكَوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ.اگر وہ دنیا پرقابض ہو جائیں تو طاقتور ہوکر دوسروں کو لوٹیں گے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے، غریبوں کو مال دینگے ، خود بُرے کاموں سے بچیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور بُرے کاموں سے روکیں گے.اب بتاؤ کیا اس قسم کی لڑائی مسلمانوں کے اختیار میں ہے کہ جب اُن کا جی چاہے لڑائی شروع کر دیں اور کفار کو قیدی بنانا شروع کر دیں.اس قسم کے جنگی قیدی تو دشمن ہی بنوا سکتا ہے اور جب اس سے بچنا اس کے اختیار میں ہے تو پھر اگر وہ ایسی جنگ کرتا ہے تو یا تو وہ پاگل ہے اور یا پھر قید رہنے کے قابل کیونکہ اُسے اختیار تھا کہ وہ حملہ نہ کرتا ، وہ دوسروں پر ظلم نہ کرتا، وہ دین کے 60

Page 64

لئے جنگ نہ کرتا اور اپنے آپ کو غلامی سے بچالیتا.اسلامی تعلیم کے مطابق جنگی قیدیوں کی رہائی لیکن فرض کرو ایسا حملہ ہو جائے اور بعض لوگ قیدی بن جائیں تو پھر جو لوگ قیدی بن کر آئیں اُن کے لئے صاف اور واضح الفاظ میں یہ حکم موجود ہے کہ فَإِذَ القِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ ط حَتَّى إِذَا الْخَيْتُمُوْهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنَّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَهَا - یعنی اگر ایسا حملہ ہو جائے اور تمہیں لڑائی کرنی پڑے تو خدا تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ تم اُن میں سے کچھ قیدی پکڑ لومگر پھر اُن سے کیا سلوک کرو اس بارہ میں ہمارے دو قانون ہیں اور تمہیں اُن دونوں میں سے کسی ایک قانون کو ضرور مانا پڑے گا اور وہ قانون یہ ہیں کہ اوّل فَإِمَّا مَنَّا بَعْدُ یا تو احسان کر کے چھوڑ دو اور کہو کہ جاؤ ہم نے تمہیں بخش دیا وَاِمَّا فِدَاءً اور یا جنگ کا خرچ بحصہ رسدی قیدیوں سے لے کر انہیں رہا کر دو.گویا دو صورتوں میں سے ایک صورت تمہیں ضرور اختیار کرنی پڑے گی.یا تو تمہیں احسان کر کے انہیں آزاد کرنا پڑیگا اور یا پھر بحصہ رسدی ہر قیدی سے جنگ کا تاوان وصول کر کے انہیں آزاد کرنا پڑیگا.یہ نہیں ہوسکتا کہ ان میں سے کوئی صورت بھی اختیار نہ کی جائے.ہاں اگر کوئی شخص بطور احسان انہیں رہا کرنا نہیں چاہتا تو اس وقت تک کہ وہ تاوان جنگ ادا کریں اُن سے خدمت لے سکتا ہے.آجکل کی یورپین قوموں کو ہی دیکھ لو فرانس کے قیدی جو ہٹلر کے قبضہ میں ہیں اُن سے وہ تاوان جنگ الگ وصول کر یگا اور خدمت الگ لے رہا ہے.چنانچہ ہر جگہ کہیں جنگی قیدیوں سے سڑکیں بنواتے ہیں، کہیں مٹی کھدواتے ہیں اور کہیں اور کام لیتے ہیں.بیشک وہ اُن سے اُن کے عہدوں کے مطابق کام لیتے ہیں مگر یہ نہیں کرتے کہ انہیں فارغ رہنے دیں.پس جنگی قیدیوں سے اب بھی مختلف کام لئے جاتے ہیں اور یہی اسلام کا حکم ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اُن کے ہاں تاوان جنگ کو مقدم رکھا جاتا ہے اور اسلام یہ کہتا ہے کہ ہمارا پہلا حکم یہ ہے کہ تم انہیں احسان 61

Page 65

کر کے چھوڑ دو ہاں اگر احسان نہیں کر سکتے تو پھر دوسرا حکم یہ ہے کہ اُن سے تاوان جنگ لیکر انہیں رہا کردو.اسلامی تعلیم کے مطابق جنگی قیدی سے آئندہ جنگوں میں شامل نہ ہو نیکا معاہدہ لیکر اسے رہا کر دینا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے یہ بھی ثابت ہے کہ احسان کر کے چھوڑتے وقت یہ معاہدہ لیا جا سکتا ہے کہ وہ پھر مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لئے نہیں نکلیں گے کیونکہ ہوسکتا ہے ایک شخص ایک دفعہ رہا ہو تو دوسری دفعہ پھر مسلمانوں کے خلاف کسی جنگ میں شامل ہو جائے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس قسم کی شرط کر لینے کی اجازت دی ہے.خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کا ایک واقعہ ایسا ہے جو بتا تا ہے کہ اس قسم کے خطرات قیدیوں کو رہا کرتے وقت ہو سکتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ ایک قیدی ابوعزہ نامی کو رہا کیا یہ شخص جنگ بدر میں پکڑا گیا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس سے یہ عہد لے کر چھوڑ دیا کہ وہ آئندہ مسلمانوں کے خلاف کسی جنگ میں شامل نہیں ہو گا مگر وہ جنگ اُحد میں مسلمانوں کے خلاف پھر لڑنے کے لئے نکلا اور آخر حمراء الاسد کی جنگ میں گرفتار ہو کر مارا گیا.پس جنگی قیدیوں کے لئے اسلام دو ہی صورتیں تجویز فرماتا ہے.(۱) احسان کر کے چھوڑ دیا جائے اور اگر یہ نہ ہو سکے تو (۲) تاوان جنگ بحصہ رسدی وصول کر کے انہیں چھوڑ دیا جائے.جنگی قیدی سے خدمت لینا ہاں جب تک وہ فدیہ ادا نہ کرے اس سے خدمت لینی جائز ہے کیونکہ قیدی بنانے کی غرض یہی ہوتی ہے کہ دشمن کی طاقت کو کمزور کیا جائے اگر قیدیوں کو اکٹھا کر کے انہیں کھلانا پلانا شروع کر 62

Page 66

دیا جائے اور کوئی ایسا کام نہ لیا جائے جس سے دشمن کے مقابلہ میں فائدہ اٹھایا جاسکے تو اس طرح دشمن کی طاقت بڑھ جائیگی کم نہیں ہوگی لیکن اس میں بھی اسلام اور موجودہ حکومتوں کے طریق عمل میں بہت بڑا فرق ہے.جنگی قیدیوں سے کام لیتے وقت اُن کی طاقت کا خیال رکھنے اور اُنکی خوراک و پوشاک کے متعلق اسلامی ہدایات آجکل جنگی قیدیوں میں سے بڑے بڑے افسروں کو تو کچھ نہیں کہا جا تا لیکن عام قیدیوں سے سختی سے کام لیا جاتا ہے مگر اسلام کہتا ہے (۱) تم کسی قیدی سے اُس کی طاقت سے زیادہ کام نہ لو (۲) دوسرے جو کچھ خود کھاؤ وہی اس کو کھلا ؤ اور جو کچھ خود پہنو وہی اسکو پہناؤ.اب ذرا یورپین حکومتیں بتا ئیں تو سہی کہ کیا وہ بھی ایسا ہی کرتی ہیں؟ کیا انگریز ، جرمن اور جاپانی قیدیوں کو وہی کچھ کھلاتے ہیں جو خود کھاتے ہیں.یا جرمن انگریز قیدیوں کو وہی کچھ کھانے کے لئے دیتے ہیں جوخو دکھایا کرتے ہیں وہ ایسا ہر گز نہیں کرتے.مگر اسلام کہتا ہے جو کھانا خود کھاؤ وہی انکو کھلا ؤ اور جو کپڑا خود پہنو، وہی انکو پہناؤ اور اس بارہ میں صحابہ اسقدر تعہد سے کام لیا کرتے تھے کہ ایک دفعہ صحابہ ایک سفر پر جا رہے تھے اور اُن کے ساتھ بعض غلام بھی تھے وہ غلام خود روایت کرتے ہیں کہ راستہ میں جب کھجور میں ختم ہونے کو آئیں تو صحابہ نے فیصلہ کیا کہ وہ خود تو گٹھلیوں پر گزارہ کرینگے اور ہمیں کھجوریں کھلائیں گے چنانچہ وہ ایسا ہی کرتے رہے اور گٹھلیاں بھی انہیں کافی نہ ملتی تھیں جن سے پیٹ بھر سکتا.تو یہ حکم جو اسلام نے دیا ہے کہ جو کچھ خود کھاؤ وہی اپنے قیدیوں کو کھلاؤ اس کی نظیر دنیا میں کہیں نہیں پائی جاتی صرف صحابہ کرام ہی ہیں جنہوں نے یہ نمونہ دکھایا.اسلامی تعلیم میں جنگی قیدیوں پر سختی کرنے اور انکو مارنے پیٹنے کی ممانعت پھر فرماتا ہے انہیں مار و پیٹ نہیں اور اگر کوئی شخص انہیں غلطی سے مار بیٹھے تو وہ غلام جسے مارا 63

Page 67

گیا ہو اُسی وقت آزاد ہو جائے گا.حدیثوں میں آتا ہے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے اور آپ نے دیکھا کہ ایک صحابی کسی غلام کو مار رہے ہیں یہ صحابی خود بیان کرتے ہیں کہ میں اسی حالت میں تھا کہ میں نے اپنے پیچھے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ آواز سنی کہ تم کیا کرتے ہو یہ جاہلیت کا فعل ہے.آجکل تو لوگ اپنے نوکروں کو بھی مارلیتے ہیں اور اسے کوئی معیوب بات نہیں سمجھتے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک غلام کے مارے جانے پر اُس صحابی کو ڈانٹا اور فرمایا تم کیا کرتے ہو جس قدر تمہیں اس غلام پر مقدرت حاصل ہے اُس سے کہیں زیادہ خدا تعالیٰ کو م پر مقدرت حاصل ہے.وہ صحابی کہتے ہیں میں یہ آواز سنکر کانپ گیا اور میں نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ہمیں اسے آزاد کرتا ہوں.آپ نے فرمایا اگرتم اسے آزادنہ کرتے تو جہنم میں جاتے." اسی طرح ایک اور صحابی کہتے ہیں ہم سات بھائی تھے اور ہمارے پاس صرف ایک لونڈی تھی ایک دفعہ ہم میں سے سب سے چھوٹے بھائی نے کسی قصور پر اُسے تھپڑ مار دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ بر پہنچی تو آپ نے فرمایا اسے تھپڑ مارنے کا جرمانہ صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ اسے آزاد کر دو.چنانچہ انہوں نے اُسے آزاد کر دیا.گویا کوئی سخت مار پیٹ نہیں ایک تھپڑ بھی کسی غلام یا لونڈی کو مارنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نا پسند تھا.اور آپ اس کا کفارہ صرف ایک ہی چیز بتاتے تھے کہ اُسے آزاد کر دیا جائے.آجکل تو مار مار کر جسم پر نشان ڈال دیتے ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ سونٹا نہیں اگر تم تھپڑ بھی مار بیٹھتے ہو تو اس کے معنے یہ ہیں کہ تم غلام رکھنے کے قابل نہیں اور تم نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ تم اس بات کے اہل نہیں کہ تمہارے ماتحت کسی کو رکھا جا سکے تم اسے فورا آزاد کر دو.شادی کے قابل جنگی قیدیوں کی شادی کر دینے کے متعلق اسلامی ہدایت پھر فرماتا ہے اگر وہ شادی کے قابل ہوں اور جوان ہوں تو تم اُن کی شادی کر دو کیوں کہ نہ 64

Page 68

معلوم وہ کب آزاد ہوں.چنانچہ اس بارہ میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے: وَانْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِيْنَ مِنْ عِبَادِ كُمْ وَإِمَاءِ كُمْ " تمہاری لونڈیوں اور غلاموں میں سے جو نکاح کے قابل ہوں اُن کے متعلق ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم انکی شادی کر دیا کرو.اب بتاؤ کیا آجکل کا انٹر نیشنل قانون اس سے زیادہ حسن سلوک سکھاتا ہے.آجکل تو اُن کی پہلی بیویوں کو بھی اُن کے پاس آنے نہیں دیتے کجا یہ کہ خود اُنکی شادی کر دیں.مگر اسلام کہتا ہے جو کچھ خود کھاؤ وہی انکو کھلا ؤ، جو کچھ خود پہنو وہی انکو پہناؤ، اُن میں سے جو شادی کے قابل ہوں اُن کی شادی کر دو، ان پر کبھی سختی نہ کرو، اور اگر تم کسی وقت انہیں مار بیٹھو تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ تم انہیں فوراً آزاد کر دو.پھر کیا آج قیدیوں کو کوئی بھی حکومت یہ اقرار لے کر کہ وہ آئندہ اُن کے خلاف جنگ میں شامل نہ ہوں گے چھوڑنے کو تیار ہے؟ یا کیا بغیر تاوان جنگ کے کوئی کسی جنگ کرنے والی حکومت کو چھوڑتا ہے؟ اسلام میں فدیہ یعنی تاوان جنگ کے ذریعہ جنگی قیدیوں کی رہائی مگر اسلام نے تاوان جنگ کو بھی اتنا نرم کر دیا ہے کہ فرمایا یا تو احسان کر کے چھوڑ دو اور احسان کو مقدم رکھا اور اس کی برداشت نہ ہو تو تاوان جنگ لیکر چھوڑ دو اور فدیہ تاوان جنگ کے سوا اور کچھ نہیں ہاں یہ فرق ضرور ہے کہ پہلے جنگ انفرادی ہوتی تھی اس لئے افراد سے تاوان جنگ وصول کیا جاتا تھا مگر اب قومی جنگ ہوتی ہے اسلئے اب طریق یہ ہوگا کہ قوم تاوان جنگ ادا کرے.پہلے چونکہ با قاعدہ فوجیں نہ ہوا کرتی تھی اور قوم کے افراد پر جنگی اخراجات کی ذمہ داری فردا فردا پڑتی تھی اس لئے اسوقت قیدی رکھنے کا بہترین طریق یہی تھا کہ اُن کو افراد میں تقسیم کر دیا جاتا تھا تا کہ وہ اُن سے اپنے اپنے اخراجات جنگ وصول کر لیں.مگر جب حکومت کی با قاعدہ فوج ہواور افراد پر جنگی اخراجات کا بارفردا فرد نہ پڑتا ہو تو اس وقت جنگی قیدی تقسیم نہ ہونگے بلکہ 65

Page 69

حکومت کی تحویل میں رہیں گے اور جب دوسری قوم تاوان جنگ ادا کر دیگی تو پھر اُن سے کوئی خدمت نہیں لی جائے گی اور انہیں رہا کر دیا جائے گا.اب بتاؤ جب قیدی کو فدیہ دے کر رہا ہونے کا اختیار ہے تو وہ کیوں فدیہ ادا کر کے اپنے آپ کو رہا نہیں کر الیتا.اگر وہ خود فدیہ دینے کی طاقت نہیں رکھتا تو اُس کے رشتہ دار فدیہ دے سکتے ہیں.اگر وہ بھی فدیہ نہیں دے سکتے.تو حکومت فدیہ دے کر اُسے رہا کر اسکتی ہے.بہر حال کوئی صورت ایسی نہیں جس میں اس کی رہائی کا دروازہ کھلا نہ رکھا گیا ہو.فدیہ نہ دے سکنے والے کی رہائی کی صورت ممکن ہے کوئی کہہ دے کہ ہو سکتا ہے ایک شخص غریب ہو اور وہ خود فدیہ ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو، گورنمنٹ ظالم ہو، اور اُسے رہا کرانے کا کوئی احساس نہ ہو، رشتہ دار لا پرواہ یا بد معاش ہوں اور وہ چاہتے ہوں کہ وہ قید ہی رہے تا کہ وہ اُس کی جائیداد پر قبضہ کر لیں، دوسری طرف مالک کی یہ حالت ہو کہ وہ بغیر فدیہ کے آزاد کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو کیونکہ بالکل ممکن ہے جو رقم اُس نے جنگ میں خرچ کی تھی اُس نے اس کی مالی حالت کو خراب کر دیا ہو تو ایسی صورت میں وہ اپنی رہائی کے لئے کیا صورت اختیار کر سکتا ہے.اس سوال کا جواب بھی قرآن کریم نے دیا ہے.فرماتا ہے: وَالَّذِيْنَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوْ هُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيْهِمْ خَيْرًا وَاتُوهُمْ مِنْ مَالِ اللهِ الَّذِي آتَاكُمْ " یعنی وہ لوگ جن کو خدا تعالیٰ نے تمہارا غلام بنایا ہے اور تمہیں اُن پر قبضہ اور تصرف حاصل ہے اگر وہ تم سے کہیں کہ صاحب ہمیں چھڑانے والا کوئی نہیں اور نہ ہمارے پاس دولت ہے کہ ہم فدیہ دے کر رہا ہو سکیں ہم غریب اور نادار ہیں ہم آپ سے یہ شرط کر لیتے ہیں کہ آپ کی رقم دو سال یا تین سال یا چار سال میں ادا کر دیں گے اور اسقدر ماہوار قسط آپ کو ادا کیا کریں گے آپ ہمیں آزاد کر دیں تو فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيْهِمْ خيراً.تم اس بات پر مجبور ہو کہ اُن کو آزاد کر دو اور اُن کے فدیہ کی رقم کی قسطیں مقرر کر لو بشرطیکہ 66

Page 70

تمہیں معلوم ہو کہ وہ روپیہ کمانے کی اہلیت رکھتے ہیں بلکہ تمہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو جو کچھ دیا ہے اس میں سے اُن کی مدد کرو.یعنی انہیں کچھ سرمایہ بھی دے دو تا کہ اس ذریعہ سے وہ روپیہ کما کر اپنا فدیہ ادا کرسکیں.گویا جس وقت قسطیں مقرر ہو جائیں اُسی وقت سے وہ اپنے اعمال میں ویسا ہی آزاد ہوگا جیسے کوئی دوسرا آزاد شخص اور وہ اپنے مال کا مالک سمجھا جائیگا.اگر ان تمام صورتوں کے باوجود کوئی شخص پھر بھی غلام رہتا ہے اور آزاد ہونے کی کوشش نہیں کرتا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ خود غلام رہنا چاہتا ہے اور اسے غلامی میں مزا آتا ہے.غرض اسلامی تعلیم کے ماتحت غلام دنیوی جنگوں میں نہیں بنائے جاتے بلکہ صرف انہیں جنگوں میں بنائے جاتے ہیں جو مذہبی ہوں مگر ان غلاموں کے متعلق بھی حکم دیا کہ اول تو احسان کر کے انہیں چھوڑ دو.اور اگر ایسا نہیں کر سکتے تو فدیہ لیکر رہا کر دو.یہ ضروری نہیں کہ وہ خود فدیہ دے اس کے رشتہ دار بھی دے سکتے ہیں، حکومت بھی دے سکتی ہے اور اگر گورنمنٹ لا پرواہ ہو، رشتہ دار ظالم ہوں اور وہ غریب ہو تو وہ کہہ سکتا ہے کہ آؤ اور میرے ساتھ طے کر لو کہ مجھ پر کیا تاوان جنگ عائد ہوتا ہے اور مجھے اس تاوان کی ادائیگی کے لئے اتنی مہلت دے دو میں اس عرصہ میں اس قدر ماہوار رو پید ادا کر کے تاوان جنگ دے دونگا.اس معاہدہ کے معابعد وہ آزاد ہو جائے گا اور مالک کا کوئی حق نہیں ہوگا کہ وہ مکاتبت میں کسی قسم کی روک پیدا کرے.مکاتبت کاروکنا صرف اسی صورت میں جائز ہے جبکہ اس میں خیر نہ ہو یعنی جنگ کا خطرہ ہو یا یہ کہ وہ پاگل یا کم عقل ہو اور خود کمانہ سکتا ہو اور خطرہ ہو کہ وہ بجائے فائدے کے نقصان اٹھائیگا.مکاتبت کی صورت میں اسلام اُسے سرمایہ مہیا کرنیکا بھی حکم دیتا ہے خواہ وہ سرمایہ مالک دے یا حکومت.قیدیوں کی رہائی کے متعلق اسلام کی انتہائی کوشش پھر ممکن ہے کوئی شخص کہہ دے اگر پاگل یا کم عقل والے کی مکاتبت کو روکنا جائز ہے تو پھر لوگ اچھے بھلے سمجھدار لوگوں کو بے عقل قرار دے کر اپنا غلام بنائے رکھیں گے آزاد تو وہ پھر بھی نہ نہ 67

Page 71

ہوا.اسکا جواب یہ ہے کہ اسلامی قانون یہ ہے کہ ایسی صورت میں وہ گورنمنٹ کے پاس درخواست کر سکتا ہے کہ میں صاحب عقل ہوں، کما سکتا ہوں، مگر میرا مالک مجھے جان بوجھ کر غلام بنائے ہوئے ہے ایسی صورت میں قاضی فیصلہ کر کے اسے آزادی کا حق دے دیگا.غرض کوئی صورت ایسی نہیں جس میں غلاموں کی آزادی کو مدنظر نہ رکھا گیا ہو.اول مالک کو کہا کہ وہ احسان کر کے چھوڑ دے.دوم اگر مالک ایسا نہ کر سکے تو غلام کو اختیار دیا کہ وہ تاوان جنگ ادا کر کے آزادی حاصل کرلے اور اگر فدیہ ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو مکاتبت کرلے اور کہہ دے کہ میں اتنی مقسطوں میں روپیہ دے دوں گا مجھے دویا تین سال کی مہلت دے دو.ایسا معاہدہ کرتے ہی وہ عملاً آزاد سمجھا جائیگا اور اگر ان ساری شرطوں کے باوجود کوئی شخص یہ کہے کہ میں آزاد ہونا نہیں چاہتا تو ماننا پڑے گا کہ اُسے اپنی غلامی آزادی سے اچھی معلوم ہوتی ہے اور حقیقت یہی ہے کہ صحابہ کرام کے پاس جو غلام تھے انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے ماتحت وہ اس عمدگی اور آرام کے ساتھ رکھتے تھے کہ انہیں اپنی آزادی سے صحابہ کی غلامی بہتر معلوم ہوتی تھی.صحابہ کرام کا غلاموں سے حسن سلوک صحابہ جو کچھ کھاتے وہی انہیں کھلاتے جو کچھ پہنتے وہی انکو پہناتے ، انہیں بدنی سزا نہ دیتے ، اُن سے کوئی ایسا کام نہ لیتے جو وہ کر نہ سکتے ، ان سے کوئی ایسا کام نہ لیتے جس کے کرنے سے وہ خود کراہت کرتے اور اگر لیتے تو کام میں اُنکے ساتھ شریک ہوتے اور اگر وہ آزادی کا مطالبہ کرتے تو انہیں فوراً آزادی دے دیتے بشرطیکہ وہ اپنا فدیہ ادا کر دیں.ان حالات کو دیکھ کر غلاموں کا جی ہی نہیں چاہتا تھا کہ وہ آزاد ہوں.وہ جانتے تھے کہ یہاں ہمیں اچھا کھانا کھانے کو ملتا ہے بلکہ آقا پہلے ہمیں کھلاتا ہے پھر خود کھاتا ہے گھر گئے تو معمولی روٹی ہی ملے گی.اسلئے وہ آزادی کا مطالبہ ہی نہیں کرتے تھے.پس گووہ غلام تھے مگر در حقیقت اُن کے دل فتح ہو چکے تھے اور ایسے ہی تھے جیسے حضرت خدیجہ کے غلام زید بن حارثہ تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ 68

