Language: UR
آنحضورﷺ کے حالات زندگی کے بیان میں یہ کتاب حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے قلم سے نکلی جسے متعدد بار شائع کیا جاچکا ہے ۔موجودہ ٹائپ شدہ ایڈیشن نظارت نشر واشاعت قادیان نے سوا تین سو صفحات پر شائع کیا ہے۔جو دراصل قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کے دیباچہ کے لئے بانی اسلام ﷺ کا مختصر تعارف ہےتا دنیا کو علم ہوسکے کہ جس پاکیزہ ومقدس ہستیﷺ پر قرآن کریم نازل ہوا، اس کے حالات زندگی ،معمولات، عادات و اطوار اور حسن خلق کس اعلیٰ و ارفع درجے کا تھا۔
AUL نبیوں کا سردار ناشر نظارت نشر و اشاعت قادیان
قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ (الانعام 163) نبیوں کا سردار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات زندگی ) ازقلم حضرت صاحبزادہ میرزا بشیر الدین محمود احمد خليفة المسيح الثانى المصلح الموعود
نام کتب تصنیف : نبیوں کا سردار (صلی الی سلیم) : حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمدخلیفة امسیح الثانی سن اشاعت ایڈیشن اول : 1973ء سن اشاعت ایڈیشن دوم : 1998ء سن اشاعت ایڈیشن سوم : 2001ء سن اشاعت ایڈیشن چہارم : 2012 ء : نومبر 2013ء حالیہ اشاعت تعداد مطبع ناشر 1000: : فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان نظارت نشر و اشاعت صدر انجمن احمد یہ قادیان، ضلع گورداسپور، پنجاب، انڈیا-143516 ISBN No 978-81-7912-246-4 NABIYON KA SARDAR BY: HADHRAT MIRZA BASHIRUDDIN MAHMUD AHMAD KHALIFATUL MASIH II (ra)
66 فہرست مضامین کتاب نبیوں کا سردار " ا بت پرستی ۲ شراب نوشی قمار بازی تجارت عرب کے دیگر حالات عادات و خصائل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت 4 5 6 7 9 ۲۲ حضرت خدیجہ اور ابوطالب کی وفات کے بعد تبلیغ میں رکاوٹیں اور آنحضرت ﷺ کا سفر طائف ۲۳ باشندگانِ مدینہ کا قبولِ اسلام ۲۴ اسراء 40 47 50 ۶ حلف الفضول میں آپ کی شمولیت 10 ۲۵ رومیوں کے غلبہ کی پیشگوئی حضرت خدیجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ ۲۶ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت وسلم کی شادی غلاموں کی آزادی اور زید کا ذکر غار حرا میں خدا کی عبادت کرنا 12 ۲۷ سراقہ کا تعاقب اور اس کے متعلق آنحضرت ۱۰ پہلی قرآنی وحی 13 صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی آنحضرت ﷺ کا مدینہ میں ورود 15 ۲۹ حضرت ابوایوب کے مکان پر قیام حضرت ابوبکر کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ۳۰ حضرت انس خادم آنحضرت صلی اللہ علیہ پر ایمان لانا ۱۲ مومنوں کی چھوٹی سی جماعت 17 وسلم کی شہادت 51 57 60 63 66 67 18 مکہ سے اہل وعیال کو بلوانا مسجد نبوی کی بینا درکھنا 68 ۱۳ رؤسائے مکہ کی مخالفت 19 ۳۲ مدینہ کے مشرک قبائل کا اسلام میں داخل ہونا 68 مومن غلاموں پر کفار مکہ کا ظلم وستم 20 ۳۳ مکہ والوں کی مسلمانوں کو دوبارہ دیکھ دینے کی ۱۵ آزاد مسلمانوں پر ظلم 24 تدبیریں 17 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر مظالم 26 ۳۴ انصار و مہاجرین می مواخات 70 71 ۱۷ پیغام اسلام 28 ۳۵ مہاجرین و انصار اور یہود کے مابین معاہدہ 72 کفار مکہ کی ابو طالب کے پاس شکایت اور ۳۶ اہل مکہ کی طرف سے از سر نو شرارتوں کا آغاز 75 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا استقلال 30 آنحضرت ﷺ کی مدافعانہ تدابیر ۱۹ حبشہ کی طرف ہجرت ۲۰ حضرت عمر کا قبول اسلام ۲۱ مسلمانوں سے مقاطعہ 32 ۳۸ مدینہ میں اسلامی حکوموت کی بنیاد 76 77 لا له 35 ۳۹ قریش کے تجارتی قافلہ کی آمد اور غزوہ بدر 78 ۴۰ 39 ایک عظیم الشان پیشگوئی کا پورا ہونا 86
۴۱ بدر کے قیدی ۴۲ جنگ اُحد ۴۳ فتح مبدل به شکست ۴۴ جنگ اُحد سے واپسی اور اہل مدینہ کے ۴۶ جذبات فدائیت 88 ۶۲ پندرہ سوصحابہ کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ کو روانگی 90 92 ۶۳ شرائط صلح حدیبیہ ۶۴ بادشاہوں کے نام خطوط 100 ۶۵ قیصر روم ہرقل کے نام خط 164 169 172 173 180 ۴۵ شراب نوشی کی ممانعت کا حکم اور اس کا اثر 104 ۶۶ قیصر روم کا نتیجہ کہ آنحضرت سے صادق نبی ہیں 176 غزوہ اُحد کے بعد کفار قبائل کے ناپاک منصوبے 106 ۶۷ آنحضرت ﷺ کے خط بنام ہر قل کا مضمون 178 ۷ ۴ متر حفا ظ قرآن کے قتل کا حادثہ 110 ۶۸ فارس کے بادشاہ کے نام خط ۴۸ غزوۂ نبی مصطلق 9112 نجاشی شاہ حبشہ کے نام خط ۴۹ مدینہ پر سارے عرب کی چڑھائی غزوہ خندق 115 20 مقوقش شاہ مصر کے نام خط ۵۰ غزوہ خندق کے وقت اسلامی لشکر کی تعداد اے رئیس بحرین کے نام خط کیا تھی؟ ۵۱ بنو قریظہ کی غداری 119 ۷۲ قلعہ خیبر کی تسخیر 122 ۷۳ تین عجیب واقعات ۵۲ منافقوں اور مومنوں کی حالت کا بیان 126 ۷۴ طواف کعبہ ۵۳ اسلام میں مردہ لاش کا احترام 129 20 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تعداد ۵۴ اتحادی فوجوں کے مسلمانوں پر حملے ۵۵ بنو قریظہ کی مشرکوں سے مل کر حملہ کیلئے تیاری 129 183 186 188 190 191 195 197 از دواج پر اعتراض کا جواب خالد بن ولید اور عمرو بن العاص کا قبول اسلام 198 اور اس میں نا کامی 132 ۷۷ جنگ موتہ ۵۶ بنو قریظہ کو ان کی غداری کی سزا 135 ۷۸ فتح مکہ ۵۷ بنو قریظہ کے اپنے مقرر کردہ حکم سعد" کا فیصلہ ۷۹ غزوہ حنین تورات کے مطابق تھا ۵۸ مسلمانوں کے غلبہ کا آغاز 138 ۸۰ فتح مکہ اور حنین کے بعد 143 غزوہ تبوک 199 205 224 232 234 ۵۹ یہودیت اور عیسائیت کی تعلیم درباره جنگ 146 ۸۲ حجۃ الوداع اور آنحضرت ﷺ کا ایک خطبہ 239 ۶۰ جنگ کے متعلق اسلام کی تعلیم 149 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات 243 ۶۱ کفار کی طرف سے جنگ خندق کے بعد آنحضرت ﷺ کی وفات پر صحابہ کی حالت 249 مسلمانوں پر حملے 163
306 307 311 312 313 314 316 316 317 318 319 319 320 321 ۸۵ سیرت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم 253 102 لوگوں کے ایمان کی حفاظت کا خیال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری و باطنی ۱۰۸ دوسروں کے عیوب چھپانا صفائی 254 109 صبر ۸۷ کھانے پینے میں سادگی اور تقویٰ 256 ۱۱۰ تعاون باہمی ۸۸ لباس اور زیور میں سادگی اور تقویٰ ۸۹ بستر میں سادگی ۹۰ مکان اور رہائش میں سادگی 111262 چشم پوشی 263 ۱۱۲ سچ 264 113 تجسس کی ممانعت اور نیک نلنی کا حکم ۹۱ خدا تعالیٰ سے محبت اور اس کی عبادت 264 ۱۱۴ سود سلف کے متعلق دھوکا بازی اور فریب سے ۹۲ اللہ تعالیٰ پر توکل ۹۳ 270 نفرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بنی نوع انسان ۱۱۵ مایوسی سے معاملہ ۹۴ اخلاق فاضله ۹۵ تحمل ۹۶ انصاف ۹۷ جذبات کا احترام 277 114 جانوروں سے حسن سلوک 279 ۱۱۷ مذہبی رواداری 281 ۱۱۸ بہادری 283 119 کم عقلوں کے ساتھ محبت کا سلوک 285 ۱۲۰ وفائے عہد ۹۸ غرباء کا خیال اور ان کے جذبات کا احترام 286 291 292 294 294 299 300 302 306 ۹۹ غرباء کے مالوں کی حفاظت ۱۰۰ غلاموں سے حسن سلوک ۱۰۱ بنی نوع انسان کی خدمت کرنے والوں کا احترام ۱۰۲ عورتوں سے حسن سلوک ۱۰۳ وفات یافتوں کے متعلق آپ کا عمل ۱۰۴ ہمسایوں سے حسن سلوک ۱۰۵ ماں باپ اور دوسرے رشتے داروں سے حسن سلوک ۱۰۶ نیک صحبت
بسم الله الرحمن الرحيم نبیوں کا سردار آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کے حالات زندگی خدا تعالیٰ کا یہ ایک بہت بڑا نشان اور اسلام کی صداقت کا ایک عظیم الشان ثبوت ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حالات جتنے ظاہر ہیں اور کسی نبی کی زندگی کے حالات اتنے ظاہر نہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس تفصیل کے نتیجہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جتنے اعتراض ہوئے ہیں اتنے اعتراض اور کسی نبی کے وجود پر نہیں ہوئے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ان اعتراضوں کےحل ہو جانے کے بعد جس طرح شرح صدر اور جس اخلاص سے ایک انسان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے محبت کر سکتا ہے اور کسی انسان کی ذات سے اتنی محبت ہرگز نہیں کر سکتا.کیونکہ جن کی زندگیاں پوشیدہ ہوتی ہیں اُن کی محبت میں رخنہ پڑ جانے کا احتمال ہمیشہ رہتا ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تو ایک کھلی کتاب تھی.دشمن کے اعتراضات حل ہونے کے بعد کوئی ایسا کو نہ نہیں رہتا جس پر سے مڑنے کے بعد آپ کی زندگی کے متعلق ایک نیا زاویہ نگاہ ہمارے سامنے آسکتا ہو.نہ کوئی تہہ ایسی باقی رہتی ہے جس کے کھولنے کے بعد کسی اور قسم کی حقیقت ہم پر ظاہر ہوتی ہو.یہ امر ظاہر ہے کہ ایسے انسان کی زندگی کے حالات قرآن کریم کے دیباچہ میں ضمنی طور پر مختصراً بھی نہیں بیان کئے جاسکتے.صرف اُن کی طرف ایک خفیف سا اشارہ کیا جاسکتا ہے.مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ خفیف اشارہ بھی اس سے بہتر رہے گا کہ میں
نبیوں کا سردار اس مضمون کو ہی ترک کردوں کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے آسمانی کتب کو صحیح معنوں میں لوگوں کے دماغوں میں راسخ کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اُس کے ساتھ اعلیٰ نمونہ بھی ہو اور سب سے اعلیٰ نمونہ وہی ہو سکتا ہے جس پر وہ کتاب نازل ہوئی ہو.یہ نقطہ باریک اور فلسفیانہ ہے اور بہت سے مذاہب نے تو اس کی حقیقت کو سمجھا ہی نہیں.چنانچہ ہندو مذہب ویدوں کو پیش کرتا ہے مگر ویدوں کے لانے والے رشیوں اور منیوں کی تاریخ کے متعلق بالکل خاموش ہے.ہندو مذہب کے علماء اس کی ضرورت کو آج تک بھی نہیں سمجھ سکے.اسی طرح عیسائی اور یہودی علماء اور پادری بڑی بیا کی سے کہہ دیتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے فلاں نبی میں فلاں نقص تھا اور فلاں نبی میں فلاں نقص تھا.وہ یہ بات نہیں سمجھ سکتے کہ جس شخص کو خدا تعالیٰ نے اپنے کلام کے لئے چنا جب وہ کلام اُس کی اصلاح نہیں کر سکا تو کسی دوسرے کی اصلاح کیا کرے گا اور اگر وہ شخص ایسا ہی نا قابل اصلاح تھا تو خدا تعالیٰ نے اُسے چنا کیوں؟ کیا وجہ ہے کہ کسی اور کو نہیں چن لیا؟ آخر خدا تعالیٰ کے لئے کیا مجبوری تھی کہ وہ زبور کے لئے داؤد کو چنتا.وہ بنی اسرائیل میں سے کسی اور انسان کا انتخاب کر سکتا تھا.پس یہ دونوں باتیں غیر معقول ہیں.یہ خیال کر لینا کہ خدا تعالیٰ نے جس پر کلام نازل کیا وہ کلام اُس کی اصلاح نہیں کر سکا یا یہ خیال کر لینا کہ خدا تعالیٰ نے ایک ایسے شخص کو چن لیا جو نا قابل اصلاح تھا یہ دونوں باتیں عقل کے بالکل خلاف ہیں.مگر بہر حال مختلف مذاہب میں اپنے منبع سے دوری کی وجہ سے اس قسم کے غلط خیالات پیدا ہو گئے ہیں.یا یوں کہو کہ انسانی دماغ کی ترقی کے کامل نہ ہونے کے سبب سے پرانے زمانہ میں اِن چیزوں کی اہمیت کو سمجھا ہی نہیں گیا.مگر اسلام میں شروع سے ہی اس امر کی اہمیت سمجھی گئی تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہ تیرہ چودہ سال کی عمر میں آپ سے بیاہی گئیں اور کوئی سات سال کا عرصہ آپ کی صحبت میں رہیں.جب رسول کریم صلی اللہ
نبیوں کا سردار علیہ وسلم فوت ہوئے تو اُن کی عمر ۱ ۲ سال تھی اور وہ پڑھی لکھی بھی نہیں تھیں لیکن باوجود اس کے اُن پر یہ فلسفہ روشن تھا.ایک دفعہ آپ سے کسی نے سوال کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق تو کچھ فرمائیے تو آپ نے فرمایا كَانَ خُلُقُهُ كُلُّهُ الْقُرْآن یعنی آپ کے اخلاق کا پوچھتے ہو جو کچھ آپ کہا کرتے تھے انہی باتوں کا قرآن کریم میں حکم ہے اور قرآن کریم کی لفظی تعلیم آپ کے عمل سے جدا گانہ نہیں ہے.ہر خلق جو قرآن کریم میں بیان ہوا ہے اُس پر آپ کا عمل تھا اور ہر عمل جو آپ کرتے تھے اُسی کی قرآن کریم میں تعلیم ہے.یہ کیسی لطیف بات ہے.معلوم ہوتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اتنے وسیع اور اتنے اعلیٰ تھے کہ ایک نوجوان لڑکی جو تعلیم یافتہ بھی نہیں تھی اس کی توجہ کو بھی اس حد تک پھرانے میں کامیاب ہو گئے کہ ہندو، یہودی اور مسیحی فلسفی جس امر کی حقیقت کو نہ سمجھ سکے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس امر کی حقیقت کو پاگئیں اور ایک چھوٹے سے فقرہ میں آپ نے یہ لطیف فلسفہ بیان کر دیا کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ایک راستباز اور مخلص انسان دنیا کو ایک تعلیم دے اور پھر اُس پر عمل نہ کرے یا خود ایک نیکی پر عمل کرے اور دنیا سے اُسے چھپائے اس لئے تمہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق معلوم کرنے کے لئے کسی تاریخ کی ضرورت نہیں.وہ ایک راستباز اور مخلص انسان تھے جو کہتے تھے وہ کرتے تھے اور جو کرتے تھے وہ کہتے تھے.ہم نے اُن کو دیکھا اور قرآن کریم کو سمجھ لیا.تم جو بعد میں آئے ہو قرآن پڑھو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھ لو.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِكَ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ کے مسند احمد بن حنبل جلد ۶ صفحه ۹۱ مطبوعہ بیروت ۱۳۱۳ھ
نبیوں کا سردار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے وقت عرب کی حالت بت پرستی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس زمانہ میں پیدا ہوئے اُس زمانہ کے حالات کو بھی آپ کے حالات کا ایک حصہ ہی سمجھنا چاہئے کیونکہ اسی پس پردہ کو مدنظر رکھ کر آپ کی زندگی کے حالات کی حقیقت کو انسان اچھی طرح سمجھ سکتا ہے.آپ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور آپ کی پیدائش شمسی حساب سے اگست ۵۷۰ء میں بنتی ہے.آپ کی پیدائش پر آپ کا نام محمد رکھا گیا جس کے معنے تعریف کئے گئے کے ہیں.جب آپ پیدا ہوئے اُس وقت تمام کا تمام عرب سوائے چند مستثنیات کے مشرک تھا.یہ لوگ اپنے آپ کو ابراہیم کی نسل میں سے قرار دیتے تھے اور یہ بھی مانتے تھے کہ ابراہیم مشرک نہیں تھے لیکن اس کے باوجود وہ شرک کرتے تھے اور دلیل یہ دیتے تھے کہ بعض انسان ترقی کرتے کرتے خدا تعالیٰ کے ایسے قریب ہو گئے ہیں کہ اُن کی شفاعت خدا تعالیٰ کی درگاہ میں ضرور قبول کی جاتی ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ کا وجود بہت بلندشان والا ہے اُس تک پہنچنا ہر ایک انسان کا کام نہیں کامل انسان ہی اُس تک پہنچ سکتے ہیں اس لئے عام انسانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ کوئی نہ کوئی وسیلہ بنا ئیں اور اس وسیلہ کے ذریعے سے خدا تعالیٰ کی رضا مندی اور مدد حاصل کریں.اس عجیب و غریب عقیدہ کی رو سے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو موحد مانتے ہوئے اپنے لئے شرک کا جواز بھی پیدا کر لیتے تھے.ابراہیم بڑا پاکباز تھا.وہ خدا کے پاس براہ راست پہنچ سکتا تھا مگر مکہ کے لوگ اس درجہ کے نہیں تھے اس لئے انہیں بعض بڑی ہستیوں کو وسیلہ بنانے کی ضرورت تھی.جس غرض کے حصول کے لئے وہ ان ہستیوں کے بھوں کی عبادت کرتے تھے اور اس طرح بخیال خود ان کو خوش کر کے خدا تعالیٰ کے
نبیوں کا سردار دربار میں اپنا وسیلہ بنا لیتے تھے.اس عقیدہ میں جو نقائص اور بے جوڑ حصے ہیں اُن کے حل کرنے کی طرف اُن کا ذہن کبھی گیا ہی نہیں تھا کیونکہ کوئی موحد معلم ان کو نہیں ملا تھا.جب شرک کسی قوم میں شروع ہو جاتا ہے تو پھر بڑھتا ہی چلا جاتا ہے ایک سے دو بنتے ہیں اور دو سے تین.چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے وقت خانہ کعبہ میں ( جواب مسلمانوں کی مقدس مسجد ہے اور حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیھما السلام کا بنایا ہوا عبادت خانہ ہے ) مؤرخین کے قول کے مطابق تین سو ساٹھ بت تھے گویا قمری مہینوں کے لحاظ سے ہر دن کے لئے ایک علیحدہ بت تھا.ان بنوں کے علاوہ اردگرد کے علاقوں کے بڑے بڑے قصبات میں اور بڑی بڑی اقوام کے مراکز میں علیحدہ بہت تھے گویا عرب کا چپہ چپہ شرک میں مبتلا ہو رہا تھا.عرب لوگوں میں زبان کی تہذیب اور اصلاح کا خیال بہت زیادہ تھا انہوں نے اپنی زبان کو زیادہ سے زیادہ علمی بنانے کی کوشش کی مگر اس کے سوا ان کے نزدیک علم کے کوئی معنی نہ تھے.تاریخ ، جغرافیہ، حساب وغیرہ علوم میں سے کوئی ایک علم بھی وہ نہ جانتے تھے.ہاں بوجہ صحراء کی رہائش اور اس میں سفر کرنے کے علم ہیئت کے ماہر تھے.سارے عرب میں ایک مدرسہ بھی نہ تھا.مکہ مکرمہ میں کہا جاتا ہے کہ صرف چند گنتی کے آدمی پڑھنا لکھنا جانتے تھے.اخلاقی لحاظ سے عرب ایک عجیب متضاد قوم تھی.اُن میں بعض نہایت ہی خطرناک گناہ پائے جاتے تھے اور بعض ایسی نیکیاں بھی پائی جاتی تھیں کہ جو ان کی قوم کے معیار کو بہت بلند کر دیتی تھیں.شراب نوشی اور قمار بازی عرب شراب کے سخت عادی تھے اور شراب کے نشہ میں بے ہوش ہو جانا یا بکواس کرنے لگتا اُن کے نزدیک عیب نہیں بلکہ خوبی تھا.ایک شریف آدمی کی شرافت کی علامتوں میں سے یہ بھی تھا کہ وہ اپنے دوستوں اور ہمسائیوں کو خوب شراب پلائے.امراء کے لئے دن
۶ نبیوں کا سردار کے پانچ وقتوں میں شراب کی مجلسیں لگانا ضروری تھا.جو ا اُن کی قومی کھیل تھی مگر اُس کو انہوں نے ایک فن بنالیا تھا.وہ بجوا اس لئے نہیں کھیلتے تھے کہ اپنے اموال بڑھائیں بلکہ جوئے کو انہوں نے سخاوت اور بڑائی کا ذریعہ بنایا ہوا تھا.مثلاً جوا کھیلنے والوں میں یہ معاہدہ ہوتا تھا کہ جو جیتے وہ جیتے ہوئے مال سے اپنے دوستوں اور اپنی قوم کی دعوتیں کرے.جنگوں کے موقع پر جوئے کو ہی روپیہ جمع کرنے کا ذریعہ بنایا جاتا تھا.جنگ کے ایام میں آجکل بھی لاٹری کا رواج بڑھ رہا ہے مگر یورپ اور امریکہ کے لاٹری بازوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس ایجاد کا سہرا عربوں کے سر ہے.جب کبھی جنگ ہوتی تھی تو عرب قبائل آپس میں بجوا کھیلتے تھے اور جو جیتا تھاوہ جنگ کے اکثر اخراجات اُٹھاتا تھا.غرض دنیا کی دوسری آسائشوں اور سہولتوں سے محروم ہونے کا بدلہ عربوں نے شراب اور جوئے سے لیا تھا.تجارت عرب لوگ تاجر تھے اور اُن کے تجارت کے قافلے دور دور تک جاتے تھے.ایسے سینیا سے بھی وہ تجارت کرتے تھے اور شام اور فلسطین سے بھی وہ تجارت کرتے تھے ہندوستان سے بھی ان کے تجارتی تعلقات تھے.ان کے امراء ہندوستان کی بنی ہوئی تلواروں کی خاص قدر کرتے تھے.کپڑا زیادہ تر یمن اور شام سے آتا تھا.یہ تجارتیں عرب کےشہروں کے ہاتھ میں تھیں بقیہ عرب سوائے یمن اور بعض شمالی علاقوں کے بدوی زندگی بسر کرتے تھے.نہ اُن کے کوئی شہر تھے نہ اُن کی کوئی بستیاں تھیں.صرف قبائل نے ملک کے علاقے تقسیم کر لیے تھے.ان علاقوں میں وہ چکر کھاتے پھرتے تھے.جہاں کا پانی ختم ہو جاتا تھا وہاں سے چل پڑتے تھے اور جہاں پانی مل جاتا تھا وہاں ڈیرے ڈال دیتے تھے.بھیڑ، بکریاں، اُونٹ اُن کی پونچی ہوتے تھے اُن کی صوف اور اُون سے کپڑے
نبیوں کا سردار بناتے.اُن کی کھالوں سے خیمے تیار کرتے اور جو حصہ بچ جاتا اُسے منڈیوں میں لے جا کر بیچ ڈالتے.عرب کے دیگر حالات و عادات و خصائل سونے چاندی سے وہ نا آشنا تو تھے مگر سونا اور چاندی ان کے لئے ایک نہایت ہی کمیاب جنس تھی.حتی کہ اُن کے عوام اور غرباء میں زیورات کوڑیوں اور خوشبودار مصالحوں سے بنائے جاتے تھے.لونگوں اور خربوزوں اور لکڑیوں وغیرہ کے بیجوں اور اسی قسم کی اور چیزوں سے وہ بار تیار کرتے اور اُن کی عورتیں یہ ہار پہن کر زیوروں سے مستغنی ہو جاتی تھیں.فسق و فجور کثرت سے تھا.چوری کم تھی مگر ڈا کہ بے انتہاء تھا.ایک دوسرے کوٹوٹ لینا وہ ایک قومی حق سمجھتے تھے مگر اس کے ساتھ ہی قول کی پاسداری جتنی عربوں میں ملتی ہے اتنی اور کسی قوم میں نہیں ملتی.اگر کوئی شخص کسی طاقتور آدمی یا قوم کے پاس آکر کہہ دیتا کہ میں تمہاری پناہ میں آ گیا ہوں تو اُس شخص یا اُس قوم کے لئے ضروری ہوتا تھا کہ وہ اُس کو پناہ دے.اگر وہ قوم اُسے پناہ نہ دے تو سارے عرب میں وہ ذلیل ہو جاتی تھی.شاعروں کو بہت بڑا اقتدار حاصل تھا وہ گویا قومی لیڈر سمجھے جاتے تھے.لیڈروں کے لئے زبان کی فصاحت اور اگر ہو سکے تو شاعر ہونا نہایت ضروری تھا.مہمان نوازی انتہاء درجہ تک پہنچی ہوئی تھی.جنگل میں بھولا بھٹکا مسافر اگر کسی قبیلہ میں پہنچ جاتا اور کہتا کہ میں تمہارا مہمان آیا ہوں تو وہ بے دریغ بکرے اور دنبے اور اُونٹ ذبح کر دیتے تھے.اُن کے لئے مہمان کی شخصیت میں کوئی دلچسپی نہ تھی، مہمان کا آجانا ہی اُن کے نزدیک قوم کی عزت اور احترام کو بڑھانے والا تھا اور قوم پر فرض ہو جاتا تھا کہ اُس کی عزت کر کے اپنی عزت کو بڑھائے.عورتوں کو کوئی حقوق اُس قوم میں حاصل نہیں تھے.بعض قبائل میں یہ عزت کی بات سمجھی
نبیوں کا سردار جاتی تھی کہ باپ اپنی لڑکی کو مار ڈالے.مؤرخین یہ بات غلط لکھتے ہیں کہ سارے عرب میں لڑکیوں کو مارنے کا رواج تھا.یہ رواج تو طبعی طور پر سارے ملک میں نہیں ہوسکتا کیونکہ اگر سارے ملک میں یہ رواج جاری ہو جائے تو پھر اس ملک کی نسل کس طرح باقی رہ سکتی ہے.اصل بات یہ ہے کہ عرب اور ہندوستان اور دوسرے ممالک میں جہاں جہاں بھی یہ رواج پایا جاتا ہے اس کی صورت یہ ہوا کرتی ہے کہ بعض خاندان اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر یا بعض خاندان اپنے آپ کو ایسی مجبوریوں میں مبتلا دیکھ کر اُن کی لڑکیوں کے لئے اُن کی شان کے مطابق رشتے نہیں ملیں گے لڑکیوں کو ماردیا کرتے ہیں.اس رواج کی برائی اُس کے ظلم میں ہے نہ اس امر میں کہ ساری قوم میں سے لڑکیاں مٹا دی جاتی ہیں.عربوں کی بعض قوموں میں تو لڑکیاں مارنے کا طریقہ یوں رائج تھا کہ وہ لڑکی زندہ دفن کر دیتے تھے اور بعض میں اس طرح کہ وہ اُس کا گلا گھونٹ دیتے تھے اور بعض اور طریقوں سے ہلاک کر دیتے تھے.اصلی ماں کے سوا دوسری ماؤں کو عرب لوگ ماں نہیں سمجھتے تھے اور اُن سے شادیاں کرنے میں حرج نہیں سمجھتے تھے.چنانچہ باپ کے مرنے کے بعد کئی لڑکے اپنی سوتیلی ماؤں سے بیاہ کر لیتے تھے.کثرت ازدواج عام تھی.کوئی حد بندی نکاحوں کی نہیں ہوتی تھی.ایک سے زیادہ بہنوں سے بھی ایک شخص شادی کر لیتا تھا.لڑائی میں سخت ظلم کرتے تھے جہاں بغض بہت زیادہ ہوتا تھا زخمیوں کے پیٹ چاک کر کے اُن کے کلیجے چبا جاتے تھے.ناک کان کاٹ دیتے تھے.آنکھیں نکال دیتے تھے.غلامی کا رواج عام تھا.اردگرد کے کمزور قبائل کے آدمیوں کو پکڑ کے لے آتے تھے اور اُن کو غلام بنا لیتے تھے.غلام کو کوئی حقوق حاصل نہیں تھے.ہر مالک اپنے غلام سے جو چاہتا سلوک کرتا اُس کے خلاف کوئی گرفت نہ تھی.اگر وہ قتل بھی کر دیتا تو اس پر کوئی الزام نہ آتا تھا.اگر کسی دوسرے آدمی کے غلام کو مار دیتا تب بھی وہ موت کی سزا سے محفوظ سمجھا جاتا تھا اور مالک کو
نبیوں کا سردار کچھ معاوضہ دے کر آزادی حاصل کر لیتا تھا.لونڈیوں کو اپنی شہوانی ضرورتوں کے پورا کرنے کا ذریعہ بنانا ایک قانونی حق تسلیم کیا جاتا تھا.لونڈیوں کی اولادیں بھی آگے غلام ہوتی تھیں اور صاحب اولا دلونڈیاں بھی لونڈیاں ہی رہتی تھیں.غرض جہاں تک علم و ترقی کا سوال ہے عرب لوگ بہت پیچھے تھے، جہاں تک بین الاقوامی رحم اور حسنِ سلوک کا سوال ہے عرب کے لوگ بہت پیچھے تھے، جہاں تک صنف نازک کے تعلق کا سوال ہے عرب لوگ دوسری اقوام سے بہت پیچھے تھے.مگر بعض شخصی اور بہادرانہ اخلاق اُن میں ضرور پائے جاتے تھے اور اس حد تک پائے جاتے تھے کہ شاید اُس زمانہ کی دوسری قوموں میں اس کی مثال نہیں پائی جاتی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اس ماحول میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے.آپ کی پیدائش سے پہلے ہی آپ کے والد جن کا نام عبداللہ تھا فوت ہو گئے تھے اور آپ کو اور آپ کی والدہ حضرت آمنہ کو اُن کے دادا عبدالمطلب نے اپنی کفایت میں لے لیا تھا.عرب کے رواج کے مطابق آپ دودھ پلانے کے لئے طائف کے پاس رہنے والی ایک عورت کے سپرد کئے گئے.عرب لوگ اپنے بچوں کو دیہاتی عورتوں کے سپر د کر دیا کرتے تھے تا اُن کی زبان صاف ہو جائے اور اُن کی صحت درست ہو.آپ کی عمر کے چھٹے سال میں آپ کی والدہ بھی مدینہ سے آتے ہوئے جہاں وہ اپنے نتھیال سے ملنے گئی تھیں مدینہ اور مکہ کے درمیان فوت ہو گئیں اور وہیں دفن ہوئیں اور آپ کو ایک خادمہ اپنے ساتھ مکہ لائی اور دادا کے سپر د کر دیا.آپ آٹھویں سال میں تھے کہ آپ کے دادا جو آپ کے نگران تھے وہ بھی فوت ہو گئے اور آپ کے چچا ابو طالب اپنے والد کی وصیت کے مطابق آپ کے نگران
ا.نبیوں کا سردار ہوئے.عرب سے باہر آپ کو دو تین دفعہ جانے کا موقع ملا.جن میں سے ایک سفر آپ نے بارہ سال کی عمر میں اپنے چچا ابوطالب کے ساتھ کیا جو کہ تجارت کے لئے شام کی طرف گئے تھے.یہ سفر آپ کا غالباً شام کے جنوب مشرقی تجارتی شہروں تک ہی محدود تھا کیونکہ اس سفر میں بیت المقدس وغیرہ جگہوں میں سے کسی کا ذکر نہیں آتا.اس کے بعد آپ جوانی تک مکہ میں ہی مقیم رہے.مجلس حلف الفضول میں آپ کی شمولیت آپ کی طبیعت بچپن سے ہی سوچنے اور فکر کرنے کی طرف مائل تھی اور لوگوں کی لڑائیوں جھگڑوں میں آپ دخل نہیں دیا کرتے تھے بلکہ لڑائیوں اور فسادوں کے دُور کرانے میں حصہ لیتے تھے چنانچہ مکہ اور اس کے گردونواح کے قبائل کی لڑائیوں سے تنگ آ کر جب مکہ کے کچھ نو جوانوں نے ایک انجمن بنائی جس کی غرض یہ تھی کہ وہ مظلوموں کی مدد کیا کرے گی ، تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑے شوق سے اُس مجلس میں شامل ہو گئے.اس مجلس کے ممبروں نے اِن الفاظ میں قسمیں کھائی تھیں کہ : وہ مظلوموں کی مدد کریں گے اور اُن کے حق اُن کو لے کر دیں گے جب تک کہ سمندر میں ایک قطرہ پانی کا موجود ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکیں گے تو وہ خود اپنے پاس سے مظلوم کا حق ادا کر دیں گئے، لے شاید اس قسم پر عمل کرنے کا موقع آپ کے سوا اور کسی کو نہیں ملا.جب آپ نے دعوئی نبوت کیا اور سب سے زیادہ مکہ کے سردار ابو جہل نے آپ کی مخالفت میں حصہ لیا اور لوگوں سے یہ کہنا شروع کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے کوئی بات نہ کرے.اُن کی کوئی بات نہ ل السيرة الحلبية جلد ا صفحه ۱۵۴ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۵ء
11 نبیوں کا سردار مانے.ہر ممکن طریق سے اُن کو ذلیل کرے.اُس وقت ایک شخص جس نے ابو جہل سے کچھ قرضہ وصول کرنا تھا مکہ میں آیا اور اُس نے ابو جہل سے اپنے قرضہ کا مطالبہ کیا.ابوجہل نے اُس کا قرض ادا کرنے سے انکار کر دیا.اُس نے مکہ کے بعض لوگوں سے اس امر کی شکایت کی اور بعض نو جوانوں نے شرارت سے اُسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پتہ بتایا کہ اُن کے پاس جاؤ وہ تمہاری اس بارہ میں مدد کریں گے.اُن کی غرض یہ تھی کہ یا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس مخالفت کے مدنظر جو مکہ والوں کی طرف سے عموماً اور ابو جہل کی طرف سے خصوصاً ہو رہی تھی اُس کی امداد کرنے سے انکار کر دیں گے اور اس طرح عربوں میں ذلیل ہو جائیں گے اور قسم توڑنے والے کہلائیں گے یا پھر آپ اس کی مدد کے لئے ابو جہل کے پاس جائیں گے اور وہ آپ کو ذلیل کر کے اپنے گھر سے نکال دے گا.جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہ شخص گیا اور اُس نے ابو جہل کی شکایت کی تو آپ بلا تامل اُٹھ کر اس کے ساتھ چل دیئے اور ابو جہل کے دروازہ پر جا کر دستک دی.ابو جہل گھر سے باہر نکلا اور دیکھا کہ اُس کا قرض خواہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اُس کے دروازہ پر کھڑا ہے.آپ نے فوراً اُسے توجہ دلائی کہ اس شخص کا تم نے فلاں فلاں حق دینا ہے اس کو ادا کرو اور ابوجہل نے ہلا چون و چرا اُس کا حق اُسے ادا کر دیا.جب شہر کے رؤساء نے ابو جہل کو ملامت کی کہ تم ہم سے تو یہ کہا کرتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ذلیل کرو اور اس سے کوئی تعلق نہ رکھو لیکن تم نے خود اُس کی بات مانی اور اُس کی عزت قائم کی.تو ابو جہل نے کہا خدا کی قسم ! اگر تم میری جگہ ہوتے تو تم بھی یہی کرتے.میں نے دیکھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے دائیں اور بائیں مست اونٹ کھڑے ہیں جو میری گردن مروڑ کر مجھے ہلاک کرنا چاہتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کی روایت میں کوئی صداقت ہے یا نہیں.آیا اُسے واقعہ میں اللہ تعالیٰ ے سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحه ۳۰،۲۹ مطبوعه مصر ۱۹۳۶
۱۲ نبیوں کا سردار نے کوئی نشان دکھایا تھا یا صرف اُس پر حق کا رُعب چھا گیا اور اُس نے یہ دیکھ کر کہ سارے مکہ کا مطعون اور مقہور انسان ایک مظلوم کی حمایت کے جوش میں اکیلا بغیر کسی ظاہری مدد کے مکہ کے سردار کے دروازہ پر کھڑا ہو کر کہتا ہے کہ اس شخص کا جو حق تم نے دینا ہے وہ ادا کر دو تو حق کے رُعب نے اُس کی شرارت کی روح کو کچل دیا اور اُسے سچائی کے آگے سر جھکانا پڑا.حضرت خدیجہ سے آنحضرت علی کی شادی جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۲۵ سال کے ہوئے تو آپ کی نیکی اور آپ کے تقویٰ کی شہرت عام طور پر پھیل چکی تھی لوگ آپ کی طرف انگلیاں اٹھاتے اور کہتے یہ سچا انسان جا رہا ہے.یہ امانت والا انسان جا رہا ہے.یہ خبریں مکہ کی ایک مالدار بیوہ کو بھی پہنچیں اور اُس نے آپ کے چا ابو طالب سے خواہش کی کہ وہ اپنے بھتیجے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) سے کہیں کہ اُس کا تجارتی مال جو شام کے تجارتی قافلہ کے ساتھ جارہا ہے وہ اُس کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے.ابو طالب نے آپ سے ذکر کیا اور آپ نے اسے منظور کر لیا.اس سفر میں آپ کو بڑی کامیابی ہوئی اور اُمید سے زیادہ نفع کے ساتھ آپ کو ٹے.خدیجہ نے محسوس کیا کہ یہ نفع صرف منڈیوں کے حالات کی وجہ سے نہیں بلکہ امیر قافلہ کی نیکی اور دیانت کی وجہ سے ہے.اُس نے اپنے غلام میسرہ سے جو آپ کے ساتھ تھا آپ کے حالات دریافت کئے اور اُس نے بھی اُس کے خیال کی تائید کی اور بتایا کہ سفر میں جس دیانتداری اور خیر خواہی سے آپ نے کام کیا ہے وہ صرف آپ ہی کا حصہ تھا.اس بات کا حضرت خدیجہ کی طبیعت پر خاص اثر ہوا.باوجود اس کے کہ وہ اُس وقت چالیس سال کی تھیں اور دو دفعہ بیوہ ہو چکی تھیں انہوں نے اپنی ایک سہیلی کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے
۱۳ نبیوں کا سردار پاس بجھوایا تا معلوم کرے کہ کیا آپ اُن سے شادی کرنے پر رضامند ہوں گے؟ وہ سہیلی آپ کے پاس آئی اور اُس نے آپ سے پوچھا کہ آپ شادی کیوں نہیں کرتے ؟ آپ نے کہا میرے پاس کوئی مال نہیں ہے جس سے میں شادی کروں.اُس سہیلی نے کہا اگر یہ مشکل دور ہو جائے اور ایک شریف امیر عورت سے آپ کی شادی ہو جائے تو پھر ؟ آپ نے فرمایا وہ کون عورت ہے؟ اُس نے کہا خدیجہ.آپ نے فرمایا میں اُس تک کس طرح پہنچ سکتا ہوں؟ اِس پر اُس سہیلی نے کہا کہ یہ میرے ذمہ رہا.آپ نے فرمایا مجھے منظور ہے.تب خدیجہ نے آپ کے چچا کی معرفت شادی کا فیصلہ پختہ کیا اور آپ کی شادی حضرت خدیجہ سے ہوئی.ایک غریب و یتیم نوجوان کے لئے دولت کا یہ پہلا دروازہ کھلا ،مگر اُس نے اس دولت کو جس طرح استعمال کیا وہ ساری دنیا کیلئے ایک سبق آموز واقعہ ہے.غلاموں کی آزادی اور زید کا ذکر آپ کی شادی کے بعد جب حضرت خدیجہ نے یہ محسوس کیا کہ آپ کا حساس دل ایسی زندگی میں کوئی لطف نہیں پائے گا کہ آپ کی بیوی مالدار ہو اور آپ اُس کے محتاج ہوں تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں اپنا مال اور اپنے غلام آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتی ہوں.آپ نے کہا خدیجہ! کیا سچ مچ ؟ جب انہوں نے پھر دوبارہ اقرار کیا تو آپ نے فرمایا میرا پہلا کام یہ ہوگا کہ میں غلاموں کو آزاد کر دوں.چنانچہ آپ نے اُسی وقت حضرت خدیجہ کے غلاموں کو بلایا اور فرمایا تم سب لوگ آج سے آزاد ہو اور مال کا اکثر حصہ غرباء میں تقسیم کر دیا.جو غلام آپ نے آزاد کئے اُن میں ایک زید نامی غلام بھی تھا.وہ دوسرے غلاموں سے زیادہ زیرک اور زیادہ ہوشیار تھا کیونکہ وہ ایک شریف اور معزز خاندان کالڑکا تھا جسے بچپن میں ڈا کو چرا کر لے گئے تھے اور وہ بکتابکا تا مکہ میں پہنچا تھا.اُس نوجوان
۱۴ نبیوں کا سردار نے اپنی زیر کی اور ہوشیاری سے اس بات کو سمجھ لیا کہ آزادی کی نسبت اس شخص کی غلامی بہت بہتر ہے.جب آپ نے غلاموں کو آزاد کیا جن میں زید بھی تھا تو زید نے کہا آپ تو مجھے آزاد کرتے ہیں پر میں آزاد نہیں ہوتا، میں آپ کے ساتھ ہی رہنا چاہتا ہوں.چنانچہ وہ آپ کے ساتھ رہا اور روز بروز آپ کی محبت میں بڑھتا چلا گیا.چونکہ وہ ایک مالدار خاندان کا لڑکا تھا اُس کے باپ اور چچا ڈاکوؤں کے پیچھے پیچھے اپنے بچہ کو تلاش کرتے ہوئے نکلے.آخر انہیں معلوم ہوا کہ اُن کا لڑکا مکہ میں ہے.چنانچہ وہ مکہ میں آئے اور پتہ لیتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں پہنچے اور آپ سے عرض کیا کہ آپ ہمارے بچہ کو آزاد کر دیں اور جتنا روپیہ چاہیں لے لیں.آپ نے فرما یا زید کو تو میں آزاد کر چکا ہوں وہ بڑی خوشی سے آپ لوگوں کے ساتھ جا سکتا ہے.پھر آپ نے زید کو بلو اکر اُس کے باپ اور چچا سے ملوا دیا.جب دونوں فریق مل چکے اور آنسوؤں سے اپنے دل کی بھڑاس نکال چکے تو زید کے باپ نے اُس سے کہا کہ اس شریف آدمی نے تم کو آزاد کر دیا ہے تمہاری ماں تمہاری یاد میں تڑپ رہی ہے اب تم جلدی چلو اور اُس کے لئے راحت اور تسکین کا موجب بنو.زید نے کہا ماں اور باپ کس کو پیارے نہیں ہوتے میرا دل بھی اس محبت سے خالی نہیں ہے مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اس قدر میرے دل میں داخل ہو چکی ہے کہ اس کے بعد میں آپ سے جدا نہیں ہوسکتا.مجھے خوشی ہے کہ میں نے آپ لوگوں سے مل لیا لیکن محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہونا میری طاقت سے باہر ہے.زید کے باپ اور چانے بہت زور دیا مگر زید نے اُن کے ساتھ جانا منظور نہ کیا.زید کی اس محبت کو دیکھ کر حمد صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا.زید آزاد تو پہلے ہی تھا مگر آج سے یہ میرا بیٹا ہے.اس نئی صورت حالات کو دیکھ کر زید کے باپ اور چاوا پس وطن چلے گئے اور زید ہمیشہ کے لئے مکہ کے ہو گئے.لے اسدالغابۃ جلد ۲ صفحه ۲۲۵ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۵ھ
۱۵ نبیوں کا سردار غار حرا میں خدا کی عبادت کرنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر جب تیس سال سے زیادہ ہوئی تو آپ کے دل میں خدا تعالیٰ کی عبادت کی رغبت پہلے سے زیادہ جوش مارنے لگی.آخر آپ شہر کے لوگوں کی شرارتوں، بدکاریوں اور خرابیوں سے متنفر ہو کر مکہ سے دو تین میل کے فاصلہ پر ایک پہاڑی کی چوٹی پر ایک پتھروں سے بنی ہوئی چھوٹی سی غار میں خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے لگ گئے.حضرت خدیجہ چند دن کی غذا آپ کے لئے تیار کر دیتیں لے آپ وہ لے کر حرا میں چلے جاتے تھے اور اُن دو تین پتھروں کے اندر بیٹھ کر خدا تعالیٰ کی عبادت میں رات اور دن مصروف رہتے تھے.پہلی قرآنی وحی جب آپ چالیس سال کے ہوئے تو ایک دن آپ نے اسی غار میں ایک کشفی نظارہ دیکھا کہ ایک شخص آپ سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ ” پڑھیئے.آپ نے فرمایا میں تو پڑھنا نہیں جانتا.اس پر اُس نے دوبارہ اور سہ بارہ کہا اور آخر پانچ فقرے اُس نے آپ سے کہلواۓ اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ - عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَهُ يَعْلَمُ یہ قرآنی ابتدائی وحی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اس کا مفہوم یہ ہے کہ تمام دنیا کو اپنے رب کے نام پر جس نے تجھ کو اور کل مخلوق کو پیدا کیا ہے پڑھ کر آسمانی پیغام سنادے.وہ خدا جس بخاری کتاب بدء الوحی باب كيف كان بدء الوحی......(الخ) العلق : ۶۳۲
۱۶ نبیوں کا سردار نے انسان کو ایسے طور پر پیدا کیا ہے کہ اُس کے دل میں خدا تعالیٰ اور اس کی مخلوق کی محبت کا یج پایا جاتا ہے.ہاں سب دنیا کو یہ پیغام سنادے کہ تیرا رب جو سب سے زیادہ عزت والا ہے تیرے ساتھ ہوگا.وہ جس نے دنیا کو علوم سکھانے کے لئے قلم بنایا ہے اور انسان کو وہ کچھ سکھانے کے لئے آمادہ ہوا ہے جو اس سے پہلے انسان نہیں جانتا تھا.یہ چند الفاظ قرآن کریم کی اُن سب تعلیموں پر حاوی ہیں جو آئندہ محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی تھی اور دنیا کی اصلاح کا ایک اہم بیج اُن کے اندر پایا جاتا تھا.ان کی تفسیر تو قرآن شریف میں اپنے موقع پر آئے گی اس موقع پر ان آیتوں کا اس لئے ذکر کر دیا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا یہ ایک اہم واقعہ ہے اور قرآن کریم کے لئے یہ آیات ایک بنیادی پتھر کی حیثیت رکھتی ہیں.محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جب یہ کلام نازل ہوا تو آپ کے دل میں یہ خوف پیدا ہو گیا کہ کیا میں خدا تعالیٰ کی اتنی بڑی ذمہ داری ادا کر سکوں گا ؟ کوئی اور ہوتا تو کبر اور غرور سے اُس کا دماغ پھر جاتا کہ خدائے قادر نے ایک کام میرے سپر دکیا ہے.مگر محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کام جانتے تھے کام پر اترانا نہیں جانتے تھے.آپ اس الہام کے بعد حضرت خدیجہ کے پاس آئے.آپ کا چہرہ اُترا ہوا تھا اور گھبراہٹ کے آثار ظاہر تھے.حضرت خدیجہ نے پوچھا آخر ہوا کیا؟ آپ نے سارا واقعہ سنایا اور فرمایا میرے جیسا کمزور انسان اس بوجھ کو کس طرح اُٹھا سکے گا.حضرت خدیجہ نے کہا كلا واللهِ مَا يُخْزِيكَ اللهُ أَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْكَلَّ وَتَكْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِى الضَّيْفَ وَتُعِيْنُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِ خدا کی قسم ! یہ کلام خدا تعالیٰ نے اس لئے آپ پر نازل نہیں کیا کہ آپ نا کام اور نامراد ہوں اور خدا آپ کا ساتھ چھوڑ دے.خدا تعالیٰ ایسا کب کر سکتا ہے.آپ تو وہ ہیں کہ آپ رشتہ داروں بخاری کتاب بدء الوحی باب كيف كان بدء الوحى (الخ)
۱۷ نبیوں کا سردار کے ساتھ نیک سلوک کرتے ہیں اور بیکس اور بے مددگار لوگوں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں.وہ اخلاق جو ملک سے مٹ چکے تھے وہ آپ کی ذات کے ذریعہ سے دوبارہ قائم ہورہے ہیں.مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور سچی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں.کیا ایسے انسان کو خدا تعالیٰ ابتلاء میں ڈال سکتا ہے؟ پھر وہ آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو عیسائی ہو چکے تھے.انہوں نے جب یہ واقعہ سنا تو بے اختیار بول اُٹھے آپ پر وہی فرشتہ نازل ہوا ہے جو موسیٰ پر نازل ہوا تھالے گویا اشتناء باب ۱۸ آیت ۱۸ والی پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا.جب اس بات کی خبر زید آپ کے آزاد کردہ غلام کو جو اُس وقت کوئی پچیس تیس سال کے تھے اور علی آپ کے چچا کے بیٹے کو جن کی عمر اُس وقت گیارہ سال کی تھی پہنچی تو دونوں آپ پر فوراً ایمان لائے.حضرت ابوبکر کا آنحضرت ﷺ پر ایمان لانا ابوبکر آپ کے بچپن کے دوست جو شہر سے باہر گئے ہوئے تھے، جب شہر میں داخل ہوئے تو معاً اُن کے کانوں میں یہ آوازیں پڑنی شروع ہوئیں کہ تمہارا دوست دیوانہ ہو گیا ہے، وہ کہتا ہے آسمان سے فرشتے اُتر کر مجھ سے باتیں کرتے ہیں.ابوبکر سیدھے آپ کے دروازہ پر آئے اور دستک دی.جب آپ نے دروازہ کھولا تو انہوں نے آپ سے حقیقت حال کے متعلق سوال کیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بچپن کے دوست کو ٹھوکر سے بچانے کے لئے کچھ تشریح کرنی چاہی.ابوبکر نے روکا اور کہا کہ مجھے صرف اتنا جواب دیجئے کہ کیا آپ نے یہ اعلان کیا ہے کہ خدا کے فرشتے آپ کے پاس آئے اور اُنہوں نے آپ سے باتیں کیں؟ آپ نے پھر تشریح کرنی چاہی مگر ابوبکر نے قسم بخاری کتاب بدء الوحی باب كيف كان بدء الوحى (الخ)
۱۸ نبیوں کا سردار دے کر کہا کہ صرف اِس سوال کا جواب دیجئے اور کچھ نہ کہئے.جب آپ نے اثبات میں جواب دیا تو ابو بکر نے کہا گواہ رہے میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور پھر کہا یا رسُول الله! آپ تو دلائل دے کر میرے ایمان کو کمزور کرنے لگے تھے.جس نے آپ کی زندگی کو دیکھا ہو کیا اسے آپ کی سچائی کے لئے کسی اور دلیل کی ضرورت ہو سکتی ہے؟ لے مؤمنوں کی چھوٹی سی جماعت یہ ایک چھوٹی سی جماعت تھی جس سے اسلام کی بنیاد پڑی.ایک عورت کہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچ رہی تھی ، ایک گیارہ سالہ بچہ ، ایک جوان آزاد کردہ غلام ، بے وطن اور غیروں میں رہنے والا جس کی پشت پر کوئی نہ تھا.ایک نوجوان دوست اور ایک مدعی الہام.یہ وہ چھوٹا سا قافلہ تھا جو دنیا میں نور پھیلانے کے لئے کفر و ضلالت کے میدان کی طرف نکلا.لوگوں نے جب یہ باتیں سنیں انہوں نے قہقہے لگائے.باہم دگر چشمکیں کیں اور نظروں ہی نظروں میں ایک دوسرے کو جتایا کہ یہ لوگ مجنون ہو گئے ہیں ان کی باتوں سے متعجب نہ ہو، بلکہ سنو اور مزہ اُٹھاؤ.مگر حق اپنی پوری شان کے ساتھ ظاہر ہونا شروع ہوا ور یسعیاہ نبی کی پیشگوئی کے مطابق حکم پر حکم حکم پر حکم.قانون پر قانون.قانون پر قانون“.سے ہوتا گیا.تھوڑا یہاں تھوڑا وہاں سے اور اجنبی زبان کے سے جس سے عرب پہلے نا آشنا تھے، خدا نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ عربوں سے باتیں کرنی شروع کیں.نوجوانوں کے دل لرزنے لگے ،صداقت کے متلاشیوں کے جسموں پر کپکپی پیدا ہوئی.اُن کی ہنسی ٹھٹھے اور استہزاء کی آوازوں میں پسندیدگی اور تحسین کے کلمات بھی آہستہ آہستہ بلند السيرة الحلبية جلدا صفحه ۳۰۸ تا ۳۱۰ مطبوعہ مصر ۱۹۳۲ء تاج یسعیاہ باب ۲۸ آیت ۱۲، ۱۳.برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۷ ۱۸۸ء
۱۹ نبیوں کا سردار ہونے شروع ہوئے.غلاموں ، نوجوانوں اور مظلوم عورتوں کا ایک جتھا آپ کے گرد جمع ہونے لگ گیا.کیونکہ آپ کی آواز میں عورتیں اپنے حقوق کی حفاظت دیکھ رہی تھیں.غلام اپنی آزادی کا اعلان سن رہے تھے اور نوجوان بڑی بڑی اُمیدوں اور ترقیوں کے راستے کھلتے ہوئے محسوس کر رہے تھے.رؤسائے مکہ کی مخالفت جب ہنسی اور ٹھٹھے کی آوازوں میں سے تحسین اور تعریف کی آوازیں بھی بلند ہونا شروع ہو گئیں، تو مکہ کے رؤساء گھبرا گئے، حکام کے دل میں خوف پیدا ہونے لگا.وہ جمع ہوئے، انہوں نے مشورے کئے ، منصوبے باندھے اور ہنسی اور ٹھیٹھے کی جگہ ظلم وتعدی اور سختی اور قطع تعلق کی تجاویز کا فیصلہ کیا گیا اور اُن پر عمل ہونا شروع ہوا.اب مکہ سنجیدگی سے اسلام کے ساتھ ٹکرانے کا فیصلہ کر چکا تھا.اب وہ پاگلا نہ دعوئی ایک ترقی کرنے والی حقیقت نظر آ رہا تھا.مکہ کی سیاست کے لئے خطرہ، مکہ کے مذہب کے لئے خطرہ ، مکہ کے تمدن کے لئے خطرہ اور مکہ کے رسم ورواج کے لئے خطرہ دکھائی دے رہا تھا.اسلام ایک نیا آسمان اور ایک نئی زمین بنا تا ہوا نظر آتا تھا.جس نئے آسمان اور زمین کے ہوتے ہوئے عرب کا پرانا آسمان اور پرانی زمین قائم نہیں رہ سکتے تھے.اب یہ سوال مکہ والوں کے لئے ہنسی کا سوال نہیں رہا تھا اب یہ زندگی اور موت کا سوال تھا.اُنہوں نے اسلام کے چیلنج کو قبول کیا اور اُسی روح کے ساتھ قبول کیا جس روح کے ساتھ نبیوں کے دشمن نبیوں کے چیلنج کو قبول کرتے چلے آئے تھے اور وہ دلیل کا جواب دلیل سے نہیں بلکہ تلوار اور تیر کے ساتھ دینے پر آمادہ ہو گئے.اسلام کی خیر خواہی کا جواب ویسے ہی بلند اخلاق کے ذریعہ سے نہیں بلکہ گالی گلوچ اور بد کلامی سے دینے کا اُنہوں نے فیصلہ کر لیا.ایک دفعہ پھر دنیا میں کفر اور اسلام کی لڑائی
نبیوں کا سردار شروع ہوگئی.ایک دفعہ پھر شیطان کے لشکروں نے فرشتوں پر ہلہ بول دیا.بھلا ان مٹھی بھر آدمیوں کی طاقت ہی کیا تھی کہ مکہ والوں کے سامنے ٹھہر سکیں.عورتیں بے شرمانہ طریقوں سے قتل کی گئیں.مرد ٹانگیں چیر چیر کر مار ڈالے گئے ، غلام تپتی ہوئی ریت اور گھر درے پتھروں پر گھسیٹے گئے.اس حد تک کہ اُن کے چمڑے انسانی چمڑوں کی شکلیں بدل کر حیوانی چمڑے بن گئے.ایک مدت بعد اسلام کی فتح کے زمانہ میں جب اسلام کا جھنڈا مشرق و مغرب میں لہرا رہا تھا ایک دفعہ ایک ابتدائی نو مسلم غلام خباب کی پیٹھ نگی ہوئی تو اُن کے ساتھیوں نے دیکھا کہ اُن کی پیٹھ کا چمڑا انسانوں جیسا نہیں جانوروں جیسا ہے وہ گھبرا گئے اور اُن سے دریافت کیا کہ آپ کو یہ کیا بیماری ہے؟ وہ ہنسے اور کہا بیماری نہیں یہ یادگار ہے اُس وقت کی جب ہم کو مسلم غلاموں کو عرب کے لوگ مکہ کی گلیوں میں سخت اور کھردرے پتھروں پر گھسیٹا کرتے تھے اور متواتر یہ ظلم ہم پر روا رکھے جاتے تھے اُسی کے نتیجہ میں میری پیٹھ کا چمڑہ یہ شکل اختیار کر گیا ہے.مؤمن غلاموں پر کفار مکہ کا ظلم وستم یہ غلام جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے مختلف اقوام کے تھے ان میں حبشی بھی تھے جیسے بلال ، رومی بھی تھے جیسے مہیب.پھر اُن میں عیسائی بھی تھے جیسے جیر اور صہیب.اور مشرکین بھی تھے جیسے بلال اور عمار.بلال کو اُس کے مالک تیپتی ریت پر لٹا کر او پر یا تو پتھر رکھ دیتے یا نوجوانوں کو سینہ پر کودنے کے لئے مقرر کر دیتے.حبشی النسل بلال اُمیہ بن خلف نامی ایک مکی رئیس کے غلام تھے.اُمیہ انہیں دوپہر کے وقت گرمی کے موسم میں مکہ سے باہر لے جا کر تپتی ہوئی ریت پر ننگا کر کے لٹا دیتا تھا اور بڑے بڑے گرم پتھر اُن کے سینہ پر رکھ کر کہتا تھا کہ لات اور عزیٰ کی الوہیت کو تسلیم کر اور محمد ( صلی اللہ علیہ
۲۱ نبیوں کا سردار وسلم) سے علیحدگی کا اظہار کر.بلال اُس کے جواب میں کہتے احد احد یعنی اللہ ایک ہی ہے اللہ ایک ہی ہے.بار بار آپ کا یہ جواب سن کر اُمیہ کو اور غصہ آجاتا اور وہ آپ کے گلے میں رسہ ڈال کر شریر لڑکوں کے حوالے کر دیتا اور کہتا کہ ان کو مکہ کی گلیوں میں پتھروں کے اُوپر سے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں.جس کی وجہ سے اُن کا بدن خون سے تر بتر ہو جاتا مگر وہ پھر بھی احد احد کہتے چلے جاتے ، یعنی خدا ایک خدا یک.عرصہ کے بعد جب خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو مدینہ میں امن دیا جب وہ آزادی سے عبادت کرنے کے قابل ہو گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو اذان دینے کے لئے مقرر کیا.یہ حبشی غلام جب اذان میں اَشْهَدُ أن لا إله إلا الله کی بجائے اَشهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلَّا الله کہتا تو مدینہ کے لوگ جو اُس کے حالات سے ناواقف تھے ہنسنے لگ جاتے.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بلال کی اذان پر ہنستے ہوئے پایا تو آپ لوگوں کی طرف مڑے اور کہا تم بلال کی اذان پر ہنستے ہومگر خدا تعالیٰ عرش پر اُس کی اذان سن کر خوش ہوتا ہے.آپ کا اشارہ اسی طرف تھا کہ تمہیں تو یہ نظر آتا ہے کہ یہ ”ش“ نہیں بول سکتا.مگر ش“ اور ”س“ میں کیا رکھا ہے خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ جب تپتی ریت پر رنگی پیٹھ کے ساتھ اس کو لٹا دیا جاتا تھا اور اس کے سینہ پر ظالم اپنی جوتیوں سمیت کو دا کرتے تھے اور پوچھتے تھے کہ کیا اب بھی سبق آیا ہے یا نہیں؟ تو یہ اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں احد احد کہہ کر خدا تعالیٰ کی توحید کا اعلان کرتارہتا تھا اور اپنی وفاداری ، اپنے توحید کے عقیدہ اور اپنے دل کی مضبوطی کا ثبوت دیتا تھا.پس اُس کا اسھد بہت سے لوگوں کے اٹھڈ سے زیادہ قیمتی تھا.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب اُن پر یہ ظلم دیکھے تو اُن کے مالک کو اُن کی قیمت ادا کر کے انہیں آزاد کروا دیا.اسی طرح اور بہت سے غلاموں کو حضرت ابوبکر رضی لے سیرت ابن ہشام جلد ۱ صفحہ ۳۴۰،۳۳۹ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۲ نبیوں کا سردار اللہ عنہ نے اپنے مال سے آزاد کرایا.ان غلاموں میں سے صہیب ایک مالدار آدمی تھے.یہ تجارت کرتے تھے اور مکہ کے با حیثیت آدمیوں میں سمجھے جاتے تھے مگر باوجود اس کے کہ وہ مالدار بھی تھے اور آزاد بھی ہو چکے تھے قریش اُن کو مار مار کر بیہوش کر دیتے تھے.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے تو آپ کے بعد صہیب نے بھی چاہا کہ وہ بھی ہجرت کر کے مدینہ چلے جائیں مگر مکہ کے لوگوں نے اُن کو روکا اور کہا کہ جو دولت تم نے مکہ میں کمائی ہے تم اسے مکہ سے باہر کس طرح لے جاسکتے ہو ہم تمہیں مکہ سے جانے نہیں دیں گے.صہیب نے کہا اگر میں یہ سب کی سب دولت چھوڑ دوں تو کیا پھر تم مجھے جانے دو گے؟ وہ اس بات پر رضامند ہو گئے اور آپ اپنی ساری دولت مکہ والوں کے سپرد کر کے خالی ہاتھ مدینہ چلے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے.آپ نے فرمایا.صہیب تمہارا یہ سودا سب پہلے سودوں سے نفع مند رہا.یعنی پہلے اسباب کے مقابلہ میں تم روپیہ حاصل کیا کرتے تھے مگر اب روپیہ کے مقابلہ میں تم نے ایمان حاصل کیا ہے.ان غلاموں میں اکثر تو ظاہر و باطن میں مستقل رہے، لیکن بعض سے ظاہر میں کمزوریاں بھی ظاہر ہوئیں.چنانچہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمار نامی غلام کے پاس سے گزرے تو دیکھا کہ وہ سسکیاں لے رہے تھے اور آنکھیں پونچھ رہے تھے.آپ نے پوچھا عمار! کیا معاملہ ہے؟ عمار نے کہا اے اللہ کے رسول ! بہت ہی بُرا.وہ مجھے مارتے گئے اور دکھ دیتے گئے اور اُس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک میرے منہ سے آپ کے خلاف اور دیوتاؤں کی تائید میں کلمات نہیں نکلوا لئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا لیکن تم اپنے دل میں کیا محسوس کرتے تھے؟ عمار نے کہا دل میں تو ایک غیر متزلزل ایمان محسوس کرتا تھا.آپ نے فرمایا اگر دل ایمان پر مطمئن تھا تو خدا تعالیٰ تمہاری کمزوری
۲۳ نبیوں کا سردار کو معاف کر دے گا.آپ کے والد یا سر اور آپ کی والدہ سمیہ کو بھی کفار بہت دکھ دیتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ جبکہ اُن دونوں کو دکھ دیا جارہا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے پاس سے گزرے.آپ نے اُن دونوں کی تکلیفوں کو دیکھا اور آپ کا دل درد سے بھر آیا.آپ اُن سے مخاطب ہو کر بولے صَبراً آلَ يَاسِر فَإِنَّ مَوْعِدَ كُمُ الْجَنَّةَ " اے یاسر کے خاندان ! صبر سے کام لو.خدا نے تمہارے لئے جنت تیار کر چھوڑی ہے.اور یہ پیشگوئی تھوڑے ہی دنوں میں پوری ہو گئی کیونکہ یا سر مار کھاتے کھاتے مر گئے مگر اس پر بھی کفار کو صبر نہ آیا اور اُنہوں نے اُن کی بُڑھیا بیوی سمیہ پر ظلم جاری رکھے.چنانچہ ابو جہل نے ایک دن غصہ میں اُن کی ران پر زور سے نیزہ مارا جوران کو چیرتا ہوا اُن کے پیٹ میں گھس گیا اور تڑپتے ہوئے انہوں نے جان دے دی.سے زنبیرہ بھی ایک لونڈی تھیں اُن کو ابو جہل نے اتنا مارا کہ اُن کی آنکھیں ضائع ہو گئیں.ہے ابوفلیہ " صفوان بن امیہ کے غلام تھے.اُن کو اُن کا مالک اور اُس کا خاندان گرم تپتی ہوئی زمین پر لٹا دیتا اور بڑے بڑے گرم پتھر اُن کے سینہ پر رکھ دیتا یہاں تک کہ اُن کی زبان باہر نکل آتی.یہی حال باقی غلاموں کا بھی تھا.شے بیشک یہ ظلم انسانی طاقت سے بالا تھے، مگر جن لوگوں پر یہ ظلم کئے جارہے تھے وہ اسد الغابة جلد ۴ صفحه ۴۴ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ سیرت ابن هشام جلدا صفحه ۳۴۲ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۳ ۲۰ اسد الغابة جلد ۵ صفحه ۴۸۱ مطبوعه ریاض ۱۲۸۰ھ ه السيرة الحلبية جلدا صفحه ۳۳۴ مطبوع مصر ۱۹۳۲ء
۲۴ نبیوں کا سردار ظاہر میں انسان تھے اور باطن میں فرشتے.قرآن صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل اور کانوں پر نازل نہیں ہو رہا تھا خدا اُن لوگوں کے دلوں میں بھی بول رہا تھا اور کبھی کوئی مذہب قائم نہیں ہو سکتا جب تک اس کے ابتدائی ماننے والوں کے دلوں میں سے خدا کی آواز بلند نہ ہو.جب انسانوں نے اُن کو چھوڑ دیا ، جب رشتہ داروں نے اُن سے منہ پھیر لیا تو خدا تعالیٰ اُن کے دلوں میں کہتا تھا میں تمہارے ساتھ ہوں ، میں تمہارے ساتھ ہوں اور یہ سب ظلم اُن کے لئے راحت ہو جاتے تھے.گالیاں دعائیں بن کر لگتی تھیں.پتھر مرہم کے قائمقام ہو جاتے تھے مخالفتیں بڑھتی گئیں مگر ایمان بھی ساتھ ہی ترقی کرتا گیا.ظلم اپنی انتہا کو پہنچ گیا مگر اخلاص بھی تمام گزشتہ حد بندیوں سے او پر نکل گیا.آزاد مسلمانوں پر ظلم آزاد مسلمانوں پر بھی کچھ کم ظلم نہیں ہوتے تھے.اُن کے بزرگ اور خاندانوں کے بڑے لوگ انہیں بھی قسم قسم کی تکلیفیں دیتے تھے.حضرت عثمان چالیس سال کی عمر کے قریب کے تھے اور مالدار آدمی تھے مگر باوجود اس کے جب قریش نے مسلمانوں پر ظلم کرنے کا فیصلہ کیا تو ان کے چچا حکم نے اُن کو رسیوں سے باندھ کر خوب پیٹا.زبیر بن العوام ایک بہت بڑے بہادر نوجوان تھے.اسلام کی فتوحات کے زمانہ میں وہ ایک زبر دست جرنیل ثابت ہوئے.ان کا چا بھی اُن کو خوب تکلیفیں دیتا تھا.چٹائی میں لپیٹ دیتا تھا اور نیچے سے دُھواں دیتا تھا تا کہ اُن کا سانس رُک جائے اور پھر کہتا تھا کہ کیا اب بھی اسلام سے باز آؤ گے یا نہیں؟ مگر وہ ان تکالیف کو برداشت کرتے اور جواب میں یہی کہتے کہ میں صداقت کو پہچان کر اُس سے انکار نہیں کر سکتا.حضرت ابوذر، غفار قبیلہ کے ایک آدمی تھے وہاں انہوں نے سنا کہ مکہ میں کسی
۲۵ نبیوں کا سردار شخص نے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے کا دعویٰ کیا ہے.وہ تحقیقات کے لئے مکہ آئے تو مکہ والوں نے انہیں ورغلایا اور کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) تو ہمارا رشتہ دار ہے.ہم جانتے ہیں کہ اُس نے ایک دکان کھولی ہے.مگر ابوذر اپنے ارادہ سے باز نہ آئے اور کئی تدابیر اختیار کر کے آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا پہنچے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی تعلیم بتائی اور آپ اسلام لے آئے.آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لی کہ اگر میں کچھ عرصہ تک اپنی قوم کو اپنے اسلام کی خبر نہ دوں تو کچھ حرج تو نہیں؟ آپ نے فرمایا اگر چند دن خاموش رہیں تو کوئی حرج نہیں.اس اجازت کے ساتھ وہ اپنے قبیلہ کی طرف واپس چلے اور دل میں فیصلہ کر لیا کہ کچھ عرصہ تک میں اپنے حالات کو درست کرلوں گا تو اپنے اسلام کو ظاہر کروں گا.جب وہ مکہ کی گلیوں میں سے گزررہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ رؤسائے مکہ اسلام کے خلاف گالی گلوچ کر رہے ہیں.کچھ دنوں کے لئے اپنے عقیدہ کو چھپائے رکھنے کا خیال اُن کے دل سے اُسی وقت محو ہو گیا.اور بے اختیار ہو کر انہوں نے اس مجلس کے سامنے یہ اعلان کیا أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ " - یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اُس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اُس کے بندے اور رسول ہیں.دشمنوں کی اس مجلس میں اس آواز کا اُٹھنا تھا کہ سب لوگ ان کو مارنے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور اتنا مارا کہ وہ بیہوش ہو کر جا پڑے لیکن پھر بھی ظالموں نے اپنے ہاتھ نہ کھینچے اور مارتے ہی چلے گئے.اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چا عباس جو اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے وہاں آگئے اور اُنہوں نے ان لوگوں کو سمجھایا کہ ابوذر کے قبیلہ میں سے ہو کر تمہارے غلے کے قافلے آتے ہیں اگر اُس کی قوم کو غصہ آگیا تو مکہ بھوکا مرجائے گا.اس پر اُن لوگوں نے اُن کو چھوڑ دیا.ابوذر نے ایک دن آرام کیا اور دوسرے ย
۲۶ نبیوں کا سردار دن پھر اُسی مجلس میں پہنچے.وہاں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف باتیں کرنا روزانہ کا شغل تھا.جب یہ خانہ کعبہ میں گئے تو پھر وہی ذکر ہورہا تھا.اُنہوں نے پھر کھڑے ہوکر اپنے عقیدہ توحید کا اعلان کیا اور پھر اُن لوگوں نے اُن کو مارنا پیٹنا شروع کیا.اسی طرح تین دن ہوتار ہالے اس کے بعد یہ اپنے قبیلہ کی طرف چلے گئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر مظالم خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بھی محفوظ نہ تھی.طرح طرح سے آپ کو دیکھ دیا جا تا تھا.ایک دفعہ آپ عبادت کر رہے تھے کہ آپ کے گلے میں پڑکا ڈال کر لوگوں نے کھینچنا شروع کیا یہاں تک کہ آپ کی آنکھیں باہر نکل آئیں.اتنے میں حضرت ابوبکر وہاں آگئے اور اُنہوں نے یہ کہتے ہوئے پچھڑایا کہ اے لوگو! کیا تم ایک آدمی کو اس جرم میں قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے خدا میرا آقا ہے.ایک دفعہ آپ نماز پڑھ رہے تھے کہ آپ کی پیٹھ پر اونٹ کی اوجھری لا کر رکھ دی گئی اور اس کے بوجھ سے اُس وقت تک آپ سر نہ اُٹھا سکے جب تک بعض لوگوں نے پہنچ کر اُس اوجھری کو آپ کی پیٹھ سے ہٹایا نہیں.سے ایک دفعہ آپ بازار سے گزر رہے تھے تو مکہ کے اوباشوں کی ایک جماعت آپ کے گرد ہو گئی اور رستہ بھر آپ کی گردن پر یہ کہ کر تھپڑ مارتی چلی گئی کہ لوگو! یہ وہ شخص.جو کہتا ہے میں نبی ہوں.بخاری کتاب مناقب الانصار باب اسلام ابي ذر الغفاری بخاری کتاب المناقب باب قول النبی ﷺ لو كنت متخذا خليلا ے بخاری کتاب الصلوة باب المرأة تطرح عن المصلى (الخ) ہے
۲۷ نبیوں کا سردار آپ کے گھر میں اردگرد کے گھروں سے متواتر پتھر پھینکے جاتے تھے.باور چی خانہ میں گندی چیزیں پھینکی جاتی تھیں.جن میں بکروں اور اونٹوں کی انتڑیاں بھی شامل ہوتی تھیں.جب آپ نماز پڑھتے تو آپ پر خاک دھول ڈالی جاتی حتی کہ مجبور ہو کر آپ کو چٹان میں سے نکلے ہوئے ایک پتھر کے نیچے چھپ کر نماز پڑھنی پڑتی تھی.مگر یہ مظالم بیکار نہ جارہے تھے.شریف الطبع لوگ ان کو دیکھتے اور اسلام کی طرف اُن کے دل کھنچے چلے جاتے تھے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن خانہ کعبہ کے قریب صفا پہاڑی پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ابو جہل آپ کا سب سے بڑا دشمن اور مکہ کا سردار وہاں سے گزرا اور اُس نے آپ کو گالیاں دینی شروع کیں.آپ اُس کی گالیاں سنتے رہے اور کوئی جواب نہ دیا اور خاموشی سے اُٹھ کر اپنے گھر چلے گئے.آپ کے خاندان کی ایک لونڈی اس واقعہ کو دیکھ رہی تھی.شام کے وقت آپ کے چا حمزہ جو ایک نہایت دلیر اور بہادر آدمی تھے اور جن کی بہادری کی وجہ سے شہر کے لوگ اُن سے خائف تھے شکار کھیل کر جنگل سے واپس آئے اور کندھے کے ساتھ کمان لڑکائے ہوئے نہایت ہی تبختر کے ساتھ اپنے گھر میں داخل ہوئے.لونڈی کا دل صبح کے نظارہ سے بے حد متاثر تھا.وہ حمزہ کو اس شکل میں دیکھ کر برداشت نہ کر سکی اور انہیں طعنہ دے کر کہا.تم بڑے بہادر بنے پھرتے ہو، ہر وقت اسلحہ سے مسلح رہتے ہو.مگر کیا تمہیں معلوم ہے کہ صبح ابو جہل نے تمہارے بھتیجے سے کیا کیا ؟ حمزہ نے پوچھا کیا کیا؟ اُس نے وہ سب واقعہ حمزہ کے سامنے بیان کیا.حمزہ گو مسلمان نہ تھے مگر دل کے شریف تھے.اسلام کی باتیں تو سنی ہوئی تھیں اور یقینا اُن کے دل پر ان کا اثر ہو چکا تھا مگر اپنی آزادزندگی کی وجہ سے سنجیدگی کے ساتھ اُن پر غور کرنے کا موقع نہیں ملا تھا لیکن اس واقعہ کو سن کر اُن کی رگِ حمیت جوش میں آگئی.آنکھوں پر سے غفلت کا پردہ دُور ہو گیا لا تبختر ناز سے چلنا، غرور سے چلنا،غرور، تکبر،فخر، اترانا
۲۸ نبیوں کا سردار اور انہیں یوں معلوم ہوا کہ ایک قیمتی چیز ہاتھوں سے نکلی جارہی ہے.اُسی وقت گھر سے باہر آئے اور خانہ کعبہ کی طرف گئے جو رؤساء کے مشورے کا مخصوص مقام تھا.اپنی کمان کندھے سے اُتاری اور زور سے ابو جہل کو ماری اور کہا سنو ! میں بھی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مذہب کو اختیار کرتا ہوں.تم نے صبح اُسے بلاوجہ گالیاں دیں اس لئے کہ وہ آگے سے جواب نہیں دیتا.اگر بہادر ہو تو آب میری مار کا جواب دو.یہ واقعہ ایسا اچانک ہوا کہ ابو جہل بھی گھبرا گیا.اُس کے ساتھی حمزہ سے لڑنے کو اُٹھے لیکن حمزہ کی بہادری کا خیال کر کے اور اُن کے قومی جتھا پر نظر کر کے ابو جہل نے خیال کیا کہ اگر لڑائی شروع ہوگئی تو اس کا نتیجہ نہایت خطرناک نکلے گا اس لئے مصلحت سے کام لے کر اُس نے اپنے ساتھیوں کو یہ کہتے ہوئے روک دیا کہ چلو جانے دو میں نے واقعہ میں اس کے بھتیجے کو بہت بری طرح گالیاں دی تھیں لے پیغام اسلام جب مخالفت تیز ہوگئی اور ادھر سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے اصرار سے مکہ والوں کو خدا تعالیٰ کا یہ پیغام پہنچانا شروع کیا کہ اس دنیا کا پیدا کرنے والا خدا ایک ہے، اُس کے سوا کوئی اور معبود نہیں.جس قدر نبی گذرے ہیں سب ہی اُس کی توحید کا اقرار کیا کرتے تھے اور اپنے ہم قوموں کو بھی اسی تعلیم کی طرف بلایا کرتے تھے.تم خدائے واحد پر ایمان لاؤ، ان پتھر کے بتوں کو چھوڑ دو کہ یہ بالکل بے کار ہیں اور ان میں کوئی طاقت نہیں.اے مکہ والو! کیا تم دیکھتے نہیں کہ ان کے سامنے جوند رو نیاز رکھی جاتی ہے اگر اس پر مکھیوں کا جھرمٹ آ بیٹھے تو وہ ان مکھیوں کو اڑانے کی بھی طاقت نہیں رکھتے ، اگر سیرت ابن ہشام جلد ا صفحه ۳۱۱، ۳۱۲ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۹ نبیوں کا سردار کوئی اُن پر حملہ کرے تو وہ اپنی حفاظت نہیں کر سکتے ، اگر کوئی اُن سے سوال کرے تو وہ جواب نہیں دے سکتے ، اگر کوئی ان سے مدد مانگے تو وہ اس کی مدد نہیں کر سکتے.مگر خدائے واحد تو مانگنے والوں کی ضرورت پوری کرتا ہے.سوال کرنے والوں کو جواب دیتا ہے.مدد مانگنے والوں کی مدد کرتا ہے اور اپنے دشمنوں کو زیر کرتا ہے اور اپنے عبادت گزار بندوں کو اعلی ترقیات بخشتا ہے.اس سے روشنی آتی ہے جو اس کے پرستاروں کے دلوں کو منور کر دیتی ہے.پھر تم کیوں ایسے خدا کو چھوڑ کر بے جان بتوں کے آگے جھکتے ہو اور اپنی عمر ضائع کر رہے ہو.تم دیکھتے نہیں کہ خدا تعالیٰ کی توحید کو چھوڑ کر تمہارے خیالات بھی گندے اور دل بھی تاریک ہو گئے ہیں.تم قسم قسم کی وہی تعلیموں میں مبتلا ہو.حلال وحرام کی تم میں تمیز نہیں رہی.اچھے اور بُرے میں تم امتیاز نہیں کر سکتے.اپنی ماؤں کی بے حرمتی کرتے ہو، اپنی بہنوں اور بیٹیوں پر ظلم کرتے ہو اور ان کے حق انہیں نہیں دیتے.اپنی بیویوں سے تمہارا سلوک اچھا نہیں.یتامی کے حق مارتے ہو اور بیواؤں سے بُرا سلوک کرتے ہو.غریبوں اور کمزوروں پر ظلم کرتے ہو اور دوسروں کے حق مار کر اپنی بڑائی قائم کرنا چاہتے ہو.جھوٹ اور فریب سے تم کو عار نہیں.چوری اور ڈاکہ سے تم کو نفرت نہیں.جوا اور شراب تمہارا شغل..حصولِ علم اور قومی خدمت کی طرف تمہاری توجہ نہیں.خدائے واحد کی طرف سے کب تک غافل رہو گے.آؤ اور اپنی اصلاح کرو اور ظلم چھوڑ دو.ہر حق دار کو اُس کا حق دو.خدا نے اگر مال دیا ہے تو ملک وقوم کی خدمت اور کمزوروں اور غریبوں کی ترقی کے لئے اُسے خرچ کرو.عورتوں کی عزت کرو اور ان کے حق ادا کرو.یتیموں کو اللہ تعالیٰ کی امانت سمجھو اور اُن کی خبر گیری کو اعلیٰ درجہ کی نیکی سمجھو.بیواؤں کا سہارا بنو.نیکیوں اور تقویٰ کو قائم کرو.انصاف اور عدل ہی نہیں بلکہ رحم اور احسان کو اپنا شعار بناؤ.اس دنیا میں تمہارا آنا بیکار نہ جانا چاہئے.اچھے آثار اپنے پیچھے چھوڑو، تا دائمی نیکی کا بیج بویا جائے.حق لینے
نبیوں کا سردار میں نہیں بلکہ قربانی اور ایثار میں اصل عزت ہے.پس تم قربانی کرو، خدا کے قریب ہو.خدا کے بندوں کے مقابل پر ایثار کا نمونہ دکھاؤ تا خدا تعالیٰ کے ہاں تمہارا حق قائم ہو.بے شک ہم کمزور ہیں مگر ہماری کمزوری کو نہ دیکھو.آسمان پر سچائی کی حکومت کا فیصلہ ہو چکا ہے.اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے عدل کا ترازو رکھا جائے گا اور انصاف اور رحم کی حکومت قائم کی جائے گی جس میں کسی پر ظلم نہ ہوگا.مذہب کے معاملہ میں دخل اندازی نہ کی جائے گی.عورتوں اور غلاموں پر جو ظلم ہوتے رہے ہیں وہ مٹا دیئے جائیں گے اور شیطان کی حکومت کی جگہ خدائے واحد کی حکومت قائم کر دی جائے گی.کفار مکہ کی ابوطالب کے پاس شکایت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا استقلال جب تیتعلیمیں بار بار مکہ والوں کو سنائی جانے لگیں اور شریف الطبع لوگوں کی رغبت اسلام کی طرف بڑھنے لگی تو ایک دن مکہ کے سردار جمع ہو کر آپ کے چا ابوطالب کے پاس آئے اور اُن سے کہا کہ آپ ہمارے رئیس ہیں اور آپ کی خاطر ہم نے آپ کے بھتیجے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو کچھ نہیں کہا.اب وقت آگیا ہے کہ آپ کے ساتھ ہم آخری فیصلہ کریں یا تو آپ اُسے سمجھا ئیں اور اس سے پوچھیں کہ آخر وہ ہم سے چاہتا کیا ہے.اگر اُس کی خواہش عزت حاصل کرنے کی ہے تو ہم اسے اپنا سردار بنانے کے لئے تیار ہیں.اگر وہ دولت کا خواہش مند ہے تو ہم میں سے ہر شخص اپنے مال کا کچھ حصہ اُس کو دینے کے لئے تیار ہے.اگر اُسے شادی کی خواہش ہے تو مکہ کی ہر لڑکی جو اُسے پسند ہو اس کا نام لے ہم اُس سے اُس کا بیاہ کرانے کے لئے تیار ہیں.ہم اس کے بدلہ میں اُس سے کچھ نہیں چاہتے اور
۳۱ نبیوں کا سردار کسی بات سے نہیں روکتے.ہم صرف اتنا چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے بتوں کو برا کہنا چھوڑ دے.وہ بیشک کہے خدا ایک ہے مگر یہ نہ کہے کہ ہمارے بت برے ہیں.اگر وہ اتنی بات مان لے تو ہماری اس سے صلح ہو جائے گی.آپ اُسے سمجھا ئیں اور ہماری تجویز کے قبول کرنے پر آمادہ کریں.ورنہ پھر دو باتوں میں سے ایک ہو گی یا آپ کو اپنا بھتیجا چھوڑنا پڑے گا یا آپ کی قوم آپ کی ریاست سے انکار کر کے آپ کو چھوڑ دے گی.ابوطالب کے لئے یہ بات نہایت ہی شاق تھی.عربوں کے پاس روپیہ پیسہ تو تھوڑا ہی ہوتا تھا ان کی ساری خوشی اُن کی ریاست میں ہوتی تھی.رؤساء قوم کے لئے زندہ رہتے تھے اور قوم رؤساء کے لئے زندہ رہتی تھی.یہ بات سن کر ابو طالب بیتاب ہو گئے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلوایا اور کہا کہ اے میرے بھتیجے! میری قوم میرے پاس آئی ہے اور اس نے مجھے یہ پیغام دیا ہے اور ساتھ ہی انہوں نے مجھے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اگر تمہارا بھتیجا ان باتوں میں سے کسی ایک بات پر بھی راضی نہ ہو تو پھر ہماری طرف سے ہر ایک قسم کی پیشکش ہو چکی ہے اگر وہ اس پر بھی اپنے طریقہ سے باز نہیں آتا تو آپ کا کام ہے کہ اسے چھوڑ دیں اور اگر آپ اسے چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوں تو پھر ہم لوگ آپ کی ریاست سے انکار کر کے آپ کو چھوڑ دیں گے.جب ابو طالب نے یہ بات کی تو اُن کی آنکھوں میں آنسو آگئے.اُن کے آنسوؤں کو دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے اور آپ نے فرمایا اے میرے چا! میں یہ نہیں کہتا کہ آپ اپنی قوم کو چھوڑ دیں اور میرا ساتھ دیں.آپ بیشک میرا ساتھ چھوڑ دیں اور اپنی قوم کے ساتھ مل جائیں.لیکن مجھے خدائے وحدة لا شريك كى قسم ہے کہ اگر سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں لا کر کھڑا کر دیں تب بھی میں خدا تعالیٰ کی توحید کا وعظ کرنے سے باز نہیں رہ سکتا.میں اپنے کام میں لگا رہوں گا جب تک خدا مجھے موت دے.آپ اپنی مصلحت کو خودسوچ لیں.یہ ایمان سے پر
۳۲ نبیوں کا سردار اور یہ اخلاص سے بھرا ہوا جواب ابو طالب کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی تھا.انہوں نے سمجھ لیا کہ گو مجھے ایمان لانے کی توفیق نہیں ملی لیکن اس ایمان کا نظارہ دیکھنے کی توفیق ملنا ہی سب دولتوں سے بڑی دولت ہے اور آپ نے کہا اے میرے بھتیجے ! جا اور اپنا فرض ادا کرتارہ.قوم اگر مجھے چھوڑ نا چاہتی ہے تو بیشک چھوڑ دے میں تجھے نہیں چھوڑ سکتا ہے حبشہ کی طرف ہجرت جب مکہ والوں کا ظلم انتہاء کو پہنچ گیا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے ساتھیوں کو بلوایا اور فرمایا مغرب کی طرف سمندر پار ایک زمین ہے جہاں خدا کی عبادت کی وجہ سے ظلم نہیں کیا جاتا.مذہب کی تبدیلی کی وجہ سے لوگوں کو قتل نہیں کیا جاتا وہاں ایک منصف بادشاہ ہے، تم لوگ ہجرت کر کے وہاں چلے جاؤ شاید تمہارے لئے آسانی کی راہ پیدا ہو جائے.کچھ مسلمان مرد اور عورتیں اور بچے آپ کے اس ارشاد پر ایسے سینیا کی طرف چلے گئے.ان لوگوں کا مکہ سے نکلنا کوئی معمولی بات نہ تھی.مکہ کے لوگ اپنے آپ کو خانہ کعبہ کا متولی سمجھتے تھے اور مکہ سے باہر چلے جانا ان کے لئے ایک نا قابلِ برداشت صدمہ تھا.وہی شخص یہ بات کہہ سکتا تھا جس کے لئے دنیا میں کوئی اور ٹھکانہ باقی نہ رہے.پس ان لوگوں کا نکلنا ایک نہایت ہی درد ناک واقعہ تھا.پھر نکلنا بھی اُن لوگوں کو چوری ہی پڑا.کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر مکہ والوں کو معلوم ہو گیا تو وہ ہمیں نکلنے نہیں دیں گے اور اس وجہ سے وہ اپنے عزیزوں اور پیاروں کی آخری ملاقات سے بھی محروم جار ہے تھے.اُن کے دلوں کی جو حالت تھی سوتھی ، اُن کے دیکھنے والے بھی ان کی تکلیف سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے.چنانچہ جس وقت یہ قافلہ نکل رہا تھا حضرت عمر جو اُس وقت تک کافر ے سیرت ابن ہشام جلد ا صفحہ ۲۸۵،۲۸۴.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۳۳ نبیوں کا سردار اور اسلام کے شدید دشمن تھے اور مسلمانوں کو تکلیف دینے والوں میں سے چوٹی کے آدمی تھے اتفاقاً اُس قافلہ کے بعض افراد کو مل گئے.اُن میں ایک صحابیہ ام عبداللہ نامی بھی تھیں.بندھے ہوئے سامان اور تیار سواریوں کو جب آپ نے دیکھا تو آپ سمجھ گئے کہ یہ لوگ مکہ کو چھوڑ کر جا رہے ہیں.آپ نے کہا اُم عبداللہ یہ تو ہجرت کے سامان نظر آرہے ہیں.ام عبداللہ کہتی ہیں میں نے جواب میں کہا ہاں خدا کی قسم ! ہم کسی اور ملک میں چلے جائیں گے کیونکہ تم نے ہم کو بہت دکھ دیئے ہیں اور ہم پر بہت ظلم کئے ہیں ہم اُس وقت تک اپنے ملک میں نہیں لوٹیں گے جب تک خدا تعالیٰ ہمارے لئے کوئی آسانی اور آرام کی صورت نہ پیدا کر دے.اُمم عبداللہ بیان کرتی ہیں کہ عمر نے جواب میں کہا اچھا خدا تمہارے ساتھ ہو اور میں نے اُن کی آواز میں رقت محسوس کی جو اس سے پہلے میں نے کبھی محسوس نہیں کی تھی.پھر وہ جلدی سے منہ پھیر کر چلے گئے اور میں نے محسوس کیا کہ اس واقعہ سے ان کی طبیعت نہایت ہی غمگین ہوگئی ہے.لے جب اُن لوگوں کے ہجرت کرنے کی مکہ والوں کو خبر ہوئی تو انہوں نے ان کا تعاقب کیا اور سمندر تک ان کے پیچھے گئے مگر یہ قافلہ ان لوگوں کے سمندر تک پہنچنے سے پہلے ہی حبشہ کی طرف روانہ ہو چکا تھا.جب مکہ والوں کو یہ معلوم ہوا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایک وفد بادشاہ حبشہ کے پاس بھیجا جائے جو اُ سے مسلمانوں کے خلاف بھڑکائے اور اُسے تحریک کرے کہ وہ مسلمانوں کو مکہ والوں کے سپر د کر دے تا کہ وہ انہیں ان کی اس شوخی کی سزا دیں کہ رؤسائے شہر کے ظلموں کو برداشت نہ کرتے ہوئے وہ مکہ سے کیوں بھاگے تھے.اس وفد میں عمرو بن العاص بھی تھے جو بعد میں مسلمان ہو گئے تھے اور مصر اُنہی کے ہاتھوں فتح ہوا.ہوا.یہ وفد حبشہ گیا اور بادشاہ سے ملا اور امرائے دربار کو اُنہوں نے خوب ل السيرة الحلبية جلدا صفحه ۳۶۱.مطبوعہ مصر ۱۹۳۲ء
۳۴ نبیوں کا سردار اکسایا لیکن اللہ تعالیٰ نے بادشاہ حبشہ کے دل کو مضبوط کر دیا اور اُس نے باوجود ان لوگوں کے اصرار کے اور باوجود درباریوں کے اصرار کے مسلمانوں کو کفار کے سپر دکرنے سے انکار کر دیا.جب یہ وفد نا کام واپس آیا تو مکہ والوں نے ان مسلمانوں کو بلانے کے لئے ایک اور تدبیر سوچی اور وہ یہ کہ حبشہ جانے والے بعض قافلوں میں یہ خبر مشہور کر دی کہ مکہ کے سب لوگ مسلمان ہو گئے ہیں.جب یہ خبر حبشہ پہنچی تو اکثر مسلمان خوشی سے مکہ کی طرف واپس لوٹے مگر مکہ پہنچ کر اُن کو معلوم ہوا کہ یہ خبر محض شرار تا مشہور کی گئی تھی اور اس میں کوئی حقیقت نہیں.اس پر کچھ لوگ تو واپس حبشہ چلے گئے اور کچھ ملکہ میں ہی ٹھہر گئے.ان مکہ میں ٹھہر نے والوں میں سے عثمان بن مظعون بھی تھے جو مکہ کے ایک بہت بڑے رئیس کے بیٹے تھے.اس دفعہ ان کے باپ کے ایک دوست ولید بن مغیرہ نے ان کو پناہ دی اور وہ امن سے مکہ میں رہنے لگے.مگر اس عرصہ میں انہوں نے دیکھا کہ بعض دوسرے مسلمانوں کو دکھ دیئے جاتے ہیں اور انہیں سخت سے سخت تکلیفیں پہنچائی جاتی ہیں.چونکہ وہ غیرتمند نو جوان تھے ولید کے پاس گئے اور اُسے کہدیا کہ میں آپ کی پناہ کو واپس کرتا ہوں کیونکہ مجھ سے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ دوسرے مسلمان دکھ اُٹھا ئیں اور میں آرام میں رہوں.چنانچہ ولید نے اعلان کر دیا کہ عثمان اب میری پناہ میں نہیں.اس کے بعد ایک دن لبید عرب کا مشہور شاعر مکہ کے رؤساء میں بیٹھا اپنے شعر سنا رہا تھا کہ اُس نے ایک مصرع پڑھا وَكُلُّ نَعِيمٍ لَا فَحَالَةٌ زَائِلٌ جس کے معنی یہ ہیں کہ ہر نعمت آخر مٹ جانے والی ہے.عثمان نے کہا یہ غلط ہے جنت کی نعمتیں ہمیشہ قائم رہیں گی.لبید ایک بہت بڑا آدمی تھا یہ جواب سن کر جوش میں آ گیا اور اُس نے کہا اے قریش کے لوگو! تمہارے مہمان کو تو پہلے اس طرح ذلیل نہیں کیا جاسکتا تھا اب یہ نیا رواج کب سے شروع ہوا ہے؟ اس پر ایک شخص نے کہا یہ ایک بیوقوف آدمی
۳۵ نبیوں کا سردار ہے اس کی بات کی پرواہ نہ کریں.حضرت عثمان نے اپنی بات پر اصرار کیا اور کہا بیوقوفی کی کیا بات ہے جو بات میں نے کہی ہے وہ سچ ہے.اس پر ایک شخص نے اٹھ کر زور سے آپ کے منہ پر گھونسا مارا جس سے آپ کی ایک آنکھ نکل گئی.ولید اُس وقت اُس مجلس میں بیٹھا ہوا تھا.عثمان کے باپ کے ساتھ اُس کی بڑی گہری دوستی تھی.اپنے مردہ دوست کے بیٹے کی یہ حالت اُس سے دیکھی نہ گئی.مگر مکہ کے رواج کے مطابق جب عثمان اس کی پناہ میں نہیں تھے تو وہ ان کی حمایت بھی نہیں کر سکتا تھا ، اس لئے اور تو کچھ نہ کر سکا نہایت ہی دکھ کے ساتھ عثمان ہی کو مخاطب کر کے بولا! اے میرے بھائی کے بیٹے ! خدا کی قسم تیری یہ آنکھ اس صدمہ سے بچ سکتی تھی جبکہ تو ایک زبر دست حفاظت میں تھا ( یعنی میری پناہ میں تھا) لیکن تو نے خود ہی اس پناہ کو چھوڑ دیا اور یہ دن دیکھا.عثمان نے جواب میں کہا جو کچھ میرے ساتھ ہوا ہے میں خود اس کا خواہشمند تھا تم میری پھوٹی ہوئی آنکھ پر ماتم کر رہے ہو حالانکہ میری تندرست آنکھ اس بات کیلئے تڑپ رہی ہے کہ جو میری بہن کے ساتھ ہوا ہے وہی میرے ساتھ کیوں نہیں ہوتا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ میرے لئے بس ہے.اگر وہ تکلیفیں اٹھا رہے ہیں تو میں کیوں نہ اٹھاؤں.میرے لئے خدا کی حمایت کافی ہے.حضرت عمر کا قبولِ اسلام اسی زمانہ میں مکہ میں ایک اور واقعہ ظاہر ہوا جس نے مکہ میں آگ لگا دی اور یہ واقعہ اس طرح ہوا کہ عمر" جو بعد میں اسلام کے دوسرے خلیفہ ہوئے اور جو اسلام کے ابتدائی زمانہ میں شدید ترین دشمنوں میں سے تھے.ایک دن بیٹھے بیٹھے اُن کے دل میں خیال آیا کہ اس وقت تک اسلام کے مٹانے کے لئے بہت کچھ کوششیں کی گئی ہیں مگر کامیابی اسد الغابة جلد ۳ صفحه ۳۸۶،۳۸۵ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ
۳۶ نبیوں کا سردار نہیں ہوئی کیوں نہ اسلام کے بانی کو قتل کر دیا جائے اور اس فتنہ کو ہمیشہ کے لئے مٹا دیا جائے.یہ خیال آتے ہی اُنہوں نے تلوار اُٹھائی اور گھر سے نکلے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں چل کھڑے ہوئے.راستہ میں اُن کا کوئی دوست ملا اور اس حالت میں دیکھ کر کچھ حیران ہوا اور آپ سے سوال کیا کہ عمر ! کہاں جا رہے ہو؟ عمر نے کہا میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کرنے کے لئے جارہا ہوں.اُس نے کہا کیا تم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کر کے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے قبیلہ سے محفوظ رہ سکو گے؟ اور ذرا اپنے گھر کی تو خبر لو تمہاری بہن اور تمہارا بہنوئی بھی مسلمان ہو چکے ہیں.یہ خبر حضرت عمر کے سر پر بجلی کی طرح گری انہوں نے سوچا میں جو اسلام کا بدترین دشمن ہوں میں جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو مارنے کے لئے جا رہا ہوں میری ہی بہن اور میرا ہی بہنوئی اسلام قبول کر چکے ہیں اگر ایسا ہے تو پہلے مجھے اپنی بہن اور بہنوئی سے نپٹنا چاہئے.یہ سوچتے ہوئے وہ اپنی بہن کے گھر کی طرف چلے جب دروازہ پر پہنچے تو انہیں اندر سے خوش الحانی سے کسی کلام کے پڑھنے کی آوازیں آئیں.یہ پڑھنے والے خباب جو اُن کی بہن اور اُن کے بہنوئی کو قرآن شریف سکھلا رہے تھے.عمر تیزی سے گھر میں داخل ہوئے.اُن کے پاؤں کی آہٹ سن کر خباب تو کسی کو نہ میں چھپ گئے اور اُن کی بہن نے جن کا نام فاطمہ تھا قرآن شریف کے وہ اوراق جو اُس وقت پڑھے جارہے تھے ، چھپا دیئے.حضرت عمر کمرہ میں داخل ہوئے تو غصہ سے پوچھا میں نے سنا ہے کہ تم اپنے دین سے پھر گئے ہو؟ اور یہ کہہ کر اپنے بہنوئی پر جو اُن کے چازاد بھائی بھی تھے حملہ آور ہوئے.فاطمہ نے جب دیکھا کہ ان کے بھائی عمر ان کے خاوند پر حملہ کرنے لگے تو وہ دوڑ کر اپنے خاوند کے آگے کھڑی ہوگئیں.عمر ہاتھ اُٹھا چکے تھے اُن کا ہاتھ زور سے اُن کے بہنوئی کے منہ کی طرف آرہا تھا اور اب اس ہاتھ کو روکنا اُن کی طاقت سے باہر تھا مگر اب ان کے ہاتھ کے سامنے ان کے بہنوئی کی
۳۷ نبیوں کا سردار بجائے ان کی بہن کا چہرہ تھا.عمر" کا ہاتھ زور سے فاطمہ کے چہرہ پر گرا اور فاطمہ کے ناک سے خون کے تراڑے اے بہنے لگے.فاطمہ نے مار تو کھالی مگر دلیری سے کہا عمر ! یہ بات سچ ہے کہ ہم مسلمان ہو چکے ہیں اور یادرکھیئے کہ ہم اس دین کو نہیں چھوڑ سکتے آپ سے جو کچھ ہو سکتا ہو کر لیں.عمر ایک بہادر آدمی تھے ظلم نے اُن کی بہادری کو مٹا نہیں دیا تھا.ایک عورت اور پھر اپنی بہن کو اپنے ہی ہاتھ سے زخمی دیکھا تو شرمندگی اور ندامت سے گھڑوں پانی پڑ گیا.بہن کے چہرہ سے خون بہہ رہا تھا اور عمر کے دل سے اب ان کا غصہ دور ہو چکا تھا.اپنی بہن سے معافی مانگنے کی خواہش زور پکڑ رہی تھی اور تو کوئی بہانہ نہ سُوجھا بہن سے بولے اچھا! لاؤ مجھے وہ کلام تو سناؤ جو تم لوگ ابھی پڑھ رہے تھے.فاطمہ نے کہا میں نہیں دکھاؤں گی.کیونکہ آپ ان اوراق کو ضائع کر دو گے.عمر نے کہا نہیں بہن میں ایسا نہیں کروں گا.فاطمہ نے کہا تم تو نجس ہو پہلے غسل کرو پھر دکھاؤں گی عمر ندامت کی شدت کی وجہ سے سب کچھ کرنے کے لیے تیار تھے.وہ فنسل پر بھی راضی ہو گئے.جب غسل کر کے واپس آئے تو فاطمہ نے اُن کے ہاتھ میں قرآن کریم کے اوراق دے دیئے.یہ قرآن کریم کے اوراق سورہ طلہ کی کچھ آیات تھیں.جب وہ اسے پڑھتے ہوئے اس آیت پر پنے إِنَّنِي أَنَا اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُنِي وَأَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِى إِنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسِيسُ بِمَا تَسْعَى سے یقینا میں ہی اللہ ہوں اور کوئی معبود نہیں صرف میں ہی معبود ہوں.پس اے مخاطب ! میری عبادت کر اور نماز پڑھ اور اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر میری عبادت کو قائم کر.رسمی عبادت نہیں بلکہ میری بزرگی کو دنیا میں قائم کرنے والی عبادت.یاد رکھ کہ اس کلام کو قائم کرنے والی گھڑی آ رہی ہے لے (خون کے ) تراڑے: فوارے (خون کا تیزی سے بہنا ) وظه : ۱۶،۱۵
۳۸ نبیوں کا سردار میں اس کے ظاہر کرنے کے سامان پیدا کر رہا ہوں جن کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر ایک جان کو جیسے جیسے وہ کام کرتی ہے اس کے مطابق بدلہ مل جائے گا.حضرت عمر جب اس آیت پر پہنچے تو بے اختیار ان کے منہ سے نکل گیا یہ کیسا عجیب اور پاک کلام ہے.خباب نے جب یہ الفاظ سنے تو وہ اس جگہ سے جہاں چھپے ہوئے تھے باہر نکل آئے اور کہا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی دعا کا نتیجہ ہے.مجھے خدا کی قسم ! میں نے کل ہی آپ کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا تھا کہ الہی ! عمر بن الخطاب یا عمر بن ہشام میں سے کسی ایک کو اسلام کی طرف ضرور ہدایت بخش.عمر کھڑے ہو گئے اور کہا مجھے بتاؤ کہ محد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کہاں ہیں؟ جب آپ کو بتایا گیا کہ آپ دار ارقم میں رہتے ہیں تو آپ اُسی طرح جنگی تلوار لیے ہوئے وہاں پہنچے اور دروازہ پر دستک دی.صحابہ نے دروازہ کی دراڑوں میں سے دیکھا تو انہیں عمر ننگی تلوار لئے کھڑے نظر آئے.وہ ڈرے کہ ایسا نہ ہو دروازہ کھول دیں تو عمر اندر آ کر کوئی فساد کریں.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ہوا کیا ؟ دروازہ کھول دو.عمر اسی طرح تلوار لیے اندر داخل ہوئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور فرمایا عمر ! کس ارادہ سے آئے ہو؟ عمر نے کہا یا رسول اللہ میں مسلمان ہونے آیا ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر بلند آواز سے اللہ اکبر کہا یعنی اللہ سب سے بڑا ہے اور آپ کے سب ساتھیوں نے بھی یہی الفاظ زور سے دُہرائے یہاں تک کہ مکہ کی پہاڑیاں گونج اٹھیں لے اور تھوڑی ہی دیر میں یہ خبر مکہ میں آگ کی طرح پھیل گئی اور عمر سے بھی وہی سختی کا برتاؤ ہونا شروع ہو گیا جو پہلے دوسرے صحابہؓ سے ہوتا تھا.مگر وہی عمر جو پہلے مارنے اور قتل کرنے میں مزہ اُٹھایا کرتے تھے اب مار کھانے اور پیٹے جانے میں لذت حاصل کرنے لگے.چنانچہ خود عمر کا بیان ہے کہ ایمان لانے کے بعد میں مکہ کی گلیوں میں ماریں ہی کھاتا رہتا تھا.لے اسد الغابۃ جلد ۴ صفحه ۵۵ - مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ
۳۹ نبیوں کا سردار مسلمانوں سے مقاطعہ غرض ظلم اب حد سے باہر ہوتے جارہے تھے.کچھ لوگ مکہ چھوڑ کر چلے گئے تھے اور جو باقی تھے وہ پہلے سے بھی زیادہ ظلموں کا شکار ہونے لگے تھے مگر ظالموں کے دل ابھی ٹھنڈے نہ ہوئے تھے، جب انہوں نے دیکھا کہ ہمارے گزشتہ ظلموں.مسلمانوں کے دل نہیں ٹوٹے.ان کے ایمانوں میں تزلزل واقعہ نہیں ہوا بلکہ وہ خدائے واحد کی پرستش میں اور بھی بڑھ گئے اور بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور بتوں سے ان کی نفرت ترقی ہی کرتی چلی جاتی ہے تو انہوں نے پھر ایک مجلس شوری قائم کی اور فیصلہ کر دیا کہ مسلمانوں کے ساتھ گلی طور پر مقاطعہ کر دیا جائے.کوئی شخص سودا اُن کے پاس فروخت نہ کرے.کوئی شخص ان کے ساتھ لین دین نہ کرے.اُس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چند تبعین اور ان کے بیوی بچوں سمیت اور اپنے چند ایسے رشتہ داروں کے ساتھ جو باوجود اسلام نہ لانے کے آپ کا ساتھ چھوڑنے کے لئے تیار نہ تھے ایک الگ مقام میں جو ابو طالب کی ملکیت تھا پناہ لینے پر مجبور ہوئے.ان لوگوں کے پاس نہ روپیہ تھا نہ سامان نہ ذخائر جن کی مدد سے وہ جیتے.وہ اس تنگی کے زمانہ میں جن حالات میں سے گزرے ہوں گے ان کا اندازہ لگانا دوسرے انسان کے لئے ممکن نہیں.قریباً تین سال تک یہ حالات اسی طرح قائم رہے اور مکہ کے مقاطعہ کے فیصلہ میں کوئی کمزوری پیدا نہ ہوئی.قریباً تین سال کے بعد مکہ کے پانچ شریف آدمیوں کے دل میں اس ظلم کے خلاف بغاوت پیدا ہوئی.وہ شعب ابی طالب کے دروازہ پر گئے اور محصورین کو آواز دے کر کہا کہ وہ باہر نکلیں اور کہ وہ اس مقاطعہ کے معاہدہ کو توڑنے کے لئے بالکل تیار ہیں.ابو طالب جو اس لمبے محاصرہ اور فاقوں کی وجہ سے کمزور ہورہے تھے باہر آئے اور
۴۰ نبیوں کا سردار اپنی قوم کو مخاطب کر کے انہیں ملامت کی کہ ان کا یہ لمبا ظلم کس طرح جائز ہو سکتا ہے.ان پانچ شریف انسانوں کی بغاوت فوراً بجلی کی طرح شہر میں پھیل گئی.فطرتِ انسانی نے پھر سراُٹھانا شروع کیا.نیکی کی روح نے پھر ایک دفعہ سانس لیا اور مکہ کے لوگ اس شیطانی معاہدہ کو توڑنے پر مجبور ہوئے لیے معاہدہ تو ختم ہو گیا مگر تین سالہ فاقوں نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا.تھوڑے ہی دنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفا شعار بیوی حضرت خدیجہ اس مقاطعہ کے دنوں کی تکلیفوں کے نتیجہ میں فوت ہو گئیں اور اس کے ایک مہینہ بعد ابو طالب بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئے.حضرت خدیجہ اور ابو طالب کی وفات کے بعد تبلیغ میں رُکاوٹیں اور آنحضرت ﷺ کا سفر طائف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ اب ابوطالب کے مصالحانہ اثر سے محروم ہو گئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھر یلو زندگی کی ساتھی حضرت خدیجہ بھی آپ سے جدا ہوگئیں.ان دونوں کی وفات سے طبعی طور پر اُن لوگوں کی ہمدردیاں بھی آپ سے اور آپ کے صحابہ سے کم ہو گئیں جو ان کے تعلقات کی وجہ سے ظالموں کو ظلم سے روکتے رہتے تھے.ابوطالب کی وفات کے تازہ صدمہ کی وجہ سے اور ابو طالب کی وصیت کی وجہ سے چند دن آپ کے شدید دشمن اور ابوطالب کے چھوٹے بھائی ابولہب نے آپ کا ساتھ دیا.لیکن جب مکہ والوں نے اس کے جذبات کو یہ کہہ کر بھارا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تو تمام اُن لوگوں کو جو توحید الہی کے قائل نہیں مجرم اور قابل سزا سمجھتا ہے تو اپنے آباء کی سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحہ ۱۴ تا ۱۷.مطبوعہ ۱۹۳۶
۴۱ نبیوں کا سردار غیرت کے جوش میں ابولہب نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا اور عہد کیا کہ وہ آئندہ پہلے سے بھی زیادہ آپ کی مخالفت کرے گا.محصوری کی زندگی کی وجہ سے چونکہ تین سال تک لوگ اپنے رشتہ داروں سے جدا رہے تھے اس لئے تعلقات میں ایک سردی پیدا ہو گئی تھی.مکہ والے مسلمانوں سے قطع کلامی کے عادی ہو چکے تھے اس لئے تبلیغ کا میدان محدود ہو گیا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ حالت دیکھی تو آپ نے فیصلہ فرمایا کہ وہ مکہ کی بجائے طائف کے لوگوں کو جا کر اسلام کی دعوت دیں.آپ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ مکہ والوں کی مخالفت نے اس ارادہ کو اور بھی مضبوط کر دیا.اوّل تو مکہ والے بات سنتے ہی نہیں تھے دوسرے اب انہوں نے یہ طریقہ اختیار کر لیا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کوگلیوں میں چلنے ہی نہ دیتے.جب آپ باہر نکلتے آپ کے سر پر مٹی پھینکی جاتی تا کہ آپ لوگوں سے مل ہی نہ سکیں.ایک دفعہ اسی حالت میں واپس لوٹے تو آپ کی ایک بیٹی آپ کے سر پر مٹی ہٹاتے ہوئے رونے لگی.آپ نے فرمایا او میری بچی ! رو نہیں کیونکہ یقیناً خدا تمہارے باپ کے ساتھ ہے.آپ تکالیف سے گھبراتے نہ تھے، لیکن مشکل یہ تھی کہ لوگ بات سنے کو تیار نہ تھے.جہاں تک تکالیف کا سوال ہے آپ اُن کو ضروری سمجھتے تھے بلکہ آپ کے لئے سب سے زیادہ تکلیف کا دن تو وہ ہوتا تھا جب کو ئی شخص آپ کو تکلیف نہیں دیتا تھا.لکھا ہے کہ ایک دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی گلیوں میں تبلیغ کے لئے نکلے مگر اُس دن کسی منصوبہ کے تحت کسی شخص نے آپ سے کلام نہ کیا اور نہ آپ کو کسی قسم کی کوئی تکلیف دی نہ کسی غلام نے نہ کسی آزاد نے.تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صدمہ اور غم سے خاموش لیٹ گئے.یہاں تک کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو تسلی دی اور فرمایا جاؤ اور اپنی قوم کو پھر اور پھر اور پھر ل السيرة الحلبية جلدا صفحه ۳۹۱ مطبوعه مصر ۱۹۳۲ء
۴۲ نبیوں کا سردار ہوشیار کرو اور ان کی عدم توجہی کی پرواہ نہ کرو.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بات گراں نہ گزرتی تھی کہ لوگ آپ کو دکھ دیتے تھے لیکن خدا کا نبی جو دنیا کو ہدایت دینے کے لئے مبعوث ہوا تھا وہ اس بات کو کب برداشت کر سکتا تھا کہ لوگ اُس سے بات ہی نہ کریں اور اس کی بات سننے کے لئے تیار ہی نہ ہوں.ایسی بیکار زندگی اس کے لئے سب سے زیادہ تکلیف دہ تھی.پس آپ نے پختہ فیصلہ کر لیا کہ اب آپ طائف کی طرف جائیں گے اور طائف کے لوگوں کو خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچائیں گے اور خدا تعالیٰ کے نبیوں کے لیے یہی مقدر ہوتا ہے کہ وہ ادھر سے اُدھر مختلف قوموں کو مخاطب کرتے پھریں.حضرت موسی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، کبھی وہ آل فرعون سے مخاطب ہوا تو کبھی آل اسحاق سے اور کبھی مدین کے لوگوں سے.حضرت عیسی علیہ السلام کو بھی تبلیغ کے شوق میں کبھی جلیل کے لوگوں ،کبھی یردن پار کے لوگوں، کبھی یروشلم کے لوگوں، اور کبھی اور دوسرے لوگوں کو مخاطب کرنا پڑا.جب مکہ کے لوگوں نے باتیں سننے سے ہی انکار کر دیا اور یہ فیصلہ کرلیا کہ مارو اور پیٹو مگر بات بالکل نہ سنو، تو آپ نے طائف کی طرف رُخ کیا.طائف مکہ سے کوئی ساٹھ میل کے قریب وب مشرق کی طرف ایک شہر ہے جو اپنے پھلوں اور اپنی زراعت کی وجہ سے مشہور ہے.یہ شہر بت پرستی میں مکہ والوں سے کم نہ تھا.خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے بتوں کے سوالات نامی ایک مشہور بت طائف کی اہمیت کا موجب تھا جس کی زیارت کیلئے عرب کے لوگ دُور دور سے آتے تھے.طائف کے لوگوں کی مکہ سے بہت رشتہ داریاں بھی تھیں اور طائف اور مکہ کے درمیان کے سرسبز مقامات میں مکہ والوں کی جائدادیں بھی تھیں.جب آپ طائف پہنچے تو وہاں کے رؤساء آپ سے ملنے کے لئے آنے شروع ہوئے لیکن کوئی شخص حق کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوا.عوام الناس نے بھی اپنے رؤساء کی اتباع کی اور خدا کے پیغام کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا.دنیا داروں کی نگاہ میں بے سامان اور بے مددگار نبی حقیر
۴۳ نبیوں کا سردار ہی ہوا کرتا ہے وہ تو اسلحہ اور فوجوں کی آواز سننا جانتے ہیں آپ کی نسبت باتیں تو پہنچ ہی چکی تھیں جب آپ طائف پہنچے اور انہوں نے دیکھا کہ بجائے اس کے کہ آپ کے ساتھ کوئی فوج اور جتھا ہوتا آپ صرف زید ہی کی ہمراہی میں طائف کے مشہور حصوں میں تبلیغ کرتے پھرتے ہیں تو دل کے اندھوں نے اپنے سامنے خدا کا نبی نہیں بلکہ ایک حقیر اور دھتکارا ہوا انسان پایا اور سمجھے کہ شاید اس کو دکھ دینا اور تکلیف پہنچا نا قوم کے رؤساء کی نظروں میں ہم کو معزز کر دے گا.وہ ایک دن جمع ہوئے ، کتے انہوں نے اپنے ساتھ لئے لڑکوں کو اکسایا اور پتھروں سے اپنی جھولیاں بھر لیں اور بیدردی سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر اؤ کرنا شروع کیا.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شہر سے دھکیلتے ہوئے باہر لے گئے.آپ کے پاؤں لہولہان ہو گئے اور زید آپ کو بچاتے ہوئے سخت زخمی ہوئے مگر ظالموں کا دل ٹھنڈا نہ ہوا وہ آپ کے پیچھے چلتے گئے اور چلتے گئے جب تک شہر سے کئی میل دور کی پہاڑیوں تک آپ نہ پہنچ گئے اُنہوں نے آپ کا پیچھا نہ چھوڑا.جب یہ لوگ آپ کا پیچھا کر رہے تھے تو آپ اس ڈر سے کہ خدا تعالیٰ کا غضب ان پر نہ بھڑک اُٹھے آسمان کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھتے اور نہایت الحاح سے دعا کرتے.الہی ! ان لوگوں کو معاف کر کہ یہ نہیں جانتے کہ یہ کیا کر رہے ہیں اے زخمی، تھکے ہوئے اور دنیا کے لوگوں کی طرف سے دھتکارے ہوئے آپ ایک انگورستان کے سایہ میں پناہ گزیں ہوئے.یہ انگورستان مکہ کے دوسر داروں کا تھا.یہ سردار اُس وقت اس انگورستان میں تھے پرانے اور شدید دشمن جنہوں نے دس سال تک آپ کی مخالفت میں اپنی زندگی گزاری تھی شاید اُس وقت اس بات سے متاثر ہو گئے کہ ایک مکہ کے آدمی کو طائف کے لوگوں نے زخمی کیا ہے یا شاید وہ گھڑی ایسی گھڑی تھی جب نیکی کا بیج بخاری کتاب بدء الخلق باب حديث الغار
۴۴ نبیوں کا سردار اُن کے دلوں میں سر اٹھا رہا تھا اُنہوں نے ایک تھال انگوروں کا بھرا اور اپنے غلام عداس کو کہا کہ جاؤ اور ان مسافروں کو اسے دو.عداس نینوا کا رہنے والا ایک عیسائی تھا.جب اُس نے یہ انگور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے اور آپ نے یہ کہتے ہوئے اُن انگوروں کولیا کہ خدا کے نام پر جو بے انتہاء کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے میں یہ لیتا ہوں تو عیسائیت کی یا داس کے دل میں پھر تازہ ہو گئی.اُس نے محسوس کیا کہ اُس کے سامنے خدا کا ایک نبی بیٹھا ہے جو اسرائیلی نبیوں کی سی زبان میں باتیں کرتا ہے.اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ جب اُس نے کہا نینوا کا.تو آپ نے فرمایاوہ نیک انسان یونس جو متی کا بیٹا تھا اور نینوا کا باشندہ وہ میری طرح خدا کا ایک نبی تھا.پھر آپ نے اُس کو اپنے مذہب کی تبلیغ شروع کی.عداس کی حیرانی چند ہی لمحوں میں تعجب سے بدل گئی.تعجب ایمان میں تبدیل ہو گیا اور تھوڑی ہی دیر میں وہ اجنبی غلام آنسوؤں سے بھری ہوئی آنکھوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لپٹ گیا اور آپ کے سر اور ہاتھوں اور پیروں کو بوسہ دینے لگالے عداس کی باتوں سے فارغ ہو کر آپ اللہ تعالیٰ کی طرف مخاطب ہوئے اور آپ نے خدا سے یوں دعا مانگی.اللهُمْ إِلَيْكَ أَشْكُو ضُعْفَ قُوَّتِي وَقِلَّةَ حِيْلَتِي وَهُوَ انِي عَلَى النَّاسِ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ أَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِينَ وَأَنْتَ رَبِّي إِلَى مَنْ تَكِلُنِى إِلَى بَعِيْدٍ يَتَجَهَّمُنِي أَمْ إِلَى عَدُةٍ مَلَكْتَهُ أَمْرِى إِنْ لَّمْ يَكُن بِكَ عَلَى غَضَبْ فَلا أَبَالِي وَلَكِنْ عَافِيَتُكَ هِيَ أَوْسَعُ لِي اَعُوْذُ بِنُورِ وَجْهِكَ الَّذِي أَشْرَقَتْ لَهُ الظُّلُمَتُ وَصَلُحَ عَلَيْهِ أَمْرُ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ مِنْ أَنْ تُنَزِلَ بِي غَضَبَكَ أَوْ يَحِلَّ عَلَى سَخَطَكَ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحہ ۶۲، ۶۳ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۴۵ نبیوں کا سردار لَكَ الْعُقْنِي حَتَّى تَرْضَى وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ الأَبِكَ یعنی اے میرے رب ! میں تیرے ہی پاس اپنی کمزوریوں اور اپنے سامانوں کی کمی اور لوگوں کی نظروں میں اپنے حقیر ہونے کی شکایت کرتا ہوں.لیکن تو غریبوں اور کمزوروں کا خدا ہے اور تو میرا بھی خدا ہے تو مجھے کس کے ہاتھوں میں چھوڑے گا.کیا اجنبیوں کے ہاتھوں میں جو مجھے ادھر اُدھر دھکیلتے پھریں گے یا اُس دشمن کے ہاتھ میں جو میرے وطن میں مجھ پر غالب ہے.اگر تیرا غضب مجھ پر نہیں تو مجھے ان دشمنوں کی کوئی پرواہ نہیں.تیرا رحم میرے ساتھ ہے اور تیری عافیت میرے لئے زیادہ وسیع ہے.میں تیرے چہرہ کی روشنی میں پناہ چاہتا ہوں.یہ تیرا ہی کام ہے کہ تو تاریکی کو دنیا سے بھگادے اور اس دنیا اور اگلی دنیا میں امن بخشے.تیرا غصہ اور تیری غیرت مجھ پر نہ بھڑکیں.تو اگر ناراض بھی ہوتا ہے تو اس لئے کہ پھر خوشی کا اظہار کرے اور تیرے سوا کوئی حقیقی طاقت اور کوئی حقیقی پناہ کی جگہ نہیں.یہ دعا مانگ کر آپ مکہ کی طرف روانہ ہوئے لیکن درمیان میں نخلہ نامی مقام پر ٹھہر گئے.چند دن وہاں ستا کر پھر آپ مکہ کی طرف روانہ ہوئے.لیکن عرب کے دستور کے مطابق لڑائی کی وجہ سے مکہ چھوڑ دینے کے بعد آپ مکہ کے باشندے نہیں رہے تھے اب مکہ والوں کا اختیار تھا کہ وہ آپ کو مکہ میں آنے دیتے یا نہ آنے دیتے اس لئے آپ نے مکہ کے ایک رئیس مطعم بن عدی کو کہلا بھیجا کہ میں مکہ میں داخل ہونا چاہتا ہوں کیا تم عرب کے دستور کے مطابق مجھے داخلہ کی اجازت دیتے ہو؟ مطعم باوجود شدید دشمن ہونے کے ایک سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحہ ۶۲،۶۱.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
نبیوں کا سردار ۴۶ شریف الطبع انسان تھا اُس نے اُسی وقت اپنے بیٹوں اور رشتہ داروں کو ساتھ لیا اور مسلح ہوکر کعبہ کے صحن میں جا کھڑا ہوا اور آپ کو پیغام بھیجا کہ وہ مکہ میں آپ کو آنے کی اجازت دیتا ہے.آپ مکہ میں داخل ہوئے کعبہ کا طواف کیا اور مطعم اپنی اولا د اور اپنے رشتہ داروں کے ساتھ تلواریں کھینچے ہوئے آپ کو آپ کے گھر تک پہنچانے کے لئے آیا.یہ پناہ نہیں تھی کیونکہ اس کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم ہوتے رہے اور مطعم نے کوئی حفاظت آپ کی نہیں کی بلکہ یہ صرف مکہ میں داخلہ کی قانونی اجازت تھی.آپ کے اس سفر کے متعلق دشمنوں کوبھی یہ تسلیم کرنا پڑا ہے کہ اس سفر میں آپ نے بے نظیر قربانی اور استقلال کا نمونہ دکھایا ہے.سرولیم میورا اپنی کتاب ”لائف آف محمد میں لکھتے ہیں: "محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے طائف کے سفر میں ایک شاندار اور شجاعانہ رنگ پایا جاتا ہے.اکیلا آدمی جس کی اپنی قوم نے اُس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا اور اُسے دھتکار دیا خدا کے نام پر بہادری کے ساتھ نینوا کے یوناہ نبی کی طرح ایک بت پرست شہر کو تو بہ کی اور خدائی مشن کی دعوت دینے کے لئے نکلا.یہ امر اس کے اس ایمان پر کہ وہ اپنے آپ کو کلی طور پر خدا کی طرف سے سمجھتا تھا ایک بہت تیز روشنی ڈالتا ہے.مکہ نے پھر ایذاء دہی اور استہزاء کے دروازے کھول دیئے.پھر خدا کے نبی کے لئے اُس کا وطن جہنم کا نمونہ بننے لگا.مگر اس پر بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دلیری سے طبقات ابن سعد جلد ۱ صفحه ۲۱۲.مطبوعہ بیروت ۱۹۸۵ء Life of Mohammad by Willium Muir P.112, 113 Printed ✓ Edinburg 1923.
