Namaz

Namaz

نماز مع ترجمہ اور ضروری مسائل

Author: Other Authors

Language: UR

UR
عبادات

Book Content

Page 1

نماز مع ترجمه وضروری مسائل مرتبہ محترم مولانا ملک سیف الرحمن صاحب

Page 2

نام کتاب: مرتبہ باراول اسلامی نماز محترم ملک سیف الرحمن صاحب مرحوم $ 1979 نظر ثانی شدہ ایڈیشن : مارچ 2013ء عرض ناشر اسلامی نماز کے نام سے محترم ملک سیف الرحمن صاحب مرحوم مفتی سلسلہ عالیہ نے ایک کتابچہ مرتب کیا تھا جسے 1979ء میں مکتبہ سلطان القلم ربوہ نے شائع کیا.مرتب کی طرف سے نماز کے بامحاورہ ترجمہ کے علاوہ بعض ضروری مسائل اختصار سے بیان کئے گئے تھے.اس کتابچہ کو اب نظارت اشاعت کی طرف سے شائع کیا جا رہا ہے.اس میں بعض مقامات پر ضروری رد و بدل کیا گیا ہے.کتاب کا نظر ثانی شدہ ایڈیشن احباب کے استفادہ کے لئے پیش کیا جا رہا ہے.ناشر

Page 3

2 1 بالله الحالي عبادت کا عمومی فلسفہ فو انسان کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے تا کہ اس کے ذریعہ خالق دو جہان کے وجود کا ظہور اور اس کی صفات کا نمود ہو، اسرار فطرت اور راز ہائے قدرت کھل کر سامنے آجائیں یعنی انسان خدا نما وجود بنے اور مظہر صفات باری بن کر تخلیق کائنات کی غرض وغایت پوری کرے.اس لئے انسان کو عبد کہا گیا ہے کیونکہ عبادت کے ایک معنے کسی کا نقش قبول کرنے کے ہیں اور انسان کو ایسے ملکوتی قومی اور اعلیٰ اقدار ودیعت ہوئے ہیں جن کی مدد سے حد بشریت کے اندر رہتے ہوئے جہاں تک اس کے لئے ممکن ہے وہ صفات الہیہ کا پورا نقشہ پیش کر سکتا ہے اور ان کو اپنے اندر پیدا کرنے کی پوری پوری اہلیت رکھتا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:.وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات: ۵۷) یعنی میں نے جن وانس کو صرف عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اس لئے کہ وہ میرے ظہور کا موجب اور میری صفات کا مظہر بنیں.اس آیت کریمہ کی تفسیر وہ حدیث قدسی کرتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.كُنتُ كَنزًا مَخْفِيًا فَارَدْتُ اَنْ أُعْرَفَ فَخَلَقْتُ ادَمَ لِ یعنی میں ایک مخفی خزانہ تھا.پھر میں نے ارادہ کیا میں پہچانا جاؤں.اس کرامات الصادقین ص ۱۴۶، ملفوظات ۲۱/۶ تفسیر کبیر ا.۱۸/۱ ولغات القرآن مزيل الخفا والا لباس مصنفہ اسماعیل بن محمد العجلانی جلد ۲ ص ۱۳۲ لئے میں نے آدم کو پیدا کیا.اس کی مزید وضاحت آنحضرت مہ کے اس ارشاد میں ہے کہ : - إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ ادَمَ عَلَى صُورَتِهِ ! یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا.ان ارشادات کا یہی مطلب ہے کہ انسان کی پیدائش کا مقصد ذات باری کا ظہور اتم ہے کیونکہ وہ صفات الہیہ کا مظہر بن سکتا ہے اور اس کی قدرت کے اسرار پر سے پردہ اٹھانے کی ذہنی استعداد لے کر پیدا ہوا ہے.یہی وجہ ہے کہ استنباط، ایجادات اور نئے نئے انکشافات کی جو قابلیتیں انسان کو ودیعت کی گئی ہیں وہ کسی دوسری مخلوق کو عطا نہیں ہوئیں.حقیقی معنوں میں اللہ تعالیٰ کے عبد کہلانے کی راہ یہ بھی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے جذبات تشکر کا اظہار کرے اور اس کے احسانوں کا اپنی زبان سے اقرار کرے کیونکہ انسان فطرتا اپنے محسن کا شکر یہ ادا کرنے پر مجبور ہوتا ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے.”جُبِلَتِ الْقُلُوبُ عَلَى حُبِّ مَنْ أَحْسَنَ إِلَيْهَا “ یعنی انسان کی بناوٹ ہی ایسی ہے کہ وہ اپنے محسن سے محبت کرنے پر مجبور ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بنے کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان گناہوں اور بدیوں سے نجات پا جائے اور اپنے دل کو پاک کر لے.کیونکہ اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک لوگ ہی اس کی بارگاہ میں بار پاسکتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ تمام مقررہ عبادات میں یہ بات مدنظر رکھی گئی ہے کہ ان کے ذریعہ نفس انسانی بدیوں سے پاک ہو جائے اور اسے ایسی طاقت مل جائے کہ وہ مختلف قسم کے ہوا و ہوس چھوڑنے کے قابل ہو جائے.ایک طرف اللہ تعالیٰ سے اس کے تعلقات درست ہو جائیں اور دوسری طرف مخلوق الہی سے اس کے معاملات بالکل درست اور صاف رہیں.ا مسند احمد ص ۲۲۴، ص ۳۲۵، جلد ۲ حدیث نمبر ۷۳۱۹ جامع الصغير للسيوطی ۱/ ۱۲۰ بحوالہ بیہقی فی شعب الایمان

Page 4

4 اسلامی عبادت کی اقسام اصولی طور پر عبادت دو قسموں میں منقسم ہے.عام عبادت اور خاص عبادت.عام عبادت کا تعلق بالعموم حقوق العباد سے ہے.اس لحاظ سے انسان جو کام بھی خواہ وہ ذاتی ہو یا اجتماعی خداوند تعالیٰ کی خاطر اور اس کی رضا حاصل کرنے کیلئے کرے اور وہ خدمت انسانیت سے متعلق ہو.اسلامی نظریہ کے مطابق وہ عبادت ہے اور اس پر ثواب ملتا ہے.عبادت کے بنیادی مقاصد کو صحیح معنوں میں حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خاص عبادت کا بھی حکم دیا ہے.یہ خاص عبادت پانچ حصوں میں منقسم ہے جنہیں ارکان اسلام کہتے ہیں یعنی اسلام کے ایسے ستون جن پر اسلام کی عمارت استوار ہے.ارکان اسلام ارکان اسلام میں سے پہلا رکن کلمہ شہادت ہے یعنی یہ اعتراف کرنا اور گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود و محبوب نہیں اور محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں.وہی اللہ تعالیٰ کا پیغام لائے ہیں اور اسلام کے سارے احکام انہوں نے ہی آکر بتائے ہیں.ان ارکان میں سے دوسرا رکن نماز پڑھنا.تیسرا ز کوۃ دینا ، چوتھا رمضان کے روزے رکھنا اور پانچواں خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے مکہ جانا یعنی حج کرنا.فرضیت نماز نماز ہر عاقل و بالغ مسلمان پر فرض ہے.اس سے ظاہر ہے کہ فاتر العقل اور مجنون پر دیگر احکام کی طرح نماز بھی فرض نہیں ہے نماز کی اہمیت سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.نماز ہر ایک مسلمان پر فرض ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ بخضرت علیہ کے پاس ایک قوم اسلام لائی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہمیں نماز معاف فرما دی جائے کیونکہ ہم کاروباری آدمی ہیں.مویشی وغیرہ کے سبب سے کپڑوں کا کوئی اعتماد نہیں ہوتا اور نہ ہمیں فرصت ہوتی ہے تو آپ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ دیکھو جب نماز نہیں تو ہے ہی کیا ؟ وہ دین ہی نہیں جس میں نماز نہیں.نماز کیا ہے؟ یہی کہ اپنے عجز و نیاز اور کمزوریوں کو خدا کے سامنے پیش کرنا اور اسی سے اپنی حاجت روائی چاہنا.کبھی اس کی عظمت اور اس کے احکام کی بجا آوری کے واسطے دست بستہ کھڑا ہونا اور کبھی کمال مذلت اور فروتنی سے اس کے آگے سجدہ میں گر جانا اس سے اپنی حاجات کا مانگنا یہی نماز ہے.ایک سائل کی طرح کبھی اس مسئول کی تعریف کرنا کہ تو ایسا ہے تو ایسا ہے.اس کی عظمت اور جلال کا اظہار کر کے اس کی رحمت کو جنبش دلانا اور پھر اس سے مانگنا.پس جس دین میں یہ نہیں وہ دین ہی کیا ہے.انسان ہر وقت محتاج ہے کہ اس سے اس کی رضا کی راہیں مانگتا رہے.اور اس کے فضل کا اسی سے خواستگار ہو...خدا کی محبت اسی کا خوف اسی کی یاد میں دل لگارہنے کا نام نماز ہے اور یہی دین ہے.اصل میں قاعدہ ہے کہ اگر انسان نے کسی خاص منزل پر پہنچنا ہے اس کے واسطے چلنے کی ضرورت ہوتی ہے جتنی لمبی وہ منزل ہوگی اتنا ہی زیادہ تیزی کوشش اور محنت اور دیر تک اسے چلنا ہو گا.سوخدا تعالیٰ تک پہنچنا بھی تو ایک منزل ہے اور اس الحکم نمبر ۱۲ جلد۷ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۸،۷

Page 5

5 کا بعد اور دوری بھی لمبی.پس جو شخص خدا سے ملنا چاہتا ہے اور اس کے دربار میں پہنچنے کی خواہش رکھتا ہے اس کے واسطے نماز ایک گاڑی ہے جس پر سوار ہو کر وہ جلد تر پہنچ سکتا ہے اور جس نے نماز ترک کر دی وہ کیا پہنچے گا." نماز سے بڑھ کر اور کوئی وظیفہ نہیں ہے کیونکہ اس میں حمد الہی ہے.استغفار ہے اور درود شریف.تمام وظائف اور اور اد کا مجموعہ یہی نماز ہے اور اس سے ہر ایک قسم کے غم وہم دور ہوتے ہیں اور مشکلات حل ہوتے ہیں.نماز ہی کوسنوار سنوار کر پڑھنا چاہئے اور سمجھ سمجھ کر پڑھو اور مسنون دعاؤں کے بعد اپنے لئے اپنی زبان میں بھی دعائیں کرو اس سے تمہیں اطمینان قلب حاصل ہو گا اور سب مشکلات خدا تعالیٰ چاہے گا تو اسی سے حل ہو جائیں گی.نما زیاد الہی کا ذریعہ ہے.اس لئے فرمایا ہے اَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِى (طه: ۱۵)۲ نماز کی شرائط جس طرح ایک اہم اور عظیم الشان کام کو شروع کرنے سے پہلے مناسب تیاری کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح نماز جیسی عظیم الشان عبادت کو صحیح اور مکمل طور پر ادا کرنے کے لئے اس سے پہلے چند باتوں کا التزام کرنا ضروری ہے.ان باتوں کو شرائط نماز کہتے ہیں جو تعداد میں پانچ ہیں.ا.وقت ۲.طہارت ۳.ستر عورت ۴.قبلہ ۵.نیت الحکم نمبر ۱۲ جلد۷ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۸ الحکم نمبر ۲۰ جلد ۷ مورخہ ۳۱ مئی ۱۹۰۳ء صفحه ۹ نماز کی پہلی شرط.وقت اوقات نماز کی حکمت نماز کی اصل غرض یہ ہے کہ تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد خدائے حی و قیوم کا نام لیا جائے کیونکہ جس طرح گرمی کے موسم میں تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد انسان ایک ایک اور دو دو گھونٹ پانی پیتا رہتا ہے تا کہ اس کا گلا تر رہے اور اس کے جسم کو تراوت پہنچتی رہے اسی طرح کفر اور بے ایمانی کی عام بازاری میں انسان کی روح کو حلاوت اور تر و تازگی پہنچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد نماز مقرر کی ہے تا کہ گناہوں کی گرمی اس کی روح کو جھلس نہ دے اور مسموم ماحول اس کی روحانی طاقتوں کو مضمحل نہ کر دے.خوشی ہو یا غمی ہر حالت میں انسان کو مختلف اوقات کی نماز کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونے کا موقع ملتا رہتا ہے.جب دنیا کا فریب حسن اسے اپنی طرف کھینچتا ہے تو نماز کی مدد سے وہ خدا کی طرف جھکتا ہے.نیز نماز کے لئے وقت مقرر کرنے سے اجتماعیت کی روح کو زندہ رکھنے کا موقع ملتا ہے کیونکہ اس طرح سے لوگ بآسانی جمع ہو سکتے ہیں.پھر وقت کی یہ تعیین خود انسان کی اپنی مرضی پر نہ چھوڑنے میں یہ حکمت ہے کہ تا انسان کو بر وقت نماز ادا کرنے کی فکر رہے اور اس کی ذمہ داری کا احساس بیدار رہے.اگر وقت کی تعیین خود انسان پر چھوڑ دی جاتی تو وقت کی پابندی کی اہمیت جاتی رہتی اور اس میں ستی ظاہر ہونے لگتی.چونکہ قلبی کیفیات بدلتی رہتی ہیں اس لئے ایک وقت میں دیر تک عبادت میں مشغول رکھنے کی بجائے مختلف اوقات میں عبادت کا حکم دیا گیا کیونکہ لمبے وقت

