Language: UR
مبلغین کےلئے زرّیں ہدایات جو حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے۱۲ ؍ مارچ ۱۹۱۶ء کو ارشاد فرمائیں۔
نصائح مبلغین از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفه امسیح الثانی ناشر نظارت نشر و اشاعت قادیان
نصائح مبلغین | مبلغین کے لئے زریں ہدایات مبلغین کے لئے: جو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 12 مارچ 1916 ء کوارشاد فرمائیں از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفه امسیح الثانی
2 نصائح مبلغین نام کتاب نصائح مبلغین اشاعت ہذا تعداد مطبع سیدناحضرت مرزا بشیرالدین محموداحمدخلیفۃالمسیح الثانی نومبر 2021 1000 فضل عمر پر نٹنگ پریس قادیان نظارت نشر و اشاعت قادیان 143516 ، ضلع گورداسپور، پنجاب، انڈیا
3 نصائح مبلغین عرض ناشر کتاب ”نصائح مبلغین سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی تصنیف ہے.نظارت نشر و اشاعت قادیان سید نا حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی سے اسے شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ اسے ہر لحاظ سے مبارک کرے اور اس کی تیاری کے سلسلہ میں کام کرنے والے جملہ معاونین کو جزائے خیر عطا فرمائے.ناظر نشر واشاعت قادیان
4 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ نصائح مبلغین نصائح مبلغین جن کے بالاستیعاب و بامعان نظر پڑھنے سے ثابت ہوتا ہے کہ فی الواقع یہ صیحتیں کر نے والا خلافت مسیح موعود کی مسند پر بیٹھنے کا اہل تھا.حضور نے بہت تفصیل سے تقریر فرمائی تھی.لکھنے والا نومشق تھا اور نظر ثانی بھی نہیں کرائی جاسکی.تاہم مجھے اطمینان ہے کہ بہت ساحصہ حضور کی تقریر کے مفہوم کا اس میں آگیا ہے ناظرین پڑھ کر اس پر عمل کریں کہ احمدی جماعت کا ہر فرد در اصل ایک مبلغ ہے.(نوٹ از مرتب کنندہ) تبلیغ میں تزکیہ نفس سے غافل نہ ہو سب سے پہلے مبلغ کے لئے ضروری ہے کہ وہ تزکیہ نفس کرے.صحابہ کی نسبت تاریخوں میں آتا ہے کہ جنگ یرموک میں دس لاکھ عیسائیوں کے مقابل میں ساٹھ ہزار صحابہ تھے.قیصر کا داماد اس فوج کا کمانڈر تھا اس نے جاسوس کو بھیجا کہ مسلمانوں کا جا کر حال دریافت کرے.جاسوس نے آکر بیان کیا مسلمانوں پر کوئی فتح نہیں پا سکتا.ہمارے سپاہی لڑکے آتے ہیں اور کمریں کھول کر ایسے سوتے ہیں کہ انہیں پھر ہوش
5 نصائح مبلغین بھی نہیں رہتی.لیکن مسلمان با وجود دن کو لڑنے کے رات کو گھنٹوں کھڑے رو رو کر دعائیں مانگتے ہیں.خدا کے حضور گرتے ہیں.یہ وہ بات تھی جس سے صحابہ نے دین کو قائم کیا.باوجود اپنے تھکے ماندے ہونے کے بھی اپنے نفس کا خیال رکھا.بعض دفعہ انسان اپنے تبلیغ کے فرض میں ایسا منہمک ہو جاتا ہے کہ پھر اسے نمازوں کا بھی خیال نہیں رہتا.ایسا نہیں ہونا چاہئے ہر ایک چیز اپنے اپنے موقعہ اور محل کے مطابق اور اعتدال کے طور پر ہی ٹھیک ہوا کرتی ہے.لوگوں کی بھلائی کرتے ہوئے یہ نہیں ہونا چاہئے کہ انسان اپنی بھلا ئی سے بے فکر ہو جائے.پس ضروری ہے کہ وہ اپنا تزکیہ نفس کرے.قرآن شریف کا مطالعہ کرے.پھر اپنے نفس کا مطالعہ کرے تبلیغ بہت عمدہ کام ہے مگر تبلیغ کرنے میں بھی انسان کے دل پر زنگ لگتا ہے.کبھی اگر تقریر اچھی ہوگئی ، اپنے مقابل کے مباحث کو ساکت کرادیا تو دل میں غرور آ گیا.اور کبھی اگر تقریر اچھی نہ ہوئی ،لوگوں کو پسند نہ آئی تو مایوسی ہوگئی.کبھی یہ ایک دلیل دیتا ہے دل ملامت کرتا ہے کہ تو دھوکا دے رہا ہے.اس قسم کی کئی باتیں ہیں جو دل پر زنگ لاتی ہیں.حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ جب کسی مجلس میں بیٹھا کرتے تھے تو آپ استغفار پڑھ لیا کرتے تھے حالانکہ آپ اعلیٰ درجے کے انسان تھے اور آپ کی مجلس میں بھی نیک ذکر ہوتا تھا.یہ اس لئے تھا کہ آپ ﷺ ہمارے لئے ایک نمونہ تھے یہ ہمیں سکھایا جا تا تھا کہ ہم ایسا کیا کریں کہ جب کسی مجلس میں بیٹھیں تو استغفار کرتے رہیں اس لئے کہ کسی قسم کا ہمارے دل پر زنگ نہ بیٹھے.اس لئے ذکر الہی پر زیادہ زور دینا چاہئے.نماز وقت پر ادا کرنی چاہئے.ہاں اگر کوئی ایسا ہی خاص موقعہ آ جائے تو اگر نماز جمع کرنی پڑے تو کرے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں لوگ جھٹ نماز جمع کر لیتے ہیں.یہ مرض نماز جمع کرنے کی بہت پھیلی
6 ہے ایسا نہیں چاہئے.اگر کوئی تمہاری باتیں کرتے ہوئے اٹھ کر نماز پڑھنے پر برا مناتا ہے تو منانے دو کوئی پرواہ نہ کرو اور نماز وقت پر ادا کر لو.قرآن شریف میں يُقِیمُونَ الصلوۃ آیا ہے اس لئے کہ وقت پر نماز پڑھنی چاہئے.جب اس کے اپنے نفس میں کمزوری ہوگی تو پھر اس کے جذب میں بھی کمزوری ہوگی.تہجد کی نماز تہجد کی نماز مبلغ کے لئے بہت ضروری ہے.قرآن شریف میں آتا ہے.یایھا الْمُزَّقِلُ قُمِ الَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا نِصْفَةَ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيْلًا أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا (المزمل: ۲ تا ۵) دن کے تعلقات سے جو زنگ آتے ہیں وہ رات کو کھڑے ہو کر دعائیں مانگ مانگ کر خشوع وخضوع کر کے دور کرنے چاہئیں.روزه روزہ بھی بڑی اچھی چیز ہے.اور زنگ کے دور کرنے کے لئے بہت عمدہ آلہ ہے.صحابہ بڑی کثرت سے روزے رکھتے تھے.ہماری جماعت میں بہت سے لوگ ہیں جو روزہ رکھنے میں سستی کرتے ہیں.روزہ انسان کی حالت کو خوب صاف کرتا ہے.جہاں تک توفیق مل سکے روزہ رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے.بعض ایسے مواقع تلاش کرے جن میں کسی سے کلام نہ کرے خاموش ہو کر بیٹھے خواہ یہ وقت پندرہ بیس منٹ ہی ہو.بہت وقت نہ سہی مگر کچھ وقت ضرور ہونا چاہئے تا کہ خاموشی میں ذکر کرے تبلیغ سے ذرا فراغت
7 ہوئی تو ذکر الہی کرے اس کے لئے یہ بہت مفید وقت ہے.سورج نکلنے سے پہلے صبح کی نماز کے بعد پھر سورج ڈوبنے کے قریب.پھر نماز عشاء کے بعد اور ۹ بجے دن سے لیکر دس بجے دن تک کسی وقت کر لینا چاہئے.یہ تو اپنے نفس کی اصلاح ہے.تبلیغ کے کام میں مطالعہ بہت وسیع ہونا چاہئے.بعض دفعہ اجڑ گنوار آدمی آ کر کچھ سناتے ہیں.اور وہ بہت لطیف بات ہوتی ہے.سلسلے کی کتابوں کا مطالعہ رہے.حضرت صاحب کی کتابیں اور پھر دوسرے آدمیوں کی کتابیں اتنی اتنی دفعہ پڑھو کہ فوراً حوالہ ذہن میں آجائے.کتابیں اپنی خرید و ایک مرض مولویوں میں ہے.یادرکھو مولوی کبھی کتاب نہیں خریدتے اس کو لغو یا اسراف سمجھتے ہیں.شاذ و نادر زیادہ سے زیادہ مشکوۃ رکھ لی اور ایک کا فیہ رکھ لیا لیکن انسان کے لئے جہاں وہ اور بہت سے چندے دیتا ہے، کتاب خرید نانفس کے لئے چندہ ہے.کچھ نہ کچھ ضرور کتاب کے لئے بھی نکالنا چاہئے خواہ سال میں آٹھ آنہ کی ہی کتاب خریدی جائے.یہ کوئی ضروری نہیں کہ لاکھوں کی ہی کتابیں خریدی جائیں بلکہ جس قدر خرید سکوخریدو.یہ اس لئے کہ خریدنے والا پھر اسی کتاب کا آزادی سے مطالعہ کر سکے گا اور اس طرح اس کے علم میں اضافہ ہو گا، فراست بڑھے گی ،بعض جگہ ہمارے مولوی جاتے ہیں اور وہاں کے لوگوں کی کتابیں لیتے ہیں لیکن جب وہاں سے چلنے لگتے ہیں تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری کتابیں لاؤ پھر دینی پڑتی ہیں.تو دوسری بات اپنی کتابیں خریدنے سے یہ ہوتی ہے کہ آزادی پیدا ہوتی ہے احتیاج نہیں ہوتی ہے.
