Nani Aman

Nani Aman

حضرت سید بیگم صاحبہ ’نانی امّاں‘

بیگم حضرت میر ناصر نواب صاحب
Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ اصحاب احمد ؑ

Book Content

Page 1

بسلسلہ صدسالہ خلافت احمد یہ جو بلی حضرت سید بیگم صاحبہ نانی اماں' بیگم حضرت میر ناصر نواب صاحب لجنہ اماء الله

Page 2

حضرت سید بیگم صاحبہ نانی اماں بیگم حضرت میر ناصر نواب صاحب

Page 3

بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ لو صد سالہ خلافت جوبلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تاکہ بچوں میں بھی ان جیسا بننے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.آمین

Page 4

سیرت حضرت سید بیگم، نانی اماں جان صاحبہ 1 پیارے بچو! حضرت سید بیگم صاحبہ نانی اماں آج ہم ایک ایسی ہستی کے بارے میں آپ کو بتا رہے ہیں جن کا نام تو سید بیگم صاحبہ تھا لیکن سب لوگ انہیں نانی اماں کہا کرتے تھے.آپ سلسلہ کے جلیل القدر بزرگ حضرت میر ناصر نواب صاحب کی بیوی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ساس تھیں.جماعت میں آپ نانی اماں کے نام سے اس لئے مشہور تھیں کیونکہ آپ حضرت اماں جان سید و نصرت جہاں بیگم صاحبہ کے بچوں کی نانی تھیں.آپ کا تعلق ایک علم دوست خاندان سے تھا اور آپ کے افراد خاندان بہت اچھے دنیاوی عہدوں پر فائز تھے.دہلی میں عام رواج یہ تھا کہ لڑکیوں کو قرآن کریم اور معمولی دینیات کی کتابیں پڑھاتے تھے، بعض تو ان میں سے عربی ، فارسی اور اردو بہت اچھی طرح جانتی تھیں.حضرت سید بیگم صاحبہ ( نانی اماں ) بھی قرآن شریف اور اردو کی تعلیم کا علم رکھتی تھیں.آپ اردو زبان کی کتابوں کا اکثر مطالعہ کرتی تھیں.پانچ ، چھ سال کا کھیل کود کا زمانہ نکال کر تھوڑا تھوڑ اسبق یاد کر کے نو ، دس سال کی عمر تک قرآن کریم کی تعلیم اور پھر دو، تین سال میں اردو کی تعلیم مکمل ہو جاتی

Page 5

سیرت حضرت سید بیگم، نانی اماں جان صاحبہ 2 تھی.چنانچہ نانی اماں کی تعلیم بھی اسی طریق پر ہوئی.(1) حضرت نانی اماں کی شادی ، حضرت میر ناصر نواب صاحب سے 186ء میں ہوئی.اس وقت حضرت میر ناصر صاحب کی عمر صرف 16 سال تھی.نانی اماں کی عمر حضرت میر ناصر صاحب سے تین ، چار سال کم ہو گی ، حضرت میر ناصر نواب صاحب اپنی شادی کے بارہ میں لکھتے ہیں:.16 سال کی عمر میں دانا اماں ( حضرت میر ناصر نواب صاحب کی والدہ) نے نشیب و فراز زمانہ کو مد نظر رکھ کر میری شادی ایک شریف اور سادات خاندان میں کر دی اور میرے پاؤں میں ایک بیٹڑی پہنا دی، تا کہ میں آوارہ نہ ہو جاؤں.اس کے باعث میں بہت ساری بلاؤں اور وو ابتلاؤں سے محفوظ رہا.(2) آپ کے والد آپ کی شادی سے پہلے وفات پاچکے تھے لیکن آپ کا رشتہ والد کی زندگی میں ہو گیا تھا.حضرت میر ناصر نواب صاحب کی نیکی اور طبیعت میں حیا بچپن سے ہی نمایاں نظر آتی ہے.حضرت میر ناصر نواب صاحب کے بڑے بھائی سید ناصر وزیر صاحب کی شادی لوہارو خاندان میں ہوئی.آپ کی عمر اس وقت آٹھ ، نو سال تھی اور بارات میں وہ بھی شامل تھے.رات کولو ہارو والوں کی طرف سے ( کیونکہ وہ نواب لوگ تھے ) ناچ کا انتظام تھا.سب لوگ ناچ دیکھنے

