Language: UR
اسلام کے بنیادی رکن نماز اور اس اہم عبادت سے متعلقہ عناوین پر تعلیم و تربیت میں ممد اس زیر نظر کتاب میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اور خلفائے احمدیت کے ارشادات و فرمودات کی روشنی میں قیمتی مواد جمع کیا گیا ہے۔ نیز فقہ احمدیہ اور حضرت ملک سیف الرحمٰن صاحب کی کتاب نماز سے بھی مواد اخذ کیا گیا ہے۔
نماز اور اس کے آداب
صرف احمدی احباب کی تعلیم و تربیت کے لئے نماز اور س کے آداب
نام کتاب نماز مرتب عبدالحمید غنی
بسم اللہ الرحمن الرحیم عرض حال اس کتاب کا تقریباً سارا مواد تفسیر سورة البقرة جلد اوّل از حضرت مصلح موعودنو راللہ مرقدہ سے لیا گیا ہے.کچھ حصہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ کے ارشادات اور خلفاء ر مشتمل د پر ہے.نیز فقہ احمدیہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے فرمودات ! حصّہ دوم اور نما ز مرتبہ ملک سیف الرحمن صاحب مرحوم مفتی سلسله احمد سے بھی استفادہ کیا گیا ہے.اُمید ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ کتاب احباب جماعت احمدیہ کی تربیت اور تعلیم میں ممد اور معاون ثابت ہوگی.المرتب
نمبر شمار 1 فرضیت نماز 2 اہمیت نماز 3 فضائل نماز بسم الله الرحمن الرحيم 4 | برکات نماز کا حصول 5 نماز سنوار کر پڑھو 7 قیام نماز کا قرآنی حکم حفاظت نماز ایمان کی جڑ نماز ہے انڈیکس مضامین جو نماز کا مضیع ہے اس کا کوئی کام دنیا میں ٹھیک نہیں 10 بچوں کو نماز کی عادت نہ ڈالنے والے ان کے خونی اور قاتل ہیں 11 انسان کی پیدائش کا مقصد عبادت الہی 12 | نماز کا ترجمہ جاننا 13 باجماعت نمازوں کی ادائیگی صفحہ 1 3 50 6 7 8 9 10 11 12 14 15 16
مضامین صفحہ 17 19 19 20 21 24 25 25 26 26 26 27 28 29 29 29 222 30 32 مر شمار 14 نماز کی شرائط 15 | اوقات ممنوعه 16 طہارت 17 طريق وضو 18 وضو کے بعد کی دعا 19 | نواقص وضو 20 | غسل جنابت 21 تیم 22 طریق تیم 23 استر 24 قبلہ 25 | نیت 26 طریق نماز 27 | ثناء 28 | تعوذ 29 30 سورۃ فاتحہ 31 رکوع
نمبر شمار مضامین صفحہ 32 سجده 33 تشهد 33 35 33 36 37 42 42 43 44 45 48 48 50 51 53 53 54 55 57 58 34 درود 35 چند دعا میں 36 نماز کی اقسام اور رکعت کی تعداد 37 فرض نماز ، واجب نماز 38 سنت نماز نفل نماز 39 نماز تہجد 40 | نماز وتر 41 نماز با جماعت 42 نماز با جماعت کا طریق 43 نماز با جماعت کی برکات 44 | مدارج نماز 45 سجدہ سہو 46 | نماز جمعہ 47 | نماز جمعہ کا طریق 48 | خطبہ ثانیہ کے مسنون الفاظ 49 نماز عیدین 50 نماز کے بعد کی دعائیں
نمبر شمار مضامین صفح 51 اذان 52 اذان کہنے کا طریق 53 اقامت 54 نمازیں جمع کرنا 55 نماز تراویح 56 طریق نماز تراویح 57 | نماز جنازہ 58 بالغ مرد اور عورت کے جنازہ کی دعا 59 نابالغ لڑکے کے جنازہ کی دعا 60 نابالغ لڑکی کے جنازہ کی دعا 61 نماز استسفاء 62 نماز استخارہ نماز استخارہ کا طریق ارشاد سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ 64 نماز کسوف و خسوف ، طریق نماز کسوف و خسوف 65 صلاة الحاجة 66 نماز اشراق (چاشت کی نماز ) 67 نماز تسبیح ، طریق نماز تسبیح 61 63 66 67 67 68 68 69 70 70 71 72 74 75 76 77 78
مضامین صفحہ 79 80 82 82 83 84 85 87 91 92 92 مرشمار 68 خطبہ نکاح 69 چند ضروری دعائیں 70 آداب مسجد 71 مسجد میں داخل ہونے اور نکلنے کی دعا 72 | تسبیح و تحمید اور درود شریف 73 نماز میں کی جانے والی ایک دعا 74 سجدہ تلاوت 75 چند سورتیں 76 ارشادات حضرت بانی سلسلہ احمدیہ 77 كتب و تفاسیر جن سے استفادہ کیا گیا
1 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ فرضیت نماز مسلمانوں کے لیے نماز ایک بنیادی عبادت ہے اور پانچ ارکانِ اسلام میں سے ہے جو سب مسلمانوں پر فرض ہے اور کبھی ساقط نہیں ہوتی.نماز کے احکام کا ہمیں قرآن کریم ، آنحضرت ﷺ کی سنت اور احادیث سے پتہ چلتا ہے.نماز کے متعلق بعض قرآنی احکام حسب ذیل ہیں :.وَاَقِيْمُوا الصَّلوةَ وَاتُوا الزَّكَوةَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (سورۃ نور: ۵۷) اور تم سب نمازوں کو قائم کرو اور زکوۃ دو اور اس رسول کی اطاعت کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے.إِنَّ الصَّلوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتباً موقوتان ( سورة النساء:۱۰۴) نماز مومنوں پر یقینا ایک موقت ( وقت پر ادا کئے جانا ) فرض ہے.
2 اَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِى میرے ذکر کے لیے نماز قائم کرو.(سورة طه (۱۵) اسی طرح فضیلت نماز کے متعلق احادیث میں آیا ہے.اَلصَّلَوةُ عِمَادُ الدِّينِ (حدیث نبوی) نماز دین کا ستون ہے.الصَّلَوةُ مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنِ.(حدیث نبوی) نماز مومن کا معراج ہے.قُرَّةُ عَيْنِى فِي الصَّلوة ( حدیث نبوی) میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں ہے.
3 اہمیت نماز " نماز ارکان اسلام میں سے دوسرا رکن ہے.جس کا بر وقت ادا کیا جانا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے.سید نا حضرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو دین کا ستون قرار دیا ہے.حقیقی نماز ہی کے ذریعے سے انسان روحانیت کے اعلیٰ مدارج تک پہنچ سکتا ہے.اور انسانیت کی اعلیٰ رفعتوں کو چھو سکتا ہے.صلوۃ کے لغوی معنی دعا ، رحم ، دین، شریعت، استغفار تعظیم ، برکت ، اور مسلمانوں کی اصلاحی عبادت کے ہیں.جس کے نتیجہ میں لازماً بدی سے نفرت اور بے حیائی سے کراہت پیدا ہوتی ہے.نیز نماز روحانی ترقیات اور اعلیٰ اخلاق حاصل کرنے کا زینہ اور منبع ہے اور تمام برائیوں سے بچنے کا قلعہ ہے.“ نماز انسان کا تعویذ ہے پانچ وقت دعا کا موقع ملتا ہے.کوئی دعا تو سنی جائیگی.اس لئے نماز کو بہت سنوار کر پڑھنا چاہئے اور مجھے یہی بہت عزیز ہے“ ( ملفوظات جلد ا صفحه ۳۹۶) حدیث شریف میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک قوم اسلام لائی اور عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز معاف فرما دی جاوے کیونکہ ہم کاروباری آدمی ہیں.مویشیوں وغیرہ کے سبب سے کپڑوں کا کوئی اعتماد نہیں ہوتا اور نہ ہمیں فرصت ہوتی ہے تو آپ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ دیکھو جب نماز نہیں تو ہے ہی کیا؟ وہ دین ہی نہیں جس میں نماز نہیں.( ملفوظات جلد نمبر ۳ صفحه ۱۸۸)
4 ۲.حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ فرماتے ہیں: ”جو شخص پنجگانہ نماز کا التزام نہیں کرتا.وہ میری جماعت میں سے کشتی نوح صفحه ۲۸ نہیں ہے.“ ایک اور جگہ فرماتے ہیں: نماز سے بڑھ کر اور کوئی وظیفہ نہیں ہے کیونکہ اس میں حمد الہی ہے.استغفار ہے اور درود شریف.تمام وظائف اور اور اد کا مجموعہ یہی نماز ہے اور اس سے ہر قسم کے غم و ہم دور ہوتے ہیں اور مشکلات حل ہوتی ہیں....نماز ہی کو سنوار سنوار کر پڑھنا چاہئے اور سمجھ سمجھ کر پڑھو اور مسنون ( سنت نبوی کے مطابق ناقل ) دعاؤں کے بعد اپنے لیے اپنی زبان میں بھی دعائیں کرو.اس سے تمہیں اطمینان قلب حاصل ہوگا اور سب مشکلات خدا تعالیٰ چاہے گا تو اسی سے حل ہو جائیں گی.نماز یا دالہی کا ذریعہ ہے اس لیے فرمایا ہے: أَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرَى (۱۵) ( ملفوظات جلد نمبر ۳ صفحه ۳۱۰،۳۱۱) اگر انسان نے کسی خاص منزل پر پہنچنا ہے تو اس کے واسطے چلنے کی ضرورت ہوتی ہے جتنی لمبی وہ منزل ہوگی اتناہی زیادہ تیزی ، کوشش اور محنت اور دیر تک اسے چلنا ہوگا سو خدا تعالیٰ تک پہنچنا بھی تو ایک منزل ہے اور اس کا بعد اور دوری بھی لمبی.پس جو شخص خدا تعالیٰ سے ملنا چاہتا ہے اور اس کے دربار میں پہنچنے کی خواہش رکھتا ہے اس کے واسطے نماز ایک گاڑی ہے جس پر سوار ہو کر وہ جلد تر پہنچ سکتا ہے جس نے نماز ترک کر دی وہ کیا پہنچے گا.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحه ۱۸۹)
5 ارشادات عالیه حضرت بانی سلسله احمدیه فضائل نماز نماز خدا کا حق ہے اسے خوب ادا کرو اور خدا کے دشمن سے مداہنہ کی زندگی نہ برتو.وفا اور صدق کا خیال رکھو.اگر سارا گھر غارت ہوتا ہوتو ہونے دو مگر نماز کو ترک مت کرو.وہ کافر اور منافق ہیں جو کہ نماز کو منحوس کہتے ہیں اور کہا کرتے ہیں کہ نماز کے شروع کرنے سے ہمارا فلاں فلاں نقصان ہوا ہے.نماز ہر گز خدا کے غضب کا ذریعہ نہیں ہے.جو اسے منحوس کہتے ہیں ان کے اندر خودزہر ہے جیسے بیمار کو شیرینی کڑوی لگتی ہے ویسے ہی ان کو نماز کا مزا نہیں آتا.یہ دین کو درست کرتی ہے.اخلاق کو درست کرتی ہے.دنیا کو درست کرتی ہے.نماز کا مزا دنیا کے ہر ایک مزے پر غالب ہے.لذات جسمانی کے لئے ہزاروں خرچ ہوتے ہیں اور پھر ان کا نتیجہ بیماریاں ہوتی ہیں اور یہ مفت کا بہشت ہے جو ا سے ملتا ہے.قرآن شریف میں دو جنتوں کا ذکر ہے ایک ان میں سے دنیا کی جنت ہے اور وہ نماز کی لذت ہے.66 ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 592-591)
6 برکات نماز کا حصول اس میں شک نہیں کہ نماز میں برکات ہیں مگر وہ برکات ہر ایک کو نہیں مل سکتے نماز بھی وہی پڑھتا ہے.جس کو خدا تعالی نماز پڑھاوے ورنہ وہ نماز نہیں نرا پوست ہے جو پڑھنے والے کے ہاتھ میں ہے.اس کو مغز سے کچھ واسطہ اور تعلق ہی نہیں اسی طرح کلمہ بھی وہی پڑھتا ہے.جس کو خدا تعالیٰ کلمہ پڑھوائے.جب تک نماز اور کلمہ پڑھنے میں آسمانی چشمہ سے گھونٹ نہ ملے تو کیا فائدہ؟ وہ نماز جس میں حلاوت اور ذوق ہو اور خالق سے سچا تعلق قائم ہو کر پوری نیاز مندی اور خشوع کا نمونہ ہواس ہوکہ کے ساتھ ہی ایک تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے.جس کو پڑھنے والا فوراً محسوس کر لیتا ہے کہ اب وہ وہ نہیں رہا جو چند سال پہلے تھا.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 597)
7 نماز سنوار کر پڑھو ”نماز ایسے ادا نہ کرو جیسے مرغی دانے کے لئے ٹھونگ مارتی ہے بلکہ سوز و گداز سے ادا کرو اور دعائیں بہت کیا کرو.نماز مشکلات کی کنجی ہے.ماثورہ دعاؤں اور کلمات کے سوا اپنی مادری زبان میں بھی بہت دعا کیا کروتا اس سے سوز و گداز کی تحریک ہو اور جب تک سوز و گداز نہ ہوا سے ترک مت کرو کیونکہ اس سے تزکیہ نفس ہوتا ہے اور سب کچھ ملتا ہے.چاہئے کہ نماز کی جس قدر جسمانی صورتیں ہیں ان سب کے ساتھ دل بھی ویسے ہی تابع ہو.اگر جسمانی طور پر کھڑے ہو تو دل بھی خدا کی اطاعت کے لئے ویسے ہی کھڑا ہو.اگر جھکو تو دل بھی ویسے ہی جھکے.اگر سجدہ کرو تو دل بھی ویسے ہی سجدہ کرے.دل کا سجدہ یہ ہے کہ کسی حال میں خدا کو نہ چھوڑے جب یہ حالت ہوگی تو گناہ دور ہونے شروع ہو جاویں گے.معرفت بھی ایک شئے ہے جو کہ گناہ سے انسان کو روکتی ہے.جیسے جو شخص سم الفار ، سانپ اور شیر کو ہلاک کرنے والا جانتا ہے تو وہ ان کے نزدیک نہیں جاتا.ایسے جب تم کو معرفت ہوگی تو تم گناہ کے نزدیک نہ پھٹکو گے.اس کے لئے ضروری ہے کہ یقین بڑھاؤ اور وہ دعا سے بڑھے گا اور نماز خود دعا ہے نماز کو جس قدر سنوار کر ادا کرو گے اسی قدر گنا ہوں سے رہائی پاتے جاؤ گے.“ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 590-589)
8 قیام نماز کا قرآنی حکم وَاَقِمِ الصَّلوةَ إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَر ( سورة العنكبوت: 46 ) ترجمه اور نماز کو (اس کی سب شرائط کے ساتھ ) اوا کر یقیناً نماز سب بُری اور نا پسندیدہ باتوں سے روکتی ہے.
