Language: UR
جماعت احمدیہ کو اقلیت قرار دینے کے مطالبہ کا تجزیہ کرتے ہوئے مولانا دوست محمد شاہد صاحب نے یہ قیمتی مقالہ مرتب کیا ہے جوقریبا ساڑھے تین صد صفحات، اکتیس ابواب اور ایک ضمیمہ پر مشتمل ہے۔ اس میں مطالبہ اقلیت کے عالمی منظر نامہ اور گزشتہ صدیوں پر محیط خوفناک عالمی سازشوں کا دستاویزی انکشاف اور اس کے آلہ کار مسلم ممالک اور مذہبی شخصیات کا بیان ہے جسے عکسی حوالہ جات سے مرصع کیا گیا ہے۔ یقیناً عالمی سازش کے یہ سب کردار جماعت احمدیہ کو مٹانے، اس کی ترقی کی رفتار کم کرنے اور اپنے دیگر مذموم مقاصد میں تو کامیاب نہ ہوسکے لیکن تاریخ کے صفحات میں اپنا منفی کردار نبھانے کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
مطالبہ اقلیت کا عالمی پس منظر دوست محمد شاہد مورخ احمدیت
14 15 18 22 23 25 26 29 31 33.33 35.35 36...........39..........39 حرف اول.تاریخ کا رہنما اصول..پہلی فصل.قدیم اشتراکیت کی ارتقائی تاریخ..پیغمبر اشتراکیت مزدکیه فرقه شیعه مزد کیہ کا احیاء با بیت کی شکل میں اقبال اور قرۃ العین.اقبال کسی اور اسلام کا بانی....بانی آریہ سماج اور بابیت.اقبال اور بابیت.ابوالکلام آزاد.ظفر علی خاں اور بابیت.ڈاکٹر اقبال، مولانا ظفر علی خاں فہرست مضامین اشترا کی حکومت کی جدوجہد میں بابیت کی جارحانہ پالیسی.دوسری فصل.روس اور بابیت.تیسری فصل.42 42 _ 43 43 45 46 50 51 51 جدید سوشلزم اور اس کا بانی (کارل مارکس).کارل مارکس کی ایسٹ انڈیا کمپنی پر تنقید ہندوستان میں برطانوی اقتدار کی مذمت ہندوؤں سے کارل مارکس کی ہمدردی تحریک بربادی 1857 اور جہادی ملا کا رُخ کردار.کارل مارکس کی کتاب ”سرمایہ چوتھی فصل.اقبال مارکسزم کے علمبردار کی حیثیت
54 57 57 73 74 75 77............77 78 78 78 79 79 86..........86.87 88 89.92 22 94 94 96.97 97 99...102.102 102 اقبال اور سوشلزم کی تائید میں مستقل تصنیف.سوشلسٹ اقبال کی کہانی اٹھو میر کی دنیا کے غریبوں کو جگا دو روس میں پہلی سوشلسٹ حکومت کا قیام بالشویکی حکومت کی روسی مسلمانوں کے خلاف تباہ کن پالیسی.دین اشتراکیت کا بین الا قوامی تفریحی کلب.پانچویں فصل.بالشویکی روس کے گہرے اثرات اقبال پر اقبال کے اشتراکی افکار کے خوفناک نتائج.بر صغیر کے ادیب سوشلزم کی آغوش میں خدا کا انکار.......تصوف سے بغاوت.ختم نبوت کی اشترا کی تفسیر اور اسلام سے بغاوت چھٹی فصل...ابوالکلام آزاد، عالمی سوشلسٹوں سے روابط اور پارٹی میں شرکت.1905ء میں عالمی مسلح بغاوتیں..ہندوستان میں بنگالی ہندوؤں کی بغاوت قسیم بنگال پر ہندوؤں کا غیظ و غضب.تقسیم کی وجوھات.ہندوؤں کی مخالفت.سودیشی تحریک.مسلمانوں کا رد عمل..مسلمانوں کو تقسیم سے فوائد تنسیخ تقسیم بنگال..دہشت گردی کے المناک مناظر ساتویں فصل.سودیشی تحریک، اقبال، جماعت احمدیہ لینن اور سودیشی تحریک
103 106 108.108 110 111 112 119 119 119 122.122 126 128 128 129 129 131 132 133 134......136............136 139 140 143.143 بغاوت اور جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود اور ہندوؤں کی باغیانہ پالیٹکس.آٹھویں فصل...آزاد دہریت کی آغوش میں.ہندوؤں کی سوشلسٹ سودیشی ایجی ٹیشن میں شرکہ عالمی سوشلزم اور ابوالکلام آزاد......آزاد کی اسلامی تعلیم سے بغاوت نویں فصل...دیوبند.سوشلزم اور غدر پارٹی کا مرکز یاغستان میں بغاوت اور اس کی ناکامی دسویں فصل..بین الا قوامی سوشلسٹ پارٹیوں سے استمداد مسلمانان ہند کی بغاوت سے بیزاری...........گیارھویں فصل.لینن اور ہندوستان کے سوشلسٹ.ماسکو میں کانگرس اور ہندوستان سے روابط میں استحکام نہرو.کانگرس میں سوشلسٹوں کے لیڈر.پنڈت نہرو اور ابوالکلام آزاد کے سوشلسٹ افکار مسلمانان ہند کی توہین اور ہندوؤں کی تعریف..تحریک پاکستان اور آزاد..........تحریک عدم موالات کے اثرات.بارھویں فصل..مولوی اشرف علی صاحب تھانوی کا احتجاج.گاندھی کی اندھی عقیدت کے نتائج.عالمی سوشلسٹوں کے نام لینن کا پیغام.تیرھویں فصل.سٹالن دور حکومت اور ہندوراج کے منصوبہ کی نئی لہر.
143 151 151 164 166......166 167.167 170.170 حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی چشم کشا تحریر چودھویں فصل..پنڈت نہرو کا سفر بلجیم و ماسکو اور سٹالین سے ملاقات.ماسکو میں انقلاب روس کی دسویں سالگرہ اور نہرو.پندرھویں فصل.پنڈت نہرو کا بمبئی میں جماعت احمدیہ کے خلاف بیان.سولہویں فصل...جماعت احمدیہ کی تباہی کا منصوبہ سترھویں فصل.اٹھارھویں فصل..پاکستان کے متعلق احراری سوشلسٹوں کا نظریہ.کانگرس کے پلیٹ فارم پر مجلس احرار کا قیام..احرار کا سوشلزم کے حق میں اور احمدیوں کے خلاف پراپیگینڈے کا آغاز............172 175 176 182...........182 183.186 186 _ 188 197 198 202 203 206 206 210 کانگرس اور برطانوی ایجنٹ ہونے کا الزام.انیسویں فصل..مسلمانان ہند کے مطالبہ سے غداری.تاریخ مسخ کرنے کی سازش............گول میز کانفرنس اور سر اقبال.گول میز کانفرنس اور انڈیا ایکٹ کے نفاذ سے قبل مطالبہ اقلیت.کانگرس کی مسلمانوں کے خلاف معاندانہ چال....انڈیا ایکٹ 1935ء کے نفاذ سے قبل مطالبہء اقلیت احرار کانفرنس 1934ء مولانا کے پٹ جانے کا اندیشہ اقبال اور قائد اعظم کا بنیادی اختلاف..بیسویں فصل.اشتراکی روس کے ایجنٹ ملاؤں کے ذریعہ طوفان ارتداد.آزادی کے چند سانس...
214 216 217 238 243 245 253 256 264.........264 271.271 271 276.......276 278.278 279 281.281 281 286....286 287 288 290.290 روضہ رسول صل ل ل لم میں نقب زنی..مفسر قرآن کے بھیس میں تبلیغ بہائیت.عقائد کے اذعان ویقین کا خاتمہ ہو گیا..وصیت دیگر » سر اقبال کی بہائیت سے بے پناہ عقیدت.قیام لندن کے دوران ترک اسلام کا دستاویزی ثبوت بہائی اصول کے عین مطابق سرا قبال کا اخفاء.مذہب اقبال اور تحریک احمدیت کا بنیادی فرق.اکیسویں فصل..مذہبی لیڈروں کی سیاست کا ذکر حدیث میں بائیسویں فصل...تحریک پاکستان کانگرس اور احرار کی شدید مخالفت 66 کانگرس کے سدھائے ہوئے مسلمان کارندے ".تیسویں فصل...ایک ممتاز برطانوی افسر کا انکشاف چو بیسویں فصل احرار لیڈر کی پنڈت نہرو سے خفیہ ملاقات سے فسادات پنجاب 1953ء تک.ختم پاکستان کے منصوبہ کی تکمیل کے لئے نئی جد و جہد........پچیسویں فصل..پاکستان کا پہلا متفقہ آئین.دستور 1956ء کا عوامی خیر مقدم.چھبیسویں فصل.1973ء کا آئین اور کانگرسی ملاوں کا شب خون..مسودہ میں حلف کا اضافہ چور دروازے سے غیر مسلم قرار دینے کی شاطرانہ چال ستائیسویں فصل طلبہ نشتر کالج کا ڈرامہ.بھٹو حکومت اور سوشلسٹ ملا
290 291 293 293 294 296 298 299 300 300 302.302 306....306 314 پاکستان اسمبلی کا اجلاس 30 جون 1974ء جنگ زرگری.پاکستان کوسوشلسٹ ملک بنانے کا اعلان..آئینی اغراض کی قانونی اصطلاح.قرارداد کا مقصد احرار لیڈروں کی نظر میں بھٹو حکومت اور احرار کا متحدہ محاذ مخالفت.احرار کا اپنے محافظ ختم نبوت کی بارگاہ میں ہدیہ عقیدت کا عملی مظاہرہ.قائد عوام ریسرچ اکیڈمی کا قیام...نعمت اللہ ولی کے نام پر جعلی اشعار..عرب صحافت اور بھٹو کے مامور من اللہ ہونے کا پراپیگنڈہ.اٹھائیسویں فصل...بھٹو اور مفتی محمود سوشلزم کے سفیر انتیسویں فصل.حضرت مسیح موعود اور آپ کے ہم عصر مغرب کے دہر یہ فلاسفر..خلفائے احمدیت اور سوشلزم..تیسویں فصل.احمدیوں نے الیکشن 1970ء میں اکثر ووٹ پیپلز پارٹی کو کیوں دیئے..اکتیسویں فصل.وزیر اعظم پاکستان کا حیرت انگیز اعتراف واقعہ ربوہ کا تعلق بیرونی استعمار سے ہے.ضمیمه 317.........317 322........322 328.328.....333 335 مسلم سر بر اہان کا نفرنس 1974ء میں عیسائی وفد کے لیڈر کی تقریر کا مکمل متن قرآن عظیم میں ہندوستان کے مفسدہ عظیم 1857ء کی پیشگوئی تاریخ کا انتقام.
مطالبہ اقلیت دجالی طاقتوں کی ایک سوسترہ 117‘ سال پر محیط خوفناک عالمی سازشوں کا دستاویزی انکشاف اور ان کی آلہ کار مسلم ممالک اور مذہبی شخصیات عکسی حوالوں سے مرضع مئی 1857ء.ستمبر 1974ء)
مسلمانانِ ہند کے خلاف 1857ء کی تحریک بر بادی جو کارل مارکس کے پر اپیگینڈا (Propaganda) سے چلائی گئی.نظریہ قدیم مزد یک دجال خراسانی (بہائیت ) اور آریہ سماج جیسی اسلام دشمن تحریکیں اور ان سے متاثر مشہور مسلم زعماء ( ابوالکلام آزاد، سر اقبال).برٹش انڈیا میں خالص ہندوراج کے قیام کی سازش کو بروئے کار لانے کے لئے آل انڈیا کانگرس کے اجلاس راوی، دسمبر 1929ء میں مجلس احرار کا قیام.احمدیت، مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کے خلاف متحدہ محاذ.احرار کا مطالبہ اقلیت اور اس کے پس پردہ کار فرما عیسائیت کی دجالی اور استعماری طاقتوں کی عالمی سطح پر پشت پناہی.عرب ممالک سے خفیہ روابط اور انڈر گراؤنڈ (Underground) سکیموں کا انکشاف جن سے مسلم دنیا کا ایوان عظمت و سیادت لرزہ براندام ہے.