۴۷ نبیوں کا سردار لوگوں کو خدا کی تعلیم پہنچاتے رہے.مکہ کے گلی کوچوں میں ”خدا ایک ہے خدا ایک ہے“ کی آواز میں بلند ہوتی رہیں.محبت سے، پیار سے، خیر خواہی سے ، آپ مکہ والوں کو بت پرستی کے خلاف وعظ کرتے رہے.لوگ بھاگتے تھے تو آپ اُن کے پیچھے جاتے تھے.لوگ منہ پھیرتے تھے تو آپ پھر بھی باتیں سنائے چلے جاتے تھے.صداقت آہستہ آہستہ گھر کر رہی تھی.وہ تھوڑے سے مسلمان جو ہجرت حبشہ سے بچے ہوئے مکہ میں رہ گئے تھے وہ اندر ہی اندر اپنے رشتہ داروں، دوستوں، ساتھیوں اور ہمسائیوں میں تبلیغ کر رہے تھے.بعض کے دل ایمان سے منور ہو جاتے تھے تو علی الاعلان اپنے مذہب کا اظہار کر دیتے تھے اور اپنے بھائیوں کے ساتھ ماریں کھانے اور تکلیفیں اُٹھانے میں شریک ہو جاتے تھے.مگر بہت تھے جنہوں نے روشنی کو دیکھ تو لیا تھا مگر اس کے قبول کرنے کی توفیق نہیں ملی تھی.وہ اُس دن کا انتظار کر رہے تھے جب خدا کی بادشاہت زمین پر آئے اور وہ اُس میں داخل ہوں.باشندگانِ مدینہ کا قبول اسلام اسی عرصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بار بار خبر دی جا رہی تھی کہ تمہارے لئے ہجرت کا وقت آ رہا ہے اور آپ پر یہ بھی گھل چکا تھا کہ آپ کی ہجرت کا مقام ایک ایسا شہر ہے جس میں کنویں بھی ہیں اور کھجوروں کے باغ بھی پائے جاتے ہیں.پہلے آپ نے یمامہ کی نسبت خیال کیا کہ شاید وہ ہجرت کا مقام ہو گا مگر جلد ہی یہ خیال آپ کے دل سے نکال دیا گیا اور آپ اس انتظار میں لگ گئے کہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کے مطابق جو شہر بھی مقدر ہے وہ اپنے آپ کو اسلام کا گہوارہ بنانے کے لئے پیش کرے گا.اسی دوران میں حج کا زمانہ آ گیا عرب کے چاروں طرف سے لوگ مکہ میں حج بخاری باب هجرة النبي صلى اللہ علیہ وسلم
۴۸ نبیوں کا سردار کے لئے جمع ہونے شروع ہوئے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عادت کے مطابق جہاں کچھ آدمیوں کو کھڑا دیکھتے تھے اُن کے پاس جا کر انہیں تو حید کا وعظ سنانے لگ جاتے تھے اور خدا کی بادشاہت کی خوشخبری دیتے تھے اور ظلم اور بدکاری اور فساد اور شرارت سے بچنے کی نصیحت کرتے تھے.بعض لوگ آپ کی بات سنتے اور حیرت کا اظہار کر کے جدا ہو جاتے.بعض باتیں سن رہے ہوتے تو مکہ والے آ کر اُن کو وہاں سے ہٹا دیتے تھے.بعض جو پہلے سے مکہ والوں کی باتیں سن چکے ہوتے وہ ہنسی اڑا کر آپ سے جدا ہو جاتے.اسی حالت میں آپ منی کی وادی میں پھر رہے تھے کہ چھ سات آدمی جو مدینہ کے باشندے تھے آپ کی نظر پڑے.آپ نے اُن سے کہا کہ آپ لوگ کس قبیلہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں؟ اُنہوں نے کہا خزرج قبیلہ کے ساتھ.آپ نے کہا وہی قبیلہ جو یہودیوں کا حلیف ہے؟ انہوں نے کہا ہاں.آپ نے فرمایا کیا آپ لوگ تھوڑی دیر بیٹھ کر میری باتیں سنیں گے؟ اُن لوگوں نے چونکہ آپ کا ذکر سنا ہوا تھا اور دل میں آپ کے دعوئی سے کچھ دلچسپی تھی انہوں نے آپ کی بات مان لی اور آپ کے پاس بیٹھ کر آپ کی باتیں سننے لگ گئے.آپ نے انہیں بتایا کہ خدا کی بادشاہت قریب آ رہی ہے، بت اب دنیا سے مٹا دیئے جائیں گے، تو حید کو دنیا میں قائم کر دیا جائے گا.نیکی اور تقویٰ پھر ایک دفعہ دنیا میں قائم ہو جائیں گے.کیا مدینہ کے لوگ اس عظیم الشان نعمت کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں؟ انہوں نے آپ کی باتیں سنیں اور متاثر ہوئے اور کہا آپ کی تعلیم کو تو ہم قبول کرتے ہیں.باقی رہا یہ کہ مدینہ اسلام کو پناہ دینے کے لئے تیار ہے یا نہیں اس کے لئے ہم اپنے وطن جا کر اپنی قوم سے بات کریں گے پھر ہم دوسرے سال اپنی قوم کا فیصلہ آپ کو بتائیں گے.لے یہ لوگ واپس گئے اور انہوں نے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں میں آپ کی تعلیم کا ذکر کرنا شروع کیا.اُس وقت مدینہ میں دو عرب قبائل اوس سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۷۰ تا ۷۵.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ -
۴۹ نبیوں کا سردار اور خزرج بستے تھے اور تین یہودی قبائل یعنی بنو قریظہ اور بنو نضیر اور بنو قینقاع.اوس اور خزرج کی آپس میں لڑائی تھی.بنو قریظہ اور بنو نضیر اوس کے ساتھ اور بنو قینقاع خزرج کے ساتھ ملے ہوئے تھے.مدتوں کی لڑائی کے بعد اُن میں یہ احساس پیدا ہور ہا تھا کہ ہمیں آپس میں صلح کر لینی چاہئے.آخر با ہمی مشورہ سے یہ قرار پایا کہ عبداللہ بن ابی بن سلول جو خزرج کا سردار تھا اُسے سارا مدینہ اپنا بادشاہ تسلیم کرلے.یہودیوں کے ساتھ تعلق کی وجہ سے اوس اور خزرج بائبل کی پیشگوئیاں سنتے رہتے تھے.جب یہودی اپنی مصیبتوں اور تکلیفوں کا حال بیان کرتے تو اُس کے آخر میں یہ بھی کہہ دیا کرتے تھے کہ ایک نبی جو موسیٰ کا مثیل ہو گا ظاہر ہونے والا ہے اُس کا وقت قریب آرہا ہے جب وہ آئے گا ہم پھر ایک دفعہ دنیا پر غالب ہو جائیں گے ، یہود کے دشمن تباہ کر دیئے جائیں گے.جب اُن حاجیوں سے مدینہ والوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوی کو سنا آپ کی سچائی اُن کے دلوں میں گھر کر گئی اور اُنہوں نے کہا یہ تو وہی نبی معلوم ہوتا ہے جس کی یہودی ہمیں خبر دیا کرتے تھے.پس بہت سے نو جوان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی سچائی سے متاثر ہوئے اور یہودیوں سے سنی ہوئی پیشگوئیاں اُن کے ایمان لانے میں مؤید ہوئیں.چنانچہ اگلے سال حج کے موقع پر پھر مدینہ کے لوگ آئے.بارہ آدمی اس دفعہ مدینہ سے یہ ارادہ کر کے چلے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں داخل ہو جائیں گے.ان میں سے دس خزرج قبیلہ کے تھے اور دو اوس کے مٹی میں وہ آپ سے ملے اور اُنہوں نے آپ کے ہاتھ پر اس بات کا اقرار کیا کہ وہ سوائے خدا کے اور کسی کی پرستش نہیں کریں گے، وہ چوری نہیں کریں گے، وہ بدکاری نہیں کریں گے ، وہ اپنی لڑکیوں کو قتل نہیں کریں گے، وہ ایک دوسرے پر جھوٹے الزام نہیں لگائیں گے، نہ وہ خدا کے نبی کی دوسری نیک تعلیمات میں نافرمانی کریں گے.یہ لوگ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحہ ۷۶.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
نبیوں کا سردار وا پس آگئے تو انہوں نے اپنی قوم میں اور بھی زیادہ زور سے تبلیغ شروع کر دی.مدینہ کے گھروں میں سے بت نکال کر باہر پھینکے جانے لگے.بتوں کے آگے سر جھکانے والے لوگ اب گرد نہیں اُٹھا کر چلنے لگے.خدا کے سوا اب لوگوں کے ماتھے کسی کے سامنے جھکنے کے لئے تیار نہ تھے.یہودی حیران تھے کہ صدیوں کی دوستی اور صدیوں کی تبلیغ سے جو تبدیلی وہ نہ پیدا کر سکے اسلام نے وہ تبدیلی چند دنوں میں پیدا کر دی.توحید کا وعظ مدینہ والوں کے دلوں میں گھر کرتا جاتا تھا.یکے بعد دیگرے لوگ آتے اور مسلمانوں سے کہتے ہمیں اپنا دین سکھاؤ.لیکن مدینہ کے نومسلم نہ تو خود اسلام کی تعلیم سے پوری طرح واقف تھے اور نہ اُن کی تعداد اتنی تھی کہ وہ سینکڑوں اور ہزاروں آدمیوں کو اسلام کے متعلق تفصیل سے بتا سکیں اس لئے اُنہوں نے مکہ میں ایک آدمی بجھوایا اور مبلغ کی درخواست کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصعب نامی ایک صحابی کو جو حبشہ کی ہجرت سے واپس آئے تھے مدینہ میں تبلیغ اسلام کے لئے بھجوایا.مصعب مکہ سے باہر پہلا اسلامی مبلغ تھا.اسراء اُنہی ایام میں خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آئندہ کے لئے پھر ایک زبر دست بشارت دی.آپ کو ایک کشف میں بتایا گیا کہ آپ یروشلم گئے ہیں اور نبیوں نے آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی سے یروشلم کی تعبیر مدینہ تھا، جو آئندہ کے لئے خدائے واحد کی عبادت کا مرکز بنے والا تھا اور آپ کے پیچھے نبیوں کے نماز پڑھنے کی تعبیر یہ تھی کہ مختلف مذاہب کے لوگ آپ کے مذہب میں داخل ہوں گے اور آپ کا مذہب عالمگیر ہو جائے گا.یہ وقت مکہ میں مسلمانوں کے لئے نہایت ہی سخت تھا اور تکالیف انتہاء کو پہنچ چکی تھیں.اس ے سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۳۶ تا ۳۸ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۵۱ نبیوں کا سردار کشف کا سنانا مکہ والوں کے لئے ہنسی اور استہزاء کا ایک نیا موجب ہو گیا اور اُنہوں نے ہر مجلس میں آپ کے اس کشف پر جنسی اُڑانی شروع کی.مگر کون جانتا تھا کہ نئے یروشلم کی تعمیر شروع تھی.مشرق و مغرب کی قومیں کان دھرے خدا کے آخری نبی کی آواز سننے کے لئے متوجہ کھڑی تھیں.رومیوں کے غلبہ کی پیشگوئی انہی ایام میں قیصر اور کسری کے درمیان ایک خطرناک جنگ ہوئی اور کسریٰ کو فتح حاصل ہوئی.شام میں ایرانی فوجیں پھیل گئیں.یروشلم تباہ کر دیا گیا.حتی کہ ایرانی فوجیں یونان اور ایشائے کو چک تک پہنچ گئیں اور باسفورس کے دہانہ پر ایرانی جرنیلوں نے قسطنطنیہ سے صرف دس میل کے فاصلہ پر اپنے خیمے گاڑ دیئے.اس واقعہ پر مکہ کے لوگوں نے خوشیاں منانی شروع کیں اور کہا خدا کا فیصلہ ظاہر ہو گیا ہے.بت پرست ایرانیوں نے اہل کتاب عیسائیوں کو شکست دے دی.اُس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو خبر دی گئی کہ غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُم مِّنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ فِي بِضْعِ سِنِينَ لِلَّهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللَّهِ ۚ يَنصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ وَعْدَ اللَّهِ لَا يُخْلِفُ اللَّهُ وَعْدَهُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ ے یعنی رومی فوجیں عرب کے قریب ممالک میں شکست کھا گئی ہیں لیکن اپنی شکست کے بعد پھر اُن کو فتح حاصل ہوگی چند سال کے اندر اندر.خدا ہی کا اختیار دنیا میں پہلے بھی رائج تھا اور آئندہ بھی رائج رہے گا.جب وہ فتح کا دن آئے گا اُس وقت مؤمنوں کو بھی خدا کی مدد سے خوشی نصیب ہوگی.خدا جن کو چن لیتا ہے اُن کی مدد کرتا ہے وہ بڑی الروم : ۳ تا ۷
۵۲ نبیوں کا سردار شان والا اور بڑا مہربان ہے.یہ اُس خدا کا وعدہ ہے جو اپنے وعدوں کو تبدیل نہیں کرتا.لیکن اکثر لوگ خدا کی قدرتوں سے ناواقف ہیں.چند ہی سال بعد خدا تعالیٰ نے یہ پیشگوئی پوری کر دی.ایک طرف رومیوں نے ایرانیوں کو شکست دے کر اپنے ملک کو آزاد کرا لیا اور دوسری طرف جیسا کہ کہا گیا تھا اُنہی ایام میں مسلمانوں کو مکہ کے لوگوں کے خلاف فتوحات حاصل ہونی شروع ہوئیں.جبکہ مکہ کے لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ اُنہوں نے لوگوں کو مسلمانوں کی باتیں سننے سے روک کر اور مسلمانوں پر ظلم کرنے پر آمادہ کر کے اسلام کا خاتمہ کر دیا ہے.خدا کا کلام متواتر اسلام کی فتوحات کی خبریں دے رہا تھا اور بتا رہا تھا کہ مکہ والوں کی تباہی کی گھڑی قریب سے قریب تر آ رہی ہے.چنانچہ انہی ایام میں محمد رسول اللہ ﷺ نے بڑے زور سے خدا تعالیٰ کی اس وحی کا اعلان کیا کہ وَقَالُوا لَوْلَا يَأْتِيْنَا بِآيَةٍ مِّنْ رَّبِّهِ ۚ أَوَلَمْ تأْتِهِم بَيْنَهُ مَا فِي الصُّحُفِ الْأُولَى وَلَوْ أَنَا أَهْلَكْنَاهُم بِعَذَابٍ مِّن قَبْلِهِ لَقَالُوا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولًا فَنَتَّبِعَ آيَاتِكَ مِن قَبْلِ أَن نَّذِلَّ وَنَخْزَى قُلْ كُلٌّ مُتَرَبَضٌ فَتَرَبَّصُوا فَسَتَعْلَمُونَ مَنْ أَصْحَابُ الصِّرَاطِ السَّوِيِّ وَمَنِ اهْتَدَى یعنی مکہ والے کہتے ہیں کہ کیوں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے رب کے پاس سے کوئی نشان ہمارے لئے نہیں لاتا.کیا پہلے نبیوں کی پیشگوئیاں جو اس کے حق میں ہیں وہ اُن کے لئے کافی نشان نہیں ہے.ہم اگر پوری تبلیغ سے پہلے ہی مکہ والوں کو ہلاک کر دیتے تو مکہ والے کہہ سکتے تھے کہ اے ہمارے رب ! کیوں تو نے ہماری طرف کوئی رسول نہ بھیجا کہ ہم ذلیل اور رسوا ہونے سے پہلے تیری تعلیموں کے پیچھے چلتے.تو کہہ دے ہر شخص کو اپنے وقت کا انتظار کرنا پڑتا ہے پس تم بھی اُس گھڑی کا انتظار کرو جب حجت تمام ہو جائے گی تب تم یقینا جان لو گے کہ سیدھے راستہ پر اور خدا تعالیٰ کی ہدایت پر کون چل رہا ہے.طه: ۱۳۴ تا ۱۳۶
۵۳ نبیوں کا سردار ہر روز خدا کی نئی وحی نازل ہو رہی تھی اور ہر روز وہ اسلام کی ترقی اور کفار کی تباہی کی خبر میں دے رہی تھی.مکہ والے ایک طرف اپنی طاقت اور شوکت کو دیکھتے تھے اور دوسری طرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کی کمزوری کو دیکھتے تھے اور پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی میں خدا تعالیٰ کی نفرتوں اور مسلمانوں کی کامیابیوں کی خبریں پڑھتے تھے تو حیران ہو کر سوچتے تھے کہ آیا وہ پاگل ہو گئے ہیں یا محمد رسول اللہ پاگل ہو گیا ہے.مکہ والے تو یہ امیدیں کر رہے تھے کہ ہمارے ظلموں اور ہماری تعدی کی وجہ سے اب مسلمانوں کو مایوس ہو کر ہماری طرف آجانا چاہئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود بھی اور اُن کے ساتھیوں کو بھی اُن کے دعوئی میں شبہات پیدا ہو جانے چاہئیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ اعلان کر رہے تھے کہ فَلَا أُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُونَ وَمَا لَا تُبْصِرُونَ إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ۚ قَلِيلًا مَّا تُؤْمِنُونَ وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ تَنزِيلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعَالَمِينَ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ فَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ وَإِنَّهُ لَتَذْكِرَةٌ لِلْمُتَّقِينَ.وَإِنَّا لَنَعْلَمُ أَنَّ مِنكُم مُكَذِّبِينَ وَإِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكَافِرِينَ.وَإِنَّهُ لَحَقُ الْيَقِينِ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ العظيم اسے مکہ والو! جن خیالات میں تم پڑے ہوئے ہو وہ درست نہیں.میں قسم کھا کر کہتا ہوں اُن چیزوں کی جو تمہیں نظر آرہی ہیں اور اُن کی بھی جو تمہاری نظروں سے ابھی پوشیدہ ہیں کہ یہ قرآن ایک معزز رسول کی زبان سے تم کو سنایا جارہا ہے یہ کسی شاعر کا کلام نہیں مگر تمہارے دل میں ایمان کم ہی پیدا ہوتا ہے.یہ کسی کا ہن کی تک بندی نہیں ہے مگر افسوس تم کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو.یہ سب جہانوں کے پیدا کرنے والے خدا کی الحاقة : ۳۹ تا ۵۳
۵۴ نبیوں کا سردار طرف سے اُتارا گیا ہے اور ہم جو سب جہانوں کے رب ہیں تم سے کہتے ہیں کہ اگر یہ ایک آیت بھی جھوٹی بنا کر ہماری طرف منسوب کرتا تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے اور پھر اُس کی رگ جان کو کاٹ دیتے اور اگر تم سب لوگ مل کر بھی اُس کو بچانا چاہتے تو تم اُس کو نہ بچا سکتے.مگر یہ قرآن تو خدا سے ڈرنے والوں کے لئے ایک نصیحت ہے اور ہم جانتے ہیں کہ تم میں اس قرآن کو جھٹلانے والے بھی موجود ہیں مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کی تعلیم اس کے منکروں کے دلوں میں حسرتیں پیدا کر رہی ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ کاش ! یہ تعلیم ہمارے پاس ہوتی.اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جو باتیں اس قرآن میں بتائی گئی ہیں وہ لفظاً لفظاً پوری ہو کر رہیں گی.پس اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ان لوگوں کی مخالفتوں کی پرواہ نہ کر اور اپنے عظیم الشان رب کے نام کی بزرگی بیان کرتا چلا جا.آخر تیسرا حج بھی آپہنچا اور مدینہ کے حاجیوں کا قافلہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پر مشتمل مکہ میں وارد ہوا.مکہ والوں کی مخالفت کی وجہ سے مدینہ کے لوگوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علیحدہ ملنے کی خواہش کی.اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذہن ادھر منتقل ہو چکا تھا کہ شاید ہجرت مدینہ ہی کی طرف مقدر ہے.آپ نے اپنے معتبر رشتہ داروں سے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور انہوں نے آپ کو سمجھانا شروع کیا کہ آپ ایسا نہ کریں.مکہ والے دشمن ہی سہی پھر بھی اس میں بڑے بڑے با اثر لوگ آپ کے رشتہ داروں میں سے موجود ہیں نہ معلوم مدینہ میں کیا ہو اور وہاں آپ کے رشتہ دار آپ کی مدد کر سکیں یا نہ کر سکیں.مگر چونکہ آپ سمجھ چکے تھے کہ خدائی فیصلہ یہی ہے آپ نے اپنے رشتہ داروں کی باتیں رڈ کر دیں اور مدینہ جانے کا فیصلہ کر دیا.آدھی رات کے بعد پھر وادی عقبہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مدینہ کے مسلمان جمع ہوئے.اب آپ کے ساتھ آپ کے چا عباس بھی تھے.اس دفعہ مدینہ کے
نبیوں کا سردار مسلمانوں کی تعداد سے تھی.اُن میں ۶۲ خزرج قبیلہ کے تھے اور گیارہ اوس کے تھے لے اور اس قافلہ میں دو عورتیں بھی شامل تھیں جن میں سے ایک بنی نجار قبیلہ کی اُم عمارہ بھی تھیں.چونکہ مصعب کے ذریعہ سے اِن لوگوں تک اسلام کی تفصیلات پہنچ چکی تھیں یہ لوگ ایمان اور یقین سے پر تھے ، بعد کے واقعات نے ظاہر کر دیا کہ یہ لوگ آئندہ اسلام کا ستون ثابت ہونے والے تھے.اُم عمارہ " جو اُس دن شامل ہوئیں انہوں نے اپنی اولاد میں اسلام کی محبت اتنی داخل کر دی کہ اُن کا بیٹا خبیب جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مسیلمہ کذاب کے لشکر کے ہاتھ میں قید ہو گیا تو مسیلمہ نے اُسے بلا کر پوچھا کہ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں؟ خبیب نے کہاں ہاں.پھر مسیلمہ نے کہا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ خبیب نے کہا نہیں.اس پر مسیلمہ نے حکم دیا کہ ان کا عضو کاٹ لیا جائے.تب مسیلمہ نے پھر اُن سے پوچھا.کیا تو گواہی دیتا ہے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں؟ خبیب نے کہا ہاں.پھر اُس نے کہا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ خبیب نے کہا نہیں.پھر اُس نے آپ کا ایک دوسرا عضو کاٹنے کا حکم دیا.ہر عضو کاٹنے کے بعد وہ سوال کرتا جا تا تھا کہ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور خبیب" کہتا تھا کہ نہیں.اسی طرح اس کے سارے اعضاء کالے گئے اور آخر میں اسی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اپنے ایمان کا اعلان کرتے ہوئے وہ خدا سے جاملا.خود ام عمارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت سی جنگوں میں شامل ہوئیں.غرض یہ ایک مخلص اور ایمان والا قافلہ تھا جس کے افراد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۹۷.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء سے سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۱۱۰،۱۰۹.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۵۶ نبیوں کا سردار وسلم سے دولت اور مال مانگنے نہیں آئے تھے بلکہ صرف ایمان طلب کرنے آئے تھے.عباس نے اُن کو مخاطب کر کے کہا اے خزرج قبیلہ کے لوگو! یہ میرا عزیز اپنی قوم میں معزز ہے اس کی قوم کے لوگ خواہ وہ مسلمان ہیں یا نہیں اس کی حفاظت کرتے ہیں لیکن اب اس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ تمہارے پاس جائے.اے خزرج کے لوگو! اگر یہ تمہارے پاس گیا تو سارا عرب تمہارا مخالف ہو جائے گا.اگر تم اپنی ذمہ داری کو سمجھتے اور ان خطرات کو پہچانتے ہوئے جو تمہیں اس کے دین کی حفاظت میں پیش آنے والے ہیں اس کو لے جانا چاہتے ہو تو خوشی سے لے جاؤ ورنہ اس ارادہ سے باز آ جاؤ.اس قافلہ کے سردار البراء تھے اُنہوں نے کہا ہم نے آپ کی باتیں سن لیں.ہم اپنے ارادہ میں پختہ ہیں ہماری جانیں خدا کے نبی کے قدموں پر نثار ہیں.اب فیصلہ اُس کے اختیار میں ہے.ہم اُس کا ہر فیصلہ قبول کریں گے.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی تعلیم سمجھانی شروع کی اور خدا تعالیٰ کی توحید کے قیام کا وعظ کیا اور انہیں کہا کہ اگر وہ اسلام کی حفاظت اپنی بیویوں اور اپنے بچوں کی طرح کرنے کا وعدہ کرتے ہیں تو وہ آپ کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہیں لے آپ اپنی بات ختم کرنے نہ پائے تھے کہ مدینہ کے ۷۲ جاں نثار یک زبان ہوکر چلائے ہاں ! ہاں !! اُس وقت جوش میں اُنہیں مکہ والوں کی شرارتوں کا خیال نہ رہا اور اُن کی آوازیں فضاء میں گونج گئیں.عباس نے اُنہیں ہوشیار کیا اور کہا خاموش ! خاموش! ایسا نہ ہو کہ ملکہ کے لوگوں کو اس واقعہ کا علم ہو جائے.مگر اب وہ ایمان حاصل کر چکے تھے، اب موت اُن کی نظروں میں حقیر ہو چکی تھی.عباس کی بات سن کر اُن کا ایک رئیس بولا.يَا رَسُول اللہ ! ہم ڈرتے نہیں ، آپ اجازت دیجئے ابھی مکہ والوں سے لڑ کر انہوں نے جو ظلم آپ پر کئے ہیں اُس کا بدلہ لینے کو تیار ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ابھی خدا تعالیٰ نے سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحہ ۸۵،۸۴.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
نبیوں کا سردار مجھے اُن کے مقابل پر کھڑا ہونے کا حکم نہیں دیا.اس کے بعد مدینہ کے لوگوں نے آپ کی بیعت کی اور یہ مجلس برخاست ہوئی ہے مکہ کے لوگوں کو اس واقعہ کی بھنک پہنچ گئی اور وہ مدینہ کے سرداروں کے پاس شکایت لے کر گئے.لیکن چونکہ عبداللہ بن ابی ابن سلول مدینہ کے قافلہ کا سردار تھا اور اُسے خود اس واقعہ کا علم نہیں تھا اُس نے انہیں تسلی دلائی اور کہا کہ انہوں نے یونہی کوئی جھوٹی افواہ سن لی ہے ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا کیونکہ مدینہ کے لوگ میرے مشورہ کے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتے.مگر وہ کیا سمجھتا تھا کہ اب مدینہ کے لوگوں کے دلوں میں شیطان کی جگہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت قائم ہو چکی تھی.اس کے بعد مدینہ کا قافلہ واپس چلا گیا.مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں نے ہجرت کی تیاری شروع کی.ایک کے بعد ایک خاندان مکہ سے غائب ہونا شروع ہوا.اب وہ لوگ بھی جو خدا تعالیٰ کی بادشاہت کا انتظار کر رہے تھے دلیر ہو گئے.بعض دفعہ ایک ہی رات میں مکہ کی ایک پوری گلی کے مکانوں کو تالے لگ جاتے تھے اور صبح کے وقت جب شہر کے لوگ گلی کو خاموش پاتے تو دریافت کرنے پر انہیں معلوم ہوتا تھا کہ اس گلی کے تمام رہنے والے مدینہ کو ہجرت کر گئے ہیں اور اسلام کے اس گہرے اثر کو دیکھ کر جو اندر ہی اندر مکہ کے لوگوں میں پھیل رہا تھا وہ حیران رہ جاتے تھے.آخر مکہ مسلمانوں سے خالی ہو گیا،صرف چند غلام، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر اور حضرت علی مکہ میں رہ گئے.جب مکہ کے لوگوں نے دیکھا کہ اب شکار ہمارے ہاتھ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۹۰ مطبوعه مصر ۱۹۳۶ء
۵۸ نبیوں کا سردار سے نکلا جا رہا ہے تو رؤساء پھر جمع ہوئے اور مشورے کے بعد اُنہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دینا ہی مناسب ہے.خدا تعالیٰ کے خاص تصرف سے آپ کے قتل کی تاریخ آپ کی ہجرت کی تاریخ سے موافق پڑی.جب مکہ کے لوگ آپ کے گھر کے سامنے آپ کے قتل کے لئے جمع ہورہے تھے آپ رات کی تاریکی میں ہجرت کے ارادہ سے اپنے گھر سے باہر نکل رہے تھے.مکہ کے لوگ ضرور شبہ کرتے ہوں گے کہ اُن کے ارادہ کی خبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مل چکی ہوگی.مگر پھر بھی جب آپ اُن کے سامنے سے گزرے تو انہوں نے یہی سمجھا کہ یہ کوئی اور شخص ہے اور بجائے آپ پر حملہ کرنے کے سمٹ سمٹ کر آپ سے چھپنے لگ گئے، تا کہ اُن کے ارادوں کی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو خبر نہ ہو جائے.اس رات سے پہلے دن ہی آپ کے ساتھ ہجرت کرنے کے لئے ابوبکر کو بھی اطلاع دے دی گئی تھی پس وہ بھی آپ کو مل گئے اور دونوں مل کر تھوڑی دیر میں مکہ سے روانہ ہو گئے اور مکہ سے تین چار میل پر ثور نامی پہاڑی کے سرے پر ایک غار میں پناہ گزیں ہوئے لے جب مکہ کے لوگوں کو معلوم ہوا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے چلے گئے ہیں تو انہوں نے ایک فوج جمع کی اور آپ کا تعاقب کیا.ایک کھوجی اُنہوں نے اپنے ساتھ لیا جو آپ کا کھوج لگاتے ہوئے ثور پہاڑ پر پہنچا.وہاں اُس نے اُس غار کے پاس پہنچ کر جہاں آپ ابوبکر کے ساتھ چھپے ہوئے تھے یقین کے ساتھ کہا کہ یا تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اس غار میں ہے یا آسمان پر چڑھ گیا ہے.اُس کے اس اعلان کو سن کر ابوبکر کا دل بیٹھنے لگا اور اُنہوں نے آہستہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا دشمن سر پر آپہنچا ہے اور اب کوئی دم میں غار میں داخل ہونے والا ہے.آپ نے فرمایا.لا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنا - ابوبکر ! لے بخاری باب ہجرۃ النبی السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۴۱.مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ + + بخاری باب مناقب المهاجرين
۵۹ نبیوں کا سردار ڈرو نہیں خدا ہم دونوں کے ساتھ ہے.ابوبکر نے جواب میں کہا یا رسول اللہ! میں اپنی جان کے لئے نہیں ڈرتا کیونکہ میں تو ایک معمولی انسان ہوں مارا گیا تو ایک آدمی ہی مارا جائے گا یا رَسُول اللہ ! مجھے تو صرف یہ خوف تھا کہ اگر آپ کی جان کو کوئی گزند پہنچا تو دنیا میں سے روحانیت اور دین کا نام مٹ جائے گا.آپ نے فرمایا کوئی پرواہ نہیں یہاں ہم دو ہی نہیں ہیں تیسرا خدا تعالیٰ بھی ہمارے پاس ہے.چونکہ اب وقت آپہنچا تھا کہ خدا تعالیٰ اسلام کو بڑھائے اور ترقی دے اور مکہ والوں کے لئے مہلت کا وقت ختم ہو چکا تھا خدا تعالیٰ نے مکہ والوں کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور انہوں نے کھوجی سے استہزاء شروع کر دیا اور کہا کیا اُنہوں نے اس کھلی جگہ پر پناہ لینی تھی؟ یہ کوئی پناہ کی جگہ نہیں ہے اور پھر اس جگہ کثرت سے سانپ بچھو رہتے ہیں یہاں کوئی عظمند پناہ لے سکتا ہے اور بغیر اس کے کہ غار میں جھانک کر دیکھتے کھوجی سے ہنسی کرتے ہوئے وہ واپس لوٹ گئے.دو دن اسی غار میں انتظار کرنے کے بعد پہلے سے طے کی ہوئی تجویز کے مطابق رات کے وقت غار کے پاس سواریاں پہنچائی گئیں اور دو تیز رفتار اونٹنیوں پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی روانہ ہوئے.ایک اونٹنی پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور رستہ دکھانے والا آدمی سوار ہوا اور دوسری اونٹنی پر حضرت ابوبکر اور ان کا ملازم عامر بن فہیرہ سوار ہوئے.مدینہ کی طرف روانہ ہونے سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا منہ مکہ کی طرف کیا.اُس مقدس شہر پر جس میں آپ پیدا ہوئے ، جس میں آپ مبعوث ہوئے اور جس میں حضرت اسمعیل علیہ السلام کے زمانہ سے آپ کے آباؤ اجدا در ہتے چلے آئے تھے آپ نے آخری نظر ڈالی اور حسرت کے ساتھ شہر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اے مکہ کی بستی ! تو مجھے سب جگہوں سے زیادہ عزیز ہے مگر تیرے لوگ مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے.اُس وقت حضرت ابوبکر نے بھی نہایت افسوس کے ساتھ کہا ان لوگوں نے
۶۰ نبیوں کا سردار اپنے نبی کو نکالا ہے اب یہ ضرور ہلاک ہوں گے لے سراقہ کا تعاقب اور اُس کے متعلق آنحضرت عیہ کی صلى الله ایک پیشگوئی جب مکہ والے آپ کی تلاش میں ناکام رہے تو انہوں نے اعلان کر دیا کہ جو کوئی محمد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) یا ابوبکر کو زندہ یا مردہ واپس لے آئے گا اُس کو سو (۱۰۰) اونٹنی انعام دی جائے گی اور اس اعلان کی خبر مکہ کے اردگرد کے قبائل کو بجھوا دی گئی.چنانچہ سراقہ بن مالک ایک بدوی رئیس اس انعام کے لالچ میں آپ کے پیچھے روانہ ہوا.تلاش کرتے کرتے اُس نے مدینہ کی سڑک پر آپ کو جالیا.جب اُس نے دو اونٹنیوں اور ان کے سواروں کو دیکھا اور سمجھ لیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے ساتھی ہیں تو اُس نے اپنا گھوڑا اُن کے پیچھے دوڑا دیا.مگر راستہ میں گھوڑے نے زور سے ٹھوکر کھائی اور سراقہ گر گیا.سراقہ بعد میں مسلمان ہو گیا تھا وہ اپنا واقعہ خود اس طرح بیان کرتا ہے کہ جب میں گھوڑے سے گرا تو میں نے عربوں کے دستور کے مطابق اپنے تیروں سے فال نکالی اور فال بُری نکلی.مگر انعام کے لالچ کی وجہ سے میں پھر گھوڑے پر سوار ہو کر پیچھے دوڑا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وقار کے ساتھ اپنی اونٹنی پر سوار چلے جارہے تھے.انہوں نے مڑ کر مجھے نہیں دیکھا، لیکن ابوبکر ( اس ڈر سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی گزند نہ پہنچے ) بار بار منہ پھیر کر مجھے دیکھتے تھے.جب دوسری دفعہ میں اُن کے قریب پہنچا تو پھر میرے گھوڑے نے زور سے ٹھو کر کھائی اور میں گر گیا.اس پر پھر میں نے اپنے تیروں سے فال ل السيرة الحلبية جلد ۲ صفحہ ۳۱.مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء -
۶۱ نبیوں کا سردار لی اور فال خراب نکلی.میں نے دیکھا کہ ریت میں گھوڑے کے پاؤں اتنے دھنس گئے تھے کہ اُن کا نکالنا مشکل ہو رہا تھا.تب میں نے سمجھا کہ یہ لوگ خدا کی حفاظت میں ہیں اور میں نے انہیں آواز دی کہ ٹھہرو اور میری بات سنو! جب وہ لوگ میرے پاس آئے تو میں نے انہیں بتایا کہ میں اس ارادہ سے یہاں آیا تھا مگر اب میں نے اپنا ارادہ بدل دیا ہے اور میں واپس جا رہا ہوں، کیونکہ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا جاؤ مگر دیکھو کسی کو ہمارے متعلق خبر نہ دینا.اُس وقت میرے دل میں خیال آیا کہ چونکہ یہ شخص سچا معلوم ہوتا ہے اس لئے ضرور ہے کہ ایک دن کامیاب ہو.اس خیال کے آنے پر میں نے درخواست کی کہ جب آپ کو غلبہ حاصل ہو گا اُس زمانہ کے لئے مجھے کوئی امن کا پروانہ لکھ دیں.آپ نے عامر بن فہیرہ حضرت ابوبکر کے خادم کو ارشاد فرمایا کہ اسے امن کا پروانہ لکھ دیا جائے لے چنانچہ انہوں نے امن کا پروانہ لکھ دیا.جب سراقہ لوٹنے لگا تو معا اللہ تعالیٰ نے سراقہ کے آئندہ حالات آپ پر غیب سے ظاہر فرما دیئے اور اُن کے مطابق آپ نے اُسے فرمایا.سراقہ! اُس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھوں میں کسری کے کنگن ہوں گے.سراقہ نے حیران ہوکر پوچھا، کسری بن ہرمز شہنشاہ ایران کے؟ آپ نے فرمایا ہاں! سے آپ کی یہ پیشگوئی کوئی سولہ سترہ سال کے بعد جا کر لفظ بلفظ پوری ہوئی.سراقہ مسلمان ہو کر مدینہ آ گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پہلے حضرت ابوبکر" پھر حضرت عمر" خلیفہ ہوئے.اسلام کی بڑھتی ہوئی شان کو دیکھ کر ایرانیوں نے مسلمانوں پر حملے شروع کر دیئے اور بجائے اسلام کو کچلنے کے خود اسلام کے مقابلہ میں کچلے گئے.کسری کا دارالامارہ اسلامی فوجوں کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال ہوا اور ایران ل ، ٢ السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۴۸.مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء + بخاری باب هجرة النبى الله
۶۲ نبیوں کا سردار کے خزانے مسلمانوں کے قبضہ میں آئے.جو مال اُس ایرانی حکومت کا اسلامی فوجوں کے قبضہ میں آیا اُس میں وہ کڑے بھی تھے جو کسری ایرانی دستور کے مطابق تخت پر بیٹھتے وقت پہنا کرتا تھا.سراقہ مسلمان ہونے کے بعد اپنے اس واقعہ کو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے وقت اُسے پیش آیا تھا مسلمانوں کو نہایت فخر کے ساتھ سنایا کرتا تھا اور مسلمان اس بات سے آگاہ تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مخاطب کر کے فرمایا تھا، سراقہ! اُس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھ میں کسری کے کنگن ہوں گے.حضرت عمر کے سامنے جب اموال غنیمت لا کر رکھے گئے اور اُن میں اُنہوں نے کسری کے کنگن دیکھے تو سب نقشہ آپ کی آنکھوں کے سامنے پھر گیا.وہ کمزوری اور ضعف کا وقت جب خدا کے رسول کو اپنا وطن چھوڑ کر مدینہ آنا پڑا تھا، وہ سراقہ اور دوسرے آدمیوں کا آپ کے پیچھے اس لئے گھوڑے دوڑانا کہ آپ کو مار کر یا زندہ کسی صورت میں بھی مکہ والوں تک پہنچادیں تو وہ سو اونٹوں کے مالک ہو جائیں گے اور اُس وقت آپ کا سراقہ سے کہنا سراقہ اُس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھوں میں کسری کے کنگن ہوں گے.کتنی بڑی پیشگوئی تھی کتنا مصطفی غیب تھا.حضرت عمر نے اپنے سامنے کسری کے کنگن دیکھے تو خدا کی قدرت اُن کی آنکھوں کے سامنے پھر گئی.اُنہوں نے کہا سراقہ کو بلاؤ.سراقہ بلائے گئے تو حضرت عمرؓ نے انہیں حکم دیا کہ وہ کسری کے کنگن اپنے ہاتھوں میں پہنیں.سراقہ نے کہا.اے خدا کے رسول کے خلیفہ ! سونا پہنا تو مسلمانوں کے لئے منع ہے.حضرت عمرؓ نے فرمایا ہاں منع ہے مگر ان موقعوں کے لئے نہیں.اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہارے ہاتھ میں سونے کے کنگن دکھائے تھے یا تو تم یہ کنگن پہنو گے یا میں تمہیں سزا دوں گا.سراقہ کا اعتراض تو محض شریعت کے مسئلہ کی وجہ سے تھا ورنہ وہ خود بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھنے کا خواہش مند تھا.سراقہ نے وہ کنگن اپنے ہاتھ میں پہن لئے اور
۶۳ نبیوں کا سردار مسلمانوں نے اس عظیم الشان پیشگوئی کو پورا ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا.صلى الله آنحضرت ﷺ کا مدینہ منورہ میں ورود مکہ سے بھاگ کر نکلنے والا رسول اب دنیا کا بادشاہ تھا ، وہ خود اس دنیا میں موجود نہیں تھا مگر اُس کے غلام اُس کی پیشگوئیوں کو پورا ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے.سراقہ کو رخصت کرنے کے بعد چند منزلیں طے کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچ گئے مدینہ کے لوگ بے صبری سے آپ کا انتظار کر رہے تھے اور اس سے زیادہ اُن کی خوش قسمتی اور کیا ہوسکتی تھی کہ وہ سورج جو مکہ کے لئے نکلا تھامد بینہ کے لوگوں پر جاطلوع ہوا.جب انہیں یہ خبر پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے غائب ہیں تو وہ اُسی دن سے آپ کی انتظار کر رہے تھے.اُن کے وفد روزانہ مدینہ سے باہر کئی میل تک آپ کی تلاش کے لئے نکلتے تھے اور شام کو مایوس ہو کر واپس آجاتے تھے.جب آپ مدینہ کے پاس پہنچے تو آپ نے فیصلہ کیا کہ پہلے آپ قبا میں جو مدینہ کے پاس ایک گاؤں تھا ٹھہریں.ایک یہودی نے آپ کی اونٹنیوں کو آتے دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ قافلہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے وہ ایک ٹیلے پر چڑھ گیا اور اُس نے آواز دی اے قبلہ کی اولاد! (قیلہ مدینہ والوں کی ایک دادی تھی ) تم جس کی انتظار میں تھے آ گیا ہے.اس آواز کے پہنچتے ہی مدینہ کا ہر شخص قبا کی طرف دوڑ پڑا.قبا کے باشندے اس خیال سے کہ خدا کا نبی اُن میں ٹھہر نے کے لئے آیا ہے خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے.اس موقع پر ایک ایسی بات ہوئی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سادگی کے کمال پر دلالت کرتی تھی.مدینہ کے اکثر لوگ آپ کی شکل سے واقف نہ تھے.جب قبا سے باہر آپ ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ بھاگتے ہوئے مدینہ سے آپ کی
۶۴ نبیوں کا سردار طرف آرہے تھے تو چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ سادگی سے بیٹھے ہوئے تھے اُن میں سے ناواقف لوگ حضرت ابوبکر کو دیکھ کر جو عمر میں گو چھوٹے تھے مگر اُن کی ڈاڑھی میں کچھ سفید بال آئے ہوئے تھے اور اسی طرح اُن کا لباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ بہتر تھا یہی سمجھتے تھے کہ ابوبکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور بڑے ادب سے آپ کی طرف منہ کر کے بیٹھ جاتے تھے.حضرت ابوبکر نے جب یہ بات دیکھی تو سمجھ لیا کہ لوگوں کو غلطی لگ رہی ہے.وہ جھٹ چادر پھیلا کر سورج کے سامنے کھڑے ہو گئے اور کہا یا رَسُول اللہ ! آپ پر دھوپ پڑ رہی ہے میں آپ پر سایہ کرتا ہوں اور اس لطیف طریق سے اُنہوں نے لوگوں پر اُن کی غلطی کو ظاہر کر دیا.قبا میں دس دن رہنے کے بعد مدینہ کے لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ لے گئے.جب آپ مدینہ میں داخل ہوئے مدینہ کے تمام مسلمان کیا مرد کیا عورتیں اور کیا بچے سب گلیوں میں نکلے ہوئے آپ کو خوش آمدید کہہ رہے تھے.بچے اور عورتیں یہ شعر گا ر ہے تھے.طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا مِنْ ثَنِيَّاتِ الْوِدَاع وَجَبَ الشُّكْرُ عَلَيْنَا مَا دَعَا لِلَّهِ دَاعٍ أَيُّهَا الْمَبْعُوثُ فِيْنَا جِئْتَ بِالْاَمْرِ الْمُطَاع یعنی چودھویں رات کا چاند ہم پر وداع کے موڑ سے چڑھا ہے اور جب تک خدا کی طرف بلانے والا دنیا میں کوئی موجود رہے ہم پر اس احسان کا شکریہ ادا کرنا واجب ہے اور اے وہ جس کو خدا نے ہم میں مبعوث کیا ہے تیرے حکم کی پوری طرح اطاعت کی جائے گی.سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحہ ۱۳۷.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء لے شرح مواهب اللدنیہ جلد ا صفحه ۳۵۹ مطبوعہ مصر ۱۳۲۵ھ
نبیوں کا سردار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس جہت سے مدینہ میں داخل ہوئے تھے وہ مشرقی جہت نہیں تھی.مگر چودھویں رات کا چاند تو مشرق سے چڑھا کرتا ہے.پس مدینہ کے لوگوں کا اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ اصل چاند تو روحانی چاند ہے.ہم اس وقت تک اندھیرے میں تھے اب ہمارے لئے چاند چڑھا ہے اور چاند بھی اُس جہت سے چڑھا ہے جدھر سے وہ چڑھا نہیں کرتا.یہ پیر کا دن تھا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں داخل ہوئے اور پیر ہی کے دن آپ غار ثور سے نکلے تھے اور یہ عجیب بات ہے کہ پیر ہی کے دن مکہ آپ کے ہاتھ پر فتح ہوا.جب آپ مدینہ میں داخل ہوئے ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ آپ اُس کے گھر میں ٹھہر ہیں.جس جس گلی میں سے آپ کی اونٹنی گزرتی تھی اُس گلی کے مختلف خاندان اپنے گھروں کے آگے کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کرتے تھے اور کہتے تھے.يَارَسُول اللہ ! یہ ہمارا گھر ہے اور یہ ہمارا مال ہے اور یہ ہماری جانیں ہیں جو آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہیں يَا رَسُول اللہ ! اور ہم آپ کی حفاظت کرنے کے قابل ہیں آپ ہمارے ہی پاس ٹھہریں.بعض لوگ جوش میں آگے بڑھتے اور آپ کی اونٹنی کی باگ پکڑ لیتے تا کہ آپ کو اپنے گھر میں اتر والیں.مگر آپ ہر ایک شخص کو یہی جواب دیتے تھے کہ میری اُونٹنی کو چھوڑ دو یہ آج خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہے یہ وہیں کھڑی ہوگی جہاں خدا تعالیٰ کا منشاء ہوگا.آخر مدینہ کے ایک سرے پر بنو نجار کے یتیموں کی ایک زمین کے پاس جا کر اُونٹنی ٹھہر گئی.آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ کا یہی منشاء معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہاں ٹھہریں لے پھر فرمایا یہ زمین کس کی ہے؟ زمین کچھ یتیموں کی تھی اُن کا ولی آگے بڑھا اور اُس نے کہا کہ یا رسول اللہ ! یہ فلاں فلاں یتیم کی زمین ہے اور آپ کی خدمت کے لئے سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۱۴۱،۱۴۰.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۶۶ نبیوں کا سردار حاضر ہے آپ نے فرمایا ہم کسی کا مال مفت نہیں لے سکتے.آخر اس کی قیمت مقرر کی گئی اور آپ نے اس جگہ پر مسجد اور اپنے مکانات بنانے کا فیصلہ کیا ہے حضرت ابوایوب انصاری کے مکان پر قیام اس کے بعد آپ نے فرمایا سب سے قریب گھر کس کا ہے؟ ابوایوب انصاری آگے بڑھے اور کہا یا رسول اللہ ! میرا گھر سب سے قریب ہے اور آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہے.آپ نے فرمایا گھر جاؤ اور ہمارے لئے کوئی کمرہ تیار کرو.ابوایوب کا مکان دومنزلہ تھا اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اوپر کی منزل تجویز کی مگر آپ نے اس خیال سے کہ ملنے والوں کو تکلیف ہوگی نچلی منزل پسند فرمائی.انصار کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے جو شدید محبت پیدا ہو گئی تھی ، اُس کا مظاہرہ اس موقع پر بھی ہوا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار پر حضرت ابوایوب مان تو گئے کہ آپ نچلی منزل میں ٹھہریں لیکن ساری رات میاں بیوی اس خیال سے جاگتے رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے نیچے سورہے ہیں پھر وہ کس طرح اس بے ادبی کے مرتکب ہو سکتے ہیں کہ وہ چھت کے اوپر سوئیں.رات کو ایک برتن پانی کا گر گیا تو اس خیال سے کہ چھت کے نیچے پانی نہ ٹپک پڑے حضرت ایوب نے دوڑ کر اپنا لحاف اُس پانی پر ڈال کر پانی کی رطوبت کو خشک کیا.صبح کے وقت پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارے حالات عرض کئے جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اوپر جانا منظور فرما لیا.حضرت ابوایوب روزانہ کھانا تیار کرتے اور آپ کے پاس بجھواتے پھر جو آپ کا بچا ہوا کھانا آتا وہ سارا گھر کھاتا.کچھ دنوں کے بعد اصرار کے ساتھ ل السيرت الحلبية جلد ۲ صفحه ۸۷،۸۶.مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۶۷ نبیوں کا سردار باقی انصار نے بھی مہمان نوازی میں اپنا حصہ طلب کیا اور جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے گھر کا انتظام نہ ہو گیا باری باری مدینہ کے مسلمان آپ کے گھر میں کھانا پہنچاتے رہے لا حضرت انس خادم آنحضرت ﷺ کی شہادت مدینہ کی ایک بیوہ عورت کا ایک ہی لڑکا انس“ نامی تھا.اُس کی عمر آٹھ سال تھی وہ اُسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائیں اور کہا کہ یا رَسُول اللہ ! میرے اس لڑکے کو اپنی خدمت کے لئے قبول فرما ئیں.وہ عورت اپنی محبت کی وجہ سے اپنے لڑکے کو قربانی کے لئے پیش کر رہی تھی لیکن اُسے کیا معلوم تھا کہ اُس کا لڑکا قربانی کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ کی زندگی کے لئے قبول کیا گیا.انس " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں اسلام کے بہت بڑے عالم ہوئے اور آہستہ آہستہ بہت بڑے مالدار ہو گئے.انہوں نے ایک سوسال سے زیادہ عمر پائی اور اسلامی بادشاہت میں بہت عزت کی نگاہ کے ساتھ دیکھے جاتے تھے.انس کا بیان ہے کہ میں نے چھوٹی عمر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کا شرف حاصل کیا اور آپ کی زندگی تک آپ کے ساتھ رہا کبھی آپ نے مجھ سے سختی کے ساتھ بات نہیں کی، کبھی جھڑ کی نہیں دی، کبھی کسی ایسے کام کیلئے نہیں کہا جو میری طاقت سے باہر ہو.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیام مدینہ کے ایام میں صرف انس سے خدمت لینے کا موقع ملا اور انس کی شہادت اس بارہ میں آپ کے اخلاق پر نہایت تیز روشنی ڈالنے والی ہے.ے بخاری باب هجرة النبي ﷺ + زرقانی جلدا واقعة هجرة مسلم كتاب فضائل الصحابة
۶۸ نبیوں کا سردار مکہ سے اہل و عیال کو بلو انا مسجد نبوی کی بنیا د رکھنا کچھ عرصہ کے بعد آپ نے اپنے آزاد کردہ غلام زید کو مکہ میں بھجوایا کہ وہ آپ کے اہل وعیال کو لے آئے.چونکہ مکہ والے اس اچانک ہجرت کی وجہ سے کچھ گھبرا گئے تھے اس لئے کچھ عرصہ تک مظالم کا سلسلہ بند ر ہا اور اسی گھبراہٹ کی وجہ سے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر کے خاندان کے مکہ چھوڑنے میں مزاحم نہیں ہوئے اور یہ لوگ خیریت سے مدینہ پہنچ گئے.اس عرصہ میں جو زمین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خریدی تھی سب سے پہلے وہاں آپ نے مسجد کی بنیاد رکھیے اور اس کے بعد اپنے لئے اور اپنے ساتھیوں کے لئے مکان بنوائے جس پر کوئی سات مہینے کا عرصہ لگا.مدینہ کے مشرک قبائل کا اسلام میں داخل ہونا مدینہ میں آپ کے داخلہ کے بعد چند ہی دن میں مدینہ کے مشرک قبائل میں سے اکثر لوگ مسلمان ہو گئے ، جو دل سے مسلمان نہ ہوئے تھے وہ ظاہری طور پر مسلمانوں میں شامل ہو گئے اور اس طرح پہلی دفعہ مسلمانوں میں منافقوں کی ایک جماعت قائم ہوئی جو بعد کے زمانہ میں کچھ تو سچے طور پر ایمان لے آئی اور کچھ ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف منصوبے اور سازشیں کرتی رہی.کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو ظاہر میں بھی اسلام نہ لائے مگر یہ لوگ مدینہ میں اسلام کی شوکت کو برداشت نہ کر سکے اور مدینہ سے ہجرت کر کے مکہ چلے گئے.اس طرح مدینہ دنیا کا پہلا شہر تھا جس میں خالصتہ خدائے واحد کی عبادت قائم کی گئی.یقینا اُس وقت دنیا کے پردہ پر اس شہر کے سوا اور کوئی شہر یا گاؤں خالصتہ خدائے واحد کی بخاری باب هجرة النبي صلى اللہ علیہ وسلم + زرقانی جلد
عبادت کرنے والا نہیں تھا.۶۹ نبیوں کا سردار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ کتنی بڑی خوشی اور اُن کے ساتھیوں کی نگاہوں میں یہ کتنی عظیم الشان کامیابی تھی کہ مکہ سے ہجرت کرنے کے چند دنوں بعد ہی خدا تعالیٰ نے اُن کے ذریعہ سے ایک شہر کو پورے طور پر خدائے قادر کا پرستار بنادیا جس میں اور کسی بت کی پوجا نہیں کی جاتی تھی ، نہ ظاہری بت کی نہ باطنی بت کی لیکن اس تبدیلی سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ مسلمانوں کے لئے اب امن آ گیا تھا.مدینہ میں عربوں میں سے بھی ایک جماعت منافقوں کی ایسی موجود تھی جو آپ کی جان کی دشمن تھی اور یہود بھی ریشہ دوانیاں کر رہے تھے.چنانچہ اس خطرہ کو محسوس کرتے ہوئے آپ خود بھی چوکس رہتے تھے اور اپنے ساتھیوں کو بھی چوکس رہنے کی تاکید کرتے تھے.شروع میں بعض دن ایسے بھی آئے کہ آپ کو رات بھر جاگنا پڑا.ایک دفعہ ایسی ہی حالت میں جب آپ کو جاگتے رہنے سے تھکان محسوس ہوئی تو آپ نے فرمایا اس وقت کوئی مخلص آدمی پہرہ دیتا تو میں سو جاتا.تھوڑی ہی دیر میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی آپ نے پوچھا کون ہے؟ تو آواز آئی یا رَسُول اللہ ا میں سعد بن وقاص ہوں جو آپ کا پہرہ دینے کے لئے آیا ہوں لیے اس پر آپ نے آرام فرمایا.انصار کو خود بھی یہ محسوس ہو رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ کی رہائش ہم پر بہت بڑی ذمہ واری ڈالتی ہے اور یہ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں دشمنوں کے حملوں سے محفوظ نہیں چنانچہ انہوں نے باہمی فیصلہ کر کے مختلف قبائل کی باریاں مقرر کر دیں.ہر قبیلہ کے کچھ لوگ باری باری آپ کے گھر کا پہرہ دیتے تھے.غرض مکی زندگی اور مدنی زندگی میں اگر کوئی فرق تھا تو صرف یہ کہ اب مسلمان خدا کے نام پر قائم کی ہوئی مسجد میں بغیر دوسرے لوگوں کی دخل اندازی کے پانچوں وقت مسلم کتاب فضائل الصحابة باب فی فضل سعد بن ابی وقاص
نمازیں پڑھ سکتے تھے.نبیوں کا سردار مکہ والوں کی مسلمانوں کو دوبارہ دُکھ دینے کی تدبیریں دو تین مہینے گزرنے کے بعد مکہ کے لوگوں کی پریشانی دور ہوئی اور انہوں نے نئے سرے سے مسلمانوں کو دکھ دینے کی تدابیر سوچنی شروع کیں.مگر مشورہ کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ صرف مکہ اور گرد و نواح میں مسلمانوں کو تکلیف دینا انہیں اپنے مقصد میں کامیاب نہیں کر سکتا.وہ اسلام کو تبھی مٹا سکتے ہیں جب مدینہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکلوادیں.چنانچہ یہ مشورہ کر کے مکہ کے لوگوں نے عبداللہ ابن ابی بن سلول کے نام جس کی نسبت پہلے بتایا جا چکا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے مدینہ والوں نے اُسے اپنا بادشاہ بنانے کا فیصلہ کیا تھا خط لکھا اور اسے توجہ دلائی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ جانے کی وجہ سے مکہ کے لوگوں کو بہت صدمہ ہوا ہے.مدینہ کے لوگوں کو چاہئے نہیں تھا کہ وہ آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو پناہ دیتے.اس کے آخر میں یہ الفاظ تھے إِنَّكُمْ أَوَيْتُمْ صَاحِبَنَا وَإِنَّا نُقْسِمُ بِاللهِ لَتُقَاتِلَنَّهُ أَوْ تُخْرِجَنَّهُ أَوْلَنُسَيْرَنَّ اِلَيْكُمْ بِأَجْمَعِنَا حَتَّى نَقْتُلَ مُقَاتِلَتَكُمْ وَنَسْتَبِيحَ نِسَاءَ كُمْ لا یعنی اب جبکہ تم لوگوں نے ہمارے آدمی ( محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اپنے گھروں میں پناہ دی ہے ہم خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر یہ اعلان کرتے ہیں کہ یا تو تم مدینہ کے لوگ اس کے ساتھ لڑائی کردیا اُسے اپنے شہر سے نکال دو نہیں تو ہم سب کے سب مل کر مدینہ پر حملہ کریں گے اور مدینہ کے تمام قابل جنگ آدمیوں کو قتل کر دیں گے اور عورتوں کو لونڈیاں بنالیں گے.اس خط کے ملنے پر عبداللہ ابن ابی بن سلول کی نیت کچھ خراب ہوئی اور اُس نے دوسرے ابو داؤد کتاب الخراج و الفئى باب في خبر النفير
اے نبیوں کا سردار منافقوں سے مشورہ کیا کہ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم نے یہاں رہنے دیا تو ہمارے لئے خطرات کا دروازہ کھل جائے گا اس لئے چاہئے کہ ہم آپ کے ساتھ لڑائی کریں اور مکہ والوں کو خوش کریں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی اطلاع مل گئی اور آپ عبداللہ ابن ابی بن سلول کے پاس گئے اور اُسے سمجھایا کہ تمہارا یہ فعل خود تمہارے لئے ہی مضر ہو گا.کیونکہ تم جانتے ہو کہ مدینہ کے بہت سے لوگ مسلمان ہو چکے ہیں اور اسلام کے لئے جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں اگر تم ایسا کرو گے تو وہ لوگ یقینا مہاجرین کے ساتھ ہوں گے اور تم لوگ اِس لڑائی کو شروع کر کے بالکل تباہ ہو جاؤ گے.عبد اللہ ابن ابی بن سلول پر اپنی غلطی کھل گئی اور وہ اس ارادہ سے باز آ گیا.انصار و مہاجرین میں مؤاخات انہی ایام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور تدبیر اسلام کی مضبوطی کے لئے اختیار کی اور وہ یہ کہ آپ نے تمام مسلمانوں کو جمع کیا اور دو دو آدمیوں کو آپس میں بھائی بھائی بنادیا.اس مؤاخات یعنی بھائی چارے کا انصار نے ایسی خوشدلی سے استقبال کیا کہ ہر انصاری اپنے بھائی کو اپنے گھر پر لے گیا اور اپنی جائیداد اُس کے سامنے پیش کر دی کہ اُسے نصف نصف بانٹ لیا جائے.ایک انصاری نے تو یہاں تک حد کر دی کہ اپنے مہاجر بھائی سے اصرار کیا کہ میں اپنی دو بیویوں میں سے ایک کو طلاق دے دیتا ہوں تم اُس سے شادی کر لوٹے مگر مہاجرین نے اُن کے اس اخلاص کا شکر یہ ادا کر کے اُن کی جائیدادوں میں سے حصہ لینے سے انکار کر دیا.مگر پھر بھی انصار مصر ر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے عرض کیا کہ يَا رَسُولَ اللہ ! جب یہ مہاجرین ہمارے بھائی ہو گئے تو یہ کس ترمذی کتاب البر والصلة باب ما جاء في مواساة.....الخ
۷۲ نبیوں کا سردار طرح ہو سکتا ہے کہ ہمارے مال میں حصہ دار نہ ہوں.ہاں چونکہ یہ زمیندارہ سے واقف نہیں اور تاجر پیشہ لوگ ہیں اگر یہ ہماری زمینوں سے حصہ نہیں لیتے تو پھر ہماری زمینوں کی جو آمدنیاں ہوں اس میں ضرور ان کو حصہ دار بنایا جائے.مہاجرین نے اس پر بھی اُن کے ساتھ حصہ دار بنا پسند نہ کیا اور اپنے آبائی پیشہ تجارت میں لگ گئے اور تھوڑے ہی دنوں میں اُن میں سے کئی مالدار ہو گئے.مگر انصار اس حصہ بٹانے پر اتنے مصر تھے کہ بعض انصار جو فوت ہوئے اُن کی اولادوں نے عرب کے دستور کے مطابق اپنے مہاجر بھائیوں کو مرنے والے کی جائیداد میں سے حصہ دیا اور کئی سال تک اس پر عمل ہوتا رہا.یہاں تک کہ قرآن کریم میں اس عمل کی منسوخی کا ارشاد نازل ہوا.مهاجرین وانصار اور یہود کے مابین معاہدہ علاوہ مسلمانوں کو بھائی بھائی بنانے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام اہل مدینہ کے درمیان ایک معاہدہ کرایا.آپ نے یہودیوں اور عربوں کے سرداروں کو جمع کیا اور فرمایا.پہلے یہاں صرف دو گروہ تھے مگر اب تین گروہ ہو گئے ہیں.یعنی پہلے تو صرف یہود اور مدینہ کے عرب یہاں بستے تھے مگر اب یہود، مدینہ کے عرب اور مکہ کے مہاجرتین گروہ ہو گئے ہیں.اس لئے چاہئے کہ آپس میں ایک صلح نامہ قائم ہو جائے.چنانچہ آپس کے سمجھوتے کے ساتھ ایک معاہدہ لکھا گیا اس معاہدہ کے الفاظ یہ ہیں:.معاہدہ مابین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، مؤمنوں اور اُن تمام ,, لوگوں کے جو اُن سے بخوشی مل جائیں.مہاجرین سے اگر کوئی قتل ہو جائے تو وہ اُس کے خون کا ذمہ دار خود ہوں گے اور اپنے قیدیوں کو خود چھڑائیں گے اور مدینہ کے مختلف مسلمان
۷۳ قبائل بھی اسی طرح ان امور میں اپنے قبائل کے ذمہ دار ہوں گے.جو شخص بغاوت پھیلائے یا دشمنی پیدا کرے اور نظام میں تفرقہ ڈالے تمام معاہدین اُس کے خلاف کھڑے ہو جا ئیں گے.خواہ وہ اُن کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ ہو.اگر کوئی کافر مسلمان کے ہاتھ سے لڑائی میں مارا جائے تو اُس کے مسلمان رشتہ دار مسلمان سے بدلہ نہیں لیں گے اور نہ کسی مسلمان کے مقابلہ میں ایسے کافر کی مدد کریں گے.جو کوئی یہودی ہمارے ساتھ مل جائے اس کی ہم سب مدد کریں گے.یہودیوں کو کسی قسم کی تکلیف نہیں دی جائے گی نہ کسی دشمن کی اُن کے خلاف مدد کی جائے گی.کوئی غیر مؤمن مکہ کے لوگوں کو اپنے گھر میں پناہ نہیں دے گا نہ اُن کی جائداد اپنے پاس امانت رکھے گا اور نہ کافروں اور مؤمنوں کی لڑائی میں کسی قسم کی دخل اندازی کرے گا.اگر کوئی شخص کسی مسلمان کو ناجائز طور پر مار دے تو تمام مسلمان اُس کے خلاف متحدہ کوشش کریں گے.اگر ایک مشرک دشمن مدینہ پر حملہ کرے تو یہودی مسلمانوں کا ساتھ دیں گے اور بحصہ رسدی خرچ برداشت کریں گے.یہودی قبائل جو مدینہ کے مختلف قبائل کے ساتھ معاہدہ کر چکے ہیں اُن کے حقوق مسلمانوں کے سے حقوق ہوں گے.یہودی اپنے مذہب پر قائم رہیں گے اور مسلمان اپنے مذہب پر قائم رہیں گے.جو حقوق یہودیوں کو ملیں گے وہی ان کے اتباع کو بھی ملیں گے.مدینہ کے لوگوں میں سے کوئی شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر کوئی لڑائی شروع نہیں کر سکے گا لیکن اس شرط کے ماتحت کوئی شخص اُس کے جائز انتقام سے محروم نہیں کیا جائے گا.یہودی اپنی نبیوں کا سردار
۷۴ نبیوں کا سردار تنظیم میں سے اپنے اخراجات خود برداشت کریں گے اور مسلمان اپنے اخراجات خود برداشت کریں گے لیکن لڑائی کی صورت میں وہ دونوں مل کر کام کریں گے.مدینہ اُن تمام لوگوں کے لئے جو اس معاہدہ میں شامل ہوتے ہیں ایک محترم جگہ ہوگی.جو اجنبی کہ شہر کے لوگوں کی حمایت میں آجائیں اُن کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوگا جو اصل باشد گانِ شہر کے ساتھ ہوگا.لیکن مدینہ کے لوگوں کو یہ اجازت نہ ہو گی کہ کسی عورت کو اُس کے رشتہ داروں کی مرضی کے بغیر اپنے گھروں میں رکھیں.جھگڑے اور فساد خدا اور اس کے رسول کے پاس فیصلہ کے لئے پیش کئے جائیں گے.مکہ والوں اور اُن کے حلیف قبائل کے ساتھ اس معاہدہ میں شامل ہونے والے کوئی معاہدہ نہیں کریں گے، کیونکہ اس معاہدہ میں شامل ہونے والے مدینہ کے دشمنوں کے خلاف اس معاہدہ کے ذریعہ سے اتفاق کر چکے ہیں.جس طرح جنگ علیحدہ نہیں کی جاسکے گی اسی طرح صلح بھی علیحدہ نہیں کی جاسکے گی.لیکن کسی کو مجبور نہیں کیا جائے گا کہ وہ لڑائی میں شامل ہو.ہاں اگر کوئی شخص ظلم کا کوئی فعل کرے گا تو وہ سزا کا مستحق ہوگا.یقینا خدا نیکوں اور دینداروں کا محافظ ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) خدا کے رسول ہیں ، لے یہ معاہدہ کا خلاصہ ہے.اس معاہدہ میں بار بار اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ دیانتداری اور صفائی کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا جائے گا اور ظالم اپنے ظلم کا خود ذمہ دار ہوگا.اس معاہدہ سے ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۷ ۱۴ تا ۱۵۰ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۷۵ نبیوں کا سردار یہودیوں کے ساتھ اور مدینہ کے اُن باشندوں کے ساتھ جو اسلام میں شامل نہ ہوں محبت، پیار اور ہمدردی کا سلوک کیا جائے گا اور انہیں بھائیوں کی طرح رکھا جائے گا.پس بعد میں یہود کے ساتھ جس قدر جھگڑے پیدا ہوئے اُن کی ذمہ داری خالصہ یہود پر تھی.اہل مکہ کی طرف سے از سرِ نو شرارتوں کا آغاز جیسا کہ بتایا جا چکا ہے کہ دو تین مہینہ کے بعد مکہ والوں کی پریشانی جب دور ہوئی تو اُنہوں نے پھر سے اسلام کے خلاف ایک نیا محاذ قائم کیا.چنانچہ انہی ایام میں مدینہ کے ایک رئیس سعد بن معاذ جو اوس قبیلہ کے سردار تھے بیت اللہ کا طواف کرنے کے لئے مکہ گئے تو ابو جہل نے اُن کو دیکھ کر بڑے غصہ سے کہا کیا تم لوگ یہ خیال کرتے ہو کہ اُس مرتد ( محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کو پناہ دینے کے بعد تم لوگ امن کے ساتھ کعبہ کا طواف کر سکو گے اور تم یہ گمان کرتے ہو کہ تم اُس کی حفاظت اور امداد کی طاقت رکھتے ہو.خدا کی قسم ! اگر اس وقت تیرے ساتھ ابو صفوان نہ ہوتا تو تو اپنے گھر والوں کے پاس بیچ کر نہ جا سکتا.سعد بن معاذ نے کہا.واللہ! اگر تم نے ہمیں کعبہ سے روکا تو یاد رکھو پھر تمہیں بھی تمہارے شامی راستہ پر امن نہیں مل سکے گا.اُنہی دنوں میں ولید بن مغیرہ مکہ کا ایک بہت بڑا رئیس بیمار ہوا اور اُس نے محسوس کیا کہ اُس کی موت قریب ہے.ایک دن مکہ کے بڑے بڑے رئیس اُس کے پاس بیٹھے تھے تو وہ بے اختیار ہو کر رونے لگ گیا.مکہ کے رؤساء حیران ہوئے اور اُس سے پوچھا کہ آخر آپ روتے کیوں ہیں؟ ولید نے کہا کیا تم سمجھتے ہو کہ میں موت کے ڈر سے روتا ہوں کو اللہ ! ایسا ہر گز نہیں، مجھے تو یہ غم ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کا دین پھیل جائے اور مکہ بھی اس کے قبضہ میں چلا جائے.ابوسفیان نے جواب میں کہا.اس بات کا غم نہ کرو جب تک ہم زندہ ہیں ایسا نہیں ہوگا ہم اس بات
نبیوں کا سردار کے ضامن ہیں.ان تمام واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ مکہ کے لوگوں کے مظالم میں جو وقفہ ہوا تھا وہ عارضی تھا.دوبارہ قوم کو اُکسایا جارہا تھا.مرنے والے رؤساء موت کے بستر پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی قسمیں لے رہے تھے.مدینہ کے لوگوں کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لڑائی پر آمادہ کیا جار ہا تھا اور اُن کے انکار پر دھمکیاں دی جارہی تھیں کہ مکہ والے اور اُن کے حلیف قبائل لشکر لے کر مدینہ پر حملہ کریں گے اور مدینہ کے مردوں کو ماردیں گے اور عورتوں کو غلام بنالیں گے.آنحضرت اللہ کی مدافعانہ تدابیر علی پس ان حالات میں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں خاموش بیٹھے رہتے اور مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہ کرتے تو یقینا آپ پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عاید ہوتی.پس آپ نے چھوٹے چھوٹے وفدوں کی صورت میں اپنے صحابہ کو مکہ کے اردگرد بجھوانا شروع کیا تا کہ مکہ والوں کی کارروائیوں کا آپ کو علم ہوتار ہے.بعض دفعہ ان لوگوں کی مکہ کے قافلوں یا مکہ کی بعض جماعتوں سے مٹھ بھیڑ بھی ہو جاتی اور ایک دوسرے کو دیکھ لینے کے بعد لڑائی تک بھی نوبت پہنچ جاتی.مسیحی مصنف لکھتے ہیں کہ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے چھیڑ چھاڑ تھی.کیا مکہ میں تیرہ سال تک جو مسلمانوں پر ظلم کیا گیا اور مدینہ کے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کرنے کی جو کوشش کی گئی اور پھر مدینہ پر حملہ کرنے کی جو دھمکیاں دی گئیں ، ان واقعات کی موجودگی میں آپ کا خبر دار رہنے کے لئے وفود بھجوانا کیا چھیڑ چھاڑ کہلا سکتا ہے؟ کونساد نیا کا قانون ہے جو مکہ کے تیرہ سال کے مظالم کے بعد بھی مسلمانوں اور اہل مکہ میں لڑائی چھیڑنے کے لئے کسی مزید وجہ کی ضرورت سمجھتا ہو.