Page 6

8 7 میں دیر تک توجہ قائم رکھنا مشکل ہو جاتا ہے اس سے طبیعت اکتا جاتی ہے لیکن اس کے برعکس اگر وقت مختصر ہو اور وقفہ وقفہ کے بعد کئی بار عبادت بجالانے کا موقع ملے تو بشاشت قائم رہتی ہے.عبادت سہل ہو جاتی ہے اور عبودیت کے اظہار کا بار بار موقع ملتا ہے.اس کی یاد دل میں تازہ رہتی ہے اور اس طرح اس کا سارا وقت ہی عبادت الہی میں صرف ہوتا ہے اور انسان دنیا کے کاموں میں مصروف رہنے کے باوجود اللہ تعالیٰ سے غافل نہیں ہوتا اور دنیا میں رہ کر بھی وہ اس سے علیحدہ رہتا ہے اور دست با کار دل با یار کی مثل اس پر صادق آنے لگتی ہے.اوقات نماز پانی اوقات میں نماز فرض ہے.جن کی تفصیل یہ ہے.فجر :.جب رات ختم ہوتی ہے اور سپیدہ صبح نمودار ہوتا ہے تو اس وقت کو فجر کہتے ہیں اور صبح صادق بھی.فجر سے لے کر سورج نکلنے سے ذرا پہلے تک اس نماز کا وقت رہتا ہے.معتدل علاقوں میں یہ وقت ڈیڑھ گھنٹہ کے قریب بنتا ہے.اس وقت میں دو رکعت نما ز سنت اور دو رکعت نماز فرض با جماعت ادا کی جاتی ہے.ظہر :.اس نماز کا وقت سورج ڈھلنے سے شروع ہوتا ہے اور اس وقت تک رہتا ہے جبکہ ہر چیز کا سایہ اس سے دو گنا ہو جائے.معتدل علاقوں میں یہ وقت تین گھنٹوں کے قریب بنتا ہے.اس میں چار رکعت نماز سنت.چار رکعت نماز فرض با جماعت اور پھر دو رکعت نما ز سنت ادا کی جاتی ہے.جمعہ کی نماز کا بھی یہی وقت ہے.عصر :.اس نماز کا وقت ظہر کا وقت ختم ہونے سے شروع ہوتا ہے اور سورج ڈوبنے سے کچھ پہلے تک رہتا ہے.معتدل علاقوں میں یہ وقت اڑھائی گھنٹے کے قریب بنتا ہے.اس وقت میں چار رکعت نماز فرض با جماعت ادا کی جاتی ہے.اگر کوئی چاہے تو فرضوں سے پہلے چار رکعت سنتیں بھی پڑھ سکتا ہے.مغرب :.یہ وقت سورج ڈوبنے سے شروع ہوتا ہے اور مغربی افق پر سفیدی غائب ہونے تک رہتا ہے.معتدل علاقوں میں یہ وقت ڈیڑھ گھنٹے کے قریب بنتا ہے.اس وقت میں تین رکعت نماز فرض با جماعت ادا کی جاتی ہے.اس کے بعد دو رکعت سنت اور حسب مرضی نوافل ادا کئے جاتے ہیں.عشاء :.مغرب کا وقت ختم ہونے سے عشاء کا وقت شروع ہوتا ہے اور طلوع فجر سے کچھ پہلے تک رہتا ہے.لیکن بہتر یہ ہے کہ رات کے پہلے حصہ میں یہ نماز پڑھی جائے.اس وقت میں چار رکعت نماز فرض با جماعت ادا کی جاتی ہے.اس کے بعد دو رکعت نما ز سنت اور نوافل جتنی رکعات کوئی چاہے پڑھ سکتا ہے.عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد وتروں کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور طلوع فجر تک رہتا ہے.سونے کے بعد اور طلوع فجر سے پہلے اٹھ کر نوافل پڑھنا موجب برکت و ثواب ہے.ان نوافل کی آٹھ رکعات مسنون ہیں.جن کو نماز تہجد کہتے ہیں.قضاء :.اگر کوئی بھول جائے یا سو جائے اور وقت پر نماز نہ پڑھ سکے تو جس وقت یاد آئے یا بیدا ر ہو اسی وقت تیاری کر کے نماز پڑھ لینی چاہئے.اس طرح بعد از وقت نماز پڑھنے کو قضاء کہتے ہیں.غیر معمولی علاقوں میں جہاں دن رات چوبیس گھنٹے سے زیادہ کے ہوں یا دن رات تو چوبیس گھنٹے کے ہوں لیکن ان میں باہمی فرق اتنا زیادہ ہو کہ قرآن وسنت کی رو سے نمازوں کے پانچ معروف اوقات کی جو علامتیں مقرر ہیں وہ نمایاں نہ ہوں اور اوقات کی باہمی تفریق مشکل ہو مثلاً قطب شمالی کے قریب کے ایسے

Page 7

10 9 علاقے جہاں شفق شام اور شفق صبح کے درمیان امتیاز نہیں ہو سکتا اور درمیان میں غسق ( اندھیرا) حائل نہیں ہوتا وہاں نمازوں کے اوقات گھڑی کی مدد سے اندازہ سے مقرر کئے جاسکتے ہیں.اوقات کی تعیین کے لئے یہ اصول مد نظر رکھنا چاہئے کہ چوبیس گھنٹے کے اندر ان اوقات کو اس طرح پھیلا کر مقرر کیا جائے کہ ان کا درمیانی وقفہ معتدل علاقوں کے اوقات نماز کے درمیانی وقفہ سے حتی الوسع ملتا جلتا ہو.مجموعی آبادی کی معاشرتی عادت کے لحاظ سے ان علاقوں میں کام کاج کا جو وقت مقرر ہے وہ دن اور آرام سے سونے کا جو وقت ہے وہ رات شمار ہوگا اور سورج کے طلوع و غروب کی پابندی ضروری نہ ہوگی.اوقات مکروہہ :.سورج کے طلوع وغروب کے وقت اور عین دو پہر کے وقت کوئی نماز نہیں پڑھنی چاہئے نہ فرض نہ نفل.اسی طرح فجر یا عصر کی نماز پڑھنے کے بعد کوئی نفل نہیں پڑھنے چاہئیں.گویا ان اوقات میں نماز پڑھنا نا پسندیدہ اور مکروہ ہے.آنحضرت ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے.نماز کی دوسری شرط.طہارت نماز کیا ہے اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہونا.قرب الہی کے حاصل کرنے کی کوشش کرنا.پس اس کے لئے دل کا خلوص اور باطن کی پاکیزگی اور جگہ کا پاک وصاف ہونا بھی ایک لازمی شرط ہے.ے وہ سرخی اور سفیدی جو سورج غروب اور طلوع ہونے کے وقت افق پر نمودار ہوتی ہے اسے شفق کہتے ہیں.طہارت کے ایک معنی یہ ہیں کہ جسم کے کسی حصہ پر کوئی گند لگا ہوا نہ ہو مثلاً انسان کا بول و براز ، مادہ منویہ کسی جانور کا گو بر پیشاب ، مرغی کی بیٹ ، زخم کی پیپ جسم سے بہہ نکلنے والا خون ، حرام جانور اور مردار کا گوشت اور خون ، کتے اور دوسرے جانور کی رال اور ان کا جوٹھا، گلی کوچوں کا نا پاک کیچڑ یہ سب حقیقی نجاستیں ہیں.ان میں سے کوئی نجاست اگر جسم کے کسی حصہ یا کپڑے کو لگ جائے تو پانی سے دھو کر اسے پاک وصاف کر لینا چاہئے.ایک بار اچھی طرح دھونا کافی ہے لیکن اگر تین بار دھویا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا.اس ظاہری صفائی کے علاوہ نماز پڑھنے کے لئے غسل اور وضو بھی ضروری ہے.غسل اور وضو کو طہارت حکمی کہتے ہیں اور جس حالت کی وجہ سے یہ طہارت ضروری ہوتی ہے اس حالت کا نام نجاست حکمی یا حدث ہے.غسل غسل کی حکمت : نماز کی حالت باطنی پاکیزگی ، روحانی نشاط ، ظاہری طہارت اور جسمانی مستعدی کی مقتضی ہے.لیکن جسمانی ناپاکی ، جسم میں گرانی ، نقاہت اور کمزوری روحانی کسلمندی کا موجب بنتی ہے اور نہانے سے یہ کیفیت دور ہو جاتی ہے.جس میں تازگی قوت و نشاط آ جاتی ہے اور پوری بشاشت کے ساتھ انسان نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے اور اس طرح جذبات لطیفہ ، ارواح طیبہ اور واردات روحانیہ کا وہ مورد بن جاتا ہے اور یہی نماز کا مقصد اصل ہے.موجبات مسل :.جن باتوں کی وجہ سے نہانا ضروری ہو جاتا ہے بغسل انہیں موجبات غسل کہتے ہیں اور وہ یہ ہیں.

Page 8

12 11 مباشرت یعنی زن و شوئی کا مخصوص تعلق جنسی قائم کرنا.احتلام یا کسی اور وجہ سے شہوانی ہیجان کے ساتھ مادہ منویہ کا نکلنا.عورت کے ایام ماہواری یعنی خون حیض کا ختم ہونا ، ولادت کے بعد خون نفاس کا ختم ہونا، ان صورتوں میں نہائے بغیر اور اگر سخت سردی یا کسی اور وجہ سے نہانے سے بیمار ہو جانے کا ڈر ہو تو تیم کے بغیر نماز پڑھنا جائز نہ ہوگا.غیر مسلم قبول اسلام کے بعد جب نماز پڑھنے لگے تو پہلے نہائے اور پھر اس کے بعد نماز شروع کرے تا کہ قبول اسلام کے بعد جب پہلی بار وہ خدا کے حضور حاضر ہو تو باطنی طہارت کے ساتھ ظاہری طور پر بھی پاک وصاف ہو.نومولود بچہ کو نہلانا ضروری ہے اور تجہیز و تکفین سے پہلے میت کو غسل دینا بھی ضروری ہے تا کہ پاک صاف حالت میں اس کی نماز جنازہ پڑھی جا سکے اور پھر اس کی تدفین عمل میں لائی جائے.علاوہ ازیں جمعہ اور عید کے دن اور حج کے موقع پر نہانا مسنون ہے اور اسی طرح بیماری سے شفایاب ہونے کے بعد فسل صحت بھی باعث برکت ہے.جو شخص میت کو نہلائے اس کا بعد میں خود بھی نہا لینا بہتر ہے.موسم کو مدنظر رکھتے ہوئے روزانہ یا کبھی کبھار نہاتے رہنا صحت وصفائی کے لحاظ سے بہت مفید رہتا ہے.نہانے کے فرائض و آداب :.نہانے کے تین فرض ہیں ا کلی کرنا.۲.پانی سے ناک صاف کرنا.۳.اس کے بعد سارے بدن پر پانی ڈالنا یہاں تک کہ جسم کا کوئی حصہ خشک نہ رہے.عورت کے سر کے بال اگر گھنے اور گندھے ہوئے ہوں تو ان کا کھولنا اور سارے بالوں کو تر کرنا ضروری نہیں.اگر سر کو پوری طرح دھونے میں خاص وقت اور مشکل ہو جیسے شدید سردی تو سر پر تین چلو پانی ڈال کر مسح کے رنگ میں سر پر ہاتھ پھیر لینا کافی ہے.نہانے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ نہانے والا موسم کے مطابق گرم یا سرد صاف ستھرا پانی استعمال کرے.پہلے استنجاء کرے پھر بسم اللہ پڑھ کر ہاتھ دھوئے اس کے بعد کلی کرے اور ناک میں پانی ڈال کر اسے صاف کرے.منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھوئے ، سر کا مسح کرے.گویا پہلے وضو کرے پھر بدن پر تین بار پانی ڈالے.پہلے دائیں طرف پھر بائیں طرف.نہاتے وقت جسم کو اچھی طرح ملنا بھی چاہئے.اسی طرح کوئی اچھا سا صابن یا میل دور کرنے والی کوئی اور مفید چیز استعمال کرنا بھی آداب غسل میں شامل ہے.جس حالت میں نہانا ضروری ہے اس حالت میں نہائے بغیر نہ انسان نماز پڑھ سکتا ہے اور نہ ہی مسجد میں جاسکتا ہے.وضو وضو کی حکمت : وضو سے کسلمندی اور غفلت دور ہو جاتی ہے.جسم میں تازگی اور مستعدی آ جاتی ہے.عبادت الہی کے لئے توجہ اور یکسوئی حاصل ہوتی ہے.اس ظاہری پاکیزگی سے باطنی طہارت کی طرف توجہ پھرتی ہے.گویا ایک طرح سے تصویری زبان میں انسان یہ دعا کرتا ہے کہ جس طرح یہ ظاہری پانی ان اعضاء کی میل کچیل کو دور کر رہا ہے اسی طرح تو بہ کا پانی اس باطنی میں کو دور کر دے جوان اعضاء کی غلط کرداری کی وجہ سے چڑھ گئی ہے.موجبات وضو : قضائے حاجت یعنی پیشاب، پاخانہ کرنے یا پیشاب، یا خانہ کے رستہ سے کسی اور رطوبت کے نکلنے.ہوا خارج ہونے ، ٹیک لگا کر یا لیٹ کرسونے اور بے ہوش ہو جانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ایسی صورت حال پیش