1 مقدمه پر اسرار پر دوں میں پوشیدہ اصل تاریخ جدید تحقیقات و اکتشافات کا خلاصہ ) احراری مطالبه اقلیت (اکتوبر 1934ء تا ستمبر 1974ء) کے عالمی پس منظر کی تفصیل اس باب کے آئندہ صفحات میں بیان ہو گی.یہاں صرف جدید تحقیقات و اکتشافات کے حوالہ سے اس کا خلاصہ دیا جانا مقصود ہے.قدیم تاریخ کے ایک ادنیٰ طالب علم پر یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کا سیاسی اور اقتصادی و اخلاقی زوال انیسویں صدی کے آغاز ہی میں انتہا تک پہنچ چکا تھا.اور ہندوستان کے آخری مغل بادشاہ ابو نصر سراج الدین محمد بہادر شاہ ظفر (ولادت 1775ء.وفات 7 نومبر 1862ء) محض ایسٹ انڈیا کمپنی کے وظیفہ خوار تھے جن کی سب سطوت وشوکت صرف دتی کے لال قلعہ تک محدود ہو کے رہ گئی تھی اور ملک کی پوری معیشت پر عملاً ہندو اکثریت اور ہند وراجے قابض ہو چکے تھے اور اگر ہم اس دور کا گہری نظر سے مطالعہ کریں تو یہ انکشاف ہو گا کہ 1857ء کاغد رجو بظاہر ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف تھا، در پردہ ہندوراج کے قیام کی منظم سازش تھی جس کی تشکیل بانی سوشلزم کارل مارکس (1818ء- 1883ء) کی رہین منت تھی جو اُن دنوں لندن میں مقیم تھا اور امریکی پریس میں آرٹیکل لکھ کر غدر سے قبل کئی سال سے ہندوؤں کو مسلمانوں اور انگریزوں کے خلاف مشتعل کر رہا تھا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریزوں کے خلاف مسلح بغاوت پر اکساتا چلا آرہا تھا.سلطنت عثمانیہ کے خلیفہ المسلمین نے مسلمانان ہند کے تحفظ کیلئے برطانوی افواج کو رستہ دیا اور رام راج کی ہند و بغاوت ناکام ہو گئی.ایسٹ انڈیا کمپنی بر طرف کر دی گئی اور گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1858ء کے مطابق
2 ہندوستان کی حکومت براہ راست تاج برطانیہ کے ماتحت کر دی گئی اور اس کا انتظام ایک وزیر ہند کے سپر د ہوا.حکومت انگلستان نے کمپنی کا قرضہ اپنے ذمہ لے لیا.بڑی اور بحری سپاہ سرکار کی ملازمت میں منتقل ہو گئی اور ہندوستان کی کل آمدنی کے خرچ کا اختیار وزیر ہند اور اس کی کونسل کو سونپ دیا گیا.مورخ پاکستان مولوی محمد شفیع صاحب ایم.اے.”تاریخ ہند“ حصہ دوم کے صفحہ 191 تا 193 میں تحریر فرماتے ہیں: ملکہ معظمہ وکٹوریہ نے غدر کے واقعات سے متاثر ہو کر ایک اعلان کیا جو اعلان قیصری کے نام سے موسوم ہے.یہ اعلان تاریخ ہند میں بہت اہمیت رکھتا ہے اور ہندوستان کی آزادی کا چارٹر کہلاتا ہے.اس میں ملکہ معظمہ وکٹوریہ کی وہ تمام مراعات درج ہیں جو اس نے ہندوستان کی بہبودی کے لئے عطا کیں.“ یکم نومبر 1858ء کوالہ آباد کے مقام پر لارڈ کینٹنگ (Lord Canning) نے جو ہندوستان کا پہلا وائسرائے مقرر ہوا، ایک شاہی دربار منعقد کیا جس میں یہ اعلان پڑھ کر سنایا گیا.مابدولت کی طرف سے والیان ریاست کو متبنے بنانے کا اختیار دیا جاتا ہے.ان کے جو معاہدے کمپنی کے ساتھ تھے وہ بر قرار رہیں گے.رعایا کو اپنے مذہبی معاملات میں پوری آزادی حاصل رہے گی.حکومت کی طرف سے ان میں کسی قسم کی مداخلت نہ ہو گی.ہندوستان جب اس قابل ہو جائے گا کہ وہ اپنا انتظام آپ کر سکے تو اسے حکومت خود اختیاری عطا کی جائے گی.قانون ملکی امیر وغریب پر یکساں حاوی ہو گا.سرکار کے نزدیک انگریز.عیسائی.ہندو.مسلمان.سکھ سب یکساں ہیں.ان باغیوں کو جنہوں نے قتل میں اقدام نہیں کیا، غیر مشروط معافی دی جائے گی.ملک کی بہبودی اور امن کا ہر وقت خیال رکھا جائے گا.ملازمتیں خواہ انگریز ہوں یا ہندوستانی، ان کی قابلیت کے مطابق عطا کی جائیں گی.اعلان قیصری کے بموجب ہندوستان کی عنان حکومت براہ راست حکومت برطانیہ کے ہاتھ میں آگئی.1 غدر کی آگ فرو ہونے کے بعد آخری مغل تاجدار کے خلاف فوجی عدالت دیوان خاص قلعه میں زیر ایکٹ 16.1857ء مقدمہ چلایا گیا.27 جنوری 1858ء کو پہلا اجلاس ہوا جس میں فرد قرار داد جرم یہ عائد کی گئی کہ بغاوت کے دوران انہوں نے انگریز افسروں اور برطانوی رعایا کے، جس میں بے گناہ اور معصوم بچے بھی شامل تھے، قتل میں مدد دی اور والیان ریاست کے نام احکام جاری کئے
3 کہ وہ عیسائیوں اور انگریزوں کو اپنی حدود میں جہاں پائیں، قتل کر دیں.9 مارچ 1858ء کو بہادر شاہ ظفر نے تحریری بیان دیا کہ غدر کا اُن سے کوئی تعلق نہیں.سب بغاوت میر ٹھ کے مفسد بلوائیوں نے برپا کی.انہوں نے مجھے بھی قید کر لیا.خود احکام لکھ کر مجھے مہر ثبت کرنے پر مجبور کرتے تھے چنانچہ انہوں نے فرمایا.”میں نے کبھی اُن کی کانفرنس میں شرکت نہیں کی.انہوں نے اس طرح بدوں میری مرضی یا خلاف حکم میرے ملازموں ہی کو نہیں لوٹا بلکہ کئی محلوں کولوٹ لیا.چوری کرنا، قید کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا اور جو جی چاہتا تھا کر گزرتے تھے.جبر أمعزز اہل شہر سے اور تجار سے جتنی رقم چاہتے وصول کرتے تھے اور یہ مطالبات اپنی ذاتی اغراض کے لئے کرتے تھے.جو کچھ گزرا ہے وہ سب مفسدہ پر داز فوج کا کیا دھرا ہے.میں اُن کے قابو میں تھا اور کر کیا سکتا تھا؟ وہ اچانک آپڑے اور مجھے قیدی بنالیا.میں لاچار تھا اور دہشت زدہ.جو انہوں نے کہا میں نے کیا وگرنہ انہوں نے مجھے کبھی کا قتل کر ڈالا ہوتا.اسی لئے میں نے فقیری کا تہیہ کر لیا تھا اور گیر وے رنگ کی صوفیانہ پوشاک پہنی شروع کر دی تھی.پہلے قطب صاحب کی درگاہ.وہاں سے اجمیر شریف اور اجمیر شریف سے بالآخر مکہ معظمہ جانے کا عزم تھا لیکن فوج نے مجھے اجازت نہیں دی.جس نے میگزین و خزانہ لوٹا.یہ سپاہ ہی تھی جو چاہا کیا....باغی فوج کی عادتوں کی نسبت معلوم ہو کہ انہوں نے مجھے کبھی سلام تک نہیں کیا.نہ میر اکسی قسم کا ادب و لحاظ کیا.وہ دیوان خاص و دیوان عام میں بے دھڑک جو تیاں پہنے چلے آتے تھے.میں ان فوجوں پر کیا اعتبار کرتا جنہوں نے اپنے ذاتی آقاؤں کو قتل کر دیا.جس طرح انہوں نے ان کو قتل کیا مجھے بھی مقید کر لیا.مجھ پر جور کئے، مجھے حکم میں رکھا اور میرے نام سے فائدہ اٹھایا....میں بے فوج، بے خزانہ، بے سامان جنگ، بے تو پخانہ کیونکر انہیں روک سکتا تھا یا ان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر سکتا تھا؟ لیکن میں نے کبھی کسی طرح ان کی مدد نہیں کی.میں نے فوراً اپنے آپ کو گور نمنٹ کی حفاظت میں دے دیا.باغی فوجیں مجھے اپنے ہمراہ لے جانا چاہتی تھیں مگر میں نہ گیا.“ شاہ نے تحریری بیان کے آخر میں تحریر فرمایا:
4 مذکورہ بالا جواب میرا خود تحریر کیا ہوا ہے اور بلامبالغہ ہے.حق.اصلاً انحراف نہیں کیا ہے.خدا میرا عالم و شاہد ہے کہ جو کچھ بالکل صحیح تھا، جو کچھ مجھے یاد تھا، وہ میں نے لکھا ہے.شروع میں میں نے آپ سے حلفیہ کہا تھا کہ میں بغیر بناوٹ اور بغیر ملاوٹ کے وہی لکھوں گا جو حق اور راست ہو گا.چنانچہ ایسا ہی میں نے کیا دستخط بہادر شاہ بادشاه 2 ہے.یہ مقدمہ ایک فوجی کمیشن کے تحت تھا جس کا پریذیڈنٹ لیفٹینٹ کرنل ڈاس افسر توپ خانہ تھا.دوران مقدمہ 8 فروری 1858ء کو سر تھیو فلس میٹ کاف نے عدالت میں حلفیہ گواہی دی کہ غدر سے چند روز قبل جامع مسجد دہلی کی دیوار پر میلے سے کاغذ کا ایک چھوٹا ٹکڑا چسپاں کیا گیا جس کا مضمون یہ تھا کہ شاہ ایران عنقریب اس ملک میں آنے والے ہیں اور انہوں نے تمام مسلمانوں کو ، کافر انگریزوں کو فنا کرنے کی دعوت کی ہے.جو لوگ اسمیں شامل ہوں گے اجر عظیم کے مستحق ہوں گے.بیان کیا جاتا ہے کہ اشتہار دیکھ کر دہلی کے پانچ سو مسلمانوں نے جہاد کرنے کی آمادگی ظاہر کی تھی.یہ اشتہار رات کے وقت تقریبا تین گھنٹہ تک چسپاں کیا گیا.صبح کے وقت اس کے پاس آدمیوں کا ہجوم لگ رہا تھا اور جب میں نے سناتو جا کر اُتار ڈالا.عام خیال تھا کہ کسی بد معاش نے چسپاں کر دیا ہو گا.3 بہادر شاہ ظفر کے ہند و سیکرٹری مکند لال اور چینی لال اخبار نویس نے عدالت میں مغل تاجدار کے خلاف گواہیاں دیں اور قتل وغارت کی ذمہ داری اس بے گناہ اور مظلوم بادشاہ پر ڈال دی.چنانچہ اس نے بیان دیا کہ قلعہ دہلی میں محصور معصوم لیڈیوں اور بچوں کا قتل بادشاہ کی اجازت سے ہوا اور سنبت علی خان نے چلا کر کہا کہ بادشاہ نے قیدیوں کے قتل کئے جانے کی اجازت دی ہے جس کے بعد بادشاہ کے مسلح سپاہی زیر حراست قیدیوں کو مقتل تک لے گئے اور باغی فوجیوں سے مل کر غریب قیدیوں کو قتل کر دیا گیا.مکند لال نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا.4" ”جو نہی باغی آئے مسلمان فی الفور اُن سے مل گئے.“ اسی طرح چنی لال اخبار نویس سے پوچھا گیا کہ انگریزوں کو کس کے حکم سے قتل کیا گیا تھا تو 5" اُس نے جواب دیا ” بادشاہ کے حکم سے ہوا تھا اور کون ایسا حکم دے سکتا تھا.“5 9 مارچ 1858ء کو بہادر شاہ ظفر کی تحریری شہادت کے معابعد فریڈ جے ہیرائٹ ڈپٹی حج ایڈووکیٹ جنرل ووکیل سرکاری نے اپنی بحث میں ہندوؤں کی انہیں گواہیوں پر سب سے زیادہ زور دیا