22 نبیوں کا سردار آج مغربی ممالک اپنے آپ کو بہت ہی مہذب سمجھتے ہیں.جو کچھ مکہ میں ہوا کیا اُن سے نصف واقعات پر بھی کوئی قوم لڑے تو کوئی شخص اُسے مجرم قرار دے سکتا ہے؟ کیا اگر کوئی حکومت کسی دوسرے ملک کے لوگوں کو ایک جماعت کے قتل کرنے یا اپنے ملک سے نکال دینے پر مجبور کرے تو اُس جماعت کو حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ اُس سے لڑائی کا اعلان کرے؟ پس مدینہ میں اسلامی حکومت کے قیام کے بعد کسی نئی وجہ کے پیدا ہونے کی ضرورت ہی نہیں تھی.مکی زندگی کے واقعات مسلمانوں کو پورا حق دیتے تھے کہ وہ مکہ والوں سے جنگ کا اعلان کر دیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا.انہوں نے صبر کیا اور صرف دشمنوں کی شرارتوں کا پتہ لگاتے رہنے کی حد تک اپنی کوششیں محدود رکھیں.مگر جب مکہ والوں نے خود مدینہ کے عربوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑ کا یا، مسلمانوں کو حج کرنے سے روک دیا اور اُن کے ان قافلے نے جو شام میں تجارت کے لئے جاتے تھے انہوں نے اپنے اصل راستے کو چھوڑ کر مدینہ کے اردگرد کے قبائل میں سے ہو کر گزرنا اور ان کو مدینہ والوں کے خلاف اُکسانا شروع کیا تو مدینہ کی حفاظت کے لئے مسلمانوں کا بھی فرض تھا کہ وہ اس لڑائی کے چیلنج کو جو مکہ والے متواتر چودہ سال سے انہیں دے رہے تھے قبول لیتے اور دنیا کے کسی شخص کو حق حاصل نہیں کہ وہ چیلینج کے قبول کرنے پر اعتراض کرے.مدینہ میں اسلامی حکومت کی بنیاد جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیرونی حالات کی خبر گیری کر رہے تھے وہاں آپ مدینہ کی اصلاح سے بھی غافل نہیں تھے.یہ بتایا جا چکا ہے کہ مدینہ کے مشرک اکثر اخلاص کے ساتھ اور بعض منافقت کے ساتھ مسلمان ہو چکے تھے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی طریق حکومت کو اُن میں قائم کرنا شروع کیا.پہلے عرب کے دستور کے مطابق لوگ لڑ
ZA نبیوں کا سردار بھڑ کر اپنے حقوق کا فیصلہ کر لیا کرتے تھے.اب باقاعدہ قاضی مقرر کئے گئے جن کے فیصلہ کے بغیر کوئی شخص اپنا حق دوسرے سے حاصل نہیں کر سکتا تھا.پہلے مدینہ کے لوگوں کو علم کی طرف توجہ نہیں تھی اب اس بات کا انتظام کیا گیا کہ پڑھے لکھے لوگ ان پڑھوں کو پڑھانا شروع کریں.ظلم ، تعدی اور بے انصافی روک دی گئی.عورتوں کے حقوق کو قائم کیا گیا.شریعت کے مطابق تمام مالداروں پر ٹیکس مقرر کئے گئے جو غرباء پر خرچ کئے جاتے تھے اور شہر کی عام حالت کی ترقی کے لئے بھی استعمال کئے جاتے تھے.مزدوروں کے حقوق کی حفاظت کی گئی.لاوارثوں کے لئے باقاعدہ تعلیموں کا انتظام کیا گیا.لین دین میں تحریر اور معاہدہ کی پابندیاں مقرر کی گئیں.غلاموں پر سختی کو سختی سے روکا جانے لگا.صفائی اور حفظانِ صحت کے اصول پر زور دیا جانے لگا.مردم شماری کی ابتدا کی گئی.گلیوں اور سڑکوں کے چوڑا کرنے کے احکام جاری کئے گئے.سڑکوں کی صفائی کے متعلق احکام جاری کئے گئے.غرض عائلی اور شہری زندگی کے تمام اصول مدوّن کئے گئے اور اُن کو باقاعدگی سے جاری کرنے کے لئے تدابیر اختیار کی گئیں اور عرب پہلی دفعہ منظم اور مہذب سوسائٹی کے اصول سے روشناس ہوئے.ا دھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے لئے ایک ایسا قانون پیش کر رہے تھے جو نہ صرف اُس زمانہ کے لئے بلکہ ہمیشہ کیلئے اور نہ صرف اُن کے لئے بلکہ دنیا کی دوسری اقوام کیلئے بھی عزت ، شرف، امن اور ترقی کا موجب تھا.اُدھر مکہ کے لوگ اسلام کے خلاف با قاعدہ جنگ کی تیاریاں کرنے میں مشغول تھے جس کا نتیجہ بدر کی جنگ کی صورت میں ظاہر ہوا.قریش کے تجارتی قافلہ کی آمد اور غزوہ بدر ہجرت کے تیرھویں مہینے میں شام سے ایک تجارتی قافلہ ابوسفیان کی سرکردگی میں آ
۷۹ نبیوں کا سردار رہا تھا کہ اُس کی حفاظت کے بہانہ سے مکہ والوں نے ایک زبر دست لشکر مدینہ کی طرف لے جانے کا فیصلہ کیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کی اطلاع مل گئی اور خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ پر وحی ہوئی.اب وقت آگیا ہے کہ دشمن کے ظلم کا اُس کے اپنے ہتھیار کے ساتھ جواب دیا جائے.چنانچہ آپ مدینہ کے چند ساتھیوں کو لے کر نکلے.جب آپ مدینہ سے نکلے ہیں اُس وقت تک یہ ظاہر نہ تھا کہ آیا مقابلہ قافلہ والوں سے ہوگا یا اصل لشکر سے ، اس لئے تین سو آدمی آپ کے ساتھ مدینہ سے نکلے.یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ قافلہ سے مراد مال سے لدے ہوئے اُونٹ تھے بلکہ مکہ والے ان قافلوں کے ساتھ ایک مضبوط فوجی جتھہ بھجوایا کرتے تھے.کیونکہ وہ ان قافلوں کے ذریعہ سے مسلمانوں کو مرعوب بھی کرنا چاہتے تھے.چنانچہ اس قافلہ سے پہلے دو قافلوں کا ذکر تاریخ میں آتا ہے کہ اُن میں سے ایک کی حفاظت پر دوسو سپاہی مقرر تھا اور دوسرے کی حفاظت پر تین سو سپاہی مقررتھا.پس ان حالات میں مسیحی مصنفوں کا یہ لکھنا کہ تین سو سپاہی لے کر آپ مکہ کے ایک نہتے قافلہ کو لوٹنے کے لئے نکلے تھے محض دھوکا دہی کے لئے ہے.یہ قافلہ چونکہ بہت بڑا تھا اس لئے پہلے قافلوں کے حفاظتی دستوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھنا چاہئے کہ اُس کے ساتھ چار پانچ سوسوار ضرور موجود ہوگا.اتنے بڑے حفاظتی دستہ کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے اگر اسلامی لشکر جو صرف تین سو آدمیوں پر مشتمل تھا اور جن کے پاس پورا ساز و سامان بھی نہ تھا نکلا تو اُسے لوٹ کا نام دینا محض تعصب،ضد اور بے انصافی ہی کہلا سکتا ہے.اگر صرف اس قافلہ کا سوال ہوتا تب بھی اُس سے لڑائی جنگ ہی کہلاتی اور جنگ بھی مدافعانہ جنگ کیونکہ مدینہ کا لشکر کمزور تھا اور صرف اسی فتنہ کو دور کرنے کے لئے نکلا تھا جس کی ارد گرد کے قبائل کو شرارت پر اُکسا کر مکہ کے قافلے بنیا درکھ رہے تھے.مگر جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ الہی منشاء بھی تھا کہ
۸۰ نبیوں کا سردار قافلہ سے نہیں بلکہ اصل مکی لشکر سے مقابلہ ہو اور صرف مسلمانوں کے اخلاص اور اُن کے ایمان کو ظاہر کرنے کے لئے پہلے سے اس امر کا اظہار نہ کیا گیا.جب مسلمان بغیر پوری تیاری کے مدینہ سے نکل کھڑے ہوئے تو کچھ دور جا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ پر ظاہر کیا کہ الہی منشاء یہی ہے کہ مکہ کے اصل لشکر سے مقابلہ ہو.لشکر کے متعلق مکہ سے جو خبریں آچکی تھیں اُن سے معلوم ہوتا تھا کہ لشکر کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے اور پھر وہ سب کے سب تجربہ کا رسپاہی تھے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آنے والے لوگ صرف ۳۱۳ تھے اور اُن میں سے بھی بہت سے ایسے تھے جولڑائی کے فن سے ناواقف تھے.پھر سامانِ جنگ بھی اُن کے پاس پورا نہ تھا.اکثر یا تو پیدل تھے یا اونٹوں پر سوار تھے.گھوڑا صرف ایک تھا.اس چھوٹے سے لشکر کے ساتھ جو بے سروسامان بھی تھا ایک تجربہ کار دشمن کا مقابلہ جو تعداد میں اُن سے لگنے سے بھی زیادہ تھا نہایت ہی خطرناک بات تھی اس لئے آپ نے نہ چاہا کہ کوئی شخص اُس کی مرضی کے خلاف جنگ پر مجبور کیا جائے.چنانچہ آپ نے اپنے ساتھیوں کے سامنے یہ سوال پیش کیا کہ اب قافلہ کا کوئی سوال نہیں صرف فوج ہی کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور یہ کہ وہ اس بارہ میں آپ کو مشورہ دیں.ایک کے بعد دوسرا مہاجر کھڑا ہوا اور اُس نے کہا یا رسُول اللہ !اگر دشمن ہمارے گھروں پر چڑھ کر آیا ہے تو ہم اُس سے ڈرتے نہیں ہم اُس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں.ہر ایک کا جواب سن کر آپ یہی فرماتے چلے جاتے مجھے اور مشورہ دو مجھے اور مشورہ دو.مدینہ کے لوگ اُس وقت تک خاموش تھے اس لئے کہ حملہ آور فوج مہاجرین کی رشتہ دار تھی.وہ ڈرتے تھے کہ ایسا نہ ہو کہ اُن کی بات سے مہاجرین کا دل دُکھے.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرمایا مجھے مشورہ دو تو ایک انصاری سردار کھڑے ہوئے اور عرض کیا.یا رَسُول اللہ ! مشورہ تو آپ کو مل رہا ہے مگر پھر بھی جو آپ بار بار مشورہ طلب فرمارہے ہیں تو شاید آپ
ΔΙ نبیوں کا سردار کی مراد ہم باشندگانِ مدینہ سے ہے.آپ نے فرمایا ہاں ! اُس سردار نے جواب میں کہا یا رَسُول اللہ ! شاید آپ اس لئے ہمارا مشورہ طلب کر رہے ہیں کہ آپ کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے ہمارے اور آپ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا اور وہ یہ تھا کہ اگر مدینہ میں آپ پر اور مہاجرین پر کسی نے حملہ کیا تو ہم آپ کی حفاظت کریں گے لیکن اب اس وقت آپ مدینہ سے باہر تشریف لے آئے ہیں اور شاید وہ معاہدہ اِن حالات کے ماتحت قائم نہیں رہتا.یا رَسُول اللہ ! جس وقت وہ معاہدہ ہوا تھا اُس وقت تک ہم پر آپ کی حقیقت پورے طور پر روشن نہیں ہوئی تھی لیکن اب جبکہ ہم پر آپ کا مرتبہ اور آپ کی شان پورے طور پر ظاہر ہو چکی ہے یا رَسُول اللہ! اب اُس معاہدہ کا کوئی سوال نہیں.ہم موسیٰ کے ساتھیوں کی طرح آپ سے یہ نہیں کہیں گے اِذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هُهُنَا قَاعِدُون تو اور تیرا رب جاؤ اور دشمن سے جنگ کرتے پھر وہم تو یہیں بیٹھے ہیں، بلکہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور تیا رسُول اللہ! دشمن جو آپ کو نقصان پہنچانے کیلئے آیا ہے وہ آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں پر سے گزرتا ہوا نہ جائے لے يَا رَسُولَ اللہ ! جنگ تو ایک معمولی بات ہے، یہاں سے تھوڑے فاصلہ پر سمندر ہے آپ ہمیں حکم دیجئے کہ سمند رمیں اپنے گھوڑے ڈال دو اور ہم بلا دریغ سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دیں گے.سے یہ وہ فدائیت اور اخلاص کا نمونہ تھا جس کی مثال کوئی سابق نبی پیش نہیں کر سکتا.موسیٰ کے ساتھیوں کا حوالہ تو اُن لوگوں نے خود ہی دے دیا تھا حضرت مسیح کے حواریوں نے دشمن کے مقابلہ میں جونمونہ دکھایا انجیل اس پر گواہ ہے.ایک نے تو چند روپوں پر اپنے بخاری کتاب المغازی باب قصة غزوة بدر سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۲۶۷.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۸۲ نبیوں کا سردار اُستاد کو بیچ دیا.دوسرے نے اُس پر لعنت کی اور باقی دس اُس کو چھوڑ کر ادھر سے اُدھر بھاگ گئے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے ساتھی صرف ڈیڑھ سال کی صحبت کے بعد ایمان میں اتنے پختہ ہو گئے کہ وہ اُن کے کہنے پر سمندر میں کودنے کے لئے بھی تیار تھے.یه مشورہ محض اس غرض سے تھا تا کہ جو لوگ ایمان کے کمزور ہوں اُن کو واپس جانے کی اجازت دے دی جائے لیکن جب مہاجرین و انصار نے ایک دوسرے سے بڑھ کر اخلاص اور ایمان کا نمونہ دکھایا اور دونوں فریق نے اس بات پر آمادگی ظاہر کی کہ وہ خدا کے وعدوں کے باوجود تعداد میں دشمن سے ایک تہائی ہونے کے اور باوجود سامانوں کے لحاظ سے دشمنوں سے کئی گنا کم ہونے کے بے غیرتی دکھاتے ہوئے جنگ سے پیٹھ نہیں دکھا ئیں گے بلکہ خدا تعالیٰ کے دین کی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے میدانِ جنگ میں خوشی سے جان دے دیں گے.تو آپ آگے بڑھے.جب آپ بدر کے مقام پر پہنچے تو ایک صحابی کے مشورہ سے دشمن کے قریب جا کر بدر کے چشمہ پر اسلامی لشکر اُتار دیا گیا.لیکن اس طرح گو پانی پر تو قبضہ ہو گیا مگر وہ میدان جو مسلمانوں کے حصہ میں آیا بوجہ ریتلا ہونے کے جنگی حرکات کے لئے سخت نقصان دہ ثابت ہوا اور صحابہ گھبرا گئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ساری رات دعا کرتے رہے اور بار بار خدا تعالیٰ سے یہ عرض کرتے تھے کہ اے میرے رب ! ساری دنیا کے پردہ پر صرف یہی لوگ تیری عبادت کرنے والے ہیں.اے میرے رب! اگر یہ لوگ آج اس لڑائی میں مارے گئے تو تیرا نام لینے والا اس دنیا میں کون باقی رہے گا لے اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کو سنا اور رات کو بارش ہو گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس میدان میں وہ مسلمان تھے بوجہ ریتلا ہونے کے بارش کی وجہ سے جم گیا اور وہ میدان جو بخاری کتاب المغازی باب قصة غزوة بدر
۸۳ نبیوں کا سردار کفار کے قبضہ میں تھا بوجہ چکنی مٹی کا ہونے کے بارش کی وجہ سے نہایت پھسلواں ہو گیا.شاید کفارِ مکہ نے باوجود اس میدان میں مسلمانوں سے پہلے پہنچ جانے کے اس لئے اُس میدان کو چنا تھا کہ پختہ مٹی کی وجہ سے اُس میں جنگی حرکات بڑی آسانی کے ساتھ ہوسکتی تھیں اور سامنے کا ریتلا میدان اِس لئے چھوڑ دیا تھا کہ مسلمان وہاں ڈیرہ لگائیں گے اور جنگی حرکات کرتے وقت اُن کے پاؤں ریت میں دھنس دھنس جائیں گے مگر خدا تعالیٰ نے راتوں رات پانسہ پلٹ دیا.ریتلا میدان ایک جما ہوا پختہ میدان ہو گیا اور پختہ میدان پھسلویں زمین بن گیا.رات کو اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بشارت دی اور بتایا کہ تمہارے فلاں فلاں دشمن مارے جائیں گے اور فلاں فلاں جگہ پر مارے جائیں گے.چنانچہ جنگ میں ایسا ہی ہوا اور وہ دشمن اُن ہی جگہوں پر جو آپ نے بتائی تھیں مارے گئے.جب فوج ایک دوسرے کے مقابلہ میں صف آراء ہوئی اُس وقت جو اخلاص کا نمونہ صحابہ نے دکھایا اُس پر مندرجہ ذیل مثال سے خوب روشنی پڑتی ہے.اسلامی لشکر میں جو چند تجربہ کار جرنیل تھے، اُن میں سے ایک حضرت عبد الرحمن بن عوف بھی تھے جو مکہ کے سرداروں میں سے تھے.وہ روایت کرتے ہیں کہ میرا خیال تھا کہ آج مجھ پر بہت سی ذمہ داری عاید ہوتی ہے اور اس خیال سے میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ میرے دائیں بائیں مدینہ کے دو نو جوان لڑکے ہیں تب میرا دل سینہ میں بیٹھ گیا اور میں نے کہا بہادر جرنیل لڑنے کے لئے اس بات کا محتاج ہوتا ہے کہ اُس کا دایاں اور بایاں پہلو مضبوط ہو، تاکہ وہ دشمن کی صفوں میں دلیری سے گھس سکے لیکن میرے گرد مدینہ کے ناتجربہ کارلڑکے ہیں میں آج اپنے فن کا مظاہرہ کس طرح کر سکوں گا.ابھی یہ خیال میرے دل میں گزرا ہی تھا کہ میرے ایک پہلو میں کھڑے ہوئے لڑکے نے میری پسلی میں کہنی ماری.جب میں اس کی طرف متوجہ ہوا تو اس نے میرے کان میں کہا
۸۴ نبیوں کا سردار چچا! ہم نے سنا ہے کہ ابو جہل، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت دُکھ دیا کرتا تھا، چا! میرا دل چاہتا ہے کہ میں آج اُس کے ساتھ مقابلہ کروں آپ مجھے بتا ئیں وہ کون ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ ابھی میں جواب دینے نہیں پایا تھا کہ میرے دوسرے پہلو میں دوسرے ساتھی نے کہنی ماری اور جب میں اُس کی طرف متوجہ ہوا تو اُس نے بھی آہستہ سے وہی سوال مجھے سے کیا.وہ کہتے ہیں کہ میں اُن کی اس دلیری پر حیران رہ گیا کیونکہ باوجود تجربہ کار سپاہی ہونے کے میں بھی یہ خیال نہیں کرتا تھا کہ لشکر کے کمانڈر پر اکیلا جا کر حملہ کرسکتا ہوں.وہ کہتے ہیں میں نے اُن کے اس سوال پر انگلی اُٹھائی اور کہا وہ شخص جو سر سے پیر تک مسلح ہے اور دشمن کی صفوں کے پیچھے کھڑا ہے اور جس کے آگے دو تجربہ کار جرنیل ننگی تلوار میں لئے کھڑے ہیں وہی ابوجہل ہے.وہ کہتے ہیں ابھی میری اُنگلی نیچے نہیں گری تھی کہ وہ دونوں لڑکے جس طرح عقاب چڑیا پر حملہ کرتا ہے اس طرح چیختے ہوئے کفار کی صفوں میں گھس گئے.اُن کا یہ حملہ ایسا اچانک اور ایسا خلاف توقع تھا کہ کسی شخص کی تلوار اُن کے خلاف نہ اُٹھ سکی اور وہ تیر کی سی تیزی کے ساتھ ابو جہل تک جاپہنچے.اُس کے پہرہ داروں نے اُن پر وار کئے ، ایک کا وار خالی گیا اور دوسرے کے وار سے ایک نوجوان کا ہاتھ کٹ گیا.لیکن دونوں میں سے کسی نے کوئی پرواہ نہ کی اور صرف ابو جہل کی طرف متوجہ ہوئے اور اُس پر اس زور سے جا کر حملہ کیا کہ وہ زمین پر گر گیا اور پھر اُنہوں نے اُسے نہایت شدید زخمی کر دیا ہے مگر بوجہ تلوار چلانے کا فن نہ جاننے کے اُسے قتل نہ کر سکے.اس واقعہ سے معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ مظالم جو مکہ کے لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کرتے رہے تھے وہ قریب سے دیکھنے والوں کو کتنے بھیا نک نظر آتے تھے.اب بھی ان مظالم کو تاریخ میں پڑھ کر ایک شریف آدمی کا دل دھڑکنے لگتا ہے اور رونگٹے کھڑے : بخاری کتاب المغازی باب فضل من شهد بدر
۸۵ نبیوں کا سردار جاتے ہیں.مگر مدینہ کے لوگ تو اُن لوگوں کے منہ سے ان مظالم کی داستانیں سنتے تھے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے وہ مظالم ہوتے دیکھے.ایک طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس اور صلح جو یا نہ زندگی کو دیکھتے تھے دوسری طرف مکہ والوں کے انسانیت سوز مظالم کے واقعات سنتے تھے تو اُن کے دل اس حسرت سے بھر جاتے تھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنی صلح جوئی اور پر عافیت مزاج کی وجہ سے ان لوگوں کا جواب نہیں دیا کاش ! وہ ہمارے سامنے آجائیں تو ہم انہیں بتائیں کہ اگر اُن کے ظلموں کا جواب نہیں دیا گیا تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ مسلمان کمزور تھے بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اُن کا جواب دینے کی اجازت نہیں تھی.مسلمانوں کے دلوں کی کیفیت کا اندازہ اس سے بھی ہو سکتا ہے کہ جنگ شروع ہونے سے پہلے ابو جہل نے ایک بدوی سردار کو اس بات کے لئے بھیجا کہ وہ اندازہ کرے کہ مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے.جب وہ واپس لوٹا تو اُس نے بتایا کہ مسلمان تین سوا تین سو کے قریب ہوں گے.اس پر ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے خوشی کا اظہار کیا اور کہا اب مسلمان ہم سے بچ کر کہاں جاتے ہیں.مگر اُس شخص نے کہا.اے مکہ والو! میری نصیحت تم کو یہی ہے کہ تم ان لوگوں سے نہ لڑو کیونکہ میں نے جتنے آدمی مسلمانوں کے دیکھے ہیں اُن کو دیکھ کر مجھ پر یہی اثر ہوا ہے کہ اونٹوں پر آدمی سوار نہیں موتیں سوار ہیں لے یعنی اُن میں سے ہر شخص مرنے کیلئے اس میدان میں آیا ہے زندہ واپس جانے کے لئے نہیں آیا.اور جو شخص موت کو اپنے لئے آسان کر لیتا ہے اور موت سے ملنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے اُس کا مقابلہ کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہوا کرتی.لے سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۱۶ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ ه + سیرت | ابن هشام جلد ۲ صفحہ ۲۷۴.مطبوعہ ۱۹۳۶ء
ΔΥ نبیوں کا سردار ایک عظیم الشان پیشگوئی کا پورا ہونا جب جنگ شروع ہونے کا وقت آیا.رسول کریم ﷺ اس جگہ سے جہاں آپ بیٹھ کر دعا کر رہے تھے باہر تشریف لائے اور فرما یاسَيُهْزَهُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ النُّبُرَ دشمنوں کا لشکر شکست کھا جائے گا اور پیٹھ پھیر کر میدان چھوڑ جائے گا.یہ الفاظ جو آپ نے فرمائے یہ قرآن کریم کی ایک پیشگوئی تھی جو مکہ میں ہی اس جنگ کے متعلق قرآن کریم میں نازل ہوئی تھی.مکہ میں جب مسلمان کفار کے ظلموں کا تخیہ مشق ہورہے تھے اور ادھر اُدھر ہجرت کر کے جا رہے تھے خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کی یہ آیات نازل فرما ئیں وَلَقَدْ جَاءَ آلَ فِرْعَوْنَ النُّذُرُ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا كُلِهَا فَأَخَذْنَاهُمْ أَخْذَ عَزِيزِ مُّقْتَدِرٍ أَكْفَارُكُمْ خَيْرٌ مِنْ أُولَئِكُمْ أَمْ لَكُم بَرَاءَةٌ فِي الزُّبُرِ أَمْ يَقُولُونَ نَحْنُ جَمِيعُ مُنتَصِرٌ سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ النُّبُرَ بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلَالٍ وَسُعُرٍ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ ے یعنی اے مکہ والو! فرعون کی طرف بھی انذار کی با تیں آئی تھیں لیکن انہوں نے ہماری تمام آیتوں کا انکار کیا پس ہم نے اُن کو اس طرح پکڑ لیا جیسے ایک طاقتور غالب ہستی پکڑا کرتی ہے.(اے مکہ والو!) بتاؤ کیا تمہارے کفاران (کفار) سے اچھے ہیں یا تمہارے لئے پہلی کتابوں میں حفاظت کا کوئی وعدہ آچکا ہے؟ وہ کہتے ہیں ہم تو ایک بڑی طاقت ہیں جو دشمنوں سے ہارتی نہیں بلکہ دشمنوں سے بدلے لیا کرتی ہے (وہ یہ باتیں کرتے رہیں ) اُن کے جتھے عنقریب اکٹھے ہوں گے اور پھر انہیں بخاری کتاب التفسیر - تفسير سورة اقتربت الساعة باب قوله سيهزم الجمع.....الخ القمر : ۴۲ تا ۴۹
۸۷ نبیوں کا سردار شکست ملے گی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے، بلکہ اُن کی تباہی کی گھڑی کا خدا تعالیٰ کی طرف سے وعدہ ہے اور یہ تباہی کی گھڑی بڑی ہلاکت والی اور بڑی کڑوی ہو گی اُس دن مجرم پریشانی اور عذاب میں مبتلا ہوں گے اور اپنے مونہوں کے بل گھسیٹ کر اُن کو آگ کے گڑھوں میں ڈال دیا جائے گا اور کہا جائے گا اب پڑے عذاب چکھو.یہ آیتیں سورہ قمر کی ہیں اور سورہ قمر تمام اسلامی روانیوں کے مطابق مکہ میں نازل ہوئی تھی.مسلمان علماء بھی اس سورۃ کو پانچویں سے دسویں سال بعد دعوی نبوت قرار دیتے ہیں.یعنی ہجرت سے کم سے کم تین سال پہلے یہ نازل ہوئی تھی بلکہ غالباً آٹھ سال پہلے.یورپین محقق بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں.چنانچہ نولڈ کے اس سورۃ کو دعوی نبوت کے پانچ سال بعد کی قرار دیتا ہے.ریورنڈ ویری لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک نولڈ کے نے اس سورۃ کے نزول کا وقت کسی قدر پہلے قرار دے دیا ہے.وہ اپنا اندازہ یہ بتاتے ہیں کہ چھٹے یا ساتویں سال ہجرت سے پہلے یہ نازل ہوئی.جس کے معنی یہ ہیں کہ اُن کے نزدیک یہ سورۃ چھٹے یا ساتویں سال بعد دعوی نبوت کی ہے.بہر حال مسلمانوں کے دشمنوں نے بھی اس سورۃ کو ہجرت سے کئی سال پہلے کا قرار دیا ہے.اُس زمانہ میں کس صفائی کے ساتھ اس جنگ کی خبر دی گئی تھی اور کفار کا انجام بتادیا گیا تھا اور پھر کس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کی جنگ شروع ہونے سے پہلے ان آیات کو پڑھ کر مسلمانوں کو توجہ دلائی کہ خدا کا وعدہ پورا ہونے کا وقت آگیا ہے.غرض چونکہ وہ وقت آگیا تھا جس کی خبر یسعیاہ نبی نے قبل از وقت دے چھوڑی تھی لے اور جس کی خبر قرآن کریم نے دوبارہ جنگ شروع ہونے سے چھ یا آٹھ سال پہلے دی تھی اس لئے باوجود اس کے کہ مسلمان اس جنگ کے لئے تیار نہ تھے اور باوجود اس کے کہ کفار لے یسعیاہ باب ۲۱ آیت ۱۳ تا ۱۷.بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور
۸۸ نبیوں کا سردار کو بھی اُن کے بعض ساتھیوں نے یہ مشورہ دیا تھا کہ لڑائی نہیں کرنی چاہئے.لڑائی ہوگئی اور ۳۱۳ آدمی جن میں سے اکثر ناتجربہ کار اور سب ہی بے سامان تھے کفار کے تجربہ کارلشکر کے مقابلہ میں جس کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ تھی کھڑے ہو گئے.جنگ ہوئی اور چند ہی گھنٹوں کے اندر عرب کے بڑے بڑے سردار مارے گئے.یسعیاہ کی پیشگوئی کے مطابق قیدار کی حشمت جاتی رہی اور مکہ کی فوج کچھ لاشیں اور کچھ قیدی پیچھے چھوڑ کر سر پر پاؤں رکھ کر مکہ کی طرف بھاگ پڑی.جو قیدی پکڑے گئے اُن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس بھی تھے جو ہمیشہ آپ کا ساتھ دیا کرتے تھے، انہیں مجبور کر کے مکہ والے اپنے ساتھ لڑائی کے لئے لے آئے تھے.اسی طرح قیدیوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی بیٹی کے خاوند ابوالعاص بھی تھے.مارے جانے والوں میں ابو جہل مکہ کی فوج کا کمانڈر اور اسلام کا سب سے بڑا دشمن بھی شامل تھا.بدر کے قیدی اس فتح پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خوش بھی تھے کہ وہ پیشگوئیاں جو متواتر چودہ سال سے آپ کے ذریعہ سے شائع کی جارہی تھیں اور وہ پیشگوئیاں جو پہلے انبیاء اس دن کے متعلق کر چکے تھے پوری ہو گئیں لیکن مکہ کے مخالفوں کا عبرتناک انجام بھی آپ کی نظروں کے سامنے تھا.آپ کی جگہ پر کوئی اور شخص ہوتا تو خوشی سے اچھلتا اور کودتا لیکن جب آپ کے سامنے سے مکہ کے قیدی رسیوں میں بندھے ہوئے گزرے تو آپ اور آپ کے باوفا ساتھی ابوبکر کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو گئے.اُس وقت حضرت عمر جو بعد میں آپ کے دوسرے خلیفہ ہوئے سامنے سے آئے تو انہیں حیرت ہوئی کہ اس فتح اور خوشی کے وقت میں آپ کیوں رو ر ہے ہیں اور انہوں نے کہا یا رَسُولَ اللہ ! مجھے بھی
۸۹ نبیوں کا سردار بتائیے کہ اس وقت رونے کا کیا باعث ہے؟ اگر وہ بات میرے لئے بھی رونے کا موجب ہے تو میں بھی روؤں گا نہیں تو کم سے کم میں آپ کے غم میں شریک ہونے کے لئے رونی صورت ہی بنالوں گا.آپ نے فرما یاد یکھتے نہیں خدا تعالیٰ کی نافرمانی سے آج مکہ والوں کی کیا حالت ہو رہی ہے لے آپ کے انصاف اور آپ کی عدالت کا جس کی خبر یسعیاہ نے بار بار اپنی پیشگوئیوں میں دی ہے اس موقع پر ایک لطیف ثبوت ملا.مدینہ کی طرف واپس آتے ہوئے رات کو جب آپ سونے کے لئے لیٹے تو صحابہ نے دیکھا کہ آپ کو نیند نہیں آتی.آخر انہوں نے سوچ کر یہ نتیجہ نکالا کہ آپ کے چچا عباس چونکہ رسیوں میں جکڑے ہونے کی وجہ سے سو نہیں سکتے اور اُن کے کراہنے کی آوازیں آتی ہیں اِس لئے اُن کی تکلیف کا خیال کر کے آپ کو نیند نہیں آتی.انہوں نے آپس میں مشورہ کر کے حضرت عباس کے بندھنوں کو ڈھیلا کر دیا.حضرت عباس سو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی نیند آگئی.تھوڑی دیر کے بعد یکدم گھبرا کے آپ کی آنکھ کھلی اور آپ نے پوچھا عباس خاموش کیوں ہیں؟ اُن کے کراہنے کی آواز اب کیوں نہیں آتی ؟ آپ کے دل میں یہ وہم پیدا ہوا کہ شاید تکلیف کی وجہ سے بیہوش ہو گئے.صحابہ نے کہا یا رسُول اللہ ! ہم نے آپ کی تکلیف کو دیکھ کر اُن کے بندھن ڈھیلے کر دیئے ہیں.آپ نے فرمایا نہیں ! نہیں ! ! یہ بے انصافی نہیں ہونی چاہئے.جس طرح عباس میرا رشتہ دار ہے دوسرے قیدی بھی تو دوسروں کے رشتہ دار ہیں یا تو سب قیدیوں کے بندھن ڈھیلے کر دو تا کہ وہ آرام سے سوجائیں اور یا پھر عباس کے بندھن بھی کسی دو.صحابہ نے آپ کی بات سن کر سب قیدیوں کے بندھن ڈھیلے کر دیے اور حفاظت کی ساری ذمہ داری اپنے سر پر لے لی ہے جولوگ قید ہوئے مسلم کتاب الجهاد باب المراد بالملائكة في غزوة بدر (الخ) ، اسد الغابة جلد ۳ صفحہ ۱۰۹.مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ
نبیوں کا سردار تھے اُن میں سے جو پڑھنا جانتے تھے آپ نے اُن کا صرف یہی فدیہ مقرر کیا کہ وہ مدینہ کے دس دس لڑکوں کو پڑھنا سکھا دیں.بعض جن کا فدیہ دینے والا کوئی نہیں تھا اُن کو یونہی آزاد کر دیا.وہ امراء جو فدیہ دے سکتے تھے اُن سے مناسب فدیہ لے کر اُن کو چھوڑ دیا اور اس طرح اس پرانی رسم کو کہ قیدیوں کو غلام بنا کر رکھا جاتا تھا آپ نے ختم کر دیا.جنگ اُحد کفار کے لشکر نے میدان سے بھاگتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ اگلے سال ہم دوبارہ مدینہ پر حملہ کریں گے اور اپنی شکست کا مسلمانوں سے بدلہ لیں گے چنانچہ ایک سال کے بعد وہ پھر پوری تیاری کر کے مدینہ پر حملہ آور ہوئے.مکہ والوں کے غصہ کا یہ حال تھا کہ بدر کی جنگ کے بعد انہوں نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ کسی شخص کو اپنے مردوں پر رونے کی اجازت نہیں اور جو تجارتی قافلے آئیں گے اُن کی آمد آئندہ جنگ کے لئے محفوظ رکھی جائے گی.چنانچہ بڑی تیاری کے بعد تین ہزار سپاہیوں سے زیادہ تعداد اس کا ایک لشکر ابوسفیان کی قیادت میں مدینہ پر حملہ آور ہوا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ لیا کہ آیا ہم کو شہر میں ٹھہر کر مقابلہ کرنا چاہئے یا باہر نکل کر.آپ کا اپنا خیال یہی تھا کہ دشمن کو حملہ کرنے دیا جائے تا کہ جنگ کی ابتداء کا بھی وہی ذمہ دار ہو اور مسلمان اپنے گھروں میں بیٹھ کر اُس کا مقابلہ آسانی سے کر سکیں ، لیکن وہ نوجوان مسلمان جن کو بدر کی جنگ میں شامل ہونے کا موقع نہیں ملا تھا اور جن کے دلوں میں حسرت رہی تھی کہ کاش! ہم کو بھی خدا کی راہ میں شہید ہونے کا موقع ملتا اُنہوں نے اصرار کیا کہ ہمیں شہادت سے کیوں محروم رکھا جاتا ہے.چنانچہ آپ نے اُن کی بات مان لی.مشورہ لیتے وقت آپ نے اپنی ایک خواب بھی سنائی.فرما یا خواب میں میں نے
۹۱ نبیوں کا سردار چند گائیں دیکھی ہیں اور میں نے دیکھا ہے کہ میری تلوار کا سراٹوٹ گیا ہے اور میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ وہ گائیں ذبح کی جارہی ہیں اور پھر یہ کہ میں نے اپنا ہاتھ ایک مضبوط اور محفوظ زرہ کے اندر ڈالا ہے اور میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ میں ایک مینڈھے کی پیٹھ پر سوار ہوں.صحابہ نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! آپ نے ان خوابوں کی کیا تعبیر فرمائی؟ آپ نے فرمایا گائے کے ذبح ہونے کی تعبیر یہ ہے کہ میرے بعض صحابہ شہید ہوں گے اور تلوار کا سرا ٹوٹنے سے مراد یہ معلوم ہوتی ہے کہ میرے عزیزوں میں سے کوئی اہم وجود شہید ہوگا یا شاید مجھے ہی اس مہم میں کوئی تکلیف پہنچے اور زرہ کے اندر ہاتھ ڈالنے کی تعبیر میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارا مدینہ میں ٹھہر نازیادہ مناسب ہے اور مینڈھے پر سوار ہونے والے خواب کی تعبیر یہ معلوم ہوتی ہے کہ کفار کے لشکر کے سردار پر ہم غالب آئیں گے یعنی وہ مسلمانوں کے ہاتھ سے مارا جائے گا لے گو اس خواب میں مسلمانوں پر یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ اُن کا مدینہ میں رہناز یادہ اچھا ہے مگر چونکہ خواب کی تعبیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی تھی، الہامی نہیں تھی آپ نے اکثریت کی رائے کو تسلیم کر لیا اور لڑائی کے لئے باہر جانے کا فیصلہ کر دیا.جب آپ باہر نکلے تو نو جوانوں کو اپنے دلوں میں ندامت محسوس ہوئی اور انہوں نے کہا یا رَسُول اللہ! جو آپ کا مشورہ ہے وہی صحیح ہے ہمیں مدینہ میں ٹھہر کر دشمن کا مقابلہ کرنا چاہئے.آپ نے فرمایا خدا کا نبی جب زرہ پہن لیتا ہے تو اُتارا نہیں کرتا اب خواہ کچھ ہو ہم آگے ہی جائیں گے.اگر تم نے صبر سے کام لیا تو خدا کی نصرت تم کومل جائے گی.یہ کہہ کر آپ ایک ہزار لشکر کے ساتھ مدینہ سے نکلے اور تھوڑے فاصلہ پر جا کر رات بسر کرنے کے لئے ڈیرہ لگا دیا.آپ کا ہمیشہ ل السيرة الحلبية جلد ۲ صفحہ ۲۳۱،۲۳۰ - مطبوعه مصر ۱۹۳۵ بخاری کتاب الاعتصام بالكتاب و السنة باب قول الله تعالی و امر هم شوری بینهم
۹۲ نبیوں کا سردار طریق تھا کہ آپ دشمن کے پاس پہنچ کر اپنے لشکر کو کچھ دیر آرام کرنے کا موقع دیا کرتے تھے تا کہ وہ اپنا سامان وغیرہ تیار کر لیں.صبح کی نماز کے وقت جب آپ نکلے تو آپ کو معلوم ہوا کہ کچھ یہودی بھی اپنے معاہد قبیلوں کی مدد کے بہانہ سے آئے ہیں.چونکہ یہود کی ریشہ دوانیوں کا آپ کو علم ہو چکا تھا آپ نے فرمایا کہ ان لوگوں کو واپس کر دیا جائے.اس پر عبد اللہ بن ابی بن سلول جو منافقوں کا رئیس تھا وہ بھی اپنے تین سوساتھیوں کو لے کر یہ کہتے ہوئے واپس لوٹ گیا کہ اب یہ لڑائی نہیں رہی ہے یہ تو ہلاکت کے منہ میں جانا ہے کیونکہ خود اپنے مددگاروں کو لڑائی سے روکا جاتا ہے.نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان صرف سات سورہ گئے جو تعداد میں کفار کی تعداد سے چوتھے حصہ سے بھی کم تھے اور سامانوں کے لحاظ سے اور بھی کمزور.کیونکہ کفار میں سات سو زرہ پوش تھا اور مسلمانوں میں صرف ایک زرہ پوش.اور کفار میں دو سو گھوڑ سوا رتھا مگر مسلمانوں کے پاس دو گھوڑے تھے.آخر آپ اُحد پر پہنچے.وہاں پہنچ کر آپ نے ایک پہاڑی درہ کی حفاظت کے لئے پچاس سپاہی مقرر کئے اور سپاہیوں کے افسر کو تاکید کی کہ وہ درہ اتنا ضروری ہے کہ خواہ ہم مارے جائیں یا جیت جائیں تم اس جگہ سے نہ ہلنا.اس کے بعد آپ بقیہ ساڑھے چھ سو آدمی لے کر دشمن کے مقابلہ کے لئے نکلے جواب دشمن کی تعداد سے قریباً پانچواں حصہ تھے.لڑائی ہوئی اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے تھوڑی ہی دیر میں ساڑھے چھ سو مسلمانوں کے مقابلہ میں تین ہزار مکہ کا تجربہ کا رسپاہی سر پر پاؤں رکھ کر بھا گا.فتح مبدل به شکست مسلمانوں نے اُن کا تعاقب شروع کیا، تو ان لوگوں نے جو پشت کے درہ کی سیرت ابن ہشام جلد ۳ صفحه ۶۸ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء سیرت ابن ہشام جلد ۳ صفحہ ۷۰،۶۹.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۹۳ نبیوں کا سردار حفاظت کے لئے کھڑے تھے انہوں نے اپنے افسر سے کہا اب تو دشمن کو شکست ہو چکی ہے اب ہمیں بھی جہاد کا ثواب لینے دیا جائے.افسر نے اُن کو اس بات سے روکا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات یاد دلائی مگر انہوں نے کہا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا تھا صرف تاکید کے لئے فرمایا تھا ورنہ آپ کی مراد یہ تو نہیں ہوسکتی تھی کہ دشمن بھاگ بھی جائے تو یہاں کھڑے رہو.یہ کہہ کر انہوں نے درہ چھوڑ دیا اور میدانِ جنگ میں کود پڑے.بھاگتے ہوئے لشکر میں سے خالد بن ولید کی جو بعد میں اسلام کے بڑے بھاری جرنیل ثابت ہوئے نظر خالی درّہ پر پڑی جہاں صرف چند آدمی اپنے افسر کے ساتھ کھڑے تھے.خالد نے کفار کے لشکر کے دوسرے جرنیل عمرو بن العاص کو آواز دی اور کہا.ذرا پیچھے پہاڑی درہ پر نگاہ ڈالو.عمرو بن العاص نے جب درہ پر نگاہ ڈالی تو سمجھا کہ عمر کا بہترین موقع مجھے حاصل ہو رہا ہے دونوں جرنیلوں نے اپنے بھاگتے ہوئے دوستوں کو سنبھالا اور اسلامی لشکر کا بازو کاٹتے ہوئے پہاڑ پر چڑھ گئے.چند مسلمان جو وہاں درہ کی حفاظت کے لئے کھڑے رہ گئے تھے ، اُن کو ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہوئے پشت پر سے اسلامی لشکر پر آپڑے.اُن کے فاتحانہ نعروں کوسن کر سامنے کا بھاگتا ہوا بقیہ لشکر بھی میدان جنگ کی طرف لوٹ پڑا.یہ حملہ ایسا اچانک ہوا اور کافروں کا تعاقب کرنے کی وجہ سے مسلمان اتنے پھیل چکے تھے کہ کوئی باقاعدہ اسلامی لشکر اُن لوگوں کے مقابلہ میں نہیں تھا.اکیلا اکیلا سپاہی میدان میں نظر آرہا تھا، جن میں سے بعض کو اُن لوگوں نے ماردیا.باقی اس حیرت میں کہ یہ ہو کیا گیا ہے پیچھے کی طرف دوڑے.چند صحابہ دوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے ، جن کی تعد ادزیادہ سے زیادہ تھیں تھی لے کفار نے شدت کے ساتھ اُس مقام پر حملہ کیا جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے زرقانی جلد ۲ صفحه ۳۵
۹۴ نبیوں کا سردار تھے.یکے بعد دیگرے صحابہ آپ کی حفاظت کرتے ہوئے مارے جانے لگے.علاوہ شمشیر زنوں کے تیر انداز اُونچے ٹیلوں پر کھڑے ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بے تحاشہ تیر مارتے تھے.اُس وقت طلحہ جو قریش میں سے تھے اور مکہ کے مہاجرین میں شامل تھے یہ دیکھتے ہوئے کہ دشمن سب کے سب تیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کی طرف پھینک رہا ہے اپنا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کے آگے کھڑا کر دیا.تیر کے بعد تیر جو نشانہ پر گرتا تھا وہ طلحہ کے ہاتھ پر گرتا تھا، مگر جانباز اور وفادار صحابی اپنے ہاتھ کوکوئی حرکت نہیں دیتا تھا.اس طرح تیر پڑتے گئے اور طلحہ کا ہاتھ زخموں کی شدت کی وجہ سے بالکل بیکار ہو گیا اورصرف ایک ہی ہاتھ اُن کا باقی رہ گیا.سالہا سال بعد اسلام کی چوتھی خلافت کے زمانہ میں جب مسلمانوں میں خانہ جنگی واقع ہوئی تو کسی دشمن نے طعنہ کے طور پر طلحہ کو کہا.ٹھنڈا.اس پر ایک دوسرے صحابی نے کہا ہاں ٹنڈ ا ہی ہے مگر کیسا مبارک منڈا ہے.تمہیں معلوم ہے طلحہ کا یہ ہاتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کی حفاظت میں ٹھنڈا ہوا تھا.اُحد کی جنگ کے بعد کسی شخص نے طلحہ سے پوچھا کہ جب تیر آپ کے ہاتھ پر گرتے تھے تو کیا آپ کو درد نہیں ہوتی تھی اور کیا آپ کے منہ سے اُف نہیں نکلتی تھی ؟ طلحہ نے جواب دیا.درد بھی ہوتی تھی اور اُف بھی نکلنا چاہتی تھی لیکن میں اُف کرتا نہیں تھا تا ایسا نہ ہو کہ اُف کرتے وقت میرا ہاتھ ہل جائے اور تیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر آ گرے.مگر یہ چند لوگ کب تک اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ کر سکتے تھے لشکر کفار کا ایک گروہ آگے بڑھا اور اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد کے سپاہیوں کو دھکیل کر پیچھے کر دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تن تنہا پہاڑ کی طرح وہاں کھڑے تھے کہ زور سے ایک پتھر آپ کے خود پر لگا اور خود کے کیل آپ کے سر پر گھس گئے اور آپ بیہوش ہو کر اُن
نبیوں کا سردار صحابہ کی لاشوں پر جا پڑے جو آپ کے اردگر داڑتے ہوئے شہید ہو چکے تھےلے اس کے بعد کچھ اور صحابہ آپ کے جسم کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوئے اور اُن کی لاشیں آپ کے جسم پر جا گریں.کفار نے آپ کے جسم کو لاشوں کے نیچے دبا ہوا دیکھ کر سمجھا کہ آپ مارے جاچکے ہیں.چنانچہ مکہ کا لشکر اپنی صفوں کو درست کرنے کے لئے پیچھے ہٹ گیا.جو صحابہ آپ کے گرد کھڑے تھے اور جن کو کفار کے لشکر کا ریلا دھکیل کر پیچھے لے گیا تھا اُن میں حضرت عمرؓ بھی تھے.جب آپ نے دیکھا کہ میدان سب لڑنے والوں سے صاف ہو چکا ہے تو آپ کو یقین ہو گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں اور وہ شخص جس نے بعد میں ایک ہی وقت میں قیصر اور کسری کا مقابلہ بڑی دلیری سے کیا اور اُس کا دل کبھی نہ گھبرا یا اور کبھی نہ ڈراوہ ایک پتھر پر بیٹھ کر بچوں کی طرح رونے لگ گیا.اتنے میں مالک نامی ایک صحابی جو اسلامی لشکر کی فتح کے وقت پیچھے ہٹ گئے تھے کیونکہ انہیں فاقہ تھا اور رات سے انہوں نے کچھ نہیں کھایا تھا جب فتح ہو گئی تو وہ چند کھجوریں لے کر پیچھے کی طرف چلے گئے تا کہ انہیں کھا کر اپنی بھوک کا علاج کریں.وہ فتح کی خوشی میں ٹہل رہے تھے کہ ٹہلتے ٹہلتے حضرت عمرؓ تک جا پہنچے اور عمر کو روتے ہوئے دیکھ کر نہایت ہی حیران ہوئے اور حیرت سے پوچھا.عمر! آپ کو کیا ہوا؟ اسلام کی فتح پر آپ کو خوش ہونا چاہئے یا رونا چاہئے؟ عمر نے جواب میں کہا مالک ! شاید تم فتح کے معا بعد پیچھے ہٹ آئے تھے تمہیں معلوم نہیں کہ لشکر کفار پہاڑی کے دامن سے چکر کاٹ کر اسلامی لشکر پر حملہ آوار ہوا اور چونکہ مسلمان پراگندہ ہو چکے تھے اُن کا مقابلہ کوئی نہ کر سکا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چند صحابہ سمیت اُن کے مقابلہ کے لئے کھڑے ہوئے اور مقابلہ کرتے کرتے شہید ہو گئے.مالک نے کہا عمر !! اگر یہ واقعہ صحیح ہے تو آپ یہاں بیٹھے کیوں رور ہے ہیں؟ جس دنیا میں ہمارا سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۸۴ - مطبوعه مصر ۱۲۹۵ھ
۹۶ نبیوں کا سردار محبوب گیا ہے ہمیں بھی تو وہاں جانا چاہئے.یہ کہا اور وہ آخری کجھور جو آپ کے ہاتھ میں تھی جسے آپ منہ میں ڈالنے ہی والے تھے اُسے یہ کہتے ہوئے زمین پر پھینک دیا کہ اے کجھور! مالک اور جنت کے درمیان تیرے سوا اور کونسی چیز روک ہے.یہ کہا اور تلوار لے کر شمن کے لشکر میں گھس گئے.تین ہزار آدمی کے مقابلہ میں ایک آدمی کر ہی کیا سکتا تھا مگر خدائے واحد کی پرستار روح ایک بھی بہتوں پر بھاری ہوتی ہے.مالک اس بے جگری سے لڑے کہ دشمن حیران ہو گیا.مگر آخر زخمی ہوئے پھر گرے اور گر کر بھی دشمن کے سپاہیوں پر حملہ کرتے رہے جس کے نتیجہ میں کفارِ مکہ نے اس وحشت سے آپ پر حملہ کیا کہ جنگ کے بعد آپ کی لاش کے ۷۰ ٹکڑے ملے حتی کہ آپ کی لاش پہچانی نہیں جاتی تھی.آخر ایک اُنگلی سے آپ کی بہن نے پہچان کر بتایا کہ یہ میرے بھائی مالک کی لاش ہے لے وہ صحابہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد تھے اور جو کفار کے ریلے کی وجہ سے پیچھے دھکیل دیئے گئے تھے کفار کے پیچھے ہٹتے ہی وہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے.آپ کے جسم مبارک کو اُنہوں نے اُٹھایا اور ایک صحابی عبیدہ بن الجراح نے اپنے دانتوں سے آپ کے سر میں گھسی ہوئی کیل کو زور سے نکالا جس سے اُن کے دو دانت ٹوٹ گئے.تھوڑی دیر بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوش آ گیا اور صحابہ نے چاروں طرف میدان میں آدمی دوڑا دیئے کہ مسلمان پھر اکٹھے ہو جائیں.بھاگا ہوالشکر پھر جمع ہونا شروع ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں لے کر پہاڑ کے دامن میں چلے گئے.جب دامنِ کوہ میں بچا کھچا لشکر کھڑا تھا تو ابوسفیان نے بڑے زور سے آواز دی اور کہا ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو مار دیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کی بات کا جواب نہ دیا تا ایسا نہ ہو دشمن حقیقت حال سے واقف ہو کر حملہ کر دے اور زخمی مسلمان پھر دوبارہ سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحه ۸۸.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۹۷ نبیوں کا سردار دشمن کے حملہ کا شکار ہو جائیں.جب اسلامی لشکر سے اس بات کا کوئی جواب نہ ملا تو ابوسفیان کو یقین ہو گیا کہ اُس کا خیال درست ہے اور اس نے بڑے زور سے آواز دے کر کہا ہم نے ابوبکر کو بھی مار دیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر کو بھی حکم فرمایا کہ کوئی جواب نہ دیں.پھر ابوسفیان نے آواز دی ہم نے عمر کو بھی مار دیا.تب عمر جو بہت جو شیلے آدمی تھے انہوں نے اُس کے جواب میں یہ کہنا چاہا کہ ہم لوگ خدا کے فضل سے زندہ ہیں اور تمہارے مقابلہ کے لئے تیار ہیں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ مسلمانوں کو تکلیف میں مت ڈالو اور خاموش رہو.اب کفار کو یقین ہو گیا کہ اسلام کے بانی کو بھی اور اُن کے دائیں بائیں بازو کو بھی ہم نے مار دیا ہے.اس پر ابوسفیان اور اُس کے ساتھیوں نے خوشی سے نعرہ لگایا اُخْلُ هُبل - اُعْلُ هُبل.ہمارے معزز بت ہبل کی شان بلند ہو کہ اُس نے آج اسلام کا خاتمہ کر دیا ہے.وہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو اپنی موت کے اعلان پر، ابوبکر کی موت کے اعلان پر اور عمر کی موت کے اعلان پر خاموشی کی نصیحت فرمارہے تھے تا ایسا نہ ہو کہ زخمی مسلمانوں پر پھر کفار کا لشکر لوٹ کر حملہ کر دے اور مٹھی بھر مسلمان اُس کے ہاتھوں شہید ہو جائیں.اب جبکہ خدائے واحد کی عزت کا سوال پیدا ہوا اور شرک کا نعرہ میدان میں مارا گیا تو آپ کی روح بے تاب ہوگئی اور آپ نے نہایت جوش سے صحابہ کی طرف دیکھ کر فرمایا تم لوگ جواب کیوں نہیں دیتے ؟ صحابہ نے کہا یا رَسُولَ اللہ! ہم کیا کہیں؟ فرمایا کہو اللهُ أَعْلَى وَأَجَلٌ - اللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُ تم جھوٹ بولتے ہو کہ ہبل کی شان بلند ہوئی.اللہ وَحدَهُ لا شريك ہی معزز ہے اور اُس کی شان بالا ہے.اور اس طرح آپ نے اپنے زندہ ہونے کی خبر دشمنوں تک پہنچا دی.اس دلیرانہ اور بہادرانہ جواب کا اثر کفار کے لشکر پر اتنا گہرا پڑا کہ باوجود اس کے کہ اُن کی بخاری کتاب المغازى باب غزوة أحد + السيرة الحلبية جلد ۲ صفحہ ۲۷۰
۹۸ نبیوں کا سردار اُمید میں اس جواب سے خاک میں مل گئیں اور باوجود اس کے کہ اُن کے سامنے مٹھی بھر زخمی مسلمان کھڑے ہوئے تھے جن پر حملہ کر کے اُن کو مار دینا مادی قوانین کے لحاظ سے بالکل ممکن تھا وہ دوبارہ حملہ کرنے کی جرات نہ کر سکے اور جس قدر فتح اُن کو نصیب ہوئی تھی اُسی کی خوشیاں مناتے ہوئے مکہ کو واپس چلے گئے.اُحد کی جنگ میں بظاہر فتح کے بعد ایک شکست کا پہلو پیدا ہوا مگر یہ جنگ در حقیقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ایک بہت بڑا نشان تھا.اس جنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق مسلمانوں کو پہلے کامیابی نصیب ہوئی.پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آپ کے عزیز چا حمزہ " لڑائی میں مارے گئے.پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق شروع حملہ میں کفار کے لشکر کا علمبر دار مارا گیا.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق خود آپ بھی زخمی ہوئے اور بہت سے صحابہ شہید ہوئے.اس کے علاوہ مسلمانوں کو ایسے اخلاص اور ایمان کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا جس کی مثال تاریخ میں اور کہیں نہیں ملتی.چند واقعات تو اِس اخلاص اور ایمان کے مظاہرہ کے پہلے بیان ہو چکے ہیں ایک اور واقعہ بھی بیان کرنے کے قابل ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نے صحابہ کے دلوں میں کتنا پختہ ایمان پیدا کر دیا تھا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ صحابہ کی معیت میں پہاڑ کے دامن کی طرف چلے گئے اور دشمن پیچھے ہٹ گیا تو آپ نے بعض صحابہ کو اس بات پر مامور فرمایا کہ وہ میدان میں جائیں اور زخمیوں کی خبر لیں.ایک صحابی میدان میں تلاش کرتے کرتے ایک زخمی انصاری کے پاس پہنچے.دیکھا تو اُن کی حالت خطر ناک تھی اور وہ جان توڑ رہے تھے.یہ صحابی اُن کے پاس پہنچے اور انہیں السّلامُ عَلَيْكُمْ کہا اُنہوں نے کانپتا ہوا ہاتھ مصافحہ کے لئے اٹھایا اور اُن کا ہاتھ پکڑ کر
۹۹ نبیوں کا سردار کہا میں انتظار کر رہا تھا کہ کوئی ساتھی مجھے مل جائے.انہوں نے اس صحابی سے پوچھا کہ آپ کی حالت تو خطر ناک معلوم ہوتی ہے کیا کوئی پیغام ہے جو آپ اپنے رشتہ دار کو دینا چاہتے ہیں؟ اُس مرنے والے صحابی نے کہا ہاں ! ہاں! میری طرف سے میرے رشتہ داروں کو سلام کہنا اور انہیں کہنا کہ میں تو مر رہا ہوں مگر اپنے پیچھے خدا تعالیٰ کی ایک مقدس امانت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود تم میں چھوڑے جا رہا ہوں.اے میرے بھائیو اور رشتہ دارو! وہ خدا کا سچا رسول ہے میں اُمید کرتا ہوں کہ تم اس کی حفاظت میں اپنی جانیں دینے سے دریغ نہیں کرو گے اور میری اس وصیت کو یا درکھو گے لیے مرنے والے انسان کے دل میں ہزاروں پیغام اپنے رشتہ داروں کو پہنچانے کے لئے پیدا ہوتے ہیں لیکن یہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں اتنے بے نفس ہو چکے تھے کہ نہ انہیں اپنے بیٹے یاد تھے، نہ بیویاں یاد تھیں، نہ مال یا دتھا، نہ جائدادیں یاد تھیں انہیں صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجو دہی یادر ہتا تھا.وہ جانتے تھے کہ دنیا کی نجات اس شخص کے ساتھ ہے.ہمارے مرنے کے بعد اگر ساری اولادیں زندہ رہیں تو وہ کوئی بڑا کام نہیں کرسکتیں، لیکن اگر اس نجات دہندہ کی حفاظت میں انہوں نے اپنی جانیں دے دیں تو گو ہمارے اپنے خاندان مٹ جائیں گے مگر دنیا زندہ ہو جائے گی.شیطان کے پنجہ میں پھنسا ہوا انسان پھر نجات پا جائے گا اور ہمارے خاندانوں کی زندگی سے ہزاروں گنے زیادہ قیمتی بنو آدم کی زندگی اور نجات ہے.بہر حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زخمیوں اور شہداء کو جمع کیا ، زخمیوں کی مرہم پٹی کی گئی اور شہداء کے دفنانے کا انتظام کیا گیا.اُس وقت آپ کو معلوم ہوا کہ ظالم کفار مکہ نے بعض مسلمان شہداء کے ناک کان بھی کاٹ دیئے ہیں.چنانچہ یہ لوگ جن کے ناک ے سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحه ۱۰۱،۱۰۰ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
نبیوں کا سردار کان کاٹے گئے ہیں اُن میں خود آپ کے چا حمزہ بھی تھے.آپ کو یہ نظارہ دیکھ کر افسوس ہوا اور آپ نے فرما یا کفار نے خود اپنے عمل سے اپنے لئے اُس بدلہ کو جائز بنا دیا ہے جس کو ہم ناجائز سمجھتے تھے.مگر خدا تعالیٰ کی طرف سے اُس وقت آپ کو وحی ہوئی کہ کفار جو کچھ کرتے ہیں اُن کو کرنے دو تم رحم اور انصاف کا دامن ہمیشہ تھامے رکھو لے جنگ اُحد سے واپسی اور اہل مدینہ کے جذبات فدائیت جب اسلامی لشکر واپس مدینہ کی طرف لوٹا تو اُس وقت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت اور اسلامی لشکر کی پراگندگی کی خبر مدینہ پہنچ چکی تھی.مدینہ کی عورتیں اور بچے دیوانہ وار اُحد کی طرف دوڑے جا رہے تھے.اکثر کو تو راستہ میں خبر مل گئی اور وہ رُک گئے ،مگر بنود دینار قبیلہ کی ایک عورت دیوانہ وار آگے بڑھتے ہوئے اُحد تک جا پہنچی.جب وہ دیوانہ وار اُحد کے میدان کی طرف جارہی تھی اُس عورت کا خاوند اور بھائی اور باپ اُحد میں مارے گئے تھے اور بعض روایتوں میں ہے کہ ایک بیٹا بھی مارا گیا تھا.جب اُسے اُس کے باپ کے مارے جانے کی خبر دی گئی تو اُس نے کہا مجھے بتاؤ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ چونکہ خبر دینے والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مطمئن تھے وہ باری باری اُسے اس کے بھائی اور خاوند اور بیٹے کی موت کی خبر دیتے چلے گئے مگر وہ یہی کہتی چلی جاتی تھی مَا فَعَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم “.ارے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا ؟ بظاہر یہ فقرہ غلط معلوم ہوتا ہے اور اسی وجہ سے مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اُس کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہوا.لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ فقرہ غلط نہیں بلکہ عورتوں کے محاورہ کے مطابق بالکل درست ہے.عورت کے جذبات سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحہ ۱۹۶.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
1+1 نبیوں کا سردار بہت تیز ہوتے ہیں اور وہ بسا اوقات مُردوں کو زندہ سمجھ کر کلام کرتی ہے.جیسے بعض عورتوں کے خاوند یا بیٹے مر جاتے ہیں تو اُن کی موت پر اُن سے مخاطب ہو کر وہ اس قسم کی باتیں کرتی رہتی ہیں کہ مجھے کس پر چھوڑ چلے ہو؟ یا بیٹا! اس بڑھاپے میں مجھ سے کیوں منہ موڑ لیا؟ یہ شدت غم میں فطرت انسانی کا ایک نہایت لطیف مظاہرہ ہوتا ہے.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سن کر اُس عورت کا حال ہوا.وہ آپ کو فوت شدہ ماننے کے لئے تیار نہ تھی اور دوسری طرف اس خبر کی تردید بھی نہیں کر سکتی تھی.اس لئے شدت غم میں یہ کہتی جاتی تھی ارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیا کیا.یعنی ایسا وفادار انسان ہم کو یہ صدمہ پہنچانے پر کیونکر راضی ہو گیا.جب لوگوں نے دیکھا کہ اُسے اپنے باپ، بھائی اور خاوند کی کوئی پرواہ نہیں تو وہ اس کے سچے جذبات کو سمجھ گئے اور اُنہوں نے کہا.فلانے کی اماں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو جس طرح تو چاہتی ہے خدا کے فضل سے خیریت سے ہیں.اس پر اُس نے کہا مجھے دکھاؤ وہ کہاں ہیں؟ لوگوں نے کہا.آگے چلی جاؤ وہ آگے کھڑے ہیں.وہ عورت دوڑ کر آپ تک پہنچی اور آپ کے دامن کو پکڑ کر بولی یا رَسُول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، جب آپ سلامت ہیں تو کوئی مرے مجھے کوئی پرواہ نہیں لے مردوں نے جنگ میں وہ نمونہ ایمان کا دکھایا اور عورتوں نے یہ نمونہ اخلاص کا دکھایا، جس کی مثال میں نے ابھی بیان کی ہے.عیسائی دنیا مریم مگر لینی اور اس کی ساتھی عورتوں کی اس بہادری پر خوش ہے کہ وہ مسیح کی قبر پر صبح کے وقت دشمنوں سے چھپ کر پہنچی تھیں.میں اُن سے کہتا ہوں آؤ اور ذرا میرے محبوب کے مخلصوں اور فدائیوں کو دیکھو کہ کن حالتوں میں اُنہوں نے اُس کا ساتھ دیا اور کن حالتوں میں اُنہوں نے توحید کے جھنڈے کو بلند کیا.ل السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۲۶۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۱۰۲ نبیوں کا سردار اس قسم کی فدائیت کی ایک اور مثال بھی تاریخوں میں ملتی ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہداء کو دفن کر کے مدینہ واپس گئے تو پھر عورتیں اور بچے شہر سے باہر استقبال کیلئے نکل آئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی باگ سعد بن معاذ مدینہ کے رئیس نے پکڑی ہوئی تھی اور فخر سے آگے آگے دوڑے جاتے تھے شاید دنیا کو یہ کہہ رہے تھے کہ دیکھا ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیریت سے اپنے گھر واپس لے آئے.شہر کے پاس انہیں اپنی بڑھیا ماں جس کی نظر کمزور ہو چکی تھی آتی ہوئی ملی.اُحد میں اُس کا ایک بیٹا عمرو بن معاذ بھی مارا گیا.اُسے دیکھ کر سعد بن معاذ نے کہا يَا رَسُول اللہ ! امی.اے اللہ کے رسول ! میری ماں آرہی ہے.آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ کی برکتوں کے ساتھ آئے.بڑھیا آگے بڑھی اور اپنی کمزور پھٹی آنکھوں سے اِدھر اُدھر دیکھا کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل نظر آجائے.آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ پہچان لیا اور خوش ہوگئی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.مائی! مجھے تمہارے بیٹے کی شہادت پر تم سے ہمدردی ہے.اس پر نیک عورت نے کہا.حضور ! جب میں نے آپ کو سلامت دیکھ لیا تو سمجھو کہ میں نے مصیبت کو بھون کر کھا لیا.مصیبت کو بھون کر کھا لیا.کیا عجیب محاورہ ہے.محبت کے کتنے گہرے جذبات پر دلالت کرتا ہے غم انسان کو کھا جاتا ہے.وہ عورت جس کے بڑھاپے میں اُس کا عصائے پیری ٹوٹ گیا کس بہادری سے کہتی ہے کہ میرے بیٹے کے غم نے مجھے کیا کھانا ہے جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں تو میں اس غم کو کھا جاؤں گی.میرے بیٹے کی موت مجھے مارنے کا موجب نہیں ہوگی بلکہ یہ خیال کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اُس نے جان دی میری قوت کے بڑھانے کا موجب ہوگا.اے انصار! میری جان تم پر فدا ہو تم کتنا ثواب لے گئے.ل السيرة الحلبية جلد ۲ صفحہ ۲۶۸،۲۶۷.مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۱۰۳ نبیوں کا سردار بہر حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیریت سے مدینہ پہنچے.گو اس لڑائی میں بہت سے مسلمان مارے بھی گئے اور بہت سے زخمی بھی ہوئے لیکن پھر بھی اُحد کی جنگ شکست نہیں کہلا سکتی.جو واقعات میں نے اوپر بیان کئے ہیں اُن کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ایک بہت بڑی فتح تھی ایسی فتح کہ قیامت تک مسلمان اس کو یاد کر کے اپنے ایمان کو بڑھا سکتے ہیں اور بڑھاتے رہیں گے.مدینہ پہنچ کر آپ نے پھرا اپنا اصل کام یعنی تربیت اور تعلیم اور اصلاح نفس کا شروع کر دیا.مگر آپ یہ کام سہولت اور آسانی سے نہیں کر سکے.اُحد کے واقعہ کے بعد یہود میں اور بھی دلیری پیدا ہوگئی اور منافقوں نے اور بھی سر اُٹھانا شروع کر دیا اور وہ سمجھے کہ شاید اسلام کو مٹادینا انسانی طاقت کے اندر کی بات ہے.چنانچہ یہودیوں نے طرح طرح سے آپ کو تکلیفیں دینی شروع کر دیں.گندے شعر بنا کر اُن میں آپ کی اور آپ کے خاندان کی ہتک کی جاتی تھی.ایک دفعہ آپ کو کسی جھگڑے کا فیصلہ کرنے کے لئے یہودیوں کے قلعہ میں جانا پڑا تو انہوں نے ایک تجویز کی کہ جہاں آپ بیٹھے تھے اُس کے اوپر سے ایک بڑی سل گرا کر آپ شہید کر دیئے جائیں مگر خدا تعالیٰ نے آپ کو وقت پر بتادیا اور آپ وہاں سے بغیر کچھ کہنے کے چلے آئے لے.بعد میں یہودں نے اپنے قصور کو تسلیم کرلیا.مسلمان عورتوں کی بازاروں میں بے حرمتی کی جاتی تھی.ایک دفعہ اس جھگڑے میں ایک مسلمان بھی مارا گیا.ایک دفعہ ایک مسلمان لڑکی کا سر یہود نے پتھروں سے مار مار کر کچل دیا اور وہ تڑپ تڑپ کر مرگئی.ان اسباب کی وجہ سے یہودیوں کے ساتھ بھی مسلمانوں کو جنگ کرنا پڑی.مگر عرب اور یہود کے دستور کے مطابق مسلمانوں نے اُن کو مارا نہیں، بلکہ صرف مدینہ سے چلے جانے کی شرط پر انہیں چھوڑ دیا.چنانچہ اُن دونوں سیرت ابن ہشام جلد ۳ صفحه ۲۰۰،۱۹۹ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۱۰۴ نبیوں کا سردار قبیلوں میں سے ایک تو شام کی طرف ہجرت کر گیا اور دوسرے کا کچھ حصہ شام کو چلا گیا اور کچھ مدینہ سے شمال کی طرف خیبر نامی ایک شہر کی طرف.یہ شہر عرب میں یہود کا مرکز تھا اور زبر دست قلعوں پر مشتمل تھا.شراب نوشی کی ممانعت کا حکم اور اُس کا بے نظیر اثر جنگ اُحد اور اس کے بعد کی جنگ کے وقفہ کے درمیان دنیا نے اسلام کے اس اثر کی جو اس کا اپنے پیروؤں پر تھا ایک بین مثال دیکھی.ہماری مراد امتناع شراب سے ہے.اسلام سے پہلے اہلِ عرب کی حالت کو بیان کرتے ہوئے ہم نے بتلایا تھا کہ اہلِ عرب عادی شراب خور تھے.ہر معز ز عرب خاندان میں دن میں پانچ دفعہ شراب پی جاتی تھی اور شراب کے نشہ میں مدہوش ہو جانا اُن کے لئے معمولی بات تھی اور اس میں وہ ذرا بھی شرم محسوس نہ کرتے تھے بلکہ وہ اس کو ایک اچھا کام سمجھتے تھے.جب کوئی مہمان آتا تو گھر کی مالکہ کا فرض ہوتا کہ وہ شراب کا دور جاری کرتی.اس قسم کے لوگوں سے ایسی تباہ کن عادت کو چھڑانا کوئی آسان بات نہ تھی.مگر ہجرت کے چوتھے سال آنحضرت ﷺ پر حکم نازل ہوا ہے کہ شراب حرام کی جاتی ہے.اس حکم کا اعلان ہوتے ہی مسلمانوں نے شراب پینا بالکل ترک کر دیا.چنانچہ حدیث میں آتا ہے.کہ جب شراب کی حرمت کا الہام نازل ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو بلایا اور حکم دیا کے اس نئے حکم کا اعلان مدینہ کی گلیوں میں کر دو.ایک انصاری کے گھر میں جو مدینہ کا مسلمان تھا اُس وقت شراب کی مجلس ہو رہی تھی بہت سے لوگ مدعو تھے اور شراب کا دور چل رہا تھا.ایک بڑا مٹکا خالی ہو چکا تھا اور ایک دوسرا مٹکا شروع کیا جانے والا تھا.لوگ مدہوش ہو چکے تھے اور بہت سے اور مدہوش ہونے کے قریب تھے.اس حالت میں اُنہوں نے سنا کہ کوئی شخص اعلان کر رہا ہے
۱۰۵ نبیوں کا سردار کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت شراب پینا منع فرما دیا ہے.اُن میں سے ایک شخص اُٹھا اور بولا یہ تو شراب کے امتناع کا حکم معلوم ہوتا ہے.ٹھہر و معلوم کر لیں.اتنے میں ایک اور شخص اُٹھا اور اُس نے مٹکے کو جو شراب سے بھرا ہوا تھا اپنی لاٹھی مارکر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کہا پہلے حکم کی تعمیل کرو اور پھر دریافت کرو.یہ کافی ہے کہ ہم نے ایسا اعلان سن لیا اور یہ مناسب نہیں کہ ہم شراب پیتے جائیں اور تحقیقات کریں بلکہ ہمارا فرض یہ ہے کہ شراب کو گلیوں میں بہہ جانے دیں اور پھر اعلان کے متعلق تحقیقات کریں لیے اس مسلمان کا خیال درست تھا، کیونکہ اگر شراب کا پیا جان ممنوع قرار دیا جا چکا تھا تو اس کے بعد اگر وہ شراب پینا جاری رکھتے تو ایک جرم کے مرتکب ہوتے اور اگر شراب پینا ممنوع نہیں قرار دیا گیا تھا تو شراب کا بہا دینا اتنا بڑا نقصان نہ تھا کہ اُسے برداشت نہ کیا جا سکتا.اس اعلان کے بعد شراب نوشی مسلمانوں سے بالکل دور ہو گئی.اس انقلاب عظیم کو بر پا کرنے کے لئے کوئی خاص کوشش اور مجاہدہ کی ضرورت نہیں پڑی.ایسے مسلمان جنہوں نے اس حکم کو سنا اور جو فوری تعمیل اس کی ہوئی اُس کو دیکھا ہستر اتنی سال تک زندہ رہے مگر اُن میں سے ایک مسلمان بھی ایسا نہیں جس نے اس حکم کے بعد اس کی خلاف ورزی کی ہو، اگر ایسا کوئی واقعہ ہوا ہے تو وہ ایسے شخص کے متعلق ہے جس نے براہ راست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ نہ کیا تھا.جب ہم اس کا مقابلہ امریکہ کی تحریک امتناع شراب سے کرتے ہیں اور ان کوششوں کو دیکھتے ہیں جو اس حکم کو نافذ کرنے کے لئے کی گئیں یا جو سالہا سال تک یورپ میں کی گئیں تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ ایک صورت میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا محض ایک اعلان کافی تھا کہ اس تمدنی عیب کو عرب کے لوگوں سے معدوم کر دے.مگر بخاری کتاب التفسير تفسير سورة المائدة باب قوله انما الخمر.....(الخ)
1+4 نبیوں کا سردار دوسری صورت میں امتناع شراب کے لئے قوانین بنائے گئے.پولیس ، فوج اور ٹیکس کے محکموں کے کارکنوں نے مل کر شراب نوشی کی لعنت کو دور کرنے کے لئے متحدہ طور پر کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے اور انہیں اپنی ناکامی کا اعتراف کرنا پڑا.شراب نوشی کی جیت رہی اور شراب نوشی دُور نہ کی جاسکی.ہمارے اس زمانہ کو ایک ترقی کا زمانہ کہتے ہیں مگر جب اس کا مقابلہ ابتدائے اسلام کے زمانہ سے کرتے ہیں تو ہم حیران ہو جاتے ہیں کہ ان دونوں میں سے ترقی کا زمانہ کونسا ہے.ہمارا یہ زمانہ یا اسلام کا وہ زمانہ جس نے اس قدر بڑا حمد نی انقلاب پیدا کر دیا؟ غزوہ اُحد کے بعد کفار قبائل کے ناپاک منصوبے اُحد کا واقعہ ایسی بات نہ تھی کہ آسانی سے بھولا جا سکتا.مکہ والوں نے خیال کیا تھا کہ یہ اُن کی اسلام کے خلاف پہلی فتح ہے اُنہوں نے اس کی خبر تمام عرب میں شائع کی اور عرب کے قبائل کو اسلام کے خلاف بھڑ کانے اور یہ یقین دلانے کا ذریعہ بنایا کہ مسلمان نا قابل تسخیر نہیں ہیں.اور اگر وہ ترقی کرتے رہے ہیں تو اس کی وجہ اُن کی طاقت نہیں تھی بلکہ عرب قبائل کی بے توجہی تھی.عرب متحدہ کوشش کریں تو مسلمانوں پر غالب آجانا کوئی مشکل امر نہیں.اس پروپیگینڈا کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کے خلاف مخالفت زور پکڑتی گئی اور دیگر قبائل نے مسلمانوں کو تکلیف دینے میں مکہ والوں سے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کیا.بعض نے کھلم کھلا حملے شروع کر دیئے اور بعض نے خفیہ طور پر اُن کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا.ہجرت کے چوتھے سال عرب کے دو قبائل عضل اور قارۃ نے اپنے نمائندے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج کر عرض کیا کہ ہمارے قبائل میں بہت سے آدمی
۱۰۷ نبیوں کا سردار اسلام کی طرف مائل ہیں اور درخواست کی کہ کچھ آدمی جو تعلیم اسلام سے پوری طرح سے واقف ہوں بھیج دیئے جائیں تا کہ وہ اُن کے درمیان رہ کر اُن کو اس نئے مذہب کی تعلیم دیں.دراصل یہ ایک سازش تھی جو اسلام کے پکے دشمن بنولحیان نے کی تھی اور ان کا مقصد یہ تھا کہ جب یہ نمائندے مسلمانوں کو لے کر آئیں گے تو وہ اُن کو قتل کر کے اپنے رئیس سفیان بن خالد کا بدلہ لیں گے.چنانچہ انہوں نے عضل اور قارۃ کے نمائندوں کو اس غرض سے کہ وہ چند مسلمانوں کو اپنے ساتھ لے آئیں، انعام کے بڑے بڑے وعدے دے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تھا.جب عضل اور قارۃ کے لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر درخواست کی تو آپ نے اُن کی بات پر اعتبار کر کے دس مسلمانوں کو اُن کے ساتھ کر دیا کہ ان کو اسلام کے عقائد اور اصولوں کی تعلیم دیں.جب یہ جماعت بنو لحیان کے علاقہ میں پہنچی تو عضل اور قارة کے لوگوں نے بنولحیان کو اطلاع بھجوادی اور اُن کو کہلا بھیجا کہ مسلمانوں کو یا تو گرفتار کر لیں یا موت کے گھاٹ اُتار دیں.اس ناپاک منصوبے کے ماتحت بنو لحیان کے دو سو مسلح آدمی مسلمانوں کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے اور آخر مقام رجیع میں اُن کو آگھیرا.دس مسلمانوں اور دوسو دشمنوں کے درمیان لڑائی ہوئی.مسلمانوں کے دل نور ایمان سے پر تھے اور دشمن اس سے تہی تھے.دس مسلمان ایک ٹیلہ پر چڑھ گئے اور دو سو آدمیوں کو دعوت مبارزت دی.دشمن نے ایک فریب کر کے اُن کو گرفتار کرنا چاہا اور اُن سے کہا کہ اگر تم نیچے اتر آؤ تو تمہیں کچھ نہ کہا جائے گا مگر مسلمانوں کے امیر نے کہا کہ ہم کافروں کے عہد و پیمان کو خوب دیکھ چکے ہیں.اس کے بعد اُنہوں نے آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر کہا اے خدا! تو ہماری حالت کو دیکھ رہا ہے اپنے رسول کو ہماری اس حالت سے اطلاع پہنچا دے.جب کفار نے دیکھا کہ مسلمانوں کی اس چھوٹی سی جماعت پر اُن کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا تو انہوں نے اُن پر
۱۰۸ نبیوں کا سردار حملہ کر دیا اور مسلمان بغیر خوف شکست کے لڑتے چلے گئے، یہاں تک کہ دس میں سے سات شہید ہو گئے.باقی تین جو بچ رہے تھے اُن کو کفار نے پھر وعدہ دیا کہ ہم تمہاری جانیں بچالیں گے بشرطیکہ تم ٹیلے سے نیچے اتر آؤ.لیکن جب وہ کفار کے وعدہ پر اعتبار کر کے نیچے اُتر آئے تو کفار نے انہیں اپنی کمانوں کی تانتوں سے جکڑ کر باندھ لیا.اس پر اُن میں سے ایک نے کہا کہ یہ پہلی خلاف ورزی ہے جو تم اپنے عہد کی کر رہے ہو اللہ ہی جانتا ہے کہ تم اس کے بعد کیا کرو گے.یہ کہہ کر اُس نے اُن کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا.کفار نے اُس کو مارنا اور گھسیٹنا شروع کر دیا.مگر آخر اُس کے مقابلے اور استقلال سے اس قدر مایوس ہو گئے کہ انہوں نے اُس کو وہیں قتل کر دیا.باقی دو کو وہ ساتھ لے گئے اور بطور غلاموں کے قریش مکہ کے پاس فروخت کر دیا ان میں سے ایک کا نام حبیب تھا اور دوسرے کا زید.خبیب کا خریدار اپنے باپ کا بدلہ لینے کے لئے جسے خبیب ” نے جنگ بدر میں قتل کیا تھا خبیب کو قتل کرنا چاہتا تھا.ایک دن حبیب نے اپنی ضرورت کے لئے اُسترا مانگا.اُستر اخبیب کے ہاتھ میں تھا کہ گھر والوں کا ایک بچہ کھیلتے ہوئے اُس کے پاس چلا گیا.خبیب نے اس کو اُٹھا کر اپنی ران پر بیٹھا لیا.بچے کی ماں نے جب یہ دیکھا تو دہشت زدہ ہوگئی اور اُسے یقین ہو گیا کہ اب خبیب بچے کو قتل کر دے گا کیونکہ وہ خبیب کو چند دنوں میں قتل کرنے والے تھے.اُس وقت اُسترا اُس کے ہاتھ میں تھا اور بچہ اُس کے اتنا قریب تھا کہ وہ اُسے نقصان پہنچا سکتا تھا.حبیب نے اُس کے چہرے سے پریشانی کو بھانپ لیا اور کہا کہ کیا تم خیال کرتی ہو کہ میں تمہارے بچے کو قتل کر دونگا ؟ یہ خیال کبھی دل میں نہ لاؤ میں ایسا بر افعل نہیں کر سکتا.مسلمان دھوکا باز نہیں ہوتے.وہ عورت خبیب کے اس دیانتدارانہ اور صحیح طریق عمل سے بہت متاثر ہوئی.اس بات کو اُس نے ہمیشہ یادرکھا بخاری کتاب المغازی باب غزوة الرجيع....(الخ)
ย 1+9 نبیوں کا سردار اور ہمیشہ کہا کرتی تھی کہ میں نے خبیب سا قیدی کوئی نہیں دیکھا.آخر کار مکہ والے خبیب کو ایک کھلے میدان میں لے گئے تا اُس کو قتل کر کے جشن منائیں.جب اُن کے قتل کا وقت آن پہنچا تو خبیب نے کہا کہ مجھے دو رکعت نماز پڑھ لینے دو.قریش نے اُن کی یہ بات مان لی اور خبیب نے سب کے سامنے اس دنیا میں آخری بار اپنے اللہ کی عبادت کی.جب وہ نماز ختم کر چکے تو انہوں نے کہا کہ میں اپنی نماز جاری رکھنا چاہتا تھا مگر اس خیال سے ختم کر دی ہے کہ کہیں تم یہ نہ سمجھو کہ میں مرنے سے ڈرتا ہوں.پھر آرام سے اپنا سر قاتل کے سامنے رکھ دیا اور ایسا کرتے ہوئے یہ اشعار پڑھے: وَلَسْتُ أَبَالِي حِيْنَ أَقْتَلُ مُسْلِمًا عَلَى أَيِّ جَنْبِ كَانَ لِلَّهِ مَصْرَعِى وَذَلِكَ فِي ذَاتِ الْإِلَهِ وَإِنْ يَشَأْ يُبَارِكَ عَلَى أَوصَالِ شِلْوِ مُمَزَّعِ یعنی جبکہ میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جارہا ہوں تو مجھے پرواہ نہیں ہے کہ میں کس پہلو پر قتل ہو کر گروں.یہ سب کچھ خدا کے لئے ہے.اور اگر میرا خدا چاہے گا تو میرے جسم کے پارہ پارہ ٹکڑوں پر برکات نازل فرمائے گا.خبیب نے ابھی یہ شعر ختم نہ کیے تھے کہ جلاد کی تلوار اُن کی گردن پر پڑی اور اُن کا سرخاک پر آ گرا.جو لوگ یہ جشن منانے کے لئے جمع ہوئے تھے اُن میں ایک شخص سعید بن عامر بھی تھا جو بعد میں مسلمان ہو گیا.کہتے ہیں کہ جب کبھی خبیب کے قتل کا ذکر سعید بہنو کے سامنے ہوتا تو اس کوشش آجایا کرتا.سے دوسرا قیدی زید بھی قتل کرنے کے لئے باہر لے جایا گیا.اس تماشہ کو دیکھنے والوں میں ابوسفیان رئیس مکہ بھی تھا.وہ زید کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا کہ کیا تم پسند نہیں کرتے بخاری کتاب المغازی باب غزوة الرجيع....الخ) ک سیرت ابن ہشام جلد ۳ صفحه ۱۸۲ ، ۱۸۳ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ ء
11+ نبیوں کا سردار کہ محمد تمہاری جگہ پر ہو اور تم اپنے گھر میں آرام سے بیٹھے ہو؟ زید نے بڑے غصہ سے جواب دیا کہ ابوسفیان ! تم کیا کہتے ہو؟ خدا کی قسم! میرے لئے مرنا اس سے بہتر ہے کہ آنحضرت ﷺ کے پاؤں کو مدینہ کی گلیوں میں ایک کانٹا بھی چبھ جائے.اس فدائیت سے ابوسفیان متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور اُس نے حیرت سے زید کی طرف دیکھا اور فوراً ہی دبی زبان میں کہا کہ خدا گواہ ہے کہ جس طرح محمد کے ساتھ محمد کے ساتھی محبت کرتے ہیں میں نے نہیں دیکھا کہ کوئی اور شخص کسی سے محبت کرتا ہولے ۷۰ حفاظ قرآن کے قتل کا حادثہ انہی ایام کے قریب قریب مسجد کے کچھ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تا اُن کے ساتھ چند مسلمانوں کو بھیج دیا جائے تا کہ وہ اُن کو اسلام سکھلائیں.آنحضرت ﷺ نے اُن کا اعتبار نہ کیا.مگر ابو براء نے جو اُس وقت مدینہ میں تھے کہا کہ میں اس قبیلہ کی طرف سے ضمانتی بنتا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین دلایا کہ وہ کوئی شرارت نہیں کریں گے.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ۷۰ مسلمانوں کو جو حافظ قرآن تھے اس کام کے لئے انتخاب کیا.جب یہ جماعت بئر معونہ پر پہنچی تو اُن میں سے ایک شخص حرام بن ملحان قبیلہ عامر کے رئیس کے پاس گیا جو ابو براء کا بھتیجا تھا تا کہ اُس کو اسلام کا پیغام دے.بظاہر قبیلہ والوں نے حرام کا اچھی طرح استقبال کیا مگر جس وقت وہ رئیس کے سامنے تقریر کر رہے تھے تو ایک آدمی چھپ کر پیچھے سے آیا اور اُن پر نیزہ سے حملہ کیا.حرام و ہیں مارے گئے.جب نیزہ اُن کے گلے سے پار ہوا تو وہ یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ اللهُ أَكْبَرُ فُرْتُ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ.یعنی اللہ اکبر کعبہ کے رب کی سیرت ابن ہشام جلد ۳ صفحه ۱۸۱.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
نبیوں کا سردار قسم ! میں اپنی مراد کو پہنچ گیا ہے اس دھوکا بازی سے حرام کے قتل کرنے کے بعد قبیلہ کے سرداروں نے اہلِ قبیلہ کو جوش دلایا کہ باقی جماعت معلمین پر بھی حملہ کریں.مگر قبیلہ والوں نے کہا کہ ہمارے رئیس ابو براء نے ضامن بننا منظور کیا ہے ہم اس جماعت پر حملہ نہیں کر سکتے.اس پر قبیلہ کے سرداروں نے اُن دو قبیلوں کی مدد کے ساتھ جو مسلمان معلمین کو لانے کے لئے گئے تھے، جماعتِ معلمین پر حملہ کر دیا.اُن کا یہ کہنا کہ ہم وعظ کرنے اور اسلام سکھانے آئے ہیں لڑنے نہیں آئے بالکل کارگر نہ ہوا اور کفار نے مسلمانوں کو قتل کرنا شروع کر دیا.آخرتین آدمیوں کے سوا باقی سب شہید ہو گئے.اس جماعت میں سے ایک آدمی لنگڑا تھا اور لڑائی ہونے سے پہلے پہاڑی پر چڑھ گیا تھا اور دو اونٹ چرانے جنگل کو گئے ہوئے تھے.واپسی پر انہوں نے دیکھا کہ اُن کے چھیاسٹھ ساتھی میدان میں مرے پڑے ہیں.دونوں نے آپس میں مشورہ کیا.ایک نے کہا کہ ہمیں چاہیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس حادثہ کی اطلاع دیں.دوسرے نے کہا جہاں ہماری جماعت کا سردار جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارا امیر مقررکیا تھا قتل کیا گیا ہے میں اُس جگہ کو چھوڑ نہیں سکتا.یہ کہتے ہوئے وہ تن تنہا کفار پر حملہ آور ہوا اور لڑتا ہوا مارا گیا.دوسرے کوگرفتار کر لیا گیا مگر بعد میں ایک قسم کی بناء پر جو قبیلہ کے ایک سردار نے کھائی تھی وہ چھوڑ دیا گیا.قتل ہونے والوں میں عامر بن فہیرہ بھی تھے جو حضرت ابوبکر کے آزاد کردہ غلام تھے.اُن کا قاتل ایک شخص جبار بن سلمی تھا جو بعد میں مسلمان ہو گیا.جبار کہا کرتا تھا کہ عامر کا قتل ہی میرے مسلمان ہونے کا موجب ہوا تھا.جبار کہتا ہے کہ جب میں عامر کو قتل کرنے لگا تو میں نے عامر کو یہ کہتے سنا فُزت واللہ خدا کی قسم ! میں نے اپنی مراد کو پالیا.اس کے بعد میں سيرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۱۹۳ تا ۱۹۶ + بخاری کتاب الجهاد باب من ينكب او يطنن فی سبیل اللہ
۱۱۲ نبیوں کا سردار نے ایک شخص سے پوچھا.جب مسلمان کو موت کا سامنا ہوتا ہے تو وہ ایسی باتیں کیوں کرتا ہے؟ اُس شخص نے جواب دیا کہ مسلمان اللہ کی راہ میں موت کو نعمت اور فتح سمجھتا ہے.جبار پر اس جواب کا ایسا اثر ہوا کہ اُس نے اسلام کا با قاعدہ مطالعہ شروع کر دیا اور بالآخر مسلمان ہو گیا ان دو اندوہناک واقعات کی خبر جس میں قریباً ۸۰ مسلمان ایک شرارت آمیز سازش کے نتیجے میں شہید ہو گئے تھے فور آمدینہ پہنچ گئی.مقتولین کوئی معمولی آدمی نہ تھے بلکہ حفاظ قرآن تھے.وہ کسی جرم کے مرتکب نہیں ہوئے تھے، نہ انہوں نے کسی کو دُکھ دیا تھا.وہ کسی جنگ میں بھی شریک نہیں تھے بلکہ اللہ اور مذہب کا جھوٹا واسطہ دیکر وہ دھو کے سے دشمن کے تصرف میں دے دیئے گئے تھے.ان واقعات سے بلا شک وشبہ ثابت ہوتا ہے کہ کفار کو اسلام سے سخت دشمنی تھی.اس کے بالمقابل اسلام کے حق میں مسلمانوں کا جوش بھی نہایت گہرا اور پائدار تھا.غزوہ بنی مصطلق جنگ اُحد کے بعد مکہ میں سخت قحط پڑا.مکہ والوں کو جو دشمنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی اور جو تدابیر وہ آپ کے برخلاف لوگوں کے درمیان نفرت پھیلانے کی ملک بھر میں کر رہے تھے ، بالکل نظر انداز کر کے آنحضرت ﷺ نے اس سخت مصیبت کے وقت میں مکہ کے غرباء کی امداد کے لئے ایک رقم جمع کی ،مگر اس خیر خواہی کا بھی اہلِ مکہ پر کچھ اثر نہ ہوا اور اُن کی دشمنی میں کوئی فرق نہ آیا بلکہ وہ دشمنی میں اور بھی بڑھ گئے.ایسے قبائل بھی جو پہلے مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کرتے تھے دشمن بن گئے.ان قبائل میں سیرت ابن ہشام جلد ۳ صفحه ۱۹۶.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۱۱۳ نبیوں کا سردار سے ایک قبیلہ بنی مصطلق تھا.اُن کے تعلقات مسلمانوں کے ساتھ اچھے تھے مگراب اُنہوں نے مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری شروع کر دی.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کی تیاری کا علم ہوا تو آپ نے حقیقت حال دریافت کرنے کے لئے کچھ آدمی بھیجے.جنہوں نے واپس آکر اُن اطلاعات کی تصدیق کی.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ خود جا کر اس نے حملہ کا مقابلہ کریں.چنانچہ آپ نے ایک فوج تیار کی اور اُسے لے کر بنو مصطلق کی طرف گئے.جب مسلمانوں کی فوج کا دشمن سے مقابلہ ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوشش کی کہ دشمن بغیر لڑائی کے پیچھے ہٹ جانے پر آمادہ ہو جائے مگر اُنہوں نے انکار کیا.اس پر جنگ ہوئی اور چند گھنٹوں کے اندردشمن کو شکست ہوگئی.چونکہ کفارِ مکہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے پر تلے ہوئے تھے اور جو قبائل دوست تھے وہ بھی دشمن بن رہے تھے، اس لئے اُن منافقین نے بھی جو مسلمانوں کے درمیان موجود تھے اس موقع پر یہ جرات کی کہ وہ مسلمانوں کی طرف سے ہو کر جنگ میں حصہ لیں.غالباً اُن کا خیال تھا کہ اس طرح انہیں مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا موقع مل سکے گا مگر بنو مصطلق کے ساتھ جولڑائی ہوئی وہ چند گھنٹوں میں ختم ہوگئی اس لئے اس لڑائی کے دوران میں منافقین کو کوئی شرارت کرنے کا موقع نہ مل سکا.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ بنو مصطلق کے قصبہ میں کچھ دن قیام فرمائیں.آپ کے قیام کے دوران میں ایک مکہ کے رہنے والے مسلمان کا ایک مدینہ کے رہنے والے مسلمان سے کنویں سے پانی نکالنے کے متعلق جھگڑا ہو گیا.اتفاق سے یہ مکہ والا آدمی ایک آزاد شدہ غلام تھا اُس نے مدینہ والے شخص کو مارا.جس پر اُس نے اہل مدینہ کو جنہیں انصار کہتے تھے پکارا اور مکہ والے نے مہاجرین کو پکارا.اس طرح جوش پھیل گیا.کسی نے یہ دریافت کرنے کی کوشش نہ کی کہ اصل واقعہ کیا ہے.دونوں طرف کے جوان آدمیوں نے تلوار میں نکال لیں.عبداللہ
۱۱۴ نبیوں کا سردار بن ابی بن سلول سمجھا کہ ایسا موقع خدا نے مہیا کر دیا ہے.اُس نے چاہا کہ آگ پر تیل ڈالے اور اہل مدینہ کو مخاطب کر کے کہا کہ ان مہاجرین پر تمہاری مہربانی حد سے بڑھ گئی ہے اور تمہارے نیک سلوک سے اُن کے سر پھر گئے ہیں اور یہ دن بدن تمہارے سر پر چڑھتے جاتے ہیں.قریب تھا کہ اس تقریر کا وہی اثر ہوا ہوتا جو عبداللہ چاہتا تھا اور جھگڑا شدت پکڑ جاتا مگر ایسا نہ ہوا.عبداللہ نے اپنی شرانگیز تقریر کا اندازہ لگانے میں غلطی کی تھی اور یہ سمجھتے ہوئے کہ انصار پر اس کا اثر ہو گیا ہے، اُس نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہم مدینہ میں واپس پہنچ لیں پھر جو معزز ترین انسان ہے وہ ذلیل ترین انسان کو باہر نکال دے گا.معزز ترین انسان سے اُس کی مراد وہ خود تھا اور ارذل ترین سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نَعُوذُ بِاللهِ مِن ذَلِكَ ).جو نہی یہ بات اُس کے منہ سے نکلی مؤمنوں پر اُس کی حقیقت کھل گئی اور انہوں نے کہا کہ یہ معمولی بات نہیں بلکہ یہ شیطان کا قول ہے جو ہمیں گمراہ کرنے آیا ہے.ایک جوان آدمی اُٹھا اور اپنے چچا کے ذریعے اُس نے یہ خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچا دی.آپ نے عبداللہ بن ابی بن سلول اور اُس کے دوستوں کو بلایا اور پوچھا کیا بات ہوئی ہے؟ عبداللہ نے اور اس کے دوستوں نے بالکل انکار کر دیا اور کہہ دیا کہ یہ واقعہ جو ہمارے ذمہ لگایا گیا ہے ہوا ہی نہیں.آپ نے کچھ نہ کہا.لیکن سچی بات پھیلنی شروع ہو گئی.کچھ عرصہ کے بعد عبد اللہ بن ابی بن سلول کے بیٹے عبداللہ نے بھی یہ بات سنی.وہ فوراً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا.اے اللہ کے نبی! میرے باپ نے آپ کی ہتک کی ہے اُس کی سزا موت ہے اگر آپ یہی فیصلہ کریں تو میں پسند کرتا ہوں کہ آپ مجھے حکم دیں کہ میں اپنے باپ کو قتل کروں.اگر آپ کسی اور کوحکم دیں گے اور میرا باپ اُس کے ہاتھوں مارا جائے گا تو ہوسکتا ہے کہ میں اُس آدمی کو قتل کر کے اپنے باپ کا بدلہ لوں اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لے لوں.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ
۱۱۵ نبیوں کا سردار وسلم نے فرمایا.میرا ہر گز ارادہ نہیں میں تمہارے والد کے ساتھ نرمی اور مہربانی کا سلوک کروں گا.جب عبداللہ نے اپنے باپ کی بیوفائی اور درشت کلامی کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نرمی اور مہربانی سے مقابلہ کیا تو اس کا ایمان اور بڑھ گیا اور اپنے باپ کے خلاف اُس کا غصہ بھی اُسی نسبت سے ترقی کر گیا.جب لشکر مدینہ کے قریب پہنچا تو اس نے آگے بڑھ کر اپنے باپ کا راستہ روک لیا اور کہا میں تم کو مدینہ کے اندر داخل نہیں ہونے دوں گا تا وقت یکہ تم وہ الفاظ واپس نہ لے لو جو تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف استعمال کئے ہیں.جس منہ سے یہ بات نکلی ہے کہ خدا کا نبی ذلیل ہے اور تم معزز ہواُسی منہ سے تم کو یہ بات کہنی ہوگی کہ خدا کا نبی معزز ہے اور تم ذلیل ہو.جب تک تم یہ نہ کہو میں تمہیں ہرگز آگے نہ جانے دوں گا.عبداللہ بن ابی بن سلول حیران اور خوفزدہ ہو گیا اور کہنے لگا اے میرے بیٹے ! میں تمہارے ساتھ اتفاق کرتا ہوں، محمد معزز ہے اور میں ذلیل ہوں.نوجوان عبد اللہ نے اس پر اپنے باپ کو چھوڑ دیا.لے مدینہ پر سارے عرب کی چڑھائی غزوہ خندق اس سے پہلے یہود کے دو قبیلوں کا ذکر کیا جا چکا ہے جولڑائی ،فساد قتل اور قتل کرنے کے منصوبوں کی وجہ سے مدینہ سے جلا وطن کر دیئے گئے تھے.انمیں سے بنو نضیر کا کچھ حصہ تو شام کی طرف ہجرت کر گیا تھا اور کچھ حصہ مدینہ سے شمال کی طرف خیبر نامی ایک شہر کی طرف ہجرت کر گیا تھا.خیبر عرب میں یہود کا ایک بہت بڑا مرکز تھا اور ایک قلعہ بند شہر تھا.ترمذی کتاب التفسیر تفسیر سورۃ المنافقين + سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۱۳۸
117 نبیوں کا سردار یہاں جا کر بنو نضیر نے مسلمانوں کے خلاف عربوں میں جوش پھیلا نا شروع کیا.مکہ والے تو پہلے ہی مخالف تھے، کسی مزید انگیخت کے محتاج نہ تھے.اسی طرح غطفان نامی مجد کا قبیلہ جو عرب کے قبیلوں میں بہت بڑی حیثیت رکھتا تھا وہ بھی مکہ والوں کی دوستی میں اسلام کی دشمنی پر آمادہ رہتا تھا.اب یہود نے قریش اور غطفان کو جوش دلانے کے علاوہ بنو سلیم اور بنواسد دو اور زبردست قبیلوں کو بھی مسلمانوں کے خلاف اکسانا شروع کیا اور اسی طرح بنوسعد نامی قبیلہ جو یہود کا حلیف تھا اُس کو بھی کفار مکہ کا ساتھ دینے کے لئے تیار کیا.ایک لمبی تیاری کے بعد عرب کے تمام زبر دست قبائل کے ایک اتحاد عام کی بنیادرکھ دی گئی جس میں مکہ کے لوگ بھی شامل تھے.مکہ کے ارد گرد کے قبائل بھی تھے اور نجد اور مدینہ سے شمال کی طرف کے علاقوں کے قبائل بھی شامل تھے اور یہود بھی شامل تھے.ان سب قبائل نے مل کر مدینہ پر چڑھائی کرنے کے لئے ایک زبر دست لشکر تیار کیا.یہ ماہ شوال ۵ ہجری آخر فروری و مارچ ۶۲۷ء کا واقعہ ہے.یہ مختلف مؤرخوں نے اس لشکر کا اندازہ دس ہزار سے چوبیس ہزار تک لگایا ہے.لیکن ظاہر ہے کہ تمام عرب کے اجتماع کا نتیجہ صرف دس ہزار سپاہی نہیں ہوسکتا یقینا چوبیس ہزار والا اندازہ زیادہ صحیح ہے اور اگر اور کچھ نہیں تو یہ لشکر اٹھارہ بیس ہزار کا تو ضرور ہوگا.مدینہ ایک معمولی قصبہ تھا اس قصبہ کے خلاف سارے عرب کی چڑھائی کوئی معمولی نہیں تھی.مدینہ کے مرد جمع کر کے (جن میں بوڑھے، جوان اور بچے بھی شامل ہوں ) صرف تین ہزار آدمی نکل سکتے تھے اس کے برخلاف دشمن کی فوج ہیں اور چوبیس ہزار کے درمیان تھی اور پھر وہ سب کے سب فوجی آدمی تھے.جوان اور لڑنے کے قابل تھے.کیونکہ جب شہر میں رہ کر حفاظت کا سوال پیدا ہوتا ہے تو اس میں بچے اور بوڑھے بھی شامل ہو جاتے ہیں.مگر جب دُور دراز مقام پر لشکر چڑھائی کر کے جاتا ہے تو ل السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۳۳۴ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
112 نبیوں کا سردار اُس میں صرف جوان اور مضبوط آدمی ہوتے ہیں.پس یہ بات یقینی ہے کہ کفار کے لشکر میں بیس ہزار یا پچیس ہزار جتنے بھی آدمی تھے وہ سب کے سب مضبوط، جوان اور تجربہ کا رسپاہی تھے.لیکن مدینہ کے کل مردوں کی تعداد بچوں اور اپاہجوں کو ملا کر بمشکل تین ہزار ہوتی تھی.ظاہر ہے کہ ان امور کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر مدینہ کے لشکر کی تعداد تین ہزار سمجھی جائے تو دشمن کی تعداد چالیس ہزار مجھنی چاہئے اور اگر دشمن کے لشکر کی تعداد میں ہزار سمجھی جائے تو مدینہ کے سپاہیوں کی تعداد صرف ڈیڑھ ہزار فرض کرنی چاہئے.جب اس لشکر کے جمع ہونے اور حملہ کی تیاریوں کی خبر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے صحابہ کو جمع کر کے مشورہ کیا کہ اس موقع پر کیا کرنا چاہئے.صحابہ میں سلمان فارسی سے جو سب سے پہلے فارسی مسلمان تھے دریافت فرمایا کہ تمہارے ملک میں ایسے موقع پر کیا کیا کرتے ہیں؟ تو اُنہوں نے کہا یا رسول اللہ ! جب شہر بے حفاظت ہو اور سپاہی تھوڑے ہوں تو ہمارے ملک کے لوگ خندق کھود کر اُس کے اندر محصور ہو جایا کرتے ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی یہ تجویز پسند فرمائی.مدینہ کے ایک طرف ٹیلے تھے دوسری طرف ایسے محلے تھے جن کے مکانات ایک دوسرے سے پیوستہ تھے اور دشمن صرف چند گلیوں میں سے ہو کر آسکتا تھا.تیسری طرف کچھ مکانات تھے اور کچھ باغات اور کچھ فاصلہ پر یہودی قبیلہ بنو قریظہ کے قلعے تھے.یہ قبیلہ چونکہ مسلمانوں سے اتحاد کا معاہدہ کر چکا تھا اس لیے یہ سمت بھی محفوظ سمجھ لی گئی تھی.چوتھی طرف کھلا میدان تھا اور اس طرف سے زیادہ خطرہ ہوسکتا تھا.رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیا کہ اس کھلے میدان کی طرف خندق بنا دی جائے تا کہ دشمن اچانک شہر میں داخل نہ ہو سکے.چنانچہ آپ نے دس دس گز کا حصہ کھولنے کیلئے دس دس آدمیوں کے سپر د کر دیا اور اس طرح قریباً ایک میل لمبی خندق کھدوائی.جب خندق کھودی جا رہی تھی تو زمین میں سے ایک ایسا پتھر نکلا جو کسی طرح لوگوں سے ٹوٹتا نہیں تھا.صحابہ نے
۱۱۸ نبیوں کا سردار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی خبر دی تو آپ وہاں خود تشریف لے گئے.اپنے ہاتھ میں کدال پکڑا اور زور سے اُس پتھر پر مارا.کدال کے پڑنے سے اس پتھر میں سے روشنی نکلی اور آپ نے فرمایا.اللہ اکبر.پھر دوبارہ آپ نے کدال مارا تو پھر روشنی نکلی پھر آپ نے فرمایا.اللہ اکبر.پھر آپ نے تیسری دفعہ کدال مارا اور پھر پتھر سے روشنی نکلی اور ساتھ ہی پتھر ٹوٹ گیا.اس موقع پر پھر آپ نے فرمایا.اللہ اکبر.صحابہ نے آپ سے پوچھا.يَا رَسُولَ اللہ ! آپ نے تین دفعہ اللہ اکبر کیوں فرمایا ؟ آپ نے فرما یا پتھر پر کدال پڑنے سے تین دفعہ جو روشنی نکلی تو تینوں دفعہ خدا نے مجھے اسلام کی آئندہ ترقیات کا نقشہ دکھایا.پہلی دفعہ کی روشنی میں مملکت قیصر کے شام کے محلات دکھائے گئے اور اُس کی کنجیاں مجھے دی گئیں، دوسری دفعہ کی روشنی میں مدائن کے سفید محلات مجھے دکھائے گئے اور مملکت فارس کی کنجیاں مجھے دی گئیں، تیسری دفعہ کی روشنی میں صنعاء کے دروازے مجھے دکھائے گئے اور مملکت یمن کی کنجیاں مجھے دی گئیں لے پس تم خدا کے وعدوں پر یقین رکھو دشمن تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا.یہ تھوڑے سے آدمی اتنی لمبی خندق فوجی اصول کے مطابق تو نہیں کھود سکتے تھے.پس یہ خندق اتناہی فائدہ دے سکتی تھی کہ دشمن اچا نک اندر نہ گھس آئے ورنہ اس خندق سے پار ہونا دشمن کیلئے ناممکن نہیں تھا.چنانچہ آئندہ جو واقعات بیان ہوں گے اُن سے ایسا ہی ثابت ہوتا ہے کہ دشمن نے بھی مدینہ کے حالات کو مدنظر رکھ کر اسی طرف سے حملہ کرنے کا فیصلہ کیا ہوا تھا.چنانچہ دشمن کا لشکر جرار اسی طرف سے مدینہ میں داخل ہونے کیلئے آگے بڑھا.رسول کریم ﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے بھی کچھ لوگوں کو شہر کے دوسرے حصوں کی حفاظت کیلئے مقرر کر دیا اور بقیہ آدمیوں کو ساتھ لے کر جو بارہ سو کے قریب ل السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۳۳۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۱۱۹ نبیوں کا سردار تھے خندق کی حفاظت کیلئے تشریف لے گئے.غزوہ خندق کے وقت اسلامی لشکر کی اصل تعداد کیا تھی ؟ اس موقع پر مسلمانوں کے لشکر کی تعداد کے بارہ میں مؤرخین میں سخت اختلاف ہے.بعض لوگوں نے اس لشکر کی تعداد تین ہزار لکھی ہے بعض نے بارہ تیرہ سو اور بعض نے سات ہو.یہ اتنا بڑا اختلاف ہے کہ اس کی تاویل بظاہر مشکل معلوم ہوتی ہے اور مؤرخین اسے حل نہیں کر سکے.لیکن میں نے اس کی حقیقت کو پالیا ہے اور وہ یہ کہ تینوں قسم کی روایتیں درست ہیں.یہ بتایا جا چکا ہے کہ جنگ اُحد میں منافقین کے واپس آجانے کے بعد مسلمانوں کا لشکر صرف سات سو افراد پر مشتمل تھا.جنگ احزاب اس کے صرف دو سال کے بعد ہوئی ہے اور اس عرصہ میں کوئی بڑا قبیلہ اسلام لا کر مدینہ میں آکر نہیں بسا.پس سات سو آدمیوں کا یکدم تین ہزار ہو جانا قرین قیاس نہیں.دوسری طرف یہ امر بھی قرین قیاس نہیں کہ اُحد کے دو سال بعد تک باوجود اسلام کی ترقی کے قابل جنگ مسلمان اتنے ہی رہے جتنے اُحد کے وقت تھے.پس ان دونوں تنقیدوں کے بعد وہ روایت ہی درست معلوم ہوتی ہے کہ لڑنے کے قابل مسلمان جنگ احزاب کے وقت کوئی بارہ سو تھے.اب رہا یہ سوال کہ پھر کسی نے تین ہزار اور کسی نے سات سو کیوں لکھا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دو روایتیں الگ الگ حالتوں اور نظریوں کے ماتحت بیان کی گئی ہیں.جنگ احزاب کے تین حصے تھے ایک حصہ اس کا وہ تھا جب ابھی دشمن مدینہ کے سامنے نہ آیا تھا اور خندق کھودی جارہی تھی.اس کام میں کم سے کم مٹی ڈھونے کی خدمت بچے بھی کر سکتے تھے اور بعض عورتیں بھی اس کام میں مدد دے سکتی تھیں.پس جب تک خندق کھودنے کا کام رہا مسلمان لشکر کی تعداد تین ہزار تھی مگر اس میں بچے بھی شامل تھے اور صحابیہ عورتوں کے جوش کو
۱۲۰ نبیوں کا سردار دیکھ کر ہم کہ سکتے ہیں کہ اس تعداد میں کچھ عورتیں بھی شامل ہوں گی جو خندق کھودنے کا کام تو نہیں کرتی ہوں گی مگر اوپر کے کاموں میں حصہ لیتی ہوں گی.یہ میرا خیال ہی نہیں تاریخ سے بھی میرے اس خیال کی تصدیق ہوتی ہے.چنانچہ لکھا ہے جب خندق کھودنے کا وقت آیا سب لڑکے بھی جمع کر لئے گئے اور تمام مرد خواہ بڑے تھے خواہ بچے، خندق کھودنے یا اُس میں مدد دینے کا کام کرتے تھے ، پھر جب دشمن آ گیا اور لڑائی شروع ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن تمام لڑکوں کو جو پندرہ سال سے چھوٹی عمر کے تھے چلے جانے کا حکم دیا اور جو پندرہ سال کے ہو چکے تھے، انہیں اجازت دی کہ خواہ ٹھہر میں خواہ چلے جائیں لے اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ خندق کھود نے کے وقت مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی اور جنگ کے وقت کم ہوگئی کیونکہ نابالغوں کو واپس چلے جانے کا حکم دے دیا گیا تھا.پس جن روایتوں میں تین ہزار کا ذکر آیا ہے وہ خندق کھود نے کے وقت کی تعداد بتاتی ہیں جس میں چھوٹے بچے بھی شامل تھے.اور جیسا کہ میں نے دوسری جنگوں پر قیاس کر کے نتیجہ نکالا ہے کچھ عورتیں بھی تھیں.لیکن بارہ سو کی تعداد اُس وقت کی ہے جب جنگ شروع ہوگئی اور صرف بالغ مردرہ گئے.اب رہا یہ سوال کہ تیسری روایت جو سات سو سپاہی بتاتی ہے کیا وہ بھی درست ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت ابن احق مؤرخ نے بیان کی ہے جو بہت معتبر مؤرخ ہے اور ابن حزم جیسے زبردست عالم نے اس کی بڑے زور سے تصدیق کی ہے.پس اس کے بارہ میں بھی شبہ نہیں کیا جا سکتا.اور اس کی تصدیق اس طرح بھی ہوتی ہے کہ تاریخ کی مزید چھان بین سے معلوم ہوتا ہے کہ جب جنگ کے دوران میں بنوقریظہ کفار کے لشکر سے مل گئے اور اُنہوں نے یہ ارادہ کیا کہ مدینہ پر اچانک حملہ کر دیں اور اُن کی نیتوں کا راز فاش ل السيرة الحلبية جلد ٢ صفحه ۳۳۸ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۱۲۱ نبیوں کا سردار ہو گیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی اس جہت کی حفاظت بھی ضروری سمجھی جس سمت بنو قریظہ تھے اور جو سمت پہلے اس خیال سے بے حفاظت چھوڑ دی گئی تھی کہ بنو قریظہ ہمارے اتحادی ہیں یہ دشمن کو اس طرف سے نہ آنے دیں گے.چنانچہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بنو قریظہ کے غدر کا حال معلوم ہوا تو چونکہ مستورات بنوقریظہ کے اعتبار پر اس علاقہ میں رکھی گئی تھیں جدھر بنو قریظہ کے قلعے تھے اور وہ بغیر حفاظت تھیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اب اُن کی حفاظت ضروری سمجھی اور دوشکر مسلمانوں کے تیار کر کے عورتوں کے ٹھہرنے کے دونوں حصوں پر مقرر فرمائے.مسلمہ ابن اسلم کو دوسوصحابہ دے کر ایک جگہ مقرر کیا اور زید بن حارثہ کو تین سو صحابہ دے کر دوسری جگہ مقرر کیا اور حکم دیا کہ تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد بلند آواز سے تکبیر کہتے رہا کریں تا معلوم ہوتا رہے کہ عورتیں محفوظ ہیں.اس روایت سے ہماری یہ مشکل کہ سات سو سپاہی جنگ خندق میں ابن اسحاق نے کیوں بتائے ہیں حل ہو جاتی ہے.کیونکہ بارہ سو سپاہیوں میں سے جب پانچ سو سپاہی عورتوں کی حفاظت کے لئے بھجوا دیئے گئے تو بارہ سو کالشکر صرف سات سو رہ گیا اور اس طرح جنگ خندق کے سپاہیوں کی تعداد کے متعلق جو شدید اختلاف تاریخوں میں پایا جاتا ہے وہ حل ہو گیا.خلاصہ یہ کہ اس خطر ناک مصیبت کے وقت خندق کی حفاظت کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صرف سات سو آدمی تھا.اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ نے خندق کھو دی تھی لیکن پھر بھی اتنے بڑے لشکر کو خندق کے پار سے روکنا بھی اتنے تھوڑے آدمیوں کے لئے ناممکن تھا.مگر اللہ تعالیٰ کی مدد کے بھروسہ پر یہ قلیل لشکر ایمان اور یقین کے ساتھ خندق کے پیچھے دشمن کے جرارلشکر کا انتظار کرنے لگا اور عورتیں اور بچے دو الگ الگ جگہوں پر اکٹھے کر دیئے گئے.دشمن جب خندق تک پہنچا تو چونکہ یہ عرب کے لئے