Page 9

14 13 نے کے بعد جب نماز پڑھنی ہو تو پہلے وضو کیا جائے اور پھر نماز پڑھی جائے.اسی طرح قے آنے یا نکسیر پھوٹنے کے بعد بہتر ہے کہ نماز پڑھنے سے پہلے وضو کر لیا جائے.اگر کسی کو ریح خارج ہوتے رہنے یا پیشاب قطرہ قطرہ گرتے رہنے بہ استحاضہ یعنی حیض اور نفاس کے مقررہ دنوں کے علاوہ بھی خون جاری رہنے کی بیماری ہو اور اس کی وجہ سے اس کا وضو نہ ٹھہرتا ہو تو وہ معذور ہے اس کے لئے ہر نماز کے وقت ایک بار وضوکر لینا کافی ہے.وضو کرنے کا طریق : جب کوئی شخص وضو کرنے لگے تو بسم اللہ پڑھے.پاک صاف پانی لے کر پہلے پہنچوں تک ہاتھ دھوئے پھر تین بار کلی کرے.منہ کو اچھی طرح صاف کرنے کے لئے مسواک یا برش استعمال کرنا چاہئے اور اگر میسر نہ ہو تو انگلی سے دانت صاف کرے.پانی چلو میں لے کر تین بار ناک میں ڈالے اور اسے اچھی طرح صاف کرے پھر تین بار سارا چہرہ دھوئے.داڑھی گھنی ہوتو ہاتھ کی انگلیوں سے بالوں میں خلال کرنا بھی پسندیدہ ہے.اس کے بعد کہنیوں سمیت تین بار ہاتھ دھوئے.پہلے دایاں پھر بایاں.پھر پورے سر کا اور کانوں کا مسح کرے.یعنی پانی سے ہاتھ تر کر کے سارے سر پر پھیرے.پھر انگشت شہادت کانوں کے اندر کی طرف اور انگوٹھے کانوں کے باہر کی طرف پھیرے.پھر تین بار ٹخنوں سمیت پاؤں دھوئے.پہلے دایاں پاؤں دھوئے اور پھر بایاں.اس کے علاوہ ترتیب کو مدنظر رکھنا اور اعضاء کو لگا تار دھونا بھی ضروری ہے.یہ نہ ہو کہ منہ دھولیا اور پھر اس کے خشک ہو جانے پر ہاتھ دھو لئے.ایک وضو سے انسان کئی نمازیں پڑھ سکتا ہے کیونکہ جب تک وضو توڑنے والی کوئی بات ظاہر نہ ہو وضو قائم رہتا ہے.جرابوں پر مسح کرنا : اگر وضو کر کے جرابیں پہنی گئی ہوں تو اس کے بعد وضو کرتے وقت ان کو اتارنا اور پاؤں دھونا ضروری نہیں بلکہ بصورت اقامت ایک دن رات اور بصورت سفر تین دن رات ان پر مسح ہو سکتا ہے.یہ مدت جرا ہیں پہنے کے وقت سے نہیں بلکہ وضو ٹوٹنے کے وقت شروع ہوگی.تیم تیم کی حکمت : تیم سے اگر چہ ظاہری صفائی کی غرض پوری نہیں ہوتی لیکن خیالات کو مجتمع کرنے ، توجہ کو ایک طرف لگانے اور ایک اہم اور بابرکت کام کرنے کے لئے مستعدی پیدا کرنے کا مقصد اس سے حاصل ہو جاتا ہے.اس کے علاوہ تصویری زبان میں منکسرانہ دعا کا رنگ بھی اس میں پایا جاتا ہے.گویا تیم کرنے والا کہتا ہے، اے ہمارے خدا! تیرے پانی کے بغیر ہم خاک آلود ہوئے جاتے ہیں.تیری یہ نعمت اگر ہمیں میسر نہ آئی تو ہمارے جسم گرد و غبار سے آٹ جائیں گے اس لئے تو جلد پانی عطا فرما.تیم کے اسباب : اگر پانی کا استعمال مشکل ہو مثلاً انسان بیمار ہو یا پانی ملتا نہ ہو یا پانی نجس ہو تو نماز پڑھنے کے لئے نہانے یا وضو کرنے کی بجائے انسان تیم کر لے.تیم کرنے کا طریق: صاف و پاک مٹی یا کسی غبار والی چیز اور اگر ایسی کوئی چیز نہ ملے تو ویسے ہی کسی ٹھوس چیز پر نماز کی نیت سے اور بسم اللہ پڑھ کر دونوں ہاتھ

Page 10

16 15 مارے اور ان کو پہلے منہ پر پھیرے اور پھر دونوں ہاتھوں پر.اگر ہاتھوں پر زیادہ مٹی لگ جائے تو مسح کرنے سے پہلے اسے پھونک سے اُڑانا جائز ہے.غسل واجب کے لئے بھی اسی طرح تیم کیا جاتا ہے.جس طرح وضو کے لئے کیا جاتا ہے.جن باتوں سے وضوٹوٹ جاتا ہے ان سے تمیم بھی ٹوٹ جاتا ہے.علاوہ ازیں پانی کے مل جانے یا اس کو استعمال کر سکنے کی صورت میں بھی تیم باقی نہیں رہے گا.پانی اور اس کے مسائل : طہارت حاصل کرنے کا بڑا اور اصل ذریعہ پانی ہے.پاک صاف پانی استعمال کرنا چاہئے.بارش، چشمے کنوئیں ، تالاب، دریا اور سمندر کا پانی پاک ہے.دوسری چیز میں اس سے دھوئی اور پاک کی جاسکتی ہیں.صحت کے اعتبار سے جو پانی مضر ہے مثلاً اس میں پتے گل سڑ جائیں یا کیڑے وغیرہ پڑ جائیں تو اسے صاف کر لینا چاہئے اور اس کے بعد استعمال میں لانا چاہئے.نماز کی تیسری شرط.ستر عورت یعنی پردہ پوشی عمدہ لباس سے انسان معز ز لگتا ہے.اس لئے پاک وصاف اور ستھر الباس پہن کر انسان خدا کے دربار میں جائے اور اس کے حضور نماز ادا کرے.مرد کے لئے ناف سے لے کر گھٹنوں تک کے جسم کی پردہ پوشی اشد ضروری ہے ورنہ نماز صحیح نہ ہوگی.عورت نماز پڑھتے وقت صرف چہرہ ، پہنچوں تک ہاتھ اور ٹخنوں تک پاؤں ننگے اور کھلے رکھ سکتی ہے.اس کے بال ، بانہیں اور پنڈلیاں اور جسم کا باقی حصہ پردہ میں اور ڈھکا ہوا ہونا چاہئے.باریک کپڑا جس سے جسم نظر آئے تنگ اور چست لباس جس سے سجدہ کرنے میں دقت ہو، ناپسندیدہ ہے.نماز کی چوتھی شرط.قبلہ قبلہ کی حکمت : نماز میں کعبہ کی طرف منہ کرنے کے یہ معنی نہیں کہ مسلمان نعوذ باللہ اس عمارت کی پرستش کرتے ہیں اور اسے پوجتے ہیں.مسلمان تو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں.صرف اسی کو اپنا کارساز اور خالق و مالک مانتے ہیں.دراصل کعبہ کو قبلہ مقرر کرنے میں یہ حکمت ہے کہ نماز ایک مخصوص اجتماعی عبادت ہے جس میں بیجہتی اور اتحاد عمل کو خاص طور پر ملحوظ رکھا گیا ہے تا کہ سب کی توجہ ایک طرف رہے.اس لئے نماز پڑھنے کے وقت اس مقام کو سمت نماز اور قبلہ مقرر کیا گیا ہے جسے توحید الہی کے لئے پہلا اور اصلی مرکز ہونے کا شرف حاصل ہوا ہے جہاں خدا وند تعالیٰ کی وحدانیت کے گیت گائے گئے ، جہاں سے تبلیغ تو حید کا آغاز ہوا اور جس جگہ ایسی قربانیاں دی گئیں جو تاریخ عالم میں بے مثال ہیں.مسائل قبلہ : نماز میں قبلہ کی طرف منہ کرنا ضروری ہے.قبلہ سے مراد وہ مقدس کمرہ ہے جو مکہ مکرمہ میں موجود ہے جسے کعبہ اور بیت اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کا گھر بھی کہتے ہیں.جب سے مذہب کی ابتداء ہوئی ہے دنیا میں یہ پہلی عمارت ہے جو خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کی خاطر بنائی گئی.روایت ہے کہ یہ مقدس عمارت تمام انبیاء کا قبلہ رہی.حضرت آدم علیہ السلام اور دوسرے انبیاء نے اس کا حج کیا.جن لوگوں کو کعبہ کی عمارت نظر نہیں آتی ، دور ہیں یا دوسرے ممالک میں ل إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ ( آل عمران: ۹۷) طبری تاریخ الوفا جلد ۲ صفحہ ۱۶۷ بحوالہ الفضل ۲۲ اپریل ۱۹۶۶ء

Page 11

18 17 رہتے ہیں ان کا قبلہ کعبہ اور مسجد الحرام کی جہت ہے.ان کے لئے عین عمارت کعبہ کی طرف منہ کرنا ضروری نہیں اور نہ ہی آسانی سے ایسا کرنا ممکن ہی ہے.خوف کی حالت ہو یا انسان کسی ایسی سواری پر سفر کر رہا ہو جسے ٹھہرانا اس کے اپنے اختیار میں نہیں یا ٹھہرانا موجب حرج ہے اور چلتے ہوئے صحیح قبلہ کی طرف منہ کرنا خاصا مشکل ہے یا سفر ہوائی جہاز کا ہے یا کسی دوسرے سیارہ میں انسان جا بسا ہے ایسی تمام صورتوں میں جدھر آسانی ہو اس طرف منہ کر کے نماز پڑھ لینا جائز ہے.لے نماز کی پانچویں شرط.نیت صحت نماز کے لئے نیت بھی ضروری ہے.نیت کے معنے ارادہ کے ہیں.نماز شروع کرتے وقت دل میں یہ ارادہ ہونا چاہئے کہ وہ کس وقت کی اور کون سی نماز پڑھ رہا ہے.کیونکہ جس نماز کی نیت ہوگی وہی نماز اس کی ہوگی.ظہر کے وقت اگر نیت یہ ہے کہ چار رکعت فرض شروع کرنے لگا ہے تو فرض نماز ہوگی.اگر نیت چار رکعت یا دوسنت کی ہے تو سنت نماز ہو گی.نیت کا تعلق دل سے ہے.اس لئے دل میں یہ طے ہونا چاہئے کہ وہ کس وقت کی اور کتنی رکعت نماز شروع کرنے لگا ہے.منہ سے نیت کے الفاظ ادا کر نے ضروری نہیں.البتہ آنحضرت علی تکبیر تحریمہ کے بعد اور سورۃ فاتحہ سے قبل درج ذیل دعا ئیں بھی پڑھا کرتے تھے.یہ دعائیں پڑھنا بھی موجب ثواب ہے.وَجْهُتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَواتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَّ مَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ.وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ (البقره: ۱۱۲) إِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ نماز پڑھنے کا طریق اسلامی نماز : اسلام میں نماز کی جو صورت متعین ہوئی ہے اس سے بڑھ کر مقبول و متبوع صورت نہ تو کسی اور مذہب میں رائج ہے اور نہ ہی اس سے بہتر عقل میں آ سکتی ہے.یہ جامع اور مانع طریق ان تمام عمدہ اصولوں اور مسلمہ خوبیوں اور فطری استعدادوں پر حاوی ہے جو دنیا کے اور مذاہب میں فرداً فرداً موجود ہیں اور نیازمندی کے ان تمام آداب میں شامل ہے جو ذ والجلال معبود کے سامنے قوائے انسانی میں پیدا ہونے ممکن ہیں.اسی طرح وہ خاص کلمات جو نماز میں صرف زبان سے نہیں بلکہ دل سے بھی نکالے جاتے ہیں اور جس سے روح انسانی متاثر ہوتی ہے نماز کی بے نظیری کے کافی ثبوت ہیں.طریق نماز : جو شخص نماز پڑھنے لگے وہ پاک بدن اور پاک لباس کے ساتھ جس وقت کی نماز پڑھنا چاہتا ہے اس کی دل میں نیت کر کے قبلہ رو کھڑا ہو جائے اس کے بعد اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائے اور ساتھ ہی الله اكبر (اللہ سب سے بڑا ہے ) کہے.اس تکبیر کو تکبیر تحریمہ کہتے ہیں.پھر اپنے ہاتھ سینہ کے نچلے حصہ کے قریب اس طرح باندھے کہ دایاں ہاتھ اوپر اور بایاں نیچے ہو.اس طرح کھڑے ہونے کو قیام کہتے ہیں.اس کے بعد ثناء پڑھے:.شرح السنة جلد ۳ صفحه ۳۴ مسلم كتاب الصلواة باب الدعا في صلواة الليل وقيام

Page 12

19 20 20 ثاء: سُبْحَنَكَ اللهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَ تَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ یعنی اے اللہ میں تجھے سب نقائص سے پاک مانتا ہوں اور تیری حمد میں مشغول ہوں.برکت والا ہے نام تیرا اور بڑی ہے تیری شان نہیں ہے کوئی قابل پرستش تیرے سوا.پھر تعوذ پڑھے:.ہے جو تمام جہانوں کو پالنے والا ، بے انتہاء کرم کرنے والا بار بار رحم کرنے والا ہے.جزا سزا کے دن کا مالک ہے (ان خوبیوں کے مالک خدا ) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں تو ہمیں سیدھے راستے پر چلا.ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا یہ ایسے لوگ ہیں جن پر نہ تیرا غضب نازل ہوا اور نہ وہ گمراہ ہوئے.“ یہ سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بعد آمین کہی جائے جس کے معنی ہیں کہ اے اللہ تو یہ دعا قبول فرما.تعوذ: سورۃ فاتحہ کے ساتھ قرآن کریم کی کوئی سورۃ یا قرآن کا کوئی حصہ جتنا میسر اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ہو پڑھ لے.مثلاً سورۃ الکوثر ہے.یعنی میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں دھتکارے ہوئے شیطان سے مراد یہ سورة الكوثر کہ اللہ تعالیٰ مجھے شیطانی حملوں سے محفوظ رکھے ) اس کے بعد تسمیہ سمیت سورۃ الفاتحہ پڑھے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ.ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ.إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ.یعنی میں اللہ تعالیٰ کا نام لے کر پڑھتا ہوں جو بے انتہاء کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.تعریف.توصیف اور حمد و ثناء کے لائق صرف اللہ تعالیٰ ترندی کتاب الصلوۃ باب مايقول عند افتاح الصلواة بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ.فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ.إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ.یقیناً ہم نے تجھے کوثر عطا کیا ہے سو تو اپنے رب کی عبادت کر اور اسی کی خاطر قربانیاں کر اور یقین رکھ کہ تیرا مخالف ہی نرینہ اولاد سے محروم ثابت ہوگا.اس کے بعد تکبیر یعنی الله اكبر کہہ کر رکوع میں چلا جائے اور اس طرح جھکے کہ پیٹھ اور سر ہموار ایک سیدھ میں ہوں.دایاں ہاتھ دائیں گھنٹے پر اور بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر رکھے.رکوع میں کم از کم تین بار تیج کہے:.