9 حفاظت نماز حضرت خلیفہ امسح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ”جو لوگ بندوں کا حق مارتے ہیں اور ظلم اور تعدی کے مرتکب ہوتے ہیں وہ نماز کی حقیقت سے ناواقف ہیں.انہوں نے نماز کو دکھاوے، تکبیر اور محض نمائش اور نفس کی بڑائی کا ذریعہ بنالیا ہوتا ہے.ایسے نماز پڑھنے والوں کے لئے قرآن کریم نے ہلاکت کی خبر دی ہے کیونکہ وہ نماز بھی پڑھتے ہیں اور بنی نوع انسان کے حقوق ادا نہیں کرتے.چھوٹی چھوٹی باتوں میں غریبوں کو تنگ کرتے ہیں.ہمسایہ بھوکا ہے تو اس کی پروا نہیں کرتے.بندوں کے حقوق ادا کئے بغیر نماز بے کار اور بے فائدہ ہو جاتی ہے.اس پہلو سے جماعت احمدیہ کو اپنی نمازوں کی بہت زیادہ حفاظت کرنی چاہئیے.قرآن کریم نے نماز کی حفاظت کے سلسلہ میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایک بڑی پیاری دعا کا ذکر فرمایا ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کو نماز اور زکوۃ کی تاکید فرمایا کرتے تھے.نمازوں کے بالالتزام ادا کئے بغیر ہم دنیا کی اصلاح نہیں کر سکتے.اس لئے ذیلی تنظیمیں گھر گھر جا کر لوگوں کو نماز کی طرف توجہ دلائیں.وہ گھروں کے دروازے کھٹکھٹائیں اور نمازوں کے لئے بیوت الذکر میں آنے کی تلقین کریں.خطبہ جمعہ 19 نومبر 1982ء)
10 ایمان کی جڑ نماز ہے جس طرح بہت دھوپ کے ساتھ آسمان پر بادل جمع ہو جاتے ہیں اور بارش کا وقت آجاتا ہے.ایسا ہی انسان کی دعائیں ایک حرارت ایمانی پیدا کرتی ہیں اور پھر کام بن جاتا ہے.نماز وہ ہے جس میں سوزش اور گدازش کے ساتھ اور آداب کے ساتھ انسان خدا کے حضور میں کھڑا ہوتا ہے.جب انسان بندہ ہو کر لا پرواہی کرتا ہے تو خدا کی ذات بھی غنی ہے.ہر ایک امت اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک اس میں توجہ الی اللہ قائم رہتی ہے.ایمان کی جڑ بھی نماز ہے.بعض بیوقوف کہتے ہیں کہ خدا کو ہماری نمازوں کی کیا حاجت ہے.اے نادانو ! خدا کو حاجت نہیں مگر تم کو تو حاجت ہے کہ خدا تعالیٰ تمہاری طرف توجہ کرے.خدا کی توجہ سے بگڑے ہوئے کام سب درست ہو جاتے ہیں.نماز ہزاروں خطاؤں کو دور کر دیتی ہے اور ذریعہ حصول قرب الہی ہے.روزہ اور نما ز ہر دو عبادتیں ہیں.روزے کا زور جسم پر ہے اور نماز کا زور روح پر ہے.نماز سے ایک سوز و گداز پیدا ہوتا ہے.اس واسطے وہ افضل ہے.روزے سے کشوف پیدا ہوتے ہیں مگر یہ کیفیت بعض دفعہ جو گیوں میں بھی پیدا ہوسکتی ہے لیکن روحانی گدازش جو دعاؤں سے 66 پیدا ہوتی ہے اس میں کوئی شامل نہیں.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 292-293)
11 ارشاد حضرت خلیفة المسيح الاول جو نماز کا مضبع ہے اس کا کوئی کام دنیا میں ٹھیک نہیں میں تمھیں مختصر نصیحت کرتا ہوں بعض لوگ ہیں جو نماز میں کسل کرتے ہیں اور یہ کئی قسم کی ہے.ا.وقت پر نہیں پہنچتے.۲.جماعت کے ساتھ نہیں پڑھتے.۳.سنن اور واجب کا خیال نہیں کرتے.کان کھول کر سنو جو نماز کا مضیح ہے اس کا کوئی کام دنیا میں ٹھیک نہیں.“ ( خطبات نور جلد دوم صفحه ۹۷-۹۸)
12 ارشاد حضرت خلیفة المسیح الثاني نورالله مرقده بچوں کو نماز با جماعت کی عادت نہ ڈالنے والے ان کے خونی اور قاتل ہیں ” بڑا آدمی اگر خود نماز با جماعت نہیں پڑھتا تو وہ منافق ہے مگر وہ لوگ جو اپنے بچوں کو نماز با جماعت ادا کرنے کی عادت نہیں ڈالتے وہ ان کے خونی اور قاتل ہیں اگر ماں باپ بچوں کو نماز با جماعت کی عادت ڈالیں تو کبھی اُن پر ایسا وقت نہیں آ سکتا کہ یہ کہا جا سکے کہ ان کی اصلاح ناممکن ہے اور وہ قابل علاج نہیں ہے...نماز کو سنوار کر پڑھنے والا اور اُن شرائط کوملحوظ رکھنے والا جو اللہ تعالیٰ نے ادائے نماز کے لئے مقرر فرمائی ہیں اپنے اندر فوراً ایک تبدیلی پاتا ہے اور زیادہ دن نہیں گزرتے کہ اس کے اندر ایک خاص ملکہ پیدا ہو جاتا ہے جس سے اُسے بدیوں کی شناخت ہو جاتی ہے اور پوشیدہ در پوشیدہ بدیوں پر اُسے اطلاع دی جاتی ہے اور مخفی در مخفی گناہوں کا علم جو دوسروں کو نہیں ہوتا اُسے دیا جاتا ہے اور ملائکہ اسے ہر موقعہ پر ہوشیار کر دیتے ہیں کہ دیکھنا یہ گناہ ہے ہوشیار ہو جانا اور اُسے شیطان کے مقابلہ کی مقدرت عطا ہوتی ہے کیونکہ نمازی اللہ تعالے کی تسبیح وتحمید کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کسی کا احسان نہیں رکھتا بلکہ اپنے بندہ کو اس کے اعمال کا اعلیٰ
13 سے اعلیٰ بدلہ دیتا ہے.جب نماز میں کمال تذلل اور خشوع اور خضوع کے ساتھ انسان خدا تعالیٰ کے حضور میں گر جاتا ہے اور وہ تمام تذلیل کے طریق جن کو کسی ملک کے باشندوں نے اظہار عبودیت کے لئے تجویز کیا ہے استعمال کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اٹھاتا ہے اور جس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتا ہے خداتعالی ملائکہ کو فرماتا ہے کہ دیکھو میرے اس بندہ نے میری پاکیزگی کا اقرار کیا ہے تم اسے پاک کر دو اور اس نے میری حمد کی ہے تم اس کی حمد کو دنیا میں پھیلا ؤ اور اُس نے میرے حضور میں کمال تذلل اور انکسار کا اظہار کیا ہے تم اس کو عزت و رفعت دو.“ ( تفسیر کبیر جلد هفتم صفحه ۶۵۳٬۲۵۶ تفسیر سورۃ العنکبوت آیت نمبر ۴۲)
14 ارشاد حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمه الله انسان کی پیدائش کا مقصد عبادت الہی جس ( نماز.ناقل ) کے متعلق یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر کوئی شرعی عذر نہ ہو تو پانچ وقت مسجد میں اکٹھے ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور نماز ادا کی جائے.اور خدا تعالیٰ کا ذکر کیا جائے کیونکہ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون ) کی رُو سے اللہ تعالیٰ نے اپنا عبد بننے کے لئے انسان کو پیدا کیا ہے پس جب خدا تعالیٰ نے انسان کو عبد بننے کے لئے پیدا کیا ہے اور انسان کو پیدا کرنے کا یہی بنیادی مقصد ہے تو انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا عبد بنے.“ خطبه جمعه یکم دسمبر ۱۹۷۱ء الفضل ۱۴ جنوری ۱۹۷۹ء)
15 سیدنا حضرت مرزا طاهر احمد امام جماعت احمدیه رحمه الله تعالی فرماتے هیں نماز کا ترجمہ جاننا ضروری ہے صرف نماز پڑھنا کافی نہیں نماز ترجمے کے ساتھ پڑھنا بہت ضروری ہے اور نماز کا ترجمہ ہر احمدی کو آنا چاہئیے خواہ وہ بچہ ہو جو ان ہو یا بوڑھا ، مرد ہو یا عورت ہر شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ نماز کا ترجمہ جانتا ہو اور اس حد تک یہ ترجمہ رواں ہو جب کہ وہ نماز پڑھے تو سمجھ کر نماز پڑھے.(خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۸۹ء)
16 فرمان سیدنا حضرت خليفة المسيح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے هیں با جماعت نمازوں کی ادائیگی تمہاری فلاں اور ترقی خدا کے ساتھ تعلق میں ہے اور اس کا بہترین ذریعہ وقت پر نمازوں کی ادائیگی اور باجماعت نمازوں کی ادائیگی ہے.اگر آپ میں سے ہر ایک نیکی کو قائم کرنے والا اور برائی کو ر ڈ کرنے والا اور نمازوں کو قائم کرنے والا بن جائے تو سمجھ لیں کہ آپ کامیاب ہو گئے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفہ امسیح الرابع کی ایک خواہش کے حوالہ سے فرمایا کہ اے جانے والے ہم تیری خواہش کو ضرور پورا کریں گے اور ہر گھر میں نمازیں پیدا کریں گے اور انشاء اللہ تیری خواہش کے مطابق ہر گھر نمازیوں سے بھر جائے گا.انشاء اللہ (الفضل ۳۰ را گست ۲۰۰۳ء)
17 نماز کی شرائط وہ امور جو نماز کی ادائیگی سے پہلے کئے جانے ضروری ہیں ان کو شرائط نماز کہا جاتا ہے اور وہ پانچ ہیں.ا.وقت ۲.طہارت ۳.ستر یعنی پردہ پوشی ۴.قبلہ رو ہونا ۵.نیت وقت پانچ مقررہ اوقات میں نماز کا ادا کیا جانا فرض ہے.فجر :.اس نماز کا وقت پر پھوٹنے سے لے کر سورج نکلنے کے وقت تک ہے یعنی سورج نکلنے سے معا پہلے اس نماز کا وقت ختم ہو جاتا ہے.اس نماز کی دورکعت فرض ہوتی ہیں.۲.ظہر :.اس نماز کا وقت سورج ڈھلنے سے شروع ہوتا ہے اور اس وقت تک رہتا ہے جب تک کہ ہر چیز کا سایہ ایک مثل یعنی اس چیز کے برابر ہو جائے معتدل علاقوں میں ظہر کا وقت سورج ڈھلنے کے بعد تین گھنٹے تک کے قریب بنتا ہے.اس کی چار رکعت فرض ہوتی ہیں..عصر :.اس نماز کا وقت دو مثل ( یعنی ہر چیز کا سایہ دوگنا ہونے) سے لے کر سورج ڈوبنے سے کچھ پہلے تک رہتا ہے.اس کی چار رکعت فرض ہیں.معتدل علاقوں میں اس کا کل وقت دو، اڑھائی گھنٹے کے قریب بنتا ہے..مغرب :.اس نماز کا وقت سورج ڈوبنے سے لے کر شفق یعنی سرخی کے غائب ہونے تک رہتا ہے.معتدل علاقوں میں اس کا وقت غروب آفتاب کے بعد ڈیڑھ گھنٹہ رہتا ہے.اس کی تین رکعت فرض ہیں.۵.عشاء:.اس نماز کا وقت شفق یعنی سرخی غائب ہونے کے بعد سے فجر
18 کے طلوع سے کچھ پہلے تک رہتا ہے لیکن بہتر اور افضل وقت نصف شب تک ہے.اس کی چار رکعت فرض ہیں.نوٹ:.( فقه احمد یه صفحه ۳۸) دنیا کے غیر معمولی علاقے جہاں دن رات چوبیس گھنٹے سے زائد ہیں یا دن رات میں باہمی فرق اتنازیادہ ہے کہ قرآن اور سنت کی روشنی میں نمازوں کے پانچ معروف اوقات مقرر کرنے میں مشکل پیش آتی ہے.وہاں پر نمازوں کے اوقات گھڑی کے حساب سے اس طرح مقرر کئے جائیں گے کہ نمازوں کے اوقات میں وہی نسبت قائم رہے.جو اوپر بیان ہو چکی ہے یعنی ان کا درمیانی وقفہ بیان کردہ وقفہ سے ملتا ہے.
