Natual Disasters Urdu

Natual Disasters Urdu

حوادث طبعی یا عذاب الٰہی

Author: Hazrat Mirza Tahir Ahmad

Language: UR

UR

حضرت مرزا طاہر احمد، خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے منصب خلافت پر متمکن ہونے سے قبل یہ  مضمون سپرد قرطاس کیا تھا جسے جماعت کے موقر علمی رسالہ الفرقان نے چار اقساط میں شائع کیا تھا۔ اس مضمون میں حضور ؒ نے بڑی تفصیل کے ساتھ اس امر پر روشنی ڈالی ہے کہ دنیا میں جو حوادث اور عذاب ظاہر ہوتے ہیں ان کا تعلق خدا کے فرستادوں کے انکار اور خدا کی ناراضگی سے ہے یا نہیں۔ مزید برآں اس مضمون میں حضور ؒ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ظاہر ہونے والے ایک مرض طاعون کا تفصیلاً ذکر فرما کر لکھا کہ طاعون کا نشان دوبارہ بھی ظاہر ہوسکتا ہے۔


Book Content

Page 1

حوادث طبعی یا عذاب الہی از حضرت مرزا طاہر احمد خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی

Page 2

ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD حوادث طبعی یا عذاب الہی از حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ Hawaadis-e-Tab'ee Yaa Azaab-e-Ilaahi (Urdu) (Natural Disasters or Divine Punishment) by Hazrat Mirza Tahir Ahmad First published in 1994 in Rabwah, Pakistan Present edition with new typesetting published in the UK in 2021 O Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey UK, GU9 9PS Printed in the UK at: Raqeem Press, Farnham, Surrey For further information, please visit www.alislam.org ISBN: 978-1-84880-250-6 10897654321

Page 3

پیش لفظ اللہ تعالیٰ ہر زمانہ میں اپنی قدرت کی جلوہ نمائی مختلف رنگوں میں دکھاتا ہے تا مخلوق خدا ان نشانات سے سبق حاصل کرے.ایسے نشانات جہاں مومنین کے از یاد ایمان کا موجب ہوتے ہیں وہاں غیروں کے لئے اندار کا پہلو اپنے اندر رکھتے ہیں تاوہ خدا اور اس کے مامور کو پہچانیں.حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے منصب خلافت پر ہونے سے قبل حوادث طبعی یا عذاب الہی کے عنوان سے مضمون تحریر فرمایا تھا جو رسالہ الفرقان متمكن میں بالا قساط طبع ہوا اور بعد ازاں ۱۹۹۴ء میں اس کی کتابی صورت میں طباعت بھی کی گئی.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس مضمون میں یہ امر کھول کر ثابت فرمایا ہے کہ ہر حادثہ عذاب الہی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا.آپ نے قرآن و حدیث اور تاریخ انبیاء کے حوالہ سے ثابت کیا ہے کہ حوادث طبعی کو کن حالات و واقعات کے تحت عذاب الہی قرار دیا جا سکتا ہے.اسی طرح اس مضمون میں قرآن کریم کی روشنی میں عذاب الہی کی اقسام اور ایسے عذاب الہی کو عام حوادث سے ممتاز کرنے والی سات امتیازی علامات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے.نیز طاعون کی وباجو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کا ایک بین نشان ہے اس پر بھی تفصیلاً روشنی ڈالی گئی ہے.وقتاً فوقتاً جو وبائیں پھیلتی ہیں ، خواہ وہ طاعون کی صورت میں ہوں یا ہیضہ کی صورت میں ہوں یا کورونا وائرس کی صورت میں ہوں یا جو طوفان وغیرہ ظاہر ہوتے رہتے ہیں، انہیں اس مضمون کی روشنی میں پر کھا جاسکتا ہے کہ وہ عذاب الہی ہیں یا حوادث طبعی.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو ہمیشہ اپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر عذاب سے محفوظ رکھے.آمین منیر الدین شمس ایڈیشنل وکیل التصنيف اپریل ۲۰۲۱ء

Page 4

Page 5

تعارف (از طبع اول) امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا طاہر احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے منصب خلافت پر متمکن ہونے سے قریباً 4 سال قبل ایک مضمون سپرد قلم فرمایا جس کا عنوان تھا ”حوادث طبعی یا عذاب الہی“.مضمون رساله الفرقان اکتوبر ۱۹۷۶ء نومبر، دسمبر ۱۹۷۶ء اپریل ۱۹۷۷ء اور مئی ۱۹۷۷ء میں بالترتیب چار اقساط میں شائع ہوا.اس مضمون میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بڑی تفصیل کے ساتھ اس امر پر روشنی ڈالی ہے کہ دنیا میں جو حوادث اور عذاب ظاہر ہوتے ہیں ان کا تعلق خدا تعالیٰ کے فرستادوں کے انکار اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے ہے یا نہیں.علاوہ ازیں حضور نے اس مضمون میں حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں ظاہر ہونے والے ایک مرض طاعون کا تفصیلاً ذکر فرمایا جس کے ظاہر ہونے کے بارہ میں حضرت مسیح موعود کو قبل از وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے خبر دی گئی تھی اور جسے حضرت مسیح موعود نے اپنی سچائی کے لئے بطور نشان پیش فرمایا.اس مضمون کے آخر میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ بھی تجویز فرمایا کہ طاعون کا نشان آئندہ بھی ظاہر ہو سکتا ہے.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں: بعید نہیں کہ آئندہ چند سال میں یہ (طاعون.ناقل) ظاہر ہو جائے اور ۲۰۰۰ء تک ایک ہولناک عالمگیر و با کی شکل اختیار کر جائے.اگر ایسا ہو تو جماعت کے لئے اس میں تنبیہ بھی ہے اور بشارت بھی.تنبیہ یہ ہے کہ صرف احمدیت کا عنوان طاعون سے بچانے کیلئے کافی نہ ہو گا بلکہ تقویٰ کی شرط بھی ساتھ لگی ہوئی ہے.“

Page 6

چونکہ آج کل ہندوستان میں طاعون کے ظاہر ہونے کی خبریں کثرت کے ساتھ سنی جارہی ہیں اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مضمون کو افادہ عام کے لئے کتابی شکل میں شائع کر دیا جائے.خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس مضمون کو پڑھنے اور سمجھنے کی توفیق بخشے اور اس کے نتیجہ میں ہم اپنی زندگیوں میں پاک تبدیلی پیدا کرنے والے ہوں.آمین

Page 7

حوادث زمانہ یا عذاب الہی سوال بڑی دیر سے سینکڑوں بلکہ ہزاروں سال سے انسانی ذہن کو الجھائے ہوئے ہے کہ حادثات طبعی کا کوئی تعلق اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے ہے یا نہیں؟ اس سلسلہ میں دو نظریات ایک دوسرے کے مقابل پر کھڑے نظر آتے ہیں.ایک نظریہ اس امر پر مشتمل ہے کہ دنیا میں جتنے بھی حادثات واقع ہوتے ہیں یا آفات رونما ہوتی ہیں.یہ سب قوانین طبعی کے ماتحت خود بخود ظاہر ہوتے چلے جاتے ہیں اور انسان کے اعمال، اس کی نیکی بدی یارسولوں کے انکار سے ان کا کوئی تعلق نہیں.دوسری طرف قدیم سے تمام قطعہ ارض پر بسنے والے اہل مذاہب کسی نہ کسی رنگ میں یہ مانتے چلے آئے ہیں کہ عذاب اور آفات جب بھی غیر معمولی نوعیت اختیار کر جائیں تو قوانین طبعی کے دائرہ سے نکل کر قوانین غیر طبعی کے حلقہ میں داخل ہو جاتے ہیں.اگر چہ ان سب مذاہب میں خدائے واحد و یگانہ کا وہ تصور تو نہیں ملتا جو اسلام نے پیش کیا ہے لیکن اپنے اپنے رنگ میں اس بات پر سب کا اتفاق نظر آتا ہے کہ یہ عذاب اور آفات کسی باشعور ہستی کے فیصلہ کے نتیجہ میں رونما ہوتے ہیں.خواہ اس کا نام سورج دیو تابیان کیا جائے یا بادلوں کا خدا یا پہاڑوں کی روح یا سمندروں کی دیوی، وہ تمام مذاہب بھی جو خدا تعالیٰ کی مختلف صفات میں بعض خیالی خداؤں کو شریک ٹھہراتے ہیں.غیر معمولی آفات سماوی و ارضی کو غیر طبعی قرار دیتے چلے آئے ہیں.وہ مذاہب جن میں توحید باری تعالیٰ کا عقیدہ آج تک محفوظ چلا آرہا ہے ان میں بھی اگر چہ نظریہ توحید کی تفاصیل میں کچھ نہ کچھ فرق ملتا ہے لیکن اس بات پر وہ بھی متفق ہیں کہ آفات سماوی یا حادثات طبعی ایک واحد خدا کی ناراضگی کا مظہر ہوتے ہیں.ان مذاہب میں سر فہرست اسلام ہے اس کے بعد یہودیت اور پھر عیسائیت جو بیک وقت توحید کی بھی دعویدار ہے اور تثلیث کی بھی.یہ ایک دلچسپ معمہ ہے اور آج کی دنیا میں جبکہ انسان طبیعات کے بہت سے گہرے اسرار 1

Page 8

حوادث طبعی یا عذاب الہی کا واقف ہو چکا ہے ان تمام مصائب یا حوادث کے تہ بہ تہ عوامل اور محرکات کی گہری تحقیق کر کے بہت سے سربستہ رازوں پر سے پردہ اٹھا چکا ہے، یہ سوال مادہ پرست انسان کے لیے بھی اور اہل مذاہب کے لیے بھی دوہری اہمیت اختیار کر چکا ہے.اہل مذاہب کے بارہ میں یہ کہنا یقینا درست ہو گا کہ آج یہ سوال پہلے سے کئی گنا بڑھ کر اہم اور قابل توجہ بن چکا ہے کیونکہ پہلے دنیا جس خیال کو ظاہری مشاہدات کی بناء پر مانتے چلے آرہے تھے.آج ان کے ہاتھ میں صرف ظاہری مشاہدہ کا ہتھیار ہی نہیں بلکہ عالم طبعی کی تہہ بہ تہہ جستجو کے نتیجہ میں جو حقائق وہ دریافت کر چکے ہیں وہ سب اس طرف اشارہ کرتے نظر آتے ہیں کہ تمام امور قوانین طبعی کا طبعی نتیجہ میں اور کسی مافوق البشر ہستی کی دخل اندازی سے ان کا کوئی تعلق نظر نہیں آتا.اہل مذاہب اس کے بر عکس ابھی تک اسی مقام پر کھڑے نظر آتے ہیں جس پر وہ پہلے تھے اور کوئی ایسی نئی تحقیق مذاہب کے ماننے والوں کی طرف سے پیش نہیں کی گئی جو اس موقف کی مزید تائید یا تصدیق کر سکے.کہ حوادث زمانہ کا کوئی تعلق کسی مافوق البشر ہستی سے ہے.جماعت احمدیہ چونکہ از سر نو بڑے زور دار اصرار کے ساتھ اس نظریہ کو دنیا کے سامنے پیش کر رہی ہے کہ حوادث اور مصائب کی صورت میں جو مظاہر طبعی ہمیں نظر آتے ہیں ان کا تعلق یقیناً اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے ساتھ بھی ہے.اس لیے خصوصیت کے ساتھ جماعت احمدیہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ جماعت سے وابستہ محققین اور مبصرین اس مسئلہ کے ہر پہلو کی چھان بین کر کے صرف اس امر کی وضاحت کریں کہ جماعت احمدیہ کے اس نظریہ کا حقیقی مفہوم کیا ہے بلکہ اس نظریہ کی تائید اور تصدیق میں ایسے دلائل بھی پیش کریں جو نئے علوم کی روشنی میں بنائی ہوئی عقل کو مطمئن کر سکیں.آج دنیا کا جو انسان ہمارا مخاطب ہے وہ ہزار دو ہزار یا پانچ ہزار سال کے انسان کی نسبت مادی علم کے میدان میں اتنا آگے نکل چکا ہے کہ محض دعاوی کی تکرار سے اور کسی نظریہ کو بلند آواز سے بیان کرنے کے نتیجہ میں ہر گز تسلی نہیں پاسکتا.پس مذہب اور لادینیت کی جنگ میں ایک یہ بھی میدان ہے جو ابھی سر کرنے والا ہے.اس وقت تک تو اس معرکہ کا جو نتیجہ ظاہر ہوا ہے وہ مذاہب کی شکست اور لامذہبیت کی فتح دکھائی دیتا ہے.یہ فتح اس حد تک نمایاں نظر 2

Page 9

حوادث طبیعی یا عذاب الہی آتی ہے کہ اہل اسلام کا بھی ایک بڑا طبقہ مادی نظریہ طبیعات سے متاثر ہو کر مافوق البشر مداخلت کے عقیدہ سے منحرف ہو چکا ہے.اگرچہ غیر معمولی مصائب کے وقت عامۃ الناس کبھی کبھی تو یہ زبان سے پکار اٹھتے ہیں کہ یہ تو عذاب ہے اور چند دن کے لیے جب تک مصیبت ان کو گھیرے رکھے.اذانیں دے کر یا استغفار کر کے یاد عائیں مانگ کر اللہ تعالیٰ کی جانب رجوع بھی کرتے ہیں لیکن عملاً ان مظاہر قدرت کو عذاب قرار دینے کے باوجود ان کی زندگی میں کوئی بنیادی فرق نہیں پڑتا.اور اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ ایک عارضی اور فانی خیال کی طرح دل و دماغ سے ایک مسافر کی طرح گزر جاتی ہے.مزید برآں عمومی رنگ میں حوادث کو عذاب الہی قرار دینے کے باوجود وہ قرآن کریم کے اس دعویٰ کی طرف پھر بھی توجہ نہیں کرتے کہ ان عذابوں کا تعلق محض بد اعمالیوں سے ہی نہیں بلکہ رسولوں کے انکار سے بھی ہے.بلکہ اس حد تک ہے کہ بد اعمالیوں کی سزا کے نتیجہ میں بھی یہ عذاب اس وقت تک ظاہر نہیں ہوتے جب تک اللہ تعالیٰ کوئی تنبیہ کرنے والا پیغمبر ان میں نہ بھیج دے اور بروقت متنبہ کر کے دنیا کو نیکیوں کی طرف بلانے کی کوشش نہ کرے.جماعت احمد یہ جو اس نظریہ کی بھی بڑے وثوق سے قائل ہے روز مرہ اس سلسلہ میں تلخ تجربات کا سامنا کرتی رہتی ہے اور آئے دن احمدیوں کو ایسے دوستوں سے تبادلہ خیالات کا موقعہ ملتا رہتا ہے جو غیر معمولی آفات کو عذاب الہی ماننے پر تیار ہو جاتے ہیں لیکن اس بات کو تسلیم کرنے پر ہر گز آمادہ نہیں ہوتے کہ ان عذابوں کے ظہور سے قبل اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کی اصلاح اور تنبیہ کے لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی نبی بنا کر بھیجا ہے.یہی نہیں بلکہ احمدیوں کو اس سلسلہ میں بعض اوقات سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان پر یہ طعن کیا جاتا ہے کہ ہر مصیبت جو دنیا پر نازل ہوتی ہے تم اسے مرزا غلام احمد کی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کر دیتے ہو.یہ کیا تمسخر ہے ؟ چلی میں زلزلہ آئے یا چین کی سر زمین لرزش کھارہی ہو.ترکی، اٹلی یا ایران کی عمارتیں تہہ وبالا ہو ر ہی ہوں یا ہزارہ اور مردان کی سرزمین قیامت کا نمونہ دیکھے بارشیں آئیں، خشک سالی ہو، آندھیاں چلیں یا ہوائیں بند ہو جائیں غرضیکہ حوادث قدرت کوئی بھی کروٹ لیں تم لوگ بلا سوچے سمجھے ہر طبعی واقعہ کو مرزا صاحب کی سچائی کی دلیل کے طور پر پیش کرنے لگ جاتے ہو.ذرا 3

Page 10

حوادث طبیعی یا عذاب الہی سوچو کہ یہ کیسا غیر معقول اور مضحکہ خیز طریق ہے.جس سے آج کی دنیا میں کوئی بھی متاثر ہونے کے لیے تیار نہیں.یہ باتیں سن کر بعض احمدی تو اظہار حسرت کے سوا اور کوئی قدرت نہیں رکھتے ، بعض خود اس معاملہ میں متفکر اور متردد ہو جاتے ہیں کہ کہیں واقعہ یہ محض ہمارا خیال ہی تو نہیں.جب سے دنیا بنی ہے آفات اور مصائب سے اہل دنیا کا واسطہ پڑتا ہی چلا آرہا ہے پھر ہم کیسے ان طبعی واقعات کو صداقت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طور پر پیش کر سکتے ہیں.لیکن افسوس کہ سوچ کا سلسلہ کسی منزل پر رک نہیں سکتا بلکہ اس خیال کے آتے ہی معا تصور کی دوسری چھلانگ اس جانب لپکتی ہے کہ قرآن کریم میں کیوں حوادث طبعی کو بڑے اصرار اور تکرار کے ساتھ انبیاء کی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور کیوں قرآن بکثرت اس مضمون سے بھرا پڑا ہے کہ خدا کے کسی مرسل کے انکار کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک کے بعد دوسری قوم کو ہلاک کیا اور صرف وہی باقی رکھے گئے جو ایمان لانے والے تھے ؟ پھر کیوں قرآن کریم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں بھی بار بار یہی دلیل پیش کرتا ہے کہ اور انسانوں کو تنبیہ کرتا ہے کہ اگر رسولوں کے سردار کا انکار کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے جو سلوک کمتر درجہ کے انبیاء کے منکرین کے ساتھ کیا تھا وہی سلوک بلکہ اس سے بڑھ کر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے منکرین سے بھی کیا جائے گا.اور خدا کا یہی سلوک اس بات کی گواہی دے گا کہ یہ رسول اپنے تمام دعاوی میں سچا تھا.پس اس منزل پر تصور کی چھلانگ مسئلہ کو احمدیت کے دائرہ سے نکال کر وسیع تر اور بلند تر اصولی سوال تک پہنچا دیتی ہے.کہ فی ذاتہ اس دعویٰ کی حقیقت کیا ہے؟ کیا کسی بھی مذہب کے لیے اصولاً یہ جائز ہے کہ حوادث زمانہ کو عذاب الہی قرار دے یا خد اتعالیٰ کے کسی مرسل کے انکار کا نتیجہ بیان کرے؟ اس تمہیدی بیان کے بعد جس سے مسئلہ کی اہمیت خوب اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے.میں کوشش کروں گا کہ جس حد تک ممکن ہو اس کے مختلف پہلوؤں پر کچھ نہ کچھ روشنی ڈالوں اور اپنے دوسرے بھائیوں کو اس بارہ میں مزید فکر و تدبر کی دعوت دوں.4

Page 11

حوادث طبعی یا عذاب الہی احمدیت کا نظریہ احمدی اپنے نظریہ کی بنیاد کلیۂ قرآن کریم پر رکھتے ہیں اور نظریہ کے ہر پہلو کا استنباط بھی قرآن کریم سے ہی کرتے ہیں.اس لیے جب میں احمدی نظریہ کہتا ہوں تو مراد یہ ہے وہ نظر یہ جو جماعت احمدیہ کے نزدیک فی الحقیقت اسلامی نظریہ ہے.خواہ اسلام کے دوسرے فرقے اس سے اتفاق کریں یا نہ کریں.بہر حال احمدی نظریہ کے حسب ذیل پہلو خاص طور پر ذہن نشین ہونے چانہیں ورنہ مادہ پرستوں کے ساتھ تبادلہ خیالات میں کئی پہلوؤں سے معاملہ الجھ سکتا ہے اور ایک احمدی کے لیے مشکلات پیش آسکتی ہیں.(۱) احمدی ہر گز اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ دنیا میں رونما ہونے والے حوادث، مصائب اور زلازل کی طبعی وجوہات موجود ہیں اور یہ تمام امور قانون طبعی کے تابع رو نما ہوتے ہیں.احمدیوں کے نزدیک مذہب کا خدا بھی وہی خدا ہے جو مادی عالم کا خدا ہے اور جن کو ہم قوانین طبعی قرار دیتے ہیں وہ قوانین طبعی بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے نتیجہ میں اور اس کے مقرر کردہ ضابطوں کے ماتحت کام کر رہے ہیں.اگر چہ انسان نے تحقیق و جستجو کے بعد اور اس سلسلہ میں بہت کچھ دریافت کیا ہے لیکن قوانین طبعی کی جستجو کرنے والے مفکرین اور محققین بلا استثناء اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ جستجو کا یہ سلسلہ لامتناہی ہے اور اسباب کی کڑیوں میں سے جس قدر بھی ہم دریافت کرتے چلے جائیں کسی کڑی کو بھی پہلی کڑی قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ ہر سبب بذات خود ایک مسبب کا متقاضی ہے جس کا آگے کوئی سبب ہونا چاہئے.جب اس سبب کو تلاش کیا جائے تو اس کا آگے کوئی سبب ڈھونڈنا پڑتا ہے جب اس کو تلاش کر لیا جائے تو اگلے سبب کی طرف راہنمائی کرتا ہوا ایک دروازہ دکھائی دیتا ہے کہ اس کو بھی کھولو اور اس سے اگلے سبب کو تلاش کرو.غرضیکہ اسباب کا یہ سلسلہ جہاں تک انسانی عقل کی دسترس کا تعلق ہے لامتناہی ہے.پھر کون جانے کہ اصل سبب کون تھایا کیا ہے اور کہاں پہنچ کر یہ سلسلہ ختم ہو گا؟ قرآن کریم پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز کا سبب اول بھی اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہے اور آخری نتیجہ بھی اسی کی ذات 5

Page 12

حوادث طبیعی یا عذاب الہی کی طرف لے جانے والا ہے وہ اول بھی ہے اور آخر بھی.ہر چیز کا سر چشمہ بھی وہی ہے اور ہر چیز کا مرجع بھی وہی.ہم مسلمان جو روز مرہ گفتگو میں اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ کا ورد کرتے ہیں در حقیقت اس میں اسی بنیادی نظریہ کا اقرار اور اعادہ کیا جاتا ہے.پس جماعت احمد یہ قوانین طبعی کو قوانین مذہب سے علیحدہ کوئی خود مختار متوازی نظام تصور نہیں کرتی اس لیے یہ تسلیم کر لینے کے باوجود که بلا شبه تمام مادی تغیرات قوانین طبعی کے نتیجہ میں رونما ہوتے ہیں.یہ بھی تسلیم کرتی ہے اور ان دونوں اعتقادات میں کوئی تضاد نہیں پاتی کہ تمام قوانین طبعی اللہ تعالیٰ کی قدرت اور مقرر کردہ قوانین کے تابع کام کرتے ہیں اور وہ تمام قوت جو طبعی تبدل و تغیر کے وقت استعمال ہوتی یا خارج ہوتی ہے اس کا سر چشمہ بھی اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہے.(۲) جماعت احمد یہ یہ اعتقاد رکھنے کے باوجود کہ غیر معمولی حوادث اور مصائب اللہ تعالیٰ کی خاص مشیت سے تعلق رکھتے ہیں ہر گز یہ عقیدہ نہیں رکھتی کہ ہر قدرتی حادثہ اور ہر تغیر اور ہر تبدیلی عذاب الہی کی آئینہ دار ہوا کرتی ہے.عموماً ایک دنیا دار مادہ پرست مذہبی نظریہ کو صحیح رنگ میں نہ سمجھنے کے نتیجہ میں معترض بن جاتا ہے اور کسی حد تک اس کے اعتراضات درست بھی ہوتے ہیں اگر انسان اپنی طرف سے کوئی نظریہ بنا کر مذہب کے سر تھوپ دے تو لازماً اس میں تضادات اور نقائص پائے جائیں گے.نتیجہ غیر مذہبی طاقتوں کو موقعہ میسر آجائے گا کہ اس نظریہ کی خامیاں ظاہر کر کے یہ ثابت کریں کہ جس مذہب نے یہ غلط نظریہ پیش کیا ہے وہ مذہب ہی جھوٹا اور نا قابل اعتماد ہے اور انسانی عقل اس کی راہنمائی کو قبول نہیں کر سکتی.یہی مصیبت تھی جس کا احیائے علوم کے زمانہ میں عیسائیت کو سامنا کرنا پڑا اور عیسائی پادری اپنے مذہب کی طرف ایسے خود ساختہ نظریات منسوب کر رہے تھے جن کا الہام الہی سے کوئی تعلق نہ تھا.یا تو وہ بگڑی ہوئی بائیبل کے فرضی قصے تھے یا آیات تورات کی غلط تشریحات پر مبنی مفروضے.نتیجہ یہ نکلا کہ انسان نے خصوصاً اہل یورپ نے جب قوانین قدرت کی چھان بین کی اور بہت سے انکشافات کو واضح طور پر عیسائی نظریات کے مخالف پایا تو عیسائیت کو ایک فرسودہ اور جھوٹا مذ ہب سمجھ کر ترک کرنا شروع کر دیا پھر یا تو کھلم کھلا انہوں نے عیسائیت سے بغاوت کی یا پھر عملاً اس طرح اس سے

Page 13

حوادث طبیعی یا عذاب الہی منحرف ہو گئے کہ گو زبان نے تو انکار نہ کیا لیکن اعمال نے اس کا جوا اتار پھینکا اور ایک آزاد مادی اور مادہ پرست یورپین سوسائٹی رونما ہوئی جو عیسائیت کی قید سے ہر عملی پہلو میں آزاد تھی.پس مسلمانوں کو اس المیہ سے یہ سبق سیکھنا چاہئے اور خصوصاً احمدیوں کو کہ وہ اسلام کے عالمگیر غلبہ کے لیے کوشاں ہیں.غیر معمولی احتیاط سے کام لینا چاہئے اور کسی نظریہ کو مذہب کی طرف منسوب نہ کرنا چاہئے جس کا مذہب دعویدار نہ ہو.جہاں تک قرآن کریم، احادیث نبویہ، اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات سے ظاہر ہوتا ہے کہیں بھی اسلام کا یہ دعویٰ نظر نہیں آتا کہ ہر طبعی حادثہ اور تغیر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کا حکم رکھتا ہے.ہاں یہ دعویٰ ضرور ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بسا اوقات مادی اور طبعی قوانین کو ان مادی طاقتوں کی ہلاکت پر مامور کر دیا جو روحانی اور مذہبی اقدار کی نہ صرف منکر تھیں بلکہ مادی ذرائع کو استعمال کر کے روحانی اور مذہبی اقدار کو مٹانے کے درپے تھیں.پس جب بھی یہ صورت ظاہر ہو کہ مادی نظریات روحانی نظریات سے ٹکرا جائیں اور مادی طاقت مذہبی اقدار کے خلاف علم بغاوت بلند کرے اور سرکشی میں بڑھتی چلی جائے تو ایسی صورت میں قرآنی نظریہ کے مطابق قوانین طبعی کو ہی ایسی مادی طاقتوں کو مٹانے یا مغلوب کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے.گو یا لوہا لوہے کو کاتا ہے یا انگریزی محاورے کے مطابق To set a thief to catch a thief کا منظر نظر آتا ہے یعنی وہ لوگ جو کسی مافوق البشر طاقت کے منکر اور صرف موجود مادی دنیا کے ہی قائل ہوتے ہیں انہی کی مسلمہ موجود مادی دنیا کو ان کی ہلاکت اور تباہی پر مامور کر دیا جاتا ہے.ایسے واقعات کو مذہبی اصطلاح میں عذاب الہی کا نام دیا جاتا ہے اور اس نظریہ سے کوئی ٹکر او یا مقابلہ نہیں کہ ایسے واقعات اپنے پس منظر میں طبعی عوامل رکھتے ہیں.مثلاً فرعون کی غرقابی کے واقعہ کو ہی لے لیجئے.نیل کے ڈیلٹا میں فرعون اپنے قافلے سمیت غرق ہوا.روزانہ دو مر تبہ جوار بھاٹا آیا ہی کرتے تھے.اب ان گنت سالوں سے یعنی جب سے کہ دریائے نیل وجود میں آیا اس کا پانی سمندر میں داخل ہوتے وقت روزانہ اسی اتار چڑھاؤ کا منظر پیش کرتا رہا.خدا جانے کتنے جانور یا ابتدائی انسان یا ابتدائی ہیئت کے انسان یا بعد کے غیر مہذب خانہ بدوش قبائل، 7

Page 14

حوادث طبیعی یا عذاب الہی غلط اندازوں یا کم علمی یالا علمی کی وجہ سے اس جوار بھاٹا کی نذر ہو گئے.لیکن نہ تو قرآن مجید نے ،نہ کسی اور مذہبی صحیفہ نے اس جوار بھاٹا کے نتیجہ میں مرنے والوں کو عذاب الہی کا مورد قرار دیا.پس قانون قدرت بلاشبہ اپنی روش پر جاری و ساری ہے اور اس کے نتیجہ میں پید اہونے والے ہر مہلک تغییر کو نہ عذاب الہی قرار دیا جا سکتا ہے نہ اسلام اس کا دعویدار ہے.ہاں بعض صورتوں میں جن کا قدرے تفصیلی ذکر آگے چل کر کیا جائے گا یہی مظاہر قدرت مذہبی اصطلاح میں عذاب الہی کا نام پالیتے ہیں اور اپنے ساتھ ایسے شواہد رکھتے ہیں اور ایسے قوی دلائل ان کی تائید میں کھڑے ہوتے ہیں کہ ایک مادہ پرست بھی اگر انصاف سے کام لے تو خود اپنے عقلی معیار کے مطابق بھی یہ ماننے پر مجبور ہو جائے گا کہ اس معین واقعہ کے وقت جسے مذہب عذاب قرار دیتا ہے ایسے غیر معمولی عوامل ضرور موجود تھے جو بظاہر روز مرہ کے واقعہ کو ایک امتیازی اور استثنائی حیثیت دیتے ہیں.ابھی ہم نے فرعون کے غرق ہونے کا ذکر کیا ہے.اسی مثال پر اب ذرا مزید غور فرمائیں.میر امدعا خوب واضح ہو جائے گا.ایک خاص دلچسپی کی بات جو قرآن کریم کے بیان سے معلوم ہوتی ہے اور قرآن کریم کے سوا کہیں نہیں ملتی وہ یہ ہے کہ غرق ہوتے وقت فرعون نے خدا تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ میں تجھ پر ایمان لاتا ہوں تو مجھے بچالے ! تو اللہ تعالیٰ نے جواباً فرمایا :- فَالْيَوْمَ نُنَجِيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوتَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً --- ( سورۃ یونس: ۹۳) ترجمہ : پس اب ہم تیرے بدن ( کے بقاء) کے ذریعہ سے تجھے (ایک جزوی) نجات دیتے ہیں تاکہ جو لوگ تیرے پیچھے آنے والے ہیں ان کے لیے تو ایک نشان ہو.اس بیان کی یہ حیثیت تو صرف دعویٰ کی ہے جو ایک غرق ہوتے ہوئے انسان اور خدا کے درمیان ایک مکالمہ کو پیش کر رہا ہے بظاہر اس کی چھان بین اور صداقت کے جائزہ لینے کا کوئی ذریعہ نہ تو آج انسان کے پاس ہے نہ اس وقت کے انسان کے پاس تھا کیونکہ ایک مرتے ہوئے انسان اور خدا کے درمیان جو باتیں ہوئیں اُن کو ان دونوں کے سوا اور کون جان سکتا ہے ؟

Page 15

حوادث طبعی یا عذاب الہی جب ہم اس مکالمہ پر غور کرتے ہیں جو ایک دہریہ کے لیے یا مادہ پرست کے لیے مبینہ طور پر خداتعالی اور فرعون کے مابین ہوا تو قرآن کا دوسرا دعویٰ ہمارے سامنے آجاتا ہے کہ فرعون کا غرق ہونا کسی اتفاقی حادثے کا نتیجہ نہ تھا بلکہ مشیت الہی کے مطابق موسیٰ کے انکار اور مخالفت اور بغاوت کی سزا کے طور پر پیش آیا.یہاں تک کہ آخری وقت میں خود غرق ہونے والے نے بھی اس بات کو محسوس کیا اور مرنے سے پہلے اس خدا کی طرف رجوع کیا جسے وہ بنو اسرائیل کا خدا قرار دیتا ہے.فرعون کا یہ کہنا کہ آمَنْتُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِى أُمَنَتْ بِهِ بَنُوا إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ.(سورۃ یونس: 91) ترجمہ : ” میں ایمان لاتا ہوں کہ جس مقتدر ہستی پر بنواسرائیل ایمان لائے.اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور سچی فرمانبرداری اختیار کرنے والوں میں سے ہو تا ہوں“ اس بات کی طرف لطیف اشارہ ہے کہ وہ دعا کے وقت اس بات میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں رہنے دینا چاہتا تھا کہ جس خدا سے وہ مانگ رہا ہے وہ کونسا خدا ہے.چنانچہ بڑی وضاحت سے وہ یہ اظہار کرتا ہے کہ وہ اس خدا سے نجات مانگ رہا ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ ڈوبتے وقت ایسا خوف وہر اس اس پر طاری تھا کہ وہ غیر مبہم الفاظ میں اپنی مکمل شکست کو تسلیم کرنے پر تیار ہو چکا تھا اور اس شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہنے دینا چاہتا تھا کہ اس میں انانیت کی رگ باقی ہے.چنانچہ کھلم کھلا شکست تسلیم کر کے اس رب سے مانگتا ہے جس کی بنو اسرائیل عبادت کرتے تھے.بہر حال یہ بات قطعی ہے کہ قرآن کریم کے پیش کردہ اس مکالمہ کے مطابق خود فرعون کو بھی مسلم تھا کہ یہ حادثہ نہیں عذاب الہی ہے اور فرعون کی اس التجا کے جواب میں خدا تعالیٰ نے جو جواب دیاوہ ہمارے نقطہ نگاہ سے یعنی اس مسئلہ کے لحاظ سے جس پر ہم بحث کر رہے ہیں غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے.یہ جواب محض ایک دعویٰ کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ دعوی کی صداقت کی تائید میں ایک ایسا نا قابل تردید ثبوت بھی پیش کرتا ہے جو اس مکالمہ کے ایک ایک نقطہ کی صداقت پر گواہ بن کر کھڑا ہو جاتا ہے اور اس واقعہ کو ہر چند طبعی قوانین کے تابع ظاہر ہوا تھا ایسے کہ لکھوکھا واقعات سے الگ اور ممتاز کر کے پیش کرتا ہے.وہ جواب یہ تھا (اور یہاں ہم ترجمہ کی بجائے

Page 16

حوادث طبیعی یا عذاب الہی تفسیری مفہوم پیش کریں گے) کہ چونکہ تو اپنی روح کی نجات کی خاطر ایمان نہیں لا رہا اور تمام نشانات کو رد کر چکا ہے اور سب مواقع کھو چکا ہے جن سے استفادہ کی صورت میں تیری روح کو نجات مل سکتی تھی اس لیے آج تیری روح کو نجات دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا.ہاں تجھے اپنے بدن کو بچانے کا خوف لاحق ہے اس لیے ہم تیری اس التجا کو اس رنگ میں قبول کریں گے کہ تیرے بدن کو بچالیں گے اور تیری لاش کو محفوظ کرنے کا انتظام کریں گے تاکہ آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے تو ہمیشہ عبرت کا سامان مہیا کرتا رہے اور تیرا بدن دوسروں کی نجات کا موجب ہو سکے.یہ نہایت لطیف جواب محض دعویٰ نہیں اپنی صداقت کا ثبوت خود اپنے ساتھ رکھتا ہے جس وقت قرآن کریم کے اس مکالمہ سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نوع انسان کو مطلع فرمایا اس وقت تک فرعون کے متعلق یہ نظریہ تو موجود تھا کہ وہ دریائے نیل کے ڈیلٹا میں غرق ہو گیا لیکن اس کے بدن کی حفاظت اور آئندہ آنے والوں نسلوں کی عبرت کا سامان بننے کا کوئی تصور نہ تو کسی مذہبی صحیفہ میں موجود تھا نہ تاریخی کتاب میں.اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ اعلان کروایا کہ ہم نے فرعون سے اس کی لاش کے بچانے کا وعدہ کیا تھا اور یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ وہ اس رنگ میں محفوظ کی جائے گی کہ بنی نوع کے لئے عبرت کا سامان مہیا کرے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ ایک ایسا دعویٰ تھا جو اگر سچا تھا تو دعوی کرنے پر کسی انسان کو قدرت نہ ہو سکتی تھی جب تک خود اللہ تعالیٰ اس کی خبر نہ دے.اس زمانہ میں بھی فرعون کی لاش کا کوئی پتہ نہ تھا.اور اگر اس دعویٰ کو انسان کا خود ساختہ دعویٰ قرار دیا جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایسا دعویٰ کرنے والا خود اپنی تکذیب کے سامان فراہم کر رہا ہے جو سراسر عقل کے خلاف بات ہے.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ کے صحابہ سے اس آیت کے نزول کے بارہ میں سوال کیا جاتا کہ فرعون کی لاش محفوظ کرنے کی خبر اگر خدا نے دی ہے تو وہ لاش کہاں ہے؟ کس طرح محفوظ ہوئی اور کیسے عبرت کا سامان بنی ؟ تو کوئی صحابی اس کا جواب دینے پر قادر نہ ہوتا.سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ خود اس کی راہنمائی فرماتا.اگر بعد کی نسلوں سے یہی سوال دہرایا جاتا.تو سائل ہمیشہ اپنے مخاطب کو گنگ اور لا جواب پاتا.نہ تو پہلی صدی کے مسلمان 10