Page 6

سیرت حضرت سید بیگم، نانی اماں جان صاحبہ 3 میں مشغول تھے.مگر حضرت میر صاحب نے بیان فرمایا کہ وو مجھے اس قدر شرم آئی کہ میں نے ایک دفعہ بھی نظر اٹھا کر نہ دیکھا، میرا سر جھکا رہا ! اس زمانہ میں ان کی حیا اور نیکی دیکھ کر حضرت نانی اماں کے والد سید عبدالکریم صاحب کے دل میں رشتے کا خیال آیا.انہوں نے اسی وقت حضرت میر ناصر نواب صاحب کے والد صاحب کو کہہ دیا کہ ' یہ لڑکا میرا ہوا.(3) وو حضرت میر ناصر نواب صاحب کا تعلق ایک صوفی بزرگ خاندان سے تھا.(4) حضرت میر ناصر نواب صاحب اپنے والد صاحب کی وفات کے وقت بارہ ، تیرہ سال کے تھے.دوسال بعد دہلی میں غدر ہو گیا تو گھر میں سجاد ونشینی بس نام کی رہوگئی، یعنی و دوشان و شوکت نہ تھی مگر گزر اوقات اچھے طریق سے ہورہی تھی.حضرت میر ناصر نواب صاحب کی تعلیم کا آغاز والد صاحب کی زندگی میں گھر ہی میں ہوا.پھر دہلی کے غدر کے بعد آپ کی والدہ صاحبہ نے آپ کو اپنے بھائی میر ناصرحسین صاحب کے پاس صوبہ پنجاب گورداسپور بھیجوا دیا.پنجاب میں تعلیم کا ان کو کوئی خاص فائدہ نہ پہنچا.اس لئے ان کی والدہ صاحبہ نے وہاں سے واپس بلوالیا اور آپ کی شادی ایک شریف سادات

Page 7

سیرت حضرت سید بیگم، نانی اماں جان صاحبہ خاندان کی صاحبزادی سید بیگم صاحبہ سے کر دی.آپ کی والدہ ایک بہت نیک اور پارسا خاتون تھیں.ہجرت کے وقت آباد گھر میں سے اگر کوئی چیز اٹھائی تو وہ قرآن شریف تھا.شادی کے بعد دونوں میاں بیوی نے مولوی عبداللہ غزنوی کی بیعت کی.21 سال کی عمر میں ایک بار پھر آپ کی والدہ محترمہ نے اپنے بھائی میر ناصرحسین صاحب کے پاس کام سیکھنے کے لئے حضرت میر ناصر نواب صاحب کو بھیجوا دیا ، جنہوں نے آپ کو نقشہ نویسی اور شہر کا کام سکھا کر محکمہ نہر میں اوورسئیر ملازم کروا دیا.محکمہ نہر میں افسران نے ان سے 100 روپیہ نقد ، ضمانت طلب کی.ان کے ساتھ کام کرنے والوں نے تو ضمانت کی رقم جمع کروادی.مگر وہ حلال و حرام کی بہت زیادہ تمیز کرتے تھے.اس لئے انہوں نے یہ روپیہ جمع کرانا مناسب نہ سمجھا.محکمہ نہر رشوت ستانی کی وجہ سے بد نام تھا.لیکن حضرت میر ناصر نواب صاحب نے دوران ملازمت کسی سے رشوت نہ لی.آپ کی دیانت داری اور راست بازی کو تمام محکمہ قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا.آپ نے حلال اور پاک روزی سے اپنے بچوں کی پرورش کی.حضرت نانی اماں بہت نرم مزاج تھیں ان کے اخلاص کردار کے متعلق ان کے شوہر حضرت میر ناصر نواب صاحب نے فرمایا:.

Page 8

سیرت حضرت سید بیگم، نانی اماں جان صاحبہ 5 اس بابرکت بیوی نے جس سے میرا پالا پڑا تھا ، مجھے بہت ہی آرام دیا اور نہایت ہی وفاداری سے میرے ساتھ اوقات بسر کی اور ہمیشہ مجھے نیک صلاح دیتی رہی اور کبھی بے جا مجھ پر دباؤ نہ ڈالا.نہ مجھ کو میری طاقت سے بڑھ بڑھ کر تکلیف دی.میرے بچوں کو بہت ہی شفقت اور جانفشانی سے پالا ، نہ کبھی بچوں کو کوسا، نہ مارا.اللہ تعالیٰ اسے دین اور دنیا میں سرخرو ر کھے اور بعد انتقال جنت الفردوس عنایت فرمائے.بہر حال عسر یسر ( تنگی اور آسائش ) میں میرا ساتھ دیا، جس کو میں نے مانا ، اس نے بھی مانا ، جس کو میں نے پیر بنایا، اس نے بھی بلا تامل بیعت کی.چنانچہ عبداللہ صاحب غزنوی کی بیعت میرے ساتھ کی نیز مرزا صاحب ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) کو جب میں نے تسلیم کیا تو اس نے بھی مان لیا.ایسی بیویاں بھی دنیا میں کم ہی میسر آتی ہیں.یہ بھی میری ایک خوش نصیبی ہے جس کا میں شکر گزار ہوں کئی لوگ بسبب دینی اور دنیوی اختلاف کے بیویوں کے ہاتھوں نالاں پائے جاتے ہیں.جو گویا کہ دنیا میں دوزخ میں داخل ہوتے ہیں.میں تو اپنی بیوی کے نیک سلوک کی وجہ سے دنیا میں ہی جنت میں ہوں“ (5) حضرت نانی اماں بہت ہی صابر و شاکر خاتون تھیں.آپ نے ہر اچھے بُرے حالات میں اپنے شوہر کے ساتھ معمولی معمولی دیہات