8 سوال و خوشامد کی عادت نہ ڈالو پھر نفس کے لئے لجاجت، خوشامد ، سوال کی عادت نہیں ہونی چاہئے.یہ بھی علماء میں بڑا بھاری نقص ہے کہ وعظ کیا اور بعد میں کچھ مانگ لیا.اور کوئی ایسا گرا ہوا نہ ہوا تو اس نے دوسرے پیرایہ میں اپنی ضرورت جتادی.مثلاً ہمارا کنبہ زیادہ ہے گزارہ نہیں ہوتا یا کسی دوسرے الفاظ میں لوگوں کو سنا دیا کہ کچھ روپے کی یا کوٹ وغیرہ کی ضرورت ہے.ایسا نہیں ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ پر توکل چاہئے اسی سے مانگنا چاہئے.حضرت مسیح موعود کو الہام ہوا تھا کہ تیرے پاس ایسا مال لایا جائے گا کہ مال لانے والوں کو الہام ہو گا کہ مسیح موعود کے پاس لے کر جاؤ.پھر وہ مال آتا ہے.کوئی کہتا تھا کہ حضور مجھے فلاں بزرگ نے آکر خواب میں کہا اور کوئی کہتا تھا حضور مجھے الہام ہوا.اللہ پر توکل کرو، وہ خود تمہارا کفیل ہوگا میرا اپنا تجربہ ہے کہ جب ضرورت ہوتی ہے تو خدا تعالیٰ کہیں نہ کہیں سے بھیج دیتا ہے.خدا تعالیٰ خود لوگوں کے دلوں میں تحریک کرتا ہے.جو دوسروں کا محتاج ہو پھر اس کے لئے ایسا نہیں ہوتا.ہاں اللہ تعالیٰ پر کوئی بھروسا کرے تو پھر اللہ تعالیٰ اس کے لئے سامان پیدا کرتا ہے.حضرت مولوی صاحب سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ مجھے کچھ ضرورت پیش آئی، میں نے نماز میں دعا مانگی مصلیٰ اٹھانے پر ایک پونڈ پڑا تھا میں نے اسے لیکر اپنی ضرورت پر خرچ کیا.تو خدا تعالیٰ خودسامان کرتا ہے.کسی کو الہام کرتا ہے کسی
9 کو خواب دکھاتا ہے اس طرح اس کی ضرورت پوری کرتا ہے.لیکن کبھی اس طرح پر بھی ہوتا ہے کہ وہ ضرورت ہی نہیں رہتی.ابتدائی مرحلہ یہی ہے کہ اس کی ضروریات ہی نہیں بڑھتیں اور اگر ضروریات پیش آتی ہیں تو پھر ایسے سامان کئے جاتے ہیں کہ وہ مٹ جاتی ہیں.مثلاً ایک شخص بیمار ہے، اب اس کے لئے دوائی وغیرہ کے لئے روپوں کی ضرورت ہے.دعا کی ، بیمار ہی اچھا ہو گیا تو اب روپوں کی ضرورت ہی پیش نہ آئی.تو ابتدائی مرحلہ یہی ہے کہ ضرورت پیش ہی نہیں آتی.پہلی حکمت یہ ہے کہ وہ لوگوں کا محتاج ہی نہیں ہوتا.دوسری حکمت یہ ہے کہ لوگوں کا رجوع اس کی طرف ہو جاتا ہے.خدا خود لوگوں کے ذریعے سے سامان کراتا ہے.ہمارے سلسلے کے علماء اور دوسرے مولویوں کا مقابلہ کر کے دیکھ لو ان کو لوگ خود نذر پیش کرتے ہیں.اور مولوی مانگتے پھرتے ہیں.ایک پیر تھا وہ ایک اپنے مرید کے گھر گیا وہ مریدا سے جب وہ آتا تھا ایک روپیہ دیا کرتا تھا.اس دن اس نے ایک اٹھنی پیش کی.پیر نے لینے سے انکار کیا اور کہا کہ میں تو رو پیدلوں گا.غرض وہ اٹھنی دیتا تھاوہ روپیہ مانگتا تھا.بہت تکرار کے بعد اس مرید نے کہا جاؤ میں نہیں دیتا.تمام رات وہ پیر باہر کھڑا رہا رات کو بارش ہوئی تھی اس میں بھیگا.صبح کہنے لگا کہ اچھالا ؤ ٹھنی.تو یہ حالت ہوتی ہے جو دوسروں کے محتاج ہیں.زلزلے کا ذکر ہے باہر باغ میں ہم ہوتے تھے.حضرت صاحب کو ایک ضرورت پیش آئی.فرمانے لگے قرض لے لیں پھر فرمانے لگے قرضہ ختم ہو جائے گا.تو پھر کیا کریں گے چلو خدا سے مانگیں نماز پڑھ کر جب آئے تو فرمانے لگے ضرورت پو ری ہو گئی.ایک شخص بالکل میلے کچیلے کپڑوں والا نماز کے بعد مجھے ملا.السلام علیکم کر کے اس نے ایک تھیلی نکال کر دی.اس کی حالت سے میں نے سمجھا کہ یہ پیسوں کی تھیلی ہوگی
10 کھولا تو معلوم ہوا کہ دوسو روپیہ ہے.تو خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی حاجات کو جو اس پر توکل رکھتے ہیں اس طرح پورا کیا کرتا ہے.تم کبھی دوسرے پر بھر وسانہ رکھو.سوال ایک زبان سے ہوتا ہے اور ایک نظر سے.تم نظر سے بھی کبھی سوال نہ کرو.پس جب تم ایسا کرو گے تو پھر خدا تعالیٰ خود سامان کرے گا.اس صورت میں جب کو ئی تمہیں کچھ دیگا بھی تو دینے والا پھر تم پر احسان نہیں سمجھے گا بلکہ تمہارا احسان اپنے اوپر سمجھے گا.لوگوں سے تعلقات مبلغ کے لئے بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر خادمانہ حیثیت رکھے.لوگوں نے یہ نکتہ نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت نقصان اٹھایا ہے.بعض نے سمجھا کہ نوکر چاکروں کی طرح کام کرے.