Page 72

علیہ وسلم کی خدمت کو آزادی پر ترجیح دی.غلام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن سلوک کا نمونہ اور اس کا نتیجہ جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شادی ہوئی تو انہوں نے اپنی تمام دولت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دے دی اور زیڈ کو بھی جوان کے غلام تھے آپ کے سپر د کر دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زید کو آزاد کر دیا.حضرت زید در اصل غلام نہیں تھے بلکہ ایک آزاد خاندان کے لڑکے تھے کسی لوٹ مار میں وہ قید ہو گئے اور ہوتے ہوتے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچے.اُن کے باپ اور چا دونوں اُن کو تلاش کرتے کرتے مکہ میں آئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ زیڈ کو ہمارے ساتھ بھیجا جائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت زید کو آزاد کر چکے تھے آپ نے فرمایا میری طرف سے کوئی روک نہیں اگر یہ جانا چاہتا ہے تو بے شک چلا جائے.انہوں نے زیڈ سے کہا کہ بیٹا ! گھر چل تیری ماں روتی ہے اور اُسے تیری جدائی کا سخت صدمہ ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بھی تجھے آزاد کر دیا ہے اور اجازت دے دی ہے کہ تو ہمارے ساتھ واپس چلا جا.زیڈ نے کہا انہوں نے بے شک مجھے آزاد کر دیا ہے مگر میں دل سے ان کا غلام ہی ہوں اور اس غلامی سے الگ ہونا نہیں چاہتا.باپ نے بہت منت سماجت کی اور کہا دیکھ اپنی بوڑھی ماں کا خیال کر چچانے بھی بہت کوشش کی اور کہا کہ ماں باپ سے بڑھ کر اور کون حسن سلوک کر سکتا ہے ہمارے ساتھ چل ہم تجھے بڑی محبت سے رکھیں گے مگر حضرت زید نے کہا میں آپ کے ساتھ نہیں جاسکتا کیونکہ میرے ساتھ جو کچھ یہ سلوک کرتے ہیں اس سے بہتر سلوک دنیا کی کوئی ماں اور دنیا کا کوئی باپ نہیں کر سکتا.اب بتاؤ کیا اس غلامی پر اعتراض ہو سکتا ہے؟ یا انسان کا دل تشکر و امتنان کے جذبات سے لبریز ہو جاتا اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں اور وہ حیران ہو جاتا ہے کہ کیا دنیا میں دو 69

Page 73

انسانوں کے درمیان ایسے شریفانہ تعلقات بھی ہو سکتے ہیں.ابتدائے اسلام میں بعض لوگوں کے غلام رہنے کی وجہ پس اگر ابتدائے اسلام میں بعض غلام، غلام ہی رہے تو اس کے معنے صرف یہ ہیں کہ مسلمان غلاموں سے ایسا حسن سلوک کرتے تھے کہ وہ غلام خود چاہتے تھے ہم پر یہ حکومت کرتے چلے جائیں اور ہم ان کی غلامی میں ہی رہیں کیونکہ اُن کی غلامی آزادی سے بدرجہا بہتر ہے مگر یورپ کے پادری دور بیٹھے اعتراضات کرتے چلے جاتے ہیں کہ اسلام نے غلامی کو دور نہیں کیا.بڑے بڑے جلسوں میں لیکچرار اپنے وقت سے پانچ منٹ بھی زیادہ تقریر کریں تو لوگ شور مچانے لگ جاتے ہیں مگر یہ دل کی غلامی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانے کا نتیجہ ہی ہے کہ یہاں ہمارے جلسہ میں خواہ سردی لگے.بھوک لگے، ہاتھ پاؤں شل ہو جائیں پھر بھی لوگ بیٹھے رہتے ہیں اور یہی چاہتے ہیں کہ تقریر جاری رہے.یہ غلامی آیا اس قابل ہے کہ اس پر اعتراض کیا جائے یا یہ غلامی ایمانوں کو بڑھانے والی ہوتی ہے.یہ غلامی بندوں کی نہیں ہوتی بلکہ خدا تعالی کی ہوتی ہے.غرض کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اب تو دنیا آگے نکل گئی ہے اُس نے غلامی کو مٹا دیا ہے کیونکہ اسلام نے شروع سے ہی غلامی کو کلی طور پر مٹادیا ہے.ہاں جنگی قیدی بنانے کی اس نے اجازت دی ہے مگر اُنکے بارہ میں بھی وہ قواعد بنائے کہ اب تک بھی دنیا ان سے پیچھے ہے.اسوقت نہ اتحادی ان قواعد پر عمل کرنے کو تیار ہو سکتے ہیں.نہ محوری ۲۵ ان قواعد پر عمل کرنے کو تیار ہو سکتے ہیں.لوگوں پر ظلم روار کھنے کے متعلق بعض فلسفیانہ نظر یے خلاصہ یہ کہ اسلام نے غلامی کو یکسر مٹا دیا ہے.اب رہا وہ دکھ جو باطنی غلامی سے پیدا ہوتا ہے یعنی غربت یا ماتحتی کی وجہ سے، اس کا علاج بھی اسلام نے کیا ہے مگر اس علاج کو سمجھنے سے 70

Page 74

پہلے یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا کے امتیازی فرق بعض فلسفی نظریوں کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور وہ نظریے یہ ہیں :- پہلا نظریہ اول بعض کہتے ہیں کہ دنیا میں جس کا زور چلتا ہو وہی لے جاتا ہے اس لئے ہمیں بھی اسی پر عمل کرنا چاہئے.انگریزوں کا زور چلا تو انہوں نے کئی ملکوں پر قبضہ کر لیا، اسی طرح جب اٹلی نے ایسے سینا پر حملہ کیا تو مسولینی نے ایک تقریر کی جس میں کہا کہ ہم نے یہ حملہ محض ایسے سینیا والوں کی خدمت کرنے کے لئے کیا ہے اور اس اقدام سے ہماری وہی غرض ہے جو انگریزوں کی ہندوستان میں تھی.وہ کہتے ہیں ہندوستان پر ہم اس لئے حکومت کر رہے ہیں کہ وہاں کے جاہلوں کو پڑھا ئیں اور اُسے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کر دیں.پھر کیا ہم میں انسانیت نہیں پائی جاتی کہ ہم دوسروں کی خدمت نہ کریں اور اُن کے ملک پر قبضہ کر کے ان کی جہالت کو دور نہ کریں.پس یہ بھی ایک دلیل ہے جو بعض لوگوں کی طرف سے پیش کی جاتی ہے.دوسرانظریہ دوسرے بعض کہتے ہیں کہ جو فائق ہوا سے فائق ہی رہنا چاہئے یعنی مالی طور پر جس کا غلبہ ہو اور جو اپنے زور بازو سے کماتا ہواس میں دخل نہیں دینا چاہئے.تیسرا نظریہ اسی طرح ایک اور نظریہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ نسلی فوقیت بھی ایک حقیقی فوقیت ہے اس کو کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.یہ عقیدہ ویسا ہی ہے جو ہندو مذہب میں پایا جاتا ہے کہ شودر شودر ہی رہے گا.ویش ولیش ہی رہیگا.کھتری کھتری ہی رہیگا اور برہمن برہمن ہی رہے گا.71

Page 75

بقول اُنکے یہ امتیاز جو نسلی طور پر لوگوں میں پایا جاتا ہے مٹ نہیں سکتا.چوتھا نظریہ ایک اور قانون یہ بیان کیا جاتا ہے کہ دنیا میں صرف جمہور کو حکومت کرنے کا حق ہے اس لئے اقلیتوں پر جو چاہو ظلم کرو.اس نظریہ کے ماتحت یہ لوگ اقلیت کو تباہ کر دیتے ہیں اور تھوڑے آدمیوں کی آواز کو سنتے ہی نہیں.پانچواں نظریہ اسی طرح اُن کا ایک یہ بھی قانون ہے کہ جو گری پڑی چیز ملے لے لو.ہم بچپن میں جب آپس میں کھیلا کرتے اور ہمیں کوئی گری پڑی چیز مل جاتی تو ہم یہ کہتے ہوئے اُسے اٹھا لیتے کہ بھی چیز خدا دی نہ دھیلے دی نہ پادی اور سمجھتے کہ یہ کوئی ایسا منتر ہے جس کو پڑھ کر گری پڑی چیز کو اٹھا لینا بالکل جائز ہو جاتا ہے مگر وہ چیز جو بچوں کو کھیلتے ہوئے مل جاتی ہے کوئی قابل ذکر نہیں ہوتی کبھی انہیں مکی یا چنے کا دانہ زمین پر پڑا ہوامل جاتا ہے، کبھی بٹن یا ایسی ہی کوئی چیز مل جاتی ہے اور وہ اُسے اٹھا لیتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی ایک دفعہ ایک شخص نے دریافت کیا کہ يَا رَسُولَ اللَّهِ گری پڑی چیز کے متعلق کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا مثلاً ؟ اُس نے کہا مثلاً جنگل میں مجھے کوئی بکری مل جائے تو آیا میں اُسے لے لوں یا نہ لوں؟ آپ نے فرمایا جنگل میں اگر تجھے کوئی بکری مل جائے تو تو ادھر ادھر آواز دے کہ یہ کس کی بکری ہے اور اگر آواز دینے کے باوجود تجھے اس کا مالک نہ ملے تو تو اُسے لے لے اور کھا جا کیونکہ اگر تو نہیں کھائیگا تو تیرا بھائی بھیڑیا اُسے کھا جائیگا.اس نے کہا یا رَسُولَ اللهِ! اگر جنگل میں اونٹ مل جائے تو پھر کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا تیرا اونٹ سے کیا تعلق ہے؟ اونٹ کا کھانا درختوں پر اور اس کا پانی اس کے پیٹ میں ہے تو اس اونٹ کا کیا لگتا ہے تو اُسے پھرنے دے.اس نے کہا یا رَسُولَ اللهِ ! اگر کہیں گری پڑی کوئی تھیلی مجھے مل جائے تو پھر کیا حکم 72

Page 76

ہے؟ آپ نے فرمایا تھیلی ملے تو اُسے اٹھا لو او لوگوں میں اس کے متعلق متواتر اعلان کرتے رہو جب اس کا مالک مل جائے تو اُسے دیدو.پس ہر گری پڑی چیز کے لئے الگ الگ قانون ہے.بکری اور مرغی چونکہ ایسی چیزیں ہیں جنہیں جانور کھا جاتے ہیں اس لئے اگر ان کا مالک نہ ملے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ انہیں پانے والا اپنے استعمال میں لے آئے.لیکن جو باقی چیزیں ہیں.ان میں سے جو حفاظت سے رہ سکتی ہیں اُن کے متعلق حکم دیا کہ انہیں ہاتھ مت لگاؤ اور جو حفاظت سے نہیں رہ سکتیں اُن کے متعلق حکم دیا کہ انہیں اٹھا تو لو.مگر متواتر لوگوں میں اعلان کرتے رہو اور پھر ان کے اصل مالک تک انہیں پہنچا دو.تو اسلام نے گری پڑی چیزوں کے متعلق نہایت پر حکمت احکام دیئے ہیں مگر اب پور بین اقوام کا اصول یہ ہے کہ جولا وارث، کمزور قوم ہو اس پر قبضہ کر لو.اس کے متعلق وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ ہمیں گرا پڑا مال مل گیا ہے.آسٹریلیا کتنا بڑا ملک ہے اس کے متعلق پور پین لوگ کہتے ہیں یہ ہمیں لاوارث مال مل گیا ہے، ہندوستان کی حکومت کے متعلق کہتے ہیں.کہ یہ ہمیں لاوارث مل گیا ہے.شمالی امریکہ کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ ہمیں لاوارث مل گیا ہے، جنوبی امریکہ کے متعلق کہتے ہیں یہ ہمیں لاوارث مل گیا ہے.غرض پانچواں نظر یہ پورپین اقوام کا یہ ہے کہ نیا دریافت کردہ ملک جو بھی دریافت کر لے یا کمزور حکومت جہاں بھی ہو وہ پہلے پہنچنے والے کی ہے.ان اصول کے علاوہ جن کی وجہ سے دنیا میں ظلم ہو رہا ہے کچھ عملی خامیاں بھی اس ظلم کی ذمہ وار ہیں.لوگوں پر ظلم روا ر کھنے والی عملی خامیاں پہلی عملی خامی تو یہ ہے کہ معذور و مجبور کا ذمہ دار کسی محکمہ کو قرار نہیں دیا جاتا رہا گواب اس کی بعض ممالک میں تدریجاً اصلاح ہو رہی ہے اور بعض محکمے ایسے بنے ہیں جن کے ذریعہ اس کو تا ہی کا ازالہ کیا جاتا ہے مگر اب بھی انہوں نے جو نئی سکیم بنائی ہے وہ اسلامی تعلیم کو نہیں پہنچتی.73

Page 77

دوسرے ایسے راستے کھلے رکھے گئے تھے جن سے بعض افراد کے ہاتھ میں تمام دولت آجائے.تیسرے ایسے راستے کھلے تھے کہ جن کے ہاتھ میں دولت آجائے وہ پھر نکلے نہیں.چوتھے بے مصرف فنون پر روپیہ خرچ کیا جاتا اور اُس کا نام آرٹ رکھا جاتا ہے ان میں سے بعض کسی جگہ اور بعض کسی جگہ رائج ہیں اور بعض سب جگہ رائج ہیں.اسلام نے ان سب خرابیوں کے دروازے بند کر کے ترقی کے نئے رستے کھولے ہیں.چنانچہ اسلام نے ان سب امور کا ان طریقوں پر علاج کیا ہے:.باطنی غلامی یعنی ماتحتی کی وجہ سے پیدا ہونے والے دُکھ کا علاج اسلام میں اوّل اسلام نے یہ اعلان کیا ہے کہ جو کچھ خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے وہ ساری دنیا کے لئے ہے.کسی ایک کے لئے پیدا نہیں کیا.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ماں باپ بعض دفعہ مٹھائی کی تھالی اپنے کسی بچے کو پکڑاتے ہیں تو وہ اکیلا ہی اُسے کھا جانا چاہتا ہے اس پر اُس کے ماں باپ اُسے کہتے ہیں کہ یہ حصہ صرف تمہارا نہیں بلکہ تمہارے سب بھائیوں کا اس میں حق ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِى الْأَرْضِ جَمِيعًا " اس دنیا میں جو کچھ ہے وہ سب بنی نوع انسان کی مجموعی ملک ہے جیسے ماں اپنے کسی بچہ کو مٹھائی کی تھالی دے کر کہتی ہے کہ یہ تم سب بھائیوں کا حصہ ہے.اس اصل کے ماتحت اسلام نے امپیریلزم نیشنل سوشلزم اور موجودہ انٹر نیشنل سوشلزم سب کورڈ کر دیا ہے کیونکہ یہ فلسفے طاقتور اور عالم اور منظم قوموں کو دوسری اقوام پر تصرف کا حق دیتے ہیں.آجکل بھی یہی بحث ہو رہی ہیکہ اگر یہ بات مان لی گئی کہ ہندوستان کو آزادی دیدی جائے تو کل افریقہ والے اپنی آزادی کا مطالبہ کریں گے حالانکہ وہ ننگے پھرتے تھے اور ہم نے انہیں تہذیب سکھائی.لیکن سوال یہ ہے کہ اگر وہ ننگے پھرتے تھے تو تم اُن کا ننگ نہ دیکھتے اور اپنے 74

Page 78

گھروں میں بیٹھ رہتے.تم کہتے ہو وہ درختوں کے پتے کھایا کرتے تھے مگر ہم نے انہیں یہ آدمیت سکھائی اب کیا ہمارا حق نہیں کہ ہم ان پر حکومت کریں.ہم کہتے ہیں اگر وہ درختوں کے پتے یا پھل ہی کھایا کرتے تھے تو تمہارا کیا حق تھا کہ تم اُنکے ملک پر قبضہ کرتے انہیں کیک کھلاتے.پس هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا کہہ کر اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ دنیا میں جو کچھ ہے اس میں ساری دنیا کا حصہ ہے یہ نہیں جیسے آجکل ساؤتھ افریقہ میں قانون بنادیا گیا ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی غیر شخص داخل نہ ہو ، اسی طرح امریکہ والوں نے قانون بنا دیا ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی اور شخص داخل نہ ہو حالانکہ ساؤتھ افریقہ کا فائدہ ساری دنیا کو حاصل ہونا چاہئے اسی طرح امریکہ کا فائدہ ساری دنیا کو حاصل ہونا چاہئے یہ نہیں کہ صرف ساؤتھ افریقہ اور امریکہ والے ہی ان سے فائدہ اٹھا ئیں باقی دنیا محروم رہ جائے.کانوں کی دریافت کے متعلق اسلام کا حکم اسی طرح اسلام نے اُن مالدار لوگوں کے ظلم کو بھی رد کر دیا ہے جوطبعی وسائل سے کام لے کر دولت جمع کرتے ہیں اور ان میں باقی دنیا کا حصہ قرار دیا ہے اگر وہ طبعی وسائل سے کام نہ لیں تو کبھی اسقدر مالدار نہیں ہو سکتے مگر اب وہ دولت کے زور سے کانوں پر قبضہ کر لیتے ہیں اور اس طرح دوسروں کے حقوق کو تلف کرنے کا موجب بنتے ہیں.اسلام نے اس کا علاج یہ تجویز کیا ہے کہ کانوں میں سے پانچواں حصہ گورنمنٹ کا مقرر کیا ہے اور پھر جو مال کانوں کے مالک جمع کریں اور اُس پر سال گذر جائے اس پر زکوۃ الگ ہے.گویا اسطرح حکومت کانوں میں حصہ دار ہو جاتی ہے اور غرباء کے لئے ایک کافی رقم جمع ہو جاتی ہے جس سے اُن کے حقوق ادا کئے جاسکتے ہیں اور وہ نقص پیدا نہیں ہوتا جو کانوں کی دریافت کی وجہ سے نظام تمدن میں واقع ہوتا ہے.75

Page 79

دوسروں کے اموال کو اُنکی خبر گیری کرنے کے بہانہ سے اپنے قبضہ میں کر لینے کا علاج اسلام میں دوسرا علاج اسلام نے یہ کیا کہ دنیا میں یہ اعلان کر دیا کہ لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا ۲۷ مَتَّعْنَا بِةٍ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ فرماتا ہے تم دوسروں کے اموال اس بہانہ سے نہ لو کہ ہم اُنکی خبر گیری کرینگے لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِةٍ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ جو کچھ ہم نے لوگوں کو مال دیا ہے اس کی طرف آنکھیں اٹھا اٹھا کر نہ دیکھو وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمُ اور یہ نہ کہو کہ میں اُن کی حالت کو دیکھ کر بڑائم ہوتا ہے فرماتا ہے یہ تم تم اپنے لئے ہی رہنے دو.وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ تمہاری اپنی رعایا موجود ہے تم اس کی تمدنی ترقی کے لئے جتنی کوششیں چاہو کرو تمہیں اس سے کوئی منع نہیں کرتا.ہاں اگر تم یہ کہو کہ ہمیں دوسروں کا غم بے چین کئے ہوئے ہے اور ان کی ترقی کے لئے ہم ان پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں تو ہم اس سے متفق نہیں.تم اپنے گھر بیٹھو اور انہیں اپنے گھر میں رہنے دو.آجکل تمام کالونیزیشن کی بنیا د اسی غلط دعویٰ پر ہے کہ ہم انکی بھلائی کے لئے اُن کے ملک پر قبضہ کئے ہوئے ہیں اور یہی بہانہ ہر ملک پر قبضہ جماتے وقت کیا جاتا ہے مگر اس دعویٰ کی حقیقت تھوڑے عرصہ کے بعد ہی کھل جاتی ہے جب اس ملک کی تمام دولت اپنے قبضہ میں لے لی جاتی ہے اور وہاں کے لوگوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں.ایسٹ افریقہ میں چلے جاؤ وہاں یورپین گورنمنٹ ہے مگر حالت یہ ہے کہ وہاں انگریز تو بڑے بڑے مالدار ہیں مگر خود وہاں کے باشندے غربت کی حالت میں ہیں اور اُنکے خادم بن کر اپنی زندگی بسر کرتے ہیں.پس فرماتا ہے کہ اپنے آدمیوں کی بھلائی کی فکر کرو دوسروں کو اُن کے حال پر چھوڑ دووہ غریب جس طرح ہوگا اپنی خبر گیری کر لیں گے.اگر کہا جائے کہ کیا اُنکی مدد نہ کی جائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام یہ نہیں کہتا کہ دوسروں کی خدمت مت کرو وہ جو کچھ کہتا ہے وہ یہ ہے کہ لالچ اور ذاتی فائدہ کے لئے خبر گیری مت کرو.اب خدمت تو 76

Page 80

ایک مدرس بھی کرتا ہے مگر اس کی خدمت اتنی ہی ہوتی ہے کہ علم پڑھاتا ہے اور تنخواہ وصول کر لیتا ہے مگر یہ لوگ تو جب کسی ملک میں جاتے ہیں تو وہاں کی زمینیں اپنے آدمیوں میں بانٹ دیتے ہیں اور ہزاروں لوگ خانماں برباد ہو جاتے ہیں.پس فرماتا ہے یہ طریق درست نہیں.اول تو دوسروں کے ملک میں سیاسی طور پر نہ جاؤ اور اگر جاؤ تو خادموں کی حیثیت سے جاؤ.پس دوسروں کے فائدہ کے لئے بغیر ملک پر قبضہ کرنے کے مدد دینا منع نہیں.منع یہی ہے کہ انسان خادم کی حیثیت سے نہ جائے بلکہ ملک پر قبضہ کرنے کے لئے جائے.اب دیکھو بالشویک نے بھی کچھ کمی نہیں کی وہ فن لینڈ پر چڑھ دوڑے اور اس پر قبضہ کر لیا اور شور یہ مچار ہے تھے کہ ہم وہاں امن قائم کرنا چاہتے ہیں.پس اسلام کہتا ہے یہ طریق درست نہیں تمہیں اس سے اجتناب کرنا چاہئے حقیقت یہ ہے کہ تمام کالونیز کا سوال صرف اور صرف اس طرح حل ہوسکتا ہے جو اسلام نے بتایا ہے ورنہ موجودہ طریقے سب غلط اور نا درست ہیں.اسلامی لیگ آف نیشنز اور اسکے چار بنیادی اصول تیسرا اصل اسلام یہ بتاتا ہے کہ جب تک دنیا ایک محور پر نہیں آجاتی امن کے قیام کے لئے سب کو اُنکی حدود کے اندر رکھو.اسلام کا اصول یہ ہے کہ ساری دنیا کو اکٹھا کر کے ایک محور پر لایا جائے مگر جب تک ایسا نہیں ہو جاتا اُسوقت تک جھگڑوں کو دور کرنے کے لئے وہ یہ ہدایت دیتا ہے.وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَلُوْا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۚ فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِي إِلَى أَمْرِ اللَّهِ ۚ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ۲۸ یعنی اگر دو حکومتیں آپس میں لڑ پڑیں تو تم ان دونوں کے درمیان صلح کرا دو اور اگر وہ صلح اور پیار سے آپس کے جھگڑے کو نہ نپٹا ئیں اور ایک حکومت دوسرے پر چڑھائی کر دے تو پھر ساری حکومتیں مل کر چڑھائی کرنے والے کا مقابلہ کریں.جب وہ اپنی ہار مان لے اور کہے بہت اچھا میں لڑائی بند 77

