Nabuwwat O Khilafat

Nabuwwat O Khilafat

نبوّت و خلافت کے متعلق اہل پیغام اور جماعت احمدیہ کا موقف

Author: Other Authors

Language: UR

UR
خلافت اسلامیہ احمدیہ
اختلافی مسائل و اعتراضات
اہل پیغام

4 علمائے سلسلہ کی تقاریر کو یکجا کرکے یہ قیمتی کتابچہ مرتب کیا ہے ۔اس میں درج ذیل تقاریر کا مواد جمع ہے: (الف) نبوت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام (حوالہ جات غیر مبائعین 1914ء تک ) تقریر: مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل ، سابق مبلغ بلاد عربیہ (دوم) خلافت احمدیہ اور بیعت خلافت تقریر: مولانا شیخ مبارک احمد صاحب، سابق رئیس التبلیغ افریقہ (سوم) نبوت و خلافت کے متعلق اہل پیغام کا موقف (13مارچ 1914ء کے بعد ) تقریر: جناب سید میر محمود احمد ناصر صاحب (چہارم) نبوت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام (حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اور آپ کے خلفاء کا موقف 1914سے پہلے اور بعد) تقریر: مولانا جلال الدین شمس صاحب اس مختصر کتابچہ کا مطالعہ کرکے اہل فکر و دانش خود ہی فیصلہ کرسکتے ہیں کہ اختلاف کے بعد حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی واضح تحریروں کے خلاف نبوت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ اور آپ کے متبعین نے تبدیلی عقیدہ کی تھی یا غیر مبائعین حضرات اور ان کے سرگروہ مولوی محمد علی صاحب نے؟


Book Content

Page 1

نبوت و خلافت کے متعلق اهل عام.اَهْلِ اور جَمَاعَتِ احمدِيَّهُ موقف www.alislam.org

Page 2

فهرست مضامین نبوت حضرت مسیح موعود عليه الصلاة والسلام و حوالہ جات غیر مبایعین ۱۹۱۷ مت تک) یجناب مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل، نائب نا ظر ا صلاح دارشاد و سابق مبلغ بلاد عربیه - خلافت احمدیه و بیعت خلافت تقریری جناب مولانا شیخ مبارک احمد صاحب فاضل سابق رئیس التبليغ مشرقی افریقہ.سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن نبوت وخلافت کے متعلق اہل پیغام کا موقف (۱۳ مارچ ۱۹۱۳ شہ کے بعد) ٣- تقریر جناب میر محمود احمد صاحب ناصر پر وفیسر جامعه حمدیه - ۴۱ نبوت حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام ر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کا موقف راہ سے پہلے اور اعد) تقریر جناب مولانا جلال الدین صاحب شمس ناظر اصلاح و ارشاد سابق مبلغ بلاد غربیه و امام مسجد لندن اه

Page 3

بسم الله الرحمن الرحيم حمَدُهُ وَنَصَلَّى عَلى رَسُولِهِ الكَرِيم وَعَلَى عَبد نبوت حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام (حوالہ جات غیر مبایعین یہ تک) ۱۹۱۳ تقریر اول از محترم مولانا ابوالعطاء صا، فاضل میچ وقت اب دنیا میں آیا خدا نے عہد کا دن ہے دیکھایا مبارک وہ جو اب ایجان لایا صحابہ سے ملا جب مجھے کو پایا دہی کے اُن کو ساقی نے پلادی سبحنَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعادِي حضرات عهد سعادت مهد سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبارک زمانہ میں سب احمدی پر دانوں کی طرح شمع روحانیت کے گرد گھومتے تھے.حضور علیہ السلام کے مقام کو خوب پہچانتے تھے.سب کا یقین تھا کہ حضرت مسیح موعود سید نا حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں اور آپ سے فیض پا کر آپ کے امتی نبی ہیں.اس لیے سب والہانہ عقیدت اور عاشقانہ ایثار سے اشاعت اسلام کے لیے ہر قربانی پیش کرتے تھے.وہ سب جو عقیدہ رکھتے تھے اس کا جناب ایڈیٹر صاحب بکرنے یوں اعلان فرمایا تھا : شنو ! ہر ایک احمد میں اس عقیدہ پر قائم ہے کہ مبارک ومطهر و مقدس

Page 4

وجود جسے لوگ مرزا قادیانی کہتے تھے خدا کا برگزیدہ نبی ہے؟ (اخبار بدر د ارجون شده م) یاد رہے کہ جماعت احمدیہ کے نزدیک نئی شریعیت لانے والا نبی ہرگز نہیں آسکتا ، بلکہ جو ایسا دعوی کرے وہ کافر اور کذاب ہے.صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی اور غیر تشریعی نبی آسکتا ہے.خود حضرت بانی سلسلہ احمدیہ تحریر فرماتے ہیں :- اب بھیز محمدی نبوت کے سب بنو تیں بند ہیں بشرعیت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر تشریعیت کے بنی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے اُمتی ہو.نہیں اس بنا پر میں امتی بھی ہوں اور نبی بھی " پہ (تجلیات الله صفحه (۲۵) مارچ میں ، خلافت ثانیہ کے قیام کے وقت ، جن لوگوں نے بیت سے انکار کر دیا تھا اور جو غیر مبایعین قرار پائے تھے وہ بھی مارچ ۱۹۱۳ء تک سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غیر تشریعی نبوت کا اقرار کرتے تھے.چنانچہ میں اُن کے حوالہ جات اُن کے اپنے الفاظ میں بیان کرنے پر اکتفا کروں گا.ان واضح تصریحات کی موجودگی میں کسی حاشیہ اور ضمیمہ کی قطعاً ضرورت نہیں.حوالہ جات کی عبارتیں ہی کافی ہیں.پہلے دو حوالے اصولی ہیں جن میں خاتم النبيين نیچے معنی اور لانبی بعدی کا صحیح مفہوم بتایا گیا ہے.علاوہ ازیں میں حوالے ایسے ہیں جن میں اُن کے اکابر و اصاغر نے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت ورسالت کا اعتراف کیا ہے.حوالہ جات حسب ذیل ہیں: ختم نبوت کے پیچھے معنے مولوی محمد علی صاحب جو ۱۵ مارچ سالہ سے

Page 5

سے ۱۳ اکتوبر ۱۹ متر تک جماعت احمدیہ (غیر مبایعین) لاہور کے امیر ہے تحریر فرماتے ہیں :- یہ سلسلہ پیچھے معنوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین مانتا ہے اور یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ کوئی نبی خواہ وہ پرانا ہو یا نیا آپ کے بعد ایسا نہیں آسکتا جس کو نبوت بدوں آپ کے واسطہ کے مل سکتی ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خدا تعالیٰ نے تمام بوتوں اور رسالتوں کے دروازے بند کر دئے ، مگر آپ کے متبعین کامل کے لیے جو آپ کے رنگ میں رنگین ہو کر آپ کے اخلاق کا ملہ سے ہی نوری عمل کرتے ہیں اُن کے لیے یہ دروازہ بند نہیں ہوا.کیونکہ وہ گویا اسی وجود مظہر اور مقدس کے عکس ہیں.مگر عام مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ آپ کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام جو آپ سے چھ سو سال پہلے نبی ہو چکے تھے دوبارہ آئیں گے جس سے ختم نبوت کا ٹوٹن لازم آتا ہے در ساله ریویو آف ریلیجنز اردو بابت ماہ مٹی شاه صفا له آفرید لا نبی بعدی کا منجر مصور مولوی عمرالدین صاحب شعلوی نے کہا :- " لا نبی بعدی کے معنے کرنے میں ہمارے مخالفوں نے ایک طوفان برپا کر رکھا ہے.ہر وعظ میں بار بار لا نبی بعدی کہہ کر حضرت مسیح موعود کے دعوی نبوت کو کفر اور دجالیت قرار دیتے ہیں.سچ یہ ہے کہ ان لوگوں کی حالت بالکل علما و یہود کی طرح ہو گئی ہے...آپ کے بعد کوئی نبی نہ ہونے کے یہ معنے ہوئے کہ کوئی ایسا رسول نہیں ہے جو صاحب شریعت جدیدہ ہو

Page 6

یا ثبوت تشریعی کا مدعی ہو اور الیسانی ہو سکتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا غلام ہو جیسا کہ ملا علی قاری جیسے محدث نے حدیث لَو عَاشَ اِبْرَاهِمْ لَكَانَ نَبیا کی شرح میں صاف ان معنوں کو تسلیم کر لیا ہے کہ رپیغام صلح ۱۶ ستمبر ۱۹۱۳ (۱) مقدس رسول | مولودی محمد علی صاحب نے احمدیہ بلڈ نگس لاہور میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ :- مخالف خواہ کوئی ہی معنے کرے ، مگر ہم تو اسی پر قائم ہیں کہ خدا نبی پیدا کر سکتا ہے ، صدیق بنا سکتا ہے اور شہید اور صالح کا مرتبہ عطا کر سکتا ہے.مگر چاہیے مانگنے والا ہم نے جس کے ہاتھ میں ہاتھ دیا، وہ صادق تھا ، خدا کا برگزیده اور مقدس رسول تھا.پاکیزگی کی روح اس میں کمال تک پہنچی ہوئی مخفی تقریر مولوی محمد علی صاحب د احمد یہ بلڈنگ مندرجه الحكم ۱۸ جولائی شامت) (۲) مدعی رسالت مولوی محمد علی صاحب نے لوگوں کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور چراغ الدین جنونی کی مخالفت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا کہ : د کیا جائے تعجب نہیں کہ ایک شخص (حضرت مسیح موعود ناقل) جو اسلام کا حامی ہو کہ مدعی رسالت ہو اور اسلام کی صداقت کو دنیا میں ثابت کر رہا ہو اور تمام عقائد باطلہ کی تردید کر رہا ہو

Page 7

اس پر تو فتووں کا اس قدر جوش و خروش ہو کہ کھانا پینا اور سونا بھی حرام کر دیا جائے اور جب ایک دوسرا شخص ریوا غدین جمہوئی.ناقل عیسائی مذہب کا حامی ہو کہ مدعی رسالت ہو اور نہ ہر اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو، تو اس کی مخالفت کے لیے ایک سطر بھی نہ لکھی جاوے " در سالہ ریویو آف ریلیجنز اُردو مئی ۱۹۰۶ء ص ١٦ ) (۳) ایسا نبی میرزا غلام احمد قادیانی ہیں مولوی محمد علی صاحب نے تحریر کیا کہ : - ایسا ہی ایک نبی اس وقت بھی خدا تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے لیکن لوگوں نے اسی طرح اس کا انکار کیا جیسا کہ پہلے نبیوں کا کاش کہ یہ لوگ اس وقت غور کرتے اور سوچتے کہ کیا وہ نشان ان کو نہیں دکھلائے گئے جو کوئی انسان نہیں دکھلا سکتا اور کیا وہ اسی طرح پر گناہ سے نجات نہیں دیتا جس طرح پہلے نبیوں نے دی.اور ایک ہمہ علم اور ہمہ طاقت ہستی کے متعلق وہی یقین ان کے لوں میں نہیں پیدا کرتا جو پہلی امتوں میں پیدا کیا گیا.ایسا نبی میرزا غلام احمد قادیانی ہیں." در یویو آف ریلیجنز جلد نمبرے بابت ماہ جولائی ۱۳ ۲۳۵) (۴) ہندوستان کے مقدس نبی مولوی محمد علی صاحب تحریر کرتے ہیں :- ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ آخری زمانے میں ایک اوتار کے ظہور کے متعلق جو وعدہ انھیں دیا گیا تھا وہ خدا کی طرف سے تھا اور اُس کو ہندوستان کے مقدس نبی میرزا غلام احمد ر"

Page 8

قادیانی کے وجود میں خدا تعالیٰ نے پورا کر دکھایا ہے.یہ در یویو آف ریلیجینز نومبر ۱۹ ص ۲۱) (۵) آخیر زمانہ کا موعود مرسل مولوی محمد علی صاحب لکھتے ہیں :- " خدا کو پہچاننا اور یقین سے جان لینا کہ واقعی وہ ہے تھی، یہ ایک بالکل الگ امر ہے اور اس کا حصول صرف اسی طرح ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی قدرت اور علم کے خارق عادت نمونے دیکھے جائیں جن کا اظہار صرف انبیاء ورسل کے ذریعہ ہوتا ہے اور ہوتا رہا ہے اور قدیم سے یہی سنت الہی چلی آئی ہے کہ خدائے تعالی ایسے اوقات میں جب زندہ ایمان لوگوں کے دلوں سے نیست و نابود ہو جاتا ہے اپنے انبیاء کے ذریعہ اپنی عظیم الشان قدرتوں کا اظہار بذریعہ خارق عادت نشانوں کے کر کے اپنی مہستی کا یقین لوگوں کے دلوں میں پیدا کرتا ہے جس سے ان کی زندگی میں پاک تبدیلی واقع ہوتی ہے.ایسی ہی ضرورت اس زمانہ میں ہے کیونکہ گذشتہ انبیاء کے نشان بطور قصوں کے ہو گئے ہیں اور اُن کے دلوں کے اندروہ زندہ اور قوی ایمان پیدا نہیں ہوتا ، جو گناہ سوز ایمان کہلا سکے.یہی وجہ ہے کہ اخلاقی حالتیں اس درجہ تک گر گئی ہیں اور درد است سے لوگ بے بہرہ ہو گئے ہیں.اس لیے اس وقت میں خدائے تعالٰی نے اپنا ایک مرسل بھیجا اور وہ وہی مرسل ہے جس کا اخیر زمانہ میں آنے کا ابتداء سے وعدہ دیا گیا تھا.کیونکہ وہ جس نے وعدہ دیا تھا وہ اس بات کو جانتا تھا کہ آخری

Page 9

9 زمانہ میں ایک مرسل کی ضرورت ہوگی پس اسی وعدہ اور ضرورت کے مطابق ایمان اور مذہب کو زندہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک مامور کو مبعوث فرمایا ہے تاکہ اس کی ہستی کا یقین دہ دلوں میں پیدا کرے اور ان کو خدا کی قدرتوں کے وہ نمونے دکھا دے جو اُن سے پہلے انبیاء کے وقتوں میں لوگوں نے دیکھے کیونکہ جب تک ایسا زندہ ایمان دل میں پیدا نہ ہو، گناہ کی غلامی سے انسان نجات نہیں پا سکتا.یقین کے بغیر انسان گناہ سے نجات نہیں پا سکتا اور خدائے تعالیٰ کی قدرت اور علم کی تازہ بتازہ تجلیات کے مشاہدہ کے بغیر یقین کا پیدا ہونا نا ممکن ہے اور تازہ نشان خدا کی قدرت کئے بغیر وساطت مامور من اللہ اور نبی کے ظاہر نہیں ہو سکتے.ایسا ہی ایک مرسل رجیس کے ذریعہ سے دلوں میں نور ایمان پیدا ہوتا ہے) بائی سلسلہ احمدیہ ہے." در ساله ریویو آف ریلیجنز اُردو میٹی تا عصر ۱۸-۱۸۳) ވ مولوی محمد علی صاحب (4) سُنةُ الله کے مطابق ایک نبی ! اما قادیان پر ریویو کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- مال تشجيد الادیان نکلنا رسالة تشحين الاذهان قادیان سے سہ ماہی " شروع ہوا ہے جس کا پہلا نمبر یکم مارچ کو شائع کیا گیا.اس سلسلہ کے نوجوانوں کی ہمت کا نمونہ ہے.خدائے تعالیٰ اس میں برکت دے.چندہ سالانہ بارہ آنے ہے.اس