Page 17

حوادث طبیعی یا عذاب الہی مخاطب اس کا جواب دے سکتے تھے نہ دوسری صدی کے مسلمان مخاطب، تیسری صدی کے مسلمان بھی اس کے جواب سے لاعلم تھے.چوتھی صدی کے بھی اور پانچویں اور چھٹی صدی کے بھی یہاں تک کہ چودھویں صدی میں وہ چاند طلوع ہو ا جس کے عہد میں اسلام کو غلبہ نو کے سامان فراہم کئے جانے تھے.اس وقت کسی مسلمان محقق نے نہیں بلکہ خود عیسائی محققین نے اس فرعون کی لاش کو محفوظ صورت میں دریافت کر لیا جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کر کے غرقابی کی سزا پائی تھی اور آج یہ لاش قرآن کریم کی صداقت پر گواہی دیتی ہوئی اہل بصیرت کے لیے عبرت کا سامان مہیا کر رہی ہے اور ساتھ ہی قرآن کریم کے پیش کردہ تمام مکالمہ کی صداقت کا اعلان کر رہی ہے جو قرآن کریم نے فرعون کے آخری لمحات کا نقشہ کھینچنے کے لیے ہمارے سامنے پیش کیا ہے.اس کا ایک پہلو یہ تھا کہ فرعون کا غرق ہونا نیل کے ڈیلٹا میں غرق ہونے والے کو لکھوکھا انسانوں سے مختلف حیثیت رکھتا تھا.اس ایک واقعہ کو ہم عذاب الہی قرار دیتے ہیں جبکہ ایسے ہی دوسرے لاکھوں واقعات محض حادثات کا نام پاتے ہیں.(۳) مادی تغیرات اور طبعی قوانین کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی تبدیلیاں جب عذاب کا نام پاتی ہیں تو ان کے ساتھ کچھ علامتیں اور کچھ شرائط پائی جاتی ہیں اور یو نہی بلاوجہ کسی تبدل و تغیر کو عذاب کا نام نہیں دیا جاسکتا.(۴) ایسے تمام حوادث زمانہ جو مذہبی اصطلاح میں عذاب کا نام پاتے ہیں ان کے نتیجہ میں بعض اہم مقاصد حاصل ہوتے ہیں.جن کا ذکر آئندہ چل کر کیا جائے گا.اس کے بر عکس روز مرہ کے حوادث اگرچہ کوئی نہ کوئی نتیجہ ضرور پیدا کرتے ہیں.لیکن جن مذہبی مقاصد سے عذاب کا تعلق ہوتا ہے عام حوادث کے نتیجہ میں وہ رونما نہیں ہوتے.(۵) قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ قوانین طبعی کے نتیجہ میں جس قسم کے تغیرات بھی رونما ہو سکتے ہیں مختلف اوقات میں ان میں سے ہر ایک تغیر کو عذاب الہی کا ذریعہ بنایا گیا اور آئندہ بھی بنایا جاسکتا ہے اسی طرح انسانی معاشرہ میں پیدا ہونے والی خرابیوں کے نتیجہ میں یا دیگر عوامل 11

Page 18

حوادث طبیعی یا عذاب الہی کے نتیجہ میں ظاہر ہونے والی جنگوں اور فتنہ و فساد کو بھی بعض مخصوص حالات میں عذاب الہی کا ذریعہ بنالیا جاتا ہے.مندرجہ بالا امور کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جماعت احمد یہ عذاب الہی کا جو اسلامی فلسفہ پیش کرتی ہے اس کا مادہ پرستوں کے نظریہ سے بالواسطہ کوئی ٹکراؤ نہیں.البتہ فرق یہ ہے کہ دنیا دار مادہ پرست حوادث زمانہ کو طبعی محرکات اور موجبات کا نتیجہ قرار دینے پر ہی اکتفا کرتا ہے جبکہ اسلام اس حد تک اس مادی فلسفہ کی تائید کرنے کے علاوہ یہ زائد بات بیان کرتا ہے.اگر چہ تمام حوادث کی کوئی طبعی وجہ موجود ہے اور خدا تعالیٰ کی منظم تخلیق اور کامل نظام خلق کا تقاضا بھی یہی ہونا چاہئے تھا لیکن بات یہی ختم نہیں ہو جاتی بسا اوقات اللہ تعالیٰ بلند تر مذ ہبی مقاصد کے حصول کے لیے انہی طبعی ذرائع کو استعمال کرتا ہے ہم خود اس کے پیدا کردہ ہیں اور اسی کے تابع ہیں.جب ایسا ہو اور حوادث زمانہ کو سزا یا تنبیہ کے طور پر استعمال کیا جائے تو اس وقت یہی طبعی قوانین جو نتیجہ ظاہر کرتے ہیں اس کا نام عذاب الہی رکھا جاتا ہے اس کے بر عکس قرآن کریم سے یہ بھی ثابت ہے کہ طبعی قوانین کو جیسا کہ بعض اوقات رضائے الہی کے خاص اظہار کے لیے ہی مسخر کیا جاتا ہے اور جب بھی ایسا ہو طبعی تغیرات کے نتیجہ میں کسی قوم یا اشخاص کے لیے غیر معمولی فضل اور رحمت کے سامان پیدا ہوتے ہیں.حضرت نوح نے اپنی قوم کو جہاں عذاب الہی سے ڈرایا وہاں ایمان کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے خاص فضلوں اور رحمتوں کا وارث بننے کا وعدہ بھی دیا اور اس بات کی ترغیب دی کہ بجائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کو ناراض کر کے قوانین طبعی کو اپنا دشمن بناؤ اور اس کو راضی کر کے قوانین طبعی کو اپنا غلام اور خدمت گار بناؤ.سورۃ نوح میں اس مضمون کو نہایت لطیف رنگ میں بیان فرمایا گیا ہے.اس سے اسلامی فلسفہ عذاب و ثواب بڑی آسانی سے واضح ہو جاتا ہے.اس امر سے تو ہماری دنیا بخوبی آگاہ ہے کہ حضرت نوح کے لیے قوم پر بکثرت بارش کے ذریعہ عذاب بنایا گیا لیکن عام طور پر اس حقیقت سے لوگ بے خبر ہیں کہ قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق یہی بارش رحمت الہی کا مظہر بھی بن سکتی تھی.ایک امر تو بہر حال مقدر ہو چکا تھا کہ طبعی قوانین کے نتیجہ میں اس علاقہ میں جہاں حضرت نوح کی قوم آباد تھی بکثرت 12

Page 19

حوادث طبیعی یا عذاب الہی بارشیں برسنے والی تھیں.اس امر کا فیصلہ کہ یہ بارش رحمت کی ہو یا عذاب کی، قوم نوح پر چھوڑ دیا گیا.حضرت نوح کہتے ہیں :- فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا.يُرْسِلِ السَّمَاءِ عَلَيْكُمْ مِّدْرَارًا.وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّتٍ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنهرًا - ( سورة نوح: ۱۱-۱۳) ترجمہ : میں نے ان سے کہا اپنے رب سے استغفار کرو وہ بڑا بخشنے والا ہے.اگر تم تو بہ کرو گے تو برسنے والے بادل کو تمہاری طرف بھیجے گا اور مالوں اور اولاد سے تمہاری امداد کرے گا.اور تمہارے لیے باغات اگائے گا اور تمہارے لیے دریا چلائے گا.اب دیکھئے کتنا پر لطف مضمون ہے اور عقل انسانی کے لیے کسی اعتراض کی گنجائش نہیں چھوڑی گئی.وہی بارش جس کے سامان طبعی قوانین کے نتیجہ میں نامعلوم طویل مدت پہلے سے تیار ہور ہے تھے.وہی بارش عذاب بن کر بھی آسکتی تھی اور انعام بن کر بھی.اگر انعام بن کر آتی تو اس کے نتیجہ میں حضرت نوح کے قول کے مطابق جو یقیناً وحی الہی تھا اس طرح وقفے وقفے کے ساتھ برستی کہ سیلاب لانے کی بجائے فیض رساں نہریں بہادیتی اور اس کے نتیجہ میں حضرت نوح کی قوم کے اموال غیر معمولی برکت پاتے اور ان کے نفوس میں بھی برکت پڑتی.لیکن افسوس کہ انکار نے اس پانی کو کیسے عذاب کے پانی میں تبدیل کر دیا کہ خطہ ارض کے کونے کونے میں طوفان نوح ایک مثل بن چکا ہے.پانی کا ذکر چل پڑا ہے اس لیے ایک دفعہ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں پانی سے جو دو مختلف خدمات لی گئیں ان کا بیان بھی یہاں بے محل نہ ہو گا.ایک بات تو پہلے بیان کی جاچکی ہے کہ کس طرح پانی کو عذاب الہی کے طور پر استعمال کیا گیا اور فرعون اور اس کی قوم کو اس کے نتیجہ میں ہلاک کر دیا گیا.حضرت موسیٰ کے تعلق میں ہی پانی کے رحمت بننے کی ایک عملی مثال بھی موجود ہے.جس پانی نے فرعون اور اس کے لشکر کو بے شمار وسائل کے باوجو د مغلوب کر دیا وہ 13

Page 20

حوادث طبیعی یا عذاب الہی پانی جب رحمت بنا تو ایک دودھ پیتے بچے حضرت موسی کو ایک کمزور لکڑی کے صندوق میں اپنی لہروں پر بہائے ہوئے خطرے کی جگہ سے امن کے مقام کی طرف لے گیا اور ہلاکت کی بجائے نجات کا موجب بنا.اب دیکھ لیجئے کہ بظاہر دونوں واقعات طبعی محرکات کا نتیجہ تھے لیکن وہ بچہ جس نے بعد ازاں بڑے ہو کر نبوت کا دعویٰ کرنا تھا اور خدا کے عظیم الشان پیغمبر کے طور پر دنیا میں ظاہر ہونا تھا.اس کو تو انتہائی کمزوری، ناطاقتی اور کم مائیگی کے باوجود پانی ہلاک کرنے کی قدرت نہیں پاسکتا لیکن اس کے عظیم الشان اور دنیاوی لحاظ سے انتہائی طاقتور دشمن کو اپنے قومی وسائل کے باوجود خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتا ہے.اہل بصیرت کے لیے اس میں فکر و تدبر کے سامان موجود ہیں.عذاب الہی کی قسمیں جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے قرآن کریم کی رو سے تمام مادی تغییرات کو مشیت الہی کے ماتحت عذاب کا ذریعہ بھی بنایا جاسکتا ہے اور انعام کا بھی.جہاں تک عذاب کا تعلق ہے.عذاب کی حسب ذیل صورتوں کا قرآن کریم میں واضح ذکر موجود ہے:.(۱) مسلسل شدید بارش اور زمین کے پانی کی سطح کا بلند ہونا جس کے نتیجہ میں ایسا ہولناک سیلاب ظاہر ہو کہ علاقہ کی تمام آبادی غرق ہو جائے.فَدَعَا رَبَّةَ أَنِّى مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرُ - فَفَتَحْنَا ابْوَابَ السَّمَاءِ بِمَاءٍ مُّنْهَـ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُونًا فَالْتَقَى الْمَاءِ عَلَى أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ.(سورۃ القمر :۱۱-۱۳) ترجمہ : آخر اس (نوح) نے اپنے رب سے دعا کی اور کہا مجھے دشمن نے مغلوب کر لیا ہے پس تو میر ابدلہ لے.جس پر ہم نے بادل کے دروازے ایک جوش سے بہنے والے پانی کے ذریعے کھول دیے اور زمین میں بھی ہم نے چشمے پھوڑ دیئے.پس (آسمان کا ) پانی (زمین کے پانی کے ساتھ) ایک ایسی بات کے لیے اکٹھا ہو گیا جس کا فیصلہ ہو چکا تھا.14

Page 21

حوادث طبیعی یا عذاب الہی (۲) ایسی منحوس تیز ہواؤں کا چلنا جو مسلسل جاری رہیں یہاں تک کہ آبادیاں ویران ہو جائیں اور انسانی لاشیں ٹوٹے ہوئے درختوں کی طرح ہر طرف بکھری ہوئی دکھائی دیں.كَذَّبَتْ عَادُ فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِ وَنُذْرِ إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرُصَرًا فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍ - تَنْزِعُ النَّاسَ كَافَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ مُّنْقَعِرٍ.( سورة القمر : ۱۹-۲۱) ترجمہ : عاد قوم نے بھی اپنے رسول کا انکار کیا تھا پھر دیکھو میر اعذاب اور میر اڈرانا کیسا تھا.ہم نے ان پر ایک ایسی ہوا بھیجی جو تیز چلنے والی تھی اور ایک دیر تک رہنے والے منحوس وقت میں چلائی گئی تھی وہ لوگوں کو اس طرح اکھیٹر پھینکتی تھی گویادہ کھجور کے ایسے تنے ہیں جن کے اندر کا گودا کھایا ہوا تھا.(۳) زمین یا آسمان سے ایسی خوفناک گرج یا دھماکوں کا ظاہر ہونا جن کے نتیجہ میں آسمان پتھر برسانے لگے مثلاً آتش فشاں پہاڑوں کے اچانک پھٹنے سے قریب کی بستیوں کا جو حال ہوتا ہے بعینہ اس قسم کی حالت کا ذکر عذاب الہی کی صورت میں حسب ذیل آیات میں ملتا ہے.فَأَخَذَ قُهُمُ الصَّيْحَةُ مُشْرِقِيْنَ - فَجَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِنْ سِجيل.( سورة الحجر : ۷۴-۷۵) ترجمہ : اس پر اس موعود عذاب نے انہیں (یعنی لوط کی قوم کو) دن چڑھتے ہی پکڑ لیا جس پر ہم نے اس بستی کی اوپر والی سطح کو اس کی نچلی سطح کر دیا اور ان پر سنگریزوں سے بنے ہوئے پتھروں کی بارش برسائی.(۴) ایسی آندھیوں کا مسلسل جاری رہنا جو مٹی اور ریت کے نتیجے میں بستیوں کو اس طرح دفنا دیں کہ محض دیکھنے کے لئے گھروں کے نشان باقی رہ جائیں.تُدَمرُ كُلَّ شَيْءٍ بِأَمْرِ رَيْهَا فَأَصْبَحُوا لَا يُرَى إِلَّا مَسْكِنُهُمْ كَذَلِكَ نَجْزِى (سورۃ الاحقاف: ۲۶) الْقَوْمَ الْمُجْرِمِينَ ترجمہ : یہ ہوا اپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو تباہ کرتی جائے گی نتیجہ یہ ہوا کہ ان پر 15

Page 22

حوادث طبعی یا عذاب الہی صبح ایسے وقت میں آئی کہ صرف ان کے گھر ہی نظر آتے تھے (سب قوم ریت میں دب گئی) اسی طرح ہم مجرم قوم کو سزا دیتے ہیں.(۵) ایسے پے در پے سیلابوں کا آنا جو کسی خطہ زمین کی ہیئت ہی بدل ڈالیں اور زرخیز طاقتور زمینوں کو بنجر اور بیکار زمینوں میں تبدیل کر دیں.جہاں بد ذائقہ جنگلی پھلوں، جھاؤ جیسی جڑی بوٹیوں اور جنگلی بیریوں کے سوا اور کچھ نہ اگ سکے.فَأَعْرَضُوا فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ سَيْلَ الْعَرِمِ وَبَدَّلْنَهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاقَ أُكُلٍ خَمْطٍ وَأَثْلٍ وَشَيْءٍ مِّنْ سِدْرٍ قَلِيلٍ (سورۃ سبا: ۱۷) ترجمہ: پھر بھی انہوں نے حق سے پیٹھ پھیر لی تب ہم نے (ان کو حق پانے سے محروم قرار دیکر ان پر ایسا عذاب بھیج دیا جو ہر چیز کو تباہ کرتا جاتا تھا اور ہم نے ان کے دو اعلیٰ درجہ کے باغوں کی جگہ ان کو دو ایسے باغ دیئے جن کے پھل بد مزہ تھے اور جن میں جھاؤ پایا جاتا تھایا کچھ تھوڑی سی بیریاں تھیں.(۶) زلازل کا آنا جن کے نتیجہ میں زمین تہہ و بالا ہو جائے اور انسانی آبادیاں دھنس جائیں.فَكَذَّبُوهُ فَعَقَرُوْهَا فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُمْ بِذَنْبِهِمْ فَسَوْهَا.(سورة الش: ۱۵) ترجمہ: لیکن انہوں نے نبی کی بات نہ مانی بلکہ اس کو جھٹلایا اور وہ اونٹنی جس سے بچتے رہنے کا انہیں حکم دیا گیا تھا.انہوں نے اس کی کونچیں کاٹ دیں جس کی وجہ سے اللہ نے ان کو خاک میں ملانے کا فیصلہ کر دیا اور ایسی تدبیریں کیں کہ ایسا ہی ہو گیا.(۷) ایسی طویل خشک سالی جس سے زمین کا پانی بھی سوکھ جائے اور اتنا گہر ا چلا جائے کہ اس کا نکالنا انسانی مقدرت سے بڑھ جائے.جیسے فرمایا: قُلْ أَرَيْتُمْرانُ أَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ يَأْتِيَكُمْ بِمَاءٍ مَّعِينٍ - (سورۃ الملک : ۳۱) ترجمہ : تو یہ بھی کہہ دے کہ مجھے بتاؤ تو سہی کہ اگر تمہارا پانی زمین کی گہرائی میں 16

Page 23

حوادث طبعی یا عذاب الہی غائب ہو جائے تو بہنے والا پانی تمہارے لیے خدا کے سوا کون لائے گا.(۸) قحط کا ظاہر ہونا اور قوم کا شدید خوف وہراس میں مبتلا ہو جانا.وَضَرَبَ اللهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ مِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللهِ فَأَذَاقَهَا اللهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ.( سورة النحل: ۱۱۳) ترجمہ : اللہ تعالیٰ تمہیں سمجھانے کے لیے) ایک بستی کا حال بیان کرتا ہے جسے ہر طرح سے) امن حاصل ہے اور اطمینان نصیب ہے ہر طرف سے اس کا رزق اسے با فراغت پہنچ رہا ہے پھر ( بھی ) اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی.اس کی ناشکری پر اللہ نے اس کے باشندوں پر ان کے اپنے گھناؤنے عمل کی وجہ سے بھوک اور خوف کالباس نازل کیا ہے.(9) قوموں اور ملکوں کا خوفناک جنگوں کے ذریعہ ایک دوسرے کو تباہ برباد کرنا جس کے نتیجہ میں مختلف قسم کی تکالیف کا المناک سلسلہ دیکھنا پڑے.جو کئی قسم کی تنگیاں اور مشکلات قوموں پر وارد کرتا ہے یہاں الضراء سے مراد غالباً ایسی تمام سختیاں اور تکلیفیں ہیں جو بڑی بڑی جنگوں کے بعد عموماً قوموں کو گھیر لیتی ہیں مثلاً آزادیوں کا سلب ہونا.اقتصادیات کا تباہ ہونا.معاشرہ اور تہذیب و تمدن میں فساد ظاہر ہونا.وبائی امراض کا پھوٹناوغیرہ وغیرہ.وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِنْ نَّبِيَّ إِلَّا أَخَذْنَآ أَهْلَهَا بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَضُرَّعُونَ.(سورۃ الاعراف: ۹۵) ترجمہ : ہم نے کسی شہر کی طرف کوئی رسول نہیں بھیجا مگر یوں ہی ہوا کہ ) ہم نے اس میں بسنے والوں کو سختی اور مصیبت سے پکڑ لیا تا کہ وہ عاجزی اور زاری کریں.(۱۰) پرندوں کا عذاب الہی بن کر کسی قوم پر اترنا.جیسے فرمایا: وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَ تَرْمِيهِمْ بِحِجَارَةٍ مِّنْ سِجِيلٍ فَجَعَلَهُمْ 17

Page 24

حوادث طبعی یا عذاب الہی (سورۃ الفیل : ۴-۵-۶) كَعَصْفٍ مَّاكُوْلٍ.ترجمہ : اور ان کی لاشوں) پر جھنڈ کے جھنڈ پرندے بھیجے (جو) ان (کے گوشت) کو سخت قسم کے پتھروں پر مارتے ( اور نوچتے) تھے.سو اس کے نتیجہ میں اس نے انہیں ایسے بھوسے کی مانند کر دیا جسے جانوروں نے کھالیا ہو.(۱۱) کسی بڑی جھیل یاڈیم کا اس طرح اچانک تباہ ہو جانا کہ گویا پوری کی پوری جھیل کسی قوم پر عذاب کی شکل میں الٹ دی گئی ہو.فَصَبٌ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍ.اِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ.(سورة الفجر :۱۴-۱۵) ترجمہ : جس پر تیرے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا بر سایا.تیرارب یقیناً گھات میں (لگا ہوا) ہے.(۱۲) موسمی تغیرات کے نتیجہ میں خشکی تری اور ہوا کے ایسے جانوروں کا بکثرت پیدا ہو جانا.جو مشیت الہی کے مطابق کسی قوم میں عذاب کے سے حالات پیدا کر دیویں یا مختلف بیماریوں کی افزائش کا موجب ہوں مثلاً ٹڈی دل، مینڈک، جوئیں، پسو، مچھر اور اس قسم کے دوسرے حشرات الارض اور ایسے جراثیم جو خونی بیماریاں پیدا کر دیں مثلاً پیچش اور جریان خون سے تعلق رکھنے والی بیماریاں وغیرہ.فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوْفَاتِ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالصَّفَادِعَ وَالدَّمَ أَيتٍ (سورۃ الاعراف: ۱۳۴) مفصلت....ترجمہ : تب ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈیاں اور جوئیں اور مینڈک اور خون بھیجا.یہ الگ الگ نشان تھے.(۱۳) کسی قوم پر ایسی دوسری قوم کو مسلط کرنا جو ان کو طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا ہیں اور ایسا ایمان لانے کے نتیجہ میں نہ ہو بلکہ دیگر عوامل اس کے ذمہ دار ہوں مثلاً یہود کے 1 سوط جو ہر کو بھی کہتے ہیں یعنی اس نشیب دار زمین کو بھی سوط کہا جاتا ہے جہاں پانی جمع ہو جاتا ہے.(اقرب الموارد) 18

Page 25

حوادث طبیعی یا عذاب الہی متعلق قرآن کریم کی یہ خبر کہ ان کے لیے مقدر کیا گیا ہے کہ قیامت تک ان پر ایسی قومیں مسلط رہیں جو انہیں طرح طرح کے عذاب دیں.وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ مَنْ يَسُومُهُمْ سُوءٍ الْعَذَابِ إِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُوْرٌ رَّحِيمٌ (سورۃ الاعراف: ۱۶۸) طبعی ترجمہ : اور یاد کر جب تیرے رب نے اعلان کر دیا کہ ان (یہود) پر قیامت کے دن تک ایسے لوگ مقرر کر دے گا جو انہیں تکلیف دہ عذاب دیتے چلے جائیں گے پھر کیا ایسا ہوا یا نہیں ہوا؟) تیر ارب یقیناً بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.عذاب کی جتنی قسمیں اوپر بیان ہوئی ہیں.یہ عجیب بات ہے کہ چار معروف عناصر میں سے ان کا تعلق تین عناصر سے نظر آتا ہے لیکن چوتھے عنصر کا کوئی ذکر نہیں ملتا.یہ سب عذاب کی قسمیں.مٹی، پانی یا ہوا سے تعلق رکھتی ہیں یا ان جانوروں سے تعلق رکھتی ہیں جو مٹی، پانی یا ہوا میں بسنے والے ہیں لیکن چوتھے عنصر یعنی آگ کے عذاب کا گذشتہ قوموں کے تعلق میں کہیں ذکر نہیں ملتا.یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ آگ کے ابتلاء سے نیک بندوں کی آزمائش کی گئی جیسا کہ حضرت ابراہیم کے واقعہ میں اور سورۃ بروج کے بیان کردہ مضمون سے واضح ہے.لیکن جہاں تک آگ کے عذاب کا تعلق ہے آگ کے عذاب کا اس دنیا میں گزری ہوئی امتوں کے بیان میں کوئی ذکر نہیں ملتا.لیکن جہاں تک قرآن کریم کی پیشگوئیوں کا تعلق ہے.صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے مسلسل انکار کے نتیجہ میں قوموں کو آئندہ آگ کا عذاب بھی دیا جانا مقدر تھا.قرآن کریم کی مختلف آیات میں اس کا اشارہ یاصر احتاذکر ہے.جیسا کہ فرمایا: انْطَلِقُوا إِلَى ظِلَّ ذِى ثَلَتِ شُعَبٍ لَّا ظَلِيلٍ وَلَا يُغْنِي مِنَ اللَّهَبِ اثْهَا تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ كَأَنَّهُ جِمَلَتْ صُفْرُ - وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ.(سورة المرسلات: ۳۱-۳۵) ترجمہ : (ہم ان سے کہیں گے ) جس چیز کو تم جھٹلاتے تھے اسی کی طرف جاؤ یعنی 19

Page 26

حوادث طبیعی یا عذاب الہی اس سائے کی طرف جاؤ.جس کے تین پہلو ہیں.نہ تو وہ سایہ دیتا ہے اور نہ تپش سے محفوظ رکھتا ہے بلکہ وہ اتنے اونچے شعلے پھینکتا ہے جو قلعے کے برابر ہوتے ہیں.اتنے اونچے کہ گویا وہ بڑے بڑے جہازوں کے باندھنے والے زر د ر سے معلوم ہوتے ہیں اس دن جھٹلانے والوں پر تباہی آئے گی.اس آیت میں جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ زمانہ حاضرہ کی جنگوں سے بہت ملتا جلتا ہے.یہ وہ زمانہ ہے جس میں پہلی مرتبہ جنگ کا مہیب سایہ تین نمایاں شعبے رکھتا ہے.فضائی، بری اور بحری.اور یہ تینوں شعبے آگ برسانے والے ہیں.اٹھا تَرْمِي بِشَرَرٍ گالقصر میں قلعوں کی طرح جو بلند شعلے پھینکنے کا منظر ہے وہ بعینہ جدید آلات حرب کے آگ اگلنے کی تصویر ہے.اسی طرح سورۃ الھمزۃ میں جس آگ سے ڈرایا گیا ہے اس کا بھی عہد حاضر سے تعلق معلوم ہو تا ہے.فرمایا: وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ أُمَزَةٍ - الَّذِي جَمَعَ مَالًا وَعَدِّدَهُ - يَحْسَبُ أَنَّ مَالَهُ أَخْلَدَهُ كَلَّا لَيُنَبَذَنَ فِي الْحُطَمَةِ - وَمَا أَدْرَكَ مَا الحُطَمَةُ - نَارُ اللَّهِ الْمُوْقَدَةُ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْئِدَةِ - اِثْهَا عَلَيْهِمْ مُؤْصَدَةٌ فِي عَمَدٍ مَدَّ دَةٍ (سورة الهمزة: ٢-١٠) ترجمہ : ہر غیبت کرنے والے اور عیب چینی کرنے والے کے لیے عذاب ہے.جو مال کو جمع کرتا ہے اور اس کو شمار کرتا رہتا ہے وہ خیال کرتا ہے کہ اس کا مال اس کے نام کو باقی رکھے گا.ہر گز ایسا نہیں (جیسا کہ اس کا خیال ہے بلکہ ) وہ یقیناً اپنے مال سمیت حطمہ میں پھینکا جائے گا اور (اے مخاطب !) تجھے کیا معلوم ہے کہ یہ حطمہ کیا شے ہے؟ یہ (حطمہ) اللہ کی خوب بھڑ کائی ہوئی آگ ہے جو دلوں کے اندر تک جاپہنچے گی پھر وہ آگ سب طرف سے بند کر دی جائے گی.تاکہ اس کی گرمی ان کو اور بھی زیادہ تکلیف دہ محسوس ہو اور وہ لوگ لمبے ستونوں کے ساتھ بندھے ہوئے ہوں گے.یہاں کسی فرد کا نہیں بلکہ ایک قوم کا ذکر معلوم ہوتا ہے کیونکہ فرد واحد خواہ کیسا ہی امیر کیوں نہ ہو وہ کبھی بھی یہ وہم نہیں کر سکتا کہ اس کا مال اس کو ہمیشہ کی زندگی عطا کر سکتا ہے.البتہ 20

Page 27

حوادث طبیعی یا عذاب الہی امیر قومیں جن کو دولت کا غلبہ نصیب ہو جائے.دولت کے بل بوتے پر ضرور اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جایا کرتی ہیں کہ ان کا غلبہ ہمیشہ باقی رہے گا.ان کو جس عذاب سے خبر دار کیا گیا ہے وہ بھی ایسا آگ کا عذاب ہے.جو اپنی شدت کی وجہ سے دلوں پر جھپٹتا ہے یعنی آن واحد میں دلوں سے زندگی اچک لینے والا ہے.آج کل کے ایٹمی ہتھیار بالکل اس نقشہ پر پورا اتر رہے ہیں اور ایٹم بم کے پھٹنے سے پہلے اس کے مرکز کا بھینچ کر لمبا ہو جانا نیز حطمہ کے معنی ریزہ ریزہ کی ہوئی شئی یعنی باریک ترین ریزے یہ دونوں امور بھی اسی طرف اشارہ کر رہے ہیں.بہر حال جس آگ کے عذاب کی خبر دی گئی ہے وہ اسی دنیا سے تعلق رکھتا ہے اور اسی کے نتیجہ میں اس متکبر ، مال و دولت کے نشہ میں سر شار قوم کی تباہی معلوم ہوتی ہے جو اس دنیا میں ہمیشہ رہنے کے خواب دیکھ رہی ہو.مذکورہ بالا آگ کے عذاب کی پیش خبریوں کو اگر پہلے مضمون کے ساتھ ملالیا جائے تو معلوم ہو تاکہ چاروں عناصر یعنی.پانی، مٹی، ہوا اور آگ اللہ تعالیٰ کے تصرف کے تحت عذاب کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں اور یہی وہ چاروں عناصر ہیں جو انعام کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں.پس عذاب کے لیے طبعی قوانین کا مسخر ہونا ہر گز کسی اچنبے کی بات نہیں.لازماً ہر قسم کے نقصان اور فائدے انہی طبعی عناصر کے ساتھ وابستہ ہیں.یہ کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ دنیا میں ہمیشہ ہر زمانہ میں ایسے تغیرات ہوتے ہی رہتے ہیں.جن کے نتیجہ میں آگ ، پانی ، ہوا اور مٹی کبھی انسان کو فائدہ دے رہے ہوتے ہیں.کبھی نقصان، کبھی تنگی کے سامان پیدا کرتے ہیں.کبھی آسائش کے تو کیوں بلاوجہ اس کو غیر معمولی تصرف الہی قرار دیا جائے اور کیوں بعض حالات کو بعض اوقات عام طبعی تغییرات قرار دیا جائے اور بعض اوقات انہیں خاص تصرفات کا نام دیا جائے.جب سے دنیا بنی ہے ایسا ہو تا چلا آیا ہے یہ کوئی نیا سوال نہیں.اور جدید زمانے کے انسان نے اس اعتراض کے ذریعہ ایسی نئی بات پیدا نہیں کی جو پہلے انسانوں کو نہ سو جبھی ہو.قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ بعینہ یہی اعتراض انبیاء پر کیا گیا.جیسا کہ فرمایا: وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِنْ نَّبِيَّ إِلَّا أَخَذْنَآ أَهْلَهَا بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ 21

Page 28

حوادث طبیعی یا عذاب الہی يَضُرَّعُونَ - ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتَّىٰ عَفَوْا وَقَالُوا قَدْ مَسَّ أَبَاءَنَا الضَّرَّاءِ وَالسَّرَّاءُ فَأَخَذْ هُمْ بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ (سورۃ الاعراف: ۹۵-۹۶) ترجمہ : اور ہم نے کسی شہر کی طرف کوئی رسول نہیں بھیجا ( مگر یوں بھی ہوا کہ ) ہم نے اس میں بسنے والوں کو سختی اور مصیبت سے پکڑ لیا تاکہ وہ عاجزی اور زاری کریں.پھر ہم نے تکلیف کی جگہ سہولت کو بدل دیا یہاں تک کہ جب وہ ترقی کر گئے اور کہنے لگے.کہ تکلیفیں اور سکھ تو ہمارے باپ دادوں پر بھی آیا کرتے تھے (اگر ہمیں آئے تو کوئی نئی بات نہیں ) پس ہم نے ان کو اچانک عذاب سے پکڑ لیا اور وہ سمجھتے نہ تھے (کہ ایسا کیوں ہوا).ہمارا یہ محض کہہ دینا کہ یہ اعتراض قدیم سے کیا جارہا ہے کوئی مثبت تسلی بخش جواب قرار نہیں دیا جا سکتا.جب تک ہم ان تغیرات کو جو عذاب الہی کا نام پاتے ہیں دوسرے عام تغیرات سے ممتاز کر کے اس طرح پیش نہ کریں کہ ایک بین فرق نظر آنے لگے اور دل مطمئن نظر آنے لگیں اور یہ کہ دونوں طبعاً ایک ہونے کے باوجود دونوں الگ الگ دائروں سے تعلق رکھتے ہیں.اس وقت تک یہ مضمون مکمل نہیں ہو سکتا.قبل ازیں فرعون کی ہلاکت کے ذکر میں ایک ایسا پہلو بیان کیا جا چکا ہے.جو فرعون کی ہلاکت کے طبعی سامان کو اس سے ملتے جلتے دوسرے واقعات سے قطعی طور پر ممتاز کر کے دکھاتا یعنی قرآن کی پیش گوئی کے مطابق فرعون کی لاش کا انتہائی مشکل حالات میں محفوظ رکھا جانا اور سینکڑوں سال کے بعد دریافت ہو کر انسان کے لیے عبرت کا نشان بننا.اس واقعہ کو عذاب الہی ثابت کرنے کا ایک ٹھوس ثبوت پیش کرتا ہے لیکن اس پر بات ختم نہیں ہو جاتی قرآن کریم ایسے نمایاں اور واضح دلائل پیش کرتا ہے جس پر غور کرنے سے ایک منصف مزاج کی عقل باسانی مطمئن ہو سکتی ہے.عذاب الہی کا نظام اگر چہ ایک پہلو سے عام طبعی قوانین سے تعلق رکھتا ہے.مگر بعض دوسرے پہلوؤں سے ایسی الگ اور ممتاز حیثیت رکھتا ہے کہ دونوں میں نمایاں فرق ہو جائے.اس حصہ 22