یہ مراد نہیں.اس غلط نہی کی وجہ سے ملانے پیدا ہوئے جن کے کام مُردے نہلا نا ہوا کرتا ہے.کوئی بیمار ہو جائے تو کہتے ہیں بلاؤ میاں جی کو وہ آکر اس کی خدمت کریں.کھیتی کاٹنی ہو تو چلو میاں جی.گو یا میاں جی سے وہ نائی دھوبی جس طرح ہوتے ہیں اس طرح کام لیتے ہیں.دوسری صورت پھر پیروں والی ہے.پیر صاحب چار پائی پر بیٹھے ہیں، کسی کی مجال نہیں کہ پیر صاحب کے سامنے چار پائی پر بیٹھ جاوے.حافظ صاحب سناتے تھے ان کے والد بھی بڑے پیر تھے لوگ ہمیں آکر سجدے کیا کرتے تھے.تو میں نے ایک دفعہ اپنے باپ سے سوال کیا کہ ہم تو مسجد میں جا کر سجدے کسی اور کے آگے کرتے ہیں اور یہ لوگ ہمیں سجدے کرتے ہیں اس پر میرے والد نے ایک لمبی تقریر کی.تو ایک طرف کا نتیجہ
11 میاں جی پیدا ہوئے جو جھوٹی گواہی دینی ہوئی تو چلو میاں جی.اور اگر انکار کریں تو کہہ دیا کہ تمہیں رکھا ہوا کیوں ہے.آپ قیامت کے دن کیا خاک کام آئیں گے جو اس دنیا میں کام نہ آئے.اور دوسری طرف پیر صاحب جیسے پیدا ہو گئے تو دونوں کا نتیجہ خطرناک نکلا.یہ بڑی نازک راہ ہے.مبلغ خادم ہوا اور ایسا خادم ہو کہ لوگوں کے دل میں اس کا رعب ہو.خدمت کرنے کے لئے اپنی مرضی سے جائے.ڈاکٹر پاخانہ اپنے ہاتھوں سے نکالتے ہیں لیکن کوئی انہیں بھنگی نہیں کہتا.ڈاکٹر اپنے ہاتھوں سے بنا کر دوائی بھی پلاتے ہیں لیکن کوئی انہیں کمپونڈر نہیں کہتا.وہ بیمار کی خاطر داری بھی کرتے ہیں لیکن کوئی انہیں ان کا خادم نہیں کہتا.یہ اس کی شفقت سمجھی جاتی ہے.اس لئے جب تم میں بھی تو کل ہوگا اور تم کسی کی خدمت کسی بدلے کے لئے نہیں کرو گے تو پھر تمہاری بھی ایسی ہی قدر ہوگی.وہ شفقت سمجھی جائے گی.وہ احسان سمجھا جائے گا.اگر کوئی شخص کسی مصیبت میں مبتلا ہو تو اس کی تشفی دینے والا ہمارا مبلغ ہو.کوئی بیوہ ہو تو حسب ہدایات شریعت اسلامیہ اس کا حال پوچھنے والا اس کا سودا وغیرہ لانے والا اور اس کے دیگر کاروبار میں اس کی مدد کرنے والا ہمارا مبلغ ہو.اسکا نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کے دلوں میں دو چیزیں پیدا ہوں گی.ادب ہو گا اور محبت ہوگی.توکل کا نتیجہ ادب ہو گا اور خدمت کا نتیجہ محبت ہوگی.مبلغ کے لئے ضروری ہے کہ ایک طرف اگر ان میں دنائت نہ ہو تو دوسری طرف متکبر بھی نہ ہو.لوگ نوکر اس کو سمجھیں گے جو ان سے سوال کرتا ہو.جو سوال ہی نہیں کرتا اس کو وہ نوکر کیونکر سمجھیں گے.اگر وہ اس کے پاس آئیں گے تو نو کر سمجھ کر نہیں بلکہ ہمدرد سمجھ کر.اگر اس سے کچھ پوچھیں گے تو ہمدرد سمجھ کر.اس وقت پھر مبلغ کو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ میں نوکر نہیں انہوں نے تو اسے نوکر نہیں سمجھا ہے وہ تو اسے ہمدرد سمجھ کر
12 آئے ہیں.تو یہ دورنگ ہونے چاہئیں کہ اگر سب سے بڑا خادم ہو تو ہمارا مبلغ ہو اور اگر لوگوں کے دلوں میں کسی کا ادب ہو تو وہ ہمارے مبلغ کا ہو.اس کے لئے وہ اپنے مال قربان کرنے کے لئے تیار ہوں اس کے لئے جان دینے کے لئے تیار ہوں.دعائیں کرتے رہو پھر مبلغ کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ وہ دعائیں کرتا رہے کہ الہی ! میں ان لوگوں کو ناراستی کی طرف نہ لے جاؤں.جب سے خلافت قائم ہوئی ہے میں یہی دعا مانگتا ہوں.ایک امام کی نسبت ایک لطیفہ ہے کہ بارش کا دن تھا ، ایک لڑکا بھاگتا چلا جارہا تھا.امام صاحب نے کہا، دیکھنالڑ کے کہیں گر نہ پڑنا.لڑ کا ہوشیار تھا، بولا آپ میرے گرنے کی فکر نہ کریں میں گرا تو اکیلاگروں گا.آپ اپنے گرنے کی فکر کیجئے اگر آپ گرے تو ایک جماعت گرے گی.امام صاحب کہتے ہیں کہ مجھے اس بات کا بہت ہی اثر ہوا.تو مبلغ کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اگر وہ گرے گا تو اس کے ساتھ اس کا حلقہ بھی گر جائے گا.دیکھو مولوی گرے مسلمان بھی گر گئے.یہ دو باتیں ہر وقت مد نظر رہنی چاہئیں.اول کوئی ایسی بات نہ کرے جس پر پہلے سوچا اور غور نہ کیا ہو.دوم دعا کرتا رہے کہ الہی میں جو کہوں وہ ہدایت پر لے جانے والا ہو.اگر غلط ہو تو الہی ان کو اس راہ پر نہ چلا.اور اگر یہ درست ہے تو الہی توفیق دے کہ یہ لوگ اس راہ پر چلیں.