5 اور اسی بناء پر فوجی عدالت نے بالا تفاق فیصلہ دیا کہ ”ملزم محمد بہادر شاہ سابق بادشاہ دہلی تمام جرائم کے مجرم ہیں.6 اس فیصلہ کے نتیجہ میں جو ہندوؤں کی مفتریانہ اور جھوٹی شہادت کی بناء پر کیا گیا، بہادر شاہ ظفر رنگون میں قید کر دیئے گئے اور غریب مسلمان انگریزوں کے جوش انتقام سے تباہ و برباد ہو گئے اور چالاک ہند و و سرمایہ دار وقتی طور پر انگریزی حکومت کی اطاعت کا دم بھر کے کلیدی محکموں اور ملازمتوں پر چھا گیا.دوسری طرف برٹش انڈیا کا مسلمان برسوں تک انگریزوں کا معتوب رہا.ہند وساہوکاروں اور سرکاری افسروں نے اس پر ترقی کے دروازے مسدود کر دیئے، حتٰی کہ اس کی قومی ہستی بھی خطرے میں پڑ گئی.دسمبر 1895ء میں چند معتدل مزاج انگریزوں نے جن میں اے اوہیوم (A.O.Hume) سر ڈبلیو ویڈرز برن (Sir W.Weddar Burn) سرڈیوڈیول (Sir David Yule) اور سر ہنری کاٹن (Sir Henry cotton) بھی شامل تھے ، بمبئی میں آل انڈیا نیشنل کانگرس کی بنیاد رکھی.یہی تینوں انگریز 1885ء سے 1900 ء تک اس کے پریذیڈنٹ تھے.کانگرس کا بنیادی مقصد تو یہ تھا کہ بلا تمیز مذہب و ملت ملک کے تمام باشندوں کو ملکی مشینری اور معیشت وسیاست میں نیابت دی جاسکے مگر شروع ہی سے عملاً یہ ہندوؤں ہی کی نمائندہ جماعت بن گئی.7 جس پر مسلمانوں کے بیدار مغز اور مدبر لیڈر سرسید احمد خان (1817ء.1898ء) نے 1892ء میں مطالبہ کیا کہ لیجسلیٹو کو نسلوں اور لوکل باڈیز میں مسلمانوں کو خاطر خواہ تعداد میں نمائندگی دی جائے.انہوں نے قبل ازیں 1886ء میں محمڈن اینگلو ڈیفنس ایسوسی ایشن قائم کی اور واضح کیا کہ مسلمان ایک جداگانہ قوم ہیں اور ان کی روایات، ان کے مفادات ، ان کی سیاسی اور سماجی مصروفیات اور میلانات، ان کی مذہبی رسوم اور عقائد علیحدہ اور ہندوؤں سے یکسر مختلف ہیں.اس لئے مسلمان نمائندوں کا انتخاب بھی جداگانہ ہونا چاہیے.8 لارڈ کرزن ہندوؤں کے بیدار مغز اور رعایا پر ور وائسرائے تھے.انہوں نے محکمہ آثار قائم کر کے مسلمانوں کی تاریخی عمارتوں اور ہند ودور کے آثار کو محفوظ کیا اور نہ صرف مسلمانوں کے جدا گانہ انتخاب کا حق تسلیم کیا بلکہ 1905ء میں تقسیم بنگال کا جرات مندانہ اقدام کر کے مشرقی بنگال کو ایک الگ صوبہ بنا دیا جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی.اس طرح عرصہ بعد دوبارہ بنگالی مسلمانوں کے پھلنے پھولنے کی راہ ہموار ہو گئی مگر بقول سید رئیس احمد جعفری: ”یہ اتنا بڑا حادثہ ہند وسامراج کے لئے تھا کہ ہندوؤں میں ایک شورش پیدا ہو گئی.انارکسٹ اور دہشت انگیز لوگ پیدا ہو گئے، بم پھٹنے لگے ، گولیاں چلنے لگیں،
امن وامان برباد ہو گیا اور شورش و اضطراب کا دور دورہ شروع ہو گیا.مسلمانوں کو مناصب بلند پر فائز دیکھ کر ہند و آگ کی طرح بھڑک اٹھے.باغیانہ مظاہرے ہوئے.اشتعال انگیزیاں کی گئیں.قتل و خونریزی کا بازار گرم ہو گیا.حد یہ ہے کہ انڈین 9% نیشنل کانگرس تک چیخ اٹھی.“ دراصل بات یہ تھی کہ گوغدر میں ہندوراج کا منصوبہ شکست کھا گیا مگر جوں جوں غیر ملکی حکومت میں اس کے قدم مضبوط ہوتے گئے، ہندو دماغ میں مسلمانوں کے خلاف انتقامی جذبات تیز تر ہوتے گئے اور ایک نئے غدر کے ذریعہ انگریزی حکومت کا تختہ الٹ کر پورے ملک کو ہندور یاست بنانے کی سازشیں اندر ہی اندر وسیع سے وسیع تر ہوتی گئیں اور اس مقصد کی تکمیل کے لئے ہندوستان کے طول و عرض میں کانگرس کے علاوہ بہت سی ہندو اور سکھ انار کسٹوں کی پارٹیاں وجود میں آگئیں جن کا واحد مقصد یہ تھا کہ بغاوت کر کے انگریزی حکومت کی جگہ ہندوراج قائم کر دیا جائے.تقسیم بنگال کے فیصلہ نے اس خیال پر چونکہ ضرب کاری لگائی اس لئے ہندوؤں کے مخفی عزائم شورش بنگال کی شکل میں پہلی مرتبہ کھل کر سامنے آگئے جس نے غریب اور پسماندہ مسلمانوں کو بھی احساس دلایا کہ ہندوؤں کو مسلم قوم کا وجود ہی نا قابل برداشت ہے اور اگر غیر ملکی حکومت کا خاتمہ ہو گیا تو ہندوان کی تکا بوٹی کر دیں گے.ہندوستان اور بیرونی ممالک کی ایسی تمام باغیانہ تحریکوں کے روح رواں مشہور انقلابی لیڈر لالہ ہر دیال ایم اے تھے جنہوں نے اپنے ایک بیان میں واضح لفظوں میں اعلان کیا کہ :- ”ہندو قوم اور ہندوستان اور پنجاب کا مستقبل ان چار آدرشوں (مقاصد ) پر منحصر ہے.ا.ہندو سکھٹن ۲.ہندوراج - اسلام اور عیسائیت کی شدھی ۳.۴.افغانستان اور سرحد کی فتح اور شدھی.10 لالہ جی نے کئی مرتبہ اپنے اس بیان کے مختلف پہلوؤں پر ہندوستان میں مسلمانوں اور انگریزوں کے خلاف نہایت زہر آلود تقریریں کیں.چنانچہ انہوں نے کہا:- ”جوش پیدا ہو گا تو سوراج ، شاہی اور افغانستان کی فتح کے علاوہ ممکن ہے کہ ہم مشرقی افریقہ، نجی اور دوسرے ملکوں پر قابض ہو جائیں گے جہاں ہندو بھائی آباد ہیں، کیونکہ اس وقت ہم کسی ہندو بھائی کو دنیا بھر میں غلامی کی حالت میں نہ چھوڑیں گے.ایسی دیش بھگتی کی لہر چلے گی.نام کی گنگا میں چڑھاؤ آئے گا.پس اگر ہندو نستان
7 کو کبھی آزادی ملے گی تو یہاں ہندوراج قائم ہو گا.11 پھر بدترین فرقہ پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہندوؤں کو مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف اکساتے ہوئے یہ تجویز پیش کی :- شلسٹوں گئیں.”سوراج پارٹی کا اصول ہونا چاہئے کہ ہر ہندوستانی بچہ کو قومی رتن 12 دئے جائیں خواہ وہ مسلمان ہو یا عیسائی.اگر کوئی فرقہ ان کو لینے سے انکار کرے اور ملک میں دور نگی پھیلائے تو اس کی قانونی طور پر مخالفت کر دی جائے یا اس کو عرب کے ریگستان میں کھجور میں کھانے کے لئے بھیج دیا جائے.ہمارے ہندوستان کے آم، کیلے اور نار نگیاں کھانے کا انہیں کوئی حق نہیں.“13 بیسویں صدی کے آغاز میں ہندوؤں اور ان کے ہم خیال سکھوں نے انٹر نیشنل سون سے عالمی سطح پر گٹھ جوڑ کیا اور انڈر گراؤنڈ بغاوت کی خوفناک تیاریاں غیر معمولی طور پر بڑھ 1905ء میں وائسرائے ہند لارڈ کرزن نے مسلمانان بنگال کی بہبو دو ترقی کے لئے تقسیم بنگال کا اعلان کیا تو بنگال کے ہند وانارکسٹ ابھر کر سامنے آگئے جس میں کا نگر سی لیڈر جناب ابوالکلام آزاد نے انارکسٹوں کی بھر پور پشت پناہی کی اور بنگالی مسلمانوں کے خلاف نہایت افسوسناک کر دار ادا کیا.1911ء میں انٹر نیشنل سوشلسٹ پارٹیوں کے گٹھ جوڑ سے ”ہندو سکھ غدر پارٹی کا قیام عمل میں آیا جس میں جناب آزاد بھی شامل ہو گئے.اس پارٹی کے پیچھے امریکہ میں مقیم سوشلسٹ لیڈر سرگرم عمل تھے.پارٹی کی مشیر خاص پولینڈ کی مشہور سوشلسٹ رہنما مسز گولڈ تھیں.کینیڈا میں پناہ گزین ہندوؤں اور سکھوں کی تمام ہمدردیاں غدر پارٹی کے ساتھ تھیں.پارٹی نے ”غدر“ کے نام سے امریکہ سے ایک رسالہ جاری کیا جو اردو، گور مکھی، گجراتی، ہندی، گور کھا زبانوں میں چھپتا تھا اور امریکہ کے علاوہ کینیڈا، فلپائن، نجی، جاپان، چین، شنگھائی، ہانگ کانگ، جاوا، سماٹرا، ملایا، برما، سیام، مشرقی افریقہ اور ہندوستان میں بھیجا جاتا تھا.14 اس رسالہ کے مقاصد اس کے پہلے شمارہ میں حسب ذیل بتائے گئے.” اس تحریک کا مقصد یہ ہے کہ ہندوستان کے عوام انگریزی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیں، ان کو تباہ کر دیں، ان کی بیخ کنی کر دیں.بالکل ایسے ہی جیسے کوئی کرم خوردہ درخت ہو.اور ہمارا بنیادی مقصد انگریز کو نکال کر ہندوستان میں ایک حکومت قائم کرنا ہے.“
8 ایک اور شمارہ میں لکھا تھا.”1857ء کے غدر کو 50 سال ہو گئے ہیں.اب ہمیں ایک اور بغاوت کی ضرورت ہے.آج ہم انگریزی سرکار کے خلاف ایک جنگ کا آغاز کر رہے ہیں.ہمارا مقصد غدر ہے.بغاوت برپا کرنا ہے.ہمارا کام ہے غدر.یہ غدر کہاں برپا ہو گا؟ ہندوستان میں.وہ وقت دور نہیں جب رائفل اور خون، قلم اور اس کی روشنائی کی جگہ لے لے گا.“15 غدر پارٹی کا ایک مقبول نعرہ تھا کہ ”اتحاد کی بنیاد سوشلزم“ اس پارٹی نے اس نعرہ کو عملی شکل دینے کیلئے جو سکیم تیار کی اس کے بعض اہم اور بنیادی نکات یہ تھے.1.ہندوستان کے اندر اور باہر سامراج دشمن طاقتوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنا اور ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا.2.اپنے مالی وسائل کی مضبوطی کے لئے ڈاکے ڈالنا.3.بم بنانا اور انہیں مناسب مواقع اور مقامات پر استعمال کرنا.4.ریلوے اور تار کا نظام تباہ کرنا.5.نوجوانوں کو غدر پارٹی میں شامل کر کے انہیں اسکی انقلابی سر گرمیوں کے لئے تیار کرنا.6.پولیس تھانوں اور سرکاری خزانوں کو لوٹنا اور وہاں سے اسلحہ اور پیسہ حاصل کرنا، تا مالی استحکام ہو.دہلی میں بھارت ماتا سوسائٹی، بنگال میں ہندو پارٹیاں اور لندن میں انڈیا ہاؤس غدر پارٹی کے خفیہ مراکز تھے جو اس کی سازشوں کی تکمیل میں شب وروز مصروف رہتے تھے.ہفت روزہ ”غدر “ نے ہندوستانیوں سے اپیل کی کہ :- 1857ء میں ہندوستان کو آزاد کرانے کے لئے پہلا غدر ہوا تھا.اب دوسرا غدر ہو رہا ہے.اس لئے ہندوستان میں غدر بر پا کرنے کے لئے نڈر بہادر سپاہیوں کی ضرورت ہے.16 رسالہ ”غدر “ مورخہ 20 نومبر 1914ء کے اردو ایڈیشن میں عثمانی حکومت کے ایک وزیر انور پاشا کی تقریر شائع ہوئی کہ :- ”یہی وہ وقت ہے جب ہندوستان میں غدر کا اعلان کر دیا جانا چاہئے.انگریزوں
