Nizam-eKhilafat 100 Years

Nizam-eKhilafat 100 Years

نظامِ خلافت اور خلافت احمدیہ کے سو سال

Author: Other Authors

Language: UR

UR
خلافت اسلامیہ احمدیہ

خلافت کی عظیم الشان نعمت کی برکات اور اس کے عملی پہلو واقعۃً بے شمار ہیں۔ زیر نظر کتاب میں مصنف موصوف نے انتہائی محنت اور جدوجہد سے ایک ضخیم علمی مواد یکجا کر دیا ہے جس سے نظام خلافت اور اس کے سو سالہ شیریں ثمرات پر عمدہ رنگ میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ اور جماعت کے متنوع اور وسیع علمی لٹریچر سے قیمتی حوالہ جات کو ایک جگہ جمع کردیا ہے۔ اور جہاں تک ممکن تھا ان پہلوؤں کو بھی مد نظر رکھا ہے جو بظاہر کسی نہ کسی رنگ میں نظام خلافت پر تنقید اور اعتراض کا شائبہ رکھتے تھے، اور علمی دلائل کے ساتھ ان اثرات کو زائل کیا گیا ہے۔ الغرض ایک نہایت جامع اور ہمہ گیر پہلوؤں کو سموئے ہوئے یہ مسودہ مرتب کیا گیا ہے۔ اس مجموعہ کے شروع میں ایک تفصیلی فہرست مضامین بنائی گئی ہے تا حوالہ تلاش کرنے میں کوئی دقت نہ ہو، مواد کو آسانی کی خاطر 10 ابواب میں پھیلایا گیاہے، نیز کتاب میں پیش کئے گئے نایاب اور غیر معمولی حوالہ جات کو ان کے ماخذ اور مصادر کی فہرست کے ساتھ آخر پر درج کردیا گیا ہے۔ قریبا 500 صفحات کی اس کتاب میں حوالہ جات کی پیشکش بھی معیاری ہے۔


Book Content

Page 1

نظام خلافت اور خلافتِ احمدیہ کے ستو سال E الْأَرْضِ الخلف m خلافت احمد یہ صد سالہ جوبلی ۱۹۰۸ - ۲۰۰۸ میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہونگے جو دوسری قدرت کا مظہر ہو نگے.

Page 2

(صرف احمدی احباب کے لئے ) وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحِتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ نظام خلافت اور خلافت احمدیہ کے نو سال

Page 3

نام کتاب تعداد صفحات نظام خلافت اور خلافت احمد یہ کے نواسال 466 تاریخ اشاعت دسمبر 2008ء

Page 4

پیش لفظ جماعت احمد یہ عالمگیر پر خدائے قادر و توانا کا عظیم احسان اور انعام ہے کہ احباب جماعت کو خلافت کی عظیم الشان نعمت عطا کر رکھی ہے اور خلافت کی برکات اگر چہ واقعہ لا تعداد ہیں، تاہم موقعہ کی مناسبت سے صرف چند نعما کی طرف اشارہ ہی کافی ہوگا.مثلاً : خلافت کی اس دور میں عظیم اور منفرد برکت یہ ہے کہ جماعت اگر چہ دنیا کے ۱۹۳ ملکوں میں قائم ہو چکی ہے لیکن عالمگیر سطح پر جماعت کا امام ایک ہے.ایدہ اللہ تعالیٰ.ب عالمگیر جماعت کا نظام ایک ہے اور دنیا کا ہر احمدی اُس نظام کا تابع اور -:9 پابند ہے.عالمگیر جماعت کا پروگرام ایک اور صرف ایک ہے کہ زمین کے کناروں تک اُس پیغام کو پہنچانا جو حضرت بانی جماعت احمدیہ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے سونپا گیا تھا.جماعت احمدیہ کا ہر فرد خواہ کسی بھی ملک، قوم یا طبقہ سے تعلق رکھتا ہو، ایک عالمگیر رشتہ اخوت ہمحبت اور بیجہتی میں باہم پرویا ہوا ہے.الحمد للہ ثم الحمد للہ یہ چند برکات اس حقیقت کو پوری طرح واضح کر دیتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جس نظام خلافت سے احباب جماعت احمدیہ کو نواز رکھا ہے اُس کی علمی، اخلاقی، روحانی برکات کا شمار ممکن نہیں.مکرم مبشر احمد خالد صاحب نے انتہائی محنت اور جدو جہد سے ایک ضخیم علمی مواد

Page 5

مرتب کیا ہے، جس میں ” نظام خلافت اور اُس کے نو سالہ شیریں ثمرات پر عمدہ رنگ میں روشنی ڈالی ہے اور جہاں تک ممکن ہو سکا، وسیع مطالعہ لٹریچر کے ذریعہ بہت سا علمی مواد یکجا کر دیا ہے.آپ کے اس علمی مجموعہ میں کم و بیش ایک سو سے زائد علمی کتابوں کے حوالہ جات علمی یک جا کر دئیے گئے ہیں اور آپ نے جہاں تک ممکن تھا، اُن پہلوؤں کو بھی پیش نظر رکھا ہے، جو بظاہر کسی نہ کسی پہلو سے نظام خلافت پر تنقید یا اعتراض کا شائبہ رکھتے ہیں اور علمی دلائل کے ساتھ اُن کے اثرات کو مٹایا ہے اور جہاں تک خاکسار کا مطالعہ ہے اس سے قبل کسی طور سے اتنا جامع مدل اور ہمہ گیر پہلوؤں پر مشتمل مواد یا کتاب سامنے نہیں آئی.اللہ کرے زور قلم اور زیادہ! اس مجموعہ کے شروع میں سولہ صفحات پر مشتمل بہت تفصیلی فہرست مضامین دی گئی ہے تا کہ کوئی حوالہ تلاش کرنے میں دقت نہ ہو اور اس فہرست مضامین کو زیادہ آسان بنانے کے لیے دس ابواب میں تقسیم کر دیا ہے اور مواد میں جو غیر معمولی اور نایاب حوالہ جات درج کیے ہیں، اُن کے ماخذ اور مصادر کی فہرست مجموعہ کے آخر میں شامل کر دی ہے لیکن حوالہ جات نقل کرتے اور اندراج کرتے ہوئے کتاب و ما خذ کا بھی حوالہ ہر جگہ ساتھ ساتھ شامل ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس انتہائی محنت اور خلوص سے مرتبہ ذخیرہ کو نافع الناس بنائے اور مکرم مبشر احمد خالد صاحب مربی سلسلہ کو بہت جزا عطا کرے اور علمی خدمات کی مزید توفیق ملتی رہے.آمین.

Page 6

عرض حال اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ سال (۲۰۰۸) جماعت احمدیہ کی تاریخ میں بہت ہی اہمیت اور خصوصیت کا حامل ہے.کیونکہ اس سال مورخہ ۲۷ مئی کو خلافت احمد یہ کے قیام کو پورے سو سال مکمل ہو چکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس دن جماعت احمد یہ عالمگیر نے مکمل دینی اور روحانی جوش و جذ بہ سے خلافت احمدیہ کی صد سالہ جو بلی منائی.اور اس سلسلہ میں بعض عظیم الشان پروگرام ترتیب دیئے گئے.چناچہ اسی مناسبت اور پس منظر کے تحت خاکسار نے یہ کتاب لکھی ہے.جو دس ابواب پر مشتمل ہے.اور اس میں نظام خلافت سے متعلق تقریبا تمام بنیادی اور ضروری پہلوؤں پر جماعت احمدیہ کے علم کلام کی روشنی میں بحث کی گئی ہے.نیز خلافت احمدیہ کے خلاف اٹھنے والے فتنوں کی ناکامی پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے.اسی طرح خلافت احمدیہ کے ابتدائی سوسالوں میں حاصل ہونے والے خلافت کے شیریں ثمرات و برکات کا طائرانہ جائزہ بھی پیش کیا گیا ہے.اس کتاب کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں نظام خلافت اور خلافت احمدیہ پر اٹھنے والے چیدہ چیدہ اعتراضات و سوالات کے جوابات بھی دئے گئے ہیں.بالخصوص پیغامیوں کے اس غلط موقف کی معقلی و نقلی دلائل سے بھر پور تردید کی گئی ہے کہ قدرت ثانیہ سے مراد شخصی خلافت نہیں بلکہ انجمن مراد ہے.الحمد للہ علی ذالک.

Page 7

اس کتاب کا ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں زیر بحث ہر موضوع کو مستند بنانے کیلئے قرآن کریم ، احادیث نبویہ، خلفائے راشدین، صحابہ کرام حضرت مسیح موعود ، خلفائے سلسلہ احمدیہ اور علمائے سلف و خلف کے ارشادات و فرمودات کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے.نیز اس کتاب میں تمام حوالہ جات مقررہ معیار اور اصول کے مطابق دئے گئے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ خلافت ایک ایسا نظام ہے جو اپنے اندر بے شمار برکتوں اور فضلوں کو سموئے ہوئے ہے.پس خلافت نور رب العالمین ہے.خلافت تمکنت دین اور مومنوں کیلئے حصن حصین ہے.خلافت موجب فتح مبین ہے.مختصر یہ کہ خلافت کا نظام بہترین ہے.اس کتاب کا مکمل ہونا محض خدا تعالیٰ کے فضل اور تائید سے ممکن ہوا ہے دور نه من آنم که مین دانم خدا کرے کہ یہ کتاب جہاں ہمیں خلافت کی برکات سے آگاہی بخشے والی ہو و ہیں نہیں ان برکات کے حصول کیلئے اپنی ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلانے والی ہو.اور ہم فی الواقع ان برکات اور رحمتوں سے اپنے دامن بھر لیں جو ظافت کا دامن پکڑنے سے حاصل ہوتی ہیں.امین ـ وبـنـا تـقبل منا انك انت السميع العليم

Page 8

نمبر شمار 1 کلید خلافت 2 ظهور خلافت فہرست مضامین 3 خلافت اور لغت عرب ا.خلافت کے لغوی معنی ۲.خلافت کی تعریف ۳.خلیفہ کے لغوی معنی مضمون باب اول ۴.خلافت کے اصطلاحی معنی 4 خلافت کی اقسام ا.خلافت نبوت ۲.خلافت قومی ۳.خلافت علی منہاج النبوت 5 خلیفہ کے لئے امیر المومنین کے لفظ کا استعمال 6 نظام خلافت کے اغراض و مقاصد 7 خلافت کی ضرورت و اہمیت صفحہ 1 2 50 6 6 8 8 8 8 9 10 13 15 23

Page 9

صفحہ 31 35 37 37 37 49 54 66 71 74 76 80 2 2 2 2 80 82 82 84 85 2 نمبر شمار تحریک خلافت مضمون و کیا عوام کی تحریک سے خلافت بن سکتی ہے؟ 1 بركات خلافت باب دوم ا.ایمان وعمل صالح کا ثبوت ۲ تمکنت دین ۳.خوف کے بعد امن کا قیام ۴.توحید کا قیام ۵.وحدت قومی 2 خلیفہ راشد کا مقام اور مرتبہ 3 خلیفہ کے اختیارات 4 خلیفہ کی ذمہ داریاں نظام خلافت اور ہماری ذمہ داریاں ا.کامل ایمان اور عمل صالح بجالانا ۲ شرک سے اجتناب کرنا ۳.خلفاء کی کامل اطاعت ۴.خلافت سے کامل وابستگی ۵ کامل اطاعت و فرمانبرداری

Page 10

93 95 97 100 100 107 111 117 123 127 86 86 87 80 00 00 0 88 88.91 نمبر شمار مضمون ۶ کرنا - نظام خلافتی داری ے.نظام خلافت اور عہدیدران کی ۸.خلافت کے ساتھ کچی محبت ۹.خلفاء کے احکامات کی پیروی ۱۰.نظام خلافت کی بقا کے لئے دعائیں کرنا 7 خلافت کا انکار کفر ہے 1 خلیفہ خدا بناتا ہے ا.احادیث نبویہ باب سوم ۲.خلفاء راشدین کا نظریہ ۳ صلح ، امت اور خلافت ۴.حضرت مسیح موعود کے ارشادات 2 خلیفہ کے انتخاب میں حکمت خلافت سے وابستگی 4 خلیفہ وقت کی اطاعت 5 اطاعت در معروف سے مراد 6 خلیفہ وقت سے بحث و جدال جائز نہیں

Page 11

4 نمبر شمار 7 خلیفہ سے غلطی کا امکان مضمون خلیفہ وقت کے ساتھ اختلاف 1 خلافت و مجددیت مسئلہ خلافت اور اہل تشیع مسئله خلافت بلا فصل باب چهارم 4 تردید مسئله خلافت بلافصل 5 خلافت سے معزولی 6 خلافت سے دستبرداری حضرت امام حسن کی خلافت سے دستبرداری کا جواز خلافت اور شوری و خلیفہ کے لئے مشورہ پر عمل کرنا ضروری نہیں باب پنجم صفحه 131 133 137 139 142 144 146 151 152 155 158 161 162 166 1 خلافت راشده اولی 2 خلافت راشدہ کا قیام مختصر سوانح ابو بکر

Page 12

LO 5 نمبر شمار خلافت حضرت عمر ا.حضرت عمر کا انتخاب ۲ مختصر سوانح عمر عہد خلافت ۴.شہادت 4 خلافت حضرت عثمان مضمون ا.حضرت عثمان کا انتخاب ۲ مختصر سوانح عثمان ۳.عہد خلافت ۴.اندرونی فتنه خلافت حضرت علی ا.حضرت علی کا انتخاب ۲ مختصر سوانح على ۳.عہد خلافت ۴.جنگ جمل.حضرت عائشہؓ کا اعلان جہاد ۵.جنگ صفین کے واقعات ۶.حضرت علی کی شہادت خلافت راشدہ کا اختتام اور ملوکیت کا آغاز صفحہ 167 168 168 169 170 171 171 172 173 174 175 175 175 176 178 179 182 183

Page 13

6 نمبر شمار ا خلافت بنوامیہ ۲.خلافت عباسیه ۳.خلافت عثمانیه ترکیه 1 خلافت احمد یہ مضمون باب ششم خلافت راشدہ اور خلافت احمدیہ میں مماثلت خلافت کو قدرت ثانیہ نام دینے کا فلسفہ 4 قدرت ثانیہ کا ظہور ا.وفات حضرت مسیح موعود ۲- تجهیز و تکفین و تدفین جماعت احمدیہ میں خلیفہ کے انتخاب کا طریق 6 موجودہ قواعد انتخاب خلافت 7 انتخاب خلافت اولی ا.حضرت خلیفہ اسیع الاول کے مختصر سوانح حیات ۲.ملازمت سے فراغت اور قادیان میں ہجرت ۳.حضرت خلیفہ اول کی وفات ۴.حضرت خلیفہ اول کا مقام صفحہ 183 184 185 187 191 192 193 193 194 195 206 211 215 217 219 219

Page 14

نمبر شمار 7 ۵.غیروں کی آراء مضمون خلافت اولی کے شیریں ثمرات ای تبلیغی جلسے ۲.خلافت اولی کے بعض مبائعین ۳.بیرونی ممالک کی بعض احمدی جماعتیں ۴.لٹریچر کی اشاعت ۵.نئی مساجد کی تعمیر ۶.احمد یہ پریس میں نمایاں اضافہ ے.خلافت اولی کے عہد میں جماعت کی مالی ترقی ۸.قادیان میں پبلک عمارتوں کی تعمیر ۹ - مدرسہ احمدیہ کا قیام ۱۰- انگریزی ترجمہ قرآن مجید 11.پہلے بیرونی مشن کا قیام صفحہ 221 224 225 225 226 226 227 227 228 228 228 229 229 ۱۲.خلافت اولیٰ میں رونما ہونے والے فتنے اور ان کا عبرتناک انجام 230 9 خلافت ثانیہ کا ظہور ا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے مختصر سوانح حیات 231 232

Page 15

00 8 نمبر شمار ۲- انتخاب خلافت ثانیه اولاف مضمون ۴.آخری بیماری اور وفات 10 خلافت ثانیہ کے شیریں ثمرات ا.فتنہ انکار خلافت کا سد باب ۲.اشاعت احمدیت ۳- تفسیر کبیر کی اشاعت نم تفسیر صغیر کی اشاعت ۵ - انگریزی ترجمۃ القرآن کی اشاعت ۶.خطبات و تقاریر ے.نظارتوں کا قیام ۸.جماعتی تربیت کا تعلیمی وتنظیمی نظام ۹ مجلس مشاورت کا قیام ۱۰.دارالقضاء کا قیام ۱۱.شدھی تحریک کا استیصال ۱۲.خلافت جو بلی ۱۳.جلسہ سالانہ ۱۴- تحریک جدید ۱۵ تحریک وقف جدید صفحہ 237 239 240 242 243 244 246 246 247 247 247 247 248 248 249 250 250 251 252

Page 16

9 نمبر شمار مضمون.چالیس روز تک خاص دعاؤں کی تحریک ۱۷.خاندان مسیح موعود کو وقف کرنے کی تحریک ۱۸.عورتوں کی تربیت کی تحریک ۱۹.غرباء اور محتاجوں کی مدد کی تحریک ۲۰.وقف جائیداد کرنے کی تحریک ۲۱ وقف زندگی کی تحریک ۲۲.کالج فنڈ کی تحریک ۲۳.ماہرین علوم پیدا کرنے کی تحریک ۲۴.دیوانہ وار تبلیغ کی تحریک ۲۵.حلف الفضول ۲۶.نماز تہجد پڑھنے کی تحریک ۲۷.سات مراکز قائم کرنے کی تحریک ۲۸.قرآن مجید اور بنیادی لٹریچر کے تراجم کی تحریک ۲۹.کمیونزم کے مقابلہ کی تحریک ۳۰- تحدیث نعمت : اہم مقامات پر جلسوں کا انعقاد ۳۱.اندرونی و بیرونی فتنوں کا مقابلہ ۳۲.منکرین خلافت کا مقابلہ ۳۳.فتنہ احرار کا مقابلہ ۳۴ تقسیم ہندو ہجرت قادیان ۳۵.ربوہ مرکز کا قیام ٣٦- بيوت الذكر صفحہ 252 253 254 254 255 255 256 256 257 258 259 260 260 261 262 263 263 264 265 266 267

Page 17

نمبر شمار 10 ۳۷.کالج اور سکول ۳۸.اخبارات ورسائل مضمون ۳۹.قرآن کریم کے تراجم ۴۰.اخبار الفضل ۴۱.تصانیف حضرت خلیفہ اسیح الثانی ۴۲.قومی و ملی خدمات صفحہ 267 268 ۴۳.منارة امسیح کی تکمیل ۴۴ ہجری شمسی کیلنڈر ۴۵.جماعت کے نام وصیت 11 خلافت ثالثه پہلی بشارت دوسری بشارت تیسری بشارت 12 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا عہد خلافت ا.انتخاب خلافت ثالثہ ۲.حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے مختصر حالات زندگی 13 خلافت ثالثہ کے شیر میں ثمرات ا.فضل عمر فاؤنڈیشن ۲ تعلیم قرآن مجید.وقف جدید میں احمدی بچوں کی شمولیت 268 268 269 271 274 275 274 278 278 278 279 279 279 280 282 283 283 284

Page 18

نمبر شمار 11 مضمون.حضرت مسیح موعود کا ایک الہام پورا ہوا ۵.کوئی فرد بھوکا نہ رہے.سفر یورپ اور کوپن ہیگن میں بیت کا افتتاح ے.مغربی افریقہ کا سفر اور نصرت جہاں سکیم کا قیام ۱۹۷۴-۸ء میں جماعت کی مخالفت ۹ - منصو بہ صد سالہ جو بلی ۱۰.لندن میں بین الاقوامی کسر صلیب کا نفرنس ۱۱.محترم ڈاکٹر عبد السلام کا اعزاز ۱۲.حضور کا عقد ثانی ۱۳.حضور کی وفات 14 خلافت رابعه حضرت خلیفہ المسیح الرابع سے مختصر حالات زندگی 15 خلافت رابعہ کے شیریں ثمرات التعمير بيوت الذكر ۲.سپین میں پہلی بیت الذکر ۳.بیوت الحمد سکیم ۴.ربوہ سے ہجرت.جلسہ ہائے سالانہ برطانیہ 4 نستعلیق کتابت کا کمپیوٹر اور الرقیم پریس ے.وقف جدید کی عالمگیر بیت تراجم قرآن 284 285 285 286 287 287 288 290 291 291 293 293 294 295 295 296 296 297 297 298 299

Page 19

نمبر شمار 12 ۹ - تحریک وقف نو مضمون ۱۰.بادشاہوں کا قبول احمدیت اور مسیح موعود کے کپڑوں سے برکت کا حصول ا.دورہ افریقہ ۱۲.جمعہ پڑھنے کی تحریک ۱۳.مباہلہ کا تاریخی چیلنج ۱۴.صد سالہ جو بلی کی تیاری ۱۵- صد سالہ جشن تشکر ۱۶.کفالت یتامی ۱۷.عالمی بیعت ۱۸.خدمت انسانیت کا بے پناہ جذبہ ۱۹.حضور کا دورہ نارتھ پول ۲۰.ہومیو پیتھی کی ترویج ۲۱ - ترجمۃ القرآن کلاس ۲۲.دورہ انڈونیشیا ۲۳ - مدرسه حفظ قرآن ۲۴ مریم شادی فنڈ ۲۵ علمی خدمات ۲۶.سب سے بڑا کارنامہ ۲۷.خلافت رابعہ میں نفوذ احمدیت ۲۸.حضور کی وفات صفحہ 300 301 302 303 303 304 305 306 307 307 309 309 310 311 311 312 312 314 31 5 315

Page 20

نمبر شمار 16 عہد خلافت خامسه 13 مضمون ا.إِنِّي مَعَكَ يَا مَسْرُورُ ۲- انتخاب خلافت خامسه صفحه 316 316 317 حضرت خلیفة مسح الخامس کا مجلس انتخاب خلافت سے خطاب 318 ۴.حضرت خلیفہ اسیح الخامس کا پہلا خطاب عام 319 ۵.حضرت خلیفہ اسیح الخامس کے حالات و خدمات قبل از خلافت 320 ۶ - نور خلافت ( نظم ) 17 خلافت خامسہ کے شیریں ثمرات ا.جامعہ احمدیہ کینیڈا کا قیام ۲.بیت الفتوح کی تعمیر ۳.ڈاکٹر ز کو وقف کی تحریک ۴.دورہ مغربی افریقہ ۵.نظام وصیت میں شمولیت کی تحریک تحریک جدید کے دفتر پنجم کا اجراء ے.دورہ مشرقی افریقہ ۸ - صد سالہ خلافت احمد یہ جوبلی منصوبہ شمالی علاقہ جات و کشمیر میں زلزلہ زدگان کی امداد ۱۹.جامعہ احمد یہ لندن کا قیام ا تھا نا میں مدرستہ الحفظ کا اجراء ۱۲.دوره ماریشس ۱۳.دورہ بھارت ، قادیان 322 323 324 324 325 326 326 327 327 327 328 328 329 330 330

Page 21

14 نمبر شمار مضمون ۱۴.نورالعین بلند و آئی بینک ربوہ کا قیام ۱۵.ناصر فائر اینڈ ریسکیو سروس ۱۶.برطانیہ میں ۱/۲۰۸ یکٹر زمین کی خرید ۱۷.ہیومینیٹی فرسٹ کا قیام -۱۸ صد سالہ خلافت احمد یہ جوبلی کا انعقاد 18 جماعت احمد یہ اغیار کی نظر میں 19 جماعت احمدیہ کا مستقبل باب ہفتم خلافت احمدیہ کے خلاف اندرونی سازشیں 2 فتنہ خلافت ۱۹۵۶ء فتنہ کے متعلق ۱۹۵۰ء کا ایک اہم رویا یوم خلافت منانے کا پس منظر ربوہ میں پہلا یوم خلافت 4 خلافت احمد یہ دائمی ہے ا.ایک غلط فہمی کا ازالہ ۲.خلافت عارضی ہے یا مستقل؟ باب هشتم 1 صد سالہ خلافت احمدیہ کے شیریں ثمرات کا طائرانہ جائزہ ا.تراجم قرآن کریم صفى 331 331 331 332 332 334 337 339 346 349 352 353 355 358 361 365 368

Page 22

صفح 370 372 373 376 384 387 391 391 392 396 398 400 401 402 403 406 410 410 412 414 15 مضمون ۲ تراجم قرآن کریم کے متعلق غیروں کے تاثرات دور خلافت اولیٰ میں ترقیات کی چند جھلکیاں ۴.دور خلافت ثانیہ میں ترقیات کی چند جھلکیاں ۵.دور خلافت ثالثہ میں ترقیات کی چند جھلکیاں.خلافت رابعہ میں ترقیات کی چند جھلکیاں ے.دور خلافت خامسہ میں ترقیات کی چند جھلکیاں باب نمیم نمبر شمار 1 نظام خلافت کے متعلق بعض سوالات کے جوابات سوال نمبر ا سوال نمبر ۲ سوال نمبر ۳ سوال نمبر ۴ سوال نمبر ۵ سوال نمبر 4 سوال نمبرے سوال نمبر ۸ سوال نمبر ۹ 2 خلافت احمدیہ پر اعتراضات کے جوابات پہلا اعتراض دوسرا اعتراض تیسرا اعتراض

Page 23

صفحه 416 419 421 422 423 423 424 426 427 429 431 435 447 449 455 457 449 461 16 مضمون حضرت مسیح موعود کی جانشین شخصی خلافت یا انجمن ا شخصی خلافت کا ثبوت حدیث سے ۲.خلافت کے مسئلہ پر صحابہ کا تعامل اور اجماع.حضرت مسیح موعود کی شہادت خلافت کے متعلق ۴.حضرت صاحب کی دوسری شہادت خلافت کے متعلق جمہوریت سے بھی خلافت ثابت ہے ۶.نظام خلافت پر اجماع ے.ایک فیصلہ کن سوال شخصی خلافت پر سب سے بڑی شہادت 1 - خلافت جوبلی ۱۹۳۹ء باب دہم 2 صد سالہ خلافت احمد یہ جوبلی منصوبہ جوبلی کے موقع پر جماعت احمد یہ عالمگیر کا اظہار تشکر 4 صد سالہ خلافت جوبلی (نظم) خلافت کی ضرورت، اہمیت اور برکات پر مبنی چند نظمیں 6 عہد حفاظت نظام خلافت 7 نئی صدی کا عظیم عہد 8 حرف اختام وتاخذ و مصادر

Page 24

کلید خلافت وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ من وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمُ ص ط وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنَا يَعْبُدُونَنِي لا يُشْرِكُونَ بي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ) (نور: ۵۶) ترجمہ: تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے ان سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور ان کے لئے ان کے دین کو ، جو اس نے ان کے لئے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور ان کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا.وہ میری عبادت کریں گے.میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے.اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نا فرمان ہیں.

Page 25

ظهور خلافت حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: قَالَ رَسُولُ اللهِ علم تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمُ مَا شَاءَ اللهُ اَنْ تَكُونَ ثُمَّ رْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النَّبُوَّةِ مَا شَاءَ اللَّهُ اَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًا فَتَكُوْنَ مَا شَاءَ اللهُ اَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّه تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النَّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ.ترجمہ:.حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہئے گا پھر وہ اس کو اٹھا لے گا.پھر خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہوگی پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا.پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذا رساں بادشاہت قائم ہوگی.جب یہ دور ختم ہو گا تو اس کی دوسری تقدیر کے مطابق اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہوگی یہاں تک کہ اللہ تعالی کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم وستم کے دور کوختم کر دے گا.اس کے بعد پھر خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہوگی.اس کے بعد آپ خاموش ہو گئے.(مسند احمد حدیث ۱۷۶۸۰ ) (مجمع الزوائد كتاب المناقب باب الوليد جلد ۹ ص ۴۱۳)

Page 26

باب اول خلافت اور لغت عرب خلافت کے لغوی معنی یہ عربی زبان کا لفظ ہے اور قواعد صرف کی رُو سے یہ مصدر کا صیغہ ہے.اس کا مادہ ” خلف‘ (خ.ل.ف) ہے.جس کے لغوی معنی جانشینی ، قائمقامی، نیابت،امارت اور امامت کے ہیں.ان تمام معانی کی تائید لغت عرب سے ہوتی ہے.ا.مِنْ قَولِكَ خَلَفَ فُلانٌ فَلَانًا فِى هَذَا لَامُرِ إِنْ قَامَ مَقَامَهُ فِيهِ هَذِهِ.یعنی اگر ایک شخص دوسرے شخص کے بعد اس کا نائب وقائمقام ہوا تو یہ خلافت ہے.(ابن فارس زیر لفظ خلف ) -۲- المنجد میں اَلْخِلَافَةُ کے معنی (۱) الْإِمَارَةُ (امارت)، (۲) النِّيَابَةُ عَنِ الْغَيْرِ ( قائمقامی)، (۳) الْإِمَامَةُ یعنی امامت لکھے ہیں.(المنجد زیر لفظ خلف).مصباح اللغات میں بھی الخِلَافَةُ کے معنی (۱) امارت، (۲) قائمقامی (۳) اور امامت کے لکھے ہیں.(مصباح اللغات زیر لفظ خلف) -۴- لسان العرب میں الخلافَةُ کے معنی ” الإِمَارَةُ “ یعنی امارت لکھے ہیں.(لسان العرب زیر لفظ خلف) ۵- مفردات القرآن میں لکھا ہے.الْخِلافَةُ کے معنی دوسرے کا نائب بننے کے ہیں.خواہ وہ نیابت اس کی غیر حاضری کی وجہ سے ہو.یا محض نائب کو شرف بخشے

Page 27

کی غرض سے ہو اس آخری معنی کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کو زمین میں خلافت بخشی.4 - اقرب الموارد میں الخِلَافَةُ “ کے درج ذیل معنی بیان کئے گئے ہیں:.(۱) الْإِمَارَةُ (حکومت)، (۲) النِّيَابَةُ عَنِ الْغَيْرِ إِمَّا لِغَيْبِهِ الْمَنُوبِ عَنْهُ اَوْلِمَوْتِهِ أَوْ لِعَجْزِهِ اَوْ لِتَشْرِيفِ الْمُسْتَخْلَفِ.یعنی دوسرے کی نیابت کرنا خلافت کہلاتا ہے.خواہ وہ نیابت جس کی نیابت کی گئی ہو اس کی غیر حاضری کی وجہ سے ہو یا موت یا کام سے عجز کی وجہ سے ہو.اور بعض اوقات یہ نیابت صرف عزت افزائی کے لئے ہوتی ہے.جیسے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو زمین پر خلیفہ بناتا ہے تو یہ صرف ان کے اعزاز کی خاطر ہوتا ہے نہ کہ کسی اور وجہ سے.(۳) اور شرعی معنی خلافت کے امامت کے ہیں.خلافت کی تعریف:.لغت عرب کی رو سے خلافت ایک عربی لفظ ہے جس کے لغوی معنی کسی کے پیچھے آنے یا کسی کا قائمقام بنے کسی کا نائب ہو کر اس کی نیابت کے فرائض سرانجام دینے کے ہیں.خلیفہ کے لغوی معنی خلیفہ خلافت سے مشتق ہے.جس کی جمع خلفاء اور خلائف ہے.عربی لغت کی رُو سے جو کسی کا قائمقام ہوتا ہے.وہ اس کا خلیفہ کہلاتا ہے.لغت عرب کی معروف کتب میں’خلیفہ کے درج ذیل معانی لکھے ہیں.ا.اقرب الموارد میں لکھا ہے.

Page 28

(۱) مَنْ يَخْلُفْ غَيْرَه وَيَقُوْمُ مَقَامَہ یعنی جو کسی کا قائمقام اور جانشین ہو.(۲) السُّلْطَانُ الْأَعْظَمُ حاکم اعلیٰ.شہنشاہ.(۳) وَفِي الشَّرُعِ الْإِمَامُ الَّذِي لَيْسَ فَوْقَهُ إِمَامٌ.اور شرعی لحاظ سے خلیفہ کے یہ معنی ہوں گے کہ وہ پیشرو اور حاکم جس کے اوپر اور کوئی حاکم نہ ہو.۲.المنجد میں لکھا ہے.الْخَلِيفَةُ (۱) مَنْ يَخْلُفْ غَيْرَه وَيَقُوْمُ مَقَامَه.یعنی جو کسی کا قائمقام ہو اور اس کا جانشین ہو.(۲) الْاِمَامُ الَّذِى لَيْسَ فَوْقَهُ إِمَامٌ وَهُوَ مُذَكَّرٌ فَيُقَالُ هَذَا خَلِيفَةُ آخَرُ وَرُبَمَا أَنِتَ مِرَاعَاةِ لِلْفْظِ فَيُقَالُ خَلِيْفَةٌ أُخْرَى یعنی بڑا بادشاہ جس سے اوپر کوئی اور بادشاہ نہ ہو.یہ مذکر ہے کہا جاتا ہے ”هذَا خَلِيفَةٌ آخَرُ اور کبھی لفظ کی رعایت سے مؤنث استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں خَلِيفَةً أُخْرَى.خلیفہ کی جمع خلفاء وخلائف ہے..مصباح اللغات میں لفظ خلیفہ کے معنی لکھے ہیں:.جانشین، قائمقام، بڑا بادشاہ کہ اس سے اوپر اور کوئی بادشاہ نہ ہو.۴.لسان العرب میں لکھا ہے:.(1) وَالْخَلِيْفَةُ : الَّذِى يُسْتَخْلَفُ مِمَّنْ قَبْلَهُ وَالْجَمْعُ خَلَائِفُ یعنی خلیفہ کا معنی وہ شخص جو اپنے سے پہلے کا قائمقام ہو.اور لفظ خلیفہ کی جمع خلائف ہے.(۲) الْخَلِيفَةُ السُّلْطَانُ الاعْظَمُ یعنی سب سے بڑا بادشاہ.پس لغت عرب کی رُو سے ” خلیفہ“ کے معانی جانشین، قائمقام اور حاکم اعلیٰ کے ہیں.اور اصطلاحاً خلیفہ سے مراد نبی کا قائمقام اور اس کا جانشین ہوتا ہے.

Page 29

خلافت کے اصطلاحی معنی اصطلاحی طور پر نبوت کی قائمقامی کا نام خلافت ہے.خلیفہ وہ ہے جو اپنے انوار و برکات کے افاضہ کے لحاظ سے نبی کا جانشین ہوتا ہے.نبی کے فرائض کو بجالاتا ہے اور اس کے قائمقام کے طور پر امت کا مطاع اور واجب التسلیم ہوتا ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.خلیفہ کا معنی جانشین کے ہیں.جو تجدید دین کرے.نبیوں کے زمانہ کے بعد جو تار یکی پھیل جاتی ہے اس کو دور کرنے کے واسطے جو ان کی جگہ آتے ہیں انہیں خلیفہ کہتے ہیں.(ملفوظات جلد نیا ایڈیشن ص ۶۶۶) اسی طرح ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:.” خلیفہ در حقیقت رسول کا ظل ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقاء نہیں لہذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف واولی ہیں.ظلی طور پر ہمیشہ کے لئے تا قیامت قائم رکھے.سواسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ ہو.( شہادت القرآن ص ۵۸ روحانی خزائن جلد ۶ ص ۳۵۳) خلافت کی اقسام قرآن کریم سے تین قسم کی خلافتوں کا ذکر ملتا ہے.ا.خلافت نبوت قرآن کریم میں خلافت کا لفظ بمعنی نبوت و ماموریت استعمال ہوا ہے جیسا کہ

Page 30

سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ۳۱ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةٌ (بقرہ:۳۱) یعنی زمین پر ایک خلیفہ بنانے والا ہوں.اسی طرح انہی معنوں میں یعنی خلافت نبوت سے سرفراز کرنے کے معنوں میں حضرت داؤد علیہ السلام کو خلیفہ بنایا گیا جیسا کہ سورۃ ص میں آتا ہے کہ يَا دَاوُدُ إِنَّا جَعَلْنَكَ خَلِيْفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُمُ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَىٰ فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّه.(ص:۲۷) یعنی اے داؤد! یقیناً ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے.پس لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر اور میلان طبع کی پیروی نہ کر ورنہ وہ (میلان) تجھے اللہ کے رستے سے گمراہ کر دے گا.پس حضرت آدم اور حضرت داؤد علیہ السلام کو خلیفہ صرف نبی اور مامور ہونے کے معنوں میں کہا گیا ہے.چونکہ وہ اپنے اپنے زمانے کی ضرورت کے مطابق صفات الہیہ کو دنیا میں ظاہر کرتے تھے اور اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے ظل بن کر ظاہر ہوئے.اس لئے اللہ تعالیٰ کے خلیفہ کہلائے.۲.خلافت قومی قرآن کریم سے جس دوسری قسم کی خلافت کا علم ہوتا ہے.وہ خلافت قومی ہے جیسا کہ سورۃ اعراف میں آتا ہے کہ وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِن بَعْدِ قَوْمٍ نُوحٍ.(اعراف: ۷۰) اور یاد کرو جب اس نے نوح کی قوم کے بعد تمہیں جانشین بنادیا تھا.یعنی قوم نوح کی تباہی کے بعد ان کی جگہ تم کو دنیا میں حکومت اور غلبہ حاصل ہو گیا.اسی طرح حضرت صالح کی زبانی اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَاذْ

Page 31

كُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِن بَعْدِ عَادٍ.(اعراف: ۷۵ ) یاد کرو جب تم کو اللہ تعالیٰ نے عاد اولی کی تباہی کے بعد ان کا جانشین بنایا اور حکومت تمہارے ہاتھ میں آگئی.اور اسی طرح سورۃ مائدہ آیت نمبر ۲۱ کے مطابق قوم موسیٰ میں نبی بھی مقرر کئے تھے اور بادشاہ بھی.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہود کو ہم نے دو طرح خلیفہ بنایا.اِذْ جَعَلَ فِيكُمُ کے تحت انہیں خلافت نبوت دی اور جَعَلَكُمْ مَلُوكًا کے ما تحت انہیں خلافت ملوکیت دی.پس ہر قوم جو پہلی قوم کی تباہی پر اس کی جگہ لیتی ہے.ان معنوں میں بھی خلیفہ کا لفظ قرآن مجید میں متعدد بار استعمال ہوا ہے.لہذا قرآن کریم کے مطابق خلافت کی دوسری قسم خلافت قومی ہے جس کے تحت ہر قوم جو پہلی قوم کی جگہ لیتی ہے وہ قرآنی محاورہ کے مطابق اس قوم کی خلیفہ کہلاتی ہے.۳.خلافت علی منہاج النبوت قرآنی محاورہ کے مطابق تیسری قسم کی خلافت وہ ہے جس کے مطابق نبی کے جانشین بھی خلیفہ کہلاتے ہیں جو اس کے نقش قدم پر چلنے والے ہوں اور نبی کے ماننے والوں میں اتحاد و تنظیم قائم رکھنے والے ہوں.خواہ وہ نبی ہوں یا غیر نبی جیسا کہ آیت استخلاف (سورۃ نور آیت ۵۶) سے ظاہر ہے.اسی طرح سورۃ اعراف آیت نمبر ۱۴۳ میں ہے.وَقَالَ مُوسَى لَا خِيُهِ هَرُونَ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَأَصْلِحُ وَلَا تَتَّبِعُ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ.اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ میری قوم میں میری قائمقامی کر اور اصلاح کر اور مفسدوں کی راہ کی پیروی نہ کر.پس اس آیت کریمہ کی رو

Page 32

سے حضرت ھارون علیہ السلام ایک تابع نبی بھی ہوئے اور ایک حکمران نبی کے خلیفہ بھی.اس جگہ حضرت ھارون علیہ السلام کی خلافت ، خلافت نبوت نہ تھی بلکہ خلافت انتظامی تھی.مگر اس قسم کی خلافت بعض دفعہ خلافت انتظامی کے علاوہ خلافت نبوت بھی ہوتی ہے یعنی ایک سابق نبی کی امت کی درستگی اور اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ بعض دفعہ ایک اور نبی مبعوث فرماتا ہے جو پہلے نبی کی شریعت ہی کو جاری کرتا ہے.کوئی نئی شریعت نہیں لاتا.حالانکہ نبوت کے عہدہ پر وہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیا جاتا ہے.جس قدر نبیاء حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل میں آئے سب اسی قسم کے خلفاء تھے.جیسا کہ سورۃ مائدہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتَحْفِظُوا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاء.(مائده: ۴۵) یعنی ہم نے تو رات کو یقیناً ہدایت اور نور سے بھر پورا تارا تھا.اس کے ذریعہ سے انبیاء جو ہمارے فرمانبردار تھے اور عارف اور علماء بہ سبب اس کے کہ ان سے اللہ تعالیٰ کی کتاب کی حفاظت چاہی گئی تھی.اور وہ اس پر نگران تھے.یہودیوں کے لئے فیصلہ کیا کرتے تھے.ا.اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کئی انبیاء اور کئی غیر نبی جن کو اس آیت میں ربانی اور احبار کہا گیا ہے وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے قیام کے لئے یا دوسرے لفظوں میں ان کے خلیفہ کی حیثیت سے بنی اسرائیل میں آتے رہے.۲.احادیث میں حضرت امام مہدی کے لئے جو هَذَا خَلِيفَةُ اللَّهِ الْمَهْدِى یعنی

Page 33

۱۲ یہ اللہ تعالیٰ کا خلیفہ مہدی ہے (ابن ماجہ جلد نمبر ۲ ص ۲۸۹ مطبوعہ مصر) کی حدیث میں خلیفہ کا لفظ استعمال ہوا ہے.وہ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمُ (نور:۵۶) کے مطابق بنی اسرائیل کے خلفاء کے ہم معنی استعمال ہوا ہے.کیونکہ امام مہدی انبیاء بنی اسرائیل کی طرح حضرت محمد مصطفی امیہ کے خلیفہ ہونے تھے.۳.نبی کے وہ جانشین بھی خلیفہ کہلاتے ہیں جو غیر نبی ہوں مگر اس نبی کے نقش قدم پر چلنے والے ہوں یعنی اس کی شریعت پر قوم کو چلانے والے ہوں اور ان میں اتحاد قائم رکھنے والے ہوں.جیسا کہ آنحضرت کے خلفاء راشدین اور حضرت مسیح موعود کے خلفاء ہیں.یہ خلفاء بھی خلافت کی اس تیسری قسم یعنی خلافت علی منہاج نبوت میں شامل ہیں.اس کا ثبوت آنحضرت کی یہ حدیث مبارکہ ہے.جس میں اپنے بعد خلافت علی منہاج النبوت کے قائم ہونے کی بشارت دی گئی ہے.جیسا کہ آپ نے ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ (منداحمد بن حنبل جلد ۴ ص ۲۷۳ ) والی مشہور حدیث میں پیشگوئی فرمائی ہے.

Page 34

۱۳ خلیفہ کے لئے امیر المومنین کے لفظ کا استعمال امیر المومنین، یہ لقب سب سے پہلے حضرت عمر بن الخطاب نے خلیفہ منتخب ہونے پر اختیار فرمایا ( مقدمہ ابن خلدون طبع دانی ۲: ۵۷۸ سعد ) ”امیر“ سے مراد وہ شخص ہے جسے ”امر“ یعنی حکم یا قیادت تفویض کی جائے.اور اس عام مفہوم کے مطابق اسے کلمہ المومنین کی طرف مضاف کر کے اس سے وہ امیر مراد لئے جاتے تھے جنہیں آنحضرت ﷺ کے زمانے میں اور آپ کے بعد مختلف اسلامی مہموں کی قیادت سپرد کی گئی، جیسے حضرت سعد بن ابی وقاص کو ”امیر“ کہا گیا.وہ جنگ قادسیہ میں ایرانیوں کے خلاف اسلامی افواج کے قائد تھے، لیکن حضرت عمر نے جو اپنے لئے ” امیر المومنین کا قلب اختیا کیا تو گمان غالب ہے کہ یہ قرآن مجید کے تابع ہوگا، صلى الله ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ، اس کے رسول علے اور اپنے اولوالامر کی اطاعت کرو (النساء: ۸۵).عہد فاروقی سے خاتمہ خلافت تک یعنی امیر المومنین کا اعزازی لقب صرف خلفاء کے لئے مخصوص رہا.اگر کوئی بادشاہ اسے اختیار کر لیتا تھا تو اس سے یہی سمجھا جاتا تھا کہ وہ مدعی منصب خلافت بھی ہے.خواہ خلافت کے عام مفہوم میں ، جیسے بنوامیہ، بنو عباس اور فاطمی خلفاء تھے، یا مستقل اسلامی حکومت کے معنی ہیں.جیسے اندلس میں ۳۱۶ھ/ ۹۲۸ء سے بنو امیہ تھے.یا المغرب میں بنو مؤمن.اء ۱۲۵۸/۵۶۵۶ء میں جب عباسی خلافت ختم ہوگئی تو مصر کے مملوک سلاطین نے قلیل عرصے کے لئے اسے خلافت مطلقہ کی حیثیت سے تسلیم کر لیا، یہاں تک کہ قاہرہ میں خود انہوں نے عباسی خلفاء کا ایک جدید سلسلہ قائم کر لیا.المغرب میں بنو حفص کا دعویٰ قائم کر لیا.المغرب میں بنو حفص کا دعویٰ بنومرین نے تسلیم نہیں کیا اور آٹھویں صدی

Page 35

۱۴ ہجری / چودھویں صدی عیسوی میں اپنے لئے امیر المومنین کا لقب اختیار کر لیا.بعد کے تمام مراکشی شاہی خاندانوں نے بھی ان کا تتبع کیا.شیعوں کا فرقہ امامیہ امیر المومنین کا لقب صرف حضرت علی بن ابی طالب سے مخصوص سمجھتا ہے.اسماعیلیوں کا ہر فرقہ اسے اپنے اپنے مسلمہ خلفاء کے لئے استعمال کرتا ہے.زیدی شیعوں کے نزدیک ہر وہ علوی جو بزور شمشیر اپنے اقتدار کومنوالے خود کو امیر المومنین کہلو اسکتا ہے، مثلاً یمن کے زیدی امام.لفظ امیر المومنین کا استعمال خوارج کے ہاں تاہرت کے رستمیوں کے سوا بہت شاذ ہے.کبھی کبھی اس اصطلاح کا اطلاق کسی نسبت سے مجاز البعض بڑے بڑے علماء پر بھی کیا گیا ہے، مثلاً مشہور محدث شعبہ بن الحجاج کو امیر المومنین فی الراویہ کہا گیا (ابو نعیم : حلیہ الاولیاء ۱۴۴۰۷)، اسی طرح مشہور نحوی ابو حیان غرناطی کو امیر المومنین فی النحو" ( المقری، نفح الطيب ، ص ۸۲۶) (مختصر اردو دائرہ معارف اسلامیه زیرا نظام دانش گاہ پنجاب لاہور، شعبہ پنجاب یونیورسٹی لا ہور۱۹۹۷ء)

Page 36

۱۵ نظام خلافت کے اغراض و مقاصد اللہ تعالیٰ نے اس عالم کا ئنات میں بیشمار اور ان گنت مخلوقات پیدا کی ہیں.جن میں سے انسان کو یہ شرف اور اعزاز حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اشرف المخلوقات بنایا ہے.اس حقیقت کی تائید متعدد آیات کریمہ سے ہوتی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں انسان کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے:.هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمُ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً (بقره:۳۰) وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے وہ سب کا سب پیدا کیا جو زمین میں ہے.اسی طرح ایک دوسری آیت کریمہ میں فرمایا :.وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَهُمُ مِنَ الطَّيبَتِ وَفَضَّلْنَهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلاه (بنی اسرائیل : ۷۱) اور یقیناً ہم نے ابنائے آدم کو عزت دی اور انہیں خشکی اور تری میں سواری عطا کی اور انہیں پاکیزہ چیزوں میں سے رزق دیا اور اکثر چیزوں پر جو ہم نے پیدا کیں انہیں بہت فضیلت بخشی.پس اب ظاہر ہے کہ اس کائنات کی سب سے اہم مخلوق جس کے لئے یہ ساری کائنات پیدا کی گئی ہے.ضرور اس کی پیدائش کا بھی کوئی مقصد ہونا چاہئے جوسب سے زیادہ اہم اور اعلیٰ ہونا چاہئے.چنانچہ اس سلسلہ میں قرآن کریم کی درج ذیل آیت میں ہماری راہنمائی کی گئی ہے.وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لَيَعْبُدُون (الذاريات: ۵۷) اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اور صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے.

Page 37

۱۶ انسان کی پیدائش کا مقصد عبادت قرار دینے میں دراصل حکمت دی تھی کہ اس طریق سے انسان خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بن سکے.جیسا کہ تَخَلَّقُوا باخلاق الله (التعريفات جلد اص ۱۲۱۶ از علی بن محمد بن علی جرجانی ) ( تم اللہ تعالیٰ کے اخلاق کو اپناؤ ) سے ظاہر ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر بنو.اسی طرح ایک حدیث میں آیا ہے کہ :.إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ.(مسند احمد بن حنبل جلد دوم ص ۳۲۳) اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے.اب ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی مادی وجود نہیں ہے.لہذ اس حدیث کا یہی مطلب ہے کہ انسان کی پیدائش کا مقصد اس کے ذریعہ صفات باری تعالیٰ کا ظہور تھا.اسی طرح ایک حدیث قدسی ہے کہ كُنتُ كَنُرًا مَخْفِيًا فَاَرَدْتُ اَنْ أُعْرَفَ فَخَلَقْتُ آدَمَ.(مزيل الخفاء والالباس جلد ۲ ص ۱۲۳ مصنفه اسمعیل بن العجلونی) یعنی میں نے ارادہ کیا کہ میں پہچانا جاؤں پس میں نے آدم کو پیدا کیا.چنانچہ اسی عظیم مقصد کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا:.إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً.(بقرہ: ۳۱) یقیناً میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں.پس یہی وہ عظیم مشن تھا جس کے پیش نظر انبیاءعلیہم السلام کا سلسلہ جاری کیا گیا.جس کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی اور تکمیل افضل الرسل خاتم الانبیاء حضرت محمہ کے بابرکت وجود سے ہوئی.بعض روایات کے مطابق دنیا کو ہر قوم، ہر علاقے اور ہر زمانہ میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث ہوئے.پھر انبیاء علیھم السلام کے ذریعہ جس نظام کی تخمریزی ہوئی اس کی آبیاری کے لئے انبیاء کے بعد

Page 38

۱۷ خلافت کا سلسلہ جاری فرمایا جس کی تصدیق اس حدیث سے بھی ہوتی ہے.مَا كَانَتْ نُبُوَّةً قَطُّ إِلَّا تَبْعَتُهُ خِلَافَةٌ.(مجمع الزوائد على بن ابى بكر الهيثمي جلد ۵ ص ۱۸۸ دار الكتاب العربی قاہرہ بیروت ۱۴۰۷) یعنی کوئی بھی ایسی نبوت نہیں گزری جس کے بعد خلافت قائم نہ ہوئی ہو.پس اس حدیث پاک سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں پر خلافت سے مراد خلافت علی منہاج النبوۃ ہے جو نبوت کی جانشین اور قائمقام ہوتی ہے.جس کے قیام کا مقصد در حقیقت برکات رسالت کو جاری رکھنا ہوتا ہے اور وہ مقصد جس کے پیش نظر انسان کو پیدا کیا گیا ہے نبی سابق کی تعلیم کی روشنی میں اس کی راہنمائی کرنا.نیز تجدید دین کرنا اور نبی کے وجود کوظلی طور پر قائم رکھنا ہوتا ہے.اور نبی کے ماننے والوں میں اتحاد و تنظیم قائم رکھنا ہے.نظام خلافت کے اغراض و مقاصد کو سمجھنے کے لئے سورۃ نور کی آیت ۵۶ ( جو آیت استخلاف کے نام سے معروف ہے ) ہماری مکمل راہنمائی کرتی ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمُ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنَا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ) (نور: ۵۶) ترجمہ: تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے ان سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور ان کے لئے ان کے دین کو ، جو اس نے ان کے لئے پسند کیا،

Page 39

۱۸ ضرور تمكنت عطا کرے گا اور ان کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا.وہ میری عبادت کریں گے.میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے.اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں.اس آیت کو آیت استخلاف کہا جاتا ہے جس میں یہ بات ظاہر فرمائی گئی ہے کہ جس طرح خدا نے پہلے انبیاء کے بعد خلافت کا سلسلہ جاری فرمایا تھا اسی طرح آنحضور کے بعد بھی جاری فرمائے گا اور وہ خلافت نبی کے نور کو لے کر آگے بڑھے گی اور آنحضرت کی نبوت کا تمہ ثابت ہوگی.اس آیت کریمہ میں نظام خلافت کے تمام بنیادی ضروری مضامین بیان کر دیئے گئے ہیں جن کی تفصیل میں اپنے اپنے موقع پر جایا جائے گا مگر اس جگہ صرف نظام خلافت کے مقاصد کا ذکر کرنا مقصود ہے.چنانچہ آیت استخلاف میں نظام خلافت کے درج ذیل تین بنیادی مقاصد بیان کئے گئے ہیں.ا.تمکنت دین.یعنی نظام خلافت دین کی مضبوطی کا باعث بنتا ہے.۲.خوف کا امن میں تبدیل ہونا.یعنی دین پر جب بھی کوئی خوف یا خطرے کی گھڑی آتی ہے تو نظام خلافت کے ذریعہ وہ خوف امن اور سکون میں تبدیل ہو جاتا ہے.۳.توحید باری تعالیٰ کا قیام.جیسا کہ قبل از میں بیان کیا گیا ہے کہ انسان کی پیدائش اور انبیاءعلیھم السلام کی بعثت کا بنیادی مقصد خدا تعالیٰ کی صفات کا ظہور ہے.یعنی توحید خداوندی کا قیام.پس مذہب اور دین کا یہ بنیادی مقصد بھی

Page 40

۱۹ نبوت کے بعد خلافت کے ذریعہ پورا ہونے میں مددملتی ہے.جہاں اس سے تو حید خداوندی کے قیام میں مدد ملتی ہے وہاں اس کے لازمی نتیجہ کے طور پر امت میں وحدت اور اتحاد و یگانگت پیدا ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نظام خلافت کے قیام کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہتا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور ان کو غلبہ دیتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے كَتَبَ اللهُ لَا غُلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِی اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی رحمت زمین پر پوری ہو جائے اور اس کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے.اسی طرح خدا تعالیٰ قومی نشانوں کے ساتھ ان کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اس کی تخم ریزی انہی کے ہاتھ سے کر دیتا ہے.لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتی ہے مخالفوں کو ہنسی ٹھٹھے اور طعن و تشنیع کا موقع دیتا ہے اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر نا تمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں.غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے.ا.اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے.۲.دوسرے اپنے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا

Page 41

ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں.تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.پس جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے معجزہ کو دیکھتا ہے.جیسے کہ حضرت ابو بکر صدیق کے وقت میں ہوا جب کہ آنحضرت ﷺ کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے اور صحابہ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے.تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا.وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمُ دِيْنَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا یعنی خوف کے بعد ہم ان کے پیر جمادیں گے.(سورة نور: ۵۶) الوصیت.روحانی خزائن جلد ۲۰ ص ۳۰۵،۳۰۴) اسی طرح ایک دوسری جگہ خلافت کی اغراض بیان کرتے ہوئے فرمایا:.خلیفہ در حقیقت رسول کا ظل ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف واولی ہیں ظلمی طور پر ہمیشہ کے لئے تا قیامت قائم رکھے.سواسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم

Page 42

۲۱ نہ رہے.شہادۃ القرآن.روحانی خزائن جلد ۶ ص ۳۵۳) حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک موقع پر سوال کیا گیا کہ خلیفہ آنے کا مدعا کیا ہے.آپ نے فرمایا:.اصلاح.دیکھو حضرت آدم سے اس نسل انسانی کا سلسلہ شروع ہوا اور ایک مدت دراز کے بعد جب انسانوں کی عملی حالتیں کمزور ہو گئیں اور انسان زندگی کے اصل مدعا اور خدا کی کتاب کی اصل غایت بھول کر ہدایت کی راہ سے دور جا پڑے تو پھر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ایک مامور اور مرسل کے ذریعہ سے دنیا کو ہدایت کی اور ضلالت کے گڑھے سے نکالا.شان کبریائی نے جلوہ دکھایا اور ایک شمع کی طرح نور معرفت دنیا میں دوبارہ قائم کیا گیا.ایمان کونو رانی اور روشنی والا ایمان بنادیا.غرض اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ سے یہی سنت چلی آتی ہے کہ ایک زمانہ گزرنے پر جب پہلے نبی کی تعلیم کو لوگ بھول کر راہ راست اور متاع ایمان اور نور معرفت کو کھو بیٹھتے ہیں اور دنیا میں ظلمت اور گمراہی ،فسق و فجور کا چاروں طرف سے خطرناک اندھیرا ہو جاتا ہے.تو اللہ تعالیٰ کی صفات جوش مارتی ہیں اور ایک بڑے عظیم الشان انسان کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کا نام اور تو حید اور اخلاق فاضلہ پھر نئے سرے سے دنیا میں اس کی معرفت قائم کر کے خدا تعالیٰ کی ہستی کے بین ثبوت ہزاروں نشانوں سے دیئے جاتے ہیں اور ایسا ہوتا ہے کہ کھویا ہوا عرفان اور گمشدہ تقوی طہارت دنیا میں قائم کی جاتی ہے اور ایک عظیم الشان انقلاب واقع ہوتا ہے.غرض اسی سنت قدیمہ کے مطابق ہمارا یہ سلسلہ قائم ہوا ہے.،، (ملفوظات جلد پنجم نیا ایڈیشن ۵۶۱۵۶۰) حضرت خلیفتہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے خلافت کے قیام کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے فرمایا:.

Page 43

۲۲ خلافت خدا کی طرف سے ایک بڑا انعام ہے.جس کا مقصد قوم کو متحد کرنا اور تفرقہ سے محفوظ رکھنا ہے.یہ وہ لڑی ہے جس میں جماعت موتیوں کی مانند پروئی ہوئی ہے.اگر موتی بکھرے ہوں تو نہ تو محفوظ ہوتے ہیں اور نہ ہی خوبصورت معلوم ہوتے ہیں.ایک لڑی میں پروئے ہوئے موتی خوبصورت اور محفوظ ہوتے ہیں.اگر قدرت ثانیہ نہ ہو تو دین حق کبھی ترقی نہیں کر سکتا“.(الفضل انٹر نیشنل ۲۳ مئی تا۵ جون ۲۰۰۳ء) حضرت قمر الانبیاء مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے نظام خلافت کی اغراض و مقاصد تحریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.قرآن شریف کی تعلیم اور سلسلہ رسالت کی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی رسول اور نبی کو بھیجتا ہے تو اس سے اس کی غرض یہ نہیں ہوتی کہ ایک آدمی دنیا میں آئے اور ایک آواز دے کر واپس چلا جاوے بلکہ ہر نبی اور رسول کے وقت خدا تعالیٰ کا منشاء یہ ہوتا ہے کہ دنیا میں ایک تغیر اور انقلاب پیدا کرے جس کے لئے ظاہری اسباب کے ماتحت ایک لمبے نظام اور مسلسل جد و جہد کی ضرورت ہوتی ہے اور چونکہ ایک انسان کی عمر بہر حال محدود ہے.صرف تخم ریزی کا کام لیتا ہے اور اس تخم ریزی کو انجام تک پہنچانے کے لئے نبی کو وفات کے بعد اس کی جماعت میں سے قابل اور اہل لوگوں میں یکے بعد دیگرے اس کے جانشین بنا کر اس کے کام کی تکمیل فرماتا ہے.یہ جانشین اسلامی اصطلاح میں خلیفہ کہلاتے ہیں“.(بحوالہ ماہنامہ خالد ربوہ مئی ۱۹۶۰ء)

Page 44

۲۳ خلافت کی ضرورت و اہمیت جماعت احمدیہ کی خوش نصیبی اور خوش بختی ہے کہ اسے خلافت جیسی عظیم نعمت حاصل ہے.اگر جماعت احمدیہ میں نظام خلافت قائم نہ ہوتا تو آج جماعت احمدیہ کا نفوذ 185 ممالک میں نہ ہوتا.یہ خلافت کی ہی برکت ہے کہ جس نے جماعت میں شیرازی بندی اور وحدت کو قائم رکھا ہوا ہے ورنہ جماعت احمد یہ بھی کئی فرقوں میں تقسیم ہو چکی ہوتی.پس خلافت تمہ نبوت ہے اس کے ذریعہ سے صحیح دین کی حفاظت ہوتی ہے دین کو تمکنت حاصل ہوتی ہے.جماعت مومنین کی شیرازہ بندی اور اتحاد کا استحکام ہوتا ہے.نبی کی روحانیت کا دور ممتد رہتا ہے.اگر اللہ تعالیٰ نظام خلافت کو قائم نہ کرے تو کہنا پڑے گا کہ قیام نبوت کا عظیم مقصد ناقص اور نا تمام رہ گیا.اس لئے شرعاً اور عقلاً بھی نبوت کے بعد خلافت کا ہونا لازمی ہے.خلافت کی ضرورت واہمیت کا اندازہ ذیل کے حوالہ جات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جن میں خلافت کی نعمت سے محروم جماعتوں و تحریکوں کے عمائدین وسر براہان و دانشوروں نے خلافت کی ضرورت کا ایسے ہی کھل کر اظہار کیا ہے جس طرح خشک سالی میں باران رحمت کا انتظار کیا جاتا ہے.ا.حضرت سید اسمعیل شہید خلافت کی جستجو اور اس نعمت کے لئے دعا کرنے کے بارہ میں تحریر کرتے ہیں.نزول نعمت الہی یعنی ظہور خلافت راشدہ سے کسی زمانہ میں مایوس نہ ہونا چاہئے

Page 45

۲۴ اور اسے مجیب الدعوات سے طلب کرتے رہنا چاہئے اور اپنی دعا کی قبولیت کی امید رکھنا اور خلیفہ راشد کی جستجو میں ہر وقت ہمت صرف کرنا چاہئے.شاید یہ نعمت کا ملہ اسی زمانہ میں ظہور فرمادے اور خلافت راشدہ اس وقت ہی جلوہ گر ہو جاوے“.(منصب امامت ص ۸۶ - گیلانی پریس ہسپتال روڈ لاہور مطبوعہ ۱۹۴۹ء).مشہور صحافی م ش تحریر کرتے ہیں کہ :.”پاکستان کے مقاصد کی تکمیل پارلیمانی یا صدارتی نظام ہائے حکومت رائج کرنے سے نہیں بلکہ خلافت کے قیام سے ہی کی جاسکتی ہے.( روزنامہ نوائے وقت لاہور ۲۱ مارچ ۱۹۶۷ء ).اہل قرآن کے لیڈر غلام احمد صاحب پرویز لکھتے ہیں:.”ہمارے لئے کرنے کا کام یہ ہے کہ پھر سے خلافت علی منہاج رسالت کا سلسلہ قائم کیا جائے جو امت کو احکام و قوانین خداوندی کے مطابق چلائے.(ماہنامہ طلوع اسلام مارچ ۱۹۷۷ ء ص ۶) ۴.اہلحدیث کا ترجمان رسالہ تنظیم اہلحدیث لکھتا ہے:.اگر زندگی کے ان آخری لمحات میں ایک دفعہ بھی خلافت علی منہاج النبوۃ کا نظارہ نصیب ہو گیا تو ہو سکتا ہے کہ ملت اسلامیہ کی بگڑی سنور جائے اور روٹھا ہوا خدا پھر سے مان جائے اور بھنور میں گھری ہوئی ملت اسلامیہ کی یہ ناؤ شاید کسی طرح اس کے نرغے سے نکل کر ساحل عافیت سے ہمکنار ہو جائے ورنہ قیامت میں خدا ہم سے پوچھے گا کہ دنیا میں تم نے ہر ایک اقتدار کے لئے زمین ہموار کی.کیا اسلام کے غلبہ اور قرآن کریم کے اقتدار کے لئے بھی کچھ کیا ؟ (هفت روز تنظیم اہلحدیث لاہور ۲ استمبر ۱۹۲۹ء)

Page 46

۲۵ ۵.ماہنامہ جدو جہد لا ہورلکھتا ہے:.مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک تمہیں ممالک کا ایک عظیم اسلامی بلاک صرف اتحاد اتفاق کی نعمت سے محروم ہونے کی وجہ سے مغربی اقوام سے پٹ رہا ہے.اب وقت کا تقاضا ہے کہ مسلمان ممالک متحد ہو کر اس دشمن اسلام اقوام متحدہ کو چھوڑ کر خلافت اسلامیہ کا احیاء کریں.ایک فعال قوت کی حیثیت سے زندہ رہنے کا یہی ایک طریقہ ہے.(ماہنامہ جد و جہد لا ہورا گست ۱۹۷۴ء).احیائے خلافت کی حالیہ تحریکوں میں سے ایک تحریک کے داعی چوہدری رحمت علی صاحب اپنی کتاب ”دار السلام میں لکھتے ہیں:.نفاذ غلبہ اسلام اور وجود قیام خلافت لازم و ملزوم ہیں.بالفاظ دیگر جیسے دن سورج کا محتاج ہے اور بغیر اندھیرے کے رات کا تصور ناممکن ہے.اسی طرح خلافت معرض وجود میں ہوگی تو اسلام کا نفاذ غلبہ ممکن ہو گا ورنہ اس خیال است و محال است و جنوں‘ نیز تاریخ مزید ثبوت مہیا کرتی ہے کہ جب خلافت اپنے عروج پرتھی.اسلام کا ے.بھی وہی سنہری دور تھا.( دار السلام عمران پبلیکیشنز اچھر و لا ہور ۱۹۸۵ء ص۳) - جناب فضل محمد یوسف زئی استاذ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی لکھتے ہیں:.دد مسلمان ترس رہے ہیں کہ کاش ہماری ایک خلافت ہوتی ، ہمارا ایک خلیفہ ہوتا، کاش ہماری ایک بادشاہت ہوتی ، کاش ہمارا ایک بادشاہ ہوتا جس کی بات پوری دنیا کے مسلمانوں کی بات ہوتی جس میں وزن ہوتا جس میں عظمت ہوتی جس میں شجاعت ہوتی جس کی وجہ سے اقوام متحدہ میں ان کی حیثیت ہوتی عالمی برادری میں ان کی قیمت ہوتی ویٹو پاور میں ان کا مقام ہوتا سلامتی کونسل میں اس کا نام ہوتا “ (ماہنامہ الحق اکوڑہ خٹک.مارچ ۲۰۰۰ ء ص ۵۸ )

Page 47

۲۶ تحریک خلافت کے داعی اور تنظیم اسلامی کے امیر ڈاکٹر اسراراحمد لکھتے ہیں:.اول دور خود حضور اور خلفائے راشدین کا دور ہے.جسے خلافت علی منہاج النبوۃ کہا جاتا ہے اور قیامت سے پہلے آخری دور میں پھر خلافت علی منہاج النبوۃ کا نظام قائم ہوگا.اس قول سے یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ حضور نے اسلام کا نظام عدل اجتماعی جس طریقے سے قائم فرمایا تھا صرف اسی طریقے سے اب یہ نظام قائم ہوسکتا ہے وہ طریقہ یہ ہے کہ پہلے ہر شخص اپنی ذات میں اللہ کا خلیفہ بنے پھر اپنے گھر اور دائرہ اختیار میں خلافت کا حق ادا کرے، اس کا تقاضہ پورا کرے اور جولوگ یہ دومر حلے طے کر لیں انہیں بنیان مرصوص بنا کر ایک نظم میں پرو دیا جائے اور پھر یہی لوگ باطل کے ساتھ ٹکرا جائیں، میدان میں آکر منکرات کو چیلنج کریں اور اپنے سینوں میں گولیاں کھائیں.( پاکستان میں نظام خلافت.امکانات، خدو خال اور اس کے قیام کا طریق ص۱۳۲ انجمن خدام القرآن لاہور ۱۹۹۲ء) ۹."حزب التحریر نامی تنظیم کی طرف سے مورخہ ۱۳ را پریل ۲۰۰۳ء کو ایک پمفلٹ اسلام آباد میں تقسیم کیا گیا جس کا عنوان تھا.”حزب التحریر کی پکاڑ ”صرف خلافت کے ذریعہ ہی تم فتح حاصل کرو گے“.اس میں لکھا گیا ہے کہ:.”اے مسلمانو، کیا وہ وقت ابھی نہیں آیا کہ تم اپنے معاملات پر غور کرو اور اس بات کو جان لو کہ اس تہہ در تہہ ظلمت سے نکالنے والا صرف نظام خلافت ہی ہے؟“ کیا تم اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی تصدیق نہیں کرتے جب وہ تمہارے لئے بیان کرتا ہے کہ تم کو کس طرح عزت اور نصرت ملے گی.”بلاشبہ تمام کی تمام عزت اللہ کے لئے ہی ہے.اور ارشاد باری تعالیٰ ہے.اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا“.66

Page 48

۲۷ پس تم اللہ کی مدد کرو، خلافت راشدہ کے قیام کے ذریعے شریعت کو نافذ کرو، تب ہی تمہیں فتح اور عزت ملے گی.آگے چل کر لکھا گیا کہ:."خلافت کے ساتھ تم معتصم کی سیرت کو زندہ کرو گے.تم مدد کے لئے بچوں کی چیخ و پکار کا جواب دے سکو گے جن کو کفار نے عراق کی دشمنی میں ذلیل وخوار کر رکھا ہے اور ان کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ مدد کے لئے اپنے ہاتھ دراز کریں اور یہ منظر دلوں کو چیر دیتا ہے.ان بچوں کے چہروں سے معصومیت ٹپکتی ہے جبکہ خوف ان کے دلوں میں بس گیا ہے.خلافت کے ذریعے تم اپنے دشمن کے قتال کے لئے نکلو گے.تمہارا خلیفہ لڑائی میں تمہاری قیادت کرے گا نہ کہ فرار میں.وہ تمہاری حفاظت کرے گا اور تم اس کی قیادت تلے قتال کرو گے اور وہ تمہیں ایک فتح سے دوسری فتح تک لے جائے گا نہ کہ ایک شکست سے دوسری شکست تک.اے مسلمانو! خلافت کو قائم کرو تم عزت پاؤ گے.اس کو زندہ کرو گے تو کامیاب رہو گے.ورنہ تم تہہ در تہہ ظلمت میں گرتے ہی چلے جاؤ گے اور اس وقت پشیمان ہو گے جب بہت دیر ہو چکی ہوگی.تب اللہ ایسی قوم لے آئے گا جو تم سے بہتر ہوگی جو کہ اللہ کے وعدے کو پورا کرے گی.ا.جناب واصف علی واصف یا الہی ، یا الہی کے زیر عنوان اللہ تعالیٰ سے التجا کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:.یا الہی ہمیں لیڈروں کی یلغار سے بچا ہمیں ایک قائد عطا فرما، ایسا قائد جو تیرے حبیب کے تابع فرمان ہو.اس کی اطاعت کریں تو تیری اطاعت کے حقوق ادا ہوتے رہیں.( روزنامہ نوائے وقت لاہور ۲۶ ستمبر ۱۹۹۱ء)

Page 49

۲۸ ا.ماہنامہ سبق پھر پڑھ اچھرہ لاہور کے مدیر چوہدری رحمت علی صاحب لکھتے ہیں:.حیرت و تأسف تو اس بات پر ہے کہ آج کی دنیا میں صرف کفار و مشرکین ہی طاغوتی نظاموں کی سر پرستی نہیں کر رہے مسلمان بھی خلافت سے منہ موڑ کر ایسی ہی من مرضی کی حکومتیں رواں دواں رکھے ہوئے ہیں.اس میں کیا شک کہ قرآن وسنت کے مطابق پوری اسلامی دنیا کا صرف ایک ہی خلیفہ (سربراہ ) ہو سکتا ہے.حل ایک ہی ہے کہ خلافت کی گاڑی جہاں سے پڑی سے اتری تھی وہیں سے اسے پھر پڑی پر ڈال دیا جائے.واضح اور دوٹوک تشخیص کے بعد امت کے تمام دکھوں کے لئے ایک ہی شافی نسخہ ہے کہ خلافت کو اس دنیا میں پھر بحال کر دیا جائے وقت گزرتا جا رہا ہے.ہمارے وہ محترم بھائی جو آج کسی نہ کسی طور امت کی قیادت پر متمکن ہیں اور وہ جہالت کے سرداروں کی طرف باہم دگر رہتے ہیں، خلافت کو بحال کرنے کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں.پھر قائدانہ مناصب پر ہوتے ہوئے ان کے لئے بحالی خلافت کا کام قدرے آسان بھی ہے.لہذا وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے سے پہلے اگر یہ کام کر جائیں تو انشاء اللہ قیامت کے دن اپنے رب کے ہاں سرخرو ہوں گے“.(ماہنامہ سبق پھر پڑھ “ جلد ۲ شماره ۸/اگست ۱۹۹۲ء ص ۱۶) ۱۲.فروری ۱۹۷۴ء میں مسلم سربراہان کی کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی.اس تاریخی موقعہ پر مولانا عبدالماجد دریا آبادی ایڈیٹر صدق جدید نے خلافت کے بغیر اندھیرا کا عنوان دے کر ایک نہایت بصیرت افروز مضمون لکھا.مولانا موصوف لکھتے ہیں:.

Page 50

۲۹ ” اتنے تفرق و تشنت کے باوجود کبھی کسی کا ذہن اس طرف نہیں جاتا کہ عراق کا منہ کدھر اور شام کا رخ کس طرف ہے؟ مصر کدھر اور حجاز اور یمن کی منزل کونسی ہے اور لیبیا کی کونسی؟ ایک خلافت اسلامیہ آج ہوتی تو اتنی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں آج مملکت اسلامیہ کیوں تقسیم در تقسیم ہوتی ؟ ایک اسرائیل کے مقابل پر سب کی الگ الگ فوجیں کیوں لانا پڑتیں.ترک اور دوسرے فرمانروا آج تک تنسیخ خلافت کی سزا بھگت رہے ہیں اور خلافت کو چھوڑ کر قومیتوں کا جو افسوس شیطان نے کان میں پھونک دیا وہ دماغوں سے نہیں نکالتے“.(روز نامہ صدق جدید لکھنو.یکم مارچ ۱۹۷۴ء) مگر ان بدنصیبوں کو کون بتائے کہ خلفاء کا تقر ر خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اور یہ نعمت عظمیٰ ان لوگوں کے لئے رکھی ہے جو آمنوا وعملو الصالحات کے مصداق ہیں.جنہوں نے آنحضرت ﷺ کے ایک غلام اور عاشق صادق اور آپ کی پیروی اور غلامی سے امتی نبوت کا درجہ پانے والے بانی سلسلہ احمد بیت حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام سے اپنے آپ کو منسوب کیا اور خدا تعالیٰ نے ان کو نعمت خلافت سے نوازا.

Page 51

Page 52

۳۱ تحریک خلافت پہلی عالمگیر جنگ میں ترکوں نے انگریزوں کے خلاف جرمنی اور آسٹریلیا کا ساتھ دیا تھا.نومبر ۱۹۱۸ء میں انگریزوں کو فتح ہوئی.۵ جنوری ۱۹۱۸ء کو برطانوی وزیر اعظم لائیڈ جارج نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے زور دے کر واضح کیا تھا کہ ہم ترکی کی سلطنت اور اس کے دارالحکومت قسطنطنیہ کے لیے قطعاً کسی خطرے کا سبب نہیں بنیں گے اور ہماری طرف سے ترکی کے معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی.لیکن ۱۹۱۹ء کی صلح کا نفرنس میں سلطنت ترکی کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا.خلافت بھی عملاً ختم کر دی گئی.ہندوستان کے مسلمانوں نے اس کے خلاف سخت احتجاج کیا.تحریک خلافت کا آغاز احتجاجی جلسوں سے ہوا.مسلم کانفرنس کے اجلاس لکھنو میں آل انڈیا سنٹرل خلافت کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا.۲۷ اکتو بر ۱۹۱۹ء کو ملک بھر میں یوم خلافت منایا گیا.تمام کاروبار بند رہے.۱۳ دسمبر ۱۹۱۹ء کو حکومت نے ہفتہ تقریبات امن منانے کا اعلان کیا لیکن مسلمانوں نے ان تقریبات میں حصہ لینے سے انکار کر دیا.خلافت کا نفرنس کا پہلا اجلاس ۲۴ نومبر ۱۹۱۹ءکو دہلی میں مسٹر فضل الحق کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں مسٹر گاندھی ، موتی لال نہرو اور پنڈت مدن موہن مالوی بھی شریک ہوئے.مسٹر گاندھی نے مسلمانوں کو ہندوؤں کی بھر پور حمایت کا یقین دلایا.۱۹۲۰ء میں بمبئی میں خلافت کا نفرنس کا اجلاس ہوا اور فیصلہ ہوا کہ خلافت کے مسئلے پر لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے ایک وفد یورپ روانہ کیا جائے.دوسری طرف برطانیہ دنیا بھر میں یہ جھوٹا پراپیگنڈہ کرنے میں مصروف تھا کہ ترکی کی حرکتیں اسے سخت ترین

Page 53

۳۲ سزا کا حقدار بناتی ہیں.ترکی اسی سلوک کا مستحق ہے کہ اسے کچل دیا جائے“.وفد عدن اور پورٹ سعید کے شہروں سے ہوتا ہوا لندن پہنچا.اس وفد میں مولا نا محمد علی، مولانا سید سلیمان ندوی اور سید حسن امام بیرسٹر پٹنہ شامل تھے.وفد نے برطانوی وزیر اعظم سے ملاقات کی لیکن اس نے صاف صاف کہہ دیا کہ مفتوحه قوم خواہ مسلمان ہو یا عیسائی، ایک جیسے سلوک کی مستحق ہے.ترکی نے برطانیہ سے شکست کھائی ہے لہذا اب اسے شکست کے نتائج بھگتنے کے لئے تیار رہنا چاہئے.مولا نا محمد علی نے اس گفتگو کا جواب دینا چاہا تو برطانوی وزیر اعظم نے کہا کہ میں رات بھر بیٹھ کر آپ کی بحث نہیں سننا چاہتا.ملاقات کے خاتمے پر مولانا سید سلیمان ندوی نے خلافت کی اہمیت کے بارے میں ایک کتا بچہ دینا چاہا تو برطانوی وزیر اعظم نے مسکرا کر شکریہ ادا کیا اور کتاب لینے سے انکار کر دیا.اس کے بعد وفد خلافت نے فرانس اور اٹلی کے متعدد شہروں کا دورہ کیا اور اپنے مشن سے لوگوں کو آگاہ کیا.نومبر ۱۹۲۰ء میں وفد واپس ہندوستان پہنچا.ستمبر ۱۹۲۰ء میں گاندھی اور علی برادران کے مشورے سے طے پایا کہ عدم تعاون کی ملک گیر تحریک چلائی جائے.عدم تعاون کے پروگرام کی کانگرس ، جمعیت علمائے ہند اور خلافت کمیٹی نے حمایت کر دی.عدم تعاون کی اپیل کا ہندوؤں اور مسلمانوں نے کھلے دل سے خیر مقدم کیا.دسمبر ۱۹۲۱ء سے جنوری ۱۹۲۲ء کے درمیانی عرصے میں تین ہزار سے زائد ہندو و مسلم تحریک عدم تعاون کے سلسلے میں گرفتار کئے گئے.مولانا محمد علی ، مولانا شوکت علی ، مولانا حسین احمد مدنی ، ڈاکٹر سیف الدین اور پیر غلام مجدد نثار احمد کو دو دو سال کے لئے قید کر دیا گیا.عدم تعاون کی تحریک کو گرفتاریوں سے زبردست دھچکا لگا، لیکن اس کے مکمل خاتمے میں تشدد آمیز واقعات نے حصہ لیا.تحریک خلافت سے کانگرس کو دو فائدے حاصل ہوئے.ایک تو مسلمان دھڑا دھڑ کانگرس میں

Page 54

۳۳ شامل ہونے لگے.دوسرے کانگرس کو وہ طاقت حاصل ہوگئی جو پہلے کبھی حاصل نہ ہوئی تھی لیکن جس طریق سے گاندھی نے اس تحریک کو ختم کیا اس نے مسلمانوں کے دلوں میں ہندوؤں کے بارے میں اس قسم کے شکوک وشبہات پیدا کئے جن کو پھر کبھی دور نہ کیا جاسکا.تحریک خلافت بے نتیجہ ثابت ہوئی کیونک ترکی میں مسلمانوں نے دوبارہ طاقت پکڑ کر جو آزاد حکومت قائم کی اس کی اسمبلی کے سربراہ کمال اتاترک نے خلافت کے با قاعدہ خاتمے کا اعلان کر دیا.اسلامی انسائیکلو پیڈیا از سید قاسم محمود الفیصل ناشران و تاجران کتب اردو بازار لاہور ) پس تحریک خلافت ضرورت خلافت کا منہ بولتا ثبوت ہے مگر امت مسلمہ کو نام نہاد خلافت سے جو مرکزیت اور وحدت حاصل تھی وہ بھی ختم ہو گئی اور تحریک خلافت کا کوئی مثبت نتیجہ نہ نکل سکا.اس طرح خلافت راشدہ اولیٰ کے بعد حدیث حذیفہ بن یمان (مسند احمد بن حنبل) کے مطابق حضرت امیر معاویہ کے ذریعہ جس ملوکیت کا آغاز ہوا تھا وہ خلیفہ سلطان عبدالحمید پر اپنے اختتام کو پہنچ گیا اور مذکورہ حدیث کے مطابق خلافت علی منہاج نبوت حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ قائم و دائم ہوگئی.

Page 55

۳۴

Page 56

۳۵ کیا عوام کی تحریک سے خلافت بن سکتی ہے؟ گزشتہ صفحات میں ” خلافت کی ضرورت واہمیت“ کے عنوان کے تحت ایسی متعدد مثالیں پیش کی جاچکی ہیں جن میں خلافت کے قیام کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا اور اس سلسلہ میں ”حزب التحریر جیسی متعدد تحریکات کوشاں ہیں کہ امت مسلمہ میں وحدت پیدا کرنے کے لئے کسی طرح نظام خلافت کو جاری کیا جائے.مگر سوال یہ ہے کہ ” کیا عوام کی تحریک سے خلافت بن سکتی ہے؟ سیدنا حضرت خلیفہ اصیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اردو بولنے والے احباب کی ملاقات کا پروگرام ۹ جون ۱۹۹۵ء کونشر ہوا اور حضوررحمہ اللہ نے ” کیا عوام کی تحریک سے خلافت بن سکتی ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:.عوام کی خلافت تو جمہوریت ہے اور وہ چل رہی ہے.اللہ اپنا خلیفہ خود بناتا ہے اور تیسری خلافت وہ ہے جو خدا کے خلیفہ کا خلیفہ ہوتا ہے.چنانچہ تمام انبیاء کی خلافت کا خدا نے خود انتظام کیا جو خلیفہ اللہ کے بعد ہوتا ہے.نبی کے وصال کے بعد خلافت کا قیام خدا تعالی کی ذمہ داری ہے اور اس کے لئے علاوہ اور شرائط کے خلافت پر ایمان رکھنا بھی ایک شرط ہے.حضور نے آیت استخلاف کے حوالے سے فرمایا کہ یہ بہت خوبصورت مضمون ہے کہ خدا سے خلافت پانے کے لئے اچھے اعمال کرنے پڑیں گے اور تمہارے اندر سے خلیفہ بنائے گا جیسے آنحضرت ﷺ کے بعد خدا نے خلافت جاری فرمائی.وہ خلافت جو خدا کی طرف سے قائم ہوتی ہے وہ دین کی تمکنت کو قائم کرتی ہے.یہ خلافت حقہ کی

Page 57

۳۶ علامت ہے.یہ بھی یادرکھیں کہ ایک وقت میں دو خلیفہ نہیں ہو سکتے اس لئے بحث کا ھی یاد رکھیں کہ ایک نچوڑ یہ ہے کہ خلافت حقہ کی تین نشانیاں ہیں.(۱) تمکنت دین.(۲) خوف کی حالت کو امن اور بے خوفی کی حالت میں بدل دے گا.(۳) ملت واحدہ کا قیام اور آیت کے آخر میں جس کفر کا ذکر ہے وہ خلافت کا کفر اور ناشکری ہے.تواب بتا ئیں جب یہ لوگ خلیفہ اللہ کا انکار کر بیٹھے ہیں تو خلافت انہیں کہاں سے ملے گی.آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے مطابق جب نبی اللہ ظاہر ہوگا تو پھر خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہوگی.حضور انور نے فرمایا کہ میں نے مخالفین کو چیلنج کیا تھا کہ اگر تم واقعی اپنی نیتوں میں بچے ہو تو خدا سے دعا کر کے مسیح کو اتار لا ؤ تو ہم تمہیں ایک کروڑ روپیہ انعام دیں گے.پھر ان سے یہ بھی پوچھو کہ تم کس طرح کی خلافت قائم کرو گے.خلیفہ سنی ہوگا یا شیعہ یا بریلوی؟ انسان کے ہاتھوں بنائی ہوئی خلافت ناممکن ہے.66 ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل لندن ۲۶ مارچ ۱۹۹۹ء)

Page 58

۳۷ بات دوم برکات خلافت نظام خلافت کی برکات کا مضمون بہت طویل ہے.تاہم اس مقالہ کے مقررہ حجم کے پیش نظر صرف چند برکات کا مختصر اذکر کیا جاتا ہے جن کا ذکر خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرما دیا ہے.ا.ایمان و عمل صالح کا ثبوت خلافت کا وعدہ صرف ان لوگوں سے کیا گیا ہے جو سچے مومن ہوں اور ان کے اعمال صالح ہوں.جیسا کہ فرمایا:.وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ.(نور : ۵۶) یعنی اور تم میں سے وہ لوگ جو ایمان لائے اور اعمال صالحہ بجالائے.اللہ تعالیٰ ان کو زمین میں اسی طرحد خلیفہ بنائے گا جس طرح اس نے ان سے پہلوں کو خلیفہ بنایا تھا.پس کسی قوم میں خلافت کی موجودگی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ قوم مؤمن اور اعمال صالحہ بجالا نیوالی ہے.۲ تمکنت دین ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں خلافت کی دوسری برکت بیان کرتے ہوئے فرماتا وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمُ.

Page 59

۳۸ یعنی اور جو دین اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے وہ ان کے لئے اسے مضبوطی سے قائم کر دے گا.پس خلافت کی دوسری بڑی برکت یہ ہے کہ اس کے ذریعہ دین کو تمکنت اور مضبوطی عطا ہوتی ہے.اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ جب تک مسلمانوں میں صحیح اسلامی خلافت کا نظام یعنی خلافت راشدہ قائم رہی اسلام کو ترقی و غلبہ نصیب رہا.اور جب مسلمان اپنی بد عملیوں کی پاداش میں اس خدائی انعام سے محروم ہوئے تو اس کے ساتھ ہی ان کی کامیابیوں اور کامرانیوں کا سورج بھی ڈھل گیا.ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی امیہ کے وصال مبارک کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے ثــم تـــــون خلافة على منهاج النبوة کے مطابق مسلمانوں کو خلافت سے نوازا تو خلافت راشدہ کے اس بابرکت دور میں جو اگر چہ صرف تمہیں سال پر محیط تھا اسلام کی شان و شوکت نہ صرف عرب میں بلکہ دنیا کے طول و عرض میں قائم ہوئی اللہ تعالیٰ نے مومنین کی جماعت کو جو وعدہ عطا فر مایا تھا کہ انتم الاعلون ان کنتم مومنین اس وعده کے مطابق مسلمانوں کو ہر میدان میں اور ہر جہت میں کامیابی اور غلبہ نصیب ہوا.کہاں یہ حالت کہ وصال نبوی کے بعد فتنہ ارتداد نے نوبت یہاں تک پہنچا دی تھی کہ مدینہ کے علاوہ صرف ایک یا دو جگہ پر نماز باجماعت ادا کی جاتی تھی اور پھر یہ عالم کہ تمہیں سال کے اندر اندر مشرق میں افغانستان اور چین کی سرحدوں تک ، مغرب میں طرابلس اور شمالی افریقہ کے کناروں تک، شمال میں بحر قزوین تک اور جنوب میں حبشہ تک اسلامی پرچم لہرانے لگا.خلافت راشدہ میں اسلام کی اس ترقی اور غلبہ کو دیکھ کر آج بھی دنیا انگشت بدنداں ہے.

Page 60

۳۹ اسلام کی ترقی و عروج کا یہ وہ زمانہ تھا کہ کسی بڑے سے بڑے مخالف کو بھی اس کے مقابلہ کی تاب نہ تھی.اسلام کی شان و شوکت اور مسلمانوں کے رعب ودبدبہ کا یہ عالم تھا کہ قیصر و کسریٰ کی عظیم الشان حکومتیں بھی ان کے نام سے لرزتی اور خم کھاتی تھیں.حق یہ ہے کہ خلافت راشدہ کے اس سنہری دور میں اسلام کو وہ عظمت اور سر بلندی حاصل ہوئی کہ آج بھی جب کوئی انصاف پسند مؤرخ مڑ کر اس دور پر نظر کرتا ہے تو حیرت کی تصویر بن جاتا ہے.اسے سمجھ نہیں آتی کہ صحرائے عرب کے بادیہ نشین فاتح اقوام عالم کیسے بن گئے؟ وہ نہیں جانتا کہ یہ سب خلافت راشدہ کا ثمرہ تھا.وہ خلافت راشدہ جس کے ساتھ اسلام کے غلبہ کی تقدیر وابستہ ہے! خلافت راشدہ کے مبارک دور میں اسلام کی ترقی اور سر بلندی کا یہ مختصر تذکرہ مکمل نہیں ہو سکتا جب تک ان فتنوں اور مسائل کا کچھ ذکر نہ کیا جائے جو خلافت راشدہ میں اور خاص طور پر اس کے آغاز کے موقعہ پر یکے بعد دیگرے اٹھے اور عظمت خلافت کے سامنے سرنگوں ہو کر رہ گئے.ارتداد کا فتنہ اٹھا، مانعین زکوۃ نے بغاوت کا علم بلند کیا، منافقین نے امت مسلمہ کی شیرازہ بندی کو ختم کرنا چاہا، جھوٹے مدعیان نبوت نے قصر اسلام میں نقب زنی کی کوشش کی.یوں نظر آتا تھا کہ یہ منہ زور فتنے عظمت اسلام کو پامال کر کے رکھ دیں گے لیکن جس خدا نے اپنے وعدہ کے مطابق امت مسلمہ کو خلافت کا انعام عطا فرمایا تھا اور جس نے یہ وعدہ فرمایا تھا.وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارتَضى کہ میں اس خلافت کے ذریعہ اپنے اس پسندیدہ دین اسلام کو تمکنت ،عظمت اور سر بلندی عطا کروں گا.اس سچے وعدوں والے خدا نے وقت کے خلیفہ سید نا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو وہ عزم حوصلہ اور اقد سام کی وہ آہنی قوت عطا فرمائی کہ

Page 61

۴۰ دیکھتے ہی دیکھتے سب فتنے زیرنگیں ہو گئے اور خرمن اسلام ان بگولوں کی زد سے پوری طرح محفوظ و مامون رہا.صرف ایک واقعہ کا معین ذکر کرتا ہوں.رسول مقبول ﷺ نے اپنے وصال سے قبل حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں مسلمانوں کا ایک لشکر جرار شام کی طرف بھیجنے کا ارشاد فرمایا.لشکر ابھی روانہ بھی نہ ہوا تھا کہ آپ کا وصال ہو گیا.حالات میں ایک دفعہ تغیر پیدا ہو گیا.بدلے ہوئے حالات میں بظاہر اس لشکر کو روک لینا ہر لحاظ سے قرین مصلحت نظر آتا تھا.حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جن کی سیاسی بصیرت اور جرأت کا لوہا ایک دنیا مانتی ہے دربار خلافت میں حاضر ہو کر عرض کرتے ہیں کہ اے خلیفۃ الرسول ! حالات کا تقاضا ہے کہ اس لشکر کے بارہ میں کچھ تبدیلی کر دی جائے.مرکز کی حفاظت کے خیال سے اس لشکر کو روک لیا جائے.خلافت حقہ کی برکت اور عظمت کا اندازہ لگائیے کہ وہ جسے رقیق القلب سمجھ کر کمزور خیال کیا جاتا تھا، وہاں وہی ابوبکر جسے اب خدا تعالیٰ نے خلافت کا منصب عطا فر ما دیا تھا آپ کا جواب یہ تھا کہ اس لشکر کو روکنے کا کیا سوال ، خدا کی قسم ! اگر پرندے میرے گوشت کو نوچ نوچ کر کھانا شروع کر دیں تو تب بھی میں اپنی خلافت کا آغاز کسی ایسی بات کو روکنے سے نہیں کروں گا جس کا حکم رسول اللہ ﷺ اپنی زندگی میں دے چکے ہیں.جو بات خدا کا رسول کہہ چکا ہے وہ آخری اور اٹل ہے.یہ لشکر جائے گا اور ضرور جائے گا، اور کوئی صورت نہیں کہ اس لشکر کوروکا جائے.صحابہ نے پھر با ادب عرض کیا کہ کم از کم لشکر کی روانگی میں کچھ تاخیر کر دی جائے.حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ بھی ناممکن ہے مجھے اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اگر مدینہ کی عورتوں کی نعشوں کو کتے مدینہ کی گلیوں میں

Page 62

۴۱ گھسیٹتے پھریں تب بھی میں اس لشکر کو ہرگز ہرگز نہیں روکوں گا جس کو رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے ہاتھوں سے تیار فرمایا تھا.یہ شکر ضر ور روانہ ہوگا اور فوری طور پر روانہ ہوگا.صحابہ نے ایک بار پھر کوشش کی اور پورے ادب سے مشورہ عرض کیا کہ اور کچھ ممکن نہیں تو کم از کم نو عمر اور ناتجربہ کار اسامہ کی جگہ کسی اور تجربہ کار شخص کو امیر لشکر مقرر فرما دیا جائے.اس پر حضرت ابوبکڑ نے پھر فرمایا کہ ہرگز ممکن نہیں جس کو خدا کے رسول نے مقرر فرما دیا ہے.ابن ابی قحافہ کی کیا مجال کہ وہ اسے تبدیل کر سکے.یہ لشکر اسامہ ہی کی قیادت میں جائے گا اور ضرور جائے گا.چنانچہ دنیا نے دیکھا کہ باوجود انتہائی نامساعد حالات کے خلیفۃ الرسول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس بات کو لفظاً لفظاً پورا کیا جو رسول خدا ﷺ کے مبارک ہونٹوں سے نکلی تھی.کتنا ایمان افروز نظارہ تھا جب حضرت ابوبکر خود اس لشکر کو رخصت کرنے کے لئے مدینہ سے باہر نکلے.حضرت اسامہ گوسوار کروایا اور خود ساتھ پیدل چلنے لگے.حضرت اسامہ بار بار عرض کرتے کہ اے خدا کے رسول کے خلیفہ ! یا تو آپ بھی سوار ہوں یا مجھے اترنے کی اجازت دیں.فرمایا نہیں ، یہ نہ ہوگا نہ وہ ہو گا.نہ میں سوار ہوں گا اور نہ تم پیدل چلو گے.پس اس شان سے حضرت اسامہ کا لشکر مدینہ سے روانہ ہوا اور بعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ خلیفہ وقت کا یہ فیصلہ بہت ہی مبارک اور اسلام کی سربلندی کا موجب ہوا.دشمن اتنے مرعوب ہوئے کہ مدینہ پرحملہ کی جرات نہ کر سکے اور یہ شکر فتح ونصرت کے ساتھ بانیل مرام مدینہ واپس آیا.خلافت کے آغاز ہی میں اس پر شوکت واقعہ نے عظمت خلافت کو قائم کر دیا اور ہر شخص پر واضح ہو گیا کہ اسلام کی تمکنت اور دین حق کا غلبہ واستحکام خلافت سے وابستہ ہے.

Page 63

۴۲ خلافت راشدہ کے اس پر شوکت دور کے بعد مسلمانوں کی ناشکری کے سبب خلافت کا انعام اپنی پہلی شکل میں قائم نہ رہا.خلافت کی جگہ ملوکیت اور بادشاہت نے راہ پالی اور اس کے ساتھ ہی ان تمام برکات کی بھی صف لپیٹ دی گئی جو خلافت سے وابستہ ہوتی ہیں.اکناف عالم میں اسلام کی جو ترقی اور غلبہ خلافت کے ذریعہ نصیب ہوا تھا، اس دور استبداد و ملوکیت میں اس کا سایہ کھیچنے لگا.مسلمانوں کی عظمت نے ان کو خیر باد کہا.ان کی شان وشوکت ان سے منہ موڑ کر رخصت ہو گئی.مسلمانوں کی صفوں میں تفرقہ اور اختلاف اس حد تک بڑھ گیا کہ اتحاد و یگانگت کو یکسر بھلا کر باہم برسر پیکار ہو گئے اور نتیجہ یہ ہوا کہ وہ قوم جس نے نبوت کے آفتاب اور خلافت کے ماہتاب سے منور ہو کر ترقی و عروج کی چوٹیوں کو پامال کیا تھا اب تنزل و انحطاط کے قعر مذلت میں جا پڑی.اس دور کا ایک ایک دن اور ایک ایک رات اس بات کی گواہی دے رہی تھی کہ امت مسلمہ نے جو پایا تھاوہ خلافت کے طفیل پایا تھا ، اس خلافت کو چھوڑا ہے تو اب ان کی جھولی خالی ہوکر رہ گئی ہے.خلافت راشدہ سے محرومی کے بعد مسلمانوں کی کسمپرسی کی یہ طویل رات کم و بیش ایک ہزار سال تک جاری رہی.صادق و مصدوق عﷺ کی پیش خبری کے عین مطابق فیج اعوج کے اس زمانہ میں اسلام کی حالت ناگفتہ بہ ہوگئی.ایمان ثریا پر جا پہنچا اور کیفیت یہ ہوگئی کہ رہا دین باقی نہ اسلام باقی اک اسلام کا رہ گیا نام باقی بالآخر اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی اور سچے وعدوں والے خدا نے اپنے وعدے کے مطابق اس دور آخرین میں ایک آسمانی مصلح کے ذریعہ احیائے اسلام کی

Page 64

۴۳ بنیاد رکھی.سید نا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کی روحانی بعثت ثانیہ کے طور پر مبعوث فرمایا اور امام مہدی اور مسیح موعود کا بلند منصب عطا فرمایا.آپ کی آمد کا مقصد یحـى الـديـن و يقيم الشريعة کے الفاظ میں بیان ہوا ہے.احیائے اسلام، قیام شریعت اور تکمیل اشاعت اسلام کے کام کو اس حد تک آگے بڑھانا کہ بالآخر عالمگیر غلبہ اسلام پر منتج ہوا بلا استثناء سب مفسرین قرآن کی اس آیت کریمہ پر متفق ہیں.هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ ۚ وَلَوْ (سورة التوبه: ۳۳) كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ جس غلبہ اسلام بر ادیان باطلہ کی پیشگوئی کی گئی ہے یہ غلبہ اپنے پورے جلال اور پوری شان و شوکت کے ساتھ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے وقت میں ظہور پذیر ہوگا.ہیں:.حضرت سید محمد اسماعیل شہید علیہ الرحمہ اپنی کتاب ” منصب امامت میں فرماتے ظہور دین کی ابتداء پیغمبر ﷺ کے زمانہ میں ہوئی اور اس کی تکمیل حضرت مہدی علیہ السلام کے ہاتھ سے ہوگی.( منصب امامت ص ۷۶.گیلانی پریس لاہور مطبوعہ ۲۹۴۹ء) خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تحریر فرمایا ہے.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں.کیا یورپ اور کیا ایشیا ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں تو حید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا“.(الوصیت.روحانی خزائن جلد ۲۰ ص۳۰۶، ۳۰۷)

Page 65

۴۴ ہم گواہ ہیں اس بات کے کہ اسلام کے اس عالمگیر غلبہ کی بنیاد سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقدس ہاتھوں رکھی گئی، اور آپ نے اپنی حیات طیبہ کا ایک ایک لمحہ اس مقصد کی خاطر قربان کر دیا.خدا تعالیٰ کی ہزار ہزار رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں رسول مقبول ہے کے اس محبوب ترین روحانی فرزند پر جس نے خدمت دین اسلام کا حق ادا کر دیا.آپ کی دینی خدمات کے تفصیلی تذکرہ کا یہ موقع نہیں لیکن میں یہ لکھنے سے رک نہیں سکتا کہ خدا تعالیٰ کے اس پہلوان جری اللہ فی حلل الانبیاء نے اسلام کی مدافعت، اس کی سربلندی اور ترقی کے لئے ایسی عظیم الشان خدمات سرانجام دیں کہ اشد ترین مخالفین نے بھی اس کا برملا اعتراف کیا.آپ کو اسلام کا فتح نصیب جرنیل قرار دیا اور اقرار کیا کہ آپ نے اسلام کے عالمگیر غلبہ کے لئے نہایت مستحکم بنیادیں استوار کر دی ہیں.بالآخر آپ کی زندگی میں وہ دن بھی آگیا.جو ہر فانی انسان کی زندگی میں آیا کرتا ہے لیکن آپ نے وصال سے پہلے یہ بشارت دی کہ خدائے قادر و توانا آپ کے ذریعہ جاری ہونے والے مشن کو ہرگز نا تمام نہیں چھوڑے گا اور غلبہ اسلام کی آسمانی مہم خلافت کے زیرسایہ پھولتی پھلتی اور پروان چڑھتی رہے گی.آپ نے فرمایا: یقیناً سمجھو کہ یہ خدا کے ہاتھ کا گایا ہوا پودا ہے خدا اس کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا.وہ راضی نہیں ہوگا جب تک کہ اس کو کمال تک نہ پہنچا دے اور وہ اس کی آبپاشی کرے گا اور اس کے گر داحاطہ بنائے گا اور تعجب انگیز ترقیات دے گا“.انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ا ا ص ۶۴) خلافت احمدیہ کے ذریعہ غلبہ اسلام کی داستان دلنشین اور ایمان افروز ہونے کے ساتھ ساتھ اتنی پُر شوکت اور پُر عظمت ہے کہ اس کا بیان کرتے ہوئے قلم لڑ کھڑا تا ہے

Page 66

۴۵ اور الفاظ میرا ساتھ نہیں دیتے کہ کس طرح خلافت احمدیہ کے ذریعہ ہونے والی اسلام کی عالمگیر روز افزوں ترقی کونوک قلم پر لاؤں.حق یہ ہے کہ خدمت واشاعت اسلام کا جو بیج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدس ہاتھوں سے بویا گیا آج خلافت احمد یہ کے زیر سایہ ایک تناور درخت بن چکا ہے.پاکیزہ کلمہ کی مثال کی طرح اس درخت کی جڑیں اکناف عالم میں مضبوطی سے قائم ہو چکی ہیں.اور اس کی شاخوں نے فضا کی وسعتوں کو بھر دیا ہے.ہندوستان کی سرزمین سے باہر مشنوں کے قیام کا آغاز خلافت احمدیہ کے دور میں ہوا اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۱۸۵ ملکوں میں جماعت احمدیہ با قاعدہ طور پر قائم ہو چکی ہے.وہ قافلہ جو ۴۰ فدائیوں کے ساتھ روانہ ہوا تھا آج اس کی تعداد 4 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اور ہر روز بڑھتی چلی جاتی ہے.قادیان کی گمنام بستی سے اٹھنے والی آواز کی بازگشت آج اکناف عالم میں سنائی دے رہی ہے.اللہ تعالیٰ نے اس آواز کو اتنی عظمت اور پذیرائی عطا کی ہے کہ اقصائے عالم کے دانش ور اس کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر اسے توجہ سے سنتے اور اس کی صداقت کا اعتراف کرتے ہیں.یہ ایک ایسا کارنامہ ہے جو اپنی مثال آپ ہے.لٹریچر کے ضمن میں سب سے اہم قرآن مجید کے تراجم ہیں.کیا یہ بات معجزہ سے کم ہے کہ گزشتہ تیرہ سوسال میں ساری دنیا کے مسلمانوں نے جتنی زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کئے تھے اس سے دگنی زبانوں میں تراجم جماعت احمدیہ پیش کرنے کی سعادت پارہی ہے.قرآن مجید کی منتخب آیات، احادیث اور اقتباسات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دنیا کی ایک سو سے زائد زبانوں میں شائع ہو چکے ہیں.اسلامی لٹریچر غیر معمولی کثرت سے شائع اور تقسیم ہورہا ہے.کتب کی نمائشوں کا وسیع سلسلہ اشاعت اسلام میں مؤثر

Page 67

کردار ادا کر رہا ہے.اکناف عالم میں مساجد کی تعمیر میں جماعت احمدیہ کو ایک امتیازی مقام حاصل ہے.ہزاروں کی تعداد میں مساجد تعمیر کرنے کا سہرا جماعت احمدیہ کے سر ہے.اسلامی تعلیم کو عمل کے سانچہ میں ڈھالتے ہوئے مغربی اور مشرقی افریقہ میں تعلیمی اور طبی اداروں کا قیام اور انسانیت کی بے لوث خدمت ان علاقوں کے لوگوں کے دل اسلام کے لئے جیت رہی ہے.لوٹ کھسوٹ کے اس دور میں غرباء یتامی اور بیوگان بے لوث خدمت کے طور پر انہیں بیوت الحمد کوارٹرز عطا کرنے کی سعادت بھی جماعت احمدیہ کو حاصل ہے.اسلام کی حرمت و ناموس کی حفاظت اور دفاع میں جماعت احمدیہ نے ہمیشہ ہی صف اول میں مثالی کردار ادا کیا ہے جہاں تک اسلام کی عظمت اور ترقی کی خاطر قربانیاں دینے اور دیتے چلے جانے کا میدان ہے.جماعت احمدیہ کی تاریخ ہر دور میں ایمان افروز واقعات سے پر نظر آتی ہے، اشاعت اسلام کی خاطر جان، مال وقت اور عزت کے نذرانے اتارنے والی یہی ایک جماعت ہے جس نے اپنی قربانیوں سے قرون اولیٰ کے صحابہ کی یاد کو تازہ کر دیا ہے.زندگی سے کسے پیار نہیں ہوتا، لیکن یہی پیاری زندگی پیارے اسلام کی خاطر وقت کرنا ، اپنے ہونے والے بچوں کو وقف نو میں پیش کرنا تبلیغ اسلام کی خاطر غریب الوطن ہو جانا اور بالآخر راہ جہاد میں شہادت پا کر انہی سرزمینوں میں دفن ہو جانا، کلمہ طیبہ کی عظمت کی خاطر ماریں کھانا، بیڑیاں پہننا اور وفور محبت سے انہیں چومنا، اسلام کی محبت کے جرم میں اسیران راہ مولا بنا اور زندگی کے سالہا سال تک کوٹھڑیوں میں گزار دینا، دکھ اٹھانا اور وقت آنے پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے اپنے مقدس امام سے داستان و فارقم کرنا.

Page 68

۴۷ الغرض شاہراہ ترقی اسلام کا کوئی موڑ ایسا نہیں جس پر جماعت احمد یہ پوری شان کے ساتھ مصروف عمل نہ ہو.اس شاہراہ کی کوئی بلند منزل ایسی نہیں جس پر اسلام کو دل وجان سے زیادہ عزیز رکھنے والے احمدی جان فروشوں کے قدموں کے نشانات نظر نہ آتے ہوں.حق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو یہ منفر داعزاز اور سعادت اس وجہ سے عطا فرمائی ہے کہ آج دنیا کے پردہ پر یہی ایک جماعت ہے جو الا وهــــــــ الْجَمَاعَةُ (ترمذی کتاب الایمان باب افتراق هذه الامة وابن ماجه كتاب الفتن باب افتراق الاسم کی حقیقی مصداق اور ایک واجب الاطاعت امام کے زیر سایہ بنیان مرصوص کا منظر پیش کرتی ہے.یہی ایک جماعت ہے جس کو خلافت کی نعمت میسر ہے جو ایک روحانی سربراہ کی آواز پر اٹھنا اور اس کے اشارے پر بیٹھنا جانتی ہے.ہاں ہاں یہ وہی جماعت ہے جس کا امام، جماعت کے افراد سے ماں سے بڑھ کر پیار کرنے والا ہے.اور دوسری جماعت کے سب مرد و زن اپنے پیارے امام کے گرد پروانہ صف طواف کرنے والے ہیں.خلافت کی نعمت نے انہیں ایک ہاتھ پر جمع کر کے یہ اعجاز بخشا ہے کہ ایک کروڑ احمدی فدائیوں نے خدمت و اشاعت اسلام کے سلسلہ میں وہ کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں جس کی توفیق ایک ارب سے زائد مسلمان کہلانے والوں کو نصیب نہ ہوسکی.اس اعزاز اور سعادت کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو خلافت جیسی عظیم نعمت سے نوازا جس کے ساتھ اسلام کی ترقی وابستہ ہے جبکہ حق تو یہ ہے کہ اسلام کی خاطر کوشش اور قربانی کی توفیق کا ملنا بھی اس خلافت سے وابستہ ہے.حضرت خلیفہ اسی الثانی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں.

Page 69

۴۸ دیکھو ہم ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کر رہے ہیں مگر تم نے کبھی غور کیا کہ یہ تبلیغ کس طرح ہو رہی ہے؟ ایک مرکز ہے جس کے ماتحت وہ لوگ جن کے دلوں میں اسلام کا درد ہے اکٹھے ہو گئے ہیں اور اجتماعی طور پر اسلام کے غلبہ اور اس کے احیاء کے لئے کوشش کر رہے ہیں وہ بظاہر چند افراد نظر آتے ہیں مگر ان میں ایسی قوت پیدا ہوگئی ہے کہ وہ بڑے بڑے اہم کام سرانجام دے سکتے ہیں جس طرح آسمان سے پانی قطروں کی صورت میں گرتا ہے پھر وہی قطرے دھاریں بن جاتی ہیں اور وہی دھاریں ایک بہنے والے دریا کی شکل اختیار کر لیتی ہیں.اس طرح ہمیں زیادہ قوت اور شوکت حاصل ہوتی چلی جارہی ہے.اس کی وجہ محض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں خلافت کی نعمت عطا کی ہے“.(روز نامہ الفضل ربوہ ۲۵ مارچ ۱۹۵۱ء) اسی طرح فرمایا:.اسلام کبھی ترقی نہیں کر سکتا جب تک خلافت نہ ہو.ہمیشہ اسلام نے خلفاء کے ذریعہ ترقی کی ہے اور آئندہ بھی اسی ذریعہ سے ترقی کرے گا“.( درس القرآن از حضرت مصلح موعود مطبوعه ۱۹۲۱، ص۷۲) ۲۷ مئی ۱۹۰۸ء کا دن وہ تاریخی دن ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے مسیح محمدی کے ہاتھوں قائم ہونے والی جماعت احمدیہ کو خلافت کے انعام سے نوازا اور انہیں وہ وسیلہ فتح و ظفر عطا فرمایا جس کے ساتھ اسلام کی ترقی اور غلبہ وابستہ ہے.آج اس انعام الہی پر ۹۸ برس کا عرصہ پورا ہو چکا ہے.خدا گواہ ہے اور ہم اس کے حضور سجدات شکر بجالاتے ہوئے اس امر کا اقرار کرتے ہیں کہ ان ۹۸ سالوں کا ایک ایک دن اس بات پر گواہ ہے کہ خلافت حقہ اسلامیہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو وہ عظمت و تمکنت اور وہ عالمگیر ترقی عطا فرمائی ہے جو ایک جاری وساری زندہ و تابندہ معجزہ کا حکم رکھتی ہے.

Page 70

۴۹ حق یہ ہے کہ خلافت کے زیر سایہ تحریک احمدیت نے ایسا عالمگیر تشخص حاصل کر لیا ہے کہ آج دنیا کا کوئی خطہ اس کی برکتوں سے محروم نہیں اور حقیقی معنوں کے اعتبار سے بلا خوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ عالم احمدیت پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا.بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ہر آن اور ہر جگہ عالم احمدیت پر خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کا سورج ہمیشہ جلوہ گر رہتا ہے اور خدائی نصرتوں کے زیر سایہ عالمگیر غلبہ اسلام کی یہ موعود صبح لمحہ بہ لحد روشن تر ہوتی چلی جارہی ہے.۳.خوف کے بعد امن کا قیام آیت استخلاف میں اللہ تعالیٰ خلافت کی تیسری بڑی برکت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ:.وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمَنَّا اور وہ ان کی خوف کی حالت کے بعد امن کی حالت میں تبدیل کر دے گا.تاریخ اسلام اور تاریخ احمدیت گواہ ہے کہ جب بھی امت مسلمہ یا جماعت احمد پر کوئی خوف کا وقت آیا تو خلافت کی برکت سے وہ امن میں تبدیل ہو گیا.آنحضرت کی وفات کے بعد امت مسلمہ پر سب سے بڑا خوف کا وقت آیا مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر کو خلیفہ بنا کر ان کی خوف کی حالت کو امن میں تبدیل کر دیا.خلافت کی اس برکت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود اپنی کتاب رسالہ ”الوصیت“ میں تحریر فرماتے ہیں.”ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے.اور دشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے

Page 71

ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردد کر لیتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں.تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے.خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے.جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق کے وقت میں ہوا.جبکہ آنحضرت ﷺ کی موت ایک بے وقت موت مجھی گئی.اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے اور صحابہ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے.تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھلایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا.وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمُ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمُ اَمَنَّا یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جما دیں گے.(الوصیت.روحانی خزائن جلد ۲۰ ص ۳۰۵،۳۰۴) بعینہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو خلافت کی برکت کا نظارہ دکھایا.اور حضرت حافظ حکیم مولانا نورالدین صاحب بھیروی کو حضرت مسیح موعود کا جانشین اور خلیفہ بنا کر جماعت کو ایک دفعہ پھر ایک ہاتھ پر جمع کر کے ان کے خوف کی حالت کو امن میں تبدیل کر دیا.پھر یہ تاریخ ہر خلافت کے انتخاب پر دہرائی جاتی رہی.جماعت احمدیہ کی گزشتہ سوسالہ تاریخ گواہ ہے کہ جماعت احمدیہ پر جب کبھی بھی خوف کا وقت آیا اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کا آسمان سے نزول ہوا.جنہوں نے اپنے مومن بندوں کو ہمت اور قوت اور طاقت بخشی جس کے نتیجہ میں ان کا خوف نہ صرف امن میں بدل گیا بلکہ مزید ترقیات کا پیش خیمہ بنا.۱۹۳۴ء میں مجلس احرار نے جماعت احمدیہ کو صفحہ ہستی سے مٹادینے اور قادیان کی

Page 72

۵۱ اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے نعرے لگائے اور دھمکیاں دیں.ان کی پشت پناہی پر خود حکومت بھی تھی مگر اس کے باوجود جماعت اس کربناک ابتلاء سے صحیح سلامت اور پہلے سے بھی بڑھ کر عزم و ہمت کے ساتھ ابھر کر سامنے آئی.اس موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے تحریک جدید جیسی با برکت تحریک جاری کر کے جماعت احمدیہ کے مبلغین کو غیر ممالک میں بھجوا دیا.اس طرح جماعت احمدیہ کو دنیا کے کناروں تک اسلام احمدیت کا پیغام پہنچانے کا موقع ملا.یہ محض تحریک احرار کا نتیجہ اور پھل تھا.۱۹۳۴ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے اعلان فرمایا کہ:.زمین ہمارے دشمنوں کے پاؤں سے نکل رہی ہے.اور میں ان کی شکست کو ان کے قریب آتے دیکھ رہا ہوں“.(اخبار فاروق ۲۱ نومبر ۱۹۳۴ء) اس اعلان کے بعد جلد ہی خدا تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کر دئیے کہ احراری مسلمانوں میں بدنام ہو گئے.ان کا جھوٹا ہونا سب پر ظاہر ہو گیا.اس طرح بجائے احمدیت کے مثانے کے وہ خود تباہ ہو گئے اور اس طرح خدا کے محبوب بندے کی بات پوری ہوئی.الحمد للہ علی ذالک.۱۹۵۳ء میں ایک دفعہ پھر احرار ختم نبوت کا روپ دھار کر جماعت کو نیست و نابود کرنے کا عزم لے کر جماعت احمدیہ کے بالمقابل کھڑے ہو گئے.اس دفعہ انہوں نے۱۹۳۴ء سے بھی زیادہ خطر ناک حالات پیدا کر دئیے.اور پنجاب کی حکومت بھی ان کی پشت پناہی کر رہی تھی.احمدیت کے خلاف سارے ملک میں جلسے وجلوس نکال کر احمدیت کے خلاف نفرت کی ایک آگ بھڑ کا دی.جس پر سول حکومت کے لئے قابو پانا مشکل ہو گیا.حتیٰ کہ مارشل لاء لگانا پڑا.غرض احمدیت کے لئے انتہائی خطرناک حالات پیدا کر دیئے گئے.مگر عین اسی زمانہ میں جبکہ یہ فتنہ انتہائی زوروں پر

Page 73

۵۲ تھا.ہمارے امام حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اعلان فرمایا کہ:.احمدیت خدا کی قائم کی ہوئی ہے.اگر یہ لوگ جیت گئے تو ہم جھوٹے ہیں لیکن اگر ہم بچے ہیں تو یہ لوگ ہاریں گے.(الفضل ۱۵ فروری ۱۹۵۳ء) چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ یہ فتنہ بھی نا کام ہو گیا.اور خود فتنہ پھیلانے والے ذلیل ہو گئے.اور پشت پناہی کرنے والی پنجاب حکومت ختم کر دی گئی حتی کہ مرکز میں خواجہ ناظم الدین کی حکومت بھی ختم ہوگئی.اس طرح ایک دنیا نے دیکھ لیا کہ واقعی خدا تعالیٰ نے معجزانہ رنگ میں جماعت کی مدد کی اور جولوگ جماعت احمدیہ کو شکست دینے کا زعم لے کر نکلے تھے وہ ناکام و نامراد رہے.اور احمدیت کی فتح ہوئی.خلافت ثالثہ کے دور میں ۱۹۷۴ء کے ہنگاموں میں مخالفین نے ایک بار پھر سر توڑ کوشش کی کہ جماعت کو ختم کر سکیں لیکن ہمیشہ کی طرح ناکام و نامراد رہے.کئی خوش قسمت احمدیوں کے سرتن سے جدا کر دیئے گئے ان کی جائیدادیں لوٹ لی گئیں، ان کے گھر جلا دیئے گئے لیکن کوئی ان کے چہرے سے مسکراہٹ نہ چھین سکا.خلافت رابعہ کا آغاز ہوا تو خلیفہ وقت کی مقناطیسی شخصیت اور برق رفتاری کو دیکھ کر مخالفین احمدیت کے اوسان خطا ہو گئے اور انہوں نے مخالفانہ کوششوں کو نقطہ عروج تک پہنچا دیا اور ۱۹۸۴ء میں رسوائے زمانہ سیاہ قانون جاری کر کے احمدیت کی ترقی کا راستہ بند کرنے کی ہر ممکن کوشش کی.یہ ضرور ہوا کہ چند پاکبازوں نے شہادت کا جام پیا اور متعدد اسیران راہ مولا آج بھی کال کوٹھڑیوں کو بقعہ نور بنائے ہوئے ہیں لیکن خدا گواہ ہے کہ احمدیت کی ترقی پذیر دنیا پر طلوع ہونے والا سورج ہر روز مخالفین کی کوششوں پر نا کامی کی مہریں لگاتا ہے اور وہ جو احمدیت کو مٹا دینے کا زعم لے کر زبانیں دراز کر رہے تھے خدائے قادر و توانا نے ان کے پر خچے اڑا کر رکھ دیئے! کہاں ہے وہ

Page 74

۵۳ آمر جس نے کہا تھا کہ میری کرسی بہت مضبوط ہے اور میں احمدیوں کے ہاتھ میں کشکول پکڑا کر رہوں گا، کہاں ہے وہ آمر جس نے فرعون کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کہا تھا کہ میں احمدیت کے کینسر کو مٹا کر دم لوں گا.دیکھو ہمارے خدا نے ان دشمنان اسلام کے نام و نشان صفحہ ہستی سے مٹا کر رکھ دیئے.مردان حق ، خلفائے احمدیت کی دعاؤں نے نمرودیت کو کچل کر رکھ دیا.کوئی تختہ دار پر نظر آیا، تو کسی کے جسم کے ذرات خاک کا ڈھیر بن کر صحراؤں میں بکھر گئے ! کوئی سننے والا ہو تو سنے کہ احمدیت کے مخالفین کا یہ مقدر ہر دور میں رہا ہے اور مستقبل میں بھی ان کی تقدیر اس سے کچھ مختلف نہیں.خلافت کی برکت سے اور خلافت کے زیر سایہ جماعت احمدیہ کے لئے ایک فتح کے بعد دوسری فتح منتظر ہے اور ہمارے مخالفین کے نصیب میں نا کا می اور پھر نا کا می اور پھر نا کا می لکھی جاچکی ہے.سنو! کہ وہ جو خدا کی تائید سے بولتا ہے، وہ جس کے سر پر خدا کا سایہ ہے، وہ جسے خدا نے اس زمانہ میں کشتی اسلام کا محافظ اور مومنوں کا راہنما مقررفرما دیا ہے.سنو اور توجہ سے سنو کہ وہ کیا فرماتا ہے.ہمارے پیارے امام حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:.آئندہ بھی مخالفت ضرور ہوگی اس سے کوئی انکار نہیں کیونکہ جماعت کی تقدیر میں یہ لکھا ہے کہ مشکل راستوں سے گزرے اور ترقیات کے بعد نئی ترقیات کی منازل میں داخل ہو.یہ مشکلات ہی ہیں جو جماعت کی زندگی کا سامان مہیا کرتی ہیں.اس مخالفت کے بعد جو وسیع پیمانے پر اگلی مخالفت مجھے نظر آ رہی ہے وہ ایک دوحکومتوں کا قصہ نہیں اس میں بڑی بڑی حکومتیں مل کر جماعت کو مٹانے کی سازشیں کریں گی اور جتنی بڑی سازشیں ہوں گی اتنی ہی بڑی ناکامی ان کے مقدر میں بھی لکھ دی جائے گی.