Page 81

کرتی ہوں تو پھر دوبارہ ان کے درمیان صلح کراؤ اور تفصیلات طے کرو.مگر یا درکھو جب شرائط صلح طے کرنے لگو تو اس غصہ کی وجہ سے کہ اس نے کیوں جنگ کی.عدل و انصاف کو ترک نہ کرو اور ایسا نہ کرو کہ پھر اپنا حصہ بھی مانگنے لگو بلکہ جو جھگڑا تھا اسی تک اپنے آپ کو محدود رکھو.دیکھو یہ کیسی زبردست پیشگوئی ہے جب یہ آیت نازل ہوئی اُسوقت کوئی مسلمان گروہ ایسے نہ تھے جن میں لڑائی کا خطرہ ہوتا.پس در حقیقت یہ آئندہ کے متعلق ایک پیشگوئی تھی.بغی اور قاتلوا کے الفاظ بھی بتارہے ہیں کہ اس کا تعلق حکومت سے ہے چنا نچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر دو حکومتیں آپس میں جھگڑ پڑیں تو تمہیں یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ ان حکومتوں کو مجبور کر دو کہ وہ قوموں کی پنچایت سے اپنے جھگڑے کا فیصلہ کرائیں.اگر وہ منظور کر لیں تو بہتر اور اگر منظور نہ کریں اور ایک قوم دوسری قوم پر حملہ کر دے تو باقی سب کا فرض ہے کہ اس کے مقابلہ میں یکجا ہو جائیں اور اس پر حملہ کر کے اُسے مغلوب کریں اور آخر میں جب مغلوب ہو کر وہ صلح پر آمادہ ہو جائے تو انصاف اور دیانت کے ساتھ شرائط طے کرو.انتقام کے جوش میں اس قوم کے حصے بخرے کرنے اور ذاتی فوائد حاصل کرنے کی کوشش نہ کرو.اس آیت میں جو اصول بتائے گئے ہیں وہ یہ ہیں :- (۱) اگر حکومتوں میں اختلاف ہو تو دوسری حکومتیں زور دیکر انہیں تبادلہ خیالات کر کے فیصلہ کرنے پر مجبور کریں.(۲) اگر ان میں سے کوئی فریق نہ مانے اور جنگ کرے تو سب مل کر لڑنے والے سے جنگ کریں.(۳) جب حملہ آور مغلوب ہو جائے اور باہمی سمجھوتہ کے فیصلہ پر راضی ہو جائے تو پھر سب ساتھ مل کر صلح کا فیصلہ کرائیں (آیت میں پہلی صلح صلح سے کام کرنے اور آپس میں مصالحت سے رہنے کے معنوں میں ہے اور دوسری صلح شرائط صلح سے طے کرانے پر دلالت کرتی ہے کیونکہ دوبارہ شرائط کے کوئی معنے نہیں.عدل کا اضافہ بھی اس پر دال ہے.) 78

Page 82

(۴) لیکن جنگ کی وجہ سے غصہ سے کام نہ لیں جس کا حق ہوا سے دیں.بعض دفعہ حق والا بھی غصہ سے لڑ پڑتا ہے مگر حق بہر حال اُسی کا ہوتا ہے.(۵) وَأَقْسِطُوا کے لفظ سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ مغلوب یا غالب فریق سے دوسری دخل دینے والی اقوام کوئی فائدہ نہ اٹھائیں.یہ لیگ آف نیشنز اسلام نے اس وقت پیش کی جب اس قسم کا کسی کو خیال تک نہ تھا اور اللہ تعالیٰ نے اس نکتہ کو مجھ پر کھولا جو ایک ایسا عظیم الشان کام ہے جوصرف نبیوں یا خلفاء کا ہی ہو سکتا ہے.کوئی شخص ثابت نہیں کر سکتا کہ اس قسم کا اہم انکشاف سوائے انبیاء اور خلفاء کے کسی نے آج تک کتب سماویہ میں سے کیا ہو جس کا تعلق سب دنیا سے ہو اور صدیوں کے لئے ہو.یورپ کی لیگ اس کی مخالفت سے فیل ہوئی اور میں نے اپنے لیکچر احمدیت میں پہلے سے اس کا اشارہ کر دیا تھا کہ اگر لیگ آف نیشنز بناؤ تو ان قرآنی اصول پر بناؤ مگر چونکہ لیگ کے قیام میں ان شرائط کو مد نظر نہ رکھا گیا اس لئے وہ ناکام ہوگئی.موجودہ لیگ آف نیشنز کی ناکامی کی وجوہات ۱۹۲۴ء میں جب میں ولایت گیا تو اُس وقت نئی نئی لیگ آف نیشنز بنی تھی اور روس وغیرہ درخواستیں دے رہے تھے کہ ہمیں بھی اس لیگ کا ممبر بنایا جائے.میں نے اسی وقت لکھ دیا تھا کہ یہ لیگ ناکام رہے گی اور جن امور کا میں نے اس وقت ذکر کیا ہے ان تمام امور کو تفصیلاً اپنے لیکچر میں بیان کر دیا تھا اور کہا تھا کہ جب تک ان پانچوں اصولوں کو ملحوظ نہیں رکھا جائیگا لیگ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی.وہی لیگ کامیاب ہو سکتی ہے جو قرآن شریف کی بتائی ہوئی ہدایات کے مطابق قائم ہو نہ وہ لیگ جو اپنی ہستی کے قیام کے لئے لوگوں کی مدد کی محتاج ہے اور آپ آگے آگے بھاگی پھرتی ہے چنانچہ میں نے لکھا تھا:- ان پانچوں نقائص کو دور کر دیا جائے تو قرآن کریم کی بتائی ہوئی لیگ آف نیشنز بنتی ہے 79

Page 83

اور اصل میں ایسی ہی لیگ کوئی فائدہ بھی دے سکتی ہے نہ وہ لیگ جو اپنی ہستی کے قیام کے لئے لوگوں کی مہربانی کی نگاہوں کی جستجو میں بیٹھی رہے.۲۹ " اسی طرح میں نے لکھا تھا: - ” جب تک کہ لوگ اسلام کی تعلیم کے مطابق یہ نہیں سمجھیں گے کہ ہم سب ایک ہی جنس سے ہیں اور یہ کہ ترقی منزل سب قوموں سے لگا ہوا ہے کوئی قوم شروع سے ایک ہی حالت پر نہیں چلی آئی اور نہ آئندہ چلے گی کبھی فساد دور نہ ہوگا.لوگوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ قوموں کو زیروز بر کر نیوالے آتش فشاں مادے دنیا سے ختم نہیں ہو گئے نیچر جس طرح پہلے کام کرتی چلی آئی ہے اب بھی کر رہی ہے پس جو قوم دوسری قوم سے حقارت کا معاملہ کرتی ہے وہ ظلم کا ایک نہ ختم ہو نیوالا چکر چلاتی ہے.اسوقت لوگ لیگ آف نیشنز کے قیام پر اتنے خوش تھے کہ جس کی کوئی حد ہی نہیں مگر میں نے زور دیا کہ جب تک تم یہ شرط نہ رکھو گے کہ جو حکومت غلطی کرے گی اس سے سب حکومتیں مل کر لڑیں گی اُسوقت تک امن قائم نہیں ہو سکے گا مگر ا سوقت یہی کہا گیا کہ ایسا نہیں ہوسکتا یہ تو صلح کی بجائے لڑائی کی بنیاد رکھنا ہے اور نہ صرف اس کی بلکہ ان سب اصول کی جو اسلام نے پیش کئے ہیں تمام موجودہ تحریکات جو نئے نظام کی مدعی ہیں مخالف رہی ہیں مگر اب بائیس سال دھکے کھا کر اسی طرف رجوع ہوا ہے جس کی خبر اسلام نے پہلے سے دے دی تھی اور مضامین لکھے جا رہے ہیں کہ نئی لیگ کے قیام کے وقت یہ شرط رکھی جائیگی کہ اگر کوئی حکومت تصفیہ کی طرف مائل نہ ہو تو اس سے جنگ کی جائے مگر اب بھی تم دیکھو گے کہ اگر وہ اسلامی نظام کی پوری پابندی نہ کریں گے تو نا کام ہی رہیں گے.غرباء کی تکالیف کو دور کرنے کیلئے اسلام میں چارا حکام یہ اصول تو اہم قومی امن کے لئے ہیں اور بغیر بین الاقوامی صلح کے اندرونی صلح چنداں نفع 80

Page 84

بھی نہیں دیتی مگر چونکہ بین الاقوامی صلح کے ساتھ ہی اندرونی یعنی انفرادی اصلاح بھی ضروری ہے اس لئے اب میں یہ بتا تا ہوں کہ اسلام نے اندرونی اصلاح کے لئے کیا ذرائع تجویز کئے ہیں.پہلا حکم یعنی ورثہ کی تقسیم اس غرض کے لئے اسلام نے چار نظریے قائم کئے ہیں اور ان چاروں کی غرض یہ ہے کہ غرباء کی تکلیف دور ہو جائے اگر غور کیا جائے تو تمدن میں خرابی واقعہ ہونے کا ایک بہت بڑا سبب یہ ہوتا ہے کہ جائیدادیں تقسیم نہیں ہوتیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ چندلوگوں کے قبضہ میں رہتی ہیں اور غرباء کو جائیدادیں پیدا کرنے کا موقع نہیں ملتا.اسلام نے اس نقص کو دور کرنے کے لئے ورثہ کے تقسیم کئے جانے کا حکم دیا ہے چنانچہ اسلامی احکام کے مطابق ہر مرنے والے کی جائیداد اس کے ورثاء میں تقسیم ہو جاتی ہے اور ماں کو ، باپ کو ، بیٹوں کو، شوہر کو، بیوی کو غرض ہر ایک حقدار کو اس کا مقررہ حق مل جاتا ہے اور کسی شخص کو اختیار نہیں ہے کہ وہ اس تقسیم کو اپنی مرضی سے بدل دے بلکہ قرآن کریم یہ ہدایت دیتا ہے کہ اگر تم اس رنگ میں جائیداد کو تقسیم نہیں کروگے تو گنہ گار ٹھہرو گے.اس کے مقابلہ میں جو دوسرے مذاہب ہیں اُن میں سے کسی میں تو صرف پہلے بیٹے کو وارث قرار دیا گیا ہے اور کسی میں کسی اور کو.منو میں لکھا ہے کہ صرف بیٹوں کو ورثہ دیا جائے بیٹیوں کو نہ دیا جائے نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ ایک شخص یا چند اشخاص کے ہاتھ میں تمام دولت جمع ہو جاتی تھی اور غرباء ترقی سے محروم رہتے تھے.اسلام کہتا ہے کہ جب تک تم اپنی دولت کو لوگوں میں پھیلاؤ گے نہیں اُس وقت تک قوم کوترقی حاصل نہیں ہو سکے گی چنانچہ دیکھ لو اگر کسی شخص کے پاس ایک لاکھ روپیہ ہو اور اس کے دس بیٹے ہوں تو ہر ایک کو دس دس ہزار روپیٹل جائیگا آگے اگر اُن کے تین تین ، چار چار بیٹے ہوں تو یہ دس ہزار کی رقم اڑھائی اڑھائی ، تین تین ہزار روپیہ تک آجائیگی اور اسطرح سب کو دولت کے حصول کے لئے نئے سرے سے محنت کرنی پڑے گی.یہ نہیں ہوگا کہ وہ محض اپنے باپ دادا کی جائیداد کے سہارے بیٹھے رہیں اور نہ صرف خود نکھے ہو جائیں بلکہ اپنی دولت کو بند کر لیں.81

Page 85

انگریزوں نے تو پنجاب کی نو آبادیوں میں زمین کی تقسیم کے وقت یہ شرط لگا دی تھی کہ صرف بڑا بیٹا ان کا وارث ہوسکتا ہے مگر اب انہوں نے یہ شرط اُڑادی ہے.دوسرا حکم یعنی روپیہ جمع کرنے کی ممانعت دوسرے اسلام نے روپیہ جمع کرنے سے روکا ہے یعنی وہ یہ نہیں چاہتا کہ روپیہ کو بند رکھا جائے بلکہ وہ مجبور کرتا ہے کہ لوگ یا تو روپیہ کو خرچ کریں یا اسے کسی کام پر لگائیں کیونکہ دونوں صورتوں میں روپیہ چکر کھانے لگے گا اور لوگوں کو فائدہ ہوگا لیکن اگر کوئی ایسا نہ کرے تو اس کے متعلق اسلام یہ وعید سناتا ہے کہ اُسے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا ملے گی.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو سونا اور چاندی وہ دنیا میں جمع کریگا اسی کو آگ میں گرم کر کے قیامت کے دن اُسے داغ دیا جائیگا.اس حکم میں حکمت یہی ہے کہ اگر لوگ سونا چاندی جمع کرینگے تو غریبوں کو کام نہیں ملیں گا لیکن اگر وہ اس روپیہ کو کام پر لگا دیں گے تو وہ لوگ جن سے لین دین ہوگا فائدہ اٹھا ئیں گے.اسی طرح کچھ لوگ بطور ملازمت یا مزدوری کے فائدہ اٹھا سکیں گے مثلاً وہ کوئی عمارت بنانی شروع کر دے تو گو وہ عمارت اپنے لئے بنائیگا مگر روپیہ خرچ ہونے کی وجہ سے کئی لوگوں کی روزی کا سامان مہیا ہو جائیگا.یوں تو فضول عمارتوں پر روپیہ برباد کر نے سے اسلام منع کرتا ہے مگر بہر حال اگر وہ لغو طور پر عمارتیں نہ بنائے بلکہ اپنے ذاتی فائدہ کے لئے بنائے تو بھی لوہاروں اور مستریوں اور مزدوروں اور کئی اور لوگوں کو کام میسر آجائیگا لیکن اگر وہ ایسا نہ کرے بلکہ سونے چاندی کے زیور بنا کر گھر میں جمع کرنا شروع کر دے تو اس سے دوسروں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا پس اسلام روپیہ کو جمع کرنے سے منع کرتا ہے اسی طرح عورتوں کے لئے کثرت سے زیورات تیار کرنا بھی پسند نہیں کرتا یوں تھوڑ اساز یورا نہیں بنوا کر دینا جائز ہے.82

Page 86

تیسر احکم یعنی سود کی ممانعت تیسرے اسلام سود کی ممانعت کرتا ہے.سود بھی ایک ایسی چیز ہے جو روپیہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے اس کے ذریعہ سے وہ تاجر جو پہلے سے اپنی ساکھ بٹھا چکے ہوتے ہیں اور جن کے پاس ایک وقت میں کوئی سرمایہ نہیں ہوتا.جس قدر روپیہ کی اُن کو ضرورت ہو آسانی سے بنکوں سے لے لیتے ہیں یا ایک شخص معمولی سرمایہ والا ہوتا ہے مگر اس کا دماغ نہایت اعلیٰ ہوتا ہے وہ کسی بنک کے سیکریٹری یا پریذیڈنٹ سے دوستی پیدا کر کے اس سے لاکھ دو لاکھ روپیہ لے لیتا ہے اور تھوڑے عرصہ میں ہی دو لاکھ سے دس لاکھ بنا لیتا ہے اور پھر چند سالوں کے اندر اندر وہ کروڑ پتی ہو جاتا ہے.اس سے بھی دنیا کو بہت بڑا نقصان پہنچتا ہے ہمارے ملک کے زمیندار خوب جانتے ہیں کہ اُن کا کس قدر روپیہ بنوں کے پاس جاتا ہے اگر سود کے بغیر اُن کے گزارہ کی کوئی صورت ہو جاتی تو ہر زمیندار خاندان کی مالی حالت آج سے بدر جہا بہتر ہوتی مگر سود کی بدولت اگر ایک زمیندار دو ہزار روپیہ کسی بننے سے قرض لیتا ہے تو چند سالوں میں وہ بعض دفعہ دس دس ہزار روپیہ سود کا دے دیتا ہے مگر ابھی دو ہزار روپیہ جو اس نے قرض لیا تھا وہ بدستور موجود ہوتا ہے.پس سود ایک بہت بڑی لعنت ہے جو بنی نوع انسان کے سروں پر مسلط ہے یہ ایک جونک ہے جو غریبوں کا خون چوستی ہے اگر دنیا امن کا سانس لینا چاہتی ہے تو اسکا طریق یہی ہے کہ دنیا سے سود کو مٹا دیا جائے اور اسطرح دولت کو محدود ہاتھوں میں جمع نہ ہونے دیا جائے.چوتھا حکم یعنی زکوۃ اور صدقات کا دینا اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ بیشک اسلام ایک طرف تو روپیہ کسی کے ہاتھ میں نہیں رہنے دیتا بلکہ اُسے تقسیم کر دیتا ہے اور دوسری طرف روپیہ جمع کرنے سے منع کر رہا ہے مگر اس سے غربت کا علاج تو نہیں ہو جاتا.اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اسلام نے ایک چوتھا حکم غرباء کے حقوق کی 83

Page 87

ادائیگی کے لئے زکوۃ اور صدقہ کا دیا ہے یعنی جسقدر جائیداد کسی انسان کے پاس سونے اور چاندی کے سکوں یا اموال تجارت کی قسم سے ہو اور اس پر ایک سال گذر چکا ہو تو ضروری ہے کہ حکومت اس سے اڑھائی فیصدی سالا نہ ٹیکس وصول کر کے خزانہ شاہی میں داخل کرے اور اسے ملک کے غرباء پر خرچ کیا جائے.یہ ٹیکس جسے زکوۃ کہا جاتا ہے صرف آمد پر نہیں بلکہ سرمایہ اور نفع سب کو ملا کر اس پر لگایا جاتا ہے اور اس طرح اڑھائی فیصدی بعض دفعہ نفع کا پچاس فی صدی بن جاتا ہے اور بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ.اس حکم کے مطابق جس شخص کے گھر میں سو روپیہ جمع ہوگا اُسے سال گزرنے کے بعد اڑھائی روپیہ زکوۃ دینی پڑے گی جس پر لازماً اُسے فکر پیدا ہوگا کہ اگر یہ روپیہ اسی طرح جمع رہا تو تھوڑے ہی عرصہ میں تمام روپیہ ٹیکس کی ادائیگی میں خرچ ہو جائیگا چنانچہ وہ فور اردو پہیہ کو تجارت پر لگا دیگا تا کہ یہ کمی پوری ہو جائے اور جب وہ روپیہ کو تجارت پر لگائیگا تو روپیہ چکر کھانے لگے گا اور اسطرح علاوہ اس کے کہ اس کے روپیہ میں سے اڑھائی فیصدی غرباء کو ملے گا روپیہ کے بند رکھنے سے جو نقصان ہوسکتا تھا وہ بھی ملک اور قوم کو نہیں پہنچے گا.آجکل خصوصیت سے لوگوں میں یہ مرض پیدا ہو رہا ہے کہ وہ سونا اور چاندی کو جمع کر کے رکھ رہے ہیں.غرباء کو کئی قسم کی ضرورتیں ہوتی ہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ سونا آجکل گراں ہے وہ اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کا یہی طریق سوچتے ہیں کہ زیور فروخت کر دیا جائے چنانچہ کوئی انگوٹھی فروخت کر دیتا ہے، کوئی کان کی بالیاں فروخت کر دیتا ہے، کوئی گلو بند فروخت کر دیتا ہے، کوئی پازیب فروخت کر دیتا ہے مگر جانتے ہو یہ سب سونا اور چاندی کہاں جمع ہورہا ہے یہ سب بنیوں کے گھر میں جا رہا ہے.اور بعض لوگ تو اس ڈر کے مارے سونا چاندی جمع کر رہے ہیں کہ اگر جاپان آ گیا تو نوٹ ناکارہ ہو جائیں گے وہ یہ نہیں جانتے کہ جاپان آیا تو سب سے پہلے وہ سونے اور چاندی کو ہی ٹوٹے گا مگر وہ سمجھتے ہیں سونا تو اُن کے گھروں میں ہی رہیگا اور جن کے پاس نوٹ ہونگے اُن کے پاس کچھ نہیں رہیگا.اسی وجہ سے سونا روز بروز مہنگا ہوتا چلا جاتا ہے.چالیس روپیہ سے اس نے بڑھنا شروع کیا تھا اور ستر روپیہ تک پہنچ گیا ہے اور میں 84

Page 88

نے بنیوں سے سُنا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سونے کی قیمت سو روپیہ تک لے جانی ہے.مگر اسلام کہتا ہے تم اول تو روپیہ جمع نہ کرو اور اگر جمع کرو تو اس پر اڑھائی فیصدی ہمارا ٹیکس دو.اسطرح اسلام جمع شدہ روپیہ پھر قوم کے غرباء کی طرف واپس لاتا ہے.تا کہ وہ اس سے فائدہ اٹھا سکیں اور وہ مجبور کرتا ہے کہ لوگ اپنے روپیہ کو پھیلائیں اور پھیلاتے چلے جائیں.اگر اسلام کے احکام پر عمل ہونے لگے تو بخیل سے بخیل شخص کے روپیہ سے بھی دنیا فائدہ اٹھانے لگ جائے اور غریبوں کو مزدوری و غیر ہل جائے اور اڑھائی فیصدی روپیہ الگ آجائے.اسلام میں شخصی ملکیت کے حق کا تحفظ مگر یہ یا درکھنا چاہیئے کہ اسلام نے باوجود مال کو سب کا حق قرار دینے کے شخصی ملکیت کے حق کو رد نہیں کیا بلکہ اسے قائم رکھا ہے البتہ شخصی مالک بطور ایجنٹ کے رہیگا اور علاوہ اس کے اس طاقت کو جو اُسے ملکیت کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے اسلام نے مناسب تدبیروں سے کمزور کیا ہے جیسا کہ اوپر کے احکام سے ظاہر ہے.بالشویک نظام پر اسلامی نظام کو ترجیح دیئے جانے کی وجوہات اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں اس نظام پر بالشویک نظام کو ترجیح نہ دی جائے.اسکا جواب یہ ہے کہ نظام کی اصل غرض امن اور انصاف اور روح ترقی کا قائم رکھنا ہوتی ہے مگر بالشویک نظام حالات میں ایسا فوری تغیر پیدا کرتا ہے جو ملک کے ایک طاقتور حصہ کو نا قابل برداشت نقصان پہنچا دیتا ہے اور وہ مقابلہ کیلئے تیار ہو جاتا ہے.مثلاً یہ کہنا کہ ہر ایک مالدار کا مکان لے لو، اس کی جائیداد اس سے چھین لو، اس کے مال کو ضبط کر لو یہ انسان کو ایسا صدمہ پہنچاتا ہے جو اس کیلئے ایک نا قابل برداشت بوجھ بن جاتا ہے.چنانچہ روس کی سب سے زیادہ مخالفت خود روسی کر رہے ہیں اور ہر ملک میں ایسے روسی موجود ہیں جو اس نظام کے شدید ترین مخالف 85