9 کے میگزین لوٹ لئے جانے چاہیں اور انگریزوں کوموت کے گھاٹ اتار دینا چاہئے.ہندوستانیوں کی تعداد 32 کروڑ جبکہ ہندوستان میں انگریز فقط دولاکھ ہے.ان انگریزوں کو قتل کر دینا چاہئے.وہ جو مر کر اپنے وطن کو آزاد کرائے گا وہ ہمیشہ زندہ رہے گا.“ پہلی جنگ عظیم (جون 1914ء تا ستمبر 1918ء) کے دوران غدر پارٹی کی خفیہ سرگرمیاں عروج تک پہنچ گئیں.جرمنی عثمانی حکومت کا حلیف تھا.برلن ہندوستانی انقلابیوں کا گڑھ بن گیا جہاں حکومت جرمنی کی مدد سے انڈیا برلن کمیٹی کی بنیادر کھی گئی.کمیٹی کی درخواست پر حکومت جرمنی نے غدر پارٹی کو پیسہ اور اسلحہ فراہم کرنا منظور کر لیا اور ساتھ ہی غدر پارٹی کی فوری مدد کے لئے قسط اول کے طور پر پانچ ہزار ریوالوروں کی پہلی کھیپ مہیا کر دی جسے ہندوستان تک پہنچانے کے لئے ایک جہاز دی ہنری ایس کرایہ پر حاصل کیا گیا اور کرایہ جرمنی حکومت ہی نے دیا.لیکن یہ جہاز جب ہانگ کانگ کے ساحل پر پہنچا تو ایک جاپانی ڈاکٹر داؤس دیکر نے جہاز میں موجود اسلحہ کے بارہ میں مخبری کر دی اور جملہ معلومات برطانوی حکام کو فراہم کر دیں جس پر جہاز پر قبضہ کر لیا گیا.جرمن حکومت نے (جس کا بادشاہ ولیم دوم تھا) ہندوستانی انقلابیوں کو یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ جرمنی یا کسی اور ملک میں ہندوستان کی ایک آزاد عبوری حکومت قائم کر لیں.اس حکومت کو متعد د ممالک سے ہمدردی حاصل ہو جائے گی اور تقریباً آدھی دنیا اسے تسلیم کرلے گی.17 کانگرس، غدر پارٹی اور دوسری باغیانہ تحریکوں کے اتفاق سے ایک عبوری حکومت قائم کر دی گئی جس کے سربراہ راجہ مہندر پرتاپ کو نامزد کیا گیا جنہوں نے ماسکو، نیپال اور ہندوستان میں وفود بھیجے.حکومت کا وزیر داخلہ مولوی عبید اللہ سندھی کو بنایا گیا تا اس بغاوت کو اسلامی لبادہ پہنا کر مسلمان حکومتوں سے امداد حاصل کی جاسکے.سندھی صاحب نے عرب اور ہندوستان کے دوستوں اور رشتہ داروں کو ریشمی رمالوں میں عبوری اور باغی حکومت سے متعلق خطوط لکھے جس میں بتایا کہ آزاد حکومت آخر کار مدینہ کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنانا چاہتی ہے جہاں شہزادہ محمد حسن کو اس کی فوج کا جنرل انچیف مقرر کیا جائے گا اور اس کے دفاتر تہران، کابل اور قسطنطنیہ میں بھی قائم کئے جائیں گے.اور وہاں فوج کی سر براہی خودسندھی صاحب کریں گے.یہ سازش بہت جلد بے نقاب ہو گئی اور ریشمی رومال کی یہ ہند و باغیانہ تحریک دم توڑ گئی.ابتداء میں کابل حکومت نے سوویٹ یونین کی بالشویک حکومت سے درخواست کی تھی کہ
10 آزاد عبوری حکومت کو تسلیم کر لیا جائے اور اسی غرض کے لئے راجہ مہندر پرتاپ نے ماسکو کا دورہ کیا.لینن نے خوش آمدید کہا اور ہر ممکن تعاون کا وعدہ کیا لیکن جو نہی وہ کابل واپس پہنچے، جرمنی اور ترکی کو جنگ میں شکست ہو گئی اور افغانستان نے برطانیہ کے ساتھ امن کا معاہدہ کر لیا.اس کے ساتھ ہی ہندوستان کی نام نہاد عبوری حکومت کا بھی خاتمہ ہو گیا مگر ساتھ ہی ابو الکلام آزاد اور دوسرے دیو بندی علماء کی کمیٹی اور غدر پارٹی دونوں نے گاندھی کی سربراہی میں ملک بھر میں بد امنی اور فساد کا ایک طوفان برپا کر دیا.چنانچہ بھارت کے ایک انقلابی مصنف بھگت سنگھ کا بیان ہے :- 18" 19" ” پہلی جنگ عظیم کے وقت غدر پارٹی کو خلافت کے روپ میں انگریز کے خلاف لڑائی کرنے کے لئے ایک ساتھ مل گیا تھا.غدر پارٹی، خلافتی اور بنگال کے انقلابیوں نے اس لڑائی سے فائدہ اٹھا کر انگریزی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے ملک کو آزاد کرانے کا بیٹر ا اُٹھایا." ظاہر ہے کہ اس آزادی کا دوسرا نام ہندو راج تھا.کا نگر سی لیڈر پنڈت نہرو نے کانپور میں تقریر کرتے ہوئے صاف طور پر اعتراف کیا کہ.” میں ایسا ہی ہندو ہوں جیسے خود پنڈت مالوی ہیں.میں ایک قدم بڑھ کر کہتا ہوں کہ خود کانگرس ہندو جماعت ہے.اس میں 1920-21ء میں تھوڑے سے مسلمان شریک ہو گئے تھے ورنہ وہ ابتدا ہی سے ہند و جماعت ہے.1927ء میں آل انڈیا نیشنل کانگرس کے بائیں بازو کے سوشلسٹ لیڈر پنڈت جواہر لال نہر وصاحب یورپ گئے اور سوشلسٹوں کی دعوت پر برسلز کی سوشلسٹ کانفرنس میں شرکت کی.بعد ازاں وہ ماسکو گئے اور ایک خصوصی اجلاس میں سٹالین (Stalin) سے ملاقات کی.20 اور پھر ملک میں واپسی کے ایک سال بعد 31 دسمبر 1929ء کو کانگرس کے اجلاس راوی میں مجلس احرار کا قیام عمل میں آیا.احراری لیڈروں نے جو تحریک خلافت ہی سے کانگرس سے ساز باز کئے ہوئے تھے ، پنڈت نہرو اور کانگرس کے پروگرام کے مطابق نہ صرف سوشلزم کے حق میں پر زور پر اپیگنڈا کر کے مسلمانوں کو گمراہ کرنا شروع کر دیا بلکہ جماعت احمدیہ کے خلاف سیاسی اور مذہبی طور پر اشتعال انگیز تقریروں سے پورے ملک میں فرقہ پرستی کی آگ بھٹر کا دی.1935ء میں انڈیا ایکٹ کا نفاذ ہونے والا تھا جس کے نتیجہ میں مسلم اقلیت کو اپنی آبادی کے تناسب سے سیاسی حقوق کا فیصلہ ہو چکا تھا.آل انڈیا کانگرس نے مسلم حقوق پر ضرب کاری لگانے کے
11 لئے راؤنڈ ٹیبل کا نفرنسوں کے مسلم نمائندوں پر شرمناک پھبتیاں کسیں.مگر جب انہیں ناکامی ہوئی تو گاندھی جی نے ایک طرف اچھوتوں کو ہندو قوم میں شامل کرنے کے لئے مرن برت رکھا دوسری طرف مسلم اقلیت کی تعداد کو کم کرنے کے لئے یہ چال چلی کہ اکتوبر 1931ء میں احراری اور کانگرسی مولویوں کے ذریعہ احمدیوں کو دوسرے ہندوستانی مسلمانوں سے الگ اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کر دیا جس کی پر زور تائید سر اقبال نے کی جو نہ صرف سوشلزم کے زبر دست حامی اور بالشیو یک روس کے زبر دست مداح اور عقیدت مند تھے بلکہ ایران کے پیغمبر اشتراکیت مزدک کی علمبر دار تحریک بابیت اور اس کی ناقوس خصوصی اور گستاخ رسول قرۃ العین طاہرہ کو ایک برگزیدہ ہستی یقین کرتے تھے.سر اقبال کے علاوہ جناب ابو الکلام آزاد کی تفسیر سورہ فاتحہ پر بھی بابیت و بہائیت کی چھاپ اس درجہ نمایاں ہے کہ احمدیت کے بدترین معاند دیوبندی عالم انور کشمیری کو بھی اس کے خلاف احتجاج کرنا پڑا جس کی تفصیل مع اس کے مستند مراجع و مصادر کے دوسرے حقائق کی طرح اپنے موقع پر آگے آرہی ہے.23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں قرار داد لاہور پاس کی گئی جسے بعد میں قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا.1945-46ء کے مرکزی اور صوبائی الیکشن ہوئے تو حضرت مصلح موعود کی قیادت میں برصغیر کے احمدیوں نے مسلم لیگی امید واروں کی زبر دست تائید کی.جماعت احمد یہ وہ واحد مذہبی جماعت تھی جس نے تحریک پاکستان میں قائد اعظم کے دوش بدوش بھر پور حصہ لیا.اس کے مقابل آل انڈیا نیشنل کانگرس اور دیوبندی جمعیتہ علماء ہند اور احراری مولویوں نے ڈٹ کر مخالفت کی.پنڈت جواہر لال نہرو نے ایک ذمہ دار برطانوی افسر کو یہ راز کی بات بتائی کہ ہم مسٹر جناح کو کمزور سا پاکستان بالآخر ضرور دے دیں گے مگر ایسے حالات پیدا کر دیں گے کہ اہل پاکستان خود ہندوستان کی آغوش میں آجائیں گے اور ملک پھر متحد ہو جائے گا.چنانچہ قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات (11 ستمبر 1948ء) کے بعد پاکستان سے ایک احراری لیڈر دہلی گئے اور خفیہ طور پر پنڈت جی سے ملاقات کی اور درخواست کی کہ پاکستانیوں کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے.اگر ہماری مدد کی جائے تو ہم دونوں ملکوں کو متحد کر سکتے ہیں.21 اس ملاقات کے بعد احرار نے "ختم نبوت“ کے نام پر باغیانہ تحریک چلائی اور مملکت خدا داد پاکستان کے امن وامان کو تہ و بالا کر دیا اور نوبت 1953ء کے خونیں فسادات پنجاب تک پہنچ گئی.ایجی ٹیشن کی ناکامی کے بعد اکثر احرار لیڈر مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ میں شامل ہو کر دونوں
12 بازؤوں میں نفرتوں کا بیج بونے لگے اور جب دسمبر 1971ء میں سقوط ڈھاکہ ہوا تو احرار نے آل انڈیا نیشنل کانگرس کی سکیم کے عین مطابق اپنی توجہ بچے کھچے پاکستان میں فرقہ پرستی کو ہوا دینے پر مبذول کر دی اور ضرب خفیف کے ایک معمولی واقعہ کی آڑ لے کر افترا پردازیوں کی ایسی انسانیت سوز مہم چلائی کہ پاکستان کی سر زمین جس کے لئے احمدیوں نے قربانیاں دی تھیں اور خون کے نذرانے پیش کئے تھے، کربلا بنادی گئی اور ظلم و ستم کی حد یہ تھی کہ پاکستان کے سوشلسٹ وزیر اعظم مسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کی ہوس میں جماعت احمدیہ پاکستان کے خلاف نیشنل اسمبلی میں 7 ستمبر 1974ء کی قرار داد تکفیر پاس کرائی.سانحہ ربوہ “ کا منصوبہ کہاں اور کس ملک میں تیار ہوا؟ اُس کا انکشاف انہی دنوں وزیر اعظم پاکستان نے اپنی نشری تقریر میں کر دیا اور واضح لفظوں میں بتایا کہ اس کے پیچھے ماسکو اور کابل کا ہاتھ ہے.22 جدید تحقیقات واکتشافات کے اس اجمالی خلاصہ کے بعد احراری مطالبہ اقلیت کے پس منظر کی تفصیلات ملاحظہ ہوں.حواشی: 1 تاریخ ہند حصہ دوم صفحہ 191-193 از مولوی محمد شفیع صاحب ایم اے سابق ہیڈ ماسٹر اسلامیہ ہائی سکول شیر انوالہ گیٹ لاہور مطبوعہ بک ڈپوار دو بازار لاہور.2 ” مقدمہ بہادر شاہ ظفر“ (از خواجہ حسن نظامی دہلوی) صفحہ 2-3 وصفحہ 157 تا 163 اشاعت جولائی 1920ء.طبع دوم اپریل 1990ء ناشر الفیصل غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور.3 " مقدمہ بہادر شاہ ظفر “ صفحہ 56-57.4 ” مقدمہ بہادر شاہ ظفر “صفحہ 106.5 " مقدمہ بہادر شاہ ظفر “صفحہ 197.6 ” مقدمہ بہادر شاہ ظفر “صفحہ 225.7 "The Oxford History of India” p.737 (By The Late Vincent Smith, C.I.E) Oxford University Press Karachi 1992.و اکابرین تحریک پاکستان صفحه 169-170- از جناب محمد علی چراغ صاحب.ناشر سنگ میل پبلیکیشنزلاہور اشاعت 1997ء.قائد اعظم اور ان کا عہد صفحہ 42-43.مولفہ جناب رئیس احمد جعفری مورخ پاکستان.10 اخبار ملاپ 23 جون 1925ء صفحہ 9 بحوالہ "ہندوراج کے منصوبے" از محقق احمدیت ملک فضل حسین صاحب قادیان.طبع ہفتم.اشاعت د سمبر 1931ء قادیان.