Page 9

سیرت حضرت سید بیگم، نانی اماں جان صاحبہ میں بھی وقت گزارا اور کوئی شکوہ نہ کیا.آپ ایک فرمانبردار اور خاوند کی خدمت گزار بیوی تھیں.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ :.خاکسار کی نانی اماں نے مجھ سے بیان کیا کہ جب تمہارے نانا جان کی اس نہر بنوانے پر ڈیوٹی لگی جو قادیان کے مغرب کی طرف دو، اڑھائی میں فاصلے سے گزرتی ہے یعنی (موضع تتلہ کی نہر ) تو اس وقت تمہارے تایا مرزا غلام قادر کے ساتھ ان کا کچھ تعارف ہو گیا اور اتفاق سے ان دنوں میں کچھ بیمار ہوئی تو تمہارے تایا نے حضرت میر ناصر صاحب سے کہا کہ میرے والد صاحب (مرزا غلام مرتضیٰ) بہت ماہر طبیب ہیں آپ ان سے علاج کروا ئیں چنانچہ تمہارے نانا مجھے ڈولے میں بٹھا کر قادیان لائے ، جب میں یہاں آئی تو نیچے کی منزل میں تمہارے تایا مجلس لگائے بیٹھے تھے اور نیچے کی ایک کوٹھری میں تمہارے ابا (حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) ایک کھڑکی کے پاس بیٹھے ہوئے قرآن شریف پڑھ رہے تھے.اوپر کی منزل میں تمہارے دادا صاحب (مرزا غلام مرتضی ) تھے، تمہارے دادا نے میری نبض دیکھی اور ایک نسخہ لکھ دیا اور پھر حضرت میر ناصر نواب صاحب کے ساتھ اپنے دلی جانے اور وہاں حکیم محمد شریف صاحب سے علم طب سیکھنے کا ذکر کرتے رہے.

Page 10

سیرت حضرت سید بیگم، نانی اماں جان صاحبہ 7 اس کے بعد جب میں دوسری مرتبہ قادیان آئی تو تمہارے دادا فوت ہو چکے تھے اور ان کی برسی کا دن تھا جو قدیم رسوم کے مطابق منائی جا رہی تھی.چنانچہ ہمارے گھر میں بہت سا کھانا وغیرہ آیا تھا اس دفعہ تمہارے تایا نے میر صاحب سے کہا کہ آپ مثلہ میں رہتے ہیں آپ کو وہاں تکلیف ہوتی ہو گی.آپ ہمارے یہاں آجا ئیں میں گورداسپور رہتا ہوں غلام احمد ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) بھی گھر میں کم آتا ہے اس لئے آپ کو پردہ وغیرہ کی تکلیف نہ ہوگی.چنانچہ میر صاحب نے مان لیا اور ہم یہاں آکر رہنے لگے.(6) ان دنوں میں جب بھی تمہارے تایا ( مرزا غلام قادر ) گورداسپور سے قادیان آتے تھے تو ہمارے لیے پان لایا کرتے تھے اور میں اُن کے واسطے کوئی اچھا سا کھانا وغیرہ تیار کر کے بھیجا کرتی تھی.ایک دفعہ جو میں نے شامی کباب ان کے لئے تیار کئے اور بھیجنے لگی تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ گورداسپور چلے گئے ہیں.جس پر مجھے خیال آیا کہ کباب تو تیار ہی ہیں میں ان کے چھوٹے بھائی کو بھجوا دیتی ہوں چنانچہ میں نے نائن کے ہاتھ تمہارے ابا کو کباب بھجوا دیئے اور نائن نے مجھے آ کر کہا وہ بہت ہی شکر گزار ہوئے انہوں نے بڑی خوشی سے کباب کھائے اور اس دن انہوں نے اپنے گھر سے آیا ہوا کھانا نہ کھایا.