19 ۲.اوقات ممنوعه مندرجہ ذیل اوقات میں نماز پڑھنا منع ہے.ا.جب سورج نکل رہا ہو.اس وقت سے لے کر ایک نیزہ سورج نکلنے تک (جو تقریبا نصف گھنٹہ بنتا ہے ) کوئی نماز نہیں پڑھنی چاہیے.( نہ فرض نہ نفل) ( فقه احمدیہ صفحہ ۳۸) عین دو پہر کے وقت ( جبکہ سورج بالکل سر پر ہو).جب سورج غروب ہو رہا ہو.طہارت وضو ، غسل ، تیم نماز کی ادائیگی سے پہلے وضو با تیم فرض ہے.وضو کا علم فرض ہے اور ٹیم کا حکم وضو کے قائم مقام کے ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمُ إِلَى الصَّلوةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ، وَإِن كُنتُم جنبًا فَاظَهَرُوا وَإِنْ كُنْتُمْ مَّرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ اَوْ جَاءَ اَحَدٌ مِنْكُمْ مِّنَ الْغَابِطِ اَولَمَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمُ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا
20 بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ مِّنْهُ مَا يُرِيدُ اللهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ وَلكِن يُرِيدُ لِيُظْهِرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (سورۃ المائدہ:۷) ترجمہ: اے ایماندار و جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ (بھی) اور کہنیوں تک اپنے ہاتھ ( بھی ) دھولیا کرو اور اپنے سروں کا مسح کیا کرو اور ٹخنوں تک اپنے پاؤں (بھی دھو لیا کرو) اور اگر تم جیسی ہو تو تنہا لیا کرو، اور اگر تم بیمار ہو) یا سفر ( کی حالت ) میں ہو (اور تم جنبی ہو ) یا تم میں سے کوئی (شخص) جائے ضرور سے آئے یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اس سے ( کچھ مٹی لے کر ) اپنے مونہوں اور اپنے ہاتھوں کو لو.اللہ تم پر کسی قسم کی تنگی نہیں کرنا چاہتا ہاں وہ تمہیں پاک کرنا اور تم پر اپنے احسان کو پورا کرنا چاہتا ہے تاکہ تم شکر کرو.طریق وضو (تفسیر صغیر) وضو شروع کرتے وقت بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ پڑھا جاتا ہے سب سے پہلے تین بار ہاتھ دھوئے جاتے ہیں.اس کے بعد تین بار کلی کر کے منہ صاف کیا جاتا ہے اور تین بار نتھنوں سے پانی اوپر کی طرف کھینچ کر ناک صاف کیا جاتا ہے.اس کے بعد
21 تین بار منہ دھویا جاتا ہے.پھر تین بار کہنیوں تک ، کہنیوں کو شامل کرتے ہوئے دونوں بازو دھوئے جاتے ہیں.اس کے بعد ہاتھ گیلے کر کے سر کے بالوں پر ایک ثلث سے دو ثلث تک مسح کیا جاتا ہے.اور پھر انگوٹھے کے پاس کی انگلی سے کانوں کے سوراخوں کو گیلا کیا جاتا ہے.اور انگوٹھوں کو کانوں کی پشت پر پھیرایا جاتا ہے تا کہ کان کی پشت بھی گیلی ہو جائے.اس کے بعد تین بار دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے جاتے ہیں.(بخاری کتاب الوضو باب الوضوء ) ہاتھوں ، بازوؤں اور پاؤں کے دھونے میں ترتیب یہ رکھی جاتی ہے کہ دائیں طرف پہلے دھوئی جائے اور بائیں طرف بعد میں.(نسائی کتاب الوضوء ) وضو کے بعد کی دعا (۲) عن عمر بن الخطاب رضى الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من توضأ فاحسن الوضوء ثم قال اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له واشهد ان محمدا عبده ورسوله اللهم اجعلني من
22 التوابين واجعلنى من المتطهرين فتحت له ثمانية ابواب من الجنة يدخل من أيها شاء صلى ترجمہ: حضرت عمر بن خطاب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ م نے فرمایا جس شخص نے اچھی طرح وضو کیا پھر یہ دعا کی کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں.وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں.اے اللہ ! مجھے تو بہ کرنے والوں میں سے بنا اور مجھے پاکیزگی اختیار کرنے والوں میں سے بنا.اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتے ہیں.وہ ان میں سے جس دروازہ سے چاہے جنت میں داخل ہو.“ (نر ندی ابواب الطہارت باب ما يقال بعد الوضوء ) اس کی تشریح و حکمت بیان فرماتے ہوئے حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاں آٹھ دروازوں سے کیا مراد ہے، اس کا وضو سے کیا تعلق ہے.تو اس پر میں نے گن کر دیکھا تو پہلے ہاتھ دھوتے ہیں یہ ایک.وضو کے وقت پہلے ہاتھ کی صفائی سے کلی کرنا دوسرا.ناک میں پانی ڈالنا تیسرا.سارا چہرہ دھونا چوتھا.کہنیوں
23 تک باز و دھونا یہ پانچواں ہے اور سر کا مسح یہ چھٹا ہے اور پھر گدی سمیت گردن پر ہاتھ پھیرنا یہ پیچھے کی طرف جو ہاتھ پھیرنا ہے یہ ساتویں حرکت ہے اس میں اور ٹخنوں تک پاؤں دھونا آٹھواں ہے یہ سارے جو اعمال ہیں کرتے وقت اگر خلوص نیت ہو اور انسان پاکیزگی کے لئے عمل کرتا ہے جو بدنی پاکیزگی نہیں بلکہ روحانی پاکیزگی بھی ہے تو فرمایا اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھل جاتے ہیں.پھر یہ کہ جس دروازے سے چاہے داخل ہو، ہر شخص کے اپنے رجحانات ہوتے ہیں اور بعض لوگ خاص بعض وضو کی حرکتوں کے وقت ، وضو کرتے وقت بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں تو کوئی بعید نہیں کہ اس سے یہ مراد ہو مگر اس میں وضاحت موجود نہیں کہ ہر دروازہ سے داخل ہونے سے کیا مراد ہے.جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے.لیکن دروازوں کے متعلق میں یہ وضاحت کر دوں کہ کوئی ایسے Gate نہیں ہیں جو جنت میں لگے ہوئے ہیں کوئی اس گیٹ میں جارہا ہے، کوئی اُس گیٹ میں جا رہا ہے.یہ ایک روحانی تمثیلی کلام ہے صرف اور اچھی طرح سے یا درکھنا چاہئیے کہ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارا شوق بڑھانے کی خاطر، توجہ دلا نے کی خاطر ان سب چیزوں کو ایک تسلسل سے بیان کیا ہے مگر ظاہری طور پر وہاں کوئی ایسے Gate نہیں ہوں گے.اسی دنیا میں ہم اپنی جنت بناتے ہیں اور وہ Gate کھول دیتے ہیں اپنے لئے تو کیسی
24 جنت بناتے ہیں کس طرف زیادہ توجہ کرتے ہیں، کون سی نیکیاں کرتے وقت زیادہ یاد کرتے ہیں خدا تعالیٰ کو.یہ وہ مضمون ہے جو اس 66 حدیث میں بیان ہوا ہے.الفضل ص3.29 اگست 2000ء) نواقص وضو وہ امور جن سے وضو ٹوٹ جاتا ہے مندرجہ ذیل امور سے وضو قائم نہیں رہتا اور دوبارہ وضو کرنا ضروری ہے ا.نیند کا آنا ۲.ٹیک لگا کر یا لیٹ کر سونا ۳.قے کا آنا ۴.نکسیر کا پھوٹنا ۵.ہوا کا خارج ہونا ۶.قضائے حاجت سے فارغ ہونا ے.جنابت ایسی صورتوں میں وضو قائم نہیں رہتا ٹوٹ جاتا ہے.لہذ ا نماز پڑھنے کے لیے دوبارہ وضوکرنا ضروری ہوتا ہے.نوٹ:.اگر کسی کو ریح خارج ہوتے رہنے یا پیشاب قطرہ قطرہ گرتے رہنے کی بیماری ہو یا عورت کو حیض اور نفاس کے مقررہ دنوں کے علاوہ بھی خون جاری رہنے کی بیماری ہو اور اس کی وجہ سے وضو قائم نہ رہتا ہو.ایسا انسان معذور ہے اس لیے ہر نماز کے وقت ایک بار وضو کر لینا کافی ہے.
25 غسل جنابت مباشرت کے بعد نہانا فرض ہے اس غسل کے بغیر نماز ادا نہیں ہوتی.اس حکم میں یہ حکمت ہے کہ یہ فعل سارے جسم پر اثر کرتا ہے اور جسم کے ہر حصے کی برقی طاقت میں ایک ہیجان پیدا کر دیتا ہے.پس اس کو ٹھنڈا کر کے سارے جسم کی برقی طاقت اور خیالات کے انتشار کو دور کرنا عبادت کی تکمیل اور توجہ الی اللہ کے لیے ضروری ہے.نہانے کے عمل سے جسمانی کمزوری ، روحانی کسل دور ہوتی ہے اور جسم میں تازگی بشاشت اور طبیعت میں شگفتگی پیدا ہوتی ہے جو انسان کے لیے نماز میں محمد اور معاون ثابت ہوتے ہیں.جیسا کہ بیان ہو چکا ہے کہ وضو اور غسل کا قائم مقام تیم ہے.اس کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جبکہ پانی میسر نہ ہو پانی میسر تو ہو لیکن اس کا استعمال مشکل ہو.مثلاً بیمار ہو.پانی کے استعمال سے بیماری بڑھنے کا خطرہ ہو..پانی میسر تو ہو لیکن پاک نہ ہو.ان صورتوں میں اسلام نے نماز قائم کرنے سے پہلے ٹیم کا حکم دیا ہے جس کا ذکر سورۃ مائدہ میں ہے اور اس کا ذکر پہلے آچکا ہے.
26 طریق تیم صاف و پاک مٹی تلاش کر کے یا کسی پاکیزہ صاف گر دوالی چیز پر دونوں ہاتھ مار کر اپنے منہ پر اور ہاتھوں اور باہوں پر پھیر لے.تیم کے بعد انسان پاک ہو جاتا ہے اور جو نماز پڑھنی ہو پڑھ سکتا ہے.ستر سرڈھانک کر پاک اور صاف لباس کے ساتھ نماز ادا کرنی چاہیے.مرد کے لئے ناف سے لے کر گھٹنوں تک کے جسم کی پردہ پوشی ضروری ہے ورنہ نماز نہیں ہوگی.عورت نماز پڑھتے وقت صرف چہرہ ، کلائی تک ہاتھ اور ٹخنوں تک پاؤں کھلے رکھ سکتی ہے.اس کا باقی جسم ڈھکا ہوا ہونا چاہیے.سر پر دوپٹہ اچادر وغیرہ ہونا ضروری ہے.مرد ا عورت دونوں کے لیے باریک کپڑا جس سے جسم نظر آئے ، تنگ چست لباس جس سے ادا ئیگی نماز میں دقت ہو.نا پسندیدہ ہے.اس سے پر ہیز کرنا چاہیے.قبلہ نماز قبلہ رخ ہو کر پڑھی جاتی ہے.یعنی دنیا کے کسی مقام پر انسان ہو کعبہ کی طرف منہ کر کے جو کہ مکہ مکرمہ میں ہے، کھڑا ہوتا ہے.اس طرح تمام دنیا کے مسلمانوں کی توجہ ایک مرکز کی طرف مجتمع ہو جاتی ہے.کعبہ کی طرف منہ کرنا اس لیے نہیں کہ اسلام نے کعبہ کو کوئی خدائی صفت دی ہے بلکہ جیسا کہ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے.ایسا اس لیے کیا گیا کہ کسی نہ کسی طرف منہ کر کے کھڑے ہونے کا حکم با جماعت نماز کے لیے ضروری تھا.اگر کوئی خاص جہت (سمت) مقرر نہ کی جاتی تو صفوں میں کھڑے ہو کر ایک جگہ لوگ نماز نہ پڑھ سکتے.کسی کا منہ کسی طرف ہوتا اور کسی کا کسی طرف ، تو نماز جماعتی عبادت کس
27 طرح بنتی ؟ اس لئے سمت کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے مقرر فرمایا اور حکم دیا: وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ، ط (البقرہ: ۱۴۵) اور جہاں کہیں بھی تم ہو تو اپنا منہ اس کی طرف کرو.یہ پیشگوئی اللہ تعالیٰ نے رسول پاک ﷺ کے ذریعے پوری کی اور یہ مقام مسلمانوں کے ظاہری اجتماع کا مرکز بنا دیا گیا.تمام مسلمانانِ عالم کا دن میں پانچ باراس طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا عمل اللہ تعالیٰ کی کامل واحدانیت ، عالمگیر یک جہتی ، اتحادِ انسانیت، انسانوں کے درمیان مساوات اور عشق رسول ﷺ کی منہ بولتی تصویر ہے.نوٹ:.اگر انسان ایسی حالت میں ہو کہ کعبہ کے رخ کا علم نہ ہو سکے ( مثلا اگر ہوائی سفر پر ہو) تو جدھر بھی منہ کر کے نماز پڑھ لی جائے جائز ہے.اسی طرح سوار ہونے کے دوران ضروری نہیں کہ نماز پڑھنے والے کا رخ ہمہ وقت خانہ کعبہ کی طرف رہے.نیت صحت نماز کے لیے نیت بھی ضروری ہے.نیت کے عام معنے ارادے کے ہیں.اگر ظہر کے وقت نیت یہ کی ہے کہ چار رکعت فرض شروع کرنے لگا ہے تو یہ نماز فرض ہوگی.اگر چار رکعت سنت کی نیت ہے تو یہ سنت نماز ہوگی.نیت کا تعلق دل سے ہے اور اس میں خلوص کا مفہوم شامل ہے.اس لیے دل میں خلوص کے ساتھ طے ہونا چاہیے کہ وہ کون سی نماز اور کتنی رکعت نماز شروع کرنے لگا ہے.منہ سے نیت کے مندرجہ ذیل الفاظ ادا کرنا ضروری ہیں.وَجْهُتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوتِ
28 وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَّمَا أَنَامِنَ الْمُشْرِكِيْنَ یا اِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ مسلم کتاب الصلوۃ باب صلاة النبي صلى الله عليه وسلم ودعائه بالليل) طریق نماز جو شخص نماز پڑھنے لگے وہ قبلہ رو کھڑا ہو جائے.دل میں نیت کرے اس کے بعد دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائے اور ساتھ ہی اللہ اکبر اللہ سب سے بڑا ہے ) کہے.اس تکبیر کو تکبیر تحریمہ کہتے ہیں.پھر اپنے ہاتھ سینہ کے نچلے حصہ کے قریب اس طرح باند ھے کہ دایاں ہاتھ اوپر اور بایاں ہاتھ نیچے ہو.اس طرح کھڑے ہونے کو قیام کہتے ہیں اس کے بعد ثناء پڑھے جو یہ ہے:
29 ثناء سُيُخنَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهُ غَيْرُكَ اے اللہ تو ہر نقص سے پاک ہے اور تو ہر خوبی سے جو تیری شان کے موافق ہے متصف ہے اور تیرا نام تمام برکتوں کا جامع ہے اور تیری شان بہت بلند ہے اور تیرے سوا اور کوئی معبود نہیں.اس کے بعد ( نماز پڑھنے والا ) پڑھتا ہے: تعوز أعُوذُ باللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ یعنی: اے اللہ میں ہر اس بد روح سے جو تیری درگاہ سے دور کی گئی ہے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ اس کا اثر مجھ پر نہ ہو اور میں تیری درگاہ سے دور ہو نے والوں میں شامل نہ ہو جاؤں.پھر وہ سورۃ فاتحہ پڑھتا ہے جو یہ ہے.تسمیہ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
30 سورۃ فاتحہ الْحَمدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ.O إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُه اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ.صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ة غَيْر الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ) ترجمہ : ( میں اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا ہے اور بار بار رحم کرنے والا ہے (پڑھتا ہوں ) ہر قسم کی ) تعریف کا اللہ (ہی) مستحق ہے ( جو ) تمام جہانوں کا رب ( ہے ) بے حد کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا (اور ) جزا سزا کے وقت کا مالک ہے (اے خدا) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں.
31 ہمیں سیدھے راستے پر چلا.ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا ہے.جن پر نہ تو ( بعد میں تیرا) غضب نازل ہوا (ہے) 66 اور نہ وہ (بعد میں ) گمراہ ( ہو گئے ) ہیں.“ ( تفسیر صغیر صفحه ۴) سورۃ فاتحہ امام کے ساتھ مکمل کرنے کے بعد امام اور مقتدی ستر أ ( خاموشی سے ) یا جھراً (بلند آواز سے) آمین کہیں.سورۃ فاتحہ کے ساتھ قرآن کریم کی کوئی سورۃ یا کم از کم سورۃ کا اتنا حصہ جو تین چھوٹی آیات پر مشتمل ہو پڑھا جائے.جیسا کہ سورۃ کوثر ہے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ إِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ.فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُه إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ.ترجمہ: (میں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے (پڑھتا ) ہوں.(اے نبی ! ) یقینا ہم نے تجھے کوثر عطا کیا ہے.سوتو (اس کے شکریہ میں) اپنے رب کی ( کثرت سے ) عبادت کر اور اسی کی خاطر قربانیاں کر اور یقین رکھ کہ تیرا مخالف ہی نرینہ اولاد سے محروم ثابت ہوگا.“
32 اس کے بعد نماز پڑھنے والا الله اكبر کہہ کر رکوع میں چلا جاتا ہے.رکوع رکوع اسے کہتے ہیں کہ انسان اس طرح کمر سیدھی کرے کہ اس کا سر اور لاتوں کا اوپر کا حصہ ایک دوسرے کے متوازی ہو جائیں جھک جاتا ہے ) اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھ لیتا ہے اور لاتیں بالکل سیدھی رکھتا ہے.ان میں خم پیدا ہونے نہیں دیتا.اس حالت میں وہ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيم کا فقرہ کہتا ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ میرا رب جو اپنی شان کی وسعت میں سب سے بڑھ کر ہے تمام نقائص سے پاک ہے.یہ فقرہ کم سے کم تین بار یا اس سے زائد طاق عدد میں وہ دہراتا ہے.(سنن ترمذی کتاب الصلوة ) پھر سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہہ کر کھڑا ہو جاتا ہے.جس کے معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہر اس شخص کی دعا کو سنتا ہے جو سچے دل سے اس کی تعریف بیان کرتا ہے.اس کے بعد پھر وہ سیدھا کھڑا ہوکر ہاتھ سید ھے چھوڑ کر یہ دعامانگتا ہے.