13 11 اخبار ملاپ 23 جون 1925ء صفحہ 9 بحوالہ ” ہندوراج کے منصوبے“ صفحہ 84-85 از ملک فضل حسین صاحب قادیان اشاعت اپریل 1946ء بار 12 ہندو لٹریچر ، ہندو تہذیب اور ہندو د یو تا وغیرہ.13 اخبار ”پیغام صلح“ لاہور ( بحوالہ ہندوراج کے منصوبے صفحہ 182) 14 ( تلخیص) " پنجاب میں بائیں بازو کی سیاست“ 1909ء.1947ء مولف جناب اجیت جاوید مترجم محترم طاہر کامران صاحب ناشر فکشن ہاؤس مزنگ روڈ لاہور.اشاعت 1998ء.15 پنجاب کی انقلابی تحریکیں (1906-1946ء) صفحه 41-42 از پروفیسر سید ایم رائے صاحب مترجم محمود زمان ناشر جمہوری پبلیکیشنز نیلا گنبد لاہور.اشاعت اول جولائی 2004ء.16 پنجاب کی سیاسی جد و جہد ( 1857ء تا 1944ء) صفحہ 47 تالیف جناب بھگت سنگھ صاحب گورمکھی سے اردو ترجمه از قلم جناب یاسر جواد صاحب شائع کر دہ فکشن ہاؤس 18 مزنگ روڈلاہور.اشاعت 2003ء.17 پنجاب کی انقلابی تحریکیں صفحہ 69-70.18 1 ” پنجاب کی سیاسی جدوجہد “ 1857ء تا1944ءصفحہ 62-63.19 اخبار شیر پنجاب لاہور 19 ستمبر 1926ء صفحہ 18.بحوالہ ”ہند وراج کے منصوبے“ صفحہ 207.20 تفصیل آگے آرہی ہے.21 یہاں صرف ایک اشاراتی خاکہ پیش کیا جارہا ہے مکمل اور مستند حوالے مفصل پس منظر میں موجود ہیں.22 امروز 14 جون 1974ء صفحہ 1.
14 احراری مطالبہ اقلیت کا عالمی پس منظر حرف اوّل پیشتر اس کے کہ احراری مطالبہ اقلیت کے سیاسی اور مذہبی خدوخال اور اس کے عالمی پس منظر پر جدید تحقیقات پیش کی جائیں، یہ بتانا لازم ہے کہ جس طرح حضرت بانی سلسلہ احمدیہ ، موعود شخصیت اور آپ کی جماعت آخرین، ایک موعود جماعت ہے جس کا قیام منہاج نبوت کے عین مطابق عمل میں آیا اور پھر سنت اللہ کے مطابق اُس نے تدریجی ترقی کی.اس طرح خدا کی اس مقدس جماعت کے خلاف اٹھنے والے یاجوج ماجوج اور دجال کے فتنوں کی خبریں بھی کتاب اللہ ، احادیث نبوی اور بائبل میں صدیوں قبل دی گئی تھیں جیسا کہ سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر میں بالتفصیل بتایا جاچکا ہے.1891ء میں حضرت اقدس مسیح موعود پر دعوی مسیحیت کے ساتھ جناب الہی کی طرف سے انکشاف کیا گیا کہ یا جوج ماجوج سے مراد انگریز اور روس کی دوا قبال مند قومیں ہیں جو آتشیں ہتھیاروں سے دنیا پر حکمر انی کر رہی ہیں اور گرجے سے نکلنے والا د جال پادریوں کا گروہ ہے جو انگریزوں کی پشت پناہی میں کرۂ ارض پر پھیل رہا ہے اور دنیا بھر کے مسلمان صلیبی طوفان میں بہتے چلے جارہے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور دجال کی بھی پیشگوئی فرمائی جو خراسان سے خروج کرے گا.یہ وہی علاقہ ہے جہاں بابیوں کا مرکز بدشت واقع ہے.اسی جگہ 1264ھ (مطابق 1848ء) میں باہیوں کا اجتماع ہوا جس میں ایک سوچی سمجھی سازش کے مطابق قرآنی شریعت کی منسوخی کا اعلان کیا گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارض خراسان ہی کے متعلق فرمایا.الدجال يخرج من ارض بالمشرق يُقالُ لَها خراسان يتبعه اقوام كانووجوههما لمجان المطرقه 1 یہ اہم حدیث صدیق اکبر حضرت امیر المومنین ابو بکر خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے اور اس کا ترجمہ یہ ہے کہ دجال مشرقی علاقہ خراسان سے نکلے گا.اس کی پیروی وہ قومیں کریں گی
15 جن کے چہرے ایسی ڈھالوں کی مانند ہونگے جن پر ہتھوڑے مارے گئے ہوں گے.2 گرجاگھر سے بر آمد ہونے والا دجال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے وقت انگریزوں کی پشت پناہی میں پوری دنیا پر محیط ہو چکا تھا جس کے خلاف اسلام کے بطل جلیل اور فتح نصیب جرنیل نے ایسا عظیم الشان قلمی و لسانی جہاد کیا جس کی نظیر گزشتہ چودہ صدیوں میں نہیں مل سکتی.خراسانی دجال جو قدیم ایران کے پیغمبر اشتراکیت مزدک کے بنیادی نظریہ کے احیاء اور نشاۃ ثانیہ کی خاطر اٹھا، اگر چہ ابتداء ہی سے عملاً کارل مارکس کے نظریات کا پاسبان تھا مگر اسے عالمی شہرت اشتراکی روس کی بدولت نصیب ہوئی جس کا نشان ہی ہتھوڑا ہے.اور یہ واقعہ خلافت ثانیہ کے اوائل میں رو نما ہوا جس کے بارہ سال بعد آل انڈیا نیشنل کانگرس کے سوشلسٹ بلاک کے لیڈر پنڈت جواہر لال کی سیاسی سازش اور جناب ابو الکلام آزاد کی نگرانی میں 31 دسمبر 1929ء کے اجلاس راوی کے دوران معرض وجود میں آئی.انڈیا ایکٹ کے نفاذ سے چند ماہ قبل اُس نے انگریزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ” قادیانیوں“ کو مسلمانان ہند سے الگ غیر مسلم اقلیت تسلیم کرے جس کا واحد مقصد برٹش انڈیا کی مسلم آبادی کو کم کر کے کانگرس کو ملک کی نمائندہ جماعت ثابت کرنا تھا.احرار کی پچاس سالہ سرگرمیاں اسی مطالبہ کے گرد گھومتی رہیں جس کے بعد بالآخر 7 ستمبر 1974ء کو پاکستان کی سوشلسٹ حکومت نے سوشلسٹ علماء سے گٹھ جوڑ کر کے یہ مطالبہ قبول کر لیا.اس باب میں اسی احراری مطالبہ کے اسباب و علل اور اُس کے پردہ میں کار فرما عناصر ، شخصیات اور بعض عالمی طاقتوں کی نشان دہی کی گئی ہے اور اُن کے طریقہ وار دات اور سیاسی اور مذہبی سرگرمیوں کا بھی نقشہ کھینچا گیا ہے.اور اس کے ہر گوشہ اور ہر پہلو کا واقعاتی ثبوت مستند مآخذ و مصادر اور ناقابل تردید معلومات سے فراہم کیا گیا ہے.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کی ترتیب قرآنی تاریخ کی مرہون منت ہے اور اوّل سے آخر تک اس سے راہنما اصول کے طور پر اکتساب فیض کیا گیا ہے.اس زاویہ نگاہ سے اس میں بیان شدہ تاریخی واقعات کو قرآن مجید اور خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت و حقانیت کا نشان قرار دیا جائے تو ہر گز مبالغہ نہ ہو گا.تاریخ کار ہنما اصول دینی اور روحانی سلسلوں خصوصاً اسلام کے دور ثانی اور جمالی ظہور پر قلم اٹھانے والے وقائع نگاروں اور تاریخ نویسوں کے لئے سلطان القلم سید نا حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کا یہ رہنما اصول قیامت تک سنہری حروف میں لکھا جائے گا کہ
16 اس عالم کا مورخ اور واقعہ نگار بجز خدا کے کلام کے اور کوئی نہیں ہو سکتا....جس کے مضامین صرف قیاسی اٹکلوں میں محدود نہیں بلکہ وہ عقلی دلائل کے علاوہ به حیثیت ایک مورخ صادق، عالم ثانی کے واقعات صحیحہ کی خبر بھی دیتا ہے اور چشم دید ماجر ابیان کرتا ہے.“3 قرآن مجید زمانه قبل از تاریخ اور بعد از تاریخ دونوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتا ہے :- 666 ذلكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْقُرى نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْهَا قَآئِمُ وَحَصِيدٌ.(هود.101) یہ اُن بستیوں کی خبروں میں سے (ایک خبر ) ہے جس کا قصہ ہم تیرے سامنے بیان کرتے ہیں.کتاب اللہ نے علم تاریخ کو فلسفہ اور نفسیات کی روشنی میں دیکھنے اور پس پردہ کار فرما عوامل کو تلاش کر کے واقعات کی حقیقی کڑیوں کو ملانے کی ہدایت کی ہے چنانچہ وہ بار بار أَفَلا تَعْقِلُونَ (البقرہ.77) کی تاکید فرماتا ہے اور اس امر کو فضل عظیم سے تعبیر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ملی ایم پر کتاب کے ساتھ ہی حکمت بھی نازل کی ہے اور وہ علوم بھی سکھائے جن سے آپ نا آشنا تھے.علوم اس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ہر چیز اور ہر واقعہ کی حکمت ہوا کرتی ہے جسے سیکھنے کی کوشش کرو.اس حکمت کا دوسر ا نام فلسفہ ہے اور دوسرے علوم کی طرح علم تاریخ کے فلسفہ سے بھی قرآن بھرا ہوا ہے.مورخ اسلام علامہ ابن خلدون (ولادت 1323ء.وفات 1406ء) نے قرآن مجید ہی کے مطالعہ سے فلسفہ تاریخ کی بنیاد ڈالی اور تنقید اخبار اور روایت کو درایت سے جانچنے کے بہترین اصول ایجاد کر کے دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا.علامہ کا مقدمہ ابن خلدون“ فلسفہ تاریخ کا مسلم شاہکار ہے جس نے مغربی محققین سے بھی خراج تحسین وصول کیا ہے.آپ سے قبل ابو جعفر محمد بن جریر الطبری (متوفی 922ء) نے بھی انہی اصولوں کو پیش نظر رکھا ہے جو بعد ازاں علامہ ابن خلدون نے قرآن کی روشنی میں وضع کر کے فلسفہ تاریخ میں انقلاب برپا کر دیا.چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ نے 24 جنوری 1944ء کو اسلامی نقطہ نگاہ سے تاریخ نویسی پر بلیغ روشنی ڈالتے ہوئے بیان فرمایا :- ابن جریر نے ایسی طرز پر تاریخ لکھی ہے کہ وہ خود راہ نمائی کرتی ہے کہ ہم کس کو لیں اور کس کو نہ لیں.ابن جریر ان تمام اصول کو جن کو ابن خلدون وغیرہ نے بیان کیا، عمل میں لے آیا ہے.پس اسلام میں اختلافات کے صحیح اسباب کا مطالعہ کرتے کرتے مجھے خدا تعالیٰ کے فضل سے ابن جریر ایک ایسا مورخ مل گیا جس کا
