Language: UR
اس کتا ب میں مصنفہ نے نماز کے موضوع پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ارشادات، تحریرات اور نصائح کو از حد گہرائی میں جاکر نہایت کوشش سے جمع کیا ہے اور پھر ان اقتباسات کو عناوین کے تحت کتابی شکل دی گئی ہے۔
اَلصَّلوة مُخُ الْعِبَادَة نماز عبادت کا مغز ہے)
1 الصَّلواةُ مُخُ الْعِبَادَة (نماز عبادت کا مغز ہے) بنت معين
نام کتاب الصلوة شیخ العباده
2 حدیث مبارکہ حضرت جریر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت نے کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے تو آپ ﷺ نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھا اور فرمایا تم اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جیسے اب تم چاند کو دیکھ رہے ہو اور تمہیں اس بارہ میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں لہذا تم صبح اور عصر کی نماز میں کوتاہی نہ کرو.(یعنی اگر تم اپنے رب کا دیدار بغیر کسی روک ٹوک کے کرنا چاہتے ہو تو صبح اور عصر کی نماز میں سستی ہرگز نہ کرو.) صحیح مسلم کتاب الصلوة !
3 ارشاد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام --- مكاني و الصَّالِحُون الحواني وذكر الله مالى و خَلْقُ اللهِ عَيَا لِي آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اوائل ہی سے بیت الزکر میرا مکان صالحین میرے بھائی یاد الہی میری دولت ہے اور مخلوق خدا میرا عیال اور خاندان ہے.تاریخ احمدیت جلد اوّل ، ص 53)
4 پیش لفظ اللہ تبارک تعالیٰ کے فضل و احسان اور خلفائے کرام کی دعا ؤں سے لجنہ اماء اللہ صد سالہ جشن تشکر کے سلسلے میں کم از کم سو کتب کی اشاعت کے پروگرام پر استقامت سے سرگرم عمل ہے.زیر نظر کتاب الصلواة مخ العباده - نماز عبادت کا مغز ہے، اس سلسلے کی بانوے ویں کڑی ہے.فــا الـحـمـد لله على ذالك
5
6 عرض حال حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: اس میں کچھ شک نہیں کہ خدا تعالیٰ کی راہ بہت دشوار گزار ہے اور یہ بالکل سچ ہے کہ جب تک انسان خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی کھال اپنے ہاتھ سے نہ اُتارے تب تک وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں مقبول نہیں ہوتا“.( ملفوظات جلد 7 ، ص 29) حضرت خلیفه لمسیح الثانی نے پابندی نماز کے بارے میں خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: " تم شجرہ طیبہ بنو ! تم وہ درخت بنو جو نہ صرف خوش شکل ہو بلکہ خوشبودار بھی ہو....پس چاہئے کہ تمہاری نمازیں ایسی خوشبودار ہوں، صدقہ و خیرات ایسا خوشبودار ہو کہ خود بخود دوسرے لوگ متاثر ہوتے چلے جائیں.جب تمہارے اندر یہ خوشبو پیدا ہو جائے گی تو نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ بھاگ بھاگ کر تمہاری طرف آئیں گے اور تم لوگوں کو احمدیت کی طرف کھینچنے کا ذریعہ بن جاؤ گی.(الازهار لِذَوَاتِ الخمار حصّہ اوّل، ص 359)
7 حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا : ”اگر تم یہ خیال کرتے ہو کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے سے تم آسمان پر نجات یافتہ لکھے جاؤ گے تو یہ خیال غلط ہے.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جب تک زمین پر تم خدا کی عبادت کو قائم نہیں کرو گے آسمان پر تم نجات یافتہ نہیں لکھے جاؤ گے اس لیے زمین پر عبادتوں کو قائم کرو.(خطبہ جمعہ 17 جون 1988ء، از المفضل 19 اپریل 2004 ) حضرت خلیفۃ اصیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر و العزيز فرماتے ہیں: نمازیں نیکی کا بیج ہیں پس نیکی کے اس پیج کو ہمیں اپنے دلوں میں اس حفاظت سے لگانا ہوگا اور اس کی پرورش کرنی ہوگی کہ کوئی موسمی اثر اس کو ضائع نہ کر سکے.اگر ان نمازوں کی حفاظت نہ کی تو جس طرح کھیت کی جڑی بوٹیاں فصل کو دبا دیتی ہیں یہ بدیاں بھی پھر نیکیوں کو دبا دیں گی.پس ہمارا کام یہ ہے کہ اپنی نمازوں کی اس طرح حفاظت کریں اور انہیں مضبوط جڑوں پر قائم کر دیں کہ پھر یہ شجر سایہ دار بن کر ایسا درخت بن کر جو سایہ دار بھی ہو اور پھل پھول بھی دیتا ہو ، ہر برائی سے ہماری حفاظت کرے.پس پہلے نمازوں کے قیام کی کوشش ہوگی.پھر نمازیں ہمیں نیکیوں پر قائم کرنے کا ذریعہ بنیں
8 گی.اور حضرت مسیح موعود نے ایک احمدی کی شناخت یہی بتائی ہے.(خطبہ جمعہ حضرت خلیفہ امسح الخامس فرمودہ 15 فروری 2008) یہ کتاب میں اپنے والد مرحوم میرم پیر معین الدین صاحب کے نام کرتی ہوں جنہیں ایک لگن تھی کہ اُن کی اولاد علمی میدان میں آگے آئے.وہ ہر چند ہمیں شوق دلاتے اور جب بھی سلسلہ کی کوئی کتاب چھپتی تو ہمیں خرید کر ضرور بھجواتے تاکہ مطالعہ کا شوق بڑھتا رہے.انھوں نے ہی مجھے توجہ دلائی کہ تم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حسین الفاظ جو انھوں نے نماز کے بارے میں فرمائے اکٹھے کرو.سو یہ کام میں نے شروع کیا اور کوشش کی کہ آپ کی تحریر میں سے اس موضوع پر کوئی بات رہ نہ جائے.آپ کی تحریر کا ایک ایک لفظ اس قدر پرکشش ہے اور دل موہ لینے والا ہے کہ ایک لائن بھی چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا مگر کتاب کی طوالت کے باعث کچھ اقتباسات کو مکمل طور پر درج نہیں کر سکی.خدا کرے کہ اس کتاب کو پڑھ کر مجھ میں بھی اور ہر پڑھنے والے میں بھی ایک خوبصورت تبدیلی رونما ہو اور نماز کا ذوق اور لطف دوبالا ہو جائے اور ہم میں سے ہر ایک حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور اُن کے تمام خلفاء کی اُمیدوں پر پورا
9 اُترنے والا ہو.کتاب کا نام مُخُ الْعِبَادَة بھی میرے والد صاحب نے ہی تجویز کیا تھا.اُن کے لیے دُعا کی درخواست ہے کہ خدا تعالیٰ انھیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دیے اور اُن کی اولا د کو دین کا سچا خادم بنادے کہ یہی اُن کی خواہش تھی.حدیث نبوی ہے کہ ”مــن لـــم يـشـكــــر الـنـاس لا يشكر الله یعنی جو بندوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ خدا کا بھی شکر گزار نہیں ہوتا.سو اس کتاب کے لکھنے میں مجھے کی بے حد مددی خدا تعالیٰ ان تینوں کو بے حد جزاء سے نوازے اور ہمیشہ خوش و خرم اور دین کی خدمت کرنے والی زندگیاں عطا فرمائے.کو بھی دُعاؤں میں یاد رھیں جنہوں نے پروف ریڈنگ میں بہت مدد کی.دُعاؤں کی طلب گار
10 نمبر شمار 1 2 1 2 نماز کیا ہے؟ مندرجات باب 1 نماز دراصل رب العزۃ سے دُعا ہے باب II نماز کی حقیقت اور غرض و غایت نماز اصل میں دُعا ہے باب III صفحہ نمبر 19 22 23 27 29 22 32 40 2333227 34 35 38 39 39 40 41 42 43 45 باب IV حقیقی نماز ستچی نماز نماز پڑھنے کا طریق ارکان نماز کی حقیقت فضائل نماز 1 2 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 عبودیت و ربوبیت کا تعلق سچا ایمان نمازوں کو باقاعدہ التزام سے پڑھو نماز کے لیے طبعی جوش اور ذاتی محبت پابندی نماز شی نماز ایماندار ہونے کی علامت ہے صحابہ کرام کی نمازیں نماز کو سنوار کر ادا کرو نمازوں کو خوف اور حضور سے ادا کرو
11 نماز سے متعلق اہم امور مندرجات صفحہ نمبر 46 47 50 باب V اوقات نماز اور ان کی حکمت پنجگانہ نمازوں کی حکمت نماز کے اوقات روحانی حالتوں کی ایک عکسی تصویر ہے 54 باب VI نماز کا فائدہ نمازی کو ہے خدا تو بے نیاز ہے 51 57 60 60 63 229 65 66 67 69 70 71 74 75 76 77 باب VII نماز کی اہمیت باب VIII انسانی پیدائش کی غرض باب IX حقیقی نماز کے فوائد برکات نماز کا حصول نماز خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ ہے نماز پروردگار تک لے جانے والی سواری ہے قبولیت دعا کی کنجی برائیوں سے بچنے کے واسطے خدا تعالیٰ سے دُعا کرو خدائے پاک کو پانے کا طریق پنجوقتہ نماز میں چار کمالات کے حصول کی دُعا نفلی نمازیں اور خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق نوافل کی حقیقت نمبر شمار 13 1 2 3 1 1 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10
صفحہ نمبر 78 80 888 82 85 81 86 88 89 90 91 92 93 95 95 97 99 22222 102 12 مندرجات خوش قسمت بننے کا طریق نماز قضاء و قدر بھی حق ہے اور دُعا کا فائدہ بھی حق باب X نماز اصل میں دُعا کے لیے ہے نماز کو رسم اور عادت کے رنگ میں پڑھنا مفید نہیں رسم اور چیز ہے اور صلوٰۃ اور چیز سورۃ الفاتحہ اور نماز باب XI سورۃ الفاتحہ کا نماز میں پڑھنا لازمی ہے دُعا میں سورۃ الفاتحہ کے تکرار کا اثر سورۃ الفاتحہ ایک غیر محدود دُعا فاتحہ کی سات آیات کی حکمت سورۃ فاتحہ کی جامع تفسیر اقامت صلوة تقویٰ کے تین مراتب نماز میں سوزش نماز میں وساوس کا علاج ا قامت صلوۃ سے اگلا درجہ باب XII باب XIII عبودیت اور ربوبیت کے رشتہ کی حقیقت نمبر شمار 11 12 1 2 3 1 2 3 4 5 6 1 2 3 4 5 1
13 غیر اللہ کیطرف رجوع نماز بہترین معلم ہے مندرجات خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کا تعلق قائم کرو اصل نماز وہ ہے جس میں خدا کو دیکھتا ہے نماز بھی وہی پڑھتا ہے جس کو خدا تعالی نماز پڑھاوے صفحہ نمبر 105 108 109 110 111 113 114 117 باب XIV بہترین وظیفہ ایک سوال کا جواب نماز تعویذ ہے باب XV نماز کا خلاصہ مقصود زندگی یادِ خدا ہے سب سے افضل عبادت باب XVI عبادات میں جسم اور روح کی شمولیت ضروری ہے 118 119 122 124 نماز میں جسمانی حالتوں کا اثر روحانی حالت پر پڑتا ہے 127 باب XVII 129 130 133 نماز میں لذت نہ آنے کی وجہ نماز میں لذت نہ آنے کا علاج نماز میں لذت حاصل کرنے کے لیے کثرت نماز ، دُعا کی ضرورت ہے نمبر شمار 2 3 4 5 6 1 2 3 1 2 3 1 2 1 2 3
14 نمبر شمار 4 5 6 7 8 9 10 1 2 3 4 5 6 7 8 9 مندرجات نماز میں لذت اور ذوق حاصل کرنے کی دُعا نماز کی لذت اور سُرور عبادت ٹیکس نہیں ہے نماز کا مغز دُعا ہے نماز میں وساوس پیدا ہونے کی وجہ نماز میں بے حضوری کا علاج نماز میں حضور اور لذت پیدا کرنے کا طریق باب XVIII عبادات میں لذت اور راحت عبادات میں تکلیف برداشت کرنے کی حقیقت مقام صالحیت نماز میں لذت کے حصول کی شرائط نماز اور استغفار دل کی غفلت کا علاج ہیں نماز میں سستی دور کرنے کا علاج استغفار.قبض کا علاج قبض و بسط معرفتِ الہی سے نماز میں ذوق پیدا ہوتا ہے صفحہ نمبر 135 136 138 138 142 144 144 146 147 149 150 151 152 153 154 155 10 زاہدانہ زندگی کا معیار نماز ہے اور نماز میں دُعا اور تضرع کا 157 قاعده 158 159 رقت کی لذت خلوت میں عبادت اور دُعا کا لطف 11 12
15 مندرجات باب XIX مجرد خشوع و گریہ و زاری تعلق باللہ کی علامت نہیں خشوع کی حالت اُسوقت تک خطرہ سے خالی نہیں جب تک رحیم خدا سے تعلق نہ پکڑے لغویات سے کنارہ کشی تعلق باللہ پر دلیل ہے توحید کے عملی اقرار کا نام ہی نماز ہے نماز تدبر سے پڑھو خدا کی محبت کی یاد کا دوسرا نام نماز ہے ایمان کی جڑ نماز ہے کاملین کا نمونہ باب XX نماز بھی اضطرابی حالت کو ظاہر کرتی ہے صلوۃ اور دُعا میں فرق صفحہ نمبر 160 161 163 165 166 168 174 175 176 177 178 نماز گناہوں سے بچنے کا آلہ ہے نماز یا دُعا کو ایک کار ثواب سے زیادہ نہ سمجھنا غلطی ہے 179 رياء وضو اور نمازی سعادتوں کی کنجی سچی محبت نماز کی روزہ پر فضیلت 180 181 182 183 183 نمبر شمار 1 2 3 4 5 6 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11
16 دعا کے آداب نماز اور دُعا کا حق مندرجات باب XXI عاجزی دعا کے لوازمات گریه و زاری باب XXII صفحہ نمبر 184 187 189 191 192 نماز عربی زبان میں پڑھنی چاہیے 194 عربی کے بجائے اپنی زبان میں نماز پڑھنا درست نہیں 194 باب XXIII اپنی زبان میں دُعا اپنی زبان میں دُعا کرنے کی حکمت دعاؤں کی اہمیت 196 202 203 205 207 مادری زبان میں نماز اور دُعائیں دُعا میں صرف عربی زبان کے پابند نہ رہو مسنون ادعیہ کے علاوہ باقی دُعا ئیں اپنی زبان میں پڑھو 208 نماز کو صرف جنتر منتر کی طرح نہ پڑھو نماز کے اندر ہر موقع پر دعا کی جاسکتی ہے 209 212 213 214 215 دُعا سے خالی نماز نماز کے بعد دعا جماعت کو نصیحت نمبر شمار 1' 2 3 4 5 1 2 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11
نمبر شمار 1 2 3 4 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 17 مندرجات دوسرا حصہ راحه مسائل فقہ صفحہ نمبر سفر کی تعریف سفر میں نمازوں کا قصر مرکز میں نمازوں کا قصر مسیح موعود کی خاطر نمازیں جمع کیے جانے کی پیشگوئی مسیح موعود کے لیے نمازیں جمع کی جائیں گی مسیح موعود کے ساتھ جلالی و جمالی اجتماع وابستہ ہیں نماز کا اخلاص سے تعلق غیروں کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کی حکمت غیروں کے پیچھے نماز غیروں کی مساجد میں نماز مخالف سے حسن معاشرت مصدق کے پیچھے نماز نماز باجماعت کی اہمیت فاتحہ خلف الامام اذان کے وقت کوئی اور نیکی کا کام کرنا 218 219 220 222 223 225 231 231 232 238 238 239 240 241 243 پیشہ ور نماز پڑھانے والے کے پیچھے نماز درست نہیں 243 تنخواہ دار امام الصلوة نماز جمعہ کے لیے تین آدمی ہونا ضروری ہیں احتیاطی نماز تصویر اور نماز 243 244 245 245
18 نمبر شمار 21 24 مندرجات التحیات میں انگشت سبابہ اُٹھانے کی حکمت کیپا کسی مقام پر نماز ساقط ہو جاتی ہے چچنی کی مسجد میں نماز حق کی چارہ جوئی صفحہ نمبر قضاء عمری رفع یدین وثر نماز کے بارے میں چند فقہی مسائل نماز ظہر کے بارے میں حضور کا طریق کسی اہم کام کے لیے نماز توڑنا نماز میں امام ایک مسجد میں دو جمعے معی سے امام سے پہلے سلام پھیر دیا 28 29 30 31 34 35 38 39 40 41 42 43 222222222222373673223F F F 25 44 قضاء نماز تعداد رکعات نماز کے بعد تسبیح تہجد کی نماز کا طریق تہجد کی تاکید نماز کے آخر میں السلام علیکم کہنے کی حکمت نماز تراویح امام الصلوۃ کے لیے ہدایت قیام کی حالت میں حسنات دارین کی دعا بہترین دعا مساجد کی اصل زینت 246 247 248 248 249 249 251 251 253 253 255 255 256 257 258 259 261 262 263 264 265 265 266 266
19 نماز کیا ہے؟.باب 1 یہی کہ اپنے عجز و نیاز اور کمزوریوں کو خدا کے سامنے پیش کرنا نماز ہر ایک مسلمان پر فرض ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے پاس ایک قوم اسلام لائی اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ہمیں نماز معاف فرما دی جاوے کیونکہ ہم کاروباری آدمی ہیں مویشی وغیرہ کے سبب سے کپڑوں کا کوئی اعتماد نہیں ہوتا اور نہ ہمیں فرصت ہوتی ہے تو آپ نے اُس کے جواب میں فرمایا کہ دیکھو کہ جب نماز نہیں تو ہے ہی کیا؟ وہ دین ہی نہیں جس میں نماز نہیں.نماز کیا ہے؟ یہی کہ اپنے عجز و نیاز اور کمزوریوں کو خدا کے سامنے پیش کرنا اور اُسی سے اپنی حاجت روائی چاہنا.کبھی اُس کی عظمت اور اُس کے احکام کی بجا آوری کے واسطے دست بستہ کھڑا ہونا اور بھی کمال مذلت اور فروتنی سے اُس کے آگے سجدہ میں گر جانا اُس سے اپنی حاجات کا مانگنا یہی نماز ہے.ایک سائل کی طرح کبھی اُس مسئول کی.
20 تعریف کرنا کہ تو ایسا ہے تو ایسا ہے، اُس کی عظمت اور جلال کا اظہار کر کے اُس کی رحمت کو جنبش دلانا اور پھر اس سے مانگنا.پس جس دین میں یہ نہیں وہ دین ہی کیا ہے.انسان ہر وقت محتاج ہے کہ اُس سے اس کی رضا کی را ہیں مانگتا رہے اور اس کے فضل کا اُسی سے خواستگار ہو کیونکہ اُسی کی دی ہوئی توفیق سے کچھ کیا جاسکتا ہے.اے خدا ! ہم کو توفیق دے کہ ہم تیرے ہوجائیں اور تیری رضا پر کار بند ہو کر تجھے راضی کرلیں خدا کی محبت اسی کا خوف اسی کی یاد دل میں لگا رہنے کا نام نماز ہے اور یہی دین ہے پھر جو شخص نماز ہی سے فراغت حاصل کرنی چاہتا ہے اس نے حیوانوں سے بڑھ کر کیا کیا.وہی کھانا پینا اور حیوانوں کی طرح سو رہنا.یہ تو دین ہرگز نہیں یہ سیرت کفار ہے بلکہ جو دم غافل وہ دم کا فر والی بات بالکل راست اور صحیح ہے.چنانچہ قرآن شریف میں ہے کہ أَذْكُرُونِي أَذْكُرُكُمْ وَاشْكُرُونِي وَلَا تَكْفُرُونَ یعنی اے میرے بندو تم مجھے یاد کیا کرو اور میری یاد میں مصروف رہا کرو میں بھی تم کو نہ بھولوں گا تمہارا خیال رکھوں گا اور میرا شکر کیا کرو میرے انعامات کی قدر کیا کرو اور کفر نہ کیا کرو.اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ذکرِ الہی کے ترک اور اُس سے
21 غفلت کا نام کفر ہے.پس جو دم غافل وہ دم کا فر والی بات صاف ہے.یہ پانچ وقت تو خدا تعالیٰ نے بطور نمونہ کے مقرر فرمائے ہیں ورنہ خدا کی یاد میں تو ہر وقت دل کو لگا رہنا چاہئے اور کبھی کسی وقت بھی غافل نہ ہونا چاہئے.اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے ہر وقت اُسی کی یاد میں غرق ہونا بھی ایک ایسی صفت ہے کہ انسان اس سے انسان کہلانے کا مستحق ہوسکتا ہے اور خدا تعالیٰ پر کسی طرح کی اُمید اور بھروسہ کرنے کا حق رکھ سکتا ہے.اصل میں قاعدہ ہے کہ اگر انسان نے کسی خاص منزل پر پہنچتا ہے اُس کے واسطے چلنے کی ضرورت ہوتی ہے.جتنی لمبی وہ منزل ہوگی اُتنا ہی زیادہ تیزی کوشش اور محنت اور دیر تک اُسے چلنا ہوگا.سوخدا تک پہنچنا بھی تو ایک منزل ہے اور اُس کا بعد اور دوری بھی لمبی.پس جو شخص خدا سے ملنا چاہتا ہے اور اُس کے دربار میں پہونچنے کی خواہش رکھتا ہے.اس کے واسطے نماز ایک گاڑی ہے جس پر سوار ہوکر وہ جلد تر پہنچ سکتا ہے اور جس نے نماز ترک کردی وہ کیا پہنچے گا.( تفسير سورة البقرة ، ص 51 ، 52 ) ( ملفوظات جلد سوم ص 189,188)
22 نماز دراصل رب العزۃ سے دُعا ہے نماز کیا چیز ہے.نماز دراصل رب العزۃ سے دُعا ہے.جس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا اور نہ عافیت اور خوشی کا سامان میل سکتا ہے.جب خدا تعالیٰ اس پر اپنا فضل کرے گا اس وقت اسے حقیقی سرور اور راحت ملے گی.اس وقت سے اس کو نمازوں میں لذت اور ذوق آنے لگے گا جسطرح لذیذ غذاؤں کے کھانے سے مزا آتا ہے اسی طرح پھر گریہ و بکا کی لذت آئے گی اور یہ حالت جو نماز کی ہے پیدا ہو جائے گی.اس سے پہلے ے کڑوی دوا کو کھاتا ہے تاکہ صحت حاصل ہو.اسی طرح بے ذوقی نماز کو پڑھنا اور دُعائیں مانگنا ضروری ہیں.( ملفوظات جلد دوم، ص 615، 616 الحكم جلد نمبر 7 تفسير سورة البقرة)
23 باب II نماز کی حقیقت اور غرض و غایت امراول لا اله الا الله پر سچا ایمان ہے اور اس کے مطابق عمل ہے.(ناقل) دوسرا امر نماز ہے جس کی پابندی کے لیے بار بار قرآن شریف میں کہا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھو کہ اسی قرآن مجید میں ان مصلیوں پر لعنت کی ہے جو نماز کی حقیقت سے ناواقف ہیں اور اپنے بھائیوں سے بخل کرتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ نماز اللہ تعالیٰ کے حضور ایک سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی بدیوں اور بدکاریوں سے محفوظ کر دے.انسان درد اور فرقت میں پڑا ہوا ہے اور چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا قرب اسے حاصل ہو.جس سے وہ اطمینان اور سکینت اُسے ملے جو نجات کا نتیجہ ہے.مگر یہ بات اپنی کسی چالا کی یا خوبی سے نہیں مل سکتی جب تک خدا نہ بلاوے یہ جانہیں سکتا جب تک وہ پاک نہ کرے یہ پاک نہیں ہوسکتا.بہتیرے لوگ اس بات پر گواہ ہیں کہ بارہا یہ جوش طبیعتوں میں پیدا ہوتا ہے کہ فلاں گناہ دور ہو جاوے جس میں
24 وہ مبتلا ہیں لیکن ہزار کوشش کریں دور نہیں ہوتا باوجود یکہ نفس تو امہ ملامت کرتا ہے لیکن پھر بھی لغزش ہو جاتی ہے.اس سے معلوم ہوا کہ گناہ سے پاک کرنا خدا تعالی ہی کا کام ہے.اپنی طاقت سے کوئی نہیں ہوسکتا.ہاں یہ سچ ہے کہ اس کے لیے سعی کرنا ضروری امر ہے.غرض وہ اندر جو گناہوں سے بھرا ہوا ہے اور جو خدا ور جو خدا کی معرفت اور قرب سے دور جاپڑا ہے اس کو پاک کرنے اور دور سے قریب کرنے کے لیے نماز ہے.اس ذریعہ سے ان بدیوں کو دور کیا جاتا ہے اور اس کی بجائے پاک جذبات بھر دیے جاتے ہیں.یہی بستر ہے جو کہا گیا کہ نماز بدیوں کو دور کرتی ہے یا نماز فحشاء یا منکر سے روکتی ہے.پھر نماز کیا ہے ؟ یہ ایک دُعا ہے جس میں پورا درد اور سوزش ہو اسی لیے اس کا نام صلوۃ ہے کیونکہ سوزش اور فرقت اور درد سے طلب کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بد ارادوں اور بُرے جذبات کو اندر سے دور کردے اور پاک محبت اس کی جگہ اپنے فیض عام کے ماتحت پیدا کر دے.صلوۃ کا لفظ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ برے الفاظ اور دُعا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ضروری ہے کہ ایک
25 سوزش، رقت اور درد ساتھ ہو.خدا تعالیٰ کسی دُعا کو نہیں سنتا جب تک دُعا کرنے والا موت تک نہ پہنچ جاوے.دُعا مانگنا ایک مشکل امر ہے.اور لوگ اس کی حقیقت سے محض ناواقف ہیں.بہت سے لوگ مجھے خط لکھتے ہیں کہ ہم نے فلاں وقت فلاں امر کے لیے دُعا کی تھی مگر اسکا اثر نہ ہوا.اور اس طرح پر وہ خدا تعالیٰ سے بدظنی کرتے ہیں.اور مایوس ہوکر ہلاک ہو جاتے ہیں.وہ نہیں جانتے کہ جب تک دُعا کے لوازم ساتھ نہ ہوں وہ دُعا کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی..دُعا کے لوازم میں سے یہ ہے کہ دل پگھل جاوے اور روح پانی کی طرح حضرتِ احدیت کے ساتھ آستانہ پر گرے اور ایک کرب اور اضطراب اس میں پیدا ہو اور ساتھ ہی انسان بے صبر اور جلد باز نہ ہو بلکہ صبر اور استقامت کے ساتھ دُعا میں لگار ہے پھر توقع کی جاتی ہے کہ وہ دُعا قبول ہوگی.نماز بڑی اعلیٰ درجہ کی دُعا ہے مگر افسوس لوگ اس کی قدر نہیں جانتے اور اس کی حقیقت صرف اتنی ہی سمجھتے ہیں کہ رسمی طور پر قیام ، رکوع ، سجود کر لیا اور چند فقرے طوطے کی طرح رٹ لیے خواہ اسے سمجھیں نہ سمجھیں.ایک اور افسوس ناک امر پیدا ہو گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ پہلے ہی مسلمان نماز کی حقیقت سے
26 ناواقف تھے اور اس پر توجہ نہیں کرتے تھے.اس پر بہت سے فرقے ایسے پیدا ہو گئے جنہوں نے نماز کی پابندیوں کو اُڑا کر اس کی جگہ چند وظیفے اور ورد قرار دے دیے کوئی نوشاہی ہے کوئی چشتی ہے کوئی کچھ کوئی کچھ.یہ لوگ اندرونی طور پر اسلام اور احکام الہی پر حملہ کرتے ہیں اور شریعت کی پابندیوں کو توڑ کر ایک نئی شریعت قائم کرتے ہیں یقینا یاد رکھو کہ ہمیں اور ہر ایک طالب حق کو نماز ایسی نعمت کے ہوتے ہوئے کسی اور بدعت کی صلى الله ضرورت نہیں ہے.آنحضرت ملے جب کسی تکلیف یا ابتلا کو دیکھتے تو فوراً نماز میں کھڑے ہو جاتے تھے اور ہمارا اپنا اور ان راستبازوں کا جو پہلے ہو گزرے ہیں ان سب کا تجربہ ہے کہ " نماز سے بڑھ کر خدا کی طرف لے جانے والی کوئی چیز نہیں جب انسان قیام کرتا ہے تو وہ ایک ادب کا طریق اختیار کرتا ہے.ایک غلام جب اپنے آقا کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو وہ ہمیشہ دست بستہ کھڑا ہوتا ہے.پھر رکوع بھی ادب ہے جو قیام سے بڑھ کر ہے اور سجدہ ادب کا انتہائی مقام ہے.جب انسان اپنے آپ کو فنا کی حالت میں ڈال دیتا ہے اس وقت سجدہ میں گر پڑتا ہے.افسوس ان نادانوں اور دنیا پرستوں
27 پر جو نماز کی ترمیم کرنا چاہتے ہیں اور رکوع اور سجود پر اعتراض کرتے ہیں.یہ تو کمال درجہ کی خوبی کی باتیں ہیں.اصل بات یہ ہے کہ جب انسان اس عالم سے حصّہ نہ لے جس سے نماز اپنی حد تک پہنچتی ہے تب تک انسان کے ہاتھ میں کچھ نہیں مگر جس شخص کا یقین خدا پر نہیں وہ نماز پر کسطرح یقین کر سکتا ہے.نماز ایسی چیز ہے جو جامع حسنات ہے اور وافع سیئات ہے.میں نے پہلے بھی کئی مرتبہ بیان کیا ہے کہ نماز کے جو پانچ وقت مقرر کیے ہیں اس میں ایک حقیقت اور حکمت ہے.نماز اس لیے ہے کہ جس عذاب شدید میں پڑنے والا مبتلا ہے وہ اس سے نجات پالیوے.نماز اصل میں دُعا ہے ( ملفوظات جلد پنجم ص 92 تا 94) نماز اصل میں دُعا ہے.نماز کا ایک ایک لفظ جو بولتا ہے وہ نشانہ دُعا کا ہوتا ہے.اگر نماز میں دل نہ لگے تو پھر عذاب کے لیے تیار رہے، کیونکہ جو شخص دُعا نہیں کرتا وہ سوائے اس کے کہ ہلاکت کے نزدیک خود جاتا ہے اور کیا ہے.ایک حاکم ہے جو بار بار اس امر کی بدا کرتا ہے کہ میں دُکھیاروں کا
28 دُکھ اُٹھاتا ہوں.مشکل والوں کی مشکل حل کرتا ہوں.میں بہت رحم کرتا ہوں.بے کسوں کی مدد کرتا ہوں.لیکن ایک شخص جو کہ مشکل میں مبتلا ہے اس کے پاس سے گذرتا ہے اور اسکی ندا کی پرواہ نہیں کرتا نہ اپنی مشکل کا بیان کر کے طلب امداد کرتا ہے تو سوائے اس کے کہ وہ تباہ ہو اور کیا ہوگا.یہی حال خدا تعالی کا ہے کہ وہ تو ہر وقت انسان کو آرام دینے کے لیے تیار ہے.بشرطیکہ کوئی اس سے درخواست کرے، قبولیت دُعا کے لیے ضروری ہے کہ نافرمانی سے باز رہے اور دُعا بڑے زور سے کرے.کیونکہ پتھر پر پتھر زور سے پڑتا ہے تب آگ پیدا ہوتی ہے.( ملفوظات جلد چہارم ، ص 54)
29 20 حقیقی نماز باب III یاد رکھو یہ نماز ایسی چیز ہے کہ اس سے دنیا بھی سنور جاتی ہے اور دین بھی لیکن اکثر لوگ جو نماز پڑھتے ہیں تو وہ نماز ان پر لعنت بھیجتی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُون ( الماعون : 5,6) یعنی لعنت ہے ان نمازیوں پر جو نماز کی حقیقت سے ہی بے خبر ہوتے ہیں.نماز تو وہ چیز ہے کہ انسان اس کے پڑھنے سے ہر ایک طرح کی بدعملی اور بے حیائی سے بچایا جاتا ہے مگر جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں اس طرح کی نماز پڑھنی انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتی.اور یہ طریق خدا کی مدد اور استعانت کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا اور جب تک انسان دُعاؤں میں نہ لگا رہے اسطرح کا خشوع اور خضوع پیدا نہیں ہوسکتا اس لیے چاہئے کہ تمہارا دن اور تمہاری رات ، غرض کوئی گھڑی دُعاؤں (ملفوظات جلد پنجم ،ص403) سے خالی نہ ہو.
30 سو تم نمازوں کو سنوارو اور خدا تعالیٰ کے احکام کو اس کے فرمودہ کے بموجب کرو.اسکی نواہی سے بچے رہو اس کے ذکر اور یاد میں لگے رہو دُعا کا سلسلہ ہر وقت جاری رکھو اپنی نماز میں جہاں جہاں رکوع وسجود میں دُعا کا موقع ہے دُعا کرو اور غفلت کی نماز کو ترک کر دو.رسمی نماز کچھ ثمرات مترتب نہیں لاتی اور نہ وہ قبولیت کے لائق ہے نماز وہی ہے کہ کھڑے ہونے سے سلام پھیرنے کے وقت تک پورے خشوع و خضوع اور حضور قلب سے ادا کی جاوے اور عاجزی اور فروتنی اور انکساری اور گریہ و زاری سے اللہ تعالیٰ کے حضور میں اس طرح ادا کی جاوے کہ گویا اس کو دیکھ رہے ہو اگر ایسا نہ ہو سکے تو کم از کم یہ تو ہو کہ وہی تم کو دیکھ رہا ہے.اس طرح کمال ادب اور محبت اور خوف سے بھری ہوئی نماز ادا کرو.( ملفوظات جلد سوم ، ص 176 177) جب تک وفاداری اور صدق نہ ہو بے وفا آدمی کتے کی طرح ہے جو مُردار دنیا پر گرے ہوئے ہوتے ہیں.وہ بظاہر نیک بھی نظر آتے ہوں گے لیکن افعال ضمیمہ ان میں پائے جاتے ہیں اور پوشیدہ بدچلنیاں ان میں پائی جاتی ہیں جو
31 نمازیں ریا کاری سے بھری ہوئی ہوں ان نمازوں کا ہم کیا کریں اور اُن سے کیا فائدہ ؟ البدر میں ہے: اگر ان کی آرزوئیں اور مرادیں پوری ہوتی رہیں تو وہ خدا کو مانتے رہیں گے اور اگر پوری نہ ہوں تو پھر اس سے ناراض اور شکایت کا دفتر کھلا ہوا ہے تو جن کی یہ حالت ہے اور ان میں صدق وصفا نہیں ہے خدا ان کی نمازوں کا کیا کرے وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ہرگز نمازی نہیں ہیں اور ان کی نمازیں سوائے اس کے کہ زمین پر ٹکریں ماریں اور کچھ حکم نہیں رکھتیں“ ( ملفوظات جلد سوم، ص 501) البدر حاشیہ جلد 3 ، ص 3 مئورخہ 16 جنوری 1904ء) نماز اس وقت حقیقی نماز کہلاتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ سے سچا اور پاک تعلق ہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور اطاعت میں اس حد تک فنا ہو اور یہاں تک دین کو دنیا پر مقدم کرے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں جان تک دے دینے اور مرنے کے لیے تیار ہو جائے.جب یہ حالت انسان میں پیدا ہو جائے اسوقت کہا جائیگا کہ اس کی نماز نماز ہے.مگر جب تک یہ حقیقت انسان کے اندر پیدا
32 نہیں ہوتی اور سچے اخلاص اور وفاداری کا نمونہ نہیں دکھلاتا اسوقت تک اس کی نمازیں اور دوسرے اعمال بے اثر ہیں.( تفسير سورة البقرة ،ص49) ( ملفوظات جلد سوم، ص 501) ستچی نماز اس مقام پر انسان کی رُوح جب ہمہ نیستی ہو جاتی ہے تو وہ خدا کی طرف ایک چشمہ کی طرح بہتی ہے.اور ماسوی اللہ سے اُسے انقطاع تام ہو جاتا ہے.اُس وقت خدائے تعالیٰ کی محبت اس پر گرتی ہے.اس اتصال کے وقت ان دو جوشوں سے جو اوپر کی طرف سے ربوبیت کا جوش اور نیچے کی طرف سے عبودیت کا جوش ہوتا ہے.ایک خاص کیفیت پیدا ہوتی ہے اس کا نام صلوۃ ہے پس یہی وہ صلوۃ ہے جو سیئات کو بھسم کر جاتی ہے اور اپنی جگہ ایک نور اور چمک چھوڑ دیتی ہے جو سالک کو راستہ کے خطرات اور مشکلات کے وقت ایک منور شمع کا کام دیتی ہے اور ہر قسم کے خس و خاشاک اور ٹھوکر کے پتھروں اور خارونس سے جو اس کی راہ میں ہوتی ہیں، آگاہ کر کے بچاتی ہے اور یہی وہ حالت ہے جبکہ انَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ
33 وَالْمُنْكَر (العنکبوت (46) کا اطلاق اس پر ہوتا ہے کیونکر اسکے ہاتھ میں نہیں اُسکے دل میں ایک روشن چراغ رکھا ہوا ہوتا ہے اور یہ درجہ کامل تذلل، کامل نیستی اور فروتنی اور پوری اطاعت سے حاصل ہوتا ہے پھر گناہ کا خیال اُسے کیونکر آسکتا اور انکار اس میں پیدا ہی نہیں ہوسکتا فحشاء کی طرف اس کی نظر اُٹھ ہی نہیں سکتی غرض ایک ایسی لذت ایسا سرور حاصل ہوتا ہے کہ میں نہیں سمجھ سکتا کہ اُسے کیونکر بیان کروں.ہے ( ملفوظات جلد اوّل ، ص 105)
34 نماز پڑھنے کا طریق باب IV ایک موقع پر حضور علیہ السلام نے فرمایا: نماز پڑھو اور تدبر سے پڑھو اور ادعیہ ماثورہ کے بعد اپنی زبان میں دُعائیں مانگنی مطلق حرام نہیں ہے.جب گدازش ہو تو سمجھو کہ مجھے موقع دیا گیا ہے.اسوقت کثرت سے مانگمو اسقدر مانگو کہ اس نکتہ تک پہنچو کہ جس سے رقت پیدا ہو جاوے.یہ بات اختیاری نہیں ہوتی خدا تعالیٰ کی طرف سے ترشحات ہوتے ہیں.اس کو چہ میں اول انسان کو تکلیف ہوتی ہے مگر ایک دفعہ چاشنی معلوم ہوگی تو پھر سمجھے گا.جب اجنبیت جاتی رہے گی اور نظارہ قدرت الہی دیکھ لے گا تو پھر پیچھا نہ چھوڑے گا.قاعدہ کی بات ہے کہ تجربہ میں جب ایک دفعہ ایک بات تھوڑی سی آجاوے تو تحقیقات کی طرف انسان کی طبیعت میلان کرتی ہے.اصل میں سب لذات خدا تعالی کی محبت میں ہیں.ملعون لوگ (یعنی جو خدا سے دُور ہیں ) جو زندگی بسر
35 کرتے ہیں وہ کیا زندگی ہے؟ بادشاہ اور سلاطین کی کیا زندگیاں ہیں مثل بہائم کے ہیں.جب انسان مومن ہوتا ہے تو خود ان سے نفرت کرتا ہے.( ملفوظات جلد دوم ،ص631) ارکان نماز کی حقیقت.ارکان نماز دراصل روحانی نشست و برخاست ہیں.انسان کو خدا تعالیٰ کے روبرو کھڑا ہونا پڑتا ہے اور قیام بھی آداب خدمت گاران میں سے ہے.رکوع جو دوسرا حصہ ہے بتلاتا ہے کہ گویا تیاری ہے کہ وہ تعمیل محکم کو کس قدر گردن جھکاتا ہے اور سجدہ کمال آداب اور کمال تذلل اور نیستی کو جو عبادت کا مقصود ہے ظاہر کرتا ہے.یہ آداب اور طرق ہیں جو خدا تعالی نے بطور یادداشت کے مقرر کر دیے ہیں.اور جسم کو باطنی طریق سے حصہ دینے کی خاطر ان کو مقرر کیا ہے.علاوہ ازیں باطنی طریق کے اثبات کی خاطر ایک ظاہری طریق بھی رکھ دیا ہے.اب اگر ظاہری طریق میں (جو اندرونی اور باطنی طریق کا ایک عکس ہے) صرف نقال کی طرح نقلیں اُتاری جاویں اور اسے ایک بار گراں سمجھ کر اُتار پھینکنے کی کوشش کی جاوے تو تم ہی
36 بتاؤ اس میں کیا لذت اور حظ آسکتا ہے ؟ اور جب تک لذت اور سُرور نہ آئے اسکی حقیقت کیونکر مستحق ہوگی اور یہ اُسوقت ہوگا جبکہ روح بھی ہمہ نیستی اور تذلل تام ہوکر آستانہ الوہیت پر گرے اور جو زبان بولتی ہے ، روح بھی بولے.اسوقت ایک سرور اور نور اور تسکین حاصل ہو جاتی ہے.میں اس کو اور کھول کر لکھنا چاہتا ہوں کہ انسان جس قدر مراتب طے کر کے انسان ہوتا ہے یعنی کہاں نطفہ بلکہ اس سے بھی پہلے نطفہ کے اجزاء یعنی مختلف قسم کی اغذیہ اور اُن کی ساخت اور بناوٹ پھر نطفہ کے بعد مختلف مدارج کے بعد بچہ پھر جوان.بوڑھا غرض اِن تمام عالموں میں جو اس پر مختلف اوقات میں گذرے ہیں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا معترف ہو اور وہ نقشہ ہر آن اس کے ذہن میں کھنچا رہے.تو بھی وہ اس قابل ہو سکتا ہے کہ ربوبیت کے مد مقابل میں اپنی عبودیت کو ڈال دے.غرض مدعا یہ ہے کہ نماز میں لذت اور سُرور بھی عبودیت اور ربوبیت کے ایک تعلق سے پیدا ہوتا ہے.جب تک اپنے آپ کو عدم محض یا مشابہ بالعدم قرار دے کر جو ربوبیت کا ذاتی تقاضہ ہے نہ ڈال دے.اُس کا فیضان اور پر تو اس پر نہیں پڑتا.اور اگر ایسا ہو تو پھر اعلیٰ درجہ کی لذت حاصل ہوتی ہے
37 جس سے بڑھ کر کوئی حق نہیں ہے.فضائل نماز ( ملفوظات جلد اوّل ،ص 104 تا 105) نماز خدا کا حق ہے اُسے خوب ادا کرو.اور خدا کے دشمن سے مداہنہ کی زندگی نہ ہر تو.وفا اور صدق کا خیال رکھو.اگر سارا گھر غارت ہوتا ہو تو ہونے دو مگر نماز کو ترک مت کرو.وہ کافر اور منافق ہیں جو کہ نماز کو منحوس کہتے ہیں.اور کہا کرتے ہیں کہ نماز کے شروع کرنے سے ہمارا فلاں نقصان ہوا ہے.نماز ہرگز خدا کے غضب کا ذریعہ نہیں ہے.جو اُسے منحوس کہتے ہیں اُن کے اندر خود زہر ہے جیسے بیمار کو شیرینی کڑوی لگتی ہے.ویسے ہی اُن کو نماز کا مزا نہیں آتا.یہ دین کو درست کرتی ہے اخلاق کو درست کرتی ہے.دُنیا کو درست کرتی ہے.نماز کا مزا دنیا کے ہر ایک مزے پر غالب ہے.لذات جسمانی کے لیے ہزاروں خرچ ہوتے ہیں اور پھر ان کا نتیجہ بیماریاں اور ہوتی ہیں.مفت کا بہشت ہے.جو اُسے ملتا ہے.قرآن شریف میں دوجنتوں کا ذکر ہے.ایک ان میں سے دنیا کی جنت ہے اور وہ نماز کی لذت ہے.( ملفوظات جلد سوم ،ص 592،591)
38 عبودیت و ربوبیت کا تعلق نماز خوانخواہ کا ٹیکس نہیں ہے بلکہ عبودیت کو ربوبیت سے ایک ابدی تعلق اور کشش ہے.اس رشتہ کو قائم رکھنے کے لیے خدا تعالیٰ نے نماز بنائی ہے اور اس میں ایک لذت رکھ دی ہے.جس سے یہ تعلق قائم رہتا ہے.جیسے لڑکے اور لڑکی کی جب شادی ہوتی ہے.اگر ان کے ملاپ میں ایک لذت نہ ہو تو فساد ہوتا ہے ایسے ہی اگر نماز میں لذت نہ ہو تو وہ رشتہ ٹوٹ جاتا ہے.دروازہ بند کر کے دُعا کرنی چاہئے کہ وہ رشتہ قائم رہے.اور لذت پیدا ہو.جو تعلق عبودیت کا ربوبیت سے ہے وہ بہت گہرا اور انوار سے پُر ہے جس کی تفصیل نہیں ہوسکتی.جب وہ نہیں ہے تب تک انسان بہائم ہے.اگر دو چار دفعہ بھی لذت محسوس ہو جائے تو اس چاشنی کا حصہ مل گیا لیکن جسے دو چار دفعہ بھی نہ ملا وہ اندھا ہے.مَنْ كانَ فِي هَذِةٍ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى ( بنی اسرائیل : 73) آئندہ کے سب وعدے اسی سے وابستہ ہیں ان باتوں
39 کو فرض جان کر ہم نے جتلا دیا ہے.سچا ایمان ( ملفوظات جلد سوم ، ص 591 تا 592) انسان کی خدا ترسی کا اندازہ کرنے کے لیے اُس کے التزام نماز کو دیکھنا کافی ہے کہ کس قدر ہے اور مجھے یقین ہے کہ جو شخص پورے پورے اہتمام سے نماز ادا کرتا ہے اور خوف اور بیماری اور فتنہ کی حالتیں اسکو نماز سے روک نہیں سکتیں وہ بیشک خدائے تعالیٰ پر ایک سچا ایمان رکھتا ہے مگر یہ ایمان غریبوں کو دیا گیا.دولتمند اس نعمت کو پانے والے بہت ہی تھوڑے ہیں.(ازالہ اوہام حصّہ دوم ،روحانی خزائن جلد ۳،ص540 ) نمازوں کو باقاعدہ التزام سے پڑھو نمازوں کو با قاعدہ التزام سے پڑھو.بعض لوگ صرف ایک ہی وقت کی نماز پڑھ لیتے ہیں.وہ یاد رکھیں کہ نمازیں معاف نہیں ہوتیں.یہاں تک کہ پیغمبروں تک کو معاف نہیں ہوئیں.ایک حدیث میں آیا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک
40 نئی جماعت آئی.انھوں نے نماز کی معافی چاہی.آپ نے فرمایا کہ جس مذہب میں عمل نہیں وہ مذہب کچھ نہیں، اس لیے اس بات کو خوب یاد رکھو اور اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق اپنے عمل کرو.( ملفوظات جلد اوّل ، ص 172) نماز کے لیے طبعی جوش اور ذاتی محبت نماز کے متعلق جس زاید ہدایت کا وعدہ ہے وہ یہی ہے کہ اسقدر طبعی جوش اور ذاتی محبت اور خشوع اور کامل حضور میتر آجائے کہ انسان کی آنکھ اپنے محبوب حقیقی کے دیکھنے کے لیے کھل جائے اور ایک خارق عادت کیفیت مشاہدہ جمال باری کی میسر آجائے جو لذات روحانیہ سے سراسر معمور ہو اور دنیوی رذایل اور انواع و اقسام کے معاصی قولی اور فعلی اور بصری اور سماعی سے دل کو متنفر کر دے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ الْحَسَنتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّات یا بندی نماز (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ ، ص 139) دنیا اور اس کے اغراض و مقاصد کو بالکل الگ
41 رکھو.اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جب انسان مومن کامل بنتا ہے تو وہ اُس کے اور اُس کے غیر میں فرق رکھ دیتا ہے اس لیے پہلے مومن بنو اور یہ اسی طرح ہوسکتا ہے کہ بیعت کی خالص اغراض کے ساتھ جو خدا ترسی اور تقوی پر مبنی ہیں دنیا کے اغراض کو ہرگز نہ ملاؤ.نمازوں کی پابندی کرو.اور تو بہ واستغفار میں مصروف رہو.نوع انسان کے حقوق کی حفاظت کرو اور کسی کو ڈکھ نہ دو راستبازی اور پاکیزگی میں ترقی کرو تو اللہ تعالیٰ ہر دُکھ قسم کا فضل کردے گا.عورتوں کو بھی اپنے گھروں میں نصیحت کرو کہ وہ نماز کی پابندی کریں اور ان کو گلہ شکوہ اور غیبت سے روکو پاکبازی اور راستبازی ان کو سکھاؤ.ہماری طرف سے صرف سمجھانا شرط ہے اس پر عمل درآمد کرنا تمہارا کام ہے.( ملفوظات جلد سوم،ص 434) ستچی نماز ایماندار ہونے کی علامت ہے نماز میں پکے رہو.جو مسلمان ہو کر نماز نہیں ادا کرتا ہے وہ بے ایمان ہے.اگر وہ نماز ادا نہیں کرتا تو جتلاؤ ایک ہندو میں اور اس میں کیا فرق ہے؟ زمینداروں کا دستور ہے کہ ذرا ذرا سے عذر پر نماز چھوڑ دیتے ہیں.کپڑے (کے میلا
42 ہونے) کا بہانہ کرتے ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس اور کپڑے نہ ہوں تو اسی میں نماز پڑھ لے اور جب دوسرا کپڑا مل جاوے تو اس کو بدل دے.اسی طرح اگر غسل کرنے کی ضرورت ہو اور بیمار ہو تو تیم کرلے.خدا نے ہر ایک قسم کی آسانی کر دی ہے تاکہ قیامت میں کسی کو عذر نہ ہو.اب ہم مسلمانوں کو دیکھتے ہیں کہ شطرنج گنجفہ وغیرہ بیہودہ باتوں میں وقت گزارتے ہیں.ان کو یہ خیال تک نہیں آتا کہ ہم ایک گھنٹہ نماز میں گذار دیں گے تو کیا حرج ہوگا ؟ نیچے آدمی کو خدا مصیبت سے بچاتا ہے اگر پھر بھی برسیں تو بھی اُسے ضرور بچاوے گا.اگر وہ ایسا نہ کرے تو نیچے اور جھوٹے میں کیا فرق ہو سکتا ہے؟ لیکن یاد رکھو کہ صرف ٹکریں مارنے سے خدا راضی نہیں ہوتا.کیا دُنیا اور کیا دین میں جب تک پوری بات نہ ہو فائدہ نہیں ہوا کرتا.صحابہ کرام کی نمازیں ( ملفوظات جلد سوم،ص 138) یہ نماز جو تم لوگ پڑھتے ہو صحابہ بھی یہی نماز......
