Language: UR
نظام خلافت کی اہمیت و افادیت کا جتنا بھی تذکرہ کیا جائے کم ہے، اور اس موضوع کی دہرائی جہاں نئی نسل کی حفاظت اور بہتری کی ضامن ہے وہاں پرانے لوگوں کے لئے ازدیاد ایمان اور روحانی ترقی کے اگلے زینوں تک پہنچانے کا باعث ہوتی ہے۔ زیر نظر کتاب جماعت احمدیہ برطانیہ کی طرف سے جولائی 2006ء میں طبع کی گئی تھی جس میں فاضل مصنف نے نظام خلافت کی برکات اور اس بابت ہماری ذمہ داریوں پر احسن رنگ میں روشنی ڈالی ہے، دراصل مولانا موصوف نے سال 1992ء میں جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر ’’اسلام کی ترقی خلافت سے وابستہ ہے‘‘ کے عنوان پر تقریر کی تھی اور پھر سال 2005ء میں جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقع پر ’’نظام خلافت اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ کے موضوع پر خطاب کیا تھا، جسے اس کتاب میں ضروری نظر ثانی اور اضافہ جات کے ساتھ یکجا کرکے پیش کیا گیا ہے۔
نظام خلافت برکات اور ہماری ذمہ داریاں عطاءالمجيب ران راشد
1
2
3 نظامِ خلافت برکات اور ہماری ذمہ داریاں محترم مولانا عطا بالحبیب صاحب راشد سید فضل.لندن
4 نظام خلافت ( برکات اور ہماری ذمہ داریاں) نام کتاب : محترم مولانا عطاءالمجیب صاحب راشد مصنف: مبلغ انچارج برطانیہ و امام مسجد فضل لندن تاریخ اشاعت : جولائی ۲۰۰۶ء ناشر : مطبع: جماعت احمدیہ.برطانیہ رقیم پریس.اسلام آباد(ٹلفورڈ) برطانیہ Institution of Khilafat (its blessings & our responsibities) Revised and enlarged text of two speeches deliverd by Maulana Ataul Mujeeb Rashed, Missionary in Charge UK and Imam of the London Mosque, in 1992 and 2005.Published by: Ahmadiyya Muslim Jama'at, UK Printed at: Raqeem Press, Islamabad, Tilford, Surrey, UK ISBN:
5 پیش لفظ نظام خلافت کی اہمیت وافادیت کے بارہ میں سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ہے کہ : واضح ہو کہ اب اللہ کی رسی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وجود ہی ہے، آپ کی تعلیم پر عمل کرنا ہے.اور پھر خلافت سے چھٹے رہنا بھی تمہیں مضبوط کرتا چلا جائے گا.خلافت تمہاری اکائی ہو گی اور خلافت تمہاری مضبوطی ہو گی.خلافت تمہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آنحضرت ﷺ کے واسطے سے اللہ تعالیٰ سے جوڑنے والی ہوگی.پس اس رسی کو بھی مضبوطی سے پکڑے رکھو.ورنہ جو نہیں پکڑے گا وہ بکھر جائے گا.نہ صرف خود بر باد ہوگا بلکہ اپنی نسلوں کی بربادی کے سامان بھی کر رہا ہوگا.“ پھر اسی تسلسل میں مزید فرمایا : آج ہر احمدی کو حبل اللہ کا صحیح ادراک اور فہم حاصل کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.صحابہ کی طرح قربانیوں کے معیار قائم کرنا حبل اللہ کو پکڑنا ہے.ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنا حبل اللہ کو پکڑنا ہے.قرآن کریم کے تمام حکموں پر عمل کرنا حبل اللہ کو پکڑنا ہے.اگر ہر فر د جماعت اس گہرائی میں جا کر حبل اللہ کے مضمون کو سمجھنے لگے تو وہ حقیقت میں اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے ایک جنت نظیر معاشرہ کی بنیاد ڈال رہا ہو گا.( خطبه جمعه فرمودہ 26 اگست 2005 بحوالہ الفضل انٹر نیشنل 16 ستمبر 2005 صفحه 7-6)
6 حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ان ارشادات کی روشنی میں ہر احمدی کے لئے از بس لازم ہے کہ وہ خلافت کی عظمت کو پہچانتے ہوئے اس بابرکت نظام کے ساتھ اپنے تعلق، عقیدت اور فدائیت کو مضبوط تر کرتا چلا جائے.۲۰۰۸ء میں انشاء اللہ تعالیٰ اس بابرکت کو جاری ہوئے سو سال پورے ہو جائیں گے.خلافت جوبلی کی آمد کی مناسبت سے جماعت احمد یہ برطانیہ یہ پروگرام بنا رہی ہے کہ مختلف کتب ورسائل کے ذریعہ نظامِ خلافت کی اہمیت، افادیت اور برکات کو احباب جماعت کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ یہ موضوعات ذہنوں میں اچھی طرح مستحضر رہیں اور احباب اپنی اپنی ذمہ داریاں کو احسن رنگ میں ادا کر سکیں.اس مقصد کے پیش نظر، اس مبارک کوشش کی ابتداء کے طور پر ہم دو تقاریر کا ایک مجموعہ احباب جماعت کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں جو مکرم مولانا عطاء الجيب صاحب را شد مبلغ انچارج برطانیہ و امام مسجد فضل لندن نے خلافت سے متعلق موضوعات پر جماعتی جلسوں میں فرمائیں.پہلی تقریر ”اسلام کی ترقی خلافت سے وابستہ ہے“ کے موضوع پر ہے جو جماعت احمد یہ جرمنی کے جلسہ سالانہ 1992 میں کی گئی اور دوسری تقریر ” اور ہماری ذمہ داریاں“ کے موضوع پر ہے جو جماعت احمد یہ برطانیہ کے جلسہ سالانہ 2005 میں کی گئی.تقاریر کے وہ حصے جو وقت کی کمی کی وجہ سے پیش نہ ہو سکے ، ان کو شامل کرتے ہوئے اور فاضل مقرر کی نظر ثانی کے بعد یہ مجموعہ احباب کی خدمت میں پیش ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کی اشاعت بابرکت بنائے اور اسے قبول فرمائے.نیز قارئین کرام کو اس سے بھر پور استفادہ کی توفیق دے تا ہم سب کے حوالہ سے اپنی جملہ ذمہ داریاں احسن رنگ میں ادا کر نے کی توفیق پاسکیں.آمین (ناشر)
14 17 18 21 25 27 29 30 31 31 32 33 34 36 38 40 45 46 49 7 خلافت را شده فہرست مضامین اسلام کی ترقی خلافت سے وابستہ ہے کی حکمت برکات خلافت خلافت راشدہ کے آغاز میں درپیش مسائل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت قدرت ثانیہ کے بارہ میں آپ کے ارشادات ظہور قدرت ثانیہ خلافتِ احمدیہ کے اثمار تبلیغ اسلام تراجم قرآن کریم تعمیر مساجد ناموس اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کی قربانیاں حقیقی جماعت جماعت احمدیہ کی فتوحات شاندار مستقبل کی عظیم الشان نوید ہماری ذمہ داریاں خلافت کیا ہے؟ نبوت و خلافت اور ہماری ذمہ داریاں نبی اور خلیفہ کا انتخاب
50 51 53 56 57 58 63 65 67 70 75 82 82 84 85 88 90 95 97 98 99 102 107 8 خلافت کی عظمت اور برکات خلیفہ کا بلند مقام خلافت را شده خلافتِ احمدیہ کا قیام فیضان خلافت خلافت احمدیہ کی عظمت جماعت کے لئے مقام شکر ایک موازنہ برکات خلافت کے جلوے خلیفہ وقت کا دل.دعاؤں کا خزینہ ہماری ذمہ داریاں.خلفائے احمدیت کے ارشادات انعام خلافت پر شکر خلیفہ وقت سے ذاتی تعلق خلیفہ وقت کے لئے دعا ئیں خلیفہ وقت کے ارشادات کو سننا ایک اور ذمہ داری ہر تحریک پر والہانہ لبیک اولادکو تلقین عہدیداران کی ذمہ داری نظام جماعت کی اطاعت دلی وابستگی اور اطاعت اختتامیه منظومات
9 اسلام کی ترقی خلافت سے وابستہ ہے تقریر بر موقع جلسہ سالانہ.جرمنی ۱۹۹۲
10
11 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدٌ لَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ، يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً طَ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ ) ( النور : ۵۶) (ترجمہ ” تم میں سے جولوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے ان سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لئے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا.وہ میری عبادت کریں گے.میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے.اور جو اُس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نا فرمان ہیں.6❝
12 سامعین کرام ! آج سے چودہ سو سال قبل چشم فلک نے ایک ایسا محیر العقول نظارہ دیکھا جس کی مثال تاریخ عالم میں نظر نہیں آتی.مطلع عالم پر آفتاب رسالت کا طلوع ہونا تھا کہ گھٹاٹوپ اندھیرے میں فرق دنیا یکدفعہ جمعہ نور بن گئی.باعث تخلیق کائنات حضرت محمد مصطفی ﷺ کے بابرکت ظہور سے گمراہی کے خلاؤں میں بھٹکنے والی انسانیت نے فلاح کی راہ پالی.دینِ اسلام کی صورت میں فیضان الہی کا ایسا چشمہ رواں ہوا کہ صدیوں کی پیاسی دھرتی سیراب ہوگئی اور بنجر زمینیں روحانیت کی سدا بہار کھیتیوں سے لہلہانے لگیں.ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعاؤں نے سارے عالم عرب میں ایک عظیم الشان روحانی انقلاب بر پا کر دیا.صدیوں کے مردے روحانی طور پر زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الہی رنگ پکڑ گئے.آنکھوں کے اندھے بینا ہو گئے اور گونگوں کی زبانوں پر انہی معارف جاری ہو گئے.دنیا میں یکدفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا.انسانِ کامل کی صورت میں خدا تعالیٰ کے مظہر اتم کا یہ حسین جلوہ اپنی معراج پر تھا کہ ہمارے محبوب آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ کے وصال کا وقت آن پہنچا.آپ کی رحلت پر وفا کیش صحابہ پر کیا گزری، ان کی حالت غم کا اندازہ کرنا کچھ آسان بات الله نہیں.لوگوں کی زبان پر بے اختیار یہ مضمون جاری ہوا کہ مدینہ نبی کریم ﷺ کے قدوم میمنت لزوم سے ماہتاب کی طرح روشن ہو گیا تھا اور آج حضور اکرم ﷺ کی وفات پر اس سے زیادہ تاریک مقام بھی ہماری آنکھوں نے نہیں دیکھا.
13 شاعر اسلام حضرت حسان بن ثابت ایک عرصہ سے بصارت سے محروم تھے لیکن اس روز پہلی بار انہیں پتہ چلا کہ واقعی ان کی آنکھوں کا نور جاتا رہا.کتنا درد اور غم پنہاں ہے ان کے ان اشعار میں جوان کی زبان پر جاری ہوئے : صلى الله كُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِى فَعَمِيُّ عَلَيْكَ النَّاظِر مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ فَعَلَيْكَ كُنتُ أُحَاذِرُ کہ اسے محمد ع تو تو میری آنکھ کی پتلی تھا.آج تیرے مرنے سے میری آنکھیں اندھی ہوگئی ہیں.اب تیرے بعد مجھے کیا پرواہ، جو چاہے مرے.مجھے تو تیری ہی موت کا ڈر تھا.یہ کربناک کیفیت صرف ایک حسان کے دل کی نہ تھی بلکہ سارے صحابہ ہی غم کے مارے دیوانہ ہورہے تھے.ایک تو یہ غم تھا کہ وہ ماں سے بڑھ کر شفقت کرنے والے پیارے وجود سے محروم ہو گئے ہیں اور دوسرے یہ غم ان کی جانوں کو بالکان کئے جا رہا تھا کہ ہمارے اس محبوب کی مقدس امانت کا اب کون محافظ ہوگا ؟ خل اسلام کا کیا بنے گا؟ کون اس کی آبیاری اور حفاظت کرے گا ؟ ابھی تو تخم ریزی کا کام ہی ہوا ہے کون اس کو اپنے خون جگر سے سینچے گا اور کون اس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچائے گا؟ یہ فکر ان کی روحوں کو گداز کر رہا تھا کہ اب اسلام کا دفاع ، اس کی اشاعت اور اس کی ترقی کیونکر
14 ہوگی ؟ اسلام کی عالمگیر فتح و نصرت اور ترقی وغلبہ کے خدائی وعدے کیونکر پورے ہونگے ؟ خلافت راشده تاریخ اسلام کے اس سنگین ترین موڑ پر صحابہ کرام کی حالت یہ تھی کہ وہ ان فکروں کی تاب نہ لا کر جیتے جی موت کی وادی میں اترنے والے تھے کہ صادق الوعد خدا نے اپنے محبوب کی امت کی دستگیری فرمائی اور اس کے دست رحمت نے خلافت کے ذریعہ ان کے شکستہ دلوں کو تھام لیا.خدائے قادر کا یہ سکینت بخش ہاتھ خلافت کی شکل میں آگے بڑھا اور لرزاں و ترساں دلوں کو سکون و اطمینان سے بھر دیا.پژمردہ دلوں میں جان پیدا ہوگئی کہ خدائے حی و قیوم نے ایک یتیم اور جاں بلب امت کے سر پر خلافت کا تاج رکھ کر انہیں ایک راہنما عطا کر دیا جو ان کے محبوب آقا کا قائمقام اور اس نسبت سے ان کا محبوب آقا قرار پایا.صحابہ کے چہرے خوشی سے تمتمانے لگے.جسم کو ایک سرمل گیا، کارواں کو ایک سالا مل گیا جس کے سر پر خدائی نصرت کا سہرا جگمگارہا تھا.یہ ظہور تھا قدرت ثانیہ کا.یہ انعام تھا خلافت راشدہ کا اور یہ تکمیل تھی اس خدائی وعدہ کی جو اسلام کی سربلندی اور غلبہ کے لئے خدا تعالیٰ نے مومنوں سے سورۃ النور کی آیت استخلاف میں فرما رکھا تھا.اس خدائی وعدہ اور اس کے پر شوکت ظہور کی تفصیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنئے.آپ فرماتے ہیں: وو یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو
15 زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور ان کو غلبہ دیتا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے كَتَبَ اللهُ لَا غُلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِی اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اس کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے اسی طرح خدا تعالیٰ قوی نشانوں کے ساتھ ان کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اس کی تخم ریزی انہی کے ہاتھ سے کر دیتا ہے.لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے مخالفوں کو نسی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقعہ دے دیتا ہے اور جب وہ جنسی ٹھٹھا کر سکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدرنا تمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں.غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے.(۱) اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے.(۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا
16 اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تر ڈو میں پڑ جاتے ہیں ور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں.تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے معجزہ کو دیکھتا ہے.جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق کے وقت میں ہوا جبکہ آنحضرت مے کی موت ایک بے وقت موت کبھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے اور صحابہ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمُ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ امنا.یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جمادیں گے.“ (رسالہ الوصیت صفحہ : کے روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۴، ۳۰۵) اللہ تعالیٰ کی یہ زبردست قدرت ثانیہ خلافت کا وہ با برکت روحانی نظام ہے جس پر نبوت کے بعد اسلام کی ترقی کا انحصار اور اس کے غلبہ کا دارو مدار ہے.یہی بابرکت نظام ، نبوت کا قائمقام اور ہر نوع کی ترقیات کی حتمی ضمانت ہے.یہی وہ موعود آسمانی
17 نظام ہدایت ہے جس کا آیت استخلاف میں مومنوں سے وعدہ فرمایا گیا ہے.کی حکمت کے بارہ میں قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے بہت عمد و وضاحت فرمائی ہے.آپ فرماتے ہیں: قرآن شریف کی تعلیم اور سلسلہ رسالت کی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی رسول اور نبی کو بھیجتا ہے تو اس سے اس کی غرض یہ نہیں ہوتی کہ ایک آدمی دنیا میں آئے اور ایک آواز دے کر واپس چلا جاوے.بلکہ ہر نبی اور رسول کے وقت خدا تعالیٰ کا منشاء یہ ہوتا ہے کہ دنیا میں ایک تغیر اور انقلاب پیدا کرے جس کے لئے ظاہری اسباب کے ماتحت ایک لمبے نظام اور مسلسل جدوجہد کی ضروت ہوتی ہے اور چونکہ ایک انسان کی عمر بہر حال محدود ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ نبی کے ہاتھ سے صرف تخم ریزی کا کام لیتا ہے اور اس تخم ریزی کو انجام تک پہنچانے کے لئے نبی کی وفات کے بعد اس کی جماعت میں سے قابل اور اہل لوگوں میں یکے بعد دیگرے اس کے جانشین بنا کر اس کے کام کی تکمیل فرماتا ہے.یہ جانشین اسلامی اصطلاح میں خلیفہ
کہلاتے ہیں.“ 18 (رساله خالد ر بوه مئی ۱۹۶۰ ، صفحه ۳۰) کی عظمت اس کی حکمت اور برکت کے بارہ میں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب شہادت القرآن میں فرماتے ہیں: ” خلیفہ در حقیقت رسول کا خل ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف واولی ہیں ظلمی طور پر ہمیشہ کے لئے تا قیامت قائم رکھے.سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے.“ برکات خلافت شہادت القرآن صفحه ۵۷ روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۵۳) قرآن مجید کی آیت استخلاف پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو مومنوں کو بطور انعام عطا کیا جاتا ہے ایک نہایت ہی بابرکت اور عظیم الشان نظامِ قیادت ہے.ایمان اور عمل صالحہ کے زیور سے آراستہ جماعت مومنین میں یہ نظام خود خدا تعالیٰ کے ہاتھوں قائم کیا جاتا ہے.خلافت نبوت کا تنتمہ ہے اور اسی نور کا ظلتِ کامل ہے.اس
19 لحاظ سے برکات رسالت اور انوار نبوت کا پورا پورا عکس اس ماہتاب نبوت میں نظر آتا ہے.یہ وہ نظام ہے جو امت مسلمہ کے ہر خوف کو امن میں تبدیل کرتا ہے.دنیا میں خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کو اس شان سے قائم کرتا ہے کہ مشرکانہ زندگی پر موت وارد ہو جاتی ہے.یہ خلافت ہی ہے جو جماعت مومنین کے ایمان اور عمل صالحہ کی سند ہے جو ساری امت کو وحدت اور الفت کی لڑی میں پروکر بنیان مرصوص بنادیتی ہے.خلافت کی برکات میں سے سب سے عظیم الشان نعمت جس کا آیت استخلاف میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سب سے پہلے ذکر فرمایا ہے وہ استحکام اسلام اور تمکنت دین ہے.آیت کے الفاظ یہ ہیں: وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمُ کہ خدائے قادر و یگانہ اس بات کا وعدہ اور حتمی اعلان کرتا ہے کہ کے ذریعہ وسن اسلام کو تمکنت اور مضبوطی عطا کی جائے گی اور ساری دنیا میں غلبہ اسلام کی آسمانی تقدیر خلافت کے ذریعہ پوری شان وشوکت اور جلال کے ساتھ جلوہ گر ہوگی.اس تحدی اور واشگاف اعلان میں یہ وعید بھی شامل ہے کہ خلافت کے بابرکت نظام سے الگ ہو کر کسی برکت، کسی ترقی اور کسی کامیابی کا تصور بھی ممکن نہیں.جو خلافت کے بابرکت حصار کے اندر ہوں گے کامیابی و کامرانی ان کے قدم چومے گی اور جو اس نعمت سے منہ موڑیں گے وہ ہمیشہ ناکامی و نامرادی کے خلاؤں میں بھٹکتے رہیں گے.اسلام کی چودہ سوسالہ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ جب تک مسلمانوں میں صحیح