Page 10

1.رسالہ کے ایڈیٹر مرزا بشیر الدین محمود احمد حضرت اقدس علیه السلام کے صاحبزادہ ہیں اور پہلے نمبر میں چودہ صفحوں کا ایک انٹروڈکشن اُن کی قلم سے لکھا ہوا ہے.جماعت تو اس مضمون کو پڑھے گی مگر کیس اس مضمون کو مخالفین سلسلہ کے سامنے بطور ایک باتین دلیل کے پیش کرتا ہوں جو اس سلسلہ کی صداقت پر گواہ ہے خلاصہ مضمون یہ ہے کہ جب دنیا میں فساد پیدا ہو جاتا ہے اور لوگ خدا تعالی کی راہ کو چھوڑ کر معاصی میں بکثرت مقتدا ہو جاتے ہیں اور مُردار دنیا پر گیروں کی طرح گر جاتے ہیں اور آخرت سے بالکل غافل ہو جاتے ہیں تو اس وقت میں ہمیشہ سے خدا تعالیٰ کی یہ سنت رہتی ہے کہ وہ انہی لوگوں میں سے ایک نبی کو مامور کرتا ہے کہ وہ دنیا میں سچی تعلیم پھیلائے او لوگوں کو خدا کی حقیقی راہ دکھائے.پر لوگ جو معاصی میں بالکل اندھے ہوئے ہوتے ہیں وہ دنیا کے نشہ میں محمود ہونے.....کی وجہ سے یا تو نبی کی باتوں پر سہنسی کرتے ہیں اور یا اُسے دکھ دیتے ہیں اور اس کے ساتھیوں کو ایذائیں پہنچاتے ہیں اور اُس سلسلہ کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں مگر چونکہ وہ سلسلہ کی طرف سے ہوتا ہے اس لیے انسانی کوششوں سے بلاک نہیں ہوتا بلکہ وہ نبی اِس حالت میں اپنے مخالفین کو پیش از وقت اطلاع دے دیتا ہے کہ آخر کار وہی مغلوب ہوں گے اور بعض کو ہلاک کر کے خدا دوسروں کو راہ راست پر لے آونگا سو اکیسا ہی ہوتا ہے.یہ اللہ تعالی کی سنت ہے جو ہمیشہ سے اور خدا

Page 11

$5.پھلی آئی ہے.اکیسا ہی اس وقت میں ہوا." در یویو آن ریجنز اردو، مارچ ۱۹۰۶ء ص ۱۱۸۷۱) (4) جناب میر حامد شاہ صاحب سیالکوئی اپنے قصیدہ میں رکھتے ہیں :- سمجھ لو اسے عزیزو! ہاں سمجھ لو نہ تعلیم مسیحا کو بھلائیں نبی ، علم ، مجدد وہ ہیں سب کچھ ، زباں سے تم بھی یونہی کہتے جائیں د اخبار بیغام صلح ۲۸ دسمبر ۹۱۳ د حت) (۸) ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب آف لاہور کہتے ہیں کہ : " اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ وہ خدا کی بات رحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہے پیشگوئی غلبت الردم ناقل) آج پوری ہوتی ہے.دنیا پر ثابت کرتی ہے کہ وہ کلام خدا کا کلام ہے جو اس کا لانے والا تھا، وہ اللہ کا سچا مرسل ہے اللہ نے اپنی حجت تمام کردی ؟ (۹) ر ضمیمہ پیغام صلح ۲۷ جولائی ۱۹۱۳) (9) ڈاکٹر بشارت احمد صاحب لکھتے ہیں کہ :- حاصل کلام یہ کہ نبی اور رسول ہوں گے مگر ساتھے ہی امتی بھی ہوں گے کیونکہ اس طرح بسبب اُمتی ہونے کے ان کی رسالت و نبوت ختم نبوت کے منافی نہ ہوگی.پیغام صلح ۲۴۲ فروری ۱۹۱۳)

Page 12

۱۲ ا ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذکر یرہ لکھتے ہیں :- " یہ اس (اللہ) کا فضل ہے کہ ہم موٹی سمجھ کے انسانوں کے لیے اس نے ہر زمانہ میں انبیاء ، اولیاء ، صلحاء کے وجود کو پیدا کیا." رقمی پیام صلح در ما سرچ (۱۹۱ ) (۱۱) جناب مولوی محمد احسن صاحب امروہی لکھتے ہیں :- حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے مسیح موعود ۴ بنی اسحق سے ہوا تا وہ پیشگوئی کذلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ کی بھی دونوں ولد سے پوری ہو اور اس طرح سے کہ بنی اسمعیل میں سے تو ایک ایسے کامل اور مکمل سید المرسلین صلعم پیدا ہوں جن کی امت كُنتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ کی مصداق ہو اور بنی اسحق میں سے ایک ایسا بنی مسیح موعود پیدا ہو.جو ہو تو احمد کا غلام اور مجزا وہ نبی بھی ہوتا کہ وعدہ مندرجہ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النبوة کا بھی اُس سے پورا ہو جائے " رضمیمہ اخبار بد که ۲۶ جنوری ۱۹۱۷ئه صت) (۱۲) پھر جناب مولوی محمد احسن صاحب امروہی تحریر کرتے ہیں کہ : " حضرت اقدس مرزا صاحب کو وہ نبوت طفیلی حاصل ہے، جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اور رسول کے مطیعوں کے لیے فرمایا ہے کما قال الله تعالى : وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُول فا ولئِكَ مَعَ الَّذِينَ الْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمُ مِنَ النَّبِيِّينَ

Page 13

والصديقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ - بموجب اس وعدہ صادقہ کے جو اس آیت کے مصداق ہیں، جیسا کہ صدیق و شہید و صالحین ہو سکتے ہیں تو وہ نبی بھی ہو سکتے ہیں.اسی لیے مسیح موعود کے لیے احادیث صحیحہ میں لفظ نبی اللہ کا متعدد جگہ پر آیا ہے" ر حاشیه صفحه ۳۳ رسالة التبيان في استهلال الصبيان مطبوعہ جولائی شنوارم (۱۳) جناب مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے بحیثیت سیکرٹری حضرت بهشتی مقبره تخریہ فرمایا کہ : حضور مسیح موعود اور مہدی محمود بو مصداق محد تهم بدرجات في الجنة کے تھے اور یہ مقبرہ بہشتی حصہ اقدس کو بموجب حدیث لَمْ يَقْبَضُ نَبِيٌّ يرى الله مَقْعَدَة فِي الْجَنَّةِ یعنی کبھی کوئی بنی قبض روح نہیں کیا گیا یہاں تک کہ اس کی زندگی میں مقبرہ بہشتی اپنا وہ دیکھ لیتا ہے.لہذا اور دو نیم سال قبل وفات یہ مقبرہ حضور علیہ السلام نے حالت کشف اور الہام میں دیکھ لیا تھا.لہذا اگر چہ وفات آپ کی لاہور میں ہوئی لیکن محکم حدیث مَوتُ غُرَبَةٍ شَهَادَةٌ کے اسی مقبرہ بہشتی میں دفن ہوئے.فقط محررہ ۲۷ مئی منشاء" در جر دفتر مقبرہ بہشتی) (۱۲) عدالت میں مولوی محمد علی کی حلفیہ شہادت (الف) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی موجودگی میں مولوی محمد علی صاحب نے

Page 14

۱۴ اری شاہ کو بطور گواہ جناب خواجکمال الدین صاحب کے استفسار پر کہا کہ : مکذب مدعی نبوت کذاب ہوتا ہے.مرزا صاحب ملزم مدعی نبوت ہے.اس کے مرید اس کو دعوی میں سچا اور دشمن جھوٹا سمجھتے ہیں.پیغمبر اسلام مسلمانوں کے نزدیک پیچھے نبی ہیں نبی اور عیسائیوں کے نزدیک جھوٹے ہیں." (ب) مورخہ ۶ ارجون شاہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی موجودگی میں مولوی کرم الدین مستفیت کی طرف سے جرح پر مولوی محمد علی صاحب نے کہا کہ : مرزا صاحب دعوی نبوت کا اپنی تصانیف میں کرتے ہیں.یہ دعوی اس قسم کا ہے کہ میں نبی ہوں لیکن کوئی نئی شریعت نہیں لایا.ایسے مری کا مکذب قرآن شریف کی رُو سے گذاب رورق مسل ص۳۶) ہے.(۱۵) خواجہ کمال الدین صاحب کی تقریر بٹالوی نے اپنے روزانہ پیسہ اخبار والے مضمون میں ذکر کیا تھا کہ خواجہ صاحب نے نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نبی یا رسول ہونے سے انکار کیا ہے.مگر ٹبالوی کے لیے یہ خبر جانفرسا ہوگی کہ ان کے گھر بٹالہ ہی میں خواجہ صاحب نے اپنے لیکچر میں صاف طور پر بیان کیا اور ٹبالہ والوں کو خطاب کر کے کہا کہ تمھارے ہمسایہ میں ایک نبی اور رسول آیا.تم خواہ مانو یا نہ مانور الحكم ۱۲ مئی 9ء منا کالم (۳)

Page 15

۱۵ (۱۶) مقدمه ازاد حیثیت عرفی مولوی کرم دین آف بھتیں ضلع مسلم میں بطور وکیل جناب خواجہ کمال الدین صاحب و مولوی محمد علی صاحب نے بعدالت گورداسپور بدستخط حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام لکھ کر دیا : "There is another view of the matter according to Mohamedan theology.One who belies a person claiming to be a prophet is a kazzab and this has been admitted by prosecution evidence Now the complainant knew perfectly well that the first accused claimed that position and notwithstanding that he belied the accused Consequently in religious terminology the comp- lainant was a kazzab.” ترجمہ :.اصولی اسلام کے مطابق اس معاملہ کا ایک اور بھی پہلو ہے اور وہ یہ کہ جو شخص کسی مدعی نبوت ورسالت کو جھوٹا سمجھتا ہے کذاب ہے.یہ بات شہادتِ استخانہ میں تسلیم کی گئی ہے.اب مستعفیت نہایت اچھی طرح جانتا ہے کہ ملزم علی ریعنی حضرت مرزا صاحب نے اس حیثیت یعنی نبوت و رسالت کا دعوائے کیا ہے اور باوجود اس کے مستغیث نے اس کی تکذیب کیا ہے.پس مذہب اسلام کی اصلاح کی رو سے بھی مستفیت کذاب ہے.مسل گورداسپور صفحه ۱۹۹۴

Page 16

(۷) " (1) خدا کا رسول | پیغام صلح اور دسمبر اللہ نے لکھا :- " یہ عذاب بتاتے ہیں کہ مَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رسولا کے مطابق کوئی خدا کا رسول اور نائب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں نازل ہو تاکہ ایک قوم تیار کرے جس کے اعمال مومنانہ ہوں اور وہ کامیاب کیسے جاویں.لیکن وہ جو نہ مانے اُن کو زور آور حملوں سے جنگا یا جاوے.چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا (۸) انکار رسول کے باعث عذاب آرہے ہیں | اخبار پیغام صلح" لکھتا ہے رو کیا ہی اچھا ہو کہ اگر مسلمان، ایسے عذابوں کی اصل وجہ ماکت معد بين حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولاًہ کو سمجھ کر اس رسول کو تلاش کر کے اس کی پیروی اختیار کریں جس کے انکار کے باعث آئے دن یہ عذاب وارد ہو رہے ہیں " و پیغام صلح ۲۵ جنوری شاه (۹) مشترکہ اعلان " ہمارا ایمان ہے ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے خادمین الاولین میں سے ہیں.ہمارے ہاتھوں میں حضرت اقدس ہم سے رخصت ہوئے.ہمارا ایمان ہے کہ حضرت مسیح موعود د مهدی موعود علیہ الصلواة والسلام اللہ تعالیٰ کے سچے رسول تھے اور اس زمانہ کی ہدایت کے لیے دنیا میں نازل ہوئے.اور آج آپ کی متابعت میں ہی دنیا کی نجات ہے اور ہم اس امر کا اظہار ہر میدان میں کرتے ہیں اور کسی کی خاطر

Page 17

14 ان عقائد کو بفضلہ تعالیٰ نہیں چھوڑ سکتے ؟ اخبار پیام صلح ستمبر ) (۲۰) سب اہلِ پیغام کا حلفیہ مشترکہ اعلان ہم تمام احمدی جن کا کسی نہ کسی صورت سے اخبار پیغام صلح" کے ساتھ تعلق ہے خدا تعالیٰ کو جو دلوں کے بھیدوں کو جاننے والا ہے حاضر و ناظر جان کر علی الاعلان کہتے ہیں کہ ہماری نسبت اس تقسیم کی غلط فہمی پھیلا نا محض بہتان ہے.ہم حضرت مسیح موعود و مہدی مجھوڈ کو اس زمانہ کا نبی ، رسول اور نجات دہندہ مانتے ہیں اور جو درجہ حضرت مسیح موعود نے اپنا بیان فرمایا ہے اس سے و پیش کرنا موجب سلب ایمان سمجھتے ہیں.ہمارا ایمان ہے کہ دنیا کی کہ دنیا کی نجات حضرت نبی کریم صلی اللہ مر وسلم اور آپ کے علام حضرت مسیح موعود پر ایمان لائے بغیر نہیں ہوں بغیر نہیں ہو سکتی.اس کے بعد ہم اس کے خلیفہ بر حق سید نا و مرشدنا و مولانا حضرت مولوی نور الدین خلیفہ اسی کو بھی سجا پیشوا سمجھتے ہیں.اس اعلان کے بعد اگر کوئی ہماری نسبت بدظنی پھیلانے سے باز نہ آئے تو ہم اپنا معاملہ خدا پر چھوڑتے ہیں.وَ أَفَرِّضُ اهْدِى إِلَى اللAND NAانَ الله بَصر يوم بِالْعِبَادِه و.ر اخبار پیغام صلح ۱۶ اکتوبر من اب بالآخر میں ایک اور حوالہ درج کرتا ہوں ، جس سے جماعت احمدیہ کے متفقہ عقیدہ کا ثبوت قطعی طور پر مل جاتا ہے :-

Page 18

A (۳) جماعت احمدیہ کا متفقہ عقیده شیخ عبد الرحمن صاحب مصری نے لکھا ہے کہ :- یکن حضرت صاحب یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے زمانہ کا احمدی ہوں.میں نے شائر میں سبعیت کی تھی.میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو اسی طرح کا نبی تعین کرتا تھا اور کرتا ہوں ، جس طرح خدا کے دیگر نبیوں اور رسولوں کو یقین کرتا ہوں.نفس نبوت میں میں نہ اس وقت کوئی فرق کرتا تھا اور نہ اب کرتا ہوں.لفظ استعارہ اور مجاز اُس وقت میرے کانوں میں کبھی نہیں پڑے تھے.بعد میں حضور علیہ الصلواۃ والسلام کی کتب میں یہ الفاظ جن معنوں میں میں نے استعمال ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں وہ میرے عقیدہ کے منافی نہیں.ان معنوں میں میں اب بھی حضور علیہ الصلواۃ والسلام كو على سبيل المجازي بی سمجھتا ہوں ، یعنی شریعت جدید کے بغیر نبی ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی بدولت اور حضور کی اطاعت میں فنا ہو کر حضور کا کامل بروز ہو کر مقام نبوت کو حاصل کرنے والا نبی.میرے اس عقیدہ کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی تقاریر و تحریرات اور جماعت احمدیہ کا متفقہ عقیدہ تھا " ر عبد الرحمان.ہیڈ ماسٹر مدرسہ احمدیہ ۲۴ اگست (۱۹۳۵ء) ر شیخ صاحب کی یہ دستخطی تحریر شہادات میں موجود ہے جسے ہم الفضل اور الفرقان میں بار بار شائع کر چکے ہیں.ابو العطاء)

Page 19

19 خلاصہ کلام یہ ہے کہ نبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق لاہوری فریق کا وہی عقیدہ ہے جو جماعت احمدیہ کا ہے، کیونکہ انھوں نے ان بیانات کی کبھی تردید نہیں کی.جماعت احمدیہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلاة والسلام کو حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہیں اور آپ کے نظل اور خادم کے طور پر اُمتی غیر تشریعی نبی ہی مانتی ہے.والله عَلى مَا نَقُولُ شَهِيد

Page 20

درباره خلافت احمدیة و بعیت خلافت ه ارشادات حضرت مسیح موعود علی الصلوة والسلام ه ارشادات حضرت خلیفہ مسیح الاوّل رضی اللہ عنہ ه بیانات غیر مبایعین تا قیام خلافت ثانیه ا تقریر دوم از محترم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب فاضل) غیر مبایعین حضرات کا یہ موقف ہے کہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام که بعد شخصی خلافت یعنی کسی فرد واحد کی خلافت نہیں ہوگی بلکہ حضور انجین کو اپنا جانشین قرار دے کر فرد واحد کی خلافت کے سلسلہ کو ختم کر دیا.اس کے برعکس جماعت مبایعین، اس موقف پر قائم ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کہ بعد اُسی طریق پر شخصی خلافت سلسلہ احمدیہ میں جاری ہے جس طرح آنحضرت صلی اللہ ایہ وسلم کے بعد شخصی خلافت کا اجراء ہوا.علیہ ران ہر دو موقفوں میں سے کو نسا موقف درست ہے اور کون سی جماعت صیحیح راستہ پر گامزن ہے ؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی طرف رجوع کریں.پھر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے ارشادات سے راہ نمائی حاصل کریں، کیونکہ جماعت غیر مبالعین نے آپ کو حضرت میسج موعود کا خلیفہ اول قبول کیا اور آپ کے فرمودہ کو فرمودہ مسیح موعود قرار دیا.