۱۲۲ نبیوں کا سردار ایک بالکل نئی بات تھی اور اس قسم کی لڑائی کے لئے وہ تیار نہ تھے انہوں نے خندق کے سامنے اپنے خیمے لگا دیئے اور مدینہ میں داخل ہونے کی تدبیریں سوچنے لگے.بنو قریظہ کی غداری چونکہ مدینہ کا ایک کافی حصہ خندق سے محفوظ تھا اور دوسری طرف کچھ پہاڑی ٹیلے، کچھ پختہ مکانات اور کچھ باغات وغیرہ تھے، اس لئے فوج یکدم حملہ نہیں کر سکتی تھی.پس اُنہوں نے مشورہ کر کے یہ تجویز کی کہ کسی طرح یہود کا تیسرا قبیلہ جو ابھی مدینہ میں باقی تھا اور جس کا نام بنوقریظہ تھا اپنے ساتھ ملالیا جائے اور اس ذریعہ سے مدینہ تک پہنچنے کا راستہ کھولا جائے.چنانچہ مشورہ کے بعد کی ابن اخطب جو جلا وطن کردہ بنونضیر کا سردار تھا اور جس کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے سارا عرب اکٹھا ہوکر مدینہ پر حملہ آور ہوا تھا اُسے کفار کی فوج کے کمانڈر ابوسفیان نے اس بات پر مقرر کیا کہ جس طرح بھی ہو بنوقریظہ کو اپنے ساتھ شامل کرو، چنانچہ حی ابن اخطب یہودیوں کے قلعوں کی طرف گیا اور اُس نے بنو قریظہ کے سرداروں سے ملنا چاہا.پہلے تو انہوں نے ملنے سے انکار کیا لیکن جب اُس نے اُن کو سمجھایا کہ اس وقت سارا عرب مسلمانوں کو تباہ کرنے کے لئے آیا ہے اور یہ بستی سارے عرب کا مقابلہ کسی صورت میں نہیں کر سکتی اس وقت جولشکر مسلمانوں کے مقابل پر کھڑا ہے اُس کو شکر نہیں کہنا چاہئے بلکہ ایک ٹھاٹھیں مارنے والا سمندر کہنا چاہئے تو ان باتوں سے اُس نے بنوقریظہ کو آخر غداری اور معاہدہ شکنی پر آمادہ کر دیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ کفار کا لشکر سامنے کی طرف سے خندق پار ہونے کی کوشش کرے اور جب وہ خندق پار ہونے میں کامیاب ہو جائیں گے تو بنو قریظہ مدینہ کی دوسری طرف سے مدینہ کے اُس حصہ پر حملہ کر دیں گے جہاں عورتیں اور بچے ہیں جو بنو قریظہ پر اعتبار کر کے بغیر حفاظت کے چھوڑ دیئے گئے تھے
۱۲۳ نبیوں کا سردار اور اس طرح مسلمانوں کی مقابلہ کی طاقت بالکل کچلی جائے گی اور ایک ہی دم میں مسلمان مرد، عورتیں اور بچے سب ماردیے جائیں گے.یہ یقینی بات ہے کہ اگر اس تدبیر میں تھوڑی بہت کامیابی بھی کفار کو ہو جاتی تو مسلمانوں کے لئے کوئی جگہ حفاظت کی باقی نہیں رہتی تھی.بنو قریظہ مسلمانوں کے حلیف تھے اور اگر وہ کھلی جنگ میں شامل نہ بھی ہوتے تب بھی مسلمان یہ امید کرتے تھے کہ اُن کی طرف سے ہو کر مدینہ پر کوئی حملہ نہیں کر سکے گا.اسی وجہ سے اُن کی طرف کا حصہ بالکل غیر محفوظ چھوڑ دیا گیا تھا.بنو قریظہ اور کفار نے بھی اس صورت حالات کا جائزہ لیتے ہوئے یہ فیصلہ کر دیا تھا کہ جب بنو قریظہ کفار کے ساتھ مل گئے تو وہ کھلے بندوں کفار کی مدد نہ کریں تا ایسا نہ ہو کہ مسلمان مدینہ کی اُس طرف کی حفاظت کا بھی کوئی سامان کر لیں جو بنو قویظہ کے علاقہ کے ساتھ ملتی تھی.یہ تدبیر نہایت ہی خطرناک تھی.مسلمانوں کو غافل رکھتے ہوئے کسی ایسے وقت میں بنوقریظہ کا دشمن کے ساتھ جاملنا جبکہ اسلامی فوج پر کفار کی فوج کا زبردست دھاوا ہورہا ہو مدینہ کی اس طرف کی حفاظت کو جس طرف بنوقریظہ کے قلعے واقعہ تھے بالکل ناممکن بنادیتا تھا.دوطرف سے مسلمانوں پر حملہ کر سکنے کا امکان پیدا ہو جانے کے بعد مکہ کے لشکر نے خندق پر حملہ شروع کیا.پہلے چند دن تو اُن کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ وہ خندق سے کس طرح گزریں، لیکن دو چار دن کے بعد اُنہوں نے یہ تدبیر نکالی کہ تیرانداز اونچی جگہوں پر کھڑے ہو کر اُن مسلمان دستوں پر تیر اندازی شروع کر دیتے تھے جو خندق کی حفاظت کے لئے خندق کے ساتھ ساتھ تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر بٹھائے گئے تھے.جب تیروں کی بوچھاڑ کی وجہ سے مسلمان پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو جاتے تو اعلیٰ درجہ کے گھوڑ سوار خندق کو پھاند نے کی کوشش کرتے.خیال کیا گیا تھا کہ اس قسم کے متواتر حملوں کے نتیجہ میں کوئی نہ کوئی جگہ ایسی نکل آئے گی کہ جہاں سے پیدل فوج زیادہ تعداد میں خندق پار ہو سکے گی.یہ حملے اتنی کثرت کے ساتھ کئے جاتے
۱۲۴ نبیوں کا سردار تھے اور اس طرح متواتر کئے جاتے تھے کہ بعض دفعہ مسلمانوں کو سانس لینے کا بھی موقع نہیں ملتا تھا.چنانچہ ایک دن حملہ اتنا شدید ہو گیا کہ مسلمانوں کی بعض نمازیں وقت پر ادانہ ہوسکیں جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا صدمہ ہوا کہ آپ نے فرما یا خدا کفار کوسزا دے اُنہوں نے ہماری نمازیں ضائع کیں لیے گو میں نے یہ واقعہ دشمنوں کے حملوں کی شدت ظاہر کرنے کیلئے بیان کیا ہے لیکن اس سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق پر ایک بہت بڑی روشنی پڑتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ عزیز ترین چیز آپ کے لئے خدا تعالیٰ کی عبادت تھی جبکہ دشمن چاروں طرف سے مدینہ کو گھیرے ہوئے تھا.جبکہ مدینہ کے مرد تو الگ رہے اُن عورتوں اور بچوں کی جانیں بھی خطرہ میں تھیں.جب ہر وقت مدینہ کے لوگوں کا دل دھڑک رہا تھا کہ دشمن کسی طرف سے مدینہ کے اندر داخل نہ ہو جائے اُس وقت بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش یہی تھی کہ خدا تعالیٰ کی عبادت اپنے وقت پر عمدگی کے ساتھ ادا ہو جائے.مسلمانوں کی عبادت یہودیوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں کی طرح ہفتہ میں کسی ایک دن نہیں ہوا کرتی بلکہ مسلمانوں کی عبادت دن رات میں پانچ دفعہ ہوتی ہے.ایسے خطر ناک وقت میں تو دن میں ایک دفعہ بھی نماز ادا کرنا انسان کے لئے مشکل ہے چہ جائیکہ پانچ وقت اور پھر عمدگی کے ساتھ باجماعت نماز ادا کی جائے.مگر ان خطرناک ایام میں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ پانچوں نمازیں اپنے وقت پر ادا کرتے تھے اور اگر ایک دن دشمن کے شدید حملہ کی وجہ سے آپ اپنے رب کا نام اطمینان اور آرام سے اپنے وقت پر نہ لے سکے تو آپ کو شدید تکلیف پہنچی.اُس وقت سامنے سے دشمن حملہ کر رہا تھا اور پیچھے سے بنوقریظہ اس بات کی تاک ل السيرة الحلبية جلد ٢ صفحه ۳۴۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۱۲۵ نبیوں کا سردار میں تھے کہ کوئی موقع مل جائے تو بغیر مسلمانوں کے شبہات کو اُبھارنے کے وہ مدینہ کے اندر گھس کر عورتوں اور بچوں کو قتل کر دیں.چنانچہ ایک دن بنوقریظہ نے ایک جاسوس بھیجا تا کہ وہ معلوم کرے کہ عورتیں اور بچے اکیلے ہی ہیں یا کافی تعداد سپاہیوں کی اُن کی حفاظت کے لئے مقرر ہے.جس خاص احاطہ میں وہ خاص خاص خاندان جن کو دشمن سے زیادہ خطرہ تھا جمع کر دیئے گئے تھے اُس کے پاس اُس جاسوس نے آکر منڈلانہ اور چاروں طرف دیکھنا شروع کیا کہ مسلمان سپاہی کہیں اردگرد میں پوشیدہ تو نہیں ہیں.وہ ابھی اسی ٹوہ میں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہ نے اُسے دیکھ لیا.اتفاقاً اُس وقت صرف ایک ہی مسلمان مرد وہاں موجود تھا اور وہ بھی بیمار تھا.حضرت صفیہ نے اُسے کہا کہ یہ آدمی دیر سے عورتوں کے علاقہ میں پھر رہا ہے اور جانے کا نام نہیں لیتا اور چاورں طرف دیکھتا پھرتا ہے پس یہ یقینا جاسوس ہے تم اس کا مقابلہ کر وایسا نہ ہو کہ دشمن پورے حالات معلوم کر کے ادھر حملہ کر دے.اُس بیمار صحابی نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا.تب حضرت صفیہ نے خود ایک بڑا بانس لے کر اُس شخص کا مقابلہ کیا اور دوسری عورتوں کی مدد سے اُس کو مارنے میں کامیاب ہو گئیں.آخر تحقیقات سے معلوم ہوا کہ وہ یہودی تھا اور بنوقریظہ کا جاسوس تھا.تب تو مسلمان اور بھی زیادہ گھبرا گئے اور سمجھے کہ اب مدینہ کی یہ طرف بھی محفوظ نہیں.مگر سامنے کی طرف سے دشمن کا اتنا زور تھا کہ اب وہ اس طرف کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں کر سکتے تھے لیکن باوجود اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی حفاظت کو مقدم سمجھا اور جیسا کہ اوپر لکھا جا چکا ہے بارہ سوسپاہیوں میں سے پانچ سو کو عورتوں کی حفاظت کے لئے شہر میں مقرر کر دیا اور خندق کی حفاظت اور اٹھارہ بیس ہزار لشکر کے مقابلہ کے لئے صرف سات سو سپاہی رہ گئے.اس حالت میں بعض مسلمان گھبرا کر رسول ل السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۳۴۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
نبیوں کا سردار اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا یا رسُول اللہ! حالات نہایت خطرناک ہو گئے ہیں.اب بظاہر مدینہ کے بچنے کی کوئی امید نظر نہیں آتی ، آپ اس وقت خدا تعالیٰ سے خاص طور پر دعا کریں اور ہمیں بھی کوئی دعا سکھلائیں جس کے پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کا فضل ہم پر نازل ہو.آپ نے فرمایا تم لوگ گھبراؤ نہیں تم اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرو کہ تمہاری کمزوریوں پر وہ پردہ ڈالے اور تمہارے دلوں کو مضبوط کرے اور گھبراہٹ کو دور فرمائے.اور پھر آپ نے خود بھی اس طرح دعا فرمائی.اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَبِ سَرِيعَ الْحِسَابِ اهْزِمِ الْأَحْزَابَ اللَّهُمَّ اهْزِمُهُمْ وَزَلْزِلْهُمْ اور اسی طرح یہ دعا فرمائی.يَا صَرِيخَ الْمَكْرُ وبِيْنَ يَأْمُجِيبَ الْمُضْطَرِيْنَ اكْشِفُ هَيْيَ وَغَمَّى وَكَرْبِي فَإِنَّكَ تَرَى مَانَزَلَ بِي وَ بِأَصْحَابِ اے اللہ ! جس نے قرآن کریم مجھ پر نازل کیا ہے جو بہت جلدی اپنے بندوں سے حساب لے سکتا ہے یہ گروہ جو جمع ہو کر آئے ہیں ان کو شکست دے.اے اللہ ! میں پھر عرض کرتا ہوں کہ تو انہیں شکست دے اور ہمیں ان پر غلبہ دے اور اُن کے ارادوں کو متزلزل کر دے.اے دردمندوں کی دعا سننے والے! اے گھبراہٹ میں مبتلا لوگوں کی پکار کا جواب دینے والے! میرے غم اور میری فکر اور میری گھبراہٹ کو دُور کر کیونکہ تو ان مصائب کو جانتا ہے جو مجھے اور میرے ساتھیوں کو در پیش ہیں.منافقوں اور مؤمنوں کی حالت کا بیان اس موقع پر منافق تو اتنے گھبرا گئے کہ قومی حمیت اور اپنے شہر اور اپنی عورتوں اور بچوں کی حفاظت کا خیال بھی اُن کے دلوں سے نکل گیا.مگر چونکہ اپنی قوم کے سامنے وہ ل کے بخاری کتاب المغازی باب غزوہ خندق
۱۲۷ نبیوں کا سردار ذلیل بھی نہیں ہونا چاہتے تھے اس لئے اُنہوں نے بہانے بہانے سے لشکر سے فرار کی صورت سوچی.چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے.وَيَسْتَأْذِنُ فَرِيقٌ مِنْهُمُ النَّبِيِّ يَقُولُونَ إِنَّ بُيُوتَنَا عَوْرَةٌ وَمَا هِيَ بِعَوْرَةٍ إِن يُرِيدُونَ إِلَّا فِرَارًا لے یعنی ایک گروہ اُن میں سے رسول کریم ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے اجازت طلب کی کہ انہیں محاذ جنگ سے پیچھے لوٹ آنے کی اجازت دی جائے.کیونکہ اُنہوں نے کہا (اب یہودی بھی مخالف ہو گئے ہیں اور اُس طرف سے مدینہ کے بچاؤ کا کوئی ذریعہ نہیں ) اور ہمارے گھر اُس علاقہ کی طرف سے بے حفاظت کھڑے ہیں ( پس ہمیں اجازت دیجئے کہ جا کر اپنے گھروں کی حفاظت کریں) لیکن اُن کا یہ کہنا کہ اُن کے گھر بے حفاظت کھڑے ہیں بالکل غلط ہے.وہ بے حفاظت نہیں ہیں ( کیونکہ خدا تعالیٰ مدینہ کی حفاظت کیلئے کھڑا ہے ) وہ تو صرف ڈر کے مارے میدانِ جنگ سے بھاگنا چاہتے ہیں.اُس وقت مسلمانوں کی جو حالت تھی اُس کا نقشہ قرآن کریم نے یوں کھینچا ہے.إِذْ جَاءُوكُم مِّن فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا وَإِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا وَإِذْ قَالَتْ طَائِفَةٌ مِّنْهُمْ يَا أَهْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوا.یعنی یاد تو کر وجب تم پر لشکر چڑھ کے آ گیا تمہارے اوپر کی طرف سے بھی اور نیچے کی طرف سے بھی.یعنی نیچے کی طرف سے کفار اور اوپر کی طرف سے یہود.جب کہ نظریں سج ہونے لگ گئیں اور دل اُچھل اچھل کر گلے تک آنے لگے اور تم میں سے کئی خدا کی نسبت بدظنیاں کرنے لگ گئے.اُس وقت مؤمنوں کے ایمان کا امتحان لیا گیا اور مؤمنوں کو سر سے پیر تک ہلا دیا گیا الاحزاب: ۱۴ الاحزاب: ۱۱ تا ۱۴
۱۲۸ نبیوں کا سردار اور یاد کرو جبکہ منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض تھا اُنہوں نے کہنا شروع کیا اللہ اور اُس کے رسول نے ہم سے جھوٹے وعدے کئے تھے اور یاد کرو جب اُن میں سے ایک گروہ اس حد تک پہنچ گیا کہ اُنہوں نے مؤمنوں سے بھی جا جا کر کہنا شروع کر دیا کہ اب کوئی چوکی یا قلعہ تمہیں بچا نہیں سکتا پس یہاں سے بھاگ جاؤ.اور مؤمنوں کی نسبت فرماتا ہے.وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ ۚ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيبًا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُم مَّن قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُم مِّن يَنتَظِرُ ۖ وَمَا ے بَدَّلُوا تَبْدِيلًا لا یعنی منافقوں اور کمزور ایمان والوں کے مقابلہ میں مؤمنوں کا یہ حال تھا کہ جب اُنہوں نے دشمن کا یہ لشکر جرار دیکھا تو اُنہوں نے کہا کہ اس لشکر کے متعلق تو اللہ اور اس کے رسول نے پہلے سے ہی ہم کو خبر دے چھوڑی تھی.اس لشکر کا حملہ تو اللہ اور اس کے رسول کی صداقت کا ثبوت ہے اور یہ لشکر جرار اُن کے ایمان کو ہلا نہ سکا.بلکہ ایمان اور طاقت میں مسلمان اور بھی زیادہ ہو گئے.مؤمنوں کا تو یہ حال ہے کہ اُنہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اُس کو وہ پورے طور پر نبھا رہے ہیں چنانچہ کچھ تو ایسے ہیں جنہوں نے اپنی جانیں دے کر اپنے مقصد کو حاصل کر لیا اور بعض ایسے ہیں کہ گو اُن کو جانیں دینے کا موقع تو نہیں ملا مگر وہ ہر وقت اس بات کی انتظار میں رہتے ہیں کہ اُن کو خدا کے رستہ میں جان دینے کا موقع ملے تو وہ جان دے دیں اور شروع دن سے انہوں نے خدا تعالیٰ سے جو عہد باندھا تھا اُس کو نبھارہے ہیں.الاحزاب: ۲۳، ۲۴
۱۲۹ نبیوں کا سردار اسلام میں مردہ لاش کا احترام دشمن جو خندق پر حملہ کر رہا تھا بعض وقت وہ اُس کے پھاند نے میں کامیاب بھی ہو جاتا تھا، چنانچہ ایک دن کفار کے بعض بڑے بڑے جرنیل خندق پھاند کر دوسری طرف آنے میں کامیاب ہو گئے.لیکن مسلمانوں نے ایسا جان تو حملہ کیا کہ سوائے واپس جانے کے اُن کے لئے کوئی چارہ نہ رہا.چنانچہ اس وقت خندق پھاندتے ہوئے کفار کا ایک بہت بڑا رئیس نوفل نامی مارا گیا.یہ اتنا بڑا رئیس تھا کہ کفار نے یہ خیال کیا کہ اگر اس کی لاش کی ہتک ہوئی تو عرب میں ہمارے لئے منہ دکھانے کی کوئی جگہ نہیں رہے گی.چنانچہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیغام بھیجا کہ اگر آپ اس کی لاش واپس کر دیں تو وہ دس ہزار درہم آپ کو دینے کے لئے تیار ہیں.اُن لوگوں کا تو خیال یہ تھا کہ شاید جس طرح ہم نے مسلمان رؤساء بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے ناک اور کان اُحد کی جنگ میں کاٹ دیئے تھے اسی طرح شاید آج مسلمان ہمارے اس رئیس کے ناک، کان کاٹ کر ہماری قوم کی بے عزتی کریں گے.مگر اسلام کے احکام تو بالکل اور قسم کے ہیں.اسلام لاشوں کی بے حرمتی کی اجازت نہیں دیتا.چنانچہ کفار کا پیغام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا.اس لاش کو ہم نے کیا کرنا ہے یہ لاش ہمارے کس کام کی ہے کہ اس کے بدلہ ہم تم سے کوئی قیمت لیں.اپنی لاش بڑے شوق سے اُٹھا کر لے جاؤ.ہمیں اس سے کوئی واسطہ نہیں لے اتحادی فوجوں کے مسلمانوں پر حملے اُن دنوں جس جوش کے ساتھ کفار حملہ کرتے تھے میور اُس کا اِن الفاظ میں ذکر السيرة الحلبية جلد ٢ صفحه ۳۳۶.مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
نبیوں کا سردار کرتا ہے.وو دوسرے دن محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے دیکھا کہ اتحادی فوجیں متفقہ طور پر اُن پر حملے کرنے کے لئے تیار کھڑی ہیں، اُن کے حملوں کو روکنے کے لئے بہت زیادہ ہوشیار اور ہر وقت چوکس رہنا ضروری تھا.کبھی وہ متفقہ حملہ کرتے، کبھی دستوں میں تقسیم ہو کر مختلف چوکیوں پر حملہ کرتے اور جب کسی چوکی کو کمزور پاتے تو اپنی ساری فوج اُس جگہ پر جمع کر لیتے اور بے پناہ تیرا اندازی کے پردہ میں وہ خندق پار کرنے کی کوشش کرتے تھے.یکے بعد دیگرے خالد اور عمرو جیسے مشہور لیڈروں کی ماتحتی میں فوج بہادرانہ حملہ شہر میں داخل ہونے کے لئے کرتی.ایک دفعہ تو خود محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا خیمہ دشمن کی زد میں آ گیا لیکن مسلمانوں کے فدائیانہ مقابلہ اور تیروں کی بوچھاڑ نے حملہ آوروں کو پیچھے دھکیل دیا.یہ حملہ سارا دن جاری رہا اور چونکہ مسلمانوں کی فوج ساری مل کر بمشکل خندق کی حفاظت کر سکتی تھی کوئی آرام کا وقفہ مسلمانوں کو نہ ملا.رات پڑ گئی مگر رات کو بھی خالد کے ماتحت دستوں نے لڑائی کو جاری رکھا اور مسلمانوں کو مجبور کر دیا کہ وہ رات کو بھی اپنی چوکیوں کی حفاظت پورے طور پر کریں.لیکن دشمن کی یہ تمام کوششیں بیکار گئیں.خندق کو کبھی بھی دشمن کے کافی سپاہی پار نہ کر سکے اے لیکن باوجود اس کے کہ جنگ دو روز سے ہورہی تھی سپاہی ایک دوسرے کے ساتھ گتھ جانے کا موقع نہیں پاتے تھے اس لئے چوبیس گھنٹہ کی جنگ میں اتحادیوں کے صرف The Life of Mohammad by Willum Muir P.311
۱۳۱ نبیوں کا سردار تین آدمی مارے گئے اور مسلمانوں کے پانچ.اس حملہ میں سعد بن معاذ اوس قبیلہ کے رئیس اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائی صحابی مُہلک طور پر زخمی ہوئے.ان حملوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک جگہ خندق کے کنارے ٹوٹ گئے اور اُس طرف سے حملہ کرنا بہت ممکن ہو گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جرات اور مسلمانوں کی خیر خواہی کا یہ حال تھا کہ آپ سردی میں رات کو اُٹھ اُٹھ کر اُس جگہ جاتے اور اُس کا پہرہ دیتے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ پہرہ دیتے ہوئے تھک جاتے اور سردی سے نڈھال ہو جاتے تو واپس آ کر تھوڑی دیر میرے ساتھ لحاف میں لیٹ جاتے ، مگر جسم کے گرم ہوتے ہی پھر اُس شگاف کی حفاظت کے لئے چلے جاتے.اس طرح متواتر جاگنے سے آپ ایک دن بالکل نڈھال ہو گئے اور رات کے وقت فرمایا کاش! اِس وقت کوئی مخلص مسلمان ہوتا تو میں آرام سے سو جاتا.اتنے میں باہر سے سعد بن وقاص کی آواز آئی.آپ نے پوچھا کہ کیوں آئے ہو؟ اُنہوں نے کہا آپ کا پہرہ دینے کو.آپ نے فرمایا مجھے پہرہ کی ضرورت نہیں تم فلاں جگہ جہاں خندق کا کنارہ ٹوٹ گیا ہے جاؤ اور اُس کا پہرہ دو تا مسلمان محفوظ رہیں.چنانچہ سعد اُس جگہ کا پہرہ دینے چلے گئے اور آپ سو گئے لے رض عجیب بات ہے کہ جب آپ شروع شروع میں مدینہ تشریف لائے تھے اور خطرہ بہت بڑھا ہوا تھا تب بھی سعدہ پہرہ دینے کے لئے تشریف لائے تھے ) انہی ایام میں آپ نے ایک دن کچھ لوگوں کے اسلحہ کی آواز سنی اور پوچھا کون ہے؟ تو عباد بن بشیر نے کہا میں ہوں.آپ نے فرمایا تمہارے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟ انہوں نے کہا ایک جماعت صحابہ کی ہے جو آپ کے خیمہ کا پہرہ دینے کے لئے آئے ہیں.آپ نے فرمایا اس وقت مشرکین خندق پھاندنے کی کوشش کر رہے ہیں وہاں جاؤ اور اُن کا مقابلہ کرو ل السيرة الحلبية جلد ٢ صفحه ۳۴۶ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
میرے خیمہ کو رہنے دویل نبیوں کا سردار بنو قریظہ کی مشرکوں سے مل کر حملہ کے لئے تیاری اور اُس میں ناکامی جیسا کہ او پر لکھا جا چکا ہے یہود نے مدینہ میں چوری چھپے داخل ہونے کی کوشش کی اور اس میں اُن کا جاسوس مارا گیا.جب یہود کو یہ معلوم ہوا کہ اُن کی سازش ظاہر ہوگئی ہے تو اُنہوں نے زیادہ دلیری سے عربوں کی مدد شروع کر دی.گو اجتماعی حملہ مدینہ کے پچھواڑے کی طرف سے نہیں کیا کیونکہ اُدھر میدان چھوٹا تھا اور مسلمانوں کی فوجوں کی موجودگی میں بڑا حملہ اُس طرف سے نہیں ہو سکتا تھا لیکن کچھ دن بعد دونوں فریق نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک وقت مقررہ پر یہودیوں اور مشرکوں کے لشکر یکدم مسلمانوں پر حملہ کر دیں.مگر اُس وقت اللہ تعالیٰ کی تائید ایک عجیب طرح ظاہر ہوئی جس کی تفصیل یہ ہے.نعیم نامی ایک شخص غطفان کے قبیلہ کا دل میں مسلمان تھا.یہ شخص بھی کفار کے ساتھ آیا ہوا تھا لیکن اس بات کی انتظار میں تھا کہ اگر مجھے کوئی موقع ملے تو میں مسلمانوں کی مددکروں.اکیلا انسان کر ہی کیا سکتا ہے.مگر جب اُس نے دیکھا کہ یہود بھی کفار سے مل گئے ہیں اور اب بظاہر مسلمانوں کی حفاظت کا کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا تو ان حالات سے اتنا متاثر ہوا کہ اُس نے فیصلہ کر لیا کہ بہر حال مجھے اس فتنہ کے دور کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا چاہئے.چنانچہ جب یہ فیصلہ ہوا کہ دونوں فریق مل کر ایک دن حملہ کریں تو وہ بنو قریظہ کے پاس گیا اور اُن کے رؤساء سے کہا کہ اگر عربوں کا لشکر بھاگ جائے تو بتاؤ مسلمان ل السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۳۴۶ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۱۳۳ نبیوں کا سردار تمہارے ساتھ کیا کریں گے؟ تم مسلمانوں کے معاہد ہو اور معاہدہ کر کے اس کے توڑنے کے نتیجہ میں جو سزا تم کو ملے گی اُس کا قیاس کر لو.اُن کے دل کچھ ڈرے اور اُنہوں نے پوچھا پھر ہم کیا کریں؟ نعیم نے کہا جب عرب مشتر کہ حملہ کے لئے تم سے خواہش کریں تو تم مشرکین سے مطالبہ کرو کہ اپنے ۷۰ آدمی ہمارے پاس یرغمال کے طور پر بھیج دووہ ہمارے قلعوں کی حفاظت کریں گے اور ہم مدینہ کے پچھواڑے سے اُس پر حملہ کر دیں گے.پھر وہ وہاں سے ہٹ کر مشرکین کے سرداروں کے پاس گیا اور اُن سے کہا کہ یہ یہود تو مدینہ کے رہنے والے ہیں اگر عین موقع پر یہ تم سے غداری کریں تو پھر کیا کرو گے؟ اگر یہ مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے اور اپنے جرم کو معاف کروانے کے لئے تم سے تمہارے آدمی بطور یر غمال مانگیں اور اُن کو مسلمانوں کے حوالے کر دیں تو پھر تم کیا کرو گے؟ تمہیں چاہئے کہ اُن کا امتحان لے لو کہ آیا وہ پکے رہتے ہیں یا نہیں اور جلد ہی اُن کو اپنے ساتھ با قاعدہ حملہ کرنے کی دعوت دو.کفار کے سرداروں نے اس مشورہ کو صحیح سمجھتے ہوئے دوسرے دن یہود کو پیغام بھیجا کہ ہم ایک اجتماعی حملہ کرنا چاہتے ہیں تم بھی اپنی فوجوں سمیت کل حملہ کر دو.بنوقریظہ نے کہا کہ اول تو کل ہمارا سبت کا دن ہے اس لئے ہم اس دن لڑائی نہیں کر سکتے.دوسرے ہم مدینہ کے رہنے والے ہیں اور تم باہر کے.اگر تم لوگ لڑائی چھوڑ کر چلے جاؤ تو ہمارا کیا بنے گا.اس لئے آپ لوگ ہمیں ۷۰ آدمی یر غمال کے طور پر دیں گے تب ہم لڑائی میں شامل ہوں گے.کفار کے دل میں چونکہ پہلے سے شبہ پیدا ہو چکا تھا اُنہوں نے اُن کے اِس مطالبہ کو پورا کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر تمہارا ہمارے ساتھ اتحاد سچا تھا تو اس قسم کے مطالبہ کے کوئی معنی نہیں.اس واقعہ سے اُدھر یہود کے دلوں میں شبہات پیدا ہونے لگے ادھر کفار کے دلوں میں شبہات پیدا ہونے لگے اور جیسا کہ قاعدہ ہے جب شبہات دل میں پیدا ہو جاتے ہیں تو بہادری کی روح بھی ختم ہو جاتی ہے.انہی شکوک وشبہات کو ساتھ
۱۳۴ نبیوں کا سردار لئے ہوئے کفار کا لشکر رات کو آرام کرنے کے لئے اپنے خیموں میں گیا، تو خدا تعالیٰ نے آسمانی نصرت کا ایک اور راستہ کھول دیا.رات کو ایک سخت آندھی چلی جس نے قناتوں کے پر دے تو ڑ دیئے.چولہوں پر سے ہنڈیاں گرادیں اور بعض قبائل کی آگیں بجھ گئیں.مشرکین عرب میں ایک رواج تھا کہ وہ ساری رات آگ جلائے رکھتے تھے اور اس کو وہ نیک شگون سمجھتے تھے.جس کی آگ بجھ جاتی تھی وہ خیال کرتا تھا کہ آج کا دن میرے لئے منحوس ہے اور وہ اپنے خیمے اُٹھا کر لڑائی کے میدان سے پیچھے ہٹ جاتا تھا.جن قبائل کی آگ بجھی اُنہوں نے اس رواج کے مطابق اپنے خیمے اُٹھائے اور پیچھے کو چل پڑے تا کہ ایک دن پیچھے انتظار کر کے پھر لشکر میں آشامل ہوں.لیکن چونکہ دن کے جھگڑوں کی وجہ سے سرداران لشکر کے دل میں شبہات پیدا ہو رہے تھے، جو قبائل پیچھے ہٹے اُن کے اردگرد کے قبائل نے سمجھا کہ شاید یہود نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر شبخون مار دیا ہے اور ہمارے آس پاس کے قبائل بھاگے جا رہے ہیں.چنانچہ انہوں نے بھی جلدی جلدی اپنے ڈیرے سمیٹنے شروع کر دیئے اور میدان سے بھاگنا شروع کیا.ابوسفیان اپنے خیمہ میں آرام سے لیٹا تھا کہ اس واقعہ کی خبر اُسے بھی پہنچی.وہ گھبرا کے اپنے بندھے ہوئے اُونٹ پر جا چڑھا اور اُس کو ایڑیاں مارنی شروع کر دی.آخر اس کے دوستوں نے اس کو تو جہ دلائی کہ وہ یہ کیا حماقت کر رہا ہے.اس پر اُس کے اُونٹ کی رسیاں کھولی گئیں اور وہ بھی اپنے ساتھیوں سمیت میدان سے بھاگ گیا ہے رات کے آخری ثلث میں وہ میدان جس میں پچیس ہزار کے قریب کفار کے سپاہی خیمہ زن تھے وہ ایک جنگل کی طرح ویران ہو گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اُس وقت اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ بتایا کہ تمہارے دشمن کو ہم نے بھگا دیا ہے.آپ نے ل السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۳۵۰،۳۴۹ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۱۳۵ نبیوں کا سردار رض حقیقت حال معلوم کرنے کے لئے کسی شخص کو بھیجنا چاہا اور اپنے اردگرد بیٹھے ہوئے صحابہ " کو آواز دی.وہ سردی کے ایام تھے اور مسلمانوں کے پاس کپڑے بھی کافی نہ ہوتے تھے.سردی کے مارے زبانیں تک جمی جارہی تھیں.بعض صحابہؓ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی اور ہم جواب بھی دینا چاہتے تھے مگر ہم سے بولا نہیں گیا.صرف ایک حذیفہ تھے جنہوں نے کہا يَا رَسُولَ الله ! کیا کام ہے؟ آپ نے فرمایا تم نہیں مجھے کوئی اور آدمی چاہئے.پھر آپ نے فرما یا کوئی ہے؟ مگر پھر سردی کی شدت کی وجہ سے جو جاگ بھی رہے تھے وہ جواب نہ دے سکے.حذیفہ نے پھر کہا میں يَارَسُوْلَ اللہ ! موجود ہوں.آخر آپ نے حذیفہ کو یہ کہتے ہوئے بجھوایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ تمہارے دشمن کو ہم نے بھگا دیا ہے، جاؤ اور دیکھو کہ دشمن کا کیا حال ہے حذیفہ خندق کے پاس گئے اور دیکھا کہ میدان گلی طور پر دشمن کے سپاہیوں سے خالی تھا.واپس آئے اور کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کی اور بتایا کہ دشمن میدان چھوڑ کر بھاگ گیا ہے.صبح مسلمان اپنے خیمے اکھیڑ کر اپنے اپنے گھروں کی طرف آنے شروع ہوئے لے بنو قریظہ کو اُن کی غداری کی سزا ہیں دنوں کے بعد مسلمانوں نے اطمینان کا سانس لیا.مگر اب بنوقریظہ کا معاملہ طے ہونے والا تھا.اُن کی غداری ایسی نہیں تھی کہ نظر انداز کی جاتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس آتے ہی اپنے صحابہ سے فرما یا گھروں میں آرام نہ کرو بلکہ شام سے پہلے پہلے بنوقریظہ کے قلعوں تک پہنچ جاؤ اور پھر آپ نے حضرت علی کو بنوقریظہ کے پاس بجھوایا ل السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۳۵۴ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۱۳۶ نبیوں کا سردار کہ وہ اُن سے پوچھیں کہ اُنہوں نے معاہدہ کے خلاف یہ غداری کیوں کی؟ بجائے اس کے کہ بنو قریظہ شرمندہ ہوتے یا معافی مانگتے یا کوئی معذرت کرتے انہوں نے حضرت علی اور اُن کے ساتھیوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان کی مستورات کو گالیاں دینے لگے اور کہا ہم نہیں جانتے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کیا چیز ہیں ہمارا اُن کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں.حضرت علی اُن کا یہ جواب لے کر واپس لوٹے تو اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ یہود کے قلعوں کی طرف جار ہے تھے چونکہ یہود گندی گالیاں دے رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں اور بیٹیوں کے متعلق بھی ناپاک کلمات بول رہے تھے حضرت علی نے اس خیال سے کہ آپ کو اُن کلمات کے سننے سے تکلیف ہوگی ، عرض کیا یا رسُول اللہ ! آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں ہم لوگ اس لڑائی کے لئے کافی ہیں، آپ واپس تشریف لے جائیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں سمجھتا ہوں کہ وہ گالیاں دے رہے ہیں اور تم یہ نہیں چاہتے کہ میرے کان میں وہ گالیاں پڑیں.حضرت علی نے عرض کیا ہاں یا رَسُول اللہ ! بات تو یہی ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا پھر کیا ہوا اگر وہ گالیاں دیتے ہیں ، موسیٰ نبی تو ان کا اپنا تھا اُس کو اس سے بھی زیادہ انہوں نے تکلیفیں پہنچائی تھیں.یہ کہتے ہوئے آپ یہود کے قلعوں کی طرف چلے گئے.مگر یہود دروازے بند کر کے قلعہ بند ہو گئے اور مسلمانوں کے ساتھ لڑائی شروع کر دی.حتی کہ اُن کی عورتیں بھی لڑائی میں شریک ہوئیں.چانچہ قلعہ کی دیوار کے نیچے کچھ مسلمان بیٹھے تھے کہ ایک یہودی عورت نے اوپر سے پتھر پھینک کر ایک مسلمان کو مار دیا لیکن کچھ دن کے محاصرہ کے بعد یہود نے یہ محسوس کر لیا کہ وہ لمبا مقابلہ نہیں کر سکتے.تب اُن کے سرداروں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خواہش کی کہ وہ ابولبابہ انصاری کو جو اُن کے دوست اور اوس قبیلہ کے سردار تھے اُن کے پاس بھجوائیں تا کہ وہ اُن
۱۳۷ نبیوں کا سردار سے مشورہ کر سکیں.آپ نے ابولبابہ کو بجھوادیا.ان سے یہود نے یہ مشورہ پوچھا کہ کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مطالبہ کو کہ فیصلہ میرے سپرد کرتے ہوئے تم ہتھیار سپھینک دو، ہم یہ مان لیں ؟ ابولبابہ نے منہ سے تو کہاہاں !لیکن اپنے گلے پر اس طرح ہاتھ پھیرا جس طرح قتل کی علامت ہوتی ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت تک اپنا کوئی فیصلہ ظاہر نہیں کیا تھا مگر ابولبابہ نے اپنے دل میں یہ سمجھتے ہوئے کہ اُن کے اس جرم کی سزا سوائے قتل کے اور کیا ہوگی بغیر سوچے سمجھے اشارہ کے ساتھ اُن سے ایک بات کہہ دی جو آخر ان کی تباہی کا موجب ہوئی.چنانچہ یہود نے کہ دیا کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ مان لیتے تو دوسرے یہودی قبائل کی طرح اُن کو زیادہ سے زیادہ یہی سزا دی جاتی کہ اُن کو مدینہ سے جلا وطن کر دیا جاتا، مگر اُن کی بدقسمتی تھی انہوں نے کہا ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ماننے کے لئے تیار نہیں، بلکہ ہم اپنے حلیف قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ کا فیصلہ مانیں گے.جو فیصلہ وہ کریں گے ہمیں منظور ہو گا.لیکن اُس وقت یہود میں اختلاف ہو گیا.یہود میں سے بعض نے کہا کہ ہماری قوم نے غداری کی ہے اور مسلمانوں کے رویہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اُن کا مذہب سچا ہے وہ لوگ اپنا مذہب ترک کر کے اسلام میں داخل ہو گئے.ایک شخص عمرو بن سعدی نے جو اس قوم کے سرداروں میں سے تھا اپنی قوم کو ملامت کی اور کہا کہ تم نے غداری کی ہے کہ معاہدہ توڑا ہے.اب یا مسلمان ہو جاؤ یا جزیہ پر راضی ہو جاؤ.یہود نے کہا نہ مسلمان ہوں گے نہ جزیہ دیں گے کہ اس سے قتل ہونا اچھا ہے.پھر اُن سے اُس نے کہا میں تم سے بری ہوں.اور یہ کہہ کر قلعہ سے نکل کر باہر چل دیا.جب وہ قلعہ سے باہر نکل رہا تھا تو مسلمانوں کے ایک دستہ نے جس کے سردار محمد بن مسلمہ تھے اُسے دیکھ لیا اور اُس سے پوچھا کہ وہ کون ہے؟ اُس نے بتایا کہ میں فلاں ہوں.اس پر محمد بن مسلمہؓ نے فرمایا اللهُمَّ لَا تَحْرِمنی
۱۳۸ نبیوں کا سردار إقَالَةَ عَتَرَاتِ الكرام لے یعنی آپ سلامتی سے چلے جائیے اور پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ الہی! مجھے شریفوں کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے نیک عمل سے کبھی محروم نہ کیجیو.یعنی یہ شخص چونکہ اپنے فعل پر اور اپنی قوم کے فعل پر پچھتاتا ہے تو ہمارا بھی اخلاقی فرض ہے کہ اُسے معاف کر دیں اس لئے میں نے اسے گرفتار نہیں کیا اور جانے دیا ہے.خدا تعالیٰ مجھے ہمیشہ ایسے ہی نیک کاموں کی توفیق بخشا ر ہے.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ نے محمد بن مسلمہ کو سر زنش نہیں کی کہ کیوں اُس یہودی کو چھوڑ دیا بلکہ اُس کے فعل کو سراہا.بنو قریظہ کے اپنے مقرر کردہ حکم سعد کا فیصلہ تورات کے مطابق تھا یہ اوپر کے واقعات انفرادی تھے.بنو قریظہ بحیثیت قوم اپنی ضد پر قائم رہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم ماننے سے انکار کرتے ہوئے سعد کے فیصلہ پر اصرار کیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اُن کے اِس مطالبہ کو مان لیا.سعد کو جو جنگ میں زخمی ہو چکے تھے اطلاع دی کہ تمہارا فیصلہ بنو قریظہ تسلیم کرتے ہیں آکر فیصلہ کرو.اس تجویز کا اعلان ہوتے ہی اوس قبیلہ کے لوگ جو بنو قریظہ کے دیر سے حلیف چلے آئے تھے وہ سعد کے پاس دوڑ کر گئے اور اُنہوں نے اصرار کرنا شروع کیا کہ چونکہ خزرج نے اپنے حلیف یہودیوں کو ہمیشہ سزا سے بچایا ہے آج تم بھی اپنے حلیف قبیلہ کے حق میں فیصلہ دینا.سعد زخموں کی وجہ سے سواری پر سوار ہو کر بنوقریظہ کی طرف روانہ ہوئے اور ان کی السيرة الحلبية جلد ٢ صفحه ۳۶۳ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۱۳۹ نبیوں کا سردار قوم کے افراد اُن کے دائیں بائیں دوڑتے جاتے تھے اور سعد سے اصرار کرتے جاتے تھے کہ دیکھنا بنو قریظہ کے خلاف فیصلہ نہ دینا.مگر سعد نے صرف یہی جواب دیا کہ جس کے سپر دفیصلہ کیا جاتا ہے وہ امانتدار ہوتا ہے اُسے دیانت سے فیصلہ کرنا چاہئے میں دیانت سے فیصلہ کروں گا.جب سعد یہود کے قلعہ کے پاس پہنچے جہاں ایک طرف بنو قریظہ قلعہ کی دیوار سے کھڑے سعد کا انتظار کر رہے تھے اور دوسری طرف مسلمان بیٹھے تھے ، تو سعد نے پہلے اپنی قوم سے پوچھا کیا آپ لوگ وعدہ کرتے ہیں کہ جو میں فیصلہ کروں گا وہ آپ لوگ قبول کریں گے؟ انہوں نے کہاں ہاں.پھر سعد نے بنو قریظہ کو مخاطب کر کے کہا کیا آپ لوگ وعدہ کرتے ہیں کہ جو فیصلہ میں کروں وہ آپ لوگ قبول کریں گے؟ انہوں نے کہا ہاں.پھر شرم سے دوسری طرف دیکھتے ہوئے نیچی نگاہوں سے اُس طرف اشارہ کیا جدھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے اور کہا ادھر بیٹھے ہوئے لوگ بھی یہ وعدہ کرتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں.اس کے بعد سعد نے بائبل کے حکم کے مطابق فیصلہ سنایا یے بائبل میں لکھا ہے: اور جب تو کسی شہر کے پاس اُس سے لڑنے کے لئے آپہنچے تو پہلے اُس سے صلح کا پیغام کر.تب یوں ہوگا کہ اگر وہ تجھے جواب دے کہ صلح منظور اور دروازہ تیرے لئے کھول دے تو ساری خلق جو اُس شہر میں پائی جائے تیری خراج گزار ہو گی اور تیری خدمت کرے گی.اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ تجھ سے جنگ کرے تو تو اس کا محاصرہ کر اور جب خداوند تیرا خدا اُسے تیرے قبضہ میں کر دے تو وہاں کے ہر ایک مرد کو تلوار کی دھار سے قتل کر.مگر عورتوں اور لڑکوں اور مواشی کو اور جو کچھ اُس شہر میں ل السيرة الحلبية جلد ۲ صفحہ ۳۶۶،۳۶۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۱۴۰ نبیوں کا سردار ہواُس کا سارا لوٹ اپنے لئے لے.اور تو اپنے دشمنوں کی اُس لوٹ کو جو خداوند تیرے خدا نے تجھے دی ہے کھائیو.اسی طرح سے تو اُن سب شہروں سے جو تجھ سے بہت دور ہیں اور ان قوموں کے شہروں میں سے نہیں ہیں یہی حال کچیؤ.لیکن ان قوموں کے شہروں میں جنہیں خداوند تیرا خدا تیری میراث کر دیتا ہے کسی چیز کو جو سانس لیتی ہے جیتا نہ چھوڑیو.بلکہ تو اُن کو حرم کیجیو.حتی اور اموری اور کنعانی اور فرز ری اور جو کی اور یوسی کو جیسا کہ خداوند تیرے خدا نے تجھے حکم کیا ہے تا کہ وے اپنے سارے کر یہ کاموں کے مطابق جو اُنہوں نے اپنے معبودوں سے کئے تم کو عمل کرنا نہ سکھائیں اور کہ تم خداوند اپنے خدا کے گنہگار ہو جاؤ لیے بائبل کے اس فیصلہ سے ظاہر ہے کہ اگر یہودی جیت جاتے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہار جاتے تو بائبل کے اس فیصلہ کے مطابق اول تو تمام مسلمان قتل کر دیئے جاتے.مردبھی اور عورت بھی اور بچے بھی.اور جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ یہودیوں کا یہی ارادہ تھا کہ مردوں، عورتوں اور بچوں سب کو یکدم قتل کر دیا جائے لیکن اگر وہ اُن سے بڑی سے بڑی رعایت کرتے تب بھی کتاب استثناء کے مذکورہ بالا فیصلہ کے مطابق وہ اُن سے دور کے ملکوں والی قوموں کا سا سلوک کرتے اور تمام مردوں کو قتل کر دیتے اور عورتوں اور لڑکوں اور سامانوں کو لوٹ لیتے.سعد نے جو بنو قریظہ کے حلیف تھے اور اُن کے دوستوں میں سے تھے جب دیکھا کہ یہود نے اسلامی شریعت کے مطابق جو یقینا اُن کی جان کی حفاظت کرتی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کو تسلیم نہیں کیا تو انہوں نے وہی فیصلہ یہود کے متعلق کیا جو موسیٰ نے استثناء میں پہلے سے ایسے مواقع کے لئے کر چھوڑا تھا اور اس لے استثناء باب ۲۰ آیت ۱۰ تا ۱۸.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۴۱ نبیوں کا سردار فیصلہ کی ذمہ داری محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یا مسلمانوں پر نہیں، بلکہ موسیٰ پر اور تورات پر اور ان یہودیوں پر ہے جنہوں نے غیر قوموں کے ساتھ ہزاروں سال اس طرح معاملہ کیا تھا اور جن کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحم کے لئے بلا یا گیا تو انہوں نے انکار کر دیا اور کہا ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں ، ہم سعد کی بات مانیں گے.جب سعد نے موسی کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ دیا تو آج عیسائی دنیا شور مچاتی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم کیا.کیا عیسائی مصنف اس بات کو نہیں دیکھتے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دوسرے موقع پر کیوں ظلم نہ کیا؟ سینکڑوں دفعہ دشمن نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحم پر اپنے آپ کو چھوڑا اور ہر دفعہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو معاف کر دیا.یہ ایک ہی موقع ہے کہ دشمن نے اصرار کیا کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کو نہیں مانیں گے بلکہ فلاں دوسرے شخص کے فیصلہ کو مانیں گے اور اُس شخص نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اقرار لے لیا کہ جو میں فیصلہ کروں گا اُسے آپ مانیں گے.اس کے بعد اُس نے فیصلہ کیا بلکہ اُس نے فیصلہ نہیں کیا اُس نے موسیٰ کا فیصلہ دُہرا دیا جس کی اُمت میں سے ہونے کے یہود مدعی تھے.پس اگر کسی نے ظلم کیا تو یہود نے اپنی جانوں پر ظلم کیا.جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا.اگر کسی نے ظلم کیا تو موسی نے ظلم کیا جنہوں نے محصور دشمن کے متعلق تو رات میں خدا سے حکم پا کر یہی تعلیم دی تھی.اگر یہ ظلم تھا تو ان عیسائی مصنفوں کو چاہئے کہ موسیٰ کو ظالم قرار دیں بلکہ موسی کے خدا کو ظالم قرار دیں جس نے یہ تعلیم تو رات میں دی ہے.احزاب کی جنگ کے خاتمہ کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.آج سے مشرک ہم پر حملہ نہیں کریں گے اب اسلام خود جواب دے گا اور ان اقوام پر جنہوں نے ہم
۱۴۲ نبیوں کا سردار پر حملے کئے تھے اب ہم چڑھائی کریں گے یلم چنا نچہ ایسا ہی ہوا.احزاب کی جنگ میں بھلا کفار کا نقصان ہی کیا ہوا تھا چند آدمی مارے گئے تھے وہ دوسرے سال پھر دوبارہ تیاری کر کے آسکتے تھے.ہمیں ہزار کی جگہ وہ چالیس یا پچاس ہزار کا لشکر بھی لا سکتے تھے.بلکہ اگر وہ اور زیادہ انتظام کرتے تو لاکھ ڈیڑھ کا لشکر لانا بھی اُن کے لئے کوئی مشکل نہیں تھا.مگر اکیس سال کی متواتر کوشش کے بعد کفار کے دلوں کو محسوس ہو گیا تھا کہ خدا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے.اُن کے بت جھوٹے ہیں اور دنیا کا پیدا کرنے والا ایک ہی خدا ہے.اُن کے جسم صحیح سلامت تھے مگر اُن کے دل ٹوٹ چکے تھے.بظاہر وہ اپنے بتوں کے آگے سجدہ کرتے ہوئے نظر آتے تھے مگر اُن کے دلوں میں سے لا اله الا اللہ کی آواز میں اُٹھ رہی تھیں.بخاری کتاب المغازی باب غزوة الخندق.(الخ)
۱۴۳ نبیوں کا سردار مسلمانوں کے غلبہ کا آغاز اس جنگ سے فارغ ہونے کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.آج سے کفار عرب ہم پر حملہ نہیں کریں گے، یعنی مسلمانوں کا ابتلاء اپنی آخری انتہاء کو پہنچ گیا ہے اور اب اُن کے غلبہ کا زمانہ شروع ہونے والا ہے.اس وقت تک جتنی جنگیں ہوئی تھیں وہ ساری کی ساری ایسی تھیں کہ یا تو کفار مدینہ پر چڑھ کے آئے تھے یا اُن کے حملوں کی تیاریوں کے روکنے کے لئے مسلمان مدینہ سے باہر نکلے تھے لیکن کبھی بھی مسلمانوں نے خود جنگ کو جاری رکھنے کی کوشش نہیں کی.حالانکہ جنگی قوانین کے لحاظ سے جب ایک لڑائی شروع ہو جاتی ہے تو اُس کا اختتام دو ہی طرح ہوتا ہے یا صلح ہو جاتی ہے یا ایک فریق ہتھیار ڈال دیتا ہے لیکن اس وقت تک ایک بھی موقع ایسا نہیں آیا جبکہ صلح ہوئی ہو یا کسی فریق نے ہتھیار ڈالے ہوں.پس گو پرانے زمانہ کے دستور کے مطابق لڑائیوں میں وقفہ پڑ جاتا تھا لیکن جہاں تک جنگ کے جاری رہنے کا سوال تھا وہ متواتر جاری تھی اور ختم نہ ہوئی تھی اس لئے مسلمانوں کا حق تھا کہ وہ جب بھی چاہتے دشمن پر حملہ کر کے اُن کو مجبور کرتے کہ وہ ہتھیار ڈالیں.لیکن مسلمانوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ جب وقفہ پڑتا تھا تو مسلمان بھی خاموش ہو جاتے تھے.شاید اس لئے کہ ممکن ہے کفار درمیان میں صلح کی طرح ڈالیں اور لڑائی بند ہو جائے.لیکن جب ایک لمبے عرصہ تک کفار کی طرف سے صلح کی تحریک نہ ہوئی اور نہ انہوں نے مسلمانوں کے سامنے ہتھیار ڈالے بلکہ اپنی مخالفت اور جوش میں بڑھتے ہی چلے گئے تو اب وقت آگیا کہ لڑائی کا دوٹوک فیصلہ کیا جائے یا تو فریقین میں صلح ہو جائے یا دونوں میں
۱۴۴ نبیوں کا سردار سے ایک فریق ہتھیار ڈال دے تا کہ ملک میں امن قائم ہو جائے.پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احزاب کی جنگ کے بعد فیصلہ کر لیا کہ اب ہم دونوں فیصلوں میں سے ایک فیصلہ کر کے چھوڑیں گے یا تو ہماری اور کفار کی صلح ہو جائے گی یا ہم میں سے کوئی فریق ہتھیار ڈال دے گا.یہ تو ظاہر ہے کہ ہتھیار ڈال دینے کی صورت میں کفار ہی ہتھیار ڈال سکتے تھے کیونکہ اسلام کے غلبہ کے متعلق تو خدا تعالیٰ کی طرف سے خبر مل چکی تھی اور مکی زندگی میں ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کے غلبہ کا اعلان کر چکے تھے.باقی رہی صلح توصلح کے بارے میں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ صلح کی تحریک یا غالب کی طرف سے ہوا کرتی ہے یا مغلوب کی طرف سے.مغلوب فریق جب صلح کی درخواست کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ ملک کا کچھ حصہ یا اپنی آمدن کا کچھ حصہ مستقل طور پر یا عارضی طور پر غالب فریق کو دیا کرے گا یا بعض اور صورتوں میں اس کی لگائی ہوئی قیود تسلیم کرے گا.اور غالب فریق کی طرف سے جب صلح کی تجویز پیش ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم تمہیں بالکل کچلنا نہیں چاہتے.اگر تم بعض صورتوں میں ہماری اطاعت یا ہماری ماتحتی قبول کر لو تو ہم تمہاری آزادانہ حیثیت یا نیم آزادانہ حیثیت کو قائم رہنے دیں گے.کفار مکہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو مقابلہ تھا اس میں بار بار کفار کو شکست ہوئی تھی لیکن اس شکست کے محض اتنے معنی تھے کہ اُن کے حملے ناکام رہے تھے.حقیقی شکست وہ کہلاتی ہے جبکہ دفاع کی طاقت ٹوٹ جائے.حملہ ناکام ہونے کے معنی حقیقی شکست کے نہیں سمجھے جاتے.اس کے معنی صرف اتنے ہوتے ہیں کہ گو حملہ آور قوم کا حملہ ناکام رہا مگر پھر دوبارہ حملہ کر کے وہ اپنے مقصد کو پورا کرلے گی.پس جنگی قانون کے لحاظ سے مکہ والے مغلوب نہیں ہوئے تھے بلکہ اُن کی پوزیشن صرف یہ تھی کہ اب تک اُن کی جارحانہ کارروائیاں اپنے مقصد کو حاصل نہیں کر سکی تھیں.اس کے مقابلہ میں مسلمان جنگی لحاظ سے گو اُن کا دفاع نہیں ٹوٹا تھا
۱۴۵ نبیوں کا سردار مغلوب کہلانے کے مستحق تھے اس لئے کہ : اوّل تو وہ بہت چھوٹی اقلیت میں تھے.دوم انہوں نے اس وقت تک کوئی جارحانہ کارروائی نہیں کی تھی، یعنی کسی حملہ میں خود ابتداء نہیں کی تھی جس سے یہ سمجھا جائے کہ اب وہ اپنے آپ کو کفار کے اثر سے آزاد سمجھتے ہیں.ان حالات میں مسلمانوں کی طرف سے صلح کی پیشکش کے صرف یہ معنی ہو سکتے تھے کہ وہ اب دفاع سے تنگ آگئے ہیں اور کچھ دے دلا کر اپنا پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں.ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ ان حالات میں اگر مسلمان صلح کی پیشکش کرتے تو اس کا نتیجہ نہایت ہی خطرناک ہوتا اور یہ امران کی ہستی کے مٹا دینے کے مترادف ہوتا.اپنی جارحانہ کارروائیوں میں ناکامی کی وجہ سے کفارِ عرب میں جو بے ولی پیدا ہو گئی تھی اس صلح کی پیشکش سے وہ فورا ہی نئی امنگوں اور نئی آرزوؤں میں بدل جاتی اور یہ سمجھا جاتا کہ مسلمان باوجود مدینہ کو تباہی سے بچا لینے کے آخری کامیابی سے مایوس ہو چکے تھے.پس صلح کی تحریک مسلمانوں کی طرف سے کسی صورت میں بھی نہیں کی جاسکتی تھی.اگر کوئی صلح کی تحریک کر سکتا تھا تو یا مکہ والے کر سکتے تھے یا کوئی تیسری ثالث قوم کر سکتی تھی.مگر عرب میں کوئی ثالث قوم باقی نہیں رہی تھی.ایک طرف مدینہ تھا اور ایک طرف سارا عرب تھا.پس عملی طور پر کفار ہی تھے جو اس تجویز کو پیش کر سکتے تھے.مگر اُن کی طرف سے صلح کی کوئی تحریک نہیں ہو رہی تھی.یہ حالات اگر سو سال تک بھی جاری رہتے تو قوانین جنگ کے ماتحت عرب کی خانہ جنگی جاری رہتی.پس جبکہ مکہ کے لوگوں کی طرف صلح کی تجویز پیش نہیں ہوئی تھی اور مدینہ کے کفار عرب کی ماتحتی ماننے کے لئے کسی صورت میں تیار نہ تھے تو اب ایک ہی راستہ کھلا رہ جاتا تھا کہ جب مدینہ نے عرب کے متحدہ حملہ کو بیکا ر کر دیا تو خود مدینہ کے لوگ باہر نکلیں اور کفار عرب کو مجبور کر دیں کہ یا وہ اُن کی ماتحتی قبول کرلیں یا اُن سے صلح کر لیں.اور اسی راستہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا.پس گو یہ
۱۴۶ نبیوں کا سردار راستہ بظاہر جنگ کا نظر آتا ہے لیکن در حقیقت صلح کے قیام کے لئے اس کے سوا کوئی راستہ کھلا نہ تھا.اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہ کرتے تو ممکن ہے جنگ سو سال تک لمبی چلی جاتی جیسا کہ ایسے ہی حالات میں پرانے زمانہ میں جنگیں سو سو سال تک جاری رہی ہیں.خود عرب کی کئی جنگیں تھیں تھیں، چالیس چالیس سال تک جاری رہی ہیں.ان جنگوں کی طوالت کی یہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ جنگ کے ختم کرنے کے لئے کوئی ذریعہ اختیار نہیں کیا جاتا تھا اور جیسا کہ میں بتا چکا ہوں جنگ کے ختم کرنے کے دو ہی ذرائع ہوا کرتے ہیں یا ایسی جنگ لڑی جائے جو دوٹوک فیصلہ کر دے اور دونوں فریق میں سے کسی ایک کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دے اور یا باہمی صلح ہو جائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیشک ایسا کر سکتے تھے کہ مدینہ میں بیٹھے رہتے اور خود حملہ نہ کرتے.لیکن چونکہ کفارِ عرب جنگ کی طرح ڈال چکے تھے آپ کے خاموش بیٹھنے کے یہ معنی نہ ہوتے کہ جنگ ختم ہو گئی ہے بلکہ اس کے صرف یہ معنی ہوتے کہ جنگ کا دروازہ ہمیشہ کیلئے کھلا رکھا گیا ہے.کفار عرب جب چاہتے بغیر کسی اور محرک کے پیدا ہونے کے مدینہ پر حملہ کر دیتے اور اُس وقت تک کے دستور کے مطابق وہ حق پر سمجھے جاتے کیونکہ جنگ میں وقفہ پڑ جانا اُس زمانہ میں جنگ کے ختم ہو جانے کے مترادف نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ وقفہ بھی جنگ ہی میں شمار کیا جاتا تھا.بعض لوگوں کے دلوں میں اس موقع پر یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ کیا ایک سچے مذہب کے لئے لڑائی کرنا جائز ہے؟ یہودیت اور عیسائیت کی تعلیم درباره جنگ میں اس جگہ اس سوال کا جواب بھی دے دینا ضروری سمجھتا ہوں جہاں تک مذاہب کا سوال ہے لڑائی کے بارہ میں مختلف تعلیمیں ہیں.موسیٰ علیہ السلام کی تعلیم لڑائی کے بارہ
۱۴۷ نبیوں کا سردار میں اُو پر درج کر آیا ہوں.تو رات کہتی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کوحکم دیا گیا کہ وہ بزور کنعان میں گھس جائیں اور اُس جگہ کی قوموں کو شکست دے کر اس علاقہ میں اپنی قوم آباد کریں لے مگر باوجود اس کے کہ موسیٰ نے یہ تعلیم دی اور باوجود اس کے کہ یوشع ، داؤد اور دوسرے انبیاء نے اس تعلیم پر متواتر عمل کیا یہودی اور عیسائی اُن کو خدا کا نبی اور تورات کو خدا کی کتاب سمجھتے ہیں.موسوی سلسلہ کے آخر میں حضرت مسیح " ظاہر ہوئے اُن کی جنگ کے متعلق یہ تعلیم ہے کہ ظالم کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اُس کی طرف پھیر دے کے اس سے استنباط کرتے ہوئے عیسائی قوم یہ دعوی کرتی ہے کہ میچ نے لڑائی سے قوموں کو منع کیا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انجیل میں اس تعلیم کے خلاف اور تعلیمیں بھی آئی ہیں.مثلاً انجیل میں لکھا ہے:.یہ مت سمجھو کہ میں زمین پر صلح کروانے آیا ہوں صلح کروانے نہیں بلکہ تلوار چلانے آیا ہوں“ سے اسی طرح لکھا ہے:.اُس نے انہیں کہا پر آب جس کے پاس بٹوا ہو لیوے اور اسی طرح جھولی بھی.اور جس کے پاس تلوار نہیں اپنے کپڑے بیچ کر تلوار خریدے“ کے یہ آخری دو علیمیں پہلی تعلیم کے بالکل متضاد ہیں.اگر مسیح جنگ کرانے کے لئے آیا تھا تو پھر لے استثناء باب ۲۰ آیت ۱۰ تا ۱۸.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء سے منتی باب ۵ آیت ۳۹.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء سے متی باب ۱۰ آیت ۳۴.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۷۰ ر۱۸۷۰ء سے لوقا باب ۲۲ آیت ۳۶.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۴۸ نبیوں کا سردار ایک گال پر تھپڑ کھا کر دوسرا گال پھیر دینے کے کیا معنی تھے؟ پس یا تو یہ دونوں قسم کی و متضاد ہیں یا ان دونوں تعلیموں میں سے کسی ایک کو اس کے ظاہر سے پھرا کر اس کی کوئی تأویل کرنی پڑے گی.میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ ایک گال پر تھپڑ کھا کر دوسرا گال پھیر دینے کی تعلیم قابل عمل ہے یا نہیں.میں اس جگہ پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اوّل عیسائی دنیا نے اپنی ساری تاریخ میں جنگ سے دریغ نہیں کیا.جب عیسائیت شروع شروع میں روما میں غالب تھی تب بھی اُس نے غیر قوموں سے جنگیں کیں.دفاعی ہی نہیں بلکہ جارحانہ بھی.اور اب جبکہ عیسائیت دنیا میں غالب آگئی ہے اب بھی وہ جنگیں کرتی ہے.دفاعی ہی نہیں بلکہ جارحانہ بھی.صرف فرق یہ ہے کہ جنگ کرنے والوں میں سے جو فریق جیت جاتا ہے اُس کے متعلق کہہ دیا جاتا تھا کہ وہ کرسچن سویلز یشن کا پابند تھا.کرسچن سویلز یشن اس زمانہ میں صرف غالب اور فاتح کے طریق کا نام ہے اور اس لفظ کے حقیقی معنی اب کوئی بھی باقی نہیں رہے.جب دوقو میں آپس میں لڑتی ہیں تو ہر قوم اس بات کی مدعی ہوتی ہے کہ وہ کرسچن سویلزیشن کی تائید کر رہی ہے اور جب کوئی قوم جیت جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس جیتی ہوئی قوم کا طریق کار ہی کرسچن سویلزیشن ہے.مگر بہر حال مسیح کے زمانہ سے آج تک عیسائی دنیا جنگ کرتی چلی آرہی ہے اور قرائن بتاتے ہیں کہ جنگ کرتی چلی جائے گی.پس جہاں تک مسیحی دنیا کے فیصلہ کا تعلق ہے یہی معلوم ہوتا ہے کہ تم اپنے کپڑے بیچ کر تلوار خرید ” اور میں صلح کرانے کے لئے نہیں بلکہ تلوار چلانے کے لئے آیا ہوں“.یہ اصل قانون ہے اور ” تو ایک گال پر تھپڑ کھا کر دوسرا بھی پھیر دے“.یہ قانون یا تو ابتدائی عیسائی دنیا کی کمزوری کے وقت مصلحتاً اختیار کیا گیا تھا یا پھر عیسائی افراد کے باہمی تعلقات کی حد تک یہ قانون محدود ہے.حکومتوں اور قوموں پر یہ قانون چسپاں نہیں ہوتا.دوسرے اگر یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ مسیح کی اصل تعلیم جنگ کی نہیں تھی بلکہ صلح ہی کی تھی تب بھی اس تعلیم
۱۴۹ نبیوں کا سردار سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ جو شخص اس تعلیم کے خلاف عمل کرتا ہے وہ خدا کا برگزیدہ نہیں ہوسکتا.کیونکہ عیسائی دنیا آج تک موسی اور یوشع اور داؤد کو خدا کا برگزیدہ قرار دیتی ہے بلکہ خود عیسائیت کے زمانہ کے بعض قومی ہیرو جنہوں نے اپنی قوم کے لئے جان کو خطرہ میں ڈال کر دشمنوں سے جنگیں کی ہیں مختلف زمانہ کے پوپوں کے فتویٰ کے مطابق آج سینٹ کہلاتے ہیں.جنگ کے متعلق اسلام کی تعلیم اسلام ان دونوں قسم کی تعلیموں کے درمیان درمیان تعلیم دیتا ہے یعنی نہ تو وہ موسی کی طرح کہتا ہے کہ تو جارحانہ طور پر کسی ملک میں گھس جا اور اُس قوم کو تہہ تیغ کر دے اور نہ وہ اس زمانہ کی بگڑی ہوئی مسیحیت کی طرح بیانگ بلند یہ کہتا ہے اگر کوئی تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تو اپنا دوسرا گال بھی اُس کی طرف پھیر دے.مگر اپنے ساتھیوں کے کان میں یہ کہنا چاہتا ہے کہ تم اپنے کپڑے بیچ کر بھی تلوار میں خرید لو.بلکہ اسلام وہ تعلیم پیش کرتا ہے جو فطرت کے عین مطابق ہے اور جو امن اور صلح کے قیام کے لئے ایک ہی ذریعہ ہو سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ تو کسی چیز پر حملہ نہ کر لیکن اگر کوئی شخص تجھ پر حملہ کرے اور اس کا مقابلہ نہ کرنا فتنہ کے بڑھانے کا موجب نظر آئے اور راستی اور امن اُس سے ملتا ہو تب تو اس کے حملہ کا جواب دے.یہی وہ تعلیم ہے جس سے دنیا میں امن اور صلح قائم ہو سکتی ہے.اس تعلیم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کیا.آپ مکہ میں برابر تکلیفیں اٹھاتے رہے،لیکن آپ نے لڑائی کی طرح نہ ڈالی.مگر جب مدینہ میں آپ ہجرت کر کے تشریف لے گئے اور دشمن نے وہاں بھی آپ کا پیچھا کیا تب خدا تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ چونکہ دشمن جارحانہ کارروائی کر رہا ہے اور اسلام کو مٹانا چاہتا ہے اس لئے راستی اور صداقت کے قیام کے لئے آپ اس
نبیوں کا سردار کا مقابلہ کریں.قرآن کریم میں جو متفرق احکام اس بارہ میں آئے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں: ط (1) اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِم بِغَيْرِ حَقٍ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ - الَّذِينَ إِن مَّكَّنَاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ لے یعنی اس لئے کہ ان (مسلمانوں) پر ظلم کیا گیا اور ان مسلمانوں کو جن سے دشمن نے لڑائی جاری کر رکھی ہے، آج جنگ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور اللہ یقینا اُن کی مدد پر قادر ہے.ہاں ان مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دی جاتی ہے جن کو اُن کے گھروں سے بغیر کسی جرم کے نکال دیا گیا.اُن کا صرف اتنا ہی جرم تھا (اگر یہ کوئی جرم ہے ) کہ وہ یہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اگر اللہ تعالیٰ بعض ظالم لوگوں کو دوسرے عادل لوگوں کے ذریعہ سے ظلم روکتا نہ رہے تو گرجے اور مناسریاں سے اور عبادت گاہیں اور مسجد میں جن میں خدا تعالیٰ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے ظالموں کے ہاتھ سے تباہ ہو جائیں (پس دنیا میں مذہب کی آزادی قائم رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ مظلوموں کو اور ایسی قوموں کو جن کے خلاف دشمن پہلے جنگ کا اعلان کر دیتا ہے جنگ کی اجازت دیتا ہے) اور یقینا اللہ تعالیٰ اُن کی مدد کرتا ہے جو خدا تعالیٰ کے دین کی مدد کرنے کے لئے کھڑے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ یقینا بڑی طاقت والا اور غالب الحج : ۴۰ تا ۴۲ سے مناسٹریاں (MONASTERIES) : یہودیوں کے عبادت خانے
۱۵۱ نبیوں کا سردار ہے.ہاں اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کی مدد کرتا ہے جو اگر دنیا میں طاقت پکڑ جائیں تو خدا تعالیٰ کی عبادتوں کو قائم کریں گے اور غریبوں کی خبر گیری کریں گے اور نیک اور اعلیٰ اخلاق کی دنیا کو تعلیم دیں گے اور بری باتوں سے دنیا کو روکیں گے اور ہر جھگڑے کا انجام وہی ہوتا ہے جو خدا چاہتا ہے.ان آیات میں جو مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دینے کے لئے نازل ہوئی ہیں بتایا گیا ہے کہ جنگ کی اجازت اسلامی تعلیم کی رو سے اسی صورت میں ہوتی ہے، جب کوئی قوم دیر تک کسی قوم کے ظلموں کا تختہ مشق بنی رہے اور ظالم قوم اس کے خلاف بلا وجہ جنگ کا اعلان کر دے اور اس کے دین میں دخل اندازی کرے اور ایسی مظلوم قوم کا فرض ہوتا ہے کہ جب اُسے طاقت ملے تو وہ مذہبی آزادی دے اور اس بات کو ہمیشہ مد نظر رکھے کہ خدا تعالیٰ اُس کو غلبہ بخشے تو وہ تمام مذاہب کی حفاظت کرے اور اُن کی مقدس جگہوں کے ادب اور احترام کا خیال رکھے اور اس غلبہ کو اپنی طاقت اور شوکت کا ذریعہ نہ بنائے بلکہ غریبوں کی خبر گیری، ملک کی حالت کی درستی اور فساد اور شرارت کے مٹانے میں اپنی قوتیں صرف کرے.یہ کیسی مختصر اور جامع تعلیم ہے.اس میں یہ بھی بتادیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو جنگ کرنے کی اجازت کیوں دی گئی ہے اور اگر اب وہ جنگ کریں گے تو وہ مجبوری کی وجہ سے ہوگی ورنہ جارحانہ جنگ اسلام میں منع ہے اور پھر کس طرح شروع میں بھی یہ کہہ دیا گیا تھا کہ مسلمانوں کو غلبہ ضرور ملے گا.مگر انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اُن کو اپنے غلبہ کے ایام میں بجائے حکومت سے اپنی جیبیں بھرنے کے اور اپنی حالت سدھارنے کے غرباء کی خبر گیری اور امن کے قیام اور فساد کے دور کرنے اور قوم اور ملک کو ترقی دینے کی کوشش کرنے کو اپنا مقصد بنانا چاہئے.(۲) پھر فرماتا ہے وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا
۱۵۲ نبیوں کا سردار إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ T الْحَرَامِ حَتَّى يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ ۖ فَإِن قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ كَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ فَإِنِ انْتَهَوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ ۖ فَإِنِ انْتَهَوا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ لے یعنی اُن لوگوں سے جو تم سے جنگ کر رہے ہیں تم بھی محض اللہ کی خاطر جس میں تمہارے اپنے نفس کا غصہ اور نفس کی ملونی شامل نہ ہو جنگ کرو اور یا درکھو کہ جنگ میں بھی کوئی ظالمانہ فعل اختیا ر مت کرنا کیونکہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو بہر حال پسند نہیں کرتا.اور جہاں کہیں بھی تمہاری اور اُن کی جنگ کے ذریعہ سے مٹھ بھیڑ ہو جائے وہاں تم اُن سے جنگ کرو اور یونہی اکا دُکا ملنے والے پر حملہ مت کرو.اور چونکہ انہوں نے تمہیں لڑائی کے لئے نکلنے پر مجبور کیا ہے تم بھی اُنہیں اُن کے جواب میں لڑائی کا چیلنج دو اور یاد رکھو کہ قتل اور لڑائی کی نسبت دین کی وجہ سے کسی کو دُکھ میں ڈالنا زیادہ خطرناک گناہ ہے.پس تم ایسا طریق نہ اختیار کرو کیونکہ یہ بے دین لوگوں کا کام ہے.اور چاہئے کہ تم مسجد حرام کے پاس اُن سے اُس وقت تک جنگ نہ کرو جب تک وہ جنگ کی ابتدا نہ کریں کیونکہ اس سے حج اور عمرہ کے راستہ میں روک پیدا ہوتی ہے.ہاں اگر وہ خود ایسی جنگ کی ابتدا کریں تو پھر تم مجبور ہو اور تمہیں جواب دینے کی اجازت ہے.جو لوگ عقل اور انصاف کے احکام کو ر ڈ کر دیتے ہیں اُن کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرنا پڑتا ہے.لیکن اگر انہیں ہوش آ جائے اور وہ اس بات سے رُک جائیں تو اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا مہربان ہے.اس لئے تم کو بھی چاہئے کہ ایسی صورت میں اپنے ہاتھوں کو روک لو اور اس خیال سے کہ یہ حملہ میں ابتدا کر چکے ہیں جوابی حملہ نہ کرو.اور چونکہ وہ لڑائی شروع کر چکے ہیں البقرة: ۱۹۱ تا ۱۹۴
۱۵۳ نبیوں کا سردار تم بھی اُس وقت تک لڑائی کو جاری رکھو جب تک کہ دین میں دخل اندازی کرنے کے طریق کو وہ نہ چھوڑیں اور وہ تسلیم نہ کرلیں کہ دین کا معاملہ صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور اس میں جبر کرنا کسی انسان کے لئے جائز نہیں.اگر وہ یہ طریق اختیار کر لیں اور دین میں دخل اندازی سے باز آجائیں تو فوراً لڑائی بند کر دو کیونکہ سز اصرف ظالموں کو دی جاتی ہے.اور اگر وہ اس قسم کے ظلم سے باز آجائیں تو پھر اُن سے لڑائی کرنا جائز نہیں ہوسکتا.ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ:.اوّل: لڑائی صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہونی چاہئے یعنی ذاتی لالچوں، ذاتی حرصوں، ملک کے فتح کرنے کی نیت یا اپنے رسوخ کو بڑھانے کی نیت سے لڑائی نہیں ہونی چاہئے.دوم : لڑائی صرف اُسی سے جائز ہے جو پہلے حملہ کرتا ہے.سوم : انہی سے تم کو جنگ کرنی جائز ہے جو تم سے لڑتے ہیں یعنی جو لوگ با قاعدہ سپاہی نہیں اور لڑائی میں عملاً حصہ نہیں لیتے اُن کو مارنا یا اُن سے لڑائی کرنا جائز نہیں.چهارم: باوجود دشمن کے حملہ میں ابتدا کرنے کے لڑائی کو اُس حد تک محدود رکھنا چاہئے جس حد تک دشمن نے محدود رکھا ہے اور اُسے وسیع کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے نہ علاقہ کے لحاظ سے اور نہ ذرائع جنگ کے لحاظ سے.پنجم : جنگ صرف جنگی فوج کے ساتھ ہونی چاہئے یہ نہیں کہ دشمن قوم کے اکے ڈکے افراد کے ساتھ مقابلہ کیا جائے.ششم: جنگ میں اس امر کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ مذہبی عبادتوں اور مذہبی فرائض کی ادائیگی میں روکیں پیدا نہ ہوں.اگر دشمن کسی ایسی جگہ پر جنگ کی طرح نہ ڈالے جہاں جنگ کرنے سے اُس کی مذہبی عبادتوں میں رخنہ ہوتا ہو تو مسلمانوں کو بھی اُس جگہ
جنگ نہیں کرنی چاہئے.۱۵۴ نبیوں کا سردار ہفتم: اگر دشمن خود مذہبی عبادت گاہوں کولڑائی کا ذریعہ بنائے تو پھر مجبوری ہے ورنہ تم کو ایسا نہ کرنا چاہیے.اس آیت میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ عبادت گاہوں کے اردگرد بھی لڑائی نہیں ہونی چاہئے کجا یہ کہ عبادت گاہوں پر حملہ کیا جائے یا وہ مسمار کی جائیں یا تو ڑی جائیں.ہاں اگر دشمن خود عبادت گاہوں کو لڑائی کا قلعہ بنالے تو پھر اُن کے نقصان کی ذمہ داری اُس پر ہے اس نقصان کی ذمہ داری مسلمانوں پر نہیں.ہشتم: اگر دشمن مذہبی مقاموں میں لڑائی شروع کرنے کے بعد اُس کے خطرناک نتائج کو سمجھ جائے اور مذہبی مقام سے نکل کر دوسری جگہ کو میدانِ جنگ بنالے تو مسلمانوں کو اس بہانہ سے اُن کے مذہبی مقاموں کو نقصان نہیں پہنچانا چاہئے کہ اس جگہ پر پہلے اُن کے دشمنوں نے لڑائی شروع کی تھی بلکہ فوراً اُن مقامات کے ادب اور احترام کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے حملہ کا رُخ بھی بدل دینا چاہئے.تم لڑائی اُس وقت تک جاری رکھنی چاہئے جب تک کہ مذہبی دست اندازی ختم ہو جائے اور دین کے معاملہ کو صرف ضمیر کا معاملہ قرار دیا جائے.سیاسی معاملوں کی طرح اس میں دخل اندازی نہ کی جائے.اگر دشمن اس بات کا اعلان کر دے اور اس پر عمل کرنا شروع کر دے تو خواہ وہ حملہ میں ابتدا کر چکا ہو اُس کے ساتھ لڑائی نہیں کرنی چاہئے.(۳) فرماتا ہے قُل لِلَّذِينَ كَفَرُوا إِن يَنتَهُوْا يُغْفَرُ لَهُم مَّا قَدْ سَلَفَ وَإِن يَعُودُوا فَقَد مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ.وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّيْنُ كُلُّهُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوا فَإِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ.وَإِن تَوَلَّوْا فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ
نبیوں کا سردار مَوْلَاكُمْ نِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ - یعنی اے محمد رسول اللہ ! دشمن نے جنگیں شروع کیں اور تمہیں خدا تعالیٰ کے حکم سے اُن کا جواب دینا پڑا.مگر تو اُن میں اعلان کر دے کہ اگر اب بھی وہ لڑائی سے باز آجائیں تو جو کچھ وہ پہلے کر چکے ہیں انہیں معاف کر دیا جائے.لیکن اگر وہ لڑائی سے باز نہ آئیں اور بار بار حملے کریں تو پہلے انبیاء کے دشمنوں کے انجام اُن کے سامنے ہیں انجام ان کا بھی وہی ہوگا.اور اے مسلمانو! تم اُس وقت جنگ کو جاری رکھو کہ مذہب کی خاطر دُکھ دینا مٹ جائے اور دین کو کلی طور پر خدا تعالیٰ کے سپر د کر دیا جائے اور دین کے معاملہ میں دخل اندازی کرنا لوگ چھوڑ دیں.پھر اگر یہ لوگ ان باتوں سے باز آجائیں تو محض اس وجہ سے اُن سے جنگ نہ کرو کہ وہ ایک غلط دین کے پیرو ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے عمل کو جانتا ہے وہ خود جیسا چاہے گا ان سے معاملہ کرے گا تمہیں اُن کے غلط دین کی وجہ سے ان کے کاموں میں دخل دینے کی اجازت نہیں ہوسکتی.اگر ہمارے اس صلح کے اعلان کے بعد بھی جو لوگ جنگ سے باز نہ آئیں اور لڑائی جاری رکھیں تو خوب سمجھ لو کہ باوجود اس کے کہ تم تھوڑے ہو تم ہی جیتو گے کیونکہ اللہ تمہارا ساتھی ہے اور خدا تعالیٰ سے بہتر ساتھی اور بہتر مددگار اور کون ہوسکتا ہے.یہ آیات قرآن مجید میں جنگ بدر کے ذکر کے بعد آئی ہیں جو کفارِ عرب اور مسلمانوں کے درمیان سب سے پہلی باقاعدہ جنگ تھی.باوجود اس کے کہ کفار عرب نے بلاوجہ مسلمانوں پر حملہ کیا اور مدینہ کے ارد گرد فساد مچایا اور باوجود اس کے کہ مسلمان کامیاب ہوئے اور دشمن کے بڑے بڑے سردار مارے گئے قرآن کریم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہی اعلان کروایا ہے کہ اگر اب بھی تم لوگ باز آجاؤ تو ہم لڑائی کو جاری نہیں رکھیں گے.ہم تو صرف اتنا چاہتے ہیں کہ جبر امذ ہب نہ بدلوائے جائیں اور دین الانفال: ۳۹ تا ۴۱
ܪܙ نبیوں کا سردار کے معاملہ میں دخل نہ دیا جائے.(۴) فرماتا ہے وَإِنْ جَنَحُوا لِلسّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ.وَإِن يُرِيدُوا أَن يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللَّهُ هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ ہے یعنی اگر کسی وقت بھی کفار صلح کی طرف جھکیں تو تو فوراً ان کی بات ان لیجیو اور صلح کر لیجیو اور یہ وہم مت کیجیو کہ شاید وہ دھوکا کر رہے ہوں بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکل رکھیو.خدا تعالیٰ دعاؤں کو سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے.اور اگر تیرا یہ خیال صحیح ہو کہ وہ دھوکا کرنا چاہتے ہیں اور وہ واقعہ میں تجھے دھوکا دینے کا ارادہ بھی رکھتے ہوں تو بھی یادرکھ کہ ان کے دھوکا دینے سے بنتا کیا ہے.تجھے تو صرف اللہ کی مدد سے ہی کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں.اُس کی مدد تیرے لئے کافی ہے.گزشتہ زمانہ میں وہی اپنی براہ راست مدد کے ذریعہ اور مؤمنوں کی مدد کے ذریعہ تیرا ساتھ دیتا رہا ہے.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جب دشمن صلح کرنے پر آمادہ ہو تو مسلمانوں کو بہر حال اس سے صلح کر لینی چاہئے.اگر صلح کے اُصول کو وہ ظاہر میں تسلیم کرتا ہو تو صرف اس بہانہ سے صلح کو رد نہیں کرنا چاہئے کہ شاید دشمن کی نیت بد ہو اور بعد میں طاقت پکڑ کے دوبارہ حملہ کرنا چاہتا ہو.ان آیتوں میں در حقیقت صلح حدیبیہ کی پیشگوئی کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب دشمن صلح کرنا چاہے گا اُس وقت تم اس عذر سے کہ دشمن نے زیادتی کی ہے یا یہ کہ وہ بعد میں اس معاہدہ کو توڑ دینا چاہتا ہے صلح سے انکار نہ کرنا کیونکہ نیکی کا تقاضا بھی یہی ہے اور تمہارا فائدہ بھی اس میں ہے کہ تم صلح کی پیشکش کو تسلیم کر لو.(۵) فرماتا ہے يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَتَبَيَّنُوا الانفال: ۶۲، ۶۳
۱۵۷ نبیوں کا سردار وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَعِنْدَ اللهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ كَذلِكَ كُنتُم مِّن قَبْلُ فَمَنَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ لے فَتَبَيَّنُوا إِنَّ اللهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا - یعنی اے مومنو! جب تم خدا کی خاطر لڑائی کے لئے باہر نکلو تو اس بات کی اچھی طرح تحقیقات کرلیا کرو کہ تمہارے دشمن پر حجت تمام ہو چکی ہے اور وہ بہر حال لڑائی پر آمادہ ہے اور اگر کوئی شخص یا جماعت تمہیں کہے کہ میں تو صلح کرتا ہوں تو یہ مت کہو کہ تو دھوکا دیتا ہے اور ہمیں امید نہیں کہ ہم تجھ سے امن میں رہیں گے.اگر تم ایسا کرو گے تو پھر تم خدا کی راہ میں لڑنے والے نہیں ہو گے بلکہ تم دنیا طلب قرار پاؤ گے.پس ایسا مت کرو کیونکہ جس طرح خدا کے پاس دین ہے اسی طرح خدا کے پاس دنیا کا بھی بہت سا سامان ہے.تمہیں یادرکھنا چاہئے کہ کسی شخص کا ماردینا اصل مقصود نہیں.تمہیں کیا معلوم ہے کہ کل کو وہ ہدایت پا جائے.تم بھی تو پہلے دین اسلام سے باہر تھے پھر اللہ تعالیٰ نے احسان کر کے تمہیں اس دین کے اختیار کرنے کی توفیق دی.پس مارنے میں جلدی مت کیا کرو بلکہ حقیقت حال کی تحقیق کیا کرو.یاد رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خوب واقف ہے.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جب لڑائی شروع ہو جائے تب بھی اس بات کی اچھی طرح تحقیق کرنی چاہئے کہ دشمن کا ارادہ جارحانہ لڑائی کا ہے؟ کیونکہ ممکن ہے کہ دشمن جارحانہ لڑائی کا ارادہ نہ کرتا ہو بلکہ وہ خود کسی خوف کے ماتحت فوجی تیاری کر رہا ہو.پس پہلے اچھی طرح تحقیقات کر لیا کرو کہ دشمن کا ارادہ جارحانہ جنگ کا تھا تب اُس کے سامنے مقابلہ کے لئے آؤ.اور اگر وہ یہ کہے کہ میرا ارادہ تو جنگ کرنے کا نہیں تھا میں تو صرف خوف کی وجہ سے تیاری کر رہا تھا تو تمہیں یہ نہیں کہنا چاہئے کہ نہیں تمہاری جنگی تیاری بتاتی ہے کہ تم ہم پر النساء : ۹۵
۱۵۸ نبیوں کا سردار حملہ کرنا چاہتے تھے ہم کس طرح سمجھیں کہ ہم تم سے مامون اور محفوظ ہیں بلکہ اُس کی بات کو قبول کرلو اور یہ مجھو کہ اگر پہلے اُس کا ارادہ بھی تھا توممکن ہے بعد میں اس میں تبدیلی پیدا ہو گئی ہو.تم خود اس بات کے زندہ گواہ ہو کہ دلوں میں تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے تم پہلے اسلام کے دشمن تھے مگر اب تم اسلام کے سپاہی ہو.(1) پھر دشمنوں سے عہد کے متعلق فرماتا ہے إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدُتُم مِّن الْمُشْرِكِيْنَ ثُمَّ لَمْ يَنقُصُوكُمْ شَيْئًا وَلَمْ يُظَاهِرُوا عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَأَتِمُوا إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَى مُدَّتِهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْن لے یعنی مشرکوں میں سے وہ جنہوں نے تم سے کوئی عہد کیا تھا اور پھر اُنہوں نے اُس عہد کو توڑا نہیں اور تمہارے خلاف تمہارے دشمنوں کی مدد نہیں کی ، عہد کی مدت تک تم بھی پابند ہو کہ معاہدہ کو قائم رکھو.یہی تقویٰ کی علامت ہے اور اللہ تعالیٰ متقیوں کو پسند کرتا ہے.(۷) ایسے دشمنوں کے متعلق جو برسر جنگ ہوں لیکن اُن میں سے کوئی شخص اسلام کی حقیقت معلوم کرنا چاہے فرماتا ہے وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ.لے یعنی اگر بر سر جنگ مشرکوں میں سے کوئی شخص اس لئے پناہ مانگے کہ وہ تمہارے ملک میں آکر اسلام کی تحقیقات کرنا چاہتا ہے تو اُس کو ضرور پناہ دو اتنے عرصہ تک کہ وہ اچھی طرح اسلام کی تحقیقات کرلے اور قرآن کریم کے مضامین سے واقف ہو جائے.پھر اس کو اپنی حفاظت میں اُس مقام تک پہنچا دو جہاں وہ جانا چاہتا ہے اور جسے اپنے لئے امن کا مقام سمجھتا ہے.(۸) جنگی قیدیوں کے متعلق فرماتا ہے مَا كَانَ لِنَبِي أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُفْضِنَ فِي الْأَرْضِ سے یعنی کسی نبی کی شان کے مطابق یہ بات نہیں کہ وہ اپنے دشمن کے التوبة : ۴ التوبة : الانفال: ۶۸
۱۵۹ نبیوں کا سردار قیدی بنالے.سوائے اس کے کہ باقاعدہ جنگ میں قیدی پکڑے جائیں.یعنی یہ رواج جو اُس زمانہ تک بلکہ اس کے بعد بھی صدیوں تک دنیا میں قائم رہا ہے کہ اپنے دشمن کے آدمیوں کو بغیر جنگ کے ہی پکڑ کر قید کر لینا جائز سمجھا جاتا تھا اُسے اسلام پسند نہیں کرتا.وہی لوگ جنگی قیدی کہلا سکتے ہیں جو میدانِ جنگ میں شامل ہوں اور لڑائی کے بعد قید کئے جائیں.ا (۹) پھر ان قیدیوں کے متعلق فرماتا ہے فَإِمَّا مَنَّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءَ یعنی جب جنگی قیدی پکڑے جائیں تو یا تو احسان کر کے انہیں چھوڑ دو یا اُن کا بدلہ لے کے اُن کو آزاد کردو.(۱۰) اگر کوئی قیدی ایسے ہوں جن کا بدلہ دینے والا کوئی نہ ہو یا اُن کے رشتہ دار اُن کے اموال پر قابض ہونے کیلئے یہ چاہتے ہوں کہ وہ قید ہی رہیں تو اچھا ہے تو اُن کے متعلق فرماتا ہے.وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيْهِمْ خَيْرًا ۖ وَآتُوهُمْ مِّنْ مَّالِ اللهِ الَّذِي آتَاكُمْ.یعنی تمہارے جنگی قیدیوں میں سے ایسے لوگ جن کو نہ تم احسان کر کے چھوڑ سکتے ہو اور نہ اُن کی قوم نے اُن کا فدیہ دے کر انہیں آزاد کروایا ہے اگر وہ تم سے یہ مطالبہ کریں کہ ہمیں آزاد کر دیا جائے ہم اپنے پیشہ اور ہنر کے ذریعہ سے روپیہ کما کر اپنے حصہ کا جرمانہ ادا کر دیں گے تو اگر وہ اس قابل ہیں کہ آزادانہ روزی کما سکیں تو تم ضرور انہیں آزاد کر دو بلکہ اُن کی کوشش میں خود بھی حصہ دار بنو اور خدا نے جو کچھ تمہیں دیا ہے اُس میں سے کچھ روپیہ اُن کے آزاد کرنے میں صرف کر دو یعنی اُن کے حصہ کا جو جنگی خرچ بنتا ہے یا اُس میں سے کچھ مالک چھوڑ دے یا دوسرے مسلمان مل کر اُس قیدی کی مالی امداد کریں اور اُسے آزاد کرائیں.محمد:۵ النور : ۳۴
17.نبیوں کا سردار یہ وہ حالات ہیں جن میں اسلام جنگ کی اجازت دیتا ہے اور یہ وہ قواعد ہیں جن کے ماتحت اسلام جنگ کی اجازت دیتا تھا.چنانچہ قرآن کریم کی ان آیات کی روشنی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مزید تعلیمات مسلمانوں کو دیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:.ا کسی صورت میں مسلمانوں کو مثلہ کرنے کی اجازت نہیں، یعنی مسلمانوں کو مقتولین جنگ کی ہتک کرنے یا اُن کے اعضاء کاٹنے کی اجازت نہیں ہے.۲.مسلمانوں کو کبھی جنگ میں دھوکا بازی نہیں کرنی چاہئے.کے.کسی بچے کو نہیں مارنا چاہئے اور نہ کسی عورت کو.سے لے ۴.پادریوں، پنڈتوں اور دوسرے مذہبی رہنماؤں کو قل نہیں کرنا چاہئے.گے ۵.بڑھے کو نہیں مارنا چاہئے ، بچے کو نہیں مارنا چاہئے ، عورت کو نہیں مارنا چاہئے اور ہمیشہ صلح اور احسان کو مدنظر رکھنا چاہئے.“ ۶.جب لڑائی کے لئے مسلمان جائیں تو اپنے دشمنوں کے ملک میں ڈر اور خوف پیدانہ کریں اور عوام الناس پر سختی نہ کریں ہے ے.جب لڑائی کے لئے نکلیں تو ایسی جگہ پر پڑاؤ نہ ڈالیں کہ لوگوں کے لئے تکلیف کا موجب ہو اور کوچ کے وقت ایسی طرز پر نہ چلیں کہ لوگوں کیلئے رستہ چلنا مشکل ہو جائے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا سختی سے حکم دیا ہے کہ فرمایا جو شخص ان احکام کے ل ، مسلم كتاب الجهاد و السير باب تأمیر الامام الامراء على البعوث (الخ) مسلم كتاب الجهاد باب تحريم قتل النساء والصبيان في الحرب (الخ) طحاوی كتاب الجهاد باب في قتل النساء و الصغار ابو داؤد کتاب الجهاد باب في دعاء المشركين مسلم کتاب لجهاد باب فی امر الجیوش با التيسر وترك التنفير
۱۶۱ نبیوں کا سردار خلاف کرے گا اُس کی لڑائی اُس کے نفس کے لئے ہوگی خدا کے لئے نہیں ہوگی لا لڑائی میں دشمن کے منہ پر زخم نہ لگائیں.و لڑائی کے وقت کوشش کرنی چاہئے کہ دشمن کو کم سے کم نقصان پہنچے.۱۰.جو قیدی پکڑے جائیں اُن میں سے جو قریبی رشتہ دار ہوں اُن کو ایک دوسرے سے جدا نہ کیا جائے.سے ۱۱.قیدیوں کے آرام کا اپنے آرام سے زیادہ خیال رکھا جائے.سے ۱۲.غیر ملکی سفیروں کا ادب اور احترام کیا جائے.وہ غلطی بھی کریں تو اُن سے چشم پوشی کی جائے.۱۳.اگر کوئی شخص جنگی قیدی کے ساتھ سختی کر بیٹھے تو اس قیدی کو بلا معاوضہ آزاد کر دیا جائے.۱۴.جس شخص کے پاس کوئی جنگی قیدی رکھا جائے وہ اُسے وہی کھلائے جو خود کھائے اور اُسے وہی پہنائے جو خود پہنے.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے انہی احکام کی روشنی میں مزید یہ حکم جاری فرمایا کہ عمارتوں کو گرا ؤ مت اور پھلدار درختوں کو کاٹومت.۵.ان احکام سے پتہ لگ سکتا ہے کہ اسلام نے جنگ کے روکنے کے لئے کیسی تدابیر اختیار کی ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس عمدگی کے ساتھ ان تعلیمات کو جامہ ابو داؤد کتاب لجهاد باب ما يؤمر من انضمان العسكر ابو داؤد کتاب لجهاد باب في التفريق بين الصبى ے ترمذی ابواب السیر ابو داؤد کتاب الجهاد باب فى الرسل مؤطا امام مالك كتاب الجهاد باب النهي عن قتل النساء والوالدان في الغزو
۱۶۲ نبیوں کا سردار پہنایا اور مسلمانوں کو ان پر عمل کرنے کی تلقین کی.ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ نہ موسی کی تعلیم اس زمانہ میں عدل کی تعلیم کہلا سکتی ہے نہ وہ اس زمانہ میں قابل عمل ہے اور نہ مسیح کی تعلیم اس زمانہ میں قابل عمل کہلا سکتی ہے اور نہ بھی عیسائی دنیا نے اس پر عمل کیا ہے.اسلام ہی کی تعلیم ہے جو قابل عمل ہے اور جس پر عمل کر کے دنیا میں امن قائم رکھا جا سکتا ہے.بیشک اس زمانہ میں مسٹر گاندھی نے دنیا کے سامنے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ جنگ کے وقت بھی جنگ نہیں کرنی چاہئے.لیکن جس تعلیم کو مسٹر گاندھی پیش کر رہے ہیں اُس پر دنیا میں کبھی عمل نہیں ہوا کہ ہم اُس کی برائی اور خوبی کا اندازہ کرسکیں.مسٹر گاندھی کی زندگی میں ہی کانگرس کو حکومت مل گئی ہے اور کانگرسی حکومت نے فوجوں کو ہٹایا نہیں بلکہ وہ یہ تجویزیں کر رہی ہے کہ آئی.این.اے کے وہ افسر جو برطانوی گورنمنٹ نے ہٹا دیئے تھے اُن کو دوبارہ فوج میں ملازم رکھا جائے.بلکہ کانگرسی حکومت کے ہندوستان میں قائم ہونے کے سات دن کے اند روزیرستان کے علاقہ میں نہتے آدمیوں پر ہوائی جہازوں کے ذریعہ سے بم گرائے گئے ہیں.خود گاندھی جی تشدد کرنے والوں کی تائید اور اُن کے چھوڑ دینے کے حق میں گورنمنٹ پر ہمیشہ زور دیتے رہے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نہ گاندھی جی نہ اُن کے پیرو اس تعلیم پر عمل کر سکتے ہیں اور نہ کوئی ایسی معقول صورت دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں جس سے معلوم ہو کہ قوموں اور ملکوں کی جنگ میں اس تعلیم پر کس طرح کامیاب طور پر عمل کیا جاسکتا ہے.بلکہ منہ سے اس تعلیم کا وعظ کرتے ہوئے اُس کے خلاف عمل کرنا بتاتا ہے کہ اس تعلیم پر عمل نہیں کیا جا سکتا.پس اس وقت تک دنیا کا تجربہ ہے اور عقل جس حد تک انسان کی راہنمائی کرتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہی طریقہ صحیح تھا جومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا.اَللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ -
۱۶۳ نبیوں کا سردار کفار کی طرف سے جنگ خندق کے بعد مسلمانوں پر حملے احزاب سے واپس لوٹنے کے بعد گو کفار کی ہمتیں ٹوٹ چکی تھیں اور اُن کے حوصلے پست ہو گئے تھے لیکن اُن کا یہ احساس باقی تھا کہ ہم اکثریت میں ہیں اور مسلمان تھوڑے ہیں اور وہ سمجھتے تھے کہ جہاں جہاں بھی ہو گا ہم مسلمانوں کو اکا دُکا پکڑ کر مارسکیں گے اور اس طرح اپنی ذلت کا بدلہ لے سکیں گے.چنانچہ احزاب کی شکست کے تھوڑے ہی عرصہ بعد مدینہ کے اردگرد کے قبائل نے مسلمانوں پر چھاپے مارنے شروع کر دیئے.چنانچہ فزارہ قوم کے کچھ سواروں نے مدینہ کے قریب چھاپہ مارا اور مسلمانوں کے اونٹ جو وہاں چر رہے تھے اُن کے چرواہے کو قتل کیا، اُس کی بیوی کو قید کر لیا اور اونٹوں سمیت بھاگ گئے.قیدی عورت تو کسی نہ کسی طرح بھاگ آئی لیکن اونٹوں کا ایک حصہ لے کر بھاگ جانے میں دشمن کامیاب ہو گیا.اس کے ایک مہینہ بعد شمال کی طرف غطفان قبیلہ کے لوگوں نے مسلمانوں کے اونٹوں کے گلوں کو لوٹنے کی کوشش کی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محمد بن مسلمہ کو دس سواروں سمیت حالات کے معلوم کرنے اور گلوں کی حفاظت کرنے کے لئے بجھوایا مگر دشمن نے موقع پا کر انہیں قتل کر دیا.محمد بن مسلمہ کو بھی وہ اپنی طرف سے قتل کر کے پھینک گئے تھے لیکن اصل میں وہ بیہوش تھے دشمن کے چلے جانے کے بعد وہ ہوش میں آئے اور مدینہ پہنچ کر ان حالات کی اطلاع دی اور بتایا کہ میرے سب ساتھی مارے گئے اور صرف میں بچا ہوں.کچھ دنوں کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سفیر جو رومی حکومت کی طرف بھجوایا گیا تھا اُس پر جرہم قوم نے حملہ کیا اور اُسے لوٹ لیا.اس کے ایک مہینہ بعد بنو فزارہ نے مسلمانوں کے ایک قافلہ پر حملہ کیا اور اسے لوٹ لیا.غالباً یہ حملہ کسی مذہبی عداوت کی وجہ
۱۶۴ نبیوں کا سردار سے نہیں تھا کیونکہ بنوفزارہ ڈاکوؤں کا ایک قبیلہ تھا جو ہر قوم کے آدمیوں کولوٹتے اور قتل کرتے رہتے تھے.اُس زمانہ میں خیبر کے یہودی بھی جو جنگ احزاب کا موجب ہوئے تھے اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لئے ادھر ادھر کے قبائل کو بھڑکاتے رہے اور رومی حکومت کے سرحدی علاقوں کے افسروں اور قبائل کو بھی مسلمانوں کے خلاف جوش دلاتے رہے.غرض کفار عرب کو مدینہ پر حملہ کرنے کی تو ہمت نہ رہی تھی تاہم وہ یہود کے ساتھ مل کر سارے عرب میں مسلمانوں کے لئے مصیبتوں اور لوٹ مار کے سامان پیدا کر رہے تھے مگرمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی تک کفار کے ساتھ آخری لڑائی لڑنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا اور آپ اس انتظار میں تھے کہ اگر صلح کے ساتھ یہ خانہ جنگی ختم ہوجائے تو اچھا ہے.پندرہ سو صحابہؓ کے ساتھ آنحضرت عملے کی ملکہ کو روانگی اس عرصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رو یاد دیکھی جس کا قرآن کریم میں ان الفاظ میں ذکر آتا ہے.لَقَدْ صَدَقَ اللهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَي لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِيْنَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِرِينَ لَا تَخَافُونَ ۖ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِنْ دُونِ ذَلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا ہے یعنی ضرور تم اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت مسجد حرام میں امن کے ساتھ داخل ہو گے.تم میں سے بعضوں کے سر منڈے ہوئے ہوں گے اور بعضوں کے بال کٹے ہوئے ہوں گے (حج کے وقت سر منڈانا اور بال کٹانا ضروری ہوتا ہے ) تم کسی سے نہ ڈر رہے ہو گے.اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو تم نہیں جانتے.اس وجہ سے اُس نے اس خواب کے پورا ہونے سے پہلے ایک اور فتح مقرر کر دی ہے جو خواب والی فتح کا پیش خیمہ ہوگی.الفتح: ٢٨
ܬܪܙ نبیوں کا سردار اس رویا میں درحقیقت صلح اور امن کے ساتھ مکہ کو فتح کرنے کی خبر دی گئی تھی لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعبیر یہی سمجھی کہ شاید ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خانہ کعبہ کا طواف کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور چونکہ اس غلط نہی سے اس قسم کی بنیاد پڑنے والی تھی اللہ تعالیٰ نے اس غلطی پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ نہ کیا.چنانچہ آپ نے اپنے صحابہ میں اس بات کا اعلان کیا اور انہیں بھی اپنے ساتھ چلنے کی تلقین کی.مگر فر ما یا ہم صرف طواف کی نیت سے جارہے ہیں کسی قسم کا مظاہرہ یا کوئی ایسی بات نہ کی جائے جو دشمن کی ناراضگی کا موجب ہو.چنانچہ آخر فروری ۶۲۸ء میں پندرہ سوزائرین کے ساتھ آپ مکہ کی طرف روانہ ہوئے ( ایک سال بعد کل پندرہ سو آدمیوں کا آپ کے ساتھ جانا بتاتا ہے کہ اس سے ایک سال پہلے جنگ احزاب کے موقع پر اس تعداد سے کم ہی سپاہی ہوں گے.کیونکہ ایک سال میں مسلمان بڑھے تھے گھٹے نہ تھے.پس جنگ احزاب میں لڑنے والوں کی تعداد جن مؤرخوں نے تین ہزار لکھی ہے یہ غلطی کی ہے.درست یہی ہے کہ اُس وقت بارہ سو سپاہی تھے ) حج کے قافلہ کے آگے ہیں سوار کچھ فاصلہ پر اس لئے چلتے تھے تا کہ اگر دشمن مسلمانوں کو نقصان پہنچانا چاہے تو اُن کو وقت پر اطلاع مل جائے.جب مکہ والوں کو آپ کے اس ارادہ کی اطلاع ہوئی تو باوجود اس کے کہ اُن کا اپنا مذہب بھی یہی تھا که طواف کعبہ میں کسی کے لئے روک نہیں ڈالنی چاہئے اور باوجود اس کے کہ مسلمانوں نے وضاحت سے اعلان کر دیا تھا کہ وہ صرف اور صرف طواف کعبہ کے لئے جارہے ہیں کسی قسم کی مخالفت یا جھگڑے کے لئے نہیں جار ہے مکہ والوں نے ملکہ کو ایک قلعہ کی صورت میں تبدیل کر دیا اور اردگرد کے قبائل کو بھی اپنی مدد کے لئے بلوایا.جب آپ مکہ کے قریب پہنچے تو آپ کو یہ اطلاع ملی کہ قریش نے چیتوں کی کھالیں پہن لی ہیں اور اپنی بیویوں اور بچوں کو ساتھ لے لیا ہے اور یہ قسمیں کھالی ہیں کہ وہ آپ کو گزرنے نہیں دیں گے.یہ عرب
۱۶۶ نبیوں کا سردار کا رواج تھا کہ جب قوم موت کا فیصلہ کر لیتی تھی تو اس کے سردار چیتے کی کھالیں پہن لیتے تھے جس کے معنی یہ ہوتے تھے کہ اب عقل کا وقت نہیں رہا، اب دلیری اور جرات سے ہم جان دے دیں گے.اس اطلاع کے ملنے کے تھوڑی دیر بعد ہی مکہ کی فوج کا ہر اول دستہ مسلمانوں کے سامنے آکھڑا ہوا اب اس مقام سے صرف اسی صورت میں آگے بڑھا جاسکتا تھا کہ تلوار کے زور سے دشمن کو زیر کیا جاتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ فیصلہ کر کے آئے تھے کہ بہر حال ہم نہیں لڑیں گے ، آپ نے ایک ہوشیار راہبر کو جو جنگل کے راستوں سے واقف تھا اُسے اس بات پر مقرر کیا کہ وہ جنگل کے اندر سے مسلمان زائرین کو لے کر مکہ تک پہنچا دے.یہ راہبر آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو لے کر حدیبیہ کے مقام پر جو مکہ کے قریب تھا جا پہنچا.یہاں آپ کی اونٹنی کھڑی ہو گئی اور اُس نے آگے چلنے سے انکار کر دیا.صحابہ نے کہا یا رَسُول اللہ ! آپ کی اونٹنی تھک گئی ہے آپ اس کی جگہ دوسری اونٹنی پر بیٹھ جائیں.مگر آپ نے فرمایا.نہیں نہیں یہ تھکی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا منشاء یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہاں ٹھہر جائیں اور میں یہیں ٹھہر کر مکہ والوں سے ہر طریقہ سے درخواست کروں گا کہ وہ ہمیں حج کی اجازت دے دیں اور خواہ کوئی شرط بھی وہ کریں میں اُسے منظور کر لوں گا.اُس وقت تک مکہ کی فوج مکہ سے دور فاصلہ پر کھڑی تھی اور مسلمانوں کا انتظار کر رہی تھی.اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو بغیر مقابلہ کے مکہ میں داخل ہو سکتے تھے.لیکن چونکہ آپ یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ پہلے آپ یہی کوشش کریں گے کہ مکہ والوں کی اجازت کے ساتھ طواف کریں اور اُسی صورت میں مقابلہ کریں گے کہ مکہ والے خود لڑائی شروع کر کے لڑنے پر مجبور کریں.اس لئے باوجود مکہ کی سڑک کے کھلا ہونے کے آپ نے حدیبیہ پر ڈیرہ ڈال دیا.تھوڑی ہی دیر میں یہ خبر کہ آپ حدیبیہ پر ڈیرے ڈالے پڑے ہیں مکہ کے لشکر کو بھی جا پہنچی اور اُس نے جلدی سے پیچھے ہٹ کر مکہ کے قریب صفیں بنالیں.