13 جو بدی کسی قوم میں ہو اس کی تردید میں جرات سے لیکچر دو اپنے عمل دیکھتا ر ہے.کبھی سستی نہ کرے.لوگوں کو ان کی غلطی سے رو کے.ایسانہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کے قول کے نیچے آئے.لَوْلَا يَنْبُهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَصْنَعُوْنَ (المائدہ : ۶۴) ترجمہ : عارف (لوگ) اور علماء انہیں ان کے جھوٹ بولنے اور ان کے حرام کھانے سے کیوں نہیں روکتے؟ جو کچھ وہ کرتے ہیں وہ یقیناً بہت برا ہے.کیوں انہوں نے نہ روکا.تو یہ فرض ہے.بمبئی کے مولویوں کی طرح نہ ہو.وہی لیکچر ہونا چاہئے جس کی لوگوں کو ضرورت ہو.یہی بات ہمارے اور لا ہور یوں کے درمیان جھگڑے کی ہے.وہ مرض بتا نانہیں چاہتے اور ہم مرض بتا نا چاہتے ہیں.ان باتوں پر لیکچر دینے کی ضرورت نہیں جو اچھی باتیں ان میں ہیں یا جو بدیاں ان میں نہیں ہیں.اگر وہ ؟ لڑکیوں کو حصہ نہ دیں تو اس پر لیکچر دو.روزے نہ رکھیں تو اس پر دو.نماز نہ پڑھیں تو اس پر دو.زکوۃ نہ دیں تو اس پر دو.صدقہ و خیرات نہ دیں تو اس پر دو لیکن جو باتیں ان میں ہیں ان پر نہ دو.غریبوں پر اگر وہ ظلم کرتے ہیں ،شریفوں کا ادب نہیں کرتے ، چوری کرتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، ان پر لیکچر دو لیکن چوری ان میں نہیں ہے اس پر نہ دو.مرضیں
تلاش کرو اور پھر دوا دو.14 کبھی کسی خاص شخص کی طرف اشارہ نہ ہو.میں اپنا طریقہ بتا تا ہوں میں نے جب کبھی کسی کی مرض کے متعلق بیان کرنا ہو تو میں دو تین مہینے کا عرصہ درمیان میں ڈال لیتا ہوں.تا کہ وہ بات لوگوں کے دلوں سے بھول جائے.تو اتنا عرصہ کر دینا چاہئے.اگر موقعہ ملے تو اس شخص کو جس میں یہ مرض ہے علیحدہ تخلیہ میں نرم الفاظ کے ساتھ سمجھاؤ ایسے الفاظ میں کہ وہ چڑ نہ جائے.ہمدردی کے رنگ میں وعظ کرو.ایک طرف اتنی ہمدردی دکھاؤ کہ غریبوں کے خدمتگار تم ہی معلوم ہو.دوسری طرف اتنا بڑا بنو کہ تمہیں دنیا سے کوئی تعلق نہ ہو.دو فریق بننے نہ دو.دو شخصوں کے جھگڑے کے متعلق کسی خاص کے ساتھ تمہاری طرف داری نہ ہو.کوئی مرض پاؤ تو اس کی دوا فور ادو.کسی موقعہ پر چشم پوشی کر کے مرض کو بڑھنے نہ دو.ہاں اگر اصلاح چشم پوشی ہی میں ہو تو کچھ حرج نہیں.لوگوں کو جو تبلیغ کرو اس میں ایک جوش ہونا چاہئے.جب تک تبلیغ میں ایک جوش نہ ہو وہ کام ہی نہیں کرسکتا.سننے والے پر اثر ڈالو کہ جو تم کہہ رہے ہو اس کے لئے جان دینے کے لئے تیار ہو.اور یہ جو کچھ تم سنارہے ہو یہ تمہیں ورثے کے طور پر نہیں ملا بلکہ تم نے خود اس کو پیدا کیا ہے.تم نے خود اس پر غور کیا ہے.(۲) ٹھٹھے باز نہیں ہونا چاہئے.لوگوں کے دلوں سے ادب اور رعب جا تا رہتا ہے.ہاں مذاق نبی کریم صلی یا اسلام بھی کر لیا کرتے تھے اس میں حرج نہیں.احتیاط ہونی چاہیئے.سنجیدہ معلوم ہو.(۳) اور ہمدردی ہونی چاہئے.نرم الفاظ ہوں سنجیدگی سے ہوں سمجھنے والا سمجھے میری زندگی اور موت کا سوال ہے.تمہاری ہمدردی وسیع ہونی چاہئے احمدیوں سے بھی ہو
15 غیر احمد یوں سے بھی ہو.ہمدردی دونوں فریق کے ساتھ نہ ہونے کی وجہ سے ہی جھگڑے ہوا کرتے ہیں.ایک فریق کہتا ہے ہم اپنے مولوی کو بلاتے ہیں دوسرے کہتے ہیں ہم اپنے مولوی کو بلاتے ہیں.لیکن اگر تمہاری ہمدردی دونوں فریق کے ساتھ ہو تو دونوں فریق کے تم ہی مولوی ہو گے.اور پھر انہیں کسی اور مولوی کے بلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ وہ تمہیں اپنا مولوی سمجھیں گے.پھر تبلیغ صرف مسلمانوں میں ہی نہیں ہونی چاہئے.(۴) آج تک ہمارے مبلغوں کا زور غیر احمد یوں پر ہی رہا ہے.کثرت سے ہندو آباد ہیں ان میں بھی تبلیغ ہونی چاہئے.بہت سی سعید روحیں ان میں بھی ہوتی ہیں.تمہاری ہمدردی ان کے ساتھ بھی ویسی ہی ہونی چاہئے جیسے مسلمانوں اور احمدیوں کے ساتھ تاکہ تم ان کے بھی پنڈت ہو جاؤ.اسلام کی تبلیغ ہندوستان میں اسی طرح پھیلی ہے.حضرت معین الدین چشتی کوئی اتنے بڑے عالم نہ تھے بلکہ انہوں نے اپنے اعمال کے ساتھ ، دعاؤں کے ساتھ ، ہمدردی کے ساتھ ہندوؤں کو مسلمان بنایا.اس لئے تم اپنی تبلیغ غیر احمدیوں سے ہی مخصوص نہ کرو بلکہ ہندوؤں عیسائیوں میں بھی تمہاری تبلیغ ہو اور ان سے بھی تمہارا ویسا ہی سلوک ہو.مجھے ہندو یہاں دعا کے لئے لکھتے ہیں، نذریں بھیجتے ہیں ان میں بھی سعید روحیں موجود ہیں.اگر ان کو صداقت کی طرف بلایا جائے اور صداقت کی راہ دکھائی جائے تو وہ صداقت کو قبول کر لیں.مبلغ کا فرض ہے کہ ایسا طریق اختیار نہ کرے کہ کوئی قوم اسے اپنادشمن سمجھے.اگر یہ کسی ہندوؤں کے شہر میں جاتا ہے تو یہ نہ ہو کہ وہ سمجھیں کہ ہمارا کوئی دشمن آیا ہے بلکہ وہ یہ سمجھیں کہ ہمارا پنڈت ہے.اگر عیسائیوں کے ہاں جائے تو سمجھیں کہ یہ ہمارا پادری ہے وہ اس کے جانے پر ناراض نہ ہوں بلکہ خوش ہوں.اگر یہ اپنے اندر ایسا رنگ پیدا کرے تو
16 پھر غیر احمدی کبھی تمہارے کسی شہر میں جانے پر کسی مولوی کو نہ بلائیں گے.نہ ہندوکسی پنڈت کو اور نہ عیسائی کسی پادری کو.بلکہ وہ تمہارے ساتھ محبت سے پیش آئیں گے.یہی وجہ ہے کہ اسلام نے بڑے بڑے لوگوں کو جو کسی مذہب میں گزر چکے ہوں گالیاں دینے سے روکا ہے.اسلام اس بات کا مدعی ہے کہ تمام دنیا کے لئے نبی آئے اور انہوں نے اپنی امتوں میں ایک استعداد پیدا کر دی پھر بتا یا کہ اسلام تمام دنیا کے لئے تبلیغ کرنے والا ہے.تبلیغ میں یہ یاد رکھو کہ کبھی کسی شخص کے قول سے گھبراؤ نہیں اور نہ قول پر دارو مدار رکھو.دلیل اور قول میں فرق ہے دلیل پر زور دینا چاہئے.لوگ دلیل کو نہیں سمجھتے مسلمان آریوں سے بات کرتے ہوئے کہہ دیتے ہیں قرآن میں یوں آیا ہے آریوں کے لئے قرآن حجت نہیں.تم رویہ دلیل کو پیش کرنے کا اختیار کرو تا جماعت احمدیہ میں یہ رنگ آجائے.دلائل سے فیصلہ کرو عقلی دلائل بھی ہوں اور نقلی بھی.دلیل ایسی نہ ہو کہ حضرت مولوی نورالدین اتنے بڑے عالم تھے وہ بھلا مرزا صاحب کو ماننے میں غلطی کر سکتے تھے.پس چونکہ انہوں نے مرزا صاحب کو مان لیا اس لئے حضرت صاحب سچے ہیں.ایسی دلیل نہیں ہونی چاہئے بلکہ دلیل سے بات کرو تا کہ جماعت میں دلائل سے ماننے کا رنگ پیدا ہو.اگر جماعت میں دلائل سے ماننے کا رنگ پیدا ہو جائے گا تو پھر وہ کسی شخص کے جماعت سے نکلنے پر گھبرائیں گے نہیں.سچی اتباع پیدا کرو.جھوٹی اتباع نہ ہو آریوں کے سامنے قرآن شریف دلیل کے طور پر پیش کرو.اس طرح پیش نہ کرو کہ تم مانتے ہو.ایک اور دھوکا بھی لگتا ہے کہ بعض پھر دعوی کے لئے بھی دلیل مانگتے ہیں.دعوئی پڑھو تو کہتے ہیں دلیل دو.جہاں دعوی کا اثبات ہو وہاں دعویٰ خود دلیل ہوتا ہے.مثلاً حضرت صاحب کی نسبت کوئی پوچھے کہ مرزا صاحب نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو ہم دعویٰ پڑھ دیں