33 رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ حَمُدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَ كَافِيهِ یعنی اے ہمارے رب سب تعریف تیرے ہی لیے ہے.کثرت سے تعریف اور پاک تعریف جو سب تعریفوں کی جامع ہے.اس کے بعد وہ پھر اللہ اکبر کہہ کر سجدہ میں چلا جاتا ہے.سجده سجدہ اسے کہتے ہیں کہ انسان سات ہڈیوں پر زمین پر جھک جاتا ہے.یعنی اس کا ماتھا زمین پر پوری طرح لگا ہوا ہو.اس کے دونوں ہاتھ قبلہ روزمین پر رکھے ہوئے ہوں.اس کے گھٹنے زمین پر لگے ہوئے ہوں اور اس کے دونوں پاؤں بھی زمین پر اس طرح لگے ہوں کہ دونوں پاؤں کی انگلیاں دبا کر قبلہ رو ہوئی ہوں.اس حالت میں وہ سُبْحَانَ رَبِّيَ الَا عُلَى کہتا ہے.جس کے معنے یہ ہیں کہ اے میرے رب تو اپنی شان کی بلندی کے لحاظ سے سب سے زیادہ ہے.یہ فقرہ وہ کم سے کم تین بار یا اس سے زائد کسی طاق عدد میں کہتا ہے.اس کے بعد وہ اللہ اکبر کہہ کر بیٹھ جاتا ہے.اس طرح کہ اس کی بائیں ٹانگ تو تہہ ہو کر اس کے نیچے آجائے اور دایاں پاؤں اس طرح کھڑا ہو کہ انگلیاں قبلہ رخ ہوں اس وقفہ میں وہ یہ دعا پڑھتا ہے.اَللّهُمَّ اغْفِرْلِی وَارْحَمْنِي وَاهْدِنِي وَعَافِنِي
34 وَاجْبُرْنِي وَارْزُقْنِي وَارْفَعُنِي یعنی ”اے میرے رب میرے گناہ معاف کر اور مجھ پر رحم کر اور مجھے سب صداقتوں کی طرف رہنمائی بخش اور مجھے تمام عیبوں سے محفوظ رکھ اور میری اصلاح فرما اور مجھے اپنے پاس سے حلال و طیب رزق عطا فرما اور میر ارفع فرما.بعض احادیث میں واجبرنی اور بعض احادیث میں وارفعنی آتا ہے.حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت سنن ابن ماجہ میں مروی ہے کہ رات کی نماز میں آنحضرت ا سجدوں کے درمیان میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے: اے میرے رب مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، میری اصلاح فرما، مجھے رزق عطا فرما اور میر ارفع فرما.اس کے بعد وہ پھر اللہ اکبر کہہ کر پہلے کی طرح سجدہ میں چلا جاتا ہے.اور پہلے سجدہ کی طرح دعا کر کے پھر اللہ اکبر کہہ کر کھڑا ہو جاتا ہے.اسے ایک رکعت کہتے ہیں ( یعنی اس طرح ایک رکعت مکمل ہوتی ہے ) اس کے بعد وہ پہلے کی طرح پھر ایک ( دوسری رکعت ادا کرتا ہے صرف اس فرق کے ساتھ کہ سُبْحَانَكَ اللهُمَّ وَبِحَمْدِكَ والی دعا یعنی شاء جس سے اس نے نماز شروع کی تھی کو حذف کر ( چھوڑ دیتا ہے اور سورۃ فاتحہ سے دوسری رکعت شروع کرتا ہے.اسے مکمل کرنے کے بعد قرآن کریم کا کوئی حصہ پڑھتا ہے مثلاً سورۃ اخلاص.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ o الله الصمده
35 لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُ ه وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا اَحَدَه ترجمہ :.میں اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے (پڑھتا ) ہوں.تو کہتا چلا جاء اللہ ایک ہے جس کے سب محتاج ہیں اور وہ کسی کا محتاج نہیں ہے ) نہ اس نے کسی کو جنا ہے اور نہ وہ جنا گیا ہے اور اس کی صفات میں اسکا کوئی بھی شریک کار نہیں.دوسری رکعت مکمل کرنے پر وہ اس طرح بیٹھ جاتا ہے.جس طرح پہلے اور دوسرے سجدہ کے درمیان بیٹھا تھا.اسے قعدہ کہتے ہیں اور تشہد پڑھتا ہے جو کہ یہ ہے.تشهد اَلتَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ اَلسَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّلِحِينَ
36 أَشْهَدُانْ لا إِله إِلَّا اللهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدٌ اعْبُدُهُ وَرَسُولُهُ یعنی تمام کلمات جو تعظیم کے لیے انسان کی زبان سے نکل سکتے ہیں اور تمام وہ عبادات جو انسان بجالا سکتا ہے اور تمام وہ مالی قربانیاں جو کسی پاک ذات کے لیے پیش کی جاسکتی ہیں خدا تعالیٰ کا ہی حق ہے.اس کے سوا کوئی اور ہستی ان کی مستحق نہیں اور اے نبی ! تجھ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی نازل ہو اور اللہ تعالیٰ کا رحم تجھ پر اتر تا رہے اور اس کی برکتوں سے تو حصہ پاتا رہے اور ہم پر جو اس نماز میں شامل ہیں اور اللہ کے تمام نیک بندے جو پہلے گزر چکے ہیں یا اس وقت موجود ہیں یا آئندہ آنے والے ہیں ان سب پر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے سلامتی نازل ہو اور یہ کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اور یہ کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں.“ درود ( سنن نسائی کتاب التطلیق ) اگر نماز صرف دو رکعت کی ہے (جیسا کہ فجر کی نماز ہے ) تو یہ اس کا آخری قعدہ ہے.اس لیے وہ تشہد کے بعد درود شریف پڑھتا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں.اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدِ
37 كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ.اَللّهُمَّ بَاركَ عَلى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إبْرَاهِيمَ وَعَلَى الإِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مُّجِيدٌ ترجمہ :.اے اللہ! محمد پر اپنے فضل اور رحمتیں نازل کر اور تمام ان لوگوں پر جومحمد ﷺ سے تعلق رکھتے ہیں جس طرح تو نے ابراہیم پر اور ابراہیم سے تعلق رکھنے والوں پر فضل اور رحمت نازل کی تھی یقینا تو بے انتہا خو بیوں والا بڑی شان والا ہے.اے اللہ محمد پر اپنی برکتیں نازل کر اور ان پر بھی جو آپ سے تعلق رکھتے ہیں.جس طرح تو نے ابراہیم پر اور اس سے تعلق رکھنے والوں پر برکتیں نازل کی تھیں.یقیناً تو بے انتہا خو بیوں والا بڑی شان والا ہے.چند دعائیں تشہد اور درود کے بعد بعض دعائیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں پڑھتا ہے مثلاً.اَللّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحُزْنِ 1
38 وَاَعُوْذُبِكَ مِنَ الْعِجُزِ وَالْكَسْلِ وَاَعُوذُبِكَ مِنَ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَاَعُوذُ بِكَ مِنْ غَلَبَةِ الدَّيْنِ وَقَهُرِ الرِّجَالِ (ابوداؤد کتاب الصلوة ) ترجمہ: ”اے میرے رب میں تیری پناہ چاہتا ہوں.اس سے کہ مجھے کوئی گھبرا دینے والی مصیبت پہنچے یا مجھے غم فکر دبا لیں اور اے میرے رب میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ میں وہ سامان کھو بیٹھوں جن سے میری زندگی کے کام چلتے ہیں یا وہ طاقتیں میری جاتی رہیں جن کی مجھے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ضرورت ہے اور اس سے بھی پناہ چاہتا ہوں کہ میرے پاس ترقی میں مدد دینے والے سامان تو موجود ہوں یا ترقی میں مدد دینے والی طاقتیں تو مجھے حاصل ہوں مگر ان کے استعمال سے میں سستی اور کاہلی کا شکار ہو جاؤں.اور اے میرے رب میں تیری پناہ چاہتا ہوں بزدلی اور بخل کی اخلاقی امراض سے اور اے میرے رب اس بارہ میں بھی تیری پناہ چاہتا ہوں کہ مجھے قرض دبا لے.....اس سے بھی پناہ مانگتا ہوں کہ ایسے انسان مجھ پر مسلط ہو جا ئیں جو میرے حقوق کو تلف کریں.“ ( تفسیر کبیر سورۃ البقره صفحه ۱۱۲)
39 ۲.رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلُ دُعَاءِ رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ ترجمہ: ”اے میرے رب مجھے اور میری اولا د کونماز کا پابند بنا اور ہماری دعاؤں کو قبول فرما اور اے ہمارے رب مجھے اور میرے والدین اور تمام مومنوں کو محاسبہ کے دن بخش دے.“.رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ترجمہ: ”اے ہمارے رب ہمیں اس دنیا کی ہر قسم کی بھلائی اور آخرت کی ہر قسم کی بھلائی (حسنات دارین ) عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيراً وَّلاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِّنْ
40 عِندِكَ وَارْحَمُنِی اِنَّكَ اَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ 66 ترجمہ: ”اے اللہ ! میں نے اپنے پر بہت ظلم کئے اور تیرے سوا کوئی معاف نہیں کر سکتا.پس تو مجھے اپنی جناب سے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما یقینا تو بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.“..اَللّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُبِكَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَاَعُوْذُبِكَ مِنْ فِتْنَةِ المَسِيحِ الدَّجَالِ وَ اَعُوذُ بكَ مِنْ فِتْنَةِ المَحْيَا وَالْفِتْنَةِ الْمَمَاتِ اَللّهُمَّ اِنّى اَعُوذُ بِكَ مِنَ الْمَاثَمِ وَالْمَغْرَمِ ترجمہ: ”اے اللہ میں تجھ سے آگ کے عذاب سے حفاظت چاہتا (طلبگار ) ہوں اور پناہ چاہتا ہوں.مسیح دجال کے فتنہ سے ، اور تیری پناہ مانگتا ہوں زندگی اور موت کے فتنہ سے.اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں گناہوں اور قرض سے.“ 66 دعائیں پڑھنے کے بعد وہ ( نماز پڑھنے والا ) دائیں طرف منہ کر کے
41 اَلسَّلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ الله تم پر اللہ کی سلامتی اور رحمت نازل ہو کہتا ہے اور اس کے بعد بائیں طرف منہ کر کے اَلسَّلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ الله تم پر اللہ کی سلامتی اور رحمت نازل ہو کہتا ہے اور اس طرح دورکعت نماز مکمل ہو جاتی ہے.اگر نماز دو رکعت سے زائد کی ہو تو وہ تشہد پڑھنے کے بعد پھر کھڑا ہو جاتا ہے اور باقی رکعتوں میں قیام میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھتا ہے اور پہلے کی طرح رکعت پوری کرتا ہے.اگر تین رکعت نماز ہو تو تیسری رکعت پوری کرنے کے بعد بیٹھ جاتا ہے دوبارہ تشہد پڑھتا ہے.درود پڑھتا ہے اور مسنون دعائیں پڑھنے کے بعد سلام پھیرتا ہے.اگر چار رکعت پڑھنی ہیں تو تیسری رکعت مکمل کرتا ہے اور دوسرے سجدے کے بعد دوسری رکعت کی طرح چوتھی رکعت مکمل کرتا ہے اور دوسرے سجدے کے بعد دوسری رکعت کی طرح بیٹھتا ہے یعنی قعدہ کرتا ہے.تشہد ، درود اور مسنون دعائیں پڑھتا ہے اور پھر سلام پھیر دیتا ہے.نوٹ :.جب بھی دو رکعت سے زائد فرض نماز پڑھنی ہو تو پہلے تشہد کے بعد ایک یا دو رکعت جو وہ پڑھتا ہے ان میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھتا ہے.قرآن کریم کی زائد آیات نہیں پڑھتا.
42 نماز کی اقسام اور ان کی رکعت کی تعداد نماز کی چار قسمیں ہیں ۱.فرض ٢.واجب ۳.سنت ۴.نوافل ا.فرض نماز پانچ نمازیں فرض ہیں.فجر کی دورکعت.۲.ظہر کی چار رکعت.عصر کی چار رکعت.۴.مغرب کی تین رکعت.عشاء کی چار رکعت.ان میں سے اگر کوئی نماز کسی بھی وجہ سے رہ جائے تو اس کی قضالا زمی ہے.جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والا سخت گناہ گار ہے.۲.واجب نماز وتر کی تین رکعت ، عید الفطر ، عید الاضحیہ ہر ایک کی دو دو رکعت ، طواف بیت اللہ کی دو رکعت واجب نماز کہلاتی ہیں.ان میں سے اگر کوئی نماز کسی اشد مجبوری کی وجہ سے رہ جائے تو اس کی قضا لازم نہیں نیز اگر کسی وجہ سے نماز پڑھنے کی نذر مانی جائے تو یہ نماز بھی واجب ہوگی.
43 سنت نماز فرض نماز کے علاوہ جو نماز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بالعموم پڑھی جانی ثابت ہو اور جس کا ذکر احادیث میں بھی موجود ہے.اس نماز کو سنت نماز کہتے ہیں.سنت نبوی " کو اپناتے ہوئے ان کا پڑھنا عین ثواب اور ان کا چھوڑ نا ثواب اور روحانی ترقی سے محرومی ہے.ویسے گناہ نہیں.سنت نماز درج ذیل ہیں.فجر کی دوسنت نماز ہے جو کہ فرض نماز سے پہلے پڑھی جاتی ہیں.اگر کوئی شخص یہ دو سنتیں پہلے ادا نہ کر سکے تو بعد میں ادا کرے.۲.ظہر کی فرض نماز سے پہلے چار رکعت اور فرض نماز کے بعد دورکعات نماز سنت ہے.مغرب کی فرض نماز کے بعد دو رکعت نماز سنت ہے.عشاء کی فرض نماز کے بعد دو رکعات نما ز سنت ہے.۴ نفل نماز اس نماز کا پڑھنا کار ثواب ہے.اس سے مدارج روحانی میں ترقی اور فرض نمازوں کی حفاظت نصیب ہوتی ہے.رسول پاک (صلعم) نے فرمایا ہے کہ انسان نوافل کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا محبوب اور مقرب بن جاتا ہے.تا ہم اگر کوئی شخص کسی مجبوری کی بنا پر یہ نماز نہ پڑھ سکے تو گناہ گار نہیں ہوتا.مندرجہ ذیل نمازیں نوافل ہیں.تہجد کی آٹھ رکعت ہیں.