Page 11

سیرت حضرت سید بیگم، نانی اماں جان صاحبہ 8 اس کے بعد میں ہر دوسرے تیسرے دن کچھ کھانا بنا کر بھیج دیا کرتی اور وہ بڑی خوشی سے کھاتے، لیکن جب اس بات کی اطلاع تمہاری تائی صاحبہ کو ہوئی تو انہوں نے بہت برا منایا کہ میں ان کو کھانا کیوں بھیجتی ہوں کیونکہ وہ اس زمانہ میں تمہارے ابا کی سخت مخالف تھیں.چونکہ گھر کا سارا انتظام ان کے ہاتھ میں تھا وہ ہر بات میں ان کو تکلیف پہنچاتی تھیں مگر تمہارے ابا صبر کے ساتھ ہر بات کو برداشت کرتے تھے.ان دنوں گو حضرت میر ناصر نواب صاحب کا تعلق تمہارے تایا سے تھا مگر وہ کبھی کبھی گھر میں آکر کہا کرتے تھے "مرزا غلام قادر کا چھوٹا بھائی بہت نیک اور منتقلی آدمی ہے."(7) حضرت نانی اماں نے اپنی تمام زندگی تقوی ، طہارت اور پاکیزگی سے گزاری.آپ کی گھریلو زندگی کا اطمینان ، اتفاق اور اپنے رفیق حیات حضرت میر ناصر نواب صاحب کے ساتھ خوشگوار تعلقات تمام عورتوں کے لئے ایک عظیم مثال ہیں.اللہ تعالی نے آپ کو ایسی بلند صفات کا مالک بنایا تھا جو ہم سب کیلئے قابلِ تقلید ہیں.آپ صابر و شاکر ، مہمان نواز ، خوش خلق اور ہر ایک کے ساتھ شفقت و ہمدردی کے ساتھ پیش آنے والی خاتون تھیں.حضرت میر ناصر نواب صاحب نے ایک نظم میں آپ کی سیرت پر روشنی

Page 12

سیرت حضرت سید بیگم، نانی اماں جان صاحبہ 9 ڈالی ہے.جس کا عنوان 'حرم محترم ہے.اس نظم میں حضرت نانی اماں کی گھر یلوزندگی، اولاد سے محبت اور خاوند کی اطاعت کا ذکر ہے.اے میرے دل کی راحت، میں ہوں تیرا فدائی تکلیف میں نے ہرگز ، تجھ سے کبھی نہ پائی صورت سے تیری بڑھ کر بسیرت میں دل رہائی میں ہوں شکستہ خاطر ، اور تو ہے مومیائی مجھ کو نہ چین تجھ بن ، بے میرے سکھ نہ تجھ کو میں تیرے غم کا دارو ، تو میری ہے دوائی شرمندہ ہوں میں تجھ سے، مجھ سے نہیں نجل تو مجھ میں رہی کدورت ، تجھ میں رہی صفائی تو نے کرم کیا ہے، میرے ستم کے بدلے دیکھی نہ میں نے تجھ سے،اک ذرہ بے وفائی تو لعلِ بے بہا ہے ، انمول ہے تو موتی ہے نقش میرے دل پر ، بس تیری پارسائی میں نے نہ قد ر تیری ، پہچانی ایک ذرہ ہیرے کو میں ہوں سمجھا ، افسوس ایک پائی

Page 13

سیرت حضرت سید بیگم، نانی اماں جان صاحبہ 10 خاطر سے تو نے میری، کنبہ کو اپنے چھوڑا جنگل میں ساتھ میرے پیارے وطن سے آئی تھی ناز کی پلی تو ، اور میں غریب گھر کا تو نے ہر اک مصیبت گھر میں میرے اٹھائی محنت کا تیری ثمرہ ، اللہ تجھ کو بخشے چولھے میں سرکھپایا ، بچوں یہ جان کھپائی دیکھ سکھ میں ساتھ میرا ، تو نے کبھی نہ چھوڑا خود ہو گئی مقابل ، جب غم کی فوج آئی دنیا کے رنج وغم کو، ہنس ہنس کے تو نے کا نا اللہ رے تیری ہمت ، بل بے تیری سمائی بچوں کو تو سلاتی ، اور آپ جاگتی تھی سو با رموت گو میں ، تو رات کو نہائی بچوں کے پالنے میں ،لاکھوں اٹھائےصدمے جب تک یہ سلسلہ تھا ، راحت نہ تو نے پائی ہوتا تھا ایک پیدا ، اور دوسرا گز رتا تھی صابرہ تو ایسی ، ہرگز نہ بلبلا ئی صدمہ کو اپنے دل کے لاقی نہ تو زبان پر