43 پڑھا کرتے تھے.اور ایسی نماز سے انھوں نے بڑے بڑے روحانی فائدے اور بڑے بڑے مدارج حاصل کیے تھے.فرق صرف حضور اور خلوص کا ہی ہے.اگر تم میں بھی وہی اخلاص صدق و وفا اور استقلال ہو تو اسی نماز سے اب بھی وہی مدارج حاصل کر سکتے ہو جو تم سے پہلوں نے حاصل کیے تھے چاہئے کہ خدا کی راہ میں دُکھ اُٹھانے کے لیے ہر وقت تیار رہو.یاد رکھو جب اخلاص اور صدق سے کوشش نہیں کرو گے کچھ نہیں بنے گا بہت آدمی ایسے بھی ہوتے ہیں کہ یہاں سے تو بیعت کر جاتے ہیں مگر گھر میں جا کر جب تھوڑی سی بھی تکلیف آئی اور کسی نے دھمکایا تو جھٹ مرتد ہو گئے.نماز کو سنوار کر ادا کرو ( تفسير سورة البقرة ،ص 46) نماز کو ایسے ادا نہ کرو جیسے مرغی دانے کے لیے ٹھونگ مارتی ہے بلکہ سوز و گداز سے ادا کرو اور دُعائیں بہت کیا کرو.نماز مشکلات کی کنجی ہے.ماثورہ دعاؤں اور کلمات کے ہوا اپنی مادری زبان میں بھی بہت دُعا کیا کرو تا اس سے سوز و گداز کی تحریک ہو اور جب تک سوز و گداز نہ ہو اُسے ترک مت کرو.کیونکہ اس سے تزکیہ نفس ہوتا ہے اور سب کچھ ملتا
44 ہے.چاہیے کہ نماز کی جس قدر جسمانی صورتیں ہیں ان سب کے ساتھ دل بھی ویسے ہی تابع ہو.اگر جسمانی طور پر کھڑے ہو تو دل بھی خدا کی اطاعت کے لیے ویسے ہی کھڑا ہو.اگر جھکو تو دل بھی ویسے ہی جھکے.اگر سجدہ کرو تو دل بھی ویسے ہی سجدہ کرے.دل کا سجدہ یہ ہے کہ کسی حالت میں خدا کو نہ چھوڑے.جب یہ حالت ہوگی تو گناہ دور ہونے شروع ہو جاویں گے.معرفت بھی ایک شئے ہے جو کہ گناہ سے انسان کو روکتی ہے.جیسے جو شخص سم الفار ، سانپ اور شیر کو ہلاک کرنے والا جانتا ہے تو وہ ان کے نزدیک نہیں جاتا.ایسے جب تم کو معرفت ہوگی تو تم گناہ کے نزدیک نہ پھنکو گے.اس کے لیے ضروری ہے کہ یقین بڑھاؤ.اور وہ دُعا سے بڑھے گا اور نماز خود دُعا ہے.نماز کو جس قدر سنوار کر ادا کرو گے اسی قدر گناہوں سے رہائی پاتے جاؤ گے.معرفت صرف قول سے حاصل نہیں ہوسکتی بڑے بڑے حکیموں نے خدا کو اس لیے چھوڑ دیا کہ ان کی نظر مصنوعات پر رہی اور دُعا کیطرف توجہ نہ کی.جیسا کہ ہم نے براہین میں ذکر کیا ہے.مصنوعات سے تو انسان کو ایک صانع کے وجود کی ضرورت ثابت ہوتی ہے کہ ایک فاعل ہونا چاہیے لیکن یہ نہیں ثابت ہوتا کہ وہ ہے بھی.
45 وو وو 66 وو 66 وو 66 ہونا جا.چاہیے اور شئے ہے اور ” ہے اور شئے ہے.اس ” ہے کا علم سوائے دُعا کے نہیں حاصل ہوتا.عقل سے کام لینے والے " ہے" کے علم کو نہیں پاسکتے.اسی لیے ہے کہ خدارا بخدا تواں شناخت لَا تُدْرِكُهُ الأبصَارُ کے بھی یہی معنی ہیں.کہ وہ صرف عقلوں کے ذریعہ سے شناخت نہیں کیا جاسکتا بلکہ خود جو ذریعے (اُس) نے بتلائے ہیں ان سے ہی اپنے وجود کو شناخت کرواتا ہے اور اس امر کے لئے اهْدِنَــــالــصـراط المُسْتَقِيمَ صِراطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتحہ : 4) جیسی اور کوئی دُعا نہیں ہے.( ملفوظات جلد سوم ص 589 تا 590) نمازوں کو خوف اور حضور سے ادا کرو سواے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو.آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کیسے جاؤ گے جب سچ سچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے.سو اپنی پنجوقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو.(روحانی خزائن جلد 19، کتاب کشتی نوح، ص 15) یا پھر فرمایا: جو شخص پنجگانہ نماز کا التزام نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص دُعا میں لگا نہیں رہتا
46 اور انکسار سے خدا کو یاد نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.نماز سے متعلق اہم امور روحانی خزائن جلد 19 کشتی نوح اس 19) (1) بندے کو رب العباد تک پہنچانے کی سواری ہے.(ب) افضل العبادات پنجوقتہ نمازوں کو ان کے اول وقت میں ادا کرنا ہے (ج) جو اپنی نمازوں میں فروتنی اختیار کرتا ہے.اس کے سامنے بادشاہ بھی فروتنی اختیار کرتے ہیں اور اس مملوک کو خدا مالک بنا دیتا ہے.(روحانی خزائن جلد 18 ، انڈیکس ص 87 تا 88)
47 باب ۷ اوقات نماز اور ان کی حکمت اوقات نماز کے لیے لکھا ہے کہ وہ زوال کے وقت سے شروع ہوتی ہے.یہ اس امر کیطرف اشارہ ہے کہ جب انسان غنی ہوتا ہے تو وہ طافی ہو جاتا ہے اور حدود اللہ سے نکل جاتا ہے لیکن جب اسکو کوئی دکھ اور درد پہنچے تو پھر یہ فطرتا دوسرے کی مدد چاہتا ہے اور اسکی طرف متوجہ ہوتا ہے.پس جب اس پر ابتداء مصیبت ہو تو اسی وقت سے گویا نماز شروع ہو جاتی ہے.مثلاً ایک شخص پر غیر متوقع گورنمنٹ کیطرف سے وارنٹ گرفتاری جاری ہو گیا کہ فلاں امر کے متعلق تم اپنا جواب دو.یہ پہلا مرحلہ ہے.جو مصیبت کا آغاز ہوا اور اس کے امن و سکون میں زوال شروع ہو گیا.یہ وقت ظہر کی نماز کے مشابہ ہے.پھر بعد اس کے جب وہ عدالت میں حاضر ہوا اور بیانات ہونے کے بعد اس پر فرد قرارداد مجرم لگ گئی اور شہادت گزر گئی تو اس کی مصیبت اور کرب پہلے سے زیادہ بڑھ گیا.یہ
48 گویا عصر کا وقت ہے کیونکہ عصر کی نماز کا وہ وقت ہے جب سورج کی روشنی بہت ہی کم ہو جاوے.یہ عصر کا وقت اس پر دلالت کرتا ہے کیونکہ اس کی عزت و توقیر بہت گھٹ گئی اور اب وہ مجرم قرار پا گیا اس کے بعد مغرب کا وقت آتا ہے یہ وہ وقت ہے جب آفتاب غروب ہوجاتا ہے اور یہ اسوقت سے مشابہ ہے جب حاکم نے اپنا آخری حکم اس کے لیے سُنا دیا اور عشاء کا وقت اس سے مشابہ ہے جب وہ جیل چلا جاوے.اور پھر فجر کا وقت ہے جب اس کی رہائی ہو جاوے ان حالات کے ماتحت ایسے انسان کا درد و سوزش ہر آن بڑھتی جاوے گی.یہاں تک کہ آخر اس کی سوزش و اضطراب اس کے لیے وہ وقت لے آوے کہ وہ نجات پا جاوے.اور یہ جو میں نے بیان کیا ہے قیام، رکوع اور سجود کے متعلق اسمیں انسانی تضرع کی ہیئت کا نقشہ دکھایا گیا ہے.پہلے قیام کرتا ہے جب اس پر ترقی کرتا ہے تو رکوع کرتا ہے اور جب بالکل فنا ہو جاتا ہے تو پھر سجدہ میں گر پڑتا ہے.میں جو کچھ کہتا ہوں صرف تقلید اور رسم کے طور پر نہیں کہتا بلکہ اپنے تجربہ سے کہتا ہوں.بلکہ ہر کوئی اس کو اسطرح پر پڑھ کر اور آزما کر دیکھ لے
49 ، اس نسخہ کو ہمیشہ یاد رکھو اور اس سے فائدہ اُٹھاؤ کہ جب کوئی دکھ یا مصیبت پیش آوے تو فوراً نماز میں کھڑے ہو جاؤ اور جو مصائب اور مشکلات ہوں ان کو کھول کھول کر اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرو کیونکہ یقیناً خدا ہے اور وہی ہے جو ہر قسم کی مشکلات اور مصائب سے انسان کو نکالتا ہے وہ پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہے.اسکے سوا کوئی نہیں جو مددگار ہو سکے بہت ہی ناقص ہیں وہ لوگ کہ جب ان کو مشکلات پیش آتی ہیں تو وکیل، طبیب یا اور لوگوں کی طرف تو رجوع کرتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کا خانہ بالکل خالی چھوڑ دیتے ہیں.مومن وہ ہے جو سب سے اول خدا تعالیٰ کیطرف دوڑے.( ملفوظات جلد پنجم ،ص94 تا 96) ہیں یاد رہے کہ عرب کے جنگلی لوگ شراب کو جانتے بھی نہیں تھے کہ کس بلا کا نام ہے مگر جب حضرات عیسائی وہاں پہنچے اور انہوں نے بعض تو مریدوں کو بھی تحفہ دیا تب تو یہ خراب عادت دیکھا دیکھی عام طور پر پھیل گئی اور نماز کے پانچ وقتوں کیطرح شراب کے پانچ وقت مقرر ہو گئے یعنی جاشریہ کے جو صبح قبل طلوع آفتاب کی شراب ہے.صبوح جو بعد طلوع کے شراب پی جاتی ہے.فوق جو ظہر اور عصر کی شراب کا نام ہے.قبل جو دو پہر
50 کی شراب کا نام ہے.محم جو رات کی شراب کا نام ہے اسلام نے ظہور فرما کر یہ تبدیلی کی.جو ان پانچ وقتوں کے شرابوں کی جگہ پانچ نمازیں مقرر کردیں اور ہر یک بدی کی جگہ نیکی رکھ دی.اور مخلوق پرستی کی جگہ خدا تعالیٰ کا نام سکھا دیا.اس پاک تبدیلی سے انکار کرنا کسی سخت بد ذات کا کام ہے نہ کسی سعید انسان کا کیا کوئی مذہب ایسی بزرگ تبدیلی کا نمونہ پیش کرسکتا ہے.ہرگز نہیں.( نور الفرقان، روحانی خزائن جلد 9 حاشیہ ،ص352) ا خدا نے اپنے قانون قدرت میں مصائب کو پانچ قسم پر منظم کیا ہے یعنی آثار مصیبت کے جو خوف دلاتے ہیں اور پھر مصیبت کے اندر قدم رکھنا اور پھر ایسی حالت جب نومیدی...پیدا ہوتی ہے.اور پھر زمانہ تاریک مصیبت کا اور پھر صبیح رحمت الہی کی.یہ پانچ وقت ہیں جن کا نمونہ پانچ نمازیں ہیں.( براہینِ احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد 21، ص422) پنجگانہ نمازوں کی حکمت پنجگانہ نمازیں کیا چیز ہیں.وہ تمہارے مختلف حالات کا فوٹو ہیں.تمہاری زندگی کے لازم حال پانچ تغیر ہیں جو بلا کے
51 وقت تم پر وارد ہوتے ہیں اور تمہاری فطرت کے لیے ان کا وارد ا، ہونا ضروری ہے.ا پہلے جبکہ تم مطلع کیے جاتے ہو کہ تم پر ایک بلا آنے والی ہے مثلاً جیسے تمہارے نام عدالت سے ایک وارنٹ جاری ہوا یہ پہلی حالت ہے جس نے تمہاری تسلی اور خوشحالی میں خلل ڈالا.سو یہ حالت زوال کے وقت سے مشابہ ہے.کیونکہ اس سے تمہاری خوشحالی میں زوال آنا شروع ہوا اسکے مقابل پر نماز ظہر متعین ہوئی.جسکا وقت زوال آفتاب سے شروع ہوتا ہے.دوسرا تغیر اسوقت تم پر آتا ہے جبکہ تم بلا کے محل سے بہت نزدیک کیے جاتے ہو.مثلاً جبکہ تم بذریعہ وارنٹ گرفتار ہوکر حاکم کے سامنے پیش ہوتے ہو.یہ وہ وقت ہے کہ جب تمہارا خوف سے خون خشک ہوجاتا ہے اور تسلی کا نور تم سے رُخصت ہونے کو ہوتا ہے.سو یہ حالت تمہاری اسوقت سے مشابہ ہے جبکہ آفتاب سے نور کم ہو جاتا ہے اور نظر اس پر جم سکتی ہے اور صریح نظر آتا ہے کہ اب اسکا غروب نزدیک ہے.اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز عصر مقرر ہوئی.تیسرا تغیر تم پر اسوقت آتا ہے جو اس کما سے رہائی پانے کی بکلی اُمید منقطع ہو جاتی ہے.مثلاً جیسے تمہارے نام فرد قرارداد
52 جرم لکھی جاتی ہے اور مخالفانہ گواہ تمہاری ہلاکت کے لیے گذر جاتے ہیں.یہ وہ وقت ہے کہ جب تمہارے حواس خطا ہو جاتے ہیں اور تم اپنے تئیں ایک قیدی سمجھنے لگتے ہو.سو یہ حالت اس وقت سے مشابہ ہے جبکہ آفتاب غروب ہو جاتا اور تمام اُمیدیں دن کی روشنی کی ختم ہو جاتی ہیں.اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز مغرب مقرر ہے.م چوتھا تغییر اس وقت تم پر آتا ہے کہ جب بکا تم پر وارد ہی ہو جاتی ہے اور اُس کی سخت تاریکی تم پر احاطہ کر لیتی ہے مثلاً جبکہ فرد قرارداد جرم اور شہادتوں کے بعد حکم سزا تم کو سنا دیا جاتا ہے اور قید کے لیے ایک پولیس مین کے تم حوالہ کیے جاتے ہو.سو یہ حالت اسوقت سے مشابہ ہے جبکہ رات پڑ جاتی ہے اور ایک سخت اندھیرا پڑ جاتا ہے.اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز عشاء مقرر ہے.۵ پھر جبکہ تم ایک مدت تک اس مصیبت کی تاریکی میں بسر کرتے ہو تو پھر آخر خدا کا رحم تم پر جوش مارتا ہے اور تمہیں اس تاریکی سے نجات دیتا ہے مثلاً جیسے تاریکی کے بعد پھر آخر کار صبح نکلتی ہے اور پھر وہی روشنی دن کی اپنی چمک کے ساتھ ظاہر ہو جاتی ہے.سو اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز فجر
53 مقرر ہے اور خدا نے تمہارے فطرتی تغیرات میں پانچ حالتیں دیکھ کر پانچ نمازیں تمہارے لیے مقرر کیں.اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ یہ نمازیں خاص تمہارے نفس کے فائدہ کے لیے ہیں.پس اگر تم چاہتے ہو کہ ان بلاؤں سے بچے رہو تو پنجگانہ نمازوں کو ترک نہ کرو کہ وہ تمہارے اندرونی اور روحانی تغیرات کا ظل ہیں.نماز میں آنیوالی بلاؤں کا علاج ہے.تم نہیں جانتے کہ نیا دن چڑھنے والا کس قسم کے قضاء و قدر تمہارے لیے لائے گا پس قبل اس کے جو دن چڑھے تم اپنے مولا کی جناب میں تضرع کرو کہ تمہارے لیے خیر و برکت کا دن چڑھے.اے امیرو اور بادشا ہو !....اور دولتمند و آپ لوگوں میں ایسے لوگ بہت کم ہیں جو خدا سے ڈرتے اور اُس کی تمام راہوں میں راستباز ہیں ، اکثر ایسے ہیں کہ دنیا کے ملک اور دنیا کے املاک سے دل لگاتے ہیں اور پھر اسی میں عمر بسر کر لیتے ہیں اور موت کو یاد نہیں رکھتے ، ہر ایک امیر جو نماز نہیں پڑھتا اور خدا سے لا پروہ ہے اُس کے تمام نوکروں چاکروں کا گناہ اسکی گردن پر ہے.کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد 19 ص69-70) ( تفسیر سورۃ بنی اسرائیل ، ص 238-239)
54 نماز کے اوقات روحانی حالتوں کی ایک عکسی تصویر ہے اور یہ بھی یاد رکھو کہ یہ جو پانچ وقت نماز کے لیے مقرر ہیں یہ کوئی تحکم اور جبر کے طور پر نہیں بلکہ اگر غور کرو تو یہ دراصل روحانی حالتوں کی ایک عکسی تصویر ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ ! أَقَمِ الصَّلوةَ لِدُلُوكِ الشَّمس (بنی اسرائیل : 79) یعنی قائم کرو نماز کو دلوک الشمس سے.اب دیکھو کہ اللہ تعالی نے یہاں قیام الصلوۃ کو ڈلوک شمس سے لیا ہے.ڈٹوک کے معنوں میں گو اختلاف ہے، لیکن دو پہر کے ڈھلنے کے وقت کا نام ڈلوک ہے.اب ڈلوک سے لیکر پانچ نمازیں رکھ دیں.اسمیں حکمت اور سر کیا ہے؟ قانون قدرت دکھاتا ہے کہ روحانی تذلیل اور انکسار کے مراتب بھی ڈلوک ہی سے شروع ہوتے ہیں.اور پانچ ہی حالتیں آتی ہیں پس یہ طبعی نماز بھی اُسوقت سے شروع ہوتی ہے جب حُزن اور ہتم وعم آثار شروع ہوتے ہیں.اُسوقت جبکہ انسان پر کوئی آفت یا مصیبت آتی ہے تو کس قدر تذلل اور انکساری کرتا ہے.اب اسوقت اگر زلزلہ آوے ، تو تم سمجھ سکتے ہو کہ طبیعت میں کیسی
55 رقت اور انکساری پیدا ہو جاتی ہے.اسی طرح پر سوچو کہ اگر مثلاً کسی شخص پر مالش ہو تو سمن یا وارنٹ آنے پر اس کو معلوم ہوگا کہ فلاں دفعه فوجداری یا دیوانی میں نائش ہوئی ہے، اب بعد مطالعہ ء وارنٹ اسکی حالت میں گویا نصف النہار کے بعد زوال شروع ہوا، کیونکہ وارنٹ یاسمن تک تو اُسے کچھ معلوم نہ تھا.اب خیال پیدا ہوا کہ خدا جانے ادھر وکیل ہو یا کیا ہو ؟ اس قسم کے تردّدات اور تفکرات سے جو زوال پیدا ہوتا ہے یہ وہی حالت ڈلوک ہے اور یہ پہلی حالت ہے جو نماز ظہر کے قائمقام ہے.اور اسکی عکسی حالت نماز ظہر ہے.اب دوسری حالت اس پر وہ آتی ہے جبکہ وہ کمرہ عدالت میں کھڑا ہے.فریق مخالف اور عدالت کیطرف سے سوالات جرح ہورہے ہیں اور وہ ایک عجیب حالت ہوتی ہے.یہ وہ حالت اور وقت ہے جو نماز عصر کا نمونہ ہے، کیونکہ عصر گھوٹنے اور نچوڑنے کو کہتے ہیں.جب حالت اور بھی نازک ہوجاتی ہے اور فرد قراردادِ مُجرم لگ جاتی ہے، تو پاس اور نا اُمیدی بڑھتی ہے.کیونکہ اب خیال ہوتا ہے کہ سزا مل جاوے گی.یہ وہ وقت ہے.جو مغرب کی نماز کا عکس ہے پھر جب حکم سنایا گیا اور کانٹیبل یا کورٹ انسپیکٹر کے حوالہ کیا گیا، تو وہ روحانی طور پر نماز عشاء کی عکسی تصویر ہے.
56 یہاں تک کہ نماز کی صبح صادق ظاہر ہوئی اور إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً (الم نشرح :7) کی حالت کا وقت آگیا تو روحانی نماز فجر کا وقت آگیا اور فجر کی نماز اس کی عکسی تصویر ہے.القصہ میں پھر تم کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ تم جو میرے ساتھ ایک سچا تعلق پیدا کرتے ہو اس سے یہی غرض ہے کہ تم اپنے اخلاق میں، عادات میں نمایاں تبدیلی کرو جو دوسروں کے لیے ہدایت اور سعادت کا موجب ہو.رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء مرتبہ شیخ یعقوب على صاحب عرفانی ،ص167،130) (از ملفوظات جلد اوّل، ص 95)
57 باب VI نماز کا فائدہ نمازی کو ہے خدا تو بے نیاز ہے یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ نہ ہو اور رجوع نہ کرو تو اس سے اسکی ذات میں کوئی نقص پیدا نہیں ہوسکتا اور وہ تمہاری کچھ بھی پرواہ نہیں رکھتا جیسا کہ وہ فرماتا ہے: قُلُ مَا يَعْبَثُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان: 78) یعنی ان کو کہہ دو کہ میرا رب تمہاری پرواہ کیا رکھتا ہے اگر تم بچے دل سے اس کی عبادت نہ کرو.جیسا کہ وہ رحیم و کریم ہے ویسا ہی وہ غنی بے نیاز بھی ہے.کیا تم نے نہیں دیکھا کہ طاعون نے کیا کیا اور زلزلوں نے کیا دکھایا ؟ گھروں کے گھر اور شہروں کے شہر تباہ ہو گئے اور ہزاروں لاکھوں خاندان ہمیشہ کے لیے مٹ گئے مگر خدا تعالیٰ کو اس کی کیا پرواہ.باوجود اس کے کہ وہ بہت ہی رحم کر نیوالا ہے مگر بے نیاز بھی ہے.نوح کے وقت ، لوط کے وقت، موسیٰ کے وقت کیا ہوا؟ کیا جو قومیں اور بستیاں اسوقت ہلاک ہوئیں وہ انسان نہ تھے؟ وہ بھی انسان تھے اور تم
58 بھی انسان ہو لیکن جب اس نے دیکھا کہ وہ باز نہیں آتے اور حق کا انکار کرتے ہیں تو آخر خدا تعالیٰ کا قہر نازل ہوا اور آن کی آن میں انہیں مٹا دیا.مگر یادرکھو اور خوب یاد رکھو.صرف اتنی ہی بات کہ ہم نے مان لیا ہے کافی نہیں.خدا تعالی مجر و اقرار نہیں چاہتا.وہ چاہتا ہے کہ جو اقرار تم نے کیا ہے اسے کر کے دکھا دو.بعض لوگ اعتراض کر دیتے ہیں کہ فلاں شخص بیعت میں داخل تھا پھر وہ طاعون سے کیوں مرگیا ؟ میں کہتا ہوں کہ میں اس کا ذمہ دار ہوں کہ کیوں مرگیا ؟ اپنے اندر کے طاعون سے مرگیا.اللہ تعالیٰ ہرگز ہرگز ظلام نہیں ہے وہ اپنے نیچے بندوں کو محفوظ رکھتا ہے.اور ان میں اور ان کے غیروں میں فرق رکھ دیتا ہے مجھے ان لوگوں پر بہت ہی تعجب آتا ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے بیعت کی ہوئی تھی ہم پر یہ مصیبت کیوں آئی؟ وہ نادان نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا.بری بیعت اور زبانی اقرار کیا بنا سکتا ہے؟ جینک دل صاف نہ ہو اور اللہ تعالیٰ سے کچا پیوند قائم نہ ہو.کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام سے وعدہ کیا تھا کہ میں تیرے اہل کو بچالوں گا ، لیکن جب انکا بیٹا ہلاک ہونے لگا تو
59 نوح علیہ السلام نے دُعا کی اور اس امر کو پیش کیا.خدا تعالی نے اسکا کیا جواب دیا ؟ یہی کہ تو جاہل مت بن وہ تیرے اہل میں سے نہیں ہے.کیونکہ اسکے اعمال صالح نہیں ہیں گویا وہ چُھپا ہوا مرتد تھا.پھر جب انہیں اپنے ایسے بیٹے کے لیے دُعا کرنے پر یہ جواب ملا تو اور کون ہوسکتا ہے جو خدا تعالیٰ تو سچا تعلق پیدا نہیں کرتا اور اپنے اعمال اور حال میں اصلاح نہیں کرتا اور چاہتا ہے کہ اسکے ساتھ وہ معاملہ ہو جو اسکے مخلص اور وفادار بندوں سے ہوتا ہے.یہ سخت نادانی اور غلطی ہے.(ملفوظات جلد پنجم ص 96 تا 97) سے
60 60 نماز کی اہمیت باب VII خدا کی رحمت کے سرچشمہ سے فائدہ اٹھانے کا اصل قاعدہ یہی ہے کہ تقویٰ اختیار کیا جائے.ناقل ) خدا تعالی کا یہ خاصہ ہے کہ جیسے اس انسان کا قدم بڑھتا ہے ویسے ہی پھر خدا کا قدم بڑھتا ہے.خدا تعالیٰ کی خاص رحمتیں ہر ایک کے ساتھ نہیں ہوتیں.اور اسی لیے جن پر یہ ہوتی ہیں ان کے لیے صلى الله وہ نشان بولی جاتی ہیں (اس کی نظیر دیکھ لو ) کہ پیغمبر خدا ﷺ پر ان کے دشمنوں نے کیا کیا کوششیں آپ کی ناکامیابی کے واسطے کیں مگر ایک پیش نہ گئی حتی کہ قتل کے منصوبے کیے مگر آخر نا کامیاب ہی ہوئے.خدا تعالیٰ یہ تجویز پیش کرتا ہے (اس خاص رحمت کے حصول کے واسطے جو اخلاق وغیرہ حاصل کیے جاویں تو ) ان امروں کو چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کیا جاوے نہ کہ ہمارے سامنے.اپنے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت اور عظمت کا سلسلہ جاری رکھیں اور اس کے لیے نماز سے بڑھ کر اور کوئی شے نہیں ہے.کیونکہ روزے تو ایک سال کے بعد آتے ہیں اور زکوۃ صاحب مال کو دینی پڑتی ہے مگر نماز ہے کہ
61 ہر ایک حیثیت کے آدمی) کو پانچوں وقت ادا کرنی پڑتی ہے.اسے ہرگز ضائع نہ کریں.اسے بار بار پڑھو اور اس خیال سے پڑھو کہ میں ایسی طاقت والے کے سامنے کھڑا ہوں کہ اگر اس کا ارادہ ہو تو ابھی قبول کر لیوے.اُسی حالت میں ، بلکہ اُسی ساعت میں بلکہ اُسی سیکنڈ میں.کیونکہ دوسرے دنیاوی حاکم تو خزانوں کے محتاج ہیں اور ان کو فکر ہوتی ہے کہ خزانہ خالی نہ ہو جاوے.اور ناداری کا ان کو فکر لگا رہتا ہے مگر خدا تعالی کا خزانہ ہر وقت بھرا بھرایا ہے.جب اسکے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو صرف یقین کی حاجت ہوتی ہے اسے اس امر پر یقین ہو کہ میں ایک سمیع ، علیم اور خبیر اور قادر ہستی کے سامنے کھڑا ہوا ہوں اگر اسے مہر آجاوے تو ابھی دے دیوے.بڑے تضرع سے دُعا کرے.نا اُمید اور بدظن ہرگز نہ ہووے اور اگر اسی طرح کرے تو (اس راحت کو ) جلدی دیکھ لے گا اور خدا تعالیٰ کے اور اور فضل بھی شامل حال ہوں گے اور خود خدا بھی ملے گا.تو یہ طریق ہے جس پر کاربند ہونا چاہئے مگر ظالم فاسق کی دُعا قبول نہیں ہوا کرتی.کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے لا پروا ہے.ایک بیٹا اگر باپ کی پرواہ نہ کرے اور ناخلف ہو تو باپ کو اس کی پرواہ نہیں ہوتی تو خدا کو کیوں ہو.( ملفوظات جلد دوم ، ص 681 تا 682)
62 لا سوال: ایک شخص نے عرض کی کہ میرے لیے دُعا کریں ے لیے دعا کریں کہ نماز کی توفیق اور استقامت ملے فرمایا: حقیقت میں جو شخص نماز کو چھوڑتا ہے وہ ایمان کو چھوڑتا ہے.اس سے خدا کے ساتھ تعلقات میں فرق آجاتا ہے.اس طرف سے فرق آیا تو معا اُس طرف سے بھی فرق آجاتا ہے.( ملفوظات جلد سوم ،ص 235 تا 236)
63 VIII! انسانی پیدائش کی غرض قرآن مجید میں ہے کہ وَالَّذِينَ هُمْ عَلى صَلَوْا تِهِم يُحَافِظُونَ ) (المومنون : 10) یعنی ایسے ہی لوگ ہیں جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں اور بھی ناغہ نہیں کرتے اور انسان کی پیدائش کی اصل غرض بھی یہی ہے کہ وہ نماز کی حقیقت سیکھے.جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون (الذريات : 57) غرض یاد رکھنا چاہئے کہ نماز ہی وہ شے ہے جس سے سب مشکلات آسان ہو جاتے ہیں اور سب بلائیں دُور ہوتی ہیں.مگر نماز سے وہ نماز مُراد نہیں جو عام لوگ رسم کے طور پر پڑھتے ہیں بلکہ وہ نماز مراد ہے جس سے انسان کا دل گداز ہو جاتا ہے.اور آستانہ احدیث پر گر کر ایسا محو ہو جاتا ہے کہ پچھلنے لگتا ہے.اور پھر یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ نماز کی حفاظت اس واسطے نہیں کی جاتی کہ خدا کو ضرورت ہے.خدا
64 تعالیٰ کو ہماری نمازوں کی کوئی ضرورت نہیں وہ تو غَنِي عَنِ العلمین ہے اس کو کسی کی حاجت نہیں بلکہ اسکا مطلب یہ ہے کہ انسان کو ضرورت ہے اور یہ ایک راز کی بات ہے کہ انسان خود اپنی بھلائی چاہتا ہے اسی لیے وہ خدا سے مدد طلب کرتا ہے کیونکہ یہ نئی بات ہے کہ انسان کا خدا سے تعلق ہو جانا حقیقی بھلائی کا حاصل کر لینا ہے.ایسے شخص کی اگر دنیا دشمن ہو جائے اور اس کی ہلاکت کے درپے رہے تو اسکا کچھ بگاڑ نہیں سکتی.اور خدا تعالیٰ کو ایسے شخص کی خاطر اگر لاکھوں کروڑوں انسان بھی ہلاک کرنے پڑیں تو کردیتا ہے اور اس ایک کی بجائے لاکھوں کو فنا کر دیتا ہے.( ملفوظات جلد پنجم، ص 402 ، 403)
65 حقیقی نماز کے فوائد باب IX یاد رکھو کہ اگر بنکروں والی نماز ہزار برس بھی پڑھی جاوے تو ہر گز فائدہ نہ ہوگا.نماز ایسی شے ہے کہ اس کے ذریعہ سے آسمان انسان پر جھک پڑتا ہے.نماز کا حق ادا کرنے والا یہ خیال کرتا ہے کہ میں مر گیا اور اس کی روح گداز ہو کر خدا کے آستانہ پر گر پڑی ہے اگر طبیعت میں قبض اور بدمزگی ہو تو اس کے لیے بھی دعا ہی کرنی چاہیے کہ الہی تو ہی اسے دُور کر اور لذت اور نور نازل فرما.جس گھر میں اس قسم کی نماز ہوگی وہ گھر کبھی تباہ نہ ہوگا.حدیث شریف میں ہے کہ اگر نوح علیہ السلام کے وقت میں یہ نماز ہوتی تو وہ قوم کبھی تباہ نہ ہوتی.حج بھی انسان کے لیے مشروط ہے، روزہ بھی مشروط ہے.زکوۃ بھی مشروط ہے.مگر نماز مشروط نہیں.سب ایک سال میں ایک ایک دفعہ ہیں.مگر اس کا حکم ہر روز پانچ دفعہ ادا کرنے کا ہے.اس لیے جتک پوری پوری نماز نہ ہوگی تو وہ برکات بھی نہ ہوں گی جو اس سے
66 حاصل ہوتی ہیں اور نہ اس بیعت کا کچھ فائدہ حاصل ہوگا.اگر ٹھوک یا پیاس لگی ہو تو ایک لقمہ یا ایک گھونٹ سیری نہیں بخش سکتا.پوری خوراک ہوگی تو تسکین ہوگی.اسی طرح ہوگی ناکارہ تقویٰ ہرگز کام نہ آوے گا.خدا تعالی انہیں سے محبت کرتا ہے جو اس سے محبت کرتے ہیں.لن تنالو البر حتى تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ 0 ( آل عمران : 93) کے یہ معنی ہیں کہ سب سے عزیز شئے جان ہے.اگر موقع ہو تو وہ بھی خدا کی راہ میں دے دی جاوے.نماز میں اپنے اوپر جو موت اختیار کرتا ہے وہ بھی ہر کو پہنچتا ہے.برکات نماز کا حصول ( ملفوظات جلد سوم ص 627) اسمیں شک نہیں کہ نماز میں برکات ہیں مگر وہ برکات ہر ایک کو نہیں مل سکتے.نماز بھی وہی پڑھتا ہے جس کو اللہ تعالی نماز پڑھاوے ورنہ وہ نماز نہیں برا پوست ہے جو پڑھنے والے کے ہاتھ میں ہے.اس کو مغز سے کچھ واسطہ اور تعلق ہی نہیں.اسی طرح کلمہ بھی وہی پڑھتا ہے جس کو خدا تعالی کلمہ پڑھوائے.جیتک
67 نماز اور کلمہ پڑھنے میں آسمانی چشمہ سے گھونٹ نہ ملے تو کیا فائده؟ وہ نماز جس میں حلاوت اور ذوق ہو اور خالق سے سچا تعلق قائم ہو کر پوری نیازمندی اور خشوع کا نمونہ ہو اس کے ساتھ ہی ایک تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے.جس کو پڑھنے والا فوراً محسوس کر لیتا ہے کہ اب وہ وہ نہیں رہا جو چند سال پہلے تھا.( ملفوظات جلد سوم، ص 597) نماز خدا تعالی تک پہنچنے کا ذریعہ ہے اصل میں قاعدہ ہے کہ اگر انسان نے کسی خاص منزل پر پہنچنا ہے تو اس کے واسطے چلنے کی ضرورت ہوتی ہے.جتنی لمبی وہ منزل ہوگی اتنا ہی زیادہ تیزی ، کوشش اور محنت اور دیر تک اُسے چلنا ہوگا.سو خدا تعالیٰ تک پہنچنا بھی تو ایک منزل ہے.اور اس کا بعد اور دوری بھی لمبی.پس جو شخص خدا تعالی سے ملنا چاہتا ہے اور اس کے دربار میں پہنچنے کی خواہش رکھتا ہے اس کے واسطے نماز ایک گاڑی ہے جس پر سوار ہو کر وہ جلد تر پہنچ سکتا ہے جس نے نماز ترک کر دی وہ کیا پہنچے گا.اصل میں مسلمانوں نے جب سے نماز کو ترک کیا یا اُسے دل کی تسکین، آرام اور محبت سے اس کی حقیقت سے
68 غافل ہو کر پڑھنا ترک کیا ہے تب ہی سے اسلام کی حالت بھی معرض زوال میں آئی ہے.وہ زمانہ جسمیں نمازیں سنوار کر پڑھی جاتی تھیں غور سے دیکھ لو کہ اسلام کے واسطے کیسا تھا.ایک دفعہ تو اسلام نے تمام دنیا کو زیر پا کر دیا تھا جب سے اسے ترک کیا وہ متروک ہو گئے ہیں.درد دل سے پڑھی ہوئی نماز ہی ہے کہ تمام مشکلات سے انسان کو نکال لیتی ہے.ہمارا بارہا کا تجربہ ہے کہ اکثر کسی مشکل کے وقت دُعا کی جاتی ہے.ابھی نماز میں ہی ہوتے ہیں کہ خدا نے اس امر کوحل اور آسان کر دیا ہوا ہوتا ہے.نماز میں کیا ہوتا ہے یہی کہ عرض کرتا ہے.التجا کے ہاتھ بڑھاتا ہے.اور دوسرا اس کی غرض کو اچھی طرح سنتا ہے.پھر ایک وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو سنتا تھا وہ بولتا ہے اور گذارش کرنے والے کو جواب دیتا ہے.نمازی کا یہی حال ہے کہ خدا کے آگے سربسجود رہتا ہے اور خدا تعالیٰ کو اپنے مصائب و حوائج سناتا ہے پھر آخر نیچی اور حقیقی نماز کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ ایک وقت جلد آجاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے جواب کے واسطے بولنا اور اس کو جواب دیکر تسلی دیتا ہے.بھلا یہ بنجر حقیقی نماز کے ممکن ہے؟ ہرگز نہیں.اور پھر جن کا خدا ہی ایسا
69 نہیں وہ بھی گئے گزرے ہیں.اُن کا کیا دین اور کیا ایمان ہے.وہ کس اُمید پر اپنے اوقات ضائع کرتے ہیں.( ملفوظات جلد سوم ، ص189، 190) نماز پروردگار تک لے جانے والی سواری ہے (ترجمه از مرتب) نماز ایک ایسی سواری ہے جو بندے کو پروردگار عالم تک پہنچاتی ہے.اس کے ذریعہ انسان ایسے مقام تک پہنچ جاتے ہیں جہاں گھوڑوں کی پیٹھوں پر بیٹھ کر نہ پہنچ سکتا اور نماز کا شکار (ثمرات) تیروں سے حاصل نہیں کیا جاسکتا.اسکا راز قلموں سے ظاہر نہیں ہوسکتا ہے.اور جس شخص نے اس طریق کو لازم پکڑا اس نے حق اور حقیقت کو پا لیا اور اس محبوب تک پہنچ گیا جو غیب کے پردوں میں ہے اور شک و شبہ سے نجات حاصل کرلی.پس تو دیکھے گا کہ اس کے دن روشن ہیں اور اُس کی باتیں موتیوں کی مانند ہیں اور اس کا چہرہ چودھویں کا چاند ہے اسکا مقام صدرنشینی ہے.جو شخص نماز میں اللہ تعالیٰ کے لیے عاجزی سے جھکتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے بادشاہوں کو جھکا دیتا ہے اور اس مملوک بندہ کو مالک بنادیتا ( اعجاز اسیح ، ص 163-164، حاشیہ تفسیر سورة البقرة ،ص50) ہے.
70 قبولیت دعا کی کنجی ہمارے غالب آنے کے ہتھیار استغفار.توبہ.دینی علوم کی واقفیت خدا تعالیٰ کی عظمت کو مد نظر رکھنا اور پانچوں وقت کی نمازوں کو ادا کرنا ہیں.نماز دُعا کی قبولیت کی کنجی ہے جب نماز پڑھو تو اسمیں دعا کرو اور غفلت نہ کرو اور ہر ایک بدی سے خواہ وہ حقوق الہی کے متعلق ہو خواہ حقوق العباد کے متعلق ہو.بچو.( ملفوظات جلد سوم ،ص221-222) ایک حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی میرے پیچھے نماز ایک مرتبہ پڑھ لیوے تو وہ بخشا جاتا ہے.اس کا حاصل مطلب یہ ہے کہ جو لوگ کو نــوامع الصادقین کے مصداق ہو کر نماز کو آپ کے پیچھے ادا کرتے ہیں تو وہ بخشے جاتے ہیں.اصل میں لوگ نماز میں دنیا کے رونے روتے رہتے ہیں.اور جو اصل مقصود نماز کا قرب الی اللہ اور ایمان کا سلامت لے جانا ہے اس کی فکر ہی نہیں حالانکہ ایمان سلامت لے جانا بہت بڑا معاملہ ہے حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب انسان اس واسطے روتا ہے کہ مجھے کو با ایمان اللہ تعالیٰ دنیا سے
71 لے جاوے تو خدا تعالیٰ اس کے اوپر دوزخ کی آگ حرام کرتا ہے اور بہشت ان کو ملے گا جو اللہ تعالیٰ کے حضور میں حصولِ ایمان کے لیے روتے ہیں مگر یہ لوگ جب روتے ہیں تو دنیا کے لیے روتے ہیں پس اللہ تعالیٰ اُن کو بُھلا دے گا.اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاذَ كُرُونِي أَذْكُرُحم (البقرة : 153) تم مجھے کو یاد رکھو میں تم کو یاد رکھوں گا یعنی آرام اور خوشحالی کے وقت تم مجھ کو یاد رکھو اور میرا قرب حاصل کرو تا کہ مصیبت میں میں تم کو یاد رکھوں.یہ ضرور یاد رکھنا چاہئے کہ مصیبت کا شریک کوئی نہیں ہوسکتا.اگر انسان اپنے ایمان کو صاف کر کے اور دروازہ بند کر کے رووے بشرطیکہ پہلے ایمان صاف ہو تو وہ ہرگز بے نصیب اور نامراد نہ ہوگا.( ملفوظات جلد سوم،ص 378) بُرائیوں سے بچنے کے واسطے خدا تعالیٰ سے دُعا کرو نماز کوئی ایسی ویسی شئے نہیں ہے بلکہ یہ وہ شئے ہے جس میں اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيم.......الخ (الفاتحه : 4) جیسی دُعا کی جاتی ہے.اس دُعا میں بتلایا گیا ہے کہ جو لوگ کرے کام کرتے ہیں ان پر دنیا میں خدا تعالیٰ کا غضب آتا
72 ہے.الغرض اللہ تعالیٰ کو خوش کرنا چاہئے جو کام ہوتا ہے اس کے ارادہ سے ہوتا ہے چنانچہ طاعون بھی اسی کے حکم سے آئی ہے یہ دُنیا سے رخصت نہ ہوگی.جب تک ایک تغیر عظیم پیدا نہ کرلے.جو اس سے نہیں ڈرتا وہ بڑا بد بخت ہے اور اس کے استیصال کیلئے ایک ہی راہ ہے وہ یہ کہ اپنے آپ کو پاک کرو کیونکہ اگر پاک ہوکر مر بھی جاوے گا تو وہ بہشت کو پہنچے گا.مرنا تو سب نے ہے مومن نے بھی اور کافر نے بھی مگر مومن اور کافر کی موت میں خدا تعالیٰ فرق کر دیتا ہے.دیکھو ان باتوں کو منتر جنتر نہ سمجھو اور یہ خیال نہ کرو کہ یونہی فائدہ ہو جاوے گا جیسے کہ بھوکے کے سامنے روٹیوں کا انبار فائدہ نہیں دیتا جب تک کہ وہ نہ کھاوے.اسی طرح آج کے اقرار کے مطابق جب تک کوئی اپنے آپ کو گناہ سے نہ بچاوے گا اسے برکت نہ ہوگی.یاد رکھو کہ میں اس بات پر شاہد ہوں کہ میں نے تم کو سمجھا دیا ہے.اب تم کو چاہئے کہ برائیوں سے بچنے کے واسطے خدا تعالیٰ سے دعا کرو تا کہ بچے رہو.جو شخص بہت دُعا کرتا ہے اس کے واسطے آسمان سے توفیق نازل کی جاتی ہے کہ گناہ سے بچے اور دعا کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گناہ سے بچنے کے لیے کوئی نہ کوئی راہ اُسے مل جاتی ہے.جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.