Page 89

ہیں.میں نے خود سفر یورپ کے دوران میں ایسے روسیوں کو دیکھا جو روسی حکومت کے جان کے دشمن ہیں اور اسکی وجہ یہی ہے کہ وہ آرام سے اپنے اپنے مکانوں میں بیٹھے تھے کہ یکدم حکومت کے نمائندے آئے اور انہوں نے اُن کے بستروں اور پلنگوں اور سامانوں پر قبضہ کر لیا، انہیں مکانات سے نکال دیا، انکا مال و اسباب ضبط کر لیا اور انہیں انکی جائیداد سے بے دخل کر دیا.یہ مان لیا کہ انہوں نے جو کچھ کمایا تھا اس میں دوسروں کے حقوق بھی شامل تھے مگر نسلاً بعد نسل وہ یہ خیال رکھنے کے عادی ہو چکے تھے کہ یہ سب کچھ ہمارا ہے اسلئے طبعا جب جبری طور پر ان کی جائیدادوں اور اموال واسباب پر قبضہ کیا گیا تو وہ انہیں شدید نا گوار ہوا اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو ملکیتیں پرانی ہو چکی ہیں انکو ہم نہیں توڑیں گے یعنی اس قسم کا سلوک اُن سے نہیں کریں گے کہ انہیں یہ محسوس ہو کہ ہم پر ظلم کیا جارہا ہے.بالشوزم کا اس امر کو نظر انداز کر دینا کہ دماغ بھی سرمایہ ہے دوسرے بالشویک نظام اس امر کو نظر انداز کر دیتا ہے کہ جسطرح مال سرمایہ ہے دماغ بھی سرمایہ ہے اور اس سرمایہ کو وہ کس طرح تقسیم کر سکتا ہے یہ نظام دماغی قابلیت کو بالکل برباد کر دیتا ہے کیونکہ وہ دماغی قابلیت کی اتنی قیمت نہیں سمجھتا جتنی ہاتھ سے کام کرنے کی قیمت قرار دیتا ہے اور یہ ایک طبعی اصول ہے کہ ملک میں جس چیز کی قیمت نہ رہے گی وہ گر نی شروع ہو جائیگی.جن لوگوں کے نزدیک روپیہ کی کوئی قیمت نہیں ہوتی اُن کا روپیہ ضائع ہو جاتا ہے اور جن لوگوں کے نزدیک جائیداد کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ان کی جائیداد ضائع ہو جاتی ہے اسی طرح جن لوگوں کے نزدیک دماغ کی کوئی قیمت نہیں ہوتی انکا دماغ گرنا شروع ہو جاتا ہے.پس بالشویک نظام میں یہ ایک بہت بڑا نقص ہے کہ وہ مال کو تو سرمایہ قرار دیتا ہے مگر دماغ کو سر مایہ قرار نہیں دیتا کیونکہ وہ مال تقسیم کر سکتا ہے مگر اسے تقسیم نہیں کر سکتا اسطرح اسکے اصول کے مطابق دماغ بے قیمت رہ جاتا ہے اور اسکی وجہ سے ایک دن اسکی نشو ونما میں بھی فرق آجائیگا مگر اسلام ہر قدم تدریجاً اٹھاتا 86

Page 90

ہے وہ یکدم غیر نہیں کرتا بلکہ محبت اور پیار سے ہر قسم کا سرمایہ لوگوں پر خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے اور اسطرح دماغ اور مال دونوں کو تقسیم کر دیتا ہے.نیچر کی گواہی بھی بالشویک اصول کے خلاف ہے کیونکہ نیچر دماغی طاقتیں بعض کو زیادہ دیتی ہے اور بعض کو کم مگر اس کے بعد انصاف کو اس طرح قائم رکھا جاتا ہے کہ جن کو دماغ ملا ہے انہیں مذہب حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے دماغ کو بھی بنی نوع انسان کی خدمت میں خرچ کریں چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے وَمِمَّا رَزَقْنهُمْ يُنْفِقُوْنَ " یعنی مؤمن اور بچے متقی وہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ بھی ان کو ملا ہے خواہ دماغ ہو خواہ جسمانی طاقت ہو، خواہ مال ہو، خواہ عقل ہوا سے دوسری مخلوقات کی خدمت میں خرچ کریں.اسی طرح مال کی نسبت اسلام کرتا ہے وہ اُسے تقسیم کر دیتا ہے مگر بالشویک نظام کی طرح جبر اور ظلم سے نہیں بلکہ انہی کے ہاتھوں سے جن کے پاس مال ہوتا ہے جس طرح دماغ سے انہی کے ہاتھوں فائدہ پہنچاتا ہے جن کے پاس دماغی قابلیتیں ہوتی ہیں.اس طرح فائدہ بھی ہو جاتا ہے اور دشمنی کا بیج بھی قلوب میں بویا نہیں جاتا.بالشوزم کے ماتحت غیر منصفانہ سلوک پھر میں کہتا ہوں کہ بالشوزم اب بھی پورا انصاف نہیں کر سکی.اب بھی اس کے چھوٹوں اور بڑوں میں فرق ہوتا ہے، اب بھی ان کے امیروں اور غریبوں میں فرق ہوتا ہے اور اب بھی ان کے کھانوں میں فرق ہوتا ہے.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ سٹالن کی خوراک اور وہاں کے گاؤں والوں کی خوراک بالکل ایک جیسی ہوتی ہے.اسی طرح شاہی دعوتوں میں بے انتہا خرچ کیا جاتا ہے ابھی گذشتہ دنوں مسٹر وینڈل ولیکی وہاں گئے تھے تو ایک شاہی دعوت کی تفصیلات شائع ہوئی تھیں جس میں یہ ذکر تھا کہ ایک ڈنر میں ساٹھ کھانے تیار کئے گئے تھے اور وہ سٹالن اور دوسرے لوگوں نے جو اس دعوت میں شریک تھے کھائے.اگر وہاں واقعہ میں مساوات پائی جاتی ہے اور بڑوں اور چھوٹوں میں کوئی فرق نہیں تو بالشویک اصول کے مطابق ماسکو کا ہر شہری کہ سکتا ہے کہ مجھے ساٹھ 87

Page 91

کھانے ملنے چاہئیں اور صرف ماسکو کا ہر شہری نہیں ملک کے سترہ کروڑ باشندے یہ کہنے کا حق رکھتے ہیں کہ ہمیں بھی یہ سب کچھ ملنا چاہئے مگر کیا ایسا ہوسکتا ہے اگر کہو کہ یہ ناممکن ہے تو یہی جواب دوسری تقسیم کا سمجھنا چاہیئے.اگر امتیازات نے رہنا ہی ہے تو امتیازات کو دور کرنے کے لئے فسادات کیوں کئے جائیں کیوں نہ کسی اچھی طرز پر اس نقص کو دور کرنے کی کوشش کی جائے.بالشوزم کا دمافی قابلیتوں کو بیکار قرار دینا اور اسکا نتیجہ پھر بالشوزم کے موجودہ نظام کا ایک اور نتیجہ یہ پیدا ہوگا کہ چونکہ وہ دماغی قابلیتوں کو بغیر ہاتھ کے کام کے بیکار قرار دیتا ہے اس لئے گو اس کا اثر اس وقت محسوس نہ ہو گا مگر کچھ ہی عرصہ کے بعد روی موجد جب یہ دیکھیں گے کہ ان کی دماغی قابلیتوں کی کوئی قیمت نہیں سمجھی جاتی وہ سیر کے بہانے سے جرمنی یا امریکہ یا انگلستان یا اور ممالک میں چلے جائیں گے اور وہاں جا کر اپنی ایجادات کو رجسٹرڈ کرا دیں گے روس میں نہیں رہیں گے کیونکہ اس نظام کے ماتحت وہ روس میں ان ایجادات سے نفع نہیں اٹھا سکتے.پس نتیجہ یہ ہوگا کہ جسقد راعلیٰ دماغ والے انسان ہونگے انکی دماغی قابلیتوں سے دوسرے ممالک تو فائدہ اٹھائیں گے مگر روس کو فائدہ نہیں ہوگا اور وہ سب آہستہ آہستہ دوسرے ممالک میں چلے جائیں گے.اسوقت بالشویک نظام کی مقبولیت ایسی ہی ہے جیسے انجیل کی یہ تعلیم ہے کہ اگر کوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تم اپنا دوسرا گال بھی اس کی طرف پھیر دو جب تک یہ تعلیم محض باتوں تک رہے اسوقت تک کانوں کو بڑی بھلی معلوم ہوتی ہے لیکن جب عمل کا وقت آئے تو اسوقت کوئی شخص اس پر عمل نہیں کر سکتا.یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ قاہرہ کے ایک بازار میں ایک دفعہ ایک مسیحی پادری نے روزانہ لیکچر دینے شروع کر دیئے کہ مسیح کی تعلیم محبت سے لبریز ہے کیونکہ وہ کہتا ہیکہ اگر تم ایک گال پر تھپڑ کھاؤ تو دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دو مگر باقی مذاہب میں یہ ظلم ہے اور وہ ظلم ہے غرض اس طرح وہ تقریر کرتا کہ لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ایک مسلمان روزانہ اس کے لیکچر کو سنتا اور دل ہی دل میں اس بات پر 88

Page 92

گڑھتا کہ کوئی مولوی اس پادری کو جواب نہیں دیتا آخر کچھ عرصہ کے بعد جب اس نے دیکھا کہ لوگوں پر برا اثر ہورہا ہے تو ایک دن جب وہ پادری وعظ کر رہا تھا وہ اس کے پاس گیا اور کہا کہ پادری صاحب ! میں نے آپ سے ایک بات کہنی ہے اُس نے بات سننے کے لئے اُس کی طرف سر جھکا دیا کہ کہو کیا کہتے ہو.اس نے بجائے کوئی بات کہنے کے ہاتھ اٹھایا اور زور سے اس کے منہ پر تھپڑ مارا.پہلے تو پادری رکا مگر پھر اس نے سمجھا کہ ایسا نہ ہو کہ یہ ایک اور تھپڑ لگا دے اس پر اس نے بھی اُسے مارنے کے لئے اپنا ہاتھ اٹھا لیا.وہ کہنے لگا صاحب! آپ یہ کیا کرتے ہیں آپکی تعلیم تو یہ ہے کہ اگر کوئی ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دینا چاہیئے میں تو اس انتظار میں تھا کہ آپ اپنا دوسرا گال بھی میری طرف پھیر دینگے مگر آپ تو مقابلہ پر اتر آئی ہیں.وہ کہنے لگا آج میں انجیل پر نہیں بلکہ تمہارے نبی کی تعلیم پر ہی عمل کرونگا.بالشوزم کے نتیجہ میں ملک میں بغاوت پیدا ہونے کا اندیشہ تو بعض تعلیمیں کہنے کو بڑی اچھی ہوتی ہیں مگر عملی رنگ میں وہ نہایت ہی ناقص ہوتی ہیں.اسی طرح بالشوزم کے موجودہ نظام پر نہیں جانا چاہیئے وہ اسوقت زار کے ظلموں کو یادر کھے ہوئے ہے جس دن یہ خیال ان کے دل سے بھولا پھر یہ طبعی احساس کہ ہماری خدمات کا ہم کو صلہ ملنا چاہیئے انکے دلوں میں پیدا ہو جائے گا نئی پود بغاوت کریگی اور اس تعلیم کی ایسی شناعت ظاہر ہوگی که ساری دنیا حیران رہ جائیگی لیکن اسلامی طریق میں بغاوت کا کوئی امکان نہیں ،ہستی ہو تو ہو کیونکہ یہ ایک طبعی بات ہے.ملک کے اموال پر حکومت کو اقتدار حاصل ہونیکی ضرورت اب میں اس اہم سوال کی طرف آتا ہوں جو درحقیقت میرے مضمون کی بنیاد ہے مگر اس سے پہلے ایک سوال ابھی باقی ہے جسکو حل کرنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ ہم اوپر کی تمام نئی تحریکات 89

Page 93

سے اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ تمام تحریکات باوجود اختلاف کے اس امر میں متفق ہیں کہ حکومت کو ملک کے مال پر ایک بہت بڑا اقتدار حاصل ہونا چاہئے.پرانے ٹیکس اس سکیم کو پورا نہیں کر سکے جو ان مختلف نظام والوں کے ذہن میں ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اب نئے ٹیکس لگائے جائیں، نئے نئے طریق ایجاد کئے جائیں جن سے اُمراء کی دولت انکے ہاتھ سے نکالی جا سکے اور غربا میں تقسیم کی جاسکے پس وہ کہتے ہیں کہ اگر غریبوں کی ضرورتیں پوری کرنی ہیں تو ٹیکس بڑھانے پڑیں گے موجودہ ٹیکسوں سے یہ مشکل حل نہیں ہو سکتی اب سوال یہ ہے کہ اسلام نے اس بارہ میں کیا رویہ اختیار کیا ہے.وہ کہتے ہیں تم نے زکوۃ کی تعلیم نکالی ہے مگر کیا تمہارے نز د یک زکوۃ اس غرض کو پورا کر سکتی ہے کہ ہر غریب کو کپڑا ملے ، ہر غریب کو کھانا ملے، ہر غریب کو مکان ملے اور ہر غریب کو دوا ملے؟ میرا دیانتدارانہ جواب یہ ہے کہ نہیں.یعنی میرا دیانتدارانہ جواب یہ ہے کہ اس زمانہ کے لحاظ سے یقیناً حکومت کے ہاتھ میں اس سے زیادہ روپیہ ہونا چاہئے جتنا روپیہ پہلے اس کے ہاتھ میں زکوۃ وغیرہ کی صورت میں ہوا کرتا تھا.پہلے گورنمنٹ پر صرف یہ ذمہ داریاں تھیں کہ وہ ٹیکس وصول کر کے سڑکیں بنائے ، ہسپتال بنائے، مدر سے بنائے ، فوجیں رکھے اور اسی طرح رعایا کی بہبودی کے لئے اور تدابیر عمل میں لائے مگر اب یہ ایک نئی ذمہ داری بھی گورنمنٹ پر عائد ہوتی ہے کہ دنیا نے اپنے طور پر غریبوں کو کھانا کھلا کر دیکھ لیا کہ وہ اسے نہیں کھلا سکی دنیا نے اپنے طور پر غریبوں کو کپڑے پہنا کر دیکھ لیا کہ وہ ان کی اس ضرورت کو پورا نہیں کر سکی ، دنیا نے اپنے طور پر انکے لئے دوا مہیا کر نیکی کوشش کر لی مگر اسمیں وہ کامیاب نہیں ہو سکیسو اب یہ تقاضا کیا جاتا ہے کہ ان تمام ضروریات کو بھی گورنمنٹ پورا کرے.وہ ہر شخص کو پہننے کے لئے کپڑا، کھانے کے لئے غذاء رہنے کے لئے مکان اور علاج کے لئے دو مہیا کرے اور اسلام بھی اس امر کو تسلیم کرتا ہے کہ یہ تمام کام حکومت کے ذمہ ہیں.پس جب یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ یہ کام حکومت کو کرنے چاہئیں اور جب اسلام بھی اسے تسلیم کرتا ہے تو یہ درست ہے کہ یا تو اسلام ہمیں یہ بتائے کہ زکوۃ کا روپیہ 90

Page 94

یہ تمام ضرورتیں پوری کر سکتا ہے اور یا ز کوۃ کے علاوہ کوئی اور علاج جو اسلام نے اس مصیبت کا کیا ہو پیش کیا جائے.غرباء کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے زکوۃ کے علاوہ دوسرے چندوں کی ضرورت یہ ایک اہم سوال ہے جو اس موقعہ پر پیدا ہوتا ہے اور جس کی طرح توجہ کرنا ہمارے لئے نہایت ضروری ہے.اگر ہمارا یہ دعوی نہ ہوتا کہ اسلام ان تمام ضروریات کو پورا کرنے کا ذمہ دار حکومت کو قرار دیتا ہے تو یہ سوال ہی پیدا نہ ہوتا مگر جب ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے یہ تعلیم دی کہ غریب اور امیر میں حقیقی مساوات قائم کرنی چاہیئے اور ان دونوں کو اس حد تک ایک دوسرے کے قریب کر دینا چاہیئے کہ یہ محسوس نہ ہو کہ وہ کوئی اور مخلوق ہے اور یہ کوئی اور مخلوق ہے بلکہ جس طرح اُمراء اپنی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں اسی طرح غرباء بھی اپنی ضرورتوں کو پورا کریں وہ علاج کے بغیر نہ رہیں، وہ بھوکے نہ رہیں، وہ ننگے نہ رہیں، وہ جاہل نہ رہیں ، وہ بغیر مکان کے نہ رہیں تو پھر ضروری ہو جاتا ہے کہ اس مشکل کا حل اسلامی تعلیم سے ہی کیا جائے.زکوۃ کا اسلام نے حکم دیا تھا مگر میں تسلیم کر چکا ہوں کہ زکوۃ اس مشکل کا پورا علاج نہیں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام اس کمی کا کیا علاج تجویز کرتا ہے.سوشلزم کے نظریہ کی رو سے غربا کی ضروریات کو پورا کر نیکا پہلا ذریعہ اور اس کے غلط ہونے کا ثبوت سوشلزم اس کا ذریعہ یہ بتاتی ہے کہ مزدوروں کا حصہ منافع میں مقرر کیا جائے یہ نہ ہو کہ انہیں ماہوار تنخواہ دی جائے کسی کو کم اور کسی کو زیادہ بلکہ منافع پر ان کا انحصار ہونا چاہیئے یعنی جب منافع حاصل ہو تو فیصلہ کیا جائے کہ اس دفعہ ہمیں اتنی آمد ہوئی ہے اسمیں سے مالک کو اتنا حصہ دیا جائے اور مزدوروں کو اتنا حصہ دیا جائے مگر ظاہر ہے کہ یہ طریق بے اصولا ہے اس لئے کہ کسی تجارت میں 91

Page 95

نفع کم ہوگا اور کسی میں زیادہ.ہمیں دنیا میں روزانہ یہ نظارہ نظر آتا ہے کہ دوغلہ کے تاجر ہوتے ہیں ایک تو سارا دن بیٹھا مکھیاں مارتا رہتا ہے اور دوسرا ہر روز اپنی تجوری بھر کر گھر میں لے آتا ہے ایک شخص کپڑا بیچتا ہے تو روزانہ اس کے دو دو سو تھان نکل جاتے ہیں اور دوسرا وہی کام کرتا ہے تو سارے دن میں اس کا ایک تھان بھی نہیں نکلتا.پس اس فرق کی وجہ سے نتیجہ یہ ہوگا کہ کسی تاجر کے ملازموں کو ایک جیسی محنت پر زیادہ آمد ہوگی اور کسی کے ملازموں کو کم ہوگی یعنی ہوشیار مالک کے ملازموں کو زیادہ آمد ہو رہی ہوگی اور دوسرے کے ملازموں کوکم ، پس یہ تقسیم عقل کے بالکل خلاف ہوگی اس کے یہ معنے ہونگے کہ پہلے تو لیاقت پر آمد کا انحصار ہوتا تھا پھر صرف جوئے بازی اور اتفاق پر ہوگا اور پھر لوگ اس بات پر لڑیں گے کہ ہم فلاں مالک کے کارخانہ میں کام کرینگے فلاں کے کارخانہ میں کام نہیں کرینگے مگر اس کا فیصلہ کون کریگا کہ کوئی مزدور کہاں کام کرے.اگر کہیں سوشلزم یہ انتظام کریگی کہ سب کارخانوں کے ملازموں کے لئے ایک اعلیٰ شرح تنخواہ مقرر کر دیگی تو پھر بھی زیادہ ہوشیار تا جر سوشلزم کے مجوزہ منافع سے زیادہ ہی لے لیگا اور دوسرا تاجر نقصان میں رہے گا اور اس طرح سوشلزم پھر بھی اپنی سکیم میں ناکام رہے گی اور جنکی تجارت اچھی نہ چلتی ہوگی انکے ملازم نفع کی جگہ اصل سرمایہ تک کھا جائینگے اصل بات یہ ہے کہ گزارہ کے دو ہی معقول طریق ہیں.(۱) لیاقت اور (۲) اقل ضرورت گزارہ کی.مگر یہ دونوں صورتیں اوپر کے بتائے ہوئے سوشلسٹ طریق میں نہیں پائی جاتیں.غرباء کی ضروریات کو پورا کرنے کا دوسرا ذریعہ دوسری صورت سوشلزم یہ پیش کرتی ہے کہ تمام اہم صنعتیں حکومت کے قبضہ میں ہوں مثلاً ریل، کا نہیں اور بجلی وغیرہ.اسی طرح اہم تجارتوں کی منا پلی اور ان پر قبضہ و تصرف حکومت کے اختیار میں ہو.مگر اس پر بھی کئی اعتراض پڑتے ہیں.مثلاً (۱) یہ تدبیر عالمگیر نہیں ہو سکتی بلکہ ہر ملک میں الگ الگ ہوگی حالانکہ سوال یہ تھا کہ ساری 92