Page 14

سیرت حضرت سید بیگم ، نانی اماں جان صاحبہ 11 جہاں کی طرح سے دیتی ، ہرگز نہ تو دہائی تنگی میں عمر کائی ، بچوں کو خوب پالا شکوہ نہ تختیوں کا ، لب پر کبھی تو لائی دکھ درد اپنے دل کا ، تو نے کیا نہ افشا غیروں سے تو چھپاتی ، ہوتی اگر لڑائی جو میں نے تجھ کو بخشا، تو نے لیا خوشی سے مانگی نہ تو نے مجھ سے ، ساری کبھی کمائی و هو کہ دیا نہ ہرگز ، بولی نہ جھوٹ گا ہے مجھ سے نہ بات کوئی ، تو نے بھی چھپائی تھی جتنی تجھ میں طاقت کی تو نے میری خدمت خود کھا یا روکھا سوکھا ، نعمت مجھے کھلائی عیبوں کو تو نے میرے ، اغیار سے چھپایا تھا تیرے بس میں جتنا ، عزت میری بنائی صدمہ سے میرے صدمہ ، تجھ کو ہوا ہمیشہ جب شاد مجھ کو پایا ، تو نے خوشی منائی تھی میرے دشمنوں کی تو ، جان و دل سے دشمن اور میرے دوستوں سے ، تیری رہی صفائی

Page 15

سیرت حضرت سید بیگم، نانی اماں جان صاحبہ 12 جو کچھ تھا میرا مذ ہب ،تھاوہی تیرا مشرب تھی تیرے دل میں الفت ، ایسی میری سمائی مجھ پر کیا تصدق ، جو تیرے پاس تھا زر یاں تک کہ پاس تیرے، باقی رہی نہ پائی کرتا ہوں شکر حق کا ، جس نے تجھے ملایا اور میری تیری قسمت ، آپس میں یوں ملائی ہو تجھ پر حق کی رحمت ، تجھ کو عطا ہو جنت اور میری تیری اک دم، ہو دے نہ واں جدائی آرام تجھ کو دیوے ، فضل و کرم سے مولی ہر رنج و غم سے بخشے ، مالک تجھے رہائی ہرگز نہ تو دیکھی ہو ، ہر وقت تو سکھی ہو بچوں کا عیش دیکھے ، تو اور تیری جائی فضل خدا کی بارش ، دن رات تجھ پہ بر سے پانی میں مغفرت کے ، ہر دم رہے نہائی دولت ہو تجھ سے ہمدم، عزت ہو ساتھ تیرے اولا د میں ہو برکت ، کہلائے سب کی مائی

Page 16

سیرت حضرت سید بیگم، نانی اماں جان صاحبہ 13 تیرا نہیں ہے ثانی ، لاکھوں کی تو ہے نانی عیسی سے کر کے رشتہ ، دولت یہ تو نے پائی اسلام پر جئیں ہم، ایمان سے مریں ہم ہر دم خدا کے در کی ، حاصل ہو جبہ سائی جب وقت موت آوے، بے خوف ہم سدھاریں دل پر نہ ہو ہمارے اندوہ ایک رائی مہدی کے مقبرہ میں ہم ، پاس پاس سوئیں دنیا کی کشمکش سے ، ہم کو ملے رہا ئی (8) 66 ”ماں کے قدموں تلے جنت ہے گو یا والدہ کی صحیح تربیت ہی بچہ کے لئے دنیاوی اور اُخروی زندگی کے جنت کے دروازے کھولتی ہے اور حضرت سید بیگم صاحبہ بلا شبہ وہ عظیم ماں تھیں جن کی پرورش اور تعلیم و تربیت سے اُن کی مبارک نسل کے لئے جنت کے دروازے کھل گئے.اب ہم نانی اماں کی مبشر اولاد کا مختصر ذکر کرتے ہیں سب سے پہلے ہم آپ کی بلند اقبال بیٹی سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کا ذکر کرتے ہیں صلى الله جن کی پیدائش کی دنیا صدیوں سے منتظر تھی.آپ حضرت رسول کریم علی ہے کی پیش گوئیوں کے مطابق اس دنیا میں آئیں اور مومنوں کی ماں کہلائیں.حضرت سید ہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کی پیدائش 1865ء میں دہلی