73 يَجْعَل لَّهُ مَخْرِجًا یعنی جو امور اُسے کشاں کشاں گناہ کیطرف لے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان امور سے بچنے کی توفیق اسے عطا فرماتا ہے.قرآن کو بہت پڑھنا چاہیے اور پڑھنے کی توفیق اللہ تعالیٰ سے طلب کرنی چاہیے کیونکہ محنت کے سوا انسان کو کچھ نہیں ملتا.کسان کو دیکھو کہ جب وہ زمین میں ہل چلاتا ہے اور قسم قسم کی محنت اُٹھاتا ہے تب پھل حاصل کرتا ہے.مگر محنت کے لیے زمین کا اچھا ہونا شرط ہے.اسی طرح انسان کا دل بھی اچھا ہو، سامان بھی عمدہ ہو سب کچھ کر بھی سکے.تب جاکر فائدہ پاوے گا..لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى (النجم : 40) دل کا تعلق اللہ تعالی سے مضبوط باندھنا چاہیے.جب یہ ہوگا تو دل خود خدا سے ڈرتا رہے گا اور جب دل ڈرتا رہتا ہے تو خدا تعالی کو اپنے بندے پر خود رحم آجاتا ہے اور پھر تمام بلاؤں سے اُسے بچاتا ہے.گناہ سے بچو ، نماز ادا کرو، دین کو دنیا پر مقدم رکھو.خدا تعالی کا سچا غلام وہی ہوتا ہے جو دین کو دنیا پر مقدم رکھتا ہے.( ملفوظات جلد سوم ، ص 233)
74 خدائے پاک کو پانے کا طریق موت کو یاد رکھو کہ وہ تمہارے نزدیک آتی جاتی ہے اور تم اس سے بے خبر ہو.کوشش کرو کہ پاک ہو جاؤ کہ انسان پاک کو جب پاتا ہے کہ خود پاک ہو جاوے مگر تم اس نعمت کو کیونکر پاسکو.اس کا جواب خود خدا نے دیا ہے جہاں قرآن میں فرماتا ہے.وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلواة یعنی نماز اور صبر کے ساتھ خدا سے مدد چاہو.نماز کیا چیز ہے.وہ دعا ہے جو تسبیح، حمید، تقدیس اور استغفار اور درود کے ساتھ تضرع سے مانگی جاتی ہے.سو جب تم نماز پڑھو تو بے خبر لوگوں کی طرح اپنی دُعاؤں میں صرف عربی الفاظ کے پابند نہ رہو.کیونکہ ان کی نماز اور انکا استغفار سب رسمیں ہیں جن کے ساتھ کوئی حقیقت نہیں لیکن تم جب نماز پڑھو تو بجز قرآن کے جو خدا کا کلام ہے اور بجز بعض ادعیہ ماثورہ کے کہ وہ رسُول کا کلام ہے، باقی اپنی تمام عام دُعاؤں میں اپنی زبان میں ہی الفاظ متضر عانہ ادا کر لیا کرو تا کہ تمہارے دلوں پر اس بجز و نیاز کا کچھ اثر ہو.کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد 19 ص 68)
75 پنجوقتہ نماز میں چار کمالات کے حصول کی دُعا ہم نماز میں یہ دُعا کرتے ہیں کہ اهـــدنــــا الــصـــراط المستقيم صراط الذین انعمت علیھم اس سے یہی مطلب ہے کہ خدا سے ہم اپنے ترقی ایمان اور بنی نوع کی بھلائی کیلئے چار قسم کے نشان چار کمال کے رنگ میں چاہتے ہیں نبیوں کا کمال.صدیقوں کا کمال صلحاء کا کمال.شہیدوں کا کمال.سو نبی کا خاص کمال یہ ہے کہ خدا سے ایسا علم غیب پاوے جو بطور نشان کے ہو اور صدیق کا کمال یہ ہے کہ صدق کے خزانہ پر ایسے کامل طور پر قبضہ کرے یعنی ایسے المل طور پر کتاب اللہ کی سچائیاں اسکو معلوم ہو جائیں کہ وہ بوجہ خارق عادت ہونے کے نشان کی صورت پر ہوں.اور اس صدیق کے صدق پر گواہی دیں.اور شہید کا کمال یہ ہے کہ مصیبتوں اور دکھوں اور ابتلاؤں کے وقت میں ایسی قوت ایمانی اور قوت اخلاقی اور ثابت قدمی دکھلاوے کہ جو خارق عادت ہونے کی وجہ وجہ سے بطور نشان کے ہو جائے.اور مرد صالح کا کمال یہ ہے کہ ایسا ہر ایک قسم کے فساد سے دور ہو جائے اور مجسم صلاح بن جائے کہ وہ کامل صلاحیت اس کی خارق عادت ہونیکی وجہ سے بطور نشان
76 مانی جائے.سو یہ چاروں قسم کے کمال جو ہم پانچ وقت خدا تعالیٰ سے نماز میں مانگتے ہیں.یہ دوسرے لفظوں میں ہم خدا تعالیٰ سے آسمانی نشان طلب کرتے ہیں اور جس میں یہ طلب نہیں اس میں ایمان بھی نہیں.ہماری نماز کی حقیقت یہی طلب ہے جو ہم چار رنگوں میں پنجوقت خدا تعالی سے چار نشان مانگتے ہیں اور اسطرح پر زمین پر خدا تعالیٰ کی تقدیس چاہتے ہیں تا ہماری زندگی انکار اور شک اور غفلت کی زندگی ہو کر زمین کو پلید نہ کرے اور ہر ایک شخص خدا تعالیٰ کی تقدیس تبھی کر سکتا ہے کہ جب وہ یہ چاروں قسم کے نشان خدا تعالیٰ سے مانگتا رہے.حضرت مسیح نے بھی مختصر لفظوں میں یہی سکھایا تھا.دیکھومتی باب 8 آیت 9 " پس تم اسی طرح دُعا مانگو کہ اے ہمارے باپ جو آسمان پر ہے.تیرے نام کی تقدیس ہو“.تریاق القلوب ، روحانی خزائن جلد 15 ، ص 515 تا 516) نفلی نمازیں اور خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق انسان کو صرف پنجگانہ نماز اور روزوں وغیرہ احکام کی ظاہری بجا آوری پر ہی ناز نہیں کرنا چاہیے کہ نماز پڑھنی تھی پڑھ
77 ہے لی.روزے رکھنے تھے رکھ لیے، زکوۃ دینی تھی دے دی وغیرہ نوافل ہمیشہ نیک اعمال کے متمم و مکمل ہوتے ہیں.اور یہی ترقیات کا موجب ہوتا ہے.مومن کی تعریف یہ ہے کہ خیرات و صدقہ وغیرہ جو خدا نے اس پر فرض * ٹھہرایا بجالا وے اور ہر ایک کار خیر کے کرنے میں اس کو ذاتی محبت ہو اور کسی تصنع و نمائش و ریا کو اسمیں دخل نہ ہو.یہ حالت مومن کی اس کے بچے اخلاص اور تعلق کو ظاہر کرتی ہے.اور ایک سچا اور مضبوط رشتہ اسکا اللہ تعالیٰ کے ساتھ پیدا کر دیتی ہے.اسوقت اللہ تعالیٰ اس کی زبان ہو جاتا ہے جس سے وہ بولتا ہے اور اس کے کان ہوجاتا ہے.جن سے وہ سنتا ہے اور اس کے ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ کام کرتا ہے.( ملفوظات جلد سوم ،ص343) * البدر میں یوں لکھا ہے کہ : ” مومن کی تعریف یہ ہے کہ خیرات اور صدقہ وغیرہ جو کہ خدا نے اس پر فرض تو نہیں کیسے مگر وہ اپنی ذاتی محبت سے ان کو بجا لاتا ہے اسوقت اس کا ایک خاص تعلق خدا سے ہوتا ہے" نوافل کی حقیقت حدیث میں آیا ہے کہ مومن نوافل کے ساتھ خدا تعالیٰ کا.
78 قرب حاصل کرتا ہے.نوافل سے مُراد یہ ہے کہ خدمت مقرر کردہ میں زیادتی کی جاوے ہر ایک خیر کے کام میں دُنیا کا بندہ تھوڑا سا کر کے سُست ہو جاتا ہے.لیکن مومن زیادتی کرتا ہے.نوافل صرف نماز سے ہی مختص نہیں بلکہ ہر ایک حسنات میں زیادتی کرنا نوافل ادا کرنا ہے.مومن محض خدا تعالیٰ کی خوشنودی کیلئے اُن نوافل کی فکر میں لگا رہتا ہے.کہ اس کے دل میں ایک درد ہے جو اسے بے چین کرتا ہے اور وہ دن بدن نوافل و حسنات میں ترقی کرتا جاتا ہے اور بالمقابل خدا تعالی بھی اس کے قریب ہوتا جاتا ہے.حتی کہ مومن اپنی ذات کو فنا کر کے خدا تعالیٰ کے سایہ تلے آجاتا ہے.اس کی آنکھ خدا تعالیٰ کی آنکھ.اس کے کان خدا تعالیٰ کے کان ہو جاتے ہیں.کیونکہ وہ کسی معاملہ میں خدا تعالیٰ کی مخالفت نہیں کرتا.ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اس کی زبان خدا تعالیٰ کی زبان اور اس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہو جاتا ہے.خوش قسمت بننے کا طریق نماز ( ملفوظات جلد چہارم ص 30) خوش قسمت وہ شخص نہیں ہے جس کو دنیا کی دولت ملے اور وہ اس دولت کے ذریعہ ہزاروں آفتوں اور مصیبتوں کا مورد بن جائے بلکہ خوش قسمت وہ ہے جس کو ایمان کی دولت ملے.
79 اور وہ خدا کی ناراضگی اور غضب سے ڈرتا رہے اور ہمیشہ اپنے آپ کو نفس اور شیطان کے حملوں سے بچا تا رہے کیونکہ خدا تعالی کی رضا کو وہ اس طرح پر حاصل کرے گا.مگر یادر کھو کہ یہ بات یونہی حاصل نہیں ہوسکتی.اس کیلئے ضروری ہے کہ تم نمازوں میں دُعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ تم سے راضی ہو جاوے.اور وہ تمہیں توفیق اور قوت عطا فرمائے کہ تم گناہ آلود زندگی سے نجات پاؤ کیونکہ گناہوں سے بچنا اسوقت تک ممکن نہیں جب تک اس کی توفیق شامل حال نہ ہو اور اسکا فضل عطا نہ ہو اور یہ توفیق اور فضل دُعا سے ملتا ہے.اس واسطے نمازوں میں دُعا کرتے رہو کہ اے اللہ ! ہم کو ان تمام کاموں سے جو گناہ کہلاتے ہیں اور جو تیری مرضی اور ہدایت کے خلاف ہیں بیچا اور ہر قسم کے دکھ اور مصیبت اور بلا سے جو ان گناہوں کا نتیجہ ہے بیچا اور نیچے ایمان پر قائم رکھ ( آمین ).کیونکہ انسان جس چیز کی تلاش کرتا ہے وہ اس کو ملتی ہے اور جس سے لا پروائی کرتا.ہے اس سے محروم رہتا ہے.جوئندہ یابندہ مثل مشہور ہے.مگر جو گناہ کی فکر نہیں کرتے اور خدا تعالیٰ سے نہیں ڈرتے وہ پاک نہیں ہوسکتے.گناہوں سے وہی پاک ہوتے ہیں جن کو یہ فکر لگی رہتی ہے.کو یہ ( ملفوظات جلد سوم،ص 608 )
80 قضاء و قدر بھی حق ہے اور دُعا کا فائدہ بھی حق یہ بات یادر ہے کہ اگر چہ قضاء و قدر میں سب کچھ مقرر ہو چکا ہے.مگر قضاء و قدر نے علوم کو ضائع نہیں کیا.سو جیسا که با وجود تسلیم مسئلہ قضا و قدر کے ہر ایک کو علمی تجارب کے ذریعے سے ماننا پڑتا ہے کہ بے شک دواؤں میں خواص پوشیدہ اور اگر مرض کے مناسب حال کوئی دوا استعمال ہو تو خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے بے شک مریض کو فائدہ ہوتا سوایسا ہی علمی تجارب کے ذریعہ ہے.سے ہر ایک عارف کو ماننا پڑا ہے کہ دُعا کا قبولیت کے ساتھ ایک رشتہ ہے.ہم اس راز کو معقولی طور پر دوسروں کے دلوں میں بٹھا سکیں یا نہ بٹھا سکیں مگر کروڑ ہا راستبازوں کے تجارب نے اور خود ہمارے تجربہ نے اس مخفی حقیقت کو ہمیں دکھلا دیا ہے کہ ہمارا دُعا کرنا ایک قوت مغناطیسی رکھتا ہے اور فضل اور رحمت الہی کو اپنی طرف کھینچتا ہے نماز کا مغز اور روح بھی دُعا ہی ہے ط جو سورۃ فاتحہ میں ہمیں تعلیم دی گئی ہے.جب ہم اھدنا الصراط المستقیم کہتے ہیں تو اس دُعا کے ذریعہ سے اس نور کو اپنی طرف کھینچنا چاہتے ہیں.جو خدا تعالیٰ سے اُترتا اور دلوں کو یقین اور محبت سے منور کرتا ہے.کتاب ایام اصبح ، روحانی خزائن جلد 14 ص 240 تا 241)
81 باب X نماز اصل میں دُعا کیلئے ہے کہ ہر مقام پر دُعا کرے نماز اصل میں دُعا کیلئے ہے کہ ہر ایک مقام پر دُعا کرے، لیکن جو شخص سو یا ہوا نماز ادا کرتا ہے کہ اُسے اس کی خبر ہی نہیں ہوتی تو وہ اصل میں نماز نہیں جیسے دیکھا جاتا ہے کہ بعض لوگ پچاس پچاس سال نماز پڑھتے ہیں لیکن ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا حالانکہ نماز وہ شئے ہے کہ جس سے پانچ دن میں روحانیت حاصل ہو جاتی ہے.بعض نمازیوں پر خدا تعالیٰ نے لعنت بھیجی ہے جیسے فرماتا ہے.فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ (الماعون : 5) ویل کے معنی لعنت کے بھی ہوتے ہیں.پس چاہیے کہ ادا ئیگی نماز میں انسان سُست نہ ہو اور نہ غافل ہو.ہماری جماعت اگر جماعت بننا چاہتی ہے تو اُسے چاہیے کہ ایک موت اختیار کرے.نفسانی امور اور نفسانی اغراض سے بچے اور اللہ تعالیٰ کو سب شئے پر مقدم رکھے.بہت سی ریا کاریوں اور بیہودہ باتوں سے انسان تباہ ہو جاتا ہے.پوچھا جاوے تو لوگ کہتے ہیں کہ برادری کے بغیر
82 گزارہ نہیں ہوسکتا.ایک حرام خور کہتا ہے کہ بغیر حرام خوری کے گزارہ نہیں ہوسکتا جب ہر ایک حرام گزارہ کیلئے اُنہوں نے حلال کرلیا تو پوچھو کہ خدا کیا رہا ؟ اور تم نے خدا کے واسطے کیا کیا ؟ ان سب باتوں کو چھوڑ نا موت ہے جو بیعت کر کے اس موت کو اختیار نہیں کرتا تو پھر یہ شکایت نہ کرے کہ مجھے بیعت سے فائدہ نہیں ہوا.جب ایک انسان ایک طبیب کے پاس جاتا ہے تو جو پر ہیز وہ بتلاتا ہے اگر اسے نہیں کرتا تو کب شفا پا سکتا ہے لیکن اگر وہ کرے گا تو یوما فیوما ترقی کرے گا.یہی اُصول یہاں بھی ہے.( ملفوظات جلد سوم ، ص 457 تا 458) نماز کو رسم اور عادت کے رنگ میں پڑھنا مفید نہیں مرف ظاہری اعمال سے جو رسم اور عادت کے رنگ میں کیسے جاتے ہیں کچھ نہیں بنتا.اس سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ میں نماز کی تحقیر کرتا ہوں.وہ نماز جس کا ذکر قرآن میں ہے اور وہ معراج ہے بھلا ان نمازیوں سے کوئی پوچھے تو سہی کہ ان کو سورۃ فاتحہ کے معنی بھی آتے ہیں.پچاس پچاس برس کے نمازی ملیں گے مگر نماز کا مطلب اور حقیقت کو چھو تو اکثر بے خبر ہوں گے حالانکہ تمام دنیوی علوم ان علوم کے سامنے بیچ ہیں.
83 بایں دنیوی علوم کے واسطے تو جان توڑ محنت اور کوشش کی جاتی ہے اور اس طرف سے ایسی بے التفاتی ہے کہ اسے جنتر منتر کی طرح پڑھ جاتے ہیں.میں تو یہاں تک بھی کہتا ہوں کہ اس بات سے مت رکو کہ نماز میں اپنی زبان میں دُعائیں کرو.بے شک اُردو میں ، پنجابی میں انگریزی میں، جو جس کی زبان ہو اسی میں دعا کرے.مگر ہاں یہ ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام کو اسی طرح پڑھو.اس میں اپنی طرف سے کچھ دخل مت دو.اس کو اسی طرح پڑھو اور معنی سمجھنے کی کوشش کرو.اسی طرح ماثورہ دعاؤں کا بھی اسی زبان میں التزام رکھو.قرآن اور ماثورہ دعاؤں کے بعد جو چاہو خدا تعالیٰ سے مانگو اور جس زبان میں چاہو مانگو.وہ سب زبانیں جانتا ہے.سُنتا ہے، قبول کرتا ہے.اگر تم اپنی نماز کو با حلاوت اور پر ذوق بنانا چاہتے ہو تو ضروری ہے کہ اپنی زبان میں کچھ نہ کچھ دعائیں کرو.مگر اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ نمازیں تو ٹکریں مار کر پوری کر لی جاتی ہیں پھر لگتے ہیں دعائیں کرنے.نماز تو ایک ناحق کا ٹیکس ہوتا ہے.اگر کچھ اخلاص ہوتا ہے تو نماز کے بعد میں ہوتا ہے.یہ نہیں سمجھتے کہ نماز خود دعا کا نام ہے جو بڑے عجز ،انکسار ،خلوص اور اضطراب سے مانگی جاتی ہے.بڑے بڑے عظیم الشان کاموں کی کنجی
84 صرف دعا ہی ہے.خدا تعالیٰ کے فضل کے دروازے کھولنے کا پہلا مرحلہ دعا ہی ہے.نماز کو رسم اور عادت کے رنگ میں پڑھنا مفید نہیں بلکہ ایسے نمازیوں پر تو خود اللہ تعالیٰ نے لعنت اور ویل بھیجا ہے چہ جائیکہ ان کی نماز کو قبولیت کا شرف حاصل ہو.فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ (الماعون : 5 ) خود خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے.یہ ان نمازیوں کے حق میں ہے جو نماز کی حقیقت سے اور اس کے مطالب سے بے خبر ہیں.صحابہ تو خود عربی زبان رکھتے تھے اور اس کی حقیقت کو خوب سمجھتے تھے مگر ہمارے واسطے یہ ضروری ہے کہ اس کے معانی سمجھیں اور اپنی نماز میں اس طرح حلاوت پیدا کریں.مگر ان لوگوں نے تو ایسا سمجھ لیا ہے جیسے کہ دوسرا نبی آگیا ہے اور اس نے گویا نماز کو منسوخ ہی کر دیا ہے.دیکھو خدا تعالیٰ کا اس میں فائدہ نہیں بلکہ خود انسان ہی کا اس میں بھلا ہے کہ اس کو خدا تعالیٰ کی حضوری کا موقع دیا جاتا ہے اور عرض معروض کرنے کی عزت عطا کی جاتی ہے.جس سے یہ بہت سی مشکلات سے نجات پاسکتا ہے.میں حیران ہوں کہ وہ لوگ کیونکر زندگی بسر کرتے ہیں جن کا دن بھی گذر جاتا ہے اور رات بھی گذر جاتی ہے مگر وہ نہیں جانتے کہ
85 اُن کا کوئی خدا بھی ہے.یاد رکھو کہ ایسا انسان آج بھی ہلاک ہوا اور کل بھی.میں ایک ضروری نصیحت کرتا ہوں.کاش لوگوں کے دل میں پڑ جاوے.دیکھو عمر گذری جارہی ہے.غفلت کو چھوڑ دو اور تضرع اختیار کرو.اکیلے ہو ہوکر خدا تعالیٰ سے دُعا کرو کہ خدا ایمان کو سلامت رکھے اور تم پر وہ راضی اور خوش ہو جائے.(ملفوظات جلد پنجم ،ص 660 تا 661) رسم اور چیز ہے اور صلوٰۃ اور چیز ر اگر دس دن بھی نماز کو سنوار کر پڑھیں تو تنویر قلب ہو جاتی ہے یا درکھو رسم اور چیز ہے اور صلوٰۃ اور چیز.صلوۃ ایسی چیز ہے کہ اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے قرب کا کوئی قریب ذریعہ نہیں یہ قرب کی تھی ہے اس سے کشوف ہوتے ہیں.اسی سے الہامات اور مکالمات ہوتے ہیں.یہ دُعاؤں کے قبول ہونے کا ایک ذریعہ ہے لیکن اگر کوئی اس کو اچھی طرح سے سمجھ کر ادا نہیں کرتا تو وہ رسم اور عادت کا پابند ہے.(الحکم جلد 6 نمبر 38 مورخہ 24 اکتوبر 1902 ء ،ص12-11) لفسير سورة البقره ،ص51)
86 سورۃ الفاتحہ اور نماز باب XI دراصل اسی دُعا کا نام نماز ہے.اور جب تک انسان اس دُعا کو دردِ دل کے ساتھ خدا کے حضور میں کھڑے ہوکر نہ پڑھے اور اس سے وہ عقدہ کشائی نہ چاہے جس عقدہ کشائی کیلئے یہ دعا سکھلائی گئی ہے.تب تک اُس نے نماز نہیں پڑھی.اور اس نماز میں تین چیزیں سکھلائی گئی ہیں.-1 اوّل خدا تعالیٰ کی توحید اور اس کی صفات کی توحید تا انسان چاند، سورج اور دوسرے جھوٹے دیوتاؤں سے مُنہ پھیر کر صرف اسی نیچے دیوتا کا ہو جائے اور اس کی رُوح سے یہ آواز نکلے کہ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينَ (الفاتح: 5) یعنی میں تیرا ہی پرستار ہوں اور تجھ سے ہی مدد چاہتا ہوں اور دوسرے یہ سکھلایا گیا ہے کہ وہ اپنی دُعاؤں میں اپنے بھائیوں کو شریک کرے اور اس طرح پر بنی نوع کا حق ادا کرے اس لیے دُعا میں اِعدِنَا کا لفظ آیا ہے جس کے یہ معنی
87 ہیں کہ اے ہمارے خدا ہم سب لوگوں کو اپنی سیدھی راہ دکھلا یہ معنی نہیں کہ مجھ کو اپنی سیدھی راہ دکھا.پس اس طور کی دُعا سے جو جمع کے صیغہ کے ساتھ ہے بنی نوع کا حق بھی ادا ہو جاتا ہے.اور تیسرے اس دُعا میں یہ سکھانا مقصود ہے کہ ہماری حالت کو صرف خشک ایمان تک محدود نہ رکھ بلکہ ہمیں وہ روحانی نعمتیں عطا کر جو تو نے پہلے راستبازوں کو دی ہیں اور پھر کہا کہ یہ دُعا بھی کرو کہ ہمیں ان لوگوں کی راہوں سے بچا جن کو روحانی آنکھیں عطا نہیں ہوئیں.آخر انہوں نے ایسے کام کیے جن سے اسی دنیا میں غضب اُن پر نازل ہوا.اور یا اس دنیا میں غضب سے تو بچے مگر گمراہی کی موت سے مرے اور آخرت کے غضب میں گرفتار ہوئے خلاصہ دُعا کا یہ ہے کہ جس کو خدا روحانی نعمتیں عطا نہ کرے اور دیکھنے والی آنکھیں نہ بخشے.اور دل کو یقین اور معرفت سے نہ بھرے آخر وہ تباہ ہو جاتا ہے اور پھر اس کی شوخیوں اور شرارتوں کی وجہ سے اسی دنیا میں اس پر غضب پڑتا ہے.کیونکہ وہ پاکوں کے حق میں بد زبانی کرتا ہے.اور کتوں کیطرح زبان نکالتا ہے.(نسیم دعوت ، روحانی خزائن جلد 19 ص 419 تا 420)
88 سورة الفاتحہ کا نماز میں پڑھنا لازمی ہے سورۃ الفاتحہ کا نماز میں پڑھنا لازمی ہے اور یہ دُعا ہی ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اصل دُعا نماز ہی میں ہوتی ہے چنانچہ اس دعا کو اللہ تعالیٰ نے یوں سکھایا ہے..الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ.الرَّحْمَنِ الرَّحِيمُ.......الخ یعنی دُعا سے پہلے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کی حمد و ثناء کی جاوے.جس سے اللہ تعالیٰ کے لیے روح میں ایک جوش اور محبت پیدا ہو اس لیے فرمایا: الحمد الله سب تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں رَبِّ الْعَالَمِين سب کو پیدا کرنے والا اور پالنے والا.الرحمن جو ہلاکمل اور بن مانگے دینے والا ہے.الرحیم پھر عمل پر بھی بدلہ دیتا ہے.اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دیتا ہے.ملك يوم الدين ہر بدلہ اُسکے ہاتھ میں ہے.نیکی بدی سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے.پورا اور کامل موحد تب ہی ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کو ملِكِ يَوْمِ الدين سليم کرتا ہے.دیکھو حکام کے سامنے جا کر ان کو سب کچھ تعلیم کر لینا یہ گناہ ہے اور اس سے شرک لازم آتا ہے.اس لحاظ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حاکم بنایا ہے.ان کی اطاعت
89 ضروری ہے.مگر ان کو خدا ہرگز نہ بناؤ.انسان کا حق انسان کو اور خدا تعالیٰ کا حق خدا تعالیٰ کو دو.پھر یہ کہو ايّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں.اھدنا الصراط المستقیم النخ ہم کو سیدھی راہ دکھا یعنی ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کئے اور وہ نبیوں ، صدیقوں ، شہیدوں اور صالحین کا گروہ ہے اس گروہ میں اُن تمام گروہوں کے فضل اور انعام کو مانگا گیا ہے ان لوگوں کی راہ سے بچا جن پر تیرا غضب نازل ہوا اور جو گمراہ ہوئے.(الحکم 24 جون 1902 ءص2، از تفسیر سورۃ الفاتحہ، ص22) دُعا میں سورۃ الفاتحہ کے تکرار کا اثر نماز میں سورۃ الفاتحہ کی دُعا کا تکرار نہایت موثر چیز ہے کیسی بے ذوقی و بے مرگی ہو.اس عمل کو برابر جاری رکھنا چاہیے یعنی بھی تکرار آیت اياك نعبد و ایاک نستعین کا اور کبھی واياك تکرار آیت اهدنا الصراط المستقیم کا اور سجدہ میں يَاحَى يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ اَسْتَغِيتُ (الحکم 20 فروری 1898 ء ص 9) از تفسير سورة الفاتحه ص 22)
90 سورۃ الفاتحہ کا ورد نماز میں بہتر ہے.بہتر ہے کہ نماز تہجد ميں اهدِنَا الصِّراط الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِم مَا بدلی توجه و خضوع و خشوع تکرار کریں اور اپنے دل کو نزول انوار الہیہ کے لیے پیش کریں اور کبھی تکرار آیت ايّاكَ نَعْبُدُ وَ ايَّاكَ نَسْتَعِينُ کا کیا کریں.ان دونوں آیتوں کا تکرار انشاء اللہ القدیر توبر قلب و تزکیہ نفس کا موجب ہوگا.(الحکم 24 جون 1903 ء ص 3 از تفسیر سورۃ الفاتحہ، ص 22 تا 23) سورۃ الفاتحہ ایک غیر محدود دُعا پس خلاصہ یہ ہے کہ اِھدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دُعا انسان کو کبھی سے نجات دیتی ہے.اور اس پر دین قویم کو واضح کرتی ہے.اور اُس کو ویران گھر سے نکال کر پھلوں اور خوشبوؤں بھرے باغات میں لے جاتی ہے اور جو شخص بھی اُس دُعا میں زیادہ آہ وزاری کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کو خیر و برکت میں بڑھاتا ہے.دُعا سے ہی نبیوں نے خدائے رحمن کی محبت حاصل کی اور اپنے آخری وقت تک ایک لحظہ کیلئے بھی دُعا کو نہ چھوڑا اور کسی کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اس دُعا سے لا پرواہ ہو، یا اس مقصد سے منہ پھیرے خواہ وہ نبی ہو یا رسولوں میں سے.کیونکہ رشد اور ہدایت کے مراتب بھی ختم نہیں ہوتے بلکہ
91 بے انتہا ہیں اور عقل و دانش کی نگاہیں ان تک نہیں پہنچ سکتیں.اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ دعا سکھائی اور اسے نماز کا مدار ٹھہرایا تا لوگ اسکی ہدایت سے فائدہ اُٹھائیں اور اس کے ذریعہ توحید کو مکمل کریں اور (خدا تعالیٰ کے) وعدوں کو یادرکھیں.اور مشرکوں کے شرک سے نجات پاویں.اس دُعا کے کمالات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ لوگوں کے تمام مراتب پر حاوی ہے اور ہر فرد پر بھی حاوی ہے.وہ ایک غیر محدود دُعا ہے جس کی کوئی حد بندی یا انتہا نہیں اور نہ اس کی کوئی غایت یا کنارہ ہے.پس مبارک ہیں وہ لوگ جو خدا کے عارف بندوں کی طرح اس دُعا پر مداومت اختیار کرتے ہیں.زخمی دلوں کے ساتھ جن سے خون بہتا ہے اور ایسی روحوں کے ساتھ جو زخموں پر صبر کرنے والی ہوں اور نفوس مطمئنہ کے ساتھ.یہ وہ دُعا ہے جو ہر خیر ، سلامتی ، پختگی اور استقامت پر مشتمل ہے اور اس دُعا میں رب العالمین کیطرف سے بڑی بشارتیں ہیں.( تفسیر سورۃ الفاتحہ، ص 233 تا 234، حاشیہ) فاتحہ کی سات آیات کی حکمت "سورۃ فاتحہ کی سات آیتیں اسی واسطے رکھی ہیں کہ
92 دوزخ کے سات دروازے ہیں.پس ہر ایک آیت گویا ایک دروازہ سے بچاتی ہے“.سورۃ فاتحہ کی جامع تفسیر ( ملفوظات جلد اول ص 396) الحمد للہ سے قرآن شریف اسی لیے شروع کیا گیا ہے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کیطرف ایما ہو.اِهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ سے پایا جاتا ہے کہ جب انسانی کوششیں تھک کر رہ جاتی ہیں، تو آخر اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے.دُعا کامل تب ہوتی ہے کہ ہر قسم کی خیر کی جامع ہو اور ہر شر سے بچاوے.پس اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں سارے خیر جمع ہیں.اور غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّا لِيُن میں سب شروں حتی کہ دجالی فتنہ سے بچنے کی دُعا ہے.مَغْضُوبِ سے بالا تفاق یہودی اور الضالین سے نصاریٰ مُراد ہیں.اب اگر اس میں کوئی رمز اور حقیقت نہ تھی، تو اس دُعا کی تعلیم سے کیا غرض تھی؟ اور پھر ایسی تاکید کہ اس دُعا کے بڑوں نماز ہی نہیں ہوتی اور ہر رکعت میں اُس کا پڑھا جانا ضروری قرار دیا.بھید اس میں یہی تھا کہ یہ ہمارے زمانہ کیطرف ایماء ہے.اس وقت صراط مستقیم یہی ہے جو ہماری راہ ہے ( ملفوظات جلد اوّل، ص 396 تا 397 )
93 93 اقامت صلوة باب XII متقی کی شان میں آیا ہے ، وَيُقِيمُونَ الصَّلوة (البقرة:4) یعنی وہ نماز کو کھڑی کرتا ہے یہاں لفظ کھڑی کرنے کا آیا ہے.یہ بھی اس تکلف کی طرف اشارہ کرتا ہے.جو متقی کا خاصہ ہے.یعنی جب وہ نماز شروع کرتا ہے تو طرح طرح کے وساوس کا اُسے مقابلہ ہوتا ہے.جن کے باعث اس کی نماز گویا بار بار گری پڑتی ہے.جس کو اُس نے کھڑا کرنا ہے.جب اُس نے اللہ اکبر کہا تو ایک ہجوم وساوس ہے جو اُس کے حضور قلب میں تفرقہ ڈال رہا ہے.وہ اُن سے کہیں کا کہیں پہنچ جاتا ہے.پریشان ہوتا ہے.ہر چند حضور و ذوق کیلئے لڑتا مرتا ہے، لیکن نماز جو گری پڑتی ہے.بڑی جان کنی سے اُسے کھڑا کرنے کی فکر میں ہے.بار بار انساك نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کہہ کر نماز کے قائم کرنیکے لیے دُعا مانگتا ہے اور ایسے الصراط المستقیم کی ہدایت چاہتا ہے جس سے اُس کی نماز کھڑی ہو جائے.ان وساوس
94 کے مقابل میں منتقی ایک بچہ کی طرح ہے جو خدا کے آگے گڑ گڑاتا ہے، روتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اَخْلَدَالِيَ الْأَرْضِ (الاعراف : 177) ہورہا ہوں سو یہی وہ جنگ ہے جو متقی کو نماز میں نفس کے ساتھ کرنی ہوتی ہے اور اسی پر ثواب مترتب ہوگا.بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو نماز میں وساوس کو فی الفور رنا چاہتے ہیں ، حالانکہ ویقیمون الصلواۃ کی منشاء کچھ اور ہے.کیا خدا نہیں جانتا؟ حضرت شیخ عبدالقادر گیلانی (رحمۃ اللہ علیہ ) کا قول ہے کہ ثواب اسوقت تک ہے جب تک مجاہدات ہیں اور جب مجاہدات ختم ہوئے، تو ثواب ساقط ہو جاتا ہے.گویا صوم و صلوۃ اس وقت تک اعمال ہیں جب تک ایک جدوجہد سے وساوس کا مقابلہ ہے، لیکن جب اُن میں ایک اعلیٰ درجہ پیدا ہو گیا اور صاحب صوم وصلوٰۃ تقویٰ کے تکلف سے بیچ کر صلاحیت سے رنگین ہو گیا، تو اب صوم وصلوٰۃ اعمال نہیں رہے.اس موقع پر انہوں نے سوال کیا کہ کیا اب نماز معاف ہو جاتی ہے؟ کیونکہ ثواب تو اس وقت تھا جس وقت تک تکلف کرنا پڑتا تھا.سو بات یہ ہے کہ نماز اب عمل نہیں بلکہ ایک انعام ہے.یہ نماز اس کی ایک غذا ہے، جو اس کے لیے قرۃ العین ہے.یہ گویا نقد بہشت ہے.(ملفوظات جلد اول ص 18 تا 19)
95 تقویٰ کے تین مراتب یا درکھو اتقاء تین قسم کا ہوتا ہے.پہلی قسم اتقا کی علمی رنگ رکھتی ہے.یہ حالت ایمان کی صورت میں ہوتی ہے.دوسری قسم عملی رنگ رکھتی ہے.جیسا کہ يُقيمون الصلوة میں فرمایا ہے.انسان کی وہ نمازیں جو شبہات اور وساوس میں مبتلا ہیں کھڑی نہیں ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے يَقُرئون نہیں فرمایا يقيمون فرمایا یعنی جو حق ہے اس کے ادا کرنے کا.سنو! ہر ایک چیز کی ایک علت غائی ہوتی ہے.اگر اس سے رہ جاوے تو وہ بے فائدہ ہو جاتی ہے.نماز میں سوزش صلی جلنے کو کہتے ہیں.جیسے کباب بُھونا جاتا ہے.اسی طرح نماز میں سوزش لازمی ہے.جبتک دل بریان نہ ہو نماز میں لذت اور سُرور پیدا نہیں ہوتا اور اصل تو یہ ہے کہ نماز ہی اپنے بچے معنوں میں اُسی وقت ہوتی ہے.نماز میں شرط ہے کہ وہ جمیع شرائط ادا ہو.جیتک وہ ادا نہ ہو وہ نماز نہیں ہے اور نہ وہ کیفیت جو صلوٰۃ میں میل نماز کی ہے حاصل ہوتی ہے.
96 یاد رکھو صلوٰۃ میں حال اور قال دونوں کا جمع ہونا ضروری ہے.بعض وقت اعلام تصویری ہوتا ہے.ایسی تصویر دکھائی جاتی ہے جس سے دیکھنے والے کو پتہ ملتا ہے کہ اُس کا منشاء یہ ہے.ایسا ہی صلوۃ میں منشائے الہی کی تصویر ہے.ہے.نماز میں جیسے زبان سے کچھ پڑھا جاتا ہے ویسے ہی اعضاء و جوارح کی حرکات سے کچھ دکھایا بھی جاتا ہے جب انسان کھڑا ہوتا ہے اور تحمید و تسبیح کرتا ہے، اس کا نام قیام رکھا گیا ہے.اب ہر ایک شخص جانتا ہے کہ حمد و ثناء کے مناسب حال قیام ہی ہے.بادشاہوں کے سامنے جب قصائد سُنائے جاتے ہیں، تو آخر کھڑے ہو کر ہی پیش کرتے ہیں.تو ادھر ظاہری طور پر قیام رکھا گیا ہے اور اُدھر زبان سے حمد وثناء بھی رکھی مطلب اس کا یہی ہے کہ روحانی طور پر بھی اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑا ہو.حمد ایک بات پر قائم ہو کر کی جاتی ہے.جو شخص مصدق ہو کر کسی کی تعریف کرتا ہے، تو ایک رائے پر قائم ہو جاتا ہے اس الحمد للہ کہنے والے کے واسطے یہ ضروری ہوا کہ وہ نیچے طور پر الحمد للہ اسی وقت کہہ سکتا ہے کہ پورے طور پر اس کو یقین ہو جائے کہ جمیع اقسام محامد کے اللہ تعالیٰ ہی کیلئے ہیں.جب یہ بات دل میں انشراح کے ساتھ پیدا ہوگئی، تو یہ روحانی
97 قیام ہے.کیونکہ دل اس پر قائم ہو جاتا ہے اور پھر سمجھا جاتا ہے کہ وہ کھڑا ہے.حال کے موافق کھڑا ہو گیا، تا کہ روحانی قیام نصیب ہو.پھر رکوع میں سُبحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ کہتا ہے.قاعدہ کی بات ہے کہ جب کسی کی عظمت مان لیتے ہیں تو اس کے حضور جھکتے ہیں.عظمت کا تقاضا ہے کہ اس کیلئے رکوع کرے.پس سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ زبان سے کہا اور حال سے جھکنا دکھایا یہ اُس قول کے ساتھ حال دکھایا پھر تیسرا قول ہے سُبحَانَ رَبِّي الاعلى.اعلی افعل تفضیل ہے.یہ بالذات سجدہ کو چاہتا ہے.اس لیے اُس کے ساتھ حالی تصویر سجدہ میں گرنا ہے.اس اقرار کے مناسب حال ہیئت فی الفور اختیار کر لی.اس قال کے ساتھ تین حال جسمانی ہیں.ایک تصویر اس کے آگے پیش کی گئی ہے ہر ایک قسم کا قیام بھی کیا گیا ہے.زبان جو جسم کا ٹکڑا ہے اس نے بھی کہا اور وہ شامل ہوگئی.نماز میں وساوس کا علاج تیسری چیز اور ہے وہ اگر شامل نہ ہو، تو نماز نہیں ہوتی.