Page 96

دنیا کے بھوکوں ، ساری دنیا کے نگوں ، ساری دنیا کے بیماروں،ساری دنیا کے جاہلوں اور ساری دنیا کے بے سر و سامان لوگوں کا انتظام کیا جائے مگر اس طرح ساری دنیا کے حاجتمندوں کا علاج تو پھر بھی نہ ہوگا ہر حکومت صرف اپنے ملک کے غرباء کا ہی خیال رکھے گی پس یہ تدبیر عالمگیر نہیں ہے.دوسرے مثلاً اس پر یہ اعتراض پڑتا ہے کہ اسمیں بھی انفرادی جو ہر کے اظہار کے مواقع میں کمی آجاتی ہے اور اسطرح جسم کا خیال تو کیا جاتا ہے مگر دماغ جو زیادہ قیمتی ہے اسے نقصان پہنچ جاتا ہے.غربا کی ضرورتوں کے لئے چندے حاصل کرنے کے متعلق ہٹلر اور گوئرنگ کی سکیم نیشنلسٹ سوشلزم کی اس بارہ میں مفصل سکیم مجھے معلوم نہیں لیکن ہٹلر ۳۲ اور گوئرنگ ۳۳ کی اس سکیم کا مجھے علم ہے کہ سرمایہ دار جو زیادہ حصہ قومی خدمت میں لیں انہیں حکومت کی امداد کے زیادہ مواقع بہم پہنچائے جائیں.وہ کہتے ہیں کہ جو لوگ حکومت کو زیادہ چندے دینگے اور قومی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے انکا خاص طور پر خیال رکھا جائیگا اور انہیں ٹھیکے وغیرہ دیئے جائیں گے لیکن یہ سکیم بھی مکمل نہیں کیونکہ اس طرح بھی پورا سرمایہ جو کافی ہو جمع نہیں ہوسکتا اور نیز اس میں یہ پہلو مذکور نہیں کہ ملک کی ضرورت کی ذمہ داری حکومت پر کس حد تک ہوگی.بالشوزم کے نظریہ کی رو سے غرباء کی تکالیف دُور کرنے کی تدابیر بالشوزم کی تدبیر یہ ہے کہ سب اہم تجارتیں اور صنعتیں حکومت کے ہاتھ میں ہوں اور زراعت پیشہ کی سب زائد آمد حکومت جبر لے لے.سب دولتمندوں کی دولت جبر ا چھین لے.اس پر جو اعتراض پڑتے ہیں پہلے بتا آیا ہوں خلاصہ یہ کہ اس سے انفرادیت بالکل تباہ ہو جاتی ہے اور اس قسم کی حکومت میں جب ضعف آئیگا ہمیں معمولی تبدیلی پیدا نہ ہوگی بلکہ پھر زار جیسی حکومت قائم ہو جائے گی.فرانس کا تجر بہ گواہ ہے بور بون خاندان نے فرانس میں فوزویت 93

Page 97

۳۴ عوام کی حکومت جو جمہوریت سے مختلف ہے ) پیدا کی اور فوز ویت نے بونا پارٹ " جیساجبار پیدا کیا.اسی طرح زار نے بالشوزم پیدا کی اور اسے کامیاب بنایا اور بالشوزم تھوڑے ہی عرصہ میں کمزور ہو کر پھر ایک نیا جبار پیدا کر دیگی.اسی طرح بالشوزم میں یہ نقص ہے کہ ملک کے ایک حصہ کو خواہ مخواہ دشمن بنالیا گیا ہے اور اس سے دشمنوں کا سا سلوک شروع کر دیا گیا ہے یعنی سب پرانے خاندانوں اور علمی خدمت کرنے والے لوگوں کو دشمن بنالیا گیا ہے.اسلام کی سکیم ان سب سے مختلف ہے اسلام نے اول تو ان تینوں تحریکوں کے خلاف یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ آرام کے وہ معنے نہیں جو تم کہتے ہو یعنی تم تو آرام کی زندگی کے یہ معنے لیتے ہو کہ سب کے لئے یکساں تعیش کے سامان پیدا کئے جائیں ، سب کے لئے سنیما میں جانے کے راستے کھلے ہوں ، سب کے لئے کھیلیں اور تماشے دیکھنے ممکن ہوں مگر اسلام نے آرام کی زندگی کا مفہوم یہ لیا ہے کہ امیروں کو بھی ان تعیش کے سامانوں میں نہ پڑنے دیا جائے اور اس طرح بنی نوع انسان کو مساوات کی طرف لایا جائے.اصل غرض تو آرام ہے.مگر اسلام آرام کے ساتھ ہی اخلاق اور معیار شرافت کو بھی بلند کرنا چاہتا ہے.پھر آرام کے متعلق اسلام اور ان تحریکات کے نظریوں میں یہ بھی فرق ہے کہ انہوں نے تعیش کے سامان بڑھا کر آرام حاصل کرنا چاہا ہے اور اسلام کہتا ہے کہ ہم تمہیں صرف ضروریات زندگی دینگے تعیش کی چیزیں نہیں دینگے گویاوہ تفتیش کے سامانوں کی بجائے سب کے لئے یکساں سادہ زندگی پیش کرتا ہے اسی لئے اسلام نے ناچ گانے اور شراب وغیرہ کو حرام قرار دیا ہے.انگلستان میں جب غرباء شور مچاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں بڑی تکلیف ہے تو دلیل یہ دیتے ہیں کہ ہم غریبوں کو شراب کے صرف دو گلاس پینے کو ملتے ہیں اور امیر آدمی دس دس گلاس شراب پی جاتا ہے اور گورنمنٹ کہتی ہے کہ تمہارا مطالبہ بالکل بجا اور درست ہے ہم تمہیں بھی دس دس گلاس شراب مہیا کر کے دینگے مگر اسلام کہتا ہے کہ ہم تمہاری اس شکایت کا اس رنگ میں ازالہ کرینگے کہ تمہارے دو گلاس بھی چھین لیں گے اور امیروں کے دس گلاس بھی چھین لیں گے کیونکہ یہ چیزیں جسم اور روح کے لئے مضر ہیں.اسی طرح وہاں اگر غرباء 94

Page 98

شور مچائیں تو کہتے ہیں کہ یہ امیر تو روز ناچتے ہیں مگر ہم غریبوں کے ناچنے کا کوئی سامان نہیں اور حکومت کہتی ہے بہت اچھا آئیندہ گورنمنٹ خود تمہارے لئے ڈانس روم بنائیگی چنانچہ وہ امیروں سے کہتی ہے امیر والا ؤ روپیہ کہ ہم تمہارے غریب بھائیوں کے لئے بھی ناچ گھر بنوا دیں مگر اسلام کہتا ہے ہرگز نہیں ڈانس روم بنانے سے انسانیت تباہ ہوتی ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ تمہاری انسانیت میں نقص واقع ہو اس لئے بجائے اس کے کہ ہم تمہارے لئے ڈانس روم بنا ئیں ہم تمہارے امیر بھائیوں کے ڈانس روم بھی گرا دینگے تا کہ وہ بھی انسانیت کے حلقہ میں داخل ہوں اور تہذیب و شائستگی کے خلاف کسی حرکت کے مرتکب نہ ہوں.اسلام کا تعیش کے سامانوں کو مٹا کر امراء اور غرباء میں مساوات قائم کرنا تو جو چیزیں ضروریات زندگی میں سے نہیں بلکہ تفتیش کے سامانوں میں سے ہیں اسلام نے ان کو مٹا کر غرباء اور امراء میں مساوات قائم کی ہے اور ظاہر ہے کہ یکساں تعیش کے سامان پیدا کر نیوالی حکومتیں ہمسایوں کو لوٹنے سے باز نہیں رہ سکتیں لیکن یکساں سادگی پیدا کرنے والی حکومتیں دوسروں کولوٹنے کی جگہ اپنے امراء کو سادہ زندگی کی طرف لانے کی کوشش کریں گی اور یہ بھی ظاہر ہے کہ سادہ زندگی کو محدود کرنا آسان ہے لیکن تعیش کو محدود کرنا بہت مشکل ہے.پس اسلامی تعلیم یقینا عقلی طور پر کامیابی کے زیادہ قریب ہے اور اس طرح اسلام تھوڑے سے روپیہ سے کام لے کر غرباء کی بے چینی دور کرنے میں کامیاب ہو جائے گا.غرض آجکل کی حکومتیں سمجھتی ہیں کہ آرام کے معنی یہ ہیں کہ نتیش کے سامان غریبوں کو دینا اور اسلام کہتا ہے کہ آرام کے معنی یہ ہیں کہ ضرورت کے سامان غریبوں کو دینا اور تعیش کے سامان امیروں غریبوں سب سے چھینا، پس جتنے روپیہ سے عیسائیت دنیا کو آرام پہنچا سکے گی اس سے بہت کم روپیہ سے اسلام دنیا کو آرام پہنچا سکے گا.چنانچہ اسلام میں مردوں کے لئے ریشم پہنا منع ہے، اسی طرح گھروں میں استعمال کے لئے چاندی سونے کے برتن رکھنا نا جائز ہے، بڑی بڑی عمارتیں بلا وجہ اور بلا ضرورت بنا نامنع 95

Page 99

ہے اسی طرح عورتوں کے لئے زیادہ زیور بنانے اسلام نے منع کر دیئے ہیں ،شراب سے روک دیا ہے، جوئے کو حرام قرار دیا ہے تا کہ غریبوں کے دلوں میں ان چیزوں کے حصول کی کوئی خواہش ہی پیدا نہ ہوا اور اس طرح جور و پیہ بچے وہ غریبوں کو دے دیا جائے.اسلام میں جبری ٹیکسوں کے علاوہ طوعی طور پر زائد مال وصول کرنے کی صورت دوسری تجویز اسلام نے یہ کی ہے کہ بجائے انفرادی جد و جہد کو مٹانے کے اسے قائم رکھ کر اور جبر کی جگہ تحریک و تحریص سے کام لے کر علاوہ جبری ٹیکسوں کے امراء سے ان کے زائد مال لینے کی صورت پیدا کی ہے اور ظاہر ہے کہ انفرادیت کو مٹا دینا بھی مضر ہے کیونکہ اس سے عائکیت کے اعلیٰ جذبات اور علمی ترقی مٹ جاتی ہے اور جبری حصول بھی مضر ہے اگر کوئی ایسی سکیم ہو کہ انفرادیت بھی قائم رہے اور زائد مال تحریک و تحریص سے لے لیا جائے تو وہی سکیم دنیا میں امن کے قیام کا دور لانے کا ، سب کے لئے آرام پیدا کرنے کا اور باہمی الفت و محبت بڑھانے کا ذریعہ ہوگی چنانچہ اسلام ایسا ہی کرتا ہے.غیر اسلامی تحریکات میں تو یہ قانون ہے کہ ہر شخص کے پاس جس قدر زائد مال ہو وہ جبر وتشدد سے لے لو مگر اسلام کہتا ہے کہ تم کسی پر جبر نہ کرو جو جبری ٹیکس ہیں وہ تو جبر سے وصول کرو مگر اُمراء سے انکے زائد مال لینے کے لئے جبر سے ہر گز کام نہ لو بلکہ ترغیب و تحریص سے کام لو اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اُمراء کے دلوں میں غریبوں کی محبت پیدا ہوگی اور غریبوں کے دلوں میں امیروں کی محبت پیدا ہوگی اگر ایک شخص سے جبر أ حکومت مال لے لے تو نہ اس کے دل میں دوسروں کی محبت پیدا ہوگی اور نہ دوسروں کے دل میں اسکی محبت پیدا ہوگی لیکن اگر کوئی اپنی مرضی سے اپنا مال لوگوں کی بھلائی کے لئے دے دے تو اس کے دل میں بھی دوسروں کی محبت پیدا ہوگی اور دوسروں کے دلوں میں بھی اسکی محبت پیدا ہوگی اس طرح انسانیت آپس میں زیادہ سے زیادہ مرتبط ہوتی چلی جائیگی.96

Page 100

انفرادی جد و جہد کو قائم رکھنے کا فائدہ پھر اس کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ جب انفرادی جد و جہد قائم رہے گی تو ہر شخص پوری محنت سے کام لیکر روپیہ کمانے کی کوشش کریگا.ڈاکٹر اپنے مطب کو چلائے گا انجینئر اپنے فن میں کمال دکھلائیگا تاجر کارخانوں کو چلائیں گے اور اس طرح دماغ ترقی کرتا چلا جائے گا اور جب وہ اپنے پاس روپیہ جمع کر لیں گے تو پھر ترغیب و تحریص کے ذریعہ ان کا مال ان سے لے لیا جائے گا.گویا بیک وقت دونوں فائدے حاصل ہوجائینگے دماغ کی بھی ترقی ہو جائیگی اور رو پید بھی مل جائیگا.بالشویک تحریک میں یہ نقص ہے کہ اسکے نتیجہ میں دماغی قابلیتیں بالکل مردہ ہو جاتی ہیں اور جو کچھ روپیہ حاصل ہوتا ہے اسکے دیتے وقت بھی امرا کے دلوں میں غرباء کی کوئی محبت پیدا نہیں ہوتی کیونکہ وہ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم پر جبر اور ظلم کر کے یہ روپیہ لیا جا رہا ہے لیکن اگر ڈاکٹر کو کہا جائے کہ جاؤ اور خوب کما ؤ، وکیل کو کہا جائے کہ مقدمات لڑو اور خوب فیس وصول کرو، انجینئر کو کہا جائے کہ جاؤ اور انجینئر نگ کے فن میں کمال پیدا کر کے ہزاروں روپیہ کماؤ اور پھر جب وہ روپیہ کما چکیں تو انہیں اس بات کی تحریص دلائی جائے کہ وہ اپنا رو پیدا اپنے غریب بھائیوں کی ضرورتوں پر بھی خرچ کریں تو نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ خوشی سے ہزاروں روپیہ دینے کے لئے تیار ہو جائینگے انکی امنگیں بھی قائم رہیں گی اور انہیں ظلم کا احساس بھی نہ ہوگا بلکہ وہ دیتے وقت خوش ہونگے کہ انکا رو پیدا نکے غریب بھائیوں کے کام آنے لگا ہے پس ان کا زائد مال اگر ترغیب و تحریص سے لیا جائے تو عدل و انصاف بھی قائم ہوگا اور باہمی محبت بڑھانے کا بھی یہ ایک یقینی ذریعہ ہو جائیگا.جبری طور پر دوسروں کے اموال پر جبر اقبضہ کر نیکے نقصانات اسکے مقابلہ میں جس شخص سے جبراً حکومت مال لے لے تم سمجھ سکتے ہو اسکے دل میں 97

Page 101

غریبوں کی محبت کہاں پیدا ہوگی.حکومت کے کارندے تو اس سے جبر أمال وصول کر لینگے مگر اس کے دماغ میں غریبوں کی دشمنی گھر کر جائیگی اور وہ ہر وقت یہی کہیگا کہ خدا اس حکومت کا بیڑا غرق کرے جو ہم پر ظلم کر رہی ہے اور خدا ان غریبوں کا بھی بیڑا غرق کرے جن کی وجہ سے ہم پر ظلم کیا جارہا ہے.دوسری طرف غریبوں کے دلوں میں بھی کوئی محبت پیدا نہیں ہوگی وہ کہیں گے امیر واقعہ میں بڑے ظالم تھے اچھا ہوا کہ حکومت نے انکا مال و اسباب لوٹ لیا لیکن اگر تحریص و ترغیب کے نتیجہ میں غربا کی محبت کا احساس کرتے ہوئے کوئی شخص چند پیسے بھی دے تو اسکے دل میں غریبوں کی محبت پیدا ہوگی اور غریب بھی کہیں گے کہ فلاں شخص بڑا نیک ہے اللہ اسکے مال میں برکت دے وہ ہم غریبوں کا خیال رکھتا ہے.تو چیز وہی ہوگی مگر ادھر امیروں کے دلوں میں غریبوں کی محبت پیدا ہوگی اور ادھر غریبوں کے دلوں میں امیروں کی محبت پیدا ہوگی.اور دماغ کی نشو ونما بھی ہوتی رہیگی چنانچہ اسلام نے یہی طریق اختیار کیا ہے.اسلام کا اُمراء سے جبری ٹیکسوں کے علاوہ طوعی ٹیکسوں کا مطالبہ اس لئے اسلام نے زکوۃ اور عشر وغیرہ جبری ٹیکس بھی لگا دیئے اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا ہے کہ وَاَنْفِقُوْا فِي سَبِيْلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوْا بِأَيْدِ يْكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ ٣٥ یعنی تم مقررہ ٹیکس بھی دومگر اس کے علاوہ ہم تم سے بعض طوعی ٹیکس بھی مانگتے ہیں اور تمہارا فرض ہے کہ تم ان دونوں میں حصہ لو.چنانچہ ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ أَنْفِقُوا فِی سَبِیلِ اللہ ہمیشہ غرباء کی امداد کے لئے روپیہ دیتے رہو.وَلَا تُلْقُوْا بِايْدِ يُكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ اور اپنے نفسوں کو ہلاکت میں مت ڈالو.یعنی اے مالدارو! اگر تم اپنے زائد مال خوشی سے دے دو گے تو وہ تو زائد ہی ہیں تم کو کوئی حقیقی نقصان نہ پہنچے گا.لیکن اگر ایسا نہ کرو گے تو ہلاک ہو جاؤ گے.یہ الفاظ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے 98

Page 102

روس کا پورا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر ایسا نہ کرو گے تو جو زار روس اور روسی امراء یا فرانس کے امراء کا حال ہو ا و ہی تمہارا ہو گا آخر عوام ایک دن تنگ آکر لوٹ مار پر اُتر آئیں گے اور شاہ پوری محاورہ کے مطابق دُعائے خیر پڑھ دیں گے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اس محاورہ کی تشریح یہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے علاقہ میں کچھ مدت پہلے زمیندار پیسے سے قرض لیتے چلے جاتے تھے اور بنیا بھی دیتا چلا جاتا تھا کچھ عرصہ تک تو انہیں اس کا احساس نہیں ہوتا تھا مگر جب سب علاقہ اُس پیسے کا مقروض ہوجاتا اور زمینداروں کی سب آمد اس کے قبضے میں چلی جاتی تو یہ دیکھ کر اس علاقہ کا کوئی بڑا زمیندار تمام چوہدریوں کو اکٹھا کرتا اور کہتا کہ بتاؤ اس پینے کا قرض کتنا ہے وہ بتاتے کہ اتنا اتنا قرض ہے.اس پر وہ دریافت کرتا کہ اچھا پھر اس قرض کے اُترنے کا کوئی ذریعہ ہے یا نہیں وہ جواب دیتے کہ ہمیں تو کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا.اس پر وہ کہتا کہ اچھا تو پھر دعائے خیر پڑھ دوچنانچہ وہ سب دُعائے خیر پڑھ دیتے اور اس کے بعد سب ہتھیار لے کر پینے کے مکان کی طرف چل پڑتے اور اسے قتل کر دیتے اور اس کی بہی اور کھاتے سب جلا دیتے.جبری ٹیکسوں کے علاوہ زائد اموال خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہ کرنے کی وجہ سے قوموں کی ہلاکت اللہ تعالیٰ اس آیت میں ایسی ہی حالت کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ دیکھو ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اگر تمہارے پاس زائد مال ہو تو اُسے خدا تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کر دیا کرو اور اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو یعنی بے شک کماؤ تو خوشی سے مگر اس دولت کو اپنے گھر میں نہ جمع رکھا کرو ور نہ کسی دن لوگ تمہارے خلاف اٹھ کھڑے ہونگے اور تم ہلاک ہو جاؤ گے پھر فرماتا ہے وَاحْسِنُوا بلکہ اس سے بڑھ کر نیکی کرو اور وہ اس طرح کہ تم خود اپنی ضرورتوں کو کم کر کے اور مال بچا کر خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دیا کرو مگر یاد رکھو کہ یہ عمل تم لوگوں سے ڈر کر نہ کرو بلکہ خوشی سے 99

Page 103

کرو.اگر تم ڈر کر کرو گے تو غریبوں کی مدد تو ہو جائے گی مگر خدا خوش نہیں ہوگا لیکن اگر خوشی سے یہ قربانی کرو گے تو غریب بھی خوش ہونگے تم بھی ہلاکت سے بچ جاؤ گے اور اللہ بھی تم پر خوش ہو گا.پھر فرماتا ہے اِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ اگر تمہارے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ پھر ہماری کمائی کا صلہ ہم کو کیا ملا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا صلہ مال سے زیادہ ملے گا اور وہ تمہارے پیدا کرنے والے خدا کی محبت ہے.تمہاری دُنیا کے ساتھ تمہاری آخرت بھی درست ہو جائے گی اور تم دونوں جہانوں میں آرام اور سکھ سے زندگی بسر کرو گے.دیکھو اس تعلیم کے ساتھ باوجود انفرادیت اور عائکیت جیسی ضروری چیزوں کی حفاظت کا وہ مقصد بھی پورا ہو جاتا ہے جسے بالشوزم پورا کرنا چاہتی ہے.ہر زمانہ میں غرباء کی ضروریات پورا کرنے والی اسلامی تعلیم اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تو ہوئی لفظی تعلیم تم کہتے تھے کہ اسلام غرباء کے کھانے کا بھی انتظام کرتا ہے، انکے کپڑے کا بھی انتظام کرتا ہے، انکے مکان کا بھی انتظام کرتا ہے اور انکے علاج اور تعلیم کا بھی انتظام کرتا ہے مگر تم نے یہ نہیں بتایا کہ اسلام اس میں کامیاب بھی ہوا ہے یا نہیں؟ اگر کامیاب ہو چکا ہے تو ہمیں اس کا کوئی نمونہ دکھاؤ.اس کا جواب یہ ہے کہ تعلیم وہی کامیاب اور اعلیٰ ہوتی ہے جو ہر زمانہ کے مطابق سامان پیدا کرے یعنی وہ لچکدار ہو اور اپنے مقصد کو زمانہ کی ضرورت کے مطابق پورا کرے.جو تعلیم لچکدار نہیں ہوگی وہ کسی جگہ کام دے گی اور کسی جگہ کام نہیں دے گی.جیسے اگر کوئی لکڑی کا تختہ ہو تو وہ ہر جگہ کام نہیں آسکے گا اگر جگہ چھوٹی ہوگی تو لازماً وہاں لکڑی کا تختہ کام نہیں دے سکے گا.کیونکہ وہ اس میں سمائے گا نہیں لیکن اگر کسی کے پاس چادر ہو تو چھوٹی جگہ پر وہ سمیٹی جاسکے گی اور بڑی جگہ پر پھیلائی جاسکے گی.پس تعلیم وہی کامیاب ہوتی ہے جس میں ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق لچک پیدا ہو سکے.اس قسم کی لچک نہ ہو جو آج کل کے نو تعلیم یافتہ مراد لیتے ہیں کہ انہوں نے اس لچک میں سارا قرآن ہی ختم کر دیا ہو.100

Page 104

ابتدائے اسلام میں غرباء کی ضرورتیں پوری کرنے کا طریقہ اسلام کے ابتدائی دور میں اُس کی ضرورت کے مطابق یہ تعلیم کلی طور پر کامیاب رہی ہے چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں نہ صرف سادگی پر عمل کرایا گیا بلکہ جب حکومت کی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد ہوئی تو تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ علاوہ زکوۃ کے غرباء کی سب ضرورتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چندوں سے پوری فرمایا کرتے تھے اور اس ضمن میں بعض دفعہ صحابہ بڑی بڑی قربانیاں کیا کرتے تھے.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک وقت اپنا سارا مال دے دیا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک وقت قریباً سارا مال دے دیا اور یہ زکوۃ نہ تھی.پس جس قدرضرورت تھی اس کے مطابق اس تعلیم نے کام دے دیا اور یہ طریق اس زمانہ کی ضرورت کے لحاظ سے بالکل کافی تھا.خلفائے اسلام کے زمانہ میں منتظم طور پر غرباء کی ضروریات کو پورا کرنے کی جدو جہد جب حکومت زیادہ پھیلی اور خلفاء کا زمانہ آیا تو اس وقت منظم رنگ میں غرباء کی ضروریات کو پورا کرنے کی جدوجہد کی جاتی تھی چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایسے رجسٹر بنائے گئے جن میں سب لوگوں کے نام ہوتے تھے اور ہر فرد کے لئے روٹی اور کپڑا مہیا کیا جاتا تھا اور فیصلہ کیا جاتا تھا کہ فی مرد اتنا غلہ ، اتنا گھی، اتنا کپڑا اور اتنی فلاں فلاں چیز دی جائے.اسی طرح ہر شخص کو چاہے وہ امیر ہو یا غریب اس کی ضروریات زندگی مہیا ہو جاتی تھیں اور یہ طریق اُس زمانہ کے لحاظ سے بالکل کافی تھا.آج دنیا یہ خیال کرتی ہے کہ بالشوزم نے یہ اُصول ایجاد کیا ہے کہ ہر فرد کو اس کی ضروریات زندگی مہیا کی جانی چاہئیں حالانکہ یہ طریق اسلام کا پیش کردہ ہے اور حضرت عمرؓ کے زمانہ میں اس پر منظم رنگ میں عمل بھی کیا جا چکا ہے بلکہ یہاں تک تاریخوں میں آتا ہے کہ شروع میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو فیصلہ کیا تھا اُس میں اُن چھوٹے بچوں کا جو شیر خوار ہوں خیال نہیں 101