۱۶۷ نبیوں کا سردار سب سے پہلے بدیل نامی ایک سردار آپ سے بات کرنے کے لئے بھیجا گیا.جب وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا.میں تو صرف طواف کرنے کے لئے آیا ہوں.ہاں مکہ والے اگر ہمیں مجبور کریں تو ہمیں لڑنا پڑے گا.اس کے بعد مکہ کے کمانڈ رابوسفیان کا داماد عروہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے نہایت گستاخانہ طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر کہا کہ یہ اوباشوں کا گروہ آپ اپنے ساتھ لے کر آئے ہیں مکہ والے انہیں کسی صورت میں بھی اپنے شہر میں داخل ہونے نہیں دیں گے.اسی طرح یکے بعد دیگرے پیغامبر آتے رہے.آخر مکہ والوں نے کہلا بھیجا کہ خواہ کچھ ہو جائے اس سال تو ہم آپ کو طواف نہیں کرنے دیں گے کیونکہ اس میں ہماری ہتک ہے.ہاں اگر آپ اگلے سال آئیں تو ہم آپ کو اجازت دے دیں گے.بعض اردگرد کے لوگوں نے مکہ والوں سے اصرار کیا کہ یہ لوگ صرف طواف کے لئے آئے ہیں آپ ان کو کیوں روکتے ہیں مگر مکہ کے لوگ اپنی ضد پر قائم رہے.اس پر بیرونی قبائل کے لوگوں نے مکہ والوں سے کہا کہ آپ لوگوں کا یہ طریق بتاتا ہے کہ آپ کو شرارت مد نظر ہے صلح مدنظر نہیں اس لئے ہم لوگ آپ کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں.اس پر مکہ کے لوگ ڈر گئے اور اُنہوں نے اس بات پر آمادگی ظاہر کی کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ سمجھوتہ کی کوشش کریں گے.جب اس امر کی اطلاع رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے حضرت عثمان کو جو بعد میں آپ کے تیسرے خلیفہ ہوئے مکہ والوں سے بات چیت کرنے کے لئے بھیجا.جب حضرت عثمان مکہ پہنچے تو چونکہ مکہ میں اُن کی بڑی وسیع رشتہ داری تھی اُن کے رشته دار اُن کے گردا کٹھے ہو گئے اور اُن سے کہا کہ آپ طواف کر لیں لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگلے سال آکر طواف کریں.مگر عثمان نے کہا کہ میں اپنے آقا کے بغیر طواف نہیں کر سکتا.چونکہ رؤسائے مکہ سے آپ کی گفتگو لمبی ہو گئی ، مکہ میں بعض لوگوں نے
۱۶۸ نبیوں کا سردار شرارت سے یہ خبر پھیلا دی کہ عثمان کو قتل کر دیا گیا ہے اور یہ خبر پھیلتے پھیلتے رسول اللہ صلی علیہ وسلم تک بھی جا پہنچی.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو جمع کیا اور فر ما یا سفیر کی جان ہر قوم میں محفوظ ہوتی ہے.تم نے سنا ہے کہ عثمان کومکہ والوں نے ماردیا ہے اگر یہ خبر درست نکلی تو ہم بزور مکہ میں داخل ہوں گے ( یعنی ہمارا پہلا ارادہ کہ صلح کے ساتھ مکہ میں داخل ہوں گے جن حالات کے ماتحت تھا وہ چونکہ تبدیل ہو جائیں گے اس لئے ہم اس ارادہ کے پابند نہ رہیں گے ( جو لوگ یہ عہد کرنے کے لئے تیار ہوں کہ اگر ہمیں آگے بڑھنا پڑا تو یا ہم فتح کر کے لوٹیں گے یا ایک ایک کر کے میدان میں مارے جائیں گے وہ اس عہد پر میری بیعت کریں.آپ کا یہ اعلان کرنا تھا کہ پندرہ سوز ائر جو آپ کے ساتھ آیا تھا یکدم پندرہ سو سپاہی کی شکل میں بدل گیا اور دیوانہ وار ایک دوسرے پر پھاندتے ہوئے اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر دوسروں سے پہلے بیعت کرنے کی کوشش کی.یہ بیعت تمام اسلامی تاریخ میں بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے اور درخت کا عہد نامہ کہلاتی ہے کیونکہ جس وقت یہ بیعت لی گئی اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے نیچے بیٹھے تھے.جب تک اس بیعت میں شامل ہونے والا آخری آدمی بھی دنیا میں زندہ رہا وہ فخر سے اس بیعت کا ذکر کیا کرتا تھا.کیونکہ پندرہ سو آدمیوں میں سے ایک شخص نے بھی یہ عہد کرنے سے دریغ نہ کیا تھا کہ اگر دشمن نے اسلامی سفیر کو مار دیا ہے تو آج دوصورتوں میں سے ایک ضرور پیدا کر کے چھوڑیں گے.یا وہ شام سے پہلے پہلے مکہ کو فتح کر کے چھوڑیں گے یا شام سے پہلے پہلے میدانِ جنگ میں مارے جائیں گے.لیکن ابھی بیعت سے مسلمان فارغ ہی ہوئے تھے کہ حضرت عثمان واپس آگئے اور انہوں نے بتایا کہ مکہ والے اس سال تو عمرہ کی اجازت نہیں دے سکتے مگر آئندہ سال اجازت دینے کے لئے تیار ہیں.چنانچہ اس بارہ میں معاہدہ کرنے کے لئے انہوں نے اپنے نمائندے مقرر
۱۶۹ نبیوں کا سردار کر دیئے ہیں.حضرت عثمان کے آنے کے تھوڑی دیر بعد مکہ کا ایک رئیس سہیل نامی معاہدہ کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ معاہدہ لکھا گیا.شرائط صلح حدیبیہ خدا کے نام پر یہ شرائط صلح حمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اور سہیل ابن عمرو ( قائمقام حکومت مکہ کے درمیان طے پائی ہیں.جنگ دس سال کے لئے بند کی جاتی ہے.جو شخص محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ساتھ ملنا چاہے یا اُن کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہے وہ ایسا کر سکتا ہے.اور جو شخص قریش کے ساتھ ملنا چاہے یا معاہدہ کرنا چاہے وہ بھی ایسا کر سکتا ہے.اگر کوئی لڑکا جس کا باپ زندہ ہو یا ابھی چھوٹی عمر کا ہو وہ اپنے باپ یا متولی کی مرضی کے بغیر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس جائے تو اس کے باپ یا متولی کے پاس واپس کر دیا جائے گالیکن اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ساتھیوں میں سے کوئی قریش کی طرف جائے تو اُسے واپس نہیں کیا جائے گا.محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس سال مکہ میں داخل ہوئے بغیر واپس چلے جائیں گے لیکن اگلے سال محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے ساتھی مکہ میں آسکتے ہیں اور تین دن تک وہاں ٹھہر کر کعبہ کا طواف کر سکتے ہیں اس عرصہ میں قریش شہر سے باہر پہاڑی پر چلے جائیں گے.لیکن یہ شرط ہوگی کہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اُن کے ساتھی مکہ میں داخل ہوں تو اُن کے پاس کوئی ہتھیار نہ ہو سوائے اُس ہتھیار کے جو ہر مسافر اپنے پاس رکھتا ہے یعنی نیام میں ڈالی ہوئی تلوار لے ل السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۲۰ ۲۱ مطبوعہ بیروت ۱۳۲۰ ھ + سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحه ۱۸
۱۷۰ نبیوں کا سردار اس معاہدہ کے وقت دو عجیب باتیں ہوئیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرائط طے کرنے کے بعد معاہدہ لکھوانا شروع کیا تو آپ نے فرمایا ” خدا کے نام سے جو 66 بے انتہاء کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.سہیل نے اس پر اعتراض کیا اور کہا خدا کو تو ہم جانتے ہیں لیکن یہ بے انتہاء کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا“ ہم نہیں جانتے کون ہے.یہ معاہدہ ہمارے اور آپ کے درمیان ہے اور اس میں دونوں کے مذاہب کا احترام ضروری ہے.اس پر آپ نے اُس کی بات قبول کر لی اور صرف اتنا ہی لکھوایا کہ ” خدا کے نام پر ہم یہ معاہدہ کرتے ہیں“.پھر آپ نے یہ لکھوایا کہ یہ شرائط صلح مکہ والوں اور محمد رسول اللہ کے درمیان ہیں.اس پر پھر سہیل نے اعتراض کیا اور کہا کہ اگر ہم آپ کو خدا کا رسول مانتے تو آپ کے ساتھ لڑتے کیوں؟ آپ نے اُس کے اس اعتراض کو بھی قبول کر لیا اور بجائے محمد رسول اللہ کے محمد بن عبد اللہ “ لکھوا یا.چونکہ آپ مکہ والوں کی ہر بات مانتے چلے جاتے تھے ،صحابہ کے دل میں بے انتہاء رنج اور افسوس پیدا ہوا اور غصہ سے اُن کا خون کھولنے لگا یہاں تک کہ حضرت عمرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا یا رسول الله ! کیا ہم سچے نہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں! پھر انہوں نے کہا یا رَسُول اللہ! کیا آپ کو خدا نے یہ نہیں بتایا تھا کہ ہم خانہ کعبہ کا طواف کریں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں ! اس پر حضرت عمر نے کہا پھر آپ نے یہ معاہدہ آج کیوں کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.عمر ! خدا تعالیٰ نے مجھے یہ توفر ما یا تھا کہ ہم بیت اللہ کا طواف امن سے کریں گے مگر یہ تو نہیں فرمایا تھا کہ ہم اسی سال کریں گے یہ تو میرا اپنا اجتہاد تھا.اسی طرح بعض دوسرے صحابہ نے یہ اعتراض کیا کہ یہ اقرار کیوں کر لیا گیا ہے کہ اگر مکہ کے لوگوں میں سے کوئی نوجوان مسلمان ہوا تو اس کے باپ یا ولی کی طرف واپس کر دیا جائے گا لیکن جو مسلمان مکہ والوں کی طرف جائے گا
121 نبیوں کا سردار اُسے مکہ والے واپس کرنے پر مجبور نہ ہوں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا اس میں کون سے حرج کی بات ہے ہر شخص جو مسلمان ہوتا ہے وہ اسلام کو سچ سمجھ کر مسلمان ہوتا ہے رسمی اور رواجی طور پر مسلمان نہیں ہوتا.ایسا شخص جہاں بھی رہے گا وہ اسلام کی تبلیغ کرے گا اور اسلام کی اشاعت کا موجب ہوگا لیکن جو شخص اسلام سے مرتد ہوتا ہے ہم نے اُسے اپنے اندر رکھ کر کرنا کیا ہے.جو شخص ہمارے مذہب کو جھوٹا سمجھ بیٹھا ہے وہ ہمارے لئے کس فائدہ کا موجب ہوسکتا ہے.آپ کا یہ جواب ان غلطی خوردہ مسلمانوں کا بھی جواب ہے جو کہتے ہیں کہ اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے.اگر اسلام میں مرتد کی سز اقتل ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات پر اصرار کرتے کہ ہر مرتد واپس کیا جائے تا کہ اُس کو اُس کے جرم کی سزا دی جائے.جس وقت یہ معاہدہ لکھ کر ختم ہوا اور اس پر دستخط کر دیئے گئے.اُسی وقت اللہ تعالیٰ نے اس معاہدہ کی صحت کے پر کھنے کا سامان پیدا کر دیا.سہیل جو مکہ والوں کی طرف سے معاہدہ کر رہا تھا اس کا اپنا بیٹا رسیوں سے جکڑا ہوا اور زخموں سے چور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آکر گرا اور کہا یا رسول اللہ! میں دل سے مسلمان ہوں اور اسلام کی وجہ سے میرا باپ مجھے یہ تکلیفیں دے رہا ہے.میرا باپ یہاں آیا تو میں موقع پا کر آپ کے پاس پہنچا ہوں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی جواب نہ دیا تھا کہ اس کے باپ نے کہا معاہدہ ہو چکا ہے اور اس نوجوان کو واپس میرے ساتھ جانا ہوگا.ابو جندل کی حالت اُس وقت مسلمانوں کے سامنے تھی وہ اپنے ایک بھائی کو جو اپنے باپ کے ہاتھوں سے اس قدر ظلم برداشت کر رہا تھا واپس جانا دیکھ نہیں سکتے تھے.اُنہوں نے تلوار میں میانوں سے نکال لیں اور اس بات کا فیصلہ کر لیا کہ وہ مر جائیں گے مگر اپنے بھائی کو اس تکلیف کے مقام پر پھر جانے نہیں دیں گے.خودا بوجندل نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ! آپ میری حالت کو دیکھتے ہیں کیا آپ اس بات کو
۱۷۲ نبیوں کا سردار گوارا کریں گے کہ پھر مجھے ان ظالموں کے سپرد کر دیں تا کہ پہلے سے بھی زیادہ مجھ پر ظلم توڑیں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدا کے رسول معاہدے نہیں تو ڑا کرتے.ابو جندل! ہم معاہدہ کر چکے ہیں تم اب صبر سے کام لو اور خدا پر توکل کرو وہ تمہارے لیے اور تمہارے جیسے اور نوجوانوں کے لئے خود ہی بچنے کی کوئی راہ پیدا کر دے گا لے اس معاہدے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس مدینہ تشریف لے گئے.جب آپ مدینہ پہنچے تو مکہ کا ایک اور نوجوان ابو بصیر آپ کے پیچھے پیچھے دوڑتا ہوا مدینہ پہنچا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے بھی معاہدہ کے مطابق واپس جانے پر مجبور کیا مگر راستہ میں اُس کی اپنے پکڑنے والوں سے لڑائی ہو گئی اور اپنے ایک محافظ کو قتل کر کے وہ بھاگ گیا.مکہ والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر شکایت کی تو آپ نے فرمایا ہم نے تمہارا آدمی تمہارے حوالے کر دیا تھا ہم اس بات کے ذمہ دار نہیں کہ وہ جہاں کہیں بھی ہو ہم اُس کو پکڑ کر دوبارہ تمہارے سپر د کریں.سے اس کے تھوڑے دنوں بعد ایک عورت بھاگ کر مدینہ پہنچی.اس کے رشتہ داروں نے مدینہ پہنچ کر اُسے واپس بھجوانے کا مطالبہ کیا.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا معاہدہ میں مردوں کی شرط ہے عورتوں کی شرط نہیں اس لئے ہم عورت کو واپس نہیں کریں گے.سے بادشاہوں کے نام خطوط مدینہ تشریف لے آنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارادہ کیا کہ آپ سيرة ابن هشام جلد ۳ صفحه ۳۳۲.۳۳۳ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء سيرة ابن هشام جلد ۳ صفحه ۳۳۸۳۳۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء سيرة ابن هشام جلد ۳ صفحه ۳۴۰ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۱۷۳ نبیوں کا سردار اپنی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچائیں جب آپ نے اپنے اس ارادہ کا صحابہ سے ذکر کیا تو بعض صحابہ نے جو بادشاہی درباروں سے واقف تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ ! بادشاہ بغیر مہر کے خطا نہیں لیتے.اس پر آپ نے ایک مہر بنوائی جس پر محمد رسول اللہ کے الفاظ کھدوائے اور اللہ تعالیٰ کے ادب کے طور پر آپ نے سب سے اوپر اللہ کا لفظ لکھوا دیا.نیچے ”رسول“ کا اور پھر نیچے ”محمد“ کا لیے محرم ۶۲۸ء میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خط لے کر مختلف صحابہ مختلف ممالک کی طرف روانہ ہو گئے.ان میں سے ایک خط قیصر روما کے نام تھا اور ایک خط ایران کے بادشاہ کی طرف تھا.ایک خط مصر کے بادشاہ کی طرف تھا جو قیصر کے ماتحت تھا.ایک نجاشی کی طرف تھا جو حبشہ کا بادشاہ تھا.اسی طرح بعض اور بادشاہوں کی طرف آپ نے خطوط لکھے.قیصر روم ہرقل کے نام خط قیصر روما کا خط دحیہ کلبی صحابی کے ہاتھ بھیجا گیا اور آپ نے اُسے ہدایت کی تھی کہ پہلے وہ بصرہ کے گورنر کے پاس جائے جو نسلاً عرب تھا اور اس کی معرفت قیصر کو خط پہنچائے.جب دحیہ کلبی" گورنر بصرہ کے پاس خط لے کر پہنچے تو اتفاقاً انہی دنوں قیصر شام کے دورہ پر آیا ہوا تھا.چنانچہ گورنر بصرہ نے دحیہ کو اس کے پاس بجھوا دیا.جب دحیہ، گورنر بصرہ کی معرفت قیصر کے پاس پہنچے تو دربار کے افسروں نے اُن سے کہا کہ قیصر کی خدمت میں حاضر ہونے والے ہر شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ قیصر کو سجدہ کرے.دحیہ نے انکار کیا اور کہا کہ ہم مسلمان کسی انسان کو سجدہ نہیں کرتے چنانچہ بغیر سجدہ کرنے کے آپ اُس کے سامنے گئے اور خط پیش کیا.بادشاہ نے ترجمان سے خط پڑھوایا اور پھر حکم دیا کہ بخاری کتاب العلم باب ماين كر فى المناولة
۱۷۴ نبیوں کا سردار کوئی عرب کا قافلہ آیا ہو تو اُن لوگوں کو پیش کرو تا کہ میں اس شخص کے حالات اُن سے دریافت کروں.اتفاقاً ابوسفیان ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ اُس وقت وہاں آیا ہوا تھا.دربار کے افسر ابوسفیان کو بادشاہ کی خدمت میں لے گئے.بادشاہ نے حکم دیا کہ ابوسفیان کو سب سے آگے کھڑا کیا جائے اور اس کے ساتھیوں کو اس کے پیچھے کھڑا کیا جائے اور ہدایت کی کہ اگر ابوسفیان کسی بات میں جھوٹ بولے تو اس کے ساتھی اس کی فوراً تردید کریں.پھر اس نے ابوسفیان سے سوال کیا کہ :.سوال: یہ شخص جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے اور جس کا خط میرے پاس آیا ہے کیا تم اس کو جانتے ہواس کا خاندان کیسا ہے؟ جواب : ابوسفیان نے کہا.وہ اچھے خاندان کا ہے اور میرے رشتہ داروں میں سے ہے.سوال: پھر اُس نے پوچھا کیا ایسا دعویٰ عرب میں پہلے بھی کسی شخص نے کیا ہے؟ جواب: تو ابوسفیان نے جواب دیا نہیں.سوال: پھر اُس نے پوچھا کیا تم دعوی سے پہلے اُس پر جھوٹ کا الزام لگایا کرتے تھے؟ جواب : ابوسفیان نے کہا.نہیں.سوال : پھر اس نے پوچھا.کیا اس کے باپ دادوں میں سے کوئی بادشاہ بھی ہوا ہے؟ جواب : ابوسفیان نے کہا.نہیں.سوال: پھر بادشاہ نے پوچھا.اس کی عقل اور اس کی رائے کیسی ہوتی ہے؟ جواب : ابوسفیان نے جواب دیا.ہم نے اس کی عقل اور رائے میں کبھی کوئی عیب نہیں دیکھا.سوال: پھر قیصر نے پوچھا.کیا بڑے بڑے جابر اور قوت والے لوگ اس کی جماعت میں داخل ہوتے ہیں یا غریب اور مسکین لوگ؟ جواب : ابوسفیان نے جواب دیا.غریب اور مسکین اور نوجوان لوگ.
۱۷۵ نبیوں کا سردار سوال: پھر اس نے پوچھا.وہ بڑھتے ہیں یا گھٹتے ہیں؟ جواب: ابوسفیان نے جواب دیا.بڑھتے چلے جاتے ہیں.سوال: پھر قیصر نے پوچھا.کیا اُن میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو اُس کے دین کو برا سمجھ کے مرتد ہوئے ہیں.جواب : ابوسفیان نے کہا.نہیں.سوال: پھر اس نے پوچھا.کیا اس نے بھی اپنے عہد کو بھی توڑا ہے؟ جواب : ابوسفیان نے جواب دیا.آج تک تو نہیں.مگر اب ہم نے ایک نیا عہد باندھا ہے دیکھیں اب وہ اس کے متعلق کیا کرتا ہے.سوال: پھر اس نے پوچھا.کیا تمہارے اور اس کے درمیان کبھی جنگ بھی ہوئی ہے؟ جواب : ابوسفیان نے جواب دیا.ہاں.سوال: اس پر بادشاہ نے پوچھا.پھر ان لڑائیوں کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ جواب: ابوسفیان نے جواب دیا.گھاٹ کے ڈولوں والا حال ہے.کبھی ہمارے ہاتھ میں ڈول ہوتا ہے کبھی اس کے ہاتھ ڈول ہوتا ہے.چنانچہ ایک دفعہ بدر کی لڑائی ہوئی اور میں اس میں شامل نہیں تھا اس لئے وہ غالب آ گیا تھا اور دوسری دفعہ اُحد میں لڑائی ہوئی اُس وقت میں کمانڈر تھا.ہم نے ان کے پیٹ کاٹے اور اُن کے کان کاٹے ، ان کے ناک کاٹے.سوال: پھر قیصر نے پوچھا.وہ تمہیں کیا حکم دیتا ہے؟ جواب : ابوسفیان نے کہا وہ کہتا ہے کہ ایک خدا کی پرستش کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور ہمارے باپ دادا جن بتوں کی پوجا کرتے تھے وہ ان کی پوجا سے روکتا ہے اور ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم خدا کی عبادتیں کریں اور سچ بولا کریں اور برے اور
۱۷۶ نبیوں کا سردار گندے کاموں سے بچا کریں اور ہمیں کہتا ہے کہ کہ مروت اور وفائے عہد سے کام لیا کریں اور امانتوں کو ادا کیا کریں لے قیصر روم کا نتیجہ کہ آنحضرت عہ صادق نبی ہیں اس پر قیصر نے کہا.سنو میں نے تم سے یہ سوال کیا تھا کہ اس کا نسب کیسا ہے تو تم نے کہا وہ خاندانی لحاظ سے اچھا ہے اور انبیاء ہمیشہ ایسے ہی ہوا کرتے ہیں.پھر میں نے تم سے پوچھا کہ کیا اس سے پہلے کسی شخص نے ایسا دعویٰ کیا ہے تو تم نے کہا نہیں.یہ سوال میں نے اس لئے کیا تھا کہ اگر قریب زمانہ میں اس سے پہلے کسی شخص نے ایسا دعوی کیا ہوتا تو میں سمجھتا کہ یہ بھی اُس کی نقل کر رہا ہے.اور پھر میں نے تم سے پوچھا کہ کیا اس دعویٰ سے پہلے اس پر جھوٹ کا بھی الزام لگایا گیا ہے اور تم نے کہا نہیں تو میں نے سمجھ لیا کہ جو شخص انسانوں کے متعلق جھوٹ نہیں بولتا وہ خدا تعالیٰ کے متعلق بھی جھوٹ نہیں بول سکتا.پھر میں نے تم سے پوچھا کہ کیا اس کے باپ دادوں میں سے کوئی بادشاہ بھی تھا.تو تم نے کہا نہیں.تو میں نے سمجھ لیا کہ اس کے دعوئی کی یہ وجہ نہیں کہ اس بہانہ سے اپنے باپ دادا کا ملک واپس لینا چاہتا ہے.پھر میں نے تم سے پوچھا کہ کیا جابر اور زبردست لوگ اس کی جماعت میں داخل ہوتے ہیں یا کمزور اور مسکین طبع لوگ.تو تم نے جواب دیا کہ کمزور اور مسکین طبع لوگ.تو میں نے سوچا کہ تمام انبیاء کی جماعت میں اکثر مسکین طبع اور غریب ہی داخل ہوا کرتے ہیں نہ کہ جابر اور متکبر لوگ.پھر میں نے تم سے پوچھا کہ کیا وہ بڑھتے ہیں یا گھٹتے ہیں.تو تم نے کہا وہ بڑھتے ہیں اور یہی حالت نبیوں کی جماعت کی ہوا کرتی ہے جب تک وہ کمال کو نہیں پہنچ جاتی اُس وقت تک وہ بڑھتے چلے جاتے ہیں.پھر میں نے تم سے پوچھا کہ کیا بخاری کتاب الوحی باب کیف كان بدء الوحى الى رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (الخ)
122 نبیوں کا سردار کوئی شخص اُس کے دین کو نا پسند کر کے مرتد بھی ہوتا ہے تو تم نے کہا نہیں اور ایسا ہی انبیاء کی جماعت کا حال ہوتا ہے کسی اور وجہ سے کوئی شخص نکلے تو نکلے دین کو برا سمجھ کر نہیں نکلتا.پھر میں نے تم سے پوچھا کہ کیا تمہارے درمیان کبھی لڑائی بھی ہوئی ہے اور اس کا انجام کیا ہوتا ہے.تو تم نے کہا لڑائی ہمارے درمیان گھاٹ کے ڈول کی طرح ہے اور نبیوں کا یہی حال ہے.شروع شروع میں اُن کی جماعتوں پر مصیبتیں آتی ہیں لیکن آخر وہی جیتے ہیں.پھر میں نے تجھ سے پوچھا.وہ تمہیں کیا تعلیم دیتا ہے.تو تم نے جواب دیا کہ وہ نماز کی اور سچائی کی اور پاکدامنی کی اور وفائے عہد کی اور امانت دار ہونے کی تعلیم دیتا ہے اور اسی طرح میں نے تجھ سے پوچھا کہ کیا وہ دھوکا بازی بھی کرتا ہے؟ تو تم نے کہا نہیں اور یہ طور وطریق تو ہمیشہ نیک لوگوں کے ہی ہوا کرتے ہیں.پس میں سمجھتا ہوں کہ وہ نبوت کے دعوی میں سچا وو.ہے اور میرا خود یہ خیال تھا کہ اس زمانہ میں وہ نبی آنے والا ہے، مگر میرا یہ خیال نہیں تھا کہ وہ عربوں میں پیدا ہونے والا ہے اور جو جواب تو نے مجھے دیئے ہیں اگر وہ سچے ہیں تو پھر میں سمجھتا ہوں کہ وہ ان ممالک پر ضرور قابض ہو جائے گا.اس کی ان باتوں پر اس کے درباریوں میں جوش پیدا ہو گیا اور انہوں نے کہا آپ مسیحی ہوتے ہوئے ایک غیر قوم کے آدمی کی صداقت کا اقرار کر رہے ہیں اور دربار میں احتجاج کی آواز میں بلند ہونے لگیں.اس پر دربار کے افسروں نے جلدی سے ابوسفیان اور اُس کے ساتھیوں کو دربار سے باہر نکال دیا ہے بخاری کتاب الوحی باب كيف كان بدء الوحي الى رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (الخ)
۱۷۸ نبیوں کا سردار آنحضرت ﷺ کے خط بنام ہر قل کا مضمون یہ خط جو رسول ﷺ نے قیصر کے نام لکھا تھا اسکی عبارت پیتھی :.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ وَ رَسُوْلِهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلامِ أَسْلِمُ تَسْلَمْ يُؤْتِكَ اللهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الْأَرِيسِيِّينَ وَيَا أَهْلَ الْكِتَبِ تَعَالَوْا إِلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَخَذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ یعنی یہ خط محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول کی طرف سے رُوم کے بادشاہ ہرقل کی طرف لکھا جاتا ہے.جو شخص بھی خدا کی ہدایت کے پیچھے چلے اُس پر خدا کی سلامتیاں نازل ہوں.اس کے بعد اے بادشاہ! میں تجھے اسلام کی دعوت پیش کرتا ہوں ( یعنی خدائے واحد اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی ) اے بادشاہ ! تو مسلمان ہو جا.تو خدا تجھے تمام فتنوں سے بچالے گا.اور تجھے دُہرا اجر دے گا.( یعنی عیسی پر ایمان لانے کا بھی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا بھی ) لیکن اگر تو نے اس بات کے ماننے سے انکار کر دیا تو صرف تیری ہی جان کا گناہ تجھ پر نہیں ہوگا بلکہ تیری رعایا کے ایمان نہ لانے کا گناہ بھی تجھ پر بخاری کتاب الوحی باب كيف كان بدء الوحى الى رسول اللہ ﷺ + زرقانی جزء ۵ صفحه ۱۲ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۶
۱۷۹ نبیوں کا سردار ہوگا.(آخر میں قرآن شریف کی آیت درج تھی جس کے معنی یہ ہیں کہ ) اے اہل کتاب! آؤ اس بات پر تو اکٹھے ہو جائیں جو تمہارے اور ہمارے درمیان مشترک ہے یعنی ہم خدا تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی چیز کو اُس کا شریک نہ بنائیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا ہم کسی بندے کو بھی اتنی عزت نہ دیں کہ وہ خدائی صفات سے متصف کیا جانے لگے.اگر اہل کتاب اس دعوت اتحاد کو قبول نہ کریں تو اے محمد رسول اللہ اور ان کے ساتھیو! ان سے کہہ دو کہ ہم تو خدا تعالیٰ کے فرمانبردار ہیں.بعض تاریخوں میں لکھا ہے کہ جب یہ خط بادشاہ کے سامنے پیش ہوا تو در بایوں میں سے بعض نے کہا کہ اس خط کو پھاڑ کر پھینک دینا چاہئے کیونکہ اس میں بادشاہ کی ہتک کی گئی ہے اور خط کے اوپر بادشاہ روم نہیں لکھا گیا بلکہ صاحب الروم یعنی روم کا والی لکھا ہے مگر بادشاہ نے کہا یہ عقل کے خلاف ہے کہ خط پڑھنے سے پہلے پھاڑ دیا جائے اور یہ جو اُس نے ، مجھے روم کا والی لکھا ہے یہ درست ہے آخر مالک تو خدا ہی ہے میں والی ہی ہوں.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا روم کے بادشاہ نے جو طریق اختیار کیا ہے اس کی وجہ سے اس کی حکومت بچالی جائے گی اور اس کی اولاد دیر تک حکومت کرتی رہے گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.بعد کی جنگوں میں گو بہت سا ملک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دوسری پیشگوئی کے ماتحت روم کے بادشاہ کے ہاتھ سے چھینا گیا مگر اس واقعہ کے چھ سو سال بعد تک اس کے خاندان کی حکومت قسطنطنیہ میں قائم رہی.روم کی حکومت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط بہت دیر تک محفوظ رہا.چنانچہ بادشاہ منصور قلادون کے بعض سفیر ایک دفعہ بادشاہ روم کے پاس گئے تو بادشاہ نے ان کو دکھانے کے لئے ایک صندوقچہ منگوایا اور کہا کہ میرے ایک دادا کے نام تمہارے رسول کا ایک خط آیا تھا
۱۸۰ نبیوں کا سردار جو آج تک ہمارے پاس محفوظ ہے.فارس کے بادشاہ کے نام خط رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خط فارس کے بادشاہ کی طرف لکھا تھا وہ عبداللہ بن حذافہ کی معرفت بجھوایا گیا تھا اس کے الفاظ یہ تھے:.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ.مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُوْلِ اللَّهِ إِلَى كِسْرَى عَظِيْمِ الْفَارِسِ سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَآمَنَ بِاللَّهِ وَرَسُوْلِهِ وَشَهِدَ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَانَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ وَ اَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ اللهِ عَزَّوَجَلَّ فَإِنِّي أَنَا رَسُولَ اللَّهِ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً لا نَذِرَ مَنْ كَانَ حَيًّا وَيَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكَافِرِينَ أَسْلِمُ تَسْلَمُ فَإِنْ أَبَيْتَ فَعَلَيْكَ إِثْمُ الْمَجُوسِ یعنی اللہ کا نام لے کر جو بے انتہاء کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے یہ خط محمد رسول اللہ نے کسری فارس کے سردار کی طرف لکھا ہے.جو شخص کامل ہدایت کی اتباع کرے اور اللہ پر اور اُس کے رسول پر ایمان لائے اور گواہی دے کہ اللہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں اُس پر خدا کی سلامتی ہو.اے بادشاہ! میں تجھے خدا کے حکم کے ماتحت اسلام کی طرف بلاتا ہوں کیونکہ میں تمام انسانوں کی طرف خدا کی طرف سے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں تا کہ ہر زندہ شخص کو میں ہوشیار کر دوں اور کافروں پر حجت تمام کر دوں.تو اسلام قبول کرتا تو ہر ایک فتنہ سے محفوظ رہے اگر تو اس دعوت سے انکار کرے گا تو سب مجوس تاریخ طبری جزء الثالث صفحہ ۷ ۲۴.مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء
کا گناہ تیرے ہی سر پر ہوگا.۱۸۱ نبیوں کا سردار عبداللہ بن حذافہ کہتے ہیں کہ جب میں کسری کے دربار میں پہنچا تو میں نے اندر آنے کی اجازت طلب کی جو دی گئی.جب میں نے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط کسری کے ہاتھ میں دیا تو اُس نے ترجمان کو پڑھ کر سنانے کا حکم دیا.جب ترجمان نے اس کا ترجمہ پڑھ کر سنایا تو کسری نے غصہ سے خط پھاڑ دیا.جب عبد اللہ بن حذافہ نے یہ خبر آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنائی تو آپ نے فرمایا.کسری نے جو کچھ ہمارے خط کے ساتھ کیا خدا تعالیٰ اس کی بادشاہت کے ساتھ بھی ایسا ہی کرے گا.کسری کی اس حرکت کا باعث یہ تھا کہ عرب کے یہودیوں نے اُن یہودیوں کے ذریعہ سے جو روم کی حکومت سے بھاگ کر ایران کی حکومت میں چلے گئے تھے اور بوجہ رومی حکومت کے خلاف سازشوں میں کسری کا ساتھ دینے کے کسریٰ کے بہت منہ چڑھے ہوئے تھے کسری کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بہت بھڑکا رکھا تھا.جو شکایتیں وہ کر رہے تھے اس خط نے کسری کے خیال میں اُن کی تصدیق کر دی اور اس نے خیال کیا کہ یہ شخص میری حکومت پر نظر رکھتا ہے.چنانچہ اس خط کے معا بعد کسری نے اپنے یمن کے گورنر کو ایک چٹھی لکھی جس کا مضمون یہ تھا کہ قریش میں سے ایک شخص نبوت کا دعوی کر رہا ہے اور اپنے دعوؤں میں بہت بڑھتا چلا جاتا ہے تو فوراً اس کی طرف دو آدمی بھیج جو اُس کو پکڑ کر میری خدمت میں حاضر کریں.اس پر باذان نے جو اُس وقت کسری کی طرف سے یمن کا گورنر تھا ایک فوجی افسر اور ایک سوار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھجوائے اور ایک خط بھی آپ کی طرف لکھا کہ آپ اس خط کے ملتے ہی فوراً ان لوگوں کے ساتھ کسری کے دربار میں حاضر ہو جائیں.وہ افسر پہلے مکہ کی طرف گیا.طائف کے قریب پہنچ کر اُسے معلوم ہوا کہ آپ مدینہ میں رہتے ہیں.چنانچہ وہ وہاں سے مدینہ گیا.مدینہ پہنچ کر اس نے رسول اللہ صلی اللہ
۱۸۲ نبیوں کا سردار علیہ وسلم سے کہا کہ کسری نے باذان گورنر یمن کو حکم دیا ہے کہ آپ کو پکڑ کر اُس کی خدمت میں حاضر کیا جائے.اگر آپ اس حکم کا انکار کریں گے تو وہ آپ کو بھی ہلاک کر دے گا اور آپ کی قوم کو بھی ہلاک کر دے گا اور آپ کے ملک کو برباد کر دے گا اس لئے آپ ضرور ہمارے ساتھ چلیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی بات سن کر فرمایا.اچھا کل پھر مجھ سے ملنا.رات کو آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور خدائے ذوالجلال نے آپ کو خبر دی کہ کسری کی گستاخی کی سزا میں ہم نے اس کے بیٹے کو اُس پر مسلط کر دیا ہے چنانچہ وہ اُسی سال جمادی الاولی کی دسویں تاریخ پیر کے دن اس کو قتل کر دے گا اور بعض روایات میں ہے کہ آپ نے فرمایا آج کی رات اس نے اُسے قتل کر دیا ہے ممکن ہے وہ رات وہی دس جمادی الاولیٰ کی رات ہو.جب صبح ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن دونوں کو بلایا اور اُن کو اس پیشگوئی کی خبر دی.پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باذان کی طرف خط لکھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ کسری فلاں تاریخ فلاں مہینے قتل کر دیا جائے گا.جب یہ خط یمن کے گورنر کو پہنچا تو اس نے کہا اگر یہ سچا نبی ہے تو ایسا ہی ہو جائے گا.ورنہ اس کی اور اس کے ملک کی خیر نہیں.تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ایران کا ایک جہاز یمن کی بندرگاہ پر آکر ٹھہرا اور گورنر کو ایران کے بادشاہ کا ایک خط دیا جس کی مہر کو دیکھتے ہوئے یمن کے گورنر نے کہا.مدینہ کے نبی نے سچ کہا تھا.ایران کی بادشاہت بدل گئی اور اس خط پر ایک اور بادشاہ کی مہر ہے.جب اس نے خط کھولا تو اس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ باذان گورنر یمن کی طرف ایران کے کسری شیرویہ کی طرف سے یہ خط لکھا جاتا ہے.میں نے اپنے باپ سابق کسری کو قتل کر دیا ہے اس لئے کہ اس نے ملک میں خونریزی کا دروازہ کھول دیا تھا اور ملک کے شرفاء کوقتل کرتا تھا اور رعایا پر ظلم کرتا تھا.جب میرا یہ خط تم تک پہنچے تو فوراً تمام افسروں سے میری اطاعت کا اقرار لو اور اس سے پہلے میرے باپ نے جو عرب کے ایک نبی کی
۱۸۳ نبیوں کا سردار گرفتاری کا حکم تم کو بجھوایا تھا اس کو منسوخ سمجھو.لے یہ خط پڑھ کر باذان اتنا متاثر ہوا کہ اُسی وقت وہ اور اس کے کئی ساتھی اسلام لے آئے اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اسلام کی اطلاع دے دی.نجاشی شاہ حبشہ کے نام خط تیسر ا خط آپ نے نجاشی کے نام لکھا جو عمر و بن امیہ ضمری کے ہاتھ بجھوایا تھا اس کی عبارت یہ تھی.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ.مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ إِلَى النَّجَاثِيَ مَلِكِ الْحَبْشَةَ سَلِمَ أَنْتَ اَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَحْمَدُ إِلَيْكَ اللَّهَ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ وَاَشْهَدُ اَنَّ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رُوحُ اللَّهِ وَ كَلِمَتُةُ الْقَاهَا إِلى مَرْيَمَ الْبَتُولَ وَإِنِّي اَدْعُوكَ إِلَى اللَّهِ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَالْمَوَالَاة عَلى طَاعَتِهِ وَإِنْ تَتَّبِعَنِي وَتُؤْمِنَ بِالَّذِي جَاءَ فِي فَإِنِّي رَسُولُ اللهِ وَإِنِّي ادْعُوكَ وَ جُنُودَكَ إِلَى اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ وَقَدْ بَلَّغْتُ وَ نَصَحَتُ فَاقْبِلُوْا نَصِيْحَتِي سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى یعنی اللہ تعالیٰ کا نام لے کر جو بے انتہاء کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.محمد رسول اللہ نجاشی حبشہ کے بادشاہ کی طرف یہ خط لکھتے ہیں.اے بادشاہ! تجھ پر خدا کی سلامتی نازل ہو رہی ہے (چونکہ اس بادشاہ نے مسلمانوں کو پناہ دی تھی اس لئے آپ نے اُس کو خبر دی کہ تیرا یہ تاریخ طبری الجزء الثالث صفحه ۲۴۷ تا ۲۴۹ دار الفکر بیروت ۱۹۸۷ء السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۲۷۹.مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۱۸۴ نبیوں کا سردار فعل خدا کے نزدیک مقبول ہوا ہے اور تو خدا کی حفاظت میں ہے) میں اس خدا کی حمد تیرے سامنے بیان کرتا ہوں جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں جو حقیقی بادشاہ ہے، جو تمام پاکیزگیوں کا جامع ہے جو ہر عیب سے پاک ہے اور ہر نقص سے پاک کرنے والا ہے، جو اپنے بندوں کے لئے امن کے سامان پیدا کرتا ہے اور اپنی مخلوق کی حفاظت کرتا ہے.میں گواہی دیتا ہوں کہ عیسی بن مریم اللہ تعالیٰ کے کلام کو دنیا میں پھیلانے والے تھے اور خدا تعالیٰ کے ان وعدوں کو پورا کرنے والے تھے جو خدا تعالیٰ نے مریم سے جس نے اپنی زندگی خدا کے لئے وقف کر دی تھی پہلے سے کئے ہوئے تھے اور میں تجھے خدائے وحدہ لاشریک سے تعلق پیدا کرنے اور اُس کی اطاعت پر باہمی معاہدہ کرنے کی دعوت دیتا ہوں اور تجھے اس بات کی میں دعوت دیتا ہوں کہ تو میری اتباع کرے اور اُس خدا پر ایمان لائے جس نے مجھے ظاہر کیا ہے کیونکہ میں اُس کا رسول ہوں اور میں تجھے دعوت دیتا ہوں اور تیرے لشکروں کو بھی خدائے عزوجل کے دین میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہوں.میں نے اپنی ذمہ داری کو ادا کر دیا ہے اور خدا کا پیغام تجھ تک پہنچا دیا ہے اور اخلاص سے تم پر حقیقت کھول دی ہے پس میرے اخلاص کی قدر کرو اور ہر شخص جو خدا تعالیٰ کی ہدایت کی اتباع کرتا ہے اس پر خدا تعالیٰ کی طرف سے سلامتی نازل ہوتی ہے.جب یہ خط نجاشی کو پہنچا تو اس نے بڑے ادب سے اس خط کو اپنی آنکھوں سے لگایا اور تخت سے نیچے اُتر کر کھڑا ہو گیا اور کہا کہ ہاتھی دانت کا ایک ڈبہ لاؤ.چنانچہ ایک ڈبہ لایا گیا اُس نے وہ خط ادب کے ساتھ اُس ڈبہ میں رکھ دیا اور کہا کہ جب تک یہ خط محفوظ رہے
۱۸۵ نبیوں کا سردار گا حبشہ کی حکومت بھی محفوظ رہے گی.چنانچہ نجاشی کا یہ خیال درست ثابت ہوا ایک ہزار سال تک اسلام ساری دنیا پرسمندر کی لہروں کی طرح اُٹھتا ہوا پھیلتا چلتا گیا لیکن حبشہ کے دائیں سے بھی اسلامی لشکر نکل گئے اور حبشہ کے بائیں سے بھی اسلامی لشکر نکل گئے.مگر اس احسان کی وجہ سے جو حبشہ کے بادشاہ نے ابتدائی اسلامی مہاجرین کے ساتھ کیا تھا اور اس احترام کی وجہ سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کا نجاشی نے کیا تھا اُنہوں نے حبشہ کی طرف نظر اُٹھا کر بھی نہ دیکھا.قیصر جیسے بادشاہ کی حکومت کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے.کسری جیسے بادشاہ کی حکومت کا نام ونشان مٹ گیا.چین اور ہندوستان کی شہنشاہیاں تہہ و بالا کر دی گئیں مگر حبشہ کی ایک چھوٹی سی حکومت محفوظ رکھی گئی اس لئے کہ اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی ساتھیوں کے ساتھ ایک احسان اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کا ادب اور احترام کیا تھا.یہ تو وہ سلوک تھا جو ایک ادنیٰ سے احسان کے بدلہ میں حبشہ والوں سے مسلمانوں نے کیا.مگر عیسائی اقوام نے جو ایک گال پر تھپڑ کھا کر دوسرا بھی پھیر دینے کی مدعی ہیں اپنے ہم مذہب اور ہم طریقہ بادشاہ حبشہ اور اس کی قوم کے ساتھ جو سلوک اِن دنوں کیا ہے وہ بھی دنیا کے سامنے ظاہر ہے.کس طرح حبشہ کے شہروں کو بمباری سے اُڑا دیا گیا اور بادشاہ اور اُس کی محترم ملکہ اور اُس کے بچوں کو اپنا ملک چھوڑ کر غیر ملکوں میں سالہا سال پناہ لینی پڑی.کیا حبشہ سے یہ دو قسم کا سلوک ایک مسلمانوں کا ایک عیسائیوں کا اُس قوت قدسیہ کو ثابت نہیں کرتا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی اور جو آج تک بھی کہ مسلمان بہت کچھ دین سے دور جاچکے ہیں اُن کے خیالات کو نیکی اور احسان مندی کی طرف مائل رکھتی ہے.
۱۸۶ نبیوں کا سردار مقوقس شاہ مصر کے نام خط چوتھا خط آپ نے مقوقس بادشاہ مصر کی طرف لکھا تھا اور یہ خط حاطب بن ابی بلتعہ کی معرفت آپ نے بھجوایا.اس کا مضمون یہ تھا:.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُوْلِ اللَّهِ إِلَى الْمَقَوْقَسِ عَظِيمٍ الْقِبْطِ سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ أَسْلِمُ تَسْلَمْ يُؤْتِكَ اللهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ فَإِن تَوَلَّيْتَ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ إِثْمُ الْقِبْطِ وَيَا أَهْلَ الْكِتَب تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَن لَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ یہ خط بعینہ وہی ہے جو روم کے بادشاہ کو لکھا گیا تھا، صرف یہ فرق ہے کہ اُس میں یہ لکھا تھا کہ اگر تم نہ مانے تو رومی رعایا کے گناہوں کا بوجھ بھی تم پر ہو گا اور اس میں یہ تھا کہ قبطیوں کے گناہوں کا بوجھ تم پر ہو گا.جب حاطب مصر پہنچے تو اُس وقت مقوقس اپنے دار الحکومت میں نہیں تھا بلکہ اسکندریہ میں تھا.حاطب اسکندریہ گئے جہاں بادشاہ نے سمندر کے کنارے ایک مجلس لگائی ہوئی تھی.حاطب ایک کشتی میں سوار ہو کر اُس مقام تک گئے اور چونکہ اردگرد پہرہ تھا اُنہوں نے دور سے خط کو بلند کر کے آوازیں دینی شروع کیں.بادشاہ نے حکم دیا کہ اس شخص کو لایا جائے اور اس کی خدمت میں پیش کیا جائے.بادشاہ نے خط پڑھا اور حاطب سے کہا اگر یہ سچا نبی ہے تو اپنے دشمنوں کے خلاف دعا کیوں نہیں کرتا؟ حاطب نے کہا کہ تم عیسی بن مریم پر تو ایمان لاتے ہو.یہ کیا بات ہے کہ عیسی کو ل السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۲۸۰-۲۸۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۱۸۷ نبیوں کا سردار اُن کی قوم نے دُکھ دیا لیکن عیسی نے یہ دعا نہ کی کہ وہ ہلاک ہو جائیں.بادشاہ نے سن کر کہا کہ تم ایک عقلمند کی طرف سے ایک عظمند سفیر ہو اور تم نے خوب جواب دیا ہے.اس پر حاطب نے کہا اے بادشاہ! تجھ سے پہلے ایک بادشاہ تھا جو کہا کرتا تھا کہ میں بڑا رب ہوں یعنی فرعون.آخر خدا نے اُس پر عذاب نازل کیا.پس تو تکبر نہ کر اور خدا کے اس نبی پر ایمان لے آ اور خدا کی قسم ! موسیٰ نے عیسی کے متعلق ایسی خبریں نہیں دیں جیسی عیسی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق دی ہیں اور ہم تمہیں اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلاتے ہیں جس طرح تم لوگ یہودیوں کو عیسی کی طرف بلاتے ہو اور ہر نبی کی ایک امت ہوتی ہے اور اُس کا فرض ہوتا ہے کہ اُس کی اطاعت کرے.پس جبکہ تم نے اس نبی کا زمانہ پایا ہے تو تمہارا فرض ہے کہ اس کو قبول کرو اور ہمارا دین تم کو مسیح کی اتباع سے روکتا نہیں بلکہ ہم تو دوسروں کو بھی حکم دیتے ہیں کہ وہ مسیح پر ایمان لائیں.اس پر مقوقس نے کہا میں نے اس نبی کے حالات سنے ہیں اور میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ وہ کسی بُری بات کا حکم نہیں دیتا اور کسی اچھی بات سے روکتا نہیں اور میں نے معلوم کیا ہے کہ وہ شخص ساحروں اور کا ہنوں کی طرح نہیں ہے اور میں نے بعض اس کی پیشگوئیاں سنی ہیں جو پوری ہوئی ہیں.پھر اُس نے ایک ڈبیہ ہاتھی دانت کی منگوائی اور اُس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط رکھ دیا اور اُس پر مہر لگا دی اور اپنی ایک لونڈی کے سپر د کر دیا اور پھر اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام یہ خط لکھا: بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ محمد بن عبد اللہ کی طرف مقوقس قبط کا بادشاہ خط لکھتا ہے کہ آپ پر سلامتی ہو.اس کے بعد میں یہ کہتا ہوں کہ میں نے آپ کا خط پڑھا ہے اور جو کچھ اس میں آپ نے ذکر کیا ہے اور جن باتوں کی طرف بلایا ہے اُن پر غور کیا ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ اسرائیلی
۱۸۸ نبیوں کا سردار پیشگوئیوں کے مطابق ایک نبی کا آنا ابھی باقی ہے.لیکن میرا خیال تھا کہ وہ شام سے ظاہر ہو گا میں نے آپ کے سفیر کو بڑی عزت سے ٹھہرایا ہے اور ایک ہزار پونڈ اور پانچ جوڑے خلعت کے طور پر اُسے دیئے ہیں اور میں دو مصری لڑکیاں آپ کے لئے تحفہ کے طور پر بجھوا رہا ہوں.قبطی قوم کے نزدیک ان لڑکیوں کی بڑی عزت ہے اور ان میں سے ایک کا نام ماریہ ہے اور ایک کا نام سیرین ہے اور مصری کپڑے کے اعلیٰ درجہ کے ہیں جوڑے بھی آپ کی خدمت میں بجھوا رہا ہوں اور اسی طرح ایک خچر آپ کی سواری کے لئے بجھوا رہا ہوں اور آخر میں پھر دعا کرتا ہوں کہ خدا کی آپ پر سلامتی ہو اس خط سے معلوم ہوتا ہے کہ گو مقوقس نے آپ کے خط سے ادب اور احترام کا معاملہ کیا مگر وہ اسلام نہیں لایا.رئیس بحرین کے نام خط پانچواں خط آپ نے مندر تیمی کی طرف جو بحرین کا رئیس تھا بجھوایا تھا.یہ خط علاء ابن حضرمی کے ہاتھ بجھوایا گیا تھا.اس خط کی عبارت محفوظ نہیں.یہ خط جب اس کے پاس پہنچا تو وہ ایمان لے آیا اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کولکھا کہ میں اور میرے بہت سے ساتھی آپ پر ایمان لے آئے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو اسلام میں داخل نہیں ہوئے اور میرے ملک میں کچھ یہودی اور مجوسی بھی رہتے ہیں آپ اُن کے بارہ میں مجھے حکم دیں کہ میں ان سے کیا سلوک کروں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو خط لکھا جس کی عبارت یہ تھی کہ ہمیں خوشی ہوئی ہے کہ تم نے اسلام قبول کر لیا ہے جو پیغامبر میری طرف سے آئیں تم اُن کے احکام کی اتباع کیا کرو.کیونکہ جو ان کی ابتاع کرے گا وہ میری اتباع کرے گا.جو میر اسفیر تمہاری طرف گیا تھا اُس نے تمہاری بہت تعریف کی ہے اور ظاہر کیا ل السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۲۸۱ مطبوع مصر ۱۹۳۵ء
۱۸۹ نبیوں کا سردار ہے کہ تم نے اسلام قبول کر لیا ہے اور میں نے خدا تعالیٰ سے تمہاری قوم کے بارہ میں دعا کی ہے.پس مسلمانوں میں اسلامی طور و طریق جاری کرو اور ان کے اموال کی حفاظت کرو اور چار بیویوں سے زیادہ کسی کو اپنے گھر میں رکھنے کی اجازت نہ دو اور مسلمان ہونے والوں سے جو گناہ پہلے ہو چکے ہیں وہ انہیں معاف کئے جائیں اور جب تک نیکی پر قائم رہو گے تمہیں اپنی حکومت سے معزول نہیں کیا جائے گا اور جو یہودی یا مجوس ہیں ان پر صرف ایک ٹیکس مقر ر ہے اور کوئی مطالبہ ان سے نہ کرنا ہے اس کے علاوہ آپ نے عمان کے بادشاہ اور یمامہ کے سردار اور غسان کے بادشاہ اور یمن کے قبیلہ بنی نہد کے سردار اور یمن کے قبیلہ ہمدان کے سردار اور بنی علیم کے سردار اور حضر می قبیلہ کے سردار کی طرف بھی خطوط لکھے.جن میں سے اکثر لوگ مسلمان ہو گئے.ان خطوط کا لکھنا بتاتا ہے کہ آپ خدا تعالیٰ پر کیسا کامل یقین رکھتے تھے اور کس طرح شروع سے ہی آپ کو یہ یقین تھا کہ آپ کسی ایک قوم کی طرف نبی بنا کر نہیں بھیجے گئے بلکہ آپ ساری اقوام کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جن بادشاہوں اور رئیسوں کو خط لکھے گئے تھے ان میں سے بعض اسلام لے آئے.بعضوں نے ادب اور احترام کے ساتھ خط تو قبول کر لئے لیکن اسلام نہ لائے.بعضوں نے معمولی شرافت دکھائی اور بعضوں نے خود پسندی اور کبر کا نمونہ دکھایا لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں اور دنیا کی تاریخ اس پر شاہد ہے کہ اُن میں سے ہر بادشاہ اور قوم کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کیا گیا جیسا کہ اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطوں کے ساتھ معاملہ کیا تھا.زرقانی جلد ۵ صفحه ۳۴ تا ۶ ۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۶ ء + السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۲۷۸
۱۹۰ نبیوں کا سردار قلعہ خیبر کی تسخیر جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے یہودی اور کفار عرب مسلمانوں کے خلاف ارد گرد کے قبائل کو ابھار رہے تھے اور اب یہ دیکھ کر کہ عرب میں اتنی سکت باقی نہیں رہی کہ وہ مسلمانوں کو تباہ کر سکیں یا مدینہ پر جا کر حملہ کر سکیں.یہودیوں نے ایک طرف تو رومی حکومت کی جنوبی سرحد پر رہنے والے عرب قبائل کو جو مذہبا عیسائی تھے، اُکسانا شروع کیا اور دوسری طرف اپنے ان ہم مذہبوں کو جو عراق میں رہتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف چٹھیاں لکھنی شروع کیں تا کہ وہ کسری کو مسلمانوں کے خلاف بھڑ کا ئیں.میں یہ بھی او پر لکھ چکا ہوں کہ اس شرارت کے نتیجہ میں کسری مسلمانوں کے خلاف سخت بھڑک گیا تھا اور اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفتاری کے لئے یمن کے گورنر کو حکم بھی دے دیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کو محفوظ رکھا اور کسری اور یہودیوں کی تدبیر کو نا کام کر دیا.ظاہر ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل نہ ہوتا تو جہاں تک مادی سامانوں کا تعلق ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف کسری اور دوسری طرف قیصر کے لشکروں کا کیا مقابلہ کر سکتے تھے.خدا ہی تھا جس نے کسری کو مار دیا اور اس کے بیٹے سے یہ حکم جاری کروا دیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملہ میں کوئی کارروائی نہ کی جائے اور اس نشان کو دیکھ کر یمن کے حکام اسلام لے آئے اور یمن کا صوبہ بغیر لشکر کشی کے اسلامی حکومت میں داخل ہو گیا.یہ صورت حالات جو یہود نے پیدا کر دی تھی اس بات کی متقاضی تھی کہ یہود کو مدینہ سے اور بھی پرے دھکیل دیا جائے کیونکہ اگر وہ مدینہ کے قریب رہتے تو یقینا اور بھی زیادہ خونریزیوں اور شرارتوں اور سازشوں کے مرتکب ہوتے.پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ سے واپس آنے کے قریباً پانچ ماہ بعد یہ فیصلہ کیا کہ یہودی خیبر سے جو مدینہ سے صرف چند منزل
۱۹۱ نبیوں کا سردار کے فاصلہ پر تھا اور جہاں سے مدینہ کے خلاف آسانی سے سازش کی جاسکتی تھی نکال دیئے جائیں.چنانچہ آپ نے سولہ سو صحابہ کے ساتھ اگست ۶۲۸ء میں خیبر کی طرف کوچ فرمایا.خیبر ایک قلعہ بند شہر تھا اور اس کے چاروں طرف چٹانوں کے اوپر قلعے بنے ہوئے تھے.ایسے مضبوط شہر کو اتنے تھوڑے سے سپاہیوں کے ساتھ فتح کر لینا کوئی آسان بات نہ تھی اردگرد کی چھوٹی چھوٹی چوکیاں تو چھوٹی چھوٹی لڑائیوں کے بعد فتح ہو گئیں.لیکن جب یہودی سمٹ سمٹا کر شہر کے مرکزی قلعہ میں آگئے تو اس کے فتح کرنے کی تمام تدابیر بیکار جانے لگیں.ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے بتایا کہ اس شہر کی فتح حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر مقدر ہے آپ نے صبح کے وقت یہ اعلان کیا کہ میں اسلام کا سیاہ جھنڈا آج اس کے ہاتھ میں دوں گا جس کو خدا اور اس کا رسول اور مسلمان پیار کرتے ہیں خدا تعالیٰ نے اس قلعہ کی فتح اس کے ہاتھ پر مقدر کی ہے.اس کے بعد دوسری صبح آپ نے حضرت علی کو بلایا اور جھنڈا اُن کے سپر د کیا.جنہوں نے صحابہ کی فوج کو ساتھ لے کر قلعہ پر حملہ کیا.باوجود اس کے کہ یہودی قلعہ بند تھے اللہ تعالیٰ نے حضرت علی اور دوسرے صحابہ کو اُس دن ایسی قوت بخشی کہ شام سے پہلے پہلے قلعہ فتح ہو گیا اور اس بات پر صلح ہوئی کہ تمام یہودی اور ان کے بیوی بچے خیبر چھوڑ کر مدینہ سے دور چلے جائیں گے اور ان کے تمام اموال مسلمانوں کے حق میں ضبط ہوں گے اور یہ کہ جو شخص اس معاملہ میں جھوٹ سے کام لے گا اور کوئی مال یا جنس چھپا کر رکھے گا وہ اس معاہدہ کی حفاظت میں نہیں آئے گا اور غداری کی سزا کا مستحق ہوگا.تین عجیب واقعات اس جنگ میں تین عجیب واقعات پیش آئے کہ اُن میں سے ایک تو خدا تعالیٰ کے بخاری کتاب المغازی باب غزوة خيبر
۱۹۲ نبیوں کا سردار ایک نشان پر دلالت کرتا ہے اور دو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق عالیہ پر.نشان تو یہ ہے کہ اس جنگ کے بعد جب خیبر کے رئیس کنانہ کی بیوی صفیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں تو آپ نے دیکھا کہ ان کے چہرہ پر کچھ لمبے لمبے نشان ہیں.آپ نے فرمایا صفیہ ! تمہارے یہ نشان کیسے ہیں؟ انہوں نے کہا یا رَسُول اللہ! ایک دن میں نے ایک خواب دیکھی کہ چاند گر کر میری جھولی میں آپڑا ہے.میں نے دوسرے دن یہ خواب اپنے خاوند کو سنائی میرے خاوند نے کہا یہ عجیب خواب ہے تمہارا باپ بڑا عالم آدمی ہے اُس کو چل کر یہ خواب سنانی چاہئے.چنانچہ میں نے اپنے باپ سے اس کا ذکر کیا تو خواب سنتے ہی اُس نے زور سے میرے منہ پر تھپڑ مارا اور کہا نالائق ! کیا تو عرب کے بادشاہ سے شادی کرنا چاہتی ہے! سے یہ اس نے اس لئے کہا کہ عرب کا قومی نشان چاند تھا.اگر کوئی خواب میں یہ دیکھتا کہ چاند اس کی جھولی میں آپڑا ہے تو اس کی تعبیر یہ کی جاتی تھی کہ عرب کے بادشاہ کے ساتھ اس کا تعلق ہو گیا ہے اور اگر کوئی خواب دیکھتا کہ چاند پھٹ گیا ہے یا گر گیا ہے تو اس کی تعبیر یہ کی جاتی تھی کہ عرب کی حکومت میں تفرقہ پڑ گیا ہے یا وہ تباہ ہوگئی ہے.یہ خواب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کا ایک نشان ہے اور اس بات کا بھی نشان ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو غیب کی خبریں دیتا رہتا ہے.گومؤمنوں کو زیادہ اور غیر مؤمنوں کو کم.حضرت صفیہ ابھی یہودی ہی تھیں کہ ان کو خدا تعالیٰ نے یہ مصفی غیب عطا فر مایا جس کے مطابق ان کا خاوند معاہدہ کی خلاف ورزی کی سزا میں مارا گیا اور وہ باوجود اس کے کہ ایک اور صحابی کی قید میں گئی تھیں بعض لوگوں کے اصرار پر بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں اور اس طرح وہ غیب پورا ہوا جو خدا تعالیٰ نے انہیں بتایا تھا.دوسرا قابل ذکر واقعہ یہ ہے کہ خیبر کے محاصرہ کے دنوں میں ایک یہودی رئیس کا گلہ سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحه ۳۵۱٬۳۵۰ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۱۹۳ نبیوں کا سردار بان جو اس کی بکریاں چرایا کرتا تھا مسلمان ہو گیا.مسلمان ہونے کے بعد اس نے کہا یا رَسُول اللہ! میں اب ان لوگوں میں تو جا نہیں سکتا اور یہ بکریاں اُس یہودی کی میرے پاس امانت ہیں اب میں ان کو کیا کروں؟ آپ نے فرمایا بکریوں کا منہ قلعہ کی طرف کر دو اوران کو دھکیل دو.خدا تعالیٰ ان کو ان کے مالک کے پاس پہنچا دے گا.چنانچہ اس نے اسی طرح کیا اور بکریاں قلعہ کے پاس چلی گئیں جہاں سے قلعہ والوں نے ان کو اندر داخل کرلیات اس واقعہ سے پتہ لگتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس شدت سے امانت کے اصول پر عمل کرتے تھے اور کرواتے تھے.لڑنے والوں کے اموال آج بھی جنگ میں حلال سمجھتے جاتے ہیں کیا ایساواقعہ آجکل کے زمانہ میں جو مہذب زمانہ کہلاتا ہے کبھی ہوا ہے کہ دشمن فوج کے جانور ہاتھ آگئے ہوں تو ان کو دشمن فوج کی طرف واپس کر دیا گیا ہو؟ باوجود اس کے کہ وہ بکریاں ایک لڑنے والے دشمن کا مال تھیں اور باوجود اس کے کہ ان کے قلعے میں واپس چلے جانے کے نتیجہ میں دشمن کے لئے مہینوں کی غذا کا سامان ہو جا تا تھا جس کے بھروسہ پر وہ ایک لمبے عرصہ تک محاصرہ کو جاری رکھ سکتا تھا.آپ نے ان بکریوں کو قلعہ میں واپس کروادیا تا ایسا نہ ہو کہ اس مسلمان کی امانت میں فرق آئے جس کے سپر دبکریاں تھیں.تیسرا واقعہ یہ ہوا کہ ایک یہودی عورت نے صحابہ سے پوچھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جانور کے کس حصہ کا گوشت زیادہ پسند ہے؟ صحابہ نے بتایا کہ آپ کو دست کا گوشت زیادہ پسند ہے.اس پر اس نے بکرا ذبح کیا اور پتھروں پر اس کے کباب بنائے اور پھر اس گوشت میں زہر ملا دیا.خصوصاً بازوؤں میں جس کے متعلق اسے بتایا گیا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں کا گوشت زیادہ پسند کرتے ہیں.سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحه ۳۵۷،۳۵۶ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۱۹۴ نبیوں کا سردار سورج ڈوبنے کے بعد جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شام کی نماز پڑھ کر اپنے ڈیرے کی طرف واپس آرہے تھے تو آپ نے دیکھا کہ آپ کے خیمے کے پاس ایک عورت بیٹھی ہے.آپ نے اس سے پوچھا.بی بی تمہارا کیا کام ہے؟ اس نے کہا اے ابو القاسم ! میں آپ کے لئے ایک تحفہ لائی ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ساتھی صحابی سے فرمایا جو چیز یہ دیتی ہے اس سے لے لو.اس کے بعد آپ کھانے کے لئے بیٹھے تو کھانے پر وہ بھنا ہوا گوشت بھی رکھا گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے ایک لقمہ کھایا اور آپ کے ایک صحابی بشیر بن البراء بن المعرور نے بھی ایک لقمہ کھایا.اتنے میں باقی صحابہ نے بھی گوشت کھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو آپ نے فرمایا مت کھاؤ کیونکہ اس ہاتھ نے مجھے خبر دی ہے کہ گوشت میں زہر ملا ہوا ہے ( اس کے یہ معنی نہیں کہ آپ کو اس بارہ میں کوئی الہام ہوا تھا بلکہ یہ عرب کا محاورہ ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کا گوشت چکھ کر مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس میں زہر ملا ہوا ہے چنانچہ قرآن کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ایک دیوار کے متعلق آتا ہے کہ وہ گر نا چاہتی تھی ہے جس کے محض یہ معنی ہیں کہ اس میں گرنے کے آثار پیدا ہو چکے تھے.پس اس جگہ پر بھی یہ مراد نہیں کہ آپ نے فرمایا وہ دست بولا بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس کا گوشت چکھنے پر مجھے معلوم ہوا ہے.چنانچہ اگلا فقرہ ان معنوں کی وضاحت کر دیتا ہے ) اس پر بشیر نے کہا کہ جس خدا نے آپ کو عزت دی ہے اُس کی قسم کھا کر میں کہتا ہوں کہ مجھے بھی اس لقمہ میں زہر معلوم ہوا ہے.میرا دل چاہتا تھا کہ میں اس کو پھینک دوں لیکن میں نے سمجھا کہ اگر میں نے ایسا کیا تو شاید آپ کی طبیعت پر گراں نہ گزرے اور آپ کا کھانا خراب نہ ہو جائے اور جب آپ نے وہ لقمہ نکلا تو میں نے بھی آپ کے تتبع میں وہ نگل لیا.گو میرا دل یہ کہ رہا تھا کہ چونکہ مجھے شبہ ہے کہ اس میں زہر فوجدا فيها جدار ايريد ان ينقض (الكهف: ۷۸)
۱۹۵ نبیوں کا سردار ہے اس لئے کاش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ لقمہ نہ لگالیں.اس کے تھوڑی دیر بعد بشیر کی طبیعت خراب ہوگئی اور بعض روایتوں میں تو یہ ہے کہ وہ وہیں خیبر میں فوت ہو گئے اور بعض میں یہ ہے کہ اس کے بعد کچھ عرصہ بیمار رہے اور اس کے بعد فوت ہو گئے.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ گوشت اس کا ایک کتے کے آگے ڈلوایا جس کے کھانے سے وہ مر گیا.تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو بلا یا اور فرما یا تم نے اس بکری میں زہر ملایا ہے؟ اس نے کہا آپ کو یہ کس نے بتایا ہے؟ آپ کے ہاتھ میں اُس وقت بکری کا دست تھا آپ نے فرمایا اس ہاتھ نے مجھے بتایا ہے.اس پر اس عورت نے سمجھ لیا کہ آپ پر یہ راز کھل گیا ہے اور اس نے اقرار کیا کہ اس نے زہر ملایا ہے.اس پر آپ نے اس سے پوچھا کہ اس ناپسندیدہ فعل پر تم کو کس بات نے آمادہ کیا ؟ اُس نے جواب دیا کہ میری قوم سے آپ کی لڑائی ہوئی تھی اور میرے رشتہ دار اس لڑائی میں مارے گئے تھے میرے دل میں یہ خیال آیا کہ میں ان کو زہر دے دوں.اگر ان کا کاروبار انسانی کا روبار ہو گا تو ہمیں ان سے نجات حاصل ہو جائے گی اور اگر یہ واقعہ میں نبی ہوں گے تو خدا تعالیٰ ان کو خود بچالے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی یہ بات سن کر اُسے معاف فرما دیاہے اور اُس کی سزا جو یقینا قتل تھی نہ دی.یہ واقعہ بتاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح اپنے مارنے والوں اور اپنے دوستوں کے مارنے والوں کو بخش دیا کرتے تھے اور در حقیقت اُسی وقت آپ سزا دیا کرتے تھے جب کسی شخص کا زندہ رہنا آئندہ بہت سے فتنوں کا موجب ہوسکتا تھا.طواف کعبہ ہجرت کے ساتویں سال فروری ۶۲۹ء میں معاہدہ کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحه ۲۵۲، ۲۵۳ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶
۱۹۶ نبیوں کا سردار وسلم نے طواف کے لئے جانا تھا.چنانچہ جب وہ وقت آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریباً دو ہزار آدمیوں سمیت طواف کعبہ کے لئے روانہ ہوئے.جب آپ مر الظہر ان تک پہنچے جو مکہ سے ایک پڑاؤ پر ہے تو معاہدہ کے مطابق آپ نے تمام بھاری ہتھیار اور زرہیں وہاں جمع کر دیں اور خود اپنے صحابہ سمیت معاہدہ کے مطابق صرف نیام بند تلواروں کے ساتھ حرم میں داخل ہوئے.سات سالہ جلاوطنی کے بعد مہاجرین کا مکہ میں داخل ہونا کوئی معمولی بات نہیں تھی.اُن کے دل ایک طرف ان لمبے مظالم کی یاد کر کے خون بہا رہے تھے جو مکہ میں ان پر کئے جاتے تھے اور دوسری طرف خدا تعالیٰ کے اس فضل کو دیکھ کر کہ پھر خدا تعالیٰ نے انہیں کعبہ کے طواف کا موقع نصیب کیا ہے وہ خوش بھی ہورہے تھے.مکہ کے لوگ مکہ سے نکل کر پہاڑ کی چوٹیوں پر کھڑے ہو کر مسلمانوں کو دیکھ رہے تھے.مسلمانوں کا دل چاہتا تھا کہ آج وہ ان پر ظاہر کر دیں کہ خدا تعالیٰ نے انہیں پھر مکہ میں داخل ہونے کی توفیق بخشی یا نہیں.چنانچہ عبد اللہ بن رواحہ نے اس موقع پر جنگی گیت گانے شروع کئے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک دیا اور فرمایا.ایسے شعر نہ پڑھو بلکہ یوں کہو کہ خدا کے سوا اور کوئی معبود نہیں، وہ خدا ہی ہے جس نے اپنے رسول کی مدد کی اور مؤمنوں کو ذلت کے گڑھے سے نکال کر اُونچا کیا.صرف خدا ہی ہے جس نے دشمنوں کو ان کے سامنے سے بھگا دیا.طواف کعبہ اور سعی بین الصفاء والمر وہ سے فراغت کے بعد آپ صحابہ سمیت تین دن تک مکہ میں ٹھہرے.حضرت عباس کی سالی میمونہ جو دیر سے بیوہ ہو چکی تھیں مکہ میں تھیں حضرت عباس نے خواہش کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس سے شادی کر لیں اور آپ نے اسے منظور فرمالیا.چوتھے دن مکہ والوں نے مطالبہ کیا کہ آپ حسب معاہدہ مکہ سے نکل جائیں اور آپ نے فوراً تمام صحابہ کو حکم دیا کہ فوراً مکہ چھوڑ کر مدینہ کی طرف روانہ ہو جائیں.مکہ والوں کے احساسات کا خیال کر کے نئی بیاہی ہوئی میمونہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا
۱۹۷ نبیوں کا سردار کہ وہ بعد میں اسباب کی سواریوں کے ساتھ آجائیں اور خودا پنی سواری دوڑا کر حرم کی حدود سے باہر نکل گئے اور وہیں شام کے وقت آپ کی بیوی میمونہ کو پہنچایا گیا اور پہلی رات و ہیں جنگل میں میمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوئیں لے آنحضرت عل کے تعد دازواج پر اعتراض کا جواب وسام یہ واقعہ ایسا نہیں ہے کہ اس کو ایسی مختصر سیرت میں بیان کیا جاتا، جس قسم کی سیرت میں اس وقت لکھ رہا ہوں لیکن اس واقعہ کا ایک ایسا پہلو ہے جو مجھے مجبور کرتا ہے کہ اس معمولی سے واقعہ کو اس جگہ لکھ دوں اور وہ یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اُن کی کئی بیویاں تھیں اور یہ کہ آپ کا یہ فعل نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذلِك عیاشی پر مبنی تھا مگر جب ہم اس تعلق کو دیکھتے ہیں جو آپ کی بیویوں کو آپ کے ساتھ تھا تو ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ آپ کا تعلق ایسا پاکیزہ ، ایسا بے لوث اور ایسا روحانی تھا کہ کسی ایک بیوی والے مرد کا تعلق بھی اپنی بیوی سے ایسا نہیں ہوتا.اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق اپنی بیویوں سے عیاشی کا ہوتا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا چاہئے تھا کہ آپ کی بیویوں کے دل کسی روحانی جذبہ سے متاثر نہ ہوتے.مگر آپ کی بیویوں کے دل میں آپ کی جو محبت تھی اور آپ سے جو نیک اثر انہوں نے لیا تھاوہ بہت سے ایسے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کی بیویوں کے متعلق تاریخ سے ثابت ہے.مثلاً یہی واقعہ کتنا چھوٹا سا تھا کہ میمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلی دفعہ حرم سے باہر ایک خیمہ میں ملیں.اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُن سے تعلق کوئی جسمانی تعلق ہوتا، اور اگر آپ بعض بیویوں کو بعض پر ترجیح دینے والے ہوتے تو میمونہ اس واقعہ کو اپنی زندگی کا کوئی اچھا واقعہ نہ سمجھتیں بلکہ سیرت ابن هشام جلد ۴ صفحه ۱۳، ۱۴.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۱۹۸ نبیوں کا سردار کوشش کرتیں کہ یہ واقعہ اُن کی یاد سے بھول جائے.لیکن میمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پچاس سال زندہ رہیں اور ۸۰ سال کی ہو کر فوت ہوئیں.مگر اس برکت والے تعلق کو وہ ساری عمر بجھلا نہ سکیں.۷۰ سال کی عمر میں جب جوانی کے جذبات سب سرد ہو چکے ہوتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے پچاس سال بعد جو عرصہ ایک مستقل عمر کہلانے کا مستحق ہے میمونہ فوت ہوئیں اور اُس وقت اُنہوں نے اپنے اردگرد کے لوگوں سے درخواست کی کہ جب میں مرجاؤں تو مکہ کے باہر ایک منزل کے فاصلہ پر اس جگہ جس جگہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خیمہ تھا اور جس جگہ پہلی دفعہ میں آپ کی خدمت میں پیش کی گئی تھی میری قبر بنائی جائے اور اُس میں مجھے دفن کیا جائے.۳۴۵؎ دنیا میں بچے نو اور بھی ہوتے ہیں اور قصے کہانیاں بھی مگر سچے نو اور میں سے بھی اور قصے نوادر کہانیوں میں سے بھی کیا کوئی واقعہ اس گہری محبت سے زیادہ پر تاثیر پیش کیا جا سکتا ہے؟ خالد بن ولید اور عمرو بن العاص کا قبول اسلام زیارت کعبہ سے واپسی کے بعد جلد ہی دو ایسے آدمی اسلام میں داخل ہوئے جو اسلامی جنگوں کے شروع سے لے کر اس وقت تک کفار کے زبر دست جرنیلوں میں شامل تھے اور جو اسلام لانے کے بعد اسلام کے ایسے مشہور جرنیل ثابت ہوئے کہ تاریخ اسلام میں سے ان لوگوں کا نام مٹایا نہیں جا سکتا.یعنی خالد بن ولید جس نے بعد میں روما کی حکومت کی بنیادیں ہلا دیں اور علاقہ کے بعد علاقہ فتح کر کے اسلامی حکومت میں داخل کیا اور عمر و بن العاص جنہوں نے مصر کو فتح کر کے اسلامی حکومت میں شامل کیا.ل سيرت الحلبية جلد ۳ صفحه ۷۴ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۱۹۹ نبیوں کا سردار جنگ موتہ جب آپ زیارت کعبہ سے واپس آئے تو آپ کو اطلاعات ملنی شروع ہوئیں کہ شام کی سرحد پر عیسائی عرب قبائل یہودیوں اور کفار کے اُکسانے پر مدینہ پر حملہ کی تیاریاں کر رہے ہیں.چنانچہ آپ نے پندرہ آدمیوں کی ایک پارٹی اس غرض کے لئے شام کی سرحد پر بجھوائی کہ وہ تحقیقات کریں کہ یہ افواہیں کہاں تک صحیح ہیں.جب یہ لوگ شامی سرحد پر پہنچے تو وہاں دیکھا کہ ایک لشکر جمع ہورہا ہے.بجائے اس کے کہ یہ لوگ واپس آکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دیتے تبلیغ کا جوش جو اُس زمانہ میں مؤمن کی سچی علامت ہوا کرتا تھا اُن پر غالب آ گیا اور دلیری سے آگے بڑھ کر انہوں نے اُن لوگوں کو اسلام کی دعوت دینی شروع کر دی.جو لوگ دشمنوں کے اُکسائے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وطن پر حملہ کر کے اُسے فتح کرنا چاہتے تھے وہ ان لوگوں کی تو حید کی تعلیم سے بھلا کہاں متأثر ہو سکتے تھے.جونہی ان لوگوں نے اُن کو اسلام کی تعلیم سنانی شروع کی چاروں طرف سے سپاہیوں نے کمانیں سنبھال لیں اور اُن پر تیر برسانے شروع کر دیئے.جب مسلمانوں نے دیکھا کہ ہماری تبلیغ کا جواب بجائے دلائل اور براہین پیش کرنے کے یہ لوگ تیر پھینک رہے ہیں تو وہ بھاگے نہیں اور اس سینکڑوں اور ہزاروں کے مجمع سے انہوں نے اپنی جانیں نہیں بچائیں بلکہ سچے مسلمانوں کے طور پر وہ پندرہ آدمی ان سینکڑوں ہزاروں آدمیوں کے مقابلہ پر ڈٹ گئے اور سارے کے سارے وہیں مرکر ڈھیر ہو گئے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ ایک اور لشکر بھیج کر ان لوگوں کو سزا دیں جنہوں نے ایسا ظالمانہ فعل کیا تھا.اتنے میں آپ کو اطلاع ملی کہ وہ لشکر جو وہاں جمع ہو رہے تھے پراگندہ ہو گئے ہیں اور آپ نے کچھ مدت کیلئے اس ارادہ کو ملتوی کر دیا.