Page 13

22 22 21 سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ یعنی پاک ہے تمام نقائص سے میرا پروردگار عظیم قدرتوں والا.اور پھر سِمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہتے ہوئے سیدھا کھڑا ہو جائے یعنی سنتا ہے اللہ تعالیٰ اس شخص کی جو اس کی حمد و ثناء کرتا ہے.اس دوران میں ہاتھ چھوڑ دے اور پھر حمید پڑھے:.رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ حَمُدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ یعنی اے ہمارے رب تیرے لئے حمد و ثناء ہے.بہت حمد وثناء ، پاکیزہ تر ، اس میں برکت ہی برکت ہے.پھر الله اكبر کہتے ہوئے اس طرح سجدہ کرے کہ گھٹنے ہاتھ ، ناک اور پیشانی زمین پر رکھ دے.سجدہ میں تین بار تسبیح کہے:.شیخ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى یعنی پاک ہے تمام نقائص سے میرا پروردگار بلندشان والا.اس کے بعد الله اكبر کہتے ہوئے اس طرح بیٹھے کہ بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھے اور اس پاؤں کی انگلیاں قبلہ رخ ہوں.ہاتھ ا بخاری کتاب الصلوۃ باب فضل اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْد گھٹنوں پر رکھے اور دعائے جلسہ پڑھے:.اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَاهْدِنِي وَعَافِنِي وَاجُبُرُنِي وَارْزُقْنِي وَارْفَعُنِي - یعنی اے میرے خدا میرے گناہ بخش اور مجھ پر رحم فرما اور مجھے ہدایت دے اور مجھے خیریت سے رکھ اور میرے نقصان کی تلافی فرما اور مجھے رزق دے اور مجھے بلندی بخش.پھر الله اكبر کہتے ہوئے دوسر اسجدہ کرے اور اس میں بھی کم از کم تین با تسبیح سُبْحَانَ رَبِّيَ الأعْلیٰ کہے.اس طرح اس کی یہ ایک مکمل رکعت ہوگی.اس کے بعد اللہ اکبر کہتے ہوئے دوسری رکعت کیلئے کھڑا ہو جائے اور پہلے کی طرح دوسری رکعت مکمل کرے.یعنی ہاتھ باندھ کر تسمیہ سمیت سورۃ فاتحہ پڑھے.اس کے بعد قرآن کریم کا کوئی حصہ پڑھے مثلاً سورة الاخلاص بسم الله الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ.اللهُ الصَّمَدُ.لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُ.وَ لَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا اَحَدٌ.ترجمہ : تو کہہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں اکیلا ہے.اللہ کے سب محتاج ہیں.نہ اس نے کسی کو جنا ہے اور نہ وہ جنا گیا ہے.اور (اس کی صفات میں ) کوئی بھی اس کا شریک کار نہیں.

Page 14

24 23 اس کے بعد اللہ اکبر کہتے ہوئے پہلے کی طرح رکوع اور سجود کرے اس طرح یہ اس کی دوسری رکعت مکمل ہوگئی.پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے اس طرح بیٹھ جائے جس طرح وہ پہلا سجدہ کرنے کے بعد بیٹھا تھا.پھر اس طرح بیٹھ کر تشہد پڑھے.اَلتَّحَيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَواتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَ عَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّلِحِيْنَ اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَ اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ل یعنی تمام زبانی بدنی اور مالی عبادتیں صرف اللہ تعالیٰ کے حضور بجالائی جا سکتی ہیں.( یہ پاکیزہ تعلیم دینے والے ) اے نبی ! تجھ پر سلامتی ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی برکات ہوں (اور یہ اعلیٰ تعلیم قبول کرنے کی وجہ سے ) ہم پر بھی اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں پر بھی سلامتی ہو.میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور قابل پرستش نہیں اور میں یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد اس کا بندہ اور اس کا رسول ہے (اس کے ذریعہ سے ہی یہ اعلیٰ تعلیم ہم تک پہنچتی ہے ) اگر تو نماز صرف دو رکعت کی ہے تو اس کا آخری قعدہ ہوگا.اس لئے تشہد کے بعد درود شریف پڑھے.درود شریف: اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ بخارى كتاب الدعوات باب الدعاء في الصلواة حَمِيدٌ مَجِيدٌ.اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ الِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.ترجمہ : اے میرے خدا تو اپنا افضل خاص نازل فرما محمد اور آل محمد پر جس طرح تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر خاص فضل نازل کیا.یقینا تو بے انتہا خو بیوں والا بڑی شان والا ہے.اے میرے خدا تو برکت نازل کر محمد اور آل محمد پر جس طرح تو نے برکت نازل کی ابراہیم اور آلِ ابراہیم پر یقینا تو بے انتہا خوبیوں والا بڑی شان والا ہے.پھر حسب پسند دعائیں کرے مثلاً :.سلام پھیرنے سے قبل کی دعائیں رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمِ الصَّلوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَاءِ.رَبَّنَا اغْفِرْلِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ.(ابراهیم: ۴۱-۴۲) ترجمہ : اے میرے رب مجھے اور میری اولاد کو نماز کی پابندی کرنے والا بنا.اے ہمارے رب اور قبول فرما میری دعا.اے ہمارے رب بخش دے مجھے اور میرے والدین کو اور تمام مومنوں کو محاسبہ کے دن.رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ بخاری کتاب الانبياء (البقرة : ٢٠٢)

Page 15

26 45 25 ترجمہ :.اے ہمارے رب ہم کو دے اس دنیا میں ہر قسم کی بھلائی اور آخرت میں بھی ہر قسم کی بھلائی اور بچا ہم کو آگ کے عذاب سے.اَللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا وَّلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ وَارْحَمْنِي إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ.ترجمہ : اے اللہ تعالیٰ میں نے اپنے آپ پر بہت ظلم کئے اور کوئی معاف نہیں کر سکتا سوائے تیرے.پس تو مجھ کو بخش دے اپنی جناب سے اور مجھ پر رحم فرما.یقیناً تو بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُبِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَ اَعُوذُبِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ وَأَعُوذُبِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْفِتْنَةِ الْمَمَاتِ اللَّهُمَّ إِنِّي اَعُوْذُبِكَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ لِ ترجمہ : اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں قبر کے عذاب سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں دوزخ کے عذاب سے اور تیری پناہ چاہتا ہوں مسیح دجال کے فتنہ سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں زندگی کے فتنہ سے اور موت کے فتنہ سے اور اے اللہ تعالیٰ میں پناہ مانگتا ہوں تجھ سے گناہوں کی اور قرض سے.اس کے بعد دائیں طرف منہ پھیرتے ہوئے کہے: اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ الله یعنی سلامتی اور اللہ تعالیٰ کی رحمت تم پر نازل ہو.بخارى كتاب الصلواة باب دعاء قبل السلام اسی طرح بائیں طرف منہ پھیرتے ہوئے کہے: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَ رَحْمَةُ الله لیکن اگر اس کی نماز تین یا چار رکعت کی ہے تو یہ اس کا درمیانی قعدہ ہو گا.اس لئے تشہد پڑھنے کے بعد اللہ اکبر کہتے ہوئے کھڑا ہو جائے اور پہلے کی طرح جتنی رکعتوں کی نماز ہو اس کے مطابق تین یا چار رکعتیں پڑھے.اگر یہ فرض نماز ہے تو تیسری یا چوتھی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد کوئی اور سورۃ یا قرآن کریم کا کوئی حصہ نہ پڑھے بلکہ سورۃ فاتحہ کے بعد ہی رکوع میں چلا جائے.غرض اس طرح بقیہ رکعتیں پوری کر کے بیٹھ جائے اور تشہد کے بعد درود شریف اور حسب منشاء کوئی مسنون دعا پڑھ کر دونوں طرف منہ پھیر تے ہوئے تسلیم یعنی السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ الله ہے.نماز سے فارغ ہونے کے بعد تسبیح وتحمید کرنا، کچھ دیر تک ذکر الہی میں مشغول رہنا، مختلف دعائیں مانگنا آنحضرت علیہ کی سنت سے ثابت ہے.سلام پھیرنے کے بعد کی دعائیں ا.اَللّهُمَّ اَنْتَ السَّلَامُ وَ مِنْكَ السَّلَامُ تَبَارَكُتَ يَا ذَالْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ ترجمہ : اے اللہ تعالیٰ تو سلام ہے اور تجھ سے ہی ہر قسم کی سلامتی ہے تو بہت برکتوں والا ہے اے جلال اور اکرام والے..لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ.لَهُ ا مسلم باب استحاب الذكر بعد الصلواة

Page 16

28 27 المُلكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.اَللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا يَنْفَعُ ذَالْجَدِ مِنْكَ الْجَد ترجمہ : کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے جوا کیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے.اسی کے لئے بادشاہی ہے اور اسی کے لئے سب تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے.اے اللہ نہیں کوئی روکنے والا اس چیز کو جو تو نے عطا کی اور نہیں ہے کوئی دینے والا جس چیز کو تو نے روک دیا اور نہیں فائدہ دیتی بزرگی والے کو تیرے سامنے کوئی بزرگی.٣.اَللَّهُمَّ أَعِنِّى عَلَى ذِكْرِكَ وَ شُكْرِكَ وَ حُسْنِ عِبَادَتِكَ ترجمہ : اے میرے خدا میری مدد کر کہ میں تجھے یاد کروں تیرا شکر ادا کروں اور عمدگی کے ساتھ تیری عبادت بجالاؤں..٤ سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ وَ سَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.ترجمہ : تیرا رب ان تمام عیبوں سے جو کفار کہتے ہیں پاک ہے اور عزت والا ہے اور خدا کی رحمتیں نازل ہوں تمام پیغمبروں پر اور تمام خوبیاں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے.- سُبْحَانَ اللَّهِ ۳۳ مرتبه ترجمہ : اللہ تعالیٰ تمام نقائص سے پاک ہے.بخارى كتاب صفة الصلواة باب الذكر بعد الصلواة ابو داؤد کتاب الوتر باب في الاستغفار ، تر مذى كتاب الصلواة باب ما يقول إِذَا سَلَمَ الْحَمْدُ لِلهِ ۳۳ مرتبه ترجمہ : تمام خوبیاں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں.الله اكبر ۳۴ مرتبه أَكْبَرُ ترجمہ : اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے.لا إلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ.لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَ هُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ - ایک بار ترجمہ :اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے.وہ یکتا ہے (اپنی صفات میں ) اس کا کوئی بھی شریک کا رنہیں ہے.اسی کی بادشاہی اور حکومت ہے اور سب تعریفیں اسی کے لئے ہیں وہ ہر چیز پر قادر ہے.جو شخص بیمار ہے اور کھڑا نہیں ہوسکتا وہ بیٹھ کر نماز پڑھے اگر بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتا تو لیٹ کر پڑھے اور اگر رکوع وسجدہ نہیں کر سکتا تو اشارہ سے رکوع وسجدہ کرے.یعنی سر کو جھکائے اور کچھ جنبش دے.اسی طرح اگر ریل گاڑی یا بس وغیرہ پر سفر کر رہا ہے اور کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا اور نہ ہی سواری کو ٹھہرا کر اتر کر نماز پڑھ سکتا ہے تو ایسی صورت میں بھی بیٹھے بیٹھے نماز پڑھے.اس عذر کی صورت میں قبلہ کی طرف منہ کرنا ضروری نہیں ہوگا.ضروری تشریح نماز پڑھنے کا طریق اوپر بیان ہو چکا ہے.اس کے مطابق اہمیت کے اعتبار سے نماز کے چار حصے ہیں.فرائض نماز : یعنی وہ کام جن کا کرنا ضروری ہے اور اگر ان میں سے کوئی سہو یا عمدا رہ جائے تو نماز صحیح نہ ہوگی.البتہ اگر سہواً کوئی حصہ رہ جائے تو بعد

Page 17

30 29 29 میں اس کو ادا کر کے سجدہ سہو کر لینے سے نماز صحیح ہو جائے گی.فرائض جن کو ارکان نماز بھی کہتے ہیں مندرجہ ذیل ہیں:.۱.تکبیر تحریمہ ۲.قیام ۳.قرآت قرآن کریم ۴.رکوع ۵.ہر رکعت میں دو سجد ۶۷.آخری قعدہ ۷.سلام ہر ایک کی تفصیل او پر طریق نماز میں بیان ہو چکی ہے.واجبات نماز : یعنی وہ کام جن کا کرنا ضروری ہے اگر عمداً ان میں سے کوئی نہ کیا جائے تو نماز صحیح نہیں ہوگی.البتہ اگر سہوا کوئی کام رہ جائے تو سجدہ سہو کر لینے سے یہ کمی پوری ہو جائے گی.یہ واجبات مندرجہ ذیل ہیں:.سورۃ فاتحہ پڑھنا.فرضوں کی پہلی دورکعتوں میں سورۃ فاتحہ کے بعد قرآن کریم کا اور حصہ پڑھنا.رکوع کے بعد سیدھے کھڑا ہونا جسے قومہ کہتے ہیں.دو سجدوں کے درمیان بیٹھنا جسے جلسہ کہتے ہیں.دو رکعت پڑھنے کے بعد بیٹھنا جسے درمیانی قعدہ کہتے ہیں.قعدہ میں تشہد یعنی التحیات پڑھنا.ہر فرض کو ٹھہر ٹھہر کر اطمینان سے ادا کرنا جسے تعدیل ارکان کہتے ہیں.فرائض کو مقررہ ترتیب کے مطابق ادا کرنا.نماز با جماعت کی صورت میں ظہر اور عصر کی نماز میں آہستہ اور مغرب عشاء کی پہلی دو رکعتوں اور فجر ، جمعہ اور عیدین کی ساری رکعتوں میں بلند آواز سے قرآن مجید پڑھنا.سنن نماز : یعنی نماز کے وہ حصے جن کے کرنے سے ثواب ملتا ہے.اگر جان بوجھ کر ان میں سے کوئی نہ کیا جائے تو گناہ ہو گا.البتہ سہوارہ جائے تو نہ گناہ ہے اور نہ سجدہ سہو ضروری ہے.یہ سنن مندرجہ ذیل ہیں.تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے ہاتھ کانوں تک اٹھانا.ہاتھ باندھنا.ثناء پڑھنا.پہلی رکعت میں سورۃ فاتحہ کی قرآت سے پہلے اَعُوذُ باللہ پڑھنا.سورۃ فاتحہ کے ختم ہونے پر آمین کہنا.رکوع میں جاتے ہوئے تکبیر کہنا رکوع میں کم از کم تین بار تسبیح کہنا.رکوع سے اٹھتے ہوئے سمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ، اس کے بعد ا گرا کیلا نماز پڑھ رہا ہے تو ساتھ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ کہنا.اور اگر مقتدی ہے تو سمیع کی بجائے اس کے لئے یہ تحمید کہنا سنت ہے.سجدہ میں جاتے اور اٹھتے ہوئے تکبیر کہنا سجدہ میں کم از کم تین بار تسبیح کہنا.دو سجدوں کے درمیان دعائے ماثورہ پڑھنا.تشہد میں ذکر توحید ) یعنی اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللہ کہنے کے وقت ) پر شہادت کی انگلی اٹھانا.آخری قعدہ میں درود شریف اور دوسری دعائیں پڑھنا.فرض نماز کی پہلی دو رکعتوں کے بعد پچھلی ایک یا دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ پڑھنا.نماز باجماعت کی صورت میں امام کے لئے تکبیر سمیع اور تسلیم بلند آواز سے کہنا.سلام کہتے ہوئے منہ دائیں اور بائیں طرف پھیرنا.مستحبات نماز : یعنی نماز کے وہ حصے جن کے کرنے سے ثواب ہوتا ہے.اور اگر ان میں سے کوئی رہ جائے تو کوئی گناہ نہیں.یہ مستحبات مندرجہ ذیل ہیں.نظر سجدہ کی جگہ مرکوز رکھنا.رکوع میں ہاتھ گھٹنوں پر اور انگلیاں پھیلا کر رکھنا.رکوع کے بعد کھڑے ہونے کے وقت ہاتھ کھلے چھوڑنا.سجدے بجالاتے وقت اس طرح جھکنا کہ پہلے گھٹنے پھر ہاتھ پھر ناک اور پھر پیشانی زمین پر لگے.رکعت کے لئے کھڑے ہوتے وقت بغیر سہارے کے اٹھنا.جلسہ اور قعدہ میں ہاتھ گھٹنوں کے قریب اس طرح رکھنا کہ انگلیاں قبلہ رخ ہوں.بائیں پاؤں پر بیٹھنا اور دائیں پاؤں کو اس طرح کھڑا رکھنا کہ اس کی انگلیاں قبلہ رخ ہوں.سورۃ فاتحہ کے بعد پہلی رکعت میں بڑی اور دوسری رکعت میں نسبتا چھوٹی سورۃ پڑھنا.مقتدی کے لئے آمین بلند آواز اور حمید آہستہ آواز میں کہنا.