Page 75

۵۴ مجھ سے پہلے خلفاء نے آئندہ آنے والے خلفاء کو حوصلہ دیا تھا اور کہا تھا کہ تم خدا پر تو کل رکھنا اور کسی مخالفت کا خوف نہیں کھانا.میں آئندہ آنے والے خلفاء کو خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تم بھی حوصلہ رکھنا اور میری طرح ہمت وصبر کے مظاہرے کرنا اور دنیا کی کسی طاقت سے خوف نہیں کھانا.وہ خدا جواد نی مخالفتوں کو مٹانے والا خدا ہے وہ آئندہ آنے والی زیادہ قومی مخالفتوں کو بھی چکنا چور کر کے رکھ دے گا اور دنیا سے ان کے نشان مٹا دے گا.جماعت احمدیہ نے بہر حال فتح کے بعد ایک اور فتح کی منزل میں داخل ہونا ہے.دنیا کی کوئی طاقت اس تقدیر کو بہر حال بدل نہیں سکتی.( خطاب حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی ۲ جولائی ۱۹۸۴، بر موقع یورپین اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ) ۴ توحید کا قیام قرآن کریم میں خلافت کی چوتھی برکت توحید کا قیام بیان کی گئی ہے.قرآن کریم سے یہ بھی ثابت ہے کہ تمام انبیاء و مرسلین و مامورین وخلفاء کی بعثت اور ظہور کا اصل مقصد تو حید کا قیام ہی ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:.يقَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَالَكُمْ مِنْ إِلهٍ غَيْرُهُ (اعراف: ۶۱) یعنی اے میری قوم تم صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں.حضرت مسیح موعود نے بھی اس حقیت کو یوں بیان فرمایا ہے:.نجات حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی ہستی پر کامل یقین پیدا کرے اور نہ صرف یقین بلکہ اطاعت کے لئے بھی کمر بستہ ہو جائے اور اس کی رضامندی کی راہوں کو شناخت کرے اور جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے.یہ دونوں

Page 76

۵۵ باتیں محض خدا تعالیٰ کے رسولوں کے ذریعہ سے ہی حاصل ہوتی آئی ہیں.پھر کس طرح یہ لغو خیال ہے کہ ایک شخص تو حید رکھتا ہومگر خدا تعالیٰ کے رسول پر ایمان نہیں لاتا وہ بھی نجات پائے گا.اے عقل کے اندھے اور نادان ! تو حید بجز ذریعہ رسول کے کب حاصل ہوسکتی ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ ص ۱۲۷) پس اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کرام کے ذریعہ دنیا میں اپنی وحدانیت اور یکتائی کو اس شان کے ساتھ قائم فرماتا ہے کہ شرک کا قلعہ قمع ہو جاتا ہے.پھر جب انبیاء وعلیہم السلام اپنی طبعی زندگی گزار کر وفات پا جاتے ہیں تو یہ مقدس فریضہ ان کے خلفاء کے ذریعہ پورا ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ آیت استخلاف میں خلافت کی ایک برکت توحید خداوندی کے قیام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِيٍّ شَيْئًا (نور: ۵۶) یعنی وہ (صرف) میری عبادت کریں گے اور کسی کو میرا شریک نہیں ٹھہرائیں گے.تو حید کے سب سے بڑے علمبردار ہمارے آقا مولیٰ خاتم النبین حضرت محمد مصطفی ملتے تھے.آپ نے تو حید کی عظمت اور فضیلت اس قدر دلوں میں بٹھا دی کہ توحید ہی دین کا مغز اور خلاصہ بن گئی.توحید ہی کا دوسرا نام دین ہے اور توحید ہی دین کا مظہر ،شعار اور اس کی صداقت اور حقیقت ہے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.توحید کی عظمت دلوں میں بٹھانے کے لئے ایک بزرگ نبی ملک عرب میں گزرا ہے جس کا نام محمد اور احمد تھا.خدا کے اس پر بیشمار سلام ہوں“.(ضمیمہ رسالہ جہاد.روحانی خزائن جلد۷ اص۲۷) جب آنحضرت ﷺ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو آپ کے بعد خلفاء راشدین نے جس جوانمردی ، نور بصیرت اور عزم و ہمت کے ساتھ تو حید کے علم کو بلند کیا اور اس

Page 77

۵۶ کی حقیقت کو لوگوں کے دلوں میں راسخ کرنے کی کوشش کی وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے.آنحضرت ﷺ کی جب وفات ہوئی تو صحابہ پر اس کا اتنا اثر ہوا کہ وہ گھبرا گئے اور ماننے کے لئے تیار ہی نہیں تھے کہ آپ وفات پاگئے ہیں.حضرت عمر فاروق پر بھی اتنا اثر تھا کہ آپ تلوار لے کر کھڑے ہو گئے کہ جو کہے گا کہ آنحضرت ﷺ وفات صلى الله پاگئے ہیں میں اس کا سرتن سے جدا کر دوں گا.ایسے وقت میں توحید کا علم بلند کرنے والا کون تھا ؟ وہ حضرت ابوبکر صدیق تھے جن کو خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے بعد پہلا خلیفہ منتخب ہونے کی سعادت بخشی.جب آپ کو آنحضرت ﷺ کی وفات کی خبر ملی تو آپ سیدھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس حجرہ میں تشریف لے گئے جہاں آپ کا جسد مبارک تھا اور آپ کے چہرہ مبارک سے کپڑا اٹھا کر کہا کہ آپ فی الواقع فوت ہو گئے ہیں اور اپنے محبوب کی جدائی کے صدمہ سے آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے.آپ نے جھک کر آپ کی پیشانی مبارک پر بوسہ دیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ تجھ پر کبھی دو موتیں وارد نہیں کرے گا.پھر سید ھے اس طرف گئے جہاں صحابہ کرام جمع تھے اور فرمایا:.یعنی اے لوگو! سن لو جو کوئی محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا وہ سن لے کہ محمد مے وفات پاچکے ہیں اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا اسے یادر ہے کہ وہ اللہ اب بھی زندہ ہے اور فوت نہیں ہوا.(صحیح بخاری باب مناقب ابوبکرؓ) پھر قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی:.ترجمہ:.اور محمد یہ صرف ایک رسول ہیں.ان سے پہلے سب رسول فوت ہو چکے ہیں.پس اگر وہ وفات پا جائیں یا قتل کئے جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل

Page 78

۵۷ لوٹ جاؤ گے؟ اور جو شخص اپنی ایڑیوں کے بل لوٹ جائے وہ اللہ کا ہرگز کچھ نقصان نہیں کر سکتا اور اللہ شکر گزاروں کو ضرور بدلہ دے گا.(آل عمران:۱۴۵) اس پر حضرت عمر فاروق اور باقی صحابہ کرام کو یقین ہو گیا کہ آنحضرت ﷺ فوت ہو گئے ہیں اور زندہ جاودانی صرف ایک ہی ذات ہے اور اللہ تعالیٰ ہے.باقی سب مخلوق فنا ہونے والی ہے.پس آنحضرت ﷺ کے بعد یہ خلافت ہی تھی جس نے توحید کا نعرہ اس رنگ میں بلند کیا کہ حضرت عمر فاروق جیسے بہادر وجری انسان کو بھی اس کے سامنے سرتسلیم خم کرنا پڑا.حضرت مسیح موعود کے بعد خدا تعالیٰ نے خلافت علی منہاج نبوت کے نظام کو قدرت ثانیہ کی شکل میں قائم فرمایا ہے.چنانچہ حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کے خلفاء نے اس ارشاد خداوندی کو جس رنگ میں پورا فرمایا ہے اور جماعت احمدیہ کے افراد کے ذہن میں خدا تعالیٰ کی توحید اور اس کی وحدانیت کو اس انداز میں ذہن نشین کرا دیا ہے کہ اس کی برکت سے آج خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت کا ہر فرد اس یقین محکم پر قائم ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت، دنیا کا کوئی حاکم ، دنیا کا کوئی جابر اس جماعت کو مٹا نہیں سکتا اور وہ نہ صرف خود تو حید کامل پر یقین رکھتے ہیں بلکہ اکناف عالم میں آج وہی تو حید خالص کے علمبر دار ہیں اور اس کے قیام کے لئے تن من دھن کی قربانی پیش کر رہے ہیں.۲ راگست ۱۹۹۳ء کو اس حقیقت کا اظہار حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمایا ہے:.میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ نے جب توحید کا پیغام دنیا میں پہنچانا ہے تو یا درکھیں کہ اس راہ میں تکلیفیں دی جائیں گی.میں جانتا ہوں کہ اس زمانے میں توحید

Page 79

۵۸ کے لئے جتنی جماعت احمدیہ نے قربانیاں دکھائی ہیں دنیا کے پردے پر توحید کے لئے دی جانے والی ساری قربانیاں ایک طرف کر دیں تو اس کے مقابلہ پر ان کی کوئی اہمیت نہیں.اس زمانہ میں توحید کے نام پر سوائے جماعت احمدیہ کے کسی کو سزا نہیں دی جارہی.خدا کی قسم آج آپ ہی تو ہیں جو تو حید کے لئے ایسی قربانیاں پیش کر رہے ہیں.پس ہم تو حید کے محض دعویدار نہیں ہیں ہم تو حید کو اپنے اعمال میں جاری کر چکے ہیں.آج ایک ہم ہی تو ہیں جو تو حید کے نام پر ہر قسم کے ابتلاء میں مبتلا کئے گئے اور ہر ابتلاء سے ثابت قدم باہر نکلے ہیں.اسی کا نام قدم صدق ہے.اللہ تعالیٰ ہمیشہ جماعت احمدیہ کو قدم صدق عطا فر ما تا ر ہے“.(روز نامہ الفضل ۲۰ نومبر ۱۹۹۳ء) یہاں ایک طرف تو شرک اور بدعت کا زور ہے.قبر پرستی اور مردہ پرستی کو فروغ مل رہا ہے.وہاں ایک جماعت احمد یہ ہے جو قدرت ثانیہ کے ظہور کی برکت سے اس قسم کی لغویات اور مشرکانہ خیالات و اعمال سے محفوظ ہے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.شرک اور بدعت سے ہم بیزار ہیں خاک راہ احمد مختار ہیں چنانچہ خلفاء احمدیت نے اپنے اپنے وقت میں جس رنگ میں توحید الہی کے مضمون کو جماعت احمدیہ کے افراد کے ذہنوں میں راسخ کرنے کی کوشش کی ہے اس کا کچھ ذکر ذیل میں پیش کیا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد قدرت ثانیہ کے پہلے مظہر حضرت الحاج حکیم مولانا نورالدین تھے.آپ قرآن کریم کے عاشق اور صادق تھے.چنانچہ ۱۷ جنوری ۱۹۰۲ء

Page 80

۵۹ کو درس القرآن کے دوران احباب جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:.اللہ جل شانہ کی کچی فرمانبرداری اختیار کرو.اس کی اطاعت کرو، اس سے محبت کرو، اس کے آگے تذلل کرو، اس کی عبادت کرو اور اللہ کے مقابل کوئی غیر تمہارا مطاع، محبوب، مطلوب، امیدوں کا مرجع نہ ہو.اللہ کے مقابل تمہارے لئے کوئی دوسرا نہ ہو.ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کا حکم تمہیں ایک طرف بلاتا ہو اور کوئی اور چیز خواہ وہ تمہارے نفسانی ارادے اور جذبات ہوں یا قوم اور برادری ( سوسائٹی ) کے اصول اور دستور ہوں ، سلاطین ہوں، امراء ہوں، ضرورتیں ہوں، غرض کچھ ہی کیوں نہ ہو، اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابل میں تم پر اثر انداز نہ ہو سکے.پس خدا تعالیٰ کی اطاعت، عبادت، فرمانبرداری ، تذلل اور اس کی محبت کے سامنے کوئی اور شئے محبوب، مقصود و مطلوب اور مطاع نہ ہو.(بحوالہ روز نامه الفضل ۲۵ جولائی ۱۹۹۳ء) حضرت حکیم مولانا نورالدین کی وفات کے بعد جب حضرت مرزا بشیر الدین محمود مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو آپ نے اپنی خلافت کے پہلے جلسہ سالانہ پر ۲۸ دسمبر ۱۹۱۴ء کو جو تقریر فرمائی اس میں بڑے زور دار الفاظ میں جماعت کو توحید الہی پر قائم ہونے اور شرک سے کلیۂ اجتناب کی تلقین کی.چنانچہ آپ نے فرمایا:.میں تمہیں بڑے زور سے بتلاتا ہوں کہ دنیا میں لوگ خدا تعالیٰ سے غافل ہو گئے ہیں.حالانکہ اس سے بڑھ کر خوبصورت ، اس سے بڑھ کر محبت کرنے والا ، اس سے بڑھ کر پیارا اور کوئی نہیں ہے.تم لوگ اگر پیار کرو تو اس سے کرو محبت لگاؤ تو اس سے لگاؤ، ڈرو تو اس سے ڈرو، خوف کرو تو اس سے کرو، اگر وہ تمہیں حاصل ہو جائے تو پھر تمہیں کسی چیز کی پرواہ نہیں رہ جاتی اور کوئی روک تمہارے سامنے نہیں ٹھہر سکتی“.برکات خلافت - انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۲۳۶)

Page 81

۶۰ پھر خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:.صرف ایک ہی اللہ ہے.اگر کوئی سمجھے کہ اس کو چھوڑ کر اور کسی کو تلاش کر لو تو ایسا نہیں ہوسکتا.کیونکہ اللہ ایک ہی ہے دو نہیں ، تین نہیں، چار نہیں اور ہزاروں نہیں.جب ایک ہی اللہ ہے تو اس کو چھوڑ کر کہاں جاؤ گے“.برکات خلافت.انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۲۳۷) پھر شرک کی تردید کے بارہ میں آپ فرماتے ہیں:.اس سے بڑھ کر میں ایک اور بات بتا تا ہوں اور وہ یہ ہے کہ انسان کو چاہئے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائے.اللہ ایک ہے.میں یقین کرتا ہوں کہ کوئی احمدی مشرک نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے ان کو موحد بنے کی توفیق دی ہے.اس لئے مجھے یہ تو ڈر نہیں ہے کہ کوئی احمدی قبروں کے آگے سجدہ کرے گا یا خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر کسی اور کا دامن پکڑنے کی کوشش کرے گا.باقی دنیا نے تو دین چھوڑ دیا ہے.گوتم وہ جماعت ہو جس نے یہ عہد کیا ہے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے.پھر خدا تعالیٰ نے اس جماعت سے وعدہ فرمایا ہے کہ میں اسے بڑھاؤں گا اور یہ ایک برگزیدہ جماعت ہے.اس لئے اس جماعت کے متعلق صریح شرک کا احتمال نہیں کیا جاسکتا.(برکات خلافت.انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۲۳۷) قدرت ثانیہ کے تیسرے مظہر حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب اپنی ابتدائی زندگی سے ہی خدا تعالیٰ کی وحدانیت کو قائم کرنے کا جذ بہ اپنائے ہوئے تھے.چنانچہ آپ نے فرمایا:.میں ذاتی تجربہ کی بنا پر کہتا ہوں کہ خدا مجھ سے پیار کرتا ہے.اس لئے نہیں کہ میں کچھ ہوں.میں ایک عاجز ترین انسان ہوں.بلکہ اس لئے کہ میں اللہ تعالیٰ اور

Page 82

บ اس کے عظیم رسول علیہ سے محبت کرتا ہوں“.( دورہ مغرب ص ۳۴۵) اس ضمن میں محترم ثاقب زیروی صاحب ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میں جب فرقان فورس کشمیر میں محاذ پر خدمات سرانجام دے رہا تھا تو حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کے ساتھ مجھے محاذ جنگ میں بربط کی پہاڑیوں پر جانے کا موقع ملا.وہ کہتے ہیں کہ بھمبر سے سوکھا تالاب جاتے ہوئے راستہ میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا کہ جو گائیڈ ہمیں راہنمائی کے لئے دیا گیا تھا وہ چلتے چلتے ایک دم ایک جگہ بیٹھ گیا اپنا دایاں ٹخنہ پکڑ کر کر کراہنے لگا.حضور جو چند قدم پیچھے تھے فوراً بھاگ کر اس کے پاس پہنچے.معلوم ہوا کہ اسے بچھو نے ڈس لیا ہے.حضور نے اسے تسلی دی اور اس کے سامنے بیٹھ کر بسم اللہ اور ھوالشافی پڑھ کر اس کے ٹخنے کو سہلانے لگے.یہ عمل کوئی دو تین منٹ جاری رہا.اس کے بعد اس شخص کے چہرے پر رونق ابھر نے لگی.یہاں تک کہ وہ ہشاش بشاش اچھل اچھل کر کھڑا ہو گیا اور قافلہ پھر روانہ ہو پڑا.حضور آگے آگے تھے اور ہم دونوں پیچھے پیچھے تھے کہ اس نے مجھ سے کہا کے صاحب تو بڑے کرنی والے ہیں.یہ گفتگو آپ نے سن لی اور فور امر کر ہمارے پاس آئے اور گائیڈ سے مخاطب ہوکر فرمایا دیکھو اس میں کسی کرامت کا دخل نہیں ہے.اگر چاہو تو میرے جیسے کرنی والے تم بھی بن سکتے ہو.بس اتنا کیا کرو کہ جب آموں کا بور آجائے تو موسم میں اس بور کو اچھی طرح اپنے ہاتھوں میں رگڑ رگڑ کر مل لیا کرو.اس بور کا کم از کم ایک سال بھر اثر ضرور رہتا ہے.پھر ہنس کر فرمایا کہ ایسا کرنے کے بعد تم بھی میری طرح کے کرنی والے بن جاؤ گے.اس وضاحت و نصیحت کے بعد جب ہم نے اپنا سفر شروع کیا تو مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ثاقب یہ بھی ایک قسم کا شرک ہے.شرک ہمیشہ باریک در باریک راہوں سے انسانی جذبات ومحسوسات پر وارد کرتا ہے.اسے اس کا موقع

Page 83

۶۲ نہیں دینا چاہئے.اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ فورا ہی اسے بتا دوں کہ یہ تاثیر دراصل اللہ تعالیٰ نے اس بور میں رکھ دی ہے.بور والے ہاتھ زخم پر پھیرنے سے مچھر ، بھڑ اور بچھو تک کا درد اور زہر خدا تعالیٰ کے فضل سے جلد دور ہو جاتا ہے.عطائی اور فریب کا راس کو معجزہ کے طور پر پیش کر کے ہی جہلاء کولوٹتے ہیں.(روز نامہ الفضل.خلیفہ اسیح الثالث نمبر ص ۶۷) پھر جب آپ کو خدا تعالیٰ نے منصب خلافت پر متمکن فرمایا تو خدا تعالیٰ سے تعلق اور اس کی وحدانیت پر یقین میں مزید پختگی، گہرائی اور شدت پیدا ہوتی تھی اور خدا تعالیٰ کی ہستی پہ آپ کو ایسا کامل یقین تھا کہ اس کے مقابل پر آپ کو کسی اور کو ذرہ بھر بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے.چنانچہ آپ اپنا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں.” خدا کی عجب شان ہے کہ جب ۱۹۷۱ء کے شروع میں گھوڑے سے گرا اور علاج کے کئی مراحل سے مجھے گزرنا پڑا تو اس سے میرے گھٹنے اکر (Stiff) گئے.ایک ڈاکٹر صاحب مجھے کہنے لگے کہ یہ تو اب ٹھیک ہو ہی نہیں سکتے.میں نے کہا کہ میں نے تمہیں خدا کب مانا ہے.میں تو اللہ کو مانتا ہوں اور اس پر بھروسہ رکھتا ہوں جو قادر مطلق ہے.اس کے سامنے کوئی چیز انہونی نہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور یہ تکلیف دور ہوگئی.فالحمد للہ علی ذالک.(روز نامہ الفضل ۲ مارچ ۱۹۸۰ء) پھر آپ اپنے رب پر بھروسہ کر کے فرماتے ہیں:.آج میں تم کو بتا تا ہوں کہ مجھے دنیا کے کسی سہارے کی ضرورت نہیں اور اسی پر میرا تو کل ہے.میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اس صدی میں خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور محمد کا پیار قائم ہو گا.خطاب جلسه سالانه ۲۸ دسمبر ۱۹۸۰ء)

Page 84

۶۳ حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی ۱ جولائی ۱۹۸۰ء کو بیت فرینکفورٹ میں خطبہ جمعہ میں آپ نے فرمایا:.”بنیادی حقیقت اس کائنات کی توحید باری تعالی ہے.اس کو چھوڑ کر اس کو ناراض کر کے ہم کہاں جائیں گے.انسانوں کی پرواہ نہ کرو.انسان کی حقیقت ہی کیا ہے اور ایک ایٹم ایک ذرہ پیدا کرنے پر بھی قادر نہیں ہے.اس لئے بجز خدا کے کسی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہمیشہ مسکراتے رہو.صرف خدا سے ڈرواور ہمیشہ اس فکر میں رہو کہ وہ کہیں ناراض نہ ہو جائے“.( دورہ مغرب ص۱۳۴.شائع کردہ نظارت اشاعت ولٹریچر ) پھر آپ نے خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں بیت الذکر کے افتتاح کے موقع پر ایک نہایت ہی ایمان افروز رنگ میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا: وہ اللہ ذات واحد ہے.جس کا کوئی شریک نہیں اور اس کے سوا کوئی اور عبادت اور اطاعت کے لائق نہیں.وہ عالم الغیب ہے.وہی اپنی ذات کی حقیقی معرفت رکھتا ہے.اس کے سوا اس کی ذات اور صفات کا احاطہ نہیں ہوسکتا.ہر مشہور چیز کا بھی حقیقی علم اسی کو ہے.اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں.کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی نگاہ میں ہے.یہ ہے اس کے احاطہ علم کی غیر محدود وسعت.سرمو انحراف کئے بغیر تو حید باری تعالیٰ پر صحیح رنگ میں ایمان لانا، یہ وہ عدل ہے جو ایک بندے کے لئے اپنے خالق کے بارہ میں روا رکھنا لازم ہے.توحید باری پر ایمان کا اعلان کرنے اور پوری صحت کے ساتھ اعلان کرنے کی غرض سے ہی اللہ کا گھر تعمیر کیا جاتا ہے“.( دوره مغرب ص ۲۲۱ ۲۲۲.شائع کردہ نظارت اشاعت ولٹریچر ) جب ہم قدرت ثانیہ کے چوتھے مظہر کے عہد مبارک پر نظر ڈالتے ہیں تو وہاں توحید الہی کے قیام اور جماعت کے ذہنوں میں اس مضمون کو راسخ کرنے کے لئے

Page 85

۶۴ ایک خاص جوش اور ولولہ نظر آتا ہے.حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے نہایت درد بھرے دل کے ساتھ جماعت احمدیہ کے افراد کو تو حید الہی پر قائم ہونے اور پھر اس کی اشاعت کے لئے اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کارلانے کی طرف ترغیب دلائی.چنانچہ آپ جماعت کی تنظیموں کی مجالس عاملہ کو مخاطب کرتے ہوئے خطبہ جمعہ ے نومبر ۱۹۸۶ء کو فرماتے ہیں: ”سب سے اہم بات جس کو تمام دنیا کی مجالس عاملہ کوملحوظ رکھنا چاہئے وہ تو حید ہے.تو حید خالص کسی آسمان پر بسنے والی چیز کا نام نہیں ہے.(دین) جس خدا کو پیش کرتا ہے وہ آسمانوں کا بھی خدا ہے.اس سے کائنات کا کوئی حصہ بھی خالی نہیں.وہ نور السموت والارض ہے.اس کی توحید کے دائرہ سے کوئی چیز بھی باہر نہیں.اس کی توحید کے اثر اور نفوذ سے کوئی چیز خالی نہیں ہونی چاہئے.اس لئے جماعت احمدیہ کو جو حقیقی توحید پرست ہے اپنے طرز عمل میں توحید کا منظر پیش کرنا چاہئے.اگر جماعت احمدیہ نے اس طرف سے غفلت کی اور ایسا ہونے دیا کہ انگلستان کی جماعت ایک الگ کردار لے کر اٹھ رہی ہو اور افریقہ کی جماعت ایک الگ کردار لے کر اٹھ رہی ہو اور اس طرح یورپ اور امریکہ، چین اور جاپان، انڈونیشیا اور ملائشیا کی اور دیگر ممالک کی جماعتیں اپنا اپنا ایک الگ کردار بنارہی ہوں تو تو حید قائم نہیں ہوسکتی.توحید عمل کی دنیا میں دکھائی دینی چاہئے.خدا کے نام پر اکٹھے ہونے والے محمد مصطفی اللہ کے نام پر جمع ہونے والے ایک ہونے چاہئیں اور انہیں وحدت کا منظر پیش کرنا چاہئے.وحدت کے مناظر مختلف شکلوں سے اور مختلف زاویوں سے دیکھے جاتے ہیں.ایک وحدت کا منظر ہے.آپس میں محبت کرنا اور ایک ہو جانا، جغرافیائی تفریقات کو بھلا دینا، رنگ و نسل کے امتیازات کو فراموش کر دینا اور ایک جان ہو جانا اس پہلو سے بھی تو حید کو

Page 86

دنیا میں قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے اور یہ محض تلقین سے قائم نہیں ہو سکتی بلکہ اس سلسلے میں با قاعدہ منصوبہ بندی ہونی چاہئے“.(روز نامہ الفضل ۲ستمبر ۱۹۹۳ء) حضور نے حضرت مسیح موعود کے ایک الہام کی روشنی میں جماعت سے مخاطب ہو کر خطبہ جمعہ میں ۲۰ راگست ۱۹۹۳ء کو فر مایا:.چونکہ تو حید کا مضمون چل رہا ہے اس لئے میں حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کو ملنے والی ایک خدائی خبر کے الفاظ میں ان تمام مجالس کو اور دنیا کی تمام جماعتوں کو پیغام دیتا ہوں کہ اے ابنائے فارس! تو حید کو مضبوطی سے پکڑ لو.خبر دار، تو حید کو مضبوطی سے پکڑ لو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں خوشخبری دو کہ خدا کی نگاہ میں ان کا قدم سچائی پر پڑرہا ہے.ان کے رب کی نظر میں ان کا قدم سچائی پر پڑ رہا ہے.ان دونوں جملوں کا تعلق دراصل توحید اور اس کے لازمی نتیجہ سے ہے.یہاں ابنائے فارس کو یہ ارشاد فرمایا گیا لیکن ابنائے فارس میں روحانی ابنائے فارس لازماً داخل ہیں کیونکہ ابنائے فارس کا مضمون ہی روحانی تعلق سے شروع ہوتا ہے.حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے اہل بیت قرار دیا گویا کہ ان کی ذات کا ایک اور روحانی تعلق ہے جسے اہل بیت کے تعلق میں تبدیل کر کے ظاہر فرمایا ہے.(روزنامه الفضل ۲۰ نومبر ۱۹۹۳ء) پس حضرت خلیفہ مسیح الرابع نے توحید کے مضمون میں نکھار پیدا کردیا اور جماعت کے ہر فرد کو اس یقین محکم پر قائم کر دیا کہ اس کا خالق و مالک اس کا مرجع و ماویٰ اس کا معبود حقیقی اور اس کا حاجت روا مشکل کشا صرف اور صرف ایک ہی خدا ہے جو اس کا خدا ہے.یہ ایک ایسی برکت اور نعمت ہے جو اس وقت صرف اور صرف جماعت احمدیہ کو حاصل ہے.خدا تعالیٰ اس نعمت کو تا قیامت جماعت احمدیہ میں قائم و دائم رکھے.آمین

Page 87

۶۶ ۵.وحدت قومی خلافت کی ایک بہت بڑی برکت وحدت قومی کی برکت ہے.کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اس میں اتفاق، اتحاد اور وحدت نہ ہو.وحدت قومی کے تعلق میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ اَعْدَاءُ فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا.(آل عمران: ۱۰۴) ترجمہ:.” تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور پراگندہ مت ہو اور اللہ کا احسان جو اس نے تم پر کیا ہے یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے.اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کی جس کے نتیجہ میں تم اس کے احسان سے بھائی بھائی بن گئے“.اس طرح آگے چل کر فرمایا:.وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَ هُمُ الْبَيِّنْتُ وَأُوْلَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ.(آل عمران: ١٠٦) ترجمہ:.تم ان لوگوں کی طرح نہ بنو جو کھلے کھلے نشانات آچکنے کے بعد پراگندہ ہو گئے اور انہوں نے باہم اختلاف پیدا کرلیا.حضرت خلیفہ اسیح الاول نے بیعت لینے سے قبل فرمایا:.موجودہ حالت میں سوچ لو کیسا وقت ہے جو ہم پر آیا ہے.اس وقت مردوں، عورتوں اور بچوں کے لئے ضروری ہے کہ وحدت کے نیچے ہوں.اس وحدت کے لئے ان بزرگوں ( آپ نے بعض بزرگوں کے نام گنوائے ) میں سے کسی کی بیعت

Page 88

۶۷ کر لو.میں تمہارے ساتھ ہوں.( بدر ۴ جون ۱۹۰۸ء) اسی طرح آپ نے خلافت کے خلاف ریشہ دوانیاں کرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:.تم شکر کرو کہ ایک شخص کے ذریعہ تمہاری جماعت کا شیرازہ قائم ہے اتفاق بڑی نعمت ہے اور یہ مشکل سے حاصل ہوتا ہے.یہ خدا کا فضل ہے کہ تم کو ایسا شخص دے دیا جو شیرازہ وحدت قائم رکھے جاتا ہے وہ نہ تو نوجوان ہے اور نہ اس کے علوم میں اتنی وسعت جتنی اس زمانہ میں ہونی چاہئے لیکن خدا نے تو موسیٰ کے عصا سے جو بے جان لکڑی تھی اتنا بڑا کام لے لیا تھا کہ فرعونیت کا قلع قمع ہو گیا اور میں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے انسان ہوں پس کیا عجب کہ خدا مجھ سے یہ کام لے لے.تم اختلاف اور تفرقہ اندازی سے بچو.نکتہ چینی میں حد سے بڑھ جانا بڑا خطرناک ہے.اللہ سے ڈرو.اللہ کی توفیق سے سب کچھ ہوگا“.(بدر ۲۴ /اگست ۱۹۱۱ء) اسی طرح ایک دوسرے موقع پر فرمایا :.تم ادب سیکھو کیونکہ یہی تمہارے لئے بابرکت راہ ہے.تم اس حبل اللہ کو آپ مضبوط پکڑ لو.یہ بھی خدا ہی کی رسی ہے جس نے تمہارے متفرق اجزاء کو اکٹھا کر دیا ہے.پس اسے مضبوط پکڑے رکھو“.( بدر یکم فروری ۱۹۱۲ء) ایک اور موقع پر فرمایا:.تم کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمارے بادشاہ حضرت مسیح موعود کے ذریعہ ایک کیا.پھر اس کے مرنے کے بعد میرے ہاتھ پر تم کو تفرقہ سے بچایا.اس نعمت کی قدر کرو اور کھی بحثوں میں مت پڑو.( بدرم جولائی ۱۹۱۲ء)

Page 89

۶۸ ہیں:.خلافت اور وحدت و شیرازی بندی کے تعلق میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ”میرے نزدیک یہ مسئلہ اسلام کے ایک حصہ کی جان ہے.مختلف حصوں میں مذاہب کا عملی کام منقسم ہوتا ہے.یہ مسئلہ جس حصہ مذہب سے تعلق رکھتا ہے.وہ وحدت قومی ہے.کوئی جماعت کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک ایک رنگ کی اس میں وحدت نہ پائی جائے.مسلمانوں نے قومی لحاظ سے تنزل ہی اس وقت کیا ہے جب ان میں خلافت نہ رہی.جب خلافت نہ رہی تو وحدت نہ رہی اور جب وحدت نہ رہی تو ترقی رک گئی اور تنزل شروع ہو گیا.کیونکہ خلافت کے بغیر وحدت نہیں ہوسکتی اور وحدت کے بغیر ترقی نہیں ہوسکتی.تری وحدت کے ذریعہ ہی ہوسکتی ہے.جب ایک ایسی رسی ہوتی ہے جو کسی قوم کو باندھے ہوئے ہوتی ہے تو س قوم کے کمزور بھی طاقتور کے ساتھ آگے آگے بڑھتے جاتے ہیں.دیکھو اگر شاہسوار کے ساتھ ایک چھوٹا لڑکا بٹھا کر باندھ دیا جائے تو لڑکا بھی اس جگہ پہنچ جائے گا جہاں شاہسوار کو پہنچنا ہوگا.یہی حال قوم کا ہوتا ہے.اگر وہ ایک رسی سے بندھی ہو تو اس کے کمزور افراد بھی ساتھ دوڑے جاتے ہیں لیکن جب رسی کھل جائے تو گو کچھ دیر تک طاقت ور دوڑتے رہتے ہیں لیکن کمزور پیچھے رہ جاتے ہیں اور آخر کار نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کئی طاقتور بھی پیچھے رہنے لگ جاتے ہیں کیونکہ کئی ایسے ہوتے ہیں جو کہتے ہیں فلاں جو پیچھے رہ گئے ہیں ہم بھی رہ جائیں پھر ان لوگوں میں جو آگے بڑھنے کی طاقت رکھتے اور آگے بڑھتے ہیں چلنے کی قابلیت نہیں رہتی مگر قومی اتحاد ایسا ہوتا ہے کہ ساری قوم چٹان کی طرح مضبوط ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے کمزور بھی آگے بڑھتے جاتے ہیں.( روزنامه الفضل ۱۳ نومبر ۱۹۶۵ء)

Page 90

۶۹ اسی طرح حضور نے ایک دوسرے موقعہ پر فرمایا:.اور اس بات کو ہمیشہ زیر نظر رکھیں کہ اگر ذرا بھی تفرقہ پیدا ہوا تو ہماری ہوا بگڑ جائے گی اور پھر ہم سے زیادہ حرماں نصیب اور کوئی نہ ہوگا جو دنیا سے تو یوں گئے کہ ایک مامور پر ایمان لائے ، دوسرے مسلمانوں سے یوں تعلقات منقطع کئے کہ نہ تو ان کے ساتھ مل کر عبادت کر سکتے ہیں نہ نماز پڑھ سکتے ہیں.ایک غیر احمدی خواہ کس قدر ہمارا دوست ہو، اس کے ساتھ تعلقات ہوں، راز و نیاز کی نشست و برخاست ہو، جونہی خالق کے حضور سر نیا زخم کرنے کا وقت آیا ہم الگ اور وہ الگ.نہ ان کے ساتھ رشتے کر سکتے ہیں کیونکہ غیر احمدی کولڑ کی دینا منع ہے.اب اگر ہم آپس میں بھی پورا اتحاد و اتفاق نہ رکھتے ہوں تو پھر سچ مچ ہم سے بدنصیب کوئی نہیں.اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہر وقت شیرازہ قومی کو مستحکم رکھنے کی تدابیر سوچتے رہیں.برداشت کا مادہ اپنے اندر پیدا کریں.اگر ایک بھائی سے کچھ غلطی ہوتی ہے تو دوسرا اسے بنظر عفو دیکھے.اختلاف رائے تو بری بات نہیں مگر عام قومی معاملات میں ہماری تمام رائیں اپنے امام کے سامنے ختم ہو جانی چاہئیں.ہمیں ان کے حضور بڑھ بڑھ کر سوال کرنے کی ضرورت نہیں.دراصل ایک امام رکھنے والی جماعت کو تو بہت سی سہولتیں ہوتی ہیں.اس کے بہت سے کاموں کا بوجھ امیر کے سر پر ہوتا ہے.جب وہ کسی بات کو ضروری سمجھے گا تو خود اس کی تحریک فرمائے گا.ہمیں کیا ضرورت ہے کہ خواہ مخواہ اس میں دخل دیں.(ماہنامہ خالد دسمبر ۱۹۶۵ء)

Page 91

وحدت قومی سے تعلق میں: وحدت قومی کے تعلق میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:.(قدرت ثانیہ ) خدا کی طرف سے ایک بڑا انعام ہے جس کا مقصد قوم کو متحد کرنا اور تفرقہ سے محفوظ رکھنا ہے.یہ وہ لڑی ہے جس میں جماعت موتیوں کی مانند پروٹی ہوئی ہے.اگر موتی بکھرے ہوں تو نہ تو محفوظ ہوتے ہیں اور نہ ہی خوبصورت معلوم ہوتے ہیں.ایک لڑی میں پروئے ہوئے موتی ہی خوبصورت اور محفوظ ہوتے ہیں.اگر قدرت ثانیہ نہ ہو تو دین حق کبھی ترقی نہیں کر سکتا.پس اس قدرت کے ساتھ کامل اخلاص اور محبت اور وفا اور عقیدت کا تعلق رکھیں اور کی اطاعت کے جذبہ کو دائی بنا ئیں اور اس کے ساتھ محبت کے جذبہ کو اس قدر بڑھا ئیں کہ اس محبت کے بالمقابل دوسرے تمام رشتے کمتر نظر آئیں.(امام) سے وابستگی میں ہی سب برکتیں ہیں اور وہی آپ کے لئے ہر قسم کے فتنوں اور ابتلاؤں کے مقابلہ کے لئے ایک ڈھال ہے.الفضل انٹرنیشنل ۲۳ مئی تا ۵ جون ۲۰۰۳ء)

Page 92

خلیفہ راشد کا مقام اور مرتبہ روحانی دنیا میں سب سے اعلیٰ وارفع اور بڑا مقام نبی اور رسول کا ہوتا ہے.خلیفہ چونکہ نبی کا جانشین اور قائمقام ہوتا ہے اور نبی کے انوار و برکات خلیفہ میں منعکس ہوتے ہیں اور خلیفہ کا وہی کام ہوتا ہے.جو نبی کا ہوتا ہے.لہذا نبی کے بعد خلیفہ کا مقام ہوتا ہے.حضرت سید شاہ اسمعیل شہید علیہ الرحمۃ نے اپنی مشہور کتاب ”منصب امامت“ میں خلافت راشدہ کے مقام و مرتبہ کے بارہ میں بحث فرمائی ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں:.نکته دوم، خلیفہ راشد سایه رب العالمین، ہمسائیہ انبیاء مرسلین، سرمایہ ترقی دین اور ہم پائیہ ملائکہ مقربین ہے.دائرہ امکان کا مرکز ، تمام وجوہ سے باعث فخر اور ارباب عرفان کا افسر ہے افرا دانسی کا سردار ہے.اس کا دل تجلی رحمان کا عرش اور اس کا سینہ رحمت وافرہ اور اقبال جلالت یزداں کا پر تو ہے.اس کی مقبولیت جمال ربانی کا عکس ہے اس کو ہر تیغ قضا اور مہر عطیات کا منبع ہے اس سے اعراض، اعراض تقدیر اور اس کی مخالفت ، مخالفت رب قدیر ہے.جو کمال اس کی خدمت گزاری میں صرف نہ ہو، خیال ہے پُر خلل اور جو علم اس کی تعظیم وتکریم میں مستعمل نہ ہوسراسر و ہم بال ومحال ہے.جو صاحب کمال اس کے ساتھ اپنے کمال کا موازنہ کرے وہ مشارکت حق تعالیٰ پر مبنی ہے.اہل کتاب کی علامت یہی ہے کہ اس کی خدمت میں مشغول اور اس کی اطاعت میں مبذول رہیں.اس کی ہمسری کے دعوی سے دستبردار رہیں اور اسے

Page 93

وارث رسول شمار کریں.نکتہ سوم خلیفہ راشد نبی حکمی ہے.گو وہ فی الحقیقت پایۂ رسالت کو نہیں پہنچا لیکن منصب خلافت احکام انبیاء اللہ کے ساتھ منسوب ہوا.“ منصب امامت ص ۱۲۲،۱۲۱ از شاه اسمعیل شہید مترجم حکیم محمد حسین نقوش پر لیس لا ہورا کتو بر ۱۹۹۴ء آئینہ ادب چوک مینارا نارکلی لاہور ) خلیفہ راشد اور باقی صلحاء میں نسبت بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.امام، رسول کے سعادت مند فرزند کی مانند ہے.اکابر امت و بزرگان ملت ملازموں اور خدمتگاروں اور جاں نثار غلاموں کی مانند ہیں.پس جس طرح تمام اکابر سلطنت و ارکان مملکت کے لئے شہزادہ والد قدر کی تعظیم ضروری اور اس سے توسل واجب ہے اور اس سے مقابلہ کرنا نمک حرامی کی علامت اور اس پر مفاخرت کا اظہار بدانجامی پر دلالت کرتا ہے.ایسا ہی ہر صاحب کمال کے حضور میں تواضع اور تذلل سعادت دارین کا باعث ہے اور اس کے حضور میں اپنے علم و کمال کو کچھ سمجھ بیٹھنا دونوں جہان کی شقاوت ہے.اس کے ساتھ یگانگت رکھنا رسول سے یگانگت ہے اور اس سے بیگانگی ہو تو خو د رسول سے بیگانگی ہے.اسی طرح فرمایا کہ خلیفہ راشد سب کا مطاع ہے.لکھتے ہیں کہ:.خلیفہ راشد رسول کے فرزند ولی عہد کی بجائے اور دوسرے ائمہ دین بمنزلہ دوسرے بیٹوں کے.پس جیسا کہ تمام فرزندوں کی سعادتمندی کا تقاضا یہی ہے کہ جس طرح وہ مراتب پاسداری وہی خدمت گزاری اپنے باپ کے حق میں ادالاتے ہیں.وہ بتمامہ اپنے باپ کے جانشین بھائی سے بجالائیں.اور اس سے اپنے باپ کی جگہ شمار کریں اور اس کے ساتھ مشارکت کا دم نہ بھریں.منصب امامت از شاه اسمعیل شہید ص ۸۶ ۸۷.اکتو بر ۱۹۹۴ء نقوش پریس لاہور )

Page 94

خلافت کا مقام بیان کرتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد تحریر کرتے ہیں:.اسی طرح نبوت کا مقام ، تعلیم و تربیت امت کی مختلف قوتوں سے مرکب تھا.قرآن کریم نے ان کو تین اصولی قسموں میں بانٹ دیا ہے.يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايته.وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ (۶۲-۳) تلاوت آیات.تزکیہ نفوس تعلیم کتاب و حکمت.خلفاء راشدین ان تینوں منصبوں میں وجو د نبوت کے نائب تھے.وہ منصب اجتہاد و قضاء شرح کے ساتھ قوت ارشاد و تزکیہ وتربیت بھی رکھتے تھے.وہ ایک صاحب وحی کی طرح خدا کے کلام کی منادی کرتے ایک نبی کی طرح دلوں اور روحوں کو پا کی بخشتے اور ایک رسول کی طرح تعلیم کتاب اور حکمت وسنت سے امت کی تربیت و پرورش کرنے والے تھے.وہ ایک ہی وجود میں ابوحنیفہ و شافعی بھی تھے اور جنید اور شبلی بھی نخعی و حماد بھی تھے اور ابن معین و ابن راہویہ بھی.جسموں کا نظام بھی انہی کے ہاتھوں میں تھا دلوں کی حکمرانی بھی انہی کے قبضہ میں تھی.یہی حقیقی اور کامل معنی منصب نبوت کی نیابت کے ہیں اور اسی لئے ان کا وجود اور ان کے اعمال بھی اعمال نبوت کا ایک آخری جزء تھے کہ عَلَيْكُمُ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِين.اور اس لئے وَعَضُوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ کے حکم میں نہ صرف سنت عہد نبوت بلکہ خلافت راشدہ وخاصہ کی سنت بھی داخل ہوئی اور شرح اس ستر الہی کی بہت طولانی ہے یہاں محض اشارات مطلوب“.مسئلہ خلافت از ابوالکلام آزاد ص ۲۰ تا ۲۱ مطبوعہ خیابان عرفان کچہری روڈ لاہور )

Page 95

حضرت خلیفہ مسیح الثانی خلیفہ کا مقام ومرتبہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.نبوت کے بعد سب سے بڑا عہدہ یہ (خلافت) ہے ایک شخص نے مجھے کہا کہ ہم کوشش کرتے ہیں تا گورنمنٹ آپ کو کوئی خطاب دے میں نے کہا یہ خطاب تو ایک معمولی بات ہے.میں شہنشاہ عالم کے عہدہ کو بھی خلافت کے مقابلہ میں ادنی سمجھتا ہوں.انوار العلوم جلد ۹ص ۴۲۵ ، از حضرت مصلح موعود شائع کردہ فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ ) خلیفہ کے اختیارات جیسا کہ قبل ازیں بیان کیا گیا ہے کہ خلیفہ نبی کا قائمقام ہوتا ہے اور اس کا کام نبی کے پروگراموں کو آگے بڑھانا ہے.لہذا ظلی طور پر خلیفہ راشد کو وہ تمام اختیارات حاصل ہوتے ہیں جو کسی نبی کو حاصل ہوتے ہیں.خلیفہ وقت کے اختیارات کی عملی صورت کو بیان کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے اپنی کتاب سلسلہ احمدیہ میں تحریر فرماتے ہیں:.اسلام میں یہ نظام خلافت ایک نہایت عجیب و غریب بلکہ عدیم المثال نظام ہے.یہ نظام موجود الوقت سیاسیات کی اصطلاح میں نہ تو پوری طرح جمہوریت کے نظام کے مطابق ہے اور نہ ہی اسے موجودہ زمانہ کی ڈکٹیٹر شپ کے نظام سے تشبیہ دے سکتے ہیں بلکہ یہ نظام ان دونوں کے بین بین ایک علیحدہ قسم کا نظام ہے.جمہوریت کے نظام سے تو وہ اس لئے جدا ہے کہ جمہوریت میں صدر حکومت کا انتخاب میعادی ہوتا ہے مگر اسلام میں خلیفہ کا انتخاب میعادی نہیں بلکہ عمر بھر کے لئے ہوتا ہے.

Page 96

دوسرے جمہوریت میں صدر حکومت بہت سی باتوں میں لوگوں کے مشورہ کا پابند ہوتا ہے مگر اسلام میں خلیفہ کو مشورہ لینے کا حکم تو بے شک ہے مگر وہ اس مشورہ پر عمل کرنے کا پابند نہیں.بلکہ مصلحت عامہ کے ماتحت اسے رد کر کے دوسرا طریق اختیار کرسکتا ہے.دوسری طرف یہ نظام ڈکٹیٹر شپ سے بھی مختلف ہے کیونکہ اول تو ڈکٹیٹر شپ میں میعادی اور غیر میعادی کا سوال نہیں ہوتا اور دونوں صورتیں ممکن ہوتی ہیں.دوسرے ڈکٹیٹر کو عموماً کلی اختیارات حاصل ہوتے ہیں.حتی کہ وہ حسب ضرورت پرانے قانون کو بدل کر نیا قانون جاری کر سکتا ہے مگر نظام خلافت میں خلیفہ کے اختیارات بہر صورت شریعت اسلامی اور نبی متبوع کو ہدایات کی قیود کے اندر محدود ہیں.اسی طرح ڈکٹیٹر مشورہ لینے کا پابند نہیں مگر خلیفہ کو مشورہ لینے کا حکم ہے.الغرض خلافت کا نظام ایک نہایت ہی نادر اور عجیب وغریب نظام ہے جو اپنی روح میں تو جمہوریت کے قریب تر ہے مگر ظاہری صورت میں ڈکٹیٹر شپ سے زیادہ قریب ہے.مگر وہ حقیقی فرق جو خلافت کو دنیا کے جملہ نظاموں سے بالکل جدا اور ممتاز کر دیتا ہے وہ اس کا دینی منصب ہے.خلیفہ ایک انتظامی افسر ہی نہیں ہوتا بلکہ نبی کا قائم مقام ہونے کی وجہ سے اسے ایک روحانی مقام بھی حاصل ہوتا ہے.وہ نبی کی جماعت کی روحانی اور دینی تربیت کا نگران ہوتا ہے اور لوگوں کے لئے اسے عملی نمونہ بننا پڑتا ہے اور اس کی سنت سند قرار پاتی ہے.پس منصب خلافت کا یہ پہلو نہ صرف اسے دوسرے تمام نظاموں سے ممتاز کر دیتا ہے بلکہ اس قسم کے روحانی نظام میں میعادی تقر ر کا سوال ہی نہیں اٹھ سکتا.(سلسلہ احمدیہ ص ۳۰۹،۳۰۸ / از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب.شائع کردہ نظارت تالیف و تصنیف قادیان دسمبر ۱۹۳۹ء)

Page 97

خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ خلیفہ کے اختیارات کے سلسلہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے مجلس مشاورت میں فرمایا:.اسلامی اصول کے مطابق یہ صورت ہے کہ جماعت خلیفہ کے ماتحت ہے اور آخری اتھارٹی جسے خدا نے مقرر کیا ہے اور جس کی آواز آخری آواز ہے وہ خلیفہ کی آواز ہے.کسی انجمن، کسی شوری یا کسی مجلس کی نہیں ہے.خلیفہ کا انتخاب ظاہری لحاظ سے بے شک تمہارے ہاتھوں میں ہے.تم اس کے متعلق دیکھ سکتے ہو اور غور کر سکتے ہو مگر باطنی طور پر خدا کے اختیار میں ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے خلیفہ ہم قرار دیتے ہیں اور جب تک تم لوگ اپنی اصلاح کی فکر رکھو گے ان قواعد اور اصولوں کو نہ بھولو گے جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ضروری ہیں تم میں خدا خلیفہ مقرر کرتا رہے گا اور اسے وہ عظمت حاصل ہوگی جسے اس کام کے لئے ضروری ہے.رپورٹ مجلس مشاورت منعقده ۷ را پریل ۱۹۲۵ء ص ۲۴) خلیفہ کی ذمہ داریاں خلیفہ نبی کا قائم مقام اور جانشین ہوتا ہے.لہذا جو کام نبی کا ہوگا وہی خلیفہ کا ہوگا.کیونکہ خلیفہ کی غرض اور مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے پیشرو کے کام کو جاری رکھے.قرآن کریم کی سورۃ بقرہ آیت نمبر ۱۳۰ میں انبیاء کے کام بیان کر دئیے گئے ہیں.اور یہی کام انبیاء کے خلفاء کے بھی ہوتے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم کی زبان پر یہ دعا جاری کرتے ہوئے فرماتا ہے.رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمُ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (بقره: ۱۳۰)

Page 98

یعنی اے ہمارے رب! اور تو ان میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کر جوان پر تیری آیات کی تلاوت کرے اور انہیں کتاب کی تعلیم دے اور اس کی حکمت بھی سکھائے اور ان کا تزکیہ کر دے.یقینا تو ہی کامل غلبہ والا (اور) حکمت والا ہے.اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت فضل عمر انبیاء وخلفاء کے درج ذیل کام بیان فرماتے ہیں:.پہلا کام:.اس سے معلوم ہوا کہ نبی اور اس کے جانشین خلیفہ کا پہلا کام تبلیغ الحق اور دعوت الی الخیر ہوتی ہے.وہ سچائی کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے اور اپنی دعوت کو دلائل اور نشانات کے ذریعے مضبوط کرتا ہے.دوسرے لفظوں میں یہ کہو کہ وہ تبلیغ کرتا ہے.دوسرا کام:.پھر دوسرا فرض نبی یا خلیفہ کا اس آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ ان کو کتاب سکھا دے.انسان جب اس بات کو مان لے کہ اللہ تعالیٰ ہے اور اس کی طرف سے دنیا میں رسول آتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے ملائکہ ان پر اترتے ہیں اور ان کے ذریعہ کتب الہیہ نازل ہوتی ہیں تو اس کے بعد دوسرا مرحلہ اعمال کا آتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ پر ایمان لا کر دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے آدمی کو اب کیا کرنا چاہئے.اس ضرورت کو پورا کرنے والی آسمانی شریعت ہوتی ہے اور نبی کا دوسرا کام یہ ہے کہ ان نو مسلموں کو شریعت سکھائے.ان ہدایات اور تعلیمات پر عمل ضروری ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کے رسولوں کی معرفت آتی ہیں.پس اس موقعہ پر دوسرا فرض نبی کا یہ بتایا گیا ہے کہ وہ انہیں فرائض کی تعلیم دے.کتاب کے معنے شریعت اور فرض کے ہیں.جیسے قرآن مجید میں یہ لفظ فرض کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے جیسے كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ.پس اس ترتیب کو خوب یا درکھو کہ پہلا کام اسلام میں لانے کا

Page 99

تھا.دوسرا ان کو شریعت سکھانے اور عامل بنانے کا.تیسرا کام: عمل کے لئے ایک اور بات کی ضرورت ہے اس وقت تک انسان کے اندر کسی کام کے کرنے کے لئے جوش اور شوق پیدا نہیں ہوتا جب تک اسے اس کی حقیقت اور حکمت سمجھ میں نہ آجائے.اس لئے تیسرا کام یہاں یہ بیان کیا.وَالْحِكْمَةَ اور وہ ان کو حکمت کی تعلیم دے.یعنی جب وہ اعمال ظاہری بجالانے لگیں تو پھر ان اعمال کی حقیقت اور حکمت سے انہیں باخبر کرے.جیسے ایک شخص ظاہری طور پر نماز پڑھتا ہے.نماز پڑھنے کی ہدایت اور تعلیم دینا یہ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ کے نیچے ہے اور نماز کیوں فرض کی گئی.اس کے کیا اغراض و مقاصد ہیں؟ اس کی حقیقت سے واقف کرنا ية تعليم الحکمۃ ہے.ان دونوں باتوں کی مثال خود قرآن شریف سے ہی دیتا ہوں.قرآن شریف میں حکم ہے.اَقِيْمُوا الصَّلوةَ نمازیں پڑھو.یہ حکم تو گویا وَيُعَلِّمُهُمُ الکتب کے ماتحت ہے.ایک جگہ یہ فرمایا ہے اِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ ط یعنی نماز بدیوں اور نا پسندیدہ باتوں سے روکتی ہے.یہ نماز کی حکمت بیان فرمائی کہ نماز کی غرض کیا ہے.اسی طرح پھر رکوع، سجود، قیام اور قعدہ کی حکمت بتائی جائے اور خدا کے فضل سے میں یہ سب بتا سکتا ہوں.غرض تیسرا کام نبی یا اس کے خلیفہ کا یہ ہوتا ہے کہ وہ احکام شریعت کی حکمت سے لوگوں کو واقف کرتا ہے.غرض ایمان کے لئے يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ایسته فرمایا.پھر ایمان کے بعد اعمال کے لئے وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتب پھر ان اعمال میں ایک جوش اور ذوق پیدا کرنے اور ان کی حقیقت بتانے کے واسطے وَالحِكْمَة فرمایا.نماز کے متعلق میں نے ایک مثال دی ہے ورنہ تمام احکام میں اللہ تعالیٰ نے حکمتیں رکھی ہیں.چوتھا کام:.پھر چوتھا کام فرمایا يزكيهم.حکمت کی تعلیم کے بعد انہیں پاک

Page 100

۷۹ کرے.تزکیہ کا کام انسان کے اپنے اختیار میں نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے اپنے قبضہ اور اختیار میں ہے.اب سوال ہوتا ہے کہ جب یہ اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے تو نبی کو کیوں کہا کہ وہ پاک کرے.مختصر طور پر میں یہاں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس کا ذریعہ بھی اللہ تعالیٰ نے آپ ہی بتا دیا ہے کہ پاک کرنے کا کیا طریق ہے اور وہ ذریعہ دعا ہے.پس نبی کو جو حکم دیا گیا ہے کہ ان لوگوں کو پاک کرے تو اس سے مراد یہ ہے کہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرے.وَيُزَكِّيهِمْ - يُزَكِّيهِمْ کے معنوں پرغور کیا تو ایک تو یہی بات ہے جو میں بیان کر چکا ہوں کہ دعاؤں کے ذریعہ تزکیہ کرے.پھر ابن عباس نے معنے کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اخلاص پید کرنا.غرض ایک تو یہ معنے ہوئے کہ گناہوں سے بچانے کی کوشش کرے.اس لئے جماعت کو گناہوں سے بچانا ضروری ٹھہرا کہ وہ گناہوں میں نہ پڑے اور دوسرے معنوں کے لحاظ سے یہ کام ہوا کہ صرف گناہوں سے نہ بچائے بلکہ ان میں نیکی پیدا کرے.دوسرے الفاظ میں یوں کہو کہ ایک تو وہ تدابیر اختیار کرے جن سے جماعت کے گناہ دور کر دے.دوسرے ان کو خوبصورت بنا کر دکھا دے.اعلیٰ مدارج کی طرف لے جاوے اور ان کے کاموں میں اخلاص اور اطاعت پیدا کرے.پھر تیسرے معنے بھی وَيُزَكِّيهِمْ کے ہیں وہ یہ کہ ان کو بڑھائے.ان معانی کے لحاظ سے دین و دنیا میں ترقی دینا ضروری ہوا.اور یہ ترقی ہر پہلو سے ہونی چاہئے.دنیوی علوم میں دوسروں سے پیچھے ہوں تو اس میں ان کو آگے لے جاوے.تعداد میں کم ہوں تو بڑھائے.مالی حالت کمزور ہو تو اس میں بڑھاوے.غرض جس رنگ میں بھی کمی ہو بڑھاتا چلا جاوے.اب ان معنوں کے لحاظ سے

Page 101

۸۰ جماعت کی ہر قسم کی ترقی نبی اور اس کے ماتحت اس کے خلیفہ کا فرض ہوا.پھر جب میل سے پاک کرنا اور ترقی کرانا اس کا کام ہوا تو اسی میں غرباء کی خبر گیری بھی آگئی کیونکہ وہ بھی ایک دنیاوی میل سے لتھڑے ہوتے ہیں ان کو پاک کرنا اس کا فرض ہے اس غرض کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے زکوۃ کا صیغہ رکھا ہے کیونکہ جماعت کے غرباء اور مساکین کا انتظام کرنا بھی خلیفہ کا کام ہے اور اس کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے.پس اللہ تعالیٰ نے خود ہی اس کا بھی انتظام فرما دیا اور امراء پر زکوۃ مقررفرمائی.الغرض نبی کا کام بیان فرمایا تبلیغ کرنا ، کافروں کو مومن کرنا، مومنوں کو شریعت پر قائم کرنا، پھر باریک در باریک راہوں کا بتانا.پھر تزکیہ نفس کرنا.یہی کام خلیفہ کے ہوتے ہیں.منصب خلافت - انوار العلوم جلد ۳ ص ۲۶ تا ۲۸) نظام خلافت اور ہماری ذمہ داریاں ا.کامل ایمان اور عمل صالح بجالانا اللہ تعالیٰ اور رسول خدا ﷺ نے خود نظام خلافت کے تعلق میں ہماری ذمہ داریاں بیان فرما دی ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ آیت استخلاف میں ہماری پہلی ذمہ داری یہ بیان فرماتا ہے کہ:.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ آیت استخلاف کے اس حصہ میں خلافت جیسی عظیم نعمت کو ایمان اور عمل صالح کے ساتھ مشروط قرار دیا ہے.پس اگر ہم چاہتے ہیں کہ خلافت کی نعمت ہم میں ہمیشہ قائم و

Page 102

Al دائم رہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے ایمان اور اعمال کو درست رکھیں.جیسا کہ حضرت مصلح موعود اس تعلق میں فرماتے ہیں:.وو یہ وعدہ امت سے اس وقت تک کے لئے ہے جب تک کہ امت مؤمن اور عمل صالح کرنے والی ہو.جب وہ مومن اور عمل صالح کرنے والی نہیں رہے گی تو اللہ تعالیٰ اپنے اس وعدہ کو واپس لے لے گا.گویا نبوت اور خلافت میں یہ عظیم الشان فرق بتایا کہ نبوت تو اس وقت آتی ہے.جب دنیا خرابی اور فساد سے بھر جاتی ہے.جیسے فرمایا.ظهر الفساد في البر والبحر كہ جب بر اور بحر میں فساد واقع ہو جاتا ہے ، لوگ خدا تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں، الہی احکام سے اپنا منہ موڑ لیتے ہیں، ضلالت اور گمراہی میں گرفتار ہو جاتے ہیں اور تاریخی زمین کے چپہ چپہ کا احاطہ کر لیتی ہے تو اس وقت لوگوں کی اصلاح کے لئے خدا تعالیٰ کسی نبی کو بھیجتا ہے جو پھر آسمان سے نور ایمان کو واپس لا تا اور ان کو بچے دین پر قائم کرتا ہے لیکن خلافت اس وقت آتی ہے جب قوم میں اکثریت مومنوں اور عمل صالح کرنے والوں کی ہوتی ہے.گویا نبوت تو ایمان اور عمل صالح کے مٹ جانے پر آتی ہے اور خلافت اس وقت آتی ہے جب قریباً تمام کے تمام لوگ ایمان اور عمل صالح پر قائم ہوتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ خلافت اسی وقت شروع ہوتی ہے جب نبوت ختم ہوتی ہے کیونکہ نبوت کے ذریعہ ایمان اور عمل صالح قائم ہو چکا ہوتا ہے اور چونکہ اکثریت ابھی ان لوگوں کی ہوتی ہے جو ایمان اور عمل صالح پر قائم ہوتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ انہیں خلافت کی نعمت دے دیتا ہے.اور درمیانی زمانہ جبکہ نہ تو دنیا نیکو کاروں سے خالی ہو اور نہ بدی سے پُر ہو دونوں سے محروم رہتا ہے کیونکہ نہ تو بیماری شدید ہوتی ہے کہ نبی آئے اور نہ تندرستی کامل ہوتی ہے کہ ان سے کام لینے والا خلیفہ آئے.

Page 103

۸۲ ۲.شرک سے اجتناب کرنا آیت استخلاف میں ہماری دوسری ذمہ داری یہ بیان فرمائی کہ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ط یعنی ( مؤمن خلافت کی برکت سے ) صرف میری عبادت کریں اور کسی دوسرے کو میرا شریک نہ ٹھہرائیں.پس آیت استخلاف کے مطابق ہماری دوسری ذمہ داری خدا تعالیٰ کی خالص توحید کو دنیا میں قائم کرنا، خود بھی صرف اسی کی عبادت کرنی ہے اور دوسروں کو بھی صرف اسی کی عبادت کرنے کی تحریک کرنی ہے.چنانچہ اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود فر ماتے ہیں:.اس سے بڑھ کر ایک اور بات بتا تا ہوں اور وہ یہ ہے کہ انسان کو چاہئے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائے.اللہ ایک ہے.میں یقین کرتا ہوں کہ کوئی احمدی، مشرک نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے ان کو موحد بننے کی توفیق دی ہے.اس لئے مجھے یہ تو ڈر نہیں کہ کوئی احمدی بتوں کے آگے سجدہ کرے گا ، یا خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر کسی اور کا دامن پکڑنے کی کوشش کرے گا..اس لئے اس جماعت کے متعلق صریح شرک کا احتمال نہیں کیا جاسکتا.( برکات دعاص ۱۸ اروحانی خزائن جلد ۶) ۳.خلفاء کی کامل اطاعت آیت استخلاف کے معاً بعد آیت میں خلافت کی نعمت کا وعدہ کرنے کے ساتھ ہی ہمیں ہماری ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتا ہے:.وَاقِيمُوا الصَّلوةَ وَاتُوا الزَّكَوةَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (نور:۵۷)

Page 104

۸۳ یعنی اور نماز قائم کرو.اور زکوۃ ادا کرو اور رسول کی اطاعت کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے.پس اس آیت کریمہ میں ہمیں ہماری تین بنیادی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.جن کے پیش نظر نظام خلافت قائم کیا گیا ہے.ا.نماز کا قیام ۲.ادائے زکوۃ ۳.اطاعت رسول نماز اور زکوۃ اسلام کے بنیادی پانچ اراکین میں سے ہیں.جس سے ان کی اہمیت و برکات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور اطاعت رسول تو درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے.یہ تینوں باتیں ایسی ہیں جو خدا تعالیٰ کا رحم جذب کرنے کا ذریعہ ہیں جیسا کہ فرمایا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ تاکہ تم پر رحم کیا جائے.پس نظام خلافت کے وعدہ کے معا بعدان امور کا ذکر اس بات پر شاہد ہے کہ ان تینوں امور کا تعلق نظام خلافت سے ہے.نظام خلافت کے ساتھ وابستگی کے بغیر ان فرائض کو ہم کماحقہ سرانجام نہیں دے سکتے.جیسا کہ حضرت مصلح موعود سورۃ النور آیت ۵۶ کی تفسیر کے تحت فرماتے ہیں:.پھر خلافت کے ذکر کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وَأَقِيمُوا الصَّلوةَ وَآتُوا الزَّكَوةَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ.یعنی جب خلافت کا نظام جاری کیا جائے تو اس وقت تمہارا فرض ہے کہ تم نمازیں قائم کرو اور زکوۃ دو اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے رسول کی اطاعت کرو.گویا خلفاء کے ساتھ دین کی تمکین کر کے وہ اطاعت رسول کرنے والے ہی قرار پائیں گے.یہ وہی نکتہ ہے جو رسول کریم ﷺ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ مَنْ أَطَاعَ أَمِيرِى فَقَدْ أَطَاعَنِي وَمَنْ عَصَى اَمِيُرِى فَقَدْ عَصَانِی یعنی جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت

Page 105

۸۴ کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی.پس وَأَقِيمُوا الصَّلوةَ وَاتُوا الزَّكواةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ فرما کر اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اس وقت رسول کی اطاعت اسی رنگ میں ہوگی کہ اشاعت وتمکین دین کے لئے نمازیں قائم کی جائیں.زکوتیں دی جائیں اور خلفاء کی پورے طور پر اطاعت کی جائے.اس طرح اللہ تعالیٰ نے..اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اقامت صلوۃ اپنے صحیح معنوں میں خلافت کے بغیر نہیں ہوسکتی.“ ( تفسیر کبیر جلد ۶ ص ۳۶۷) ۴.خلافت سے کامل وابستگی نظام خلافت کے حوالے سے ہماری چوتھی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم خلافت کے ساتھ کامل وابستگی اور پختہ تعلق قائم کریں.جیسا کہ حضرت خلیفتہ اسیح الاول فرماتے ہیں:.آخر میں ایک بات اور کہنا چاہتاہوں اور یہ وصیت کرتا ہوں کہ تمہارا اغتصـام حَبْلُ اللہ کے ساتھ ہو.قرآن تمہارا دستورالعمل ہو.باہم کوئی تنازع نہ ہو کیونکہ تنازع فیضان الہی کو روکتا ہے.موسیٰ علیہ السلام کی قوم جنگل میں اسی نقص کی وجہ سے ہلاک ہوئی.رسول اللہ ﷺ کی قوم نے احتیاط کی اور وہ کامیاب ہو گئے.اب تیسری مرتبہ تمہاری باری آئی ہے.اس لئے چاہئے کہ تمہاری حالت اپنے امام کے ہاتھ میں ایسی ہو جیسے میت غسال کے ہاتھ میں ہوتی ہے.تمہارے تمام ارادے اور خواہشیں مردہ ہوں اور تم اپنے آپ کو امام کے ساتھ ایسا وابستہ کرو جیسے گاڑیاں انجن کے ساتھ اور پھر ہر روز دیکھو کہ ظلمت سے نکلتے ہو یا نہیں.استغفار کثرت سے کرو اور دعاؤں

Page 106

۸۵ میں لگے رہو.وحدت کو ہاتھ سے نہ دو.دوسرے کے ساتھ نیکی اور خوش معاملگی میں کوتاہی نہ کرو.تیرہ سو برس کے بعد یہ زمانہ ملا ہے اور آئندہ یہ زمانہ قیامت تک نہیں آسکتا.پس اس نعمت کا شکر کرو.کیونکہ شکر کرنے پر ازدیاد نعمت ہوتا ہے.لَئِنُ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (ابراہیم : ۸) لیکن جو شکر نہیں کرتا وہ یادر کھے إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ.(ابراہیم : ۸)‘ ( خطبات نورص ۱۳۱) اس تعلق میں سید نا حضرت الصلح الموعود فرماتے ہیں:.” جب تک بار بار ہم سے مشورے نہیں لیں گے اس وقت تک ان کے کام میں کبھی برکت پیدا نہیں ہو سکتی.آخر خدا نے ان کے ہاتھ میں سلسلہ کی باگ نہیں دی میرے ہاتھ میں سلسلہ کی باگ دی ہے.انہیں خدا نے خلیفہ نہیں بنایا مجھے خدا نے خلیفہ بنایا ہے اور جب خدا نے اپنی مرضی بتانی ہوتی ہے تو مجھے بتا تا ہے انہیں نہیں بتا تا.پس تم مرکز سے الگ ہو کر کیا کر سکتے ہو.جس کو خدا اپنی مرضی بتاتا ہے جس پر خدا اپنے الہام نازل فرماتا ہے جس کو خدا نے اس جماعت کا خلیفہ اور امام بنادیا ہے اس سے مشورہ اور ہدایت حاصل کر کے تم کام کر سکتے ہو.اس سے جتنا تعلق رکھو گے اسی قدر تمہارے کاموں میں برکت پیدا ہوگی.وہی شخص سلسلہ کا مفید کام کرسکتا ہے جو اپنے آپ کو امام سے وابستہ رکھتا ہے.اگر کوئی شخص امام کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ نہ رکھے تو خواہ وہ دنیا بھر کے علوم جانتا ہو وہ اتنا کام بھی نہیں کر سکے گا جتنا بکری کا بکروٹہ کر سکتا ہے“.(الفضل۲۰ نومبر ۱۹۴۶ء) -۵- کامل اطاعت و فرمانبرداری نظام خلافت سے وابستگی ہم سے کامل اطاعت اور فرمانبرداری کا تقاضا کرتی

Page 107

۸۶ ہے.اس سلسلہ میں حضرت مصلح موعود فر ماتے ہیں:.جب تک تم امام کے پیچھے پیچھے نہ چلو ہرگز اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت تم حاصل نہیں کر سکتے.پس اگر تم خدا تعالیٰ کی نصرت چاہتے ہو یاد رکھو اس کا کوئی ذریعہ نہیں سوائے اس کے کہ تمہارا اٹھنا، بیٹھنا، کھڑا ہونا اور چلنا اور تمہارا بولنا اور خاموش ہونا میرے ماتحت ہو“.(الفضل ۴ ستمبر ۱۹۲۷ء) اسی طرح ایک دوسرے موقع پر حضور فرماتے ہیں:.خلیفہ استاد ہے اور جماعت کا ہر فردشاگرد.جو لفظ بھی خلیفہ کے منہ سے نکلے وہ عمل کئے بغیر نہیں چھوڑ نا“.(الفض ۲ مارچ ۱۹۴۶ ص۳) ۶ نظام خلافت کی حفاظت کرنا نظام خلافت کے سلسلہ میں ہماری ایک ذمہ داری نظام خلافت کی حفاظت ہے یہی وجہ ہے کہ مجلس انصاراللہ، خدام الاحمدیہ، لجنہ اماءاللہ اور اطفال الاحمدیہ جیسی ذیلی تنظیموں کے عہد میں خلافت کی حفاظت کو شامل کیا گیا ہے اور قیامت تک یہ عہد دہرانے کی تاکید اور ہدایت دی گئی ہے.۷ نظام خلافت اور عہدیدران کی ذمہ داری جماعتی عہدیدران کے کندھوں پر عام افراد جماعت کی نسبت بہت زیادہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے.خصوصیت سے عہدیداران کو مخاطب کرتے ہوئے حضور انور نے اپنے ایک تازہ ترین خطبہ جمعہ میں فرمایا: جو جماعتی نظام میں عہدیداران ہیں وہ صرف عہدے کے لئے عہد یدار نہیں ہیں بلکہ خدمت کے لئے مقرر کئے گئے ہیں.وہ نظام جماعت ، جو نظام خلافت کا ایک

Page 108

۸۷ حصہ ہے، کی ایک کڑی ہیں.اس لئے عہدیدار کو بڑی محنت سے، ایمانداری سے اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنے کام کو سرانجام دینا چاہئے.یہ جو خدمت کے مواقع دیئے گئے ہیں یہ حکم چلانے کے لئے نہیں دیئے گئے بلکہ خلیفہ وقت کی نمائندگی میں انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے لوگوں کی خدمت کرنے کے لئے ہیں“.(ہفت روزہ الفضل انٹر نیشنل لندن ۱۵ جولائی ۲۰۰۵ء) ۸.خلافت کے ساتھ کچی محبت خلافت کے تعلق میں ہماری ایک بنیادی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ ہم خلافت کے ساتھ کچی محبت پیدا کریں اور خلافت کے ساتھ ہمارا تعلق کامل وفا اور کچی عقیدت کا ہو.جیسا کہ حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:.قدرت ثانیہ خدا کی طرف سے ایک بڑا انعام ہے جس کا مقصد قوم کومتحد کرنا اور تفرقہ سے محفوظ رکھنا ہے.یہ وہ لڑی ہے جس میں جماعت موتیوں کی مانند پروئی ہوتی ہے.اگر موتی بکھرے ہوں تو نہ تو محفوظ ہوتے ہیں اور نہ ہی خوبصورت معلوم ہوتے ہیں ایک لڑی میں پروئے ہوئے موتی ہی خوبصورت اور محفوظ ہوتے ہیں.اگر قدرت ثانیہ نہ ہو تو دین حق کبھی ترقی نہیں کر سکتا.پس اس قدرت کے ساتھ کامل اخلاص اور محبت اور وفا اور عقیدت کا تعلق رکھیں.اور خلافت کی اطاعت کے جذبہ کو دائمی بنائیں اور اس کے ساتھ محبت کے جذبہ کو اس قدر بڑھائیں کہ اس محبت کے بالمقابل دوسرے تمام رشتے کمتر نظر آئیں.امام سے وابستگی میں ہی سب برکتیں ہیں اور وہی آپ کے لئے ہر قسم کے فتنوں اور ابتلاؤں کے مقابل کے لئے ایک ڈھال ہے.پس اگر آپ نے ترقی کرنی ہے اور دنیا پر غالب آنا ہے تو میری آپ کو یہی نصیحت

Page 109

۸۸ ہے اور میرا یہی پیغام ہے کہ آپ خلافت سے وابستہ ہو جائیں.اس حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں ، ہماری ساری ترقیات کا دارو مدار خلافت سے وابستگی میں پنہاں ہے.اللہ تعالیٰ آپ سب کا حامی و ناصر ہو اور آپ کو خلافت احمدیہ سے کامل وفا اور وابستگی کو تو فیق عطا فرمائے“.(روز نامہ الفضل ۳۰ مئی ۲۰۰۳ء) ۹.خلفاء کے احکامات کی پیروی خلیفہ وقت کے احکام کی کامل رنگ میں پیروی اور بجا آوری ہمارے فرائض میں شامل ہے جیسا کہ حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:.”جب تم بیعت میں شامل ہو گئے اور حضرت مسیح موعود کی جماعت کے نظام میں شامل ہو گئے ہو تو پھر تم نے اپنا سب کچھ حضرت مسیح موعود کو دے دیا اور اب تمہیں صرف ان کے احکامات کی پیروی کرنی ہے، ان کی تعلیم کی پیروی کرنی ہے اور آپ کے بعد چونکہ نظام خلافت قائم ہے اس لئے خلیفہ وقت کے احکامات کی ، ہدایات کی پیروی کرنا تمہارا کام ہے.“ (روز نامہ الفضل ۲۰ جنوری ۲۰۰۴ء) - ۱۰.نظام خلافت کی بقا کے لئے دعائیں کرنا نظام خلافت کے قیام کے لئے اور خلیفہ وقت کی اپنے منصوبوں میں کامیابی کے لئے ہماری سب سے اہم فرمہ داری خلافت کے دوام اور بقاء کے لئے دعائیں کرنا ہے.جیسا کہ حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:.دعائیں کرتے ہوئے آپ میری مدد کر یں.کیونکہ ایک ذات اس عظیم الشان کام کا حق ادا نہیں کر سکتی جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپر دفرمایا ہے دعائیں کریں اور

Page 110

۸۹ بکثرت دعائیں کریں اور ثابت کر دیں کہ ہمیشہ کی طرح آج بھی قدرت ثانیہ اور جماعت ایک ہی وجود ہیں اور انشاء اللہ ہمیشہ رہیں گئے“.(الفضل ۳۰ مئی ۲۰۰۳ء) نظام خلافت اور ذیلی تنظیموں کی ذمہ داریاں بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا:.تمہارا نام انصار اللہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے مددگار.گویا تمہیں اللہ تعالیٰ کے نام کی طرف منسوب کیا گیا اور اللہ تعالیٰ از لی اور ابدی ہے اس لئے تم کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ ابدیت کے مظہر ہو جاؤ تم اپنے انصار ہونے کی علامت یعنی خلافت کو ہمیشہ ہمیش کے لئے قائم رکھتے چلے جاؤ اور کوشش کرو کہ یہ کام نسلاً بعد نسل چلتا چلا جاوے.اور اس کے دو ذریعے ہو سکتے ہیں.ایک ذریعہ تو یہ ہے کہ اپنی اولاد کی صحیح تربیت کی جائے اور اس میں خلافت کی محبت قائم کی جائے.اسی لئے میں نے اطفال الاحمدیہ کی تنظیم قائم کی تھی اور خدام الاحمدیہ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا.یہ اطفال اور خدام آپ لوگوں کے ہی بچے ہیں.اگر اطفال الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہوگی اور اگر خدام الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہوگی تو اگلی نسل انصار اللہ کی اعلیٰ ہوگی.“ سبیل الرشاد حصہ اول ص ۱۲۲ از حضرت مصلح موعودؓ ) اسی طرح ایک دوسرے موقع پر حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں.” جب آپ نے انصار اللہ کا نام قبول کیا ہے تو ان جیسی محبت بھی پیدا کر یہ آپ کے نام کی نسبت خدا تعالیٰ سے ہے اور خدا تعالیٰ ہمیشہ رہنے والا ہے.اس لئے تمہیں چاہئے کہ خلافت کے ساتھ ساتھ انصار کے نام کو ہمیشہ کے لئے قائم رکھو اور ہمیشہ دین کی خدمت میں لگے رہو.کیونکہ اگر خلافت قائم رہے گی تو اس کو انصار کی بھی ضرورت ہوگی.خدام کی بھی ضرورت ہوگی اور اطفال کی بھی ضرورت ہوگی.ورنہ

Page 111

اکیلا آدمی کوئی کام نہیں کر سکتا.اکیلا نبی کوئی کام نہیں کر سکتا.دیکھو حضرت مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حواری دئے ہوئے تھے اور رسول کریم ﷺ کو بھی اللہ تعالیٰ نے صحابہ کی جماعت دی.اسی طرح اگر خلافت قائم رہے گی تو ضروری ہے کہ اطفال الاحمدیہ، خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ بھی قائم رہیں اور جب یہ ساری تنظیمیں قائم رہیں گی تو خلافت بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے قائم رہے گی.“ 66 فرموده بر موقع سالانہ اجتماع انصار الله مرکز یہ ۲۶ اکتوبر ۱۹۵۶ء.بحوالہ سبیل الرشاد حصہ اول ص ۱۲۹ از حضرت مصلح موعود) پس ہماری کتنی خوش قسمتی اور سعادت ہے کہ آج دنیا کے پردہ پر صرف احمدیت ہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے خلافت کا بابرکت نظام عطا فرمایا ہے.مختلف طرز کے قیادت کے نظام تو نظر آتے ہیں لیکن کوئی قائد نہیں جس کو خدا نے مقرر کیا ہو.کوئی ایسا سر براہ نہیں جس کے سر پر خدا کا سایہ ہو.کوئی ایسا نہیں جس کو خدائی مدد اور نصرت کا علم عطا کیا گیا ہو.کوئی نہیں جس کے قدموں میں خدائی اذن سے فتوحات پچھتی چلی جاتی ہوں.ہم پر خدائے ذوالمنن کا یہ مزید احسان اور کرم ہے کہ ہمیں اس خلافت کے خدام ہونے کا شرف عطا کیا گیا ہے.خدا تعالیٰ نے ہمیں ایک عظیم امانت کا امین بنایا ہے.ایک عظیم الشان انعام سے نوازا ہے لیکن یادر ہے کہ یہ سعادت اپنے ساتھ عظیم ذمہ داریاں بھی لے کر آتی ہے.یہ انعام ہمیں اطاعت کی دعوت دیتا ہے.ایسی اطاعت کہ اپنا کچھ نہ رہے اور ہر حرکت وسکون آقا کے اشارے پر قربان ہونے کو بے تاب نظر آئے.یہ انعام ہمیں قربانی اور استقامت کے میدانوں کی طرف بلاتا ہے وہ میدان جن میں قرون اولیٰ اور اس دور آخرین کے صحابہ کی عظیم الشان قربانیوں کی داستانیں رقم ہیں.ان داستانوں کو آج پھر سے زندہ کرنا ہمارا فرض ہے.

Page 112

۹۱ خلافت کا انکار کفر ہے اللہ تعالیٰ آیت استخلاف میں نظام خلافت کے اغراض و مقاصد اور برکات کا ذکر کرنے کے بعد فرماتا ہے و من کفر بعد ذلک فاولئک هم الفاسقون (النور:۵۶) اور جو کوئی اس کے بعد بھی ( نظام خلافت ) کا انکار کرے گا پس وہ نافرمان اور فاسق قرار پائے گا.حضرت مصلح موعود اس تعلق میں فرماتے ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو خلفاء کا انکار کرتا ہے وہ فاسق ہے اور خلافت کو اپنی نعمت قرار دیتا ہے اس نعمت کو چھوڑ نا تو جائز نہیں“ آئینہ صداقت.انوار العلوم جلد ۶ ص ۲۴۱) اسی طرح حضرت مصلح موعود خلافت راشدہ میں خلافت کے انکار کا ایک خطرناک نتیجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ خلافت کے انکار کرنے کے ساتھ یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ محمد رسول الله کی حکومت مذہبی نہیں تھی.اور خواہ اس خیال کو مسلمانوں کی مخالفت کے ڈر سے کیسے ہی نرم الفاظ میں بیان کیا جائے صرف خلفاء کے نظام سلطنت کو ہی مذہبی سے نہیں گرانا پڑتا بلکہ رسول کریم ﷺ کی زندگی کے اس حصہ کے متعلق بھی جو امور سلطنت کے انصرام کے ساتھ تعلق رکھتا تھا کہنا پڑتا ہے کہ وہ محض ایک دنیوی کام تھا جسے وقتی ضرورتوں کے ماتحت آپ نے اختیار کیا ورنہ نماز ، روزہ ، حج اور زکوۃ کو مستقی کرتے ہوئے نظامی حصہ آپ نے لوگوں کی مرضی پر چھوڑ دیا ہے اور آپ کی طرف سے اس بات کی کھلی اجازت ہے کہ اپنی سہولت کے لئے جیسا نظام کوئی چاہے پسند

Page 113

۹۲ کرے.( خلافت را شده انوار العلوم جلد ۵ ص ۴۵۰) پس خلافت جیسی نعمت کا انکار گویا اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فضل کو رد کرنا ہے اور خلافت کی برکات سے محروم رہنے والی بات ہے جیسا کہ غیر مبائعین کی حالت زار سے ظاہر ہے.

Page 114

۹۳ خلیفہ خدا بناتا ہے قرآن کریم ، احادیث رسول اور اقوال صحابہ و بزرگان امت اور خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت سے ثابت ہے کہ ” خلیفہ خدا بناتا ہے، پس اس سلسلہ میں سب سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا اس بارہ میں کیا فرمان ہے.اللہ تعالیٰ سورۃ بقرہ میں فرماتا ہے.ابتدائے آفرینش کے وقت خدا تعالیٰ نے یہ اعلان فرمایا کہ خلیفہ بنانا میرا کام ہے اور جب میں کسی کو خلیفہ بنا تا ہوں تو انسان تو ایک طرف رہے فرشتوں کو بھی حکم ہوتا ہے کہ وہ اس کے لئے سجدہ کریں.فرمایا:.إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةَ (بقرہ).اے لوگو! سنو اور توجہ سے سنو! کہ میں خدا ہی زمین میں خلیفہ بناتا ہوں.تاریخ عالم اس بات پر گواہ ہے کہ جن کو خدا نے خلیفہ بنایا ان ہی کی خلافت کو استحکام حاصل ہوا اور انہی کے ذریعہ دین کو تمکنت حاصل ہوئی.حضرت رسول مقبول کی امت کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرمایا:.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهم ص (سورة النور : (۵۶) اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور نیک اعمال کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے وہ ضرور ان کو زمین میں خلیفہ بنادے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا.اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہایت وضاحت سے اس بات کی صراحت کر رہا ہے کہ خلیفہ

Page 115

۹۴ بنا نا خدا کا کام ہے اور امت مسلمہ میں بھی خلافت کے منصب کو وہ خود ہی قائم فرمائے گا اور اس منصب کا جس کو وہ سزاوار اور اہل سمجھے گا اسے خود ہی اس منصب پر فائز فرمائے گا.پھر ان خلفاء کے مقرر کرنے کی غرض یہ بیان فرماتا ہے:.وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمُ دِيْنَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا یعنی ان خلفاء کے ذریعہ دین کو ضرور مضبوط کرتا ہے اور ضرور ان کے خوف کو امن سے تبدیل کر دیتا ہے.تاریخ اسلام سے ثابت ہے کہ اگر چہ حضرت رسول کریم ﷺ کے وصال پر صحابہ کا اجتماع ہوا، مشورہ ہوا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا انتخاب خلافت کے منصب کے لئے ہوا.مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ بے شک یہ انتخاب مومنوں نے کیا لیکن ابوبکر صدیق کو خلافت کے جلیل القدر منصب پر میں نے ہی فائز کیا اور انہیں خلیفہ میں نے ہی بنایا.ساری امت مسلمہ اس بات پر متفق ہے کہ آیت لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمُ کے مصداق سب سے اول حضرت ابو بکر صدیق ہوئے اور خدا تعالیٰ نے ان کی خلافت کے قیام کو اپنی طرف نسبت دی.فرمایا کہ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ ضرور وہ خود ان نیک لوگوں میں سے کسی کو خلیفہ بنائے گا اور ان کے دین کو وہ تمکنت ، استحکام اور عظمت بخشے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا کہ:.' تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھلایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فر مایا تھا وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمَنَّا یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جما دیں گے“.(الوصیت.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه۳۰۵)

Page 116

پس خلیفہ بنانے کی نسبت خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی طرف ہی کی ہے خواہ وہ خلیفہ نبی ہو یا غیر نبی.چنانچہ فرمایا کہ ہم خلیفہ بناتے ہیں.خلیفہ بنانا انسانوں کا کام نہیں.اللہ تعالیٰ کے فرمان کے بعد اب ہم دیکھتے ہیں خدا کے رسول اور نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفی ﷺ کا اس بارہ میں کیا فیصلہ ہے.احادیث نبویہ (۱) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جو حضرت رسول اکرم ﷺ کی زوجہ مطہرہ اور علم دین کی نابغہ تھیں اور جن سے دین کے علم کو سیکھنے کا ارشاد خود حضور علی نے فرمایا.ان کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ان سے ایک دفعہ ایک ذکر فرمایا:.لَقَدْ هَمَمْتُ اَوْاَرَدْتُ اَنْ أُرْسِلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَ ابْنِهِ فَأَعْهَدَ أَنْ يَقُولَ الْقَائِلُوْنَ اَوْيَتَمَنَّى الْمُتَمَتُّونَ ثُمَّ قُلْتُ يَأْبَى اللَّهُ وَيَدْفَعُ الْمُؤْمِنُونَ اَوْ يَدْفَعُ اللهُ وَ يَأْبَى الْمُؤْمِنُونَ.بخاری کتاب الاحکام باب الاستخلاف) میں نے ارادہ کیا تھا کہ ابو بکر اور ان کے بیٹے کو بلا کر ان کے حق میں خلافت کی تحریر لکھ دوں تا کہ میری وفات کے بعد دوسرے لوگ خلافت کی خواہش لے کر نہ کھڑے ہو جائیں اور کوئی کہنے والا یہ نہ کہے کہ میں حضرت ابوبکر کی نسبت زیادہ خلافت کا حقدار ہوں.مگر پھر میں نے اس خیال سے اپنا ارادہ ترک کر دیا کہ اللہ تعالیٰ ابو بکر کے سوا کسی اور کی خلافت پر راضی نہ ہوگا اور نہ ہی مومنوں کی جماعت کسی اور شخص کی خلافت کو قبول کرے گی.اس حدیث نبوی سے واضح ہے کہ حضرت رسول اکرم ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق کے حق میں اس لئے وصیت نہیں لکھوائی کہ آپ جانتے تھے کہ خلیفہ خدا

Page 117

۹۶ بناتا ہے اور وہ خود مومنوں کے دل میں القاء کرے گا کہ حضرت ابوبکر کے سوا کسی کو قبول نہ کریں.کیونکہ مومنین خدا کی مرضی کے خلاف قدم نہیں اٹھا سکتے.چنانچہ آخر وہی ہوا جو خدا تعالیٰ کا منشاء تھا.(۲) دوسری حدیث حضرت حفصہ نے روایت کی ہے جو حضرت عمرؓ کی صاحبزادی تھیں اور حضرت رسول اکرم ﷺ کی زوجہ مطہرہ اور نہایت زیرک خاتون تھیں.وہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ حضرت رسول اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا:.إِنَّ اَبَابَكْرِيَلِي الخِلَافَةَ مِنْ بَعْدِى ثُمَّ بَعْدَهُ أَبُوكِ فَقَالَتْ مَنْ اَنَبَاكَ يَارَسُولَ اللهِ قَالَ نَبَّانِي الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ.(تفسير قُمّى) کہ میرے بعد ابوبکر خلیفہ ہوں گے اور ان کے بعد تمہارے باپ خلیفہ ہوں گے.حضرت حفصہ نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کی.حضور آپ کو کیسے علم ہے؟ آپ نے فرمایا کہ علیم وخبیر خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اس طرح ہوگا.یہ حدیث شیعہ اصحاب کی مشہور کتاب تفسیر قمی میں بیان ہوئی ہے.حضور پرنور کے ان ارشادات سے واضح ہے کہ خلیفہ خدا تعالیٰ بناتا ہے اور اس قادر و توانا ہستی نے حضور مو قبل از وقت اس بات سے آگاہ فرما دیا تھا کہ آپ کی وفات کے بعد پہلا خلیفہ حضرت ابوبکر کو بناؤں گا اور پھر حضرت عمر کو.(۳) حضرت عثمان جو حضرت رسول اکرم ﷺ کے جلیل القدر بزرگ صحابی اور خلیفہ ثالث تھے.ان سے حضور نے فرمایا:.إِنَّ اللهَ يُقَمِّصُكَ قَمِيصًا فَإِنْ اَرَادَكَ الْمُنَافِقُونَ عَلَى خَلْعِهِ فَلَا تَخْلَعُهُ اَبَدًا.(مسند احمد بن حنبل.حدیث نمبر۲۳۴۲۷)

Page 118

۹۷ اے عثمان ! یقیناً تجھے اللہ تعالیٰ ایک قمیص پہنائے گا.اگر منافق اس قمیص کو اتارنے کی کوشش کریں تو ہرگز ہرگز نہ اتارنا.ظاہر ہے کہ حضرت رسول اکرم ﷺ نے اس حدیث میں حضرت عثمان کو یہ بشارت دی تھی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں خلات کا جامہ پہنائے گا اور منافقین کا طبقہ اس جامعہ کو اتارنے کا مطالبہ کرے گا لیکن تم نے ہرگز ہرگز اس جامعہ کو نہ اتارنا.حضور کا یہ ارشاد کیسے واضح ہے کہ خلافت کی قمیص تمہیں خدا تعالیٰ پہنائے گا.اس قمیص کی عظمت و احترام کا یہ تقاضا ہوگا کہ دشمن خواہ کچھ کریں تم نے ان کی طرف سے معزول کئے جانے کے مطالبہ کو تسلیم نہ کرنا.خدا تعالیٰ نے حضرت عثمان کو منصب خلافت پر فائز فرمایا.منافقوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ خلافت کے معزز جامہ کو آپ سے اتر والیس مگر خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندہ نے جان دینی قبول کر لی لیکن قمیص خلافت کو جو خدا تعالیٰ نے خود پہنائی تھی اسے اتارنا گوارا نہ کیا اور رسول کریم ﷺ کی ہدایت پر پورا پورا عمل کر دکھایا.ان احادیث سے ثابت ہے کہ حضرت رسول اکرم یہ خلافت کے منصب کے متعلق یہی سمجھتے تھے کہ یہ منصب میرے بعد خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اور جسے وہ اس مقام کا اہل سمجھے گا اسے ہی اس مقام پر فائز فرمائے گا.خلفاء راشدین کا نظریہ اب ہم حضور کے جلیل القدر صحابہ اور آپ کے خلفاء کے نظریہ پر نگاہ ڈالتے ہیں کہ ان کا اس بارہ میں کیا عقیدہ تھا.یہ ایک حقیقت ہے اور تاریخ نے اسے محفوظ کیا ہے کہ حضرت رسول اکرم ﷺ کے تمام خلفاء اس ایمان پر قائم تھے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے

Page 119

۹۸ اورس عالمی منصب پر تقرری در اصل خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ہوتی ہے.چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق فرماتے ہیں:.وَقَدِ اسْتَخْلَفَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ خَلِيفَةً لِيَجْمَعَ بِهِ الْفَتكُمْ وَيُقِيمَ بِهِ كَلِمَتَكُمْ.کہ خدا تعالیٰ نے مجھے تم پر ایک خلیفہ مقرر کر دیا ہے تا کہ تمہاری باہمی الفت و اخوت کے ذریعہ شیرازہ بندی ہو اور اس کے ذریعہ تمہارا کام قائم رہے.(دائرة المعارف مطبوعه مصر جلد ۳ ص ۷۵۸) حضرت ابو بکر کو تو علم تھا کہ حضور کی وفات کے بعد لوگوں کا اجتماع ہوا، مشورہ ہوا، بلکہ اختلاف ہوا اور پھر صحابہ نے آپ کی بیعت خلافت کی.بایں ہمہ حضرت ابوبکر خدا تعالیٰ کے رسول کا پیارا ساتھی، دکھ سکھ میں ساتھ رہنے والا ، سب سے اول ایمان لانے والا ، خدائی حکمتوں اور خدائی باتوں کو خدا کے رسول کے بعد سب سے زیادہ سمجھنے والا یہ اعلان کرتا ہے کہ قَدِ اسْتَخْلَفَ اللهُ عَلَيْكُمُ کہ خدا تعالیٰ نے تم پر مجھ کوخلیفہ مقرر کر دیا ہے.یہ نہیں فرماتے کہ تم نے مجھ پر احسان کیا اور خلیفہ بنایا بلکہ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے تمہارا خلیفہ مقرر کر دیا ہے.اب آگے چلئے.حضرت عمر کیا فرماتے ہیں:..مَنْ اَرَادَ اَنْ يَّسْتَلَ عَنِ الْمَالِ فَلْيَأْتِنِي فَإِنَّهُ جَعَلْنِي خَازِنًا وَّ قَاسِمًا.(تاريخ عمر بن الخطاب ص۸۷) جس شخص نے مال کے متعلق سوال کرنا ہے تو وہ میرے پاس آئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خلیفہ بنا کر قوم کے مال کا خازن مقرر فرمایا ہے اور اس کو تقسیم کرنے کا حق بخشا ہے.حضرت عمر کے اس قول سے ظاہر ہے کہ وہ اس یقین پر قائم تھے کہ خدا تعالیٰ نے

Page 120

۹۹ انہیں خلیفہ مقرر فرمایا ہے اور کسی انسان نے انہیں خلیفہ نہیں بنایا.یہ تقرری خدا تعالیٰ کی طرف سے تھی.یہ درست ہے کہ یہ تقرری حکمت الہیہ کے ماتحت بالواسطہ ہوئی تھی بایں ہمہ حضرت عمرؓ یہی سمجھتے اور اسی نظریہ پر قائم تھے کہ اس منصب خلافت پر اللہ تعالیٰ نے ہی آپ کو فائز فرمایا.۳.حضرت عثمان بنما بھی یہی مذہب تھا.آپ فرماتے ہیں.(الف) ثُمَّ اسْتَخْلَفَ اللهُ أَبَابَكْرِ فَوَاللَّهِ مَاعَصَيْتُهُ وَلَا غَشَشْتُهُ.(بخاری کتاب هجرة الحبشه) پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر کو خلیفہ مقررفرمایا اور خدا تعالیٰ کی قسم میں نے ان کو پوری پوری اطاعت کی.میں نے نہ تو کبھی آپ کی نافرمانی کی اور نہ ہی کبھی.آپ کو دھوکا دیا.(ب) باغیان خلافت نے جب فتنہ پیدا کیا اور خلافت کے منصب کی توہین کے لئے کمر بستہ ہو گئے اور حضرت عثمان سے مطالبہ کیا کہ وہ خلافت سے الگ ہو جائیں تو خدا تعالیٰ کے اس محبوب بندے نے بڑے زور اور پوری قوت سے ان کے مطالبہ کورد کرتے ہوئے کہا کہ:.مَا كُنتُ لَا خُلَعَ سِربَالًا سَرُبَلَيْهِ اللَّهُ تَعَالَى عَزَّوَجَلَّ.طبری جلد ۵ ص ۱۲۱، از ابی جعفر محمد بن جریر الطبری) میں کبھی بھی اس رداء خلافت کو جو عزت و جلال والے خدا نے مجھے پہنائی نہیں اتاروں گا.اگر حضرت عثمان کا یہ مذہب اور ایمان نہ ہوتا کہ خلیفہ خدا بناتا ہے تو کس طرح ممکن تھا کہ ایسے خطر ناک حالات میں جب ان کی جان کو خطرہ سامنے تھا اس جرات

Page 121

سے اظہار کرتے اور فرماتے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے خلیفہ بنایا اور میں اس کی قدر کرتا ہوں.میں اس کی بے حرمتی کا مرتکب نہیں ہوسکتا اور اس منصب سے ہرگز ہرگز الگ نہیں ہوسکتا.صلحاء امت اور خلافت امت کے گزشتہ صلحاء بھی اس بات کے قائل تھے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور اگر چہ بظاہر لوگوں کے ذریعہ اس کا انتخاب عمل میں آتا ہے لیکن ان کے دلوں میں اس بات کا الہام خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی کیا جاتا ہے کہ وہ ایسے شخص کو خلیفہ منتخب کریں جسے خدا تعالیٰ خلیفہ بنانا چاہتا ہے.چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی فرماتے ہیں:.آیت لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمُ کے معنی یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ خلفاء کو مقررفرماتا ہے.جب اصلاح عالم کے لئے کسی خلیفہ کی ضرورت سمجھتا ہے تو لوگوں کے دلوں میں الہا نا ڈال دیتا ہے کہ وہ ایسے شخص کو خلیفہ منتخب کریں جسے خدا تعالیٰ خلیفہ بنانا چاہتا ہے“.(ازالة الخفاء عن خلافة الخلفاء جلد ۱ ص ۹.ازشاہ ولی اللہ محدث دہلوی) حضرت مسیح موعود کے ارشادات اس زمانہ کے مامور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم و تلقین کو، جو امت کے لئے حکم و عدل ہیں ہم جب دیکھتے ہیں تو اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ بنانا انسانوں کا کام نہیں بلکہ یہ خالصہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں یہ سوال پیش ہوا کہ حضرت رسول کریم ﷺ نے خود اپنے بعد کیوں کسی خلیفہ کے متعلق وصیت نہ کر دی؟ اس سوال کے جواب میں خدا تعالیٰ کے مسیح نے جو حکم

Page 122

1+1 و عدل کی حیثیت سے مامور تھے کیا خوب فرمایا:.آنحضرت نے کیوں اپنے بعد خلیفہ مقرر نہ کیا.اس میں بھید تھا کہ آپ کوخوب علم تھا کہ اللہ تعالیٰ خود ایک خلیفہ مقرر فرمائے گا کیونکہ یہ خدا کا ہی کام ہے اور خدا کے انتخاب میں کوئی نقص نہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق کو اس کام کے واسطے خلیفہ بنایا اور سب سے اول حق انہی کے دل میں ڈالا.( الحکم ۱۴ارا پریل ۱۹۰۸ء ) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مسئلہ کی حقیقت کو الم نشرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.سواے عزیز و! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھا دے.سواب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی ہے (حضور نے الہام الہی سے اپنی وفات کی خبر سے جماعت کو آگاہ فرمایا تھا.ناقل ) غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے بہتر ہے کیونہ وہ دائمی ہے.جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں.لیکن میں جب جاؤں کا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے پاس رہے گی“.الوصیت ص ۳۰۶،۳۰۵ روحانی خزائن جلد ۲۰) اس عبارت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک قدرت ثانیہ سے مراد خلافت ہی ہے.چنانچہ اسی رسالہ الوصیت میں حضور نے فرمایا ہے:.

Page 123

۱۰۲ جبکہ آنحضرت ﷺ کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے اور صحابہ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے.تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا.(الوصیت.روحانی خزائن جلد ۲۰ ص ۳۰۵) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہایت وضاحت سے یہاں حضرت ابوبکر کی خلافت کو قدرت ثانیہ قرار دیا ہے.گویا دوسری قدرت کا نام قرآنی اصطلاح میں آپ کے نزدیک خلافت ہی ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اس کلام میں یہ بھی وضاحت فرما دی کہ خدا تعالیٰ کا ہی کام ہے کہ وہ دوسری قدرت کو بھیجے اور یہ دوسری قدرت نبی کی وفات کے بعد ظاہر ہوتی ہے اور جب تک میں نہ جاؤں وہ دوسری قدرت یعنی خلافت نہیں آسکتی.پھر اسی سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھا کہ آپ خدا تعالیٰ کی ایک قدرت ہیں اور دوسری قدرت کے کئی مظاہر آپ کی وفات کے بعد ظاہر ہوتے رہیں گے.فرماتے ہیں:.میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے.سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو...تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہیں دکھا دے کہ تمہارا خدا ایسا قادر خدا ہے“.(الوصیت.روحانی خزائن جلد ۲۰ ص ۳۰۵)

Page 124

١٠٣ آپ مزید فرماتے ہیں:.”نبی کے بعد خلیفہ بنانا خدا تعالیٰ کا کام ہے.صوفیاء نے لکھا ہے کہ جو شخص کسی شیخ یا رسول اور نبی کے بعد خلیفہ ہونے والا ہوتا ہے تو سب سے پہلے خدا کی طرف سے اس کے دل میں حق ڈالا جاتا ہے.جب کوئی رسول یا مشائخ وفات پاتے ہیں تو دنیا پر ایک زلزلہ آ جاتا ہے اور وہ ایک بہت ہی خطرناک وقت ہوتا ہے مگر خدا تعالیٰ کسی خلیفہ کے ذریعہ اس کو مٹاتا ہے اور پھر گویا اس امر کا از سر نو اس خلیفہ کے ذریعہ اصلاح و استحکام ہوتا ہے.آنحضرت ﷺ نے کیوں اپنے بعد خلیفہ مقرر نہ کیا اس میں بھی یہی بھید تھا کہ آپ کو خوب علم تھا کہ اللہ تعالیٰ خود ایک خلیفہ مقررفرمادے گا کیونکہ یہ خدا کا ہی کام ہے اور خدا کے انتخاب میں نقص نہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس کام کے واسطے خلیفہ بنایا اور سب سے اول حق انہی کے دل میں ڈالا.خلفاءسلسلہ کے ارشادات ( ملفوظات جلد پنجم ص ۵۲۴، ۵۲۵ نیا ایڈیشن ) اب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلفاء کے ارشادات پر نگاہ ڈالتے ہیں کہ وہ اس مسئلہ کے بارہ میں ہماری کیا راہنمائی فرماتے ہیں.سب سے پہلے حضرت سیدنا ومولانا نورالدین خلیفہ اول کے رشد و ہدایت سے بھر پور اور حق وصدات سے معمور کلمات کو لیتے ہیں.آپ فرماتے ہیں اور کس فیصلہ کن انداز میں فرماتے ہیں:.ا.میں نے تمہیں بارہا کہا ہے اور قرآن مجید سے دکھایا ہے کہ خلیفہ بنانا انسان کا

Page 125

۱۰۴ کام نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کا کام ہے.آدم کو خلیفہ بنایا، کس نے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً“.( بدرم جولائی ۱۹۱۲ء) ۲.خلافت کیسری کی دکان کا سوڈا واٹر نہیں.تم اس بکھیڑے میں کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے.نہ تم کوکسی نے خلیفہ بنانا ہے اور نہ میری زندگی میں کوئی اور بن سکتا ہے.پس جب میں مرجاؤں گا تو پھر وہی کھڑا ہوگا جس کو خدا چاہے گا اور خدا اس کو آپ کھڑا کردے گا“.تم نے میرے ہاتھوں پر اقرار کئے ہیں.تم خلافت کا نام نہ لو.مجھے خدا نے خلیفہ بنا دیا ہے اور اب نہ تمہارے کہنے سے معزول ہو سکتا ہوں اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ معزول کرے.اگر تم زیادہ زور دو گے تو یا درکھو میرے ایسے خالد بن ولید ہیں جو تمہیں مرتدوں کی طرح سزا دیں گئے“.( تقریر احمد یہ بلڈ نگ لاہور ۱۶، ۷ اجون.بدرہ جولائی ۱۹۱۲ء) ۳.پھر حضرت خلیفہ اول مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر فرمایا:.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ کہ مجھے بھی خدا نے خلیفہ بنایا ہے جس طرح پر آدم اور ابو بکر و عمر گوخدا تعالیٰ نے خلیفہ بنایا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے خلیفہ بنایا.( بدر۴ جولائی ۱۹۱۲ء) ۴.اسی پر بس نہیں بلکہ حضرت خلیفہ اول تو ان لوگوں کو جو یہ کہتے ہیں کہ خلیفہ ہم نے بنایا جھوٹا قرار دیتے ہیں.فرماتے ہیں:.

Page 126

۱۰۵ ” مجھے اگر خلیفہ بنایا ہے تو خدا نے بنایا ہے اور اپنے مصالح سے بنایا ہے.خدا کے بنائے ہوئے خلیفہ کو کوئی طاقت معزول نہیں کرسکتی...خدا تعالیٰ نے مجھے معزول کرنا ہوگا تو وہ مجھے موت دے دیگا.تم اس معاملہ کو خدا کے حوالے کر دو.تم معزولی کی طاقت نہیں رکھتے...جھوٹا ہے وہ شخص جو کہتا ہے کہ ہم نے خلیفہ بنایا“.۵.پھر فرمایا:.” خلیفہ اللہ ہی بناتا ہے.میرے بعد بھی اللہ ہی بنائے گا.۶.اسی طرح آپ فرماتے ہیں:.(الحکم ۲۱ جنوری ۱۹۱۴ء) (پیغام صلح ۲۴ فروری ۱۹۱۴ء ) خلیفہ بنانے کے کام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے.جیسا کہ اس نے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت داؤد علیہ السلام کی خلافت اپنی طرف منسوب کی ہے اسی طرح آنحضرت ﷺ کے خلفاء کے تقرر کو اپنی طرف منسوب کیا ہے.پس کیسے ظالم ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ لوگ خلیفہ بناتے ہیں.ان کو شرم کرنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے کلام کی تکذیب نہیں کرنی چاہئے.انسان بیچارہ ضعیف البنیان کیا طاقت اور کیا سکت رکھتا ہے کہ وہ دوسروں کو بڑا بنا سکے.ان الفضل بیداللہ کسی کو بڑا بنا نا خدا کے ہاتھ میں ہے، کسی کے اختیار میں نہیں ہے.انسان کا علم کمزور، اس کی طاقت اور قدرت محدود اور ضعیف.طاقتور مقتدر ہستی کا کام ہے کہ کسی کو طاقت اقتدار عطا کرے اور عجیب بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تقر ر خلافت کسی انسان کے سپردنہیں کیا.(ماخوذ از الفضل قادیان دارالامان ۱۰دسمبر ۱۹۱۳ء)

Page 127

1+4 تمام مذکورہ مسلمات کی رو سے یہ بات بالکل واضح ہے اور اس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں کہ خلافت کے عظیم منصب پر جس کو فائز کیا جاتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی خاص تقدیر کے ماتحت قدرت ثانیہ کا مظہر ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ خود اس منصب پر مقرر فرماتا ہے.قرآن کریم، اسلام اور بزرگان سلف ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء راشدین اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جملہ خلفاء کا متفقہ مذہب یہی ہے کہ خلیفہ خدا تعالیٰ بناتا ہے اور باوجود ظاہر انتخاب کے ہر بچے خلیفہ کے انتخاب میں در اصل خدا تعالیٰ کا مخفی ہاتھ کام کرتا ہے اور صرف وہی شخص خلیفہ بنتا ہے اور بن سکتا ہے جسے خدا تعالیٰ کی ازلی تقدیر اس کام کے لئے پسند کرتی ہے اور اس کے سوا کسی کی مجال نہیں کہ مسند خلافت پر قدم رکھنے کی جرات کر سکے.اس حقیقت مسلمہ اور واضحہ کی طرف جماعت کو توجہ دلاتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:.”خوب یا درکھو کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور جھوٹا ہے وہ انسان جو کہتا ہے کہ خلیفہ انسانوں کا مقرر کردہ ہوتا ہے.حضرت خلیفہ اسیح اول (اپنی) خلافت کے زمانہ میں متواتر اس مسئلہ پر زور دیتے رہے کہ خلیفہ خدا مقرر کرتا ہے نہ انسان اور در حقیقت قرآن شریف کو غور سے مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ایک جگہ بھی خلافت کی نسبت انسانوں کی طرف نہیں کی گئی بلکہ ہر قسم کے خلفاء کی نسبت اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا کہ انہیں ہم بناتے ہیں“.( کون ہے جو خدا کے کام روک سکے.انوار العلوم جلد ۲ ص ۱۱) سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث اس تعلق میں فرماتے ہیں:.”ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خلیفہ اللہ تعالیٰ ہی بناتا ہے.اگر بندوں پر اس کو چھوڑا جاتا تو جو بھی بندوں کی نگاہ میں افضل ہوتا اسے ہی وہ اپنا خلیفہ بنا لیتے.لیکن خلیفہ خود اللہ تعالیٰ بنا تا ہے اور اس کے انتخاب میں کوئی نقص نہیں.وہ اپنے ایک کمزور بندے کو چنتا

Page 128

۱۰۷ ہے جسے وہ بہت حقیر سمجھتے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ اس کو چن کر اس پر اپنی عظمت اور جلال کا ایک جلوہ کرتا ہے اور جو کچھ وہ تھا اور جو کچھ اس کا تھا اس میں سے وہ کچھ بھی باقی نہیں رہنے دیتا اور خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے سامنے کلی طور پر فنا اور بے نفسی کا لبادہ پہن لیتا ہے.“ ( الفضل کے امارچ ۱۹۶۷ء ) خلیفہ کے انتخاب میں حکمت قرآن کریم، احادیث نبویہ، اقوال بزرگان سلف و خلف نیز خدا تعالی کی فعلی شہادت سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح ظاہر و باہر وعیاں ہو چکی ہے کہ ”خلیفہ خدا بناتا ہے“.اور خلافت اللہ تعالیٰ کا وہمی عطیہ ہے.خلیفہ کا انتخاب تو محض اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کا ایک عملی اظہار ہے.اور اس صورتحال کو قرآن کریم کی ان آیات کی روشنی میں بآسانی سمجھا جاسکتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.ہے.يَهَبُ لِمَنْ يَّشَاءُ اِنثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذكور.(شوری: ۵۰) یعنی اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا اب اس آیت کریمہ سے صاف ظاہر ہے کہ بیٹے ، بیٹیاں پیدا کرنا تو اللہ تعالیٰ کے اپنے اختیار میں ہے.مگر بیٹوں یا بیٹیوں کے حصول کے لئے شادی کرنا اور ازدواجی تعلقات کا قائم ہونا شرط ہے.قرآن مجید سے یہ بات ثابت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کے واسطہ سے کام کرواتا اور پھر اسے اپنی طرف منسوب کرتا ہے تو اس شخص میں خدائی قو تیں بھی داخل کر دی جاتی ہیں تا دنیا کو یہ بات سمجھ آجائے کہ اگر چہ ظاہر میں تو کچھ اور نظر آرہا ہے لیکن

Page 129

۱۰۸ بباطن اس میں خدائی تصرف اور خدائی قوتیں کام کر رہی ہیں.حضرت رسول مقبول نے جنگ بندر کے موقع پر مٹھی میں کنکر لئے اور ان کنکروں کو دشمن کی طرف آپ نے پھینکا تو اگر چہ بظاہر وہ ایک انسان کی مٹھی تھی اور کنکر بھی ایک مٹھی میں جتنے آسکتے ہیں اتنے ہی تھے مگر جب حضرت رسول اکرم ﷺ نے اس مٹھی سے کنکر پھینکے تو خدا تعالیٰ نے فرمایا:.مَارَمَيْتَ اذْرَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَىط (الانفال: ۸۱) کہ کنکروں کی یہ ٹھی تو نے نہیں پھینکی بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی ہے.نتیجہ بتا تا ہے کہ وہ انسان کی مٹھی کے پھینکے ہوئے کنکر نہ تھے.جن سے عظیم الشان انقلاب پیدا ہوا اور اس کے نتیجہ میں وہ مسلمان جو دشمن کے مقابلہ میں بظاہر کمزور تھے اپنے سے تین گنا مسلح اور جرار لشکر پر غالب آگئے.پس بالکل اسی طرح خلیفہ کا انتخاب گو بظا ہر مومنوں کی جماعت کرتی ہے لیکن در پردہ اس انتخاب میں خدا تعالیٰ کی قدرت کام کر رہی ہوتی ہے.خدا تعالیٰ بطور نشان ان مومنوں کو اپنا آلہ بنالیتا ہے اور ان سے انتخاب کروا کر اپنی تقدیر پوری کرواتا ہے اور اس کے متعلق یہ قرار دیتا ہے کہ اس شخص کو مقام خلافت پر میں نے فائز کیا ہے اور اسے خلافت کا جامہ میں نے پہنایا ہے.اس کے ساتھ نصرت خداوندی اور تائیدات الہی سے ظاہر ہونے والے نتائج یہ ثابت کر رہے ہوتے ہیں کہ یہ انسان کا کام نہیں.انسان کو مجال نہیں کہ وہ اتنے بڑے بوجھ کو اٹھا سکے اور اتنے بڑے کام کو انجام دے سکے جب تک خدائی طاقتیں اور اعلیٰ قوتیں اس کے ساتھ نہ ہوں.یہی وجہ ہے کہ ہر خلیفہ راشد غیر معمولی حالات و مشکلات کے باوجود کامیاب و کامران ہوتا ہے.کیونکہ دراصل وہ انسانوں کا بنایا ہوا خلیفہ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا بنایا ہوا خلیفہ ہوتا ہے.