Page 105

رکھا گیا تھا اور اسلامی بیت المال سے اُس وقت بچے کو مد دلنی شروع ہوتی تھی جب ماں بچے کا دودھ چھڑا دیتی تھی.یہ دیکھ کر ایک عورت نے اپنے بچے کا دودھ چھڑادیا تا کہ بیت المال سے اس کا بھی وظیفہ مل سکے.ایک رات حضرت عمر گشت لگا رہے تھے، کہ آپ نے ایک جھونپڑی میں سے ایک بچے کے رونے کی آواز سنی حضرت عمر اندر گئے اور پوچھا کہ یہ بچہ کیوں رورہا ہے اس عورت نے کہا عمرؓ نے یہ قانون بنا دیا ہے کہ جب تک بچہ دودھ پینا نہ چھوڑے اس کا وظیفہ نہیں لگ سکتا اس لئے میں نے اس بچے کا دودھ چھڑا دیا ہے تا کہ وظیفہ لگ جائے اور اسی وجہ سے یہ رورہا ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اپنے دل میں کہا واہ عمر معلوم نہیں تو نے کتنے عرب بچوں کا دودھ چھڑوا کر آئندہ نسل کو کمزور کر دیا ہے چنانچہ اس کے بعد انہوں نے حکم دے دیا کہ پیدائش سے ہی ہر بچے کو وظیفہ ملا کرے.پس اس وقت یہ انتظام تھا اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ انتظام اُس وقت کی ضروریات اور اس زمانہ کے لحاظ سے کافی تھا.ہاں یہ درست ہے کہ اُس زمانہ میں غربت اور امارت میں وہ بعد نہ تھا جو اب ہے.اس وقت مقررہ ٹیکس اور حکومت اور افراد کو صاحب دولت لوگوں کی بر وقت امداد ان اغراض کو پورا کر دیتی تھی.تجارتی مقابلہ اُس وقت اس قدر نہ تھا جواب ہے.مقابل کی حکومتیں اس طرح ہمسایہ ملکوں کی دولت کو با قاعدہ نہ لوٹی تھیں جیسا کہ اب لوٹتی ہیں اس لئے ہم مانتے ہیں کہ وہ انتظام آج کارگر نہیں ہو سکتا لیکن اصولی لحاظ سے وہ تعلیم آج بھی کارگر ہے.اس وقت بغیر اس کے کہ کوئی نیا طریق ایجاد کیا جاتا اُسی آمدن سے جو مقررہ ٹیکسوں یا طوعی چندوں سے حاصل ہوتی تھی گزارہ چلایا جا سکتا تھا پس اُس وقت اُسے کافی سمجھا گیا مگر وہ انتظام آج کافی نہیں ہوسکتا.آج کل کا زمانہ منظم زمانہ ہے اس وقت دنیا کی بے چینی کو دیکھ کر حکومتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ملک کی بیشتر دولت اُن کے ہاتھ میں ہو اور اگر مذکورہ بالا تحریکیں کامیاب ہوئیں یعنی ان میں سے کوئی ایک کامیاب ہوئی تو لازماً افراد کے ہاتھ میں روپیہ کم رہ جائے گا اور حکومتوں کے ہاتھ میں زیادہ چلا جائے گا.بالشوزم کامیاب ہوتب بھی اور سوشلزم کامیاب ہو تب بھی نتیجہ یہی ہوگا کہ 102

Page 106

افراد کے ہاتھ میں روپیہ کم رہ جائے گا اور ملک کی بیشتر دولت پر حکومت کا قبضہ ہو جائے گالیکن علاوہ مذکورہ بالا نقائص کے جو اوپر بیان ہو چکے ہیں یہ نقصان بھی ہوگا کہ گو بعض ممالک زیادہ امن میں آجائیں گے مگر بعض دوسرے ممالک زیادہ دُکھ میں پڑ جائیں گے.موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کے پیش نظر غرباء کو آرام بہم پہنچانے کے لئے ایک نئے نظام کی ضرورت اس نظام کے مقابلہ میں اسلامی تعلیم کو معین صورت دینے کے لئے جو جامہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے لوگوں کے لئے بنایا گیا تھا وہ آج یقیناً کامیاب نہیں ہوسکتا کیونکہ اب حالات مختلف ہیں.اسی طرح بعد میں حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علیؓ نے ان احکام کو جو صورت دی تھی وہ آج کامیاب نہیں ہو سکتی پس ضرورت ہے کہ اس موجودہ دور میں اسلامی تعلیم کا نفاذ ایسی صورت میں کیا جائے کہ وہ نقائص بھی پیدا نہ ہوں جوان دنیوی تحریکوں میں ہیں اور اس قدر روپیہ بھی اسلامی نظام کے ہاتھ میں آجائے جو موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کے لحاظ سے مساوات کو قائم رکھنے اور سب لوگوں کی حاجات کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہے.خلفاء نے اپنے زمانہ کی ضرورت کے لحاظ سے اسلام کے احکام کی تعبیر کی جیسے میں نے بتایا ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں با قاعدہ مردم شماری ہوتی تھی ہر شخص کا نام رجسٹروں میں درج ہوتا تھا اور اسلامی بیت المال اس امر کا ذمہ دار ہوتا تھا کہ ہر شخص کی جائز ضروریات کو پورا کرے.پہلے جس قدر روپیہ آتا تھا وہ سپاہیوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا مگر حضرت عمرؓ نے کہا کہ ایک اسلامی خزانہ ہو اور دوسرے لوگوں کے بھی حقوق ہیں اس لئے اب تمام روپیہ سپاہیوں میں تقسیم نہیں کیا جائے گا بلکہ اُس کے ایک بہت بڑے حصہ کو محفوظ رکھا جائے گا چنانچہ اس روپیہ سے ملک کے غرباء کو گزارہ دیا جاتا تھا.غرض خلفاء نے اپنے اپنے زمانہ کی ضرورت کے لحاظ سے اسلام کے احکام کی تعبیر کی مگر موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے کسی اور نظام کی ضرورت تھی اور اس نظام کے قیام 103

Page 107

کے لئے ضروری تھا کہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے اور وہ ان تمام دکھوں اور دردوں کو مٹانے کے لئے ایسا نظام پیش کرے جو زمینی نہ ہو بلکہ آسمانی ہو اور ایسا ڈھانچہ پیش کرے جو اُن تمام ضرورتوں کو پیدا کر دے جو غرباء کو لاحق ہیں اور دُنیا کی بے چینی کو دور کر دے.اب ہر شخص جو تسلیم کرتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی موعود کی بعثت کی خبر دی ہے، ہر شخص جو تسلیم کرتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مسیح اور مہدی کے آنے کی خوشخبری دی ہے لازماً اُسے یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس زمانہ میں جو فتنہ وفساد اور دُکھ نظر آرہا ہے اس کو دور کرنے کا کام بھی اسی مأمور کے سپرد ہونا چاہئے تا کہ وہ نقائص بھی پیدا نہ ہوں جو بالشوزم کے نتیجہ میں پیدا ہوئے ہیں.وہ نتائج بھی پیدا نہ ہوں جو سوشلزم کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں اور وہ نقائص بھی پیدا نہ ہوں جو نیشنل سوشلزم کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں دنیا کوکھانا بھی مل جائے ، دنیا کو کپڑا بھی مل جائے، دنیا کو مکان بھی مل جائے، دنیا کو دوا بھی مل جائے اور دنیا کو تعلیم بھی میسر آجائے پھر دماغ بھی کمزور نہ ہو.انفرادیت اور عائلیت کے اعلیٰ جذبات بھی تباہ نہ ہوں، ظلم بھی نہ ہو، لوگوں کو لوٹا بھی نہ جائے ، امن اور محبت بھی قائم رہے لیکن روپیہ بھی مل جائے.موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق دنیا سے دکھ کو دور کرنے کی خاتم الخلفاء کی سکیم پس موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے خاتم الخلفاء کا فرض تھا کہ وہ اسلامی اصول کے مطابق کوئی سکیم تیار کرتا اور دُنیا سے اس مصیبت کا خاتمہ کر دیتا.چنانچہ جیسا کہ میں آگے چل کر بتاؤں گا اُس نے خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اس اہم ضرورت کو پورا کرنے کے سامان بہم پہنچا دیئے ہیں.غرباء کی تکلیف دور کرنے کے لئے اسلامی حکیم اور اس کے اہم اصول میں اوپر بتا چکا ہوں کہ اسلامی سکیم کے اہم اصول یہ ہیں :- 104

Page 108

اوّل: سب انسانوں کی ضرورتوں کو پورا کیا جائے.دوم: مگر اس کام کو پورا کرتے وقت انفرادیت اور عائلی زندگی کے لطیف جذبات کو تباہ نہ ہونے دیا جائے.تیسرے یہ کام مالداروں سے طوعی طور پر لیا جائے اور جبر سے کام نہ لیا جائے.چوتھے: یہ نظام ملکی نہ ہو بلکہ بین الاقوامی ہو.آج کل جس قدر تحریکات جاری ہیں وہ سب کی سب ملکی ہیں مگر اسلام نے وہ تحریک پیش کی ہے جو ملکی نہیں بلکہ بین اقوامی ہے.اسلامی تعلیم کی ساری خوبی ان چاروں اصول میں مرکوز ہے.اگر یہ چاروں اصول کسی تحریک میں پائے جاتے ہوں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ تحریک سب سے بہتر اور سب تحریکات سے زیادہ کمل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ۱۹۰۵ء میں دنیا سے دُکھ کو دور کرنے والے نئے نظام کی بنیاد اب میں بتا تا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان چاروں مقاصد کو اس زمانہ کے مامور، نائب رسول اللہ نے خدا تعالیٰ کے حکم سے کس طرح پورا کیا اور کس طرح اسلامی تعلیم کے عین مطابق دنیا کے ایک نئے نظام کی بنیاد رکھ دی.یہ بالشوزم، سوشلزم اور نیشنل سوشلزم کی تحریکیں سب جنگ کے بعد کی پیدائش ہیں.ہٹلر جنگ کے بعد کی پیدائش ہے.مسولینی سے جنگ کے بعد کی پیدائش ہے اور سٹالین جنگ کے بعد کی پیدائش ہے.غرض یہ ساری تحریکیں جو دنیا میں ایک نیا نظام قائم کرنے کی دعویدار ہیں ۱۹۱۹ء اور ۱۹۲۷ء کے گرد چکر لگارہی ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے مامور نے نئے نظام کی بنیاد ۱۹۰۵ء میں رکھ دی تھی اور وہ ” الوصیت“ کے ذریعہ رکھی تھی.105

Page 109

قرآن مجید میں مختلف ضرورتوں کے وقت طوعی قربانیاں کرنے کی طرف اشارہ قرآن کریم نے اصولی طور پر فرمایا تھا أَنْفِقُوا فِی سَبِيْلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوْا بِأَيْدِ يْكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَاحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (البقرہ : ۱۹۶) مگر اس تعلیم میں خدا تعالیٰ نے طوعی قربانیوں کے کوئی معین اصول مقرر نہ فرمائے تھے صرف یہ کہا تھا کہ اے مسلمانو! تمہیں علاوہ جبری ٹیکسوں کے بعض اور ٹیکس بھی دینے پڑیں گے مگر یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ ٹیکس کتنے ہونگے اور اُنکی معین صورت کیا ہوگی.اگر کسی زمانہ میں اسلامی حکومت کوسو میں سے ایک روپیہ کی ضرورت ہوتی تھی تو خلیفہ وقت کہہ دیا کرتا تھا کہ اے بھائیو! اپنی مرضی سے سو میں سے ایک روپیہ دے دو، اور اگر کسی زمانہ میں اسلامی حکومت کو سو میں سے دور و پیہ کی ضرورت ہوتی تھی تو خلیفہ وقت کہہ دیا کرتا تھا کہ اے بھائیو! اپنی مرضی سے سو میں سے دور و پئے دے دو اسی وجہ سے ہر زمانہ میں اس کی الگ الگ تعبیر کی گئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تعبیر اس طرح کی کہ وقتاً فوقتاً زائد چندے مانگ لئے اور خلفاء نے اپنے زمانہ کے مطابق اس کی اس طرح تعبیر کی کہ جو اموال فوجوں میں تقسیم کرنے کے لئے آیا کرتے تھے اُن کے ایک بڑے حصہ کو محفوظ کر لیا اور سپاہیوں سے کہا کہ تم اپنی خوشی سے اپنا حق چھوڑ دو اور حضرت مسیح موعود نے اپنے زمانہ کے مطابق تعبیر کر لی.اگر اسلامی حکومت نے ساری دُنیا کو کھانا کھلانا ہے، ساری دُنیا کو کپڑے پہنانا ہے، ساری دُنیا کی رہائش کے لئے مکانات کا انتظام کرنا ہے، ساری دُنیا کی بیماریوں کے لئے علاج کا انتظام کرنا ہے، ساری دُنیا کی جہالت کو دور کرنے کے لئے تعلیم کا انتظام کرنا ہے تو یقیناً حکومت کے ہاتھ میں اس سے بہت زیادہ روپیہ ہونا چاہئے جتنا پہلے زمانہ میں ہوا کرتا تھا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اعلان فرمایا کہ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے اُن لوگوں کے لئے جو حقیقی جنت حاصل کرنا چاہتے ہیں یہ انتظام فرمایا ہے کہ وہ اپنی خوشی سے اپنے مال کے کم سے کم دسویں حصہ کی اور زیادہ سے زیادہ تیسرے حصہ کی 106

Page 110

وصیت کر دیں اور آپ فرماتے ہیں ان وصایا سے جو آمد ہوگی وہ ترقی اسلام اور اشاعت علم قرآن و کتب دینیہ اور اس سلسلہ کے واعظوں کے لئے خرچ ہوگی.(شرط نمبر۲) اسی طرح ہر ایک امر جو مصالح اشاعت اسلام میں داخل ہے جس کی اب تفصیل کرنا قبل از وقت ہے وہ تمام اموران اموال سے انجام پذیر ہوں گے.(شرط نمبر۲) یعنی اسلام کی تعلیم کو دُنیا میں قائم اور راسخ کرنے کے لئے جس قدر امور ضروری ہیں اور جن کی تعبیر کرنا قبل از وقت ہے ہاں اپنے زمانہ میں کوئی اور شخص ان امور کو کھولے گا ان تمام امور کی سرانجام دہی کے لئے یہ روپیہ خرچ کیا جائے گا.الوصیت کے نئے نظام کا ذکر یہ وہ تعلیم ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دی.آپ صاف فرماتے ہیں کہ ہرایک امر جو مصالح اشاعت اسلام میں داخل ہے اور جس کی اب تفصیل کرنا قبل از وقت ہے اُس پر یہ روپیہ خرچ کیا جائے گا.اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ ایسے امور بھی ہیں جنکو ابھی بیان نہیں کیا جا سکتا اور یہ کہ عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے جب دنیا چلا چلا کر کہے گی کہ ہمیں ایک نئے نظام کی ضرورت ہے تب چاروں طرف سے آواز میں اٹھنی شروع ہو جائیں گی کہ آؤ ہم تمہارے سامنے ایک نیا نظام پیش کرتے ہیں.روس کہے گا آؤ میں تم کو نیا نظام دیتا ہوں، ہندوستان کہے گا آؤ میں تم کو نیا نظام دیتا ہوں ، جرمنی اور اٹلی کہے گا آؤ میں تم کو ایک نیا نظام دیتا ہوں ،امریکہ کہے گا آؤ میں تم کو نیا نظام دیتا ہوں، اسوقت میرا قائم مقام قادیان سے کہے گا کہ نیا نظام الوصیت میں موجود ہے اگر دُنیا فلاح و بہبود کے رستہ پر چلنا چاہتی ہے تو اس کا ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ کہ الوصیت کے پیش کردہ نظام کو دنیا میں جاری کیا جائے.107

Page 111

وصیت کے اموال میں بیتا ملی ، مساکین اور کافی وجوہ معاش نہ رکھنے والے نو مسلموں کا حق پھر آپ فرماتے ہیں ان اموال میں سے ان یتیموں اور مسکینوں کا بھی حق ہو گا جو کافی طور پر وجوہ معاش نہیں رکھتے.“ (شرط نمبر۲) پھر فرماتے ہیں ”جائز ہوگا کہ انجمن با تفاق رائے اس روپیہ کو تجارت کے ذریعہ سے ترقی دے.(ضمیمہ شرط نمبر ۹) یعنی ان اموال کے ذریعہ تجارت کرنی بھی جائز ہوگی اور تمہیں اس بات کی اجازت ہوگی کہ لوگوں سے ان کے اموال کا دسواں یا آٹھواں یا پانچواں یا تیسرا حصہ لو اور پھر تجارت کر کے اس مال کو بڑھا لو.نئے نظام سے باہر رہنے والے کے لئے ایمان کا خطرہ پھر فرماتے ہیں ہر مومن کے ایمان کی آزمائش اس میں ہے کہ وہ اس نظام میں داخل ہو اور خدا تعالیٰ کے خاص فضل حاصل کرے.صرف منافق ہی اس نظام سے باہر رہیگا.گویا کسی پر جبر نہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ اس میں تمہارے ایمانوں کی آزمائش ہے اگر تم جنت لینا چاہتے ہو تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ تم یہ قربانی کرو، ہاں اگر جنت کی قدر و قیمت تمہارے دل میں نہیں تو اپنے مال اپنے پاس رکھو ہمیں تمہارے اموال کی ضرورت نہیں.بالشوزم اور الوصیت کے ذریعہ لئے ہوئے اموال میں ایک فرق پھر دیکھو بالشوزم لوگوں سے ان کے اموال جبراً چھیتی ہے مگر آپ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مرتد ہو جائے تو اس کا مال اسے واپس کر دو کیونکہ خدا کسی کے مال کا محتاج نہیں اور خدا کے نزدیک ایسا مال مکروہ اور رد کرنے کے لائق ہے.(ضمیمہ شرط نمبر ۱۲) یہ کتنا عظیم الشان فرق ہے کہ دنیا جس کو پیش کرتی ہے اس میں وہ جبر لوگوں سے ان کے اموال چھیتی ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ 108

Page 112

السلام جس نظام کو کو پیش فرماتے ہیں اس میں طوعی قربانیوں پر زور دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مرتد ہو جائے تو اس کا مال اسے واپس کر دو کیونکہ ایسا مال مردود ہے اور اس قابل نہیں کہ اسے اپنے پاس رکھا جائے.بالشوزم کے مقابل الوصیۃ کے ذریعہ نہایت پر امن طریقہ سے مقصد کا حصول ان اصول کو مد نظر رکھ کر دیکھو کہ کس طرح وہی مقصد جسے بالشوزم نے خون میں ہاتھ رنگ کر ادھورے طور پر پورا کرنے کی کوشش کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے محبت اور پیار سے اس مقصد کو زیادہ مکمل طور پر پورا کر دیا ہے.بالشوزم آخر کیا کہتی ہے؟ یہی کہ امیروں سے ان کی جائیدادیں چھین لو تا غریبوں پر خرچ کی جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وہی جائدادیں اسلامی منشاء کے مطابق اور اپنے زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق محبت و پیار سے لے لیں اور فرمایا کہ تم سب اپنی اپنی جائدادوں کا کم سے کم دسواں حصہ دو جو تیائی اور مساکین پر خرچ کیا جائے گا اور اشاعت اسلام کا کام اس سے لیا جائے گا.اس وصیت کے قانون کے مطابق ہر وصیت کرنے والا احمدی اپنی جائداد کا ۱/۱۰ سے ۱/۳ حصہ اپنی مرضی سے اپنے اخروی فائدہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام اور بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے دیتا ہے.تمام دُنیا کے احمدی ہو جانے کی صورت میں عظیم الشان انقلاب اگر ساری دنیا احمدی ہو جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ساری دنیا سے یہ مطالبہ ہو گا.کہ خدا تعالیٰ تمہارے ایمانوں کی آزمائش کرنا چاہتا ہے اگر تم سچے مومن ہو، اگر تم جنت کے طلبگار ہو، اگر تم خدا تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنی جائدادوں کا ۱/۱۰ سے ۱/۳ حصہ اسلام اور مصالح اسلام کی اشاعت کے لئے دیدو اس طرح 109

Page 113

ساری دنیا کی جائدادیں قومی فنڈ میں آجائیں گی اور بغیر کسی قسم کے جبر اور لڑائی کے اسلامی مرکز صرف ایک نسل میں تمام دُنیا کی جائدادوں کے ۱/۱۰ سے۳/ احصہ کا مالک بن جائیگا اور اس قومی فنڈ سے تمام غرباء کی خبر گیری کی جاسکے گی.چند نسلوں میں ہی تمام احمدیوں کی جائدادیں نظام احمدیت کے قبضہ میں پھر یہ یا درکھو کہ وصیت صرف پہلی نسل کے لئے نہیں ہے بلکہ دوسری نسل کے لئے بھی ہے اور اُس سے بھی انہی قربانیوں کا مطالبہ ہے اور چونکہ وصیت سے دنیا کے سامنے جنت پیش کی جارہی ہے اگلی نسل اس کو لینے سے کس طرح انکار کرے گی پس دوسری نسل پھر اپنی خوشی سے بقیہ جائیداد کا ۱/۱۰ سے ۳/ احصہ قومی ضرورتوں کے لئے دیدے گی اور پھر تیسری اور پھر چوتھی نسل بھی ایسا ہی کریگی اور اس طرح چند نسلوں میں ہی احمد یوں کی جائدادیں نظام احمدیت کے قبضہ میں آجائیں گی.فرض کر وسب دنیا احمدی ہو جائے تو اس کا نتیجہ جانتے ہو کیا نکلے گا یہی کہ چند نسلوں میں اپنی خوشی سے ساری دنیا اپنی جائدادیں قومی کاموں کے لئے دے دیگی اور اس کی انفرادیت بھی تباہ نہ ہوگی ، عائلی نظام بھی تباہ نہ ہوگا اور پھر لوگ اپنے لئے اور اپنی اولادوں کے لئے اور دولت پیدا کریں گے اور پھر اپنی خوشی سے اسکا ۱/۱۰ سے۱/۳ حصہ قومی ضرورتوں کے لئے دے دیں گے پھر یہ سارا مال چند نسلوں میں قومی فنڈ میں منتقل ہو جائیگا اور اس طرح یہ سلسلہ چلتا چلا جائے گا.مثال کے طور پر یوں سمجھ لو کہ اگر کسی شخص کے پاس سوروپے ہوں اور وہ پانچویں حصہ کی وصیت کرے تو ہمیں روپے قومی فنڈ میں آجائیں گے اور اسی روپے اس کے پاس رہیں گے جو اس کے لڑکے کو ملیں گے.پھر مثلاً اس کا لڑکا اگر اسی روپے کے ۱/۵ حصہ کی وصیت کر دے گا تو سولہ روپے اور قومی فنڈ میں آجائیں گے گویا ۳۶ فی صدی قومی فنڈ میں آجائے گا اور ۶۴ فیصدی اس کے پاس رہ جائے گا.پھر مثلاً اس کا لڑکا اس ۶۴ فیصدی کے پانچویں حصہ کی وصیت کرے گا تو انداز آبارہ روپے اور قومی فنڈ میں آجائیں گے گویا اڑتالیس فیصدی کی مالک حکومت ہو جائیگی 110