98 ، وہ کیا ہے؟ وہ قلب ہے.اس کیلئے ضروری ہے کہ قلب کا قیام ہو.اور اللہ تعالیٰ اس پر نظر کر کے دیکھے کہ در حقیقت وہ حمد بھی کرتا ہے اور کھڑا بھی ہے اور روح بھی کھڑا ہوا حمد کرتا ہے.جسم ہی نہیں بلکہ روح بھی کھڑا ہوا ہے.اور جب سبحان ربی العظیم کہتا ہے تو دیکھے کہ اتنا ہی نہیں کہ صرف عظمت کا اقرار ہی کیا ہے.نہیں بلکہ ساتھ ہی جھکا بھی ہے اور اس کے ساتھ ہی روح بھی جھک گیا ہے.پھر تیسری نظر میں خدا کے حضور سجدہ میں گرا ہے اسکی علوشان کو ملاحظہ میں لاکر اس کے ساتھ ہی دیکھے کہ رُوح بھی الوہیت کے آستانہ پر گری ہوئی ہے.غرض یہ حالت جب تک پیدا نہ ہوئے.اُس وقت تک مطمئن نہ ہو، کیونکہ یقیمون الصلواۃ کے معنی یہی ہیں.اگر یہ سوال ہو کہ یہ حالت پیدا کیونکر ہو تو اسکا جواب اتنا ہی ہے کہ نماز پر مداومت کی جائے اور وساوس اور شبہات سے پریشان نہ ہو.ابتدائی حالت میں شکوک وشبہات سے ایک جنگ ضرور ہوتی ہے اسکا علاج یہی ہے کہ نہ تھکنے والے استقلال اور صبر کے ساتھ لگا رہے اور خدا تعالیٰ سے دُعائیں مانگتا رہے آخر وہ حالت پیدا ہو جاتی ہے جسکا میں نے ابھی ذکر کیا ہے.( ملفوظات جلد اوّل ، ص 287 تا 289)
99 اقامت صلوۃ سے اگلا درجہ متقی کی دوسری صفت یہ ہے کہ یقیمون الصلوۃ یعنی وہ نماز کو کھڑی کرتے ہیں.متقی سے جیسا ہوسکتا ہے نماز کھڑی کرتا ہے.یعنی کبھی اسکی نماز گر پڑتی ہے پھر اسے کھڑا کرتا ہے یعنی منتقلی خدا تعالیٰ سے ڈرا کرتا ہے اور وہ نماز کو قائم کرتا ہے.اس حالت میں مختلف قسم کے وساوس اور خطرات بھی ہوتے ہیں جو پیدا ہوکر اس کے حضور میں حارج ہوتے ہیں اور نماز کو گرا دیتے ہیں.لیکن یہ نفس کی اس کشاکش میں بھی نماز کو کھڑا کرتا ہے.کبھی نماز کرتی ہے مگر یہ پھر اسے کھڑا کرتا اور یہی حالت اسکی رہتی ہے کہ وہ تکلف اور کوشش سے بار بار اپنی نماز کو کھڑا کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس کلام کے ذریعہ ہدایت عطا کرتا ہے.اسکی ہدایت کیا ہوتی ہے؟ اس وقت بجائے يقيمون الصلوة کے ان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ وہ ں کشمکش اور وساوس کی زندگی سے نکل جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس غیب کے ذریعہ انھیں وہ مقام عطا کرتا ہے جس کی نسبت فرمایا ہے کہ بعض آدمی ایسے کامل ہو جاتے ہیں کہ نماز ان کیلئے بمنزلہ غذا ہو جاتی ہے اور نماز میں ان کو وہ لذت اور ذوق عطا اس
100 کیا جاتا ہے ، جیسے سخت پیاس کے وقت ٹھنڈا پانی پینے سے حاصل ہوتا ہے.کیونکہ وہ نہایت رغبت سے اسے پیتا ہے اور خوب سیر ہو کر حظ حاصل کرتا ہے یا سخت بھوک کی حالت ہو اور اسے نہایت ہی اعلیٰ درجہ کا خوش ذائقہ کھانا مل جاوے جس کو کھا کر وہ بہت ہی خوش ہوتا ہے.یہی حالت پھر نماز میں ہو جاتی ہے.وہ نماز اس کیلئے ایک قسم کا نشہ ہو جاتی ہے جس کے بغیر وہ سخت کرب اور اضطراب محسوس کرتا ہے.لیکن نماز کے ادا کرنے سے اُس کے دل میں ایک خاص سُرور اور ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے جسکو ہر شخص نہیں پاسکتا اور نہ الفاظ میں یہ لذت بیان ہوسکتی ہے اور انسان ترقی کر کے ایسی حالت میں پہنچ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اُسے ذاتی محبت ہو جاتی ہے اور اس کو نماز کے کھڑے کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی اس لیے کہ وہ نماز اس کی کھڑی ہی ہوتی ہے اور ہر وقت کھڑی ہی رہتی ہے.اس میں ایک طبعی حالت پیدا ہو جاتی ہے اور ایسے انسان کی مرضی خدا تعالی کی مرضی کے موافق ہوتی ہے.انسان پر ایسی حالت آتی ہے کہ اس کی محبت اللہ تعالیٰ سے محبت ذاتی کا رنگ رکھتی ہے.اس میں کوئی تکلف اور بناوٹ نہیں ہوتی جس طرح پر حیوانات اور دوسرے انسان اپنے ماکولات اور
101 مشروبات اور دوسری شہوات میں لذت اٹھاتے ہیں اس سے بہت بڑھ چڑھ کر وہ مومن متقی نماز میں لذت پاتا ہے.اس لیے نماز کو خوب سنوار سنوار کر پڑھنا چاہیے.نماز ساری ترقیوں کی جڑ اور زینہ ہے اسی لیے کہا گیا ہے کہ نماز مومن کی معراج ہے.اس دین میں ہزاروں لاکھوں اولیاء اللہ ، راستباز ، ابدال ، قطب گذرے ہیں.انھوں نے یہ مدارج اور مراتب کیونکر حاصل کیے ؟ اسی نماز کے ذریعہ سے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلوةِ یعنی میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے اور فی الحقیقت جب انسان اس مقام اور درجہ پر پہنچتا ہے تو اس کیلئے اکمل اتم لذت نماز ہی ہوتی ہے اور یہی معنی آنحضرت علی کے اس ارشاد کے ہیں.پس کشاکش نفس سے انسان نجات پاکر اعلیٰ مقام پر پہنچ جاتا ہے.غرض یاد رکھو کہ يُقِيمُونَ الصَّلوةَ وہ ابتدائی درجہ اور مرحلہ ہے جہاں نماز بے ذوقی اور کشاکش سے ادا کرتا ہے، لیکن اس کتاب کی ہدایت ایسے آدمی کیلئے یہ ہے کہ اس مرحلہ سے نجات پاکر اس مقام پر جا پہنچتا ہے جہاں نماز اسکے لیے قرۃ العین ہو جاوے.یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس مقام پر متقی سے مُراد وہ شخص ہے جو نفس لوامہ کی حالت میں ہے.( ملفوظات چہارم ص 604 تا 606)
102 باب XIII عبودیت اور ربوبیت کے رشتہ کی حقیقت عورت اور مرد کا جوڑا تو باطل اور عارضی جوڑا ہے.میں کہتا ہوں حقیقی ابدی اور لذت مجسم جو جوڑ ہے وہ انسان اور خدا تعالی کا ہے.مجھے سخت اضطراب ہوتا اور کبھی کبھی یہ رنج میری جان کو کھانے لگتا ہے کہ ایک دن اگر کسی کو روٹی یا کھانے کا مزا نہ آئے، تو طبیب کے پاس جاتا اور کیسی کیسی منتہیں اور خوشامدیں کرتا ہے.روپیہ خرچ کرتا.دُکھ اٹھا تا ہے کہ وہ مزاحاصل ہو وہ نامرد جو اپنی بیوی سے لذت حاصل نہیں کرسکتا.بعض اوقات گھبرا گھبرا کر خودکشی کے ارادے تک پہنچ جاتا ہے اور اکثر موتیں اس قسم کی ہو جاتی ہیں.مگر آہ ! وہ مریض دل وہ نامراد کیوں کوشش نہیں کرتا جس کو عبادت میں لذت نہیں آتی ؟ اس کی جان کیوں غم سے نڈھال نہیں ہو جاتی دنیا اور اس کی خوشیوں کے لیے کیا کچھ کرتا ہے مگر ابدی اور حقیقی راحتوں کی وہ پیاس اور تڑپ نہیں پاتا.رکس قدر بے نصیب ہے! کیسا ہی محروم ہے! عارضی اور فانی لذتوں کی تلاش کرتا ہے اور پالیتا ہے.کیا ہو سکتا ہے کہ مستقبل اور ابدی لذت
103 کے علاج نہ ہوں؟ ہیں اور ضرور ہیں.مگر تلاش حق میں مستقل اور پویہ قدم درکار ہیں.قرآن کریم میں ایک موقع پر اللہ تعالیٰ نے صالحین کی مثال عورتوں سے دی ہے.اس میں بھی سر اور بھید ہے.ایمان لانے والوں کو مریم اور آسیہ سے مثال دی ہے.یعنی خدا تعالی مشرکین میں سے مومنوں کو پیدا کرتا ہے.بہر حال عورتوں سے مثال دینے میں دراصل ایک لطیف راز کا اظہار ہے.یعنی جس طرح عورت اور مرد کا باہم تعلق ہوتا ہے اسی طرح پر عبودیت اور ربوبیت کا رشتہ ہے.اگر عورت اور مرد کی باہم موافقت ہو اور ایک دوسرے پر فریفتہ ہو تو وہ جوڑا ایک مبارک اور مفید جوڑا ہوتا ہے، ورنہ نظام خانگی بگڑ جاتا ہے اور مقصود بالذات حاصل نہیں ہوتا ہے.مرد اور جگہ خراب ہوتا ہے صد ہا قسم کی بیماریاں لے آتا ہے.آتشک سے مجزوم ہوکر دنیا میں ہی محروم ہو جاتا ہے اور اگر اولاد ہو بھی جاوے تو کئی پشت تک تک یہ سلسلہ برابر چلا جاتا ہے اور ادھر عورت بے حیائی کرتی پھرتی ہے اور عزت و آبرو کو ڈبو کر بھی نیچی راحت حاصل نہیں کر سکتی.غرض اس جوڑے سے الگ ہو کر کس قدر بد نتائج اور فتنے پیدا ہوتے ہیں.اسی طرح انسان روحانی جوڑے سے الگ ہوکر مجزوم اور مخذول ہوجاتا ہے.دنیاوی جوڑے سے زیادہ رنج و مصائب کا نشانہ بنتا ہے جیسا کہ عورت اور مرد کے
104 جوڑے سے ایک قسم کی بقا کیلئے حظ ہے اسی طرح پر عبودیت اور ربوبیت کے جوڑے میں ایک ابدی بقا کے لیے حظ موجود ہے.صوفی کہتے ہیں جس کو یہ حظ نصیب ہو جاوے وہ دنیا و مافیہا کے تمام حظوظ سے بڑھ کر ترجیح رکھتا ہے.اگر ساری عمر میں ایک بار بھی اسکو معلوم ہو جائے تو اُس میں ہی فنا ہو جاوے لیکن مشکل تو یہ ہے کہ دنیا میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے اس راز کو نہیں سمجھا اور ان کی نمازیں صرف ٹکریں ہیں اور اوپرے دل کے ساتھ ایک قسم کی قبض اور تنگی سے صرف نشست و برخاست کے طور پر ہوتی ہیں.مجھے اور بھی افسوس ہوتا ہے، جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ بعض لوگ صرف اس لیے نمازیں پڑھتے ہیں کہ وہ دنیا میں معتبر اور قابل عزت سمجھے جاویں اور پھر اس نماز سے یہ بات ان کو حاصل ہو جاتی ہے ، یعنی وہ نمازی اور پرہیز گار کہلاتے ہیں.پھر ان کو کیوں یہ کھا جانے والا غم نہیں لگتا کہ جب جھوٹ موٹ اور بیدل کی نماز کو یہ مرتبہ حاصل ہوسکتا ہے تو کیوں ایک نیچے عابد بننے سے ان کو عزت نہ ملے گی اور کیسی عزت ملے گی.( ملفوظات جلد اوّل ، ص 102 تا 103)
105 غیر اللہ کی طرف رجوع یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہ نماز جو اپنے اصلی معنوں میں نماز ہے، دُعا سے حاصل ہوتی ہے.غیر اللہ سے سوال کرنا مومنانہ غیرت کے صریح اور سخت مخالف ہے، کیونکہ یہ مرتبہ دعا کا اللہ ہی کے لیے ہے.جیتک انسان پورے طور پر خفیف ہوکر اللہ تعالیٰ ہی سے سوال نہ کرے اور اُسی سے نہ مانگے سچ سمجھو کہ وہ حقیقی طور پر سچا مسلمان اور سچا مومن کہلانے کا مستحق نہیں.اسلام کی حقیقت ہی یہ ہے کہ اسکی تمام طاقتیں اندرونی ہوں یا بیرونی، سب کی سب اللہ تعالیٰ ہی کے آستانہ پر گری ہوتی ہوں.جس طرح ایک بڑا انجمن بہت سی کلوں کو چلاتا ہے پس اسی طور پر جب تک انسان اپنے ہر کام اور ہر حرکت و سکون کو اُسی انجن کی طاقت عظمی کے ماتحت نہ کر لیوے وہ کیونکر اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا قائل ہوسکتا ہے اور اپنے آپ کو ایسی وَجَّهُتُ وَجُهِيَ لِلَّذِى فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ (الانعام:80) کہتے وقت واقعی حیف کہہ سکتا ہے؟ جیسے منہ سے کہتا ہے، ویسے ہی ادھر کیطرف متوجہ ہو تو لاریب وہ مسلم ہے.وہ مومن اور حنیف ہے، لیکن جو شخص اللہ تعالی کے سوا غیر اللہ سے سوال کرتا ہے
106 اور ادھر بھی جھکتا ہے، وہ یادر کھے کہ بڑا ہی بدقسمت اور محروم ہے کہ اس پر وہ وقت آجانے والا ہے کہ وہ زبانی اور نمائشی طور پر اللہ تعالیٰ کیطرف نہ جھک سکے.ترک نماز کی عادت اور کسل کی ایک وجہ یہ بھی ہے کیونکہ جب انسان غیر اللہ کیطرف ٹھکتا ہے، تو رُوح اور دل کی طاقتیں اس درخت کی طرح (جس کی شاخیں ابتداء ایک طرف کردی جاویں اور اُس طرف جھک کر پرورش پالیس) ادھر ہی جُھکتا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک سختی اور تشدد اسکے دل میں پیدا ہو کر اُسے منجمد اور پتھر بنا دیتا ہے جیسے وہ شاخیں.پھر دوسری طرف مُرد نہیں سکتا.اسی طرح پر وہ دل اور روح دن بدن خدا تعالیٰ سے دُور ہوتی جاتی ہے.پس یہ بڑی خطرناک اور دل کو کپکپا دینے والی بات ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسرے سے سوال کرے.اسی لیے نماز کا التزام اور پابندی بڑی ضروری چیز ہے، تا کہ اولاً وہ ایک عادت راسخہ کی طرح قائم ہو اور رجوع الی اللہ کا خیال ہو.پھر رفتہ رفتہ وہ وقت خود آجاتا ہے جبکہ انقطاع کلی کی حالت میں انسان ایک نور اور لذت کا وارث ہو جاتا ہے.میں اس امر کو پھر تاکید سے کہتا ہوں.افسوس ہے کہ مجھے وہ لفظ نہیں ملے ، جس میں غیر اللہ کی
107 طرف رجوع کرنے کی بُرائیاں بیان کرسکوں.لوگوں کے پاس جاکر منت خوشامد کرتے ہیں.یہ بات خدا تعالیٰ کی غیرت کو جوش میں لاتی ہے.کیونکہ یہ تو لوگوں کی نماز ہے.پس وہ اس سے ہٹتا اور اُسے دور پھینک دیتا ہے.میں موٹے الفاظ میں اس کو بیان کرتا ہوں گو یہ امر اس طرح پر نہیں ہے مگر سمجھ میں خوب آسکتا ہے کہ جیسے ایک مرد غیور کی غیرت تقاضا نہیں کرتی کہ وہ اپنی بیوی کو کسی غیر کے ساتھ تعلق پیدا کرتے ہوئے دیکھے سکے اور جس طرح پر وہ مرد ایسی حالت میں اس نابکار عورت کو واجب القتل سمجھتا بلکہ بعض اوقات ایسی وارداتیں ہو جاتی ہیں.ایسا ہی جوش اور غیرت اُلوہیت کا ہے.عبودیت اور دُعا خاص اسی ذات کے مد مقابل ہیں.وہ پسند نہیں کرسکتا کہ کسی اور کو معبود قرار دیا جاوے یا پکارا جاوے.پس خوب یاد رکھو! اور پھر یاد رکھو! کہ غیر اللہ کیطرف جھکنا خدا سے کاٹنا ہے.نماز اور توحید کچھ ہی کہو، کیونکہ تو حید کے عملی اقرار کا نام ہی نماز ہے.اس وقت بے برکت اور بے سود ہوتی ہے جب اُس میں نیستی اور تذتل کی رُوح اور حنیف دل نہ ہو.سُنو ! وہ دُعا جس کیلئے اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المومن : 61) فرمایا ہے.اس کیلئے یہی سچی رُوح مطلوب ہے.اگر اس
108 تضرع اور خشوع میں حقیقت کی روح نہیں تو وہ ٹیں ٹیں سے کم کسی اچھی سے م نہیں ہے.نماز بہترین معلم ہے ( ملفوظات جلد اوّل ،ص 106 تا 107) جب تک انسان کامل توحید پر کار بند نہیں ہوتا، اس میں اسلام کی محبت اور عظمت قائم نہیں ہوتی اور پھر میں اصل ذکر کی طرف رجوع کر کے کہتا ہوں کہ نماز کی لذت اور سُرور اسے حاصل نہیں ہوسکتا.مدار اسی بات پر ہے کہ جب تک کمرے ارادے، ناپاک اور گندے منصوبے بھسم نہ ہوں.انانیت اور شیخی دور ہو کر نیستی اور فروتنی نہ آئے ، خدا کا سچا بندہ نہیں کہلا سکتا اور عبودیت کا ملہ کے سکھانے کیلئے بہترین معلم اور افضل ترین ذریعہ نماز ہی ہے.میں پھر تمہیں بتلاتا ہوں کہ اگر خدا تعالیٰ سے سچا تعلق حقیقی ارتباط قائم کرنا چاہتے ہو تو نماز پر کار بند ہو جاؤ اور ایسے کاربند ہو کہ تمہارا جسم نہ تمہاری زبان بلکہ تمہاری روح کے ارادے اور جذبے سب کے سب ہمہ تن نماز ہو جائیں.لملفوظات جلد اوّل، ص 108)
109 خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کا تعلق قائم کرو خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُون ٥ وہ لوگ جو نمازوں کی حقیقت سے ہی بے خبر ہوتے ہیں ان کی نمازیں نری ٹکریں ہوتی ہیں.ایسے لوگ ایک سجدہ اگر خدا کو کرتے تو دوسرا دنیا کو کرتے ہیں.جب تک انسان خدا کیلئے تکالیف اور مصائب کو برداشت نہیں کرتا تب تک مقبول حضرت احدیت نہیں ہوتا.دیکھو دنیا میں بھی اس کا نمونہ پایا جاتا ہے.اگر ایک غلام اپنے آقا کا ہر ایک تکلیف اور مصیبت میں اور ہر ایک خطرناک میدان میں ساتھ دیتا رہے تو وہ غلام غلام نہیں رہتا بلکہ دوست بن جاتا ہے یہی خدا کا حال ہے اگر انسان اس کا دامن نہ چھوڑے اور اسی کے آستانہ پر گرا رہے اور استقلال کے ساتھ وفاداری کرتا رہے تو پھر خدا بھی ایسے کا ساتھ نہیں چھوڑتا اور اُس کے ساتھ دوست والا معاملہ کرتا ہے.( الحکم جلد 11 نمبر 36 مورخہ 10 اکتوبر 1907،ص 11-14) ( تفسير سورة البقرة ،ص 47)
110 اصل نماز وہ ہے جس میں خدا کو دیکھتا ہے جب خدا کو پہچان لو گے تو پھر نماز ہی نماز میں رہو گے.دیکھو یہ بات انسان کی فطرت میں ہے کہ خواہ کوئی ادنی سی بات ہو جب اس کو پسند آجاتی ہے تو پھر دل خوامخواہ اس کی طرف کھینچا جاتا ہے.اسی طرح پر جب انسان اللہ تعالیٰ کو شناخت کر لیتا ہے اور اس کے حسن و احسان کو پسند کرتا ہے تو دل بے اختیار ہوکر اسی کی طرف دوڑتا ہے اور بے ذوقی سے ایک ذوق پیدا ہو جاتا ہے.اصل نماز وہی ہے جس میں خدا کو دیکھتا ہے.اس زندگی کا مزہ اسی دن آسکتا ہے جبکہ سب ذوق اور شوق سے بڑھ کر جو خوشی کے سامانوں میں مل سکتا ہے.تمام لذت اور ذوق دعا ہی میں محسوس ہو.یاد رکھو کوئی آدمی کسی موت و حیات کا ذمہ دار نہیں ہوسکتا.خواہ رات کو موت آجاوے یا دن کو.کو.جو لوگ دنیا سے ایسا دل لگاتے ہیں کہ گویا بھی مرنا ہی نہیں وہ اس دنیا سے نامراد جاتے ہیں.وہاں ان کیلئے خزانہ نہیں ہے جس وہ لذت اور خوشی حاصل کرسکیں..الحکم جلد 7 نمبر 1 مورخہ 10 جنوری 1903 ص11) ( تفسير سورة البقرة ،ص 48)
111 نماز بھی وہی پڑھتا ہے جس کو خدا تعالیٰ نماز پڑھا وے اس میں شک نہیں کہ نماز میں برکات ہیں مگر وہ برکات ہر ایک کو نہیں مل سکتے.نماز بھی وہی پڑھتا ہے جس کو خدا تعالیٰ نماز پڑھاوے ورنہ وہ نماز نہیں نرا پوست ہے جو پڑھنے والے کے ہاتھ میں ہے.اسکو مغز سے کچھ واسطہ اور تعلق ہی نہیں.اسی طرح کلمہ بھی وہی پڑھتا ہے جس کو خدا تعالیٰ کلمہ پڑھاوے جب تک نماز اور کلمہ پڑھنے میں آسمانی چشمہ سے گھونٹ نہ ملے تو کیا فائدہ ؟ وہ نماز جس میں حلاوت اور ذوق ہو اور خالق سے سچا تعلق قائم ہو کر پوری نیاز مندی اور خشوع کا نمونہ ہو.اُس کے ساتھ ہی ایک تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے جس کو پڑھنے والا فوراً محسوس کر لیتا ہے کہ اب وہ وہ نہیں رہا جو چند سال پہلے تھا.الحکم جلد 8 نمبر 8 مورخہ 10 مارچ 1904 ص 6) نماز جو کہ پانچ وقت ادا کی جاتی ہے اس میں بھی یہی اشارہ ہے کہ اگر وہ نفسانی جذبات اور خیالات سے اُسے محفوظ ند رکھے گا.تب تک وہ کچی نماز ہرگز نہ ہوگی.نماز کے معنی کمریں مار لینے اور رسم اور عادت کے طور پر ادا کرنے کے ہرگز نہیں.نماز وہ شے ہے جیسے دل بھی محسوس کرے کہ روح پکھل
112 کر خوفناک حالت میں آستانہ اُلوہیت پر گر پڑے جہاں تک طاقت ہے وہاں تک رقت کے پیدا کرنے کی کوشش کرے اور تضرع سے دُعا مانگے کہ شوخی اور گناہ جو اندر نفس میں ہیں وہ دُور ہوں.اسی قسم کی نماز بابرکت ہوتی ہے اور اگر وہ اس پر استقامت اختیار کرے گا تو دیکھے گا کہ رات کو یا دن کو ایک نور اس کے قلب پر گرا ہے اور نفس امارہ کی شوخی کم ہوگئی ہے جیسے اثر دیا میں ایک سم قاتل ہے.اسی طرح نفس امارہ میں بھی سم قاتل ہوتا ہے اور جس نے اُسے پیدا کیا اُسی کے پاس اس کا علاج ہے..البدر جلد 3 نمبر 34 مورخہ 8 ستمبر 1904 ، ص3) بعض لوگ کہتے ہیں کہ نماز روزہ کی وجہ سے برکات حاصل نہیں ہوتے وہ غلط کہتے ہیں.نماز، روزہ کے برکات اور ثمرات ملتے ہیں.اور اسی دنیا میں ملتے ہیں لیکن نماز، روزہ اور دوسری عبادات کو اس مقام اور جگہ تک پہنچا نا چاہیے جہاں وہ برکات دیتے ہیں.صحابہ کا سا رنگ پیدا کرو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اور نجی اتباع کرو.پھر معلوم ہوگا کہ کیا کیا برکات ملتے ہیں.(الحکم جلد 10 نمبر 24 مورخہ 10 جولائی 1906، ص3) ( تفسير سورة البقرة ، ص 55)
113 باب XIV بہترین وظیفہ سوال:.جواب:.بہترین وظیفہ کیا ہے؟ فرمایا نماز سے بڑھ کر اور کوئی وظیفہ نہیں ہے کیونکہ اس میں حمد الہی ہے استغفار ہے اور درود شریف.تمام وظائف اور آؤ راد کا مجموعہ یہی نماز ہے اور اس سے ہر قسم کے غم و ہم دور ہوتے ہیں اور مشکلات حل ہوتی ہیں.آنحضرت ﷺ کو اگر ذرا بھی غم پہنچتا تو آپ نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے اور اسی لیے فرمایا ہے اَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ القُلُوب اطمینان اور سکینت قلب کیلئے نماز سے بڑھ کر اور کوئی ذریعہ نہیں.لوگوں نے قسم قسم کے ورد اور وظیفے اپنی طرف سے بنا کر لوگوں کو گمراہی میں ڈال رکھا ہے اور ایک نئی شریعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مقابلہ میں بنادی ہوئی ہے مجھ پر تو الزام لگایا جاتا ہے کہ میں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے مگر میں دیکھتا ہوں اور حیرت سے دیکھتا ہوں کہ انھوں نے خود شریعت بنائی ہے اور نبی بنے ہوئے ہیں اور دُنیا کو گمراہ
114 کر رہے ہیں.ان وظائف اور آؤ راد میں دنیا کو ایسا ڈالا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی شریعت اور احکام کو بھی چھوڑ بیٹھے ہیں.بعض لوگ دیکھتے جاتے ہیں کہ اپنے معمول اور اؤراد میں ایسے منہمک ہوتے ہیں کہ نمازوں کا بھی لحاظ نہیں رکھتے.میں نے مولوی صاحب سے سنا ہے کہ بعض گدی نشین شاکت مت والوں کے منتر اپنے وظیفوں میں پڑھتے ہیں میرے نزدیک سب وظیفوں سے بہتر وظیفہ نماز ہی ہے.نماز ہی کو سنوار سنوار کر پڑھنا چاہیے اور سمجھ سمجھ کر پڑھو اور مسنون دُعاؤں کے بعد اپنے لیے اپنی زبان میں بھی دُعائیں کرو اس سے تمہیں اطمینان قلب حاصل ہوگا اور سب مشکلات خدا تعالیٰ چاہے گا تو ہی سے حل ہو جائیں گی.نماز یاد الہی کا ذریعہ ہے اس لیے فرمایا ہے.أقِمِ الصَّلوةَ لِذِكُرِى (طه: 15) ایک سوال کا جواب ( ملفوظات جلد سوم ،ص 310، 311) سیالکوٹ کے ضلع کا ایک نمبردار تھا.اس نے بیعت کرنے کے بعد پوچھا کہ حضور اپنی زبان مبارک سے کوئی وظیفہ بتا دیں.
115 فرمایا : کہ نمازوں کو سنوار کر پڑھو کیونکہ ساری مشکلات کی یہی کنجی ہے اور اسی میں ساری لذات اور خزانے بھرے ہوئے ہیں.صدقِ دل سے روزے رکھو صدقہ و خیرات کرو.درود و استغفار پڑھا کرو.اپنے رشتہ داروں سے نیک سلوک کرو.ہمسایوں سے مہربانی سے پیش آؤ.بنی نوع بلکہ حیوانوں پر بھی رحم کرو.ان پر بھی ظلم نہ چاہیے.خدا سے ہر وقت حفاظت چاہتے رہو کیونکہ نا پاک اور نامراد ہے وہ دل جو ہر وقت خدا کے آستانہ پر نہیں گرا رہتا وہ محروم کیا جاتا ہے دیکھو اگر خدا ہی حفاظت نہ کرے تو انسان کا ایک دم گزارہ نہیں.زمین کے نیچے سے لے کر آسمان کے اوپر تک کا ہر طبقہ اس کے دشمنوں کا بھرا ہوا ہے.اگر اسی کی حفاظت شامل حال نہ ہو تو کیا ہوسکتا ہے.دُعا کرتے رہو کہ اللہ تعالی ہدایت پر کار بند رکھے کیونکہ اس کے ارادے دو ہی ہیں.گمراہ کرنا اور ہدایت دینا جیسا کہ فرماتا ہے.يُضِلُّ بِهِ كَثِير او يَهْدِي بِهِ كَثِيرًا.پس جب اس کے ارادے گمراہ کرنے پر بھی ہیں تو ہر وقت دُعا کرنی چاہیے کہ وہ گمراہی سے بچاوے اور ہدایت کی توفیق دے نرم مزاج بنو کیونکہ جو نرم مزاجی اختیار کرتا ہے خدا بھی اس سے نرم معاملہ کرتا ہے.اصل میں نیک انسان تو اپنا پاؤں بھی زمین پر
116 پھونک پھونک کر احتیاط سے رکھتا ہے تاکسی کیڑے کو بھی اس سے تکلیف نہ ہو.غرض اپنے ہاتھ سے ، پاؤں سے، آنکھ وغیرہ اعضاء سے کسی کو کسی نوع کی تکلیف نہ پہنچاؤ اور دُعائیں مانگتے رہو.( ملفوظات جلد سوم ، ص 106) وظیفے کے بارے میں ایک اور جگہ فرمایا : وظیفوں کے ہم قائل نہیں.یہ سب منتر جنتر ہیں جو ہمارے ملک کے جوگی ہندو سنیاسی کرتے ہیں جو شیطان کی غلامی میں پڑے ہوئے ہیں.البتہ دُعا کرنی چاہیئے خواہ اپنی ہی زبان میں ہو.نیچے اضطراب اور سچی تڑپ سے جناب الہی میں گداز ہوا ہو ایسا کہ وہ قادر الحی القیوم دیکھ رہا ہے.جب یہ حالت ہوگی تو گناہ پر دلیری نہ کرے گا.جس طرح انسان آگ یا اور ہلاک کر نیوالی اشیاء سے ڈرتا ہے ویسے اس کو گناہ کی سرزنش سے ڈرنا چاہیے.گناہ گار زندگی انسان کیلئے دنیا میں مجسم دوزخ سے جس پر غضب الہی کی سموم چلتی اور اس کو ہلاک کر دیتی ہے جسطرح آگ سے انسان ڈرتا ہے اسی طرح گناہ سے ڈرنا چاہیے کیونکہ یہ بھی ایک قسم کی آگ ہے.ہمارا مذہب یہی ہے کہ نماز میں روروکر دُعائیں مانگو تا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے
117 فضل کی نیم چلائے دیکھو شیعہ لوگ کیسے راہِ راست سے بھٹکے ہوئے ہیں.حسین حسین کرتے مگر احکام الہی کی بے حرمتی کرتے ہیں حالانکہ حسین کو بھی بلکہ تمام رسولوں کو استغفار کی ایسی سخت ضرورت تھی جیسے ہم کو.چنانچہ رسول اللہ علی خاتم النبیین کا فعل اس پر شاہد ہے کون ہے جو آپ سے بڑھ کر نمونہ بن سکتا ہے.( ملفوظات جلد سوم ص 323) نماز تعویذ ہے نماز انسان کا تعویذ ہے.پانچ وقت دُعا کا موقع ملتا ہے کوئی دُعا تو سنی جائے گی.اس لیے نماز کو بہت سنوار کر پڑھنا چاہیے اور مجھے یہی بہت عزیز ہے 66 ( ملفوظات جلد اوّل ،ص 394)
118 نماز کا خلاصہ باب XV عبادت کے اصول کا خلاصہ اصل میں یہی ہے کہ اپنے آپ کو اس طرح سے کھڑا کرے کہ گویا خدا کو دیکھ رہا ہے اور یا یہ کہ خدا اسے دیکھ رہا ہے ہر قسم کی ملونی اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہو جاوے اور اس کی عظمت اور اسی کی ربوبیت کا خیال رکھے.ادعیہ ماثورہ اور دوسری دُعائیں خدا سے بہت مانگے اور بہت توبہ و استغفار کرے اور بار بار اپنی کمزوری کا اظہار کرے تاکہ تزکیہ نفس ہو جاوے اور خدا سے پکا تعلق پیدا ہو جاوے اور اُسی کی محبت میں محو ہو جا وے.اور یہی ساری نماز کا خلاصہ ہے اور یہ سارا سورۃ فاتحہ میں ہی آجاتا ہے.دیکھو إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِين میں اپنی کمزوریوں کا اظہار کیا گیا ہے اور امداد کے لئے خدا تعالیٰ سے ہی درخواست کی گئی ہے اور خدا تعالیٰ سے ہی مدد اور نصرت طلب کی گئی ہے اور پھر اس کے بعد نبیوں اور رسولوں کی راہ پر چلنے کی دُعا مانگی گئی ہے.اور ان انعامات کو حاصل کرنے کے لیے درخواست کی گئی ہے جو نبیوں
119 اور رسولوں کے ذریعہ سے اس دنیا پر ظاہر ہوئے ہیں.اور جو اُنھیں کی اتباع اور اُنھیں کے طریقہ پر چلنے سے حاصل ہو سکتے ہیں.اور پھر خدا تعالیٰ سے دُعا مانگی گئی ہے کہ ان لوگوں کی راہوں سے بچا جنہوں نے تیرے رسولوں اور نبیوں کا انکار کیا اور شوخی اور شرارت سے کام لیا اور اسی جہان میں ہی ان پر غضب نازل ہوا.یا جنہوں نے دنیا کو ہی اپنا اور راہِ راست کو چھوڑ دیا.مقصود مجھ لیا (الحکم اکتوبر 1907 ء ص 11 - تفسیر سورۃ الفاتحہ ،ص 195) مقصود زندگی یاد خدا ہے انسان خدا کی پرستش کا دعوی کرتا ہے مگر کیا پرستش صرف بہت سے سجدوں اور رکوع اور قیام سے ہوسکتی ہے یا بہت مرتبہ تسبیح کے دانے پھیر نے والے پرستار الہی کہلا سکتے ہیں بلکہ پرستش اُس سے ہو سکتی ہے جس کو خدا کی محبت اس درجہ پر اپنی طرف کھینچے کہ اس کا اپنا وجود درمیان سے اُٹھ جائے.اوّل خدا کی ہستی پر پورا یقین ہو اور پھر خدا کے حسن و احسان پر پوری اطلاع ہو اور پھر اُس سے محبت کا تعلق ایسا ہو کہ سوزشِ محبت ہر وقت سینہ میں موجود ہو اور یہ حالت ہر ایک دم چہرہ پر ظاہر ہو اور خدا کی عظمت دل میں ایسی ہو کہ تمام دنیا اس کی
120 ہستی کے آگے مردہ متصور ہو اور ہر ایک خوف اُسی کی ذات سے وابستہ ہو اور اُسی کی درد میں لذت ہو اور اُسی کی خلوت میں راحت ہو اور اس کے بغیر دل کو کسی کے ساتھ قرار نہ ہو.اگر ایسی حالت ہو جائے تو اسکا نام پرستش ہے مگر یہ حالت بجز خدا تعالی کی خاص مدد کے کیونکر پیدا ہو.اسی لیے خدا تعالی نے یہ دعا سکھلائی إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِین یعنی ہم تیری پرستش تو کرتے ہیں مگر کہاں حق پرستش ادا کر سکتے ہیں جب تک تیری طرف سے خاص مدد نہ ہو.خدا کو اپنا حقیقی محبوب قرار دے کر اس کی پرستش کرنا یہی ولایت ہے.جس سے آگے کوئی درجہ نہیں.مگر یہ درجہ بغیر اس کی مدد کے حاصل نہیں ہو سکتا.اس کے حاصل ہونے کی یہ نشانی ہے کہ خدا کی عظمت دل میں بیٹھ جائے.خدا کی محبت دل میں بیٹھ جائے اور دل اُسی پر توکل کرے اور اُسی کو پسند کرے اور ہر ایک چیز پر اُسی کو اختیار کرے اور اپنی زندگی کا مقصد اُس کی یاد کو سمجھے.اور اگر ابراہیم کی طرح اپنے ہاتھ سے اپنی عزیز اولاد کے ذبح کرنے کا حکم ہو.یا اپنے تئیں آگ میں ڈالنے کیلئے اشارہ ہو تو ایسے سخت احکام کو بھی محبت کے جوش سے بجالائے اور رضا جوئی اپنے آقائے کریم میں اس حد تک کوشش کرے کہ اُس کی اطاعت
121 میں کوئی کسر باقی نہ رہے.یہ بہت تنگ دروازہ ہے.اور یہ شربت بہت ہی تلخ شربت ہے.تھوڑے لوگ ہیں جو اس دروازہ سے داخل ہوتے ہیں اور اس شربت کو پیتے ہیں.زنا سے بچنا کوئی بڑی بات نہیں اور کسی کو ناحق قتل نہ کرنا بڑا کام نہیں.اور جھوٹی گواہی نہ دینا کوئی بڑا ہنٹر نہیں مگر ہر ایک چیز پر خدا کو اختیار کر لینا اور اس کے لیے سچی محبت اور نیچے جوش سے دنیا کی تمام تلخیوں کو اختیار کرنا بلکہ اپنے ہاتھ سے تلخیاں پیدا کر لینا یہ وہ مرتبہ ہے کہ بجز صدیقوں کے کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا.یہی وہ عبادت ہے جس کے ادا کرنے کے لیے انسان مامور ہے.اور جو شخص یہ عبادت بجا لاتا ہے تب تو اُس کے اس فعل پر خدا کی طرف سے بھی ایک فعل مترتب ہوتا ہے.جس کا نام انعام ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے یعنی یہ دعا سکھلاتا ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ لا صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یعنی اے ہمارے خدا ہمیں اپنی سیدھی راہ دکھلا اُن لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا ہے اور اپنی خاص عنایات سے مخصوص فرمایا ہے.حضرت احدیت میں یہ قاعدہ ہے کہ جب خدمت مقبول ہو جاتی ہے تو اُس پر ضرور کوئی انعام مترتب ہوتا ہے.چنانچہ خوارق اور نشان جن کی
122 دوسرے لوگ نظیر پیش نہیں کر سکتے یہ بھی خدا تعالی کے انعام ہیں جو خاص بندوں پر ہوتے ہیں (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22 ،ص54 تا 55) سب سے افضل عبادت سب سے افضل عبادت یہ ہے کہ انسان التزام کے ساتھ پانچوں نمازیں ان کے اول وقت پر ادا کرے اور فرض اور سنتوں کی ادائیگی پر مداومت رکھتا ہو اور حضور قلب ، ذوق ، شوق اور عبادت کی برکات کے حصول میں پوری طرح کوشاں رہے.کیونکہ نماز ایک ایسی سواری ہے جو بندہ کو پروردگارِ عالم تک پہنچاتی ہے.اسکے ذریعہ (انسان ) ایسے مقام تک پہنچ جاتا ہے جہاں گھوڑوں کی پیٹھوں پر ( بیٹھ کر ) نہیں پہنچ سکتا اور نماز کا شکار ( ثمرات ) تیروں سے حاصل نہیں کیا جاسکتا.اس کا راز قلموں سے ظاہر نہیں ہوسکتا ہے اور جس شخص نے اس طریق کو لازم پکڑا اس نے حق اور حقیقت کو پالیا.اور اس محبوب تک پہنچ گیا جو غیب کے پردوں میں ہے اور شک و شبہ سے نجات حاصل کر لی.پس تو دیکھے گا کہ اس کے دن روشن ہیں.اس کی باتیں موتیوں کی مانند ہیں.اور اس کا چہرہ چودھویں کا چاند ہے اس کا
123 مقام صدرنشینی ہے.جو شخص نماز میں اللہ تعالیٰ کیلئے عاجزی سے جھکتا ہے.اللہ تعالیٰ اس کے لیے بادشاہوں کو جھکا دیتا ہے اور اس مملوک بندہ کو مالک بنا دیتا ہے.اعجاز اسیح ترجمه از تفسیر سورۃ فاتحہ، ص 201 تا 202)
124 شقتیں باب XVI عبادات میں جسم اور روح کی شمولیت ضروری ہے ظاہری نماز اور روزہ اگر اس کے ساتھ اخلاص اور صدق نہ ہو کوئی خوبی اپنے اندر نہیں رکھتا.جوگی اور سنیاسی بھی اپنی جگہ بڑی بڑی ریاضتیں کرتے ہیں.اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ان میں سے بعض اپنے ہاتھ تک سکھا دیتے ہیں اور بڑی بڑی اٹھاتے اور اپنے آپ کو مشکلات اور مصائب میں ڈالتے ہیں لیکن یہ تکالیف اُن کو کوئی ٹور نہیں بخشتیں اور نہ کوئی سکیت اور اطمینان اُن کو ملتا ہے بلکہ اندرونی حالت ان کی خراب ہوتی ہے.وہ بدنی ریاضت کرتے ہیں جس کو اندر سے کم تعلق ہوتا ہے اور کوئی اثر ان کی روحانیت پر نہیں پڑتا.اس لیے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا! لَن يَنَالَ الله الحومُهَا وَلَا دِمَالُوهَا وَلَكِن بنا لهُ التقوى منكم (انج (38) یعنی اللہ کو تمہاری قربانیوں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے.حقیقت میں خدا تعالیٰ پوست کو پسند نہیں کرتا بلکہ مغز چاہتا ہے.اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر گوشت اور خون نہیں
125 ایک پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے تو پھر قربانی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اس طرح نماز روزہ اگر رُوح کا ہے تو پھر ظاہر کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ یہ بالکل پکی بات ہے کہ جولوگ جسم سے خدمت لینا چھوڑ دیتے ہیں ان کو رُوح نہیں مانتی اور اس میں وہ نیاز مندی اور عبودیت پیدا نہیں ہوسکتی جو اصل مقصد ہے اور جو صرف جسم سے کام لیتے ہیں رُوح کو اس میں شریک نہیں کرتے وہ بھی خطرناک غلطی میں مبتلا ہیں.اور یہ جوگی اسی قسم کے ہیں.روح اور جسم کا باہم خدا تعالیٰ نے تعلق رکھا ہوا ہے اور جسم کا اثر رُوح پر پڑتا ہے.مثلاً اگر ایک شخص تکلف سے رونا چاہے تو آخر اس کو رونا آہی جائے گا.اور ایسا ہی جو تکلف سے ہنسنا چاہے اسے ہنسی آہی جاتی ، ہے.اسی طرح پر نماز کی جس قدر حالتیں جسم پر وارد ہوتی ہیں مثلاً کھڑا ہونا یا رکوع کرنا.اس کے ساتھ ہی روح پر بھی اثر پڑتا ہے اور جس قدر جسم میں نیاز مندی کی حالت دکھاتا ہے اُس قدر روح میں پیدا ہوتی ہے.اگر چہ خدا برے سجدہ کو قبول نہیں کرتا مگر سجدہ کو رُوح کے ساتھ ایک تعلق ہے اس لیے نماز میں آخری مقام سجدہ کا ہے.جب انسان نیازمندی کے انتہائی مقام پر پہنچتا ہے تو اس وقت وہ سجدہ ہی کرنا چاہتا ہے
126.جانوروں تک میں بھی یہ حالت مشاہدہ کی جاتی ہے.گتے بھی جب اپنے مالک سے محبت کرتے ہیں تو آکر اس کے پاؤں پر اپنا سر رکھ دیتے ہیں.اور اپنی محبت کے تعلق کا اظہار سجدہ کی صورت میں کرتے ہیں اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ جسم کو رُوح کے ساتھ خاص تعلق ہے ایسا ہی رُوح کی حالتوں کا اثر جسم پر نمودار ہوجاتا ہے جب روح غمناک ہو تو جسم پر بھی اس کے آثار ظاہر ہوتے ہیں اور آنسو اور پژمردگی ظاہر ہوتی ہے.اگر روح اور جسم کا باہم تعلق نہیں تو ایسا کیوں ہوتا ہے؟ دوران خون بھی قلب کا ایک کام ہے مگر اس میں بھی شک نہیں کہ قلب آبپاشی جسم کیلئے ایک انجمن ہے.اس کے بسط اور قبض سے سب کچھ ہوتا ہے.غرض جسمانی اور روحانی سلسلے دونوں برابر چلتے ہیں.روح میں جب عاجزی پیدا ہو جاتی ہے پھر جسم میں بھی پیدا ہو جاتی ہے.اس لیے جب روح میں واقع میں عاجزی اور نیازمندی ہو تو جسم میں اس کے آثار خود بخود ظاہر ہو جاتے ہیں اور ایسا ہی جسم پر ایک الگ اثر پڑتا ہے.تو روح بھی اس سے متاثر ہو ہی جاتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے حضور نماز میں کھڑے ہو تو چاہیے کہ اپنے وجود سے عاجزی اور ارادت مندی کا اظہار کرو.
127 اگر چہ اس وقت یہ ایک قسم کا نفاق ہوتا ہے مگر رفتہ رفتہ اس کا اثر دائمی ہوجاتا ہے.اور واقعی روح میں وہ نیاز مندی اور فروتنی پیدا ہونے لگتی ہے.( ملفوظات جلد دوم ، ص 696 تا 697) نماز میں جسمانی حالتوں کا اثر روحانی حالت پر پڑتا ہے غرض دُعا (جو نماز کا مغز ہے) وہ اکسیر ہے جو ایک مشت خاک کو کیمیا کر دیتی ہے.اور وہ ایک پانی ہے جو اندرونی غلاظتوں کو دھودیتا ہے.اس دُعا کے ساتھ رُوح پھلتی ہے اور پانی کی طرح بہہ کر آستانہ حضرت احدیت پر گرتی ہے.وہ خدا کے حضور میں کھڑی بھی ہوتی ہے اور رکوع بھی کرتی ہے اور سجدہ بھی کرتی ہے اور اسی کی ظلت وہ نماز ہے جو اسلام نے سکھلائی ہے.اور روح کا کھڑا ہونا یہ ہے کہ وہ خدا کیلئے ہر ایک ہیبت کی برداشت اور حکم ماننے کے بارے میں مستعدی ظاہر کرتی ہے اور اس کا رکوع یعنی جھکنا یہ ہے کہ وہ تمام محبتوں اور تعلقوں کو چھوڑ کر خدا کی طرف جھک آتی ہے اور خدا کیلئے ہو جاتی ہے اور اُس کا سجدہ یہ ہے کہ وہ خدا کے آستانہ پر گر کر اپنے خیال انگلی کھو دیتی ہے اور اپنے نقش وجود کو مٹادیتی ہے یہی نماز ہے جو خدا کو ملاتی ہے اور شریعت اسلامی نے اس کی
128 تصویر معمولی نماز میں کھینچ کر دکھلائی ہے تا وہ جسمانی نماز اور روحانی نماز کی طرف محرک ہو کیونکہ خدا تعالیٰ نے انسان کے وجود کی ایسی بناوٹ پیدا کی ہے کہ روح کا اثر جسم پر اور جسم کا اثر روح پر ضرور ہوتا ہے...لیکن صرف جسمانی قیام اور رکوع اور سجود میں کچھ فائدہ نہیں ہے جب تک کہ اس کے ساتھ یہ کوشش شامل نہ ہو کہ روح بھی اپنے طور سے قیام اور رکوع اور سجود سے کچھ حصہ لے اور یہ حصہ لینا معرفت پر موقوف ہے اور معرفت فضل پر موقوف.لیکچر سیالکوٹ ، روحانی خزائن جلد نمبر 20 ص 223 تا 224)
129 باب XVII نماز میں لذت نہ آنے کی وجہ ایک صاحب نے اعتراض کیا کہ بہت کوشش کی جاتی ہے مگر نماز میں لذت نہیں آتی.فرمایا: انسان جو اپنے تئیں امن میں دیکھتا ہے تو اُسے خدا تعالی کیطرف رجوع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی.حالت استغناء میں انسان کو خدا یاد نہیں آیا کرتا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری طرف وہ متوجہ ہوتا ہے کہ جس کے بازو ٹوٹ جاتے ہیں.اب جو شخص غفلت سے زندگی بسرکرتا ہے اُسے خدا کی طرف توجہ کب نصیب ہوتی ہے.انسان کا رشتہ خدا تعالیٰ کے ساتھ عاجزی اور اضطراب کے ساتھ ہے لیکن جو عقلمند.وہ اس رشتہ کو اس طرح سے قائم رکھتا ہے کہ وہ خیال کرتا ہے کہ میرا باپ دادا کہاں ہے اور اس قدر مخلوق کو ہر روز مرتا دیکھ کر وہ انسان کی فانی حالت کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کی برکت سے اسے پتہ لگ جاتا ہے کہ میں بھی فانی ہوں اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ جہاں چھوڑ دیا جائیگا اور اگر وہ اس میں زیادہ مبتلا ہے تو ہے
130 اُسے اِسے چھوڑنے کے وقت حسرت بھی زیادہ ہوگی.اور یہ حسرت ایسی ہے کہ خواہ آخرت پر ایمان نہ بھی ہو تب بھی اس کا اثر ضرور ہوتا ہے اور اس سے امن اس وقت ملتا ہے کہ جب فانی خوشحالی نہ ہو بلکہ سچی خوشحالی ہو.بعض آدمیوں کو بیماریوں ، بعض کو دوسری تکالیف سے خدا تعالیٰ کیطرف رجوع ہوتا ہے.( ملفوظات جلد دوم ،ص 655 تا 656) نماز میں لذت نہ آنے کی وجہ اور اُس کا علاج غرض میں دیکھتا ہوں کہ لوگ نمازوں میں غافل اور سُست اس لیے ہوتے ہیں کہ اُن کو اس لذت اور سرور سے اطلاع نہیں جو اللہ تعالیٰ نے نماز کے اندر رکھا ہے اور بڑی بھاری وجہ اس کی یہی ہے پھر شہروں اور گاؤں میں تو اور بھی سُستی اور غفلت ہوتی ہے سو پچاسواں حصہ بھی تو پوری مستعدی اور سچی محبت سے اپنے مولا حقیقی کے حضور سر نہیں جُھکا تا.پھر سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ کیوں؟ اُن کو اس لذت کی اطلاع نہیں اور نہ کبھی انہوں نے اس مزہ کو چکھا اور مذاہب میں ایسے احکام نہیں ہیں.کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم اپنے کاموں میں مبتلا ہوتے ہیں اور مئوذن اذان دے دیتا ہے.پھر وہ سننا
131 اور بھی نہیں چاہتے گویا اُن کے دل دُکھتے ہیں.یہ لوگ بہت ہی قابل رحم ہیں بعض لوگ یہاں بھی ایسے ہیں کہ اُن کی دکانیں دیکھو تو مسجدوں کے نیچے ہیں مگر بھی جاکر کھڑے بھی تو نہیں ہوتے.پس میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ سے نہایت سوز اور ایک جوش کے ساتھ یہ دُعا مانگنی چاہیے کہ جس طرح پھلوں اور اشیاء کی طرح طرح کی لذتیں عطا کی ہیں.نماز اور عبادت کا بھی ایک بار مزہ چکھا دے.کھایا ہوا یاد رہتا ہے.دیکھو اگر کوئی شخص کسی خوبصورت کو ایک سرور کے ساتھ دیکھتا ہے تو وہ اُسے خوب یاد رہتا ہے.اور پھر اگر کسی بدشکل اور مکروہ ہیئت کو دیکھتا ہے، تو اس کی ساری حالت بہ اعتبار اس کے مجسم ہو کر سامنے آجاتی ہے.ہاں اگر کوئی تعلق نہ ہو تو ، کچھ یاد نہیں رہتا اسی طرح بے نمازوں کے نزدیک نماز ایک تاوان ہے کہ ناحق صبح اُٹھ کو سردی میں وضو کر کے خواب راحت چھوڑ کر کئی قسم کی آسائشوں کو کھو کر پڑھنی پڑھتی ہے.اصل بات یہ ہے کہ اسے بیزاری ہے وہ اس کو سمجھ نہیں سکتا.اس لذت اور راحت سے جو نماز میں ہے اس کو اطلاع نہیں ہے پھر نماز میں لذت کیونکر حاصل ہو میں دیکھتا ہوں کہ ایک شرابی اور نشہ باز انسان کو جب سرور نہیں آتا، تو وہ پے در پے پیالے پیتا جاتا ہے، یہانتک کہ
132 اُس کو ایک قسم کا نشہ آ جاتا ہے.دانشمند اور بزرگ انسان اس سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے اور وہ یہ کہ نماز پر دوام کرے اور پڑھتا جاوے یہاں تک کہ اُس کو سُرور آجاوے اور جیسے شرابی کے ذہن میں ایک لذت ہوتی ہے جس کا حاصل کرنا اس کا مقصود بالذات ہوتا ہے اسی طرح سے ذہن میں اور ساری طاقتوں کا رجحان نماز میں اُسی سُرور کا حاصل کرنا ہو.اور پھر ایک خلوص اور جوش کے ساتھ کم از کم اس نشہ باز کے اضطراب اور قلق و کرب کی مانند ہی ایک دُعا پیدا ہو کہ وہ لذت حاصل ہو تو میں کہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں کہ یقیناً وہ لذت حاصل ہو جاوے گی.پھر نماز پڑھتے وقت ان مفاد کا حاصل کرنا بھی ملحوظ ہو جو اس سے ہوتے ہیں اور احسان پیشِ نظر رہے.( ملفوظات جلد اوّل ،ص103 تا 104 ) جد بعض لوگ کہتے ہیں کہ نماز میں لذت نہیں آتی مگر میں بتلاتا ہوں کہ بار بار پڑھے اور کثرت سے پڑھے.تقویٰ کے ابتدائی درجہ میں قبض شروع ہو جاتی ہے اسوقت یہ کرنا چاہیئے کہ خدا کے پاس ایساكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِين كا تکرار کیا جائے.شیطان کشفی حالت میں چور یا قزاق دکھایا جاتا ہے اس کا استغاثہ جناب الہی میں کرے کہ یہ قزاق لگا ہوا ہے.تیرے
133 ہی دامن کو پنجہ مارتے ہیں، جو اس استغاثہ میں لگ جاتے ہیں اور تھکتے ہی نہیں وہ ایک قوت اور طاقت پاتے ہیں جس سے شیطان ہلاک ہو جاتا ہے مگر اس قوت کے حصول اور استغاثہ کے پیش کرنے کے واسطے ایک صدق اور سوز کی ضرورت ہے اور یہ چور کے تصور سے پیدا ہوگا جو ساتھ لگا ہوا ہے.وہ گویا ننگا کرنا چاہتا ہے اور آدم والا ابتلاء لانا چاہتا ہے.اس تصور سے رُوح چلا کر بول اُٹھے گی إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِين (الحلم 17 فروری 1901 ءص2) نمازوں میں إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِین کا تکرار بہت كرو إِيَّاكَ نَسْتَعِين خدا کے فضل اور گم شدہ متاع کو واپس لاتا ہے.(الحکم 10 نومبر 1902 ء ص 12) ( تفسیر سورۃ فاتحہ، ص 209 تا 210) نماز میں لذت حاصل کرنے کیلئے کثرت نماز، دُعا کی ضرورت ہے.سوال: کبھی نماز میں لذت آتی ہے اور کبھی وہ لذت جاتی رہتی ہے اس کا کیا علاج ہے؟ جواب: ہمت نہیں ہارنی چاہیے بلکہ اس لذت کے کھوئے جانے کو محسوس کرنے اور پھر اس کو حاصل کرنے کی سعی کرنی چاہیے
134 جیسے چور آوے اور وہ مال اُڑا کر لے جاوے تو اُس کا افسوس ہوتا ہے اور پھر انسان کوشش کرتا ہے کہ آئندہ اس خطرہ سے محفوظ رہے.اس لیے معمول سے زیادہ ہشیاری اور مستعدی سے کام لیتا ہے.اسی طرح پر جو خبیث نماز کے ذوق اور اُنس کو لے گیا ہے تو اس سے کس قدر ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے؟ اور کیوں نہ اس پر افسوس کیا جاوے؟ انسان جب یہ حالت دیکھے کہ اس کا اُنس و ذوق جاتا رہا ہے تو وہ بے فکر اور بے غم نہ ہو.نماز میں بے ذوقی کا پیدا ہونا ایک سارق کی چوری اور روحانی بیماری ہے جیسے ایک مریض کے منہ کا ذائقہ بدل جاتا ہے تو وہ فی الفور علاج کی فکر کرتا ہے اسی طرح پر جس کا روحانی مذاق بگڑ جاوے اس کو بہت جلد اصلاح کی فکر کرنی لازم ہے.یادرکھو انسان کے اندر ایک بڑا چشمہ لذت کا ہے جب کوئی گناہ اس سے سرزد ہوتا ہے سے سرزد ہوتا ہے تو وہ چشمہ لذت مکدر ہو جاتا ہے اور پھر لذت نہیں رہتی.مثلاً جب ناحق گالی دیدیتا ہے یا ادنی ادنی سی بات پر بدمزاج ہوکر بدزبانی کرتا ہے تو پھر ذوق نماز جاتا رہتا ہے.اخلاقی قوی کو لذت میں بہت بڑا دخل ہے.جب انسانی قومی میں فرق آئے گا تو اس کے
135 ساتھ ہی لذت میں بھی فرق آجاوے گا.پس جب کبھی ایسی حالت ہو کہ اُنس اور ذوق جو نماز میں آتا تھا وہ جاتا رہا ہے تو چاہیے کہ تھک نہ جاوے اور بے حوصلہ ہو کر ہمت نہ ہارے بلکہ بڑی مستعدی کے ساتھ اس گمشدہ متاع کو حاصل کرنے کی فکر کرے اور اس کا علاج ہے.تو بہ، استغفار، تضرع.بے ذوقی سے ترک نماز نہ کرے بلکہ نماز کی اور کثرت کرے.جیسے ایک نشہ باز کو جب نشہ نہیں آتا تو وہ نشہ کو چھوڑ نہیں دیتا بلکہ جام پر جام پیا جاتا ہے یہاں تک کہ آخر اس کو لذت اور سُرور آجاتا ہے.پس جس کو نماز میں بے ذوقی پیدا ہو اس کو کثرت کے ساتھ نماز پڑھنی چاہئے اور تھکنا مناسب نہیں.آخر ہی بے ذوقی میں ایک ذوق پیدا ہو جاوے گا.دیکھو پانی کے لیے کس قدر زمین کو کھودنا پڑتا ہے.جو لوگ تھک جاتے ہیں وہ محروم رہ جاتے ہیں.جو تھکتے نہیں وہ آخر نکال ہی لیتے ہیں.اس لیے اس ذوق کو حاصل کرنے کے لیے استغفار، کثرت نماز و دعا مستعدی اور صبر کی ضرورت ہے.( ملفوظات جلد سوم ص 309 تا 310) نماز میں لذت اور ذوق حاصل کرنے کی دُعا اے اللہ تو مجھے دیکھتا ہے کہ میں کیسا اندھا اور نابینا
136 ہوں اور میں اسوقت بالکل مردہ حالت میں ہوں، میں جانتا ہوں کہ تھوڑی دیر کے بعد مجھے آواز آئے گی تو میں تیری طرف آجاؤ نگا.اس وقت مجھے کوئی روک نہ سکے گا لیکن میرا دل اندھا اور ناشناسا ہے.تو ایسا شعلہ نور اس پر نازل کر کہ تیرا اُنس اور شوق اس میں پیدا ہو جائے تو ایسا فضل کر کہ میں نابینا نہ اُٹھوں اور اندھوں میں نہ جاملوں.جب اس قسم کی دُعا مانگے گا اور اس پر دوام اختیار کرے گا تو وہ دیکھے گا کہ ایک وقت اس پر ایسا آئے گا کہ اس کی بے ذوقی کی نماز میں ایک چیز آسمان سے اس پر گرے گی جو رقت پیدا کر دے گی.نماز کی لذت اور سُرور ( ملفوظات جلد دوم ، ص 616) دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں جسمیں لذت اور ایک خاص حظ اللہ تعالیٰ نے نہ رکھا ہو.جس طرح پر ایک مریض ایک عمدہ سے عمدہ خوش ذائقہ چیز کا مزا نہیں اُٹھا سکتا اور وہ اسے بالکل تلخ یا پھیکا سمجھتا ہے اسی طرح سے وہ لوگ جو عبادت الہی میں حظ اور لذت نہیں پاتے ان کو اپنی بیماری کا فکر
137.کرنا چاہیے.کیونکہ جیسا میں نے ابھی کہا ہے دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسمیں خدائے تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی لذت نہ رکھی ہو.اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو عبادت کیلئے پیدا کیا تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس کی عبادت میں اس کے لیے ایک لذت اور سُرور نہ ہو؟ لذت اور سُرور تو ہے مگر اس سے حظ اٹھانے والا بھی تو ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الدريت : 57) اب انسان جب عبادت ہی کیلئے پیدا ہوا ہے ، ضروری ہے کہ عبادت میں لذت اور سرور بھی درجہ غایت کا رکھتا ہو.اس بات کو ہم اپنے روز مرہ کے مشاہدہ اور تجربہ سے خوب سمجھ سکتے ہیں مثلاً دیکھو اناج اور تمام خوردنی اور نوشیدنی اشیاء انسان کے لیے پیدا کی ہیں تو کیا اُن سے وہ ایک لذت اور حظ نہیں پاتا ہے؟ کیا اُس ذائقہ اور مزے کے احساس کے لیے اس کے منہ میں زبان موجود نہیں؟ کیا وہ خوبصورت اشیاء کو دیکھ کر نباتات ہوں یا جمادات، حیوانات ہوں یا انسان حظ نہیں پاتا؟ کیا دل خوش گن اور سریلی آوازوں سے اس کے کان محظوظ نہیں ہوتے؟ پھر کیا کوئی دلیل اور بھی اس امر کے اثبات کے لیے مطلوب ہے کہ عبادت میں لذت نہ ہو.( ملفوظات جلد سوم ، ص 25)
138 عبادت ٹیکس نہیں ہے خوب سمجھ لو کہ عبادت بھی کوئی بوجھ اور ٹیکس نہیں اس میں بھی ایک لذت اور سرور ہے اور یہ لذت اور سرور دنیا کی تمام لذتوں اور تمام حظوظ نفس سے بالا تر اور بالاتر ہے جیسے عورت اور مرد کے باہم تعلقات میں ایک لذت ہے اور اس سے وہی بہرہ مند ہو سکتا جو مرد ہے اور اپنے قومی صحیحہ رکھتا ہے.ایک نامرد اور مخنث وہ حظ نہیں پاسکتا اور جیسے ایک مریض کسی عمدہ سے عمدہ خوش ذائقہ غذا کی لذت سے محروم ہے اسی طرح پر ہاں ٹھیک ایسا ہی وہ کم بخت انسان ہے جو عبادت الہی سے لذت نہیں پاسکتا..( ملفوظات جلد سوم ص 26) نماز کا مغز دُعا ہے...پھر نماز پڑھتے وقت ان مفاد کا حاصل کرنا بھی ملحوظ ہو جو اُس سے ہوتے ہیں اور احسان پیشِ نظر رہے.إِنَّ الْحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاتِ (ھود : 115) نیکیاں بدیوں کو زائل کر دیتی ہیں.پس ان حسنات کو اور لذات کو دل میں رکھ کر دُعا کرے کہ وہ نماز جو صدیقوں اور محسنوں کی ہے وہ نصیب
کرے 139 یہ جو فرمایا ہے کہ إِن الحَسَنتِ يُذْهِبْنَ السَّبات يعنى نیکیاں بدیوں کو دور کرتی ہے یا دوسرے مقام پر فرمایا ہے نماز فواحش اور بُرائیوں سے بچاتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ باوجود نماز پڑھنے کے پھر بدیاں کرتے ہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں مگر نہ روح اور راستی کے ساتھ.وہ صرف رسم اور عادت کے طور پر ٹکریں مارتے ہیں ان کی روح مُردہ ہے.اللہ تعالیٰ نے ان کا نام حسنات نہیں رکھا اور یہاں جو حسنات کا لفظ رکھا اور الصلوۃ کا لفظ نہیں رکھا باوجود یکہ معنی وہی ہیں.اسکی وجہ یہ ہے کہ تا نماز کی خوبی اور حسن و جمال کی طرف اشارہ کرے کہ وہ نماز بدیوں کو دور کرتی ہے جو اپنے اندر ایک سچائی کی رُوح رکھتی ہے اور فیض کی تاثیر اس میں موجود ہے وہ نماز یقیناً یقیناً بُرائیوں کو دور کر دیتی ہے.نماز نشست و برخاست کا نام نہیں.نماز کا مغز اور رُوح وہ دُعا ہے جو ایک لذت اور سرور اپنے اندر رکھتی ہے.( ملفوظات جلد سوم ،ص 28، 29 ) غرض ظنون فاسدہ والا انسان ناقص الخلقت ہوتا ہے چونکہ اس کے پاس صرف رسمی امور ہوتے ہیں اس لیے نہ
140 اس کا دین درست ہوتا ہے نہ دنیا ایسے لوگ نمازیں پڑھتے ہیں مگر نماز کے مطالب سے نا آشنا ہوتے ہیں اور ہرگز نہیں سمجھتے کہ کیا کر رہے ہیں.نماز میں تو ٹھو نگے مارتے ہیں لیکن نماز کے بعد دُعا میں گھنٹہ گھنٹہ گزار دیتے ہیں.تعجب کی بات ہے کہ نماز جو اصل دُعا کیلئے ہے اور جس کا مغز ہی دُعا ہے اس میں وہ کوئی دُعا نہیں کرتے.نماز کے ارکان بجائے خود دُعا کیلئے محرک ہوتے ہیں.حرکت میں برکت ہے.کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بیٹھے بیٹھے کوئی مضمون نہیں سوجھتا جب ذرا اُٹھ کر پھرنے لگتے ہیں تو مضمون سوجھ گیا.اس طرح پر سب اعمال کا حال ہے.اگر ان کی اصلیت کا لحاظ اور مغز کا خیال نہ ہو تو وہ ایک رسم اور عادت رہ جاتی ہے.اسی طرح پر روزہ میں خدا کے واسطے نفس کو پاک رکھنا ضروری ہے لیکن اگر حقیقت نہ ہو تو پھر یہ رسم ہی رہ جاتی ہے.( ملفوظات جلد دوم ،ص 393) جہ نماز کی اصلی فرض اور مغز دُعا ہی ہے.اور دُعا مانگنا اللہ تعالیٰ کے قانونِ قدرت کے عین مطابق ہے.مثلاً ہم عام طور پر دیکھتے ہیں کہ جب بچہ روتا دھوتا ہے اور اضطراب ظاہر کرتا ہے تو ماں کس قدر بیقرار ہو کر اس کو دودھ دیتی ہے.