Page 21

پھر تا قیام خلافت ثانیہ غیر مبایعین کے اپنے بیانات سے بھی جب تک کہ اختلاف کی صورت قائم نہ ہوئی تھی اور خلافت ثانیہ کا قیام نہ ہو گیا صحیح موقف کی طرفف نشاندہی ہوتی ہے.اس سلسلہ میں خاکسار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دو قسم کے ارشادات پیش کرے گا.ایک عمومی جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت محمدیہ میں خلافت کے دائمی طور پر جاری رہنے کا ذکر ہے اور دوسرے خصوصی ارشادات جن سے خالصہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خافت بعد تقی کا سلسلہ قائم ہوگا.- حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام اپنی کتاب شهادة القران صفحہ ۳۲ پر تحریر فرماتے ہیں :- بعض صاحب آیت وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمُ عملوا الصلاحتِ لَيَسْتَخْلِفَتَهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَغْاَفَ الَّذِينَ مِن قَبْهِر کی عمومیت سے انکار کر کے کہتے ہیں کہ منکر سے صحابہ ہی مراد ہیں اور خلافت راشدہ انہی کے زمانہ نک ختم ہو گئی اور پھر قیامت تک اسلام میں اس خلافت کا نام نشان نہیں ہوگا.گویا ایک خواب و خیال کی طرح اس خلافت کا صرف تین سے برس ہی دور تھا اور پھر ہمیشہ کے لیے اسلام ایک لازوال نخوست میں پڑ گیا." - پھر اسی کتاب کے صفحہ ، ہ پر آپ نے لکھا: - ان آیات لایت است خلاف و غیر.ناقل کو اگر کوئی شخص قاتل اور غور کی نظر سے دیکھے تو میں کیونکر کہوں کہ وہ اس بات

Page 22

۲۲ کو سمجھ نہ جائے کہ خدا تعالٰی اس امت کے لیے خلافت دائمی کا صاف وعدہ فرماتا ہے.اگر خلافت دائمی نہیں تھی تو شریعیت موسوی کے خلیفوں سے تشبیہ دنیا کیا متنے رکھتا تھا.رو اور اگر خلافت راشده صرف تیس برس تک رہ کر بھیر میشه کے لیے اس کا دور ختم ہو گیا تھا تو اس سے لازم آتا ہے کہ خدات لئے کا ہرگز یہ ارادہ نہ تھا کہ اس امت پر ہمیشہ ابواب سعادت مفتوح رکھے" ان ارشادات سے اُن لوگوں کی تردید کی گئی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ خلافت صرف صحابہ تک ہی محدود تھی اور آئندہ کے لیے خلافت کو بند سمجھتے ہیں.آپ نے ان ارشادات سے واضح کر دیا ہے کہ آیت استخلاف میں دائمی خلافت کا صاف وعدہ ہے.خلافت کی علت غائی بھی اس بات کی متقاضی ہے کہ آیت استخلات کی عمومیت کو تسلیم کیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اسی کتاب شہادة القرآن میں تحریر فرمایا ہے :- "چونکہ کسی انسان کے لیے دائمی طور پر تقا نہیں.لہذا خدا تعالٰی نے یہ ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولی ہیں طلقی طور پر ہمیشہ کے لیے تا قیامت قائم رکھے.سواسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا.تا دنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے پس جو شخص خلات کو تین برس تک مانتا ہے وہ اپنی نادانی سے خلافت کی علت غائی کو نظر انداز کرتا ہے اور نہیں جانتا کہ خدا تعالیٰ کا یہ ارادہ تو ہر گز نہ تھا

Page 23

۲۳ کہ رسول کریم کی وفات کے بعد صرف تیس برس تک رسالت کی برکتوں کو خلیفوں کے لباس میں رکھنا ضروری ہے.پھر بعد اس کے دنیا تباہ ہو جائے تو ہو جائے کچھ پروا نہیں" ران عمومی ارشادات کے بعد جو خلافت کے سلسلہ کو جاری رکھنے کی واضح دلیل میں اب خصوصی ارشادات پیش کیے جاتے ہیں ، جن سے ایک اور ایک ڈو کی طرح یہ ثابت ہو گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلافت کا سلسلہ جاری ر ہے گا اور یہ خلافت مشخصی خلافت ہو گی.اور خلافت راشد کے طریق اور طرز پر ہوگی.ار حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنی کتاب حمامة البشرکی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کو درج فرمایا اور لکھا ہے کہ يسا فى المسيح الموعود او خَلِيفَة مِنْ خلفَائِةٍ إِلَى أَرْضِ دِمَشْقَ - کہ خود مسیح موعود یا اس کے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ ارضِ دمشق کی طرف سفر کرے گا.حضور علیہ السلام نے اپنی کتاب میں یہ تخریبہ فرما کر دو نہایت ہی واضح گواہیاں خلافت کے مسئلہ پر پیش فرمائی ہیں.ایک تو یہ کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسیح موعود کے جانشین اور خلیفے ہوں گے اور اُن میں سے کوئی خلیفہ دمشق کا سفر بھی کرے گا.دوسری گواہی آب کی اپنی ہے کہ گویا آپ نے اس حدیث کو قبول فرمایا اور اس طرح آپ نے اپنے بعد جو کچھ ہونے والا تھا اس کا اظہار اس حدیث کے درج کرنے سے.فرما دیا اور اپنی وفات سے پندرہ سال پہلے یہ گواہی دے دی کہ میرے بعد

Page 24

۲۴ خلیفے ہوں گے اور ان میں سے کوئی ایک خلیفہ دمشق کا سفر بھی کرے گا.- اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل حضور نے رسالہ الوصية " تحریر فرمایا اور اس میں یہ لکھا کہ اللہ تعالیٰ نیوں کو ایسے وقت میں وفات دیگر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے مخالفوں کو ہنسی اور ٹھٹھے اور عن و تشنیع کا موقع دیدیا ہے اور جب وہ منہی ٹھٹی کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر نا تمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں.غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے (ا) خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے (۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کرتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بد نیست مرتد ہونے کی راہ اختیار کر لیتے ہیں تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زیر دست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.پس جی اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق کے وقت میں ہوا، جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک لیے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین مزید ہو گئے اور صحابہ نے بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق رض کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا وَ لَيُمَيِّنَ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَونِهِمْ آمَنَّا

Page 25

۲۵ یعنی خوف کے بعد پھر ہم اُن کے پیر جما دیں گے؟ اور پھر فرمایا :- سوا سے عزیزہ وا جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خداتعالی دو قدرتیں دکھلانا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا دے.سواب ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ اپنی مت دیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لیے تم میری اس بات سے ہو میں نے تمھارے پاس بیان کی ہے غمگین مت ہو اور تمھارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمھارے لیے دوسری قدرت کا دیکھنا وہ بھی ضرور ی ہے اور اس کا آنا تمھار سے لیے بہتر ہے کیونکہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمھارے لیے بھیج دے گا ، جو ہمیشہ تمھارے ساتھ رہے گی.(الوحینہ صفحہ ۲۶) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تحریر سے کئی نتائج نکلتے ہیں :- پہلا نتیجہ : یہ ہے کہ قدرت ثانیہ خلفاء ہی کا نام ہے.کیونکہ حضرت میسج موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : " تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق رض کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دیکھا یا.قدرت ثانیہ کے سمجھانے کے لیے حضرت ابو بکر صدیق رضا کی مثال دے کر حضور نے اس بات کو واضح فرما دیا کہ قدرت ثانیہ سے مراد خلافت ہے.دوسرا نتیجہ : اس عبارت سے یہ نکلتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آیت استخلاف سے مراد صرف ماموریت والی خلافت ہی مراد نہیں

Page 26

۲۶ لیتے بلکہ اس کو عمومیت کا رنگ دیتے ہیں اور اس خلافت کو بھی آیت استخلاف کا مصداق ہی سمجھتے ہیں جس کے مستحق حضرت ابو بکر صدیق رض ہوئے ہیں پیس خلفاء کا وہ سلسلہ تبھی آمیت استخلاف کا مصداق قرار پاتا ہے جس کی ابتداء حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے وجود سے ہوئی.تیسرا نتیجہ : اس عبارت سے یہ نکلتا ہے کہ انبیاء کے بعد سخت ابتلاؤں کا آنا مقدر ہوتا ہے اور ان ابتلاؤں کا خلفاء کے ذریعہ سے زائل کیا جانا اللہ تعالیٰ کی سنت قدیمہ ہے.ہر ایک نبی کی امت سے یہ معاملہ پیش آیا.اور یہ سنت قدیمہ سلسلہ احمدیہ میں بھی ضرور پوری ہوگی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا : " سواب ممکن نہیں کہ خدا وند تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر بھی جماعت کو سخت ابتلاء پیش آوے گا اور خوف کی حالت پیدا ہو گی.لیکن سنت قدیمہ کے مطابق آپ کے خلفاء کے ذرلیہ اس خوف کو امن سے بدل دیا جائے گا اور ابتلاؤں کو زائل کیا جائے گا.اور یہ واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد حجات پر سخت ابتلاء آئے.لیکن اللہ تعالیٰ نے خلیفہ کے ہاتھ سے اُن کو ڈور کیا اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی قدیم سنت پوری ہوئی.چوتھا نتیجہ : اس عبارت سے یہ نکلتا ہے کہ قدرت ثانیہ کے سلسلہ یعنی خلافت کے سلسلہ کو دوام بخش جائے گا اور تا قیامت خلفاء سلسلۂ احمدیہ میں آتے رہیں گے.جماعت کا نظام دن بدن مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے گا اور اسے ایسا استحکام حاصل ہو جائیگا کہ خلافت کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا.کیونکہ حضور نے فرمایا :- عت

Page 27

کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا ہے پانچواں نتیجہ : اس عبارت سے یہ نکلتا ہے کہ دوسری قدرت کا ظہور حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد ہو گا ، یعنی آپ کے جانے کے بعد دوسری قدرت آئے گی، جیسا کہ آپ نے فرمایا ، اور دہ دوسری قدرت نہیں سکتی جب تک میں نہ جاؤں" انجمن تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں قائم ہو چکی تھی لیکن بیاں موعود پر قدرت ثانیہ کے ظہور کے متعلق آپ فرماتے ہیں کہ وہ نہیں آسکتی جب تک کہ میں نہ جاؤں.اور اُوپر یکیں بیان کر آیا ہوں کہ قدرت ثانیہ سے مراد خلافت ہے اب اصل کی موجودگی میں خلافت کا سوالی پیدا نہیں ہوتا.اس لیے حضور نے فرمایا کہ جب تک میں نہ جاؤں دوسری قدرت نہیں آسکتی ، یعنی میرے جانے کے بعد خلافت کا سلسلہ قائم ہو گا.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوا.آپ کے جانے کے بعد قدرت ثانیہ کا ظہور حضرت ابو بکر صدیق کے وجود میں ہوا.یہ سب نتائج جو رسالہ الوصیت کی عبارت سے نکلتے ہیں ثابت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلافت کا سلسلہ جاری رہے گا اور شخصی خلافت کی صورت میں ہوگا.(۳) سبز اشتہار میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ہے کہ : ور سرا طریق انتزال رحمت کا ارسال مرسلین و نبیستین و ائمۃ واولیا و خلفاء ہے تاان کی اقتداء و ہدایت سے لوگ راہِ راست پر آجائیں اور ان کے نمونہ پر اپنے تین بنا کر نجات پا جائیں.سو خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اس عاجز کی اولاد کے ذریعہ سے یہ دونوں شقیں ظہور میں آجائیں"

Page 28

۲۸ یہ ارشاد بھی تبلاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں خلافت کا سلسلہ جاری رہے گا اور بعض خلفاء حضور کی اولادمیں سے بھی ہوں گے.-۴- حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وفات سے ڈیڑھ ماہ قبل لا ہور میں ایک تقریر فرمائی تھی جس میں خلافت کے متعلق ایک واضح ارشاد ہے.حضور فرماتے ہیں :- صوفیاء نے لکھا ہے کہ جو شخص کسی شیخ یا رسول اور نبی کے بعد خلیفہ ہونے والا ہوتا ہے تو سب سے پہلے خدا کی طرف سے اُس کے دل میں حق ڈالا جاتا ہے.جب کوئی رسول یا مشائخ دفات پا جاتے ہیں تو دنیا پر ایک زلزلہ آجاتا ہے اور وہ ایک بہت ہی خطرناک وقت ہوتا ہے مگر خدا کسی خلیفہ کے ذریعہ اس کو مٹاتا ہے در پھر گویا اس امرکا از سر کو اس خلیفہ کے ذریعہ اصلاح و استحکام ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں اپنے بعد خلیفہ مقرر نہ کیا.اس میں بھی ہیں بھید تھا کہ آپ کو خوب علم تھا کہ اللہ تعالی خود ایک خلیفہ مقرر فرمائے گا، کیونکہ یہ خدا ہی کا کام ہے " پھر فرمایا : ایک الہام میں اللہ تعالٰی نے ہمارا نام بھی شیخ رکھا ہے : أنتَ الشَّيْر الْمَسِيحُ الَّذِي لَا يُضَاعُ وَقتُهُ والحکم ۴ در اپریل ۱۳۹۵ ) اس ارشاد سے بھی واضح ہے کہ حضور کے بعد خلفاء ہوں گے.- پھر آپ نے اپنے رسالہ پیغام صلح" میں تحریر فرمایا :- " جو لوگ ہماری جماعت سے ابھی باہر ہیں دراصل وہ سب

Page 29

۲۹ پراگ و طبع اور پراگندہ خیال میں کسی ایسے لیڈر کے ماتحت وہ لوگ نہیں ہیں جو ان کے نزدیک واجب الاطاعت ہے " ظاہر ہے کہ واجب الاطاعت لیڈر دینی جماعت کے لیے نبی کے بعد خلیفہ ہی ہوتا ہے اس کے بغیر وحدت نظام قائم نہیں رہ سکتی.اس لیے ضروری ہے کہ سلسلہ خلافت جماعت احمدیہ میں جاری رہے تا کہ یہ جماعت بھی پراگندہ طبع اور پراگندہ خیال نہ بن جائے.4 - اسی طرح حضور علیہ السلام نے اپنے رسالہ پیغام صلے میں مہندوؤں سے معاہدہ کرنے اور اُن کے نقض عہد کی صورت میں فرمایا کہ وہ لوگ ایک ٹرکی نظم تاوان کی جو تین لاکھ روپیہ سے کم نہیں ہو گی احمدی سلسلہ کے پیش رو کی خدمت میں پیش کریں گے " ر پیغام صلح ) اس سے بھی ثابت ہے کہ احمدی سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک ہر زمانہ میں ایک پیش رو اور واجب الاطاعت امام کا ہونا ضروری ہے ورنہ معاہدہ کی صورت بے معنی ہو جائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان ارشادات سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلافت کا سلسلہ جاری رہے گا اور یہ خلافت خلافت راشدہ کے رنگ میں شخصی خلافت ہوگی اور پارلیمنٹوں یا سوسائٹیوں کے طریق پر کوئی انجمین خلافت کی مستحق نہ پہلے ہوئی نہ آئندہ ہوگی.ارشادات حضرت خلیفہ ایسی الاول رضی اللہ تعالی عنہ حضرت مولانا حکیم نور الدین رضی اللہ عنہ ، مٹی نشا کو منصب خلافت پر سرفراز ہوئے.حضرت نے خلیفہ بننے کے بعد سے لیکر اپنی زندگی کے آخری