44 عصر کی نماز سے پہلے چار رکعات.ظہر اور مغرب کی دو دو سنتوں کے بعد دو دو رکعات.اشراق کی چار رکعات.استخارہ ( یعنی خیر کا چاہنا کسی معاملہ میں اللہ تعالیٰ سے راہنمائی مانگنا) کی دو رکعات ہیں.نوٹ :.سوائے ان اوقات کے جن میں نماز پڑھنا منع ہے.جب دل چاہے، موقع ملے نفل پڑھنا باعث ثواب ہے.نوافل گھر پر ادا کرنا بہتر ہیں.نماز تہجد نماز تہجد نفل نماز میں سب سے زیادہ اہم نماز ہے جسکے ذریعہ قرب الہی میں بے حد ترقی ہوتی ہے اور اس نماز کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًان سورۃ بنی اسرائیل: 80 ترجمہ:.” اور رات کو بھی تو اس ( قرآن ) کے ذریعہ سے کچھ سو لینے کے بعد شب بیداری کیا کر جو تجھ پر ایک زائد انعام ہے (اس طرح پر ) بالکل متوقع ہے کہ تیرا رب تجھے حمد والے مقام پر کھڑا کر دے.“ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز ہمیشہ پڑھی.آپ تہجد کی نماز رات کے پچھلے
45 حصہ میں بالعموم دو دو رکعت کر کے پڑھتے تھے پھر آخر میں تین رکعت وتر ادا فرماتے (پڑھتے) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز تہجد کے بارے میں فرماتے ہیں:.جو خدا تعالیٰ کے حضور تضرع اور زاری کرتا ہے اور اس کے حدود و احکام کو عظمت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس کے جلال سے ہیبت زدہ ہو کر اپنی اصلاح کرتا ہے وہ خدا کے فضل سے ضرور حصہ لے گا.اس لیے ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ تہجد کی نماز کولازم کر لیں.جو زیادہ نہیں وہ دو ہی رکعت پڑھ لے.کیونکہ اس کو دعا کرنے کا موقعہ بہر حال مل جائیگا.اس وقت کی دعاؤں میں ایک خاص تاثیر ہوتی ہے.کیونکہ وہ بچے درد اور جوش سے نکلتی ہیں.“ ( ملفوظات جلد نمبر 2 صفحہ 182) نماز وتر جیسا کہ بیان ہو چکا ہے کہ نماز وتر واجب نماز ہے وتر کے معنے طاق کے ہیں اس لیے عشا کی نماز کے بعد تین رکعات نماز پڑھے جس کا طریق یہ ہے:.وتر کی ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد قرآن کریم کی چند آیات یا کوئی سورۃ پڑھی جاتی ہے.یہ دو طریق سے ادا کی جاسکتی ہے.(۱) دورکعت پڑھ کر تشہد اور درود کے بعد سلام پھیر دے اور پھر ایک رکعت الگ مکمل کرے.یا تشہد کے بعد کھڑا ہو جائے خواہ کوئی بھی طریق ہو وتر کی تیسری رکعت میں رکوع کے بعد یا رکوع سے پہلے حالت قیام میں دعا قنوت پڑھے جو کہ درج ذیل ہے.
46 اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِيْنُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ وَنُؤْمِنُ بِكَ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْكَ وَنُثْنِي عَلَيْكَ الْخَيْرَ وَ نَشْكُرُكَ وَلَا تَكْفُرُكَ وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يُفْجُرُكَ اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ وَنَرْجُو رَحْمَتَكَ وَنَخْشَى عَذَابَكَ إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكُفَّارِ مُلْحِقْ ترجمہ:.اے اللہ ہم تجھ سے مدد طلب کرتے ہیں اور تجھ سے بخشش مانگتے ہیں اور تجھ پر ایمان لاتے ہیں اور تجھ پر توکل کرتے ہیں اور تیری بہترین تعریف کرتے ہیں اور تیرا شکر کرتے ہیں اور تیری ناشکری نہیں کرتے اور قطع تعلق کرتے ہیں اور ہم چھوڑتے ہیں اس شخص کو جو تیری نافرمانی کرے.اے اللہ ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیرے لئے ہی نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں.اور تیری طرف ہی دوڑتے ہیں اور تیری طرف ہی جلدی سے آتے ہیں اور ہم تیری رحمت کے امید
47 وار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں.یقینا تیرا عذاب کافروں کو ہی لاحق ( ملنے والا) ہے.اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيْمَنُ هَدَيْتَ وَعَافِنِي فِيْمَنُ عَافَيْتَ وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ فَإِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ إِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَّالَيْتَ وَإِنَّهُ لَا يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ وَتَبَارَكُتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ وَصَلَّى اللهُ عَلَى النَّبيِّ.(ابوداؤد و نسائی باب الدعاء فی الوتر صفحه ۲۰۴) ترجمہ:.اے میرے خدا! مجھے ہدایت دے کر ان میں شامل کر جن کو تو نے ہدایت دی ہے اور مجھے سلامت رکھ کر ان میں شامل کر جن کو تو نے سلامتی دی ہے.اور مجھے دوست بنا کر ان لوگوں میں شامل کر جن کو تو نے دوست بنایا ہے اور مجھے برکت دے ان انعامات میں جو تو نے دیئے ہیں اور مجھے بچا ان چیزوں کے نقصان سے جو تیری تقدیر میں نقصان دہ قرار دی گئی ہیں.کیونکہ تو ہی فیصلہ کرتا ہے.اور تیرے
48 خلاف فیصلہ نہیں کیا جاسکتا.بے شک جس کا تو والی ہو.وہ ذلیل نہیں ہوتا.یقیناً وہ معزز نہیں ہوسکتا جس کا تو دشمن ہو تو برکت والا ہے ہمارا رب اور بلندشان ے اور نبی ﷺ پر تیری رحمت و برکت ہو.نماز با جماعت قرآن پاک کی تعلیم کے مطابق نماز فرض با جماعت ادا کی جانی ضروری ہے.البتہ کسی مجبوری کی وجہ سے اگر با جماعت نماز ادا نہ ہو سکے تو پھر اکیلے پڑھنی چاہیئے.مساجد نماز باجماعت کے لئے ہی بنائی جاتی ہیں تاکہ تمام مسلمان نماز مساجد میں باجماعت ادا کریں نماز با جماعت پڑھنے سے ستائیس گنا ثواب زیادہ ملتا ہے.آنحضرت ﷺ نے نماز با جماعت کی افادیت اور اہمیت کے بارے میں فرمایا کہ اگر مسلمان کو نماز با جماعت کی ادائیگی پر ثواب کا علم ہو جائے تو مجبوری کی حالت میں بھی گھٹنوں کے بل چل کر آنے سے دریغ نہ کریں.نماز با جماعت کا طریق نماز با جماعت کا طریق یہ ہے کہ ایک نیک متقی عالم دین شخص امام بنے.نماز پڑھانے کے لیے وہ آگے کھڑا ہو جاتا ہے اور دوسرے نماز پڑھنے والے جنہیں مقتدی کہا جاتا ہے امام کے پیچھے صف بنا کر اس کی اقتداء ( پیروی) کرتے ہیں.نماز با جماعت کے لیے کم از کم دو آدمی ہونے چاہئیں.اس صورت میں امام اور مقتدی اکٹھے کھڑے ہوتے ہیں.مقتدی امام کے دائیں طرف کھڑا ہوتا ہے.جب مقتدی دو یا دو سے زائد ہوں تو مقتدیوں کے لیے امام کے پیچھے صف بندی کی جاتی ہے.اس طرح کہ صفیں بالکل سیدھی ہوں اور اتنے فاصلے پر ہوں کہ پچھلی صف کے مقتدی بآسانی سجدہ کر سکیں.صفیں بالکل سیدھی ہونی
49 ضروری ہیں.کندھے سے کندھا ملا ہوا ہو.درمیان میں کوئی جگہ بھی خالی نہ ہو.صفوں کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سختی سے تاکید فرمایا کرتے تھے کہ بالکل سیدھی ہوں.اس کا مقتدی کو خاص خیال رکھنا چاہیے.فجر کی نماز با جماعت ہو تو امام سورۃ فاتحہ بالجہر پڑھتا ہے اور قرآن کریم کا کچھ حصہ بلند آواز سے پڑھتا ہے.مقتدی سورۃ فاتحہ ساتھ ساتھ آہستہ پڑھتے ہیں.باقی قرآت سنتے ہیں.باقی حصہ ناز کا امام بھی آہستہ پڑھتا ہے.سوائے تکبیروں، سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَہ اور آخری سلاموں کے.ظہر اور عصر کی نماز میں تمام رکعتوں میں امام آہستہ آہستہ پڑھتا ہے.اس کے پیچھے کے نمازی بھی اپنے طور پر سورۃ فاتحہ پڑھتے ہیں.مغرب کی نماز میں پہلی دو رکعتوں میں امام سورۃ فاتحہ اور قرآن کریم کا کچھ حصہ بلند آواز میں پڑھتا ہے.مقتدی سورۃ فاتحہ ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ منہ میں پڑھتا ہے.امام جب قرآن کریم کا حصہ پڑھتا ہے تو مقتدی خاموشی سے سنتا ہے.آخری.تیسری رکعت میں امام اور مقتدی بھی زیر لب سورۃ فاتحہ پڑھتے ہیں.عشاء کی نماز میں بھی پہلی دو رکعتوں میں امام بلند آواز سے سورۃ فاتحہ اور قرآن کریم کا کچھ حصہ پڑھتا ہے اور مقتدی سورۃ فاتحہ منہ میں دہراتے ہیں اور قرآن کریم کا دوسرا حصہ صرف سنتے ہیں.مگر آخری دورکعت میں امام قیام کی حالت میں سورۃ فاتحہ پڑھتا ہے وہ بھی آہستہ آہستہ منہ میں ، اور مقتدی بھی اپنے اپنے طور پر آہستہ آہستہ ہی منہ میں سورۃ فاتحہ پڑھتے ہیں.تمام با جماعت نمازوں میں امام تکبیر، سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ اور سلام بہر حال بلند آواز سے کہتا ہے.
50 نماز با جماعت کی برکات اللہ تعالیٰ نے اس عبادت (نماز با جماعت ) میں بہت سی شخصی اور قومی برکتیں رکھی ہیں.قرآن پاک نے جہاں بھی نماز کا حکم دیا ہے نماز با جماعت کا حکم دیا ہے.خالی نماز پڑھنے کا کہیں حکم نہیں.اس میں عالمگیر اتحاد، مساوات اور امام کی ہر حال میں اطاعت کا سبق ملتا ہے.مسلمانوں کی تنظیم اور رعب و دبدبہ کی جھلک نظر آتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے کمزور اور قوی سب کو اس اعلیٰ مقام تک پہنچانے کے لیے نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے تا کہ کمزور بھی قوی کے ساتھ مل کر ان مواقع کو پالیں.جو ان کے دلوں میں صفائی پیدا کریں اور قوی ایمان والوں کے دلوں سے نکلنے والی مخفی تا ثیرات کو اپنے اندر جذب کر کے صفائی قلب پیدا کر سکیں.نوٹ:.۱.اگر امام ایک یا زائد رکعت پڑھا چکا ہو تو جس حالت میں بھی امام ہو، بعد میں شامل ہونے والا اس کی پیروی کرے.جب امام دونوں طرف کا سلام مکمل کر ( پھیر ) لے تو بعد میں شامل ہونے والا الله اكبر کہہ کر کھڑا ہو جائے اور اپنی بقیہ رکعتیں پوری کرے.اگر کوئی رکوع میں امام کے سراٹھانے سے پہلے نماز میں شامل ہو تو وہ اس کی پوری رکعت شمار ہوگی.۲.اگر نماز کھڑی ہو چکی ہو تو پھر کوئی دوسری نماز ، سنت یا نفل نہ پڑھی جائے.جماعت میں شمولیت اختیار کی جائے.نماز باجماعت ختم
51 ہونے کے بعد نما ز سنت یا نفل مکمل کی جائے..دوران نماز اگر امام بھول جائے تو اسے توجہ دلانے کے لیے مقتدی اگر مرد ہو تو سبحان اللہ کہے اگر عورت ہو تو تالی بجائے.مدارج نماز حضرت خلیفہ لمسیح الثانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :.ا.یہ بات یا در کھنی چاہئے کہ نماز کی پابندی کئی رنگ کی ہوتی ہے.سب سے پہلا درجہ جس سے اتر کر اور کوئی درجہ نہیں یہ ہے کہ انسان بالالتزام پانچوں وقت کی نمازیں پڑھے.جو مسلمان پانچ وقت کی نمازیں پڑھتا ہے اور اس میں کبھی ناغہ نہیں کرتا وہ ایمان کا سب سے چھوٹا درجہ حاصل کرتا ہے.۲.دوسرا درجہ نماز کا یہ ہے کہ پانچوں نمازیں وقت پر ادا کی جائیں جب کوئی مسلمان پانچوں نمازیں وقت پر ادا کرتا ہے تو وہ ایمان کی دوسری سیڑھی پر قدم رکھتا ہے..تیسرا درجہ یہ ہے کہ نماز با جماعت ادا کی جائے.باجماعت نماز کی ادائیگی سے انسان ایمان کی تیسری سیڑھی پر چڑھ جاتا ہے.چوتھا درجہ یہ ہے کہ انسان نماز کے مطالب کو سمجھ کر ادا کرے.جو شخص ترجمہ نہیں جانتا وہ ترجمہ سیکھ کر نماز پڑھے اور جو ترجمہ جانتا ہو وہ ٹھہر ٹھہر کر نماز کو ادا کرے.یہاں تک کہ وہ سمجھ لے کہ ۴.