17 گے.اور اس کی دلیل دینے کی ضرورت نہیں کیوں کہ اس نے دعویٰ مانگا ہے.لاہوریوں اور ہمارے درمیان حضرت صاحب کا دعوی ہی دلیل ہے.جب بحث کر و تو مد مقابل کی بات کو سمجھو کہ وہ کیا کہتا ہے.مثلاً تناسخ کی بات شروع ہوئی ہو تو فورا تناسخ کے رد میں دلائل دینے نہ شروع کرو.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے لیکر چھوٹے سے چھوٹے مسئلے میں بھی اختلاف آتا ہے.اب اگر تم اس کے برخلاف دلیلیں دینے لگ پڑو اور آخر میں وہ کہدے کہ آپ تو میری بات سمجھے ہی نہیں تو تقریر بے فائدہ جا ئے گی.اس کی بات سمجھو کہ آیا وہ وہی تو نہیں کہتا جو تمہارا بھی عقیدہ ہے.بغیر خیالات معلوم کئے بات نہ کرو.تناسخ کے متعلق بات کرو تو پوچھو کہ تمہارا تناسخ سے کیا مطلب ہے.اس کی ضرورت کیا پیش آئی.غرض ایسے سوالات کر کے پہلے اس کی اصل حقیقت سے آگاہ ہو اور پھر بات کرو.اس طرح اول تو اس کے دعوئی میں ہی اور نہیں تو پھر دلیلوں میں ہی تمہیں آسانی پیدا ہو جائے گی.کوئی گورنمنٹ اپنے دشمن کو اپنا قلعہ نہیں دکھاتی.قانون بنے ہو ئے ہیں.اگر کوئی کوشش کرے تو پکڑا جاتا ہے.کیونکہ کمزور موقعہ معلوم کر کے پھر اس پر آسانی سے حملہ ہو سکتا ہے.اس لئے پہلے کمزور موقعے معلوم کرو اور پھر حملہ کرو.تھوڑے وقت میں بہت کام کرنا سیکھو تھوڑے وقت میں بہت کام کرنا ایسا گر ہے که انسان اس کے ذریعے سے بڑے بڑے عہدے حاصل کرتا ہے.انسان محنت کرتا ہے اور ایک وائسرائے بھی.مزدور آٹھ آنے روز لیتا ہے وائسرائے ہزاروں روپیہ روز.کیا وجہ ؟ وہ تھوڑے وقت میں بہت کام کرتا ہے.اس کا نام لیاقت ہے.دوسرا طریق دوسروں سے کام لینے کا ہے.بڑے بڑے عہدے دار خود تھوڑا کام کرتے ہیں دوسروں سے کام لیتے ہیں.وہ تو خوب تنخواہیں پاتے ہیں لیکن ایک محنتی مزدور آٹھ آنہ ہی
18 کماتا ہے.یہ لیاقت کام کرنے کی لیاقت سے بڑی ہے.پس جتنی لیاقت کام کروانے کی ہوگی اتنا بڑا ہی عہدہ ہوگا.محمد رسول اللہ صلی یہ تم کو کیوں سب سے بڑا درجہ ملا ہے.محنت کرنے میں تو لوگ جو سالہا سال غاروں میں رہتے تھے آپ سے بڑھے ہوئے تھے.آپ میں کام لینے کی لیاقت تھی.یہ بھی اللہ تعالیٰ نے انسان میں ایک طاقت رکھی ہے.بہت جگہ سیکرٹری ہوتے ہیں خود محنتی ہوتے ہیں لوگوں سے کام لینا نہیں جانتے پھر لکھتے ہیں لوگ مانتے نہیں.دوسری جگہ سیکرٹری ہوتا ہے وہ خود تھوڑا کام کرتا ہے.لیکن لوگوں سے کام لیتا ہے اور خوب لیتا ہے تمام انتظام ٹھیک رہتا ہے.ہمیشہ اپنے کاموں میں خود کام کرنے اور کام لینے کی طاقت پیدا کرو.ایسے طریق سے لوگوں سے کام لو کہ وہ اسے بوجھ نہ سمجھیں.بہت لوگ خود محنتی ہوتے ہیں جب تک وہ وہاں رہتے ہیں کام چلتا رہتا ہے لیکن جب وہ وہاں سے ہٹتے ہیں کام بھی بند ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کے سلسلے جو ہوتے ہیں جب نبی مرجاتا ہے تو وہ سلسلہ مٹتا نہیں بلکہ اس کے آگے کام کرنے والے پیدا ہو گئے ہوتے ہیں.یہ اس لئے کہ نبی ایک جماعت کام کرنے والی تیار کر جاتا ہے.پس تمہارے سپر د بھی یہی کام ہوا ہے.یہ ایک مشق ہوتی ہے خوب مشق کر ولوگوں میں کام کرنے کی روح پھونک دو.حضرت عمرؓ کے زمانہ میں صحابہ میں کام کرنے کی ایک روح پھونکی گئی تھی.ہر دو مہینے کے بعد کوفے کا گورنر بدلتا تھا حضرت عمر فرماتے تھے اگر کوفے والے مجھے روز گورنر بدلنے کے لئے کہیں تو میں روز بھی بدل سکتا ہوں.ایسے رنگ میں کام کرو کہ لوگوں کے اندر ایک روح پھونک دو کبھی مت سمجھو کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو مانتے نہیں.عرب کی زمین کیسے شریروں کی تھی پھر کیسے شریفوں کی بن گئی.یہ بات غلط ہے کہ وہ مانتے نہیں.تم ایک دفعہ سناؤ دو دفعہ سناؤ آخر مانیں
19 گے.یہ اس شخص کی اپنی کمزوری ہوتی ہے جو کہتا ہے مانتے نہیں.اپنے کام کی پڑتال کرتے رہو ہمیشہ اپنے کام کی پڑتال کرو کیا کامیابی ہوئی.تمہارے پاس ایک رجسٹر ہونا چاہئے اس میں لکھا ہوا ہو کہ فلاں جگہ گئے ، وعظ فلاں مضمون پر کیا، اس اس طبقے کے لوگ شامل ہوئے، فلاں فلاں وجوہات پر مخالفت کی گئی، فلاں فلاں بات لوگوں نے پسند کی.یہ رجسٹر آئندہ تمہارے علم کو وسیع کرنے والا ہوگا تم سوچو گے کیوں مخالفت ہوئی.اہم مسائل کا تمہیں پتہ لگ جائے گا ان پر آئندہ غور کرتے رہو گے.اگر تم وہاں سے بدل جاؤ گے تو پھر تمہارے بعد آنے والے کے کام آئے گا.آج کل اس بات کو نہ سوچنے کی وجہ سے مسلمان گرے ہوئے ہیں.ایک استاد تمام عمر فلسفہ پڑھاتا ہے وہ کبھی ان باتوں کو نوٹ نہیں کرتا کہ فلاں بات پر فلاں لڑکے نے سوال کیا اس کا اس طرح جواب ہوا.فلاں بات کی اس طرح تجدید یا تردید ہونی چاہئے.وہ جتنا تجربہ حاصل کر چکا ہوتا ہے جب مرجا تا ہے تو پھر دوسرے کو جو اس کی جگہ آتا ہے از سر نو تجر بہ کرنا پڑتا ہے.یورپ کے علوم کی تر قی کا باعث یہی بات ہوئی کہ ایک کچھ نئی معلومات حاصل کرتا ہے اور انہیں نوٹ کرتا ہے اس کے بعد آنے والا پھر وہی معلومات حاصل نہیں کرتا وہ ان نوٹوں سے آگے فائدہ اٹھاتا ہے.تم بھی اس طرح کرو کہ ہر سال کے بعد نتیجہ نکالو.کون سی نئی باتیں پیدا ہوئیں کون سی باتیں مفید ثابت ہوئی ہیں.جب یہ رپورٹ دوسرے مبلغ کے ہاتھوں میں جائے گی تو وہ اپنی بناء زیادہ مضبوط کرے گا.