Page 29

حوادث طبعی یا عذاب الہی مضمون پر ہم آئندہ روشنی ڈالیں گے.انشاء اللہ.اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ یہ سوال بھی زیر بحث لائیں گے کہ جب کوئی قوم عذاب الہی میں مبتلا کی جائے یا کسی قوم پر عذاب الہی نازل ہونے کی خبر دی جائے تو مومنین کی جماعت پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور ان کا کیا رد عمل ہونا چاہئے.مضمون کا یہ حصہ موجودہ زمانہ میں جماعت احمدیہ کی صحیح تربیت کے لحاظ سے بہت اہم ہے اور اس بارہ میں لاعلمی کے نتیجہ میں اس بات کا احتمال ہے کہ بعض احمدی ایسا رد عمل دکھائیں جو سنت انبیاء اور مومنوں کی شان کے خلاف ہو.اللہ تعالیٰ اس سے ہمیں محفوظ رکھے.آمین.عذاب الہی کی پہلی امتیازی علامت عذاب الہی کو عام حوادث سے ممتاز کرنے والی علامات میں سے ایک اہم علامت یہ ہے کہ عذاب کے واقع ہونے سے قبل ہی اس کی خبر دے دی جاتی ہے اور صرف خبر ہی نہیں بسا اوقات اس کی نوعیت بھی تفصیل سے بیان کر دی جاتی ہے.اس کی مثال حضرت نوح کے زمانہ میں بڑی واضح شکل میں ملتی ہے.آپ نے پہلے سے قوم کو متنبہ کر دیا کہ تمہارے اعمال کی خرابی کے نتیجہ میں نیز میرے مسلسل انکار کی وجہ سے تم ہلاک کر دیئے جاؤ گے.اس تنبیہ کے ساتھ ہی آپ نے ذریعہ ہلاکت سے بھی ان کو آگاہ کر دیا اور بتایا کہ تمہاری ہلاکت کا ذریعہ پانی کو بنایا جائے گا.جو ایک ایسے بے نظیر سیلاب کی صورت میں آئے گا.جس سے اس علاقہ کی کوئی چیز خواہ انسان ہو یا حیوان، بچ نہیں سکے گی.یہ خبر دینے کے ساتھ ہی حضرت نوح اس کشتی کی تعمیر میں مصروف ہو گئے جو اللہ تعالیٰ کے اذن کے مطابق اس عذاب سے مومنوں کو بچانے کے لئے بنائی جارہی تھی.منکرین پاس سے گزرتے ، ہنستے اور تمسخر اڑاتے.حضرت نوح علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں کو طرح طرح کے طعنوں کا نشانہ بناتے لیکن کوئی بھی یہ تسلیم کرنے پر آمادہ نہ ہوا کہ آسمان اس کثرت کے ساتھ پانی برسا سکتا ہے کہ دنیا کی کوئی پناہ گاہ اس کی زد سے انسان کو بچانہ سکے ، لیکن آخر وہ دن آگیا جب کہ قرآن کریم کے بیان کے مطابق فَفَتَحْنَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ بِمَاءٍ 23

Page 30

حوادث طبعی یا عذاب الہی منهمر.(سورة القمر :۱۲) آسمان نے اپنے تمام دروازے کھول دیئے اور ایسا موسلادھار مینہ برسنا شروع ہوا جس کی کوئی مثال اس سے پہلے دیکھی نہ گئی تھی.حضرت نوح علیہ السلام اور آپ پر ایمان لانے والے کشتی میں سوار ہوئے اور اپنے ساتھ معین مدت کے لئے زاد سفر بھی لے لیا.کچھ جانور اور کچھ پرندے جو پہلے سے اس غرض کے لئے جمع کئے گئے تھے وہ بھی اس کشتی میں سوار کر لئے گئے.لیکن اس وقت تک بھی دیکھنے والے دیکھتے رہے اور تمسخر اڑاتے رہے.یہاں تک کہ وہ کشتی پانی کی بلند ہوتی ہوئی سطح کے ساتھ بلند تر ہوتی چلی گئی اور مکانات ، اونچی جگہیں اور ٹیلے رفتہ رفتہ پانی میں ڈوبنے لگے لیکن اس وقت بھی ایمان نہ لانے والوں کو یقین نہ آیا کہ کشتی کے سواروں کے سوا اس علاقہ کے باقی تمام لوگ غرق ہو جائیں گے.خود حضرت نوح علیہ السلام کے ایک جسمانی بیٹے نے بھی اپنی بد قسمتی سے یہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اس غیر معمولی بارش اور سیلاب کو آخر وقت تک ایک طبعی حادثہ سمجھتارہا.اسے یہ گمان تو شاید گزرتا ہو کہ یہ کشتی کے سوار غرق ہو جائیں گے لیکن یہ و ہم اس کے دل میں نہ آیا کہ سیلاب پہاڑوں کی چوٹیوں سے بھی اوپر نکل جائے گا.چنانچہ قرآن کریم کے بیان کے مطابق ہمیں اہل دنیا کی جو آخری آواز سنائی دیتی ہے وہ حضرت نوح علیہ السلام کے اس بیٹے کی یہ آواز ہے : ساوِی الَى جَبَلٍ يَعْصِمُنِي مِنَ الْمَاءِ.(سورة صور: ۴۴) کہ میں پہاڑ کی پناہ لے لوں گا اور یہ پہاڑ مجھے بچالے گا.لیکن ایک بلند و بالا موج حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی اور پہاڑ پر پناہ لینے والے اس وجود کے درمیان حائل ہو گئی.پانی بلند سے بلند تر ہو تا رہا اور پہاڑوں کی چوٹیاں روپوش ہونے لگیں.تیر نے والی اس کشتی کے سوا سطح آب پر کوئی اور چیز نظر نہ آتی تھی.یہ واقعہ جو تفاصیل کے کسی قدر اختلاف کے ساتھ دنیا کے تین بڑے مذاہب یعنی اسلام، یہودیت اور عیسائیت کو مسلم ہے.کم از کم ان اہل مذاہب کے لئے تو ضر ور ایک حجنت ہے اور یہ وہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ معمول کے مطابق طبعی قوانین کے تابع برسنے والی بارش بھی کبھی عذاب الہی کارنگ اختیار کر سکتی ہے.24

Page 31

حوادث طبعی یا عذاب الہی عذاب الہی کی مختلف اقسام کا بیان چونکہ پہلے گزر چکا ہے اس لئے اس کی تکرار کی ضرورت نہیں.یہاں صرف عذاب الہی کی امتیازی علامات کا ذکر ہو رہا ہے تو پہلی علامت قرآن کریم سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ وقت سے پہلے عذاب الہی کی خبر دے دی جاتی ہے اور بسا اوقات اس کی نوعیت کی بھی تعیین کر دی جاتی ہے.دوسری امتیازی علامت دوسری امتیازی علامت ہمیں یہ معلوم ہوتی ہے کہ عذاب الہی کے واقع ہونے کو ایک ایسی شرط کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے جس کا کسی پہلو سے بھی ان عوامل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا.جس کے نتیجہ میں کوئی ارضی و سماوی حادثہ رونما ہو سکے.حضرت صالح علیہ السلام کے عہد کی مثال ہمارے پیش نظر ہے.وہ خوفناک دھما کہ جسے آتش فشاں پہاڑ کا پھٹنا کہہ لیں یا غیر معمولی قوت کی گھن گرج قرار دے لیں یا اچانک زمین کے پھٹنے کے نتیجہ میں ایک ہیبت ناک آواز تصور کر لیں.غرضیکہ اس ”صیحہ واحدة “ کی جو شکل بھی چاہیں تجویز کر لیں.یہ امر تو بہر حال انسان کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس ”صیحہ کا اونٹنی کی کونچیں کاٹنے سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں یعنی اس کے نتیجہ میں یہ واقعہ رونما نہیں ہو سکتا.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جو طبعی ذریعہ بھی حضرت صالح کی قوم کی ہلاکت کے لئے تجویز ہواوہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں تھا بلکہ ایک غیر معمولی تقدیر تھی.جب تک قوم حضرت صالح کی اونٹنی کا پانی بند کرنے اور اس کی ایذاء رسانی سے باز رہی اذن الہی کی نکیل نے اس ہولناک حادثہ کو رونما ہونے سے سختی سے روکے رکھا لیکن جونہی اونٹنی کا پانی بند کیا گیا.اور کونچیں کاٹی گئیں تو قوانین طبعی کو اپنی جولانیاں دکھانے کی اجازت دے دی گئی.تیسری امتیازی علامت تیسری علامت جو حادثات طبعی کو عذاب الہی سے ایک غیر معمولی امتیاز بخشتی ہے وہ یہ ہے کہ عذاب الہی کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاتی کہ وہ کافروں کے ساتھ مومنوں کو بھی ہلاک کر 25

Page 32

حوادث طبعی یا عذاب الہی دے بلکہ بلا استثناء ہر ایسے حادثے کے وقت مومن بچالئے جاتے ہیں اور منکرین ہلاک کر دیئے جاتے ہیں.اگر چہ قرآن کریم میں بعض ایسے قومی عذابوں کا ذکر ملتا ہے جن کے نتیجہ میں منکرین کے ساتھ مومن بھی کسی قدر تکلیف اٹھاتے ہیں لیکن یہ عذاب ایک استثنائی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کا مقصد مختلف ہوتا ہے.ہم عذابوں کی جن اقسام پر بحث کر رہے ہیں یہ وہ عذاب ہیں جو مومن اور غیر مومن میں تفریق کے لئے آتے ہیں اور جن کے متعلق وقت کے انبیاء واضح الفاظ میں یہ خبر دے دیا کرتے ہیں کہ یہ خدا کے پاک بندوں کو کوئی ضرر نہیں پہنچا سکیں گے.یہ ایک ایسا امتیاز ہے جس کا کوئی طبعی جواز نظر نہیں آتا.آخر کیوں ایک معمول کے مطابق ہونے والا حادثہ قوم کے بھاری اکثریت کو تو ہلاک کر دے لیکن چند لوگوں سے استثنائی سلوک کرتے ہوئے بغیر گزند پہنچائے پاس سے گزر جائے.صرف یہی نہیں بلکہ اس سے عجیب تر بات یہ ہے کہ قوم کے طاقتور اور دنیاوی سروسامان سے متمتع غالب قوتوں والے حصہ کو تو ہلاک کر دے جس کے پاس حوادث سے بچنے کے زیادہ سے زیادہ ظاہری سامان موجود ہوتے ہیں لیکن چند کمزور اور ضعیف اور بے سر و سامان لوگوں کو گزند پہنچانے کی اسے کوئی قدرت حاصل نہ ہو.چو بھی امتیازی علامت چوتھی علامت یہ ہوا کرتی ہے کہ عذاب الہی کے بعد وہ نظریہ حیات یا تو کلیتہ مٹادیا جاتا ہے یا مغلوب کر دیا جاتا ہے جو عذاب الہی سے پہلے طاقتور اور غالب ہو تا ہے اور وہ نظریہ حیات جو عذاب الہی سے پہلے نہایت کمزور اور مغلوب حالت میں پایا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کے زندہ رہنے کے کوئی ظاہری سامان نظر نہیں آتے وہ عذاب الہی کے بعد نہایت قوی اور غالب صورت میں تیزی کے ساتھ نشو و نما پانے لگتا ہے.حتی کہ نظریات کے میدان میں کبھی تو ایسے تنہا عظیم فاتح کے طور پر دکھائی دیتا ہے.جس کا مد مقابل کلیۂ خاک میں مل چکا ہو اور کبھی ایسے فتحمند جرنیل کی شکل میں نظر آتا ہے.جس کا حریف نہایت کمزوری اور ذلت کی حالت میں اس کے غلبہ کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو چکا ہو.جو اہل مذاہب مذہبی تاریخ کو تسلیم کرتے ہیں جو آسمانی صحیفوں میں ان کے لئے محفوظ کی گئی ان کے لئے تو مذکورہ امور ایک مسلمہ حقیقت کی حیثیت رکھتے ہیں.26

Page 33

حوادث طبیعی یا عذاب الہی لیکن وہ لوگ جو کسی مذہب سے وابستہ نہیں یا وابستہ ہونے کے باوجو د دہریت اور لادینیت کا شکار ہیں وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مذکورہ بالا چاروں علامتیں تاریخ مذاہب سے حاصل کی گئی ہیں اور ہمیں اس تاریخ کا کوئی اعتبار نہیں.اس لئے ہمارے نزدیک ان کی حیثیت دلائل کی نہیں محض دعاوی کی ہے لیکن ادنی سے تدبر سے یہ معلوم ہو جائے گا کہ مذکورہ بالا دعاوی اپنے ساتھ ایسے دلائل اور شواہد بھی رکھتے ہیں جن کی کوئی لامذ ہب بھی تردید نہیں کر سکتا.میں اپنے مدعا کی مزید وضاحت کے لئے ذیل میں چند امور قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں:- اول: دنیا کا کوئی لا مذ ہب یا بے دین انسان اس تاریخی حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا کہ جب بھی کسی نبی یا مصلح نے خدا تعالیٰ کی طرف سے اذن پا کر دنیا کو ہدایت کی طرف بلایا کوئی دنیاوی ذریعہ اس کے پاس ایسا نہ تھا جس سے وہ اپنے مخالفین پر غالب آسکتا.اس کے برعکس اس کے مخالفین کو ہر پہلو سے اس پر مکمل دنیاوی فوقیت حاصل تھی.کیا بلحاظ تعداد ، کیا بلحاظ مال و دولت، کیا بلحاظ سیاسی قوت اور کیا بلحاظ اسباب جنگ، ہر پہلو سے وہ اس دعویدار کے مقابل پر اتنے طاقتور اور قوی تھے کہ ادنی سی دنیاوی کوشش کے نتیجہ میں اسے اور اس کے چند ماننے والوں کو ہلاک کر دینے کی پوری طاقت رکھتے تھے.ایسے انبیاء اور مصلحین کی کمزوری کا کچھ تصور اس حقیقت.بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دنیاوی تاریخ کسی نبی کے ظہور کے واقعہ کو اپنے زمانہ میں ایک ایسا معمولی واقعہ سمجھتی ہے جیسے کسی وسیع جھیل میں سے ایک بچے کے ہاتھ میں پھینکی ہوئی کنکر سے کچھ کمزور لہریں پیدا ہوں.حضرت عیسی کے زمانہ میں حضرت عیسی کو اور واقعہ صلیب کو جو اہمیت حاصل تھی اس کا آج جو ہم تصور باندھے ہوئے ہیں اس عہد کے انسان کا تصور اس سے بالکل مختلف تھا.ہم چونکہ نسلاً بعد نسل اس عظیم واقعہ کا ذکر سنتے آئے ہیں اس لئے ہم خواہ مخواہ یہ خیال کرنے لگتے ہیں کہ حضرت عیسی کا دعویٰ اور بعد میں رونما ہونے والا واقعہ صلیب اس زمانہ کے انسانوں کی نظر میں بھی کوئی بڑی اہمیت رکھتا تھا.ہمارا یہ گمان ہر گز حقیقت پر مبنی نہیں.عظیم سلطنت روما کے ایک گوشے میں رونما ہونے والے اس واقعہ نے اس زمانہ کے مؤرخین کی توجہ اس حد تک بھی اپنی 27

Page 34

حوادث طبیعی یا عذاب الہی طرف مبذول نہ کروائی کہ وہ اسے کوئی قابل ذکر بات سمجھ کر چند سطروں میں ہی اس کا ذ کر محفوظ کر دیتے.چنانچہ رومن مؤرخین حضرت عیسی علیہ السلام کے ایک سو سال کے بعد تک بھی یسوع نام کے کسی نبی کے ظاہر ہونے کا ذکر نہیں کرتے اور گویا واقعہ صلیب معمول کے مطابق ایک روز مرہ کی قانونی کارروائی سے زیادہ اور کوئی حیثیت نہ رکھتا تھا.اس قسم کی کارروائیاں قومی تاریخ کے صفحات میں محفوظ کرنے کے لائق شمار نہیں کی جاتیں.حضرت عیسٰی علیہ السلام کے واقعہ کی تاریخی عظمت کا انحصار کلیۂ عیسائیت کے پھیلاؤ سے تھا.جوں جوں عیسائی قوم ترقی کرتی چلی گئی بعد میں آنے والے مؤرخین اس واقعہ کو پہلے سے بڑھ کر اہمیت دیتے چلے گئے.مگر عہد میسیج میں یقیناً سلطنت روما کے مقابل پر مسیح کی ظاہری حیثیت قابل ذکر نہ تھی کہ ان کا مرنا یا جینا سلطنت روما کے اہلکاروں کی نگاہ میں کوئی قابل اعتناء بات سمجھی جاتی.اسی طرح اس کائنات کا سب سے بڑا واقعہ یعنی آنحضور صلی للی نام کا دعوی فتح مکہ سے قبل تک اس زمانہ کے انسان کو ایک ایسا عام اور معمولی واقعہ نظر آتا تھا کہ جب تک مسلمانوں کے بعد کی فتوحات نے مشرق و مغرب میں زلازل بر پا نہیں کئے اس وقت تک رومن اور فارس کی سلطنتوں نے ظہور محمد مصطفی صل اللی علم کو کوئی خاص قابل اعتناء بات نہ سمجھا.کسریٰ کی حکومت تو بہت جلد اسلام سے مغلوب ہو گئی.اس لئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ ایرانی مؤرخین نے فتح مکہ سے قبل حضرت رسول اکرم صلی ا کرم کا کوئی ذکر اپنی تاریخ کے صفحات میں محفوظ کیا یا نہیں.لیکن آنحضرت صلی الیکم کے عہد کے رومن مؤرخین کے متعلق ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے ہاں کائنات کے اس عظیم ترین واقعہ کا کوئی ذکر تک نہیں ملتا.ایران کی عظیم مشرقی سلطنت کے بارہ میں بھی ان روایات کی روشنی میں جو اسلامی تاریخ کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہیں.یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ حضور اکرم صلی نی کی زندگی میں شہنشاہ ایران کے نزدیک یہ ایک بہت معمولی واقعہ تھا.اس دور کے خسرو کے متعلق یہ لکھا ہے کہ اس نے یمن کے گورنر کو یہ کہلا بھیجا تھا کہ شنید کے مطابق کوئی اس قسم کا دعویدار عرب میں پیدا ہوا ہے اسے پکڑوا کر میرے دربار میں حاضر کرو.یمن کے گورنر کے نزدیک حضور اکرم صلی للی کم کی جو 28

Page 35

حوادث طبعی یا عذاب الہی اہمیت تھی اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے صرف دو کارندے اس غرض کے لئے مدینہ روانہ کئے کہ نعوذ باللہ سید کو نین صلیالی کم کو پکڑ کر اس کے سامنے لائیں.اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس وقت کی دنیا نے ظہور حضرت محمد صلی لی ہم کو کیا اہمیت دی ہو گی.پس دنیا کا کوئی لامذہب بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ ہر نبی اپنے دعوی کے وقت کمزور ہی نہیں بلکہ اہل دنیا کو اتنا کمزور نظر آتا ہے کہ اس کا ہونا یا نہ ہونا گویا ان کے نزدیک برابر ہوتا ہے.آدم سے لے کر حضرت محمد مصطفی صلی اللی کم تک بلا استثناء ہمیشہ یہی کہانی دوہرائی گئی.دوم: اس کے بعد ہر لا مذہب اور منکر دین کو اس حقیقت سے بھی انکار کی گنجائش نہیں کہ وہ عظیم سلطنتیں اور عظیم قو میں جو اپنے وقت کے نبی کو پر پشہ کی حیثیت بھی نہیں دیتی تھی.” حوادث زمانہ “ ( اہل مذہب کے نزدیک عذاب الہی کا شکار ہو گئیں.اور ان کی صف اس دنیا سے یکسر لپیٹ دی گئی اور ان کے مذاہب مٹ گئے اور ان کے نظریات فنا ہو گئے اور کچھ بھی ان کا باقی نہ رہا سوائے اس ذکر کے جو تاریخ کے صفحات میں پھیلا ہوا ہے لیکن وہ جن کا کچھ ذکر ان لوگوں کی تاریخ کے صفحات میں نہیں ملتا وہ ایک ناقابل فہم معمہ بن کر ان سلطنتوں اور قوموں پر غالب آگئے وہ باقی رہے اور اس شان سے باقی رہے کہ ان کے نظریات ہی آج غالب نظریات کے طور پر زندہ موجود ہیں ان کے مذاہب نے دنیا کے عظیم خطوں کو گھیر رکھا ہے یہاں تک کہ آج دنیا میں بسنے والے لوگوں کی غالب اکثریت وہ ہے جو کسی نہ کسی ایسے نبی، رشی یا او تار کی طرف منسوب ہوتی ہے جو اپنے وقت کا کمزور ترین انسان تھا.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان قوموں کے مٹنے کا باعث حوادث زمانہ تھے تو عقلاً ان کا اوّل شکار اس زمانہ کے کمزور ترین انسان ہونے چاہئیں تھے نہ کہ انتہائی طاقتور اور حکمران قو میں...؟ حوادث زمانہ کو یہ تمیز کہاں سے آئی کہ کمزور اور طاقتور میں ایسی تمیز کرے کہ کمزور کا معین و مددگار اور طاقتور کا جان لیوا دشمن بن جائے؟ سوم: ایک تیسری حقیقت جو اسی تعلق میں نمایاں طور پر نظر آتی ہے اور کوئی لا مذہب اور بے دین انسان اس کا بھی انکار نہیں کر سکتا کہ وہ یہ ہے کہ وہ بستیاں جو زلازل کا شکار ہوئیں اور مسلسل چلنے والی آندھیوں کے نتیجہ میں تہہ بہ تہہ خاک کے تودوں کے نیچے دب کر تباہ ہو گئیں 29

Page 36

حوادث طبعی یا عذاب الہی ان میں سے ایک بھی ایسی نہیں جو کسی نبی پر ایمان لانے والی جماعت پر مشتمل ہو بلکہ تمام بے دینوں اور منکروں کی بستیاں ہیں.جن کے آثار باقیہ آج بھی شرک و بدعت اور فسق و فجور کی داستانیں محفوظ رکھے ہوئے ہیں.قرآن کریم نے ان بستیوں کا بار بار ذکر فرمایا ہے اور انسان کی توجہ بار بار اس حقیقت کی طرف مبذول کراتا ہے کہ قدیم سے جاری و ساری عظیم شاہر اہوں پر ان بستیوں کو تلاش کرو تو تمہیں خاک کے عظیم تو دوں تلے دبی ہوئی نظر آئیں گی اور تم دیکھو گے کہ ان میں وہ قومیں مدفون ہیں جو اپنے وقت کے انبیاء کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کا عزم لے کر اٹھی تھیں.ان کے عزائم نہایت خطرناک اور ان کی قوت نا قابل دفاع تھی.اس وقت جب کہ بظاہر انبیاء اپنے غلبہ سے مایوس ہو گئے.تب اچانک اللہ تعالیٰ کی مدد ایک ایسے عذاب کی صورت میں آئی جو اچھے اور برے میں امتیاز کرنے والا تھا جسے خدا چاہتا تھا.اسے نجات بخشتا تھا لیکن مجرم اس کی پکڑ سے بچ نہ سکتے تھے قرآن کریم اس کیفیت کا ذکر فرماتے ہوئے بیان کرتا ہے:.(سورة يوسف:ااا) إِذَا اسْتَيْئَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنهُمْ قَدْ كُذِبُوْا جَاءَهُمْ نَصْرُنَا فَنُعِي مَنْ نَّشَاءُ وَلَا يُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ اور جب ایک طرف تو ) رسول ( ان کی جانب سے) نا امید ہو گئے.اور (دوسری طرف) ان (منکروں کا یہ پختہ خیال ہو گیا کہ ان سے (وحی کے نام سے) جھوٹی باتیں کہی جارہی ہیں تو (اس وقت) ان (رسولوں) کے پاس ہماری مدد آگئی اور جنہیں ہم بچانا چاہتے تھے (انہیں) بچا لیا گیا اور مجرم لوگوں سے ہمارا عذاب ( ہر گز ) نہیں ہٹایا جاتا.یہ مدفون قو میں جن کے مدفن سے انسان لا علمی اور غفلت کی حالت میں گزر جایا کرتا تھا آج کے زمانہ میں جب کہ زمین اپنے بوجھ اگل رہی ہے منظر عام پر ابھر رہی ہیں.لیکن جس وقت قرآن کریم نے ان کا ذکر فرمایا تھا اکثر انسان ان کے بارہ میں لاعلمی کی زندگی بسر کر رہے تھے.30

Page 37

پانچویں امتیازی علامت حوادث طبیعی یا عذاب الہی پانچویں علامت جو عذاب الہی کو حوادث زمانہ سے الگ کرتی ہے اس کا ذکر قرآن کریم کی حسب ذیل آیت میں ملتا ہے:.وَمَا نُرِيهِمْ مِنْ آيَةٍ إِلَّا هِيَ أَكْبَرُ مِنْ أُخْتِهَا وَأَخَذْقُهُمْ بِالْعَذَابِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ.(سورة الزخرف: ۴۹) ترجمہ : ہم ان کو جو نشان بھی دکھاتے تھے وہ اپنے سے پہلے نشان سے بڑا ہو تا تھا اور ہم نے ان کو عذاب میں مبتلا کر دیا تھا تا کہ وہ (اپنی بد اعمالیوں سے) لوٹ جائیں.یعنی عذاب الہی میں ایک تدریج اور ترتیب پائی جاتی ہے اور آخری غلبہ تک عذابوں کا سلسلہ سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے.گویا عذاب الہی کے مختلف مظاہر میں خفیف سے اشر کی طرف حرکت نظر آتی ہے.اگر عذاب کی شدت کا گراف بنایا جائے تو معمولی اتار چڑھاؤ کے باوجود عذاب کا عمومی رخ شدید سے شدید ترکی طرف ہی نظر آئے گا.یہاں تک کہ اگر قوم پیغمبر وقت کے نظریات کو قبول نہ کرے اور اس کی ہلاکت مقدر ہو جائے تو عذاب کی آخری یورش سب سے شدید اور فیصلہ کن ہوتی ہے.حوادث زمانہ میں ایسی کوئی ترتیب نہیں پائی جاتی.چھٹی امتیازی علامت عذاب الہی کی چھٹی امتیازی علامت یہ ہے کہ گو حوادث زمانہ انسان کی قلبی کیفیت سے اثر انداز نہیں ہوتے اور وہ ان کیفیات سے بے نیاز اپنے دائرہ میں کار فرمارہتے ہیں لیکن عذاب الہی اس عہد کے انسانوں کی قلبی کیفیات سے ایک ایسا عجیب رشتہ رکھتا ہے اگر دلوں میں گزشتہ گناہوں پر ندامت اور پشیمانی پیدا ہو جائے اور طبیعتیں استغفار کی طرف مائل ہوں تو عذاب الہی ٹل جاتا ہے.قرآن کریم عذاب الہی کی اس امتیازی خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.وَمَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ.(سورۃ الانفال: ۳۴) 31

Page 38

حوادث طبعی یا عذاب الہی ترجمہ: اللہ تعالیٰ انہیں ایسی حالت میں عذاب نہیں دیتا کہ وہ استغفار کر رہے ہوں.گزشتہ انبیاء کی تاریخ میں حضرت یونس کے عہد کا واقعہ اس نوع کی ایک نمایاں مثال ہے.کہ عذاب الہی کی خبر دیئے جانے کے باوجود جب قوم نے استغفار سے کام لیا تو یہ غیر متبدل سنت اللہ قوم اور عذاب الہی کے درمیان حائل ہو گئی.ساتویں امتیازی علامت عذاب الہی کا ایک اور امتیاز یہ ہے کہ عذاب اس وقت تک انتظار کرتا ہے.جب تک نبی ہلاک ہونے والی بستی کو چھوڑ کر نہ چلا جائے.جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالی آنحضرت صلی اللہ ہم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے: وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيْهِمْ.(سورۃ الانفال: ۳۴) ترجمہ : اللہ تعالیٰ انہیں ہر گز عذاب نہیں دے گا کہ تو ان کے اندر موجود ہو.ظاہر بات ہے کہ حوادث کسی کا انتظار نہیں کرتے.پس وہ حوادث جو کسی خاص وجود یا نیک لوگوں کی خاطر رکے رہیں اور اس بات کا انتظار کرتے رہیں کہ وہ ہلاک ہونے والی بستی کو چھوڑیں تو پھر یہ سر گرم عمل ہوں.مذہبی اصطلاح میں ایسے حوادث کو عذاب الہی کہا جاتا ہے.اس جہت سے جب ہم اس سوال پر نظر ڈالتے ہیں کہ انبیاء اور ان کی قومیں کس طرح عذاب کے چنگل سے بچ گئیں تو اس کا ایک جواب یہ سامنے آتا ہے کہ یا تو وقت سے پہلے خبر دار ہونے کی بناء پر انبیاء اپنے ساتھیوں کو لے کر ہلاک ہونے والی جگہوں کو چھوڑ چکے تھے یا خود ان کی قوموں نے انہیں اپنے آبائی وطنوں سے جلا وطن کر دیا تھا.پس عذاب الہی اس وقت آیا جب وہ ان بستیوں میں موجود نہ تھے.یہاں ضمناً اس اعتراض کا ذکر بھی بے جانہ ہو گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر مخالفین کی طرف سے کیا جاتا ہے کہ زلزلہ کے وقت کیوں بستی کو چھوڑ کر باہر باغات میں خیمہ زن 32

Page 39

حوادث طبیعی یا عذاب الہی ہو گئے کم فہم معاندین بڑے تمسخر سے اس بات کا ذکر کرتے ہیں اور نہیں سوچتے کہ قرآن کریم کی پیش کردہ تعلیم کی رو سے سنت انبیاء یہی چلی آئی ہے کہ عذاب کی خبر کے بعد اس سے بچنے کے ظاہری اسباب ضرور اختیار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ خود انہیں ہر قسم کی پیش بندی کا ارشاد فرماتا ہے یہ کبھی نہیں ہوا کہ عذاب الہی کی خبر سن کر انبیاء عین بیچ مقام عذاب کے ڈیرہ ڈال لیں.عذاب کی بعض قسمیں ایسی بھی ہوا کرتی ہیں جن سے بچنے کے لئے بظاہر کوئی ظاہری ذریعہ اختیار نہیں کیا جاتا لیکن اس کے باوجود وہ عذاب خدا تعالیٰ کے نیک بندوں کو ہلاک کرنے کی قدرت نہیں رکھتا.اس نوعیت کے عذابوں کے متعلق چونکہ انبیاء کو پہلے سے مطلع کر دیا جاتا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ جس حد تک انہیں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا ارشاد فرماتا ہے.اس سے بڑھ کر وہ کوئی تدبیر اختیار نہیں فرماتے پھر بھی وہ دشمن جو ہر طرح کی تدابیر اختیار کرنے پر قادر ہو تا ہے وہ تو عذاب کی زد سے بچ نہیں سکتا لیکن انبیاء اور ان کے ساتھی بعض نامعلوم محرکات کی بناء پر اس کی پکڑ سے محفوظ رہتے ہیں.اس کی مثال تاریخ انبیاء میں حضرت موسی کے زمانہ میں ملتی ہے جب کہ بنی اسرائیل کو صرف ایک احتیاطی تدبیر اختیار کرنے کا ارشاد ہوا.یعنی خمیر کھانے سے روک دیا گیا.اس کے سوا کوئی اور ایسی تدبیر اختیار نہیں کی گئی جس کا صحف سابقہ یا تاریخ میں ذکر ملتا ہو.فرعون کی قوم اس کے برعکس ہر قسم کی وبائی امراض کے مقابلہ کے لئے تمام معلوم ذرائع اختیار کرنے پر آزاد تھی لیکن جب بعض وبائی بیماریوں نے جن کا تعلق خون سے تھا ان کی قوم پر حملہ کیا تو حضرت موسیٰ کے ماننے والے انہی لوگوں میں رہنے کے باوجود ان بیماریوں سے بچ گئے اور فرعون کی قوم عموماً ان کا شکار ہو گئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اس کی مثال طاعون کے عذاب کی شکل میں ملتی ہے جس کی تفصیل آئندہ آئے گی.ایک اور اہم سوال سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آدم کے مخالفین اگر صفحہ ہستی سے مٹا دیئے گئے اور نوح کے منکرین کا نشان باقی نہیں رکھا گیا اور موسیٰ کا مقابلہ کرنے والے اگر نیل کی موجوں کی نذر ہو گئے اور داؤد کے دشمنوں کی صف اگر لپیٹ دی گئی اور عیسی کے ماننے والوں کو بھی اس کے منکرین پر 33

Page 40

حوادث طبعی یا عذاب الہی ایسا عظیم الشان غلبہ حاصل ہو گیا کہ وہ جو کبھی تعداد میں کم تھے وہ غالب اکثریت میں تبدیل ہو گئے اور وہ جو کبھی محکوم اور مظلوم تھے حاکم اور جابر بن گئے.پھر کیوں آنحضرت صلی الیہ کم جو نبیوں کے سرتاج اور سردار اور خاتم المرسلین ہیں آپ کی تائید میں عذاب الہی نے وہ معجزات نہ دکھائے کہ جو گزشتہ انبیاء کی تائید میں دکھا چکا تھا اور کیوں آج تک آپ کو اپنے مخالفین پر اتنا غلبہ بھی نصیب نہیں ہو سکا جتنا حضرت عیسی کے ماننے والوں کو واقعہ صلیب کے چند سو سال کے اندر نصیب ہو گیا ؟ اس کے جواب میں پہلا قابل توجہ امر یہ ہے کہ قرآن کریم نے کہیں یہ دعویٰ نہیں کیا کہ عذاب الہی کا مقصد بلا استثناء ہمیشہ یہی ہوا کرتا ہے کہ مخالف قوم کلیۂ مٹا دی جائے اگر چہ قرآن کریم بعض ایسی قوموں کا ذکر بھی کرتا ہے جن کے متعلق یہی فیصلہ ہو چکا تھا کہ ان کا نام و نشان مٹا دیا جائے لیکن قاعدہ کلیہ کے طور پر پیش نہیں کرتا.ہاں اگر قاعدہ کلیہ ہے تو صرف یہ کہ عذاب الہی کے نتیجہ میں انبیاء کی جماعتوں کو اپنے مخالفین کی جماعتوں پر لازماً غلبہ نصیب ہو جاتا ہے.بعض اوقات اس غلبہ کے بعد مخالف قوم کا ایک حصہ باقی رکھا جاتا ہے اور اس کے باقی رکھے جانے میں بھی ایک عذاب کا پہلو ملتا ہے.دنیا میں متعدد ایسی خانہ بدوش اور بادیہ پیما قو میں ملتی ہیں جو سخت ذلت اور رسوائی کی زندگی بسر کر رہی ہیں اگر ان کی تاریخ کا تتبع کیا جائے تو بعید نہیں کہ اس خطہ زمین کے کسی صاحب جلال نبی کے انکار کے نتیجہ میں ان کے ابتدائی مولد و مسکن پر لعنت کی گئی اور وہ اس قوم کے لئے عبرت کا نشان بن کر پیچھے چھوڑ دی گئی ہوں.لیکن یہ کوئی تحقیق شدہ مسئلہ نہیں محض ایک امکان ہے جہاں تک ٹھوس تاریخی حقائق کا تعلق ہے قرآن کریم اس ضمن میں یہود کی مثال پیش کرتا ہے.چنانچہ یہود کا باقی رکھے جانا اس طرز عذاب کی ایک مثال ہے اور قرآن کریم کی پیشگوئی کے مطابق ان کی ذلت اور رسوائی کی کہانی کو قیامت تک زندہ رکھنے کا ایک ذریعہ ہے.قرآن کریم اس ضمن میں فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کو پہلے ہی سے یہ خبر دے دی تھی کہ جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ.(سورة آل عمران : ۵۲) 34

Page 41

حوادث طبعی یا عذاب الہی ترجمہ : میں تیرے ماننے والوں کو تیرے منکرین (یہود) پر قیامت تک غالب رکھوں گا.یہ پیشگوئی حضرت عیسی علیہ السلام کے وصال سے تین سو سال کے اندر نہایت شاندار رنگ میں پوری ہو گئی اور آج تک قرآن کریم کی صداقت پر ایک زندہ نشان بنی ہوئی ہے.عجیب بات یہ ہے کہ اناجیل یا عہد نامہ جدید میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں ملتا.حالانکہ یہ ایک ایسی اہم اور شاندار پیشگوئی تھی کہ بائبل کو اول طور پر اس کا ذکر کرنا چاہئے تھا تاہم بائبل خاموش رہی اور قرآن کریم نے اس کا ذکر فرما دیا اور اس وقت سے لے کر آج تک دنیا کی تاریخ قرآن کریم کے اس بیان کی تصدیق کرتی ہوئی نظر آتی ہے.یہاں ضمناً یہ بھی معلوم ہو گیا کہ عذاب الہی کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ کسی قوم کو ذلت اور مغلوبیت کی حالت میں مَغْضُوبِ عَلَيْهِذ بنا کر تا قیامت زندہ رکھا جائے.پھر ایک ضمنی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عہد حاضر میں ایک مسلمان علاقہ میں یہود کو غلبہ کیوں نصیب ہوا اور کیوں عالم اسلام کے عین وسط میں ان کو ایک ظالمانہ حکومت قائم کرنے کی توفیق ملی ؟ اس سوال پر تفصیلی بحث کا تو یہ موقعہ نہیں البتہ اشارہ یہ کہنا کافی ہو گا کہ قرآن کریم میں پہلے ہی سے اس عارضی غلبہ کی بھی پیشگوئی موجود ہے اور اس کا ایک مقصد یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ یہود پر اور اہل دنیا پر یہ بات روشن کر دی جائے کہ اس قوم کو قیامت تک مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ بنانا اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ظلم اور تعدی کا فیصلہ نہیں تھا بلکہ یہ قوم اپنی سرشت کے لحاظ سے اس حد تک بگڑ چکی ہے اور ان کے دل ایسے سخت ہو چکے ہیں کہ اگر انہیں کبھی غلبہ نصیب ہو تو انتہائی ظلم اور سفاکی پر اتر آئیں گے.لہذا یہ اس قابل نہیں رہے کہ انہیں کبھی دنیا کی سرداری بخشی جائے.اب ہم اصل سوال کی طرف واپس آتے ہیں.کہ آنحضرت صلی للی یم کے مخالفین پر کیوں ایسا عذاب الہی نازل نہیں ہوا جو ان کو کلیہ آنحضرت صلی علی ایم کے دین کے مقابل پر مغلوب کر دیتا 35