۲۰۰ نبیوں کا سردار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی دوران میں غسان قبیلہ کے رئیس کو جو رومی حکومت کی طرف سے بصرہ کا حاکم تھا یا خود قیصر روما کو ایک خط لکھا.غالباً اس خط میں مذکورہ بالا واقعہ کی شکایت ہوگی کہ بعض شامی قبائل اسلامی علاقہ پر حملہ کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں اور یہ کہ انہوں نے بلاوجہ پندرہ مسلمانوں کو قتل کر دیا ہے.یہ خط الحرث نامی ایک صحابی کے ہاتھ بجھوایا گیا تھا.وہ شام کی طرف جاتے ہوئے موتہ نامی ایک مقام پر ٹھہرے جہاں غسان قبیلہ کا ایک رئیس سرجیل نامی جو قیصر کے مقرر کردہ حکام میں سے تھا اُنہیں ملا اور اُس نے ان سے پوچھا کہ تم کہاں جارہے ہو؟ شاید تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغامبر ہو؟ انہوں نے کہا ہاں.اس پر اُس نے ان کو گرفتار کر لیا اور رسیوں سے باندھ کر مار مار کر انہیں مار دیا.گو تاریخ میں اس کی تشریح نہیں آئی لیکن یہ واقعہ بتاتا ہے کہ جس لشکر نے پہلے پندرہ صحابیوں کو مارا تھا یہ شخص اس کے لیڈروں میں سے ہوگا.چنانچہ اس کا یہ سوال کرنا کہ شاید تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغامبروں میں سے ہو بتا تا ہے کہ اُس کو خوف تھا کہ محمد رسول اللہ قیصر کے پاس شکایت کریں گے کہ تمہارے علاقہ کے لوگ ہمارے علاقہ کے لوگوں پر حملہ کرتے ہیں اور وہ ڈرتا ہوگا کہ شاید بادشاہ اس کی وجہ سے ہم سے باز پرس نہ کرے.پس اُس نے اپنی خیر اسی میں سمجھی کہ پیغامبر کو مار دے تا کہ نہ پیغام پہنچے اور نہ کوئی تحقیقات ہو.مگر اللہ تعالیٰ نے اُس کے ان بدار ا دوں کو پورا نہ ہونے دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوحرث کے مارے جانے کی خبر کسی نہ کسی طرح پہنچ ہی گئی اور آپ نے اس پہلے واقعہ اور اس واقعہ کی سزا دینے کے لئے تین ہزار کا لشکر تیار کر کے زید بن حارثہ ( جو آپ کے آزاد کردہ غلام تھے اور جن کا آپ کی مکی زندگی میں ذکر آچکا ہے) کی ماتحتی میں شام کی طرف بھجوایا اور حکم دیا کہ زید بن حارثہ فوج کے کمانڈر ہوں گے اور اگر وہ مارے گئے تو جعفر بن ابی طالب کمانڈر ہوں گے اور اگر وہ مارے گئے تو عبداللہ بن
نبیوں کا سردار رواحہ کمانڈر ہوں گے اور اگر وہ بھی مارے جائیں تو مسلمان اپنے میں سے کسی کو منتخب کر کے اپنا افسر بنا لیں.اُس وقت ایک یہودی آپ کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا.اُس نے کہا اے ابوالقاسم ! اگر آپ سچے ہیں تو یہ تینوں آدمی ضرور مارے جائیں گے.کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کے منہ سے نکلی ہوئی باتوں کو پورا کر دیا کرتا ہے.پھر وہ زید کی طرف مخاطب ہوا اور کہا میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں اگر محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم خدا کے بچے نبی ہیں تو تم کبھی زندہ واپس نہیں آؤ گے.زید نے جواب میں کہا میں واپس آؤں یا نہ آؤں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے سچے نبی ہیں.دوسرے دن صبح کے وقت یہ لشکر روانہ ہوا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ اس کو چھوڑنے کے لئے گئے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کی افسری کے بغیر اتنا بڑا لشکر کسی مسلمان جرنیل کے ماتحت کسی اہم کام کیلئے نہیں گیا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس لشکر کے ساتھ ساتھ چلتے جاتے تھے اور انہیں نصیحتیں کرتے جاتے تھے.آخر مدینہ کے باہر اس مقام پر جا کر جہاں سے آپ مدینہ میں داخل ہوئے تھے اور جس جگہ پر عام طور پر مدینہ والے اپنے مسافروں کو رخصت کیا کرتے تھے، آپ کھڑے ہو گئے اور کہا میں تم کو اللہ کے تقویٰ کی نصیحت کرتا ہوں اور تمہارے ساتھ جتنے مسلمان ہیں اُن سے نیک سلوک کرنے کی تم اللہ کا نام لے کر جنگ پر جاؤ اور تمہارے اور خدا کے دشمن جو شام میں ہیں اُن سے جا کر لڑائی کرو.جب تم شام میں پہنچو گے تو وہاں تمہیں ایسے لوگ ملیں گے جو عبادت گاہوں میں بیٹھ کر خدا کا نام لیتے ہیں تم اُن سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنا اور نہ انہیں تکلیف پہنچانا اور نہ دشمن کے ملک میں کسی عورت کو مارنا اور نہ کسی بچے کو مارنا اور نہ کسی اندھے کو مارنا اور نہ کسی بڑھے کو مارنا.نہ کوئی درخت کاٹنا نہ عمارت گرانا.یہ نصیحت کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے واپس لوٹے اور اسلامی لشکر شام کی طرف روانہ ہوا.یہ پہلا لشکر تھا جو اسلام کی طرف سے عیسائیت کے
۲۰۲ نبیوں کا سردار مقابلہ کے لئے نکلا.جب یہ لشکر شام کی سرحد پر پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ قیصر بھی اس طرف آیا ہوا ہے اور ایک لاکھ رومی سپاہی اس کے ساتھ ہیں اور ایک لاکھ کے قریب عرب کے عیسائی قبائل کے سپاہی بھی اس کے ساتھ ہیں.اس پر مسلمانوں نے چاہا کہ وہ راستہ میں ڈیرہ ڈال دیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دیں تا کہ اگر آپ نے کوئی اور مدد بھیجنی ہوتو بھیج دیں اور اگر کوئی حکم دینا ہو تو اس سے اطلاع دیں.جب یہ مشورہ ہو رہا تھا عبداللہ بن رواحہ جوش سے کھڑے ہو گئے اور کہا اے قوم! تم اپنے گھروں سے خدا کے راستہ میں شہید ہونے کیلئے نکلے تھے اور جس چیز کے لئے تم نکلے تھے اب اُس سے گھبرا رہے ہو اور ہم لوگوں سے اپنی تعداد اور اپنی قوت اور اپنی کثرت کی وجہ سے تو لڑائیاں نہیں کرتے رہے.ہم تو اس دین کی مدد کیلئے دشمنوں سے لڑتے رہے ہیں جو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمارے لئے نازل کیا ہے.اگر دشمن زیادہ ہے تو ہوا کرے.آخر دو نیکیوں میں سے ہم کو ایک ضرور ملے گی یا ہم غالب آجائیں گے یا ہم خدا کی راہ میں شہید ہو جائیں گے.لوگوں نے اُن کی یہ بات سن کے کہا ابن رواحہ بالکل سچ کہتے ہیں اور فوراً کوچ کا حکم دے دیا گیا.جب وہ آگے بڑھے تو رومی لشکر انہیں اپنی طرف بڑھتا ہوا نظر آیا تو مسلمانوں نے موتہ کے مقام پر اپنی فوج کی صف بندی کر لی اور لڑائی شروع ہو گئی.تھوڑی ہی دیر میں زید بن حارثہ جو مسلمانوں کے کمانڈر تھے مارے گئے تب اسلامی فوج کا جھنڈا جعفر بن ابی طالب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی نے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور فوج کی کمان سنبھال لی.جب اُنہوں نے دیکھا کہ دشمن کی فوج کا ریلا بڑھتا چلا جاتا ہے اور مسلمان اپنی تعداد کی قلت کی وجہ سے ان کے دباؤ کو برداشت نہیں کر سکتے تو آپ جوش سے گھوڑے سے کود پڑے اور اپنے گھوڑے کی ٹانگیں کاٹ دیں.جس کے معنی یہ تھے کہ کم سے کم میں تو اس میدان سے بھاگنے کے لئے تیار نہیں ہوں میں موت کو
۲۰۳ نبیوں کا سردار پسند کروں گا مگر بھاگنے کو پسند نہیں کروں گا.یہ ایک عربی رواج تھا.وہ گھوڑے کی ٹانگیں اس لئے کاٹ دیتے تھے تا کہ وہ بغیر سوار کے ادھر اُدھر بھاگ کر لشکر میں تباہی نہ مچائے.تھوڑی دیر کی لڑائی میں آپ کا دایاں بازو کاٹا گیا.تب آپ نے بائیں ہاتھ سے جھنڈا پکڑ لیا.پھر آپ کا بایاں ہاتھ بھی کاٹا گیا تو آپ نے دونوں ہاتھ کے ٹنڈوں سے جھنڈے کو اپنے سینہ سے لگا لیا اور میدان میں کھڑے رہے یہاں تک کہ آپ شہید ہو گئے.تب عبداللہ بن رواحہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے ماتحت جھنڈے کو پکڑ لیا اور وہ بھی دشمن سے لڑتے لڑتے مارے گئے.اُس وقت مسلمانوں کے لئے کوئی موقع نہ تھا کہ وہ مشورہ کر کے کسی کو اپنا سر دار مقرر کرتے اور قریب تھا کہ دشمن کے لشکر کی کثرت کی وجہ سے مسلمان میدان چھوڑ جاتے کہ خالد بن ولید نے ایک دوست کی تحریک پر جھنڈا پکڑ لیا اور شام تک دشمن کا مقابلہ کرتے رہے.دوسرے دن پھر خالد اپنے تھکے ہوئے اور زخم خوردہ لشکر کو لے کر دشمن کے مقابلہ کے لئے نکلے اور انہوں نے یہ ہوشیاری کی کہ لشکر کے اگلے حصہ کو پیچھے کر دیا اور پچھلے حصہ کو آگے کر دیا اور دائیں کو بائیں اور بائیں کو دائیں اور اس طرح نعرے لگائے کہ دشمن سمجھا که مسلمانوں کو اور مدد پہنچ گئی ہے.اس پر دشمن پیچھے ہٹ گیا اور خالد اسلامی لشکر کو بچا کر واپس لے آئے لے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کی خبر اُسی دن وحی کے ذریعہ سے دے دی اور آپ نے اعلان کر کے سب مسلمانوں کو مسجد میں جمع کیا.جب آپ منبر پر چڑھے تو آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے.آپ نے فرمایا اے لوگو! میں تم کو اس جنگ میں جانے والے لشکر کے متعلق خبر دیتا ہوں.وہ لشکر یہاں سے جا کر دشمن سے مقابل ل السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۷۵.مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۲۰۴ نبیوں کا سردار کھڑا ہوا اور لڑائی شروع ہونے پر پہلے زید مارے گئے پس تم لوگ زید کے لئے دعا کرو.پھر جھنڈا جعفر نے لے لیا اور دشمن پر حملہ کیا یہاں تک کہ وہ بھی شہید ہو گئے پس تم اُن کے لئے بھی دعا کرو.پھر جھنڈ ا عبداللہ بن رواحہ نے لیا اور خوب دلیری سے لشکر کولٹرا یا مگر آخر وہ بھی شہید ہو گئے پس تم اُن کے لئے بھی دعا کرو.پھر جھنڈا خالد بن ولید نے لیا.اُس کو میں نے کمانڈر مقرر نہیں کیا تھا مگر اُس نے خود ہی اپنے آپ کو کمانڈر مقرر کر لیا.لیکن وہ خدا تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے.پس وہ خدا تعالیٰ کی مدد سے اسلامی لشکر کو بحفاظت واپس لے آئے.آپ کی اس تقریر کی وجہ سے خالد کا نام مسلمانوں میں سیف اللہ یعنی خدا کی تلوار مشہور ہو گیا ہے چونکہ خالد آخر میں ایمان لائے تھے بعض صحابہ اُن کو مذاقاً یا کسی جھگڑے کے موقع پر طعنہ دے دیا کرتے تھے.ایک دفعہ کسی ایسی ہی بات پر حضرت عبدالرحمن بن عوف سے ان کی تکرار ہو گئی.انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خالد کی شکایت کی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا خالد ! تم اس شخص کو جو کہ بدر کے وقت سے اسلام کی خدمت کر رہا ہے کیوں دُکھ دیتے ہو؟ اگر تم اُحد کے برابر بھی سونا خرچ کرو تو اس کے برابر خدا تعالیٰ سے انعام حاصل نہیں کر سکتے.اس پر خالد نے کہا يَارَسُولَ الله! یہ مجھے طعنہ دیتے ہیں تو پھر میں بھی جواب دیتا ہوں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.تم لوگ خالد کو تکلیف نہ دیا کرو.یہ اللہ تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے جو خدا تعالیٰ نے کفار کی ہلاکت کے لئے کھینچی ہے.سے یہ پیشگوئی چند سالوں بعد حرف بحرف پوری ہوئی.جب خالد اپنے لشکر کو واپس لائے تو مدینہ کے صحابہ جو ساتھ نہ گئے تھے اُنہوں نے اس کے لشکر کو بھگوڑے کہنا شروع کیا.مطلب یہ تھا کہ تم کو وہیں لڑ کر مر جانا چاہئے تھا واپس بخاری کتاب المغازى باب غزوة مؤتة (الخ) اسد الغابة جلد ۲ صفحه ۹۴ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۵ء
۲۰۵ نبیوں کا سردار نہیں آنا چاہئے تھا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بھگوڑے نہیں بار بارکوٹ کر دشمن پر حملہ کرنے والے سپاہی ہیں.اس طرح آپ نے اُن آئندہ جنگوں کی پیشگوئی فرمائی جو مسلمانوں کو شام کے ساتھ پیش آنے والی تھیں.فتح مکه آٹھویں سنہ ہجری کے رمضان کے مہینہ مطابق دسمبر ۶۲۹ء میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس آخری جنگ کے لئے روانہ ہوئے جس نے عرب میں اسلام کو قائم کر دیا.یہ واقعہ یوں ہوا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر یہ فیصلہ ہوا تھا کہ عرب قبائل میں سے جو چاہیں مکہ والوں سے مل جائیں اور جو چاہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل جائیں اور یہ کہ دس سال تک دونوں فریق کو ایک دوسرے کے خلاف جنگ کی اجازت نہیں ہوگی.سوائے اس کے کہ ایک دوسرے پر حملہ کر کے معاہدہ کو توڑ دے.اس معاہدہ کے ماتحت عرب کا قبیلہ بنو بکر مکہ والوں کے ساتھ ملا تھا اور خزاعہ قبیلہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ.کفار عرب معاہدہ کی پابندی کا خیال کم ہی رکھتے تھے خصوصاً مسلمانوں کے مقابلہ میں.چنانچہ بنو بکر کو چونکہ قبیلہ خزاعہ کے ساتھ پرانا اختلاف تھا، صلح حدیبیہ پر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد انہوں نے مکہ والوں سے مشورہ کیا کہ خزاعہ تو معاہدہ کی وجہ سے بالکل مطمئن ہیں اب موقع ہے کہ ہم لوگ ان سے بدلہ لیں.چنانچہ مکہ کے قریش اور بنو بکر نے مل کر رات کو بنی خزاعہ پر چھاپا مارا اور ان کے بہت سے آدمی مار دیئے.خزاعہ کو جب معلوم ہوا کہ قریش نے بنو بکر سے مل کر یہ حملہ کیا ہے تو انہوں نے اس عہد شکنی کی اطلاع دینے کے لیے چالیس آدمی تیز اونٹوں پر فوراً مدینہ کو روانہ کئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ باہمی معاہدہ کی رو سے اب آپ کا فرض ہے کہ ہمارا بدلہ لیں اور مکہ پر چڑھائی
۲۰۶ نبیوں کا سردار کریں.جب یہ قافلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا تمہارا دکھ میرا دکھ ہے میں اپنے معاہدہ پر قائم ہوں.یہ بادل جو سامنے برس رہا ہے (اُس وقت بارش ہو رہی تھی جس طرح اس میں سے بارش ہو رہی ہے اسی طرح جلدی ہی تمہاری مدد کے لئے اسلامی فوجیں پہنچ جائیں گی.جب مکہ والوں کو اس وفد کا علم ہوا تو وہ بہت گھبرائے اور انہوں نے ابوسفیان کو مدینہ روانہ کیا ، تاکہ وہ کسی طرح مسلمانوں کو حملہ سے باز رکھے.ابوسفیان نے مدینہ پہنچ کر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر زور دینا شروع کیا کہ چونکہ صلح حدیبیہ کے وقت میں موجود نہ تھا اس لئے نئے سرے سے معاہدہ کیا جائے.لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا.کیونکہ جواب دینے سے راز ظاہر ہوجاتا تھا.ابوسفیان نے مایوسی کی حالت میں گھبرا کر مسجد میں کھڑے ہو کر اعلان کیا اے لوگو! میں مکہ والوں کی طرف سے نئے سرے سے آپ لوگوں کے لئے امن کا اعلان کرتا ہوں.لے یہ بات سن کر مسلمان اُس کی بیوقوفی پر ہنس پڑے اور سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ابوسفیان ! یہ بات تم یکطرفہ کہ رہے ہو ہم نے کوئی ایسا معاہدہ تم سے نہیں کیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی دوران میں چاروں طرف مسلمان قبائل کی طرف پیغامبر بجھوا دیئے اور جب یہ اطلاعیں آچکیں کہ مسلمان قبائل تیار ہو چکے ہیں اور مکہ کی طرف کوچ کرتے ہوئے راستہ میں ملتے جائیں گے تو آپ نے مدینہ کے لوگوں کو مسلح ہونے کا حکم دیا.جنوری ۱۳۰ ء کی پہلی تاریخ کو یہ لشکر مدینہ سے روانہ ہوا اور راستہ میں چاروں طرف مسلمان قبائل آ آ کر لشکر میں شامل ہوتے گئے.چند ہی منزلیں طے کرنے کے بعد جب یہ شکر فاران کے جنگل میں داخل ہوا تو اس کی تعداد سلیمان نبی کی پیشگوئی کے مطابق دس ہزار تک پہنچ چکی تھی.ادھر توبہ شکر مکہ کی طرف مارچ کرتا چلا جارہا تھا اور ادھر مکہ سیرت ابن هشام جلد ۴ صفحه ۳۹ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۰۷ نبیوں کا سردار والے اس خاموشی کی وجہ سے جو فضا پر طاری تھی زیادہ سے زیادہ خوف زدہ ہوتے جاتے تھے.آخر انہوں نے مشورہ کر کے ابوسفیان کو پھر اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ مکہ سے باہر نکل کر پتہ تو لے کہ مسلمان کیا کرنا چاہتے ہیں.مکہ سے ایک منزل باہر نکلنے پر ہی ابوسفیان نے رات کے وقت جنگل کو آگ سے روشن پایا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دے دیا تھا کہ تمام خیموں کے آگے آگ جلائی جائے.جنگل میں دس ہزار اشخاص کے لئے خیموں کے آگے بھڑکتی ہوئی آگ ایک ہیبت ناک نظارہ پیش کر رہی تھی.ابوسفیان نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا یہ کیا ہے؟ کیا آسمان سے کوئی لشکر اُترا ہے؟ کیونکہ عرب کی کسی قوم کا لشکر اتنا بڑا نہیں ہے.اس کے ساتھیوں نے مختلف قبائل کے نام لئے لیکن اس نے کہا نہیں نہیں ، عرب کے قبائل میں سے کسی قوم کا لشکر بھی اتنا بڑا کہاں ہوسکتا ہے.وہ یہ بات کرہی رہا تھا کہ اندھیرے میں سے آواز آئی ابو حنظلہ! ( یہ ابوسفیان کی کنیت تھی ) ابوسفیان نے کہا عباس ! تم یہاں کہاں؟ انہوں نے جواب دیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کالشکر سامنے ہے اور اگر تم لوگوں نے جلد جلد کوئی تدبیر نہ کر لی تو شکست اور ذلت تمہارے لئے بالکل تیار ہے.چونکہ عباس ابوسفیان کے پرانے دوست تھے اس لیے یہ بات کرنے کے بعد انہوں نے ابوسفیان سے اصرار کیا کہ وہ ان کے ساتھ سواری پر بیٹھ جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو.چنانچہ انہوں نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اونٹ پر اپنے ساتھ بٹھا لیا اور اونٹ کو ایڑی لگا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں پہنچے.حضرت عباس ڈرتے تھے کہ حضرت عمرؓ " جو اُن کے ساتھ پہرہ پر مقرر تھے کہیں اس کو قتل نہ کر دیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ہی فرما چکے تھے کہ اگر ابوسفیان تم میں سے کسی کو ملے تو اُسے قتل نہ کرنا.یہ سارا نظارہ ابوسفیان کے دل میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا کر چکا تھا.ابوسفیان نے دیکھا کہ چند ہی سال پہلے ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف ایک
۲۰۸ نبیوں کا سردار ساتھی کے ساتھ مکہ سے نکلنے پر مجبور کر دیا تھا لیکن ابھی سات ہی سال گزرے ہیں کہ وہ دس ہزار قدوسیوں سمیت مکہ پر بلا ظلم اور بلا تعدی کے جائز طور پر حملہ آور ہوا ہے اور مکہ والوں میں طاقت نہیں کہ اس کو روک سکیں.چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس تک پہنچتے پہنچتے کچھ ان خیالات کی وجہ سے اور کچھ دہشت اور خوف کی وجہ سے ابوسفیان مبہوت سا ہو چکا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی یہ حالت دیکھی تو حضرت عباس سے فرمایا کہ ابوسفیان کو اپنے ساتھ لے جاؤ اور رات اپنے پاس رکھو صبح اسے میرے پاس لانا لے چنانچہ رات ابوسفیان حضرت عباس کے ساتھ رہا.جب صبح اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے تو فجر کی نماز کا وقت تھا.مکہ کے لوگ صبح اٹھ کر نماز پڑھنے کو کیا جانتے تھے اُس نے ادھر ادھر مسلمانوں کو پانی کے بھرے ہوئے لوٹے لے کر آتے جاتے دیکھا اور اسے نظر آیا کہ کوئی وضو کر رہا ہے کوئی صف بندی کر رہا ہے تو ابوسفیان نے سمجھا کہ شاید میرے لئے کوئی نئی قسم کا عذاب تجویز ہوا ہے.چنانچہ اُس نے گھبرا کر حضرت عباس سے پوچھا کہ یہ لوگ صبح صبح یہ کیا کر رہے ہیں؟ حضرت عباس نے کہا تمہارے لئے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں یہ لوگ نماز پڑھنے لگے ہیں.اس کے بعد ابوسفیان نے دیکھا کہ ہزاروں ہزار مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہو گئے ہیں اور جب آپ رکوع کرتے ہیں تو سب کے سب رکوع کرتے ہیں اور جب آپ سجدہ کرتے ہیں تو سب کے سب سجدہ کرتے ہیں.حضرت عباس " چونکہ پہرہ پر ہونے کی وجہ سے نماز میں شامل نہیں ہوئے تھے ابوسفیان نے اُن سے پوچھا اب یہ کیا کر رہے ہیں؟ میں دیکھتا ہوں کہ جو کچھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے ہیں وہی یہ لوگ کرنے لگ جاتے ہیں.عباس نے کہا تم کن خیالات میں پڑے ہو یہ تو نماز ادا ہو رہی ہے، لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر ل سیرت ابن هشام جلد ۴ صفحه ۲۵،۴۴ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۰۹ نبیوں کا سردار ان کو حکم دیں کہ کھانا پینا چھوڑ دو تو یہ لوگ کھانا اور پینا بھی چھوڑ دیں.ابوسفیان نے کہا.میں نے کسری کا دربار بھی دیکھا ہے اور قیصر کا دربار بھی دیکھا ہے لیکن اُن کی قوموں کو اُن کا اتنا فدائی نہیں دیکھا جتنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت اس کی فدائی ہے.لے پھر عباس نے کہا کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آج یہ درخواست کرو کہ آپ اپنی قوم سے عفو کا معاملہ کریں.جب نماز ختم ہو چکی تو حضرت عباس ابوسفیان کو لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے.آپ نے فرمایا.ابوسفیان ! کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تجھ پر یہ حقیقت روشن ہو جائے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ؟ ابوسفیان نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں.آپ نہایت ہی حلیم، نہایت ہی شریف اور نہایت ہی صلہ رحمی کرنے والے انسان ہیں.میں اب یہ بات تو سمجھ چکا ہوں کہ اگر خدا کے سوا کوئی اور معبود ہوتا تو کچھ تو ہماری مدد کرتا.اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوسفیان ! کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ لو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ ابوسفیان نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اس بارہ میں ابھی میرے دل میں کچھ شبہات ہیں.مگر ابوسفیان کے تر ڈر کے باوجود اُس کے دونوں ساتھی جو اُس کے ساتھ ہی مکہ سے باہر مسلمانوں کے لشکر کی خبر لینے کے لئے آئے تھے اور جن میں سے ایک حکیم بن حزام تھے وہ مسلمان ہو گئے.اس کے بعد ابوسفیان بھی اسلام لے آیا، مگر اُس کا دل غالباً فتح مکہ کے بعد پوری طرح کھلا.ایمان لانے کے بعد حکیم بن حزام نے کہا.یا رَسُول اللہ ! کیا یہ شکر آپ اپنی قوم کو ہلاک کرنے کے لئے اٹھا لائے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ان لوگوں نے ظلم کیا ، ان لوگوں نے گناہ کیا اور تم لوگوں نے حدیبیہ میں باندھے ہوئے عہد کو توڑ دیا اور خزاعہ کے خلاف ظالمانہ جنگ کی.اُس مقدس مقام پر ل السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۹۲ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۲۱۰ نبیوں کا سردار جنگ کی جس کو خدا نے امن عطا فرمایا ہوا تھا.حکیم نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! ٹھیک ہے آپ کی قوم نے بیشک ایسا ہی کیا ہے لیکن آپ کو تو چاہئے تھا کہ بجائے مکہ پر حملہ کرنے کے ہوازن قوم پر حملہ کرتے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ قوم بھی ظالم ہے لیکن میں خدا تعالیٰ سے امید کرتا ہوں کہ وہ مکہ کی فتح اور اسلام کا غلبہ اور ہوازن کی شکست یہ ساری باتیں میرے ہی ہاتھ پر پوری کرے گا.اس کے بعد ابوسفیان نے کہا یا رَسُول اللہ ! اگر مکہ کے لوگ تلوار نہ اُٹھا ئیں تو کیا وہ امن میں ہوں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں! ہر شخص جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے اُسے امن دیا جائے گا.حضرت عباس نے کہا یا رَسُول اللہ ! ابوسفیان فخر پسند آدمی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ میری عزت کا بھی کوئی سامان کیا جائے.آپ نے فرمایا بہت اچھا جو شخص ابوسفیان کے گھر میں چلا جائے اُس کو بھی امن دیا جائے گالے جو مسجد کعبہ میں گھس جائے اُس کو بھی امن دیا جائے گا، جو اپنے ہتھیار پھینک دے اُس کو بھی امن دیا جائے گا، جو اپنا دروازہ بند کر کے بیٹھ جائے گا اُس کو بھی امن دیا جائے گا، جو حکیم بن حزام کے گھر میں چلا جائے اُس کو بھی امن دیا جائے گا.اس کے بعد ابی رویحہ جن کو آپ نے بلال حبشی غلام کا بھائی بنایا ہوا تھا اُن کے متعلق آپ نے فرمایا.ہم اس وقت ابی رویحہ کو اپنا جھنڈا دیتے ہیں جو شخص ابی رویحہ کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو گا ہم اُس کو بھی کچھ نہ کہیں گے.اور بلال سے کہا تم ساتھ ساتھ یہ اعلان کرتے جاؤ کہ جو شخص ابی رویحہ کے جھنڈے کے نیچے آجائے گا اُس کو امن دیا جائے گا.سے اس حکم میں کیا ہی لطیف حکمت تھی.مکہ کے لوگ بلال کے پیروں میں رسی ڈال کر اُس کو گلیوں میں کھینچا کرتے تھے، مکہ کی گلیاں، مکہ کے میدان بلال کے لئے امن کی جگہ سیرت ابن هشام جلد ۴ صفحه ۴۶،۴۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ل السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۹۳ مطبوعه مصر ۱۹۳۵ء
۲۱۱ نبیوں کا سردار نہیں تھے بلکہ عذاب اور تذلیل اور تضحیک کی جگہ تھے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیال فرمایا کہ بلال کا دل آج انتقام کی طرف بار بار مائل ہوتا ہوگا اس وفادار ساتھی کا انتقام لینا بھی نہایت ضروری ہے.مگر یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارا انتقام اسلام کی شان کے مطابق ہو.پس آپ نے بلال کا انتقام اس طرح نہ لیا کہ تلوار کے ساتھ اُس کے دشمنوں کی گردنیں کاٹ دی جائیں بلکہ اس کے بھائی کے ہاتھ میں ایک بڑا جھنڈا دے کر کھڑا کر دیا اور بلال کو اس غرض کے لئے مقرر کر دیا کہ وہ اعلان کر دے کہ جو کوئی میرے بھائی کے جھنڈے کے نیچے آکر کھڑا ہوگا اُسے امن دیا جائے گا.کیسا شاندار یہ انتقام تھا، کیسا حسین یہ انتقام تھا.جب بلال بلند آواز سے یہ اعلان کرتا ہو گا کہ اے مکہ والو! آؤ میرے بھائی کے جھنڈے کے نیچے کھڑے ہو جاؤ تمہیں امن دیا جائے گا تو اُس کا دل خود ہی انتقام کے جذبات سے خالی ہوتا جاتا ہوگا اور اُس نے محسوس کر لیا ہوگا کہ جو انتقام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے تجویز کیا ہے اس سے زیادہ شاندار اور اس سے زیادہ حسین انتقام میرے لئے اور کوئی نہیں ہوسکتا.جب لشکر مکہ کی طرف بڑھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس کو حکم دیا کہ کسی سڑک کے کونے پر ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کو لے کر کھڑے ہو جاؤ تا کہ وہ اسلامی لشکر اور اس کی فدائیت کو دیکھ سکیں.حضرت عباس نے ایسا ہی کیا.ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کے سامنے سے یکے بعد دیگرے عرب کے وہ قبائل گزرنے شروع ہوئے جن کی امداد پر مکہ بھروسہ کر رہا تھا، مگر آج وہ کفر کا جھنڈ انہیں لہرا رہے تھے آج وہ اسلام کا جھنڈا لہرا رہے تھے اور ان کی زبان پر خدائے قادر کی توحید کا اعلان تھا.وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان لینے کیلئے آگے نہیں بڑھ رہے تھے جیسا کہ مکہ والے امید کرتے تھے بلکہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہانے کے
۲۱۲ نبیوں کا سردار لئے تیار تھے اور ان کی انتہائی خواہش یہی تھی کہ خدائے واحد کی تو حید اور اس کی تبلیغ کو دنیا میں قائم کر دیں.لشکر کے بعد لشکر گزر رہا تھا کہ اتنے میں اشجمع قبیلے کا لشکر گزرا.اسلام کی محبت اور اس کے لئے قربان ہونے کا جوش ان کے چہروں سے عیاں اور ان کے نعروں سے ظاہر تھا.ابوسفیان نے کہا.عباس! یہ کون ہیں؟ عباس نے کہا یہ اشجع قبیلہ ہے.ابوسفیان نے حیرت سے عباس کا منہ دیکھا اور کہا سارے عرب میں ان سے زیادہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی دشمن نہیں تھا.عباس نے کہا یہ خدا کا فضل ہے جب اُس نے چاہا ان کے دلوں میں اسلام کی محبت داخل ہو گئی.سب سے آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین و انصار کا لشکر لئے ہوئے گزرے.یہ لوگ دو ہزار کی تعداد میں تھے اور سر سے پاؤں تک زرہ بکتروں میں چھپے ہوئے تھے.حضرت عمرؓ اُن کی صفوں کو درست کرتے چلے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے قدموں کو سنبھال کر چلو تا کہ صفوں کا فاصلہ ٹھیک رہے.ان پرانے فدا کارانِ اسلام کا جوش اور ان کا عزم اور ان کا ولولہ ان کے چہروں سے ٹپکا پڑتا تھا.ابوسفیان نے ان کو دیکھا تو اس کا دل دہل گیا.اس نے پوچھا عباس! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار و مہاجرین کے لشکر میں جارہے ہیں.ابوسفیان نے جواب دیا اس لشکر کا مقابلہ کرنے کی دنیا میں کس کو طاقت ہے.پھر وہ حضرت عباس سے مخاطب ہوا اور کہا عباس! تمہارے بھائی کا بیٹا آج دنیا میں سب سے بڑا بادشاہ ہو گیا ہے.عباس نے کہا اب بھی تیرے دل کی آنکھیں نہیں کھلیں یہ بادشاہت نہیں یہ تو نبوت ہے.ابوسفیان نے کہا ہاں ہاں اچھا پھر نبوت ہی سہی لے جس وقت یہ لشکر ابوسفیان کے سامنے سے گزر رہا تھا انصار کے کمانڈر سعد بن عبادہ نے ابوسفیان کو دیکھ کر کہا آج خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے مکہ میں داخل ہونا تلوار کے سیرت ابن هشام جلد ۴ صفحہ ۴۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۱۳ نبیوں کا سردار زور سے حلال کر دیا ہے.آج قریشی قوم ذلیل کر دی جائے گی.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوسفیان کے پاس سے گزرے تو اس نے بلند آواز سے کہا یا رَسُول اللہ! کیا آپ نے اپنی قوم کے قتل کی اجازت دے دی ہے؟ ابھی ابھی انصار کے سردار سعد اور ان کے ساتھی ایسا ایسا کہہ رہے تھے.انہوں نے بلند آواز یہ کہا ہے آج لڑائی ہوگی اور مکہ کی حرمت آج ہم کو لڑائی سے باز نہیں رکھ سکے گی اور قریش کو ہم ذلیل کر کے چھوڑیں گے یا رَسُول الله ! آپ تو دنیا میں سب سے زیادہ نیک ، سب سے زیادہ رحیم اور سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے انسان ہیں.کیا آج اپنی قوم کے ظلموں کو بھول نہ جائیں گے؟ ابوسفیان کی یہ شکایت و التجا سن کر وہ مہاجرین بھی جن کو مکہ کی گلیوں میں پیٹا اور مارا جاتا تھا، جن کو گھروں اور جائیدادوں سے بے دخل کیا جاتا تھا تڑپ گئے اور ان کے دلوں میں بھی مکہ کے لوگوں کی نسبت رحم پیدا ہو گیا تھا اور انہوں نے کہا یا رَسُول اللہ! انصار نے مکہ والوں کے مظالم کے جو واقعات سنے ہوئے ہیں آج ان کی وجہ سے ہم نہیں جانتے کہ وہ قریش کے ساتھ کیا معاملہ کریں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ابوسفیان ! سعد نے غلط کہا ہے آج رحم کا دن ہے.آج اللہ تعالیٰ قریش اور خانہ کعبہ کو عزت بخشنے والا ہے.پھر آپ نے ایک آدمی کو سعد کی طرف بھجوایا اور فرمایا اپنا جھنڈا اپنے بیٹے قیس کو دے کہ وہ تمہاری جگہ انصار کے لشکر کا کمانڈر ہو گا لے اس طرح آپ نے مکہ والوں کا دل بھی رکھ لیا اور انصار کے دلوں کو بھی صدمہ پہنچنے سے محفوظ رکھا.اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیس پر پورا اعتبار بھی تھا کیونکہ قیس نہایت ہی شریف طبیعت کے نوجوان تھے.ایسے شریف کہ تاریخ میں لکھا ہے کہ ان کی وفات کے قریب جب بعض لوگ ان کی عیادت کے لئے آئے اور بعض نہ آئے تو انہوں نے اپنے دوستوں سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ بعض جو ل السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۹۵ مطبوعه مصر ۱۹۳۵ء
۲۱۴ نبیوں کا سردار میرے واقف ہیں میری عیادت کے لیے نہیں آئے.ان کے دوستوں نے کہا آپ بڑے مخیر آدمی ہیں آپ ہر شخص کو اُس کی تکلیف کے وقت قرضہ دے دیتے ہیں.شہر کے بہت سے لوگ آپ کے مقروض ہیں اور وہ اس لئے آپ کی عیادت کے لئے نہیں آئے کہ شاید آپ کو ضرورت ہو اور آپ اُن سے روپیہ مانگ بیٹھیں.آپ نے فرمایا اوہو! میرے دوستوں کو بلا وجہ تکلیف ہوئی میری طرف سے تمام شہر میں منادی کردو کہ ہر شخص جس پر قیس کا قرضہ ہے وہ اُسے معاف ہے.اس پر اس قدر لوگ ان کی عیادت کے لئے آئے کہ ان کے مکان کی سیڑھیاں ٹوٹ گئیں لے بلشکر گزر چکا تو عباس نے ابوسفیان سے کہا.اب اپنی سواری دوڑا کر مکہ پہنچو اور اُن لوگوں کو اطلاع دے دو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگئے ہیں اور انہوں نے اس اس شکل میں مکہ کے لوگوں کو امان دی ہے.جب کہ ابوسفیان اپنے دل میں خوش تھا کہ میں نے مکہ کے لوگوں کی نجات کا رستہ نکال لیا ہے اُس کی بیوی ہندہ نے جو ابتدائے اسلام سے مسلمانوں سے بغض اور کینہ رکھنے کی لوگوں کو تعلیم دیتی چلی آئی تھی اور باوجود کا فر ہونے کے فی الحقیقت ایک بہادر عورت تھی آگے بڑھ کر اپنے خاوند کی ڈاڑھی پکڑ لی اور مکہ والوں کو آواز میں دینی شروع کیں کہ آؤ اور اس بڑھے احمق کو قتل کر دو کہ بجائے اس کے کہ تم کو یہ نصیحت کرتا کہ جاؤ اور اپنی جانوں اور اپنے شہر کی عزت کے لئے لڑتے ہوئے مارے جاؤ یہ تم میں امن کا اعلان کر رہا ہے.ابوسفیان نے اُس کی حرکت کو دیکھ کر کہا.بے وقوف ! یہ ان باتوں کا وقت نہیں جا اور اپنے گھر میں چھپ جا.میں اُس لشکر کو دیکھ کر آیا ہوں جس لشکر کے مقابلہ کی طاقت سارے عرب میں نہیں ہے.پھر ابوسفیان نے بلند آواز سے امان کی شرائط بیان کرنا شروع کیں اور لوگ بے تحاشا اُن گھروں اور اُن جگہوں کی طرف دوڑ لى السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۹۵ مطبوع مصر ۱۹۳۵ء
۲۱۵ نبیوں کا سردار پڑے، جن کے متعلق امان کا اعلان کیا گیا تھا لے صرف گیارہ مرد اور چار عورتیں ایسی تھیں جن کی نسبت شدید ظالمانہ قتل اور فساد ثابت تھے ، وہ گویا جنگی مجرم تھے اور ان کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا کہ قتل کر دیئے جائیں کیونکہ وہ صرف کفر یا لڑائی کے مجرم نہیں بلکہ جنگی مجرم ہیں.اس موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید کو بڑی سختی سے حکم دے دیا تھا کہ جب تک کوئی شخص لڑے نہیں تم نے لڑنا نہیں.لیکن جس طرف سے خالد شہر میں داخل ہوئے اُس طرف امن کا اعلان ابھی نہیں پہنچا تھا اُس علاقہ کی فوج نے خالد کا مقابلہ کیا اور ۲۴ آدمی مارے گئے.چونکہ خالد کی طبیعت بڑی جو شیلی تھی کسی نے دوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچادی اور عرض کیا کہ خالد کو روکا جائے ورنہ وہ سارے مکہ والوں کو قتل کر دے گا.آپ نے فوراً خالد کو بلوایا اور فرمایا کیا میں نے تم کو لڑائی سے منع نہیں کیا تھا؟ خالد نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! آپ نے منع تو فرمایا تھا لیکن ان لوگوں نے پہلے ہم پر حملہ کیا اور تیراندازی شروع کر دی میں کچھ دیر تک رُکا اور میں نے کہا کہ ہم تم پر حملہ نہیں کرنا چاہتے تم ایسا مت کرو.مگر جب میں نے دیکھا کہ یہ کسی طرح باز نہیں آتے تو پھر میں اُن سے لڑا اور خدا نے اُن کو چاروں طرف پراگندہ کر دیا.سے بہر حال اس خفیف سے واقعہ کے سوا اور کوئی واقعہ نہ ہوا اور مکہ پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبضہ ہو گیا.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے آپ سے لوگوں نے پوچھا.یا رَسُول اللہ ! کیا آپ اپنے گھر میں ٹھہریں گے؟ آپ نے فرمایا کیا عقیل نے ( یہ آپ کے چا زاد بھائی تھے ) ہمارے لیے کوئی گھر چھوڑا بھی ہے؟ یعنی سیرت ابن هشام جلد ۴ صفحه ۴۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ ء السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۹۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۱۶ نبیوں کا سردار میری ہجرت کے بعد میرے رشتہ داروں نے میری ساری جائیداد بیچ باچ کر کھالی ہے اب مکہ میں میرے لیے کوئی ٹھکانا نہیں.پھر آپ نے فرمایا ہم حیف بنی کنانہ میں ٹھہریں گے.یہ مکہ کا ایک میدان تھا جہاں قریش اور کنا نہ قبیلہ نے مل کر قسمیں کھائی تھیں کہ جب تک بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ کر ہمارے حوالہ نہ کر دیں اور ان کا ساتھ نہ چھوڑ دیں ہم ان سے نہ شادی بیاہ کریں گے نہ خریدوفروخت کریں گے.اس عہد کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے چا ابوطالب اور آپ کی جماعت کے تمام افراد وادی ابو طالب میں پناہ گزین ہوئے تھے اور تین سال کی شدید تکلیفوں کے بعد خدا تعالیٰ نے انہیں نجات دلائی تھی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ انتخاب کیسا لطیف تھا.مکہ والوں نے اسی مقام پر قسمیں کھائی تھیں کہ جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سپرد نہ کر دیئے جائیں ہم آپ کے قبیلہ سے صلح نہیں کریں گے.آج محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُسی میدان میں جا کر اُترے اور گو یا مکہ والوں سے کہا کہ جہاں تم چاہتے تھے میں وہاں آ گیا ہوں مگر بتاؤ تو سہی کیا تم میں طاقت ہے کہ آج مجھے اپنے ظلوں کا نشانہ بنا سکو!! وہی مقام جہاں تم مجھے ذلیل اور مقہور شکل دیکھنا چاہتے تھے اور خواہش رکھتے تھے کہ میری قوم مجھے پکڑ کر اس جگہ تمہارے سپر د کر دے وہاں میں ایسی شکل میں آیا ہوں کہ میری قوم ہی نہیں سارا عرب بھی میرے ساتھ ہے اور میری قوم نے مجھے تمہارے سپر دنہیں کیا بلکہ میری قوم نے تمہیں میرے سپر د کر دیا ہے.خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ یہ دن بھی پیر کا دن تھا.وہی دن جس دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غار ثور سے نکل کر صرف ابوبکر" کی معیت میں مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے.وہی دن جس میں آپ نے حسرت کے ساتھ ٹور کی پہاڑی پر سے مکہ کی طرف دیکھ کر کہا تھا.اے مکہ! تو مجھے دنیا کی ساری بستیوں سے زیادہ پیارا ہے لیکن تیرے باشندے مجھے اس جگہ
۲۱۷ نبیوں کا سردار پر رہنے نہیں دیتے.لے مکہ میں داخل ہوتے وقت حضرت ابو بکر آپ کی اونٹنی کی رکاب پکڑے ہوئے آپ کے ساتھ باتیں بھی کرتے جارہے تھے اور سورہ فتح جس میں فتح مکہ کی خبر دی گئی تھی وہ بھی پڑھتے جاتے تھے.آپ سیدھے خانہ کعبہ کی طرف آئے اور اونٹنی پر چڑھے چڑھے سات دفعہ خانہ کعبہ کا طواف کیا.اُس وقت آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی.آپ خانہ کعبہ کے گرد جو حضرت ابراہیم اور اُن کے بیٹے اسمعیل نے خدائے واحد کی پرستش کے لئے بنایا تھا جسے بعد کو اُن کی گمراہ اولا د نے بتوں کا مخزن بنا کر رکھ دیا تھا گھومے اور وہ تین سو ساٹھ بت جو اس جگہ پر رکھے ہوئے تھے اُن میں سے ایک ایک بت پر آپ چھڑی مارتے جاتے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا.ل یہ وہ آیت ہے جو ہجرت سے پہلے سورہ بنی اسرائیل میں آپ پر نازل ہوئی تھی اور جس میں ہجرت اور پھر فتح مکہ کی خبر دی گئی تھی.یوروپین مصنفین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ ہجرت سے پہلے کی سورۃ ہے اس سورۃ میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ وَقُل رَّبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّي مِن لَّدُنكَ سُلْطَانًا نَصِيرًا وَقُلْ جَاءَ الْحَقُ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا - س یعنی تو کہہ دے میرے رب ! مجھے اس شہر یعنی مکہ میں نیک طور پر داخل کیجیؤ یعنی ہجرت کے بعد فتح اور غلبہ دے کر.اور اس شہر سے خیریت سے ہی نکالیو یعنی ہجرت کے وقت.اور خود اپنے پاس سے مجھے غلبہ اور مدد ل السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۳۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء کے سیرت ابن ہشام جلد ۴ صفحه ۵۹ مطبوعه مصر ۱۹۳۶ء+ بنی اسرائیل: ۸۲ ے بنی اسرائیل :۸۱، ۸۲
۲۱۸ نبیوں کا سردار کے سامان بھجوائیو.اور یہ بھی کہو کہ حق آگیا ہے اور باطل یعنی شرک شکست کھا کے بھاگ گیا ہے اور باطل یعنی شرک کے لئے شکست کھا کر بھا گنا تو ہمیشہ کے لئے مقدر تھا.اس پیشگوئی کے لفظاً لفظاً پورا ہونے اور حضرت ابوبکر کے اس کو تلاوت کرتے وقت مسلمانوں اور کفار کے دلوں میں جو جذبات پیدا ہوئے ہوں گے وہ لفظوں میں ادا نہیں ہو سکتے.غرض اُس دن ابراہیم کا مقام پھر خدائے واحد کی عبادت کے لئے مخصوص کر دیا گیا اور بت ہمیشہ کے لئے توڑے گئے.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہبل نامی بت کے اوپر اپنی چھڑی ماری اور وہ اپنے مقام سے گر کر ٹوٹ گیا تو حضرت زبیر نے ابوسفیان کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور کہا ابوسفیان! یاد ہے اُحد کے دن جب مسلمان زخموں سے چورا یک طرف کھڑے ہوئے تھے تم نے اپنے غرور میں یہ اعلان کیا تھا اُعْلُ هُبَلْ أَعْلُ هُبَل.هَبَلْ کی شان بلند ہو، ھبل کی شان بلند ہو.اور یہ کہ ہبل نے ہی تم کو اُحد کے دن مسلمانوں پر فتح دی تھی.آج دیکھتے ہو وہ سامنے ھبل کے ٹکڑے پڑے ہیں.ابوسفیان نے کہا زبیر ! یہ باتیں جانے بھی دو.آج ہم کو اچھی طرح نظر آ رہا ہے کہ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کے سوا کوئی اور خدا بھی ہوتا تو آج جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں اس طرح کبھی نہ ہوتا ہے پھر آپ نے خانہ کعبہ کے اندر جو تصویر میں حضرت ابراہیم وغیرہ کی بنی ہوئی تھیں ان کے مٹانے کا حکم دیا اور خانہ کعبہ میں خدا تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے کے شکریہ میں دو رکعت نماز پڑھی پھر باہر تشریف لائے اور باہر آ کر بھی دو رکعت نماز پڑھی.خانہ کعبہ کی تصویروں کو مٹانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر کو مقرر فرمایا تھا ؟ انہوں نے اس خیال سے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تو ہم بھی ل السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۹۹ مطبوعه مصر ۱۹۳۵ء
۲۱۹ نبیوں کا سردار نبی مانتے ہیں حضرت ابراہیم کی تصویر کو نہ مٹایا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اُس تصویر کو قائم دیکھا تو فرمایا عمر ! تم نے یہ کیا کیا ؟ کیا خدا نے یہ نہیں فرمایا کہ مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَكِن كَانَ حَنِيفًا مُسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِ کین کے یعنی ابراہیم نہ یہودی تھا نہ نصرانی بلکہ وہ خدا تعالیٰ کا کامل فرمانبردار اور خدا تعالی کی ساری صداقتوں کو ماننے والا اور خدا کا موحد بندہ تھا.چنانچہ آپ کے حکم سے یہ تصویر بھی مٹادی گئی.خدا تعالیٰ کے نشانات دیکھ کر مسلمانوں کے دل اُس دن ایمان سے اتنے پر ہورہے تھے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان پر ان کا یقین اس طرح بڑھ رہا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب زمزم کے چشمہ سے (جو اسمعیل بن ابراہیم کے لئے خدا تعالیٰ نے بطور نشان پھاڑا تھا ) پانی پینے کے لئے منگوایا اور اُس میں سے کچھ پانی پی کے باقی پانی سے آپ نے وضو فر ما یا تو آپ کے جسم میں سے کوئی قطرہ زمین پر نہیں گر سکا.مسلمان فوراً اُس کو اُچک لے جاتے اور تبرک کے طور پر اپنے جسم پر مل لیتے تھے اور مشرک کہہ رہے تھے ہم نے کوئی بادشاہ دنیا میں ایسا نہیں دیکھا جس کے ساتھ اس کے لوگوں کو اتنی محبت ہوسے جب آپ ان باتوں سے فارغ ہوئے اور مکہ والے آپ کی خدمت میں حاضر کئے گئے تو آپ نے فرمایا اے مکہ کے لوگو! تم نے دیکھ لیا کہ خدا تعالیٰ کے نشانات کس طرح لفظ بلفظ پورے ہوئے ہیں اب بتاؤ کہ تمہارے ان ظلموں اور ان شرارتوں کا کیا بدلہ دیا جائے جو تم نے خدائے واحد کی عبادت کرنے والے غریب بندوں پر کئے تھے؟ مکہ کے لوگوں نے کہا ہم آپ سے اسی سلوک کی امید رکھتے ہیں جو یوسف نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا.ل السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۱۰۰ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء + ال عمران: ۶۸ السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۱۰۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۲۲۰ نبیوں کا سردار یہ خدا کی قدرت تھی کہ مکہ والوں کے منہ سے وہی الفاظ نکلے جن کی پیشگوئی خدا تعالیٰ نے سورۃ یوسف میں پہلے سے کر رکھی تھی اور فتح مکہ سے دس سال پہلے بتا دیا تھا کہ تو مکہ والوں سے ویسا ہی سلوک کرے گا جیسا یوسف نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا.پس جب مکہ والوں کے منہ سے اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوسف کے مثیل تھے اور یوسف کی طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے بھائیوں پر فتح دی تھی تو آپ نے بھی اعلان فرما دیا کہ تَاللهِ لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ - خدا کی قسم! آج تمہیں کسی قسم کا عذاب نہیں دیا جائے گا اور نہ ہی کسی قسم کی سرزنش کی جائے گی لے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زیارت کعبہ کی متعلقہ عبادتوں میں مصروف تھے اور اپنی قوم کے ساتھ بخشش اور رحمت کا معاملہ کر رہے تھے تو انصار کے دل اندر ہی اندر بیٹھے جارہے تھے اور وہ ایک دوسرے سے اشاروں میں کہہ رہے تھے شاید آج ہم خدا کے رسول کو اپنے سے جدا کر رہے ہیں کیونکہ ان کا شہر خدا تعالیٰ نے ان کے ہاتھ پر فتح کر دیا ہے اور ان کا قبیلہ ان پر ایمان لے آیا ہے اُس وقت اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعہ سے انصار کے ان شبہات کی خبر دے دی.آپ نے سر اُٹھایا، انصار کی طرف دیکھا اور فرمایا اے انصار! تم سمجھتے ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے شہر کی محبت ستاتی ہوگی اور اپنی قوم کی محبت اس کے دل میں گد گدیاں لیتی ہوگی.انصار نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! یہ درست ہے ہمارے دل میں ایسا خیال گزرا تھا.آپ نے فرمایا تمہیں پتہ ہے میرا نام کیا ہے؟ مطلب یہ کہ میں اللہ کا بندہ اور اُس کا رسول کہلاتا ہوں پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ تم لوگوں کو جنہوں نے دین اسلام کی کمزوری کے وقت میں اپنی جانیں قربان کیں چھوڑ کر کسی اور جگہ چلا جاؤں.پھر فرمایا اے انصار! ایسا کبھی نہیں ہوسکتا ل السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۸۹ مطبوعه مصر ۱۹۳۵ء
۲۲۱ نبیوں کا سردار میں اللہ کا بندہ اور اُس کا رسول ہوں.میں نے خدا کی خاطر اپنے وطن کو چھوڑا تھا اور اس کے بعد اب میں اپنے وطن میں واپس نہیں آسکتا.میری زندگی تمہاری زندگی سے ہے اور میری موت تمہاری موت سے وابستہ ہے.مدینہ کے لوگ آپ کی یہ باتیں سن کر اور آپ کی محبت اور آپ کی وفا کو دیکھ کر روتے ہوئے آگے بڑھے اور کہا یا رَسُولَ الله ! خدا کی قسم! ہم نے خدا اور اس کے رسول پر بدظنی کی یہ بات یہ ہے کہ ہمارے دل اس خیال کو برداشت نہیں کر سکتے کہ خدا کا رسول ہمیں اور ہمارے شہر کو چھوڑ کر کہیں اور چلا جائے.آپ نے فرمایا اللہ اور اس کا رسول تم لوگوں کو بری سمجھتے ہیں اور تمہارے اخلاص کی تصدیق کرتے ہیں.جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مدینہ کے لوگوں میں یہ پیار اور محبت کی باتیں ہو رہی ہوں گی اگر مکہ کے لوگوں کی آنکھوں نے آنسو ہیں بہائے ہوں گے تو ان کے دل یقینا آنسو بہارہے ہوں گے کہ وہ قیمتی ہیرا جس سے بڑھ کر کوئی قیمتی چیز اس دنیا میں پیدا نہیں ہوئی خدا نے اُن کو دیا تھا مگر اُنہوں نے اُس کو اپنے گھروں سے نکال کر پھینک دیا اور اب کے وہ خدا کے فضل اور اُس کی مدد کے ساتھ دوبارہ مکہ میں آیا تھا وہ اپنے وفائے عہد کی وجہ سے اپنی مرضی اور اپنی خوشی سے ملکہ کو چھوڑ کر مدینہ واپس جا رہا ہے.جن لوگوں کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا تھا کہ ان کے بعض ظالمانہ قتلوں اور ظلموں کی وجہ سے ان کو قتل کیا جائے ان میں سے اکثر کو مسلمانوں کی سفارش پر آپ نے چھوڑ دیا.انہی لوگوں میں سے ابو جہل کا بیٹا عکرمہ بھی تھا.عکرمہ کی بیوی دل سے مسلمان تھی اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رَسُول اللہ ! عکرمہ کو بھی آپ معاف فرما دیں.آپ نے فرمایا ہاں ہاں ! ہم اُسے معاف کرتے ہیں.عکرمہ بھاگ کریمن کی طرف جا رہے تھے کہ بیوی اپنے خاوند کی محبت میں پیچھے پیچھے اُس کی تلاش سیرت ابن هشام جلد ۴ صفحه ۵۹ مطبوعه مصر ۱۹۳۶ء
۲۲۲ نبیوں کا سردار میں گئی.جب وہ ساحلِ سمندر پر کشتی میں بیٹھے ہوئے عرب کو ہمیشہ کے لئے چھوڑنے پر تیار تھے کہ پراگندہ سر اور پریشان حال بیوی گھبرائی ہوئی پہنچی اور کہا اے میرے چچا کے بیٹے ! ( عرب عورتیں اپنے خاندوں کو چا کا بیٹا کہا کرتی تھیں ) اتنے شریف اور اتنے رحمدل انسان کو چھوڑ کر کہاں جارہے ہو؟ عکرمہ نے حیرت سے اپنی بیوی سے پوچھا کیا میری ان ساری دشمنیوں کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے معاف کر دیں گے؟ عکرمہ کی بیوی نے کہا ہاں ہاں! میں نے اُن سے عہد لے لیا ہے اور انہوں نے تم کو معاف کر دیا ہے.جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے تو عرض کیا یا رَسُول اللہ! میری بیوی کہتی ہے کہ آپ نے میرے جیسے انسان کو بھی معاف کر دیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا تمہاری بیوی ٹھیک کہتی ہے ہم نے تم کو معاف کر دیا ہے.عکرمہ نے کہا جو شخص اتنے شدید دشمنوں کو معاف کر سکتا ہے وہ جھوٹا نہیں ہوسکتا.میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور اُس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اتم اس کے بندے اور اُس کے رسول ہو اور پھر شرم سے اپنا سر جھکا لیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حیا کی حالت کو دیکھ کر اس کے دل کی تسلی کے لئے فرمایا.عکرمہ اہم نے تمہیں صرف معاف ہی نہیں کیا بلکہ اس سے زائد یہ بات بھی ہے کہ اگر آج کوئی ایسی چیز مجھ سے مانگو جس کے دینے کی مجھ میں طاقت ہو تو میں وہ بھی تمہیں دے دوں گا.عکرمہ نے کہا یا رسُول اللہ ! اور اس سے زیادہ میری خواہش کیا ہو سکتی ہے کہ آپ خدا تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ میں نے جو آپ کی دشمنیاں کی ہیں وہ مجھے معاف کر دے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے فرمایا.اے میرے اللہ ! وہ تمام دشمنیاں جو عکرمہ نے مجھ سے کی ہیں اسے معاف کر دے اور وہ تمام گالیاں جو اس کے منہ سے نکلی ہیں وہ اسے بخش دے.پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھے اور اپنی چادر اتار کر اس کے اوپر ڈال دی اور فرمایا جو اللہ پر ایمان
۲۲۳ نبیوں کا سردار لاتے ہوئے ہمارے پاس آتا ہے ہمارا گھر اُس کا گھر ہے اور ہماری جگہ اُس کی جگہ ہے لے عکرمہ کے ایمان لانے سے وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو سالہا سال پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے بیان فرمائی تھی کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ گویا میں جنت میں ہوں ، وہاں میں نے انگور کا ایک خوشہ دیکھا اور لوگوں سے پوچھا کہ یہ کس کے لئے ہے؟ تو کسی جواب دینے والے نے کہا ابو جہل کے لئے.یہ بات مجھے عجیب معلوم ہوئی اور میں نے کہا جنت میں تو سوائے مؤمن کے اور کوئی داخل نہیں ہوتا پھر جنت میں ابو جہل کے لئے انگور کیسے مہیا کئے گئے ہیں؟ جب عکرمہ ایمان لایا تو آپ نے فرما یادہ خوشہ عکرمہ کا تھا خدا نے بیٹے کی جگہ باپ کا نام ظاہر کیا ہے جیسا کہ خوابوں میں اکثر ہو جایا کرتا ہے.وہ لوگ جن کے قتل کا حکم دیا گیا تھا اُن میں وہ شخص بھی تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت زینب کی ہلاکت کا موجب ہوا تھا.اس شخص کا نام ہار تھا.اس نے حضرت زینب کے اُونٹ کا تنگ کاٹ دیا تھا اور حضرت زینب ” اونٹ سے نیچے جا پڑی تھیں جس کی وجہ سے اُن کا حمل ضائع ہو گیا اور کچھ عرصہ کے بعد وہ فوت ہوگئیں.علاوہ اور جرائم کے یہ جرم بھی اس کو قتل کا مستحق بناتا تھا.یہ شخص بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا اے اللہ کے نبی! میں آپ سے بھاگ کر ایران کی طرف چلا گیا تھا پھر میں نے خیال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے ذریعہ سے ہمارے شرک کے خیالات کو دور کیا ہے اور ہمیں روحانی ہلاکت سے بچایا ہے میں غیر لوگوں میں جانے کی بجائے کیوں نہ اس کے پاس جاؤں اور اپنے گناہوں کا اقرار کر کے اُس سے معافی مانگوں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا.ہار! جب خدا نے تمہارے دل میں ل السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۱۰۶، ۱۰۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ل السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۱۰۶ ، ۱۰۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۲۲۴ نبیوں کا سردار اسلام کی محبت پیدا کر دی ہے تو میں تمہارے گناہوں کو کیوں نہ معاف کروں.جاؤ میں نے تمہیں معاف کیا اسلام نے تمہارے سب پہلے قصور مٹادیئے ہیں لے اس جگہ اتنی گنجائش نہیں کہ میں اس مضمون کو لمبا کروں ورنہ ان خطر ناک مجرموں میں سے جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمولی معذرت پر معاف فرما دیا اکثر کے واقعات ایسے دردناک اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحم کو اتنا ظاہر کرنے والے ہیں کہ ایک سنگدل انسان بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.غزوہ حنین چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ میں داخلہ اچانک ہوا اس لئے مکہ سے ذرا فاصلے پر جو قبائل رہتے تھے خصوصاً وہ جو جنوب کی طرف رہتے تھے انہیں مکہ پر حملہ کی خبر اُسی وقت ہوئی جب آپ مکہ میں داخل ہو چکے تھے.اس خبر کے سنتے ہی انہوں نے اپنی فوجیں جمع کرنی شروع کر دیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ کی تیاری کرنے لگے.ہوازن اور ثقیف دو عرب قبیلے اپنے آپ کو خاص طور پر بہادر خیال کرتے تھے انہوں نے فوراً آپس میں مشورہ کر کے اپنے لئے ایک سردار چن لیا اور مالک بن عوف نامی ایک شخص کو اپنا رئیس مقرر کر لیا.اس کے بعد اُنہوں نے اردگرد کے قبائل کو دعوت دی کہ وہ بھی ان کے ساتھ آکر شامل ہو جائیں.انہی قبائل میں بنو سعد بن بکر بھی تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دائی حلیمہ اسی قبیلہ میں سے تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچپن کی عمر اسی قبیلہ میں گزاری تھی.یہ لوگ جمع ہو کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے اور انہوں نے اپنے ساتھ اپنے مال اور ا پنی بیویوں اور اپنی اولادوں کو بھی لے لیا.جب ان کے السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۳ صفحه ۱۰۶ مطبوعه مصر ۱۹۳۵ء
۲۲۵ نبیوں کا سردار سرداروں سے پوچھا گیا کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا اس لئے تا سپاہیوں کو یہ خیال رہے کہ اگر ہم بھاگے تو ہماری بیویاں اور ہماری اولادیں قید ہو جائیں گی اور ہمارے مال لوٹے جائیں گے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کتنے پختہ ارادہ کے ساتھ مسلمانوں کو تباہ کرنے کیلئے نکلے تھے.آخر یہ شکر وادی اوطاس میں آکر اُتر ا جو جنگ کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نہایت ہی اعلیٰ درجہ کی وادی تھی کیونکہ اس میں پناہ کی جگہیں بھی تھیں اور جانوروں کے لئے چارہ اور انسانوں کے لئے پانی بھی موجود تھا اور گھوڑے دوڑانے کیلئے زمین بھی بہت ہی مناسب تھی.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے عبداللہ بن ابی حدود نامی ایک صحابی کو حقیقت حال معلوم کرنے کے لئے بھیجا.عبداللہ نے آکر اطلاع دی کہ واقعہ میں ان کا لشکر جمع ہے اور وہ لڑنے مرنے پر آمادہ ہیں.چونکہ یہ قوم بڑی تیرانداز تھی اور جس جگہ پر انہوں نے ڈیرہ ڈالا تھا وہ مقام ایسا تھا کہ صرف ایک محدود جگہ پر لڑائی کی جاسکتی تھی اور اس جگہ پر بھی حملہ آور بڑی صفائی کے ساتھ تیروں کا نشانہ بنتا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے سردار صفوان سے جو بہت بڑے مالدار اور تاجر تھے اس جنگ کے لئے ہتھیار اور کچھ روپیہ مانگا.صفوان نے کہا اے محمد ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کیا اپنی حکومت کے زور پر آپ میرا مال چھیننا چاہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا نہیں ہم چھینا نہیں چاہتے بلکہ تم سے عاریہ مانگتے ہیں اور اس کی ضمانت دینے کو تیار ہیں.اس پر اُس نے کہا تب کوئی حرج نہیں آپ مجھ سے یہ چیزیں لے لیں اور اُس نے سوزِ رہیں اور ان کے ساتھ مناسب ہتھیار عاریتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے اور اس کے علاوہ تین ہزار روپیہ قرض دیا.اسی طرح آپ نے اپنے چچا زاد بھائی نوفل بن حارث سے تین ہزار نیزہ عاریہ لیا.جب یہ شکر ہوازن کی طرف چلا تو مکہ والوں نے خواہش کی کہ گوہم مسلمان نہیں ہیں لیکن اب چونکہ ہم اسلامی حکومت میں شامل ہو چکے
۲۲۶ نبیوں کا سردار ہیں ہم کو بھی لڑائی میں شامل ہونے کا موقع دیا جائے چنانچہ دو ہزار آدمی مکہ سے آپ کے ساتھ روانہ ہوا.راستہ میں عرب کی ایک مشہور زیارت گاہ پڑتی تھی جس کو ذات انواط کہتے تھے.یہ ایک پرانا بیری کا درخت تھا جس کو عرب کے لوگ متبرک سمجھتے تھے اور جب عرب کے بہادر لوگ کوئی ہتھیار خریدتے تو پہلے ذاتِ انواط میں جا کر لڑکاتے تھے تا کہ اس کو برکت حاصل ہو جائے.جب صحابہ اس کے پاس سے گزرے تو بعض نے کہا یا رَسُول اللہ ! ہمارے لئے بھی آپ ایک ذات انواط مقرر فرما ئیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اللہ بڑا ہے یہ تو وہی موسی کی قوم والی بات ہوئی کہ جب وہ کنعان کی طرف روانہ ہوئے اور کنعان کے قبائل کو اُنہوں نے بت پوجتے دیکھا تو موسیٰ سے مخاطب ہو کر کہا يموسَى اجْعَل لَّنَا إِلَها كَمَا لَهُمْ الهَةٌ اے موسیٰ ! جس طرح ان کے معبود ہیں ہمارے لئے بھی کوئی معبود تجویز کر دیجئے.فرمایا یہ تو جہالت کی باتیں ہیں میں ڈرتا ہوں کہ اس قسم کے وہموں کی وجہسے کہیں تم میں سے بھی ایک گروہ اسی ہی رکتی نہ کرنے لگ جائے سے ہوازن اور ان کے مددگار قبائل نے ایک کمین گاہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے بنا چھوڑی تھی جیسے آجکل لڑائی کے میدان میں مخفی خندقیں ہوتی ہیں جب اسلامی لشکر حنین مقام پر پہنچا تو وہ ان کے سامنے چھوٹی چھوٹی منڈیریں بنا کر ان کے پیچھے بیٹھ گئے اور بیچ میں سے ایک تنگ راستہ مسلمانوں کے لئے چھوڑ دیا.اکثر سپاہی تو ان ٹیلوں کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گئے اور کچھ سپاہی اونٹوں وغیرہ کے سامنے صف بند ہو کر کھڑے ہو گئے.مسلمانوں نے یہ سمجھ کر کہ لشکر وہی ہے جو سامنے کھڑا ہے آگے بڑھ کر اُس پر حملہ کر دیا.الاعراف: ۱۳۹ سیرت این هشام جلد ۴ صفحه ۸۵،۸۴ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۲۷ نبیوں کا سردار جب مسلمان کافی آگے بڑھ چکے اور کمین گاہ کے سپاہیوں نے دیکھا کہ اب ہم اچھی طرح حملہ کر سکتے ہیں تو اگلی کھڑی فوج نے سامنے سے حملہ کر دیا اور پہلوؤں سے تیر اندازوں نے بے تحاشا تیر برسانے شروع کر دیئے.مکہ کے لوگ جو یہ سمجھ کر ساتھ شامل ہوئے تھے کہ آج ہم کو بھی بہادری دکھانے کا موقع ملے گا اس دو طرفہ حملہ کی برداشت نہ کر سکے اور واپس مکہ کی طرف بھاگے.مسلمان گو اس قسم کی تکالیف اُٹھانے کے عادی تھے مگر جب دو ہزار گھوڑے اور اونٹ اُن کی صفوں میں سے بے تحاشا بھاگتے ہوئے نکلے تو ان کے گھوڑے اور اُونٹ بھی ڈر گئے اور سارے کا سارا لشکر بے تحاشا پیچھے کی طرف دوڑ پڑا.تین طرف کے حملہ میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ ۱۲ صحابی کھڑے رہے.مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ سارے صحابہؓ بھاگ گئے تھے بلکہ ۱۰۰ کے قریب اور آدمی بھی میدان میں کھڑے رہے تھے مگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فاصلہ پر تھے.آپ کے گرد صرف ایک درجن قریب آدمی رہ گئے.ایک صحابی کہتے ہیں میں اور میرے ساتھی بے تحاشا زور لگاتے تھے کہ کسی طرح ہماری سواری کے جانور میدانِ جنگ کی طرف آئیں لیکن دو ہزار اونٹوں کے بھاگنے کی وجہ سے وہ ایسے بدک گئے تھے کہ ہمارے ہاتھ باگیں کھینچتے کھینچتے زخمی ہو ہو جاتے تھے مگر اُونٹ اور گھوڑے واپس لوٹنے کا نام نہیں لیتے تھے.بعض دفعہ ہم باگیں اس زور سے کھینچتے تھے کہ مرکب کا سر اُس کی پیٹھ سے لگ جاتا تھا.مگر پھر جب ایڑی دے کر ہم اُس کو پیچھے میدانِ جنگ کی طرف موڑتے تو وہ بجائے پیچھے کوٹنے کے اور بھی تیزی کے ساتھ آگے کی طرف بھاگتا.ہمارا دل دھڑک رہا تھا کہ پیچھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہو گا مگر ہم بالکل بے بس تھے.ادھر تو صحابہ کی یہ حالت تھی اور اُدھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف چند آدمیوں کے ساتھ میدانِ جنگ میں کھڑے تھے.دائیں اور بائیں اور سامنے تینوں طرف سے تیر پڑ رہے
۲۲۸ نبیوں کا سردار لے تھے اور پیچھے کی طرف صرف ایک تنگ راستہ تھا جس میں سے ایک وقت میں صرف چند آدمی ہی گزر سکتے تھے مگر پھر بھی سوائے اُس راستہ کے اور کوئی نجات کی راہ نہیں تھی.اُس وقت حضرت ابوبکر نے اپنی سواری سے اتر کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خچر کی باگ پکڑ لی اور عرض کی يَا رَسُولَ اللہ تھوڑی دیر کے لئے پیچھے ہٹ آئیں یہاں تک کہ اسلامی لشکر جمع ہو جائے.آپ نے فرمایا ابوبکر ! میری خچر کی باگ چھوڑ دو اور پھر خچر کو ایڑی لگاتے ہوئے آپ نے اُس تنگ راستہ پر آگے بڑھنا شروع کیا جس کے دائیں بائیں کمین گاہوں میں بیٹھے ہوئے سپاہی تیراندازی کر رہے تھے اور فرمایا.انا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ میں خدا کا نبی ہوں میں جھوٹا نہیں ہوں.مگر یہ بھی یادرکھو کہ اس وقت خطرہ کے مقام پر کھڑے ہوئے بھی جو میں دشمن کے حملہ سے محفوظ ہوں تو اس کے یہ معنی نہیں کہ میرے اندر خدائی کا کوئی مادہ پایا جاتا ہے بلکہ میں انسان ہی ہوں اور عبد المطلب کا پوتا ہوں.پھر آپ نے حضرت عباس " کو جن کی آواز بہت بلند تھی آگے بلایا اور فرمایا.عباس ! بلند آواز سے پکار کر کہو کہ اے وہ صحابہ! جنہوں نے حدیبیہ کے دن درخت کے نیچے بیعت کی تھی اور اے وہ لوگو جو سورہ بقرہ کے زمانہ سے مسلمان ہو! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے.حضرت عباس نے نہایت ہی بلند آواز سے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پیغام سنایا، تو اُس وقت صحابہ کی جو حالت ہوئی اُس کا اندازہ صرف اُنہی کی زبان سے حالات سن کر لگایا جاسکتا ہے.وہی صحابی جن کا میں نے اُوپر ذکر کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم اونٹوں اور گھوڑوں کو واپس لانے کی کشمکش میں تھے کہ عباس کی آواز ہمارے کانوں میں پڑی.اُس وقت ہمیں یوں معلوم ہوا کہ ہم اس دنیا میں نہیں بلکہ قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہیں اور اُس کے مسلم كتاب الجهاد و السير باب غزوة حنين
۲۲۹ نبیوں کا سردار فرشتے ہم کو حساب دینے کے لئے بلا رہے ہیں.تب ہم میں سے بعض نے اپنی تلواریں اور ڈھالیں اپنے ہاتھوں میں لے لیں اور اونٹوں سے کود پڑے اور ڈرے ہوئے اونٹوں کو انہوں نے خالی چھوڑ دیا کہ وہ جدھر چاہیں چلے جائیں اور بعض نے اپنی تلواروں سے اپنے اونٹوں کی گردنیں کاٹ دیں اور خود پیدل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑے ہے وہ صحابی کہتے ہیں اُس دن انصار اس طرح دوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جارہے تھے کہ جس طرح اُونٹنیاں اور گائیں اپنے بچے کے چیخنے کی آواز کوشن کر اس کی طرف دوڑ پڑتی ہیں اور تھوڑی دیر میں صحابہ اور خصوصاً انصار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے اور دشمن کو شکست ہوگئی.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کا یہ نشان ہے کہ وہ شخص جو چند ہی دن پہلے آپ کی جان کا دشمن تھا اور آپ کے مقابلہ پر کفار کے لشکروں کی کمان کیا کرتا تھا یعنی ابوسفیان وہ آج حنین کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا.جب کفار کے اونٹ پیچھے کی طرف دوڑے تو ابوسفیان جو نہایت ہی زیرک اور ہوشیار آدمی تھا اُس نے یہ سمجھ کر کہ میرا گھوڑا بھی پرک جائے گا فوراً اپنے گھوڑے سے کو دا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خچر کی رکاب پکڑے ہوئے پیدل آپ کے ساتھ چل پڑا.ابوسفیان کا بیان ہے کہ اُس وقت کچھی ہوئی تلوار میرے ہاتھ میں تھی اور مجھے اللہ ہی کی قسم ہے جو دلوں کے راز جانتا ہے کہ میں اُس وقت عزم صمیم کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خچر کے ساتھ پہلو میں کھڑا تھا کہ کوئی شخص مجھے مارے بغیر رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں پہنچ سکتا تھا.اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے حیرت کے ساتھ دیکھ رہے تھے (شاید آپ سوچ سیرت ابن هشام جلد ۴ صفحه ۷ ۸ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶
۲۳۰ نبیوں کا سردار رہے تھے کہ آج سے صرف دس پندرہ دن پہلے یہ شخص میرے قتل کے لئے اپنی فوج کو لے کر مکہ سے نکلنے والا تھا لیکن چند ہی دنوں میں خدا تعالیٰ نے اس کے اندر ایسی تبدیلی کر دی ہے کہ یہ مکہ کا کمانڈر ایک عام سپاہی کی حیثیت میں میری خچر کی رکاب پکڑے کھڑا ہے اور اس کا چہرہ بتا رہا ہے کہ یہ آج اپنی موت سے اپنے گناہوں کا ازالہ کرے گا ) عباس نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حیرت سے ابوسفیان کی طرف دیکھتے ہوئے دیکھا تو کہا یا رَسُوْلَ اللہ ! یہ ابوسفیان آپ کے چا کا بیٹا اور آپ کا بھائی ہے آج تو آپ اس سے خوش ہو جائیں.آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اِس کی وہ تمام دشمنیاں معاف کرے جو کہ اس نے مجھ سے کی ہیں.ابوسفیان کہتے ہیں کہ اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف مخاطب ہوئے اور فرمایا اے بھائی! تب میں نے جوش محبت سے آپ کے اُس پیر کو جو نچر کی رکاب میں تھا چوم لیا.فتح مکہ کے بعد جب رسول اللہ ﷺ نے وہ جنگی سامان جو آپ نے عاربینہ لیا تھا اس کے مالکوں کو واپس کیا اور ساتھ اُس کے بہت سا انعام واکرام بھی دیا تو ان لوگوں نے یہ محسوس کیا کہ یہ شخص اس زمانہ کے عام انسانوں جیسا نہیں.چنانچہ صفوان اُسی وقت اسلام لے آئے.اس جنگ کا ایک اور عجیب واقعہ بھی تاریخوں میں آتا ہے.شیبہ نامی ایک شخص جو مکہ کے رہنے والے تھے اور جو خانہ کعبہ کی خدمت کے لئے مقرر تھے وہ کہتے ہیں میں بھی اس لڑائی میں شامل ہوا مگر میری نیت یہ تھی کہ جس وقت لشکر آپس میں ملیں گے تو میں موقع پا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دوں گا اور میں نے دل میں کہا عرب اور غیر عرب لوگ تو الگ رہے اگر ساری دنیا بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مذہب میں داخل ہوگئی تو میں نہیں ہوں گا.جب لڑائی تیزی پر ہوئی اور ادھر کے آدمی اُدھر کے آدمیوں میں مل گئے تو میں نے تلوار کھینچی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہونا شروع کیا.اُس وقت مجھے یوں
۲۳۱ نبیوں کا سردار معلوم ہوا کہ میرے اور آپ کے درمیان آگ کا ایک شعلہ اُٹھ رہا ہے جو قریب ہے کہ مجھے بھسم کر دے.اُس وقت مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنائی دی کہ شیبہ! میرے قریب ہو جاؤ.میں جب آپ کے قریب گیا تو آپ نے میرے سینہ پر ہاتھ پھیرا اور کہا اے خدا! شیبہ کو شیطانی خیالوں سے نجات دے.شیبہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پھیرنے کے ساتھ ہی میرے دل سے ساری دشمنیاں اور عداوتیں اُڑ گئیں اور اُس وقت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو اپنی آنکھوں سے اور اپنے کانوں سے اور اپنے دل سے زیادہ عزیز ہو گئے.پھر آپ نے فرمایا شیبہ! آگے بڑھو اور لڑو.تب میں آگے بڑھا اور اُس وقت میرے دل میں سوائے اس کے کوئی خواہش نہیں تھی کہ میں اپنی جان قربان کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچاؤں.اگر اُس وقت میرا باپ زندہ ہوتا اور میرے سامنے آجاتا تو میں اپنی تلوار اُس کے سینہ میں بھونکے دینے سے ایک ذرہ دریغ نہ کرتا.ہے اس کے بعد آپ طائف کی طرف روانہ ہوئے.وہی شہر جن کے باشندوں نے پتھراؤ کرتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے شہر سے نکال دیا تھا.اُس شہر کا آپ نے کچھ عرصہ تک محاصرہ کیا لیکن پھر بعض لوگوں کے مشورہ دینے پر کہ ان کا محاصرہ کر کے وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں سارے عرب میں اب صرف یہ شہر کر ہی کیا سکتا ہے آپ محاصرہ چھوڑ کر چلے آئے اور کچھ عرصہ کے بعد طائف کے لوگ بھی مسلمان ہو گئے.فتح مکہ اور حنین کے بعد ان جنگوں سے فارغ ہونے کے بعد وہ اموال جو مغلوب دشمنوں کے جرمانوں اور بھونک بھونک دینا ، گھونپ دینا، چھیدنا السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۷ ۱۲۸،۱۲ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۲۳۲ نبیوں کا سردار میدانِ جنگ میں چھوڑی ہوئی چیزوں سے جمع ہوئے تھے حسب دستور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلامی لشکر میں تقسیم کرنے تھے.لیکن اس موقع پر آپ نے بجائے ان اموال کو مسلمانوں میں تقسیم کرنے کے مکہ اور اردگرد کے لوگوں میں تقسیم کر دیا.ان لوگوں کے اندر ابھی ایمان تو پیدا نہیں ہوا تھا بہت سے تو ابھی کا فر ہی تھے اور جو مسلمان تھے وہ بھی نئے نے مسلمان ہوئے تھے یہ ان کے لئے بالکل نئی چیز تھی کہ ایک قوم اپنا مال دوسرے لوگوں میں بانٹ رہی ہے.اس مال کی تقسیم سے بجائے ان کے دل میں نیکی اور تقومی پیدا ہونے کے حرص اور بھی بڑھ گئی.انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمگھٹا ڈال لیا اور مزید مطالبات کے ساتھ آپ کو تنگ کرنا شروع کیا یہاں تک کہ دھکیلتے ہوئے وہ آپ کو ایک درخت تک لے گئے اور ر ایک شخص نے تو آپ کی چادر جو آپ کے کندھوں پر رکھی ہوئی تھی پکڑ کر اس طرح مروڑنی شروع کی کہ آپ کا سانس رکنے لگا.آپ نے فرمایا اے لوگو! اگر میرے پاس کچھ اور ہوتا تو میں وہ بھی تمہیں دے دیتا تم مجھے کبھی بخیل یا بز دل نہیں پاؤ گے لے پھر آپ اپنی اونٹنی کے پاس گئے اور اس کا ایک بال تو ڑا اور اسے اونچا کیا اور فرمایا اے لوگو ! مجھے تمہارے مالوں میں سے اس بال کے برابر بھی ضرورت نہیں سوائے اُس پانچویں حصہ کے جو عرب کے قانون کے مطابق حکومت کا حصہ ہے اور وہ پانچواں حصہ بھی میں اپنی ذات پر خرچ نہیں کرتا بلکہ وہ بھی تمہیں لوگوں کے کاموں پر خرچ کیا جاتا ہے.اور یادرکھو کہ خیانت کرنے والا انسان قیامت کے دن خدا کے حضور اس خیانت کی وجہ سے ذلیل ہوگا.لوگ کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بادشاہت کے خواہشمند تھے.کیا بادشاہوں اور عوام کا ایسا ہی تعلق ہوا کرتا ہے؟ کیا کسی کی طاقت ہوتی ہے کہ بادشاہ کو اس طرح دھکیلتا ہوا لے جائے اور اس کے گلے میں پٹکہ ڈال کر اُس کو گھونٹے؟ اللہ کے رسولوں بخارى كتاب الجهاد باب الشجاعة في الحرب و الجبن
۲۳۳ نبیوں کا سردار کے سوا یہ نمونہ کون دکھا سکتا ہے.مگر باوجود اس طرح تمام اموال غرباء میں تقسیم کرنے کے پھر بھی ایسے سنگدل لوگ موجود تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقسیم کو انصاف کی تقسیم نہیں سمجھتے تھے.چنانچہ ذوالخویصرہ نامی ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا.اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وسلم) جو کچھ آپ نے آج کیا ہے وہ میں نے دیکھا ہے.آپ نے فرمایا تم نے کیا دیکھا؟ اس نے کہا میں نے یہ دیکھا ہے کہ آپ نے آج ظلم کیا ہے اور انصاف سے کام نہیں لیا.آپ نے فرمایا تم پر افسوس! اگر میں نے عدل نہیں کیا تو پھر اور کون انسان دنیا میں عدل کرے گا.اُس وقت صحابہ جوش میں کھڑے ہو گئے اور جب یہ شخص مسجد سے اٹھ کر گیا تو ان میں سے بعض نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! شیخی واجب القتل ہے کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ ہم اسے ماردیں؟ آپ نے فرمایا اگر یہ شخص قانون کی پابندی کرتا ہے تو ہم اس کو کس طرح مار سکتے ہیں.صحابہ نے کہا يَا رَسُولَ اللَّهُ! ایک شخص ظاہر کچھ اور کرتا ہے اور اس کے دل میں کچھ اور ہوتا ہے کیا ایسا شخص سزا کا مستحق نہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے خدا نے یہ حکم نہیں دیا کہ میں لوگوں سے ان کے دلوں کے خیالات کے مطابق معاملہ کروں.مجھے تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اُن کے ظاہر کے مطابق معاملہ کروں.پھر آپ نے فرمایا یہ اور اس کے ساتھی ایک دن اسلام سے بغاوت کریں گے.چنانچہ حضرت علی کے زمانہ میں یہ شخص اور اس کے قبیلہ کے لوگ اُن باغیوں کے سردار تھے جنہوں نے حضرت علی سے بغاوت کی اور خوارج کے نام سے آج تک مشہور ہیں.ہوا زن سے فارغ ہو کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لے گئے.یہ مدینہ والوں کے لئے پھر ایک نیا خوشی کا دن تھا.ایک دفعہ خدا کا رسول مکہ کے لوگوں کے بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة فى الاسلام
۲۳۴ نبیوں کا سردار ظلم سے تنگ آکر مدینہ کی طرف روانہ ہوا تھا اور آج خدا کا رسول مکہ فتح کرنے کے بعد اپنی خوشی سے اور اپنے عہد کو نبھانے کے لئے دوبارہ مدینہ میں داخل ہو رہا تھا.غزوہ تبوک جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو ابو عامر مدنی جو خزرج قبیلہ میں سے تھا اور یہودیوں اور عیسائیوں سے میل ملاقات کی وجہ سے ذکر و وظائف کرنے کا عادی تھا اور اس کی وجہ سے لوگ اس کو راہب کہتے تھے مگر مذہبا عیسائی نہیں تھا.یہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ میں پہنچ جانے کے بعد مکہ کی طرف بھاگ گیا تھا.جب مکہ بھی فتح ہو گیا تو یہ سوچنے لگا کہ اب مجھے اسلام کے خلاف شورش پیدا کرنے کے لئے کوئی اور تدبیر کرنی چاہئے.آخر اس نے اپنا نام اور طرز بدلی اور مدینہ کے پاس قبا نامی گاؤں میں جا کر رہنا شروع کیا.سالہا سال باہر رہنے کی وجہ سے اور کچھ شکل اور لباس میں تبدیلی کر لینے کی وجہ سے مدینہ کے لوگوں نے عام طور پر اس کو نہ پہچانا.صرف وہی منافق اس کو جانتے تھے جن کے ساتھ اس نے اپنا تعلق پیدا کر لیا تھا.اس نے مدینہ کے منافقوں کے ساتھ مل کر یہ تجویز کی کہ میں شام میں جا کر عیسائی حکومت اور عرب عیسائی قبائل کو بھڑکا تا ہوں اور اُن کو مدینہ پر حملہ کرنے کی تحریک کرتا ہوں.ادھر تم یہ مشہور کرنا شروع کر دو کہ شامی فوجیں مدینہ پر حملہ کر رہی ہیں.اگر میری سکیم کامیاب ہو گئی تو پھر بھی ان دونوں کی مٹھ بھیڑ ہو جائے گی اور اگر میری سکیم کامیاب نہ ہوئی تو ان افواہوں کی وجہ سے مسلمان شاید شام پر جا کر خود حملہ کر دیں اور اس طرح قیصر کی حکومت اور ان میں لڑائی شروع ہو جائے گی اور ہمارا کام بن جائے گا.چنانچہ یہ تحریک کر کے یہ شخص شام کی طرف گیا اور مدینہ کے منافقوں نے روزانہ مدینہ میں یہ خبریں مشہور کرنی شروع کر دیں کہ فلاں قافلہ ہمیں ملا تھا اور اُس نے
۲۳۵ نبیوں کا سردار بتایا تھا کہ شامی لشکر مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے.دوسرے دن پھر کہد یتے تھے کہ فلاں قافلہ کے لوگ ہمیں ملے تھے اور اُنہوں نے کہا تھا کہ مدینہ پر شامی لشکر چڑھائی کرنے والا ہے.یہ خبر میں اتنی شدت سے پھیلنی شروع ہوئیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب سمجھا کہ آپ اسلامی لشکر لے کر خودشامی لشکروں کے مقابلہ کے لئے جائیں.یہ وقت مسلمانوں کے لئے نہایت ہی تکلیف کا تھا.قحط کا سال تھا پچھلے موسم میں غلہ اور پھل کم پیدا ہوا تھا اور اس موسم کی اجناس ابھی پیدا نہیں ہوئی تھیں.ستمبر کا آخر یا اکتو بر کا شروع تھا، جب آپ اس مہم کے لئے روانہ ہوئے.منافق تو جانتے تھے کہ یہ سب شرارت ہے اور یہ کہ انہوں نے یہ سب چالا کی اس لئے کی ہے کہ اگر شامی لشکر حملہ آور نہ ہوا تو مسلمان خود شامیوں سے جا لڑیں اور اس طرح تباہ ہو جائیں.موتہ کی جنگ کے حالات ان کے سامنے تھے اُس وقت مسلمانوں کو اتنے بڑے لشکر کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ وہ بہت کچھ نقصان اُٹھا کر بمشکل بچے تھے.اب وہ ایک دوسری موتہ اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے تھے جس میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی نعوذ باللہ شہید ہو جا ئیں اس لئے ایک طرف تو منافق روزانہ یہ خبریں پھیلاتے تھے کہ فلاں ذریعہ سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ دشمن حملہ کرنے والا ہے فلاں ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ شامی فوجیں آرہی ہیں اور دوسری طرف لوگوں کو ڈرا رہے تھے کہ اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ آسان نہیں تمہیں جنگ کے لئے نہیں جانا چاہئے.ان کارروائیوں سے ان کی غرض یہ تھی کہ مسلمان شام پر حملہ کرنے کے لئے جائیں تو سہی لیکن جہاں تک ہو سکے کم سے کم تعداد میں جائیں تاکہ ان کی شکست زیادہ سے زیادہ یقینی ہو جائے.مگر مسلمان رسول اللہ ﷺ کے اس اعلان پر کہ ہم شام کی طرف جانے والے ہیں اخلاص اور جوش سے بڑھ بڑھ کر قربانیاں کر رہے تھے.غریب مسلمانوں کے پاس جنگ کے سامان تھے کہاں ؟ حکومت کا خزانہ بھی خالی تھا.ان کے آسودہ حال بھائی ہی ان کی مدد
۲۳۶ نبیوں کا سردار کیلئے آسکتے تھے.چنانچہ ہرشخص قربانی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا تھا.حضرت عثمان نے اُس دن اپنے روپے کا اکثر حصہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا جو ایک ہزار سونے کا دینار تھا یعنی قریباً ۲۵ ہزار روپیہ.اسی طرح اور صحابہ نے اپنی اپنی توفیق کے مطابق چندے دیئے اور غریب مسلمانوں کے لئے سواریاں یا تلواریں یا نیزے مہیا کئے گئے.صحابہ میں قربانی کا اس قدر جوش تھا کہ یمن کے کچھ لوگ جو اسلام لا کر مدینہ میں ہجرت کر آئے تھے اور بہت ہی غربت کی حالت میں تھے ان کے کچھ افراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا، یا رَسُول اللہ ! ہمیں بھی اپنے ساتھ لے چلیے ہم کچھ اور نہیں چاہتے ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں وہاں تک پہنچنے کا سامان مل جائے.قرآن کریم میں ان لوگوں کا ذکر ان الفاظ میں آتا ہے وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ مِن تَوَلَّوا وَأَعْيُتُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنَا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنفِقُونَ یعنی اس جنگ میں شریک نہ ہونے کا ان لوگوں پر کوئی گناہ نہیں جو تیرے پاس اس لئے آتے ہیں کہ تو ان کے لئے ایسا سامان مہیا کر دے جس کے ذریعہ سے وہ وہاں پہنچ سکیں مگر تو نے انہیں کہا کہ میرے پاس تو تمہیں وہاں پہنچانے کا کوئی سامان نہیں.تب وہ تیری مجلس سے اٹھ کر چلے گئے اور اُن کی آنکھوں سے اس غم میں آنسو بہتے تھے کہ افسوس ان کے پاس کوئی مال نہیں جس کو خرچ کر کے وہ آج اسلامی خدمت کر سکیں.ابو موسیٰ ان لوگوں کے سردار تھے جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا مانگا تھا ؟ تو انہوں نے کہا خدا کی قسم ! ہم نے اونٹ نہیں مانگے ، ہم نے گھوڑے نہیں مانگے ، ہم نے صرف یہ کہا تھا کہ ہم ننگے پاؤں ہیں اور اتنا لمبا سفر پیدل نہیں چل سکتے اگر ہم کو صرف جو نتیوں کے جوڑے مل جائیں تو ہم التوبة : ٩٢
۲۳۷ نبیوں کا سردار جوتیاں پہن کر ہی بھاگتے ہوئے اپنے بھائیوں کے ساتھ اس جنگ میں شریک ہونے کے لئے پہنچ جائیں گے لے چونکہ لشکر کو شام کی طرف جانا تھا اور موتہ کی جنگ کا نظارہ مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے تھا اس لئے ہر مسلمان کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کی حفاظت کا خیال سب خیالوں پر مقدم تھا.عورتیں تک بھی اس خطرہ کو محسوس کر رہی تھیں اور اپے خاوندوں اور اپنے بیٹوں کو جنگ پر جانے کی تلقین کر رہی تھیں.اس اخلاص اور اس جوش کا اندازہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک صحابی جو کسی کام کے لئے باہر گئے ہوئے تھے اُس وقت واپس لوٹے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لشکر سمیت مدینہ سے روانہ ہو چکے تھے.ایک عرصہ کی جدائی کے بعد جب وہ اس خیال سے اپنے گھر میں داخل ہوئے کہ اپنی محبو بہ بیوی کو جا کر دیکھیں گے اور خوش ہوں گے تو انہوں نے اپنی بیوی کو صحن میں بیٹھے ہوئے دیکھا اور محبت سے بغل گیر ہوئے اور پیار کرنے کے لئے تیزی سے اس کی طرف آگے بڑھے.جب وہ بیوی کے قریب گئے تو اُن کی بیوی نے دونوں ہاتھوں سے اُن کو دھکا دے کر پیچھے ہٹا دیا.اُس صحابی نے حیرت سے اپنی بیوی کا منہ دیکھا اور پوچھا اتنی مدت کے بعد ملنے پر آخر یہ سلوک کیوں ؟ بیوی نے کہا کیا تم کو شرم نہیں آتی خدا کا رسول اُس خطرہ کی جگہ پر جارہا ہے اور تم اپنی بیوی سے پیار کرنے کی جرات کرتے ہو! پہلے جاؤ اور اپنا فرض ادا کرواس کے بعد یہ باتیں دیکھی جائیں گی وہ صحابی فوراً گھر سے باہر نکل گئے.اپنی سواری پر زین کسی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین منزل پر جا کر مل گئے.کفار تو یہ سمجھتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان افواہوں کی بناء پر بے سوچے سمجھے شامی لشکروں پر جا پڑیں گے.مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اسلامی اخلاق تفسیر فتح البیان جز خامس صفحه ۷۱ ۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۲ء
۲۳۸ نبیوں کا سردار کے تابع تھے.جب آپ شام کے قریب تبوک مقام پر پہنچے تو آپ نے ادھر ادھر آدمی بھیجے تا کہ وہ معلوم کریں کہ حقیقت کیا ہے اور یہ سفراء متفقہ طور پر یہ خبریں لائے کہ کوئی شامی لشکر اس وقت جمع نہیں ہو رہا.اس پر کچھ دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں ٹھہرے اور اردگرد کے بعض قبائل سے معاہدات کر کے بغیر لڑائی کے واپس آگئے.یہ کل سفر آپ کا دواڑھائی مہینے کا تھا.جب مدینہ کے منافقوں کو معلوم ہوا کہ لڑائی بھڑائی تو کچھ نہیں ہوئی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیریت سے واپس آرہے ہیں تو انہوں نے سمجھ لیا کہ ہماری منافقانہ چالوں کا راز آب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظاہر ہو گیا ہے اور غالباً اب ہم سزا سے نہیں بچیں گے.تب انہوں نے مدینہ سے کچھ فاصلہ پر چند آدمی ایک ایسے رستہ پر بٹھا دیئے جو نہایت تنگ تھا اور جس پر صرف ایک ایک سوار گز رسکتا تھا.جب آپ اس جگہ کے قریب پہنچے تو آپ کو اللہ تعالیٰ نے وحی سے بتادیا کہ آگے دشمن راستہ کے دونوں طرف چھپا بیٹھا ہے.آپ نے ایک صحابی کو حکم دیا کہ جاؤ اور وہاں جا کر دیکھو.وہ سواری کو تیز کر کے وہاں پہنچے تو انہوں نے وہاں چند آدمی چھپے ہوئے دیکھے جو اس طرح چھپے بیٹھے تھے جیسا کہ حملہ کرنے والے بیٹھا کرتے ہیں.ان کے پہنچنے پر وہ وہاں سے بھاگ گئے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا تعاقب کرنا مناسب نہ معلوم ہوا.جب آپ مدینہ پہنچے تو منافقوں نے جو اس جنگ میں شامل نہیں ہوئے تھے قسم قسم کی معذرتیں کرنی شروع کر دیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو قبول کر لیا.لیکن اب وقت آگیا تھا کہ منافقوں کی حقیقت مسلمانوں پر آشکارا کر دی جائے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے وحی سے حکم دیا کہ قبا کی وہ مسجد جو منافقوں نے اِ س لئے بنائی تھی کہ نماز کے بہانہ سے وہاں جمع ہوا کریں گے اور منافقانہ مشورے کیا کریں
۲۳۹ نبیوں کا سردار گے، وہ گرا دی جائے اور اُن کو مجبور کیا جائے کہ وہ مسلمانوں کی دوسری مسجدوں میں نماز پڑھا کریں، مگر با وجود اتنی بڑی شرارت کے ان کو کوئی بدنی یا مالی سزا نہ دی گئی.تبوک سے واپسی کے بعد طائف کے لوگوں نے بھی آکر اطاعت قبول کر لی اور اس کے بعد عرب کے متفرق قبائل نے باری باری آکر اسلامی حکومت میں داخلہ کی اجازت چاہی اور تھوڑے ہی عرصہ میں سارے عرب پر اسلامی جھنڈا لہرانے لگا.صلى الله.حجۃ الوداع اور آنحضرت علی کا ایک خطبہ نویں سال ہجری میں آپ نے مکہ کا حج فرمایا اور اُس دن آپ پر قرآن شریف کی یہ مشہور آیت نازل ہوئی کہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا لے یعنی آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور جتنے روحانی انعامات خدا تعالیٰ کی طرف سے بندوں پر نازل ہو سکتے ہیں وہ سب میں نے تمہاری اُمت کو بخش دیئے ہیں اور اس بات کا فیصلہ کر دیا ہے کہ تمہارا دین خالص اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر مبنی ہو.یہ آیت آپ نے مزدلفہ کے میدان میں جبکہ حج کے لئے لوگ جمع ہوتے ہیں سب لوگوں کے سامنے با آواز بلند پڑھ کر سنائی.مزدلفہ سے کوٹنے پر حج کے قواعد کے مطابق آپ منی میں ٹھہرے اور گیارھویں ذوالحجہ کو آپ نے تمام مسلمانوں کے سامنے کھڑے ہو کر ایک تقریر کی جس کا مضمون یہ تھا.”اے لوگو! میری بات کو اچھی طرح سنو کیونکہ میں نہیں جانتا کہ اس سال کے بعد کبھی بھی میں تم لوگوں کے درمیان اس میدان میں کھڑے ہو المائدة: ۴