Page 17

سیرت حضرت سید بیگم، نانی اماں جان صاحبہ 14 میں ہوئی.اُس وقت آپ کے والد میر ناصر نواب صاحب کو کئی مشکلات کا سامنا تھا اور نوکری بھی نہ تھی.آپ کی پیدائش بہت سی برکات کا موجب ہوئی تنگی حالات فراخی میں بدل گئے.ناکامیاں کامیابیوں میں تبدیل ہو گئیں اور خدا کے فضلوں کے دروازے حضرت سید بیگم صاحبہ اور اُن کے شوہر میر ناصر نواب صاحب پر کھل گئے.(9) حضرت سید بیگم صاحبہ کو اللہ تعالیٰ نے اولاد میں حضرت سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کے علاوہ دو بیٹوں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب اور حضرت میر محمد اسحق صاحب سے بھی نوازا.آپ کو اپنی اولا د سے بہت محبت تھی.ذیل کے ایک واقعہ سے ہمیں اس کا پتہ چلتا ہے.ایک دفعہ حضرت میر محمد الحق صاحب سخت بیمار ہو گئے.ان ایام میں حضرت میر ناصر نواب صاحب حضرت شیخ عرفانی کبیر سے کچھ ناراض ہو گئے تھے اور دونوں الگ الگ تھے.کسی نے اس واقعہ کا ذکر نانی اماں سے کر دیا.ان کو خیال گزرا کہ کہیں شیخ عرفانی کبیر صاحب نے کوئی بددعا ہی نہ کر دی ہو جس کی وجہ سے میرا لخت جگر میرا بچہ بیمار ہو گیا اور اس قدر تکلیف اُٹھا رہا ہے.وہ فوراً شیخ صاحب کے مکان پر گئیں اور گلی میں ڈیوڑھی کے دروازے پر جا کر بیٹھ گئیں اور کسی کو کہا شیخ صاحب کو اطلاع کر دو کہ نانی اماں آئی ہیں.

Page 18

سیرت حضرت سید بیگم، نانی اماں جان صاحبہ 15 شیخ صاحب اسی وقت دوڑے ہوئے آئے نانی اماں کو یوں دروازے پر بیٹھے دیکھ کر گھبرائے.قبل اس کے کہ ان کی سنیں انہوں نے نانی اماں کی اس حالت کو دیکھ کر اپنی پریشانی اور معذرت کا سلسلہ شروع کر دیا آپ نے مجھے بلا لیا ہوتا.آپ نے یہ تکلیف کیوں کی آپ یہاں کیوں بیٹھی ہیں اس قسم کی بہت سی باتیں کہہ ڈالیں نانی اماں نے میر صاحب کی طرف سے معذرت کی اور میر محمد اسحق صاحب کی تکلیف کا ذکر رقت آمیز لہجے میں کر کے کہا کہ آپکا دل دکھا مجھ کو ڈر ہے کہ کہیں آپ نے کوئی بد دعا ہی نہ کی ہو.شیخ صاحب نے ان کو یقین دلایا کہ میں تو ان کی نار اختگی کا کبھی خیال نہیں کرتا وہ ہمارے فائدے کے لئے کہتے ہیں اور میں آپ کی اولاد کے لئے کیوں بد دعا کرنے لگا.جب ان کو یقین آیا اور ان کو تسلی ہوئی تو واپس ہوئیں اس واقعہ سے ان کی اولاد سے شفقت کا پتہ چلتا ہے.(10) آنحضرت نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئیں گے اور خدائی حکم کے تحت شادی کریں گے.اور اس شادی سے ایسی اولاد پیدا ہوگی جن کے وجود سے دین حق کو بڑی تقویت ملے گی.رسول کریم ﷺ نے فرمایا: يَتَزَوَّجُ وَيُولَدُلَهُ اس پیشگوئی میں جس شادی کی طرف اشارہ ہے وہ حضرت مرزا

Page 19

سیرت حضرت سید بیگم، نانی اماں جان صاحبہ 16 غلام احمد مسیح و مہدی علیہ اسلام اور حضرت نانی اماں کی نیک بخت دختر حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کی ہے.اس پیشگوئی میں خواجہ محمد ناصر صاحب کو کہا گیا تھا کہ اس نور کی روشنی جو تم کو دی گئی مسیح موعود علیہ السلام کے نور میں گم ہو جائے گی.حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کی شادی خدا تعالیٰ کی خاص حکمت سے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہوئی.اس شادی کے بارہ میں حضرت نانی اماں صاحبہ کی روایات حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی زبانی سنتے ہیں:.ایک خط میر صاحب نے تمہارے ابا ( مسیح موعود علیہ السلام ) کے نام لکھا کہ مجھے اپنی لڑکی کے واسطے بہت فکر ہے آپ دعا کریں کہ خدا کسی نیک آدمی سے تعلق کی صورت پیدا کر دے تمہارے ابا نے جواب میں لکھا اگر آپ پسند کریں تو میں خود شادی کرنا چاہتا ہوں اور آپ کو معلوم ہے گو میری پہلی بیوی موجود ہے اور بچے بھی ہیں.میر ناصر نواب صاحب نے اس ڈر کی وجہ سے کہ میں بُرا مانوں گی مجھ سے اس خط کا ذکر نہیں کیا اور اس عرصہ میں اور بھی کئی جگہ سے تمہاری اماں ( سیدہ نصرت جہاں صاحبہ ) کے لئے پیغام آئے لیکن میری کسی جگہ تسلی نہ ہوئی حالانکہ پیغام دینے والوں میں سے بعض اچھے اچھے معقول