Page 114

اور باون فیصدی اس خاندان کے پاس رہ جائے گا اس کے بعد اس کا لڑکا مثلاً باون روپوں کے پانچویں حصہ کی وصیت کر دے گا تو دس روپے ان کے ہاتھ سے اور نکل جائیں گے اس طرح قومی فنڈ میں اٹھاون فی صدی آجائے گا اور اس خاندان کے پاس صرف بیالیس فی صدی رہ جائے گا.غرض وہی مقصد جو بالشوزم کے ماتحت تلوار اور خونریزی سے حاصل کیا جاتا ہے اگر وصیت کا نظام وسیع طور پر جاری ہو جائے تو مقصد بھی حل ہو جائے فساد اور خونریزی بھی نظر نہ آئے ، آپس میں محبت اور پیار بھی رہے، دُنیا میں کوئی بھوکا اور تنگا بھی دکھائی نہ دے اور چند نسلوں میں انفرادیت کی روح کو تباہ کئے بغیر قومی فنڈ میں دنیا کی تمام جائدادیں منتقل ہو جائیں.وصیت کا نظام ملکی نہ ہوگا بلکہ بین الاقوامی ہوگا پھر یہ نظام ملکی نہ ہوگا بلکہ بوجہ مذہبی ہونے کے بین الاقوامی ہوگا.انگلستان کے سوشلسٹ وہی نظام پسند کرتے ہیں جس کا اثر انگلستان تک محدود ہو، روس کے بالشویک وہی نظام پسند کرتے ہیں جس کا اثر روس تک محدود ہو مگر احمد یت ایک مذہب ہے وہ اس نئے نظام کی طرف روس کو بھی بلاتی ہے، وہ جرمنی کو بھی بلاتی ہے.وہ انگلستان کو بھی بلاتی ہے.وہ امریکہ کو بھی بلاتی ہے، وہ ہالینڈ کو بھی بلاتی ہے، وہ چین اور جاپان کو بھی بلاتی ہے پس جو روپیہ احمدیت کے ذریعہ اکٹھا ہوگا وہ کسی ایک ملک پر خرچ نہیں کیا جائیگا بلکہ ساری دنیا کے غریبوں کے لئے خرچ کیا جائیگا.وہ ہندوستان کے غرباء کے بھی کام آئے گا، وہ چین کے غرباء کے بھی کام آئے گا، وہ جاپان کے غرباء کے بھی کام آئے گا، وہ افریقہ کے غرباء کے بھی کام آئے گا وہ عرب کے غرباء کے بھی کام آئے گا، وہ انگلستان، امریکہ، اٹلی، جرمنی اور روس کے غرباء کے بھی کام آئے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیش کردہ عالمگیر اخوت بڑھانیوالا نظام غرض وہ نظام جو دنیوی ہیں وہ قومیت کے جذبہ کو بڑھاتے ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ 111

Page 115

الصلوۃ والسلام نے وہ نظام پیش کیا ہے جو عالمگیر اخوت کو بڑھانے والا ہے.پھر روس میں تو روس کا باشندہ روس کے لئے جبراً اپنی جائداد دیتا ہے لیکن وصیت کے نظام کے ماتحت ہندوستان کا باشندہ اپنی مرضی سے سب دنیا کے لئے دیتا ہے، مصر کا باشندہ اپنی مرضی سے اپنی جائداد سب دنیا کے لئے دیتا ہے، شام کا باشندہ اپنی مرضی سے اپنی جائداد ساری دُنیا کے لئے دیتا ہے یہ کتنا نمایاں فرق ہے اسلامی اور دنیوی میں؟ اسلامی نظامِ تو کے ماتحت غرباء کے لئے جائدادیں دینے والوں کے دلوں میں انتہائی بشاشت اور سرور پھر روسی نظام چونکہ جبر سے کام لیتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے مالدار روس سے نکل کر اس کے خلاف جدو جہد شروع کر دیتے ہیں اور ان کے دلوں میں غریبوں کو جائدادیں دے کر کوئی خوشی اور بشاشت پیدا نہیں ہوتی.ایک روسی سے جس وقت اس کی جائداد چھین لی جاتی ہے وہ ہنستا نہیں بلکہ روتا ہوا اپنے گھر جاتا ہے اور اپنے رشتہ داروں سے کہتا ہے کمبخت حکومت نے میری جائداد مجھ سے چھین لی لیکن اس نظام کو میں ایک زمیندار جس کے پاس دس ایکڑ زمین ہوتی ہے وہ ایک یا دو یا تین ایکڑ زمین دے کر روتانہیں بلکہ دوسرے ہی دن اپنے بھائی کے پاس جاتا ہے اور اسے کہتا ہے اے بھائی! مجھے مبارک باد دو کہ میں نے وصیت کی توفیق پائی اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی جس کے دوسرے معنے یہ ہوتے ہیں کہ غریبوں کے لئے دو یا تین ایکٹر زمین مجھ سے چھین لی گئی ہے مگر وہ روتا نہیں وہ غم نہیں کرتا بلکہ کہتا ہے بھائی جان! مجھے مبارک دو کہ میں نے وصیت کر دی اور کہتا ہے اللہ اب مجھے وہ دن بھی دکھائے کہ آپ بھی وصیت کر دیں اور میں آپ کو مبارک باد دینے کے قابل ہو جاؤں.جس وقت بیوی کو وہ یہ خبر سناتا ہے بیوی یہ نہیں کہتی کہ خدا تباہ کرے ان لوگوں کو جنہوں نے ہماری جائداد لوٹ لی بلکہ اس کے ہونٹ کانپنے لگ جاتے ہیں، اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں اور وہ للچائی ہوئی نگاہوں سے ان نگاہوں سے 112

Page 116

جن سے وہ اپنے خاوند کے دل کو چھینا کرتی ہے اس کی طرف دیکھتی ہے اور کہتی ہے دیکھو جی ! اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ توفیق دی کہ آپ نے وصیت کر دی میرے پاس اپنی جائیداد نہیں میں کس طرح وصیت کروں آپ اپنی جائداد میں سے کچھ مجھے دے دیں تو میں بھی اس نعمت میں شامل ہو جاؤں اور وہ اپنے نسوانی داؤ پیچ اور ان تیروں سے کام لے کر جو کہ خاوند بہت کم برداشت کر سکتے ہیں آخر اسے راضی کر ہی لیتی ہے اور وہ اسے اپنی جائداد میں سے کچھ حصہ دے دیتا ہے اس پر بیوی پھر اسی جائداد کی وصیت کرتی ہے اور کہتی ہے میں اس کے ۱/۱۰ یا ۱/۸ یا ۶ / ۱ حصہ کی وصیت کرتی ہوں گویا اس بچی ہوئی جائداد پر پھر ایمان ڈا کہ مارتا اور اس کا ایک اور حصہ قومی فنڈ میں منتقل ہو جاتا ہے اتنے میں بچہ گھر میں آتا ہے اور جب وہ سنتا ہے کہ اس کے باپ اور اس کی ماں نے وصیت کر دی ہے تو وہ دلگیر ہو کر بیٹھ جاتا ہے اور اپنے باپ سے کہتا ہے ابا جی ! اللہ آپ کو دیر تک ہمارے سروں پر سلامت رکھے.میرے پاس تو کچھ نہیں میں کس طرح اللہ سے یہ ارزاں سودا کروں اگر مجھے کچھ دے دو تو میں بھی اللہ میاں سے اپنے لئے جنت کا سودا کرلوں.اگر اس کے باپ کو اس سے زیادہ محبت ہوتی ہے تو وہ یہ خیال کر کے کہ آخر میری جائداد نے اسی کے پاس جانا ہے اسی وقت اپنی جائداد کا ایک حصہ اسے دے دیتا ہے اور وہ وصیت کر کے اپنے رب سے جنت کا سودا کر لیتا ہے.اس طرح بقیہ جائداد کا پھر ایک اور حصہ قومی فنڈ میں آجمع ہوتا ہے اور اگر اس کا باپ نسبتا سخت ہوتا ہے اور وہ یہ نہیں مانتا کہ اپنی زندگی میں لڑکے کو جائیداد دے دے تو نیک بخت لڑکا اُس جائیداد کا جو ابھی اُسے نہیں ملی سودا کر دیتا ہے اور وصیت کر دیتا ہے کہ گوا بھی میرے پاس کوئی جائیداد نہیں مگر میں وصیت کرتا ہوں کہ اس وقت جو میری آمدن ہے اس کا دسواں حصہ وصیت میں ادا کرتا رہوں گا اور اگر آئندہ میری کوئی جائداد ہوئی تو اس کا دسواں حصہ بھی ادا کروں گا جس کے دوسرے لفظوں میں یہ معنے ہوتے ہیں کہ جب ابا جان فوت ہو جائیں گے اور ان کی جائیداد میرے قبضہ میں آجائے گی تو جو حصہ مجھے باپ کی وصیت کے بعد بچی ہوئی جائداد میں سے ملے گا اُس کے دسویں حصہ کا ابھی سے وعدہ کرتا ہوں.اسی طرح بقیہ جائیداد کا پھر ۱/۱۰ قومی 113

Page 117

فنڈ میں آجاتا ہے.پھر دیکھود نیوی نظام کے ماتحت تو جن لوگوں پر ٹیکس لگتا ہے وہ ناخوش ہوتے ہیں اور جن پر نہیں لگتا وہ خوش ہوتے ہیں.امیر ناراض ہوتے ہیں کہ ہم پر کیوں ٹیکس لگایا گیا اور غرباء خوش ہوتے ہیں کہ امراء کا مال ہمیں ملا لیکن وصیت کے قاعدہ کے ماتحت کیا ہوتا ہے؟ وصیت کو غور سے پڑھ کر دیکھ لو وصیت کی ابتداء جائداد پر رکھی گئی تھی مگر چونکہ مال جبر انہیں چھینا جاتا بلکہ اس کے بدلہ میں جنت کی سی نعمت پیش کی جاتی ہے اس لئے وہ لوگ جن کے لئے مال لیا گیا تھا انہوں نے یہ نہیں کہا کہ یہ امراء جن کی جائدادیں لی گئی ہیں خوب لوٹے گئے بلکہ وہ رنجیدہ ہوئے کہ اس نیک سودے سے ہمیں کیوں محروم کیا گیا ہے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے درخواست کی کہ ہمارے لئے بھی راستہ نکالا جائے اور خدا تعالیٰ کی اجازت سے آپ نے انہیں اپنی آمدنیوں کی وصیت کرنے کی اجازت دے دی گویا وہ طریق جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جاری کیا ہے اس کی ابتداء جائدادوں سے ہوئی مگر پھر ان لوگوں کے اصرار پر جن کی جائدادیں نہیں تھیں اللہ تعالیٰ کی اجازت سے آپ نے آمدنیوں کی وصیت کی بھی اجازت دے دی اور اس طرح جائداد اور آمد دونوں کے مقررہ حصے قومی فنڈ میں جمع ہونے شروع ہو گئے.کی بنیاد۱۹۰۵ء میں قادیان میں رکھی گئی غرض کی بنیاد 1910ء میں روس میں نہیں رکھی گئی نہ وہ آئیندہ کسی سال میں موجودہ جنگ کے بعد یورپ میں رکھی جائے گی بلکہ دنیا کو آرام دینے والے ہر فرد بشر کی زندگی کو آسودہ بنانے والے اور ساتھ ہی دین کی حفاظت کرنے والے کی بنیاد ۱۹۰۵ء میں قادیان میں رکھی جا چکی ہے اب دُنیا کو کسی کی ضرورت نہیں ہے اب کا شور مچانا ایسا ہی ہے جیسے کہتے ہیں.گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر 114

Page 118

جو کام ہونا تھا وہ ہو چکا اب یورپ کے مد بر صرف لکیریں پیٹ رہے ہیں.اسلام اور احمدیت کا نظام تو وہ ہے جس کی بنیاد جبر پر نہیں بلکہ محبت اور پیار پر ہے.اس میں انسانی حریت کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے اس میں افراد کی دماغی ترقی کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے اور اس میں انفرادیت اور عائکیت جیسے لطیف جذبات کو بھی برقرار رکھا گیا ہے.وصیتی اموال کے خرچ کرنے کے مختلف مواقع میں بتا چکا ہوں کہ وصیت کے متعلق یہ خیال کرنا غلط ہے کہ اس کا روپیہ صرف تبلیغ اسلام پر خرچ کیا جا سکتا ہے’الوصية‘ کے الفاظ صاف بتارہے ہیں کہ اس روپیہ سے اور کئی مقاصد کو بھی پورا کیا جائے گا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے ہر ایک امر جو مصالح اشاعت اسلام میں داخل ہے جس کی اب تفصیل کرنا قبل از وقت ہے وہ تمام اموران اموال سے انجام پذیر ہونگے یعنی آئیندہ زمانہ میں اشاعت اسلام کی ایسی مصلحتیں ظاہر ہوں گی یعنی اسلام کو عملی جامہ پہنا کر اس کی خوبیوں کے اظہار کے مواقع ایسے نکلیں گے کہ ان پر وصیت کے روپیہ کو خرچ کرنا جائز ہی نہیں بلکہ ضروری ہوگا.پھر یتیموں اور مسکینوں“ کے الفاظ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے استعمال فرمائے ہیں اور بتایا ہے کہ اس روپیہ پر محتاجوں کا حق ہے.پس در حقیقت ان الفاظ میں اسی نظام کی طرف اشارہ ہے جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے کہ ہر فرد بشر کے لئے کھانا مہیا کیا جائے ، ہر فرد بشر کے لئے کپڑا مہیا کیا جائے ، ہر فرد بشر کے لئے مکان مہیا کیا جائے ، ہر فرد بشر کے لئے تعلیم اور علاج کا سامان مہیا کیا جائے اور یہ کام ٹیکسوں سے نہیں ہوسکتا اسی طرح ہو سکتا ہے کہ جائیداد میں لی جائیں اور اس ضرورت پر خرچ کی جائیں.کوئی کہہ سکتا ہے کہ کیا پدی اور کیا پدی کا شور با تمہاری حیثیت ہی کیا ہے کہ تم ایسے دعوے کرو اور اس قسم کی موہوم امیدوں کو جامعہ عمل پہنا سکو مگر یہ شبہ بھی درست نہیں اس لئے کہ جب ہم یہ بات پیش کرتے ہیں تو اس لئے پیش کرتے ہیں کہ ہم اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں 115

Page 119

کہ ہماری جماعت کا دنیا کے تمام ممالک میں پھیل جانا مقدر ہے.پس جبکہ ہم خدا تعالیٰ کے الہامات اور اس کے وعدوں کے مطابق یہ یقین رکھتے ہیں کہ آج سے پچاس یا ساٹھ یا سو سال کے بعد بہر حال دنیا پر احمدیت کا غلبہ ہو جائیگا تو ہمیں اس بات پر بھی کامل یقین ہے کہ یہ نظام جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش فرمایا ہے ایک دن قائم ہوکر رہے گا.زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی باتیں کبھی ٹل نہیں سکتیں.یقینی طور پر وصیت کے ذریعہ پیش کردہ نظام کا قیام بعض لوگ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ یہ نظام نہ معلوم کب قائم ہوگا جماعت کی ترقی تو نہایت آہستہ آہستہ ہو رہی ہے.اسکا جواب یہ ہے کہ کبھی ہتھیلی پر سرسوں نہیں جمائی جاتی جو عمارت بے بنیاد ہو وہ بہت جلد گر جاتی ہے یہ جلد بنائے جانے والے نظام جلد گر جائیں گے نظام وہی قائم ہوگا جو ہر کس و ناکس کی دلی خوشنودی کے ساتھ قائم کیا جائے گا گھاس آج نکلتا اور کل سوکھ جاتا ہے لیکن پھل دار درخت دیر میں تیار ہوتا اور پھر صدیوں کھڑا رہتا ہے پس آئندہ جوں جوں ہماری جماعت بڑھتی چلی جائیگی وصیت کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے دنیا میں جس نظام کو قائم کیا ہے وہ بھی بڑھتا چلا جائیگا چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی کتاب الوصیت میں تحریر فرمایا ہے.و, یہ مت خیال کرو کہ یہ صرف دور از قیاس با تیں ہیں بلکہ یہ اُس قادر کا ارادہ ہے جو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے مجھے اس بات کا غم نہیں کہ یہ اموال جمع کیوں کر ہونگے اور ایسی جماعت کیونکر پیدا ہوگی جو ایمانداری کے جوش سے یہ مردانہ کام دکھلائے بلکہ مجھے یہ فکر ہے کہ ہمارے زمانہ کے بعد وہ لوگ جن کے سپر دایسے مال کئے جائیں وہ کثرت مال کو دیکھ کر ٹھوکر نہ کھاویں اور دنیا سے پیار نہ کریں.سو میں دعا کرتا ہوں کہ ایسے امین ہمیشہ اس سلسلہ کو ہاتھ آتے رہیں جو خدا کے لئے کام کریں ہاں جائز ہوگا کہ جن کا کچھ گزارہ نہ ہو ان کو بطور مددخرچ اس میں سے دیا جائے.116

Page 120

وصیت کے ذریعہ جمع ہونے والے روپیہ کی حیرت انگیز بہتات یعنی مجھے اس بات کا خیال نہیں کہ وصیت کے نتیجہ میں اتنے روپے کہاں سے آئیں گے بلکہ مجھے یہ فکر ہے کہ کہیں لوگ کثرت مال کو دیکھ کر ٹھو کر نہ کھا جائیں.گویا تم تو یہ کہتے ہو کہ ساری دنیا کے غریبوں کا انتظام کس طرح کرو گے اور وہ مال کہاں سے آئیگا جس سے ان کی ضروریات پوری کی جائیں گی مگر مجھے اس بات کا کوئی فکر نہیں کہ یہ مال کہاں سے آئیگا یہ مال آئیگا اور ضرور آئے گا مجھے تو فکر یہ ہے کہ کہیں کثرت مال کو دیکھ کر دنیا کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی نہ رہ جائیں اور وہ لوگ جن کے سپرد یہ اموال ہوں وہ دنیا سے پیار نہ کرنے لگ جائیں اور لالچ کی وجہ سے اُن مدات میں روپیہ خرچ نہ کریں جن مذات کے لئے یہ روپیہ اکٹھا کیا جائیگا.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ سوال خود ہی اٹھایا ہے اور پھر خود ہی اس کا جواب دیا ہے کہ لوگ یہ خیال نہ کریں کہ اتنے خزانے کہاں سے آئیں گے آئینگے.اور ضرور آئیں گے مجھے اگر ڈر ہے تو یہ کہ کہیں کثرت مال کو دیکھ کر لوگ دنیا سے پیار نہ کرنے لگ جائیں کیونکہ روپیہ اکٹھا ہوگا اور اتنا اربوں ارب اور اربوں ارب اکٹھا ہوگا کہ اتنا مال نہ امریکہ نے کبھی دیکھا ہوگا ، نہ روس نے کبھی دیکھا ہوگا، نہ انگلستان نے کبھی دیکھا ہوگا ، نہ جرمنی، اٹلی اور جاپان نے کبھی دیکھا ہوگا بلکہ ساری حکومتوں نے مل کر بھی اتارو پیہ بھی جمع نہیں کیا ہوگا جتنا روپیہ اس ذریعہ سے اکٹھا ہوگا پس چونکہ اس ذریعہ سے استقدر دولت اکٹھی ہوگی کہ اسقدر دولت دنیا کی آنکھ نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوگی اس لئے میں ڈرتا ہوں کہ کہیں لوگوں کے دلوں میں بد دیانتی پیدا نہ ہو جائے.پس تم اس بات کا فکر نہ کرو کہ یہ نظام کس طرح قائم ہوگا تم یہ فکر کرو کہ اس کو صحیح استعمال کرنے کا اپنے آپ کو اہل بناؤ.دنیا کی جائدادیں تمہارے ہاتھ میں ضرور آئیں گی مگر تم کو اپنے نفوس کی ایسی اصلاح کرنی چاہیئے کہ وہ جائدادیں تمہارے ہاتھ سے دنیا کے فائدہ کے لئے صحیح طور پر خرچ کی جائیں.117

Page 121

خواجہ کمال الدین صاحب پر الوصیة میں بیان کردہ نئے نظام کا اثر میں اس موقعہ پر ایک دشمن کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا.جس دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے وصیت لکھی اور اسکا مسودہ باہر بھیجا تو خواجہ کمال الدین صاحب اس کو پڑھنے لگ گئے جب وہ پڑھتے پڑھتے اس مقام پر پہنچے تو وہ بے خود ہو گئے.انکی نگاہ نے اس کے حسن کو ایک حد تک سمجھا وہ پڑھتے جاتے اور اپنی رانوں پر ہاتھ مار مار کر کہتے جاتے کہ ”واہ اوئے مرزیا احمدیت دیاں جڑیاں لگا دتیاں ہیں یعنی واہ واہ مرزا تو نے احمدیت کی جڑوں کو مضبوط کر دیا ہے.خواجہ صاحب کی نظر نے بیشک اسکے حسن کو ایک حد تک سمجھا مگر پورا پھر بھی نہیں سمجھا در حقیقت اگر وصیت کو غور سے پڑھا جائے تو یوں کہنا پڑتا ہے کہ واہ اومرزا تو نے اسلام کی جڑیں مضبوط کر دیں، واہ اومرزا تو نے انسانیت کی جڑیں ہمیشہ کے لئے مضبوط کر دیں.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَعَلَى عَبْدِكَ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ وَ بَارِک وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ کا ایک چھوٹا سا نقشہ تحریک جدید کی صورت میں مگر جیسا کہ میں بتا آیا ہوں یہ کام وقت چاہتا ہے اور اُس دن کا محتاج ہے جب سب دنیا میں احمدیت کی کثرت ہو جائے ابھی موجودہ آمد مرکز کو بھی صحیح طور پر چلانے کے قابل نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں تحریک جدید کا القاء فرمایا تا کہ اس ذریعہ سے ابھی سے ایک مرکزی فنڈ قائم کیا جائے اور ایک مرکزی جائیداد پیدا کی جائے جسکے ذریعہ تبلیغ احمدیت کو وسیع کیا جائے.پس تحریک جدید کیا ہے وہ خدا تعالیٰ کے سامنے عقیدت کی یہ نیاز پیش کرنے کے لئے ہے کہ وصیت کے ذریعہ تو جس نظام کو دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے اس کے آنے میں ابھی دیر ہے اسلئے ہم تیرے حضور اُس نظام کا ایک چھوٹا سا نقشہ تحریک جدید کے ذریعہ پیش کرتے ہیں تا کہ اس 118