Page 30

٣٠ لمحات تک خلافت کی اہمیت اور خلافت سے وابستگی اور اس کے مقام کے احترام کے متعلق اپنی تقریر وں اور خطبات میں متعدد واضح ارشادات فرمائے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال پر جماعت کے بڑے بڑے عمائدین کی طرف سے آپ کی خدمت میں درخواست پیش کی گئی کہ آپ خلافت کے بار کو سنبھا لیں اور بحیت ہیں.ان عمائدین میں خواجہ کمال الدین صاحب مولوی محمد علی صاحب اور ان کے کئی دیگر رفقاء شامل تھے.اس درخواست پر حضرت خلیفہ اول رض نے جو ارشاد فرمایا وہ قابل غور بھی ہے اور قابل عمل بھی.آپ نے فرمایا :- اگر تم میری سبعیت ہی کرنا چاہتے ہو تو سن لو کہ بیت بک جانے کا نام ہے.ایک دفعہ حضرت نے مجھے اشارہ فرمایا کہ وطن کا خیال بھی نہ کرنا.سو اس کے بعد میری ساری عربت اور سارا خیال اُنہی سے وابستہ ہو کیا اور میں نے کبھی وطن کا خیال تک نہیں کیا پس صحبت کرنا ایک مشکل امر ہے.ایک شخص دوسرے کے لیے اپنی تمام تربیت اور بلند پروازیوں کو چھوڑ دیتا ہے " اسی تقریر میں آخر پر حضور نے یہ ارشاد بھی فرمایا :- یا درکھو ساری خوبیاں وحدت میں ہیں، جس کا کوئی رئیس نہیں وہ مرچکی " را خیار بدر در جون نشانه) ۲.منصب خلافت پر فائز ہو چکنے کے بعد ایک موقع پر آپنے فرمایا :- اب میں تمھارا خلیفہ ہوں.اگر کوئی کہے کہ الوصيّة ہمیں حضرت صاحب نے نور الدین کا ذکر نہیں کیا ، تو ہم کہتے ہیں ایسا ہی آدم اور ابوبکری کا ذکر بھی ہلی پیشگوئیوں میں نہیں....تمام

Page 31

قوم کا میری خلافت پر اجماع ہو گیا ہے.اب جو اجماع کے خلاف کرنے والا ہے وہ خدا کا مخالف ہے........پس کان کھول کر شنو ، اب اگر اس معاہدہ کے خلاف کرو گے تو اعقبهم نفاقاً في قلوبھم کے مصداق ہو گے ؟ - پھر فرمایا : د بدر ۲۱ اکتوبر ۴۱۹۰۹ و نہیں نے تمھیں بارہا کہا ہے اور قرآن مجید سے دکھایا ہے کہ خلیفہ بنانا انسان کا کام نہیں، بلکہ خدا تعالیٰ کا کام ہے.آدم کو خلیفہ بنا یا کس نے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا إِنِّي جَاعِلُ فِي الأَرضِ خليفة کا اس خلافت آدم پر فرشتوں نے اعتراض کیا مگر انھوں نے اعتراض کر کے کیا سپھل پایا ؟ تم قرآن مجید میں پڑھ لو آخر اُنھیں آدم کے لیے سجدہ کرنا پڑا.پس اگر مجھے پر کوئی اعتراض کرے اور وہ اعتراض کرنے والا فرشتہ بھی ہو تو ہمیں اسے کہدونگا کہ آدم کی خلافت کے سامنے سر بسجود ہو جاؤ تو بہتر ہے.اور اگر وہ اباء اور استکبار کو اپنا شعار بنا کر ابلیس بنتا ہے تو پھر یادرکھے کہ ابلیس کو آدم کی مخالفت نے کیا پھل دیا.میں پھر بہت ہوں کہ اگر کوئی فرشتہ بن کر بھی میری خلافت پر اعتراض کرتا ہے تو سعادت مند فطرت اُسے اُسجُدُ و الادم کی طرف ربدر ہم جولائی ۱۹۱۳) نے آئے گی.- -۴- پھر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے اپنی اسی تقریر میں فرمایا :- خلافت کیسری کی دکان کا سوڈا واٹر نہیں ، تم اس بکھڑے

Page 32

میں کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے.نہ تم کو کسی نے خلیفہ بنانا ہے اور نہ میری زندگی میں کوئی اور بن سکتا ہے.پس جب میں مرجاؤں گا تو پھر وہی کھڑا ہو گا جس کو خدا چاہے گا اور خدا اس کو آپ کھڑا کر دیگا " " تم نے میرے ہاتھوں پر اقرار کیے ہیں.تم خلافت کا نام نہ لو مجھے خدا نے خلیفہ بنا دیا ہے اور اب نہ تمھارے کہنے سے معزول ہو سکتا ہوں اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ معزول کرے.اگر تم زیادہ زور دو گے تو یاد رکھو میرے پاس ایسے خالد بن ولید ہیں جو تمھیں مرندوں کی طرح سزا دیں گے.ر بدر ۱۴ جولائی.تقریر احمد یہ بلڈ نگ ۱۷۱۶ جون شدم کے - - پھر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر فرمایا :- میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے بھی خدا نے خلیفہ بنایا ہے میں طرح پر آدم اور ابو بکر و عمرض کو خدا تعالٰی نے خلیفہ بنایا " دید در ۴ جولائی ۱۹۱۷ م ) - پھر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے :- " مجھے اگر خلیفہ بنایا ہے تو خدا نے بنایا ہے اور اپنے مصالح سے بنایا ہے.خدا کے بنائے ہوئے خلیفہ کو کوئی طاقت معزول نہیں کر سکتی خدا تعالیٰ نے مجھے معزول کرنا ہوگا تو وہ مجھے موت دے دیگا.تم اس معاملہ کو خدا کے حوالہ کردی.تم معزولی کی طاقت نہیں رکھتے.......جھوٹا ہے وہ شخص جو کہتا ہے کہ ہم نے خلیفہ بنایا " (الحکم ۲۱ جنوری ۱۹ شه) - پھر ایک اور آپ کا ارشاد قابل ذکر ہے :-

Page 33

" اگر کوئی کہے کہ انجمن نے خلیفہ بنایا ہے تو وہ چھوٹا ہے.اس قسم کے خیالات ہلاکت کی حد تک پہنچاتے ہیں.تم ان سے بچو.پھر سن لو کہ مجھے نہ کسی انسان نے ، نہ کسی انجمن نے خلیفہ بنایا ہے اور نہ میں کسی انجمن کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ وہ خلیفہ بنائے.پس مجھ کو نہ کسی امین نے بنایا ہے اور نہ میں اس کے بنانے کی قدر کرتا ہوں.اور اس کے چھوڑ دینے پر تھوکتا بھی نہیں.اور نہ اب کسی میں طاقت ہے کہ وہ اس خلافت کی ردا کو مجھ سے چھین لے" دیدر ۴ جولائی ۴۱۹۱۷ بیعت خلافت اور خلافت سے وابستگی کی اہمیت حضرت خلیفہ اول کے ایک اور ارشاد سے بھی واضح ہوتی ہے.لکھا ہے :- ایک صاحب نے حضرت خلیفہ اسیح کی خدمت میں لکھا کہ کیا آپ کی بعیت لازم اور فرض ہے ؟ے فرمایا کہ جو حکم اصل سبعیت کا ہے وہی فرع کا ہے.کیونکہ صحابہ کرام رض نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کرنے سے پہلے اس بات کو مقدم سمجھا اور کیا کہ خلیفہ کے ہاتھ پر سیت کریں." ر بدر ۳ مارچ شده صفحه ۹) اس ارشاد سے واضح ہے کہ نبی کے بعد ہر خلیفہ کی بعیت ضروری ہے اور سابقہ ارشادات نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ خدا تعالیٰ جسے چاہتا ہے، خلیفہ بناتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد بھی اللہ تعالی ایسے چاہیگا.خلیفہ بنائے گا.اور ان خلفاء کی فرمانبرداری اور اطاعت ویسی ہی ضروری ہے جیسے کہ خلفاء راشدین کی ضروری تھی.آپ اپنے آپ کو خلیفہ برحق خیال کرتے تھے اور ویسے ہی خلیفہ میں جیسا کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر اور رمز

Page 34

۳۴ دیگر خلفاء تھے.علاوہ ازیں حضرت خلیفہ اول مضر کے مندرجہ ذیل ارشادات بھی اس امر کی وضاحت کر رہے ہیں.ایک موقع پر حضرت نے فرمایا :- ایک نکتہ قابل یاد سُنائے دیتا ہوں کہ جس کے اظہار سے میں باوجو کوشش کے رک نہیں سکتا.وہ یہ کہ میں نے حضرت خواجہ سلیمان رحمتہ اللہ علیہ کو دیکھا.اُن کو قرآن شریف سے بڑا تعلق تھا.ان کے ساتھ مجھے بہت محبت ہے.۷۸ برس تک انہوں نے خلافت کی.۲۲ برس کی عمر میں وہ خلیفہ ہوئے.یہ بات یا درکھو، میں نے کسی خاص مصلحت اور خالص بھلائی کے لیے کسی ہے " ریور ۲۷ جولائی ۹) - شہ میں جب آپ بیمار ہوئے تو آپ نے ایک وصیت لکھی اور اپنے ایک شاگرد کے سپرد کر دی.اس میں آپ نے لکھا :- خليفة - محمود صحت ہونے پر آپ نے اس وصیت کو جو بت تھی پھاڑ دیا.۱۱ ۲ مارچ ۱۹۱۷ء کو حضرت خلیفہ اول کو بعد نماز عصر یکا یک ضعف محسوس ہونے لگا.آپ نے قلم دوات لانے کا حکم دیا اور لیٹے لیٹے کا غذ ہاتھ میں لیا اور حسب ذیل وصیت اپنے جانشین کے بارہ میں لکھی : میرا جانشین متقی ہو ، ہر دلعزیز - عالم باعمل حضرت صاحب کے پرانے اور نئے احباب سے سلوک چشم پوشی ، در گذر کو کام لا دے.میں سب کا خیر خواہ تھا.وہ بھی خیر خواہ رہے.قرآن و حدیث کا درس جاری رہے.والسلام" (الحکم، مارچ امث )

Page 35

۳۵ یہ وصیت حضرت خلیفہ المسیح اول ما نے اپنی مرض الموت میں مولوی محمدعلی صاحب سے تین بار حاضرین مجلس کے سامنے پڑھوائی اور اس کی قصدات کردانی - اپنے جانشین کے بارہ میں حضرت خلیفہ المسیح الاول نے جو ارشادات فرمائے ہیں ان سے بھی الم نشرح ہے کہ آپ شخصی خلافت کے قائل تھے اور اسی کو آپ خلافت راشدہ کے طریق پر درست سمجھتے تھے.اور اپنے بعد بھی اسی طریق کو جاری رکھنے کی آپ نے وصیت فرمائی.غیر مبالعین کے بیانات تا قیام خلافت ثانیہ (ا) حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ : ر مئی منشاء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے موقعہ پر خواجہ کمال الدین صاحب، مرزا یعقوب بیگ صاحب اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب لاہور سے قادیان آئے تو اس موقع پر خواجہ کمال الدین صاحب نے کھڑے ہو کر نہایت پر سوز تقریر کی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ : " خدا کی طرف سے ایک انسان منادی بن کر آیا جس نے لوگوں کو خدا کے نام پر بلایا ، ہم نے اس کی آواز پر لبیک کسی اور اس کے گرد جمع ہو گئے.مگر اب وہ ہم کو چھوڑ کر اپنے خدا کے پاس چلا گیا ہے.سوال یہ ہے کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیئے ہے اس پر شیخ رحمت اللہ صاحب نے کھڑے ہو کر ٹھیٹھ پنجابی زبان میں جو کچھ

Page 36

فرمایا ، اس کا خلاصہ اُردو میں یہ تھا : - یکس نے قادیان آتے ہوئے رستہ میں بار بار یہی کہا ہے اور اب بھی دہراتا ہوں کہ اس بندھے ریعنی حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب کو آگے کرو، اس کے سوا یہ جماعت قائم نہ رہ سکے گی.شیخ صاحب کے اس بیان پر خاموش رہ کر تمام عمائدین نے مہر تصدیق ثبت کی اور مسرتسلیم خم کیا.کسی نے انکار کیا نہ اعتراض" حضرت مولنا نور الدین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک درخواست پیش کی گئی جس پر بہت سے احباب نے دستخط کیے اُن میں سے شیخ رحمت اللہ صاب ٹڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب ، مولوی محمد علی صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کے دستخط بھی ثبت تھے.اس درخواست میں یہ لکھا تھا :- " أما بعد مطابق فرمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام مندرجہ رساله الوصية هم احمد یان جن کے دستخط ذیل میں ثبت ہیں اس امر پر صدق دل سے مطمئن ہیں کہ اول المهاجرین حضرت حاجی مولوی حکیم نورالدین صاحب جو ہم سب میں سے اسقلم اور اتقی ہیں اور حضرت امام کے سب سے زیادہ مخلص اور قدیمی سوت ہیں اور جن کے وجود کو حضرت امام علیہ السلام اسوه حسنه قرار فرما چکے ہیں جیسا کہ آپ کے شعر چه خوش بودے اگر ہر یک زامت نور دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے

Page 37

۳۷ سے ظاہر ہے کے ہاتھ پر احمد کے نام پر تمام احمدی جماعت موجودہ ، اور آئندہ نئے نمبر بیعت کریں.اور حضرت مولوی عصاب موصوف کا فرمان ہمارے واسطے آئندہ ایسا ہی ہو جیسا کہ حضرت سیح موعود علیہ السلام کا تھا.(٣) دیدر ۲ جون شاد جب حضور علیہ السلام کی تدفین ہو چکی اور حضرت خلیفہ اول رضہ کو تمام جماعت حاضرین نے خلیفہ قبول کر کے آپ کی بعیت کا شرف حاصل کر لیا تو خواجہ کمال الدین صاحب سیکرٹری صدر انجمن احمدیہ نے انجمن کے سارے ممبروں کی طرف سے تمام جماعت کی اطلاع کے لیے حسب ذیل بیان جاری کیا." حضور علیہ السلام کا جنازہ قادیان میں پڑھا جانے سے پہلے آپ کے وَصايا مندرجہ رساله الوصية کے مطابق حسب مشورہ معتمدین صدر انجمن احمدیہ موجودہ قادیان و اقرباء حضرت مسیح موعود علیہ السلام به اجازت حضرت اُم المؤمنين کل قوم نے جو قادیان میں موجود تھی جس کی تعداد اس وقت بارہ تو تھی والا منا رقب حضرت حاجی الحرمین الشریفین جناب حکیم نورالدین سلمہ کو آپ کا جانشین اور خلیفہ قبول کیا.اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی معتمدین میں سے ذیل کے احباب موجود تھے :- مولینا حضرت سید مولوی محمد احسن صاحب صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب.جناب نواب محمد علی خاں صاحب شیخ رحمت اللہ صاحب مولوی محمد علی صاحب.ڈاکٹر مرزا

Page 38

۳۸ یعقوب بیگ صاحب، ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب - خلیفہ رشید الدین صاحب اور خاکسارہ خواجہ کمال الدین" اس اطلاعی بیان میں خواجہ صاحب نے آگے چل کر فرمایا :- گل حاضرین نے جن کی تعداد او پر دی گئی ہے بالاتفاق خَلِيفَةُ المسيح قبول کیا.یہ خط بطور اطلاع گل سلسلہ کے ممبران کو لکھا جاتا ہے.کہ وہ اس خط کے پڑھنے کے بعد فی الفور حضرت حکیم الا قدرت خلیفہ اسیح و المہدی کی خدمت بابرکت میں خود یا بذریعہ تحریر بیعت کریں " والحكم ۲۸ مئی و بدر ۲ جون ۱۹ شه) ۱۹۱ہ کے آخر میں مولوی محمد علی صاحب ، مولوی صدرالدین صاحب سید محمد حسین شاہ صاحب وغیرہ کے دستخطوں سے حسب ذیل اعلان کھلے لفظوں میں شائع ہوا : - " ساری قوم کے آپ رحضرت خلیفۃ المسیح الاول مطاع ہیں اور سب ممبران مجلس معتمدین آپ کی تبعیت میں داخل اور آپ کے فرمانبردار ہیں " راخبار پیغام مسلح ۲ دسمبر ۱۹ شه) (۵) پھر یہ بھی ان معتمدین کی طرف سے لکھا گیا :- حضرت مولینا نور الدین صاحب کی تبعیت اتو صیت کے خلاف ہرگز تھی، 1910 نہ تھی ، بلکہ اس کے عین مطابق اور جائز تھی کا پیغام صلح ۱۹ اپریل شد)