Page 20

سیرت حضرت سید بیگم، نانی اماں جان صاحبہ 17 آدمی بھی تھے.اور بہت اصرار کے ساتھ درخواست کرتے.مولوی محمد حسین بٹالوی کے ساتھ تمہارے نانا ( میر ناصر نواب) کے بہت تعلقات تھے انہوں نے کئی دفعہ تمہارے ابا کے لئے سفارشی خط لکھا اور بہت زور دیا کہ مرزا صاحب بہت نیک اور شریف اور خاندانی آدمی ہیں مگر میری یہاں بھی تسلی نہ ہوئی کیونکہ ایک تو عمر کا بہت فرق تھا دوسرے ان دنوں دہلی والوں میں پنجابیوں کے خلاف بہت تعصب ہوتا تھا.بالآخر ایک دن میر ناصر نواب صاحب نے لدھیانہ کے ایک باشندے کے متعلق کہا کہ اس کی طرف سے بہت اصرار کی درخواست ہے اور ہے بھی وہ اچھا آدمی اسے رشتہ دے دومیں نے اس کی ذات وغیرہ دریافت کی تو مجھے شرح صدر نہ ہوا اور میں نے انکار کیا جس پر میر ناصر نواب صاحب نے کچھ ناراض ہو کر کہا کہ لڑکی اٹھارہ سال کی ہو گئی ہے کیا ساری عمر ا سے یونہی بٹھا چھوڑ وگی.میں نے جواب دیا کہ ان لوگوں سے تو پھر غلام احمد ہی ہزار درجہ اچھا ہے.میر ناصر نواب صاحب نے جھٹ ایک خط نکال کر میرے سامنے رکھدیا کہ لو پھر میرزا غلام احمد کا بھی مخط آیا ہوا ہے جو کچھ بھی ہو ہمیں اب جلد فیصلہ کرنا چاہیئے میں نے کہا اچھا پھر غلام احمد کولکھ دو چنا نچہ تمہارے نانا جان نے اسی وقت قلم دوات لے کر خط لکھ دیا.(11)

Page 21

سیرت حضرت سید بیگم، نانی اماں جان صاحبہ 18 خدا تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کو جس میٹر اولاد سے نوازا گیا وہ یہ ہیں:.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب حضرت صاحبزادی نواب مبار که بیگم صاحبہ حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہ نماز کو اولین وقت میں ادا کرنے کی عادی تھیں.تلاوت قرآن کریم سے آپ کو عشق تھا.غریبوں اور ضرورت مندوں کا بہت خیال رکھتیں اور ان کی مددفرماتیں.یہ حضرت نانی اماں کی نیک تربیت ہی کا نتیجہ تھا کہ آپ کی ساری اولاد ہونہار اور دینی و دنیوی وجاہت کی مالک ہوئی.آپ کے سب بچے علم و معرفت میں کمال رکھتے تھے اور سلسلہ احمدیہ کے دیرینہ خادم رہے.حضرت میر محمد اسماعیل صاحب اپنی عظیم بہن سے سولہ برس چھوٹے تھے.آپ پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو روحانی اور جسمانی دونوں گر سکھائے اور آپ کے ہاتھ میں شفا عطا کی تھی.آپ بلند پایہ شاعر اور کئی کتب کے مصنف بھی تھے.مضامین اور نظموں میں آپ