Page 122

وقت تک کہ وصیت کا نظام مضبوط ہو اس ذریعہ سے جو مرکزی جائیداد پیدا ہو اس سے تبلیغ احمد یہ کو وسیع کیا جائے اور تبلیغ سے وصیت کو وسیع کیا جائے.نظام کو کے قریب ترلانے کا ذریعہ پس جوں جوں تبلیغ ہوگی اور لوگ احمدی ہونگے وصیت کا نظام وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائیگا اور کثرت سے اموال جمع ہونے شروع ہو جائیں گے.قاعدہ ہے کہ شروع میں ریل آہستہ آہستہ چلتی ہے مگر پھر بہت ہی تیز ہو جاتی ہے اسی طرح اگر خود دوڑنے لگو تو شروع کی رفتار اور بعد کی رفتار میں بڑا فرق ہوتا ہے پس وصیت کے ذریعہ اسوقت جو اموال جمع ہورہے ہیں اُنکی رفتار بیشک تیز نہیں مگر جب کثرت سے احمدیت پھیل گئی اور جوق در جوق لوگ ہمارے سلسلہ میں داخل ہونے شروع ہو گئے اُسوقت اموال خاص طور پر جمع ہونے شروع ہو جائیں گے اور قدرتی طور پر جائیدادوں کا ایک جتھا دوسری جائدادوں کو کھینچنا شروع کر دیگا اور جوں جوں وصیت وسیع ہوگی کا دن انشاء اللہ قریب سے قریب تر آجائیگا.تحریک جدید کے لئے بطور ا رہاص کے ہے غرض تحریک جدید گو وصیت کے بعد آئی ہے مگر اس کے لئے پیشرو کی حیثیت میں ہے گویا وہ نظام اس کے مسیح کے لئے ایک ایلیاہ نبی کی حیثیت رکھتی ہے اور اُس کے ظہور مسیح موعود کے غلبہ والے ظہور کے لئے بطور ا رہاص کے ہے ہر شخص جو تحریک جدید میں حصہ لیتا ہے وصیت کے نظام کو وسیع کرنے میں مدددیتا ہے اور ہر شخص جو نظام وصیت کو وسیع کرتا ہے وہ کی تعمیر میں مدد دیتا ہے.خلاصہ یہ کہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے وصیت حاوی ہے اس تمام نظام پر جو اسلام نے قائم کیا ہے.بعض لوگ غلطی سے یہ خیال کرتے ہیں کہ وصیت کا مال صرف لفظی اشاعت اسلام کیلئے ہے مگر یہ بات درست نہیں وصیت لفظی اشاعت اور عملی اشاعت دونوں کے لئے ہے جسطرح اس 119

Page 123

میں تبلیغ شامل ہے اسی طرح اس میں اُس نئے نظام کی تکمیل بھی شامل ہے جس کے ماتحت ہر فرد بشر کی باعزت روزی کا سامان مہیا کیا جائے.جب وصیت کا نظام مکمل ہوگا تو صرف تبلیغ ہی اس سے نہ ہوگی بلکہ اسلام کے منشاء کے ماتحت ہر فرد بشر کی ضرورت کو اس سے پورا کیا جائیگا اور دکھ اور تنگی کو دنیا سے مٹا دیا جائیگا انشاء اللہ.یتیم بھیک نہ مانگے گا، بیوہ لوگوں کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیگی ، بے سامان پریشان نہ پھرے گا کیونکہ وصیت بچوں کی ماں ہوگی ، جوانوں کی باپ ہوگی، عورتوں کا سہاگ ہوگی اور جبر کے بغیر محبت اور دلی خوشی کے ساتھ بھائی بھائی کی اس کے ذریعہ سے مدد کرے گا اور اس کا دینا بے بدلہ نہ ہوگا بلکہ ہر دینے والا خدا تعالیٰ سے بہتر بدلہ پائے گا نہ امیر گھاٹے میں رہے گا نہ غریب، نہ قوم قوم سے لڑے گی بلکہ اُس کا احسان سب دُنیا پر وسیع ہوگا.۳۸ پس اے دوستو! دُنیا کا نیا نظام نہ مسٹر چرچل بنا سکتے ہیں نہ مسٹر روز ویلٹ ۳۹ بنا سکتے ہیں.یہ اٹلانٹک چارٹر کے دعوے سب ڈھکوسلے ہیں اور اس میں کئی نقائص کئی عیوب اور کئی خامیاں ہیں نئے نظام وہی لاتے ہیں جو خدا تعالے کی طرف سے دُنیا میں مبعوث کئے جاتے ہیں جن کے دلوں میں نہ امیر کی دشمنی ہوتی ہے، نہ غریب کی بے جا محبت ہوتی ہے، جو نہ مشرقی ہوتے ہیں، نہ مغربی وہ خدا تعالے کے پیغامبر ہوتے ہیں اور وہی تعلیم پیش کرتے ہیں جو امن قائم کرنے کا حقیقی ذریعہ ہوتی ہے پس آج وہی تعلیم امن قائم کریگی جو حضرت مسیح موعود کے ذریعہ آئی ہے اور جس کی بنیادالوصیت کے ذریعہ ۱۹۰۵ء میں رکھ دی گئی ہے.جماعت کے تمام دوستوں کو ایک نصیحت پس تمام دوستوں کو اس کی اہمیت سمجھنی چاہئے اور اُن دلائل کو اچھی طرح یا درکھ لینا چاہیئے جو میں نے پیش کئے ہیں کیونکہ قریباً ہر جگہ ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو بالشوزم کے مزاح ہوتے ہیں اسی لئے میں نے بالشوزم کی تحریک کی خوبیاں بھی بتادی ہیں اور اس کی خامیاں بھی بتادی ہیں اسی طرح دوسری تحریکات کی خوبیاں اور ان کی خامیاں بھی بتا دی ہیں پس ان پر غور کرو اور تعلیم یافتہ 120

Page 124

طبقہ سے ان کو محوظ رکھ کر گفتگو کرو میں آپ لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ دلائل ایسے ہیں جن کا کوئی جواب ان تحریکات کے مویدین کے پاس نہیں.دُنیا میں اگر امن قائم ہوسکتا ہے تو اسی ذریعہ سے جس کو آج میں نے بیان کیا ہے.اسی طرح آج سے اٹھارہ سال پہلے ۱۹۲۴ء میں امنِ عامہ کے قیام کے متعلق خدا تعالے نے میرے ذریعہ سے کتاب ”احمدیت میں ایک ایسا عظیم الشان انکشاف کیا کہ میں یقیناً کہہ سکتا ہوں کہ ایسا عظیم الشان اظہار گزشتہ تیرے سوسال میں پہلے مفسرین میں سے کسی نے نہیں کیا اور یقینا وہ ایسی تعلیم ہے کہ گو اس قسم کا دعویٰ کرنا میری عادت کے خلاف ہے مگر میں یقینی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ اس قسم کا انکشاف سوائے نبیوں اور ان کے خلیفوں کے آج تک کبھی کسی نے نہیں کیا اگر کیا ہو تو لاؤ مجھے اُس کی نظیر دکھاؤ.وصیت کرنے والا نظام تو کی بنیادر کھنے میں حصہ دار پس اے دوستو ! جنہوں نے وصیت کی ہوئی ہے سمجھ لو کہ آپ لوگوں میں سے جس جس نے اپنی اپنی جگہ وصیت کی ہے اُس نے کی بنیا درکھ دی ہے اُس کی جو اس کی اور اس کے خاندان کی حفاظت کا بنیادی پتھر ہے اور جس جس نے تحریک جدید میں حصہ لیا ہے اور اگر وہ اپنی ناداری کی وجہ سے اس میں حصہ نہیں لے سکا تو وہ اس تحریک کی کامیابی کے لئے مسلسل دُعائیں کرتا ہے اُس نے وصیت کے نظام کو وسیع کرنے کی بنیاد رکھ دی ہے.پس اے دوستو! دُنیا کا نیا نظام دین کو مٹا کر بنایا جا رہا ہے تم تحریک جدید اور وصیت کے ذریعہ سے اس سے بہتر نظام دین کو قائم رکھتے ہوئے تیار کرومگر جلدی کرو کہ دوڑ میں جو آگے نکل جائے.وہی جیتتا ہے.جلد سے جلد وصیتیں کرنے کی ضرورت پس تم جلد سے جلد وصیتیں کرو تا کہ جلد سے جلد کی تعمیر ہو اور وہ مبارک دن آ جائے جبکہ چاروں طرف اسلام اور احمدیت کا جھنڈا لہرانے لگے اس کے ساتھ ہی میں اُن سب دوستوں 121

Page 125

کو مبارکباد دیتا ہوں جنہیں وصیت کرنے کی توفیق حاصل ہوئی اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالے ان لوگوں کو بھی جو ابھی تک اس نظام میں شامل نہیں ہوئے توفیق دے کہ وہ بھی اس میں حصہ لے کردینی ودنیوی برکات سے مالا مال ہو سکیں اور دنیا اس نظام سے ایسے رنگ میں فائدہ اُٹھائے کہ آخر اسے یہ تسلیم کرنا پڑے کہ قادیان کی وہ ہستی جسے کو ردہ کہا جاتا تھا، جسے جہالت کی بستی کہا جاتا تھا اُس میں سے وہ نور نکلا جس نے ساری دنیا کی تاریکیوں کو دور کر دیا جس نے ساری دُنیا کی جہالت کو دور کر دیا، جس نے ساری دنیا کے دکھوں اور دردوں کو دور کر دیا اور جس نے ہر امیر اور غریب کو، ہر چھوٹے اور بڑے کو محبت اور پیار اور الفت با ہمی سے رہنے کی توفیق عطا فرما دی.☆☆☆ 122

Page 126

گتھا: ایک قسم کا روئی دار اور ملائم بچھونا حوالہ جات کارل مارکس: جرمن مفکر اور کمیونزم کا بانی ۱۸۱۸ء کو پیدا ہوا.۱۸۸۳ء کو وفات پائی.پ ٹریوز (TRAVES) یہودی قانون دان کا بیٹا تھا.بون اور برلن میں تعلیم حاصل کی.۱۸۴۴ء میں اس نے اینجلس کے ساتھ طویل اشتراک کا سلسلہ شروع کیا.اس کے ساتھ مل کر اس نے مارکسی فلسفہ کو۱۸۴ء میں ایک مشتر که کتاب بنام مقدس خاندان (The Holy Family) لکھ کر ترقی دی.پھر کمیونسٹ منشور مرتب کیا.اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۳۷۷ مطبوعہ ۱۹۸۸ ء لاہور ) سائیں: ملازم جو گھوڑے کی خدمت کے لئے رکھا جائے.لینن ولیڈ مر، اینچ : Lenin-Vladimir Ilyich (۲۲ / اپریل ۱۸۷۰ء تا ۲۱/ جنوری ۱۹۲۴ء).روسی سیاستدان.۱۸۸۷ء میں ثانوی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کا زان یو نیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے داخلہ لیا لیکن جلد ہی طلباء کی انقلابی تحریک میں سرگرمی سے حصہ لینے کی بناء پر گرفتار کر لیا گیا.۱۸۸۸ء میں رہائی ملی.۱۸۹۷ء میں اسے جلاوطن کیا گیا.جلاوطنی کے دوران ” روس میں سرمایہ داری کی نشونما کتاب مکمل کی.۱۹۱۴ء میں سوئٹزر لینڈ چلا گیا.۱۹۱۷ء میں روس میں مطلق العنان حکومت کو شکست ہوئی اور کے نومبر ۱۹۱۷ء کو لینن کی صدارت میں روسی حکومت کے قیام کا اعلان ہوا.(اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۳۶۲ ،۱۳۶۳ مطبوعہ ۱۹۸۸ ءلاہور ) ٹوڈن ڈروف امریش Ludendroff Erich (۱۸۶۵ء ۱۹۳۷ء).جرمن جرنیل.پہلی عالمی جنگ میں ہنڈن برگ (Hindenburg) کے ماتحت کماندار اعلیٰ ہونے کی حیثیت سے اُن فتوحات کا بڑی حد تک ذمہ دار تھا جو اس کے بالا دست سے منسوب ہوئیں.میونخ میں ہٹلر کے بلوہ بیئر ہال (۱۹۲۳ء) میں اپنی دوسری بیوی کے اشتراک سے اس نے آریائی مسلک کی بنیاد رکھی.اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحه ۱۳۳۴ مطبوعہ ۱۹۸۸ ء لاہور ) سٹالن: روسی کمیونسٹ آمر.اس کا اصل نام زد کشو بلی تھا.انقلابی تحریک میں شامل ہونے کے بعد اس نے سٹالن 123

Page 127

(مرد آہن ) کا لقب اختیار کیا.پادری بننے کے لئے تعلیم حاصل کی مگر مارکسی ہو گیا اسلئے درس گاہ سے خارج کیا گیا.۱۹۴۵ء میں مالوٹوف کو معزول کر کے وزارت عظمی سنبھالی.روس پر ہٹلر کے حملے کے بعد اس نے فوجی قیادت بھی سنبھال لی.(اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد اصفحہ ۷۳۹، مطبوعہ ۱۹۸۷ءلاہور ) مولوٹوف میخانووچ Molotov Mikhailovich (۱۸۹۰ء.۱۹۸۶ء ) روسی سیاستدان.۱۹۰۶ء میں بالشویک پارٹی میں شمولیت کی.۱۹۳۰ء تا ۱۹۴۱ء روسی پارلیمنٹ کے رکن رہے.۱۹۴۶ء تا ۱۹۴۹ ء روسی وزیر خارجه ۱۹۵۳ء تا۱۹۵۷ ء روس کے وزیر اعظم رہے، ۱۹۵۶ء تا ۱۹۵۷ء کچھ مدت کیلئے وزیر مملکت بھی رہے.اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحه ۱۹۴۶ مطبوعہ ۱۹۸۸ ء لاہور ) الانعام: ۱۲ استثناء باب ۲۳ آیت ۱۹، احبار باب ۲۵ آیت ۳۵ تا ۳۷.۱۰ ، ۱۱ استثناء باب ۱۵ آیت ۱۲ استثناء باب ۲۰ آیت ۱۰ تا انارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی صفحہ ۲۵۷ مطبوعہ، ۱۸۷۰ مرزا پور.گلتیوں باب ۳ آیت ۱۰ تا ۱۳ منوسمرتی ادھیائے ، اشلوک ۱۳۱ ( نول کشول پبلیکیشن لکھنو ۱۹۱۷) لکھنو۱۹۱۷) 3 منوسمرتی ادھیائے ۹ شلوک ۱۵۱ ( نول کشول پبلیکیشن لکھنو ۱۹۱۷) منوسمرتی ادھیائے ۸ شلوک ۴۱۷ ( نول کشول پبلیکیشن لکھنو ۱۹۱۷) منوسمرتی ادھیائے ۸ شلوک ۱۱۷ ( نول کشول پبلیکیشن لکھنو۱۹۱۷) 19 الحج: ۴۰ تا ۴۲ ۲۰ محمد: ۵ رع الانفال: ۶۸ Σ ۱۶ ۱۸ ۲۲۲۱ مسلم کتاب الایمان باب صحبة الممالیک النور:٣٣ ۲۴ النور : ۳۴ محوری: دوسری جنگ عظیم میں نازی جرمنی اور فسطائی.اٹلی کے اتحاد کا نام (Axis Powers) البقرة: ٣٠ الحجر : ٨٩ احمدیت یعنی حقیقی اسلام صفحہ ۲۳۱ مطبوعہ ۱۹۷۷ء الحجرات:١٠ 124 ۲۵ Σ ۲۹

Page 128

احمدیت یعنی حقیقی اسلام ۲۳۲ ۲۳۳ مطبوعہ ۱۹۷۷ء البقرة: ہٹلر: Hitler Adolf (۱۸۸۹ء ۱۹۴۵ء) جرمنی کا آمر مطلق.نازی پارٹی کا بانی ، پہلی عالمی جنگ کے بعد چند شورش پسندوں سے مل کر میونخ میں نازی مزدور پارٹی کی بنیادرکھی ۱۹۳۳ء میں اسے آمریت کے اختیارات سونپ دیئے گئے.ہٹلر جرمنی کے تمام شعبوں کا مختار بن گیا.نازی پارٹی کے مخالفین کو کچل دیا گیا.اس کی پالیسیاں بالآخر دوسری عالمی جنگ پر منتج ہوئیں.۱۹۴۱ء میں روس کے محاذ پر ہٹلر نے جنگ کی خود کمان کی.اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحه ۱۸۴۶ مطبوعہ ۱۹۸۸ ء لاہور ) گوئرنگ: Gering (۱۸۹۳ء.۱۹۴۶ء) جرمنی کا نازی لیڈر، پہلی عالمی جنگ میں فضائی فوج کا ہیرو، شروع میں ہی نازیوں کے ساتھ مل گیا.۱۹۳۳ء میں جرمنی کا وزیرمحکمہ پرواز اور پروشیا (Prussia) کا وزیر اعظم.خفیہ پولیس کی بنیاد اسی نے رکھی جس کا ۱۹۳۶ء تک سر برادر رہا.جرمنی کا معاشی نظام آمرانہ اختیارات سے چلایا.ہٹلر نے اسے اپنا جانشین نامزد کیا.دوسری عالمی جنگ میں ہمہ گیر فضائی جنگ کا ذمہ دار تھا.۱۹۴۵ میں امریکی فوج کے آگے ہتھیار ڈالے.جنگی جرائم میں سب سے بڑ الملزم ثابت ہونے پر سزائے موت پائی مگر پھانسی سے قبل خود کشی کر لی.اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحه ۱۲۹۴ مطبوعہ ۱۹۸۸ ءلاہور ) بونا پارٹ : نپولین اول کا خاندانی نام.نپولین کے خاندان کے متعدد معروف افراد کے ناموں کے ساتھ بونا پارٹ کا لفظ لکھا ہے گویا یہ نپولین کے خاندان کا ٹائٹل ہے.(اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد اصفحہ ۲۷۲ مطبوعہ ۱۹۸۷ ء لا ہور ) البقرة: ١٩٦ مسولینی بینی ٹو: (MussoIni-Benito) (۱۸۸۳ء ۱۹۳۵ء ) اطالوی آمر.یہ ایک لوہارکا بیٹا تھا.ابتدائی دنوں میں اُستاد اور صحافی کا کام کیا.سوشلسٹ کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا.پہلی جنگِ عظیم کے دوران اطالیہ کی جنگ میں مداخلت کی.وکالت کی پاداش میں ۱۹۱۴ ء میں سوشلسٹ تحریک سے نکال دیا گیا.۱۹۱۹ء میں اپنی جماعت بنائی.اکتوبر۱۹۲۲ء میں شاہ اٹلی اور فوج نے اسے وزیر اعظم کے عہدے پر نامزد کیا.125 ۳۲ ۳۳ ۳۴ ۳۵ ۳۶

Page 129

را ۱۹۲۵ء میں اس نے آمرانہ اختیارات سنبھال لئے.۱۹۲۶ء میں تمام مخالف جماعتوں کو خلاف قانون قرار دے دیا.۱۹۳۵ء میں ایتھوپیا پر قبضہ کیا.۱۹۳۹ء میں البانیہ پر قبضہ کیا.اس حکمت عملی کے باعث وہ نازیوں کے بڑا قریب ہو گیا.جون ۱۹۴۰ء میں جنگ عظیم دوم میں شامل ہوا.اتحادیوں نے سلی پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا جس کے نتیجہ میں اس کی ساکھ ختم ہوگئی.جولائی ۱۹۴۳ء میں فسطائیوں کی گرینڈ کونسل نے اسے استعفی پر مجبور کیا پھر گرفتار کر لیا گیا.۱۵ستمبر ۱۹۴۳ء کو جرمن ہوائی جہاز سے رہا کرا کر جرمنی لے گئے.لیکن پھر اس نے شمالی اٹلی میں جمہور یہ فسطائیہ کے نام سے متوازی حکومت بنالی.اپریل ۱۹۴۵ میں اسے اپنی داشتہ کے ساتھ گرفتار کیا گیا.دونوں کو گولی ماردی گئی.اس کی لاش میلان لے جائی گئی جہاں اسے سڑکوں پر گھسیٹا گیا.الوصیت صفحه ۲۱ روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۱۹) اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحه ۱۵۶۵ مطبوعہ ۱۹۸۸ ءلاہور ) مسٹر چرچل : Sir Winston-Leonard-Spencer, Churchill( ۳۰ نومبر ۱۸۷۴ء ۲۴ جنوری ۱۹۶۵ء) برطانوی سیاستدان.سپاہی، مصنف، ہندوستان ،سوڈان ، جنوبی افریقہ کے معرکوں میں شریک رہا.۱۹۰۰ ء میں پارلیمنٹ کا رکن بنا.۱۹۴۰ء سے ۱۹۴۵ ء تک وزیر اعظیم رہا.۱۹۵۱ء تا ۱۹۵۵ دوباره وزیر اعظیم رہا.متعدد کتابیں لکھیں.۱۹۵۳ میں ادبی نوبل پرائز حاصل کیا.اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد صفحیم ۵۱ مطبوعہ ۱۹۸۷ ءلاہور ) روز ویلٹ Theodorer Roosevelt (۱۸۵۸ء.۱۹۱۹ء) نیویارک کا گورنر، ۱۹۰۱ء میں امریکہ کا نائب صدر ۱۹۰۱ء سے ۱۹۰۹ء تک صدر میکنی کی موت پر امریکہ کا صدر بنا.تاریخ ، شکار جنگلی جانوروں اور سیاسیات کے متعلق کتب لکھیں.۱۹۰۶ ء میں امن کا نوبل پرائز حاصل کیا.(اردو جامع انسائکلو پیڈیا جلد اصفحہ ۶۷۹ مطبوعہ ۱۹۸۷ ءلاہور ) احمدیت: اس سے مراد حضرت مصلح موعود کی کتاب "احمدیت یعنی حقیقی اسلام ہے.حضرت مصلح موعود نے یہ کتاب میلے کا نفرنس کے لئے تحریرفرمائی.چوہدری سرحد ظفر اللہ خان صاحب نے حضرت مصلح موعود کی موجودگی میں اس کتاب کا خلاصہ کا نفرنس میں پیش کیا.126

Page 129