141 اُلوہیت اور عبودیت میں اسی قسم کا ایک تعلق ہے جس کو ہر شخص سمجھ نہیں سکتا.جب انسان اللہ تعالیٰ کے دروازہ پر گر پڑتا ہے اور نہایت عاجزی اور خشوع و خضوع کے ساتھ اس کے حضور اپنے حالات کو پیش کرتا ہے اور اس سے اپنی حاجات کو مانگتا ہے تو اُلوہیت کا کرم جوش میں آتا ہے اور ایسے شخص پر رحم کیا جاتا ہے.( ملفوظات جلد اوّل ، ص 234) نماز میں تسبیح و تقدیس کرتے ہوئے یہی حالت ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ترغیب دی ہے کہ طبعا جوش کے ساتھ اپنے کاموں سے اور اپنی کوششوں سے دکھادے کہ اس کی عظمت کے بر خلاف کوئی شے مجھ پر غالب نہیں آسکتی.یہ بڑی عبادت ہے جو لوگ اس کی مرضی کے مطابق جوش رکھتے ہیں ، وہی مئوید کہلاتے ہیں اور وہی برکتیں پاتے ہیں.جو لوگ خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال اور تقدیس کے لئے جوش نہیں رکھتے ان کی نمازیں جھوٹی ہیں اور ان کے سجدے بیکار ہیں.جب تک خدا تعالیٰ کے لئے جوش نہ ہو یہ سجدے صرف جنتر منتر ٹھہریں گے جن کے ذریعہ سے یہ بہشت کو لینا چاہتا ہے.یاد رکھو کوئی
142 جسمانی بات جس کے ساتھ کیفیت نہ ہو فائدہ مند نہیں ہوسکتی.جیسا کہ اللہ تعالیٰ کو قربانی کے گوشت نہیں پہنچتے ایسا ہی تمہارے رکوع اور سجود بھی نہیں پہنچتے جب تک ان کے ساتھ کیفیت نہ ہو.اللہ تعالیٰ کیفیت کو چاہتا ہے اور ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی عزت اور عظمت کے لئے جوش رکھتے ہیں.جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ ایک باریک راہ سے گزرتے ہیں اور کوئی دوسرا شخص ان کے ساتھ نہیں جا سکتا.جب تک کیفیت نہ ہو انسان ترقی نہیں کر سکتا.گویا خدا تعالیٰ نے قسم کھائی ہے کہ جب تک اُس کے لئے جوش نہ ہو کوئی لذت نہیں دے گا.نماز میں وساؤس پیدا ہونے کی وجہ ( ملفوظات جلد اوّل، ص 262 جن لوگوں کو خدا کی طرف پورا التفات نہیں ہوتا انھیں کو نماز میں بہت وساوس آتے ہیں.دیکھو ایک قیدی جبکہ ایک حاکم کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو کیا اس وقت اس کے دل میں کوئی وسوسہ گزر جاتا ہے.ہرگز نہیں.وہ ہمہ تن حاکم کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس فکر میں ہوتا ہے کہ ابھی حاکم کیا حکم سناتا ہے.اس وقت تو وہ اپنے وجود سے بھی بالکل بے خبر ہوتا ہے.ایسا ہی جب صدقِ دل سے انسان خدا تعالیٰ کی طرف رجوع
143 کرے اور سچے دل سے اس کے آستانہ پر گرے تو پھر کیا مجال ہے کہ شیطان وساوس ڈال سکے.شیطان انسان کا پورا دشمن ہے.قرآن شریف میں اس کا نام عدو رکھا گیا ہے.اس نے اول تمہارے باپ کو نکالا پھر وہ اس پر خوش نہیں.اب اس کا یہ ارادہ ہے کہ تم سب کو دوزخ میں ڈال دے.یہ دوسرا حملہ پہلے سے بھی زیادہ سخت ہے.وہ ابتداء سے بدی کرتا چلا آیا ہے.وہ چاہتا ہے کہ تم پر غالب آوے لیکن جب تک کہ تم ہر بات میں خدا تعالیٰ کو مقدم رکھو گے وہ ہرگز تم پر غالب نہ آسکے گا.جب انسان خدا کی راہ میں دُکھ اُٹھاتا ہے اور شیطان سے مغلوب نہیں ہوتا تب اس کو ایک نور ملتا ہے.( ملفوظات جلد پیجم ، ص 419 تا 420) ایک شخص نے سوال کیا کہ مجھے نماز میں وساوس اور ادھر اُدھر کے خیالات بہت پیدا ہوتے ہیں.فرمایا: اس کی اصل جڑ امن اور غفلت ہے.جب انسان خدا تعالیٰ کے عذاب سے غافل ہو کر امن میں ہوجاتا ہے تب وساوس ہوتے ہیں.دیکھو زلزلے کے وقت اور کشتی میں بیٹھ کر جب کشتی خوفناک مقام پر پہنچتی ہے سب اللہ اللہ کرتے ہیں اور کسی کے دل میں وساوس پیدا نہیں ہوتے.(ملفوظات جلد چہارم، ص284)
144 نماز میں بے حضوری کا علاج سوال: ایک شخص نے سوال کیا کہ جب میں نماز میں کھڑا ہوتا ہوں تو مجھے حضورِ قلب حاصل نہیں ہوتا.کیا اس صورت میں میری نماز ہوتی ہے یا نہیں؟ فرمایا: انسان کی کوشش سے جو حضور قلب حاصل ہوسکتا ہے وہ یہی ہے کہ مسلمان وضو کرتا ہے.اپنے آپ کو کشاں کشاں مسجد تک لے جاتا ہے.نماز میں کھڑا ہوتا ہے اور نماز پڑھتا ہے.یہاں تک انسان کی کوشش ہے اس کے بعد حضور قلب کا عطا کرنا خدا تعالیٰ کا کام ہے.انسان اپنا کام کرتا ہے.خدا تعالی بھی ایک وقت پر اپنی عطا نازل کرتا ہے.نماز میں بےحضوری کا علاج بھی نماز ہی ہے.نماز پڑھتے جاؤ.اس سے سب دروازے رحمت کے کھل جاویں گے.( ملفوظات جلد پنجم ،ص 66) نماز میں حضور اور لذت پیدا کرنے کا طریق میں دیکھتا ہوں کہ آجکل لوگ جسطرح نماز پڑھتے ہیں وہ محض ٹکریں مارنا ہے.اُن کی نماز میں اس قدر بھی رقت اور لذت نہیں ہوتی جس قدر نماز کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا میں ظاہر کرتے ہیں.کاش یہ لوگ اپنی دُعائیں نماز میں ہی کرتے.
145 شاید اُن کی نمازوں میں حضور اور لذت پیدا ہو جاتی اس لیے میں حکماً آپ کو کہتا ہوں کہ سر دست آپ بالکل نماز کے بعد دُعا نہ کریں اور وہ لذت اور حضور جو دُعا کے لیے رکھا ہے، دُعاؤں کو نماز میں کرنے سے پیدا کریں.میرا مطلب یہ نہیں کہ نماز کے بعد دُعا کرنی منع ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ جب تک نماز میں کافی لذت اور حضور پیدا نہ ہو نماز کے بعد دعا کرنے میں نماز کی لذت کو مت گنواؤ.ہاں جب یہ حضور پیدا ہو جاوے تو کوئی حرج نہیں سو بہتر ہے نماز میں دعائیں اپنی زبان میں مانگو.جو طبعی جوش کسی کی مادری زبان میں ہوتا ہے وہ ہرگز غیر زبان میں پیدا نہیں ہوسکتا.سو نمازوں میں قرآن اور ماثورہ دعاؤں کے بعد اپنی ضرورتوں کو برنگ دُعا اپنی زبان میں خدا تعالی کے آگے پیش کرو تا کہ آہستہ آہستہ تم کو حلاوت پیدا ہو جائے سب سے عمدہ دُعا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضامندی اور گناہوں سے نجات حاصل ہو.کیونکہ گناہوں ہی سے دل سخت ہو جاتا اور انسان دنیا کا کیڑا بن جاتا ہے.ہماری دُعا یہ ہونی چاہیے کہ خدا تعالیٰ ہم سے گناہوں کو جو دل کو سخت کر دیتے ہیں دُور کر دے اور اپنی رضامندی کی راہ دکھلائے.( ملفوظات جلد چہارم ص 29 تا 30 )
146 باب XVIII عبادت میں لذت اور راحت بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم کو نمازوں میں لذت نہیں آتی مگر وہ نہیں جانتے کہ لذت اپنے اختیار میں نہیں ہے اور لذت کا معیار بھی الگ ہے.ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص اشد درجہ کی تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے مگر وہ اس تکلیف کو بھی لذت ا ا ہی سمجھ لیتا ہے.........غرض ساری لذت اور راحت دکھ کے بعد آتی ہے.اسی لیے قرآن شریف میں یہ قاعدہ بتایا ہے.إِنَّ مَعَ الْعُسْرِيسُرًا (الم نشرح ( 7 ) اگر کسی راحت سے پہلے تکلیف نہیں تو وہ راحت راحت ہی نہیں رہتی اسی طرح پر جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم کو عبادت میں لذت نہیں آتی ان کو پہلے اپنی جگہ سوچ لینا ضروری ہے کہ وہ عبادت کے لیے کس قدر دُکھ اور تکالیف اُٹھاتے ہیں.جس قدر دُکھ اور تکالیف انسان اُٹھائے گا.وہی تبدیل صورت کے بعد لذت ہو جاتا ہے میری مراد ان دکھوں سے نہیں کہ انسان اپنے آپ کو بے جا مشقتوں میں ڈالے اور
147 مالا يطاق تکالیف اٹھانے کا دعوی کرے.( ملفوظات جلد دوم، ص 698،697) عبادت میں تکلیف برداشت کرنے کی حقیقت قرآن شریف میں لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة: 287) آیا ہے اور رہبانیت اسلام میں نہیں ہے جسمیں پڑ کر انسان اپنے ہاتھ سکھالے یا اپنی دوسری قوتوں کو بیکار چھوڑ دے یا اور قسم قسم کی تکالیف شدیدہ میں اپنی جان کو ڈالے.عبادت کیلئے دُکھ اٹھانے سے ہمیشہ یہ مُراد ہوتی ہے کہ انسان ان کاموں سے رُکے جو عبادت کی لذت کو دُور کرنے والے ہیں.اور ان سے رُکنے میں اولاً ایسی ضرور تکلیف محسوس ہوگی اور خدا تعالیٰ کی نارضامندیوں سے پر ہیز کرے.مثلاً ایک چور ہے اس کو ضروری ہے کہ وہ چوری چھوڑے، بدکار ہے تو بدکاری اور بدنظری چھوڑے...اسی طرح نشوں کا عادی ہے تو ان سے پر ہیز کرے.اب جب وہ اپنی محبوب اشیاء کو ترک کرے گا.تو ضرور ہے کہ اول اول سخت تکلیف اٹھاوے مگر رفتہ رفتہ اگر استقلال سے وہ اس پر قائم رہے گا تو دیکھ لے گا کہ ان بدیوں کے چھوڑنے میں جو تکلیف اس کو محسوس ہوتی ہے وہ تکلیف
148 اب ایک لذت کا رنگ اختیار کرتی جاتی ہے کیونکہ ان بدیوں کے بالمقابل نیکیاں آتی جائیں گی اور ان کے نیک نتائج جو سکھ دینے والے ہیں وہ بھی ساتھ ہی آئیں گے.یہاں تک کہ وہ اپنے ہر قول وفعل میں جب خدا تعالیٰ ہی کی رضا کو مقدم کر لے گا اور اس کی ہر حرکت اور سکون اللہ ہی کے امر کے نیچے ہوگی تو صاف اور بین طور پر وہ دیکھے گا کہ پورے اطمینان اور سکینت کا مزا لے رہا ہے.یہ وہ حالت ہوتی ہے.جب کہا جاتا ہے کم لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ يَحْزَنُونَ ) (البقرة : 63) اسی مقام پر اللہ تعالیٰ کی ولایت میں آتا اور ظلمات سے نکل کر نور کی طرف آجاتا ہے.یاد رکھو کہ جب انسان خدا تعالیٰ کے لیے اپنی محبوب چیزوں کو جو خدا کی نظر میں مکروہ اور اس کی منشاء کے مخالف ہوتی ہیں چھوڑ کر اپنے آپ کو تکالیف میں ڈالتا ہے تو ایسی تکالیف اُٹھانے والے جسم کا اثر روح پر بھی پڑتا ہے اور وہ بھی اس سے متاثر ہو کر ساتھ ہی ساتھ اپنی تبدیلی میں لگتی ہے.یہانتک کہ کامل نیاز مندی کے ساتھ آستانہ اُلوہیت پر بے اختیار ہو کر پڑتی ہے.یہ طریق ہے عبادت میں لذات حاصل کرنے کا.
149 تم نے دیکھا ہوگا کہ بہت سے لوگ ہیں جو اپنی عبادت میں لذت کا یہ طریق سمجھتے ہیں کہ کچھ گیت گالیے یا باجے بجا لیے اور یہی اس کی عبادت ہوگی.اس سے دھوکا مت کھاؤ یہ باتیں نفس کی لذت کا باعث ہوں تو ہوں مگر روح کیلئے ان میں لذت کی کوئی چیز نہیں ان سے رُوح میں فروتنی اور انکساری کے جوہر پیدا نہیں ہوتے اور عبادت کا اصل منشاء گم ہو جاتا ہے.طوائف کی محفلوں میں بھی ایک آدمی ایسا مزا حاصل کرتا ہے تو کیا وہ عبادت کی لذت سمجھی جاتی ہے؟ یہ باریک بات ہے جس کو دوسری قومیں سمجھ ہی نہیں سکتیں کیونکہ انھوں نے عبادت کی اصل غرض اور غایت کو سمجھا ہی نہیں.مقام صالحیت ( ملفوظات جلد دوم، ص 698 ، 699) چوتھا درجہ صالحین کا ہے.یہ بھی جب کمال کے درجہ پر ہو، تو ایک نشان اور معجزہ ہوتا ہے، کامل صلاح یہ ہے کہ کسی قسم کا کوئی بھی فساد باقی نہ رہے.بدن صالح میں کسی قسم کا کوئی خراب اور زہریلا مادہ نہیں ہوتا، بلکہ جب صاف اور مؤید صحت مواد آسمیں ہو، تو اسوقت صالح کہلاتا ہے.جب تک
150 صالح مادہ نہیں، تب تک اس کے لوازم بھی صالح نہیں ہوتے.یہاں تک کہ مٹھاس بھی اُسے کڑوی معلوم ہوتی ہے.اسی طرح پر جب تک انسان صالح نہیں بنتا اور ہر قسم کی بدیوں سے نہیں بچتا اور خراب مادے نہیں نکلتے ، اسوقت تک عبادات کڑوی معلوم ہوتی ہیں.نماز پڑھتا ہے لیکن اُسے کوئی لذت اور سُرور نہیں آتا.وہ ٹکریں مار کر منحوس منہ سے سلام پھیر کر رخصت ہوتا ہے، لیکن عبادات میں مزا اُسی وقت آتا ہے.جب گندے مواد اندر سے نکل جاتے ہیں پھر اُنس اور ذوق شوق پیدا ہوتا ہے.اصلاح انسانی اسی درجہ سے شروع ہوتی ہے.نماز میں لذت کے حصول کی شرائط ( ملفوظات جلد اول، ص 256) ایک نے عرض کی کہ نماز میں لذت کچھ نہیں آتی.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ نماز نماز بھی ہو.نماز سے پیشتر ایمان شرط ہے ایک ہندو اگر نماز پڑھے گا تو اسے کیا فائدہ ہوگا.جس کا ایمان قوی ہوگا وہ دیکھے گا کہ نماز میں لذت ہے اور اس سے اول معرفت ہے جو خدا تعالیٰ کے فضل سے آتی ہے اور کچھ اس کی طینت سے آتی ہے جو محمود فطرت
151 والے مناسب حال اس کے فضل کے ہوتے ہیں اور اس کے اہل ہوتے ہیں.انہیں پر فضل بھی کرتا ہے.ہاں، یہ بھی لازم ہے کہ جیسے دنیا کی راہ میں کوشش کرتا ہے ویسے ہی خدا کی راہ میں بھی کرے.پنجابی میں ایک مثل ہے.”جو منگے سو مر رہے مرے سومنگن جا“ ( ملفوظات جلد دوم، ص 630 ) نماز اور استغفار دل کی غفلت کا علاج ہیں سیر سے واپس ہوتے ہوئے ایک حافظ صاحب نے آپ سے مصافحہ کیا اور عرض کی کہ میں نابینا ہوں ذرا کھڑے ہو کر میری عرض سُن لیں.حضور کھڑے ہو گئے اُس نے کہا میں آپ کا عاشق ہوں اور چاہتا ہوں کہ غفلت دور ہو حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ نماز اور استغفار دل کی غفلت کے عمدہ علاج ہیں نماز میں دُعا کرنی چاہیے کہ اے اللہ ! مجھ میں اور میرے گناہوں میں دوری ڈال.صدق سے انسان دُعا کرتا رہے تو یہ یقینی بات ہے کہ کسی وقت منظور ہو جائے.جلدی کرنی اچھی نہیں ہوتی زمیندار ایک کھیت ہوتا ہے تو اسی وقت نہیں کاٹ لیتا.بے
152 صبری کر نیوالا بے نصیب ہوتا ہے.نیک انسان کی یہ علامت ہے کہ وہ بے صبری نہیں کرتا.بے صبری کر نیوالے بڑے بڑے بدنصیب دیکھے گئے ہیں.اگر ایک انسان کنواں کھودے اور ہمیں ہاتھ کھودے اور ایک ہاتھ رہ جائے تو اسوقت بے صبری سے چھوڑ دے تو اپنی ساری محنت کو برباد کرتا ہے اور اگر صبر سے ایک ہاتھ اور بھی کھود لے تو گوہر مقصود پالیوے.یہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ ذوق اور شوق اور معرفت کی نعمت، ہمیشہ دکھ کے بعد دیا کرتا ہے اگر ہر ایک نعمت آسانی سے مل جائے تو اس کی قدر نہیں ہوا کرتی سعدی نے کیا عمدہ کہا ہے.گر نباشد بدوست راه بردن شرط عشق است در طلب مردن نماز میں سستی دور کرنے کا علاج ( ملفوظات جلد دوم، ص 552) علی گڑھ کے ایک طالبعلم نے اپنی حالت کا ذکر کیا کہ نماز میں سستی ہو جاتی ہے اور میرے ہم مجلسوں نے اس پر اعتراض کیا اور ان کے اعتراض نے مجھے بہت کچھ متاثر کیا ہے اس لیے حضور کوئی علاج اس سستی کا بتائیں.
فرمایا: 153 جب تک خوف الہی دل پر طاری نہ ہو گا گناہ دور نہیں ہوسکتا اور پھر یہ بھی ضروری ہے کہ جہاں تک موقعہ ملے ملاقات کرتے رہو ہم تو اپنی جماعت کو قبر کے سر پر رکھنا چاہتے ہیں کہ قبر ہر وقت مد نظر ہو لیکن جو اس وقت نہیں سمجھے گا وہ آخر خدا تعالیٰ کے قہری نشان سے سمجھے گا.استغفار.قبض کا علاج ( ملفوظات جلد دوم، ص396) انسان پر قبض اور بسط کی حالت آتی رہتی ہے.بسط کی حالت میں ذوق اور شوق بڑھ جاتا ہے اور قلب میں ایک انشراح پیدا ہوتا ہے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ بڑھ جاتی ہے.نمازوں میں لذت اور سُرور پیدا ہوتا ہے.لیکن بعض وقت ایسی حالت بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ ذوق اور شوق جاتا رہتا ہے اور دل میں ایک منگلی کی حالت ہو جاتی ہے.جب ایسی حالت ہو جائے تو اس کا علاج یہ ہے کہ کثرت کے ساتھ استغفار کرے اور پھر درود شریف بہت پڑھے.نماز بھی بار بار پڑھے.قبض کے دور ہونے کا یہی علاج ہے.( ملفوظات جلد اوّل ،ص 194)
154 قبض و بسط بابو نبی بخش صاحب احمدی کلرک لاھور نے عرض کی کہ بعض وقت تو دل میں خود بخود ایک ایسی تحریک پیدا ہوتی ہے کہ طبیعت عبادت کی طرف راغب ہوتی ہے اور قلب میں ایک عجیب فرحت اور سرور محسوس ہوتا ہے اور بعض وقت یہ حالت ہوتی ہے کہ نفس پر جبر اور بوجھ ڈالنے سے بھی حلاوت پیدا نہیں ہوتی اور عبادت ایک بارگراں معلوم ہوتی ہے حضرت اقدسن نے فرمایا کہ : اسے قبض اور بسط کہتے ہیں.قبض اس حالت کا نام ہے جبکہ ایک غفلت کا پردہ اس کے دل پر چھا جاتا ہے اور خدا کی طرف محبت کم ہوتی ہے اور طرح طرح کے فکر اور رنج اور غم اور اسباب دنیوی میں مشغول ہو جاتا ہے اور بسط اس کا نام ہے کہ انسان دنیا سے دل برداشتہ ہو کر خدا کی طرف رجوع کرے اور موت کو ہر وقت یاد رکھے.جب تک اس کو اپنی موت بخوبی یاد نہیں ہوتی وہ اس حالت تک نہیں پہنچ سکتا.موت تو ہر وقت قریب آتی جاتی ہے کوئی آدمی ایسا نہیں جس کے قریبی رشتہ دار فوت نہیں ہوچکے اور آجکل تو وہا سے گھر کے گھر صاف ہوتے
155 جاتے ہیں اور موت کیلئے طبیعت پر زور دے کر سوچنے کی حاجت ہی نہیں رہی.یہ حالتیں قبض و بسط کی اس شخص کو پیدا ہوتی ہیں جس کو موت یاد نہیں ہوتی کیونکہ تجربہ سے دیکھا گیا ہے کہ بعض دفعہ انسان قبض کی حالت میں ہوتا ہے اور ایک ناگہانی حادثہ پیش آجانے سے وہ حالت قبض معا دور ہو جاتی ہے جیسے کوئی زلزلہ آجاوے یا موت کا حادثہ ہو جاوے تو ساتھ ہی اس کا انشراح ہو جاتا ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قبض اصل میں ایک عارضی شئے ہے جو کہ موت کو بہت یاد کرنے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچا پیوست ہو جانے سے دور ہو جاتی ہے اور پھر بسط کی حالت دائمی ہو جاتی ہے.عارفوں کو قبض کی حالت بہت کم ہوتی ہے.نادان انسان سمجھتا ہے کہ دنیا بہت دیر رہنے کی جگہ ہے میں پھر نیکی کرلوں گا.اس واسطے غلطی کرتا ہے اور عارف سمجھتا ہے کہ آج کا دن جو ہے یہ غنیمت ہے خدا معلوم کل زندگی ہے ( ملفوظات جلد سوم،ص 194،193) کہ نہیں.معرفت الہی سے نماز میں ذوق پیدا ہوتا ہے عرب صاحب نے عرض کیا کہ میں نماز پڑھتا ہوں مگر
دل نہیں ہوتا 156 فرمایا: جب خدا کو پہچان لو گے تو پھر نماز ہی نماز میں رہو گے.دیکھو یہ بات انسان کی فطرت میں ہے کہ خواہ کوئی ادنی سی بات ہو جب اس کو پسند آجاتی ہے تو پھر دل خواہ نخواہ اس کی طرف کھنچا جاتا ہے.اسی طرح پر جب انسان اللہ تعالیٰ کو شناخت کر لیتا ہے اور اسکے حسن و احسان کو پسند کرتا ہے تو دل بے اختیار ہو کر اسی کی طرف دوڑتا ہے اور بے ذوقی سے ایک ذوق پیدا ہوجاتا ہے اصل نماز وہی ہے جس میں خدا کو دیکھتا ہے.اس زندگی کا مزا اسی دن آ سکتا ہے جبکہ سب ذوق اور شوق سے بڑھ کر جو خوشی کے سامانوں میں مل سکتا ہے، تمام لذت اور ذوق دُعا ہی میں محسوس ہو.یاد رکھو کوئی آدمی کسی موت و حیات کا ذمہ دار نہیں ہو سکتا خواہ رات کو موت آجاوے یا دن کو.جو لوگ دنیا سے ایسا دل لگاتے ہیں کہ گویا بھی مرنا ہی نہیں وہ اس دنیا سے نامراد جاتے ہیں.وہاں ان کے لیے خزانہ نہیں ہے جس سے وہ لذت اور خوشی حاصل کر سکیں.( ملفوظات جلد دوم، ص614)
157 زاہدانہ زندگی کا معیار نماز ہے اور نماز میں دُعا اور تضرع کا قاعده انسان کی زاہدانہ زندگی کا بڑا بھاری معیار نماز ہے.وہ شخص جو خدا کے حضور نماز میں گریاں رہتا ہے، امن میں رہتا ہے جیسے ایک بچہ اپنی ماں کی گود میں چیخ چیخ کر روتا ہے اور اپنی ماں کی محبت اور شفقت کو محسوس کرتا ہے.اسی طرح پر نماز میں تضرع اور ابتہال کے ساتھ خدا کے حضور گڑگڑانے والا اپنے آپ کو رو بیت کی عطوفت کی گود میں ڈال دیتا ہے.یا درکھو اُس نے ایمان کا حظ نہیں اُٹھایا جس نے نماز میں لذت نہیں پائی نماز صرف ٹکروں کا نام نہیں ہے.بعض لوگ نماز کو تو دو چار چونچیں لگا کر جیسے مرغی ٹھونگیں مارتی ہے ختم کرتے ہیں اور پھر لمبی چوڑی دُعا شروع کرتے ہیں حالانکہ وہ وقت جو اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرنے کے لیے ملا تھا اس کو صرف ایک رسم اور عادت کے طور پر جلد جلد کرنے میں گزار دیتے ہیں اور حضور الہی سے نکل کر دُعا مانگتے ہیں.نماز میں دُعا مانگو.نماز کو دُعا کا ایک وسیلہ اور ذریعہ سمجھو.فاتحہ فتح کرنے کو بھی کہتے ہیں.مومن کو مومن اور کافر
158 کو کافر بنادیتی ہے.یعنی دونوں میں ایک امتیاز پیدا کر دیتی ہے اور دل کو کھولتی، سینہ میں ایک انشراح پیدا کرتی ہے، اس لیے سورۃ فاتحہ کو بہت پڑھنا چاہیے اور اس دُعا پر خوب غور کرنا ضروری ہے.انسان کو واجب ہے کہ وہ ایک سائل کامل اور محتاج مطلق کی صورت بنادے اور جیسے ایک فقیر اور سائل نہایت عاجزی سے کبھی اپنی شکل سے اور کبھی آواز سے دوسرے کو رحم دلاتا ہے.اسی طرح سے چاہیے کہ پوری تضرع اور اجتہال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور عرض حال کرے.پس جب تک نماز میں تضرع سے کام نہ لے اور دُعا کے لیے نماز کو ذریعہ قرار نہ دے...نماز میں لذت کہاں؟ رقت کی لذت ( ملفوظات جلد اوّل، ص402) طاعون کے متعلق باتیں ہوتی رہیں.ایک عرب صاحب نووارد تھے.انھوں نے قرآن شریف سُنایا اس کی لذت اور رقت کے متعلق باتیں ہوتی رہیں.حضرت اقدس نے فرمایا کہ دنیا میں ہزاروں لذتیں ہیں.مگر رقت جیسی کوئی بھی لذت نہیں.یہی ہے جس سے نماز اور عبادت کا مزا آتا
159 ہے اور پھر چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا.خلوت میں عبادت اور دُعا کا لطف ( ملفوظات جلد سوم ،ص216) آجکل سخت گرمی پڑنے اور برسات نہ ہونے کا ذکر تھا.فرمایا: ایسے موقعہ پر نماز استسقاء کا پڑھنا سنت ہے میں جماعت کے ساتھ بھی سنت ادا کروں گا مگر میرا ارادہ ہے کہ باہر جا کر علیحدگی میں نماز پڑھوں اور دُعا کروں.خلوت میں اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی کرنے اور دُعا مانگنے کا جو لطف ہے وہ لوگوں میں بیٹھ کر نہیں ہے اور بھی دُعاؤں کا ذخیرہ ہے.اسی مطلب کے واسطے میں نے باغ میں ایک چھوٹی سی مسجد بنائی ہے جس کو مسجد البیت کہنا چاہیے.جب خوفِ الہی اور محبت غالب آتی ہے تو باقی تمام خوف اور محبتیں زائل ہو جاتی ہیں.ایسی دُعا کے واسطے علیحدگی بھی ضروری ہے.اسی پورے تعلق کے ساتھ انوار ظاہر ہوتے ہیں اور ہر ایک تعلق ایک ستر کو چاہتا ہے.( ملفوظات جلد چہارم ص 321 تا 322)
160 باب XIX مجرد خشوع و گریہ وزاری تعلق باللہ کی علامت نہیں خشوع اور سوز و گداز کی حالت کو وہ کیسی ہی لذت اور سُرور کے ساتھ ہو خدا سے تعلق پکڑنے کیلئے کوئی لازمی علامت نہیں ہے یعنی کسی شخص میں نماز اور یاد الہی کی حالت میں خشوع اور سوز و گداز اور گریہ زاری پیدا ہونا لازمی طور پر اس بات کو مستلزم نہیں کہ اس شخص کو خدا سے تعلق بھی ہے ممکن ہے کہ یہ سب حالات کسی شخص میں موجود ہوں مگر ابھی اس کو خدا تعالی سے تعلق نہ ہو.جیسا کہ مشاہدہ صریحہ اس بات پر گواہ ہے کہ بہت سے لوگ پند و نصیحت کی مجلسوں اور وعظ و تذکیر کی محفلوں یا نماز اور یاد الہی کی حالت میں خوب روتے اور وجد کرتے اور نعرے مارتے اور سوز و گداز ظاہر کرتے ہیں اور آنسو اُن کے رخساروں پر پانی کی طرح رواں ہو جاتے ہیں بلکہ بعض کا رونا تو منہ پر رکھا ہوا ہوتا ہے.ایک بات سنی اور وہیں رو دیا مگر تا ہم لغویات سے وہ کنارہ کش نہیں ہوتے اور بہت سے لغو کام
161 اور لغو باتیں اور لغو سیر و تماشے اُنکے گلے کا ہار ہو جاتے ہیں.جن سے سمجھا جاتا ہے.کہ کچھ بھی اُن کو خدا تعالیٰ سے تعلق نہیں اور نہ خدا تعالیٰ کی عظمت اور ہیبت کچھ اُن کے دلوں میں ہے.پس یہ عجیب تماشہ ہے کہ ایسے گندے نفسوں کیساتھ بھی خشوع اور سوز و گداز کی حالت جمع ہو جاتی ہے اور یہ عبرت کا مقام ہے.اور اُس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مجرد خشوع اور گریہ و زاری کہ جو بغیر ترک لغویات ہو کچھ فخر کرنے کی جگہ نہیں اور نہ یہ قرب الہی اور تعلق یا اللہ کی کوئی علامت ہے.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد 21 ص 193 تا194) خشوع کی حالت اس وقت تک خطرہ سے خالی نہیں جب تک رحیم خدا سے تعلق نہ پکڑے دراصل خشوع اور رقت مومن کے روحانی وجود کی تخلیق کا پہلا درجہ ہے چنانچہ حضور فرماتے ہیں:....اور اول مرتبہ مومن کے روحانی وجود کا وہ خشوع اور رقت اور سوز و گداز کی حالت ہے جو نماز اور یاد الہی میں مومن کو میسر آتی ہے.یعنی گدازش اور رقت اور فروتنی اور عجز و
162 نیاز رُوح کا انکسار اور ایک تڑپ اور قلق اور تپش اپنے اندر پیدا کرنا اور ایک خوف کی حالت اپنے پر وارد کر کے خدائے عزوجل کی طرف دل کو جھکانا جیسا کہ اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے.قَدْ أَفْلَحَ الْمُومِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَوْ تِهِمْ خَاشِعُونَ یعنی وہ مومن مُراد پاگئے جو اپنی نمازوں میں اور ہر ایک طور کی یاد الہی میں فروتنی اور بجز و نیاز اختیار کرتے ہیں اور رقت اور سوز و گداز اور قلق اور کرب اور دلی جوش سے اپنے رب کے ذکر میں مشغول ہوتے ہیں.یہ خشوع کی حالت جس کی تعریف کا اوپر اشارہ کیا گیا ہے روحانی وجود کی تیاری کے لیے پہلا مرتبہ ہے یا یوں کہو کہ وہ پہلا تخم ہے جو عبودیت کی زمین میں بویا جاتا ہے اور وہ اجمالی طور پر اُن تمام قومی اور صفات اور اعضاء اور تمام نقش و نگار اور حسن و جمال اور خط و خال اور شمائل روحانیہ پر مشتمل ہے جو پانچویں اور چھٹے درجہ میں انسانِ کامل کیلئے نمودار طور پر ظاہر ہوتے اور اپنے دلکش پیرا یہ میں کلی فرماتے ہیں.اور چونکہ وہ نطفہ کی طرح روحانی وجود کا پہلا مرتبہ ہے اس لیے وہ آیت قرآنی میں نطفہ کی طرح پہلے مرتبہ پر رکھا گیا ہے.اور نطفہ کے مقابل پر دکھا یا گیا
163 ہے.یا وہ لوگ جو قرآن شریف میں غور کرتے ہیں سمجھ لیں کہ نماز میں خشوع کی حالت روحانی وجود کے لیے ایک نطفہ ہے اور تخلفہ کی طرح روحانی طور پر انسان کامل کے تمام قومی اور صفات اور تمام نقش و نگار اسمیں مخفی ہیں.اور جیسا کہ نطفہ اس وقت تک معرض خطر میں ہے جب تک کہ رحم سے تعلق نہ پکڑے ایسا ہی روحانی وجود کی ابتدائی حالت یعنی خشوع کی حالت اُس وقت تک خطرہ سے خالی نہیں جب تک کہ رحیم خدا سے تعلق نہ پکڑے.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد 21،ص،188 تا 189) اغویات سے کنارہ کشی تعلق باللہ پر دلیل ہے خشوع کی حالت کا بھی بھی دل پر وارد ہونا یا نماز میں ذوق اور سُرور حاصل ہونا یہ اور چیز ہے اور طہارتِ نفس اور چیز.اور گو کسی سالک کا خشوع اور عجز و نیاز اور سوز و گداز بدعت اور شرک کی آمیزش سے پاک بھی ہوتا ہم ایسا آدمی جس کا وجود روحانی ابھی مرتبہ دوم تک نہیں پہنچا ابھی صرف قبلہ روحانی کا قصد کر رہا ہے اور راہ میں سرگردان ہے اور ہنوز اس کی راہ میں طرح طرح کے دشت و بیابان اور خارستان اور
164 کوہستان اور منظر عظیم پر طوفان اور درندگان دشمن ایمان و دشمن جان قدم قدم پر بیٹھے ہیں تا وقتیکہ وجود روحانی کے دوسرے مرتبے تک نہ پہنچ جائے.یاد رہے کہ خشوع اور عجز و نیاز کی حالت کو یہ بات ہرگز لازم نہیں ہے کہ خدا سے سچا تعلق ہو جائے بلکہ بسا اوقات شریر ا لوگوں کو بھی کوئی نمونہ قہر الہی دیکھ کر خشوع پیدا ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ سے ان کو کچھ بھی تعلق نہیں ہوتا اور نہ لغو کا موں سے ابھی رہائی ہوتی ہے..........فرض جیسا کہ ہم بار بار لکھ چکے ہیں خشوع کی حالت کے ساتھ بہت گند جمع ہو سکتے ہیں البتہ وہ تمام آئندہ کمالات کے لیے قسم کی طرح ہے مگر ایسی حالت کو کمال سمجھنا اپنے نفس کو دھوکہ دینا ہے.بلکہ بعد اس کے ایک اور مرتبہ ہے جس کی تلاش مومن کو کرنی چاہیے اور کبھی آرام نہیں لینا چاہیے اور سست نہیں ہونا چاہیے جب تک وہ رتبہ حاصل نہ ہو جائے اور وہ وہی مرتبہ ہے جسکو کلام الہی نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے.وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُون، یعنی مومن صرف وہی لوگ نہیں ہیں جو نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں اور سوز و
165 گداز ظاہر کرتے ہیں، بلکہ ان سے بڑھ کر وہ مومن ہیں کہ باجود خشوع اور سوز و گداز کے تمام لغو باتوں اور لغو کاموں اور لغو تعلقوں سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں اور اپنی خشوع کی حالت کو بیہودہ کاموں اور لغو باتوں کے ساتھ ملا کر ضائع اور برباد ہونے نہیں دیتے اور طبعاً تمام لغویات سے علیحدگی اختیار کرتے ہیں.اور بیہودہ باتوں اور بیہودہ کاموں سے ایک کراہت ان ، کے دلوں میں پیدا ہو جاتی ہے.اور یہ اس بات پر دلیل ہوتی ہے کہ ان کو خدا تعالیٰ سے کچھ تعلق ہو گیا ہے.(ضمیمہ براہین احمدیہ، حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد 21 ص 201 تا 202) توحید کے عملی اقرار کا نام ہی نماز ہے خوب یا درکھو اور پھر یادرکھو کہ غیر اللہ کی طرف جھکنا خدا سے کاٹنا ہے نماز اور توحید کچھ ہی ہو ( کیونکہ توحید کے عملی اقرار کا نام ہی نماز ہے) اسی وقت بے برکت اور بے سود ہوتی ہے.جب ہمیں نیستی اور تذلیل کی روح اور حنیف دل نہ ہو!! سُنو ! وہ دُعا جس کے لیے اُدعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ فرمایا ہے اس کے لیے یہی تیجی روح مطلوب ہے.اگر اس تضرع اور خشوع میں حقیقت کی روح نہیں تو وہ نہیں نیں سے کم نہیں ہے.( تفسير سورة البقرة ، ص 55)
166 نماز تد بر سے پڑھو نماز پڑھو تدبر سے پڑھو اور ادعیہ ماثورہ کے بعد اپنی زبان میں دُعا مانگنی مطلق حرام نہیں ہے.جب گدازش ہو تو سمجھو کہ مجھے موقع دیا گیا ہے.اس وقت کثرت سے مانگو.اس قدر مانگو کہ اس نکتہ تک پہنچو کہ جس سے رقت پیدا ہو جاوے یہ بات اختیاری نہیں ہوتی.خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ترشحات پیدا ہوتے ہیں.دعا وہ اکسیر ہے.جو ایک مشت خاک کو کیمیا کر دیتی ہے.اور وہ ایک پانی جو اندرونی غلاظتوں کو دھو دیتا ہے.اُس دعا کے ساتھ روح چھلتی ہے اور پانی کی طرح بہ کر آستانه حضرت احدیث پر گرتی ہے.وہ خدا کے حضور میں کھڑی بھی ہوتی ہے.اور رکوع بھی کرتی ہے اور سجدہ بھی کرتی ہے.اور اسی کی ظل وہ نماز ہے جو اسلام نے سکھائی ہے.اور روح کا کھڑا ہونا یہ ہے کہ وہ خدا کے لئے ہر ایک مصیبت کی برداشت اور حکم ماننے کے بارے میں مستعدی ظاہر کرتی ہے.اور اس کا رکوع یعنی جھکنا یہ ہے کہ وہ تمام محبتوں اور تعلقوں کو چھوڑ کر خدا کی طرف جھک آتی ہے.اور خدا کے لئے ہو جاتی ہے.اور اس کا سجدہ یہ ہے کہ وہ خدا کے آستانہ پر
167 گر کر اپنے تئیں بکلی کھو دیتی ہے.اور اپنے نقشِ وجود کو مٹا دیتی ہے.یہی نماز ہے جو خدا کو ملاتی ہے.اور شریعت اسلامی نے اُس کی تصویر معمولی نماز میں کھینچ کر دکھلائی ہے.تا وہ جسمانی نماز روحانی نماز کی طرف محرک ہو.کیونکہ خدا تعالیٰ نے انسان کے وجود کی ایسی بناوٹ پیدا کی ہے کہ روح کا اثر جسم پر اور جسم کا اثر روح پر ضرور ہوتا ہے.جب تمہاری روح غمگین ہو تو آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہو جاتے ہیں.اور جب روح میں خوشی پیدا ہو تو چہرہ پر بشاشت ظاہر ہو جاتی ہے.یہاں تک کہ انسان بسا اوقات بننے لگتا ہے.ایسا ہی جب جسم کو کوئی تکلیف اور درد پہنچے تو اُس درد میں روح بھی شریک ہوتی ہے اور جب جسم کھلی ٹھنڈی ہوا سے خوش ہو.تو روح بھی اُس سے کچھ حصہ لیتی ہے.پس جسمانی عبادات کی غرض یہ ہے کہ روح اور جسم کے باہمی تعلقات کی وجہ سے روح میں حضرت احدیت کی طرف حرکت پیدا ہو.اور وہ روحانی قیام اور رکوع اور سجود میں مشغول ہو جائے کیونکہ انسان ترقیات کے لئے مجاہدات کا محتاج ہے.اور یہ بھی ایک قسم مجاہدہ کی ہے.یہ تو ظاہر ہے کہ جب دو چیزیں باہم پیوست ہوں تو جب ہم ان میں سے ایک چیز کو اٹھائیں گے تو اس اٹھانے سے دوسری چیز
168 کو بھی جو اس سے ملحق ہے.کچھ حرکت پیدا ہوگی.لیکن صرف جسمانی قیام اور رکوع اور محمود میں کچھ فائدہ نہیں ہے.جب تک کہ اس کے ساتھ یہ کوشش شامل نہ ہو.کہ روح بھی اپنے طور سے قیام اور رکوع اور سجود سے کچھ حصہ لے.اور یہ حصہ لینا معرفت پر موقوف ہے.اور معرفت فضل پر موقوف.خدا کی محبت کی یاد کا دوسرا نام نماز ہے ( سورة البقرة ، 57,56) پہلے پانچ درجات کے بعد جن کا سورۃ المومنون کے شروع میں ذکر ہے (ناقل) چھٹا درجہ وجود روحانی کا وہ ہے جس کو خدا تعالیٰ اس آیت کریمہ میں ذکر فرمایا ہے.وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَواتِهِمْ يُحَافِظُونَ یعنی چھٹے درجہ کے مومن جو پانچویں درجہ سے بڑھ گئے ہیں وہ ہیں جو اپنی نمازوں پر محافظ اور نگہبان ہیں یعنی وہ کسی دوسرے کی تذکیر اور یاد دہانی کے محتاج نہیں رہے بلکہ کچھ ایسا تعلق ان کو خدا سے پیدا ہو گیا ہے اور خدا کی یاد کچھ اس قسم کی محبوب طبع اور مدار آرام اور مدار زندگی ان کیلئے ہوگئی ہے کہ وہ ہر وقت اس کی نگہبانی میں لگے رہتے ہیں اور ہر دم ان کا یاد الہی
169 میں گزرتا ہے اور نہیں چاہتے کہ ایک دم بھی خدا کے ذکر سے الگ ہوں.اب ظاہر ہے کہ انسان اسی چیز کی محافظت اور نگہبانی میں تمام تر کوشش کر کے ہر دم لگا رہتا ہے جس کے گم ہونے میں اپنی ہلاکت اور تباہی دیکھتا ہے جیسا کہ ایک مسافر جو ایک بیابان بے آب و دانہ میں سفر کر رہا ہے جس کے صد ہا کوس تک پانی اور روٹی ملنے کی کوئی امید نہیں وہ اپنے پانی اور روٹی کی جو ساتھ رکھتا ہے بہت محافظت کرتا ہے اور اپنی جان کے برابر اس کو سمجھتا ہے کیونکہ وہ یقین رکھتا ہے کہ اس کے ضائع ہونے میں اس کی موت ہے.پس وہ لوگ جو اس مسافر کی طرح اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں اور کو مال کا نقصان ہو یا عزت کا نقصان ہو یا نماز کیوجہ سے کوئی ناراض ہو جائے نماز کو نہیں چھوڑتے اور اس کے ضائع ہونے کے اندیشے میں سخت بیتاب ہوتے اور پیچ و تاب کھاتے گویا مرہی جاتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ ایک دم بھی یاد الہی سے الگ ہوں.وہ درحقیقت نماز اور یاد الہی کو اپنی ایک ضروری غذا سمجھتے ہیں جس پر ان کی زندگی کا مدار ہے.اور یہ حالت اس وقت پیدا ہوتی ہے کہ جب خدا تعالیٰ
170 ان سے محبت کرتا ہے اور اس کی محبت ذاتیہ کا ایک افروختہ شعلہ جس کو روحانی وجود کے لیے ایک روح کہنا چاہیے.اُن کے دل پر نازل ہوتا ہے.اور ان کو حیات ثانی بخش دیتا ہے.اور وہ رُوح ان کے تمام وجود روحانی کو روشنی اور زندگی بخشتی ہے.تب وہ نہ کسی تکلف اور بناوٹ سے خدا کی یاد میں لگے رہتے ہیں بلکہ وہ خدا جس نے جسمانی طور پر انسان کی زندگی روٹی اور پانی پر موقوف رکھی ہے وہ ان کی روحانی زندگی کو جس سے وہ پیار کرتے ہیں اپنی یاد کی غذا سے وابستہ کر دیتا ہے.اس لیے وہ اس روٹی اور پانی کو جسمانی روٹی اور پانی سے زیادہ چاہتے ہیں.اور اس کے ضائع ہونے سے ڈرتے ہیں اور یہ اس روح کا اثر ہوتا ہے جو ایک شعلہ کیطرح اُن میں ڈالی جاتی ہے.جس سے عشق الہی کی کامل مستی اُن میں پیدا ہو جاتی ہے اس لیے وہ یاد الہی سے ایک دم الگ ہونا نہیں چاہتے وہ اس کے لیے دُکھ اٹھاتے اور مصائب دیکھتے ہیں مگر اس سے ایک لحظہ بھی جُدا ہونا نہیں چاہتے اور پاس انفاس کرتے ہیں.اور اپنی نمازوں کے محافظ اور نگہبان رہتے ہیں.اور یہ امر اُن کے لیے طبعی ہے کیونکہ در حقیقت خدا نے اپنی محبت سے بھری ہوئی یاد کو جس کو دوسرے لفظوں میں نماز کہتے ہیں.ان کے لیے
171 ایک ضروری غذا مقرر کر دیا ہے اور اپنی محبت ذاتیہ سے ان پر تجلی فرما کر یاد الہی کی ایک دلکش لذت ان کو عطا کی ہے.پس اس وجہ سے یاد الہی جان کی طرح بلکہ جان سے بڑھ کو ان کو عزیز ہوگئی ہے اور خدا کی ذاتی محبت ایک نئی روح ہے جو شعلہ کی طرح ان کے دلوں پر پڑتی ہے اور ان کی نماز اور یاد الہی کو ایک غذا کی طرح ان کے لیے بنادیتی ہے، پس وہ یقین رکھتے ہیں کہ اُن کی زندگی روٹی اور پانی سے نہیں، بلکہ نماز اور یاد الہی سے جیتے ہیں.غرض محبت سے بھری ہوئی یاد الہی جس کا نام نماز ہے وہ درحقیقت ان کی غذا ہو جاتی ہے.جس کے بغیر وہ جی ہی نہیں سکتے اور جس کی محافظت اور نگہبانی بعینہ اس مسافر کی طرح وہ کرتے رہتے ہیں جو ایک دشت بے آب و دانہ میں اپنی چند روٹیوں کی محافظت کرتا ہے.جو اس کے پاس ہیں اور اپنے کسی قدر پانی کو جان کے ساتھ رکھتا ہے جو اس کی مشک میں ہے.واہب مطلق نے انسان کی روحانی ترقیات کیلئے یہ بھی ایک مرتبہ رکھا ہوا ہے جو محبت ذاتی اور عشق کے غلبہ اور استیلاء کا آخری مرتبہ ہے اور در حقیقت اس مرتبہ پر انسان کیلئے محبت
172 سے بھری ہوئی یاد الہی جس کا شرعی اصطلاح میں نماز نام ہے غذا کے قائم مقام ہو جاتی ہے بلکہ وہ بار بار جسمانی روح کو بھی اس غذا پر فدا کرنا چاہتا ہے اور وہ اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا جیسا کہ مچھلی بغیر پانی کے زندہ نہیں رہ سکتی اور خدا سے علیحدہ ایک دم بھی بسر کرنا اپنی موت سمجھتا ہے اور اس کی روح آستانہ ا الہی پر ہر وقت سجدہ میں رہتی ہے اور تمام آرام اُس کا خدا ہی میں ہوجاتا ہے اور اس کو یقین ہوتا ہے کہ میں اگر ایک طرفه العین بھی یاد الہی سے الگ ہوا تو بس میں مرا.اور جس طرح روٹی سے جسم میں تازگی اور آنکھ اور کان وغیرہ اعضاء کی قوتوں میں توانائی آجاتی ہے اسی طرح اس مرتبہ پر یاد الہی جو عشق اور محبت کے جوش سے ہوتی ہے مومن کی روحانی قوتوں کو ترقی دیتی ہے یعنی آنکھ میں قوت کشف نہایت صاف اور لطیف طور پر پیدا ہو جاتی ہے اور کان خدا تعالیٰ کے کلام کو سُنتے ہیں اور زبان پر وہ کلام نہایت لذیذ اور اجلی اور اصفی طور جاری ہو جاتا ہے اور رویائے صادقہ بکثرت ہوتے ہیں جو خلق صبح کی طرح ظہور میں آجاتے ہیں اور بباعث علاقہ صافیہ محبت جو حضرت عزہ سے ہوتا ہے مبشر خوابوں سے بہت سا حصہ اُن کو ملتا ہے.یہی وہ مرتبہ ہے جس مرتبہ پر مومن کو محسوس ہوتا ہے
173 کہ خدا کی محبت اس کے لیے روٹی اور پانی کا کام دیتی ہے.یہ نئی پیدائش اس وقت ہوتی ہے جب پہلے روحانی قالب تمام تیار ہو چکتا ہے.اور پھر وہ روح جو محبت ذاتیہ الہیہ کا ایک شعلہ ہے ایسے مومن کے دل پر آپڑتا ہے اور یکدفعہ طاقت بالانشیمن بشریت سے بلند تر اُس کو لے جاتی ہے اور یہ مرتبہ وہ ہے جس کو روحانی طور پر خلق آخر کہتے ہیں.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد نمبر 21، ص 212 تا 215 )
174 ایمان کی جڑ نماز ہے فرمایا : باب XX جس طرح بہت دھوپ کے ساتھ آسمان پر بادل جمع ہو جاتے ہیں اور بارش کا وقت آجاتا ہے.ایسا ہی انسان کی دُعائیں ایک حرارت ایمانی پیدا کرتی ہیں اور پھر کام بن جاتا ہے.نماز وہ ہے جس میں سوزش اور گدازش کے ساتھ اور آداب کے ساتھ انسان خدا کے حضور میں کھڑا ہوتا ہے جب انسان بندہ ہو کر لا پرواہی کرتا ہے تو خدا کی ذات بھی معنی ہے.ہر ایک اُمت اُس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک اس میں توجہ الی اللہ قائم رہتی ہے.ایمان کی جڑ بھی نماز ہے.بعض بیوقوف کہتے ہیں کہ خدا کو ہماری نمازوں کی کیا حاجت ہے.اے نادانو! خدا کو حاجت نہیں مگر تم کو تو حاجت ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری طرف توجہ کرے.خدا کی توجہ سے بگڑے ہوئے کام سب درست ہو جاتے ہیں.نماز ہزاروں خطاؤں کو دُور کر دیتی ہے اور ذریعہ حصول قرب الہی ہے.(ملفوظات جلد چہارم ص 292)
175 کاملین کا نمونہ حبی فی اللہ شیخ حامد علی.یہ جوان صالح اور ایک صالح خاندان کا ہے اور قریباً سات آٹھ سال سے میری خدمت میں ہے اور میں یقیناً جانتا ہوں کہ مجھ سے اخلاص اور محبت رکھتا ہے.اگر چہ و قائق تقومی تک پہنچنا بڑے عرفاء اور صلحاء کا کام ہے مگر جہاں تک سمجھ ہے اتباع سنت اور رعایت تقویٰ میں معروف ہے.میں نے اس کو دیکھا ہے کہ ایسی بیماری میں جو نہایت شدید اور مرض الموت معلوم ہوتی تھی اور ضعف اور لاغری سے میت کی طرح ہو گیا تھا.التزام ادائے نماز پنجگانہ میں ایسا سرگرم تھا کہ اس بے ہوشی اور نازک حالت میں جس طرح بن پڑے نماز پڑھ لیتا تھا.میں جانتا ہوں کہ انسان کی خدا ترسی کا اندازہ کرنے کیلئے اسکے التزام نماز کو دیکھنا کافی کہ کس قدر ہے اور مجھے یقین ہے کہ جو شخص پورے پورے اہتمام سے نماز ادا کرتا ہے اور خوف اور بیماری اور فتنہ کی حالتیں اسکو نماز سے روک نہیں سکتیں.وہ بیشک خدا تعالیٰ پر ایک سچا ایمان رکھتا ہے مگر یہ ایمان غریبوں کو دیا گیا ہے.دولتمند اس نعمت کو پانے والے بہت ہی تھوڑے ہیں.ہے (ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد 3 ص 540)
176 نماز بھی اضطرابی حالت کو ظاہر کرتی ہے دیکھو یہ جو نماز پڑھی جاتی ہے اسمیں بھی ایک طرح کا اضطراب ہے.کبھی کھڑا ہونا پڑتا ہے.کبھی رکوع کرنا پڑتا ہے اور کبھی سجدہ کرنا پڑتا ہے اور پھر طرح طرح کی احتیاطیں کرنی پڑتی ہیں.مطلب ہی ہوتا ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے لیے دکھ اور مصیبت کو برداشت کرنا سیکھے ورنہ ایک جگہ بیٹھ کر بھی تو خدا تعالیٰ کی یاد ہوسکتی تھی.پر خدا تعالیٰ نے ایسا منظور نہیں کیا.صلوۃ کا لفظ ہی سوزش پر دلالت کرتا ہے جب تک انسان کے دل میں ایک قسم کا قلق اور اضطراب پیدا نہ ہو اور خدا تعالیٰ کے لیے اپنے آرام کو نہ چھوڑے جب تک کچھ بھی نہیں.ہم جانتے ہیں کہ بہت سے لوگ فطرتاً اس قسم کے ہوتے ہیں جو ان باتوں میں پورے نہیں اتر سکتے اور پیدائشی طور پر ہی اُن میں ایسی کمزوریاں پائی جاتی ہیں جو وہ ان امور میں استقلال نہیں دکھا سکتے مگر تا ہم بھی تو بہ اور استغفار بہت کرنا چاہیے کہ کہیں ہم ان میں ہی شامل نہ ہو جاویں جو دین سے بالکل بے پرواہ ہوتے ہیں اور اپنا مقصود بالذات دُنیا کو ہی سمجھتے ہیں.( ملفوظات جلد پنجم ،ص331)
177 صلوۃ اور دُعا میں فرق فرمایا: ایک مرتبہ میں نے خیال کیا کہ صلوۃ میں اور دُعا میں کیا فرق ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ الصَّلوةُ هِيَ الدُّعَاءُ الصَّلواةُ مُخُ العِبَادَةِ یعنی نماز ہی دُعا ہے.نماز عبادت کا مغز ہے.جب انسان کی دُعا محض دنیوی امور کے لیے ہو تو اس کا نام صلواۃ نہیں لیکن جب انسان خدا کو ملنا چاہتا ہے اور اس کی رضا کو مدنظر رکھتا ہے اور ادب انکسار تواضع اور نہایت محویت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور میں کھڑا ہو کر اس کی رضا کا طالب ہوتا ہے تب وہ صلوۃ میں ہوتا ہے.اصل حقیقت دُعا کی وہ ہے جس کے ذریعہ سے خدا اور انسان کے درمیان رابطہ تعلق بڑھے.یہی دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے اور انسان کو نا معقول باتوں سے ہٹاتی ہے اصل بات یہی ہے کہ انسان رضائے الہی کو حاصل کرے.اس کے بعد روا ہے کہ انسان اپنی دنیوی ضروریات کے واسطے بھی دُعا کرے.یہ اس واسطے روا رکھا گیا ہے کہ دنیوی مشکلات بعض دفعہ دینی معاملات میں حارج ہو جاتے ہیں.خاص کر خامی اور.