Page 42

حوادث طبیعی یا عذاب الہی اگر آپ تمام بنی نوع انسان کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے تھے تو محض عرب قوم پر غلبہ عقل کو مطمئن نہیں کر سکتا.آج جبکہ حضرت رسول اکرم صلی نیم کے ظہور کو چودہ سو برس ہونے کو آئے حالت یہ ہے کہ دوسری قومیں تو الگ رہیں صرف عیسائیوں کے مقابل پر بھی مسلمان ہر لحاظ سے مغلوب نظر آتے ہیں.آج عیسائیوں کو ان پر عددی اکثریت بھی حاصل ہے.اموال کا غلبہ بھی نصیب ہے.سیاسی غلبہ بھی نصیب ہے اور عسکری قوت کا غلبہ بھی نصیب ہے.اسی طرح علمی تمدنی اور معاشرتی طور پر بھی دنیا میں عیسائی قومیں غالب اور مسلمان اقوام مغلوب دکھائی دے رہی ہیں.اس سوال پر غور کرتے ہوئے سب سے پہلے اس مسئلہ کو حل کرناضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء کو جو غلبہ کا وعدہ دیا جاتا ہے اس کی مدت کیا ہونی چاہئے.جب تک یہ طے نہ ہو جائے کہ کتنے عرصہ میں غلبہ ہونا چاہئے اس وقت تک اس بارہ میں کوئی فیصلہ نہیں دیا جاسکتا.قطعی اس پہلو سے جب ہم انبیائے گزشتہ کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اگر چہ غلبہ ایک آخری اور نتیجہ کے طور پر واضح طور پر دکھائی دیتا ہے لیکن کوئی معین مدت ایسی نظر نہیں آتی جو اس بارہ میں رہنما اصول کا کام دے سکے.عیسائیت کے غلبہ کو ہی لیجئے حضرت عیسی علیہ السلام کے دعوی کے بعد تقریبا تین سو سال تک عیسائیت ایک اُبھرتی ڈوبتی اور پھر ڈوبتی اور اُبھرتی ہوئی ناؤ کی طرح دکھائی دیتی ہے جس کا مستقبل غیر یقینی نظر آتا ہے.ایسے ایسے ادوار بھی عیسائیت پر آئے کہ قومی اور ظالم دشمن سے بظاہر کلیۂ مغلوب ہو کر عیسائیوں کو زیر زمین غاروں میں پناہ لینی پڑی.اصحاب کہف کی یاد گار وہ غاریں آج بھی یورپ میں موجود ہیں جن کا زیر زمین سلسلہ میل ہا میل تک پھیلا ہوا ہے.جنہیں کیٹا کوم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے.ان کے راستے اتنے پیچیدہ اور اند ھیرے ہیں کہ آج کے جدید روشنی کے سامانوں کے باوجود بڑی احتیاط کے ساتھ قافلوں کی صورت میں زائرین راستہ دکھانے والوں کے پیچھے چل کر معائنہ کرنے کے قابل ہوتے ہیں.اس کے باوجود کئی زائرین راستہ بھٹک کر ان پیچ در پیچ ظلماتی راستوں کا شکار ہو جاتے ہیں.لیکن یہی ظلماتی راہیں کبھی موحد اور مظلوم عیسائیوں کے نور سے روشن تھیں.یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے بالائے زمین خطرات کو ان زیر زمین خطرات سے بہت زیادہ بھیانک پایا اور بسا اوقات سال ہا سال کا عرصہ 36

Page 43

حوادث طبیعی یا عذاب الہی انہیں غاروں میں بسر کر دیا لیکن یہ پسند نہ کیا کہ قوی دشمن کے خوف سے اپنے دین کو تبدیل کر دیں.سطح زمین پر جیسے جیسے رومن تاریخ کروٹیں بدلتی رہی ویسے ویسے ہی یہ عیسائی اقوام کبھی باہر نکل کر کھلے آسمان تلے دم لے لیتیں اور کبھی پھر غاروں میں پناہ گزیں ہو کر ایک نیم خوابیدہ سی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو جاتیں.یہ دور اس طرح چلتارہا یہاں تک کہ عذاب کی مختلف شکلوں نے پے در پے صدمے پہنچا کر عظیم سلطنت روما کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اور آخر دنیا نے یہ حیرت انگیز نظارہ دیکھا کہ عیسائیت ان غاروں سے نکل کر ترقی کے بلند و بالا میناروں کی زینت بن گئی اور آج ان اقوام کی تعمیر کردہ سر بفلک عمارتیں آسمان سے باتیں کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں.غیر معمولی بلندی کی وجہ سے انہیں سکائی سکریپر ز کا نام دیا گیا ہے.پس اللہ تعالیٰ کی یہ عجیب شان ہے کہ وہ لوگ جو کبھی خدا تعالیٰ کے پیغام کے لئے سطح زمین پہ نہ بس سکتے تھے اور بالائے زمین کھلی فضا میں رہنے کی بجائے انہوں نے محض خدا کی خاطر زیر زمین گہری، تنگ و تاریک غاروں میں رہنا پسند کر لیا اللہ تعالیٰ نے انہیں ظاہری رفعتیں بھی ایسی عطا کیں کہ ان کی عمارتیں ہی نہیں وہ خود بھی آسمان سے باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں.کبھی ان کے قدم چاند کی سر زمین کو روندتے ہیں اور کبھی ان کے راکٹس مارس کی بلندیوں کو سر کر لیتے ہیں.پس جہاں تک واقعات کا تعلق ہے گو ہر دنیاوی معیار کے لحاظ سے یہ بات ناقابل فہم اور نا ممکن دکھائی دیتی ہے کہ حضرت عیسی کی وفات کے بعد تین صدیوں کے کمزور عیسائی کسی وقت دنیا پر ایک عظیم غلبہ حاصل کر لیں گے اور سماء الدنیا پر پرواز کرتے ہوئے دکھائی دیں گے.لیکن واقعات اس ناممکن تصور کو ممکن بنا کر دکھارہے ہیں.حضرت عیسٰی علیہ السلام کو صرف بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا تھا اور اگر غیر قومیں ان کے پیغام کو بزور شمشیر دبانے کی کوشش نہ کرتیں تو ممکن ہے کہ عیسائیت محض بنی اسرائیل تک محدود رہتی سوائے اس کے کہ اپنے ترقی کے سفر کے دوران اپنے دائیں بائیں وقتاً فوقتاً کچھ پگڈنڈیاں بنالیتی لیکن لَاغْلِبَنَّ آنَا وَرُسُلِی کے اٹل قانون سے جب غیر قوموں نے ٹکر لی ہے تو وہ خائب و خاسر ہو کر کلیۂ مغلوب ہونے پر مجبور کر دی گئیں.بہر حال اس میں کوئی 37

Page 44

حوادث طبعی یا عذاب الہی شک نہیں اور یہ حقیقت اپنی جگہ قائم رہتی ہے اور یہ عہد نامہ جدید سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ عیسائیت ایک محدود قوم اور ایک خاص نسل کے لئے ایک معین وقت تک پیغام حیات مقرر کی گئی تھیں اور اس کا مشن فی ذاتہ کبھی بھی عالمی مشن مقرر نہیں ہوا چنانچہ عہد نامہ جدید میں اشارہ بھی اس بات کا ذکر نہیں ملتا کہ حضرت مسیح کا پیغام کل عالم اور ہر زمانہ کے لئے تھا.پس سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر رَسُولًا إلى بنج اشراء بیل کو غلبہ کے لئے تین سوسال درکار تھے بلکہ تین سو سال کے بعد بھی غلبہ کا حامل نہیں ہوا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ غلبہ کی تکمیل کے سامان پیدا ہو گئے تو وہ رسول جس کا دعوی ہی یہ ہو یا آئیهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا کہ اے بنی نوع انسان میں تم سب کے لئے خواہ مشرق میں بسنے والے ہو یا مغرب میں ، سفید قوموں سے تعلق رکھتے ہو یا سرخ گندم گوں یا زرد یا سیاہ فام میں تم سب کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں اتنے بڑے اور عظیم الشان مقصد کے حصول کے لئے اور اس عظیم پیغام کے تمام دنیا پر کلیتہ غالب آنے کے لئے تین سو سال کے مقابلہ پر نسبتاً ایک زیادہ لمبا زمانہ مقرر ہونا چاہئے.قرآن و حدیث کی طرف جب ہم رہنمائی کے لئے رجوع کرتے ہیں تو صاف معلوم ہو تا ہے کہ اسلام کا غلبہ دو ادوار میں منقسم کر دیا گیا ہے.پہلا دور یعنی اسلام کے اولین غلبہ کا دور شان محمدی سے تعلق رکھتا ہے اور حضرت محمد مصطفی ملی لی ایم کے وقت سے لے کر اس وقت تک ممتد ہے جب اسلام کے لئے یہ مقدر تھا کہ اس کے غلبہ کی پہلی روڑک کر مائل بہ انحطاط ہو جائے گی اور اسلام کو ایسے خطر ناک ایام کا منہ دیکھنا پڑے گاجو دنوں کی نسبت راتوں کے زیادہ مشابہ ہوں اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی خاص قدرت اور جلوہ نمائی کے ساتھ پھر فضل عظیم لے کر آئے گا اور حضرت محمد مصطفی صل الله علم کو ایک مرتبہ پھر اپنی ظلی شان میں آخرین 1 میں مبعوث کرے گا.تا کہ آپ کے نقش قدم پر قدم بقدم چلنے والا مہدی دوبارہ ان کے دلوں کو ایمان سے منور کر دے اور اگر ایمان ثریا تک بھی اٹھ چکا ہو تو ثریا سے اتار کر اس کی شمعیں مسلمانوں کے 1 سورۃ الجمعہ آیت نمبر ۳-۴.2 بخاری کتاب التفسیر سورۃ الجمعہ.38

Page 45

سینوں میں روشن کر دے.حوادث طبیعی یا عذاب الہی اسی طرح جب اللہ تعالیٰ نے آنحضور صلی للی کم پر یہ انکشاف فرمایا کہ اسلام کو دوسرے تمام ادیان پر غالب کر دیا جائے گا تو ایک صحابی کے سوال پر کہ ایسا کب ہو گا؟ حضور اکرم صلی ا ہم نے ارشاد فرمایا کہ یہ اس وقت ہو گا جب مسیح 1 نازل ہو گا وہ صلیب کو توڑ دے گا.خنزیر کو قتل کرے گا اور حکم اور عدل بن کر ( قوموں، مذاہب اور فرقوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے) آئے گا.مندرجہ بالا کی روشنی میں یہ صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ مکمل غلبہ سے قبل ہی اسلام کا روبہ تنزل ہو جانا کوئی ایسی علامت نہیں جو اسلام کی آخری شکست اور ناکامی کی غمازی کر رہی ہو.بلکہ یہ ایک درمیانی کیفیت ہے جس کا غلبہ سے پہلے ظاہر ہونا شروع ہی سے مقدر تھا.جس طرح پہلی قوموں پر اونچ نیچ کے حالات آتے رہے لیکن آخری اور قطعی اور اٹل فیصلہ پر اثر انداز نہ ہو سکے اسی طرح اسلام پر انحطاط کا یہ دور خواہ کیسا ہی ہولناک نظر کیوں نہ آئے آنحضور صلی الم کی چودہ سو سال قبل پیشگوئیوں کے مطابق ایک عارضی کیفیت سے بڑھ کر کوئی اور معنی نہیں رکھتا اس کا دور ہو جانا ایک اٹل تقدیر ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت تبدیل نہیں کر سکتی.پس پہلے ہی سے یہ خبر دے دی گئی تھی کہ اس وقت جب آخرین میں آنحضرت صلی للی یکم کی علی بعثت کا وقت آئے گا تو مسلمان کو دوبارہ مسلمان بنایا جائے گا.اور عیسائیت پر اسلام کی یورش کا آغاز ایک ایسے فتح نصیب جرنیل کی قیادت میں کیا جائے گا جو مسیح کا نام پا کر جھوٹے صلیبی مذہب کے دلائل کو پارہ پارہ کر دے گا اور مغربی تہذیب کا قلع قمع کرے گا.جب ان پیشگوئیوں کی طرف نظر اٹھتی ہے تو دل اس بات پر مطمئن ہو جاتا ہے کہ جب انحطاط کی خبر لفظاً لفظاً اپنی تمام تفاصیل کے ساتھ پوری ہو گئی تو بلا شبہ ادیان عالم پر ایک عالمی اور کامل غلبہ کی خوشخبری بھی اس کے بعد جلد پوری ہونے والی ہے.ایک انگریزی شاعر نے اس مضمون کو ایک مصرعہ میں یوں بیان کیا ہے کہ :- If winter comes, can spring be far behind.یعنی اگر خزاں آگئی ہے تو بہار آنے میں بھلا کیا دیر ہو گی.1 ابو داؤد کتاب الملاحم باب خروج الد جال ص ۵۹۴ 39

Page 46

حوادث طبیعی یا عذاب الہی پس جس مخبر صادق نے خزاں کے آنے کی خبر دی تھی اس نے بعد میں آنے والی بہار کی بھی تو خوشخبری دی ہے.پھر جیسے خزاں کی خبر پوری ہو گئی ویسے بہار کی بھی خبر بہر حال پوری ہو کر رہے گی..قضائے آسمان است ایں بہر حالت شود پیدا مذکورہ بالا بحث سے اگر قارئین کو یہ تو معلوم نہیں ہو سکتا کہ عیسائیت کے تین سو سال کے مقابل پر اسلام کو اپنے مشن کی تکمیل کیلئے اور تمام ادیان پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے کتنی مدت درکار ہے لیکن یہ امر تو بخوبی روشن ہو چکا ہو گا کہ اس مدت کا تعلق امام مہدی اور مسیح موعود کے ظہور سے ضرور ہے اور امام مہدی اور مسیح موعود کے ظہور کا واقعہ ایک عظیم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے یعنی ایک ایسے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جو اس موڑ پر نصب ہے جہاں سے رفعتوں سے اتر کر منزل کی طرف جانے والی ایک راہ نے دفتا ایک بلند ہوتی ہوئی شاہراہ میں تبدیل ہو جانا تھا.دوسروں کے لئے یعنی ان کے لئے جو مسلمان تو ہیں مگر جماعت احمدیہ سے تعلق نہیں رکھتے.یہ مدت غیر معین چلتی آرہی ہے.لیکن احمدی جو ایک ایسے دعویدار پر ایمان لے آئے ہیں جس نے آنحضرت صلی الم کی کامل غلامی میں مہدی زماں اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ان کے لئے یہ مذت واضح طور پر معین ہو کر سامنے آچکی ہے اور ان کے لئے نزدیک ظہور اسلام کے بعد چودھویں صدی اسلام کے عالمگیر غلبہ کی تیاری کی صدی ہے.اصل مضمون کی طرف واپس آتے ہوئے ایک دفعہ پھر ہم اس سوال کو لیتے ہیں کہ کیوں آنحضرت صلی اللی علم کے مخالفین پر یعنی دنیا کے تمام ادیان غیر پر آج تک آنحضرت صلی ا یلم کے دین کو غلبہ حاصل نہیں ہوا کیوں اس کے باوجود عذاب الہی نے انکار کرنے والی قوموں کو ہلاک کر کے ان کا نشان دنیا سے مٹا نہیں دیا؟ اس سوال کے دو حصے ہیں اول یہ اسلام کو کیوں دور اول ہی میں مکمل غلبہ نصیب نہیں ہوا.اس کا ایک جواب تو پہلے گزر چکا ہے.دوسرا جواب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ ہم کوئی علاقائی یا قومی نبی نہیں تھے بلکہ آپ کا پیغام تمام دنیا کے لئے تھا اور تمام بنی نوع انسان کو دین واحد پر جمع کرنا ،.40

Page 47

حوادث طبیعی یا عذاب الہی آپ کا مقصود تھا.اس لحاظ سے کامل غلبہ اس وقت مقدر ہو سکتا ہے جب دنیا کے ایک ہاتھ پر جمع ہونے کے ظاہری اسباب بھی مہیا ہو چکے ہوں.طلوع اسلام کے وقت ابھی یہ سامان مہیانہ تھے بلکہ خطہ ارض کا ایک وسیع حصہ جسے ہم نئی دنیا کہتے ہیں ابھی تک دریافت نہیں ہو ا تھا.اس وقت اگر بظاہر معلوم دنیا پر کامل غلبہ ہو ہی جاتا تو قریبا آدھی دنیا ایسی پڑی رہ جاتی جو اسلام کے نور سے نا آشنار ہتی.اس کے علاوہ اس زمانہ میں مواصلات اور باہمی رابطے کے ایسے ذرائع ابھی ظاہر نہیں ہوئے تھے جن کے نتیجہ میں تمام انسانوں کو ایک عالمی برادری کی صورت میں جمع کیا جاسکتا.ان امور کے پیش نظر یقینا غلبہ آخر کو اس وقت تک انتظار کرنا چاہئے تھا جب کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق فاصلوں کی دوری مٹ جاتی اور پہاڑوں، بیابانوں اور وسیع سمندروں کی قدرتی فصیلیں عملا اس طرح زائل ہو جاتیں کہ بین الا قوامی روابط کی راہ میں حائل نہ ہو سکتیں.اس پہلو سے جب ہم قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں تو اسمیں بکثرت ایسی پیشگوئیوں کا ذکر پاتے ہیں جس میں انسان کی دور آخر کی ترقیات کا ذکر پایا جاتا ہے کہیں تیز رفتار سواریوں کا ذکر ملتا ہے کہیں انسانوں کے باہم ایک دوسرے کے ساتھ مل جانے کا تذکرہ ہے کہیں کتب اور رسائل کی بکثرت اشاعت کی پیشگوئی کی گئی ہے جس کے ذریعہ انسان ایک دوسرے کو بآسانی خیالات اور نظریات پہنچا سکتا ہے پھر ایسی پیشگوئیاں بھی موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ بعض ایسے سمندر آپس میں ملا دیئے جائیں گے جن کے درمیان نزول قرآن کے وقت خشکی کی دیوار حائل تھی.ان پیشگوئیوں پر غور کرتے ہوئے انسان طبعا یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ غلبہ آخر کے وقت سے قبل یہ علامات ظاہر ہو چکی ہوں گی یا اُس دور میں تیزی کے ساتھ ترقی پذیر ہوں گی.پس جب بھی انسان ان علامات کو ظاہر ہوتے دیکھے طبعا اسے توقع رکھنی چاہئے کہ اس امام کا ظہور بھی نزدیک ہے جس نے ادیان باطلہ پر اسلام کو غالب کرنے کی آخری تحریک چلائی تھی.سوال کے دوسرے حصے کا تعلق اس بات سے تھا کہ اگر مکمل غلبہ نصیب نہیں ہو سکا تو عذاب الہی نے کیوں مخالف قوموں کو نابود نہ کر دیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر غلبہ کے دو ادوار مقدر تھے جیسا کہ اوپر کی بحث سے ظاہر ہے تو عذاب الہی کے بھی دو ہی ادوار مقدر ہونے چاہئیں 41

Page 48

حوادث طبیعی یا عذاب الہی تھے ایک دور اول اور ایک دور آخر.عقل اس بات کو ایک لحظہ کے لئے بھی قبول نہیں کر سکتی کہ آخری غلبہ تو کسی بعد کے زمانہ کے لئے ہو لیکن عذاب الہی اس زمانہ کا انتظار کئے بغیر قوموں کی صف لپیٹ دے پس اگر غلبہ اس عہد آخر میں مقدر ہے تو عذاب الہی کا ایک دور بھی اس آخری زمانہ سے منسلک ہونا چاہئے.قرآن کریم پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے اور متعدد آیات اس طرف دلالت کرتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ آنحضرت صلی علیم کے منکرین پر آخری حجت پوری کرنے کے لئے بہت سے نشانات اور عذاب مقدر ہیں جن میں سے بعض کا تعلق آگ سے ہے اور بعض زلزلوں سے مشابہت رکھتے ہیں اور بعض اپنی وسعت اور قوت میں ایسے عظیم الشان ہوں گے جو پہاڑوں کی طرح بڑی بڑی عظیم الشان اور قوی ہیکل قوموں کو آن واحد میں ملیا میٹ کر دیں گے اور ان کی عظمتیں خاک میں مل جائیں گی.یہاں تک کہ یا تو وہ ایمان لانے پر مجبور ہوں گے یا عملا اس دنیا سے نابود کر دیئے جائیں گے.غرضیکہ وہ روکیں جو ان کو آنحضرت صلی علیم کی کامل اطاعت سے محروم رکھے ہوئے تھیں وہ راہ سے ہٹ جائیں گی.سورۃ طہ میں اس نوعیت کے عذاب کا ذکر (سورة طه : ۱۰۶ تا ۱۰۹) کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ان قوموں کو تمثیلی زبان میں پہاڑ قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے:.وَيَسْتَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّ نَسْفًا.فَيَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا ۖ لَّا تَرى فِيهَا عِوَجًا وَلَا آمَنَّا - يَوْمَئِذٍ يَتَّبِعُونَ الدَّاعِيَ لَاعِوَجَ لَهُ وَخَشَعَتِ الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمَنِ فَلَا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْسًا ترجمہ : وہ تجھ سے پہاڑوں کے متعلق پوچھتے ہیں تو کہہ دے کہ میر ارب ان کو اکھاڑ کر پھینک دے گا اور ان کو ایک ایسے چٹیل میدان کی صورت میں چھوڑ دے گا کہ نہ تو تو اس میں کوئی موڑ دیکھے گا اور نہ کوئی اونچائی.اس دن لوگ پکارنے والے کے پیچھے چل پڑیں گے جس کی تعلیم میں کوئی کجی نہ ہو گی اور رحمن ( خدا کی آواز ) کے مقابلہ میں ( انسانوں کی آواز میں دب جائیں گی پس تو سوائے کھسر پھسر کے کچھ نہ سنے گا.اس آیت کے مضمون کا تعلق قیامت کبریٰ اور اخروی دنیا کے واقعات سے نہیں بلکہ اسی دنیا کے واقعات سے ہے اگر یہ مراد لی جائے کہ پہاڑوں کا مٹایا جانا اس وقت ہو گا جب کہ ظاہری 42

Page 49

حوادث طبعی یا عذاب الهی قیامت آئے گی اور دنیا کی ہر چیز صفحہ ہستی سے معدوم ہو جائے گی تو يَوْمَئِذٍ يَتَّبِعُونَ الدَّاعِيَ لَا عِوَج له کے کوئی معنی نہیں بنتے کیونکہ اس دن اہل دنیا ایسے بلانے والے یعنی حضرت محمد مصطفی صل الله لم کی کامل اطاعت کرنی شروع کر دیں گے.جس کے کردار میں اور جس کی تعلیم میں کوئی کبھی نہیں.ظاہری بات ہے کہ جس وقت ظاہری پہاڑ اڑائے جار ہے ہوں گے اور ظاہری زمین چٹیل بنائی جارہی ہو گی اس وقت بھلا انسان کس شمار میں ہو گا کہ وہ اس قیامت کے دوران نہ صرف زندہ رہے بلکہ روز مرہ کے معمول کے مطابق اپنے سیاہ و سفید کا مالک ہو اور جس دین کو چاہے رد کر دے اور جس دین کو چاہے اختیار کرے.پس يَوْمَئِذٍ يَتَّبِعُونَ الدَّاعِيَ کے مضمون نے واضح کر دیا کہ جن پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کیا جانا تھاوہ کوئی ظاہری پہاڑ نہیں بلکہ اسلام کی راہ میں حائل وہ عظیم قومیں ہیں جو پہاڑوں کی طرح قوی ہیکل اور مستحکم نظر آئیں گی اور اسلام کی راہ رو کے کھڑی ہوں گی.قرآن کریم میں دوسری جگہ بھی پہاڑوں کا ذکر تمثیل کے طور پر آتا ہے لیکن یہاں اس کی تفصیلی بحث کا موقع نہیں.بہر حال ایک بات تو واضح ہے کہ جن پہاڑوں کے ملیا میٹ کئے جانے کا ذکر ہے ان کے ساتھ اشاعت اسلام کا براہ راست تعلق ہے اس وقت عالم اسلام زبان حال سے یہ سوال کر رہا ہو گا کہ ان پہاڑوں کا کیا بنے گا اور کیسے اسلام ان عظیم قوموں پر غالب آئے گا جو اپنی کثرت کے لحاظ سے بھی مسلمانوں پر غالب ہیں.ساز وسامان اور شوکت کے لحاظ سے بھی، دولت کے لحاظ سے بھی اور علمی اور سیاسی برتری کے لحاظ سے بھی.پس آج جب کہ ہر حال میں مسلمان ان کا دست نگر ہو چکا ہے یہاں تک کہ ان کی گندی اور کرم خوردہ تہذیب کو بھی اپنائے چلا جا رہا ہے تو کیسے اسلام اور اسلامی اقدار ان عظیم قوتوں پر غالب آئیں گی.قرآن کریم فرماتا ہے کہ اے میرے رسول تو ان سے کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ ان پہاڑوں جیسی سر بلند اور مغرور قوموں کو خاک میں ملا دے گا اور ان کی تکبر کی گردنیں توڑے گا.وہ ریزہ ریزہ کر کے چٹیل میدان کی طرح زمین کے ساتھ ہموار کر دی جائیں گی.تب عاجزی اور انکساری کے اس مقام پر اتر آنے کے بعد وہ اس لائق ہونگی کہ تیری پیروی کریں.یعنی تیری اس تعلیم کی پیروی کریں جس میں کوئی خم اور کج نہیں.43

Page 50

حوادث طبیعی یا عذاب الہی قرآن کریم میں اور بھی بہت سے مقامات پر جن کا پہلے بھی ذکر گزر چکا ہے ایسے عذابوں کا اشارہ ملتا ہے جن کا دور آخر سے تعلق ہے لیکن اب یہ سوال پید اہوتا ہے کہ جب چودہ سو سال کے عرصہ میں جب دنیا ان چیزوں کو بھلا بیٹھی اور صدیوں پہلے کی تنبیہات نقش کا لعدم کی طرح انسانی ذہنوں سے مٹ چکی ہیں تو پھر کیا اللہ تعالیٰ کا عذاب بغیر کسی تنبیہ ٹو کے زمانہ کو آپکڑے گا؟ اس سوال کا جواب بھی عملاً اوپر گزر چکا ہے اور یہ واضح کیا جا چکا ہے کہ عذاب الہی کے نئے دور سے پہلے اس امام کا ظہور مقدر تھا جس نے از سر نو دنیا کو آنے والے کڑے وقت سے خبر دار کر دیا تھا.یہ خبر کس طرح دی اور آنے والے عذاب کی کیا تفاصیل بیان کیں اور کس حد تک یہ خبریں پوری ہو چکی ہیں اور کس حد تک پورا ہونا ابھی باقی ہیں.یہ وہ امور ہیں جس پر ہم آئندہ قسط میں بحث کریں گے.جماعت احمدیہ کا یہ دعویٰ ہے کہ دنیا کے موجودہ بے پناہ مصائب اور تکالیف کا یہ نہ ختم ہوتا ہو ا سلسلہ کوئی عام روز مرہ کے واقعات کی زنجیر نہیں بلکہ عذاب الہی کی حیثیت رکھتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پہلے ہی سے ان امور کے متعلق باخبر کر دیا تھا اور بڑی واضح اور بین پیشگوئیوں کے ذریعہ اہل دنیا کو متنبہ کر دیا تھا کہ اسلام کے غلبہ نو کا دور شروع ہو چکا ہے اگر آنحضرت صلی اللی کم اور آپ کی امن بخش تعلیم کے سامنے دنیا نے سر تسلیم خم نہ کیا تو اللہ تعالیٰ پے در پے عذابوں سے اس دنیا کو جھنجوڑ جھنجوڑ کر خواب غفلت سے بیدار کرے گا.یہ سلسلہ جاری رہے گا اور ختم نہ ہو گا جب تک کہ اسلام کو آخری اور قطعی عالمگیر غلبہ نصیب نہ ہو جائے.آئیے ہم اس مضمون کے مختلف حصوں کا جائزہ لیں کہ بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے اپنے مشن کو کس طرح پورا فرمایا اور اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس مشن پرمامور تھے.عذاب الہی کی جو قسمیں قرآن کریم کی بیان کردہ مذہبی تعلیم کی روشنی میں پیش کی گئی ہیں ان کے ذکر کے وقت یہ امر نظر انداز ہو گیا تھا کہ انبیاء کی بعثت کے بغیر بھی بعض اوقات طبعی حوادث کو عذاب کا نام دیا جاتا ہے.یہ اس صورت میں ہوتا ہے جب کوئی قوم اپنے اعمال اور 44

Page 51

حوادث طبیعی یا عذاب الہی اخلاق میں حد سے زیادہ گندی ہو چکی ہو.چنانچہ ایسے دور میں بھی مشیت الہی کے مطابق بعض اوقات حوادث بڑی شدت کے ساتھ ہجوم کر کے حملہ آور ہو جاتے ہیں اور اس طرح حوادث کو مشیت کے مطابق قوی سزا کے طور پر مسخر کیا جاتا ہے.قرآن کریم عذاب کی اس نوع کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:.وَتِلْكَ الْقُرَى أهْلَكُنْهُمْ لَمَّا ظَلَمُوا وَجَعَلْنَا لِمَهْلِكِهِمْ مَّوْعِدًا.( سورة الكهف : ۶۰) ترجمہ : اور وہ بستیاں جن کو ہم نے ان کے ظلم کی وجہ سے ہلاک کر دیا ہے ان کے لئے موجب عبرت ہو سکتی تھیں.اور ہم نے ان کو ہلاکت کے لئے پہلے سے ایک معیاد مقرر کر دی تھی تاوہ چاہیں تو تو بہ کر لیں.وہ عذاب جو محض بد اعمالیوں کی وجہ سے سزا کے طور پر وارد کیا جاتا ہے اس کے لئے اگر عمومی انتباه آسمانی صحیفوں میں موجود ہے لیکن ضروری نہیں کہ اس عذاب سے معا پہلے کوئی پیشگوئی کی جائے اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ وہ عذاب کسی مذہب کے غلبہ پر منتج ہو.اس ضمنی بیان کے بعد ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بعض ایسی پیشگوئیوں پر نظر ڈالتے ہیں جو اس زمانہ کے انسان کو آنے والے آسمانی عذابوں سے متنبہ کرتی ہیں.طاعون طاعون بھی بہت سی دوسری بیماریوں کی طرح ایک بیماری ہے جو طبعی محرکات کے نتیجہ میں پیدا ہوتی اور مٹتی رہتی ہے لیکن کبھی یہ عذاب الہی کی شکل بھی اختیار کر لیتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بھی اسی طرح ہوا لیکن پیشتر اس کے کہ آپ کی اس عظیم الشان پیشگوئی اور اس کے اثرات پر تفصیلی نظر ڈالی جائے بہتر ہو گا کہ تاریخی پس منظر میں طاعون کی پر اسرار بیماری کا کچھ جائزہ لیا جائے.طاعون کوئی ایسی بیماری نہیں جو عام و بائی بیماریوں کی طرح روز مرہ مختلف موسموں میں سر نکالتی رہے جیسے ملیریا یا انفلوئنزا گر میوں میں یا سردیوں میں عموما کسی نہ کسی شکل میں نظر آہی 45

Page 52

حوادث طبیعی یا عذاب الہی جاتے ہیں.طاعون کوئی سالانہ موسمی بیماری نہیں مگر محض یہی کہنے سے بات مکمل نہیں ہوتی.یہ کوئی ایسی بیماری بھی نہیں جو دو چار یا دس بیس سال کے بعد وبا کی صورت میں ظاہر ہوتی ہو جیسے چیچک وغیرہ متعدی امراض عموما آٹھ دس یا بیس سال کا وقفہ دے کر ظاہر ہوتی رہتی ہیں.طاعون ایسی تمام امراض سے اتنی مختلف ہے کہ آپس میں گویا انہیں کوئی نسبت نہیں یہ ایک ایسی پر اسرار بیماری ہے جو ایک دفعہ تباہ کاری مچانے کے بعد جب دنیا سے رخصت ہوتی ہے تو بعض اوقات سینکڑوں سال تک منہ نہیں دکھاتی اور بعض اوقات طاعون کی دوباؤں کا درمیانی عرصہ ہزار برس سے بھی بڑھ جاتا ہے اس لئے بلا شبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ تمام وبائی امراض میں سب سے زیادہ غیر معمولی بیماری طاعون ہے اور اس امر کے زیادہ قریب ہے کہ غیر معمولی عذاب الہی کا مظہر بنے.انسائیکلو پیڈیا بریٹینکا اور تاریخ کی کتب میں طاعون کے بڑے پیمانے پر ظاہر ہونے کے جو واقعات محفوظ کئے گئے ہیں ان کی رو سے طاعون کی ایک بڑی و با حضرت مسیح کے واقعہ صلیب سے گیارہ سو سال پہلے فلسطین میں ظاہر ہوئی تھی اور اس نے ایک وسیع علاقہ میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی تھی.طاعون کا یہ خطرناک حملہ حضرت موسی علیہ السلام کے وصال کے بعد تیسری صدی موسوی میں ہوا.لہذا یہ امر بعید از قیاس نہیں کہ یہود کے بگڑنے کے بعد بنی اسرائیل کے علاقوں میں طاعون کا پھوٹنا ایک سزا کارنگ رکھتا ہو اور ان معنوں میں اسے عذاب الہی قرار دیا جائے.اس کے بعد پہلی مرتبہ ایک ہولناک وباء کی صورت میں یہ پہلی صدی عیسوی میں فلسطین اور اس کے گردو پیش کے علاقوں میں ظاہر ہوئی جو بالعموم یہود کا مسکن تھے.طاعون کا دوسرا حملہ دوسری صدی عیسوی میں ہو ا جو پہلے کی نسبت زیادہ وسیع علاقے پر پھیلا ہوا تھا اور شام مصر اور لیبیا کے شمالی حصے بھی شدت طاعون سے متاثر ہوئے.تیسری مرتبہ پھر طاعون کم و بیش ایک سوسال کے بعد تیسری صدی عیسوی میں ظاہر ہوئی اور اس مرتبہ اس کا پھیلاؤ پہلے سے بڑھ کر تھا.طاعون کا اس طرح پے در پے کم و بیش ایک ایک سوسال کے وقفے سے ظاہر ہونا جبکہ پہلے بارہ سو سال تک اس کا کوئی وجود نہیں ملتا بہت معنی خیز ہے اور ہر گز بعید نہیں کہ ایک ایک سوسال کے مختصر وقفہ میں بار بار پھوٹنا یعنی عیسائیت کی پہلی تین صدیوں میں سے ہر صدی میں اس کا ظاہر 46

Page 53

حوادث طبعی یا عذاب الہی جو ہونا خاص مشیت الہی کے ماتحت ہو.خصوصاً جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ تینوں مرتبہ طاعون کا حملہ عیسائیت کے پھیلاؤ کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے تو مزید ذہن اس طرف منتقل ہو تا ہے کہ یہ طاعون کی وباء عذاب الہی کی حیثیت رکھتی تھی اور ان قوموں کے لئے سزا کے طور پر وارد ہوئی تھی جنہوں نے عیسائیت پر ہولناک مظالم توڑے.پہلی صدی میں طاعون کا حملہ فلسطین پر ہوا ج حضرت عیسی علیہ السلام اور ان کے صحابہ پر توڑے جانے والے انتہائی سنگین اور دردناک مظالم کی پہلی آماجگاہ تھا.دوسرا حملہ عیسائیت کے پھیلاؤ کے ساتھ مطابقت رکھتے ہوئے ان مشرقی ممالک میں ہو ا یعنی شام، فلسطین اور مصر جہاں بنی اسرائیل بکثرت پائے جاتے تھے اور جو اولین طور پر عیسائیوں پر ظلم کرنے میں پیش پیش تھے.تیسرا حملہ اس وقت ہوا جب تیسری صدی میں سلطنت روما کے یورپین حصہ میں بھی عیسائیت پر مظالم توڑے جانے لگے.اس حملہ میں سلطنت روما کے یورپین ممالک خاص طور پر متاثر ہوئے اور عام طور پر یہ کہا جانے لگا یہ عیسائیوں کی نحوست ہے جس کی وجہ سے طاعون پھوٹی ہے یہ ویسا ہی الزام ہے جیسے قرآن کریم کے بیان کے مطابق اصحاب قریہ نے اپنی طرف مبعوث ہونے والے رسولوں پر لگایا اور کہا کہ ہم تو تمہیں منحوس سمجھتے ہیں لیکن ان رسولوں نے یہ جواب دیا کہ طائر کو معکو ہر گز نہیں بلکہ تم تو اپنی نحوست خود اپنے ساتھ لئے پھرتے ہو.پس معلوم ہوتا ہے کہ عیسائیت پر ظلم کرنے والے ظالم جہاں جہاں بھی ظلم کی نحوستیں ساتھ لے کر گئے وہیں وہیں طاعون نے ان کا تعاقب کیا اور عبرتناک سزادی.عذاب الہی سے دوسری مماثلت ان تینوں وباؤں میں یہ نظر آتی ہے کہ باوجود اس کے کہ عیسائی کمزور اور غریب تھے اور جیسا کہ گزر چکا ہے بسا اوقات اندھیری غاروں میں پناہ لینے پر مجبور ہو جاتے تھے.لہذا اگر عام حوادث زمانہ کی نوعیت کی کوئی چیز ہوتی اور الہی تصرف نہ ہو تا تو سب سے پہلے سب سے زیادہ کمزور اور غریبانہ زندگی بسر کرنے والے اور تاریک غاروں میں بسنے والے عیسائیوں کو اس مرض کا شکار ہونا چاہئے تھا لیکن یہ عجیب بات نظر آتی ہے کہ طاعون کے یہ حملے ہر بار عیسائیت کو پہلے سے قوی تر حالت میں چھوڑ گئے.یہاں تک کہ ۷۵.۲۷۰ عیسوی میں یعنی تیسری صدی کے آخر پر طاعون کا جو تیسر احملہ ہوا اس نے آخری مرتبہ عیسائیت کو کمزور حالت 47

Page 54

حوادث طبیعی یا عذاب الہی میں دیکھا.چوتھی صدی عیسائیت کے غلبہ کی صدی ہے جس کے ظاہر ہوتے ہی طاعون جس پر اسرار طریق پر ظاہر ہوئی تھی اسی پر اسرار طریق پر غائب ہو گئی یہاں تک کہ پھر پورے تین سو سال تک کہیں نظر نہ آئی.چھٹی صدی عیسوی کلیسا کے اخلاقی لحاظ سے تباہ و برباد ہونے کی صدی ہے.یہ وہ زمانہ ہے جبکہ تمام عیسائی دنیا میں فسق و فجور پھیل چکا تھا اور وہ جو کبھی مظلوم تھے سخت ظالم اور سفاک ہو چکے تھے.تب وہی طاعون جو کبھی ان کے ادنی خادم کی حیثیت سے ان کی تائید میں ظاہر ہوا کرتی تھی اس مرتبہ انہیں سزا دینے کے لیے آئی.اور قابل غور امر یہ ہے کہ طاعون کا یہ حملہ اپنی وسعت میں کم و بیش ساری عیسائی دنیا کو گھیرے ہوئے تھا.یہ گویا اس امر کا اعلان تھا کہ عیسائی لوگ اب تائید الہی سے محروم ہو گئے ہیں.چنانچہ یہ حقیقت بہت معنی خیز اور مسلمان کے لیے ایمان افروز ہے کہ طاعون کا یہ حملہ بعینہ اس زمانہ میں ہوا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عرب میں ولادت ہوئی.طاعون کے اس حملہ نے پچاس سال تک یعنی کم و بیش ظہور نبوت تک عیسائی دنیا کا پیچھا نہیں چھوڑا.گویا کہ وہ زبان حال سے یہ اعلان کر رہی تھی کہ اب تم الہی نصرت کے حق دار نہیں رہے.پس ہمارا یہ کہنا کہ طاعون کی یہ وبا بھی ایک غیر معمولی عذاب کی حیثیت رکھتی تھی جو سزا کے طور پر عیسائی دنیا پر نازل ہوئی محض ایک خوش اعتقادی نہیں بلکہ عین قرین قیاس ہے اور واقعات کی انگلی اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے دکھائی دیتی ہے.اس طاعون کی ایک تعجب انگیز حرکت یہ تھی کہ اس نے شام اور فلسطین کو تو خوب اپنی لپیٹ میں لیا اور وہاں سے نکل کر مصر میں جا پہنچی اور پھر سمندر پار یورپ کے مختلف ممالک میں تہلکہ مچا دیا لیکن سر زمین حجاز کا رخ نہیں کیا.گویا اس کے سامنے ایک سد سکندری کھڑی تھی حالانکہ عام اصول کے مطابق مکہ جو شام سے جنوب کی طرف جانے والی قدیم تجارتی شاہراہ پر واقع تھا تجارتی قافلوں کے ذریعہ وہاں تک اس کے اثرات پہنچنے زیادہ قریب قیاس تھے مگر یہ متعدی مرض کسی خاص قدرت الہی کے تحت مسخر ہو کر محض عیسائی دنیا تک محدود رہی.اس کے بعد طاعون آٹھ سو سال تک اس دنیا سے غائب رہی اور پھر اس نے ۱۳۷۰ء میں ظاہر ہو کر ۱۳۷۵ء تک دنیا کے ایک وسیع تر خطہ میں جولانی دکھائی.یہ وہ دور ہے کہ ایک طرف 48

Page 55

حوادث طبیعی یا عذاب الہی اسلامی دنیا شدید اخلاقی انحطاط کا شکار ہو چکی تھی تو دوسری طرف عیسائی دنیا میں بھی حد سے زیادہ فسق و فجور پھیل چکا تھا.اس زمانہ کے کلیسیا کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ Monasteries یعنی راہب خانے جہالت اور او باشی کا اڈہ بنے ہوئے تھے اور ظلم اور سفاکی کا یہ عالم تھا کہ مذہبی اختلافات کی بنا پر کلیسیا کی اجازت ہی سے نہیں بلکہ کلیسیا کے ایما اور حکم پر بے دریغ ہزاروں انسانوں کو زندہ جلا دیا جاتا تھا.عیسائیت پر پہلے تین سو سال میں اجتماعی طور پر اتنے ظلم نہ ہوئے ہوں گے جتنے عیسائیت نے اپنی تاریکی کی صدیوں میں سے ہر صدی میں غیروں اور اپنوں پر توڑے.طاعون کا اس زمانہ میں اس علاقہ میں پھوٹنا اور اس شدت سے پھوٹنا ان واقعات کو دیکھتے ہوئے ہر گز تعجب انگیز نہیں رہتا.اہل یورپ کی سفاکی کا یہ عالم تھا کہ خود عیسائی مورخین کے بیان کے مطابق بعض شہروں میں ہزار ہا یہود کو محض اس لیے زندہ آگ میں جلا دیا گیا کہ ان پر یہ الزام تھا کہ طاعون ان کی وجہ سے پھوٹی.چنانچہ مشہور مؤرخ ایچ.اے.ایل فشر اس دور کی جہالت اور سفاکی کی ایک مثال دیتے ہوئے لکھتا ہے:."Among the moral results of this disaster the most shameful was a series of attacks upon the Jewish population, who at Mainze and other German-speaking towns were burned in their hundreds or thousands by an infuriated mob in the belief that the plague was a malignant device of the Semitic race for the confusion of the Catholic Creed." (A History of Europe by H.A.L Fisher, p.319) ترجمہ : اس آفت کے اخلاقی نتائج میں سے سب سے زیادہ قابل شرم یہ تھا کہ اس کے نتیجے میں یہود آبادیوں پر مینز اور بعض دوسرے جرمن بولنے والے قصبات میں حملوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا.سینکڑوں، ہزاروں یہودیوں کو محض اس تو ہم کے نتیجہ میں نذرِ آتش کیا جاتا کہ کیتھولک کلیسیا میں بد اعتقادی پیدا کرنے کے لیے طاعون کی وبا یہودی نسل کے ماتھوں میں ایک ہولناک آلہ کار کی حیثیت رکھتی ہے.بہر حال عیسائی دنیا کا یہ دور ایک انتہائی کریہہ المنظر دور ہے.پس اگر ظلم و ستم کا کوئی دور 49

Page 56

حوادث طبیعی یا عذاب الہی بھی عذاب الہی کو دعوت دے سکتا ہے تو بلاشبہ یہ وہ دور ہے جو پکار پکار کر عذاب الہی کو دعوت دے رہا تھا.اگر ہمارا یہ نظریہ درست ہے کہ ظلم و ستم کا اولین ذمہ دار کلیسیا تھا تو طبعی طور پر ہمیں یہ بھی توقع رکھنی چاہیے کہ طاعون کا اولین شکار بھی کلیسیا کو ہی ہونا چاہیے.جب ہم تاریخ پر اس پہلو سے نظر ڈالتے ہیں تو بعینہ وہی منظر نظر آتا ہے.سب شہروں اور بستیوں اور مقامات سے بڑھ کر طاعون کو اپنے حملوں کے لیے اگر کوئی جگہ مرغوب تھی تو وہ عیسائی راہب خانے ہی تھے.اس امر کا ذکر کرتے ہوئے ایچ.اے.ایل فشر اپنی مشہور تاریخ یورپ میں رقم طراز ہے: "Rather it would be true to say that the sudden destruction of life (which was specially evident in the monasteries) had set in motion a series of small shifting, which, in their accumulated and accumulating effects, amounted to a revolution." (A History of Europe by H.A.L Fisher, p.320) ترجمہ: غالباً یہ کہنا درست ہو گا کہ زندگی کی اچانک بیخ کنی نے (جو بالخصوص عیسائی راہب خانوں میں نمایاں طور پر نظر آتی تھی) ایک ایسا محرکات کا سلسلہ شروع کر دیا تھا جس نے مجموعی حیثیت سے وہ نتائج پیدا کیے جنہیں انقلاب کا نام دیا جاسکتا ہے.طاعون نے نہ صرف اپنی تباہ کاری کے وقت monasteries (راہب خانوں) کو بالخصوص شکار بنایا بلکہ اس کے بعد کے اثرات بھی کلیسیا کے لیے بڑے مہلک ثابت ہوئے اور کلیسیا کی طاقت کو توڑنے اور ایک نئی طرزِ فکر پیدا کرنے میں اس طاعون نے ایک اہم کردار ادا کیا کلیسیا پر اس کے براہِ راست اثر کا ذکر کرتے ہوئے یہی مورخ انگلستان کی مثال پیش کرتا ہے اور لکھتا ہے."In the monasteries a marked decline in literary activity and discipline; in the impoverished country parishes empty rectories and absentee priest".(A History of Europe by H.A.L.Fisher, p.320) 50

Page 57

حوادث طبیعی یا عذاب الہی ترجمہ : اس طاعون نے حسب ذیل مذهبی نتیجہ پیدا کیا کہ مذہبی اداروں اور راہب خانوں میں اسی طاعون کے نتیجے میں علمی دلچسپیوں اور نظم وضبط میں غیر معمولی کمی واقع ہو گئی اور غریب دیہاتی کلیسیاؤں میں اس کا یہ اثر پڑا کہ کہیں تو منتظم پادری ہی موجود نہ تھے اور کہیں پادری مقرر تو تھے مگر اکثر غیر حاضر رہنے والے.یہ طاعون ایک اور پہلو سے بھی دلچسپ مطالعہ کا مواد پیش کرتی ہے کہ اس کا دائرہ عمل اس مرتبہ صرف عیسائی دنیا تک محدود نہیں رہا بلکہ اسلامی دنیا کو بھی اس نے اپنی لپیٹ میں لیا.مسلمانوں کے حالات پر اگر غور کریں تو وہاں بھی بعینہ وہی شکل نظر آئی ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام کے واقعہ صلیب کے چھ سو سال بعد عیسائی دنیا کی تھی.اسی طرح عیسائیت تین صدیوں تک بالعموم نیکی کی راہ پر چلتے ہوئے بالآخر اپنے غلبہ کے دور میں راستہ سے بھٹک کر ظلم و تعدی کی راہ پر گامزن ہو گئی.اور دوسرے تین سو سال عیسائیت کی روحانی تباہی اور ہلاکت کے سال شمار کیے جاسکتے ہیں جن کے بعد طاعون نے ان کی تائید کی بجائے ان کی مخالفت پر کمر باندھ لی.اس سے ملتا جلتا ایک منظر ہمیں اسلامی دنیا میں بھی نظر آتا ہے.حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد تین سو سال کا زمانہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کے مطابق نور اور ہدایت کا ایسا زمانہ قرار دیا جا سکتا ہے جس میں نیکی بہر حال بدی پر غالب رہی اور اعتقادی اور سیاسی اختلافات کے باوجود عالم اسلام کی اکثریت اپنی اکثر صفات اور خصال میں نیکی کا مظہر تھی.پھر وہ دور شروع ہوا جس کو فیج اعوج کا نام دیا جاتا ہے اور اگلے تین سو سال خصوصیت کے ساتھ تاریکی کو بڑھانے کا موجب بنے.خلافت جو پہلے ہی بادشاہت میں تبدیل ہو چکی تھی تقویٰ سے دور تر ہوتی چلی گئی.فرقہ بندی اور اختلافات نے اسلامی نظریات کے ہر شعبہ کو پارہ پارہ کر دیا.قصور شاہی عیش و عشرت کا مرکز بن گئے اور عوامی بستیوں کو بھی فسق و فجور اور ظلم و تعدی نے گھیر لیا.دنیا داری بڑھنے لگی اور روحانیت مفقود ہونے لگی ایسے علمائے ظاہر پیدا ہونے شروع ہوئے جو تقویٰ کا لباس پہننے کی بجائے ریا کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھے.غرضیکہ وہ ہزار سالہ رات جس نے پہلی تین صدیوں کے بعد اسلامی دنیا پر چھا جانا تھا وہ بلا شبہ مذکورہ تین سوسال کے عرصہ میں پوری 51

Page 58

حوادث طبعی یا عذاب الہی طرح بھیگ چکی تھی.اسلام کی پہلی تین صدیوں کے اختتام پر جہاں ہمیں روحانی آفات شدت سے سر اٹھاتی نظر آتی ہیں وہاں سیاسی لحاظ سے بھی ایسے محرکات پیدا ہو رہے تھے جو بالآخر مسلمانوں کی سیاسی قوت کو سبو تاژ کرنے کا موجب بنے.تیسری صدی ہجری کے آخر پر ہمیں یہ انتہائی الم انگیز اور ہولناک صورت حال نظر آتی ہے کہ پوپ مرکزی اسلامی خلافت سے مسلمانوں کی ہسپانوی حکومت کے خلاف سازش کر رہا تھا.1 جس کے نتیجہ میں بالآخر مسلمانوں کی مرکزی حکومت اس امر پر آمادہ ہو گئی کہ ہسپانیہ کی اسلامی مملکت کے خلاف وہ یورپ کی عیسائی طاقتوں کے ساتھ تعاون کرے گی.عالم اسلام کے عظیم الشان قلعہ میں یہ پہلا رخنہ ہے جو بالآخر اس قلعہ کے مسمار ہونے پر منتج ہوا.بعد کے تین سو سال نے اس سیاسی انحطاط کو بڑی سرعت اور شدت کے ساتھ بڑھایا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چودھویں صدی عیسوی میں اسلامی سلطنت کے دونوں بازو یعنی شرقی اور غربی عملاً مفلوج ہو چکے تھے اور ایک طرف مغرب کی عیسائی طاقتیں پیہم جذبات سے سپین کی اسلامی مملکت کو کمزور کر رہی تھی اور یورپ سے مسلمانوں کو نکالنے کا منصوبہ عملاً بروئے کار لا رہی تھی تو دوسری طرف مشرقی چنگیزیوں کا ہولناک عذاب صحرائے گوبی میں اس طرح پرورش پارہا تھا جیسے ٹڈی دل کا لشکر سر سبز و شاداب دنیا کی نظروں سے اوجھل ریگستانوں میں ایک عظیم یورش کی تیاری کر رہا ہو.چھٹی صدی ہجری میں ہمیں پہلی مرتبہ یہ المناک منظر دکھائی دیتا ہے کہ یورپ کے شمال میں اثر و نفوذ بڑھنے کی بجائے مسلمانوں کو سسلی اور کریٹ سے نکال کر افریقی ساحل کی طرف دھکیل دیا گیا.مسلمانوں کو بزور شمشیر نکالنے کا یہ عمل اس وقت تک جاری رہا جب تک بالاآخر اس واقعہ کے قریباً ایک سو سال بعد سپین میں مسلمانوں کے آخری قلعہ غرناطہ کو بھی عیسائیوں نے بزور شمشیر فتح کر لیا اور کلیۂ ہسپانیہ کی سرزمین سے مسلمانوں کا صفایا کر دیا.اسی طرح چھٹی صدی بھی مسلمانوں کی تاریخ میں وہ دردناک صدی ہے جب چنگیزیوں کے انبوہ کثیر غول بیابانی کی طرح ناگاہ مسلمانوں کی مشرقی سلطنت پر ٹوٹ پڑے اور بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی.بڑی بڑی بلند عمارتیں پیوند خاک ہو گئیں لیکن اس حقیقت کی 1 ماخوذ از تفسیر کبیر از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ ، جلد دوم صفحہ ۱۶.52

Page 59

حوادث طبعی یا عذاب الہی یاد گار کے طور پر کہ یہاں کبھی انسان بستے تھے بغداد کی زمین پر انسانی کھوپڑیوں کا ایک بلند مینار تعمیر کیا گیا.پس کسی پہلو سے بھی دیکھیں تو چوتھی صدی ہجری اگر تاریکی کے آغاز کا اعلان تھا تو چھٹی صدی ہجری اس وقت تک ختم نہ ہوئی جب تک اسلام کے افق پر بڑے جلی الفاظ میں یہ کتبہ آویزاں نہ کر گئی کہ ہر قسم کی تاریکی نے عالم اسلام کو گھیر لیا ہے اور آج کے بعد اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی فجر طلوع ہونے تک یہاں رات کی راجدھانی ہو گی.ان حالات کو دیکھ کر ہر گز تعجب کی جا نہیں کہ طاعون نے بھی اسلامی مملکت کی زیارت کے لیے یہی دور چنا.یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے عیسائیوں کو راستے سے بھٹکنے کی سزا دینے کے لیے چھٹی صدی عیسوی میں طاعون کا وبال آیا تھا، مسلمانوں کو بھی حضرت سید الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے روگردانی کی سزا دینے کے لیے تقدیر الہی نے اسی جلاد کو ایک مرتبہ پھر مقرر کیا.یقیناً اگر عیسی علیہ السلام کا دامن چھوڑ نا کسی سزا کا طلب گار تھا تو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن چھوڑنے کا قصور اس سے بہت بڑی سزا کا متقاضی تھا.ایسا ہی ہوا اور ایک ایسی خوفناک رات عالم اسلام پر طاری ہو گئی جس کے اند ھیروں کے نیچے ہر دولت لوٹی گئی اور ہر اثاثہ چھن گیا.نہ سیاست رہی، نہ علم، نہ تہذیب، نہ تمدن.حکومتیں پارہ پارہ ہو گئیں.رعب جاتارہا.اخلاقی برتری ہاتھ سے نکل گئی.علمی تفوق علمی دیوالیہ پن میں تبدیل ہو گیا.رخ ایسا پلٹا کہ وہ راہیں جو حصول علم کے لیے مغرب سے مشرق کو جارہی تھیں مشرق سے سمت مغرب کو چلنے لگیں.معطی سائل بن گئے اور فیض رساں فیض کی بھیک مانگنے لگے.تاریخ کے اس دور کا مطالعہ کرنے سے توحید کا ایک بڑا قیمتی سبق ملتا ہے.یہ کہ انسان خواہ کسی کی طرف منسوب ہو اپنے خالق کی نظر میں اس حد تک برابر ہے کہ اگر اس نے ایک مذہب کے دائرہ میں غلطی کی ہو اور اس غلطی کی سزا پائی ہو تو کسی دوسرے مذہب کے دائرہ میں رہ کر اگر ویسی ہی غلطی کرے گا تو ویسی ہی سزا پائے گا لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُّسُلِهِ کا ایک یہ بھی مفہوم معلوم ہوتا ہے کہ محض اس لیے کہ کوئی انسان کسی بر تر رسول کے نام لیواؤں میں سے ہے اس کی بے راہ روی معاف نہیں کی جائے گی.ہمارا یہ کہنا کہ چھٹی صدی ہجری سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کو تنبیہ و توبیخ کا دور شروع ہوتا ہے محض ایک خیال نہیں بلکہ 53

Page 60

حوادث طبیعی یا عذاب الہی اولیاء اللہ کے تذکرہ میں یہ مشہور روایت ہے جو ہمارے اس نظریہ کی تائید کرتی ہوئی نظر آتی ہے کہ جب بغداد پر چنگیزیوں کا لشکر حملہ آور ہوا تو خلیفہ معتصم نے ایک بزرگ کی خدمت میں بصد عجز ومنت دعا کی درخواست کی.دوسرے روز اس بزرگ کا یہ پیغام اس خلیفہ کو پہنچا کہ ساری رات میں دعا کر تار ہا لیکن مجھے جواب میں یہ الہام ہو تار بایا آئیهَا الْكُفَّارُ اقْتُلُوا الْفُجَارَ.کہ اے کا فرو! فاجروں (یعنی بد اعمال مسلمانوں) کو قتل کرو.پس اللہ تعالیٰ کی تقدیر یہی معلوم ہوتی ہے کہ مسلمان اس سزا سے بچ نہیں سکیں گے.طاعون کا دور آخر چودھویں صدی عیسوی میں ایک عالمگیر تباہی مچانے کے بعد طاعون ایک دفعہ پھر نظروں سے غائب ہو گئی اور کچھ اس طرح غائب ہوئی کہ گویا اس کا کوئی وجود ہی نہ تھا.اس مر تبہ اس نے چھ صدیوں تک پھر دنیا کا منہ نہ دیکھا اور نہ زمین سوراخوں میں روپوش رہی، بعد ازاں اسی طرح جیسے اس نے حضرت عیسی علیہ السلام کے واقعہ صلیب کے بعد چودھویں صدی میں سر نکالا تھا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد تیرھویں صدی کے آخر میں طاعون کی مرض ایک دفعہ پھر اپنے بلوں سے باہر نکلنا شروع ہوئی اور چودھویں صدی میں پورے عروج پر پہنچ گئی.بظاہر یہ سب اتفاقی حادثات ہیں.جنہیں سائنسی اصطلاح میں (Great Circles) یعنی وسیع دائرے کہا جائے گا.لیکن اہل ایمان کے لیے یقیناً اس امر میں فکر کا بڑا مواد ہے کہ یہ وسیع دائرے نیکی اور بدی، ظہورِ رسالت اور انکارِ رسالت، نور اور ظلمت، مظلومیت اور ظلم کے وسیع دائروں کے ساتھ حیرت انگیز طور پر مطابقت رکھتے ہیں.ایک بد مذہب جو چاہے سوچے اور ہمارے اس طرز فکر کو جس طرح چاہے تو ہمات اور ضعیف الاعتقادی قرار دے لیکن جوں جوں یہ بات آگے بڑھے گی ہمارے مضمون کا دوسراحصہ جو طاعون کے دورِ آخر سے تعلق رکھتا ہے بعض ایسے تازہ مشاہدات پر بحث کرے گا جو ایک منصف مزاج کو اس بات کا قائل کرنے کے لیے کافی ہوں گے کہ بات حوادث کے دائرہ سے بہت آگے نکل چکی ہے اور یقیناً حوادث زمانہ کی بجائے کوئی اور قانون اس وبا کے پس پردہ کار فرما نظر آتا ہے.54

Page 61

حوادث طبیعی یا عذاب الہی طاعون کے جس دور آخر کا ہم نے ذکر کیا ہے اس کا پہلی مرتبہ ۱۸۸۰ء میں میسوپوٹیمیا کے علاقہ سے آغاز ہوا.یہ بعینہ وہی دور ہے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہندوستان کی ایک گمنام بستی قادیان میں اسلام کی حمایت میں ایک عظیم دفاعی جنگ لڑ رہے تھے آپ کو زمانہ کے امام کی حیثیت سے ماموریت کی خلعت پہنائی جارہی تھی.ظہور طاعون کا اس زمانہ سے انطباق یقیناً معنی خیز ہے.لیکن اس سے بڑھ کر تعجب کی بات یہ ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو واضح طور پر یہ خبر نہ دی کہ طاعون عذاب الہی کی شکل اختیار کرنے والی ہے اس وقت تک طاعون کو کھل کھیلنے کی توفیق عطا نہ ہوئی.یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کسی ہولناک درندے کو مضبوط زنجیروں سے جکڑا ہوا ہو، اسے ہم غیظ و غضب میں بل کھاتے ہوئے دیکھ رہے ہوں اور اس کی چنگھاڑ بھی سن رہے ہوں لیکن ابھی اس کی زنجیریں کھولی نہ گئی ہوں..۱۸۹۷ء میں پہلی مرتبہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو یہ خبر دی کہ قادیان میں طاعون داخل ہو گئی ہے.اس وقت تک اگر چہ گزشتہ سترہ سال میں کئی مرتبہ طاعون کے متفرق حملے ہندوستان میں بعض جنوب اور جنوب مغربی علاقوں پر ہو چکے تھے لیکن پنجاب ان کے اثر سے محفوظ تھا.اس واضح خبر کے باوجود آپ نے بعض وجوہ سے قادیان میں طاعون کے ظاہر ہونے کی اور تعبیر فرمائی اور خیال کیا کہ شائد اس سے مراد خارش کی قسم کی کوئی بیماری ہو.1 اس کے چند ماہ بعد اللہ تعالیٰ نے بڑی وضاحت کے ساتھ آپ کو طاعون کے پنجاب میں شدت سے پھیل جانے کی خبر دی جس سے آپ اس حد تک متاثر ہوئے کہ آپ نے اشتہار کے ذریعہ ۶ فروری ۱۸۹۸ء کو پنجاب کو خصوصاً اور تمام ہندوستان کو عموماً حسب ذیل الفاظ میں اس خبر سے متنبہ کیا:.” ہماری گورنمنٹ محسنہ نے کمال ہمدردی سے تدبیریں کیں اور اپنی رعایا پر نظر شفقت کر کے لکھو کھا روپیہ کا خرچ اپنے ذمہ ڈال لیا اور قواعد طبیہ کے لحاظ سے جہاں تک ممکن تھا ہدایتیں شائع کیں مگر اس مرض مہلک سے اب تک بکلی 1 الحکم جلد نمبر ۵.۲۳ نومبر ۱۸۹۷ء صفحہ ۴.55

Page 62

حوادث طبیعی یا عذاب الہی امن حاصل نہیں ہوا بلکہ بمبئی میں ترقی پر ہے اور کچھ شک نہیں کہ ملک پنجاب بھی خطرہ میں ہے.ہر ایک کو چاہیے کہ اس وقت اپنی اپنی سمجھ اور بصیرت کے موافق نوع انسان کی ہمدردی میں مشغول ہو......ایک اور امر ضروری ہے جس کے لکھنے پر میرے جوش ہمدردی نے مجھے آمادہ کیا ہے اور میں خوب جانتا ہوں کہ جو لوگ روحانیت سے بے بہرہ ہیں اس کو ہنسی اور ٹھٹھے سے دیکھیں گے مگر میر افرض ہے کہ میں اس کو نوع انسان کی ہمدردی کے لیے ظاہر کروں اور وہ یہ ہے کہ آج جو ۶.فروری ۱۸۹۸ء روز یک شنبہ ہے میں نے خواب میں دیکھا کہ خدا تعالیٰ کے ملائک پنجاب کے مختلف مقامات میں سیاہ رنگ کے پودے لگا رہے ہیں اور وہ درخت نہایت بد شکل اور سیاہ رنگ اور خوفناک اور چھوٹے قد کے ہیں.میں نے بعض لگانے والوں سے پوچھا کہ یہ درخت کیسے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ طاعون کے درخت ہیں جو عنقریب ملک میں پھیلنے والی ہے.میرے پر یہ امر مشتبہ رہا کہ اس نے یہ کہا کہ آئندہ جاڑے میں یہ مرض پھیلے گا یا یہ کہا کہ اس کے بعد جاڑے میں پھیلے گا.لیکن نہایت خوفناک نمونہ تھا جو میں نے دیکھا اور مجھے اس سے پہلے طاعون کے بارے میں الہام بھی ہوا اور وہ یہ :اِنَّ اللهَ لَا يُخَيَّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ إِنَّةَ أوَى الْقَرْيَةَ.یعنی جب تک دلوں کی وبا اور معصیت دور نہ ہو تب تک ظاہری وبا بھی دور نہیں ہو گی.اور در حقیقت دیکھا جاتا ہے کہ ملک میں بدکاری کثرت سے پھیل گئی ہے اور خدا تعالیٰ کی محبت ٹھنڈی ہو کر ہو اوہوس کا ایک طوفان برپا ہو رہا ہے.اکثر دلوں سے اللہ جل شانہ کا خوف اٹھ گیا ہے اور وباؤں کو ایک معمولی تکلیف سمجھا گیا ہے جو انسانی تدبیروں سے دور ہو سکتی ہے.ہر ایک قسم کے گناہ بڑی دلیری سے ہو رہے ہیں اور قوموں کا ہم ذکر نہیں کرتے وہ لوگ جو مسلمان کہلاتے ہیں ان میں سے جو غریب اور مفلس ہیں اکثر ان میں سے چوری اور خیانت اور حرام خوری میں نہایت دلیر پائے 56

Page 63

حوادث طبیعی یا عذاب الہی جاتے ہیں.جھوٹ بہت بولتے ہیں اور کئی قسم کے خسیس اور مکر وہ حرکات ان سے سرزد ہوتے ہیں اور وحشیوں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں.نماز کا تو ذکر کیا کئی کئی دنوں تک منہ نہیں دھوتے اور کپڑے بھی صاف نہیں کرتے اور جو لوگ امیر اور رئیس اور نواب یا بڑے بڑے تاجر اور زمیندار اور ٹھیکیدار اور دولت مند ہیں وہ اکثر عیاشیوں میں مشغول ہیں اور شراب خوری اور زناکاری اور بد اخلاقی اور فضول خرچی ان کی عادت ہے اور صرف نام کے مسلمان ہیں اور دینی امور میں اور دین کی ہمدردی میں سخت لا پروا پائے جاتے ہیں.اب چونکہ اس الہام سے جو ابھی میں نے لکھا ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تقدیر معلق ہے اور توبہ استغفار اور نیک عملوں اور ترک معصیت اور صدقات اور خیرات اور پاک تبدیلی سے دور ہو سکتی ہے.لہذا اتمام بندگانِ خدا کو اطلاع دی جاتی ہے کہ سچے دل سے نیک چلنی اختیار کریں اور بھلائی میں مشغول ہوں اور ظلم اور بدکاری کے تمام طریقوں کو چھوڑ دیں.“ ( مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعود جلد سوم صفحہ نمبر ۳، ۶،۵) آپ کے اس اشتہار کی اشاعت کے تقریباً دو سال بعد تک طاعون کا کوئی غیر معمولی حملہ پنجاب پر نہیں ہوا.چنانچہ بجائے استغفار کرنے اور گناہوں سے تو بہ کرنے کے کیا علما اور کیا عوام الناس سب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیش گوئی پر ہنسی اڑانی شروع کی اور تمسخر کے ساتھ اس کے تذکرے ہونے لگے.لیکن افسوس ہے کہ جلد یہ جنسی رونے پیٹنے اور ماتم میں تبدیل ہو گئی کیونکہ طاعون اچانک اس تیزی کے ساتھ پنجاب میں پھیل گیا کہ ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں کم ہی اس شدت کا حملہ ہوا ہو گا.چنانچہ آپ نے اس افسوس ناک حالت کا ذکر کرتے ہوئے ۱۷.مارچ ۱۹۰۱ء بذریعہ اشتہار اہل وطن کو ایک دفعہ پھر نصیحت فرمائی اور استغفار اور توبہ کرنے کی ہدایت کی.اس اشتہار کے چند اقتباسات پیش ہیں :- ا.”ناظرین کو یاد ہو گا کہ ۲۶.فروری ۱۸۹۸ء کو میں نے طاعون کے بارے میں ایک پیشگوئی شائع کی تھی اور اس میں لکھا تھا کہ مجھے یہ دکھلایا گیا ہے کہ اس ملک 57

Page 64

حوادث طبعی یا عذاب الہی کے مختلف مقاموں میں سیاہ رنگ کے پودے لگائے گئے ہیں اور وہ طاعون کے پودے ہیں اور میں نے اطلاع دی تھی کہ تو بہ اور استغفار سے وہ پودے دور ہو سکتے ہیں.مگر بجائے تو بہ اور استغفار کے وہ اشتہار بڑی ہنسی اور ٹھٹھے سے پڑھا گیا اب میں دیکھتا ہوں کہ وہ پیشگوئی ان دنوں میں پوری ہو رہی ہے خدا ملک کو اس آفت سے بچاوے.اگر خدانخواستہ اس کی ترقی ہوئی تو وہ ایک ایسی بلا ہے جس کے تصور سے بدن کانپتا ہے.سواے عزیز و! اسی غرض سے پھر یہ اشتہار شائع کرتاہوں کہ سنبھل جاؤ اور خدا سے ڈرو اور ایک تبدیلی دکھلاؤ تا خدا تم پر رحم کرے اور وہ بلا جو بہت نزد یک آگئی ہے خدا اس کو نابود کرے.“ ۲.”اے غافلو! یہ جنسی اور ٹھٹھے کا وقت نہیں ہے یہ وہ بلا ہے جو آسمان سے آتی اور صرف آسمان کے خدا کے حکم سے دور ہوتی ہے....معمولی درجہ کی طاعون یا کسی اور وبا کا آنا ایک معمولی بات ہے لیکن جب یہ بلا ایک کھا جانے والی آگ کی طرح کسی شہر میں اپنا منہ کھولے تو یقین کرو کہ وہ شہر کامل راستبازوں کے وجود سے خالی ہے.تب اس شہر سے جلد نکلو یا کامل تو بہ اختیار کرو.ایسے شہر سے نکلنا طبی قواعد کی رو سے مفید ہے ایسا ہی روحانی قواعد کی رو سے بھی....“.اللہ جل شانہ اپنے رسول کو قرآن شریف میں فرماتا ہے مَا كَانَ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَ أَنْتَ فِيهِمْ.یعنی خدا ایسا نہیں ہے کہ وہ و باوغیرہ سے ان لوگوں کو ہلاک کرے جن کے شہر میں تو رہتا ہو.پس چونکہ وہ نبی علیہ السلام کامل راستباز تھا اس لیے لاکھوں کی جانوں کا وہ شفیع ہو گیا.یہی وجہ ہے کہ مکہ جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس میں تشریف رکھتے رہے امن کی جگہ رہا اور پھر جب مدینہ تشریف لائے تو مدینہ کا اس وقت نام یثرب تھا جس کے معنے ہیں ہلاک کرنے والا.یعنی اس میں ہمیشہ سخت و با پڑا کرتی تھی.آپ نے داخل ہوتے ہی فرمایا کہ اب کے بعد اس کا نام یثرب نہ ہو گا بلکہ اس کا نام مدینہ ہو گا یعنی تمدن اور 58

Page 65

حوادث طبیعی یا عذاب الہی آبادی کی جگہ.اور فرمایا کہ مجھے دکھایا گیا ہے کہ مدینہ کی وبا اس میں سے ہمیشہ کے لیے نکال دی گئی ہے.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اب تک مکہ اور مدینہ ہمیشہ طاعون سے پاک رہے.میں اس خدائے کریم کا شکر کرتاہوں کہ اس آیت کے مطابق اس نے مجھے بھی الہام کیا اور وہ یہ ہے "الامراض تُشَاءُ وَالنَّفُوْسُ تُضَاعُ - إِنَّ اللَّهَ لَا يُخَيَّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيَّرُ وا مَا بِأَنْفُسِهِمْ إِنَّهُ آوَى الْقَرْيَةَ- یہ الہام ۲۶.فروری ۱۸۹۸ء میں شائع ہو چکا ہے اور یہ طاعون کے بارے میں ہے.اس کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ موتوں کے دن آنے والے ہیں مگر نیکی اور تو بہ کرنے سے ٹل سکتے ہیں اور خدا نے اس گاؤں کو اپنی پناہ میں لے لیا ہے اور متفرق کیے جانے سے محفوظ رکھا.یعنی بشرط توبہ.اور براہین احمدیہ میں یہ الہام بھی درج ہے کہ ما كَانَ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِيْهِمْ -.یہ خدا کی طرف سے برکتیں ہیں اور لوگوں کی نظر میں عیب.“ ( مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم ص ۴۰۳-۴۰۱) طاعون کی اس وبا کا غیر معمولی طرز عمل جو اسے عام وباؤں سے ممتاز کرتا ہے ۱۹۰۱ء میں طاعون کی وبانے پنجاب پر ایک عام ہلہ بول دیا اور وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی گزشتہ پیش گوئیوں کو استخفاف و استہزا کی نظروں سے دیکھ رہے تھے اچانک ہر طرف سے انتہائی ہولناک طاعون کے نرغے میں گھر گئے.اس وقت وبا کی شدت کے دوران آپ کا یہ دعوی سخت تعجب انگیز تھا کہ یہ مرض آپ کے گھر کے چار دیواری میں بسنے والوں کو ہر گز کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گی.یہی نہیں بلکہ یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ صرف آپ کا گھر ہی نہیں خود قادیان بھی اس مرض کے ایسے حملے سے محفوظ رہے گا جو دوسرے شہروں کی طرح ہلاک خیز ہو گویا اس لحاظ سے پنجاب کے دوسرے شہروں کی نسبت قادیان کو ایک خاص امتیاز حاصل رہے گا لیکن پیشتر اس کے کہ ہم طاعون کی وبا کا اس پہلو سے تنقیدی جائزہ لیں کہ اس میں عذاب الہی 59

Page 66

حوادث طبیعی یا عذاب الہی ہونے کے کیا کیا خصوصی امتیازات پائے جاتے تھے بہتر ہو گا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ ہی میں ان الہی مواعید اور بشارتوں کا ذکر کیا جائے جو اس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیئے.آپ فرماتے ہیں:.” چار سال ہوئے کہ میں نے ایک پیشگوئی شائع کی تھی کہ پنجاب میں سخت طاعون آنے والی ہے اور میں نے اس ملک میں طاعون کے سیاہ درخت دیکھے ہیں جو ہر ایک شہر اور گاؤں میں لگائے گئے ہیں اگر لوگ تو بہ کریں تو یہ مرض دو جاڑہ سے بڑھ نہیں سکتی.خدا اس کو دفع کر دے گا.مگر بجائے تو بہ کے مجھ کو گالیاں دی گئیں اور سخت بد زبانی کے اشتہار شائع کئے گئے جس کا نتیجہ طاعون کی یہ حالت ہے جو اب دیکھ رہے ہو.“ اب اس تمام وحی سے تین باتیں ثابت ہوئی ہیں:.اول یہ کہ طاعون دنیا میں اس لیے آئی ہے کہ خدا کے مسیح موعود سے نہ صرف انکار کیا گیا بلکہ اس کو دکھ دیا گیا اور اس کے قتل کرنے کے لیے منصوبے بنائے گئے اس کا نام کافر اور دجال رکھا گیا.پس خدا نے نہ چاہا کہ اپنے رسول کو بغیر گواہی چھوڑے....دوسری بات جو اس وحی سے ثابت ہوئی وہ یہ ہے کہ یہ طاعون اس حالت میں فرو ہو گی جبکہ لوگ خدا کے فرستادہ کو قبول کر لیں گے کم سے کم یہ کہ شرارت اور ایذا رسانی اور بد زبانی سے باز آجائیں گے.....تیسری بات جو اس وحی سے ثابت ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ خداتعالی بہر حال جب تک کہ طاعون دنیا میں رہے گوستر برس تک رہے قادیان کو اس کی خوف ناک تباہی سے محفوظ رکھے گا کیونکہ یہ اس کے رسول کا تخت گاہ ہے اور یہ تمام امتوں وو دافع البلاء، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۲۵-۲۳۰) کے لیے نشان ہے.“ چونکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ملک میں عام طاعون پڑے گی اور کسی کم مقدار کی حد 60

Page 67

حوادث طبعی یا عذاب الہی تک قادیان بھی اس سے محفوظ نہیں رہے گی اسی لیے اس نے آج کے دنوں سے تئیس برس پہلے فرمایا کہ جو شخص اس مسجد میں اس گھر میں داخل ہو گا یعنی اخلاص اور اعتقاد سے وہ طاعون سے بچایا جائے گا.اسی کے مطابق ان دنوں میں خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا:- اِنّى أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ إِلَّا الَّذِينَ عَلَوْا مِنِ اسْتِكْبَارٍ وَ أَحَافِظُكَ خَاصَّةً - سَلَامٌ قَوْلًا مِنْ رَّبٍ رَّحِيمٍ....یعنی میں ہر ایک ایسے انسان کو طاعون کی موت سے بچاؤں گا جو تیرے گھر میں ہو گا مگر وہ لوگ جو تکبر سے اپنے تئیں اونچا کریں.اور میں تجھے خصوصیت کے ساتھ بچاؤں گا خدائے رحیم کی طرف سے تجھے سلام.جاننا چاہیے کہ خدا کی وحی نے اس ارادہ کو جو قادیان کے متعلق ہے دو حصوں پر تقسیم کر دیا ہے.(۱) ایک وہ ارادہ جو عام طور پر گاؤں کے متعلق ہے اور وہ ارادہ یہ ہے کہ یہ گاؤں اس شدت طاعون سے جو افرا تفری اور تباہی ڈالنے والی اور ویران کرنے والی اور تمام گاؤں کو منتشر کرنے والی ہو محفوظ رہے گا.(۲) دوسرے یہ ارادہ کہ خدائے کریم خاص طور پر اس گھر کی حفاظت کرے گا اور اس کو تمام عذاب سے بچائے گاجو گاؤں کے دوسرے لوگوں کو پہنچے گا اور اس وحی اللہ کا اخیر فقرہ ان لوگوں کے لیے مندر ہے جن کے دلوں میں بے جا تکبر ہے.66 ( نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۰۲-۴۰۱) ”کچھ شک نہیں کہ اس وقت تک جو تدبیر اس عالم اسباب میں اس گور نمنٹ عالیہ کے ہاتھ آئی وہ بڑی سے بڑی اور اعلیٰ سے اعلیٰ یہ تدبیر ہے کہ ٹیکا کرایا جائے اس سے کسی طرح انکار نہیں ہو سکتا کہ یہ تدبیر مفید پائی گئی ہے اور یہ پابندی رعایت اسباب، تمام رعایا کا فرض ہے کہ اس پر کاربند ہو کر وہ غم جو گورنمنٹ کو ان کی جانوں کے لیے ہے اس سے اس کو سبکدوش کریں لیکن بڑے ادب سے اس محسن 61

Page 68

حوادث طبعی یا عذاب الہی گورنمنٹ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ اگر ہمارے لیے ایک آسمانی روک نہ ہوتی تو سب سے پہلے رعایا میں سے ہم ٹیکا کر اتے.اور آسمانی روک یہ ہے کہ خدا نے چاہا ہے کہ اس زمانے میں انسانوں کے لیے ایک آسمانی رحمت کا نشان دکھاوے سو اس نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ تو اور جو شخص تیرے گھر کی چار دیوار کے اندر ہو گا اور وہ جو کامل پیروی اور اطاعت اور سچے تقویٰ سے تجھ میں محو ہو جائے گا وہ سب طاعون سے بچائے جائیں گے اور ان آخری دنوں میں خدا کا یہ نشان ہو گا کہ تاوہ قوموں میں فرق کر کے دکھلاوے لیکن وہ جو کامل طور پر پیروی نہیں کرتا وہ تجھ میں سے نہیں ہے اس لیے مت دل گیر ہو.یہ حکم الہی ہے جس کی وجہ سے ہمیں اپنے نفس کے لیے اور ان سب کے لیے جو ہمارے گھر کی چار دیواری میں رہتے ہیں ٹیکا کی کچھ ضرورت نہیں.....اُس نے مجھے مخاطب کر کے یہ بھی فرما دیا کہ عموماً قادیان میں سخت بر بادی افکن طاعون نہیں آئے گی جس سے لوگ کتوں کی طرح مریں اور مارے غم اور سر گردانی کے دیوانہ ہو جائیں اور عموماً تمام لوگ اس جماعت کے گو وہ کتنے ہی ہوں مخالفوں کی نسبت طاعون سے محفوظ رہیں گے مگر ایسے لوگ ان میں سے جو اپنے عہد پر پورے طور پر قائم نہیں یا ان کی نسبت اور کوئی وجہ مخفی ہو جو خدا کے علم میں ہو ان پر طاعون وارد ہو سکتی مگر انجام کار لوگ تعجب کی نظر سے اقرار کریں گے کہ نسبتاً اور مقابلۂ خدا کی حمایت اس قوم کے ساتھ ہے اور اس نے خاص رحمت سے ان لوگوں کو ایسا بچایا ہے جس کی نظیر نہیں.اس بات پر بعض نادان چونک پڑیں گے اور بعض ہنسیں گے اور بعض مجھے دیوانہ قرار دیں گے اور بعض حیرت میں آئیں گے کہ کیا ایسا خدا موجود ہے جو بغیر رعایت اسباب کے بھی رحمت نازل کر سکتا ہے اس کا جواب یہی ہے کہ ہاں! بلاشبہ ایسا قادر خدا موجود ہے اور اگر وہ ایسا نہ ہو تا تو اس سے تعلق رکھنے والے زندہ ہی مر جاتے وہ عجیب قادر ہے اور اس کی پاک قدر تیں عجیب 62

Page 69

حوادث طبعی یا عذاب الہی ہیں.ایک طرف نادان مخالفوں کو اپنے دوستوں پر کتوں کی طرح مسلط کر دیتا ہے اور ایک طرف فرشتوں کو حکم کرتا ہے کہ ان کی خدمت کریں.“ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱-۳) مندرجہ بالا اقتباسات میں جو دعاوی کیے گئے ہیں ان کی رو سے طاعون کی اس وبا میں حسب ذیل خصوصیات ہونی چاہیے تھیں جو اسے عام وباؤں سے ممتاز کر دیں اور قطعی طور پر یہ ثابت ہو جائے کہ یہ کوئی عام و با نہیں بلکہ عذاب الہی کے قبیل سے تعلق رکھنے والا ایک عظیم الشان عذاب ہے.ا.پیشگوئی کے بعد اس وبا کو غیر معمولی طور پر بڑھنا چاہئے تھا.۲.پنجاب کے دیگر قصبات کے بر عکس قادیان کو اس وبا کی غیر معمولی شدت سے محفوظ رہنا چاہئے.عموماً جماعت احمدیہ کے افراد اس حملہ سے اس حد تک نمایاں طور پر محفوظ رہنے چاہئیں تھے تا یہ بات لوگوں کی نظر میں عجیب ٹھہرے.۴.خصوصاً قادیان کا وہ حصہ اس وبا سے بالکل محفوظ رہنا چاہئے تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رہائش گاہ تھا.ہر وہ شخص جو اس میں رہائش پذیر تھا اس کے اثر سے محفوظ و مامون ہونا چاہئے تھا.۵.اس طاعون کے نتیجہ میں لوگوں نے بکثرت آپ پر ایمان لانا تھا اور جب تک ایسا نہ ہو طاعون نے ملک کا پیچھانہ چھوڑنا تھا.جب ہم تاریخی حقائق پر نظر ڈالتے ہیں تو بڑی حیرت کے ساتھ اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ مندرجہ بالا دعاوی میں سے ہر ایک بڑی شان کے ساتھ سچا ثابت ہوا.سب سے پہلے ہم وہ اعداد و شمار پیش کرتے ہیں جن سے یہ ثابت ہو گا کہ طاعون کی پیشگوئی سے قبل اور طاعون کی پیش گوئی کے بعد کے حالات میں ایک ایسی نمایاں تبدیلی پیدا ہوئی جو کسی انسان کے بس کی بات نہ تھی.ذیل میں ہم طاعون کی پیش گوئی سے قبل کے اعدادو شمار پیش کرتے ہیں جو طاعون کے 63

Page 70

حوادث طبعی یا عذاب الہی مختلف ملکوں میں پھیلاؤ سے تعلق رکھتے ہیں.۱۸۸۰ء میں صرف ایک ملک میں طاعون ظاہر ہوا.۱۸۸۱ء میں تین ممالک، ۱۸۸۲ء میں دو ممالک، ۱۸۸۳ء میں ایک ملک، ۱۸۸۴ء میں پھر دو ممالک ۸۸-۸۷.۸۶-۱۸۸۵ء میں صرف ایک ملک میں ،۱۸۸۹ء میں پھر یہ بڑھنا شروع ہوا اور ۹۱-۹۰-۱۸۸۹ء میں تین ممالک میں ظاہر ہوا.۱۸۹۲ء میں چار ممالک، ۹۴-۱۸۹۳ء میں ایک دم پھیل کر نو ممالک پر قابض ہو گیا.۱۸۹۵ء میں دو ممالک اور ۹۷-۱۸۹۶ء میں چھ ممالک تک محدود رہا.ان اعداد کے مطالعہ سے صاف ظاہر ہے کہ طاعون کی انتہائی چوٹی ۱۸۹۳ء میں قائم ہوئی جس کے بعد مسلسل تین سال تک اس کا دائرہ عمل محدود رہا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے طاعون کے عذاب الہی کی صورت میں پھیلنے کی ۱۸۹۸ء میں خبر دی اور ۱۸۹۸ء میں طاعون اچانک پھر پھیلنا شروع ہوا اور چھ ممالک کی بجائے آٹھ ممالک پر حملہ آور ہوا.۱۸۹۹ء میں اکیس ممالک، ۱۹۰۰ء میں ۲۶ ممالک، ۱۹۰۱ء میں ۲۷ ممالک اور ۱۹۰۲ء میں ۲۸ ممالک پر مسلط ہو گیا.اس نقشہ کو دیکھ کر طبیعت پر یہ اثر پڑتا ہے کہ اس الہی تنبیہ کے بعد جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ بنی نوع انسان کو اس آنے والی آفت سے متنبہ کر دیا گیا تو ساتھ ہی اس بلا کی زنجیریں کھول دی گئیں اور یہ اس تیز رفتاری سے آگے بڑھی گویا پیچھے مڑ کر نہ دیکھا.ہمیں افسوس ہے کہ انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا طاعون کے پھیلاؤ کا صرف ۱۹۰۲ء تک ذکر کرتا ہے اس لیے ہم مکمل نقشہ پیش کرنے سے قاصر ہیں.ہاں جہاں تک طاعون کے اثرات کا تعلق ہے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ ۱۹۰۶ء تک طاعون کے نتیجہ میں رونما ہونے والی اموات کے اعداد و شمار محفوظ کر دیئے گئے.اس نقشے پر بھی نظر ڈال کر دیکھیے تو پیشگوئی سے قبل اور پیشگوئی کے بعد کے اعداد و شمار میں نمایاں فرق نظر آئے گا.اس نقشہ کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ ہندوستان یعنی وہ ملک جس میں وقت کا امام ظاہر ہوا تھا اور جس نے آفت سے بالخصوص اس ملک کو متنبہ کیا طاعون کی سب سے زیادہ خوفناک آماجگاہ بن گیا.۱۸۹۶ء ' میں یعنی پیشگوئی سے قبل کے سال ۲۲۱۹ اموات طاعون کی وبا 1 گذشتہ ایڈیشن میں سہو کا تب سے ۱۸۹۹ء درج ہو گیا تھا جس کو ” الفرقان “ اپریل ۱۹۷۷ء کے شمارہ کے مطابق ۱۸۹۶ء کر دیا گیا ہے.پبلشر 64

Page 71

حوادث طبیعی یا عذاب الہی کے نتیجہ میں ہوئیں لیکن جب پیش گوئی کی گئی یہ اموات اچانک بڑھ کر ۴۷۹۷۶ تک پہنچ گئیں.اعدادو شمار حسب ذیل ہیں جو ہمارے بیان پر شاہد ناطق ہیں :- تعداد اموات سال ١٨٩٦ء ۱۸۹۷ء ۱۸۹۸ء ١٨٩٩ء ١٩٠٠ء 1901ء ١٩٠٢ء ١٩٠٣ء ١٩٠٤ء ۱۹۰۵ء ١٩٠٦ء ۲۲۱۹ ۴۷۹۷۶ ۸۹۲۶۵ ۱۰۲۳۶۹ ۷۳۵۷۶ ۲۳۶۴۳۳ ۴۵۲۶۵۵ ۶۸۴۴۴۵ ۹۳۸۰۱۰ ۹۴۰۸۲۱ ۳۰۰۳۵۵ مندرجہ بالا نقشہ میں صرف ۱۹۰۰ء کا سال ایسا ہے جس میں گزشتہ سال سے اموات میں کچھ کمی دکھائی دیتی ہے.باقی تمام سالوں میں ۱۹۰۵ء تک مسلسل اموات کی تعداد ہولناک طریق پر بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے جو بالآخر ۱۹۰۶ء میں پھر گرنا شروع ہو جاتی ہے.اس کے بعد طاعون رفتہ رفتہ غائب ہوتے ہوتے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال تک تقریباً معدوم ہو چکی ہے.طاعون کے پھیلاؤ اور اموات کی تعداد کے سالانہ اعداد و شمار ذہن کو اس آیت کے مضمون کی طرف بھی منتقل کر دیتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ فرعون کی قوم پر نازل ہونے والے عذابوں کے ذکر میں عذاب الہی کی ایک علامت یہ بھی بیان فرماتا ہے کہ اگلے جھٹکے پچھلے جھٹکوں سے شدید تر ہوتے ہیں جیسا کہ فرمایا:- 65

Page 72

حوادث طبعی یا عذاب الہی وَمَا نُرِيهِمْ مِنْ آيَةٍ إِلَّا هِيَ أَكْبَرُ مِنْ أُخْتِهَا وَأَخَذْقُهُمْ بِالْعَذَابِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ.(سورة الزخرف: ۴۹) ترجمہ : اور ہم ان کو جو نشان بھی دکھاتے تھے وہ اپنے پہلے نشان سے بڑا ہو تا تھا اور ہم نے ان کو عذاب میں مبتلا کر دیا تھا تا کہ وہ اپنی بد اعمالیوں سے ) لوٹ جائیں.اب اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ سلسلہ قیامت تک اسی طرح جاری رہتا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ جس وقت تک وہ عذاب مقدر ہو اور جس وقت تک اس کے اٹھا لینے کا فیصلہ نہ ہو جائے اس وقت تک وہ مسلسل شدت اختیار کرتا چلا جاتا ہے لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ جب قوم میں خد اتعالیٰ کی طرف توجہ پیدا ہو اور وہ بشدت استغفار کی طرف مائل ہو تو جب تک یہ کیفیت قوم میں پائی جائے یہ عذاب نرم پڑ جاتا ہے یائل جاتا ہے.یہ دوسرا اصول بھی قرآن کریم فرعون کی قوم پر آنے والے عذابوں کے ضمن میں ہی بیان کرتا ہے جیسا کہ فرمایا کہ جب کبھی عذاب شدت سے اس قوم کو پکڑ لیتا تھا وہ لوگ مائل بہ استغفار ہوتے تھے اور حضرت موسیٰ سے دعا کی درخواست کرتے تھے.تب وہ عذاب ٹل جاتا تھا یہاں تک کہ جلد ہی اس کے بعد قوم پھر شرارتوں کی طرف لوٹ آتی تھی.تب اللہ تعالیٰ بھی ایک نیا عذاب ان پر وارد کرتا تھا.پس کسی وقت عذاب کا وقتی طور پر ٹل جانا یا نرم پڑ جانا اس آیت کے مضمون کے مخالف نہیں ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا.بہ یک وقت دونوں باتیں اس طرح نظر آتی ہیں کہ عذاب اپنی شدت میں بالعموم خفیف سے اشر کی طرف حرکت کرتا ہے لیکن کہیں کہیں انسانوں کی بے قراری اور استغفار کے آنسو اس آگ کو کسی حد تک ٹھنڈا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور وقتی طور پر اس کی شدت میں کمی واقع ہو جاتی ہے.شق دوم.قادیان کی بستی سے استثنائی سلوک کا دعویٰ شق اول کے مطالعہ کے دوران بعض قارئین کے ذہن میں خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ جبکہ یہ مسلمہ امر ہے کہ طاعون کی وبا اس زمانہ میں پہلی مرتبہ ۱۸۸۰ء میں پھوٹی تھی اور اس کے بعد وقتاً 66

Page 73

حوادث طبعی یا عذاب الہی فوقتاً دنیا کے مختلف ممالک میں ظاہر ہوتی رہی تو ۱۸۹۷ء میں یعنی سترہ سال بعد حضرت مرزا صاحب کا طاعون کی وبا کو عذاب الہی قرار دینا اور اپنی تائید میں بطور نشان اس کی پیش گوئی کرنا کیا معنے رکھتا ہے؟ کیوں نہ یہ گمان کیا جائے کہ آپ نے یہ اندازہ لگا کر کہ یہ وبا اب زیادہ شدت اختیار کر جائے گی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک پیشگوئی کر دی.اس کا ایک جواب تو خود شق اول ہی میں گزر چکا ہے یعنی یہ کہ اس پیش گوئی سے قبل اور بعد کے اعدادوشمار میں حیرت انگیز فرق فی ذاتہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ کی پیشگوئی کسی انسانی تخمینہ کے نتیجہ میں نہیں بلکہ عالم الغیب ہستی کی طرف سے دی جانے والی خبر کے نتیجہ میں تھی.اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ اس پیش گوئی میں محض یہ دعوی نہ تھا کہ طاعون بصورت عذاب الہی بڑی شدت کے ساتھ اس ملک پر حملہ آور ہو گا بلکہ اس کے ساتھ یہ عجیب دعوی بھی تھا کہ قادیان کی بستی اس وبا سے غیر معمولی طور پر محفوظ رکھی جائے گی اور یہ دعویٰ بڑے کھلے لفظوں میں کیا گیا تھا کہ قادیان میں طاعون داخل ہوئی بھی تو محض معمولی حیثیت اور درجہ کی ہو گی.اور ایسی وبا سے خدا تعالیٰ اس بستی کو محفوظ رکھے گا جو دیگر دیہات اور بستیوں کی طرح یہاں بھی سخت تباہی مچائے.مبادا کسی کو یہ خیال گزرے کہ طاعون کے زمانہ میں ایسا دعویٰ کر دینا کوئی بڑی بات نہ تھی اور جو چاہتا آسانی سے ایسا دعویٰ کر سکتا تھا.ہم اس وہم کے ازالہ کے لیے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ہی کے الفاظ میں وہ چیلنج پیش کرتے ہیں جو اس بارہ میں باقی اہل مذاہب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیا لیکن کسی کو توفیق نہ ملی کہ اسے قبول کرے.حضور نے فرمایا: ”جو شخص ان تمام فرقوں میں اپنے مذہب کی سچائی کا ثبوت دینا چاہتا ہے تو اب بہت عمدہ موقع ہے گویا خدا کی طرف سے تمام مذاہب کی سچائی یا کذب پہچاننے کے لیے نمائش گاہ مقرر کیا گیا ہے اور خدا نے سبقت کر کے اپنی طرف سے پہلے قادیان کا نام لے دیا ہے.اب اگر آریہ لوگ وید کو سچا سمجھتے ہیں تو ان کو چاہیے کہ 67

Page 74

حوادث طبعی یا عذاب الہی بنارس کی نسبت جو وید کے درس کا اصل مقام ہے ایک پیش گوئی کر دیں کہ ان کا پر میشر بنارس کو طاعون سے بچالے گا.اور سناتن دھرم والوں کو چاہیے کہ کسی ایسے شہر کی نسبت جس میں گائیاں بہت ہوں مثلاً امر تسر کی نسبت پیشگوئی کر دیں کہ گئو کے طفیل اس میں طاعون نہیں آئے گی.اگر اس قدر گئو اپنا معجزہ دکھا دے تو کچھ تعجب نہیں کہ اس معجزہ نما جانور کی گورنمنٹ جان بخشی کر دے.اسی طرح عیسائیوں کو چاہئے کہ کلکتہ کی نسبت پیش گوئی کر دیں کہ اس میں طاعون نہیں پڑے گی کیونکہ بڑا بشپ برٹش انڈیا کا کلکتہ میں رہتا ہے.اسی طرح میاں سشمس الدین اور ان کی انجمن حمایت اسلام کے ممبروں کو چاہیے کہ لاہور کی نسبت پیشگوئی کر دیں کہ وہ طاعون سے محفوظ رہے گا اور منشی الہی بخش اکو نٹنٹ جو الہام کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے لیے بھی موقع ہے کہ اپنے الہام سے لاہور کی نسبت پیشگوئی کر کے انجمن حمایت اسلام کو مدد دیں.اور مناسب ہے کہ عبد الجبار اور عبد الحق شہر امرتسر کی نسبت پیش گوئی کر دیں.اور چونکہ فرقہ وہابیہ کی اصل جو دلی میں ہے اس لیے مناسب ہے کہ نذیر حسین اور محمد حسین دلی کی نسبت پیشگوئی کریں کہ وہ طاعون سے محفوظ رہے گی.پس اس طرح سے گویا تمام پنجاب اس مہلک مرض سے محفوظ ہو جائے گا اور گورنمنٹ کو بھی مفت میں سبکدوشی ہو جائے گی.اور اگر ان لوگوں نے ایسا نہ کیا تو پھر یہی سمجھا جائے گا کہ سچا خداوہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنار سول بھیجا.......اس جگہ مولوی احمد حسن امروہی کو ہمارے مقابلہ کے لئے خوب موقعہ مل گیا ہے.ہم نے سنا ہے کہ وہ بھی دوسرے مولویوں کی طرح اپنے مشرکانہ عقیدہ کی حمایت میں کہ تاکسی طرح حضرت مسیح ابن مریم کو موت سے بچالیں اور دوبارہ اتار کر خاتم الانبیاء بنا دیں بڑی جانکاہی سے کوشش کر رہے ہیں.....اگر مولوی احمد حسن صاحب کسی طرح باز نہیں آتے تو اب وقت آگیا ہے کہ آسمانی فیصلہ سے ان کو پتہ لگ جائے.68

Page 75

حوادث طبعی یا عذاب الہی یعنی اگر وہ در حقیقت مجھے جھوٹا سمجھتے ہیں اور میرے الہامات کو انسان کا افتر اخیال کرتے ہیں نہ خدا کا کلام تو سہل طریق یہ ہے کہ جس طرح میں نے خدا تعالیٰ سے الہام پا کر کہا ہے کہ لَوْ لَا الْإِكْرَامُ لَهَلَكَ الْمَقَامُ وَوَإِنَّةً أَوَى امْرُ وَهَہ لکھ دیں.مومنوں کی دعا تو خداسنتا ہے.وہ شخص کیسا مومن ہے کہ ایسے شخص کی دعا تو اس کے مقابلے پر سنی جاتی ہے جس کا نام اس نے دجال اور بے ایمان اور مفتری رکھا ہے مگر اس کی اپنی دعا نہیں سنی جاتی.....اگر انہوں نے اپنے فرضی مسیح کی خاطر دعا قبول کر اکر خدا سے یہ بات منوالی کہ امروہہ میں طاعون نہیں پڑے گی تو اس صورت میں نہ صرف ان کو فتح ہو گی بلکہ تمام امروہہ پر ان کا ایسا احسان ہو گا کہ لوگ اس کا شکر نہیں کر سکیں گے.اور مناسب ہے کہ ایسے مباہلہ کا مضمون اس اشتہار کے شائع ہونے سے پندرہ دن تک بذریعہ چھپے ہوئے اشتہار کے دنیا میں شائع کر دیں جس کا مضمون یہ ہو کہ یہ اشتہار مرزا غلام احمد کے مقابل پر شائع کرتاہوں جنہوں نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے.اور میں جو مومن ہوں دعا کی قبولیت پر بھروسہ کر کے یا الہام پا کر یا خواب دیکھ کر یہ اشتہار دیتا ہوں کہ امروہہ ضرور بالضرور طاعون کی دست برد سے محفوظ رہے گا لیکن قادیان میں تباہی پڑے گی کیونکہ مفتری کے رہنے کی جگہ ہے.اس اشتہار سے غالباً آئندہ جاڑے تک یہ فیصلہ ہو جائے گا یا حد دوسرے تیسرے جاڑے تک.....چونکہ مسیح موعود کی رہائش کے قریب تر پنجاب ہے اور مسیح موعود کی نظر کا پہلا محل پنجابی ہیں اس لیے اول یہ کارروائی پنجاب میں شروع ہوئی.لیکن امروہہ بھی مسیح موعود کی محیط ہمت سے دور نہیں اس لیے اس مسیح کا کافرکش دم ضر ور امروہہ تک بھی پہنچے گا.یہی ہماری طرف سے دعوی ہے.اگر مولوی احمد حسن صاحب اس اشتہار کے شائع ہونے کے بعد جس کو وہ قسم کے ساتھ شائع کرے گا امروہہ کو طاعون سے بچا سکا اور کم از کم تین جاڑے امن سے گزر گئے تو میں خدا تعالیٰ کی 69

Page 76

حوادث طبعی یا عذاب الہی طرف سے نہیں.پس اس سے بڑھ کر اور کیا فیصلہ ہو گا.اور میں بھی خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں مسیح موعود ہوں اور وہی ہوں جس کا نبیوں نے وعدہ دیا ہے اور میری نسبت اور میرے زمانے کی نسبت توریت اور انجیل اور قرآن شریف میں خبر موجود ہے کہ اس وقت آسمان پر خسوف و کسوف ہو گا اور زمین پر سخت طاعون پڑے گی.اور میر ایہی نشان ہے کہ ہر ایک مخالف خواہ وہ امر وہہ میں رہتا ہے اور خواہ امرت سر میں اور خواہ دہلی میں اور خواہ کلکتہ میں اور خواہ لاہور میں اور خواہ گولڑہ میں اور خواہ بٹالہ میں اگر وہ قسم کھا کر کہے گا کہ اس کا فلاں مقام طاعون سے پاک رہے گا تو ضرور وہ مقام طاعون میں گرفتار ہو جائے گا کیونکہ اس نے خدا تعالیٰ کے مقابل پر گستاخی کی.66 دافع البلاء، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۳۰-۲۳۸) کھلے کھلے اس چیلنج کے باوجود کسی کو توفیق نہ ملی کہ اپنی بستی کے بارہ میں یہ دعویٰ کر سکے کہ خدا تعالیٰ اسے طاعون کی غیر معمولی تباہی سے محفوظ رکھے گا.پس تمام اہل مذاہب کی اس بارہ میں خاموشی بذات خود اس امر کا ایک بین ثبوت ہے کہ اس زمانہ میں طاعون جس شدت اور تیزی سے شہروں اور دیہات میں داخل ہو کر زندگی کی بیخ کنی کر رہی تھی اس کے دیکھتے ہوئے کسی فرد بشر کے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ اپنی طرف سے اتنا بڑا اور محال دعوی کر دے کہ اس کے گاؤں کو اللہ تعالی طاعون کے غیر معمولی حملہ سے بچالے گا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے محض یہ دعویٰ ہی نہ کیا بلکہ عجیب تر بات یہ ہے کہ طاعون کی وبا نے حیرت انگیز سعادت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے عمل سے آپ کے دعوی کی سچائی کو ثابت کر دیا.چنانچہ عین ان دنوں جبکہ طاعون کی وبازوروں پر تھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اہل دنیا کو اس عجیب در عجیب نشان کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:- ”اب دیکھو تین برس سے ثابت ہو رہا ہے کہ وہ دونوں پہلو پورے ہو گئے یعنی ایک طرف تمام پنجاب میں طاعون پھیل گئی اور دوسری طرف باوجود اس کے کہ 70

Page 77

حوادث طبعی یا عذاب الہی قادیان کے چاروں طرف دو دو میل فاصلے پر طاعون کا زور ہو رہا ہے مگر قادیان طاعون سے پاک ہے بلکہ آج تک جو شخص طاعون زدہ باہر سے قادیان میں آیا وہ بھی اچھا ہو گیا.کیا اس سے بڑھ کر کوئی اور ثبوت ہو گا؟ جو باتیں آج سے چار برس پہلے کہی گئی تھیں وہ پوری ہو گئیں بلکہ طاعون کی خبر آج سے بائیس برس پہلے براہین احمدیہ میں دی گئی ہے اور یہ علم بجز خدا کے کسی اور کی طاقت میں نہیں.وافع البلاء، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۲۶) تیسری شق.الدار کی حفاظت ہر چند کہ یہ بہت عجیب دعویٰ تھا کہ قادیان کی بستی کے ساتھ استثنائی سلوک کیا جائے گا اور دوسرے شہروں اور دیہات کے مقابل پر اسے اس حد تک محفوظ رکھا جائے گا کہ ایک نمایاں امتیاز کی صورت پیدا ہو.ہر چند کہ بار بار چیلنج دینے کے باوجود کسی دوسرے شخص کو اس قسم کے دعویٰ کی جرات نہ ہوئی.تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ ایک شکی مزاج انسان کے لیے محل اعتراض ابھی باقی ہے.سوچنے والا یہ سوچ سکتا ہے اور وہم کرنے والا اس وہم میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ ایک امکان کا سہارا لے کر ایسی پیشگوئی کر دی گئی اور ساتھ ہی اعتراض سے بچنے کے لیے یہ راہ بھی تجویز کر دی گئی کہ اگر طاعون پڑی بھی تو زیادہ شدت کی طاعون کی نہیں پڑے گی اور دوسرے شہروں نسبت امتیاز کی صورت پیدا ہو جائے گی.پس استثنا نے پیش گوئی کی امتیازی حیثیت پر ایک ابہام اور تلبیس کا پردہ ڈال دیا ہے.اس وہم اور اعتراض کا جواب خود پیش گوئی ہی کی اس تیسری شق میں موجود ہے جس پر ہم اب قلم اٹھا ر ہے ہیں.اگر چہ قادیان کی بستی کے متعلق پیشگوئی میں کلی حفاظت کا وعدہ نہیں تھا لیکن قادیان کے ایک حصہ کے متعلق جو اس قصبہ کی گنجان آبادی کے وسط میں واقع تھا ایسا وعدہ ضرور موجود تھا اور بڑی وضاحت اور تحدی کے ساتھ یہ فرمایا گیا تھا کہ انّی اُحافظ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ.یعنی اللہ تعالیٰ یہ وعدہ کرتا ہے کہ میں ہر اس وجود کی اس وباء سے حفاظت کروں گا جو تیرے گھر کے اندر رہتا ہے.پیشگوئی کے اس حصہ پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو قادیان میں طاعون کے معمولی طور پر 71

Page 78

حوادث طبیعی یا عذاب الہی داخل ہونے والا پہلو پیشگوئی کی شوکت کو کم کرنے کی بجائے اور بھی بڑھا دیتا ہے.اگر قادیان میں طاعون کلیۂ داخل ہی نہ ہوتی اور نیکوں کی طرح قادیان کے تمام شریر لوگ بھی اس سے پوری طرح محفوظ رہتے تو ایک شکی مزاج انسان کے لیے شک کی ایک اور صورت پیدا ہو جاتی ہے کہ کیوں نہ یہ سمجھ لیا جائے کہ اتفاق سے طاعون کے جراثیم اس بستی میں داخل ہی نہیں ہوئے.اگر یہ کوئی الہی نشان ہو تا تو نیک اور بد میں کوئی تمیز ہونی چاہیے تھی.قادیان کی بستی میں رہنے والے مرزا صاحب کے مخالفین کا بھی اس وبا سے صاف بچ جانا ظاہر کرتا ہے کہ کوئی خدائی ہاتھ نہیں بلکہ اتفاقی حادثہ اس میں کار فرما تھا.پھر ایک وہمی انسان یہ بھی اعتراض کر سکتا تھا کہ مرزا صاحب کے گھر کا یعنی اس میں رہنے والے ہر وجود کا طاعون کی بیماری سے بچ رہنا تو صرف اس صورت میں امتیازی نشان بن سکتا تھا کہ اس شہر میں طاعون داخل ہوتی.دائیں بائیں، آگے پیچھے قرب وجوار میں ہمسایوں کو پکڑتی لیکن آپ کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت اسے نہ ملتی تب ہم سمجھتے کہ ہاں کچھ بات ضرور ہے.مندجہ بالا امکانی اعتراضات اور توہمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جب ہم پیشگوئی اور بعد ازاں رونما ہونے والے واقعات پر نظر ڈالتے ہیں تو عقل حیران رہ جاتی ہے اور غیر معمولی تصرف الہی کے سوا ان واقعات کی کوئی طبعی توجیہ پیش کرنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا.پیشگوئی کا ہر جزء حیرت انگیز صفائی کے ساتھ پورا ہوا کہ انسانی طاقت کا کوئی دخل اس میں نظر نہیں آتا.قادیان میں طاعون داخل ہوئی مگر نہایت معمولی طریق پر.گویا اکا دکار دی کے ٹکڑے جتنی رہی.گھروں، گلیوں اور بازاروں میں موت کا جھاڑو نہیں دیا.حضرت مرزا صاحب کے چند مخالفین تو طاعون کی نظر ہو گئے لیکن کسی مرید کو طاعون نے کچھ نہ کہا طاعون گھر کی چار دیواری کو مس کر کے گزر گئی لیکن ”الدار “ میں داخل ہونے کی اجازت اسے نہ ملی.بیج ناتھ ہندو جس کے گھر کی دیوار حضور علیہ السلام کی دیوار کے ساتھ ملی ہوئی تھی چند گھنٹے طاعون میں مبتلارہ کر گزر گیا لیکن حضرت اقدس علیہ السلام کا گھر اس کے اثر سے محفوظ رہا.ایک منصف مزاج محقق ہر گز اس امر کو تخفیف کی نظر سے نہیں دیکھ سکتا اور محض اتفاق 72