Page 130

1+9 اس صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے اپنی کتاب سلسلہ احمدیہ ص ۳۰۷ پر تحریر فرماتے ہیں :.خلفاء کے تقر ر اور ان کے مقام کے متعلق اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ خلافت کا منصب کسی صورت میں بھی ورثہ میں نہیں آسکتا.بلکہ یہ ایک مقدس امانت ہے جو مومنوں کے انتخاب کے ذریعہ جماعت کے قابل ترین شخص کے سپرد کی جاتی ہے اور چونکہ نبی کی جانشینی کا مقام ایک نہایت نازک اورا ہم روحانی مقام ہے اس لئے اسلام ی تعلیم دیتا ہے کہ گو بظاہر خلیفہ کا انتخاب لوگوں کی رائے سے ہوتا ہے مگر اس معاملہ میں خدا تعالیٰ خود آسمان سے نگرانی فرماتا ہے اور اپنے تصرف خاص سے لوگوں کی رائے کو ایسے رستہ پر ڈال دیتا ہے جو اس کے منشاء کے مطابق ہو.اس طرح گو بظاہر خلیفہ کا تقر را نتخاب کے ذریعہ عمل میں آتا ہے مگر دراصل اس انتخاب میں خدا کی مخفی تقدیر کام کرتی ہے اور اسی لئے خدا نے خلفاء کے تقر ر و خود اپنی طرف منسوب کیا ہے اور فرمایا ہے کہ خلیفہ ہم خود بناتے ہیں.یہ ایک نہایت لطیف روحانی انتظام ہے جسے شاید دنیا کے لوگوں کے لئے سمجھنا مشکل ہو مگر حقیقت یہی ہے کہ خلیفہ کا تقرر ایک طرف تو مومنوں کے انتخاب سے اور دوسری طرف خدا کی مرضی کے مطابق ظہور پذیر ہوتا ہے اور خدائی تقدیر کی مخفی تاریں لوگوں کے دلوں کو پکڑ پکڑ کر منظور ایزدی کی طرف مائل کر دیتی ہیں.پھر جب ایک شخص خدائی تقدیر کے ماتحت خلیفہ منتخب ہو جاتا ہے تو اس کے متعلق اسلام کا حکم یہ ہے کہ تمام مومن اس کی پوری پوری اطاعت کریں.اور خود اس کے لئے یہ حکم ہے کہ وہ تمام اہم ضروری امور میں مومنوں کے مشورہ سے کام کرے اور گو وہ مشورہ پر عمل کرنے کا پابند نہیں بلکہ اگر مناسب خیال کرے تو مشورہ کو رد کر کے اپنی رائے سے جس طرح چاہے فیصلہ کر سکتا ہے.مگر بہر حال اسے مشورہ

Page 131

11 + لینے اور لوگوں کی رائے کا علم حاصل کرنے کا ضروری حکم ہے.( سلسلہ احمدیہ ص ۳۰۷، ۳۰۸ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے شائع کردہ نظارت تالیف و تصنیف قادیان دسمبر ۱۹۳۹ء) مولانا ابوالکلام آزاد اپنی کتاب مسئلہ خلافت میں خلیفہ کے انتخاب کے بارہ میں تحریر فرماتے ہیں:.تمام نصوص و دلائل کتاب وسنت اور اجماع امت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت نے شرائط امامت و خلافت کے بارے میں دو صورتیں اختیار کی ہیں اور قدرتی طور پر یہی دو صورتیں اس مسئلہ کی ہوسکتی تھیں.اسلام نے اس بارے میں نظام عمل یہ مقرر کیا تھا کہ امام کے انتخاب کا حق امت کو ہے اور طریق انتخاب جمہوری تھا نہ شخصی و نسلی.یعنی قوم اور قوم کی صائب الرئے جماعت اہل حل و عقد ) کو شرائط و مقاصد خلافت کے مطابق اپنا خلیفہ منتخب کرنا چاہئے.حکم و امــرهــم شـورای بینهم “بنیاد تمام امور کی شرعاشوری یعنی باہمی مشورہ ہے نہ کہ نسل و خاندان.خلافت راشدہ کا عمل اسی نظام پر تھا.خلیفہ اول کا انتخاب عام جماعت میں ہوا ہے.خلیفہ دوم کو خلیفہ اول نے نامزد کیا اور اہل حل و عقد نے منظور کر لیا.خلیفہ سوم کا انتخاب جماعت شوری نے کیا.خلیفہ چہارم کے ہاتھ پر خود تمام جماعت نے بیعت کی نسل، خاندان، ولی عہدی کو اس میں کوئی دخل نہ تھا.اگر دخل ہوتا تو ظاہر ہے کہ خلافت خلیفہ اول کے خاندان میں آجاتی، یا دوم وسوم کے خاندان میں، مگر ایسا نہیں ہوا.خلیفہ دوم نے تو قوم کو بھی اس کا موقع نہ دیا کہ ان کے لڑکے کو خلیفہ منتخب کرے.وصیت کر دی کہ وہ کسی طرح منتخب نہیں ہوسکتا.مسئلہ خلافت ص ۵۷، از مولانا ابوالکلام آزاد مطبع اصغر پریس لاہور ۲۰۰۴ء)

Page 132

= حضرت شاہ ولی اللہ اس تعلق میں لکھتے ہیں کہ :.آیت لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمُ کے معنی یہ ہیں اللہ تعالیٰ خلفاء کو مقرر فرماتا ہے جب اصلاح عالم کے لئے کسی خلیفہ کی ضرورت محسوس کرتی ہے تو لوگوں کے دلوں میں الہاماً ڈال دیتا ہے کہ وہ ایسے شخص کو خلیفہ مقرر کریں جسے اللہ تعالیٰ خود خلیفہ بنانا چاہتا ہے (ازالة الخفاء عن الخلفاء از شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدیمی کتب خانه آرام باغ کراچی) خلافت سے وابستگی جن اغراض و مقاصد کے پیش نظر نظام خلافت جاری کیا گیا ہے وہ تبھی پورے ہو سکتے ہیں جب نظام خلافت کے ساتھ کماحقہ وابستگی اختیار کی جائے.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خلافت کے انکار کو فسق قرار دیا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ آیت استخلاف میں نظام خلافت کے اغراض و مقاصد اور برکات کا ذکر کرنے کے بعد فرماتا ہے:.وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ.(نور: ۵۶) یعنی اور جو کوئی اس کے بعد ( خلافت ) کا انکار کریں گے پس وہ لوگ فاسق و فاجر قرار پائیں گے.جبکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جب مومنوں کو یہ ارشاد فرمایا کہ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُم مُسْلِمُون.(آل عمران: ۱۰۳) کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اس کی تمام شرائط کے ساتھ اختیار کرو اور تم پر صرف ایسی حالت میں موت آئے کہ تم پورے فرمانبردار ہو.تو اس کے حصول کے لئے جو حقیقی ذریعہ ہے اس کو فوراً اگلی آیت میں بیان فرما دیا

Page 133

۱۱۲ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے.وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَّلَا تَفَرَّقُواص (آل عمران : ۱۰۴) یعنی تم سب کے سب حبل اللہ، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور پراگندہ مت ہو.حبل اللہ سے مراد قرآن کریم بھی ہے اور اسلام بھی.تاہم حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب محدث دہلوی فرماتے ہیں:.ہیں:.حبل اللہ سے مراد صرف خلافت حقہ اسلامیہ ہے.آنحضرت ﷺ فرماتے ترجمہ:.یعنی پیروی کرو میرے بعد ابوبکر اور عمر کی کیونکہ وہ دونوں خدا تعالیٰ کی وہ لمبی رسی ہیں کہ جس نے ان دونوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا اس نے ایک نہایت مضبوط قابل اعتماد چیز کو جو کبھی ٹوٹنے کی نہیں مضبوطی سے پکڑ لیا.(ازالـة الــــفــاء عـن الخلفاء ص ۶۴ - ازشاہ ولی اللہ محدث دہلوی) حضرت مولانا نورالدین خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی حبل اللہ سے یہی مراد لی ہے.چنانچہ حضور فرماتے ہیں:.تم ادب سیکھو کیونکہ یہی تمہارے لئے بابرکت راہ ہے تم اس حبل اللہ ( یعنی نعمت خلافت) کو مضبوط پکڑ لو.یہ بھی خدا ہی کی رسی ہے جس نے تمہارے متفرق اجزاء کو اکٹھا کردیا ہے.پس اسے مضبوط پکڑے رکھو.(بدر قادیان یکم فروری ۱۹۱۲ء) حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ ۲۴ جولائی ۱۹۸۷ء بمقام مسجد فضل لندن میں قرآنی آیت کریمہ واعتصمو بحبل اللہ جمیعا کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: حبل اللہ سے مراد خدا تعالیٰ کا بھیجا ہوا رسول ہے اور اس کی اطاعت اور بیعت

Page 134

۱۱۳ میں داخل ہو کر اس کی غلامی کا دم بھرنا اور یہ کوشش کرتے رہنا کہ اس کی اطاعت سے باہر نہ جایا جائے.یہی وہ حبل اللہ ہے اور انبیاء کی وفات کے بعد یہ حبل اللہ جاری رہتی ہے اور نبوت کے بعد سب سے اعلیٰ شکل خلافت کی صورت میں ملتی ہے.آنحضرت ﷺ سے مروی ہے:.عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ قَالَ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلِيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيْغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِعٍ فَأَوْصِنَا فَقَالَ أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللهِ وَالسَّمْع وَالطَّاعِةِ وَ إِنْ كَانَ عَبْدًا حَبْشِيًا فَإِنَّهُ مَنْ يَّعْشِ مِنْكُمُ بَعْدِى فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا فَعَلَيْكُمُ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِيَّنَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِدِ وَإِيَّاكُمُ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ.(مشكوة المصابيح باب الاعتصام بالكتاب والسنة ص ٣٠) حضرت عرباض بن ساریہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اکرم ﷺ نے نماز کے بعد نہایت ہی مؤثر وعظ فرمایا.وہ ایسا دردناک وعظ تھا کہ آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور دل ڈر سے بھر گئے.ایک صحابی نے عرض کی کہ یا رسول اللہ یہ تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ الوداع کہنے والے کا وعظ ہے حضور ہمیں کوئی وصیت فرمائیں.رسول اکرمی نے فرمایا کہ میری وصیت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور امام اور خلیفہ وقت کی پوری پوری اطاعت کرو.خواہ حبشی غلام ہو.یاد رکھو کہ میرے بعد زندہ رہنے والے بہت سے اختلاف دیکھیں گے.پس تم پر فرض ہے کہ میری سنت اور خلفاء راشدین کی

Page 135

۱۱۴ سنت کو لازم پکڑو.پوری طرح اس کی اتباع کرو اور پختہ طور پر اس پر قائم ہو جاؤ.نئے نئے امور سے بچتے رہنا کیونکہ ہرنئی بات بدعت اور ہر بدعت ضلالت ہے.صحاح ستہ کی اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ تمام فتنوں اور بدعتوں کا علاج صرف یہ ہے کہ سنت النبی اور سنت الخلفاء الراشدین کو ہبر بنایا جائے.دین حنیف کے قیام اور اس کی حفاظت کا یہی طریق ہے کہ سنت نبوی اور سنت خلفاء راشدین کی اتباع کی جائے گویا اس حدیث میں رسول اکرم ﷺ نے آیت استخلاف اور آیت إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحْفِظُونَ.(المائده : ٤) کی تفسیر فرما دی کہ نبوت کے بعد دین کا قیام خلافت سے وابستہ ہے.ہم بتا چکے ہیں کہ از روئے قرآن مجید و احادیث نبویہ خلافت ایک انعام ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اعمال صالحہ کرنے والے مومنوں سے وعدہ فرمایا ہے.اس نعمت کو اللہ تعالیٰ نے دائمی بنایا ہے مگر اس کے پانے اور محفوظ رکھنے کے لئے ایمان اور عمل صالح لازمی شرط ہے.حضرت خلیہ اسیح الثانی الصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے ابتدائی سالوں میں درس القرآن میں نظام خلافت کے اہم مسئلہ پر سیر حاصل روشنی ڈالی ہے اور ایک جگہ پر فرمایا: خلافت ، اسلام کے اہم مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے اور اسلام کبھی ترقی نہیں کر سکتا جب تک خلافت نہ ہو.ہمیشہ خلفاء کے ذریعہ اسلام نے ترقی کی ہے اور آئندہ بھی اسی ذریعہ سے ترقی کرے گا.اور ہمیشہ خدا تعالیٰ خلفاء مقرر کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی خدا تعالیٰ ہی خلفاء مقر ر کرے گا.پس تم خوب یا درکھو کہ تمہاری ترقیات خلافت کے ساتھ وابستہ ہیں.اور جس دن

Page 136

۱۱۵ تم نے اس کو نہ سمجھا اور اسے قائم نہ رکھا وہی دن تمہاری ہلاکت اور تباہی کا دن ہوگا.لیکن اگر تم اس کی حقیقت کو سمجھے رہو گے اور اسے قائم رکھو گے تو پھر اگر ساری دنیا مل کر بھی تمہیں ہلاک کرنا چاہے گی تو نہیں کر سکے گی اور تمہارے مقابلہ میں بالکل نا کام و نامرادر ہے گی“.(درس القرآن مطبوعه ۱۹۲۱ء) نیز فرمایا:.کہ ملائکہ سے فیوض حاصل کرنے کا ایک یہ بھی طریق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ خلفاء سے مخلصانہ تعلق قائم رکھا جائے اور ان کی اطاعت کی جائے.چنانچہ اس جگہ طالوت کے انتخاب میں خدائی ہاتھ کا ثبوت یہی پیش کیا گیا ہے کہ تمہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے نئے دل ملیں گے جن میں سکینت کا نزول ہوگا اور خدا تعالیٰ کے ملائکہ ان دلوں کو اٹھائے ہوئے ہوں گے.گویا طالوت کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کے نتیجہ میں تم میں ایک تغیر عظیم واقع ہو جائے گا.تمہاری ہمتیں بلند ہو جائیں گی.تمہارے ایمان اور یقین میں اضافہ ہو جائے گا.ملائکہ تمہاری تائید کے لئے کھڑے ہو جائیں گے اور تمہارے دلوں میں استقامت اور قربانی کی روح پھونکتے رہیں گے.پس سچے خلفاء سے تعلق رکھنا.ملائکہ سے تعلق پیدا کر دیتا ہے اور انسان کو انوار الہیہ کا مہبط بنادیتا ہے“.(تفسیر کبیر جلد دوم ص ۵۶۱) حضرت خلیفہ اصیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:.جس طرح وہی شاخ پھل لاسکتی ہے جو درخت کے ساتھ ہو.وہ کئی ہوئی شاخ پھل نہیں پیدا کر سکتی جو درخت سے جدا ہو.اس طرح وہی شخص سلسلہ کا مفید کام کر سکتا ہے جو اپنے آپ کو وابستہ نہ رکھے تو خواہ وہ دنیا بھر کے علوم جانتا ہو وہ اتنا بھی کام نہیں کر سکے گا جتنا بکری کا بکر وٹا“.

Page 137

١١٦ پس اگر آپ نے ترقی کرنی ہے اور دنیا پر غالب آنا ہے تو میری آپ کو یہی نصیحت ہے اور میرا یہی پیغام ہے کہ آپ خلافت سے وابستہ ہو جائیں.اس حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں.ہماری ساری ترقیات کا دارو مدار خلافت سے وابستگی میں ہی پنہاں ہے.اللہ آپ سب کا حامی و ناصر ہو اور آپ کو خلافت احمدیہ سے کامل وفا اور وابستگی کی توفیق عطا فرمائے.آمین.66 ( بحوالہ احمدیہ گزٹ کینیڈا مئی و جون ۲۰۰۳ء)

Page 138

۱۱۷ خلیفہ وقت کی اطاعت اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:.يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُ الرَّسُولَ وَاُولِى الاَمرِ مِنْكُمُ.(النساء: ٦٠) یعنی اے ایمان والو! اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرو اور تم میں سے جو تمہارے حاکم اور خلیفہ ہیں ان کی بھی تابعداری کرو.اسی طرح صحیح بخاری میں حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا:.مَنْ أَطَاعْنِي فَقَدْ اَطَاعَ اللَّهَ وَمَنْ أَطَاعَ أَمِيُرِئُ فَقَدْ أَطَاعَنِي وَمَنْ عَصَى أَمِيرَى فَقَدْ عَصَانِي.(صحیح بخاری کتاب الاحکام) یعنی جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی، اس نے خود میری اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی تو گویا اس نے میری نافرمانی کی.اسی طرح جامع ترمذی میں حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا:.مَنْ خَلَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ لَقِيَ اللَّهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا حُجَّةٌ وَمَنْ مَّاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مِيْتَةُ جَاهِلِيَّةً.(ترمذى باب من فارق الجماعة شبرا فكانما خلع ربقة الاسلام من عنقه

Page 139

۱۱۸ یعنی جو جماعت سے بالشت بھر بھی باہر ہوا اس کے متعلق یہ حکم ہے کہ گویا اس نے اسلام کی اطاعت کا حلقہ اپنی گردن سے نکال دیا.ایک روایت میں ہے دَخَلَ النَّارَ یعنی جو خلیفہ کی اطاعت سے باہر ہو اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے.قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیت اور احادیث نبویہ سے اللہ تعالیٰ کے رسول اور ان کے خلفاء و نائبین اور اولی الامر کی اطاعت کی اہمیت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے.نبی چونکہ اللہ تعالیٰ کا خلیفہ اور نائب ہوتا ہے.لہذا اس کی نافرمانی گویا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے اور خلیفہ وقت چونکہ رسول کا جانشین اور نائب ہوتا ہے.لہذا خلیفہ کی نافرمانی گویا رسول کی نافرمانی ہوتی ہے.اسی طرح اولی الامر خواہ ان کی حیثیت خلیفہ یا امام یا امیر کی ہوتی ہے یا ان کے مقرر کردہ کسی صاحب امر کی ہوتی ہے.چنانچہ ان کی نافرمانی خلیفہ وقت یا رسول کی نافرمانی متصور ہوتی ہے.علی ھذا القیاس.پس اس صورتحال سے خلیفہ وقت کی اطاعت کی اہمیت کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے.مولانا ابوالکلام آزاد اپنی کتاب مسئلہ سیاست میں اطاعت خلیفہ والتزام جماعت“ کے عنوان کے تحت خلیفہ وقت کی اطاعت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.اس اجمالی تمہید کے بعد سب سے زیادہ اہم مسئلہ سامنے آتا ہے.یعنی اسلام کا وہ نظام شرعی جو ہر مسلمان کو خلیفہ وقت کی معرفت اور اطاعت پر اسی طرح مجبور کرتا ہے جس طرح اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر جب تک وہ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف حکم نہ دے.اسلام کا قانون اس بارے میں اپنی تمام شاخوں اور تعلیموں کی طرح فی الحقیقت کا ئنات ہستی کے قدرتی نظام کا ایک جز ء اور قوام ہستی کی زنجیر فطرت کی ایک قدرتی کڑی ہے.کائنات کے ہر حصہ اور گوشہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کی

Page 140

119 قدرت وسنت ایک خاص نظام پر کارفرما ہے جس کو ” قانون مرکز “ یا ” قانون دوائر“ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے یعنی قدرت نے خلقت و نظام خلقت کے بقا و قیام کے لئے ہر جگہ اور ہر شاخ وجود میں یہ صورت اختیار کر رکھی ہے کہ کوئی ایک وجود تو بہ منزلہ مرکز کے ہوتا ہے اور بقیہ اجسام ایک دائرے کی شکل میں اس کے چاروں طرف وجود پاتے ہیں اور پورے دائرے کی زندگی اور بقا صرف اس مرکزی وجود کی زندگی اور بقا پر موقوف ہوتی ہے.اگر ایک چشم زدن کے لئے بھی دائرہ کے اجسام اپنے مرکز سے الگ ہو جائیں یا مرکز کی اطاعت و انقیاد سے باہر ہو جا ئیں تو معا نظام ہستی درہم برہم ہو جائے اور دائرہ کی اکیلی ہستیاں مرکز سے الگ رہ کر کبھی قائم و باقی نہ رہ سکیں.یہی وہ حقیقت ہے جس کو بعض اصحاب اشارات نے یوں تعبیر کیا ” الـحـقـیـقـه کالکرہ“ اور صاحب فتوحات نے کہا، دائرہ قاب قوسین ہے“.ہیں:.مسئلہ خلافت ص۳۶- از ابوالکلام آزاد مطبوعہ خیابان عرفان کچہری روڈ لاہور ) اسی طرح مولانا ابوالکلام اطاعت خلیفہ کے ضمن میں آگے چل کر مزید فرماتے " قرآن وسنت کے مطابق اس کے جو کچھ احکام ہوں ان کی بلا چون و چراں تعمیل واطاعت کریں.سب کی زبانیں گونگی ہوں صرف اس کی زبان گویا ہوسب کے دماغ بیکار ہو جائیں صرف اس کا دماغ کارفرما ہولوگوں کے پاس نہ زبان ہو نہ دماغ ہو صرف دل ہو جو قبول کرے صرف ہاتھ پاؤں ہوں جو عمل کریں.اگر ایسا نہیں تو ایک بھیڑ ہے ایک انبوہ ہے جانورں کا ایک جنگل ہے کنکر پتھر کا ایک ڈھیر ہے مگر نہ تو جماعت ہے نہ امت نہ قوم نہ اجتماع اینٹیں ہیں مگر دیوار نہیں کنکر ہیں مگر پہاڑ نہیں.قطرے ہیں مگر دریا نہیں کڑیاں ہیں جو ٹکڑے ٹکڑے کر دی جاسکتی

Page 141

۱۲۰ ہیں مگرز نجیر نہیں جو بڑے بڑے جہازوں کو گرفتار کرسکتی ہے.مسئلہ خلافت ص۲۱۳- از مولانا ابوالکلام آزاد مطبوعہ خیابان عرفان کچہری روڈ لاہور ) حضرت شاہ اسمعیل شہید اپنی کتاب منصب امامت میں خلیفہ وقت کے حکم کو واجب الاتباع اور اصول دین سے قرار دیتے ہیں.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں کہ :.شرع مجموعہ کتاب اللہ وسنت رسول اور احکام خلیفہ اللہ سے مستفادہ شدہ امور سے مراد ہے.پس جیسا کہ کتاب وسنت اصول دین متین سے ہے ایسا ہی حکم امام بھی ادلہ شرع مبین سے ہے اور جس طرح سنت کو کتاب اللہ سے دوسرا درجہ حاصل ہے ایسا ہی حکم امام سنت رسول سے دوسرے درجہ پر ہے.پس اصل کتاب اللہ ہے اور اسے واضح کرنے والی سنت نبوی اور اس کا مبین امام ہے.کتاب اللہ پر ایمان سب سے اول ہے اور ایمان بالرسول بعدہ اور خلیفہ اللہ پر یقین تیسرے درجہ پر ہے.اسی بناء پر علماء امت نے اطاعت امام کو غیر مخصوصہ مقام پر صحت قیاس پر موقوف نہیں رکھا.بلکہ اس کی اطاعت کو باوجود اس کے ضعیف قیاس کے بھی واجب جانا ہے اور اس کے مخالف کو اگر چہ اس کا قیاس امام کے قیاس سے اظہر اور قوی ہو جائز نہیں رکھا اور اس میں راز یہی ہے کہ اس کا حکم بذاتہ اصول دین سے ایک اصل ہے اور ادلہ شرعیہ سے ایک دلیل ہے جو صحیح قیاس سے قوی ہے“.( منصب امامت ص ۱۲۷، ۱۲۸- از شاہ اسمعیل شهید مطبع حاجی حنیف اینڈ سنز لا ہورا کتوبر ۱۹۹۴ء) آگے چل کر مزید فرماتے ہیں:.ازاں جملہ ایک تو نجات اخروی ہے جس کا دارو مدار ان کی طاقت پر ہے.چنانچہ اگر چہ کوئی شخص معرفت الہی اور تہذیب نفس میں ہزار جد و جہد اور سعی بلیغ کرے لیکن اگر ایمان بالانبیاء نہ رکھتا ہو تو ہر گز نجات اخروی نہ پاسکے گا.اور غضب جبارو

Page 142

۱۲۱ طبقات نار سے ہرگز خلاصی نہ پائے گا.اسی طرح اگر چند عبادات اور طاعات دینیہ بجالائے اور احکام اسلام میں پوری کوشش کرتا رہے لیکن جب تک امام وقت کی اطاعت کے آگے سرتسلیم خم نہ کرے اور اس کی اطاعت کا اقرار نہ کرے، عبادت مذکورہ آخرت میں اس کے کام نہ آئے گی اور رب قدیر کی دارو گیر سے خلاصی نہ ہو سکے گی_من لم يعرف امام زمانه فقد مات ميتة الجاهلية (جس نے امام وقت کو نہ پہچانا وہ جاہلیت کی موت مرا) رسول خدا ﷺ نے فرمایا ہے صلوا خمسكم وصوموا شهركم وادو از كودة اموالكم واطيعوا ذا امركم تدخلوا جنة ربكم ( پنج وقتی نماز ادا کرو، ایک ماہ کے روزے رکھو اور اپنے مال کی زکوۃ ادا کر واولی الامر کی اطاعت کرو تو اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ ) اور فرمایامن مات وليس في عنقف بيعة مات ميته الجاهلية (جوكوئى مرا اس کی گردن میں بیعت ( کا طوق ) نہیں تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا.منصب امامت ص ۱۴۴۷۱۴۳- از شاہ اسمعیل شہید ایڈیشن دوم ۱۹۶۹ء نقوش پریس لاہور مترجم حکیم محمد حسین مالوی) اطاعت کا مطلب یہ ہے کہ خلیفہ وقت کی طرف سے آنے والی ہر آواز پر والہانہ لبیک کہا جائے.کسی ارشاد کو بھولنا یا اس کی طرف توجہ نہ دینا ایک احمدی کی شان نہیں.حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بیعت وہ ہے جس میں کامل اطاعت کی جائے اور خلیفہ کے کسی ایک حکم سے بھی انحراف نہ کیا جائے“.(ماہانہ الفرقان ربوہ خلافت نمبرمئی جون ۱۹۶۷ء ص ۲۸) حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:

Page 143

۱۲۲ ” خلیفہ استاد ہے اور جماعت کا ہر فردشاگرد.جو لفظ بھی خلیفہ کے منہ سے نکلے وہ عمل کئے بغیر نہیں چھوڑنا.(روز نامه الفضل قادیان ۲ مارچ ۱۹۴۶ء) پھر آپ فرماتے ہیں: تم سب امام کے اشارے پر چلو اور اس کی ہدایت سے ذرہ بھر بھی ادھر ادھر نہ ہو.جب وہ حکم دے بڑھو اور جب وہ حکم دے ٹھہر جاؤ اور جدھر بڑھنے کا وہ حکم دے ادھر بڑھو اور جدھر سے ہٹنے کا وہ حکم دے ادھر سے ہٹ جاؤ“.پھر آپ نے ایک اور موقع پر فرمایا: (انوار العلوم جلد ۴ اص ۵۱۶،۵۱۵) ” خلافت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اس وقت سب سکیموں ، سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے.جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو اس وقت تک سب خطبات رائیگاں ، تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں ناکام ہیں.( خطبه جمعه ۲۴ جنوری ۱۹۳۶ء مندرجه روزنامه الفضل قادیان ۳۱ جنوری ۱۹۳۶ء) اطاعت خلافت کا معیار کیا ہونا چاہئے؟ اس کی وضاحت خود حضور نے یہ فرمائی ”ایمان نام ہے اس بات کا کہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ نمائندہ کی زبان سے جو بھی آواز بلند ہو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کی جائے..ہزار دفعہ کو ئی شخص کہے کہ مسیح موعود پر ایمان لاتا ہوں.ہزار دفعہ کوئی کہے کہ میں احمدیت پر ایمان رکھتا ہوں.خدا کے حضور اس کے ان دعووں کی کوئی قیمت نہیں ہوگی جب تک وہ اس شخص کے

Page 144

۱۲۳ ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دیتا جس کے ذریعہ خدا اس زمانہ میں اسلام قائم کرنا چاہتا ہے جب تک جماعت کا ہر شخص...اس کی اطاعت میں اپنی زندگی کا ہرلمحہ بسر نہیں کرتا اس وقت تک وہ کسی قسم کی فضیلت اور بڑائی کا حقدار نہیں ہوسکتا.ہیں:.(الفضل ۱۵ نومبر ۱۹۴۶ء ص ۶) حضرت مصلح موعودؓ اس بارہ میں مزید وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرماتے وپس میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ خواہ تم کتنے عقلمند اور مدبر ہو، اپنی تدابیر اور عقلوں پر چل کر دین کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے.جب تک تمہاری عقلیں اور تدبیریں خلافت کے ماتحت نہ ہوں اور تم امام کے پیچھے پیچھے نہ چلو.ہرگز اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت تم حاصل نہیں کر سکتے.پس اگر تم خدا تعالیٰ کی نصرت چاہتے ہو تو یا درکھو اس کا کوئی ذریعہ نہیں سوائے اس کے کہ تمہارا اٹھنا بیٹھنا کھڑا ہونا اور چلنا تمہارا بولنا اور خاموش ہونا میرے ماتحت ہو.بیشک میں نبی نہیں ہوں لیکن نبوت کے قدموں پر اور اس کی جگہ پر کھڑا ہوں.ہر وہ شخص جو میری اطاعت سے باہر ہوتا ہے.وہ یقیناً نبی کی اطاعت سے باہر جاتا ہے.جو میرا جوا اپنی گردن سے اتارتا ہے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جوا اتارتا ہے اور جو ان کا جوا اتارتا ہے وہ رسول کریم ﷺ کا جوا اتارتا ہے.وہ خدا تعالیٰ کا جواً اتارتا ہے.میں بے شک انسان ہوں.خدا نہیں ہوں.مگر میں یہ کہنے سے نہیں رہ سکتا کہ میری اطاعت اور فرمانبرداری میں خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری ہے.مجھے جو بات کہنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے.میں

Page 145

۱۲۴ اسے چھپا نہیں سکتا.مجھے اپنی بڑائی بیان کرنے میں شرم محسوس ہوتی ہے اور میں اس وقت تک اس شرم کی وجہ سے رکا رہا ہوں لیکن آخر خدا تعالیٰ کے حکم کو بیان کرنا ہی پڑتا ہے.میں انسانوں سے کام لینے کا عادی نہیں ہوں.تم بائیس سال سے مجھے دیکھ رہے ہو.اور تم میں سے ہر ایک اس امر کی گواہی دے گا کہ ذاتی طور پر کسی سے کام لینے کا میں عادی نہیں ہوں.حالانکہ اگر میں ذاتی طور پر بھی کام لیتا تو میرا حق تھا.مگر میں ہمیشہ اس کوشش میں رہتا ہوں کہ خود دوسروں کو فائدہ پہنچاؤں.مگر خود کسی کا ممنون احسان نہ ہوں.خلفاء کا تعلق ماں باپ سے بھی زیادہ ہوتا ہے.کہ:.( الفضل ۴ ستمبر ۱۹۳۷ء قادیان ) اطاعت در معروف سے مراد مجلس خدام الاحمدیہ کے عہد میں خلیفہ کی اطاعت کے متعلق یہ الفاظ شامل ہیں اور خلیفہ وقت جو بھی معروف فیصلہ فرمائیں گے اس کی پابندی کرنی ضروری سمجھوں گا“.بعض احباب اطاعت در معروف امر سے غلطی کھاتے ہیں.لہذا ایسے احباب کے لئے حضرت خلیفہ امسیح الخامس کا ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے جس میں معروف امر کی حضور نے وضاحت فرمائی ہے.حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:.

Page 146

۱۲۵ جب تم بیعت میں شامل ہو گئے ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے نظام میں شامل ہو گئے ہو تو پھر تم نے اپنا سب کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دے دیا اور اب تمہیں صرف ان کے احکامات کی پیروی کرنی ہے، ان کی تعلیم کی پیروی کرنی ہے اور آپ کے بعد چونکہ نظام خلافت قائم ہے اس لئے خلیفہ وقت کے احکامات کی، ہدایت کی پیروی کرنا تمہارا کام ہے.لیکن یہاں یہ خیال نہ رہے کہ خادم اور نوکر کا کام تو مجبوری ہے، خدمت کرنا ہی ہے.خادم کبھی کبھی بڑ بڑا بھی لیتے ہیں.اس لئے ہمیشہ ذہن میں رکھو کہ خادمانہ حالت ہی ہے لیکن اس سے بڑھ کر ہے کیونکہ اللہ کی خاطر اخوت کا رشتہ بھی ہے اور اللہ کی خاطر اطاعت کا اقرار بھی ہے اور اس وجہ سے قربانی کا عہد بھی ہے.تو قربانی کا ثواب بھی اس وقت ملتا ہے جب انسان خوشی سے قربانی کر رہا ہوتا ہے.تو یہ ایک شرط ہے جس پر آپ جتنا غور کرتے جائیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت میں ڈوبتے چلے جائیں گے اور نظام جماعت کا پابند ہوتا ہوا اپنے آپ کو پائیں گے.بعض دفعہ لوگ معروف فیصلہ یا معروف احکامات کی اطاعت کے چکر میں پڑ کر خود بھی نظام سے ہٹ گئے ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی خراب کر رہے ہوتے ہیں اور ماحول میں بعض قباحتیں بھی پیدا کر رہے ہوتے ہیں.ان پر واضح ہو کہ خود بخود معروف اور غیر معروف فیصلوں کی تعریف میں نہ پڑیں.غیر معروف وہ ہے جو واضح طور پر اللہ تعالیٰ کے احکامات اور شریعت کے احکامات کی خلاف ورزی ہے.تو بعض لوگ سمجھتے ہیں، میں بتادوں آجکل بھی اعتراض ہوتے ہیں کہ ایک کارکن اچھا بھلا کام کر رہا تھا اس کو ہٹا کر دوسرے کے سپر د کام کر دیا گیا ہے.خلیفہ وقت یا نظام جماعت نے غلط فیصلہ کیا ہے اور گویا یہ غیر معروف فیصلہ ہے.

Page 147

۱۲۶ وہ اور تو کچھ نہیں کر سکتے اس لئے سمجھتے ہیں کہ کیونکہ یہ غیر معروف کے زمرے میں آتا ہے،خود ہی تعریف بنالی انہوں نے.اس لئے ہمیں بولنے کا بھی حق ہے، جگہ جگہ بیٹھ کر باتیں کرنے کا بھی حق ہے.تو پہلی بات تو یہ ہے کہ جگہ جگہ بیٹھ کر کسی کو نظام کے خلاف بولنے کا کوئی حق نہیں.اس بارہ میں پہلے بھی میں تفصیل سے روشنی ڈال چکا ہوں.تمہارا کام صرف اطاعت کرنا ہے اور اطاعت کا معیار کیا ہے میں حدیثوں وغیرہ سے اس کی وضاحت کروں گا.ایسے لوگوں کو حضرت خالد بن ولید کا یہ واقعہ ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے کہ جب ایک جنگ کے دوران حضرت عمر نے جنگ کی کمان حضرت خالد بن ولید سے لے کر حضرت ابوعبیدہ کے سپر د کر دی تھی تو حضرت ابو عبیدہ نے اس خیال سے کہ خالد بن ولید بہت عمدگی سے کام کر رہے ہیں ان سے چارج نہ لیا تو جب حضرت خالد بن ولید کو یہ علم ہوا کہ حضرت عمرؓ کی طرف سے یہ حکم آیا ہے تو آپ حضرت ابو عبیدہ کے پاس گئے اور کہا کہ چونکہ خلیفہ وقت کا حکم ہے اس لئے آپ فوری طور پر اس کی تعمیل کریں.مجھے ذرا بھی پروا نہیں ہوگی کہ میں آپ کے ماتحت رہ کر کام کروں.اور میں اسی طرح آپ کے ماتحت کام کرتا رہوں گا جیسے میں بطور کمانڈ رایک کام کر رہا ہوتا تھا.تو یہ ہے اطاعت کا معیار.کوئی سر پھرا کہ سکتا ہے کہ حضرت عمرؓ کا فیصلہ اس وقت غیر معروف تھا، یہ بھی غلط خیال ہے.ہمیں حالات کا نہیں پتہ کس وجہ سے حضرت عمرؓ نے یہ فیصلہ فرمایا یہ آپ ہی بہتر جانتے تھے.بہر حال اس فیصلہ میں ایسی کوئی بات ظاہر بالکل نہیں تھی جو شریعت کے خلاف ہو.چنانچہ آپ دیکھ لیں کہ حضرت عمرؓ کے اس فیصلہ کی لاج بھی اللہ تعالیٰ نے رکھی اور یہ جنگ جیتی گئی اور باوجود اس کے کہ اس جنگ میں بعض دفعہ ایسے حالات آئے کہ ایک ایک مسلمان کے مقابلہ میں سوسود شمن کے فوجیوں کی تعداد ہوتی تھی.

Page 148

۱۲۷ پس آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ نے امام وقت کو مانا اور اس کی بیعت میں شامل ہوئے.اب خالصتاً آپ نے اس کی ہی اطاعت کرنی ہے، اس کے تمام حکموں کو بجالانا ہے ورنہ پھر خدا تعالیٰ کی اطاعت سے باہر نکلنے والے ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اطاعت کے اعلیٰ معیار پر قائم فرمائے اور یہ اعلیٰ معیار کس طرح قائم کئے جائیں.یہ معیار حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم پر عمل کر کے ہی حاصل کئے جاسکتے ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ ”ہماری جماعت میں وہی داخل ہوتا ہے جو ہماری تعلیم کو اپنا دستور العمل قرار دیتا ہے اور اپنی ہمت اور کوشش کے موافق اس پر عمل کرتا ہے.لیکن جو محض نام لکھا کر تعلیم کے موافق عمل نہیں کرتا تو یاد رکھے کے خدا تعالیٰ نے اس جماعت کو ایک خاص جماعت بنانے کا ارادہ کیا ہے اور کوئی آدمی جو دراصل جماعت میں نہیں ہے محض نام لکھوانے سے جماعت میں نہیں رہ سکتا.اس پر کوئی نہ کوئی وقت ایسا آجائے گا کہ وہ الگ ہو جائے گا.اس لئے جہاں تک ہو سکے اپنے اعمال کو اس تعلیم کے ماتحت کرو جودی جاتی ہے.خطبہ جمعہ فرموده ۱۹ ستمبر ۲۰۰۳ء.بحوالہ ماہنامہ انصار اللہ ماہ مئی ۲۰۰۵ء) خلیفہ وقت سے بحث و جدال جائز نہیں خلیفہ وقت کو خدا مقرر کرتا ہے.لہذا خلیفہ وقت کے ساتھ بحث و جدال کرنا گویا کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ بحث کرنا ہے.پس حقیقت یہ ہے کہ ہرقسم کی فضیلت امام کی اطاعت میں ہے.جیسا کہ حضرت اصلح الموعود فر ماتے ہیں:.یاد رکھو کہ ایمان کسی خاص چیز کا نام نہیں بلکہ ایمان نام ہے اس بات کا کہ

Page 149

۱۲۸ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ نمائندہ کی زبان سے جو بھی آواز بلند ہو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کی جائے.ہزار دفعہ کوئی شخص کہے کہ میں مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لاتا ہوں، ہزار وقعہ کوئی کہے کہ میں احمد بہت پر ایمان رکھتا ہوں ، خدا کے حضوران دعوں کی کوئی قیمت نہیں ہوگی.جب تک وہ اس شخص کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دیتا جس کے ذریعہ خدا اس زمانہ میں ( دین حق ) قائم کرنا چاہتا ہے.جب تک جماعت کا ہر شخص پاگلوں کی طرح اس کی اطاعت نہیں کرتا اور جب تک اس کی اطاعت میں اپنی زندگی کا ہر لمحہ بسر نہیں کرتا اس وقت تک کسی قسم کی فضیلت اور بڑائی کا حقدار نہیں ہے ہو سکتا“.(الفضل ۱۵نومبر ۱۹۴۶ء) وہی سکیم وہی تجویز اور تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہو.حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں:.خلافت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اس وقت سب سکیموں ، سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے.جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو اس وقت تک سب خطبات رائیگاں ، تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں نا کام ہیں.( خطبه جمعه ۲۴ جنوری ۱۹۳۶ء مندرجہ الفضل ۳۱ جنوری ۱۹۳۶ء) اسی طرح آپ نے فرمایا: اور اگر تم کامل طور پر اطاعت کرو تو مشکلات کے بادل اڑ جائیں گے.تمہارے دشمن ہو جائیں گے اور فرشتے آسمان سے تمہارے لئے ترقی والی نئی زمین اور تمہاری

Page 150

۱۲۹ عظمت وسطوت والا نیا آسمان پیدا کریں گے.لیکن شرط یہی ہے کہ کامل فرمانبرداری کرو جب تم سے مشورہ مانگا جائے مشورہ دو ورنہ چپ رہو.ادب کا مقام یہی ہے لیکن اگر تم مشورہ دینے کے لئے بیتاب ہو تو بغیر پوچھے بھی دے دو.مگر عمل وہی کرو جس کی تم کو ہدایت دی جائے ہاں صحیح اطلاعات دینا ہر مومن کا فرض ہے اور اس کے لئے پوچھنے کا انتظار نہیں کرنا چاہئے.باقی عمل اس کے بارہ میں تمہارا فرض صرف یہی ہے کہ خلیفہ کے ہاتھ اور اس کے ہتھیار بن جاؤ.تب ہی برکت ہی برکت حاصل کرسکو گے اور سب ہی کامیابی نصیب ہوگی.اللہ تعالیٰ تم کو اس کی توفیق بخشے.(روز نامه الفضل قادیان ۴ ستمبر ۱۹۳۷ء) شاہ اسماعیل شہیدا اپنی معروف تصنیف منصب امامت میں جیسا کہ عنوان کتاب سے ظاہر ہے خلیفہ کے مقام ومرتبہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.لازم ہے کہ احکام کے اجراء اور مہمات کا انجام امام کے سپرد کیا جائے اور اس سے قیل و قال اور بحث و جدال نہ کی جائے اور کسی مہم میں خود بخو دا قدام نہ کیا جائے.اس کے حضور میں زبان بند رکھیں اور اپنی رائے سے سرانجام مقدمات میں دخل نہ دیں اور کسی طرح بھی اس کے سامنے استقلال کا دم نہ ماریں.منصب امامت ص ۱۲۹- از شاه اسمعیل شہید مترجم حکیم محمد حسین علوی مطبوعہ حاجی حنیف اینڈ سنز لا ہور ) قرب خداوندی کے لئے خلیفہ وقت کی اطاعت ضروری ہے.نیز فرمایا : ”امام وقت سے سرکشی اور روگردانی گستاخی کا باعث ہے اور اس کے ساتھ بلکہ خود رسول کے ساتھ ہمسری ہے اور خفیہ طور پر خود رب العزت پر اعتراض ہے کہ ایسے ناقص شخص کو کامل شخص کی نیابت کا منصب عطا ہوا.الغرض اس کے توسل کے بغیر تقرب الہی محض وہم وخیال ہے جو سراسر باطل اور محال ہے.منصب امامت ص ۱۱۱ از شاه اسمعیل شہید مترجم حکیم محمد حسین علوی مطبوعہ حاجی حنیف اینڈ سنز لاہور )

Page 151

خلیفہ وقت کے ساتھ بحث و تمہیں میں پڑنا سوء ادب ہے اور خلیفہ وقت کے فیصلہ کو تسلیم کرنے میں ہی برکت ہے.جیسا کہ شاہ اسمعیل شہید فرماتے ہیں:.ایک ان میں سے تعیین احکام کا اجرا بذمہ امام ہے.مثلاً اگر کسی وقت کوئی مقدمه سیاست سے پیش آئے یا مہمات دین سے کوئی مہم ظاہر ہو تو اگر امت میں پیغمبر موجود ہو تو ان کو لائق نہیں کہ اس پر سبقت کریں یا قیل وقال شروع کر دیں یا آپس میں مشورہ کر کے کسی حکم کی تعیین کرلیں اور اپنی عقل و تدبیر اور رائے و قیاس کو دوڑا ئیں.بلکہ چاہئے یہ کہ آپ اس مقدمے میں سکوت اختیار کریں اور اس مقدمے کو پیغمبر کے حضور میں پہنچائیں اور منتظر ر ہیں کہ اس مقدمے میں پیغمبر کیا حکم صادر فرماتا ہے اور کس طریق سے بیان فرماتا ہے.الغرض حکومت پیغمبر کا منصب ہے اور اطاعت امت کا مرتبہ ہے.چنانچہ ارشاد باری ہے.يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُوْلِهِ وَاتَّقُوا إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (حجرات) اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اللہ سے ڈرو اللہ تعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے.اسی طرح لازم ہے کہ احکام کا اجرا اور مہمات کا انجام امام کے سپرد کیا جائے اور اس سے قیل و قال اور بحث و جدال نہ کی جائے اور کسی مہم میں خود بخود اقدام نہ کیا جائے.اس کے حضور میں زبان بند رکھیں اور اپنی رائے سے سرانجام مقدمات میں دخل نہ دیں اور کسی طرح بھی اس کے سامنے استقلال کا دم نہ ماریں.( منصب امامت - ص ۱۵۰ ۱۵۱ از شاه اسمعیل شہید بار دوم ۱۹۶۹ ء نقوش پریس لاہور )

Page 152

۱۳۱ خلیفہ سے غلطی کا امکان ایک سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کیا خلیفہ کوئی غلطی کر سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے حضرت مصلح موعوددؓ بیان فرماتے ہیں کہ :.میں اس بات کا قائل نہیں کہ خلیفہ کوئی غلطی نہیں کر سکتا.مگر اس بات کا قائل ہوں کہ وہ کوئی ایسی غلطی نہیں کر سکتا جس سے جماعت تباہ ہو.وہ اس اور اس کام میں غلطی کر سکتا ہے.مگر سب کاموں میں غلطی نہیں کر سکتا اور اگر وہ کوئی ایسی غلطی کر بھی بیٹھے جس کا اثر جماعت کے لئے تباہی خیز ہو تو خدا تعالیٰ اس غلطی کو بھی درست کر دے گا اورس کے نیک نتائج پیدا ہوں گے.یہ عصمت کسی اور جماعت یا کسی اور مجلس کو حاصل نہیں ہو سکتی.میں مانتا ہوں کہ خلفاء غلطی کرتے رہے اور اب بھی کر سکتے ہیں.بعض اوقات میں فیصلہ کرتا ہوں جس کے متعلق بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ غلطی ہوئی ہے.مگر سوال یہ ہے کہ غلطی سے زیادہ محفوظ کون ہے.اجتہادی اور سیاسی غلطیاں رسول سے بھی ہو سکتی ہیں.پھر خلیفہ ایسی غلطیوں سے کس طرح بچ سکتا ہے.نبی اجتہاد کی غلطی کرسکتا ہے.بحیثیت فقیہ غلطی کر سکتا ہے.بحیثیت بادشاہ غلطی کر سکتا ہے.لیکن بحیثیت نبی غلطی نہیں کر سکتا.اور وہ باتیں جو نبی سے بحیثیت فقیہ اور بحیثیت حاکم تعلق رکھتی ہیں.خلفاء ان میں نبی کے وارث ہوتے ہیں.خلفاء نبی کی ہر بات کے وارث ہوتے ہیں.سوائے نبوت کے اور جو احکام نبوت کے سوا نبی کے لئے جاری ہوتے ہیں وہی خلیفہ کے لئے جاری ہوتے ہیں...بیشک خلفاء غلطی کر سکتے ہیں.مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر ان کے آگے سر تسلیم

Page 153

۱۳۲ خم نہ کیا جائے تو کوئی جماعت جماعت نہیں رہ سکتی.پس خلیفہ بھی غلطی کر سکتا ہے اور تم بھی غلطی کر سکتے ہو.مگر فرق یہی ہے کہ خلیفہ کی خطرناک غلطی کی خدا تعالیٰ اصلاح کر دے گا.مگر آپ لوگوں سے خدا کا یہ وعدہ نہیں ہے“.(رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۵ء) بعض لوگوں کے نزدیک خلیفہ وقت کی غلطی کا امکان یا کسی خلیفہ سے اجتہادی یا سیاسی امر میں کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو اس میں اس کی اطاعت واجب نہیں.اگر کبھی کوئی ایسی صورت پیدا ہو جائے تو پھر بھی خلیفہ کی اطاعت لازم ہے.چنانچہ حضرت شاہ اسمعیل شہید منصب امامت میں تحریر کرتے ہیں:.اسی بنا پر علمائے امت نے اطاعت امام کو غیر منصوصہ مقام میں صحت قیاس پر موقوف نہیں رکھا بلکہ اس کی اطاعت کو باوجود اس کے ضعیف قیاس کے بھی واجب جانا ہے اور اس کے مخالف کو اگر چہ اس کا قیاس امام کے قیاس سے اظہر اور قوی ہو، جائز نہیں رکھا اور اس میں راز یہی ہے کہ اس کا حکم بذاتہ اصول دین سے ایک اصل ہے اور ادلہ شرعیہ سے ایک دلیل ہے جو صحیح قیاس سے قوی ہے.اگر چہ فی الحقیقت کسی اور کے قیاس سے مستنبط ہو.لیکن دوسرے کا قیاس اگر چہ صیح ہو ننی ہے اور یہ حکم اگر چہ بنفس الامر قیاس سے مستند ہولیکن قطعی ہے.مثال اس کی یہ ہے کہ اجماع صحت قطعیہ ہے اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مستندا جماع نفس الامر میں ایک قیاس ہوتا ہے یا بر غیر مشہور اور وہ بھی ظنی ہے.منصب امامت ص ۱۵۰،۱۴۹- از شاه اسمعیل شہید ایڈیشن دوم ۱۹۶۹ء نقوش پریس لاہور ) ہاں اگر خلیفہ وقت سے کوئی ایسی غلطی سرزد ہو جو نص صریح کے خلاف ہو تو پھر بھی حکم یہ ہے کہ ادب کے ساتھ اس معاملہ کو خلیفہ وقت کی خدمت میں پیش کر کے

Page 154

۱۳۳ خاموشی اختیار کر لی جائے.نہ تو اس امر کو عوام الناس میں زیر بحث لانے کی اجازت ہے اور نہ ہی خلیفہ وقت کے ساتھ بحث و جدال کا طرز عمل اپنا یا جائے بلکہ تسلی نہ ہونے کی صورت میں بھی خاموشی اختیار کر لی جائے.اس سلسلہ میں بھی حضرت شاہ اسمعیل شہید ہماری راہنمائی فرماتے ہیں:.امام کا حکم نص حکمی ہے.یعنی جس وقت مجہتدین کا اجتہاد اور قیاس آراؤں کا قیاس نص قطعی کے مقابل ہوتا ہے تو بیشک پایۂ اعتبار سے ساقط ہو جاتا ہے.یعنی مذکورہ امور پر مخالفت نص کی صورت میں ہرگز قابل عمل نہیں رہتا.ایسے ہی جب مذکورہ امور امام یا اس کے نائب کے حکم کے متعارض ہوں تو پایۂ اعتبار سے ساقط ہو جاتے ہیں.کیونکہ جس وقت مواضع اختلاف اور مسائل اجتہاد میں امام کا حکم دو جانب میں سے ایک جانب متوجہ ہو تو ہر مجتہد ، مقلد، عالم، عامی ، عارف اور غیر عارف پر واجب العمل ہوگا.کسی کو اس کے ساتھ اپنے اجتہاد یا مجتہدین سابقین کے اجتہاد یا اپنے الہام یا شیوخ متقدمین کے الہام سے تعرض نہیں ہوسکتا.جو کوئی حکم امام کی مخالفت کرے اور مذکورۃ الصدرا مور کے خلاف عمل کرے تو بیشک عند اللہ عاصی اور گنہ گار ہے اور عذر اس کا حضور رب العالمین وحضور انبیائے مرسلین و مجہتدین میں قابل قبول نہ ہوگا اور یہ مسئلہ اجماعی ہے کہ اہل اسلام سے کسی کو اس کے ساتھ اختلاف نہیں ہے“.منصب امامت ص ۱۴۶، ۱۴۷- از شاہ اسمعیل شہید ایڈیشن دوم ۱۹۶۹ء نقوش پریس لاہور ) خلیفہ وقت کے ساتھ اختلاف خلیفہ وقت کے ساتھ اختلاف رکھنے کے بارہ میں حضرت مصلح موعود ارشاد فرماتے ہیں:.

Page 155

۱۳۴ خلافت کے تو معنے ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے مونہہ سے کوئی لفظ نکلے.اس وقت سب سکیموں سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے.جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو.اس وقت تک سب خطبات رائگاں.تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں ناکام ہیں.ضرورت اس بات کی ہے کہ جماعت محسوس کرے کہ خلیفہ وقت جو کچھ کہتا ہے اس پر عمل کرنا ضروری ہے اگر تو وہ بجھتی ہے کہ خلیفہ نے جو کچھ کہا وہ غلط کہا اور اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکل سکتا تو جو لوگ یہ سمجھتے ہوں.ان کا فرض ہے کہ وہ خلیفہ کو سمجھا ئیں اور اس سے ادب کے ساتھ تبادلہ خیالات کریں.لیکن اگر یہ نہیں کر سکتے.تو پھر ان کا فرض ہے کہ وہ اس طرح کام کریں جس طرح ہاتھ دماغ کی متابعت میں کام کرتا ہے.ہاتھ کبھی دماغ کو سمجھاتا بھی ہے کہ ایسانہ کرو، مثلاً دماغ کہتا ہے فلاں جگہ مکامارو ہاتھ مکہ مارتا ہے تو آگے وہ ذرہ سی سختی محسوس کرتا ہے اور ہاتھ کو درد ہوتا ہے.اس پر دماغ سے کہتا ہے کہ اس جگہ مکہ نہ مروائیں.یہاں تکلیف ہوتی ہے اور دماغ اس کی بات مان لیتا ہے.اسی طرح جماعت میں سے ہر شخص کا حق ہے کہ اگر وہ خلیفہ وقت سے کسی بات میں اختلاف رکھتا ہے تو وہ اسے سمجھائے اور اگر اس کے بعد بھی خلیفہ اپنے حکم یا اپنی تجویز کو واپس نہیں لیتا تو اس کا کام ہے کہ وہ فرمانبرداری کرے اور یہ تو دینی معاملہ ہے.دنیوی معاملات میں بھی افسروں کی فرمانبرداری کے تاریخ میں ایسے ایسے واقعات آتے ہیں کہ انہیں پڑھ کر طبیعت سرور سے بھر جاتی ہے.اسی طرح ایک دوسرے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا:.الفضل قادیان ۳۱ جنوری ۱۹۳۶ء)

Page 156

۱۳۵ میں نے متواتر جماعت کو بتایا ہے کہ خلافت کی بنیاد محض اور محض اس بات پر ہے الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ یعنی امام ایک ڈھال ہوتا ہے اور مومن اس ڈھال کے پیچھے سے لڑائی کرتا ہے.مومن کی ساری جنگیں امام کے پیچھے کھڑے ہو کر ہوتی ہیں.اگر ہم اس مسئلہ کو ذرا بھی بھلا دیں.اس کی قیود کو ڈھیلا کر دیں اور اس کی ذمہ داریوں کو نظر انداز کر دیں.تو جس غرض کے لئے خلافت قائم ہے.وہ مفقود ہو جائے گی.میں جانتا ہوں کہ انسانی فطرت کی کمزوریاں کبھی کبھی اسے اپنے جوش اور غصہ میں اپنے فرائض سے غافل کر دیتی ہیں.پھر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ کبھی انسان ایسے اشتعال میں آجاتا ہے کہ وہ یہ نہیں جانتا کہ میں مونہہ سے کیا کہہ رہا ہوں.مگر بہر حال یہ حالت اس کی کمزوری کی ہوتی ہے نیکی کی نہیں اور مومن کا کام یہ ہے کہ کمزوری کی حالت کو مستقل نہ ہونے دے اور جہاں تک ہو سکے.اسے عارضی بنائے.بلکہ بالکل دور کر دے.اگر ایک امام اور خلیفہ کی موجودگی میں انسان یہ سمجھے کہ ہمارے لئے کسی آزاد تد بیر اور مظاہرہ کی ضرورت ہے.تو پھر خلیفہ کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی.امام اور خلیفہ کی ضرورت یہی ہے کہ ہر قدم جو مومن اٹھاتا ہے.اس کے پیچھے اٹھاتا ہے.اپنی مرضی اور خواہشات کو اس کی مرضی اور خواہشات کے تابع کرتا ہے.اپنی تدبیروں کو اس کی تدبیروں کے تابع کرتا ہے.اپنے ارادوں کو اس کے ارادوں کے تابع کرتا ہے.اپنی آرزوؤں کو اس کی آرزوؤں کے تابع کرتا ہے اور اپنے سامانوں کو اس کے سامانوں کے تابع کرتا ہے.اگر اس مقام پر مومن کھڑے ہو جائیں تو ان کے لئے کامیابی اور فتح یقینی ہے.“ (الفضل قادیان ۴ ستمبر ۱۹۳۷ء)

Page 157

۱۳۶ اسی طرح ایک دوسرے موقع پر فرمایا :.ایک شخص جو خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے اسے سمجھنا چاہئے کہ خلفاءخدا مقرر کرتا ہے اور خلیفہ کا کام دن رات لوگوں کی راہنمائی اور دینی مسائل میں غور و فکر ہوتا ہے اس کی رائے کا دینی مسائل میں احترام ضروری ہے اور اس کی رائے سے اختلاف اسی وقت جائز ہو سکتا ہے جب اختلاف کرنے والے کو ایک اور ایک دو کی طرح یقین ہو جائے کہ جو بات وہ کہتا ہے وہ درست ہے.پھر یہ بھی شرط ہے کہ پہلے وہ اس اختلاف کو خلیفہ کے سامنے پیش کرے نہ کہ خود ہی اس کی اشاعت شروع کر دے اگر کوئی شخص اس طرح نہیں کرتا اور اختلاف کو اپنے دل میں جگہ دے کر عام لوگوں میں پھیلاتا ہے تو وہ بغاوت کرتا ہےاسے اپنی اصلاح کرنی چاہئے“.منہاج الطالبین لیکچر حضرت مصلح موعود انوار العلوم جلد ۹ص ۱۶۲) پس اگر کبھی واجب الاطاعت خلیفہ کے احکام اور ارشادات کے ساتھ کسی چیز کا مقابلہ آپڑے.تو پھر تمام فرمانبرداریوں اور اطاعتوں کا خاتمہ.تمام عہدوں اور شرطوں کی شکست تمام رشتوں اور تعلقات کا انقطاع تمام دوستیوں اور محبتوں کا اختتام ہوگا صرف اور صرف خلیفہ کی اطاعت مومن کے مدنظر ہوگی کیونکہ اس اطاعت کی مخالفت میں کوئی اطاعت نہ ہوگی.اس وقت نہ باپ باپ ہے نہ افسر افسر ہے.نہ بھائی بھائی ہے.نہ دوست دوست ہے نہ رشتہ رشتہ دار ہے کیونکہ سب رشتے ٹوٹ گئے.سب تعلقات منقطع ہو گئے.رشتہ دراصل ایک ہی تھا اور یہ سب رشتے اسی ایک رشتہ کی خاطر تھے.پس خلیفہ کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے اور جو خدا کی اطاعت کا جوا اپنی گردن سے اتارنے کی کوشش کرتا ہے وہ دین ودنیا میں ناکام و نامرادر ہتا ہے.

Page 158

باب چہارم خلافت و مجددیت آنحضرت کی ایک معروف حدیث ہے کہ:.إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِلَّةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُلَهَا دِيْنَهَا.(سنن ابو داؤد جلد ۳ کتاب الملاحم باب مایذکر فی قرن المأة مطبع نولکشور) یعنی اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر ایک مجدد مبعوث کرے گا جو اس کے دین کی تجدید کرے گا.اس حدیث کی روشنی میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا خلافت کی موجودگی میں بھی مجددین مبعوث ہوتے رہیں گے؟ اس کے جواب میں عرض ہے کہ خلافت کی موجودگی میں کسی مجدد کے آنے کی ضرورت نہیں کیونکہ خلیفہ کا کام ہی تجدید دین کرنا ہوتا ہے اور خلیفہ وقت ہی اپنے زمانہ کا مجدد ہوتا ہے.لہذا خلیفہ کی موجودگی میں کسی مجدد کی ضرورت نہیں ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد سے ظاہر ہے کہ :.خلیفہ کے معنی جانشین کے ہیں.جو تجدید دین کرے.نبیوں کے زمانے کے بعد جو تاریکی پھیل جاتی ہے.اس کو دور کرنے کے واسطے جو ان کی جگہ آتے ہیں ان کو خلیفہ کہتے ہیں.( ملفوظات جلد چہارم ص ۸۳ پرانا ایڈیشن) پس خلیفہ کے معنی نبی کریم کے اس جانشین کے ہیں.جوضرورت کے وقت تجدید دین کی خاطر آئے اور ان میں صحیح اسلامی روح پیدا کرے اور بدعات کو دور کرے.

Page 159

۱۳۸ اور ایسے سامان پیدا کرے کہ امت مسلمہ کے لئے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں کے زیادہ سے زیادہ وارث بن سکیں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ:.خلیفہ خود مجدد سے بڑا ہوتا ہے اور اس کا کام ہی احکام شریعت کو نافذ کرنا اور دین کو قائم کرنا ہوتا ہے.اس کی موجودگی میں مجدد کیسے آسکتا ہے“.(الفضل ۱۸ اپریل ۱۹۴۷ء ص ۲) حضرت خلیفہ اسیح الثالث اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:.ہر احمدی کو یہ اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد مجددین کی آمد کا سلسلہ بند ہو گیا ہے.اور خدا تعالیٰ نے محض اپنے کرم سے انبیاء کے طریق پر نظام خلافت کو قائم فرمایا ہے.اور خلفاء بلاشبہ مجددین ہیں.اس نظام کو غیر معمولی محبت ، فدائیت اور نا قابل شکست و فاداری کے ساتھ محفوظ رکھنا ہے.اسلام کی برتری کے لئے موجودہ نسلوں کے دلوں میں بھی اس بات کو راسخ کر دینا چاہئے.اخبار بدر قادیان ،۲۳ مارچ ۱۹۷۸ء) اس سلسلہ میں حضرت خلیفہ مسیح الرابع فرماتے ہیں:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.یہ قدرت قیامت تک ہے“.اور خدا نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ قیامت تک یہ قدرت منقطع نہیں ہوگی.پس خلافت اگر قیامت تک قائم ہے تو اس کے ہوتے ہوئے مجددیت کا سوال کیا باقی رہ جاتا ہے....حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے جہاں مجددیت کی پیشگوئی فرمائی وہاں قیامت تک کا کوئی ذکر نہیں فرمایا.لیکن جہاں مسیح موعود کی پیشگوئی فرمائی وہاں یہ

Page 160

۱۳۹ وعدہ فرمایا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ “ جو وعدے ہیں دراصل مسیح موعود علیہ السلام کے آنے تک کی دیر ہے.جب مسیح موعود علیہ السلام آجائیں تو پھر فرمایا کہ ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ پھر خلافت قائم ہوگی اور منہاج نبوت پر قائم ہوگی.اور یہ وہ خلافت ہے جس کا آیت استخلاف میں ذکر ہے.“ (خطبہ جمعہ فرموده ۲۷ را گست ۱۹۹۳ء بحوالہ ماہنامہ خالد ر بوه مئی ۹۴، ص ۲ تا ۴ ) مسئلہ خلافت اور اہل تشیع شیعی فقیہوں نے امامت کے اصول کو اپنے عقیدہ کا ایک بنیادی اصول قرار دیا ہے.انہوں نے نص پر زور دیا ہے اور خلیفہ کے عہدے کو نہ صرف قریش کے خاندان بلکہ صرف حضرت علیؓ کے خاندان تک محدود کر دیا ہے اور یہ عقیدہ اپنایا کہ حضرت علی کو رسول اللہ ﷺ نے براہ راست اپنا جانشین نامزد کیا تھا اور حضرت علی کی صفات کو ان کی اولاد نے وراثتینا پایا اور یہ لوگ ابتدائے آفرینش ہی سے اس اعلیٰ عہدے کے لئے مقرر کئے گئے تھے.رسول اللہ ﷺ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت علی کو کچھ پر اسرار علوم سکھائے تھے جو حضرت علیؓ نے بعد میں اپنے فرزندوں کو بتائے اور اس طرح سے وہ نسلاً بعد نسل ایک دوسرے کو منتقل ہوتے رہے.ابن خلدون نے شیعی نقطہ نظر بیان کیا ہے.وہ لکھتے ہیں:.امامت عوامی مسائل میں سے نہیں کہ اسے امت کے سپر د کر دیا جائے اور امت کانگران خود امت کے مقرر کرنے سے متعین ہوا کرے بلکہ یہ تو دین کا رکن اور اسلام کی بنیاد ہے.کسی نبی کے لئے اس مسئلے سے غفلت کرنا یا امت کو تفویض کرنا جائز نہیں بلکہ نبی کے لئے واجب ہے کہ وہ امامت کا امام خود متعین کر کے جائے.یہ امام کبیرہ و

Page 161

۱۴۰ صغیرہ گناہوں سے پاک ہوتا ہے.حضرت علیؓ کو رسول اللہ ﷺ نے نصوص کے ذریعے متعین کیا تھا“.(بحوالہ اسلامی انسائیکلو پیڈیا از سید قاسم محمود الفیصل ناشران و تاجران کتب اردو بازار لاہور ) نیز فرقہ امامیہ کے نزدیک پہلے تین امام حضرت علی، حضرت حسن اور حضرت حسین با علام الہی آنحضرت کی طرف سے منصوص ہیں یعنی حضور نے ان کے حق میں وصیت فرمائی تھی کہ میرے بعد یہ تینوں یکے بعد دیگرے امام ہوں گے اور امت کی قیادت کا فریضہ سرانجام دیں گے.اس کے بعد ہر امام کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے جانشین کے بارہ میں وصیت کرے کہ میرے بعد اہل بیت یعنی حضرت علی کی فاطمی اولاد میں سے فلاں امام ہوگا.غرض شیعہ امامیہ اثنا عشریہ کے نزدیک امامت اور دینی قیادت نص، وصیت اور وراثت کی بنا پر قائم ہوتی ہے.اس بارہ میں امت مسلمہ کو انتخاب یا شوری کا کوئی حق نہیں.شیعہ اثنا عشریہ کہتے ہیں کہ آنحضرت کو حکم تھا کہ وہ وفات سے قبل اپنی جانشینی کے لئے علی کے بارہ میں وصیت کر جائیں.چنانچہ آپ نے حسب الحکم یہ اعلان فرمایا کہ میرے بعد علی امت مسلمہ کے امام اور قائد ہوں گے اس لئے علی وصی اللہ اور وصی الرسول اور خلیفہ بلا فصل ہیں اور ان کے بعد ان کی فاطمی اولا د بطریق وصیت ونص اس منصب پر فائز ہوتی چلی جائے گی مگر بارہویں امام پر یہ وصیت ختم ہے.شیعہ اثنا عشریہ ائمہ منصوصہ کی مندرجہ ذیل ترتیب مانتے ہیں :.حضرت علی ، امام حسن ، امام حسین، امام زین العابدین، امام محمد باقر ، امام جعفر صادق، امام موسیٰ کاظم، امام علی الرضا، امام محمد الجواد، امام علی الہادی، امام الحسن العسکری اور امام محمد بن الحسن العسکری.

Page 162

۱۴۱ یہ آخری بارہویں امام غائب یا مہدی منتظر تسلیم کئے گئے ہیں.یہ عباسی حکومت کی مشہور چھاؤنی سرَّ مَنْ رأی میں اپنے باپ کے ایک تہ خانہ میں غائب ہوئے اور اب تک غائب ہیں اور آخری زمانہ میں ظاہر ہوں گے اور دنیا میں ظلم و جور کو مٹائیں گے اور اسے عدل وانصاف سے بھر دیں گے.ا.لغت کی رو سے خلافت اور امامت ایک ہی منصب کے دو نام ہیں.جیسا کہ عربی کی معروف لغت المنجد میں زیر لفظ ” خلف“ لکھا ہے:.الْخِلَافَةُ : الْإِمَارَةُ ٢.النِّيَابَةُ عَنِ الْغَيْرِ الْإِمَامَةُ.یعنی خلافت کا مطلب امارت، نیابت اور امامت کے ہیں.اسی طرح مصباح اللغات میں بھی خلافت کے معنی ”امامت کے لکھے ہیں.پس لغت کی رو سے امامت کا لفظ بھی خلافت ہی استعمال ہوا ہے.۲.جہاں تک ان کے اس عقیدہ کی صحت کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں صرف اس قدر لکھنا کافی ہے کہ خود حضرت علی اور ان کے بیٹوں نے خلفاء ثلاثہ کی بیعت کی اور ان کی خلافت کی تصدیق کی اور ہر معاملہ میں ان کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری کی اور ان کا پورا پورا ساتھ دیا.نیز خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت نے خلافت راشدہ کی صحت پر مہر تصدیق ثبت کر دی..رہا مسئلہ خلافت اور امامت کا تو اس سلسلہ میں صرف اتنا عرض ہے کہ قرآن کریم، احادیث رسول نیز لغت سے ثابت ہو چکا ہے کہ ہر نبی اور ہر خلیفہ اپنی ذات میں امام بھی ہوتا ہے.اَئِمَّةً يُهُدُونَ بِأَمْرِ رَبِّنَا میں ائمہ کا لفظ انبیاء کے لئے استعمال ہوا ہے.

Page 163

۱۴۲ پس لغت کی رو سے خلافت کا مطلب امامت ہی ہے جس کی مثالیں ہم اوپر لکھ چکے ہیں.خلافت بلا فصل کے مسئلہ پر بحث آئندہ الگ موضوع کے تحت ہوگی.رہا مسئلہ امام غائب کا تو اس سلسلہ میں عرض ہے کہ شیعہ اور بالخصوص امامیہ واثنا عشریہ فرقہ کی اپنی کتب کے مطابق امام غائب کے ظہور کے متعلق بیان فرمودہ تمام علامتیں ظاہر ہو چکی ہیں.مگر ابھی تک امام غائب غار میں چھپے بیٹھے ہیں.اب تک ان کا ظاہر نہ ہونا اس عقیدہ کے بطلان کی کھلی کھلی دلیل ہے.جو خود خوف اور ڈر سے غار میں چھپا بیٹھا ہے اس نے دنیا سے ظلم کس طرح ختم کرنا ہے اور دنیا کو عدل وانصاف سے کیسے بھرنا ہے؟ پس یہ تمام عقائد اور نظریات مضحکہ خیز ہیں.قرآن واحادیث سے جس خلافت کے قیام کا ذکر ملتا ہے وہ قائم ہو چکی ہے اور اس نے قیامت تک قائم و دائم رہنا ہے.اب قیامت تک کوئی نہیں جو اس خلافت کی موجودگی میں ظاہر ہوگا.خواہ ساری دنیا زور لگالے.گزشتہ صفحات میں ہم متعدد ایسے حوالے پیش کر چکے ہیں جن میں خلافت کے قیام کی ضرورت کا ذکر کیا گیا ہے.اس سلسلہ میں با قاعدہ طور پر تحریکات چلائی گئی ہیں.مگر کوئی تحریک کامیاب نہیں ہو سکی.اس لئے کہ خلیفہ بنانا کسی انسان کا کام نہیں خلیفہ بنانا خدا کا کام ہے.خدا نے جس کو خلیفہ بنانا تھا بنا دیا.اب اسی گلشن میں لوگو راحت و آرام ہے وقت ہے جلد آؤ اے آوارگان دشت خار مسئلہ خلافت بلا فصل حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اسلامی تاریخ سے خلافت کے بارہ میں تین قسم کے نظریات ملتے ہیں:.

Page 164

۱۴۳ (۱) خلافت بمعنی نیابت ہے اور رسول کریم ﷺ کے بعد آپ کا کوئی نائب ہونا چاہئے.مگر اس کا طریق یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت کے فیصلہ کے مطابق یا خلیفہ کے تقرر کے مطابق جسے امت تسلیم کرے وہ شخص خلیفہ مقرر ہوتا ہے اور وہ واجب الاطاعت ہوتا ہے.یہ سنی کہلاتے ہیں.(۲) حکم خدا کا ہے.کسی شخص کو واجب الاطاعت ماننا شرک ہے.کثرت رائے کے مطابق فیصلہ ہونا چاہئے اور مسلمان آزاد ہیں وہ جو کچھ چاہیں اپنے لئے مقرر کریں.یہ خوارج کہلاتے ہیں.(۳) انسان امیر مقرر نہیں کرتے بلکہ امیر مقرر کر نا خدا کا کام ہے اسی نے حضرت علی کو امام مقرر کیا اور آپ کے بعد گیارہ اور امام مقرر کئے.آخری امام اب تک زندہ موجود ہے مگر مخفی.یہ شیعہ کہلاتے ہیں.ان میں سے ایک فریق ایسا نکلا کہ اس نے کہا.دنیا میں ہر وقت زندہ امام کا ہونا ضروری ہے جو ظاہر بھی ہو اور یہ اسماعیلیہ شیعہ کہلاتے ہیں.خلافت کے بارہ میں مذکورہ بالا تیسر انظریہ اہل تشیعہ کا ہے.جب حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ کے درمیان جنگ صفین کا معرکہ ہوا.جس کے نتیجہ میں نظریہ نمبر ۲ نے جنم لیا.یہ خلافت کے بارہ میں پہلا اختلاف تھا جو واقع ہوا.اس موقعہ پر جولوگ حضرت علی کی تائید میں تھے انہوں نے ان امور کا جواب دینا شروع کیا اور جواب میں یہ امر بھی زیر بحث آیا کہ رسول کریم ﷺ کی بعض پیشگوئیاں حضرت علی کے متعلق ہیں.یہ پیشگوئیاں جب تفصیل کے ساتھ بیان ہونی شروع ہوئیں تو ان پر غور کرتے ہوئے بعض غالیوں نے یہ سوچا کہ خلافت پر کیا بحث کرنی ہے.ہم کہتے ہیں حضرت

Page 165

۱۴۴ علی کی خلافت کسی انتخاب پر مبنی نہیں بلکہ صرف ان پیشگوئیوں کی وجہ سے ہے جو رسول کریم ﷺ نے ان کے متعلق کی تھیں.اس لئے آپ رسول کریم ﷺ کے مقرر کردہ خلیفہ بلا فصل ہیں.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے میرے متعلق جب مصلح موعود کے موضوع پر بحث کی جائے تو کوئی شخص کہ دے کہ ان کو تو ہم اس لئے خلیفہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں ہیں نہ اس لئے کہ ان کی خلافت جماعت کی اکثریت کے انتخاب سے عمل میں آئی.جس دن کوئی شخص ایسا خیال کرے گا اسی دن اس کا قدم ہلاکت کی طرف اٹھنا شروع ہو جائے گا کیونکہ اس طرح آہستہ آہستہ صرف ایک شخص کی امامت کا خیال دلوں میں راسخ ہو جاتا ہے اور نظام خلافت کی اہمیت کا احساس ان کے دلوں سے جاتا رہتا ہے.غرض حضرت علی کے متعلق بعض غالیوں نے رسول کریم ﷺ کی پیشگوئیوں سے یہ نتیجہ نکالا کہ آپ کی خلافت صرف ان پیشگوئیوں کی وجہ سے ہے جو آپ نے ان کے متعلق کیس کسی انتخاب پر مبنی نہیں ہے.پھر رفتہ رفتہ وہ اس طرف مائل ہو گئے کہ حضرت علی در حقیقت امام بمعنی مامور تھے اور یہ که خلافت ان معنوں میں کوئی شے نہیں جو مسلمان اس وقت تک سمجھتے رہے ہیں بلکہ ضرورت پر خدا تعالیٰ کے خاص حکم سے امام مقرر ہوتا ہے اور وہ لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کا موجب ہوتا ہے.“ ( خلافت راشدہ.انوار العلوم جلد ۵ ص ۴۸۹،۴۸۸) ہے.“ تر دید مسئلہ خلافت بلا فصل حضرت علی کی خلافت بلا فصل کا نظریہ ایک ایسا نظریہ ہے جس کی قرآن وحدیث نیز عقل و نقل میں کوئی بھی بنیاد نہیں.یہ محض ایک من گھڑت مسئلہ ہے.گزشتہ صفحات میں ہم یہ ثابت کر آئے ہیں کہ خلیفہ خدا بناتا ہے.لہذا اس حقیقت کی

Page 166

۱۴۵ موجودگی میں کوئی شخص خدا کی مرضی و پروگرام کے خلاف اپنی چالا کی ، ہوشیاری یا طاقت کے بل بوتے پر خلیفہ راشد نہیں بن سکتا تھا.۲.حضرت ابوبکر صدیق کے فضائل ایسے تھے کہ آنحضرت کی وفات کے بعد ان کے علاوہ کوئی اور خلیفہ بننے کا اہل ہی نہیں ہو سکتا.ا.آپ بلا دلیل و بلاتر در آنحضرت پر ایمان لائے.۲.آپ کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے اور آپ کو یار غار اور ثانی اثنین ہونے کا اعزاز حاصل ہے.آنحضرت نے اپنی زندگی میں آپ کو مسجد نبوی کا امام مقرر کیا اور خود بھی آپ کی امامت میں نماز ادا کی.۴.مسجد نبوی میں سوائے حضرت ابوبکر صدیق کے باقی تمام کھڑکیاں بند کروادی گئیں.۵.آنحضرت کی وفات کے بعد تمام انصار و مہاجرین نے آپ کو متفقہ طور پر خلیفہ منتخب کر لیا.نیز خدا کی فعلی شہادت نے آپ کی خلافت پر مبر تصدیق ثبت کر دی..آنحضرت کی یہ حدیث کہ میں نے ارادہ کیا تھا کہ اپنی وفات کے بعد حضرت ابو بکر صدیق کے خلافت کے حق میں وصیت لکھ جاؤں لیکن مجھے اس یقین نے ایسا کرنے سے روک دیا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے علاوہ کسی دوسرے کو خلافت پر اکٹھے نہیں ہونے دے گا.(صحیح مسلم بحواله مشكوة باب مناقب ابوبكر و سيرة الحلبيه جلد ۳ ص ۳۷۱)

Page 167

۱۴۶ پس ان تمام دلائل سے ثابت ہے کہ حضرت علی کی خلافت بلافصل کا نظر یہ درست نہیں بلکہ حضرت ابوبکر کی خلافت برحق تھی.خلافت سے معزولی ایک سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ اگر کوئی خلیفہ کسی بیماری یا عارضہ یا بعض غیر معمولی حالات کی وجہ سے اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کے قابل نہ رہے تو کیا اس صورت میں خلیفہ وقت کو معزول کر کے کسی نئے خلیفہ کا انتخاب یا تقر ر ہوسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جب قرآن کریم، احادیث صحیحہ، اقوام خلفاء راشده و صلحاء امت اور خدا کی فعلی شہادت سے یہ ثابت ہوگیا کہ خلیفہ خدا بناتا ہے تو پھر کسی دوسرے کو کوئی حق نہیں کہ وہ کسی خلیفہ راشد کو کسی بھی وجہ سے معزول کر دے.خلیفہ نبی کا جانشین اور قائمقام ہوتا ہے.جب نبی معزول نہیں ہوسکتا تو اس کا قائمقام اور جانشین کیسے معزول ہوسکتا ہے؟ کیونکہ یہ ایک روحانی منصب ہے جو تا قیامت قائم رہتا ہے.آنحضرت کی ایک حدیث جس میں آپ نے حضرت عثمان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ:.اِنَّ اللهَ يَقَمِّصُكَ قَمِيصًا فَإِنْ اَرَادَكَ الْمُنَافِقُونَ عَلَى خِلْعِهِ فَلَا تَخْلَعُهُ أَبَدًا.(مسند احمد بن حنبل حدیث ۲۳۴۲۷) (تاریخ طبری.حصه سوم ص ۴۸۲ از ابی جعفر محمد بن جریر الطبری) یعنی اے عثمان ! یقیناً تجھے اللہ تعالیٰ ایک قمیص پہنائے گا اگر منافق اس قمیص کو اتارنے کی کوشش کریں تو ہرگز ہرگز نہ اتارنا.

Page 168

پس اس حدیث سے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ خلیفہ معزول نہیں کیا جاسکتا.یہ عہد روحانی ہے، جس سے کسی کو بنانے کا کسی کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے.اس سلسلہ میں حضرت خلیفہ اسیح الاول فر ماتے ہیں:.خدا نے جس کام پر مجھے مقرر کیا ہے میں بڑے زور سے خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اب میں اس گرتے کو ہر گز نہیں اتار سکتا.اگر سارا جہان بھی اور تم بھی میرے مخالف ہو جاؤ تو میں تمہاری بالکل پرواہ نہیں کرتا اور نہ کروں گا.خدا کے مامور کا وعدہ ہے اور اس کا مشاہدہ ہے کہ وہ اس جماعت کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا.اس کے عجائبات قدرت بہت عجیب ہیں اور اس کی نظر بہت وسیع ہے.تم معاہدہ کا حق پورا کرو پھر دیکھو کس قدر ترقی کرتے ہو اور کیسے کامیاب ہوتے ہو.“ (خطبات نورص ۴۱۹) مزید فرماتے ہیں:.پس جب میں مرجاؤں گا تو پھر وہی کھڑا ہوگا جس کو خدا چاہے گا.خدا اس کو آپ کھڑا کر دے گا.تم نے میرے ہاتھوں پر اقرار کئے ہیں تم خلافت کا نام نہ لو مجھے خدا نے خلیفہ بنا دیا ہے اور اب نہ تمہارے کہنے سے معزول ہو سکتا ہوں اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ معزول کرے.اگر تم زیادہ زور و دو گے تو یاد رکھو میرے پاس ایسے خالد بن ولید ہیں جو تمہیں مرتدوں کی طرح سزاد دیں گے“.(بدرہ جولائی ۱۹۱۲ء) حضرت خلیفہ اسیح الثانی اس مسئلہ کے بارہ میں فرماتے ہیں:.خلیفہ خدا ہی بناتا ہے اور اس کی طاقت ہے کہ معزول کرے.کسی انسان میں نہ خلیفہ بنانے کی طاقت ہے نہ معزول کرنے کی“.(آئینہ صداقت.انوار العلوم جلد ۶ ص ۱۶۸) اسی طرح فرمایا:.

Page 169

۱۴۸ اس کا جواب یہ ہے کہ گو خلیفہ کا تقر را نتخاب کے ذریعہ سے ہوتا ہے لیکن آیت کی نص صریح اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ امت کو اپنے فیصلہ کا اس امر میں ذریعہ بناتا ہے اور اس کے دماغ کو خاص طور پر روشنی بخشتا ہے لیکن مقر راصل میں اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ کہ وہ خودان کو خلیفہ بنائے گا.پس گو خلفاء کا انتخاب مومنوں کے ذریعہ سے ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا الہام لوگوں کے دلوں کو اصل حقدار کی طرف متوجہ کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ ایسے خلفاء میں میں فلاں فلاں خاصیتیں پیدا کر دیتا ہوں اور یہ خلفاء ایک انعام الہی ہوتے ہیں.پس اس صورت میں اس اعتراض کی تفصیل یہ ہوئی کہ کیا امت کو حق نہیں کہ وہ اس شخص کو جو کامل موحد ہے جس کے دین کو اللہ تعالیٰ نے قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لئے خدا نے تمام خطرات کو دور کرنے کا وعدہ کیا ہے اور جس کے ذریعہ سے وہ شرک کو مٹانا چاہتا ہے اور جس کے ذریعہ سے وہ اسلام کو محفوظ کرنا چاہتا ہے معزول کر دے.ظاہر ہے کہ ایسے شخص کو امت اسلامیہ معزول نہیں کر سکتی.ایسے شخص کو تو شیطان کے چیلے ہی معزول کریں گے.دوسرا جواب یہ ہے کہ اس جگہ وعدہ کا لفظ ہے اور وعدہ احسان پر دلالت کرتا ہے.پس اس اعتراض کے معنی یہ ہوں گے کہ چونکہ انعام کا انتخاب اللہ تعالیٰ نے امت کے ہاتھ میں رکھا ہے اسے کیوں حق نہیں کہ وہ اس انعام کو رد کر دے.ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ یہ استنباط بدترین استنباط ہے.جو انعام منہ مانگے ملے اس کا رد کرنا تو انسان کو اور بھی مجرم بنا دیتا ہے اور اس پر شدید حجت قائم کر دیتا ہے.اللہ تعالیٰ تو فرمائے گا کہ اے لوگو! میں نے تمہاری مرضی پر چھوڑا اور کہا کہ میرے انعام کو کس صورت میں لینا چاہتے ہو؟ تم نے کہا ہم اس انعام کو فلاں شخص کی صورت میں لینا چاہتے ہیں اور میں

Page 170

۱۴۹ نے اپنے فضل اس شخص کے ساتھ وابستہ کر دئیے.جب میں نے تمہاری بات مان لی تو اب تم کہتے ہو کہ ہم اس انعام پر راضی نہیں.اب اس نعمت کے اوپر میں اس کے سوا اور کیا کہہ سکتا ہوں کہ لَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِینی کی طرف اشارہ کرنے کے فرمایا کہ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ یعنی انتخاب کے وقت تو ہم نے امت کو اختیار دیا ہے مگر چونکہ اس انتخاب میں ہم امت کی راہبری کرتے ہیں اور چونکہ ہم اس شخص کو اپنا بنا لیتے ہیں اس کے بعد امت کا اختیار نہیں ہوتا اور جو شخص پھر بھی اختیار چلانا چاہے تو یا درکھے وہ خلیفہ کا مقابلہ نہیں کرتا بلکہ ہمارے انعام کی بے قدری کرتا ہے.پس وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ اگر انتخاب کے وقت وہ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ میں شامل تھا تو اب اس اقدام کی وجہ سے ہماری درگاہ میں اس کا نام وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ کی فہرست سے کاٹ کر فاسقوں کی فہرست میں لکھا جائے گا.(خلافت را شد ه ص ۵۷۳٬۵۷۲، انوار العلوم جلد ۱۵- از فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ) ایک دوسرے موقع پرحضرت خلیفہ امسح الثانی فرماتے ہیں:.اب کون ہے جو مجھے خلافت سے معزول کر سکے.خدا نے مجھے خلیفہ بنایا ہے اور خدا تعالیٰ اپنے انتخاب میں غلطی نہیں کرتا ہے.اگر سب دنیا مجھے مان لے تو میری خلاف بڑی نہیں ہوسکتی اور اگر سب کے سب خدانخواستہ مجھے ترک کر دیں تو بھی خلافت میں فرق نہیں آسکتا.جیسے نبی اکیلا بھی نبی ہوتا ہے اس طرح خلیفہ اکیلا بھی خلیفہ ہوتا ہے.پس مبارک ہے وہ جو خدا کے فیصلہ کو قبول کرے.خدا تعالیٰ نے جو بو جھ مجھ پر رکھا ہے وہ بہت بڑا ہے اور اگر اسی کی مدد میرے شامل حال نہ ہو تو میں کچھ بھی نہیں کر سکتا لیکن مجھے اس پاک ذات پر یقین ہے کہ وہ ضرور میری مدد کرے گا“.(افضل ۱۴ مارچ ۱۹۳۱ء)

Page 171

۱۵۰ حضرت خلیفہ امسح الثالث خلیفہ کی معزولی کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ :.اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ ان تمام جہانوں کا اصل اور حقیقی مالک تو خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے جس نے انہیں پیدا کیا اور جس کے قبضہ اقتدار سے وہ باہر نہیں لیکن اس کی ملکیت کو اس نے ایک طور پر اور نیابت کے رنگ میں آگے بحیثیت مجموعی انسان کے سپرد کیا ہے.پس اسلامی لحاظ سے ملکیت دو قسم کی ہے.اصلی اور حقیقی ملکیت تو خدا تعالیٰ کی ہے مگر ظلی ملکیت اور تنفیذی حکومت بطور نائب کے بنی نوع انسان کی ہے.پس چونکہ ملکیتیں دو قسم کی ہیں حقیقی اور ظلی.اس لئے آگے نائب بنانے کے بھی دوہی طریق ہو سکتے ہیں.ایک مالک کا بنایا ہوا نا ئب ہوگا یعنی نبی اللہ اور ایک وہ نائب ہوگا جسے نوع انسان نے اپنا نائب بنایا ہو یعنی حاکم وقت.لیکن اسلام نے نیابت کی ایک تیسری صورت بھی پیش کی ہے اور وہ دونوں قسم کے مالکوں کی مشتر کہ نیابت پر دلالت کرتی ہے اور اسی کو اسلامی اصطلاح میں خلیفہ کہتے ہیں.ایک جہت سے وہ مالک حقیقی کا بنایا ہوا نا ئب ہوتا ہے اور ایک جہت سے وہ ظلی مالکوں یعنی بندوں کا تسلیم کردہ حاکم ہوتا ہے.پس خلافت کے متعلق اسلامی نظریہ یہ ہے کہ خلیفہ بناتا تو خدا ہی ہے لیکن اس انتخاب اور تعین میں وہ امت مسلمہ کو بھی اپنے ساتھ شریک کرتا ہے.یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ انتخاب بالواسطہ ہوتا ہے اور یہ واسطہ وہ امت مسلمہ ہے جو مضبوطی کے ساتھ اپنے ایمانوں پر قائم اور اپنے ایمان کے مطابق اعمال صالحہ بجالانے والی ہو.یعنی امت مسلمہ کے دلوں پر تصرف کر کے اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق خلیفہ کا انتخاب کرواتا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ جب خلیفہ کا انتخاب امت مسلمہ کی رائے اور اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشاء کے مطابق ہو چکے تو پھر امت مسلمہ کو یہ حق نہیں رہتا کہ وہ اس خلیفہ کو

Page 172

۱۵۱ اپنی مرضی سے معزول کر سکے.اس لئے کہ یہ ایک مذہبی انتخاب تھا جو اللہ تعالیٰ کی خاص نگرانی کے ماتحت کیا گیا اور اس انتخاب میں الہی تصرف کا ہاتھ تھا اور جسے خدا تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہو اسے کوئی انسان معزول نہیں کرسکتا.پس اللہ تعالیٰ نے خلفائے راشدین کے عزل کو خود اپنے ہاتھ میں رکھا.جب بھی وہ دیکھے خلیفہ بدلنے کی ضرورت ہے وہ خود اسے وفات دے دے گا اور اپنی مرضی اور تصرف کے مطابق امت مسلمہ کے ذریعہ نئے خلیفہ کا انتخاب کروا دے گا.پس روحانی خلفاء بندوں کے ہاتھوں معزول نہیں ہو سکتے اور جو ایسا سمجھے اس کے اندر نفاق اور بے حیائی کا مادہ ایک خلیفہ کی زندگی میں نئی خلافت کے متعلق سازشیں کرنا یا منصوبے باندھنا یا باتیں پھیلانا یا اس ضمن میں کسی شخص کا نام لینا خواہ وہ شخص پسندیدہ ہو یا غیر پسندیدہ اسلامی تعلیم کے حد درجہ خلاف اور انتہائی بے شرمی اور بے حیائی کی بات ہے اور پاکباز مومن اس قسم کی منافقانہ اور خبیث نہ باتوں سے ہمیشہ پر ہیز کرتے ہیں.سچ تو یہ ہے کہ اس قسم کا وہم اور خیال بھی اس کے ذہن میں نہیں آتا اور اگر کسی منافق طبع کو اس قسم کی بات کرتے سنتے ہیں تو سختی سے ایسے شخص کی باز پرس کرتے ہیں.(بحوالہ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ اپریل ۱۹۶۴ ء ص ۲۷، ۲۹) خلافت سے دستبرداری جب قرآن کریم سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ خلیفہ نبی کا قائمقام اور جانشین ہوتا ہے اور نیز یہ کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور خلیفہ کا مشن بالکل وہی ہوتا ہے جو انبیاء کا ہوتا ہے.اگر انبیاء ہر حال میں تاحیات اپنے منصب پر قائم اور فائز رہتے ہیں تو پھر یہ کیسے

Page 173

۱۵۲ ممکن ہے کہ خلیفہ جو نبی کا حقیقی جانشین اور قائمقام ہوتا ہے وہ خلافت سے دستبرداری اختیار کرلے.ایک حدیث بھی خلافت سے دستبردار نہ ہو سکنے کی تائید کرتی ہے.حضرت عثمان کی خلافت کے متعلق مسند احمد بن حنبل میں آنحضرت کا حضرت عثمان کے لئے یہ واضح ارشاد درج ہے کہ :.إِنَّ اللَّهَ يَقَصُكَ قَمِيصًا فَإِنْ اَرَادَكَ الْمُنَافِقُونَ عَلَى خِلْعِهِ فَلَا تَخْلَعُهُ أَبَدًا.(مسند احمد بن حنبل جلدص۲۳۴۲۷) یعنی اے عثمان ! یقینا اللہ تعالیٰ تجھے ایک قمیص پہنائے گا.اگر منافق اس قمیص کو اتارنے کی کوشش کریں تو ہر گز ہرگز نہ اتارنا.پس یہی وجہ تھی کہ حضرت عثمان غنی نے شہادت تو قبول کر لی مگر منصب خلافت سے دستبرداری اختیار نہ کی.جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ خلافت سے دستبرداری جائز نہیں.حضرت امام حسن کی خلافت سے دستبرداری کا جواز اب یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر خلافت سے دستبرداری جائز نہیں تو پھر حضرت امام حسن جن کو حضرت علی کرم اللہ وجہ کی شہادت کے بعد باقاعدہ طور پر خلیفہ کرلیا گیا تھا انہوں نے حضرت امیر معاویہ کے حق میں کیوں دستبرداری اختیا رکی؟ ا.خلافت راشدہ اولیٰ کے بارہ میں آنحضرت ﷺ کی یہ پیشگوئی تھی کہ خلافت راشدہ ۳۰ سال تک قائم رہے گی.اور اس کے بعد بادشاہت قائم ہو جائے گی.(ترمذی وابوداؤد بحواله مشكوة كتاب الفتن فعل ثاني عن سفينة)

Page 174

۱۵۳ لہذا اس پیشگوئی کے مطابق ضروری تھا کہ خلافت راشدہ جس کا دور حضرت علی کی شہادت کے وقت تقریبا تمیں سال بنتا ہے، اپنے اختتام کو پہنچ جاتی.ا.ایک دوسری روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت حسن کے بارہ میں یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ میرے اس نواسے کے ذریعے خدا دو مسلمان گروہوں میں صلح کروائے گا.(بخاری بحواله مشکواۃ باب مناقب اہل بیت و فتح الباری شرح حدیث مذکور) پس آنحضرت ﷺ کی اس پیشگوئی کے مطابق بھی ضروری تھا کہ حضرت امام حسن امت محمدیہ میں پیدا ہونے والے انشقاق و افتراق کو ختم کرنے کے لئے خلافت سے دستبرداری اختیار کرتے.لہذا حضرت امام حسنؓ کے اس فعل کو مقام مدح میں سمجھا گیا ہے.چنانچہ حضرت حسن کے اس فعل کے بارہ میں اس زمانہ کے حکم وعدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فیصلہ یہ ہے کہ :.حضرت حسنؓ نے میری دانست میں بہت اچھا کام کیا کہ خلافت سے الگ ہو گئے.پہلے ہی ہزاروں خون ہو چکے تھے.انہوں نے پسند نہ کیا کہ اور خون ہوں.اس لئے معاویہ سے گزارہ لے لیا...حضرت امام حسنؓ نے پسند نہ کیا کہ مسلمانوں میں خانہ جنگی بڑھے اور خون ہوں.انہوں نے امن پسندی کو مدنظر رکھا اور حضرت امام حسین نے پسند نہ کیا کہ فاسق و فاجر کے ہاتھ پر بیعت کروں کیونکہ اس سے دین میں خرابی ہوتی ہے.دونوں کی نیت نیک تھی.إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَاتِ“.( ملفوظات جلد چہارم نیا ایڈیشن ص ۵۷۹ ،۵۸۰) اس مسئلہ پر جماعت کے مستند عالم، سلطان القلم اور حضرت مسیح موعوڈ کے

Page 175

۱۵۴ صاحبزادے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے بھی سیرۃ خاتم النبین میں روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.یہ سوال کہ کوئی خلیفہ یا امیر با قاعدہ طور پر منتخب یا مقرر ہونے کے بعد خود بعد میں کسی مصلحت کی بناء پر خلافت سے دستبردار ہوسکتا ہے یا نہیں؟ ایک ایسا سوال ہے جس کے متعلق اسلامی شریعت میں کوئی نص نہیں پائی جاتی مگر ظاہر ہے کہ اس معاملہ میں دنیوی امراء کے متعلق تو کوئی امر مانع نہیں سمجھا جاسکتا.البتہ دینی خلفاء کا سوال قابل غور ہے.تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ جب حضرت عثمان خلیفہ ثالث سے ان کے زمانہ کے باغیوں نے یہ درخواست کی کہ آپ خود بخو دخلافت سے دستبردار ہو جائیں ور نہ ہم آپ کو جبراً الگ کر دیں گے تو اس پر حضرت عثمان نے یہ جواب دیا کہ جو عزت کی قمیص خدا نے مجھے پہنائی ہے میں اسے خود اپنی مرضی سے کبھی نہیں اتاروں گا (طبری و تاریخ کامل ابن اثیر حالات قتل حضرت عثمان نیز زرین عن عبد اللہ بن سلام بحوالہ تلخیص الصحاح باب فی ذکر الخلفاء الراشدین).جس میں آنحضرت میہ کے اس ارشاد کی طرف اشارہ تھا جو آپ نے حضرت عثمان سے فرمایا تھا کہ خدا تمہیں ایک قمیص پہنائے گا اور لوگ اسے اتارنا چاہیں گے مگر تم اسے نہ اتارنا ( ترندی بحوالہ مشکوۃ باب مناقب عثمان ).لیکن اس کے مقابلہ میں حضرت امام حسن کا یہ فعل ہے کہ انہوں نے امت محمدیہ کے اختلاف کو دیکھتے ہوئے امیر معاویہ کے حق میں خلافت سے دستبرداری اختیار کر لی ( بخاری عن حسن بصری کتاب الصلح نیز طبری و تاریخ کامل ابن اثیر حالات ۴۱ ہجری).اور روایت آتی ہے کہ اس سے آنحضرت کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ میرے اس نواسے کے ذریعہ خدا دو مسلمان گروہوں میں صلح کروائے گا ( بخاری بحوالہ مشکوۃ باب مناقب اہل بیت و فتح الباری شرح حدیث مذکور ).گویا امام حسن کے اس فعل کو مقام مدح میں سمجھا گیا ہے کہ ان کی

Page 176

۱۵۵ اس دستبرداری کے نتیجہ میں آنحضرت ﷺ کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جس میں آپ نے امام حسنؓ کی ایک امتیازی خوبی بیان کی تھی.اور امت محمدیہ پھر ایک نقطہ پر جمع ہو گئی.ان دو مثالوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ دستبرداری کا سوال حالات پر چھوڑا گیا ہے یعنی یہ کہ اگر خلافت کا استحکام ہو چکا ہو جیسا کہ حضرت عثمان کے معاملہ میں ہو چکا یا یہ که اگر دستبرداری کے متعلق لوگوں کی طرف سے خواہش یا مطالبہ ہو تو وہ ناپسندیدہ بلکہ ناجائز ہے.لیکن اگر قبل استحکام خلافت جیسا کہ امام حسنؓ کے معاملہ میں پایا جاتا ہے کسی اعلیٰ غرض کے حصول کے لئے خلیفہ اپنی خوشی سے اپنی خلافت سے دستبردار ہو جانا مناسب خیال کرے تو اس کے لئے کوئی امر مانع نہیں ہے.اس جگہ یہ ذکر ضروری ہے کہ یہ خیال جو ہم نے یہاں ظاہر کیا ہے یہ اسلام کا کوئی فیصلہ یا عقیدہ نہیں ہے بلکہ محض ایک رائے ہے جو واقعات سے نتیجہ نکال کر قائم کی گئی ہے.واللہ اعلم (سلسلہ احمدیہ ص ۶۳۸، ۶۳۹- از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے) خلافت اور شوریٰ قرآن کریم نے مثالی اسلامی معاشرہ کا تصور پیش کرتے ہوئے جو مختلف راہنما اصول بیان فرمائے ہیں ان میں سے ایک باہمی مشورہ کا اصول بھی ہے.جیسا کہ فرمایا:.وَآمُرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ.(شوری: ۳۹) اسی طرح قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ آنحضرت کو مخاطب کر کے فرماتا ہے:.وَشَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلُ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ (آل عمران: ١٦٠)

Page 177

۱۵۶ اور ہر اہم معاملہ میں ان سے مشورہ کرو.پس جب تو (کوئی) فیصلہ کرلے تو پھر اللہ تعالیٰ پر توکل کر.یقینا اللہ تعالیٰ تو کل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.اسی طرح حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ:.لَا خِلَافَةَ إِلَّا عَنْ مَشْوَرَةٍ.(کنز العمال كتاب الخلافت جلد ۵ ص ۶۴۸ حدیث نمبر ۱۴۱۳۶) یعنی خلافت کا انعقاد مشورہ اور رائے کے بغیر درست نہیں.نیز شورکی خلافت کا ایک اہم ستون ہے.اسی طرح حضرت میمون بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر کا یہ طریق تھا کہ وہ مختلف معاملات میں حکم جاری کرنے سے پہلے دیکھتے تھے کہ کتاب اللہ میں اس بارہ میں کیا حکم ہے.اگر اس میں نہ ملتا تو پھر سنت رسول اللہ میں تلاش کرتے اور اگر اس میں نہ ملتا تو رؤسا کو جمع کرتے اور ان سے مشورہ کرتے.جب وہ کسی معاملہ پر اتفاق کرتے تو اس کے مطابق حکم دیتے تھے.حضرت عمر کا بھی یہی طریق تھا.اور کتاب و سنت کے بعد وہ یہ بھی دیکھتے تھے کہ حضرت ابو بکر کا اس بارہ میں کیا خیال تھا.اس کے بعد علماء سے مشورہ کرتے تھے.(اعلام الموقعین جلد ۱ ص ۶۲ باب الوعيد على القول بالرای ابن قیم جوزی) اس مشورہ کے امر کو نظام خلافت میں ایسے رنگ میں قائم کرنا جو صحیح اسلامی اقدار کے عین مطابق ہو اور افراط و تفریط سے پاک ہو نظام خلافت کے اولین مقصد میں سے ہے.چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود اور اہم امور میں صائب الرائے احباب سے مشورہ لینے کی سنت پر ہمیشہ کار بند رہے اور وقتا فوقتا عند الضرورت کبھی انفرادی طور پر اور کبھی اجتماعی طور پر احباب جماعت سے مشورہ لینے کا انتظام فرمایا.اسی طرح

Page 178

۱۵۷ ضرت خلیفہ مسیح الاول بھی حسب ضرورت اہم معاملات میں احباب جماعت سے مشورہ کرتے رہے.تاہم مشاورت کا با قاعدہ نظام 1922ء میں خلافت ثانیہ کے دور میں قائم ہوا.جس کے بعد ہر سال با قاعدگی سے اہم جماعتی معاملات وامور سے متعلق خلیفہ وقت جماعتی نمائندگان سے مشاورت کرتے رہے ہیں.مجلس شوری کی ضرورت بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا:.”سب سے پہلے میں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ یہ مجلس جس کو پرانے نام کی وجہ سے کارکن کانفرنس کے نام یاد کرتے رہے ہیں قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا شیوہ یہ ہے کہ وَاَمْرُهُمْ شُوری بَيْنَهُمُ اپنے معاملات میں مشورہ لے لیا کریں.مشورہ بہت مفید اور ضروری چیز ہے اور بغیر اس کے کوئی کام مکمل نہیں ہوسکتا.اس مجلس کی غرض کے متعلق مختصر الفاظ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایسی اغراض جن کی جماعت کے قیام اور ترقی سے گہرا تعلق ہے ان کے متعلق جماعت کے لوگوں کو جمع کر کے مشورہ لے لیا جائے تاکہ کام میں آسانی پیدا ہو جائے.یا ان احباب کو ان ضروریات کا پتہ لگے جو جماعت سے لگی ہوئی ہیں تو یہ مجلس شوری ہے.(رپورٹ مجلس شوری ۱۹۲۲ء ص ۴) پس قرآن کریم ، احادیث رسول ، اسوہ خلفاء راشدین نیز اسوہ حضرت مسیح موعود و خلفاء سلسلہ اہم معاملات میں مشاورت ضروری ہے اور اس کے جماعتی زندگی کے لئے اچھے نتائج سامنے آتے ہیں.پس کسی بھی خلیفہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہرا ہم امر میں عمائدین جماعت سے مشورہ کرے.اگر آنحضرت کو اللہ تعالیٰ مومنوں سے مشورہ کرنے کا حکم دیتا ہے تو خلیفہ وقت تو بدرجہ اولیٰ مشورہ کرنے کے پابند ہیں.

Page 179

۱۵۸ مگر یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ قرآن کریم میں جہاں آنحضرت کو مومنوں کے ساتھ مشورہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہاں یہ حکم بھی ہے کہ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللہ پس جب تو مشورہ کے نتیجہ میں کسی فیصلہ پر پہنچ کرکسی کام کرنے کا پختہ عزم اور ارادہ کرے تو پھر اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اس کام کو کر گزرنا چاہئے.لہذا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خلیفہ وقت کے لئے مشورہ کرنا تو ضروری ہے مگر جماعت مومنین کے مشورہ پر عملدرآمد کرنے کا وہ پابند نہیں ہے.اگر خلیفہ وقت اپنی خداداد فراست اور الہی راہنمائی کے نتیجہ میں مومنوں کے مشورہ کو مفید نہیں سمجھتا تو اسے مومنوں کے مشورہ کو رد کرنے کا اختیار اور حق حاصل ہے.خلیفہ کے لئے مشورہ پر عمل کرنا ضروری نہیں ایک سوال:.بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر مشورہ لے کر اس پر عمل کرنا ضروری نہیں تو اس مشورہ کا کیا فائدہ؟ جواب :.اس کا جواب یہ ہے کہ مشورہ لغو نہیں بلکہ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص ایک بات سوچتا ہے دوسرے کو اس سے بہتر سوجھ جاتی ہے پس مشورہ سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ مختلف لوگوں کے خیالات سن کر بہتر رائے قائم کرنے کا انسان کو موقع ملتا ہے جب ایک آدمی چند آدمیوں سے رائے پوچھتا ہے تو بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی ایسی تدبیر بتا دیتا ہے جو اسے نہیں معلوم تھی.جیسا کہ عام طور پر لوگ اپنے دوستوں سے مشورہ کرتے ہیں کیا پھر اسے ضرور مان بھی لیا کرتے ہیں پھر اگر مانتے نہیں تو کیوں پوچھتے ہیں؟ اس لئے کہ شاید کوئی بہتر بات معلوم ہو پس مشورہ سے یہ غرض نہیں ہوتی کہ اس پر ضرور کار بند ہوں بلکہ یہ غرض ہوتی ہے کہ ممکن ہے

Page 180

۱۵۹ بہت سے لوگوں کے خیالات سن کر کوئی اور مفید بات معلوم ہو سکے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ میں مشورہ لینے والا مخاطب ہے اگر فیصلہ مجلس شوری کا ہوتا تو یوں حکم ہوتا کہ فَإِذَا عَزَمُتُمْ فَتَوَكَّلُوا عَلَى اللَّهِ اگر تم سب لوگ ایک بات پر قائم ہو جاؤ تو اللہ پر توکل کر کے کام شروع کر دو.مگر یہاں صرف اس مشورہ کرنے والے کو کہا کہ تو جس بات پر قائم ہو جائے اسے فَتَوَكَّلًا عَلَى اللَّهِ شروع کر دے.دوسرے یہاں کسی کثرت رائے کا ذکر ہی نہیں بلکہ یہ کہا ہے کہ لوگوں سے مشورہ لے یہ نہیں کہا کہ ان کی کثرت دیکھ اور جس پر کثرت ہو اس کی مان لے یہ تو لوگ اپنی طرف سے ملا لیتے ہیں.قرآن کریم میں کہیں نہیں کہ پھر ووٹ لئے جائیں اور جس طرف کثرت ہو اس رائے کے مطابق عمل کرے بلکہ یوں فرمایا ہے کہ لوگوں سے پوچھ مختلف مشوروں کو سن کر جس بات کا تو قصد کرے(عَزَمت کے معنی ہیں جس بات کا تو پختہ ارادہ کرے ) اس پر عمل کر اور کسی سے نہ ڈر بلکہ خدا تعالیٰ پر توکل کر.شَاوِرُهُمْ کے لفظ پر غور کرو.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشورہ لینے والا ایک ہے دو بھی نہیں اور جن سے مشورہ لینا ہے وہ بہر حال تین یا تین سے زیادہ ہوں.پھر وہ اس مشورہ پر غور کرے پھر حکم ہے فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ جس بات پر عزم کرے اس کو پورا کرے اور کسی کی پرواہ نہ کرے.حضرت ابوبکر کے زمانہ میں اس عزم کی خوب نظیر ملتی ہے.جب لوگ مرتد ہونے لگے تو مشورہ دیا گیا کہ آپ اس لشکر کو روک لیں جو اسامہ کے زیر کمانڈ جانے والا تھا مگر انہوں نے جواب دیا کہ جو لشکر آنحضرت ﷺ نے بھیجا ہے میں اسے واپس نہیں کر سکتا.ابو قحافہ کے بیٹے کی طاقت نہیں کہ ایسا کر سکے.پھر بعض کو رکھ بھی لیا چنانچہ حضرت عمر بھی اسی لشکر میں جارہے تھے ان کو روک لیا گیا.

Page 181

17.پھر ز کوۃ کے متعلق کہا گیا کہ مرتد ہونے سے بچانے کے لئے ان کو معاف کر دو.انہوں نے جواب دیا کہ اگر یہ رسول اللہ ﷺ کو اونٹ باندھنے کی ایک رسی بھی دیتے تھے تو وہ بھی لوں گا.اور اگر تم سب مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ اور مرتدین کے ساتھ جنگل کے درندے بھی مل جائیں تو میں اکیلا ان سب کے ساتھ جنگ کروں گا.یہ عزم کا نمونہ ہے پھر کیا ہوا تم جانتے ہو؟ خدا تعالیٰ نے فتوحات کا ایک دروازہ کھول دیا.یادرکھو جب خدا سے انسان ڈرتا ہے تو پھر مخلوق کا رعب اس کے دل پر اثر نہیں کر سکتا“.منصب خلافت ص ۱۵۸،۵۷انوار العلوم جلد۲)

Page 182

۱۶۱ خلافت راشدہ اولیٰ جیسا کہ قبل از میں باب اول میں نظام خلافت کے اغراض و مقاصد کے تحت بیان کیا جا چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ابتدائے آفرینش سے یہ سنت ہے کہ انبیاء کے ذریعہ رشد و ہدایت کے سلسلہ کو جاری فرماتا ہے اور جب تک چاہتا ہے ان کے بابرکت وجودوں سے کام لیتا ہے پھر بشریت کے تقاضا کے ماتحت جب ان کی وفات ہو جاتی ہے تو رشد و ہدایت کے سلسلہ کو ممتد کرنے کے لئے وہ خلفاء کے سلسلہ کو قائم فرماتا ہے.چنانچہ اسی سنت اور دستور الہی کے تحت آنحضرت ﷺ نے اپنی وفات سے پیشتر امت محمدیہ کو اپنی وفات کے بعد قائم ہونے والے نظام خلافت کی نوید سناتے ہوئے فرمایا:.حضرت حذیفہ سے مروی ہے:.قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمْ تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيْكُمُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ مَاشَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونُ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلكًا عَاضًا فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ اَنْ تَكُونُ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةٌ فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُوْنَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ.(مشكوة المصابيح باب الانذار والتنذير ص ٤٦١.مسند احمد بن حنبل جلد ۴ ص ۲۷۳ حدیث نمبر ۱۷۶۸۰) کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ میری نبوت تم میں رہے گی.جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا پھر وہ اسے اٹھا لے گا.پھر خلافت علی منہاج النبوۃ ہو گی.جب تک خدا تعالیٰ

Page 183

۱۶۲ کا منشاء ہوگا.پھر اللہ تعالیٰ اسے بھی اٹھالے گا.پھر قبضہ کی بادشاہت رہے گی.جب تک خدا چاہے گا.پھر زبردستی کی حکومت ہوگی.پھر خدا اسے بھی اٹھالے گا.اس کے بعد پھر خلافت علی منہاج نبوت ہوگی.پھر حضور علیہ الصلوۃ والسلام خاموش ہو گئے.اس حدیث نبوی سے عیاں ہے کہ خلافت راشدہ یا خلافت علی منہاج النبوۃ کے دو دور ہیں.ا.دور اول حضرت سرور کونین ﷺ کے وصال کے فوراًبعد شروع ہونا تھا.۲.دور ثانی آخری زمانہ میں امام مہدی اور مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جاری ہونا تھا.پس آیت استخلاف نیز حدیث مَا كَانَتْ نبوةٌ قَطُّ إِلَّا تَبِعَتُهُ خِلَافَةٌ.(سنن ابن ماجه جلد دوم ص ۲۸۹ مطبوعہ مصر اور مذکورہ بالا حدیث کی روشنی میں ضروری تھا کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد رشد و ہدایت کے سلسلہ کو جاری رکھنے کے لئے نبوت کے طریق پر خلافت کا نظام جاری ہوتا.تا بنی نوع انسان کو اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کرنے میں مددمل سکتی.چنانچہ اسی مقصد اور ضرورت کے پیش نظر آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد خلافت علی منہاج نبوت قائم ہوگئی.جسے خلافت راشدہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے.خلافت راشدہ کا قیام ضرت ﷺ کے صحابہ کرام کو آپ سے اس قدر پیار، محبت اور عشق تھا کہ انہوں نے آپ کی وفات کے بارہ میں کبھی سوچا ہی نہ تھا.لیکن الہی پروگرام کے مطابق مورخه ۱۲ ربیع الاول ۱۱ ہجری بمطابق ۶۳۲ ء کو جب آنحضرت ﷺ کی وفات

Page 184

۱۶۳ ہوگئی تو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کی وفات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نہ تھے.حضرت عمرؓ نے جب یہ خبرسنی تو آپ نے اپنی تلوار سونت لی اور یہ اعلان کر دیا کہ اگر کسی نے یہ کہا کہ آنحضرت فوت ہو گئے ہیں تو میں اس کی گردن اڑادوں گا.(السیرۃ الحلبیہ جلد ۳ صفحه ۳۹۲ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵) مگر جب حضرت ابو بکر کو اس صورتحال کی خبر ہوئی تو آپ نے تمام صحابہ کو جمع کیا اور قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کی تلاوت کی:.وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُم عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَّنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّكِرِينَ (آل عمران: ۱۴۵) یعنی اور محمد نہیں ہے مگر ایک رسول.یقینا اس سے پہلے رسول گزر چکے ہیں.پس کیا اگر یہ بھی وفات پا جائے یا قتل ہو جائے تو تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ اور جو بھی اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے گا تو وہ ہرگز اللہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا.اور اللہ یقیناً شکر گزاروں کو جزا دے گا.چنانچہ اس آیت کریمہ کی تلاوت کے بعد ابو بکر نے ایک ایسی تقریر فرمائی کہ صحابہ کو آنحضرت ﷺ کی وفات کا یقین ہو گیا.روایات میں آتا ہے کہ بعض صحابہ نے تو یہاں تک کہا کہ ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آج ہی یہ آیت اتری ہے.پس آنحضرت ﷺ کے بعد یہ پہلا اجماع تھا جس پر تمام صحابہ نے اتفاق کیا.(سیرۃ ابن ہشام جلد ۳ صفحه ۹۹ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ ) آنحضرت کی وفات کا صحابہ کو یقین ہو جانے کے بعد اب الہی پروگرام کے تحت صحابہ نے آنحضرت ﷺ کے خلیفہ اور جانشین کے بارہ میں سوچنا شروع کر دیا.جو آنحضرت کے پروگرام کو آگے بڑھائے تا کہ امت

Page 185

۱۶۴ محمدیہ میں وحدت قائم رہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ کی وفات سے پہلے ہی بعض انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے اور یہ سوچنا شروع کیا کہ اپنے میں سے کسی کو امیر بنالیں.جب اس صورتحال کا حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت ابو عبیدہ بن جراغ کو علم ہوا تو وہ بھی سقیفہ بنی ساعدہ پہنچ گئے.اور انصار کے اس ارادہ کی مخالفت کی.اس موقع پر دو فریق ہو گئے.ایک انصار کا اور ایک مہاجرین کا.انصار چاہتے تھے کہ خلافت ان کے حصہ میں آئے ان کی دلیل یہ تھی کہ رسول کریم.تیرہ سال تک اپنی قوم میں رہ کر اسلام کی تبلیغ فرماتے رہے.لیکن اس عرصہ میں بہت تھوڑے لوگوں نے آپ کو تسلیم کیا.اس کے بعد جب آپ نے ہجرت فرمائی تو انثار کثیر تعداد میں آپ پر ایمان لائے اور اس طرح انہوں نے اسلام کو تقویت پہنچائی.وہ ہر جنگ میں آپ کے دوش بدوش لڑے اور کسی دشمن کی یہ مجال نہ ہوئی کہ وہ آپ کو نقصان پہنچا سکتا.یہاں تک کہ بالآخر سارا عرب آپ کا حلقہ بگوش ہو گیا.اس وجہ سے حضور وفات تک انصار سے بہت خوش تھے.لہذا خلافت کا زیادہ حق انصار کو حاصل ہے.اس کے برعکس مہاجرین یہ کہتے تھے کہ ہم رسول اللہ ﷺ پر سب سے پہلے ایمان لائے تھے جس کی وجہ سے ہمیں شدید ترین مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑا.اور ہر قسم کی قربانیاں دینی پڑیں.کوئی ظلم نہ تھا کہ جس کا ہمیں تختہ مشق نہ بننا پڑا ہو.گو ہماری تعداد تھوڑی تھی لیکن ہم نے کسی موقع پر بھی گھبراہٹ اور بے دلی کا اظہار نہیں کیا.اس کے علاوہ ہم رسول کریم کے ہم قوم اور آپ کے اہل خاندان ہیں.عرب اگر مطیع ہو سکتے ہیں تو صرف قریش ہی کے ہو سکتے ہیں.اس لئے خلافت کے اصل حقدار ہم ہی ہیں.اس نزاع کو طول پکڑتے دیکھ کر انصار نے ایک تجویز یہ پیش کی کہ ایک امیر ہم

Page 186

۱۶۵ میں سے ہونا چاہئے اور ایک مہاجرین میں سے ہو.مگر مہاجرین نے اس تجویز کو قبول نہ کیا.بالآخر تھوڑی دیر بحث و تمحیص کے بعد وہاں سب لوگ حضرت ابو بکر صدیق کی خلافت پر متفق ہو گئے اور اسی وقت اور اسی جگہ آپ کی بیعت کر لی گئی.اس کے بعد مسجد نبوی میں تمام انصار اور مہاجرین نے بھی متفقہ طور پر آپ کی بیعت عام کر لی.بیعت عام کے بعد آپ نے حسب ذیل تقریر فرمائی:.”لوگو! میں تم پر حاکم بنایا گیا ہوں.حالانکہ میں تمہاری جماعت میں سے بہتر نہیں ہوں.اگر میں اچھا کام کروں تو میری اطاعت کرو اور اگر کج روی اختیار کروں تو مجھے سیدھا کر دو.سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت.تمہارا ضعیف فرد بھی میرے نزدیک قوی ہے.یہاں تک کہ میں دوسروں سے اس کا حق اس کو نہ دلا دوں اور تمہارا قوی شخص بھی میرے نزدیک ضعیف ہے یہاں تک کہ میں اس سے دوسرں کا حق حاصل نہ کرلوں.یا درکھو جو قوم جہاد فی سبیل اللہ چھوڑ دیتی ہے خدا اس کو ذلیل و خوار کر دیتا ہے اور جس قوم میں بدکاری پھیل جاتی ہے خدا اس کو عام مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے.اگر میں خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرو اور اگر اس کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت لازم نہیں“.( تاریخ اسلام حصہ اول ص ۱۳۰ تا ۱۳۲) اس طرح حضرت حذیفہ بن یمان سے مروی حدیث تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمُ مَا شَاءَ اللهُ اَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ مَا شَاءَ اللَّهُ اَنْ تَكُونُ....(مسند احمد بن حنبل ص ۲۷۳/۴) کے مطابق ربیع الاول ااھ میں حضرت ابو بکر کے مسند خلافت پر متمکن ہونے سے خلافت علی منہاج نبوت یعنی خلافت راشدہ کی بنیاد پڑگئی.