17 طریق یہ ہے کہ زید یا بکر سے جو مختلف روایتیں آتی ہیں پہلے ان کے ٹکڑے بیان کر دے گا پھر ایک اور مکمل روایت لکھے گا.اس طرح وہ ان مکمل روایات کی ایک مکمل زنجیر پیش کر دے گا.روایات کے ٹکڑے وہ بے شک دیتا چلا جائے گا لیکن وہ اس زنجیر میں ٹھیک نہیں آئیں گے.وہ ہمارے سامنے واقعات کی ایسی زنجیر رکھ دے گا کہ جس سے تمام اعتراضات جو صحابہ پر پڑتے ہیں دور ہو جائیں گے اور جو صحیح و درست روایت ہو گی وہی اس زنجیر میں ٹھیک آئے گی.ان اصول کے ماتحت میں نے دو لیکچر اسلامی تاریخ پر اسلامیہ کالج لاہور میں دیئے تھے جن میں سے ایک اسلام میں اختلافات کا آغاز “ کے نام سے شائع بھی ہو چکا ہے.“ مشہور عالم تاریخ طبری کے مخصوص اسلوب اور منفرد انداز کے تتبع میں اب تک تاریخ احمدیت میں بھی احراری مطالبہ اقلیت (1934ء.1974ء) کی چہل سالہ جارحانہ سرگرمیوں کا ذکر اپنے اپنے موقع پر ترتیب زمانی کے مطابق کیا جا چکا ہے.اب اس باب میں اس مطالبہ کے حقیقی عالمی پس منظر پر روشنی ڈالی جائے گی جس سے ضمناً مطالبہ کے اصل ملکی خد وخال بھی انشا اللہ نمایاں ہو کر سامنے آجائیں گے اور بتوفیقہ تعالیٰ نہ صرف دنیا بلکہ خدا کی مقدس جماعت کو پتہ چلے گا کہ تحریک احمدیت کے خلاف عالمی سطح پر کتنے خوفناک طوفان اٹھے مگر رب العرش نے اپنے وعدوں کے مطابق نظام خلافت کی برکت سے اُن کے رخ پلٹ دیئے اور احمدیت کی کشتی پوری شان و شوکت سے ساحل مراد تک پہنچی.اسی طرح پہلی بار احمدیت کی مخالف طاقتوں اور ان کے آلہ کار بہت سی مسلم اور غیر مسلم شخصیات کا اصل چہرہ ان کے سامنے آجائے گا اور اُن کے بہت سے سر بستہ رازوں اور خفیہ واقعات سے پردہ اٹھ جائے گا.حواشی: 3 تریدی.کتاب الفتن باب ما جاء من این بیخرج الدجال 2 عربی میں ہتھوڑے کو مطرقہ کہتے ہیں ( القاموس الجدید تالیف وحید الزمان قاسمی کیرانوی ناشر ”ادارہ اسلامیات“ لاہور اشاعت جون1990ء) براہین احمدیہ جلد چہارم صفحه 289 طبع اول مطبع ریاض ہند امر تسر باہتمام محمد حسین صاحب مراد آبادی سال اشاعت 1884ء.4 " الفضل “2 فروری 1944ء صفحہ 3.
18 پہلی فصل قرآن مجید کا بغور مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت مہر نیم روز کی طرح نمایاں ہو کر سامنے آجاتی ہے کہ ختم نبوت“ کے نام پر پہلی تحریک اولوا العزم پیغمبر خدا سید نا حضرت یوسف علیہ السلام کی وفات (1817 ق م) 1 کے معا بعد اٹھی اور یہ کتاب اللہ کا ایک محیر العقول معجزہ ہے کہ جہاں بائبل اس اہم پہلو کے بارے میں پوری طرح خاموش ہے ، وہاں اُس نے نہ صرف واضح لفظوں میں اس کا ذکر فرمایا ہے بلکہ مستقبل میں اسی نام سے فتنہ برپا کرنے والے گمراہوں کی بھی چودہ سو سال قبل پیشگوئی کی ہے جو ختم نبوت کی آڑ میں قرآنی آیات پیش کر کے مجادلہ کریں گے.ان کی سرگرمیاں خدا اور اس کے مومن بندوں کی ناراضگی کا موجب ہوں گی.اُن کی تحریک متکبرانہ اور اسکی عملی تشکیل جابرانہ ہو گی جیسا کہ 1974ء میں ہوا.چنانچہ اللہ جلشانہ سورہ مومن آیت 35-36 میں فرماتا ہے: وَ لَقَدْ جَاءَكُمْ يُوسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَيِّنَتِ فَمَا زِلْتُمْ فِي شَكٍّ مِّمَّا جَاءَكُمْ بِهِ حَتَّى إِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ يَبْعَثَ اللَّهُ مِنْ بَعْدِهِ رَسُولًا كَذلِكَ يُضِلُّ اللهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُرْتَابُ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَتِ (المومن 36،35) اللهِ بِغَيْرِ سُلْطنٍ اَشْهُمْ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللهِ وَعِنْدَ الَّذِينَ آمَنُوا كَذَلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ.”یقینا تمہارے پاس اس سے پہلے یوسف بھی کھلے کھلے نشانات لے کر آچکا ہے.مگر تم اس بارہ میں ہمیشہ شک میں رہے جو وہ تمہارے پاس لایا.یہاں تک کہ جب وہ مر گیا تو تم کہنے لگے کہ اب اس کے بعد اللہ ہر گز کوئی رسول معبوث نہیں کرے گا.اسی طرح اللہ حد سے بڑھنے والے اور شک میں تقبلا رہنے والے کو گمراہ ٹھہرائے گا.2 ان لوگوں کو جو آیات اللہ کے بارے میں بغیر کسی غالب دلیل کے جو اُن کے پاس آئی ہو، جھگڑا کریں گے جو اللہ کے نزدیک بھی بہت بڑا گناہ ہے اور مومنوں کے نزدیک بھی.اسی طرح اللہ ہر متکبر اور سخت جابر کے دل پر مہر لگا دے گا.“ سبحان اللہ ! خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے وعدے والے زندہ خدا نے چودہ سوسال قبل کیسا واضح نقشہ احرار کی نام نہاد تحریک ختم نبوت اور ان کے مطالبہ اقلیت کا کھینچ کر رکھ دیا ہے اور اُن کے مذہبی اور سیاسی حربوں کی نشان دہی فرما دی ہے کہ شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی.اس سے بڑھ کر تعجب خیز بات یہ ہے کہ ان آیات کے معابعد فرعون کی
19 تکذیب اور اس کی نامرادی کا بھی ذکر کیا گیا ہے.چنانچہ ارشاد ربانی ہے :- وَ قَالَ فِرْعَوْنُ يْهَا مَنُ ابْنِ لِي صَرْحًا لَّعَلَّى أَبْلُغُ الْأَسْبَابَ أَسْبَابَ السَّمَوتِ فَاطَّلِعَ إِلَى إِلَهِ مُوسى وَ إِنِّي لَأَظُنُّهُ كَاذِبًا وَكَذَلِكَ زُيِّنَ لِفِرْعَوْنَ سُوءُ عَمَلِهِ وَصُدَّ عَنِ السَّبِيْلِ وَ مَا كَيْدُ فِرْعَوْنَ إِلَّا فِي تَبَابِ.(المومن : 38،37) اور فرعون نے کہا، اے ہامان میرے لئے محل بنا تا کہ میں ان راستوں تک جا پہنچوں جو آسمان کے راستے ہیں تاکہ میں موسیٰ کے معبود کو جھانک کر دیکھوں.بلکہ در حقیقت میں تو اسے جھوٹا سمجھتا ہوں اور اسی طرح اس کے بد اعمال خوبصورت کر کے دکھائے گئے اور وہ راستے سے روک دیا گیا اور فرعون کی تدبیر اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ وہ نامرادی میں ڈوبی ہوئی تھی.خدا کی قدرت! مسیح دوراں، کلیم خدا حضرت مهدی موعود علیہ السلام کو بھی الہام ہوا: واذ یمکربک الذی کفر او قدلی یا هامان لعلى اطلع على اله موسى واني لا ظنه من الكاذبين تبت يدا أبي لهب وتب ما كان له ان يدخل فيها الا خائفا و ما اصابك فمن الله الفتنة فهنا فاصبر كما صبر اولو العزم الا انها فتنة من الله ليحب حباً جما حبا من الله العزيز الاکرم“ اور یاد کرو وہ وقت جب تجھ سے وہ شخص مکر کرنے لگا جس نے تکفیر کی اور تجھے کافر ٹھہرایا اور کہا کہ اے ہامان! میرے لئے آگ بھڑکا تا میں موسیٰ کے خدا پر اطلاع پاؤں اور میں اُس کو جھوٹا سمجھتا ہوں.ہلاک ہوئے دونوں ہاتھ ابی لہب.کے وہ آپ بھی ہلاک ہو گیا.اس کو نہیں چاہیے تھا کہ اس معاملہ میں دخل دیتا مگر ڈرتے ڈرتے اور جو کچھ تجھے رنج پہنچے گا وہ تو خدا کی طرف سے ہے.اس جگہ ایک فتنہ برپا ہو گا پس صبر کر جیسا کہ اولوالعزم نبیوں نے صبر کیا.وہ فتنہ خدا کی طرف سے ہو گا تا وہ تجھ سے محبت کرے.وہ اس خدا کی محبت ہے جو بہت غالب اور بزرگ ہے.3 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود ( جن کے زمانہ خلافت میں 1934ء اور 1953ء کی احراری شورش اٹھی ) قرآن مجید خصوصاً سورۃ الفجر کے مطالعہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ جماعت احمدیہ کو بھی اس صدی میں کسی فرعون کی طرف سے خطر ناک مظالم کا نشانہ بنایا جائے گا.چنانچہ آپ نے کم و بیش اٹھائیس برس پیشتر یہ خبر دی کہ :-