Page 18

32 31 مکروہات نماز : یعنی ایسی باتیں جن کا نماز میں کرنا نا پسندیدہ ہے اور وہ یہ ہیں:.نماز پڑھتے وقت ہاتھ آستین کے اندر رکھنا.گنج اکھیوں سے ادھر ادھر دیکھنا یا آسمان کی طرف دیکھنا.آنکھیں بند رکھنا.ننگے سر نماز پڑھنا.سجدہ میں پاؤں کی انگلیوں کا رخ بلا عذر قبلہ کی طرف نہ کرنا.بھوک لگی ہو اور دستر خوان بچھ گیا ہو تو اس حالت میں نماز پڑھنا.بیت الخلاء جانے کی حاجت کے باوجود نماز پڑھتے رہنا.قبرستان میں قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا.ایسا تنگ لباس پہننا کہ جس میں آسانی سے رکوع اور سجدہ نہ ہو سکے.ایک ٹانگ پر کھڑے ہونا اور دونوں پاؤں پر یکساں بوجھ نہ ڈالنا.ناصاف ماحول میں نماز پڑھنا مثلاً بکریوں کے باڑہ.اصطبل یا بازار میں جہاں شور و غل ہو.کھلی جگہ میں سترہ رکھے بغیر نماز پڑھنا.کسی کے سلام کے جواب میں سر ہلانا.کھانے کے بعد کلی کئے بغیر نماز پڑھنا.سجدہ میں ہاتھ سر کے نیچے رکھنا.سجدہ میں پیٹ ران سے لگانا.سجدہ میں باز وزمین پر پھیلا نا.رکوع اور سجدہ میں قرآنی آیت پڑھنا اور نماز با جماعت کی صورت میں امام سے پہلے حرکت کرنا.نمازی کے سامنے سے گزرنے والا گناہ گار ہے.لیکن اس سے نماز پڑھنے والوں کی نماز میں خرابی پیدا نہیں ہوتی.نمازیوں کے سامنے سے ایک صف کا فاصلہ چھوڑ کر انسان گزرسکتا ہے.مبطلات نماز : یعنی ایسی باتیں جن سے نماز ٹوٹ جاتی ہے اور نماز کا دوبارہ پڑھنا ضروری ہو جاتا ہے.یہ باتیں مندرجہ ذیل ہیں.نماز کی کسی شرط کو چھوڑ دینا یا دوران نماز اس کا باقی نہ رہنا مثلاً وضو کا ٹوٹ جانا یا ستر کا کھل جانا.نماز کے کسی رکن یا واجب حصہ کو بلا عذر جان بوجھ کر چھوڑ دینا.نماز میں عمداً کسی سے بات کرنا یا زبان سے سلام کا جواب دینا یا کھل کھلا کر ہنس پڑنا.منہ موڑ کر ادھر ادھر دیکھنا نماز میں کھانا پینا.بلاضرورت حرکت کثیر کرنا.سجدہ سہو نماز میں اگر کسی سے ایسی غلطی سرزد ہو جس سے نماز میں شدید نقص پڑ جائے.مثلاً سہواً فرض کی ترتیب بدل جائے یا کوئی واجب جیسے درمیانی قعدہ رہ جائے یار کعتوں کی تعداد میں شک پڑ جائے تو اس غلطی کے تدارک کے لئے روزائد سجدے کرنے ضروری ہوتے ہیں.یہ سجدے نماز کے آخری قعدہ میں تشہد ، درود شریف اور دعاؤں کے بعد کئے جاتے ہیں جب یہ آخری دعا ختم ہو جائے تو تکبیر کہہ کر دو سجدے کئے جائیں اور ان میں تسبیحات سجدہ پڑھی جائیں.اس کے بعد بیٹھ کر سلام پھیرا جائے.سجدہ سہو کرنے سے دراصل اس اقرار کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ ہر قسم کے نقص اور بھول چوک سے صرف رب العزت کی ذات پاک ہے.انسان کمزور ہے.اس کی اس غلطی سے درگز رفرمایا جائے اور اس کے بدنتائج سے اسے بچایا جائے.امام اگر ایسی غلطی کرے جس سے سجدہ سہوضروری ہو جاتا ہے تو اس کے ساتھ مقتدیوں کے لئے بھی سجدہ سہو کرنا ضروری ہوگا.لیکن اگر صرف مقندی سے ایسی کوئی غلطی ہو تو امام کی اتباع کی وجہ سے اس کی یہ غلطی قابل مواخذہ نہیں ہوگی اور اس کے لئے سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا.اگر رکعتوں کی تعداد یا کسی اور رکن کے ادا کرنے میں شبہ پڑ جائے تو یقین پر بنیا د رکھی جائے.مثلاً اگر یہ شبہ ہو کہ میں نے تین رکعت پڑھی ہیں یا چار اور کوئی فیصلہ نہ ہو سکے تو یہ سجھا جانا چاہئے کہ تین رکعتیں پڑھی ہیں اور چوتھی رہتی ہے.

Page 19

34 33 33 نماز کی اقسام اور ان کی رکعات اللہ تعالیٰ نے جو نماز مقرر کی ہے اس کی چار قسمیں ہیں:.ا.فرض ۲.واجب ۳.سنت اور ۴ نفل فرض نماز : پانچ نمازیں فرض ہیں.نہر کی دو رکعت.ظہر کی چار رکعت.عصر کی چار رکعت.مغرب کی تین رکعت اور عشاء کی چار رکعت.ان میں سے اگر کوئی نماز سہوارہ جائے تو اس کی قضاء ضروری ہوگی.اور اگر کوئی عمد ا چھوڑ دے تو وہ سخت گناہ گار ہوگا.واجب نماز : وتر کی تین رکعت.عید الفطر اور عیدالاضحیہ ہر ایک کی دودو رکعت.طواف بیت اللہ کی دو رکعت.ان میں سے اگر کوئی عمداً چھوڑ دے تو وہ گناہگار ہوگا.البتہ اگر سہوار ہ جائے تو قضاء ضروری نہیں ہوگی.نذر مانی ہوئی نماز کا ادا کرنا بھی ضروری ہوتا ہے.سنت نماز : فرض نماز کے علاوہ جو نماز آنحضرت ﷺ نے بالعموم پڑھی ہے اور جس کا احادیث میں ذکر موجود ہے.اس نماز کو سنت کہتے ہیں.یعنی صلى الله حضور ﷺ کے طریق اور آپ کی روش پر چلتے ہوئے یہ نماز پڑھنا.اس کا بہت بڑا ثواب ہے.تارک السنت قابل سرزنش ہے.سنت نماز یہ ہے.فجر کی دوسنتیں فرض نماز سے پہلے پڑھی جاتی ہیں اور اگر کوئی شخص جماعت میں شامل ہو جائے یا کسی اور وجہ سے فرضوں سے پہلے نہ پڑھ سکے تو فرضوں کے معا بعد پڑھ لے کیونکہ ان کے ادا کرنے کی بہت تاکید بیان ہوئی ہے.• ظہر کی نماز فرض سے پہلے چار رکعت اور فرضوں کے بعد دورکعت.مغرب اور عشاء کے فرضوں کے بعد دو دو رکعت نما ز سنت ہے.نفل نماز : اس نماز کے پڑھنے سے ثواب ملتا ہے.قرب الہی میں ترقی نصیب ہوتی ہے.تاہم اگر کوئی یہ نماز نہ پڑھے تو کوئی گناہ نہیں ہوتا.مندرجہ ذیل نمازیں نفل ہیں.تہجد کی آٹھ رکعت.عصر کی نماز سے پہلے چار رکعت.ظہر اور مغرب کی دو سنتوں کے بعد دو دو رکعت.اشراق یعنی چاشت کی چار رکعت تحیۃ الوضوء اور تحیة المسجد ( یعنی وضو کے بعد یا مسجد میں داخل ہونے پر دورکعت نماز پڑھنا ) استخارہ (یعنی طلب خیر کیلئے دو رکعت نماز ) دو رکعت تحیۃ الشکر خوشی کے موقع کے مطابق دو رکعت نماز نفل موجب ثواب و برکت ہے.اس کے علاوہ اوقات مکروہہ کے سوا جب موقع ملے اور دل کرے دو نفل نماز پڑھنا باعث ثواب ہے.نوافل اصولاً گھر میں پڑھنے چاہئیں.اس سے ثواب بڑھ جاتا ہے.سنن اور نوافل فرائض کی تکمیل کرتے ہیں.یعنی فرائض کی ادائیگی میں اگر کوئی غلطی یا کمی رہ گئی ہو تو اس کی تلافی سنن اور نوافل سے ہو جاتی ہے.نیز نوافل ایمان کے استحکام کا بھی موجب بنتے ہیں.

Page 20

36 35 اذان نماز باجماعت پنجگانہ کے لئے مسلمانوں کو جمع کرنے کی غرض سے جو کلمات بلند آواز سے ادا کئے جاتے ہیں انہیں اذان کہتے ہیں.اذان اسلامی شعار میں داخل ہے اور خدا تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلانے کا بہترین ذریعہ ہے.ہر قوم نے لوگوں کو عبادت کی خاطر جمع کرنے کے لئے مختلف طریقے اختیار کئے ہیں.کسی نے نرسنگا اور ناقوس سے کام لیا.کسی نے گھڑیال اور گھنٹے استعمال کئے.لیکن اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو کوئی وضع بھی اذان ، مقابلہ نہیں کر سکتی.ہمارے پیارے رسول مقبول عاللہ نے رسمی بندشوں.سیپوں اور سینگوں کی تلاش سے امت کو سبکدوش کرایا.علاوہ ازیں اذان کے کلمات ایسے منتخب کئے گئے جو فی الحقیقت اسلام کا خاصہ ہیں.گویا عبادت کی عبادت اور بلاوے کا بلاوا.دنیا میں ہزاروں حکماء اور ریفارمر گزرے ہیں.قومی گڈریے پیدا ہوئے ہیں مگر تتر بتر بھیٹروں کو اکٹھا کرنے اور ایک جہت میں لانے کے لئے کسی نے نرالا اور ایسا پر حکمت طریق نہیں نکالا کسی نے کبھی ایسا بگل نہیں پھونکا جس کی دلکش آواز معاً روحانی جوش اور خدا کے حضور دوڑ آنے کا ولولہ ہر انسان کے ظاہر و باطن میں پیدا کر دے.اذان کے الفاظ اللهُ اَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ.اَللهُ أَكْبَرُ اللَّهُ اَكْبَرُ.اللہ سب سے بڑا ہے.اللہ سب سے بڑا ہے.اللہ سب سے بڑا ہے.اللہ سب سے بڑا ہے.اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ.اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ.میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں.میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں.اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللهِ.اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللهِ میں گواہی دیتا ہوں کہ توحید کا پیغام لانے والے محمد اللہ کے رسول ہیں.میں گواہی دیتا ہوں کہ توحید کا پیغام لانے والے محمد اللہ کے رسول ہیں.حَيَّ عَلَى الصَّلوةِ.حَيَّ عَلَى الصَّلوةِ.چلے آؤ نماز کی طرف.چلے آؤ نماز کی طرف.حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ.حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ.چلے آؤ نجات اور کامیابی کی طرف.چلے آؤ نجات اور کامیابی کی طرف اللهُ أَكْبَرُ.اللَّهُ اَكْبَرُ اللہ سب سے بڑا ہے.اللہ سب سے بڑا ہے.لَا إِله إِلَّا الله اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں.صرف صبح کی نماز کی اذان میں حَيَّ عَلَى الْفَلاح کے بعد یہ کلمات زائد کئے جائیں اَلصَّلوةُ خَيْرٌ مِّنَ النَّوْمِ.اَلصَّلوةُ خَيْرٌ مِّنَ النَّوْمِ.نماز نیند سے بہتر ہے.نماز نیند سے بہتر ہے.اذان کہنے کا طریق : پنجگانہ نماز با جماعت کے لئے اذان ضروری ہے.اذان کہنے کا طریق یہ ہے کہ جب نماز کا وقت شروع ہو جائے تو مؤذن کسی اونچی یا نمایاں جگہ پر قبلہ رخ کھڑا ہو جائے.شہادت کی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال کر مذکورہ کلمات اذان بآواز بلند کہے.حَيَّ عَلَى الصَّلوةِ پر دونوں بار اپنا منہ دائیں طرف اور حَيَّ عَلَی الْفَلَاح پر بائیں طرف پھیرے.