52 میں نے نماز کو کما حقہ ادا کیا ہے.پانچواں درجہ نماز کا یہ ہے کہ انسان نماز میں پوری محویت حاصل کرے اور جس طرح غوطہ زن سمندر میں غوطہ لگاتے ہیں اسی طرح وہ بھی نماز کے اندر غوطہ مارے.یہانتک کہ وہ دو میں سے ایک مقام حاصل کر لے یا تو یہ کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہو اور یا یہ کہ وہ اس یقین کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہو کہ خدا تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے..چھٹا درجہ ایمان کا یہ ہے کہ نوافل پڑھے جائیں.یہ نوافل پڑھنے والا گویا خدا تعالیٰ کے حضور یہ ظاہر کرتا ہے کہ میں نے فرائض کو تو ادا کر دیا ہے مگر ان فرائض سے میری تسلی نہیں ہوئی اور وہ کہتا ہے اے خدا میں یہ چاہتا ہوں کہ میں ان فرائض کے اوقات کے علاوہ بھی تیرے دربار میں حاضر ہوا کروں.ساتواں درجہ ایمان کا یہ ہے کہ انسان نہ صرف پانچوں نمازیں اور نوافل ادا کرے بلکہ رات کو بھی تہجد کی نماز پڑھے.یہ وہ سات درجات ہیں جن سے نماز مکمل ہوتی ہے.اور ان درجات کو حاصل کرنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ خدا تعالیٰ رات کے وقت عرش سے اترتا ہے اور اس کے فرشتے پکارتے ہیں کہ اے میرے
53 بند و خدا تعالی تمہیں ملنے کے لیے آیا ہے.اٹھو اور اس سے مل لو 66 ( تفسیر کبیر جلد ۶ تفسیر سورۃ مومنون صفحه ۱۳۵) سجدہ سہو نماز کے دوران ایسی غلطی جس کی وجہ سے ارکان نماز کی ترتیب بدل جائے یا کوئی واجب عمل جیسے درمیانی قعدہ ( بیٹھنا ) رہ جائے یا رکعات کی تعداد میں فرق پڑ جائے یا فرق پڑنے کا شک پڑ جائے تو ایسی غلطی کے تدارک کے لیے دو زائد سجدے کرنے ضروری ہوتے ہیں.ان سجدوں کو سجدہ سہو کہا جاتا ہے.یہ سجدے نماز کے آخری قعدہ میں تشہد درود شریف اور مسنون دعاؤں کے بعد کئے جاتے ہیں.جب آخری دعا ختم ہو جاتی ہے تو تکبیر کہہ کر دو سجدے کئے جاتے ہیں.ان سجدوں میں بھی تسبیحات سجدہ پڑھی جاتی ہیں اس کے بعد بیٹھ کر سلام پھیر دیا جاتا ہے.یہ دو سجدے اس بات کا اعتراف ہیں کہ غلطی اور نقص سے پاک صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.انسان کمزور اور غلطی کا پتلا ہے اللہ تعالیٰ اس کی غلطی سے در گذر فرمادے اور بدنتائج سے محفوظ رکھے.نوٹ : رکعت اگر رہ جائے تو سجدہ سہو سے قبل رکعت کی ادائیگی بھی ضروری ہے نماز جمعہ ان نمازوں کے علاوہ ایک جمعہ کی نماز ہے جو جمعہ کے دن ظہر کے وقت پڑھی جاتی ہے اس دن ظہر کی نماز نہیں پڑھی جاتی.اس نماز کے لیے جماعت شرط ہے.تمام بالغ تندرست مسلمان / مسلمانوں پر یہ نماز واجب ہے.جیسا کہ قرآن پاک کا ارشاد ہے:
54 يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَوةِ مِنْ يوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوا إلى ذكر اللهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَة (سورۃ جمعہ : ۱۰) ترجمہ:."اے مومنو! جب تم کو جمعہ کے دن نماز کے لیے بلایا جائے (یعنی نماز جمعہ کے لیے ) تو اللہ کے ذکر کے لیے جلدی جلدی جایا کرو.اور (خرید اور ) فروخت کو چھوڑ دیا کرو ، اگر تم کچھ بھی علم رکھتے ہو تو یہ تمہارے لیے اچھی بات ہے.“ عورتوں کے لیے واجب نہیں اگر وہ شامل ہو جائیں تو ان کی نماز جمعہ ہو جائے گی ورنہ وہ ظہر کی نماز ہی پڑھیں.نماز جمعہ کا طریق سورج ڈھلنے کے عمل کے ساتھ ہی مؤذن جمعہ کی پہلی اذان دیتا ہے جس کو سن کر نمازی مساجد کی طرف جمعہ کی نماز کے لیے رخ کرتے ہیں.امام / خطیب جب خطبہ کے لیے آئے تو (امام کی اجازت سے ) دوسری اذان دی جاتی ہے.امام تشہد اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد خطبہ پڑھتا ہے جس میں حسب حالات اور موقعہ کی ضرورت کے متعلق وہ مسلمانوں کو ہدایت دیتا ہے ( یا اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے ) اس کے بعد امام / خطیب چندلمحات کے وقفہ کے لیے بیٹھ جاتا ہے.پھر کھڑے ہوکر دوسرا ( ثانیہ ) خطبہ پڑھتا ہے یہ
55 خطبہ انتہائی توجہ ، ادب اور خاموشی کے ساتھ سننا چاہیے خطبہ ثانیہ عربی میں دیا جاتا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں.خطبہ ثانیہ کے مسنون الفاظ الْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بهِ وَنَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يُهْدِهِ الله فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا الله وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ عِبَادَ اللهِ رَحِمَكُمُ اللهُ إنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَان وَابْتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ
56 لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ.اَذْكُرُوا اللهَ يَذْكُرُكُمْ وَادْعُوهُ يَسْتَجِبْ لَكُم وَلَذِكْرُ الله اكبر ترجمہ :.ہر قسم کی تعریف کا اللہ ہی مستحق ہے.اس لیے ہم اسکی تعریف کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں اور اسی سے مغفرت کے طلبگار ہیں.اسی پر ایمان لاتے ہیں اور اسی پر تو کل کرتے ہیں.ہم اپنے نفس کے شر اور اپنے اعمال کے بدنتائج سے اس کی پناہ چاہتے ہیں.جسے خدا تعالیٰ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جس کے لیے گمراہی مقدر ہوا سے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا.اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں.اے اللہ کے بندو تم پر اللہ رحم کرے ، وہ تمہیں عدل اور انصاف کا حکم دیتا ہے اور قریبی رشتہ داروں سے حسن سلوک کی تلقین کرتا.ہر قسم کی بے حیائی ، نا پسندیدہ باتیں اور بغاوت سے روکتا ہے.تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ تم سمجھ جاؤ.اللہ تعالیٰ کو یاد کرو وہ تمہیں یاد کرے گا.اسے بلاؤ وہ تمہیں جواب دے گا اللہ تعالیٰ کو یاد ،، کرنا سب سے بڑی نعمت ہے.خطبہ ثانیہ کے بعد اقامت کہہ کر دو رکعت نماز باجماعت ادا کی جاتی ہے.نماز میں قراءت بالجبر ہوتی ہے.خطبہ پڑھنے والا ہی نماز پڑھائے.جمعہ کی نماز سے پہلے اور بعد چار چار رکعت نما ز سنت پڑھی جائے.بعد میں چار کی بجائے دورکعت بھی پڑھی جاسکتی ہے
57 اگر خطبہ کے دوران مسجد میں پہنچے تو دو مختصر رکعت سنت پڑھے.نوٹ:.جمعہ کی نماز کی کوئی قضاء نہیں.اگر وقت کے اندر جمعہ نہ پڑھا جاسکے تو پھر ظہر کی نماز ہی پڑھی جائے.نماز عیدین نماز عید الفطر اور نماز عید الاضحیہ واجب نمازیں ہیں.عید الفطر رمضان کے بعد یکم شوال کو ہوتی ہے اور عیدالاضحیہ دسویں ذوالحجہ کو منائی جاتی ہے.یہ دونوں واجب نمازیں ہیں دونوں عیدوں پر عید کی دورکعت نماز کسی کھلے میدان یا عید گاہ میں زوال سے پہلے پڑھی جاتی ہے.حسب ضرورت عید کی نماز جامع مسجد ا مسجد میں بھی ادا کی جاسکتی ہے عید کی نماز میں با جماعت ہی پڑھی جاسکتی ہیں.اکیلے جائز نہیں.نماز عید کی پہلی رکعت میں ثناء کے بعد تعوذ سے پہلے امام سات تکبیریں بلند آواز سے کہے اور مقتدی آہستہ آواز سے یہ تکبیرات کہیں.امام اور مقتدی دونوں تکبیرات کہتے وقت (دونوں ) ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور کھلے چھوڑیں.تکبیرات کے بعد امام اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھنے کے بعد سورۃ فاتحہ پڑھے اور پھر قرآن کریم کا کوئی حصہ بالجہر پڑھے.اور پہلی رکعت مکمل کر کے دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے ہی پانچ تکبیریں جیسا کہ پہلی رکعت میں پڑھی گئیں تھیں کہے.پھر دوسری رکعت مکمل کرنے پر تشہد ، درود شریف اور مسنون دعاؤں کے بعد سلام پھیر دے.اس کے بعد امام خطبہ پڑھے.اس کے بھی نماز جمعہ کی طرح دو خطبے ہوتے ہیں.اگر عید الفطر پہلے دن زوال سے پہلے کسی مجبوری کی بناء پر نہ پڑھی جاسکتی ہو تو دوسرے دن پڑھی جاسکتی ہے.
58 اسی طرح عید الاضحیہ اگر کسی مجبوری کی وجہ سے پہلے دن نہ پڑھی جاسکی ہو تو تیسرے دن تک زوال سے پہلے پڑھی جاسکتی ہے.( فقه احمد یہ جلد دوم صفحه ۱۷۹) دونوں عیدوں کی نماز ایک جیسی ہے.فرق صرف یہ ہے کہ عید الاضحیہ کی نماز ختم ہونے کے بعد امام اور مقتدی دونوں کم از کم تین بار بلند آواز سے تکبیرات کہیں.اسی طرح نویں ذوالحجہ کی فجر سے تیرہویں کی عصر تک با جماعت فرض نماز کے بعد بلند آواز سے یہی تکبیرات کہی جاتی ہیں.تکبیرات درج ذیل ہیں.اللهُ أَكْبَرُ اللَّهُ اَكْبَرُ.لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ وَاللهِ الْحَمْدُ اللہ سب سے بڑا ہے.اللہ سب سے بڑا ہے.اسکے سوا اور کوئی معبود نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے اللہ سب سے بڑا ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے سب تعریفیں ہیں.“ عیدین کی نماز کے لیے راستہ میں آتے جاتے یہی تکبیریں دھیمی بلند آواز سے پڑھنا سنت نبوی ہے.نماز کے بعد کی دعائیں احادیث سے ثابت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرنے کے بعد چند دعائیں پڑھتے تھے.سنت نبوی پر عمل کرتے ہوئے ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم بھی وہی عمل کریں جو ہمارے پیارے آقا کرتے تھے.وہ چند دعائیں درج ذیل ہیں:
59 ا.اَللَّهُمَّ أنْتَ السَّلامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ تَبَارَكْتَ يَاذَ الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ ترجمہ: ”اے اللہ ! تو سلام ہے اور تجھ سے ہی ہر قسم کہ سلامتی ہے.تو بہت برکتوں والا ، جلال والا اور اکرام والا ہے.“ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ المُلكُ وَلَهُ الحَمدُ وَهُوَ عَلى كُلّ شَيْءٍ قَدِيرٌ اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا يَنْفَعُ ذَالْجَدِ مِنْكَ الْجَدُّ ترجمہ:.اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور نہ ہی کوئی اس کا شریک ہے.اسی کے لیے بادشاہت ہے اور اسی کے لیے تمام تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے.اے اللہ نہیں کوئی روکنے والا اس چیز کو جو تو نے عطا کی اور نہیں ہے کوئی دینے والا اس چیز کو جو تو نے روک دی.اور نہیں فائدہ دیتی بزرگی والے کو تیرے سامنے کوئی بزرگی.“
60.اللَّهُمَّ أَعِنِّى عَلَى ذِكْرِكَ وَ شُكْرِكَ وَحُسُن عِبَادَتِكَ ترجمہ:.اے میرے اللہ ! میری مدد فرما کہ میں تجھے یاد کر سکوں ( کروں) تیرا شکر کروں اور نہایت عمدگی کے ساتھ باحسن وجوہ تیری عبادت بجا لاؤں.“.سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ 28 وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ وَالْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ترجمہ:.”تیرا رب ہر عیب سے، جو کفار کہتے ہیں پاک ہے اور عزت والا ہے.خدا کی رحمتیں نازل ہوں تمام رسولوں پر اور تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے.“ سُبْحَانَ الله ۳۳ مرتبه اللہ تمام نقائص سے پاک ہے.
61 الحَمدُ لله ۳۳ مرتبه تمام تعریفیں ( خوبیاں ) اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں.الله اكبر ۳۴ مرتبه اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے.لا إلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ.لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی شریک ہے.تمام بادشاہت اور تمام تعریف ( خوبی ) اسی کے لیے ہے اور ہر چیز پر وہ قادر ہے.نوٹ :.جو شخص معذور / بیمار ہو اور کھڑا ہو کر نماز نہ پڑھ سکتا ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھے، اگر بیٹھ کر بھی نماز نہ پڑھ سکتا ہو تو لیٹ کر پڑھے.اور رکوع اور سجدہ نہ کرسکتا ہو تو اشارہ سے رکوع اور سجدہ کر سکتا ہے جب تک ایک مسلمان ذی ہوش و حواس ہے نماز اس پر فرض ہے.جس کا چھوڑ نا باعث گناہ ہے.اذان اذان کے لفظی معنے ”اعلان عام“ کے ہیں.نماز با جماعت کی تیاری کے لیے متوجہ
62 کرنے اور مسلمانوں کو جمع کرنے کے لیے جو کلمات بلند آواز سے ادا کئے جاتے ہیں انہیں اذان کہا جاتا ہے.اذان مدینہ منورہ میں ا ھ میں شروع ہوئی.پانچ وقت نمازوں کے اوقات سے پہلے اذان دی جاتی ہے.اس کے کلمات مندرجہ ذیل ہیں.اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ اللہ سب سے بڑا ہے.اللہ سب سے بڑا ہے.اللہ سب سے بڑا ہے.اللہ سب سے بڑا ہے.أَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا اللهُ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ) کے سوا کوئی معبود نہیں.اَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا الله میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ) کے سوا کوئی معبود نہیں.اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللهِ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں.اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللهِ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں.حَيَّ عَلَى الصَّلوةِ.حَيَّ عَلَى الصَّلوةِ
63 چلے آؤ نماز کی طرف چلے آؤ نماز کی طرف حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ چلے آؤ کامیابی کی طرف، چلے آؤ کامیابی (نجات) کی طرف الله اكبر الله اكبر اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے.لا اله الا الله اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں.صرف صبح کی اذان میں حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ کے بعد درج ذیل کلمات زائد کہے جاتے ہیں (باقی ویسے ہی ہیں) الصَّلوةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ نماز نیند سے بہتر ہے الصَّلوةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوم نماز نیند سے بہتر ہے اذان کہنے کا طریق اذان با وضوء کہی جاتی ہے.نماز با جماعت کے لیے اذان ضروری ہے لیکن اگر کسی مجبوری کی وجہ سے نہ کہی جاسکتی ہو تو پھر نماز با جماعت اذان کے بغیر ہی جائز ہے.جب
64 اذان کا وقت ہو جائے تو مؤذن (اذان دینے والا ) کسی اونچی نمایاں جگہ پر قبلہ رخ کھڑا ہو جائے.شہادت کی دونوں انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال کر مذکورہ کلمات اذان بآواز بلند.حَيَّ عَلَى الصَّلوة پر دونوں باراپنامن دائیں طرف اور حَيَّ عَلَى الفلاح پر بائیں طرف پھیرے.مئوذن خوش الحان اور بلند آواز اور دینی مسائل سے واقفیت رکھنے والا ہو.اذان سننے والے مئوذن کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ اذان کے کلمات دہراتے ہیں البتہ حَيَّ عَلَى الصَّلوة اور حَيَّ عَلَى الفلاح پر ہربار لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِي الْعَظِیمِ.پڑھیں.اذان ختم ہونے پر موذن اور اذان سننے والے مندرجہ ذیل دعائیں مانگیں.(١) اَللّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلوة الْقَائِمَةِ اتِ مُحَمَّدَ الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَالدَّرَجَةَ الرَّفِيعَةَ وَابْعَثُهُ مَقَامًا مَّحْمُودَا الَّذِى وَعَدْتَهُ وَاجْعَلْنَا فِي شَفَاعَتِهِ يَوْمَ الْقِيمَةِ
65 انَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ.( صحیح بخاری کتاب الاذان ) اے اس کا مل دعا اور قائم رہنے والی عبادت کے خدا محمد (عربی) صلی اللہ علیہ وسلم کو کا میاب ذریعہ اعلیٰ فضیلت اور بلند درجہ عطا فرما اور تو نے جس مقام محمود کا ان سے وعدہ کیا ہے اس پر آپ کو مبعوث فرما اور قیامت کے دن ہمیں اپنی شفاعت ( والے گروہ ) میں بنا ( داخل کر یقینا تو اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا.(۲) حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: ترجمہ : جس نے مؤذن کی اذان سنتے ہوئے یہ دعا پڑھی کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ تنہا ہے یعنی ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور یہ کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں.میں اللہ سے بطور رب اور محمد سے بطور رسول اور اسلام سے بطور دین راضی ہوں تو اس کے تمام گناہ بخش دئے جاتے ہیں.(مسلم کتاب الصلوة ) (۳) حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ علی نے مجھے تعلیم دی کہ میں مغرب کی اذان کے وقت یہ دعا پڑھوں اے اللہ یہ تیری رات کی آمد اور تیرے دن کی واپسی کا وقت ہے اور یہ تجھے پکارنے والوں کی آواز میں ہیں.پس تو میری مغفرت فرما.( سنن ابی داؤ د کتاب الصلوة ما يقول عند اذان المغرب)
66 اقامت نمازیوں کو یہ اطلاع کرنے کے لیے کہ اب نماز کھڑی ہونے لگی ہے اور امام نماز پڑھانے کے لیے مصلیٰ پر قبلہ رخ کھڑے ہو چکے ہیں اقامت کہی جاتی ہے.جس کے کلمات درج ذیل ہیں.اللهُ أَكْبَرُ الله اكبر اللہ سب سے بڑا ہے.اللہ سب سے بڑا ہے.أَشْهَدُ اَنْ لا اله الا الله میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ) کے سوا کوئی معبود نہیں.اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ الله میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں.حَيَّ عَلَى الصَّلوةِ - حَيَّ عَلَى الفلاح آؤ نماز کی طرف، آؤ نجات اور کامیابی کی طرف.قَدْ قَامَتِ الصَّلَوةُ - قَدْ قَامَتِ الصَّلوةُ کھڑی ہوگئی نماز.کھڑی ہوگئی نماز الله اكبر الله اكبر
67 اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے.لا إله إلا الله اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں.نوٹ :.فرض نمازوں کے سوا کسی اور باجماعت نماز میں اقامت نہیں کہی جاتی.نمازیں جمع کرنا بیماری ،سفر، بارش ،طوفان بادوباراں ،سخت کیچڑ ، سخت اندھیرا یا ایسی وجہ جس سے مسجد میں بار بار آنے میں دقت کا سامنا ہو.اسی طرح کسی اہم دینی اجتماع ، کام کی صورت میں ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کی نمازوں کو جمع کیا جاسکتا ہے.باجماعت بھی اور اکیلے بھی.نمازیں جمع کرنی ہوں تو ایک اذان ہی دی جاتی ہے.البتہ اقامت ہر ایک نماز کے لیے الگ الگ کہنی ہوگی.نمازیں جمع کرنے کی صورت میں فرضوں سے پہلی سنتیں بھی اور بعد کی سنتیں بھی معاف ہو جاتی ہیں.( فقه احمد یہ صفحہ ۱۸۷، عبادات ) نماز تراویح نماز تراویح دراصل تہجد کی ہی نماز ہے.رمضان المبارک میں اس کے فائدہ کو عام کرنے کے لئے لوگوں کی سہولت کے لئے اسے رات کے پہلے حصہ میں یعنی عشاء کی نماز کے بعد ادا کرنے کی اجازت دی گئی ہے یہ اجازت حضرت عمر خلیفۃ الرسول الثانی نے
68 دی تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ مستفید ہو سکیں.تاہم یہ نماز رات کے آخری حصہ میں ادا کی جانی زیادہ افضل ہے.طریق نماز تراویح تراویح کی نماز کی آٹھ رکعت ہیں جو کہ دو ، دو کر کے پڑھی جاتی ہیں.اور ان میں قرآن کریم سنایا ( پڑھا جاتا ہے.نماز تراویح کے بعد تین وتر پڑھے جاتے ہیں.نماز جنازه نماز جنازہ فرض کفایہ ہے.یعنی جب کوئی مسلمان فوت ہو جائے اور کچھ مسلمان اس کا جنازہ پڑھ لیں تو سب کی طرف سے فرض ادا ہونا سمجھ لیا جاتا ہے اور اگر کوئی مسلمان بھی جنازہ نہ پڑھے تو سب مسلمان گنہگار ہو جاتے ہیں.اس نماز کے چار حصے ہوتے ہیں.حاضر لوگ امام کے پیچھے صف بندی کریں اور یہ نفیس تعداد میں طاق بنائی جاتی ہیں.امام آگے درمیان میں کھڑا ہو.میت ( مرد عورت ) امام کے سامنے رکھی جاتی ہے.امام قبلہ رو کھڑے ہو کر بلند آواز سے تکبیر تحریمہ کہتا ہے.مقتدی بھی آہستہ آواز میں تکبیر کہیں.اس کے بعد ثناء اور سورۃ فاتحہ آہستہ آواز میں پڑھی جائے.پھر امام بغیر ہاتھ اٹھائے بلند آواز سے دوسری تکبیر کہے اور مقتدی بھی آہستہ آواز سے کہیں.پھر درود شریف جونماز میں پڑھتے ہیں پڑھا جائے.پھر تیسری تکبیر کہی جائے اور میت کے لیے مسنون دعا کی جائے.جو کہ درج ذیل ہے.