20 استقلال کبھی اپنی جگہ نہیں چھوڑنی چاہئے.یہ خیال کر کے کہ اگر یہ یوں نہیں مانتا تو اس طرح مان لے گا.اس میں وہ تو نہ ہارا تم ہار گئے کہ تم نے اپنی بات کو نا کافی سمجھ کر چھوڑ دیا.تم نے اپنا دین چھوڑ کر دوسرے کو منوا بھی لیا تو کیا فائدہ.بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ غیر احمدی وفات مسیح پر چڑتے ہیں.چلو وفات مسیح چھوڑ کر اور باتیں منواتے ہیں یہ غلط ہے.وفات مسیح مان جائیں تو پھر آگے پیش کرو.ترتیب سے پیش کرو.ملمع سازی سے پیش نہ کرو ملمع سازی سے پیش کرنے کا یہ نتیجہ ہو گا کہ جب اس پر بات کھلے گی تو یا وہ تم سے بدظن ہوں گے اور یا پھر تمہارے مذہب سے.جن جن باتوں پر خدا نے تمہیں قائم کیا ہے ان کو پیش کرو.اگر لوگ نہ مانیں تو تمہارا کام پیش کرنا ہے منوانا نہیں وہ اللہ کا کام ہے.محمد رسول اللہ صل اللہ تم کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَذَكَّرُ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكِّرُكُ لَسْتَ عَلَيْهِمُ مُصَّيْطِرِ (الغاشیه : ۲۲ - ۲۳) جماعت میں کیا احساس پیدا کرو جماعت میں ایک احساس پیدا کرو.وہ احمدیوں کی محبت پر دوسرے رشتہ داروں کی محبت کو قربان کر دیں.ایسی محبت احمدی لوگوں سے ہونی چاہئے کہ رشتہ داری کی محبت سے بھی بڑھ جائے.حق کی تائید ہونی چاہئے.یہ نہیں ہونا چاہئے کہ اگر احمدی کے مقابل میں رشتہ دار آ گیا ہے تو رشتہ دار کی طرف داری اختیار کر لی جائے.ہماری قوم ہماری جماعت
21 احمدیت ہے.پھر اس بات کا احساس پیدا کرنا بھی ضروری ہے کہ دین کا اب سب کام ہم پر ہے.جب یہ کام ہم پر ہے تو ہم نے دنیا کے کتنے مفاسد کو دور کرنا ہے.پھر اس کے لئے کتنی بڑی قربانی کی ضرورت ہے.اس بات کو پیدا کرو کہ ہر ایک آدمی مبلغ ہے.صحابہ سب مبلغ تھے.اگر ہر ایک آدمی مبلغ ہو گا تب اس کام میں کچھ آسانی پیدا ہوگی.اس لئے ہر ایک احمدی میں تبلیغ کا جوش پیدا کرو.پھر مالی امداد کا احساس پیدا کرو.اگر چہ ہماری جماعت کا معیار تو قائم ہو گیا ہے کہ فضول جگہوں میں جو روپیہ خرچ کیا جاتا ہے مثلاً بیاہ شادیوں میں ، وہ اب دین کے کاموں میں خرچ ہوتا ہے.لیکن یہ احساس پیدا ہونا چاہئے کہ ضروریات کو کم کر کے بھی دین کی راہ میں روپیہ خرچ کیا جائے.جماعت کا اکثر حصہ ست ہے.کچھ لوگ ہیں جو بہت جوش رکھتے ہیں.لیکن یہ بات پوشیدہ نہیں کہ آخر میں سارا بوجھ انہیں لوگوں پر پڑ کر ان لوگوں میں سستی آنی شروع ہو جائے گی.تو ایک حصہ پہلے ہی شست ہوا اور دوسرا پھر اس طرح ست ہو گیا تو یہ اچھی بات نہیں.اس لئے چاہئے کہ جماعت کو ایک پیمانہ پر لایا جائے.جماعت کی یہ حالت ہے کہ اخبار میں چندے کے متعلق نکلے تو کان ہی نہیں دھرتے.ہاں علیحدہ خط کی انتظار میں رہتے ہیں.لیکن اگر کسی شخص کا لڑکا گم ہوا ہو اور اخبار میں نکل جائے تو جس کے ہاں ہوتا ہے وہ اسے وہیں روک لیتا ہے خط کی انتظار نہیں کرتا.ان کے دلوں میں ایسا جوش پیدا کرو کہ جو نہی یہ دین کے لئے آواز سنیں فوراً دوڑ پڑیں.پہلے مبلغ اپنی زندگی میں یہ احساس پیدا کریں.