20 اسلامی خلافت کا نظام یعنی خلافت راشدہ قائم رہی اسلام کو ترقی اور غلبہ نصیب ہوا.اور جب مسلمان اپنی بدعملیوں کی پاداش میں اس خدائی انعام سے محروم ہوئے تو اس کے ساتھ ہی ان کی کامیابیوں اور کامرانیوں کا سورج بھی ڈھل گیا.ہمارے آقا ومولا حضرت محمد مصطفی علیہ کے وصال مبارک کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلى مِنْهَاجِ النَّبُوَّةِ کے مطابق مسلمانوں کو خلافت سے نوازا تو خلافت راشدہ کے اس بابرکت دور میں جو اگر چہ صرف میں سال پر محیط تھا اسلام کی شان و شوکت نہ صرف جزیرۂ عرب میں بلکہ دنیا کے طول وعرض میں قائم ہوئی.اللہ تعالیٰ نے جماعت مومنین کو جو وعدہ عطا فر مایا تھا کہ انْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ (آل عمران: آیت 140) اس وعدہ کے مطابق مسلمانوں کو ہر میدان میں اور ہر جہت میں کامیابی اور غلبہ نصیب ہوا.کہاں یہ حالت کہ وصال نبوی کے بعد فتنہ ارتداد نے نوبت یہاں تک پہنچادی تھی کہ مدینہ کے علاوہ صرف ایک یا دو جگہ پر نماز با جماعت ادا کی جاتی تھی اور پھر یہ عالم کہ تمیں سال کے اندر اندر مشرق میں افغانستان اور چین کی سرحدوں تک مغرب میں طرابلس اور شمالی افریقہ کے کناروں تک ، شمال میں بحر قزوین تک اور جنوب میں حبشہ تک اسلامی پرچم لہرانے لگا.خلافت راشدہ میں اسلام کی اس ترقی اور غلبہ کو دیکھ کر آج بھی دنیا انگشت بدنداں ہے.اسلام کی ترقی و عروج کا یہ وہ زمانہ تھا کہ کسی بڑے سے
21 بڑے مخالف کو بھی اس کے مقابلہ کی تاب نہ تھی.اسلام کی شان وشوکت اور مسلمانوں کے رعب ود بعد یہ کا یہ عالم تھا کہ قیصر و کسری کی عظیم الشان حکومتیں بھی ان کے نام سے لرزتی اور خم کھاتی تھیں.حق یہ ہے کہ خلافت راشدہ کے اس سنہری دور میں اسلام کو وہ عظمت اور سر بلندی حاصل ہوئی کہ آج بھی جب کوئی انصاف پسند مؤرخ مڑ کر اس دور پر نظر کرتا ہے تو حیرت کی تصویر بن جاتا ہے.اسے سمجھ نہیں آتی کہ صحرائے عرب کے بادیہ نشین فاتح اقوام عالم کیسے بن گئے؟ وہ نہیں جانتا کہ یہ سب خلافت راشدہ کا ثمرہ تھا.وہ خلافت راشدہ جس کے ساتھ اسلام کے غلبہ کی تقدیر وابستہ ہے! خلافت راشدہ کے آغاز میں درپیش مسائل خلافت راشدہ کے مبارک دور میں اسلام کی ترقی اور سر بلندی کا یہ مختصر تذکرہ مکمل نہیں ہو سکتا جب تک ان فتنوں اور مسائل کا کچھ ذکر نہ کیا جائے جو خلافت راشدہ میں اور خاص طور پر اس کے آغاز کے موقعہ پر یکے بعد دیگرے اٹھے اور عظمت خلافت کے سامنے سرنگوں ہو کر رہ گئے.ارتدادکا فتنہ اٹھا، مانعین زکوۃ نے بغاوت کا علم سر بلند کیا، منافقین نے امت مسلمہ کی شیرازہ بندی کو ختم کرنا چاہا، جھوٹے مدعیان نبوت نے قصر اسلام میں نقب زنی کی کوشش کی.یوں نظر آتا تھا کہ یہ منہ زور فتنے عظمت اسلام کو پامال کر کے رکھ دیں گے لیکن جس خدا نے اپنے وعدہ کے مطابق امت مسلمہ کو خلافت کا انعام عطا فر مایا تھا اور جس نے یہ وعدہ فرمایا تھا وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى
22 لَهُمُ کہ میں اس خلافت کے ذریعہ اپنے اس پسندیدہ دینِ اسلام کو تمکنت ،عظمت اور سر بلندی عطا کروں گا.اس سچے وعدوں والے خدا نے وقت کے خلیفہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو وہ عزم، حوصلہ اور اقدام کی وہ آہنی قوت عطا فرمائی کہ دیکھتے ہی دیکھتے سب فتنے زیر نگیں ہو گئے اور خرمن اسلام ان بگولوں کی زد سے پوری طرح محفوظ و مامون رہا.صرف ایک واقعہ کا معین ذکر کرتا ہوں.رسول مقبول ﷺ نے اپنے وصال سے قبل حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں مسلمانوں کا ایک لشکر جرار شام کی طرف بھیجنے کا ارشادفرمایا.لشکر ابھی روانہ بھی نہ ہوا تھا کہ آپ ﷺ کا وصال ہو گیا.حالات میں یکدفعہ تغیر پیدا ہو گیا.بدلے ہوئے حالات میں بظاہر لشکر کو روک لینا ہر لحاظ سے قرین مصلحت نظر آتا تھا.حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جن کی سیاست دانی اور جرات کا لوہا ایک دنیا مانتی ہے دربار خلافت میں حاضر ہو کر عرض کرتے ہیں کہ اے خلیفہ الرسول ! حالات کا تقاضا ہے کہ اس لشکر کو روک لیا جائے.خلافت حقہ کی برکت اور عظمت کا اندازہ لگائیے کہ وہ جسے رقیق القلب سمجھ کر کمزور خیال کیا جاتا تھا ، ہاں وہی ابوبکر جسے اب خدا تعالیٰ نے خلافت کا منصب عطا فر ما دیا تھا آپ کا جواب یہ تھا کہ اس لشکر کوروکنے کا کیا سوال، خدا کی قسم ! اگر پرندے میرے گوشت کو نوچ نوچ کر کھانا شروع کر دیں تو تب بھی میں اپنی خلافت کا آغاز کسی ایسی بات کو روکنے سے نہیں کروں گا جس کا حکم رسول اللہ ﷺ اپنی زندگی میں دے چکے ہیں.جو بات خدا کا رسول کہہ چکا ہے وہ آخری
23 اور اٹل ہے.یہ لشکر جائے گا اور ضرور جائے گا اور کوئی صورت نہیں کہ اس لشکر کو روکا جائے.صحابہ نے پھر با ادب عرض کیا کہ کم از کم لشکر کی روانگی میں کچھ تاخیر کردی جائے.حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ بھی ناممکن ہے، مجھے اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اگر ازواج مطہرات کی نعشوں کو کتے مدینہ کی گلیوں میں گھسیٹتے پھریں تب بھی میں اس لشکر کو ہرگز ہرگز نہیں روکوں گا جس کو رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے ہاتھوں سے تیار فرمایا تھا.یہ شکر ضرور روانہ ہوگا اور فوری طور پر روانہ ہوگا.صحابہ نے ایک بار پھر کوشش کی اور پورے ادب سے مشورہ عرض کیا کہ اور کچھ ممکن نہیں تو کم از کم نوعمر اور نا تجربہ کار اسامہ کی جگہ کسی اور تجربہ کار شخص کو امیر لشکر مقرر فرما دیا جائے.اس پر حضرت ابوبکر نے پھر فرمایا کہ ہر گز ممکن نہیں.جس کو خدا کے رسول نے مقرر فرما دیا ابن ابی قحافہ کی کیا مجال کہ وہ اسے تبدیل کر سکے.یہ لشکر اسامہ ہی کی قیادت میں جائے گا اور ضرور جائے گا.چنانچہ دنیا نے دیکھا کہ باوجود انتہائی نامساعد حالات کے خلیلتہ الرسول سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس بات کو لفظا لفظائع را کیا جو رسول اللہ ملے کے مبارک ہونٹوں سے نکلی تھی.کتنا ایمان افروز نظارہ تھا جب حضرت ابوبکر خود اس لشکر کو رخصت کرنے کے لئے مدینہ سے باہر نکلے، اسامہ کو سوار کرایا اور خودساتھ پیدل چلنے لگے.اسامہ بار بار عرض کرتے کہ اے خدا کے رسول کے خلیفہ! یا تو آپ بھی سوار ہوں یا
24 مجھے اترنے کی اجازت دیں.فرمایا نہیں ، نہ یہ ہوگا نہ وہ ہوگا.نہ میں سوار ہوں گا نہ تم پیدل چلو گے.پس اس شان سے حضرت اسامہ کالشکر مدینہ سے روانہ ہوا اور بعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ خلیفہ وقت کا یہ فیصلہ بہت ہی مبارک اور اسلام کی سربلندی کا موجب ہوا.اس جرات مندانہ اقدام سے دشمن اتنے مرعوب ہوئے کہ مدینہ پر حملہ کی جرأت نہ کر سکے اور یہ لشکر فتح و نصرت کے ساتھ بائیلِ مرام مدینہ واپس آیا.خلافت راشدہ کے آغاز ہی میں اس پر شوکت واقعہ نے عظمت خلافت کو قائم کردیا اور ہر شخص پر واضح ہو گیا کہ اسلام کی تمکنت اور دین حق کا غلبہ واستحکام خلافت سے وابستہ ہے.خلافت راشدہ کے اس پر شوکت دور کے بعد مسلمانوں کی ناشکری کے سبب خلافت کا انعام اپنی پہلی شکل میں قائم نہ رہا.خلافت کی جگہ ملوکیت اور بادشاہت نے راہ پالی اور اس کے ساتھ ہی ان تمام برکات کی بھی صف لپیٹ دی گئی جو خلافت سے وابستہ ہوتی ہیں.اکناف عالم میں اسلام کو جوترقی اور غلبہ خلافت کے ذریعہ نصیب ہوا تھا اس دور استبداد و ملوکیت میں اس کا سایہ بیچنے لگا.مسلمانوں کی عظمت نے ان کو خیر باد کہا.ان کی شان و شوکت ان سے منہ موڑ کر رخصت ہوگئی.مسلمانوں کی صفوں میں تفرقہ اور اختلاف اس حد تک بڑھ گیا کہ اتحاد و یگانگت کو یکسر بھلا کر باہم برسر پیکار ہو گئے اور نتیجہ یہ ہوا کہ وہ قوم جس نے نبوت کے آفتاب اور خلافت کے ماہتاب سے منور ہوکر ترقی و عروج کی چوٹیوں کو پامال کیا تھا اب تنزل و انحطاط کے قعر مذلت میں جا پڑی.اس دور کا ایک ایک دن اور ایک ایک رات اس بات کی گواہی دے رہی تھی کہ
25 امت مسلمہ نے جو پایا تھا وہ خلافت کے طفیل پایا تھا، اس خلافت کو چھوڑا ہے تو اب ان کی جھولی خالی ہوکر رہ گئی ہے.حضرات ! خلافت راشدہ سے محرومی کے بعد مسلمانوں کی کسمپرسی کی یہ طویل صلى الله رات کم و بیش ایک ہزار سال تک جاری رہی.صادق و مصدوق عﷺ کی پیش خبری کے عین مطابق فیج اعوج کے اس زمانہ میں اسلام کی حالت ناگفتہ بہ ہوگئی.ایمان ثریا پر جا پہنچا اور کیفیت یہ ہوگئی کہ رہا دین باقی نہ اسلام باقی اک اسلام کا رہ گیا نام باقی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت بالآخر اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی اور سچے وعدوں والے خدا نے اپنے وعدے کے مطابق اس دور آخرین میں ایک آسمانی مصلح کے ذریعہ احیائے اسلام کی بنیاد رکھی.سیدنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالی نے نبی اکرم کی روحانی بعثت ثانیہ کے طور پر مبعوث فرمایا اور امام مہدی اور مسیح موعود کا بلند منصب عطا فر مایا.آپ کی آمد کا مقصد يُخي الدِّينَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَةَ کے الفاظ میں بیان ہوا ہے.احیائے اسلام، قیام شریعت اور تحمیل اشاعت اسلام کو اس حد تک آگے بڑھانا کہ بالآخر عالمگیر غلبہ اسلام پر منتج ہو.بلا استثناء سب مفسرین قرآن اس بات پر
26 متفق ہیں کہ آیت کریمہ هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ علَى الدِّينِ كُلَّه (التوبہ:۳۳) میں جس غلبہ اسلام برادیان باطلہ کی پیشگوئی کی گئی ہے یہ غلبہ اپنے پورے جلال اور پوری شان و شوکت کے ساتھ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے وقت میں ظہور پذیر ہوگا.حضرت سید محمد اسماعیل شہید علیہ الرحمۃ اپنی کتاب ” منصب امامت“ میں تحریر فرماتے ہیں: ظہور دین کی ابتداء پیغمبر ﷺ کے زمانہ میں ہوئی اور اس کی تکمیل حضرت مہدی علیہ السلام کے ہاتھ سے ہوگی.“ (منصب امامت صفحه : ۷۶) خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے: ” خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا.ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں تو حید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا.“ الوصیت صفحه ۹۰۸ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۷،۳۰۶) ہم گواہ ہیں اس بات کے کہ اسلام کے اس عالمگیر غلبہ کی بنیاد سید نا حضرت مسیح
27 الله موعود علیہ السلام کے مقدس ہاتھوں سے رکھی گئی اور آپ نے اپنی حیات طیبہ کا ایک ایک لمحہ اس مقصد کی خاطر قربان کر دیا.خدا تعالیٰ کی ہزار ہزار رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں رسول مقبول ﷺ کے اس محبوب ترین روحانی فرزند پر جس نے خدمت دین اسلام کا حق ادا کر دیا.آپ کی دینی خدمات کے تفصیلی تذکرہ کا یہ موقعہ نہیں لیکن میں یہ کہنے سے رک نہیں سکتا کہ خدا تعالیٰ کے اس پہلوان جَرِ اللَّهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ نے اسلام کی مدافعت اس کی سربلندی اور ترقی کے لئے ایسی تعظیم الشان خدمات سرانجام دیں کہ اشد ترین مخالفین نے بھی اس کا برملا اعتراف کیا، آپ کو اسلام کا فتح نصیب جرنیل قرار دیا اور اقرار کیا کہ آپ نے اسلام کے عالمگیر غلبہ کے لئے نہایت مستحکم بنیادیں استوار کر دی ہیں.قدرت ثانیہ کے بارے میں آپ کے ارشادات بالآخر آپ کی زندگی میں بھی وہ دن آیا جو ہر فانی انسان کی زندگی میں آیا کرتا ہے لیکن آپ نے اپنے وصال سے پہلے یہ بشارت دی کہ خدائے قادر و توانا آپ کے ذریعہ سے جاری ہونے والے مشن کو ہرگز نا تمام نہیں چھوڑے گا اور غلبہ اسلام کی آسمانی مہم خلافت کے زیر سایہ پھولتی پھلتی اور پروان چڑھتی رہے گی.آپ نے فرمایا : یقیناً سمجھو کہ یہ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے خدا اس کو " ہرگز ضائع نہیں کریگا.وہ راضی نہیں ہوگا جب تک کہ اس کو کمال تک
28 نہ پہنچا دے اور وہ اس کی آبپاشی کرے گا اور اس کے گرد احاطہ بنائے گا اور تعجب انگیز ترقیات دے گا“ انجام آنقم صفحه ۶۴ روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحه ۶۴) اسلام کی عالمگیر اشاعت کو نقطۂ کمال تک پہنچانے کے لئے اپنے بعد جاری ہونے والے کو قدرت ثانیہ سے تعبیر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: ” اے عزیز و! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دوقدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا دے.سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جا ئیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا اور وہ دوسری قدرت آنہیں سکتی جب تک میں نہ جاؤں.لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے.اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں
29 ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا.سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے.وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے.وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے.اگر چہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی.میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے.“ ظہور قدرت ثانیہ الوصیت صفحہ ۷، ۸ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۶،۳۰۵) ۲۷ مئی ۱۹۰۸ ء کا دن وہ تاریخی دن ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے مسیح محمدی کے ہاتھوں قائم ہونے والی جماعت احمدیہ کو خلافت کے انعام سے نوازا اور انہیں وہ وسیلہ فتح والفر عطا فرمایا جس کے ساتھ اسلام کی ترقی اور غلبہ وابستہ ہے.آج اس انعام الہی پر
30 ۸۴ برس کا عرصہ پورا ہونے کو ہے.اس مضمون کی اشاعت کے وقت 2006 ء میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے 98 سال مکمل ہو چکے ہیں.الحمد لله ) خدا گواہ ہے اور ہم اس کے حضور سجدات شکر بجالاتے ہوئے اس امر کا اقرار کرتے ہیں کہ اس عرصہ کا ایک ایک دن اس بات پر گواہ ہے کہ خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو وہ عظمت، وہ تمکنت اور وہ عالمگیر ترقی عطا فرمائی ہے جو ایک جاری وساری زندہ و تابندہ معجزہ کا حکم رکھتی ہے.خلافت احمدیہ کے اثمار سامعین کرام ! خلافت احمدیہ کے ذریعہ غلبہ اسلام کی داستان دلنشین اور ایمان افروز ہونے کے ساتھ ساتھ اتنی پر شوکت اور پر عظمت ہے کہ اس کا بیان کرتے ہوئے میری زبان لڑکھڑاتی ہے اور الفاظ میرا ساتھ نہیں دیتے کہ کس طرح خلافت احمدیہ کے ذریعہ ہونے والی اسلام کی عالمگیر روز افزوں ترقی کو نوک زباں پر لاؤں.حق یہ ہے کہ خدمت و اشاعت اسلام کا جو بیج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدس ہاتھوں سے بویا گیا آج خلافت احمدیہ کے زیر سایہ ایک تناور درخت بن چکا ہے.پاکیزہ کلمہ کی مثال کی طرح اس درخت کی جڑیں اکناف عالم میں مضبوطی سے قائم ہو چکی ہیں اور اس کی شاخوں نے فضا کی وسعتوں کو بھر دیا ہے.
31 تبلیغ اسلام ہندوستان کی سرزمین سے باہر مشنوں کے قیام کا آغاز خلافت احمدیہ کے دور میں ہوا اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک سو بیس ملکوں میں جماعت احمد یہ با قاعدہ طور پر قائم ہو چکی ہے.(اس مضمون کی اشاعت کے وقت ملکوں کی تعداد 184 ہو چکی ہے.الحمد لله) وہ قافلہ جو ۴۰ فدائیوں کے ساتھ روانہ ہوا تھا آج اس کی تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اور ہر روز بڑھتی چلی جارہی ہے.(اب یہ تعداد اللہ تعالی کے فضل سے میں کروڑ سے زائد ہو چکی ہے اور روز بروز بڑھتی جارہی ہے.الحمد لله) قادیان کی گمنام بہستی سے اٹھنے والی آواز کی بازگشت آج اکناف عالم میں سنائی دے رہی ہے.اللہ تعالیٰ نے اس آواز کو اتنی عظمت اور پذیرائی عطا کی ہے کہ اقصائے عالم کے دانشور اس کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر اسے توجہ سے سنتے اور اس کی صداقت کا اعتراف کرتے ہیں.حق یہ ہے کہ خلافت کے زیر سایہ تحریک احمدیہ نے ایسا عالمگیر تشخص حاصل کر لیا ہے کہ آج دنیا کا کوئی خطہ اس کی برکتوں سے محروم نہیں اور حقیقی معنوں کے اعتبار سے بلاخوف تردید کہنا چاہئے کہ ہر آن اور ہر جگہ عالم احمدیت پر خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کا سورج ہمیشہ جلوہ گر رہتا ہے اور خدائی نصرتوں کے زیر سایہ عالمگیر غلبہ اسلام کی موجود صبح لحل لحد روشن تر ہوتی چلی جارہی ہے.تراجم قرآن کریم ساری دنیا میں تبلیغی مراکز کا جال بچھانے کے ساتھ ساتھ خلافت احمدیہ کے
32 زیر سایہ اسلامی لٹریچر کی دنیا بھر کی زبانوں میں اشاعت ایک ایسا کارنامہ ہے جو اپنی مثال آپ ہے.لٹریچر کے ضمن میں سب سے اہم قرآن مجید کے تراجم ہیں.کیا یہ بات معجزہ سے کم ہے کہ گذشتہ چودہ سو سال میں ساری دنیا کے مسلمانوں نے جتنی زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کئے تھے اس سے دگنی زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم خلافت احمدیہ کے چند سالوں کے اندر اندر جماعت احمدیہ پیش کرنے کی سعادت پا رہی ہے.قرآن مجید کی منتخب آیات، احادیث اور اقتباسات مسیح موعود علیہ السلام دنیا کی ایک سو سے زائد زبانوں میں شائع ہورہے ہیں.اسلامی لٹریچر غیر معمولی کثرت سے شائع اور تقسیم ہورہا ہے.کتب کی نمائشوں کا وسیع سلسلہ اشاعت اسلام میں غیر معمولی کردار ادا کر رہا ہے.تعمیر مساجد اکناف عالم میں مساجد کی تعمیر میں جماعت احمدیہ کو ایک امتیازی مقام حاصل ہے.ہزاروں کی تعداد میں مساجد تعمیر کرنے کا سہرا جماعت احمدیہ کے سر ہے.اسلامی تعلیم کو عمل کے سانچہ میں ڈھالتے ہوئے مغربی اور مشرقی افریقہ میں تعلیمی اور طبی اداروں کا قیام اور انسانیت کی بے لوث خدمت ان علاقوں کے لوگوں کے دل اسلام کے لئے جیت رہی ہے.لوٹ کھسوٹ کے اس دور میں غرباء، یتامی اور بیوگان کی بے لوث خدمت کے طور پر انہیں بیوت الحمد عطا کرنے کی سعادت بھی جماعت احمدیہ کو حاصل ہے.