Page 21

38 37 اذان با وضو دینی چاہئے.مؤذن خوش الحان اور بلند آواز اور دینی مسائل سے واقف ہو.حدیث میں آیا ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ معمولی لوگوں کو مؤذن مقرر کیا جائے گا.مسلمانوں کو اس انداز سے سبق حاصل کرنا چاہئے.اذان سننے والے موذن کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ اذان دوہراتے چلے جائیں.البتہ حَيَّ عَلَى الصَّلوۃ اور حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ پر ہر بار لا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيُّ الْعَظِيمِ پڑھیں.اذان ختم ہونے پر کیا موذن اور کیا سننے والے سبھی مندرجہ ذیل دعا مانگیں.ا اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلوةِ الْقَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدَ الوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَابْعَثُهُ مَقَامًا مَحْمُودَ الَّذِي وَعَدْتَهُ.ترجمہ : اے اس کامل دعا اور قائم رہنے والی عبادت کے خدا ! محمد (ع) کو کامیاب ذریعہ اعلیٰ فضیلت اور بلند درجہ عطا فرما اور تو نے جس مقام محمود کا ان سے وعدہ کیا ہے اس پر آپ کو معبوث فرما.لیکن مشہور دعا یہ ہے جو حدیث کی کسی مستند کتاب میں درج نہیں : اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلَوةِ الْقَائِمَة آتِ مُحَمَّدَ نِ الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَالدَّرَجَةَ الرَّفِيعَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودَ بِالَّذِى وَعَدتَهُ وَاجْعَلْنَا فِي شَفَاعَتِهِ يَوْمَ الْقِيمَةِ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ.ترجمہ : اے اس کامل دعا اور قائم رہنے والی عبادت کے خدا ! بخاری کتاب الاذان باب الدعا عند النداء بخاری کتاب الاذان باب الدعا عند النداء شرح السنة لامام البغوى محمد (ﷺ) کو کامیاب ذریعہ اعلیٰ فضیلت اور بلند درجہ عطا فرما اور تو نے جس مقام محمود کا ان سے وعدہ کیا ہے اس پر آپ کو معبوث فرما اور ہمیں قیامت کے دن آپ کی شفاعت کا مورد بنا یقیناً تو وعدہ خلافی نہیں کرتا.اقامت : یہ اطلاع کرنے کے لئے کہ اب بالکل نماز کھڑی ہونے لگی ہے اور امام نماز پڑھانے کے لئے مصلی پر قبلہ رخ کھڑا ہو گیا ہے اقامت کہی جاتی ہے.اقامت تیز روی سے جلدی جلدی کہی جائے.اقامت کے الفاظ یہ ہیں:.الله اكبر.اللهُ اَكْبَرِ.اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ.اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللَّهِ.حَيَّ عَلَى الصَّلوةِ.حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ.قَدْ قَامَتِ الصَّلَوةُ قَدْ قَامَتِ الصَّلوةُ.اَللهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ.لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ترجمہ : اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے.اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے.میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں.میں گواہی دیتا ہوں کہ توحید کا یہ پیغام لانے والے محمد اللہ کے رسول ہیں.چلے آؤ نماز کی طرف.چلے آؤ نجات اور کامیابی کی طرف.کھڑی ہوگئی نماز کھڑی ہو گئی نماز اللہ تعالیٰ سب.بڑا ہے.اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے.اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں.نماز جمعہ ایک شہر اور اس کے مضافات میں رہنے والے مسلمان ہر ساتویں دن نہا دھو کر صاف ستھرے اور اجلے کپڑے پہن کر اور خوشبو لگا کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے جمع ہوتے ہیں.اس مبارک دن کو جمعہ کہتے ہیں.جو ایک طرح سے مسلمانوں کی عید کا

Page 22

40 39 دن ہے.اس بابرکت اجتماع کے ذریعہ حلقہ تعارف وسیع ہوتا ہے.اجتماعی مقاصد کے متعلق سوچنے اور باہمی تعاون کے مواقع میسر آتے ہیں.مساوات اسلامی کے مظاہرہ کا موقع ملتا ہے.وعظ و تذکیرسن کر رضائے الہی کی راہوں پر چلنے کی توفیق ملتی ہے.جمعہ کی نماز کا وقت وہی ہے جو ظہر کی نماز کا ہے.البتہ امام وقت کسی اشد ضروری سفر یا جنگی انداز کی اہم مصروفیت کے پیش نظر چاشت کے بعد اور زوال سے قبل بھی جمعہ پڑھا سکتا ہے.لا نماز جمعہ کے لئے جماعت شرط ہے.یہ نماز تمام بالغ ، تندرست مسلمانوں پر واجب ہے.البتہ معذور، نابینا، پانچ ، بیمار، مسافر نیز عورت کے لئے واجب نہیں.ہاں اگر یہ شامل ہو جائیں تو ان کی نماز جمعہ ہو جائے گی ورنہ وہ ظہر کی نماز پڑھیں.نماز جمعہ کا طریق : سورج ڈھلنے کے ساتھ ہی پہلی اذان دی جائے.امام جب خطبہ پڑھنے کے لئے آئے تو دوسری اذان کہی جائے.پہلے خطبہ میں تشہد اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب موقع ضروری نصائح کی جائیں.لوگوں کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی جائے.اس کے بعد کچھ دیر کے لئے خطیب خاموش ہو کر بیٹھ جائے.پھر کھڑے ہو کر دوسرا خطبہ پڑھے.خطبہ توجہ سے سننا چاہئے.اس کے دوران بولنا جائز نہیں.ضرورت پر ہاتھ یا انگلی کے اشارے سے متوجہ کیا جائے.البتہ امام اگر کوئی بات پوچھے تو جواب دینا چاہئے.خطبہ ثانیہ کے بعدا قامت کہہ کر دو رکعت نماز باجماعت ادا کی جائے.نماز میں قرآت بالجبر ہو.جمعہ کی نماز سے پہلے اور بعد میں چار چار رکعت نماز سنت پڑھی جائے.بعد میں چار کی بجائے دو رکعت بھی پڑھی جا سکتی ہیں.دوران خطبہ ے مسند الشافعی جلد اص ۵۲-۲- ابوداؤ د باب الصلوۃ یوم الجمعه قبل الزوال ۳ - شرح السنتہ جلد ۳ ص ۳۲۹ پہنچنے والے نمازی ہلکی پھلکی دو رکعت نما ز سنت ادا کرے یا خطبہ کے دوران پہنچنے والے شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ صفوں کو پھلانگ کر آگے جانے کی کوشش نہ کرے.جمعہ کی نماز کی کوئی قضاء نہیں یعنی جو نماز جمعہ نہیں پڑھ سکا تو وہ نماز ظہر ادا کرے.خطبہ ثانیہ کے مسنون الفاظ الْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَ نُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ.وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ.وَمَنْ يُضَلِلُهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا الله و نَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ عِبَادَ اللَّهِ.رَحِمَكُمُ الله.إِنَّ اللّهَ يَا مُرُ بالعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَايْتَائُ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ.أَذْكُرُ اللهَ يَذْكُرُكُمْ وَادْعُوهُ يَسْتَجِبْ لَكُمْ.وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ.ترجمہ :.ہر قسم کی تعریف اللہ تعالیٰ کا حق ہے.اس لئے ہم اس کی تعریف کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں اور اس کی مغفرت کے طالب ہیں اور اسی پر ایمان لاتے ہیں اور اسی پر توکل کرتے ہیں اور ہم اپنے نفس کے شرور اور اپنے اعمال کے بدنتائج سے اس کی پناہ چاہتے ہیں.جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دے اسے کوئی ابوداؤد كتاب الصلواة باب الصلواة بعد الجمعة و شرح السنة جلد ۳ ص ۴۴۹

Page 23

42 41 بھی گمراہ نہیں کر سکتا اور جس کی گمراہی کا وہ اعلان کرے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ محمد ( رسول اللہ ﷺ ) جس نے یہ درس تو حید ہمیں دیا اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں.اے اللہ کے بندو! تم پر اللہ رحم کرے.وہ عدل اور انصاف کا حکم دیتا ہے اور قریبی رشتہ داروں سے اچھے سلوک کا ارشاد فرماتا ہے اور بے حیائی ، بری باتوں اور باغیانہ خیالات سے روکتا ہے.وہ تمہیں اس بناء پر نصیحت کرتا ہے کہ تم میں نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہے.اللہ تعالیٰ کو یاد کرو.وہ تمہیں یاد کرے گا.اسے بلاؤ وہ تمہیں جواب دے گا.اللہ تعالیٰ کا یاد کرنا سب سے بڑی نعمت ہے.نماز عیدین ماہ رمضان گزرنے پر یکم شوال کو افطار کرنے اور روزوں کی برکات حاصل کرنے کی توفیق پانے کی خوشی میں عید الفطر اور دسویں ذوالحجہ کو حج کی برکات میسر آنے کی خوشی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی یاد میں عید الاضحیہ منائی جاتی ہے.نماز عید کا اجتماع ایک رنگ میں مسلمانوں کی ثقافت اور دینی عظمت کا مظہر ہوتا ہے.اس لئے اس میں مرد، عورت، بچے بھی شامل ہیں.عید کے دن نہا کر عمدہ لباس پہنا جائے.خوشبو لگائی جائے.اچھا کھانا تیار کیا جائے.عید الفطر ہو تو عید کی نماز کے لئے جانے سے پیشتر مساکین اور غرباء کے لئے فطرانہ ادا کیا جائے خود بھی کچھ کھا پی کر عید کی نماز کے لئے جائے.لیکن اگر قربانیوں کی عید ہو تو نماز سے فارغ ہونے کے بعد واپس آ کر کھانا زیادہ بہتر ہے.دونوں عیدوں پر عید کی دورکعت نماز کسی کھلے میدان میں یا عید گاہ میں زوال سے پہلے پڑھی جاتی ہے.عید گاہ میں جانے اور واپس آنے کے راستے جدا جدا ہوں تو زیادہ ثواب ہوگا.عید کی نماز با جماعت ہی پڑھی جاسکتی ہے.اکیلئے جائز نہیں.نماز عید کی پہلی رکعت میں ثناء کے بعد اور تعوذ سے پہلے امام سات تکبیریں بلند آواز سے کہے اور مقتدی آہستہ آواز سے کہیں.امام اور مقتدی دونوں تکبیرات کہتے ہوئے ہاتھ کانوں تک اٹھا ئیں اور کھلے چھوڑ دیں.تکبیرات کے بعد سورۃ فاتحہ اور قرآن کریم کا کوئی حصہ بالجبر پڑھ کر پہلی رکعت مکمل کی جائے.پھر دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہو کر پہلے کی طرح پانچ تکبیریں کہی جائیں دوسری رکعت مکمل ہونے پر تشہد ، درود شریف اور مسنون دعا کے بعد سلام پھیرا جائے.اس کے بعد امام خطبہ پڑھے.جمعہ کی طرح عید کے بھی دو خطبے ہوتے ہیں.تاہم جمعہ کا خطبہ نماز سے پہلے اور عید کا نماز کے بعد اگر عید کی نماز پہلے دن زوال سے پہلے نہ پڑھی جا سکے تو عید الفطر دوسرے دن اور عیدالاضحیہ تیسرے دن تک زوال سے پہلے پڑھی جاسکتی ہے.دونوں عیدوں کی نماز ایک جیسی ہے.فرق صرف یہ ہے کہ بڑی عید کی نماز ختم ہونے کے بعد امام اور مقتدی کم از کم تین بار بلند آواز سے تکبیرات کہیں.اسی طرح نویں ذوالحجہ کی فجر سے تیرہویں کی عصر تک با جماعت فرض نماز کے بعد با آواز بلند یہی تکبیرات کہی جائیں.یہ تکبیرات مندرجہ ذیل ہیں.اللهُ اَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ.لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ.وَاللهُ أَكْبَرُ.اَللهُ أَكْبَرُ.وَلِلَّهِ الْحَمْدُ.ترجمہ : اللہ سب سے بڑا ہے.اللہ سب سے بڑا ہے.اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے.اللہ سب سے بڑا ہے اور اللہ تعالیٰ کے لئے

Page 24

44 43 سب تعریفیں ہیں.نوٹ :.عیدین کی نماز کے لئے آتے اور واپس جاتے ہوئے بھی یہی تکبیرات بلند آواز سے کہنا مسنون ہے.نماز جمع بیماری.سفر.بارش.طوفان با دو باراں.سخت کیچڑ اور سخت اندھیرے میں جبکہ مسجد میں بار بار آنے جانے کی دقت کا سامنا ہو.اس طرح کسی اہم دینی اجتماعی کام کی صورت میں ظہر اور عصر.مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے.جماعت سے بھی اورا کیلے بھی.جمع تقدیم مثلاً ظہر کے وقت ظہر اور عصر اور جمع تاخیر مثلاً عصر کے وقت میں ظہر و عصر دونوں صورتیں جائز ہیں.باجماعت نمازیں جمع کرنی ہوں تو ایک اذان کافی ہے.البتہ اقامت ہر ایک کے لئے الگ الگ ہو.بصورت جمع سنتوں کا پڑھنا بھی ضروری نہیں رہتا.با جماعت نمازیں جمع کرنے کی صورت میں اگر امام پہلی نماز پڑھانے کے بعد دوسری نماز پڑھا رہا ہوتو جو شخص بعد میں مسجد میں آئے اگر اسے معلوم ہو جائے کہ امام کون سی نماز پڑھ رہا ہے.تو پھر وہ پہلے اس نماز کو ادا کرے جو امام پڑھا چکا ہے.اس کے بعد امام کے ساتھ شامل ہو.لیکن اگر اسے معلوم نہیں ہو سکا کہ کون سی نماز ہو رہی ہے اور وہ یہ سمجھ کر شامل ہو جاتا ہے کہ امام کی یہ پہلی نماز ہے تو امام کی نیت کے مطابق اس کی نماز ہو جائے گی اور پھر بعد میں وہ پہلی نماز پڑھ لے.بہر حال علم ہو جانے کی صورت میں نمازوں کی ترتیب کو قائم رکھنا ضروری ہے.خواہ جماعت ملے یا نہ ملے.نماز سفر شروع میں ظہر عصر اور عشاء کی نمازیں فجر کی طرح دو دو رکعتیں تھیں لیکن بعد میں سفر کی حالت میں تو یہ دو دورکعتیں ہی رہیں لیکن اقامت کی حالت میں دوگنی یعنی چار چار رکعت کر دی گئیں.اس تبدیلی کی بناء پر مسافر کا کسی جگہ پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو ظہر.عصر اور عشاء کی نماز دو دو رکعت پڑھے گا اور مقیم چار چار رکعت پڑھے گا.مغرب اور فجر کی رکعتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی.اگر انسان کسی ایسے عزیز کے گھر میں مقیم ہو جسے وہ اپنا ہی گھر سمجھتا ہے جیسے والدین کا گھر ، سسرال کا گھر یا مذہبی مرکز مثلاً مکہ ، مدینہ ، قادیان اور ربوہ وغیرہ تو قیام کے دوران میں چاہے تو اس رخصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دو رکعت پڑھے اور چاہے تو پوری نماز یعنی چار رکعت پڑھے.سفر میں وتر اور فجر کی دوسنتوں کے علاوہ باقی سنن معاف ہو جاتی ہیں.پڑھے یا نہ پڑھے یہ انسان کی مرضی پر منحصر ہے.سفر میں نمازیں جمع کرنا بھی جائز ہے.اگر امام مقیم ہو تو مسافر مقتدی اس کی اتباع میں پوری نماز پڑھے گا اور اگر امام مسافر ہو تو امام دورکعت پڑھے گا اور اس کے مقیم مقتدی امام کے سلام پھیر نے کے بعد کھڑے ہو کر بقیہ رکعتیں پوری کر کے سلام پھیریں گے ان بقیہ دو رکعتوں میں وہ صرف سورۃ فاتحہ پڑھیں گے.وتر وتر طاق کو کہتے ہیں اور اس سے مراد یہ ہے کہ عشاء کی نماز سے لے کر