69 بالغ مرد عورت کے لیے مغفرت کی دعا اَللّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيْنَا وَمَيِّتِنَا وَشَاهِدِنَا اے اللہ ہمارے زندوں کو بخش دے اور جو وفات پاچکے ہیں اور جو حاضر ہیں وَغَائِبِنَا وَصَغِيْرِنَا وَكَبِيرِنَا وَذَكَرِنَا وَانْثَانَا اور جو موجود نہیں اور ہمارے چھوٹے بچوں کو اور بڑوں کو اور ہمارے مردوں کو اور عورتوں کو (بخش دے) اللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَاحْيه اے اللہ جس کو تو ہم میں سے زندہ رکھے.عَلَى الْإِسْلَامِ اس کو اسلام پر زندہ رکھ.وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِيْمَانِ اور جس کو تو ہم میں سے وفات دے اس کو ایمان کے ساتھ وفات دے.
70 اَللّهُمَّ لَا تَحْرِمُنَا أَجْرَهُ وَلَا تَفْتِنا بَعْدَهُ اے اللہ تعالیٰ اس کے اجر وثواب سے ہم کو محروم نہ رکھ اور اس کے بعد ہمیں کسی فتنہ میں نہ ڈال.میت نابالغ ہو تو اس کے ماں باپ کے صبر اور نعم البدل کے لیے بھی دعا کی جاتی ہے.نیز اس امر کے لیے کہ مرنے والے کو خدا تعالیٰ اس کے رشتہ داروں کے لیے اگلے جہاں میں رحمت اور بخشش کا ذریعہ بنادے.نابالغ لڑکے کے جنازہ کی دعا اللهُمَّ اجْعَلْهُ لَنَا سَلَفًا وَفَرَطاوَّذُ خُرَ أَوْ أَجْرًا وَشَافِعًا وَمَشَفَّعًا اے اللہ تعالیٰ اس کو ہمارے فائدہ کے لیے پہلے جانے والا اور ہمارے آرام کا ذریعہ بنا اور سامان خیر بنا اور موجب ثواب.یہ ہمارا سفارشی ہے اور اس کی سفارش کو قبول فرما.نابالغ لڑکی کے جنازہ کی دعا اللّهُمَّ اجْعَلُهَا لَنَاسَلَفًا وَفَرَطاوَّذُخْرَ اوَّ شَافِعَةً وَمُشَفَّعَةً اے اللہ تعالیٰ اس بچی کو ہمارے فائدہ کے لیے پہلے جانے والی اور ہمارے آرام کا ذریعہ بنا اور سامان خیر بنا اور موجب ثواب.یہ ہماری
71 سفارشی بنے اور اس کی سفارش کو قبول فرما.اس کے بعد امام چوتھی بار پھر بلند آواز سے تکبیر کہتا ہے.اس کے بعد سلام پھیر کر نما ز کو ختم کر دیتا ہے.نوٹ :.اس نماز کے تمام حصے کھڑے کھڑے ادا کئے جاتے ہیں.رکوع اور سجدہ نہیں کئے جاتے.نماز استسقاء قحط سالی اور بارش کی کمی کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے اور اس کے رحم اور کرم کو جوش میں لانے کے لیے دن میں کسی وقت اس کے عاجز بندے کسی کھلے میدان میں جمع ہو کر انتہائی عاجزی کے ساتھ دو رکعت نماز باجماعت ادا کرتے ہیں.امام ایک چادر اوڑھے ہوتا ہے.نماز استسقاء میں قرآت بالجہر ہوتی ہے نماز سے فارغ ہونے پر امام اونچے ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ سے الحاح اور عاجزی کے ساتھ یہ مسنون دعامانگے.اللّهُمَّ اسْقِنَا غَيْنًا مُّغِينًا مُّرِيعًا نَافِعًا اے اللہ ہم کو پانی پلا برسنے والا گھبراہٹ دور کرنے والا.فائدہ دینے والا.غَيْرَ ضَارِ عَاجِلا غَيْرَاجِلِ اللَّهُمَّ اسْقِ عِبَادَكَ وَبَهَائِمَكَ ضرر نہ دینے والا ، جلد آنے والا ، دیر نہ کرنے والا.اے اللہ تعالیٰ پانی پلا اپنے بندوں کو اور اپنے جانوروں کو.
72 وَانْشُرُ رَحْمَتَكَ وَاحْيِي بَلَدَكَ الْمَيِّتَ اَللّهُمَّ اسْقِنَا اللَّهُمَّ اسْقِنَا اللَّهُمَّ اسْقِنَا اور پھیلا اپنی رحمت کو اور زندہ کر اپنے اس مردہ علاقہ کو.اے اللہ تعالیٰ ہم کو پانی پلا ، اے اللہ تعالیٰ ہم کو پانی پلا ، اے اللہ تعالیٰ ہم کو پانی پلا.درود شریف اور استغفار اور دعا کرنے کے بعد امام اپنی چادر کو الٹائے.یہ تصویری زبان میں اللہ تعالیٰ سے التجا ہے کہ میرے خدا جس طرح میں نے چادر کو الٹا دیا اسی طرح تو قحط سالی کی حالت کو الٹا دے اور خوش حالی پیدا کر دے.نماز استخاره ہرا ہم دینی اور دنیوی کام شروع کرنے سے پہلے اس کے بابرکت اور کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہونے کے لیے دعا کی جائے.اس میں انسان علام الغیوب خدا تعالیٰ سے طلب خیر کی التجا کرتا ہے اور رہنمائی چاہتا ہے.اسی مناسبت سے اسے صلوۃ الاستخارہ کہا جاتا ہے.نماز استخارہ کا طریق رات کو سونے سے پہلے دو رکعت نفل پڑھے جائیں.سورۃ فاتحہ کے علاوہ پہلی رکعت میں سورۃ کافرون اور دوسری میں سورۃ اخلاص پڑھنا مسنون ہے.قعدہ میں تشہد ، درود شریف اور مسنون دعاؤں کے بعد عجز اور انکساری کے ساتھ مندرجہ ذیل دعا پڑھے.
73 اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ اے اللہ ! میں بھلائی چاہتا ہوں جو تیرے علم میں ہے.وَاسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَاسْتَلْكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ اور قدرت چاہتا ہوں جو تیری توفیق سے ہی مل سکتی ہے اور مانگتا ہوں تیرے بڑے فضلوں کو.فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلامُ الْغُيُوبِ کیونکہ تو طاقت رکھتا ہے اور میں طاقت نہیں رکھتا.اور تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا تو تمام غیب کی باتوں کو جانتا ہے اَللّهُمَّ اِنْ كُنتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الَا مُوَخَيْرٌ لِى فِى دِيُنِي وَمَعِيُشَتِي (مَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِى فَاقْدِرُهُ لِى فَيَسِّرُهُ لِى ثُمَّ اے اللہ اگر یہ کام جو مجھے درپیش ہے میرے لیے دین و دنیا میں اور
74 انجام کے لحاظ سے بہتر ہے.تو اس کو میرے لیے مقدر فرما.اور میرے لیے آسان کر دے پھر بَارِک لِى فِيْهِ وَإِن كُنتَ تَعْلَمُ أنَّ هذا الأمر شَرِّلي فِي دِينِي وَمَعِيشَنِي مَعَاشِي) میرے لیے اس میں برکت ڈال دے.اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے دین اور میری دنیا کے لیے اور انجام کے لحاظ سے مضر ہے تو وَعَاقِبَةِ أَمْرِى فَاصْرِفْهُ عَنِّى وَاصْرِفْنِى عَنْهُ وَاقْدِرْلِيَ الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ اَرْضِنِي بِه اس کو مجھ سے دور ہٹا دے اور مجھ کو اس سے دور رکھ.اور میرے لیئے بھلائی مقدر کر جہاں کہیں وہ ہو پھر اس کے بارے میں تسکین و رضا عطا فرما.ارشادسید نا حضرت مسیح موعود بانی سلسہ احمدیہ " آج کل اکثر مسلمانوں نے استخارہ کی سنت کو ترک کر دیا ہے.حالانکہ آنحضرت پیش آمدہ امر میں استخارہ فرمالیا کرتے تھے.سلف صالحین کا بھی یہی طریقہ تھا.چونکہ دہریت کی ہوا پھیلی ہوئی ہے اس لیے لوگ اپنے علم و فضل پر نازاں ہوکر کوئی کام شروع کر لیتے ہیں اور پھر نہاں در نہاں اسباب سے جن کا انہیں علم نہیں ہوتا
75 نقصان اُٹھاتے ہیں.اصل میں یہ استخارہ ان بد رسومات کی عوض میں رائج کیا گیا تھا جو مشرک لوگ کسی کام کی ابتداء سے پہلے کیا کرتے تھے.لیکن اب مسلمان اسے بھول گئے.حالانکہ استخارہ سے ایک عقل سلیم عطا ہوتی ہے.جس کے مطابق کام کرنے سے کامیابی حاصل ہوتی ہے.(البدر ۱۳، جون ۱۹۰۷ ء ) نماز کسوف و خسوف سورج گرہن کو کسوف اور چاند گرہن کو خسوف کہا جاتا ہے.اجرام فلکی کی بیضوی شکل میں حرکت سے جو نتیجہ پیدا ہوتا ہے وہ انسان کو خدا تعالیٰ کے قادر اور خالق کل ہونے کی طرف متوجہ کرتا ہے.اور اس طرح انسان سوچتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی وہ دنیاوی روشنی اور روحانی نور حاصل کر سکتا ہے اور اللہ ہی کی ذات انسان کو اجرام فلکی کی تمام قسم کی شعاعوں کے بداثرات سے بچاتی ہے اور اچھے اثرات سے متمتع کرتی ہے.سواس بات کے شکرانے اور روحانی ترقی حاصل کرنے کی غرض سے ایسے موقعہ پر دو رکعت نماز ادا کی جاتی ہے جسے نماز کسوف اور خسوف کہا جاتا ہے.طریق نماز کسوف و خسوف گاؤں اشہر کے سب لوگ مسجد میں یا کھلے میدان میں جمع ہو کر یہ نمازیں پڑھیں.اور بہتر ہوگا کہ یہ نماز با جماعت پڑھی جائے.باجماعت نماز کی صورت میں قرآت بالجہر اور لمبی ہونی چاہیئے.حسب حالات ہر رکعت میں کم از کم دور کوع کیے جائیں.یعنی قرآت کے بعد رکوع کیا جائے اور پھر قرآن کا کچھ حصہ پڑھا جائے.اس کے بعد دوسرا رکوع کیا جائے اور پھر سجدہ ہو.اس نماز کے رکوع اور سجدے بھی لمبے ہونے چاہئیں نماز
76 کے بعد امام خطبہ دے جس میں تو بہ، استغفار اور اصلاح حال کی تلقین کی جائے.صلوة الحاجة اگر کوئی حاجت یا ضرورت پیش ہو تو اس کے لیے دعا کا طریق جو حدیث میں بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ وضو کر کے دورکعت نماز پڑھی جائے.نماز سے فارغ ہو کر ثناء درود پڑھے اور پھر یہ دعا مانگے.له إلا الله العليم الكريم سبحن اللهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ اَسْتَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ وَالْغَنِيْمَةَ مِنْ كُلِّ بِرِّوَّ السَّلَامَةَ مِنْ كُلّ إِثْمِ لَا تَدْعُ لِى ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَهُ وَلَا هَمَّا إِلَّا فَرَّجْتَهُ وَلَا حَاجَةً هِيَ لَكَ رَضًا إِلَّا قَضَيْتَهَا يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ ترجمہ :.اللہ تعالیٰ کہ سوا کوئی معبود نہیں وہ حلم والا ہے اور کرم والا ہے اللہ تعالیٰ پاک ہے اور عرش عظیم کا مالک ہے.سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے
77 ہیں جو رب العالمین ہے.اے اللہ میں تجھ سے تیری رحمت کے سامان چاہتا ہوں اور تیری مغفرت کے وسائل مانگتا ہوں.ہر نیکی سے وافر حصہ اور ہر گناہ سے بچنے کی درخواست کرتا ہوں.میرا کوئی گناہ نہ رہے تو سب بخش دے اور میرا کوئی غم نہ رہے تو سب دور کر دے اور میری ہر ضرورت جس پر تو خوش ہے اسے پورا کر دے اے سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والے“ (ترمذی.باب صلوۃ الحاجة ) نماز اشراق یعنی چاشت کی نماز نیزہ بھر سورج نکلنے کے بعد دو رکعت نماز پڑھنے کو اشراق کی نماز کہا جاتا ہے.دھوپ اچھی طرح نکل آئے اور گرمی بھی قدرے بڑھ جائے.اس وقت آٹھ یا چار رکعت نماز پڑھنا اس نماز کو صلوۃ الضحی کہا جاتا ہے (کشف الغمه ۳۱۳/۱) ان نمازوں (نفل) کے پڑھنے کا ثواب بعض احادیث سے ثابت ہے.