33 ناموس اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کی قربانیاں اسلام کی حرمت و ناموس کی حفاظت اور دفاع میں جماعت احمدیہ نے ہمیشہ ہی صف اول میں مثالی کردار ادا کیا ہے.جہاں تک اسلام کی عظمت اور ترقی کی خاطر قربانیاں دینے اور دیتے چلے جانے کا تعلق ہے جماعت احمدیہ کی تاریخ ہر دور میں ایمان افروز واقعات سے پُر نظر آتی ہے.اشاعت اسلام کی خاطر جان، مال، وقت اور عزت کے نذرانے اتارنے والی یہی ایک جماعت ہے جس نے اپنی قربانیوں.قرون اولیٰ کے صحابہ کی یاد کو تازہ کر دیا ہے.زندگی سے کسے پیار نہیں ہوتا؟ لیکن یہی پیاری زندگی پیارے اسلام کی خاطر وقف کرنا، اپنے ہونے والے بچوں کو وقف نو میں پیش کرنا تبلیغ اسلام کی خاطر غریب الوطن ہو جانا اور بالآخر راہ جہاد میں شہادت پاکر انہی سرزمینوں میں دفن ہو جانا، کلمہ طیبہ کی عظمت کی خاطر ماریں کھانا، بیڑیاں پہننا اور وفور محبت سے انہیں چومنا.اسلام کی محبت کے جرم میں اسیران راہ مولا بننا اور زندگی کے سالہا سال تاریک کوٹھڑیوں میں گزار دینا.دکھ اٹھانا اور مسکرانا.دھمکیوں اور لالچوں کو مومنانہ استقامت سے ٹھکرانا اور وقت آنے پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے اپنے مقدس خون سے داستان و فارقم کرنا.یہ چند عناوین ہیں جن کے ایمان افروز واقعات سے تاریخ احمدیت بھری پڑی ہے.الغرض شاہراہ ترقی اسلام کا کوئی موڑ ایسا نہیں جس پر جماعت احمد یہ پوری
34 شان کے ساتھ مصروف عمل نہ ہو.اس شاہراہ کی کوئی بلند سے بلند منزل ایسی نہیں جس پر اسلام کو دل و جان سے زیادہ عزیز رکھنے والے احمدی جاں فروشوں کے قدموں کے نشانات نظر نہ آتے ہوں.حقیقی جماعت حق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو یہ منفرد اعزاز اور سعادت اس وجہ سے عطا فرمائی ہے کہ آج دنیا کے پردہ پر یہی ایک جماعت ہے جوالًا وَهِيَ الْجَمَاعَةُ کی حقیقی مصداق اور ایک واجب الاطاعت امام کے زیر سایہ بنیان مرصوص کا منظر پیش کرتی ہے.یہی ایک جماعت ہے جس کو خلافت کی نعمت میسر ہے جو ایک روحانی سربراہ کی آواز پر اٹھنا اور اس کے اشارہ پر بیٹھنا جانتی ہے.ہاں ہاں یہ وہی جماعت ہے جس کا امام جماعت کے افراد سے ماں سے بڑھ کر پیار کرنے والا ہے اور دوسری طرف جماعت کے سب مرد و زن اپنے پیارے امام کے گرد پروانہ صفت طواف کرنے والے ہیں.خلافت کی نعمت نے انہیں ایک ہاتھ پر جمع کر کے یہ اعجاز بخشا ہے کہ ایک کروڑ احمدی فدائیوں نے خدمت و اشاعت اسلام کے سلسلہ میں وہ کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں جن کی توفیق ایک ارب مسلمان کہلانے والوں کو نصیب نہیں ہو سکی.اس اعزاز اور سعادت کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو خلافت جیسی عظیم نعمت سے نوازا ہے جس کے ساتھ اسلام کی ترقی وابستہ ہے بلکہ حق تو یہ ہے کہ اسلام
35 کی ترقی کی خاطر کوشش اور قربانی کی توفیق کا ملنا بھی اسی خلافت سے وابستگی کا ایک شیریں ثمر ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: وو دیکھو ہم ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کر رہے ہیں مگر تم نے کبھی غور کیا کہ یہ تبلیغ کس طرح ہو رہی ہے؟ ایک مرکز ہے جس کے ماتحت وہ تمام لوگ جن کے دلوں میں اسلام کا درد ہے اکٹھے ہو گئے ہیں اور اجتماعی طور پر اسلام کے غلبہ اور اس کے احیاء کے لئے کوشش کر رہے ہیں.وہ بظاہر چند افراد نظر آتے ہیں مگر ان میں ایسی قوت پیدا ہوگئی ہے کہ وہ بڑے بڑے اہم کام سرانجام دے سکتے ہیں.جس طرح آسمان سے پانی قطروں کی صورت میں گرتا ہے پھر وہی قطرے دھاریں بن جاتی ہیں اور وہی دھاریں ایک بہنے والے دریا کی شکل اختیار کر لیتی ہیں.اس طرح ہمیں زیادہ قوت اور شوکت حاصل ہوتی چلی جارہی ہے....اس کی وجہ محض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں خلافت کی نعمت عطا کی ہے.“ اسی طرح فرمایا : روزنامه الفضل ربوه ، ۲۵ مارچ ۱۹۵۱) اسلام کبھی ترقی نہیں کر سکتا جب تک خلافت نہ ہو.ہمیشہ
36 اسلام نے خلفاء کے ذریعہ ترقی کی ہے اور آئندہ بھی اسی ذریعہ سے ترقی کرے گا“ خلافت احمدیہ کی فتوحات درس القرآن صفحہ ۷۲ مطبوعہ نومبر ۱۹۲۱ء) شوکت اسلام کی علمبر دار جماعت احمدیہ کی سوسالہ تاریخ مصائب و مشکلات اور خدائی فضلوں کی تاریخ ہے.اس عرصہ میں مخالفت کی آندھیاں چلیں ہخالفین نے اپنے ترکش کے سب تیروں کو چلایا اور پہاڑوں جیسی شخصیتوں نے احمدیت سے ٹکر لی لیکن خدائی وعدوں کے مطابق ہمیشہ اور ہر بار حق غالب ہوا اور باطل نے منہ کی کھائی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر خلافت کے بارہ میں شکوک وشبہات نے سر اٹھایا جس کو حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جیسے صدیقی عزم و جلال کے ساتھ چل کر رکھ دیا.خلافت ثانیہ کے آغاز پر پھر منکرین خلافت نے بھر پور فتنہ پیدا کیا اور علیحدہ ہو کر لاہور کی راہ لی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے باوجود نو عمری کے اس فتنہ کے وقت جماعت کی ایسی اعلیٰ قیادت کی کہ منافقین کی سب چالیں ناکام ہو گئیں.پھر اسی خلافت کے تاریخی دور میں مصری کا فتنہ اٹھا، مستریوں نے فتنہ برپا کر دیا.احرار نے جماعت کو مٹانے کے لئے ملک گیر مہم جاری کی تقسیم ملک کا زلزلہ آیا جس نے جماعت کو اپنے دائی مرکز سے الگ ہو کر ایک
37 نیا مرکز بنانے پر مجبور کیا.ابھی جماعت اپنے قدموں پر سنجل رہی تھی کہ ۱۹۵۳ ء میں جماعت کے خلاف ملک گیر طوفان مخالفت بر پا ہو گیا.حقیقت پسند پارٹی نے اس موقعہ سے فائدہ برپا اٹھاتے ہوئے اندرونی طور پر جماعت کو منتشر اور گمراہ کرنے کی کوشش کی.ان فتنوں نے یکے بعد دیگرے سراٹھایا لیکن ہر بار ہر فتنہ خلافت کی عظیم چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گیا.احرار کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی اور منافقین کے ناپاک عزائم خاکستر ہو گئے.خدا کے طاقتور ہاتھ نے خلافت کے ذریعہ جماعت کو ترقی اور اسلام کو غلبہ عطا فرمایا.خلافت ثالثہ کے دور میں ۱۹۷۴ کے ہنگاموں میں مخالفین نے ایک بار پھر سرتوڑ کوشش کی کہ جماعت کو ختم کرسکیں لیکن ہمیشہ کی طرح ناکام و نامراد رہے.کئی خوش قسمت احمدیوں کے سر تن سے جدا کر دیئے گئے ، ان کی جائیدادیں لوٹ کی گئیں، ان کے گھر جلا دیئے گئے لیکن کوئی ان کے چہروں سے مسکراہٹ نہ چھین سکا! خلافت رابعہ کا آغاز ہوا تو خلیفہ وقت کی مقناطیسی شخصیت اور برق رفتاری کو دیکھ کر مخالفین احمدیت کے اوسان خطا ہو گئے اور انہوں نے مخالفانہ کوششوں کو نقطۂ عروج تک پہنچا دیا.۱۹۸۴ ء میں رسوائے زمانہ سیاہ قانون جاری کر کے احمدیت کی ترقی کا راستہ بند کرنے کی ہر ممکن کوشش کی.یہ ضرور ہوا کہ چند پاکبازوں نے شہادت کا جام پیا اور متعدد اسیران راہ مولا آج بھی کال کوٹھڑیوں کو بقعہ نور بنائے ہوئے ہیں لیکن خدا
38 گواہ ہے کہ احمدیت کی ترقی پذیر دنیا پر طلوع ہونے والا سورج ہر روز مخالفین کی کوششوں پر ناکامی کی مہریں لگاتا ہے اور وہ جو احمدیت کو مٹا دینے کا زعم لے کر زبانیں دراز کر رہے تھے خدائے قادر وتوانا نے ان کے پر خچے اڑا کر رکھ دیئے ! کہاں ہے وہ آمر جس نے کہا تھا کہ میری کرسی بہت مضبوط ہے اور میں احمدیوں کے ہاتھ میں کشکول پکڑا کر رہوں گا ؟ کہاں ہے وہ آمر جس نے فرعون کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کہا تھا کہ میں احمدیت کے کینسر کو مٹا کر دم لوں گا ؟ دیکھو ہمارے خدا نے ان دشمنان اسلام کے نام و نشان صفحہ ہستی سے مٹا کر رکھ دیئے.مردان حق ، خلفائے احمدیت کی دعاؤں نے نمرود یت کو کچل کر رکھ دیا.کوئی تختہ دار پر نظر آیا تو کسی کے جسم کے ذرات راکھ کا ڈھیر بن کر صحراؤں میں بکھر گئے ! شاندار مستقبل کی عظیم الشان نوید کوئی سننے والا ہو تو سنے کہ احمدیت کے مخالفین کا یہ مقدر ہر دور میں رہا ہے اور مستقبل میں بھی ان کی تقدیر اس سے کچھ مختلف نہیں.خلافت کی برکت سے اور خلافت کے زیر سایہ جماعت احمدیہ کے لئے ایک فتح کے بعد دوسری فتح منتظر ہے اور ہمارے مخالفین کے نصیب میں نا کامی اور پھر نا کامی اور پھر نا کا می لکھی جا چکی ہے.سنو ! کہ وہ جو خدا کی تائید سے بولتا ہے، وہ جس کے سر پر خدا کا سایہ ہے، وہ جسے خدا نے اس زمانہ میں کشتی اسلام کا محافظ اور مومنوں کا راہنما مقررفرما دیا ہے.سنو اور توجہ سے سنو کہ وہ کیا
39 فرماتا ہے.ہمارے پیارے امام حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: آئندہ بھی مخالفت ضرور ہوگی اس سے کوئی انکار نہیں ہے کیونکہ جماعت کی تقدیر میں یہ لکھا ہوا ہے کہ مشکل راستوں سے گزرے اور ترقیات کے بعد نئی ترقیات کی منازل میں داخل ہو.یہ مشکلات ہی ہیں جو جماعت کی زندگی کا سامان مہیا کرتی ہیں.اس مخالفت کے بعد جو وسیع پیمانے پر اگلی مخالفت مجھے نظر آرہی ہے وہ ایک دوحکومتوں کا قصہ نہیں اس میں بڑی بڑی حکومتیں مل کر جماعت کو مٹانے کی سازشیں کریں گی اور جتنی بڑی سازشیں ہوں گی اتنی ہی بڑی ناکامی ان کے مقدر میں بھی لکھ دی جائے گی.مجھ سے پہلے خلفاء نے آئندہ آنے والے خلفاء کو حوصلہ دیا تھا اور کہا تھا کہ تم خدا پر توکل رکھنا اور کسی مخالفت کا خوف نہیں کھانا.میں آئندہ آنے والے خلفاء کو خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تم بھی حو صلے رکھنا اور میری طرح ہمت وصبر کے مظاہرے کرنا اور دنیا کی کسی طاقت سے خوف نہیں کھانا.وہ خدا جواد فی مخالفتوں کو مٹانے والا خدا ہے وہ آئندہ آنے والی زیادہ قومی مخالفتوں کو بھی چکنا چور کر کے رکھ دے گا اور دنیا سے ان کے نشان مٹادے گا.جماعت
40 احمدیہ نے بہر حال فتح کے بعد ایک اور فتح کی منزل میں داخل ہونا ہے.دنیا کی کوئی طاقت اس تقدیر کو بہر حال بدل نہیں سکتی.66 ( خطاب فرموده ۲۹ جولائی ۱۹۸۴ برموقعہ پہلا یورپین اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ، بمقام یوکے) برادران احمدیت ! ہماری کتنی خوش قسمتی اور سعادت ہے کہ آج دنیا کے پردہ پر صرف احمدیت ہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے خلافت کا بابرکت نظام عطا فرمایا ہے.مختلف طرز کے قیادت کے نظام تو نظر آتے ہیں لیکن کوئی ایسا قائد نہیں جس کو خدا نے مقرر کیا ہو.کوئی ایسا سربراہ نہیں جس کے سر پر خدا کا سایہ ہو، کوئی ایسا نہیں جس کو خدائی مدد اور نصرت کا علم عطا کیا گیا ہو.کوئی نہیں جس کے قدموں میں خدائی اذن سے فتوحات بچھتی چلی جاتی ہوں ! ہماری ذمہ داریاں ہم پر خدائے ذوالمن کا یہ مزیداحسان و کرم ہے کہ ہمیں اس خلافت کے خدام ہونے کا شرف عطا کیا گیا ہے.خدا تعالیٰ نے ہمیں ایک عظیم امانت کا امین بنایا ہے.ایک عظیم الشان انعام سے نوازا ہے لیکن یادر ہے کہ یہ سعادت اپنے ساتھ عظیم ذمہ داریاں بھی لے کر آئی ہے.یہ انعام ہمیں اطاعت کی دعوت دیتا ہے.ایسی اطاعت کہ اپنا کچھ نہر ہے اور ہر حرکت و سکون آقا کے اشارے پر قربان ہونے کو بے تاب نظر آئے.یہ انعام ہمیں قربانی اور استقامت کے میدانوں کی طرف بلاتا ہے.وہ میدان جن میں قرون اولی اور اس دور آخرین کے صحابہ کرام کی عظیم الشان قربانیوں کی
41 داستانیں رقم ہیں.ان داستانوں کو آج پھر سے زندہ کرنا ہمارا فرض ہے.مکہ کی وادیوں میں گونجنے والی حضرت بلال کی صدائے اَحَدٌ اَحَدٌ کی بازگشت کو دہرانا آج ہمارے زمہ ہے.دیکھو اور سنو کہ اُحد کے شہداء کی روحیں پکار پکار کر تمہیں دعوت دے رہی ہیں کہ جس طرح انہوں نے ہتھیلیوں پر رکھ کر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے اور شمع رسالت پر آنچ نہ آنے دی.اسی طرح آج تم بھی پروانہ وار شمع خلافت کا طواف کرو اور وقت آئے اور ضرورت پڑے تو فُزَتُ بِرَبِّ الْكَعْبَةِ کا نعرہ لگاتے ہوئے شہادت کی ابدی زندگی کے وارث بن جاؤ.اے شمع خلافت کے پروانو ! گوش بر آواز آقا بن جاؤ.حضرت مقداد نے ایک اعلان کیا تھا اور صحابہ نے اس کے ایک ایک حرف کو سچ کر دکھایا تھا.اسی طرح آج تم بھی اس بات کا عزم کرو کہ ہم شمع خلافت کے دائیں بھی لڑیں گے، بائیں بھی لڑیں گے، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمنان احمدیت اس وقت تک شمع خلافت تک نہیں پہنچ سکتے جب تک ہماری لاشوں کو روند کر نہ جائیں.آئیے ہم خدا تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر ایک بار پھر یہ عہد کریں کہ ہمارے سر تو تن سے جدا ہو سکتے ہیں لیکن ہمارے جیتے جی کوئی اس شمع خلافت کی طرف بری نیت سے پیش قدمی نہیں کر سکتا.
42 خدا کرے کہ ہم سب کی طرف سے ہمیشہ ہمارے محبوب امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور خلافت احمدیہ کے جانثار خدام میں ہمارا شمار ہو.آمین
43 اور ہماری ذمہ داریاں تقری بر موقع جلسہ سالانہ.برطانیہ ۲۰۰۵
44
45 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارتَضى لَهُم وَلَيُبَدٌ لَنْهُم مِّنْ خَوْفِهِمْ أَمَنَّا طَ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُوْنَ بِي شَيْئًا طَ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ (النور : ۵۶) میری تقریر کا عنوان ہے : اور ہماری ذمہ داریاں حضرات ! وہ با برکت آسمانی نظام قیادت ہے جو اللہ تعالیٰ جماعت مومنین کو ان کی روحانی بقاء اور ترقی کے لئے عطا فرماتا ہے.یہ ایک عظیم انعام ہے جو ایمان اور عملِ صالح کی بنیادی شرائط سے مشروط ہے.اس خدائی موہبت کی حیثیت ایک حبل اللہ کی ہے.اس خدائی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا جماعت مومنین کے لئے ان کے ایمان کی تصدیق بھی ہے اور امن و امان اور روحانی ترقیات کی ضمانت بھی.حق یہ ہے کہ اسلام کی ترقی اور سر بلندی اس با برکت سے وابستہ ہے.خلافت کیا ہے؟ الغوی لحاظ سے خلافت کے لفظی معنی نیابت اور جانشینی کے ہوتے ہیں.
46 اصطلاحاً خلیفہ سے مراد نبی کا قائمقام اور اس کا جانشین ہوتا ہے.علامہ بیضاوی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے:.الْخَلِيفَةُ مَنْ يَخْلِفُ غَيْرَهُ، وَيَنُوبُ مَنَابَهُ ( تفسیر بیضاوی جلد 1 صفحه 59) کہ خلیفہ وہ ہے جو کسی دوسرے شخص کے بعد آئے اور اس کی قائمقامی کرے.علامہ ابن اثیر نے لکھا ہے: الْخَلِيفَةُ مَنْ يَقُومُ مَقَامَ الذَّاهِبِ وَيُسَمُّ مَسَدَّه ( النهاية جلد 1 صفحه 315) خلیفہ اس کو کہتے ہیں جو کسی جانے والے کی جگہ پر کھڑا ہو اور اس کے جانے کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے والا ہو.سید نا حضرت اقدس مین پاک علیہ السلام نے فرمایا: " خلیفہ کے معنی جانشین کے ہیں جو تجدید دین کرے.نبیوں کے زمانہ کے بعد جو تار یکی پھیل جاتی ہے اس کو دور کرنے کے واسطے جوان کی جگہ آتے ہیں انہیں خلیفہ کہتے ہیں نبوت و خلافت ( ملفوظات جلد ۴ صفحه ۳۸۳ خالقِ کائنات اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور بنی نوع
47 انسان کی ہدایت کے لئے اس کی سنت مستمرہ کچھ اس طرح جاری ہے کہ ظلمت و تاریکی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں وہ اپنے برگزیدہ بندوں کو نبوت و رسالت کا تاج پہنا کر قندیل ہدایت کے طور پر مبعوث کرتا ہے.ان انبیاء کے ذریعہ خدائی پیغام ہدایت کی تخم ریزی ہوتی ہے اور شجر ہدایت پروان چڑھنے لگتا ہے.ان رسولوں اور نبیوں کی بعثت دراصل اللہ تعالیٰ کی قدرت اولیٰ کا ظہور ہوتا ہے.اصطلاحاً ان کو خلیفتہ اللہ کہا جاتا ہے.قرآن مجید میں حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت داؤد علیہ السلام کے بارہ میں معین طور پر یہ الفاظ ملتے ہیں.یہ مقام در حقیقت اللہ تعالیٰ کے ہر نبی کو عطا کیا جاتا ہے.عمیق حکمتوں کے مالک خدا نے ازل سے یہ طریق جاری کیا ہے کہ جب بھی نبی یا رسول کے دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آتا ہے تو اس کے کسی قدر نا تمام کام کو کمل کرنے کے لئے ، اس کے لگائے ہوئے باغ کی مسلسل آبیاری اور نگہداشت کے لئے اور اسے ترقی دیکر اس کے انتہائی نقطہ کمال تک پہنچانے کے لئے ایک بار پھر اپنی قدرت کا کرشمہ دنیا کو دکھاتا ہے.یہ اس کی قدرت ثانیہ کا ظہور ہوتا ہے.اللہ کی راہنمائی میں مومنین اپنے میں سے ایک خدا کے بندے کا انتخاب کرتے ہیں جو دراصل خدا کا انتخاب ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کے اذن سے اس منتخب بندہ کے سر پر خلافت کا تاج رکھا جاتا ہے.اصطلاحاً اسے خلیفۃ الرسول کہا جاتا ہے.جماعت کا یہ روحانی سربراہ، نبی کے بعد اسکے جاری کردہ کام کو آگے سے آگے بڑھانے اور پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے اللہ تعالی کی تائید و نصرت کے سایہ میں کام کرتا ہے اور اس کی وفات پر یہ سلسلہ آگے سے آگے
48 بڑھتا چلا جاتا ہے.تقریر کے موضوع کی مناسبت سے میں دوسری قسم کی خلافت کا ذکر قدرے تفصیل سے کروں گا جو نبی یا رسول کے بعد اسکے ماننے والوں میں قائم ہوتی ہے.ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفے ﷺ نے فرمایا ہے کہ: " مَا كَانَتْ نَبُوَّةٌ قَطُّ إِلا تَبِعَتُهَا خِلَافَةٌ “ (كنز العمال الفصل الاول فى بعض خصائص الانبياء حدیث نمبر ۳۲۲۴) ہر نبوت کے بعد لازماً خلافت کا سلسلہ قائم ہوتا ہے اور دراصل یہی وہ بابرکت سلسلہ خلافت ہے جس کے بارہ میں آپ نے ایک دوسری حدیث میں خِلَافَة عَلَى مِنْهَاجِ النَّبُوَّةِ کے الفاظ بھی استعمال فرمائے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کی ضرورت اور حکمت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے: د, خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے وہی ہوسکتا ہے جو ظنی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو...خلیفہ در حقیقت رسول کاظل ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لئے دائگی طور پر بتا نہیں.لہذا خدا تعالی نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولی میں نقی طور پر ہمیشہ کے لئے تا قیامت قائم رکھے.سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکاتِ رسالت سے
49 محروم نہ رہے.66 شہادت القرآن صفحه ۵۷ روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۵۳) نبی اور خلیفہ کا انتخاب یہ نکتہ یادر کھنے کے لائق ہے کہ نبوت وخلافت کے دونوں نظام اگر چہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں لیکن ان میں ایک بنیادی فرق ہے.نبوت اس وقت آتی ہے جب دنیا خرابی اور فساد سے بھر چکی ہوتی ہے.ہر طرف شرک اور ظلمت کا دور دورہ ہوتا ہے.ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اولی کی تجلی نبوت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے.اس کے بالمقابل اللہ تعالیٰ کی قدرت ثانیہ کی تجلی خلافت کی صورت میں اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب نبی کے ذریعہ قائم ہونے والی ایک جماعت موجود ہوتی ہے جو ایمان اور عمل صالح کی شرائط پر پوری اترتی ہے.یہی وجہ ہے کہ نبی اور خلیفہ کے انتخاب کے طریق میں بھی ایک فرق ہے.نبی کا انتخاب اللہ تعالیٰ براہ راست کرتا ہے کیونکہ ظلمت کے اس دور میں جماعت مومنین کا وجود ہی نہیں ہوتا جبکہ نبی کے آنے کے بعد مومنین کی ایک جماعت بن جاتی ہے اور نبی کی وفات پر خدا تعالیٰ بطور احسان اس جماعت میں خلافت کا نظام قائم فرماتا ہے.اور ایمان اور عمل صالح کی شرائط کو عند اللہ تسلی بخش طریق پر پورا کرنے والی جماعت کو بطور اعزاز یہ موقع دیا جاتا ہے کہ وہ خلیفہ کے انتخاب کے وقت اپنی رائے کا اظہار کرے.
50 بظاہر یہ ایک انتخاب کی صورت نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں یہ خدا کا انتخاب ہوتا ہے اور مومنین کے پاک دل اللہ تعالیٰ کی قدرت اور تصرف کے تابع اُسی پاک وجود کومنتخب کرتے ہیں جو دراصل خدا کا انتخاب ہوتا ہے.آیت استخلاف میں لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ کے الفاظ میں یہی مضمون بیان کیا گیا ہے.اس طریق انتخاب میں ایک یہ حکمت بھی مضمر ہے کہ جماعت مومنین جس کو انتخاب میں حصہ دار بنایا جاتا ہے وہ اس منتخب خلیفہ کی اطاعت بجالائے اور پورے شرح صدر کے ساتھ اس کی آواز پر لبیک کہے.ضمناً یہاں یہ بات بھی یادر ہے کہ کا مظہر ہر خلیفہ، گزرے ہوئے نبی کا خلیفہ ہوتا ہے، اپنے سے پہلے خلیفہ کا خلیفہ نہیں ہوتا.اسی لئے ایسے خلفاء کو ہمیشہ خليفة الرسول کا نام دیا جاتا ہے.اسی اصول کے مطابق جماعت احمد یہ میں ہر خلیفہ کو حضرت خلیفۃ اسیح کہا جاتا ہے.خلافت کی عظمت اور برکات نظامِ خلافت کی عظمت اور برکت کا مضمون بڑے اختصار اور جامعیت کے ساتھ سورۃ النور کی آیت استخلاف میں بیان کیا گیا ہے جس کی تلاوت شروع میں کی گئی.اس کا ترجمہ ہے: تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے ان سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے
51 گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لئے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا.وہ میری عبادت کریں گے.میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے.اور جو اُس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نا فرمان ہیں.“ ( النور : ۵۶) یہ آیت بڑے لطیف مضامین پر مشتمل ہے.اس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے جماعت مومنین میں قیام خلافت کا حتمی وعدہ فرمایا ہے اور اسے ایمان اور عمل صالح کی دو شرائط کے ساتھ باندھا ہے.کی دو عظیم الشان برکات کا ذکر فرمایا ہے دین کی تمکنت اور خوف کی حالت کا امن کی حالت میں تبدیل کیا جانا.اور یہ بھی ذکر ہے کہ کے قیام کے بلند ترین مقاصد اور شیر میں ثمرات بھی دو ہیں عبادت الہی اور توحید خالص کا حقیقی طور پر قیام.خلیفہ کا بلند مقام خلافت کی عظمت اور اس کی عظیم الشان برکات سے یہ امر واضح ہے کہ جو خلیفہ اس آسمانی نظام قیادت کا مظہر ہو گا اس کا مقام کس قدر بلند ہوگا.خلافت نبوت کا تتمہ ہے
52 اور تاج خلافت سے سرفراز کیا جانے والا خلیفہ نور نبوت کا ظلت کامل ہوتا ہے.وہ ظلمی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہے اور اس کی برکتوں سے حصہ پانے والا ہوتا ہے.خدا اپنے تصرف کامل سے خلیفہ کو خلافت کا منصب عطا کرتا ہے.خلیفہ خدا بناتا ہے اور کوئی نہیں جو اسے اس منصب سے معزول کر سکے.وہ مؤید من اللہ ہوتا ہے.ہر آن نصرت الہی کا سایہ اس کے سر پر ہوتا ہے.خدا اس کا معلم اور راہنما ہوتا ہے.دینی علوم ومعارف اس کو خدا سے عطا ہوتے ہیں.اور خدا خود اس کی محبت اور الفت دلوں میں پیدا کرتا ہے اور پھر محبت کے یہ دائرے پھیلتے چلے جاتے ہیں.وہ خدائی انوار سے منور ہو کر منبع نور بن جاتا ہے اور قبولیت دعا کا اعجاز اسے عطا کیا جاتا ہے.اس کی اطاعت در اصل رسول کی اطاعت ہوتی ہے جس کا وہ خلیفہ ہوتا ہے اور یہی اطاعت بالآخر انسان کو خدا کی اطاعت سے وابستہ کرنے کی ضمانت بن جاتی ہے.پس خلیفة الرسول کی اطاعت اور اس کے ساتھ دلی وابستگی ایک مومن کے لئے خدا کی اطاعت کا وسیلہ بن جاتی ہے.خلیفہ اپنے وقت میں روئے زمین پر خدا تعالیٰ کا نمائندہ اور اس کا محبوب ترین بندہ ہوتا ہے.خالق کا ئنات اور قادر وتو انا خدا کا محبوب بندہ ہونے کے ناطے کامیابیاں اور کامرانیاں اس کے قدم چومتی ہیں.خدا تعالی کی تائید و نصرت کی برکت سے اسے غلبہ اور استیلاء نصیب ہوتا ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا: ' جس کو خدا خلیفہ بنا تا ہے کوئی نہیں جو اس کے کاموں میں
53 روک ڈال سکے.اس کو ایک قوت اور اقبال دیا جاتا ہے اور ایک غلبہ اور کامیابی اس کی فطرت میں رکھ دی جاتی ہے خلافت راشده 66 روزنامه الفضل قادیان، ۲۵ مارچ ۱۹۴۱) ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفے ﷺ کے وصال کے موقعہ پر صحابہ مارے غم کے دیوانہ ہورہے تھے.اس انتہائی کسمپرسی کے عالم میں اللہ تعالی نے اپنے وعدہ کے عین مطابق خلافت راشدہ کا بابرکت نظام جاری فرمایا.جونہی صحابہ نے حضرت ابوبکر صدیق کے دست مبارک پر بیعت کر کے آپ کو خلیفة الرسول تسلیم کیا ، زخمی دلوں کو ایک سکون کی کیفیت نصیب ہوگئی.حضرت ابو بکر صدیق" کے بعد یکے بعد دیگرے حضرت عمر بن الخطاب ، حضرت عثمان بن عفان اور حضرت علی گرم رض الله وَجهَةٌ نے بارِ خلافت اٹھایا.اس سنہری دور خلافت میں اسلام نے غیر معمولی ترقی اور وسعت حاصل کی.اسلام کی بھر پور اشاعت ہوئی.اس دور میں مختلف مراحل پر فتوں نے بھی سر اٹھایا.بالخصوص حضرت ابو بکر کے خلیفہ بنتے ہی جھوٹے مدعیان نبوت، منکرین زکوۃ اور ارتداد وغیرہ کے فتنوں کے وجہ سے نہایت مشکل حالات پیدا ہوئے لیکن حضرت ابو بکڑ نے بڑی ہمت ، استقلال اور جرات سے ان سب فتنوں پر غلبہ پایا.اسی طرح بعد میں بھی مشکل
54 حالات پیدا ہوتے رہے لیکن خلافت کی برکت سے، ہر خوف کی حالت اللہ تعالیٰ کے فضل سے امن میں تبدیل ہوتی رہی اور اسلام کو غیر معمولی تمکنت اور استحکام نصیب ہوا.خلافت راشدہ بلاشبہ تاریخ اسلام کا ایک سنہری دور تھا اور اس کی عظمت، رسولِ مقبول ہے کے اس ارشاد سے بھی معلوم ہوتی ہے جس میں آپ نے فرمایا: "عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ ، 66 (ترمذى كتاب العلم باب الاخذ بالسنة - ابو داؤد كتاب السنة باب لزوم السنة) کہ اے مسلمانو! تم پر میری اور میرے ان خلفاء کی سنت کی پیروی لازم ہے جن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہدایت عطا کی جائے گی اور اس ہدایت کی روشنی میں وہ مومنوں کی راہنمائی کرنے والے ہوں گے.رسول مقبول ﷺ نے اپنے بعد خلافت راشدہ کے قیام اور اس کے معین عرصہ کا بھی ذکر فر ما دیا تھا.فرمایا: الْخِلَافَةُ ثَلَاثُونَ عَاماً ثُمَّ يَكُونُ بَعْدَ ذَلِكَ الْمُلْكُ، (مسند احمد جلد ۵ صفحه ۲۲۰) یعنی میرے بعد قائم ہونے والی خلافت تمیں سال جاری رہے گی اور پھر اس کے بعد ملوکیت کا دور ہوگا.پیشگوئی کے عین مطابق تمیں سال تک خلافت راشدہ کا سورج امت مسلمہ پر بڑی شان سے چمکتا رہا اور پھر پر بھی دنیا داری کے رنگ غالب آگئے.حدیث نبوی میں اس بارہ میں بہت معین پیشگوئی ملتی ہے.
55 عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَكُوْنُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَّا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُوْنَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ مَاشَاءَ اللهُ أَنْ تَكُوْنَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًا فَتَكُوْنُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُوْنَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُوْنُ مُلْكاً جَبَرِيَّةً فَيَكُوْنُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُوْنَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُوْنُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ - وو (مسند احمد صفحه ۴ ۲۷۳ مشكواة كتاب الرقاق باب الانذار والتحذير) حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر وہ اس کو اٹھالے گا اور خــلافـت على منهاج النبوة قائم ہوگی.پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھالے گا.پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذارساں بادشاہت قائم ہوگی پھر اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہوگی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم وستم کے دور کوختم کر دے گا.اس کے بعد پھر خلافت على منهاج النبوۃ قائم ہوگی.یہ فرما کر آپ صلی اللہ 66 علیہ وسلم خاموش ہو گئے.“
56 خلافت احمدیہ کا قیام اصدق الصادقین حضرت محمد مصطفے ﷺ کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی ایک ایک بات بعینہ پوری ہوئی.آپ کے بعد خلافت راشدہ کا نظام قائم ہوا.جس کے بعد تکلیف دہ حکومت کا دور آیا.پھر جابر بادشاہت کے ادوار آئے اور جب پہلی تین اچھی صدیوں کے بعد فیج اعوج کے ہزار سال کا عرصہ بھی گزر گیا اور چودھویں صدی کا آغاز ہوا جس میں قرآنی پیشگوئیوں کے مطابق حضرت مسیح موعود اور امام مہدی علیہ السلام کی آمد مقدر تھی جس کو اللہ تعالیٰ نے رسول پاک ﷺ کی کامل اطاعت اور غلامی کی برکت سے امتی نبی ہونے کا بلند روحانی منصب عطا فرمایا تو اس حدیث کے عین مطابق جماعت احمدیہ کو مسیح پاک علیہ السلام کے وصال کے بعد خلافت علی منھاج نبوت کا عظیم الشان انعام عطا فر مایا گیا جس سے اس حدیث میں مذکور پیشگوئی بعینہ سچی ثابت ہوئی.یہ بات اسلام اور رسول پاک ﷺ کی صداقت کا ایک زندہ و تابندہ ثبوت بھی ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ فعلی شہادت بھی ساری دنیا کو مہیا فرما دی کہ آج دنیا کے پردہ پر اگر کوئی جماعت اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اپنے دعوئی ایمان میں بچی ہے اور اگر کوئی جماعت ایسی ہے جس کے اعمال اللہ تعالیٰ کی نظر میں اعمالِ صالحہ ہیں تو وہ ایک اور فقط ایک جماعت ہے جواحد یہ مسلم جماعت عالمگیر ہے.الله اس جگہ یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ اس حدیث کے آخر میں ذکر ہے کہ خلافت
57 صلى الله على منهاج نبوت کی بشارت دینے کے بعد آپ عال خاموش ہو گئے.جس سے یہ استنباط ہوتا ہے کہ خلافت احمدیہ کا یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا اور کبھی منقطع نہیں ہو گا.انشاء اللہ تعالی' فیضان خلافت نبوت و خلافت میں وہی نسبت اور تعلق ہوتا ہے جو سورج اور چاند میں ہے.نبوت روشنی کا اصل منبع اور مصدر ہے اور خلافت اسی منبع نور سے اکتساب کرتے ہوئے اس نور کو دنیا میں پھیلانے کا ذریعہ ہے.نبوت کے ذریعہ آسمانی ہدایت اور پیغام کی تخم ریزی ہوتی ہے اور خلافت اس کشت ایمان کی مزید آبیاری کرتے ہوئے نور نبوت کے فیضان کو آگے سے آگے بڑھانے کا وسیلہ بن جاتی ہے.تاریخ اسلام کے دور اول کی الله تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جس پیغام کی بنیا د رسول کریم ﷺ کے ذریعہ رکھی گئی اور اس کو اللہ تعالیٰ نے استحکام عطا فرمایا اس کی بکثرت اشاعت اور تمکنت بڑی جلالی شان کے ساتھ خلافت راشدہ کے بابرکت دور میں ظاہر ہوئی اور معروف دنیا کے دور دراز علاقے بھی دعوتِ اسلام سے منور ہوئے.اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اس دور آخرین میں جب اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے اپنے وعدوں کے مطابق احیاء اسلام کے لئے حضرت مسیح موعود اور امام مہدی علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور آپ کو امتی نبوت کے منصب پر فائز فرمایا تو آپ کے ذریعہ اس
58 عظیم الشان مشن کی نہایت مستحکم بنیادیں قائم ہوئیں.جب آپ کا وصال ہوا اور تاریکی کے فرزندوں نے یہ خیال کیا کہ اب یہ پیغام بھی آپ کے ساتھ ہی دنیا سے مفقود ہو جائے گا.تو قادر و توانا رب العالمین نے اپنے وعدوں کے مطابق مخالفین کی جھوٹی خوشیوں کو پامال کیا اور جماعت مومنین کو خلافت علی منھاج نبوت کا عظیم انعام عطا فرمایا اور یہ انعام جو خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ کی صورت میں ظاہر ہوا اس کا سایہ ء رحمت آج بھی اس جماعت کے سر پر ہے اور جماعت احمدیہ کی تاریخ ہر دور میں اس بات کا زندہ ثبوت پیش کرتی آئی ہے کہ اس خلافت کے ذریعہ احیائے اسلام کا پیغام اکناف عالم میں بڑی تیزی اور شوکت سے پھیلتا چلا جا رہا ہے اور قیامت تک پھیلتا چلا جائے گا.خلافت احمدیہ کی برکت سے ہفت اقلیم میں جماعت احمدیہ کی ترقیات اس شان سے جاری ہیں کہ آج دنیا کے کناروں سے اور آسمانوں کی بلندیوں سے ہمہ وقت یہ صدائیں بلند ہو رہی ہیں.اسمعوا صوت السماء جاء المسيح جاء المسيح نیز بشنو از زمین آمد آمد امام کامگار خلافت احمدیہ کی عظمت اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے جماعت احمدیہ میں قائم اور جاری ہونے والی خلافت علی منہاج نبوت کی عظمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ حضرت مسیح موعود
59 علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر رسالہ ” الوصیت“ میں اپنے بعد خلافت کے قیام کے بارہ میں معین رنگ میں پیش گوئی فرمائی اور ساتھ ہی جماعت مومنین کو یہ نوید بھی سنائی کہ یہ خلافت ( جو دراصل اللہ تعالیٰ کی قدرت ثانیہ کی مظہر ہے ) ایک مستقل اور پائیدار نعمت خداوندی کے طور پر ہوگی جس کا فیضان ابدالآباد تک جاری وساری رہے گا.آپ کے بابرکت الفاظ میں عرض کرتا ہوں.آپ نے فرمایا: وو یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور ان کو غلبہ دیتا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے.كَتَبَ اللهُ لَا غُلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِی.اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اس کا کوئی مقابلہ نہ کر سکے اسی طرح خدا تعالیٰ قوی نشانوں کے ساتھ ان کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اس کی تخم ریزی انہی کے ہاتھ سے کر دیتا ہے.لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک نا کامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے.مخالفوں کو فسی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقعہ دے دیتا ہے.اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک
60 دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر نا تمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں.غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے.(۱) اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے.(۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا.اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی.تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے.“ ( رساله الوصیت صفحه ۶ ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۴) خدا تعالیٰ کی اس سنت کا ذکر کرنے اور حضرت ابو بکرڑ کی معین مثال بیان کرنے اور پھر اپنے وصال سے متعلق الہامات بیان کرنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے احباب جماعت کی تسلی کے لئے انہیں بشارت دیتے ہوئے مزید فرمایا: ”اے عزیز و! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے
61 دکھلا دے.سواب یہ ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے......تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.....میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی.ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے......میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا.اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں.اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے..66 ( رساله الوصیت صفحه ۸،۷ ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۵-۳۰۶) اللہ تعالیٰ کی خاص الخاص تائید سے لکھی جانے والی اس تحریر میں غیر معمولی جلالی شان اور شوکت پائی جاتی ہے.جس کے قیام کی بشارت آپ نے دی اس کی عظمت اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اس تحریر کے فوراً بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی بعثت کے عظیم الشان مقصد کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: خدا تعالی چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا.ان سب کو جو نیک
62 فطرت رکھتے ہیں تو حید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا.“ ( رساله الوصیت صفحه ۸-۹ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۷۳۰۶) دونوں تحریروں پر یکجائی نظر کی جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ تکمیل اشاعت اسلام کی خدائی تقدیر کا ظہور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور سے وابستہ ہے جیسا کہ آیت کریمہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِہ کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے: هَذَا عِنْدَ خُرُوجِ الْمَهْدِي ( تفسیر جامع البیان جلد ۲۹، زیر آیت مندرجہ بالا ) کہ یہ بات حضرت امام مہدی علیہ السلام کے وقت میں ظہور پذیر ہوگی.مشکواۃ شریف میں بھی جہاں حضرت حذیفہؓ کی روایت کردہ حدیث درج ہے وہاں بین السطور یہ الفاظ بھی لکھے گئے ہیں: الظَّاهِرُ اَنَّ الْمُرَادَ بِهِ زَمَنُ عِيْسَىٰ وَالْمَهْدِي کہ یہ بات ظاہر ہے کہ خلافت علی منھاج نبوت کے اس دوسرے موعود دور سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور مہدی علیہ السلام کا زمانہ مراد ہے.گویا اسلام کی عالمگیر اشاعت اور دیگر سب ادیان پر اس کے کامل غلبہ کا ظہور اور آپ کی بعثت کے عظیم الشان
63 مقصد کا حصول آپ کے بعد قائم ہونے والے بابرکت کے ذریعہ مقدر ہے.یہ امر خلافت احمدیہ کی عظمت کو خوب واضح کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تحریرات 20 دسمبر 1905 ء کی ہیں.جب اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق کے قیام کا وقت قریب آیا تو اس کی عظمت کی طرف دنیا کو متوجہ کرنے کے لئے علام الغیوب خدا نے بذریعہ الہام اس بارہ میں معین تاریخ سے بھی آگاہ فرما دیا.دسمبر 1907ء میں حضرت مسیح پاک علیہ السلام کو الہام ہوا: ستائیس کو ایک واقعہ ( بدر ۱۹ دسمبر ۱۹۰۷ء صفحه ۵، بحوالہ تذکره مطبوعہ 1977 صفحہ 745) اور پھر اللہ تعالیٰ کی قدرت کی جلوہ نمائی دیکھو کہ پانچ ماہ بعد ۲۷ مئی ۱۹۰۸ء کو دنیا کی مذہبی تاریخ میں ایک عظیم الشان واقعہ رونما ہوا.یہ واقعہ جس کی خبر خالق کا ئنات نے پہلے سے دے رکھی تھی کوئی معمولی واقعہ نہ تھا.اس روز اسلام کے عالمگیر غلبہ کے آفاقی نظام کی بنیاد رکھی گئی.الہاما بتائی گئی ۲۷ تاریخ کو جماعت احمد یہ میں قائم ہوا اور اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی بات بڑی شان و شوکت کے ساتھ پوری ہوئی.جماعت کے لئے مقام شکر جماعت احمدیہ کے لئے تو یہ موقع سجدات شکر بجالانے کا ہے اور اپنا سب کچھ قربان کرتے ہوئے خدا تعالی کی راہ میں بچھ جانے کا ہے لیکن جماعت احمدیہ کے
64 علاوہ وہ لوگ جو مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں اور جماعت احمدیہ کو دائرہ اسلام سے باہر نکال دینے پر بڑے نازاں ہیں ان کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے.انہیں بچے دل سے ذرا ظہر کر یہ غور کرنا چاہئے کہ آخر یہ معاملہ کیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے خلافت کا حتمی وعدہ تو اس طرح فرمایا تھا کہ میں سچے ایمان والے اور اعمال صالحہ بجالانے والے مومنوں کو ، ہاں ان مومنوں کو، جو میری نگاہ میں واقعی ان دو معیاروں پر پورا اتریں گے، میں لازماً انہیں خلافت کی عظیم نعمت عطا کروں گا لیکن یہ کیا بات ہے کہ آج کے دور کے سب مسلمان کہلانے والے تو اس نعمت خلافت سے محروم رہے بلکہ نام کی جو خلافت ان میں کسی نہ کسی رنگ میں چلی آرہی تھی وہ بھی ۱۹۲۴ء میں ختم ہوگئی اور یہ سب لوگ نہ صرف خلافت کے انعام سے محروم رہے بلکہ ہزار خواہشوں، تمناؤں اور تدبیروں کے باوجود مسلسل اس نعمت خلافت سے محروم چلے آرہے ہیں.اور دوسری طرف اللہ تعالی کی فعلی شہادت دیکھو کہ اس نے حضرت مسیح موعود السلام کے وصال کے ساتھ ہی فوراً اس جماعت کے سر پر خلافت على منهاج نبوت کا تاج رکھ دیا اور جماعت احمد یہ ایک کے بعد دوسرے، تیسرے، چوتھے اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے خلافت کے پانچویں تاجدار سید نا حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی نہایت عظیم الشان خلافت کے بابرکت سایہ میں آگے سے آگے بڑھتی چلی جارہی ہے.آسمانی تائیدات ہمارے ساتھ ہیں.خدا تعالیٰ کی غیر معمولی نصرت اور معیت حضرت مسرور کو حاصل ہے.اِنِّی مَعَكَ يَا مَسْرُورُ کا
65 پر شوکت ظہور ہماری نظروں کے سامنے ہے اور ساری دنیا میں ایک عظیم المرتبت روحانی انقلاب کی منزلیں طے کی جارہی ہیں.خلافت کی برکت سے جماعت احمد یہ تو انوار الہی کی موسلا دھار بارشوں میں نہا رہی ہے اور جو خلافت کی برکت سے محروم ہیں وہ ہر میدان میں پسپائی اور ہزیمت کا شکار ہیں.آخر یہ فرق ان لوگوں کو کیوں نظر نہیں آتا؟ کیا ان میں کوئی رجل رشید نہیں جو ان کو سمجھائے اور بتائے کہ خدا نے تم لوگوں کو خلافت کی عظیم نعمت سے محروم رکھ کر بتا دیا ہے کہ تمہارے پاس نہ تو ایمان ہے اور نہ اعمال صالحہ.خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو خلافت عطا فرما کر اور دوسرے لوگوں کو اس نعمت سے محروم رکھ کر حق و باطل میں واضح فرق کر دکھایا ہے.یہ خدا کا ناطق فیصلہ ہے جس کو زبانی تعلیوں سے ہر گز جھٹلایا نہیں جاسکتا ! ایک موازنہ آئیے اس تقابلی صورت حال پر ایک بار پھر نظر ڈال کر دیکھیں کہ اس میں کیا پیغام مضمر ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے حتمی وعدہ کے مطابق جماعت احمد یہ کوتو خلافت کے با برکت انعام سے سرفراز فرمایا اور اس طرح دنیا کو دکھا دیا کہ یہی وہ جماعت ہے جو خدا تعالی کی نظر میں ایمان اور عمل صالح کے معیار پر پوری اترنے والی ہے.اسی وجہ سے یہی ایک جماعت ہے جو خدائی انعام سے نوازی گئی اور ظاہر ہے کہ علیم وخبیر خدا کا فیصلہ
66 کبھی غلط نہیں ہوسکتا.پس آج جماعت احمدیہ کا یہ دعوی کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حقیقی اسلام کے علمبردار ہیں اور اسی کے فضل سے صراط مستقیم پر گامزن ہیں ایسا سچا دعوی ہے جس پر کوئی صاحب بصیرت اور حق شناس کبھی انگشت نمائی کی جرات نہیں کر سکتا.اور اب ذرا تصویر کا دوسرا رخ دیکھئے کہ آج ہزار خواہشوں اور ہر طرح کے جتن کرنے کے باوجود اگر غیر احمدی دنیا میں کسی جگہ کسی ایک شخص کو بھی خلافت کا انعام نصیب نہیں تو یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ ان کا ایمان، اللہ کی نظر میں صحیح ایمان نہیں اور ان کے اعمال خدا کی نگاہ میں اعمال صالحہ نہیں.اگر چہ یہ بات بعض سننے اور پڑھنے والوں کو ناگوار گزرے اور ان کے دل اس کو برا منائیں لیکن میں یہ بات کہنے سے رک نہیں سکتا کہ جس امام الزمان حضرت مہدی علیہ السلام کو خدا نے اپنے اذن سے قائم فرمایا ، جس کے متعلق آپ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ برف کے تودوں پر سے گزرتے ہوئے جا کر بھی اس کو میر اسلام کہنا اور اس کے دست صادق پر بیعت کرنے کا شرف حاصل کرنا.کیا اس مہدی دوراں کے منکرین اپنے اس انکار کے باوجود اپنے آپ کو مومنین کے زمرہ میں شمار کرنے میں کسی طرح بھی حق بجانب ہو سکتے ہیں؟ الله وہ منہ سے ہزار دعاوی کریں اپنے آپ کو جو کچھ چاہیں خیال کریں لیکن اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایمان اور عمل صالح کی دولت سے تہی دست ہیں.یہی وجہ ہے کہ وہ انعام خلافت سے محروم چلے آتے ہیں جس کی بنیادی شرط آیت استخلاف میں یہ بیان ہوئی ہے کہ یہ ان لوگوں کو عطا ہوگا جو خدا تعالیٰ کی نظر
67 میں ایمان لانے والے اور اعمال صالحہ بجالانے والے ہوں گے.خدا ان لوگوں کو عقل اور سمجھ عطا کرے اور وہ اس حقیقت کو پالیں کہ انعام خلافت سے ان کی مسلسل محرومی ان کو یہ واضح پیغام دے رہی ہے کہ جب تک وہ خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ حضرت امام مہدی علیہ السلام پر ایمان نہیں لاتے ان کا دعویٰ ایمان بالکل باطل ہے اور یہی وجہ ہے کہ عملی دنیا میں بھی وہ مــن حيـث الـجـمـاعـت اعمال صالحہ کی نعمت سے محروم چلے آتے ہیں اور خلافت کے بابرکت انعام سے بھی.جب تک ان کا یہ انکار جاری رہے گا اس وقت تک یہ محرومیاں ان کے ساتھ ساتھ رہیں گی اور کبھی ان کا پیچھانہیں چھوڑیں گی ! برکات خلافت کے جلوے جماعت احمدیہ کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ قدرتِ ثانیہ کے ان مظاہر عالی مرتبت کی قیادت اور راہنمائی میں اللہ تعالی کے فضل و کرم سے جماعت احمد یہ ترقی کی بلند سے بلند تر منزلیں طے کرتی چلی جارہی ہے.آج ساری دنیا میں جماعت احمد یہ کو ایک منفرد اور ممتاز ، عالمی تشخص حاصل ہے.تبلیغ اسلام تعلیم اور بے لوث خدمت انسانیت کے میدانوں میں جماعتِ احمدیہ کی مساعی کی ایک دنیا معترف ہے.محبت و پیار، امن وسلامتی اور ملکی قوانین کی پابندی کی اعلیٰ اقدار کی وجہ سے یہ جماعت ساری دنیا میں اسلام کی حسین تعلیم کی علمبردار ہے.قرآن مجید اور اسلامی
68 لٹریچر کی اشاعت میں جماعت کو ایک امتیازی مقام حاصل ہے.آج بفضلہ تعالیٰ یہ جماعت دنیا کے ایک سو چوراسی ( 184 ) ملکوں میں مستحکم طور پر قائم ہے اور دنیا بھر میں احمدی مسلمانوں کی تعداد 200 ملین سے زیادہ ہو چکی ہے.خلافت کی برکت نے جماعت کو باہمی اتحاد، غیر متزلزل ایمان اور اعمال صالحہ کی دولت عطا کر کے بنیان مرصوص بنا دیا ہے اور اُن سب برکات سے حصہ وافر عطا فرمایا ہے جن کا وعدہ آیت استخلاف میں جماعت مومنین سے کیا گیا تھا.جماعت احمدیہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ دین اسلام کی منادی اکناف عالم میں ہو رہی ہے يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجِاً کا ایمان افروز نظارہ ہماری نظروں کے سامنے ہے اور دوسری طرف ، جب بھی اور جہاں بھی ، جماعت کے مخالفین کی طرف سے خوف کی کوئی حالت پیدا کی جاتی ہے، خدا تعالیٰ کی نصرت فوراً آسمان سے اترتی ہے اور ہر حالت خوف کو امن میں تبدیل کر دیتی ہے.خدائی نصرت کے نزول کی یہ داستان بہت ہی ایمان افروز ہے.تاریخ احمدیت اس کے شواہد سے بھری ہوئی ہے.جماعتی تاریخ میں بعض سال ایسے ہیں جن میں جماعت سخت پریشانی اور فکر مندی کے ادوار سے گزری.۱۹۳۴ میں احرار کا فتنہ اٹھا.۱۹۴۷ میں قادیان سے ہجرت کی صورت بنی.۱۹۵۳ میں جماعت کے خلاف گیر ہنگامے ہوئے.۱۹۷۴ میں فسادات اور جماعت کے خلاف قانون سازی کی
69 گئی.۱۹۸۴ میں رسوائے زمانہ آرڈی نینس کے اجراء نے جماعت پر پابندیاں انتہائی سخت کر دیں.خلیفہ وقت کو پاکستان سے ہجرت کرنی پڑی.ان پر آشوب سالوں میں احمدیوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے.اسیرانِ راہ مولیٰ نے مسکراتے ہوئے اپنی بیٹریوں کو چوما.یہ وہ سال ہیں جب آلام و مصائب کے مہیب سائے جماعت کے سر پر منڈلاتے رہے لیکن خدائے رحیم و کریم کا احسان کہ جماعت کے سر پر خلافتِ احمدیہ کا سایہ تھا جس کی برکت سے جماعت مومنانہ استقامت کے ساتھ ان ادوار سے گزرتی گئی اور ہر خوف کی حالت امن میں تبدیل ہوتی رہی.اسی طرح جماعتی تاریخ میں جب بھی نئی خلافت کے آغاز کا موقع آیا جو مشکل ترین عرصہ امتحان ہوتا ہے.غم زدہ علاقی احمدیت قیامت کی سی کیفیت سے گزر رہے ہوتے ہیں.یتیمی کا ایک عجیب عالم ہوتا ہے ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل غم سے بھرا ہوتا ہے.مخالفین خوشی کے شادیانے بجار ہے ہوتے ہیں کہ اب یہ جماعت ختم ہو ا چاہتی ہے.خوف کے ان گھٹا ٹوپ اندھیروں میں یک بیک خدائے قادر کی تحیلی ہوتی ہے سارا غم کافور ہو جاتا ہے ہر دل امن اور سکینت سے بھر جاتا ہے.قدرت ثانیہ کا ظہور ہوتا ہے اور جماعت کے سایہ میں پھر سے منزل کی طرف رواں دواں ہو جاتی ہے ۱۹۰۸ - ۱۹۱۴ - ۱۹۶۵ - ۱۹۸۲ اور ۲۰۰۳ میں جماعت احمد یہ انہی مراحل سے گزری اور آج ہر احمدی اس بات کا زندہ گواہ ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے ان کے ہر خوف کو خلافت احمدیہ کے ذریعہ امن میں بدلا اور دین اسلام کو تمکنت اور استحکام عطا فرمایا.
70 پس اللہ تعالیٰ کا یہ عظیم احسان ہے کہ ہم خلافت کی برکت سے تائیدات الہیہ کے ایمان کہ افروز جلوے دن رات دیکھتے ہیں اور اللہ کرے کہ ہمیشہ دیکھتے چلے جائیں.خلیفہ وقت کا دل.دعاؤں کا خزینہ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ ہے کہ خلیفہ وقت کے وجود میں ساری جماعت کو ایک ایسا دردمند اور دعا گو وجود نصیب ہوتا ہے جو ہر دکھ درد میں ان کا سہارا اور ہر خوشی میں ان کے ساتھ برابر شریک ہوتا ہے.یہ کیفیت دنیاوی راہنماؤں میں کہاں جن کو ان کے عوام تب یاد آتے ہیں جب انہیں ووٹ کی ضرورت پڑتی ہے لیکن خلافت کے بابرکت نظام میں خلیفہ وقت اسوۂ نبوی کی اقتداء میں جماعت مومنین کے لئے ہر روز اور ہر وقت ایک رووف و رحیم باپ کی طرح ہوتا ہے.غم کے مارے اس کے آستانہ پر آکر اپنے بوجھ ہلکے کرتے ہیں اور دعاؤں کے خزانوں سے جھولیاں بھر کر لوٹتے ہیں.یہ ایسی نعمت ہے جو آج سوائے جماعت احمدیہ کے دنیا کے کسی اور نظام میں لوگوں کو میسر نہیں.کینیڈا کے ایک پروفیسر ڈاکٹر GUALTIER حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ سے پہلی بار ملنے آئے تو اس عاجز کو بھی ان سے ملنے کا موقعہ ملا اور میں نے حضور انور کی ذات کے بارہ میں چند باتیں بطور تعارف اپنے انداز میں ذکر کیں، بعد ازاں وہ حضور سے ملاقات کرنے چلے گئے.واپس آئے تو انہوں نے اظہار کیا کہ ملاقات کے
71 لئے جاتے وقت میں یہ تاثر لے کر گیا کہ احباب جماعت اپنے خلیفہ سے بہت محبت کرتے ہیں.وہاں جو باتیں ہوئیں ان کے بعد میں یہ کہوں گا کہ احباب جماعت کی اپنے خلیفہ سے محبت اپنی جگہ لیکن میں اس یقین سے واپس لوٹا ہوں کہ جماعت کا خلیفہ اپنی جماعت کے افراد سے ان سے بھی زیادہ محبت رکھتا ہے.کیا کچی اور برحق بات اس پروفیسر نے کہی.ماں سے زیادہ محبت کرنے والا اور دن رات ان کو دعاؤں پر دعائیں دینے والا ، ان کے غم میں گھلنے والا اور ان کی خوشیوں میں پوری طرح شامل وجود کسی نے دیکھنا ہو تو خلیفہ وقت کے وجود میں نظر آتا ہے ! عالم احمدیت سے باہر یہ نعمت آج کسی اور کو نصیب نہیں.جل رہا ہے ایک عالم دھوپ میں بے سائباں شکر مولی کہ ہمیں یہ سایہ رحمت ملا حضرت مصلح موعود رضی اللہ نے ایک بار اس کا نقشہ اس طرح کھینچا تھا، فرمایا: " تمہارے لئے ایک شخص تمہارا در در رکھنے والا تمہاری محبت رکھنے والا ، تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا، تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا ، تمہارے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا.مگر ان کے لئے نہیں ہے.تمہارا اسے فکر ہے، درد ہے اور وہ تمہارے لئے اپنے مولیٰ کے حضور تڑپتا رہتا ہے لیکن ان کے لئے ایسا کوئی نہیں ہے.کسی کا اگر ایک بیمار ہو تو اس کو چھین نہیں آتا.لیکن
72 کیا تم ایسے انسان کی حالت کا اندازہ کر سکتے ہو جس کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بیمار ہوں“ (انوار العلوم.جلد ۲ صفحہ ۱۵۶) ہی تسلسل میں حضرت خلیفت ابیع الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا ایک ارشاد پیش کرتا ہوں جس میں آپ نے اپنی قلبی کیفیات اور دعاؤں کا تذکرہ ایک دلگد از رنگ میں کیا ہے.آپ نے فرمایا: میں آپ میں سے آپ کی طرح کا ہی ایک انسان ہوں اور آپ میں سے ہر ایک کے لئے اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اتنا پیار پیدا کیا ہے کہ آپ لوگ اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے بعض دفعہ سجدہ میں میں جماعت کے لئے اور جماعت کے افراد کے لئے یوں دعا کرتا ہوں کہ اے خدا! جو مجھے ما لکھنا چاہتے تھے لیکن کسی ستی کی وجہ سے نہیں لکھ سکے ان کی مرادیں پوری کر دے.اور اے خدا! جنہوں نے مجھے خط نہیں لکھا اور نہ انہیں خیال آیا ہے کہ دعا کے لئے خط لکھیں اگر انہیں کوئی تکلیف ہے یا ان کی کوئی حاجت اور ضرورت ہے تو ان کی تکلیف کو بھی دور کر دے اور حاجتیں بھی پوری کر دے“ (روز نامه الفضل ربوه ۲۱ دسمبر ۱۹۶۶) حضرت خلیة یہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ کے زمانے کا واقعہ ہے.چوہدری حاکم
73 دین صاحب بورڈ نگ کے ایک ملازم تھے.ان کی بیوی، پہلے بچے کی ولادت کے وقت بہت تکلیف میں تھی.اس کربناک حالت میں رات کے بارہ بجے وہ حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ کے دروازہ پر حاضر ہوئے.دروازہ پر دستک دی.آواز سن کر پوچھا کون ہے؟ اجازت ملنے پر اندر جا کر زچگی کی تکلیف کا ذکر کیا اور دعا کی درخواست کی.حضور فوراً اٹھے، اندر جا کر ایک کھجور لیکر آئے اور اُس پر دعا کر کے انہیں دی اور فرمایا: می اپنی بیوی کو کھلا دیں اور جب بچہ ہو جائے تو مجھے بھی اطلاع دیں." چوہدری حاکم دین صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں واپس آیا کھجور بیوی کو کھلا دی اور تھوڑی ہی دیر میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچی کی ولادت ہوئی.رات بہت دیر ہو چکی تھی میں نے خیال کیا کہ اتنی رات گئے دوبارہ حضور کو اس اطلاع کے لئے جگانا مناسب نہیں.نماز فجر میں حاضر ہوکر میں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کھجور کھلانے کے جلد بعد بچی پیدا ہوگئی تھی.اس پر حضرت خلیات مسیح الاول رضی اللہ عنہ نے جو فرمایا وہ سننے اور یا در کھنے سے تعلق رکھتا ہے.دلگد از الفاظ طبیعت میں رقت پیدا کر دیتے ہیں.آپ نے فرمایا : میاں حاکم دین ! تم نے اپنی بیوی کو کھجور کھلا دی اور تمہاری بچی پیدا ہوگئی.اور پھر تم اور تمہاری بیوی آرام سے سو گئے.مجھے بھی اطلاع کر دیتے تو میں بھی آرام سے سو رہتا.میں تو ساری رات جاگتا رہا اور تمہاری بیوی کے لئے دعا کرتا رہا!
74 کہنے لگے: چوہدری حاکم دین صاحب نے یہ واقعہ بیان کیا اور بے اختیار رو پڑے اور " کہاں چیڑ اس حاکم دین اور کہاں نورالدین اعظم مبشرین احمد صفحه ۳۸ نیز اصحاب احمد جلد ۸ صفحہ ۷۱-۷۲) میرے بھائیو، عزیز واور بزرگو! دیکھو اور سنو کہ آج بھی خدائے رحمن نے ہمیں حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ذات میں ایسا مہربان آقا عطا فرمایا ہے جو ہم میں سے ہر ایک کو اس محبت سے گلے لگاتا ہے کہ غم بھول جاتا ہے اور دل کی پاتال تک خوشی ومسرت کا بسیرا ہو جاتا ہے.خدائے ذوالمن کا احسان ہے کہ اس نے ایسا خلیفہ میں عطا فر مایا ہے جو محبت بھری دعاؤں کا بھی نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے.اس کا محبت بھر اسلوک دلوں کو لوٹتا چلا جاتا ہے.خلفائے احمدیت کی محبت و شفقت اور دعاؤں کے فیض کا سلسلہ اتنا وسیع اور اتنا دلگداز ہے کہ بیان کا یارا نہیں.کاش میرے لئے ممکن ہوتا تو میں دنیا کو بتا تا کہ ہم خلافتِ احمدیہ کے سایہ میں کس جنت میں دن رات بسر کر رہے ہیں.حق یہ ہے کہ یہ کیفیت لفظوں میں بیان کرنے والی نہیں بلکہ ذاتی تجربہ کی روشنی میں محسوس کرنے اور جاننے والی عظیم دولت ہے اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آج اس جلسہ گاہ میں موجود ایک ایک فرد جماعت اور اکناف عالم میں بسنے والے کروڑوں عشاق احمدیت اس بات پر زندہ
75 گواہ ہیں کہ آج کے سایہ سے بڑھ کر کوئی اور عافیت بخش سایہ نہیں اور خلیفہ وقت ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ذات اقدس سے محبت، الفت اور فدائیت کی لہریں ہر احمدی کے دل میں ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح موجزن ہیں.خلافت احمدیہ اور خلیفہ وقت کے ساتھ آج کروڑوں احمدیوں کی یہ بے لوث فدائیت اور محبت ایک خداداد دولت ہے جس سے ہر احمدی کا دل مالا مال ہے.ہر احمدی کے دل کے جذبات کا ترجمان یہ دعائیہ شعر ہے میرے آقا کی محبت ہو مری روح کی راحت اس کی شفقت بھری نظروں کی عطا ہو دولت ہماری ذمہ داریاں.خلفائے احمدیت کے ارشادات خلافت احمدیہ سے تعلق میں ہم پر کیا ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہر احمدی کے دل پر ہمیشہ پوری طرح نقش رہنا چاہیئے.اس کی اہمیت اور ضرورت یہ ہے کہ جب تک ہمیں ان ذمہ داریوں کا پورا ادراک اور احساس نہ ہو ہم ان سے کس طرح عہدہ برآ ہو سکتے ہیں.پس ان ذمہ داریوں کا علم اور پورا پورا احساس ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے از بس لازم ہے.آئیے ان ذمہ داریوں کا علم حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے ان بزرگ بندوں کے آگے زانوئے تلمذ طے کریں جن کا معلم اور مربی خود خدائے علیم وخبیر ہوتا ہے
76 میری مراد اس دور میں جماعت احمدیہ کے اندر قائم ہونے والے ان خلفائے کرام سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلیفہ ہونے کی سعادت عطا فرمائی.ان خلفائے عظام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دست قدرت سے اس منصب کے لئے چنا اور اس کی غالب تقدیر نے خلافت کا تاج ان کے سروں پر رکھا.خدا ان کا معلم اور راہنما بنا اور ان کو علم و عرفان کی دولت سے مالا مال کیا.آئیے سنئے کہ خدا کے ان برگزیدہ بندوں نے مشفق و مہربان ناصح کے طور پر، کن الفاظ میں افراد جماعت کو خلافت کے تعلق میں ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ فرمایا.عرفان و حکمت پر مبنی یہ وہ سنہری الفاظ ہیں جو خدا کے بندوں کے منہ سے نکلے اور جن میں ہماری روحانی زندگی کی بقا اور ترقی کا راز مضمر ہے.بطور نمونہ چند منتخب ارشادات پیش کرتا ہوں: سید نا حضرت خلیفتہ اسی الاول رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں یہ وصیت کرتا ہوں کہ تمہارا اعتصام حَبْلُ اللہ کے ساتھ ہو.قرآن تمہارا دستور العمل ہو.باہم کوئی تنازع نہ ہو کیونکہ تنازع فیضان الہی کو روکتا ہے چاہیے کہ تمہاری حالت اپنے امام کے ہاتھ میں ایسی ہو جیسے میت غسال کے ہاتھ میں ہوتی ہے.تمہارے تمام ارادے اور خواہشیں مردہ ہوں اور تم اپنے آپ کو امام کے ساتھ ایسا وابستہ کرو جیسے گاڑیاں انجن کے ساتھ.اور پھر ہر روز دیکھو کہ ظلمت سے نکلتے ہو یا نہیں.استغفار کثرت سے کرو اور دعاؤں میں لگے رہو.وحدت
77 کو ہاتھ سے نہ دو.دوسرے کے ساتھ نیکی اور خوش معاملگی میں کوتا ہی نہ کرو.تیرہ سو برس کے بعد یہ زمانہ ملا ہے اور آئندہ یہ زمانہ قیامت تک نہیں آسکتا پس اس نعمت کا شکر کرو کیونکہ شکر کرنے پر ازدیاد نعمت ہوتا (خطبات نور صفحه ۱۳۱) ہے حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے فرمایا: اس بات کو خوب اچھی طرح یا درکھو کہ خلافت حَبْلُ الله ہے اور ایسی رسی ہے کہ اسی کو پکڑ کر تم ترقی کر سکتے ہو.اس کو جو چھوڑ دے گا وہ تباہ ہو جائے گا درس القرآن بیان فرموده یکم مارچ ۱۹۲۱ بحواله درس القرآن صفحه ۶۷ تا ۸۴ مطبوعه قادیان نومبر ۱۹۲۱) حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس کے شکر گزار بندے بن کے اپنی زندگیوں کے دن گزاریں اور جماعت کے اندر اتحاد اور اتفاق کو ہمیشہ قائم رکھیں اور اس حقیقت کو نظر انداز نہ کریں کہ سب بزرگیاں اور ساری ولایت خلافت راشدہ کے پاؤں کے نیچے ہے.“ تعمیر بیت اللہ کے ۲۳ عظیم الشان مقاصد صفحہ ۱۱۶) حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: قیامت تک کے لئے خلافت سے اپنا دامن اس مضبوطی سے باندھ لیں کہ جیسے عروہ مٹی پر ہاتھ پڑ گیا ہو جس کا ٹوٹنا مقدر
78 نہیں.....پس آپ اگر خلافت کے ساتھ رہیں گے تو خلافت لازماً آپ کے ساتھ رہے گی اور یہی دونوں کا ساتھ ہے جو تو حید پر منتج ہوگا.(بحوالہ ماہنامہ خالد مئی ۱۹۹۴ صفحه ۲ تا ۴) ہمارے پیارے آقا سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ جن کو اللہ تعالیٰ نے اس دور میں تاج خلافت سے نوازا ہے اور جو ساری عالمگیر جماعت احمدیہ کی ترقی کی اعلیٰ ترین راہوں کی طرف راہنمائی فرما رہے ہیں، آپ نے خلافت کے تعلق میں جماعت کو بار بار ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ فرمایا ہے.چند حوالے عرض کرتا ہوں.منصب خلافت پر متمکن ہونے کے بعد آپ نے اپنے سب سے پہلے پیغام میں فرمایا: وو قدرت ثانیہ خدا کی طرف سے ایک بڑا انعام ہے جس کا مقصد قوم کو متحد کرنا اور تفرقہ سے محفوظ رکھنا ہے.یہ وہ لڑی ہے جس میں جماعت موتیوں کی مانند پروئی ہوئی ہے.اگر موتی بکھرے ہوں تو نہ تو محفوظ ہوتے ہیں اور نہ ہی خوبصورت معلوم ہوتے ہیں.ایک لڑی میں پروئے ہوئے موتی ہی خوبصورت اور محفوظ ہوتے ہیں.اگر قدرت ثانیہ نہ ہو تو اسلام کبھی ترقی نہیں کر سکتا.پس اس قدرت کے ساتھ کامل اخلاص اور محبت اور وفا اور عقیدت کا تعلق رکھیں اور
79 خلافت کی اطاعت کے جذبہ کو دائمی بنا ئیں اور اس کے ساتھ محبت کے جذبہ کو اس قدر بڑہائیں کہ اس محبت کے بالمقابل دوسرے تمام رشتے کمتر نظر آئیں.امام سے وابستگی میں ہی سب برکتیں ہیں.اور وہی آپ کے لئے ہر قسم کے فتنوں اور ابتلاؤں کے مقابلہ کے لئے ایک ڈھال ہے“ ای پیغام میں آپ نے مزید فرمایا: پس اگر آپ نے ترقی کرنی ہے اور دنیا پر غالب آتا ہے تو میری آپ کو یہی نصیحت ہے اور میرا یہی پیغام ہے کہ آپ خلافت سے وابستہ ہوجائیں.اس حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں.ہماری ساری ترقیات کا دارو مدار خلافت سے وابستگی میں ہی پنہاں (روز نامه الفضل ربوه ۳۰ مئی ۲۰۰۳) ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے آپ کو خلافت کی نعمت سے نوازا ہے جو تمام قسم کی ترقیات کے لئے ایک بابرکت راہ ہے.اس حبل اللہ کو مضبوطی سے پکڑے رکھیں.وحدت اور یک جہتی کے قیام کے لئے اور کامیابیوں کے حصول کے لئے خلافت کے دامن سے ہمیشہ وابستہ رہیں اور نسل در نسل اپنی اولادوں کو بھی اس نعمت عظمی سے وابستہ
80 رہنے کی تلقین کرتے رہیں.ہمیشہ اس کی سر بلندی اور مضبوطی کے لئے کوشاں رہیں اور اس راہ میں درپیش ہر قربانی کے لئے مستعد رہیں.(مشعل راه جلد ۵ صفحه ۳۲-۳۳) اپنے ایک پیغام میں آپ نے احباب جماعت سے فرمایا: یہ خلافت کی ہی نعمت ہے جو جماعت کی جان ہے.اس لئے اگر آپ زندگی چاہتے ہیں تو خلافت احمدیہ کے ساتھ اخلاص اور وفا کے ساتھ چمٹ جائیں.پوری طرح اس سے وابستہ ہو جائیں کہ آپ کی ہر ترقی کا راز خلافت سے وابستگی میں ہی مضمر ہے.ایسے بن جائیں کہ خلیفہ وقت کی رضا آپ کی رضا ہو جائے.خلیفہ وقت کے قدموں پر آپ کا قدم اور خلیفہ وقت کی خوشنودی آپ کا صح نظر ہو جائے.66 (ماہنامہ خالد ربوہ سید ناطاہر نمبر مارچ اپریل 2004ء) ایک جلسہ سالانہ کے موقع پر آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا احسان ہے احمدیوں پر کہ نہ صرف ہادی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شامل ہونے کی توفیق ملی بلکہ اس
81 زمانے میں مسیح موعود اور مہدی کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق بھی اس نے عطا فرمائی جس میں ایک نظام قائم ہے، ایک نظامِ خلافت قائم ہے، ایک مضبوط کڑا آپ کے ہاتھ میں ہے جس کا ٹوٹنا ممکن نہیں.لیکن یاد رکھیں کہ یہ کٹڑا تو ٹوٹنے والا نہیں لیکن اگر آپ نے اپنے ہاتھ ذرا ڈھیلے کئے تو آپ کے ٹوٹنے کے امکان پیدا ہو سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس سے بچائے.اس لئے اس حکم کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو اور نظام جماعت سے ہمیشہ چھٹے رہو.کیونکہ اب اس کے بغیر آپ کی بقا نہیں.یاد رکھیں شیطان راستہ میں بیٹھا ہے.ہمیشہ آپ کو ورغلاتا رہے گا.“ (۲۲ اگست ۲۰۰۳ء مئی مارکیٹ ،منہائیم، جرمنی) اپنے ایک حالیہ خطبہ جمعہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ہے: ” ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے کہ....استحکام خلافت کے لئے دعائیں کریں تا کہ خلافت کی برکات آپ میں ہمیشہ قائم رہیں......اپنے اندر خاص تبدیلیاں پیدا کریں.پہلے سے بڑھ کر ایمان و اخلاص میں ترقی کریں...اب احمدیت کا علمبر دار وہی ہے جو نیک اعمال کرنے والا ہے اور خلافت سے چمٹارہنے والا ہے.“ خطبه جمعه فرموده ۲۷ مئی ۲۰۰۵ء)
82 انعام خلافت پر شکر کی نعمت پر ہم اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر کریں کم ہے.ہمارے وجود کا ذرہ ذرہ سراپا شکر بن جائے تو تب بھی ہم اس نعمت عظمی کے شکر کا حق ادا نہیں کر سکتے.پس اس تعلق میں ہماری سب سے پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اس نعمت کی عظمت کا صحیح ادراک اور احساس پیدا کریں اور دل کی گہرائی سے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہیں اور اپنے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس نعمت کا شکر ادا کرنے کی توفیق دیتا رہے.اور اس کو قبول کرتے ہوئے اپنے وعدہ کے مطابق خلافت کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رکھے.آمین خلیفہ وقت سے ذاتی تعلق نبی کی نیابت کے حوالہ سے خلیفہ کا مقام بہت بلند ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ جب کسی فرد کو تاج خلافت سے سرفراز فرماتا ہے تو وہی انسان جولوگوں کی نظروں میں کل تک ایک عام انسان تھا اللہ تعالیٰ کے نور سے منور ہو کر ایک نورانی وجود بن جاتا ہے.وہ مہبط انوار ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے وجود سے دنیا میں خدا کا نور پھیلنے لگتا ہے اور وہ اس انتشار روحانیت کا مرکز بن جاتا ہے.اس بلند مقام پر فائز ہونے کے بعد خدا تعالیٰ سے اس کا ایسا قریبی تعلق پیدا ہو جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کو قبولیت دعا کا اعجاز عطا کرتا ہے خدا تعالیٰ خود اس کا معلم بن کر اسے علوم روحانی عطا فرماتا ہے.اس عظیم الشان تبدیلی
83 کے بارہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے بیان فرمایا ہے: ” خلیفہ خود اللہ تعالیٰ بناتا ہے اور اس کے انتخاب میں کوئی نقص نہیں.وہ اپنے ایک کمزور بندے کو چلتا ہے جسے وہ بہت حقیر سمجھتے ہیں.پھر اللہ تعالی اس کو چن کر اس پر اپنی عظمت اور جلال کا ایک جلوہ کرتا ہے اور جو کچھ اس کا تھا اس میں سے وہ کچھ بھی باقی نہیں رہنے دیتا اور خدا تعالی کی عظمت اور جلال کے سامنے کلی طور پر فنا اور بے نفسی کا لبادہ وہ پہن لیتا ہے اور اس کا وجود دنیا سے غائب ہو جاتا ہے اور خدا کی قدرتوں میں وہ چھپ جاتا ہے تب اللہ تعالیٰ اسے اٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لیتا ہے.“ روزنامه الفضل ربوہ ، ۱۷ مارچ ۱۹۶۷) قبولیت دعا کا جو مقام خلیفہ وقت کو عطا کیا جاتا ہے اسکی حکمت حضرت مصلح موعودؓ نے ان الفاظ میں بیان فرمائی.فرمایا: اللہ تعالیٰ جس کسی کو منصب خلافت پر سرفراز کرتا ہے تو اس کی دعاؤں کی قبولیت کو بڑھا دیتا ہے کیونکہ اگر اس کی دعائیں قبول نہ ہوں تو پھر اس کے اپنے انتخاب کی ہتک ہوتی ہے“.انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۴۷.منصب خلافت صفحه ۳۲) خلیفہ وقت کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے نور، علم ومعرفت اور
84 مقام قبولیت دعا سے برکت حاصل کرنے کے لئے مومنین کی ایک اہم ذمہ داری یہ ہے لہ وہ خلیفہ وقت کے ساتھ محبت و عقیدت اور فدائیت کا ایک ذاتی اور قریبی تعلق رکھیں.یہ وہ نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس دور میں ہمیں اتنے متنوع انداز میں اور اتنی سہولت سے میسر کی ہے جیسی اس سے قبل کبھی نہ تھی.خلیفہ وقت سے ذاتی اور فیملی ملاقات کی صورت آج ہر احمدی کو میسر ہے.خواہ وہ دنیا کے کسی ملک میں رہتا ہو، خلیفہ وقت کے قدموں میں حاضر ہو کر وہ یہ شرف حاصل کر سکتا ہے.پھر حضور انور کے عالمگیر دورہ جات کے دوران اُن ممالک کے احمدیوں کو یہ سعادت اپنے ملک میں رہتے ہوئے مل جاتی ہے.خطوط.فیکس اور ای میلز کے ذریعہ حضور انور سے براہ راست رابطہ کا پورا نظام موجود ہے.اس سے بھر پور استفادہ کرنا اور خلیفئہ وقت سے مسلسل رابطہ رکھنا ہماری اہم ذمہ داری ہے.خلیفہ وقت کے لئے دعا ئیں خلیفہ وقت کا بابرکت وجود ساری جماعت کے لئے یمن وسعادت اور برکتوں کا خزانہ ہے.خلیفہ وقت کی مقبول دعائیں ساری جماعت کو ہر آن نصیب رہتی ہیں.اگر چہ اس احسان کا بدلہ تو کبھی چکا یا نہیں جا سکتا لیکن ہر مخلص احمدی کا یہ فرض ضرور بنتا ہے کہ وہ ہمیشہ محسن آقا کے لئے مجسم دعا بنار ہے اور کبھی بھی اس بارہ میں غفلت کا شکار نہ ہو.اٹھتے بیٹھتے اللهُمَّ اَيَدُ إِمَا مَنَا بِرُوحِ الْقُدُسِ کے کلمات ور دزبان رہنے چاہئیں اور
85 رسول مقبول ﷺ کی یہ حدیث بھی مستحضر رہنی چاہئے جس میں آپ نے فرمایا: عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : خِيَارُ اَ تَمَّتِكُمُ الَّذِينَ تُحِبُّونَهُمْ وَيُحِبُّونَكُمْ وَ تُصَلُّوْنَ عَلَيْهِمْ وَيُصَلُّوْنَ عَلَيْكُمْ (مسلم کتاب الامارة باب خيار الائمة واشرارهم ) تمھارے بہترین سردار وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں.تم ان کے لئے دعا کرتے ہو اور وہ تمہارے لئے دعائیں کرتے ہیں.خلیفہ وقت کی احباب جماعت سے محبت و شفقت کے نظارے تو ہم دن رات مشاہدہ کرتے ہیں.ہمیں یہ جائزہ لینا چاہیے کہ ہماری محبت کا معیار کیا ہے؟ خلیفہ وقت کی دعا ئیں تو ہم ہر آن حاصل کرتے ہیں ہماری فکر یہ ہونی چاہئے کہ کیا ہم بھی خلیفہ وقت کے لئے دعا کرنے کا حق ادا کرتے ہیں یا نہیں؟ خلیفہ وقت کے ارشادات کو سننا قرآن مجید میں جماعت مومنین کا شعار سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے.وہ ہمیشہ نیکی کی باتوں کو تو جہ سے سنتے سمجھتے اور یادر کھتے ہیں اور پھر ان باتوں پر دل و جان سے عمل بھی کرتے ہیں.اطاعت کا پہلا زینہ سننا ہے، اسی لئے اس صفت کو
86 پہلے رکھا گیا ہے.جو شخص سنے گا نہیں وہ عمل کیسے کر سکے گا ؟ احادیث نبویہ میں بھی نظام سے وابستگی اور نظام کے سر براہ اعلیٰ کی مکمل اطاعت کا ذکر بہت کثرت سے ملتا الله ہے.ایک حدیث میں رسول پاک ﷺ نے فرمایا: أوصِيكُم بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْع وَالطَّاعَةِ (ترمذی کتاب الایمان كتاب الاخذ بالسنة ) اس حدیث سے یہ نکتہ معرفت بھی ملتا ہے کہ حصول تقویٰ کے دو بڑے زینے کان کھول کر ہدایات کا سننا اور ان پر عمل کرنا ہیں.ایک اور حدیث نبوی میں آتا ہے: اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا (بخاری کتاب الاحکام باب السمع والطاعة ) پھر ایک اور حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں : السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ (ابو داؤد كتاب الجهاد باب في الطاعة) گویا ایک سچے مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ حرف نصیحت سننے اور اس کی اطاعت کرنے کا پیکر ہوتا ہے.اطاعت کے ضمن میں یہ نکتہ بھی یادر کھنے کے لائق ہے کہ قرآن مجید کی جس سورۃ میں آیت استخلاف وارد ہوئی ہے اسی سورۃ النور میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُمْ بَعْضاً (آیت ۶۴) یعنی اے مومنو! یہ نہ سمجھو کہ رسول کا تم میں سے کسی کو بلانا ایسا ہی ہے جیسا کہ تم
87 میں سے بعض کا بعض کو بلانا.اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: " تمہارا فرض ہے کہ جب بھی تمہارے کانوں میں خدا تعالیٰ کے رسول کی آواز آئے.تم فوراً اس پر لبیک کہو اور اس کی تعمیل کے لئے دوڑ پڑو کہ اسی میں تمہاری ترقی کا راز مضمر ہے بلکہ اگر انسان اس وقت نماز پڑھ رہا ہو تب بھی اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ نماز توڑ کر خدا تعالیٰ کے رسول کی آواز کا جواب دے...یہی حکم اپنے درجہ کے مطابق خلیفہ رسول اللہ پر بھی چسپاں ہوتا ہے اور اس کی آواز پر جمع ہو جانا بھی ضروری ہوتا ہے“ ( تفسیر کبیر جلد ششم صفحه ۲۰۸-۴۰۹) پھر آپ نے یہ بھی فرمایا: " جو جماعتیں منظم ہوتی ہیں ان پر کچھ ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں جن کے بغیر ان کے کام کبھی بھی صحیح طور پر نہیں چل سکتے...ان شرائط اور ذمہ داریوں میں سے ایک اہم شرط اور ذمہ داری یہ ہے کہ جب وہ ایک امام کے ہاتھ پر بیعت کر چکے تو پھر انہیں امام کے منہ کی طرف دیکھتے رہنا چاہئیے کہ وہ کیا کہتا ہے اور اس کے قدم اٹھانے کے بعد اپنا قدم اٹھانا چاہئے...امام کا مقام تو یہ ہے کہ وہ حکم دے اور ماموم کا مقام یہ ہے کہ وہ پابندی کرے“ (روز نامه الفضل قادیان، ۵ جون ۱۹۳۷)
88 پس ہر احمدی کی ایک بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ خلیفہ وقت کے ارشادات کو توجہ سے سنے اور اس کی طرف سے آنے والی ہر آواز پر کان دھرے.خلیفہ وقت کو اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی تائید اور راہنمائی نصیب ہوتی ہے.وہ خدا تعالیٰ کے اذن اور ہدایت سے بولتا ہے.علم و عرفان کے چشمے اس کی مبارک زبان پر جاری ہوتے ہیں.وہ ان باتوں کی طرف جماعت مومنین کو بلاتا ہے جو وقت کی عین ضرورت اور ہر سننے والے کے لئے انتہائی مفید اور بابرکت ہوتی ہیں پس حضور انور کے پر معارف خطبات جمعہ کو با قاعدگی سے اور پوری توجہ سے سننا، بچوں کو سنانا اور سمجھانا ہر احمدی کی ایک بنیادی ذمہ داری ہے.حضور انور کے خطابات اور پیغامات کو سننا بھی بہت لازم ہے.ان باتوں کو سننے سے ہی ہمیں معلوم ہو سکتا ہے کہ پیارے حضور ہم سے کیا فرمارہے ہیں اور ہم سے کیا توقعات رکھتے ہیں.پس جو احمدی ان خطبات اور خطابات کو با قاعدہ اہتمام ے نہیں سنے گاوہ حضور کے ارشادات کی تعمیل کی سعادت سے بھی محروم رہ جائے گا.ایک اور ذمہ داری اطاعت خلافت کا ایک اہم زینہ عاجزی اور خاکساری کا لبادہ پہن کر اپنے آپ کو ایک ذرہ ناچیز کے طور پر خلیفہ وقت کے قدموں میں پیش کر دینا ہے.جس احمدی پر منصب خلافت کی عظمت پوری طرح واضح ہو، جو خلیفہ وقت کو رسول متبوع کا جانشین یقین کرتا ہو اس کے لئے یہ مرحلہ ہرگز مشکل نہیں بلکہ یہی تو ایک بچے احمدی کی نشانی ہے
89 کہ وہ اپنی انانیت کے لبادہ کو تار تار کر کے، اپنے وجود کوکلیۂ فراموش کرتے ہوئے، خلیفہ وقت کے ہر اشارے پر اس کو قربان کر دیتا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہی بات کن خوبصورت الفاظ میں بیان فرمائی.آپ نے فرمایا: ” بیعت کے معنے اپنے آپ کو بیچ دینے کے ہیں اور جب انسان کسی کو دوسرے کے ہاتھ پر بیچ دیتا ہے تو اس کا اپنا کچھ نہیں رہتا (خطبات نور صفحہ ۱۷۱) اطاعت کے اس مقام کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا: امام اور خلیفہ کی ضرورت یہی ہے کہ ہر قدم جو مومن اٹھاتا ہے اس کے پیچھے اٹھاتا ہے اپنی مرضی اور خواہشات کو اس کی مرضی اور خواہشات کے تابع کرتا ہے.اپنی تدبیروں کو اس کی تدبیروں کے تابع کرتا ہے.اپنے ارادوں کو اس کے ارادوں کے تابع کرتا ہے.اپنی آرزوؤں کو اس کی آرزوؤں کے تابع کرتا ہے اور اپنے سامانوں کو اس کے سامانوں کے تابع کرتا ہے.اگر اس مقام پر مومن کھڑے ہو جا ئیں تو ان کے لئے کامیابی اور فتح یقینی ہے.ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا: روزنامه الفضل قادیان ۴ ستمبر ۱۹۳۷) یاد رکھو....ایمان نام ہے اس بات کا کہ خدا تعالیٰ کے
90 قائم کردہ نمائندہ کی زبان سے جو بھی آواز بلند ہو اس کی اطاعت اور فرماں برداری کی جائے.ہزار دفعہ کوئی شخص کہے کہ میں مسیح موعود پر ایمان لاتا ہوں.ہزار دفعہ کوئی کہے کہ میں احمدیت پر ایمان رکھتا ہوں.خدا کے حضور اس کے ان دعوں کی کوئی قیمت نہیں ہوگی جب تک وہ اس شخص کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دیتا جس کے ذریعہ خدا اس زمانہ میں اسلام قائم کرنا چاہتا ہے.جب تک جماعت کا ہر شخص یاگلوں کی طرح اس کی اطاعت نہیں کرتا اور جب تک اس کی اطاعت میں اپنی زندگی کا ہر لمہ نہیں بسر کرتا اس وقت تک وہ کسی قسم کی فضیلت اور بڑائی کا حقدار نہیں ہوسکتا “ ہر تحریک پر والہانہ لبیک روزنامه الفضل قادیان ۱۵ نومبر ۱۹۴۶ صفحه ۶) اطاعت کا مطلب یہ ہے کہ خلیفہ وقت کی طرف سے آنے والی ہر آواز پر والہانہ لٹھیک کہا جائے.کسی ارشاد کو بھولنا یا اسکی طرف توجہ نہ دینا ایک احمدی کی شان نہیں.حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: بیعت وہ ہے جس میں کامل اطاعت کی جائے اور خلیفہ
91 کے کسی ایک حکم سے بھی انحراف نہ کیا جائے“ (ماہانہ الفرقان ربوہ خلافت نمبر مئی جون 1967 صفحہ 28) حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ” خلیفہ استاد ہے اور جماعت کا ہر فرد شاگرد.جو لفظ بھی خلیفہ کے منہ سے نکلے وہ عمل کئے بغیر نہیں چھوڑنا پھر آپ فرماتے ہیں: روزنامه الفضل قادیان 2 مارچ 1946 ء) تم سب امام کے اشارے پر چلو اور اس کی ہدایات سے ذرہ بھر بھی اِدھر اُدھر نہ ہو.جب وہ حکم دے بڑھو اور جب وہ حکم دے ٹھہر جاؤ اور جدھر بڑھنے کا وہ حکم دے اُدھر بڑھو اور جدھر سے ہٹنے کا وہ حکم دے ادھر سے ہٹ جاؤ“ (انوار العلوم جلد ۱۴، صفحه ۵۱۵-۵۱۶) پھر آپ نے ایک اور موقع پر فرمایا: وو خلافت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اس وقت سب سکیموں ،سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف
92 سے حکم ملا ہے.جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو اس وقت تک سب خطبات رائیگاں، تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں ناکام ہیں.خطبه جمعه ۲۴ جنوری ۱۹۳۶ء مندرجہ روز نامه الفضل قادیان ۳۱ جنوری ۱۹۳۶ء) ہر احمدی کو اس بارہ میں ہمیشہ اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے.نہایت ادب کے ساتھ بطور یاد دہانی میں چند امور احباب کے سامنے رکھتا ہوں.حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبات جمعہ اور خطابات میں قیام نماز، دعاؤں اور عبادتوں کے معیار کو بلند سے بلند تر کرنے اور متعددتربیتی امور کی طرف بار بار توجہ دلائی ہے.یہ سب باتیں ہماری روحانی بقاء اور ترقی کے لئے اساسی حیثیت رکھتی ہیں.ہر بچے مخلص احمدی کا فرض ہے کہ دیکھے اور بچے دل سے اپنا محاسبہ کرے کہ کیا وہ دیانتداری سے ان میدانوں میں سرگرم عمل ہے یا نہیں.خلافت کی محبت کوئی رسمی بات نہیں.یہ جذ بہ سچا ہے تو اس کا ثبوت نظر آنا چاہئے اور ہدایات پر عمل کرتے ہوئے نیک تبدیلی پیدا کرنا ہی اس کا حقیقی ثبوت ہے.پھر حضور نے بار بار تبلیغ کی طرف توجہ دلائی ہے.ہر احمدی کی ذمہ داری ہے کہ وہ خلیفہ وقت کے مبارک لبوں سے نکلی ہوئی ہر آواز پر لبیک کہے اور عملاً وہ بات کر کے دکھا دے.آج تبلیغ کے بہت وسیع میدان احمدی داعیان الی اللہ کے منتظر ہیں کہ وہ اپنے
93 پیارے امام ایدہ اللہ تعالی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آگے آئیں اور ظلمتوں میں بھٹکتی ہوئی انسانیت کو اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر لے آئیں.آج اربوں دل ایسے ہیں جو صلى الله محمد مصطفے ﷺ کے نور سے نا آشنا ہیں.ان دلوں کو اسلام کے محبت بھرے پیغام سے جیتنا ہمارا کام ہے اور یہی وہ فرض ہے جس کی طرف حضور انور ہمیں بلا رہے ہیں.اسلام اور رسول پاک ﷺ کی ذات اقدس کے خلاف کئے جانے والے اعتراضات کے جوابات دینا بھی ایک عظیم ذمہ داری ہے جو ہر احمدی کو ہمیشہ یادر کھنی چاہئے.پھر ہمارے پیارے آقا نے مساجد کی تعمیر اور خدمت انسانیت کے بہت سے منصوبوں کے لئے مالی قربانیوں کی طرف بھی جماعت کو بلایا ہے.طاہر فاؤنڈیشن.سپین کی مسجد.مریم شادی فنڈ.طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ وغیرہ.ابھی کل ہی حضور انور نے برطانیہ میں جماعت احمدیہ کی نئی جلسہ گاہ کے بارہ میں خوشخبری سناتے ہوئے مالی قربانی کی تحریک فرمائی ہے.یہ سب نیکی کی راہیں ہیں جو مخیر احباب کی راہ دیکھ رہی ہیں.اس کتاب کی اشاعت کے وقت 1208 ایکٹر رقبہ پرمشتمل نئی جلسہ گاہ خریدی جا چکی ہے اور حضور انور - ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس نئی جلسہ گاہ کا نام ” حديقة المهدی‘عطافرمایا ہے.الحمد لله) تین سال بعد انشاء اللہ تعالیٰ خلافت احمدیہ کی صد سالہ جوبلی منائی جائے گی.اس حوالہ سے حضور انور نے ساری جماعت کو نفلی روزوں.نوافل اور دعاؤں کی ایک جامع تحریک فرمائی ہے.ہر فر د جماعت اس تحریک کا مخاطب ہے اور ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ اس روحانی پروگرام میں بھر پور حصہ لے.