22 مسائل کے متعلق غور کرو! جب کوئی اعتراض پیش آوے پہلے خود اس کے حل کرنے کی کوشش کرو.فوراً قادیان لکھ کر نہ بھیج دو.خود سوچنے سے اس کا جواب مل جائے گا.اور بیبیوں مسائل پر غور ہو جائے گی جواب دینے کا مادہ پیدا ہو گا.ہم سے پوچھو گے تو ہم جواب بھیج دیں گے لیکن پھر یہ فائدے تمہیں نہ ملیں گے.اس لئے جب اعتراض ہو خود اس کو حل کرو جب حل کر چکو تو پھر تبادلہ خیالات ہونا چاہئے.اس سے ایک اور ملکہ پیدا ہو گا.جو آپ ہی سوچے اور پھر اپنے سوچے پر ہی بیٹھ جائے اس کا ذہن کند ہو جاتا ہے.لیکن تبادلہ خیالات سے ذہن تیز ہوتا ہے.ایک بات ایک نے نکالی ہوتی ہے اور ایک اور دوسرے نے اس طرح پھر سب اکٹھی کر کے ایک مجموعہ ہو جاتا ہے.دو مبلغ جہاں ملیں تو لغو باتیں کرنے کی بجائے وہ ان مسائل پر گفتگو کریں.خدا تعالیٰ سے تعلق ہو.دعا ہو.توکل ہو.قادیان آنے کی تاکید کرتے رہو لوگوں کو قادیان بار بار آنے کے لئے اور تعلق پیدا کرنے کے لئے کوشاں رہو.جب تک کسی شاخ کا جڑ سے تعلق ہوتا ہے وہ ہری رہتی ہے.لیکن شاخ کا جڑ سے تعلق ٹوٹ جانا اس کے سوکھ جانے کا باعث ہوتا ہے.موجودہ فتنے میں نوے فیصدی ایسے لوگ ہیں جو اسی وجہ سے کہ ان کا تعلق قادیان سے نہ تھا فتنے میں پڑے.بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں
23 جو خیال کرتے کہ قادیان میں کچھ کام نہیں رہا.روپیہ جاتا ہے اور وہ لوگ بانٹ کر کھا لیتے ہیں.اس لئے لوگوں کو قادیان سے تعلق رکھنے کے لئے کوشش کرتے رہو.اپنے کاموں کی رپورٹ ہر سہ ماہی پر بھیجو.اس کے دوسری طرف میں نے زائد نوٹ لکھوا دیئے ہیں ان کے متعلق بھی لکھو.یہ بھی یا درکھو کہ شہروں میں بھی ہماری جماعت میں وفاداری کا اثر لا ہور یوں کی دیکھا دیکھی کم نہ ہو جائے.ہمیشہ جہاں جاؤ ان کے فرائض انہیں یاد دلاتے رہو.سیاست میں پڑنا ایک زہر ہے جب آدمی اس میں پڑتا ہے دین سے غافل ہو جا تا ہے.سیاست میں پڑنا امن کا مخل ہونا ہے اور امن کا نہ ہونا تبلیغ میں روک ہوتا ہے.میں لاہوریوں سے اتنا نہیں ڈرتا جتنا کہ میں سیاست میں پڑنے سے ڈرتا ہوں.سیاست صداقت کے خلاف، احسان کے خلاف شریعت کے احکام کے خلاف ہے.یہ ایسا زہر ہے کہ جس جماعت میں اس زہر نے اثر کیا ہے پھر وہ ترقی نہیں کرسکی.اس پر بڑا زور دو اس وقت سیاست کی ایک ہوا چل رہی ہے.یہ تبلیغ میں بڑی رکاوٹ ہے.بعض لوگ اس سلسلے میں اس لئے نہیں داخل ہوتے کہ اس نے وفاداری کی تعلیم دی ہے.پس تم سیاست میں پڑنے سے لوگوں کو روکو.دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی تعلیم دو.تقویٰ کے حصول کے ذرائع ( حضرت مصلح موعود خلیفہ مسیح الثانی کی تقریر سے لئے ہوئے نوٹوں کی بناء پر تیارکیا گیا.اکمل )
24 تقویٰ کی تعریف اللہ تعالیٰ سورہ مائدہ میں فرماتا ہے.وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاسْمَعُوا وَاللَّهُ لَا يَهْدِى ط الْقَوْمَ الْفُسِقِينَ (المائدہ: ۱۰۹) اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.اچھی طرح اس کے احکام کی فرمانبرداری کرو.اور اللہ نافرمان لوگوں کو کامیاب نہیں کرتا اس آیت سے ظاہر ہے کہ تقوی فرمانبرداری کا نام ہے.فرمانبرداری کس طرح پیدا ہو اور فرمانبرداری محبت کی وجہ سے کی جاتی ہے یا خوف کی وجہ سے.محبت حسن واحسان کے مطالعہ سے پیدا ہوگی اور خوف جلال کے مطالعہ سے.چونکہ انسانی فطرت میں بھی دو باتیں ہیں اس لئے سورہ فاتحہ میں ان دونوں سے کام لیا گیا ہے.فرماتا ہے.الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ یہ تمام احسان یاد دلا کر کہ ایک پہلو سے یہی حسن بھی ہے، لوگوں کو اپنی فرمانبرداری کی طرف متوجہ کیا ہے.چونکہ بعض طبائع بجز خوف دلانے کے فرمانبرداری نہیں کرتیں.اس لئے ان کے لئے فرما یا.ملِكِ يَوْمِ الدین یعنی جزاء وسزا کا بھی میں مالک ہوں.تقویٰ انبیاء کی بعثت سے الغرض فرمانبرداری کامل محبت یا کامل خوف پر ہے.اور اس کے لئے اللہ نے دو سامان مقرر کئے ہیں ایک آسمانی ایک زمینی.آسمانی سامان جس سے لوگوں میں
25 فرمانبرداری یا تقویٰ پیدا ہو وہ انبیاء کی بعثت ہے.چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب دیکھا کہ تقویٰ کی روح دنیا سے گم ہو چلی ہے تو انہوں نے اپنے مولیٰ کے حضور گڑ گڑا کر دعا کی.رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايَتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ، إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (البقره: 130) اے ہمارے رب ان میں ایک رسول انہی میں سے مبعوث کر.جو ان پر تیری آیتیں پڑھ کر سناوے اور ان کو کتاب وحکمت سکھائے اور ان کا تزکیہ کرے تحقیق تو عزیز وحکیم ہے.یہ دعا قبول ہوئی اور ایک رسول مبعوث ہوا جس نے اکھڑ سے اکھڑ قوم میں فرمانبرداری کی روح پیدا کر دی.انبیاء کا ہاتھ خدائے قدوس کے ہاتھ میں ہوتا ہے اس لئے جو ان سے تعلق پیدا کرتا ہے وہ بھی پاک کیا جاتا ہے.ان کی مثال بجلی کی بیٹری سی ہے کہ جس کا ذرا بھی تعلق اس کے ساتھ ہوا وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہا.کیا تم دیکھتے نہیں کہ ہزاروں ٹمپرنس سوسائٹیاں اتنے سالوں سے کام کر رہی ہیں ان کا کوئی قابل ذکر فائدہ نہیں.مگر محمد رسول الله لا لا الایام کے دربار سے ایک آواز اٹھتی ہے اور تمام بلا استثناء شراب کے مٹکے لنڈ ہا دیتے ہیں.مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ دنیا کے ادنی نفع کے لئے دین کو متأخر کرنے پر تیار ہیں مگر انہی مسلمانوں میں سے ”عبد اللطیف“ ایک نبی کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیتا ہے اور پھر دین پر اپنی جان تک قربان کر دیتا ہے.امیر کابل کی طرف سے ایماء ہوتا ہے کہ صرف ظاہر داری کے لئے کہہ دو میں مرزا کو مسیح نہیں مانتا مگر وہ سنگسار ہونا پسند کرتا ہے اور یہ کلمہ زبان پر نہیں لاتا.ایسا کیوں ہوا؟ اس لئے کہ وہ آسمانی ذریعہ سے پاک کیا گیا.دوسرا ذریعہ زمینی ہے.جس سے مراد انسان کا اپنی طرف سے مجاہدہ ہے.اس وقت روح انسانی کی حالت اس گھوڑے کی طرح ہوتی ہے جو آہستہ آہستہ سدھایا جاتا ہے اس