Page 79

حوادث طبعی یا عذاب الہی کہہ کر اس سے صرف نظر نہیں کر سکتا کہ کسی ہولناک بیماری کے بارہ میں کوئی شخص یہ پیشگوئی کرے کہ وہ اس کے شہر میں معمولی درجہ کا اثر تو کر سکتی ہے اس سے زیادہ کی اسے اجازت نہ ہو گی اور جہاں تک اس کے گھر کی چار دیواری کا تعلق اس کے اندر رہنے والا ہر متنفس خد اتعالیٰ کی حفاظت میں رہے گا اور یہ بیماری اسے ہلاک کرنے پر قدرت نہ پاسکے گی.پھر جیسا کہ اس نے پیشگوئی کی ہو بعینہ اسی طرح ہو جائے یہ امر یقیناً اتفاق کی عملداری سے ماوریٰ ہے اور ہر سلیم فطرت انسان کو مزید فکر اور جستجو پر مجبور کر دیتا ہے.قادیان کی بستی میں طاعون کا داخل ہونا اور اکا دکا لوگوں کو اچک لے جانا ایک ایسا موضوع ہے جو بعض مثالوں کے بغیر آج کے قاری پر پوری طرح روشن نہیں ہو سکتا کن کن لوگوں کو اس نے پکڑا اور کن کن لوگوں کو اس نے چھوڑ دیا، کس کس پر ہاتھ ڈالا اور کس کس پر سے ہاتھ اٹھالیا.کہاں اسے کھل کھیلنے کا موقعہ اور کہاں دم مارنے کی مجال نہ تھی.قادیان کی تاریخ کا یہ باب حیرت انگیز ہے اور صرف اس ایک باب کا مطالعہ ہی حوادث طبعی اور عذاب الہی میں تمیز کر دکھانے کے لئے کافی ہے.بیج ناتھ کا ذکر کر چکا ہوں کہ کس طرح اس کے گھر اور دار مسیح کے درمیان صرف ایک دیوار حائل تھی.یہ دیوار کچی تھی اور ان کمروں کے فرش بھی کچے تھے جو ایک دوسرے کے ساتھ ملحق تھے.چوہوں کے توسط سے طاعون کے کیڑوں کا ایک گھر سے دوسرے گھر میں منتقل ہونا عین قرین قیاس تھا لیکن ایسانہ ہونا تھانہ ہوا اور دار مسیح میں بسنے والا انسان تو کجا چوہا بھی طاعون کی مرض سے ہلاک نہیں ہوا.یہ کوئی ایک دو ماہ یا سال دو سال کا قصہ نہیں تھا.۱۸۹۸ء سے لے کر ۱۹۰۷ء تک مسلسل نو سال صوبہ پنجاب طاعون کی آفت میں مبتلا رہا لیکن اس چار دیواری میں ایک بھی طاعونی موت نہ ہوئی.مذہبی دنیا میں چونکہ آپ کا یہ دعویٰ خوب شہرت پا چکا تھا کہ اللہ تعالیٰ قادیان کو عموماً اور آپ کے گھر کو خصوصاً طاعونی موت سے پاک رکھے گا، اس لئے تمام معاندین احمدیت کی نظر اس تمنا کے ساتھ قادیان پر لگی ہوئی تھی کہ کب وہ دن آئے کہ مرزا صاحب کے گھر بھی کوئی طاعونی موت واقع ہو جائے لیکن خدا نے وہ دن کسی کو نہ دکھایا.ہاں بہت سے دشمنان 73

Page 80

حوادث طبیعی یا عذاب الہی احمدیت یہ دن دیکھنے کی حسرت لئے ہوئے خود طاعون کا شکار ہو کر اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے.حضور علیہ السلام کے معاندین کے دلوں میں قادیان میں طاعون کی عام ہلاکت دیکھنے کی تمنا ایسی مچلتی اور کروٹیں لیتی تھی کہ جب کچھ بن نہ آئی تو فرضی قصوں ہی سے تسکین قلب کے سامان ہونے لگے.لیکن یہ تسکین بھی عارضی اور فانی ثابت ہوئی کیونکہ حضور علیہ السلام نے معاً دلائل کی سخت ضربات کے ساتھ اس فریب کو پارہ پارہ کر دیا.مثال کے طور پر ”پیسہ اخبار “ میں شائع ہونے والی ایک فہرست اموات کا ذکر کرتے ہوئے جو اخبار موصوف کے نزدیک قادیان کی بستی میں طاعون سے واقع ہوئی تھیں.حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنی کتاب نزول مسیح میں حسب ذیل طریق پر اس کے فریب کا پردہ چاک کیا.تحریر فرمایا:- (الف) کہاں تک ان لوگوں کی نوبت پہنچ گئی ہے کہ وہ دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتے اور سنتے ہوئے نہیں سنتے اور سمجھتے ہوئے نہیں سمجھتے.ان میں سے جھوٹ بولنے کا سرغنہ ”پیسہ اخبار کا ایڈیٹر ہے جو بار ہا دروغ گوئی کی رسوائی اٹھا چکا ہے اور پھر باز نہیں آتا.وہ میری نسبت آپ ہی اقرار کرتا ہے کہ انہوں نے قادیان کے بارے میں صرف اس قدر الہام شائع کیا ہے کہ اس میں تباہی ڈالنے والی طاعون نہیں آئے گی ہاں! اگر کچھ کیس ہو جائیں جو موجب افرا تفری نہ ہوں تو یہ ہو سکتا ہے.اور پھر اپنے دوسرے پر چوں میں فریاد پر فریاد کر رہا ہے کہ قادیان میں طاعون آگئی ( نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۳۸۶-۳۸۷) (ب) وہ لکھتا ہے کہ مولا چوکیدار کی بیوی بھی طاعون سے فوت ہو گئی حالا نکہ وہ اس وقت تک قادیان میں زندہ موجود ہے.ہر ایک شخص سوچ لے کہ اس شخص نے کیا وطیرہ اختیار کر رکھا ہے کہ زندوں کو مار رہا ہے.کیا ایک ایڈیٹر اخبار کی قلم سے ایسے خطرناک جھوٹ شائع ہونا اور دلوں کو آزار پہنچانا موجب نقص امن نہیں ہے؟ جس شخص کے اخبار کے ہر ہفتہ میں ہزار ہا پرچے شائع ہوتے ہیں 74

Page 81

حوادث طبیعی یا عذاب الہی قیاس کرنے کی جگہ ہے کہ وہ کس طرح خلاف واقعہ ماتم کی خبروں سے بے گناہ دلوں کو دکھ دے رہا ہے اور دنیا میں بے امنی پھیلا رہا ہے.ایک تو آسمان سے انسانوں پر واقعی مصیبت ہے اب دوسری مصیبت یہ پید اہو گئی ہے جو پیسہ اخبار “ کے ذریعہ سے ملک میں پھیلتی جاتی ہے.“ نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۳۹۱) (ج) ”دوسرا طریق افتراء کا جو پیسہ اخبار نے اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ صرف فرضی نام لکھ کر ظاہر کرتا ہے کہ یہ لوگ قادیان میں طاعون سے مرے ہیں حالانکہ ان ناموں کا کوئی انسان قادیان میں نہیں مرا.مثلاً وہ لکھتا ہے کہ مسمی مولا کی لڑکی طاعون سے مری ہے حالانکہ مولا مذکور کے گھر میں کوئی لڑکی پیدا ہی نہیں ہوئی.ایسا ہی وہ لکھتا ہے کہ ایک صدر و بافندہ طاعون سے مرا ہے حالانکہ اس گاؤں میں صدر و نام کا کوئی بافندہ ہی نہیں جو کہ طاعون سے مر گیا ہے.نہ معلوم اس کو یہ کیا سوجھی کہ فرضی طور نام لکھ کر ان کو طاعونی اموات میں داخل کر دیا.شاید اس لئے ایسا کیا گیا کہ تا کچھ پتہ نہ چل سکے اور جاہل لوگ سمجھ لیں کہ ضرور ان ناموں کے کوئی لوگ ہوں گے جو مرے ہونگے.“ (نزول المسح، روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۳۹۱) (1) ”تیسر اطریق افتراء کا جو ”پیسہ اخبار “ نے اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ بعض آدمی فی الحقیقت مرے تو ہیں مگر وہ کسی اور حادثہ سے مرے ہیں، نہ طاعون سے اور اس نے محض چالا کی اور شرارت سے طاعون کی اموات میں داخل کر دیا ہے.مثلاً وہ اپنے اخبار میں بڑھا تیلی کے لڑکے کی نسبت لکھتا ہے کہ وہ طاعون سے مرا ہے حالانکہ تمام گاؤں جانتا ہے کہ وہ دیوانہ کتے کے کاٹنے سے مرا تھا.اور جیسا کہ معمول ہے سرکاری طور پر اس کی موت کا نقشہ تیار کیا گیا اور کتے کے کاٹنے کی تاریخ وغیرہ اس میں لکھی گئی.“ ( نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۳۹۱-۳۹۲) دشمن احمدیت اخبارات کی الزام تراشی کے نتیجہ میں اس زمانہ کے لاعلم عوام کے ایک طبقہ کو ضرور نقصان پہنچا ہو گا لیکن مستقبل کے لئے یہ الزام تراشی بھی احمدیت کی تائید میں کچھ نشان 75

Page 82

حوادث طبیعی یا عذاب الہی چھوڑ گئی ہے.آج ان الزامات کے مطالعہ سے ایک محقق کا ذہن یقینا یہ سوچنے پر مجبور ہو گا کہ :.(۱).اگر قادیان میں واقعہ طاعون نے کوئی عام تباہی مچائی تھی تو دشمنان احمدیت کو یہ امر حکومت کے طبی ریکارڈ سے ثابت کرنا چاہیئے تھا یا کم از کم یہ دعوی ہی کرنا چاہیے تھا قادیان میں سینکڑوں طاعونی اموات واقع ہو رہی ہیں.اس کے بر عکس محض گنتی کے چند ناموں کا اعلان کرناخود اس امر کو ثابت کرتا ہے کہ پیشگوئی کے عین مطابق قادیان طاعون کے عام حملہ سے محفوظ رہا.(۲).اگر واقعہ قادیان میں متعدد طاعونی اموات واقع ہوئی ہوتیں تو دشمن احمدیت اخبارات ہر گز اس امر کے محتاج نہیں تھے کہ اس بارہ میں فرضی نام شائع کرتے یا غیر طاعونی اموات کو طاعونی اموات قرار دیتے.اخبارات کی یہ حرکت خود اس امر کی غمازی کر رہی ہے کہ در حقیقت قادیان طاعون کی عام تباہی سے محفوظ رہا.(۳).معاند اخبارات کا بطور الزام بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان میں کسی طاعونی موت کا ذکر نہ کرنا ان کی عاجزی اور بے بسی کی دلیل ہے اور اس امر کا مزید ثبوت ہے کہ الدار “ کی حفاظت کا دعویٰ بڑی شان سے پورا ہوا.بہر کیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں معاند اخبارات کے الزامات کا نہایت تشفی بخش جواب دیا وہاں ایک بار پھر ان پر اپنے دعویٰ اور پیشگوئی کی نوعیت کو حسب ذیل الفاظ میں واضح فرمایا:- ”ہمیں اس سے انکار نہیں کہ قادیان میں کبھی کبھی وباء پڑے یا کسی معمولی حد تک طاعون سے جانوں کا نقصان ہو لیکن یہ ہر گز نہیں ہو گا کہ جیسا کہ قادیان کے ارد گر د تباہی ہوئی یہاں تک کہ بعض گاؤں موت کی وجہ سے خالی ہو گئے یہی حالت قادیان پر بھی آوے کیونکہ وہ خداجو قادر خدا ہے اپنے پاک کلام میں وعدہ کر چکا ہے جو قادیان میں تباہی کرنے والی طاعون نہیں پڑے گی جیسا کہ اس نے فرمایا لَوْلَا الْإِكْرَامُ لَهَلَكَ الْمَقَامُ یعنی اگر مجھے تمہاری عزت ظاہر کرنا ملحوظ نہ ہو تا تو میں اس مقام کو بھی یعنی قادیان کو طاعون سے فنا کر دیتا.یعنی اس گاؤں میں بھی 76

Page 83

حوادث طبیعی یا عذاب الہی بڑے بڑے خبیث اور شریر اور ناپاک طبع اور کاذب اور مفتری رہتے ہیں اور وہ اس لائق تھے کہ قہر الہی سب کو ہلاک کر دیوے مگر میں ایسا کرنا نہیں چاہتا کیونکہ در میان میں تمہارا وجود بطور شفیع کے ہے اور تمھارا اکرام مجھے منظور ہے اس لئے میں اس مرتبہ سزا سے در گزر کرتا ہوں کہ یہ خوفناک تباہی اور موت ان لوگوں پر ڈال دوں تاہم بکلی بے سزا نہیں چھوڑوں گا اور کسی حد تک وہ بھی عذاب طاعون میں سے حصہ لیں گے تاشریروں کی آنکھیں کھلیں.“ (نزول السی، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۳۹۴) مندرجہ بالا تحریر کے آخری الفاظ خاص طور پر قابل توجہ ہیں اور زیر نظر مضمون پر بہت عمدہ روشنی ڈالتے ہیں ان کے ساتھ جب ہم ایک گزشتہ چیلنج کے حسب ذیل الفاظ کو ملا کر پڑھیں تو بات اور بھی واضح ہو جاتی ہے.”ہر ایک مخالف خواہ وہ امروہہ میں رہتا ہے اور خواہ امر تسر میں اور خواہ دہلی میں اور خواہ کلکتہ میں اور خواہ لاہور میں اور خواہ گولڑہ میں خواہ بٹالہ میں اگر وہ قسم کھا کر کہے گا کہ اس کا فلاں مقام طاعون سے پاک رہے گا تو ضرور وہ مقام طاعون میں گرفتار ہو جائے گا کیونکہ اس نے خدا تعالی کے مقابل پر گستاخی کی.“ دافع البلاء، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۳۸) مندرجہ بالا دونوں عبارتوں کے مضمون کو ذہن میں رکھ کر جب ہم حسب ذیل واقع پر نظر ڈالتے ہیں تو دل خشیت الہی سے بھر جاتا ہے اور حوادث طبعی اور عذاب الہی میں تمیز کا مسئلہ علمی حیثیت سے آگے گذر کر ایک قلبی واردات کی شکل میں ڈھل جاتا ہے:.اسی ماہ یعنی فروری ۱۹۰۷ ء میں جب کہ یہ کتاب شائع ہوئی اچھر چند منیجر اخبار اور سیکر ٹری آریہ سماج قادیان نے ایڈیٹر "الحکم " شیخ یعقوب علی صاحب تراب سے ایک گفتگو کے دوران کہا کہ میں مرزا صاحب کی طرح دعوی کرتا ہوں کہ طاعون سے کبھی نہیں مروں گا.خدا کی قدرت چند روز کے اندر اندر ”شجھ چنتک کا پورا عملہ طاعون کا شکار ہو گیا اور خدا کے اس قہر نے ان کی اولاد اور اہل و عیال کو بھی 77

Page 84

حوادث طبیعی یا عذاب الہی اپنی لپیٹ میں لے لیا.چنانچہ سب سے پہلے سو مراج اور بھگت رام کی نرینہ اولاد لقمہ طاعون ہوئی پھر بھگت رام اور اچھر چند چل بسے.باقی رہا سو مراج سو وہ بھی اپنے گھر ، اپنے جگری دوستوں کی تباہی و بربادی کا نظارہ دیکھنے کے بعد سخت بیمار ہو گیا.اس نے گھبر اگر حکیم مولوی عبید اللہ صاحب بسمل کو کہلا بھیجا کہ میں بیمار ہوں آپ مہربانی فرما کر علاج کریں.مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک عریضہ لکھ کر پوچھا کہ سومراج نے مجھ سے علاج کرنے کے لئے درخواست کی ہے.حضور کا اس بارہ میں کیا ارشاد ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جواب میں فرمایا ” آپ علاج ضرور کریں کیونکہ انسانی ہمدردی کا تقاضا ہے مگر میں آپ کو بتائے دیتا ہوں کہ یہ شخص بچے گا نہیں.“ چنانچہ حکیم عمل صاحب کے ہمدردانہ رویہ کے باوجود سومراج کی حالت بد تر ہوتی گئی اور وہ آخر دوسرے روز چار بجے کے قریب اپنے ساتھیوں سے جاملا.“ ( تاریخ احمدیت جلد دوم صفحه ۴۸۴-۴۸۵) بلا شبہ یہ واقعہ بہت ہی عبرتناک اور سبق آموز ہے مگر عبرت اور حسرت اور سخت نامرادی کی یہ داستان نامکمل رہے گی اگر ہم پنڈت سو مراج کے اس آخری خط کا ذکر نہ کریں جو اس نے اخبار پر کاش کے نام لکھا.پیشتر اس کے کہ وہ شائع ہو تا عذاب الہی نے خود اسے بھی لقمہ اجل بنادیا.( یہ چٹھی) ٹھیک اسی دن شائع ہوئی جس روز پنڈت سو مراج اس دنیا سے رخصت ہو الکھتا ہے کہ :.یکا یک مہاشہ اچھر چند کی استری اور عزیز بھگت رام بر اور لالہ اچھر چند کا لڑکا بیمار ہو گئے.خیر ان کی استری کو تو آرام آگیا لیکن لڑکا گذر گیا.اس تکلیف کا بھی خاتمہ نہیں ہوا تھا کہ میری استری اور میرا چھوٹا لڑکا عزیز شوراج بیمار ہو گئے.میری استری تو ابھی بیمار ہی ہے مگر ہو نہار لڑکا پلیگ کا شکار ہو گیا.اس مصیبت کو ابھی بھول نہیں گئے تھے کہ ایک ناگہانی مصیبت اور سر آن پڑی اور وہ یہ تھی کہ عزیز 78

Page 85

حوادث طبیعی یا عذاب الہی تاریخ احمدیت جلد دوم صفحه ۴۸۵) بھگت رام جس کے لڑکے کے گذر جانے کا اوپر ذکر کیا ہے بیمار ہو گیا اور چھ روز بیمار رہ کر ہمیشہ کے لئے داغ مفارقت دے گیا.یہی وجہ ہے کہ اب کے ہم گورو کل میں بھی نہیں جاسکتے اور اخبار بھی دو ہفتہ سے بند ہے اور ابھی اپریل کا کوئی پرچہ نکلنے کی آشا نہیں ہے کیونکہ لالہ اچھر چند جی تو اول کئی ہفتے اس صدمے سے کام کرنے کے قابل نہیں رہے.“ قادیان میں طاعون نے کس حد تک اور کہاں کہاں دخل دیا اس کی کچھ کیفیت بیان ہو چکی ہے.یہ بھی گذر چکا ہے کہ دار مسیح میں کسی بسنے والے ذی روح کی جان لینے پر اسے قدرت نصیب نہ ہو سکی.یہ ایک ایسی تاریخی حقیقت ہے جس کی تردید کی شدید ترین معاند احمدیت کو بھی توفیق نصیب نہ ہو سکی.یہ خدا کا ایسا اٹل وعدہ تھا جس کی تفاصیل پر نظر ڈالنے سے عقل دنگ رہ جاتی ہے.اس تمام عرصہ میں بیماری کے صرف دو ایسے واقعات ہوئے جن پر طاعون کا شبہ گذرا.اللہ تعالی بہتر جانتا ہے کہ وہ طاعون تھا بھی کہ نہیں.لیکن اگر دوسری بیماری بھی تھی تو اس کے نتیجہ میں موت واقع ہونے پر دشمن کو تضحیک کا موقعہ ضرور مل سکتا تھا اور پیشگوئی کی صداقت پر شک و ابہام کا پردہ پڑ سکتا تھا لہذا اللہ تعالی کی غیرت نے یہ بھی پسند نہ کیا کہ مسیح کی چار دیواری میں بسنے والا کوئی متنفس طاعون کے شبہ میں بھی مارا جائے.یہ دو واقعات حسب ذیل ہیں :- ا.ایک دفعہ طاعون کے زور کے دنوں میں جب قادیان میں بھی طاعون تھی مولوی محمد علی صاحب ایم.اے کو سخت بخار ہو گیا اور ان کو ظن غالب ہو گیا کہ یہ طاعون ہے اور انہوں نے مرنے والوں کی طرح وصیت کر دی اور مفتی محمد صادق صاحب کو سمجھا دیا.اور وہ میرے گھر کے ایک حصہ میں رہتے تھے جس گھر کی نسبت یہ الہام ہے اِنِّي أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ في الدار تب میں ان کی عیادت کے لئے گیا.ان کو پریشان اور گھبراہٹ میں پاکر میں نے ان کو کہا کہ اگر آپ کو طاعون ہو گئی تو پھر میں جھوٹا اور میرا دعویٰ الہام غلط ہے.یہ کہہ کر میں نے ان کی نبض پر ہاتھ لگایا.یہ عجیب نمونہ قدرت الہی دیکھا کہ ہاتھ لگنے کے ساتھ ہی ایسا بدن سرد 79

Page 86

حوادث طبیعی یا عذاب الہی ( تاریخ احمدیت جلد دوم صفحه ۲۱۸) پایا کہ تپ کا نام و نشان نہ تھا.“ ۲.میں نے کئی دفعہ ایسی منذر خواہیں دیکھیں جن میں صریح طور پر یہ بتلایا گیا تھا کہ میر ناصر نواب جو میرے خسر ہیں ان کے عیال کے متعلق کوئی مصیبت آنے والی ہے.....میں دعا میں لگ گیا اور وہ اتفاقاً مع اپنے بیٹے اسحاق اور اپنے گھر کے لوگوں کے لاہور جانے کو تھے میں نے ان کو یہ خواہیں سنا دیں اور لاہور جانے سے روک دیا.اور انہوں نے کہا کہ میں آپ کی اجازت کے بغیر ہر گز نہیں جاؤں گا.جب دوسرے دن کی صبح ہوئی تو میر صاحب کے بیٹے اسحاق کو تیز تپ چڑھ گیا اور سخت گھبراہٹ شروع ہو گئی اور دونوں طرف ٹن ران میں گلٹیاں نکل آئیں اور یقین ہو گیا کہ طاعون ہے کیونکہ اس ضلع کے بعض مواضع میں طاعون پھوٹ ری ہے.تب معلوم ہوا کہ مذکورہ بالا خوابوں کی تعبیر یہی تھی اور دل میں سخت کم پیدا ہوا اور میں نے میر صاحب کے گھر کے لوگوں کو کہہ دیا کہ میں تو دعا کرتا ہوں آپ بہت توبہ اور استغفار کریں کیونکہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ آپ نے دشمن کو اپنے گھر میں بلایا ہے اور یہ کسی لغزش کی طرف اشارہ ہے.اور اگر چہ میں جانتا تھا کہ موت فوت قدیم سے ایک قانون قدرت ہے لیکن یہ خیال آیا کہ اگر خدانخواستہ ہمارے گھر میں کوئی طاعون سے مر گیا تو ہماری تکذیب میں شور قیامت برپا ہو جائے گا اور پھر گو میں ہزار نشان بھی پیش کروں تب بھی اس اعتراض کے مقابل پر کچھ بھی ان کا اثر نہیں ہو گا کیونکہ میں صدہا مر تبہ لکھ چکا ہوں اور ہزار ہالو گوں میں بیان کر چکا ہوں کہ ہمارے گھر کے تمام لوگ طاعون کی موت سے بچے رہیں گے.غرض اس وقت جو کچھ میرے دل کی حالت تھی میں بیان نہیں کر سکتا.میں فی الفور دعا میں مشغول ہو گیا اور بعد دعا کے عجیب نظارہ قدرت دیکھا کہ دو تین گھنٹہ میں خارقِ عادت کے طور پر اسحاق کا تپ اتر گیا اور گلٹیوں کا نام و نشان بھی نہ رہا اور وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور نہ صرف اس قدر بلکہ 80

Page 87

حوادث طبعی یا عذاب الہی پھرنا، چلنا، کھیلنا، دوڑنا شروع کر دیا گویا کبھی کوئی بیماری نہیں ہوئی تھی.یہی ہے احیائے موتی.میں حلفاً کہتا ہوں کہ حضرت عیسی کے احیائے موتی میں اس سے ایک ذرہ کچھ زیادہ نہ تھا.“ تاریخ احمدیت جلد دوم صفحه ۲۱۹-۲۱۸) چوتھی شق.جماعت احمدیہ کی عمومی حفاظت کا وعدہ اب ہم پیشگوئی کی چوتھی شق کو لیتے ہیں جس میں جماعت احمدیہ کی عمومی حفاظت کا وعدہ کیا گیا تھا.اگر چہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس دعوی میں اولیت حاصل تھی کہ یہ طاعون چونکہ عذاب الہی ہے اس لئے اس کا روحانی علاج ہی تجویز ہونا چاہئے.لیکن حضور علیہ السلام کے اس دعوی کے بعد بکثرت دوسرے مذاہب اور فرقوں کے راہنما بھی اس نقطہ نگاہ میں آپ سے متفق ہو گئے البتہ اس اصل کو تسلیم کرتے ہوئے جو نتیجہ نکالا وہ بالکل مختلف تھا.گو سبھی یہ تسلیم کرتے تھے کہ اس عذاب سے بچنے کے لئے کوئی روحانی علاج ہی تجویز ہو نا چاہئے لیکن ان میں سے ہر ایک الگ الگ اور مختلف روحانی علاج تجویز کر رہا تھا جس کے نتیجہ میں وسیع پیمانہ پر مذہبی مقابلہ کی ایک دلچسپ صورت پیدا ہو گئی.خصوصاً پنجاب کی سر زمین تو اس پہلو سے ایک وسیع مذہبی اکھاڑے میں تبدیل ہو گئی جس کی مٹی کو بلائے طاعون نے ہل چلا چلا کر اس مقصد کے لئے نرم اور ساز گار بنا رکھا تھا.طاعون سے بچنے کے لئے جو مختلف نسخہ جات منظر عام پر آرہے تھے ان کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.” اور مسلمان لوگ جیسا کہ میاں شمس الدین سیکر ٹری انجمن حمایت اسلام لاہور کے اشتہار سے سمجھا جاتا ہے جس کو انہوں نے ماہ حال یعنی اپریل ۱۹۰۲ء میں شائع کیا ہے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تمام فرقے مسلمانوں کے شیعہ سنی مقلد غیر مقلد میدانوں میں آکر اپنے اپنے طریقہ مذہب میں دعائیں کریں اور ایک ہی تاریخ میں اکٹھے ہو کر نماز پڑھیں تو بس یہ ایسا نسخہ ہے کہ معاً اس سے طاعون دور ہو جائے گی مگر اکٹھے کیونکر ہوں اس کی کوئی تدبیر نہیں بتلائی گئی.ظاہر ہے کہ 81

Page 88

ہو حوادث طبیعی یا عذاب الہی فرقہ وہابیہ کے مذہب کے رو سے تو بغیر فاتحہ خوانی کے نماز درست ہی نہیں.پس اس صورت میں ان کے ساتھ حنفیوں کی نماز کیونکر ہو سکتی ہے.کیا باہم فساد نہیں ہو گا؟ ماسوا اس کے اس اشتہار کے لکھنے والے نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ ہندو اس مرض کے دفعیہ کے لئے کیا کریں.کیا ان کو اجازت ہے یا نہیں کہ وہ بھی اس وقت اپنے بتوں سے مدد مانگیں اور عیسائی کس طریق کو اختیار کریں اور جو فرقے حضرت حسین یا علی رضی اللہ عنہ کو قاضی الحاجات سمجھتے ہیں اور محرم میں تعزیوں پر ہزاروں درخواستیں مرادوں کے لئے گزارا کرتے ہیں اور یا جو مسلمان سید عبد القادر جیلانی کی پوجا کرتے ہیں یا جو شاہ مدار یا سخی سرور کو پوجتے ہیں وہ کیا کریں؟ اور کیا اب یہ تمام فرقے دعائیں نہیں کرتے ؟ بلکہ ہر ایک فرقہ خوف زدہ ہو کر اپنے اپنے معبود کو پکار رہا ہے.....یہ تو مسلمانوں کے خیالات ہیں جو طاعون کو دور کرنے کے لئے سوچے گئے ہیں اور عیسائیوں کے خیالات کے لئے ابھی ایک اشتہار پادری وائٹ بریخت صاحب اور ان کی انجمن کی طرف سے نکلا ہے اور وہ یہ کہ طاعون کے دور کرنے کے لئے اور کوئی تدبیر کافی نہیں بجز اس کے کہ حضرت مسیح کو خدامان لیں اور ان کے کفارہ پر ایمان لے آئیں.اور ہندوؤں میں سے جو آر یہ لوگ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ یہ بلائے طاعون وید کے ترک کرنے کی وجہ سے ہے تمام فرقوں کو چاہیے کہ ویدوں کی سبت و دیا پر ایمان لاویں اور تمام نبیوں کو نعوذ باللہ مفتری قرار دیں تب اس تدبیر سے طاعون دور ہو جائے گی.اور ہندوؤں میں جو سناتن دھرم فرقہ ہے اس فرقہ میں دفع طاعون کے بارہ میں جو رائے ظاہر کی گئی ہے اگر ہم پر چہ اخبار عام نہ پڑھتے تو شاید اس عجیب رائے سے بے خبر رہتے اور وہ رائے یہ ہے کہ یہ بلائے طاعون گائے کی وجہ سے آئی ہے.اگر گور نمنٹ یہ قانون پاس کر دے کہ اس ملک میں گائے ہر گز 82

Page 89

حوادث طبیعی یا عذاب الہی ہر گز ذبح نہ کی جائے تو پھر دیکھئے کہ طاعون کیونکر دفع ہو جاتی ہے.بلکہ اسی اخبار میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ایک شخص نے گائے کو بولتے سنا کہ وہ کہتی ہے کہ میری وجہ سے ہی اس ملک میں طاعون آیا ہے.“ ( دافع البلاء، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۲۳-۲۲۴) ان مختلف روحانی نسخہ جات کے بعد آپ نے اس بارہ میں اپنا موقف حسب ذیل الفاظ میں بیان فرمایا:- ” اس بیماری کے دفع کے لئے وہ پیغام جو خدا نے مجھے دیا ہے وہ یہی ہے کہ لوگ مجھے سچے دل سے مسیح موعود مان لیں.“ (ماخوز از دافع البلاء، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۳۲) آئیے اب ہم دیکھیں کہ اس بلائے طاعون کی خود اپنی ادائیں کیا کہتی تھیں.عذاب الہی کے سے بامقصد اور سنجیدہ آداب تھے یا حوادث زمانہ کے سے لا ابالی اور بے نظم وضبط اطوار.اس زاویہ نگاہ سے واقعات کا ایک سرسری جائزہ لینے سے ہی یہ حقیقت منکشف ہو جاتی ہے کہ اس طاعون کی روش اتفاقی حوادث کے تابع نہیں تھی بلکہ عذاب الہی کی بالا تر تقدیر کے ماتحت تھی.حوادث کا قانون تو اندھا ہو تا ہے، نیک و بد میں تمیز نہیں جانتا، بچے اور جھوٹے میں فرق نہیں کر سکتا بلکہ سب پر یکساں جاری ہوتا ہے.لیکن طاعون کی یہ وباء اندھی نہ تھی بیچے اور جھوٹے میں فرق کر کے دکھاتی تھی.اس کی پکڑ کا اصول سب پر یکساں جاری نہ تھا.بعضوں کو غیر معمولی سختی سے پکڑتی تھی اور بعضوں سے بڑی ملائمت کا سلوک کرتے ہوئے صرف نظر کر جاتی تھی.اس نے حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں میں ایسا صاف اور بین فرق کر کے دکھایا کہ ایک زمانہ گواہ ٹھہرا اور وہ گواہیاں صفحہ ہستی پر ایک ایسا پائیدار نقش بن گئیں جو اس دعویدار کی صداقت پر گویا بولتی ہوئی تصویریں تھیں.اگر یہ بیماری طبعی حوادث کا نتیجہ ہوتی تو بلاشبہ اسے حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کے متبعین سے بھی ویسا ہی سلوک کرنا چاہئے تھا جیسا اس نے دوسرے معالجین روحانی سے کیا.احمدی بستیاں بھی ویسے ہی اجڑ جاتیں جیسے دوسری بستیاں اجڑ رہی تھیں.بلکہ ان سے بڑھ کر گلشن احمدیت پر تباہی آنی چاہئے تھی.حضرت اقدس علیہ السلام اور دوسرے مذہبی رہنماؤں کے دعاوی میں ایک بہت بڑا اور بنیادی فرق تھا.83

Page 90

حوادث طبعی یا عذاب الہی ان میں سے کسی کا یہ دعوی نہ تھا کہ وہ اللہ تعالی سے خاص خبر پا کر یہ علاج تجویز کر رہا ہے.پس کوئی وجہ نہ تھی کہ مجوزہ روحانی علاج کی ناکامی کی صورت میں ان کے مرید اور حلقہ بگوش اپنے مذہب ہی سے ارتداد اختیار کر جاتے.لیکن حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کا معاملہ کچھ اور تھا.آپ اگر اپنے دعوی میں جھوٹے نکلتے تو بلاشبہ آپ کی ساری جماعت بد ظن اور مرتد ہو کر اپنے آبائی فرقوں کی طرف لوٹ جاتی.وہ آپ کے گرد جمع ہی اس بنا پر ہوئے تھے کہ انہیں یقین تھا کہ اللہ تعالی آپ سے ہم کلام ہو تا ہے اور اس نے آپ کو زمانے کا امام بنا کر بھیجا ہے.محض اس یقین کی بناء پر تو انہوں نے ایک ایسا مسلک اختیار کیا تھا جس کا اختیار کرنا کوئی آسان کام نہ تھا.احمدی ہوتے ہی اپنے پرائے ہو جاتے تھے.آشنا بیگانے بن جاتے تھے.بسا اوقات اپنے گھروں سے نکالے جاتے اور وطنوں سے بے وطن کئے جاتے.جان نثار دوست خون آشام دشمن بن جاتا.باصفا مرید خشمناک معاند میں تبدیل ہو جاتا.اموال لوٹ لئے جاتے.جائیدادیں چھینی جاتیں.یہاں تک کہ بیوی بچے بھی الگ کر دیئے جاتے.جو چیزیں خدا تعالیٰ نے ان پر حلال رکھی تھیں بندے ان پر حرام کر دیتے.چیزوں کا تو ذکر کیا خود زندگی حرام ہو جاتی.عزتیں ذلتوں میں بدل جاتیں.پھول پتھروں ، اکرام و احترام کے القابات غلیظ گالیوں میں تبدیل کر کے کوڑا کرکٹ کی طرح ان پر صبح و شام انڈیلیے جاتے.یہ تھی وہ جماعت جو حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کے گرد اکٹھی ہوئی تھی.اور یہ وہ قیمت تھی جو ایمان کا سودا چکاتے ہوئے انہوں نے ادا کی تھی.کیوں؟ محض اس لئے اور محض اس لئے اور محض اس لئے کہ وہ اسے خدا کا فرستادہ سمجھتے تھے اور یقین جانتے تھے کہ وہ جو کچھ کہتا ہے اپنے رب کی طرف سے کہتا ہے.اب سوچنے کا مقام ہے کہ ایک ایسی جماعت جو انتہائی صبر آزما اور پر آزار ابتلاؤں کی سختیاں محض اس بناء پر بر داشت کر رہی ہو کہ وہ ایک دعویدار کو خداتعالی کا سچا مر سل سمجھتی ہو اگر اچانک یہ مشاہدہ کرے کہ اس شخص کا خدا تعالی سے ہمکلامی اور نصرت الہی کے مورد ہونے کا دعویٰ محض ایک ڈھکو نسلا تھا تو کیا وہ ایک لمحہ کے لئے بھی مزید اس کی تائید و تصدیق کا دم بھر سکتی تھی.اگر مرزا صاحب کا یہ دعوی جھوٹا نکلتا کہ طاعون احمدیوں کے ساتھ ایک نمایاں اور امتیازی سلوک کرے گی اور اکا دکا واقعات کے سوا عموماً احمدی اس کی زد سے 84