Page 39

۳۹ —(1) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے چند روز بعد ا جون ار کو مولوی محمد علی صاحب نے لاہور میں جماعت کے سامنے ایک تقریر میں کہا :- جب ان لوگوں کی معتبر اور مسلمہ کتب میں حضرت ابو بکر صدیق کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قائمقام قرار دیا گیا اور صاف اقرار موجود ہے کہ مسیلمہ کا حضرت ابو بکر صدیق رض کے سامنے قتل کیا جانا گویا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو قتل کیا جاتا ہے.اور حضرت عمرہ کا قیصر و کسریٰ کے خزائن کا مالک ہونا گویا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فتح کرنا اور مالک ہونا ہے.تو پھر کیا وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض پیشگوئیوں کے متعلق انتظار نہیں کیا جاتا کہ آپ کے جانشین اور مخلص خادموں کے ہاتھوں سے یا آپ کی اولاد کے ہاتھوں سے خدا تعالیٰ ان کو پورا کر دے ؟" را الحكم جلد ۲ نمبر ۴۲ پرچه ۱۸ جولائی شاه (6).١٩٠ء خواجہ کمال الدین صاحب نے دسمبر 1910ء میں لاہورمیں اندرونی اختلافات سلسلہ احمدیہ کے اسباب پر تقریر کرتے ہوئے کہا :- جب میں نے بیعت ارشاد کی اور یہ بھی کہا کہ میں آپ کا حکم بھی مانونگا اور آنے والے خلیفوں کا حکم بھی مانوں گا.اندرونی اختلافات سلسلہ احمدیہ کے اسباب من )

Page 40

۴۰ ران تمام بیانات سے جو غیر مبالعین نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات سے لیکر تا قیام خلافت ثانیہ مختلف اوقات میں دیئے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک جماعت کا استحکام بغیر تخصصی خلافت کے ممکن نہ تھاؤ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رسالہ الوصية کے مندرجات سے یہی سمجھتے تھے کہ حضور کی وفات کے بعد خلیفہ کا ہونا ضروری ہے.حضرت خلیفہ اول کا انتخاب الوصیة کے عین مطابق تھا.آپ واجب الاطاعت امام تھے اور آپ کا فرمان مسیح موعود کا فرمان تھا.بلکہ حضرت خلیفہ اول نے کے بعد بھی خلفا علی آمد کے قائل تھے اور سمجھتے تھے کہ بہت سی پیشگوئیاں حضور کے دوسرے خلفاء کے ہاتھوں پر پوری ہوں گی.ان عمائدین نے ساری جماعت کو بعیت کی بھی تاکید کی اور کہا کہ نئے اور پرانے سب ممبر بیعت کریں.※

Page 41

3 ۴۱ ثبوت و خلافت کے متعلق اہل پیغام کا موقف ۱۳ مارچ سے کے بعد ر تقریر سوم از محترم میر محمود احمد هنا فاضل) (ا) اہل پیغام نے ۱۳ مارچ شاہ کو حضرت خلیفہ اسی الاول کی وفات کے بعد جماعت احمدیہ کے عقائد اور مسلک میں تبدیلی کرنا چاہی اور کوشش کی کہ جماعت احمدیہ میں خلافت کا سلسلہ جاری نہ رہے اور ایک واجب الاطاعت خلیفہ کے انتخاب کے راستہ میں روک ڈالنے کے لیے ایک خیال یہ پیش کیا کہ اگر کوئی امیر یا خلیفہ منتخب ہو بھی تو پرانے احمدیوں کے لیے اس کی بیعت لازمی نہ قرار دی جائے ، صرف جماعت میں داخل ہونے والے نئے احمدی اس کے ہاتھ پر بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں اخل ہوں چنانچہ ہار مارچ 19ء کے پیغام صلح میں مولوی محمد علی صاحب کا ایک مضمون به عنوان ایک نہایت ضروری اعلان شائع ہوا اس میں مولوی صاحب نے لکھا:.” دوسری بات جس طرف میں اپنے احباب کو توجہ دلانا چاہتا ہوں ، وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی حکم دہشت میں یا کسی دوسری جگہ ہرگز ہرگز ایسا نہیں پایا جاتا جس کی رو سے اُن لوگوں کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر سلسلہ میں داخل ہو چکے ہیں، دوبارہ کسی شخص کی بیعت کی ضرورت ہو" مولوی صاحب کا یہ دعویٰ خود اُن کے سابقہ مسلک کے بالکل خلات تھا اور

Page 42

۴۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد تمام جماعت احمدیہ نے بالا تفاق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات مندرجہ الوصیت کی روشنی میں حضرت خلیفة المسیح الاول کی بعیت ضروری سمجھی تھی.اس لیے مولوی محمد علی صاحب نے جماعت کے اس اجتماع کی تاویل کرتے ہوئے لکھا:- یں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ پاک وجود مولوی نورالدین کا جو خلیفہ المسیح کہلایا اور تو ایک ہی خلیفہ مسیح کا اپنے اصلی معنوں میں کہلانے کا مستحق ہے ، حضرت مسیح کی جگہ ہماری روحانی تکمیل کے لیے دیا تھا یہ وہ پاک اور بے نفس اور متوکل وجود ہے جس کی نظیر آج دنیا میں نہیں ملتی.اس روحانی عظمت اس علم و فضل کا کوئی اور وجود بیماری جماعت میں نہیں ہے.اللہ تعالیٰ چاہے تو ہزاروں ایسے پیدا کر دے مگر میں موجودہ واقعات کا ذکر کرتا ہوں، اس کا تو صرف علم و فضل ہی ایسا ہے کہ اس کے سامنے سب کی گردنیں جھکی ہیں ، خواہ ہم نے اس کی بعیت بھی نہ کی ہوتی ، مگرائی منشاء نے سلسلے کی مزید تقویت کے لیے سب کے دلوں میں حضرت مسیح موعود کی وفات پر یہ ڈال دیا کہ اس پاک اور بے نفس وجود سے جو نورالدین کی شکل میں تم میں موجود ہے روحانی تعلق پیدا کرد ، اس لیے اس کا انتخاب چالیس نے نہیں کیا بلکہ کل قوم کی گردنیں الٹی ارادہ سے اس کے آگے جھک گئیں اور قریب ڈیڑھ ہزار کے آدمیوں نے ایک ہی وقت میں سویت کی اور ایک بھی تنفس باہر نہ رہا کیا مرد اور کیا عورت ہیں ؟ ظاہر ہے کہ یہ تادیل اہل پیغام کے موقف کی تائید کی بجائے تردید کا سامان مہیا کرتی تھی اور اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ جماعت احمد یہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام

Page 43

۴۴۳ کی وفات پر پہلا گلی اجماع اس بات پر ہوا تھا کہ کسی ایک فرد کو واجب الاطاعت خلیفہ تسلیم کیا جائے اور یہ بات عین خدائی تفت دیر کے مطابق تھی، اس لیے قریباً ایک ماہ بعد اہل پیغام نے ایک نئی تاویل تراشی اور ۲۲ را پریل ۱۹۱۷ پیغام مسلح میں ایک طویل مضمون به عنوان کھلی چشمی بنام مولوی شیر علی صاحب میں لکھا :- " خدا کے لیے کورانہ تقلید سے بچھ اگر ہم کہدیں کہ حضرت مولنا مولوی نورالدین صاحب نے الوصیت پر عمل نہیں کیا یا قوم سے چوک اور غلطی ہو گئی ہے تو اس سے ان کے تقدس میں فرق نہیں آسکتا.انسانوں سے ایسی غلطیاں ہوتی چلی آئی ہیں.اس غلطی کا ارتکاب قوم نے یا جناب مولانا صاحب نے جان بوجھ کر عمداً نہیں کیا " پیغام صلح ۲۲ را پریل سنامه) ان دونوں تاویلات کو پڑھنے سے ظاہر ہے کہ جب انسان ایک صداقت کو چھوتا ہے تو اس کا پاؤں کہاں سے کہاں پھسلتا ہے.۵ ار ما رچ کو تو کہا گیا کہ حضرت خلیفہ اول یہ کی محبت الہی منشاء کے مطابق تھی اور الٹی تقدیر نے سب جماعت کی گردنیں آپ کے سامنے مجھے کا دیں اور حضرت خلیفہ اول کا وجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہی وجود ہے.مگر ۲۴ را پریل کو اپنے تبدیل شد عقائد کی تائید کے لیے یہ کہنے سے گریز نہ کیا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد آپ کے جسد اطہر کی موجودگی میں جماعت کے ہر مرد و عورت نے باتفاق صدر انجمن احمدیہ جو اجماع کیا وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وصیت کے خلاف تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمان کی اس خلاف ورزی میں حضرت خلیفہ اول بھی برابر کے شریک تھے.

Page 44

۴۴ جماعت احمدیہ میں خلافت کے متعلق دوسرا موقف اہل پیغام نے حضرت خلیفہ اول کی وفات پر یہ اختیار کیا کہ اگر کوئی خلیفہ یا امیر منتخب کیا بھی جائے تو صدرا نجمین احمدیہ اس کے ماتحت نہ ہوگی بلکہ انجمن اپنے فیصلوں میں آزاد اور خود مختار ہے ، اس کے فیصلے قطعی ہیں.اس کا اجتہاد ناطق ہے اس کو حکم دینے یا اس کے فیصلوں کو رد کرنے کا کسی کو اختیار نہ ہوگا.چنانچہ پیغام صلح ۲۲ مارچ 19 ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی رض سے اپنے اختلاف کا ذکر کرتے ہوئے اہل پیشام نے لکھا :- صدر انجمن احمدیہ کے متعلق وہ (یعنی حضرت خلیفہ المسیح الثانی ناقل) مطلق اختیار اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں جس سے ہم کو اختلاف ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود نے انجمن کو خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کی باشین قرار دیگر اس کے فیصلوں کو اس وقت تک ناقابل تنسیخ قرار دیا ہے جب تک کوئی مامور اس کے خلاف اللہ تعالیٰ سے الہام نہ پائے" اہل پیغام نے ان دنوں میں ایک طرف تو نمین کو قطعی طور پر خود مختارا اور آزاد قرار دیا اور اس کے فیصلوں کو یقینی اور اس کے اجتہاد کو ناطق اور نا قابل تنسیخ قرار دیا ، مگر دوسری طرف ایک عجیب تضاد کا نمونہ پیش کیا اور اسی انجمن کے فیصلوں کو اپنے مفاد اور منشاء کے مطابق نہ پا کر اس کی تضحیک کی اور اس سے روگردانی اختیار کی.چونکہ انجمن کے ممبران نے اہل ہل پیغام کے منشاء کے خلاف فیصلہ کیا اس لیے وہی آزاد اور خود مخت را در خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کی جانشین انجمن ان کی نظر من مطعون ہو گئی.چنانچہ حضرت خلیفہ مسیح الاول " کی وفات کے بعد صد را تخمین احمدیہ

Page 45

۴۵ کے پہلے اجلاس کی رپورٹ اخبار پیغام صلح ۱۲ را پریل سہ میں یوں شائع ہوئی :- :- و آج مورخه ۱۰ را پریل کو صدر انجمن احمدیہ کا اجلاس تھا نہیں میں مفصلہ ذیل ممبران حاضر تھے : جناب صاجزادہ صاحب مرزا محمود احمد صاحب، میاں بشیر احمد صاحب، نواب محمد علی خاں صاحب، ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب، ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب ، حضرت مولوی محمد احسن صاحب، مولوی شیر علی صاحب مجد دالدین حضرت مولوی محمد علی صاحب شیخ رحمت اللہ صاحب، سید محمد حسین شاہ صاحب ، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب ، مولوی صدر الدین صاحب علاوہ ازیں جناب میر حامد شاہ صاحب اور مولوی غلام حسن صاحب کی تحریری آراء پیش ہوئیں.یہ پہلا جلسہ صدر تھا جو کہ حضرت خلیفہ اسی کی وفات کے بعد ہوا..غرض اجلاس میں پانچ غیر مرید اور باقی سات مرید اور اہل بیت کے قریبی رشتہ دار حاضر تھے گویا اس امر کو تسلیم کیا گیا ہے کہ مدر انجمن احمدیہ کے حاضر ممبران کی اکثریت نے خلافت ثانیہ کی بعیت کر لی تھی.ناقل) اس لیے جو کچھ چاہا کیا گیا.یہاں تک کہ جب وہ امور جو ایجنڈا میں موجود نہ تھے تحکمانہ طور پر پاس ہونے لگے تو بعض ممبران نے اعتراض کیا اور کہا کہ ہماری رائے اس کے خلاف ہے لکھ لیا جاوے لیکن لکھنے سے بھی انکار کیا گیا.ان واقعات سے صاف ظاہر ہے کہ خدا کے مقرر کردہ خلیفہ رسیح موعود) کی جانشین صدر الخمین احمدیہ کا عنقریب کیا حال ہونے والا ہے "

Page 46

پھر لکھا ہے:.۴۶ حضرت خلیفہ اسیح نے مولوی شیر علی صاحب کو ولایت جانے کا حکم دیا تھا اور آخری ایام میں آپ کو بار بار حضرت خواجہ صاحب کی امداد کے لیے ولایت بجھانے کی تاکید فرمائی تھی، لیکن افسوس اور نہایت افسوس کا مقام ہے کہ آپ کا حکم بھی آپ کے ساتھ ہی قیر میں دفن کر دیا گیا.نہایت رنج و قلق کے ساتھ باوجود ستا آدمیوں کے اختلاف رائے کے انجمن کے ممبران نے جن میں زیادہ تھہ حصہ صاحبزادہ صاحب کے رشتہ داروں کا تھا اور جو پریذیڈنٹ کے ووٹ ملا کر آٹھ بیٹھتے تھے اس قضیہ نا مرضیہ کا فیصلہ کرا دیا اور مولوی شیر علی صاحب اس کار خیر سے محروم رہ گئے اور حضرت خلیفہ المیسج بر حق کے ارشاد کی اس طرح سے نافرمانی اور تذلیل کی گئی ذیل کے ممبران نے جب حضرت خلیفہ اس کے حکم کی اس طرح تذلیل ہوتی دیکھی تو ان سے برداشت نہ ہو سکا اور اس خیال سے کہ اس پاک وجود کی نافرمانی کی ذمہ داری اُن پر عائد نہ ہو وہاں سے اُٹھ کر چلے گئے :- (۱) مجد والدین حضرت مولانا محمد علی صاحب (۲) جناب شیخ رحمت الله صاحب (۳) جناب مرز العقوب بیگ صاحب (۴) جناب ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب دپیغام صلح ۱۲ اپریل ۱۹۱۷) "پیغام صلح کے مندرجہ بالا حوالہ جات سے ان کے موقف کا عجیب بے غریب

Page 47

۴۷ تضاد عیاں ہے.ایک طرفت تو وہ صدر انجمن احمدیہ کو خلافت کی بعیت اور نگرانی سے بالا قرار دیتے ہوئے اس کے فیصلے اور اجتہاد کو قطعی اور ناطق قرار دیتے ہیں اور ساتھ ہی انجمن کے فیصلوں کو اپنے منشاء کے خلاف پا کر اس کو مطعون کرتے اور اس کے اجلاس سے واک آؤٹ کرتے ہیں.(س) انسان جب ایک صداقت کا انکار کرتا ہے تو اس کے نتیجہ میں اس کو بہت سی صداقتوں کا خون کرنا پڑتا ہے.اہل پیغام پر یہی گذری حضرت خلیفہ اول سے کی وفات کے بعد انھوں نے جماعت احمدیہ میں خلافت حقہ اسلامیہ کا انکار کیا.جب مبایعین خلافت کی طرف سے اُن کو کہا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے مسیح موعود کو نبی کے لفظ سے یاد فرمایا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وحی میں آپ کو صریح طور پر نبی کا لقب دیا گیا ہے اور خلافت نبوت کی فرع ہے اور بقول حضرت خلیفہ امسیح الاول من جو حکم اصل کا ہے وہی فرع کا ہے اس لیے آپ لوگ خلافت اور اس کی بیعت کے لزوم سے کس طرح انکار کر سکتے ہیں ؟ اس پہ اہل پیغام نے خلافت کے انکار کے جوش میں حضرت میسج موعود علیہ السلام کی نبوت سے انکار کرنا شروع کر دیا.شروع ایام میں کھلے طور پر تو اس انکار کی جرات نہ کر سکے بلکہ اپنی بعض تحریرات میں حضور کو نبی کے لقب سے یاد کرتے رہے ، مثلاً ۲۲ مارچ اللہ کے پیغام صلح میں ایک اداریہ کا عنوان قبلی قلم سے یہ لکھا ہے :- رد ہم ایک نبی کے سلسلہ کے ممبر ہیں" پھر ۲ را پریل شاہ کے پیغام صلح میں مولوی شیر علی صاحب کو مطالب کر کے لکھا ہے کہ:

Page 48

۴۸ " پھر خدا کے مرسل اور مامور کے کلام صریح کے بالمقابل یہ عامیانہ بات منہ سے اب آپ نکالتے ہیں " گر آہستہ آہستہ نکلی اور بروزی اصطلاحات کی غلط آٹ لیکر اہل پیغام نے تی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت سے انکار کرنا شروع کر دیا.اور ۱۲ اپریل کے پیغام ضلع میں اس انکار کی بنیاد اس طرح رکھی :- الفضل لکھتا ہے کہ گرزن گزٹ نے لکھا ہے کہ مرزا غلام احمد صاحب نبی نہیں تھے پس اس کی گڑی اس کے لڑکے کو ملنی چاہیے.یہ اس کی غلطی ہے حضرت مرزا صاحب نبی تھے اور ان کی جانشینی کا مسئلہ اسی طرح حل ہونا چاہیے، جس طرح دوسرے انبیاء کی جانشینی کا مسئلہ ہوتا رہا.ہم اس مضمون پر مفصل لکھنا چاہتے تھے مگر چونکہ مضمون بہت لمبا ہوا جاتا ہے اس لیے مختصر سا نوٹ اس پر لکھ دیتے ہیں تعجیب ہے.کہ الفضل نے اپنے پہلے پرچہ میں تو حضرت مرزا صاحب کو خلقی بنی تسلیم کیا تھا اب پھر حضرت صاحب کو دوسرے انبیاء کی طرح نبی لکھے دیا کیا انبیاء سارے کے سارے ایسے ہی نبی تھے جیسے کہ مرزا ص صاحب یا سب کے سب نبی ظلی نبی تھے ہے نطقی اور بروزی تو صوفیاء کے سلسلہ کی اصطلاح ہے نہ انبیاء کے سلسلہ کی کوئی نبی دنیا میں آیا جس نے اپنے آپ کو خلی اور بروزی نبی کہا یا اپنی نبوت کی ایسی تشریحیں اور توضیحیں لکھیں اور شقیں لگا لگا کر اپنی نبوتیں نہلائیں ؟ کیا کسی نبی نے یہ بھی شقیں لگائی ہیں ؟ اور نبوت کی ایسی تقسیمیں صلیبی که مستقل بنی، غیر مستقل نبی ، جودی نبی

Page 49

۴۹ مصلی نبی ، شرعی نبی ، غیر شرعی نبی ، نبوت ناقصہ اور نبوت کا ملہ وغیر وغیر الفاظ سے کیں اور کسی نبی کی نبوت میں کوئی تفریق تتلائی ؟ خلی اور بروزی وغیرہ تو صرف صوفیاء کی اصطلا میں ہیں تشریعی نبوت میں بھی کچھ امتیاز انہی بزرگوں نے کیا ہے ، قرآن حدیث اور صحف انبیاء میں ایسے لفظ کہیں نہیں" اپیغام مسلح ، ۱۲ ر ا پریل ۱۹۱۷مه) الغرض خلافت کے انکار سے متعلق اہل پیغام کا جوش انکارِ نبوت پر منتج ہوا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بلند مقام کی وضاحت کے لیے علی اور بروزی نبی کے جو الفاظ استعمال کیے تھے اُن کو اہل پیغام نے حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی نبوت سے کلی انکار کا ذریعہ بنالیا.حالانکہ یہ الفاظ آپ کے مقام نبوت کی نفی نہیں کرتے بلکہ اس کی عظمت پر دلالت کرتے ہیں.کیونکہ اصل نبوت نبوت محمدیہ ہے باقی سب بتوتیں اور سب روحانی مقامات و در حبات نور محمدی کا پر تو اور فل ہیں.تخلیق عالم کا باعث حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات ہے اور سب سے پہلے حدیث أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللهُ نُورِى کے بموجب نور محمدی کی تخلیق ہوئی اور سب نبوتیں اور سب کمالات روحانیہ اس نور کے عکس سے پیدا ہوئے.مگر جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نفس نفیس اس عالم میں ظہور پنی پیرنہ ہوئے اور قرآن شریف جیسی کامل کتاب نازل نہ ہوئی اس وقت تک کوئی نبی حضور صلعم کا اکمل اور ا تم ظل نہ بن سکا اس لیے کوئی بنی طبقی نبی نہ کہلایا.مگر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فداہ نفی کا بابرکت ظہور دنیا میں ہو گیا اور قرآن شریف جیسی کامل کتاب نازل ہو گئی اس وقت وہ وجود جو کامل طور پر فنا فی الرسول ہو گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل خلق

Page 50

بنا ، اس لائق تظھرا کہ ظلی نبی کے عظیم لقب سے ملقب ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ ، وستم سے پہلے انبیاء بوجہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے جزو می طل ہونے کے سے ملقب نہ ہوئے - اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّد اِس تَوَبَارِكْ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ -

Page 51

۵۱ نبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کا موقف ۱۹۱۴ سے پہلے اور بعد) تقریر چهارم از محترم مولانا جلال الدین صاحب شمش فاضل) () 33 آج سے چودہ سو سال قبل مخبر صادق حضرت خاتم النبيين ، سيد الأوليم والآخرین صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت محمدیہ کے ایک عظیم الشان امام اور حکم د عدل اور مہدی مسیح کی آمد کی خوشخبری دی تھی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موعود کے لیے چار مرتبہ صراحت سے نبی اللہ کے الفاظ استعمال فرمائے تھے (صحیح مسلم) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بطل جلیل اور اسی پاک وجود تک اپنا محبت بھر سلام پہنچانے کی اُمت کو وصیت فرمائی تھی.عَلَيْهِ الصَّلوةُ والسلام اور حضور نے اُمت کے اس منفرد اور واحد وجود کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيُّ (ابوداود) کہ میرے اور اس کے درمیان کوئی نبی نہیں ہو گا.یعنی ایک میں نبی ہوں اور ایک وہ نبی ہوگا.صرف یہی نہیں، بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امت محمدیہ کے اس موعود کی نبوت کو ہی

Page 52

: ۵۲ افضلیت اور امتیاز کا باعث بیان کرنیکے لیے فرمایا تھا.ابو بكر افضل هذِهِ الْأُمَّةِ إِلَّا إِن تَكُونَ نبى كنوز الحقائق للاستاذ السيد عبد الرؤن المناوی یعنی ابو بکر اس اُمت کے سب سے افضل فرد ہیں سوائے اس کے کوئی نبی پیدا ہو.پھر وہ ساعت سعد آئی جب وہ پاک وجود قادیان کی مقدس بستی میں مبعوث ہوا ، جس کی بعثت اور نزول کے انتظار میں ہزار ہا صلحاء امت گزر گئے اور پھر اللہ تعالٰی نے اسے اپنے پاک مکالمہ و مخاطبہ میں نبی اور رسول کے ۸۳ مقام پر سرفراز فرمایا.براہین احمدیہ - ۱۸۸۵ء میں طبع ہوئی.اس میں الهامات درج ہیں : هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ إِلى ليظهرة على الدين كله ربا امین احمدیہ (۳۹) پھر اسی کتاب میں آپ کی نسبت یہ وحی اللہ ہے جو اللہ نے حلل الانبياء یعنی خدا کا رسول نبیوں کے محلوں میں براہین احمدیہ مکنده پھر اسی کتاب میں اس مکالمہ کے قریب ہی یہ وحی الہی ہے محمد رسول اللهِ وَالَّذِينَ مَعَةَ ادَّاء عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُم - فرماتے ہیں اس وحی الٹی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی.حضور ر ایک غلطی کا ازالہ) ( اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو الماما فرمایا - يَا نَبِيَّ اللهِ كُنتُ لا أَعْرِفُكَ یعنی زمین کے گی کہ اسے خدا کے نبی بائیں تجھے شناخت نہیں کرتی تھی.(حقیقة الوحی ص ) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہام

Page 53

۵۳ " ياَيُّهَا النَّبِيُّ أَطْعِمُوا الجَائِعَ وَالْمُعْتَرَ » میں نبی کہ کر خطاب کیا.اور اسی طرح الهام : دنیا میں ایک نبی آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا " میں آپ کو نبی قرار دیا گیا.پس متواتر ۲۳ سال تک اللہ تعالے نے اپنی وحی میں آپ کو نبی اور رسول اور مرسل کہہ کر خطاب فرمایا.اور آخری دس سالوں میں تو پہلے زمانہ کی نسبت بہت تصریح اور توضیح سے یہ الفاظ موجود ہیں.(۳) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا موقف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب اللہ تعالیٰ سے مکالمہ و مخاطبہ کا شرف پایا ، اور خدا کے کلام میں جب بار بار حضور کو نبی، رسول اور مرسل کہ کر پکارا گیا ، تو اوائل میں مسلمانوں کے عام مشہور عقیدہ اور ایک ہزار سال سے مروجہ اصطلاحات اور نبوت کی تعریف کی بناء پر حضور نے ان الفاظ کو ظاہر پر محمول کرنے کی بجائے ان کی تاویل کرنے کا رجحان ظاہر فرمایا.اور نبی ، رسول اور مرسل کے الہامی الفاظ کو معنی محدث قرار دیا.کیونکہ اس وقت تک مسلمانوں میں نبوت کی تعریف (DEFINATION) کے ارکان ضرور یہ یہ تھے کہ نبی وہ ہوتا ہے جو کامل شریعت لائے یا سابقہ شریعت کے بعض احکام منسوخ کرے اور وہ کسی دوسرے سابق نبی کا امتی نہ ہو بلکہ مشکل ہے ملہ ایک غلطی کا ازالہ مت :

Page 54

۵۴ مانچه حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- چونکہ اسلام کی اصطلاح میں نبی اور رسول کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ وہ کامل شریعیت لاتے ہیں یا بعض احکام شریعت سابقہ کو منسوخ کرتے ہیں یا نبی سابق کی اُمت نہیں کہلاتے اور براہ راست است بخیر استفاضہ کسی نبی کے خدا تم سے تعلق رکھتے ہیں.اس لیے ہو شیار رہنا چاہیئے کہ اس جگہ بھی یہی معنے نہ سمجھ لیں کیونکہ ہماری کتاب بجز قرآن کریم کے نہیں ہے اور ہمارا کوئی رسول بجز محمد مصطفے اصلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں ہے اور ہمارا کوئی دین بیز اسلام کے نہیں ہے اور ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء اور قرآن شریف خاتم الکتب ہے " ملاحظہ ہو مکتوب حضرت مسیح موعود مورخہ ۷ اراگه مندرجه الحكم جلد ۳ ص۹۲۹شائه نبوت کی مذکورہ بالا تعریف کی رو سے جو مسلمانوں میں رائج تھی، حضرت اقدس ، اپنے آپ کو کسی صورت میں نبی اور رسول قرار نہیں دے سکتے تھے اور التباس سے بچنے کے لیے حضور ان الفاظ کا استعمال اپنے لیے بہت کم کرتے تھے اور جب اللہ تعالیٰ کی وحی میں آپ کو نبی کہا جاتا تو آپ اُس پرانے عقید کی بناء پر جو اُس وقت مسلمانوں میں رائج تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا اپنے آپ کو نبی کہنے کی بجائے ان الہامات تا دیلی معنے کر لیتے تھے کہ نبی سے مراد صرف جزئی نبوت کا حامل نبی معنی محدث ہے.مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ آپ اپنے دعوی کو نہ سمجھے سکے ہوں.

Page 55

۵۵ حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :- " حضرت مسیح موعود پر کبھی کوئی وقت نہیں آیا کہ آپ اپنے دعوئی کو سمجھ نہ سکے ہوں.آپ شروع سے آخر تک اُس مقام کو سمجھتے رہے جس پر آپ کو اللہ تعالیٰ نے کھڑا کیا ہے.ہاں صرف اس دعومی کے نام میں آپ احتیاط کرتے رہے یعنی آیا اس کا نام نبوت رکھا جائے یا محدشت " (حقيقة الامرض) چنانچہ یہ ذکر کر کے کہ میں خدا تعالی کی طرف سے محدث ہو کر آیا ہوں حضرت اقدس فرماتے ہیں :- اور محدث بھی ایک معنے سے نبی ہی ہوتا ہے کیونکہ وہ خدا تعالے سے ہمکلام ہونے کا ایک شہرت رکھتا ہے.امور غیبیہ اس پر ظاہر کیسے جاتے ہیں اور رسولوں اور نبیوں کی جی کی طرح اس کی وجھی کو بھی دخل شیطان سے منزہ کیا جاتا ہے اور مخیر شریعت اس پر کھولا جاتا ہے اور بعینہ انبیاء کی طرح مامور ہوتا ہے اور انبیاء کی طرح اس پیپر فرض ہوتا ہے کہ اپنے تئیں بہ آواز بلند ظاہر کرے اور اس سے انکار کرنے والا ایک حد تک مستوجب سزا ٹھٹھرتا ہے ، اور نبوت کے معنے بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ امور متذکرہ بالا اس میں پائے جائیں." توضیح مرام) گویا آپ نبی کے لفظ کی تا دیل کر کے اُسے معنی محدث لیتے تھے.مگر چونکہ حضرت مسیح موعود خدا تمہ کے نزدیک نبی تھے اور خدا تعالیٰ بار بار اور متواتر بارش کی طرح اپنی وحی میں حضور کو نبی اور رسول کے الفاظ سے مخاطب فرمانا تھا

Page 56

۵۶ اس لیے اس وحی نے آپ کو اپنے پہلے خیال پر قائم نہ رہنے دیا ، جیسا کہ حضرت اقدس خود فرماتے ہیں کہ : بعد میں جو بارش کی طرح وحی میرے پر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدہ پر کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت.وہ نہی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اس کو لوجہ اپنے آپ کو نبی نہ سمجھنے کے جزئی فضیلت قرار دیتا تھا.ناقل ) قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا.مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمتی " (حقیقة الوحی من) اس کے بعد آپ نے حضرت مسیح ناصری سے ہر شان میں افضل ہونے کا اعلان فرما دیا.پس جب یہ امر خدا تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر پوری طرح منکشف ہو گیا کہ مروجہ تعریف نبوت جامع مانع نہیں اور یہ کہ نبی کے لیے نئی شریعت کا لانا ضروری نہیں اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ وہ سابقہ شریعت کے بعض احکام کو منسوخ کرے اور سابق نبی کا امتی نہ ہو، تو حضرت اقدس نے نبوت و رسالت کی حقیقت ان الفاظ میں بیان فرمائی: خدا کی اصطلاح فرمایا :- - نبوت اور رسالت کا لفظ خدا تعالیٰ نے اپنی وحی میں میری نسبیت صد ہا مرتبہ استعمال کیا ہے ، مگر اس لفظ سے وہ مکالمات و مخاطبات البیہ مراد ہیں جو بکثرت ہیں اور غیب پرشتمل ہیں.اس