78 نماز تسبیح (صلوة التسبيح) ترمذی اور بعض دوسری احادیث کی کتب میں صلوۃ التسبیح کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے.یہ نماز نفل ہے حسب ضرورت و توفیق یہ نماز ہر روز ، ہر ہفتہ، ہر ماہ یا سال یا عمر میں ایک بار اوقات ممنوعہ کے علاوہ کسی وقت بھی پڑھی جا سکتی ہے.اس کی چار رکعت پڑھی جائیں.طریق صلوۃ التسبیح ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ اور کوئی دوسری سورۃ پڑھنے کے بعد پندرہ دفعہ سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ! وَلَا اله الالله وَاللهُ أَكْبَرُ پھر رکوع میں تسبیحات کے بعد، رکوع سے کھڑے ہو کر سمیع و تحمید کے بعد ، ہر سجدہ میں تسبیحات کے بعد دعائے بین السجدتین (یعنی سجدوں کے درمیان کی دعا) کے بعد ،اور ہر رکعت کے دوسرے سجدے کے بعد بیٹھ کر دس دس دفعہ یہی مندرجہ بالا دعا (ذکر) کرے.اس طرح گویا ایک رکعت میں پچھتر بار اور چار رکعتوں میں تین سو بار یہ ذکر دہرایا جاتا ہے.نوٹ : نوافل کے بارے میں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی افادیت اور اہمیت فرائض کے بعد ہے.جب انسان فرائض بابت حقوق اللہ اور حقوق العباد کما حقہ ادا کرتا ہے اور اسکے بعد نوافل بھی ادا کرتا ہے تو پھر یہ اس کیلئے عین روحانی ترقی کا باعث ہے اور یہ نوافل اسکے فرائض کی نگہداشت کرتے ہیں اور ثواب کا باعث ہیں.
79 خطبہ نکاح نکاح کا اعلان کرتے وقت خطبہ پڑھنا مسنون ہے.خطبہ کے الفاظ یہ ہیں.الحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَهْدِهِ الله فَلا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ وَاَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدَهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ باللهِ مِنَ الشَّيْطنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (1) يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرُ اوْ نِسَاء وَاتَّقُوا اللهَ
80 الَّذِي تَسَاءَ لُوْنَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًاه -2- يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا يُصْلِحُ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًاه -3- يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (ترمذی کتاب النکاح باب في خطبة النکاح صفحہ ۱۳۱) اس کے بعد ایجاب قبول کروایا جاتا ہے.چند ضروری دعائیں.1 رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً و فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
81 اے ہمارے رب ہمیں دے دنیا کی ( زندگی ) میں ( بھی ) کامیابی اور آخرت میں (بھی) کامیابی ( دے ) اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا..2 رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَسِرِينَ.اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہم کو نہ بخشے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو ہم نقصان اُٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے.3 رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَارَبَّيْنِي صَغِيرًا.اے میرے رب ان پر مہربانی فرما کیونکہ انہوں نے بچپن کی حالت میں میری پرورش کی تھی..4 رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَّ أَنْتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ اے میرے رب ! مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو وارث ہونے والوں میں سب سے بہتر ہے..5 رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمُ وَأَنتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ
82 اے میرے رب ! معاف کر اور رحم کر اور تو سب سے اچھا رحم کرنے والا ہے..6 رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَاماً اے ہمارے رب ! عطا کرنا ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک اور ہمیں متقیوں کا امام بنا.آداب مسجد جیسا کہ بیان ہو چکا ہے کہ نماز با جماعت کے قیام کے لیے مساجد بنائی جاتی ہیں.الْمَسَاجِدُ لِلهِ ، مسجد خدا تعالیٰ کا گھر ہے.اس میں ذکر الہی نماز کا قیام ہوتا ہے.دنیوی معاملات کے بارے میں باتیں نہیں ہونی چاہئیں.اس طرح شور بھی نہیں ہوتا.مساجد کو صاف ستھرا رکھنا چاہیئے.صفیں پاک ہوں مسجد میں خوشبو لگا کر جانا پسندیدہ (مستحسن ) ہے.کوئی ایسی چیز کھا کر مجد نہیں جانا چاہیے جس سے بو آتی ہو.مثلا سگریٹ ، حقہ، پیاز لہسن اور مولی وغیرہ.مسجد میں داخل ہونے اور نکلنے کی دعا بسم اللهِ الصَّلوةُ وَالسَّلامُ عَلى رَسُولِ اللهِ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي وَافْتَحُ لِي أَبْوَابَ
83 رَحْمَتِكَ اللہ کے نام کیساتھ آنحضرت ﷺ پر درود اور سلامتی ہو.اے میرے اللہ میرے گناہ بخش اور میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے.نوٹ :.بیت سے نکلتے وقت رَحْمَتِكَ کی بجائے فَضلِكَ کے الفاظ کہے جاتے ہیں.تسبیح و تحمید اور درود شریف سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيم اللهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ ترجمہ: اللہ تعالیٰ پاک ہے اپنی حمد کیساتھ اللہ تعالیٰ پاک ہے بڑی عظمت والا ہے.اے اللہ محمد (ع) پر اور محمد کی آل پر بڑی رحمتیں اور برکات نازل فرما.“
84 نماز میں کی جانے والی ایک دعا سید نا حضرت ابوبکر صدیق نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ میں نماز میں کیا دعا کروں؟ حضور ﷺ نے فرمایا.یہ دعا: اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْماً كَثِيراً وَّلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِّنْ عِنْدِكَ وَارْحَمْنِى اِنَّكَ اَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ( بخاری کتاب الصلوۃ باب الدعاقبل السلام )
85 سجدہ تلاوت قرآن کریم میں درج چودہ آیات سجدہ میں سے کسی ایک کی تلاوت کرتے وقت انسان خواہ کھڑا ہو یا بیٹھا اسے سجدہ کرنا چاہیے.اس طرح سجدہ کرنے کو سجدہ تلاوت کہتے ہیں.یہ سجدہ جتنا جلدی بجالایا جا سکے اتنا ہی اچھا ہے.یہاں تک کہ اس کے لیے وضو کا ہونا بھی کوئی ایسا ضروری نہیں.اس سجدہ میں تسبیحات مسنونہ کے علاوہ یہ دعا احادیث میں مروی ہے.سَجَدَ وَجُهِی لِلَّذِي خَلَقَهُ وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ بِحَوْلِهِ وَقُوَّتِهِ ( ترندی ما یقول في سجود القرآن جلد ۲ صفحه ۱۸۰ وابوداؤ د باب ما یقول اذ اسجد ) ترجمہ:.میرا چہرہ سجدہ ریز ہے اس ذات کے سامنے جس نے پیدا کیا اور اپنی قدرت خاص سے اسے سننے اور دیکھنے کی قوت عطا کی.نیز یہ دعا بھی پڑھ سکتے ہیں.اللهُم سَجَدَ لَكَ سَوَادِي وَآمَنَ بِكَ فُؤادِی ترجمہ:.اے اللہ میری پیشانی تیرے لئے سجدہ کرتی ہے اور میرا دل تجھ پر ایمان لاتا ہے.
86 امام اگر نماز میں یا نماز کے علاوہ سجدہ تلاوت کرے تو مقتدی بھی ساتھ سجدہ کریں.آیات سجد ہ مندرجہ ذیل ہیں.ويسبحونه وله يسجدون سورۃ اعراف آیت ۲۰۷ ۲ بالغدو والاصال سورة رعد آیت ۱۶ ويفعلون مايؤمرون سوره نحل آیت ۵۱ 3 ویزید هم خشوعا سورۃ بنی اسرائیل آیت ۱۱۰ خروا سجدا وبكيا سورة مريم آیت ۵۹ ان الله يفعل ما يشاء سورة الحج آیت ۱۹ وزادهم نفورا سورۃ الفرقان آیت ۶۱ هورب العرش العظيم سوره نمل آیت ۲۷ ۹ وهم لا يستكبرون سورة السجده آیت 1 ١٠ خرراكعاً واناب سورة ص آیت ۲۵ وهم لا يسئمون ۱۲ | فاسجدوا لله واعبدوا ١٣ | لايسجدون ۱۴ | واسجد واقترب سورة حم السجدة آيت ۳۹ سورة نجم آیت ۶۳ سورة انشقاق آیت ۲۲ سورة علق آیت ۲۰ ۱۵ | وافعلوا الخير لعلكم تفلحون سورة الحج آیت ۷۸ نوٹ :.بعض کے نزدیک سورۃ حج میں دو سجدے ہیں.دوسر اسجدہ ذیل کی آیت پر ہے.(وافعلوا الخير لعلكم تفلحون - سورة الحج آیت ۷۸).
87 چند سورتیں نماز میں قرآن کریم کے مختلف حصے پڑھے جاتے ہیں.سہولت کی خاطر چندسورتیں یہاں لکھی جاتی ہیں تا کہ یاد کی جاسکیں.بسم اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم أَلَمْ تَرَكَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحِبِ الْفِيْلِ 0 اَلَمْ يَجْعَلُ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ وَّاَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا اَبَابِيْلَ تَرْمِيهِمْ بِحِجَارَةٍ مِّنْ سِجِّيلٍ فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّا كُولِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ o لا يلف قريش الفهم رحلَةَ الشَّتَاءِ وَالصَّيْفِ 0 فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَذَا الْبَيْتِ الَّذِي أَطْعَمَهُم مِّنْ جُوعٍ وَّامَنَهُم مِّنْ خَوْفٍ.
88 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ارَءَ يُتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ فَذَلِكَ الَّذِي يَدُعُ الْيَتِيمَ وَلَا يَحُضُّ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ.الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ) الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُ وُنَ.وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ.وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًاه
89 فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرُهُ ط إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًاه بسم اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَّتَبَّه مَا أَغْنى عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَه سَيَصْلَى نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ.وَّامْرَأَتُهُ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ.فِي جَيْدِهَا حَبْلٌ مِّنْ مَّسَدِهِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ 0 مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ.
90 وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَه وَمِنْ شَرِّ النَّفْتَتِ فِي الْعُقَدِه وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَه بسم اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ o إِلَهِ النَّاسِ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ 0 الَّذِي يُوَسُوسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ
91 ۲..۴..ارشادات حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نماز کے اندر اپنی زبان میں دعائیں مانگنی چاہیں چونکہ اپنی زبان میں دعا مانگنے سے پورا جوش پیدا ہوتا ہے.نماز کے اندر ہر موقع پر رکوع و سجود تسبیح کے بعد بہت دعائیں کرو.نماز اصل میں دعا ہی ہے اگر انسان کا نماز میں دل نہ لگے تو پھر ہلاکت کے لیے تیار ہو جائے کیونکہ جو شخص دعا نہیں کرتا وہ گویا خود ہلاکت کے نزدیک ہو جاتا ہے.فرمایا:.ایک مرتبہ میں نے خیال کیا کہ صلوٰۃ اور نماز میں کیا فرق ہے جو حدیث میں آیا ہے الصَّلوةُ هِيَ الدُّعَاءِ - صلوۃ ہی دعا ہے.نماز عبادت کا مغز ہے.فرمایا کہ جس نماز میں حضور قلب نہیں وہ نما ز نہیں.....ہر مصیبت کے وقت نماز کے اندر دعائیں مانگنی چاہیں.نمازوں میں اپنے دین و دنیا کے لیے دعا کرو.جو خدا کے حضور نماز میں گریاں رہتا ہے وہ امن میں رہتا ہے.
92 كتب و تفاسیر جن سے استفادہ کیا گیا ا.تفسیر کبیر : سورۃ بقرہ حضرت ضرت خلیفہ اسیح الثانی نوراللہ مرقدہ.۲.تفسیر صغیر : حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ..صحیح بخاری: کد ۴.صحیح مسلم: ۵.مشکوۃ شریف: ملفوظات حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ.ے.فقہ احمدیہ : - نماز مترجم مکرم ملک سیف الرحمن صاحب.
93 قیام نماز کا قرآنی حکم اَقِمِ الصَّلوةَ ، إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ترجمه ( سورة العنكبوت : 46 ) اور نماز کو (اس کی سب شرائط کے ساتھ ) ادا کر یقیناً نماز سب بُری اور ناپسندیدہ باتوں سے روکتی ہے.
94 حفاظت نماز حضرت خلیفة المسح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:.”جو لوگ بندوں کا حق مارتے ہیں اور ظلم اور تعدی کے مرتکب ہوتے ہیں وہ نماز کی حقیقت سے ناواقف ہیں.انہوں نے نماز کو دکھاوے، تکبیر اور محض نمائش اور نفس کی بڑائی کا ذریعہ بنالیا ہوتا ہے.ایسے نماز پڑھنے والوں کے لئے قرآن کریم نے ہلاکت کی خبر دی ہے کیونکہ وہ نماز بھی پڑھتے ہیں اور بنی نوع انسان کے حقوق ادا نہیں کرتے.چھوٹی چھوٹی باتوں میں غریبوں کو تنگ کرتے ہیں.ہمسایہ بھوکا ہے تو اس کی پروا نہیں کرتے.بندوں کے حقوق ادا کئے بغیر نماز بے کار اور بے فائدہ ہو جاتی ہے.اس پہلو سے جماعت احمدیہ کو اپنی نمازوں کی بہت زیادہ حفاظت کرنی چاہئیے.قرآن کریم نے نماز کی حفاظت کے سلسلہ میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایک بڑی پیاری دعا کا ذکر فرمایا ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کو نماز اور زکوۃ کی تاکید فرمایا کرتے تھے.نمازوں کے بالالتزام ادا کئے بغیر ہم دنیا کی اصلاح نہیں کر سکتے.اس لئے ذیلی تنظیمیں گھر گھر جا کر لوگوں کو نماز کی طرف توجہ دلائیں.وہ گھروں کے دروازے کھٹکھٹائیں اور نمازوں کے لئے بیوت الذکر میں آنے کی تلقین کریں.(خطبہ جمعہ 9 نومبر 1982ء)
95