26 لئے فرماتا ہے.وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَاء (العنكبوت: 70) جو ہماری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں ہم انہیں رستے دکھا دیتے ہیں.ان مجاہدات میں سے چند کا ذکر اس جگہ کیا جاتا ہے.اول صحبت صادقین.صادقین کی صحبت ایسی ہے کہ اس کے ذریعہ انسان پاک کیا جاتا ہے.صحبت کا اثر ایک مانی ہوئی بات ہے.لوگ اکسیر کو تلاش کرتے پھر تے ہیں میرے نزدیک دنیا میں اگر کوئی اکسیر ہے تو صحبت صادقین.مبارک وہ جو اس سے فائدہ حاصل کریں.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّدِقِينَ (التوبہ: ۱۱۹) یعنی اے مومنو! تقویٰ اختیار کرو.اور اس تقویٰ کے حصول کا ذریعہ کیا ہے.یہ کہ تم صادقوں کے ساتھ ہو جاؤ.صادقوں میں ایک برقی اثر ہوتا ہے جس سے گناہوں کے جراثیم مارے جاتے ہیں.صادق خدا کے حضور ایک عزت رکھتا ہے.اس کے طفیل صادق سے تعلق رکھنے والا بھی باریاب ہو جا تا ہے.حضرت عائشہ صدیقہ اپنے ایک بھانجے پر اس لئے ناراض ہو ئیں کہ وہ ان کے بہت صدقہ کرنے کا شا کی تھا.آپ نے حکم فر ما دیا کہ ہمارا بھانجہ بھی ہمارے گھر میں نہ آئے.ایک روز چند صحابہ کبار نے باریابی کی اجازت چاہی جو انہیں دی گئی.ان میں صدیقہ کے بھانجے بھی شامل تھے.اور وہ بھی اندر چلے گئے دیکھا صادقوں کی صحبت نے کیا فائدہ دیا.اسی طرح دیکھا گیا ہے کہ اچھی جنس کے ساتھ ادنی جنس مل کر بک جاتی ہے.دوسرا ذریعہ : نفس کا محاسبہ ہے.یعنی ہر روز تم اپنے کاموں پر ایک تنقیدی نظر کرو.اور دیکھو کہ تمہاری حرکت دنیا کی طرف ہے یا دین کی طرف اور آیا کوئی کام اللہ کی نافرمانی کا تو نہیں کیا اور پھر اس کی اصلاح کرو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا
27 اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (الحشر : ۱۹) اے مومنو! تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.اور وہ تقویٰ یوں حاصل ہوگا کہ ہر جان نظر کرتی رہے کہ اس نے کل کے لئے کیا کیا اور اللہ کا تقویٰ اختیار کر واللہ جو کچھ تم کرتے ہو اس سے خبر رکھنے والا ہے.جو شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرا انگران حال ہے اور اپنے اعمال پر نظر ثانی کرتا ہے اور دیکھتا رہتا ہے کہ میں نے روز فردا کے لئے کیا تیاری کی ہے وہ متقی بن جاتا ہے.تیسرا ذریعہ: گناہوں پر پشیمانی یعنی تو بہ ہے.التَّائِبُ مِنَ الذِّنْبِ كَمَنْ لا ذنب له (ابن ماجہ کتاب الزهد باب ذكر التوبہ ) جو شخص اپنے گناہوں پر پشیمانی کا اظہار کرتا ہے.وہ ان کے بدنتائج سے محفوظ رہتا ہے.اور آئندہ کے لئے نیکی و تقویٰ کے واسطے اپنے آپ کو تیار کرتا ہے اور شیطان کے مزید حملوں سے محفوظ ہو جاتا ہے.حضرت معاویہ کی نماز فجر قضاء ہوگئی اس پر ان کو اس قدر پشیمانی ہوئی اور اس قدر وہ خدا کے حضور روئے اور چلائے کہ انہیں ایک نماز کے بدلے دس نمازوں کا ثواب ملا.دوسرے روز کسی نے انہیں اٹھایا ، پوچھا تو کون؟ کہا میں تو شیطان ہوں.انہوں نے تعجب کیا کہ نماز کے لئے شیطان بیدار کرے.اس نے کہا اگر میں نہ اٹھاؤں تو آپ ایک نماز کے بدلے دس نمازوں کا ثواب پائیں.غرض تم اپنی کسی لغزش پر اس قدر پشیمانی ظاہر کرو کہ تمہارا شیطان مسلمان ہو جائے.چوتھا ذریعہ : تمام کاموں میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا رہے.حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص رات بھر سوچتا رہے اور کہے کہ ابن عمر میرا کام کر دے گا تو خواہ مخواہ میری توجہ اس طرف ہو گی.اسی طرح جو انسان اللہ تعالیٰ کو اپنا سہارا ہر امر میں
28 ٹھہراتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر خاص توجہ کرتا ہے اور جس پر اللہ تعالیٰ کی توجہ ہو وہ کیوں فرمانبردار نہ بنے گا.پانچواں ذریعہ : حصول تقویٰ کا استخارہ ہے.یعنی ہر روز اپنے کاموں کے لئے استخارہ کرے اور اپنے مولیٰ سے دعا کرے کہ جو کام نیک اور تیری مرضی کے مطابق ہیں ان کی توفیق عطا ہو.اور جو تیری مرضی کے موافق نہیں ان سے مجھے ہٹالے.اگر ہر روز ایسا نہ کر سکے تو ہفتہ میں ایک بار تو ضرور ہی کرے.چھٹا ذریعہ: یہ کہ دعاؤں میں لگا ر ہے.جو شخص اپنے اللہ سے دعا کرتار ہے اللہ اسے اپنی رضامندی کی راہیں دکھاتا ہے اور گمراہ ہونے سے بچاتا ہے.ساتواں ذریعہ: لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (ابراہیم : ۸) سے ظاہر ہے کہ جس نعمت باری تعالیٰ پر ہم شکر کریں گے وہ بڑھ بڑھ کر دی جائے گی.پس انسان اگر کوئی نیکی کرے تو اسے چاہئے کہ بہت بہت شکر بجالائے تاکہ اور نیکیوں کی توفیق ملے اور وہ متقی بن جائے.آٹھواں ذریعہ: سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ پڑھتا رہے.اس میں یہ سر ہے کہ جو کسی کی تعریف کرے وہ ممدوح چاہتا ہے کہ یہ بھی ایسا ہی بن جائے.نبی کریم صلی ا یہ تم نے لا إله إلا الله پر زور دیا ہے.اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک ثابت کیا تو خدا نے فرمایا اے نبی ! ہم نے تجھے بھی دنیا میں فرد بنادیا.جو اللہ اکبر کہہ کے خدا کی دل و جان اور اپنے عمل سے بڑائی بیان کرے اسے اللہ بڑا بنادے گا.اور جواس کی تسبیح کرے گا خدا اسے پاک بنادیگا.اور جو اس کا حامد بنے گا وہ محمود ہو جائے گا.نواں ذریعہ : نمازوں سے اپنی اصلاح کرے.کیونکہ فرماتا ہے.اِنَّ الصَّلوةَ
29 تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ ، (العنكبوت : ۴۶) نماز نا پسندیدہ کاموں سے روکتی ) ہے.نماز معراج المؤمنین یعنی مؤمنوں کو ترقیات روحانی دینے والی ہے.پس نمازیں بہت پڑھو تا کہ تقویٰ حاصل ہو اور تم میں فرمانبرداری کی روح پیدا ہو جائے.دسواں ذریعہ : اللہ تعالیٰ کے جلال و جمال کا معائنہ کرتا رہے.جلال کے متعلق فرماتا ہے اولَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِي مسكنهم ، إِنَّ فِي ذَلِكَ لأيتٍ ، أَفَلَا يَسْمَعُونَ (السجدہ: ۲۷) یعنی کیا یہ بات ان کو ہدایت نہیں دیتی کہ اس سے پہلے کئی قوموں کو ہم نے ہلاک کیا اور یہ ان کے مکانوں کے کھنڈروں میں چلتے پھرتے ہیں اس میں بہت سے نشان ہیں کیوں نہیں سنتے.جب تم دیکھو گے کہ خدا تعالیٰ کے نافرمانوں کا انجام یہ ہوگا اور جس ساز و سامان دنیوی کے لئے خدا کو ناراض کیا اس کا انجام یہ ہے.تو لامحالہ فرمانبرداری کی طرف توجہ ہوگی.اور جمال یعنی انعامات کے متعلق اس کے ساتھ ارشاد ہوتا ہے اَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَسُوقُ الْمَاءَ إِلَى الْأَرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا تَأْكُلُ مِنْهُ أَنْعَامُهُمْ وَأَنْفُسُهُمْ أَفَلَا يُبْصِرُونَ (السجدہ:۲۸) کیا نہیں غور کرتے کہ ہم پانی کو خشک زمین کی طرف بہاتے ہیں پھر اس سے کھیتی پیدا کرتے ہیں.جس سے ان کے چوپائے اور یہ خود کھاتے ہیں کیا بصارت سے کام نہیں لیتے.آدمی انعامات النبی کا مطالعہ کرے اور اس کے احسانات اپنے روئیں ط روئیں پر دیکھے تو اپنے مولیٰ و حسن پر قربان ہونے کو جی چاہے.تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ -