Nabuwat

Nabuwat

نبوت سے ہجرت تک

سیرت حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ
Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ النبی

بچوں بچیوں کے لئے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی سیرت وسوانح پر آسان زبان میں مختصر کتب کی تیاری کے سلسلہ یہ کتاب مکرمہ بشریٰ داؤد صاحبہ کی مرتب کردہ ہے جس میں آنحضور ﷺ کی مکہ مقام نبوت پر سرفراز ہونے سے لیکر مدینہ کی طرف ہجرت تک کے حالات سوالاً جواباً پیش کئے گئے ہیں۔ یہ کتاب  مصنفہ کی زندگی میں  شائع نہ ہوسکی تھی اور ان کی وفات کے بعد بطور صدقہ جاریہ شائع کی گئی جس میں انہوں نے عشق نبی ﷺ کے لازوال جذبہ سے متاثر ہوکر  حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی محققانہ کتاب سیرت خاتم النبیین ﷺ اور دیگر کتب سیرت سے استفادہ کرکے مکی دور کے  واقعات کو ماں اور بچے کے گفتگو کی صورت میں نہایت سہل، احسن اور دلنشین انداز میں پیش کیا ہے۔


Book Content

Page 1

سیرت حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے ہجرت تک 2

Page 2

حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و نبوت سے ہجرت تک مصنفه

Page 3

پیش لفظ ۵۳ بفضلہ تعالی لجنہ اماء اللہ ضلع کراچی کو جیش تشکر کے سلسلے میں تربیویں پیش کش قارئین کی خدمت میں پہنچانے کی توفیق مل رہی ہے.الحمد لله على ذالك - یہ کتاب نبوت سے ہجرت تک ، عزیزہ حور جہاں بشری داؤد (مرحومہ)سیکرٹری اصلاح وارشاد نے لکھی تھی جو اُن کی زندگی میں طبع نہ ہوسکی.اللہ پاک بعد از وفات شائع ہونے والی اس کتاب کو مرحومہ کے لئے صدقہ جاریہ بنا کہ اُس کے درجات بلند فرمائے.آمین.عزیزہ بشریٰ مرحومہ کا عشق محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اُسے مختلف انداز میں سیره نبوی بیان کرنے پر اکساتا رہتا تھا.بچوں کے لئے ماں بچے کی گفتگو کی صورت میں نہایت سہل ، احسن اور دنشین انداز میں سیرت نبوی تین ادوار میں مرتب کر رہی تھیں جن میں سے پہلا حصہ " ولادت سے نبوت تک » طبع ہو چکا ہے.دوسرا حقہ نبوت سے ہجرت تک اب پیش خدمت ہے.پہلے حصہ کا اختتام اس طرح ہوتا ہے کہ حضرت جبرئیل کے ذریعے وحی نازل ہوئی اقراء....آپ کچھ گھبرائے ہوئے گھر تشریف لاتے ہیں اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرماتے ہیں زملونی زملونی مجھے چادر اٹھاؤ....یہ صورت حال بچے میں تیس پیدا کرتی ہے.اس سے آگے تفصیل دوسرے حصے میں موجود ہے جس کا مطالعہ خصوصی طور پر دعوت الی اللہ کے 66

Page 4

لئے زندہ جذبہ پیدا کرتا ہے.خدا کی سے ان کتب کے مطالعہ سے اپنے پیار سے آقا کی اس سیرت کو اپنانے کی توفیق ملے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنك لعلى خلق عظيم وہ ہر خلق کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز تھے.اور آپ کی اتباع میں ہمارے وجود بزبان حال پکارنے لگیں.محمد پر ہماری جاں خدا ہے کہ وہ کوئے ستم کا رہنما ہے آخر میں عزیزہ امتہ الباری ناصرسیکر ٹری اشاعت کے لئے درخواست دعا کرتی ہوں جین کے جذبہ خدمت دین ، علم دوستی ، انتھک محنت اور لگن کے نتیجے میں کتب اشاعت کے مشکل مراحل سے گزر کہ ہم تک پہنچتی ہیں.اللہ تعالیٰ اُن کو اور اُن کے معاونین و معاونات کو اجر عظیم سے نوازتا رہے.ہر آن اُن کا حامی و ناصر ہو.آمین اللهم آمین

Page 5

مال.حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جانتی تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت نیک ہیں.بیچتے ہیں.رحم دل ہیں.مہمان نواز ہیں.حقدار کو حق دلواتے ہیں.ہر دکھی کی خدمت کرنے والے ہیں.اس لئے آپ کو اللہ تعالی کوئی تکلیف نہیں ہونے دے گا تاہم مزید تسلی کے لئے آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو شرک کو چھوڑ کر عیسائی ہو چکے تھے.توریت اور زیور کے عالم تھے.کافی بوڑھے ہو چکے تھے آنکھوں سے نظر بھی نہیں آتا تھا.بچه - ورقہ بن نوفل نے ساری باتیں سن کر کیا کہا ؟ مان - وردبین نوفل تجربہ کار اور سمجھ دار تھے فوراً پہچان گئے اور کہا کہ آپ کے پاس وہی فرشتہ آیا ہے جو حضرت موسی پر دی لاتا تھا.کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو وطن سے نکال دے گی.بچه.پیارے آقا کس قدر حیران ہوئے ہوں گے.ماں.جی ہاں.آپ نے فرمایا کیا میری قوم مجھے وطن سے نکال دے گی.میں تو قوم کا ہمدرد ہوں.وہ مجھ سے پیار کرتے ہیں.مجھ سے مشورہ لیتے ہیں اپنی امانتیں میرے پاس رکھواتے ہیں.وہ مجھے کیوں نکالیں گے.در درین نوفل

Page 6

4 نے کہاکہ کوئی این سو اس دنیا میں نہیں آیا جس کے ساتھ اسکی قوم نے برا سلوک نہ کیا ہو.اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو آپ کی مدد کروں گا.نگردہ کچھ عرصہ کے بعد فوت ہو گئے.بچہ.کیا حضرت جبرائیل مسلسل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے رہے.ہاں.پہلی موجی کے بعد تقریباً چالیس دن تک حضرت جبرائیل نہیں آئے.اس وقت کو فترة وجی کہتے ہیں.یعنی وحی میں کچھ وقفہ ہو گیا.آپ بہت بے چین ہوئے.پہلے سے بڑھ کر عاجزی سے خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے بعض دفعہ تو بے قراری بہت بڑھ جاتی ایسے میں فرشتے کی آواز آتی.محمد تم ہی اللہ کے رسول ہو اس سے کچھ سکون ہو جاتا..بچہ.پہلے تو فرشتے کے آنے سے ڈرے تھے اب بے قرار تھے.ماں.ڈر تو بہت بڑی ذمہ داری کا تھا اور بے قراری اللہ کی ذات سے ملنے کی تھی.ایک دن اسی سوچ میں آپ غار حرا سے گھر کی طرف تشریف لا ر ہے تھے کہ ایسے لگا جیسے کسی نے آپ کو پکارا ہو.آپ نے ہر طرف دیکھا کوئی نظر نہ آیا.پھر آپ کی نظر او پراٹھی تو کیا دیکھتے ہیں.کہ زمین آسمان کے درمیان ایک بہت خوبصورت کرسی پر ہی رشتہ حضرت جبرائیل بیٹھے ہیں جن کو غار حرا میں دیکھا تھا.بچہ.اس دفعہ تو آپ ڈرے نہیں ہوں گے.ماں.ڈرے تو نہیں البتہ کچھ گھیرا ہٹ ضرور محسوس کی.جلدی جلدی گھر آئے اور حضرت ندی سے فرمایا د برونی درونی مجھے کپڑا اڑھاؤ، مجھے کپڑا اُٹھاؤ.

Page 7

آپ لیٹ گئے.حضرت خدیجہ نے کپڑا اڑھا دیا آپ کو ایک با رعب آوانہ آئی.يَايُّهَا المُدَّثِرُ قُمْ فَانْذِسُل وَرَبَّكَ فَكَبْرَهُ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرُهُ وَالرُّجْزَفَ هُجُرُةٌ یعنی اسے چادر میں لپیٹے ہوئے انسان اُٹھے.لوگوں کو خدا کے نام پر بیدار کہ اپنے رب کی بڑائی کے گیت گا.اپنے نفس اور ماحول کو پاک وصاف کو ہر قسم کے شرک سے پر ہیز کہ.بچہ.اب تو پیارے آقا کو اللہ تعالی کا پیغام پھیلانے کا حکم مل گیا.ماں.جی ہاں.آپ کو یقین ہو گیا کہ یہ قادر و توانا خدا ہے جو حضرت جبرائیل کے ذریعے پیغام بھیجتا ہے.آپ نے بڑی راز داری اور خاموشی سے ملنے جلنے والوں کو شرک سے پر ہیز کرنے کی تعلیم دینی شروع کر دی.آپ بتاتے کہ اللہ ایک ہے.زمین و آسمان کی ہر چیز اُس نے پیدا کی ہے.صرف دہی عبادت کے لائق ہے.اُس نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ اپنے خدا کو بچانے اور اس کے احکام اور مرضی کے مطابق زندگی بسر کرے.ہندوں کو سیدھا راستہ دکھانے کے لئے وہ اپنے نبی بھیجتا رہا ہے اب اُس نے یہ کام میرے سپرد کیا ہے.میرے پاس اُس کا فرشتہ پیغام لے کہ آتا ہے.بچہ.پہلے پہلے کس نے یہ سب باتیں مانیں یعنی کون کون اسلام لایا..مال.سب سے پہلے مسلمان تو ہمارے پیارے آقا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وستم ہیں.پھر عورتوں میں سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کی باتوں کو درست مانا بیچوں میں سے دس سالہ بچے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اور

Page 8

حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے جو آپ کے آزاد کردہ غلام تھے.یہ سب گھر کے افراد تھے.بیچہ.دوستوں میں سے عبد اللہ بن ابی قحافہ یعنی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ایمان لائے.یہ ہم نے پڑھا تھا.نہ کوئی دلیل مانگی نہ بحث کی.صرف اتناشنا کہ آپ نے کوئی دعویٰ کیا ہے.جانتے تھے کہ آپ صادق ہیں لہذا فوراً ایمان لے آئے.ماں.آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ یہی ایمان کا سب سے اونچا درجہ ہوتا ہے.آپ کو علم ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق کہلائے جس کا مطلب ہے بچے کو سچ کو ماننے والے نیکی کی بات نیک طبیعت کے لوگوں پر اثر کرتی ہے.پانچ تو یہ تھے اور پانچ قریبی دوست تھے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان ، حضرت عبد الرحمن بن عوف ، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت زبیر بین العوام اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ یہ وہ خوش قسمت دس اصحاب میں جین کو زندگی میں ہی جنت کی خوشخبری دی گئی.ابتدائی مسلمانوں میں حضرت ابو عبیدہ حضرت عثمان بن مظعون اور حضرت ارقم رضین ار تم بھی شامل ہیں.آہستہ آہستہ دین اسلام پھیلنے لگا.رض بچہ.اسلام کی دعوت امیروں نے زیادہ قبول کی یا غریبوں نے.مال - زیادہ تر غلام ، غریب، ملازم پیشہ ، مزدور، بکریاں چرانے والے شامل ہوئے مثلاً حضرت عبداللہ بن مسعود قریش کے ایک سردار عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چراتے تھے، حضرت بلال بن ریاح ہو پہلے موذن اسلام ہوئے

Page 9

امیہ بن خلف کے غلام تھے.حضرت خباب بن الارت آزاد شدہ غلام تھے مکہ میں لوہار کا کام کرتے تھے حضرت صہیب بن سنان بھی آزادث غلام تھے.بچہ.کوئی پورا خاندان بھی مسلمان ہوا تھا.ماں.حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کے بعد ان کا گو اور حضرت با شٹر کی بیگم حضرت سمیعہ اور ان کا بیٹا عمارہ اسلام لائے.طرح حضرت سعید بن زید اور ان کی بیگم خاطر بنت خطاب ایمان لائیر بعض عورتوں کو اپنے گھر کے مردوں سے پہلے ایمان لانے کی توفیق علی بیجا پیارے آقا کی بچی حضرت اُم فضل اپنے شوہر حضرت عباسی سے پر ایمان لائیں بعض غلام عورتیں حضرت زیرہ اور حضرت سمیہ جو ابو جہل لونڈیاں تھیں اور حضرت لیبیند جو حضرت عمر کی لونڈی تھیں تنہا ایک لائیں.یہ تعداد اسلام کے پہلے تین چار سال کی ہے.بچہ.اسلام میں شامل ہونے کا کیا طریقی تھا.ماں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مردوں سے دستی بیعت لیتے تھے.یعنی بیعت کر والے مرد ہاتھ بڑھاتے تھے آپ ان کے ہاتھ پر اپنا دست مبارک ر اور عہد لیتے اشهد ان لا إله إلا الله واشهد ان مد رسُولُ الله.اس کے بعد ، چوری، زنا، قتل اور جھوٹ سے پرہی کرنے کا عہد لیتے.بعد میں جب جہاد کا حکم ہوا تو مردوں سے جہاد کا عہد لیتے.جبکہ عورتوں سے جہاد کا عہد نہ لیتے اور عورتوں کی بیعت

Page 10

نہیں ہوتی تھی.وہ زبانی دہراتی رہتیں.بچہ - اُس وقت کی نماز کیسی تھی ؟ اں.ابھی پانچ وقت کی نماز فرض نہ ہوئی تھی.حضرت جبرائیل نے وضو اور نماز کا طریق سکھا دیا تھا مسلمان اپنے گھروں میں یا کبھی مکہ کے پاس گھائیوں میں دو دو چار چار مل کر جب موقع ملتا نماز پڑھ لیتے.ایک دفعہ آپ اور حضرت علی یہ ملکہ کی گھائی میں نماز پڑھ رہے تھے.حضرت ابو طالب آگئے.اس عجیب و غریب عبادت کو دیکھ کر پسندیدگی اور حیرت سے پوچھا بیٹا یہ کیا دین ہے جو تم نے اختیار کیا ہے.آپ نے فرمایا " چا ! یہ دین الہی اور دین ابراہیم ہے." ابو طالب خود تو اپنے باپ دادا کے دین کو نہ چھوڑ سکے مگر اپنے بیٹے علی نور سے کہا تم ضرور محمد کا ساتھ دینا کیونکہ مجھے یقین ہے کہ وہ تمہیں نیکی کی طرف بلائے گا.تجہ.پیارے آقا نے کب تک چھپ کر تبلیغ کی.ں.تین سال سے زیادہ عرصہ اسی طرح گذرا.چوتھے سال کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا.فَاصْدَعَ بِمَا تُؤْمَد (حجر: ۹۵) یعنی جو حکم دیا گیا ہے، اُسے کھول کھول کر لوگوں کو سناؤ.کچھ ہی عرصہ بعد یہ آیت نازل ہوئی فَاندِر عَشِيرَتَكَ الاَ تُربِينَ (الشعراء : ۲۱۵) یعنی اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی ہوشیار کرو اور جگاؤ.146 استجاری فقہ اسلام ابی ذر سيرة خاتم النبيين حصہ اول ۱)

Page 11

" یہ حکم منا تھا کہ آپ سوچنے لگے اس پر کیسے عمل کروں.آپ صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور قریش کے ہر قبیلہ کا نام لے کر بلایا.سب لوگ جمع ہو گئے تو آپ نے اونچی آواز میں فرمایا ہر "اے لوگو ! اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بڑا لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنے کو تیار ہے تو کیا تم میری اس بات پر یقین کر لو گے.“ سب نے کہا ہاں ہم یقین کر لیں گے کیونکہ تم نے کبھی جھوٹ نہیں بولا.“ بچہ.یہ تو بہت اچھا ہوا سب نے مان لیا کہ آپ پیچھے ہیں جو کہیں گے سچ کہیں گے.ماں.مگر جب آپ نے انھیں بتایا کہ اللہ ایک ہے اُس کو مانو اللہ کا عذاب تمہارے قریب آچکا ہے تم اُس پاک ذات پر ایمان لاؤ ہو تمہارا رب ہے تاکہ اس عذاب سے محفوظ رہ سکو یہ بات سُن کر وہی لوگ جو تھوڑی دیر پہلے کہہ رہے تھے 16 کہ آپ سہتے ہیں ہنے اور مذاق کرنے لگے حتی کہ ابولہب نے کہا جو آپ کے چچا بھی تھے اور ائمہ الکفر بھی).لیس اتنی سی بات کے لئے ہمیں مجمع کیا تھا.پیارے بچے تم دل چھوٹا نہ کر وہ آج تک جتنے بھی نبی آئے ہیں سب کے ساتھ ان کی قوموں نے یہی سلوک کیا ہے.پھر وہی بچتے ہیں جو خدائے واحد کو مان لیں نافرمانوں پر عذاب نازل ہوتا ہے.بچہ.پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا حکم ماننے کی کوئی اور ترکیب سوچی ہوگی.ماں.جی آپ نے سوچا کھانے کی دعوت کریں اور پھر اللہ تعالی کا پیغام دیں چنانچہ

Page 12

* آپ نے حضرت علی سے فرمایا ددھیالی رشتہ داروں کی دعوت کا انتظام کرو.اس دعوت میں چالیس کے قریب جہمان آئے مگر ہوا رہی کہ جب کھانے کے بعد آپ نے اللہ تعالیٰ کا پیغام دینا چاہا تو ابولہب نے پھر ایسی باتیں کیں کہ سب لوگ چلے گئے.مگر آپ نے ہمت نہیں ہاری.آپ نے ایک اور دعوت کی اور اس دعوت میں کھانے سے پہلے آپ نے چھوٹا سا خطاب فرمایا.آپ نے فرمایا.اسے مطلب کے خاندان والو میں تمہاری طرف وہ بات لے کر آیا ہوں کہ اس سے اچھی بات کوئی اپنے قبیلہ کی طرف نہیں لایا.تم ایک خدا پر ایمان لاؤ اگر تم نے میری یہ بات مان لی تو دین ودنیا کی بہترین نعمتوں کے وارث بنو گے تم میں سے کون میری مدد کرے گا.“ بچہ.میں وہاں ہوتا تو فورا اٹھ کر کہتا میں آپ کی مدد کروں گا.ماں.شاباش بچے اللہ تعالی آپ کو جزا د ہے.اس وقت وہاں بھی ایک بہت پیارا بچہ تھا ، تقریباً تیرہ سال عمر دبلا پتلا آنکھوں سے پانی بہہ رہا کھڑا ہوا اور کہا یہ میں تم سب سے چھوٹا ہوں مگر میں آپ کا ساتھ دوں گا.یہ بچہ حضرت علی تھے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بات بڑھاتے ہوئے فرمایا " اگر تم اس بچے کی بات پر غور کرو اور مانو تو بہتر ہے.بجائے اس کے کہ وہ غور کرتے ہنس کے بات ٹال دی ابولہب نے مذاق سے ابو طالب سے کہا کہ تو آب حمیرا تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ اپنے بیٹے کی پیروی کرد.بچہ.پیارے آقا تو اللہ تعالیٰ کے سب سے پیارے تھے پھر ایسا کیوں ہوا.

Page 13

ماں.اللہ پاک نے اپنے پیارے رسول کے لئے کامیابی اور فتح لکھی ہوئی تھی.یہ تو اس لئے ہوتا ہے کہ اللہ پاک ان افراد کو زیادہ انعام دینے کے لئے چنتا ہے جو ایسی مشکلات میں نبی کی مدد کے لئے آگے آتے ہیں.اُس کے بڑے درجے ہوتے ہیں.اب آپ ہی دیکھ لیں ابتدائی ماننے والوں کو اللہ تعالیٰ نے کیسی عزت دی اس کھلے عام پیغام دینے اور دعوتوں میں بات کرنے سے کچھ کچھ تعارف تو ہو گیا.اب لوگ آپ کے پاس یہ جاننے کے لئے آنے لگے کہ آخر آپ کون سا نیا دین لائے ہیں.آپ نے ایک گھر کو اپنا مرکز بنا لیا.وہاں اکٹھے نمازیں پڑھتے.ملاقات کرتے.اسلام کا پیغام دیتے.بچہ.یہ گھر کی خوش نصیب کا تھا.ماں.ایک نے مسلمان ارقم بن ارقم کا گھر تھا.صفا پہاڑی کے دامن نہیں تھا.تاریخ میں اسی وجہ سے اس گھر کو بیت الاسلام، اسلام کا گھر کہا جاتا ہے.یہ گھر تین سال تک اسلام کا مرکز بنا رہا ہے یعنی نبوت کے چوتھے سال سے چھٹے سال کے آخر تک.بچہ.اس گھر میں ایمان لانے والے بعض خوش نصیبوں کے نام بتائیے.ماں.حضرت مصعب بن عمیر احضرت عمر فاروق کے بڑے بھائی حضرت زید بن خطاب حضرت خدیجہ کے ایک عزیز حضرت عبداللہ ابن مکتوم یہ نابینا تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چازاد بھائی حضرت جعفر بن ابی طالب تاریخ میں لکھا ہے کہ ان کی شکل اور عادتیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت ملتی تھیں.

Page 14

۱۴ حضرت یا سفران کی بیوی سمیران اور بیٹا عا مریض اس خاندان کو ابوجہل بہت دکھ دیا تھا.حضرت صہیب بن سنان جو صہیب رومی بھی کہلاتے ہیں.یہ اپنا سب کچھ مکہ والوں کے کہنے پر چھوڑ کر پیارے آقا کے پاس مدینہ آگئے تھے.حضرت ابو موسیٰ اشعری مین کے رہنے والے تھے.ان کے بارے میں پیارے آقا نے کہا تھا کہ ابو موسیٰ کو تو خدا نے داؤدی لحن سے حصہ دیا ہے بچہ.اس گھر میں ایمان لانے والے آخری کون سے صحابی ہیں.مان.حضرت عمر فاروق نے جب اس گھر میں اسلام قبول کیا تو سلمان بہت دلیر ہوگئے کیونکہ حضرت عمروضہ سے پہلے حضرت حمزہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا اور بہت محبت کرنے والے تھے اور قریش میں بہت عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے.ایمان لے آئے تھے.اب مکہ کے گلی کوچوں میں اسلام کا ذکر ہونے لگا.اور آہستہ آہستہ قرآن پاک کے جو احکامات نازل ہو رہے تھے.وومن کر نیک فطرت لوگ خاص طور پر عورتیں اور غلام متاثر ہوئے تھے.قریش کے سرداروں نے غور کرنا شروع کیا کہ کیا کیا جائے.اب تو زیادہ طاقت کے ذریعہ دین کی تبلیغ کو روکنا چاہیئے.یہ تو ہر نبی کے زمانے میں ہوتا رہا ہے.قرآن پاک میں ہے.يَا حَسُرَةً عَلَى الْعِبَادِ : مَا يَأْتِيهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِرُون (سورة ليس : ۳۱)

Page 15

یعنی افسوس ان لوگوں پر کہ کوئی رسول بھی ان کی طرف ایسا نہیں آیا جہیں.ساتھ انہوں نے سہنسی اور ٹھٹھا نہ کیا ہو.بچہ.پھر کیا ہوا.ماں.جب قریش کی مخالفت شروع ہوئی تو وہ دن بدن بڑھتی چلی گئی.ہر طرز سے تکلیف دینے مسلمانوں کا مذاق اڑاتے.جہاں جو مل جاتا اس کو مارتے پیٹتے.اگر کوئی بات کرتا تو شور مچاتے.دکھ دیتے.منہ پر تھوک دیتے ہنتے اور سب سے زیادہ بُرا حال تو غریب اور کمز ور مسلمانوں کا تھا لیکن غد اور لونڈیاں جن کو وہ زمین کا ادنی کیڑا بھی نہیں سمجھتے تھے ، سوچو ان کا کیا حال ہوگا.یہ ایک بڑی درد ناک داستان ہے جو کہ لائی بھی ہے اور ایمان کو مضبوط بھی کرتی ہے کہ ایسے مقدس افراد بھی گزرے ہیں.قریش مکہ غصہ اور غضب کی یہ حالت تھی کہ کسی طرح بھی ممکن ہو ان کو دین سے رو جائے اور اس مذہب کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے.بچہ.امی جلدی سے بتائیں پھر کیا ہوا.ماں..ہونا کیا تھا.جتنا قریش ظلم کرتے ، اتنا ہی یہ لوگ اور مضبوطی سے اپنے ایکا پر قائم ہو جاتے.اور یہ بات اُن کو چڑا دیتی کہ آخر محمد ان کو کیا دیتا ہے بچہ.پیارے آقا پر بھی ظلم ہوتا تھا ؟ ماں.بالکل ہوتا تھا.آپ کے راستے میں آپ کی چی ام جمیل جو ابو لہب کی ہو تھی.کانٹے بچھاتی تھی.سر پہ خاک ڈالی جاتی.مارا جاتا.دکھ دیتے.نماز پڑھتے تو خاک اُڑاتے تبلیغ کرتے تو شور مچاتے.قرآن پاک کی تلاوت فرما

Page 16

14 تو ظالم چیچنیا چلانا شروع کر دیتے.بعض کانوں میں انگلیاں ڈال لیتے.خانہ کعبہ میں سجدے میں تھے تو اونٹ کی اوجھڑی ڈال دی.گلے میں کپڑا ڈال کر گھوٹا جاتا کہ آنکھیں ایل پڑیں.گھر مں گندگی اور غلاظت پھینکی جاتی.گالیاں دی جاتیں.ان بد نیت انسانوں کا میں نہ چلتا کہ کیا کریں.بچہ.پیارے آقا ان کو کیا جواب دیتے ؟ اں.آپ صرف صبر کرتے.اور ان لوگوں کے لئے دعائیں کرتے.اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرتے.کہ خدایا ! یہ نادان ہیں، جانتے نہیں تو انہیں ہدایت ے ادھر قریش کے نہیں اور سردار جین میں ولید بن مغیرہ.عاص بن وائل عقبہ بن ربیعہ - عمر و بن هشام (ابو جہل) اور ابوسفیان تھے.حضرت ابوطالب کے پاس آئے اور بڑے دوستانہ انداز میں ان سے درخواست کی کہ اپنے بھتیجے محمد صل اللہ علیہ وسلم کو دین اسلام کی تبلیغ سے روک دیں.اگر روک نہیں سکتے تو درمیان سے ہٹ جائیں.ہم خود اس سے نپٹ لیں گے.اصل میں اُن کی پوری کوشش تھی کہ حضرت ابوطالب پیارے آقا کا ساتھ چھوڑ دیں.اس طرح وہ بنو ہاشم اور بنو مطلب کے قبیلوں کی ہمدردی بھی کھو دیں گے.اور ہم آسانی سے محمد پر ہاتھ ڈال سکتے ہیں.بچہ.کیا حضرت ابوطالب ان کی بات مان گئے ؟ اں.نہیں ! ان کو اپنے بھتیجے سے بہت پیار تھا.اور وہ دل سے یقین بھی رکھتے تھے کہ آپ غلط راہ پر نہیں ہیں.آپ نے بڑی نرمی سے انہیں سمجھایا اور فقہ

Page 17

16 کو کم کیا.کچھ ٹھنڈا کر کے لوٹا دیا.اسلام دن بدن ترقی کہ رہا تھا.نیک فطرت لوگ آپ کے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے.قرآن پاک مسلسل نازل ہو رہا تھا.جس میں بنوں کو جہنم کا ایند من کہا جار ہا تھا.انكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ (سورة انبياء : ٩٩) ان کے اہم درواج کو جو ان کے دین و مذہب کا حصہ بن چکی تھیں لعنت قرار دیتا تھا.ان کے آباؤ اجداد کو جو رسوم پر قائم تھے اور چین کی پیروی یہ لوگ کر رہے تھے.قرآن پاک گمراہ قرار دیتا تھا.پھر مساوات کی تعلیم جو آقا اور غلام کو.عورت اور مرد کو ہر چھوٹے اور بڑے کو.بحیثیت انسان برابر کے حقوق دیتی تھی جس سے ان کی شان اور عزت میں فرق آتا تھا کہ امیہ بن خلف اور حضرت بلال مہ کیسے برابر ہو سکتے ہیں.یہ تمام باتیں جو امتہ الکفر کافروں کے سرداروں) کو پریشان کر رہی تھیں نہ صرف برقرار تھیں بلکہ تیزی سے پھیل بھی رہی تھیں.پھر دشمنی کیسے ختم ہو سکتی تھی.بچہ.پھر ان لوگوں نے کیا کیا ؟ ماں.پھر سارے سردار جمع ہوئے اور فیصلہ کیا کہ ابو طالب کے پاس چلیں اور فیصلہ کر یں.چنانچہ یہ آپ کے پاس آئے.اور کہا کہ معاملہ حد سے بڑھ رہا ہے.ہم کو نجس اور پلید کہا جا رہا ہے.کیا ہم شیطان کی اولاد میں ہے ہمارے معبودوں

Page 18

کو جہنم کا ایند صن اور ہمارے آباؤ اجداد کو عقل سے دوری تیار ہے ہیں.اب اگر تم محمدؐ کو نہیں روک سکتے اور نہ ہی اس کی حمایت چھوڑتے ہو تو تم عبور مقابلہ کریں گے.تاکہ ہم دونوں میں سے ایک ختم ہو جائے.بچہ.حضرت ابو طالب تو پریشان ہو گئے ہوں گے.ماں.وہ واقعی خوف زدہ ہو گئے.انہوں نے پیارے آقا کو بلایا اور ساری بات بتائی.بڑے پیار سے کہا.دیکھو بچے میں تجھے خیر خواہی سے کہتا ہوں.کہ تو ایسی باتوں سے باز آجیا، کیوں اُن کے معبودوں ، بزرگوں اور خود ان کو سخت باتیں کہتا ہے.یہ لوگ سخت غصہ میں ہیں.تجھے ہلاک کر دیں گے میں ساری قوم کا مقابلہ نہیں کر سکتا.بچہ.پیارے آقا نے کیا جواب دیا.ماں.آپ سمجھ گئے کہ پیارے چھا بھی مخالفت سے خوفزدہ ہیں.اور یہ سہارا بھی شاید ختم ہو جائے.لیکن بڑے اطمینان سے جواب دیا.یہ سب باتیں میں نہیں بلکہ خدا کہ رہا ہے.اور ان کو اپنی باتوں سے روکنے کے لئے تو مجھے بھی گیا ہے.میں مرنا پسند کر لوں گا مگر اس کام سے نہیں رک سکتا.میری زندگی وقف ہے.یہ لوگ اگر میرے ایک ہاتھ پہ چاند اور دوسرے پر سورج رکھ دیں تب بھی میں اپنے مشن کو نہیں چھوڑ سکتا.آپ بے شک میرا ساتھ چھوڑ دیں.یا تو میں اس راہ میں مارا جاؤں گا یا جو خدا چاہتا ہے پورا ہو گا.آپ کے چہرے پر اُس وقت سچائی کا نور تھا.اور آواز بہتر گئی تھی.

Page 19

19 ނ پھر آپ چل پڑے.تو ابو طالب نے پکارا.آپ آئے تو چھا کی آنکھوں - آنسو جاری تھے.بڑے دکھ سے کہا کہ جاؤ اپنے کام میں لگے رہو.جب تک میں زندہ ہوں اور جہاں تک میری طاقت ہے میں تمہارا ساتھ دوں گا.بچہ.امی پھر کیا ہوا.ماں.جب کفار قریش نے دیکھا کہ معاملہ تو اپنی جگہ پر ہی ہے نہ تو ابو طالب محمدؐ کو سمجھاتے ہیں اور نہ ہی اُن کا ساتھ چھوڑتے ہیں.تو وہ اور ترکیبیں سوچنے لگ گئے.وہ جانتے تھے کہ ابو طالب اپنے بھتیجے کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے اور ابو طالب بھی دل میں آپ کی صداقت کے قائل تھے.پھر یہ ہوا کہ ایک دفعہ سارے سردار مل کہ آپ کے پاس ایک عرب کے بہت ہی لائق ، دلیر اور خوبصورت جوان کو لائے.اس کا نام عمار بن ولید مقصد اور حضرت ابو طالب سے کہا کہ اس کو تم اپنا بیٹا بنا لو، اور محمد کو ہمارے حوالے کر دو.یہ ہمیشہ تمہاری خدمت کرے گا.اس سے جو چاہے کام لو.ہم کبھی بھی تم سے اس کے بارے میں نہیں پوچھیں گئے.اس طرح جان کے بدلے میں جان کا قانون بھی پورا ہو جائے گا.حضرت ابو طالب نے جب یہ سنا تو بڑی حیرت سے کہا کہ یہ کیسا انصاف ہے کہ میں اپنا بیٹا نہیں دے دوں تا کہ تم اسے ماردو.اور تمہارے بیٹے کو کھلاؤں پلاؤں واللہ اب کبھی نہ ہو گا بچہ.پھر تو سارے سردار بہت ناراض ہوئے ہوں گے.اب انہوں نے کیا سوچا.ہاں.سوچنا کیا تھا.انہوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ ہر قبیلہ اپنے اپنے قبیلہ کے مسلمانوں پر دباؤ ڈالے تاکہ وہ اسلام کو چھوڑ دیں.جب سب مسلمان محمد کا ساتھ چھوڑ

Page 20

دیں گئے تو سلسلہ خود بخود حل ہو جائے گا اور قبائل کی جنگ بھی نہیں ہوگی.بچہ.پھر تو پیارے آقا کو بھی آپ کے قبیلے نے ستایا ہوگا.مان.نہیں.حضرت ابو طالب نے نیو ہاشم اور بنو مطلب کو بلاکر تمام حالات بتائے اور کہا کہ ان حالات میں ہم سب کو مل کر اپنے محمد کی حفاظت کرنی چاہیے.دونوں راضی ہو گئے.لیکن آپ کے سگے چچا ابو لہب نے انکار کر دیا.بچہ.یہ دونوں قبائل کیسے مان گئے.ماں.عربوں میں خاندانی غیرت بڑی چیز تھی.اور اس غیرت کی وجہ سے کہ ہمارے قبیلے کا آدمی ہے.ایک سردار کا ہوتا.ایک سردار کا بھتیجا.اس کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑیں گے.اور ابو لہب تو مخالفت کی وجہ سے اندھا ہو رہا ہے.اس کو غیرت کا خیال کیسے آسکتا تھا.اس لئے وہ الگ ہو گیا.بچہ.چلو پیارے آقا تو محفوظ ہو گئے ہیں تو ڈر ہی گیا تھا.مال.پیارے آقا کیا محفوظ ہوئے تھے ؟ آپ کے دکھوں میں مزید اضافہ ہو گیا.اب ہر قبیلہ کے لوگوں نے اپنے مسلمان رشتہ داروں ، عزیزوں کو اسلام سے روکنے کے لئے زور لگایا.اور مسلمانوں نے تو صداقت کو جان کر پہچان کر مانا تھا.وہ الگ کیسے ہوتے.پھر تکالیف کا سلسلہ شروع ہوا.ماریں پڑنے لگیں بھید کا پیاسا رکھا جاتا.اور آہستہ آہستہ ظلم بڑھنے لگا.کفار مکہ اپنا پورا زور لگا ہے تھے.اور اُدھر مسلمان بھی دنیا کے لئے نئی تاریخ لکھ رہے تھے.جو قوت بر داشت ، صبر و تحمل ایثار اور قربانی کی نئی کہانیوں سے سجی ہوئی تھی.کمزور مسلمانوں، غلاموں اور لونڈیوں کا حال بیان نہیں ہو سکتا.بے چاروں

Page 21

M کا تو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں تھا.وہ اپنی جانیں دے رہے تھے تڑپتے تھے لیکن خدا تعالی کے سوا کسی کو نہیں پکارتے تھے.ایسا لگتا تھا جیسے میر اور برداشت کی مضبوط چٹان ہوں.بچہ.آپ کچھ مظلوموں کے بارے میں تو بتائیں.ماں.میری جان ! یہ تو بڑی لمبی داستانیں ہیں.کسی ایک انسان کی تو نہیں.اس.وقت کی پوری ایک قوم کی.کفار کہتے تھے کہ اتنا ظلم کرو کہ یہ لوگ باز آجائیں.اور مسلمانوں کا عزم یہ تھا کہ جو کرنا ہے کر لو، جان چلی جائے.لیکن اب پیار سے آقا کا دامن نہیں چھوڑنا.بچہ.پیارے آقا کیا کرتے تھے.ماں.آپ کے پاس تو ایک ہی راستہ تھا.کہ خدا تعالیٰ کے دربار میں فریاد ہوتی.مسلمانوں کو حوصلہ دیتے صبر کی تلقین فرماتے یقین دلاتے.اور جو احکام الہی نازل ہو رہے تھے.سناتے کہ یہ سب عارضی دکھ ہیں.خدا تعالیٰ کے پیاروں کو ہمیشہ ایسے ستایا گیا ہے.جب ظلم بڑھتا ہے تو خدا تعالی کی مدد بھی جلدی آتی ہے.اس وقت بھی ایسا ہی ہوا.اسلام پہلے سے بھی بڑھ کہ پھیلنے لگا.جن لوگوں کے دل میں شرافت تھی وہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ اتنے ظلم کے بعد بھی اگر کوئی دین سے نہیں ہٹتا تو ضرور کوئی صداقت ہوگی.یوں ذہن بدلنے لگے.اور ایسا طبقہ پیدا ہونے لگا جو اسلام کے قریب آرہا تھا.اور ساتھ ہی وہ ظالموں کو بھی روکتے تھے.لیکن جب پیارے آقا ظلم کے جواب میں صبر کرتے اور گالی کے

Page 22

جواب میں دُعا دیتے تو ان کو شرمندگی ہوتی تھی.بچہ.پیارے آقا کو بھی ستانے سے باز نہیں آتے تھے ؟ جب اُن کے قبیلے کے لوگوں نے منع کیا تھا.ماں.جب ابولہب کفار کے ساتھ ہو.پھر ابوجہل ، امیہ بن خلف جیسے ظالم سردار ہوں پھر ان کے پاس پیسے کی بھی کمی نہیں تھی تو وہ کیسے باز آ سکتے ہیں.کبھی آپ بازار سے گزر رہے ہوتے تو مدھم - مرقم پکارتے.گردن پر تھپڑ مارتے جاتے.اور کہتے کہ دیکھو لوگو با شخص اپنے آپ کو خدا کا نبی کہتا ہے.گویا وہ یہ بتانا چاہتے تھے کہ یہ جس خدا کا پتہ دے رہا ہے وہ توڑی قوت اور طاقت والا ہے پھر وہ خدا کیوں نہیں ہمارے ظلم سے بچانا تھوکن شروع کر دیتے.دھکے دیتے تو دیتے چلے جاتے.اور ساتھ ساتھ سنتے اور شور مچاتے.کہ یہ تو اتنا کمزور ہے کہ اپنے آپ کو ہم سے بچا نہیں سکتا تو یہ نبی کیسے ہو گیا.بچہ.پیارے آقا ان کے لئے بددعا کیوں نہیں کرتے تھے.ماں.آپ تو رحمت کا پیغام لائے تھے اور پھر آپ کسی کو دکھ میں نہیں دیکھے سکتے تھے پھر بد دعا کیسے دیتے.بچہ.امی پیارے آقا دوسرے شہر کے لوگوں کے پاس چلے جاتے.ماں.آپ ابھی مکہ کے لوگوں سے مایوس نہیں ہوئے تھے.پھر خدا تعالیٰ کے حکم کے بغیر آپ کوئی کام بھی نہیں کرتے تھے.اس لئے سارا ز ور سمجھانے اور دعا کرنے میں لگا ر ہے تھے.لیکن جب حج کے دن آتے تو مغرب کے سامنے قبائل

Page 23

۲۳ کج کے طواف کے لئے آتے.اس وقت آپ کو سب سے ملنے کا اور بنیام پہنچانے کا موقع مل جاتا.بچہ.اس وقت کفار مکہ کیا کرتے تھے.ماں.ولید بن مغیرہ نے سارے رؤساء قریش کو اپنے گھر بلایا.اور کہا کہ کوئی ایک بات کا فیصلہ کر لو کہ مجھ پر آنے والوں سے کیا کہا جائے گا.اگر کوئی کچھ کے اور کوئی کچھ کہے گا تو ہم ذلیل ہوں گے.اور محمد کو سب مظلوم اور سچا جائیں گے.ایک نے کہا کہ ہم کہہ دیں گے کہ یہ جھوٹا آدمی ہے.ولید نے کہا کہ ہم میں پیدا ہوا.بڑھا ، پھر جوان ہوا اور اب بوڑھا ہورہا ہے.ہم تو اس کو صدیق کہتے ہیں.اب کیسے جھوٹا ہو گیا.کون ہماری بات مانے گا.بچہ.یہ بات ہوئی نا.ہمیشہ سچ بولنے والے کو اگر کوئی چھوٹا کہے توسب کہنے والے کو چھوٹا سمجھتے ہیں.ماں.دیکھا.اس لئے کہتی ہوں کہ ہمیشہ پہنچ بولنا چاہیئے.پھر ایک بولا کہ ہم کہیں گے کہ کا ہن ہے.ولید بن مغیرہ نے کہا کہ کاہنوں کی طرح ہاتھ جلانا ، گنگنانا کہاں سے دکھاؤ گے.ایک نے کہا کہ کہہ دیں گے کہ مجنون ہے.ولید نے کہا کہ اس میں تو کوئی وحشت نہیں اضطراب نہیں.وہ تو بڑا پر سکون اور مسکراتا رہتا ہے.ایک نے کہا ہم کہ دیں گے کہ وہ ست عر ہے.ولید نے کہا کہ اس کے کلام میں اشعار والی بات کب ہے.ایک بولا پھر جادوگر کہ دیتے ہیں.ولید لولا

Page 24

۲۴ دہ کب جھاڑ پھونک کرتا ہے.نہ تو گر ہیں ڈالتا ہے نہ کھولتا ہے.سب ایک ساتھ بولے کہ کیا کہیں.ولید بن مغیرہ کہنے لگا یہی سوچ سوچ کر تو میں نے تم سب کو بلایا تھا مجھے توکوئی ایسی بات نظر نہیں آتی ہو ہم اس کے بارے میں کہ سکیں.آخر فیصلہ یہ ہوا کہ چلو ساحر کہ دیتے ہیں.کہ اس کا سحر نظر نہیں آتا لیکن وہ ماں کو بیٹے سے.میاں کو بیوی سے بھائی کو بھائی سے چھڑا دیتا ہے.بچہ.پھر تو سب نے آپ کو سر مشہور کر دیا ہوگا.ماں.جب حج کا وقت آیا تو سارے مکہ کے لوگوں نے آنے والے قبائل کو مل مل کہ ڈایا اور سمجھایا کہ ہمارے شہر میں ایک ساتھ ہے.تم اس کی بات نہ سننا بسنی اور گئے کام سے.ساتھ ہی آوارہ لڑکوں کو بھی لگا دیا کہ یہ جیب بات کرے تم سب شور کرنا شروع کر دینا تا کہ اس کی بات کسی کی سمجھ میں نہ آئے.اس طرح سارے عرب کے قبائل میں یہ بات پھیل گئی.بچہ.پھر تو پیارے آقا بہت اُداس ہوں گے.ماں.ہاں.اُداس بھی ہوتے تھے اور پریشان بھی.لیکن اپنے خدا کی رحمت سے مایوس نہیں تھے.آپؐ جب یہ حالات دیکھتے کہ نہ تو مکہ والے خود مانتے ہیں اور نہ کسی اور عرب قبائل کو ماننے دیتے ہیں ادھر ظلم سے بھی باز نہیں آتے تو آپ نے مسلمانوں سے کہا کہ جو بھی ہجرت کرنے کی طاقت رکھتے ہے وہ مکہ چھوڑ دے مسلمانوں نے پوچھا کہاں جائیں.آپ نے فرمایا جعبش کا بادشاہ انصاف پسند ہے.عیسائی ہے.اُس کی حکومت میں کوئی کسی پر

Page 25

۲۵ ظلم نہیں کر سکتا.بچہ.جلسہ کہاں ہے ؟ ماں.اب یہ علاقہ ایتھوپیا یا ابی سینیا کہلاتا ہے.براعظم افریقہ کے شمال مشر میں واقع ہے.جنوبی عرب کے بالکل مقابل پر ہے.دونوں کے درمیان بحیرہ احمر ہے.عرب کے ساتھ حبشہ کے تجارتی تعلقات تھے.یہ مہاجرین خشکی جنوب کی طرف سفر کرتے ہوئے شعیبہ کی بندرگاہ پر پہنچے تو اللہ تعالی کے فضل سے وہاں ایک سمندری جہاز روانگی کے لئے تیار تھا.یہ سب اگر میں سوار ہوئے اور وہ روانہ ہو گیا.بچہ.یہ کتنے لوگ تھے.اور یہ ہجرت کب ہوئی ، ماں.ان مقدس افراد میں حضرت عثمان بن عفان (اسلام کے تیسرے خلیفہ اور ان کی بیوی رقیہ رنبت رسول الله ) حضرت عبد الرحمن بن عوف.حضرت زبیر بن العوام ، حضرت عثمان بن مظعون (جن کی ایک آنکھ ضائع گئی تھی اور مصعب بن عمیر ( جن کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ہجرت سے پہلے تبلیغ کے لئے بھجوایا تھا.- بچہ.امی حضرت عثمان ، حضرت عبد الرحمن بن عوف ، حضرت زبیر به سب قریش کے طاقت ور قبائل کے لوگ تھے کیا ان کو بھی مارا پیٹا جاتا تھا ؟ ماں.بالکل اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ طاقتور پر اتنے ظلم ہوتے تھے تو کمزور تغریب، غلاموں اور لونڈیوں کا کیا حال ہوگا.اور ہجرت کے لیے

Page 26

۲۶ سفر و غیرہ کے اخراجات کی طاقت بھی تو یہی لوگ رکھتے تھے.غریب اور کمزور لوگ تو سفر بھی نہیں کر سکتے تھے.بچہ.حبشہ کے بادشاہ کا کیا نام تھا.حبشہ کا دارالحکومت کون سا تھا؟ مان.حبشہ کے بادشاہ کا نام اصحہ تھا لیکن یہ بادشاہ پنجاشی کہلاتے تھے.دار الحکومت اسکوم تھا.جو شہر مدوا کے قریب ہے.یہ ایک مقدس شہر کے طور پر آباد ہے.اس زمانے ہیں جیشہ ایک طاقتور اور مضبوط حکومت تھی یہاں پر مسلمانوں کو امن نصیب ہوا.بادشاہ نے بہت اچھا مسلوک کیا.بچہ.کیا مکہ کے لوگوں نے ان کا پیچھا نہیں کیا ؟ ماں.بالکل کیا تھا.لیکن جب تک یہ پیچھا کرتے ہوئے بندرگاہ پر پہنچے تو جہاز روانہ ہو گیا تھا.یہ ناکام لوٹے لیکن بہت غصہ آیا.کیونکہ یہ لوگ ہاتھ سے نکل گئے.پھر آہستہ آہستہ چھپ کہ دوسرے مسلمان بھی عیشہ جاتے رہے.اس طرح ہجرت کرنے والے افراد ۸۳ ہو گئے.بچہ.پھر ان کے سرداروں نے کیا ترکیب نکالی ہوگی.ماں.انہوں نے اپنے دو بڑے سردار عمرو بن العاص اور عبد اللہ بن ربیعہ کو درباریوں اور نجاشی شاہ جیش کے لئے قیمتی تحائف دے کر جیبشہ روانہ کیا.تاکہ بادشاہ کے پاس جاکر ان افراد کو واپس لاسکیں.بچہ.مخالف میں کیا چیزیں تھیں.ماں.ان میں زیادہ تر چمڑے کا سامان تھا.اس زمانے میں عرب اس صنعت میں

Page 27

۲۷ بہت مشہور تھا.انہوں نے درباریوں سے ملاقات کی انہیں تحفے دیے.بعد بتایا کہ ہمارے کچھ لوگوں نے جہالت کی وجہ سے اپنا پرانا مذہب اختیار کر لیا ہے.اور آپ کے شہر میں آگئے ہیں.ہم بادشاہ سے مل کر درخواست کر نا چاہتے ہیں کہ ان کو ہمارے ساتھ بھجوا دے درباریوں نے ان دونوں کی بادشاہ سے ملاقات کی وادی.بچہ.پھر کیا ہوا.ماں.دونوں نے وہ تمام تخالف جو بادشاہ کے لئے لائے تھے اس کو پیش کئے اور اپنی قوم کا پیغام دیا.بچہ.کیا بادشاہ نے ان کی بات مان لی.ماں.نہیں.بلکہ بادشاہ نے کہا کہ میں جب تک ان لوگوں سے مل کر ساری بات معلوم نہ کرلوں سر گنہ کوئی فیصلہ نہیں کروں گا.وہ میرے جہان ہیں.اور میری حکومت میں امن کی توقع پر آئے ہیں.پھر بادشاہ نے اپنے آدمی کو مسلمانوں کے پاس بھیجا اور انہیں دربار میں بلایا.بچھ.ایک اور مسئلہ کھڑا ہو گیا.ماں.سب سلمان اکٹھے ہوئے انہوں نے مشورہ کیا.کہ کیا کرنا چاہیئے.آخر فیصلہ ہوا کہ رسول خدا نے ہو تعلیم دی ہے وہ بتا دی جائے.پھر تو خدا و منظور ہو گا.دیکھا جائے گا.بچہ.پھر کیا ہوا ؟

Page 28

YA ا مال.مسلمان مہا جرین دربار میں حاضر ہوئے.بادشاہ نے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے کون سا دین تم لوگوں نے اختیار کیا ہے.یہ تمہارے لوگ بتا رہے ہیں کہ اس دین کی وجہ سے فتنہ اور فساد پھیل گیا ہے.بچہ.مسلمان تو سخت گھبرائے ہوں گے کہ اب کیا ہو گا.ماں.میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا ہے کہ جو لوگ سچے دل سے خدا تعالیٰ کی ذات پر ایمان لاتے ہیں ان کو کسی کا خون نہیں ہوتا.بلکہ وہ ہر معاملہ کو اپنے مولا پر چھوڑ دیتے ہیں.اور پھر اگر کوئی دکھ تکلیف اٹھانی بھی پڑے تو اپنے خدا کی رضا پر راضی رہتے ہیں.اور یہی خدا دالوں کی شان ہے.بچہ.امی جلدی بنائیے.پھر مسلمانوں نے کیا جواب دیا.ماں.پیاری جان احضرت جعفر بن ابی طالب نے ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی تھے مسلمانوں کی طرف جواب دیا.ا سے بادشاہ ہم جاہل تھے.بت پرست تھے.مردار کھاتے ، بدکاریوں میں مبتلا تھے.بے رحمی کرتے ہمسائیوں سے بدسلوکی کرنا.کمزور کا حق دیا لینا ہمارا طریق تھا.اللہ نے ہم میں اپنا رسول بھیجا جسکی شرافت ، صداقت امانت و دیانت کو ہم سب جانتے تھے.اس نے ہم کو ایک خدا کی پرستش (عبادت) سکھائی ، بت پرستی (مشرک) سے روکا سچائی ، امانت اور صلہ رحم کا حکم دیا.ہمسایوں سے اچھے سلوک ، بدکاری، جھوٹ اور تیموں کا مال کھانے سے منع کیا.آپس کی لڑائیاں جن سے بلا وجہ انسانی جانیں ضائع ہوتی نہیں روکا اور عبادت الہی کا حکم دیا.

Page 29

۲۹ انے بادشاہ ہم اس پر ایمان لائے.اس کی اطاعت کی.لیکن ہماری قوم ہم سے ناراض ہو گئی ہیں دکھوں اور مصیبتوں میں ڈالا.طرح طرح کے مظالم کمہ کے عذاب دیا.تاکہ ہم اس دین کو چھوڑ دیں.مجبوراً اپنے وطن کو چھوڑ کر آپ کے ملک میں پناہ لی.ہم امید کرتے ہیں کہ ہم پر آپ کے ملک میں ظلم نہیں ہو گا." بچہ.اچھا کیا کہ سب کچھ سچ سچ بتا دیا.بادشاہ نے کیا کہا ؟ ماں.جب انسان کو خدا کا خوف ہو تو وہ ہر خوف سے بے نیاز ہو جاتا ہے.بادشاہ صاف اور سچی باتیں سن کر متاثر ہوا.اس نے کہا کہ جو کلام تمہارے بنی پر اترا ہے.اس میں سے کچھ سناؤ.چنانچہ حضرت جعفر بن ابی طالب نے سورۃ مریم کی ابتدائی آیات خوش الحانی سے تلاوت کیں جن کو سن کر نجاشی کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے.اس نے رقت بھری آواز میں کہا کہ ور خدا کی قسم یہ کلام اور ہمارے سیع کا کام ایک ہی نور سے جاری ہونے والی کر نہیں ہیں.بچہ بادشاہ نے کفار کے وفد کو کیا جواب دیا.ماں.بادشاہ نے اُن کے تخالف واپس کر دیئے اور کہا کہ آپ لوگ واپس چلے جائیں.میں ان لوگوں کو آپ کے ساتھ نہیں بھیج سکتا.کیونکہ یہ بے قصور اور مظلوم ہیں.بچہ.پھر تو انہیں بہت غصہ آیا ہوگا.ماں.ہاں لیکن وہ آسانی سے جانے والے نہیں تھے.عمرو بن العاص دوبارہ

Page 30

بادشاہ سے ملے.اور اُسے بھڑ کانے کے لئے کہا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ حضرت مسیح کے بارے میں ان کا کیا عقیدہ ہے.بچہ.مسلمان تو حضرت میں کو خدا کا نبی مانتے ہیں اور عیسائی خدا کا بیٹا اس کی وجہ سے بڑا مسئلہ ہو گیا ہوگا.کیونکہ بادشاہ تو عیسائی تھا.ماں.بادشاہ نے جب دوبارہ مسلمانوں کو بلایا اور پوچھا کہ تم لوگوں کا حضرت سیچ کے بارے میں کیا عقیدہ ہے.تو حضرت جعفر نے بڑی جرات سے اور بہت دلیری سے بیان کیا کہ : " اسے بادشاہ مسیح اللہ کا ایک بندہ ہے.وہ خدا نہیں ہے لیکن خدا کا پیارا رسول ہے.جو خدا تعالیٰ کی حکمت کے تحت اس کی منشاء سے پیدا ہوا." بیچہ.کیا بادشاہ کو غصہ آگیا.ماں.بالکل نہیں.ایک بات ہمیشہ یاد رکھو.سچائی میں طاقت ہے اور وہ پہنچ جو خدا تعالیٰ کی شان کو ظاہر کرنے کے لئے بولا جائے.دلوں پر اثر کرتا ہے.اور یہی حال سنجاشی کا ہوا.وہ بہت متاثر ہوا پھر اس نے زمین پر سے ایک تنکا اٹھایا اور بول کہ خدا کی قسم ! جو کچھ تم نے کہا میرا بھی بالکل ہی ایمان ہے.اور اس تنکے جتنا بھی فرق نہیں.دربار کے پادری ناراض ہوئے.لیکن سنجاشی نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی اور قریش کا وفد نا کام واپس لوٹ گیا.بچہ.مہاجرین کب تک جلسہ میں رہے.ماں.کچھ افراد تو مدینہ کی ہجرت سے پہلے مکہ لوٹے.لیکن باقی صحابیہ اس وقت

Page 31

مدینہ آئے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جنگ خیر سے واپس آرہے تھے جنگ بدر، جنگ احد، جنگ نخندق ہو چکی تھیں.بچہ.یہ بادشاہ تو بہت نیک اور انصاف کر نے والا نکلا.اللہ تعالیٰ تو اس سے بہت خوش ہوا ہو گا.ماں.کیوں نہیں.اللہ تعالیٰ کا ایک اصول ہے.کہ وہ ان بندوں کو جو اس کی رض کی خاطر کوئی کام کرتے ہیں دنیا میں عربت دے کر اپنے پیار کا ثبوت دیتا ہے ایسا ہی اس بادشاہ کے ساتھ ہوا.پنجاشی کی اپنے دشمن کے ساتھ لڑائی ہوگئی مسلمان پریشان ہوئے.انہوں نے فیصلہ کیا کہ اگر بادشاہ کو ضرورت پڑی تو وہ بادشاہ کا ساتھ دیں گے.لیکن جنگ تو دریائے نیل کے یار ہو رہی تھی جیفرز زبیر بن العوام حالات معلوم کرنے لگے اور مسلمان خدا کے حضور دعاؤں میں لگ گئے کہ مولا اس یا دشاہ نے تو ہم یہ رحم کیا ہے تو اس کو مشکل اور انتہا سے بچا.چنانچہ چند دن بعد جب حضرت زبیر رضہ واپس آئے تو فتح کی خوشخبری بچہ.جو مسلمان مکہ میں رہ گئے تھے ان پر تو سختیاں بڑھ گئی ہوں گی.ماں.سختیاں تو بڑھ رہی تھیں.حضرت ابو بکر صدیق رض وہ واحد شخص تھے جن کی نفر عزت کرتے اور بات ماننے کے لئے تیار ہو جاتے تھے.کیونکہ ان کے احساس ہر قبیلہ ، ہر خاندان پر تھے.اور عرب قوم محسن کا بہت لحاظ رکھتی ہے.اس کے باوجود ان کو بھی تکلیفیں دی جاتی تھیں.لیکن حضرت ابوبکر صدا کو سب سے زیادہ دکھ اس بات کا تھا کہ یہ لوگ مجھے سکون سے خدا کی عبات نہیں کرنے دیتے.چنانچہ وہ ایک دن مکہ سے جنوب کی طرف برکی الغمار پینے

Page 32

٣٣ تو قبیلہ قارہ کا رئیس لاغنہ مل گیا.اس نے سفر کا سبب پوچھا تو آپ نے کہا کہ "مجھے قوم نے نکال دیا ہے میں ایسی جگہ جانا چاہتا ہوں جہاں آزادی سے خدا کی عبادت کر سکوں.“ این الاغنہ نے کہا کہ : و تخم کو مکہ نہیں چھوڑنا چاہیئے.اور نہ ہی مکہ کے لوگوں کو تم جیسے انسان کو نکالنا چاہیے.چلو میں تمہیں اپنی پناہ میں لیتا ہوں.مکہ میں ہی اپنے رب کی عبادت کیا کرو.“ بچہ.کیا حضرت ابو بکر صدیق رض واپس لوٹ آئے.مال - وطن سے کون جانا چاہتا ہے.ابن الاغنہ نے اصرار کیا تو لوٹ آئے.اس نے فرش کے دنیوں کی علامت کی کہ ایسے نیک اور اچھی صفات والے انسان کو کیوں نکالتے ہو.ادھر حضرت ابو بکر صدیق رض نے اپنے گھر کے صحن میں چھوٹی سی مسجد بنا بی.جس میں وہ نمازا در قرآن پاک پڑھا کرتے تھے.آپ کا دل بہت نرم تھا.اور قرآن پاک پڑھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے خوف سے کبھی اُس کے احسانات کی وجہ سے بہت رویا کرتے.بچہ.اس طرح تو لوگوں پر کلام پاک کا بہت اثر پڑتا ہوگا.اں.قرآن پاک کی سچائی کا ایک بڑا نبوت یہ ہے کہ یہ دلوں پر اثر کرتا ہے.قریش کی عورتوں، بچوں اور ان افراد پر جو سادہ طبیعت کے تھے جنہیں اسلام سے کوئی دشمنی یا تعصب نہ تھا بہت متاثر ہوتے.جب وہ حضرت ابو بکر ض کی کلام پاک پڑھتے ہوئے کیفیت دیکھتے تو ان پر بہت اللہ ہوتا.ایک اور

Page 33

م السلام وجہ یہ بھی تھی کہ آپ قریش میں بہت عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے اس کا بھی اللہ تھا.کہ معصوم افراد اسلام کی طرف راغب ہوتے.بچہ.کیا قریش اس بات سے خوش تھے کہ این الاغنہ کی وجہ سے حضرت ابو بکروی امان میں تھے.ماں.بالکل نہیں ! وہ ابن الاغتہ سے شکایت کرتے کہ ابوبکر اونچی آواز سے قران کریم پڑھتا ہے.جس کی وجہ سے عورتیں، بچے ، کمزور افراد نے دین کے فتنے میں پڑتے ہیں.تم نے اس کو پناہ دی ہے اب تم ہی رو کو کہ ایسانہ کیا کرے.بچہ حضرت ابوبکر صدیق رض سے ابن الاغنہ نے بات کی.ماں.کی مگر حضرت ابو بکر صدیق رضہ نے فوراً انکار کر دیا اور ابن الاغنہ کو جواب دیا کہ تم بھی مجھے عبادت سے روکتے ہو.تمہارا خیال ہے کہ تم نے مجھے پناہ دی ہے.اس لئے ایسا کہ رہے ہو.میں تمہاری پناہ واپس کرتا ہوں لیکن اپنا ایمان نہیں چھوڑ سکتا.مجھے میرے مولا کی پناہ کافی ہے.بچہ.پھر کیا ہوا.ماں.ہونا کیا تھا.قریش حضرت ابوبکر صدیق رض کو تکلیفیں دینے لگ گئے ، لیکن آپ بھی ایمان کے پکے اور خدا اور اس کے رسول سے سچی محبت کرنے والے تھے.اس لئے آپ کے قدم ذرہ بھر نہیں دگر گائے.بچہ.حضرت ابو بکر رض کے علاوہ کون سی اہم شخصیت ابتداء میں اسلام لائی ماں.حضرت عمر فاروق اور حضرت حمزہ رض دونوں ہی آگے پیچھے نبوت کے چھٹے

Page 34

سال میں مسلمان ہوئے.بچہ.یہ دونوں کیسے مسلمان ہوئے.ماں.دونوں کے ایمان لانے میں عورتوں کی قربانیوں کا حصہ ہے حضرت حمزہ ایک آزاد خادمہ اور حضرت عمرہ اپنی بہن فاطمہ بنت خطاب زوجہ حضرت سعید رم بن زید کی وجہ سے مسلمان ہوئے یہ واقعات نبوت کے چھٹے سال میں ہوئے.اور حضرت عمرہ آخری تھے جو دارا تم میں ایمان لائے.اب کھلے عام تبلیغ ہونے لگی.حضرت حمزہ رض روزانہ کے معمولات کے مطابق جب واپس آئے تو ایک لونڈی نے انہیں بتا یا کہ آج تو ابو جہل نے حد کر دی.تمہارے بھتیجے محمد کو بہت برا بھلا کہا.اور وہ ہمیشہ کی طرح خاموش رہا.پیسن کر حضرت حمز کا خون کھول گیا.فوراً صحن کعبہ میں گئے.جہاں ابو جہل لوگوں میں بیٹھا باتیں کر رہا تھا.آپ نے اس کے سر یہ کمان ماری اور بولے کہ میں بھی محمد کے دین پست ہوں.اگر ہمت ہے تو مجھ سے مقابلہ کرو.چند آدمی اس کی حمایت میں اُٹھے لیکن ابو جہل نے آپ کے تیور دیکھ کر سب کو روک دیا.بولا، واقعی مجھ سے غلطی ہوئی.اور یہی واقعہ آپ کے اسلام لانے کا سبب بنا.اسی طرح حضرت عمر فاروق ضم نے ارادہ کیا کہ روز روز کے جھگڑے سے بہتر ہے کہ محمد ہی کا خاتمہ کر دیا جائے چنانچہ وہ تلوار لے کر چلے اپنے میں اطلاع ملی کہ آپ کے بہن اور بہنوئی مسلمان ہو چکے ہیں غصے سے بھرے ہوئے بہن کے گھر میں داخل ہوئے اور بہنوئی پر جھپٹ پڑے.لیکن بہن

Page 35

۳۵ درمیان میں آئی تو وہ بھی زخمی ہوگئیں لیکن دلیری سے بولیں کہ جونم کرنا چاہو کر لو.مگر ہم نے جس دین کو قبول کیا ہے اس کو نہیں چھوڑیں گے.آپ نے بہن کو زخمی حالت میں دیکھا تو بے قرار ہو گئے.بولے تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے.جب قرآن پاک کی سورۃ خلط کی ابتدائی آیات سنیں تو اسی وقت اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا.اور دارا تم میں جاکر کلمہ پڑھ لیا یوں دونوں جلیل القدر صحابیوں کے مسلمان ہونے میں عورت کا حصہ ہے.خدا ان پر رحمت کرے.بچہ.اب تو مسلمانوں کو شبہ ہی خوشی ہوئی ہوگی.ماں.بہت زیادہ.حضرت حمزہ کے مسلمان ہوتے ہی حضرت ابو بکر صدیق رض نے صحن کعبہ میں توحید کا اعلان کیا.اور حضرت عمر رض کے مسلمان ہونے سے مسلمانوں کو اتنی تقویت ملی کہ کعبہ کے پاس نماز پڑھنے لگے.یہ نبوت کے چھٹے سال کے آخری ماہ کا واقعہ ہے.آپ کے اسلام لانے کے کچھ ہی عرصے بعد آپ کے بیٹے عبداللہ بن عمروف بھی مسلمان ہو گئے.یہ اُس وقت بچہ ہی تھے اُس وقت تک مسلمان مردوں کی تعداد چالیں تھی.بچہ - اب تو کفار مکہ کا غصہ بڑھ گیا ہو گا.ماں.انہیں فکر ہوگئی کہ اب تو عض چوٹی کے رئیس بھی ایمان لا رہے ہیں.آپس میں مشورہ کیا کہ ایک اور کوشش کریں.چنانچہ عقبہ بن ربیعہ کو آپ کے پاس بھیجا کہ وہ آپ کو تبلیغ سے بروکنے کی کوشش کریں.لیکن جب دیکھا کہ علبہ بھی آپ کی ذات اور تعلیم سے متاثر ہورہے ہیں تو پھریں کہ مشورہ کیا.تمام

Page 36

سردار ولبدین مغیره - عاص بن وائل ، ابوجهل ، امیہ بن خلف ، عتبه شید اور ابوسفیان کے علاوہ اسود بن مطلب ، نظر بن حارث اور ابو لبختری صحن کعبہ میں جمع ہوئے اور صلح کے انداز میں بات کرنے کے لئے ایک آدمی کے ذریعے پیارے آقا کو پیغام بھیجا کہ " ہماری ایک بات من جاؤ.“ آپ تو ایسے موقعوں کی تلاش میں رہتے تھے.فوراً آئے کہ اللہ تعالیٰ کا پیغام دینے کی کوئی صورت نکل آئے.لیکن ان بدنصیبوں نے بات یوں شروع کی.اے محمد تمہاری وجہ سے قوم میں اختلاف بڑھ رہا ہے تم اپنے آباء اجداد کے مذہب میں برائیاں دکھا کر بزرگوں کو برا کہتے ہو.تہوں کو گالیاں دیتے ہو ہم حیران ہیں کہ کیا کریں.اگر تمہاری ساری کوشش یہ ہے کہ تم مالدار ہو جاؤ تو تمہیں مال جمیع کر دیتے ہیں.تم سب سے زیادہ مالدار ہو جاؤ گے.اگر عزت چاہتے ہو تو ہم سب تم کو اپنا سردار بنا لیتے ہیں.اگر حکومت کی طلب ہے تو بادشاہ مان لیتے ہیں.اگر تمہیں کوئی بیماری ہے جیس کی وجہ سے تم ایسی غلط باتیں کرنے لگ گئے ہو تو اپنے پاس سے علاج کر وا دیتے ہیں.اگر خوبصورت لڑکی چاہتے ہو تو عرب کی بہترین لڑکی تلاش کہ دا دیتے ہیں.لیکن تم اس نئے دین کی تبلیغ سے باز آجاؤ.بچہ.پیارے آقا نے جواب میں کیا فرمایا.ماں.آپ نے بڑے تحمل سے فرمایا.اسے قریش کے سردارد ! مجھے ان چیزوں میں سے کسی کی بھی ضرورت نہیں ہیں تو خدا کی طرف سے ایک رسول ہوں.اور اسی کا پیغام تم کو سنانا ہوں.مجھے اپنی قوم سے ہمدردی ہے.اگر

Page 37

میری بات مان جاؤ تو دین ودنیا میں تمہارا ہی فائدہ ہے.نریش بولے ، اچھا ایک اور تجویز ہے کہ تم اپنے خدا سے کہہ کہ ہمارے خشک پہاڑی علاقے کے ملک کو حبس میں پانی اور سبزہ کم ہے.شام اور عراق کی طرح کا زرخیز اور ہرا بھرا علاقہ بنوا دو.آپ نے فرمایا : میرا کام تو صرف یہ ہے کہ تم کو سچائی کی راہ دکھا دوں.ہاں خدا تعالیٰ اگر چاہے تو تمہارے ایمان لانے کے بعد وہ اپنے فضل سے ایسا کر سکتا ہے.قریش پولے : اچھا کم از کم ایسا تو ہو کہ تمہارے ساتھ فرشتہ ہوں، محل میں رہو، اور سونے چاندی کے ڈھیر تمہارے پاس ہوں.لیکن تم تو ہماری طرح بازاروں میں پھرتے اور کام کرتے ہو.خدا کے نبی کیسے ہو گئے.پیارے آقا نے بڑے دکھ سے کہا.کہ میں یہ تو دعوی نہیں کر نا کہ میں سونا چاندی دینے آیا ہوں بلکہ میں تو خدائے واحد کی طرف سے بلانے آیا ہوں میں پھر تم کو کتنا ہوں کہ اگر مان لو گے تو ضرور اس کی رحمت سے حصہ پاؤ گے.اب تو قریش بگڑ گئے.بولے اچھا جس عذاب سے ڈراتے ہو اُسی کو لے آؤ.آسمان سے فرشتوں کی فوج بلا لو.خدا کی قسم اب تو یہی نظر آتا ہے کہ یا موسم رہیں گے یا تم رہو گے.بچہ.پیارے آقا کو بہت افسوس ہوا ہوگا.ماں.جی بیچے ! آپ دکھی دل کے ساتھ لوٹ گئے کہ کیسے ان کو سمجھاؤں یہ توڑی ! عجیب باتیں کر تے ہیں.خدا ان سب باتوں سے پاک اور بے نیاز ہے اور وہ قادر خدا جانتا ہے کہ منکرین سے کب اور کیا سلوک کرنا ہے.

Page 38

۳۸ بچہ.کیا ان لوگوں پر پیارے آقا کے دکھ کی حالت کا بھی اثر ہوتا تھا.اللہ میاں ان کے دل میں خوف اور ڈر نہیں پیدا کرتا تھا.ماں.پیار سے آقا کو دکھ میں دیکھ کر تو یہ حالم خوش ہوتے تھے لیکن بہت سے ایسے مواقع آئے جب خدا نے انہیں خوف زدہ کیا.جس کا اظہار بھی وہ کرتے رہے.مگر جب انسان فیصلہ کر لے کہ میں نے نہیں ماننا اور مخالفت ہی کرنی ہے تو وقتی اثر تو ہوتا ہے لیکن پھر وہی بے خوفی طاری ہو جاتی ہے.بیچہ.کوئی واقعہ بتائیے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں ڈرایا ہو.ماں.جب پیارے آقا کفار کے رئیسوں سے ملاقات کے بعد لوٹے.تو ابو سہیل نے کہا کہ دیکھا اس نے ایک بات بھی نہیں مانی.واللہ اب میں چین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک اس کا سر نہ کچل دوں.جو لوگ وہاں موجود تھے سوائے چند شریفوں کے سب کے کہا ہمیں کوئی اعتراض نہیں.پھر کیا تھا ابو جہل ایک بڑا پتھر لے کر صحن کعبہ میں کھڑا ہو گیا اور آپ کا انتظار کرنے لگا.آپ آئے اور نماز میں مصروف ہو گئے.وہ پتھر لے کر بڑھا لیکن خوف زدہ ہو کہ بلڈ.پھر اس کے ہاتھ سے گر گیا.وہ اپنے لوگوں میں لوٹا جو اس منتظر کو بہت شوق سے دیکھ رہے تھے.انہوں نے پوچھا کہ کیا ہوا ہے وہ بولا ایک طاقتور اور خوفناک اُونٹ میری طرف بڑھا اور مجھے کھا جانا چاہتا تھا.کہ میں پلٹ آیا.بچہ.پھر بھی ابو جہل کو احساس نہ ہوا.

Page 39

۳۹ ماں.دین کو قبول کرنا بھی انسان کی طاقت میں نہیں ہوتا.یہ بھی خدا کے فضل اور رحمت سے ہوتا ہے.یہ تو تھا ہی بدنصیب کیونکہ اس کی فطرت میں نیکی اور پاکیزگی نہیں تھی.پھر اس کو اسلام کی لذت کیسے ملتی.بچہ.کیا کفار مسلسل السلام کے خلاف پروگرام بناتے رہتے تھے.ماں.جھگڑا تو ختم نہیں ہوا تھا مسئلہ تو چل رہا تھا.یا تو را عرب مسلمان ہو جاتا.یا پھر کفار اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جاتے لیکن خدا تعالیٰ نے اس دنیا میں ہی جہنم کا سامان کر دیا.کہ وہ اسلام کی ترقی دیکھ کر حسد کی آگ میں جلتے رہے.بدقسمت تھے.دل کی تسلی کے لئے ان کو ایک فضول بات سوجھی کہ محمد کا کوئی بیٹا نہیں ہے.ان کا مذہب ان کی زندگی تک چلے گا.بعد میں کون اس کو پھیلائے گا.اس بات سے کچھ نسلی ہو جاتی.آپس میں کہتے کہ محمد تو ابتر ہے (بے اولاد ہے) اس کا سلسلہ خود مٹ جائے گا.اس لئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں.ہ.لیکن اُمی پیارے آقا کا واقعی کوئی بیٹا زندہ نہیں رہا.لیکن سارے مسلمان آپ کے بیٹے ہیں.اسلام تو آج تک زندہ ہے.اور ہر مذہب کا مقابلہ بھی کر رہا ہے.اس کی سچائی مسلسل پھیل رہی ہے.ماں.اسی لئے تو خدا تعالیٰ نے سورۃ کوثر نازل فرمائی کہ محمد کو تو ہم نے کوثر عطا کی ہے.کوثر کا مطلب ہے ایسی نہر جس کا پانی کبھی خشک نہیں ہو گا.یہ سلسلہ جاری رہے گا.اور قیامت تک قائم رہے گا.لیکن اس کے دشمن آبتر رہیں گے.اور تاریخ سے ثابت ہے کہ دشمنوں کی نسلوں کو خدا نے مٹادیا.اور

Page 40

وہی بیچے جو اسلام لے آئے.اسلام سے وابستہ ہو کر زندگی پائی.مثلاً ابو جہل کا بیٹا عکرمہ (فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے) ولید کے بیٹے خالد (جنگ احد کے بعد) مسلمان ہوئے.بچہ واقعی امی خدا والوں کی دنیا بھی کمال دنیا ہے.ماں.پھر کفار مکہ نے اسلام کا مقابلہ کرنے کی ایک اور ترکیب نکالی روسائے قریش ولید بن مغیرہ ، عاص بن وائل.اور امیہ بن خلف مشورے کے بعد پیارے آقا کے پاس آئے کہ محمد ایسا کرتے ہیں کہ ہم مل جل کر عبادت کر لیں کبھی تم ہمارے بتوں کو پورج لو کبھی ہم تمہارے خدا کو سجدہ کر لیں.اس طرح صلح بھی ہو جائے گی اور قوم بھی منتشر ہونے سے بچ جائے گی.بیچه - کمال بات سوچھی.آپ نے کیا جواب دیا.ماں.پیارے آقا مسکرائے.فرمایا وہ آپ لوگ ذرا غور کریں جب میں ایک خدا پر ایکان رکھتا ہوں تو اتنے سارے معبودوں کو کیسے پوج سکتا ہوں.کیسے ان کے آگے جھک سکتا ہوں.اور آپ جو بت پرستی پر قائم ہیں بھلا کس طرح میرے خدا کی عبادت کر سکتے ہیں.عبادت کا تعلق تو دل ہے ہے.جب دل ہی نہ مانے تو عبادت کیسی.مھیر خدا تعالیٰ کو بھی آپ کی یہ بات پسند آئی اور ان ہی دنوں میں سورۃ الکافرون نازل ہوئی جس کی ایک آیت کا مطلب ہے تمہارا بین تمہارے لئے اور میرا دین میرے لئے ، یہ دونوں کبھی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے.

Page 41

ام بچہ کفار مکہ نے جو بھی تجویز پیش کی وہ اس قابل نہ تھی کہ اس پر عمل ہوسکے لیکن وہ تو یہ سوچتے ہوں گے کہ محمد نے ہماری کوئی بات نہیں مانی.ماں.ماشاء اللہ بالکل یہی بات ہے.پہلے انہوں نے حضرت ابو طالب - سامنے کئی باتیں رکھیں پھر اس میں ناکامی کے بعد وہ بار بار پیارے آ سے بات کرتے رہے اور ہر بار انکا ر ہی ہوا.ہجرت حبشہ سے بھی انکے وقد نا کام اور شرمندہ لوٹا.اور سب سے زیادہ صدمہ یہ کہ قریش کے بڑے بڑے سردار بھی اسلام قبول کرنے لگے.اور ان کی کوئی بھی کوشش کوئی لالے ان کو روک نہیں رہی تھی.اسلام کی ترقی ان کے لئے عذاب جار گئی.ہر قبیلہ نے اپنے اپنے آدمیوں کو مظالم کا نشانہ بنا کر دیکھ لیا.وہ چٹان کی طرح جمے رہے.اب تو اُن کا غصہ سخت بھڑک اٹھا.اور انہور نے فیصلہ کیا کہ صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ حضرت ابو طالب کے پور قبیلہ بنو ہاشم کو بھی سزا دینی چاہئیے.جو را بر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کار دے رہے ہیں.چنانچہ محرم سے نبوی کو ایک باقاعدہ معاہدہ لکھا گیا.کہ بنو ہاشم، بیتو مطلب اور سلمانوں سب سے ہر قسم کی تجارت اور تعلقات توڑ لئے جائیں اور ان کو بالکل الگ کر دیا جائے.اس معاہدے پر بڑے بڑے سرداروں کے دستخط تھے.اس کو خانہ کعبہ کی دیوار کے ساتھ لٹکا دیا اور بنو مطلب میں سے سوائے ابو لہب کے مسلمان مشترک سب بنو ہاشم کے ساتھ شعبہ ابی طالب میں قید کر دیئے گئے.

Page 42

تہ.پھر تو می بڑی مشکل ہو گئی ہوگی کھانے پینے کی.پیارے آقا کا کیا حال تھا.ں.ظاہر ہے کہ جب قید کر دیا.تو کیا ہوسکتا تھا.کوئی بھی چیز یہ ظالم اندر نہیں جانے دیتے تھے.باقاعدہ دھیان رکھتے تھے کہ کوئی ان کو ضرورت کا سامان نہ پہنچا دے.بہت ہی تکلیف اور مصائب کے دن تھے.جو بھی چیز ملتی کھانی پڑتی بعض اوقات تو بھوک کی شدت سے یہ بھی معلوم نہ ہوتا کہ کیا کھارہے ہیں.زمین سے کچھ ملا، اٹھایا اور منہ میں ڈال لیا سوکھا چھڑا پانی میں بھگو کہ تم کیا کہ چہایا جاسکے.بچوں کی چیخ و پکار دور تک شنائی دیتی اور یہ ظالم نوش ہوتے.ہ.کیا سارے کفار میں کوئی بھی ایسا رحم دل نہ تھا جن کوان تکلیفوں کا احساس ہوتا.ں.سارے انسان تو ایک جیسے نہیں ہوتے جس طرح سب انسان نرم مزاج کے نہیں ہوتے اسی طرح سب ظالم بھی نہیں ہوتے.قریش میں بھی بہت سے لوگ اس ظلم کے خلاف تھے.لیکن اپنے سرداروں کے خوف کی وجہ سے چپ تھے کہ کون قبیلہ کی دشمنی مول نے.کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اندر اندر چھپ چھپا کر کچھ کچھ پہنچا دیتے.ان میں حکیم بن حزام حضرت خدیجہ کے بھتیجے تھے.وہ کھانا لے جاتے.ایک دفعہ ابو جہل کو پتہ چل گیا.بڑا جھگڑا ہوا اور مارپیٹ کی نوبت آئی ، بچہ.آخر کب تک یہ قید رہے.درمیان میں کبھی بھی باہر نہیں آئے ؟ تھوڑی دیر کے لئے بھی نہیں ؟

Page 43

ماں.یہ ظلم تقریبا تین سال تک جاری رہا.صرف حج کے دنوں میں جب امن ہوتا.یہ باہر نکل سکتے تھے.اور اس وقت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مختلف قبائل اور باہر سے آئے ہوئے وفود کے پاس جاکر دین کی تبلیغ کرتے.اس طرح کچھ نہ کچھ عرب میں اسلام کی تعلیمات پھیل رہی تھیں..یہ معاہدہ آخر کب تک چلا.ماں.اس میں بھی خدا تعالیٰ کی قدرت نظر آتی ہے.اللہ تعالیٰ نیک فطرت لوگوں کے دلوں میں رحم پڑھا رہا تھا.اور وہ اندر ہی اندر ایک دوسرے کو شرم دلاتے بغیرت دلاتے اس ظالمانہ معاہد سے کے خلاف بولتے ایک دن خدا تعالے نے اپنے پیارے کو بتایا کہ جو معاہدہ لکھا گیا تھا.اس کو دیمک کھا گئی ہے.صرف اللہ کا لفظ باقی رہ گیا ہے.آپ نے اپنے چچا حضرت ابو طالب کو بتایا کہ میرے اللہ نے مجھے یہ خبر دی ہے حضرت ابو طالب اُسی وقت اُٹھے اور خانہ کعبہ میں پہنچے جہاں اور بہت سے قریش مجلس لگائے بیٹھے تھے.آپ نے اُن لوگوں کو مخاطب کیا کہ آخری ظالمانہ معاہدہ کب تک چلے گا.اللہ تعالیٰ نے اُسے ختم کر دیا ہے.محمد کے اللہ نے اس کو بتایا ہے کہ معاہدے کو دیمک چاٹ گئی ہے.میں چاہتا ہوں کہ اس کو نکال کر دیکھو محمد کی بات کہاں تک پہنچ ہے.آپ کو خود تو یقین تھا ہی کہ ایسا ہی ہوگا.لیکن خدا تعالیٰ کی خبروں کی اطلاع اب کفار کو بھی دینا چاہتے تھے.بعض لوگوں نے جن کے دل پہلے ہی اس کے خلاف تھے بولے ضرور

Page 44

بوم کام دیکھنا چاہیے.اور بعض افراد جن میں ہشام بن عمرو زہیر بن ابی امیہ ، مطعم بن عدی، ابو الخیری اور زمعہ بن اسود نے مل کر تجویز دی کہ اب اس کو ختم کر دیا جائے.جب یہ بات قریش کے سرداروں کے سامنے ہوئی تو ابو جہل بھڑک اٹھا.بولا نہیں.یہ معاہدہ قائم رہے گا.اتنے میں معاہدہ دیکھا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی تصدیق ہوگئی.سوائے لفظ اللہ کے کچھ بھی باقی نہ تھا مطعم بن عدی نے ہاتھ بڑھا کر اس کو پھاڑ دیا.ابو جہل اور اس کے ساتھی دیکھتے رہ گئے.اس کے ساتھ ہی معاہدہ بے اثر ہو گیا.قریش کے بااثر لوگ ہتھیار لگا کہ گئے اور ان تمام مقدس افراد کو جنہوں نے صرف اور صرف خدا کی خاطر یہ قید ، ظلم، بھوک پیاس اور تکلیفیں مبر داشت کیں تھیں باہر نکال لائے.بچہ.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ یہ ظلم تو ختم ہوا.اللہ پاک اپنے پیاروں کا کتنا ساتھ دنیا ہے.ان تین سالوں میں اللہ تعالیٰ نے ان ہی لوگوں کو اس معاہدے کے خلاف کر دیا.پھر اس کو دیمک جیسا چھوٹا سا کیڑا چاٹ گیا.اور اس دوران حج میں تبلیغ بھی جاری رہی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر وقت ایک ہی لگن رہی.اور جب بھی موقع ملتا آپ اپنا کام کرتے.کوئی خوف خطر نہ تھا.ماں.ان دنوں میں ایک اہم واقعہ ہوا.کفار مکہ نے کہا کہ اگر آپ سچے ہیں تو کوئی معجزہ دکھائیں.آپ نے چاند کی طرف انگلی اُٹھائی تو اس کے دو ٹکڑے الگ الگ دکھائی دیئے.یہ حیران کر دینے والا معجزہ تھا جس کا ذکہ قرآن

Page 45

۴۵ پاک کی سورہ قمر کے پہلے رکوع میں آتا ہے.بچہ.پھر تو اُن کو مان لینا چاہیئے تھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دین سچا ہے اور جس خدا کی طرف وہ بلاتے ہیں وہ طاقت وہ قدرت والا خدا ہے.ماں.میں نے کئی دفعہ ذکر کیا ہے کہ دین کو ماننے کے لئے فطرت کی نیکی کی ضرورت ہوتی ہے جو ان شریر وں میں نہ تھی.یہ تو صرف ہنسی مذاق اُڑانے والے تھے انہیں خدا کا کیا خوف وہ تو کہنے لگے ہم نہ کہتے تھے کہ محمد جادوگر ہے.میں یہاں تھوڑی وضاحت کہ دوں خواب کی تعبیر کے لحاظ سے چاند سے مراد بادشاہ اور حاکم ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے انہیں خبردار کیا کہ اب تمہاری بادشاہت اور سرداریاں عرب سے ختم ہونے والی ہیں.پھر عربوں کا قومی نشان بھی چاند تھا جس سے خدا تعالیٰ یہ بتانا چاہتا تھا کہ اب تمہاری بادشاہت ختم ہوگئی.اب نیا اسلامی نظام قائم ہو گا.قرآن پاک میں اقتربت ہے الساعة آیا ہے یعنی قیامت کی گھڑی قریب ہے.یہ واقعہ 9 نبوی میں ہوا بیچہ.بچہ کیسے نادان لوگ ہیں کہ دیکھتے ہیں مگر مانتے نہیں اتنا بڑا نشان دیکھ کر تو مان ہی جانا چاہیئے تھا.ماں.صرف یہی نہیں اللہ تعالیٰ تو مسلسل پیارے آقا کے ساتھ اپنے تعلق کو ظاہر کر رہا تھا نہ نبوی میں پیارے آقا کو دو زبر دست صدمے پہنچے.آپ کے چھا حضرت ابو طالب اور آپ کی پیاری ہیوی حضرت خدیجہ کی وفات ہوگئی.ه سيرة خاتم النبيين حصہ اول ص ۲۲۵

Page 46

شعب ابی طالب کی سختیاں تین سال تک برداشت کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا.ڈھنگ کا کھانا پینا نہ ہونے کی وجہ سے سب کی صحتیں خراب ہو گئیں تھیں اور یہ دونوں مستیاں تو چل ہی نہیں بچہ.پیارے آقا کو بڑا دکھ ہوا ہو گا.ماں.دکھ ہی کی بات ہے اتنی محبت و شفقت کرنے والے چا چنہوں نے باپ کی طرح پالا.ساری زندگی آپ کے لئے سہارا بنے رہے.سارے قبیلہ قریش سے دشمنی مول لے لی لیکن پیارے بھتیجے کا ساتھ نہ چھوڑا.یوں اپنے باپ کی وصیت کو بھی پورا کر دیا.وفات کے وقت اُن کی عمر انٹی سال سے زائد تھی.اور حضرت خدیجہ جیسی دکھ درد کی ساتھی جس نے اپنا سب کچھ آپ پر قربان کرد یا اپنی ساری دولت، نوکر، نوکرانیاں سب کچھ چھوڑ کر نفرت اور سادگی میں زندگی گزار دی.نبوت کی سب سے پہلے گواہی دی.ہر معاملہ یں تسلی دی ہیں.حوصلہ بڑھائیں آرام وسکون کا خیال رکھتیں.یہ ساری قربانیاں حضرت خدیجہ کی پیارے آقا کو یاد آہیں اور بے قرار کر دیتی تھیں.وفات کے وقت آپ پینسٹھ سال کی تھیں.ان دونوں غموں کی وجہ سے آپ نے ، نبوی کے سال کو عام الحزن یعنی عموں کا سال قرار دیا.بچہ.اب تو ہمارے پیارے آقام بالکل اکیلے رہ گئے.حضرت ابو طالب تو ہر موقع پر درمیان میں آجاتے تھے.اب تو مخالفین کا ہا تھ کھل گیا ہوگا.

Page 47

ماں.پیاری جان ! یہ سب تو وقتی سہارے ہوتے ہیں.اصل سہارا تو خدا تعالیٰ ) ذات ہے اور جو خدا کا ہو.اور جس کا خدا ہو.وہ ان دکھوں کو بڑے ہونہ ہمت اور صبر سے برداشت کرتے ہیں.اور پھر خدا بھی ان کو دکھاتا ہے کہ میں اُن کے ساتھ ہوں.ان ظالموں کے حوصلے بے شک بڑھ گئے.اب انہوں نے براہ راستہ پیارے آقا کو مظالم کا نشانہ بنانا شروع کر دیا.ایک دن آپ راستے پیر جارہے تھے تو ایک شہری نے سر پر خاک ڈال دی.صحن کعبہ میں سیدہ میں تھے تو ابو جہل کے کہنے پر عقبہ بن ابی محیطہ نے اونٹی کی بچہ دانی کمر پر رکھ دی.جو گندگی اور خون سے بھری ہوئی تھی اور آپ بوجھ سے اُٹھ نہ سکے تو حضرت فاطمریضہ نے آکر اس کو اٹھایا.اور سارے بد نصیب سنتے اور قہقہے لگاتے رہے.بچہ.پہلے تو آپ پریشان ہو کہ جب گھر آتے تھے تو حضرت خدیحہ انسلی دینی تعقید اب تو گھر میں بھی آپ اُداس رہتے ہوں گے.ماں.یہ تو تھا لیکن اپنے پیاروں کے سارے کام خدا ہی کرتا ہے.اس نے ہی آر کے لئے ایک اور ہمدردو غمگسار، محبت کرنے والی بیوی چن لی.پیارے آ نے خواب میں دیکھا کہ حضرت جبرائیل نے ایک سبز ریشمی رومال دیا بھی حضرت عائشہ بنت ابو بکر صدیق رض کی تصویر بنی ہوئی تھی.اور کہا کہ یہ آپ کی بیوی ہے دنیا اور آخرت میں بھر خدا تعالیٰ نے خود ہی شادی کا پیغام بھیجنے کا سامان کر دیا.کچھ عرصے بعد خولہ زوجہ عثمان بن مظعون آپ کو

Page 48

خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں کہ یا رسول اللہ آپ شادی کیوں نہیں کر لیتے.آپ نے فرمایا.کس سے کروں.بولیں یا رسول اللہ آپ کے دوست حضرت ایو کرینہ کی بیٹی عائش یہ بھی ہے.آپ کے خادم مکران بن عمرو کی بیوہ سودہ بھی اچھی ہیں.آپ نے فرمایا " اچھا تم دونوں جگہ بات کرو.اور 16.خدا کا کہنا یا ہوا کہ دونوں کے عزیز راضی ہو گئے.چنانچہ شوال سنہ نبوی میں آپ کا دونوں کے ساتھ نکاح ہوا.دونوں بیویوں کا مہر چار چار سو درہم مقرر ہوا.حضرت سودہ تو رخصت ہو کہ آپ کے گھر گئیں لیکن حضرت عائشہ کی عمر ابھی سات سال تھی اس لئے وہ ماں باپ کے گھر ہی رہیں.بچہ اللہ کاشت کر رہے آپ کے گھرمیں بچوں کو سنبھالنے والی اور آپ کا خیال رکھنے والی آگئیں.اب آقام کی تبلیغ کا حال سنائیں.ماں.تبلیغ تو ہر حال میں جاری تھی.شعب ابی طالب میں قید ہونے کے با وجود آپ حج کے دنوں میں مختلف قبائل کی قیام گاہوں میں جا کہ اسلام کا پیغام پہنچاتے.عکاظ میں میلہ لگا کرتا تھا آپ میلے میں اس لئے جاتے کہ وہاں لوگ ہوں گے جن سے خدائے واحد کی بات کر سکیں گے.مجھے مجھے کفارہ ملکہ بھی اپنی کوششیں کرتے رہتے تاکہ آپ کی بات کوئی نہ مٹنے یجب شعب ابی طالب کا محاصرہ ٹوٹا تو آپ نے فیصلہ کیا کہ مکہ سے باہر نکل کہ قریب کی آبادیوں میں قسمت آزمائیں.مکہ والے تو اللہ کی رحمت پر اپنے دروازے بند کر لیتے تھے.اللہ کی زمین وسیع ہے.آپ نے فیصلہ فرمایا کہ طائف چلیں

Page 49

۴۹ طائف ایک شہر ہے جو مکہ سے جنوب مشرق میں چالیس میل کے فاصلے پہ ہے.یہاں قبیلہ بنی ثقیف کے آباد تھے.ان میں بڑے بڑے سردار اور میں بھی تھے.طائف کے سفر میں آپ کے ساتھ آپ کے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ بھی تھے.یہ سنہ نبوی کا واقعہ ہے آپ طائف میں دس دن تک شہر کے بڑے بڑے رئیسوں اور سرداروں کو باری باری ملاقات کرتے اور خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچاتے رہے لیکن وہ اپنی دنیا داری میں اتنے مگن تھے کہ آپ کی بات کو مہنسی مذاق میں اڑا دیتے اور سنجیدگی سے غور ہی نہ کرتے کہ آپ کس نعمت کی طرف میلا رہے ہیں.بچہ.آپ نے بتایا تھا کہ ہر نبی کی قوم اس کی مخالفت کرتی ہے.ماں.یہ مخالفت نبی کی سچائی کی دلیل بھی ہوتی ہے.سرداروں کی دعوت الی اللہ کے سلسلے میں آپ سب سے بڑے رئیس عبدیالیل کے پاس تشریف لے گئے.وہ بہار میں بھی تھا اور بڑا بد نصیب بھی تھا.آپ کی دعوت من کمر بون اگر آپ سچے ہیں تو مجھے بات کرنے کی طاقت نہیں اور اگر جھوٹے ہیں تو مجھے بات کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ، ساتھ ہی یہ بھی مشورہ دیا کہ آپ یہاں سے چلے جائیں.آپ کی بات کوئی سنے گا.پھر یہ ظلم کیا کہ شہر کے آوارہ لڑکے آپ کے پیچھے لگا دیئے.لڑکوں نے پھروں سے جھولیاں بھر لیں اور شور مچاتے گالیاں دیتے آپ کے پیچھے ہو لئے.شہر سے باہر تین میل تک وہ پتھر مارتے ہوئے چلے گئے بینچھر وں سے آپ زخمی ہو گئے.جگہ جگہ سے خون بہنے لگا.خون ہی یہ کہ آپ کے جوتے بھر گئے.

Page 50

بچہ.یہ تو بہت برا ہوا کیسے لوگ تھے جو نیکی اور بھلائی کی باتیں نہ سُنتے تھے نہ منے دیتے تھے.بلکہ انا دکھ دیتے تھے.پیارے آقا ان سے کچھ مانگتے تو نہیں تھے.دیتے ہی تھے.ماں.دنیا میں گناہ گاروں کا یہی دستور رہا ہے.ایک لاکھ جو میں ہزار نئی تشریف لائے سب کو دکھ دیئے گئے.ہمارے آقا کو جو سب نبیوں کے سردار ہیں سب سے زیادہ دکھ دیئے گئے.یہ تو آپ کو پتہ ہے کہ جب گمراہی زیادہ ہوتی ہے تو نبی تشریف لاتے ہیں.آپ کی قوم بھی جاہل تھی ان کو کئی قسم کے اعتراضات تھے.ہمارے جیسا انسان نہی کیسے ہو سکتا ہے.اگر انسان ہی نے نبی ہونا تھا تو پھر خدا تعالیٰ کسی سردار یا رئیس کو نبی کیوں نہیں پیتا.ایک کمز ور اور غریب کو نبی کیوں بنا دیتا ہے.پھر اگر یہ نہی ہی ہے تو اس کے ساتھ امتیاز کے لئے فرشتوں کی فوج ہونی چاہیئے تھی جو مخالفوں کو یہ باد کرے اور تنگ کرنے والوں کو سزا د ہے.بچہ.اللہ پاک ظالم تھوڑا ہی ہے جو سزا دیتا پھرے اور بم یاد کرتا رہے وہ تو پیار محبت کا سبق دیتا ہے آپ مجھے پیارے آقا کے متعلق بتائیے وہ رخمی تھے.ماں جی بیچے آقا زخمی تھے اور دل بھی بے حد اد اکس تھا.آپ اس اس پر گئے تھے کہ مکہ والوں نے نہیں مانا تو طائف والے مان لیں گے مگر طائف والوں نے تو گستاخی کی انتہا کر دی.طائف سے تین میل کے فاصلے پر ایک ٹریس مکہ عتبہ بن ربیعہ کا باغ تھا.آپ نے وہاں پناہ لی.ایک سایہ دار

Page 51

۵۱ جگہ پر ذرا سا سہارا لے کہ کھڑے ہوئے اور اللہ پاک سے دعا کی.اے میرے رب میں اپنی کمزوری، تدبیر کی کمی اور لوگوں کے مقابلہ میں اپنی لیے بی کی شکایت تیرے ہی پاس کرتا ہوں.کیونکہ تو سب سے بڑا " رحم کرنے والا ہے.حضرت عائش یہ فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب میں عقبہ بن ربیعہ کے باغ میں افسردہ کھڑا تھا تو پہاڑوں کا فرشتہ میرے پاس آیا اور کہا کہ آپ مجھے حکم دیں تو میں وادی کے دونوں پہاڑوں کو گرا کر بستی والوں کو پیس دوں لیکن پیارے آقا جو رحمتہ للعالمین ہیں نے فرمایا نہیں ایسا نہ کرو.خدا تعالیٰ ان لوگوں میں سے ہی ایسے لوگ پیدا فرما دے گا جو اللہ پر ایمان لانے والے ہوں گے بچہ - عتبہ بن ربیعہ بھی تو مخالف تھا اس نے تنگ تو نہیں کیا.مان - عتبہ کے ساتھ اس کا بھائی شیہ بھی تھا.دونوں سخت مخالف تھے مگر.اُس وقت اُن کو اپنی رشتہ داری کا خیال آیا یا قومی غیرت آئی بہر حال اس نے اپنے عیسائی غلام عداس کے ہاتھ آپ کی خدمت میں انگور بھیجوائے.آپ نے عداس کو دیکھا تو سوچا چلو اسی سے بات کرتے ہیں.آپ نے اُس سے پوچھا کہ تم کس علاقے سے تعلق رکھتے ہوا اور کیا مذہب ہے.عداس نے تایا کہ نینوا سے تعلق ہے اور عیسائی ہوں.آپ فوراً بولے وہ اللہ کے نبی پاپین کا شہر تھا.وہ خدا کا نیک اور صالح بندہ متھا.عداس بہت حیران ہوا کہ لے سیرت خاتم النبیین جلد اول ص ۲۴

Page 52

۵۲ آپ یہ سب کیسے جانتے ہیں.جب آپ نے بتایا کہ میں بھی اسی خدا کی طرف سے دنیا کو بھلائی کی طرف دعوت دینے اور شرک روکنے آیا ہوں تو وہ بہت خوش ہوا اور محبت سے آپ کے ہاتھ اور منہ چومنے لگا.اس طرح اللہ تعالی نے آپ کی خوشی کا سامان کیا.یہ منظر دونوں بھائیوں نے بھی دیکھا تھا.عداس سے پوچھا کہ یہ سب کیا تھا.تو اس نے بتایا کہ میں نے آپ سے ایسی بات سُنی ہے جو نبی کے سوا کوئی نہیں جانتا.دونوں بھائی بولے یہ تیرے دین کو بھی خراب کر ے گا.بچہ.آپ وہاں کتنی دیر ٹھہرے.ہاں.میں تھوڑی دیر آرام کے بعد آگئے روانہ ہوئے نخلہ پہنچے چند دن وہاں ٹھہرے.وہاں سے کوہ حرا آئے اور اس خیال سے کہ طائف کے واقعہ سے مکہ والے زیادہ پریشان نہ کریں.معلم بن عدی کو اطلاع دی کہ میں مکیں داخل ہونا چاہتا ہوں.مطعم آپ کا رشتہ دار اور عنبہ و شیبہ کا چازاد بھائی تھا.مخالفت کے باوجود شریف فطرت تھا.عرب میں ایسا دستور ہے کہ ایسے موقعوں پر انکار نہیں کرتے.قبیلے اور رشتہ داری کا لحاظ کرتے ہیں.چنانچہ وہ اپنے بیٹوں اور رشتہ داروں کے ساتھ مسلح ہو کہ کعبہ کے پاس کھڑے ہو گئے اور آپ کو پیغام بھیجا کہ آپ آجائیں.آپ تشریف لائے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور پھر اپنے گھر چلے گئے.بچہ.عرب میں رشتہ داری کا لحاظ کیسا تھا.ابولہب تو آپ کا سگا چا تھا.ماں.مگر کچھ بد نصیب بھی تو ہوتے ہیں وہ تو نبوت کے اعلان سے پہلے آیب

Page 53

۵۳ سے بڑی محبت کرتا تھا.اب ایک پر لطف واقعہ سنو.قبیلہ دوس کا ایک تقریب میں مکہ آیا.اس کا نام طفیل درسی تھا.قریش مکہ پتہ ہے کیا کرتے تھے جب کوئی باہر سے آنا.خاص طور پر اہم آدمی تو فوراً اس کے پاس چا کہ بتاتے کہ ہمارے ہاں ایک آدمی نے فتنہ کھڑا کر دیا ہے اُس کی بات نہ سننا وہ جادوگر ہے.حسب معمول وہ طفیل دوسی کے پاس گئے اور یہ سب کچھ اُسے سمجھایا اور خوب درا یا کہ اگر تم اس کی بات سنور گئے تو تمہارا مذہب خراب ہو جائے گا.وہ بھائی کو بھائی سے ، شوہر کو بیوی سے اور باپ کو بیٹے سے جدا کر دیتا ہے طفیل کہتے ہیں وہ اتنا خوفزدہ ہو گیا کہ اُس جادو گر کی آواز سے بچنے کے لئے دونوں کانوں میں روٹی ڈال لی.ایک دن خانہ کعبہ گیا تو دیکھا ایک کونے میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) مجیب طریقی سے عیادت کر رہے ہیں.انداز بڑا خوبصورت تھا تھوڑی تھوڑی آواز بھی آ رہی تھی.میں نے کانوں سے روٹی نکال دی.بڑا زبر دست کلام تھا.وہ عبادت سے فارغ ہو کہ گھر کی طرف چلے تو میں بھی ساتھ ہو گیا.آپ نے کلام الہی سنایا اور توحید کی تعلیم دی جس کے اثر سے میں فورا مسلمان ہو گیا.بچہ.داہ کتنے مزے کی بات ہے.قریش مکہ کی خوب ہار ہوگئی.ماں.جس کے لئے اللہ تعالیٰ ہدایت کے دروازے کھول دے وہ دوسروں کے روکنے سے کہاں رک سکتا ہے.طفیل دوسی نے واپسی کی اجازت چاہی اور دعا کی درخواست کی.آپ کی دعاؤں کے ساتھ جو اپنی قوم کی طرف واپس گئے اور پیغام تو حید دیا.آپ کے والد اور بیوی تو فورا مسلمان ہو گئے

Page 54

۵۴ جنگ احزاب کے بعد ستر خاندانوں کے ساتھ مدینے ہجرت کی.آپ نے حضرت ابو ہریرہ کا نام سنا ہے جو بہت سی احادیث بیان کرتے ہیں یہ قبیلہ دوس ہی سے تعلق رکھتے تھے.اچھا.آپ کو میں اتنی باتیں بتا رہی ہوں آپ بھی مجھے سوچ کر ایک بات بتائیے انسان کیوں پیدا کیا گیا.اس کی پیدائش کی کیا غرض ہے.بچہ.انسان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اسی کی اطاعت اور عبادت انسان کی پیدائش کی غرض ہو سکتی ہے.ماں.ہو سکتی ہے کیوں نہیں بلکہ ہے.یقیناً آپ نے درست کہا ہے.دراصل عبادت ہی خدا تعالیٰ سے ملاقات کا ذریعہ ہے.جب سے دنیا بنی ہے انسان پیدا ہوئے ہیں بنی آئے ہیں.وہ یہی بات بتاتے آرہے ہیں کہ انسان خدا کے لئے پیدا کیا گیا ہے.اس کا کام ہے خدا تعالی کی اتنی عبادت کرے کہ خدا تعالیٰ سے ملاقات ہو جائے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں اللہ پاک نے ایسی قوتیں رکھی تھیں جو انسان کو اس کے مقام تک پہنچانے والی تھیں.پھر آپ کا نمونہ ، پاکیزہ اخلاق ، بلند کردار، سیرت کی پاکیزگی.ایک ایک صفت اتنی مکمل اور خوبصورت کہ اس سے بہتر سوچی ہی نہیں جاسکتی تھی.اسی لئے اللہ پاک آپ سے بہت پیار کرتا تھا اور خاص سلوک فرمانا تھا.آپ کو اللہ پاک پر پورا بھروسہ تھا.اسی لئے تو طائف چلے گئے نہ ڈرے نہ خوفزدہ ہوئے.اللہ پاک کی خاطر آپ کو اپنی جان کی پرواہ بھی نہیں تھی مسلسل مکہ والوں کے مذاق اور تنخجیک برداشت کی کبھی غصہ نہیں آیا

Page 55

۵۵ نہ شرمندہ ہوئے کہ میں کیا کر رہا ہوں.آپ سوتے جاگتے ہر وقت اپنے دب کے متعلق سوچتے کہ اُس کو کس طرح خوش کریں.آپ ہر کام میں سوچتے کہ جو میں کہ رہا ہوں اس میں اللہ تعالیٰ کی مرضی شامل ہے یا نہیں.آپ کی اپنی الگ کوئی خواہشات نہ تھیں.آپ کا سارا وجود خدا تعالی کے لئے تھا پھر اپنے وجود کا آرام کیا دیکھنا طائف میں پتھر کھائے.آپ انسان ہی تو تھے دردبھی ہوا ہو گا اور تکلیف بھی مگر جب فرشتے نے کہا آپ فرمائیں تو ان کو پیس دیا جائے تو آپ نے کمال مہربانی سے منع فرما دیا.ہم کہہ سکتے ہیں اس لئے صبر کر لیا کہ انتقام یا بدلہ لینے کی طاقت ہی نہ تھی.یہاں تو آپ کے مولا قادر و توانا مالک نے فرشتے کو بھیجا کہ دو پہاڑوں کو آپس میں ٹکرا کے بستی والوں کو اگر آپ فرمائیں تو سزا دی جاسکتی ہے.یہ طاقت ہونے کے باوجود فرشتے کو منع کرنا عام انسان کے صبر، حوصلہ اور استقلال کی بات نہیں.اور سوچ کا انداز کتنا حسین کہ ان میں سے ہی خدا تعالیٰ کو ماننے والے پیدا ہو سکتے ہیں.حیرت ہوتی ہے.بعض دفعہ تو عقل یہ ماننے پر تیار نہیں ہوتی کہ آپ انسان ہیں.کتنا بلند مقام ہے.آسمان کی بلندیوں سے بھی بلند اور اونچا.سبحان اللہ.للهم صلی علی حمد و بارک وسلم.بچہ - اللهم صلی علی محمد وبارك وسلم.امی جان آسمان کی بلندیوں سے بھی بلند اور اونچا مقام امیں سمجھا نہیں.ہاں.ہم سمجھ بھی نہیں سکتےتھےمگر اللہ پاک نے اپنے پیارے کا مقام مھانے کے

Page 56

04 لئے آپ کو ایک روحانی سفر کر وایا.بچه روحانی سفر کیا ؟ ماں.آپ نے کبھی خواب دیکھا ہے ؟ آپ تو بہت خواب دیکھتے ہیں کبھی آپ نے خود کو اڑتے ہوئے دیکھا ہے کبھی دنیا کی سیر کرتے دیکھا ہے.ہر جگہ آپ کا جسم نہیں جاتا بلکہ نیند میں آپ یہ نظارے دیکھتے ہیں.ایک تو نیند میں خواب ہوتے ہیں.دوسرے خواب جیسے نظارے کشف میں نظر آتے ہیں.کشف سوتے میں نہیں بلکہ جاگنے کی حالت میں نظر آتے ہیں.ذراسی دیہ کو لگتا ہے انسان کا رشتہ اپنے اردگرد سے کٹ ساگیا اور اُسے کچھ مناظر نظر آتے ہیں.نبیوں کے خواب اور کشف بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے پیچھے اور الہام کی طرح ہوتے ہیں.آپ ایک انسان تھے مگر آپ کا مرتبہ بہت اونچا تھا.آپ سے پیار کے اظہار کے لئے اور بہت سی باتیں سمجھانے کے لئے آپ کو ایک روحانی سفر کر وایا گیا جو خواب اور کشف جیسی کیفیت میں ہوا.قرآن پاک کی سورہ نجم میں اس کا ذکر ہے.آپ نے دیکھا کہ حضرت جبرائیل آپ کو ساتھ لے گئے ہیں ایک ایک کر کے ساتوں آسمانوں کی سیر کرائی وہاں موجود انبیاء سے ملاقاتیں ہوئیں پھر جبرائیل آپ کو اس سے بھی اوپر لے گئے جہاں کوئی انسان نہیں جاسکتا تھا حتی کہ فرشتہ جبرائیل بھی نہیں اس مقام کا نام سدرة المنہتی ہے.اس کے آگے کوئی روحانی مقام اور درجہ نہیں ہں پھر خدا ہی ہے اور یوں کشفی طور پر خدا تعالی سے آپ کی طاقات ہوئی باتیں ہوئیں آپ نے اپنے پیدا کرنے والے خدا کو دیکھا اس کی آواز سنی اُس کے

Page 57

اتنے قریب ہو گئے کہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آپس میں مل ہی گئے ہوں لیکن بھی رہے.آپ بند سے اور خدا تعالیٰ کے درمیان واسطہ بن گئے.آنہ بغیر خدا تعالیٰ سے ملناممکن نہیں اسی مقام کو مقام خاتم النبیین بھی کہتے جہاں انسانیت اپنے کمال کو پہنچتی ہے.جہاں نبوت اپنی تکمیل حاصل کر ہے اور یہ مقام ہمیشہ کے لئے ہمارے آقا نبی اکرم محمد مصطفے صلی اللہ کو حاصل ہوا.اس روحانی سفر کو معراج کہتے ہیں.بچہ.آپ کن انبیاہ سے ملے.ماں.پہلے آسمان پر حضرت آدم سے ملے.دوسرے پر حضرت عیسیٰ اور حضہ بجلی سے ملے تیسرے پر حضرت یوسف چوتھے پر حضرت ادریس پانچھ پر حضرت ہارونی چھٹے پر حضرت موسی اور ساتویں پر حضرت ابرا ہیم.ملے مجھے حضرت ابراہیم ایک کمرے سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے جس کا بیت المعمور ہے.اللہ پاک نے اس سے ملنا جلنا خانہ کعبہ بنایا اور اس اپنا گھر کہا.آپ کو بتایا گیا کہ ستر ہزار فرشتے روزانہ اس گھر کی زیارت ہیں حضرت ابراہیم صورت و شکل میں آپ سے بہت ملتے ہوئے تھے بچہ.پھر تو آپ نے جنت بھی دیکھی ہوگی.ماں.آپ کو جنت بھی دکھائی گئی اور جنتی بھی پھر دوزخ میں رہنے والوں کے حالت بھی دکھائی گئی یعنی کہ آپ نے اُس کی گرمی کو بھی محسوس کیا." روحانی سفر معراج میں اللہ پاک نے مسلمانوں کے لئے پچاس نمازیں فرض و آپ سے حضرت موسی نے عرض کیا کہ یہ زیادہ ہی کچھ کم کی دائیں کرتے کر

Page 58

۵۸ صرف پانچ نمازیں فرض رہ گئیں اللہ تعالی نے فرمایا کہ اگر پورے ایمان اور خلوص سے ادا کی جائیں تو پانچ کا بھی پچاس کے برابر ثواب ہو گا.ر ملخص از این میشام جلد اول ص ۲۷ تا ص ۲۷۲) بچہ.اس کا مطلب ہے پانچ نمازوں کی پابندی بہت ضروری ہے.دعا کریں میں ایسی نماز میں پڑھ سکوں کہ خدا تعالیٰ مجھے پیار کی ہے.ماں.جی بچے میں تو بہت دعا کرتی ہوں کہ ہم سب انسانیت کا وہ مقام حاصل کر سکیں جو رسول پاک صلی اللہ علیہ وستم ہم سے چاہتے ہیں.بچہ.حضور کو اس سیر میں کتنا مزہ آیا ہو گا.کیا ایک ہی دفعہ ایسی سیر کرائی گئی.مان.ایک واقعہ اور بھی ہے.یہ بھی روحانی سیر کا واقعہ ہے اس میں آپ کو مکہ سے بیت المقدس تک سیر کرائی گئی.اس واقعہ کو اسراء کہتے ہیں.بچہ قرآن پاک کی سورہ بنی اسرائیل میں اس کا ذکر ملتا ہے.اس کی بھی بڑے مزے کی باتیں ہیں ، حضرت جبرائیل آپ کو ایک سواری جس کا نام تراق تھا لے کر چلے راستے میں ایک بڑھیا ملی.بچہ پہنچ پچ کی بڑھیا.ماں.خواب میں تو یہی لگتا ہے مگر دراصل اس کی تعبیریں ہوتی ہیں.خواب یا کشف میں جو بڑھیا دیکھی وہ نظر تو بڑھیا ہی آئی مگر اس کی تعبیر دنیا تھی.پھر آپ کو شیطان ملا جو اپنی طرف بلا رہا تھا بچہ.پیارے آقا اور شیطان ؟ جاں یہ بھی تو یاد رکھئے کہ یہ سارا نظار حقیقی نہیں تھا.آپ کو نبھایاگیا کہ بندوں

Page 59

۵۹ کہا آگے چلئے کے ساتھ شیطان لگا رہتا ہے جس سے بچنا چاہیے.پھر حضرت جبرائیل نے آگے ایک جماعت تھی جس نے کہا "اے حاشر تجھ پر خدا کا سلام ہو آپ نے سلام کا جواب دیا.تین بار یہ جماعت ملتی اور سلام کرتی رہی اور آپ سلام کا جواب دیتے رہے.یہاں تک کہ بیت المقدس پہنچ گئے.وہاں آپ کو تین پیالے پیش کئے گئے ایک پانی کا، ایک شراب کا اور ایک دودھ کا.آپ نے دودھ کا پیالہ قبول فرمایا.جبرائیل نے بتایا کہ آپ نے صحیح انتخاب کیا ہے.دوحہ کی تعبیر فطرت ہے ہے آپ نے پسند فرمایا.پھر آپ نے حضرت آدم اور بعد کے انبیاء کو نماز پڑھانی اور مکہ لوٹ آئے.سب انبیاء کو نماز پڑھانے کا مطلب آپ بتائیے.بچہ.یہی کہ آپ سب نبیوں کے امام ، سب سے بہتر سب سے اچھے.یعینی خاتم النبیین ہیں.یہ واقعات کب ہوئے ؟ ماں.معراج کی تاریخ رمضان ۱۲ نبوی اور اسراء کی ربیع الاول نبوی رابن سعد) بیان کی گئی ہے.بچہ مکہ والے تو آپ کی روحانی سیر سے بہت متاثر ہوئے ہوں گے.ماں.مکہ والے بدنصیبوں نے ہمیشہ کی طرح مذاق اڑا دیا.مگر سب نے نہیں جن کے دل میں نیکی ہوتی ہے وہ دل میں مانتے بھی ہیں.ان کو یہ تو اندازہ تھا سے کہ آپ جو فرماتے ہیں اسی طرح ہو جاتا ہے مگر اس کو خدا تعالیٰ تعلق کا نتیجہ سمجھنے کی بجائے وہ جادو گر کہنے لگے.اللہ پاک بھی اپنے پیارے

Page 60

کو سچا ثابت کرنے کے لئے نشان پر نشان دکھا رہا تھا.اس زمانے ہیں دو بڑی طاقتور حکومتیں تھیں.ایک سلطنت فارسی (ایران) اور دوسری سلطنت روم.دونوں میں جنگ ہو رہی تھی.فارسی حکومت مسلسل فتح حاصل کرتی ہوئی روم کے علاقے فتح کر رہی تھی.اپنے پیارے کو الہ پاک نے بتایا کہ چند سالوں کے بعد روم فارس پر غلبہ پالے گا اور مومن خوش ہوں گے.(سورہ روم) مکہ والوں نے اس خبر پر شرطیں لگالیں کہ اب دیکھتے ہیں یہ بات پوری ہوتی ہے یا نہیں.خدا کی بات تو پوری ہوتی تھی.پوری ہوئی اور کفار کو منہ کی کھانی پڑی.بچہ.ابو جہل اور ابو لہب تو خدائی نشانوں کے سامنے بے بس ہو گئے ہوں گے.ماں.اُن کا حال تو پوچھو ہی نہ.وہ تو جیسے دیوانے ہو گئے تھے.اللہ تعالیٰ نشان پر نشان دکھا رہا تھا.اور ساتھ میں بشارتیں عطا کہ رہا تھا کہ فتح مسلمانوں کی ہی ہوگی.اپنے خاص فضلوں اور رحمتوں کے ساتھ اپنے رستے ہیں دکھ اُٹھانے والوں کو کا میابیاں عطا فرار ہا تھا.آہستہ آہستہ ایک خدا کو ماننے والوں میں اضافہ ہو رہا تھا.اہل مکہ نے توجہ نہ دی.طائف والوں نے کان نہ دھرا تو آپ نے دوسرے قبائل کو دعوت اسلام دینی شروع کی.حج کے موقعہ پر آنے والے حاجیوں سے مکہ اور منی میں ملاقاتیں کرتے اور عکاظ، مجنہ اور ذو المجاز میں بڑے بڑے میلوں کے وقت آپ تشریف لے جاتے.لوگوں کے ہجوم میں داخل ہو جاتے اور ایک خدا کی طرف بلاتے.اسی طرح قبائل کے سرداروں کو اُن کے محفل لگانے کی

Page 61

جگہوں پر جا کہ اللہ کا پیغام دیتے.بچہ.آپؐ کے ساتھ کون ہوتا ؟ ماں.کبھی حضرت ابو بکر صدیق رض کبھی حضرت علی نہ کبھی زید بن حارثہ ساتھ ہوتے کبھی آپ اکیلے بھی تشریف لے جاتے.ابولہب یہ تماشا کہتا کہ جدھر آپ تشریف لے جاتے پیچھے پیچھے جاتا اور شور کرتا رہتا تاکہ لوگ آپ کی بات نشن سیکس.اسی طرح ابو جہل بھی پیچھے پیچھے شور مچاتا ہوا جاتا ، لوگو اس کی بات نہ سُننا یہ دین سے پھر گیا.سے تمہیں بھی تمہارے دین کو بھی خراب کرے گا، یہی نہیں وہ زمین سے اٹھا کہ مئی آپ کے اوپر ڈالتا اور گالیاں بکتا، لوگ کہتے ضرور ایسا ہی ہوگا ورنہ یہ رشتہ دار اور قبیلہ کے لوگ ایسے کیوں کہتے آپ کئی قبیلوں کے پاس گئے مگر ان بدنصیبوں نے اپنے نبی کی بات کو ٹھکرا دیا.آپ ایک ایک در کھٹکٹاتے رہے شاید کہیں کوئی سُنے مگر وہ دنیا دار لوگ تھے.ایک قبیلے کا نام بنو عامر تھا آپ وہاں تشریف لے گئے.ساری باتیں انہوں نے نہیں بلکہ ایک شخص بحیرہ بن فراس نے آپ کی صلاحیتیں دیکھ کر کہا.اگر یہ شخص میرے ہاتھ آ جائے تو میں سارا عرب فتح کرلوں.اُس نے آپ سے پوچھا.اگر ہم نے تمہارا ساتھ دیا اور تم مخالفوں پر غالب آگئے تو تمہارے بعد حکومت میں سے نہیں کیا ملے گا.بچہ.آپ نے کیا جواب دیا.ماں.آپ نے فرمایا دنیا لینا تو اللہ کے ہاتھ میں ہے جسے چاہے عطا کرے آپ کا جواب تو بہت معقول تھا مگر وہ کیا سمجھنا.تڑ سے بولا.مخالفوں سے مقابلہ

Page 62

۶۲ ہم کریں اور حکومت غیروں کو ملے.جاؤ ہمیں تمہاری ضرورت نہیں.ایک شخص مسیلمہ تھا اس کا تعلق بنو ضیفہ سے تھا یہ یمامہ کا رہنے والا تھا.اس قبیلے نے بھی بڑی سختی سے انکار کیا تھا بلکہ مہملہ نے جھوٹی نبوت کا دعوی بھی کیا تھا.تاریخ نے اسے مسلیمہ کذاب کے نام سے یاد رکھا.اللہ پاک نے تو اپنے نبی کی شان کو دنیا پر ظاہر کر نا تھا اور اس کے لئے انتظام بھی کر رکھا تھا.بچہ.کیا کوئی پیش گوئی آپ کی آمد کے متعلق تھی.ماں.جی ہاں ، ہزاروں سال پہلے توریت میں ایک عظیم شان والے نبی کی خبریں دی گئی تھیں یہ بھی بتایا تھا کہ وہ اپنے وطن سے ہجرت کرے گا جہاں ہجرت کر کے جائے گا اُس کی خبر بھی دی گئی تھی.وہ علاقہ میثرب کا علاقہ تھا جو مکہ سے قریباً اڑھائی سو میل کے فاصلے پر تھا.ان یہودیوں نے ہو یہ سب جانتے تھے اِدھر اُدھر سے آگرہ مشرب میں آباد ہونا شروع کر دیا اور الہ دگرد کے قبیلوں پر رعب بھی ڈالا کرتے تھے کہ ساری دنیا کو فتح کرنے والے مجھے نبی کی آمد کے دن آگئے ہیں ہم اُن سے مل کر تم کو خوب سزائیں دیں گے.اُن دنوں چونکہ آپ پیدا ہو چکے تھے وہ نشانیاں پوری ہوتی سب دیکھ رہے تھے اس لئے بہت ذکر رہتا کہ موعود نبی آنے والے ہیں کبھی کبھار کوئی مسافر ذکر کر تا کہ مکہ میں ایک شخص نے اللہ کا بنی ہونے کا دعوی کیا ہے مگر ملاقات کسی کی نہیں ہوئی تھی.یثرب میں دو قبیلوں اوس اور خزرج میں لڑائی رہتی تھی.ان میں سے کچھ لوگ اس غرض سے مکہ آئے کہ کچھ دو انگئیں

Page 63

گے.آپ سے ملاقات ہوئی تو آپ نے اسلام کی دعوت دی.ایک نو ایاس نے آپ کی تائید میں رائے دی مگر اُس کے سردار نے چپ کرا دیا.ہیں جب ایاس فوت ہوا تو اس کی زبان پر کلمہ توحید تھا.یہ قبیلہ اور پہلا پھل تھا.پھر وہاں زیر دست جنگ چھڑ گئی یہ جنگ بعاث کے سے مشہور ہے.دونوں قبائل کے بڑے بڑے سردار مارے گئے.بچہ.اسلام کے پیغام کا کیا ہوا ؟ ماں.اُسی طرف آرہی ہوں نہ نبوی رجب کے مہینے میں ایک دفعہ پھ یثرب کے لوگوں سے مکہ میں ملاقات ہوئی.آپؐ نے بڑی محبت سے؟ کیا آپ میری بانہیں سن سکتے ہیں.پھر آپ نے قرآن پاک کی کچھ آیات اور توحید کی طرف بلایا.اُن لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا آپر میں مشورہ کیا وہ سمجھ گئے کہ یہی وہ نبی ہے جس کی وہ انتظار کر رہے تھے انہوں نے سوچا اگر ہم انہیں نہیں مانتے تو ایسا نہ ہو کہ دوسرے مان لیں ہم سے بڑے ہو جائیں ہم دیکھتے رہ جائیں.یہ چھ لوگ تھے.سب ! لے آئے.بچہ - بے حد خوشی ہو رہی ہے.پیارے آقا کس قدر خوش ہوئے ہوں.ان کے نام کیا تھے.ماں - 1 - ابو امامرضا اسعد بن زرارہ بنو نجار سے سب سے پہلے ایمان لائے ۲.عوف بن حارث بھی بنو نجار سے تھے یہ آپ کے دادا عبد المطلب ننھیال کا قبیلہ تھا.(۳) رافع بن مالک بنو زریق سے (۲) قطبہ ابن عاد

Page 64

سلمی سے (۵) عقبہ بن عامر بی حرام سے اور (4) جانترین عبداللہ بنی عبیدہ سے تھے.ان میں سے رافع خوبن مالک کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت تک نازل ہونے والا قرآن مجید بھی عطا فرمایا.ان پاک انسانوں نے بشرب میں اسلام کا پیغام پھیلایا.آپ کو بڑا حوصلہ دے کر گئے کہ ہم ہر حال میں آپ کا ساتھ دیں گے.بچہ.واقعی خدا تعالی ہی بہتر جانتا ہے.کہ اُس نے کن سے اور کب کام لینا ہے.ہاں.جب سب طرف سے مایوسی ہو.ہر دروازہ بند ہو جائے تو پھر قادر خدا ایسا راستہ کھوتا ہے جو کسی کے گمان میں بھی نہیں ہوتا.مکہ والوں نے ظلم وستم کی انتہا کر دی تھی.صحابہ کرام اپنے خدا تعالیٰ کے بھر دہ پر ہر حال میں صبر و شکر کرتے تھے.اتنا ضرور تھا کہ آپؐ کے انداز دیکھ کر لوگوں کے دلوں پر رعب طاری ہونے لگا تھا.مگر بد نیتی آڑے آتی اُدھر مشرب میں گھر گھر اسلام کا چرچا ہونے لگا.آپ چھ احباب کے لئے دُعا کرتے اور منتظر تھے کہ پھر حج کے دن آئیں اور اُن کی طرف سے خیر کی خبریں ملیں.بہ.اللہ کرے بہت سے لوگ آکر مسلمان ہو جائیں.ں.پھر حج کے دن آئے آپ منی کی جانب عقبہ کی گھاٹی میں پہنچے تو آپ کو یہ دیکھ کہ بہت سکون ملا کہ مشرب سے ایک چھوٹی سی جماعت آئی ہوئی تھی پہلے والوں میں سے پانچ اور سات نئے خوش نصیب آئے تھے.پیارے آتی

Page 65

40 نے ان سے حالات معلوم کئے پھر ان کی بیعت لی.اس طرح یثرب میں ایک جماعت اللہ اور رسول کو ماننے والی بن گئی بچہ.بیعت کے الفاظ کیا تھے ؟ ماں." ہم خدا کو ایک مانیں گے.شرک نہیں کریں گے چوری اور زنا سے بچیں گے قتل نہیں کریں گے.بہتان نہیں باندھیں گے اور ہر ایک کام میں آپ کی اطاعت کریں گے یہ اُس وقت تک تلوار کا جہاد فرض نہیں ہوا تھا.یہ بعیت ذی الحج سنہ نبوی میں ہوئی اور چونکہ عقبہ کے مقام پر ہوئی تھی اس لئے بیعت عقبہ اولیٰ کے نام سے مشہور ہے.عقیہ بلند پہاڑی راستے کو کہتے ہیں.آپ نے حضرت مصعب بن عمیر کو ان کے ساتھ دین کی بانہیں سکھانے ، قرآن مجید پڑھانے اور نماز سکھانے کے لئے روانہ فرمایا.ان کے جانے سے بیرب میں با قاعدہ متلیغ کا کام ہونے لگا.اسعد بن زرارہ کا گھر میں تبلیغی مرکز بنا ایک مرکز بنانے سے بڑا فائدہ ہوا ایک تو مسلمان مل جل کر رہنے لگے دوسرے جس کو اسلام کے متعلق معلومات لینی ہوتی تھیں یا اسلام قبول کرنا ہوتا تھا وہیں آجاتا.آپ کو یہ سن کر خوشی ہوگی کہ بعض دفعہ پوراپورا قبیلہ ایک دن میں اسلام نے آتا.منگا مینو عبد الاشہل کا قبیلہ ایک دن میں اسلام ہے آیا.بچہ کیسے ؟ مجھے کچھ تفصیل بتائیے.ماں.قبیلہ اوس کے ایک سردار سعد بن معاذ کو حضرت مصعب بن عمیر کا شیرب میں تبلیغ کرنا پسند نہ تھا.لیکن اسعد بن زرارہ ان کے خالہ زاد بھائی تھے اُن

Page 66

کی حمایت کی وجہ سے کچھ کہہ نہیں سکتے تھے.انہوں نے ایک اور رشتہ دار أسيد بن الحضیر کو حضرت مصعب بن عمیر کے پاس بھیجا تا کہ انہیں منع کریں.اسید نے بڑے غصے سے بات شروع کی.اسعد نے آہستگی سے مصعب بنے سے کہا یہ اپنے قبیلے کے ایک با اثر ٹیمیں ہیں.ان سے بہت نرمی اور محبت سے بات کرنا چنانچہ حضرت مصعب نے بڑی محبت اور عزت سے بیٹھا کہ قرآن کریم سنایا.امید تو وہیں مسلمان ہو گئے.اور جا کر سعد بن معاذ کو بھیجا یہ بھی بڑے سردار تھے اور خیال تھا کہ اکہ سعد اسلام قبول کر لیں گے تو پورا قبیلہ مسلمان ہو جائے گا.سعد بہت زیادہ غصے میں آئے اور تیزی سے بولنا شروع کیا.حضرت مصعب نے بڑی محبت پیار سے بٹھایا قرآن پاک سنایا اور اسلام کی دعوت دی.سعد تو فورا غسل کر کے کلمہ شہادت پڑھ کر مسلمان ہو گئے.پھر اسیڈ اور سعد دونوں اپنے قبیلے کے پاس آئے سعد نے پوچھا.اسے بنی عبد الاشہل تم مجھے کیسا جانتے ہو.سب نے کہا آپ ہمارے سردار ہیں اور سردار کے بیٹے ہیں ہمیں آپ کی بات پر کامل اعتماد ہے.پھر آپ نے اسلام کا پیغام دیا جو سب نے قبول کر لیا.سب بت توڑ دیئے گئے.بچہ.جب آپ مشرب کے حالات بتاتی ہیں مجھے خوشی ہوتی ہے مگر دل الگا ہوتا ہے آپ میں اور مکہ کے حالات ہیں.ماں.مگر میں وہی بدنصیبی تھی.مند الکبیر، حسد، دشمنی سب نے مل کر مسلمانوں کے حالات بڑے درد ناک بنا دیے تھے.ایک سے بڑھہ کہ ایک ظلم اُن کو سوجھتا

Page 67

44 حضرت مصوب کتنے کامیاب مبلغ اسلام تھے مگر مکہ میں ان کی ماں مشرکہ تھیں.جب ایک سال کے بعد یثرب سے واپس آئے تو ماں نے کہلایا کہ پہلے مجھے آکر ملیں.مگر مکہ میں ماں سے بھی محبوب بہتی رہتی تھی وہ پہلے پیارے آقا کے پاس تشریف لے گئے سال بھر کے حالات منائے پھر ماں کے پاس گئے.اُس نے بہت شکوہ کیا روٹی بیٹی حضرت مصدر بیت نے کہا اگر آپ بھی مسلمان ہو جائیں تو سارا جھگڑا ختم ہو جائے گا.وہ تو چھینے لگی بیستاروں کی قسم میں تو کبھی نئے دین میں داخل نہیں ہوں گی اور ؟ رشتہ داروں سے کہا اس کو پکڑ لو لیکن وہ بھاگ کر اپنے پیارے آقا کے پاس آگئے.بچہ.اس سال حضرت مصعبے کے ساتھ کتنے لوگ حج کے لئے آئے تھے.ماں.ویسے تو کئی سو آئے تھے لیکن ان میں ستر (۰) ایسے تھے جو یا تو مسلمان ہو چکے تھے یا سلمان ہونے کے لئے تیار تھے.پیارے آقا کو علم ہوا کہ مشرب سے مزید لوگ آرہے ہیں.آپ نے آدھی رات کو عقبہ کی گھائی میں اُن سے ملنے کا پروگرام بنایا.آپ کے ساتھ آپ کے چچا عباس بھی آئے.اوس اور خزرج کے لوگ ایک ایک دو دو کر کے گھائی میں پہنچے تاکہ کسی کو شبہ نہ ہو.حضرت عباس نے بات شروع کی " اے گروہ خزرج محمد اپنے خاندان میں معزز و محبوب ہے.ہمارا خاندان اس کی حفاظت کا ضامن رہا ہے، ہر خطرہ میں ان کے لئے سینہ سپر ہوا ہے مگر اب یہ وطن چھوڑ کر تمہارے پاس جانا چاہتے ہیں.اگر اپنے پاس لے جانے کی خواہش ہے تو تمہیں ہر

Page 68

دو.طرح ان کی حفاظت کرنا ہوگی.ہر دشمن سے لڑنا ہو گا.ایسانہ ہوکہ نہیں ان کے دشمنوں کے حوالے کر دو.اگر تیار ہو تو بہتر ورنہ ابھی جواب دے (سیرة النبی از شیلی نعمانی حصہ اول ص۲۶۲، ۲۶۵) البراء بن معرور ایک بزرگ اور عمر رسیدہ شخص تھے نے کہا "عبائش ہم نے تمہاری بات سن لی ہے.مگر ہم چاہتے ہیں کہ رسول اللہ خود بھی اپنی زبان مبارک سے کچھ فرما دیں جو ذمہ داری ہم پر ڈانا چاہتے ہیں بیان فرما دیں.بچہ پیارے آقا نے کیا فرمایا.ماں.پیارے آقا نے سب سے پہلے قرآن پاک کی آیات کی تلاوت کی پھر مختصر سی تقریر میں اسلام کی تعلیم بیان فرمائی.پھر اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق کی بات کی اور فرمایا." میں اپنے لئے صرف اتنا چاہتا ہوں کہ جبیں طرح تم اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کی حفاظت کرتے ہو اسی طرح اگر ضرورت پیش آئے تو میرے ساتھ بھی معاملہ کہ وہ البراء بن معرور نے آپ کا ہاتھ تھام کہ کہا خدا کی قسم جس نے آپ کو حق و صداقت کے ساتھ بھیجا ہے ہم اپنی جانوں کی طرح آپ کی حفاظت کریں گے.ابوا اہیم نے کہا " یا رسول اللہ یثرب کے یہودیوں کے ساتھ پر اتنے تعلقات ہیں وہ آپ کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ختم ہو جائیں گے ایسا نہ ہو کہ جب اللہ تعالیٰ آپ کو غالب کر دے تو آپ ہمیں چھوڑ کر اپنے وطن چلے جائیں.آپ مسکرائے اور فرمایا." ایسا کبھی نہیں ہو گا تمہارا خون میرا خون تمھارے دوست میرے دوست اور تمھارے دشمن میرے دشمن ہوں گے اس

Page 69

49 پر عباس بن عبادہ انصاری بولے.اس عہد کے معنی جانتے ہو.ہر کالے گورے کے مقابلہ کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہنا ہو گا.سب بولے ہم جانتے ہیں.لیکن اسے خدا کے رسول ہمارا اجر کیا ہو گا فرمایا." خدا کی جنت جو سارے انعاموں سے بڑھ کر ہے ، سب نے ایک ساتھ کہا.ہمیں یہ سودا منظور ہے آپ اپنا ہاتھ آگے کریں اور اس طرح سنتر (۰) مخلصین اسلام میں داخل ہوئے.بچہ.پھر انہوں نے یہ عہد نبھایا.ماں.خدا گواہ ہے کہ اُن کے مال ، جانیں ، عزتیں سب ہمارے آقا پر شار ہو ہیں.یہ عہد کے پتے رہے.اور رسول خدا نے بھی اپنا عہد خوب نبھایا.جب یہ لوگ جانے لگے تو آپ نے بارہ صحابیہ کو قبیلوں پر نگران مقرر فرمایا.آپ کے چچا حضرت عباس نے اہل مشرب کو سمجھایا کہ احتیاط ہوشیاری سے کام لینا.قریش کے جاسوس اِدھر اُدھر موجود ہیں اتنے میں کوئی بولا " اے قریش تمہیں کچھ خبر ہے.یہاں اپنے دین سے پھرنے والے تمہارے خلاف عہد و پیمان کر رہے ہیں.“ بچہ.اوہ ہو پھر کوئی مسئلہ تو نہیں ہوا.ماں.نہیں ہمارے پیارے آقا کو اللہ تعالیٰ کی مدد پر بھروسہ تھا.بڑے اطمینان سے ان کو رخصت کیا.ہاں یہ فرمایا کہ جس طرح ایک ایک دو دو کر کے آئے تھے ویسے ہی واپس چلے جاؤ.عباس بن نضلہ انصاری نے کہا اگر آپ نہیں حکم دیں تو ہم انہیں مزہ چکھا دیں.آپ نے فرمایا مجھے اس کی اجازت

Page 70

نہیں ہے پھر آپ بھی حضرت عائش کے ساتھ واپس چلے گئے.بچہ.قریش مکہ نے کوئی کارروائی تو ضرور کی ہوگی.ماں.جی وہ اہل میٹرب کی قیام گاہ پر گئے اور کہا کہ سُنا ہے تمہارا محمد سے کوئی معاہدہ ہوا ہے مگر اکثر کو تو علم ہی نہیں تھا.انہوں نے صاف کہا کہ نہیں ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا.اور وہ میٹرب کی طرف روانہ ہو گئے لیکن قریش کو کسی طرح اس خبر کی تصدیق ہو گئی.قافلہ تو نکل چکا تھا صرف سعد بن عبادہ جو پیچھے رہ گئے تھے پکڑے گئے.اُن کو مکہ کے پتھر بلیے میدان میں لاکر خوب مارا پیٹا.سر کے بالوں سے پکڑ کر ادھر اُدھر گھسیٹا.آخران کے دوستوں جبیر بن مطعم اور حارث بن حرب نے اُن کو چھڑایا.بچہ.ان ظالموں کو مار پیٹ کے سوا بھی کچھ آتا تھا.....آپ نے بتایا تھا کہ حضرت عباسی نے کہا تھا کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم اہل یثرب کے پاس جانا چاہتے تھے کیا ایسا اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم آیا تھا.ماں جی ایک دفعہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا تھا کہ آپ کو مکہ سے ہجرت کر کے کسی دوسری جگہ جانا ہو گا.ساتھ ہی ہجرت کی جگہ بھی دکھائی گئی مخفی جو ایک باغوں اور چشموں والی جگہ تھی.آپ نے سوچا ایسی جگہ تو یمامہ یا حجر ہو سکتی ہے مگر جب اسلام یثرب میں پھیلنے لگا تو آپ پر کھلا کہ ہجرت کی جگہ تو میرب ہو سکتی ہے آپ نے مسلمانوں کو اجازت دے دی کہ جس کے لئے ممکن ہو یثرب کی طرف ہجرت کر جائے.یثرب جانا حبشہ کی نسبت آسان تھا.قریش کا دیکھا بھالا علاقہ تھا.آپس میں رشتہ داریاں اور

Page 71

21 دوستیاں تھیں.تجارتی معاملات میں بھی لین دین چلتا تھا.مگر میں ستائے ہوئے لوگ تھوڑے تھوڑے قافلوں کی صورت میں مشرب جانے لگے.خالی مکانات دیکھ کہ مکہ کے کافروں کو دکھ ہوتا مگر فلموں کا احساس نہ ہوا.الٹا پیارے آقا پر غصہ نکالتے کہ کیسا نیا دین لے کر آیا کہ یہ جدائیاں ڈال دیں.بچہ.اللہ تعالی کتنا پیارا ہے.بیچارے منظلوم مسلمانوں کے لئے ایک راہ نکال دی مگر وہ وہاں جا کہ کہاں ٹھہرتے ہوں گے.ماں.یثرب میں اسلام اور مسلمانوں سے محبت نے عجیب پیار بھری فضا پیدا کر دی تھی.وہ آپ کی صحبت میں تربیت پانے والے مہاجرین کو ایک نعمت سمجھتے.اصرار سے ٹھہراتے اور ہر طرح آرام پہنچا کر خوشی محسوس کرتے.مکہ سے اکثر مسلمان مشرب پہنچ گئے.صرف آپ ، حضرت ابوبکر صدیق رضہ اور حضرت علی کے گھر والے رہ گئے یا ایسے کمزور افراد ہجرت کرنے کی طاقت نہ رکھتے تھے یا دو جن کو قریش نے تقریباً قید کر رکھا تھا نکل نہ سکتے تھے.بچہ.پھر تو قریش کے لئے آپ کو ستانا اور بھی آسان ہو گیا ہو گا.مان.جی ہاں وہ مشرب میں اسلام کے طاقتور ہونے کی خبر سے بھی بہت فکر مند تھے.اس لئے وہ چاہتے تھے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر کوئی ایسا فیصلہ کہیں کہ آپ کو زندہ ہی نہ چھوڑیں.کوئی منصوبہ سوچنے کے لئے وہ دارالندوہ میں جمع ہوئے یہ ایک قومی مرکز تھا جو قصی بن کلاب نے تعمیر کر وایا تھا.ان کی تعداد سو بڑے بڑے سردار اور ایک علاقہ سنجد کا شیطان صفت بوڑھا بھی موجود تھا.ایک سے ایک ظالم مخالف جمع تھا.ابو جہل ، ابو سفیان ،

Page 72

۷۲ امیہ بن خلف ، ابوالبختری.کوئی کہ رہا تھا زنجیروں سے باندھ کر کمرے میں بند کر دیں خود ہی ختم ہو جائے گا.کسی کا خیال تھا وطن سے نکال دیں.ابو جہل کی تجویز سب کو پسند آئی کہ قریش کے سر قبیلہ سے ایک ایک جوان لے کر ایک پارٹی بنائی جائے جو ایک ہی وقت میں تلواروں سے حملہ کر دے اس طرح آپ کا قبیلہ کس کس سے لڑے گا.سب قبیلے مل کر خون بہا ادا کر دیں گے.قصہ نظم.چنانچہ اسی رات اس منصوبے پر عمل کرنے کی تجویز بھی منظور ہوگئی.بچہ.آپ کو تو خیر بھی نہیں ہوگی کہ کیا منصوبے بن رہے ہیں.ماں.آپ کے ساتھ تو سب سے باخبر اخیر و علیم خدا تھا.اُس نے حضرت جبرائیل کے ذریعے ہر بات کی آپ کو اطلاع دے دی.ساتھ ہی اجازت دے دی کہ آپ آج کی رات مکہ میں نے گزاریں.یثرب کی طرف ہجرت کر جائیں اُن دنوں عرب میں گرمی کا موسم تھا اجازت ملتے ہی آپ دوپہر کے وقت اپنے دوست ابو بکر صدیق رضہ کے گھر تشریف لے گئے.آپ عام طور پر ان کے گھر صبح یا شام کو جایا کرتے تھے.دوپہر کو آپ کی تشریف آوری سے حضرت ابو بکر نہ سمجھ گئے ضرور کوئی بات ہے.آپؐ نے آتے ہی فرمایا کوئی غیر شخص ہو تواس کو باہر بھجوا دیں.حضرت ابو بکر رضہ نے بتایا کہ آپ کے گھر ہی کے لوگ ہیں ان کی مراد حضرت عائشہ سے تھی.چونکہ آپ کا نکاح ہو چکا تھا اس لئے وہ تو آپ ہی کے گھر کی ہوئیں.آپ نے اطمینان کرنے کے بعد فرمایا :-

Page 73

" " مجھے ہجرت کا حکم مل گیا ہے." حضرت ابو بکر رض نے عرض کیا.یا رسول اللہ مجھے بھی ساتھ رکھے گا.آپ نے فرمایا ہاں.حضرت عائش یہ کہتی ہیں میں نے کبھی کسی کو خوشی سے روتے نہیں دیکھا تھا مگر اس روز میرے والد کے خوشی سے آنسو بہہ ہے تھے.( طبری، ابن هشام جلد اصل ۳۲۲ ) بچہ.حضرت ابو بکر رضو بڑے خوش نصیب تھے.پھر کیا ہوا ؟ ماں.حضرت ابو بکر نہ سمجھدار بھی بہت تھے.انہوں نے اچھے چارے کھلا کہ ہجرت کی خاطر دو اونٹنیاں خوب پالی ہوئی تھیں تاکہ وہ زیادہ دیر سفر کہ سیکھیں.جب شنا کہ ہجرت کی اجازت مل گئی ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ادب سے درخواست کی کہ جو اونٹنی دونوں میں سے آپ کو پسند ہو قبول فرما ہیں.آپ نے ایک اونٹنی پسند فرمائی اور اصرار کر کے اُس کی قیمت بھی ادا کر دی.اب ہجرت کی تیاریاں شروع ہوئیں.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر آئے.حضرت علی رض کو بلایا اور سمجھایا کہ مجھے ہجرت کی اجازت ہوگئی ہے مگر میرے پاس مکہ والوں کی امانتیں پڑی ہیں.تم یہ امانتیں دے کر میشرب آجانا.مگر آج کی رات میرے بستر پر میری چادر اوڑھ کہ شور ہنا.گھرانے اور پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں.اللہ تعالیٰ تمہاری خود حفاظت کرے گا.دوسری طرف حضرت ابو بکر صدیق زمہ نے اپنے بیٹے عبد اللہ کو کہا کہ تم

Page 74

۷۴ سارا دن شہر میں گھومتے پھرتے رہو اور لوگوں کی باتیں سنو.شام کو آگہ بتانا کہ لوگ کیا سوچ رہے ہیں.اپنے تو کہ عامر بن فہیرہ کو کہا کہ سارا دن مکہ والوں کے ریوڑوں کے ساتھ اپنا بکریوں کا ریوڑ چراتے رہنا اور شام کو غار کے پاس لے آنا تا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دودھ مل سکے.اپنی بیٹی حضرت اسماء کو کھانا تیار کر کے لانے کے متعلق ہدایات دیں.رات ہوئی.آپ کے گھر کے ارد گرد قریش کے نوجوان تلواریں لے کہ جمع ہونے لگے.آپ نے حضرت علی رض کو اپنے بستر پر لیٹنے کو کہا اپنی شرح چادر اُن پر ڈالی.ایک برتن میں مٹی لی.سورہ یسین کی آیات کی تلاوت کرتے ہوئے گھر سے نکلے.اب دیکھو اللہ تعالیٰ کے کام کافروں پر ایسی نیند طاری ہوئی کہ انہیں پتہ ہی نہ چلا کب آپ تشریف لے گئے آپ جاتے جاتے اُن کے سروں پر خاک ڈال گئے.حضرت ابو بکر صدیق رضہ اپنے گھر سے نکلے اور ایک مقررہ جگہ پر پہنچے.آبادی سے دور ایک بنجر پہاڑی کے دامن میں کافی اونچی جگہ پر ایک غار تھی جس کا نام غار ثور ہے آپ اور آپ کے دوست ( حضرت ابو بکر صدیق نے اس غار میں پناہ لی.پہلے حضرت ابو کیکڑا نے غار کو صاف کیا پھر آپ داخل ہوئے.بچہ.یہ غار مکہ سے کتنی دور ہے.ماں.غار ایک پہاڑی میں ہے.پہاڑی کا نام جیل ٹور ہے مکہ سے جنوب کی طرف ہے.اس کا راستہ آسان نہیں بڑا اسپتھر بلا ہے.دوسری طرف آپ پر حملہ کرنے کے لئے تیار جوان تھوڑی تھوڑی دیر میں گھر کے اندر

Page 75

60 اندر جھانکتے اور دیکھتے کہ بہتر پر آپ سوئے ہوئے ہیں تو مطمئن ہو جاتے.صبح انہیں پتہ لگا کہ حضور تو نکل گئے حضرت علی کو کچھ مارا پیٹا گلیوں مکانوں میں تلاش کیا مگر ناکام رہنا تھا.ناکام رہے.ایک ضروری بات بتاتا تو میں بھول گئی جب آپ گھر سے نکلے تو مکہ کی گلیوں سے گزرتے ہوئے آپ کی نظر پیارے خانہ کعبہ پر پڑی تو بہت دکھی ہوئے اور فرمایا در و تیرے فرزند مجھے یہاں رہتے نہیں دیتے حالانکہ تو مجھے بہت عزیز ہے.بچہ.کتنی دُکھ کی بات ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا.مال.اللہ کے پیاروں کو بڑی آزمائشیں آتی ہیں.اب سنو مکہ والوں کی ناکامی کا حال.جب رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم کو تلاش نہ کر سکے تو اعلان کیا که جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ یا مردہ پکڑ کر لائے گا اُسے سو سرخ اونٹ انعام میں دیئے جائیں گے.سرخ اونٹ بہت قیمتی ہوتے ہیں.اتنے بڑے انعام کا سن کر بہت سے لوگ قسمت آزمانے نکلے.روسائے قویش نے کھوجیوں کی مدد لی.اُس زمانے میں ایسے ماہر ہوتے تھے جو پاؤں کے نشان دیکھ کر بتا دیتے تھے کہ کوئی کہ ھر گیا ہے.کھوجی پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے غار ثور تک پہنچ گئے.اور کہا یا تومحمد (صلی اللہ علیہ وقتم ہیں کہیں پاس ہی چھپا ہوا ہے یا پھر آسمان پر اڑ گیا ہے.کسی نے کہا غار کے اندر بھی جھانک لو، کوئی دوسرا بولا یہ ایک اندھیری گندی اور خطرناک غمار ہے.اس میں کوئی کیسے چھپ سکتا ہے.خدا تعالیٰ کی قدرت سے آپ کے

Page 76

44 اندر جاتے ہی غار کے منہ پر مکڑی نے حالاتن دیا تھا اور غار کے عین سامنے ایک کبوتری نے گھونسلا بنا کہ انڈے دے دیئے تھے کیسی نے اُس جائے اور انڈوں کی طرف اشارہ کر کے کہا اس غار میں کوئی کیسے جاسکتا ہے اس کے منہ پر تو مکڑی نے جالا بنایا ہوا ہے.اور کبوتری تے انڈے دیئے ہوئے ہیں یہ سن کر قریش کا کوئی شخص آگے نہیں بڑھا اور نہیں سے سب لوگ واپس چلے گئے (زرقانی و تاریخ خمیس) آپ تین دن اسی نمار میں رہے.بچہ.اوہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے.ماں.ہاں بچے اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے پتہ ہے جب یہ لوگ باتیں کر ہے تھے تو غار کے اندر سے اُن کے پاؤں نظر آرہے تھے اور آواز میں بھی آرہی تھیں.حضرت ابو بکر رض نے گھیرا کہ آہستہ سے آپ سے کہا یارسول الہی قریش اتنے قریب ہیں کہ ان کے پاؤں نظر آرہے ہیں اور اگر وہ ذرا آگے ہو کے جھانکیں تو ہم کو دیکھ سکتے ہیں.آپ نے فرمایا " لا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا فکر نہ کی واللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے پھر فرمایا ابو بکر تم ان دو شخصوں کے متعلق کیا گمان کرتے ہو جن کے ساتھ تیسرا خدا ہے.(بخاری کتاب مناقب المهاجرین) حضرت ابو بکریم کی آوازہ کھبرا گئی اور آپ نے فرمایا" یا رسول اللہ اگر میں مارا جاؤں توسیس ایک اکیلی جان ہوں لیکن اگر خدانخواستہ آپ پر کوئی

Page 77

،، آنی آئے تو پھر تو گویا ساری اُمت کی اُمت مٹ گئی.مچہ.حضرت ابو بکر رضہ نے اپنے بیٹے کو ہدایت کی تھی کہ خبریں دیں.کیا وہ نہیں آئے تھے.ماں.عبداللہ بن ابو بکر رات کو اندھیرا ہوتے ہی غار میں آجاتے سب خبریں دیتے رات وہیں گزارتے اور صبح سویرے واپس چلے جاتے.اسی طرح عامرین فہیرہ بکریاں چراتے ہوئے اُدھر آ جاتے اس طرح دودھ کا انتظام ہو جاتا.حضرت اسماء کھانا لے آئیں.تیسرے دن صبح کے وقت نمار سے نکلے (بنجاری باب الہجرت) یہ پیر کا دن تھا.چار ربیع الاول سنہ نبوی ۱۲ عبدالله بن اریقط جن کو پہلے سے پروگرام بنا دیا گیا تھا دونوں اوشنیاں لے کر پہنچے گئے (بخاری باب الہجرت) ایک اونٹنی جس کا نام القصوا تھا پر آپ سوار ہوئے دوسری پر حضرت ابو بکر رض اور عامر بن فہیرہ سوار ہوئے روانہ ہوتے وقت آپ نے مکہ کی طرف آخری نظر ڈالی اور حسرت سے کہا." اسے مکہ کی بستی تو مجھے سب جگہوں سے زیادہ عزیز ہے پر تیرے.لوگ مجھے یہاں رہتے نہیں دیتے." (مسند احمد و نه مندی بحوالہ زرقانی اس وقت حضرت ابو بکر رض نے کہا." ان لوگوں نے اپنے بیٹی کو نکالا ہے.اب یہ ضرور ہلاک ہوں گے، (ترمندی و نسائی بحوالہ زرقانی) دونوں ساتھی دشمن سے بچنے کے لئے اصل راستہ چھوڑ کر ساحل سمندر کے قریب قریب یثرب کی طرف روانہ ہوئے براہر ایک رات اور دوسرے دن کا کچھ حصہ چلتے رہے.دوسرے دن شدید گرمی میں ایک پتھر کے سائے میں

Page 78

یں کچھ آرام کیا اتنے میں ایک چرواہا ادھر سے گزرا تو حضرت ابو کر تم نے اُس سے دُودھ لے کر پانی میں ٹھنڈا کر کے حضور کی خدمت میں پیش کیا.حضور آرام فرما کہ اُٹھے تھے ٹھنڈا دودھ پیا جس سے حضرت ابو بکر بہت خوش ہوئے.پھر یہ قافلہ آگے چلا.بچہ.اب یہ تو اطمینان تھا کہ خطرے سے نکل آئے.ماں.خطرے سے کہاں نکلے تھے.حضرت ابو بکر رض نے دیکھا تو ایک شخص گھوڑا دوڑائے آرہا ہے.حضرت ابو بکرم نے فرمایا " یارسول اللہ کوئی شخص ہمارے تعاقب میں آرہا ہے.آپ نے تسلی دلائی فکر نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے ، ( بخاری باب المهاجرین ) دہ گھڑ سوار قریب آتا جا رہا تھا کہ اتنے میں اُس کے گھوڑے نے ٹھو کر کھائی اور اس کے پاؤں رہیت میں دھنس گئے ، سوار بھی الٹ کر گرا جس کی وجہ سے گرد و غبار پھیل گیا.سوار نے اونچی آواز سے کہا.میں سراقہ بن مالک بن جعشم ہوں کچھ کہنا چاہتا ہوں میری طرف سے آپ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی.رابن ہشام ص ۳۲) اس آواز پر آپ رُک گئے.سراقہ نے قریب اگر کہا کہ جو کچھ میرے ساتھ ہوا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ محمد کاستا را اقبال پر ہے.اور یہ ضرور ایک دن غالب آئیں گے مجھے امن کی تحریر لکھ دیں جو میرے پاس آپ کی نشانی ہو.پیارے آقا نے عامربن فہیرہ کو کہا کہ چمڑے پر تحر یہ کھوادی پھر اُسے حکم دیا کہ کسی سے کچھ کہتا نہیں.جب وہ خاموش رہنے کا وعدہ

Page 79

69 کیا حال تیرے کر کے چلاگیا تو آپ نے کہا " سراقہ اسے ہاتھ میں کسری کے کنگن ہوں گے." (اسد الغابہ) بچہ.پھر سراقہ نے جا کہ بتایا تو نہیں.ماں.نہیں سراقہ نے کسی سے ذکر نہیں کیا.آپ آگے بڑھے تو راستے میں زبیر کی ہو سے ملاقات ہوئی جو ایک تجارتی سفر سے واپس آرہے تھے.انہوں نے ایک ایک جوڑا سفید کپڑوں کا دونوں مقدس مسافروں کو پیش کیا.یہ سفر اٹھ دن جاری رہا.حضرت ابو بکر رضہ کا ہیشہ تجارت تھا کئی باران راستوں سے آتے جاتے رہتے تھے اکثر لوگ ان کو پہچانتے تھے جب پوچھتے کہ ابو بکرام یہ تمہارے آگے کون مسافر ہے تو جواب دیتے کہ میرا ہادی ہے، (بخاری باب الہجرت ) لوگ سمجھتے کوئی گائیڈ ہو گا.ہاں وہ گائیڈ ہی تو تھا صرف ابو بکر رضہ کا ہی نہیں بلکہ دونوں جہانوں کا راہبر اور ہادی.کاش کہ مکہ والے وقت پر بہیجان لینے اور دکھ دینے سے باز آجاتے.جس طرح ہر نبی کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا اسی طرح پیارے آقا کو بھی مکہ چھوڑا پڑا جہاں آپ کا بچپن گزرا تھا.جہاں آپ جوان ہوئے تھے.جہاں رشتے دار اور عزیز تھے جن کی بھلائی کی خاطر آپ اپنے آرام تو کیا جان کی بھی پرواہ نہ کرتے تھے.ہدایت کا نور بانٹنے اور ماریں کھاتے.اصلاح اخلاق کرتے اور دکھ جھیلتے.اسی مکہ میں ماں باپ اور بزرگوں کی نشانیاں تھیں.خانہ کعبہ تھا.سب کو خدا کی خاطر چھوڑ دیا اور ایک نئی بستی میں اجنبی لوگوں سے محبت کا رشتہ باندھا جو ہمیشہ قائم رہا.آپ کے جانے سے

Page 80

A- یر مدینتہ النبی اور مدینتہ الرسول کہلایا.یہ مدینہ آپ کو انا عزیز ہو گیا کہ فتح مکہ کے بعد پھر مدینہ تشریف لے آئے.اللهم صل عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.اللهُمَّ بَارِك عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَميدٌ مَجِيدٌ

Page 81

مقام ابراهیم

Page 81