Page 25

46 46 45 طلوع فجر تک کم از کم تین رکعت نماز وتر پڑھی جائے.یہ نماز واجب ہے.وتر کی ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد علی الترتیب سورہ اعلیٰ سورۃ کافرون اور سورۃ اخلاص پڑھنا مسنون ہے.تاہم کوئی دوسری سورۃ بھی پڑھی جاسکتی ہے.وتر کی دوسری رکعت کے بعد قعدہ میں بیٹھ کر تشہد و درود شریف پڑھے پھر سلام پھیر کر کھڑا ہو جائے اور تیسری رکعت پڑھے.یہ بھی جائز ہے کہ تشہد سے اٹھ کر تیسری رکعت مکمل کرے اور پھر سلام پھیرا جائے.البتہ پہلی دو رکعت پڑھے بغیر صرف ایک رکعت پڑھنا پسندیدہ نہیں.وتر کی تیسری رکعت میں رکوع کے بعد یا رکوع سے قبل دعائے قنوت پڑھنا باعث ثواب ہے.وو وتر پڑھنے کا طریقہ :.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.اکیلا ایک وترکہیں سے ثابت نہیں ہوتا.وتر ہمیشہ تین ہی پڑھنے چاہئیں.خواہ تینوں اکٹھے ہی پڑھ لیں.خواہ دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر لیں اور پھر ایک رکعت الگ پڑھی جاوے.“ (البد نمبر ۱ جلد ۲ مورخه ۳ را پریل ۱۹۰۳، ص ۸۵) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں.وتر کا صحیح طریق یہ ہے کہ دو رکعت پڑھ کر تشہد بیٹھے.سلام پھیر دے پھر کھڑا ہو کر ایک رکعت پڑھے اور التحیات کے بعد سلام پھیرے یا دوسری رکعت کا 66 ہد پڑھ کر کھڑا ہو جائے اور تیسری رکعت پڑھے اور تشہد پڑھ کر سلام پھیر دے.“ دعائے قنوت (الفضل 15 ستمبر 1935 ء ) اَللّهُمَّ اهْدِنِي فِيْمَنُ هَدَيْتَ وَ عَافِنِي فِيْمَنُ عَافَيْتَ وَ تَوَلَّنِي فِيْمَنُ تَوَلَّيْتَ وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ وَقِنِي شَرَّمَا قَضَيْتَ فَإِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ وَ إِنَّهُ لَا يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ وَتَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَ تَعَالَيْتَ وَ صَلَّى اللهُ عَلَى النَّبِيِّ.(ابو داؤد كتاب الوتر حديث ۱۴۲۵) ترجمہ : اے میرے خدا مجھے ہدایت دے کر ان میں شامل کر جن کو ہدایت دینے کا تو نے فیصلہ کیا ہے اور مجھے سلامت رکھ کر ان لوگوں میں شامل کر جن کو سلامت رکھنے کا تو نے فیصلہ کیا ہے اور مجھے دوست بنا کر ان لوگوں میں شامل کر جن کو دوست بنانے کا تو نے فیصلہ کیا ہے اور مجھے برکت دے ان انعامات میں جو تو نے دیئے ہیں اور مجھے بچا ان چیزوں کے نقصان سے جو تیری تقدیر میں نقصان دہ قرار دی گئی ہیں کیونکہ تو ہی فیصلے کرتا ہے اور تیری مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا سو وہ شخص ذلیل وخوار نہیں ہو سکتا جس کا تو دوست ہے اور نہ وہ عزت پا سکتا ہے جس کا تو دشمن ہے.اے ہمارے رب تو برکت والا اور بلند شان والا ہے.اے اللہ تعالیٰ ہمارے نبی پر خاص فضل فرما جن کے ذریعہ سے ہمیں ایسی عمدہ دعاؤں کا علم حاصل ہوا..اَللّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ وَنُؤْمِنُ بِكَ وَ نَتَوَّكَّلُ عَلَيْكَ وَ نُشِئُ عَلَيْكَ الْخَيْرَ وَنَشْكُرُكَ وَلَا نَكْفُرُكَ وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ وَ مَنْ يَفْجُرُكَ اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ لَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ وَ نَرْجُوا رَحْمَتَكَ وَنَخْشَى عَذَابَكَ إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكُفَّارِ مُلْحِقِّ.

Page 26

48 47 یہ سب سے مشہور دعا ہے..٣ اَللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِيْنُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ وَنُثْنِي عَلَيْكَ الْخَيْرَ وَلَا نَكْفُرُكَ وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ لَكَ نُصَلِّي وَ نَسْجُدُ وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ وَ نَرْجُوا رَحْمَتَكَ وَ نَخْشَى عَذَابَكَ إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكُفَّارِ مُلْحِقِّ.ترجمہ: اے اللہ ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں اور تیری بخشش چاہتے ہیں اور ہم تجھ پر ایمان لاتے ہیں اور تجھ پر بھروسہ رکھتے ہیں اور ہم تیری خوبیاں بیان کرتے ہیں اور تیرا شکر کرتے ہیں اور نا شکری نہیں کرتے اور ہم قطع تعلق کرتے اور ترک کرتے ہیں اس کو جو تیری نافرمانی کرے.اے اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیرے لئے ہی ہم نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں اور تیری طرف ہم دوڑتے ہیں اور کھڑے ہوتے ہیں اور ہم تیری رحمت کی امید رکھتے ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں.یقینا تیرا عذاب کافروں کو پہنچنے والا.وتروں کا وقت نماز عشاء سے لے کر طلوع فجر تک رہتا ہے تاہم سونے اور رات کے آخری حصہ میں اٹھ کر تہجد کی نماز پڑھنے کے بعد وتر ادا کرنا افضل ہے.اگر رات کے آخری حصے میں اٹھنے کی عادت نہ ہو.تو عشاء کے بعد ہی وتر پڑھ لینے بہتر ہیں.وتر اکیلے پڑھے جاتے ہیں.البتہ رمضان المبارک میں وتر کی نماز تراویح کی طرح باجماعت پڑھنا بھی جائز ہے.مصنف ابن ابی شیبہ حدیث ۷۰۲۹.والا ہے.نماز تہجد عشاء کی نماز کے بعد جلدی سو جانا اور پھر پچھلی رات اُٹھ کر عبادت کرنا اور نماز پڑھنا باعث برکت ہے.رات کا آخری حصہ بالخصوص قبولیت دعا اور تقرب الی اللہ کا بہت بڑا ذریعہ ہے.کیونکہ اس وقت انسان اپنی میٹھی نیند اور آرام دہ بستر کو چھوڑ کر اپنے مولائے حقیقی کے حضور سجدہ ریز ہوتا ہے.تہجد کی نماز آٹھ رکعت ہے.آنحضرت ﷺ نے ہمیشہ یہ نماز پڑھی ہے.آپ تہجد کی نماز بالعموم دو دورکعت کر کے پڑھتے تھے.لمبی قراءت اور لمبے لمبے رکوع و سجود کے علاوہ خوب دعائیں کرتے.پھر آخر میں تین رکعت وتر ادا فرماتے.اس طرح سے آپ بالعموم رات کے پچھلے حصہ میں کل گیارہ رکعت نماز پڑھا کرتے تھے.نماز تراویح نماز تراویح دراصل تہجد ہی کی نماز ہے.صرف رمضان المبارک میں اس کے فائدہ کو عام کرنے کے لئے رات کے پہلے حصہ میں یعنی عشاء کی نماز کے معا بعد عام لوگوں کو پڑھنے کی اجازت دی گئی.آنحضرت نے بھی ایک رمضان کی تین راتوں کو صحابہ کو رات کے مختلف حصوں میں نوافل باجماعت پڑھائے.اس سے سنت اخذ کرتے ہوئے تراویح کا رواج حضرت عمرؓ کے زمانہ میں پڑا.رمضان میں بھی رات کے آخری حصہ میں یہ نماز ادا کرنا افضل ہے.نماز تراویح میں قرآن کریم سنانے کا طریق بھی صحابہؓ کے زمانہ سے چلا آیا ہے.تراویح کی نماز آٹھ رکعت ہے.تاہم اگر کوئی چاہے تو ہیں یا اس سے زیادہ رکعت بھی پڑھ سکتا ہے.

Page 27

49 49 نماز استخاره ہرا ہم دینی و دنیوی کام شروع کرنے سے پہلے اس کے بابرکت ہونے اور کامیابی کے ساتھ اس سے عہدہ برآ ہونے کے لئے دعائے خیر کی جائے.طلب خیر کی مناسبت سے اسے صلوۃ الاستخارہ کہتے ہیں.رات سونے سے پہلے دو رکعت نفل پڑھے جائیں.سورۃ فاتحہ کے علاوہ پہلی رکعت میں سورۃ الکافرون اور دوسری میں سورۃ الاخلاص پڑھنا مسنون ہے.قعدہ میں تشہد ، درود شریف اور ادعیہ مسنونہ کے بعد بجز و انکسار کے ساتھ مندرجہ ذیل دعا پڑھنا مسنون ہے.اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيْرُكَ بِعِلْمِكَ وَاسْتَقْدِرُكَ بقُدْرَتِكَ وَاَسْئَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَ تَعْلَمُ وَ لَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ.اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا لَأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعِيشَتِى ( مَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِى فَاقْدِرُهُ لِى فَيَسِرُهُ لِى ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ وَإِنْ كُنتَ تَعْلَمُ اَنَّ هذا الا مُرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَ مَعِيشَتِي مَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِى فَاصْرِفُهُ عَنِّى وَاصْرِفْنِي عَنْهُ وَاقْدِرُ لِيَ الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ ارْضِنِي بِهِ ترجمہ :.اے اللہ تعالیٰ میں بھلائی چاہتا ہوں جو تیرے علم میں ہے اور قدرت چاہتا ہوں جو تیری توفیق سے ہی مل سکتی ہے اور مانگتا ہوں تیرے بڑے لے بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء عند الاستخارہ.ترمذی جلد اص ۶۳ شرح السنۃ جلد ۴ ص ۱۵۳ فضلوں کو کیونکہ تو طاقت رکھتا ہے اور میں طاقت نہیں رکھتا اور تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا اور تو تمام غیب کی باتوں کو جاننے والا ہے.اے اللہ اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام جو مجھے درپیش ہے ( کام کا نام بھی لے سکتا ہے) میرے لئے دین اور دنیا میں اور انجام کے لحاظ سے بہتر ہے تو اس کو میرے واسطے مقدر فرما اور اس کو میرے لئے آسان کر دے.پھر میرے لئے اس میں برکت ڈال دے.اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے دین اور میری دنیا کے لئے اور انجام کے لحاظ سے مضر ہے تو اس کو مجھ سے دور ہٹا دے اور مجھ کو اس سے دور رکھ اور میرے لئے بھلائی مقدر فرما جہاں کہیں وہ ہو اور پھر اس کے بارہ میں مجھے تسکین و رضا عطا فرما.نماز اشراق (یعنی چاشت کی نماز ) نیزہ بھر سورج نکل آنے کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا.اس کے بعد جب دھوپ اچھی طرح نکل آئے اور گرمی کچھ بڑھ جائے تو چار رکعت یا آٹھ رکعت پڑھنا بعض روایات سے ثابت ہے.پہلی دو رکعت کو صلوۃ الاشراق اور اس کے بعد کی نماز کو صلوۃ الضحی کہا گیا ہے.صلواة الأوبين بھی اسی نماز کا نام ہے یا بہر حال یہ نفل نماز پڑھنے کا ثواب بعض احادیث سے ثابت ہے.ا کشف الغمہ جلد اص ۳۱۳ ، ۲ نیل اوطار جلد ۳ ص ۶۶ لیکن بعض احادیث میں نماز مغرب وعشاء کے درمیان پڑھی جانے والی ۶ رکعت نفل کو صلوۃ الا و بین کہا گیا ہے.عن ابن عباس قال بالذين يصلون المغرب الى العشاء و هِىَ صلواة الاوبين شرح السنہ جلد ۳ ص ۴۷۴ بين 50 50

Page 28

52 62 51 نماز میں قرآن کریم کے مختلف حصے پڑھنے چاہئیں.سہولت کی غرض سے یہاں چندسورتیں لکھی جاتی ہیں.سورة الفيل بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحبِ الْفِيلِ.اَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ.وَّ اَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا اَبَابِيْلَ.تَرْمِيهِمْ بِحِجَارَةٍ مِّنْ سِجِّيلٍ.فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّاكُول.سورة القريش بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ لا يُلفِ قُرَيْشٍ.الفِهِمُ رِحْلَةَ الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ.فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَذَا الْبَيْتِ.الَّذِي أَطْعَمَهُم مِّنْ جُوعٍ.وَامَنَهُم مِّنْ خَوْفٍ.سورة الماعون بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ أَرَءَ يُتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ ، فَذَلِكَ الَّذِي يَدْعُ الْيَتِيمَ وَلَا يَحُضُّ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ.فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ.الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُ وُنَ..يَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ.سورة النصر بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ.وَ رَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا.فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرُهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا.سورة اللهب بسم اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم تَبَّتُ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَّ تَبْ.مَا أَغْنَى عَنْهُ مَالُهُ وَ مَا كَسَبَ.سَيَصْلَى نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ.وَّ امْرَأَتُهُ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ.فِي جِيْدِهَا حَبْلٌ مِّنْ مَّسَدٍ.سورة الفلق بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ.مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ.وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ.وَ مِنْ شَرِّ النَّفْفْتِ فِي الْعُقَدِ.وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ.