۲۴۰ نبیوں کا سردار کر کوئی تقریر کروں گا.تمہاری جانوں اور تمہارے مالوں کو خدا تعالیٰ نے ایک دوسرے کے حملہ سے قیامت تک کے لئے محفوظ قرار دیا ہے.خدا تعالیٰ نے ہر شخص کے لئے وراثت میں اُس کا حصہ مقرر کر دیا ہے.کوئی وصیت ایسی جائز نہیں جو دوسرے وارث کے حق کو نقصان پہنچائے.جو بچہ جس کے گھر میں پیدا ہو وہ اُس کا سمجھا جائے گا اور اگر کوئی بدکاری کی بناء پر اس بچے کا دعوی کرے گا تو وہ خود شرعی سزا کا مستحق ہوگا.جو شخص کسی کے باپ کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتا ہے یا کسی کو جھوٹے طور پر اپنا آقا قرار دیتا ہے خدا اور اُس کے فرشتوں اور بنی نوع انسان کی لعنت اُس پر ہے.اے لوگو! تمہارے کچھ حق تمہاری بیویوں پر ہیں اور تمہاری بیویوں کے کچھ حق تم پر ہیں.ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ عفت کی زندگی بسر کریں اور ایسی کمینگی کا طریق اختیار نہ کریں جس سے خاوندوں کی قوم میں بے عزتی ہو.اگر وہ ایسا کریں تو تم ( جیسا کہ قرآن کریم کی ہدایت ہے کہ با قاعدہ تحقیق اور عدالتی فیصلہ کے بعد ایسا کیا جا سکتا ہے ) انہیں سزا دے سکتے ہو مگر اس میں بھی سختی نہ کرنا.لیکن اگر وہ کوئی ایسی حرکت نہیں کرتیں جو خاندان اور خاوند کی عزت کو بٹہ لگانے والی ہو تو تمہارا کام ہے کہ تم اپنی حیثیت کے مطابق ان کی خوراک اور لباس وغیرہ کا انتظام کرو.اور یا درکھو کہ ہمیشہ اپنی بیویوں سے اچھا سلوک کرنا کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کی نگہداشت تمہارے سپرد کی ہے.عورت کمزور وجود ہوتی ہے اور وہ اپنے حقوق کی خود حفاظت نہیں کر سکتی.تم نے جب ان کے ساتھ شادی کی تو خدا تعالیٰ کو ان کے حقوق کا ضامن بنایا تھا اور خدا تعالیٰ کے قانون کے
۲۴۱ نبیوں کا سردار ماتحت تم ان کو اپنے گھروں میں لائے تھے ( پس خدا تعالیٰ کی ضمانت کی تحقیر نہ کرنا اور عورتوں کے حقوق کے ادا کرنے کا ہمیشہ خیال رکھنا ) اے لوگو! تمہارے ہاتھوں میں ابھی کچھ جنگی قیدی بھی باقی ہیں.میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ ان کو وہی کچھ کھلا نا جو تم خود کھاتے ہو اور ان کو وہی پہنانا جو تم خود پہنتے ہو.اگر ان سے کوئی ایسا قصور ہو جائے جو تم معاف نہیں کر سکتے تو ان کو کسی اور کے پاس فروخت کر دو کیونکہ وہ خدا کے بندے ہیں اور ان کو تکلیف دینا کسی صورت میں بھی جائز نہیں.اے لوگو ! جو کچھ میں تم سے کہتا ہوں سنو اور اچھی طرح اس کو یاد رکھو.ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے تم سب ایک ہی درجہ کے ہو.تم تمام انسان خواہ کسی قوم اور کسی حیثیت کے ہوانسان ہونے کے لحاظ سے ایک درجہ رکھتے ہو.یہ کہتے ہوئے آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اُٹھائے اور دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ملا دیں اور کہا جس طرح ان دونوں ہاتھوں کی اُنگلیاں آپس میں برا بر ہیں اسی طرح تم بنی نوع انسان آپس میں برابر ہو.تمہیں ایک دوسرے پر فضیلت اور درجہ ظاہر کرنے کا کوئی حق نہیں تم آپس میں بھائیوں کی طرح ہو.پھر فرمایا کیا تمہیں معلوم ہے آج کونسا مہینہ ہے؟ کیا تمہیں معلوم ہے یہ علاقہ کونسا ہے؟ کیا تمہیں معلوم ہے یہ دن کونسا ہے؟ لوگوں نے کہا ہاں! یہ مقدس مہینہ ہے، یہ مقدس علاقہ ہے اور یہ حج کا دن ہے.ہر جواب پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے جس طرح یہ مہینہ مقدس ہے، جس طرح یہ علاقہ مقدس ہے، جس طرح یہ دن مقدس ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی جان اور اُس کے مال کو مقدس قرار دیا ہے
۲۴۲ نبیوں کا سردار اور کسی کی جان اور کسی کے مال پر حملہ کرنا ایسا ہی ناجائز ہے جیسے کہ اس مہینے اور اس علاقہ اور اس دن کی ہتک کرنا.یہ حکم آج کیلئے نہیں ، کل کیلئے نہیں بلکہ اُس دن تک کیلئے ہے کہ تم خدا سے جا کر ملو.پھر فرمایا.یہ باتیں جو میں تم سے آج کہتا ہوں ان کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دو کیونکہ ممکن ہے کہ جو لوگ آج مجھ سے سن رہے ہیں اُن کی نسبت وہ لوگ ان پر زیادہ عمل کریں جو مجھ سے نہیں سن رہے، اے یہ مختصر خطبہ بتاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی نوع انسان کی بہتری اور ان کا امن کیسا مد نظر تھا اور عورتوں اور کمزوروں کے حقوق کا آپ کو کیسا خیال تھا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم محسوس کر رہے تھے کہ اب موت قریب آرہی ہے شاید اللہ تعالیٰ آپ کو بتا چکا تھا کہ اب آپ کی زندگی کے دن تھوڑے رہ گئے ہیں.آپ نے نہ چاہا کہ وہ عورتیں جو انسانی پیدائش کے شروع سے مردوں کی غلام قرار دی جاتی تھیں ان کے حقوق کو محفوظ کرنے کا حکم دینے سے پہلے آپ اس دنیا سے گزرجائیں.وہ جنگی قیدی جن کو لوگ غلام کا نام دیا کرتے تھے اور جن پر طرح طرح کے مظالم کیا کرتے تھے آپ نے نہ چاہا کہ ان کے حقوق کو محفوظ کر دینے سے پہلے آپ اس دنیا سے گزر جائیں.وہ بنی نوع انسان کا باہمی فرق اور امتیاز جو انسانوں میں سے بعض کو تو آسمان پر چڑھا دیتا تھا اور بعض کو تحت الثریٰ میں گرا دیتا تھا.جو قوموں قوموں اور ملکوں ملکوں کے درمیان تفرقہ اور لڑائی پیدا کرنے اور اس کو جاری رکھنے کا موجب ہوتا تھا آپ نے نہ چاہا کہ جب تک اس تفرقہ اور امتیاز کو مٹانہ دیں اس دنیا سے گزر جائیں.وہ ایک دوسرے کے حقوق پر چھاپے مارنا اور ایک دوسرے کی جان اور مال کو اپنے لئے جائز سمجھنا جو ہمیشہ ہی بد اخلاقی کے زمانہ میں انسان کی سب سے بڑی لعنت بخاری کتاب المغازى باب حجة الوداع
۲۴۳ نبیوں کا سردار ہوتا ہے آپ نے نہ چاہا کہ جب تک اس روح کو چل نہ دیں اور جب تک بنی نوع انسان کی جانوں اور ان کے مالوں کو وہی تقدس اور وہی حرمت نہ بخش دیں جو خدا تعالیٰ کے مقدس مہینوں اور خدا تعالیٰ کے مقدس اور بابرکت مقاموں کو حاصل ہے آپ اس دنیا سے گزر جائیں.کیا عورتوں کی ہمدردی ، ماتحت لوگوں کی ہمدردی ، بنی نوع انسان میں امن اور آرام کے قیام کی خواہش اور بنی نوع انسان میں مساوات کے قیام کی خواہش اتنی شدید دنیا کے کسی اور انسان میں پائی جاتی ہے؟ کیا آدم سے لے کر آج تک کسی انسان نے بھی بنی نوع انسان کی ہمدردی کا ایسا جذبہ اور ایسا جوش دکھایا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں آج تک عورت اپنی جائیداد کی مالک ہے.جبکہ یورپ نے اس درجہ کو اسلام کے تیرہ سو سال بعد حاصل کیا ہے.یہی وجہ ہے کہ اسلام میں داخل ہونے والا ہر شخص دوسرے کے برابر ہو جاتا ہے خواہ وہ کیسی ہی ادنی اور ذلیل سمجھی جانے والی قوم سے تعلق رکھتا ہو.حریت اور مساوات کا جذبہ صرف اور صرف اسلام نے ہی دنیا میں قائم کیا ہے اور ایسے رنگ میں قائم کیا ہے کہ آج تک بھی دنیا کی دوسری قومیں اس کی مثال پیش نہیں کر سکتیں.ہماری مسجد میں ایک بادشاہ اور ایک معزز ترین مذہبی پیشوا اور ایک عامی برابر ہیں ان میں کوئی فرق اور امتیاز قائم نہیں کر سکتا.جبکہ دوسرے مذاہب کے معبد بڑوں اور چھوٹوں کے امتیاز کو اب تک ظاہر کرتے چلے آئے ہیں.گو وہ قومیں شاید حریت اور مساوات کا دعویٰ مسلمانوں سے بھی زیادہ بلند آواز سے کر رہی ہیں.آنحضرت ﷺ کی وفات جب اس سفر سے آپ واپس آرہے تھے ، تو راستہ میں پھر آپ نے اپنے صحابہ کو اپنی وفات کی خبر دی.آپ نے فرمایا اے لوگو! میں تمہاری طرح کا ایک آدمی ہوں قریب
۲۴۴ نبیوں کا سردار ہے کہ اللہ تعالیٰ کا پیغامبر میری طرف آئے اور مجھے اُس کا جواب دینا پڑے.پھر فرمایاا ے لوگو! مجھے میرے مہربان اور خبر دار آقا نے خبر دی ہے کہ نبی اپنے سے پہلے نبی کی نصف عمر پاتا ہے ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی عمر ۱۲۰ سال کے قریب تھی اور اس سے آپ نے استدال کیا کہ میری عمر ساٹھ سال کے قریب ہو گی لے چونکہ اُس وقت آپ کی عمر باسٹھ تریسٹھ سال کی تھی آپ نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ میری عمر اب ختم ہونے والی معلوم ہوتی ہے.اس حدیث کے یہ معنی نہیں کہ ہر نبی اپنے سے پہلے آنے والے نبی سے آدھی عمر پاتا ہے بلکہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حضرت عیسی علیہ السلام کی عمر اور اپنی عمر کا مقابلہ کیا ہے ) اور مجھے خیال ہے کہ اب جلدی مجھے بلایا جائے گا اور میں فوت ہو جاؤں گا.اے میرے صحابہ ! مجھ سے بھی خدا کے سامنے سوال کیا جائے گا اور تم سے بھی سوال کیا جائے گا تم اُس وقت کیا کہو گے؟ اُنہوں نے کہا یا رَسُول اللہ! ہم کہیں گے کہ آپ نے خوب اچھی طرح اسلام کی تبلیغ کی اور آپ نے اپنی زندگی کو کلی طور پر خدا کے دین کی خدمت کے لئے لگا دیا اور آپ نے بنی نوع انسان کی خیر خواہی کو کمال تک پہنچا دیا.اللہ آپ کو ہماری طرف سے بہتر سے بہتر بدلہ دے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.کیا تم اس بات کی گواہی نہیں دیتے کہ اللہ ایک ہی ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اُس کے بندے اور رسول ہیں اور جنت بھی حق ہے اور دوزخ بھی حق ہے اور یہ کہ موت بھی ہر انسان کو ضرور آنی ہے اور موت کے بعد زندگی بھی ہر انسان کو ضرور ملے گی اور قیامت بھی ضرور آنی ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ تمام بنی نوع انسان کو قبروں میں سے دوبارہ زندہ کر کے اکٹھا کرے گا.انہوں نے کہا ہاں يَا رَسُولَ اللہ ! ہم اس کی گواہی دیتے ہیں.اس پر آپ نے خدا تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اے اللہ ! تو کنز العمال جلد ا ا صفحہ ۴۷۹ مطبوعہ حلب ۱۹۷۴ء
۲۴۵ نبیوں کا سردار بھی گواہ رہ کہ میں نے انہیں اصولِ اسلام پہنچا دیتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس حج سے واپس آنے کے بعد برابر مسلمانوں کے اخلاق اور ان کے اعمال کی اصلاح میں مشغول رہے اور مسلمانوں کو اپنی وفات کے دن کی امید کے لئے تیار کرتے رہے.ایک دن آپ خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا.آج مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا ہے کہ اُس دن کو یاد کرو جب خدا تعالیٰ کی نصرتیں اور اُس کی طرف سے فتوحات گزشتہ زمانہ سے بھی زیادہ زور سے آئیں گی اور ہر قوم وملت کے لوگ اسلام میں فوج در فوج داخل ہونے شروع ہوں گے.پس اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اب تم خدا تعالیٰ کی تعریف میں لگ جاؤ اور اُس سے دعا کرو کہ دین کی بنیا د جو تم نے قائم کی ہے وہ اس میں سے ہر قسم کے رخنوں کو دُور کرے.اگر تم یہ دعائیں کرو گے تو خدا تعالیٰ ضرور تمہاری دعاؤں کو سنے گا.اسی طرح آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ نے اپنے بندے سے کہا کہ خواہ تم ہمارے پاس آجاؤ اور خواہ تم دنیا کی اصلاح کا کام بھی کچھ اور مدت کرو.خدا کے اس بندے نے جواب میں کہا کہ مجھے آپ کے پاس آنا زیادہ پسند ہے.جب آپ نے یہ بات مجلس میں سنائی تو حضرت ابوبکر رو پڑے.صحابہ کو تعجب ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اسلام کی فتوحات کی خبر سنا رہے ہیں اور ابوبکر رور ہے ہیں.حضرت عمر کہتے ہیں میں نے کہا اس بڑھے کو کیا ہو گیا کہ یہ خوشی کی خبر پر روتا ہے ! مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سمجھتے تھے کہ ابوبکر ہی آپ کی بات کو صحیح سمجھتا ہے اور اُس نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اس سورۃ میں میری وفات کی خبر ہے.آپ نے فرمایا ابوبکر مجھ کو بہت ہی پیارا ہے.اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے غیر محدود پیار کرنا جائز ہوتا تو میں ابوبکر سے ایسا ہی پیار کرتا.اے لوگو! مسجد میں جتنے لوگوں کے دروازے کھلتے ہیں آج سے سب دروازے بند کر دیئے جائیں صرف ابوبکر کا دروازہ کھلا رہے بیلے بخاری کتاب المناقب باب قول النبی ﷺ سدوا الابواب (الخ)
۲۴۶ نبیوں کا سردار اس میں یہ پیشگوئی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر خلیفہ رض ہوں گے اور نماز پڑھانے کے لئے مسجد میں اس راستہ سے آنا پڑے گا.اس واقعہ کے مدتوں بعد جب حضرت عمر خلیفہ تھے ایک دفعہ آپ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے فرما یا بتاوَإِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَ الْفَتْحُ والی سورۃ میں سے کیا مطلب نکلتا ہے؟ گویا اس مضمون کے متعلق آپ نے اپنے ہم مجلسوں کا امتحان لیا جس کے سمجھنے سے وہ اس سورۃ کے نزول کے وقت قاصر رہے تھے.ابن عباس جو اس واقعہ کے وقت دس گیارہ برس کے تھے اُس وقت کوئی ۱۷.۱۸ سال کے نوجوان تھے.باقی صحابہ تو نہ بتا سکے ابن عباس نے کہا اے امیر المؤمنین ! اس سورۃ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر دی گئی ہے کیونکہ نبی جب اپنا کام کر لیتا ہے تو پھر دنیا میں رہنا پسند نہیں کرتا.حضرت عمر نے کہا سچ ہے میں تمہاری ذہانت کی داد دیتا ہوں.جب یہ سورۃ نازل ہوئی ابوبکر اس کا مفہوم سمجھے مگر ہم نہ سمجھ سکے.آخر وہ دن آگیا جو ہر انسان پر آتا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا کام دنیا میں ختم کر چکے، خدا کی وحی تمام و کمال نازل ہو چکی، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسیہ سے ایک نئی قوم اور ایک نئے آسمان اور ایک نئی زمین کی بنیاد ڈال دی گئی.بونے والے نے زمین میں ہل چلایا، پانی دیا اور بیچ بود یا اور فصل تیار کی.اب فصل کے کانٹے کا کام اس کے ذمہ نہ تھا.وہ ایک مزدور کی حیثیت سے آیا اور ایک مزدور ہی کی حیثیت سے اسے اس دنیا سے جانا تھا کیونکہ اُس کا انعام اس دنیا کی چیزیں نہیں تھیں بلکہ اُس کا انعام اپنے پیدا کرنے والے اور اپنے بھیجنے والے کی رضا تھی.جب فصل کٹنے پر آئی تو اس نے اپنے رب سے یہی خواہش کی کہ وہ اب اُسے دنیا سے اُٹھالے اور یہ فصل بعد میں دوسرے بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم (الخ)
۲۴۷ نبیوں کا سردار لوگ کاٹیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے کچھ دن تو تکلیف اُٹھا کر بھی مسجد میں نماز پڑھانے کے لئے آتے رہے.آخر یہ طاقت بھی نہ رہی کہ آپ مسجد میں آسکتے.صحابہ کبھی خیال بھی نہیں کر سکتے تھے کہ آپ فوت ہو جائیں گے.مگر آپ بار بار انہیں اپنی وفات کے قرب کی خبر دیتے.ایک دن صحابہ کی مجلس لگی ہوئی تھی کہ آپ نے فرمایا اگر کسی شخص سے غلطی ہو جائے تو بہتر یہی ہوتا ہے کہ اس دنیا میں اس کا ازالہ کر دے تا کہ خدا کے سامنے شرمندہ نہ ہو.اگر میرے ہاتھ سے نادانستہ طور پر کسی کا حق مارا گیا ہوتو وہ مجھ سے اپنا حق مانگ لے.اگر بے جانے بوجھے مجھ سے کسی کو تکلیف پہنچی ہو تو آج وہ مجھ سے بدلہ لے لے کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ خدا تعالیٰ کے سامنے شرمندہ ہوں.دوسرے صحابہ پر تو یہ بات سن کر رقت طاری ہو گئی اور ان کے دل میں یہی خیال گزرنے لگے کہ کس طرح تکلیف اُٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے آرام کی صورت پیدا کرتے رہے ہیں.کس طرح آپ بھوکا رہ کر ان کو کھلاتے رہے ہیں.اپنے کپڑوں کو پیوند لگا کر اُن کو کپڑے پہناتے رہے ہیں پھر بھی دوسروں کے حقوق کا آپ کو اتنا خیال ہے کہ آپ اُن سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر بے جانے بوجھے مجھ سے کسی کو تکلیف پہنچی ہو تو آج مجھ سے بدلہ لے لے.مگر ایک صحابی آگے بڑھے اور اُنہوں نے کہا یا رَسُول اللہ ! مجھے آپ سے ایک دفعہ تکلیف پہنچی تھی.جنگ کی صفیں تیار ہو رہی تھیں کہ آپ صف میں سے ہو کر آگے بڑھے اُس وقت آپ کی کہنی میرے جسم کو لگ گئی تھی.چونکہ آپ نے فرمایا کہ بے جانے بوجھے بھی اگر کسی کو نقصان پہنچا ہو تو مجھ سے بدلہ لے لے تو میں چاہتا ہوں کہ اس وقت آپ سے اُس تکلیف کا بدلہ لے لوں.وہ صحابہ جوغم کے سمندر میں ڈوب رہے تھے یکدم اُن کی حالت میں تغیر پیدا ہوا.ان کی آنکھوں میں سے خون ٹپکنے لگا اور ہر شخص یہ محسوس کرتا تھا کہ یہ شخص جس نے ایسے موقع پر بجائے نصیحت حاصل کرنے کے اس قسم کی بات چھیڑ دی ہے سخت سے سخت
۲۴۸ نبیوں کا سردار سزا کا مستحق ہے مگر اُس صحابی نے پرواہ نہ کی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ٹھیک کہتے ہو تمہارا حق ہے کہ بدلہ لو اور آپ نے کروٹ بدلی اور اپنی پیٹھ اُس کی طرف کر دی اور فرمایا لومیرے کہنی مارلو.اُس صحابی نے کہا یا رسول اللہ ! جب میرے کہنی لگی تھی اُس وقت میرا جسم نگا تھا کیونکہ میرے پاس کر تہ نہ تھا کہ میں اُسے پہنتا.آپ نے فرمایا میرا کر نہ اُٹھا دو اور ننگے جسم پر کہنی مار کر اپنا بدلہ لے لو.اُس صحابی نے آپ کا کر نہ اُٹھایا اور کانپتے ہوئے ہونٹوں اور آنسو بہاتی آنکھوں سے جھک کر آپ کی کمر کو بوسہ دیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کیا؟ اس نے جواب میں کہا يَا رَسُولَ اللہ ! جب آپ فرماتے ہیں کہ آپ کی موت قریب ہے تو آپ کو چھونے اور پیار کرنے کے مواقع ہمیں کب تک ملیں گے.بیشک جنگ کے موقع پر مجھے آپ کی کہنی لگی تھی ، لیکن کسی کے دل میں اُس کہنی لگنے کا بدلہ لینے کا خیال بھی آسکتا ہے.میرے دل میں خیال آیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آج مجھ سے بدلہ لے لو تو چلو اس بہانہ سے میں آپ کو پیار ہی کر لوں لے وہی صحابہ جن کے دل غصہ سے خون ہورہے تھے اس بات کو سن کر انہی کے دل میں اس حسرت سے بھر گئے کہ کاش ! یہ موقع ہم کو نصیب ہوتا ! مرض بڑھتا گیا، موت قریب آتی گئی.مدینہ کا سورج باوجود پہلے کی سی آب و تاب سے چمکنے کے صحابہ کی نظروں میں زرد رہنے لگا.دن چڑھتے تھے مگر ان کی آنکھوں پر تاریکی کے پردے پڑتے چلے جاتے تھے آخر وہ وقت آ گیا جب کہ خدا کے رسول کی روح دنیا کو چھوڑ کر اپنے پیدا کرنے والے کے حضور میں حاضر ہونے والی تھی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سانس تیز ہونے لگا اور سانس لینے میں تکلیف محسوس ہونے لگی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا میرا سر اُٹھا کر اپنے سینہ کے ساتھ رکھ لو بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم (الخ)
۲۴۹ نبیوں کا سردار کیونکہ لیٹے لیٹے سانس نہیں لیا جاتا.حضرت عائشہ نے آپ کا سر اُٹھا کر اپنے سینہ کے ساتھ لگا لیا اور آپ کو سہارا دے کر بیٹھ گئیں.موت کی تکلیف آپ پر طاری تھی.آپ گھبراہٹ سے بیٹھے بیٹھے کبھی اس پہلو پر جھکتے تھے اور کبھی اُس پہلو پر اور فرماتے تھے خدا برا کرے یہود اور نصاریٰ کا کہ اُنہوں نے اپنے نبیوں کے مرنے کے بعد اُن کی قبروں کو مسجد میں بنالیا یہ آپ کی آخری نصیحت تھی اپنی اُمت کیلئے کہ گوتم مجھے تمام نبیوں سے زیادہ شاندار دیکھو گے اور سب سے زیادہ کامیاب پاؤ گے مگر دیکھنا ! میرے بندے ہونے کو کبھی نہ بھول جانا.خدا کا مقام خدا ہی کیلئے سمجھتے رہنا اور میری قبر کو ایک قبر سے زیادہ کبھی کچھ نہ سمجھنا.باقی امتیں اپنے نبیوں کی قبروں کو بیشک مسجدیں بنالیں ، وہاں بیٹھ کر چلتے کیا کریں اور اُن پر چڑھاوے چڑھائیں یا نذریں دیں مگر تمہارا یہ کام نہیں ہونا چاہئے.تم خدائے واحد کی پرستش کو قائم کرنے کیلئے کھڑے کئے گئے ہو.یہ کہتے کہتے آپ کی آنکھیں چڑھ گئیں اور آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے الَی الرَّفِيقِ الْأَعْلَى إِلَى الرَّفِيقِ الْأَعْلَى سِ عرش معلی پر بیٹھنے والے اپنے مہربان دوست کی طرف جاتا ہوں.میں عرش معلی پر بیٹھنے والے اپنے مہربان دوست کی طرف جاتا ہوں.یہ کہتے کہتے آپ کی روح اس جسم سے جدا ہوگئی.آنحضرت ﷺ کی وفات پر صحابہ کی حالت جب یہ خبر مسجد میں صحابہ کوملی جن میں سے اکثر اپنے کام کاج چھوڑ کر مسجد میں آپ کی صحت کی خوشخبری سننے کے انتظار میں تھے تو اُن پر ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا.حضرت ابوبکر ، بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم (الخ)
۲۵۰ نبیوں کا سردار اُس وقت تھوڑی دیر کیلئے کسی کام کے لئے باہر گئے ہوئے تھے.حضرت عمر" مسجد میں تھے جب اُنہوں نے لوگوں کو یہ بات کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں تو اُنہوں نے نیام سے تلوار نکال لی اور کہا خدا کی قسم! جو شخص یہ کہے گا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں میں اُس کا سر اُڑا دوں گا.ابھی تک منافق دنیا میں باقی ہیں اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہو سکتے.اگر اُن کی روح جسم سے جدا ہو گئی ہے تو وہ صرف موسٹی کی طرح خدا کی ملاقات کے لئے گئی ہے اور پھر واپس آئے گی اور دنیا سے منافقوں کا قلع قمع کرے گی.یہ کہا اور نگی تلوار لے کر اس روح فرسا خبر کے صدمہ سے مجنونوں کی طرح ادھر ادھر ٹہلنے لگے اور ساتھ ساتھ یہ کہتے جاتے تھے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے گا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں تو میں اُسے قتل کر دوں گا.صحابہ کہتے ہیں کہ جب ہم نے حضرت عمرؓ کو اس طرح ٹہلتے ہوئے دیکھا تو ہمارے دلوں کو بھی ڈھارس بندھی اور ہم نے کہا عمر سچ کہتے ہیں.رسول اللہ ﷺ فوت نہیں ہوئے ضرور اس بارہ میں لوگوں کو غلطی لگی ہے اور عمرہ کے قول کے ساتھ ہم نے اپنے دلوں کو تسلی دینی شروع کی.اتنے میں بعض لوگوں نے دوڑ کر حضرت ابوبکر کو صورت حالات سے اطلاع دی.اُن سے اطلاع پا کر حضرت ابوبکر بھی مسجد میں پہنچ گئے مگر کسی سے بات نہ کی سیدھے گھر میں چلے گئے اور جا کر حضرت عائشہ سے پوچھا کیا رسول اللہ علہ فوت ہو گئے ہیں ؟ حضرت عائشہ نے فرمایا ہاں.آپ رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے آپ کے منہ پر سے کپڑا اُٹھایا آپ کے ماتھے کو بوسہ دیا اور محبت کے چمکتے ہوئے آنسو آپ کی آنکھوں سے گرے اور آپ نے فرمایا خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں وارد نہیں کرے گا.کے یعنی یہ نہیں ہوگا کہ لے مسند ابی حنیفہ کتاب الفضائل بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ باب قول النبی ﷺ لو كنت متخذا خليلا
۲۵۱ نبیوں کا سردار ایک تو آپ جسمانی طور پر فوت ہو جائیں اور دوسری موت آپ پر یہ وارد ہو کہ آپ کی جماعت غلط عقائد اور غلط خیالوں میں مبتلا ہو جائے.یہ کہہ کر آپ باہر آئے اور صفوں کو چیرتے ہوئے خاموشی کے ساتھ منبر کی طرف بڑھے.جب آپ منبر پر کھڑے ہوئے تو حضرت عمرؓ بھی تلوار کھینچ کر آپ کے پاس کھڑے ہو گئے اس نیت سے کہ اگر ابوبکر نے یہ کہا که محمد رسول اللہ علیہ فوت ہو گئے ہیں تو میں اُن کو قتل کر دوں گا.جب آپ بولنے لگے تو حضرت عمر نے آپ کا کپڑا کھینچا اور آپ کو خاموش کرنا چاہا مگر آپ نے کپڑے کو جھٹک کر اُن کے ہاتھ سے چھڑالیا اور پھر قرآن شریف کی یہ آیت پڑھی وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ جَ قَدُ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ - ل یعنی اے لوگو! محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اللہ تعالیٰ کے ایک رسول تھے اُن سے پہلے اور بہت سے رسول گزرے ہیں اور سب کے سب فوت ہو چکے ہیں کیا اگر وہ مر جائیں یا مارے جائیں تو تم لوگ اپنے دین کو چھوڑ کر پھر جاؤ گے؟ دین خدا کا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تو نہیں.یہ آیت اُحد کے وقت نازل ہوئی تھی جب کہ بعض لوگ یہ سن کر کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں دل چھوڑ کر بیٹھ گئے تھے.اس آیت کے پڑھنے کے بعد آپ نے فرمایا اے لوگو! مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللهَ فَإِنَّ الله حتى لا يموت جو تم میں سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا اُسے یادرکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے اُس پر کبھی موت وارد نہیں ہو سکتی.و مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدَمَات اور جو کوئی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تو اُس کو میں بتائے دیتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے ہیں.حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ جس وقت ابوبکر نے مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُول والی آیت پڑھنی شروع کی تو میرے ہوش درست ہونے شروع ہوئے.اس آیت کے ختم کرنے تک آل عمران: ۱۴۵
۲۵۲ نبیوں کا سردار میری روحانی آنکھیں کھل گئیں اور میں نے سمجھ لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واقعہ میں فوت ہو گئے ہیں تب میرے گھٹنے کانپ گئے اور میں نڈھال ہو کر زمین پر گر گیا ہے وہ شخص جو تلوار سے ابوبکر کو مارنا چاہتا تھا وہ اب ابوبکر کے صداقت بھرے لفظوں کے ساتھ خود قتل ہو گیا.صحابہ کہتے ہیں کہ اُس وقت ہمیں یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ آیت آج ہی نازل ہوئی ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے صدمہ میں یہ آیت ہمیں بھول ہی گئی تھی.اُس وقت حسان بن ثابت نے جو مدینہ کے ایک بہت بڑے شاعر تھے یہ شعر کہا.كُنتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِئَ فَعَمِيَ عَلَى مَنْ شَائَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتْ فَعَلَيْكَ كُنْتُ أَحَاذِرُ.اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! تو تو میری آنکھوں کی پتلی تھا آج تیرے مرنے سے میری آنکھیں اندھی ہو گئیں.اب تیرے مرنے کے بعد کوئی مرے، میرا باپ مرے، میرا بھائی مرے، میرا بیٹا مرے، میری بیوی مرے مجھے ان میں سے کسی کی موت کی پرواہ نہیں.میں تو تیری ہی موت سے ڈرا کرتا تھا.النَّاظِر یہ شعر ہر مسلمان کے دل کی آواز تھا.اس کے بعد کئی دنوں تک مدینہ کی گلیوں میں مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مسلمان بچے یہی شعر پڑھتے پھرتے تھے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تو تو ہماری آنکھوں کی پتلی تھا تیرے مرنے سے ہم تو اندھے ہو گئے.اب ہمارا کوئی عزیز اور قریبی رشتہ دار مرے ہمیں پرواہ نہیں.ہمیں تو تیری ہی موت کا خوف تھا.اللهم صلى على محمد و على ال محمد و بارك و سلم تاریخ کامل ابن اثیر جلد ۲ صفحه ۳۲۴ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء ے دیوان حسان بن ثابت صفحه ۸۹ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۸ء
۲۵۳ نبیوں کا سردار سیرت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حالات بیان کرنے کے بعد اب میں آپ کے اخلاق کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.آپ کے اخلاق حسنہ کے متعلق مجموعی شہادت وہ ہے جو آپ کی قوم نے دی کہ آپ کی نبوت کے دعویٰ سے پہلے آپ کی قوم نے آپ کا نام امین اور صدیق رکھا ہے دنیا میں ایسے لوگ بہت ہوتے ہیں جن کی نسبت بددیانتی کا ثبوت نہیں ملتا.ایسے لوگ بھی بہت ہوتے ہیں جن کو کسی کڑی آزمائش میں سے گزرنے کا موقع نہیں ملتا.ہاں وہ معمولی آزمائشوں سے گزرتے ہیں اور ان کی امانت قائم رہتی ہے لیکن اس کے باوجودان کی قوم ان کو کوئی خاص نام نہیں دیتی.اس لئے کہ خاص نام اُسی وقت دیئے جاتے ہیں جب کوئی شخص کسی خاص صفت میں دوسرے تمام لوگوں پر فوقیت لے جاتا ہے.لڑائی میں شامل ہونے والا ہر سپاہی اپنی جان کو خطرہ میں ڈالتا ہے لیکن نہ انگریزی قوم ہر سپاہی کو وکٹوریہ کر اس دیتی ہے نہ جرمن قوم ہر سپاہی کو آئرن کر اس دیتی ہے.فرانس میں علمی مشغلہ رکھنے والے لوگ لاکھوں ہیں لیکن ہر شخص کو لیجن آف آنر ( LEGION OF HONOUR) کا فیتہ نہیں ملتا.پس محض کسی شخص کا امانت دار اور صادق ہونا اُس کی عظمت پر خاص روشنی نہیں ڈالتا.لیکن کسی شخص کو ساری قوم کا امین اور صدیق کا خطاب دے دینا یہ ایک غیر معمولی بات ہے.اگر مکہ کے لوگ ہر نسل کے لوگوں میں سے کسی کو امین اور صدیق کا خطاب دیا کرتے تب بھی امین اور صدیق کا خطاب پانے والا بہت بڑا آدمی سیرت ابن هشام جلد ا صفحه ۲۰۹، ۲۱۰ + بخاری کتاب التفسير تفسير سورة تبت....
۲۵۴ نبیوں کا سردار سمجھا جاتا لیکن عرب کی تاریخ بتاتی ہے کہ عرب لوگ ہر نسل میں کبھی کسی آدمی کو یہ خطاب نہیں دیا کرتے تھے بلکہ عرب کی سینکڑوں سال کی تاریخ میں صرف ایک ہی مثال محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملتی ہے کہ آپ کو اہل عرب نے امین اور صدیق کا خطاب دیا.پس عرب کی سینکڑوں سال کی تاریخ میں قوم کا ایک ہی شخص کو امین اور صدیق کا خطاب دینا بتا تا ہے کہ اُس کی امانت اور اُس کا صدق دونوں اتنے اعلیٰ درجہ کے تھے کہ ان کی مثال عربوں کے علم میں کسی اور شخص میں نہیں پائی جاتی تھی.عرب اپنی باریک بینی کی وجہ سے دنیا میں ممتاز تھے پس جس چیز کو وہ نادر قرار دیں وہ یقینا دنیا میں نادر ہی سمجھے جانے کے قابل تھی.پھر ایک اجتماعی شہادت آپ کے اخلاق پر حضرت خدیجہ نے آپ کی بعثت کے وقت دی جس کا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوانح میں ذکر کر چکا ہوں.اب میں چند مثالیں آپ کے اخلاق کی تشریح کے لئے اس جگہ بیان کرنا چاہتا ہوں تا کہ آپ کے اخلاق کے مخفی گوشوں پر بھی اس کتاب کے قارئین کی نظر پڑ سکے.آنحضرت ﷺ کی ظاہری و باطنی صفائی کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آتا ہے کہ نہ آپ کبھی بدکلامی کرتے تھے اور نہ فضول قسمیں کھایا کرتے تھے.اے عرب میں رہتے ہوئے اس قسم کے اخلاق ایک غیر معمولی چیز تھے.یہ تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ عرب لوگ عادتا مخش کلامی کرتے تھے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عرب لوگ عادتا قسمیں کھایا کرتے تھے اور آج تک بھی عرب میں قسم کا رواج کثرت سے پایا جاتا ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کا اتنا ادب کرتے بخاری کتاب الادب باب ما ينهى من السباب و اللعن + بخاری کتاب الادب باب لم يكن النبی ﷺ فاحشا و متفاحشاً
۲۵۵ نبیوں کا سردار تھے کہ اس کا بے موقع نام لینا کبھی پسند نہ کرتے تھے.صفائی کا آپ کو خاص طور پر خیال رہتا تھا آپ ہمیشہ مسواک کرتے تھے اور اس بارہ میں اتنا زور دیتے تھے کہ بعض دفعہ فرماتے اگر میں اس بات سے نہ ڈروں کہ مسلمان تکلیف میں پڑ جائیں گے تو میں ہر نماز پڑھنے سے پہلے مسواک کرنے کا حکم دے دوں لے کھانا کھانے سے پہلے بھی آپ ہاتھ دھوتے تھے اور کھانا کھانے کے بعد بھی ہاتھ دھوتے اور گلی کرتے تھے بلکہ ہر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد کلی کرتے اور آپ کی ہوئی چیز کھانے کے بعد بغیر گلی کئے نماز پڑھنے کونا پسند فرماتے تھے.لے مساجد جو مسلمانوں کے جمع ہونے کی واحد جگہ ہیں ان کی صفائی کا آپ خاص طور پر خیال رکھتے تھے اور مسلمانوں کو اس بات کی تحریک کرتے رہتے تھے کہ خاص اجتماع کے دنوں میں مسجدوں کی صفائی کا خیال رکھا کریں اور ان میں خوشبو جلا یا کریں تا کہ ہوا صاف ہو جائے.سے اسی طرح آپ ہمیشہ صحابہ کونصیحت کرتے رہتے تھے کہ اجتماع کے موقع پر بد بودار چیزیں کھا کر مسجد میں نہ آیا کریں.سے سڑکوں کی صفائی کا آپ خاص طور پر وعظ فرماتے تھے.اگر سڑک پر جھاڑیاں یا پتھر یا اور کوئی گندی چیز پڑی ہوتی تو آپ خود اُس کو اُٹھا کر سڑک سے ایک طرف کر دیتے اور فرماتے کہ جو شخص سڑکوں کی صفائی کا خیال رکھتا ہے، خدا اُس پر خوش ہوتا ہے اور اسے بخاری کتاب الجمعة باب السواك يوم الجمعة بخارى كتاب الاطعمة باب المضمضة بعد الطعام مشكوة كتاب الصلوة باب المساجد بخاری کتاب الاطعمة باب ما يكره من الثوم والبقول (الخ)
ثواب عطا فرماتا ہے.اے ۲۵۶ نبیوں کا سردار اسی طرح آپ فرماتے تھے رستہ کوروکنا نہیں چاہئے.رستوں پر بیٹھنا یا ان میں کوئی ایسی چیز ڈال دینا جس سے مسافروں کو تکلیف ہو یا رستہ میں قضائے حاجت وغیرہ کرنا یہ خدا تعالیٰ کو نا پسند ہیں سے پانی کی صفائی کا بھی آپ کو خاص خیال تھا آپ ہمیشہ اپنے صحابہ کو یہ نصیحت فرماتے تھے کہ کھڑے پانی میں کسی قسم کا گند نہیں ڈالنا چاہئے.اسی طرح کھڑے پانی میں بول و براز کرنے سے بھی آپ سختی سے روکتے تھے.سے کھانے پینے میں سادگی اور تقویٰ کھانے پینے میں آپ سادگی کو ہمیشہ ملحوظ رکھتے تھے.کھانے میں کبھی نمک زیادہ ہو جائے یا نمک نہ ہو یا کھانا خراب پکا ہو، تو آپ کبھی اظہار ناراضگی نہیں فرماتے تھے.جہاں تک ممکن ہو سکتا تھا آپ ایسا کھانا کھا کر پکانے والے کو دل شکنی سے بچانے کی کوشش کرتے تھے لیکن اگر بالکل ہی نا قابل برداشت ہوتا تو آپ صرف ہاتھ بھینچ لیتے تھے اور یہ ظاہر نہیں کرتے تھے کہ مجھے اس کھانے سے تکلیف پہنچتی ہے.جب آپ کھانا کھانے لگتے تو کھانے کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھتے اور فرماتے مجھے یہ تکبرانہ رویہ پسند نہیں کہ بعض لوگ ٹیک لگا کر کھانا کھاتے ہیں گویا وہ کھانے سے مسلم کتاب البر والصلة باب فضل ازالة الاذى مشكوة كتاب الطهارة باب اداب الخلاء بخاری کتاب الوضوء باب البول في الماء الدائم بخاری کتاب الاطعمة باب ما عاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم و طعاماً
۲۵۷ نبیوں کا سردار مستغنی ہیں اے جب آپ کے پاس کوئی چیز آتی تو اپنے صحابہ میں بانٹ کر کھاتے.چنانچہ آپ کے پاس ایک دفعہ کچھ کھجوریں آئیں آپ نے صحابہ کا اندازہ لگایا تو سات سات کھجوریں فی کس آتی تھیں.اس پر آپ نے سات سات کھجور میں صحابہ میں بانٹ دیں.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہیں کھائی.سے ایک دفعہ آپ رستہ میں سے گزر رہے تھے کہ آپ نے دیکھا ایک بکری بھون کر لوگوں نے رکھی ہوئی ہے اور دعوت منا رہے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر آن لوگوں نے آپ کو بھی دعوت دی مگر آپ نے انکار کر دیا ہے اس کی یہ وجہ نہیں تھی کہ آپ بھونا ہوا گوشت کھانا پسند نہیں کرتے تھے بلکہ آپ کو اس قسم کا تکلف پسند نہیں تھا کہ پاس ہی غرباء تو بھوکے پھر رہے ہوں اور اُن کی آنکھوں کے سامنے لوگ بکرے بھون بھون کر کھا رہے ہوں.ورنہ دوسری احادیث سے ثابت ہے کہ آپ بھونا ہوا گوشت بھی کھا لیا کرتے تھے.حضرت عائشہ سے بھی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی تین دن متواتر پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا اور یہی حالت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک رہی.کھانے کے متعلق آپ اس بات کا خاص طور پر خیال رکھتے تھے کہ کوئی بغیر بلائے کسی دعوت کے موقع پر دوسرے کے گھر کھانا کھانے کے لئے نہ چلا جائے.ایک دفعہ ایک شخص نے آپ کی دعوت کی اور یہ بھی درخواست کی کہ آپ چار آدمی اپنے ساتھ اور بھی لیتے بخاری کتاب الاطعمة باب الاكل متكئاً تا بخاری کتاب الاطعمة باب ما كان النبي ﷺ واصحابه يأكلون
۲۵۸ نبیوں کا سردار آئیں.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے گھر کے دروازہ پر پہنچے تو آپ کو معلوم ہوا کہ ایک پانچواں شخص بھی آپ کے ساتھ ہے.جب گھر والا باہر نکلا تو آپ نے اُس سے کہا کہ آپ نے ہمیں پانچ آدمیوں کو دعوت کیلئے بلایا تھا آپ چاہیں تو اس کو بھی اجازت دے دیں اور چاہیں تو اس کو رخصت کر دیں.گھر والے نے کہا نہیں میں ان کی بھی دعوت کرتا ہوں یہ بھی اندر آجائیں لے جب آپ کھانا کھاتے تو ہمیشہ بسم اللہ کہ کر شروع کیا کرتے تھے اور جب کھانا کھا کر فارغ ہوتے تو ان الفاظ میں خدا کی تعریف فرماتے.الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمَّدًا كَثِيرًا طَيْبًا مُبَارَكَأْفِيْهِ غَيْرَ مُكْفِي وَلَا مُوَدِّعٍ وَلَا مُسْتَغْنِي عَنْهُ رَبَّنَا.یعنی سب تعریف اللہ تعالیٰ کی ہے جس نے ہمیں کھانا عطا کیا.بہت بہت تعریف، ہر قسم کی ملونی سے خالی تعریف، بڑھتی رہنے والی تعریف.ایسی تعریف نہیں جس کے بعد انسان سمجھے کہ بس میں تعریف کافی کر چکا بلکہ یہ سمجھے کہ میں نے تعریف کرنے کا حق ادا نہیں کیا اور کبھی تعریف بس نہ کرے.اور کبھی میرے دل میں یہ خیال نہ گزرے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی ایسا کام بھی ہے جس کی تعریف کی ضرورت نہیں یا جو تعریف کا مستحق نہیں.اے ہمارے رب ! ہمیں ایسا ہی بنادے.بعض روایتوں میں آتا ہے کہ آپ کبھی ان الفاظ میں دعا کرتے تھے الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَفَانَا وَارْوَانَا غَيْرَ مُكْفِي وَلَا مَكْفُورٍ سے یعنی سب تعریف اللہ تعالیٰ کی ہے جس نے ہماری بھوک اور پیاس دور کی.ہمارا دل اُس کی تعریف سے کبھی نہ بھرے اور ہم اُس کی کبھی ناشکری نہ کریں.بخاری کتاب الاطعمة باب الرجل يدعى الى طعام (الخ) بخاری کتاب الاطعمة باب ما يقول اذا فرغ من طعامه ے بخاری کتاب الاطعمة باب ما يقول اذا فرغ من طعامه
۲۵۹ نبیوں کا سردار آپ ہمیشہ اپنے صحابہ کو نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ پیٹ بھرنے سے پہلے کھانا چھوڑ دو اور فرماتے تھے ایک انسان کا کھانا دو انسانوں کے لئے کافی ہونا چاہئے لے جب کبھی آپ کے گھر میں کوئی اچھی چیز پکتی تو آپ ہمیشہ اپنے گھر والوں کو نصیحت کرتے تھے کہ اپنے ہمسایوں کا بھی خیال رکھو.اسی طرح اپنے ہمسایوں کے گھروں میں آپ اکثر ہدیہ بجھواتے رہتے تھے.سے آپ اپنے مسکین صحابہ کی شکلوں سے ہمیشہ یہ معلوم کرتے رہتے تھے کہ ان میں سے کوئی بھوکا تو نہیں.حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ ایک دفعہ وہ کئی دن فاقہ سے رہے.ایک دن جب سات وقت فاقہ سے گزر گئے تو وہ بے تاب ہو کر مسجد کے دروازے کے سامنے کھڑے ہو گئے.اتفاقاً حضرت ابو بکر وہاں سے گزرے تو انہوں نے ان سے ایک ایسی آیت کا مطلب پوچھا جس میں غریبوں کو کھانا کھلانے کا حکم ہے.حضرت ابوبکر نے ان کی بات سے سمجھا کہ شاید اس آیت کے معنی ان کو معلوم نہیں اور وہ اس آیت کے معنی بیان کر کے آگے چل دیئے.حضرت ابو ہریرہ جب لوگوں کے سامنے یہ روایت بیان کرتے تو غصہ سے کہا کرتے کہ کیا ابو بکر مجھ سے زیادہ قرآن جانتا تھا!! میں نے تو اس لئے آیت پوچھی تھی کہ ان کو اس آیت کے مضمون کا خیال آ جائے اور مجھے کھانا کھلا دیں.اتنے میں حضرت عمر وہاں سے گزرے.ابوہریرہ کہتے ہیں میں نے ان سے بھی اس آیت کا مفہوم پوچھا.حضرت عمر نے بھی اس آیت کا مطلب بیان کر دیا اور آگے چل دیئے.صحابہؓ سوال کو سخت نا پسند کرتے تھے.جب ابو ہریرہ نے دیکھا کہ بے مانگے کھانا ملنے کی بخاری کتاب الاطعمة باب طعام الواحد يكفى الاثنين مسلم کتاب البر و الصلة باب الوصية بالجار و الاحسان اليه سے بخاری کتاب الادب باب لا تحقرن جارة بجارتها
۲۶۰ نبیوں کا سردار کوئی صورت نہیں تو وہ کہتے ہیں میں بالکل نڈھال ہو کر گرنے لگا کیونکہ اب زیادہ صبر کی مجھے میں طاقت نہیں تھی مگر میں نے ابھی دروازہ سے منہ نہیں موڑا تھا کہ میرے کان میں ایک نہایت ہی محبت بھری آواز آئی اور کوئی مجھے بلا رہا تھا.ابوہریرہ! ابوہریرہ!! میں نے منہ موڑ اتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کی کھڑ کی کھولے کھڑے تھے اور مسکرا رہے تھے اور مجھے دیکھ کر آپ نے فرمایا.ابوہریرہ! بھو کے ہو؟ میں نے کہا ہاں يَا رَسُولَ اللہ ! بھوکا ہوں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ہمارے گھر میں بھی کھانے کو کچھ نہیں تھا.ابھی ایک شخص نے دودھ کا پیالہ بجھوایا ہے.تم مسجد میں جاؤ اور دیکھو کہ شاید ہماری تمہاری طرح کے کوئی اور بھی مسلمان ہوں جن کو کھانے کی احتیاج ہو.ابوہریرہ کہتے ہیں میں نے دل میں کہا میں تو اتنا بھوکا ہوں کہ اکیلا ہی اس پیالے کو پی جاؤں گا.اب جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آدمی بھی بلانے کو کہا ہے تو پھر میرا حصہ تو بہت تھوڑا رہ جائے گا.مگر بہر حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا مسجد کے اندر گئے تو دیکھا کہ چھ آدمی اور بیٹھے ہیں.انہوں نے اُن کو بھی ساتھ لیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ کے پاس آئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دودھ کا پیالہ اُن نئے آنے والے چھ آدمیوں میں سے کسی کے ہاتھ میں دے دیا اور کہا اس کو پی جاؤ.جب اس نے دودھ پی کر پیالہ منہ سے الگ کیا تو آپ نے اصرار کیا کہ پھر پیو.تیسری دفعہ اصرار کر کے اس کو دودھ پلایا.اس طرح چھیوں آدمیوں کو آپ نے باری باری دودھ پلایا.حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ ہر بار میں کہتا تھا کہ اب میں مرا.میرا حصہ کیا بچے گا لیکن جب وہ چھٹیوں پی چکے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پیالہ میرے ہاتھ میں دیا.میں نے دیکھا کہ ابھی پیالہ میں بہت دودھ موجود تھا جب میں نے دودھ پیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھی اصرار کر کے تین دفعہ دودھ پلایا.پھر میرا بچا ہوا دودھ خود پیا اور خدا تعالیٰ کا شکر کرتے ہوئے
دروازہ بند کر لیا ہے ۲۶۱ نبیوں کا سردار شاید رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوہریرہ کو سب کے آخر میں دودھ یہی سبق دینے کے لئے دیا تھا کہ انہیں خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے فاقہ سے بیٹھ رہنا چاہئے تھا اور اشارۃ بھی سوال نہیں کرنا چاہئے تھا.آپ ہمیشہ دائیں ہاتھ سے کھانا کھاتے تھے اور پانی بھی دائیں ہاتھ سے پیتے تھے.پانی پیتے وقت درمیان میں تین دفعہ سانس لیتے تھے.اس میں ایک طبی حکمت ہے.پانی اگر یکدم پیا جائے تو زیادہ پیا جاتا ہے اور اس سے معدہ خراب ہو جاتا ہے.کھانے کے متعلق آپ کا اصول یہ تھا کہ جو چیز میں پاکیزہ اور طیب ہوں وہ کھائیں.مگر ایسی طرز پر نہیں کہ غریبوں کا حق مارا جائے یا انسان کو تعیش کی عادت پڑ جائے.چنانچہ عام طور پر جیسا کہ بتایا جا چکا ہے آپ کی خوراک نہایت سادہ تھی.لیکن اگر کوئی شخص کوئی اچھی چیز بطور تحفہ لے آتا تھا تو آپ اس کے کھانے سے انکار نہ کرتے.مگر یوں اپنے کھانے پینے کے لئے اچھے کھانے کی تلاش آپ کبھی نہیں کرتے تھے.شہد آپ کو پسند تھا اسی طرح کھجور بھی.آپ فرماتے تھے کھجور اور مؤمن کے درمیان ایک رشتہ ہے کھجور کے پتے بھی اور اُس کا چھلکا بھی اور اُس کا کچا پھل بھی اور اس کا پکا پھل بھی اور اس کی گٹھلی بھی سب کے سب کارآمد ہیں اس کی کوئی چیز بھی بیکار نہیں.مؤمن کا مل بھی ایسا ہی ہوتا ہے اس کا کوئی کام بھی لغو نہیں ہوتا بلکہ اس کا ہر کام بنی نوع انسان کے نفع کے لئے ہوتا ہے.بخاری کتاب الرقاق باب كيف كان عيش النبی ﷺ و اصحابه (الخ) بخاری کتاب العلم باب طرح الامام المسألة (الخ) + بخاری کتاب الاطعمة باب بركة النخلة.
۲۶۲ نبیوں کا سردار لباس اور زیور میں سادگی اور تقویٰ لباس کے متعلق بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہایت سادگی کو پسند فرماتے تھے آپ کا عام لباس گر تہ اور تہ بند یا گر نہ اور پاجامہ ہوتا تھا.آپ اپنا تہ بند یا پاجامہ ٹخنوں سے اُو پر اور گھٹنوں سے نیچے رکھتے تھے.گھٹنوں یا گھٹنوں سے او پر جسم کے ننگے ہو جانے کو آپ پسند نہیں فرماتے تھے سوائے مجبوری کے.ایسا کپڑا جس پر تصویریں ہوں آپ پسند نہیں فرماتے تھے.نہ انسانی لباس میں اور نہ پردوں وغیرہ کی صورت میں.خصوصاً بڑی تصویر میں جو کہ شرک کے آثار میں سے ہیں اُن کی آپ کبھی اجازت نہیں دیتے تھے.ایک دفعہ آپ کے گھر میں ایسا کپڑا لٹکا ہوا تھا آپ نے دیکھا تو اُسے اُتروا دیا ہاں چھوٹی چھوٹی تصویر جس کپڑے پر بنی ہوئی ہوں اُس کپڑے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کیونکہ ان سے شرک کے خیالات کی طرف اشارہ نہیں ہوتا.آپ ریشمی کپڑ ابھی نہیں پہنتے تھے نہ دوسرے مردوں کو ریشمی کپڑا پہنے کی اجازت دیتے تھے.بادشاہوں کو خط لکھنے کے وقت آپ نے ایک مہر والی انگوٹھی اپنے لئے بنوائی تھی مگر آپ نے ارشاد فرمایا تھا کہ سونے کی انگوٹھی نہ ہو بلکہ چاندی کی ہو کیونکہ سونا خدا تعالیٰ نے میری اُمت کے مردوں کے لئے پہننا منع فرمایا ہے.عورتوں کو بیشک ریشمی کپڑے اور زیور پہننے کی اجازت تھی اس بارہ میں آپ نصیحت کرتے رہتے تھے کہ غلو نہ کیا جائے.ایک دفعہ غرباء کے لئے آپ نے چندہ کیا.ایک عورت نے ایک کڑا اُتار کر آپ کے آگے رکھ دیا.آپ نے فرمایا کیا دوسرا ہا تھ دوزخ سے بچنے کا مستحق نہیں؟ اُس عورت نے دوسرا کڑا اُتار کر بھی غرباء کے لئے دے دیا.آپ کی بیویوں کے زیورات نہ ہونے کے بخاری کتاب اللباس باب ما وطئى من التصاوير
۲۶۳ نبیوں کا سردار برابر تھے صحابیات بھی آپ کی تعلیم پر عمل کر کے زیور بنانے سے احتراز کرتی تھیں.آپ قرآنی تعلیم کے مطابق فرماتے تھے کہ مال کا جمع رکھنا غریبوں کے حقوق تلف کر دیتا ہے اس لئے سونے چاندی کو کسی صورت میں گھروں میں جمع کر لینا قوم کی اقتصادی حالت کو تباہ کرنے والا ہے اور گناہ ہے.ایک دفعہ حضرت عمر نے آپ کو تحریک کی کہ اب بڑے بڑے بادشاہوں کی طرف سے سفیر آنے لگے ہیں آپ ایک قیمتی جبہ لے لیں اور ایسے موقعوں پر استعمال فرمایا کریں.آپ حضرت عمرؓ کی اِس بات کو سن کر بہت خفا ہوئے اور فرمایا خدا تعالیٰ نے مجھے ان باتوں کے لئے پیدا نہیں کیا.یہ مداہنت کی باتیں ہیں لے ہمارا جیسا لباس ہے ہم اس کے ساتھ دنیا سے ملیں گے.ایک دفعہ آپ کے پاس ایک ریشمی جبہ لایا گیا.تو آپ نے حضرت عمر کو تحفہ کے طور پر دے دیا.دوسرے دن آپ نے دیکھا کہ حضرت عمر اُس کو پہنے پھر رہے تھے.آپ نے اس پر ناراضگی کا اظہار فرمایا.جب حضرت عمرؓ نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! آپ ہی نے تو تحفہ دیا تھا.تو آپ نے فرمایا ہر چیز اپنے ہی استعمال کے لئے تو نہیں ہوتی.یعنی یہ محبہ چونکہ ریشم کا تھا آپ کو چاہئے تھا کہ یہ اپنی بیوی کو دے دیتے یا اپنی بیٹی کو دے دیتے یا کسی اور استعمال میں لے آتے.اس کو اپنے لباس کے طور پر استعمال کرنا درست نہیں تھا.کے بستر میں سادگی آپ کا بستر بھی نہایت سادہ ہوتا تھا.بالعموم ایک چمڑا یا اونٹ کے بالوں کا ایک کپڑا ہوتا تھا.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ہمارا بستر اتنا چھوٹا تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ ، بخاری کتاب اللباس باب الحرير للنساء
۲۶۴ نبیوں کا سردار علیہ وسلم رات کو عبادت کے لئے اُٹھتے تو میں ایک طرف ہو کر لیٹ جاتی تھی اور بوجہ اس کے کہ بستر چھوٹا ہوتا تھا ، جب آپ عبادت کے لئے کھڑے ہو جاتے تو میں ٹانگیں لمبی کر لیا کرتی اور جب آپ سجدہ کرتے تو میں ٹانگیں سمیٹ لیا کرتی ہے مکان اور رہائش میں سادگی رہائشی مکان کے متعلق بھی آپ سادگی کو پسند کرتے تھے.بالعموم آپ کے گھروں میں ایک ایک کمرہ ہوتا تھا اور چھوٹا سا صحن.اس کمرہ میں ایک رتی بندھی ہوئی ہوتی تھی جس پر کپڑا ڈال کر ملاقات کے وقت میں آپ اپنے ملنے والوں سے علیحدہ بیٹھ کر گفتگو کر لیا کرتے تھے.چار پائی آپ استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ زمین پر ہی بستر بچھا کر سوتے تھے.آپ کی رہائش کی سادگی اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ حضرت عائشہ نے آپ کی وفات کے بعد فرمایا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہمیں کئی دفعہ صرف پانی اور کھجور پر ہی گزارہ کرنا پڑتا تھا یہاں تک کہ جس دن آپ کی وفات ہوئی اُس دن بھی ہمارے گھر میں سوائے کھجور اور پانی کے کھانے کیلئے اور کچھ نہیں تھا.کے خدا تعالیٰ سے محبت اور اُس کی عبادت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی عشق الہی میں ڈوبی ہوئی نظر آتی ہے باوجود بہت بڑی جماعتی ذمہ داری کے دن اور رات آپ عبادت میں مشغول رہتے تھے.نصف رات گزرنے پر آپ خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے کھڑے ہو جاتے اور صبح بخاری باب الصلوة على الفراش بخاری کتاب الاطعمة باب الرطب و التمر
۲۶۵ نبیوں کا سردار تک عبادت کرتے رہتے.یہاں تک کہ بعض دفعہ آپ کے پاؤں سوج جاتے تھے اور آپ کے دیکھنے والوں کو آپ کی حالت پر رحم آتا تھا.حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ایک دفعہ میں نے ایسے ہی موقع پر کہا تیا رسُول اللہ ! آپ تو خدا تعالیٰ کے پہلے ہی مقرب ہیں آپ اپنے نفس کو اتنی تکلیف کیوں دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا اے عائشہ! أَفَلَا أَتُونُ عَبْدًا شَكُورًا اے جب یہ بات سچی ہے کہ خدا تعالیٰ کا میں مقرب ہوں اور خدا تعالیٰ نے اپنا فضل کر کے مجھے اپنا قرب عطا فرمایا ہے تو کیا میرا یہ فرض نہیں کہ جتنا ہو سکے میں اُس کا شکر یہ ادا کروں، کیونکہ آخر شکر احسان کے مقابل پر ہی ہوا کرتا ہے.آپ کوئی بڑا کام بغیر اذنِ الہی کے نہیں کرتے تھے.چنانچہ آپ کے حالات میں لکھا جاچکا ہے کہ باوجود مکہ کے لوگوں کے شدید ظلموں کے آپ نے مکہ اُس وقت تک نہ چھوڑا جب تک کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ پر وحی نازل نہ ہوئی اور وحی کے ذریعہ سے آپ کو مکہ چھوڑنے کا حکم نہ دیا گیا.اہل مکہ کے ظلموں کی شدت کو دیکھ کر آپ نے جب صحابہ کو حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کی اجازت دی اور انہوں نے آپ سے خواہش ظاہر کی کہ آپ بھی ان کے ساتھ چلیں ، تو آپ نے فرمایا مجھے ابھی خدا تعالیٰ کی طرف سے اذن نہیں ملا ظلم اور تکلیف کے وقت جب لوگ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو اپنے اردگر دا اکٹھا کر لیتے ہیں آپ نے اپنی جماعت کو حبشہ کی طرف ہجرت کر کے چلے جانے کی ہدایت کی اور خود ا کیلے مکہ میں رہ گئے ، اس لئے کہ آپ کے خدا نے آپ کو ابھی ہجرت کرنے کا حکم نہیں دیا تھا.خدا کا کلام آپ سنتے تو بے اختیار ہو کر آپ کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے.خصوصاً بخاری کتاب التهجد باب قيام النبي ﷺ الیل حتی تر ما قدماه کے بخاری کتاب التفسیر تفسير سورة الفتح باب قوله ليغفر لك الله ما تقدم من ذنبك (الخ)
۲۶۶ نبیوں کا سردار وہ آیات جن میں آپ کو اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.چنانچہ عبداللہ بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قرآن شریف کی کچھ آیات پڑھ کر مجھے سناؤ.میں نے اس کے جواب میں کہا.یا رسول اللہ ! قرآن تو آپ پر نازل ہوا ہے میں آپ کو کیا سناؤں؟ آپ نے فرمایا میں پسند کرتا ہوں کہ دوسرے لوگوں سے بھی قرآن پڑھوا کر سنوں.اس پر میں نے سورۂ نساء پڑھ کی سنانی شروع کی.جب پڑھتے پڑھتے میں اس آیت پر پہنچا کہ فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هؤُلاء شَهِيد ال یعنی اس وقت کیا حال ہو گا جب ہم ہر قوم میں سے اس کے نبی کو اس کی قوم کے سامنے کھڑا کر کے اس قوم کا حساب لیں گے اور تجھ کو بھی تیری قوم کے سامنے کھڑا کر کے اس کا حساب لیں گے تو رسول اللہ علیہ نے فرمایا ” بس کرو.بس کرو میں نے آپ کی طرف دیکھا تو آپ کی دونوں آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گر رہے تھے.کے نماز کی پابندی کا آپ کو اتنا خیال تھا کہ سخت بیماری کی حالت میں بھی جبکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے گھر میں نماز پڑھ لینے اور لیٹ کر پڑھ لینے تک کی اجازت بھی ہوتی ہے آپ ہارا لے کر مسجد میں نماز پڑھانے کیلئے آتے.ایک دن آپ نماز کے لئے نہ آسکے تو حضرت ابوبکر کونماز پڑھانے کا حکم فرمایا.لیکن اتنے میں طبیعت میں کچھ سہولت معلوم ہوئی تو فور أدو آدمیوں کا سہارا لے کر مسجد کی طرف چل دیئے مگر کمزوری کا یہ حال تھا کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ چلنے میں آپ کے دونوں پاؤں زمین پر گھسٹتے جاتے تھے.سے دنیا میں خوشنودی اور توجہ دلانے کے لئے تالیاں پیٹی جاتی ہیں عربوں میں بھی یہی النساء : ۴۲ بخاری کتاب فضائل القرآن باب البكاء عند قراءة القرآن بخاری کتاب الاذان باب حد المريض (الخ)
۲۶۷ نبیوں کا سردار رواج تھا مگر آپ کو خدا تعالیٰ کی یاد اور اُس کا ذکر اتنا پسند تھا کہ اس غرض کے لئے بھی ذکر الہی ہی استعمال کرنے کا حکم دیا.چنانچہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام میں مشغول تھے کہ نماز کا وقت آگیا.آپ نے فرمایا ابوبکر ! نماز پڑھا دیں.پھر کام سے فارغ ہو کر آپ بھی فورا مسجد کی طرف روانہ ہو گئے.جب نماز پڑھنے والوں کو معلوم ہوا کہ آپ مسجد میں تشریف لے آئے ہیں تو انہوں نے بیتاب ہو کر تالیاں بجانی شروع کر دیں جس سے ایک طرف تو یہ بتانا مقصود تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے ان کے دل بے انتہاء خوش ہو گئے ہیں اور دوسری طرف ابوبکر کو توجہ دلا نا مطلوب تھا کہ اب آپ کی امامت ختم ہوئی اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ہیں.حضرت ابو بکر پیچھے ہٹ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے امام کی جگہ چھوڑ دی.نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ابوبکر ! جب میں نے تم کو نماز پڑھانے کا حکم دیا تھا تو تم میرے آنے پر پیچھے کیوں ہٹ گئے؟ ابوبکر نے کہا يَا رَسُولَ اللہ! اللہ کے رسول کی موجودگی میں ابوقحافہ کا بیٹا کیا حیثیت رکھتا تھا کہ نماز پڑھائے.پھر آپ صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا.تالیاں پیٹنے سے تمہاری کیا غرض تھی.خدا کے ذکر کے وقت تالیوں کا بجانا تو مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے.جب نماز کے وقت کوئی ایسی بات ہو کہ اُس کی طرف توجہ دلانی ضروری ہو تو بجائے تالیاں بجانے کے خدا کا نام بلند آواز سے لیا کرو.جب تم ایسا کرو گے تو دوسروں کو اس واقعہ کی طرف خود بخو د توجہ ہو جائے گی ہے مگر اس کے ساتھ ہی آپ تکلف کی عبادت بھی پسند نہیں فرماتے تھے.ایک دفعہ آپ گھر میں گئے تو آپ نے دیکھا کہ دوستونوں کے درمیان ایک رتی لکھی ہوئی ہے.آپ نے پوچھا یہ رشی کیوں بندھی ہوئی ہے؟ لوگوں نے کہا یہ حضرت زینب کی رہتی ہے جب وہ بخاری کتاب الاذان باب من دخل ليوم الناس (الخ)
۲۶۸ نبیوں کا سردار عبادت کرتے کرتے تھک جاتی ہیں تو اس رہتی کو پکڑ کر سہارا لے لیتی ہیں.آپ نے فرمایا.ایسا نہیں کرنا چاہئے یہ رسی کھول دو.ہر شخص کو چاہئے کہ اتنی دیر عبادت کیا کرے جب تک اُس کے دل میں بشاشت رہے جب وہ تھک جائے تو بیٹھ جائے اس قسم کی تکلف والی عبادت کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی اے شرک سے آپ کو اس قدر نفرت تھی کہ وفات کے وقت جبکہ آپ جان کندن کی تکلیف میں کبھی دائیں کروٹ لیٹتے اور کبھی بائیں کروٹ لیٹتے اور یہ فرماتے جاتے تھے خدا ان یہود اور نصاریٰ پر لعنت کرے جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجد بنالیا ہے.یعنی وہ نبیوں کی قبروں پر سجدے کرتے ہیں اور اُن سے دعائیں کرتے ہیں.آپ کا مطلب یہ تھا کہ میری قوم اگر میرے بعد ایسا ہی فعل کرے گی تو وہ یہ نہ سمجھے کہ وہ میری دعاؤں کی مستحق ہوگی بلکہ میں اس سے کلی طور پر بیزار ہوں گا.خدا تعالیٰ کے لئے آپ کی غیرت کا ذکر آپ کی زندگی کے تاریخی واقعات میں آچکا ہے.مکہ کے لوگوں نے آپ کے سامنے ہر قسم کی رشوتیں پیش کیں تا آپ بتوں کی تردید کرنا چھوڑ دیں اور آپ کے چچا ابوطالب نے بھی آپ سے اس امر کی سفارش کی اور کہا کہ اگر تم نے یہ بات نہ مانی اور میں نے تمہارا ساتھ بھی نہ چھوڑا تو پھر میری قوم مجھے چھوڑ دے گی تو اس پر آپ نے فرمایا اے چا! اگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں لا کر کھڑا کر دیں تب بھی میں خدائے واحد کی تو حید کو پھیلانے سے نہیں رک سکتا.سے اسی طرح اُحد کے موقع پر جب مسلمان زخمی اور پراگندہ حالت میں ایک پہاڑی بخاری کتاب التهجد باب ما يكره من التشديد في العباده بخاری کتاب الجنائز باب ما جاء في قبر النبی ﷺ (الخ) سے سیرت ابن ہشام جلد ا صفحه ۲۸۴ - ۲۸۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۶۹ نبیوں کا سردار کے نیچے کھڑے تھے اور دشمن اپنے سارے ساز وسامان کے ساتھ اس خوشی میں نعرے لگا رہا تھا کہ ہم نے مسلمانوں کی طاقت توڑ دی ہے.اور ابوسفیان نے نعرہ لگایا اُخل هبل اُعْلُ هُبَل.یعنی ہیل کی شان بلند ہو، ہبل کی شان بلند ہو.تو آپ نے اپنے ساتھیوں کو جو دشمن کی نظروں سے چھپے کھڑے تھے اور اس چھپنے میں ہی اُن کی خیر تھی حکم دیا کہ جواب دو اللهُ أَعْلَى وَأَجَلٌ - اللهُ اعلی وَ أَجَلُ اللہ ہی سب سے بلند اور جلال والا ہے.اللہ ہی غلبہ اور جلال رکھتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوخدا تعالیٰ کے لئے جو غیرت تھی اُس کی ایک اور عظیم الشان مثال بھی آپ کی زندگی میں ملتی ہے.اسلام سے پہلے عام طور پر مختلف مذاہب میں یہ خیال پایا جاتا تھا کہ انبیاء کی خوشی اور غم پر زمین اور آسمان میں تغیر ظاہر ہوتے ہیں اور اجرام فلکی ان کے قبضے میں ہوتے ہیں چنانچہ کسی نبی کے متعلق یہ آتا تھا کہ اُس نے سورج کو کہا ٹھہر جا اور وہ ٹھہر گیا.کسی کے متعلق آتا تھا کہ اُس نے چاند کی گردش روک دی اور کسی کے متعلق آتا تھا کہ اُس نے پانی کے بہاؤ کو بند کر دیا.مگر اسلام نے اس قسم کے خیالات کی غلطی ظاہر کی اور یہ بتایا کہ در حقیقت یہ استعارے ہیں جن سے لوگ بجائے فائدہ اٹھانے کے اُلٹے غلطیوں اور وہموں میں مبتلا ہو جاتے ہیں لیکن باوجود ان تشریحات کے کچھ لوگوں کے دلوں میں اس قسم کے خیالات کا اثر باقی رہ گیا تھا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری عمر میں آپ کے اکلوتے صاحبزادے ابراہیم اڑھائی سال کی عمر میں فوت ہوئے تو اتفاقاً اُس دن سورج کو بھی گرہن لگ گیا اُس وقت چند ایسے ہی لوگوں نے مدینہ میں یہ مشہور کر دیا کہ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے کی وفات پر سورج تاریک ہو گیا ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ خوش نہ ہوئے آپ خاموش بھی نہ بخاری کتاب الجهاد باب ما يكره من التنازع والاختلاف في الحرب (الخ)
۲۷۰ نبیوں کا سردار رہے بلکہ بڑی سختی سے آپ نے اس کی تردید کی اور فرمایا.چاند اور سورج تو خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قانون کو ظاہر کرنے والی ہستیاں ہیں ان کا کسی بڑے یا چھوٹے انسان کی موت یا زندگی کے ساتھ کیا تعلق ہے.لا جب کوئی شخص عرب کے محاورہ کے مطابق یہ کہہ دیتا کہ فلاں ستارہ کے فلاں بُرج میں ہونے کی وجہ سے ہم پر بارش نازل ہوئی ہے تو آپ کا چہرہ متغیر ہو جاتا اور آپ فرماتے اے لوگو! خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو دوسروں کی طرف کیوں منسوب کرتے ہو.بارشیں وغیرہ سب خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قانون کے مطابق ہوتی ہیں کسی دیوی دیوتا کی یا کسی اور روحانی طاقت کی مہربانی اور بخشش کے ساتھ نازل نہیں ہوا کرتیں.سے اللہ تعالیٰ پر توکل اللہ تعالی پر توکل کا یہ حال تھا کہ جب ایک شخص نے اکیلا پا کر آپ پر تلوارا بھائی اور آپ سے پوچھا اب کون تم کو مجھ سے بچا سکتا ہے؟ اُس وقت باوجود اس کے کہ آپ بے ہتھیار تھے اور بوجہ لیٹے ہوئے ہونے کے حرکت بھی نہیں کر سکتے تھے.آپ نے نہایت اطمینان اور سکون سے جواب دیا اللہ یہ لفظ اس یقین اور وثوق سے آپ کے منہ سے نکلا کہ اُس کافر کا دل بھی آپ کے ایمان کی بلندی اور آپ کے یقین کے کامل ہونے کو تسلیم کئے بغیر نہ رہ سکا اور اس کے ہاتھ سے تلوار گر گئی اور وہ جو آپ کو قتل کرنے کے لئے آیا تھا آپ کے سامنے مجرموں کی طرح کھڑا ہو گیا.۳؎ بخاری کتاب الكسوف باب الصلوة في كسوف الشمس مسلم کتاب الایمان باب بیان كفر من قال مطر نابنوء سے مسلم کتاب الفضائل باب تو کله على الله تعالى (الخ)
۲۷۱ نبیوں کا سردار اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں انکساری کی یہ حد تھی کہ جب آپ سے لوگوں نے کہا یا رَسُول اللہ ! آپ تو اپنے عمل کے زور سے خدا تعالیٰ کے فضل کو حاصل کر لیں گے تو آپ نے فرمایا نہیں! نہیں!! میں بھی خدا کے احسان سے ہی بخشا جاؤں گا.چنانچہ حضرت ابوہریرہ بیان فرماتے ہیں میں نے ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا.آپ فرما رہے تھے کوئی شخص اپنے عملوں سے جنت میں داخل نہیں ہوگا.میں نے کہا یا رسُول الله! کیا آپ بھی اپنے اعمال سے جنت میں داخل نہیں ہوں گے؟ آپ نے فرمایا میں بھی اپنے اعمال کے زور سے جنت میں داخل نہیں ہوسکتا.ہاں خدا کا فضل اور اُس کی رحمت مجھے ڈھانک لے تو یہی ایک صورت ہے لے پھر آپ نے فرمایا اپنے کاموں میں نیکی اختیار کرو اور خدا تعالیٰ کے قرب کی راہیں تلاش کرو اور تم میں سے کوئی شخص اپنی موت کی خواہش نہ کیا کرے.کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو زندہ رہ کر اپنی نیکیوں میں اور بھی بڑھ جائے گا اور اگر بد ہے تو زندہ رہ کر اپنے گنا ہوں سے تو بہ کرنے کی توفیق مل جائے گی.سے خدا تعالیٰ کی محبت کی یہ حالت تھی کہ جب ایک وقفہ کے بعد بادل آتے تو آپ اپنی زبان پر بارش کا قطرہ لے لیتے اور فرماتے.دیکھو! میرے رب کی تازہ نعمت اسے جب مجلس میں بیٹھتے تو استغفار کرتے رہتے اور یوں بھی اکثر استغفار کرتے تاکہ آپ کی اُمت اور آپ کے ساتھ تعلق رکھنے والے خدا تعالیٰ کے غضب سے بچے رہیں اور اُس کی بخشش کے مستحق ہو جائیں کے ہر وقت خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونے کی یاد کو بخاری کتاب الرقاق باب القصد و المداومة على العمل بخاری کتاب التمني باب ما يكره من التمني (الخ) ابو داؤد ابواب النوم باب فى المطر بخاری کتاب الدعوات باب استغفار النبی صلی اللہ علیہ وسلم (الخ)
۲۷۲ نبیوں کا سردار تازہ رکھتے.چنانچہ جب آپ سوتے تو یہ کہتے ہوئے سوتے بِاسْمِكَ اللَّهُمَّ آمُوْتُ واخی.اے خدا تیرا ہی نام لیتے ہوئے میں مروں اور تیرا ہی نام لیتے ہوئے میں اُٹھوں.اور جب آپ صبح اٹھتے تو فرماتے الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَا تَنَا وَإِلَيْهِ النشور سے اللہ ہی کے لئے سب تعریفیں ہیں جس نے مرنے کے بعد ہم کو زندہ کیا اور پھر ہم اپنے رب کے سامنے جانے والے ہیں.خدا تعالیٰ کے قرب کی اتنی خواہش تھی کہ ہمیشہ آپ دعا کرتے تھے اللَّهُمَّ اجْعَلْ في قَلْبِي نُورًا وَ فِي بَصَرِى نُورًا وَ فِي سَمْعِيَ نُورًا وَعَنْ يَمِينِي نُورًا وَعَنْ يَسَارِى نُورًا وَفَوْق نُورًا وَتَحْتِى نُورًا وَ آمَاعِي نُورًا وَخَلْفِى نُورًا وَاجْعَلْ لِي نُورًا لے یعنی اے میرے ربّ! میرے دل میں بھی اپنا نور بھر دے اور میری آنکھوں میں بھی اپنا نور بھر دے اور میرے کانوں میں بھی اپنا نور بھر دے اور میرے دائیں بھی تیرا نور ہو اور میرے بائیں بھی تیرا نور ہو اور میرے اُو پر بھی تیرا نور ہو اور میرے نیچے بھی تیرا نور ہوا اور میرے آگے بھی تیرا نور ہو اور میرے پیچھے بھی تیرا نور ہو اور اے میرے ربّ! میرے سارے وجود کونور ہی نور بنادے.ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ آپ کی وفات کے قریب مسیلمہ کذاب آیا اور اس نے کہا اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد مجھے حاکم مقرر کر دیں تو میں ان کا متبع ہو جاؤں گا.اُس وقت اُس کے ساتھ ایک بہت بڑی جمعیت تھی اور جس قوم سے وہ تعلق رکھتا تھا وہ قوم سارے عرب کی قوموں سے تعداد میں زیادہ تھی.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے مدینہ میں آنے کی خبر ملی تو آپ اُس کی طرف گئے.ثابت بن قیس بن بخاری کتاب الدعوات باب وضع اليد اليمنى (الخ) کے بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء اذا انتبه بالليل
۲۷۳ نبیوں کا سردار شماس آپ کے ساتھ تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کھجور کی ایک شاخ تھی.آپ اُس قافلہ تک آئے اور مسلیمہ کذاب کے سامنے کھڑے ہو گئے.اتنے میں اور صحابی بھی جمع ہو گئے اور آپ کے اردگر دکھڑے ہو گئے.آپ نے مسیلمہ سے مخاطب ہو کر فرمایا.تم یہ کہتے ہو کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اگر اپنے بعد مجھے اپنا خلیفہ مقرر کر دیں تو میں اس کی اتباع کرنے کے لئے تیار ہوں، لیکن میں تو خدا کے حکم کے خلاف یہ کھجور کی شاخ بھی تم کو دینے کے لئے تیار نہیں.تمہارا وہی انجام ہوگا جو خدا نے تمہارے لیے مقرر کیا ہے.اگر تم پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے پاؤں کاٹ دے گا اور میں تو دیکھ رہا ہوں کہ خدا نے جو کچھ مجھے دکھایا تھا وہی تمہارے ساتھ ہونے والا ہے.پھر فرمایا میں جاتا ہوں جو باتیں کرنی ہیں میری طرف سے ثابت بن قیس بن شماس کے ساتھ کرو.یہ کہہ کر آپ واپس تشریف لے آئے.حضرت ابوہریرہ بھی آپ کے ساتھ تھے.راستہ میں کسی نے آپ سے پوچھا یا رسُول اللہ! آپ نے یہ کیا فرمایا ہے کہ جو مجھے خدا نے دکھایا تھا میں تجھے ویسا ہی پاتا ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میرے ہاتھ میں دو کڑے ہیں.میں نے اُن کڑوں کو دیکھ کر نا پسند کیا.اُس وقت مجھے خواب میں ہی وحی نازل ہوئی کہ میں ان پر پھونکوں.جب میں نے پھونکا تو وہ دونوں اُڑ گئے.میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ دو جھوٹے مدعی میرے بعد ظاہر ہوں گے لے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کا یہ آخری زمانہ تھا.عرب کی سب سے بڑی اور آخری قوم آپ کی فرمانبرداری کرنے کے لئے تیار تھی اور صرف اتنی شرط کرتی تھی کہ اس کے سردار کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد خلیفہ مقرر کر دیں.اگر رسول اللہ صلی اللہ بخاری کتاب المغازی باب قصة الاسود العنسی
۲۷۴ نبیوں کا سردار علیہ وسلم کے دل میں ذاتی بڑائی کا کوئی بھی خیال ہوتا تو ایسی حالت میں کہ آپ کی کوئی نرینہ اولاد نہ تھی آپ کے لئے کچھ بھی مشکل نہ تھا کہ آپ عرب کی سب سے بڑی قوم کے سب سے بڑے سردار کو اپنی جانشینی کی امید دلاتے اور سارے عرب کے اتحاد کا راستہ کھول دیتے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی اپنا نہیں سمجھتے تھے وہ اسلامی امارت کو اپنی ملکیت کب قرار دے سکتے تھے.آپ کے نزدیک اسلامی امارت خدا کی امانت تھی اور وہ امانت جوں کی توں خدا تعالیٰ ہی کے سپر د ہونی چاہئے تھی.پھر وہ جس کو چاہے دوبارہ سونپ دے.پس آپ نے یہ تجویز حقارت سے ٹھکرا دی اور فرمایا بادشاہت تو الگ رہی خدا کے حکم کے بغیر میں کھجور کی ایک شاخ بھی تم کو دینے کیلئے تیار نہیں.جب بھی اللہ تعالیٰ کا آپ ذکر فرماتے آپ کی طبیعت میں جوش پیدا ہو جا تا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ آپ کے جسم کے اندر کی طرف سے بھی اور باہر کی طرف سے بھی گلی طور پر خدا تعالیٰ کی محبت نے قابو پالیا ہے.اللہ تعالیٰ کی عبادت میں آپ کو سادگی اس قدر پسند تھی کہ مسجد میں جس پر کوئی فرش نہیں تھا جس پر کوئی کپڑا نہیں تھا آپ نماز پڑھتے اور دوسروں کو پڑھواتے.کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ بارش کی وجہ سے چھت ٹپک پڑتی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم گارے اور پانی سے لت پت ہو جاتا مگر آپ برابر عبادت میں مشغول رہتے اور آپ کے دل میں ذرا بھی احساس پیدا نہ ہوتا کہ اپنے جسم اور کپڑوں کی حفاظت کی خاطر آپ اُس وقت کی نماز ملتوی کر دیں یا کسی دوسری جگہ پر جا کر نماز پڑھ لیں لے اپنے صحابہ کی عبادتوں کا بھی آپ خیال رکھتے تھے.ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عمرہ کے متعلق جو نہایت ہی نیک اور پاکیزہ خصائل کے آدمی تھے آپ نے فرمایا عبداللہ بخاری کتاب الاذان باب هل يصلى الامام بمن حفر (الخ)
۲۷۵ نبیوں کا سردار بن عمر کیسا اچھا آدمی ہوتا اگر تہجد بھی باقاعدہ پڑھتا جب حضرت عبد اللہ بن عمر کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے اُس دن سے تہجد کی نماز با قاعدہ شروع کر دی.اسی طرح لکھا ہے کہ ایک دفعہ آپ رات اپنے داماد حضرت علی اور اپنی بیٹی حضرت فاطمہ کے گھر گئے اور فرمایا کیا تہجد پڑھا کرتے ہو؟ ( یعنی وہ نماز جو آدھی رات کے قریب اُٹھ کر پڑھی جاتی ہے ) حضرت علی نے عرض کیا یا رسُول اللہ ! پڑھنے کی کوشش تو کرتے ہیں مگر جب خدا تعالیٰ کی منشاء کے ماتحت کسی وقت ہماری آنکھ بند رہتی ہے تو پھر تہجد رہ جاتی ہے.آپ نے فرمایا تہجد پڑھا کرو.اور اُٹھ کر اپنے گھر کی طرف چل پڑے اور راستہ میں بار بار کہتے جاتے تھے وَكَانَ الْإِنْسَانُ اكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلاً " یہ قرآن کریم کی ایک آیت ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ انسان اکثر اپنی غلطی تسلیم کرنے سے گھبراتا ہے اور مختلف قسم کی دلیلیں دے کر اپنے قصور پر پردہ ڈالتا ہے.مطلب یہ تھا کہ بجائے اس کے کہ حضرت علی اور حضرت فاطمہ یہ کہتے کہ ہم سے کبھی کبھی غلطی بھی ہو جاتی ہے اُنہوں نے یہ کیوں کہا کہ جب خدا تعالیٰ کا منشاء ہوتا ہے کہ ہم نہ جاگیں تو ہم سوئے رہتے ہیں اور اپنی غلطی کو اللہ تعالیٰ کی طرف کیوں منسوب کیا.لیکن باوجود اللہ تعالیٰ کی اس قدر محبت رکھنے کے آپ تصنع کی عبادت اور کہانت سے سخت نفرت کرتے تھے.آپ کا اصول یہ تھا کہ خدا تعالیٰ نے جو طاقتیں انسان کے اندر پیدا کی ہیں اُن کا صحیح طور پر استعمال کرنا ہی اصل عبادت ہے.آنکھوں کی موجودگی میں آنکھوں کو بند کر دینا یا اُن کو نکلوا دینا عبادت نہیں بلکہ گستاخی ہے ہاں اُن کا بد استعمال کرنا گناہ ہے.کانوں کو کسی آپریشن کے ذریعے سے شنوائی سے محروم کر دینا خدا تعالیٰ کی گستاخی ہے.ہاں لوگوں کی غیبتیں اور چغلیاں سننا گناہ بخاری کتاب المناقب باب مناقب عبد اللہ بن عمر ال بخاری کتاب التهجد باب تحريض النبی ﷺ علی قیام اللیل (الخ)
نبیوں کا سردار ہے.کھانے کو ترک کردینا خود کشی اور خدا تعالیٰ کی گستاخی ہے ہاں کھانے پینے میں مشغول رہنا اور ناجائز اور نا پسندیدہ چیزوں کو کھانا گناہ ہے.یہ ایک عظیم الشان نکتہ تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش کیا اور جسے آپ سے پہلے اور کسی نبی نے پیش نہیں کیا.اخلاق فاضلہ نام ہے طبعی قوی کے صحیح استعمال کا.طبعی قومی کو مار دینا حماقت ہے ، ان کو ناجائز کاموں میں لگا دینا بدکاری ہے، ان کا صحیح استعمال اصل نیکی ہے یہ خلاصہ ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا اور یہ خلاصہ ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا اور آپ کے اعمال کا.حضرت عائشہ آپ کی نسبت فرماتی ہیں مَا خَيرَ رَسُولُ اللهِ ﷺ بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلَّا أَخَذَ ايْسَرَ هُمَا مَالَمْ يَكُنْ إِثْمَا فَإِنْ كَان إِثْمَمَّا كَانَ أَبَعَدَ النَّاسِ مِنْهُ ل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کبھی ایسا موقع پیش نہیں آیا کہ آپ کے سامنے دو راستے کھلے ہوں تو آپ نے ان دونوں راستوں میں سے جو آسان رستہ ہوا سے اختیار نہ کیا ہو بشرطیکہ اُس آسان راستہ کے اختیار کرنے میں کوئی گناہ کا شائبہ نہ پایا جائے.اگر گناہ کا کوئی شائبہ پایا جاتا تو آپ اس راستہ سے تمام انسانوں سے زیادہ دور بھاگتے تھے.یہ کیسا لطیف اور کیسا اعلیٰ درجہ کا چلن ہے دنیا کو دھوکا دینے کے لئے لوگ کس طرح بلا وجہ اپنے آپ کو دکھوں اور تکلیفوں میں ڈالتے ہیں.ان کا اپنے آپ کو دُکھوں اور تکلیفوں میں ڈالنا خدا تعالیٰ کے لئے نہیں ہوتا کیونکہ خدا تعالیٰ کے لئے کوئی بے فائدہ کام نہیں کیا جاتا.اُن کا اپنے آپ کو دکھوں اور تکلیفوں میں ڈالنا لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے ہوتا ہے.اُن کی اصل نیکی چونکہ بہت کم ہوتی ہے وہ جھوٹی نیکیوں سے لوگوں کو مرعوب کرنا چاہتے ہیں اور اپنے عیبوں کو چھپانے کے لئے لوگوں کی آنکھوں میں خاک ڈالتے ہیں مگر مسلم کتاب الفضائل باب ترك الانتقام...الخ)
۲۷۷ نبیوں کا سردار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود تو خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور حقیقی نیکی کا حصول تھا.آپ کو ایسی تصنع اور بناوٹی نیکیوں کی کیا ضرورت تھی.اگر دنیا آپ کو نیک سمجھتی تو بھی اور اگر آپ کو نیک نہ بجھتی تو بھی آپ کے لئے ایک سی بات تھی.آپ تو صرف یہ دیکھتے تھے کہ میرا خدا مجھے کیا سمجھتا ہے اور میرا اپنا نفس مجھے کیسا پاتا ہے.خدا اور اپنے نفس کی شہادت کے بعد اگر بنی نوع انسان بھی سچی شہادت دیتے تو آپ اُن کے شکر گزار ہوتے تھے اور اگر وہ سج آنکھوں سے دیکھتے تو آپ اُن کی بینائی کی کمی پر افسوس کرتے مگر اُن کی رائے کو کوئی وقعت نہ دیتے تھے.صلى الله رسول کریم ﷺ کا بنی نوع انسان سے معاملہ بیویوں کے حق میں آپ کا معاملہ نہایت ہی مشفقانہ اور عادلا نہ تھا.بعض دفعہ آپ کی بیویاں آپ سے سختی بھی کر لیتی تھیں مگر آپ خاموشی سے بات کو ہنس کر ٹال دیتے تھے.ایک دن آپ نے حضرت عائشہؓ سے کہا اے عائشہ! جب تم مجھ سے خفا ہوتی ہو تو مجھے پتہ لگ جاتا ہے کہ تم مجھ سے خفا ہو.حضرت عائشہ نے فرمایا آپ کو کس طرح پتہ لگ جاتا ہے؟ آپ نے فرمایا جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو اور کوئی قسم کھانے کا معاملہ آ جائے تو تم ہمیشہ یوں کہتی ہو محمد کے رب کی قسم !بات یوں ہے اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو اور تمہیں قسم کھانے کی ضرورت پیش آ جائے تو تم کہا کرتی ہو' ابراہیم کے رب کی قسم !ابات یوں ہے.حضرت عائشہ یہ بات سن کو ہنس پڑیں اور آپ کی بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ آپ بات کو ٹھیک سمجھے ہیں لے 66 حضرت خدیجہ جو آپ کی بڑی بیوی تھیں اور جنہوں نے آپ کے لئے بڑی بڑی مسلم کتاب الفضائل باب فضائل عائشة....(الخ)
۲۷۸ نبیوں کا سردار قربانیاں کی تھیں اُن کی وفات کے بعد آپ کی شادی میں جوان بیویاں آئیں لیکن اس کے باوجود آپ نے حضرت خدیجہ کے تعلق کو نہ بھلایا.حضرت خدیجہ کی سہیلیاں جب بھی آتیں آپ اُن کے استقبال کے لئے کھڑے ہو جاتے.لے حضرت خدیجہ کی بنی ہوئی کوئی چیز اگر آپ کے سامنے آ جاتی تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے.بدر کی جنگ میں جب آپ کے ایک داماد بھی قید ہو کر آئے تو آزادی کا فدیہ ادا کرنے کے لئے کوئی مال اُن کے پاس نہیں تھا.اُن کی بیوی یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی نے جب دیکھا کہ میرے خاوند کے بچانے کے لئے اور کوئی مال نہیں تو اپنی والدہ کی آخری یادگار ایک بار اُن کے پاس تھا وہ اُنہوں نے اپنے خاوند کے فدیہ کے طور پر مدینہ بھجوادیا.جب وہ ہار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوا تو آپ نے اُسے پہچان لیا.آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور آپ نے صحابہ سے فرمایا.میں آپ لوگوں کو حکم تو نہیں دیتا کیونکہ مجھے ایسا حکم دینے کا کوئی حق نہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ ہار زینب کے پاس اُس کی ماں کی آخری یادگار ہے اگر آپ خوشی سے ایسا کر سکتے ہوں تو میں سفارش کرتا ہوں کہ بیٹی اُس کی ماں کی آخری یادگار سے محروم نہ کی جائے.صحابہ نے کہا يَا رَسُول اللہ ! ہمارے لئے اس سے زیادہ خوشی کا کیا موجب ہوسکتا ہے اور انہوں نے وہ ہار حضرت زینب کو واپس کر دیا ہے حضرت خدیجہ کی قربانی کا آپ کی طبیعت پر اتنا اثر تھا کہ آپ دوسری بیویوں کے سامنے اکثر اُن کی نیکی کا ذکر کرتے رہتے تھے.ایک دن اسی طرح آپ حضرت عائشہ کے سامنے حضرت خدیجہ کی کوئی نیکی بیان کر رہے تھے کہ حضرت عائشہ نے چڑ کر مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل خديجه السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۲۰۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۲۷۹ نبیوں کا سردار کہا.يَا رَسُولَ اللہ ! اب اُس بڑھیا کا ذکر جانے بھی دیں.اللہ تعالیٰ نے اُس سے بہتر جوان اور خوبصورت عورتیں آپ کو دی ہیں.یہ بات سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر رقت طاری ہوگئی اور آپ نے فرمایا.عائشہ ! تمہیں معلوم نہیں خدیجہ نے میری کس قدر خدمت کی ہے لے اخلاق فاضلہ آپ کی طبیعت نہایت ہی سادہ تھی کسی دُکھ پر گھبراتے نہیں تھے اور کبھی کسی خواہش سے حد سے زیادہ متاثر نہیں ہوتے تھے.سوانح میں بتایا جا چکا ہے کہ آپ کی پیدائش سے پہلے آپ کے والد اور بچپن میں ہی آپ کی والدہ فوت ہو گئی تھیں.ابتدائی آٹھ سال آپ نے اپنے دادا کی نگرانی میں گزارے.اس کے بعد آپ نے اپنے چچا ابوطالب کی ولایت میں پرورش پائی.چچا کا خونی رشتہ بھی تھا اور اُن کے والد نے مرتے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں خاص طور پر وصیت بھی فرمائی تھی اس لئے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص طور پر محبت بھی رکھتے تھے اور آپ کا خیال بھی رکھتے تھے لیکن چی میں نہ وہ شفقت کا مادہ تھا نہ خاندانی ذمہ داریوں کا احساس.جب گھر میں کوئی چیز آتی تو بسا اوقات وہ اپنے بچوں کو پہلے دیتیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال نہ رکھتیں.ابوطالب گھر میں آتے تو بجائے اس کے کہ اپنے چھوٹے بھتیجے کو روتا ہوا یا گلہ کرتا ہوا پاتے وہ دیکھتے کہ اُن کے بچے تو کوئی چیز کھا رہے ہیں لیکن اُن کا چھوٹا سا بھتیجا کو ہ وقار بنا ایک طرف بیٹھا ہے.چچا کی محبت اور خاندانی ذمہ داریاں اُن کے سامنے آ جاتیں وہ دوڑ کر بھتیجے کو بغل میں لے لیتے اور کہتے میرے بچے کا بھی تو خیال کرو، میرے بچے کا بھی تو بخاری کتاب المناقب باب تزويج النبی ﷺ
۲۸۰ نبیوں کا سردار خیال کرو.ایسا اکثر ہوتا رہتا تھا.مگر دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کبھی شکوہ کیا نہ آپ کے چہرہ پر بھی ملال ظاہر ہوا نہ کبھی اپنے چیرے بھائیوں سے رقابت پیدا ہوئی ہے چنانچہ آپ کی زندگی بتاتی ہے کہ کس طرح آپ نے بعد کے بدلے ہوئے حالات میں حضرت علی اور حضرت جعفر" کو اپنی تربیت میں لے لیا اور ہر طرح سے ان کی بہتری کی تدابیر کیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی دُنیوی لحاظ سے نہایت ہی تلخ طور پر گزری ہے.پیدائش سے پہلے ہی اپنے والد کی وفات پھر والدہ اور دادا کی یکے بعد دیگرے وفات، پھر شادی ہوئی تو آپ کے بچے متواتر فوت ہوتے چلے گئے اس کے بعد پے در پے آپ کی کئی بیویاں فوت ہوئیں جن میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا جیسی باوفا اور خدمت گزار بیوی بھی تھیں.مگر آپ نے یہ سب مصائب خوشی سے برداشت کئے اور ان غموں نے نہ آپ کی کمر توڑی نہ آپ کی خوش مزاجی پر کوئی اثر ڈالا.دل کے زخم کبھی آنکھوں سے نہیں رہے.چہرہ ہر ایک کے لئے بشاش ہی رہا اور شاذ و نادر ہی کسی موقع پر آپ نے اس درد کا اظہار کیا.ایک دفعہ ایک عورت جس کا لڑکا فوت ہو گیا تھا اپنے لڑکے کی قبر پر ماتم کر رہی تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے گزرے تو آپ نے فرمایا.اے عورت! صبر کر.خدا کی مشیت ہر ایک پر غالب ہے.وہ عورت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتی نہ تھی اس نے جواب دیا جس طرح میرا بچہ مرا ہے تمہارا بچہ بھی مرتا تو تمہیں معلوم ہوتا کہ صبر کیا چیز ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف یہ کہ کر وہاں سے آگے چل دیئے.ایک نہیں ل السيرة الحلبية جلد ۱ صفحه ۱۳۸ مطبوعہ مصر ۱۹۳۲ء
۲۸۱ نبیوں کا سردار میرے تو سات بچے فوت ہو چکے ہیں اے پس اس قسم کے موقع پر اتنا اظہار تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گزشتہ مصائب پر کبھی کر دیتے تھے ورنہ بنی نوع انسان کی خدمت میں کوئی کوتاہی ہوئی نہ آپ کی بشاشت میں کوئی فرق آیا.متحمل متحمل آپ میں اس قدر تھا کہ اُس زمانہ میں بھی کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے بادشاہت عطا فرما دی تھی آپ ہر ایک کی بات سنتے.اگر وہ سختی بھی کرتا تو آپ خاموش ہو جاتے اور کبھی سختی کرنے والے کا جواب سختی سے نہ دیتے.مسلمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے نام کی بجائے آپ کے روحانی درجہ سے پکارتے تھے یعنی يَا رَسُولَ اللہ ! کہ کر بلاتے تھے اور غیر مذاہب کے لوگ ایشیائی دستور کے مطابق آپ کا ادب اور احترام اس طرح کرتے تھے کہ بجائے آپ کو محمد کہہ کر بلانے کے ابوالقاسم کہہ کر بلاتے تھے جو آپ کی کنیت تھی ( ابو القاسم کے معنی ہیں قاسم کا باپ.قاسم آپ کے ایک بیٹے کا نام تھا) ایک دفعہ ایک یہودی مدینہ میں آیا اور اس نے آپ سے آکر بحث شروع کر دی.بحث کے دوران میں وہ بار بار کہتا تھا.اے محمد ! بات یوں ہے، اے محمد ! بات یوں ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بغیر کسی انقباض کے اس کی باتوں کا جواب دیتے تھے.مگر صحابہ اُس کی یہ گستاخی دیکھ کر بیتاب ہور ہے تھے.آخر ایک صحابی سے نہ رہا گیا اور اُس نے یہودی سے کہا کہ خبردار! آپ کا نام لے کر بات نہ کرو تم رسول اللہ نہیں کہہ سکتے تو کم سے کم ابوالقاسم کہو.یہودی نے کہا میں تو وہی بخاری کتاب الاحکام باب ذكر ان النبی ﷺ لم یکن له بواب+ ابو داؤد کتاب الجنائز باب الصبر عند الصدمة
۲۸۲ نبیوں کا سردار نام لوں گا جو ان کے ماں باپ نے ان کا رکھا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور اپنے صحابہ سے کہا دیکھو! یہ ٹھیک کہتا ہے.میرے ماں باپ نے میرا نام محمد ہی رکھا تھا جو نام یہ لینا چاہتا ہے اسے لینے دو اور اس پر غصہ کا اظہار نہ کرو.آپ جب باہر کام کے لئے نکلتے تو بعض لوگ آپ کا رستہ روک کر کھڑے ہو جاتے اور اپنی ضرورتیں بیان کرنی شروع کر دیتے.جب تک وہ لوگ اپنی ضرورتیں بیان نہ کر لیتے آپ کھڑے رہتے جب وہ بات ختم کر لیتے تو آپ آگے چل پڑتے.اسی طرح بعض لوگ مصافحہ کرتے وقت دیر تک آپ کا ہاتھ پکڑے رکھتے.گو یہ طریق نا پسندیدہ ہے اور کام میں روک پیدا کرنے کا موجب ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ان کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نہ چھڑاتے بلکہ جب تک وہ مصافحہ کرنے والا آپ کے ہاتھ کو پکڑے رکھتا آپ بھی اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں رہنے دیتے.ہر قسم کے حاجت مند آپ کے پاس آتے اور اپنی حاجتیں پیش کرتے.بعض دفعہ آپ مانگنے والے کو اُس کی ضرورت کے مطابق کچھ دے دیتے تو وہ اپنی حرص سے مجبور ہو کر اور زیادہ کا مطالبہ کرتا اور آپ پھر بھی اُس کی خواہش پورا کر دیتے.بعض دفعہ لوگ کئی بار مانگتے چلے جاتے اور آپ اُن کو ہر دفعہ کچھ نہ کچھ دیتے چلے جاتے.جو شخص خاص طور پر مخلص نظر آتا اُسے اُس کے مانگنے کے مطابق دے دینے کے بعد صرف اتنا فرما دیتے کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر تم خدا پر توکل کرتے.چنانچہ ایک دفعہ ایک مخلص صحابی نے متواتر اصرار کر کے آپ سے کئی دفعہ اپنی ضرورتوں کے لئے روپیہ مانگا.آپ نے اُس کی خواہش کو پورا تو کر دیا، مگر آخر میں فرمایا سب سے اچھا مقام تو یہی ہے کہ انسان خدا پر توکل کرے.اس صحابی کے اندر اخلاص تھا اور ادب بھی تھا جو کچھ وہ لے چکا ادب سے اُس نے واپس نہ کیا لیکن آئندہ کے متعلق اُس نے عرض کیا یار سُول اللہ! یہ میری آخری بات ہے اب میں آئندہ کسی سے کسی صورت میں بھی سوال نہیں کروں گا.