Page 57

۵۷ سے بڑھ کر کچھ نہیں.ہر ایک شخص اپنی گفت گو میں ایک اصطلاح اختیار کر سکتا ہے لکل ان يصطلح - سوخدا کی یہ اصطلاح ہے جو کثرت مکالمات و مخاطبات کا نام اس نے نبوت رکھا ؟ رحیمه معرفت ص۳۲۵) بد صرف مراد میری نبوت سے کثرت مکالمت و مخاطبت البیہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے حاصل ہے.سو مکا را مخاطبہ کے آپ لوگ بھی قائل ہیں.پس یہ صرف لفظی نزاع ہوئی ، یعنی آپ لوگ جس امر کا نام مکالمه مخاطبہ رکھتے ہیں میں اس کی کثرت کا نام رمہ تحقیقة الوحی مشت اپنے نزدیک ۲ " میرے نزدیک نبی اُسی کو کہتے ہیں جس پر خدا کا کلام قطعی اور یقینی اور بکثرت نازل ہو، جو غیب پر مشتمل ہو.اس لیے خدا نے میرا نام نبی رکھا." (تجليات المبيه مت (۲) حقیقی تعریف - ۴.جس کے ہاتھ پر اخبار غیبیہ منجانب اللہ ظاہر ہوں گے.بالضرورت اس پر مطابق آیت لا يظهر على غیب کے مفہوم نبی کا صادق آئے گا." ایک غلطی کا ازالہ)

Page 58

۵۸ اسلامی اصطلاح " خدا تعالی کی طرف سے ایک کلام پا کر جو غیب پر مشتمل ہوں ہر سوست پیشگوئیاں ہوں، مخلوق کو پہنچانے والا اسلامی اصطلاح کی رو سے نبی کہلاتا ہے." ا تقرر حبة الله مندرجه الحكم مئی 19) - اگر خدا تعالیٰ سے غیب کی خبرس پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا، تو پھر بتلاؤ کس نام سے اس کو پکارا جائے ؟ اگر کہو اُس کا نام محدث رکھنا چاہیئے تو میں کہتا ہوں کہ تحدیث کے معنی کسی گفت کی کتاب میں اظہار غیب نہیں ہے.مگر نبوت کے معنے (ایک غلطی کا ازالہ) -^ اظہار عیب ہے." معنوی لحاظ سے میں اس وجہ سے نبی کہلاتا ہوں کہ عربی اور عبرانی زبان میں نبی کے یہ معنی ہیں کہ خدا سے الہام پا کر بکثرت پیشگوئی کرنے والا " ر مکتوب مندرجہ اخبار عام ۲۳ مئی شنا نیوں کی اصطلاح جب کہ وہ مکالمہ مخاطبہ اپنی کیفیت و کمیت کے رو سے کمال درجہ تک پہنچ جائے اور اس میں کوئی کثافت اور کی باقی نہ ہوا در کھلے طور پر امور غیبیہ پر شتمل ہو تو وہی دوسرے لفظوں میں محبت کے نام

Page 59

09 سے موسوم ہوتا ہے جس پر تمام نبیوں کا اتفاق ہے " (م) (الوصیت (ص) مروجہ تعریف نبوت میں اس انقلابی تبدیلی کے بعد یعنی قریباً نشہ سے لیکر وفات تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بر ملا اور کثرت کے ساتھ اور پوری تصریح کے ساتھ اپنی ذات پر نبی ، رسول اور مرسل کے الفاظ کا اطلاق فرمایا.لیکن حضور کو ہمیشہ یہ احتیاط مد نظر تھی کہ کہیں عوام الناس التباس کا شکار نہ ہو جائیں.اس لیے حضور ہمیشہ جب بھی اپنے لیے نبی یا رسول کے الفاظ استعمال فرماتے تو حضور ضرور یہ وضاحت فرما تھے کہ نبوت سے میری مراد وہ معروف ہوت نہیں ، جس کے لیے شریعیت جدیدہ لانا ضروری ہے اور جین کے لیے استقلال کی مشرط ہے حضور ہمیشہ اس امر کی وضاحت فرماتے کہ میں رسول کریم حضرت محمدمصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہوں اور مجھے جو کچھ ملا ہے حضور کے فیض سے ملا ہے.اور میری نبوت حضور کے مرتبہ ختم نبوت کے قطعاً منافی نہیں.اور ایک امتی کو الیسا نبی قرار دینے سے کوئی محذور لازم نہیں آتا.چنانچہ آپ فرماتے ہیں :- " میں نبی اور رسول نہیں ہوں باعتبار نئی شریعت اور نئے دعوئے اور نئے نام کے.اور میں نبی اور رسول ہوں یعنی با عتبار طیلیت کا ملہ کے وہ آئینہ ہوں جس میں محمد کی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے " نزول المسیح م) اور فرماتے ہیں :-

Page 60

4.جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے ، صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں نگران معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مفت را سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لیے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے ، رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعیت کے.اس طور کا بھی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا.بلکہ اپنی معنوں خدا نے مجھے نبی اور رسول کرکے پکا رہا ہے.سواب بھی کیں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا.را یک غلطی کا ازالہ حثت (9) اور پھر فرماتے ہیں :- ہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئیے اور ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہیئے کہ میں با وجود نبی اور رسول کے لفظ کے ساتھ پکارے جانے کے خدا کی طرف سے اطلاع دیا گیا ہوں کہ یہ تمام فیوض بلا واسطہ میرے پر نہیں ہیں، بلکہ آسمان پر ایک پاک وجود ہے جس کا روحانی رقاصہ میرے شامل حال ہے یعنی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم.اس واسطہ کو ملحوظ رکھ کر اور اس میں ہو کر اور اس کے نام محمد اور احمد سے مسمی ہو کر میں رسول بھی ہوں اور نبی بھی." (ایک غلطی کا ازالہ حث) اور مارچ شاہ میں وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- ر ہما را دعوی ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں.در اصل یہ نزاع لفظی ہے خدا تعالیٰ اس کے ساتھ ایسا مکالمہ مخاطبہ کرے جو بلحاظ کمیت و

Page 61

کیفیت دوسروں سے بہت بڑھ کر ہو اور اس میں پیش گوئیاں بھی کثرت سے ہوں اُسے نبی کہتے ہیں اور یہ تعریف ہم پر صادق آتی تو ہے پس ہم نبی ہیں.ہاں یہ نبوت تشریعی نہیں جو کتاب اللہ کو منسوخ کرے " ۱۵۰ ربدر در مایچ نشانه) در حقیقة الوحی منش حاشیہ پیہ فرماتے ہیں :- اور یا در ہے کہ بہت سے لوگ میرے دعوئی میں نبی کا نام شنکر دھو کہ کھاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ گویا میں نے اُس نبوت کا دعوی کیا ہے جو پہلے زمانوں میں براہ راست نبیوں کو ملی ہے ، لیکن وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں.میرا ایسا دعویٰ نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی مصلحت اور حکمت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فاضہ ر مالی کا کمال ثابت کرنے کے لیے یہ مرتبہ بخشا ہے کہ آپ کے فیض کی برکت سے مجھے نبوت کے مقام تک پہنچایا.اس لیے میں صرف نبی نہیں کہلا سکتا بلکہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی ہے مذکورہ بالا وضاحتوں کے ذیل میں چند ایسے حوالے پیش کیے جاتے ہیں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام پوری صراحت کے ساتھ اور علی لاطلات ثبوت ورسالت کے مدعی کے طور پر سامنے آتے ہیں :- پس میں جبکہ اس مدت تک ڈیڑھ سو پینگوئی کے قریب خدا کی طرف سے پا کر بچشم خود دیکھ چکا ہوں کہ صاف طور پر پوری ہوگئیں تو میں اپنی نسبت نبی اور رسول کے نام سے کیونکر انکار کر سکتا ہوں

Page 62

۶۲۰ اور جب کہ خود خدا تعالیٰ نے یہ نام میرے لکھے ہیں توہیں کیونکر و کردوں.یا کیوں کر اس کے سوا کسی دوسرے سے ڈروں.مجھے اُس خدا کی ہم ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جس پر افتراء کرنا لعنتیوں کا کام ہے کہ اس نے مسیح موعود بنا کر مجھے بھیجا ہے" ر ایک غلطی کا ازالہ مشتش ایسا ہی خدا تعالیٰ نے اور اس کے پاک رسول نے بھی سیح موعود کا نام نبی اور رسول رکھا ہے " ۱۹۰۵ ( نزول مسیح مشا) " آنے والا علیسی با وجود اُمتی ہونے کے نبی بھی کہلائے گا (براہین احمدیہ حصہ پنجم ص ۱۸) و پھر یہ کیا بات ہے کہ ایک طرف تو طاعون ملک کو کھا رہی ہے اور دوسری طرف ہیبتناک زلزلے پیچھا نہیں چھوڑتے.اے غافلو با تلاش تو کرد شاید تم میں خدا کی طرف سے کوئی نبی قائم ہو گیا ہو.جس کی تم تکذیب کر رہے ہو؟" 4-A (تجليات البية مشته) ب اس امت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی برکت سے ہزار ہا اولیاء ہوئے ہیں اور ایک وہ بھی ہوا جو امتی بھی ہے اور نبی بھی" (حقیقة الوحی حاشیہ مت ۲)

Page 63

۶۳ ج - آیت وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولاً کا ذکر کر کے فرماتے ہیں کہ اس آیت سے بھی :- -> آخری زمانہ میں ایک رسول کا مبعوث ہونا ظاہر ہوتا ہے اور وہی مسیح موعود ہے " تتم تحقیقة الوحی صفحه (۶۵) لوگ اپنے کثرت گناہوں اور بد کا ریوں کی وجہ سے اس لائق ہو چکے تھے کہ دنیا میں اُن پر عذاب نازل کیا جائے.پس خدا تعالیٰ نے اپنی سنت کے موافق ایک نبی کے مبعوث ہونے تک وہ عذاب ملتوی رکھا اور جب وہ نبی مبعوث ہو گیا اور اس قوم کو ہزار پا اشتہاروں اور رسالوں سے دعوت کی گئی تب وہ وقت آگیا کہ اُن کو اپنے جرائم کی سزادی جائے " (تتمہ حقیقة الوحی ص۵۶) ھر.اور میں اُس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اُسی نے مجھے بھیجا ہے اور اسی نے میرا نام نبی رکھا ہے اور اسی نے مجھے مسیح موعود کے نام سے پکارا ہے اور اس نے میری تصدیق کے لیے بڑے بڑے نشان ظاہر کیے ہیں جو تین لاکھ تک پہنچتے ہیں.تمہ حقیقة الوحی صفحہ ۲۸) و آيت وَاخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :.یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک

Page 64

۶۴ اور فرقہ ہے جو ابھی ظاہر نہیں ہوا.یہ تو ظاہر ہے کہ انتخاب وہی کہلاتے ہیں جو نبی کے وقت میں ہوں اور ایمان کی بات میں اس کی صحبت سے مشرف ہوں اور اس سے تعلیم اور تربیت پاویں.اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آتے والی قوم میں ایک نبی ہوگا.کہ وہ آن حضرت صلی اللہ علیہ دستم کا بروز ہوگا.اس لیے اُس کے اصحاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ہی ہوں گے اور جس طرح صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے رنگ میں خدا تعالیٰ کی راہ میں دینی خدمتیں ادا کی تھیں وہ اپنے رنگ میں ادا کریں گے.بهر حال یہ آیت آخری زمانہ میں ایک نبی کے ظاہر ہونے کی نسبت پیش گوئی ہے.ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ ایسے لوگوں کا نام اصحاب رسول اللہ رکھا جائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیدا ہونے والے تھے" (تتمہ حقیقة الوحی ص ) منی.اور فرماتے ہیں :- غرض اِس حصہ کثیر وحی الہی اور امور غیبیہ میں اس " امت میں سے ہیں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور میں قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گزر چکے ہیں ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا.پس اس وجہ سے نبی کا نام

Page 65

۶۵ و پانے کے لیے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس کے مستحق نہیں ، کیونکہ کثرت وحی اور کثرت امور غیبیہ اس میں شرط ہے اور وہ شرط اُن میں پائی نہیں جاتی " +19.5 ٣٩١ رحقيقة الوحى م٣) -3- آیت نُفِخَ فِی الصُّورِ کی تشریح میں فرماتے ہیں :- 2 اس جگہ صُور کے لفظ سے مراد مسیح موعود ہے ، کیونکہ خدا کے نبی صُور ہوتے ہیں.چشمہ معرفت ص) ب " اس فیصلہ کے لیے خدا آسمان سے قرنا میں اپنی آواز کچھوے گا.وہ قرنا کیا ہے ؟ اس کا نبی ہوگا ؟ رچشمه و معرفت صفحه ۳۱۸) - ایک نواب ریاست کے سوال پر کہ کیا مرزا صاحب رسالت کے مدعی ہیں ایک احمدی نے آپ کا یہ شعر : من نیستم رسول د نیاورده ام کتاب" پڑھ دیا.حضور نے فرمایا : اس کی تشریح کر دیا تھا کہ ایسا رسول ہونے سے انکار کیا گیا ہے جو صاحب کتاب ہو.دیکھو جو اُمور سمادی ہوتے

Page 66

ہیں اُن کے بیان کرنے میں ڈرنا نہیں چاہیئے اور کسی قسم کا خوف کرنا اہل حق کا قاعدہ نہیں " پھر صحابہ کے طرز عمل کا کہ وہ اپنا عقیدہ صاف صاف کہ دیتے.ذکر کر کے فرماتے ہیں :- رو ہما را دعوا سے ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں.دراصل یہ نزاع لفظی ہے.خدا تعالیٰ جس کے ساتھ ایسا مکالم مخاطبہ کرے کہ جو بلحاظ کمیت و کیفیت دوسروں سے بہت پڑھ کر ہو اور اس میں پیش گوئیاں بھی کثرت سے ہوں اُسے نبی کتنے ہیں اور یہ تعریف ہم پر صادق آتی ہے.پس ہم نبی ہیں.بدر در مارچ شاشه ب - سوئیں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں.اگر میں اس سے انکار کروں ، تو میرا گناہ ہوگا اور جس حالت میں خدا نے میرا نام نبی رکھا ہے تو ہیں کیونکر انکار کر سکتا ہوں؟ مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ] اخبار عام لاہور ۲۶ مٹی ستائر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی کتب اور مکتوبات سے حضور کے متواتر اور بار بار دعوائے نبوت ورسالت ثابت کرنے کے بعد اب یہ امر تشریح طلب رہ جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی تصنیفات کے ان حوالہ جات کی روشنی میں جن میں حضور نے مسلمانوں میں مروجہ اصطلاح اور تعریفی کی رو سے نبوت و

Page 67

46 رسالت سے انکار فرمایا ہے احتیاطاً ، یا القتباس سے بچانے کے لیے ، یا کسی اور وجہ سے ، آیا جب کوئی متلاشی حق غیر از جماعت استفسار کرے کہ مرزا صاحب بنی اور رسول تھے کہ نہیں ؟ تو ہمارا موقف یہ ہونا چاہیے کہ ہم کہہ دیں کہ آپ نبی نہ تھے یا کچھ اور ؟ سو اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود صراحت سے واضح فیصلہ فرما چکے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام نے اس مسئلہ کو اتنی اہمیت دی ہے کہ حضور نے اس مقصد کے لیے بطور خاص ایک رسالہ تصنیف فرمایا.اور اس کا نام ایک غلطی کا ازالہ" رکھا.نام سے ہی ظاہر ہے کہ یہ رسالہ کسی غلط موقف کی تردید میں ہے.واقعہ یوں ہوا : خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں سنیئے.حضور فرماتے ہیں:.- ہماری جماعت میں سے بعض صاحب جو ہمارے دعویٰ اور دلائل سے کم واقفیت رکھتے ہیں.جن کو نہ بغور کتابیں دیکھنے کا اتفاق ہوا اور نہ وہ ایک معقول مدت تک صحبت میں رہ کر اپنے معلومات کی تکمیل کر سکے.وہ بعض حالات میں مخالفین کے کسی اعتراض پر ایسا جواب دیتے ہیں کہ جو سراسر واقعہ کے خلاف ہوتا ہے.اس لیے با وجود اہل حق ہونے کے ان کو ندامت اُٹھانی پڑتی ہے." اس کے بعد حضور فرماتے ہیں :- چنانچہ چند روز ہوئے کہ ایک صاحب پر ایک