94 نیکی کا ایک اور میدان جس کی طرف ہمارے پیارے آقا نے ہمیں بلایا ہے وہ نظام وصیت میں شمولیت ہے.ٹھیک ایک سال قبل ہم سب نے اس جلسہ سالانہ کے سٹیج سے ایک مقدس آواز سنی تھی.آج اس کو ۳۶۵ دن گزرچکے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے 16 ہزار سے زائد مخلصین نے آقا کی آواز پر والہانہ لبیک کہنے کی سعادت پائی لیکن بہت ایسے ہیں جو ابھی تک یہ سعادت حاصل نہیں کر سکے.میں ان سے عرض کرتا ہوں کہ اس تحریک کو معمولی خیال نہ کریں.یہ بچے اور مخلص احمدی میں فرق ظاہر کرنے والی تحریک ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں خدا کا یہ ارادہ ہے کہ اس انتظام سے منافق اور مومن میں تمیز کرے.پھر یہ بھی تو دیکھو کہ ہمارے آقا کے دل کی تمنا اور خواہش کیا ہے.آپ نے فرمایا تھا: ” میری یہ خواہش ہے اور میں یہ تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ اس آسمانی نظام میں، اپنی زندگیوں کو پاک کرنے کے لئے، اپنی نسلوں کی زندگیوں کو پاک کرنے کے لئے شامل ہوں“ اختتامی خطاب جلسه سالانه برطانیه فرموده یکم اگست ۲۰۰۴) اور یہ بھی یادرکھیں کہ آج سے ٹھیک دس روز قبل حضور انور نے ایک بار پھر اپنے ایک خصوصی پیغام میں اس کا تاکیدی ذکر فرمایا ہے.جو دوست ابھی تک اس نظام وصیت میں شامل نہیں ہو سکے وہ اس ارشاد کو خوب کان کھول کر سن لیں اور عمل کی سعادت یا گئیں.آپ نے فرمایا:
95 ” میرا تمام دنیا کے احمدیوں کے لیے یہ پیغام ہے کہ حضرت مسیح موعود کے ان ارشادات کی روشنی میں، آپ کی خواہشات کے تابع ، آگے بڑھیں اور مالی قربانی کے اس نظام میں شامل ہو جائیں.اپنی اصلاح کی خاطر اور اپنے انجام بالخیر کی خاطر اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے قدم آگے بڑھائیں اور اس کی جنتوں کے وارث بنیں“ ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل لندن ۲۹ جولائی ۲۰۰۵) اولادکو تلقین کے تعلق میں مومنین کی ایک اور ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ نہ صرف خود کی حفاظت اور اس کے استحکام کی خاطر خدمت کے ہر میدان میں کوشاں رہیں بلکہ اپنی اولاد میں بھی یہی روح اور جذبہ پیدا کریں.آج کے بچے اور نوجوان کل کو جماعت کے علمبردار اور نمائندہ بننے والے ہیں.ان کے دلوں میں کی محبت پیدا کر کے ان کو اس بابرکت نظام سے وابستہ کرنا والدین کی ایک عظیم ذمہ داری ہے.زندہ اور ترقی کرنے والی قوموں کی یہی نشانی ہے کہ ان کی آئندہ نسلیں ان مقاصد کو سر بلند رکھنے والی ہوں جن کے لئے ان کے آباء نے اپنے وقت میں اپنی جانیں نثار کیں.اسی اہمیت کے پیش نظر حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت سے ایک عہد لیا تھا جو آج بھی یادر کھنے کے لائق ہے.عہد کے الفاظ یہ تھے:
96 ہم کی حفاظت اور اس کے استحکام کے لئے آخر دم تک جدو جہد کرتے رہیں گے اور اپنی اولا د در اولا د کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تاکہ قیامت تک خلافت احمد یہ محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوتی رہے اور محمد رسول اللہ ﷺ کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے.اے خدا تو ہمیں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما اللهم آمين اللهم آمين اللهم آمين 66 روزنامه الفضل ربوه ، ۱۶ فروری ۱۹۶۰) حضرت خلیفقہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی اپنے ایک پیغام میں جماعت کو اس بارہ میں یاد دہانی کروائی.فرمایا: وو اسلام ، احمدیت کی مضبوطی اور اشاعت اور کے لئے آخر دم تک جد و جہد کرنی ہے اور اس کے لئے بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہنا ہے.اور اپنی اولا د کو ہمیشہ خلافت احمدیہ سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتے رہنا ہے.اور ان کے دلوں میں خلیفہ وقت سے محبت پیدا کرنی ہے.یہ اتنا بڑا اور عظیم
97 الشان نصب العین ہے کہ اس عہد پر پورا اترنا اور اس کے تقاضوں کو نبھانا ایک عزم اور دیوانگی چاہتا ہے“ عہدیداران کی ذمہ داری (ماہنامہ الناصر جرمنی جون تا ستمبر ۲۰۰۳ صفحه ۱) جماعتی عہد یداران کے کندھوں پر عام افراد جماعت کی نسبت بہت زیادہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے.خصوصیت سے عہدیداران کو مخاطب کرتے ہوئے حضور انور نے اپنے ایک تازہ ترین خطبہ جمعہ میں فرمایا : ” جو جماعتی نظام میں عہد یداران ہیں وہ صرف عہدے کے لئے عہدیدار نہیں ہیں بلکہ خدمت کے لئے مقرر کئے گئے ہیں.وہ نظامِ جماعت، جو نظامِ خلافت کا ایک حصہ ہے، کی ایک کڑی ہیں....اس لئے عہدیدار کو بڑی محنت سے، ایمانداری سے اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنے کام کو سرانجام دینا چاہئے.یہ جو خدمت کے مواقع دیئے گئے ہیں یہ حکم چلانے کے لئے نہیں دیئے گئے بلکہ خلیفہ وقت کی نمائندگی میں انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے لوگوں کی خدمت کرنے کے لئے ہیں ہفت روزہ الفضل انٹر نیشنل لندن ، ۱۵ جولائی ۲۰۰۵)
98 نظامِ جماعت کی اطاعت پھر اسی خطبہ جمعہ میں حضور انور نے احباب جماعت کو بھی خلافت سے وفا کے حوالہ سے اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا : وو یاد رکھیں....اگر یہ دعوی کیا ہے کہ آپ کو خدا تعالی کی خاطر خلافت سے محبت ہے تو پھر نظام جماعت جو نظامِ خلافت کا حصہ ہے اس کی بھی پوری اطاعت کریں" (ہفت روزہ الفضل انٹر نیشنل لندن، ۱۵ جولائی ۲۰۰۵) اس ارشاد سے یہ امر پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کہ خلافت سے محبت کا تقاضا، صرف خلیفہ وقت کی اطاعت ہی نہیں بلکہ کی طرف سے قائم کردہ نظام جماعت اور اس کے ایک ایک عہدیدار کی اطاعت کرنا اور اس سے تعاون کرنا بھی لازم ہے.اگر کوئی شخص جماعتی نظام کی اطاعت نہیں کرتا اور منہ سے خلافت سے محبت اور وفا کے دعوے کرتا ہے تو وہ اپنے دعوی میں ہر گز سچا نہیں.حضور انور کا مذکورہ بالا ارشاد ہر احمدی کو ہمیشہ یادرکھنا چاہئے.ایک اور ذمہ داری جماعت مومنین میں خلافت کا قیام اور ان سب کا ایک ہاتھ پر اکٹھا ہو جانا ایک عظیم انعام الہی ہے.اس انعام کی قدرو منزلت کا پورا احساس کرتے ہوئے اس
99 الْعُرْوَةُ الوثقیٰ کو مضبوطی سے تھامنا اور اس نظام کے ساتھ دل و جان سے چمٹ جانا فلاح دارین کی ضمانت ہے.یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگر کوئی وحدت کو توڑنے کی بات کرے تو اس کو سختی سے رد کرنا بھی مومنوں کی ذمہ داری ہے.ایک حدیث میں رسول پاک ﷺ نے فرمایا: من اتـاكم ، وأمركم جميع على رجل واحد ، يريد ان يشق عصاكم او يفرق جماعتكم ، فاقتلوه جب تم ایک ہاتھ پر جمع ہو اور تمہار ایک امیر ہو اور پھر کوئی شخص تمہاری وحدت کو توڑنا چاہے تا کہ تمہاری جماعت میں تفریق پیدا کرے تو اس سے قطع تعلق کر لو اور اس کی بات نہ مانو.(مسلم کتاب الامارة باب حكم من فرق امر المسلمين و هو مجتمع دلی وابستگی اور اطاعت خلافت کے تعلق میں مومنوں کی سب سے اہم اور بنیادی ذمہ داری نظامِ خلافت سے دلی وابستگی اور خلیفہ وقت کی غیر مشروط مکمل اطاعت ہے.جب یہ بات قطعی اور یقینی ہے کہ خلیفہ خدا بنا تا ہے اور جس کو خلیفہ بنایا جاتا ہے اور نیا میں خدا کا نمائندہ اور سب سے محبوب شخص ہوتا ہے تو پھر ان باتوں کا لازمی تقاضا ہے کہ ایسے بابرکت وجود سے دل و جان سے محبت کی جائے اور اپنے آپ کو کلیۂ اس کی راہ میں فدا کر دیا جائے.
100 یہ مضمون سورہ نور کی آیت استخلاف کے مطالعہ سے خوب روشن ہو جاتا ہے.خلافت کے مضمون سے پہلے اللہ تعالی نے رسول کی اطاعت کا حکم دیا اور خلافت کے ذکر کے معاً بعد پھر اطاعت رسول کا ذکر موجود ہے.یہ کوئی اتفاقی بات نہیں بلکہ اس میں یہ عظیم نکتی مخفی ہے کہ خلیفہ کی اطاعت دراصل رسول ہی کی اطاعت ہے.اور رسول کی اطاعت کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ اس کے خلیفہ کی اطاعت بھی اسی وفا اور جانفشانی سے کی جائے جس طرح رسول کی اطاعت کا حق ہے.خلیفہ وقت سے دلی وابستگی کی اہمیت اور فرضیت کے ذکر میں رسول مقبول ﷺ کی یہ تاکیدی حدیث بھی ہمیشہ مد نظر رہنی چاہئے.آپ نے فرمایا : فان رأيت يومئذ خليفة الله في الارض فالزمه و آن نهک جسمک و اخذ مالک.اگر تم دیکھ لو کہ اللہ کا خلیفہ زمین میں موجود ہے تو اس سے وابستہ ہو جاؤ اگر چہ تمہارا بدن تار تار کر دیا جائے اور تمہارا مال لوٹ لیا جائے.(مسند احمد بن حنبل حدیث 22333) اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ خلافت ہی درحقیقت دنیا میں سب سے بڑا اور قیمتی خزانہ ہے.جان اور مال سے بڑھ کر قیمتی دولت ہے.پس جب یہ دولت کسی جماعت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہو تو اس سے چمٹ جانا اور اور ہر حالت میں چمٹے رہنا ہی زندگی اور بقا کی ضمانت ہے.
101 سے وابستگی کی اہمیت کے بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا: جس کو خدا اپنی مرضی بتاتا ہے جس پر خدا اپنے الہام نازل فرماتا ہے جس کو خدا نے اس جماعت کا خلیفہ اور امام بنا دیا ہے اس سے مشورہ اور ہدایت حاصل کر کے تم کام کر سکتے ہو.اس سے جتنا زیادہ تعلق رکھو گے اسی قدر تمہارے کاموں میں برکت ہوگی اور اس سے جس قدر دور رہو گے اسی قدرتمہارے کاموں میں بے برکتی پیدا ہوگی.جس طرح وہی شاخ پھل لاسکتی ہے جو درخت کے ساتھ ہو.وہ کئی ہوئی شاخ پھل پیدا نہیں کر سکتی جو درخت سے جدا ہو.اسی طرح وہی شخص سلسلہ کا مفید کام کر سکتا ہے جو اپنے آپ کو امام سے وابستہ رکھتا ہے.اگر کوئی شخص امام کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ نہ رکھے تو خواہ وہ دنیا بھر کے علوم جانتا ہو وہ اتنا بھی کام نہیں کر سکے گا جتنا بکری کا بکر وٹہ کر سکتا ہے.“ روزنامه الفضل قادیان ۲۰ نومبر ۱۹۴۶ ء صفحه ۷) ہر احمدی کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ماننے والوں کو اپنے درخت وجود کی سرسبز شاخیں قرار دے کر دراصل ہمیں یہ نصیحت
102 فرمائی ہے کہ دیکھو میرے ساتھ اور میرے بعد میرے خلفاء کے ساتھ اگر تم نے تعلق پختہ رکھا اور اطاعت کا حق ادا کیا تو تب ہی تم سرسبز اور شاداب رہ سکو گے وگرنہ جو تعلق منقطع کرے گا وہ درخت کے زرد پتوں کا انجام دیکھ لے اور عبرت پکڑے.اختتامیه میرے بھائیو اور بہنو! میرے عزیز و اور بزرگو! آئیے ذرا دیکھیں کہ ہمارے اسلاف نے اطاعت و فدائیت کے کیسے اعلیٰ نمونے قائم فرمائے اور ساتھ کے ساتھ اپنا بھی جائزہ لیتے جائیں کہ وہ کس مقام پر تھے صلى الله اور ہم کس جگہ پر ہیں.آئیے ذرا دیکھیں کہ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی علی کے صحابہ کرام نے کس طرح پروانہ صفت شمع رسالت کا طواف کیا.اطاعت اور فدائیت میں وہ نمونے دکھائے کہ جیتے جی اللہ تعالیٰ سے یہ پروانہ ء خوشنودی حاصل کر لیا که رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوَاعَتُهُ خدا ان سے راضی اور وہ اپنے مولی سے خوش.انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی.آگے بھی اور پیچھے بھی اور دشمن اس وقت تک آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ہماری لاشوں کو روندتے ہوئے نہ آئے.تاریخ شاہد ہے کہ وفا کے پتلوں نے واقعی ایسا کر دکھایا.ایک صحابی اس جانفشانی سے لڑے کہ جسم کے سترٹکڑے ہو گئے اور انگلی کے ایک پورے کو دیکھ کر اس شہید کی بہن نے اپنے بھائی کو پہچانا.
103 ایک موقع پر رسول پاک ﷺ نے مسجد میں کھڑے صحابہ سے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ.کلی میں آتے ہوئے عبد اللہ بن رواحہ و ہیں بیٹھ گئے کہ یہ حکم رسول کان میں پڑ گیا ہے ایسا نہ ہو کہ اس کی تعمیل میں ایک لمحہ کی بھی تاخیر ہو جائے اور کون جانتا ہے کہ اگلے لمحے کیا ہو جائے.حرمت شراب سے قبل ایک جگہ شراب کا دورز وروں پر تھا کہ منادی کی آواز آئی کہ خدا کے رسول نے شراب کے حرام ہونے کا اعلان کیا ہے.جذبہ اطاعت ذہنوں میں اسقدر راسخ ہو چکا تھا کہ شراب کے نشہ کے باوجود ایک صحابی اٹھے اور لاٹھی سے شراب کا مٹکا چکنا چور کر دیا کہ بس حکم آگیا ہے اب تا خیر کیسی؟ پھر دیکھو کہ رسول ہاشمی ﷺ کے غلام کے غلاموں کا کیا حال تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جانثار صحابہ نے بھی اطاعت کا علم بڑے عاشقانہ انداز میں سر بلند رکھا.آواز سن کر بیٹھ جانے کا واقعہ یہاں بھی ہوا.مسیح پاک علیہ السلام نے مسجد میں کھڑے لوگوں سے فرمایا بیٹھ جاؤ اور میاں کریم بخش جو ابھی مسجد کے ساتھ والی گلی میں تھے آواز سنتے ہی وہیں بیٹھ گئے.کسی نے وجہ پوچھی تو یہی کہا کہ جب مسیح کا فرمان کان میں پڑ گیا تو پھر میرا کام یہی تھا کہ اُسی وقت اطاعت کرتا.اطاعت کے میدان میں حضرت مولانا نور الدین کا کوئی ثانی نہ تھا.آقا نے دہلی سے پیغام بھجوایا کہ فوراً آجائیں، پروانہ مہدی اسی لمحہ کام چھوڑ کر روانہ ہو گیا.جوتی بھی چلتے چلتے درست کی.خالی ہاتھ نکل پڑے کہ فوراً کا مطلب ہے فوراً اور سیدھے دہلی پہنچ کر حضور کے قدموں میں حاضر ہو گئے.بھیرہ سے قادیان آئے اور جب مسیح پاک
104 علیہ السلام نے فرمایا کہ اب آپ بھیرے کا خیال بھی دل سے نکال دیں تو وفا اور اطاعت کے پتلے نے پھر عمر بھر وطن کا سوچا بھی نہیں.اطاعت ہو تو ایسی.یہی وہ خوش نصیب وجود ہے جس کے بارہ میں مسیح پاک علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ نورالدین تو میری اس طرح اطاعت کرتا ہے جس طرح نبض دل کی حرکت کی پیروی کرتی ہے.حضرت حافظ روشن علی صاحب کی مثال بھی کیا عجیب مثال ہے.ابتدائی زمانہ میں اس درویش بزرگ کے پاس کپڑوں کا صرف ایک جوڑا ہوا کرتا تھا.جمعرات کی رات کو دھو لیتے اور جمعہ کی صبح پہن لیتے.ایک بار ایسے ہوا کہ سردیوں کی شدید سر درات میں کپڑے دھو کر لٹکائے ہوئے تھے کہ مسیح پاک علیہ السلام کی طرف سے پیغام آیا کہ کسی مقدمہ کی پیروی کے لئے گورداسپور جانا ہے ساتھ جانے کے لئے ابھی آجائیں.فدائی روشن علی اٹھا ، وہی گیلے کپڑے پہن لئے اور سردی سے بچاؤ کے لئے لحاف لپیٹ کر ساتھ ہولیا ! حضرات ! اطاعت کی اس جیسی ایمان افروز مثالوں سے اسلام واحمدیت کے ہر دو ادوار اس طرح بھرے پڑے ہیں جس طرح سمندر پانی سے بھرا ہوتا ہے لیکن یاد رہے کہ یہ باتیں صرف سننے سنانے کے لئے نہیں بلکہ یہ وہ معیار ہیں جو ہمیں دعوت عمل دیتے ہیں کہ ہم بھی ان سب دعوؤں کو سچ کر دکھائیں جو ہم ہر بار تجدید بیعت کے وقت کرتے ہیں.ہم میں سے ہر ایک، ہر بار یہ کہتا ہے اور سینکڑوں بار کہتا آیا ہے کہ اے میرے آقا! میں آپ کے ہر حکم پر، آپ کے ہر اشارہ پر، آپ کی ہر خواہش پر سوجان
105 سے قربان.آپ مجھے جو بھی ارشاد فرمائیں گے، جو بھی معروف فیصلہ فرمائیں گے اس کی پابندی کرنا ضروری سمجھوں گا.دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا اور اپنے عہد بیعت کی ایک ایک بات کو عمل کی دنیا میں سچ کر دکھاؤں گا.پس اے احمدیت کے جانثارو! اسے خلافتِ احمدیہ کے پروانو ! آج وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے سارے عبد و پیمان واقعی سچ کر دکھا ئیں.ہمارے اسلاف نے جو نمونے دکھائے ان کو پھر تازہ کریں کہ ہم بھی تو اطاعت اور وفا کے دعووں میں اُن سے پیچھے نہیں.دیکھو ہمارا محبوب آقا مسیح محمدی کا خلیفہ، اس دور میں اسلام کا سالا را عظم ، جس کے دستِ مبارک پر ہم نے سب کچھ قربان کرنے کا عہد کیا ہوا ہے وہ کتنے درد سے اور کتنے پیار سے ہمیں دعوت عمل دے رہا ہے.آؤ! خلافت سے وفا کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ آؤ! اور آج اس مجلس سے یہ سچا عہد کر کے اٹھو کہ ہم خلافتِ احمدیہ کی حفاظت اور استحکام کے لئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں گے، خلیفہ وقت کے دست و بازو اور ادنی چاکر بن کر ہمیشہ اس کی ہر آواز پر سچے دل سے لبیک کہیں گے.ہمیشہ گوش بر آواز آقا بنے رہیں گے.اور اے ہمارے محبوب آقا! تو نیکی کی جس راہ کی طرف بھی ہمیں بلائے گا ہم دیوانہ وار تیرے اشاروں پر اپنی جان، مال، وقت اور عزت، ہر چیز قربان کر دیں گے.ہماری زندگی اور ہماری موت تیرے قدموں میں ہوگی اور ہم میں سے ایک ایک فرد خدا کو گواہ بنا
106 کر آج اس عہد کو پھر سے تازہ کرتا ہے کہ ہم تیرے مبارک الفاظ کو اپنے سینوں میں جگہ دیں گے.اُن کو عمل کے سانچوں میں ڈھالیں اور تیری ہر ہدایت پر اس طرح والہانہ لبیک کہیں گے کہ اطاعت کے پیکر فرشتے بھی اس کو رشک کی نگاہ سے دیکھیں.اے خدا! تو ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے اس وعدہ کو پورا کر سکیں اور زندگی کے آخری سانس تک وفا کے ساتھ اس عہد کو نبھاتے چلے جائیں.آمین وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
107 خلافت سے زندہ دلوں میں خدا ہمارا خلافت ایمان ہے یہ ملت کی تنظیم کی جان ہے اسی سے ہر اک مشکل آسان ہے گریزاں ہے اس سے جو نادان ہے رہیں گے خلافت سے وابستہ ہم جماعت کا قائم ہے اس سے بھرم نہ ہوگا کبھی اپنا اخلاص کم بڑھے گا اسی سے ہمارا قدم خلافت سے زیر نگیں ہو جہاں خلافت سے ملت ہمیشہ جواں
108 خلافت کا جب تک تک رہے گا قیام نہ کمزور ہو گا ہمارا نظام خلافت کا جس کو نہیں احترام زمانے میں ہو گا نہ وہ شاد کام تمنائیں اس سے ہیں اپنی جواں ہے آسان اس سے ہر اک امتحاں خلافت سے زندہ دلوں میں خدا خلافت غریبوں کا ہے آسرا نہ کیوں جان و دل سے ہوں اس پر فدا اسی کے ہے دم سے ہماری بقا میر اللہ بخش تسنیم
109 خلافت کا فیضان خدا کا یہ احسان ہے ہم پہ بھاری کہ جس نے ہے اپنی یہ نعمت اتاری نہ مایوس ہونا گھٹن ہو نہ طاری رہے گا خلافت کا فیضان جاری نبوت کے ہاتھوں جو پودا لگا ہے خلافت کے سائے میں پھولا پھلا ہے یہ کرتی ہے اس باغ کی آبیاری رہے گا خلافت کا فیضان جاری خلافت سے کوئی بھی ٹکر جو لے گا وہ ذلت کی گہرائی میں جا گرے گا خدا کی یہ سنت ازل سے سے ہے جاری
110 رہے گا خلافت کا فیضان جاری خدا کا ہے وعدہ خلافت رہے گی یہ نعمت تمہیں تا قیامت ملے گی مگر شرط اس رط اس کی اطاعت گزاری رہے گا خلافت کا فیضان جاری محبت کے جذبے، وفا کا قرینہ اخوت کی نعمت، ترقی کا زینہ خلافت سے ہی برکتیں ہیں یہ ساری رہے گا خلافت کا فیضان جاری الہی ہمیں تو فراست عطا کر خلافت سے گہری محبت عطا کر ہمیں دکھ نہ دے کوئی لغزش ہماری رہے گا خلافت کا فیضان جاری صاحبزادی امۃ القدوس
" واعتصموا بحبل الله جميعاً ” یا درکھیں وہ سچے وعدوں والا خدا ہے.وہ آج بھی اپنے پیارے مسیح کی اس پیاری جماعت پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے.وہ ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا اور کبھی نہیں چھوڑے گا اور کبھی نہیں چھوڑے گا.وہ آج بھی اپنے میسیج سے کئے ہوئے وعدوں کو اسی طرح پورا کر رہا ہے جس طرح وہ پہلی خلافتوں میں کرتا رہا ہے.وہ آج بھی اسی طرح اپنی رحمتوں اور فضلوں سے نواز رہا ہے ، جس طرح پہلے وہ نوازتا رہا ہے.اور انشاء اللہ نوازتا رہے گا......پس دعائیں کرتے ہوئے اور اس کی طرف جھکتے ہوئے اور اس کا فضل مانگتے ہوئے ہمیشہ اس کے آستانہ پر پڑے رہیں اور اس مضبوط کڑے کو ہاتھ ڈالے رکھیں تو پھر کوئی بھی آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین وو خطب جمعه حضرت خلیفتہ امسح الامس ایده الله تعالی بنصر واهر بز فرموده ۱ ۲ مئی ۲۰۰۲، بحواله الفضل فرنیشنل ماندن ، ۲ جون ۲۰۰۲)