۲۸۳ نبیوں کا سردار ایک دفعہ جنگ ہو رہی تھی غضب کا معرکہ پڑ رہا تھا، نیزے پھینکے جا رہے تھے، تلواریں کھٹا کھٹ گر رہی تھیں کھوے سے کھوا چھل رہا تھا.سپاہی پر سپاہی ٹوٹا پڑ رہا تھا کہ اُس صحابی کے ہاتھ سے عین اُس وقت جبکہ وہ دشمن کے نرغہ میں گھرے ہوئے تھے کوڑا گر گیا.ایک ہمراہی پیدل سپاہی نے اس خیال سے کہ اگر افسر نیچے اترا تو ایسا نہ ہو کہ کوئی نقصان پہنچ جائے جھک کر کوڑا اُٹھانا چاہا تا کہ اُن کے ہاتھ میں دیدے.اس صحابی کی نظر اس سپاہی پر پڑ گئی اور انہوں نے کہا اے میرے بھائی! تجھے خدا ہی کی قسم تو کوڑے کو ہاتھ نہ لگا یہ کہتے ہوئے وہ گھوڑے سے کود پڑے اور کوڑا اٹھا لیا پھر اپنے ساتھی سے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اقرار کیا تھا کہ میں کسی سے کوئی سوال نہیں کروں گا اگر میں کوڑ تمہیں اُٹھانے دیتا تو گو میں نے اس کے متعلق تم سے سوال نہیں کیا تھا لیکن اس میں کیا شبہ تھا کہ زبانِ حال سے یہ سوال ہی بن جاتا اور ایسا کرنا مجھے وعدہ خلاف بنا دیتا گو یہ جنگ کا میدان ہے مگر میں اپنا کام خود ہی کروں گا لے انصاف انصاف اور عدل آپ کے اندر اتنا پایا جاتا تھا کہ جس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں پائی جاتی.عربوں میں لحاظ داری اور سفارشوں کا قبول کرنا ایک عام مرض تھا.عرب کا کیا ذکر ہے اس زمانہ کے متمدن ممالک میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ بڑے آدمیوں کو سزا دیتے وقت جھجکتے ہیں اور غریبوں کو سزا دیتے وقت نہیں گھبراتے.ایک دفعہ ایک مقدمہ آپ کے پاس آیا، ایک بہت بڑے خاندان کی کسی عورت نے کسی دوسرے کا مال ہتھیا لیا تھا.جب حقیقت کھل گئی تو عربوں میں بڑا ہیجان پیدا ہو گیا کیونکہ ایک بہت بڑے معزز خاندان کی ہتک ہوتی اُنہیں نظر مسند احمد بن حنبل جلده صفحه ۲ المكتب الاسلامی بیروت ( مفهوماً)
۲۸۴ نبیوں کا سردار آئی.انہوں نے چاہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ درخواست پیش کریں کہ اس عورت کو معاف کر دیا جائے.اور تو کسی شخص نے جرات نہ کی لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز اسامہ بن زید کو لوگوں نے چنا اور انہیں مجبور کیا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عورت کی سفارش کریں.اسامہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات شروع ہی کی تھی کہ آپ کے چہرہ پر غصہ کے آثار ظاہر ہوئے اور آپ نے فرمایا! اسامہ! یہ کیا کہہ رہے ہو، پہلی تو میں اسی طرح تباہ ہوئیں کہ وہ بڑوں کا لحاظ کرتی تھیں اور چھوٹوں پر ظلم کرتی تھیں.اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا اور میں ایسا ہر گز نہیں کر سکتا.خدا کی قسم! اگر میری بیٹی فاطمہ بھی اس قسم کا جرم کرتی تو میں اُسے سزا دیئے بغیر نہ رہتا ہے یہ واقعہ پہلے سوانح میں آچکا ہے کہ بدر کی جنگ میں جب حضرت عباس قید ہوئے تو ان کے کراہنے سے آپ کو تکلیف محسوس ہوئی لیکن جب صحابہ نے آپ کی تکلیف دیکھ کر حضرت عباس کے ہاتھوں کی رسیاں کھول دیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات معلوم ہو گئی تو آپ نے فرمایا جیسے میرے رشتہ دار ویسے ہی دوسروں کے رشتہ دار.یا تو میرے چچا عباس کو بھی پھر رسیوں سے باندھ دو یا سارے قیدیوں کی رسیاں کھول دو.صحابہ کو چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف کا احساس تھا اُنہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! ہم پہرہ تختی سے دے لیں گے لیکن سب قیدیوں کی رسیاں ہم کھول دیتے ہیں، چنانچہ سب قیدیوں کی رسیاں اُنہوں نے کھول دیں.آپ انصاف کا خیال جنگ کے موقع پر بھی رکھتے تھے.ایک دفعہ آپ نے کچھ صحابہ کو باہر خبر رسانی کے لئے بھجوایا.دشمن کے کچھ آدمی اُن کو حرم کی حد میں مل گئے صحابہ ل مسلم کتاب الحدود باب قطع السارق الشريف (الخ) بخاری کتاب الحدود باب اقامة الحدود والانتقام الحرمات الله
۲۸۵ نبیوں کا سردار نے اس خیال سے کہ اگر ہم نے ان کو زندہ چھوڑ دیا تو یہ جا کر مکہ والوں کو خبر دیں گے اور ہم مارے جائیں گے اُن پر حملہ کر دیا اور ان میں سے ایک لڑائی میں مارا گیا.جب یہ خبریں دریافت کرنے والا قافلہ مدینہ واپس آیا، تو پیچھے پیچھے مکہ والوں کی طرف سے بھی ایک وفد شکایت لے کر آیا کہ اُنہوں نے حرم کے اندر ہمارے دو آدمی مار دیئے ہیں.جو لوگ حرم کے اندر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم کرتے رہتے تھے اُن کو جواب تو یہ ملنا چاہئے تھا کہ تم نے کب حرم کا احترام کیا کہ تم ہم سے حرم کے احترام کی امید رکھتے ہو مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواب نہ دیا بلکہ فرمایا.ہاں بے انصافی ہوئی ہے کیونکہ ممکن ہے کہ اس خیال سے کہ حرم میں وہ محفوظ ہیں انہوں نے اپنے بچاؤ کی پوری کوشش نہ کی ہو اس لئے آپ لوگوں کو خون بہادیا جائے گا.چنانچہ آپ نے قتل کا وہ فدیہ جس کا عربوں میں دستور تھا اُن کے ورثاء کو ادا کیا.جذبات کا احترام اپنے تو اپنے غیروں کے جذبات کا احترام بھی آپ بہت زیادہ کرتے تھے.ایک دفعہ ایک یہودی آپ کے پاس آیا اور اُس نے آکے شکایت کی کہ دیکھئے ! حضرت ابوبکر نے میرا دل دُکھایا ہے اور کہا ہے کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کو خدا نے موسیٰ سے افضل بنایا ہے.اس بات کو سن کر میرے دل کو تکلیف پہنچی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر کو بلا کر اُن سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے.حضرت ابوبکر نے کہا ، يَا رَسُولَ اللہ ! اس شخص نے ابتداء کی تھی اور کہا تھا کہ میں موسیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کو خدا نے ساری دنیا پر فضیلت عطا فرمائی ہے اس پر میں نے کہا کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کو خدا نے موسیٰ سے افضل بنایا
۲۸۶ نبیوں کا سردار ہے.آپ نے فرمایا ایسا نہیں کرنا چاہئے.دوسروں کے جذبات کا احترام کرنا چاہئے مجھے موسیٰ پر فضیلت نہ دیا کرو.لے اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ آپ اپنے آپ کو موسیٰ سے افضل نہ سمجھتے تھے بلکہ مطلب یہ تھا کہ یہ فقرہ کہنے سے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے موسیٰ پر فضیلت عطا فرمائی ہے یہودیوں کے دلوں کو تکلیف پہنچتی ہے.غرباء کا خیال اور اُن کے جذبات کا احترام آپ ہمیشہ غرباء کے حالات کو درست رکھنے کی کوشش رکھتے اور اُن کو سوسائٹی میں مناسب مقام دینے کی سعی فرماتے.ایک دفعہ آپ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک امیر آپ کے سامنے سے گزرا آپ نے ایک ساتھی سے دریافت کیا کہ اس شخص کے بارہ میں تمہاری کیا رائے ہے؟ اُس نے کہا یہ معزز اور امیر لوگوں میں سے ہے اگر یہ کسی لڑکی سے نکاح کی خواہش کرے تو اس کی درخواست قبول کی جائے گی اور اگر یہ کسی کی سفارش کرے تو اس کی سفارش مانی جائے گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات سن کر خاموش رہے.اس کے بعد ایک اور شخص گزرا جو غریب اور نادار معلوم ہوتا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ساتھی سے پوچھا اس کے بارہ میں تمہاری کیا رائے ہے؟ اُس نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! یہ غریب آدمی ہے اور اس لائق ہے کہ اگر یہ کسی کی لڑکی سے نکاح کی درخواست کرے تو اس کی درخواست قبول نہ کی جائے اور اگر سفارش کرے تو اس کی سفارش نہ مانی جائے اور اگر یہ باتیں سنانا چاہے تو اس کی باتوں کی طرف توجہ نہ کی جائے.یہ سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا اس غریب آدمی کی قیمت اس سے بھی زیادہ ہے کہ ساری دنیا سونے سے بھر دی جائے.سے بخاری کتاب الخصومات باب مايذكر في الاشخاص (الخ) بخاری کتاب الرقاق باب فضل الفقر
۲۸۷ نبیوں کا سردار ایک غریب عورت مسجد کی صفائی کیا کرتی تھی ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دن اُس کو نہ دیکھا تو آپ نے پوچھا وہ عورت نظر نہیں آتی.لوگوں نے بتایا کہ وہ فوت ہوگئی ہے.آپ نے فرمایا جب وہ فوت ہوگئی تھی تو تم نے مجھے اطلاع کیوں نہ دی کہ میں بھی اُس کے جنازہ میں شامل ہوتا پھر فرمایا شاید تم نے اس کو غریب سمجھ کر حقیر جانا.ایسا کرنا درست نہیں تھا مجھے بتاؤ اس کی قبر کہاں ہے پھر آپ اُس کی قبر پر گئے اور اُس کے لئے دعا کی لے آپ فرمایا کرتے تھے بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کے سر کے بال پراگندہ ہوتے ہیں اور اُن کے جسموں پر مٹی پڑی ہوتی ہے اگر وہ لوگوں سے ملنے جائیں تو تو لوگ اپنے دروازے بندکر لیتے ہیں لیکن یے لوگ اگر اللہتعالی کی قسم کھا بیٹھیں تو دا تعالیٰ کو اُن کا اتنا احترام ہوتا ہے کہ وہ ان کی قسم پوری کر کے چھوڑتا ہے.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ غریب صحابہ جو کسی وقت غلام ہوتے تھے بیٹھے ہوئے تھے.ابوسفیان اُن کے سامنے سے گزرے تو انہوں نے اس کے سامنے اسلام کی جیت کا کچھ ذکر کیا.حضرت ابو بکر سن رہے تھے انہیں یہ بات بُری معلوم ہوئی کہ قریش کے سردار کی ہتک کی گئی ہے اور اُنہوں نے اُن لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا کیا تم قریش کے سردار اور اُن کے افسر کی ہتک کرتے ہو!! پھر حضرت ابوبکر نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر یہی بات شکایت بیان کی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابو بکر ! شاید تم نے اللہ تعالیٰ کے ان خاص بندوں کو ناراض کر دیا ہے اگر ایسا ہوا تو یاد رکھو کہ تمہارا رب بھی تم سے ناراض ہو جائے گا.حضرت ابو بکر اُسی وقت اُٹھے اور اُٹھ کر اُن لوگوں کے پاس واپس آئے اور کہا اے میرے بھائیو! کیا میری بات سے تم ناراض ہو گئے بخاری کتاب الصلوۃ باب كنس المسجد (الخ) مسلم کتاب البر والصلة باب فضل الضعفاء
۲۸۸ نبیوں کا سردار ہو؟ اس پر اُن غلاموں نے جواب دیا اے ہمارے بھائی! ہم ناراض نہیں ہوئے خدا آپ کا قصور معاف کرے لیے مگر جہاں آپ غرباء کی عزت اور ان کے احترام کو قائم کرتے اور اُن کی ضرورتیں پوری فرماتے تھے وہاں آپ اُن کو عزت نفس کا بھی سبق دیتے تھے اور سوال کرنے سے منع فرماتے تھے.چنانچہ آپ ہمیشہ فرماتے تھے کہ مسکین وہ نہیں جس کو ایک کھجور یا دو کھجوریں یا ایک لقمہ یا دو لقے تسلی دے دیں.مسکین وہ ہے کہ خواہ کتنی ہی تکلیفوں سے گزرے سوال نہ کرے.آپ اپنی جماعت کو یہ بھی نصیحت کرتے رہتے تھے کہ ہر وہ دعوت جس میں غرباء نہ بلائے جائیں وہ بدترین دعوت ہے.سے حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ایک دفعہ ایک غریب عورت میرے پاس آئی اور اس کے ساتھ اُس کی دو بیٹیاں بھی تھیں اُس وقت ہمارے گھر میں سوائے ایک کھجور کے کچھ نہ تھا میں نے وہی کھجور اُس کو دے دی.اُس نے وہ کھجور آدھی آدھی کر کے دونوں لڑکیوں کو کھلا دی اور پھر اُٹھ کر چلی گئی.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہوئے تو میں نے آپ کو یہ واقعہ سنایا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس غریب کے گھر میں بیٹیاں ہوں اور وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرے.خدا تعالیٰ اُسے قیامت کے دن عذاب دوزخ سے بچائے گا.پھر فرمایا.اللہ تعالیٰ اُس عورت کو اس فعل کی وجہ سے جنت کا مستحق بنائے گا.ہے اسی طرح ایک دفعہ آپ کو معلوم ہوا کہ آپ کے ایک صحابی سعد جو مالدار تھے وہ مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل سلمان و بلال (الخ) بخاری کتاب الزكوة و كتاب الكروب باب قول الله تعالى عز وجل لا يسئلون الناس الحافا سے بخاری کتاب النکاح باب من ترك الدعوة (الخ) مسلم کتاب البر والصلة باب فضل الاحسان الى البنات
۲۸۹ نبیوں کا سردار بعض دوسرے لوگوں پر اپنی فضیلت ظاہر کر رہے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سنی تو فرمایا کیا تم سمجھتے ہو کہ تمہاری یہ قوت اور طاقت اور تمہارا یہ مال تمہیں اپنے زورِ بازو سے ، ملے ہیں؟ ایسا ہر گز نہیں تمہاری قومی طاقت اور تمہارے مال سب غرباء ہی کے ذریعہ سے آتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے اللهُمَّ أَحْيِنِي مِسْكِيْنًا وَآمِثْنِي مِسْكِيْنًا وَاحْشُرُ لَ فِي زُمْرَةِ الْمَسَاكِينِ يَومَ الْقِيَامَةِ یعنی اے الله ! مجھے مسکین ہونے کی حالت میں زندہ رکھ، مسکین ہونے کی حالت میں وفات دے اور مساکین کے زمرہ میں ہی قیامت کے دن مجھے اُٹھا.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بازار میں تشریف لے جارہے تھے تو آپ کے ایک غریب صحابی جو اتفاقی طور پر نہایت بدصورت بھی تھے گرمی کے موسم میں بوجھ اٹھا اُٹھا کر ایک طرف سے دوسری طرف منتقل کر رہے تھے.ایک طرف اُن کا چہرہ بدصورت تھا تو دوسری طرف گردوغبار اور پسینہ کی وجہ سے وہ اور بھی بد نما نظر آرہا تھا.عین اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بازار میں سے گزرے اور آپ نے اُن کے چہرہ پر افسردگی کی علامتیں دیکھیں.آپ خاموشی سے اُن کے پیچھے چلے گئے اور جیسے بچے آپس میں کھیلتے وقت چوری چھپے پیچھے سے جا کر کسی دوست کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیتے اور پھر یہ امید کرتے ہیں کہ وہ اندازہ لگا کر بتائے کہ کس شخص نے اُس کی آنکھیں بند کی ہیں اسی طرح آپ نے اُن کی آنکھوں پر جا کر ہاتھ رکھ دیا.اس نے اپنے ہاتھ سے آپ کے بازو اور جسم کو ٹولنا شروع کیا اور سمجھ لیا کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.یوں بھی وہ سمجھتا تھا کہ اتنے غریب، اتنے بدصورت اور اتنے بخاری کتاب الجهاد باب من استعان بالضعفاء (الخ) ترمذی ابواب الزهد باب ماجاء ان فقراء المهاجرين يدخلون الجنة (الخ)
۲۹۰ نبیوں کا سردار بد حال آدمی کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اپنی محبت کا اظہار اور کون کر سکتا ہے.یہ معلوم کر کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس کے ساتھ اظہار محبت کر رہے ہیں اس نے اپنا مٹی آلود اور پسینہ سے بھرا ہوا جسم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس کے ساتھ ملنا شروع کیا.شاید وہ یہ دیکھتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ کا حوصلہ کتنا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے رہے اور اُس کو اس حرکت سے منع نہ کیا جب وہ پیٹ بھر کر آپ کے کپڑوں کو خراب کر چکا تو آپ نے مذاقا فرمایا میرے پاس ایک غلام ہے کوئی اس کا خریدار ہے؟ آپ کے اس فقرہ نے اُس کو عرش سے فرش پر لا کر پھینک دیا اور اس بات کی طرف اس کی توجہ پھرا دی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کون مجھ کو قدر کی نگاہوں سے دیکھ سکتا ہے اور میں کس قابل ہوں کہ غلام کر کے ہی کوئی مجھے خریدے.اس نے افسردگی سے کہا یا رسول اللہ ! میرا خریدار دنیا میں کوئی نہیں.آپ نے فرمایا نہیں ! نہیں ! ایسا مت کہو تمہاری قیمت خدا کی نظر میں بہت زیادہ ہے لے آپ نہ صرف غرباء کا خیال رکھتے تھے بلکہ اپنی جماعت کو بھی غرباء کا خیال رکھنے کی ہمیشہ نصیحت فرماتے رہتے تھے.چنانچہ حضرت موسیٰ اشعری کی روایت ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی حاجتمند آتا تو آپ اپنی مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے فرماتے کہ آپ بھی اس کی سفارش کریں تا کہ نیک کام کی سفارش کے ثواب میں شامل ہو جا ئیں.کے اس طرح آپ ایک طرف تو اپنی جماعت کے لوگوں کے دلوں میں غرباء کی امداد کا احساس پیدا کرتے تھے اور دوسری طرف خود سوالی کے دل میں دوسرے مسلمانوں کی نسبت محبت کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کرتے.شمائل ترمذی باب ماجاء في صفة مزاح رسول اللہ ﷺ بخارى كتاب الزكوة باب التحريض على الصدقة (الخ)
۲۹۱ نبیوں کا سردار غرباء کے مالوں کی حفاظت اسلام کی فتح کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بہت سے اموال آتے جنہیں آپ مستحقین میں تقسیم کر دیتے.ایک دفعہ بہت سا مال آیا تو آپ کی بیٹی فاطمہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا يَا رَسُولَ اللہ ! یہ دیکھئے میرے ہاتھ چکی پیس پیس کر زخمی ہو گئے ہیں اگر آپ مجھے ان اموال میں سے کوئی لونڈی یا غلام دے دیں تو وہ میرا ہاتھ بٹا دیا کریں.آپ نے فرما یا فاطمہ! میری بیٹی ! میں تم کولونڈی یا غلام رکھنے سے زیادہ قیمتی چیز بتاتا ہوں جب تم سونے لگو تو تم تینتیس دفعہ الْحَمدُ لِلہ تینتیس دفعہ سُبْحَانَ اللہ اور چونتیس دفعہ اللہ اکبر کہہ لیا کرو.یہ تمہارے لئے لونڈی اور غلام سے زیادہ بہتر ہوگا لیے ایک دفعہ کچھ اموال آئے اور آپ نے اُن کو تقسیم کر دیا.تقسیم کرتے وقت ایک دینار آپ کے ہاتھ سے گر گیا اور کسی چیز کی اوٹ میں آ گیا.مال تقسیم کرتے کرتے آپ کے ذہن سے وہ بات اُتر گئی سب مال تقسیم کرنے کے بعد آپ مسجد میں آئے اور نماز پڑھائی.نماز پڑھانے کے بعد بجائے اس کے کہ ذکر الہی میں مشغول ہو جاتے جیسا کہ آپ کی عادت تھی یا لوگوں کو اپنی ضروریات کے پیش کرنے یا مسائل پوچھنے کا موقع دیتے آپ تیزی کے ساتھ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے.ایسی تیزی کے ساتھ کہ بعض صحابہ کہتے ہیں کہ ہماری گردنوں پر کودتے ہوئے آپ اندر کی طرف چلے گئے اور دینار تلاش کیا پھر واپس تشریف لائے اور باہر آ کر وہ دینا کسی مستحق کو دیتے ہوئے فرمایا یہ دینار گر گیا تھا اور مجھے بھول گیا تھا مجھے نماز پڑھاتے ہوئے یاد آیا اور میرا دل اس خیال سے بے چین ہو گیا کہ اگر میری موت آگئی اور لوگوں کا یہ مال میرے گھر میں ہی پڑا رہا تو میں خدا کو کیا بخاری کتاب الدعوات باب التكبير والتسبيح عند المنام
۲۹۲ نبیوں کا سردار جواب دوں گا اس لئے میں فوراً اندر گیا اور جا کر یہ مال نکال لایا ہے اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ آپ نے صدقہ کو اپنی اولاد کے لئے حرام کر دیا تا ایسا نہ ہو کہ آپ کے اعزاز اور احترام کی وجہ سے صدقہ کے اموال لوگ آپ کی اولاد میں ہی تقسیم کر دیا کریں اور دوسرے غریب محروم رہ جائیں.ایک دفعہ آپ کے سامنے صدقہ کی کچھ کھجوریں لائی گئیں.حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو آپ کے نواسے تھے اور جن کی عمر اُس وقت دو اڑھائی سال کی تھی اُس وقت آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اُنہوں نے ایک کھجور اپنے منہ میں ڈال لی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً انگلی ڈال کر اُن کے منہ سے کھجور نکالی اور فرمایا یہ ہمارا حق نہیں.یہ خدا کے غریب بندوں کا حق ہے.سے غلاموں سے حسن سلوک غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کا آپ ہمیشہ وعظ فرماتے رہتے.آپ کا یہ ارشاد تھا کہ اگر کسی شخص کے پاس غلام ہو اور وہ اس کو آزاد کرنے کی توفیق نہ رکھتا ہو تو اگر وہ کسی وقت غصہ میں اُس کو مار بیٹھے یا گالی دے تو اُس کا کفارہ یہی ہے کہ اُس کو آزاد کر دے.سے اسی طرح آپ غلاموں کو آزاد کرنے کے متعلق اتنا زور دیتے تھے کہ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے جو شخص کسی غلام کو آزاد کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُس غلام کے ہر عضو کے بدلہ میں اس کے ہر عضو پر دوزخ کی آگ حرام کر دے گا.کے پھر آپ فرمایا کرتے تھے غلام سے اتنا بخاری کتاب الاذان باب من صلى بالناس فذكر حاجة (الخ) بخاری کتاب الزكوة باب اخذ صدقة التمر عند صرام النخل مسلم کتاب الایمان باب اطعام المملوك مما يأكل (الخ) بخاری کتاب کفارات الایمان باب قول الله تعالى او تحرير رقبة
۲۹۳ نبیوں کا سردار ہی کام لو جتنا وہ کرسکتا ہے اور جب اس سے کوئی کام لو تو اس کے ساتھ مل کر کام کیا کرو تا کہ ذلت محسوس نہ کرے ہے اور جب سفر کرو تو یا اس کو سواری پر اپنے ساتھ بٹھاؤ یا اس کے ساتھ باری مقرر کر کے سواری پر چڑھو.اس بارہ میں آپ اتنی تاکید فرماتے تھے کہ حضرت ابوہریرہ جو اسلام لانے کے بعد ہر وقت آپ کے ساتھ رہتے تھے اور آپ کی اس تعلیم کو اکثر سنتے رہتے تھے وہ کہا کرتے تھے کہ اُس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں ابو ہریرہ کی جان ہے اگر اللہ تعالیٰ کے رستہ میں جہاد کا موقع مجھے نہ مل رہا ہوتا اور حج کی توفیق نہ مل رہی ہوتی اور میری بڑھیا ماں زندہ نہ ہوتی جس کی خدمت مجھ پر فرض ہے تو میں خواہش کرتا کہ میں غلامی کی حالت میں مروں کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غلام کے حق میں نہایت ہی نیک باتیں فرمایا کرتے تھے.کے معرور بن سوید روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت ابوذر غفاری کو دیکھا کہ جیسے اُن کے کپڑے تھے ویسے ہی اُن کے غلام کے تھے.اس کی وجہ پوچھی کہ آپ کے کپڑے اور آپ کے غلام کے کپڑے ایک جیسے کیوں ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ میں نے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص کو اُس کی ماں کا طعنہ دیا جولونڈی تھی اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو تو ایسا شخص ہے جس میں ابھی تک کفر کی باتیں پائی جاتی ہیں.غلام کیا ہیں؟ تمہارے بھائی ہیں اور تمہاری طاقت کا ذریعہ ہیں خدا تعالیٰ کی کسی حکمت کے ماتحت وہ کچھ عرصہ کے لئے تمہارے قبضہ میں آجاتے ہیں پس چاہئے کہ جس کا بھائی اُس کی خدمت تلے آجائے وہ جو کچھ خود کھاتا ہے اُسے کھلائے اور جو کچھ خود پہنتا ہے اُسے پہنائے اور تم میں مسلم کتاب الایمان باب صحبة المماليك مسلم کتاب الایمان باب ثواب العبد و اجره (الخ)
۲۹۴ نبیوں کا سردار سے کوئی شخص کسی غلام سے ایسا کام نہ لے جس کی اُسے طاقت نہ ہو اور جب تم انہیں کوئی کام بتاؤ تو خود بھی ان کے ساتھ مل کر کام کیا کرو لے اسی طرح آپ فرمایا کرتے تھے جب تمہارا نو کر تمہارے لئے کھانا لائے تو اُس کو اپنے ساتھ بٹھا کر کم سے کم تھوڑا سا کھانا ضرور کھلاؤ کیونکہ اُس نے کھانا پکا کر اپنا حق قائم کرلیا ہے.بنی نوع انسان کی خدمت کرنے والوں کا احترام آپ اُن لوگوں کا خاص خیال رکھتے تھے جو بنی نوع انسان کی خدمت میں اپنا وقت خرچ کرتے تھے.جب طی قبیلہ کے لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑائی کی اور ان میں سے کچھ لوگ گرفتار ہو کر آئے تو اُن میں حاتم کی جو عرب کا مشہور سخی گزرا ہے بیٹی بھی تھی ، جب اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ ذکر کیا کہ وہ حاتم کی بیٹی ہے تو آپ نے نہایت ہی ادب اور احترام کا معاملہ اُس سے کیا اور اُس کی سفارش پر اُس کی قوم کی سزائیں معاف کر دیں.سے عورتوں سے حسن سلوک عورتوں سے حسن سلوک کا آپ خاص خیال رکھتے تھے آپ نے سب سے پہلے دنیا میں عورت کے ورثہ کا حق قائم کیا.چنانچہ قرآن کریم میں لڑکے اور لڑکیاں باپ اور ماں کے ورثہ کی حقدار قرار دی گئی ہیں.اسی طرح مائیں اور بیویاں بیٹیوں اور خاوندوں کے ، مسلم کتاب الايمان باب اطعام المملوك مما ياكل (الخ) السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۲۲۷ سرية على ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ
۲۹۵ نبیوں کا سردار ورثہ میں اور بعض صورتوں میں بہنیں بھی بھائیوں کے ورثہ کی حقدار قرار دی گئی ہیں.اسلام سے پہلے دنیا کے کسی مذہب نے بھی اس طرح حقوق قائم نہیں کئے.اسی طرح آپ نے عورت کو اس کے مال کا مستقل مالک قرار دیا ہے خاوند کوحق نہیں کہ خاوند ہونے کی وجہ سے عورت کے مال میں دست اندازی کر سکے.عورت اپنے مال کے خرچ کرنے میں پوری مختار ہے.عورتوں سے حسن سلوک میں آپ ایسے بڑھے ہوئے تھے کہ عرب لوگ جو اس بات کے عادی نہ تھے ان کو یہ بات دیکھ کر ٹھو کر لگتی تھی.چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری بیوی بعض دفعہ میری باتوں میں دخل دیتی تو میں اُس کو ڈانٹا کرتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ عرب کے لوگوں نے کبھی عورتوں کا یہ حق تسلیم نہیں کیا کہ وہ مردوں کو اُن کے کاموں میں مشورہ دیں.اس پر میری بیوی کہا کرتی کہ جاؤ جاؤ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اُن کو مشورہ دیتی ہیں اور آپ اُن کو کبھی نہیں روکتے تو تم ایسا کیوں کہتے ہو؟ اس پر میں اُسے کہا کرتا تھا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت لاڈلی ہے اُس کا ذکر نہ کرو، باقی رہی تمہاری بیٹی سو اگر وہ ایسا کرتی ہے تو اپنی گستاخی کی سزا کسی دن پائے گی.ایک دفعہ جب کسی بات سے ناراض ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کر لیا کہ کچھ دن آپ گھر سے باہر رہیں گے اور بیویوں کے پاس نہیں جائیں گے اور مجھے اس کی خبر ملی تو میں نے کہا دیکھو جو میں کہتا تھا وہی ہو گیا.میں اپنی بیٹی حفصہ کے گھر میں گیا تو وہ رو رہی تھیں.میں نے کہا حفصہ ! کیا ہوا؟ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں طلاق دے دی ہے؟ انہوں نے کہا یہ تو مجھے معلوم نہیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بات کی وجہ سے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ کچھ عرصہ کے لئے گھر میں نہیں آئیں گے.حضرت عمر کہتے ہیں کہ میں نے کہا حفصہ! میں تجھے پہلے نہیں سمجھایا کرتا تھا کہ تو عائشہ کی نقلیں کرتی
۲۹۶ نبیوں کا سردار ہے حالانکہ عائشہ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاص طور پر پیاری ہے.دیکھ آخر تو نے وہی مصیبت سہیڑ لی جس کا مجھے خوف تھا.یہ کہہ کر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک کھردری چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے.آپ کے جسم پر کر تہ نہ تھا اور آپ کے سینہ اور کمر پر چٹائی کے نشان بنے ہوئے تھے میں آپ کے پاس بیٹھ گیا اور کہا يَا رَسُولَ اللہ ! یہ قیصر و کسری کہاں مستحق ہیں اس بات کے کہ ان کو خدا تعالیٰ کی نعمتیں ملیں مگر وہ تو کس آرام سے زندگی بسر کر رہے ہیں اور خدا کے رسول کو یہ تکلیف ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.عمرا یہ درست نہیں اس قسم کی زندگیاں خدا کے رسولوں کی نہیں ہوتیں یہ دنیا دار بادشاہوں کا شغل ہے.پھر میں نے آپ کو سارا واقعہ سنایا جو میری بیوی اور بیٹی کے ساتھ گزرا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری باتیں سن کر ہنس پڑے اور فرمایا عمر! یہ بات درست نہیں کہ میں نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے.میں نے تو صرف ایک مصلحت کی خاطر کچھ دنوں کے لئے اپنے گھر سے باہر رہنے کا فیصلہ کیا ہے.عورتوں کے جذبات کا آپ کو اتنا خیال تھا کہ ایک دفعہ نماز میں آپ کو ایک بچہ کے رونے کی آواز آئی تو آپ نے نماز جلدی جلدی پڑھا کر ختم کر دی پھر فرمایا ایک بچہ کے رونے کی آواز آئی تھی میں نے کہا اس کی ماں کو کتنی تکلیف ہورہی ہوگی چنانچہ میں نے نماز جلدی ختم کر دی تا کہ ماں اپنے بچہ کی خبر گیری کر سکے.سے جب آپ ایسے سفر پر جاتے جس میں عورتیں بھی ساتھ ہوتیں تو ہمیشہ آہستگی سے چلنے کا حکم دیتے.ایک دفعہ ایسے ہی موقع پر جبکہ سپاہیوں نے اپنے گھوڑوں کی باگیں اور ا بخاری کتاب النکاح باب موعظة الرجل ابنته (الخ) بخاری کتاب الاذان باب من اخف الصلوة (الخ)
۲۹۷ نبیوں کا سردار اونٹوں کی تکیلیں اٹھا لیں آپ نے فرمایا.رِفقًا بِالْقَوَارِيرَ ارے کیا کرتے ہو؟ عورتیں بھی ساتھ ہیں اگر تم اس طرح اُونٹ دوڑاؤ گے تو شیشے چکنا چور ہو جائیں گے لے ایک دفعہ جنگ کے میدان میں کسی گڑ بڑ کی وجہ سے سواریاں بدک گئیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی گھوڑے سے گر گئے اور بعض مستورات بھی گر گئیں.ایک صحابی جن کا اونٹ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گرتے ہوئے دیکھ کر بے تاب ہو گئے اور کود کر یہ کہتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑے یا رَسُولَ اللہ ! میں مرجاؤں آپ بچے رہیں“.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں رکاب میں اُلجھے ہوئے تھے آپ نے جلدی جلدی اپنے آپ کو آزاد کیا اور اُس صحابی کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا ” مجھے چھوڑو اور عورتوں کی طرف جاؤ“ ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے اُس وقت سب مسلمانوں کو جمع کر کے جو وصیتیں کیں اُن میں ایک بات یہ بھی تھی کہ میں تم کو اپنی آخری وصیت یہ کرتا ہوں کہ عورتوں سے ہمیشہ حسنِ سلوک کرتے رہنا.آپ اکثر فرمایا کرتے تھے جس کے گھر میں لڑکیاں ہوں اور وہ اُن کو تعلیم دلائے اور اُن کی اچھی تربیت کرے خدا تعالیٰ قیامت کے دن اُس پر دوزخ کو حرام کر دے گا.سے عربوں میں رواج تھا کہ اگر عورتوں سے کوئی غلطی ہو جاتی تو انہیں مار پیٹ لیا کرتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا.عورتیں خدا کی لونڈیاں ہیں تمہاری لونڈیاں نہیں ان کو مت مارا کرو.مگر عورتوں کی چونکہ ابھی تک پوری تربیت بخاری کتاب الادب باب المعاريض مندوحة عن الكذب بخاری کتاب الجهاد و السير باب ما يقول اذار جع من الغزو سے ترمذی ابواب البر والصلة باب ماجاء في النفقة على البنات (الخ)
۲۹۸ نبیوں کا سردار نہیں ہوئی تھی اُنہوں نے دلیری میں آکر مردوں کا مقابلہ شروع کر دیا اور گھروں میں فساد ہونے لگے.آخر حضرت عمرؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ آپ نے ہمیں عورتوں کو مارنے سے روک دیا اور وہ بڑی بڑی دلیریاں کرتی ہیں.ایسی صورت میں تو ہمیں اجازت ملنی چاہئے کہ ہم انہیں مار پیٹ لیا کریں.چونکہ ابھی تک عورتوں کے متعلق تفصیل سے احکام نازل نہیں ہوئے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اگر کوئی عورت حد سے بڑھتی ہے تو تم اپنے رواج کے مطابق اُسے مار لیا کرو.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بجائے اس کے کہ کسی اشد استثنائی صورت میں مردا اپنی عورتوں کو سزا دیتے، انہوں نے وہی پرانا عربی طریق جاری کر لیا.عورتوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے پاس آکر شکایت کی تو آپ نے اپنے صحابہ سے فرمایا، جو لوگ اپنی عورتوں سے اچھا سلوک نہیں کرتے یا انہیں مارتے ہیں میں تمہیں بتا دیتا ہوں کہ وہ خدا کی نظر میں اچھے نہیں سمجھے جاتے لے اس کے بعد عورتوں کے حق قائم ہوئے اور عورت نے محمد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مہربانی سے پہلی دفعہ آزادی کا سانس لیا.معاویہ القشیری فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا.يَا رَسُولَ الله ! بیوی کا حق ہم پر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا جو خدا تمہیں کھانے کے لئے دے وہ اُسے کھلاؤ اور جو خدا تمہیں پہننے کے لئے دے وہ اُسے پہناؤ اور اُس کو تھپڑ نہ مارو اور گالیاں نہ دو اور اُسے گھر سے نہ نکالو سے 60 آپ کو عورتوں کے جذبات کا اس قدر احساس تھا کہ آپ ہمیشہ نصیحت فرماتے تھے کہ جو لوگ باہر سفر کے لئے جاتے ہیں انہیں جلدی گھر واپس آنا چاہئے تاکہ ان کے بال بچوں کو تکلیف نہ ہو.چنانچہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ جب کوئی شخص اپنی اُن ابو داؤد کتاب النکاح باب فى ضرب النساء ابو داؤد کتاب النکاح باب فى حق المرأة على زوجها
۲۹۹ نبیوں کا سردار ضرورتوں کو پورا کرلے جن کے لئے اسے سفر کرنا پڑا تھا تو اسے چاہئے اپنے رشتہ داروں کا خیال کر کے جلدی واپس آئے لے آپ کا اپنا طریق یہ تھا کہ جب سفر سے واپس آتے تھے تو دن کے وقت شہر میں داخل ہوتے تھے.اگر رات آجاتی تھی تو شہر کے باہر ہی ڈیرہ ڈال دیتے تھے اور صبح کے وقت شہر میں داخل ہوتے تھے اور ہمیشہ اپنے اصحاب کو منع فرماتے تھے کہ اس طرح اچانک گھر میں آکر اپنے اہل وعیال کو تنگ نہیں کرنا چاہئے.اس میں آپ کے مد نظر یہ حکمت تھی کہ عورت اور مرد کے تعلقات جذباتی ہوتے ہیں مرد کی غیر حاضری میں اگر عورت نے اپنے لباس اور جسم کی صفائی کا پورا خیال نہ رکھا ہو اور خاوند اچانک گھر میں آداخل ہو تو ڈر ہوتا ہے کہ وہ محبت کے جذبات جو مرد عورت کے درمیان ہوتے ہیں اُن کو ٹھیس نہ لگ جائے.پس آپ نے ہدایت فرما دی کہ انسان جب بھی سفر سے واپس آئے دن کے وقت گھر میں داخل ہو اور بیوی بچوں کو پہلے خبر دے کر داخل ہو تاکہ وہ اس کے استقبال کے لئے پوری طرح تیاری کر لیں.وفات یافتوں کے متعلق آپ کا عمل آپ ہمیشہ یہ بھی نصیحت فرماتے رہتے تھے کہ مرنے والے کو وصیت کر دینی چاہئے تا کہ اس کے رشتہ داروں کو بعد میں تکلیف نہ پہنچے.مرنے والوں کے متعلق آپ کی یہ بھی ہدایت تھی کہ جب کوئی شخص شہر میں مرجائے تو لوگوں کو اس کی برائیاں کبھی بیان نہیں کرنی چاہئیں بلکہ اُس کی خیر کی باتیں کرنی چاہئیں بخاری، مسلم کتاب الامارة باب السفر قطعة من العذاب ابوداؤد کتاب الجهاد باب في الطروق
۳۰۰ نبیوں کا سردار کیونکہ اس کی برائی بیان کرنے میں کوئی فائدہ نہیں لیکن اس کی نیکی بیان کرنے میں یہ فائدہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں اس کے لئے دعا کی تحریک پیدا ہوگی لے آپ اس بات کا خاص خیال رکھتے تھے کہ جو لوگ مر جائیں اُن کے قرض جلد سے جلد ادا کئے جاویں.چنانچہ جب کوئی شخص مرجاتا اور اُس پر قرض ہوتا تو آپ یا تو خود اُس کا قرض ادا کر دیتے ہے اور اگر آپ میں اس کی توفیق نہ ہوتی تو اس کے رشتہ داروں میں تحریک کرتے اور اس کا جنازہ اُس وقت تک نہیں پڑھتے تھے جب تک اُس کا قرض ادا نہ کر دیا جاتا.ہمسایوں سے حسن سلوک ہمسایوں کے ساتھ آپ کا سلوک نہایت ہی اچھا ہوتا تھا آپ فرمایا کرتے تھے جبریل مجھے بار بار ہمسایوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے یہاں تک کہ مجھے خیال آتا ہے کہ ہمسائے کو شاید وارث ہی قرار دیا جائے گا.سے حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اے ابوذر! جب کبھی شور با پکاؤ تو پانی زیادہ ڈال لیا کرو اور اپنے ہمسایوں کا بھی خیال رکھا کرو.کے یہ مطلب نہیں کہ دوسری چیزیں دینے کی ضرورت نہیں، بلکہ عرب بدوی تھے اور اُن کا بہترین کھانا شور با ہوتا تھا آپ نے ہمسایہ کی امداد کے خیال سے بخاری کتاب الجنائز باب ما ينهى من سب الاموات + ابو داؤد کتاب الادب باب في النهى عن سبّ الموتى کے بخاری کتاب الاستقراض باب الصلوة على من ترك ديناً بخاری کتاب الادب باب الوصاءة بالجار مسلم كتاب البر والصلة باب الوصية بالجار والاحسان اليه
نبیوں کا سردار اسی کھانے کی نسبت فرمایا کہ اپنے مزے کا خیال نہ کرو اس کا خیال کرو کہ تمہارا ہمسایہ تمہارے کھانے میں شریک ہو سکے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے فرمایا.خدا کی قسم ! وہ ہرگز مؤمن نہیں، خدا کی قسم ! وہ ہرگز مؤمن نہیں، خدا کی قسم ! وہ ہر گز مؤمن نہیں ، صحابہ نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! کون مؤمن نہیں؟ آپ نے فرمایا وہ جس کے ہمسایہ اُس کے ضرر اور اُس کی بدسلوکی سے محفوظ نہیں لے عورتوں کو بھی آپ نصیحت فرمایا کرتے کہ اپنی ہمسایوں کا خیال رکھا کرو.ایک دفعہ آپ عورتوں میں وعظ میں فرما رہے تھے کہ آپ نے فرما یا اگر بکری کا ایک پائی بھی کسی کو ملے تو اس میں وہ اپنے ہمسایہ کا حق رکھے.سے آپ ہمیشہ صحابہ کو نصیحت کرتے تھے کہ اگر تمہارا ہمسایہ تمہاری دیوار میں میخ وغیرہ گا ڑتا ہے یا تمہاری دیوار سے کوئی ایسا کام لیتا ہے جس میں تمہارا کوئی نقصان نہیں تو اُسے روکا نہ کرو.سے حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے، جو کوئی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے وہ اپنے ہمسائے کو ڈکھ نہ دے.جو کوئی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے وہ اپنے مہمان کو دکھ نہ دے اور جو کوئی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے وہ یا تو نیک بات کہے یا خاموش رہے.بخاری کتاب الادب باب اثم من لا يأمن جاره بوائقه بخاری کتاب الادب باب لا تحقرن جارة لجارتها سے بخاری کتاب المظالم باب لا يمنع جار جارة (الخ) بخاری کتاب الادب باب من كان يؤمن بالله واليوم الاخر
نبیوں کا سردار ماں باپ اور دوسرے رشتہ داروں سے حسن سلوک دنیا میں اکثر لوگ جب بالغ ہو جاتے ہیں اور بیوی بچوں کے فکر انہیں لگ جاتے ہیں تو ماں باپ سے حسنِ سلوک میں کمزوری دکھانے لگ جاتے ہیں.رسول کریم ﷺ اس نقص کو دور کرنے کیلئے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت کو بار بار واضح فرماتے رہتے تھے.چنانچہ حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اُس نے کہا یا رسُول اللہ! میرے حسن سلوک کا کون زیادہ مستحق ہے؟ آپ نے فرمایا.تیری ماں.اس نے کہا پھر؟ آپ نے فرمایا.پھر بھی تیری ماں.اُس نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! اس کے بعد؟ آپ نے فرمایا.اس کے بعد بھی تیری ماں.اُس نے چوتھی دفعہ کہا يَا رَسُولَ اللہ ! اس کے بعد؟ تو آپ نے فرمایا.پھر تیرا باپ.پھر جو اس کے بعد رشتہ دار ہوں پھر جوان کے بعد رشتہ دار ہوں؟ لے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بزرگ تو آپ کے بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے، بیویوں کے بزرگ موجود تھے اور آپ ہمیشہ اُن کا ادب کرتے تھے.جب فتح مکہ کے موقع پر آپ ایک فاتح جرنیل کے طور پر مکہ میں داخل ہوئے تو حضرت ابوبکر اپنے باپ کو آپ کی ملاقات کے لئے لائے.اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر سے کہا.آپ نے ان کو کیوں تکلیف دی میں خود ان کے پاس حاضر ہوتا.آپ ہمیشہ اپنے صحابہ سے فرمایا کرتے تھے کہ جوشخص اپنے بوڑھے ماں باپ کا زمانہ پائے اور پھر بھی جنت کا مستحق نہ ہو سکے، تو وہ بڑا ہی بد بخت ہے.سے مطلب یہ کہ بخاری کتاب الادب باب من أحق الناس بحسن الصحبة سیرت ابن هشام جلد ۴ صفحه ۴۸ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ے مسلم کتاب البر والصلة باب رغم من ادرك ابويه (الخ)
۳۰۳ نبیوں کا سردار بوڑھے ماں باپ کی خدمت انسان کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا اتنا وارث بنا دیتی ہے کہ جس کو اپنے بوڑھے ماں باپ کی خدمت کا موقع مل جائے وہ ضرور نیکی میں مستحکم اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا مستحق ہو جاتا ہے.ایک شخص نے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ يَا رَسُولَ اللہ ! میرے رشتہ دار ایسے ہیں کہ میں اُن سے نیک سلوک کرتا ہوں اور وہ مجھ سے بدسلوکی کرتے ہیں.میں ان سے احسان کرتا ہوں اور وہ مجھ پر ظلم کرتے ہیں.میں اُن کے ساتھ محبت سے پیش آتا ہوں اور وہ مجھ سے ترش روئی سے پیش آتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ بات ہے تو پھر تو تمہاری خوش قسمتی ہے کیونکہ خدا کی مدد تمہیں ہمیشہ حاصل رہے گی اے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ و خیرات کی نصیحت فرمارہے تھے تو آپ کے ایک صحابی ابوطلحہ انصاری آئے اور اُنہوں نے اپنا ایک باغ صدقہ کے طور پر وقف کر دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بہت خوش ہوئے اور فرمایا بہت عمدہ صدقہ ہے بہت اچھا صدقہ ہے.بہت اچھا صدقہ ہے.پھر فرمایا.لواب تو تم اسے وقف کر چکے.اب میرا دل چاہتا ہے کہ تم اس کو اپنے رشتہ داروں میں بانٹ دو.ایک دفعہ ایک شخص آپ کے پاس آیا اور اُس نے کہا.يَا رَسُول اللہ! میں آپ سے ہجرت کی بیعت کرتا ہوں اور آپ سے خدا کے رستہ میں جہاد کرنے کی بیعت کرتا ہوں.کیونکہ میں چاہتا ہوں میرا خدا مجھ سے خوش ہو جائے.آپ نے فرمایا کیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہے؟ اُس نے کہا دونوں زندہ ہیں.آپ نے فرمایا کیا تم چاہتے مسلم كتاب البر والصلة باب صلة الرحم و تحريم قطيعتها بخاری کتاب التفسير بأب لن تنالوا البر (الخ)
۳۰۴ نبیوں کا سردار ہو کہ خدا تم سے راضی ہو جائے.اس نے کہا ہاں یا رسُول الله ! آپ نے فرمایا پھر بہتر یہ ہے کہ واپس جاؤ اور اپنے والدین کی خدمت کرو اور خوب خدمت کر ویلے آپ ہمیشہ اس بات کی نصیحت کیا کرتے تھے کہ حسن سلوک میں مذہب کی کوئی شرط نہیں.غریب رشتہ دار خواہ کسی مذہب کے ہوں اُن سے حسن سلوک کرنا نیکی ہے.حضرت ابوبکر کی ایک بیوی مشرکہ تھیں.حضرت ابوبکر کی بیٹی اسماء نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ يَا رَسُولَ اللہ کیا میں اُس سے حسن سلوک کر سکتی ہوں؟ آپ نے فرما یا ضرور وہ تیری ماں ہے تو اُس سے حسن سلوک کر ہے رشتہ دار تو الگ رہے آپ اپنے رشتہ داروں کے رشتہ داروں اور اُن کے دوستوں تک کا بھی بہت خیال رکھتے تھے.جب کبھی آپ قربانی کرتے تو آپ حضرت خدیجہ کی سہیلیوں کی طرف ضرور گوشت بھجواتے اور ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ خدیجہ کی سہیلیوں کو نہ بھولنا اُن کی طرف گوشت ضرور بھیجوانا.سے ایک دفعہ حضرت خدیجہ کی وفات کے کئی سال بعد آپ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت خدیجہ کی بہن ہالہ آپ سے ملنے آئیں اور دروازہ پر کھڑے ہو کر کہا ” کیا میں اندرآ سکتی ہوں؟ ہالہ کی آواز میں اُس وقت اپنی مرحومہ بہن حضرت خدیجہ سے بے انتہاء مشابہت پیدا ہوگئی.اس آواز کے کان میں پڑتے ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر کپکپی آگئی پھر آپ سنبھل گئے اور فر ما یا آہ میرے خدا! یہ تو خدیجہ کی بہن ہالہ ہیں کے در حقیقت سچی محبت کا بخاری کتاب الادب باب لا يجاهد الا باذن الابوين ے بخاری کتاب الادب باب صلة الوالد المشرك مسلم کتاب فضائل الصحابة باب من فضائل خديجه بخاری کتاب المناقب الانصار باب تزويج النبی ﷺ خديجة (الخ)
۳۰۵ نبیوں کا سردار اصول ہی یہی ہے کہ جس سے پیار ہو اور جس کا ادب ہو اُس کے قریبیوں اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والوں سے بھی محبت اور پیار پیدا ہو جاتا ہے.انس بن مالک کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ سفر پر تھا جریر بن عبد اللہ ایک دوسرے صحابی بھی اس سفر میں ساتھ تھے وہ سفر میں نوکروں کی طرح میرے کام کیا کرتے تھے.جریر بڑے تھے اور ان کا ادب حضرت انس اپنے لئے ضروری سمجھتے تھے اس لئے وہ کہتے ہیں کہ میں انہیں منع کرتا تھا کہ ایسا نہ کریں.میرے ایسا کہنے پر جریر جواب میں کہتے تھے میں نے انصار کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے انتہاء خدمت کرتے ہوئے دیکھا ہے.میں نے اُن کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ محبت دیکھ کر اپنے دل سے عہد کیا تھا کہ جب کبھی مجھے کسی انصاری کے ساتھ سفر کرنے کا موقع ملے گا یا اس کے ساتھ رہنے کا موقع ملے گا تو میں اُس کی خدمت کروں گا اس لئے آپ مجھے نہ روکیں میں اپنی قسم پوری کر رہا ہوں لے اس واقعہ سے بالوضاحت یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اپنے محبوب کی خدمت کرنے والا بھی انسان کا محبوب ہو جاتا ہے پس جن لوگوں کے دلوں میں اپنے ماں باپ کا سچا ادب اور احترام ہوتا ہے وہ اپنے ماں باپ کے علاوہ اُن کے رشتہ داروں اور دوستوں کا بھی ادب کرتے ہیں.ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں اقارب کی خدمت کا ذکر تھا تو آپ نے فرمایا بہترین نیکی یہ ہے کہ انسان اپنے باپ کی دوستیوں کا بھی خیال رکھے.یہ بات آپ نے حضرت عبد اللہ بن عمر سے کہی تھی اور اس پر انہوں نے ایسا عمل کیا کہ ایک دفعہ وہ حج کے لئے جارہے تھے کہ رستہ میں ایک شخص اُن کو نظر آیا.آپ نے اپنی سواری کا گدھا اُس کو دے دیا اور اپنے سر کا خوبصورت عمامہ بھی اُس کو عطا کر دیا.اُن کے ساتھیوں نے انہیں کہا کہ آپ نے یہ کیا کام کیا ہے؟ یہ تو اعرابی لوگ ہیں بہت تھوڑی سی چیز ان کو دے مسلم کتاب فضائل الصحابة باب فی حسن صحبة الانصار (الخ)
۳۰۶ نبیوں کا سردار دی جائے تو خوش ہو جاتے ہیں.عبد اللہ بن عمر نے کہا.اس شخص کا باپ حضرت عمر کا دوست تھا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے نیکی کا اعلیٰ درجے کا مظاہرہ یہ ہے کہ انسان اپنے باپ کے دوستوں کا بھی خیال رکھے لے نیک صحبت آپ ہمیشہ اپنے اردگرد نیک لوگوں کے رہنے کو پسند کرتے تھے اور اگر کسی میں کمزوری ہوتی تھی تو اُسے عمدگی کے ساتھ اور پردہ پوشی کے ساتھ نصیحت فرماتے تھے.حضرت ابو موسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے ، نیک دوست اور نیک مجلسی اور بد دوست اور بدمجلسی کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک شخص مشک لئے پھر رہا ہو، مشک اُٹھانے والا اُس کو کھائے گا تب بھی فائدہ اُٹھائے گا اور رکھ چھوڑے گا تب بھی خوشبو حاصل کرے گا.اور جس کے ہم مجلس بد ہوں اُن کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی بھٹی کی آگ میں پھونکیں مارتا ہے.وہ اتنی ہی اُمید رکھ سکتا ہے کہ کوئی چنگاری اُڑ کر اُس کے کپڑوں کو جلا دے یا کوئلوں کی بد بو سے اُس کا دماغ خراب ہو جائے.آپ اپنے صحابہ کو بار بار فرمایا کرتے تھے کہ انسان کے اخلاق ویسے ہی ہو جاتے ہیں جیسی مجلس میں وہ بیٹھتا ہے اس لئے نیک صحبت اختیار کیا کرو.لوگوں کے ایمان کی حفاظت کا خیال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کا بہت خیال رکھتے تھے کہ کسی شخص کو ٹھوکر نہ مسلم کتاب البر والصلة والادب باب فضل صلة اصدقاء الاب (الخ) مسلم کتاب البر والصلة باب استحباب مجالسة الصالحين (الخ)
۳۰۷ نبیوں کا سردار لگے.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے کہ آپ کی ایک بیوی صفیہ بنت حیی آپ سے ملنے آئیں.باتیں کرتے کرتے دیر ہو گئی تو آپ نے مناسب سمجھا کہ اُن کو گھر تک پہنچا آئیں.جب آپ اُن کو گھر چھوڑنے کے لئے جارہے تھے تو راستہ میں دو شخص ملے، جن کے متعلق آپ کو شبہ تھا کہ شاید ان کے دل میں کوئی وسوسہ پیدا نہ ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کسی عورت کے ساتھ رات کے وقت کہاں جا رہے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو ٹھہرالیا اور فرمایا.دیکھو! یہ میری بیوی صفیہ ہیں.انہوں نے کہا يَا رَسُولَ الله! ہمیں آپ پر بدلنی کا خیال پیدا ہی کس طرح ہو سکتا ہے.آپ نے فرمایا.شیطان انسان کے خون میں پھرتا ہے میں ڈرا کہ تمہارے ایمان کو ضعف نہ پہنچ جائے لے دوسروں کے عیوب چھپانا آپ کی نظر میں اگر کسی کا عیب آجاتا تو آپ اُسے چھپاتے تھے اور اگر کوئی اپنا عیب ظاہر کرتا تھا تو اُس کو بھی عیب ظاہر کرنے سے منع فرماتے تھے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ جو بندہ کسی دوسرے بندے کا گناہ دنیا میں چھپاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ قیامت کے دن چھپائے گا.سے آپ یہ بھی فرماتے تھے کہ میری اُمت میں سے ہر شخص کا گناہ مٹ سکتا ہے ( یعنی تو بہ سے) مگر جو اپنے گناہوں کا آپ اظہار کرتے پھریں اُن کا کوئی علاج نہیں.پھر فرماتے کہ آپ اظہار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص رات کے وقت گناہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اُس پر پردہ ڈال دیتا ہے مگر صبح کے وقت وہ اپنے دوستوں سے ملتا ہے تو کہتا ہے کہ بخاری کتاب الاعتكاف باب هل يخرج المعتكف لحوائجه مسلم کتاب البر والصلة باب بشارة من سر الله تعالى عليه في الدنيا بان يستر عليه في الآخرة
۳۰۸ نبیوں کا سردار اے فلانے ! میں نے رات کو یہ کام کیا تھا، اسے فلانے! میں نے رات کو یہ کام کیا تھا.رات کو خدا اُس کے گناہ پر پردہ ڈال رہا تھا صبح یہ اپنے گناہ کو آپ نگا کرتا ہے.لے بعض لوگ نادانی سے یہ سمجھتے ہیں کہ گناہ کا اظہار تو بہ پیدا کرتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ گناہ کا اظہار تو بہ پیدا نہیں کرتا، گناہ کا اظہار بے حیائی پیدا کرتا ہے.گناہ بہر حال بُرا ہے مگر جو لوگ گناہ کرتے ہیں اور اُن کے دل میں شرم اور ندامت محسوس ہوتی ہے اُن کے لئے تو بہ کا راستہ کھلا رہتا ہے اور تقویٰ اُن کے پیچھے پیچھے چلا آ رہا ہوتا ہے.کوئی نہ کوئی نیک موقع ایسا آجاتا ہے کہ تقویٰ غالب آجاتا ہے اور گناہ بھاگ جاتا ہے.مگر جولوگ اپنے گناہوں کو پھیلاتے اور ان پر فخر کرتے ہیں ان کے دل سے احساس گناہ بھی مٹ جاتا ہے اور جب احساس گناہ بھی مٹ جائے تو پھر تو بہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور اُس نے کہا.يَا رَسُولَ اللہ ! میں نے زنا کیا ہے.زنا اسلام میں تعزیری جرائم میں سے ہے یعنی اسلامی شریعت جہاں جاری ہو وہاں ایسے شخص کو جس کا زنا اسلامی اصول کے مطابق ثابت ہو جائے جسمانی سزا دی جاتی ہے.جب اُس نے کہا.يَا رَسُولَ اللہ ! میں نے زنا کیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی طرف سے منہ پھیر لیا اور دوسری طرف باتوں میں مشغول ہو گئے.در حقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُس کو یہ بتا رہے تھے کہ جس گناہ پر خدا نے پردہ ڈال دیا ہے اس کا علاج تو بہ ہے اس کا علاج اعلان نہیں.مگر وہ اس بات کو نہ سمجھا اور یہ خیال کیا کہ شاید رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری بات کو سنا نہیں اور جس طرف آپ کا منہ تھا اُدھر کھڑا ہو گیا اور پھر اُس نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! میں نے زنا کیا ہے.پھر آپ نے دوسری طرف منہ کر لیا.پھر بھی وہ نہ سمجھا اور دوسری طرف آکر اُس نے پھر بخاری کتاب الادب باب ستر المو من على نفسه
۳۰۹ نبیوں کا سردار اپنی بات دُہرائی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اُس کی طرف توجہ نہ کی اور دوسری طرف منہ پھیر لیا.پھر وہ شخص اُس طرف آکھڑا ہوا جس طرف آپ کا منہ تھا اور پھر اُس نے چوتھی دفعہ وہی بات کہی.تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تو چاہتا تھا کہ یہ اپنے گناہ کی آپ تشہیر نہ کرے جب تک خدا اس کی گرفت کا فیصلہ نہیں کرتا مگر اس نے چار دفعہ اپنے نفس پر خود ہی گواہی دی ہے اس لئے اب میں مجبور ہوں لے پھر فرمایا اس شخص نے اپنے آپ پر الزام لگایا ہے.اُس عورت نے الزام نہیں لگایا جس کے متعلق یہ زنا کا دعویٰ کرتا ہے اُس عورت سے پوچھو.اگر وہ انکار کرے تو اُسے کچھ مت کہو اور صرف اس کو اس کے اپنے اقرار کے مطابق سزا دو.لیکن اگر وہ عورت بھی اقرار کرے تو پھر اُسے بھی سزا دو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا کہ جن امور کے متعلق قرآنی تعلیم نازل نہ ہو چکی ہوتی تھی اُن میں آپ تو رات کی تعلیم پر عمل کر لیتے تھے.تورات کے حکم کے مطابق زانی کے لئے سنگساری کا حکم ہے.چنانچہ آپ نے بھی اُس شخص کے سنگسار کئے جانے کا حکم دیا.جب لوگ اُس پر پتھر پھینکنے لگے تو اُس نے بھاگنا چاہا، لیکن لوگوں نے دوڑ کر اُس کا تعاقب کیا اور تورات کی تعلیم کے مطابق اُسے قتل کر دیا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ نے اس کو نا پسند فرمایا.آپ نے فرمایا اُس کو سزا اُس کے اقرار کے مطابق دی گئی.جب وہ بھاگا تھا تو اُس نے اپنا اقرار واپس لے لیا تھا اس لئے تمہارا کوئی حق نہ تھا کہ اُس کے بعد اُس کو سنگسار کرتے اُس کو چھوڑ دینا چاہیے تھا.کے آپ ہمیشہ حکم دیتے تھے کہ شریعت کا نفاذ ظاہر پر ہونا چاہئے.ایک دفعہ ایک جنگ پر کچھ صحابہ گئے ہوئے تھے راستہ میں ایک مشرک اُنہیں ایسا ملا جو ادھر اُدھر جنگل میں چھپا پھرتا تھا اور جب کبھی اُسے کوئی اکیلا مسلمان مل جاتا تو اُس پر حملہ کر کے وہ اُسے مار ، ترمذی ابواب الحدود باب ماجاء في درء الحد عن المعترف (الخ)
۳۱۰ نبیوں کا سردار ڈالتا.اُسامہ بن زید نے اس کا تعاقب کیا اور ایک موقع پر جا کر اُسے پکڑ لیا اور اسے مارنے کے لئے تلوار اُٹھائی.جب اُس نے دیکھا کہ اب میں قابو آ گیا ہوں تو اُس نے کہا لا إله إلا اللہ جس سے اُس کا مطلب یہ تھا کہ میں مسلمان ہوتا ہوں مگر اُسامہ نے اُس کے اس قول کی پرواہ نہ کی اور اُسے مار ڈالا.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لڑائی کی خبر دینے کے لئے ایک شخص مدینہ پہنچا تو اس نے لڑائی کے سب احوال بیان کرتے کرتے یہ واقعہ بھی بیان کیا.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ کو بلوایا اور اُن سے پوچھا کہ کیا تم نے اُس آدمی کو مار دیا تھا ؟ اُنہوں نے کہا ہاں.آپ نے فرمایا قیامت کے دن کیا کرو گے جب لا اله الا اللہ تمہارے خلاف گواہی دے گا.یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ سوال کیا جائے گا کہ جب اُس شخص نے لا إلهَ إِلَّا اللہ کہا تھا تو پھر تم نے کیوں مارا؟ گو وہ قاتل تھا مگر تو بہ کر چکا تھا.حضرت اسامہ نے کئی دفعہ جواب میں کہا کہ يَارَسُول الله! وہ تو ڈر کے مارے ایمان ظاہر کر رہا تھا.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے اُس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے؟ اور پھر بار بار یہی کہتے چلے گئے کہ تم قیامت کے دن کیا جواب دو گے جب اُس کا لا إِلهَ إِلَّا اللهُ تمہارے سامنے پیش کیا جائے گا.اُسامہ کہتے ہیں اُس وقت میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ کاش! میں آج ہی اسلام لایا ہوتا اور یہ حرکت مجھ سے سرزد نہ ہوئی ہوتی ہے گناہوں کی معافی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا احساس تھا کہ جب کچھ لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہ پر اتہام لگایا اور ان اتہام لگانے والوں میں ایک ایسا شخص بھی تھا جس کو حضرت ابوبکر پال رہے تھے.جب یہ الزام جھوٹا ثابت ہوا تو حضرت ابوبکر نے غصہ میں اُس شخص کی پرورش بند کر دی جس شخص نے آپ کی مسلم کتاب الایمان باب تحریم قتل الكافر (الخ)
٣١١ نبیوں کا سردار میٹی پر الزام لگایا تھا تو دنیا کا کونسا شخص اس کے سوا کوئی اور فیصلہ کرسکتا تھا بہت سے لوگ تو ایسے آدمی کو قتل کر دیتے ہیں مگر حضرت ابو بکر نے صرف اتنا کیا کہ اس شخص کی آئندہ پر ورش بند کر دی.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے حضرت ابوبکر کو سمجھایا اور فرمایا کہ اس شخص سے غلطی ہوئی اور اس نے گناہ کیا مگر آپ کی شان اس سے بالا ہے کہ ایک بندے کے گناہ کی وجہ سے اُس کو اس کے رزق سے محروم کر دیں.چنانچہ حضرت ابوبکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے ماتحت پھر اُس کی پرورش کرنے لگے لے مبر آپ فرما یا کرتے تھے کہ مؤمن کے لئے تو دنیا میں بھلائی ہی بھلائی ہے اور سوائے مؤمن کے یہ مقام اور کسی کو حاصل نہیں ہوتا.اگر اسے کوئی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو وہ خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے انعام کا مستحق ہو جاتا ہے اور اگر اُسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور اس طرح بھی خدا تعالیٰ کے انعام کا مستحق ہو جاتا ہے.جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا اور آپ بیماری کی تکلیف کی وجہ سے آپ کراہ رہے تھے تو آپ کی بیٹی فاطمہ نے ایک دفعہ بیتاب ہو کر کہا.آہ! مجھ سے اپنے باپ کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا صبر کرو آج کے بعد تمہارے باپ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی.سے یعنی میری تکالیف اس دنیا کی زندگی تک محدود ہیں.آج میں اپنے رب کے پاس چلا جاؤں گا جس کے بعد میرے لئے تکلیف کی بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورة النور باب ان الذين يحبون ان تشيع الفاحشة (الخ) مسلم کتاب الزهد باب المو من امره کله خیر سے بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی ﷺ و وفاته
۳۱۲ نبیوں کا سردار کوئی گھڑی نہیں آئے گی.اسی سلسلہ میں یہ واقعہ بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ آپ ہمیشہ وبائی بیماریوں میں ایک شہر سے دوسرے شہر کو بھاگ جانا نا پسند فرماتے تھے کیونکہ اس طرح ایک علاقہ کی بیماری دوسرے علاقہ میں پھیل جاتی ہے.آپ فرما یا کرتے تھے کہ اگر ایسی بیماری کے علاقہ میں کوئی شخص صبر سے بیٹھا رہے اور دوسرے علاقوں میں وبا پھیلانے کا موجب نہ بنے تو اگر اُسے موت آئے گی تو وہ شہید ہوگا.تعاون با همی آپ ہمیشہ اپنے صحابہؓ کو اس بات کی نصیحت فرماتے تھے کہ آپس میں تعاون کے ساتھ کام کیا کرو.چنانچہ اپنی جماعت کے لوگوں کے لئے آپ نے یہ اُصول مقرر کر دیا تھا کہ اگر کسی شخص سے کوئی ایسا جرم سرزد ہو جائے جس کے بدلہ میں اُسے کوئی رقم ادا کرنی پڑے اور وہ اُس کی طاقت سے باہر ہو تو اُس کے محلہ والے یا شہر والے یا قوم والے مل کر اُس کا بدلہ ادا کریں.بعض لوگ جو دین کی خدمت کے لئے آپ کے پاس آیا جایا کرتے تھے ، آپ اُن کے رشتہ داروں کو نصیحت کرتے تھے کہ اُن کا بوجھ برداشت کریں اور اُن کی ضروریات کا خیال رکھیں.حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دو بھائی مسلمان ہوئے ایک بھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہنے لگا اور دوسرا اپنے کام کاج میں مشغول رہا.کام کرنے والے بھائی نے ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے بھائی کی شکایت کی کہ یہ نکما بیٹھارہتا ہے اور کوئی کام نہیں کرتا.بخاری کتاب الطب باب اجر الصابر في الطاعون
۳۱۳ نبیوں کا سردار آپ نے فرمایا ایسا مت کہو.خدا تعالیٰ اسی کے ذریعہ سے تمہیں رزق دیتا ہے اس لئے اس کی خدمت کرو اور اس کو دین کے لئے آزاد چھوڑ دولے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر پر جارہے تھے کہ رستہ میں ایک منزل پر پہنچ کر ڈیرے لگائے گئے اور صحابہ میدان میں پھیل گئے تا کہ خیمے لگائیں اور دوسرے کام جو کیمپ لگانے کے لئے ضروری ہوتے ہیں بجالائیں.انہوں نے سب کام آپس میں تقسیم کر لئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ کوئی کام نہ لگا یا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے میرے ذمہ کوئی کام نہیں لگایا میں لکڑیاں چنوں گا تا کہ اُن سے کھانا پکایا جا سکے.صحابہ نے کہا ، يَارَسُول اللہ ! ہم جو کام کرنے والے موجود ہیں آپ کو کیا ضرورت ہے.آپ نے فرمایا نہیں! نہیں ! میرا ابھی فرض ہے کہ کام میں حصہ لوں.چنانچہ آپ نے جنگل سے لکڑیاں جمع کیں تا کہ صحابہ ان سے کھانا پکا سکیں.کے چشم پوشی آپ ہمیشہ اس بات کی نصیحت کرتے رہتے تھے کہ خواہ مخواہ دوسروں کے کاموں پر اعتراض نہ کیا کرو اور ایسے معاملات میں دخل نہ دیا کرو جو تمہارے ساتھ تعلق نہیں رکھتے کیونکہ اس طرح فتنہ پیدا ہوتا ہے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ انسان کے اسلام کا بہترین نمونہ یہ ہے کہ جس معاملہ کا اُس سے براہ راست کوئی تعلق نہ ہو اُس میں خواہ مخواہ دخل اندازی نہ کیا کرے.آپ کا یہ خلق ایسا ہے کہ جس کی نگہداشت کر کے دنیا میں امن قائم کیا جاسکتا ہے.ہزاروں ہزار خرابیاں دنیا میں اس وجہ سے پیدا ہوتی ہیں کہ لوگ مصیبت زدہ کی مدد کرنے کیلئے تو تیار نہیں ترمذی کتاب الزهد باب في التوكل على الله زرقانی جلد ۴ صفحه ۲۶۵
۳۱۴ ہوتے مگر خواہ مخواہ لوگوں کے معاملات پر اعتراض کرنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں.چ نبیوں کا سردار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی مقام تو سچ کے متعلق اتنا بالا تھا کہ آپ کی قوم نے آپ کا نام ہی صدیق رکھ دیا تھا.آپ اپنی جماعت کو بھی سچ پر قائم رہنے کی ہمیشہ نصیحت فرماتے تھے اور ایسے اعلیٰ درجہ کے سچ کے مقام پر کھڑا کرنے کی کوشش فرماتے تھے جو ہر قسم کے جھوٹ کے شائیوں سے پاک ہو.آپ فرما یا کرتے تھے کہ سچ ہی نیکی کی طرف توجہ دلاتا ہے اور نیکی ہی انسان کو جنت دلاتی ہے اور سچ کا اصل مقام یہ ہے کہ انسان سچ بولتا چلا جائے یہاں تک کہ خدا کے حضور بھی وہ سچا سمجھا جائے.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص قید ہو کر آیا جو بہت سے ہے مسلمانوں کے قتل کا موجب ہو چکا تھا.حضرت عمر سمجھتے تھے کہ یہ شخص واجب القتل.اور وہ بار بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ کی طرف دیکھتے تھے کہ اگر آپ اشارہ کریں تو اُسے قتل کر دیں.جب وہ شخص اُٹھ کر چلا گیا تو حضرت عمرؓ نے کہا.يَا رَسُولَ اللہ ! یہ شخص تو واجب القتل تھا.آپ نے فرمایا.واجب القتل تھا تو تم نے اُسے قتل کیوں نہ کیا.انہوں نے کہا يَا رَسُول اللہ ! آپ اگر آنکھ سے اشارہ کر دیتے تو میں ایسا کر دیتا.آپ نے فرمایا نبی دھو کے باز نہیں ہوتا.یہ کس طرح ہوسکتا تھا کہ میں منہ سے تو اُس سے پیار کی باتیں کر رہا ہوتا اور آنکھ سے اُسے قتل کرنے کا اشارہ کرتا.سے بخاری کتاب التفسير - تفسیر سورۃ الشعراء باب قوله و انذر عشيرتك الاقربين بخاری کتاب الادب باب قول الله يأيها الذين امنوا اتقوا الله وكونوا مع الصادقين ے سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۲۱۷
۳۱۵ نبیوں کا سردار ایک دفعہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا یا رَسُولَ اللہ ! مجھ میں تین عیب ہیں.جھوٹ ، شراب خوری اور زنا.میں نے بہت کوشش کی ہے کہ یہ عیب کسی طرح مجھ سے دور ہو جائیں مگر میں اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکا.آپ کوئی علاج بتا ئیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ایک گناہ چھوڑ نے کا تم مجھے سے وعدہ کرو.دو میں چھڑا دوں گا.اُس نے کہا میں وعدہ کرتا ہوں فرمائیے کون سا گناہ چھوڑ دوں؟ آپ نے فرمایا جھوٹ چھوڑ دو.کچھ دنوں کے بعد وہ آیا اور اُس نے کہا آپ کی ہدایت پر میں نے عمل کیا اور میرے سارے ہی گناہ چھٹ گئے ہیں.آپ نے فرمایا بتاؤ کیا گزری؟ اُس نے کہا میرے دل میں ایک دن شراب کا خیال آیا میں شراب پینے کے لیے اُٹھا تو مجھے خیال آیا کہ اگر میرے دوست مجھ سے پوچھیں گے کہ کیا تم نے شراب پی ہے تو پہلے میں جھوٹ بول دیا کرتا تھا اور کہہ دیا کرتا تھا کہ نہیں پی.مگر اب میں نے سچ بولنے کا اقرار کیا ہے اگر میں نے کہا کہ شراب پی ہے تو میرے دوست مجھ سے چھٹ جائیں گے اور اگر کہوں گا کہ نہیں پی تو جھوٹ کا ارتکاب کروں گا جس سے بچنے کا میں نے اقرار کیا ہے.چنانچہ میں نے دل میں کہا کہ اس وقت نہیں پیٹتے پھر پیں گے.اسی طرح میرے دل میں زنا کا خیال پیدا ہوا اور اس کے متعلق بھی میری اپنے دل سے یہی باتیں ہوئیں کہ اگر میرے دوست مجھ سے پوچھیں گے تو میں کیا کہوں گا.اگر یہ کہوں گا کہ میں نے زنا کیا ہے تو میرے دوست مجھ سے چُھٹ جائیں گے اور اگر یہ کہوں گا کہ نہیں کیا تو جھوٹ بولوں گا.اور جھوٹ سے بچنے کا میں اقرار کر چکا ہوں.اسی طرح میرے اور میرے دل کے درمیان کئی دن تک یہ بحث و مباحثہ جاری رہا.آخر کچھ مدت تک ان دونوں عیبوں سے بچنے کی وجہ سے میرے دل سے ان کی رغبت بھی مٹ گئی اور سچ کے قبول کرنے کی وجہ سے باقی عیبوں سے بھی محفوظ ہو گیا.
۳۱۶ نبیوں کا سردار تجسس کی ممانعت اور نیک ظنی کا حکم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تجسس سے منع فرماتے تھے اور ایک دوسرے پر نیک ظنی کا حکم دیتے رہتے تھے.حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں آپ فرمایا کرتے تھے بدظنی سے بچو کیونکہ بدظنی سب سے بڑا جھوٹ ہے اور تجسس نہ کرو اور لوگوں کے حقارت سے اور نام نہ رکھا کرو اور حسد نہ کیا کرو اور آپس میں بغض نہ رکھا کرو اور سب کے سب اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے بندے سمجھو اور اپنے آپ کو بھائی بھائی سمجھو جس طرح خدا تعالیٰ کا حکم ہے.پھر فرماتے یا درکھو کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ مصیبت کے وقت اُس کا ساتھ چھوڑتا ہے نہ مال یا علم یا کسی اور چیز کی کمی کی وجہ سے اُس کو حقیر سمجھتا ہے.تقویٰ انسان کے دل سے پیدا ہوتا ہے اور انسان کو گندہ کر دینے کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ اپنے بھائی کو حقیر سمجھے.اور ہر مسلمان پر اس کے دوسرے مسلمان بھائی کے خون اور اس کی عزت اور اس کے مال پر حملہ کرنا حرام ہے اللہ تعالیٰ جسموں کو نہیں دیکھا کرتا نہ صورتوں کو دیکھتا ہے نہ تمہارے اعمال کی ظاہری حالت کو دیکھتا ہے بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے.سے سودا سلف کے متعلق دھوکا بازی اور فریب سے نفرت آپ اس بات کا خاص خیال رکھتے تھے کہ مسلمانوں میں دھوکا اور فریب کی کوئی بات نہ پائی جائے.ایک دفعہ آپ بازار میں سے گذر رہے تھے کہ آپ نے غلہ کا ایک بخاری کتاب الادب - باب يايها الذين امنوا اجتنبوا كثير امن الظن مسلم کتاب البر والصلة باب تحریم ظلم المسلم و خذلہ(الخ)
۳۱۷ نبیوں کا سردار ڈھیر دیکھا جو نیلام ہورہا تھا.آپ نے اپنا ہاتھ غلہ کے ڈھیر میں ڈالا تو معلوم ہوا کہ باہر کی طرف سے تو غلہ سُوکھا ہوا ہے مگر اندر کی طرف سے گیلا ہے.آپ نے اپنا ہاتھ نکال کر غلہ والے سے کہا کہ یہ کیا بات ہے.اس نے کہا.يَارَسُولَ اللہ ! بارش کا چھینٹا آ گیا تھا جس سے غلہ گیلا ہو گیا.آپ نے فرمایا ٹھیک ہے مگر تم نے گیلا حصہ باہر کیوں نہ رکھا تا کہ لوگوں کو معلوم ہوجاتا.پھر فرما یا جوشخص دوسرے لوگوں کو دھوکا دیتا ہے وہ جماعت کا مفید وجود نہیں ہو سکتا ہے آپ بڑی تاکید سے فرماتے تھے کہ تجارت میں بالکل دھوکا نہیں ہونا چاہئے اور بغیر دیکھے کے کوئی چیز نہیں لینی چاہئے اور سودے پر سودا نہیں کرنا چاہئے اور سامان کو اس لئے روک نہیں رکھنا چاہئے کہ جب اس کی قیمت بڑھ جائے گی تو اس کو فروخت کریں گے.بلکہ حاجتمندوں کو ساتھ کے ساتھ چیزیں دیتے رہنا چاہئے.مایوسی آپ مایوسی کی روح کے سخت خلاف تھے.فرماتے تھے جوشخص قوم میں مایوسی کی باتیں کرتا ہے وہ قوم کی ہلاکت کا ذمہ دار ہوتا ہے لے کیونکہ بعض ایسی باتوں کے پھیلنے سے قوم کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے اور پستی کی طرف مائل ہونا شروع ہو جاتی ہے جس طرح فخر اور کبر سے آپ رو کتے تھے کہ یہ چیزیں بھی در حقیقت قوم کو پستی کی طرف لے جاتی ہیں آپ کا حکم تھا کہ ان دونوں کے درمیان راستہ ہونا چاہئے.نہ انسان فخر اور کبر کا راستہ اختیار کرے اور نہ مایوسی اور نا امیدی کا راستہ اختیار کرے بلکہ کام کرے مگر نتیجہ کی امید خدا تعالیٰ پر ہی رکھے.ترمذی ابواب البيوع باب ما جاء في كراهية الغش في البيوع ے مسلم كتاب البر و الصلة باب النهي عن قول هلك الناس
۳۱۸ نبیوں کا سردار اپنی جماعت کی ترقی کی خواہش اس کے دل میں ہومگر فخر اور کبر پیدا نہ ہو.جانوروں سے حسن سلوک آپ جانوروں تک پر ظلم کو سخت نا پسند فرماتے تھے.آپ فرمایا کرتے تھے بنی اسرائیل میں ایک عورت کو اس لئے عذاب ملا کہ اس نے اپنی بلی کو بھوکا ماردیا تھا.اسی طرح فرماتے تھے پہلی امتوں میں سے ایک شخص اس لئے بخشا گیا کہ اُس نے ایک پیاسا کتا دیکھا پاس ایک گہرا گڑھا تھا جس میں سے کتا پانی نہیں پی سکتا تھا.اُس آدمی نے اپنا بوٹ پاؤں سے کھولا اور گڑھے میں اُس بوٹ کولٹکا کر اس کے ذریعہ پانی نکالا اور کتے کو پلا دیا.اس نیکی کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے اُس کے تمام گزشتہ گناہ بخش دیئے لے حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم آپ کے ساتھ سفر پر جار ہے تھے کہ ہم نے ایک فاختہ کے دو بچے دیکھے بچے ابھی چھوٹے تھے ہم نے وہ بچے پکڑ لئے جب فاختہ واپس آئی تو وہ چاروں طرف گھبرا کر اڑنے لگی اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اُس مجلس میں تشریف لے آئے اور آپ نے فرمایا.اس جانور کو اس کے بچوں کی وجہ سے کس نے تکلیف دی؟ فوراً اس کے بچوں کو چھوڑ دو تا کہ اس کی دلجوئی ہو جائے.کے اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم نے چیونٹیوں کا ایک غار د یکھا اور ہم نے پھونس ڈال کر اُسے جلا دیا.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے ایسا کیوں کیا ؟ ایسا کرنا مناسب نہیں.بخاری کتاب المظالم باب الابار على الطرق +بخارى كتاب الادب باب رحمة الناس و البهائم ے سے ابو داؤد كتاب الجهاد باب فى كراهية حرق العدو + ابو داؤد کتاب الادب باب في قتل الزر
۳۱۹ نبیوں کا سردار ایک دفعہ آپ نے دیکھا کہ ایک گدھے کے منہ پر نشان لگایا جارہا ہے.آپ نے فرما یا ایسا نشان کیوں لگا رہے ہو؟ لوگوں نے کہا کہ رومی لوگوں میں اعلیٰ گدھوں کی پہچان کے لئے نشان لگایا جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ایسا مت کیا کرو.منہ جسم کا نازک حصہ ہے.اگر نشان لگانا ہی پڑے تو جانور کی پیٹھ پر نشان لگا دیا کرو.چنانچہ اُسی وقت سے مسلمان جانور کی پیٹھ پر نشان لگاتے ہیں اور اب اُن کی دیکھا دیکھی یورپ والے بھی پیٹھ پر ہی نشان لگاتے ہیں.مذہبی رواداری آپ مذہبی رواداری پر نہایت زور دیتے تھے اور خود بھی اعلیٰ درجہ کا نمونہ اس بارہ میں دکھاتے تھے.یمن کا ایک عیسائی قبیلہ آپ سے مذہبی تبادلہ خیال کرنے کے لئے آیا.جس میں اُن کے بڑے بڑے پادری بھی تھے.مسجد میں بیٹھ کر گفتگو شروع ہوئی اور گفتگو لبی ہوگئی.اس پر اس قافلہ کے پادری نے کہا اب ہماری نماز کا وقت ہے ہم باہر جا کر اپنی نماز ادا کر آئیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا باہر جانے کی کیا ضرورت ہے ہماری مسجد میں ہی اپنی نماز ادا کر لیں.آخر ہماری مسجد خدا کے ذکر ہی کے لئے بنائی گئی ہے.لے بہادری آپ کی بہادری کے کئی واقعات آپ کی سوانح میں بیان ہو چکے ہیں.ایک واقعہ اس جگہ بھی لکھ دیتا ہوں.جب مدینہ میں یہ خبریں مشہور ہونی شروع ہوئیں کہ روما کی حکومت ایک بڑ الشکر مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے بھجوا رہی ہے تو مسلمان خاص طور پر راتوں کو احتیاط زرقانی جلد ۴ صفحه ۴۱
۳۲۰ نبیوں کا سردار کرتے اور جاگتے رہتے.ایک دفعہ باہر جنگل کی طرف سے شور کی آواز آئی.صحابہ جلدی جلدی اپنے گھروں سے نکلے کچھ ادھر اُدھر دوڑنے لگے اور کچھ مسجد میں آکر جمع ہو گئے اور اس انتظار میں بیٹھ گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلیں تو آپ کے حکم پر عمل کریں اور اگر خطرہ ہو تو اُس کو دور کریں.جب وہ لوگ اس انتظار میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے نکلیں تو انہوں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلے گھوڑے پر سوار باہر سے تشریف لا رہے ہیں معلوم ہوا کہ شور کی پہلی آواز پر ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے پر سوار ہو کر جنگل میں اس بات کے دیکھنے کے لئے چلے گئے تھے کہ کوئی خطرہ کی بات تو نہیں.اور آپ نے اس بات کا انتظار نہ کیا کہ صحابہ جمع ہو جائیں تو ان کے ساتھ مل کر باہر جائیں بلکہ اکیلے ہی باہر گئے اور حقیقت حال سے آگاہ ہو کر واپس آئے اور صحابہ کو تسلی دی کہ خطرہ کی کوئی بات نہیں تم آرام سے اپنے گھروں میں جا کر سور ہو.اے کم عقلوں کے ساتھ محبت کا سلوک کم عقلوں کے ساتھ آپ نہایت ہی محبت اور شفقت کا سلوک کرتے تھے.ایک دفعہ ایک اعرابی نیا نیا اسلام لایا اور آپ کی مسجد میں بیٹھے بیٹھے اُسے پیشاب کی حاجت محسوس ہوئی وہ اُٹھ کر مسجد کے ایک کو نہ میں ہی پیشاب کرنے لگا.صحابہ اُس کو منع کرنے لگے تو آپ نے انہیں روک دیا اور فرمایا کہ اس سے اُس کو ضرر پہنچ جائے گا تم ایسا نہ کرو جب یہ پیشاب کر چکے تو یہاں پانی ڈال کر اس جگہ کو دھو دینا ہے بخاری باب الشجاعة فى الحرب بخارى كتاب الوضوء باب ترك النبي ﷺ و الناس (الخ) + بخاری کتاب الادب باب قول صل الله النبي يسروا.....
۳۲۱ نبیوں کا سردار وفائے عہد وفائے عہد کا آپ کو اس قدر خیال تھا کہ ایک دفعہ ایک حکومت کا ایک ایلچی آپ کے پاس کوئی پیغام لے کر آیا اور آپ کی صحبت میں کچھ دن رہ کر اسلام کی سچائی کا قائل ہو گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نے عرض کیا کہ يَا رَسُولَ اللہ ! میں تو دل سے مسلمان ہو چکا ہوں میں اپنے اسلام کا اظہار کرنا چاہتا ہوں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ مناسب نہیں تم اپنی حکومت کی طرف سے ایک امتیازی عہدہ پر مقرر ہو کر آئے ہو اسی حالت میں واپس جاؤ اور وہاں جا کر اگر تمہارے دل میں اسلام کی محبت پھر بھی قائم رہے تو دوبارہ آکر اسلام قبول کروے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مضمون کوئی ایسا مضمون نہیں جس کو صرف چند صفحوں میں ختم کیا جا سکے یا جس کا صرف چند پہلوؤں سے اندازہ لگایا جائے مگر چونکہ نہ یہ سیرت کی ایک مستقل کتاب ہے اور نہ اس دیباچہ میں لمبی بات کی گنجائش ہو سکتی ہے اس لئے میں اتنے پر ہی اکتفاء کرتا ہوں.ابو داؤد كتاب الجهاد باب فی الامام ليستجن به فى العهود