20 ”جب جماعت احمد یہ کسی فرعون کے مظالم کی وجہ سے سخت گھبر ااُٹھے گی.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام جماعت احمدیہ کو روحانی طور پر اُس کے خلیفہ اور امام کی زبان سے کیونکہ وہ دو نہیں بلکہ ایک ہی وجو د ہوں گے جبکہ وہ غم وہم کے تمثیلی سمندر کے کنارے پر کھڑا ہو گا یا ممکن ہے کہ مصر یا کسی اور ملک میں ایسے ہی حالات پیدا ہونے پر اور واقعہ میں دریائے نیل کے کنارے پر یا اور کسی دریا کے کنارے پر بڑے جاہ و جلال کے ساتھ فرمائیں گے كَلَّا اِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِين كلاً کے معنی یہی ہیں کہ لا تخزن غم مت کرو.اِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِین میرے ساتھ میر ارب ہے...اور وہ اس لیل میں سے ہمیں نکال کر لے جائے گا.“4 مسٹر بھٹو اپنے عہد اقتدار میں فرعونِ پاکستان اور قاتل عوام کے نام سے مشہور ہو گئے تھے بلکہ لاہور کے روزنامہ آفاق 30 اگست 1977ء کے اداریہ کا عنوان ہی یہ تھا ” پاکستان کا فرعون“ اسی طرح بہاولپور کے روز نامہ سیادت (4) ستمبر 1977ء) میں اُن کی گرفتاری پر یہ سرخی تھی ”قاتل عوام مسٹر بھٹو گر فتار“.مسٹر بھٹو نے ابتداء ہی سے اپنی نئی پارٹی کے منشور میں ریاست کے نظام معیشت کا سر چشمہ سوشلزم ہی کو قرار دے رکھا تھا جس پر پاکستان کے مذہبی رہنماؤں نے بھی سخت نوٹس لیا اور اُن پر کفر کے فتوے لگائے.انہوں نے 16 ستمبر 1967ء کو ایک نئی پارٹی کے قیام کا اعلان میر رسول بخش تالپور کی رہائش گاہ پر ایک پریس کانفرنس میں کیا.5 اسی دن انہوں نے حیدرآباد کے مقامی ہوٹل میں طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے بتایا کہ اُن کی پیپلز پارٹی نوجوان نسل پر مشتمل ہو گی.یکم اکتوبر کو بھٹو صاحب نے طلبہ کو ئٹہ کو بتایا کہ ان کی پارٹی عوامی ہوگی اس کی بنیاد سوشلزم پر رکھی جائے گی.6 ازاں بعد بھٹو نے 20 اکتوبر 1967ء کو مشرقی پاکستان کا دورہ شروع کیا اور اسی روز انہوں نے ڈھاکہ کے انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں پہلی کا نفرنس منعقد کی جس میں یہ بھی اعلان کیا کہ اُن کی پارٹی جس سوشلزم پر مبنی ہو گی.وہ پاکستانی عوام کی ضرورتوں کی کفالت کا ضامن بن سکے گا.7 اس امر کی مزید وضاحت انہوں نے کراچی پہنچ کر اپنی قیام گاہ پر ایک پریس کانفرنس میں یہ کی کہ ہم جو سوشلزم یہاں قائم کریں گے وہ پاکستان کے حالات کے عین مطابق ہو گا.یورپ کے چند ملکوں میں جن میں ناروے اور سویڈن شامل ہیں، جس طرح پر امن طریقے سے سوشلزم رائج کیا گیا ہے اس طرح ہم بھی پر امن ذرائع اختیار کریں گے.8
21 9" 5 نومبر 1967ء کو انہوں نے پشاور کے ایک مقامی ہوٹل کی دعوت استقبالیہ میں بتایا.”اسلام اور سوشلزم میں انسان کی معاشی زندگی سے متعلق قدریں مشترک ہیں.اگر ہم انہیں اپنا لیں تو ہماری بہت سی تکلیفیں دور ہو جائیں گی.تو ان ملک گیر طوفانی دوروں کے بعد بھٹو صاحب نے 7 نومبر 1967ء کو لاہور میں پیپلز پارٹی کا با قاعدہ اعلان کیا اور اپنے باطنی عقیدہ کے راز کو ایک بار پھر فاش کرتے ہوئے واضح کیا کہ ” میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اسلام اور سوشلزم کے معاشی نظام میں زیادہ فرق نہیں ہے.10 ازاں بعد انہوں نے قصور کے ایک عوامی عظیم اجتماع میں پہلی بار یہ نعرہ بلند کیا کہ پیپلز پارٹی بیک وقت اسلام، جمہوریت اور سوشلزم کی مبلغ اور علمبر دار ہو گی.“11 اسی نعرہ کے مطابق منشور پاکستان پیپلز پارٹی کے اختتامیہ میں اس پارٹی کے حسب ذیل چار بنیادی اصول درج ہیں جو اسکی اساس تھے.یعنی ”اسلام ہمارا دین ہے.جمہوریت ہماری سیاست ہے.سوشلزم ہماری معیشت ہے.طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں.12 منشور میں اسلام کے بر عکس خالق کائنات کی بجائے عوام کو طاقت کا سر چشمہ قرار دینے سے اس حقیقت کو بالکل بے نقاب کر دیا کہ بھٹو اور ان کی سوشلسٹ پارٹی کا خدا تعالیٰ پر ہر گز کوئی ایمان نہیں اور ان کی پوری سیاست عوامی خواہشات کے تابع ہو گی اور جمہوریت کے پر دہ میں عوامی اکثریت ہی کو ترجیح دے گی خواہ وہ قرآن مجید کے کس درجہ منافی ہو.حالانکہ قرآن کا واضح نظریہ ہے: وَإِنْ تُطِعْ أَكْفَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيْلِ اللَّهِ“ (الانعام.117) اگر تو زمین میں اکثریت کی اطاعت کرے گا تو وہ تمہیں اللہ سے گمراہ کر دیں گے.پھر فرمایا: قَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ.(سبا-14) میرے شکور بندے قلیل یعنی اقلیت میں ہوتے ہیں.یہ محض اتفاق کا کرشمہ نہیں ہے کہ جماعت احمدیہ کے خلاف احراری مطالبہ کی پذیرائی جس فرعون وقت نے کی وہ پکا کمیونسٹ اور سوشلسٹ تھا، بلکہ اس کے بعد واقعات و علل کا ایک لمبا سلسلہ
22 کار فرما ہے جو چودہ صدیوں پر محیط ہے اور اپنے دامن میں مزدیکہ (قدیم اشتراکی مذہب ) بابیت (مزد کیہ کا ماڈرن روپ ) اور مارکسزم کو سمیٹے ہوئے ہے اور جسے بالشویکی روس کے عالمی منصوبوں نے پروان چڑھایا ہے.پاکستان کے ایک اہل قلم جناب محمد اسماعیل قریشی صاحب فتنہ سوشلزم کا تذکرہ کرتے ہوئے محمد تحریر فرماتے ہیں: سوشلزم فتنہ نہایت برق رفتاری کے ساتھ اٹھا اور اٹھارھویں صدی کی لائی ہوئی ظلم پر مبنی سرمایہ دارانہ معیشت کی تباہ کاریوں کے خلاف عالمی انقلاب کی صورت میں نمودار ہو ا.کارل مارکس اور اینجلز کے افکار اور لینن واسٹالن کے عملی اقدام سے بر سیل بے پناہ ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیتا جا رہا تھا.سب سے پہلے وہ دین و مذہب کو بیخ و بن سے اکھاڑنے کے دریے تھا، کیونکہ پیروان مذہب اس نوزائیدہ اشتراکی مذہب کی راہ میں حائل تھے.روس کی ملحقہ مسلم ریاستوں کو زیر وزبر کرنے کے بعد وشلزم کا یہ سیلاب ہندوستان کے اندر داخل ہو گیا.اگرچہ اس وقت برطانوی سامراج نے مسلمانوں کی تہذیب و تمدن، زبان و ثقافت اور اقدار حیات کو بڑی حد تک اپنے کلچر میں تحلیل کر کے اپنی استعماری گرفت کو مضبوط کر لیا تھالیکن اشتراکیت کے مقابلے میں اس کی گرفت کمزور ہوتی جارہی تھی.یہ فتنہ مسلمانوں پر 1857ء کے ابتلاء سے بڑھ کر تباہ کن اور ہلاکت خیز تھا.“13 اور احرار اور اُن کا مطالبہ اقلیت اسی فتنہ کی کوکھ سے پیدا ہوا جیسا کہ آئندہ صفحات سے بالبد اہت ثابت ہو جائے گا.قدیم اشتراکیت کی ارتقائی تاریخ تاریخ عالم سے پتہ چلتا ہے کہ اشتراکیت اور سوشلسٹ نظام کا تصور پہلی بار افلاطون (327-427 ق م) نے اپنی کتاب ”Plato Republic ریاست“ میں پیش کیا جو صرف حکومت اور سپاہیوں تک محدود تھا کہ وہ سب ایک جگہ ایک سا کھانا کھائیں اور ایک سا کپڑا پہنیں.افلاطون نے اشتراک املاک کے ساتھ ساتھ اشتراک ازواج کی بھی حمایت کی اور کہا کہ حکمرانوں کا کام ہے کہ مقررہ اوقات پر تندرست نوجوان مرد عورتوں کو یکجا کر دیں اور ان کے اختلاط سے جو اولاد پید اہو ، اسے اس کا علم ہی نہ ہو کہ اس کے والدین کون ہیں.بچوں کو پیدا ہوتے ہی ریاست ماؤں سے لیکر اپنے آغوش میں پرورش
23 دے تاکہ ہر نسل اپنے سے پہلی نسل کو من حیث الکل اپنے ماں باپ سمجھے.اس کی خواہش تھی کہ شیخ خاندانوں کو مٹاکر ریاست کے دو اعلیٰ طبقوں (حکمران.فوج) کو بس ایک خاندان بنادے.14 افلاطون کی کتاب کا نام Plato Republic ہے جس کا ترجمہ ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب کے قلم سے ”ریاست“ کی شکل میں پہلی بار قیام پاکستان سے برسوں قبل شائع ہوا تھا.افلاطون کو اقبال کی قدیم ممدوح شخصیات میں سر فہرست سمجھنا چاہیے.چنانچہ وہ افلاطون اور قرآن کی تعلیم میں ہم آہنگی کا فلسفہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں.قرآن، مذہب، ریاست، اخلاقیات اور سیاسیات میں اُسی طرح ایک باہمی ربط بہت ضروری خیال کرتا ہے جس طرح افلاطون نے اپنی تصنیف ” ریاست میں بیان کیا ہے.15 سر اقبال کا یہ مقالہ 1908ء میں لوزاک اینڈ کمپنی 46 گریٹ رسل اسٹریٹ لنڈن سے زیر عنوان 16 "15 The Development of Metaphysics in Persia شائع ہوا.جناب تصدق حسین تاج (حیدرآباد دکن) نے 1936ء میں اس کتاب کا اردو ترجمہ فلسفہ عجم کے نام سے شائع کیا.پیغمبر اشتراکیت ظہور اسلام سے ذرا قبل ایرانی فلسفی مزدک نے (487-538ء) دعوی پیغمبری کر کے ایک نئے مذہب کی بنیا در کبھی جس کی روح رواں افلاطون ہی کا فلسفہ اشتراکیت تھا.سر اقبال نے اپنے مقالہ The Development of Metaphysics in Persia میں مزدک کو اشتراکیت کا پہلا پیغمبر تسلیم کیا ہے اور لکھا ہے اس کی نگاہ میں تمام انسان مساوی ہیں اور انفرادی جائیداد کا تصور مخالف دیوتاؤں کا پیش کردہ ہے جن کا مقصد یہ ہے کہ خدا کی کائنات کو لا محدود تباہی کا منظر بنا دیں.17 حضرت علامہ ابن حزم اندلسی (وفات 1063ء) فرقہ مزد کیہ کا تعارف کرتے ہوئے لکھتے ہیں.مجوس روشنی، آگ اور پانی کی تعظیم کرتے ہیں سوائے اس کے کہ وہ زر دشت کی نبوت کا اقرار کرتے ہیں اور اپنی شریعت کو زر دشت کی طرف منسوب کرتے ہیں.ان میں ایک فرقہ مزد کیہ ہے یہ لوگ مزدک کے متبع ہیں جو مجوسیوں میں ایک مذہبی پیشوا گزرے ہیں.ایسے پیشواؤں کو ان کی اصطلاح میں موبد کہتے ہیں.“ پیروان فرقہ مزدکیہ کا فلسفہ یہ ہے کہ ہر شخص جو کمائے، اکتساب کرے.اس میں سب کا حق