Page 29

54 53 63 سورة النّاس بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ.مَلِكِ النَّاسِ.اللَّهِ النَّاسِ.مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ.الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ.مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ.چند ضروری دعائیں ( از قرآن کریم) رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةٌ وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرة : ٢٠٢) ( ترجمہ ) اے ہمارے رب ہمیں دے دنیا کی ( زندگی ) میں (بھی) کامیابی اور آخرت میں ( بھی ) کامیابی (دے) اور ہمیں آگ سے عذاب سے بچا.ے رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَ إِنْ لَّمْ تَغْفِرُ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَسِرِينَ.(الاعراف :٢٣) ( ترجمہ ) اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہم کو نہ بخشے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے.رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّينِي صَغِيرًا (بنی اسراء يل: ۲۵) ( ترجمہ ) اے میرے رب ان ( والدین ) پر مہربانی فرما کیونکہ انہوں نے بچپن کی حالت میں میری پرورش کی تھی.رَبِّ لَا تَذَرُنِي فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ (الانبياء :٩٠) ( ترجمہ ) اے میرے رب! مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو وارث ہونے والوں اسب سے بہتر ہے.رَبِّ اغْفِرُ وَارْحَمُ وَ اَنْتَ خَيْرُ الرَّحِمِينَ (المومنون : ١١٩) ( ترجمہ ) اے میرے رب! مجھے معاف کر اور رحم کر تو سب سے اچھا رحم کرنے والا ہے.رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (الفرقان: ۷۵) ( ترجمہ ) اے ہمارے رب ! عطا کر ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک اور ہمیں متقیوں کا امام بنا.آداب مسجد مسجد خدا کا گھر ہے.اس میں نماز اور ذکر الہی ہونا چاہئے.دنیوی معاملات سے متعلق باتیں نہیں کرنی چاہئیں.اسی طرح شور بھی نہیں ہونا چاہئے.مساجد کو صاف ستھرا رکھنا چاہئے.صفیں پاک صاف ہوں.مسجد میں خوشبو جلانا بھی مستحسن ہے.اسی طرح مسجد میں صاف کپڑے پہن کر اور خوشبولگا کر جانا پسندیدہ ہے اور کوئی ایسی چیز نہیں کھا کر جانا چاہئے جس سے بو آتی ہو مثلاً پیاز لہسن اور مولی وغیرہ.مسجد میں داخل ہونے کی دعا یہ ہے بِسمِ اللهِ الصَّلوةُ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللهِ اللَّهُمَّ

Page 30

56 55 اغْفِرْ لِي ذُنُوبِى وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ ! ترجمہ : اللہ کے نام کے ساتھ اور آنحضرت ﷺ پر درود اور سلامتی ہو.اے میرے اللہ میرے گناہ بخش اور میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے.نوٹ: مسجد سے نکلتے وقت رَحْمَتِكَ کی بجائے فَضْلِكَ کے الفاظ کہے.نماز جنازہ جب بقضائے قدرت کسی کی وفات کا وقت قریب آ جائے تو اس کے پاس سورہ یسین پڑھی جائے.دھیمے دھیمے قدرے بلند آواز سے کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت بھی پڑھنا چاہئے.وفات واقع ہو جانے پر اور ایسی خبر ملنے پر موجود لوگ إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون “ پڑھیں.مرنے والے کی آنکھوں کو ہاتھ سے بند کر دیں.سرکو اس طرح باندھ دیں کہ منہ کھلا نہ رہ جائے.جزع و فزع کی بجائے صبر اور حوصلہ کے ساتھ متعلقین تجہیز و تکفین کا اہتمام کریں.میت کو غسل دیں اس کا طریق یہ ہے کہ تازہ یا نیم گرم پانی لیں اور پانی میں بیری کے پتے ملانا مسنون ہے.پہلے وہ اعضاء دھوئے جائیں جو وضو میں دھوئے جاتے ہیں کلی کرانے اور ناک میں پانی ڈالنے یا پاؤں دھونے کی ضرورت نہیں.اس کے بعد بدن کے دائیں اور بائیں حصہ پر تین بار پانی ڈال کر دھوئیں اور نہلاتے وقت بدن کے واجب الستر حصہ پر کپڑا پڑا رہنا چاہئے.مردمیت کو مرد اور عورت میت کو عورت نہلائے.بشرط ضرورت بیوی اپنے متوفی میاں کو نہلا سکتی ہے.نہلانے کے بعد کفن پہنایا جائے.جس میں کم قیمت اور سادہ سفید کپڑا ترمذی کتاب الصلواة باب ما يقول عند دخول المسجد استعمال کیا جائے.مرد کے تین کپڑے کر نہ ، نہ بند اور بڑی چادر جسے لفافہ بھی کہتے ہیں اور عورت کے لئے ان تین کپڑوں کے علاوہ سینہ بند اور سر بند بھی ہونے چاہئیں.تجہیز و تکفین میں سادگی اختیار کرنا موجب برکت و ثواب ہے.شہید کو نہلانے اور کفن پہنانے کی ضرورت نہیں.اسے اپنے پہنے ہوئے کپڑوں میں ہی دفنا یا جائے.تکفین کے بعد جنازہ کو کندھوں پر اٹھا کر جنازہ گاہ لے جایا جائے.وہاں نماز جنازہ کے لئے حاضر لوگ امام کے پیچھے صف باندھیں.طاق صفیں بنائی جائیں.امام صفوں کے آگے درمیان میں کھڑا ہو.میت اس کے سامنے ہو.امام بلند آواز سے تکبیر تحریمہ کہے.مقتدی بھی آہستہ آواز میں تکبیر کہیں.اس کے بعد ثناء اور سورۃ فاتحہ آہستہ آواز سے پڑھی جائے.پھر امام بغیر ہاتھ اٹھائے بلند آواز سے دوسری تکبیر کہے اور مقتدی بھی آہستہ آواز سے تکبیر کہیں.پھر دورد شریف جو نماز میں پڑھتے ہیں پڑھا جائے.پھر تیسری تکبیر کہی جائے اور میت کے لئے مسنون دعا کی جائے.اس کے بعد چوتھی تکبیر کہ کر امام دائیں بائیں بلند آواز سے السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللہ کہے اور مقتدی آہستہ آواز سے سلام کہیں.بوقت ضرورت کسی غیر معمولی شخصیت کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھی جاسکتی ہے.اسی طرح جس کا جنازہ کسی نے پڑھا نہ ہو یا بہت تھوڑے آدمی جنازہ میں شریک ہو سکے ہوں تو اس کی نماز جنازہ غائب پڑھنا بھی جائز ہے.نماز جنازہ فرض کفایہ ہے.یعنی سب مسلمانوں پر بحیثیت مجموعی فرض ہے اگر کچھ لوگ نماز پڑھ لیں تو باقی سبکدوش ہو جائیں گے.لیکن اگر کوئی نہ پڑھے تو سب گناہ گار ہوں گے.

Page 31

58 57 نماز جنازہ کی مسنون دعائیں (1) بالغ مرد و عورت کی مغفرت کے لئے : اللَّهُمَّ اغْفِرُ لِحَيْنَا وَ مَيِّتِنَا وَشَاهِدَنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِيرِنَا وَ كَبِيرِنَا وَذَكَرِنَا وَ أَنْشَنَا.اَللَّهُمْ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ.وَ مَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِيمَانِ.اَللَّهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ وَلَا تَفْتِيًّا بَعْدَهُ ل ترجمہ : اے اللہ تعالیٰ بخش دے ہمارے زندوں کو اور جو مر چکے ہیں اور جو حاضر ہیں اور جو موجود نہیں اور ہمارے چھوٹے بچوں کو اور ہمارے بڑوں کو اور ہمارے مردوں کو اور عورتوں کو.اے اللہ تعالیٰ جس کو تو ہم میں سے زندہ رکھے اس کو اسلام پر زندہ رکھ اور جس کو تو ہم میں سے وفات دے اس کو ایمان کے ساتھ وفات دے.اے اللہ تعالیٰ اس کے اجر و ثواب سے ہم کو محروم نہ رکھ اور اس کے بعد ہمیں کسی فتنہ میں نہ ڈال.۲.نابالغ لڑکے کے جنازہ کی دعا اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ لَنَا سَلَفًا وَ فَرَطًا وَّذُخْرًا وَأَجْرًا وَّ شَافِعًا وَّ مُشَفّعاً ! ترجمہ : اے اللہ تعالیٰ اس کو ہمارے فائدہ کے لئے پہلے جانے والا اور ہمارے آرام کا ذریعہ بنا اور سامان خیر بنا اور موجب ثواب.یہ ہمارا سفارشی بنے اور اس کی سفارش قبول فرما.نابالغ لڑکی کی جنازہ کی دعا.اَللَّهُمَّ اجْعَلْهَا لَنَا سَلَفًا وَ فَرَطًا وَذُخْرًا وَّاَجْرًا وَّ شَافِعَةً وَّ مُشَفَعَةً اه ابن ماجہ کتاب الجنائز باب الدعاء فی الصلوة على الجنازة ص ۱۰۷ - شرح السنۃ ۳۵۵ مسند احمد جلد۲ ص ۳۶۸، ابو داؤد جلد ۲ ص ۱۰۱.بخاری کتاب الجنائز ص ۱۷۸ - شرح السنتہ جلد ۵ ص ۳۸۷ ترجمہ : اے اللہ تعالیٰ اس بچی کو ہمارے فائدہ کے لئے پہلے جانے والی اور.ہمارے آرام کا ذریعہ بنا اور سامان خیر بنا اور موجب ثواب.یہ ہماری سفارشی بنے اور اس کی سفارش قبول ہو.نماز جنازہ کے بعد جتنی جلدی ہو سکے میت کو دفنانے کے لئے قبرستان لے جایا جائے.سب ساتھ جانے والوں کو باری باری کندھا دینے کی کوشش کرنی چاہئے.اگر میت بھاری ہو یا اسے دور لے جانا ہو تو گاڑی یا ٹرک وغیرہ پر رکھ کر لے جایا جا سکتا ہے.جنازہ کے لئے جاتے وقت ساتھ ساتھ زیر لب ذکر الہی اور دعائے مغفرت بھی کرتے جانا چاہئے.قبر لحد والی یا شق دار دونوں طرح جائز ہے.البتہ میت کی حفاظت کے پیش نظر کشادہ اور گہری ہونی چاہئے.بصورت مجبوری ایک قبر میں کئی میتیں بھی دفن کی جا سکتی ہیں.اگر میت کو امانتا دفن کرنا ہو یا زمین سخت سیلا بہ ہو تو میت کی حفاظت کے مد نظر لکڑی یا لوہے کے صندوق میں دفن کر سکتے ہیں.میت کو احتیاط کے ساتھ قبر میں اتارتے وقت بِسْمِ اللهِ عَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ “ کے الفاظ کہے جائیں اور لیٹی ہوئی چادر کے بند کھول کر میت کا منہ ذرا قبلہ کی طرف جھکا دیا جائے.کچھ اینٹیں یا چوڑے پتھر رکھ کر لحد بند کر دی جائے اور اوپر مٹی ڈال دی جائے.ہر حاضر کو مٹی ڈالنے میں کچھ نہ کچھ حصہ لینا چاہئے اور نہیں تو دونوں ہاتھوں سے تین مٹھی مٹی ڈالے اور ساتھ یہ آیہ کریمہ پڑھے.مِنْهَا خَلَقْنَكُمْ وَ فِيْهَا نُعِيدُكُمْ وَ مِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى (طه: ۵۶) کو مسطح اور تھوڑی سی کہان دار بنانا مسنون ہے.قبر تیار ہونے پر مختصرسی

Page 32

60 59 دعائے مغفرت کی جائے.اس کے بعد السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَ إِنَّا إِنْشَاءَ اللَّهُ بِكُمُ لَا حِقُونَ کہتے ہوئے بادل حزیں وصبر و حوصلہ لوگ واپس آئیں.میت کے عزیزوں کے ساتھ تعزیت کی جائے اور صبر وحوصلہ کی تلقین کی جائے قریبی یا پڑوسی پسماندگان کے گھر ایک وقت کا کھانا بھی بھجوائیں.رسوم پرستی اور توہمات سے اجتناب کیا جائے.افسوس اور تعزیت کی حالت تین دن تک قائم رکھی جائے.اس کے بعد زندگی معمول پر آ جانی چاہئے.البتہ جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے وہ چار ماہ دس دن تک سوگ منائے.یعنی بلا اشد ضرورت گھر سے باہر نہ نکلے.بناؤ سنگار نہ کرے.بھڑکیلے کپڑے نہ پہنے.خوشبو کا استعمال نہ کرے.خوشی کی تقریبات میں شامل نہ ہواور صبر وشکر کے ساتھ ذکر الہی میں یہ دن گزارے.خطبہ نکاح نکاح کا اعلان کرتے وقت خطبہ پڑھنا مسنون ہے.خطبہ کے مسنون الفاظ یہ ہیں..اَلْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَ نُؤْمِنُ بِهِ وَ نَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوذُ باللهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيَاتِ اَعْمَالِنَا مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلا مُضِلَّ لَهُ وَ مَنْ يُضْلِلْهُ فَلا هَادِيَ لَهُ وَاَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدَهُ وَرَسُولَهُ أَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ باللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ.(ا) يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً 000000 وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَ الْاَرْحَامِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا (النساء : ٢) (۲) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا.يُصْلِحُ (الاحزاب : ۷۲۷۱) لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا.(۳) يَأْيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ اتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ.(الحشر : ١٩) ان آیات کے بعد مقامی زبان میں موقع کی مناسبت سے مختصر وعظ کیا جا سکتا ہے اور پھر لڑکی کے ولی اور لڑکے سے ایجاب وقبول کروایا جائے.

Page 32