Page 91

حوادث طبعی یا عذاب الہی محفوظ رہیں گے تو احمدیوں کا کیا سر پھر گیا تھا کہ عذاب کی دوہری چکی میں پیسے جاتے.دنیا کا عذاب بھی سہیڑ تے اور الہی عذاب کا مورد بھی بنتے.انسانی بغض و عناد کی آگ میں بھی جلتے اور حوادث کی چکی میں بھی پیسے جاتے.کیا کوئی صاحب عقل ایک منٹ کے لئے بھی اس بعید از قیاس مفروضہ پر یقین کر سکتا ہے کہ طاعون کے زمانہ میں دنیا کے دھتکارے ہوئے ، مارے کوٹے، گھروں سے نکالے ہوئے ، برادریوں سے خارج کئے ہوئے، زمانہ کے ستائے ہوئے ، ٹوٹے ہوئے ، دل جلائے ہوئے احمدی بستی بستی یہ اعلان کرتے پھرتے ہوں کہ اے دنیا والو! اگر طاعون کے اس ہولناک سیلاب سے بچنا چاہتے ہو تو آؤ تم بھی ہماری طرح نوح زمانہ کی اس کشتی میں سوار ہو جاؤ جس میں ہم سوار ہیں.اور اس اعلان کے ساتھ ساتھ طاعون کی ہلاکت خیز موجیں انہیں بھی اسی طرح لقمہ اجل بناتی چلی جائیں جس طرح دوسروں کو بناتی تھیں.کیا یہ ممکن تھا کہ دنیا انہیں پہلے سے کہیں بڑھ کر طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بناتی؟ ایک منٹ کے لئے نہیں کیا ایک لمحہ کے لئے بھی کوئی صاحب رشد یہ سوچ سکتا ہے کہ ایسی صورت میں کوئی احمدی بھی حضرت مرزا صاحب کی صداقت کا دم بھرنے والا باقی رہ جاتا؟ یقیناً نہیں.آپ کے مبینہ افتراء پر طاعون زدہ علاقوں میں اس سے زیادہ قطعی اور اس سے زیادہ معتبر کوئی اور گواہ سوچا نہیں جا سکتا تھا.آپ کے خلاف طاعون کی یہ گواہی اتنی قطعی، اتنی حقیقی اور اتنی نزدیک اور قوی اور شدید ہوتی کہ کسی متنفس میں یہ ہمت اور استطاعت نہ ہوتی کہ اس کا انکار کر پس اس پر آشوب زمانہ میں جماعت احمدیہ کا غیر معمولی استقامت اختیار کرنا اور حضرت اقدس علیہ السلام کے تمام دعاوی پر استقامت سے مہر تصدیق ثبت کرنا اس امر کا نا قابل تردید گواہ ہے کہ افراد جماعت نے اپنے حق میں حضور علیہ السلام کے اس وعدہ کو پورا ہوتے دیکھا ہو گا کہ وہ طاعون کی زد سے غیر معمولی طور پر محفوظ رہیں گے.آج کے متلاشی حق کے لئے یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ اس زمانہ کے لوگوں کے لئے طاعون کی پیشگوئی کے سچ یا جھوٹا نکلنے کی صورت میں دو ہی راستے رہ جاتے تھے ایک وہ جو احمدیت 85

Page 92

حوادث طبیعی یا عذاب الہی میں داخل ہونے کا راستہ تھا.واقعاتی شہادت کی مشعل ہاتھ میں لئے ہوئے جب ہم مخالف سمتوں میں چلنے والی ان دو یکطرفہ راہوں پر نظر ڈالتے ہیں تو احمدیت سے نکل بھاگنے والی راہ کو سنسان اور ویران پاتے ہیں لیکن احمدیت میں داخل ہونے والی رہ پر خلائق کا ایسا ہجوم دیکھتے ہیں کہ کھوے سے کھوا چھلتا ہے.جوق در جوق لوگ احمدیت میں داخل ہو رہے ہیں اور ایسے علاقوں میں بھی بکثرت نئی جماعتیں پید اہورہی ہیں جہاں مخالفت کی شدت کے باعث اس سے قبل سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا.طاعون کا ڈنڈا دنیا کی مخالفتوں کے مقابل پر زیادہ سخت ثابت ہوا.یہی ڈنڈا جیتا اور پیہم شدید ضربات کے ساتھ احمدیت کی چار دیواری سے باہر کے بسنے والوں پر برستارہا یہاں تک کہ ہزار ہا بلکہ لاکھوں انسانوں نے عافیت اور امان اسی میں دیکھی کے حصار احمدیت میں داخل ہو جائیں.ہمارے اس دعوی کی صداقت کسی کاغذی شہادت کی محتاج نہیں.پنجاب کے طاعون زدہ علاقوں میں وہ تمام دیہات اس امر کا زندہ ثبوت ہیں جہاں احمدیت کا پودا اذن الہی کے ماتحت طاعون کے ہاتھوں لگایا گیا.اسی طرح وہ تمام احمدی جماعتیں اس دعوی کی صداقت پر مزید گواہی دے رہی ہیں جو طاعون سے پہلے قائم ہو چکی تھیں لیکن طاعون کے نتیجہ میں کم ہونے کی بجائے اور بھی زیادہ نشو و نما پانے لگیں.پس کیا یہ تعجب کی بات نہیں اور کیا اسے حادثہ طبعی قرار دینا کسی بھی منطق کی رو سے درست ہو گا.سیاہ موت کا یہ ہاتھ ہر دوسری سر زمین پر تو موت کے بیج بکھیر تار ہے لیکن احمدیت کی سرزمین میں داخل ہو تو زندگی کے پودے لگانے لگے.یہ صر صر جب دوسرے چمنستانوں پر چلے تو انہیں اجاڑنے اور ویران کرنے لگے لیکن جب صحن احمدیت میں داخل ہو تو ایک زندگی بخش باد بہار میں تبدیل ہو جائے جس سے چمن کا بوٹا بوٹا پتہ پتہ راضی ہو جائے.نئے شگوفے پھوٹنے لگیں ، نئی کونپلیں نمودار ہونے لگیں، نئے پھول کھلنے لگیں نئے پھل آنے لگیں، روش روش پر زندگی انگڑائیاں لے اور سر سبزی اور شادابی نچھاور ہو اور زبان حال سے طیور چمن مسیحائے زمان کے یہ نغمات الاپنے لگیں.بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں لگے ہیں پھول میرے بوستاں میں 86

Page 93

حوادث طبیعی یا عذاب الہی ملاحت ہے عجب اس دلستاں میں ہوئے بدنام ہم اس جہاں میں ہوا مجھ پدر وہ ظاہر میرا ہادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْزَى الْأَعَادِي یہ کیسی بلائے زمانہ تھی، یہ کیسا حادثہ طبعی تھا کہ احمدیت کو کم کرنے کی بجائے اور بھی بڑھا گیا دشمنان احمدیت کو بڑھانے کی بجائے کم کر گیا اور کمتر کرتا چلا گیا.یہ سلوک ، یہ اطوار ، یہ ادائیں تو بلاشبہ ایسے عذاب الہی کی نشاندہی کر رہے ہیں جو اپنے اور غیروں میں ہمیشہ امتیاز کیا کرتا ہے.کوئی ہم پر شاعری کا الزام نہ دھرے اور مضمون آفرینی کے طعنے نہ دے.تاریخ احمدیت کا یہ دور ہی کچھ ایسا وجد آفرین ہے کہ اس کے نظارہ سے طبیعت جھومنے لگتی ہے اور قلم روش روش پر دوڑتا ہے اور قابو میں نہیں رہتا.پس قارئین مجھے طرز تحریر کی اس تھوڑی سی تبدیلی پر معاف کریں اور معذور جانیں.یہ مشاہدہ بہت ہی ہیجان خیز ہے کہ وقت کا پہیہ اپنے ابدی سفر کے دوران جب طاعون کی خشمگیں فضا میں سے گزرے تو ہر دوسرے مذہب اور فرقہ کو تو کمزور اور چھوٹا کر جائے لیکن احمدیت کو پہلے سے بھی بڑھ کر طاقتور اور کثیر التعد اد بنادے.لا مذہب لوگوں کی طرف سے اس موقعہ پر ایک اعتراض یہ اٹھایا جاسکتا ہے کہ ممکن ہے کہ خوف کے عام قانون کے تابع ایسا ہوا ہو.جب دنیا پر کوئی بڑی اور عام تباہی آتی ہے تو بالعموم زود اعتقاد عوام اس قسم کا رد عمل دکھایا ہی کرتے ہیں.عوام تو عوام خواص بھی ایسے موقعوں پر یہ تو ہمات کا شکار ہو جاتے ہیں حتی کہ جان بچانے کے لئے تنکوں کے سہارے سے بھی گریز نہیں کرتے.پس ممکن ہے اس قسم کی کوئی نفسیاتی کیفیت ان دنوں احمدیت کی طرف میلان کا محرک بنی ہو.یہ اعتراض بظاہر بڑا وزنی نظر آتا ہے لیکن جب ہم اسے حقائق کی میزان پر تولتے ہیں تو وزن میں خس کے ایک چھوٹے سے تنکے سے بھی کمتر پاتے ہیں.احمدیت کی طرف سے اس اعتراض کے جواب میں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ اگر خوف وہر اس کی کوئی عام نفسیاتی کیفیت ہی احمدیت کی طرف لوگوں کے رجحان کی ذمہ دار تھی تو اس عام نفسیاتی کیفیت نے دوسرے مذاہب 87

Page 94

حوادث طبعی یا عذاب الہی اور فرقوں کی مدد کیوں نہ کی اور کیوں عوام و خواص کی زود اعتقادی صرف احمدیت کی جانب ہی مائل رہی ؟ احمدیت اس دعوی میں تنہا تو نہ تھی کہ صرف وہی امن کا نجات کا ذریعہ ہے جیسا کہ گذر چکا ہے ہر مذہب اور فرقہ نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور گھبرائی ہوئی ، خوف زدہ اور بد کی ہوئی حواس باختہ انسانیت کو امن اور حفاظت کا وعدہ دے کر اپنی طرف بلایا.ان کی طرف جانے والی راہیں بظاہر زیادہ کشادہ تھیں اور کم بے خطر.ان راہوں میں ابتلاء اور مخالفتوں اور شدید دشمنیوں کے ویسے کانٹے نہ تھے جیسے احمدیت کی راہ میں بچھے ہوئے تھے.قدرت کا یہ اٹل قانون ہے کہ متحرک چیزیں کم تر مدافعت اور مزاحمت کی راہیں اختیار کیا کرتی ہیں.پانی ڈھلوان ہی کی طرف بہتا ہے.دوسرے فرقوں یا مذاہب کو قبول کرنا احمدیت کی نسبت کہیں زیادہ آسان تھا اور اپنے پہلے مذہب پر ہی جسے رہنا اس سے بھی آسان تر پھر کیوں ایسا نہ ہوا کہ اور کیوں زود اعتقادی کا پانی ان طبعی آسان تر ڈھلوانوں کو چھوڑ کر احمدیت کی پر مشقت اور صبر آزما چڑھائی کی طرف بہنے لگا.لازماً کوئی مختلف اور قوی تر محرک اس سمت میں کام کر رہا تھا جو اس کے سوا نہیں ہو سکتا کہ جس شخص کو بھی قریب سے احمدیت کے حالات دیکھنے کا موقع ملا اس نے یہ فرق مشاہدہ کیا کہ طاعون احمدیوں کے ساتھ نمایاں امتیازی سلوک کرتی ہے اور دوسروں میں اگر ۱۰ فیصدی اموات ہیں تو احمدی میں ۱-۱۰ فیصدی بھی نظر نہیں تھیں.اگر ہمارے طرز استدلال کو قبول کرنے پر کوئی طالب حق ابھی تک متر در ہو اور مزید اور نقلی ثبوت کا مطالبہ کرے تو اس کے دل کی تسلی کے لئے ہم راہ تجویز کرتے ہیں کہ سارے مشرقی یا مغربی پنجاب میں کسی ایک بھی ایسی ہندو، عیسائی، شیعہ، سنی، چکڑالوی ، دیو بندی، اہل حدیث یا بریلوی بستی کی تلاش کر کے دکھائے جو طاعون کے زمانہ میں اپنا آبائی مذہب یا فرقہ ترک کر کے محض اس لئے ہندو، عیسائی، شیعہ، سنی، چکڑالوی ، دیوبندی، اہل حدیث یا بریلوی ہو گئی ہو کہ اسے اپنے پہلے مذہب یا فرقہ کے مقابلہ پر اسے نئے مذہب یا فرقہ میں بلائے طاعون سے بچنے کے زیادہ امکانات نظر آتے تھے.اگر کوئی ایسی بستی تلاش نہ کر سکے اور یقینا نہیں کر سکے گا تو ہمارے پاس آئے ہم اسے سینکڑوں ایسی جماعتیں دکھائیں جو طاعون کے زمانہ میں طاعون کے خوف سے 88

Page 95

حوادث طبعی یا عذاب الہی امن میں آنے کی خاطر معرض وجود میں آئیں یا جن میں احمدیت اس مشاہدہ کے نتیجہ میں پہلے سے زیادہ پھیلنے لگی کہ طاعون احمدیت سے خاص رعایت کا سلوک کرتی تھی.ہم یہ بستیاں دکھا کر ہر شک کرنے والے فرقہ سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ آخر کیوں ایک عام نفسیاتی خوف وہر اس اور زود اعتقادی نے ساری دنیا کے بڑے بڑے طاقتور مذاہب اور فرقے چھوڑ کر احمدیت کی ایک چھوٹی سی غریب جماعت کا رخ کیا.اہل بصیرت کے لئے کیا اس میں کوئی نشان نہیں ؟ آخر پر آج کے متلاشی حق کے لئے ہم تحقیق کی ایک یہ راہ بھی تجویز کرتے ہیں کہ اس زمانہ میں احمدیت کے لٹریچر اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں جن احمدی بزرگان اور علماء کا ذکر آتا ہے ان کی فہرست تیار کر کے ان کے حالات زندگی کا جب وہ تتبع کر یگا تو کسی کو طاعونی موت کا شکار نہ پائے گا.لیکن اس کے بر عکس معاندین احمدیت کی فہرست تیار کر کے اگر وہ اس کسوٹی پر ان کو پر کھے گا تو یہ دیکھ کر یقیناً حیران رہ جائے گا کہ ان میں سے متعدد معروف معاندین مرض طاعون کا شکار ہو گئے بلکہ بعض تو ایسے غیر معمولی حالات میں طاعون کا شکار ہوئے کہ جماعت احمدیہ کے لئے ان کی موت میں تقویت ایمان اور غیروں کے لئے غیرت کا سامان تھا.قادیان کے ان آریہ اخبار نویسوں کا ذکر گذر چکا ہے جنہوں نے حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کے دعویٰ کا مذاق اڑاتے ہوئے طاعون کے متعلق تعلی کی تھی.اب چند اور معاندین احمدیت کی فہرست بطور مثال پیش کی جاتی ہے:.ا.سب سے پہلے مولوی رسل با باباشندہ امر تسر ذکر کے لائق ہے جس نے میرے رد میں کتاب لکھی اور بہت سخت زبانی دکھائی....آخر خدا کے وعدہ کے موافق طاعون سے ہلاک ہوا.-۲- محمد بخش نام جو ڈپٹی انسپکٹر بٹالہ تھا عداوت اور ایذاء رسانی پر کمربستہ ہو اوہ بھی (حقیقۃ الوحی ،روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۱۲-۳۱۳) (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۳۶) طاعون سے ہلاک ہوا.- چراغدین نام ساکن جموں اٹھا جو رسول ہونے کا دعوی کر تا تھا جس نے میر انام دجال رکھا اور کہتا تھا حضرت نے عصا دیا ہے تا میں عیسی کے عصا سے اس دجال کو 89

Page 96

حوادث طبیعی یا عذاب الہی ہلاک کروں.سو وہ بھی میری پیشگوئی کے مطابق ۴ / اپریل ۱۹۰۶ء کو مع اپنے دونوں بیٹوں کے طاعون سے ہلاک ہو گیا.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۳۶-۲۳۷) ۴- نور احمد موضع بھڑی چٹھہ تحصیل حافظ آباد کا باشندہ تھا...وہ بول اٹھا کہ طاعون ہمیں نہیں چھوئے گی بلکہ یہ طاعون مرزا صاحب کو ہلاک کرنے کے لئے آئی ہے اور اس کا اثر ہم پر ہر گز نہیں ہو گا مر زا صاحب پر ہی ہو گا......ایک ہفتہ کے بعد نور احمد طاعون سے مر گئے.(حقیقة الوحی ،روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۳۷) ۵.میاں معراج دین صاحب لاہور سے لکھتے ہیں کہ مولوی زین العابدین جو مولوی فاضل اور منشی فاضل کے امتحانات پاس کردہ تھا...انجمن حمایت اسلام لاہور کا ایک مقرب مدرس تھا.اس نے حضور کے صدق کے بارہ میں مولوی محمد علی سیالکوٹی سے کشمیری بازار میں ایک دکان پر کھڑے ہو کر مباہلہ کیا.پھر تھوڑے دنوں کے بعد مرض طاعون سے مر گیا اور نہ صرف وہ بلکہ اس کی بیوی بھی طاعون سے مرگئی اور اس کا داماد بھی جو اکاؤنٹنٹ جنرل میں ملازم تھا طاعون سے مر گیا.اس طرح اس کے گھر کے سترہ آدمی مباہلہ کے بعد طاعون سے ہلاک (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۳۷-۲۳۸) ہو گئے.۶.میاں معراج دین لکھتے ہیں کہ ایسا ہی کریم بخش نام لاہور میں ایک ٹھیکیدار تھا سخت بے ادبی اور گستانی حضور کے حق میں کرتا تھا اور اکثر کر تا ہی رہتا تھا.میں نے کئی دفعہ اس کو سمجھایا مگر وہ باز نہ آیا.آخر جوانی میں ہی شکار موت ہوا.ے.سید حامد شاہ صاحب سیالکوٹی لکھتے ہیں کہ حافظ سلطان سیالکوٹی حضور کا سخت مخالف تھا.یہ وہی شخص تھا جس نے ارادہ کیا تھا کہ سیالکوٹ میں آپ کی سواری گذرنے پر آپ پر راکھ ڈالے آخر وہ سخت طاعون سے اسی ۱۹۰۶ء میں ہلاک ہوا اور اس کے گھر کے نو یا دس آدمی بھی طاعون سے ہلاک ہوئے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۳۸) 90 00

Page 97

حوادث طبیعی یا عذاب الہی ۸- حکیم محمد شفیع (سیالکوٹ ) جو بیعت کر کے مرتد ہو گیا تھا جس نے مدرسہ القرآن کی بنیاد ڈالی تھی آپ کا سخت مخالف تھا.آخر وہ بھی طاعون کا شکار ہوا اور اس کی بیوی اور اس کی والدہ اور اس کا بھائی سب یکے بعد دیگرے طاعون سے مرے اور اس کے مدرسے کو جو لوگ امداد دیتے تھے وہ بھی ہلاک ہو گئے.(حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۳۸) ۹- مرزا سر دار بیگ سیالکوٹی جو اپنی گندہ زبانی اور شوخی میں بہت بڑھ گیا تھا....وہ بھی سخت طاعون میں گرفتار ہو کر ہلاک ہوا.ایک دن اس نے شوخی سے جماعت احمدیہ کے ایک فرد کو کہا کہ کیوں طاعون طاعون کرتے ہو ہم تو تب جانیں کہ ہمیں طاعون ہو بس اس سے دو دن بعد طاعون سے مر گیا.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۳۸) ۱۰.مولوی محمد ابو الحسن نے حضرت اقدس کے خلاف کتاب ” بجلی آسمانی بر سر دجال قادیانی لکھی جس میں کئی مقامات پر کاذب کی موت کے لئے بد دعا کی.آخر جلد ہی طاعون سے مر گیا...دیکھنے والوں نے بیان کیا ہے کہ انہیں دن تک پلیگ میں مبتلاء رہ کر چینیں مارتے رہے اور نہایت درد ناک حالت میں جان دی.تاریخ احمدیت جلد دوم صفحه ۴۸۰-۴۷۹) ۱۱.ابو الحسن عبد الکریم نام نے جب اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنا چاہا تو وہ ( تاریخ احمدیت جلد دوم صفحه ۴۸۰) بھی طاعون کا شکار ہو گیا.۱۲.ایک شخص فقیر مر زادوالمیال ضلع جہلم کا رہنے والا تھا اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بہت کچھ بد زبانی کر کے یہ تحریری پیشگوئی کی کہ "مرزا غلام احمد صاحب کا سلسلہ ۲۷.رمضان المبارک ۱۳۲۱ھ تک ٹوٹ پھوٹ جاوے گا اور بڑی بڑی سخت درجہ کی ذلت وارد ہو گی جسے تمام دنیا دیکھے گی.یہ پیشگوئیے.رمضان کو لکھی گئی تھی.سو اگلے سال جب دو سرار مضان آیا تو اس کے محلہ میں طاعون نمودار ہو گئی.پہلے اس کی بیوی اور پھر خود فقیر مرزا سخت 91

Page 98

حوادث طبعی یا عذاب الہی طاعون میں مبتلا ہو گیا.آخر پورے ایک سال بعد عین ۷.رمضان کو بتاریخ ۱۴.نومبر ۱۹۰۴ء نا کامی و نامرادی کا منہ دیکھتا ہوا اٹھ گیا.(تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ ۴۸۰) ۱۳.ایک شخص عبد القادر نام ساکن طالب پور پنڈوری ضلع گورداسپور میں رہتا تھا....اس کو مجھ سے سخت عناد اور بغض تھا اور ہمیشہ مجھے گندی گالیاں دیتا تھا.پھر جب اس کی گندہ زبانی انتہا تک پہنچ گئی تب اس نے مباہلہ کے طور پر ایک نظم لکھی....جس میں اس نے سخت سے سخت فسق و فجور کی باتیں میری طرف منسوب کی ہیں.....ایسا ہی خدا نے جلد تر انصاف کر دیا اور ان شعروں کے لکھنے کے چند روز بعد یعنی بعد تصنیف ان شعروں کے وہ شخص یعنی عبد القادر طاعون سے ہلاک ہو گیا.مجھے اس کے ایک شاگرد کے ذریعہ سے دستخطی تحریر اس کی مل گئی اور نہ صرف اکیلا طاعون سے ہلاک ہوا بلکہ اور بھی اس کے بعض عزیز طاعون سے مر گئے.ایک داماد بھی مر گیا.(اوتی، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۴۸۲-۳۸۳) ۱۴.یہاں مذ پر طاعون کے حملے کا ذکر بھی خالی از دلچسپی نہ ہو گا.مد کے رہنے والوں نے چونکہ مولوی ثناء اللہ صاحب کو خود بلوا کر گالیاں دلوائیں اور ان کو شرارت سے باز رکھنے کی کوشش نہیں کی تھی اس لئے پانچ چھ ماہ بعد یہاں طاعون کا سخت حملہ ہوا اور دو اڑھائی سو کی آبادی میں سے مئی ۱۹۰۳ء تک ایک سو تیس افراد اس کا شکار ہو کر لقمہ اجل ہو گئے.۱۹۱۰ء میں دوبارہ مد میں طاعون کا زور ہوا اور گاؤں کی عورتوں نے ملانوں کو سخت سست کہا کہ انہوں نے مولوی ثناء اللہ وغیرہ کو بلوا کر مرزا صاحب کے حق میں سخت گوئی کی اور وبا پھیلی.تاریخ احمدیت جلد دوم صفحه ۲۲۹) ۱۵.۱۹۰۷ء میں جو معاند طاعون کا شکار ہوئے ان میں سے سب سے زیادہ بد گو مولوی سعد اللہ لدھیانوی نو مسلم تھا.....اس شخص نے ابتداء ہی سے سلسلہ کی مخالفت انتہا تک پہنچادی تھی اور سب و شتم سے بھری ہوئی تحریرات نظم و نثر 92

Page 99

حوادث طبیعی یا عذاب الہی میں شائع کیں.اسی پر اکتفانہ کرتے ہوئے سعد اللہ لدھیانوی نے اپنی کتاب ”شہاب ثاقب بر مسیح کا ذب“ میں حضور علیہ السلام کی ہلاکت و تباہی کی پیشگوئی کی.یعنی خدا کی طرف سے تیرے لئے مقدر ہو چکا ہے کہ خدا تجھے پکڑے گا اور تیری رگ جان کاٹ دے گا.تب تیرے مرنے کے بعد تیر ا جھوٹا سلسلہ تباہ ہو جائے گا اور اگر چہ تم لوگ کہتے ہو کہ ابتلاء بھی آیا کرتے ہیں مگر آخر تو حشر کے دن نیز اس دنیا میں نامراد رہے گا.اس پر اللہ تعالی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ۲۹.ستمبر ۱۸۹۴ء کو بذریعہ الہام خبر دی ان شَانِئَكَ هُوَ الْاَبر یعنی (اسد اللہ ) تیرا دشمن ابتر اور مقطوع النسل مرے گا.....حضور کی بد دعا اور اس الہام 1 پر ابھی صرف چند راتیں ہی گزری تھیں کہ سعد اللہ کو جنوری کے ۱۹۰۷ء کے پہلے ہفتہ میں پلیگ ہوا اور وہ ہزار حسرتوں کے ساتھ اس جہاں سے چل بسا.اس کے لڑکے کی نسبت حاجی عبد الرحیم کی دختر سے ہو چکی تھی اور عنقریب شادی ہونیوالی تھی اسے یہ بھی نصیب نہ ہوا کہ اپنے اکلوتے لڑکے کی شادی دیکھ لیتا.سعد اللہ کی موت کے بعد اس کے بیٹے نے گو شادی کر لی مگر لمبا عرصہ زندہ رہنے کے باوجود تمام عمر لا ولد رہ کر ۱۲.جولائی ۱۹۲۶ء کو موضع کرم کلاں میں فوت ہو گیا.از تاریخ احمدیت جلد دوم صفحه ۴۸۱-۴۸۲) چوتھی شق طاعون کے زائل ہونے کیلئے قبول احمدیت کی شرط حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے طاعون کی وباء کو اپنی صداقت کے گواہ کے طور پر پیش کرتے ہوئے اس وباء کا ایک امتیازی کردار یہ بھی بیان فرمایا تھا کہ یہ اس وقت تک نہیں ملے گی جب تک لوگ آپ کو قبول نہیں کریں گے.پیشگوئی کا یہ حصہ بھی جیسا کہ شق نمبر ۲ میں گذر چکا ہے بڑے وسیع پیمانے پر بڑی وضاحت کے ساتھ پورا ہوا.خصوصاً پنجاب کی سر زمین میں جو 1 نوٹ: اس الہام سے مراد رُبَّ أَشْعَثَ أَغْبَرَ لَوْ أَقْسَمَ عَلَی اللہ لابرہ “ کا الہام ہے.واقعہ کی مکمل تفصیل کے لیے تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ ۴۸۱ تا ۴۸۲ ملاحظہ فرمائیں.پبلشر 93

Page 100

حوادث طبعی یا عذاب الہی پیشگوئی کا اولین مصداق تھی طاعون کے نتیجہ میں اس کثرت سے احمدیت کی طرف رجحان ہوا کہ احمدیت کی تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال نظر نہیں آتی.یعنی قبول احمدیت کی وجوہات کا اگر علیحدہ علیحدہ جائزہ لیا جائے تو اس مقابلہ میں طاعون غالباً ہر دوسری وجہ پر سبقت لے جائے گا.اس ضمن میں تاریخ احمدیت سے ایک چھوٹا سا اقتباس درج ذیل کیا جاتا ہے جس سے قبول احمدیت کے ضمن میں طاعون کے اثرات کا کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے :- ( تاریخ احمدیت جلد دوم صفحه ۲۱۶) ”جیسا کہ حضور نے پیشگوئی فرمائی تھی جماعت سے بھی خارق عادت سلوک ہوا جس کے نتیجہ میں جماعت کی ان دنوں اتنی غیر معمولی ترقی ہوئی کہ اس کی تعداد ہزاروں سے نکل کر ۱۹۰۲ء میں ایک لاکھ تک پہنچ گئی.۱۹۰۳ء میں اس کثرت سے لوگ آپ کے مبائعین میں شامل ہوئے کہ اختبار الحکم کو مجبورانئے مبائعین کی فہرست کا کالم ہی بند کر دینا پڑا.۱۹۰۴ء میں یہ تعداد دولاکھ تک اور ۱۹۰۶ء میں چار لاکھ تک پہنچ گئی.“ یہاں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ ملک کی اکثریت تو بہر حال ایمان نہیں لائی پھر ہزارہا انسانوں یا ایک دولاکھ انسانوں کے قبوں احمدیت کے نتیجہ میں طاعون کا ٹل جانا کیا معنی رکھتا ہے اور کیا یہ پیشگوئی کے مدعا اور روح کے منافی ہیں؟ اس سوال کا ایک جواب تو یہ ہے کہ عذاب الہی کے ملنے کے لئے اکثریت کے ایمان کی نہ تو کوئی شرط قرآن کریم میں نظر آتی ہے نہ ہی تاریخ مذہب پر نگاہ ڈالنے سے یہ امر مستنبط ہوتا ہے.اس کے بر عکس ایسی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں کہ قوم کے ایک حصہ کے استغفار یا ایمان لانے کے نتیجہ میں عذاب ٹل گئے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کا وہ مشہور واقعہ بھی اسی پہلو سے فلسفہ عذاب پر روشنی ڈالتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے در میان ایک مکالمہ و مخاطبہ کی صورت میں یہ دکھایا گیا ہے کہ ایک ایسی بستی کو جس کے لئے عذاب مقدر ہو چکا تھا اللہ تعالی اس صورت میں بھی بچانے پر آمادہ تھا کہ وہاں چند بندے ہی خدا کا خوف رکھنے والے موجود ہوں.پس طاعون کی وباء کے دوران چار لاکھ کے قریب انسانوں کا مامور وقت پر ایمان لانا کوئی 94

Page 101

عذاب حوادث طبعی یا عذاب الہی معمولی اور نا قابل اعتناء واقعہ نہیں اور اس کے نتیجہ میں طاعون کے عذاب کا بالآخر ٹل جانانہ تو سنت اللہ کے خلاف ہے نہ پیشگوئی کی صداقت پر حرف لانے کا موجب بن سکتا ہے.تاہم اس موقعہ پر ایک غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے.ہمارا عذاب ٹلنے سے یہ مطلب ہر گز نہیں کہ چند لوگوں کے استغفار سے سلسلہ عذاب ہی ہمیشہ کے لئے منقطع کر دیا جاتا ہے.محض ایک عذاب کا استغفار کے نتیجہ میں ٹل جانا اور چیز ہے اور سلسلہ عذاب کا کلیۂ منقطع ہو جانا اور چیز.فرعون کی قوم پر جو پے در پے عذاب آئے وہ بعض یا اکثر دلوں میں خوف خدا پیدا ہونے کے نتیجہ میں ٹل جاتے رہے لیکن جب تک وہ آخری مقصد پورا نہ ہو ا جو دراصل ان عذابوں کی علت غائی تھا سلسلہ منقطع نہ ہوا.سلسلہ عذاب کا آخری مقصد بہر حال مامور زمانہ کی فیصلہ کن فتح ہوا کرتا ہے.یعنی یا تو اکثریت ایمان لے آتی ہے یا اکثریت ہلاک ہو جاتی ہے.اس پہلو سے جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پر مزید نگاہ دوڑائیں گے تو معلوم ہو جائے گا کہ طاعون ایک وسیع تر سلسلہ عذاب کی ایک کڑی تھا.یہ کڑی زمانہ کے جس دور پر محیط تھی اس دور میں اس نے اپنا مفوضہ کام بڑی عمدگی اور صفائی کے ساتھ سر انجام دیا اور وہاں جاکر ر کی جہاں عذاب کی ایک دوسری کڑی نے اس سے ذمہ داری کا علم سنبھال لیا.اس نقطہ کو سمجھ کر جب ہم مامورین گزشتہ کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک ”میڈلے ریس “ یعنی ایسی دوڑ کا سا نظارہ دکھائی دیتا ہے جس میں دوڑنے والا جب ایک مقررہ مقام پر پہنچتا ہے تو اس کا دوسر ا سا تھی اس سے جھنڈا لے کر آگے بڑھنا شروع ہو جاتا ہے اور پھر ایک تیسر اسا تھی یہ جھنڈا اس سے لے کر اگلی دوڑ سنبھال لیتا ہے منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہتا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں اس میڈلے ریس میں قرآنی بیان کے مطابق پانچ عذابوں کی ایک ٹیم نے حصہ لیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایسے پے درپے عذابوں کی خبر دی ہے جو آخر مقصد کے حصول تک ایک دوسرے کے بعد آتے چلے جائینگے ، طاعون ان میں سے ایک تھا.ایک اور پہلو سے جب ہم طاعون کے عذاب پر نظر ڈالتے ہیں تو پیشگوئی کی زیر نظر شق کے ایک نئے مفہوم کی طرف توجہ مبذول ہو جاتی ہے جو دلچسپ بھی ہے اور ہولناک بھی.جب ہم یہ 95

Page 102

حوادث طبعی یا عذاب الہی کہتے ہیں کہ فلاں چیز پیچھا نہیں چھوڑے گی جب تک فلاں بات ظاہر نہ ہو تو جس چیز کا ذکر کیا جارہا ہو اس کی عادات و اطوار کے مطابق ”پیچھا نہ چھوڑے“ کے معنوں کی تعیین کی جاتی ہے.قبل ازیں یہ ذکر گذرا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں بھی طاعون عذاب الہی کے طور پر عیسائیت کی تائید میں ظاہر ہوئی تھی اور اس نے دشمنوں کا پیچھا نہ چھوڑا تاوقتیکہ انہیں مغلوب نہ کر لیا.اس تاریخی پس منظر میں جب ہم یہ کہتے ہیں کہ طاعون نے پیچھا نہ چھوڑا تو مراد یہ ہے کہ مسلسل تین صدیوں تک یہ عیسائیت کی تائید میں کرشمے دکھانے اور عیسائیت کو بڑھانے اور دشمن کو کم کرنے کے لئے ظاہر ہوتی رہی.طبعاً ذہن اس طرف منتقل ہوتا ہے کہ مسیح اوّل کے دور کی طرح مسیح ثانی کے دور میں بھی طاعون کے پیچھا نہ چھوڑنے کا یہ مطلب تو نہیں کہ تاوقتیکہ احمدیت کو فتح نصیب نہ ہو یہ تقریباً ایک ایک سوسال کے وقفے سے عذاب الہی کی صورت میں ظاہر ہو تا رہے گا اور پیچھانہ چھوڑے گاجب تک کہ احمدیت کی آخری فتح کا منہ دیکھ لے.کوئی اور چاہے تو اسے ایک ذوقی استنباط قرار دے لے مگر میرے دل میں تو گمان غالب یہی ہے کہ اسی طرح ہو گا اور مسیح ثانی کے دور میں بھی طاعون دو یا تین صد سالہ جلوے دکھائے گا.وَاللهُ اَعْلَمُ بِالصَّوَاب.اگر میرایہ استنباط درست ہے تو طاعون کی حیثیت عذاب کی ایک کڑی کی نہیں رہتی بلکہ بذات خود ایک سلسلہ عذاب کہلائے گا جو کڑیوں پر مشتمل ہے.مزید بر آن اگر میر امندرجہ بالا استدلال درست ہے تو طاعون کی جلوہ نمائی کا دوسرا دور قریب آچکا ہے اور بعید نہیں کہ آئندہ چند سال میں یہ ظاہر ہو جائے اور ۲۰۰۰ عیسوی تک ایک ہولناک عالمگیر و با کی شکل اختیار کر جائے.اگر ایسا ہو تو جماعت احمدیہ کے لئے اس میں تنبیہ بھی ہے اور بشارت بھی.تنبیہ یہ ہے کہ صرف احمدیت کا عنوان طاعون سے بچانے کے لئے کافی نہ ہو گا بلکہ تقویٰ کی شرط بھی ساتھ لگی ہوئی ہے.اور مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر ایمان کے ساتھ تقویٰ کی زندگی بسر کرنا اور ہر قسم کے تکبر اور نخوت کو ترک کر دینا بھی طاعون سے بچنے کے لوازمات میں شامل ہیں.بشارت کا پہلو یہ ہے کہ جماعت میں اس وقت تک جو عملی کمزوریاں آچکی ہوں گی طاعون کا خوف بڑی تیزی کے ساتھ ان کی اصلاح کرے گا اور وہ احمد کی جو حضرت مسیح 96

Page 103

حوادث طبیعی یا عذاب الہی موعود علیہ السلام کی تعلیم کی چار دیواری سے باہر ہوا خوری میں مصروف ہوں گے وہ انشاء اللہ بڑی سرعت کے ساتھ دوڑتے ہوئے اس چار دیواری میں واپس لوٹنے کی کوشش کریں گے جو امن اور عافیت کا حصار ہے.غرضیکہ احمدیت کے ساتھ طاعون کے امتیازی سلوک کا نشان بہر حال قائم رہے گا اور ایک دفعہ پھر فوج در فوج لوگ احمدیت میں داخل ہوں گے.خدا کرے ایسا ہی ہو.میرا دل یہی کہتا ہے کہ ایسا ہی ہو گا.مَا شَاءَ اللهُ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيُّ الْعَظِيمِ 97

Page 103