Page 68

MA مخالف کی طرف سے یہ اعتراض پیش ہوا کہ ہیں سے تم نے بیعت کی ہے وہ نبی اور رسول ہونے کا دعوی کرتا ہے ؟ اور اس کا جواب محض انکار کے الفاظ سے دیا گیا حالانکہ ایسا جواب صحیح نہیں ہے.حق یہ ہے کریف را تعالی کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے اس میں ایسے لفظ رسول اور مرسل اور نبی کے موجود ہیں.نہ ایک دفعہ ، بلکہ صدہا دفعہ.پھر کیونکر یہ جواب صحیح ہو سکتا ہے ہے" را یکی غلطی کارانه اله) حوالہ بڑے خوف سے پڑھنے کا ہے ، کیونکہ اُس وجود نے، جس کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم وعَدل کا بلند مرتبہ دیا ہے ، فرمایا ہے کہ محض انکار کے الفاظ سے رکہ آپ نبی نہیں تھے ، دیا گیا جواب صحیح نہیں ہے.اور حضور نے کیا ہی سچ فرمایا ہے کہ ایسی صورت میں باوجود اہل حق ہونے کے ندامت اٹھانی پڑتی ہے.جماعت احمدیہ کے دونوں فریقوں کی آج تک کی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ واقعی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوائے نبوت ورسالت کا انکار کرنے والے متبعین کو ندامت ہی اُٹھانی پڑی اور وہ ہر میدان میں اُس جماعت سے شکست کھا گئے ہو حضرت

Page 69

مسیح موعود علیہ السلام کو پورے خلوص اور ایمان سے ایک اتنی اور ظلی نبی اور رسول اور مرسل کی حیثیت سے پیش کرتی ہے.اور ایسا ہی ۱۷ ماہ مئی ۱۹ ہ کو بمقام لاہور حبشہ دعوت میں جو تقریر حضرت اقدس نے فرمائی تھی ، اس تقریر کی بنا ء پر یہ غلط خبر مرجیہ اخبار عام ۲۳ مئی شاہ میں شائع ہوئی کہ آپ نے اس جلسہ دعوت میں دعوائے نبوت سے انکار کیا ہے ، تو اُسی روز حضور نے ایڈیٹر اخبار مذکور کی طرف ایک خط لکھا ، جس میں اس غلط خبر کی تردید کی.چنانچہ حضرت اقدس کا وہ خطہ ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے :- جناب ایڈیٹر صاحب اخبار عام.پرچہ اخبار عام ۲۳ مئی شاہ کے پہلے کالم کی دوسری سطر میں میری نسبت یہ شہر درج ہے کہ گویا میں نے جلسہ دعوت میں نبوت سے انکار کیا.اس کے جواب میں واضح ہو کہ اس جلسہ میں میں نے صرف یہ تقریب کی تھی کہ میں ہمیشہ اپنی تالیفات کے ذریعہ سے لوگوں کو اطلاع دیتیا رہا ہوں اور اب بھی ظاہر کرتا ہوں کہ یہ الزام جو میرے ذمہ لگایا جاتا ہے کہ گویا میں نہیں نبوت کا دعوی کرتا ہوں جس سے مجھے اسلام سے کچھ تعلق باقی نہیں رہتا اور جس کے یہ معنے ہیں کہ میں مستقل طور پر اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتا ہوں کہ قرآن شریف کی پیروی کی کچھ حاجت نہیں رکھتا

Page 70

اور اپنا علیحدہ کلمہ اور علیحدہ قبلہ بناتا ہوں اور شرعیت اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقتداء اور متا بہت سے یا ہر جاتا ہوں.یہ الزام صحیح نہیں ہے، بلکہ ایسا دعوائی نبوت میرے نزدیک کفر ہے اور نہ آج سے بلکہ اپنی ہر ایک کتاب میں ہمیشہ میں ہی لکھتا آیا ہوں کہ اس قسم کی نبوت کا مجھے کوئی دعوی نہیں اور یہ سرا سر میرے پر تہمت ہے اور جس بنا پر میں اپنے تئیں نبی کہلاتا ہوں وہ صرف اس قدر ہے کہ یں خدا تعالیٰ کی ہمکلامی سے مشرف ہوں اور وہ میرے ساتھ بکثرت بولتا اور کلام کرتا ہے اور میری باتوں کا جواب دیتا ہے اور بہت سی غیب کی باتیں میرے پر ظاہر کرتا اور آئندہ زبانوں کے وہ راز میرے پر کھولتا ہے کہ جب تک انسان کو اس کے ساتھ خصوصیت کا قرب نہ ہو دوسرے پر وہ اسرار نہیں کھولتا.اور انھیں امور کی کثرت کی وجہ سے اُس نے میرا نام نبی رکھا ہے سوئیں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں.اور اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہو گا اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیونکہ انکار کر سکتا ہوں.میں اس پر قائم ہوں اُس وقت تک جو اس دنیا سے گزر جاؤں.

Page 71

41 نگر میں ان معنوں سے نبی نہیں ہوں کہ گویا اسلام سے اپنے تئیں الگ کرتا ہوں یا اسلام کا کوئی حکم منسوخ کرتا ہوں ، میری گردن اُس جوئے کے نیچے ہے جو قرآن شریف نے پیش کیا اور کسی کو مجال نہیں کہ ایک نقطہ یا ایک شعشہ قرآن شریف کا منسوخ کر سکے ، سوئیں صرف اس وجہ سے بھی کہلاتا ہوں کہ عربی اور عبرانی زبان میں نبی کے یہ معنے ہیں کہ خدا سے الہام پا کر بکثرت پیشینگوئی کرنیوال.اور بغیر کثرت کے یہ معنے متحقق نہیں ہو سکتے " یہ خط حضرت اقدس نے ۲۳ مئی شن شاہ کو لکھا.جو اخبار عام ۶ برشی شاہ میں آپ کی وفات کے روز شائع ہوا اور یہ آپ کا آخری مکتوب تھا.اگر یہ درست ہوتا کہ آپ نے نبوت کا کوئی دعویٰ نہیں کیا تو آپ اس خبر کی تردید کیوں کرتے ، جو اخبار عام ۲۳ مئی شائر میں شائع ہوئی تھی کہ آپ نے دعوائی نبوت سے انکار کیا ہے یعنی آپ مدعی نبوت نہیں ہیں.اور کیوں فرماتے :- سوئمیں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اور اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا اور میں حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیوں کر انکار کر سکتا ہوں.میں اس پر قائم ہوں اُس وقت تک جو اس دنیا سے گزر جاؤں.دو مرتبہ احمدی دوستوں نے مخالفین کو یہ جواب دیا کہ آپ نبی اور رسول

Page 72

۷۲ نہیں ہیں تو حضور نے دونوں فخر تردید فرمائی.ایک دفعہ توست میں ایک غلطی کا ازالہ شائع کر کے ، اور دوسری مرتبہ پانچ منشاء میں جیسا کہ بدر ہر پانچ شائد میں حضرت مسیح موعود کی ڈائری کے زیر عنوان یہ تفصیل لکھا ہے.اور تیسری مرتبہ جب اخبار عام میں یہ خبر شائع ہوئی کہ آپ نے جلسہ دعوت میں اپنے دعوی نبوت سے انکار کیا ہے تو حضور نے فوراً اس کی تردید فرمائی.ان چند حوالجات سے مر را توس علیہ الصلواۃ والسّلام کا موقف اپنے نبی ہونے کے متعلق ظاہر وباہر ہے اور یہ کہتا ہے کہ آپ کو مطلقاً دعوائی ثبوت نہیں تھا اور آپ دوسرے مد دین امت اور محد ثین کی طرح محض ایک مُجدد اور محدث تھے اس سے زیادہ اور کوئی منکر حقیقت نہیں ہو سکتا.ہیں موقت آپ کے دونوں خلفاء حضرت خلیفہ اشیخ الاول اور حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہما کا تھا :- حضرت خلیفہ اشیح الاول رضی اللہ عنہ کا موقف ایڈیٹر صاحب بدر حضرت خلیفہ الشیخ الاول رضی اللہ عنہ کے کلمات کے سلسلہ میں لکھتے ہیں :- ذکر تھا کہ مولوی محمد شین نے لکھا ہے کہ اگر احمدی مرزا صاحب کو نبی کہنا چھوڑ دیں، تو ہم کفر کا فتونی واپس لے لیں گئے : فرمایا " ہمیں اُن کے فتووں کی کیا پروا ہے اور وہ حقیقت ہی کیا رکھتے ہیں.جب سے مولوی محمد حسین

Page 73

نے فتوی دیا ہے وہ دیکھے کہ اس کے بعد اُس کی عرات کہاں تک پہنچ گئی ہے اور مرزا صاحب کی عزت نے کس قدر ترقی کی ہے." د بدر ۱۳ را پریل ۱۹۱۷ ص۲) حضرت خلیفہ اشبیع الثانی رضی اللہ عنہ کا موقف کا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ۶ بار دسمبر نظامہ کو علی سالانہ کے موقع پر حاضرین جلسہ کو خطاب کرتے ہوئے اپنی تقریر میں فرمایا : ا دنیا کو کھول کر سُناؤ کہ وہ نبی قادیان میں ہے ، اُس کا نام مرزا غلام احمد تھا.اُسے اتباع قرآن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں احمد کا درجہ دیا گیا ، اس پر خدا کا کلام نازل ہوا." دیدر ۱۹ جنوری ۱۹ ص۲) تعجب ہے کہ ان لوگوں نے یہ نہ دیکھا کہ ہم لوگ جب حضرت مسیح موعود کو نبی مانتے ہیں تو پھر کیونکر آپ کے فتوئی کو رد کر سکتے ہیں (مسلمان وہ ہے جو سب ماموروں کو مانے) والحكم ۱۴ مئی )

Page 74

۷۴ فیصلہ کا آسان طریق دلائل اور بحث کے میدان میں تو لفظی نزاع اور معنوی موشگافیوں میں کی بڑی گنج ٹش ہوتی ہے، لیکن حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے لاہوری فریق کے سامنے فیصلہ کا ایک ایسا طریق بھی پیش فرمایا تھا جس سے انسان صحیح نتیجہ پر بڑی آسانی سے پہنچ سکتا ہے.حضور نے شائد میں مؤكد لعذاب قسم کھا کر فرمایا :- میں قسم کھاتا ہوں کہ وہ خدا جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، وہ خدا جو عذاب کی طاقت رکھتا ہے و خدا جس نے میری جان کو قبض کرنا ہے ، وہ خدا جو زنده قادر اور سزا و جزا دینے والا ہے وہ خدا جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا.میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں حضرت مرزا صاحب کو اس وقت بھی جبکہ حضرت مسیح موعود زندہ تھے اسی قسم کا نبی مانتا تھا جس طرح کا اب مانتا ہوں.میں اس بات کے لیے بھی قسم کھاتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے رڈیا میں مجھے منہ در منہ کھڑے ہو کر کہا ہے کہ مسیح موعود نبی تھے.میں یہ نہیں کہتا کہ غیر مبالعین سب کے سب عملی لحاظ سے بڑے ہیں اور ہماری جماعت

Page 75

کے سارے کے سارے لوگ عمل میں اچھے ہیں ، مگر میں کھا پر ہم ہیں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جن عقائد پر ہم ہیں وہ بیچتے ہیں." الفضل ۲۳ ستمبر ۱۹۱۵مه) لیکن مولوی محمد علی صاحب کبھی بھی اپنے عقائد پر اس یقین اور خلوص کے ساتھ مؤکد بجذاب قسم کھا نہیں سکے اور نہ ہی لاہوری جماعت کا کوئی اور ممبر پھر حضور خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے شاہ میں فیصلہ کا ایک اور طریق به بیان فرمایا :- نبوت کے متعلق جناب مولوی محمد علی صاحب کی وہ تمام تحریرات جو اختلاف سے پہلے کی ہیں ایک جگہ جمع کر دی جائیں تو میں ان پر دستخط کر دوں گا اور اعلان کر دوں گا کہ میرا بھی نہی عقیدہ ہے" والفضل ۹ اکتوبر ) حضور کی طرف سے یہ پیشکش مونومی محمد علی صاحب کے بدلے ہوتے پر ایک گہری طنز تھی جس کا جواب مولوی صاحب اپنی وفات تک نہ دے سکے.اور پھر ۱۹۲۳ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الله فی رضی اللہ عنہ نے لاہوری فریق پر آخری دفعہ اتمام حجت کرتے ہوئے مولوی محمد علی صاحب کو ایک مرتبہ اور عقائد کے متعلق دعوت مباهله دی اور یہ بھی فرمایا کہ مولوی صاب ہرگز قسم نہیں کھائیں گے.در ساله فرقان قادیان - ما چون شاه)

Page 76

حضرت امیر المؤمنین خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا مذکورہ بالا حلف اور دونوں طریق فیصلہ اس امرکا بین اور قطعی ثبوت ہیں کہ آپ کا موقف مسئلہ نبوت مسیح موعود علیہ السلام سے متعلق اختلاف سے پہلے اور بعد میں ایک ہی رہا اور اُس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی.اور دراصل خود غیر مبالعین نے مسئلہ نبوت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق اختلاف کے بعد اپنا موقف تبدیل کر لیا تھا.نبوت مسیح موعود علیہ السلام سے متعلق ان کی اختلاف سے پہلے کی تحریروں سے ان کا موقف وہی ثابت ہوتا ہے جو مبالغین کا ہے لیکن اختلاف کے بعد سر گروہ غیر مبایعین مولوی محمد علی صاحب مرحوم لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام :- " اُن معنوں میں نبی اور رسول تھے جن معنوں میں اس امت کے دوسرے مجدد بھی نبی اور رسول کہلا سکتے ہیں" ز ٹریکٹ" میرے عقائد" صت) اور فرماتے ہیں :- اس امت میں جس قسم کی نبوت مل سکتی ہے وہ حضرت علی رض کو ضرور ملی ہے " ر النبوة في الاسلام مثلام اور ان کا بعد از اختلاف یہ عقیدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی واضح اور بین تحریرات کے صریح مخالف ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :- " غرض اس حصہ کثیر وحی الہی اور امور عینیہ میں

Page 77

66 راس اُمت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اُمت میں سے گزر چکے ہیں ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا.پس اس وجہ نبی کا نام پانے کے لیے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں کیونکہ کثرتِ وحی اور کثرت امور غیبیہ اس میں شرط ہے اور یہ شرط اُن میں پائی نہیں جاتی." (حقیقة الوحی ص ۳۹ ) اسی طرح حضرت اقدسش فرماتے ہیں :- اس امت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیری کی برکت سے ہزار ہا اولیاء ہوئے ہیں.اور ایک وہ بھی ہوا جو اتنی بھی ہے اور نبی بھی ؟" (حقیقۃ الوحی حاشیہ مت ) پھر عجیب بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو یہ فرماتے ہیں :- " اور خدا تعالیٰ نے اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کہ میں اُس کی طرف سے ہوں اس قدر نشان دکھلائے ہیں کہ اگردہ ہزار نبی پر بھی تقسیم کیے جائیں تو ان کی ان سے نبوت ثابت ہو سکتی ہے نے (چشمہ معرفت صفحه ۳۱۷) نشان تو اتنے کہ ہزارنی پر بھی تقسیم کیے جائیں تو ان کی نبوت بھی آن

Page 78

سے ثابت ہو سکتی ہے.لیکن غیر مبایعین کے نزدیک ان نشانوں سے حضور کی اپنی نبوت بھی ثابت نہیں ہوئی اور وہ غیر نبی تھے.! اب اہل فکر و دانش فیصلہ کر سکتے ہیں که اختلاف کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی واضح تحریریں نبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے متعلق حضرت خلیفہ الشیخ الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ کے متبعین نے تبدیلی عقیده کی تھی یا غیر مبایعین حضرات اور اُن کے سرگرد و مولوی محمد علی قصاب نے ؟

Page 78