178 کج پنے کے زمانہ میں یہ امور ٹھوکر کا موجب بن جاتے ہیں.صلوٰۃ کا لفظ پُر سوز معنے پر دلالت کرتا ہے.جیسے آگ سے سوزش پیدا ہوتی ہے.ویسی ہی گدازش دُعا میں پیدا ہونی چاہیے.جب ایسی حالت کو پہنچ جائے جیسے موت کی حالت ہوتی ہے تب اسکا نام صلوۃ ہوتا ہے.( ملفوظات جلد چہارم ، ص 283 تا 284) نماز گناہوں سے بچنے کا آلہ ہے نماز بھی گناہوں سے بچنے کا آلہ ہے.نماز کی یہ صفت ہے کہ انسان کو گناہ اور بدکاری سے ہٹا دیتی ہے.سو تم ویسی نماز کی تلاش کرو اور اپنی نماز کو ایسی بنانے کی کوشش کرو.نماز نعمتوں کی جان ہے.اللہ تعالیٰ کے فیض اسی نماز کے ذریعے سے آتے ہیں.سو اس کو سنوار کر ادا کرو.تاکہ تم اللہ تعالی کی نعمت کے وارث بنو.( ملفوظات جلد سوم ص 103)
179 نماز یا دعا کو ایک کار ثواب سے زیادہ نہ سمجھنا غلطی ہے بعض لوگ جلدی سے کہہ دیتے ہیں کہ ہم دُعا سے منع نہیں کرتے مگر دُعا سے مطلب صرف عبادت ہے.جس پر ثواب مترتب ہوتا ہے مگر افسوس کہ یہ لوگ نہیں سوچتے کہ ہر ایک عبادت جس کے اندر خدا تعالیٰ کیطرف سے روحانیت پیدا نہیں ہوتی اور ہر ایک ثواب جس کی محض خیال کے طور پر کسی آئندہ زمانے پر امید رکھی جاتی ہے وہ سب خیال باطل ہے.حقیقی عبادت اور حقیقی ثواب وہی ہے جس کے اسی دنیا میں انوار و برکات محسوس بھی ہوں.ہماری پرستش کی قبولیت کے آثار یہی ہیں کہ ہم عین دُعا کے وقت میں اپنے دل کی آنکھ سے مشاہدہ کریں کہ ایک تریاقی نور خدا سے اُترتا اور ہمارے دل کے زہریلے مواد کو کھوتا اور ہمارے پر ایک شعلہ کی طرح گرتا اور فی الفور ہمیں ایک پاک کیفیت انشراح صدر اور یقین اور محبت اور لذت اور اُنس اور ذوق سے پر کر دیتا ہے.اگر یہ امر نہیں ہے تو پھر دُعا اور عبادت بھی ایک رسم اور عادت ہے.ایام اسح ، روحانی خزائن جلد 14 ص 241)
رباء 180.انسان کی فطرت میں دراصل بدی نہ تھی اور نہ کوئی چیز بُری ہے لیکن بد استعالی بُری بنا دیتی ہے.مثلاً ریاء ہی کو لو.یہ بھی در اصل بُری نہیں.کیونکہ اگر کوئی کام محض خدا تعالیٰ کے لیے کرتا ہے اور اس لیے کرتا ہے کہ اس نیکی کی تحریک دوسروں کو بھی ہو تو یہ ریاء بھی نیکی ہے.ریاء کی دو قسمیں ہیں.ایک دنیا کے لیے.مثلاً کوئی شخص نماز پڑھا رہا ہے اور پیچھے کوئی بڑا آدمی آ گیا اس کے خیال اور لحاظ سے نماز کو لمبا کرنا شروع کر دیا.ایسے موقعہ پر بعض آدمیوں پر ایسا رعب پڑ جاتا ہے کہ وہ پھول پھول جاتے ہیں.یہ بھی ایک قسم ریاء کی ہے جو ہر وقت ظاہر نہیں ہوتی مگر اپنے وقت پر جیسے بھوک کے وقت روٹی کھاتا ہے یا پیاس کے وقت پانی پیتا ہے.مگر بر خلاف اس کے جو شخص محض اللہ تعالیٰ کے لیے نماز کو سنوار سنوار کر پڑھتا ہے وہ ریاء میں داخل نہیں بلکہ رضائے الہی کے حصول کا ذریعہ ہے....نماز جو باجماعت پڑھتا ہے اس میں بھی ایک ریاء تو ہے لیکن انسان کی عرض اگر نمائش ہی ہو تو بیشک ریاء ہے اور
181 اگر اس سے غرض اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری مقصود ہے تو یہ ایک عجیب نعمت ہے.پس مسجدوں میں بھی نمازیں پڑھو اور گھروں میں بھی.وضو اور نماز (ملفوظات جلد چہارم، 643) طبی فوائد:.اور پھر ایسی حالت میں کہ نماز کا پڑھنا اور وضو کا کرنا طبی فوائد بھی اپنے ساتھ رکھتا ہے.اطباء کہتے ہیں کہ اگر کوئی ہر روز منہ نہ دھوئے تو آنکھ آجاتی ہے اور یہ نزول الماء کا مقدمہ ہے اور بہت کی بیماریاں اس سے پیدا ہوتی ہیں پھر بتلاؤ کہ وضو کرتے ہوئے کیوں موت آتی ہے.بظاہر کیسی عمدہ بات ہے.منہ میں پانی ڈال کر گالی کرنا ہوتا ہے.مسواک کرنے سے منہ کی بدبو دور ہوتی ہے دانت مضبوط ہو جاتے ہیں اور دانتوں کی مضبوطی غذا کے عمدہ طور پر چبانے اور جلد ہضم ہو جانے کا باعث ہوتی ہے پھر ناک صاف کرنا ہوتا ہے.ناک میں کوئی بد بو داخل ہو تو دماغ کو پراگندہ کر دیتی ہے.اب بتلاؤ کہ اس میں برائی کیا ہے.اس کے بعد وہ اللہ تعالی کی طرف اپنی حاجات لے جاتا ہے اور اس کو اپنے مطالب عرض کرنے کا
182 موقع ملتا ہے.دُعا کرنے کے لئے فرصت ہوتی ہے.ہے.زیادہ سے زیادہ نماز میں ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے اگر چہ بعض نمازیں تو پندرہ منٹ سے بھی کم میں ادا ہو جاتی ہیں پھر بڑی حیرانی کی بات ہے کہ نماز کے وقت کو تضیع اوقات سمجھا جاتا ہے جس میں استقدر بھلائیاں اور فائدے ہیں اور اگر سارا دن اور ساری رات النواور فضول باتوں یا کھیل اور تماشوں میں ضائع کردیں تو اس کا نام مصروفیت رکھا جاتا ہے اگر قوی ایمان ہوتا ، قومی تو ایک طرف اگر ایمان ہی ہوتا، تو یہ حالت کیوں ہوتی اور یہاں تک نوبت کیوں پہنچتی.سعادتوں کی گنجی ( ملفوظات جلد اوّل، ص 407) نماز پڑھو.نماز پڑھو کہ وہ تمام سعادتوں کی گٹھی ہے اور جب تو نماز کے لیے کھڑا ہو تو ایسانہ کر کہ گویا تو ایک رسم ادا کر رہا ہے.بلکہ نماز سے پہلے جیسے ظاہر وضو کرتے ہو ایسا ہی ایک باطنی وضو بھی کرو اور اپنے اعضاء کو غیر اللہ کے خیال سے دھو ڈالو.تب ان دونوں وضوؤں کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور نماز میں بہت دُعا اور رونا اور گڑ گڑانا اپنی عادت کر لو تا تم پر رحم کیا (ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد 3 ص 549) جائے.
183 اگر سچی محبت ہو تو خدا تعالی بہت دُعائیں سنتا ہے.اور تائیدیں کرتا ہے.لیکن شرط یہی ہے کہ محبت اور اخلاص خدا تعالیٰ سے ہو.محبت ایک ایسی شئے ہے کہ انسان کی سفلی زندگی کو جلا کر ایک نیا اور مصفی انسان بنا دیتی ہے پھر وہ دیکھتا ہے جو پہلے نہیں دیکھتا تھا.وہ وہ سنتا ہے جو پہلے نہیں سنتا تھا.نماز کی روزہ پر فضیلت فرمایا:.( تفسير سورة البقرة بص 48) روزہ اور نماز ہر دو عبادتیں ہیں.روزے کا زور جسم پر ہے اور نماز کا زور رُوح پر ہے.نماز سے ایک سوز و گداز پیدا ہوتا ہے.اس واسطے وہ افضل ہے.روزے سے کشوف پیدا ہوتے ہیں مگر یہ کیفیت بعض دفعہ جو گیوں میں بھی پیدا ہوسکتی لیکن روحانی گدازش جو دُعاؤں سے پیدا ہوتی ہے اس ہے.میں کوئی شامل نہیں.( ملفوظات جلد چہارم ص 292 تا 293)
184 دعا کے آداب باب XXI مجھو قرآن شریف کو پڑھو اور خدا سے کبھی نا اُمید نہ ہو.مومن خدا سے کبھی مایوس نہیں ہوتا.یہ کافروں کی عادت میں داخل ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے مایوس ہو جاتے ہیں.ہمارا خدا عَلَى كُلِّ شَيءٍ قَدِيرٌ خدا ہے.قرآن شریف کا ترجمہ بھی پڑھو اور نمازوں کو سنوار سنوار کر پڑھو اور اس کا مطلب بھی اپنی زبان میں بھی دُعائیں کرلو.قرآن شریف کو ایک معمولی کتاب سمجھ کر نہ پڑھو، بلکہ اُس کو خدا تعالیٰ کا کلام سمجھ کر پڑھو، نماز کو اسی طرح پڑھو جس طرح رسول اللہ ﷺ پڑھتے تھے البتہ اپنی حاجتوں اور مطالب کو مسنون اذکار کے بعد اپنی زبان میں بیشک ادا کرو اور خدا تعالیٰ سے مانگو اس میں کوئی حرج نہیں اس سے نماز ہرگز ضائع نہیں ہوتی.آجکل لوگوں نے نماز کو خراب کر رکھا ہے.نمازیں کیا پڑھتے ہیں ٹکریں مارتے ہیں.نماز تو بہت جلد جلد مُرغ کی طرح ٹھونکیں مار کر پڑھ لیتے ہیں اور
185 پیچھے دُعا کیلئے بیٹھے رہتے ہیں.نماز کا اصل مغز اور روح تو دُعا ہی ہے.نماز سے نکل کر دُعا کرنے سے وہ اصل مطلب کہاں حاصل ہوسکتا ہے.ایک شخص بادشاہ کے دربار میں جاوے اور اس کو اپنا عرض حال کرنے کا موقع بھی ہو، لیکن وہ اس وقت تو کچھ نہ کہے لیکن جب دربار سے باہر جاوے تو اپنی درخواست پیش کرے.اسے کیا فائدہ.ایسا ہی حال ان لوگوں کا ہے جو نماز میں خشوع و خضوع کے ساتھ دُعائیں نہیں مانگتے.تم کو جو دُعائیں کرنی ہوں، نماز میں کر لیا کرو اور پورے آداب الدعا کو ملحوظ رکھو.اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کے شروع ہی میں دُعا سکھائی ہے اور اس کے ساتھ ہی دُعا کے آداب بھی بتادیے ہیں سورۃ فاتحہ کا نماز میں پڑھنا لازمی ہے اور یہ دُعا ہی ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اصل دُعا نماز ہی میں ہوتی ہے، چنانچہ اس دُعا کو اللہ تعالیٰ نے یوں سکھایا ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمُ......إلى آخره یعنی دُعا سے پہلے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کی جاوے.جس سے اللہ تعالیٰ کیلئے روح میں ایک جوش اور محبت پیدا ہو.اس لیے فرمایا الحمد اللہ سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے
186 ہیں رَبِّ الْعَلَمِین سب کو پیدا کرنے والا اور پالنے والا الرحمن جو بلاعمل اور بن مانگے دینے والا ہے.الرَّحِیم پھر عمل پر بھی بدلہ دیتا ہے.اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دیتا ہے.ملك يوم الدين ہر بدلہ اُسی کے ہاتھ میں ہے.نیکی بدی سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے.پورا اور کامل موحد تب ہی ہوتا ہے، جب اللہ تعالیٰ کو ملكِ يوم الدين تسلیم کرتا ہے دیکھو حکام کے سامنے جا کر اُن کو سب کچھ تسلیم کر لینا یہ گناہ ہے اور اس سے شرک لازم آتا ہے.اس لحاظ سے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو حاکم بنایا ہے.اُن کی اطاعت ضروری ہے مگر اُن کو خدا ہرگز نہ بناؤ.انسان کا حق انسان کو اور خدا تعالیٰ کا حق خدا تعالیٰ کو دو.پھر یہ کہو اياك نعبد وإياكَ نَسْتَعِين ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں.اهْدِنَا الصراط الْمُسْتَقِیم ہم کو سیدھی راہ دکھا.یعنی ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیسے اور وہ نبیوں.صدیقوں.شہیدوں اور صالحین کا گروہ ہے.اس دُعا میں ان تمام گروہوں کے فضل اور انعام کو مانگا گیا ہے.ان لوگوں کی راہ سے بچا، جن پر تیرا غضب ہوا اور جو گمراہ ہوئے.غرض یہ مختصر طور پر سورۃ فاتحہ کا ترجمہ ہے.اسی طرح پر سمجھ سمجھ کہ ساری نماز کا ترجمہ پڑھ لو.اور پھر
187 اسی مطلب کو سمجھ کر نماز پڑھو.طرح طرح کے حرف رٹ لینے سے کچھ فائدہ نہیں یہ یقیناً سمجھو کہ آدمی میں سچی توحید آہی نہیں سکتی ، جب تک وہ نماز کو طوطے کی طرح پڑھتا ہے.رُوح پر وہ اثر نہیں پڑتا اور ٹھوکر نہیں لگتی جو اس کو کمال کے درجہ تک پہنچاتی ہے.عقیدہ بھی یہی رکھو کہ خدا تعالیٰ کا کوئی ثانی اور بد نہیں ہے اور اپنے عمل سے بھی یہی ثابت کر کے دکھاؤ.نماز اور دُعا کا حق ( ملفوظات جلد دوم ،ص 191-192) یہ مت خیال کرو کہ جو نماز کا حق تھا ہم نے ادا کرلیا یا دُعا کا جو حق تھا وہ ہم نے پورا کیا.ہرگز نہیں.دُعا اور نماز کے حق کا ادا کرنا چھوٹی بات نہیں یہ تو ایک موت اپنے اوپر وارد کرنی ہے.نماز اس بات کا نام ہے کہ جب انسان اسے ادا کرتا ہو.تو یہ محسوس کرے کہ اس جہان سے دوسرے جہان میں پہنچ گیا ہوں.بہت سے لوگ ہیں کہ اللہ تعالی پر الزام لگاتے ہیں اور اپنے آپ کو بری خیال کر کے کہتے ہیں کہ ہم نے تو نماز بھی پڑھی اور دُعا بھی کی ہے مگر قبول نہیں ہوتی.یہ ان لوگوں کا اپنا قصور ہوتا ہے.نماز اور دُعائیں جب تک
188.انسان غفلت اور کسل سے خالی نہ ہو تو وہ قبولیت کے قابل نہیں ہوا کرتی.اگر انسان ایک ایسا کھانا کھائے جو کہ بظاہر تو میٹھا ہے مگر اس کے اندر زہر ملی ہوئی ہے.تو مٹھاس سے وہ زہر معلوم تو نہ ہوگا مگر پیشتر اس کے کہ مٹھاس اپنا اثر کرے زہر پہلے ہی اثر کر کے کام تمام کر دے گا یہی وجہ ہے کہ غفلت سے بھری ہوئی دُعائیں قبول نہیں ہوتیں کیونکہ غفلت اپنا اثر پہلے کر جاتی ہے.یہ بات بالکل ناممکن ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کا بالکل مطیع ہو اور پھر اس کی دُعا قبول نہ ہو.ہاں یہ ضروری ہے کہ اس کے مقررہ شرائط کو کامل طور پر ادا کرے.جیسے ایک انسان اگر ڈور بین سے دُور کی شئے نزدیک دیکھنا چاہے تو جب تک وہ دور بین کے آلہ کو ٹھیک ترتیب پر نہ رکھے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا.یہی حال نماز اور دُعا کا ہے.اسی طرح پر ایک کام کی شرط ہے جب وہ کامل طور پر ادا ہو تو اس سے فائدہ ہوا کرتا ہے.اگر کسی کو پیاس لگی ہو اور پانی اس کے پاس بہت سا موجود ہے مگر وہ پے نہ تو فائدہ نہیں اُٹھا سکتا یا اگر اس میں سے ایک دو قطرہ پئے تو کیا ہوگا؟ پوری مقدار پینے سے ہی فائدہ ہوگا.غرضکہ ہر ایک کام کے واسطے خدا تعالیٰ نے ایک حد مقرر کی ہے جب وہ اس حد پر پہنچتا ہے تو بابرکت ہوتا ہے اور جو
189 کام اس حد تک نہ پہنچیں تو وہ اچھے نہیں کہلاتے اور نہ ان میں برکت ہوتی ہے..( ملفوظات جلد سوم،ص 232،231) عاجزی عاجزی اختیار کرنی چاہیے.عاجزی کا سیکھنا مشکل نہیں ہے اس کا سیکھنا ہی کیا ہے.انسان تو خود ہی عاجز ہے اور وہ عاجزی کے لیے ہی پیدا کیا گیا ہے.مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إلا ليعبدون (الذاريات : 57) تکبر وغیرہ سب بناوٹی چیزیں ہیں اگر وہ اس بناوٹ کو اُتار دے تو پھر اُس کی فطرت میں عاجزی ہی نظر آدیگی اگر تم لوگ چاہتے ہو کہ خیریت سے رہو اور تمہارے گھروں میں امن رہے تو مناسب ہے کہ دُعا ئیں بہت کرو اور اپنے گھروں کو دُعاؤں سے پُر کرو.جس گھر میں ہمیشہ دعا ہوتی ہے خدا تعالیٰ اسے برباد نہیں کیا کرتا.لیکن جوئستی میں زندگی بسر کرتا ہے اُسے آخرفرشتے بیدار کرتے ہیں.اگر تم ہر وقت اللہ تعالی کو یاد رکھو گے تو یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ بہت پکا ہے.وہ کبھی تم سے ایسا سلوک نہ کرے گا جیسا کہ فاسق فاجر سے کرتا ہے.خدا تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں کہ تم کو عذاب دیوے بشرطیکہ تم ایمان لاؤ اور شکر
190 کرو.انسان کو عذاب ہمیشہ گناہ کے باعث ہوتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ اللهَ لَا يُغَيِّرُ ما بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ (الرعد : 12) اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اندر تبدیلی نہ کرے.جب تک انسان اپنے آپ کو صاف نہ کرے تب تک خدا تعالیٰ عذاب کو دور نہیں کرتا.یہ دنیا خود بخود نہیں ہے.اس کے لیے ایک خالق ہے اور جو کچھ ہورہا ہے اس کی مرضی سے ہو رہا ہے بغیر اس کی رضا کے ایک ذرہ حرکت نہیں کر سکتا.جو اللہ تعالی سے ترساں رہے گا وہ خود محسوس کرے گا کہ اس میں ایک فرقان پیدا ہو گیا ہے مگر شرط یہ ہے کہ شیطانی سیرت کا انسان نہ ہو.تکالیف تو نبیوں پر بھی آتی ہیں مگر وہ عام لوگوں کی طرح نہیں بلکہ اُن کے لیے وہ باعث برکت ہوتی ہیں.دغاباز آدمی کی نماز قبول نہیں ہوتی وہ اس کے منہ پر ماری جاتی ہے کیونکہ وہ دراصل نماز نہیں پڑھتا بلکہ خدا تعالیٰ کو رشوت دینا چاہتا ہے مگر خدا تعالی کو اس سے نفرت ہوتی ہے کیونکہ وہ رشوت کو خود پسند نہیں کرتا.(ملفوظات جلد سوم ص 232)
191 دعا کے لوازمات اور دُعا کامل کے لوازمات یہ ہیں کہ اس میں رقت ہو.اضطراب اور گدازش ہو.جو دُعا عاجزی، اضطراب اور شکستہ دلی سے بھری ہوئی ہو وہ خدا تعالیٰ کے فضل کو کھینچ لاتی ہے اور قبول ہو کر اصل مقصد تک پہنچاتی ہے مگر مشکل یہ ہے کہ یہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی اور پھر اس کا علاج یہی ہے کہ دُعا کرتا رہے، خواہ کیسی ہی بے دلی اور بے ذوقی ہو لیکن یہ سیر نہ ہو تکلف اور تصنع سے کرتا ہی رہے.اصلی اور حقیقی دُعا کے واسطے بھی دُعا ہی کی ضرورت ہے..بہت سے لوگ دُعا کرتے ہیں اور ان کا دل سیر ہو جاتا ہے وہ کہہ اُٹھتے ہیں کہ کچھ نہیں بنتا.مگر ہماری نصیحت یہ ہے کہ اس خاک پنیری ہی میں برکت ہے.کیونکہ آخر گوهر مقصود اسی سے نکل آتا ہے اور ایک دن آجاتا ہے کہ جب اس کا دل زبان کے ساتھ متفق ہو جاتا ہے اور پھر خود ہی وہ عاجزی اور ل البدر سے " اور اگر دُعا کو دل نہ چاہے اور پورا خشوع وخضوع دُعا میں حاصل نہ ہو تو اس کے حصول کے واسطے بھی دُعا کرتے اور اس بات سے ابتلا میں نہ پڑے کہ میری دُعا تو زبان پر ہی ہوتی ہے.دل سے نہیں لکھتی.دُعا کے جو لفظ ہوتے ہیں ان کو زبان سے ہی کہتا رہے.آخر استقلال اور صبر سے ایک دن دیکھ لے گا کہ زبان کے ساتھ اسکا دل بھی شامل ہو گیا ہے اور عاجزی وغیرہ لوازمات دُعا میں پیدا ہو جائیں گئے
192 رقت جو دُعا کے لوازمات ہیں پیدا ہو جاتے ہیں.جو رات کو اُٹھتا ہے خواہ کتنی ہی عدم حضوری اور بے صبری ہولیکن اگر وہ اس حالت میں بھی دُعا کرتا ہے کہ الہی دل تیرے ہی قبضہ و تصرف میں ہے تو اس کو صاف کر دے اور عین قبض کی حالت میں اللہ تعالی سے بسط چاہے تو اس قبض سے بسط نکل آئے گی اور رقت پیدا ہو جائے گی.یہی وہ وقت ہوتا ہے جو قبولیت کی گھڑی کہلاتا ہے.وہ دیکھے گا کہ اس وقت رُوح آستانہ الوہیت پر پانی کیطرح بہتی ہے اور گویا ایک قطرہ ہے جو اوپر سے نیچے کی طرف گرتا ہے.گریہ وزاری ( ملفوظات جلد سوم ، ص ، 398,397) اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا دودھ بھی ایک گریہ کو چاہتا ہے اس لیے اس کے حضور رونے والی آنکھ پیش کرنی چاہیے.بعض لوگوں کا یہ خیال کہ اللہ تعالیٰ کے حضور رونے دھونے سے کچھ نہیں ملتا بالکل غلط اور باطل ہے ایسے لوگ اللہ تعالی کی ہستی اور اس کے صفات قدرت و تصرف پر ایمان نہیں رکھتے اگر ان میں حقیقی ایمان ہوتا تو وہ ایسا کہنے کی جرات نہ کرتے جب کبھی
193 کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے حضور آیا ہے اور اُس نے سچی توبہ کے ساتھ رجوع کیا ہے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ اس پر اپنا فضل کیا ہے.یہ کسی نے بالکل سچ کہا ہے.عاشق که شد که یار بحالش نظر نه کرد اے خواجہ درد نیست وگرنه طبیب ہست خدا تعالیٰ تو چاہتا ہے کہ تم اُس کے حضور پاک دل لے کر آجاؤ.صرف شرط اتنی ہے کہ اس کے مناسب حال اپنے آپ کو بناؤ.اور وہ سچی تبدیلی جو خدا تعالیٰ کے حضور جانے کے قابل بنادیتی ہے اپنے اندر کر کے دکھاؤ.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ میں عجیب عجیب قدرتیں ہیں اور اسمیں لا انتہا فضل و برکات ہیں مگران کے دیکھنے اور پانے کے لیے محبت کی آنکھ پیدا کرو اگر سچی محبت ہو تو خدا تعالیٰ بہت دُعائیں سنتا ہے اور تائید میں کرتا ہے لیکن شرط یہی ہے کہ محبت اور اخلاص خدا تعالیٰ سے ہو.( ملفوظات جلد اوّل، ص 234)
194 باب XXII نماز عربی زبان میں پڑھنی چاہیے نماز اپنی زبان میں نہیں پڑھنی چاہیے.خدا تعالیٰ نے جس زبان میں قرآن شریف رکھا ہے.اس کو چھوڑ نا نہیں چاہیے.ہاں اپنی حاجتوں کو اپنی زبان میں خدا تعالیٰ کے سامنے بعد مسنون طریق اور اذکار کے بیان کر سکتے ہیں.مگر اصل زبان کو ہرگز نہیں چھوڑنا چاہیے.عیسائیوں نے اصل زبان کو چھوڑ کر کیا پھل پایا، کچھ باقی نہ رہا.( ملفوظات جلد دوم: ص216) عربی کے بجائے اپنی زبان میں نماز پڑھنا درست نہیں سائل: ایک شخص نے رسالہ لکھا تھا کہ ساری نماز اپنی ہی زبان میں پڑھنی چاہیے.حضرت اقدس : وہ اور طریق ہوگا جس سے ہم متفق نہیں.قرآن شریف بابرکت کتاب ہے اور رب جلیل کا کلام ہے.اس کو چھوڑ نا نہیں چاہیے.ہم نے تو اُن لوگوں کے لیے
195 دُعاؤں کے واسطے کہا ہے.جو اتی ہیں.اور پورے طور پر اپنے مقاصد عرض نہیں کر سکتے ان کو چاہیے کہ اپنی زبان میں دُعا کرلیں.( ملفوظات جلد دوم، ص 348)
196 اپنی زبان میں دُعا باب XXIII ایک سوال کے جواب میں حضرت اقدس نے فرمایا:...ہ ہم نے اپنی جماعت کو کہا ہوا ہے کہ طوطے کی طرح مت پڑھو سوائے قرآن شریف کے جو رب جلیل کا کلام ہے اور سوائے ادعیہ ماثورہ کے جو نبی کریم ﷺ کا معمول تھیں.نماز بابرکت نہ ہوگی جب تک اپنی زبان میں اپنے مطالب بیان نہ کرو.اس لیے ہر شخص کو جو عربی زبان نہیں جانتا ضروری ہے کہ اپنی زبان میں اپنی دعاؤں کو پیش کرے اور رکوع میں سجود میں مسنون تسبیحوں کے بعد اپنی حاجات کو عرض کرے.ایسا ہی التحیات میں اور قیام اور جلسہ میں.اس لیے میری جماعت کے لوگ اس تعلیم کے موافق نماز کے اندر اپنی زبان میں دُعائیں کر لیتے ہیں اور ہم بھی کر لیتے ہیں، اگرچہ ہمیں تو عربی اور پنجابی یکساں ہی ہیں.مگر مادری زبان کے ساتھ انسان کو ایک ذوق ہوتا ہے.اس لیے اپنی زبان میں نہایت خشوع اور خضوع کے ساتھ اپنے مطالب اور مقاصد کو
197 بارگاہِ رَبُّ العزة میں عرض کرنا چاہیے.میں نے بار ہا سمجھایا ہے کہ نماز کا تعہد کرو.جس سے حضور اور ذوق پیدا ہو.فریضہ تو جماعت کے ساتھ پڑھ لیتے ہیں.باقی نوافل اور سکن کو جیسا چاہو طول دو اور چاہیے کہ اس میں گریہ و بکا ہو، تا کہ وہ حالت پیدا ہو جاوے جو نماز کا اصل مطلب ہے.نماز ایسی شئے ہے کہ سیئات کو دور کر دیتی ہے.جیسے فرمایا: إِنَّ الْحَسَنتِ يُذْهِينَ السَّيِّئَاتِ (عود : 115) نماز گل بدیوں کو دور کر دیتی ہے.حسنات سے مُراد نماز ہے، مگر آجکل یہ حالت ہو رہی ہے کہ عام طور پر نمازی کو مکار سمجھا جاتا ہے، کیونکہ عام لوگ بھی جانتے ہیں کہ یہ لوگ جو نماز پڑھتے ہیں.یہ اسی قسم کی ہے جس پر خدا نے واویلا کیا ہے، کیونکہ اس کا کوئی نیک اثر اور نیک نتیجہ مترتب نہیں ہوتا.نرے الفاظ کی بحث میں پسند نہیں کرتا.آخر مرکز خدا تعالیٰ کے حضور جانا ہے.دیکھو ایک مریض جو طبیب کے پاس جاتا ہے اور اس کا نسخہ استعمال کرتا ہے.اگر دس میں دن تک اس سے کوئی فائدہ نہ ہو تو وہ سمجھتا ہے کہ تشخیص یا علاج میں کوئی غلطی ہے پھر یہ کیا اندھیر ہے کہ سالہا سال سے نمازیں پڑھتے ہیں اور اس کا کوئی اثر محسوس اور مشہور نہیں ہوتا.میرا تو یہ مذہب ہے کہ اگر دس دن بھی نماز کو سنوار کر پڑھیں تو
198 تنویر قلب ہو جاتی ہے.مگر یہاں تو پچاس پچاس برس تک نماز پڑھنے والے دیکھے گئے ہیں کہ بدستور روبہ دنیا اور سفلی زندگی میں نگونسار ہیں اور انھیں نہیں معلوم کہ وہ نمازوں میں کیا پڑھتے ہیں اور استغفار کیا چیز ہے اس کے معنوں پر بھی انہیں اطلاع نہیں ہے.طبیعتیں دو قسم کی ہیں.ایک وہ جو عادت پسند ہوتی ہیں جیسے اگر ہندو کا کسی مسلمان کے ساتھ کپڑا بھی چھو جائے تو وہ اپنا کھانا پھینک دیتا ہے، حالانکہ اس کھانے میں مسلمان کا کوئی اثر سرایت نہیں کر گیا.زیادہ تر اس زمانہ میں لوگوں کا یہی حال ہو رہا ہے کہ عادت اور رسم کے پابند ہیں اور حقیقت سے واقف اور آشنا نہیں ہیں.جو شخص دل میں یہ خیال کرے کہ یہ بدعت ہے کہ نماز کے پیچھے دُعا نہیں مانگتے بلکہ نمازوں میں دُعائیں کرتے ہیں.یہ بدعت نہیں.پیغمبر خدا کے زمانہ میں آنحضرت اللہ نے ادعیہ عربی میں سکھائی وسام تھیں جو ان لوگوں کی اپنی مادری زبان تھی.اسی لیے ان کی ترقیات جلد ہوئیں.لیکن جب دوسرے ممالک میں اسلام پھیلا تو وہ ترقی نہ رہی.اس کی یہی وجہ تھی کہ اعمال رسم و عادت کے طور پر رہ گئے.ان کے نیچے جو حقیقت اور مغز تھا وہ نکل گیا.اب دیکھ لو مثلاً ایک افغان نماز تو پڑھتا ہے، لیکن وہ اثر نماز
199 سے بالکل بے خبر ہے.یادرکھو رسم اور چیز ہے اور صلوٰۃ اور چیز.صلوۃ ایسی چیز ہے کہ اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے قرب کا کوئی قریب ذریعہ نہیں.یہ قرب کی نجی ہے.اسی سے کشوف ہوتے ہیں اسی سے الہامات اور مکالمات ہوتے ہیں.یہ دُعاؤں کے قبول ہونے کا ایک ذریعہ ہے لیکن اگر کوئی اس کو اچھی طرح سمجھ کر ادا نہیں کرتا تو وہ رسم اور عادت کا پابند ہے اور اس سے پیار کرتا ہے جیسے ہندو گنگا سے پیار کرتے ہیں ہم دُعاؤں سے انکار نہیں کرتے بلکہ ہمارا تو سب سے بڑھ کر دُعاؤں کی قبولیت پر ایمان ہے.جبکہ اللہ تعالیٰ نے اُدْعُونِي استجب لكُمُ (المومن (61) فرمایا ہے ہاں یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ نے نماز کے بعد دُعا کرنا فرض نہیں ٹھہرایا اور رسول اللہ سے بھی التزامی طور پر مسنون نہیں ہے.آپ ﷺ سے التزام ثابت نہیں ہے اگر التزام ہوتا اور پھر کوئی ترک کرتا تو یہ صلى الله معصیت ہوتی.تقاضائے وقت پر آپ ﷺ نے خارج نماز میں بھی دُعا کر لی اور ہمارا تو یہ ایمان ہے کہ آپ ﷺ کا سارا ہی وقت دُعاؤں میں گزرتا تھا لیکن نماز خاص خزینہ دُعاؤں کا ہے جو مومن کو دیا گیا ہے اس لیے اس کا فرض ہے کہ جب تک اس کو درست نہ کرے اور اس کی طرف توجہ نہ کرے.الله
200 کیونکہ جب نقل سے فرض جاتا رہے تو فرض کو مقدم کرنا چاہیئے.اگر کوئی شخص ذوق اور حضورِ قلب کے ساتھ نماز پڑھتا ہے تو پھر خارج نماز بیشک دُعائیں کرے ہم منع نہیں کرتے.ہم تقدیم نماز کی چاہتے ہیں.اور یہی ہماری فرض ہے.مگر لوگ آجکل نماز کی قدر نہیں کرتے اور یہی وجہ ہے خدا تعالیٰ سے بہت بعد ہو گیا.مومن کے لیے نماز معراج ہے اور وہ اس سے ہی اطمینان قلب پاتا ہے، کیونکہ نماز میں اللہ تعالی کی حمد اور اپنی الله عبودیت کا اقرار، استغفار، رسول اللہ ﷺ پر درود.غرض وہ سب امور جو روحانی ترقی کے لیے ضروری ہیں.موجود ہیں ہمارے دل میں اس کے متعلق بہت سی باتیں ہیں.جن کو الفاظ پورے طور پر ادا نہیں کر سکتے.بعض سمجھتے ہیں اور بعض رہ جاتے ہیں.مگر ہمارا کام یہ ہے کہ ہم تھکتے نہیں.کہتے جاتے ہیں جو سعید ہوتے ہیں اور جن کو فراست دی گئی ہے وہ سمجھ لیتے ہیں.( ملفوظات جلد دوم ص 348,347) یہ ضروری بات نہیں ہے کہ دُعائیں عربی زبان میں کی جاویں، چونکہ اصل غرض نماز کی تضرع اور ابتہال ہے، اس لیے چاہیے کہ اپنی مادری زبان میں ہی کرے.انسان کو اپنی مادری
201 زبان سے ایک خاص اُنس ہوتا ہے اور پھر وہ اس پر قادر ہوتا ہے.دوسری زبان سے خواہ اس میں کس قدر بھی دخل اور مہارت کامل ہو.ایک قسم کی اجنبیت باقی رہتی ہے.اس لیے چاہیے کہ اپنی مادری زبان ہی میں دُعائیں مانگے.( ملفوظات جلد اوّل، ص 402) ا سوال ہوا کہ آیا نماز میں اپنی زبان میں دُعا مانگنا جائز ہے ؟ حضور اقدس نے فرمایا : وو سب زبانیں خدا نے بنائی ہیں.چاہیے کہ اپنی زبان میں جس کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے.نماز کے اندر دُعائیں مانگے ، کیونکہ اُس کا اثر دل پر پڑتا ہے تا کہ عاجزی اور خشوع پیدا ہو.کلام الہی کو ضرور عربی میں پڑھو اور اس کے معنی یاد رکھو اور دعا بیشک اپنی زبان میں مانگو.جو لوگ نماز کو جلدی جلدی پڑھتے ہیں اور پیچھے لمبی دُعائیں کرتے ہیں وہ حقیقت سے نا آشنا ہیں.دُعا کا وقت نماز ہے.نماز میں بہت دُعائیں مانگو.( ملفوظات جلد اوّل ص 509)
202 اپنی زبان میں دُعا کرنے کی حکمت یہ بھی یاد رکھو ڑھا اپنی زبان میں بھی کر سکتے ہو بلکہ چاہیے کہ مسنون ادعیہ کے بعد اپنی زبان میں آدمی دُعا کرے کیونکہ اس زبان میں وہ پورے طور پر اپنے خیالات اور حالات کا اظہار کر سکتا ہے، اس زبان میں وہ قادر ہوتا ہے.دُعا نماز کا مغز اور روح ہے اور رسمی نماز جب تک اس میں روح نہ ہو کچھ نہیں روح کے پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ گریہ و بکا اور خشوع و خضوع ہو اور یہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی حالت کو بخوبی بیان کرے اور ایک اضطراب اور قلق اسکے دل میں ہو اور یہ بات اس وقت تک حاصل نہیں ہوتی جب تک اپنی زبان میں انسان اپنے مطالب کو پیش نہ کرے.غرض دُعا کے ساتھ صدق اور وفا کو طلب کرے اور پھر اللہ تعالیٰ کی محبت میں وفاداری کے ساتھ فنا ہو کر کامل نیستی کی صورت اختیار کرے.اس نیستی سے ایک ہستی پیدا ہوتی ہے جس میں وہ اس بات کا حقدار ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُسے کہے کہ انتَ مِنى ( ملفوظات جلد سوم، ص 4)
203 دعاؤں کی اہمیت نماز میں دُعائیں اور درود ہیں.یہ عربی زبان میں ہیں، مگر تم پر حرام نہیں کہ نمازوں میں اپنی زبان میں بھی دُعائیں مانگا کرو، ورنہ ترقی نہ ہوگی.خدا کا حکم ہے کہ نماز وہ ہے جس میں تضرع اور حضور قلب ہو.ایسے ہی لوگوں کے گناہ دور ہوتے ہیں، چنانچہ فرمایا إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّات (هود : 115) یعنی نیکیاں بدیوں کو دور کرتی ہیں.یہاں حسنات کے معنی نماز کے ہیں اور حضور اور تضرع اپنی زبان میں مانگنے سے حاصل ہوتا ہے پس کبھی کبھی ضرور اپنی زبان میں دُعا کیا کرو اور بہترین دعا فاتحہ ہے کیونکہ وہ جامع دُعا ہے.جب زمیندار کو زمینداری کا ڈھب آجاوے تو وہ زمینداری کے صراط مستقیم پر پہنچ جاوے گا اور کامیاب ہو جاوے گا.اسی طرح تم خدا کے ملنے کی صراط مستقیم تلاش کرو اور دُعا کرو کہ یا الہی میں تیرا گنہگار بندہ ہوں اور افتادہ ہوں میری راہنمائی کر.ادنی اور اعلیٰ سب حاجتیں بغیر شرم کے خدا سے مانگو کہ اصل معطی وہی ہے.بہت نیک وہی ہے جو بہت دُعا کرتا ہے، کیونکہ اگر کسی بخیل کے دروازے پر سوالی ہر روز جا کر سوال کرے گا تو آخر ایک دن اس کو بھی شرم آجاوے گی.پھر خدا تعالیٰ
204 سے مانگنے والا جو بے مثل کریم ہے کیوں نہ پائے ؟ پس مانگنے والا کبھی نہ کبھی ضرور پالیتا ہے.نماز کا دوسرا نام دُعا بھی ہے جیسے فرمایا ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُم (المومن (61) پھر فرمایا وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ (البقرة : 187) جب میرا بندہ میری بابت سوال کرے پس میں بہت ہی قریب ہوں میں پکارنے والے کی دُعا قبول کرتا ہوں جب وہ پکارتا ہے.بعض لوگ اس کی ذات پر شک کرتے ہیں.پس میری ہستی کا نشان یہ ہے کہ تم مجھے پکارو اور مجھ سے مانگو.میں تمہیں پکاروں گا اور جواب دوں گا اور تمہیں یاد کروں گا.اگر یہ کہو کہ ہم پکارتے ہیں پر وہ جواب نہیں دیتا تو دیکھو کہ تم ایک جگہ کھڑے ہو کر ایک ایسے شخص کو جو تم سے بہت دُور ہے پکارتے ہو اور تمہارے اپنے کانوں میں کچھ نقص ہے.وہ شخص تو تمہاری آواز سُن کر تم کو جواب دے گا مگر جب وہ دور سے جواب دے گا تو تم یہ باعث بہرہ پن کے سُن نہیں سکو گے.پس جوں جوں تمہارے درمیانی پر دے اور حجاب اور دوری دور ہوتی جاوے گی ، تو تم ضرور آواز کو سنو گے.جب سے دنیا کی پیدائش ہوئی ہے اس بات کا ثبوت چلا آتا ہے کہ وہ اپنے
205 خاص بندوں سے ہمکلام ہوتا ہے.اگر ایسا نہ ہوتا تو رفتہ رفتہ بالکل یہ بات نابود ہو جاتی کہ اس کی ہستی ہے بھی.پس خدا کی ہستی کے ثبوت کا سب سے زبردست ذریعہ یہی ہے کہ ہم اس کی آواز کوسن لیں یاد یدار یا گفتار.پس آجکل کا گفتار قائمقام ہے دیدار کا.ہاں جب تک خدا کے اور اس سائل کے درمیان کوئی حجاب ہے اس وقت تک ہم سُن نہیں سکتے.جب درمیانی پردہ اُٹھ جاوے گا تو اس کی آواز سنائی دے گی.بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ تیرہ سو برس سے خدا کا مکالمہ مخاطبہ بند ہو گیا ہے.اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ اندھا سب کو ہی اندھا سمجھتا ہے کیونکہ اس کی اپنی آنکھوں میں جو ٹور موجود نہیں.اگر اسلام میں یہ شرف بذریعہ دعاؤں اور اخلاص کے نہ ہوتا تو پھر اسلام کچھ چیز بھی نہ ہوتا اور یہ بھی اور مذاہب کی طرح مُردہ مذہب ہو جاتا.( ملفوظات جلد چہارم ص 175 تا 176) مادری زبان میں نماز اور دُعائیں پھر سوال ہوا کہ اگر ساری نماز کو اپنی زبان میں پڑھ لیا جاوے تو کیا حرج ہے.فرمایا:
206 خدا تعالیٰ کے کلام کو اسی کی زبان میں پڑھنا چاہیے اس میں بھی ایک برکت ہوتی ہے خواہ فہم ہو یا نہ ہو اور ادعیہ ماثورہ بھی ویسے ہی پڑھے جیسے آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے نکلیں.یہ ایک محبت اور تعظیم کی نشانی ہے.باقی خواہ ساری رات دُعا اپنی زبان میں کرتا رہے.انسان کو اوّل محسوس کرنا چاہیے کہ میں کیسا مصیبت زدہ ہوں.اور میرے اندر کیا کیا کمزوریاں ہیں.کیسے کیسے امراض کا نشانہ ہوں اور موت کا اعتبار نہیں ہے.بعض ایسی بیماریاں ہیں کہ آدھ منٹ میں ہی انسان کی جان نکل جاتی ہے سوائے خدا کے کہیں اس کی پناہ نہیں ہے ایک آنکھ ہی ہے جس کی تین سو امراض ہیں.ان خیالوں سے نفسانی زندگی کی اصلاح ہو سکتی ہے.اور پھر ایسی اصلاح یافتہ زندگی کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک دریا سخت طغیانی پر ہے.مگر یہ ایک عمدہ مضبوط لوہے کے جہاز میں بیٹھا ہوا اور ہوائے موافق اسے لے جارہی ہے کوئی خطرہ ڈوبنے کا نہیں.لیکن جو شخص یہ زندگی نہیں رکھتا اس کا جہاز بودا ہے ضرور ہے کہ طغیانی میں ڈوب جاوے.عام لوگوں کی نماز تو برائے نام ہوتی ہے صرف نماز کو الہر تے ہیں اور جب نماز پڑھ چکے تو پھر گھنٹوں تک دُعا میں رجوع کرتے ہیں.ہے ( ملفوظات جلد دوم،ص656)
207 دُعا میں صرف عربی زبان کے پابند نہ رہو نماز کیا چیز ہے وہ دُعا ہے جو تسبیح.تحمید.تقدیس اور استغفار اور درود کے ساتھ تضرع سے مانگی جاتی ہے.سو جب تم نماز پڑھو تو بے خبر لوگوں کی طرح اپنی دعاوں میں صرف عربی الفاظ کے پابند نہ رہو کیونکہ ان کی نماز اور ان کا استغفار سب رسمیں نہیں جن کے ساتھ کوئی حقیقت نہیں لیکن تم جب نماز پڑھو تو بجز قرآن کے جو خدا کا کلام ہے اور بجز بعض ادعیہ ماثورہ کے کہ وہ رسول ﷺ کا کلام ہے.باقی اپنی تمام عام دُعاؤں میں اپنی زبان میں ہی الفاظ متضرعا نہ ادا کر لیا کرو تا ہو کہ تمہارے دلوں پر اُس عجز و نیاز کا کچھ اثر ہو.پنجگانہ نمازیں کیا چیز ہیں وہ تمہارے مختلف حالات کا فوٹو ہے.تمہاری زندگی کے لازم حال پانچ تغیر ہیں جو بلا کے وقت تم پر وارد ہوتے ہیں اور تمہاری فطرت کے لیے اُن کا وارد ہونا ضروری ہے.( تفسیر سورۃ بنی اسرائیل 238 آیت نمبر 79)