Page 22

سیرت حضرت سید بیگم، نانی اماں جان صاحبہ 19 کی محبت الہی ، عشق رسول علی ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت اور خلافت سے گہرا تعلق نظر آتا ہے.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت قریب سے دیکھا اور آپ علیہ السلام کے گھر میں رہے.اور اللہ تعالیٰ کی بہت سی پیشگوئیاں پوری ہوتے دیکھیں.مشہور نظم عليك الصلوة عليك السلام ، اور كتاب کر نہ کر کے مصنف بھی آپ ہی ہیں.نثر میں کئی کتب کے علاوہ آپ کا شعری مجموعہ بخار دل، جماعت میں معروف و مقبول ہے.حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحب حرم حضرت مصلح موعود خلیفہ اسی الثانی، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بہو، حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کے بڑے بھائی حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی بڑی صاحبزادی تھیں.حضرت سید میر محمد اسحاق صاحب بھی حضرت میر ناصر نواب صاحب کے بیٹے اور حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ اور حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کے چھوٹے بھائی تھے.آپ نے مختلف عہدوں پر رہتے ہوئے جماعت کی خدمت کی.جس محکمے میں آپ کا تقرر ہوتا آپ اس میں ایک نئی زندگی پیدا کر دیتے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو اعلیٰ انتظامی صلاحیتیں دی تھیں.آپ بہت محنتی تھے اور وقت کی بہت پابندی فرماتے آپ ایک مثالی واقف زندگی تھے.

Page 23

سیرت حضرت سید بیگم ، نانی اماں جان صاحبہ 20 حضرت میر محمد اسحاق صاحب کا درس حدیث بہت مشہور تھا.جس سے عشق رسول مہ جھلکتا تھا.حدیث کے بیان کے وقت وہ سراپا گداز ہوتے.آپ کے درس میں ایسا سماں بندھ جاتا گویا سننے والا حضور اللہ کی محفل میں بیٹھا ہو.آپ نے ساری زندگی طلباء ، تمامی اور غرباء کی خدمت اور تربیت میں گزار دی.حضرت نانی اماں حضرت میر ناصر صاحب کی وفات کے بعد تقریباً آٹھ سال زندور ہیں.آخر وقت تک وہ چلتی پھرتی تھیں، عینک لگا کر پڑھ بھی لیتی تھیں انہوں نے سلسلہ کی ابتدائی حالت بھی دیکھی اور ترقی اور عروج بھی دیکھا ، انہوں نے صد با نشانات اپنی آنکھوں سے پورے ہوتے دیکھے.قادیان کو گمنام بستی سے شہرہ آفاق شہر بنتے بھی دیکھا.آپ نے 23, 24 نومبر 1932 ء کی درمیانی رات تقریبا 15 سال کی عمر میں وفات پائی.حضرت نانی اماں نے اپنی تمام زندگی تقوی، طہارت اور پاکیزگی سے گذاری اور وفات سے قبل ایک بڑی جماعت اپنی نسل در نسل لوگوں کی چھوڑی جوسب کے سب باخدا اور متقی اور پر ہیز گار ہیں.ایک بڑی جماعت نے آپ کا جنازہ پڑھا اور آپ بہشتی مقبرہ قادیان میں چار دیواری کے اندر اپنے داماد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں کی طرف اپنے شوہر حضرت میر ناصر صاحب کے پہلو میں دفن ہوئیں.

Page 24

سیرت حضرت سید بیگم، نانی اماں جان صاحبہ 21 حضرت میر ناصر صاحب نے نظم 'حرم محترم میں تین اشعار ایسے کہے جو لفظ بلفظ پورے ہو کر رہے.اسلام پر جئیں ہم ، ایمان سے مریں ہم ہر دم خدا کے در کی ، حاصل ہو جبہ سائی جب وقت موت آوے، بے خوف ہم سدھاریں دل پر نہ ہو ہمارے ، اندوہ ایک رائی مہدی کے مقبرہ میں ہم ، پاس پاس سوئیں دنیا کی کشمکش سے ، ہم کو ملے رہائی یہ دعا ایسی پوری ہوئی کہ اب دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ یہ خوش قسمت جوڑا جس طرح دنیا میں اکٹھا رہا اسی طرح مرنے کے بعد بھی اکٹھا نظر آ رہا ہے.(12) خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی بزرگوں کی نیکیوں کو اپنانے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے تا کہ ہم سہی معنوں میں ان کی دعاؤں کے وارث بنیں.(آمین)

Page 25

سیرت حضرت سید بیگم، نانی اماں جان صاحبہ 22 -1 -2 -3 -4 -5 حوالہ جات سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ صفحہ 174-175 سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ صفحہ 173 سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ صفحہ 174 سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ صفحہ 118 سیرت حضرت سید ہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ صفحہ 175 6.سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ صفحه 130 سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ صفحہ 131-132 سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ صفحہ 177-176 سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ صفحہ 194 -7 _8 10.سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ صفحہ 178-177 11.سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ صفحه 208 12.سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ صفحہ 178-179

Page 26

حضرت سید بیگم صاحبہ نانی اماں (Hadhrat Sayyad Begum Sahiba Nani Amman') Urdu Published in UK in 2008 O Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom.Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.

Page 26