Page 187

۱۶۶ مختصر سوانح ابوبکر حضرت ابوبکر صدیق کا اصل نام عبدالکعبہ تھا.جو آپ کے والدین نے پیدائش کے وقت رکھا.مگر اسلام قبول کرنے کے بعد آنحضرت نے آپ کا نام عبداللہ تجویز فرمایا.ابوبکر آپ کی کنیت ہے.صدیق آپ کا لقب ہے.آپ کے والد کا نام ابوقحافہ اور والدہ کا نام ام الخیر تھا.حضرت ابوبکر صدیق عرب کے مشہور اور معزز قبیلہ قریش سے تھے.ان کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں رسول کریم سے جاملتا ہے.آپ کی ولادت آنحضرت کی ولادت کے دو سال بعد ہوئی.آپ بچپن سے ہی آنحضرت کے دوست تھے.اور آپ نے آنحضرت کو بڑا قریب سے دیکھا ہوا تھا.یہی وجہ ہے کہ آنحضرت نے دعویٰ نبوت فرمایا تو آپ بغیر کسی تردد اور دلیل طلب کرنے کے سب سے پہلے ایمان لے آئے.آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ کے والد اور بیٹے عبدالرحمن اور پوتے محمد بن عبداللہ چار پشتیں آنحضرت کی صحابی تھیں.آپ جوانی کے زمانے میں بھی نہایت شریف اور خوش اخلاق تھے.ایک خوشحال گھرانے میں پیدا ہونے کے باعث علوم و فنون سے خوب واقف تھے.فصاحت و بلاغت میں مشہور ہونے کے علاوہ شاعری میں بھی پوری مہارت رکھتے تھے.آپ کا شمار عرب کے معزز اور رؤسا تجار میں ہوتا تھا.آپ کو ایک اعزاز یہ بھی حاصل ہے کہ آنحضرت نے جب مدینہ کی طرف ہجرت کی تو آپ حضور کے ساتھ تھے.اور یار غار اور ثانی اثنین ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے.یہی وجہ ہے کہ آپ کا ذکر قرآن کریم میں بھی آیا ہے.إِلَّا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ

Page 188

۱۶۷ اللهُ إِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِى اثْنَيْنِ إِذْهُمَا فِي الْغَارِ إِذْيَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنُ إِنَّ اللَّهَ مَعَناه (توبه (۴۵) ترجمہ:.اگر تم اس رسول کی مدد نہ کرو تو ( یا درکھو کہ اللہ اس کی اس وقت بھی مدد کر چکا ہے جبکہ انہیں کافروں نے دو میں سے ایک کی صورت میں نکال دیا تھا.جبکہ وہ دونوں غار میں تھے وہ اپنے ساتھی (ابوبکر ) کو کہ رہا تھا کہ کسی گزشتہ بھول چوک پر غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے.آپ کی بزرگی اور عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آنحضرت کی وفات کے بعد آپ کو متفقہ طور پر خلیفۃ الرسول منتخب کیا گیا اور انصار اللہ اور مہاجرین آپ پر ایمان لائے.آپ کی خلافت کا عرصہ تقریباً دو سال بنتا ہے.اس عرصہ میں آپ کو امت مسلمہ کی تعلیم و تربیت کے علاوہ ان کی شیرازہ بندی اور ان میں وحدت قائم رکھنے کی توفیق ملی.اور آنحضرت کی خلافت کے بعد فتنہ ارتداد اور جھوٹے مدعیان نبوت کی سرکوبی کی توفیق ملی.منکرین زکوۃ سے زکوۃ کی وصولی کا ٹھوس نظام قائم کیا.آپ نے رومیوں اور ایرانیوں کو شکست دے کر مسلم سلطنت میں وسعت پیدا کی.آپ کے دیگر بہت سارے کارنامے ہیں طوالت کے خوف سے ان کی تفصیل میں جانا ممکن نہیں.خلافت حضرت عمر حضرت عمر کا انتخاب حضرت ابو بکر کی وفات جب قریب آئی تو آپ نے صحابہ سے مشورہ لیا کہ میں کس کو خلیفہ مقرر کروں؟ اکثر صحابہ نے اپنی رائے حضرت عمر کی امارت کے متعلق ظاہر

Page 189

۱۶۸ کی اور بعض نے صرف یہ اعتراض کیا کہ حضرت عمر کی طبیعت میں سختی زیادہ ہے ایسا نہ ہو کہ لوگوں پر تشدد کریں.آپ نے فرمایا یہ خی اس وقت تھی جب تک ان پر کوئی ذمہ داری نہیں پڑی تھی اب جبکہ ایک ذمہ داری ان پر پڑ جائے گی ان کی سختی کا مادہ بھی اعتدال کے اندر آجائے گا.چنانچہ تمام صحابہ حضرت عمرؓ کی خلافت پر راضی ہو گئے.آپ کی صحت چونکہ بہت خراب ہو چکی تھی اس لئے آپ نے اپنی بیوی اسماء کا سہارا لیا اور ایسی حالت میں جبکہ آپ کے پاؤں لڑکھڑا رہے تھے اور ہاتھ کانپ رہے تھے.آپ مسجد میں آئے اور تمام مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے بہت دنوں تک متواتر اس امر پر غور کیا ہے کہ اگر میں وفات پا جاؤں تو تمہارا کون خلیفہ ہو.آخر بہت کچھ غور کرنے اور دعاؤں سے کام لینے کے بعد میں نے یہی مناسب سمجھا کہ عمر کو خلیفہ نامزد کر دوں.سو میری وفات کے بعد عمر تمہارے خلیفہ ہوں گے.سب صحابہ اور دوسرے لوگوں نے اس امارت کو تسلیم کیا اور حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ کی بیعت ہوگئی.( تاریخ ابن اسیر جلد ۲ صفحه ۴۲۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵) مختصر سوانح عمر حضرت عمر کا تعلق بھی قبیلہ قریش سے تھا اور ساتویں پشت میں آپ کا نسب آنحضرت سے جاملتا ہے.آپ کا خاندان قبیلہ بنو قریش میں بڑا ذی وجاہت اور شرافت کا پیکر تھا.آپ کی ولادت آنحضرت کی ولادت سے ۱۳ سال بعد ہوئی.آپ کا اصلی نام عمر اور لقب فاروق ہے جو آنحضرت نے انہیں عنایت کیا تھا.حضرت عمرؓ نسب دانی ، پہلوانی اور گھوڑ سواری کے بڑے ماہر تھے.اس زمانے

Page 190

۱۶۹ کے دستور کے مطابق تعلیم بھی حاصل کی.فہم و فراست اور تقریر میں بڑی مہارت رکھتے تھے.شعر پڑھنے کا آپ کو بہت شوق تھا.جملہ سرداران قریش کی طرح آپ کا ذریعہ معاش بھی تجارت ہی تھا.اسلام قبول کرنے سے پہلے آپ کا بھی وہی مذہب تھا جو دوسرے اہل مکہ کا تھا.مگر اس کے باوجود آپ نے کبھی شراب کو پسند نہ کیا اور نہ دوسری بیہودہ رسموں میں حصہ لیا.تا ہم مزاج میں جلال بہت تھا.آنحضرت نے بارگاہ ایزدی میں دعا کی تھی کہ اے اللہ ! عمرو بن ہشام ( ابو جہل) اور عمر بن خطاب میں سے کسی ایک سے اسلام کو قوت اور شوکت عطا فرما.اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت عمر کا کس طرح رعب اور دبدبہ تھا.آنحضرت کی اسی دعا کے نتیجہ میں ہی ستائیس سال کی عمر میں آپ کو مشرف باسلام ہونے کی توفیق ملی.حضرت عمرؓ کے اسلام قبول کرنے سے مسلمانوں میں ایک خاص شوکت اور طاقت پیدا ہوگئی اور اس کے بعد انہوں نے اعلانیہ تبلیغ شروع کر دی.آپ نے اسلام قبول کرنے کے بعد بہت سارے غزوات میں حصہ لیا.عہد خلافت حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد جب آپ کے ہاتھ پر بیعت ہو چکی تو آپ نے منبر پر کھڑے ہوکر فرمایا:.عرب کی مثال اس اونٹ کی ہے جو اپنے ساربان کا مطیع ہو.اس کے راہنما کا یہ فرض ہے کہ وہ دیکھے کہ وہ اس کو کس طرف لے کر جارہا ہے.میں رب کعبہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تم کو سیدھا راستہ پر لے چلوں گا“.( خلفاء اربعه ص ۶۹ - از مطبوعہ فیروز پرنٹنگ ورکس لا ہور باہتمام عبدالحمید خان )

Page 191

حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں دین اسلام کو جو رونق ہوئی اور سلطنت کو وسعت ملی.تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی.نواح شام اور عراق تو خلیفہ اول کے وقت میں فتح ہو چکے تھا.شام، فلسطین، مصر، خوزستان، عراق، عجم ، آذربائیجان، کرمان، سیستان، مکران، خراسان حضرت عمر فاروق کے عہد خلافت میں ہی اسلامی جھنڈے کے ما تحت آئے.روما اور ایران جیسی عظیم الشان سلطنتوں کو نیچا دیکھنا پڑا.غرضیکہ آپ کے عہد خلافت میں اسلام کو جو برتری، فوقیت اور عالمگیر شہرت ملی وہ کسی دوسری کو نصیب نہیں ہوئی.رضی اللہ نھم ورضوانہ عنہ.شہادت مدینہ میں حضرت عمر بن شعبہ کا ایک ایرانی غلام ابولولو فیروز تھا.اس نے ایک بار حضرت عمرؓ سے شکایت کی کہ مغیرہ نے مجھ پر محصول زیادہ لگا رکھا ہے.اس کو کم کرادیجئے.پوچھا کہ کس قدر ہے؟ کہا دو درہم روزانہ.حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ تم کام کیا کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا.”نجاری، نقاشی اور آہن گری“.فرمایا کہ ان دستکاریوں کے ساتھ تو دو در ہم روزانہ کچھ زیادہ نہیں.اس فیصلہ سے وہ ناراض ہو گیا.دوسرے دن صبح کے وقت مسجد میں گیا.حضرت عمر نماز پڑھا رہے تھے.اس نے دو دھارنے خنجر سے حضرت عمرہ پر کئی وار کئے.جس کے نتیجہ میں آپ کی شہادت ہوئی.اللَّهُمَّ اغْفِرُهُ وَارُحَمَهُ وَاَدْخِلُهُ فِى اَعْلى عَلِيّين.آپ کی خلافت کا عرصہ تقریباً اسال بنتا ہے.( خلفائے اربع صفحه ۱۰۱ از مطبوعہ فیروز پرنٹنگ ورکس لاہور با ہتمام عبدالحمید خان)

Page 192

خلافت حضرت عثمان حضرت عثمان کا انتخاب حضرت عمر جب زخمی ہوئے اور آپ نے محسوس کیا کہ اب آپ کا آخری وقت قریب ہے تو آپ نے چھ آدمیوں کے متعلق وصیت کی کہ وہ اپنے میں سے ایک کو خلیفہ مقرر کر لیں.وہ چھ آدمی یہ تھے.حضرت عثمان ، حضرت علی، حضرت عبدالرحمن بن عوف ،حضرت سعد بن الوقاص، حضرت زبیر، حضرت طلحہ.اس کے ساتھ ہی حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو بھی آپ نے اس مشورہ میں شریک کرنے کے لئے مقرر فرمایا مگر خلافت کا حقدار قرار نہ دیا اور وصیت کی کہ یہ سب لوگ تین دن میں فیصلہ کریں اور تین دن کے لئے صہیب کو امام الصلوۃ مقرر کیا اور مشورہ کی نگرانی مقداد بن الاسودؓ کے سپرد کی اور انہیں ہدایت کی کہ وہ سب کو ایک جگہ جمع کر کے فیصلہ کرنے پر مجبور کریں اور خود تلوار لے کر دروازہ پر پہرہ دیتے رہیں اور فرمایا کہ جس پر کثرت رائے سے اتفاق ہو.سب لوگ اس کی بیعت کریں اور اگر کوئی انکار کرے تو اسے قتل کر دو لیکن اگر دونوں طرف تین تین ہو جائیں تو عبداللہ بن عمران میں سے جس کو تجویز کریں وہ خلیفہ ہو.اگر اس فیصلہ پر وہ راضی نہ ہوں تو جس طرف عبدالرحمن بن عوف ہوں وہ خلیفہ ہو.آخر پانچوں اصحاب نے مشورہ کیا ( کیونکہ طلحہ اس وقت مدینہ میں نہ تھے ) مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا.بہت لمبی بحث کے بعد حضرت عبدالرحمن بن عوف نے کہا کہ اچھا جو شخص اپنا نام واپس لینا چاہتا ہے وہ بولے جب سب خاموش رہے تو حضرت

Page 193

عبد الرحمن بن عوف نے کہا کہ سب سے پہلے میں اپنا نام واپس لیتا ہوں.پھر حضرت عثمان نے کہا پھر باقی دو نے.حضرت علیؓ خاموش رہے.آخر انہوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف سے عہد لیا کہ وہ فیصلہ کرنے میں کوئی رعایت نہیں کرے گا انہوں نے عہد کیا اور سب کام ان کے سپر د ہو گیا.حضرت عبدالرحمن بن عوف تین دن مدینہ کے ہر گھر گئے اور مردوں اور عورتوں سے پوچھا کہ ان کی رائے کس شخص کی خلافت کے حق میں ہے.سب نے یہی کہا کہ انہیں حضرت عثمان کی خلافت منظور ہے.چنانچہ انہوں نے حضرت عثمان کے حق میں اپنا فیصلہ دے دیا اور وہ خلیفہ ہو گئے.(خلافت راشدہ بحوالہ انوار العلوم جلد ۵ صفحه ۴۸۴، ۴۸۵) مختصر سوانح عثمان حضرت عثمان کا تعلق قریش کے قبیلہ بنوامیہ سے تھا.باپ کی طرف سے پانچویں اور ماں کی طرف سے چوتھی پشت میں آپ کا شجرہ نسب آنحضرت سے جاملتا ہے.آنحضرت کی ولادت کے پانچ سال بعد آپ کی ولادت ہوئی.زمانہ کفر میں آپ کی کنیت ابو عمر و تھی مگر اسلام لانے کے بعد اس کو بدل کر اپنی کنیت ابو عبداللہ رکھ لی.آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ کے عقد میں یکے بعد دیگرے آنحضرت کی دو صاحبزادیاں حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم آئیں.اسی وجہ سے آپ ” ذوالنورین یعنی ( دونوروں والا ) کہلاتے ہیں.حضرت عثمان شروع سے ہی مشرکانہ رسوم ، شراب نوشی اور قمار بازی جیسی لغویات کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے.حالانکہ اس زمانہ کے نوجوانوں کے لئے یہ برائیاں دولت مندی اور برائی کا نشان سمجھی جاتی تھیں.

Page 194

۱۷۳ جب نبی کریم ﷺ نے نبوت کا دعوی کیا تو آپ تجارت کے سلسلے میں مکے سے باہر گئے ہوئے تھے.اس وقت ان کی عمر تقریباً چونتیس برس تھی.جب سفر سے واپس آئے اور آنحضرت کے دعویٰ کا حال سنا تو حضرت ابوبکر صدیق سے ملے.جن سے ان کے پرانے تعلقات چلے آتے تھے.حضرت ابوبکر انہیں لے کر درباری نبوی میں حاضر ہوئے اور انہوں نے بلا حیل و حجت اسلام قبول کرلیا.آپ ان صحابہ میں سے ہیں جنہیں قبول اسلام کی پاداشت میں خوفناک مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.عہد خلافت حضرت عثمان کے خلیفہ مقرر ہو جانے پر جب سب لوگوں نے آپ سے بیعت کر لی تو حضرت عثمان نے منبر رسول پر کھڑے ہو کر ایک فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا.آپ نے حمد و ثناء اور نعت رسول کریم کے بعد عوام کو عمل صالح اور ثواب آخرت کی طرف توجہ دلائی اور مال و دولت کی کثرت کے باعث مسلمانوں میں جو تبدیلی پیدا ہوتی جارہی تھی اس سے منع کیا اور فرمایا کہ دنیا ایک فریب کا جال ہے.اس سے بیچ کر رہو.شیطان کے پھندے سے بچو اور اپنی زندگیوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی میں خرچ کرو.اس کے بعد مختلف اسلامی صوبوں کے حاکموں اور افسران فوج کے نام فرمان جاری کئے کہ رعایا کے ساتھ عدل وانصاف کا برتاؤ کرو اور جس طرح خلفائے سابق رضوان اللہ علیھم اجمعین کے زمانے میں مذہبی اور سیاسی امور کو نیک نیتی اور تن دہی سے انجام دیتے چلے آئے ہو اسی پر کام کرتے چلے آؤ.مگر بد قسمتی سے حضرت عثمان کے عہد خلافت کو بمشکل چھ سال گزرے تھے کہ

Page 195

۱۷۴ ہمدان والوں نے بغاوت کر دی اور ان کو دیکھ کر اہل الرائے بھی باغی ہو گئے.مگر مغیرہ بن شعبہ اور ابوموسیٰ اشعری کی کوششوں سے یہ بغاوتیں فرو کر دی گئیں.مصر والوں نے بھی بغاوت کر دی جسے عمرو بن العاص نے جا کر رفع کر دیا.مختصر یہ کہ بغاوتوں کا ایک سلسلہ یکے بعد دیگرے چل نکلا.حتی کہ بغاوت کا یہ سلسلہ سندھ تک پھیل گیا مگر ابن عامر نے دانائی اور بہادری سے ان سب کا خاتمہ کر دیا.ان تمام بغاوتوں کے ساتھ ساتھ فتوحات کا سلسلہ بھی جاری رہا.اندرونی فتنه حضرت عثمان کے زمانہ خلافت میں مسلمان نہ صرف آسوده حال بلکہ بہت کافی و دولت مند ہو کر اسراف کی طرف مائل ہو چکے تھے.حضرت عثمان نے جائیداد بنانے اور دولت جمع کرنے کی اجازت دے دی تھی جس کے نتیجہ میں عدم اطاعت اور بغاوت کی روح پروان چڑھ چکی تھی.دوسری طرف بصرہ کے ایک شخص عبداللہ بن سبا نے سر نکالا.یہ بظاہر تو مسلمان تھا مگر تھا منافق اور اندر ہی اندر امت مسلمہ میں افتراق وانتشار اور خلافت عثمان کے خلاف سازشیں شروع کر دیں.اس تمام صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ حضرت عثمان کے خلاف بغاوت نے اتنا زور پکڑ لیا کہ کنٹرول کرنا مشکل ہو گیا.حتی کہ باغیوں نے حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور یہ سلسلہ ۲ روز تک رہا.بالآخر مورخہ ۱۸ ذی الحجہ ۳۵ ھ بمطابق ۲۱ مئی ۶ ۶۵ ء کو حضرت عثمان کو انتہائی بے دردی سے شہید کر دیا گیا.اس منحوس صورتحال سے امت میں زبر دست فتنہ شروع ہو گیا اور مسلمان ایک دوسرے سے برسر پیکار اور خون کے پیاسے ہو گئے.

Page 196

۱۷۵ خلافت حضرت علی حضرت علی کا انتخاب جب حضرت عثمان کا واقعہ شہادت ہوا اور وہ صحابہ جو مدینہ میں موجود تھے انہوں نے یہ دیکھ کر کہ مسلمانوں میں فتنہ بڑھتا جارہا ہے حضرت علی پر زور دیا کہ آپ لوگوں کی بیعت لیں.دوسری طرف کچھ مفسدین بھاگ کر حضرت علی کے پاس پہنچے اور کہا کہ اس وقت اسلامی حکومت کے ٹوٹ جانے کا سخت اندیشہ ہے آپ لوگوں سے بیعت لیں تا کہ ان کا خوف دور ہو اور امن و امان قائم ہو.غرض جب آپ کو بیعت لینے پر مجبور کیا گیا تو کئی دفعہ کے انکار کے بعد آپ نے اس ذمہ داری کو اٹھایا اور لوگوں سے بیعت لینی شروع کر دی.مختصر سوانح على حضرت علی آنحضرت کے سگے چچا حضرت ابوطالب کے بیٹے تھے.آپ ہجرت سے اکتیس سال پہلے پیدا ہوئے.آپ کا اصل نام علی اور کنیت ابولحسن اور ابوتراب تھی.والدہ ماجدہ نے آپ کا نام حیدر رکھا.جس کے معنی پھاڑنے والا شیر ہے.امین، شریف، مرتضی، اسد اللہ اور امیر المومنین ان کے القابات ہیں.خاندانی اعتبار سے آپ دونوں طرف سے ہاشمی ہیں.آنحضرت کے چازاد بھائی ہونے کے علاوہ آپ کے داماد بھی تھے.حضرت علی کو بچوں میں سب سے پہلے

Page 197

۹ سال کی عمر میں اسلام قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.دوسرے صحابہ کی طرح حضرت علی کو بھی کفار کے ہاتھوں بہت سی تکالیف برداشت کرنی پڑیں.آنحضرت نے جب مدینہ ہجرت کی تو اپنے بستر پر حضرت علی کو سلا کر گئے تھے اور ان کے سپر د اپنے ذمہ واجب الادا امانتوں کو ادا کر کے مدینہ آنے کی ہدایت فرمائی.چنانچہ آپ حسب ہدایت آنحضرت کی امانتیں متعلقہ لوگوں کے سپرد کر کے مدینہ ہجرت کر گئے.حضرت علی کی جوانمردی اور بہادری بہت مشہور تھی.غزوہ خیبر کا واقعہ آپ کی بہادری کی ایک بہت بڑی مثال ہے.عہد خلافت حضرت عثمانؓ کی شہادت کے ایک ہفتہ بعد حضرت علی کی بیعت کا سلسلہ شروع ہوا.اس کے بعد آپ منبر پر تشریف لائے اور ایک فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا.جس میں فتنہ وفساد سے پر ہیز اور تقویٰ کی طرف توجہ دلائی.خطبہ کے بعد صحابہ کی ایک جماعت ان کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ خلیفہ کا پہلا فرض یہ ہے کہ شرعی حدود کو قائم رکھے.اس لئے جو لوگ حضرت عثمان کے قتل میں شریک تھے ان سے قصاص لیا جائے.اس پر حضرت علیؓ نے فرمایا کہ یہ درست ہے لیکن کچھ امن وامان ہو لینے دو.یہ جواب سن کر لوگ واپس چلے گئے.لیکن اس سے دو متضاد خیالات عوام کے دلوں میں پیدا ہونے لگے.بعض نے تو اس جواب کو معقول سمجھ کر خاموشی اختیار کر لی.مگر بعض کا خیال یہ تھا کہ اگر باغیوں کی یہی حالت رہی تو

Page 198

122 ہم قصاص نہ لے سکیں گے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بنی امیہ اور بعض دوسرے صحابہ بھی مدینہ سے نکل گئے.حضرت علیؓ نے مسند خلافت پر قدم رکھتے ہی حضرت عثمان کے عہد کے تمام والیان صوبجات کو معزول کر کے ان کی جگہ اپنے معتمد آدمی مقرر کر دیئے.حضرت مغیرہ بن شعبہ اور حضرت علی کے چچازاد بھائی حضرت عبداللہ بن عباس نے جو عقلمندی میں سارے عرب میں مشہور تھے.انہیں اس کا انجام سمجھا کر اس سے باز رکھنے کی کوشش کی.حضرت علی نہ مانے.حضرت علیؓ نے اس معاملہ میں اس قدر جلال سے کام لیا کہ ان علاقوں کے ان لوگوں کی بیعت کا انتظار بھی نہ کیا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمام والیان اور امراء نے نہ صرف بیعت کرنے سے انکار کر دیا.بلکہ حضرت علیؓ کے مقرر کردہ والیوں کو چارج بھی نہ دیا.صرف بصرہ کا حاکم حج کو گئے تھے.اس لئے عثمان بن حنیف نے اس صوبے پر جا کر قبضہ کر لیا.امیر معاویہ تمام والیان میں سب سے زیادہ با اثر رئیس تھے.خاندان بنوامیہ میں ہونے کے باعث حضرت عثمان کے طرف دار شام میں آ آ کر جمع ہونے لگے.اس کے علاوہ امیر معاویہ کے پاس ایک بہادر اور قابل اعتبار فوج بھی تھی جو امیر معاویہ کو خلافت کا حقدار سمجھتی تھی.حضرت علیؓ کی طرف سے جب انہیں معزولی کا حکم ملا تو انہوں نے بھی حضرت علی کی بیعت سے انکار کر دیا اور ایک خالی کاغذ پر ایک مہر لگا کر حضرت علیؓ کے پاس بھیج دیا.حضرت علیؓ نے جب قاصد سے اس کا مقصد دریافت کیا تو اس نے جواب دیا کہ حضرت عثمان کا خون آلود پیرہن اور آپ کی بیوی کی کٹی ہوئی ہتھیلی دمشق کی جامع مسجد کے ممبر پر پڑی ہوئی ہے.جن پر ساٹھ ہزار لوگ ماتم کر رہے ہیں اور وہاں کے لوگ خلیفہ شہید کے قصاص کا مطالبہ کرتے ہیں.حضرت علی

Page 199

۱۷۸ نے آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کہا "اے خدا! تو گواہ ہے کہ میں عثمان کے خون سے بری ہوں.حضرت امام حسنؓ نے حضرت علی کو روکنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ نہ مانے اور اپنے بیٹے محمد بن حنیفہ کو بتا کر فوج اور سامان جنگ کی فراہمی میں مصروف ہو گئے.جنگ جمل حضرت عائشہ کا اعلان جہاد انہی لوگوں کی ایک جماعت نے جو حضرت عثمان کے قتل میں شریک تھی.حضرت عائشہ کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ آپ حضرت عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے جہاد کا اعلان کر دیں.چنانچہ انہوں نے اس بات کا اعلان کیا اور صحابہ کو اپنی مدد کے لئے بلایا.حضرت طلحہ اور حضرت زبیر بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے اور اس کے نتیجہ میں حضرت علی اور حضرت عائشہؓ، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کے لشکر میں جنگ ہوئی جسے جنگ جمل کہا جاتا ہے اس جنگ کے شروع میں ہی حضرت زبیر، حضرت علی کی زبان سے رسول کریم ﷺ کی ایک پیشگوئی سن کر علیحدہ ہو گئے اور انہوں نے قسم کھائی کہ وہ حضرت علی سے جنگ نہیں کریں گے اور اس بات کا اقرار کیا کہ اپنے اجتہاد میں انہوں نے غلطی کی ہے.دوسری طرف حضرت طلحہ نے بھی اپنی وفات سے پہلے حضرت علی کی بیعت کا اقرار کر لیا.کیونکہ روایات میں آتا ہے کہ وہ زخموں کی شدت سے تڑپ رہے تھے کہ ایک شخص ان کے پاس سے گزرا انہوں نے پوچھا تم کس گروہ میں سے ہو.اس نے کہا حضرت علیؓ کے گروہ میں سے.اس پر انہوں نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں

Page 200

129 دے کر کہا کہ تیرا ہاتھ علی کا ہاتھ ہے اور میں تیرے ہاتھ پر حضرت علی کی دوبارہ بیعت کرتا ہوں.غرض باقی صحابہ کے اختلاف کا تو جنگ جمل کے وقت ہی فیصلہ ہو گیا مگر حضرت معاویہ کا اختلاف باقی رہا یہاں تک کہ جنگ صفین ہوئی.(خلافت راشده از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفة المسیح الثانی بحوالہ انوار العلوم جلد ۵ صفحه ۵ ۴۸۶،۴۸) جنگ صفین کے واقعات اس جنگ میں حضرت معاویہؓ کے ساتھیوں نے یہ ہوشیاری کی کہ نیزوں پر قرآن اٹھالئے اور کہا کہ جو کچھ قرآن فیصلہ کرے وہ ہمیں منظور ہے اور اس غرض کے لئے حکم مقرر ہونے چاہئیں.اس پر وہی مفسد جو حضرت عثمان کے قتل کی سازش میں شامل تھے اور جو آپ کی شہادت کے معا بعد اپنے بچاؤ کے لئے حضرت علیؓ کے ساتھ شامل ہو گئے تھے انہوں نے حضرت علی پر یہ زور دینا شروع کر دیا کہ یہ بالکل درست کہتے ہیں.آپ فیصلہ کے لئے حکم مقرر کر دیں.حضرت علیؓ نے بہتیرا انکار کیا مگر انہوں نے اور کچھ ان کمزور طبع لوگوں نے جو ان کے اس دھوکا میں آگئے تھے حضرت علی کو اس بات پر مجبور کیا کہ آپ حکم مقرر کریں.چنانچہ معاویہ کی طرف سے حضرت عمرو بن العاص اور حضرت علی کی طرف سے حضرت ابوموسیٰ اشعری حکم مقرر کئے گئے.یہ تحکیم دراصل قتل عثمان کے واقعہ میں تھی اور شرط یہ تھی کہ قرآن کریم کے مطابق فیصلہ ہوگا.مگر عمر و بن العاص اور ابو موسیٰ اشعری دونوں نے مشورہ کر کے یہ فیصلہ کیا کہ بہتر ہوگا کہ پہلے ہم دونوں یعنی حضرت علی اور حضرت معاویہ گوان کی امارت سے معزول کر دیں کیونکہ تمام مسلمان انہی دونوں کی وجہ سے مصیبت میں مبتلا ہور ہے ہیں اور پھر آزادانہ

Page 201

۱۸۰ رنگ میں مسلمانوں کو کوئی فیصلہ کرنے دیں تاکہ وہ جسے چاہیں خلیفہ بنالیں حالانکہ وہ اس کام کے لئے مقرر ہی نہیں ہوئے تھے مگر بہر حال ان دونوں نے اس فیصلہ کا اعلان کرنے کے لئے ایک جلسہ عام منعقد کیا اور حضرت عمر و بن العاص نے حضرت ابو موسیٰ اشعری سے کہا کہ پہلے آپ اپنے فیصلہ کا اعلان کر دیں بعد میں میں اعلان کر دوں گا.چنانچہ حضرت ابو موسیٰ نے اعلان کر دیا کہ وہ حضرت علی کو خلافت سے معزول کرتے ہیں اس کے بعد حضرت عمرو بن العاص کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ابوموسیٰ نے حضرت علی کو معزول کر دیا ہے اور میں بھی ان کے اس بات سے متفق ہوں اور حضرت علی کو خلافت سے معزول کرتا ہوں لیکن معاویہ کو میں معزول نہیں کرتا بلکہ ان کے عہدہ امارت پر انہیں بحال رکھتا ہوں (حضرت عمرو بن العاص خود بہت نیک آدمی تھے لیکن اس وقت میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ انہوں نے یہ فیصلہ کیوں کیا تھا) اس فیصلہ پر حضرت معاویہ کے ساتھیوں نے تو یہ کہنا شروع کر دیا کہ جو لوگ حکم مقرر ہوئے تھے انہوں نے علی کی بجائے معاویہ کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے اور یہ درست ہے.مگر حضرت علیؓ نے اس فیصلہ کو ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ نہ حکم اس غرض کے لئے مقرر تھے اور نہ ان کا یہ فیصلہ کسی قرآنی حکم پر ہے.اس پر حضرت علی کے وہی منافق طبع ساتھی جنہوں نے حکم مقرر کرنے پر زور دیا تھا یہ شور مچانے لگ گئے کہ حکم مقر رہی کیوں کئے گئے تھے جبکہ دینی معاملات میں کوئی حکم ہو ہی نہیں سکتا.حضرت علی نے جواب دیا کہ اول تو یہ بات معاہدہ میں شامل تھی کہ ان کا فیصلہ قرآن کے مطابق ہوگا جس کی انہوں نے تعمیل نہیں کی.دوسرے حکم تو خود تمہارے اصرار کی وجہ سے مقرر کیا گیا تھا اور اب تم ہی کہتے ہو کہ میں نے حکم کیوں مقرر کیا.انہوں نے کہا کہ ہم نے جھک مارا اور ہم نے آپ سے جو کچھ کہا تھا وہ ہماری غلطی تھی.مگر سوال یہ ہے کہ آپ نے یہ بات

Page 202

۱۸۱ کیوں مانی.اس کے تو یہ معنی ہیں کہ ہم بھی گنہگار ہو گئے اور آپ بھی.ہم نے بھی غلطی کا ارتکاب کیا اور آپ نے بھی.اب ہم نے تو اپنی غلطی سے توبہ کرلی ہے مناسب یہ ہے کہ آپ بھی تو بہ کریں اور اس امر کا اقرار کریں کہ آپ نے جو کچھ کیا ہے ناجائز کیا ہے.اس سے ان کی غرض یہ تھی کہ اگر حضرت علیؓ نے انکار کیا تو وہ یہ کہہ کر آپ کی بیعت سے الگ ہو جا ئیں گے کہ انہوں نے چونکہ ایک خلاف اسلام فعل کیا ہے اس لئے ہم آپ کی بیعت میں نہیں رہ سکتے اور اگر انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا اور کہا کہ میں تو بہ کرتا ہوں تو بھی ان کی خلافت باطل ہو جائے گی کیونکہ جو شخص اتنے بڑے گناہ کا ارتکاب کرے وہ خلیفہ کس طرح ہو سکتا ہے.حضرت علیؓ نے جب یہ باتیں سنیں تو کہا کہ میں نے تو کوئی غلطی نہیں کی.جس امر کے متعلق میں نے حکم مقرر کیا تھا اس میں کسی کو حکم مقرر کرنا شریعت اسلامیہ کی رو سے جائز ہے باقی میں نے حکم مقرر کرتے وقت صاف طور پر یہ شرط رکھی تھی کہ وہ جو کچھ فیصلہ کریں گے اگر قرآن اور حدیث کے مطابق ہو گا تب میں اسے منظور کروں گا اور نہ میں اسے کسی صورت میں بھی منظور نہیں کروں گا.انہوں نے چونکہ اس شرط کو ملحوظ نہیں رکھا اور نہ جس غرض کے لئے انہیں مقرر کیا گیا تھا اس کے متعلق انہوں نے کوئی فیصلہ کیا ہے اس لئے میرے لئے ان کا فیصلہ کوئی حجت نہیں.مگر انہوں نے حضرت علیؓ کے اس عذر کو تسلیم نہ کیا اور بیعت سے علیحدہ ہو گئے اور خوارج کہلائے اور انہوں نے یہ مذہب نکالا کہ واجب الاطاعت خلیفہ کوئی نہیں.کثرت مسلمین کے فیصلہ کے مطابق عمل ہوا کرے گا کیونکہ کسی ایک شخص کو امیر واجب الاطاعت ما نالا حُكْمَ إِلَّا لِلہ کے خلاف ہے.( خلافت راشده از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ لمسیح الثانی بحوالہ انوار العلوم جلد ۵ صفحه ۴۸۶، ۴۸۸)

Page 203

۱۸۲ حضرت علی کی شہادت جنگ صفین نیز مصر کی فتح کے بعد امیر معاویہ کا حوصلہ بڑھ گیا.اب انہوں نے ہر طرف اسلامی صوبوں پر قبضہ کرنے کے لئے اپنی فوجیں روانہ کرنی شروع کر دیں.علاوہ ازیں جنگ نہروان کے بعد اگر چہ خارجیوں کا زور ٹوٹ گیا تھا.مگر پھر بھی یہ لوگ مصیبت کا باعث بنے رہے.آخر ان کے تین آدمیوں عبدالرحمن بن ملجم ، بروک بن عبداللہ اور عمر و بن بکر تمیمی نے آپس میں بیٹھ کر فیصلہ کیا کہ حضرت علی ، امیر معاویہ اور عمرو بن العاص کو قتل کئے بغیر یہ فتنہ بند نہ ہوگا.چنانچہ حسب پروگرام تینوں اپنے اپنے مشن کی طرف روانہ ہو گئے.امیر معاویہ زخمی تو ہوئے مگر جان سے بچ گئے.عمرو بن العاص اس روز بیمار تھے لہذا وہ نماز پڑھانے مسجد نہ جا سکے جس کے نتیجہ میں ان کو قتل کرنے والا اپنے مشن میں کامیاب نہ ہوسکا.جبکہ ابن ملجم کوفہ پہنچ گیا اور حسب پروگرام ۱۵ رمضان کو مسجد میں جا کر چھپ رہا.جب حضرت علی فجر کی نماز پڑھانے کے لئے تشریف لائے تو اس نے حضرت علی پر تلوار کا ایک بھر پور وار کیا.لوگوں نے ابن حجم کو قابو کو قابو کر لیا مگر زخم کاری ہونے کے باعث حضرت علی تیسرے دن یوم شنبہ ۷ ارمضان المبارک ۴۰ ہجری کو انتقال فرما گئے.اناللہ وانا الیہ راجعون.وفات سے پیشتر حضرت علیؓ نے اپنی اولا دکو جمع کیا اور وصیت کی کہ اگر میں گزر جاؤں تو صرف قاتل سے قصاص لینا.دوسرے لوگ قتل نہ کئے جائیں.قاتل کے اعضاء نہ کاٹے جائیں.لوگوں نے پوچھا آپ کے بعد حضرت حسن کو خلیفہ بنا دیا جائے ؟ ” آپ نے فرمایا میں اس کے متعلق کچھ نہیں کہتا“.حضرت علی کی خلافت چارسال کچھ دن کم نو ماہ رہی.

Page 204

۱۸۳ خلافت راشدہ کا اختتام اور ملوکیت کا آغاز حضرت عثمان کے دور خلافت میں جو فتنے اٹھے اور جن سازشوں نے جنم لیا.دراصل انہی سازشوں کے نتیجہ میں ہی حضرت علیؓ کی شہادت ہوئی.آپ کی شہادت کے بعد حضرت امام حسن کو خلیفہ منتخب کر لیا گیا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی گئی.مگر آپ نے امت کو قتل و غارت گری سے بچانے کے لئے حضرت امیر معاویہؓ سے کچھ مراعات لے کر ان کے حق میں دستبرداری اختیار کر لی.آپ کے اس اقدام کی شرعاً کیا حیثیت ہے اس پر ہم گزشتہ صفحات میں خلافت سے دستبرداری اختیار کرنا“ کے عنوان کے تحت روشنی ڈال چکے ہیں.بہر حال اس طرح حضرت امیر معاویہ مسند خلافت پر بیٹھ گئے.خلافت بنوامیه بنوامیہ، بنو ہاشم کی طرح قریش کا ایک ممتاز قبیلہ تھا جو دنیاوی جاہ و ثروت اور امارت کی بناء پر مشہور تھا.قریش کی سپہ سالاری بھی اس قبیلہ کے سپرد تھی.مسلمانوں اور قریش کے درمیان جنگوں میں ابوسفیان قریش کے سردار تھے جو فتح مکہ کے موقع پر ایمان لائے اور آنحضرت ﷺ نے ابو سفیان کے گھر کو دارالامان قرار دیا اور ان کے بیٹے معاویہ کو کاتب وحی مقرر کیا.خلفائے راشدین کے زمانہ میں بنوامیہ نے اسلام کی خاطر عظیم کارنامے سرانجام دیئے.حضرت عثمان خود بنوامیہ میں سے تھے.انہوں نے اپنے عہد خلافت میں حضرت معاویہ گوشام کا والی مقرر کیا.حضرت عثمان کی شہادت کے بعد حضرت معاویہ خود مختار بن گئے.جس پر حضرت علی اور امیر معاویہ کے درمیان

Page 205

۱۸۴ جنگ صفین ہوئی.امیر معاویہ کے خاندان میں ۶۴ ھ تک حکومت رہی.اس کے بعد بنوامیہ کی سربراہی مروان کے حصہ میں آئی.۶۵ ھ سے ۱۳۲ھ تک بنوامیہ کے گیارہ خلفاء ہوئے جن کا دارالخلافت دمشق تھا.بنوامیہ کا یہ دور حکومت اسلامی فتوحات سے لبریز ہے.اسی دور میں مشہور اسلامی فاتح عقبہ بن نافع ، موسیٰ بن نصیر ، طارق بن زیاد، قتیہ بن مسلم اور محمد بن قاسم ہوئے.اس عہد میں اسلامی حکومت کی حدود مشرق میں سندھ اور ملتان سے لے کر مغرب میں اندلس اور فرانس تک اور شمال میں ترکستان و چین سے لے کر جنوب میں جزیرۃ العرب تک پھیلی ہوئی تھیں.۱۳۲ھ میں عباسیوں نے بوحیر کی فتح کے بعد بنو امیہ کو چن چن کر قتل کیا.صرف ایک خوش قسمت اموی شہزادہ عبدالرحمن بچ بچا کر اندلس جا پہنچا اور وہاں اس نے بنوامیہ کی ہسپانوی خلافت کی بنیاد رکھی.بنوامیہ کی یہ خلافت ۱۳۸ھ سے ۴۲۸ ھ تک قائم رہی.اس دور میں ۲۴ سلاطین گزرے.جن میں بعض بڑے جلیل القدر حکمران تھے اور جن کے عہد حکومت میں ہسپانیہ تہذیب و تمدن کی انتہائی بلندیوں پر جا پہنچا.قرطبہ اور دمشق کی رفیع الشان مساجد آج بھی بنوامیہ کے شاہانہ عروج و کمال کی یاد دلاتی ہے.(اردو جامع انسائیکلو پیڈیا از عبدالوحید ص ۳۳۰،۳۲۹) خلافت عباسیہ حضرت عباس ابن عبدالمطلب ، آنحضرت ﷺ کے حقیقی چا کی اولاد کو بنو عباس کہتے ہیں.سانحہ کربلا کے بعد اہل بیت کی خلافت کے حق میں ایک تحریک اٹھی.جسے حضرت عبداللہ بن عباس کے پوتے محمد بن علی نے خوب منظم کیا.۱۲۶ھ میں وہ انتقال فرما گئے اور اپنے تینوں بیٹوں ابراہیم، ابوالعباس اور ابوجعفر کو سلسلہ وار جانشین

Page 206

۱۸۵ بنا گئے.ابراہیم کے زمانہ میں بنوعباس کی تحریک بڑے زور سے چلی اور ابومسلم خراسانی کی مدد نے بنوامیہ کے زوال کو چند سالوں میں حقیقت کا جامہ پہنا دیا.چنانچہ ربیع الاول ۱۳۲ھ میں بنو عباس کے پہلے حکمران ابو العباس نے کوفہ میں اپنی خلافت کا اعلان کر دیا.اسی سال بوحیر کی فتح نے بنوامیہ کی حکومت کا خاتمہ کر دیا اور بنو عباس کی حکومت کا آغاز ہوا.بنوعباس کی حکومت ۱۳۲ھ سے ۶ ۶۵ ھ تک قائم رہی.اس مدت در از کوتین مختلف ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے.پہلا دور ۱۳۲ھ سے ۲۴۷ ھ تک اس میں بنی عباس کے پہلے دس خلفاء کا عہد شامل ہے.یہ فرمانروا غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک اور اعلیٰ پایہ کے مدبر تھے.اس دور میں تہذیب و تمدن اور علوم وفنون کو بہت ترقی ہوئی.یہ بنو عباس کے عروج کا زمانہ تھا.دوسرا دور ۲۴۷ء سے شروع ہو کر قریباً دو سوسال تک جاری رہا.یہ انحطاط کا دور ہے.اس میں خلفاء بالعموم کمزور رہے اور سلطنت کا سارا کاروبار امیر الامراء کی مرضی و منشاء کے مطابق ہوتا تھا.تیسرا دور سلجوقی غلبہ کا دور تھا.اس زمانہ میں خلیفہ کی حیثیت محض برائے نام تھی.زمام اقتدار کلیۂ سلجوقی ترکوں کے ہاتھوں میں تھی.آخر ۶ ۶۵ ھ میں چنگیز خاں کا پوتا ہلا کو خاں بغداد میں داخل ہوا اور آخری خلیفہ مستعصم باللہ کوقتل کر کے بنوعباس کی حکومت کاس نے ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دیا.(اردو جامع انسائیکلو پیڈیا ص ۳۳۲- از عبدالوحید ) خلافت عثمانیه ترکیه خلافت عثمانیہ ترکیہ کی بنیاد ۹۲۲ھ بمطابق ۱۲۹۹ ء میں پڑی.سلطنت عثمانیہ ترکیہ کی بنیادرکھنے کا کریڈت سلطان عثمان بے Sultan Usman Bay) کو جاتا ہے جو ا ۱۲۸ء میں اپنے باپ کی وفات کے بعد اس کا جانشین بنا.۱۲۹۳ء میں چنگیز

Page 207

۱۸۶ خان کے پوتے ہلاکو خان نے سلجوقیوں کو شکست دے کر ایشیائے کو چک کی دولت سلجوقیہ کی سالمیت کا خاتمہ کر دیا اور ان کی سلطنت کا ہر رئیس اپنی اپنی جگہ خود مختار ہو گیا.ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عثمان بے نے بھی اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا.عثمان بے نے ۳۸ سال حکومت کی.اس عرصے میں سلطنت عثمانیہ کی حدود جنوب میں کتابیہ (Kutahya) تک اور شمال میں بحر مارمورا اور بحر اسود کے ساحلوں تک پھیل گئی تھیں.اس کا مرکز قسطنطنیہ ترکی تھا.اس بات پر مؤرخین کا بالعموم اتفاق ہے کہ عثمانی سلطنت کی ابتداء ۱۳۹۹ء میں جتنیا (Bittynia) کے مقام سے ہوئی تھی.( ترکی از اکمل ایوبی ادارہ علوم اسلامیہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ) بالآخر دولت عثمانیہ کا اختتام مصطفی کمال پاشا کے ذریعہ ۱۹۲۴ء میں ہوا.اور ترکی میں دولت عثمانیہ کے خاتمہ پر جمہوریت کی بنیاد رکھی گئی.عملاً بیسویں صدی کے آغاز پر خلافت عثمانیہ کا زور ٹوٹ چکا تھا.اور برائے نام خلافت باقی تھی.جس کو قائم رکھنے کی خاطر عالم اسلام میں تحریک بھی چلائی گئی مگر اس کا قائم رہنا ناممکن تھا کیونکہ الہی پروگرام کے مطابق ۲۷ مئی ۱۹۰۸ ء کو خلافت علی منہاج نبوت کی بنیاد رکھی جا چکی تھی.لہذا دولت عثمانیہ کا خاتمہ ایک الہی پروگرام کے تحت تھا.

Page 208

۱۸۷ خلافت احمدیہ احادیث صحیحہ سے مسئلہ خلافت کے متعلق یہ واضح حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ امت محمدیہ کے آخری دور میں بھی اسی طرح کی کامل خلافت راشدہ کا قیام مقدر تھا جس طرح کی اسلام کے دور اول میں قائم ہوئی تھی.امت محمدیہ کے آخری حصہ کو بھی صلى الله آنحضرت ﷺ نے نہایت با برکت قرار دیا ہے.چنانچہ فرمایا:.مَثَلُ أُمَّتِي مَثَلُ الْمَطَرَ لَا يُدْرَى آخِرُهُ خَيْرٌ أَمْ اَوَّلُهُ.( مظاہر جدید شرح مشکوۃ شریف جلد ۵ ص ۹۱۳ ، باب امت محمدیہ کا بیان دارالاشاعت اردو بازار کراچی) یعنی میری امت کی مثال اس بارش کی ہے جس کے متعلق نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا آخری حصہ زیادہ مفید اور باعث خیر ہے یا پہلا حصہ زیادہ مفید اور باعث خیر ہے.پھر اسی حدیث کے آخر میں فرمایا ہے کہ وہ امت کس طرح ہلاک ہوسکتی ہے جس کے شروع میں میں ہوں اور آخر میں مسیح موعود ہوگا.اس آخری دور اسلام کے بارے میں مزید خوشخبری دی کہ:.إِنَّهُ سَيَكُونُ فِي آخِرِ هَذِهِ الْأُمَّةِ قَوْمٌ لَهُمُ مِثْلُ أَجْرٍ أَوَّلِهِمْ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقَاتِلُونَ أَهْلَ الْفِتَنِ.( مظاہر جدید شرح مشکوۃ شریف جلد ۵ ص ۹۱۶ ، باب امت محمدیہ کا بیان دارالاشاعت اردو بازار کراچی ) اس امت کے آخری حصہ میں ایسی جماعت ہوگی جن کو صحابہ کی طرح اجر ملے گا.وہ امر بالمعروف کرنے والی ہوگی اور نہی عن المنکر کرے گی.اس جماعت کے لوگ تمام اہل فتن کا مقابلہ کر کے انہیں شکست دیں گے.

Page 209

۱۸۸ ظاہر ہے کہ یہ جماعت مسیح موعود ہی کی جماعت ہے اور اس کے لئے دوسری احادیث میں خلافت علی منہاج النبوت کی دائمی نعمت کے پانے کی بھی خوشخبری دی گئی ہے.جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت حذیفہ بن یمان والی معروف حدیث مبارکہ میں امت محمدیہ کو مطلع کر دیا تھا کہ میرے وصال کے فورا بعد ایک دور خلافت راشدہ کا ہوگا اور متعد د خلفاء ہوں گے جو میرے مشن کی تکمیل کے لئے بر پاکئے جائیں گے.آپ نے حکم دیا کہ سب مسلمان ان خلفاء کی اطاعت کریں.ان کے احکام کو مانیں اور ان کی تحریکات پر لبیک کہیں.پھر درمیانی صدیوں کی خرابیوں کا ذکر کرنے کے بعد نبی اکرم اللہ نے خلافت علی منہاج النبوۃ والی معروف حدیث میں نہایت واضح رنگ میں فرمایا تھا:.ثُمَّ تَكُونُ الخِلَافَةُ عَلَى مِنْهَاجِ النَّبُوَّةِ.(مسند احمد بن حنبل جلد ۴ ص ۲۷۳) یعنی آخری زمانہ میں امت محمدیہ میں پھر خلافت راشدہ کا دور آئے گا.شارحین حدیث نے بالا تفاق لکھا ہے کہ خلافت علی منہاج النبوۃ کی پیشگوئی مسیح موعود اور مہدی معہود کے زمانہ سے متعلق ہے.یعنی خلافت راشدہ کا یہ دور اس زمانہ میں شروع ہوگا.چنانچہ حضرت سید محمد اسمعیل شہید نے اپنی مشہور کتاب ”منصب امامت میں خلافت علی منہاج نبوت کے سلسلہ میں تحریر فرمایا ہے:.امامت تامہ کو خلافت را شده ، خلافت علی منہاج نبوت اور خلافت رحمت بھی کہتے ہیں.واضح ہو کہ جب امامت کا چراغ شیعہ خلافت میں جلوہ گر ہوا تو نعمت ربانی بنی نوع انسان کی پرورش کے لئے کمال تک پہنچی اور کمال روحانیت امی رحمت ربانی کے کمال کے ساتھ نور علی نور آفتاب کی مانند چمکا.منصب امامت ص ۷۹.ایڈیشن دوم ۱۹۶۹ء )

Page 210

۱۸۹ آنحضرت ﷺ کی مذکورہ بالا پیشگوئی کے مطابق خلافت علی منہاج نبوت کے قیام کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مبعوث فرمایا.چنانچہ آپ نے اس سلسلہ میں فرمایا:.چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہذا خدا تعالیٰ نے یہ ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو کہ تمام دنیا کے ۸ وجودوں سے اشراف واولی ہیں، ظلی طور پر ہمیشہ کے لئے تا قیامت قائم رکھے.سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تاد نیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہر ہے.شہادت القرآن روحانی خزائن جلد ۶ ص ۳۵۳) جب ۱۹۰۵ء کے آخر میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو قَرُبَ أَجَلُكَ الْمُقَدَّر یعنی تیری وفات کا وقت قریب آگیا ہے کا الہام ہوا.تو آپ نے ساری جماعت کو بطور وصیت فرمایا:.سواے عزیز و! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا دے.سواب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں.لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی.سوضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائی

Page 211

190 وعدہ کا دن ہے.میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا ہوں اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں.اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے.سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہوکر دعا کرتے رہو.اور چاہئے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دعا میں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہیں دکھا دے کہ تمہارا خدا ایسا قادر خدا ہے.(رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد ۲۰ ص ۳۰۶،۳۰۵) 66 پھر تھوڑا آگے چل کر فرمایا کہ:.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں، کیا یورپ اور کیا ایشیا ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں تو حید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا ہوں سو تم اس مقصد کی پیروی کرو.مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے“.(رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد ۲۰ص۳۰۶) اس وصیت کے ساتھ جماعت کو یہ خوشخبری بھی سنائی:.تم خدا کے ہاتھ کا بیج ہو جو دنیا میں بویا گیا.خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک درخت ہو جائے گا“.(رسالہ الوصیت.روخانی خزائن جلد ۲۰ ص ۳۰۹) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس وصیت کے مطابق دنیا میں جو تو حید کا قیام ہونا تھا اور جماعت احمدیہ نے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کی جو منازل طے کرنی تھیں وہ ان مقدس وجودوں کے ذریعہ ظہور پذیر ہونا تھی جو خلافت علی منہاج نبوت پر فائز ہونے تھے.پس قرآن کریم ، احادیث نبویہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مذکورہ

Page 212

۱۹۱ بالا وصیت کے مطابق ضرور تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد جماعت احمدیہ میں قدرت ثانیہ کے رنگ میں نظام خلافت جاری ہوتا.جو خدا کے فضل سے مورخہ ۲۷ مئی ۱۹۰۸ء سے جاری ہے جس کی برکت سے جماعت احمدیہ آج دنیا کے ۱۹۳ ممالک میں نفوذ کر چکی ہے اور رشد و ہدایت کا یہ سلسلہ منشاء الہی کے مطابق اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے.الحمد للہ علی ذالک.خلافت راشدہ اور خلافت احمدیہ میں مماثلت حضرت شاہ اسمعیل شہید اپنی کتاب ”منصب امامت“ میں خلافت راشدہ کی تعریف اور وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.” خلیفہ راشد وہ شخص ہے جو منصب امامت رکھتا ہو اور سیاست ایمانی کے معاملات اس سے ظاہر ہوں.جو اس منصب تک پہنچاوہی خلیفہ راشد ہے.خواہ زمانہ سابق میں ظاہر ہوا خواہ موجودہ زمانے میں ہو.خواہ اوائل امت میں ہو خواہ اس کے آخر میں اور اسی طرح یہ بھی نہ سمجھ لینا چاہئے کہ لفظ ” خلفائے راشد خلفائے اربعہ کی ذات سے خصوصیت رکھتا ہے کہ اس لفظ کے استعمال سے انہی لوگوں کی ذات متصور ہوتی ہے.منصب امامت ص ۱۳۷.ایڈیشن دوم نقوش پریس لاہور ) پس اس تعریف کی رو سے خلافت احمد یہ بھی خلافت راشدہ ہی ہے کیونکہ آخری زمانہ میں قائم ہونے والی خلافت کے لئے ہی خلافت علی منہاج النبوۃ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں اور آخری زمانہ میں قائم ہونے والی خلافت علی منہاج النبوۃ سے مراد خلافت احمد یہ ہی ہے.کیونکہ آخری زمانے کی قرآن کریم اور احادیث میں

Page 213

۱۹۲ بیان فرموده تمام آیات و علامات پوری ہو چکی ہیں.لہذا یہی آخری زمانہ ہے اور خلافت احمد یہ ہی قیامت سے ماقبل قائم ہونے والی خلافت علی منہاج النبوت ہے.پس خلافت احمد یہ بھی خلافت راشدہ ہی ہے.خلافت کو قدرت ثانیہ نام دینے کا فلسفہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خلافت کو ” قدرت ثانیہ کے نام سے کیوں موسوم فرمایا؟ اس کی وضاحت میں حضرت مصلح موعودؓ نے ارشاد فرمایا کہ:.”نبی کی دو زندگیاں ہوتی ہیں ایک شخصی اور ایک قومی اور اللہ تعالیٰ ان دونوں زندگیوں کو الہام سے شروع کرتا ہے.نبی کی شخصی زندگی تو الہام سے اس طرح شروع ہوتی ہے کہ جب وہ نہیں یا چالیس سال کا ہوتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ تو مامور ہے نبی کی قومی زندگی الہام سے اس طرح شروع ہوتی ہے کہ جب وہ وفات پاتا ہے تو کسی بنی بنائی سکیم کے ماتحت اس کے بعد نظام قائم نہیں ہوتا بلکہ یکدم ایک تغیر پیدا ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کا مخفی الہام قوم کے دلوں کو اس نظام کی طرف متوجہ کر دیتا ہے....اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کا نام قدرت ثانیہ رکھا ہے.خلافت را شدہ ص ۶۱ ۶۲ - تقریر حضرت مصلح موعود ۱۹۳۹ء.انوار العلوم جلد ۵ اشائع کردہ فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ )

Page 214

۱۹۳ قدرت ثانیہ کا ظہور وفات حضرت مسیح موعود حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی وفات سے قبل آپ کو متعدد ایسے الہامات ہوئے جن میں آپ کی وفات کے وقت کے قریب ہونے کے اشارے پائے جاتے تھے.چنانچہ انہیں الہامات کے پیش نظر آپ نے ۱۹۰۵ء میں رسالہ الوصیت تحریر فرمایا کہ جماعت کو بعض نصائح فرمائیں.نیز اپنے اور قدرت ثانیہ کے ظہور کی نوید سنائی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام وفات سے تقریباً ایک ماہ قبل حضرت اماں جان کے علاج کے سلسلہ میں مورخہ ۲۹ را پریل کو لاہور تشریف لے گئے.جہاں آپ نے جناب خواجہ کمال الدین صاحب بی اے ایل ایل بی کے مکان پر قیام فرمایا.وہاں قیام کے دوران حضور ”پیغام صلح کی تصنیف میں مصروف تھے کہ مورخہ ۲۰ مئی ۱۹۰۸ء کو آپ کو یہ الہام ہوا کہ :.الرَّحِيْل ثُمَّ الرَّحِيْل وَالْمَوْتَ قَرِيبٌ.یعنی کوچ کا وقت آگیا ہے.ہاں کوچ کا وقت آگیا ہے اور موت قریب ہے.(بدر جلدے ص۲۲) یہ الہام اپنے اندر کسی تاویل کی گنجائش نہیں رکھتا تھا.بالآ خر مورخہ ۲۶مئی ۱۹۰۸ء کو بروز منگل صبح ساڑھے دس بجے آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر کے اپنے ابدی آقا اور محبوب کی خدمت میں پہنچ گئی.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.كُلَّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ.(بحوالہ سلسلہ احمدیہ ص ۱۸۴- از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے شائع کردہ شعبہ تالیف و تصنیف قادیان)

Page 215

۱۹۴ تجهیز و تکفین و تدفين حضور کی وفات کے معا بعد تجہیز و تکفین کی تیاری کی گئی اور جب غنسل وغیرہ سے فراغت ہوئی تو تین بجے بعد دو پہر حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول نے لاہور کی جماعت کے ساتھ خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان میں نماز جنازہ ادا کی.اور پھر شام کی گاڑی سے حضرت مسیح موعود کا جنازہ بٹالہ پہنچایا گیا.جہاں سے راتوں رات روانہ ہو کر خلص دوستوں نے اپنے کندھوں پر اسے صبح کی نماز کے قریب بارہ میل کا پیدل سفر کر کے قادیان پہنچایا.قادیان پہنچ کر آپ کے جنازہ کو اس باغ میں رکھا گیا جو بہشتی مقبرہ کے ساتھ ہے اور لوگوں کو اپنے محبوب آقا کی آخری زیارت کا موقع دیا گیا اور حضرت حافظ حکیم مولوی نورالدین صاحب بھیروی کی بیعت خلافت کے بعد جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے باغ متصل بہشتی مقبرہ میں ایک آم کے درخت کے نیچے ہوئی تھی حضرت خلیفہ اسیح الاول نے حضرت مسیح موعود کے باغ کے ملحقہ حصہ میں تمام حاضر الوقت احمدیوں کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نماز جنازہ ادا کی.نماز کے بعد چھ بجے شام کے قریب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جسم اطہر کو مقبرہ بہشتی کے ایک حصہ میں دفن کیا گیا.اور آپ کے مزار مبارک پر پھر ایک آخری دعا کر کے آپ کے غمزدہ رفیق اپنے گھروں کو واپس لوٹے.اَللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى مَطَاعِهِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمُ.ملخص از سلسلہ احمدیہ ص ۱۸۶ تا ۱۸۸- از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے شائع کردہ نظارت تالیف و تصنیف قادیان)

Page 216

۱۹۵ جماعت احمدیہ میں خلیفہ کے انتخاب کا طریق انتخاب خلافت کے طریق سے متعلق سب سے پہلے یہ بات یاد رکھنے کی ، ضرورت ہے کہ جیسا کہ دوسرے دنیاوی امور میں اسلام کا طریق ہے اس معاملہ میں بھی اسلام نے صرف ایک اصولی تعلیم دی ہے اور تفصیلات کے تصفیہ کو ہر زمانہ اور ہر ملک اور ہر قوم کے حالات پر چھوڑ دیا ہے اور دراصل اس قسم کے معاملات میں یہی طریق عظمندی اور میانہ روی کا طریق ہے کہ صرف اصولی ہدایت پر اکتفاء کی جاوے اور تفصیلات میں دخل نہ دیا جاوے.کیونکہ اگر ایسا نہ ہو اور حالات کے اختلاف کا لحاظ رکھنے کے بغیر ہر زمانہ میں ہر قوم پر ایک ہی ٹھوس غیر مبدل اور تفصیلی قانون جاری کر دیا جاوے تو ظاہر ہے کہ قانون شریعت رحمت کی بجائے ایک زحمت ہو جاوے.اور ہدایت کی بجائے ضلالت کا سامان پیدا کر دے.پس اسلام نے کمال دانشمندی کے ساتھ اس معاملہ میں صرف اصولی ہدایت دی ہے جو تفصیلات کے مناسب اختلاف کے ساتھ ہر قسم کے حالات پر یکساں چسپاں ہوتی ہے.یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد قائم ہونے والی خلافت راشدہ میں حسب حالات اور حسب موقع انتخاب کے مختلف طریق اختیار کئے گئے.حضرت ابوبکر کا انتخاب تھوڑے اختلاف اور بحث و تمیص کے بعد انصار ومہاجرین نے متفقہ طور پر کیا.(بخاری و مسلم وغيره عن ابن عمر بحواله تلخيص باب فی ذکر خلفاء الراشدين) اور حضرت عمر کا انتخاب حضرت ابو بکر نے اپنی زندگی میں ہی صحابہ کبار کے مشورہ سے اپنی زندگی میں ہی بطور نامزدگی کر دیا تھا.پھر حضرت عثمان کا انتخاب صحابہ کی ایک

Page 217

١٩٦ چھ رکنی کمیٹی نے مل کر کیا جسے حضرت عمر نے اپنی زندگی میں مقرر کر دیا تھا.حضرت عثمان کی شہادت کے بعد حضرت علی کا انتخاب صحابہ کی ایک بھاری اکثریت کے اتفاق سے عمل میں آیا.پس خلفاء راشدین کے انتخاب میں کوئی ایک طریق انتخاب نظر نہیں آتا.اس لئے انتخاب خلافت کے لئے حسب حالات کوئی مناسب طریق اپنایا جاسکتا ہے اور حسب ضرورت پہلے کے مقررہ قواعد وضوابط میں تبدیلی اور کمی و بیشی ممکن ہوسکتی ہے.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود کے بعد قائم ہونے والی خلافت راشدہ میں بھی انتخاب خلافت کے قواعد وضوابط میں حسب حالات تبدیلیاں ہوتی رہیں.حضرت خلیفہ امسیح الاول کا انتخاب تو تمام جماعت کے متفقہ رائے اور مشورہ سے عمل میں آیا.مگر خلافت ثانیہ کے انتخاب کے وقت بعض افراد نے نظام خلافت کے تعلق میں اختلاف کیا.مگر جماعت کی بھاری اکثریت نے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفتہ اسیح الثانی کو خلیفہ تسلیم کر کے ان کے ہاتھ پر بیعت خلافت کر لی.نظام خلافت کے حوالے سے بعض غیر مبائعین کے اختلاف اور بالخصوص حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی ذات کے حوالے سے غلط پروپیگنڈا کے پیش نظر اپنی علالت کے دوران حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۱۸ء میں اپنے بعد انتخاب خلافت کے لئے درج ذیل ہدایات ارشاد فرمائیں.حضرت امیر المومنین پر آخر ۱۹۱۸ء انفلوئنزا کا اتنا شدید حملہ ہوا کہ حضور نے ۱۹ اکتو بر ۱۹۱۸ء کو وصیت بھی لکھ دی جس میں اپنے بعد انتخاب خلیفہ کے لئے گیارہ افراد پرمشتمل ایک کمیٹی نامز دفرما دی.اس اہم وصیت کا متن درج ذیل کیا جاتا ہے.

Page 218

۱۹۷ اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم رسول الكريم نحمده ونصلى على خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ میں مرزا محمود احمد ولد حضرت مسیح موعود خدا تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر ایسی حالت میں کہ دنیا اپنی سب خوبصورتیوں سمیت میرے سامنے سے ہٹ گئی ہے بقائمی ہوش و حواس رو بروان پانچ گواہوں کے جن کے نام اس تحریر کے آخر میں ہیں اور جن میں سے ایک خود اس تحریر کا کا تب ہے جماعت احمدیہ کی بہتری اور اس کی بہبودی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ وصیت کرتا ہوں کہ اگر میں اس کا غذ کی تحریر کو اپنی حین حیات میں منسوخ نہ کروں تو میری وفات کی صورت میں وہ لوگ جن کے نام اس جگہ تحریر کرتا ہوں ایک جگہ پر جمع ہوں جن کے صدر اس وقت نواب محمد علی خاں صاحب ہوں گے اور اگر کسی وجہ سے وہ شامل نہ ہو سکیں ( گواگر جد امکان میں ہو تو میر احکم ہے کہ وہ اس میں شامل ہوں ) تو پھر یہ جمع ہونے والے لوگ آپس کے مشورے سے کسی شخص کو صدر مقرر کریں پہلے صدر جلسہ سب کے روبرو بآواز بلند کلمہ شہادت پڑھ کر خدا کی قسم کھا کر اس بات کا اقرار کرے کہ وہ نیک نیتی کے ساتھ اس معاملہ میں رائے دے گا اور کسی قسم کی نفسانیت کو اس میں دخل نہ دے گا.پھر وہ ہر ایک نامزد شدہ سے اس قسم کی قسم لے اور سب لوگ صدر جلسہ سمیت اس بات پر حلف اٹھائیں کہ وہ اس معاملہ کے بعد یہ سب لوگ فردا فردا اس بات کا مشورہ دیں کہ جماعت میں سے کسی شخص کے ہاتھ پر بیعت کی جاوے تاکہ وہ جماعت کے لئے خلیفہ اور امیر المومنین ہو صدر جلسہ اس بات کی کوشش کرے کہ سب ممبروں کی رائے ایک ہو.اگر یہ صورت نہ ہو سکے تو

Page 219

۱۹۸ سب لوگ جن کے نام اس کا غذ پر لکھے جاویں گے رات کو نہایت عاجزی کے ساتھ دعا کریں کہ خدایا تو ہم پر حق کھول دے.دوسرے دن پھر جمع ہوں اور پھر حلف اٹھائیں اور پھر اسی طرح رائے دیں.اگر آج کے دن بھی وہ لوگ اتفاق نہ کرسکیں تو ۳/۵ را ئیں جس شخص کے حق میں متفق ہوں.اس کی خلافت کا اعلان کیا جاوے لیکن اعلان سے پہلے یہ ضروری ہوگا کہ حاضر الوقت احباب سے نواب صاحب یا ان کی جگہ جو صدر ہو اس مضمون کی بیعت لیں کہ وہ سب کے سب ان لوگوں کے فیصلہ کو بصدق دل منظور کریں گے اور اس بیعت میں وہ لوگ بھی شامل ہوں جن کے نام اس کا غذ پر لکھے جائیں گے اس کے بعد اس شخص کی خلافت کا صدر اعلان کرے جس پر ان ممبروں کا حسب قواعد مذکورہ بالا اتفاق ہو.بشرطیکہ وہ شخص ان ممبروں میں سے جو صدر جلسہ ہو اس کے ہاتھ پر اس امر کی بیعت کرے( جو بیعت کہ میری ہی سمجھی جائے گی اور اس شخص کا ہاتھ میرا ہاتھ ہو گا ) کہ میں خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ حضرت صاحب کی بتائی ہوئی تعلیم اسلام پر میں یقین رکھوں گا اور عمل کروں گا اور دانستہ اس سے ذرا بھی ادھر ادھر نہ ہوں گا.بلکہ پوری کوشش اس کے قیام کی کروں گا روحانی امور سب سے زیادہ میرے مدنظر رہیں گے اور میں خود بھی اپنی ساری توجہ اسی طرف پھیروں گا اور باقی سب کی توجہ بھی اسی طرف پھیرا کروں گا اور سلسلہ کے متعلق تمام کاموں میں نفسانیت کا دخل نہیں ہونے دوں گا اور جماعت کے متعلق جو پہلے دو خلفاء کی سنت ہے اس کو ہمیشہ مدنظر رکھوں گا اس کے بعد وہ سب لوگوں سے بیعت لے اور میں ساتھ ہی اس شخص کو وصیت کرتا ہوں کہ حضرت صاحب کے پرانے دوستوں سے نیک سلوک کرے.ندیوں سے شفقت کرے امہات المومنین خدا کے حضور میں خاص رتبہ رکھتی ہیں.پس حضرت ام المومنین کے

Page 220

۱۹۹ احساسات کا اگر اس کے فرائض کے رستہ میں روک نہ ہوں احترام کرے.میری اپنی بیبیوں اور بچوں کے متعلق اس شخص کو یہ وصیت ہے کہ وہ قرضہ حسنہ کے طور پر ان کے خرچ کا انتظام کرے جو میری نرینہ اولادانشاء اللہ تعالیٰ ادا کرے گی.بصورت عدم ادائیگی میری جائیداد اس کی کفیل ہو ان کو خرچ مناسب دیا جائے عورتوں کو اس وقت تک خرچ دیا جائے جب تک وہ اپنی شادی کر لیں بچوں کو اس وقت تک جبکہ وہ اپنے کام کے قابل ہو جائیں.اور بچوں کو دنیوی اور دنیاوی تعلیم ایسے رنگ میں دلائی جاوے کہ وہ آزاد پیشہ ہوکر خدمت دین کر سکیں.جہاں تک ہو سکے لڑکوں کوحفظ قرآن کرایا جاوے.باقی حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفہ امسیح الاول کی وصیتیں میں پھر اس شخص کو اور جماعت کو یاد دلاتا ہوں.جو کام حضرت مسیح موعود نے جاری کئے ہیں کسی صورت میں ان کو بند نہ کیا جاوے ہاں ان کی صورتوں میں کچھ تغیر ہوتو ضرورتوں کے مطابق خلیفہ کو اختیار ہے اس قسم کا انتظام آئندہ انتخاب خلفاء کے لئے بھی وہ شخص کر دے.اللہ تعالیٰ اس شخص کا حافظ حامی اور ناصر ہواس شخص کو چاہئے کہ اگر وہ دین کی ظاہری تعلیم سے واقف نہیں تو اس کو حاصل کرے دعاؤں پر بہت زور دے ہر بات کرتے وقت پہلے سوچ لے کہ آخر انجام کیا ہو گا؟ کسی کا غصہ دل میں نہ رکھے خواہ کسی سے کسی قدر ہی اس کو ناراضگی ہو.اس کی خدمات کو کبھی نہ بھلائے.ان لوگوں کے اسماء جن کو میں خلیفہ کے متعلق مشورہ کرنے کے لئے مقرر کرتا ہوں.یہ ہیں:.(۱) نواب محمد علی خان صاحب.(۲) ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب.(۳) مولوی شیر علی صاحب.(۴) مولوی سید سرور شاہ صاحب.(۵) قاضی سید امیرحسین صاحب.(۶) چوہدری فتح محمد صاحب سیال.(۷) حافظ روشن علی صاحب.(۸) سید حامد شاہ صاحب.(۹)میاں چراغ دین صاحب.

Page 221

۲۰۰ (۱۰) ذوالفقار علی خاں صاحب.اگر بیرونی لوگ شامل نہ ہوسکیں تو پھر یہیں کے لوگ فیصلہ کریں.خلیفہ وہی شخص ہوسکتا ہے جو قادیان میں رہے جو خود نمازیں پڑھائے.یہ ضروری ہدایت یاد رکھی جائے کہ یہ لوگ اس بات کا اختیار رکھیں گے کہ اپنے میں سے کسی شخص کو انتخاب کریں یا کسی ایسے شخص کو جس کا نام فہرست میں شامل نہیں ایک نام اس میں اور زیادہ کر دیا جاوے.میاں بشیر احمد صاحب بھی اس میں شامل ہیں.والسلام.اگر صدر جلسہ خود خلیفہ تجویز ہو تو جو الفاظ خلیفہ کی بیعت کے لئے رکھے گئے ہیں ان کا وہ خود حلفیہ طور پر مجلس میں اقرار کرے.خدا کے فضلوں کا انکار کوئی نہیں کرسکتا.خلیفہ خدا بنا تا ہے.پس اس شخص کو جس کے لئے لوگ متفق ہوں خلافت سے انکار نہیں کرنا چاہئے.ہاں مشورہ دینے والوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ایسے شخص کو منتخب کریں کہ وہ قادیان کا ہی ہو کر رہ سکے اور جماعت کر سکتا ہو.والسلام واخر دھونا ان الحمد للہ رب العالمین ( دستخط ) خاکسار مرزا محموداحمد دستخط خاکسار شیر علی عفی عنہ بقلم خود کا تب تحریر ہذا.۱۹ اکتوبر ۱۹۱۸ء.دستخط فتح محمد سیال بقلم خود.دستخط خاکسار مرزا بشیر احمد بقلم خود ۱۹۱۰/۱۸ - دستخط محمد سرور شاہ بقلم خود ۱۹ اکتوبر ۱۹۱۸ء.دستخط خلیفہ رشید الدین ایل.ایم.ایس بقلم خود ۱۹ را کتوبر ۱۹۱۸ء.(نوٹ ) یہ کاغذ مولوی شیر علی صاحب کی تحویل میں رکھا جاوے اور اس کی نقل فوراً شائع کر دی جاوے.(دستخط ) مرزا محمود احمد“.حضور کے ارشاد کی تعمیل میں دوسرے ہی روز یہ وصیت دفتر ترقی اسلام کے میگزین پریس قادیان سے شائع کر دی گئی.اس کے بعد دسمبر ۱۹۵۶ء میں حضور نے دوبارہ فتنہ خلافت کے پیش نظر مذکورہ بالا

Page 222

۲۰۱ قواعد میں ترمیم فرمائی اور اپنی ہدایات کی روشنی میں علماء سلسلہ کی ایک کمیٹی مقرر کر کے از سرنو انتخاب خلافت کے قواعد وضع کروائے.جنہیں مجلس شوری میں ریزولیشن کی صورت میں پیش کر کے ممبران شوری کی تائید حاصل کی گئی.یہ ریزولیوشن حسب ذیل ہے.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم انتخاب خلافت کے متعلق ایک ضروری ریزولیوشن تمہید :.سید نا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانه ۱۹۵۶ء کے موقعہ پر آئندہ خلافت کے انتخاب کے متعلق یہ بیان فرمایا تھا کہ پہلے یہ قانون تھا کہ مجلس شوری کے ممبران جمع ہو کر خلافت کا انتخاب کریں.لیکن آجکل کے فتنہ کے حالات نے ادھر توجہ دلائی ہے کہ تمام ممبران شوری کا جمع ہونا بڑا لمبا کام ہے.ہوسکتا ہے کہ اس سے فائدہ اٹھا کر منافق کوئی فتنہ کھڑا کر دیں.اس لئے اب میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ جو اسلامی شریعت کے عین مطابق ہے کہ آئندہ خلافت کے انتخاب میں مجلس شوری کے جملہ ممبران کی بجائے صرف ناظران صدر انجمن احمدیہ، ممبران صدر انجمن احمدیہ، وکلاء تحریک جدید، خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زندہ افراد ( جن کی تعداد اس غرض کے لئے اس وقت تین ہے.یعنی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت نواب میاں عبد اللہ خان صاحب) جامعتہ المبشرین کا پرنسپل، جامعہ احمدیہ کا پرنسپل اور مفتی سلسلہ احمد بیل کر فیصلہ کیا کریں.

Page 223

۲۰۲ مجلس انتخاب خلافت کے اراکین میں اضافہ جلسہ سالانہ ۵۶ ء کے بعد حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے علماء سلسلہ اور دیگر بعض صاحبان کے مشورہ کے مطابق مجلس انتخاب خلافت میں مندرجہ ذیل اراکین کا اضافہ فرمایا:.۱.مغربی پاکستان کا امیر اور اگر مغربی پاکستان کا ایک امیر مقرر نہ ہو تو علاقہ جات مغربی پاکستان کے امراء جو اس وقت چار ہیں.۲.مشرقی پاکستان کا امیر.۳.کراچی کا امیر ۴.تمام اضلاع کے امراء ۵.تمام سابق امراء جو دو دفعہ کسی ضلع کے امیر رہ چکے ہوں.گوانتخاب خلافت کے وقت امیر نہ ہوں.( ان کے اسماء کا اعلان صدرانجمن احمد یہ کرے گی ).۶.امیر جماعت احمدیہ قادیان ۷ ممبران صدرانجمن احمدیہ قادیان ۸ تمام زنده صحابه کرام کو بھی انتخاب خلافت میں رائے دینے کا حق ہوگا.(اس غرض کے لئے صحابی وہ ہوگا جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا ہوا ور حضور کی باتیں سنی ہوں اور ۱۹۰۸ء میں حضور علیہ السلام کی وفات کے وقت اس کی عمر کم از کم بارہ سال کی ہو.صد را مجمن احمد یہ تحقیقات کے بعد صحابہ کرام کے لئے سرٹیفیکیٹ جاری کرے گی اور ان کے ناموں کا اعلان کرے گی) ۹.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اولین صحابیوں میں ہر ایک کا بڑا لڑکا انتخاب میں رائے دینے کا حقدار ہوگا بشرطیکہ وہ مبائعین میں شامل ہو.(اس جگہ صحابہ اولین سے مراد وہ احمدی ہیں جن کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۹۰۱ء سے پہلے کی کتب میں فرمایا ہے (ان کے ناموں کا اعلان بھی صدر انجمن احمد یہ کرے گی ) ۱۰.ایسے تمام مبلغین سلسلہ احمدیہ جنہوں نے کم از کم ایک سال بیرونی ممالک میں تبلیغ کا کام کیا ہواور بعد میں تحریک جدید نے کسی

Page 224

٢٠٣ الزام کے ماتحت انہیں فارغ نہ کر دیا ہو.(ان کو تحریک جدید سرٹیفیکیٹ دے گی اور ان کے ناموں کا اعلان کرے گی ) اا.ایسے تمام مبلغین سلسلہ احمدیہ جنہوں نے پاکستان کے کسی صوبہ یا ضلع میں رئیس التبلیغ کے طور پر کم از کم ایک سال کام کیا ہو اور بعد میں ان کو صدرانجمن احمدیہ نے کسی الزام کے ماتحت فارغ نہ کر دیا ہو.(انہیں صدرانجمن احمد یہ سرٹیفیکیٹ دے گی اور ان کے ناموں کا اعلان کرے گی ) مجلس انتخاب خلافت کا دستور العمل سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مندرجہ بالا جملہ اراکین مجلس انتخاب خلافت کے کام کے لئے حسب ذیل دستورالعمل منظور فرمایا ہے:.الف.مجلس انتخاب خلافت کے جو اراکین مقرر کئے گئے ہیں.ان میں سے بوقت انتخاب حاضر افراد انتخاب کرنے کے مجاز ہوں گے.غیر حاضر افراد کی غیر حاضری اثر انداز نہ ہوگی اور انتخاب جائز ہوگا.ب.انتخاب خلافت کے وقت اور مقام کا اعلان کرنا مجلس شوری کے سیکرٹری اور ناظر اعلیٰ کے ذمہ ہوگا.ان کا فرض ہوگا کہ موقع پیش آنے پر فوراً مقامی اراکین مجلس انتخاب کو اطلاع دیں.بیرونی جماعتوں کو تاروں کے ذریعہ اطلاع دی جائے.اخبار الفضل میں بھی اعلان کر دیا جائے.ج.نئے خلیفہ کا انتخاب مناسب انتظار کے بعد چوبیس گھنٹے کے اندر اندر ہونا چاہئے.مجبوری کی صورت میں زیادہ سے زیادہ تین دن کے اندر انتخاب ہونا لازمی ہے.اس درمیانی عرصہ میں صدر انجمن احمدیہ پاکستان جماعت کے جملہ کاموں کو سرانجام دینے کی ذمہ دار ہوگی.

Page 225

۲۰۴ د.اگر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی زندگی میں نئے خلیفہ کے انتخاب کا سوال اٹھے تو مجلس انتخاب خلافت کے اجلاس کے وہ پریذیڈنٹ ہوں گے.ورنہ صدرانجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے اس وقت کے سینیئر ناظر یا وکیل اجلاس کے پریذیڈنٹ ہوں گے.(ضروری ہے کہ صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید فوری طور پر مشتر کہ اجلاس کر کے ناظروں اور وکلاء کی سینیارٹی فہرست مرتب کرلے ) ه مجلس انتخاب خلافت کا ہر رکن انتخاب سے پہلے یہ حلف اٹھائے گا کہ:.میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اعلان کرتا ہوں کہ میں خلافت احمدیہ کا قائل ہوں اور کسی ایسے شخص کو ووٹ نہیں دوں گا جو جماعت مبائعین میں سے خارج کیا گیا ہو یا اس کا تعلق احمدیت یا خلافت احمدیہ کے مخالفین سے ثابت ہو“.جب خلافت کا انتخاب عمل میں آجائے تو منتخب شدہ خلیفہ کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ لوگوں سے بیعت لینے سے پہلے کھڑے ہو کر قسم کھائے کہ :.میں اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں خلافت احمدیہ پر ایمان رکھتا ہوں اور میں ان لوگوں کو جو خلافت احمدیہ کے خلاف ہیں باطل پر سمجھتا ہوں اور میں خلافت احمدیہ کو قیامت تک جاری رکھنے کی پوری کوشش کروں گا اور اسلام کی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے انتہائی کوشش کرتا رہوں گا اور میں ہر غریب اور امیر احمدی کے حقوق کا خیال رکھوں گا اور قرآن شریف اور حدیث کے علوم کی ترویج کے لئے جماعت کے مردوں اور عورتوں میں ذاتی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی کوشاں رہوں گا.ز.اوپر کے قواعد کے مطابق صحابہ اور نمائندگان جماعت جن میں امراء اضلاع سابق و حال بھی شامل ہیں کی تعداد ڈیڑھ سو سے زیادہ ہو جائے گی.ان میں خاندان

Page 226

۲۰۵ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد کی تعداد اتنی قلیل رہ جاتی ہے کہ منتخب شدہ ممبروں کے مقابلہ میں اس کی کوئی حیثیت ہی باقی نہیں رہتی.ہاں خلیفہ وقت کا انتخاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے افراد اور جماعت کے ایسے مخلصین میں سے ہو سکے گا جو مبائعین ہوں اور جن کا کوئی تعلق غیر مبائعین یا احرار وغیرہ دشمنان سلسلہ احمدیہ سے نہ ہو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس وقت تک ایسے مخلصین کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی ہے ) بنیادی قانون ضروری نوٹ:.سید نا حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی بنصرہ العزیز نے آئندہ کے لئے انتخاب خلافت کے لئے مذکورہ بالا اراکین اور قواعد کی منظوری کے ساتھ بطور بنیادی قانون کے فیصلہ فرمایا ہے کہ:.آئندہ خلافت کے انتخاب کے لئے یہی قانون جاری رہے گا سوائے اس کے کہ خلیفہ وقت کی منظوری سے شوری میں یہ مسئلہ پیش کیا جائے اور شوری کے مشورہ کے بعد خلیفہ وقت کوئی اور تجویز منظور کرے.مجلس علماء کی یہ تجویز درست ہے مجلس علماء سلسلہ احمدیہ ( دستخط ) مرزا محموداحمدخلیفہ السیح الثانی ۱۸-۳-۵۷ ۲۰_۳۵۷ مجلس انتخاب خلافت کا ہر رکن انتخاب سے پہلے یہ حلف اٹھاتا ہے:.میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اعلان کرتا ہوں کہ خلافت احمدیہ کا قائل ہوں

Page 227

اور کسی ایسے شخص کو ووٹ نہیں دوں گا جو جماعت مبائعین سے خارج کیا گیا ہو یا اس کا تعلق احمدیت یا خلافت احمدیہ کے مخالفین سے ثابت ہو.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث اور حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کے انتخابات مذکورہ بالا قواعد کی روشنی میں ہی ہوئے.جبکہ ۱۹۸۴ء میں پاکستان کے مخصوصی جماعتی حالات کے پیش نظر خلافت احمد یہ لندن برطانیہ منتقل ہوگئی.تو حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے مخصوص حالات کے پیش نظر ان قواعد میں بعض تبدیلیاں فرما ئیں اور آئندہ خلیفہ وقت کے انتخاب کے لئے بعض مزید ہدایات وضع فرمائیں.جن کی روشنی میں خلافت خامسہ کا انتخاب عمل میں آیا.ہیں:.موجودہ قواعد انتخاب خلافت مذکورہ بالا قواعد میں ترمیمات کے بعد موجودہ قواعد انتخاب خلاف ۱۹۸۴ء میں جب حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمداللہ کو ہجرت کر کے لندن جانا پڑا اس وقت حکومت پاکستان نے جماعت احمدیہ کے خلاف ایسے حالات پیدا کر دئیے تھے کہ یہ خطرہ پیدا ہوا کہ اگر ان حالات میں انتخاب خلافت کا وقت آجائے تو مخالف احمدیت عناصر اس کا رروائی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اس لئے حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کے ارشاد پر انتخاب خلافت کا ادارہ پاکستان سے باہر منتقل کر دینے کی عملی شکل کے بارہ میں مشورہ پیش کرنے کے لئے لاہور میں ایک خصوصی مجلس شوریٰ کا اجلاس بلایا گیا.ی مجلس شوری اسی مسئلہ پر غور کرنے کے لئے بلائی گئی تھی.اس مجلس شوری کی رپورٹ حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کی خدمت میں پیش کی گئی.اس پر حضور نے بعض

Page 228

۲۰۷ اور پہلوؤں پر غور کرنے کے لئے لندن میں ایک مشاورتی کمیٹی تشکیل دی.اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ حضور کی خدمت میں پیش کی.اس کے بعد پاکستان اور بیرون پاکستان بعض اور صاحب الرائے احباب سے مشورہ لیا گیا.بعض اور تجاویز پر غور کرنے کے لئے حضور نے ناظر صاحب اعلیٰ صدرانجمن کو ہدایت فرمائی کہ ممبران صدرانجمن احمدیہ پاکستان تحریک جدید انجمن احمد یہ پاکستان اور مجلس وقف جدید پاکستان اور بعض امراء اور صاحب الرائے احمدیوں پر مشتمل ایک مجلس شوری برائے انتخاب خلافت کا اجلاس منعقد کیا جائے.چنانچہ یہ اجلاس ۱۰ اکتوبر ۱۹۸۵ء کو پاکستان میں منعقد ہوا.اور اس مشاورت کی شفارشات حضرت خلیفہ المسیح الرابع کی خدمت میں بجھوائی گئیں.متذکرہ بالا طریق پر غور وفکر اور مشوروں اور دعاؤں کے بعد ۱۹۵۷ء کے منظور شدہ قوانین میں مندرجہ ذیل ترامیم منظور کی گئیں.ممبران مجلس انتخاب خلافت میں وکلاء تحریک جدید کے علاوہ ممبران تحریک جدید، دممبران وقف جدید کو بھی شامل کیا گیا.۱۹۵۷ء میں یہ قاعدہ بنا تھا کہ حضرت مسیح موعود کے اولین صحابہ یعنی وہ جن کا ذکر حضرت مسیح موعود نے ۱۹۰۱ء سے پہلے کی کتب میں فرمایا ہے وہ اگر فوت ہو چکے ہوں تو ان کا بڑا لڑکا اس مجلس کا ممبر ہوگا بشرطیکہ وہ جماعت احمد یہ مبائعین میں شامل ہو.ان ناموں کا اعلان صدرانجمن احمد یہ کرے گی.اس قاعدہ میں اب یہ ترمیم کی گئی کہ صدر انجمن احمد یہ ان ناموں کا اعلان حضرت خلیفتہ امسیح کی منظوری سے کرے گی.۱۹۵۷ء میں بننے والے قوانین میں جو مر بیان اور مبلغین شامل کئے گئے تھے اس میں یہ ترمیم کی گئی کہ مبلغین اور مربیان کی اس قدر تعداد جو مجلس انتخاب کی کل تعداد کا پچیس فیصد ہو مجلس انتخاب کے رکن ہوں گے.اس غرض کے لئے صدر انجمن احمدیہ

Page 229

۲۰۸ اور تحریک جدید مشتر کہ اجلاس میں مبلغین اور مربیان کی سنیارٹی لسٹ تیار کریں گے اور مذکورہ تعداد میں ایسے سینئر ترین مبلغین کی فہرست حضرت خلیفہ اسیح کی خدمت میں پیش کریں گے.اس فہرست میں کسی ایسے مربی یا مبلغ کا نام پیش نہیں کیا جائے گا جسے کسی الزام کے تحت فارغ کیا گیا ہو.یہ اضافہ بھی قواعد میں کیا گیا کہ تمام ملکی امراء بحیثیت امیر جماعت ملک اس مجلس کے رکن ہوں گے.مقام انتخاب کے متعلق یہ ترمیم کی گئی کہ تا اطلاع ثانی انتخاب خلافت ربوہ کی بجائے اسلام آباد یو کے میں ہو گا.ناظر اعلی صدر انجمن احمد یہ ربوہ اگر انتخاب خلافت کے موقع پر یو کے میں موجود نہ ہوں تو ان کی عدم موجودگی میں ناظر اعلیٰ کے فرائض ادا کرنے کے لئے تین ایڈیشنل ناظر اعلیٰ مقرر کئے گئے.یہ ترمیم بھی منظور کی گئی کہ اگر کسی اشد مجبوری کی وجہ سے انتخاب خلافت تین دن کے اندر نہ ہو سکے تو صدرانجمن احمد یہ اس بات کی مجاز ہو گی کہ وہ تین دن کے اندر انتخاب کی شرط کو نظر انداز کر دے.اگر ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمد یہ ربوہ اس موقع پر یو کے پہنچ جائیں تو نظارت علیا کے جملہ اختیارات انہیں کے پاس ہوں گے.لیکن اگر وہ یو کے نہ پہنچ سکیں تو جو ایڈیشنل ناظر اعلی لندن میں موجود ہوں گے وہ یہ فرائض ادا کریں گے.اور اس دوران صدر انجمن احمدیہ کے جوارا کین لندن میں موجود ہوں گے ان پر مشتمل انجمن جماعت احمدیہ کے جملہ امور کی نگران ہوگی.اور اس دوران صدرانجمن احمدیہ کے جو ممبران پاکستا ن میں موجود ہوں گے اور ناظر اعلیٰ صدرانجمن احمد یہ موجود پاکستان اور جملہ جماعت ہائے احمد یہ عالمگیر لندن میں موجود ایڈیشنل ناظر اعلی اورممبران صدر انجمن احمد یہ موجود

Page 230

۲۰۹ لندن کے جملہ فیصلہ جات کو من و عن تسلیم کرنے کے پابند ہوں گے.یو کے میں صدر انجمن احمدیہ کے اجلاسات ایڈیشنل صدر صدر انجمن احمدیہ کی زیر صدارت ہوں گے.اور اس غرض کے لئے مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کو ایڈیشنل صدر صدر انجمن احمد یہ مقرر کیا گیا.یہ بھی قرار پایا کہ ناظران ور وکلاء کی سنیارٹی لسٹ کی منظوری حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ سے حاصل کی جائے گی.سیکریٹری مجلس شوری مجلس انتخاب خلافت کا بھی سیکریٹری ہوتا ہے.اس کے متعلق یہ قاعدہ منظور کیا گیا کہ تا اطلاع ثانی مکرم عطاء المجیب راشد صاحب اس مجلس کے سیکریٹری ہوں گے اور اگر وہ اس موقع پر لندن میں موجود نہ ہوں تو جو بھی عملاً بھی حضور کے پرائیویٹ سیکریٹری کے فرائض سرانجام دے رہا ہو وہ سیکریٹری کے فرائض ادا کرے گا.سیکریٹری مجلس شوری بحیثیت سیکریٹری شوری ووٹنگ ممبر نہیں ہوں گے.حضور نے یہ تجویز بھی منظور فرمائی کہ ہر وہ شخص جس نے کسی وقت نظام جماعت کے خلاف کسی کا رروائی میں حصہ لیا ہو یا جو ایسے لوگوں کے ساتھ ملوث رہا ہو اس کے نام انتخاب خلافت کے لئے پیش نہیں ہو سکے گا.صدرانجمن احد یہ ایسے افراد کے ناموں کی فہرست تیار کر کے حضرت خلیفتہ امسیح ایدہ اللہ سے اس کی منظور حاصل کرے گی.انتخاب خلافت حاضر اراکین کی سادہ اکثریت سے ہوگا اور جس کے حق میں سب سے زیادہ آراء ہوں گی وہی منتخب خلیفہ ہوگا.اور کسی کو اس پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہوگا.اور تمام افراد جماعت ہائے احمد پہ عالمگیر منتخب خلیفہ کی بیعت کریں گے.۲۳ نومبر ۱۹۸۵ کو حضرت خلیفہ اسیح کے دستخطوں سے ایک سرکلر جاری ہوا اور ان ترمیم شدہ قوانین کو حتمی حیثیت حاصل ہوگئی.

Page 231

۲۱۰ 1999ء میں جب حضرت خلیفہ اسیح کی بیماری شروع ہوئی تو حضور نے بعض احتمالات کے پیش نظر ان قواعد میں بعض ترامیم کی ضرورت محسوس کی.چنانچہ چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید اور مکرم مرزا خورشید احمد صاحب ناظر امور خارجہ صدر انجمن احمدیہ ( جو ان دنوں لندن آئے ہوئے تھے ) نے حضرت خلیفہ اسیح الرابع کی ہدایات کے مطابق بعض ترامیم مرتب کیں اور پھر حضور کی ہدایات کے مطابق ان مجوزہ ترامیم کو صد را مجمن احمد یہ پاکستان تحریک جدید انجمن احمد یہ پاکستان اور وقف جدید انجمن احمد یہ پاکستان کے اراکین پر مشتمل شوری کو مشورے کے لئے بھجوایا گیا.اس کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ قواعد انتخاب خلافت کا اکثر حصہ تو اسی طرح برقرار رہے گا جو ۱۹۸۵ء میں کچھ ترامیم کے بعد منظور کیا گیا تھا لیکن اب ان میں مندرجہ ذیل ترامیم کی جائیں گی جو فوری طور پر نافذ العمل ہوں گی.۱۹۸۵ء میں یہ ترمیم کی گئی تھی کہ تا اطلاع ثانی انتخاب خلافت ربوہ کی بجائے اسلام آباد یو کے میں ہوگا.اب یہ ترمیم کی گئی کہ تا اطلاع ثانی یہ انتخاب مسجد فضل لندن یو کے میں ہوگا.یہ ترامیم بھی منظور کی گئیں کہ اگر انتخاب خلافت لندن میں ہو تو ایڈیشنل ناظر اعلیٰ مقیم لندن کا فرض ہوگا کہ جب تک ناظر اعلی صدرانجمن احمد یہ لندن نہ پہنچے وہ جملہ فرائض ناظر اعلی صدرانجمن احمد یہ پاکستان کی ہدایات کے مطابق ان کی نمائندگی میں ان کے اٹارنی کے طور پر ادا کرے.اگر کسی اشد مجبوری کی وجہ سے یہ فیصلہ کرنا پڑے کہ انتخاب خلافت تین اندر کے اندر نہیں ہوسکتا تو صدرانجمن احمد یہ یہ فیصلہ کرنے کی مجاز ہوگی اور اس درمیانی عرصہ میں صدر انجمن احمد یہ جماعت کے جملہ کاموں کو

Page 232

۲۱۱ سرانجام دینے کی ذمہ دار ہوگی.بیرون پاکستان مقیم کچھ احباب کو حضور نے صدرانجمن احمدیہ کا ممبر مقرر فرمایا تھا.اس ضمن میں حضور نے یہ قاعدہ منظور فرمایا کہ اگر انتخاب خلافت لندن میں ہو تو انگلستان میں موجود صدرانجمن احمد یہ کے اراکین پر مشتمل انجمن کا فرض ہوگا کہ جب تک صدر انجمن احمدیہ کے اراکین لندن نہ پہنچے وہ وہ اپنے جملہ فرائض صدرانجمن احمدیہ پاکستان کی نمائندگی میں صدر انجمن پاکستان کی ہدایات کے مطابق ان کے اٹارنی کے طور پر ادا کرے.انگلستان میں صدر انجمن احمدیہ کے اجلاسات صدر صدر انجمن احمد یہ یا ایڈیشنل صدرصد را انجمن احمد یہ پاکستان کی صدارت میں ہوں گے.اگر وہ انگلستان میں موجود نہ ہوں تو صدارت کے اختیارات ناظر اعلی صدرانجمن احمد یہ پاکستان کو اور ان کی عدم موجودگی میں یہ اختیارات ایڈیشنل ناظر اعلی کو حاصل ہوں گے.حضور نے بعض ترامیم کی نشاندہی فرمائی جو اس احتمال کے پیش نظر کہ اگر انتخاب خلافت کا موقع لندن میں پیش آئے حضور نے ارشاد فرمایا کہ اگر انتخاب خلافت ربوہ میں ہو تو بعض ترامیم منسوخ ہو جائیں گی.ریکارڈ دفتر پرائیویٹ سیکر یٹری) انتخاب خلافت اولی جماعت احمدیہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال پر متفقہ طور پر جس طریق پر اجماع کیا وہ خلافت راشدہ کا طریق تھا.اس کے مقابل پر پیری مریدی یا بادشاہی کے فرسودہ نظام کو بھی رد کر دیا گیا اور دنیاوی جمہوریت کے اس نظام کو بھی ٹھکرا دیا گیا جو مغربی فسلفہ کی پیداوار ہے.

Page 233

۲۱۲ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ حضوڑ کے وصال کے بعد آپ کی تدفین سے پہلے جب آپ کی نعش مبارک بہشتی مقبرہ میں تدفین کے لئے لائی گئی تو جماعت کے بر سر آوردہ لوگوں نے باہم مشورہ سے نئے امام کی جانشینی کے مسئلے پر غور کرنا شروع کیا.مکرم خواجہ کمال الدین صاحب نے جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت صاحب کی وفات سے دو چار روز پہلے رویا میں یہ دکھایا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد حضرت حکیم نورالدین صاحب آپ کی جانشینی کریں گے.بزرگان جماعت اور انجمن کے سرکردہ ممبروں میں حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب کو خلیفہ منتخب کرنے کے بارہ میں رائے ظاہر کی.تمام احباب جماعت کی نظریں پہلے ہی اس بزرگ اور عاشق صادق غلام پر پڑ رہی تھیں.چنانچہ بلا توقف ہر ایک نے آپ کے حق میں رائے دی.البتہ مولوی محمد احسن صاحب سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سے بھی مشورہ کر لینا ضروری ہے.چنانچہ جب آپ سے مشورہ لیا گیا تو آپ نے نہایت شرح صدر سے اس رائے سے اتفاق کرتے ہوئے فرمایا:.”حضرت مولانا سے بڑھ کر کوئی نہیں اور خلیفہ ضرور ہونا چاہئے اور حضرت مولانا ہی خلیفہ ہونے چاہئیں ورنہ اختلاف کا اندیشہ ہے اور حضرت اقدس کا ایک الہام ہے کہ اس جماعت کے دو گروہ ہوں گے ایک کی طرف خدا ہو گا“.(اصحاب احمد جلد دوم ص ۵۸۹ طبع اول ۱۹۵۲ء) حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اکابرین جماعت نے جب متفقہ طور پر یہ درخواست کی کہ وہ خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو آپ نے ایک نہایت پر از معرفت تقریر فرمائی جس میں جماعت کو تو حید کا سبق دے

Page 234

۲۱۳ کر الہی خوشخبریوں کے پورا ہونے کے فلسفہ کے بارہ میں کچھ فرمایا اور پھر اپنے امام منتخب ہونے سے متعلق اپنے دلی جذبات اور خیالات کا ان الفاظ میں اظہار فرمایا:.”میری پچھلی زندگی پر غور کرلو.میں کبھی امام بنے کا خواہشمند نہیں ہوا.مولوی عبد الکریم مرحوم امام الصلوۃ بنے تو میں نے بھاری ذمہ داری سے اپنے تئیں سبکدوش خیال کیا تھا.میں اپنی حالت سے خوب واقف ہوں اور میرا رب مجھ سے بھی زیادہ واقف ہے میں دنیا میں ظاہر داری کا خواہشمند نہیں.میں ہرگز ایسی باتوں کا خواہشمند نہیں.اگر خواہش ہے تو یہ کہ میرا مولیٰ مجھ سے راضی ہو جائے.اس خواہش کے لئے میں دعائیں کرتا ہوں.قادیان بھی اسی لئے رہا اور رہتا ہوں اور رہوں گا.میں نے اس فکر میں کئی دن گزارے کہ ہماری حالت حضرت صاحب کے بعد کیا ہوگی.اسی لئے میں کوشش کرتا رہا کہ میاں محمود کی تعلیم اس درجہ تک پہنچ جائے...اگر تم میری بیعت ہی کرنا چاہتے ہو تو سن لو کہ بیعت بک جانے کا نام ہے“.آخر میں آپ نے ارشاد فرمایا:.اب تمہاری طبیعتوں کے رخ خواہ کسی طرف ہوں ، تمہیں میرے احکام کی تعمیل کرنی ہوگی.اگر یہ تمہیں منظور ہو تو طوعاً و کرہا اس بوجھ کو اٹھاتا ہوں.وہ بیعت کے دس شرائط بدستور قائم ہیں.ان میں خصوصیت سے میں قرآن کو سیکھنے اور زکوۃ کا انتظام کرنے ، واعظین کے بہم پہنچانے اور ان امور کو جو وقتا فوقتا اللہ میرے دل میں ڈالے، شامل کرتا ہوں.پھر تعلیم دینیات، دینی مدرسے کی تعلیم میری مرضی اور منشاء کے مطابق کرنا ہوگی اور میں اس بوجھ کو صرف اللہ کے لئے اٹھاتا ہوں جس نے فرمایا:.وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَّدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ.یا درکھو کہ ساری خوبیاں وحدت میں

Page 235

۲۱۴ ہیں جس کا کوئی رئیس نہیں وہ مر چکی.(الحاکم ۶ جون ۱۹۰۸ء ص ۷،۸) اس تقریر کے بعد بیک زبان حاضرین نے بآواز بلند یہ عہد کیا کہ ہم آپ کے تمام احکام مانیں گے.آپ ہمارے امیر ہیں اور مسیح موعود کے جانشین.چنانچہ اس اقرار کے بعد الحاج حضرت حکیم نورالدین خلیفتہ امسیح الاول نے جملہ حاضرین سے جن کی تعداد بارہ سو تھی.بیعت خلافت لی اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی تاریخ میں ایک نیا دن طلوع ہوا.یہ دن قدرت ثانیہ کا دن تھا جس نے تا ابد جماعت احمدیہ کے ساتھ رہنا تھا اور جس کی خوشخبری حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کو دی تھی.(بحوالہ سوانح فضل عمر جلد اص۱۸۱ تا ۱۸۳.شائع کردہ فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ) پس اس طرح مسند احمد بن حنبل جلد ۴ ص ۲۷۳ کی مذکورہ بالا حدیث کے مطابق امت محمدیہ میں ایک بار پھر خلافت علی منہاج النبوۃ کا قیام عمل میں آیا.جس نے قیامت تک جاری و ساری رہنا ہے.حضرت خلیفہ اسی الاول کی بیعت کامل اتحاد کے ساتھ ہوئی جس میں ایک منفرد آواز بھی خلاف نہیں اٹھی اور نہ صرف افراد جما اعت نے اور حضرت مسیح موعود علیہ - السلام کے خاندان نے آپ کی خلافت کو تسلیم کیا بلکہ صدرانجمن احمدیہ نے بھی ایک متحدہ فیصلہ کے ماتحت اعلان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وصیت کے مطابق حضرت مولوی نورالدین صاحب کو حضرت مسیح موعود کا خلیفہ منتخب کیا گیا ہے اور ساری جماعت کو آپ کی بیعت کرنی چاہئے.اعلان خواجہ کمال الدین سیکرٹری صدر انجمن احمد یہ بحوالہ احکام ۲۸ مئی ۱۹۰۸ء والبدر۲ جون ۱۹۰۸ء)

Page 236

۲۱۵ حضرت خلیفۃ البیع الاول کے مختصر سوانح حیات قدرت ثانیہ کے مظہر اول آسمان احمدیت کے روشن ستارے، کمالات روحانیہ کے جامع ، صفات نورانیہ کے خزانہ ، معارف قرآنیہ کے چشمہ رواں ،شمع مہدویت کے پروانے ، صدیقی جمال کے مظہر، فاروقی جلال کے آئینہ حاجی الحرمین سید نا حضرت حافظ حکیم مولانا نورالدین صاحب بھیروی خلیفتہ امسیح الاول ۱۸۴۱ء میں پاکستان کے ایک قدیم اور تاریخی شہر بھیرہ میں پیدا ہوئے.آپ کے والد محترم کا نام حضرت حافظ غلام رسول صاحب اور والدہ ماجدہ کا نام نور بخت تھا.آپ کا سلسلہ نسب بتیس واسطوں کے ساتھ حضرت عمر فاروق تک اور والدہ ماجدہ کا سلسلہ نسب حضرت علی متک پہنچتا ہے.اس لحاظ سے آپ فاروقی بھی ہیں اور علوی بھی.آپ کا خاندان بہت علم دوست اور دیندار تھا.دن رات قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ اس خاندان میں جاری تھا.آپ نے قرآن کریم اپنی ماں کی گود میں ہی پڑھا تھا.آپ شروع سے ہی غضب کا حافظہ رکھتے تھے حتی کہ آپ کو اپنا دودھ چھڑانا بھی یاد تھا.آپ بچپن میں تیرا کی کے بہت شوقین تھے.آپ کو بچپن ہی سے کتابوں کے ساتھ بہت محبت تھی.جب بڑے ہوئے تو دینی علم حاصل کرنے کے لئے لاہور، رام پور، دہلی لکھنؤ اور بھوپال وغیرہ میں مقیم رہے.نیز حصول علم کی خاطر ۶۶ - ۱۹۶۵ء میں آپ مکہ اور مدینہ میں بھی تشریف لے گئے.ڈیڑھ برس وہاں رہ کر دینی علوم حاصل کئے اور حج کا شرف

Page 237

۲۱۶ حاصل کرنے کے بعد وطن واپس لوٹے اور بھیرہ میں قرآن مجید و احادیث کے درس و تدریس کا سلسلہ جاری کر دیا.ساتھ ہی آپ نے مطب بھی شروع کر دیا.طب میں آپ کی شہرت اتنی بڑھی کہ دور دراز کے لوگ آپ کی خدمت میں علاج کے لئے حاضر ہوتے تھے.حتی کہ کشمیر کے مہاراجہ کی درخواست پر آپ وہاں تشریف لے گئے اور ایک عرصہ تک خاص شاہی طبیب کے طور پر دوبار جموں وکشمیر سے وابستہ رہے.اس عرصہ میں آپ مطب کے علاوہ ریاست میں اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لئے بھی کوشاں رہے اور درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری رکھا.۱۸۸۵ء میں حضرت مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود کا ایک اشتہار پہلی بار پڑھا.اس کا اتنا گہرا اثر ہوا کہ حضور کی زیارت کے لئے قادیان پہنچ گئے اور حضور پر پہلی نظر ڈالتے ہی حضور کی صداقت کے قائل ہو گئے.یہ آپ کی حضور کے ساتھ پہلی ملاقات تھی.اس ملاقات کے بعد آپ ہمیشہ کے لئے حضور کے جانثار خادموں میں شامل ہو گئے.جب ۱۸۸۹ء میں بمقام لدھیانہ پہلی بار بیعت ہوئی تو آپ نے سب سے پہلے نمبر پر بیعت کرنے کا فخر حاصل کیا.۱۸۹۰ء میں جب حضور نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو پھر بلا تامل حضرت ابوبکر کی طرح آپ حضور کے دعوئی پر ایمان لے آئے.حضرت مولوی صاحب کی پہلی شادی تیس برس کی عمر میں بمقام بھیرہ مفتی شیخ مکرم صاحب قریشی عثمانی کی صاحبزادی محترمہ فاطمہ بی بی صاحبہ سے ہوئی.آپ کی یہ اہلیہ ۱۹۰۵ء میں وفات پاگئی.اس اہلیہ کے بطن سے ۹ بیٹے اور ۵ بیٹیاں پیدا ہوئیں.آپ کی دوسری شادی ۱۸۸۹ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریک پر لدھیانہ میں حضرت صوفی احمد جان صاحب کی صاحبزادی حضرت صغریٰ بیگم صاحبہ سے ہوئی.

Page 238

۲۱۷ ان کی وفات ۱۹۵۵ء میں بمقام ربوہ ہوئی.ان کے بطن سے ۶ بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی.آپ نے ۸۸-۱۸۸۷ء میں حضرت مسیح موعود کی تحریک پر عیسائیت کے رد میں ایک کتاب فصل الخطاب“ شائع فرمائی.پھر ۱۸۹۰ء میں حضور کی زیر ہدایت پنڈت لیکھرام کی کتاب ” تکذیب براہین احمدیہ کے جواب میں ” تصدیق براہین احمدیہ لکھی.اسی طرح ایک مرتد آریہ دھرم پال ( سابق عبدالغفور ) نے ”ترک اسلام“ نامی ایک کتاب لکھی جس کے جواب میں آپ نے ایک مفصل کتاب ”نورالدین کے نام سے تصنیف فرمائی.۱۹۰۴ء میں آپ نے ایک رسالہ بعنوان ”ابطال الوہیت مسیح عیسائیت کے رد میں تصنیف فرمایا.اسی طرح لڑکوں اور لڑکیوں کو مسائل نماز سے عام فہم الفاظ میں واقف کرنے کے لئے جنوری ۱۹۰۶ء میں ”د مینیات کا پہلا رسالہ تالیف فرمایا.جو بہت مقبول ہوا.ملازمت سے فراغت اور قادیان میں ہجرت ۱۸۹۲ء میں ریاست جموں وکشمیر سے آپ کی ملازمت کا سلسلہ جو ۱۸۸۶ء میں قائم ہوا تھا ختم ہو گیا.آپ نے ریاست میں قرآن کریم کے درس و تدریس اور تبلیغ دین حق کا جو سلسلہ شروع کر رکھا تھا وہی اس ملازمت کے خاتمہ کا موجب ہوا.مہاراجہ رنبیر سنگھ کی وفات پر اس کے جانشین مہاراجہ پرتاپ سنگھ اور اس کے چند در باری اسلام سے اور حضرت مولوی صاحب سے خاص بغض و تعصب رکھتے تھے.چنانچہ انہوں نے آپ کو ملازمت سے فارغ کر دیا.آپ وہاں سے واپس اپنے وطن بھیرہ تشریف لے آئے جہاں پر آپ نے وسیع پیمانے پر ایک شفاخانہ قائم کرنے کا

Page 239

۲۱۸ ارادہ کیا اور عالی شان مکان کی تعمیر شروع کروادی.۱۸۹۳ء میں جبکہ مکان کی تعمیر بھی جاری تھی آپ کسی کام کے لئے لا ہور تشریف لے گئے وہاں پر آپ کو حضرت مسیح موعود کی زیارت کا خیال آیا.چنانچہ آپ قادیان تشریف لے گئے.حضور نے فرمایا اب تو آپ ملازمت سے فارغ ہیں.یہاں رہیں.حضرت مولوی صاحب نے سمجھا کہ دو چار روز اور ٹھہر لیتا ہوں.ایک ہفتہ بعد حضور نے فرمایا آپ اکیلے یہاں رہتے ہیں اپنی بیویوں کو بھی یہیں منگوالیں.چنانچہ حضرت مولوی صاحب نے دونوں بیویوں کو بلا لیا.پھر ایک دن حضور نے فرمایا.آپ کو کتابوں کا شوق ہے اپنا کتب خانہ بھی یہیں منگوا لیں.چنانچہ کتب خانہ بھی بھیرہ سے قادیان آ گیا.چند دنوں کے بعد حضور نے فرمایا.مولوی صاحب! اب آپ وطن کا خیال چھوڑ دیں.چنانچہ حضرت مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے وطن کا خیال ایسے چھوڑ دیا کہ کبھی خواب میں بھی وطن نہیں دیکھا“.قادیان میں ہجرت کے بعد کئی لوگوں نے آپ کو لاہور یا امرتسر میں جا کر شفاخانہ کھولنے کی تحریک کی لیکن آپ نے اپنے آقا کے قدموں میں ہی رہنا پسند کیا.یہیں پر دن رات دین کی خدمت کرنے میں مصروف رہے اور ہر وقت حضرت مسیح موعود کی ہدایت اور حکم کی تعمیل کرنے کے لئے تیار رہتے.مریضوں کو دیکھتے.قرآن وحدیث کا درس دیتے نمازیں پڑھاتے.وعظ ونصیحت کرتے.حضور کی کتب کے پروف پڑھنے اور حوالے نکالنے کا کام کرتے تھے.جب کالج جاری ہوا تو اس میں عربی پڑھاتے تھے.جب صدر انجمن احمد یہ قائم ہوگئی تو حضرت مسیح موعود نے آپ کو اس کا پریذیڈنٹ مقرر فرما دیا.پھر غرباء کی امداد اور ہمدردی کا بھی ہمیشہ خیال رکھتے.غرض قادیان آکر حضرت مولوی صاحب نے اپنی زندگی دین کے لئے بالکل وقف کر دی.

Page 240

۲۱۹ صبح سے شام تک اسی میں مصروف رہتے.پہلے حضرت مسیح موعود کے مکانات کے قریب ہی اپنا کچا مکان تعمیر کرا کے اس میں رہائش اختیار کر لی.بیماروں کے علاج سے جو آمدنی ہوتی اس کا بھی زیادہ تر حصہ چندہ کے طور پر حضور کی خدمت میں پیش کر دیتے یا یتیموں اور غریبوں کی پرورش میں صرف کر دیتے تھے.حضرت خلیفہ اول کی وفات حضرت خلیفہ اول چند ماہ بیمار رہنے کے بعد ۱۳ مارچ ۱۹۱۴ء کو جمعہ کے دن سوا دو بجے بعد دو پہر قادیان میں وفات پاگئے.انا للہ وانا الیہ راجعون ۱۴۷ مارچ ۱۹۱۴ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی نے خلیفہ ثانی منتخب ہو جانے کے بعد آپ کی نماز جنازہ پڑھائی جس کے بعد ہزاروں احمدیوں نے دین حق کے، قرآن مجید کے، آنحضرت ﷺ کے اور حضرت مسیح موعود کے اس عاشق صادق کو جو اپنے اندر بے نظیر خوبیاں رکھتا تھا اور عمر بھر دین کی خدمت کرتا رہا.مقبرہ بہشتی مقبرہ قادیان میں حضرت مسیح موعود کے مزار کے پہلو میں دفن کر دیا.حضرت خلیفہ اول کا مقام حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب خلیفتہ امسیح الاول بہت بزرگ انسان تھے.آپ کو سب سے پہلے بیعت کرنے اور پھر ہر حالت میں حضرت مسیح موعود کا ساتھ دینے کی توفیق ملی.خدا اور رسول کی محبت کے علاوہ انہیں قرآن مجید سے خاص عشق تھا، بیماری ہو یا صحت ہو، ہر حالت میں قرآن مجید کا ذکر اور اس کا درس ہی ان کی روح کی غذا تھی.حضرت مسیح موعود کے ہر حکم کی پوری اطاعت کرتے تھے.جب حضور کی طرف سے کوئی بلاوا آتا تو جس حالت میں بھی ہوتے فوراً بھاگ کر حضور کی

Page 241

۲۲۰ خدمت میں پہنچنے کی کوشش کرتے.حتی کہ جوتی سنبھالنے اور پگڑی پہنے کا بھی انہیں خیال نہ رہتا.ایک دفعہ حضور دہلی میں تھے وہاں سے حضور کا پیغام حضرت مولوی صاحب کو قادیان میں ملا کہ آپ فوراً دہلی آجائیں.حضرت مولوی صاحب اس وقت اپنے مطب میں بیٹھے تھے.جب پیغام ملا تو وہیں سے اور اسی حالت میں روانہ ہو گئے.نہ سفر کے لئے کوئی سامان لیا اور نہ کرایہ کا ہی انتظام کیا.کسی نے عرض کیا کہ حضرت مسیح موعود کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ گھر جا کر سامان بھی نہ لیں اور اتنے لمبے سفر پر خالی ہاتھ روانہ ہو جائیں.حضرت مولوی صاحب نے فرمایا.جب حضور کا حکم ہے کہ فوراً آجاؤ تو میں ایک منٹ بھی یہاں ٹھہر نا گناہ سمجھتا ہوں.خدا تعالیٰ کی قدرت دیکھو کہ جب آپ گاڑی پر روانہ ہونے کے لئے بٹالہ کے ریلوے سٹیشن پر پہنچے تو ایک امیر آدمی جو بیمار تھا علاج کے لئے حاضر ہو گیا اس نے دہلی تک کا ٹکٹ بھی خرید دیا اور ایک معقول رقم بھی آپ کی خدمت میں پیش کر دی.اس سے اندازہ جگایا جا سکتا ہے کہ حضرت مولوی صاحب کا حضور کی اطاعت کرنے کا اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور تو کل کرنے میں کیسا اعلیٰ درجہ کا نمونہ تھا.آپ کی انہی خوبیوں کی وجہ سے حضرت مسیح موعود نے آپ کی تعریف میں یہ فارسی شعر کہا کہ ے چه خوش بودے اگر ہر یک ز اُمت نوردیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ کیا ہی اچھا ہواگر میری قوم اور جماعت کا ہر فردنور دین بن جائے.مگر یہ بھی ہو سکتا ہے جبکہ ہر ایک دل نور دین کی طرح یقین کے نور سے بھر جائے.

Page 242

۲۲۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب صدر انجمن احمدیہ کا قیام فرمایا تو حضرت مولوی صاحب کو اس کا صدر مقرر فرمایا اور ساتھ یہ ارشاد فرمایا کہ:.مولوی صاحب کی ایک رائے انجمن کی سورائے کے برابر مجھنی چاہئے“.اسی طرح ایک موقع پر آپ کے بارہ میں حضور نے فرمایا کہ:.( نورالدین) میرے ہر ایک امر میں میری اس طرح پیروی کرتے ہیں جیسے نبض کی حرکت تنفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے“.(ترجمہ از عربی عبارت مندرجہ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ ص ۵۸۶) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی صاحب کو اپنا سب سے محبوب اور سب سے مخلص اور اعلیٰ درجہ کا صدیق دوست قرار دیا اور ان کی قربانیوں اور ان کے نمونہ کو قابل رشک قرار دیتے ہوئے یہ لکھا کہ:.ہیں.وہ اپنے اخلاص، محبت اور وفاداری میں میرے سب مریدوں میں اول نمبر پر (حمامة البشرى ترجمه از عربی ص ۶ اروحانی خزائن جلدے ) غیروں کی آراء امیر المومنین سید نا حضرت مغایہ امسح الاول مسلمہ طور پر اپنے علم وعرفان اور تقوی کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد سب سے بلند اور سب سے ممتاز مقام رکھتے تھے.علم و معرفت کے بحر بیکراں اور ولایت و کرامت کی چلتی پھرتی تصویر، آپ کو دیکھ کر بزرگان سلف کے کارناموں کی یاد تازہ ہو جاتی تھی.وہ لوگ بھی جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ ماموریت تسلیم کرنے میں عمر بھر تامل رہا.آپ کو

Page 243

۲۲۲ نہایت احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے.آپ کی بزرگی اور علمیت و قابلیت کے دل سے قائل تھے.ایک مرتبہ کسی نے سرسید مرحوم سے خط و کتابت کے دوران پوچھا کہ جاہل علم پڑھ کر عالم بنتا ہے اور عالم ترقی کر کے حکیم ہو جاتا ہے حکیم ترقی کرتے کرتے صوفی بن جاتا ہے مگر جب صوفی ترقی کرتا ہے تو کیا بنتا ہے؟ سرسید مرحوم نے جواب دیا کہ جب صوفی ترقی کرتا ہے تو نورالدین بنتا ہے.مولانا عبید اللہ صاحب سندھی جو ولی اللہ فلسفہ کے داعی تھے محض حضرت خلیفہ اول سے ملاقات و استفادہ کے لئے قادیان تشریف لائے تھے اور حضور کے اسلوب تفسیر سے بہت متاثر ہوئے.چنانچہ ان کی تفسیر میں اس کی گہری جھلک نظر آئی ہے اور احمدیت کے خیالات وافکار کا عکس بھی ان کی تفسیر سے دکھائی دیتا ہے.ڈاکٹر محمد اقبال صاحب سے قانون شریعت کے مختلف مسائل سے راہنمائی کے سلسلہ میں خط و کتابت جاری رہتی تھی.ایک مرتبہ ان کو اپنی ایک بیوی کے بارے میں شبہ ہوا کہ چونکہ وہ اسے طلاق دینے کا ارادہ کر چکے تھے مبادا شرعاً طلاق ہو چکی ہو.جس پر انہوں نے مرزا جلال الدین صاحب کو حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں بھیجا کہ مسئلہ پوچھ آؤ.آپ نے فرمایا کہ طلاق نہیں ہوئی لیکن اگر آپ کے دل میں کوئی شبہ اور وسوسہ ہو تو دوبارہ نکاح کر لیجئے.چنانچہ ڈاکٹر اقبال نے اس فتویٰ کے مطابق دوبارہ اس خاتون سے نکاح پڑھوا لیا.مولانامحمد علی جوہر، نواب وقار الملک،مولانا ابوالکلام آزاد ، مولوی ظفر علی خان ،علامہ شبلی نعمانی ، نواب محسن الملک ، مولوی عبدالحق صاحب حقانی مفسر دہلوی ، خواجہ حسن نظامی اور دوسرے مسلمہ مسلمان لیڈر آپ کی عظمت شان اور جلالت مرتبت اور تبحر علمی کے دل سے قائل تھے اور اسلامی رسائل میں آپ کی دینی رائے کو بڑی وقعت دی جاتی تھی.

Page 244

۲۲۳ ڈاکٹر عبدالحمید صاحب چغتائی لاہور کی چشم دید شہادت ہے کہ حضرت ایک مرتبہ چیف کورٹ پنجاب میں کسی گواہی کے سلسلہ میں تشریف لائے جب حضور کمرہ عدالت میں داخل ہوئے تو تین بج تعظیم کے لئے کھڑے ہو گئے.آپ کے علمی فیض کا حلقہ بہت وسیع تھا اور آپ کے شاگردوں کی تعداد جنہوں نے آپ سے علوم پڑھے بیشمار ہے.علوم دینیہ کے علاوہ آپ کا شمار چوٹی کے طبیبوں میں ہوتا تھا اور پورے ملک میں آپ کی دھوم مچی ہوئی تھی.یہ بھی ایک روایت ہے کہ کوئی انگلستان میں بغرض علاج گیا تو ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ ہندوستان میں جا کر مولوی حکیم نورالدین صاحب سے علاج کروائیں.ڈاکٹر عبدالحمید صاحب چغتائی (لاہور) کی روایت ہے کہ ” آپ کبھی لاہور تشریف لاتے تو آپ کے گرد ہندو مسلمان اور سکھ دور و نزدیک سے ہجوم کر کے آ جاتے بازار میں چلتے تو لوگ حضرت کے پاؤں پکڑ لیتے اور اپنے مریضوں کے لئے دوا طلب کرتے.حضرت حکیم صاحب قبلہ نے ہزاروں روپیہ کی دوائیں اپنی جیب سے خرچ کر کے ضرورت مندوں میں مفت تقسیم کر دیں.حضرت کے دل میں خدمت خلق کا بے پناہ جذبہ تھا.نیز لکھتے ہیں ”حضرت حکیم صاحب ۱۹۱۳ء میں بیمار ہوئے تو جناب مسیح الملک حکیم حافظ اجمل خان صاحب دہلوی، حکیم عبدالعزیز خان صاحب لکھنوی، حکیم غلام حسین حسنین صاحب کشوری خود عیادت کے لئے قادیان تشریف لائے.حکیم فقیر محمد صاحب چشتی، حکیم مولوی سلیم اللہ خان صاحب ، حکیم سید عالم شاہ صاحب، حکیم مفتی محمد انور صاحب ہاشمی ، حکیم فیروز الدین صاحب وغیرہ وغیرہ حضور کا نام بڑی عزت و احترام سے لیا کرتے تھے اور حضرت کو حضرت استاذی المکرم کہا کرتے تھے.عبدالمجید صاحب سالک اپنی کتاب ” مسلم ثقافت ہندوستان میں“ کے

Page 245

۲۲۴ صفحه ۳۰۱،۳۰۰ پر لکھتے ہیں.”آپ کی حذاقت کا شہرہ نزدیک و دور پھیل گیا اور آپ ہندوستان کے چند منتخب اطباء میں شمار ہونے لگے.آپ بھیرہ چھوڑ کر قادیان چلے گئے اور بقیہ عمر درس و تدریس علاج معالجہ اور پرورش غرباء میں بسر کر دی.آپ آل انڈیا ویدک اینڈ یونانی طبی کانفرنس کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے اعزازی ممبر اور رکن خصوصی بھی تھے.( بحوالہ تاریخ احمدیت جلد سوم نیا ایڈیشن ص ۶۳۴، ۶۳۵) خلافت اولی کے شیریں ثمرات حضرت خلیفہ اسیح الاول کا ۶ سالہ بابرکت عہد خلافت اور آپ کے کار ہائے نمایاں تاریخ خلافت احمدیہ کا ایک بہت ہی دلکش، ایمان افروز اور سنہری باب ہے اور خلافت احمدیہ کی عظیم الشان اساس ہے.آپ کا عہد خلافت سیدنا حضرت ابوبکر صدیق کے عہد خلافت سے کمال مشابہت رکھتا ہے.جس کی تفصیل میں جانا اس مقالہ میں ممکن نہیں لہذانمونہ کے طور پر چند جھلکیاں پیش خدمت ہیں.حضرت خلیفہ اول کا زمانہ صحابہ کرام کے زمانہ کی یاد دلاتا تھا.قرآن کریم، حدیث شریف اور دوسرے دینی علوم کے پڑھنے کا جماعت میں ایک زبر دست ولولہ تھا.جو بے نظیر عشق دین حضرت خلیفہ اول کے دل میں موجزن تھا اس نے اہل قادیان کے دلوں میں ایک چنگاری روشن کر رکھی تھی اور اس کا ایک زبردست اثر بیرونجات کی جماعتوں پر بھی تھا.قادیان اور قادیان سے باہر کے لوگ برابر دین کا علم سیکھنے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہتے تھے اور یہ بات بالخصوص قادیان کی رونق اور نیک شہرت کا باعث تھی اور اس بات نے افراد جماعت میں دینداری، دیانتداری اور پر ہیز گاری پیدا کر دی تھی.حضرت خلیفہ اول اکثر فرمایا کرتے تھے کہ دین کا اثر

Page 246

۲۲۵ ہمارے تمام معاملات میں نظر آنا چاہئے.چنانچہ قادیان کے لوگوں میں خصوصاً اور باہر کی جماعتوں میں عموماً احکام دین کی پابندی کا بہت شوق تھا اور دوسری بات جس پر آپ بڑا زور دیا کرتے تھے وہ یہ تھی کہ ایک مسلمان ہر معاملہ کے متعلق جناب الہی میں گرے اور دعا کرتار ہے اور اس بات پر آپ زور دیتے کبھی تھکتے ہی نہ تھے.جس کا نتیجہ یہ تھا کہ بڑے تو ایک طرف رہے چھوٹے بچے بھی رو رو کر دعائیں کرتے تھے اور جماعت میں عام طور پر یہ یقین تھا کہ مومنوں کی دعائیں خدا تعالیٰ سنتا ہے اور اس ذریعہ سے ہر تکلیف دور ہوسکتی ہے.(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد ۳ ص ۶۰۳۶۰۲) تبلیغی جلسے اس دور کی یہ بھاری خصوصیت ہے کہ اس میں برصغیر ہندو پاک میں طول وعرض میں بڑی کثرت سے جلسے ہوئے اور احمدیت کا پیغام ہر طبقہ تک پہنچا.بعض مشورہ مقامات جہاں جلسے ہوئے یہ ہیں.قادیان ، میرٹھ ، کانپور، اٹاوہ ، موناھیر ، الہ آباد، امرت، سر، بٹالہ، شملہ، حیدرآباد دکن، پٹیالہ، بنگہ، کلکتہ، سامانہ، پٹیالہ، ہوشیار پور، سڑوعہ ضلع ہوشیار پور، کاٹھ گڑھ ضلع ہوشیار پور، لاہور، سیالکوٹ ، مردان ، ڈیرہ غازی خان، گوجرہ، لائل پور، برہمن بڑیہ، شاہجہانپور.( تاریخ احمدیت جلد ۳ ص ۲۰۸) خلافت اولی کے بعض مبائعین خلافت اولیٰ میں ہزاروں سعید روحیں حلقہ بگوش احمدیت ہوئیں اور ہر طبقہ کے لوگوں نے حق قبول کیا.خصوصاً سابق صوبہ سرحد شمال مغربی کشمیر اور ضلع ہزارہ میں احمدیت کا بڑا چرچا ہوا.نواب خانی زمان خاں صاحب کے کئی کارکن احمدیت میں شامل ہوئے.اس طرح اٹھول کا گاؤں احمدی ہو گیا.بنگال میں احمدیت کو بہت

Page 247

۲۲۶ قبولیت حاصل ہوئی اور سینکڑوں نے احمدیت اختیار کی.حیدر آباد دکن میں احمدیت نے بہت اثر ونفوذ پیدا کیا اور ایک بڑی جماعت قائم ہوگئی.الحکم کی ایک خبر کے مطابق راس التین میں بیک وقت ڈیڑھ سو نفوس داخل احمدیت ہوئے.مالا بار اور ماریشس میں بھی کئی لوگ احمدی ہوئے.اسی طرح غیر ممالک میں بھی کئی لوگ سلسلہ میں شامل ہوئے.غرضیکہ حضرت خلیفہ اول کے عہد میں جماعت کی تعداد میں نمایاں ترقی ہوئی.( تاریخ احمدیت جلد ۳ نیا ایڈیشن ص ۶۰۸) بیرونی ممالک کی بعض احمدی جماعتیں حضرت خلیفہ اول کے دور خلافت میں بیرونی ممالک کے مندرجہ ذیل مقامات پر مختصرسی احمدی جماعتیں موجود تھیں.نیروبی، کسومو، ممباسہ (افریقہ) ، مگوئی بنموک، رنگون (برما)، لندن علاوہ ازیں آسٹریلیا، چین، ہانگ کانگ، سنگاپور، ترکی، راس التین ، طرابلس، طائف، بغداد، جدہ، مصر اور ماریشس میں بھی احمدی پائے جاتے تھے.حضرت خلیفہ اول نے ایک دفعہ فرمایا ” ہماری جماعت چار لاکھ سے زیادہ ہے اور بلا دا فریقہ، یورپ و امریکہ و چین و آسٹریلیا میں ابھی پہنچے ہیں انشاء اللہ برس کے بعد آپ دیکھیں گے کس قدر کامیاب ہوئے“.( تاریخ احمدیت جلد ۳ ص ۱۱ نیا ایڈیشن ) لٹریچر کی اشاعت خلافت اولیٰ کے عہد میں سلسلہ احمدیہ اور اسلام کی تائید میں اردو، انگریزی، ہندی اور گورمکھی اور پشتو اور فارسی زبان میں بکثرت لٹریچر شائع ہوا جس کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز ہے.اس دور کی چند مشہور تصانیف و تالیفات یہ ہیں.صادقوں کی روشنی دلائل ہستی باری تعالیٰ، نجات، کسر صلیب نمبرا، اسلام اور بدھ مذہب،

Page 248

۲۲۷ ترجمۃ القرآن، خلافت احمدیہ، اظہار حقیقت، اشاعت اسلام، البشری جلد اول و دوم، صحیفہ، اسوه حسنه النبوۃ فی خیر الامت ، ویدک توحید کا نمونہ، مباحثہ مونگھیر ، واقعات مونگھیر ، کشف الحقائق ، تحفہ بنارس، اصول اسلام آئینہ صداقت، احمدیہ پاکٹ بک ، شری نهه کلنک درشن، آئینه حق نما، دین الحق ، عیائی مذہب کا فوٹو ، واقعہ صلیب کی چشم دید شہادت ، سفر نامہ ناصر، اوامر و نواہی قرآن، پیدائش عالم، باوا نانک کی سوانح عمری، آریہ دھرم کا فوٹو ، ہدایت المهتدی الی حقیقۃ المہدی“.معیار صداقت، کرامات المهدی ، ضرورت نبی، کشف الحقائق ، القاء ربانی.نئی مساجد کی تعمیر ( تاریخ احمدیت جلد ۳ نیا ایڈیشن ص ۶۰۸) حضرت خلیفہ اول کے زمانہ مبارک میں مندرجہ ذیل مقامات پر نئی مساجد تعمیر ہوئیں.قادیان ، لاہور، وزیر آباد، ڈیرہ غازی خاں، جموں، بنور ( ریاست پٹیالہ ) احمدیہ پریس میں نمایاں اضافہ خلافت اولی میں جماعت کے پریس میں بھی نمایاں اضافہ ہوا، اخبار نور، اخبار الحق ، اخبار الفضل اور اخبار پیغام صلح اسی دور میں جاری ہوئے اور چونکہ آخر میں اخبار بدر بند ہو گیا تھا اس لئے ان جدید اخباروں کے اجراء سے جماعت کے اخباروں کی تعداد پانچ تک پہنچ گئی.جو جماعت کی تعداد اور وسعت کے لحاظ سے یقیناً ایک بڑی تعداد تھی.اخبارات کے علاوہ بعض رسائل کا بھی اجراء ہوا.مثلاً احمدی خاتون.

Page 249

۲۲۸ خلافت اولیٰ کے عہد میں جماعت کی مالی ترقی خلافت اولیٰ کے عہد میں سلسلہ کے آمد و خرچ کے بجٹ میں بھی اضافہ ہوا.چنانچہ ۸-۱۹۰۷ء میں صدر انجمن احمدیہ کوکل آمد ۴۰۹۳۸ ( چالیس ہزار نو سوار تھیں) کے قریب ہوئی.مگر ۱۴-۱۹۱۳ء میں آمد کا بجٹ (ایک لاکھ ننانوے ہزار سات سو پچاس ۹۹،۷۵۰، بنایا گیا).قادیان میں پبلک عمارتوں کی تعمیر حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کا اضافہ ہوا.مثلاً تعلیم الاسلام ہائی سکول اور اس کا بورڈنگ ،مسجد نور اور اسی عہد میں محلہ ناصر آباد کی بنیا د رکھی گئی.نیز مسجد اقصیٰ کی توسیع ہوئی.مدرسہ احمدیہ کا قیام ( تاریخ احمدیت جلد ۳ نیا ایڈیشن ص ۶۰۹) دینیات کی ایک علیحدہ شاخ تعلیم الاسلام ہائی اسکول کے ساتھ حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں قائم ہوگئی تھی لیکن حضرت خلیفہ اول کی خواہش تھی کہ اسے مستقل اور الگ صورت میں حضرت مسیح موعود کی یادگار کے طور پر قائم کیا جائے.چنانچہ یکم مارچ ۱۹۰۹ء کو با قاعدہ طور پر مدرسہ احمدیہ کی بنیاد رکھی گئی.اس کے پہلے ہیڈ ماسٹر حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب مقرر ہوئے.کچھ عرصہ بعد جب اس مدرسہ کا انتظام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثانی) کے سپر د ہوا تو اس نے غیر معمولی طور پر بہت ترقی کی.

Page 250

۲۲۹ انگریزی ترجمہ قرآن مجید مسلمانوں کی طرف سے انگریزی زبان میں قرآن کریم کا کوئی قابل اعتبار تر جمہ موجود نہ تھا.حضرت خلیفتہ امسیح الاول کے زمانہ میں جماعت نے اس طرف توجہ کی.چنانچہ انگریزی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر تیار کرنے کا کام صدر انجمن احمدیہ کی نگرانی میں اس کے سیکرٹری مولوی محمد علی صاحب ایم اے نے شروع کیا.حضرت خلیفہ اول خود ترجمہ اور تفسیری نوٹ سنتے اور اصلاح فرماتے تھے لیکن افسوس ہے کہ جب خلیفہ اول کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ ثانی خلیفہ منتخب ہوئے اور مولوی محمد علی صاحب خلافت سے منکر ہو کر لاہور چلے گئے تو وہ ترجمہ بھی ساتھ لے گئے اور اپنے بدلے ہوئے عقیدوں اور خیالات کے مطابق اس میں انہوں نے تبدیلی کر لی.چنانچہ خلافت ثانیہ کے زمانہ میں اس کا از سرنو شروع کر کے مکمل کیا گیا اور نہایت اعلیٰ درجہ کا انگریزی ترجمۃ القرآن شائع کیا گیا.پہلے بیرونی مشن کا قیام حضرت خلیفہ مسیح الاول کے عہد کا ایک خاص واقعہ یہ ہے کہ آپ کے زمانہ میں جماعت احمدیہ کا پہلا بیرونی مشن انگلستان میں قائم ہوا.محترم چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم اے جماعت احمدیہ کے پہلے با قاعدہ مبلغ تھے جو تبلیغ کے لئے لندن بھیجے گئے.

Page 251

۲۳۰ خلافت اولیٰ میں رونما ہونے والے فتنے اور ان کا عبرتناک انجام حضرت خلیفہ اول کے عہد میں اندرونی اور بیرونی لحاظ سے متعدد فتنے اٹھے.مخالفین احمدیت کا فتنہ، انکار خلافت کا فتنہ، جھوٹے مدعیوں کا فتنہ مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان طوفانوں میں جماعت احمد یہ آپ کی قیادت میں روز بروز بڑھتی چلی گئی اور یہ فتنے نظام خلافت کو اپنی آہنی زنجیروں سے متزلزل کرنے میں یکسر نا کام رہے.غرضیکہ حضرت خلیفتہ اسیح الاول کاشش سالہ زمانہ خلافت اپنوں اور بیگانوں کی مزاحمتوں اور مخالفتوں اور سازشوں کے باوجود ایسی شاندار فتوحات اور عظیم الشان کارناموں سے بھرا ہوا ہے کہ سچ مچ خلافت صدیقی کا روح پرور نظارہ چودہ سوسال بعد پھر سے آنکھوں کے سامنے پھر گیا.حتی کہ آپ کی خلافت کو دل سے تسلیم نہ کرنے والے بھی پکار اٹھے کہ ہم نے ابو بکر صدیق گونو رالدین کی شکل میں دیکھ لیا ہے.ہمیں ہے فخر نورالدین اور محمود احمد پر دوبارہ کر دئیے حق نے ابوبکر و عمر پیدا اللهم صل على محمد وعلى آل محمد وعلى خلفاء محمد و بارک وسلم انک حمید مجید واخر دعونا ان الحمد الله رب العلمين.

Page 252

۲۳۱ خلافت ثانیہ کا ظہور قدرت ثانیہ کے مظہر اول حضرت حافظ حکیم مولوی نورالدین صاحب بھیروی خلیفتہ امسیح الاول مورخہ ۱۳ مارچ ۱۹۱۴ء کو بقضائے الہی وفات پاگئے.آپ نے وفات الا سے پہلے اپنے جانشین کے متعلق ان الفاظ میں وصیت کی.”میرا جانشین متقی ہو.ہر دلعزیز ، عالم باعمل ہو.حضرت صاحب کے پرانے اور نئے احباب سے سلوک، چشم پوشی اور درگز رکو کام میں لاوے.میں سب کا خیر خواہ تھا وہ سب کا خیر خواہ رہے.قرآن وحدیث کا درس جاری رہے.(مرقاۃ الیقین فی حیات نورالدین ص ۸ - از اکبر شاہ نجیب آبادی ضیاء الاسلام پریس ربوه) چنانچہ آپ کی وصیت کے مطابق ۱۴ مارچ ۱۹۱۴ء کو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب فرزند دلبند گرامی ارجمند، مظہر الاول والآخر ، مظہر الحق والعلا، رحمت اور فضل اور قربت کا نشان فتح وظفر کی کلید، البی نوشتوں اور پیش خبریوں کے جلو میں بطور خلیفہ اسیح الثانی مسند خلافت پر متمکن ہوئے.افق احمدیت پر خلافت کا ایک چاند غروب ہوا تو ایک اور چاند طلوع ہوا.اسی طرح روشن اور چمکتا ہوا اور نور آسمانی سے جگمگاتا ہوا.جس طرح حضرت خلیفہ اسیح الاول نے آسمان احمدیت کو روشن کئے رکھا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ اس موقع پر بڑے دلنشین انداز میں احمدیت کے ایک رخصت ہوتے ہوئے خلیفہ کو الوداع اور ایک قدم رنجہ فرماتے ہوئے خلیفہ کو خوش آمدید کہتے ہیں.

Page 253

۲۳۲ ”اے جانے والے تجھے تیرا پاک عہد خلافت مبارک ہو کہ تو نے اپنے امام و مطاع مسیح کی امانت کو خوب نبھایا اور خلافت کی بنیادوں کو ایسی آہنی سلاخوں سے باندھ دیا کہ پھر کوئی طاقت اسے اپنی جگہ سے ہلا نہ سکی.جا! اور اپنے آقا کے ہاتھوں سے مبارک باد کا تحفہ لے اور رضوان یار کا ہار پہن کر جنت میں ابدی بسیرا کر اوراے آنے والے! تجھے بھی مبارک ہو کہ تو نے سیاہ بادلوں کی دل ہلا دینے والی گرجوں میں مسند خلافت پر قدم رکھا اور قدم رکھتے ہی رحمت کی بارشیں برسا دیں.تو ہزاروں کانپتے ہوئے دلوں میں سے ہو کر تخت امامت کی طرف آیا اور پھر ایک ہاتھ کی جنبش سے ان تھر اتے ہوئے سینوں کو سکینت بخش دی.آ! اور ایک شکور جماعت کی ہزاروں دعاؤں اور تمناؤں کے ساتھ ان کی سرداری کے تاج کو قبول کر.تو ہمارے پہلو سے اٹھا ہے مگر بہت دور سے آیا ہے.آ! اور ایک قریب رہنے والے کی محبت اور دور سے آنے والے کے اکرام کا نظارہ دیکھے.لام می و نظارت تالفه سلسلہ احمدیہ ص ۳۲۴.شائع کردہ نظارت تالیف و تصنیف قادیان) حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے مختصر سوانح حیات حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفة المسیح الثانی مورخہ ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء بروز ہفتہ قادیان میں پیدا ہوئے.آپ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی حرم ثانی حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کے بطن سے حضور کے سب سے بڑے

Page 254

۲۳۳ صاحبزادے تھے.آپ کی ولادت با سعادت الہی بشارتوں کے مطابق ہوئی.جو ہستی باری تعالی ، آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہے.آنحضرت ﷺ نے حضرت مسیح موعود و مہدی معہود کی علامات میں سے ایک علامت یہ بتائی تھی کہ : يَتَزَوَّجُ وَيُولَدُلَهُ.(مشکوۃ باب نزول عیسی ) یعنی وہ خدا تعالیٰ کی منشاء خاص سے ایک شادی کرے گا جس سے اس کے ہاں غیر معمولی خصوصیات کی حامل اولا د ہوگی.اس حیثیت پاک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام مبشر اولاد بالعموم اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی بالخصوص مراد اور مصداق ہیں.پھر آپ کا وجود اس عظیم الشان پیشگوئی کو پورا کرنے کا موجب بنا جو جماعت احمدیہ میں پیشگوئی مصلح موعود کے نام سے مشہور ہے.جو ہوشیا پور میں چالیس روز تک چلہ کشی کرنے کے نتیجہ میں آپ نے خدا تعالیٰ سے پاکر مورخہ ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کو اخبار ریاض ہند میں شائع فرمائی تھی.جس میں آپ کے سوانح کا خاکہ آپ کی ولادت سے تین سال قبل اللہ جل شانہ نے اپنے ان الفاظ میں بیان فرما دیا تھا.اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمۃ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت اور غیوری نے اسے اپنے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا.دوشنبہ ہے مبارک دوشنبه فرزند دلبند گرامی ارجمند - مظهر الاول والآخر.مظهر الحق

Page 255

۲۳۴ والعلا.كان الله نزل من السماء جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضا مندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی.تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا.66 وكان امر امقضياً “.اشتهار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء بحوالہ اخبار ریاض ہند امرتسر مورخہ ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء) حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے وجود میں یہ پیشگوئی اپنی پوری شان کے ساتھ پوری ہوئی.پیشگوئی میں جو جو علامتیں بتائی گئی تھیں ہم سب گواہ ہیں کہ وہ سب پوری ہو گئیں.الحمد للہ حضرت مسیح موعود نے آپ کی پیدائش پر ایک اشتہار شائع کیا جس میں آپ کی پیدائش کی خوشخبری دیتے ہوئے حضور نے دس شرائط بیعت کا اعلان فرمایا اور پھر کچھ عرصہ بعد ۱۸۸۹ء میں ہی ہم مقام لدھیانہ پہلی بیعت کا آغاز کیا گیا.گویا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی پیدائش اور جماعت احمدیہ کا آغاز ایک ہی وقت میں ہوئے.جب حضرت خلیفہ ثانی تعلیم کی عمر کو پہنچے تو مقامی سکول میں آپ کو داخل کرا دیا گیا مگر طالب علمی کے زمانہ میں چونکہ آپ کی صحت خراب رہتی تھی اس لئے آپ کو تعلیم سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی.یہی وجہ ہے کہ جب دسویں جماعت کے امتحان تک پہنچے جو کہ اس زمانہ میں یو نیورسٹی کا پہلا امتحان تھا تو آپ فیل ہو گئے.بس آپ نے سکول کی تعلیم یہاں تک حاصل کی.تعلیم کے زمانہ میں جب آپ کے استاد حضرت مسیح موعود سے آپ کی تعلیمی حالت کا ذکر کرتے تو حضور فرمایا کرتے تھے کہ اس کی صحت اچھی

Page 256

۲۳۵ نہیں ہے.جتنا یہ شوق سے پڑھے اسے پڑھنے دو زیادہ زور نہ دو.دراصل اس میں اللہ تعالیٰ کی خاص حکمت تھی.اگر آپ تعلیم میں ہوشیار ہوتے اور ظاہری ڈگریاں حاصل کرتے تو لوگ خیال کرتے کہ آپ کی قابلیت شاید ان ڈگریوں کی وجہ سے ہے مگر اللہ تعالیٰ تو خود آپ کا استاد بنا چاہتا تھا اس لئے ظاہری تعلیم آپ حاصل ہی نہ کر سکے اور بعد میں اللہ تعالیٰ نے پیشگوئی کے مطابق خود آپ کو ظاہری و باطنی تعلیم دی.چنانچہ دنیا نے دیکھ لیا کہ کسی علم میں بھی دنیا کا کوئی عالم آپ کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا.حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں جب آپ ذرا بڑے ہوئے تو آپ کے دل میں خدمت دین کا خاص شوق پیدا ہو گیا.چنانچہ آپ نے ایک انجمن تفخیذ الاذہان کے نام سے قائم کی اور اس نام کا ایک رسالہ بھی جاری کیا اور اس طرح تحریری اور تقریری مشق کا سلسلہ شروع کر دیا.جو جماعت کے لئے بہت مفید ثابت ہوا.حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں ہی آپ کو حضرت خلیفہ اول نے اپنی خاص تربیت میں لے لیا.چنانچہ قرآن شریف اور حدیثوں کی بعض کتابیں آپ نے حضرت مولوی صاحب سے پڑھیں اور آپ نے ان کی صحبت اور فیض سے بہت فائدہ اٹھایا.۲۶ مئی ۱۹۰۸ ء کو جب حضرت مسیح موعود وفات پاگئے.اس وقت آپ انیس برس کے تھے.آپ نے حضور کی نعش مبارک کے سرہانے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ سے یہ عظیم الشان عہد کیا کہ الہی اگر سارے لوگ بھی حضرت مسیح موعود کی جماعت کو چھوڑ دیں تو پھر بھی میں اپنے عہد پر قائم رہوں گا اور حضرت مسیح موعود جس مقصد کے لئے مبعوث ہوئے تھے اسے پورا کرنے کی کوشش کرتا رہوں گا.اس عہد کے بعد ستاون برس تک

Page 257

۲۳۶ حضور زندہ رہے.آپ کی زندگی کا ایک ایک دن اس امر کا گواہ ہے کہ آپ نے جو عہد کیا تھا اسے کس شان سے پورا کر دکھایا.1911ء میں آپ نے حضرت خلیفہ اول کی اجازت سے ایک انجمن انصار الله" کے نام سے قائم فرمائی اور اس کے ذریعے تبلیغ و تربیت کے کئی کام کئے.۱۹۱۲ء میں آپ نے حج کیا.۱۹۱۳ء میں اخبار ” الفضل“ جاری کیا.حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں آپ نے کئی تبلیغی سفر بھی کئے.جن میں آپ کی تقریروں کو لوگ خاص طور پر بہت پسند کرتے تھے.حضرت مسیح موعود کی وفات کے وقت آپ ابھی بچہ ہی تھے لیکن حضرت خلیفہ اول کی خلافت کے ابتدائی ایام میں ہی آپ نے جماعت میں پیدا ہونے والے اس فتنہ کے ابتدائی آثار کو بھانپ لیا تھا جو خلافت کے منکرین کی طرف سے بہت ہی آہستہ آہستہ ظاہر ہورہے تھے.آپ کا یہ ایک عظیم الشان کارنامہ ہے کہ آپ کی باریک نظر نے آنے والے خطروں کو محسوس کر لیا اور معلوم کر لیا کہ یہ لوگ خلافت کے منکر ہو کہ احمدیت کی خصوصیات اور برکات کو تباہ کر دینا چاہتے ہیں.چنانچہ باوجود اس کے کہ آپ کی ان لوگوں کی طرف سے سخت مخالفت کی گئی مگر آپ صحیح راستہ پر ڈٹے رہے.آپ نے بہادری کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا.نتیجہ یہ ہوا کہ جماعت اس فتنہ سے بڑی حد تک بچی رہی.حالانکہ یہ فتنہ پیدا کرنے والے لوگ وہ تھے جو کہ جماعت میں ذی علم اور تجربہ کار سمجھے جاتے تھے.وہ خود کو صدرانجمن کے ملک سمجھتے تھے اور حضور کو کل کا بچہ کہ کر پکارا کرتے تھے.مگر دیکھنے والوں نے دیکھ لیا کہ بالآخر یہی کل کا بچہ کامیاب رہا.

Page 258

۲۳۷ انتخاب خلافت ثانیه جیسا کہ پہلے بھی لکھا جاچکا ہے.حضرت خلیفہ اول مورخہ ۱۳ مارچ ۱۹۱۴ء کو بعد دو پہر فوت ہوئے تھے.وہ جماعت پر ایک بہت ہی نازک وقت تھا.ایک طرف حضرت خلیفہ اول کی جدائی کا غم تھا اور دوسری طرف منکرین خلافت کے فتنہ کا خوف تھا جو ہر مخلص احمدی کو بیتاب کر رہا تھا.اور وہ بیقراری کے ساتھ دعاؤں میں مصروف تھا.نماز عصر کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ایک بہت درد سے بھری ہوئی تقریر فرمائی جس میں آپ نے فرمایا کہ دوستوں کو بہت دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کی مددفرمائے اور صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق دے.دوسرے دن خلافت کا انکار کرنے والوں کو سمجھانے کی ایک آخری کوشش کی گئی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے انہیں یہاں تک کہا کہ اگر خلافت سے انکار نہ کریں تو ہم خدا کو حاضر و ناظر جان کر وعدہ کرتے ہیں کہ اگر کثرت رائے سے آپ لوگوں میں سے کوئی خلیفہ منتخب ہو جائے تو ہم سچے دل سے اسے قبول کریں گے لیکن یہ لوگ اپنی ضد پر اڑے رہے.مولوی محمد علی صاحب نے حضرت خلیفہ اول کی زندگی میں ہی ایک رسالہ چھاپ کر تیار کر رکھا تھا جسے حضور کی وفات ہوتے ہی کثرت سے جماعت میں تقسیم کر دیا گیا.اس پرو پیگنڈا کی وجہ سے انہیں امید تھی کہ جماعت ان کی باتوں کو ضرور مان لے گی.اس لئے وہ اپنی باتوں پر اڑے رہے.آخر ۴ امارچ کو نماز عصر کے بعد سب احمدی جو دو ہزار کی تعداد میں دور و نزدیک سے آئے ہوئے تھے مسجد نور قادیان میں جمع ہوئے.سب سے پہلے حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے حضرت خلیفہ اسیح الاول کی وصیت پڑھ کر سنائی.جس میں آپ نے اپنا جانشین مقرر کرنے کی نصیحت فرمائی تھی.وصیت

Page 259

۲۳۸ پڑھنے کے ساتھ ہی ہر طرف سے لوگوں کی آواز میں ” حضرت میاں صاحب ، حضرت میاں صاحب ( مراد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفتہ اسیح الثانی) بلند ہونے لگیں.حضرت مسیح موعود کے پرانے صحابی حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امروہوی نے کھڑے ہو کر تقریر کی.آپ نے خلافت کی ضرورت واضح کرنے کے بعد فرمایا کہ میری رائے میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ہر طرح سے خلیفہ اسیح بننے کے اہل ہیں.اس لئے ہمیں ان کے ہاتھ پر بیعت کر لینی چاہئے.اس کی ہر طرف تائید کی گئی اور لوگوں نے اصرار کرنا شروع کیا کہ ہماری بیعت لی جائے.مولوی محمد علی صاحب نے جو منکرین خلافت کے لیڈر تھے، کچھ کہنا چاہا لیکن لوگوں نے انہیں یہ کہہ کر روک دیا کہ جب آپ خلافت ہی کے منکر ہیں تو ہم کس طرح آپ کی بات سننے کے لئے تیار ہوں؟ لوگ چاروں طرف سے ٹوٹے پڑتے تھے یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا خدا کے فرشتے لوگوں کو پکڑ پکڑ کے بیعت کے لئے تیار کر رہے ہیں.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے کچھ تامل کیا مگر آخر لوگوں کے اصرار پر حضور نے بیعت لینی شروع کر دی.جولوگ قریب نہیں آسکتے تھے انہوں نے اپنی پگڑیاں پھیلا کر اور ایک دوسرے کی پیٹھوں پر ہاتھ رکھ کر بیعت کے الفاظ دہرائے.بیعت کے بعد لمبی دعا ہوئی جس میں سب پر رقت طاری تھی.دعا کے بعد حضور نے درد سے بھری ہوئی تقریر فرمائی.جس میں آپ نے فرمایا کہ گو میں بہت ہی کمزور انسان ہوں مگر خدا تعالیٰ نے مجھے پر جو ذمہ داری ڈال دی ہے مجھے یقین ہے کہ خدا اس کے ادا کرنے کی توفیق مجھے عطا فرمائے گا.آپ سب لوگ متحد ہو کر اسلام اور احمدیت کی ترقی کی کوشش میں میری مدد کریں.

Page 260

۲۳۹ اس تقریر سے سب لوگوں کے دلوں میں ایک خاص اطمینان پیدا ہو گیا.مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ساتھیوں نے جب دیکھا کہ جماعت نے ان کی بات نہیں مانی تو وہ حسرت کے ساتھ اس مجمع میں سے اٹھ کر چلے گئے اور پھر چند دن کے بعد مستقل قادیان چھوڑ کر لاہور چلے گئے اور وہاں پر انہوں نے اپنے ساتھیوں کی الگ انجمن قائم کرلی.شروع شروع میں انہوں نے یہ پروپیگنڈہ کیا کہ بہت تھوڑے لوگ خلافت کے ساتھ ہیں.مگر آہستہ آہستہ انہوں نے اپنی ناکامی کو محسوس کر لیا اور اقرار بھی کرلیا کہ جماعت احمدیہ کی بہت بھاری اکثریت خلافت کے جھنڈے تلے جمع ہو چکی ہے اور ہم انہیں ورغلانے میں ناکام رہے ہیں.الحمد للہ علی ذالک! اولاد حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے یہ شیر دی تھی کہ:.تیری نسل بہت ہوگی اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا“.اس الہام کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کی نسل کو واقعی بہت بڑھایا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ذریعہ تو یہ الہام خاص طور پر پورا ہوا کیونکہ للہ تعالیٰ نے آپ کو ۱۳ بیٹے اور ۹ بیٹیاں عطا فرمائیں اور پھر یہ اولا د دین کی خاص خدمت کرنے والی ثابت ہوئی.آپ کے دو صاحبزادے حضرت حافظ مرزا ناصر احمد اور حضرت مرزا طاہر احمد جماعت کے تیسرے اور چوتھے خلیفہ ہوئے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے وہ جسے چاہے عطا فرماتا ہے.

Page 261

۲۴۰ آخری بیماری اور وفات سفر یورپ سے آنے کے بعد گو حضور کو ایک حد تک آرام محسوس ہوتا تھا اور حضور نے نمازیں پڑھانی ، خطبات دینے اور خلافت کے دیگر ضروری کام بھی سرانجام دینے شروع کر دیئے تھے مگر اصل بیماری ابھی موجود تھی.اسی حالت میں حضور نے تفسیر صغیر جیسا اہم کام شروع کر دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ زیادہ کام کرنے کی وجہ سے حضور پھر زیادہ بیمار ہو گئے.۱۹۵۸ء میں بیماری کا دوبارہ حملہ ہوا.ہر ممکن علاج ہوتا رہا.ملک کے قابل ترین ڈاکٹروں کے علاوہ بیرونی ملکوں کے ڈاکٹروں کو بھی دکھایا گیا اور ان سے مشورے کئے جاتے رہے مگر بیماری بڑھتی ہی چلی گئی اور حضور کمزور ہوتے گئے.حتی کہ آخر وہ وقت بھی آگیا جس کا تصور بھی کوئی احمدی نہیں کرنا چاہتا تھا یعنی مورخہ ۸ نومبر ۱۹۶۵ء کی درمیانی رات کو ۲ بجگر ۲۰ منٹ پر قریباےے سال کی عمر میں حضور ہمیں داغ جدائی دے کر اپنے مولائے کریم کے پاس جا پہنچے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ط حضور کی وفات پر احمدیوں کی جو حالت ہوئی اس کا کوئی اندازہ ہی نہیں لگا سکتا لیکن سچا مومن ہر حالت میں خدا کی رضا پر راضی رہتا ہے.جب خدا کی یہ سنت ہے کہ جو شخص بھی اس دنیا میں آتا ہے.آخر وہ یہاں سے رخصت ہو جاتا ہے.تو حضور نے بھی آخر اس دنیا سے رخصت ہونا ہی تھا سو آخر وہ وقت آ گیا اور حضور ہم سے رخصت ہو گئے اگلے دن مورخہ 9 نومبر کو ساڑھے ۴ بجے سہ پہر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے نماز جنازہ پڑھائی.نماز جنازہ میں پاکستان کے ہر حصہ سے آئے ہوئے قریب ۵۰ ہزار احمدی شامل ہوئے جو کہ اپنے پیارے آقا کی وفات کی خبر سنتے ہی دیوانہ وار اپنے مرکز

Page 262

۲۴۱ میں پہنچ گئے تھے.نماز جنازہ سے پہلے سب احباب نے اپنے پیارے امام کا آخری دیدار کیا.نماز جنازہ کے بعد آپ کو مقبرہ بہشتی ربوہ میں حضرت اماں جان کے مزار کے پہلو میں امانتاً فن کر دیا گیا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی اید و اللہ کی کی پچاس سالہ کامیاب خلافت مرحبا اے گلشن احمد کے نخل مثمریں اے بہائے آدمیت رونق بستان دیں تیرے احسانوں سے گردن جھک گئی ہے دہر کی بھول جائے مادر گیتی تجھے آسماں نہیں تو نے محفل کو دیا ہے ذوق تمکین حیات تیری صحبت اے مہ کامل ہے انجم آفریں تو نے دنیا کو دیا پیغام امن و آشتی مصلح اقوام عالم آفریں صد آفریں قوم احمد کے لئے تیری مساعی صبح و شام کار ہائے زندہ تر اے پیکر عزم و یقیں محفل رنداں میں تھی اک مردنی سی چھا گئی بربط ہستی یہ چھیڑا تو نے ساز دلنشیں اس کے اوصاف حمیدہ کا بیاں کیونکر کریں جن سے ہیں معمور راشد آپ کا ماہ سنیں حسین یاد آئی ہے یاد آج پھر اس حق پرست کی جس نے حریم عرش بریں کو ہلا دیا جس نے حیات تازہ کے نغمے الاپ کر مردوں کو زندگی کا قرینہ سکھا دیا

Page 263

۲۴۲ صدق وصفا کی شمعیں جلائیں کچھ اس طرح توحید کی ضیا سے جہاں جگمگا دیا پنے ہی گرد و پیش سے فرصت نہ تھی جنہیں سارے جہاں کے درد کا چسکا لگا دیا ڈالی جو خاک پر کبھی مچلی ہوئی نگاہ ہر ذرہ حقیر کو سونا بنا دیا بھر کر دلوں میں ذوق یقیں، ذوق حریت روندے ہوؤں کو عرش کا تارا بنا دیا طوفاں ٹھہر گئے وہ اگر مسکرا دیا اللہ رے اس جری کے عزائم کی آب و تاب میں اس حسیں یاد کو دل میں بساؤں گا اک لازوال نقش محبت بناؤں گا خلافت ثانیہ کے شیریں ثمرات ۱۴ مارچ ۱۹۱۴ء بروز ہفتہ بعد نماز مغرب حضرت مرزا بشیر الدین محمد احمد صاحب اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق مخلصین جماعت احمدیہ کی دردمندانہ دعاؤں کے ساتھ مسند خلافت پر متمکن ہوئے.آپ حضرت مسیح موعود کی پُر درد اور مقبول دعاؤں کا عظیم ثمرہ تھے.آپ کا وجود قبولیت دعا کا ایک زندہ اور مجسم معجزہ تھا.دعاؤں کے ساتھ آپ کو ایک عجیب نسبت تھی.دعاؤں نے آپ کو خلعت وجود بخشا دعائیں ہی آپ کا سرمایہ حیات رہیں.حضرت مصلح موعودؓ کو خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی نہایت مشکل اور صبر آزما حالات کا سامنا کرنا پڑا.لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر مشکل وقت میں اپنے خاص فضل اور رحم کا سہارا دیا اور خطر ناک سے خطر ناک وادی سے آپ اپنی جماعت کو نہایت کامیابی اور کامرانی سے بچاتے ہوئے فتح و نصرت کی نئی منازل کی طرف

Page 264

بڑھتے چلے گئے.۲۴۳ دوست تو الگ رہے اولوالعزمی کے اس پیکر کو وہ مشاہیر بھی خراج تحسین پیش کئے بغیر نہ رہ سکے جو دوستوں کے زمرہ میں بھی شامل نہ تھے.چنانچہ خواجہ حسن نظامی شدید مخالفانہ حالات میں آپ کے ثبات قدم سے متاثر ہو کر لکھتے ہیں کہ :.مخالفت کی آندھیوں میں اطمینان سے کام کر کے اپنی مغلی جوانمردی کو ثابت کر دیا“.لا ریب آپ نے مخالفت کی آندھیوں میں اطمینان سے کام کر کے یہ ثابت کر دیا کہ وہ ایک ”صاحب شکوہ اور اولوالعزم مرد تھے جس کے سر پر خدا کا سایہ تھا.خلافت ثانیہ کا مبارک دور ۱۴ مارچ ۱۹۱۴ء کو شروع ہوا اور ۸ نومبر ۱۹۶۵ء کو ختم ہوا.گویا خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ دور تقریباً باون سال تک جاری رہا اس عرصہ میں حضور نے اسلام اور سلسلہ احمدیہ کی ترقی کے لئے اتنے کارنامے سرانجام دیئے اور ان کے اتنے عظیم الشان نتائج نکلے کہ اس مقالہ میں ان کو گنوا نا بھی ممکن نہ ہوگا.لیکن میں یہاں پر آپ کے سنہری کارناموں میں سے صرف کچھ پر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں.فتنه انکار خلافت خلافت کے بابرکت منصب پر متمکن ہونے کے بعد سب سے پہلے آپ کو فتنہ انکار خلافت کا سامنا کرنا پڑا.جسے حضور نے ہر لحاظ سے ناکام بنا دیا.انتخاب خلافت کے ساتھ ہی منکرین خلافت نے تمام ابلاغ واشاعت کے ذرائع بروئے کارلاتے ہوئے سارے ہندوستان میں نظام خلافت کی تردید میں ایک خطرناک اور زہریلے

Page 265

۲۴۴ پروپیگنڈا کی مہم بڑی سرعت کے ساتھ شروع کر دی.بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پروپیگنڈا کا یہ منصوبہ خفیہ طور پر حضرت خلیفہ اسیح الاول کی زندگی میں ہی تیار کر کے آپ کی وفات کے بعد پھیلا یا گیا کہ مرزا محمود احمد اور ان کے رفقاء نے اپنے ذاتی مفاداور اقتدار کی خاطر نظام خلافت کا یہ ڈھونگ رچایا ہے.جبکہ حضرت مسیح موعود واضح طور پر صدرانجمن احمدیہ کو اپنا جانشین مقرر فرما گئے تھے نیز یہ بھی کہا گیا کہ ابھی سے ان لوگوں نے دین کو بگاڑنا شروع کر دیا ہے اور اگر اس (نعوذ باللہ ) غیر ذمہ دار، کچی عمر کے نوجوان کی قیادت کو جماعت احمدیہ نے قبول کر لیا تو دیکھتے ہی دیکھتے جماعت احمدیہ کا شیرازہ بکھر جائے گا اور قادیان پر عیسائیت قابض ہو جائے گی.ان حالات کے پیش نظر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے خلافت پر متمکن ہوتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا کہ بکثرت رسائل اور اشتہارات کے ذریعے جماعت پر اصل صورتحال واضح فرمائی اور منکرین خلافت کے ہر قسم کے اعتراضات کا مؤثر جواب دیا.اس ضمن میں سب سے پہلے آپ کا اشتہار ”کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے “بشدت ہماری توجہ اپنی طرف کھینچتا ہے.یہ اشتہار جہاں ایک طرف آپ کی اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں اور واضح قوت استدلال سے روشناس کرواتا ہے وہاں آپ کے تو کل علی اللہ، عزم صمیم، یقین کامل اور خلوص قلب کی بھی روشن دلیل ہے جس کی طرف واضح طور پر پیشگوئی مصلح موعود میں ذکر ملتا ہے.اشاعت احمدیت احمدیت دنیا میں اسلام کی تبلیغ اور اشاعت کرنے کے لئے قائم کی گئی ہے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے خلعت خلافت زیب تن کرنے کے بعد سب سے پہلے

Page 266

۲۴۵ اس کی طرف توجہ دی.چنانچہ ایک طرف تو آپ نے قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ وتفسیر تیار کرنے کا کام نئے سرے سے شروع کر دیا تا کہ اس کے ذریعے اکناف عالم میں اسلام کی تبلیغ ہو سکے اور دوسری طرف آپ نے مبلغین تیار کرنے اور پھر انہیں دنیا کے مختلف ممالک میں بھجوانے کا انتظام کیا جسے بعد میں انجمن تحریک جدید کے سپر د کر دیا گیا.سب سے پہلے ماریشس کے جزیرہ میں احمد یہ مشن قائم ہوا جہاں پر حضور نے حضرت صوفی غلام محمد صاحب کو بھیجا پھر امریکہ میں سلسلہ احمدیہ کے پرانے بزرگ اور حضرت مسیح موعود کے صحابی حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے ذریعے اسلام کا پیغام پہنچایا گیا پھر مغربی افریقہ میں سلسلہ کے ایک بزرگ صحابی حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر تشریف لے گئے ان بزرگوں کے ذریعے کثرت سے لوگ مسلمان ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور خدا تعالیٰ نے انہیں غیر معمولی کامیابی بخشی.براعظم امریکہ، براعظم یورپ، براعظم مغربی اور مشرقی افریقہ کے بہت سارے ممالک کے علاوہ جنوبی افریقہ، فلسطین، لبنان، شام، عدن، مصر، کویت، بحرین، دوبئی، برما، سیلون، ہانگ کانگ، سنگاپور، جاپان، انڈونیشیا، شمالی بور نیو، فلپائن اور ملائشیا میں بھی جماعت احمد یہ آپ کے سنہری دور خلافت میں قائم ہو چکی تھی دنیا کے کناروں تک احمدیت کے پیغام کا پہنچنا حضرت مصلح موعودؓ کی ہی کوششوں کا نتیجہ ہے.حضرت مصلح موعودؓ کے اسی عظیم تبلیغی کارنامے کا ذکر پیش گوئی مصلح موعود کے ان الفاظ میں بڑے واضح طور پر کیا گیا ہے کہ:.وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا.

Page 267

۲۴۶ تفسیر کبیر کی اشاعت تبلیغ اسلام کے کام کو وسیع کرنے کے ساتھ ہی ساتھ آپ کو جماعت کی تعلیم و تربیت کا بھی بہت خیال رہتا تھا چنانچہ اس غرض سے آپ نے مردوں اور عورتوں میں الگ الگ قرآن مجید کا درس دینا شروع کیا جو بعد میں کتابی صورت میں تفسیر کبیر کے نام سے شائع ہو گیا.یہ تفسیر علمی اور تربیتی لحاظ سے انتہائی اعلیٰ درجے کا شاہکار ہے متعد د مخالف علماء نے بھی اس کی تعریف کی اور اقرار کیا کہ مذہب کی اور قرآن مجید کی اہمیت کا اور اسلام کی حقیقی خوبیوں کا علم جس طرح ان تفسیروں سے حاصل ہوتا ہے اس طرح اور کسی کتاب سے نہیں ہو سکتا بہت سے لوگ حضور کی لکھی ہوئی ان تفسیروں کو ہی پڑھ کر ہدایت پاگئے.ان تفسیروں کو پڑھ کر قرآن مجید کو سمجھنے کا اور اس کے مضامین کا علم حاصل کرنے کا ایک خاص ذوق اور ملکہ پیدا ہوتا ہے.دل سے یہ دعا نکلتی ہے کہ اللہ ہمارے پیارے امام حضرت مصلح موعودؓ کے درجات کو بہت بہت بلند کرے جنہوں نے یہ قیر لکھ کر ہم پر بہت بڑا احسان کیا.حضور کی یہ تفاسیر پیشگوئی مصلح موعود میں بیان فرمودہ اس پیشگوئی کہ:.کلام اللہ کا مرتبہ اس سے ظاہر ہوگا اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا“ کے پورا ہونے کا زندہ جاوید ثبوت ہے.تفسیر صغیر کی اشاعت پھر حضور نے قرآن مجید کا سلیس سادہ اور با محاورہ اردوزبان میں ترجمہ بھی شائع کیا اور اس کے ساتھ ضروری مقامات پر تفسیری نوٹ بھی لکھے.یہ ترجمہ سب سے پہلے ۱۹۵۷ء میں تفسیر صغیر کے نام سے شائع ہوا.یہ اپنوں اور غیروں میں بہت مقبول ہے.

Page 268

۲۴۷ انگریزی ترجمۃ القرآن کی اشاعت پھر حضور کی نگرانی میں قرآن کریم کا انگریزی زبان میں ترجمہ مع تفسیر بھی شائع ہوا.جو انگریزی دانوں کے لئے ہدایت کا باعث بن رہا ہے.خطبات و تقاریر جماعت کی تربیت کے لیئے دوسرا ذریعہ حضور نے خطبات اور تقاریر کا اختیار فرمایا.قریباً ہر دینی مسئلہ پر اور تربیت کے ہر پہلو پر حضور نے تقاریر فرمائیں اور خطبات دیئے.یہ تقاریر بہت ہی پر اثر اور جماعت کی علمی ترقی اور تربیت کے لئے بہت ہی مفید ثابت ہوئیں.نظارتوں کا قیام حضور نے ۱۹۱۹ء میں صدر انجمن احمد یہ میں نظارتوں کا نظام قائم فرمایا اور پھر تمام جماعتوں میں باقاعدہ عہد یدار منتخب کرنے اور پھر ان کے کام کی نگرانی کرنے کا انتظام فرمایا جس کی وجہ سے جماعت ہر لحاظ سے منظم ہوکر کام کرنے لگی.جماعتی تربیت کا تعلیمی و تنظیمی نظام زنه جماعت کی تربیت کے لئے حضور نے ۱۹۲۲ء میں احمدی عورتوں کی تنظیم لجنہ اماء اللہ قائم فرمائی پھر ۱۹۲۶ء میں ان کے لئے ایک علیحدہ رسالہ ” مصباح“ کے نام سے جاری فرمایا.۱۹۲۸ء میں نصرت گرلز ہائی سکول قائم کیا اور ۱۹۵۱ء میں بمقام ربوہ جامعہ نصرت قائم کیا جس میں احمدی بچیاں اعلی تعلیم حاصل کر سکتی ہیں ان اداروں میں دینی تعلیم کا بھی انتظام فرمایا ۱۹۳۸ء میں حضور نے احمدی نوجوانوں کی تنظیم خدام

Page 269

۲۴۸ الاحمدیہ کی بنیاد رکھی نیز احمدی بچوں کے لئے اطفال الاحمدیہ اور بچیوں کے لئے ناصرات الاحمدیہ کی تنظیم قائم کی اور چالیس سال سے اوپر کی عمر کے احمدیوں کو منظم کرنے کے لئے ”مجلس انصاراللہ قائم فرمائی.ان تنظیموں نے جماعت کی تعلیم و تربیت میں بہت اہم حصہ لیا اور رہتی دنیا تک کرتی رہیں گی ان کی وجہ سے جماعت کا کام کرنے کے لئے ہزاروں کارکنوں کی ٹرینینگ ہوئی اور انہوں نے اپنے اپنے وقت پر جماعت کی نمایاں خدمت میں حصہ لیا.مجلس مشاورت کا قیام ۱۹۲۲ء میں حضور نے مجلس مشاورت کا نظام جماعت میں قائم فرمایا.سال میں ایک دفعہ خلیفہ وقت کے حکم سے تمام احمدی جماعتوں کے نمائندے جنہیں وہ جماعتیں خود منتخب کرتی ہیں مرکز میں جمع ہوتے ہیں اور جماعت کے متعلق جو معاملات خلیفہ وقت کی خدمت اقدس میں مشورہ کے لئے پیش کئے جائیں ان کے متعلق یہ نمائندے اپنی رائے اور مشورے پیش کرتے ہیں.خلیفہ وقت ان مشوروں میں سے جو بھی مناسب سمجھتے ہیں انہیں منظور کر لیتے ہیں اس طرح ساری جماعت کو جماعت کے معاملات کو سمجھنے اور مشورہ دینے کا موقع ملتا ہے.دارالقضاء کا قیام بعض اوقات جماعت کے لوگوں میں آپس میں جو شکر نجیاں پیدا ہو جاتی ہیں ان کا فیصلہ کرنے کے لئے حضور نے ۱۹۲۵ء میں محکمہ قضا قائم کیا جو کہ قرآن کریم کے حکموں اور اسلامی تعلیم کے مطابق تمام جھگڑوں کا فیصلہ کر دیتا ہے اور احمدیوں کو عدالتوں میں اپنے مقدمے نہیں لے جانے پڑتے.

Page 270

۲۴۹ شدھی تحریک کا استیصال حضور کا ایک بہت عظیم کارنامہ شدھی تحریک کا استیصال کرنا ہے.۱۹۲۳ء میں آریہ سماجی راہنما شدھی تحریک میں اپنی بظاہر فتح میں بہت مسرور تھے.اسلام کا یہ دشمن بڑے تکبر سے یہ خبریں دے رہا تھا کہ: نواح آگرہ میں راجپوتوں کو تیز رفتاری سے شدھ کیا جا رہا ہے اور اب تک چالیس ہزار تین سوراجپوت ملکانے ، گوجر اور جاٹ ہندو ہو چکے ہیں“.ان حالات میں اولوالعزمی کا یہ پیکر اس عظم و ہمت کے ساتھ میدان عمل میں اترا کہ رہتی دنیا تک دین مصطفوی ﷺ کے دفاع کے باب میں ایک زندہ جاوید مثال قائم کردی.آپ آریہ سماج کے اس وار کے سامنے اپنے غلاموں کو لے کر بنیان مرصوص بن کر کھڑے ہو گئے.اس جنگ میں آسمانی بادشاہت کے دولہا کی قیادت میں مجاہدین احمدیت کے ہاتھوں شدھی تحریک کو جس عبرتناک ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اس کا اقرار مسلمانوں نے بر ملا کیا.چنانچہ شیخ نیاز علی ایڈووکیٹ کا بیان اخبار زمیندار میں ان الفاظ میں چھپا:.جو حالات فتنہ ارتداد کے متعلق بذریعہ اخبارات علم میں آچکے ہیں ان سے صاف واضح ہے کہ جماعت احمد یہ اسلام کی انمول خدمت کر رہی ہے جو ایثار اور کمر بستگی، نیک نیتی اور تو کل علی اللہ ان کی جانب سے ظہور میں آیا وہ اگر ہندوستان کے موجودہ زمانے میں بے مثال نہیں تو بے انداز عزت اور قدردانی کے قابل ضرور ہے.جہاں ہمارے مشہور پیر اور سجادہ نشین حضرات بے حس و حرکت پڑے ہیں اس اولوالعزم جماعت نے عظیم الشان خدمت کر کے دکھا دی.وو

Page 271

خلافت جو بلی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ۱۹۱۴ء میں خلیفہ بنے تھے.۱۹۳۹ء میں آپ کی کامیاب اور بابرکت خلافت کا ۲۵ برس کا عرصہ پورا ہو گیا.حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے جماعت میں یہ تحریک پیش کی کہ خلافت ثانیہ کے ۲۵ سال پورے ہونے پر جماعت کی طرف سے خوشی اور شکر الہی کے اظہار کے لئے لاکھ روپے کی رقم جمع کر کے ایک خاص تقریب میں حضور کی خدمت میں پیش کرے اور درخواست کرے کہ اس حقیر رقم کو حضور جس طرح چاہیں دین کی خدمت میں صرف فرمائیں.چنانچہ دسمبر ۱۹۳۹ء میں جلسہ سالانہ کے موقع پر یہ تقریب جو خلافت ثانیہ کی سلور جوبلی کہلاتی ہے منائی گئی اور تین لاکھ روپیہ جماعت نے حضور کی خدمت میں پیش کیا.حضور نے اعلان فرمایا کہ اس رقم کومختلف دینی ضروریات پر صرف کیا جائے گا.جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ کا جلسہ سالانہ بھی اللہ تعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک بہت بڑا نشان ہے.جلسہ سالانہ کی بنیاد حضرت مسیح موعود نے رکھی.سب سے پہلا جلسہ ۱۸۹۱ء میں ہوا.جس میں صرف ۷۵ افراد شریک ہوئے.حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں آخری جلسہ میں جو دسمبر ۱۹۰۷ء میں ہوا دو ہزار سے زائد افراد شامل ہوئے.پھر حضرت خلیفہ اول کا زمانہ شروع ہوا.آپ کے عہد خلافت کے آخری جلسہ میں جو۱۹۱۳ء میں ہوا جلسہ میں شامل ہونے والوں کی تعداد ہزار سے اوپر تھی.خلافت ثانیہ میں یہ تعداد سرعت کے ساتھ بڑھتی چلی گئی.چنانچہ ۱۹۳۴ء میں اس میں شامل ہونے والوں کی تعداد ۲۰ ہزار تھی.ہجرت سے پہلے قادیان کے آخری جلسہ سالانہ میں جو دسمبر

Page 272

۲۵۱ ۱۹۴۶ء میں ہوا ۳۳ ہزار افراد شامل ہوئے خلافت ثانیہ میں جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں کی تعداد پونے دولاکھ سے زائد ہوگئی.گویا خدا کے فضل سے جماعت ہر سال ترقی کرتی چلی گئی کہاں اس جلسہ میں صرف ۷۵ آدمی شریک ہوئے اور کہاں یہ تعداد بڑھتی بڑھتی تقریب دو لاکھ تک جا پہنچی.الحمد للہ ! تحریک جدید حضور اقدس نے ۱۹۳۴ء میں احراریوں کے فتنے کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک تحریک کا اعلان فرمایا جس کا نام حضور نے تحریک جدید رکھا.اس تحریک میں حضور نے ۱۹ مطالبات جماعت کے سامنے رکھے ان خطبات میں یہ مطالبے بھی شامل تھے.(۱) تبلیغ دین کے لئے نو جوان اپنی زندگیاں وقف کریں.(۲) احمدی ایک خاص چندہ میں حصہ لیں جس کے ذریعے اسلام کی بیرونی ممالک میں اشاعت کی جائے گی.اس چندہ کو چندہ تحریک جدید کہتے ہیں.(۳) تمام احمدی سادہ زندگی اختیار کریں.حتی الامکان سادہ کھانا کھائیں، سادہ لباس پہنیں، کوئی احمدی سینما نہ دیکھے، کوئی احمدی بیکار نہ رہے.ان باتوں کی اصل غرض یہ تھی کہ ہم اپنے اخراجات کم کر کے زیادہ سے زیادہ رقم جمع کر کے چندہ میں دے سکیں.یہ تحریک بہت ہی بابرکت ثابت ہوئی اس کی وجہ سے دنیا کے بہت سے ممالک میں جماعت کے تبلیغی مشن قائم ہوئے.ہزاروں لوگوں نے اسلام قبول کیا، کئی زبانوں میں قرآن کریم کے ترجمے شائع ہوئے.جماعت میں قربانی اور اخلاص کی ایک لہر دوڑ گئی.

Page 273

۲۵۲ تحریک وقف جدید ۱۹۵۸ء میں حضور نے ملک کے دیہاتی علاقوں تک پیغام حق پہنچانے اور ان کی تعلیم و تربیت کرنے کے لئے بھی ایک تحریک جاری فرمائی جس کا نام وقف جدید رکھا.اس تحریک کے ماتحت حضور نے احمدی نوجوانوں کو تحریک فرمائی کہ وہ دیہات میں رہ کر لوگوں کو تبلیغ کرنے اور ان کی تعلیم و تربیت کرنے کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں.چنانچہ بہت سے نوجوانوں نے اپنے آپ کو پیش کر دیا.یہ تحریک اب خدا کے فضل کے ساتھ بہت کامیابی کے ساتھ چل رہی ہے اور بین الاقوامی حیثیت اختیار کر چکی ہے اور اس کے ذریعے ملک کے وسیع دیہاتی علاقوں میں نہایت مفید کام ہو رہا ہے.وقف جدید کی یہ تحریک غالبا حضور کی آخری تحریک تھی جو حضور انور نے جماعت کے سامنے پیش فرمائی.چالیس روز تک خاص دعاؤں کی تحریک آپ نے جماعت کی روحانی وجسمانی ترقی کی یکے بعد دیگرے متعدد تجاویز و تحریکات پیش فرمائیں.آپ کے مبارک معمول کے مطابق یہاں بھی دعاؤں کو اولیت کا مقام حاصل رہا.چنانچہ آپ نے ۸ مارچ ۱۹۴۴ء سے چالیس روز تک خاص دعائیں کرنے کی تحریک فرمائی اور پھر چند روز بعد ہی آپ نے تسبیح وتحمید اور درود شریف پڑھنے کی تحریک فرمائی:.”ہر احمدی یہ عہد کرے کہ وہ روزانہ بارہ دفعہ سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم پڑھ لیا کرے گا اسی طرح دوسری چیز جو اسلام کی ترقی کے لئے ضروری ہے وہ رسول کریم ﷺ کی برکات اور آپ کے فیوض کا دنیا میں وسیع ہونا ہے اور ان برکات اور

Page 274

۲۵۳ فیوض کو پھیلانے کا بڑا ذریعہ درود ہے.بے شک ہر نماز میں تشہد کے وقت درود پڑھا جاتا ہے مگر وہ جبری درود ہے اور جبری در وداتنا فائدہ نہیں دیتا جتنا اپنی مرضی سے پڑھا ہوا درود انسان کو فائدہ دیتا ہے.وہ درود بے شک نفس کی ابتدائی صفائی کے لئے ضروری ہے لیکن تقرب الی اللہ کے حصول کے لئے اس کے علاوہ بھی درود پڑھنا چاہئے پس میں دوسری تحریک یہ کرتا ہوں کہ ہر شخص کم سے کم بارہ دفعہ روزانہ درود پڑھنا اپنے اوپر فرض قرار دے لے پس جو لوگ محبت اور اخلاص کے ساتھ درود پڑھیں گے وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے اللہ تعالیٰ کی برکات سے حصہ پائیں گے ان کے گھر رحمتوں سے بھر دیے جائیں گے.ان کے دل اللہ تعالیٰ کے انوار کا جلوہ گاہ ہو جائیں گے اور نہ صرف ان روحانی نعماء سے لطف اندوز ہوں گے بلکہ محمد ﷺ کی محبت کی وجہ سے چونکہ ان کی خواہش ہوگی کہ اسلام پھیلے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام اکناف عالم تک پہنچے اس لئے وہ اپنے اس ایمانی جوش اور دردمندانہ دعاؤں کے نتیجہ میں اسلام کے غلبہ کا دن بھی دیکھ لیں گے اور سچی بات تو یہ ہے کہ دعائیں ہی ہیں جن سے یہ عظیم الشان کام ہوسکتا ہے دنیوی کوششیں تو محض سہارے اور ہمارے اخلاص کے امتحان کا ذریعہ ہیں ورنہ قلوب کا تغیر محض خدا کے فضل سے ہوگا اور اس فضل کے نازل ہونے میں ہماری وہ دعائیں ممد ہوں گی جو ہم عاجزانہ طور پر اس سے کرتے رہیں گئے“.(الفضل ۲۳ مئی ۱۹۴۴ء) خاندان مسیح موعود کو وقف کرنے کی تحریک اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے خاندان مسیح موعود کو بطور خاص خدمت دین کرنے اور اس مقصد کے لئے اپنی زندگی وقف کرنے کی تحریک کرتے

Page 275

۲۵۴ ہوئے حضور نے ارشاد فرمایا:.دیکھو ہمارے اوپر اللہ تعالیٰ کے اس قدر احسانات ہیں کہ اگر سجدوں میں ہمارے ناک گھس جائیں.ہمارے ہاتھوں کی ہڈیاں گھس جائیں تب بھی ہم اس کے احسانات کا شکر ادا نہیں کر سکتے.اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری موعود کی نسل میں ہمیں پیدا کیا ہے اور اس فخر کے لئے اس نے اپنے فضل سے ہمیں چن لیا ہے..دنیا کے لوگوں کے لئے دنیا کے اور بہت سے کام پڑے ہوئے ہیں مگر ہماری زندگی تو کلیۂ دین کی خدمت اور اسلام کے احیاء کے لئے وقف ہونی چاہئے“.(الفضل ۱۴ مارچ ۱۹۴۴ء) عورتوں کی تربیت کی تحریک سوانح فضل عمر جلد دوم کے آخر میں یہ ذکر ہے کہ حضرت فضل عمر عورتوں کی فلاح و بہبود اور معاشرہ میں ان کو صحیح مقام دلانے کے لئے کس طرح کوشاں رہے.دعویٰ مصلح موعود کے بعد بھی اس فریضہ کی طرف بطور خاص توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:.اگر تم پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کرلو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گئی.آگئی.حضور کی اس توجہ کے نتیجہ میں لجنہ کے کاموں میں بھی غیر معمولی مستعدی اور چستی غرباء اور محتاجوں کی مدد کی تحریک اسلامی معاشرہ میں غریب اور محتاج انسانوں کی مدد اور ان کی خبر گیری کی طرف بطور خاص توجہ دلائی گئی ہے.اس اسلامی حکم کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ نے فرمایا:.

Page 276

۲۵۵ ہر شخص کو اپنے اپنے محلہ میں اپنے ہمسایوں کے متعلق اس امر کی نگرانی رکھتی چاہئے کہ کوئی شخص بھوکا تو نہیں اور اگر کسی ہمسایہ کے متعلق اسے معلوم ہو کہ وہ بھوکا ہے تو اس وقت تک اسے روٹی نہیں کھانی چاہئے جب تک وہ اس بھو کے کو نہ کھلائے“.الفضل ۱۱ جون ۱۹۴۵ء) وقف جائیداد کرنے کی تحریک ہراہم اور ضروری کام میں بنیادی طور پر مضبوط مالی حیثیت کی ضرورت ہوتی ہے.حضور نے جماعت کی ایسی تربیت فرمائی کہ چندوں کی ادائیگی میں بشاشت و رغبت اور مسابقت کے جو نمونے یہاں نظر آتے ہیں ان کی مثال آج کی دنیا میں اور کہیں نہیں مل سکتی.اس سلسلہ میں حضور نے وقف جائیداد کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا: ”ہم میں سے کچھ لوگ جن کی خدا تعالی توفیق دے اپنی جائیدادوں کو اس صورت میں دین کے لئے وقف کر دیں کہ جب سلسلہ کی طرف سے ان سے مطالبہ کیا جائے گا انہیں وہ جائیدا د اسلام کی اشاعت کے لئے پیش کرنے میں قطعا کوئی عذر نہیں ہوگا.( الفضل ۱۴مارچ ۱۹۴۴ء ) خدا تعالیٰ کے فضل سے مخلصین جماعت نے چند گھنٹوں کے اندر اندر ۴۰ لاکھ کی جائیدادیں وقف کر دیں.وقف زندگی کی تحریک خدمت دین کے لیے زندگی وقف کرنے کی اہمیت اور یہ بتانے کے بعد کہ اصل عزت خدمت دین میں ہے حضور نے فرمایا:.وو بعض لوگ حماقت سے یہ سمجھتے ہیں کہ جو تقریر اور تحریر کرے وہی مبلغ ہے.

Page 277

۲۵۶ حالانکہ اسلام تو ایک محیط کل مذہب ہے.اس کے احکام کی تکمیل کے لئے ہمیں ہر قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہے.وہی مبلغ نہیں جو تبلیغ کے لئے باہر جاتا ہے.جو سلسلہ کی جائیدادوں کا انتظام تندہی اور اخلاص سے کرتا ہے اور باہر جانے والے مبلغوں کے لئے اور سلسلہ کے لٹریچر کے لئے روپیہ زیادہ سے زیادہ مقدار میں کماتا ہے وہ اس سے کم نہیں اور خدا تعالیٰ کے نزدیک مبلغوں میں شامل ہے جو سلسلہ کی عمارتوں کی اخلاص سے نگرانی کرتا ہے وہ بھی مبلغ ہے جو سلسلہ کے لئے تجارت کرتا ہے.وہ بھی مبلغ ہے جو سلسلہ کا کارخانہ چلاتا ہے.وہ بھی مبلغ ہے جو زندگی وقف کرتا ہے اور اسے سلسلہ کے خزانہ کا پہریدار مقرر کیا جاتا ہے.وہ بھی مبلغ ہے.کسی کام کی نوعیت کا خیال دل سے نکال دو اور اپنے آپ کو سلسلہ کے ہاتھ میں دے دو.پھر جہاں تم کو مقرر کیا جائے گا وہی مقام تمہاری نجات اور برکت کا مقام ہوگا“.(الفضل ۳۱ مارچ ۱۹۴۴ء) کالج فنڈ کی تحریک جماعت کے نوجوانوں کی علمی و تربیتی ضروریات کو بہت رنگ میں پورا کرنے کے لئے ڈیڑھ لاکھ روپیہ چندہ کی تحریک فرمائی اور حضور نے اس مد میں گیارہ ہزار روپے چندہ ادا فر مایا.(الفضل ۲۳ مئی ۱۹۴۴ء) ماہرین علوم پیدا کر نے کی تحریک اس سلسلہ میں حضور ارشاد فرماتے ہیں:.تم اپنے آپ کو روحانی لحاظ سے مالدار بنانے کی کوشش کرو.تم میں سینکڑوں فقیہہ ہونے چاہئیں.تم میں سینکڑوں محدث ہونے چاہئیں.تم میں سینکڑوں مفسر ہونے چاہئیں.تم میں سینکڑوں علم کلام کے ماہر ہونے چاہئیں.تم میں سینکڑوں علم

Page 278

۲۵۷ اخلاق کے ماہر ہونے چاہئیں.تم میں سینکڑوں علم تصوف کے ماہر ہونے چاہئیں.تم میں سینکڑوں منطق اور فلسفہ اور فقہ اور لغت کے ماہر ہونے چاہئیں تا کہ جب ان سینکڑوں میں سے کوئی شخص فوت ہو جائے تو تمہارے پاس ہر علم اور ہرفن کے ۴۹۹ عالم موجود ہوں.ہمارے لئے یہ خطرہ کی بات نہیں ہے کہ حضرت خلیفہ اول بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے یا مولوی عبدالکریم صاحب بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے یا مولوی برہان الدین صاحب بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے یا حافظ روشن علی صاحب بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے یا قاضی امیرحسین صاحب بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے یا میر محمد الحق صاحب بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے بلکہ ہمارے لئے خطرہ کی بات یہ ہے کہ جماعت کسی وقت بحیثیت جماعت مرجائے اور ایک عالم کی جگہ دوسرا ہمیں اپنی جماعت میں دکھائی نہ دے“.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء ص ۱۷۴ تا ۱۷۸) دیوانہ وار تبلیغ کی تحریک فرماتے ہوئے حضور نے ارشاد فرمایا:.دنیا میں تبلیغ کرنے کے لئے ہمیں ہزاروں مبلغوں کی ضرورت ہے مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ مبلغ کہاں سے آئیں اور ان کے اخراجات کون برداشت کرے.میں نے بہت سوچا ہے مگر بڑے غور وفکر کے بعد میں سوائے اس کے اور کسی نتیجہ پر نہیں پہنچا کہ جب تک وہی طریق اختیار نہیں کیا جائے گا جو پہلے زمانوں میں اختیار کیا گیا تھا.اس وقت تک ہم کامیاب نہیں ہو سکتے...حضرت مسیح ناصری نے اپنے حواریوں سے کہا کہ تم دنیا میں نکل جاؤ اور تبلیغ کرو جب رات کا وقت آئے تو جس بستی میں تمہیں ٹھہرنا پڑے اس بستی کے رہنے والوں سے کھانا کھاؤ اور پھر آگے چل دو.رسول کریم نے بھی بڑی حکمت سے یہ بات اپنی امت کو سکھائی ہے.آپ نے فرمایا ہر بستی

Page 279

۲۵۸ پر باہر سے آنے والے کی مہمان نوازی تین دن فرض ہے.میں سمجھتا ہوں اس میں رسول کریم ﷺ نے تبلیغ کے طریق کی طرف ہی اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے اگر تم کسی بستی سے تین دن کھانا کھاتے ہو تو یہ بھیک نہیں ہاں اگر تین دن سے زائد ٹھہر کر تم ان سے کھانا مانگتے ہو تو یہ بھیک ہوگی.اگر ہماری جماعت کے دوست بھی اسی طرح کریں کہ وہ گھروں سے تبلیغ کے لئے نکل کھڑے ہوں ایک ایک گاؤں اور ایک ایک بستی اور ایک ایک شہر میں تین تین دن ٹھہرتے جائیں اور تبلیغ کرتے جائیں.اگر کسی گاؤں والے لڑیں تو جیسے حضرت مسیح ناصری نے کہا تھا وہ اپنے پاؤں سے خاک جھاڑ کر آگے نکل جائیں تو میں سمجھتا ہوں تبلیغ کا سوال ایک دن میں حل ہو جائے“.حلف الفضول (الفضل ۲۱ دسمبر ۱۹۴۴ء) آنحضرت ﷺ کی بعثت سے قبل مظلوموں کی حمایت اور انہیں ان کا حق دلوانے کے لئے ایک معاہدہ ہوا جو تاریخ میں حلف الفضول کے نام سے مشہور ہے.حضور ے.اس میں شامل ہوئے اور اس معاہدہ کی روح پر مدت العمر عمل پیرار ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے بھی احباب جماعت کو اس نہایت اہم تحریک کی طرف بلایا.آپ فرماتے ہیں: ” جولوگ اس میں شامل ہونا چاہئیں ان کے لئے لازمی ہے کہ سات دن تک متواتر اور بلا ناغہ استخارہ کریں.عشاء کی نماز کے بعد دو نفل الگ پڑھ کر دعا کریں کہ اے خدا اگر میں اس کو نباہ سکوں گا تو مجھے اس میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرما.ایک اور شرط یہ ہوگی کہ ایسا شخص خواہ امام لصلوۃ کے ساتھ اسے ذاتی طور پر کتنا ہی اختلاف

Page 280

۲۵۹ کیوں نہ ہو مرکزی حکم کے بغیر اس کے پیچھے نماز پڑھنا ترک نہ کرے گا اور اپنے کسی بھائی سے خواہ اسے شدید تکلیف بھی کیوں نہ پہنچی ہو اس سے بات چیت کرنا ترک نہ کرے گا.اور اگر وہ دعوت کرے تو اسے رد نہ کرے گا.ایک اور شرط یہ ہے کہ سلسلہ کی طرف سے اسے جو سزا دی جائے گی اسے بخوشی برداشت کرے گا اور ایک یہ کہ اس کام میں نفسانیت اور ذاتی نفع نقصان کے خیالات کو نظر انداز کر دے گا“.(الفضل یکم جنوری ۱۹۴۵ء) الفضل گیارہ جون ۱۹۴۵ء کے مطابق وہ خوش نصیب مخلصین جو اس بابرکت تحریک میں شامل ہوئے ان کی تعدا دےے ایک پہنچ چکی تھی.نماز تہجد پڑھنے کی تحریک ذکر الہی ، نوافل اور نماز تہجد کی ادائیگی کی تحریک حضور ہمیشہ ہی فرماتے تھے.اس بابرکت دور میں نو جوانوں کو خصوصیت سے اس طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور نے فرمایا:.خدام کا فرض ہے کہ کوشش کریں سو فیصدی نوجوان نماز تہجد کے عادی ہوں یہ ان کا اصل کام ہوگا جس سے سمجھا جائے گا کہ دینی روح ہمارے نوجوانوں میں پیدا ہوگئی ہے.نماز تہجد کے فوائد بیان کرنے کے بعد حضور نے فرمایا:.با قاعدہ تہجد پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ سو فیصدی تہجد گزار ہوں الا ما شاء اللہ سوائے ایسی کسی صورت کے کہ وہ مجبوری کی وجہ سے ادا نہ کر سکیں اور خدا تعالیٰ کے حضور ایسے معذور ہوں کہ اگر فرض نماز بھی جماعت کے ساتھ ادا نہ کر سکیں تو قابل معافی ہوں“.(الفضل نے جولائی ۱۹۴۴ء)

Page 281

سات مراکز قائم کرنے کی تحریک تبلیغ اسلام کو زیادہ منظم و مؤثر طور پر کرنے کے لئے حضور نے ہندوستان کے مندرجہ ذیل سات اہم شہروں میں مساجد تعمیر کرنے اور تبلیغی مراکز قائم کرنے کی تحریک فرمائی.کراچی، مدراس، بمبئی ، کلکتہ، دہلی، لاہور، پشاور (الفضل ۴ را گست ۱۹۴۴ء) یہ تو ابتدا تھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ان سات شہروں کے علاوہ اور بھی قریباً ہر شہر اور قصبہ میں ایسے مراکز قائم ہو چکے جہاں جماعت کے قیام کے الہی اغراض و مقاصد کے حصول کی خاطر مخلصین جماعت بڑی توجہ اور محنت سے سرگرم عمل ہیں.قرآن مجید اور بنیادی لٹریچر کے تراجم کی تحریک انگریزی زبان میں ترجمہ کا کام تو جماعت میں ہورہا تھا حضور نے اس مبارک دور میں اس کے علاوہ دنیا کی مشہور سات زبانوں میں قرآن مجید اور بعض دوسری بنیادی اہمیت کی کتب کے تراجم شائع کرنے کی تحریک فرمائی اور حضور نے فرمایا کہ اطالوی زبان پر ترجمہ کا خرچ میں ادا کروں گا کیونکہ ”خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ چونکہ پہلے مسیح کا خلیفہ کہلانے والا (پوپ.ناقل ) اٹلی میں رہتا ہے اس مناسبت سے قرآن مجید کا جو ترجمہ اطالوی زبان میں شائع ہو وہ مسیح محمدی کے خلیفہ کی طرف سے ہونا چاہئے.اس تحریک پر جماعت نے جس عجیب والہانہ رنگ میں لبیک کہا اس پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:.یہ خدا تعالیٰ کا کتنا بڑا فضل ہے کہ ادھر بات منہ سے نکلتی ہے اور ادھر پوری ہو جاتی ہے باوجود خطبہ کے دیر سے شائع ہونے کے 4 دن کے اندر سات زبانوں کے

Page 282

۲۶۱ تراجم کے اخراجات کے وعدے آگے کا کتا یہ افضل او انعام ہے کہ یہ خدا بڑا جماعت کے ایک تھوڑے سے حصہ نے نہایت قلیل عرصہ میں مطالبہ سے بڑھ کر وعدے پیش کر دئیے ہیں.خاص کر قادیان کی غریب جماعت نے اس تحریک میں بہت بڑا حصہ لیا.(الفضل ۲ نومبر ۱۹۴۴ء) کمیونزم کے مقابلہ کی تحریک کمیونزم جو موجودہ زمانے کا بہت بڑا فتنہ اور روحانی و اخلاقی اقدار کو تباہ کرنے کا......ایک بہت بڑا ذریعہ ہے اس کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور نے فرمایا:."جماعت کے علماء اور واقفین اور مدرسہ اور جامعہ کے طلباء بھی اچھی طرح کمیونسٹ تحریک کا مطالعہ کریں اور ان کے جوابات سوچ چھوڑیں اور اگر کسی امر کے متعلق تسلی نہ ہو تو میرے ساتھ بات کر لیں اسی طرح کالجوں کے پروفیسروں اور سکولوں کے اساتذہ کو چاہئے کہ کمیونسٹ تحریک کے متعلق اپنا مطالعہ وسیع کریں اور اگر کوئی کمی رہ جائے تو مجھ سے مل کر ہدایات لے لیں...یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ زیادہ مقابلہ ہمارا کمیونسٹوں سے ہی ہے.انہوں نے دہریت کا مذہب کے طور پر بنالیا ہے.خدا تعالیٰ سے یہاں تک ہنسی اور تمسخر کیا جاتا ہے اور ایسے ڈرامے کھیلے جاتے ہیں جن میں خدا تعالیٰ کو نعوذ باللہ مجرم کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے نعوذ باللہ دنیا میں فساد اور خرابی پیدا ہوئی اور پھر کمیونسٹ حج خدا تعالیٰ کو نعوذ باللہ پھانسی کی سزا دیتے ہیں کہ میں اس پتلے کو پھانسی کی سزا دیتا ہوں کیونکہ اس کے وجود کے خیال کی وجہ سے دنیا میں تمام خرابی پیدا ہوئی.اس کی تمام کامیابی عارضی اور سطحی ہے.موجودہ جنگ کے بعد اس تحریک کا کلی طور پر دنیا کو مقابلہ کرنا ہوگا......

Page 283

۲۶۲ اور یہی وہ آخری لڑائی ہوگی جو ظاہری لحاظ سے سیاسی وجوہ کی بناء پر لڑی جائے گی مگر وہ لڑائی ایسی ہوگی کہ خدا تعالیٰ دوسروں کو آگے کر کے مذہب کے لئے راستہ کھول دے گا“.(الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۴۴ء) خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ حضور کی اس پیش خبری کے مطابق کمیونزم کے طوفان کا زور ٹوٹ چکا ہے اور مذہب کے لئے رستے کھل رہے ہیں.تحدیث نعمت اہم مقامات پر جلسوں کا انعقاد: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تضرعات اور ابتہال کی قبولیت اور رحمت و قدرت اور قربت کے اس نشان کے اس شان سے پورا ہونے پر کہ جس سے دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ ظاہر ہوا اور باطل اپنی نحوستوں کے ساتھ بھانگتا ہوا اور حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ جلوہ نما ہوتا ہوا نظر آنے لگا.حضرت مصلح موعود نے بعد دعوئی مصلح موعود تحدیث نعمت، دعوت و تبلیغ اور اتمام حجت کی خاطر بعض اہم مقامات پر عام جلسے منعقد کرنے کا فیصلہ فرمایا.چنانچه ۲۰ فروری ۱۹۴۴ء کو ہشیار پور ۱۲ مارچ ۱۹۴۴ء کو لاہور ،۲۳ مارچ ۱۹۴۴ء کو لدھیانہ ۶ اراپریل ۱۹۴۴ء کو دہلی میں شاندار جلسے منعقد ہوئے.ان جلسوں میں شرکت کے لئے حضور کی طرف سے خاص ہدایات جاری ہوتی تھیں.جس کے مطابق جلسہ میں شریک ہونے والے خوش قسمت احمدی ذکر الہی اور دعاؤں کے خاص التزام کے ساتھ بڑے وقار اور بردباری سے صحیح اسلامی تعلیم و تربیت کا نقشہ پیش کرتے ہوئے اس طرح سفر کرتے کہ دیکھنے والے اس نظارہ سے اس قدر متاثر ہوتے تھے کہ ایک مشہور معاند احمدیت نے اپنے اخبار میں لکھا کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ مکہ فتح

Page 284

۲۶۳ کرنے جارہے ہیں.ان سفروں کے انتظامات کی نگرانی بالعموم حضرت میر محمد اسحاق صاحب کے ذمہ تھی.جنہوں نے اپنے حسن انتظام اور مومنانہ تدبر وفراست سے ان جلسوں میں شرکت کے لطف کو دوبالا کر دیا.ان جلسوں میں حضور کی خواہش کے مطابق بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کرنے کے فریضہ کی ادائیگی کی سعادت پانے والے مبلغین کرام اپنی خدمات کا مختصر تذکرہ کرتے جس سے ثابت ہوتا کہ حضرت مصلح موعود کے ذریعہ قومیں برکت حاصل کر رہی ہیں اور دین اسلام کا شرف و مرتبہ ظاہر ہو رہا ہے.اندرونی و بیرونی فتنوں کا مقابلہ حضور کے دور خلافت میں جماعت احمدیہ کے خلاف کئی فتنے ظاہر ہوئے ان میں سے بعض فتنے تو اتنے خطرناک تھے کہ جن کو دیکھ کر مخالف سمجھتا تھا کہ اب نعوذ باللہ احمدیت دنیا سے مٹ جائے گی مگر ہر فتنے کا حضور نے انتہائی بہادری سے مقابلہ کیا اور پہلے سے یہ اعلان کر دیا کہ یہ فتنے ناکام ہو جائیں گے اور احمدیت کی کشتی خدا کے فضل سے آگے ہی آگے بڑھتی چلی جائے گی.چنانچہ واقعی حضور کی پیشگوئی پوری ہوتی رہی.ہر فتنہ نا کام ہوا اور سفینۃ الاحمدیہ اکناف عالم کے کناروں کو جانکرائی.بعض فتنوں کا مختصر اذکر کر دیتا ہوں.منکرین خلافت کا مقابلہ جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ سب سے پہلے حضور کو منکرین خلافت کے فتنے کا سامان کرنا پڑا جسے حضور نے ہر لحاظ سے ناکام بنا دیا.کئی منافقین وقتاً فوقتاً جماعت سے نکل کر فتنہ پھیلاتے رہے.مثلاً (الف ) ۱۹۳۷ء میں شیخ عبدالرحمن مصری

Page 285

۲۶۴ نے جو کہ مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر تھے نے فتنہ بپا کیا.(ب)۱۹۵۶ء میں بعض افراد کو اپنے ساتھ ملا کر فتنہ کھڑا کیا مگر یہ سب لوگ اپنے ارادوں میں ناکام و نامرادر ہے.فتنہ احرار کا مقابلہ ۱۹۳۴ء میں احراریوں نے ملک میں وسیع پیمانے پر فتنہ کھڑا کیا، مسلمانوں میں جماعت احمدیہ کے متعلق سخت غلط فہمیاں پھیلا دیں.اس وقت کی انگریزی حکومت کے بعض اعلیٰ افسر بھی اور خود گورنر پنجاب بھی جماعت کے خلاف ہو کر احراریوں کی مدد کرنے لگے.اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ سارا ملک اب احراریوں کے ساتھ ہے.ان لوگوں نے قادیان میں جمع ہو کر جلسے کئے اور احمدیت کو مٹا دینے کا دعوی لے کر کھڑے ہوئے.عین اس زمانے میں جبکہ یہ فتنہ زوروں پر تھا حضرت اقدس نے اپنے خطبہ میں خدا تعالیٰ کے اشارے سے یہ اعلان فرمایا کہ:.زمین ہمارے دشمنوں کے پاؤں تلے سے نکل رہی ہے اور میں ان کی شکست کو ان کے قریب آتے دیکھ رہا ہوں“.اس اعلان کے بعد جلد ہی خدا تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کر دئیے کہ احراری مسلمانوں میں بدنام ہو گئے ان کا جھوٹا ہونا سب پر ظاہر ہو گیا اور اس طرح بجائے احمدیت کو مٹانے کے وہ خود تباہ ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے جو کچھ فرمایا تھاوہ پورا ہوا.۱۹۵۳ء میں مخالفین نے پاکستان میں پھر نئے سرے سے جماعت پر حملہ کیا اس دفعہ انہوں نے اپنی طرف سے ۱۹۳۴ء سے بھی زیادہ خطر ناک حالات جماعت کے لئے پیدا کئے ، احمدیت کے خلاف جلسے کر کے اور جلوس نکال کر سارے ملک میں گویا

Page 286

۲۶۵ احمدیت کے خلاف ایک نفرت کی وسیع آگ پیدا کر دی.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ احمدیوں کو لوگ طرح طرح کی اذیتیں دینے لگے ان کے اموال کو لوٹنے لگے اور اسلام کے ان ٹھیکیداروں نے احمدیوں کی مسجدوں کو آگ لگانے کا ایک وسیع سلسلہ شروع کر دیا.اس وقت حکومت پنجاب کے اہلکار بھی ان کی پیٹھوں پر تھپکیاں دے رہے تھے.غرض انتہائی خطرناک حالات احمدیت کے لئے پیدا کر دیئے گئے مگر اسی زمانے میں جبکہ فتنہ انتہائی زوروں پر تھا ہمارے امام حضرت فضل عمر نے یہ اعلان فرمایا کہ:.احمدیت خدا کی قائم کی ہوئی ہے...اگر یہ لوگ جیت گئے تو ہم جھوٹے ہیں لیکن اگر ہم سچے ہیں تو یہی لوگ ہاریں گے.چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ یہ فتنہ نا کام ہو گیا اور خود فتنہ پھیلانے والے ذلیل ہوئے اور ایک دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ واقعی خدا تعالیٰ نے معجزانہ رنگ میں جماعت کی مدد کی اور جو لوگ احمدیت کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے خواب دیکھتے تھے ان کے خواب ادھورے رہ گئے اور وہ ذلیل اور ناکام ہوئے.تقسیم ہند و ہجرت قادیان ۱۹۴۷ء میں پاکستان قائم ہونے پر ملک میں خطرناک فسادات شروع ہو گئے.ضلع گورداسپور جس میں قادیان واقع تھا بھارت میں شامل کر دیا گیا.حضرت اقدس نے قادیان کی آبادی کو حفاظت کے ساتھ پاکستان پہنچانے کے لئے دن رات کام کیا جہاں اور لوگ لاکھوں کی تعداد میں لوٹے گئے اور مارے گئے.وہاں احمدی جماعت کے اکثر افراد حضور کی راہنمائی میں بڑی عمدگی کے ساتھ ایک خاص انتظام کے ماتحت پاکستان پہنچ گئے.دوسری طرف آپ نے مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لئے قادیان

Page 287

۲۶۶ میں احمدیوں کو آبا در رکھنے کا بھی نہایت اعلیٰ انتظام کیا.چنانچہ اب بھی وہاں پر ایک بڑی تعداد میں احمدی درویشان قادیان کے نام سے آباد ہیں.ربوہ مرکز کا قیام قادیان سے ہجرت کے بعد پاکستان آکر ربوہ جیسی عظیم الشان بستی آباد کر لینا اور جماعت احمدیہ کا دوبارہ مرکز تعمیر کر لینا حضرت مصلح موعود کا بہت بڑا کارنامہ ہے، جماعت لٹ لٹا کر پاکستان آئی تھی قادیان کے احمدی جگہ جگہ بکھرے ہوئے تھے.حضور نے تھوڑے سے عرصے میں ہی ربوہ کی زمین حکومت سے حاصل کر کے ۲۰ ستمبر ۱۹۴۸ء کو یہاں پر جماعت احمدیہ کے نئے مرکز کی بنیاد رکھی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک عظیم الشان بستی قائم کر کے دکھا دی.ربوہ کا قیام حضور کا ایک بے نظیر کارنامہ ہے دیگر مسلمان لاکھوں کی تعداد میں بھارت سے ہجرت کر کے آئے تھے ان کی تنظیمیں بھی موجود تھیں مگر کسی کو اس طرح کی بستی آباد کرنے کی توفیق نہ ملی.سید نا حضرت مصلح موعودؓ نے ربوہ کی تعمیر کے وقت پاکستان بھر کے بڑے بڑے اخباروں کے نمائندگان کو ربوہ کی مجوزہ جگہ دیکھنے کی دعوت دی اور ربوہ کا مجوزہ نقشہ دکھاتے ہوئے تفصیلات سے آگاہ کیا.اس موقع پر لاہور کے مشہور کالم نویس با باوقار انبالوی مرحوم نے اپنے اخبار روزنامہ ”سفینہ میں لکھا کہ:.گزشتہ اتوار کو امیر جماعت احمدیہ نے لاہور کے اخبار نویسوں کو اپنی نئی بہستی ربوہ کا مقام دیکھنے کی دعوت دی اور انہیں ساتھ لے کر وہاں کا دورہ کیا.اس دورے کی تفصیلات اخباروں میں آچکی ہیں ایک مہاجر کی حیثیت سے ربوہ ہمارے لئے سبق ہے ساٹھ لاکھ مہاجر پاکستان آئے لیکن اس طرح کہ وہاں سے بھی اجڑے اور یہاں

Page 288

رحمة بھی کسمپرسی نے انہیں منتشر کئے رکھا یہ لوگ مسلمان تھے.رب العلمین کے پرستار اور حمہ العلمین کے نام لیوا.مساوات واخوت کے علمبر دار لیکن اتنی بڑی مصیبت بھی انہیں یکجا نہ کرسکی اس کے برعکس ہم اعتقادی حیثیت سے احمدیوں پر ہمیشہ طعنہ زن رہے ہیں لیکن ان کی تنظیم ، ان کی اخوت اور دکھ سکھ میں ایک دوسرے کی حمایت نے ہماری آنکھوں کے سامنے ایک نیا قادیان تعمیر کرنے کی ابتداء کر دی.مہاجرین ہو کر وہ لوگ بھی آئے جن میں ایک ایک آدمی خدا کے فضل سے ایسی بستیاں بسا سکتا تھا لیکن ان کا روپید ان کی ذات کے علاوہ کسی غریب مہاجر کے کام نہ آسکار بوہ ایک اور نقطہ نظر سے بھی ہمارے لئے محل نظر ہے وہ یہ کہ حکومت بھی اس سے سبق لے سکتی ہے اور مہاجرین کی بستیاں اس نمونے پر بسا سکتی ہے.اس لئے ربوہ عوام اور حکومت کے لئے ایک مثال ہے اور زبان حال سے کہہ رہا ہے کہ لمبے چوڑے دعوے کرنے والے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں اور عملی کام کرنے والے کچھ دعوی کئے بغیر کر دکھاتے ہیں“.بيوت الذكر واشنگٹن (امریکہ ) ہیمبرگ، فرینکفرٹ (مغربی جرمنی ) زیورک (سوئٹزرلینڈ)، ہیگ (ہالینڈ)، ڈنمارک، سویڈن ، مغربی اور مشرقی افریقہ کے کئی ممالک میں ہماری کم و بیش ۳۰ بیوت الذکر تعمیر کی گئیں.ان میں سے متعدد بیوت الذکر اتنی عظیم الشان ہیں کہ ان کی تعمیر پر کئی لاکھ روپیہ صرف ہوا ہے.کالج اور سکول بیرونی ممالک میں جماعت احمدیہ کے ۵۷ کالج یا سکول قائم ہوئے جو بڑی کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں.

Page 289

۲۶۸ اخبارات ورسائل مختلف ملکوں اور مختلف زبانوں میں جماعت احمدیہ کے۱۱۲.اخبارات ورسائل شائع ہوئے.قرآن کریم کے تراجم قرآن کریم کے تراجم انگریزی، ڈچ ، جرمن ، سواحیلی ، ہندی اور گورمکھی زبانوں میں شائع کئے گئے ان کے علاوہ مختلف ملکوں کی بارہ اور زبانوں میں ترجمے تیار کئے گئے.اخبار الفضل سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثانی کا ایک نہایت اہم کارنامہ اخبار الفضل کا اجراء ہے.یہ اخبار حضور نے ۱۸ جون ۱۹۱۳ء کو قادیان سے جاری فرمایا.اس کے پہلے ایڈیٹر بھی حضور خود تھے.یہ اخبار پہلے ہفتہ وار تھا.پھر ہفتہ میں دو بار شائع ہونے لگا.پھرسہ روزہ ہو گیا.آخر ۸ مارچ ۱۹۳۵ء سے مستقل طور پر روزانہ کر دیا گیا.۱۹۴۷ء تک قادیان سے شائع ہوتا رہا.قیام پاکستان کے بعد ۱۹۵۴ء تک لاہور سے شائع ہوتا رہا.۱۹۵۵ء سے ربوہ سے شائع ہورہا ہے.یہ جماعت احمدیہ کا واحد تر جمان اخبار ہے جس نے خلفائے کرام کے خطبات اور ارشادات کو جماعت تک پہنچانے تبلیغ اور تربیت کرنے اور سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کو محفوظ کرنے میں خاص خدمات سرانجام دی ہیں.

Page 290

۲۶۹ تصانیف حضرت خلیفہ امسیح الثانی پیشگوئی مصلح موعود میں آپ کے بارہ میں یہ بھی بیان کیا گیا کہ وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا“.حضرت مصلح موعودؓ کے بارہ میں پیشگوئی کے یہ حصے بھی اپنی کمال شان سے پورے ہوئے.آپ کی غیر معمولی زہانت ، فراست اور ظاہری و باطنی علوم کی وسعت کا غیر بھی اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکے.چنانچہ جب حضور نے ۱۹۲۴ء میں یورپ کا سفر اختیار کیا تو اس سفر کے دوران دمشق کے قیام کے موقع پر اخبار العمران“ نے اپنی ۱۰ را گست ۱۹۲۴ء کی اشاعت میں بعنوان ” مہدی دمشق میں لکھا جس کا ترجمہ یہ ہے ”جناب احمد قادیانی صاحب ہندوستان میں مہدی کے خلیفہ اپنے بڑے بڑے مصاحبین سمیت جو آپ کی جماعت کے بعض بڑے بڑے علماء ہیں درالخلافہ میں تشریف لائے.ابھی آپ کے دارالخلافہ میں تشریف لانے کی خبر شائع ہی ہوئی تھی کہ بہت سے علماء و فضلاء آپ کے ساتھ گفتگو کرنے اور آپ کی دعوت کے متعلق آپ سے مناظر و مباحثہ کرنے کے لئے آپ کی خدمت میں پہنچ گئے.اور انہوں نے آپ کو نہایت عمیق ریسرچ رکھنے والا عالم اور سب مذاہب اور ان کی تاریخ و فلسفہ کا گہرا مطالعہ رکھنے والا شریعت الہیہ کی حکمت و فلسفہ سے واقف شخصیت پایا“.حضرت مصلح موعودؓ کی تالیف و تصنیفات کی تعداد تقریباً اڑھائی صد ہے.جن کی تفصیل سوانح فضل عمر کی جلد ۴ ص ۴۷۲ تا ۴۹۶ پر دیکھی جاسکتی ہے.حضرت مصلح موعودؓ کی تصنیفات کا دائرہ نہایت وسیع ہے.آپ نے اخلاقیات اور

Page 291

۲۷۰ روحانیات کے مختلف پہلوؤں پر بصیرت افروز کتب لکھیں اور آپ ہی کے عقدہ کشا قلم نے عمرانیات، سیاسیات اور اقتصادیات کے پیچیدہ مسائل کی گر ہیں بھی کھولی ہیں.آپ شاعر اور ادیب بھی تھے اور مترجم ومفسر قرآن بھی.نیز آپ اعلیٰ درجہ کے مقر ر اور خطیب تھے.آپ کی تقریریں اور خطبات بھی منظم و مرتب کتابوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں.حضرت مصلح موعود کی زندہ جاوید اور دلآویز تصانیف سرچشمہ علم وعرفان ہیں.جو موجودہ و آئندہ نسلوں کے لئے قیامت تک مشعل راہ کا کام دیں گی.حضور خود فرماتے ہیں:.وو ” وہ کون سا اسلامی مسئلہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ اپنی تمام تفاصیل کے ساتھ نہیں کھولا.مسئلہ نبوت ، مسئلہ کفر، مسئلہ خلافت، مسئله تقدیر، قرآنی ضروری امور کا انکشاف، اسلامی اقتصادیات، اسلامی سیاسیات اور اسلامی معاشرے وغیرہ پر تیرہ سو سال سے کوئی وسیع مضمون نہیں تھا.مجھے خدا نے اس خدمت کی توفیق دی.خلافت را شده ص ۲۵۵،۲۵۴) ذیل میں صرف نمونہ کے طور پر حضور کی صرف چند کتب کے نام پیش ہیں:.ا تفسیر کبیر، ۲ تفسیر صغیر، ۳.دعوۃ الامیر، ۴ تحفۃ الملوک، ۵.حقیقۃ النبوة، ۶.سیر روحانی، ۷.انقلاب حقیقی ، ۸ - فضائل القرآن، ۹.پیغام احمدیت، ۱۰.کلام محمود، ۱۱.احمدیت یعنی حقیقی اسلام ،۱۲.ہندوستان کے سیاسی مسائل کا حل، ۱۳.ہستی باری تعالی ، ۱۴.ملا نگتے ،اللہ ، ۱۵- Introduction to the study of Invitation to Ahmadiyyat - Holy Quran ، ۱۷.تقدیر الہی، ۱۸.خلافت را شده ،۱۹.نظام نو ۲۰۰.اسلام کا اقتصادی نظام،۲۱.عرفان الہی.

Page 292

۲۷۱ قومی وملی خدمات حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایک مذہبی جماعت کے لیڈر تھے.اس لئے آپ ملک کے سیاسی معاملات میں حصہ لینا پسند نہیں کرتے تھے.لیکن چونکہ آپ کے دل میں مسلمانوں کے لئے بہت ہی ہمدردی تھی اور ملکی معاملات کا مسلمانوں پر بھی اثر پڑتا تھا.اس لئے آپ نے کئی نازک اور ضروری مواقع پر بڑی عمدگی کے ساتھ مسلمانوں کی راہنمائی اور مدد کی مثلاً ۱)۱۹۲۱ء میں مسلمانوں میں تحریک ہجرت شروع ہوئی بعض مسلمان لیڈروں نے یہ تحریک کی کہ چونکہ ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت ہے جو کہ کافر ہیں اس لئے اس ملک سے ہجرت کر کے مسلمانوں کو افغانستان چلے جانا چاہئے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے مسلمانوں پر واضح کیا کہ یہ تحریک ناکام ہوگی اور یہ مسلمانوں کے لئے سخت نقصان دہ ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا.یہ تحریک نا کام ہوگئی اور ہجرت کرنے والے سخت نقصان اٹھا کر واپس آنے پر مجبور ہو گئے.۲) ہندوؤں کی طرف سے متواتر ایسی کتابیں شائع ہوتی رہتی تھیں جن میں آنحضرت ﷺ کی شان میں سخت تو ہین کی جاتی تھی اور مسلمانوں کے دل دکھائے جاتے ہیں.اس کی وجہ سے کئی جگہ ہندو مسلم فساد بھی ہوئے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ایک ایسا قانون بنوانے کی کوشش کی جس سے کوئی شخص مذہبی پیشواؤں کی بے عزتی نہ کر سکے.چنانچہ حضور کی کوشش سے حکومت نے ایک ایسا قانون بنایا جس میں مذہبی پیشواؤں کی عزت کی حفاظت کرنے کی کوشش کی گئی تھی.) ہندو ملک میں ہر جگہ چھائے ہوئے تھے جس کی وجہ سے مسلمان نقصان

Page 293

۲۷۲ اٹھاتے تھے.پھر مسلمانوں میں باہمی اختلاف بھی بہت تھے جن کی وجہ سے وہ متحد ہو کر ہندوؤں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے.جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے یہ دیکھا تو مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوشش کی اور یہ تجویز پیش کی کہ خواہ عقائد کے لحاظ سے مسلمانوں میں آپس میں کتنا ہی اختلاف ہو لیکن سیاسی میدان میں جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے اسے سیاسی لحاظ سے مسلمان ہی سمجھنا چاہئے اور سب کو متحد ہو کر ترقی کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.۴) ۱۹۲۸ء میں آپ نے سیرۃ النبی کے جلسوں کی تحریک فرمائی یعنی سال میں ایک بار کوئی تاریخ مقرر کر کے اس میں جلسے کرنے کا پروگرام بنایا گیا ان جلسوں میں آنحضرت ﷺ کی سیرت پر مسلمانوں سے اور شریف غیر مسلموں سے تقریریں کرائی گئیں.یہ تحریک بہت بابرکت ثابت ہوئی اس کی وجہ سے کئی غیر مسلموں کے دلوں میں جو تعصب تھا وہ دور ہو گیا.اور انہیں آنحضرت کی سیرت کا علم ہو کر آپ کے ساتھ عقیدت پیدا ہوئی.۵) ۱۹۲۸ء سے ۱۹۳۱ء تک انگریزوں کی حکومت نے ہندوستان کے آئین میں تبدیلیاں کرنے اور حکومت میں ہندوستانیوں کو شریک کرنے کے سلسلہ میں کئی کوششیں کیں.اس سلسلہ میں کئی کا نفرنسیں ہوئیں جن میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے نمائندوں کے حقوق کی حفاظت کرنے کی پوری پوری کوشش کی.کئی کتابیں لکھیں ہندوستان کے سیاسی مسائل کا حل وغیرہ.چنانچہ مسلمان نمائندوں نے جن میں چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب بھی شامل تھے.حضور کی ہدایت اور تجویزوں سے بہت فائدہ اٹھایا اور کئی خطروں سے مسلمانوں کو محفوظ کر لیا.۶) کشمیر میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت ہے مگر وہاں ایک غیر مسلم راجہ کی

Page 294

حکومت تھی جو مسلمانوں پر بہت ظلم کرتی تھا اور ہر رنگ میں انہیں وہاں دیہاتی چلی آتی تھی.جب یہ مظالم حد سے بڑھ گئے تو حضرت خلیفۃ امسیح الثانی کے دل میں کشمیری مسلمانوں کے لئے بہت ہی ہمدردی پیدا ہوئی چنانچہ آپ نے ان کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا.آپ کی تحریک سے کشمیری مسلمانوں میں بیداری پیدا ہوئی اور انہوں نے سر دھڑ کی بازی لگا کر اپنی آزادی کی تحریک شروع کی جس وقت حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ان کی راہنمائی فرمائی.ہندوستان کے بڑے بڑے مسلمان لیڈروں نے مل کر ۱۹۳۱ء میں ایک کمیٹی بنائی جس کا نام تھا ”آل انڈیا کشمیر کمیٹی“ اس میں ڈاکٹر سر محمد اقبال مرحوم اور دوسرے کئی بڑے بڑے مسلمان لیڈر شامل ہوئے اس کمیٹی کا صدر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کو بنایا گیا.اس کمیٹی نے حضور کی راہنمائی میں بہت کامیابی حاصل کی.کشمیر کے ہندو راجہ کو کئی ایسے حق مسلمانوں کے دینے پڑے جن سے وہ پہلے محروم چلے آتے تھے.چنانچہ کشمیر کے بڑے بڑے مسلمان لیڈر جن میں شیخ محمد عبد اللہ بھی شامل تھے.حضرت اقدس سے قادیان جا کر ملتے رہے اور انہوں نے زبانی اور تحریری بھی یہ اعتراف کیا کہ حضور نے عین وقت پر کشمیری مسلمانوں کی بہت بھاری مدد کی ہے.جب مخالفین نے یہ دیکھا کہ احمدی مسلمانوں میں بہت ہی مقبول ہور ہے ہیں اور سب بڑے بڑے مسلمان لیڈر ہر ضروری مسئلہ میں امام جماعت احمدیہ سے مشورہ کرتے ہیں اور پھر اس مشورہ پر عمل بھی کرتے ہیں تو حسد کی وجہ سے ان کا برا حال ہو گیا انہوں نے کشمیر کمیٹی میں بھی احمدی اور غیر احمدی کا سوال کھڑا کر دیا اور ہر جگہ لوگوں کو احمدیوں کے خلاف بھڑ کانے لگے.جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ان کی شرارتوں کو دیکھا تو آپ نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا.مگر

Page 295

۲۷۴ اس استعفی کے باوجود کشمیری مسلمانوں کی آخری وقت تک مدد کر تے رہے.۷) جب ملک کی تقسیم کا سوال پیدا ہوا تو اس وقت بھی حضرت اقدس نے مسلمانوں کے مفاد کے لئے بہت سے اہم کام سرانجام دیئے.قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم ہندوستانی مسلمانوں کے اختلاف دیکھتے ہوئے لندن چلے گئے تھے اور وہاں مستقل رہائش اختیار کر لی تھی.حضرت اقدس نے اپنے نمائندے کے ذریعے انہیں تحریک کی کہ آپ کو ہندوستانی مسلمانوں کی راہنمائی کے لئے واپس وطن آجانا چاہئے.چنانچہ قائد اعظم واپس تشریف لے آئے اور آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے جھنڈے تلے مسلمانوں کو جمع کر کے پاکستان حاصل کرنے کی جدوجہد شروع کی جسے خدا تعالیٰ نے کامیابی عطا فرمائی.۱۹۴۷ء میں ملک کی تقسیم کے وقت کئی ایسے نازک وقت آئے جبکہ بظاہر معمولی سی غلطی کے نتیجہ میں مسلمانوں کو بہت نقصان کا خطرہ تھا.ایسے نازک موقعوں پر بھی حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے قائد اعظم کی پوری پوری مدد کی اور پاکستان قائم کرنے کی جدو جہد میں حصہ لیا.منارة اسبیح کی تکمیل منارة أصبح کی بنیاد خود حضرت مسیح موعود نے ۱۹۰۳ء میں رکھی تھی بعد میں مشکلات کی وجہ سے کام بند ہو گیا.حضرت خلیفہ ثانی نے اپنے عہد خلافت کے ابتدائی زمانہ میں ہی اس کی طرف توجہ فرمائی.چنانچہ ۱۹۱۴ء میں دوبارہ اس کی نظمیر کا کام شروع ہوا اور ۱۹۱۶ء میں منارۃ اصیح اپنی پوری شان کے ساتھ مکمل ہو گیا اور اس طرح حضور کے ذریعہ سے حضرت رسول کریم ﷺ کی پیشگوئی ظاہری رنگ میں بھی پوری ہوگئی جس میں حضور نے مینارہ کے قریب مسیح موعود کے نزول کی بشارت دی تھی.

Page 296

۲۷۵ ہجری شمسی کیلنڈر ہمارے ہاں عام طور پر عیسوی کیلنڈر رائج ہے جس کی بنیاد کشی حساب پر ہے اور وہ حضرت عیسی کی پیدائش سے شروع ہوتا ہے.اس کے مقابل پر مسلمانوں کے ہجری سن میں قمری (چاند کے ) مہینے استعمال ہوتے ہیں.حضرت خلیفۃ اسیح الثانی کی زیر نگرانی ۱۹۴۰ء میں ہجری شمسی کیلنڈر رائج کیا گیا جو کہ حضور کا ایک خاص کارنامہ ہے.اس میں کیلنڈر کی بنیاد منشی حساب پر رکھی گئی ہے مگر اس کی ابتداء حضرت عیسی کی پیدائش کی بجائے حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ہجرت سے کی گئی.اس لحاظ سے ۱۹۷۹ء میں ۱۳۵۸ء ہجری شمسی ہے.یعنی شمسی لحاظ سے رسول کریم ﷺ کی ہجرت کو ۱۳۵۸ سال گزر چکے ہیں.اس کیلنڈر کے بارہ مہینوں کے نام تاریخ اسلام کے خاص خاص واقعات کی بناء پر مندرجہ ذیل رکھے گئے ہیں.یہ مہینے سن عیسوی کے مہینوں کے ساتھ ہی شروع اور ساتھ ہی ختم ہوتے ہیں:.(۱) صلح (۲) تبلیغ (۳) امان (۴) شهادت (۵) ہجرت (۶) احسان (۷) وفا (۸) ظهور (۹) اخاء (۱۰) تبوک (۱۱) نبوت (۱۲) فتح جماعت کے نام وصیت پہلے ۱۹۴۷ء میں ہجرت کے موقع پر اور پھر ۱۹۵۸ء میں اپنی بڑھتی ہوئی بیماری کو مد نظر رکھ کر حضور نے وصیت کے رنگ میں جماعت کے نام کئی پیغام تحریر فرمائے جنہیں پڑھنا اور یاد رکھنا بہت ضروری ہے.صرف ایک پیغام کا ایک حصہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے جو حضور نے اگست ۱۹۴۷ء میں ہجرت کے موقع پر تحریر فرمایا تھا.

Page 297

بچوں کو چاہئے کہ اسے بار بار پڑھیں.اسے یا درکھیں اور اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کریں.حضور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو اور آپ کے قدم کو ڈگمگانے سے محفوظ رکھے.سلسلہ کا جھنڈا نیچا نہ ہو.اسلام کی آواز پست نہ ہو.خدا کا نام ماند نہ پڑے.قرآن سیکھو اور حدیث سیکھو اور دوسروں کو سکھاؤ اور خود عمل کرو اور دوسروں سے عمل کراؤ زندگیاں وقف کرنے والے ہمیشہ تم میں ہوتے رہیں....خلافت زندہ رہے اور اس کے گرد جان دینے کے لئے ہر مومن آمادہ کھڑا ہو.صداقت تمہارا زیور، امانت تمہارا حسن اور تقویٰ تمہارا لباس ہو.خدا تمہارا ہو اور تم اس کے ہو.آمین ! (الفضل اانومبر ۱۹۶۵ء) اے فضل عمر تیرے اوصاف کریمانہ یاد آ کے بناتے ہیں ہر روح کو دیوانہ ڈھونڈیں تو کہاں ڈھونڈیں پائیں تو کہاں پائیں سلطان بیاں تیرا انداز خطیبانہ قدرت نے جو بخشا تھا اک نور سکوں دل کو آنکھوں سے اوجھل ہے وہ نرگس مستانه ( مبارک احمد عابد ) حضرت سیدہ مریم صدیقہ المعروف چھوٹی آپا حرم حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اپنے ایک مضمون میں درج ذیل الفاظ میں احمدیت کے اس بطل جلیل کو خراج تحسین پیش کیا:.”اے جانے والی محبوب اور مقدس روح! تجھ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہزاروں

Page 298

۲۷۷ سلامتیاں ہوں.تو نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جسد مبارک پر خدا تعالیٰ سے جو عہد باندھا تھاس کو خوب نبھایا.تو نے خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کی خاطر نہ اپنی جان کی پرواہ کی، نہ مال کی ، نہ عزت کی ، نہ اولاد کی ، خدا کی خاطر تیرا خون بھی بہایا گیا.تو مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِن کا زندہ نمونہ تھا تو نے زندہ خدا ہمیں دکھایا.تو اللہ تعالیٰ کی قدرت ، رحمت اور قربت کا نشان تھا، تیرے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی قدرت جلوہ نما ہوئی اور دنیا نے رحمت اور قربت سے حصہ پایا، تو نے قبروں میں دبے ہوؤں کو نکال کر ان کو روحانی موت کے پنجہ سے نجات دی.تیرے آنے کے ساتھ حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آیا اور باطل اپنی نحوستوں کے ساتھ بھاگ گیا.تو نے اسلام کی عزت قائم کی، تیری ایڑیوں نے شیطان کا سر کچلا تو کامیاب و کامران اپنے خدا کے سایہ میں زندگی گزار کر اپنے محبوب حقیقی کی خدمت میں حاضر ہو گیا لیکن ہمیں سوگوار بنا کر تیرے ہی الفاظ میں ہم تجھ سے کہتے ہیں:.جانتا ہوں صبر کرنا ہے ثواب اس دل نادان کو سمجھائے کون الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۶۶ء ص اتا۷

Page 299

۲۷۸ خلافت ثالثہ قدرت ثانیہ کے دوسرے مظہر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب انتہائی کامیاب زندگی گزار کرے نومبر ۱۹۶۵ء کو وفات پاگئے.آپ کی وفات کے بعد آپ کے فرزند اکبر حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب (ایم.اے آکسن ، ۱۹۰۹ء تا ۱۹۸۲ء) ۸ نومبر ۱۹۶۵ء کو بطور خلیفہ مسیح الثالث منصب خلافت پر فائز ہوئے.آپ کا وجود بھی خدائی بشارتوں کا حامل تھا.پہلی بشارت :.حضور کو القاء کیا گیا کہ ۱۹۶۵ء سے قربانیوں کے ایک عہد جدید کا آغاز ہونے والا ہے اس امر کا ثبوت کہ اس نئے عہد سے مراد خلافت ثالثہ ہے واضح طور پر یہ ہے کہ حضور کو۱۹۴۴ء میں بذریعہ رویا یہ دکھایا گیا کہ آپ کی مزید عمرا کیس ” تک ہوگی الفضل ۲۹ را پریل ۱۹۴۴ء ) اس کے علاوہ حضرت مصلح موعودؓ نے مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء میں نئی پیدائش سے بیعت مراد لی.چنانچہ فرمایا :.66 بیعت کا وقت تو نہایت سنجیدگی کا وقت ہوتا ہے.یہ تو نئی پیدائش کا وقت ہوتا ہے.(ص ۱۸) دوسری بشارت :.حضرت مصلح موعود کو جناب الہی کی طرف سے یہ الہامی بشارت دی گئی کہ آپ کے وصال پر ” جماعت میں کسی قسم کی خرابی پیدا نہ ہوگی“ (تفسیر کبیر العلق ص۱۸۹).بالفاظ دیگر پوری جماعت بالا تفاق خلافت ثالثہ کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گی جیسا کہ یہ روح پرور نظارہ پوری دنیا نے دیکھا.

Page 300

تیسری بشارت:.حضور نے ۲۶ ستمبر ۱۹۰۹ء کو ایک خط میں رقم فرمایا کہ:.مجھے بھی خدا تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ میں تجھے ایک ایسا لڑکا دوں گا جو دین کا ناصر ہوگا اور اسلام کی خدمت پر کمر بستہ ہو گا“.(الفضل ۱/۸اپریل ۱۹۱۵ء) خداتعالی کی قادرا نہ تجلیات ملاحظہ ہوں کہ پاکستانی پریس نے حضرت خلیفۃ المسح الثالث کے خلیفہ منتخب ہونے کی خبر دیتے ہوئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا اسم گرامی ”ناصر الدین ہی لکھا.(نوائے وقت ۱۰نومبر ۱۹۶۵ء ص ۱، امروزه انومبر ۱۹۶۵ء ص ۶) حضرت خلیفہ ایسیح الثالث کا عہد خلافت انتخاب خلافت ثالثه انتخاب خلافت کے لئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اپنی زندگی میں ہی مجلس مشاورت میں جماعت کے نمائندوں کے مشورہ سے ایک مجلس انتخاب خلافت قائم فرما دی تھی اور اس کے قواعد بنادئیے تھے.چنانچہ حضور کی وفات پر مورخہ ۸ نومبر ۱۹۶۵ءکوساڑھے سات بجے شب بعد نماز عشاء مسجد مبارک ربوہ میں اس مجلس انتخاب خلافت کا اجلاس زیر صدارت حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلیٰ منعقد ہوا.پہلے سب ممبروں نے قاعدے کے مطابق خلافت سے وابستگی کا حلف اٹھایا.اس کے بعد حضرت خلیفہ ثانی کے بڑے صاحبزادے حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کو خلیفہ اسیح الثالث منتخب کیا اور پھر سب ممبروں نے اسی وقت آپ کے

Page 301

۲۸۰ دست مبارک پر بیعت کی.اس کے بعد آپ نے مختصر خطاب فرمایا اور پھر اس وقت جتنے احباب باہر موجود تھے ( انداز پانچ ہزار ) ان سب نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور اس طرح جماعت احمد یہ پھر ایک ہاتھ پر جمع ہوگئیں.حضرت خلیفۃ اسیح الثالث کے مختصر حالات زندگی حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ اسیح الثالث مورخہ ۶ نومبر ۱۹۰۹ء کو قادیان میں پیدا ہوئے.بچپن سے آپ حضرت اماں جان کی خاص تربیت میں رہے.۱۷ را پریل ۱۹۲۲ء کو جبکہ آپ کی عمر صرف تیرہ برس کی تھی.آپ نے قرآن مجید مکمل طور پر حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی تھی.قرآن کریم حفظ کرنے کے بعد آپ کچھ عرصہ حضرت مولوی سرور شاہ صاحب سے عربی اور اردو کی تعلیم حاصل کرتے رہے.اس کے بعد آپ دینی علم حاصل کرنے کے لئے مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے.جولائی ۱۹۲۹ء میں آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے امتحان مولوی فاضل پاس کیا.اس کے بعد آپ نے میٹرک کا امتحان پاس کیا.پھر گورنمنٹ کالج لاہور سے ۱۹۳۴ء میں بی اے کی ڈگری حاصل کی.اگست ۱۹۳۴ء کو حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ بنت حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ بیگم حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے ساتھ آپ کی شادی ہوئی.۶ ستمبر ۱۹۳۴ء کو آپ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی ہدایت کے مطابق انگلستان تشریف لے گئے.اس موقع پر حضور نے آپ کو نصائح کرتے ہوئے فرمایا:.میں تم کو انگلستان....اس لئے بھجورہا ہوں کہ مغرب کے نقطہ نظر کو سمجھو...تمہارا کام یہ ہے کہ تم ( دین حق ) کی خدمت کے لئے اور دجالی فتنہ کی پامالی کے لئے

Page 302

سامان جمع کرو.۲۸۱ انگلستان کے قیام کے دوران آپ نے آکسفورڈ یونیورستی سے بی اے کی ڈگری حاصل کی اور اشاعت دین حق میں مصروف رہے.لندن میں آپ نے ایک رسالہ بھی الاسلام کے نام سے جاری فرمایا.آپ نومبر ۱۹۳۸ء کو کامیابی کے ساتھ واپس تشریف لائے.یورپ سے واپس تشریف لا کر پہلے آپ جامعہ احمدیہ کے پروفیسر رہے اور پھر ۱۹۳۹ء میں آپ جامعہ احمدیہ کے پرنسپل مقرر ہوئے.فروری ۱۹۳۹ء سے لے کر اکتوبر ۱۹۴۹ء تک آپ مجلس خدام الاحمدیہ کے صدر رہے اور پھر نومبر ۱۹۵۴ء تک آپ اس کے نائب صدر رہے کیونکہ صدارت کے عہدے پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی خود فائز تھے.آپ کے عہد میں خدام الاحمدیہ نے نمایاں اور شاندار ترقی کی.مئی ۱۹۴۴ء سے لے کرنومبر ۱۹۹۵ء تک ( تا خلافت) آپ تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل رہے.۱۶ نومبر ۱۹۴۷ء کو آپ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے ارشاد پر قادیان سے ہجرت کر کے پاکستان تشریف لے آئے.۱۹۵۳ء کے فسادات کے دوران جب مارشل لاء نافذ ہوا تو آپ کو قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں.۲۸ مئی ۱۹۵۳ء کو آپ رہا ہوئے.۱۹۵۴ء میں آپ کو مجلس انصاراللہ کا صدر بنادیا گیا.آپ کے ذریعہ سے اس تنظیم کو ایک نئی زندگی حاصل ہوگئی.مئی ۱۹۵۵ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے آپ کو صدر انجمن احمدیہ کا صدر مقرر فرمایا.چنانچہ انتخاب خلافت تک آپ اس حیثیت سے بھی جماعت کا نہایت اہم کام سرانجام دیتے رہے.۸ نومبر ۱۹۶۵ء کو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی وفات پر آپ خلافت ثالثہ کے عہدے پر فائز ہوئے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی وہ بشارت پوری ہوئی جو حضرت خلیفہ

Page 303

۲۸۲ المسیح الثانی کواللہ تعالیٰ نے دی تھی.حضور نے ۲۶ستمبر ۱۹۰۹ کو یہ تحریرفرمایا تھا کہ:.مجھے بھی خدا تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ میں تجھے ایسا لڑکا دوں گا جو دین کا ناصر ہوگا.اور اسلام کی خدمت پر کمر بستہ ہوگا“.( تاریخ احمدیت جلد ۴ ص ۳۲۰) خلافت ثالثہ کا ظہور بھی خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے نہایت کامیاب اور مبارک رہا.آپ کے دور خلافت کی پیشگوئی بھی آج سے ہزاروں سال قبل سے چلی آتی ہے.چنانچہ اسرائیل کی مشہور حدیث طالمود میں آج سے ہزاروں سال قبل یہ بتایا گیا تھا کہ جب مسیح فوت ہو جائے گا تو اس کی بادشاہت پہلے اس کے بیٹے اور پھر اس کے پوتے کو ملے گی.چنانچہ خلافت ثالثہ کے ذریعہ یہ پیشگوئی لفظ بلفظ پوری ہوگئی.خلافت ثالثہ کے شیر میں ثمرات خلافت ثالثہ کا بابرکت عہد سترہ سال تک رہا.اس سترہ سالہ دور میں بھی اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے کئی نشان ہم دیکھ چکے ہیں جو اس خلافت میں جاری ہونے والی با برکت تحریکوں کے ذریعہ ظاہر ہوئے.چنانچہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی وفات پر جماعت کے تمام افراد جس طرح خلافت ثالثہ کے ذریعے ایک ہاتھ پر جمع ہو گئے وہ احمدیت کی صداقت اور خلافت احمدیہ کی سچائی کا ایک نشان ہے.آپ نے جماعت کو یہ عظیم ماٹو دیا:."Love For All Hatered For None" آپ نے براعظم افریقہ، یورپ اور امریکہ کے کئی کامیاب دور کئے.براعظم افریقہ میں احمدیہ کا پیغام جس شان سے آپ کے بابرکت دور میں پھیلا وہ ایک عظیم درخشندہ باب ہے.خدا تعالیٰ کے اذن سے جاری کردہ نصرت جہاں سکیم ، بہت ہی

Page 304

۲۸۳ با برکت ثابت ہوئی.سینکڑوں بیوت الذکر تعلیمی ادارے اور ہسپتال قائم ہوئے اور ان میں احمدی مبلغین ، اساتذہ اور ڈاکٹرز نے عظیم الشان خدمات سرانجام دیں.حسن و جمال کے پیکر اور مسکراہٹوں کے اس سفیر کے بابرکت دور خلافت میں ہونے والی ترقیات اور آپ کے عظیم کارناموں کی چند جھلکیاں پیش ہیں.فضل عمر فاؤنڈیشن حضرت خلیفہ اُسیح الثالث نے اپنے عہد خلافت میں جماعت کے سامنے جو تحریک میں فرما ئیں وہ غیر معمولی طور پر کامیاب ہوئیں اور جماعت کی ترقی کا باعث ہوئیں.مثلاً آپ نے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی یاد میں فضل عمر فاؤنڈیشن کی تحریک فرمائی.یہ تحریک بہت کامیاب رہی.جماعت نے تھوڑے سے عرصہ میں ہی دیگر جماعتی چندوں کے علاوہ ۳۴لاکھ روپیہ اس فنڈ میں پیش کر دیا.یاد رہے کہ یہ فنڈ حضرت خلیفہ اسیح الثانی جاری کردہ کاموں کو ترقی دینے کے لئے قائم کیا گیا تھا.تعلیم قرآن مجید حضور نے قرآن مجید پڑھنے اور پڑھانے کے لئے جو تحریک فرمائی وہ بھی بہت کامیاب رہی.ہزاروں احمدی اپنے خرچ پر وقف عارضی کی تحریک میں حصہ لے کر لوگوں کو قرآن کریم کی تلقین کر رہے ہیں.اس تحریک کا نتیجہ یہ ہے کہ جماعت کی دینی تعلیم کا اور اس کی تربیت کا انتظام ہو رہا ہے اور وہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جارہی ہے.

Page 305

۲۸۴ وقف جدید میں احمدی بچوں کی شمولیت حضرت خلیفۃ اسیح الثالث نے وقف جدید کے چندہ کو مضبوط کرنے کا کام احمدی بچوں اور بچیوں کے سپر دفرمایا.حضور نے یہ خواہش اور تحریک فرمائی کہ احمدی بچے کم از کم پچاس ہزار روپیہ اس تحریک میں جمع کریں.چنانچہ احمدی بچے بڑے جوش اور جذبہ کے ساتھ یہ چندہ جمع کر رہے ہیں.تحریک وقف جدید کے مختصر حالات کا ذکر پہلے گزر چکا ہے.یہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے عہد خلافت کی آخری تحریک ہے.اس ذریعہ ملک کے دیہاتی حصہ میں لوگوں کو قرآن کریم کی تعلیم دی جاتی ہے اور احمدیت کے متعلق غلط فہمیوں کو دور کر کے انہیں تمام دینی احکام پر عمل کرنے اور سچا احمدی بنے کی ترغیب دلائی جاتی ہے.اس تحریک کو بچوں کے سامنے پیش کر کے خلیفہ وقت نے بچوں کے لئے بھی یہ موقع پیدا کر دیا ہے کہ وہ ایک اہم جماعتی کام کو کامیاب بنا کر ثواب حاصل کریں.حضرت مسیح موعود کا ایک الہام پورا ہوا حضرت مسیح موعود کا ایک مشہور الہام ہے کہ :.بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گئے.یہ الہام پہلی بار خلافت ثالثہ کے دور میں پورا ہوا.چنانچہ افریقہ کے ملک گیمبیا میں اللہ تعالیٰ نے وہاں کے ایک احمدی مسٹر ایف ایم سنگھاٹے کو وہاں کا گورنر جنرل بنادیا.گورنر جنرل ملک کا سب سے بڑا حاکم ہوتا ہے.مسٹر سنگھاٹے پہلے وہاں کی جماعت احمدیہ کے پریذیڈنٹ تھے.جب آپ گورنر جنرل بنے تو آپ نے کئی دن تک دعائیں کرنے کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں درخواست کی

Page 306

۲۸۵ کہ حضرت مسیح موعود کے کپڑوں سے میں برکت حاصل کرنا چاہتا ہوں.اس لئے حضرت مسیح موعود کا کوئی کپڑا تبرک کے طور پر مجھے عنایت فرمائیں.چنانچہ حضور نے ربوہ سے وہ کپڑا انہیں بھجوا دیا جسے پا کر وہ بہت خوش ہوئے.اس طرح خلافت ثالثہ میں پہلی بار حضرت مسیح موعود کا یہ الہام پورا ہو گیا کہ:.”بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گئے.کوئی فرد بھوکا نہ رہے حضور نے یہ بھی تحریک فرمائی ہے کہ ہر جگہ اور ہر مقام پر ایسا انتظام کیا جائے کہ جماعت کا کوئی فرد کبھی بھوکا نہ رہے اور جماعت کے تمام افراد ہر قسم کی غیر اسلامی رسموں سے بچیں.حضور کی یہ تحریک بھی جماعت میں کامیاب ہو رہی ہے.الحمد للہ ! سفر یورپ اور کوپن ہیگن میں بیت کا افتتاح حضور نے ۱۹۶۷ء میں یورپ کا جو سفر اختیار فرمایا وہ بھی اللہ تعالیٰ کی پہلے سے دی گئی بشارت کے مطابق بہت ہی اہم اور بابرکت ثابت ہوا.اس سفر کے دوران اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی تائید و نصرت کے نظارے ہمیں نظر آئے.حضور 4 جولائی ۱۹۶۷ء کو اس سفر کے لئے ربوہ سے روانہ ہوئے اور ۲۴ را گست ۱۹۶۷ء کو واپس ربوہ تشریف لائے.اس سفر میں حضور مغربی جرمنی، سوئٹزرلینڈ، ہالینڈ، ڈنمارک اور انگلستان میں تشریف لے گئے.ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں حضور نے اس ملک کی پہلی بیت الذکر کا افتتاح فرمایا جو کہ احمدی عورتوں کے چندہ سے تعمیر ہوئی ہے.ہر جگہ حضور نے پریس کانفرنسوں اور تقریروں کے ذریعہ سے اہل یورپ تک دین حق کا پیغام احسن طریق سے پہنچایا اور انہیں تنبیہ فرمائی کہ ہلاکت اور تباہی سے بچنے کا اب صرف یہی

Page 307

۲۸۶ طریق ہے کہ وہ دین حق قبول کر لیں اور اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کریں.حضور کی آواز اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ کروڑوں لوگوں تک پہنچ گئی اور وہ اس سے بہت متاثر ہوئے.ان کی دین حق کے متعلق غلط فہمیاں دور ہو گئیں.ہمیں امید ہے ( اور اس کے آثار بھی ظاہر ہورہے ہیں ) کہ اس مبارک سفر کے نتیجہ میں انشاء اللہ تعالیٰ یورپ میں دین حق تیزی کے ساتھ ترقی کرنے لگے گا.مغربی افریقہ کا سفر ۴ ا پریل ۱۹۷۰ء کو حضور نے مغربی افریقہ کا سفر اختیار کیا.مغربی افریقہ کے قریباً تمام ممالک میں کثرت کے ساتھ احمدی جماعتیں موجود ہیں.حضور کے اس سفر سے ان کی برسوں کی آرزو اور تمنا پوری ہوئی اور وہ حضور کی زیارت کے شرف سے مشرف ہوئیں.جس جگہ بھی حضور تشریف لے گئے افریقن احمدی مرد، عورتیں، بچے ، بوڑھے دور دراز کی مسافت طے کر کے حضور کی زیارت کے لئے جوق در جوق جمع ہوئے اور انہوں نے اپنی مخصوص روایات کے ساتھ دینی نظمیں پڑھ کر اور پر جوش نعرے لگا کر والہانہ رنگ میں حضور کا خیر مقدم کیا.اور حضور کے ارشادات سن کر اپنے ایمانوں کو تازہ کیا.اس سفر میں احمدی احباب کے علاہ افریقہ کے مختلف ممالک کے چوٹی کے سر بر آوردہ لوگوں نے حضور سے ملاقاتیں کیں اور استقبالیہ تقریروں میں شامل ہوئے اور انہوں نے جماعت احمدیہ کی عظیم الشان تبلیغی اور تعلیمی خدمات کا اعتراف کیا.اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر بھی برابر حضور کے اس تاریخی دورہ کی تفاصیل آتی رہیں.غرض حضور کا یہ تاریخی سفر بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت کامیاب رہا ہے اور

Page 308

۲۸۷ اس سفر کے ذریعہ افریقہ میں تعلیم دین حق کے نئے دور کا آغاز ہوا ہے جس کے لئے حضور نے نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم جاری فرمائی.اس سکیم کے ماتحت اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق حضور نے کم از کم ایک لاکھ پونڈ جمع کرنے کی تحریک فرمائی.یہ تحریک بھی کامیاب رہی.اس کے ماتحت احمدی ڈاکٹر اور استاد افریقہ میں ڈسپنسریاں، ہسپتال اور سکول قائم کر کے اہل افریقہ کی بے لوث خدمت کر رہے ہیں.۱۹۷۴ء میں جماعت کی مخالفت ۱۹۷۴ء میں پاکستان بھر میں جماعت کے خلاف فسادات ہنگامے شروع ہو گئے.مکانات لوٹے اور جلائے گئے.بائیکاٹ کیا گیا.ملازمتوں سے نکالا گیا اور کئی احمد یوں کو شہید کر دیا گیا.مگر ہر طرح کے ظلم وستم کے باوجود ( جن کی جماعت کی گزشتہ تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی.جماعت احمد یہ خدا کے فضل سے اس آزمائش اور امتحان میں بھی کامیاب رہی اور اپنے پیارے امام حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی راہنمائی میں سلامتی کے ساتھ اس کا قدم آگے ہی آگے بڑھتا گیا.الحمدللہ ! منصو بہ صد سالہ جو بلی حضرت خلیفۃ اسیح الثالث نے ۱۹۷۳ء کے جلسہ سالانہ پر ایک عظیم الشان منصو بہ صد سالہ جوبلی کے نام سے جماعت کے سامنے رکھا.حضور نے فرمایا:.” جب جماعت احمدیہ کے قیام پر ایک صدی گزرے گی اور دوسری صدی شروع ہوگی تو وہ خدائی بشارتوں کے ماتحت انشاء اللہ تعالیٰ غلبہ اسلام کی صدی ہوگی.غلبہ اسلام کی صدی کے لئے ضروری ہے کہ اس صدی کے شروع ہونے سے پہلے ہم پورے عزم و ہمت کے ساتھ قرآنی انوار کو دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچانے کے لئے

Page 309

۲۸۸ انتہائی قربانیاں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کریں.اس منصوبہ کے ماتحت دنیا بھر میں تبلیغ دین حق اور اشاعت قرآن کے لئے حضور نے ایک فنڈ قائم کیا جس کا نام ”صد سالہ احمد یہ جوبلی منصبو بہ“ ہے حضور نے اس فنڈ کے لئے جماعت کو اڑھائی کروڑ روپیہ جمع کرنے کی تحریک فرمائی ہے.خدا کے فضل سے اس کے لئے جو وعدے جماعت نے کئے وہ مطلوبہ رقم سے چار گنا سے بھی زائد ہو گئے اور جماعت کے احباب نے بشاشت اور شوق کے ساتھ بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیا.اس منصوبہ کی کامیابی کے لئے حضور نے دعاؤں اور عبادات کا ایک روحانی پروگرام بھی جماعت کے سامنے رکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ :.۱) ہر ماہ ایک نفلی روزہ رکھا جائے.۲) دو نفل روزانہ ادا کئے جائیں.۳) کم از کم سات بار روزانہ سورۃ فاتحہ کی دعا غور کے ساتھ پڑھی جائے.۴) درود شریف تسبیح و تحمید اور استغفار کا ورد تینتیس تینتیس بار کیا جائے.۵) یہ دعائیں روزانہ کم از کم اابار پڑھی جائیں.(۱) رَبَّنَا افْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ط (ب) اَللّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِى نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ ط لندن میں بین الاقوامی کسر صلیب کا نفرنس حضرت خلیفہ مسیح الثالث کے مبارک عہد خلافت کا اور احمد بیت کی تاریخ کا ایک نہایت اہم واقعہ یہ ہے کہ ۲ تا ۴ جون ۱۹۷۸ء کولندن میں جو کہ گویا صلیبی مذہب (عیسائیت ) کا مرکز ہے.جماعت احمدیہ کے انتظام کے ماتحت ایک بین الاقوامی کسر

Page 310

۲۸۹ صلیب کا نفرنس منعقد ہوئی.جس میں دنیا بھر سے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے علماء شامل ہوئے اور انہوں نے اپنے اپنے تحقیقی اور علمی مضامین اس میں پڑھ کر سنائے جن میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق عیسائیوں کا عقیدہ غلط ہے اور حضرت مسیح موعود نے ان کی وفات کا جو نظریہ پیش کیا ہے وہ ہر لحاظ سے صحیح اور درست ثابت ہوا ہے.ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس کانفرنس میں شامل ہوئے جو کہ پاکستان، ہندوستان، افریقہ، امریکہ، یورپ اور ایشیا کے دیگر مختلف ملکوں سے آئے تھے.اس کا نفرنس میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے بھی تشریف لے جا کر شرکت فرمائی.حضور نے اس موقعہ پر ایک اہم خطاب فرمایا جس میں حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق عیسائیوں کے اس عقیدہ کا غلط ہونا ثابت کیا کہ وہ خدا تھے اور اب تک آسمان پر زندہ موجود ہیں.گویا حضور نے عیسائیوں کے گڑھ میں جا کر انہیں اسلام کی تبلیغ فرمائی اور اللہ تعالیٰ کی توحید اور رسول اکرمﷺ کی رسالت اور آپ کی بلند شان کا اظہار فرمایا.یورپ اور انگلستان کے ہزاروں باشندوں نے حضور کا یہ خطاب سنا اور اس سے بہت متاثر ہوئے.دنیا بھر کے اخباروں، رسالوں، ریڈیو اور ٹیلی ویژن نے اس کانفرنس کی تفصیلی خبر میں اپنے اپنے ملکوں میں سنائیں اور دکھا ئیں.عیسائی مذہب کے لیڈروں نے جب دیکھا کہ یہ کا نفرنس بڑی کامیاب رہی ہے تو وہ بہت گھبرائے.اس کا اثر زائل کرنے کے لئے انہوں نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کو تبادلہ خیال کی دعوت دی لیکن جب حضور نے اسے منظور کرنے کا اعلان کیا تو مختلف بہانے بنا کر ٹال گئے اور گفتگو کرنے سے انکار کر دیا.اس طرح اپنے عمل سے عیسائیت کی شکست اور اسلام کی فتح کا اعتراف کر لیا.الحمد للہ !

Page 311

۲۹۰ محترم ڈاکٹر عبد السلام کا اعزاز حضرت مسیح موعود نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ:.”میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کردیں گے“.(تجلیات الہیہ ) حضور کی یہ پیشگوئی مختلف رنگوں میں بار بار پوری ہوتی رہی ہے اور آئندہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ پوری ہوتی رہے گی.خلافت ثالثہ کے مبارک دور میں اس کا ایک عظیم الشان ظہور اس طرح ہوا کہ حضرت مسیح موعود کی جماعت کے ایک نامور اور مخلص فرزند محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو ( جو کہ عالمی شہرت رکھنے والےمشہوسائنسدان تھے ) دنیا کاسب سے بڑا اعزاز حاصل ہوا.یعنی فزکس کے شعبہ میں نوبل پرائز ملا ہے.آپ دنیا بھر کے وہ پہلے احمدی اور پہلے پاکستانی تھے جنہیں یہ اعلیٰ انعام حاصل ہوا.صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے اس موقعہ پر آپ کو مبارکباد کا جو پیغام بھیجا اس میں انہوں نے کہا کہ آپ نے یہ نوبل پرائز حاصل کر کے یقیناً پاکستان کی عزت و عظمت کو چار چاند لگا دیئے ہیں.جب ڈاکٹر سلام صاحب کو لندن میں اس خوشخبری کی اطلاع ملی تو آپ نے فوراً احمد پر بیت الذکر لندن میں جاکر اللہ تعالیٰ کے حضور شکرانے کے نفل ادا کئے.حضرت خلیفتہ امسیح الثالث نے اس موقع پر مبارکباد کا جو پیغام ارسال فرمایا اس میں حضور نے فرمایا کہ ہمارے لئے یہ بات بہت فخر کا موجب ہے کہ وہ پہلا مسلمان اور پاکستانی

Page 312

۲۹۱ سائنسدان جسے نوبل پرائز ملا ہے.وہ خدا کے فضل سے احمدی ہے.حضور نے یہ دعا فرمائی کہ:.اللہ تعالی مستقبل میں آپ کو اس سے بھی زیادہ بڑے اعزاز عطافرمائے اور اس کی تائید و نصرت ہمیشہ آپ کو حاصل رہے“.آمین حضور کا عقد ثانی ۳ دسمبر ۱۹۸۱ء کو حضرت خلیفۃ المسح الثانی کی حرم حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ ( بنت حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ ) مختصرسی علالت کے بعد رحلت فرما گئیں.اناللہ و نا علیہ راجعون اپنی خوبیوں اور دل موہ لینے والی شخصیت کے ساتھ وہ ایک بہترین رفیقہ حیات تھیں.قدرتی طور پر حضور نے بے حد صدمہ محسوس فرمایا.تاہم اپنے فرائض کی بجا آوری میں دل جمعی اور خاص طور پر خواتین میں اصلاحی مہمات کے تسلسل کے لئے آپ نے عقد ثانی کا ارادہ فرمایا.اس سلسلے میں آپ نے چالیس روز تک دعائیں کیں اور جماعت بعض بزرگ اصحاب سے بھی سات روز تک استخارہ کرنے کے لئے فرمایا.آخر ان دعاؤں کے نتیجہ میں جب آپ کو اچھی طرح اطمینان ہو گیا تو اارا پریل ۱۹۸۲ء کو آپ کی شادی حضرت سیدہ طاہرہ صدیقہ صاحب بنت محترم عبدالمجید خان صاحب آف ویرووال کے ساتھ انتہائی سادگی کے ساتھ عمل میں آئی.حضور کی وفات ماہ جون ۱۹۸۲ء کے ابتدائی ایام میں جبکہ حضور اسلام آباد میں مقیم تھے.حضور کو اچانک دل کے عارضہ کا شدید حملہ ہوا ہرممکن علاج کیا گیا لیکن خدا کی مشیت غالب

Page 313

۲۹۲ آئی اور حضور ۹ جون ۱۹۸۲ء کو ۷۳ برس کی عمر میں اسلام آباد، پاکستان میں انتقال فرما کر محبوب حقیقی سے جاملے.انا للہ وانا الیہ راجعون ط آپ کا جنازہ اسلام آباد سے ربوہ لایا گیا جہاں پر ۱۰ جون ۱۹۸۲ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے نماز جنازہ پڑھائی.جس میں پاکستان اور بیرون ممالک سے آئے ہوئے ہزار ہا احباب شامل ہوئے.نماز جنازہ کے بعد آپ کا جسد عصری مقبرہ بہشتی ربوہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے مزار کے پہلو میں سپردخاک کر دیا گیا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی اچانک وفات کا المناک سانحہ جماعت احمدیہ کے لئے ایک بہت بڑا غیر معمولی صدمہ تھا.مگر جماعت نے دینی تعلیم کے مطابق اسے نہایت صبر کے ساتھ برداشت کیا.اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ الہ تعالی نے جماعت کے اتحادو اتفاق کو قائم رکھا اور حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے وجود میں قدرت ثانیہ کا چوتھا مظہر عطا کر کے اپنے وعدہ کے مطابق جماعت کے خوف کوامن وسکیت میں بدل دیا.الحمد للہ علیٰ ولک

Page 314

۲۹۳ خلافت رابعه حضرتخلیہ اسی اثاث کی وفات کےبعد جون ۱۹۸۲ کوحضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب بطور خلیفہ امسیح الرابع منصب خلافت پر فائز ہوئے.حضرت خلیفہ امسیح الرابع کا ظہور بھی الہی بشارتوں کے تحت ہوا.چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ایک موقع پر بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر انکشاف کیا ہے کہ:.”خدا نے مجھے بتایا ہے کہ وہ ایک زمانہ میں خود مجھ کو دوبارہ دنیا میں بھیجے گا اور میں پھر کسی شرک کے زمانہ میں دنیا کی اصلاح کے لئے آؤں گا جس کے معنے یہ ہیں کہ میری روح ایک زمانہ میں کسی اور شخص پر جو میرے جیسی طاقتیں رکھتا ہوگا نازل ہوگی اور وہ میرے نقش قدم پر چل کر دنیا کی اصلاح کرے گا.المصلح الموعود ) (الفضل ۱۹ فروری ۱۹۵۶ء) حضرت خلیفتہ مسیح الرابع کے مختصر حالات زندگی حضرت خلیفہ مسیح الرابع حضرت مصلح موعود کے فرزند تھے.آپ ۱۸ دسمبر ۱۹۲۸ء کو قادیان میں پیدا ہوئے.۱۹۴۴ء کو میٹرک کا امتحان پاس کیا.اسی سال آپ کی والدہ محترمہ حضرت سیده مریم بیگم صاحبہ جو خاندان سادات میں سے تھیں وفات پاگئیں.گورنمنٹ کالج لاہور سے ایف ایس سی تک تعلیم حاصل کی اور پھر پرائیویٹ طور پر بی اے پاس کیا.۱۹۴۹ء میں جامعہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور ۱۹۵۳ء میں شاہد کی ڈگری حاصل کی.۱۹۵۵ء میں حضرت مصلح موعود کے ہمراہ یورپ تشریف لے گئے.اور لندن کے سکول آف اورینٹل سٹڈیز میں تعلیم حاصل کی.جہاں سے اکتوبر

Page 315

۲۹۴ ۱۹۵۷ء میں واپس آئے اور پھر دینی خدمات میں ہمہ تن مصروف ہو گئے.نومبر ۱۹۵۸ء میں حضرت مصلح موعود نے آپ کو وقف جدید کی تنظیم کا ناظم ارشاد مقرر فرمایا.آپ نے بے حد محنت کی جس کے نتیجے میں اس تنظیم نے تیز رفتاری سے ترقی کی.نومبر ۱۹۶۰ء سے ۱۹۶۶ء تک آپ نائب صدر مجلس خدام الاحمد یہ رہے.۱۹۹۰ء کے جلسہ سالانہ پر پہلی مرتبہ خطاب فرمایا اور اس کے بعد تاحیات خطاب فرماتے رہے.۱۹۶۱ء میں افتاء کمیٹی کے ممبر مقرر ہوئے.۱۹۶۶ء سے ۱۹۶۹ء تک صدر مجلس خدام الاحمد یہ رہے.۱۹۷۰ء میں فضل عمر فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے.۱۹۷۴ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں جماعت کا موقف بتانے والی ٹیم کے ممبر تھے.۱۹۷۹ء میں آپ صدر مجلس انصار اللہ مقرر ہوئے.خلیفہ منتخب ہونے تک اس عہدہ پر فائز رہے.خلافت رابعہ کے شیر میں ثمرات خلافت رابعہ کا دور روز اول سے ہی ایک عظیم الشان انقلاب انگیز دور نظر آ رہا ہے اور اس دور کا عنوان ”دعوت الی اللہ ہے.آپ نے ”بیوت الحمد ربوہ“ اور دار الیتامی پاکستان اور بیرون پاکستان بنوانے کا شاندار منصوبہ تیار کیا.علاوہ ازیں حضور کی طرف سے متعد دتحریکیں وقتاً فوقتاً ہوتی رہیں اور خدائی تائیدات اور نصرت الہی کے شاندار مظاہر اہل دنیا کی نظروں کے سامنے آتے رہے.جماعت کے خلاف بڑھتی ہوئی پابندیاں در اصل اس امر کا ثبوت ہیں کہ ہم اپنی منزل کی طرف زیادہ تیزی سے بڑھ رہے ہیں.ذیل میں خلافت رابعہ کے بابرکت دور کی صرف چند جھلکیاں پیش کی جاتی ہیں.

Page 316

۲۹۵ تعمیر بيوت الذكر : حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے اپنے دور خلافت کے آغاز سے ہی بیوت الذکر کی تعمیر میں غیر معمولی دلچسپی لی.۱۹۸۲ء میں امریکہ میں پانچ نئی بیوت الذکر اور پانچ مشن ہاؤسز کی تعمیر کی طرف توجہ دلائی اور مالی تحریک فرمائی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب امریکہ میں بیت الرحمن میری لینڈ سمیت بیوت کی تعداد چالیس ہو چکی ہے.کینیڈا میں بیت الاسلام ٹورانٹو بہت بڑی بیت الذکر ہے.جرمنی میں آپ نے سو بیوت الذکر کی تعمیر کا منصوبہ دیا جس پر تیزی سے عمل ہو رہا ہے.حضور نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ مخالفین جن بیوت الذکر کو نقصان پہنچا ئیں انہیں از سرنو تعمیر کیا جائے.بیلجیئم اور ناروے میں نئی بیوت الذکر کی تعمیر کا کام ہورہا ہے اسی طرح بیت الفتوح کے نام سے مورڈن لندن کے علاقے میں یورپ کی سب سے بڑی بیت الذکر آپ کے عہد میں تعمیر ہوئی.ہجرت کے انیس سالوں میں مجموعی طور پر کل ۳۰۶۵ انٹی بیوت جماعت احمدیہ کو دنیا بھر میں قائم کرنے کی توفیق ملی.مشن ہاؤسز اور مراکز کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا.یورپ میں ۱۴۸، امریکہ میں ۳۶، کینیڈا میں ۱۰ اور افریقہ میں ۶۵۶ مراکز قائم ہو چکے ہیں.پین میں پہلی بیت الذکر خلافت کے منصب پر متمکن ہونے کے بعد حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے پیدروآباد سپین میں ۷۰۰ سال بعد تعمیر ہونے والی پہلی بیت الذکر کا افتتاح ۱۰ ستمبر ۱۹۸۲ء کو فرمایا اس کا سنگ بنیاد حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۹ اکتوبر ۱۹۸۰ء کو رکھا تھا.

Page 317

۲۹۶ بيوت الحمد سکیم سپین میں خدا کا پہلا گھر بیت بشارت بنانے کی خوش میں شکرانے کے طور پر غریب اور ضرورتمند لوگوں کے لئے مکان بنانے کی سکیم کا اعلان بیت اقصیٰ ربوہ میں ۲۹ اکتو بر ۱۹۸۲ء کو فرمایا.آپ کے عہد خلافت میں ۸۷ کشادہ اور آرام دہ مکان بن چکے تھے.۵۰۰/افراد کو گھر کی حالت بہتر بنانے یا وسعت دینے کے لئے رقم دی گئی.قادیان میں بھی ۳۷ بیوت الحمد تعمیر کئے گئے جہاں درویشان قادیان کے خاندان یا ان کی بیوائیں رہائش پذیر ہیں.ربوہ سے ہجرت حضور کی قیادت میں جماعت نے بڑی سرعت سے ترقی کرنی شروع کر دی جس کے نتیجہ میں ۱۹۸۴ء سے پاکستان میں احمدیوں کے خلاف حکومتی سطح پر مخالفت میں تیزی آئی تھی.چنانچہ ۱/۲۶اپریل ۱۹۸۴ء کو اس وقت کے صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق نے ایک حکمانہ جاری کیا جس پر عمل کرنے کی صورت میں احمدی کسی طرح بھی اپنے عقائد کا اظہار نہیں کر سکتے تھے.خلیفہ وقت کا کام تو احمدیت کی ترقی ، پھیلا ؤ اور تربیت ہے.اس حکمنامے سے یہ کام کرنا ناممکن ہو گیا.لہذا حضرت خلیفتہ امسیح الرابع نے اپنے وطن سے ہجرت اختیار کی.۳۰ /اپریل کو اللہ تعالیٰ کی خاص نصرت و تائید کے ساتھ لندن پہنچ گئے.حضور اور جماعت کے لئے یہ دور بڑا سخت تھا.مگر اللہ تعالیٰ نے ترقی کے نئے نئے سامان پیدا فرمائے.حضور بنفس نفیس واپس ربوہ نہ آ سکے مگر MTA کے ذریعے دنیا میں ہر جگہ آپ کا دیدار کیا جا سکتا تھا.

Page 318

۲۹۷ جلسہ ہائے سالانہ برطانیہ دور ہجرت میں برطانیہ میں خلیفتہ امسیح کی موجودگی نے جلسہ ہائے سالانہ برطانیہ کو ایک لحاظ سے مرکزی حیثیت دے دی.ساری دنیا سے احمدی خواتین و احباب جولائی کے آخر میں کشاں کشاں لندن پہنچتے.حضور کے خطاب، نئی نظمیں، عالمی بیعت کے نظارے اور دوران سال ہونے والی الہی انعام وافضال کی بارشوں کا ذکر سنتے.MTA نے جلسہ برطانیہ کو ہر احمدی گھر تک پہنچا دیا.ربوہ میں جلسہ کی اجازت نہ ملنے سے محرومی کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح دور فرما دیا.برطانیہ کے ساتھ کئی دوسرے ممالک مثلاً کینیڈا اور جرمنی میں بڑے جلسے ہونے لگے.جلسوں میں حضور کی شرکت روحانی لطف کو دو بالا کر دیتی.اپنی زندگی کے آخری جلسے میں آپ نے فرمایا.” خدا تعالیٰ کے فضل سے ۷۵ اممالک میں جماعت احمدیہ کا پودا لگ ہو چکا ہے.میری ہجرت کے اٹھارہ سالوں میں ۸۴ نئے ممالک جماعت احمدیہ کو ملے ہیں.اس سال ۵۴۹۸ نئے مقامات پر احمدیت کا نفوذ ہوا.جن میں سے ۴۴۸۵ مقامات پر با قاعدہ نظام جماعت قائم ہو چکا ہے.رواں سال میں ۹۴۴ بیوت الذکر مشن ہاؤسز اور دو کروڑ سے زائد افراد کی جماعت احمدیہ میں شمولیت ہوئی.نستعلیق کتابت کا کمپیوٹر اور الرقیم پریس حضرت مسیح موعود کے زمانے میں اشاعت کے کاموں میں غیر معمولی تیزی کی جو بشارتیں دی گئی تھیں وہ اس عہد میں اس رنگ میں پوری ہوئیں کہ جدید ترین ایجادات سے استفادہ کی صورت بنی.۱۲ جولائی ۱۹۸۵ء کو کمپیوٹر کے لئے چندہ کی اپیل کی.الرقیم پریس قائم ہوا.اس سہولت سے جماعت کی کتب و رسائل کی اشاعت کئی گنا

Page 319

۲۹۸ بڑھ گئی.ے جنوری ۱۹۹۴ء کو الفضل انٹر نیشنل کا اجراء ہوا.عربی رسالہ النقومی اور انگریزی رسالہ ریویو آف ریلیجنز بھی اسی پریس میں چھپتے ہیں.اب اس رسالہ کی اشاعت دس ہزار سے بڑھ گئی ہے.مغربی افریقہ میں بھی پریس لگ چکا ہے.کتب کی اشاعت کی تعداد کروڑوں میں ہے.وقف جدید کی عالمگیریت وقف جدید سے حضور کا گہرا تعلق تھا.خدمات کے عملی میدان میں داخل ہونے کے بعد آپ کی سب سے پہلی اور اہم ذمہ داری وقف جدید تھی جس کی بہبود کے لئے آپ نے خون پسینہ ایک کر دیا تھا.منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد آپ کی گہری سر پرستی اس تحریک کو حاصل رہی اور اس میں بھی ہر شعبہ کی طرح وسعت پیدا ہوئی.۲۷ دسمبر ۱۹۸۵ء کو حضور نے اسے عالمگیر کرنے کا اعلان فرمایا.چنانچہ ۲۰۰۲ ء میں اس تحریک میں دنیا کے ممالک کے لاکھ ۸۰ ہزار سے زائد احمدی شامل ہو چکے تھے اور ۵ لاکھ پاؤنڈ سے زیادہ وصولی ہوئی.نومبائعین کو اس میں کثرت سے شامل کرنے کے لئے آپ نے ۱۹۹۸ء میں ہدایت دی کہ ہر جماعت میں سیکرٹری وقف جدید برائے نو مبائعین کا تقرر کیا جائے.اس تحریک کے تحت فروری ۲۰۰۲ ء میں ۱۶۰ معلمین پاکستان کے۷۰۰ سے زائد دیہات میں تعلیم و تربیت کا فریضہ ادا کر رہے تھے.سندھ اور بھارت کے بعض علاقوں سے اسے خاص طور پر خدمت کا موقع مل رہا ہے.مرکز سلسلہ میں معلمین کلاس نے ۲۰۰۱ ء میں ایک ادارہ کی شکل اختیار کر لی جسے حضور نے مدرستہ الظفر کا نام عطا فرمایا ان کی رہائش اور تعلیم کے لئے نئی عمارت خریدی

Page 320

۲۹۹ گئی.وقف جدید کے تحت بیسیوں مقامات پر ہومیوڈسپنسریاں قائم ہیں.جولائی ۱۹۹۳ء میں مجلس انصاراللہ پاکستان نے المہدی ہسپتال مٹھی تھر پارکر کی تعمیر کا آغاز کیا جس کی تکمیل کے بعدے امارچ ۱۹۹۵ء کو اسے وقف جدید کے سپر د کر دیا گیا.ہے.بھارت میں بھی وقف جدید مختلف میدانوں میں بے پناہ خدمات کی توفیق پارہی تراجم قرآن جماعت احمدیہ کی ایک عظیم اسلامی خدمت تراجم قرآن کریم سے تعلق رکھتی ہے اور ہمارا ماٹو دنیا کی تمام زبانوں میں قرآن کا ترجمہ کرنا ہے لیکن یہ ایک صبر آزما کام ہے.اور ۲۰۰۲ء تک جماعت ۵۶ زبانوں میں قرآن کے مکمل تراجم کی تو فیق پاچکی ہے.لیکن دوسری قوموں کولمبا انتظار تو نہیں کرایا جاسکتا اس لئے 9 جون ۱۹۸۶ء کو حضور نے خطبہ عید الفطر میں صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر دنیا کی ۱۰۰ زبانوں میں منتخب آیات اور احادیث کے تراجم شائع کرنے کا اعلان فرمایا اور یہ بھی اعلان کیا کہ یہ ساری اشاعت سیدنا بلال فنڈ سے ہوگی جو اسیران اور شہداء کی طرف سے دنیا کے لئے تحفہ ہوگا.چنانچہ ۱۹۸۹ء تک ۱۷ از بانوں میں قرآن کرم کی منتخب آیات منتخب احادیث اور حضرت مسیح موعود کے منتخب اقتباسات شائع کر دیے گئے.قرآن کریم کے مکمل تراجم کے لئے حضور نے تحریک فرمائی کہ مختلف احباب یا خاندان ایک ایک ترجمہ کا مکمل خرچ برداشت کریں.چنانچہ خود حضور نے چینی زبان میں ترجمہ قرآن کا خرچ برداشت کیا.

Page 321

تحریک وقف نو ۳ را پریل ۱۹۸۷ء کو حضور نے نئی صدی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے تحریک وقف نو کا اعلان فرمایا جس کے تحت والدین پیدائش سے پہلے ہی بچوں کو خدمت دین کے لئے وقف کرتے ہیں.یہ تاریخ عالم کی ایک منفر دسکیم ہے.آغاز میں یہ تحریک صرف ۵ ہزار بچوں کے لئے تھی مگر اپریل ۲۰۰۳ء تک ۲۴۳۵۵ بچے اس تحریک میں شامل ہو چکے تھے.جس میں خاص خدائی تصرف کے تابع ۶۳ ۶۵ الڑ کے اور ۷۹۲ ۷ لڑکیاں تھیں.بے شمار گھرانوں کو خدا نے اس تحریک کی برکت سے اولاد سے نوازا.اپریل ۱۹۹۱ء میں با قاعدہ وکالت وقف نو قائم ہوئی.جولائی ۲۰۰۱ ء میں واقفین نو پاکستان کا پہلا سالانہ اجتماع ربوہ میں منعقد ہوا.جامعہ احمدیہ میں واقفین نو کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر جامعہ احمد یہ جونیئر سیکشن کی وسیع و عریض عمارت تعمیر کی گئی ہے جس میں یکم ستمبر ۲۰۰۱ء سے تدریس کا آغاز ہو چکا ہے.ان کے علاوہ بچے اپنی پسند اور مرکز کی اجازت سے زندگی کے تمام شعبوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے جماعت کی خدمت کر سکتے ہیں.ربوہ میں واقفین نو کو عربی، جرمن، فرنچ زبانیں سکھانے کے لئے امارچ ۱۹۹۸ء کو وقف نولینگوئج انسٹیٹیوٹ کا افتتاح ہوا جس کا پہلا جلسہ تقسیم اسناده افروری ۲۰۰۰ء کو ہوا.اس میں۲۵۰ کے قریب بچے زیر تعلیم ہیں.

Page 322

بادشاہوں کا قبول احمدیت اور مسیح موعود کے کپڑوں سے برکت کا حصول حضرت مسیح موعود کا الہام ہے.”بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے“.یہ الہام پہلی دفعہ ۱۹۶۵ء میں پورا ہوا جب گیمبیا کے گورنر جنرل سرایف ایم سنگھاٹے نے احمدیت قبول کر کے حضرت خلیفہ اسیح الثالث سے حضرت مسیح موعود کے کپڑے کا تبرک حاصل کیا.یہ نظارہ خلافت رابعہ میں زیادہ شان کے ساتھ نظر آیا.اپریل ۱۹۸۷ء میں نائیجیریا کے ۳ بادشاہوں نے احمدیت قبول کی جن میں سے ۲ کو حضور نے جلسہ سالانہ برطانیہ پر یکم اگست ۱۹۸۷ء کو حضرت مسیح موعود کے کپڑوں کا تبرک عطا فر مایا.پھر جلسہ سالانہ ۲۰۰۰ء پر بین کے دو مزید بادشاہوں نے جلسہ سالانہ پر حضور سے حضرت مسیح موعود کے کپڑوں کا تبرک حاصل کیا.ان میں سے ایک بادشاہ وہ بھی ہیں جن کے ماتحت ۲۰۰ کے قریب بادشاہ ہیں.یہ اور ان کے علاوہ مزید بادشاہ بھی جلسہ برطانیہ میں ذوق وشوق سے شامل ہوتے ہیں.حضور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود کا یہ الہام ۱۸۹۸ء کا ہے اور پورے سوسال بعد ۱۹۹۸ء میں ۲۰ بادشاہ جماعت میں داخل ہوئے.۲۰۰۲ میں بینن کے جلسہ سالا نہ ۲۱ تا ۲۳ دسمبر کے موقع پر قریباً ایک سو بادشاہ شامل ہوئے.جن میں کنگ آف پرا کو کی سربراہی میں ملک کے بڑے بادشاہوں کا ۳۰ رکنی وفد گھوڑوں پر سوار ہو کر آیا.اسی طرح نائیجیریا کے سب سے بڑے بادشاہ

Page 323

سلطان آف آگادیس کا ۱۲ رکنی وفد ۲۵۰۰ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے جلسہ میں شامل ہوا.دورہ افریقہ حضور نے جنوری فروری ۱۹۸۸ء میں مغربی افریقہ کا دورہ فرمایا جس میں گیمبیا، سیرالیون، لائبیریا، آئیوری کوسٹ، غانا اور نائیجیر یا شامل تھے.۲۶ اگست تا ۲۸ ستمبر ۱۹۸۸ء میں حضور نے مشرقی افریقہ کا دورہ فرمایا.یہ کسی خلیفہ مسیح کا مشرقی افریقہ کا پہلا دورہ تھا.اس کے دوران حضور کینیا، یوگنڈا، تنزانیہ، ماریشس تشریف لے گئے.ان دوروں میں بڑے وسیع پیمانہ پر دعوت الی اللہ کی تقریبات منعقد ہوئیں.دانشوروں سے رابطہ ہوا.صدران اور وزراء اعظم سے ملاقات ہوئی اور حضور نے ان ممالک کی اقتصادی حالت بہتر بنانے کے لئے خصوصی مشورے دیئے.۲۲ جنوری ۱۹۸۸ء کو حضور نے گیمبیا میں نصرت جہاں تنظیم نو کی تحریک کا اعلان کیا اور ہر پیشہ اور علم میں مہارت رکھنے والے افراد کو خدمت کے لئے بلایا.آپ کے دور میں نصرت جہاں سکیم کے تحت ۱۴ مزید ہسپتال و کلینک اور ۹ سکول قائم ہوئے.اس طرح کل ۱۲ افریقن ممالک میں ۳۷ ہسپتال اور ۳۴ سکول کام کر رہے ہیں.سچائی علم عقل ، الہام ۴ جون ۱۹۸۷ء کو حضور نے سوئٹزر لینڈ کی ایک یونیورسٹی میں مندرجہ بالا موضوع پر لیکچر دیا جو بعد میں حضور کی عظیم الشان کتاب,Revelation" "Rationality, Knowledge and Truth کی بنیاد بنا.یہ کتاب

Page 324

۱۹۹۸ء میں شائع ہوئی.اور دنیا بھر کے دانشوروں سے خراج تحسین حاصل کر چکی ہے.آپ نے فرمایا کہ یہ میری تمام زندگی کے تجربے اور علوم کا نچوڑ ہے.جمعہ پڑھنے کی تحریک یکم جنوری ۱۹۸۸ء کو حضور نے یورپین ممالک کے احمدیوں کو جمعہ پڑھنے کی خاص تحریک فرمائی خواہ نوکری سے چھٹی لینی پڑے یا استعفیٰ دینا پڑے.ایک اور موقع پر حضور نے فرمایا کہ ہر تیسرا جمعہ ہر قیمت پر پڑھنا چاہئے.چنانچہ بیسیوں لوگوں نے نوکریوں کی قربانی دے کر بھی اس تحریک پر لبیک کہا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے بہتر رزق کے سامان پیدا کر دئیے.مباہلہ کا تاریخی چیلنج جماعت پر لگائے جانے والے جھوٹے الزامات کا جواب دیئے جانے کے باوجود دشمن ان پر اصرار کر رہا تھا اس لئے حضور نے جماعت کی دوسری صدی سے قبل ۲۷ مئی تا ۰ اجون ۱۹۸۸ء کے سلسلہ خطبات میں سارا پس منظر بیان کرنے کے بعد ۱۰ جون ۱۹۸۸ء کو تمام دنیا کے معاندین، مکفرین اور مکذبین کو مباہلہ یعنی آسمانی عدالت میں حاضری کا چیلنج دیا اور فرمایا کہ اگر دشمن اب بھی جھوٹے الزامات پر مصر ہے تو وہ اس عبارت پر دستخط کر دے کہ جھوٹوں پر خدا کی لعنت ہو اور وہ بچے کے حق میں نصرت کے نشان دکھائے.یہ چیلنج کثرت سے تقسیم کیا گیا جس پر پاکستان میں بہت سی گرفتاریاں اور سزائیں عمل میں آئیں.اس چیلنج کی زد سے بچنے کے لئے مخالفین نے بہت سے عذر تراشے.ڈرامہ بازیاں کیں مگر ایک سال کے اندر اندر بہتوں کے حق میں خدا کی تقدیر غضب ظاہر

Page 325

ہوئی ان میں سے سب سے نمایاں نام جنرل ضیاء الحق صدر پاکستان کا ہے جو ۱۷ اگست ۱۹۸۸ء کو طیارے کے حادثے میں ہلاک ہوئے اور ان کا جہاز جل کر راکھ ہو گیا اور دانتوں کے مصنوعی ڈھانچے سے ان کی شناخت ہوئی.اس سے قبل مباہلہ کے چینج کے ٹھیک ایک ماہ بعد اسلم قریشی نامی شخص منظر عام پر آ گیا جس کے قتل کا الزام حضرت خلیفتہ امسیح الرابع پر علماء نے قسمیں کھا کر لگایا تھا.ان لوگوں کو بے پناہ ذلت کا سامنا کرنا پڑا.دوسری طرف جماعت نے ترقیات کے میدانوں میں نئی جستیں لگائیں اور نئے نئے سنگ میل نصب کئے.جنوری ۱۹۹۷ء میں حضور نے پھر ایک دفعہ اس چیلنج کو دہرایا اور اس دعا کا چیلنج دیا کہ جو جھوٹا ہے اس پر خدا کی لعنت ہو.اس پر بھی بہت سے دشمنوں کو ذلت کا سامنا کرنا پڑا.خلافت رابعہ میں بیشمار چھوٹے بڑے معاندین کے متعلق الہی نشانات ظاہر ہوئے.بعض مارے گئے اور بعض زندہ رہ کر ذلیل وخوار ہوئے.ان کی تفصیل ایک الگ مقالہ کا تقاضا کرتی ہے.حضور نے ۱۹۹۴ء میں مخالفین کو چیلنج دیا کہ اگر وہ مسیح کو اس صدی کے خاتمہ سے پہلے آسمان سے اتار دیں تو ہر مدعی کو ایک ایک کروڑ روپیہ انعام دیا جائے گا.صد سالہ جوبلی کی تیاری صد سالہ جو بلی سے قبل حضور کی خواہش تھی کہ جماعت ہر قسم کے جھگڑوں اور فساد سے پاک ہو جائے اور نماز با جماعت اور اعلیٰ اخلاق سے مزین ہو کر نئی صدی میں داخل ہو.چنانچہ حضور نے ۱۹۸۷ء سے مختلف خطبات میں جماعت کو اس مقصد کے

Page 326

لئے تیار کرنا شروع کیا.حضور نے ۳۰ جنوری ۱۹۸۷ء کو تحریک فرمائی کہ صد سالہ جو بلی سے قبل ہر خاندان مزید ایک خاندان کو احمدیت میں داخل کرے.۶ فروری کو تحریک فرمائی کہ ہر ملک ایک عمارت تعمیر کرے جس میں زیادہ دخل وقار عمل کا ہو.امارچ ۱۹۸۸ء کو حضور نے تحریک فرمائی کہ ہر ملک میں ایک نمائش گاہ تعمیر کی جائے جس میں مستقلاً جماعتی نمائش لگی رہے.صد سالہ جشن تشکر ۱۹۸۹ء کا سال جماعت کے لئے بے انتہا خوشیوں اور مسرتوں کا سال تھا.اس سال کو جماعت نے دعاؤں اور شکرانے کے آنسوؤں کے ساتھ منایا.جماعت کی صد سالہ جو بلی منانے کی تحریک حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمائی تھی اور اس کی تیاری کے لئے ۱۹۷۳ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے صد سالہ جوبلی منصوبہ کی بنیا د رکھی تھی.۲۲ مارچ ۱۹۸۹ء کی شام کو حضور نے مسجد فضل لندن پر لگائے جانے والے قمقموں کا سوئچ آن کر کے تقریبات کا آغاز کیا.۲۳ مارچ کو حضور نے مسجد فضل لندن کے سامنے لوائے احمدیت لہرایا اور دعا کروائی.حضور نے اس موقع پر وڈیو پیغام جاری کیا جو کل عالم میں مشتہر کیا گیا.جو بلی کا خاص لوگو (Logo) تیار کیا گیا.۲۴ مارچ کو حضور نے نئی صدی کا پہلا خطبہ جمعہ ارشادفرمایا جو ماریشس اور جرمنی میں بھی بذریعہ ٹیلی ویژن سنا گیا.حضور نے فرمایا کہ نئی صدی کے آغاز پر اللہ تعالیٰ نے مجھے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کا تحفہ عطا فرمایا ہے.

Page 327

حضور نے گزشتہ سال مغربی اور مشرقی افریقہ کا دورہ فرمایا تھا اس سال حضور نے جوبلی تقریبات کے سلسلہ میں پہلا سفر آئر لینڈ کا اختیار فرمایا اس کے بعد یورپ کے مختلف ممالک، کینیڈا، امریکہ، گوئٹے مالا ،نجی ، آسٹریلیا، سنگا پور، جاپان اور ناروے کا دورہ فرمایا اور صد سالہ جلسوں سے خطاب فرمائے.اس سال لندن کے جلسہ سالانہ پر ۶۴ ممالک کے ۱۴ ہزار احمدیوں نے شرکت کی.کئی ملکوں کے سربراہوں نے تہنیت کے پیغام بھیجے اور معززین نے شرکت کی.اس جلسہ میں حضرت مولوی محمد حسین صاحب صحابی حضرت مسیح موعود کو حضور نے جلسہ پر بلوایا اور ہزاروں احمدیوں نے تابعی بننے کی سعادت حاصل کی.اس سال ۲۳ مارچ ۱۹۸۹ء سے ۲۳ مارچ ۱۹۹۰ء تک ایک لاکھ بیعتیں ہوئیں جو تاریخ احمدیت میں ایک سنگ میل تھا.کفالت یتامی جنوری ۱۹۹۱ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے کفالت یکصد بینامی کمیٹی کا منصوبہ پیش فرمایا.اس کام میں آپ کی ذاتی توجہ اور دعاؤں سے اس قدر برکت پڑی کہ ڈیڑھ ہزار یتامی کو اس کا فیض پہنچ رہا ہے.ان بچوں کی جسمانی ضروریات کے ساتھ روحانی تربیت کا انتظام بھی کیا جاتا ہے.حضور نے گھروں میں یتامی کو اپنے بچوں کی طرف رکھنے کی اہمیت بھی بیان فرمائی.بوسنیا، افریقہ اور عراق میں جنگ اور سیاسی ابتری سے متاثر ہونے والے بچوں کی مدد کی تحریک فرمائی.دار الاکرام کے نام سے بیوت الحمد کالونی ربوہ میں ایک ہوٹل تعمیر ہوا جس میں والدین کی شفقت سے محروم بچوں کو عزت سے رکھنے کا انتظام ہے.

Page 328

عالمی بیعت عالمی بیعت کی بنیاد جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۹۳ء سے ہوئی.حضور نے ۲۶ تا ۲۸ دسمبر کے جلسہ سے سیٹلائٹ کے ذریعہ افتتاحی اور اختتامی ارشاد فرمائے.اختتامی اجلاس میں آٹھ افراد کی بیعت بھی ہوئی.یہ پہلی بیعت تھی جو عالمی رابطوں پر نشر کی گئی.اسی طرح ۳۰ مئی ۱۹۹۳ء کو حضور نے خدام الاحمدیہ جرمنی کے اجتماع کے موقع پر ۱۳ ممالک کے اے افراد کی بیعت لی جو سیٹلائٹ کے ذریعہ نشر کی گئی.عالمی بیعت کا با قاعدہ نظام جلسہ سالانہ برطانیہ ۱۹۹۳ء سے ہوا.حضور نے اپریل میں عالمی بیعت کی تیاری کے لئے پہلا پیغام جاری فرمایا اور ۱۳ جولائی کو جلسہ سالانہ برطانیہ کے دوسرے دن ۲لاکھ افراد بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.حضور کی وفات تک عالمی بیعت کی ، اتقاریب میں قریباً ۷ اکروڑ نو احمدی سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.یہ بیعت کا نظام بھی ان پیشگوئیوں کے مطابق ہے جن میں کہا گیا ہے کہ آسمان سے آواز آئے گی کہ امام مہدی کی بیعت کرو.اور پھر دنیا میں عظیم انقلاب برپا ہوگا.خدمت انسانیت کا بے پناہ جذبہ حضور کے دل میں خدمت انسانیت کی بے پناہ تڑپ تھی اور یہ ہر رنگ و نسل اور مذہب وملت سے بالا تر تھی.آپ کی مالی تحریکات میں سے کئی دنیا کے مختلف خطوں کے مصیبت زدگان کے لئے ہیں.شہدائے احمدیت کے ورثاء کے لئے سیدنا بلال فنڈ قائم کرنے کا ۱۴ مارچ ۱۹۸۶ء کے خطبہ جمعہ میں اعلان فرمایا.

Page 329

۱۹۸۴ء میں آپ نے افریقہ کے قحط زدگان ، ۱۹۹۲ء میں صومالیہ کے قحط زدگان اور ۱۹۹۴ء میں اہل روانڈا کے لئے مالی تحریکات فرما ئیں.اسی طرح السلویڈور کے زلزله زدگان کے لئے تحریک فرمائی.جنوری ۱۹۹۵ء میں جاپان کے شہر کو بے میں زلزلہ آیا جس میں حضور کے ارشاد کے تابع جماعت نے شاندار خدمات سرانجام دیں.اسی طرح اگر ۱۹۹۹ء میں ترکی اور ۲۰۰۱ ء میں بھارت میں زلزلہ کے موقع پر جماعت نے ہر قسم کی امداد میں حصہ لیا.۱۹۹۲ء میں بوسنیا کی جنگ سے بے گھر ہونے والے لوگوں کے لئے جماعت نے غیر معمولی خدمت کی توفیق پائی.ان کے اہل خانہ کی تلاش کے لئے حضور نے احمد یہ ٹیلی ویژن پر خصوصی پروگرام نشر کر وائے نیز بوسنیا کے جہاد میں احمدیوں کو حتی الوسع حصہ لینے کی تحریک فرمائی.۳۰ اکتو بر ۱۹۹۲ء کو حضور نے بوسنیا کے یتیم بچوں کی امداد اور ۱۹ فروری ۱۹۹۳ء کو بوسنین خاندانوں سے مواخات قائم کرنے کی تحریک فرمائی.۲۹ جنوری ۱۹۹۹ ء کو حضور نے افریقن ممالک خصوصاً سیرالیون کے مسلمان یتامیٰ اور بیوگان کی خدمت کی عالمی تحریک کی اور فرمایا تیتامی کوگھروں میں پالنے کی رسم زندہ کریں.۵ فروری ۱۹۹۹ء کو حضور نے عراق کے تیموں اور بیواؤں کے لئے خصوصی دعاؤں کی تحریک فرمائی.اس سے قبل حضور نے ۳۰ مئی ۱۹۹۷ء کے خطبہ میں یہ بھی تحریک فرمائی کہ احمدی خدمت خلق کرنے والی عالمی تنظیموں کے ممبر بنیں.عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے ظلم وستم اور خدمت کے وسیع میدانوں میں جماعت کا خاطر خواہ حصہ ڈالنے کے لئے حضور نے ۱۹۹۲ء میں خدمت خلق کی عالمی تنظیم قائم

Page 330

کرنے کا اعلان فرمایا جس کی روشنی میں Humanity First کی تنظیم ۱۹۹۳ء میں قائم ہوئی.یہ تنظیم اب تک یوگوسلاویہ، کروشیا، ہنگری، سلو بینیا، بوسنیا، سیرالیون سمیت ۱۵ ملکوں میں خدمات سرانجام دے رہی ہے اور ان خدمات کا تعلق یتیموں کی دیکھ بھال، پینے کے صاف پانی کی فراہمی ، حصول تعلیم فنی تعلیم ، خوراک ، علاج، بینائی کی واپسی، زلزلہ سے متاثرہ افراد کی بحالی سے تعلق رکھتا ہے اور یہ سلسلہ ترقی پذیر ہے.حضور کا دورہ نارتھ پول حضور نے ۱۹۹۳ء میں قطب شمالی کے بلند ترین مقامات کا دورہ فرمایا.۲۴ جون کو حضور نارتھ کیپ ( ناروے) پہنچے یہ وہ مقام ہے.جہاں ۲۴ گھنٹے دن رہتا ہے.حضور نے وقت کا اندازہ کر کے مغرب وعشاء کی نمازوں سے لے کر اگلے دن کی ساری نمازیں قافلہ کے ساتھ باجماعت ادا کیں اور ۲۵ جون کو خطبہ جمعہ بھی ارشاد فرمایا.اس طرح رسول کریم ﷺ کی وہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی کہ دجال کے زمانہ میں غیر معمولی لمبے دن ہوں گے اور وقت کا اندازہ کر کے نماز ادا کرنا.ہو میو پیتھی کی ترویج حضور میں خلافت سے قبل ہی ہو میو پیتھی اور اس کے ذریعہ مفت علاج کا بے پناہ جذ بہ موجزن تھا.۱۹۶۰ء کے لگ بھگ آپ نے گھر سے دوائیں دینا شروع کیں اور پھر ۱۹۶۸ء میں وقف جدید میں فری ہومیو پیتھی ڈسپنسری کا اجراء فرمایا اور بے حد وقت دے کر مریضوں کا علاج فرماتے رہے.حضور نے ۲۳ مارچ ۱۹۹۴ء سے ایم ٹی اے پر ہیو میو پیتھی کلاسز کا اجراء فرمایا اور

Page 331

۳۱۰ بڑی تفصیل کے ساتھ مختلف بیماریوں اور دواؤں کا مزاج اور شفا کے حیرت انگیز واقعات بیان فرمائے.قریباً ۲۰۰ کلاسز کی ریکارڈنگ کے بعد انہیں کتابی شکل میں علاج بالمثل یعنی ہومیو پیتھی کے نام سے شائع کر دیا گیا.اس کے اب تک کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں.حضور نے یہ تحریک بھی فرمائی کہ کثرت کے ساتھ فری ہومیو پیتھی ڈسپنسریاں قائم کی جائیں جہاں سے فری علاج کیا جائے اور احباب جماعت کو ان سے مطلع کیا جائے.چنانچہ برطانیہ سمیت دنیا کے بیسیوں ممالک میں اس طرح کے مراکز قائم ہو چکے ہیں جہاں احمدی اور غیر احمدی ادویہ حاصل کرتے ہیں.ربوہ میں وقف جدید ڈسپنسری کے علاوہ کم از کم ایک درجن مراکز قائم ہیں.نیز طاہر ہومیو پیتھک کلینک اینڈ ریسرچ سنٹر ربوہ کے نام سے ایک بڑے ادارہ کی بنیاد ۲۰۰۰ء میں ڈالی جاچکی ہے جو اپنی تکمیل کے مراحل میں ہے.حضور کے لیکچرز اور کتب کے طفیل گھر گھر میں چھوٹے چھوٹے ہومیو پیتھ بن گئے ہیں جو معمول کی بیماریوں کا ابتدائی علاج کرنے کے قابل ہیں.بیشمار غیر از جماعت بھی حضور کے نسخوں سے استفادہ کرتے ہیں اور بہت ماہر ہومیو پیتھ حضور کے تجربات اور عظمت کے قدردان ہیں.ترجمة القرآن کلاس حضور نے ۱۵ جولائی ۱۹۹۴ء کو ایم ٹی اے پر ترجمۃ القرآن کلاس کا آغاز کیا اور ۲۴ فروری ۱۹۹۹ء کو ۳۰۵ گھنٹے کی کلاسز کے ذریعہ تکمیل ہوئی، جس میں ترجمہ کے علاوہ ضروری تشریحات بھی موجود ہیں.یہ ترجمہ ۲۰۰۰ء میں کتابی صورت میں شائع ہوا.

Page 332

۳۱۱ تفسیری نوٹس کے ساتھ ۲۰۰۲ ء میں اس کا دوسرا ایڈیشن شائع ہو چکا ہے.یہ ترجمہ سادہ سلیس ہونے کے باوصف نہایت درجہ فصیح و بلیغ اور اصل الفاظ کے قریب تر ہے اور اردو ادب کا بھی شاہکار ہے.اس میں عام طور پر اہتمام کیا گیا ہے کہ عربی میں مذکر اور مؤنث بولے جانے والے الفاظ کا ترجمہ بھی اردو میں ان کے مطابق کیا گیا ہے.دورہ انڈونیشیا حضور نے ۱۹ جون تالا جولائی ۲۰۰۰ ء کو انڈونیشیا کا دورہ فرمایا کسی خلیفہ کا یہ انڈونیشیا کا پہلا دورہ تھا.جس کی بہت پذیرائی ہوئی.صدر مملکت نے بھی ملاقات کی اور دانشوروں کے ساتھ کئی مجالس منعقد ہوئیں.حضور نے جلسہ سالانہ سے خطابات فرمائے جس میں 4 ہزار افراد شریک ہوئے.مدرسه حفظ قرآن مرکز سلسلہ ربوہ میں مدرسۃ الحفظ لمبے عرصہ سے قائم ہے جس میں مارچ ۱۹۵۷ء سے مارچ ۲۰۰۲ ء تک ۲۲۳ بچے قرآن کریم حفظ کر چکے ہیں.جون ۲۰۰۰ء میں اس کا انتظام صدرانجمن احمدیہ کے سپرد کر دیا گیا اور بہت سی اصلاحات عمل میں لائی گئیں.بچیوں کے لئے عائشہ دینیات اکیڈمی قائم کی گئی ہے جس سے ۹۲ طالبات قرآن کریم حفظ کر چکی ہیں.۲ستمبر ۲۰۰۰ کو برطانیہ میں مدرسہ حفظ القرآن کا قیام عمل میں آیا.جس میں ٹیلی فون اور جز وقتی کلاسوں کے ذریعہ بچوں کو قرآن حفظ کروایا جاتا ہے.اس کلاس کا نام حضور نے ”الحافظون“ رکھا ہے.

Page 333

۳۱۲ حضور نے کئی بار حفظ قرآن کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ ہر احمدی کو کم از کم وہ آیات یا د ہوں جو حضور نمازوں میں تلاوت فرماتے تھے.مریم شادی فنڈ حضور نے اپریل ۱۹۹۲ء میں جماعت کو غریب بچیوں کی شادی کے انتظام میں حصہ لینے کی تحریک فرمائی اور معاشرے میں جہیز کی وجہ سے پریشان والدین کی مدد کے لئے وفات سے چند ہفتے قبل آپ نے مریم شادی فنڈ کے نام سے تحریک فرمائی.اس تحریک کے نتیجہ میں صرف ایک ہفتہ میں ایک لاکھ پاؤنڈ جمع ہو گیا.مورخہ ۲۸ فروری ۱۹۹۲ء کے خطبہ جمعہ میں آپ نے اس فنڈ کا نام مریم شادی فنڈ رکھا اور فرمایا: ”امید ہے اب یہ فنڈ کبھی ختم نہیں ہوگا اور ہمیشہ غریب بچیوں کو عزت کے ساتھ رخصت کیا جا سکے گا“.(الفضل انٹرنیشنل ۴ را پریل ۲۰۰۳ء) صدر انجمن احمد یہ پاکستان نے ملک کے اندر ضرورتمند بچیوں کے جہیز کے تمام ضروری اخراجات برداشت کرنے کا وعدہ کیا.حضور نے فرمایا انشاء اللہ یہ فنڈ کبھی ختم نہیں ہوگا.علمی خدمات حضرت خلیفہ المسیح الرابع کی ذات والا صفات ظاہری اور باطنی علوم کا سمندر تھا آپ کو حصول علم کا بے پناہ شوق تھا.جدید ترین سائنسی علوم کے متعلق آپ کی معلومات حیرت انگیز تھیں اور آپ قرآن کریم کی روشنی میں ان علوم کا محاکمہ کرنے پر قادر تھے.دنیا اور خصوصاً جماعت کو ان علوم سے بہرہ ور کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے آپ

Page 334

۳۱۳ کو تقریر اور تحریر کا بادشاہ بنایا تھا.آپ ایک قادر الکلام شاعر اور ادیب سحر طراز مقر ر اور تھے.آپ کے ایک ہزار کے قریب خطبات جمعہ ریکارڈڈ ہیں.ان میں سے اکثر سلسلہ وار مضامین پر مشتمل ہیں اور اسلامی علوم کا بے پناہ خزانہ ہیں.ر ان علوم کی دوسری نہر مجالس عرفان کے ذریعہ جاری ہوئی.یہ ہزار ہا مجالس اردو اور انگریزی میں ہیں.جن کے تراجم کئی زبانوں میں رواں نشر ہوتے رہے.لقاء مع العرب پروگرام ۴۰۰ گھنٹوں پر مشتمل ہے.اردو کلاس، چلڈرن کلاس، اطفال، لجنہ، جرمن، بنگلہ احباب سے ملاقات کے سینکڑوں پروگراموں نے ان علوم کو سمیٹنے میں اہم کردار ادا کیا ہے.آپ نے سینکڑوں تحریری پیغامات دیئے.سینکڑوں خطوط اپنے ہاتھ سے لکھے.ہر پیغام اور خط ادب کا بھی ایک شہ پارہ ہے اور ایک بلند پایہ ادیب لفظ لفظ جلوہ نمائی کرتا ہے.دنیا کے سیاسی ، معاشی اور معاشرتی مسائل پر آپ کے بے مثال رہنمائی نے آپ کی ذات اور جماعت کو دنیا بھر میں ایک نئی عزت اور وقار عطا کیا.ربوہ اور لندن کے جلسہ ہائے سالانہ کے علاوہ جرمنی، کینیڈا اور امریکہ سمیت درجنوں ممالک کے سالانہ جلسوں پر آپ کے طویل مگر سحر انگیز خطابات آپ کے بے ہے.مثال اور نا قابل فراموش تحفے ہیں.آپ کی شاعری سچائی کے ساتھ عشق الہی اور محبت رسول میں گوندھی ہوئی.دلوں میں کھب جانے والی اور سینوں میں گھر کرنے والی جس کے بعض شعروں پر غیر بھی سر دھنتے ہیں.آپ کے درس القرآن اور قرآن کلاسز علوم قرآنی کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے

Page 335

سمندر ہیں.۳۱۴ حضرت خلیفہ مسیح الرابع کی تالیفات حسب ذیل ہیں :.ا.مذہب کے نام پر خون ۱۹۶۲ء.۲.ورزش کے زینے، ۱۹۶۵ء.۳.احمدیت نے دنیا کو کیا دیا، ۱۹۶۸ء.۴.آیت خاتم النبیین کا مفہوم اور جماعت احمدیہ کا مسلک ، ۱۹۶۸ء.۵.سوانح فضل عمر حصہ اول ۱۹۷۵ء.۶.سوانح فضل عمر حصہ دوم،۱۹۷۵ء.۷.ربوہ سے تل ابیب تک ۱۹۷۶ء.۸.وصال ابن مریم ، ۱۹۷۹ء.۹.اہل آسٹریلیا سے خطاب اردو اور انگریزی ۱۹۸۳ء.۱۰- مجالس عرفان ۸۴-۱۹۸۳ء کراچی، ۱۹۸۹ء.۱۱.سلمان رشدی کی کتاب پر محققانہ تبصرہ، ۱۹۸۹ء.۱۲ خلیج کا بحران اور نظام جہان نو ، ۱۹۹۲ء.۱۳.Islam's Response to Contemporary Issues ، ۱۹۹۲ء.۱۴.ذوق عبادت اور آداب دعا ۱۹۹۳ء.۱۵.Christianity A Journey from Facts to Fiction ۱۹۹۴ء.۱۶.زھق الباطل ۱۹۹۴ء.۱۷.کلام طاہر (کراچی)،۱۹۹۵ء.۱۸.حوا کی بیٹیاں اور جنت نظیر معاشرہ (کراچی)، ۱۹۹۵ء.Revelation, Rationality, Knowledge and Truth_19 ۱۹۹۸ ء.۲۰.قرآن کریم کا اردو ترجمہ ۲۰۰۰ء.۲۱.بیشمار خطبات ولیکچرز سب سے بڑا کارنامہ آپ کا سب سے بڑا کارنامہ جماعت کی عالمی وحدت اور منصب خلافت کا استحکام تھا.آپ نے ہر فتنے کو کچلا، ہر وسو سے کی بیخ کنی کی ہر رنگ میں اس مضمون کو اس طرح کھولا کہ دنیا کی سازشوں کے باوجود آپ نے اپنی امانت نہایت شاندار

Page 336

۳۱۵ طریق سے اگلے خلیفہ کے سپر د کر دی.استفاده از الفضل انٹر نیشنل ۸ تا ۴ ار ا گست ۲۰۰۳ مضمون مولانا عبدالسمیع خان صاحب و احمدیت کی مختصر تاریخ مرتبہ مکرم شیخ خورشید احمد صاحب) خلافت رابعہ میں نفوذ احمدیت ۱۹۸۲ء میں خلافت رابعہ کے آغاز کے وقت جماعت ۸۰ ممالک میں قائم تھی.۲۰۰۳ء میں حضور کی وفات کے وقت جماعت ۱۷۵اممالک میں قائم ہو چکی تھی.مختلف ممالک میں نئی جماعتوں کے قیام میں غیر معمولی اور حیرت انگیز اضافہ کا اندازہ اس سے لگائیے کہ ۵۸-۱۹۸۴ء میں ۲۸ نئی جماعتیں قائم ہوئی تھیں.ہجرت کے ۹ ا سالوں میں دنیا بھر میں ۳۵۲۵۸ نئی جماعتیں قائم ہوئیں.حضور کی وفات حضور کی انتھک محنتوں اور کاوشوں نے ان کی صحت پر برا اثر ڈالا تا ہم آپ کام کام اور کام میں مگن رہے بالآخر ۱۹ را پریل ۲۰۰۳ء یہ بچوں اور بڑوں کا محبوب آقا جماعت کو سوگوار چھوڑ کر اپنے مولا کے حضور حاضر ہو گیا.۲۳ اپریل بروز بدھ آپ کے جسد اطہر کو اسلام آباد ٹلفور ڈانگلستان میں سپردخاک کر دیا گیا.انا لله وانا اليه راجعونط اے خدا کے مقدس خلیفہ، اے ہمارے محبوب رہنما! اللہ اور اس کے رسول اور مسیح موعود کا تجھ پر سلام.احمدیت کے گلی کوچے، گلشن اور پھول پھل ہمیشہ تیرے ممنون احسان اور تیرے لئے دعا گور ہیں گے.

Page 337

عہد خلافت خامسه إِنِّي مَعَكَ يَا مَسْرُورُ اے مسرور ! یقیناً میں تیرے ساتھ ہوں تاریکی شب کا فور ہوئی سب گھور اندھیرا نور ہوا دن امن و امان کے پھر پلٹے اور خوف کا عالم دور ہوا تاریکی شب کافور ہوئی سب گھور اندھیرا نور ہوا اب اوج افق پر اک تارا جو پانچ کناری چپکا ہے اس دور میں دوسری قدرت کا یہ پانچواں پاک ظہور ہوا خاص عطاء ربی ہے ہم اہل وفا، اہل اللہ پر قلب یہ جلوہ گر ہو کر مامور ابن منصور ہوا اب تھام لو اس کو اے لوگو جو حبل اللہ اتر آئی مانند عروة الوثقی ہر اب دست مسرور ہوا یہ عہد کمال فتح و ظفر جو اب اسلام پہ ہے آیا اس عہد میں دنیا دیکھے گی پھر کفر کو چکنا چور ہوا مکرم مبارک احمد ظفر صاحب.ایڈیشنل وکیل المال لندن ( بحوالہ احمدیہ گزٹ کینیڈامئی وجون ۲۰۰۳ء)

Page 338

۳۱۷ انتخاب خلافت خامسه حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ عنہ تقریباً ۱۲ سال کے انتہائی کامیاب و با مراد اپنا عہد خلافت گزار کر مورخہ ۱۹ اپریل ۲۰۰۳ء کو ہمیں انتہائی غمزدہ اور سوگوار چھوڑ کر لندن میں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے.اناللہ وانا الیہ راجعون اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے.(آمین) حضرت خلیفہ مسیح الرابع کی ناگہانی وفات کے چوتھے روز مورخہ ۲۲ اپریل ۲۰۰۳ء کو حضرت خلیفتہ اسیح الرابع کی ہدایات کی روشنی میں بیت الفضل لندن میں مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلی تحریک جدید کی زیر صدارت انتخاب خلافت کا اجلاس منعقد ہوا.جس میں اللہ تعالیٰ نے حسب وعده وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمنا کے تحت حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ابن حضرت مرزا منصور احمد صاحب مرحوم و مغفور کو خلعت خلافت پہنا کر ہمارے خوف کو امن میں بدل دیا اور اللہ تعالیٰ کا یہ ابدی قانون دنیا نے ایک دفعہ پھر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ خلیفہ خدا بناتا ہے.آپ کا انتخاب اور آپ کی تائید الہی ہستی باری تعالیٰ اور احمدیت کی سچائی کا ایک زبر دست اور نا قابل تردید ثبوت ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کی غیر معمولی تائید و نصرت کے متعلق پہلے سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام بتادیا تھا کہ انی مَعَكَ يَا مَسْرُورُ یعنی اے مسرور میں تیرے ساتھ ہوں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام کمال شان سے خلافت خامسہ کے وجود میں پورا ہوتا ہوا نظر آرہا ہے اور ازدیاد ایمان کا باعث بن رہا ہے اور خدا تعالیٰ کی ہستی پر

Page 339

۳۱۸ کامل یقین کا ثبوت بن رہا ہے.اس طرح ایک دفعہ پر احمدیت کا قافلہ ایک عظیم سپہ سالار کی راہنمائی میں اپنے سفر کی طرف رواں دواں ہو گیا ہے.الحمد للہ علی ذالک.حضرت خلیفہ اسیح الخامس کا مجلس انتخاب خلافت حضور انور نے فرمایا:.سے خطاب آج جس کام کے لئے یہاں مجھے لایا گیا ہے قطعاً اس کا علم نہیں.حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے علم و عرفان کو آپ سنتے رہے، دیکھتے رہے.خاکسار میں تو کسی بھی قسم کا علم نہیں ہے.بہر حال یہاں کیونکہ قواعد میں کسی قسم کی معذرت کی اجازت نہیں اس لئے خاموشی سے اس کو قبول کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے.آپ لوگوں سے یہ درخواست ہے کہ اگر خدا کو حاضر ناظر جان کر اس یقین کے ساتھ خاکسار یہ فریضہ ادا کر سکتا ہے خاکسار کو اس مقصد کے لئے ، اس کام کے لئے مقرر کیا ہے تو آپ سے درخواست ہے میری مدد فرما ئیں دعاؤں کے ذریعے.نہایت عاجز انسان ہوں، دعاؤں کے بغیر یہ سلسلہ چلنے والا نہیں.اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق دے کہ آپ لوگوں کے لئے دعا کرسکوں.جو عہد ابھی کیا ہے اس پر پورا اتر سکوں اور آپ لوگوں سے بھی درخواست ہے کہ دعاؤں سے، دعاؤں سے، بہت دعاؤں سے میری مدد کریں.اب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کے الفاظ میں ہی ایک فقرہ اور کہتا ہوں کہ میری گردن اب خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.براہ راست خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.اللہ تعالیٰ مجھے محض اور محض اپنے فضل سے ان کاموں کو کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اس کی رضا کے کام ہوں.آمین.(الفضل ۵ دسمبر ۲۰۰۳ء)

Page 340

۳۱۹ حضرت خلیفہ ایسیح الخامس کا پہلا خطاب عام حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پہلی بیعت عام سے قبل مختصر سا خطاب فرمایا جو ایم ٹی اے کے ذریعہ براہ راست تمام دنیا میں نشر کیا گیا.حضور نے تشہد وتعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فر مایا:.احباب جماعت سے صرف ایک درخواست ہے کہ آجکل دعاؤں پر زور دیں، دعاؤں پر زور دیں، دعاؤں پر زور دیں.بہت دعائیں کریں، بہت دعائیں کریں بہت دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ اپنی تائید و نصرت فرمائے اور احمدیت کا یہ قافلہ اپنی ترقیات کی طرف رواں دواں رہے.(آمین) ( بحوالہ روز نامه الفضل ربوه مورخه ۲۴ را پریل ۲۰۰۳ء) اس کے بعد حضور نے حضرت خلیفہ مسیح الرابع کی نماز جنازہ پڑھائی اور نماز جنازہ کے بعد ٹلفورڈ اسلام آبادلندن میں حضور کی امائنا تدفین عمل میں آئی.یہ تمام کارروائی MTA کی برکت سے تمام دنیا نے براہ راست دیکھی اور سنی اور مذہب کی تاریخ میں یہ پہلی دفعہ نظارہ دیکھنے میں آیا کہ تمام دنیا میں بسنے والے کروڑوں احمد یوں نے براہ راست کسی خلیفہ کی بیعت کی.اس موقع پر حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کے لئے آپ عظیم الشان کارنامہ ایم ٹی اے کی اہمیت و فیضان کے باعث آپ کے درجات کی بلندی کے لئے دل کی گہرائیوں سے دعائیں نکلیں.اللهُمَّ اغْفِرُهُ وَارُحَمُهُ وَادْخِلْهُ فِي أَعْلَى عِلَييُنَ.اس طرح تقدیر الہی کے مطابق ایک چاند غروب ہوا تو دوسرا چاند طلوع ہو گیا.اور خلافت کا بابرکت سلسله حسب سابق جاری وساری ہو گیا.اللہ تعالیٰ خلافت احمدیہ

Page 341

۳۲۰ کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رکھے.اور اس کی برکات سے ہمیں کما حقہ مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے.( آمین ) حضرت خلیفہ اسیح الخامس کے حالات و خدمات قبل از خلافت حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ۱۵ ستمبر ۱۹۵۰ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب مرحوم و محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ سلمہا اللہ تعالیٰ کے ہاں ربوہ میں پیدا ہوئے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پڑ پھرتے، حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نواسے ہیں.تعلیم الاسلام ہائی سکول سے میٹرک اور تعلیم الاسلام کا لج ربوہ سے بی اے کیا.۱۹۶۷ء میں ساڑھے سترہ سال کی عمر میں نظام وصیت میں شمولیت فرمائی.۱۹۷۶ء میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے ایم ایس سی کی ڈگری ایگریکلچرل اکنامکس میں حاصل کی.۳۱ جنوری ۱۹۷۷ء کو آپ کی شادی مکرمہ سیدہ امتة السبوح بیگم صاحبہ مدظلہا بنت محترمہ صاحبزادی امتہ الحکیم صاحب مرحومه ومکرم سید داؤد مظفر شاہ صاحب سے ہوئی.آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹی مکرمہ صاحبزادی امتہ الوارث فاتح سلمها اللہ اہلیہ مکرم فاتح احمد ڈاہری صاحب نواب شاہ سندھ اور ایک بیٹے مکرم صاحبزادہ مرز اوقاص احمد سلمہ اللہ سے نوازا.

Page 342

۳۲۱ ۱۹۷۷ ء میں زندگی وقف کر کے نصرت جہاں سکیم کے تحت اگست ۱۹۷۷ء میں غانا تشریف لے گئے.غانا میں ۱۹۷۷ء سے ۱۹۸۵ء تک بطور پرنسپل احمد یہ سیکنڈری سکول سلا گا ۲ سال ایسار چر۴ سال اور پھر ۲ سال احمد یہ زرعی فارم ٹمالے شمالی غانا کے مینیجر رہے.آپ نے غانا میں پہلی بار گندم اگانے کا کامیاب تجربہ کیا.۱۹۸۵ء میں پاکستان واپسی ہوئی اور تحریک جدید ربوہ ۱۷ مارچ ۱۹۸۵ء سے نائب وکیل المال ثانی کے طور پر تقر ر ہوا.۱۸ جون ۱۹۹۴ء کو آپ کا تقرر بطور ناظر تعلیم صدرانجمن احمدیہ میں ہو گیا.• ستمبر ۱۹۹۷ء کو آپ ناظر اعلی صدرانجمن احمد یہ وامیر مقامی مقرر ہوئے اور تا انتخاب خلافت اس منصب جلیلہ پر مامورر ہے.اگست ۱۹۹۸ ء میں صدر مجلس کار پرداز مقرر ہوئے.بحیثیت ناظر اعلیٰ آپ ناظر زراعت کی خدمات بھی بجالاتے رہے.۱۹۹۴ء سے ۱۹۹۷ء تک چیئر مین ناصر فاؤنڈیشن رہے.اسی عرصہ میں آپ صدر تزئین کمیٹی ربوہ بھی تھے.آپ نے گلشن احمد نرسری کی توسیع اور ربوہ کی سرسبز و شاداب بنانے کے لئے ذاتی طور پر بے حد کوشش کی اور جملہ امور کی نگرانی فرمائی.۱۹۸۸ء سے ۱۹۹۵ ء تک ممبر قضاء بور ڈر ہے.خدام الاحمدیہ مرکز یہ ربوہ میں سال ۱۹۷۶ء-۱۹۷۷ء میں مہتم صحت جسمانی، ۱۹۸۴ء ۱۹۸۵ء میں مہتم تجنید ، سال ۱۹۸۵ ء - ۱۹۸۶ء سے ۶۸۹-۸۸ ء تک مہتمم مجالس بیرون اور ۱۹۸۹ ء - ۱۹۹۰ء میں نائب صدر خدام الاحمدیہ پاکستان رہے.مجلس انصاراللہ پاکستان میں قائد ذہانت وصحت جسمانی ۱۹۹۵ء اور قائد تعلیم القرآن ۱۹۹۵ء - ۱۹۹۷ ء رہے.۱۹۹۹ء میں ایک مقدمہ میں اسیر راہ مولی رہنے کا اعزاز بھی حاصل کیا.۳۰/اپریل کو گرفتار ہوئے اور امئی کو باعزت طور پر رہا ہوئے.

Page 343

۳۲۲ ۲۲ را پریل ۲۰۰۳ء کو لندن وقت کے مطابق ۱۱:۴۰ بجے رات آپ کے بطور خلیفہ المسیح الخامس ہونے کا اعلان ہوا.اس وقت آپ کی عمر تقریباً ۵۳ سال ہے.اللہ تعالیٰ آپ کی عمر اور صحت میں بہت برکت ڈالے اور اشاعت اسلام کے کاموں میں روح القدس کی خاص تائیدات سے نوازے اور آپ کی سیادت و قیادت میں احمدیت کا قافلہ شاہراہ غلبہ اسلام پر مضبوط قدموں کے ساتھ اور تیزی سے رواں دواں رہے.آمین رب العالمین.( بحوالہ احمدیہ گزٹ کینیڈامتی و جون ۲۰۰۳ء) نور خلافت نور خلافت در دل تھے ظلمت رنجور تاج امامت سر پر ہے صبح ہوئی پھر چمکا نور ہے عرش آنے لگی صدا نگن لملل ی معک یا مسرور قدرت ثانی سایه ہے نصرت حق کا ہوا ظہور ی معک یا مسرور انی معک یا مسرور کیسے کیسے بجوگ پڑے نافلہ لایا ہے پھر جام الہام آقا طاہر کا تھا سوگ پورے ہوں گے نے تسلی دی سانچ کو آنچ نہیں ہوتی کر دیا اور کہہ کر غم کر مہدی کا پھیلے گا نور انی معک یا مسرور انی معک یا مسرور بدلی دن میں کالی رات وہ اللہ کے دیں کا امین پوری ہوئی خدا کی بات کر کے دعاؤں کی تلقین

Page 344

۳۲۳ ایم ٹی اے سے صدا آئی نور یقین اتارا ایسا زخمی دل کو ملا ہر اک قلب ہوا مسحور سرور نی معک یا مسرور انی معک یا مسرور ہے مہدی کے دل کا نور اللہ عمر میں برکت دے ابن شریف ابن منصور پورے سارے کام کرے آتے ہی ہر دل بول اٹھا اس کی دید سے ہو دل شاد بلا ہو دشمنی دور تیرا بھی شاہد منصور انی معک یا مسرور انی معک یا مسرور شاہد منصور ( بحواله الفضل ۲۶ فروری ۲۰۰۴ء) خلافت خامسہ کے شیریں ثمرات حضرت خلیفۃ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پہلے دن سے ہی حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کے جاری فرمودہ تمام تعلیمی، تربیتی اور تبلیغی پروگراموں کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھا ہوا ہے.اس طرح آپ بہت جلد حضرت خلیفہ اسیح الرابع کی جدائی کے غم اور خوف سے جماعت کو نکالنے میں کامیاب ہو گئے اور ایک دفعہ پھر خلافت کی برکت کہ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمُ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمُ أَمُنًا (نور: ۵۶) یعنی وہ مومنوں کے خوف کو امن میں تبدیل کر دے گا کے نظارے دیکھے.آپ کی بابرکت خلافت کے روز اول سے ہی خدا تعالیٰ کی تائیدات اور نصرت الہی کے شاندار مظاہر اہل دنیا دیکھتی چلی آرہی ہے.آپ کا انتخاب اور آپ کی تائید

Page 345

۳۲۴ البی خلافت احمدیہ کی حقانیت اور دوام کا منہ بولتا ثبوت ہے.حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آغاز خلافت سے ہی زیادہ تر توجہ جماعت کی اندرونی تربیت اور نظام جماعت کی مضبوطی کی طرف دے رہے ہیں.اس لحاظ سے یہ دور ” جماعتی تعلیم وتربیت کا دور کہا جاسکتا ہے.خلافت رابعہ کا دور ا گر دعوت الی اللہ کا اور جلالی دور تھا تو خلافت خامسہ کا دور تربیتی اور جمالی دور ہے.جماعت احمدیہ پر تیز بارش کی طرح نازل ہونے والے خدا تعالیٰ کے فضل دراصل اس امر کا ثبوت ہیں کہ ہم خلافت کی برکت سے اپنی منزل مقصود کی طرف بڑی سرعت سے گامزن ہیں.الحمد للہ علی ذالک.اب خلافت خامسہ کے اس مختصر عرصہ میں خلافت کی برکت سے جماعت احمدیہ پر نازل ہونے والے خدا کے فضلوں کی چند جھلکیاں پیش کی جاتی ہیں جن سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے اس نے بہر صورت بڑھنا، پھیلنا اور پھلنا ہے اور کوئی نہیں جو اس کی ترقی کی راہ میں حائل ہو سکے.ا.جامعہ احمدیہ کینیڈا کا قیام خلافت خامسہ کے قیام کے بعد کینیڈا میں پہلی بارمسی سا گا ٹورانٹو میں جامعہ احمد یہ قائم ہوا.جس کا افتتاح کے ستمبر ۲۰۰۳ ء کو ہوا.اس طرح براعظم ہائے امریکہ میں دعوت الی اللہ اور اصلاح و ارشاد کے کام کے لئے کینیڈا میں ہی مقامی طور پر ہی مبلغین تیار ہونے شروع ہو گئے ہیں.۲.بیت الفتوح کی تعمیر مغربی یورپ کی سب سے بڑی بیت الذکر بیت الفتوح کا افتتاح حضرت خلیفۃ

Page 346

۳۲۵ ع الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے راکتو بر۲۰۰۳ء کوخطبہ جمعہ ارشاد کر کے فرمایا.حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے 19 اکتوبر ۱۹۹۹ء کو اس کا سنگ بنیاد رکھا تھا.سنگ بنیاد میں آپ نے بیت المبارک قادیان کی اینٹ رکھی.اس کا رقبہ ۱٫۵۶۲ کیکڑ ہے جو ۱۹۹۶ء میں ۲۳ ۲ ملین پاؤنڈ سے خریدا گیا.گنبد کا قطر ۵ء۱۵ میٹر ہے جو چھت سے آٹھ میٹر اور گراؤنڈ کی سطح سے ۲۳ میٹر اونچا ہے.مینار کی اونچان ۲۵۶۵ میٹر ہے.بیت الفتوح زنانہ و مردانہ ہال میں قریباً چار ہزار جبکہ دیگر ہالز کو ملا کر کل دس ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے.اس بیت میں وسیع وعریض طاہر، ناصر اور نور ہال ہیں.جماعت کے دفاتر کا نفرنس روم ، لائبریری اور جمنیزیم بھی موجود ہے.اس بیت الذکر کو مشرقی یورپ کی سب سے بڑی بیت الذکر ہونے کا اعزاز حاصل ہے.۳.ڈاکٹر ز کو وقف کی تحریک مورخہ ۱۷ اکتو بر ۲۰۰۳ء کے خطبہ جمعہ میں حضور نے احمدی ڈاکٹر کو وقف کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا: احمدی خدمت انسانیت کے میدان میں آگے ہی آگے نظر آتے ہیں.افریقہ کے غریب ممالک میں خلیفہ اسیح کی تحریک پر احباب نے والہانہ لبیک کہا اور ٹیچر ز و ڈاکٹرز نے وقف کیا.اب بھی نصرت جہاں سکیم اور فضل عمر ہسپتال میں ڈاکٹرز کی ضرورت ہے.ڈاکٹر ز وقف کر کے خدمت کے میدان میں آئیں.حضرت مسیح موعود کی شرط یہ بھی تھی کہ بیعت کے بعد اب بیعت کنندہ کا کچھ نہیں رہا سب رشتے نظام اور مسیح موعود کے ساتھ وابستہ ہیں.“

Page 347

۳۲۶ ۴.دورہ مغربی افریقہ حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے منصب خلافت پر متمکن ہونے کے بعد وسط مارچ ۲۰۰۴ء میں مغربی افریقہ کے پہلے دورہ پر روانہ ہوئے.اور اس دورہ میں غانا، نائیجیریا، برکینا فاسو اور بین کا دورہ کیا.اس دورہ میں غانا کے صدر مملکت سے ملاقات بھی ہوئی.صدر مملکت غانا خود جلسہ سالانہ غانا میں تشریف لائے اور خطاب کیا اور جماعت احمد یہ عالمگیر کی خدمات کو سراہا.اس دورہ میں حضور کا ہر علاقہ ہر ملک میں استقبال بے نظیر اور بے مثل تھا.افراد جماعت کا جذبہ اور خوشی کا اندازہ لگانا ممکن نہ تھا.حضور کا یہ دورہ ہر لحاظ سے انتہائی کامیاب و کامران تھا.حضور نے اس دورہ میں ۲۱ نئی مساجد کا افتتاح بھی فرمایا.نیز متعدد ہسپتالوں اور سکولوں کا بھی افتتاح فرمایا.حضور انور کے اس دورہ سے مذکورہ ممالک میں بیداری کی ایک لہر دوڑ گئی.۵ - نظام وصیت میں شمولیت کی تحریک جلسہ سالانہ برطانیہ ۲۰۰۴ء کے موقع پر اختتامی خطاب میں حضور نے تحریک فرمائی کہ ۲۰۰۸ء میں خلافت احمدیہ کے قیام پر سو سال مکمل ہو جائیں گے.اس وقت تک لازمی چندہ دہندگان کی ۵۰ فیصد تعداد نظام وصیت میں شامل ہو جانی چاہئے.حضور کی اس تحریک کی برکت سے اب تک تقریباً تمیں ہزار نئے افراد نظام وصیت کے ساتھ منسلک ہو چکے ہیں.الحمد للہ علی ذالک.

Page 348

۳۲۷ ۶- تحریک جدید کے دفتر پنجم کا اجراء مورخہ ۵ نومبر ۲۰۰۴ء کے خطبہ جمعہ میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کرتے ہوئے حضور انور نے تحریک جدید کے دفتر پنجم کا اجراء فرمایا.۷.دورہ مشرقی افریقہ اپریل ۲۰۰۵ء کے آخر پر حضور انور نے پہلی دفعہ مشرقی افریقہ کا دور کیا.حضور کا یہ دورہ کینیا، تنزانیہ اور یوگنڈا کے ممالک پر مشتمل تھا.یہ دورہ مشرقی افریقہ کے ان ممالک میں زندگی کی روح پھونکنے کے مترادف تھا.۸.صدسالہ خلافت احمد یہ جوبلی منصوبہ مورخہ ۲۷ مئی ۲۰۰۵ء کو حضور نے مئی ۲۰۰۸ء میں صد سالہ خلافت احمد یہ جو بلی منانے کا اعلان فرمایا.اس موقع پر احباب جماعت نے مبلغ دس کروڑ پاؤنڈ کی رقم حضور کی خدمت میں اشاعت اسلام کے لئے پیش کرنے کا وعدہ فرمایا ہے.حضور نے اس سلسلہ میں بہت زیادہ دعائیں کرنے کی تحریک فرمائی.نیز حضور نے اس تعلق میں بعض خاص دعائیں روزانہ با قاعدگی کے ساتھ پڑھنے کی تحریک فرمائی اور ایک روحانی پروگرام بھی جماعت کو دیا جس میں دعاؤں کے علاوہ روزانہ دونوافل اور ہر ماہ کے آخر پر ایک نفلی روزہ رکھنا بھی شامل ہے.اس منصوبہ کے تحت مئی ۲۰۰۸ ء تک جماعت نے کئی علمی اور عملی کام کرنے کا پروگرام بنایا ہے.جن پر عملدرآمد ہورہا ہے.یہ مقالہ بھی اسی منصوبہ کی ایک کڑی ہے.

Page 349

۳۲۸ ۹.شمالی علاقہ جات وکشمیر میں زلزلہ مورخہ ۱/۸ اکتوبر ۲۰۰۵ء کو پاکستان کے شمالی علاقہ جات و کشمیر کے علاقوں میں ایک قیامت خیز زلزلہ آیا.جس پر فوراً حضور انور نے Humanity First اور پاکستان کے احمدیوں کو زلزلہ سے متاثرین کی ہر ممکن مدد کرنے کی تحریک فرما دی.چنانچہ حضور انور کی ہدایات کی روشنی میں ہیومینیٹی فرسٹ نے خدا کے فضل سے بڑا کام کیا.کینیڈا، امریکہ، جرمنی، یو.کے اور پاکستان وغیرہ سے کثیر تعداد میں وہاں ڈاکٹرز اور رضا کار پہنچ گئے اور دکھی انسانیت کی خدمت سرانجام دی اور ۶ ماہ سے زائد عرصہ تک وہاں پر قیام کیا.۷۵ ہزار زخمیوں اور مریضوں کا ہمارے ڈاکٹروں نے علاج کیا.۵ لاکھ ۲۰ ہزار کلو گرام امدادی سامان مہیا کیا.جس میں خوراک اور دوسری اشیاء شامل ہیں.۳۹ ہزار متاثرین کو عارضی رہائش گاہ مہیا کی.۳۵۶۴۰۰ سے زائد افراد کو کھانا مہیا ہیومینیٹی فرسٹ کے رضا کاروں نے ۴۸۱۱۹۲ مین آورز فیلڈ میں صرف کئے.۱۰.جامعہ احمدیہ لندن کا قیام جماعت احمدیہ عالمگیر کی بڑھتی ہوئی تعلیمی تبلیغی اور تربیتی ضروریات کے پیش نظر جماعت کو ہزاروں مبلغین و مربیان کی ضرورت ہے.قبل ازیں غیر ممالک سے واقفین زندگی جامعہ احمدیہ پاکستان میں آکر تعلیم حاصل کرتے تھے.مگر ۱۹۸۴ء کے بد نام زمانہ اینٹی جماعت احمدیہ آرڈینینس کے بعد غیر ملکیوں کو پاکستان آکر تعلیم حاصل کرنے کی اجازت پر پابندی لگا دی گئی.افریقن واقفین زندگی کی ابتدائی تعلیم و

Page 350

۳۲۹ تربیت کے لئے تو پہلے سے ہی غانا مغربی افریقہ میں ایک جامعہ احمدیہ قائم تھا.مگر دیگر براعظموں اور ممالک کے لئے مقامی طور پر جامعہ احمدیہ کی ذیلی شاخیں کھولنے کی ضرورت محسوس ہوئی.چنانچہ اس صورتحال کے پیش نظر پہلے انڈونیشیا میں ایک جامعہ احمد یہ جاری کیا گیا جس سے مشرق بعید کی ضرورت کو پورا کیا گیا اس کے بعد ے ستمبر ۲۰۰۳ء کو کینیڈا میں بھی جامعہ احمد یہ جاری کر دیا گیا.جس سے براعظم امریکہ کی ضرورت پوری ہوگئی.اب یورپ کے واقفین نو اور واقفین زندگی کے لئے یورپ کے کسی ملک میں جامعہ احمدیہ کھولنے کا منصوبہ بنایا گیا.چنانچہ یکم دسمبر ۲۰۰۵ء کولندن میں بھی جامعہ احمدیہ کا قیام عمل میں آ گیا.اس طرح اہل یورپ کی ضرورت کو بھی پورا کرنے کا بندو بست کر دیا گیا.جامعہ احمدیہ لندن کے پہلے سال میں یورپ کے مختلف ممالک کے ۲۹ طلباء کو داخلہ دیا گیا اور اس طرح لندن میں جامعہ احمدیہ کا آغا ز خلافت خامسہ کے عظیم ثمرات میں سے ایک بہت بڑا ثمر ہے.الحمد للہ علی ذالک.غانا میں مدرسۃ الحفظ کا اجراء جامعہ احمدیہ کی طرح بھارت اور پاکستان کے علاوہ دیگر براعظموں اور ممالک میں بھی مدرسہ الحفظ کی ضرورت محسوس کی گئی.چنانچہ قادیان اور ربوہ پاکستان کے علاوہ تیسرا مدرسة الحفظ مورخ ۲۰۰۴ء کو غانا میں بھی مدرستہ الحفظ کا قیام عمل میں آیا.جس کا افتتاح خود حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ا.اپنے دورہ غانا کے دوران فرمایا.اس طرح براعظم افریقہ کے بچوں کے لئے قرآن کریم حفظ کرنے کی سہولت افریقہ میں ہی پوری کر دی گئی.یہ بھی خلافت خامسہ کا ایک شیریں ثمر ہے.

Page 351

دوره ماریش ماریشس ان خوش نصیب ممالک میں سے ہے جہاں حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ہی احمدیت کا پیغام پہنچ گیا تھا.اور اب خدا کے فضل سے وہاں ایک بہت ہی فعال اور مضبوط جماعت قائم ہوچکی ہے.دسمبر ۲۰۰۵ء کے پہلے عشرہ میں حضور ماریشس تشریف لے گئے اور جلسہ سالا نہ ماریشس ۲۰۰۵ء کو رونق بخشی اور اہل ماریشس کی روحانی تسکین کے سامان پیدا ہوئے.حضرت خلیفہ امسیح الخامس کا منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد ماریشس کا یہ پہلا دورہ تھا.دورہ بھارت، قادیان حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے مورخہ ۱۵ دسمبر ۲۰۰۵ء تا ۱۵ جنوری ۲۰۰۶ ء بھارت کا دورہ کیا.اس دورہ کا سب سے اہم پہلو حضورانور کی جلسہ سالا نہ قادیان ۲۰۰۵ء میں بنفس نفیس شمولیت تھی.اس جلسہ کو اور حضور کے اس دورہ کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ قادیان کی سرزمین سے پہلی دفعہ کسی خلیفہ کی آواز ایم ٹی اے کی برکت سے دنیا کے کناروں تک سنی گئی اور جلسہ کے روح پرور نظارے براہ راست اہل دنیا نے دیکھے اور سنے.حضور نے ایک ماہ تک اہل بھارت کو اپنی روحانی قوت قدسیہ سے سیراب کیا اور ان کے لئے روحانی زندگی کے سامان مہیا کئے.منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد حضور کا بھارت کا یہ پہلا دورہ تھا.جو اپنے پیچھے اور لا تعد اد اور ان گنت برکات و اثرات چھوڑ گیا.

Page 352

۳۳۱ نورالعین بلڈ و آئی بینک ربوہ کا قیام مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کے زیرانتظام دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے فضل عمر ہسپتال ربوہ کے بالمقابل ایک وسیع ، خوبصورت اور تمام جدید سہولتوں سے آراستہ تین منزلہ عمارت ” نورالعین.دائرۃ الخدمت الاسلامیہ، تعمیر کی گئی ہے.جو بلڈ اینڈ آئی بینک کے لئے استعمال ہوگی.اس خوبصورت اور اہم بلڈنگ کا افتتاح مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ناظر اعلیٰ صدرانجمن احمد یہ پاکستان نے مورخہ ۷ ا ا پریل ۲۰۰۵ ء کو اسی عمارت کے سیمینار ہال میں کیا.اس سطح کی یہ سہولت پاکستان کے صرف چند بڑے شہروں میں میسر ہے.اس پہلو سے یہ عمارت اور یہ سہولت بڑی اہمیت کی حامل ہے.ناصر فائر اینڈ ریسکیو سروس اہل ربوہ کو یہ سہولت بھی مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کے زیرانتظام میسر آئی.اس سروس کا با قاعدہ افتتاح بھی مورخہ ۱۷ارا پریل ۲۰۰۵ء کو ہی ہوا.جو مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ناظر اعلیٰ و امیر مقامی ربوہ نے ہی فرمایا.برطانیہ میں ۱٫۲۰۸ یکر زمین کی خرید اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جماعت احمد یہ دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہی ہے.اور جماعت کا ہر دن، ہرلمحہ اور ہر قدم ترقی کی طرف گامزن ہے اور ای نسبت سے جماعتی ضروریات میں اضافہ ہو رہا ہے.لندن میں خلیفہ اسیح کی موجودگی نے لندن کو ایک لحاظ سے جماعت احمدیہ کے مرکز کی حیثیت عطا کر دی ہے.یہی وجہ ہے

Page 353

۳۳۲ کہ لندن کا جلسہ سالانہ بھی مرکزی حیثیت اختیار کر چکا ہے.اس جلسہ کے پیش نظر پہلے ۱/۲۵ یکٹر زمین خریدی گئی.جو کہ بعد میں کم پڑ گئی.جس کی وجہ سے گزشتہ سال کرایہ پر جگہ لیکر جلسہ سالانہ کرنا پڑا.خلافت خامسہ کی برکت سے لندن سے صرف میل کے فاصلہ پر ۲۰۸ ء ایکٹر زمین ۲۵لاکھ پاؤنڈ میں خریدنے کی اللہ تعالیٰ نے جماعت کو توفیق دی.جلسہ سالانہ برطانیہ ۲۰۰۶ ء سے اسی وسیع وعریض جگہ میں ہو رہا ہے.یہ خلافت خامسہ کا ایک بہت بڑا پھل ہے.الحمد للہ علی ذالک.ہیومینیٹی فرسٹ کا قیام ہیومینیٹی فرسٹ اب خدا کے فضل سے دنیا کے 19 ممالک میں رجسٹر ہو چکی ہے.اور حال ہی میں.U.N.O نے بھی اسے اپنے اداروں میں رجسٹر ڈ کر لیا ہے.اس سال پاکستان میں آنے والے زلزلہ میں ہیومینیٹی فرسٹ نے خدا کے فضل سے بڑا کام کیا ہے.جس کی تفصیل گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے.اس کے علاوہ مالی اور نائیجیر یا وغیرہ ممالک میں نلکے اور طبی سہولتیں مہیا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.انڈونیشیا میں سونامی طوفان کے وقت سب سے پہلے متاثرین کی مدد کے لئے پہنچنے والی یہ تنظیم تھی.الحمد للہ علی ذالک صد سالہ خلافت احمد یہ جوہلی کا انعقاد ۲۷ مئی ۲۰۰۸ کو پوری دنیا میں خلافت احمد یہ صد سالہ جو بلی بہت ایمانی جوش و جذبہ سے منائی گئی.باجماعت نماز تہجد ادا کی گئی.شیر ینی تقسیم کی گئی.گھروں میں عمدہ کھانے پکائے گئے.اس موقعہ پر نئے ملبوسات پہنے گئے.غرضیکہ اس دن کو

Page 354

۳۳۳ ساری دنیا میں احمدیوں نے عید کی طرح منایا اور خلافت احمدیہ کے سوسال پورے ہونے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا.۲۷ مئی ۲۰۰۸ کولندن کے معروف ایکسل سینٹر میں خلافت احمد یہ صدسالہ جو بلی کا جلسہ منعقد ہوا جس میں حضور انور نے انتہائی ایمان افروز جلالی خطاب فرمایا.اور ساری دنیا کے احمدیوں سے بیک وقت خلافت احمدیہ کی حفاظت اور جماعت احمدیہ سے وفاداری کا عہد لیا.اس تقریب میں ہزاروں احمدی مردوزن اور بچوں نے شمولیت کی اور ایم.ٹی.اے کے ذریعہ براہ راست دنیا میں اس جلسہ کی تقریب کو دیکھا اور سنا گیا.الحمد للہ علی ذالک.

Page 355

۳۳۴ جماعت احمدیہ اغیار کی نظر میں شاعر مشرق علامہ اقبال پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جسے فرقہ قادیان کہتے ہے“.(ملت بیضا پر ایک عمرانی نظرص ۱۷، ۱۸ مطبوعہ مرغوب الحسنی ، مترجم مولانا ظفر علی خان، ایڈیٹر زمیندار اخبار، لاہور ) جناب خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی سجادہ نشین نظام الدین اولیاء نے اپنی کتاب ” مسلمان مہارا نا“ میں لکھا:.اگر چہ میں قادیانی عقیدہ کا نہیں ہوں.نہ کسی قسم کا میلان میرے دل میں قادیانی جماعت کی طرف ہے.لیکن میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ قادیانی جماعت 66 اسلام کے حریفوں کے مقابلہ میں بہت مؤثر اور پر زور کام کر رہی ہے.(بحوالہ الفضل ۳۱ مئی ۱۹۲۷ء) جناب مولا نا عبد الحلیم صاحب شر لکھنوی ایڈیٹر ” دلگداز“ لکھتے ہیں:.آجکل احمدیوں اور بہائیوں میں مقابلہ و مناظرہ ہو رہا ہے اور باہم رد و قدح کا سلسلہ جاری ہے.مگر دونوں میں اصل فرق یہ ہے کہ احمدی مسلک شریعت محمدیہ کو اسی قوت اور شان سے قائم رکھ کر اس کی تبلیغ واشاعت کرتا ہے اور بہائی مذہب شریعت عرب (اسلام) کو ایک منسوخ شدہ غیر واجب الا تباع دین بتاتا ہے خلاصہ یہ کہ بہایت اسلام کو مٹانے کو آئی ہے اور احمدیت اسلام کو قوت دینے کے لئے اور اسی کی برکت ہے کہ باوجود چند اختلافات کے احمدی فرقہ کے لوگ اسلام کی سچی اور پُر جوش

Page 356

۳۳۵ خدمت ادا کرتے ہیں، دوسرے مسلمان نہیں“.(رسالہ دلگداز لکھنو ماہ جون ۱۹۲۶ء) جناب مولانا ظفر علی خان ظفر ایڈیٹر اخبار ”زمیندار“ لاہور ”ہم مسلمانوں سے دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ دنیا میں اپنے دین مقدس کو پھیلانے کے لئے کیا جدو جہد کر رہے ہیں.ہندوستان میں سات کروڑ مسلمان آباد ہیں.کیا ان کی طرف سے ایک بھی تبلیغی مشن مغربی ممالک میں کام کر رہا ہے؟ گھر بیٹھ کر احمدیوں کو بُرا بھلا کہہ لینا نہایت آسان ہے لیکن اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یہی ایک جماعت ہے جس نے اپنے مبلغین انگلستان میں اور دیگر یورپین ممالک میں بھیج رکھے ہیں.کیا ندوۃ العلماء دیوبند ، فرنگی محل اور دوسرے علمی اور دینی مرکزوں سے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ بھی تبلیغ و اشاعت حق کی سعادت میں حصہ لیں“.(اخبار زمیندار لاہور دسمبر ۱۹۲۶ء) نیز فرمایا:.مسلمانان جماعت احمدیہ اسلام کی انمول خدمت کر رہے ہیں.جو ایثار، کمربستگی، نیک نیتی اور توکل علی اللہ ان کی جانب سے ظہور میں آیا ہے.وہ اگر ہندوستان کے موجودہ زمانہ میں بے مثال نہیں تو بے انداز ، عزت افزائی اور قدردانی کے قابل ضرور ہے، جہاں ہمارے مشہور پیر اور سجادہ نشین حضرات بے حس و حرکت پڑے ہیں اس اولوالعزم جماعت نے عظیم الشان خدمت اسلام کر کے دکھا دی.اخبار ” بندے ماترم اخبار زمیندار لاہور ۲۴ جولائی ۱۹۲۳ء) احمدی لوگ تمام دنیا کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ ٹھوس اور مسلسل تبلیغی

Page 357

۳۳۶ پروگرام پر کام کرنے والے ہیں.ان کو تبلیغی جد و جہد اس وقت ہمیں سب سے زیادہ نقصان پہنچا رہی ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ احمدی لوگ ہندو جاتی کے سب سے زیادہ خوفناک حریف ہیں.ہمیں ان کی طرف سے ہرگز غافل نہ رہنا چاہئے.اس ضروری بات کو پھر ایک دفعہ بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ احمد یہ جماعت ایک نہایت زبردست منظم اور مسلسل تبلیغی کام کرنے والی جماعت ہے احمدیوں کی عورتیں ہمارے مردوں سے باری لے گئیں.( بندے ماترم ۱۸ دسمبر ۱۹۲۷ء) روزنامہ نوائے وقت لاہور افریقہ میں اگر کوئی پاکستانی جماعت، بطور مشنری کام کر رہی ہے تو وہ جماعت احمد یہ ہے“.(۲ /اپریل ۱۹۶۰ء) انسائیکلو پیڈیا برٹیز کا ” جماعت احمدیہ کا ایک وسیع تبلیغی نظام ہے.نہ صرف ہندوستان میں بلکہ مغربی افریقہ ، ماریشس اور جاوا میں بھی.اس کے علاوہ برلن شکا گو اور لندن میں بھی ان کے تبلیغی مشن قائم ہیں.ان کے مبلغین نے خاص کوشش کی کہ یورپ کے لوگ اسلام قبو ل کریں اور اس میں انہیں معتد بہ کامیابی بھی ہوئی ہے.ان کے لٹریچر میں اسلام کو اس شکل میں پیش کیا جاتا ہے کہ جونو تعلیم یافتہ لوگوں کے لئے باعث کشش ہے اور اس طریق پر نہ صرف غیر مسلم ہی ان کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں بلکہ ان مسلمانوں کے لئے بھی یہ تعلیمات کشش کا باعث ہیں.جو مذہب سے بیگانہ ہیں یا عقلیات کی رو میں بہہ گئے ہیں.ان کے مبلغین ان حملوں کا دفاع بھی کرتے ہیں جو عیسائی مناظرین نے اسلام پر کئے ہیں.(انسائیکلو پیڈیا برٹین کا مطبوعہ ۱۹۴۷ء جلد ۲ ص ۷۱۲،۷۱۱ )

Page 358

۳۳۷ جماعت احمدیہ کا مستقبل کسی بھی قوم یا جماعت کے مستقبل کا اندازہ اس کے ماضی اور حال کے آئینہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے.جماعت احمدیہ کے زندہ ماضی اور تابندہ حال کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا جاچکا ہے جس کی روشنی میں احمدیت کے مستقبل کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے.ہیں:.حضرت بانی سلسلہ جماعت احمدیہ کے روشن مستقبل کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ”اے تمام لوگو سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا.وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت و برہان کی رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس کے مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامراد رکھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی.(تذكرة الشهادتين روحانی خزائن جلد ۲۰ ص ۶۶)

Page 359

Vad

Page 360

۳۳۹ باب ہفتم خلافت احمدیہ کے خلاف اندرونی سازشیں خلافت اولی کے قیام کے ایک سال بعد ہی نظام خلافت کے خلاف بعض افراد نے سازشیں شروع کردیں.ان سازشوں کے محرکات اور مقاصد کیا تھے اور ان میں کون کون احباب ملوث تھے.انہوں نے کیا کیا ہتھکنڈے اختیار کئے اور کس طرح خدا تعالیٰ نے ان کو اپنے منصوبوں میں ناکام بنایا اور نظام خلافت احمد یہ کو کس طرح استحکام عطا فرمایا.ان تمام حالات و واقعات کی تاریخ ان حالات و واقعات کے عینی شاہد جماعت کے ایک عظیم صاحب علم و اہل قلم حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے کی زبانی پیش کرتے ہیں جو آپ نے اپنی معروف تالیف ”سلسلہ احمدیہ میں تحریر فرمائے ہیں.چنانچہ آپ فرماتے ہیں:.حضرت مسیح موعود کی وفات پر خدا نے اپنی قدیم سنت کے مطابق آپ کی گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال کر اپنی قدرت نمائی کا ثبوت دیا وہاں تقدیر کے بعض دوسرے نوشتے بھی پورے ہونے والے تھے.چنانچہ ابھی حضرت مسیح موعود کی وفات پر ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ بعض لوگوں نے جن کے ہاتھ پر اس فتنہ کا بیج بونا مقدر تھا مخفی مخفی اور آہستہ آہستہ یہ سوال اٹھانا شروع کیا کہ دراصل حضرت مسیح موعود کا یہ منشاء نہیں تھا کہ آپ کے بعد جماعت میں کسی واجب الا طاعت خلافت کا نظام قائم ہو بلکہ آپ

Page 361

۳۴۰ کا منشاء یہ تھا کہ سلسلہ کا سارا انتظام صدرانجمن احمدیہ کے ہاتھ میں رہے جس کی آپ نے اسی غرض سے اپنی زندگی کے آخری ایام میں بنیاد رکھی تھی.پس اگر کسی خلیفہ کی ضرورت ہو تو بھی تو وہ صرف بیعت لینے کی غرض سے ہوگا اور انتظام کی ساری ذمہ داری صدر انجمن احمدیہ کے ہاتھ میں رہے گی.اس سوال کی ابتدا ء صدرانجمن احمدیہ کے بعض ممبروں کی طرف سے ہوئی تھی جن میں مولوی محمد علی صاحب ایم.اے ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنز قادیان اور خواجہ کمال الدین صاحب بی اے ایل ایل بی لاہور زیادہ نمایاں حیثیت رکھتے تھے.ان اصحاب اور ان کے رفقاء نے خفیہ خفیہ اپنے دوستوں اور ملنے والوں میں اپنے خیالات کو پھیلانا شروع کر دیا اور ان کی بڑی دلیل یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود کی وصیت میں خلافت کا ذکر نہیں ہے اور یہ کہ حضرت مسیح موعود نے اپنی ایک غیر مطبوعہ تحریر میں صدر انجمن احمدیہ کے حق میں اس قسم کے الفاظ لکھے ہیں کہ میرے بعد اس انجمن کا فیصلہ قطعی ہوگا وغیر ذالک.دلوں کا حال تو خدا جانتا ہے مگر ظاہری حالات پر اندازہ کرتے ہوئے اس سوال کے اٹھانے والوں کی نیت اچھی نہیں سمجھی جا سکتی تھی کیونکہ :.اول جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے اس سوال کے اٹھانے والے صدرانجمن احمد یہ ہی کے بعض ممبر تھے اور یہ ظاہر ہے کہ انجمن کے طاقت میں آنے سے خود ان کو طاقت حاصل ہوتی تھی.دوم حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد صدرانجمن احمد یہ اپنے سب سے پہلے فیصلہ میں اتفاق رائے کے ساتھ یہ قرار دے چکی تھی کہ جماعت میں ایک واجب الا طاعت خلیفہ ہونا چاہئے.پس اگر بالفرض حضرت مسیح موعود کی کسی تحریر کا یہ منشاء تھا بھی کہ میرے بعد انجمن کا فیصلہ قطعی ہو گا تو صدرانجمن احمد یہ خلافت کے حق میں فیصلہ

Page 362

۳۴۱ کر کے خود خلافت کو قائم کر چکی تھی اور جن اصحاب نے اب خلافت کے خلاف سوال اٹھایا تھا وہ سب اس فیصلہ میں شریک تھے اور اس کے مؤید و حامی تھے.پس اس جہت سے بھی یہ نیا پراپیگنڈا ایک دیانتداری کا فعل نہیں سمجھا جاسکتا تھا.سوم یہ بات قطعا غلط تھی کہ حضرت مسیح موعود نے الوصیت میں خلافت کا ذکر نہیں کیا بلکہ جیسا کہ ہم الوصیت کا ایک اقتباس او پر درج کر چکے ہیں حضرت مسیح موعود نے صراحت اور تعیین کے ساتھ خلافت کا ذکر کیا تھا بلکہ حضرت ابوبکر کی مثال دے کر بتایا تھا کہ ایسا ہی میرے سلسلہ میں ہوگا اور یہ تصریح کی تھی کہ میرے بعد نہ صرف ایک خلیفہ ہوگا بلکہ خلافت کا ایک لمبا سلسلہ چلے گا اور متعددافراد قدرت ثانیہ کے مظہر ہوں گے.پس ایسی صراحت کے ہوتے ہوئے یہ دعوی کس طرح دیانتداری پر مبنی سمجھا جاسکتا تھا کہ الوصیت میں خلافت کا ذکر نہیں.چہارم غالبا سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ تھا کہ اس سوال کے اٹھانے والوں نے کھلے طور پر اس سوال کو نہیں اٹھایا بلکہ حضرت خلیفہ اول سے مخفی رکھ کر خفیہ خفیہ پراپیگنڈا کیا جو یقینا اچھی نیت کی دلیل نہیں ہے.مندرجہ بالا وجو ہات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان اصحاب کی نیت صاف نہیں تھی اور یہ ساری کوشش محض اپنے آپ کو طاقت میں لانے یا کسی دوسرے کی ماتحتی سے اپنے آپ کو بچانے کی غرض سے تھی ان کا یہ عذر کہ یہ جمہوریت کا زمانہ ہے اور ہم سلسلہ کے اندر جمہوری نظام قائم کرنا چاہتے ہیں یا تو محض ایک بہانہ تھا اور یا پھر یہ اس بات کی دلیل تھی کہ یہ اصحاب سلسلہ احمدیہ میں منسلک ہو جانے کے باوجو دسلسلہ کی اصل غرض و غایت اور اس کے مقصد و منتہی سے بے خبر تھے اور اسے ایک محض دنیوی نظام سمجھ کر دنیا کے سیاسی قانون کے ماتحت لانا چاہتے تھے گو یہ علیحدہ بات ہے کہ دنیا کا سیاسی قانون

Page 363

۳۴۲ بھی کلی طور پر جمہوریت کے حق میں نہیں ہے پس اس فتنہ کے کھڑا کرنے والوں نے ایک نہایت بھاری ذمہ داری کو اپنے سر پر لیا اور خدا کی برگزیدہ جماعت میں انشقاق و افتراق کا بیج بویا اور اپنے نفسوں کو گرانے کی بجائے خدا کی قدیم سنت اور اسلام کے صریح حکم اور حضرت مسیح موعود کی واضح تعلیم کو پس پشت ڈال دیا.ممکن ہے کہ یہ اصحاب اپنی جگہ اپنی نیت کو اچھا سمجھتے ہیں اور دھو کا خوردہ ہوں اور ہم بھی اس بات کے مدعی نہیں کہ ہم نے ان کا دل چیر کر دیکھا ہے مگر ان ٹھوس حالات میں جو اوپر بیان کئے گئے ہیں دھوکا خوردہ ہونے کی صورت میں بھی ان کی بدقسمتی کا بوجھ کچھ کم نہیں ہے.اے کاش وہ ایسا نہ کرتے !!! جب ان خیالات کا زیادہ چرچا ہونے لگا اور حضرت خلیفہ امسح الاول تک سارے حالات پہنچے تو آپ نے جماعت میں ایک فتنہ کا دروازہ کھلتا دیکھ کر اس معاملہ کی طرف فوری توجہ فرمائی اور اس جنوری ۱۹۰۹ء بروز اتوار جماعت کے سرکردہ ممبروں کو قادیان میں جمع کر کے مسجد مبارک میں ایک تقریر فرمائی جس میں مسئلہ خلافت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈال کر جماعت کو بتایا کہ اصل چیز خلافت ہی ہے جو نظام اسلامی کا ایک اہم اور ضروری حصہ ہے اور حضرت مسیح موعود کی تحریرات سے بھی خلافت ہی کا ثبوت ملتا ہے اور صدرانجمن احمد یہ ایک عام انتظامی انجمن ہے جسے خلافت کے منصب سے کوئی تعلق نہیں اور پھر یہ کہ خود انجمن بھی اپنی سب سے پہلی قرارداد میں خلافت کا فیصلہ کر چکی ہے.اس موقعہ پر آپ نے حاضرین کو جن میں منکرین خلافت کے سرکردہ اصحاب شامل تھے نصیحت بھی فرمائی کہ دیکھو حضرت مسیح موعودؓ کے اس قدر جلد بعد جماعت میں اختلاف اور انشقاق کا بیج نہ بو اور جس جھنڈے کے نیچے تمہیں خدا نے جمع کر دیا ہے اس کی قدر کرو.

Page 364

۳۴۳ آپ کی یہ تقریر اس قدر دردناک اور رقت آمیر تھی کہ اکثر حاضرین بے اختیار ہو کر رونے لگے اور منکرین خلافت نے بھی معافی مانگ کر اپنے آپ کو پھر خلافت کے قدموں پر ڈال دیا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ان اصحاب کی اندرونی بیماری اس سے بہت زیادہ گہری تھی جو سمجھی گئی تھی کیونکہ تھوڑے عرصہ بعد ہی ظاہر ہوا کہ مؤیدین انجمن کا مخفی پراپیگنڈا بدستور جاری ہے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ زوروں میں ہے.چونکہ یہ لوگ حضرت خلیفہ اول کے ہاتھ پر بیعت خلافت کر چکے تھے اور اس سے پیچھے ہٹنا مشکل تھا اس لئے اب آہستہ آہستہ انہوں نے یہ بھی کہنا شروع کیا کہ ہمیں حضرت مولوی صاحب کی امامت پر تو اعتراض نہیں ہے اور وہ اپنی ذاتی قابلیت اور ذاتی علم و فضل سے ویسے بھی واجب الاحترام اور واجب الاطاعت ہیں مگر ہمیں اصل فکر آئندہ کا ہے کہ حضرت مولوی صاحب کے بعد کیا ہوگا کیونکہ ہم مولوی صاحب کے بعد کسی اور شخص کی قیادت کو خلافت کی صورت میں قبول نہیں کر سکتے.افسوس ہے کہ ان کا یہ عذر بھی دیانتداری پر مبنی نہیں سمجھا جاسکتا تھا کیونکہ جیسا کہ متعددتحریری شہادات سے ثابت ہے ان اصحاب نے اپنے خاص الخاص حلقہ میں خود حضرت خلیفہ اول کی ذات کے خلاف بھی پراپیگنڈا شروع کر رکھا تھا مگر بہر حال اس وقت ان کا ظاہر قول یہی تھا کہ ہمیں اصل فکر آئندہ کا ہے کہ پیچھے تو جو کچھ ہونا تھا ہو گیا اب کم از کم آئندہ یہ خلافت کا سلسلہ جاری نہ رہے.اس قول میں ان کا اشارہ حضرت مسیح موعوڈ کے بڑے صاحبزادے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ( موجودہ امام جماعت احمدیہ ) کی طرف تھا جن کی قابلیت اور تقویٰ طہارت کی وجہ سے اب آہستہ آہستہ لوگوں کی نظریں خود بخود اس طرف اٹھ رہی تھیں کہ حضرت مولوی صاحب کے بعد ہی جماعت کے خلیفہ ہوں گے.اس کے

Page 365

۳۴۴ بعد گویا منکرین خلافت کی پالیسی نے دہرا رخ اختیار کر لیا.اول یہ کہ انہوں نے اس بات کا پراپیگینڈا جاری رکھا کہ جماعت میں اصل چیز انجمن ہے نہ کہ خلافت.دوم یہ کہ انہوں نے ہر رنگ میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو نیچا کرنے اور جماعت میں بدنام کرنے کا طریق اختیار کر لیا تا کہ اگر جماعت خلافت کے انکار کے لئے تیار نہ ہوتو کم از کم وہ خلیفہ نہ بن سکیں.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے بار بار حلف اٹھا کر کہا کہ میرے وہم وگمان میں بھی خلیفہ بنے کا خیال نہیں ہے اور ایک خلیفہ کے ہوتے ہوئے آئندہ خلیفہ کا ذکر کرنا ہی ناجائز اور خلاف تعلیم اسلام ہے.پس خدا کے لئے اس قسم کے ذاتی سوالات کو اٹھا کر جماعت کی فضا کو مزید مکدر نہ کرو مگران خدا کے بندوں نے ایک نہ سنی اور حضرت مولوی صاحب کی زندگی کے آخری لمحہ تک اپنے اس دہرے پراپیگنڈے کو جاری رکھا.بلکہ حضرت خلیفہ اول کے خلاف بھی اپنے خفیہ طعنوں کے سلسلہ کو چلاتے چلے گئے.اس عرصہ میں حضرت خلیفہ اول نے بھی متعدد موقعوں پر خلافت کی تائید میں تقریریں فرمائیں اور طرح طرح سے جماعت کو سمجھایا کہ خلافت ایک نہایت ہی با برکت نظام ہے جسے اسلام نے ضروری قرار دیا ہے اور خدا تعالیٰ اس نظام کے ذریعہ نبی کے کام کو مکمل فرمایا کرتا ہے اور ہر نبی کے بعد خلافت ہوتی رہی ہے اور حضرت مسح موعودؓ نے بھی اپنے بعد خلافت کا وعدہ فرمایا تھا اور یہ کہ گو بظاہر خلیفہ کا تقررمومنوں کے انتخاب سے ہوتا ہے مگر دراصل اسلامی تعلیم کے ماتحت خلیفہ خدا بنا تا ہے وغیرہ وغیرہ.آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اب جب سلسلہ احمدیہ میں خلافت کا نظام عملاً قائم ہو چکا ہے اور تم ایک ہاتھ پر بیعت کر چکے ہو تو اب تم میں یا کسی اور میں یہ طاقت نہیں ہے کہ خدا کی مشیت کے رستے میں حائل ہو اور فرمایا کہ جو قمیص مجھے خدا نے پہنائی ہے

Page 366

۳۴۵ وہ میں اب کسی صورت میں اتار نہیں سکتا.مگر افسوس کہ منکرین خلافت کا پراپیگنڈا ایسی نوعیت اختیار کر چکا تھا کہ ان پر کسی دلیل کا اثر نہیں ہوا اور بظاہر حضرت خلیفہ اول کی بیعت کے اندر رہتے ہوئے انہوں نے خلافت کے خلاف اپنی خفیہ کارروائیوں کو جاری رکھا.لیکن حضرت خلیفہ اول کی تقریروں سے ایک عظیم الشان فائدہ ضرور ہو گیا اور وہ یہ کہ جماعت کا کثیر حصہ خلافت کی اہمیت اور اس کی برکات اور اس کے خدا داد منصب کو اچھی طرح سمجھ گیا اور ان گم گشتگان راہ کے ساتھ ایک نہایت قلیل حصہ کے سوا اور کوئی نہ رہا اور جب ۱۹۱۴ء میں حضرت خلیفہ اول کی وفات ہوئی تو بعد کے حالات نے بتا دیا کہ حضرت خلیفہ اول کی مسلسل اور ان تھک کوششوں نے جماعت کو ایک خطرناک گڑھے میں گرنے سے محفوظ کر رکھا ہے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد کا یہ ایسا جلیل القدر کارنامہ ہے کہ اگر اس کے سوا آپ کے عہد میں کوئی اور بات نہ بھی ہوتی تو پھر بھی اس کی شان میں فرق نہ آتا.خلافت کے سوال کے علاوہ منکرین خلافت نے جماعت میں آہستہ آہستہ یہ سوال بھی پیدا کر دیا تھا کہ کیا حضرت مسیح موعود پر ایمان لانا ضروری ہے؟ اور کیا حضرت مسیح موعود نے واقعی نبوت کا دعویٰ کیا تھا؟ ان لوگوں کا یہ عقیدہ ہو گیا تھا کہ حضرت مسیح موعود پر ایمان لانا اچھا تو ہے مگر ضروری نہیں اور ایک مسلمان آپ پر ایمان لانے کے بغیر بھی نجات پاسکتا ہے اور یہ کہ حضرت مسیح موعود نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ صرف مجددیت اور مسیحیت کا دعویٰ کیا تھا.(ماخوذ از سلسلہ احمدیہ ص ۳۱۱ تا ۴ ۳۱ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے)

Page 367

۳۴۶ فتنہ خلافت ۱۹۵۶ء جیسا کہ قبل ازیں ذکر کیا جاچکا ہے کہ خلافت احمدیہ کی تاریخ میں پہلی دفعہ فتنہ خلافت ۱۹۱۴ء میں خلافت ثانیہ کے انتخاب پر اٹھا.جس کے محرک جماعت کے بعض مغربی تعلیم یافتہ اور جمہوریت پسند افراد تھے.انہوں نے نظام خلافت کو ختم کر کے انجمن احمدیہ کو جماعتی معاملات کی نگرانی و راہنمائی پر زور دیا.لیکن ان کی یہ سوچ چونکہ دینی روح اور منشاء الہی کے خلاف تھی.لہذا خدا تعالیٰ نے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو بطور خلیفہ اسیح الثانی بنا کر اور ان کی غیر معمولی تائید ونصرت فرما کر اپنی فعلی شہادت سے مخالفین خلافت کے نظریہ کور د کر دیا.جب نظام خلافت کی مخالفت کرنے والے گروہ کی منشاء اور خواہش کے خلاف حضرت مصلح موعود کا بطور خلیفہ اسیح الثانی انتخاب ہو گیا تو ان لوگوں نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا.اور اس فتنہ کے مدارالمہام مولوی محمد علی صاحب کی قیادت میں اپنی الگ جماعت قائم کر کے لاہور میں اپنا مرکز قائم کرلیا.جماعت احمدیہ کی تاریخ اس حقیقت کی سب سے بڑی گواہ ہے کہ جن لوگوں نے خلافت کا انکار کیا ان کا سفر دن بدن پستی اور انحطاط کی طرف جاری رہا اور اس کے بالمقابل نظام خلافت کی برکت سے حضرت مصلح موعود کی قیادت میں قائم ہونے والی جماعت دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتی رہی اور جماعت مبائعین دنیا کے کناروں تک پھیل گئی اور آج خدا کے فضل سے اسی خلافت کی برکت سے جماعت احمد یہ دنیا کے ۱۸۵ ممالک میں مضبوطی کے ساتھ قائم ہو چکی ہے اور اس کے بالمقابل پیغامیوں.

Page 368

۳۴۷ اور غیر مبائعین کا چڑھنے والا ہر دن ان کی کمزوری اور خاتمے پر دلالت کرتا ہے.چنانچہ اس صورتحال کے پیش نظر غیر مبائعین نے جماعت مبائعین کے خلاف سازشوں کا سلسلہ جاری رکھا اور حضرت مصلح موعودؓ کے مد مقابل کئی افراد کو خلیفہ تسلیم کر لینے کا لالچ دیا اور فخر الدین ملتانی ، مولوی عبدالرحمن مصری اور اللہ رکھا جیسے کئی کمزور ایمانوں کو جماعت کے خلاف استعمال کرنے کی کوششوں کا سلسلہ جاری رکھا.مگر افسوس کہ جس عظیم اور بابرکت وجود کے ذریعہ سے خلافت احمدیہ کی بنیاد رکھی گئی تھی.انہی کی اولاد میں سے اس فتنہ نے ایک بار پھر سر نکالا.جس کی مختصر حقیقت یہ ہے کہ حضرت خلیفہ ابیع الاول کے ایک صاحبزادے مولوی عبدالمنان عمر صاحب حضرت خلیفتہ اسی الاول کا بیٹا ہونے نیز اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے غرور میں آئندہ اپنے آپ کو خلیفہ اسیح کے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے.ان کے ان مذموم عزائم اور ارادوں کی تائید انہیں اپنے بڑے بھائی مولوی عبدالوہاب عمر صاحب کی بھی حاصل تھی اور ان صاحبزادگان کے زیر اثر و مفاد پرست بعض اور افراد بھی ان کے ہمنوا اور ہم پیالہ و ہمنوا تھے.یہ لوگ حضرت مصلح موعودؓ کی وفات کے انتظار میں جماعت کے ساتھ وابستگی قائم رکھے ہوئے تھے.مگر زیادہ صبر کرنا بھی ان لوگوں کے لئے مشکل تھا.لہذا۱۹۵۴ء میں جب حضرت مصلح موعودؓ پر بیت مبارک میں چاقو سے حملہ ہوا جس کے نتیجہ میں آپ کی صحت غیر معمولی طور پر متاثر ہوئی.اور بہت زیادہ کمزوری ہوگئی تو ان لوگوں نے حضرت مصلح موعود کی بیماری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلے ”عزل خلافت“ کا مسئلہ اٹھایا اور مختلف مجالس میں اس طرح کا اظہار شروع کر دیا کہ اگر کوئی خلیفہ اپنی کسی بیماری یا کسی اور وجہ سے خلافت کی ذمہ داریوں کو سرانجام دینے کے قابل نہ رہے تو اسے خلافت سے الگ کر کے کسی نئے خلیفہ وقت کا تقرر ہو جانا چاہئے.مگر شرعی اور

Page 369

۳۴۸ دینی لحاظ سے ان کی اس تجویز اور سازش کوکوئی اہمیت نہ دی گئی.اس کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے آہستہ آہستہ صحت یاب ہونا شروع کر دیا.جس سے بھی یہ مسئلہ دب گیا.مگر اندرون خانہ ان لوگوں نے خلافت کی تبدیلی کے لئے بیان بازیاں اور کوششیں اور سازشیں جاری رکھیں.۱۹۵۵ء میں الہی پروگرام اور تصرف سے حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے سب سے بڑے بیٹے حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو صدر صدرانجمن احمد یہ مقرر فرما دیا جس سے مولوی عبد المنان عمر صاحب کی خلیفہ بننے کی امید موہوم ہونا شروع ہوگئی.کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ خلافت کے بعد سب سے بڑا عہدہ صدرصد رانجمن احمدیہ کا ہے.لہذا اس عہدہ پر فائز ہو جانے کی وجہ سے حضرت مرزا ناصر احمد صاحب جماعت کی نظروں میں اہمیت اختیار کر جائیں گے اور آئندہ ان کے خلیفہ بنے کے چانس بڑھ جائیں گے.چنانچہ ان لوگوں نے جگہ جگہ اس قسم کا پروپیگنڈا کرنا شروع کر دیا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی اپنی زندگی میں ہی اپنے بیٹے کو خلیفہ بنانا چاہتے ہیں اور اسی لئے انہوں نے ان کو متعددا ہم عہدوں پر فائز کر دیا ہے تا کہ ان کی خلافت کی راہ ہموار ہو جائے.پہلے تو ان لوگوں نے اندرون خانہ قدرے احتیاط سے اس قسم کا پروپیگنڈا شروع کر رکھا تھا.مگر ۱۹۵۶ء میں ان لوگوں نے برسر عام بیان بازی شروع کر دی اور خلافت کے خلاف بدزبانی کا سلسلہ شروع کر دیا.مولوی عبدالمنان عمر صاحب اور مولوی عبدالوہاب عمر صاحب کے علاوہ ان کے حواریوں اور آلہ کاروں میں چوہدری غلام رسول صاحب آف چک پینتیس ، چوہدری عبدالحمید ڈاڈھا صاحب، ملک فیض الرحمن فیضی صاحب، ملک عزیز الرحمن صاحب، ملک عطاء الرحمان صاحب راحت، راجہ بشیر احمد رازی صاحب، محمد یونس صاحب مولوی فاضل آف گوجرانوالہ، چوہدری

Page 370

۳۴۹ عبداللطیف صاحب بیگم پوری، مولوی محمد حیات صاحب تا شیر، مولوی علی محمد صاحب اجمیری، اللہ رکھا صاحب آف گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ زیادہ نمایاں تھے.چنانچہ مذکورہ بالا افراد کی سرگرمیاں جب منظر عام پر آگئیں اور ان میں تیزی آگئی تو اس صورتحال کے پیش نظر متعدد جماعتوں نے حضور کی خدمت میں مذکورہ بالا افراد کو نظام جماعت سے اخراج کی درخواست کی جس کے نتیجہ میں اکتوبر ۱۹۵۶ء کو ان تمام افراد کو نظام جماعت سے خارج کر دیا گیا.جس کے بعد تقریباً یہ سب لوگ پیغامیوں کے ساتھ جاملے اور اس طرح ثابت ہو گیا کہ ان کی پشت پناہی غیر مبائعین پیغامی ہی کر رہے تھے.بالآخر حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۵۶ء کو جلسہ سالانہ پر تقریر کر کے اس فتنہ کو بے نقاب کیا اور ان کی تمام کارروائیوں اور سرگرمیوں کا پردہ چاک فرما دیا اور ان کے تمام الزامات کے مفصل جوابات دئیے.( تاریخ احمدیت جلد ۱۹) فتنہ کے متعلق ۱۹۵۰ء کا ایک اہم رویا اس فتنہ کا ظہور بھی خلافت ثانیہ کی حقانیت کا ایک چمکتا نشان تھا.وجہ یہ کہ اس کے ظہور سے ساڑھے چھ سال قبل حضرت مصلح موعود کو بذریعہ رویا اس کی قبل از وقت خبر دے دی گئی تھی اور ۲۷ جون ۱۹۵۰ء کو حضور نے احباب جماعت کے سامنے حسب ذیل الفاظ میں اسے پوری شرح وبسط سے بیان بھی فرما دیا تھا کہ:.میں نے دیکھا کہ ایک اشتہار ہے جو کسی شخص نے لکھا ہے جو شخص مجھے خواب کے بعد یا درہا ہے مگر میں اس کا نام نہیں لینا چاہتا صرف اتنا بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ اشتہار ہمارے کسی رشتہ دار نے دیا ہے.مگر اس کی رشتہ داری میری بیویوں کے ذریعہ سے ہے.اس اشتہار میں میرے بعض بچوں کے متعلق تعریفی الفاظ ہیں.اور ان کی

Page 371

۳۵۰ بڑائی کا اس میں ذکر کیا گیا ہے میں رویا میں سمجھتا ہوں کہ یہ محض ایک چالا کی ہے.در حقیقت اس کی غرض جماعت میں فتنہ پیدا کرنا ہے اگر کوئی غیر کی تعریف کرے تو مخاطب سمجھتا ہے کہ جماعت میں فتنہ پیدا کیا جارہا ہے اور اس میں اس کو روکنے کی کوشش کروں گا.لیکن اگر میرے بعض بچوں کا نام لے کر ان کی تعریف کی جائے تو تعریف کرنے والا یہ سمجھتا کہ اس طرح میری توجہ اس کے فتنہ کی طرف نہیں پھرے گی اور میں یہ کہوں گا کہ اس میں تو میرے بیٹوں کی تعریف کی گئی ہے اس میں فتنہ کی کون سی بات ہے اسی نقطہ نگاہ سے اس نے اشتہار میں میرے بعض بیٹوں کی تعریف کی ہے لیکن رویا میں میں کہتا ہوں کہ میں اس بات کو پسند نہیں کرتا.چاہے تم کتنے ہی چکر دے کر بات کرو.ظاہر ہے کہ تم جماعت میں اس سے فتنہ پیدا کرنا چاہتے ہو اور تمہاری غرض یہ ہے کہ میں بھی دنیا داروں کی طرح اپنے بیٹوں کی تعریف سن کر خوش ہو جاؤں گا اور اصل بات کی طرف میری توجہ نہیں پھرے گی.پس رویا میں میں نے اس اشتہار پر اظہار نفرت کیا اور میں نے کہا کہ میں اس قسم کی باتوں کو پسند نہیں کرتا.مجھے وہ بیٹے بھی معلوم ہیں جن کا نام لے کر اس نے تعریف کی ہے اور مجھے لکھنے والا بھی معلوم ہے.لیکن میں کسی کا نام نہیں لیتا.تاریخ احمدیت جلد ۱۹ص۵۳- از مولانا دوست محمد شاہد صاحب) یہ ایک نہایت پر اسرار اور حقیقت افروز خواب تھی جس کے لفظ لفظ پر ۱۹۵۶ء کے واقعات نے مہر تصدیق ثبت کر دی.حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے بیٹے مرزا ناصر احمد صاحب کو آئندہ خلیفہ بنانے کے الزام کا رد کرتے ہوئے فرمایا:.مجھ پر یہ بہتان لگایا گیا ہے کہ گویا میں اپنے بعد اپنے کسی بیٹے کوخلیفہ بنانا چاہتا

Page 372

ہوں.یہ بالکل غلط ہے.اگر میرا کوئی بیٹا ایسا خیال بھی دل میں لائے گا تو اسی وقت احمدیت سے نکل جائے گا.بلکہ میں جماعت سے کہتا ہوں کہ وہ دعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ میری اولا دکو اس قسم کے وسوسوں سے پاک رکھے ایسا نہ ہو کہ اس پروپیگنڈا کی وجہ سے میرے کسی کمزور بچے کے دل میں خلافت کا خیال پیدا ہو جائے.حضرت خلیفہ اسیح اول تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے غلام تھے.میں سمجھتا ہوں کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو آقا تھے اگر ان کی اولاد میں بھی کسی وقت یہ خیال پیدا ہو کہ وہ خلافت کو حاصل کریں تو وہ بھی تباہ ہو جائے گی.کیونکہ یہ چیز خدا تعالیٰ نے اپنے قبضہ میں رکھی ہوئی ہے اور جو خدا تعالیٰ کے مال کو اپنے قبضہ میں لینا چاہتا ہے.وہ چاہے کسی نبی کی اولا د ہو یا کسی خلیفہ کی ، وہ تباہ و برباد ہوجائے گی کیونکہ خدا تعالیٰ کے گھر میں چوری نہیں ہوسکتی.چوری ادنیٰ لوگوں کے گھروں میں ہوتی ہے اور قرآن کریم کہتا ہے:.وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمُ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلِفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهم ص (سورة النور: (۵۶) کہ مومنوں سے خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں اسی طرح خلیفہ بنائے گا جیسے اس نے اس سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا.گو یا خلافت خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے اور اس نے خود دینی ہے.جو اسے لینا چاہتا ہے.چاہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیٹا ہو یا حضرت خلیفتہ اسیح الاول کا وہ یقیناً سزا پائے گا.پس یہ مت سمجھو کہ یہ فتنہ جماعت کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے.لیکن پھر بھی تمہارا یہ فرض ہے کہ تم اس کا مقابلہ کرو اور سلسلہ احمدیہ کو اس سے بچاؤ“.تاریخ احمدیت جلد ۱۹اص ۱۴۶، ۱۴۷ از مولانا دوست محمد شاہد صاحب)

Page 373

۳۵۲ حضرت صاحب کا یہ خطاب بعد میں خلافت حقہ اسلامیہ کے عنوان سے شائع کر دیا گیا تھا.یوم خلافت منانے کا پس منظر ۱۹۵۶ء والے فتنہ خلافت کے پیش نظر مورخه ۲۱/اکتوبر ۱۹۵۶ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے ہدایت فرمائی کہ جماعت احمدیہ کو نظام خلافت کی اہمیت اور برکات تازہ رکھنے کے لئے ہمیشہ ” یوم خلافت“ منانے کی تحریک فرمائی.چنانچہ حضور نے مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے اجتماع کے موقع پر ارشاد فرمایا کہ:.خلافت کی برکات کو یا درکھیں اور کسی چیز کو یا در کھنے کے لئے پرانی قوموں کا یہ دستور ہے کہ وہ سال میں اس کے لئے خاص طور پر ایک دن مناتی ہیں.مثلاً شیعوں کو دیکھ لو کہ وہ سال میں ایک دفعہ تعزیہ نکال لیتے ہیں تا قوم کو شہادت حسین کا واقعہ یاد رہے.اسی طرح میں بھی خدام کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ سال میں ایک دن خلافت ڈے کے طور پر منایا کریں.اس میں وہ خلافت کے قیام پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور پرانی تاریخ کو دہرایا کریں.پرانے اخبارات کا ملنا تو مشکل ہے لیکن الفضل نے پچھلے دنوں ساری تاریخ کو از سرنو بیان کر دیا ہے.اس میں وہ گالیاں بھی آگئی ہیں.جو پیغامی لوگ حضرت خلیفہ اول کو دیا کرتے تھے.اور خلافت کی تائید میں حضرت خلیفتہ امسیح الاول نے جو دعوے کئے ہیں وہ بھی نقل کر دیئے گئے ہیں.تم اس موقعہ پر اخبارات سے یہ حوالے پڑھ کر سناؤ اگر سال میں ایک دفعہ خلافت ڈے منالیا جایا کرے تو ہر سال چھوٹی عمر کے بچوں کو پرانے واقعات یاد ہو جایا کریں گے.پھر تم یہ جلسے قیامت تک کرتے چلے جاؤ تا جماعت میں خلافت کا ادب اور اس کی اہمیت قائم

Page 374

۳۵۳ رہے.حضرت مسیح علیہ السلام کی خلافت ۱۹۰۰ سال سے برابر قائم ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو درجہ میں ان سے بڑے ہیں.خدا کرے ان کی خلافت دس ہزار سال تک قائم رہے.مگر یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ تم سال میں ایک دن اس غرض کے لئے خاص طور پر منانے کی کوشش کرو.میں مرکز کو بھی ہدایت کرتا ہوں کہ وہ بھی ہر سال سیرت النبی کے جلسوں کی طرح خلافت ڈے منایا کرے اور ہر سال یہ بتایا کرے کہ جلسہ میں ان مضامین پر تقاریر کی جائیں الفضل سے مضامین پڑھ کر نوجوانوں کو بتایا جائے کہ حضرت خلیفہ اُسیح الاول نے خلافت احمدیہ کی تائید میں کیا کچھ فرمایا ہے اور پیغامیوں نے اس کے رد میں کیا کچھ لکھا ہے.اسی طرح وہ رویا و کشوف بیان کئے جایا کریں جو وقت سے پہلے خدا تعالیٰ نے مجھے دکھائے اور جن کو پورا کر کے خدا تعالیٰ نے ثابت کر دیا کہ اس کی برکات اب بھی خلافت سے وابستہ ہیں.حضور کے اس ارشاد پر نظارت اصلاح وارشاد نے احباب جماعت کے مشورہ سے الفضل 9 نومبر ۱۹۵۶ء میں یہ اعلان کیا کہ ۲۷ مئی کو یوم خلافت مقرر کیا جاتا ہے.چنانچہ ۱۹۵۷ء سے دنیا بھر کی احمدی جماعتیں اس تاریخ کو نہایت جوش و خروش اور باقاعدگی سے یوم خلافت منارہی ہیں.ربوہ میں پہلا یوم خلافت تاریخ احمدیت جلد ۱۹ ص ۱۵۴، ۱۵۵) ۲۷ مئی ۱۹۵۷ء میں جماعت احمدیہ کی طرف سے دنیا بھر میں پورے جوش و خروش کے ساتھ ”یوم خلافت منایا گیا.مرکز احمدیت ربوہ میں اس روز بیت المبارک

Page 375

۳۵۴ میں مولانا ابوالعطاء صاحب پرنسپل جامعتہ المبشرین کی زیر صدارت ایک عظیم الشان جلسہ ہوا جو صبح کے بجے سے گیارہ بجے قبل دو پہر تک جاری رہا.فاضل مقررین نے اپنی تقاریر میں خلافت کے ہر پہلو کو قرآن مجید، احادیث نبوی، حضرت مسیح موعود کی تحریرات اور حضرت خلیفہ اول کی تصریحات کی روشنی میں نہایت خوبی سے واضح کیا اور بتایا کہ انوار نبوت کو جاری رکھنے کے لئے خلافت کو قائم رکھنا اور اس کے شایان شان اعمال بجالا نا نہایت ضروری ہے.مقررین نے حسب وصیت حضرت مسیح موعود خلافت احمدیہ کے قیام و استحکام اور اس کے بالمقابل منکرین خلافت کی ریشہ دوانیوں اور ان کے حسرت ناک انجام پر بھی روشنی ڈالی.نیز حضرت خلیفہ امسیح الاول نے جس عزیمت، اور جلالت شان کے ساتھ جماعت میں خلافت کے نظام کی بنیاد رکھی اس کو بھی واضح کیا اور پھر سیدنا حضرت امصلح الموعود کی خلافت کے دور میں نظام خلافت کے طفیل جو عظیم الشان برکات نازل ہوئیں اور اطراف و جوانب عالم میں دین کو تمکنت نصیب ہوئے اور احمدیت کی سر بلندی کے سامان پیدا ہوئے اور جن میں حضور کے وجود باجود کی برکات سے روز بروز اضافہ ہورہا ہے.ان کو بھی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا.حاضرین نے نظام خلافت کی ضرورت واہمیت اور اس کی عظیم الشان برکات کے موضوعات پر علماء سلسلہ کی ایمان افروز تقاریر سننے کے بعد ایک نئے جوش اور نئے عزم کے ساتھ اپنے اس مقدس عہد کو دہرایا کہ وہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہچانے کے لئے خلافت حقہ کے آسمانی نظام کے ساتھ ہمیشہ وابستہ رہیں گے اور نسلاً بعد نسل اس نظام کو قیامت تک جاری رکھتے چلے جائیں گے تا تائید و نصرت الہی مرکزیت ، باہمی اتحاد و اخوت اور احمدیت کی سر بلندی کی شکل میں خلافت کی جن عظیم الشان برکات کا انہوں نے قدم قدم پر مشاہدہ کیا ہے

Page 376

۳۵۵ ان کا سلسلہ ہمیشہ ہمیش جاری رہے.صاحب صدر کی اقتداء میں شمع خلافت کے پروانوں نے عہد کے الفاظ دہرا کر اپنے عزم کا اظہار کیا.خلافت کے ساتھ والہانہ محبت و عقیدت کا یہ منظر دیکھنے کے لائق تھا.بیت مبارک ہزاروں قلوب کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی پُر جوش آوازوں سے گونج رہی تھی.(الفضل ۲۹ مئی ۱۹۵۷ء) خلافت احمد یہ دائمی ہے آنحضرت ﷺ کی اپنے بعد خلافت علی منہاج نبوت قائم ہونے کی بشارت پر مبنی حدیث جو حضرت حذیفہ بن یمان سے مروی ہے اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے اپنے بعد خلافت علی منہاج نبوت کے قائم ہونے کی خوشخبری دی.پھر خلافت کے ملوکیت میں تبدیل ہو جانے اور پھر ظالم بادشاہت کے قیام کی خبر دینے کے بعد آخری زمانہ میں پھر ایک دفعہ خلافت علی منہاج نبوت کی نوید سنائی.اس حدیث کے آخری الفاظ یہ ہیں کہ ”ثُمَّ سَكَتَ ، یعنی آخری زمانہ میں خلافت علی منہاج نبوت کے قیام کی نوید سنانے کے بعد حضور خاموش ہو گئے.جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دوسری مرتبہ جب خلافت علی منہاج نبوت قائم ہوئی تھی تو اس نے قیامت تک قائم رہنا تھا.اور اس میں کوئی رخنہ یا تعطل پیدا نہیں ہونا تھا.پس یہ حدیث خلافت احمدیہ کے دائی ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے.اس وقت خلافت احمدیہ کے علاوہ دنیا میں کہیں بھی کوئی خلافت نہیں.صرف خلافت احمد یہ ہی ہے جو نبوت کے طریق پر ایک نبی کے بعد قائم ہوئی ہے اور تقریباً ایک سو سال سے جاری وساری ہے.اور آنحضرت ﷺ کی مذکورہ بالا حدیث کے مطابق انشاء اللہ قیامت تک جاری رہے گی.چنانچہ خلافت احمدیہ کے

Page 377

۳۵۶ دائمی ہونے کے بارہ میں خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.سواے عزیز و! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے.تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا دے.سواب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے.اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے.کیونکہ وہ دائمی ہے.جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا“.( الوصیت.روحانی خزائن جلد ۲۰ ص ۳۰۶،۳۰۵) اسی طرح حضور اپنی کتاب شہادۃ القرآن میں فرماتے ہیں:.ان آیات کو اگر کوئی شخص تامل اور غور کی نظر سے دیکھے تو میں کیونکر کہوں کہ وہ اس بات کو سمجھ نہ جائے کہ خدا تعالیٰ اس امت کے لئے خلافت دائمی کا صاف وعدہ فرماتا ہے.اگر خلافت دائمی نہیں تھی تو شریعت موسوی کے خلیفوں سے تشبیہہ دینا کیا معنی رکھتا تھا.(شہادۃ القرآن ص ۵۷ روحانی خزائن جلد ۶ ) حضرت مصلح موعودؓ نے ”الوصیت“ کے اس حوالہ کی روشنی میں قدرت ثانیہ یعنی خلافت احمدیہ کے دائی ہونے کی نسبت مزید وضاحت یہ فرمائی:.جیسے موسی کے بعد ان کی خلافت عارضی رہی لیکن حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد ان کی خلافت کسی نہ کسی شکل میں ہزاروں سال تک قائم رہی.اسی طرح گورسول کریم ہے کے بعد خلافت محمدیہ تو اتر کے رنگ میں عارضی رہی لیکن مسیح محمدی کی خلافت مسیح موسوی کی طرح ایک غیر متعین عرصہ تک چلتی چلی جائے گی.(الفضل ۳ را پریل ۱۹۵۲ء)

Page 378

۳۵۷ نیز بتایا کہ:.یہ امر ظاہر ہے کہ سلسلہ احمدیہ میں خلافت ایک بہت لمبے عرصہ تک چلے گی جس کا قیاس بھی اس وقت تک نہیں کیا جاسکتا...کیونکہ جو کچھ اسلام کے قرون اولیٰ میں ہوا وہ ان حالات سے مخصوص تھا وہ ہر زمانہ کے لئے قاعدہ نہیں“.(الفضل ۳ را پریل ۱۹۵۲ء ص ۳ مضمون حضرت مصلح موعودؓ ) خلافت کے دائمی ہونے کے متعلق حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں:.خلافت ہمیشہ قائم رہے گی.آدم سے لے کر آج تک خلافت میں وقفہ نہیں ہوا.کئی روحانی اور جسمانی خلافتیں ہوئی ہیں اگر روحانی نہ رہی تو جسمانی ہوگئی.اور جسمانی نہ رہی تو روحانی رہی ہے.پس جو کئی اس ہدایت کی پیروی کرے گا اس کو کوئی فکر نہیں اور جو لوگ انکار کریں گے وہ آگ میں ڈالے جائیں گے.رسول کریم ہے آدم تھے ان کا مقابلہ کیا گیا اور بعض صحابہ سے غلطیاں ہوئیں لیکن پھر انہوں نے غلطیوں کی اصلاح کرلی.غلط کہتے ہیں وہ جو کہتے ہیں کہ ماموروں اور ان کے خلیفوں کا انکار کر کے بھی ہم سیکھ سکتے ہیں.ہر ایک ہم میں سے آدم ہے جن نہیں.خدا نے سب پر آدم کا لفظ بولا ہے اور ہر ایک سے اس کا الگ الگ معاملہ ہے.ایک باپ کا بیٹا خلیفہ ہوتا پھر بڑی قوم کا سردار خلیفہ ہوتا ہے.پھر غیر مامور خلیفے اور پھر انبیاء کے خلیفے ہوتے ہیں ان کے الگ رہتے ہوتے ہیں.اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو.مبارک ہے وہ انسان جو اپنی غلطیاں اپنے اوپر لگائے نہ کہ خدا پر.خدا سے اپنا تعلق مضبوط کرو اور ملائکہ کی طرح فرمانبرداری اختیا کرو.( خطبات محمود جلد ۴ ص ۷۹) سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الرابع نے منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد اپنے پہلے خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۱ جون ۱۹۸۲ء میں فرمایا:.

Page 379

۳۵۸ پس کامل بھروسہ اور کامل تو کل تھا اللہ کی ذات پر کہ وہ خلافت احمدیہ کو بھی ضائع نہیں ہونے دے گا.ہمیشہ قائم و دائم رکھے گا.زندہ اور تازہ اور جوان اور ہمیشہ مہکنے والی عطر کی خوشبو سے معطر رکھتے ہوئے اس شجرہ طیبہ کی صورت میں اس کو ہمیشہ زندہ اور قائم رکھے گا.جس کے متعلق وعدہ ہے اللہ تعالی کا...کہ ایسا شجرہ طیبہ ہے جس کی جڑیں زمین میں گہری پیوست ہیں اور کوئی دنیا کی طاقت اسے اکھاڑ کر پھینک نہیں سکتی.یہ شجرہ خبیثہ نہیں ہے کہ جس کے دل میں آئے وہ اسے اٹھا کر، اسے اکھاڑ کے ایک جگہ سے دوسری جگہ پھینک دے.کوئی آندھی، کوئی ہوا اس ( شجرہ طیبہ ) کو اپنے مقام سے ٹلا نہیں سکے گی اور شاخیں آسمان سے اپنے رب سے باتیں کر رہی ہیں اور ایسا درخت نو بہار اور سدا بہار ہے.ایسا عجیب ہے یہ درخت کہ ہمیشہ نو بہار رہتا ہے کبھی خزاں کا منہ نہیں دیکھتا.(الفضل ۲۲ جون ۱۹۸۲ء) ایک غلط فہمی کا ازالہ جماعت احمدیہ کے ایک اجل عالم و فاضل فرزند حضرت مسیح موعود حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے کا ایک مضمون بعنوان ”اسلامی خلافت کا نظریہ“ کے عنوان سے مورخہ ۲۵ دسمبر ۱۹۵۱ء کو روزنامه الفضل ص ۲ تا ۶ میں شائع ہوا.جس میں آپ نے اس سوال کہ کیا خلافت کا نظام دائمی ہے؟ کا جو جواب دیا ہے وہ جماعت احمدیہ کے عقیدہ کے برخلاف نظر آتا ہے.حضرت میاں صاحب کے اس مضمون سے یہ تاثر ملتا ہے کہ خلافت احمدیہ پر بھی ایک وقت ایسا آئے گا کہ خلافت احمد یہ بھی ملوکیت میں تبدیل ہو جائے گی.چنانچہ آپ فرماتے ہیں:.سوال کرنے والے لوگ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا خلافت کا نظام دائی ہے؟ یعنی کیا

Page 380

۳۵۹ ایک نبی اور مامور کی وفات کے بعد یہ ضروری ہے کہ اس کی خلافت کا سلسلہ ہمیشہ قائم رہے؟ اگر یہ سلسلہ دائمی ہے تو اسلام کا جمہوریت کا نظام تو گویا ختم ہو گیا.اس کے جواب میں اچھی طرح یا درکھنا چاہئے کہ خلافت کا حکم دائمی ہے.یعنی جب بھی کوئی نبی مبعوث ہو گا اس کے بعد لازماً خلافت آئے گی مگر خلافت کا سلسلہ دائی نہیں ہے.یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ ایک نبی کے بعد اس کے خلفاء کا سلسلہ ہمیشہ قائم رہے بلکہ خلفاء کے سلسلہ کا زمانہ حالات اور ضرورت پر موقوف ہے.یعنی چونکہ خلافت نبوت کا تمہ ہے اس لئے جب تک خدا تعالیٰ کسی نبی کے کام کی تکمیل اور اس کے بوئے بیج کی حفاظت کے لئے خلافت کا سلسلہ ضروری خیال فرماتا ہے یہ سلسلہ قائم رہتا ہے اور اس کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو جاتا ہے اور پھر خلفاء کی جگہ ملوکیت یا بالفاظ دیگر جماعت اور قوم کا دور دورہ شروع ہو جاتا ہے.چنانچہ ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم اپنے خلفاء کے متعلق فرماتے ہیں.الخلافة ثلاثون عاما ثم يكون بعد ذالک الملک (مسند احمد ) یعنی میرے بعد خلفاء کا سلسلہ میں سال رہے گا اور اس کے بعد ملوکیت کا رنگ قائم ہو جائے گا.اور اصولی رنگ میں فرماتے ہیں ما كانت نبوة قط الا تبعتها خلافة وما من خلافة الا تبعتها ملك “ (ابن عساکر ) یعنی کوئی نبوت ایسی نہیں گزری جس کے بعد خلافت نہ آئی ہو اور کوئی خلافت ایسی نہیں ہوئی جس کے بعد حکومت کا رنگ نہ قائم ہوا ہو.ان احادیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خلافت کا زمانہ میں سال قرار دیا ہے اور تاریخ سے ثابت ہے کہ یہ زمانہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت سے لے کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت تک پورا ہو جاتا ہے جس کے بعد ملوکیت کا دور دورہ شروع ہو گیا اور اوپر والی احادیث سے یہ بات بھی

Page 381

ثابت ہے کہ یہی صورت ہر نبی کے زمانہ میں ہوتی ہے کہ پہلے نبوت قائم ہوتی ہے اور اس کے بعد خلافت آتی ہے اور اس کے بعد ملوکیت یعنی بادشاہت اور حکومت کا رنگ شروع ہو جاتا ہے.اس جگہ سوال ہو سکتا ہے کہ کیا احمدیت میں بھی یہ صورت رونما ہوگی.سو جب احمدیت کا نظام اسلام کے نظام کے فرع اور اسی کا حصہ ہے تو اس میں کیا شبہ ہے کہ وہ بھی اس الہبی تقدیر کے تابع ہے جو اسلام کے متعلق عرش الوہیت سے جاری ہو چکی ہے.لیکن چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت جمالی ہے اور جمال چونکہ جلال کے مقابلہ پر زیادہ وقت لے کر اپنے کمال کو پہنچتا ہے.اس لئے یہ امید کی جاتی ہے کہ احمدیت میں خلافت کا زمانہ نسبتاً زیادہ دیر تک چلے گا.لیکن بہر حال یہ اٹل نقد بر ظاہر ہو کر رہے گی کہ کسی وقت احمدیت کی خلافت بھی ملوکیت کو جگہ دے کر پیچھے ہٹ جائے گی.بلکہ یہ خاکسار خدا کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات اور بعض دوسرے مکاشفات کے ذریعہ اس بات کا علم رکھتا ہے کہ احمدیت میں ملوکیت کا دور کب شروع ہوگا.لیکن ایسی باتوں کا برملا اظہار قبل از وقت مناسب نہیں ہوتا.اور آئندہ کی تقدیروں پر اخفا کا پردہ رہنا ہی سنت الہی ہے.ولا عـلـم لـنـا الا ما علمنا الله العليم ولاحول ولاقوة الا بالله العظيم.(روز نامه الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۵۱ء) پس حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے کے اس مضمون سے یہ دھو کہ لگ سکتا ہے کہ خلافت احمدیہ ( جس کے بارہ میں ہمارا عقیدہ ہے کہ دائمی ہے ) پر بھی ایک وقت ایسا آسکتا ہے کہ یہ خلافت بھی ملوکیت کا رنگ اختیار کر جائے.لہذا اس غلط فہمی کے ازالہ کے لئے ذیل میں حضرت مصلح موعود کا ایک مضمون نقل کیا جاتا ہے جو

Page 382

۳۶۱ اسی مضمون کے ازالہ کی خاطر آپ نے تحریر فرمایا اور روز نامہ الفضل ربوہ میں مورخہ ۳/اپریل ۱۹۵۲ء کو شائع ہوا.جس سے اس مضمون سے پیدا ہونے والی غلط فہمی کا ازالہ کر دیا گیا.یہ مضمون درج ذیل عنوان سے شائع ہوا.خلافت عارضی ہے یا مستقل؟ عزیزم مرزا منصور احمد نے میری توجہ ایک مضمون کی طرف پھیری ہے جو مرزا بشیر احمد صاحب نے خلافت کے متعلق شائع کیا ہے اور لکھا ہے کہ غالبا اس مضمون میں ایک پہلو کی طرف پوری توجہ نہیں کی گئی.جس میں مرزا بشیر احمد صاحب نے یہ تحریر کیا ہے کہ خلافت کا دور ایک حدیث کے مطابق عارضی اور وقتی ہے.میں نے اس خط سے پہلے یہ مضمون نہیں پڑھا تھا.اس خط کی بناء پر میں نے مضمون کا وہ حصہ نکال کر سنا تو میں نے بھی سمجھا کہ اس میں صحیح حقیقت خلافت کے بارہ میں پیش نہیں کی گئی.مرزا بشیر احمد صاحب نے جس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ خلافت کے بعد حکومت ہوتی ہے.اس حدیث میں قانون نہیں بیان کیا گیا.بلکہ رسول کریم ہے کے بعد کے حالات کے متعلق پیشگوئی کی گئی اور پیشگوئی صرف ایک وقت کے متعلق ہوتی ہے.سب اوقات کے متعلق نہیں ہوتی.یہ امر کہ رسول کریم ﷺ کے بعد خلافت نے ہونا تھا اور خلافت کے بعد حکومت مستبدہ نے ہونا تھا اور ایسا ہی ہو گیا.اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ ہر مامور کے بعد ایسا ہی ہوا کرے گا.قرآن کریم میں جہاں خلافت کا ذکر ہے، وہاں یہ بتایا گیا ہے کہ خلافت ایک انعام ہے.پس جب تک کوئی قوم اس انعام کی مستحق رہتی ہے.وہ انعام اسے ملتا رہے گا.پس جہاں تک مسئلے اور قانون کا سوال ہے.وہ صرف یہ ہے کہ ہر نبی کے بعد خلافت ہوتی ہے اور وہ خلافت

Page 383

۳۶۲ اس وقت تک چلتی چلی جاتی ہے.جب تک کہ قوم خود ہی اپنے آپ کو خلافت کے انعام سے محروم نہ کر دے لیکن اس اصل سے ہرگز یہ بات نہیں نکلتی کہ خلافت کا مٹ جانا لازمی ہے.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خلافت اب تک چلی آ رہی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم کہتے ہیں کہ پوپ صحیح معنوں میں حضرت مسیح کا خلیفہ نہیں.لیکن ساتھ ہی ہم یہ بھی تو مانتے ہیں کہ امت عیسوی بھی صحیح معنوں میں مسیح کی امت نہیں.پس جیسے کو تیسا تو ملا ہے مگر ملا ضرور ہے.بلکہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے موسیٰ کے بعد ان کی خلافت عارضی رہی.لیکن حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد ان کی خلافت کسی نہ کسی شکل میں ہزاروں سال تک قائم رہی.اسی طرح گورسول کریم ہے کے بعد خلافت محمد یہ تو اتر کے رنگ میں عارضی رہی.لیکن مسیح محمدی کی خلافت مسیح موسوی کی طرح ایک غیر متعین عرصہ تک چلتی چلی جائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مسئلہ پر بار بار زور دیا ہے کہ مسیح محمدی کو مسیح موسوی کے ساتھ ان تمام امور میں مشابہت حاصل ہے.جو امور کہ تکمیل اور خوبی پر دلالت کرتے ہیں سوائے ان امور کے کہ جن سے بعض ابتلا ملے ہوتے ہیں.ان میں علاقہ محمدیت علاقہ موسویت پر غالب آجاتا ہے.اور نیک تبدیلی پیدا کر دیتا ہے.جیسا کہ مسیح اول صلیب پر لٹکایا گیا.لیکن مسیح ثانی صلیب پر نہیں لڑکا یا گیا.کیونکہ مسیح اول کے پیچھے موسوی طاقت تھی اور مسیح ثانی کے پیچھے محمدی طاقت تھی.خلافت چونکہ ایک انعام ہے ابتلاء نہیں اس لئے اس سے بہتر چیز تو احمدیت میں آسکتی ہے جو کہ صیح اول کو لی لیکن وہ ان نعمتوں سے محروم نہیں رہ سکتی جو کہ مسیح اول کی امت کو ملیں.کیونکہ مسیح اوان کی پشت پر موسوی برکات تھیں اور مسیح ثانی کی پشت پر محمدی برکات ہیں.پس جہاں میرے نزدیک یہ بحث نہ صرف یہ کہ بیکار ہے بلکہ خطرناک ہے کہ ہم

Page 384

۳۶۳ خلافت کے عرصہ کے متعلق بحثیں شروع کر دیں.وہاں یہ امر ظاہر ہے کہ سلسلہ احمدیہ میں خلافت ایک بہت لمبے عرصہ تک چلے گی.جس کا قیاس بھی اس وقت نہیں کیا جاسکتا اور اگر خدانخواستہ بیچ میں کوئی وقفہ پڑے بھی تو وہ حقیقی وقفہ نہیں ہوگا.بلکہ ایسا ہی وقفہ ہو گا جیسا دریا بعض دفعہ زمین کے نیچے گھس جاتے ہیں اور پھر باہر نکل آتے ہیں.کیونکہ جو کچھ اسلام کے قرون اولیٰ میں ہوا وہ ان حالات سے مخصوص تھا.وہ ہر زمانہ کے لئے قاعدہ نہیں تھا.

Page 385

۳۶۴

Page 386

صدسالہ خلافت احمدیہ کے شیریں ثمرات کا طائرانہ جائزہ حضرت بانی سلسلہ احمد یہ عظیم روحانی مشن کی کامیابی کے متعلق الہی وعدوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.” خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلاء آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدوں کو پورا کرے گا.سواے سننے والو! ان باتوں کو یاد رکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا“.روحانی خزائن جلد ۲۰ ص ۴۱۰،۴۰۹ تجلیات الہیہ ص ۱۸۰۱۷) جماعت احمدیہ کے قیام پر ایک صدی سے کچھ زائد عرصہ گزر چکا ہے.اس عرصہ

Page 387

۳۶۶ میں جماعت نے محض اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت سے انتہائی نامساعد حالات اور ہر قسم کی مخالفت کے باوجود دنیا کے ہر خطے میں حیران کن ترقی کی ہے.جماعت احمدیہ کی اس عظیم ترقی کے متعلق ایک مختصر سا جائزہ پیش کیا جاتا ہے.ہے.خلافت احمدیہ کی پہلی صدی میں خدا تعالیٰ کے فضلوں کا مختصر جائزہ حسب ذیل ا.خلافت احمدیہ کی برکت سے جماعت احمد یہ دنیا کے۱۹۳ ممالک میں با قاعدہ طور پر قائم ہو چکی ہے.۱۹۸۴-۲ء کے بدنام زمانہ آرڈینینس کے بعد اب تک ۱۰۲ نئے ممالک میں احمدیت نفوذ کر چکی ہے..ہجرت خلافت رابعہ کے بعد ۲۵ سالوں میں بیعت کرنے والوں کی تعداد 4 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے.واقفین نو بچوں کی تعداد جولائی ۲۰۰۸ ء تک ۳۷۱۳۶ ہو چکی ہے.جن میں سے ۲۳۳۶۵ لڑکے ہیں اور ا۷ ۳۷ الڑکیاں ہیں جو ۱:۲ کی نسبت بنتی ہے.۱۹۹۴-۵ء میں ایم ٹی اے جاری ہوا اور ۲۰۰۴ ء میں ایم ٹی اے ٹو چینل جاری ہوا.۶.بورکینافاسو میں ایک احمد یہ ریڈ یوٹیشن کام کر رہا ہے.ے.خلافت کی برکت سے جماعت احمدیہ کو دنیا کی ۶۸ زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع کرنے کی توفیق ملی ہے.۸ از بانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ طباعت کے مراحل میں ہے اور ۲ از بانوں میں ترجمہ کا کام ہو رہا ہے.۸ - قرآن کریم کی منتخب آیات منتخب احادیث اور حضرت بانی سلسلہ کی منتخب تحریرات

Page 388

کا۱۰۰ سے زائد زبانوں میں ترجمہ شائع ہو چکا ہے.۹.نصرت جہاں سکیم کے تحت افریقہ کے ۱۲ ممالک میں ۴۱ ہسپتال و کلینکس دیکھی انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں.۱۰.اسی طرح نصرت جہاں سکیم کے تحت افریقہ کے ممالک میں ۵۱۰ ہائرسیکنڈری، جونیئر سیکنڈری اور پرائمری سکولز کام کر رہے ہیں.ا.جماعت احمدیہ کی طرف سے مختلف ممالک کی ۷ ازبانوں میں ۷۹ اخبارات و رسائل شائع ہوتے ہیں.۱۲.اللہ تعالیٰ کے فضل سے نظام وصیت میں شاملین کی کل تعداد ۸۸۵۰۰ ہوگئی ہے.وہ ممالک جن میں خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ قائم ہے ان میں سے کچھ ممالک کے نام یہ ہیں: براعظم افریقہ:.غانا، نائیجیریا، سیرالیون، گیمبیا، آئیوری کوسٹ، لائبیریا، بینن، کینیا، تنزاینہ، یوگنڈا، زیمبیا، زمبابوے، زائر، ماریشس، ساؤتھ افریقہ، سینیگال، بورکینا فاسو، ملاوی، کموروز ، مالی، گنی بساؤ ، موریطانیہ، ٹوگو لینڈ، روانڈا، برونڈی، انگولا، تیونس، نائیجر ، گنی، مڈغاسکر، صومالیہ، کیمرون، مراکش، الجزائر، سوڈان،ایتھوپیا، کانگو،موزمبیق، گیون، براعظم امریکہ:.امریکہ، کینیڈا، گیا نا، ٹرینیڈاڈ، سرینام، برازیل، ڈومینیکن آف ریپبلک ، گوئٹے مالا ، ارجنٹائن یورپ : پیجیئم ، ڈنمارک، فرانس، جرمنی، ہالینڈ ، ناروے، سوئٹزر لینڈ ، سویڈن، سپین، برطانیہ، آئر لینڈ، یوگوسلاویہ، آسٹریا، پولینڈ، پرتگال، یونان، اٹلی ، روس، فن

Page 389

۳۶۸ لینڈ لکسمبرگ.ایشیا:.پاکستان، انڈونیشیا، ملائشیا، بھارت، بنگلہ دیش، پاپوا نیوگنی ، سنگاپور، تھائی لینڈ، جاپان، برما، سری لنکا، نیپال، بھوٹان، فلپائن، ایران ، ترکی ، افغانستان، چین ، جنوبی کوریا، مالدیپ، برونائی ، ہانگ کانگ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک.جزائر بحر الکامل بشمول براعظم آسٹریلیا:.آسٹریلیا، نیوزی لینڈ ، چھی ویسٹ سمووا، طوالو، ٹونگا کیری باس نور و سالمن جزائر ، وانوتلی.تراجم قرآن کریم حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی بعثت کا اصل مقصد ہی قرآن کریم کی تعلیم کی اشاعت تھا.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم سے آپ کو عشق کی حد تک دلچسپی اور لگاؤ تھا.چنانچہ آپ نے فرمایا:.دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآن کے گرد گھوموں کعبہ میرا یہی ہے جماعت احمد یہ عالمگیر خدا کے فضل سے دنیا کی ساٹھ زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع کرنے کی سعادت پاچکی ہے.مزید ۱۸ زبانوں میں تراجم قرآن زیر طبع ہیں.اور ۲ از بانوں میں قرآن کریم کے ترجمہ کا کام جاری ہے اور پروگرام یہ ہے کہ سوزبانوں میں قرآن کریم کے مکمل تراجم تفسیری نوٹس کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کر دئیے جائیں.قرآن کریم کے ۶۸ زبانوں میں مکمل ترجمہ کے علاوہ ایک سو سے زائد زبانوں میں قرآن کریم کی منتخب آیات کا ترجمہ شائع ہو چکا ہے.

Page 390

۳۶۹ جن زبانوں میں مکمل طور پر قرآن کریم کا ترجمہ شائع کیا جا چکا ہے.ان کی تفصیل حسب ذیل ہے.ا.انگریزی (English) ۲ فرانسیسی (French).۳.جرمن (German).۴.لوگنڈا (Luganda) - - ڈچ (Dutch)..گورمکھی ( Gurmukhi) - - - یوروبا (Yoruba).۸.ڈینش (Danish).۹.انڈونیشین (Indonesian).۱۰.سواحیلی (Swahili).۱۱.اسپرانٹو (Esperanto).۱۲.اٹالین (Italian).۱۳ فحسین (Fijian).۱۴.ہندی (Hindi) - ۱۵- رشین (Russian).۱۲.سپینش (Spanish).۱۷.سویڈش (Swedish) - ۱۸ - کورین (Korean).۱۹.کیکویو ( کینیا) (Kikuyu) - ۲۰.جینیز (Japanese).۲۱ پرتگیزی (Portuguese).۲۲.فانٹی (غانا) (Fanti) ۲۳.اور یا ( انڈیا ) (Oriya) -۲۴.آسامی (انڈیا) Assami - ۲۵ - طوالو Tuvalu) - ۲۶ - ٹرکش (Turkish) - ۲۷ - - ۲۷.گجراتی (انڈیا) Gujrati - پولش پولینڈ) (Polish) ۲۹- بلگیرین ۲۸ (Bulgarin).۳۰.ویتنامیز (Vietnamese).۳۱.چیک (Czech).۳۲.چائنیز (Chinese) ۳۳- سرائیکی (پاکستان) (Seraiki).۳۴.مالی ( ملیشیا) (Malay) - ۳۵ - پرشین (ایران) (Persian).۳۶.ہوسا ( نائیجیریا) (Husa) - ۳۷.بنگالی (Bengali).۳۸.سندھی (Sindhi).۳۹.البانین (Albanian) - ۴۰.مینڈے (سیرالیون) (Mande ).۴۱.ملایم (انڈیا) (Malayalam) ۴۲.تامل (انڈیا) (Tamil).۴۳.پنجابی (پاکستان) (Punjabi) ۴۴.گر یک (یونان) (Greek).-

Page 391

۴۵.نارویجین (Norwegian).۴۶.کروش (ایران.ترکی) (Kurdish) - ۴۷ - پشتو (پاکستان) (Pushto).۴۸.تلگو (انڈیا) (Telgo) ۴۹.مرہٹی (انڈیا) (Marathi ).۵۰.برمیز (انڈیا) (Burmese).زیر تکمیل تراجم کی تعداد ۱۸ ہے.تراجم قرآن کریم کے متعلق غیروں کے تاثرات رسالہ المنبر “ نے اپنی ۲مارچ ۱۹۵۶ء کی اشاعت میں لکھا:.غیر مسلم ممالک میں قرآنی تراجم اور اسلامی تبلیغ کا کام صرف اس اصول نفع رسانی کی وجہ سے قادیانیت کے بقاء اور وجود کا باعث ہی نہیں ہے.ایک عبرت انگیز واقعہ ہمارے سامنے وقوع پذیر ہوا.۱۹۵۴ء میں جب جسٹس منیر انکوائری کورٹ میں علم اور مسائل اسلامی کے دل بہلا رہے تھے اور تمام مسلم جماعتیں قادیانیوں کو غیر مسلم ثابت کرنے کی جدوجہد میں مصروف تھیں.قادیانی عین انہی دنوں اور بعض دوسری غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ قرآن کریم مکمل کر چکے تھے اور انہوں نے انڈونیشیا کے صدر حکومت کے علاوہ گورنر جنرل پاکستان اور جسٹس منیر کی خدمات میں یہ تراجم پیش کئے.گویا وہ بزبان حال و قال کہہ رہے تھے کہ ہم میں وہ غیر مسلم اور خارج از ملت اسلامیہ جماعت جو اس وقت جبکہ ہمیں آپ لوگ کا فرقرار دینے کے لئے پر تول رہے ہیں.ہم غیر مسلموں کے سامنے قرآن کریم ان کی مادری زبان میں پیش کر رہے ہیں.غور فرمائیے ان لوگوں کا تاثر کیا ہوگا اور قادیانیوں کا یہ کام ان کی زندگی اور ترقی 66 میں کس قدر ممد و معاون ہے.

Page 392

۳۷۱ اس شمارے میں مزید تحریر کرتے ہیں :.قادیانیت میں نفع رسانی کے جو جو ہر موجود ہیں.اولین اہمیت اس جد و جہد کو حاصل ہے.جو اسلام کے نام پر وہ غیر مسلم ممالک میں جاری رکھے ہوئے ہیں.یہ لوگ قرآن مجید کو غیر ملکی زبانوں میں پیش کرتے ہیں.تثلیث کو باطل ثابت کرتے ہیں.سید المرسلین کی سیرت طیبہ کو پیش کرتے ہیں.ان ممالک میں مساجد بناتے ہیں اور جہاں کہیں بھی ممکن ہو اسلام کو امن اور سلامتی کے مذہب کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں.( المنبر ۲ مارچ ۱۹۵۶ء بحوالہ اشاعت اسلام زمین کے کناروں تک ) جماعت احمدیہ کی یہ مساعی اور اس کے شیریں ثمرات حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی سچائی کا منہ بولتا ثبوت ہے.خدا تعالیٰ نے بالکل آغاز میں جو وعدے حضرت بانی سلسلہ کے ساتھ کئے تھے.آج خدا کے فضل سے وہ تمام وعدے حرف بحرف پورے ہوتے نظر آرہے ہیں.خدا تعالیٰ کی اس تائید و نصرت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت بانی سلسلہ اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں:.یہ سراسر فضل و احساس ہے کہ میں آیا پسند ورنہ درگاہ میں تیری کچھ کم نہ تھے خدمت گزار میں تو مرکز خاک ہوتا گر نہ ہوتا تیرا لطف پھر خدا جانے کہاں یہ پھینک دی جاتی غبار پر کرم اس قدر مجھ ہوئیں تیری عنایات و که تا روز قیامت ہو شمار جن کا مشکل ہے اک زمانہ تھا کہ میرا نام بھی مستور تھا قادیاں بھی تھی نہاں ایسی کہ گویا زیر بار

Page 393

کوئی بھی واقف نہ تھا مجھ سے نہ میرا معتقد لیکن اب دیکھو کہ چرچا کس قدر ہے ہر کنار اس زمانے میں خدا نے دی تھی شہرت کی خبر جو کہ اب پوری ہوئی بعد از مرور روزگار پھر ذرا سوچو کہ اب چرچا میرا کیسا ہوا کس طرح سرعت سے شہرت ہوگئی در ہر دیار اس قدر نصرت کہاں ہوتی ہے اک کذاب کی کیا تمہیں کچھ ڈر نہیں ہے کہ کرتے ہو بڑھ بڑھ کے وار کوئی کاذب جہاں میں لاؤ لوگو کچھ نظیر ہے میرے جیسی جس کی تائیدیں ہوئی ہوں بار بار ہر قدم پر میرے مولیٰ نے دیئے مجھ کو نشاں ہر عدد پر حجت حق کی پڑی ہے ذوالفقار آنکھ رکھتے ہو ذرا سوچو کہ یہ کیا راز ہے کس طرح ممکن کہ وہ قدوس ہو کاذب کا یار (از در مشین) دور خلافت اولی میں ترقیات کی چند جھلکیاں بیت المال کے مستقل صیغہ کا قیام.( جون ۱۹۰۸ء) قادیان میں پہلی پبلک لائبریری کی بنیاد.( جون ۱۹۰۸ء) واعظین سلسلہ کا با قاعدہ تقر ر ( جولائی ۱۹۰۸ء)

Page 394

مدرسہ احمدیہ کی بنیاد ( یکم مارچ ۱۹۰۹ء) حمد قادیان سے اخبار نور کا اجراء سکھوں میں دعوت الی اللہ کے لئے.(اکتوبر ۱۹۰۹ء) دین حق پر اعتراضات کے رد کی خاطر انجمن ارشاد کا قیام.( آخر ۱۹۰۹ء) قادیان سے اخبار الحق کا اجراء.( ۷ جنوری ۱۹۱۰ء) بیت الذکر نور کی بنیاد ( ۵ مارچ ۱۹۱۰ء) قادیان سے رسالہ احمدی کا اجراء ( جنوری ۱۹۱۱ء) انجمن انصار اللہ کا قیام حضرت سید نامحمود کے ذریعہ (فروری ۱۹۱۱ء) تعلیم الاسلام ہائی سکول کی بنیاد.(۲۵ جولائی ۱۹۱۲ء) حمدا رساله احمدی خاتون کا اجراء.( ستمبر ۱۹۱۲ء) حضرت سید نامحمود کی زیر ادارت اخبار الفضل جاری ہوا.( ۱۸ جون ۱۹۱۳ء ) حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب بغرض دعوت الی اللہ سفر انگلستان روانگی ۲۵ جولائی ۱۹۱۳ء واپسی ۲۹ مارچ ۱۹۱۶ء) حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کا سفر مصر و شام.روانگی ۲۶ جولائی ۱۹۱۳ ء وا پسی مئی ۱۹۱۹ء) دور خلافت ثانیہ میں ترقیات کی چند جھلکیاں ۱۲ را پریل ۱۹۱۴ء کو پہلی مجلس شوری کا انعقاد ہوا.دسمبر ۱۹۱۶ ء کو مینارہ مسیح کی تکمیل ہوئی.اپریل ۱۹۱۴ء میں احمد یہ مشن لندن کا قیام عمل میں آیا.

Page 395

۱۹۱۵ء میں سیلون اور ماریشس میں احمد یہ مشن کا قیام ہوا.1917ء میں پہلے پارہ انگریزی ترجمہ کی اشاعت ہوئی.یکم جنوری ۱۹۱۹ء کوصدرا مجمن احمدیہ میں مختلف نظارتوں کا قیام ہوا.۲ ۱۹۲۱۲ء میں امریکہ وافریقہ میں دعوت الی اللہ کا آغاز ہوا.۱۹۲۲ء میں مجلس مشاورت کا باقاعدہ آغاز ہوا.۲۵ دسمبر ۱۹۲۲ء میں لجنہ اماءاللہ کا قیام عمل میں آیا.۱۹۲۳ء مسجد اقصیٰ قادیان کی توسیع عمل میں آئی.۱۳ جولائی ۱۹۳۴ء کو پہلا سفر یورپ اختیار فرمایا اور۱۹/اکتوبر کو بیت الفضل لندن کی بنیاد رکھی.۱۹۲۵ء میں محکمہ قضاء کا اجراء ہوا.*۱۹۲۵ء میں انڈونیشیا مشن کا قیام عمل میں آیا.۱۹۲۶ء میں احمدی مستورات کے جلسہ سالانہ اور رسالہ مصباح کا اجراء ہوا.۲۲ مئی ۱۹۲۶ء کو قصر امامت کی بنیاد رکھی گئی.۲۰ مئی ۱۹۲۸ء کو جامعہ احمدیہ کا افتتاح ہوا.۱۹۲۸ء کو نصرت گرلز سکول کا اجراء ہوا.۷ اجون ۱۹۲۸ء کو سیرۃ النبی کے جلسوں کا آغاز ہوا.۲۵ جولائی ۱۹۳۱ء کو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر منتخب ہوئے.۱/۸ کتو بر ۱۹۳۲ء کو آپ کی تحریک پر پورے ہندوستان میں پہلا یوم دعوت منایا گیا.۲۳ نومبر ۱۹۳۴ء کو تحریک جدید کا اجراء ہوا.

Page 396

۳۷۵ ۳۱ جنوری ۱۹۳۸ء کو مجلس خدام الاحمدیہ ومجلس اطفال الاحمدیہ کا قیام ہوا.فروری ۱۹۳۹ء کو نا صرت الاحمدیہ کا قیام ہوا.۱۹۴۰ء ہجری شمسی تقویم کا آغاز ہوا.۲۶ جولائی ۱۹۴۰ء کو مجلس انصار اللہ کی بنیاد رکھی گئی.۱۹۴۳ء کو افتاء کمیٹی کا قیام عمل میں آیا.۲۸ جنوری ۱۹۴۴ء کو قادیان میں پہلی دفعہ صلح موعود ہونے کا دعوئی فرمایا.۱۹۴۴ء میں تعلیم الاسلام کالج قادیان کا احیاء ہوا.۱۹۴۵ء میں یورپ اور دیگر ممالک میں وسیع پیمانے پر تبلیغ اسلام کرنے کی غرض سے مبلغین اسلام کے ایک بڑے وفد کی روانگی ہوئی.۱۹۴۵ء میں فضل عمر ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا قیام عمل میں آیا.۱۹۴۶ء میں دنیا کی آٹھ مشہور زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کی تکمیل عمل میں آئی.م ۲۰ ستمبر ۱۹۴۸ء کو نئے مرکز ربوہ کا افتتاح فرمایا.9 ستمبر ۱۹۴۹ء کور بوہ میں حضرت مصلح موعود کی مستقل رہائش شروع ہوئی.۳۱ مئی ۱۹۵۰ء کو مندرجہ ذیل مرکزی عمارات کاربوہ میں افتتاح ہوا.قصر امامت، دفاتر صدرانجمن احمدیه، دفاتر تحریک جدید ، دفتر لجنہ اماءاللہ تعلیم الاسلام ہائی سکول.د ۱۴ جون ۱۹۵۱ء کو جامعہ نصرت کا افتتاح ہوا.۱۵ را پریل ۱۹۵۲ء مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے دفتر کا افتتاح فرمایا.۲۶ جون ۱۹۵۳ء کو تعلیم الاسلام کالج کا سنگ بنیا درکھا گیا.

Page 397

جلد ۱۹۵۵ء میں حضور نے دوسرا سفر یورپ اختیار فرمایا.۱۹۵۶ء میں فضل عمر ہسپتال ربوہ کا سنگ بنیا درکھا گیا.* ۱۹۵۷ء میں تفسیر صغیر کی اشاعت ہوئی.۲۸ دسمبر ۱۹۵۷ء کو تحریک ”وقف جدید کا اعلان کیا گیا.۱۹۵۹ء میں قرآن کریم کے جرمنی ترجمہ کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت ہوئی.دور خلافت ثالثہ میں ترقیات کی چند جھلکیاں ے دسمبر ۱۹۶۵ء.حضور نے تحریک فرمائی کہ کوئی احمد یہ رات کو بھوکا نہ سوئے اور امراء جماعت کو اس کا ذمہ دار قرار دیا.۲۰ دسمبر ۱۹۶۵ء.حضور نے خدام کو ماٹو دیا ” تیری عاجزانہ راہیں اس کو پسند آئیں.۲۱ دسمبر ۱۹۶۵ء.فضل عمر فاؤنڈیشن کی تحریک کا اعلان.جماعت سے ۲۵ لاکھ روپے کا مطالبہ.اسی جلسہ پر حضور نے وقف بعد ریٹار منٹ کی تحریک بھی فرمائی.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی پیشگوئی کے مطابق گیمبیا کے سرایف ایم سنگھاٹے نے اسی سال حضور سے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا کپڑا طلب کیا جو انہیں بھجوایا گیا.۴ فروری ۱۹۶۶ء.تحریک تعلیم القرآن کا اعلان فرمایا.۱۸ مارچ ۱۹۶۷ء.تحریک وقف عارضی کا اعلان.

Page 398

۲۲ اپریل ۱۹۶۶ء.تحریک جدید کے دفتر سوم کے اجراء کا اعلان حضور نے فرمایا کہ یہ دفتر یکم نومبر ۶۵ سے جاری شدہ سمجھا جائے گا تا کہ حضرت مصلح موعود کے دور کی طرف منسوب ہو.4 مئی ۱۹۶۶ء.ڈنمارک میں جماعت احمدیہ کی پہلی البیت“ کا سنگ بنیاد کو پین ہیگن میں صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے رکھا.خدا کا یہ گھر صرف احمدی مستورات کے چندہ سے تعمیر ہوا.ستمبر ۱۹۶۶ء.بدرسوم کے خلاف جہاد کا اعلان فرمایا.۷ اکتوبر ۱۹۶۶ء.وقف جدید دفتر اطفال کا قیام ۱۳ اکتوبر ۱۹۶۶ء.دفاتر صدرانجمن احمدیہ کے نئے بلاک کی بنیاد رکھی.۲۸ / اکتوبر ۱۹۶۶ء.البیت الاقصیٰ کا سنگ بنیا درکھا.جنوری ۱۹۶۷ء.اسلامی اصول کی فلاسفی کا انگریزی ترجمہ ایک لاکھ کی تعداد میں شائع ہوا.۶ را پریل ۱۹۶۷ء فضل عمر فاؤنڈیشن نے علمی تصانیف پر ۵ ہزار روپے کے انعامات دینے کا اعلان کیا.ال ودورہ یورپ ۸ تا ۱۰ جولائی ۱۹۶۷ء ( مغربی جرمنی.۱ تا ۴ جولائی سوئٹزر لینڈ - ۱۴ تا ۱۶ جولائی ہالینڈ.۱۶ تا ۲۰ جولائی مغربی جرمنی.۲۱ تا ۲۶ جولائی ڈنمارک.۲۱ جولا ئی بیت النصرت کوپن ہیگن (ڈنمارک) کا افتتاح.۲۸ جولائی وانڈ زور تھ ٹاؤن ہال لندن میں حضور کا خطاب بعنوان ”امن کا پیغام اور ایک انتباه ) ۱۹۶۷ء میں حضور نے اپنا یہ الہام بیان فرمایا ”میں تینوں ایناں دیاں گا کہ تو

Page 399

رج جاویں گا“.فروری ۱۹۶۸ء.کینیڈا میں باقاعدہ جماعت کا قیام ہوا.۱۴ را کتوبر ۱۹۶۸ء.ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے لئے امریکن فاؤنڈیشن کی طرف سے ایٹم کی پُر امن استعمال کے انعام کا اعلان.ی مئی ۱۹۶۹ء.سکنڈے نیویا کے مربی سلسلہ مکرم کمال یوسف صاحب کا دورہ آئس لینڈ جس سے وہاں پہلی دفعہ دین حق کی اشاعت ہوئی.☆ استمبر ۱۹۶۹ء.حضور نے احمد یہ ہال کراچی میں سورۃ بقرہ کی ابتدائی سترہ آیات زبانی یاد کرنے کی تحریک فرمائی.۱۸ جنوری ۱۹۷۰ ء.حضور نے خلافت لائبریری ربوہ کا سنگ بنیاد رکھا.۲۱ فروری ۱۹۷۰ء.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب عالمی عدالت انصاف کے صدر منتخب ہوئے.حملو حمد یکم اپریل تا ۸ جون ۱۹۷۰ء.حضور کا دورہ یورپ و مغربی افریقہ ( ۱/۵اپریل.سوئٹزر لینڈ.دوران قیام البیت الحمودز یورک کا افتتاح.9 اپریل.ނ مغربی جرمنی.۱۱ تا ۷ارا پریل نائیجیریا.صدر نائیجیریا یعقوبو گوون ملاقات اور ابادان یونیورسٹی سے خطاب.۲۶ اپریل.دورہ غانا.۲۰ /اپریل صدرغانا سے ملاقات.۲۱۶ را پریل.احمد یہ مشن ہاؤس کماسی کی دو منزلہ عمارت کا افتتاح - ۲۷ تا ۲۹ را پریل.آئیوری کوسٹ.۲۹ را پریل تا کم مئی لائبیریا.۱/۲۹۶۴اپریل.صدر لائبیر یا ٹب مین سے ملاقات.حکیم تا ہ مئی.گیمبیا.ہ مئی صدر گیمبیا داؤ دا جوارا سے ملاقات.اسی ملک میں آپ پر نصرت جہاں سکیم القاء ہوئی.* ۵ تا ۴ مئی.سیرالیون.۶ مئی وزیر اعظم

Page 400

سیرالیون سے ملاقات.• امئی.بو میں سیرالیون کی مرکزی احمد یہ عبادت گاہ کا سنگ بنیاد رکھا.۲۳ مئی.محمود ہال (لندن) کا افتتاح.۲۴ مئی.بیت الفضل لندن میں نصرت جہاں سکیم کا اعلان.۲۵ مئی تا یکم جون.پہلا دورہ سپین یکم جون کولندن واپسی.) ۱۲۶ جون ۱۹۷۰ء.ربوہ میں نصرت جہاں ریز روفنڈ کی تحریک کا اعلان.۱۹ جون ۱۹۷۰ء.حدیقۃ المبشرین کے قیام کا اعلان.۱۲ جولائی ۱۹۷۰ء.نصرت جہاں آگے بڑھو پروگرام کا اعلان فرمایا.۳۰ راگست ۱۹۷۰ ء.ورلڈ احمد یہ میڈیکل ایسوسی ایشن کا قیام.صدر مکرم کرنل ڈاکٹر عطاءاللہ صاحب.۱۴ مارچ ۱۹۷۱ ء.احمد یہ دارالذکر جکاتہ کا افتتاح ہوا.اکتو برا ۱۹۷ء.حضور نے خلافت لائبریری کا افتتاح فرمایا.ید یکم مارچ ۱۹۷۲ء.اہل ربوہ کے لئے کھیلوں اور جسمانی ورزش کا انتظام کرنے کے لئے حضور نے مجلس صحت کے قیام کا اعلان فرمایا.۱۹۷۲ء.حضور نے ” البیت الاقضی ربوہ کا افتتاح فرمایا.دسمبر ۱۹۷۲ء.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی تفسیر سورہ آل عمران وسورۃ النساء کی اشاعت.۲۶ جنوری ۱۹۷۳ء.حضور نے ربوہ کو سرسبز و شاداب بنانے کے لئے شجر کاری کی تحریک فرمائی اور دس ہزار درخت لگانے کی سکیم کا اعلان فرمایا.9 نومبر ۱۹۷۳ء.حضور نے مجلس انصار اللہ کی صف اول اور صف دوم کے قیام کا اعلان فرمایا.

Page 401

۳۸۰ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۳ء.حضور نے جلسہ سالانہ پر صدسالہ جوبلی منصوبہ کا اعلان فرمایا.۸ فروری ۱۹۷۴ء.حضور نے صد سالہ جوبلی کے دعاؤں پر مشتمل روحانی منصوبہ کا اعلان فرمایا.۲۰ فروری ۱۹۷۴ء.حضور نے فضل عمر فاؤنڈیشن کے تحت تعمیر ہونے والے گیسٹ ہاؤس کی بنیاد رکھی.غیر ملکی مہمانوں کے لئے تعمیر ہونے والا یہ سب سے پہلا گیسٹ ہاؤس ہے.۲۶ اگست ۱۹۷۴ء.جمہوریہ داھومی کے دارالحکومت پوروٹونو وو میں پہلی احمد یہ عبادت گاہ کا افتتاح ہوا.۱۵ ستمبر ۱۹۷۴ء.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی بیان فرمودہ تفسیر سورۃ مائدہ تا تو بہ کی اشاعت.۱۹۷۴ء میں یوگنڈا کی زبان میں ترجمہ وتفسیر قرآن کی اشاعت ہوئی.۵/اگست تا ۲۹/اکتوبر ۱۹۷۵ء - حضور نے سفر یورپ اختیار فرمایا.اس دورے میں حضور انگلستان، ڈنمارک، ناروے، ہالینڈ اور سوئٹزرلینڈ تشریف لے گئے ، اسی دوران ۲۴، ۲۵ راگست جماعت احمد یہ انگلستان کے ااویں جلسہ سالانہ سے اختتامی خطاب فرمایا.انگلستان کے سالانہ جلسہ میں امام وقت کی شمولیت کا یہ پہلا موقع تھا.۲۷ ستمبر ۱۹۷۵ء.حضور نے گوٹن برگ ( سویڈن ) میں صدسالہ جو بلی منصوبہ کے تحت تعمیر ہونے والے پہلے بیت الذکر ناصر کا سنگ بنیاد رکھا.۲۷ دسمبر ۱۹۷۵ء.جلسہ سالانہ پر حضور نے پوری قوم اور جماعت کے قابل

Page 402

۳۸۱ طلباء کی بیرونی ممالک میں اعلیٰ تعلیم کے لئے ۶ وظائف کا اعلان فرمایا.ان میں سے انگلستان، امریکہ، کینیڈا اور انڈونیشیا نے ایک ایک اور غانا نے دو دو وظائف کی ذمہ داری قبول کی.۲۰ / اگست ۱۹۷۶ء.بیت ناصر گوٹن برگ ( سویڈن ) کا افتتاح فرمایا.۲۶ اگست ۱۹۷۶ء.ناروے، ۲۹ اگست ڈنمارک، یکم ستمبر جرمنی، ستمبر سوئٹزر لینڈ، ۲۱ ستمبر ہالینڈ ، ۴ استمبر لندن (انگلستان).۱۵ستمبر تا ۱۷، اکتوبر انگلستان کی احمدی جماعتوں کا تفصیلی دورہ کیا.دسمبر ۱۹۷۶ء.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی تفسیر سورۃ یونس تا کہف شائع ہوئی.اسی سال یورو با زبان میں نائیجیریا سے ترجمہ قرآن شائع ہوا.۲۳ مئی ۱۹۷۷ ء مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کا پہلا سالانہ اجتماع.یا مئی ۱۹۷۷ء.کینیڈا میں احمد یہ بیت الذکر کی تعمیر کے لئے زمین کی خرید.مشن ہاؤس کا قیام.۲ ۳ ۴ جون ۱۹۷۸ء.لندن میں کسر صلیب کا نفرنس.حضور نے ۴ جون کو اختتامی خطاب فرمایا.برٹش کونسل آف چرچز کی دعوت اور حضور کا چیلنج.۲۵ جولائی تا اکتوبر ۱۹۷۸ء حضور کا دورہ یورپ.( ناروے، ۳۱ جولائی سویڈن ،۳ راگست ڈنمارک ، ۸/اگست مغربی جرمنی ، ۱۹ اگست لندن ، ۱۱ را کتوبر ربوہ میں واپسی.) ۱۶ جنوری ۱۹۷۹ء.ایران میں شہنشاہیت کے خاتمہ سے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی یہ پیشگوئی ایک پھر پوری ہوئی.تزلزل در ایوان کسری فتاد

Page 403

۳۸۲ ۲۶ جنوری ۱۹۷۹ ء.احمد یہ مشن ہاؤس کیلگری (کینیڈا) کا افتتاح ہوا.9 مارچ ۱۹۷۹ء.قرطبہ (سپین) میں نئے مشن کا قیام عمل میں آیا.۱۵ اکتوبر ۱۹۷۹ ء.ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو نوبل پرائز دینے کا اعلان کیا گیا.نومبر ۱۹۷۹ء.ہانگ کانگ سے ایک ہزار اور امریکہ سے ۲۰ ہزار کی تعداد میں انگریزی ترجمہ قرآن کی اشاعت.مل ۱۰ دسمبر ۱۹۷۹ء.ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے نوبل پرائز وصول کیا.۲۷ دسمبر ۱۹۷۹ء.حضور نے جماعت کو سائنسی میدان میں بلندیوں پر پہنچانے کے لئے عظیم منصوبے کا اعلان کیا.۱۹۷۹ء.وظائف کمیٹی کا قیام.صدر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب مقرر ہوئے ۱۹۷۹ء.غانا سے انگریزی ترجمہ قرآن ۱۰ ہزار کی تعداد میں شائع ہوا.جو اس سال سپین اور ناروے میں بیوت الذکر کی زمین خریدی گئی.امریکہ میں • الا کھ قرآن کے نسخے پھیلانے کا منصوبہ.ے مارچ ۱۹۸۰ ء.حضور نے تحریک فرمائی کہ ہر گھر میں تفسیر صغیر اور تفاسیر بانی سلسلہ احمدیہ کا ہونا ضروری ہے.۱۳ جون ۱۹۸۰ء.ادا ئیگی حقوق طلباء کے تحت تقسیم تمغہ جات کی پہلی تقریب.۲۶ جون تا ۲۶ اکتوبر ۱۹۸۰ء.چار براعظموں کے ۱۳ ممالک کا دورہ فرمایا.(خلاصہ: ۲۹ جون مغربی جرمنی.۱۲ جولائی سوئٹزر لینڈ.۱۴ جولائی آسٹریا.۱۹ جولا ئی ہالینڈ ۲۳ جولائی ڈنمارک.۲۸ جولا ئی سویڈن.۳۱ جولا ئی ناروے.

Page 404

۳۸۳ م یکم اگست.بیت النور اوسلو (ناروے) کا افتتاح فرمایا.۴/اگست ہالینڈ.۷ را گست انگلستان - ۱۸ / اگست نائیجیریا.۲۴ /اگست غانا.۲۴ را گست - غانا کے صدر مملکت سے ملاقات.۴ ستمبر کینیڈا.۱ ستمبر امریکہ.۲۳ستمبر انگلستان ۳۰ ستمبر.مانچسٹر اور ھڈ رز فیلڈ میں احمد یہ مشنوں کا افتتاح.۲ را کتوبر.بریڈ فورڈ میں احمدیہ مشن کا افتتاح.) ۹ /اکتوبر ۱۹۸۰ء.۷۰۰ سال بعد سپین میں تعمیر ہونے والے بیت الذکر بشارت کا سنگ بنیاد.۱۰ نومبر ۱۹۸۰ء.جاپان کے شہر نا گویا میں احمد یہ سنٹر کی خرید.۲۵ / اپریل ۱۹۸۱ء.حضور نے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری اور کچھ دنوں بعد دار السلام النصرت کی دومنزلہ عمارت کا سنگ بنیا د رکھا.۹ اکتوبر ۱۹۸۱ء.ٹوکیو میں مشن ہاؤس کا افتتاح.یکم نومبر ۱۹۸۱ء.جماعتی تنظیموں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے مجلس توازن کے قیام کا اعلان.۲۷ دسمبر.حضور نے جماعت کو ستارہ احمدیت عطا فرمایا.۲۳ مارچ ۱۹۸۲ء.حضور نے دفتر صد سالہ احمد یہ جو بلی کا سنگ بنیا درکھا.اس کا نام بیت الاظہار ہے.۲۳ مارچ ۱۹۸۲ء.گیمبیا کے صدر داؤ دا جوارا نے کنگانگ میں احمدیہ ہسپتال کے نئے حصہ کا سنگ بنیا درکھا.مئی ۱۹۸۲ ء.ساسبری (زمبابوے) میں مشن ہاؤس کے لئے زمین کی خرید.۶ جون ۱۹۸۲ء.افریقہ کے ملک ٹوگو میں جماعت کے پہلے بیت الذکر کی تعمیر.

Page 405

۳۸۴ خلافت رابعہ میں ترقیات کی چند جھلکیاں جولائی ۱۹۸۲ء.دورہ یورپ کے لئے روانگی.۱۰ستمبر کو بیت بشارت سپین کا افتتاح فرمایا.۲۹ اکتو بر۱۹۸۲ء کو بیت اقصیٰ ربوہ میں بیوت الحمد منصوبہ کا اعلان فرمایا.۱۵ دسمبر ۱۹۸۲ء.امریکہ کے لئے پانچ نئے مشن ہاؤسز اور بیوت الذکر کی تحریک فرمائی.۲۵ دسمبر ۱۹۸۲ ء مرکزی مجلس صحت کا قیام.۲۸ جنوری ۱۹۸۳ء کو تحریک دعوت الی اللہ کا آغاز.ار اپریل ۱۹۸۳ء دار الضیافت کے جدید بلاک کی توسیعی منزل کی بنیاد رکھی.اگست ۱۹۸۳ء حضور انور کا دورہ مشرق بعید و آسٹریلیا.بیت الہدی آسٹریلیا کا سنگ بنیاد.۲۰ جولائی ۸۴ ء سے ۷ امئی ۸۵ ء تک حکومت پاکستان کے قرطاس ابیض کے جواب میں خطبات کا سلسلہ جو زھق الباطل“ کے نام سے شائع ہو چکے ہیں.۱۴ مارچ ۸۶ء اسیران اور شہداء کے لواحقین کے لئے سیدنا بلال فنڈ کی تحریک جاری فرمائی.۲۰ ستمبر ۸۶۲ ء بیت السلام کینیڈا کا سنگ بنیا درکھا.۳ اپریل ۱۹۸۷ ء وقف نو کی عظیم الشان تحریک کا اعلان.یکم اگست ۸۷ء نائیجیریا کے دو بادشاہوں کو حضرت مسیح موعود کے کپڑوں کا تبرک عنایت فرمایا.

Page 406

۳۸۵ جنوری ۱۹۸۸ء حضور انور کا مغربی افریقہ کے ممالک کا پہلا دورہ.۱۰ جنوری ۱۹۸۸ء تمام جماعت کی نمائندگی میں حضور انور نے تمام معاندین کو مباہلہ کا چیلنج دیا.اگست ۱۹۸۸ء حضور کا مشرقی افریقہ کے ممالک کا پہلا دورہ.۲۳ مارچ ۱۹۸۹ء صد سالہ جشن تشکر کا آغاز.جولائی ۸۹ حضور انور کا دورہ مشرق بعید.۳۶ نومبر ۸۹ ء تمام ممالک میں ذیلی تنظیموں کے صدر صاحبان کا اعلان.۱نومبر Friday the 10th۶۸۹ کا رویا پورا ہوا اور دیوار برلن گرا دی گئی.۲۴ نومبر ۸۹ پانچ بنیادی اخلاق کی تحریک.دسمبر ۱۹۹۱ ء حضور انور کا تاریخی سفر قادیان.۱۰۰ ویں جلسہ سالانہ میں شرکت اور خطابات.۳۱ جنوری ۱۹۹۲ء حضور انور کا خطبہ جمعہ پہلی بار مواصلاتی سیارے کے ذریعہ براعظم یورپ میں دیکھا اور سنا گیا.جلسہ سالانہ برطانیہ۱۹۹۲ء براہ راست ٹیلی ویژن پر دکھایا گیا.۲۱ اگست ۹۲ حضور کے خطبات چار براعظموں میں نشر ہونے شروع ہوئے.۱۷ اکتوبر ۹۲ ء بیت الذکر ٹورانٹو کا افتتاح فرمایا.۳۱ جولائی ۱۹۹۳ء پہلی عالمی بیعت ۲ لاکھ افراد کی سلسلہ احمدیہ میں شمولیت اس کے بعد ۲۰۰۲ ء تک علی الترتیب ۴ لاکھ ، ۸ لاکھ ، ۱۶ ، لاکھ ، ۳۰ لاکھ ، ۵۰لاکھ ، ایک کروڑ ، چار کروڑ ، ۸ کروڑ اور دوکروڑ افراد نے بیعت کی.

Page 407

۳۸۶ ۳۱ دسمبر ۹۳ ء کو ماریشس میں خطبہ اور ایم ٹی اے کی نشریات ۱۲ گھنٹے کرنے کا اعلان.۱۹۹۳ ء عالمی درس القرآن کا آغاز.ے جنوری ۹۴ ء بیت الرحمن میری لینڈ امریکہ اور ایم ٹی اے ارتھ سٹیشن امریکہ کا افتتاح - ۲۴ فروری ۹۹ حضور انور نے ۳۰۵ گھنٹے کی کلاسز کے ذریعہ ایم ٹی اے پر ترجمۃ القرآن کا دور مکمل فرمایا.۲۰۰۰ ء حضور انور کا تاریخی دورہ انڈونیشیا.۲۱ فروری ۲۰۰۳، غریب بچیوں کی شادی کے لئے مریم شادی فنڈ کی آخری تحریک فرمائی.ہجرت کے بعد بیرون ممالک میں ۳۰۶۵ انٹئی بیوت الذکر کا اضافہ اور ۹۸۵ نئے مشن ہاؤسز بنے.خلافت رابعہ میں ۵۶ زبانوں میں قرآن مجید کا ترجمہ مکمل ہوا.نیز سو سے زائد زبانوں میں منتخب تراجم کروائے گئے.۱۹۸۴ء کے بعد ۴ ۸ ممالک میں جماعت احمدیہ کا قیام عمل میں آیا.

Page 408

۳۸۷ دور خلافت خامسہ میں ترقیات کی چند جھلکیاں پہلی بار ایم ٹی اے کی برکت سے تمام جماعت احمد یہ عالمگیر نے براہ راست کسی خلیفہ کی بیعت کی.مورخہ ۴ جولائی ۲۰۰۳ء کو ایم ٹی اے سیٹ تھری کی نشریات کا آغاز ہوا.مورخہ ۷ ستمبر ۲۰۰۳ ء کو کینیڈا میں پہلے جامعہ احمدیہ کا افتتاح ہوا.سے مورخہ ۷ استمبر ۲۰۰۳ء کو احمدی ڈاکٹر ز کو وقف کرنے کی تحریک فرمائی.جلسہ سالانہ برطانیہ ۲۰۰۳ء کے موقع پر طاہر فاؤنڈیشن کے قیام کا اعلان فرمایا.مارچ و اپریل ۲۰۰۴ء میں مغربی افریقہ کے ممالک غانا، نائیجیریا، بورکینا فاسو اور بین کا دورہ کیا اور اس دوران ۲۱ بیوت الذکر کا افتتاح فرمایا.مورخہ ۲۰۰۴ء کو نور فاؤنڈیشن قائم فرمایا.مئی ۲۰۰۴ء کو جلسہ سالانہ ہالینڈ کا افتتاح فرمایا.جون کے آخری عشرہ میں کینیڈا کا دورہ کیا.جلسہ سالانہ برطانیہ ۲۰۰۴ء کے اختتامی خطاب میں ۲۰۰۸ ء تک لازمی چندہ جات ادا کرنے والوں کی ۵۰ فیصد تعداد کو نظام وصیت میں شامل کرنے کی تحریک فرمائی.۲۵ را گست ۲۰۰۴ کو بیت الحبیب کیل جرمنی کا افتتاح فرمایا.ستمبر ۲۰۰۴ء میں سوئٹزر لینڈ اور حکیم کا دورہ کیا.یکم اکتوبر ۲۰۰۴ء کو بیت مبارک برمنگھم برطانیہ کا افتتاح فرمایا.

Page 409

۳۸۸ دسمبر ۲۰۰۴ء کے آخری عشرہ میں فرانس کا دورہ کیا.جنوری ۲۰۰۵ء کے آغاز میں سپین کا دورہ کیا.اپریل ومئی ۲۰۰۵ ء میں مشرقی افریقہ کے ممالک، کینیا، تنزا مینہ اور یوگنڈا کا دورہ کیا.مورخہ ۲۷ مئی کو صد سالہ خلافت جوبلی منصوبہ کا اعلان فرمایا.جو ۲۰۰۸ء میں منائی جائے گی.۲۰۰۵ء کے آغاز میں فرانس اور سپین کا دورہ کیا.م جون ۲۰۰۵ء کے آخری عشرہ میں کینیڈا کا دورہ کیا.۱۱ جون ۲۰۰۵ء کو وینکوور بیت الذکر کینیڈا کا سنگ بنیاد رکھا گیا.۱۸ جون ۲۰۰۵ ستمبر کو کیلگری بیت الذکر کینیڈا کا سنگ بنیا درکھا.مورخہ ۱۶ تا ۸ استمبر ۲۰۰۵ء کو پہلی دفعہ سویڈن میں سکینڈے نیوین ممالک کا مشتر کہ جلسہ ہوا.جس میں حضور نے بھی شرکت فرمائی.۱۴۶ را کتوبر ۲۰۰۵ء کو پاکستان کے شمالی علاقہ جات و کشمیر میں قیامت خیز زلزلہ کے باعث متاثرین کی بھر پور امداد کی تحریک فرمائی.۱ نومبر ۲۰۰۵ء کو بیت الناصر ہارٹلے پول برطانیہ کا افتتاح فرمایا.حمد دسمبر ۲۰۰۵ء کے پہلے عشرہ میں ماریشس کا دورہ کیا.مه ۱۵دسمبر ۲۰۰۵ ء تا ۱۵ دسمبر ۲۰۰۶ء قادیان بھارت کا دورہ فرمایا اور جلسہ سالانہ قادیان ۲۰۰۵ ء کو رونق بخشی.اپریل ۲۰۰۶ ء میں ملائشیا، سنگاپور، نجی اور آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جاپان کا دورہ کیا.ی مئی ۲۰۰۶ء میں جماعت احمدیہ جرمنی کی ذیلی تنظیموں کے مشترکہ اجتماع کے

Page 410

۳۸۹ سلسلہ میں حضور جرمنی تشریف لے گئے.مورخه ۲ ۳۰ جون ۲۰۰۶ کوحضور انور نے جاپان کا دورہ فرمایا.۱۲ جون ۲۰۰۶ کو حضور نے بیلجیم کا دورہ فرمایا.۲۱ اگست ۲۰۰۶ کو جرمنی کا دورہ فرمایا.۳ دسمبر ۲۰۰۶ کو جامعہ احمدیہ یو کے کے نئے بلاک اور بیت الذکر کا افتتاح فرمایا.۱۵ دسمبر ۲۰۰۶ کو حضور نے احمدی ڈاکٹرز کو وقف کرنے کی خصوصی تحریک فرمائی.حضور انور نے ۲ دسمبر ۲۰۰۶ تا ۳ جنوری ۰۰۷ پیجم وجرمنی کا دورہ فر مایا.۲۳ دسمبر ۲۰۰۶ کو حضور نے بیت بشیر جرمنی کا افتتاح فرمایا.۲۳ دسمبر ۲۰۰۶ کو ہی سٹٹگارڈ جرمنی کی بیت کا سنگ بنیا درکھا.۲۴ دسمبر ۲۰۰۶ کو جماعت آسٹریلیا کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا.۲۸ دسمبر ۲۰۰۶ کو ایم.ٹی.اے کے ذریعہ حضور انور نے پہلی دفعہ جرمنی سے جلسہ سالانہ قادیان کو براہ راست مخاطب ہوتے ہوئے خطاب فرمایا.۲۹ دسمبر ۲۰۰۶ کو حضور نے روڈ گاڈ جرمنی کی بیت کا سنگ بنیاد رکھا.۲۹ دسمبر ۲۰۰۶ کو بیت.....جرمنی کا افتتاح فرمایا.۲ جنوری ۲۰۰۷ کو حضور انور نے بیت برلن جرمنی کا سنگ بنیاد رکھا.۳ تا ۷ جنوری ۲۰۰۷ کو حضور انور نے ہالینڈ کا دورہ فرمایا.۲۰ مئی ۲۰۰۷ کو جماعت احمد یہ البانیہ کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا.۲۷ تا ۲۹ جولائی ۲۰۰۷ کو جلسہ سالانہ برطانیہ منعقد ہوا.

Page 411

۱۸ اگست ۲۰۰۷ کو حضور دورہ یورپ (فرانس، ہالینڈ اور جرمنی ) کیلئے تشریف لے گئے.۳۱ اگست تا ۲ ستمبر ۲۰۰۷ کو جلسہ سالانہ جرمنی منعقد ہوا.ید مورخہ ۱۵ تا ۱۲۰ اپریل ۲۰۰۸ کو حضور نے خلافت احمد یہ صد سالہ جوبلی کے سلسلہ میں مغربی افریقہ کا دورہ فرمایا.۱۷ تا ۱۹ اپریل ۲۰۰۸ کو گھانا میں خلافت جو بلی کا جلسہ منعقد ہوا جس میں ایک لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی.۲۱ تا ۱۲۵ اپریل ۲۰۰۸ کو حضور انور نے بین کا دورہ فرمایا.۲ تا ۴ مئی ۲۰۰۸ کو نائجیر یا میں خلافت جو بلی کا جلسہ منعقد ہوا.ماہ مئی میں دنیا کی تمام جماعتوں میں خلافت جو بلی کی مناسبت سے جلسے منعقد کئے گئے.۲۷ مئی ۲۰۰۸ کو پوری دنیا میں خلافت احمد یہ صد سالہ جو بلی بہت ایمانی جوش و جذبہ سے منائی گئی.الحمد لله على ذالک.

Page 412

۳۹۱ باب نهم نظام خلافت کے متعلق بعض سوالات کے جوابات پہلا سوال:.اس آیت میں امت مسلمہ سے وعدہ ہے نہ کہ بعض افراد سے؟ جواب:.بے شک وعدہ قوم سے ہے مگر قوم سے وعدہ کے یہ معنی نہیں کہ افراد کے ذریعہ سے وہ وعدہ پورا نہ ہو.بعض وعدے قوم سے ہوتے ہیں لیکن افراد کے ذریعہ سے پورے کئے جاتے ہیں اور کہا یہی جاتا ہے کہ قوم سے جو وعدہ کیا گیا تھا وہ پورا ہو گیا.اس کی مثالیں دنیا کی ہر زبان میں ملتی ہیں.مثلاً ہماری زبان میں کہا جاتا ہے کہ انگریز بادشاہ ہیں.اب کیا اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ ہر انگریز بادشاہ ہے.ہر انگریز تو نہ بادشاہ ہے اور نہ بادشاہ بن سکتا ہے مگر کہا یہی جاتا ہے کہ انگریز با دشاہ ہیں.اسی طرح کہا جاتا ہے کہ فلاں قوم حاکم ہے حالانکہ ساری قوم کہاں حاکم ہوتی ہے چند افراد کے سپر د حکومت کا نظم ونسق ہوتا ہے اور باقی سب اس کے تابع ہوتے ہیں.اسی طرح کہا جاتا ہے فلاں قوم بڑی دولت مند ہے مگر اس کے یہ معنی تو نہیں ہوتے کہ اس قوم کا ہر فر د دولتمند ہے.غرض قوم سے وعدہ کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ افراد کے ذریعہ وہ وعدہ پورا نہ ہو.

Page 413

۳۹۲ کئی وعدے قوم سے ہی ہوتے ہیں لیکن پورے وہ افراد کے ذریعہ کئے جاتے ہیں.اس کی مثال ہمیں قرآن کریم سے بھی ملتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَقَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ أَنْبِيَاءَ وَجَعَلَكُمْ مُّلُوا یعنی موسی نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم ! اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ اس نے تم میں اپنے انبیاء مبعوث کئے.وَجَعَلَكُمْ مُّلُو گا اور اس نے تم کو بادشاہ بنایا.اب کیا کوئی ثابت کرسکتا ہے کہ سب بنی اسرائیل بادشاہ بن گئے تھے.یقیناً بنی اسرائیل میں بڑے بڑے غریب بھی ہوں گے مگر موسی ان سے یہی فرماتے ہیں کہ وَجَعَلَكُمْ مُّلُو کا اس نے تم سب کو بادشاہ بنایا.مراد یہی ہے کہ جب کسی قوم میں سے بادشاہ ہو تو چونکہ وہ قوم ان انعامات اور فوائد سے حصہ پاتی ہے جو بادشاہت سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے بالفاظ دیگر ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ بادشاہ ہو گئی.سوال نمبر ۲:.دوسرا سوال اس آیت پر یہ کیا جاتا ہے کہ پہلوں میں خلافت نبوت کے ذریعہ سے ہوئی یا ملوک کے ذریعہ سے.مگر خلفائے اربعہ نہ نبی مانے جاتے ہیں نہ ملوک پھر یہ وعدہ کس طرح پورا ہوا اور خلفاء اربعہ اس آیت کے کس طرح مصداق ہوئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں پہلوں کو خلافت یا تو نبوت کی شکل میں ملی یا ملوکیت کی صورت میں.مگر مشابہت کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ ہر رنگ میں مشابہت ہو بلکہ صرف اصولی رنگ میں مشابہت دیکھی جاتی ہے.مثلاً کسی لمبے آدمی کا ہم ذکر کریں اور پھر کسی دوسرے کے متعلق کہیں کہ وہ بھی ویسا ہی لمبا ہے تو اب کوئی شخص ایسا نہیں ہوگا جو یہ کہے کہ تم نے دونوں کو لمبا قرار دیا ہے تو یہ مشابہت کس طرح

Page 414

۳۹۳ درست ہوئی جبکہ ان میں سے ایک چور ہے اور دوسرا نمازی یا ایک عالم ہے اور دوسرا جاہل بلکہ صرف لمبائی میں مشابہت دیکھی جائے گی.ہر بات اور ہر حالت میں مشابہت نہیں دیکھی جائے گی.اس کی مثال قرآن کریم سے بھی ملتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا لا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا کہ ہم نے تمہاری طرف اپنا ایک رسول بھیجا ہے جو تم پر نگران ہے اور وہ ویسا ہی رسول ہے جیسے ہم نے فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا.اب دیکھو اللہ تعالیٰ نے یہاں رسول کریم ﷺ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آپس میں مشابہت بیان کی ہے.حالانکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کی طرف بھیجے گئے تھے اور رسول کریم ہے کسی ایک بادشاہ کی طرف مبعوث نہیں ہوئے تھے.اسی طرح موسیٰ علیہ السلام صرف بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے مگر رسول کریم ﷺے ساری دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجے گئے.پھر موسیٰ علیہ السلام کی رسالت کا زمانہ صرف چند سو سال تک ممتد تھا اور آخر وہ ختم ہو گیا مگر رسول کریم ﷺ کی رسالت کا زمانہ قیامت تک کے لئے ہے.یہ حضرت موسیٰ اور آنحضرت ﷺ کے حالات میں اہم فرق ہیں مگر باوجود ان اختلافات کے مسلمان یہی کہتے ہیں بلکہ قرآن کہتا ہے کہ رسول کریم ﷺہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مثیل ہیں حالانکہ نہ تو رسو کر یم ﷺ فرعون کی طرح کے کسی ایک بادشاہ کی طرف مبعوث ہوئے، نہ آپ کسی ایک قوم کی طرف تھے بلکہ سب دنیا کی طرف تھے اور نہ آپ کی رسالت کسی زمانہ میں موسیٰ کی رسالت کی طرح ختم ہونے والی تھی.پس باوجودان اہم اختلافات کے اگر آپ کی مشابہت میں فرق نہیں آتا تو اگر پہلوں کی خلافت سے جزوی امور میں خلفائے اسلام مختلف ہوں تو اس میں کیا حرج ہے.

Page 415

۳۹۴ اصل بات یہ ہے کہ رسول کریم مکہ سے پہلے کے انبیاء چونکہ کامل شریعت لے کر نہ آئے تھے اس لئے ان کے بعد یا نبی مبعوث ہوئے یا ملوک پیدا ہوئے.چنانچہ جب اصلاح خلق کے لئے الہام کی ضرورت ہوتی تو نبی کھڑا کر دیا جاتا مگر اسے نبوت کا مقام براہ راست حاصل ہوتا اور جب نظام میں خلل واقع ہوتا تو کسی کو بادشاہ بنادیا جا تا اور چونکہ لوگوں کو ابھی اس قدر ذہنی ارتقاء حاصل نہیں ہوا تھا کہ وہ اپنی اصلاح کے لئے آپ جد و جہد کر سکتے اس لئے نہ صرف انبیاء کو اللہ تعالیٰ براہ راست مقام نبوت عطا فرما تا بلکہ ملوک بھی خدا کی طرف سے ہی مقرر کئے جاتے تھے.جیسے قرآن کریم میں آتا ہے کہ اِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكَاطالوت کو تمہارے لئے خدا نے بادشاہ بنا کر بھیجا ہے.گویا ابھی لوگ اس قابل نہیں ہوئے تھے کہ خود اپنے بادشاہ کا بھی انتخاب کر سکیں اور نہ شریعت اتنی کامل تھی کہ اس کے فیضان کی وجہ سے کسی کو مقام نبوت حاصل ہو سکتا مگر رسول کریم نے چونکہ ایک کامل تعلیم لے کر آئے تھے اس لئے دونوں قسم کے خلفاء میں فرق ہو گیا.پہلے انبیاء کے خلیفے تو نبی ہی ہوتے تھے گواہیں نبوت مستقل اور براہ راست حاصل ہوتی تھی اور اگر انتظامی امور چلانے کے لئے ملوک مقرر ہوتے تو وہ انتخابی نہ ہوتے بلکہ یا تو ورثہ کے طور پر ملوکیت کو حاصل کرتے یا نبی انہیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت بطور بادشاہ مقرر کر دیتے.مگر رسول کریم ﷺ کی قوم چونکہ زیادہ اعلیٰ درجہ کی تھی.اس لئے آپ کے بعد خلفاء انبیاء کی ضرورت نہ رہی اس کے ساتھ ہی ملوکیت کی ادنیٰ صورت کو اڑا دیا گیا اور اس کی ایک کامل صورت آپ کو دی گئی اور یہ ظاہر ہے کہ اسلامی خلافت کے ذریعہ سے جس طرح قوم کے ساتھ وعدہ پورا ہوتا ہے کہ اس میں انتخاب کا عنصر رکھا گیا ہے اور قومی حقوق کو محفوظ کیا گیا ہے وہ پہلے بادشاہوں کی صورت میں نہ تھا اور زیادہ کامل صورت کا پیدا ہو جانا وعدہ کے

Page 416

۳۹۵ خلاف نہیں ہوتا.جیسے اگر کسی کے ساتھ پانچ روپے کا وعدہ کیا جائے اور اسے دس روپے دے دیئے جائیں تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ وعدہ کی خلاف ورزی ہوئی.پس اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ جس طرح رسول کریم ﷺ پہلوں سے افضل تھے.آپ کی خلافت بھی پہلے انبیاء کی خلافت سے افضل تھی.دوسرا جواب یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَانُبِيَاءِ بنی إِسْرَائِيلَ یعنی میری امت کے علماء انبیاء بنی اسرائیل کی طرح ہیں.اس کے یہ معنی نہیں کہ امت محمدیہ کا جو بھی عالم ہے وہ انبیاء بنی اسرائیل کی طرح ہے کیونکہ علماء کہلانے والے ایسے ایسے لوگ بھی ہیں جن کی دینی اور اخلاقی حالت کو دیکھ کر رونا آتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ ان علماء سے مراد دراصل خلفاء ہیں جو علماء روحانی ہوتے ہیں اور اس ارشاد نبوی سے اس طرح ارشاد کیا گیا ہے کہ پہلے نبیوں کے بعد جو کام بعض دوسرے انبیاء سے لیا گیا ہے کہ پہلے نبیوں کے بعد جو کام بعض دوسرے انبیاء سے لیا گیا تھا وہی کام میری امت میں اللہ تعالیٰ بعض علماء ربانی یعنی خلفائے راشدین سے لے گا.چنانچہ موسیٰ کے بعد جو کام یوشع سے لیا گیا وہ اللہ تعالیٰ ابوبکر سے لے گا اور جو کام داؤد سے لیا گیا وہ اللہ تعالیٰ عمرؓ سے لے گا اور جو کام بعض اور انبیاء مثلاً سلیمان وغیرہ سے لیا گیا وہ اللہ تعالیٰ عثمان اور علی سے لے گا.غرض رسول کریم ہے نے اس حدیث میں اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے وہ مقام ما بخشا ہے کہ میری امت کے خلفاء وہی کام کریں گے جو انبیاء سابقین نے کیا.پس اس جگہ علماء سے مرا د رشوتیں کھانے والے علماء نہیں بلکہ ابوبکر عالم ، عمر عالم، عثمان عالم اور علی عالم مراد ہیں.چنانچہ جب ادنی ضرورت تھی اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو پیدا کر دیا اور پھر زیادہ روشن صورت میں جب زمانہ کو ایک نبی کی ضرورت تھی اللہ تعالیٰ نے اس

Page 417

وعدہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے پورا کر دیا.گو فرق یہ ہے کہ صلى الله پہلے انبیاء براہ راست مقام نبوت حاصل کرتے تھے مگر آپ کو نبوت رسول کریم ہے کی غلامی کی وجہ سے ملی.(خلافت راشدہ.انوار العلوم جلد ۵ اص۶۰ ۵ تا ۵۶۴) سوال نمبر ۳:.تیسرا سوال یہ کیا جاتا ہے کہ اس آیت میں كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ آیا ہے.چلو ہم مان لیتے ہیں کہ پہلے خلفاء اس آیت کے ماتحت تھے کیونکہ ان کے پاس نظام ملکی تھا لیکن اس آیت سے وہ خلافت جواحد یہ جماعت میں ہے کیونکر ثابت ہوگئی کیونکہ ان کے پاس تو کوئی نظام ملکی نہیں؟ جواب:.اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ یہ کیا ہے کہ وہ آمَنُوا اور و عَمِلُوا الصَّلِحَتِ کی مصداق جماعت کو خلیفہ بنائے گا اور خلیفہ کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے سے پہلے کا نائب ہوتا ہے.پس وعدہ کی ادنی حد یہ ہے کہ ہر نبی کے بعد اس کے نائب ہوں اور یہ ظاہر ہے کہ جس رنگ کا نبی ہوا گر اسی رنگ میں اس کا نائب بھی ہو جائے تو وعدہ کی ادنی حد پوری ہو جاتی ہے اور چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سپر دملکی نظام نہ تھا اس لئے آپ کی امر نبوت میں جو شخص نیابت کرے وہ اس وعدہ کو پورا کر دیتا ہے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کوملکی نظام عطا ہوتا تب تو اعتراض ہو سکتا تھا کہ آپ کے بعد کے خلفاء نے نیابت کس طرح کی مگر نظام ملکی عطا نہ ہونے کی صورت میں یہ اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ جس نبی کا کوئی خلیفہ ہوا سے وہی چیز ملے گی جو نبی کے پاس ہوگی اور جو اس کے پاس ہی نہیں ہوگی وہ اس کے خلیفہ کوکس طرح مل جائے گی.غرض جس رنگ کا کوئی شخص ہو اسی رنگ کا اس کا جانشین ہوتا ہے.چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سپر دملکی نظام نہیں تھا اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ

Page 418

۳۹۷ آپ کے خلفاء کے پاس کوئی نظام ملکی کیوں نہیں؟ دوسرا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں خلافت نظامی ہی کے بارہ میں یہ نہیں آیا کہ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمُ بلکہ اس آیت میں جس قدر وعدے ہیں سب کے ساتھ ہی یہ الفاظ لگتے ہیں.مگر غیر مبائعین میں سے بھی جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی مانتے ہیں.جیسے شیخ مصری وغیرہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ آپ کی نبوت کلی طور پر پہلے نبیوں کی قسم کی نبوت نہیں بلکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود لکھا ہے.یہ نبوت پہلی نبوتوں سے ایک بڑا اختلاف رکھتی ہے اور وہ یہ کہ پہلے نبی مستقل نبی تھے اور آپ امتی نبی ہیں.پس جس طرح آپ کی نبوت کے پہلے نبیوں سے مختلف ہونے کے باوجود اس وعدہ کے پورا ہونے میں کوئی فرق نہیں آیا کہ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمُ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمُ اسی طرح خلافت کے مختلف ہونے کی وجہ سے بھی اس وعدہ کے پورا ہونے میں کوئی فرق نہیں آسکتا اور اگر بعض باتوں میں پہلی خلافتوں سے اختلاف رکھنے کی وجہ سے یہ خلافت اس آیت سے باہر نکل جاتی ہے تو ماننا پڑے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت بھی اس آیت کے ماتحت نہیں آتی کیونکہ اگر ہماری خلافت ابوبکر اور عمر کی خلافت سے کچھ اختلاف رکھتی ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت بھی پہلے نبیوں سے کچھ اختلاف رکھتی ہے.پس اگر ہماری خلافت اس آیت کے ماتحت نہیں آتی تو ماننا پڑے گا کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت بھی اس آیت کے ماتحت نہیں آتی حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس نبوت کو باوجود مختلف ہونے کے اسی آیت کے ماتحت قرار دیتے ہیں.پس جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت پہلی نبوتوں سے اختلاف رکھنے کے باوجود اس آیت کے وعدہ میں شامل ہے.اسی طرح یہ خلافت

Page 419

۳۹۸ با وجود پہلی خلافتوں سے ایک اختلاف رکھنے کے اس آیت کے وعدہ میں شامل ہے.خلافت راشدہ.انوار العلوم جلد ۵ ص ۵۶۴ تا ۵۶۶) سوال نمبر ۴:.چوتھا سوال یہ ہے کہ اگر اس آیت سے افراد مراد لئے جائیں تو یہ اعتراض ہوتا ہے کہ وعدہ دو قسم کے وجودوں کے متعلق ہے.ایک نبیوں کے متعلق اور ایک بادشاہوں کے متعلق.چونکہ آنحضرت ﷺ سے پہلے جس قسم کے نبی آیا کرتے تھے ان کو رسول کریم ﷺ نے ختم کر دیا اور بادشاہت کو آپ نے پسند نہیں فرمایا بلکہ صاف فرما دیا کہ میرے بعد کے خلفاء بادشاہ ہوں گے تو پھر کیوں نہ تسلیم کیا جائے کہ اس آیت میں وعدہ قوم سے ہی ہے افراد سے نہیں.جواب: اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلی قسم کی نبوت بھی ختم ہوگئی اور پہلی قسم کی ملوکیت بھی ختم ہوگئی لیکن کسی خاص قسم کے ختم ہو جانے سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ اس کا قائم مقام جو اس سے اعلیٰ ہو وہ نہیں آسکتا.رسول کریم ﷺے چونکہ سب انبیاء سے نرالے تھے اس لئے ضروری تھا کہ آپ کے بعد کا نظام بھی سہ نظاموں سے نرالا ہو.اس کا نرالا ہونا اسے مشابہت سے نکال نہیں دیتا بلکہ اس کے حسن اور خوبصورتی کو اور زیادہ بڑھا دیتا ہے.چنانچہ آپ چونکہ کامل نبی تھے اور دنیا میں کامل شریعت ہوئے تھے اس لئے ضروری تھا کہ آپ کے بعد ایسے نبی ہوتے جو آپ سے فیضان حاصل کر کے مقام نبوت حاصل کرتے اسی طرح آپ کا نظام چونکہ تمام نظاموں سے زیادہ کامل تھا اس لئے ضروری تھا کہ آپ کے بعد ایسے خلفاء ہوتے جو پبلک طور پر منتخب ہوتے.غرض رسول کریم ﷺ کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبوت بھی اور ملوکیت بھی ایک نئے رنگ میں ڈھال دی اور پہلی قسم کی نبوت اور پہلی قسم کی ملوکیت کو ختم کر دیا.