208 مسنون ادعیہ کے علاوہ باقی دعائیں اپنی زبان میں پڑھو تا حضور قلب حاصل ہو پانچ وقت اپنی نمازوں میں دُعا کرو.اپنی زبان میں بھی دُعا کرنی منع نہیں ہے.نماز کا مزا نہیں آتا ہے جب تک حضور نہ ہو اور حضور قلب نہیں ہوتا ہے جب تک عاجزی نہ ہو.عاجزی جب پیدا ہوتی ہے جو یہ سمجھ آجائے کہ کیا پڑھتا ہے اس لیے اپنی زبان میں اپنے مطالب پیش کرنے کے لیے جوش اور اضطراب پیدا ہو سکتا ہے مگر اس سے یہ ہر گز نہیں سمجھنا چاہیے کہ نماز کو اپنی زبان میں ہی پڑھو.نہیں میرا یہ مطلب ہے کہ مسنون ادعیہ اور اذکار کے بعد اپنی زبان میں بھی دُعا کیا کرو.ورنہ نماز کے ان الفاظ میں خدا نے ایک برکت رکھی ہوئی ہے.نماز دُعا ہی کا نام ہے.اس لیے اسمیں دُعا کرو کہ وہ تم کو دنیا اور آخرت کی آفتوں سے بچاوے اور خاتمہ بالخیر ہو.اپنے بیوی بچوں کے لیے بھی دعا کرو.نیک انسان بنو اور ہر قسم کی بدی سے بچتے رہو.( ملفوظات جلد سوم ص 434 تا 435)
209 نماز کو صرف جنتر منتر کی طرح نہ پڑھو حضرت اقدس نے فرمایا:.....نماز کے اندر ہی اپنی زبان میں خدا تعالیٰ کے حضور دُعا کرو.سجدہ میں ، بیٹھ کر ، رکوع میں، کھڑے ہوکر، ہر مقام پر اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرو بے شک پنجابی زبان میں دُعائیں کرو.جن لوگوں کی زبان عربی نہیں اور عربی سمجھ نہیں سکتے اُن کے واسطے ضروری ہے کہ نماز کے اندر ہی قرآن شریف پڑھنے اور مسنون دُعائیں عربی میں پڑھنے کے بعد اپنی زبان میں بھی خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگے اور عربی دُعاؤں کا اور قرآن شریف کا بھی ترجمہ سیکھ لینا چاہیے.نماز کو صرف جنتر منتر کی طرح نہ پڑھو بلکہ اس کے معانی اور حقیقت سے معرفت حاصل کرو.خدا تعالیٰ سے دُعا کرو کہ ہم تیرے گنہ گار بندے ہیں اور نفس غالب ہے تو ہم کو معاف کر اور دنیا اور آخرت کی آفتوں سے ہم کو بیچا.آجکل لوگ جلدی جلدی نماز کوختم کرتے ہیں اور پیچھے لمبی دعائیں مانگنے بیٹھتے ہیں.یہ بدعت ہے.جس نماز میں تشرع نہیں.خدا تعالی کی طرف رجوع نہیں خدا تعالیٰ سے
210 ہے.رقت کے ساتھ دُعا نہیں وہ نماز تو خود ہی ٹوٹی ہوئی نماز نماز وہ ہے جس میں دُعا کا مزہ آجاوے.خدا تعالیٰ کے حضور میں ایسی توجہ سے کھڑے ہو جاؤ کہ رقت طاری ہو جائے جیسے کہ کوئی شخص کسی خوفناک مقدمہ میں گرفتار ہوتا ہے اور اُس کے واسطے قید یا پھانسی کا فتویٰ لگنے والا ہوتا ہے.اس کی حالت حاکم کے سامنے کیا ہوتی ہے.ایسے ہی خوفزدہ دل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہونا چاہیے.جس نماز میں دل کہیں ہے اور خیال کسی طرف ہے اور منہ سے کچھ نکلتا ہے وہ ایک لعنت ہے جو آدمی کے منہ پر واپس ماری جاتی ہے اور قبول نہیں ہوتی.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلاتِهِمُ سَاهُونَ (الماعون) لعنت ہے اُن پر جو اپنی نماز کی حقیقت سے ناواقف ہیں.نماز وہی اصلی ہے جس میں مزا آجاوے.ایسی ہی نماز کے ذریعہ سے گناہ سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور یہی وہ نماز ہے جس کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ نماز مومن کا معراج ہے.نماز مومن کے واسطے ترقی کا ذریعہ ہے.إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيَاتِ (ھود : 115) نیکیاں بدیوں کو دور کر دیتی ہیں.دیکھو بخیل سے بھی انسان مانگتا رہتا ہے تو وہ بھی
211 کسی نہ کسی وقت کچھ دے دیتا ہے اور رقم کھاتا ہے خدا تعالیٰ تو خود حکم دیتا ہے کہ مجھ سے مانگو اور میں تمہیں دوں گا.جب کبھی کسی امر کے واسطے دُعا کی ضرورت ہوتی ہے تو رسول اللہ ہے کا یہی طریق تھا کہ آپ وضو کر کے نماز میں کھڑے ہو جاتے اور نماز کے اندر دُعا کرتے.دُعا کے معاملے میں حضرت عیسی نے خوب مثال بیان کی ہے.وہ کہتے ہیں کہ ایک قاضی تھا جو کسی کا انصاف نہ کرتا تھا اور رات دن اپنی عیش میں مصروف رہتا تھا.ایک عورت جس کا ایک مقدمہ تھا وہ ہر وقت اس کے دروازے پر آتی اور اس سے انصاف چاہتی.وہ برابر ایسا کرتی رہی.یہائک کہ قاضی تنگ آگیا اور اس نے بالآخر اس مقدمہ کا فیصلہ کیا اور اس کا انصاف اسے دیا.دیکھو کیا تمہارا خدا قاضی جیسا بھی نہیں کہ وہ تمہاری دُعائنے اور تمہیں تمہاری مراد عطا کرے.ثابت قدمی کے ساتھ دُعا میں مصروف رہنا چاہیے.قبولیت کا وقت بھی ضرور آہی جائیگا استقامت شرط ہے.(ملفوظات جلد پنجم ص 44 تا45)
212 نماز کے اندر ہر موقع پر دعا کی جاسکتی ہے نماز کے اندر اپنی زبان میں دُعا مانگنی چاہیے کیونکہ اپنی زبان میں دُعا مانگنے سے پورا جوش پیدا ہوتا ہے.سورۃ فاتحہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے وہ اسی طرح عربی زبان میں پڑھنا چاہیے اور قرآن شریف کا حصہ جو اس کے بعد پڑھا جاتا ہے وہ بھی عربی زبان میں ہی پڑھنا چاہیے اور اس کے بعد مقررہ دعائیں اور تسبیح بھی اسی طرح عربی زبان میں پڑھنی چاہئیں لیکن ان سب کا ترجمہ سیکھ لینا چاہیے.اور ان کے علاوہ پھر اپنی زبان میں دعائیں مانگنی چاہئیں تا کہ حضورِ دل پیدا ہو جاوے.کیونکہ جس نماز میں حضور دل نہیں وہ نماز نہیں.آجکل لوگوں کی عادت ہے کہ نماز تو ٹھونگے دار پڑھ لیتے ہیں.جلدی جلدی نماز کو ادا کر لیتے ہیں جیسا کہ کوئی بیگار ہوتی ہے.پھر پیچھے سے لمبی لمبی دعائیں مانگنا شروع کرتے ہیں.یہ بدعت ہے.حدیث ریف میں کسی جگہ اس کا ذکر نہیں آیا کہ نماز سے سلام پھیرنے کے بعد پھر دُعا کی جاوے.نادان لوگ نماز کو تو ٹیکس جانتے ہیں اور دُعا کو اس سے علیحدہ کرتے ہیں.نماز خود دُعا ہے.دین و دنیا کی تمام مشکلات کے واسطے
213 اور ہر ایک مصیبت کے وقت انسان کو نماز کے اندر دُعائیں مانگنی چاہئیں.نماز کے اندر ہر موقعہ پر دُعا کی جاسکتی ہے.رکوع میں بعد تسبیح ، سجدہ میں بعد تسبیح ، التحیات کے بعد ، کھڑے ہو کر رکوع کے بعد بہت دُعائیں کرو تا کہ مالا مال ہو جاؤ.چاہیے کہ دُعا کے واسطے رُوح پانی کی طرح بہہ جاوے.ایسی دُعا دل کو پاک و صاف کردیتی ہے.یہ دعا میسر آوے تو پھر خواہ انسان چار پہر تک دُعا میں کھڑا رہے.گناہوں کی گرفتاری سے بچنے کے واسطے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں مانگنی چاہئیں.دعا ایک علاج ہے جس سے گناہ کی زہر دُور ہو جاتی ہے.بعض نادان لوگ خیال کرتے ہیں کہ اپنی زبان میں دُعا مانگنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے.یہ غلط خیال ہے ایسے لوگوں کی نماز تو خود ہی ٹوٹی ہوئی ہے.دعا سے خالی نماز ( ملفوظات جلد پنجم ،ص54 تا 55) جو دعا سے غافل ہے وہ مارا گیا.ایک دن اور ایک رات جس کی دُعا سے خالی ہے وہ شیطان سے قریب ہوا.ہر
214 روز دیکھنا چاہیے کہ جو حق دُعاؤں کا تھا وہ ادا کیا ہے کہ نہیں.نماز کی ظاہری صورت پر اکتفا کرنا نادانی ہے.اکثر لوگ رسمی نماز ادا کرتے ہیں اور بہت جلدی کرتے ہیں جیسے ایک ناواجب ٹیکس لگا ہوا ہے.جلدی گلے سے اتر جاوے.بعض لوگ نماز تو جلدی پڑھ لیتے ہیں لیکن اس کے بعد دعا اس قدر لمبی مانگتے ہیں کہ نماز کے وقت سے دُگنا تگنا وقت لے لیتے ہیں حالانکہ نماز تو خود دُعا ہے جس کو یہ نصیب نہیں ہے کہ نماز میں دُعا کرے اس کی نماز ہی نہیں.چاہیے کہ اپنی نماز کو دُعا سے مثل کھانے اور سرد پانی کے لذیذ اور مزیدار کر لو ایسا نہ ہو کہ اس پر ویل ہو.( ملفوظات جلد سوم ، ص 591-592) نماز کے بعد دُعا یا نہیں؟ سوال ہوا کہ نماز کے بعد دُعا کرنا سُنت اسلام میں ہے فرمایا: ہم انکار نہیں کرتے.آنحضرت ﷺ نے دعا مانگی ہوگی مگر ساری نماز دعا ہی ہے اور آج کل دیکھا جاتا ہے کہ لوگ نماز کو جلدی جلدی ادا کر کے گلے سے اتارتے ہیں.پھر
215 دُعاؤں میں اس کے بعد اسقدر خشوع وخضوع کرتے ہیں کہ جس کی حد نہیں اور اتنی دیر تک دُعا مانگتے رہتے ہیں کہ مسافر دو میل تک نکل جاوے.بعض لوگ اس سے تنگ بھی آجاتے ہیں تو یہ بات معیوب ہے.خشوع خضوع اصل جزو تو نماز کی ہے وہ اس میں نہیں کیا جاتا اور نہ اس میں دُعا مانگتے ہیں.اس طرح سے وہ لوگ نماز کو منسوخ کرتے ہیں.انسان نماز کے اندر ہی ماثورہ دعاؤں کے بعد اپنی زبان میں دُعا مانگ سکتا ہے.( ملفوظات جلد سوم ،ص 264) جماعت کو نصیحت فرمایا! اصل یہ ہے کہ ہم دُعا مانگنے سے تو منع نہیں کرتے اور ہم خود بھی دُعا مانگتے ہیں اور صلوٰۃ بجائے خود دُعا ہی ہے.بات یہ ہے کہ میں نے اپنی جماعت کو نصیحت کی ہے کہ ہندوستان میں یہ عام بدعت پھیلی ہوئی ہے کہ تعدیل ارکان پورے طور پر ملحوظ نہیں رکھتے اور ٹھونگے دار نماز پڑھتے ہیں.گویا وہ نماز ایک ٹیکس ہے جس کا ادا کرنا ایک بوجھ ہے.اس لیے اس طریق سے ادا کیا جاتا ہے، جس میں کراہت پائی جاتی
216 ہے، حالانکہ نماز ایسی شئے ہے کہ جس سے ایک ذوق، اُنس اور سُرور بڑھتا ہے مگر جس طریق پر نماز ادا کی جاتی ہے اس سے حضور قلب نہیں ہوتا اور بے ذوقی اور بے لطفی پیدا ہوتی ہے.میں نے اپنی جماعت کو یہی نصیحت کی ہے کہ وہ بے ذوقی اور بے حضوری پیدا کر نیوالی نماز نہ پڑھیں، بلکہ حضور قلب کی کوشش کریں جس سے اُن کو سُر ور اور ذوق حاصل ہو.عام طور پر یہ حالت ہورہی ہے کہ نماز کو ایسے طور سے پڑھتے ہیں کہ جس میں حضور قلب کی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ جلدی جلدی اس کوختم کیا جاتا ہے اور خارج نماز میں بہت کچھ دُعا کے لیے کرتے ہیں.اور دیر تک دُعا مانگتے رہتے ہیں، حالانکہ نماز کا (جو مومن کی معراج ہے ) مقصود یہی ہے کہ اس میں دُعا کی جاوے اور اسی لیے اُمُّ الأدعِيَهُ، اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ دُعا مانگی جاتی ہے.انسان کبھی خدا تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کرتا جب تک کہ اقام الصلواۃ نہ کرے.أَقِيمُوا الصَّلوةَ اس لیے فرمایا کہ نماز گری پڑتی ہے مگر جو شخص اقام الصلواۃ کرتے ہیں وہ اس کی رُوحانی صورت سے فائدہ اُٹھاتے ہیں تو پھر وہ دُعا کی محویت میں ہو جاتے ہیں.نماز ایک ایسا شربت ہے کہ جو ایک بار اسے پی لے اُسے فرصت ہی نہیں ہوتی اور وہ
217 فارغ ہی نہیں ہوسکتا.ہمیشہ اس سے سرشار اور مست رہتا ہے اس سے ایسی محویت ہوتی ہے کہ اگر ساری عمر میں ایک بار بھی اسے چکھتا ہے تو پھر اس کا اثر نہیں جاتا.( ملفوظات جلد دوم، ص 346,345)
218 سفر کی تعریف مسائل فقہ ایک شخص کا تحریری سوال پیش ہوا کہ مجھے دس پندرہ کوس تک ادھر اُدھر جانا پڑتا ہے.میں کس کو سفر سمجھوں اور نمازوں میں قصر کے متعلق کس بات پر عمل کروں.میں کتابوں کے مسائل نہیں پوچھتا ہوں.حضرت امام صادق کا دریافت کرتا ہوں.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا: ” میرا مذہب یہ ہے کہ انسان بہت دقتیں اپنے اوپر نہ ڈال لے.عرف میں جس کو سفر کہتے ہیں، خواہ وہ تین کوس ہی ہو اس میں قصر و سفر کے مسائل پر عمل کرے.إِنَّمَا الأعْمَالُ بِالنِّيَّات.بعض دفعہ ہم دو دو تین تین میل اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں، مگر کسی کے دل میں خیال نہیں آتا کہ ہم سفر میں ہیں ، لیکن جب انسان اپنی گٹھڑی اٹھا کر سفر کی نیت سے چل پڑتا ہے تو وہ مسافر ہوتا ہے.شریعت کی بناء دقت پر نہیں
219 ہے.جس کو تم عرف میں سفر سمجھو ، وہی سفر ہے“.سفر میں نمازوں کا قصر ( ملفوظات جلد اوّل ، ص 446) سوال پیش ہوا اگر کوئی تین کوس سفر پر جائے تو کیا نمازوں کو قصر کرے؟ فرمایا ہاں.دیکھو اپنی نیت کو خوب دیکھ لو.ایسی تمام باتوں میں تقویٰ کا بہت خیال رکھنا چاہیے.اگر کوئی شخص ہر روز معمولی کاروبار یا سفر کیلئے جاتا ہے تو وہ سفر نہیں بلکہ سفر وہ ہے جسے انسان خصوصیت سے اختیار کرے اور صرف اس کام کیلئے گھر چھوڑ کر جائے اور عرف میں وہ سفر کہلاتا ہو.دیکھو یوں تو ہم ہر روز سیر کیلئے دو دو میل نکل جاتے ہیں.مگر یہ سفر نہیں ایسے موقعہ پر دل کے اطمینان کو دیکھ لینا چاہیے کہ اگر وہ بغیر کسی خلجان کے فتویٰ دے کہ یہ سفر ہے تو قصر کرے.اِستَفْتِ قَلْبَكَ (اپنے دل سے فتویٰ لو) پر عمل چاہیے.ہزار فتویٰ ہو.پھر بھی مومن کا نیک نیتی سے قلبی اطمینان عمدہ شے ہے.عرض کیا گیا کہ انسانوں کے حالات مختلف ہیں بعض تو دس کوس کو بھی سفر نہیں سمجھتے.بعض کے لیے تین چار کوس بھی
220 مفر ہے.فرمایا! شریعت نے ان باتوں کا اعتبار نہیں کیا.صحابہ کرام نے تین کوس کو بھی سفر سمجھا ہے.عرض کیا گیا! حضور بٹالہ جاتے ہیں تو قصر فرماتے ہیں.فرمایا : ہاں کیونکہ وہ سفر ہے.ہم تو یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی طبیب یا حاکم بطور دورہ کئی گاؤں میں پھرتا ہے تو وہ اپنے تمام سفر کو جمع کر کے اسے سفر نہیں کہہ سکتا.مرکز میں نمازوں کا قصر ( ملفوظات جلد پنجم، ص 426) نماز کے قصر کرنے کے متعلق سوال کیا گیا کہ جو شخص یہاں آتے ہیں وہ قصر کریں یا نہ ؟ فرمایا: " جو شخص تین دن کے واسطے یہاں آوے اس کے واسطے قصر جائز ہے.میری دانست میں جس سفر میں عزم سفر ہو، پھر خواہ وہ دو تین چار کوس کا ہی سفر کیوں نہ ہو اس میں قصر جائز ہے.یہ ہماری سیر سفر نہیں ہے.ہاں اگر امام مقیم ہو تو اس کے پیچھے پوری ہی نماز پڑھنی چاہیے.حکام کا دورہ سفر نہیں ہو سکتا.وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی اپنے باغ کی سیر کرتا ہے.خوانخواہ قصر
221 کرنے کا تو کوئی وجود نہیں.اگر دوروں کی وجہ سے انسان قصر کرنے لگے تو پھر یہ دائمی قصر ہوگا جس کا کوئی ثبوت ہمارے پاس نہیں ہے.حکام کہاں مسافر کہلا سکتے ہیں.سعدی نے بھی کہا ہے:.منعم بکوه و دشت و بیاباں غریب نیست ہر جا کہ رفت خیمه زد و خوابگاه ساخت ( ملفوظات جلد سوم ، ص 227 ) ایک شخص کا سوال حضرت صاحب کی خدمت میں پیش ہوا کہ جو بسبب ملازمت کے ہمیشہ دورہ میں رہتا ہو اس کو نمازوں میں قصر کرنی جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا: جو شخص دن رات دورہ پر رہتا ہے اور اسی بات کا ملازم ہے وہ حالت دورہ میں مسافر نہیں کہلا سکتا.اس کو پوری نماز ہی پڑھنی چاہنے شخص کا سوال حضرت صاحب کی خدمت میں پیش ایک ہوا کہ نماز فجر کی اذان کے بعد دوگانہ فرض سے پہلے اگر کوئی شخص نوافل ادا کرے تو جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا: ”نماز فجر کی اذان کے بعد سورج نکلنے تک دو رکعت
222 سنت اور دو رکعت فرض کے سوا اور کوئی نماز نہیں ہے“.( ملفوظات جلد پنجم ،ص 136) مسیح موعود کی خاطر نمازیں جمع کیے جانے کی پیشگوئی اور جیسا کہ خدا کے فرائض پر عمل کیا جاتا ہے.ویسا ہی اُس کی رخصتوں پر عمل کرنا چاہیے.فرض بھی خدا کی طرف سے ہیں اور رُخصت بھی خدا کی طرف سے.دیکھو.ہم بھی رخصتوں پر عمل کرتے ہیں.نمازوں کو جمع کرتے ہوئے کوئی دو ماہ سے زیادہ ہو گئے ہیں.بسبب بیماری کے اور تفسیر سورۃ فاتحہ کے لکھنے میں بہت مصروفیت کے ایسا ہو رہا ہے اور ان نمازوں کے جمع کرنے میں تُجْمَعُ لَهُ الصَّلواةُ کی حدیث بھی پوری ہو رہی ہے کہ مسیح کی خاطر نمازیں جمع کی جائیں گی.اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح موعود نماز کے وقت پیش امام نہ ہوگا، بلکہ کوئی اور ہوگا اور وہ پیش امام مسیح کی خاطر نمازیں جمع کرائے گا.سواب ایسا ہی ہوتا ہے جس دن ہم زیادہ بیماری کی وجہ سے بالکل نہیں آسکتے اس دن نمازیں جمع نہیں ہوتیں.اور اس حدیث کے الفاظ سے یہ معلوم
223 صلى الله ہوتا ہے کہ حضرت رسول کریم ﷺ نے پیار کے طریق سے یہ فرمایا ہے کہ اس کی خاطر ایسا ہوگا.صلى الله چاہیے کہ ہم رسول کریم ﷺ کی پیشگوئیوں کی عزت و تحریم کریں.اور ان سے بے پرواہ نہ ہوویں، ورنہ یہ ایک گناہ کبیرہ ہوگا کہ ہم آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کو خفت کی نگاہ سے دیکھیں.خدا تعالیٰ نے ایسے ہی اسباب پیدا کردیے کہ اتنے عرصہ سے نمازیں جمع ہورہی ہیں، ورنہ ایک دو دن کیلئے یہ صلى الله بات ہوتی تو کوئی نشان نہ ہوتا.ہم آنحضرت ﷺ کے لفظ لفظ اور حرف حرف کی تعظیم کرتے ہیں.( ملفوظات جلد اوّل ،ص446) مسیح موعود کے لیے نمازیں جمع کی جائیں گی چونکہ کچھ مدت سے حضرت کی طبیعت دن کے دوسرے حصہ میں اکثر خراب ہو جاتی ہے اس لیے نماز مغرب اور عشاء گھر میں باجماعت پڑھ لیتے ہیں.باہر تشریف نہیں لا سکتے.ایک دن نماز مغرب کے بعد چند عورتوں کو مخاطب کر کے فرمایا جوسُننے کے قابل ہے (ایڈیٹر تشحمید ) فرمایا: "کوئی یہ نہ دل میں گمان کرلے کہ یہ روز گھر میں جمع
224 کے نماز پڑھا دیتے ہیں اور باہر نہیں جاتے.نبی کریم ﷺ نے پیشگوئی کی کہ آنے والا شخص نماز جمع کیا کرے گا.سوچھ مہینے تک تو باہر جمع کرواتا رہا ہوں.اب میں نے کہا کہ عورتوں میں بھی اس پیشگوئی کو پورا کر دینا چاہیے.چونکہ بغیر ضرورت کے نماز جمع کرنا ناجائز ہے.اس لیے خدا تعالیٰ نے مجھے کو بیمار کر دیا اور اس طرح سے نبی کریم کی پیشگوئی کو پورا کر دیا.ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ آنحضرت ﷺ کے قول کو پورا کرے کیونکہ وہ پورا نہ ہو تو آنحضرت نے نعوذ باللہ جھوٹے ٹھہرتے ہیں اس لیے ہر ایک کو وہ بات جو اس کے اختیار میں ہو نبی کریمہ کے کہنے کے موافق پوری کر دینی چاہیے اور خدا تعالیٰ خود بھی سامان مہیا کردیتا ہے.جیسا کہ مجھ کو بیمار کر دیا تا کہ آنحضرت ﷺ کے قول کو پورا کردے.جیسا کہ ایک دفعہ بنی کریم اللہ نے ایک صحابی سے فرمایا کہ تیرا اُس وقت کیا حال ہوگا جبکہ تیرے ہاتھ میں کسری کے سونے کے کڑے پہنائے جائیں گے.آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد ری کا ملک فتح ہوا تو حضرت عمر نے اس کو سونے کے کڑے جو ٹوٹ میں آئے تھے، پہنائے.حالانکہ سونے کے کڑے یا کوئی اور چیز سونے کی مردوں کے لیے ایسی ہی حرام
225 ہے جیسا کہ اور حرام چیزیں.لیکن چونکہ نبی کریم مانے کے منہ سے یہ بات نکلی تھی اس لیے پوری کی گئی.اسی طرح ہر ایک دوسرے انسان کو بھی آنحضرت ﷺ کے قول کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.( ملفوظات جلد پنجم ص 32) مسیح موعود کے ساتھ جلالی و جمالی اجتماع وابستہ ہیں مجھے افسوس اور تعجب ہوتا ہے کہ یہ لوگ جمع بین الصلوتین پر روتے ہیں حالانکہ مسیح کی قسمت میں بہت سے اجتماع رکھے ہیں.کسوف وخسوف کا اجتماع ہوا.یہ بھی میرا ہی نشان تھا.اور وَإِذَ النفوس روحت (النور: 8) بھی میرے ہی لیے ہیں اور وَاخَرِينَ مِنْهُمُ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعة : 4) بھی ایک جمع ہی ہے، کیونکہ اول اور آخر کو ملایا گیا ہے اور یہ عظیم الشان جمع ہے جو رسول اللہ کے برکات اور فیوض کی زندگی پر دلیل اور گواہ ہے اور پھر یہ بھی جمع ہے کہ خدا تعالیٰ نے تبلیغ کے سارے سامان جمع کردیے ہیں، چنانچہ مطبع کے سامان.کاغذ کی کثرت، ڈاک خانوں، تار، ریل اور دخانی جہازوں کے ذریعہ کل دنیا ایک شہر کا حکم رکھتی ہے.اور پھر نت نئی ایجادیں
226 اس جمع کو اور بھی بڑھارہی ہیں، کیونکہ اسباب تبلیغ جمع ہور ہے ہیں.بوقت ضرورت جمع صلوتین ( ملفوظات جلد دوم ص 49) ایک صاحب نے ذکر کیا کہ ان کا افسر سخت مزاج تھا.روانگی نماز میں اکثر چیں بجیں ہوا کرتا تھا.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا: ,, خدا تعالیٰ نے شرارتوں کے وقت جمع صلوتین رکھا ہے ظہر و عصر نمازیں ایسی حالت میں جمع کر کے پڑھ لیں.جمع بین الصلوتین ( ملفوظات جلد دوم، ص 617) پھر ج کی مد میں جمع بین الصلوتین کی پیشگوئی ہے جو رسول اللہ ﷺ نے مسیح موعود کے لیے ایک نشان ٹھہرایا ہے.اس پیشگوئی کو پورا کرنا اختیاری امر نہیں ہے.موت سر پر ہے خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے.وہ خود اس کی تکمیل کر رہا ہے.جو صلى الله شخص آنحضرت علیہ کی پیشگوئیوں کو عزت کی نگاہ سے نہیں
227 دیکھتا وہ آنحضرت ﷺ کی عزت بھی نہیں کرتا ہے.اس پیشگوئی صلى الله سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے کیونکہ لکھا ہے کہ تُجمَعُ له الصلوۃ.یعنی اس کے لیے نماز جمع کی جائے گی.ایسے امور جمع ہوجائیں گے کہ اس کیلئے نمازیں جمع کرنی پڑیں گی آنحضرت ﷺ کی نسبت میں اپنا اعتقاد رکھتا ہوں اس کو میں کسی کے دل میں نہیں ڈال سکتا الله الله الله میں ایک نیچے مسلمان کے لیے یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ ان اُمور کے ساتھ جو آپ ﷺ کی نبوت کیلئے بطور شہادت ہوں.محبت کی جاوے.ان میں سے یہ پیشگوئیاں بھی ہیں.رسول اللہ ﷺ کی آنکھ کشفی کیسی تیز ہے اور آپ مین کی نگاہ کیسی دور تک پہنچنے والی تھی کہ آپ ﷺ نے سارا نقشہ اس زمانے کا کھینچ کر دکھایا.ہم اس پیشگوئی کو جو تُجمع له الصلوة ہے بہت ہی بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.اس کے پورا ہونے پر ہمیں ایک راحت اور لذت آتی ہے جو دوسرے کے آگے بیان نہیں کر سکتے ، کیونکہ لذت خواہ جسمانی ہو خواہ رُوحانی.ایک ایسی کیفیت اور اثر ہے جو الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتا.رسول اللہ ﷺ کی اس سے کمال درجہ کی عزت صلى الله اور صداقت ثابت ہوتی ہے کہ آپ ﷺ نے جو کچھ فرمایا وہ پورا
228 صلى الله ہوا.اب بتاؤ کہ کیا یہ اُمور جو جمع نماز کے موجب ہوئے ہیں خود ہم نے پیدا کر لیے ہیں یا خدا تعالیٰ نے یہ تقریب پیدا کردی ہے؟ صحابہ نے اس پیشگوئی کو سُنا مگر پوری ہوتے نہیں دیکھا اور اب جو پیشگوئی پوری ہوئی اور انہیں اس کی خبر ملتی ہے تو انہیں کیسی لذت آتی ہے.میں بیچ کہتا ہوں کہ جیسا اس پیشگوئی کے پورا ہونے سے ہم ایک لطف اور لذت اٹھارہے ہیں آسمان پر بھی ایک لذت ہے.اس لیے کہ اس سے نبی کریم ﷺ کی بزرگی اور عظمت کا اظہار ہوتا ہے.صوفیوں نے لکھا ہے کہ بعض زمینی امور ایسے ہوتے ہیں کہ آسمان پر اُن کی خبر دی جاتی ہے اور آنحضرت نے کی تائید میں جو کچھ ہوتا ہے، اس کی خبر دی جاتی ہے، اور اس کا انتشار ہوتا ہے غرض یہ بڑی عظیم الشان پیشگوئی ہے جس سے ہمارے رسول اللہ ﷺ کی تصدیق ہوتی ہے اُن کو حقیر سمجھنا گفر ہے.یہ دوہرا نشان ہے.ایک طرف ہماری صداقت کیلئے کیونکہ ہمارے لیے یہ نشان رکھا گیا تھا.دوسری طرف خود رسول کریم ع کیلئے کہ آپ ﷺ کی فرمائی ہوئی پیشگوئی پوری ہوئی.لوگ ناواقفی اور جہالت سے اعتراض کرتے ہیں، حالانکہ یہ امر بہت ہی قابل غور ہے.کیا ہم نے خود ایسے امر
229 پیدا کر لیے ہیں کہ نمازیں جمع کی جائیں؟ پھر جب یہ امر سب خدا کی طرف سے ہیں تو پھر اعتراض کرنا ہی نری حماقت اور محبت ہے.جو لوگ اس پیشگوئی پر اعتراض کرتے ہیں وہ مجھ پر نہیں وہ نبی کریم نے پر بلکہ خدا تعالی پر اعتراض کرتے ہیں.اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک آدھ مرتبہ نماز جمع نہ ہوگی، بلکہ ایک اچھی میعاد تک نماز جمع ہوتی رہے گی، کیونکہ ایک آدھ مرتبہ جمع کرنے کا اتفاق تو دوسرے مسلمانوں کو بھی ہو جاتا ہے.پس یہ خدا کا زبردست نشان ہے جو ہماری اور ہمارے رسول کریم ﷺ کی صداقت پر ایک زبردست گواہ صلى الله ہے.نمازوں کو جمع کر کے پڑھنا ( ملفوظات جلد دوم ص 273 تا 275) خوب یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوا اور تدبیر پر بھروسہ کرنا حماقت ہے.اپنی زندگی میں ایسی تبدیلی پیدا کرلو کہ معلوم ہو گویا نئی زندگی ہے.استغفار کی کثرت کرو.جن لوگوں کو کثرت اشغال دنیا کے باعث کم فرصتی ہے، ان کو سب سے زیادہ ڈرنا چاہیے.ملازمت پیشہ لوگوں سے اکثر فرا ئض خداوندی فوت ہو جاتے ہیں اس لیے مجبوری کی حالت میں ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازوں کا جمع کر کے پڑھ لینا جائز
230 ہے.میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اگر حکام سے نماز پڑھنے کی اجازت طلب کر لی جائے ، تو وہ اجازت دے دیا کرتے ہیں.نیز اعلیٰ حکام کی طرف سے ماتحت افسروں کو اس بارہ میں خاص ہدایات ملی ہوئی ہوتی ہیں.ترک نماز کے لیے ایسے بے جا عذر بجز اپنے نفس کی کمزوری کے اور کوئی نہیں.حقوق اللہ اور حقوق العباد میں زیادتی نہ کرو.اپنے فرائض منصبی نہایت دیانتداری سے بجا لاؤ، گورنمٹ پر ایک سیکنڈ کیلئے بھی بدظنی نہ کرو.کیا تمھیں سکھوں کے عہد حکومت کے واقعات معلوم نہیں ، جس وقت مسجدوں میں اذان دینی موقوف ہوگئی تھی.گائے کو ذراسی تکلیف دینے پر سخت ایڈا ئیں اور بے حد ظلم ہوتے تھے پس ایسی مصیبت سے تم کو خلاصی دینے کے لیے اللہ تعالیٰ بہت فاصلہ سے اس سلطنت کو لایا جس سے ہم نے بہت فائدہ حاصل کیا اور امن و امان سے اپنے فرائض مذہبی ادا کرنے لگے.اس لیے ہمیں کس قدر شکر یہ اس گورنمنٹ کا کرنا چاہیے.خوب یاد رکھو کہ جو شخص انسان کا شکر نہیں کرتا وہ خدا کا بھی شکر نہیں کرتا.( ملفوظات جلد اوّل، ص 173 تا 174)
231 نماز کا اخلاص سے تعلق فرمایا: ”نماز دعا اور اخلاص کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.مومن کے ساتھ کینہ جمع نہیں ہوتا.متقی کے سوا دوسرے کے پیچھے نماز کو خراب نہیں کرنا چاہیے.( ملفوظات جلد اوّل، ص 456) غیروں کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کی حکمت اپنی جماعت کا غیر کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کے متعلق ذکر تھا.آپ نے فرمایا: صبر کرو اور اپنی جماعت کے غیر کے پیچھے نماز مت پڑھو.بہتری اور نیکی اسی میں ہے اور اسی میں تمہاری نصرت اور فتح عظیم ہے اور یہی اس جماعت کی ترقی کا موجب ہے.دیکھو دنیا میں روٹھے ہوئے اور ایک دوسرے سے ناراض ہونے والے بھی اپنے دشمن کو چار دن منہ نہیں لگاتے اور تمہاری ناراضگی اور روٹھنا تو خدا کیلئے ہے.تم اگر ان میں رلے ملے رہے تو خدا تعالی جو خاص نظر تم پر رکھتا ہے، وہ نہیں رکھے گا.پاک جماعت جب الگ ہو تو پھر اس میں ترقی ہوتی ہے“.( ملفوظات جلد اوّل ،ص545)
232 غیروں کے پیچھے نماز سید عبداللہ صاحب عرب نے سوال کیا کہ میں اپنے ملک عرب میں جاتا ہوں وہاں میں ان لوگوں کے پیچھے نماز پڑھوں یا نہ پڑھوں.فرمایا: "مصدقین کے سوا کسی کے پیچھے نماز نہ پڑھو.عرب صاحب نے عرض کیا وہ لوگ حضور کے حالا سے واقف نہیں ہیں اور ان کو تبلیغ نہیں ہوئی.فرمایا: ان کو پہلے تبلیغ کر دینا پھر یا وہ مصدق ہو جائیں گے یا مکذب" عرب صاحب نے عرض کیا کہ ہمارے ملک کے لوگ بہت سخت ہیں اور ہماری قوم شیعہ ہے.فرمایا: ”تم خدا کے بنو.اللہ تعالیٰ کے ساتھ جس کا معاملہ صاف ہو جائے.اللہ تعالیٰ آپ اس کا متولی اور متکفل ہو جاتا ہے.( ملفوظات جلد اوّل ،ص 541) یا کسی نے سوال کیا کہ جو لوگ آپ کے مرید نہیں، ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے آپ نے اپنے مریدوں کو کیوں منع فرمایا
233 ہے؟ حضرت نے فرمایا: جن لوگوں نے جلد بازی کے ساتھ بدظنی کر کے اس سلسلہ کو جو خدا تعالیٰ نے قائم کیا ہے، رد کر دیا ہے اور اس قدر نشانوں کی پرواہ نہیں کی اور اسلام پر جو مصائب ہیں اس سے لا پرواہ پڑے ہیں.ان لوگوں نے تقویٰ سے کام نہیں لیا اور اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے.إِنَّما يَتَقَبَّلُ الله مِنَ الْمُتَّقِينَ (المائده : 28) خدا صرف متقی لوگوں کی نماز قبول کرتا ہے.اس واسطے کہا گیا ہے کہ ایسے آدمی کے پیچھے نماز نہ پڑھو جس کی نماز خود قبولیت کے درجہ تک پہنچنے والی نہیں 66 ( ملفوظات جلد اوّل ص 449) 17 مارچ 1908ء کو ایک صاحب علاقہ بلوچستان نے حضرت اقدس کی خدمت میں خط لکھا کہ آپ کا ایک مُرید نور محمد نام میرا دلی دوست ہے.وہ بڑا نمازی ہے نیکو کار ہے سب اس کی عزت کرتے ہیں.ہمہ صفت موصوف خلیق می شخص
234 ہے.دیندار ہے.اس سے ہم کو آپ کے حالات معلوم ہوئے تو ہمارا عقیدہ یہ ہو گیا ہے کہ حضور بڑے ہی خیر خواہ اُمت محمدیہ و مداح جناب رسول مقبول و اصحاب کبار ہیں.آپ کو جو بُرے نام سے یاد کرے وہ خود بُرا ہے مگر باوجود ہمارے اس عقیدہ و خیال کے نور محمد مذکور ہمارے ساتھ باجماعت نماز نہیں پڑھتا اور نہ جمعہ پڑھتا ہے اور وجہ یہ بتلاتا ہے کہ غیر احمدی کے پیچھے ہماری نماز نہیں ہوتی آپ اس کو تاکید فرماویں کہ وہ ہمارے پیچھے نماز پڑھ لیا کرے تا کہ تفرقہ نہ پڑے کیونکہ ہم آپ کے حق میں بُرا نہیں کہتے.( یہ اس خط کا اقتباس اور خلاصہ ہے) اس کے جواب میں اسی خط پر حضرت نے عاجز کے نام تحریر فرمایا: جواب میں لکھ دیں کہ چونکہ عام طور پر اس ملک کے ملاں لوگوں نے اپنے تعصب کیوجہ سے ہمیں کافر ٹھہرایا ہے.اور فتوے لکھے ہیں اور باقی لوگ اُن کے پیرو ہیں.پس اگر ایسے لوگ ہوں کہ وہ صفائی ثابت کرنے کیلئے اشتہار دے دیں کہ ہم ان مکفر مولویوں کے پیرونہیں ہیں تو پھر ان کے ساتھ نماز پڑھنا روا ہے ورنہ جو شخص مسلمانوں کو کافر کہے وہ آپ کا فر ہو جاتا ہے پھر اس کے پیچھے نماز کیونکر پڑھیں.یہ تو شرع
235 شریف کی رُو سے جائز نہیں ہے.(ملفوظات جلد پنجم مصس 478) دو آدمیوں نے بیعت کی.ایک نے سوال کیا کہ غیر احمدی کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا: وہ لوگ ہم کو کافر کہتے ہیں.اگر ہم کافر نہیں ہیں تو وہ گفر کوٹ کر اُن پر پڑتا ہے.مسلمان کو کافر کہنے والا خود کافر ہے.اس واسطے ایسے لوگوں کے پیچھے نماز جائز نہیں.پھر اُن کے درمیان جولوگ خاموش ہیں.وہ بھی انہیں میں شامل ہیں.اُن کے پیچھے بھی نماز جائز نہیں کیونکہ وہ اپنے دل کے اندر کوئی مذہب مخالفانہ رکھتے ہیں.جو ہمارے ساتھ بظاہر شامل نہیں ( ملفوظات جلد چہارم ص 583) ہوتے بعض لوگ پوچھا کرتے ہیں کہ ایسے لوگ جو برا نہیں کہتے ،مگر پورے طور پر اظہار بھی نہیں کرتے محض اس وجہ سے کہ لوگ برا کہیں گے، کیا اُنکے پیچھے نماز پڑھ لیں؟ میں کہتا ہوں.ہر گز نہیں.اس لیے کہ ابھی تک اُن کے قبول حق کی راہ میں ایک ٹھوکر کا پتھر ہے اور وہ ابھی تک اسی درخت کی شاخ ہیں، جس کا پھل زہریلا اور ہلاک کرنے والا ہے.اگر وہ
236 دنیا داروں کو اپنا معبود اور قبلہ نہ سمجھتے تو ان حجابوں کو چیر کر باہر نکل آتے اور کسی کے لعن طعن کی ذرا بھی پرواہ نہ کرتے اور کوئی خوف شماتت کا انہیں دامنگیر نہ ہوتا، بلکہ وہ خدا کی طرف دوڑتے پس تم یاد رکھو کہ تم ہر کام میں دیکھ لو کہ اس میں خدا راضی ہے یا مخلوق خدا.جب تک یہ حالت نہ ہو جاوے کہ خدا کی رضا مقدم ہو جاوے اور کوئی شیطان رہزن نہ ہو سکے.اس وقت تک ٹھوکر کا اندیشہ ہے لیکن جب دنیا کی برائی بھلائی ہی نہ ہو بلکہ خدا کی خوشنودی اور ناراخستگی اس پر اثر کرنے والی ہو یہ وہ حالت ہوتی ہے جب انسان ہر قسم کے خوف و خون کے مقامات سے نکلا ہوا ہوتا ہے.اگر کوئی شخص ہماری جماعت میں شامل ہو کر پھر اس سے نکل جاتا ہے تو اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ اس کا شیطان اس لباس میں ہنوز اس کے ساتھ ہوتا ہے.لیکن اگر وہ عزم کر لے کہ آئندہ کسی وسوسہ انداز کی بات کو سنوں گا ہی نہیں تو خدا اسے بچا لیتا ہے.( ملفوظات جلد اوّل، ص554) جہ اس کلام الہی سے ظاہر ہے کہ تکفیر کرنے والے اور تکذیب کی راہ اختیار کرنے والے ہلاک شدہ قوم ہے.اس لیے وہ
237 اس لائق نہیں ہیں کہ میری جماعت میں سے کوئی شخص ان کے پیچھے نماز پڑھے.کیا زندہ مردہ کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے؟ پس یادرکھو کہ جیسا خدا نے مجھے اطلاع دی ہے، تمہارے پر حرام ہے اور قطعی حرام ہے کہ کسی ملکر اور مکذب یا متردد کے پیچھے نماز پڑھو.بلکہ چاہیے کہ تمہارا وہی امام ہو جو تم میں سے ہو.اسی کی طرف حدیث بخاری کے ایک پہلو میں اشارہ ہے کہ امامکم منکم یعنی جب مسیح نازل ہوگا تو تمہیں دوسرے فرقوں کو جو دعوی ء اسلام کرتے ہیں بکلی ترک کرنا پڑیگا اور تمہارا امام تم میں سے ہوگا.پس تم ایسا ہی کرو.کیا تم چاہتے ہو کہ خدا کا التزام تمہارے سر پر ہو اور تمہارے عمل حبط ہو جائیں.اور تمہیں کچھ خبر نہ ہو.جو شخص مجھے دل سے قبول کرتا ہے وہ دل سے اطاعت بھی کرتا ہے اور ہر ایک حال میں مجھے حکم ٹھہراتا ہے.اور ہر ایک تنازعہ کا مجھ سے فیصلہ چاہتا ہے.مگر جو شخص مجھے دل سے قبول نہیں کرتا اس میں تم نخوت اور خود پسندی اور خود اختیاری پاؤ گے پس جانو کہ وہ مجھ میں سے نہیں ہے کیونکہ وہ میری باتوں کو جو مجھے خدا سے ملی ہیں عزت سے نہیں دیکھتا اس لیے آسمان پر اس کی عزت نہیں.(روحانی خزائن جلد نمبر 17، ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ، حاشیہ صفحہ 64)
238 غیروں کی مساجد میں نماز ایک شخص نے بعد نماز مغرب بیعت کی اور عرض کیا کہ الحکم میں لکھا ہوا دیکھا ہے کہ غیر از جماعت کے پیچھے نماز نہ ھو.فرمایا: ٹھیک ہے اگر مسجد غیروں کی ہے تو گھر میں اکیلے پڑھ لو.کوئی حرج نہیں اور تھوڑی سی صبر کی بات ہے.قریب ہے کہ اللہ تعالی ان کی مسجدیں برباد کر کے ہمارے حوالہ کر دیگا.آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بھی کچھ عرصہ صبر کرنا پڑا تھا.مخالف سے حسن معاشرت ( ملفوظات جلد دوم، ص548) ہاں میں نماز سے منع کرتا ہوں کہ ان کے پیچھے نہ پڑھو.اس کے سوائے دنیاوی معاملات میں بیشک شریک ہو.احسان کرو.مروّت کرو اور ان کو قرض دو اور اُن سے قرض لو اگر ضرورت پڑے تو صبر سے کام لو شائد کہ اس سے سمجھ بھی جاویں.( ملفوظات جلد سوم، ص 235)
239 مصدق کے پیچھے نماز خاں عجب خانصاحب تحصیلدار نے حضرت اقدس سے استفسار کیا کہ اگر کسی مقام کے لوگ اجنبی ہوں اور ہمیں علم نہ ہو کہ وہ احمدی جماعت میں ہیں یا نہیں تو ان کے پیچھے نماز پڑھی جاوے کہ نہ؟ فرمایا: ” نا واقف امام سے پوچھ لو.اگر وہ مصدق ہو تو نماز اس کے پیچھے پڑھی جاوے ورنہ نہیں.اللہ تعالیٰ ایک الگ جماعت بنانا چاہتا ہے اس لیے اُس کے منشاء کی کیوں مخالفت کی جاوے جن لوگوں سے وہ جُدا کرنا چاہتا ہے بار بار اُن میں گھنا ہی تو اس کے منشاء کے مخالف ہے“ ( ملفوظات جلد سوم ، 41 تا 42 ) الحکم کی اس ڈائری میں خاں عجب خانصاحب کا استفسار اور حضرت اقدس کا جواب یوں درج ہے:.”جناب خان عجب خانصاحب آف زیدہ کے استفسار پر کہ بعض اوقات ایسے لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے جو اس سلسلہ سے اجنبی اور نا واقف ہوتے ہیں اُن کے پیچھے نماز پڑھ لیا کریں یا
240 نہیں؟ فرمایا : ” اول تو کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں لوگ واقف نہ ہوں اور جہاں ایسی صورت ہو کہ لوگ ہم سے اجنبی اور ناواقف ہوں تو ان کے سامنے اپنے سلسلہ کو پیش کر کے دیکھ لیا.اگر تصدیق کریں تو ان کے پیچھے نماز پڑھ لیا کرو ورنہ ہرگز نہیں.اکیلے پڑھ لو.خدا تعالی اس وقت چاہتا ہے کہ ایک جماعت تیار کرے پھر جان بوجھ کر ان لوگوں میں گھسنا جن سے وہ الگ کرنا چاہتا ہے منشاء الہی کی مخالفت ہے" نماز باجماعت کی اہمیت ( ملفوظات جلد سوم ، حاشیہ صفحہ 42 ) نماز میں جو جماعت کا زیادہ ثواب رکھا ہے اس میں یہی غرض ہے کہ وحدت پیدا ہوتی ہے اور پھر اس وحدت کو عملی رنگ میں لانے کی یہاں تک ہدایت اور تاکید ہے کہ باہم پاؤں بھی مساوی ہوں اور صف سیدھی ہو اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں.اس سے مطلب یہ ہے کہ گویا ایک ہی انسان کا حکم رکھیں اور ایک کے انوار دوسرے میں سرایت کرسکیں.وہ تمیز جس سے خودی اور خود غرضی پیدا ہوتی ہے نہ رہے.لیکچر لدھیانہ ، روحانی خزائن جلد نمبر 20 ص 281 تا 282)
241 فاتحہ خلف الامام اس بات کا ذکر آیا کہ جو شخص جماعت کے اندر رکوع میں آکر شامل ہو اس کی رکعت ہوتی ہے یا نہیں.حضرت اقدس نے دوسرے مولویوں کی رائے دریافت کی.مختلف اسلامی فرقوں کے مذاہب اس امر کے متعلق بیان کیے گئے.آخر حضرت نے فیصلہ دیا اور فرمایا: ”ہمارا مذہب تو یہی ہے کہ لَا صَلوةَ إِلَّا بِفَاتِحَةِ الكتاب آدمی امام کے پیچھے ہو یا منفرد ہو.ہر حالت میں اس کو چاہیے کہ سورۃ فاتحہ پڑھے مگر امام کو نہ چاہیے کہ جلدی جلدی سورۃ فاتحہ پڑھے بلکہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھے تاکہ مقتدی سُن بھی لے اور اپنا پڑھ بھی لے.یا ہر آیت کے بعد امام اتنا ٹھہر جائے کہ مقتدی بھی اس آیت کو پڑھ لے.بہر حال مقتدی کو یہ موقع دینا چاہیے کہ وہ سُن بھی لے اور اپنا پڑھ بھی لے.سورۃ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے، کیونکہ وہ ام الکتاب ہے، لیکن جو شخص باوجود اپنی کوشش کے جو وہ نماز میں ملنے کیلئے کرتا ہے آخر رکوع میں ہی آکر ملا ہے اور اس سے پہلے نہیں مل سکا تو اس کی رکعت ہوگئی، اگر چہ اس نے سورۃ فاتحہ اس میں نہیں
242 پڑھی کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس نے رکوع کو پالیا اس کی رکعت ہوگئی.مسائل دوطبقات کے ہوتے ہیں.ایک جگہ تو حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا اور تاکید کی.نماز میں سورۃ فاتحہ ضرور پڑھیں.وہ ام الکتاب ہے اور اصل نماز وہی ہے، مگر جو شخص باوجود اپنی کوشش کے اور اپنی طرف سے جلدی کرنے کے رکوع میں ہی آکر ملا ہے، تو چونکہ دین کی بناء آسانی اور نرمی پر ہے.اس واسطے حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس کی رکعت ہو گئی.وہ سورۃ فاتحہ کا منکر نہیں ہے بلکہ دیر میں، پہنچنے کے سبب رخصت پر عمل کرتا ہے.میرا دل خدا نے ایسا بنایا ہے کہ ناجائز کام میں مجھے قبض ہو جاتی ہے اور میرا جی نہیں چاہتا کہ میں اُسے کروں اور یہ صاف ہے کہ جب نماز میں ایک آدمی نے تین حصوں کو پورا پالیا اور ایک حصہ میں یہ سبب سی مجبوری کے دیر میں مل سکا ہے، تو کیا حرج ہے.انسان کو چاہیے کہ رخصت پر عمل کرے.ہاں جو شخص عمدا سستی کرتا ہے اور جماعت میں شامل ہونے میں دیر کرتا ہے.تو اس کی نماز ہی فاسد ہے.( ملفوظات جلد اوّل ،ص448)
243 اذان کے وقت کوئی اور نیکی کا کام کرنا ایک شخص اپنا مضمون ، اشتہار دربارہ طاعون سُنا رہا تھا.اذان ہونے لگی وہ چپ ہو گیا.فرمایا: وو ” پڑھتے جاؤ.اذان کے وقت پڑھنا جائز ہے“ ( ملفوظات جلد دوم ،ص203) پیشہ ور نماز پڑھانے والے کے پیچھے نماز درست نہیں میرے نزدیک جو لوگ پیشہ کے طور پر نماز پڑھاتے ہیں.ان کے پیچھے نماز درست نہیں وہ اپنی جمعرات کی روٹیوں یا تنخواہ کے خیال سے نماز پڑھاتے ہیں اگر نہ ملے تو چھوڑ دیں معاش اگر نیک نیتی کے ساتھ حاصل کی جائے تو عبات ہی ہے.جب آدمی کسی کام کے ساتھ موافقت کرے اور پکا ارادہ کرے تو تکلیف نہیں ہوتی وہ سہل ہو جاتا ہے.تنخواہ دار امام الصلوة ( ملفوظات جلد دوم ، ص 628 ) ایک مخلص اور معزز خادم نے عرض کی کہ حضور میرے والد صاحب نے ایک مسجد بنائی تھی وہاں جو امام ہے اس کو کچھ
244 معاوضہ وہ دیتے تھے اس غرض سے کہ مسجد آباد رہے.وہ اس سلسلہ میں داخل نہیں.میں نے اس کا معاوضہ بدستور رکھا ہے.اب کیا کیا جاوے؟ فرمایا: خواہ احمدی ہو یا غیر احمدی جو روپیہ کیلئے نماز پڑھتا ہے اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے.نماز تو خدا کے لیے ہے.اگر وہ چلا جائے گا تو خدا تعالیٰ ایسے آدمی بھیج دے گا جو محض خدا تعالیٰ کے لیے نماز پڑھیں اور مسجد کو آباد کریں.ایسا امام جو محض لالچ کیوجہ سے نماز پڑھتا ہے میرے نزدیک خواہ وہ کوئی ہو احمدی یا غیر احمدی.اس کے پیچھے نماز نہیں ہوسکتی امام اتنی ہونا چاہیے.بعض لوگ رمضان میں ایک حافظ مقرر کر لیتے ہیں.اور اس کی تنخواہ بھی ٹھہرا لیتے ہیں.یہ درست نہیں ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ اگر کوئی محض نیک نیتی اور خداترسی سے اس کی خدمت کر دے تو یہ جائز ہے“.( ملفوظات جلد چہارم، ص 446) نماز جمعہ کے لیے تین آدمی ہونا ضروری ہیں ایک صاحب نے بذریعہ خط استنفسار فرمایا تھا کہ وہ اکیلے ہی اس مقام پر حضرت اقدس سے بیعت ہیں جمعہ تنہا
245 پڑھ لیا کریں یا نہ پڑھا کریں.حضرت نے فرمایا کہ: ”جمعہ کے لیے جماعت کا ہونا ضروری ہے.اگر دو آدمی مقتدی اور تیسرا امام اپنی جماعت کے ہوں تو نماز جمعہ پڑھ لیا کریں.وَإِلَّا نہ ( سوائے احمدی احباب کے دوسرے کے ساتھ جماعت اور جمعہ جائز نہیں) احتیاطی نماز فرمایا: ( ملفوظات جلد دوم ،ص 618) ایک شخص نے سوال کیا کہ احتیاطی نماز کیلئے کیا حکم ہے؟ احتیاطی نماز کیا ہوتی ہے.جمعہ کے تو دو ہی فرض ہیں.احتیاطی فرض کچھ چیز نہیں.تصویر اور نماز ( ملفوظات جلد اوّل، ص 531 ایک شخص نے دریافت کیا کہ تصویر کی وجہ سے نماز فاسد تو نہیں ہوتی جواب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: کفار کے تنتبع پر تو تصویر ہی جائز نہیں.ہاں نفس تصویر
246 میں حرمت نہیں بلکہ اس کی حرمت اضافی ہے.اگر نفس تصویر مفسد نماز ہو تو میں پوچھتا ہوں کہ کیا پھر روپیہ پیسہ نماز کے وقت پاس رکھنا مفسد نہیں ہو سکتا اس کا جواب اگر یہ دو کہ روپیہ پیسہ کا رکھنا اضطراری ہے.میں کہوں گا کہ کیا اگر اضطرار سے پاخانہ آجاوے تو وہ مفسد نماز نہ ہوگا اور پھر وضو نہ کرنا پڑے گا.اصلی بات یہ ہے کہ تصویر کے متعلق یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آیا اس سے کوئی دینی خدمت مقصود ہے یا نہیں.اگر یونہی بے فائدہ تصویر رکھی ہوئی ہے اور اس سے کوئی دینی فائدہ مقصود نہیں تو یہ لغو ہے اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے.والَّذِينَ هُم عن اللغو مُعْرِضُونَ (المومنون :4) لغو سے اعراض کرنا مومن کی شان ہے.اس لیے اس سے بچنا چاہیے لیکن ہاں اگر کوئی دینی خدمت اس ذریعہ سے بھی ہو سکتی ہو تو منع نہیں ہے کیونکہ خدا تعالی علوم کو ضائع نہیں کرنا چاہتا.( ملفوظات جلد دوم ص 171) التحیات میں انگشت سبابہ اٹھانے کی حکمت ایک شخص نے سوال کیا کہ التحیات کے وقت نماز میں
247 انگشت سبابہ کیوں اُٹھاتے ہیں؟ فرمایا: ”لوگ زمانہ جاہلیت میں گالیوں کے واسطے یہ اُنگلی اٹھایا کرتے تھے اس لیے اس کو سبابہ کہتے ہیں یعنی گالی دینے والی.خدا تعالیٰ نے عرب کی اصلاح فرمائی اور وہ عادت ہٹا فرمایا کہ خدا کو واحد لاشریک کہتے وقت یہ انگلی اٹھایا کرو تا اس سے وہ الزام اُٹھ جاوے.ایسے ہی عرب کے لوگ پانچ وقت شراب پیتے تھے اس کے عوض پانچ وقت نماز رکھی" کیا کسی مقام پر نماز ساقط ہو جاتی ہے (فتوحات مکیہ کی ایک عبارت کی تشریح) ( ملفوظات جلد سوم ،ص 142) فتوحات میں اس مقام کی طرف اشارہ کر کے ایک لطیف بات لکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ جب انسان کامل درجہ پر پہنچتا ہے، تو اُس کیلئے نماز ساقط ہو جاتی ہے.جاہلوں نے اس سے یہ سمجھ لیا کہ نماز ہی معاف ہو جاتی ہے جیسا کہ بعض بے قید فقیر کہتے ہیں.اُن کو اس مقام کی خبر نہیں اور اس لطیف نکتہ پر اطلاع نہیں.اصل بات یہ ہے کہ ابتدائی مدارج سلوک میں نماز اور
248 دوسرے اعمال صالحہ ایک قسم کا بوجھ معلوم ہوتے ہیں اور طبیعت میں ایک کسل اور تکلیف محسوس ہوتی ہے.لیکن جب انسان خدا تعالیٰ سے قوت پاکر اس مقام شہید پر پہنچتا ہے تو اس کو ایسی طاقت اور استقامت دی جاتی ہے کہ اُسے ان اعمال میں کوئی تکلیف محسوس ہی نہیں ہوتی.گویا وہ اُن اعمال پر سوار ہوتا ہے اور صوم، صلوۃ ، زکوۃ، ہمدردی بنی نوع، مروت، فتوت، غرض تمام اعمالِ صالحہ اور اخلاق فاضلہ کا صدور قوت ایمانی سے ہوتا ہے.کوئی مصیبت، دکھ اور تکلیف خدا تعالیٰ کی طرف قدم اُٹھانے سے اُسے روک نہیں سکتی.کنچنی کی مسجد میں نماز ( ملفوظات جلد اوّل ،ص 254 تا 255) ایک شخص کے سوال پر فرمایا کہ: کنچنی کی بنوائی ہوئی مسجد میں نماز درست نہیں“ حق کی چارہ جوئی سوال ہوا کہ مخالف ہم کو مسجد میں نماز پڑھنے نہیں دیتے حالانکہ مسجد میں ہمارا حق ہے.ہم ان سے بذریعہ عدالت فیصلہ کرلیں؟
249 فرمایا ہاں اگر کوئی حق ہے تو بذریعہ عدالت چارہ جوئی کرو.فساد کرنا منع ہے.کوئی دنگہ فساد نہ کرو“.قضاء عمری ( ملفوظات جلد سوم ،ص 235) ایک صاحب نے سوال کیا کہ یہ قضاء عمری کیا شے ہے جو کہ لوگ (عید الاضحی) کے پیشتر جمہ کو ادا کرتے ہیں.فرمایا ک ”میرے نزدیک یہ سب فضول باتیں ہیں ان کی نسبت وہی جواب ٹھیک ہے جو کہ حضرت علی نے ایک شخص کو دیا تھا جبکہ ایک شخص ایک ایسے وقت نماز ادا کر رہا تھا جس وقت میں نماز جائز نہیں.اس کی شکایت حضرت علی کے پاس ہوئی تو آپ نے اسے جواب دیا کہ میں اس آیت کا مصداق نہیں بننا چاہتا اَرَ أَيتَ الَّذِي يَنْهَى عَبْدًا إِذَا صَلَّى (العلق: 10-11) یعنی تو نے دیکھا اس شخص کو جو ایک نماز پڑھتے بندے کو منع کرتا ہے.نماز جو رہ جائے اسکا تدارک نہیں ہوسکتا ہاں روزہ کا ہو سکتا ہے.اور جو شخص عمدا سال بھر اس لیے نماز کو ترک کرتا
250 ہے کہ قضاء عمری والے دن ادا کرلوں گا تو وہ گنہگار ہے.اور جو شخص نادم ہو کر تو یہ کرتا ہے اور اس نیت سے پڑھتا ہے کہ آئندہ نماز ترک نہ کروں گا تو اس کے لیے حرج نہیں ہم اس معاملہ میں حضرت علیؓ ہی کا جواب دیتے ہیں.رفع یدین رفع یدین کے متعلق فرمایا کہ: اس میں چنداں حرج نہیں معلوم ہوتا، خواہ کوئی کرے یا نہ کرے.احادیث میں بھی اس کا ذکر دونوں طرح پر ہے اور وہابیوں اور سنیوں کے طریق عمل سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کیونکہ ایک تو رفع یدین کرتے ہیں اور ایک نہیں کرتے.معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ اللہ نے کسی وقت رفع یدین کیا اور بعد ازاں ترک کر دیا.ا ( الحکم سے اگر ندامت کے طور پر تدارک مافات کرتا ہے تو پڑھنے دو.کیوں منع کرتے ہو.آخر دُعا ہی کرتا ہے.ہاں اس میں پست ہمتی ضرور ہے.پھر دیکھو منع کرنے سے کہیں تم بھی اس آیت کے نیچے نہ آجاؤ ( ملفوظات جلد سوم ص 264 و حاشیہ 264)
251 فرمایا کہ: اکیلا ایک وتر کہیں سے ثابت نہیں ہوتا.وتر ہمیشہ تین ہی پڑھنے چاہئیں.خواہ تینوں اکھٹے ہی پڑھ لیں.خواہ دورکعت پڑھ کر سلام پھیر لیں پھر ایک رکعت الگ پڑھی جاوے.نماز کے بارے میں چند فقہی مسائل.i ( ملفوظات جلد سوم ص 193) سفر گورداسپور میں نماز کے متعلق ذیل کے مسائل میری موجودگی میں حل ہوئے (ڈائری نویس) ایک مقام پر دو جماعتیں نہ ہونی چاہئیں.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت اقدس ابھی وضو فرمارہے تھے اور مولانا محمد احسن صاحب بوجہ علالت طبع نماز کیلئے کھڑے ہو گئے.ان کا خیال تھا کہ میں معذور ہوں الگ پڑھ لوں، مگر چند ایک احباب اُن کے پیچھے مقتدی بن گئے اور جماعت ہوگئی.جب حضرت اقدس کو علم ہوا کہ ایک دفعہ جماعت ہو چکی ہے اور اب دوسری ہونے والی ہے تو آپ نے فرمایا کہ : ایک مقام پر دو جماعتیں ہرگز نہیں ہونی چاہئیں" ii.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضور اقدس اپنی کوٹھڑی میں
252 تھے.اور ساتھ ہی کو ٹھڑی میں نماز ہونے لگی.آدمی تھوڑے تھے ایک ہی کوٹھڑی میں جماعت ہو سکتی تھی.بعض احباب نے خیال کیا کہ شاید حضرت اقدس اپنی کوٹھڑی میں ہی نماز ادا کرلیں گے، کیونکہ امام کی آواز وہاں پہنچتی ہے.اس پر آپ نے فرمایا که جماعت کے ٹکڑے الگ الگ نہ ہونے چاہئیں بلکہ اکھٹی پڑھنی چاہیے.ہم بھی وہاں ہی پڑھیں گے.یہ اس صورت میں ہونا چاہیے جبکہ جگہ کی قلت ہو.iii ڈاکٹر محمد اسمعیل خان صاحب گورداسپور میں مقیم تھے اور احمدی جماعت نزیل قادیان به باعث سفر میں ہونے کے نماز جمع کر کے ادا کرتی تھی.ڈاکٹر صاحب نے مسئلہ پوچھا، حضرت اقدین نے فرمایا کہ مقیم پوری نماز ادا کریں وہ اس طرح ہوتی رہی کہ جماعت کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نماز ادا کرتے جماعت دو رکعت ادا کرتی ، لیکن ڈاکٹر صاحب باقی کی دورکعت بعد از جماعت ادا کر لیتے.ایک دفعہ حضرت اقدس نے دیکھ کر کہ ڈاکٹر صاحب نے ابھی دورکعت ادا کرنی ہے فرمایا کہ :
253 ٹھہر جاؤ.ڈاکٹر صاحب دورکعت ادا کر لیویں“ پھر اس کے بعد جماعت دوسری نماز کی ہوئی.ایسی حالت جمع میں سنت اور نوافل ادا نہیں کیے جاتے.( ملفوظات جلد چہارم ص 85 تا 86 ) نماز ظہر کے بارہ میں حضور کا طریق فرمایا مولوی نورالدین صاحب کو بلاؤ کہ نماز پڑھی جاوے مولوی صاحب بلائے گئے.اور ڈیڑھ بجے نماز ظہر ادا کی گئی.فرض کی نماز باجماعت ادا کر کے حضرت اندر تشریف لے گئے.حضرت اقدس کا مدام یہ اُصول ہے کہ آپ ظہر کی پہلی رستیں گھر میں ادا کر کے باہر تشریف لاتے ہیں.پچھلی دوستیں بھی جاکر اندر پڑھتے ہیں اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر ادائے فرض کے بعد مسجد میں بیٹھنا منظور ہو تو پچھلی دوستیں فرضوں کے بعد مسجد میں ہی ادا فرماتے ہیں.کسی اہم کام کیلئے نماز توڑنا ( ملفوظات جلد پنجم ص 143) افریقہ سے ڈاکٹر محمد علی خاں صاحب نے استفسار کیا کہ اگر ایک احمدی بھائی نماز پڑھ رہا ہو اور باہر سے اس کا افسر
254 آجاوے اور دروازے کو ہلا ہلا کر اور ٹھونک ٹھونک کر پکارے اور دفتر یا دوائی خانہ کی چابی مانگے تو ایسے وقت میں اسے کیا کرنا چاہیے.اسی وجہ سے ایک شخص نوکری سے محروم ہو کر ہندوستان واپس چلا گیا ہے.جواب :.حضرت اقدس نے فرمایا کہ: ایسی صورت میں ضروری تھا کہ وہ دروازہ کھول کر چابی افسر کو دے دیتا.( یہ ہسپتال کا واقعہ ہے اس لیے فرمایا) کیونکہ اگر اس کے التوا سے کسی آدمی کی جان چلی جاوے تو یہ سخت معصیت ہوگی.احادیث میں آیا ہے کہ نماز میں چل کر دروازہ کھول دیا جاوے تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی.ایسے ہی اگر لڑکے کو کسی خطرہ کا اندیشہ ہو یا کسی موذی جانور سے جو نظر پڑتا ہو ضرر پہنچتا ہو تو لڑکے کو بچانا اور جانور کو ماردینا اس حال میں کہ نماز پڑھ رہا ہے گناہ نہیں ہے اور نماز فاسد نہیں ہوتی، بلکہ بعضوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ گھوڑا کھل گیا ہو تو اُسے باندھ دینا بھی مفسد نماز نہیں ہے.کیونکہ وقت کے اندر نماز تو پھر بھی.پڑھ سکتا ہے.نوٹ: یاد رکھنا چاہیے کہ اشد ضرورتوں کیلئے نازک مواقع پر یہ حکم ہے.یہ نہیں کہ ہر ایک قسم کی رفع حاجت کو مقدم رکھ کر
255 نماز کی پرواہ نہ کی جاوے اور اسے بازیچہ طفلاں بنادیا جاوے ور نہ نماز میں اشغال کی سخت ممانعت ہے اور اللہ تعالیٰ ہر ایک دل اور نیت کو بخوبی جانتا ہے.نماز میں امام ( ملفوظات جلد چہارم ،ص 193 تا 194) ذکر ہوا کہ چکڑالوی کا عقیدہ ہے کہ نماز میں امام آگے نہ کھڑا ہو.بلکہ صف کے اندر ہو کر کھڑا ہو.فرمایا: امام کا لفظ خود ظاہر کرتا ہے کہ وہ آگے کھڑا ہو.یہ عربی لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں وہ شخص جو دوسرے کے آگے کھڑا ہو.معلوم ہوتا ہے کہ چکڑالوی زبان عربی سے بالکل جاہل ہے.ایک مسجد میں دو جمعے ( ملفوظات جلد پنجم ،ص 166) سوال پیش ہوا کہ بعض مساجد اس قسم کی ہیں کہ وہاں احمدی اور غیر احمدی کو اپنی جماعت اپنے امام کے ساتھ الگ الگ کرالینے کا اختیار قانونا یا باہمی مصالحت سے حاصل ہوتا ہے تو ایسی جگہ جمعہ کے واسطے کیا کیا جاوے؟ کیونکہ ایک مسجد میں دو جمعے جائز
256 نہیں ہو سکتے.فرمایا: جو لوگ تم کو کافر کہتے ہیں اور تمہارے پیچھے نماز نہیں پڑھتے وہ تو بہر حال تمہاری اذان اور تمہاری نماز جمعہ کو اذان اور نماز سمجھتے ہی نہیں اس واسطے وہ تو پڑھ ہی لیں گے اور چونکہ وہ مومن کو کافر کہہ کر بموجب حدیث خود کافر ہوچکے ہیں.اس واسطے تمہارے نزدیک بھی ان کی اذان اور نماز کا عدم وجود برابر ہے.تم اپنی اذان کہو اور اپنے امام کے ساتھ اپنا جمعہ ( ملفوظات جلد پنجم : 215) پڑھو.غلطی سے امام سے پہلے سلام پھیر دیا 6 نماز مغرب میں آدمیوں کی کثرت کی وجہ سے پیش امام صاحب کی آواز آخری صفوں تک نہ پہنچ سکنے کے سبب درمیانی صفوں میں سے ایک شخص حسب معمول تکبیر کی با آواز بلند تکرار کرتا جاتا تھا.آخری رکعت میں جب سب التحیات بیٹھے تھے اور دعائے التحیات اور درود شریف پڑھ چکے تھے اور قریب تھا که پیش امام صاحب سلام کہیں مگر ہنوز انہوں نے سلام نہ کہا تھا کہ درمیانی مکتبر کو غلطی لگی اور اس نے سلام کہہ دیا.جس پر آخری صفوں کے نمازیوں نے بھی سلام کہہ دیا اور بعض نے
257 سنتیں بھی شروع کردیں کہ امام صاحب نے سلام کہا اور درمیانی مکتبر نے جو اپنی غلطی پر آگاہ ہو چکا تھا دوبارہ سلام کہا.اس پر ان نمازیوں نے جو پہلے سے سلام کہہ چکے تھے اور نماز سے فارغ ہو چکے تھے مسئلہ دریافت کیا کہ آیا ہماری نماز ہوگئی یا ہم دوبارہ نماز پڑھیں؟ صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب نے جو خود بھی پچھلی صفوں میں تھے اور امام سے پہلے سلام کہہ چکے تھے.فرمایا کہ: یہ مسئلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا جا چکا ہے اور حضرت نے فرمایا کہ: آخری رکعت میں اختیات پڑھنے کے بعد اگر ایسا ہو جائے تو مقتدیوں کی نماز ہوجاتی ہے.دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں، قضاء نماز ( ملفوظات جلد پنجم ،ص214) ایک شخص نے سوال کیا کہ چھ ماہ تک تارک صلوٰۃ تھا.اب میں نے توبہ کی ہے.کیا وہ سب نمازیں اب پڑھوں؟ فرمایا! ”نماز کی قضاء نہیں ہوتی.اب اس کا علاج تو بہ ہی کافی (ملفوظات جلد پنجم ،ص 479) 66 ہے.
258 تعداد رکعات فرمایا: پوچھا گیا کہ نمازوں میں تعداد رکعات کیوں رکھی ہے؟ اس میں اللہ تعالیٰ نے اور اسرار رکھے ہیں.جو شخص نماز پڑھے گا وہ کسی نہ کسی حد پر تو آخر رہے گا ہی.اور اسی طرح ہر ذکر میں بھی ایک حد تو ہوتی ہے لیکن.وہ حد وہی کیفیت اور ذوق و شوق ہوتا ہے جس کا میں نے ذکر کیا ہے.جب وہ پیدا ہو جاتا ہے تو وہ بس کر جاتا ہے.دوسرے یہ بات حال والی ہے قال والی نہیں.جو شخص اس میں پڑتا ہے وہی سمجھ سکتا ہے.اصل غرض ذکر الہی سے یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو فراموش نہ کرے اور اسے اپنے سامنے دیکھتا رہے اس طریق پر وہ گناہوں سے بچارہے گا.تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ ایک تاجر نے ستر ہزار کا سودا لیا اور ستر ہزار کا دیا مگر وہ ایک آن میں بھی خدا سے جدا نہیں ہوا.پس یاد رکھو کہ کامل بندے اللہ تعالیٰ کے وہی ہوتے ہیں جن کی نسبت فرمایا ہے.لا تلهيهم تِجَارَةٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ ( النور : 38)
259 جب دل خدا تعالیٰ کے ساتھ سیا تعلق اور عشق پیدا کر لیتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوتا ہی نہیں.اس کی ایک کیفیت اس طریق پر سمجھ میں آسکتی ہے کہ جیسے کسی کا بچہ بیمار ہو تو خواہ وہ کہیں جاوے ،کسی کام میں مصروف ہو مگر اس کا دل اور دھیان اس بچہ میں رہے گا.اسی طرح پر جو لوگ خدا تعالی کے ساتھ سچا تعلق اور محبت پیدا کرتے ہیں.وہ کسی حال میں بھی خدا تعالی کو فراموش نہیں کرتے.یہی وجہ ہے کہ صوفی کہتے ہیں کہ عام لوگوں کے رونے میں اتنا ثواب نہیں جتنا عارف کے بننے میں ہے.وہ بھی تسبیحات ہی ہوتی ہیں.کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے عشق اور محبت میں رنگین ہوتا ہے.یہی مفہوم اور غرض اسلام کی ہے کہ وہ آستانہ الوہیت پر اپنا سر رکھ دیتا ہے.( ملفوظات جلد چہارم ص 15 تا 16) نماز کے بعد تشبیح ایک صاحب نے پوچھا کہ بعد نماز تسبیح لیکر 33 مرتبہ اکبر وغیرہ جو پڑھا جاتا ہے.اس کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا: " آنحضرت علی کا وعظ حسب مراتب ہوا کرتا تھا اور
260 اسی حفظ مراتب نہ کرنے کی وجہ سے بعض لوگوں کو مشکلات پیش آئی ہیں اور انہوں نے اعتراض کر دیا ہے کہ فلاں دو احادیث میں باہم اختلاف ہے، حالانکہ اختلاف نہیں ہوتا بلکہ وہ تعلیم بلحاظ محل اور موقعہ کے ہوتی تھی.مثلاً ایک شخص آنحضرت مے کے پاس آیا اور اس نے پوچھا کہ نیکی کیا ہے؟ آنحضرت ﷺ کو معلوم ہے کہ اس میں یہ کمزوری ہے کہ ماں باپ کی عزت نہیں کرتا.آپ نے فرمایا کہ نیکی یہ ہے کہ تو ماں باپ کی عزت کر.اب کوئی خوش فہم اس سے یہ نتیجہ نکال لے کہ بس اور تمام نیکیوں کو ترک کردیا جاوے ہی نیکی ہے.ایسا نہیں.اسی طرح تسبیح کے متعلق بات ہے.قرآن شریف میں تو آیا ہے.صلى الله وَاذْكُرُوا الله كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (انفال: 46) اللہ تعالیٰ کا بہت ذکر کرو تا کہ فلاح پاؤ.اب یہ وَاذْكُرُوا الله كَثِيرًا نماز کے بعد ہی ہے تو 33 مرتبہ تو کثیر کے اندر نہیں آتا.پس یاد رکھو کہ 33 مرتبہ والی بات حسب مراتب ہے، ورنہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو بچے ذوق اور لذت سے یاد کرتا ہے اُسے شمار سے کیا کام وہ تو بیرون از شمار یاد کرے گا.ایک عورت کا قصہ مشہور ہے کہ وہ کسی پر عاشق تھی.
261 ☆ اس نے ایک فقیر کو دیکھا کہ وہ تسبیح ہاتھ میں لیے ہوئے پھر رہا ہے.اس عورت نے اُس سے پوچھا کہ تو کیا کر رہا ہے.اس نے کہا کہ میں اپنے یار کو یاد کرتا ہوں.عورت نے کہا کہ یار کو یاد کرنا اور پھر گن گن کر؟...( ملفوظات جلد چہارم ص 14) جب انسان میں اللہ تعالیٰ کی محبت جوش زن ہوتی ہے تو اس کا دل سمندر کی طرح موجیں مارتا ہے.وہ ذکر الہی کرنے میں بے انتہا جوش اپنے اندر پاتا ہے.اور پھر گن کر ذکر کرنا تو کفر سمجھتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ عارف کے دل میں جو بات ہوتی ہے اور جو تعلق اپنے محبوب و مولیٰ سے اُسے ہوتا ہے وہ کبھی روا رکھ سکتا ہی نہیں کہ تسبیح لے کر دانہ شماری کرے.کسی نے کہا ہے مین کا منکا صاف کر.انسان کو چاہیے کہ اپنے دل کو صاف کرے اور خدا تعالیٰ تعلق پیدا کرے.تب وہ کیفیت ہوگی اور ان دانہ شماریوں کو بیچ سمجھے گا.( ملفوظات جلد چہارم ص 15) تہجد کی نماز کا طریق..میرا یہ مذہب ہر گز نہیں کہ آنحضرت ﷺ اٹھ کر فقط قرآن شریف پڑھ لیا کرتے تھے اور بس میں نے ایک دفعہ یہ بیان کیا
262 تھا کہ اگر کوئی شخص بیمار ہو یا کوئی اور ایسی وجہ ہو کہ وہ تہجد کے نوافل ادا نہ کر سکے تو وہ اُٹھ کر استغفار، دُرود شریف اور صلى اللهم الحمد شریف ہی پڑھ لیا کرے.آنحضرت عﷺ ہمیشہ نوافل ادا کرتے.آپ ﷺ کثرت سے گیارہ رکعت پڑھتے.آٹھ نفل اور تین وتر.آپ ﷺ بھی ایک ہی وقت میں ان کو پڑھ لیتے اور کبھی اس طرح سے ادا کرتے کہ دورکعت پڑھ لیتے اور پھر سو جاتے اور پھر اُٹھتے اور دورکعت پڑھ لیتے اور سوجاتے.غرض سو کر اور اُٹھ کر نوافل اُسی طرح ادا کرتے جیسا کہ اب تعامل ہے اور جس کو اب چودھویں صدی گزر رہی ہے.تہجد کی تاکید به ( ملفوظات جلد سوم ،ص 461) تہجد میں خاص کر اُٹھو اور ذوق اور شوق سے ادا کرو.درمیانی نمازوں میں یہ باعث ملازمت کے ابتلا آجاتا ہے رزاق اللہ تعالیٰ ہے.نماز اپنے وقت پر ادا کرنی چاہیے ظہر اور عصر کبھی بھی جمع ہو سکتی ہے.اللہ تعالی جانتا تھا کہ ضعیف لوگ ہوں گے، اس لیے یہ گنجائش رکھ دی، مگر یہ گنجائش تین کے جمع
263 کرنے میں نہیں ہوسکتی.( ملفوظات جلد اوّل ،ص 4) حضرت اقدس نے.....جماعت کو بڑی تاکید کی کہ تیاری کرو.....نمازوں میں عاجزی کرو.تہجد کی عادت ڈالو.تہجد میں رو رو کر دعائیں مانگو کہ خدا تعالیٰ گڑ گڑانے والوں اور تقویٰ اختیار کرنے والوں کو ضائع نہیں کرتا.ہمارے مبارک امام علیہ السلام بھی بار بار یہی وصیت فرماتے ہیں کہ جماعت متقی بن جاوے اور نمازوں میں خشوع و خضوع کی عادت کریں.اور ایک روز بڑے درد سے فرمایا کہ اصلاح و تقویٰ پیدا کریں.ایسا نہ ہو تم میری راہ میں روک بن جاؤ.( ملفوظات جلد اوّل، ص 153) نماز کے آخر میں السلام علیکم کہنے کی حکمت بعض صوفیوں نے لکھا ہے کہ صحابہ جب نمازیں پڑھا کرتے تھے تو انھیں ایسی محویت ہوتی تھی کہ جب فارغ ہوتے تو ایک دوسرے کو پہچان بھی نہ سکتے تھے.جب انسان کسی اور جگہ سے آتا ہے تو شریعت نے حکم دیا ہے کہ وہ آکر السلام علیکم کہے.نماز سے فارغ ہوتے السلام علیکم ورحمتہ اللہ کے کہنے کی حقیقت یہی
264 ہے کہ جب ایک شخص نے نماز کا عقد باندھا اور اللہ اکبر کہا تو وہ گویا اس عالم سے نکل گیا اور ایک نئے جہان میں جا داخل ہوا.گویا ایک مقام محویت میں جا پہنچا.(تفسیر سورۃ البقرۃ ص 57) نماز تراویح اکمل صاحب آف گولیکی نے بذریعہ تحریر حضرت سے دریافت کیا کہ رمضان شریف میں رات کو اُٹھنے اور نماز پڑھنے کی تاکید ہے.لیکن عموماً محنتی مزدور زمیندار لوگ جو ایسے اعمال بجالانے میں غفلت دکھاتے ہیں اگر اول شب میں ان کو گیارہ رکعت تراویح بجائے آخر شب کے پڑھا دی جاویں تو کیا یہ جائز ہوگا ؟ حضرت اقدس علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: کچھ ہرج نہیں پڑھ لیں ( ملفوظات جلد پنجم ص 62) ایک شخص نے سوال کیا ماہ رمضان میں نماز تراویح آٹھ رکعت با جماعت قبل خفتن مسجد میں پڑھنی چاہیے یا کہ پچھلی رات کو اُٹھ کر اکیلے گھر میں پڑھنی چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: نماز تراویح کوئی جدا نماز نہیں.دراصل نماز تہجد کی آٹھ رکعت کو اول وقت پڑھنے کا نام تراویح ہے اور یہ ہر
265 صلى الله دو صورتیں جائز ہیں جو سوال میں بیان کی گئی ہیں آنحضرت مے نے ہر دو طرح پڑھی ہیں لیکن اکثر عمل آنحضرت ﷺ کا اس پر تھا کہ آپ پچھلی رات کو گھر میں اکیلے یہ نماز پڑھتے تھے امام الصلوۃ کے لیے ہدایت ( ملفوظات جلد پنجم ، ص 369) کسی شخص نے ذکر کیا کہ فلاں دوست نماز پڑھانے کے وقت بہت لمبی سورتیں پڑھتے ہیں.فرمایا: امام کو چاہیے کہ نماز میں ضعفاء کی رعایت رکھئے ( ملفوظات جلد چہارم ،ص 264) قیام کی حالت میں حسنات دارین کی دُعا دارلامان قادیان سے بذریعہ پوسٹ کارڈ اطلاع ملی ہے کہ ہماری جماعت ہر نماز کی آخری رکعت میں بعد رکوع مندرجہ ذیل دُعا بکثرت پڑھے.رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِى الْآخِرَةِ حَسَنَةٌ وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرة : 202) ( ملفوظات جلد اوّل ، ص 6)
266 بہترین دعا بہترین دعا وہ ہوتی ہے جو جامع ہو تمام خیروں کی اور مانع ہو تمام مضرات کی اس لیے انعَمتَ عَلَيْهِمْ کی دُعا میں آدم صلى الله سے لیکر آنحضرت ﷺ تک کے کل منعم علیھم لوگوں کے انعامات کے حصول کی دُعا ہے.اور غَيْرِ المَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّين میں ہر قسم کی مضرتوں سے بچنے کی دُعا ہے.چونکہ مغضوب سے مراد یہود اور ضالین سے مُراد نصاری بالا تفاق ہیں تو اس دُعا کی تعلیم کا منشا صاف ہے کہ یہود نے جیسے بے جا عداوت کی تھی.مسیح موعود کے زمانہ میں مولوی لوگ بھی ویسا ہی کریں گے.اور حدیثیں اس کی تائید کرتی ہیں یہاں تک کہ وہ یہودیوں کے قدم بقدم چلیں گے.مساجد کی اصل زینت دہلی کی جامع مسجد کو دیکھ کر فرمایا کہ: ( ملفوظات جلد سوم ص 309) مسجدوں کی اصل زینت عمارتوں کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ان نمازیوں کے ساتھ ہے جو اخلاص کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں.ورنہ یہ سب مساجد ویران پڑی ہوئی ہیں.رسول کریم
267 صلى الله صلى الله کی مسجد چھوٹی سی تھی کھجور کی چھڑیوں سے اس کی چھت بنائی تھی اور بارش کے وقت چھت میں سے پانی لپکتا تھا.مسجد کی رونق نمازیوں کے ساتھ ہے.آنحضرت ﷺ کے وقت میں دنیا داروں نے ایک مسجد بنوائی تھی.وہ خدا تعالیٰ کے حکم سے گرادی گئی.اس مسجد کا نام مسجد ضرار تھا.یعنی ضرر رساں.اس مسجد کی زمین خاک کے ساتھ ملا دی گئی تھی.مسجدوں کے واسطے حکم یہ ہے کہ تقویٰ کے واسطے بنائی جائیں.“ ( ملفوظات جلد چہارم ص 491) حضرت مفتی محمد صادق صاحب فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعود نماز میں آمین بالجہر نہ کرتے تھے لیکن کرنے والوں کو روکتے بھی نہ تھے.رفع یدین نہ کرتے تھے لیکن کرنے والوں کو روکتے نہ تھے.بسم اللہ بالجبر نہ پڑھتے تھے لیکن پڑھنے والوں کو روکتے بھی نہ تھے.ہاتھ سینے پر باندھتے تھے لیکن نیچے باندھنے والوں کو نہ روکتے تھے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم جو سالہا سال تک آپ کی نماز میں پیش امام رہے اور جن کو خدا کی پاک وحی میں لیڈر کا خطاب ملا تھا ہمیشہ بسم اللہ اور آمین بالجہر کرتے اور فجر و مغرب اور عشاء میں بالجبر قنوت پڑھتے اور گاہے گاہے رفع یدین کرتے تھے.حضرت مسیح موعود کی ( بیت الذکر ) میں ان امور کو موجب اختلاف نہ گردانا جاتا تھا.جو احباب کرتے تھے اُن کو کوئی روکتا نہ تھا جو نہ کرتے تھے اُن سے کوئی اصرار نہ کرتا تھا کہ ایسا ضرور کرو.(الفضل، 3 جنوری 1931ء)
268 حضرت خلیفہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر و العزیز فرماتے ہیں: ایک اور اہم بات اور یہ بھی میرے نزدیک انتہائی اہم باتوں میں سے ایک ہے بلکہ سب سے اہم بات ہے کہ بچوں کو پانچ وقت نمازوں کی عادت ڈالیں کیونکہ جس دین میں عبادت نہیں وہ دین نہیں.اس کی عادت بچوں کو ڈالنی چاہئے اور اس کے لیے سب سے بڑا والدین کا اپنا نمونہ ہے.اگر وہ خود نمازی ہوں گے تو بچے بھی نمازی بنیں سے نہیں تو صرف ان کی کھوکھلی نصیحتوں کا بچوں پر کوئی اثر نہیں ہوگا.الفضل انٹرنیشنل 22 اگست 2003ء)
269 نماز منکر حمتیں انساں کو اور برکتیں ہمراہ بلبل نماز نماز ابتدا آدمی کو مال انتا تک ہے سراسر حق تعالی ملاقی نماز ذکر شکر اللہ کا ہے.مومن کا ہے معراج وقته وصل کے ساغر پلاتی ہے نماز ہے توجه تضرع اور تبل شوع رنگ کیا کیا کیا حق چڑھاتی ہے نماز یا کبازی اور طہارت وقت کی پابندیاں قدر دانوں کو سبق ایسے پڑھاتی ہے نماز زندگی ہے نخل ایماں کی یہی حیات ہے، ضائع اگر کوئی بھی جاتی نماز خدا عطا کر اور ہماری نسل کو اور جو جو بھی لاتی ہے نماز
270 حضرت مسیح موعود نے اپنا اور اپنی جماعت کا شناختی نشان نماز کو قرار دیا ہے..( ظهور آمد موعود،ص55) دعائے ابراہیم ترجمہ: اے میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری نسلوں کو بھی.اے ہمارے رب! اور میری دعا قبول کر.( سورۃ ابراہیم، آیت 41)
271 نام کتاب الصلوة مخ العبادة شماره تعداد 92 اول 1000
نماز منکر و فیھا سے انساں کو بچاتی ہے نماز رحمتیں اور برکتیں ہمراہ لاتی ہے نماز ابتدا سے انتہا تک ہے سراسر یہ دعا آدمی کو حق تعالی سے ملاقی ہے نماز ذکر و شکر اللہ کا ہے.مومن کا معراج یہ ہے پنج وقته وصل کے ساغر پلاتی ہے نماز ہے توجہ اور تضرع اور شکل اور خشوع رنگ کیا کیا طالب حق پر چڑھاتی ہے نماز پاکبازی اور طہارت وقت کی پابندیاں قدر دانوں کو سبق ایسے پڑھاتی ہے نماز زندگی ہے.محل ایماں کی یہی آب حیات موت ہے ، ضائع اگر کوئی بھی جاتی ہے نماز اے خدا ہم کو عطا کر اور ہماری نسل کو نعمتیں اور بخششیں جو جو بھی لاتی ہے نماز