Page 420

۳۹۹ یا د رکھنا چاہئے کہ خلافت نبوت پہلے نبی کی تائید کے لئے آتی ہے اور خلافت ملوکیت مومنین کے حقوق کی حفاظت اور ان کی قوتوں کے نشو و نما کے لئے آتی ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے پہلے انبیاء کو جو خلفاء انبیاء ملے تو ان کی خلافت ناقص تھی کیونکہ گو وہ ان کے کام کو چلاتے تھے مگر نبوت براہ راست پاتے تھے.پس ان کی خلافت کامل خلافت نہ ہوتی تھی اور اگر ان کی اقوام کو خلفاء ملوکی ملے تو ان کی خلافت بھی ناقص خلافت ہوتی تھی کیونکہ وہ اختیارات براہ راست ورثہ سے پاتے تھے اور اس کے نتیجہ میں ان کی قسم کے قومی پورے طور پر نشو و نما نہ پاتے تھے کیونکہ ان کے مقرر کرنے میں امت کا دخل نہ ہوتا تھا اسی طرح جس طرح نبیوں کا اپنے تابع نبیوں کی نبوت میں دخل نہ ہوتا تھا.چنانچہ جہاں بھی باپ کے بعد بیٹا اور بیٹے کے بعد پوتا ورثہ کے طور پر تخت حکومت سنبھالتے چلے جاتے ہیں وہاں اس بات کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کہ پبلک کے علمی معیار کو بلند کیا جائے اور اس کے ذہنی قومی کو ایسا نشو و نما دیا جائے کہ وہ صحیح رنگ میں حکام کا انتخاب کر سکے لیکن جہاں حکام کا انتخاب پبلک کے ہاتھ میں ہو وہاں حکومت اس بات سے مجبور ہوتی ہے کہ فردکو عالم بنائے ، ہر فرد کو سیاست دان بنائے اور ہر فرد کوملکی حالات سے باخبر رکھے تا کہ انتخاب کے وقت ان سے کوئی بیوقوفی سرزد نہ ہو جائے.پس اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے لوگوں کے علمی نشو و نما کو مدنظر رکھتے ہوئے حکام کے انتخاب کا حکم دیا.پس رسول کریم ہے سے پہلے انبیاء کی خلافت خواہ وہ خلافت نبوت ہو یا خلافت ملوکیت ناقص تھی لیکن رسول کریم ہے چونکہ صحیح معنوں میں کامل نبی تھے.اس لئے آپ کے بعد جو نبی آیا یا آئیں گے وہ آپ کے تابع ہی نہ ہوں گے بلکہ آپ کے فیض سے نبوت پانے والے ہوں گے.اسی طرح چونکہ آپ کی قوم صحیح معنوں میں کامل امت تھی جیسا کہ فرمایا.

Page 421

كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ اس لئے ضروری تھا کہ ان کے کام کو چلانے والے بھی اسی رنگ میں آئیں جس طرح اس امت میں نبی آنے تھے یعنی ان کے انتخاب میں قوم کو دخل نہ ہوتا تھا بلکہ انتخابی خلیفہ ہوں تا کہ امت محمدیہ کی پوری ترجمانی کرنے والے ہوں اور امت کی قوت کا صحیح نشو و نما ہو.چنانچہ اس حکم کی وجہ سے ہر خلیفہ اس بات پر مجبور ہے کہ وہ لوگوں میں زیادہ سے زیادہ علم اور سمجھ کا مادہ پیدا کرے تا کہ وہ اگلے انتخاب میں کوئی غلطی نہ کر جائیں.پس یہ فرق اس وجہ سے ہے کہ نبی کریم ﷺ سید الانبیاء ہیں اور آپ کی امت خَيْرُ الْأُمم ہے.جس طرح سید الانبیاء کے تابع نبی آپ کے فیضان سے نبوت پاتے ہیں اسی طرح خَیرُ الامم کے خلفاء قوم کی آواز سے خلیفہ مقرر ہوتے ہیں.پس یہ نظام اسلام کی برتری اور نئی اسلام اور امت اسلامیہ کے علو مرتبت کی وجہ سے ہے اور اس سے خلافت فردی کو مٹایا نہیں گیا بلکہ خلافت شخصی کو زیادہ بہتر اور کمل صورت میں پیش کیا گیا ہے.خلافت راشدہ انوار العلوم جلد ۵ ص ۵۶۸ تا ۵۷۰) سوال نمبر ۵:.منکرین خلافت ایک سوال یہ اٹھاتے ہیں کہ کیا اگر خلافت نہ رہی تو اس وقت کے مسلمانوں کا پھر کیا حال ہوگا.پہلے بھی تو تمیں سال کے بعد خلافت راشدہ ختم ہوگئی تھی.اس سے امت مسلمہ پر کون سی قیامت ٹوٹ پڑی تھی ؟ جواب:.اس سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور نے فرمایا:.دیکھو قرآن مجید میں وضو کے لئے ہاتھ دھونا ضروری ہے لیکن اگر کسی کا ہاتھ کٹ جائے تو اس کا وضو بغیر ہاتھ دھوئے کے ہو جائے گا.اب اگر کوئی شخص کسی ایسے ہاتھ کے آدمی کو پیش کر کے کہے کہ دیکھو اس کا وضو ہو جاتا ہے یا نہیں؟ جب یہ کہیں کہ ہاں ہو جاتا ہے تو وہ کہے کہ بس اب میں بھی ہاتھ نہ دھوؤں گا تو کیا وہ راستی پر ہوگا ؟ ہم کہیں

Page 422

گے کہ اس کا ہاتھ کٹ گیا مگر تیرا تو موجود ہے.پس یہی جواب ان معترضین کا ہے ہم انہیں کہتے ہیں کہ ایک زمانہ میں جابر بادشاہوں نے تلوار کے زور سے خلافت راشدہ کو قائم نہ ہونے دیا کیونکہ ہر کام ایک مدت کے بعد مٹ جاتا ہے پس جب تلوار کے زور سے مٹادی گئی تو اب کسی کو گناہ نہیں کہ وہ بیعت خلیفہ کیوں نہیں کرتا.مگر اس وقت وہ کون سی تلوار ہے جو ہم کو قیام خلافت سے روکتی ہے.اب بھی اگر کوئی حکومت زبر دستی خلافت کے سلسلہ کو روک دے تو یہ الہی فعل ہوگا اور لوگوں کو رکنا پڑے گا.لیکن جب تک خلافت میں کوئی روک نہیں آتی اس وقت تک کون خلافت کو روک سکتا ہے اور اس وقت تک کہ خلیفہ ہو سکتا ہو جب کوئی خلافت کا انکار کرے گا وہ اسی حکم کے ماتحت آئے گا جو ابوبکر، عمر، عثمان رضی اللہ عنھم کے منکرین کا ہے.ہاں جب خلافت ہی نہیں تو اس کے ذمہ دار تم نہیں.سارق کی سزا قر آن مجید میں ہاتھ کاٹنا ہے.اب اگر اسلامی سلطنت نہیں اور چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتاتو یہ کوئی قصور نہیں.غیر اسلامی سلطنت اس حکم کی پابند نہیں.( منصب خلافت.انوار العلوم جلد ۲ ص ۶۱ ۶۲ ) سوال نمبر ۶:.غیر مبائعین کی طرف سے نظام خلافت کے تعلق میں ایک سوال یہ کیا جاتا ہے کہ خلافت راشدہ اولیٰ کے تمام خلفاء کو بادشاہت بھی حاصل تھی.اگر خلافت احمد یہ خلافت راشدہ اولیٰ کی ظل ہے اور خلافت علی منہاج نبوت ہے تو پھر خلافت احمدیہ کو بادشاہت کیوں حاصل نہیں ہوئی ؟ جواب:.اس سوال کے جواب میں حضرت مصلح موعود فر ماتے ہیں:.ہاں ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ خلیفہ اپنے پیش رو کے کام کی نگرانی کے لئے ہوتا ہے اسی لئے آنحضرت ﷺ کے خلفاء ملک و دین دونوں کی حفاظت پر مامور تھے کیونکہ آنحضرت کو اللہ تعالیٰ نے دینی اور دنیاوی دونوں بادشاہتیں دی تھیں لیکن مسیح

Page 423

۴۰۲ موعود جس کے ذریعہ آنحضرت ﷺ کا جمالی ظہور ہوا صرف دینی بادشاہ تھا اس لئے اس کے خلفاء بھی اسی طرز کے ہوں گے.(منصب خلافت ص ۱۳.انوارالعلوم جلد۲) سوال نمبرے:.ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ خلافت موعودہ جس کا اس آیت استخلاف میں ذکر ہے.محض اس خلیفہ کے متعلق ہے جو نبی کے معا بعد آتا ہے نہ کہ خلفاء کے ایک لمبے سلسلہ کے متعلق؟ جواب :.اس سوال کا جواب دیتے ہوئے حضرت مصلح موعودا اپنی تقریر بعنوان خلافت راشدہ میں فرماتے ہیں:.صلى الله رسول کریم ﷺ نے خود چاروں خلافتوں کو خلافت راشدہ قرار دیا ہے.آپ فرماتے ہیں عَنْ سَفِيْنَةَ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ لا يَقُولُ الْخِلَافَةُ ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَكُونُ مُلكًا یعنی حضرت سفینہ کہتے ہیں میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ میرے بعد خلافت صرف تھیں سال ہوگی اس کے بعد ملوکیت قائم ہو جائے گی.اور چاروں خلفاء کی مدت صرف تمیں سال ہی بنتی ہے.پس جب آنحضرت می خلافت کو چاروں خلفاء تک لمبا کرتے ہیں تو کسی دوسرے کا کیا حق ہے کہ اسے پہلے خلیفہ تک محدود کر دے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس خیال کو سر الخلافة میں بیان فرمایا ہے مگر یہ درست نہیں.آپ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ شیعوں کے رد میں ہے.وہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے اصل جانشین حضرت علی تھے.آپ اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ خلافت کا وعدہ قرآن کریم کی آیت وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمُ میں ہے اور اس میں جو شرائط پائی جاتی ہیں وہ بدرجہ کمال حضرت ابو بکر میں پائی جاتی ہیں.

Page 424

۴۰۳ پس آپ کا مطلب تو یہ ہے کہ قرآن کریم سے حضرت ابو بکر کی خلافت حضرت علی کی خلافت سے زیادہ ثابت ہے نہ یہ کہ حضرت علی خلیفہ نہ تھے.آپ نے اپنی کتب میں چار خلفاء کے الفاظ بھی استعمال کئے ہیں اور حضرت علی کی خلافت کا بھی ذکر فرمایا ہے.دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ پہلے خلیفہ کی خلافت ثابت ہو جائے تو دوسرے کی خود بخود ثابت ہو جاتی ہے.جیسے حضرت ابوبکر جب پہلے خلیفہ ہوئے اور پھر حضرت ابوبکر نے حضرت عمر کا انتخاب کیا اور مسلمانوں سے مشورہ کر کے انہیں خلیفہ مقرر کیا.سوال نمبر ۸:.جب ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے لیکن اس کے عملی اظہار کے لئے انتخاب کو ضروری قرار دیا ہے تو اس پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ حضرت عمرؓ کے لئے تو یہ طریق نہیں اپنایا گیا بلکہ حضرت ابوبکر صدیق نے اپنی زندگی میں ہی انہیں اپنے بعد بطور خلیفہ نامزد کر دیا تھا.اسی طرح حضرت عثمان کے انتخاب کے لئے بھی معروف طریق نہیں اپنایا گیا بلکہ حضرت عمرؓ نے اپنی زندگی میں ہی ۶، ۷ افراد پر مبنی ایک کمیٹی تشکیل دے دی تھی اور ساتھ یہ پابندی بھی لگا دی تھی کہ ابن عمر کے علاوہ دیگر کمیٹی کے افراد اپنے سے کسی کو متفقہ طور پر خلیفہ منتخب کریں گے.لہذا ان دونوں خلفاء کے لئے مروجہ طریق انتخاب عمل میں نہیں لایا گیا.جواب: اس سوال کا جواب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے اپنی کتاب سیرۃ خاتم النبین میں یوں فرماتے ہیں: اس شبہ کے جواب میں پہلے ہم حضرت عمرؓ کی خلافت کے سوال کو لیتے ہیں.سو جاننا چاہئے کہ بے شک اسلام میں خلافت و امارت کے قیام کے لئے مشورہ اور انتخاب کا طریق ضروری ہے مگر جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں مشورہ اور انتخاب کے طریق کی نوعیت اور اس کی تفاصیل کے

Page 425

۴۰۴ متعلق اسلام نے کوئی خاص شرط یا حد بندی مقرر نہیں کی بلکہ اس قسم کے فروعی سوالات کو وقتی حالات پر چھوڑ دیا ہے اور ظاہر ہے کہ مختلف قسم کے حالات میں مشورہ اور انتخاب کی صورت مختلف ہوسکتی ہے اور اس اصل کے ماتحت اگر بنظر غور سے دیکھا جاوے تو حضرت عمر کی خلافت کا معاملہ یوں طے ہوا تھا کہ جب حضرت ابوبکر جو ایک منتخب شدہ خلیفہ تھے فوت ہونے لگے تو چونکہ اس وقت تک ابھی فتنہ ارتداد کے اثرات پوری طرح نہیں مٹے تھے اور خلافت کا نظام بھی ابھی ابتدائی حالت میں تھا.حضرت ابو بکر نے یہ دیکھتے ہوئے کہ آئندہ خلافت کے لئے سب سے زیادہ موزوں اور اہل شخص حضرت عمرؓ ہیں اور یہ کہ اگر خلیفہ کے انتخاب کو رائے عامہ پر چھوڑ دیا گیا تو ممکن ہے کہ حضرت عمرا اپنی طبیعت کی ظاہری سختی کی وجہ سے انتخاب میں نہ آسکیں اور امت محمدیہ میں کسی فتنہ کا دروازہ کھل جاوے، اہل الرائے صحابہ کو بلا کر ان سے مشورہ لیا اور اس مشورہ کے بعد حضرت عمرؓ کو جن کا حضرت ابو بکڑ کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں تھا بلکہ قبیلہ تک جدا تھا اپنا جانشین مقرر کر دیا.حالانکہ اس وقت حضرت ابو بکر کے اپنے صاحبزادے اور دیگر اعزہ واقارب کثرت کے ساتھ موجود تھے.اب ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ صورت ایسی ہے کہ اسے ہر گز مشورہ اور انتخاب کی روح کے منافی نہیں سمجھا جاسکتا کیونکہ اول تو حضرت ابو بکڑ نے یہ فیصلہ خود بخود نہیں کیا بلکہ اہل الرائے صحابہ کے مشورہ کے بعد کیا تھا.دوسرے حضرت ابو بکر خود ایک منتخب شدہ خلیفہ تھے جس کی وجہ سے گویا ان کا ہر فیصلہ قوم کی آواز کا رنگ رکھتا تھا اور پھر انہوں نے اپنے کسی عزیز کو خلیفہ نہیں بنایا بلکہ ایک بالکل غیر شخص کو خلیفہ بنایا جس کے معاملہ میں یہ امکان نہیں ہو سکتا تھا کہ لوگ خلیفہ وقت کی قرابت کا لحاظ کر کے مشورہ میں کمزوری دکھائیں گے.اس صورت میں ہرگز یہ نہیں سمجھا جاسکتا کہ مشورہ اور انتخاب کے طریق کو تو ڑا گیا ہے.

Page 426

۴۰۵ بلکہ یہ صورت بھی درحقیقت مشورہ کی ایک قسم مجھی جائے گی.علاوہ ازیں حضرت عمرؓ کی خلافت کے متعلق آنحضرت ﷺ کی ایک صریح پیشگوئی بھی تھی.جس کی وجہ سے کسی مسلمان کو ان کی خلافت پر اعتراض نہیں ہوسکتا تھا اور نہ ہوا.بلکہ سب نے کمال انشراح کے ساتھ اسے قبول کیا.دوسرا سوال حضرت عثمان کی خلافت کا ہے.سو اول تو ان کا انتخاب خود محمد ودمشورہ سے ہی ہوا ہو مگر بہر حال وہ بطریق مشورہ تھا اور ان کی خلافت کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ سابقہ خلیفہ کے حکم سے قائم ہوئی تھی اور چونکہ اسلام نے مشورہ اور انتخاب کے طریق کی تفاصیل میں دخل نہیں دیا بلکہ تفاصیل کے تصفیہ کو وقتی حالات پر چھوڑ دیا ہے اس لئے محدود مشورہ کا طریق جو حضرت عثمان کی خلافت کے متعلق اختیار کیا گیا وہ ہرگز اسلامی تعلیم کے خلاف نہیں سمجھا جاسکتا.خصوصاً جبکہ اس بات کو بھی مدنظر رکھا جاوے کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف نے جو اس شوریٰ کے صدر تھے جس نے حضرت عثمان کی خلافت کا فیصلہ کیا اپنے طور پر بہت سے اہل الرائے صحابہ سے مشورہ کر لیا تھا اور رائے عامہ کو ٹولنے کے بعد خلافت کا فیصلہ کیا گیا تھا اور پھر یہ کہ اس وقت حالات ایسے تھے کہ اگر اس معاملہ کو کھلے طریق پر رائے عامہ پر چھوڑا جاتا تو ممکن تھا کہ کوئی فتنہ کی صورت پیدا ہو جاتی.علاوہ ازیں حضرت عمرؓ نے یہ بھی تصریح کر دی تھی کہ گو میرے لڑکے کو مشورہ میں شامل کیا جاوے.مگر اسے خلافت کا حق نہیں ہوگا.پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت عمر کی طرح حضرت عثمان کی خلافت کے متعلق بھی آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی تھی.اس لئے ان کی خلافت پر کسی مسلمان کو اعتراض نہیں ہوا.(سيرة خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے ص ۴۶،۴۵ نیا ایڈیشن از نظارت اشاعت ربوہ )

Page 427

سوال نمبر 9 - الْاَئِمَّةُ مِنَ الْقُرَيْش.بعض لوگ اس حدیث سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ خلفاء قریش میں سے ہوں گے.وو جواب.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے سیرۃ خاتم النبین میں تحریر فرماتے ہیں:.دلیل جو اس خیال کو غلط ثابت کرتی ہے یہ ہے کہ اسلام میں اصولاً قومی یانسلی خصوصیات کو دینی یا سیاسی حقوق کی بنیاد نہیں تسلیم کیا گیا.بالفاظ دیگر اسلام میں ان معنوں کے لحاظ سے کوئی ذاتیں نہیں کہ فلاں ذات کو یہ حقوق حاصل ہوں گے اور فلاں کو یہ بلکہ اس میں ذاتوں اور قوموں کو صرف تعارف اور شناخت کا ایک ذریعہ رکھا گیا ہے اور اس سے بڑھ کر کچھ نہیں.چنانچہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرُ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُم.وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَّ قَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ اكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمْ یعنی ”اے مسلمانو ! تمہارے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ ایک قوم دوسری قوم پر اپنی بڑائی بیان کرے یا دوسری قوم کو اپنے سے نیچا سمجھے.کیونکہ تمہیں کیا معلوم ہے کہ خدا کی نظروں میں کون بڑا ہے اور ہم نے جو تمہیں دنیا میں قوموں اور قبائل کی صورت میں بنایا ہے تو اس کی غرض صرف یہ ہے کہ تم آپس کی شناخت اور تمیز میں آسانی پاؤ.یہ نہیں کہ تم اس تفریق پر کسی قسم کی بڑائی یا خاص حقوق کی بنیاد سمجھو.کیونکہ خدا کی نظر میں تم میں سے بڑا وہ ہے جو خدائی قانون کی زیادہ اطاعت اختیار کرتا ہے.خواہ وہ کوئی ہو.اس واضح اور غیر مشکوک اصولی تعلیم کے علاوہ قرآن شریف خاص خلافت و امارت کے سوال میں بھی قومی یا خاندانی حق کے خیال کو رد کرتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے اِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا اَلَامَنتِ إِلَى أَهْلِهَا لا

Page 428

وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ط یعنی ” خدا تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ باگ ڈور صرف اہل لوگوں کے سپرد کیا کرو (خواہ وہ کوئی ہوں ) اور جولوگ امیر منتخب ہوں انہیں چاہئے کہ اپنی حکومت کو عدل وانصاف کے ساتھ چلا ئیں.اس آیت میں خلیفہ یا امیر کے لئے صرف یہ شرط رکھی گئی ہے کہ وہ حکومت کا اہل ہو اور اس کے علاوہ کوئی اور شرط نہیں لگائی گئی جو اس بات کی یقینی دلیل ہے کہ اسلام میں خلیفہ یا امیر کے لئے اہلیت کے سوا کوئی شرط نہیں ہے.اسی طرح حدیث میں آنحضرت فرماتے ہیں:.عن انس ان رسول الله الله قَالَ اِسْمَعُوا وَأَطِيعُوا وَإِن اسْتُعْمِلَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ حَبَشِی یعنی حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ اے مسلمانو! اگر تم پر ایک حبشی غلام بھی امیر بنا دیا جاوے تو تمہارا فرض ہے کہ اس کی اطاعت کرو.اگر اسلام میں امیر کا قریشی ہونا ضروری تھا تو آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد بے معنی قرار پاتا ہے بلکہ اس صورت میں آپ کو یہ فرمانا چاہئے تھا کہ تم ہر قریشی امیر کی فرمانبرداری کرو خواہ وہ کیسا ہی ہو.الغرض کیا بلحاظ اصول کے اور کیا بلحاظ تخصیص کے یہ بات بالکل غلط اور بے بنیاد ہے کہ اسلام میں حکومت اور خلافت کو کسی خاص قوم کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا ہے اور اسلامی تعلیم کی روح اس خیال کو دور سے دھکے دیتی ہے.اب رہا یہ سوال کہ پھر ان احادیث کا کیا مطلب ہے جن میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ خلفاء اور ائمہ قریش میں سے ہوں گے.سوان احادیث پر ایک ادنی تدبر بھی اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ یہ ایک پیشگوئی تھی نہ کہ حکم یا سفارش یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے آنحضرت علی کے ذریعہ اور بہت سی باتوں کا اظہار فرمایا تھا جو

Page 429

۴۰۸ آئندہ ہونے والی تھیں اسی طرح جو خلفاء آپ کے بعد ہونے والے تھے ان کے متعلق آپ کو یہ علم دیا گیا تھا کہ وہ قبیلہ قریش میں سے ہوں گے اور پیشگوئی کی صورت میں قطعاً کوئی اعتراض نہیں رہتا کیونکہ بہر حال خلفاء نے کسی نہ کسی قوم یا قبیلہ میں سے ہونا تھا اور اگر اس وقت کے حالات کے ماتحت وہ سب کے سب قریش میں سے ہوئے تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا.اس زمانہ میں قریش کو دوسرے قبائل عرب پر ایک حقیقی اور یقینی فوقیت حاصل تھی اور انہیں چھوڑ کر کسی دوسرے قبیلہ میں عنان حکومت کا جانا ملک کے لئے سخت ضرر رساں تھا اور یقیناً کوئی دوسرا قبیلہ اس خیر و خوبی کے ساتھ نظام حکومت کو چلا نہ سکتا جیسا کہ آنحضرت ﷺ کے بعد اسلام کے ابتدائی خلفاء نے چلایا مگر اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ اسلام نے قریش کو ہمیشہ کے لئے حکومت کا ٹھیکہ دے دیا تھا.چنانچہ اگر ایک طرف آنحضرت ﷺ کا یہ قول مروی ہوا ہے کہ میرے بعد خلفاء و ائمہ اسلام قریش میں سے ہوں گے تو دوسری طرف آپ نے یہ بھی فرمایا کہ بالآخر قریش حکومت کی اہلیت کو کھو بیٹھیں گے اور اسلام کی حکومت کو تباہ و برباد کرنے کا موجب بن جائیں گے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے.عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ لا الله هَلَكَةُ أُمَّتِي عَلَى يَدَى غِلْمَةٍ مِنْ قُرَيْشٍ يعنى ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت علی فرمایا کرتے تھے کہ میری امت کی تباہی بالآخر قریش کے نوجوانوں کے ہاتھوں سے ہوگی“.یعنی جب قریش کی حالت خراب ہو جائے گی اور وہ حکومت کے اہل نہیں رہیں گے تو پھر اس کے بعد ان کے ہاتھ میں حکومت کا رہنا بجائے رحمت کے زحمت ہو جائے گا اور بالآخر قریش ہی کے ہاتھوں سے اسلامی حکومت کی تباہی کا سامان پیدا ہو جائے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اور یہ جو بعض حدیثوں میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ قریش کی امارت

Page 430

۴۰۹ قیامت تک رہے گی.اس سے بھی یہی مراد ہے کہ امت اسلامی کی تباہی تک قریش بر سر حکومت رہیں گے اور پھر بالآخر انہیں کے ہاتھوں سے تباہی کا بیج بویا جا کر اسلام میں ایک نئے دور کا آغاز ہو جائے گا.خلاصہ کلام یہ کہ قرآن و احادیث کے مجموعی مطالعہ سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوتی ہے کہ قریش کی امارت وخلافت کے متعلق جو آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے اس سے محض پیشگوئی مراد ہے، حکم یا سفارش مراد نہیں اور پھر یہ پیشگوئی بھی میعادی اثر رکھتی تھی یعنی اسلام کے دور اول کے ساتھ مخصوص تھی اور آپ کا منشاء یہ تھا کہ چونکہ اس وقت حکومت کی اہلیت سب سے زیادہ قریش میں ہے اس لئے آپ کے بعد وہی بر سر حکومت واقتدار ر ہیں گے.لیکن جب ایک عرصہ کے بعد وہ اس اہلیت کو کھو بیٹھیں گے تو پھر اس وقت امت محمدیہ پر ایک انقلاب آئے گا اور اس کے بعد ایک نئے دور کی داغ بیل قائم ہو جائے گی.الغرض یہ بات درست نہیں ہے کہ اسلام نے حکومت کے حق کو کسی خاص خاندان یا قوم کے ساتھ محدود کر دیا ہے بلکہ حق یہ ہے کہ اسلام میں حکومت انتخاب سے قائم ہوتی ہے اور انتخاب میں ہر شخص کے لئے دروازہ کھلا رکھا گیا ہے.( سيرة خاتم النبین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اے.اے ص ۶۴۴ - ۶۴۷ نیا ایڈیشن)

Page 431

۴۱۰ خلافت احمدیہ پر اعتراضات کے جوابات سوال نمبر 1:.خلافت احمدیہ پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں پہلے تو خلافت نبوت کے علاوہ خلافت ملوکیت کا بھی ذکر ہے.پھر خلافت ملوکیت کو چھوڑ کر آیت استخلاف میں صرف خلافت نبوت کے ساتھ اس کی مشابہت کو کیوں مخصوص کیا گیا ہے؟ جواب:.آیت استخلاف کے الفاظ بتاتے ہیں کہ گو مسلمانوں سے دوسری آیات میں بادشاہتوں کا بھی وعدہ ہے مگر اس جگہ بادشاہت کا ذکر نہیں ہے بلکہ صرف مذہبی نعمتوں کا ذکر ہے.چنانچہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمُ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمُ که خدا اپنے قائم کردہ خلفاء کے دین کو دنیا میں قائم کر کے رہتا ہے.اب یہ اصول دنیا کے بادشاہوں کے متعلق نہیں اور نہ ان کے دین کو خدا تعالیٰ نے کبھی دنیا میں قائم کیا بلکہ یہ اصول روحانی خلفاء کے متعلق ہی ہے.پس یہ آیت ظاہر کر رہی ہے کہ اس جگہ جس خلافت سے مشابہت دی گئی ہے وہ خلافت نبوت ہی ہے نہ کہ خلافت ملوکیت.اسی طرح فرماتا ہے.وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمُ اَمُنًا کہ خدا ان کے خوف کو امن سے بدل دیا کرتا ہے.یہ علامت بھی دنیوی بادشاہوں پر کسی صورت میں چسپاں نہیں ہو سکتی.کیونکہ دنیوی بادشاہ اگر آج تاج و تخت کے مالک ہوتے ہیں تو کل تخت سے علیحدہ ہو کر بھیک مانگتے دیکھے جاتے ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کے خوف کو امن سے بدل دینے کا کوئی

Page 432

۴۱۱ وعدہ نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات جب کوئی سخت خطرہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اس کے مقابلہ کی ہمت تک کھو بیٹھتے ہیں.پھر فرماتا ہے يَعْبُدُو نَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا کہ وہ خلفاء میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے.گویا وہ خالص موحد اور شرک کے شدید ترین دشمن ہوں گے.مگر دنیا کے بادشاہ تو شرک بھی کر لیتے ہیں حتی کہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ ان سے کبھی کفر بواح صادر ہو جائے.پس وہ اس آیت کے مصداق کس طرح ہو سکتے ہیں.چوتھی دلیل جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان خلفاء سے مراد د نیوی بادشاہ ہرگز نہیں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ یعنی جو لوگ ان خلفاء کا انکار کریں گے وہ فاسق ہو جائیں گے.اب بتاؤ کہ جو شخص کفر بواح کا بھی مرتکب ہوسکتا ہو.آیا اس کی اطاعت سے خروج فسق ہوسکتا ہے؟ یقیناً ایسے بادشاہوں کی اطاعت سے انکار کرنا انسان کو فاسق نہیں بنا سکتا.فسق کا فتویٰ انسان پر اسی صورت میں لگ سکتا ہے جب وہ روحانی خلفاء کی اطاعت سے انکار کرے.غرض یہ چاروں دلائل جن کا اس آیت میں ذکر ہے اس امر کا ثبوت ہیں کہ اس آیت میں جس خلافت کا ذکر کیا گیا ہے وہ خلافت ملوکیت نہیں.پس جب خدا نے یہ فرما ياليَسْتَخْلِفَنَّهُمُ فِى الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ کہ ہم ان خلیفوں پر ویسے ہی انعامات نازل کریں گے جیسے ہم نے پہلے خلفاء پر انعامات نازل کئے تو اس سے مراد یہی ہے کہ جیسے پہلے انبیاء کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد ہوتی رہی ہے اسی طرح ان کی مدد ہوگی.پس اس آیت میں خلافت نبوت سے مشابہت مراد ہے

Page 433

۴۱۲ نہ کہ خلافت ملوکیت ہے.سوال نمبر ۲:.جماعت احمدیہ کی خلافت پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ خلیفہ وقت کے لئے بادشاہ ہونا ضروری ہے.اس کی قرآن کریم سے دلیل یہ دی جاتی ہے که آیت استخلاف کا شان نزول یہ ہے کہ جب کفار کے مظالم حد سے بڑھ گئے اور صحابہ نے کچھ مایوسی کا اظہار کرنا شروع کر دیا تو اس وقت مسلمانوں کو آئندہ حکومت و بادشاہت ملنے کی امید دلا کر ان کو حوصلہ اور تسلی دی گئی.نیز آیت استخلاف میں لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمُ فِي الْأَرْضِ میں لفظ الْاَرْضِ سے زمینی اور دنیاوی بادشاہت کا استدلال کیا جاتا ہے.اور اس دعوی کی عملی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ خلافت راشدہ اولیٰ کو روحانی خلافت کے ساتھ ساتھ زمینی بادشاہت یعنی حکومت بھی عطا کی گئی تھی ؟ جواب:.خلافت کے لئے حکومت کا ملنا ضروری نہیں ہے.ا.جہاں تک شان نزول کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں عرض ہے کہ کسی آیت کے مضامین اور مطالب کو محض شان نزول تک محدود کر دینا یہ قرآنی روح کے منافی ہے.اگر اس اصول کو درست تسلیم کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ متعلقہ آیت کریمہ کا کوئی اور مفہوم اور مطلب نہیں ہوسکتا.حالانکہ قرآن کریم کے کئی بطن اور ایک سے زیادہ مضامین ایک مسلمہ حقیقت ہے.علاوہ ازیں شان نزول کا معیار محض ایک ذوقی استدلال ہے یہ کوئی تسلیم شدہ معیار نہیں.لہذا ہر آیت کی شان نزول کی روشنی میں تشریح تفسیر کرنا ضروری نہیں.۲.جہاں تک آیت استخلاف میں لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ کے الفاظ میں فِی الأرضِ سے زمینی بادشاہت یعنی حکومت کا استدلال ہے تو یہ بھی قرآنی محاورہ

Page 434

۴۱۳ کی روشنی میں درست نہیں کیونکہ قرآن کریم میں دیگر مقامات پر خلافت کے ساتھ الارض کا لفظ استعمال کیا گیا ہے مگر وہاں خلافت سے مراد حکومت نہیں لیا جاتا.جیسا کہ حضرت آدم کے لئے فرما یا إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً (بقرہ: ۳۱) یقیناً میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں.اسی طرح فرمایا وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْاَرْضِ (النمل:۶۳) اور وہ تمہیں زمین کے وارث بناتا ہے.اسی طرح سورۃ یونس میں فرمایا کہ ثُمَّ جَعَلْنَكُمْ خَلَّيْفَ فِي الْأَرْضِ مِنْ بَعْدِهِمْ لِنَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ.(یونس: ۱۵) پھر ان کے بعد ہم نے تمہیں زمین میں (ان کا) جانشین بنایا تا کہ ہم دیکھیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو.اس آیت کریمہ میں تو آیت استخلاف کی طرح اعمال کا بھی ذکر آیا ہے جس طرح آیت استخلاف میں خلافت اعمال صالحہ کے ساتھ مشروط قرار دی گئی ہے اسی طرح اس آیت کریمہ میں خلافت دینے کا مقصد ہی اچھے اعمال بجالانا شرط قرار دیا گیا ہے.لہذا یہ استدلال کہ آیت استخلاف میں خلافت فی الارض کا ذکر ہے اس لئے خلافت روحانی کے ساتھ دنیاوی بادشاہت اور حکومت کا ملنا ضروری ہے، درست قرار نہیں پاتا..یہ دلیل کہ خلافت راشدہ اولی یعنی خلفاء اربعہ کو دنیاوی بادشاہت بھی حاصل تھی.مگر یا درکھنا چاہئے کہ اس وقت کے مخصوص حالات کے پیش نظر خلفاء اربعہ کو دنیاوی بادشاہت کا حاصل ہونا آئندہ کے لئے کوئی قاعدہ کلیہ قرار نہیں دیا جاسکتا.خلفاء اربعہ کو حکومت ملنا ان کے لئے ایک جزوی امتیاز تھا.آنحضرت ﷺ نے اپنے بعد جس خلافت کی پیشگوئی فرمائی تھی اس میں اپنے بعد خلافت علی منہاج نبوت کی

Page 435

۴۱۴ تخصیص کی گئی تھی.پھر خلافت علی منہاج نبوت کے بعد درمیانی زمانہ کے حالات و واقعات اور خرابیوں کا ذکر کر کے آخری زمانہ میں دوبارہ خلافت علی منہاج نبوت کا ذکر ملتا ہے.خلافت علی منہاج نبوت سے مراد ایسی خلافت جو نبوت کے طریق پر قائم ہو اور جس کا مقصد انبیاء علیہم السلام کے مشن کو ہی آگے بڑھانا ہے.تاریخ انبیاء کے مطالعہ سے صرف چند ایک ایسے انبیاء کا ذکر ملتا ہے جن کو نبوت کے ساتھ حکومت بھی حاصل تھی.باقی تمام انبیاء کو دنیاوی حکومت حاصل نہ تھی.لہذا ثابت یہ ہوا کہ خلافت علی منہاج نبوت سے مراد ایسی خلافت ہے جس کے لئے حکومت ارضی کا حاصل ہونا ضروری نہیں.ویسے بھی مماثلت کے لئے ہر امر میں مشابہ ہونا ضروری نہیں جزوی مشابہت سے بھی مماثلت ثابت ہو سکتی ہے.لہذا خلافت احمدیہ پر یہ اعتراض کہ اس کو چونکہ حکومت یا با دشاہت حاصل نہیں لہذا یہ آیت استخلاف کی مصداق یا خلافت راشدہ کی مثیل نہیں ہو سکتی غلط اور بے بنیاد ہے.سوال نمبر ۳:.کیا خلیفہ مامورمن اللہ ہوتا ہے؟ خص جواب:.اس سوال کا جواب دیتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ خلیفہ وہ ہوتا ہے جو بادشاہ ہو یا مامور ہو تم کون ہو؟ بادشاہ ہو؟ میں کہتا ہوں نہیں.مامور ہو؟ میں کہتا ہوں نہیں.پھر تم خلیفہ کس طرح ہو سکتے ہو؟ خلیفہ کے لئے بادشاہ یا مامور ہونا شرط ہے.یہ اعتراض کرنے والے لوگوں نے خلیفہ کے لفظ پر ذرا بھی تدبیر نہیں کیا.یہ ایسی ہی بات ہے کہ ایک مخی درزی کی دکان پر جائے اور دیکھے کہ ایک لڑکا اپنے استاد کو کہتا ہے ” خلیفہ جی“.وہ وہاں سے آکر لوگوں کو کہنا شروع کر دے کہ خلیفہ تو درزی کو کہتے ہیں اور کوئی شخص جو درزی کا کام نہیں کرتا وہ خلیفہ کس طرح ہو سکتا ؟ اسی طرح ایک شخص مدرسہ میں جائے

Page 436

۴۱۵ پہلے زمانہ میں مانیٹر کو خلیفہ کہتے تھے اور لڑکوں کو ایک لڑکے کو خلیفہ کہتے سنے اور باہر آکر کہہ دے کہ خلیفہ تو اسے کہتے ہیں جولڑکوں کا مانیٹر ہوتا ہے.اس لئے وہ شخص جو لڑکوں کا مانیٹر نہیں وہ خلیفہ نہیں ہوسکتا.خلیفہ کے لئے تو لڑکوں کا مانیٹر ہونا شرط ہے.اسی طرح ایک شخص دیکھے کہ آدم علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے خلیفہ بنایا اور ان کے فرشتوں کو حکم دیا کہ سجدہ کرو.وہ کہے کہ خلیفہ تو وہی ہوسکتا ہے جس کو سجدہ کرنے کا حکم فرشتوں کا ملے ورنہ نہیں ہوسکتا.اسی طرح ایک اور شخص آنحضرت ﷺ کے خلفاء کو دیکھے جن کے پاس سلطنت تھی تو کہے کہ خلیفہ تو اس کو کہتے ہیں جس کے پاس سلطنت ہو اس کے سوا اور کوئی خلیفہ نہیں ہوسکتا کیونکہ خلیفہ کے لئے سلطنت کا ہونا شرط ہے لیکن ایسا کہنے والے اتنا نہیں سمجھتے کہ خلیفہ کے لفظ کے معنی کیا ہیں؟ اس کے یہ معنی ہیں کہ جس کا خلیفہ کہلائے اس کا وہ کام کرنے والا ہوا اگر کوئی درزی کا کام کرتا ہے تو وہی کام کرنے والا اس کا خلیفہ ہے اور گر کوئی طالب علم کسی استاد کی غیر حاضری میں اس کا کام کرتا ہے تو وہ اس کا خلیفہ ہے.اسی طرح اگر کوئی کسی نبی کا کام کرتا ہے تو وہ اس نبی کا خلیفہ ہے اگر خدا نے نبی کو بادشاہت اور حکومت دی ہے تو خلیفہ کے پاس بھی بادشاہت ہونی چاہئے اور خدا خلیفہ کوضرور حکومت دے گا اور اگر نبی کے پاس ہی حکومت نہ ہو تو خلیفہ کہاں سے لائے.آنحضرت ﷺ کو چونکہ خدا تعالیٰ نے دونوں چیزیں یعنی روحانی اور جسمانی حکومتیں دی تھیں اس لئے ان کے خلیفہ کے پاس بھی دونوں چیزیں تھیں.لیکن اب جبکہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حکومت نہیں دی تو اس کا خلیفہ کس سے لڑتا پھرے کہ مجھے حکومت دو.ایسا اعتراض کرنے والے لوگوں نے خلیفہ کے لفظ پر غور نہیں کیا.(سوانح فضل عمر جلد دوم ص ۵۰ تا ۵۲ )

Page 437

۴۱۶ حضرت مسیح موعود کی جانشین شخصی خلافت یا انجمن جماعت احمد یہ مبائعین اور پیغامیوں یعنی غیر مبائعین کے درمیان سب سے بڑا اختلافی مسئلہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد رسالہ الوصیت کے مطابق شخصی خلافت کی قائل ہے.جبکہ پیغامی یعنی غیر مبائعین کا نقطہ نظر یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد نظام خلافت قائم کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ جماعت کے تمام معاملات اور امور کی نگران کسی شخصی خلافت کی بجائے انجمن معتمدین ہونی چاہئے.مگر اس مسئلہ کا حل خود خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمُ ((نور (۵۶) یعنی اللہ تعالیٰ مسلمانوں میں بھی اسی طرح کے خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے لوگوں میں بنائے.اس آیت سے دو باتیں ثابت ہوئیں.ایک تو یہ کہ مسلمانوں میں اللہ تعالیٰ ویسے ہی خلیفے بنائے گا جیسے پہلوں میں بنائے.اب اگر پہلی امتوں میں نبیوں کے بعد انجمنیں بنتی تھیں تو اب بھی انجمن ہی خلیفہ ہوگی اور اگر پہلی قوموں میں شخص واحد نبی کا قائم مقام ہوتا رہا تو اب بھی شخص واحد ہی قائم مقام ہوگا.پس سوال یہ ہے کہ کیا پہلے کسی نبی کا خلیفہ کبھی انجمن بھی ہوئی ہے؟ کبھی نہیں.حضرت موسیٰ کا خلیفہ بھی ایک ہی شخص ہوا.پس ضرور تھا کہ نبی کریم کا خلیفہ بھی ایک ہی شخص ہوتا اور مسیح موعود علیہ السلام کا خلیفہ بھی ایک ہی شخص ہوتا نہ انجمنیں.کیونکہ لفظ گئما نے اس مسئلہ کو بالکل صاف کر دیا ہے اور آیت هو الذى

Page 438

۴۱۷ بعث فی الامین رسولا مهم يتلوا عليهم ايله ويزكيهم و يعلمهم الكتب والحكمة ط وان كانوا من قبل لفى ضلال مبين وآخرين منهم لما يلحقوا بهم (سوره (جمعه) سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح نبی کریم صلى الله کے بعد خلافت ہوئی.اسی طرح مسیح موعود کے بعد ہوگی.کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا صلى الله ہے کہ مسلمانوں کی تربیت رسول کریم و دو وقت کریں گے.ایک ابتداء اسلام میں.ایک آخری زمانہ میں.پس مسیح موعود کے کام کو ان کے کام سے مشابہت دے کر اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ آخری زمانہ بھی اول زمانہ کے مشابہ ہوگا.پس ضرور ہے الله کہ آج بھی اسی طرح خلافت ہو جس طرح رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں تھی.اسی طرح قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وشاورهم في الامر فاذا عزمت فتوكل على الله (آل عمران رکوع ۱۷) یعنی تو معاملات میں ان لوگوں سے مشورہ لے لیا کر.لیکن جب تو عزم اور ارادہ مصم کرلے تو پھر اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے اپنے عزم و منشا کے مطابق کام کر.اس آیت میں بھی خلافت کا مسئلہ صاف کر دیا گیا ہے کیونکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ یہ آیت میری امت پر ایک رحمت ہے اور جو اس پر عمل کر کے مشورہ سے کام کرے گا وہ کامیاب ہوگا.اور جو بلا مشورہ کام کرے گا وہ ہلاک ہوگا اور اس طرح آنحضرت میا نے بتا دیا ہے کہ یہ آیت آپ کے ساتھ مخصوص نہیں.بلکہ آپ کے بعد بھی اس پر عملدرآمد جاری رہے گا.پس شاور کے لفظ سے جس میں ایک آدمی کو مخاطب کیا گیا ہے صاف معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ے کے بعد صرف ایک شخص خلیفہ ہوگا اور وہ لوگوں سے مشورہ لینے کے بعد جو بات خدا اس کے دل میں ڈالے اس پر عمل ہوگا اور لوگوں کے مشورہ پر چلنے کا پابند نہیں ہوگا.کیونکہ دوسری حدیث سے ثابت ہے کہ یہ آیت اصل میں آپ کے بعد کے حکام کے

Page 439

۴۱۸ لئے ہے.پس خلافت قرآن کریم سے ثابت ہے اور آیت استخلاف اور آیت مشاورة اس مسئلہ کا فیصلہ کر دیتی ہیں.اسی طرح جب بنی اسرائیل نے اپنے ایک نبی سے اپنے اوپر ایک حاکم مقرر کرنے کی درخواست کی تو ان کے لئے کوئی انجمن نہ مقرر کی گئی بلکہ ان کے نبی نے یہ کہا کہ ان الله قد بعث لكم طالوت ملکا خدا نے تجھ پر طالوت کو بادشاہ بنایا ہے.جس پر اس وقت بھی چند لوگوں نے کہا ونحن احق بالملک منـه اگر جمہوریت خدا تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ ہوتی تو ایک انجمن مقرر کی جاتی نہ بادشاہ.اگر کہو کہ اس وقت زمانہ اور تھا اور اب اور ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں صاف فرما چکا ہے کہ امت محمدیہ کی خلافت امت بنی اسرائیل کی خلافت کے مطابق ہوگی.جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے.خلافت طالوت کے متعلق یہ بات بھی قابل غور ہے کہ طالوت کا حکم قطعی قرار دیا گیا ہے اور جولوگ طالوت کے احکام کو مانتے تھے.انہیں کو مومن کہا ہے اور آیت استخلاف میں بھی خلفاء کے منکرین کو فاسق کہا ہے جیسا کہ فرمایا فمن کفر بعد ذلك فاولئک هم الفاسقون خلفاء کے کافر فاسق ہوں گے.یہ مسئلہ بھی یادر کھنے کے قابل ہے کہ حضرت آدم کو بھی خدا تعالیٰ نے خلیفہ بنایا.اور اس وقت جمہوریت کو قائم نہیں کیا تھا اور ان کے وجود پر ملائکہ نے اعتراض بھی کیا مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا.انی اعلم مالا تعلمون پھر ملائکہ نے تو اپنے اعتراض سے رجوع کر لیا.لیکن ابلیس نے رجوع نہ کیا اور ہمیشہ کے لئے ملعون ہوا.پس خلافت کا انکار کوئی چھوٹا سا انکار نہیں.شیطان جو اول الکافرین ہے وہ بھی خلیفہ کے انکار سے ہی کا فر بنا تھا.اب دیکھنا یہ ہے کہ کون ملائکہ میں سے بنتا ہے اور کون ابلیس کا بھائی

Page 440

بنتا ہے.۴۱۹ مندرجہ بالا حوالجات سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ قرآن شریف سے شخصی خلافت ثابت ہے نہ کہ جمہوری اور قدیم سے اللہ تعالیٰ کی سنت یہی چلی آئی ہے کہ وہ نبی کے بعد ایک شخص کو خلیفہ بناتا ہے اور اس کے بعد دوسرے کو نہ یہ کہ چند آدمیوں کو ایک ہی وقت میں خلیفہ بنا دیتا ہے.شخصی خلافت کا ثبوت حدیث سے احادیث سے ثابت ہے کہ خلیفہ کا وجود ضروری ہے اور آنحضرت نے بھی جمہوریت کو نہیں قائم کیا بلکہ خلافت کو قائم کیا ہے اور یہی نہیں بلکہ آپ نے صحابہ گو وصیت کی کہ میرے بعد اختلافات پھیلیں گے مگر تم میرے خلفاء کی سنت پر عامل ہونا اور انہیں کے طریق پر چلنا.اوصیکم بتقوى الله والسمع والطاعة وان كان عبدا حبشيـا فـانـه مـن يعش منكم بعدى فيرى اختلافا كثيرًا فعلیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدين المهدين من بعدى تمسكوا بها و عضوا عليها بالنواجذ اياكم ومحدثات الامور میں تمہیں تقویٰ اللہ کی ہدایت کرتا ہوں اور اطاعت و فرمانبرداری کی.خواہ تم پر حبشی غلام ہی سردار کیوں نہ ہو.کیونکہ میرے بعد جو زندہ رہیں گے اور جلدی ہی دیکھیں گے کہ بہت اختلاف ہو جائے گا.پس تم میری اور میرے خلفاء کی جو راشد اور مہدی ہوں گے سنت کو مضبوط پکڑنا اور دانتوں میں زور سے دبائے رکھنا.یعنی چھوڑنا نہیں اور نئی نئی باتیں جو نکلیں ان سے بچنا.اس حدیث میں رسول کریم نے اپنی امت کو خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرنے کی ہدایت کی ہے.اس حدیث سے نہ صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم

Page 441

۴۲۰ کے قائم مقام ایک ایک آدمی ہوں گے بلکہ یہ بھی کہ ان کے اعمال ایک سنت نیک ہوں گے جن پر چلنا مومن کا فرض ہے اور ان کے خلاف چلنا ضلالت ہے.ایک اور حدیث بھی ہے جس میں رسول کریم علیہ فرماتے ہیں.اگر دو خلیفے ہوں تو ایک کو قتل کر دینا چاہئے.اذابـويـع لخليفتين فاقتلوا الآخر منهما (مسلم)جب دو خلیفوں کی بیعت کی جائے تو جو بعد میں ہواسے قتل کر دو.پس صاف معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم نے ایک ہی خلیفہ تجویز کیا ہے اور جمہوریت کو قطعاً پسند نہیں کیا.اس سے بھی بڑھ کر یہ بات ہے کہ حدیث میں حضرت عباس کی نسبت یہ دعا آئی ہے کہ واجعل الخلافة باقية في عقبہ.اس کی اولاد میں خلافت کا سلسلہ جاری رکھ.خلفاء اربعہ کی خلافت کے آسمانی اور خدائی ہونے کا ثبوت یہ بھی ہے کہ رسول کریم نے حضرت عثمان کو فرمایا.انه لعل الله يقمصک قمیصا فان ارادوک على خلعه فلا تخلعه لهم (ترمذی) یعنی خدا تعالیٰ تجھے کرتہ پہنائے گا.اور لوگ اسے اتارنا چاہیں گے.مگر تم اسے ہرگز نہ اتارنا.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خلافت کا سلسلہ اسلام میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہوا.کیونکہ رسول کریم نے یہ فرمایا ہے کہ خدا تجھے کرتہ پہنائے گا.نہ یہ کہ لوگ پہنا ئیں گے.خلافت کو خدا کی طرف منسوب کیا ہے.اگر جمہوریت اسلام میں ہوتی.تو آنحضرت یہ فرماتے کہ لوگ تجھے کرتا پہنانا چاہیں گے لیکن تم انکار کر دیجیو.اور کہہ دیجیو کہ یہ جمہوریت کے خلاف ہے.اور تعلیم اسلام کے خلاف.اس لئے میں خلیفہ نہیں بنتا.مگر آپ نے فرمایا کہ خدا پہنائے گا اور لوگ اتارنا چاہیں گے.مگر تم جمہوریت کا ذرا خیال نہ کرلو.اور یہ کرنہ نہ ا تار یو.پس صاف معلوم ہوا کہ خلافت ہی اسلام کے احکام کے ماتحت ہے نہ جمہوریت.

Page 442

۴۲۱ اس جگہ یہ بات خاص طور پر یاد رکھنی چاہئے کہ باوجود یکہ حضرت عثمان کی خلافت کا فیصلہ ایک مجلس شوری کے ذریعہ قرار پایا تھا مگر پھر بھی آنحضرت یہ حضرت عثمان سے فرماتے ہیں کہ قمیص خلافت کا پہنانے والا خدا تعالیٰ ہوگا نہ کہ مجلس شوری.اسی طرح حدیث میں ہے کہ ایک عورت رسول کریم کے پاس آئی اور آپ سے کچھ سوال کیا.آپ نے اسے فرمایا کہ پھر آنا.اس نے کہا کہ اگر میں آؤں اور آپ نہ ہوں یعنی آپ فوت ہو چکے ہوں.آپ نے فرمایا کہ اگر تو مجھے نہ پائے تو ابو بکر سے کہیو.اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے علم میں آپ کے بعد خلافت شخصی تھی (جس کو آپ نے بھی حکم قرار دیا.اور اپنا قائم مقام نہ صرف تسلیم فرمایا بلکہ خود بتا دیا) نہ جمہوریت.ورنہ یوں فرماتے کہ میرے بعد انجمن کے پاس آئیو.جو میرے قائم مقام ہو.نیز احادیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم جب کبھی کسی سفر یا غزوہ پر جاتے تھے تو مدینہ میں کسی ایک شخص کو اپنا خلیفہ بنا جاتے تھے.خلافت کے مسئلہ پر صحابہ کا تعامل اور اجماع قرآن وحدیث کے بعد اجماع صحابہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.والسابقون الاولون من المهاجرين والانصار والذين اتبعوهم باحسان رضی الله عنهم ورضوا عنه.اور مہاجرین وانصار سے سابق اور اول صحابہ اور جو پوری طرح ان کی اتباع کریں.اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہوئے.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ صحابہ کی اتباع ہی پر خدا راضی ہوسکتا ہے اور صحابہ کا اجماع دوم اس بات پر ہوا ہے کہ رسول کریم کا اس سے پہلا اجماع قائم مقام کوئی خلیفہ ہونا چاہئے اور سب صحابہ نے حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر

Page 443

۴۲۲ بیعت کی اور پھر حضرت عمرؓ کے ہاتھ پر بیعت کی.پھر حضرت عثمان کے ہاتھ پر.پھر حضرت علیؓ کے ہاتھ پر.کل صحابہ کا ایک کے بعد دوسرے کے ہاتھ پر بغیر اختلاف کے بیعت کرتے جانا ثابت کرتا ہے کہ سب اس بات پر متفق تھے اور کسی جماعت صحابہ کا انکار مسئلہ خلافت پر ثابت نہیں.بلکہ سب مقر تھے.پس صحابہ کے اجماع کے خلاف فتوی دینے والا خدا تعالیٰ کی رضا کیونکر حاصل کر سکتا ہے.صحابہ تو لھم اجمعون خلافت کے مسئلہ پر ایمان لائیں اور اپنی ساری عمر اس پر عامل رہیں اور خدا ان کی اتباع کو اپنی رضا کا موجب قرار دے.اور آج چند اشخاص اٹھ کر کہیں کہ شخصی خلافت مراد نہیں اسلام میں جمہوریت ہے.حضرت مسیح موعود کی شہادت خلافت کے متعلق حضرت اقدس نے حمامۃ البشری میں یہ حدیث درج فرمائی ہے.ثم يسافر المسيح الموعود او خليفة من خلفائه الى ارض دمشق اس حدیث کو نقل کر کے حضرت صاحب نے خلافت کے مسئلہ پر دو گواہیاں ثبت کر دی ہیں ایک تو نبی کریم کی گواہی کہ مسیح موعود کے بھی خلیفے ہوں گے اور دوسری اپنی گواہی کیونکہ آپ نے اس حدیث کو قبول کیا ہے پس آپ نے اپنے بعد جو کچھ ہونے والا تھا.اس کا اظہار اس حدیث کے درج کر دینے سے اپنی وفات سے قریباً پندرہ سال پہلے کر دیا تھا کہ میرے بعد خلیفے ہوں گے.اگر خلیفوں کا ہونا خلاف اسلام ہوتا یا آپ کے بعد خلفاء کا وجودحضرت صاحب کے یا اللہ تعالیٰ کے منشاء کے خلاف ہوتا تو آپ کبھی یہ نہ فرماتے کہ احادیث سے ثابت ہے کہ مسیح یا اس کے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ شام کو جائے گا اگر کوئی کہے کہ گو آپ نے خلیفہ کا شام جانا قبول فرمایا ہے مگر یہ تو نہیں فرمایا کہ

Page 444

۴۲۳ وہ خلیفہ میری مرضی کے مطابق ہوگا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو اس کی نسبت خلفائم لکھا ہے یعنی مسیح موعود کے خلیفوں میں سے ایک خلیفہ.پس اگر وہ غاصب یا ظالم ہوگا جو جمہوریت کا حق دبا کر خلیفہ بن جائے گا تو اس کا نام آپ اپنا خلیفہ نہ رکھتے بلکہ فرماتے کہ اس کی امت میں سے ایک جابر بادشاہ.دوسرے یہ کہ آپ نے اس خلیفہ کو ایک ایسی پیشگوئی کا پورا کرنے والا بتایا ہے جو خود آپ کی نسبت ہے اور فرمایا کہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یا مسیح موعود اس پیشگوئی کو پورا کرے گا یا اس کا خلیفہ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ خلیفہ اس کا سچا جانشین ہوگا ورنہ وہ مسیح موعود کا قائم مقام ہو کر ایسی پیش گوئی کو پورا کرنے والا کیونکر ہوسکتا ہے.حضرت صاحب کی دوسری شہادت خلافت کے متعلق آپ کا یہ الہام ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اس الہام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحب کے بعد جمہوریت کا ہونا ضروری نہیں بلکہ آپ کی جماعت میں بادشاہ ہوں گے اور یہی زبر دست اور طاقتور ہوں گے کیونکہ اگر آپ کے بعد پارلیمنوں کی حکومت تھی اور بادشاہت آپ کے اصول کے خلاف تھی تو الہام بدیں الفاظ ہونا چاہئے تھا.پارلیمنٹیں تیرے دین پر چلیں گی‘بادشاہوں کے نام سے معلوم ہوتا ہے.جمہوریت سے بھی خلافت ثابت ہے اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ انجمن کا ہی فتویٰ درست اور صحیح ہے پھر بھی خلافت ثابت ہے کیونکہ حضرت صاحب کی وفات کے بعد کل احمدی جماعت کا پہلا اجماع خلافت کے مسئلہ پر ہی ہوا تھا اور کیا غریب اور کیا امیر کیا صدرانجمن احمدیہ کے ممبر اور

Page 445

۴۲۴ کیا عام احمدی سب نے بالا تفاق بغیر تر ددو انکار کے بلکہ اصرار اور الحاح سے حضرت مولوی صاحب کو خلیفہ تسلیم کیا اور عاجزانہ طور سے آپ سے خلیفہ ہونے کی درخواست کی جس سے یہ بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ خلیفہ خدا ہی بناتا ہے اور یہ بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ جمہوریت کے فیصلہ کے مطابق بھی خلافت ثابت ہے کیونکہ جمہور نے خود خلافت کا اقرار کیا پس اگر جمہوریت بھی ثابت ہو جائے تب بھی انجمن نے بغیر کسی ممبر کے انکار کے خلافت کو قبول کر لیا ہے اور اس طرح بھی جمہوریت کا خاتمہ ہو جاتا ہے.نظام خلافت پر اجماع سلسلہ احمدیہ کا لٹریچر شاہد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد سب سے پہلا اجماع قدرت ثانیہ یعنی نظام خلافت ہی پر ہوا اور الوصیۃ کے مطابق ۲۷ مئی ۱۹۰۸ء کو حضرت مولانا نورالدین بھیروی رضی اللہ عنہ خلیفہ اول منتخب ہوئے.اس موقعہ پر حضرت مولانا نورالدین کی خدمت میں ایک درخواست پیش کی گئی جس پر جناب مولوی محمد علی صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب، ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور دوسرے بہت سے عمائد انجمن کے دستخط ثبت تھے.اس درخواست میں یہ لکھا تھا کہ:.اما بعد مطابق فرمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام مندرجہ رسالہ الوصیت ہم احمدیان جن کے دستخط ذیل میں ثبت ہیں اس امر پر صدق دل سے متفق ہیں کہ اول المہاجرین حضرت حاجی مولوی حکیم نور الدین صاحب جو ہم سب میں اعلم اور اتقی ہیں اور حضرت امام کے سب سے زیادہ مخلص اور قدیمی دوست ہے اور جن کے وجود کو حضرت امام علیہ السلام اسوۂ حسنہ قرار فرما چکے ہیں جیسا کہ آپ کے شعر

Page 446

۴۲۵ چه خوش بودے اگر ہر یک ز امت نور دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے سے ظاہر ہے، کے ہاتھ پر احمد کے نام پر تمام احمدی جماعت موجودہ اور آئندہ نے ممبر بیعت کریں اور حضرت مولوی صاحب موصوف کا فرمان ہمارے واسطے آئندہ ایسا ہی ہو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا تھا.( بدر ۲ جون ۱۹۰۸ء) علاوہ ازیں جناب خواجہ کمال الدین صاحب سیکرٹری صدرانجمن احمدیہ نے انجمن کے جملہ ممبران کی طرف سے تمام بیرونی احمدیوں کی اطلاع کے لئے حسب ذیل بیان جاری کیا.حضور علیہ السلام کا جنازہ قادیان میں پڑھا جانے سے پہلے آپ کے وصایا مندرجہ رسالہ الوصیت کے مطابق حسب مشوره معتمدین صدر انجمن احمد یہ موجودہ قادیان و اقرباء حضرت مسیح موعود علیہ السلام بہ اجازت حضرت ام المومنین کل قوم نے جو قادیان میں موجود تھی اور جس کی تعداد اس وقت بارہ سوتھی والا مناقب حضرت حاجی الحرمین الشریفین جناب حکیم نورالدین سلمہ کو آپ کا جانشین اور خلیفہ قبول کیا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی.معتمدین میں سے ذیل کے احباب موجود تھے.مولنا حضرت سید محمد احسن صاحب صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب، جناب نواب محمد علی خاں صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب ، مولوی محمد علی صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب، ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب، خلیفہ رشید الدین صاحب اور خاکسار خواجہ کمال الدین“.جناب خواجہ صاحب نے اس اطلاعی بیان میں یہ بھی تحریر فرمایا :- کل حاضرین نے جن کی تعداد او پر دی گئی ہے بالا تفاق خلیفہ اسی قبول کیا یہ

Page 447

۴۲۶ خط بطور اطلاع کل سلسلہ کے میر ان کو لکھا جاتا ہے کہ وہ اس خط کے پڑھنے کے بعد فی الفور حضرت حکیم الامت خلیفہ اسیح والمہدی کی خدمت بابرکت میں بذات خود یا بذریعہ تحریر بیعت کریں“.( بدر ۲ جون ۱۹۰۸ء) محترم خواجہ صاحب نے بعد ازاں یہ بھی تسلیم کیا کہ ” جب میں نے بیعت ارشاد کی...یہ بھی کہا کہ میں آپ کا حکم بھی مانوں گا اور آنے والے خلیفوں کا حکم بھی مانوں گا“.(لیکچر اندرونی اختلافات سلسلہ کے اسباب ص ۶۹.۷ دسمبر ۱۹۱۴ء) ایک فیصلہ کن سوال حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک بار قادیان میں خطبہ جمعہ کے دوران ارشاد فرمایا کہ:.اس مسئلہ کے متعلق ایک سوال ہے جو ہماری جماعت کے دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے اور ہمیشہ ان لوگوں کے سامنے پیش کرتے رہنا چاہئے اور وہ یہ کہ یہی لوگ جو آج کہتے ہیں کہ الوصیت سے خلافت کا کہیں ثبوت نہیں ملتا ان لوگوں نے اپنے دستخطوں سے ایک اعلان شائع کیا ہوا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ اول کی بیعت کے وقت انہوں نے کیا...بیس جماعت کے دوستوں کو ان لوگوں سے یہ سوال کرنا چاہئے اور پوچھنا چاہئے کہ تم ہمیں الوصیت کا وہ حکم دکھاؤ جس کے مطابق تم نے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی.اس کے جواب میں یا تو وہ یہ کہیں گے کہ ہم نے جھوٹ بولا اور یا یہ کہیں گے کہ الوصیت میں ایسا حکم موجود ہے اور یہ دونوں صورتیں ان کے لئے کھلی شکست ہیں“.الفضل ۲۱ شہادت ، اپریل ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ ہش ص ۶ خطبہ جمعہ حضرت مصلح موعود )

Page 448

۴۲۷ شخصی خلافت پر سب سے بڑی شہادت حضرت مسیح موعود کے بعد آپ کی جانشین شخصی خلافت پر سب سے بڑی دلیل خدا تعالی کی فعلی شہادت ہے.نظام خلافت سے وابستہ جماعت مبائعین کا موازنہ غیر مبائعین سے کر کے بآسانی فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت کس کے ساتھ ہے.نظام خلافت سے وابستہ لوگوں کے ساتھ یا منکرین خلافت کے ساتھ.جماعت احمد یہ مبائعین آج خدا کے فضل اور خلافت کی برکت سے ۱۸۵ ممالک میں نفوذ کر چکی ہے.جبکہ غیر مبائعین کی حالت ایسے ہی ہے جیسے آخری شب کا چراغ ہوتا ہے.جس کی زندگی چند لمحوں کی مہمان ہوتی ہے.آخر پر ہم ایک غیر کی شہادت پیش کرتے ہیں جس سے جماعت احمد یہ مبائعین کی ترقی روز روشن کی طرح عیاں ہے.قاہرہ کے شدید مخالف احمدیت اخبار الفتح کو بھی لکھنا پڑا کہ:.میں نے بغور دیکھا تو قادیانیوں کی تحریک حیرت انگیز پائی.انہوں نے بذریعہ تحریر و تقریر مختلف زبانوں میں اپنی آواز بلند کی ہے.اور مشرق و مغرب کی مختلف ممالک واقوام میں بصرف زرکثیر اپنے دعوی کو تقویت پہنچائی ہے.ان لوگوں نے اپنی انجمنیں منظم کر کے زبر دست حملہ کیا ہے اور ایشیا و یورپ، امریکہ اور افریقہ میں ان کے ایسے تبلیغی مراکز قائم ہو گئے ہیں جو علم و عمل کے لحاظ سے تو عیسائیوں کی انجمنوں کے برابر ہیں لیکن تاثیرات و کامیابی میں عیسائی پادریوں کو ان سے کوئی نسبت نہیں.

Page 449

۴۲۸ قادیانی لوگ بہت بڑھ چڑھ کر کامیاب ہیں.کیونکہ ان کے پاس اسلام کی صداقتیں اور پُر حکمت باتیں ہیں.جو شخص بھی ان کے حیرت زدہ کارناموں کو دیکھے گا وہ حیران و ششدر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ کس طرح اس چھوٹی سی جماعت نے اتنا بڑا جہاد کیا ہے جسے کروڑوں مسلمان نہیں کر سکے.صرف وہی ہیں جو اس راہ میں اپنے اموال اور جانہیں خرچ کر رہے ہیں.اگر دوسرے مدعیان اصلاح اس جہاد کے لئے بلائیں یہاں تک کہ ان کی آواز میں بیٹھ جائیں اور لکھتے لکھتے ان کے قلم شکستہ ہو جائیں تب بھی عالم اسلام میں ان کا دسواں حصہ بھی اکٹھانہ کرسکیں گے.جتنا یہ تھوڑی سی جماعت مال و افراد کے لحاظ سے خرچ کر رہی ہے.(الفتح ۲ جمادی الثانی ۱۳۵۱ھ )

Page 450

۴۲۹ خلافت جو بلی ۱۹۳۹ء دنیا کے تقریباً مذاہب ، قوموں اور تہذیبوں میں جشن منائے جاتے ہیں ، جو بلیاں منعقد کی جاتی ہیں اور رنگارنگ طریقوں سے اپنی خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے.ان جشنوں اور جو بلیوں کا مقصد یا تو اپنی برتری اور دولت کا اظہار ہوتا ہے یا پھر وقتی کھیل تماشوں اور تقریبات کے انعقاد سے تفریح طبع کے سامان پیدا کرنا ہوتا ہے اور پھر ہمیشہ کے لئے ان مواقع کو فراموش کر دیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کے نام پر قائم ہونے والی روحانی جماعتیں بھی بعض خاص مواقع پر خوشی کا اظہار کرتی ہیں لیکن ان کی خوشی کا اظہار اور ان کی تقریبات وجشن پر وقار ہوتے ہیں اور ان کو منانے کے مقاصد بھی دنیا سے بالکل مختلف ہوتے ہیں.روحانی جماعتوں کی خوشی کا اظہار دراصل اپنے رب کریم کے فضلوں کا شکر ادا کرنا ہوتا ہے اور تا کہ اللہ رب العزت کے اس وعدہ کہ لئن شکرتم لازیدنکم یعنی اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں ضرور تمہیں بڑھاؤں گا، کے مصداق بن سکیں.الہی جماعتیں ان مواقع کو منا کر طاق نسیان پر نہیں رکھ دیتیں بلکہ ایک نئے ولولے سے خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کر کے اس کے مزید فضلوں کو جذب کرنے کا عہد کرتے ہوئے اپنے اس روحانی سفر کانٹے سرے سے آغاز کرتی ہیں.۱۹۳۹ء کا سال جماعت احمدیہ کے لئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے.اس سال حضرت مصلح موعودؓ کے بابرکت دور خلافت پر پچیس سال پورے ہورہے تھے.آپ کی خلافت کا آغاز ایسے حالات میں ہوا جبکہ ایک طبقہ نے حضرت خلیفہ اسیح

Page 451

۴۳۰ الاول کی وفات کے بعد خلافت احمدیہ کا انکار کر دیا اور ہر طرف سے ابتلاؤں کی آندھیاں اٹھ رہی تھیں اور ہر طرف سے اندرونی و بیرونی فتنوں نے سراٹھایا اور کئی بار بہت زیادہ خطرناک حالات پیدا ہوئے مگر اس کے باوجود دنیا نے دیکھا کہ ہر مرتبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق خوف کی حالت کو امن میں بدل دیا اور جماعت کو تمکنت عطا فرمائی اور آپ کی خلافت کی ہر گھڑی نے گواہی دی کہ کہ آپ ہی وہ پسر موعود ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خبر دی تھی بلکہ آپ کے متعلق کئی پہلے آسمانی صحیفوں میں بھی پیشگوئیاں موجود تھیں.آپ کے مبارک دور خلافت نے ثابت کر دیا کہ پیشگوئی مصلح موعود کا ایک ایک حرف آپ کے وجود میں پورا ہوا.۱۴ مارچ ۱۹۳۹ کو جب آپ کی بابرکت خلافت کو چھپیں سال مکمل ہونے والے تھے نیز اسی سال جماعت احمدیہ کے قیام پر بھی پچاس سال پورے ہو رہے تھے لہذا اس حوالے سے وہ ساعت اپنے رب کے حضور اظہار تشکر اور خوشیاں منانے کا موقع تھا.چنانچہ اس منظر کے پیش منظر سب سے پہلے چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کے دل میں ۱۹۳۹ کے سال کو جو بلی کے سال کے طور پر منانے کی تحریک پیدا ہوئی.چنانچہ آپ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی اجازت سے جلسہ سالا نہ ۱۹۳۷ء کے موقع پر حضرت مصلح موعود کی خلافت کی سلور جوبلی منانے کی تجویز پیش کی.نیز یہ تجویز پیش کی کہ اس خوشی کے موقع پر حضور اقدس کی خدمت میں ایک ایسی رقم کا نذرانہ پیش کیا جائے جو قبل ازیں جماعت کی تاریخ میں جمع نہ کی گئی ہو اور اس رقم کو حضور جس طرح پسند فرمائیں اپنی مرضی سے خرچ کریں.اس کے بعد ۱۹۳۹ء کی مجلس مشاورت کے موقع پر خلافت جو بلی منانے سے متعلق حضور کی خدمت میں سفارشات

Page 452

۴۳۱ پیش کی گئیں.چنانچہ حضور کی منظوری سے جلسہ سالانہ ۱۹۹۳ کو جو بلی کے جلسہ طور پر منانے کا فیصلہ ہوا.اس موقع پر ایک اور اہم فیصلہ یہ بھی کیا گیا کہ اس مبارک موقع پر جماعت احمدیہ کا ایک جھنڈا تجویز کیا جائے جسے جلسہ جو بلی کے موقع پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ خود اپنے دست مبارک سے لہرائیں.چنانچہ جلسہ جو بلی کے سلسلہ میں تقریبات کی تیاری کے لئے ایک کمیٹی مقرر کی گئی جس کے صدر حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کو کیا گیا اور آپ کی غیر حاضری میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے قائمقامی کے فرائض سرانجام دیتے رہے.اور حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحب سیکریٹری کے فرائض سرانجام دیتے رہے.پس ۲۸ دسمبر ۱۹۳۹ء کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خلافت کی سلور جوبلی انتہائی شان و شوکت سے منائی گئی.صد سالہ خلافت احمد یہ جوبلی منصوبہ مشرقی افریقہ کے دورہ سے واپس آکر مورخہ ۲۷ مئی ۲۰۰۵ء کو بیت الفتوح مورڈن لندن میں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے حضور انور نے خلافت کی اہمیت اور برکات کا ایمان افروز تذکرہ فرمایا کہ جماعت احمد یہ ۹۷ سال سے خدا تعالیٰ کی نصرتوں اور فضلوں کا مشاہدہ کر رہی ہے.ہر احمدی کا فرض ہے کہ خلافت کے استحکام کے لئے دعائیں کرے اور اعمال صالحہ بجالائے.حضور انور نے فرمایا کہ تین سال بعد خلافت کی صد سالہ جوبلی ہوگی اور اس کے لئے دعاؤں پر زور دیں.حضور نے اس موقعہ پر بعض خاص دعائیں پڑھنے کی تحریک بھی فرمائی اور اس سلسلہ میں ایک روحانی پروگرام عطا فرمایا اور اس خلافت جوبلی منصوبہ کے

Page 453

۴۳۲ لئے با قاعدہ طور پر ایک کمیٹی مقرر فرمائی جس کے صدر مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلی تحریک جدید کو مقر فرمایا اور سیکرٹری مکرم سید جلید احمد صاحب نائب وکیل التعلیم ونگر ان تخصیص کو مقر فرمایا اور تینوں انجمنوں کے ناظران و وکلاء وناظمین کو اس کمیٹی کا ممبر مقرر فرمایا.یہ کمیٹی صد سالہ خلافت جوبلی کے تمام علمی عملی و روحانی پروگراموں کی نگرانی کر رہی ہے.اس موقعہ پر احباب جماعت نے مبلغ دس کروڑ پاؤنڈ رقم حضور انور کی خدمت میں اشاعت اسلام کے لئے پیش کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے.مقالہ ھذا بھی صد سالہ خلافت احمد یہ جوبلی منصوبہ کے علمی پروگرام کے تحت لکھا جارہا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں خلافت جوبلی کے تمام پروگراموں پر کما حقہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین خلافت احمدیه صد ساله جوبلی ۲۰۰۸ء کے لئے دعائیں اور عبادات سید نا حضرت خلیفتہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خلافت احمد یہ صد سالہ جو بلی ۲۰۰۸ ء کی کامیابی کے لئے اگلے تین سال جماعت کو دعائیں کرنے نفلی روزہ رکھنے اور نوافل پڑھنے کی تحریک فرمائی.جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:.ا.ہر ماہ ایک نفلی روزہ رکھا جائے جس کے لئے ہر قصبہ، شہر یا محلہ میں مہینہ کے آخری ہفتہ میں کوئی ایک دن مقامی طور پر مقرر کر لیا جائے.۲.دو نفل روزانہ ادا کئے جائیں جو نماز عشاء کے بعد سے لے کر فجر سے پہلے تک یا نماز ظہر کے بعد ادا کئے جائیں.سورہ فاتحہ روزانہ کم از کم سات مرتبہ پڑھیں.

Page 454

۴۳۳ - رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ.(۲:۲۵۱) (روزانہ کم از کم 1 امر تبہ پڑھیں) ترجمہ:.اے ہمارے رب! ہم پر صبر نازل کر اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور کا فرقوم کے خلاف ہماری مددکر.۵ - رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أنْتَ الْوَهَّابُ.(۳۹) ( روزانہ کم از کم ۳۳ مرتبہ پڑھیں) ترجمہ:.اے ہمارے رب ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے بعد اس کے تو ہمیں ہدایت دے چکا ہو.اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر.یقینا تو ہی ہے جو بہت عطا کرنے والا ہے.- اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُورِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ.(روزانه کم از کم اامرتبہ پڑھیں) ترجمہ: اے اللہ ہم تجھے ان (دشمنوں) کے سینوں میں کرتے ہیں ( یعنی تیرا رعب ان کے سینوں میں بھر جائے ) اور ہم ان کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں.--- اسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّي مِنْ كُلّ ذَنْبٍ وَّاتُوبُ إِلَيْهِ.(روزانہ کم از کم۳۳ مرتبه پڑھیں).ترجمہ:.میں بخشش مانگتا ہوں اللہ سے جو میرا رب ہے.ہر گناہ سے اور میں جھکتا ہوں اسی کی طرف.

Page 455

۴۳۴ سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَالِ مُحَمَّدٍ.(روزانہ کم از کم ۳۳ مرتبہ پڑھیں) ترجمہ: اللہ تعالیٰ پاک ہے اپنی حمد کے ساتھ اللہ پاک ہے اور بہت عظمت والا ہے.اے اللہ رحمتیں بھیج محمد ہے اور آپ کی آل پر.و- اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ.اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ (روزانہ کم از کم ۳۳ مرتبه پڑھیں) ترجمہ : اے اللہ رحمتیں بھی محمد ﷺ پر اور آپ کی آل پر جس طرح تو نے ابراہیم اور ان کی آل پر رحمتیں بھیجیں.یقینا تو تعریف اور بزرگی والا ہے.اے اللہ برکتیں بھیج محمد اللہ پر اور آپ کی آل پر جس طرح تو نے ابراھیم اور ان کی آل پر برکتیں بھیجیں.یقیناً تو تعریف اور بزرگی والا ہے.حضور انور کا ان دعاؤں کے متعلق یہ ارشاد ہے کہ ان پر غور کر کے پڑھیں ( نظارت اصلاح وارشاد مرکزیہ )

Page 456

۴۳۵ خلافت احمد یہ صد سالہ جوبلی کے موقع پر جماعت احمدیہ عالمگیر کا اظہار تشکر جماعت احمد یہ عالمگیر اس لحاظ سے دنیا بھر میں خوش قسمت ترین جماعت ہے جو 100 سال سے خلافت کے سائے تلے زندگی گزار رہی ہے.اکناف عالم میں بسنے والے کروڑوں عشاق احمد بیت اس بات پر زندہ گواہ ہیں کہ آج خلافت احمدیہ کی دوسری صدی کے سر پر عافیت کے حصار کے نیچے خوشیاں اور برکتیں حاصل کر رہے ہیں اور آج خلافت سے بڑھ کر کوئی اور عافیت بخش سایہ نہیں.خدا تعالیٰ کی اسی نعمت کے شکرانے کے طور پر دعاؤں، برکتوں، رحمتوں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے بے حساب نازل ہونے والے فضلوں میں دنیا بھر میں بسنے والے کروڑ ہا احمدی مردوزن اور بچوں نے خلافت احمدیہ کی پہلی صدی کو الوداع اور دوسری صدی کا استقبال ایمانی جوش و جذبے اور خدا کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہوئے کیا.اس دن کی روداد لفظوں میں بیان کرنے والی نہیں بلکہ ذاتی تجربہ کی روشنی میں محسوس کرنے اور جاننے والی عظیم کیفیات ہیں.27 مئی 2008ء کے تاریخی دن مرکزی تقریب خلافت احمد یہ صد سالہ جو بلی جلسہ تھا جو لندن کے معروف ایکسل (Excel) سنٹر میں منعقد ہوا جس میں کروڑوں دلوں کی جان سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بنفس نفیس

Page 457

۴۳۶ شرکت فرمائی اور پُر معارف خطاب سے نوازا.حضور انور کے خطاب سے تمام دنیا میں موجود احباب وخواتین اپنے تمام غم بھول گئے اور دل کی پاتال تک خوشی ومسرت کا بسیرا ہو گیا.یہ خدا تعالیٰ کا بہت احسان ہے کہ جس نے ایسا خلیفہ ہمیں عطا فرمایا جو محبت بھری دعاؤں کا نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے.اس جلسہ کی سب سے اہم اور خاص بات یہ تھی کہ اس موقع پر تینوں خلافت کی مسندوں کے حامل شہروں قادیان، ربوہ اور لندن سے انٹرنیٹ Live سٹریمنگ کے ذریعہ دکھایا گیا جس میں تینوں شہروں کے مناظر اور نعرے پوری دنیا نے دیکھے اور قادیان میں اس تقریب کے لئے وہ جگہ منتخب کی گئی تھی جہاں سید نا حضرت خلیفہ لمسیح الاول کا انتخاب عمل میں آیا تھا اور جہاں آپ نے خلافت کی مسند پر بیٹھنے کے بعد سید نا حضرت مسیح موعود کا جنازہ پڑھایا تھا.اس مقام قدرت ثانیہ کو اب ایک یادگار کی شکل دے دی گئی ہے.کھلے میدان میں احباب کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا.اس خوبصورت اور بابرکت تقریب میں قادیان اور گردونواح کی جماعتوں سے سینکڑوں احباب نے شرکت کی ،سکھ اور ہندو مہمان اور مقتدر شخصیات نے بھی اس موقع پر شرکت کی.ربوہ میں یہ تقریب مرد حضرات کے لئے ایوان محمود اور خواتین کے لئے لجنہ ہال میں منعقد کی گئی.ہر دو تقاریب میں 23 صد سے زائد احباب و خواتین، بچوں اور بچیوں نے شرکت کی.ایوان محمود اس موقع کے لئے خاص طور پر سجایا گیا تھا.ہال کے

Page 458

۴۳۷ باہر جھنڈیاں لگا کر تزئین کی گئی تھی اور اس تزئین میں اضافہ پانچوں خلفاء سلسلہ کے بارے میں تعارف وارشادات پر مشتمل بڑے سائز میں فلیکسز تھیں.اس تقریب کے لئے ترتیب دیا جانے والا ایوان محمود کا اندرونی منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا.ہال کو بڑی محنت اور جانفشانی سے سجایا گیا تھا.مکمل ہال میں کارپٹ، چاروں اطراف 700 سے زائد پودوں کی وجہ سے سبزہ ہی سبزہ نظر آرہا تھا اور پھر لائٹس اس ماحول کو عجیب شان دے رہی تھیں.سٹیج میں ملٹی میڈیا کے ذریعہ بڑی سکرین پر ایم ٹی اے دیکھنے کا انتظام کیا گیا تھا جس کے دائیں بائیں دو پلاز ما ایل سی ڈیز ٹیلی ویژن بھی رکھے گئے تھے تا کہ حاضرین کو Live نشریات دیکھنے میں کوئی دقت نہ ہو.ایم ٹی اے پر براہ راست ا نشریات تو پونے تین بجے شروع ہوئیں لیکن احباب کی آمد کا سلسلہ 2 بجے سے ہی شروع ہو گیا تھا.آرام دہ کرسیوں پر احباب کے بیٹھنے کا انتظام تھا.ہال میں 976 اور مغربی گیلری میں 200 کرسیوں اور جنوبی گیلری میں اطفال کے بیٹھنے کا انتظام تھا.کارروائی کے دوران حاضرین کی جو سز اور آئس کریم سے تواضع کی جاتی رہی.اس محفل میں موجود ہر مرد، عورت اور بچے کو سود نیئر کے طور پر ایک ٹن پیک ڈبہ دیا گیا جس میں شیرینی ، بسکٹ اور پیٹیز وغیرہ موجود تھے.خواتین و حضرات کی ان تقریبات کے انعقاد کے موقع پر 600 سے زائد رضا کاران نے ڈیوٹیاں انجام دیں.انٹرنیٹ Live سٹریمنگ کے ذریعہ مناظر بھیجنے کا کام ایم ٹی اے پاکستان نے کیا.ہال کو ٹھنڈا کرنے کے لئے لاہور سے 240HP ٹن کا موبائل ایئر کنڈیشنر کرایہ پر حاصل کیا گیا تھا جس کی وجہ سے ایوان محمود کا ٹمپریچر کم ہو کر ماحول خوشگوار ہو گیا تھا.

Page 459

۴۳۸ ہال میں خلفاء کے ارشادات پر مشتمل فلیکسز آویزاں کی گئی تھیں.اس رنگارنگ روحانی اور بابرکت پروگرام کے منتظم اعلیٰ مکرم ناصر احمد شمس صاحب سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن تھے جنہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ اس تقریب کو کامیاب کیا.اللہ تعالیٰ ان کو ان کے ساتھ جملہ خدمت سرانجام دینے والوں کو جزائے خیر عطا فرمائے.خواتین کی تقریب لجنہ ہال ربوہ میں منعقد ہوئی جہاں ایک ہزار سے زائد خواتین اور بچیوں نے شرکت کی.لجنہ ہال کو بھی ایوان محمود کی طرح سجایا گیا تھا.لائٹنگ، دبیز قالین، آرام دہ کرسیاں اور 300 پودوں سے ایک دیدہ زیب ماحول بنایا گیا تھا.کھڑکیوں کو چکوں کے ذریعہ بند کیا گیا اور چاروں طرف خلفاء سلسلہ کے ارشادات پر مشتمل فلیکسز آویزاں تھے.ملٹی میڈیا کے ذریعہ ایم ٹی اے کی کارروائی دکھائی گئی.ہال کے عقب میں ناصرات کے بیٹھنے کے لئے جگہ بنائی گئی تھی.ماحول کو ٹھنڈا اور خوشگوار بنانے کے لئے موبائل AC نصب کیا گیا تھا.لندن میں یہ جلسہ لندن کے مشہور زمانہ ایکسل سنٹر میں بر پا ہوا.وہاں اس رنگا رنگ اور بابرکت تقریب کا خصوصی اہتمام کیا گیا تھا.انگلستان کے دور ونزدیک کے علاقوں سے ہزاروں احباب و خواتین نے شرکت کی.مختلف رنگ کے لباس میں ملبوس بچیاں اور بچے نظمیں اور ترانے گارہے تھے.موسم کی خرابی ، ورکنگ ڈے اور سڑکوں پر بے پناہ رش کے باوجود ہزاروں افراد کشاں کشاں اس تاریخی موقع پر شرکت کرنے کے لئے اس سنٹر میں جمع ہوئے اور کیوں نہ آتے ، ساری دنیا کے احباب کے دلوں میں خلافت احمدیت اور خلیفہ امسیح کی ذات اقدس سے محبت ، الفت اور فدائیت کی

Page 460

۴۳۹ لہریں ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح موجزن ہے.ایکسل سنٹر لندن کے دل میں واقع ہے.یہاں بڑے پیمانے پر عالمی کانفرنسیں اور نمائشیں منعقد کی جاتی ہیں.اس سنٹر کے ایک طرف خوبصورت دریائے ٹیمز بہتا ہے اور دوسری طرف صرف 500 گز کے فاصلے پر ایئر پورٹ کا رن وے ہے جہاں سے بسہولت ہوائی جہاز اڑتے اور اتر تے نظر آتے ہیں.ایکسل سنٹر کی یہ خوبی بھی ہے کہ اس کے ہالز (Halls) میں بنائی گئی دیواروں کو آسانی سے اپنی جگہ سے ہلایا جاسکتا ہے جس کی وجہ سے تقریب کے مناسب حال جگہ بن جاتی ہے اور پھر ان بڑے بڑے ہالز میں کوئی ستون نہیں ہے.بلکہ اس بلڈنگ کی بناوٹ ایسی ہے کہ چھتوں کو سہارا دینے والے ستون نظر نہیں آتے جس کی وجہ سے تقریب کا حسن دوبالا ہو جاتا ہے.اس تقریب کو کور (Cover) کرنے کے لئے اس عمارت کی دوسری منزل پر ایم ٹی اے انٹر نیشنل کا مرکزی سٹوڈیو بنایا گیا تھا.سید نا حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پاکستانی وقت کے مطابق سوا تین بجے بعد دو پہر ایکسل سنٹر میں رونق افروز ہوئے اور اس سنٹر کو برکت بخشی.حضور انور کا استقبال نعرہ ہائے تکبیر اور بچوں اور بچیوں کی طرف سے ترانوں سے ہوا.دنیا بھر میں عالمی کانفرنسوں اور نمائشوں کی وجہ سے معروف یہ سنٹر اس دن غیر معمولی تاریخی حیثیت حاصل کر گیا جب جماعت احمد یہ عالمگیر نے اپنی خلافت کی پہلی صدی کا جلسہ شایان شان طریق پر منایا.جس کی کارروائی میں دنیا میں بسنے والے کروڑوں احمدی براہ راست شریک ہوئے بلکہ دنیا کے تین ممالک کے Live

Page 461

۴۴۰ نظارے بھی دنیا نے ملاحظہ کئے.یہ ایسا وقت تھا جب جماعت احمدیہ کے پانچویں دور خلافت میں اکناف عالم کے احمدی ایک ساتھ خلافت سے یکجہتی کا اظہار کر رہے تھے اور ہمارے لئے یہ دور واقعی خوش قسمتی لئے ہوئے ہے کہ ہم ایسے دور خلافت سے فیضیاب ہورہے ہیں جس نے خلافت کی پہلی صدی بھی دیکھی ہے اور دوسری صدی میں بھی نئے عزم و ہمت سے ترقیات کی منازل کی طرف تیزی سے رواں دواں ہے.اس تقریب کے آغاز سے پہلے براہ راست انٹرویوز اور تعارف کرانے کے لئے قادیان میں محترم مولانا برہان احمد ظفر صاحب ناظر اشاعت قادیان ، ربوہ میں مکرم ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب اور لندن میں مکرم فاروق محمود صاحب نے کمپیئر کے فرائض سرانجام دیئے.لندن سے مختلف وقتوں میں مکرم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت برطانیه، مکرم عطاء المجیب را شد صاحب امام بیت الفضل لندن، مکرم منیر الدین شمس صاحب ایڈیشنل وکیل التصنيف لندن ، مکرم نصیر احمد شاہ صاحب چیئر مین ایم ٹی اے انٹر نیشنل اور مکرم اکرم احمدی صاحب نائب امیر یو کے کی طرف سے خلافت سے وابستگی کے بارے میں تاثرات نشر ہوئے.ربوہ سے محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ناظر اعلیٰ و امیر مقامی محترم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید، محترم چوہدری محمد علی صاحب وکیل التصنیف تحریک جدید، محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ناظر دیوان وصدر مجلس انصار اللہ پاکستان، محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد مؤرخ احمدیت اور محترم فرید

Page 462

۴۴۱ احمد نوید صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان نے اپنے اپنے انداز میں خلافت سے وابستگی کا اظہار کیا، خلافت کی اہمیت وافادیت بتائی اور اس موقع پر جماعت احمد یہ عالمگیر کو مبارکباد کا تحفہ پیش کیا.قادیان سے مکرم مولا نا محمد انعام غوری صاحب ناظر اعلی قادیان اور مکرم برہان احمد ظفر صاحب نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا.جس میں انہوں نے خلافت کے حوالے سے مبسوط انداز میں خیالات پیش کئے اور بتایا کہ دنیا میں ایسا نظارہ کسی نے نہیں دیکھا ہوگا کہ خلافت احمدیہ کی جوبلی کی تقریب دکھائی جارہی ہو اور دنیا کے 190 ممالک میں بسنے والے احباب و خواتین بیک وقت اس سے منسلک ہوں اور ایک امام کے حکم پر لبیک کہتے ہوں.ان انٹرویوز اور تاثرات کے دوران ان ممالک کے مقامات کے Live نظارے اور تقریبات کے سیز ایم ٹی اے پر دکھائے جاتے رہے.اللہ تعالیٰ کی حکمت کے تحت 27 مئی کے اس اہم دن قادیان، ربوہ اور لندن میں اللہ کی رحمتوں کو لئے ہوئے بارش اتری، اس طوفان بادوباراں اور ابر آلود موسم کے با وجود ان تقریبات کا انعقاد انتہائی کامیابی سے ہوا اور کثیر تعداد میں احباب نے شرکت کی.تینوں ممالک کی تقاریب کے دوران آسمان صاف اور موسم خوشگوار ہو گیا.قادیان میں تو اس خوبصورت موسم میں کھلے آسمان تلے یہ تقریب ہوئی اور سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا.یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و احسان ہے کہ تینوں جگہوں کے موسم بھی ایک ساتھ تبدیل ہوئے اور گرمی کی شدت میں کمی آگئی جس سے تقاریب

Page 463

۴۴۲ منعقد کرنے میں مزید آسانی پیدا ہوگئی.حضور انور پونے پانچ بجے، نغمے گاتے ہوئے بچوں اور بچیوں کے پاس سے گزرتے اور از راہ شفقت کچھ دیر ٹھہرتے ہوئے اس سٹیج پر تشریف لائے جہاں لوائے احمدیت لہرائے جانے کا انتظام کیا گیا تھا.حضور انور نے لوائے احمدیت لہرایا اور دعا کرائی.جس کے بعد حضور انور اس تاریخی خطاب کے لئے پنڈال میں تشریف لائے جو خلافت احمدیہ کی دوسری صدی کا پہلا خطاب تھا.حضور انور نے خطاب میں فرمایا کہ خلافت کے ذریعہ خوف کو امن میں بدلنے کا جو خدائی وعدہ تھا آج جماعت اس وعدہ کے بار بار پورا ہونے پر گواہ ہے.خدا تعالیٰ نے ہر دفعہ اپنا وعدہ پورا کیا اور وہ پودا جس کو خدا تعالیٰ نے خود لگایا تھا آج شجر سایہ دار کی طرح ساری دنیا کو اپنے سایہ عاطفت میں لئے ہوئے ہے اور یہ آواز زمین کے کناروں تک پھیل چکی ہے اور پھیل رہی ہے.حضور انور نے فرمایا یہ خوشی کے مواقع خدا کا شکر گزار بنانے کے لئے آتے ہیں.احمدیت کی تاریخ کا ہر دن تاریخ بنا رہا ہے اور سنہری باب رقم کر رہا ہے اور جماعت ہر جگہ تقاریب منا رہی ہے اور یہ جائز بھی ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا حکم بھی ہے.عجز و نیاز اور انکساری اور عبودیت کی ضروری شرط ہے اور نعماء الہی کا اظہار بھی از بس ضروری ہے.اس سے خدا کی محبت بڑھتی ہے اور جوش بھی پیدا ہوتا ہے.یہ انعام جس سے خدا تعالیٰ نے ہمیں بہرہ ور کیا ہے آئندہ بھی جاری رہے گا.اس لئے شکر کریں تا اس کی برکات میں کمی نہ آئے.جتنا ہم عاجزی دکھائیں گے اتنا ہی خدا کی نعمتوں سے حصہ لیتے چلے

Page 464

۴۴۳ جائیں گے.لیکن یاد رکھیں ان پروگراموں میں دنیا داری نہ ہو بلکہ تقویٰ کے ساتھ اس کا اظہار ہونا چاہئے.حضور انور نے رسالہ الوصیت میں بیان فرمودہ پیشگوئی بابت خلافت پڑھ کر سنائی اور آیت استخلاف سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا کہ ایمان قائم کرنا ضروری ہے.اعمال صالحہ بجالانے ضروری ہیں.تمام محبتیں خدا تعالیٰ کے لئے ہوں.یاد رکھیں کہ خلافت سے وابستہ کر کے خدا تعالیٰ ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے جو حقوق اللہ اور حقوق العباد کو قائم کرنے والا ہو.جب آپ خلافت سے وابستہ ہو جائیں گے تو پھر خدا تعالیٰ آپ کے دائیں بھی ہوگا، بائیں بھی ہو گا، آگے بھی ہوگا اور پیچھے بھی ہوگا اور کوئی کسی قسم کا نقصان تمہیں نہیں پہنچا سکے گا.حضور انور نے پانچوں خلفاء کے خلافت پر متمکن ہونے کے وقت کے حالات اور ان کے دور میں خدا کے فضل سے عطا ہونے والی ترقیات کا تفصیل سے ذکر فرمایا.حضور انور نے اس موقع پر تمام دنیا کے کروڑوں احمدی احباب و خواتین کو کھڑا کر کے خلافت کے استحکام اور ہمیشہ اطاعت کرنے کا عہد لیا.خطاب کے بعد حضور انور نے اجتماعی پُر سوز دعا کرائی.دعاؤں، برکتوں اور پُرسوز ماحول میں ساری جماعت نے حضور انور کا خطاب ملاحظہ کیا اور خدا کے فضلوں سے اپنی جھولیاں بھریں.حضور انور کے اس جلالی خطاب کے دوران متعدد آنکھیں اشکبار تھیں اور چھلک چھلک جارہی تھیں.خدا تعالیٰ کے شکر سے دل بھرے ہوئے تھے.یہ ایسے نظارے تھے جو ہر دل کی اندرونی کیفیات سے

Page 465

۴۴۴ تعلق رکھتے ہیں.نوک قلم ان کو بیان کرنے سے قاصر ہے.خاص طور پر وہ لمحہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے جب حضور انور نے ساری جماعت کیا مرد، کیا عورتیں، بچے اور بچیاں سب کو کھڑے کروا کر دوسری صدی کے آغاز پر عہد لیا کہ اس عہد میں شامل ہونے والے سب افراد کے دل کی دنیا ہی بدل گئی وہ گویا اندر تک دھل گئے اور ایک نئے جوش و جذبے اور روحانی کیفیات میں نہا گئے.یہ جماعت کی خوش قسمتی ہے کہ اسے خلیفہ المسیح کی شکل میں ایک ایسادردمند اور دعا گو وجود نصیب ہوا ہے جو ہر دکھ درد اور مصیبت میں ان کا سہارا اور ہر خوشی میں ان کے ساتھ برابر کا شریک ہوتا ہے، یہ ایک ایسی نعمت ہے جو آج سوائے جماعت احمدیہ کے دنیا کے کسی اور نظام میں لوگوں کو میسر نہیں.خلافت کے دربار سے سوالی دعاؤں کے خزانے سے جھولیاں بھرتے ہیں.حضور انور کا یہ خطاب ایک گھنٹہ تینتالیس منٹ تک جاری رہا.جس کے بعد افریقن ، بنگالی ، انگریزی اور اردو زبانوں میں نظمیں پڑھی گئیں.حضور انور از راہ شفقت اس دوران جلسہ گاہ میں تشریف فرما ر ہے.اسی طرح حضور انور لجنہ جلسہ گاہ بھی تشریف لے گئے جہاں حضور انور نے بچیوں سے نظمیں سنیں اس موقع پر سٹیج خوبصورتی سے سجایا گیا تھا.صحیح کے پیچھے ایک بڑی فلیکس کے اوپر کلمہ طیبہ، درمیان میں چاند اور اس کے نیچے پانچ ستارے نیلے رنگ کے بیک گراؤنڈ پر خوبصورتی سے بنائے گئے تھے.دوسری طرف اہل پاکستان خاص طور پر ربوہ کے باسیوں نے اپنے اپنے انداز میں خلافت جوبلی میں دعائیں کرتے ہوئے اور خوشیاں منا کر شرکت کی.ان کی قلبی کیفیات اور جذبات کا اظہار خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوکر اس کے آستانہ پر اظہار

Page 466

۴۴۵ تشکر تھا.اس دن جماعت کا ہر چھوٹا بڑا ، مرد و عورت خوشی سے پھولا نہیں سماتا تھا.خلافت احمدیہ کی پہلی صدی کو الوداع اور نئی صدی کا استقبال اس کے لئے خوش قسمتی اور بڑے بڑے انعامات سے کم نہیں تھا.اس دن ہر فر د جماعت نے نئے کپڑے پہنے اور اہتمام کے ساتھ تیار ہوئے.ایک دوسرے کو مبارکباد دی اور مٹھائیاں تقسیم کیں.پاکستان بھر کی جماعتوں نے جلسہ ہائے خلافت جوبلی منعقد کئے.اس کے ساتھ ساتھ بیوت الذکر اور گھروں کی سجاوٹ اور ہر جماعت نے مرکزی طور پر کھانا پکوا کر ہرگھر میں فی کس کے حساب سے تقسیم کیا اور اپنے اپنے طریق پر خلافت سے محبت ، فدائیت اور وابستگی کا بے مثال اظہار کیا.تمام بیوت الذکر میں 27 مئی کے دن کا آغاز نماز تہجد سے ہوا.اس حوالے سے تیاریاں اس دن سے بہت پہلے شروع ہو چکی تھیں.بيوت الذکر اور گلی کوچوں کی صفائی اجتماعی و قارعمل کے ذریعہ خدام واطفال نے کی.مرکزی طور پر بکروں کا صدقہ دیا گیا اور دارالضیافت کے انتظام کے تحت مختلف پاکستان کی اور بیرون ممالک کی جماعتوں اور انفرادی احباب نے 150 بکرے صدقہ کے طور پر دیے.اس موقع پر انتظامیہ دارالضیافت کی طرف سے تینوں اوقات کے کھانوں کا سپیشل مینیو رکھا گیا گیا تھا.28 مئی کی رات کو ربوہ بھر کے تقریباً تمام گھروں پر جھنڈیاں سجا کر اور مٹی کے دیے جلا کر چراغاں کیا گیا.کئی لاکھ جھنڈیاں جن کی تعداد کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا، نیز دیوں کی تعداد بھی لاکھوں میں تھی.ربوہ کے گلی کوچوں میں چاروں طرف تاحد نگاہ گھروں کے

Page 467

۴۴۶ اندرمنڈیروں پر دیے جلا کر ایک عجیب پر شوکت ماحول بنایا گیا.گزشتہ چند دنوں سے سرشام ہی ہوا چل رہی تھی لیکن اس شام اللہ تعالیٰ کی حکمت اور فضل سے ہوا رک گئی تھی اور اہل ربوہ نے دیے بسہولت جلائے اور اظہار تشکر کیا.جماعتی مرکزی دفاتر ،محلہ جات کی بیوت الذکر کو اندر اور باہر سے خوبصورتی سے سجایا گیا تھا.اہل ربوہ شہر کے اس منفرد چراغاں کو دیکھنے کے لئے گھروں سے باہر نکل آئے اور انتہائی پر امن طریق پر ربوہ کی سڑکوں اور بازاروں میں اس تاریخی دن کے لئے منائی جانے والی خوشیوں سے حصہ پاتے رہے.خواتین و حضرات کا اتنا جم غفیر تھا کہ یوں لگ رہا تھا جیسے 100 تقاریب کے برابر خوشی منائی جارہی ہے اور ایسا کیوں نہ ہوتا خدا تعالیٰ کی نعمت عظمی خلافت کو 100 سال جو پورے ہو رہے تھے.ان مناظر کو دیکھنے کے بعد لگتا تھا کہ خلافت احمدیہ اور خلیفہ وقت کے ساتھ کروڑوں احمدیوں کی بے لوث فدائیت اور محبت ایک خدا داد دولت ہے جس سے ہر احمدی کا دل مالا مال ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ نظام خلافت اور خلیفہ وقت سے کچی اور مخلصانہ محبت اور فدائیت ہر احمدی کو نصیب فرمائے کہ اسی سے ہماری روحانی بقاء اور ترقیات وابستہ ہیں.( از روز نامہ الفضل ۷ جون ۲۰۰۸ ص ۳-۴)

Page 468

۴۴۷ صد ساله خلافت جوبلی خلافت جوبلی کا جشن صد سالہ مبارک ہو اطاعت باہمی کا جشن صد سالہ مبارک ہو خدا کی بارش رحمت ہوئی ہر آن ہی ہم پر ترقی کی نئی ہر رہ کھلی ہر آن ہی ہم پر خدا کے فضل اور احسان ہم پر بار بار اترے ہر اک پل ہر قدم ہر جا پہ بے حد و شمار اترے ملائک نے خدا کے حکم سے ہر جا حفاظت کی جماعت نے بصدق دل خلافت کی اطاعت مبارک ہو خدا نے ہم کو بھی یہ دن دکھائے ہیں ، ایزدی سب نے ہی اپنے جھکائے ہیں سبھی خورد وکلاں اس کی ثناء کے گیت گاتے ہیں وہ پیارا ہے خدا اس سے ہی ہم سب لو لگاتے ہیں سدا توفیق ہو ہم کو خلافت سے اطاعت کی کہیں لبیک جو آواز بھی آئے خلافت کی

Page 469

۴۴۸ رہے تا بہ ابد وابستہ پر خورد وکلاں اس سے کبھی چیں بر جبیں نہ ہو نہ ہو چون و چرا اس سے ترقی فتح ونصرت جو مقدر ہو دکھا ہم کو جو راہیں ہیں رضا تیری کی ان پر ہی چلا ہم کو رہیں تا بہ ابد تابع مطیع دل سے خلافت کے کریں یک جان سے مضبوط ہاتھوں کو خلافت کے کبھی لغزش نہ آئے پائے استقلال میں ہرگز لڑی سے کوئی نہ ٹوٹے کسی بھی حال میں ہرگز تو سب کو اتفاق و اتحاد و پیار سے رکھنا صدق دل سدا دلدار سے رکھنا وفاداری مبارک ہو خلافت جوبلی سب کو مبارک مبارک فتح و نصرت سے دائمی سب کو مبارک ہو عبد الحميد خليق (روز نامه الفضل ۱۲ جون ۲۰۰۸)

Page 470

۴۴۹ خلافت کا فیضان خدا کا یہ احسان ہے ہم پہ بھاری کہ جس نے نہ مایوس ہونا گا رہے اپنی نعمت اتاری خلافت کا فیضان جاری ہو نہ طاری نبوت کے ہاتھوں جو پودا لگا ہے خلافت کے سائے میں پھولا پھلا ہے ہے اس باغ کی آبیاری کرتی رہے گا خلافت کا فیضان جاری خلافت ހނ کوئی بھی ٹکر جو لے گا وہ ذلت کی گہرائی میں جا گرے گا خدا کی سنت ازل سے ہے جاری رہے خدا کا رہے گا خلافت کا فیضان جاری وعده خلافت رہے گی گی تمہیں تا قیامت ملے شرط اس کی اطاعت گزاری گا خلافت کا فیضان جاری محبت کے جذبے، وفا کا قرینہ اخوت کی نعمت، ترقی ترقی کا زینه خلافت رہے گا خلافت کا فیضان جاری سے ہی برکتیں ہیں یہ ساری

Page 471

۴۵۰ الہی ہمیں تو فراست خلافت عطا کر گہری محبت عطا کر ہمیں دیکھ نہ دے کوئی لغزش ہماری رہے گا خلافت کا فیضان جاری محترمہ صاحبزادی امتہ القدوس صاحبه الفضل ۲۳ مئی ۲۰۰۵ص۲) خلافت سے زندہ دلوں میں خدا ہمارا خلافت ایمان ہے یہ ملت کی تنظیم کی جان ہے اسی سے ہر ایک مشکل آسان ہے گریزاں ہے اس سے جو نادان ہے رہیں گے خلافت سے وابستہ ہم جماعت کا قائم ہے اس سے بھرم نہ ہو گا کبھی اپنا خلاص کم بڑھے گا اسی سے ہمارا قدم خلافت سے زیر نگیں ہو جہاں خلافت ملت ہمیشہ جواں خلافت کا جب تک رہے گا قیام نہ کمزور ہو گا ہمارا نظام خلافت کا جس کو نہیں احترام زمانے میں ہو گا نہ وہ شاد کام تمنائیں اس سے ہیں اپنی جواں ہے آسان اس سے ہر اک امتحاں خلافت سے زندہ دلوں میں خدا خلافت غریبوں کا ہے آسرا نہ کیوں جان و دل سے ہوں اس پر فدا اسی کے ہے دم سے ہماری بقا میر اللہ بخش تسنیم از ماهنامه خالد مئی ۲۰۰۵ ص ۲۶)

Page 472

۴۵۱ خلافت دیں کا ایک حصن حصین ہے خلافت نور رب العالمیں ہے خلافت ظل ختم المرسلین ہے خلات دیں کا ایک حصن حصیں ہے خلافت کامرانی کی امیں ہے خلافت کاشف اسرار دیں ہے خلافت حرز جان مومنیں ہے خلافت عصمت صغری کی حامل خلافت ماحی اعدائے دیں ہے خلافت مرکز آئین قرآں خلافت حافظ شرع متیں ہے خلافت مخزن عرفان و حکمت خلافت رونق گلزار دیں ہے خلافت وحدت ملت کی ضامن خلافت موجب فتح میں ہے خلافت سے سدا وابستہ رہنا ہمارا عین فرض اولیں ہے خلافت کے بغیر اے قوم احمد نہ دنیا ہے نہ عقبی ہے نہ دیں ہے بھٹک سکتا نہیں وہ راہ حق سے خلافت پر جسے کامل یقیں ہے وہ جس سے غلبہ حق ہے مقدر خلافت کا نظام بہترین ہے رسالہ الوصیت پڑھ کے دیکھو وہاں ذکر خلافت بالیقیں ہے ( بحوالہ احمد یہ گزٹ کینیڈا مئی ۲۰۰۱ء)

Page 473

۴۵۲ ہے رہے تا قیامت قیام خلافت ازل سے ہے قائم قیام خلافت اسے حق نے بخشا اسے حق نے بخشا دوام خلافت خلافت کے دم سے ہے رونق جہاں میں عجب پر فضا ہے مقام خلافت خلافت کے ذریعہ ہے لہرایا پرچم ہر اک ملک میں ہے قیام خلافت ہر اک گل چمن کا یہی کہہ رہا ہے میرے دل میں ہے احترام خلافت خلافت نے روشن کیا میرے دل کو کیا دور ظلمت نظام خلافت کیا دین اسلام دنیا پہ غالب عجب شان رکھتا نظام خلافت محمود احمد خلیفہ جہاں کا جسے حق نے بخشا مقام خلافت خدا دے صحت اور لمبی عمر دے یہ ہیں میرے آقا امام خلافت خلافت کو پھر سے دوبارہ جہاں میں کیا اس نے قائم مقام خلافت ہر اک جا پہ ہو نور خالق ہویدا ہر اک جا پہ ہو احتشام خلافت خلافت کے منکر وہی ہیں جہاں میں نہ سمجھے جنہوں نے مقام خلافت کھٹکتا ہے دل میں ہمارے عدو کے ترقی پہ جو ہے نظام خلافت ہمارے چمن کا ہر اک گل ہے شاداں بہار چمن ہے نظام خلافت خلافت کے دامن سے وابستہ ہو کر کرو آج حاصل انعام خلافت اسی میں سراپا تیری بہتری ہے اک متبع ہر ہو نظام خلافت خدا کی ہو رحمت ہر اک احمدی پر کہ پیرو بنا ہے امام خلافت ہر اک لحظہ ہادی یہ دل کی دعا ہے رہے تا قیامت قیام خلافت حکیم سید عبدالہادی صاحب بہاری از مصباح خلافت نمبر دسمبر جنوری ۱۹۶۴ء)

Page 474

۴۵۳ برکات خلافت خلافت باعث تہذیب انساں خلافت ہی سے شان مومنیں ہے خلافت وحدت ملت کی ضامن خلافت آیة للعالمیں ہے خلافت بندگان حق کے حق میں حصار امن و ایماں و یقیں ہے خلافت کے بغیر اے قوم احمد نہ دنیا ہے عقبی ہے نہ دیں ہے پر جسے کامل یقیں ہے بھٹک سکتا نہیں وہ راہ حق سے خلافت وہ جس سے غلبہ حق ہے مقدر خلافت کا نظام بہتریں ہے کیا ہے متحد قوموں کو جس نے اخوت میں یہ وہ حبل متیں ہے چمن میں پھر بہار آئی ہے جس سے یہ وہ باران و نور آخریں ہے ہے زندہ نشاں زندہ خدا کا وہی اس کا مددگار و معین ہے خلافت کے مقابل لا کے دکھلا نظام ایسا اگر دیکھا کہیں ہے خلافت کے فضائل پر یہ صدیق کلام خاکسار و کمتریں ہے (مولانا محمد صدیق امرتسری)

Page 475

۴۵۴ کرامات خلافت خلافت فیض رحمانی خلافت فضل ربانی خلافت نور ایمانی خدا کی قدرت ثانی خلافت اک امانت ہے حصار عافیت بھی ہے جو اس کے پانے والے ہیں وہ ہو جاتے ہیں لاثانی خدا کے نور کا پرتو نبی کی ذات میں چمکا جو آیا اس کے قدموں میں وہ ہو جاتا ہے نورانی خلافت عکس ہے اس کا یہ محور ہے خلافت کا قدم جو ساتھ ساتھ اٹھیں تو ملتی ہے فراوانی وفا کی شرط اول ہے کہ طاعت اس کی لازم ہے اطاعت کرنے والے ہی تو ہو جاتے ہیں حقانی خلافت ہم کو یکجائی بنا کر دین و دنیا میں وہ راہ حق دکھاتی ہے کہ ہو جاتے ہیں لافانی ہم اس کے واسطے دنیا کو دعوت عام دیتے ہیں خدارا اس طرف دیکھو کہ نعمت ہے یہ لاثانی جو صالح اور مومن ہوں یہ دولت ان کو ملتی ہے لباس تقوی تن پر ہو تو ملتی ہے یہ سلطانی ہمارا کام کہنا ہے، کوئی مانے یا نہ مانے مسیح پاک کا ارشاد پایا ہم نے ربانی ہمیں کچھ کہیں نہیں بھائیو نصیحت ہے غیر یبانہ کوئی جو پاک دل ہووے دل و جاں اس پر قرباں ہے (ا.ب.زہرہ)

Page 476

۴۵۵ عہد حفاظت نظام خلافت ۱۹۵۹ء کے سالانہ اجتماع پر حضور نے ایک تاریخی عہد لیا جس کے الفاظ یہ ہیں.اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.ہم اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہم اسلام اور احمدیت کی اشاعت اور محمد صلى الله رسول اللہ ﷺ کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے اپنی زندگیوں کے آخری لمحات تک کوشش کرتے چلے جائیں گے اور اس مقدس فرض کی تکمیل کے لئے ہمیشہ اپنی زندگیاں خدا اور اس کے رسول کے لئے وقف رکھیں گے اور ہر بڑی سے بڑی قربانی پیش کر کے قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو دنیا کے ہر ملک میں اونچارکھیں گے.ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہم نظام خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کے لئے آخر دم تک جدو جہد کرتے رہیں گے اور اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے.تاکہ قیامت تک خلافت احمد یہ محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوتی رہے اور محمد رسول اللہ ﷺ کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے.اے خدا تو ہمیں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما.اللَّهُمَّ امِيْنَ اللَّهُمَّ امِينَ اللَّهُمَّ امِينَ.اور اس عہد کے متعلق آپ نے یہ ارشاد بھی فرمایا کہ ی عہد...متواتر چار صدیوں بلکہ چار ہزار سال تک جماعت کے نواجوانوں سے لیتے چلے جائیں اور جب تمہاری نئی نسل تیار ہو جائے تو پھر اسے کہیں کہ وہ اس عہد کو اپنے سامنے رکھے اور ہمیشہ اسے دہراتی چلی جائے اور پھر وہ نسل یہ عہد اپنی

Page 477

۴۵۶ تیسری نسل کے سپر د کر دے اور اس طرح ہر نسل اپنی اگلی نسل کو اس کی تاکید کرتی چلی جائے.اسی طرح بیرونی جماعتوں میں جو جلسے ہوا کریں ان میں بھی مقامی جماعتیں خواہ خدام کی ہوں یا انصار کی یہی عہد دہرایا کریں.یہاں تک کہ دنیا میں احمدیت کا غلبہ ہو جائے اور اسلام اتنا ترقی کرے کہ دنیا کے چپہ چپہ پر پھیل جائے“.(الفضل ۲۸ /اکتوبر ۱۹۵۹ء) حضرت خلیفتہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی اپنے ایک پیغام میں جماعت کو اس بارہ میں یاد دہانی کروائی.فرمایا.اسلام، احمدیت کی مضبوطی اور اشاعت اور نظام خلافت کے لئے آخر دم تک جدو جہد کرنی ہے اور اس کے لئے بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہنا ہے اور اپنی اولاد کو ہمیشہ خلافت احمدیہ سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتے رہنا ہے اور ان کے دلوں میں خلیفہ وقت سے محبت پیدا کرنی ہے.یہ اتنا بڑا اور عظیم الشان نصب العین ہے کہ اس عہد پر پورا اتر نا اور اس کے تقاضوں کو نبھانا ایک عزم اور دیوانگی چاہتا ہے.(ماہنامہ الناصر جر منی جون تا ستمبر ۲۰۰۳ ص۱)

Page 478

۴۵۷ نئی صدی کا عظیم عہد کا از حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ برموقع صدسالہ خلافت احمد یہ جو بلی مورخہ ۲۷ مئی ۲۰۰۸ء اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شریک له و اشهد انّ محمدا عبده و رسوله آج خلافت احمدیہ کے سو سال پورے ہونے پر ہم اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ہم اسلام اور احمدیت کی اشاعت اور محمد رسول اللہ ﷺ کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کیلئے اپنی زندگیوں کے آخری لمحوں تک کوشش کرتے چلے جائیں گے اور اس مقدس فریضہ کی تکمیل کیلئے ہمیشہ اپنی زندگیاں خدا اور اس کے رسول منانے کیلئے وقف رکھیں گے اور ہر بڑی سے بڑی قربانی پیش کر کے قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو دنیا کے ہر ملک میں اونچارکھیں گے.ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہم نظام خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کیلئے آخری دم تک جد و جہد کرتے رہیں گے اور اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے مستفیض

Page 479

۴۵۸ ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تاکہ قیامت تک خلافت احمد یہ محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوتی رہے اور محمد رسول اللہ ﷺ کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے.اے خدا! خدا! تو ہمیں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما.صلى الله اللهم آمين اللهم آمين اللهم آمین

Page 480

۴۵۹ حرف اخـ خلافت کی اطاعت میں سر رکھنا وفا کے پاسباں رہنا محبت کا رکھنا یہی عقد اخوت ہے یہی رمز ہے بیعت ایک نعمت ہے اسے تم تم محترم رکھنا بہار جانفزا مطلوب ہے فصل خلافت کی تو پھر نخل محبت کو سدا سدا اشکوں سے نم رکھنا چمن کی آبرو اس سے ہے گلشن کی بقا اس سے گل لالہ کی سیرابی کو خونِ دل بہم رکھنا تمہارے غم لئے دل میں وہ ہر لمحہ دعا میں ہے سنو! تم اپنے سینے میں سنبھالے اس کے غم رکھنا اسی کی انگلیوں میں تار ہیں سب دل کے سازوں کے انہی سازوں رقصاں دھڑکنوں کے زیر و بم وہ اس اس میخانہ ء دل میں اتر آئے گا چپکے سجائے بام و در رکھنا رکھنا صفائے جام جم رکھنا

Page 481

کیا ہے جشن صد سالہ نے منزل کا نشاں روشن تم عالی حوصلے رکھنا عزائم تازہ دم رکھنا علامت ہے خدا والوں کی جہد زندگانی میں رہ دلبر میں غیروں کا اٹھائے ہر ستم رکھنا شهیدان ره مولا اسیران ره مولا نشان ره سوئے منزل یہی نقشِ قدم رکھنا کم رکھنا دلوں کی بات ہے سود و زیاں کی سوچ سے بالا نہیں چلتا محبت میں حساب بیش اٹھیں گی قدغنیں ساری رستہ کھل ہی جائے گا بندھا رختِ سفر یوں ہی سوئے ارض حرم رکھنا گئے سو سال میں ہم کو ملی ہیں برکتیں ہر دم نئے سو سال میں یارب وہی لطف و کرم رکھنا ضياء الله مبشر (روزنامه الفضل ۲۹ مئی ۲۰۰۸)

Page 482

۴۶۱ سب برکتیں خلافت میں ہیں سیدنا حضرت خلیفہ اسی الثانی رضی اللہتعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:.”اے دوستو! میری آخری نصیحت یہ ہے کہ سب برکتیں خلافت میں ہیں.نبوت ایک بیج ہوتی ہے جس کے بعد خلافت اس کی تاثیر کو دنیا میں پھیلا دیتی ہے.تم خلافت حقہ کو مضبوطی سے پکڑو اور اس کی برکات سے دنیا کو متع کرو تا خدا تعالیٰ تم پر رحم کرے اور تم کو اس دنیا میں بھی اونچا کرے اور اس جہاں میں بھی اونچا کرے، تا مرگ اپنے وعدوں کو پورا کرتے رہو اور میری اولا د اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اولا د کو بھی ان کے خاندان کے عہد یاد دلاتے رہو.“ روزنامه الفضل ربوه ۲۰ مئی ۱۹۵۰ء)

Page 482