24 برابر برابر ہے، یہ لوگ عورتوں میں بھی مساوات کے قائل ہیں کہ ہوا اور پانی کی طرح عور تیں بھی ”ملک مشاع “ ہیں.ہر ایک مرد ان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے.بابک خرمی ( جو خلیفہ معتصم باللہ العباسی کے ہاتھوں قتل ہوا) مزدک ہی کا ہم عقیدہ تھا.اس کے پیر و (جو اسلام کو مٹا کے ایرانی مجوسی قائم کرنا چاہتے تھے ) اسی مساوات واشتراکیت کا عقیدہ رکھتے تھے.خرمیہ بھی فرقہ مزدکیہ کی ایک شاخ ہے.فرقہ اسماعیلیہ جو اسماعیل بن جعفر صادق کی امامت کا قائل ہے ، ان کے مذہب کا راز بھی فرقہ خرمیہ ہی کی تعلیم ہے اور وہیں سے انہوں نے اپنے اصول اخذ کئے ہیں.یہ وہی لوگ ہیں جو قرامطہ اور بنی عبید اور اُن کے عنصر کے قول پر ہیں.“18 پروفیسر مقبول بیگ بدخشانی اپنی معرکہ آرا تالیف " تاریخ ایران“ جلد اول میں مزدک اور مزدکیوں کے عقائد واحوال کی نسبت تحریر فرماتے ہیں.مزدک کی شخصیت کے متعلق قدیمی تاریخوں میں بہت کم معلومات ملتی ہیں.اس بات پر تو سب متفق ہیں کہ وہ بامداد کا بیٹا تھا.لیکن وہ رہنے ولا کہاں کا تھا؟ اس کے متعلق مورخین کی آرا مختلف ہیں.طبری لکھتے ہیں کہ وہ صوبہ خراسان کے شہر کا رہنے والا تھا.دینوری اسے استخر کا باشندہ لکھتے ہیں.تبصرۃ العوم میں لکھا ہے کہ وہ تبریز کا رہنے والا تھا.بہر حال اس پر سب کا اتفاق ہے کہ وہ ایرانی الاصل تھا.“ مزد کیوں کا اہم ترین عقیدہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے روئے زمین پر زندگی کے وسائل پیدا کیے تا کہ سب یکساں طور پر ان سے متمتع ہوں اور کسی کو دوسرے کی نسبت زیادہ حصہ نہ ملے.لیکن لوگ دوسرے پر ے پر ظلم روا رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کی مخالفت پر تل جاتے ہیں.طاقتور کم زوروں پر غلبہ پاکر اناج اور زرومال کو اپنے لیے مخصوص کر لیتے ہیں.پس ضروری ہے کہ امراء سے دولت لے کر غرباء میں تقسیم کی جائے.”مال و دولت کو اس طرح مشترک بنانا چاہیے جس طرح کہ پانی، آگ اور چراہ گاہیں ہیں.خدا نے مخلوقات کے لئے مساوات کی بنیاد قائم کی ہے، اس کے نزدیک سب برابر ہیں.نہ کسی کو اس کے حق سے زیادہ ملتا ہے نہ کم.ہر چیز سب کے لئے مشترک ہے، یہاں تک کہ ازواج بھی.مزدک کی یہ تحریک شروع شروع میں مذہبی تھی لیکن بعد میں اس نے سیاسی رنگ اختیار لیا.پہلے ذکر آچکا ہے کہ مزدک نے قباد سے ملاقات کی اور اپنی موئثر گفتگو سے اسے گرویدہ بنا لیا.چنانچہ اس نے مزدک کے عقاید اختیار کر لیے.اور اس تحریک کونہ صرف تقویت حاصل ہو گئی بلکہ اس نے سیاسی رنگ اختیار کر لیا.لوگ دلیر ہو گئے.اشتراکیت کا پر چار ہونے لگا.نتیجہ یہ ہوا کہ ہر
25 جگہ کسانوں نے بغاوتیں برپا کیں.لوٹ مار کرنے والے امراء کے محلوں میں گھس جاتے اور مال واسباب لوٹ لیتے تھے ، عورتوں کو پکڑ کر لے جاتے تھے اور جاگیروں پر قبضہ کر لیتے تھے.زمینیں رفتہ رفتہ غیر آباد ہونے لگیں.اس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ابتری کس حد تک پھیل چکی تھی.قباد نے شروع میں مزد کیوں کو اپنی حمایت میں اس لیے لیا تھا کہ اس طرح وہ اُمرا کے اقتدار کو ختم کرنا چاہتا تھا لیکن اب صورت حال بے قابو ہوتی دیکھی تو مزدکیوں سے بیزار ہو گیا.آخر جب مزد کیوں نے یہ کوشش کی کہ نوشیرواں کے بڑے بھائی کا ؤس کو شاہ قباد کا جانشین مقرر کیا جائے جو مزدکیوں کا پُر جوش حامی تھا تو قباد کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا.قباد نے مزدکیوں کو نیچا دکھانے کے لیے ایک مذہبی کا نفرنس منعقد کی جس میں مزدکیوں کے سر کردہ رہنماؤں کو مناظرے کی دعوت دی گئی.قباد نے اس میں خاصی دلچسپی لی.نوشیرواں اب ولی عہد سلطنت مقرر ہو چکا تھا.اس کے لیے مزدکیوں کا گروہ سب سے بڑے خطرے کا باعث تھا.اس لیے اس نے اس کا نفرنس میں سر گرمی سے حصہ لیا.وہ چاہتا تھا کہ مزد کی مناظرے میں شکست کھائیں.مزد کی پیشواؤں سے زرتشتی عالموں نے مذاکرہ کیا جس میں مزدکیوں کو شکست ہوئی.شکست کا اعلان ہونا تھا کہ سپاہی مزد کیوں پر ٹوٹ پڑے اور ان کا قتل عام شروع ہو گیا.مزد کی پیشوا سب کے سب مارے گئے.ان میں خود مزدک بھی تھا.ان سب کی جائیدادیں ضبط کرلی گئیں اور مزد کی خطرے کا خاتمہ ہو گیا.مزدکیت اگر باقی رہی بھی تو اس کی حیثیت خفیہ مذہب کی سی ہو کر رہ گئی.19 مزد کیہ فرقه شیعه تیسری صدی ہجری کے شیعہ مولف ابو محمد الحسن موسی البغدادی نے اپنی کتاب ” فرق الشیعہ“ میں انکشاف کیا کہ شیعوں میں نہ صرف ایسے غالی فرقے پیدا ہو چکے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی دونوں کو خدا سمجھتے ہیں بلکہ مزد کیہ فرقہ بھی موجود ہے.20 ”علامہ السید محمد صادق آل بحر العلوم “ نے اس مقام پر کتاب کے حاشیہ میں واضح کیا ہے کہ مزد کیہ مزدک کے پیروکار تھے جو نو شیر واں کے والد قباد کے زمانہ میں ظاہر ہوا.مزدک کا دعویٰ تھا کہ اس پر ویستا و کتاب نازل ہوئی.مزد کی محرمات کو جائز سمجھتے تھے اور اشتراکی مذہب رکھتے تھے یعنی اُن کا نظریہ تھا کہ تمام مردوزن اموال میں برابر کے شریک ہیں.
26 مزد کیہ کا احیاء ہابیت کی شکل میں تحریک بابیت اسی شیعہ فرقہ مزدکیہ کے احیاء کا نام ہے جو اسی کے خمیر سے کارل مارکس کے فلسفہ سوشلزم کی تائید کے لئے ایران میں اس وقت اٹھی جبکہ اس سر زمین میں تمام آئمہ اہلبیت کی خدائی اور موجودہ قرآن مجید کے جعلی ہونے کے عقائد مدتوں کے پراپیگنڈا کے نتیجہ میں عوامی حلقوں میں راسخ ہو چکے تھے اور دشمنان اسلام کا یہ باطل خیال شیعوں کا جزوایمان بن چکا تھا کہ اصل قرآن کو بکری کھا گئی ہے.21 مزد کیوں کی طرح بابیت نے بھی اپنی سیاسی سر گرمیوں کا آغاز دہشت گردی اور بغاوت ہی کی سکیم سے کیا.اردو دائرہ معارف اسلامیہ دانش گاہ پنجاب لاہور میں زیر لفظ با بیت لکھا ہے :- ”باب کے دعوے کے ساتھ ہی بابیوں نے مسلح اقدامات شروع کر دیئے.باب کے دعویٰ پر ابھی آٹھ سال ہی گزرے تھے کہ بعض بابیوں نے شاہ ایران پر قاتلانہ حملہ کر دیا.صاحب ناسخ التواریخ نے صاف صاف لکھا ہے کہ ایران میں سیاسی انقلاب لانے کے لئے کوفے سے مسلح بغاوت کی سکیم باب نے تیار کی تھی اور میرزاجانی کاشانی (جو بابی مذہب کا سب سے پہلا موید مورخ ہے) کے الفاظ بھی خاصی حد تک اس کی تائید کرتے ہیں ( نقطة الکاف صفحہ 111) پھر بابیوں کی بہت سی سر گرمیاں مخفی بھی تھیں.اس حقیقت کو غیر جانبدار مصنف براؤن اور جانب دار میرزاجانی کا شانی دونوں نے تسلیم کیا ہے ( مقالہ سیاح انگریزی ترجمہ تعلیقات از بر اون صفحہ 80-409).بابی تاریخ کے آغاز سے پہلے ملک میں جو سیاسی خلفشار تھا اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور فرقہ باطنیہ اور حسن بن صباح کی آزمائشیں لوگوں کے سامنے تھیں.1840ء میں سبعہ شیعہ ایک بغاوت کر چکے تھے اور اس سے صرف چار سال بعد بابی تحریک کا آغاز ہوا تھا.(89.The Babi Movement-P) حکومت ایران میں سوشلسٹ انقلاب بر پا کرنے کے لئے ضروری تھا کہ قدیم مزد کیوں کی طرح ایک نئی کتاب کے نزول کا دعوی کر کے شیعہ عوام کی مذہبی ہمدردیاں حاصل کی جائیں اس لئے باہیوں نے بھی یہ سیاسی حربہ استعمال کیا.یہی نہیں باہیوں کے بانی رکن بہاء اللہ نے اپنی کتاب اقتدار میں یہ اقرار کر کے اس سیاسی چال کے چہرے سے نقاب سر کا دیا ہے جو عذر گناہ بد تر از گناہ کا مصداق ہے.لکھتے ہیں ”اگر اعتراض واعراض اہل فرقاں نبود ہر آئینہ شریعت فرقاں دریں ظہور نسخ نے شد.22 یعنی اگر شیعہ علماء اور قاچار حکومت اعراض و اعتراض نہ کرتی تو اسلامی شریعت کی منسوخی کی
27 نوبت ہی نہ آتی.دوسرے لفظوں میں اگر اُن کے سوشلسٹ مزد کیہ خیالات کے سامنے عوام وخاص ہتھیار ڈال دیتے تو بدشت کا نفرنس منعقدہ 1848ء) میں نسخ قرآن کی انتقامی کارروائی اور یہ مذہبی ہتھکنڈا استعمال کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی جا چه دلاور است دز دے کہ بکف چراغ دارد بدشت کا نفرنس میں بانی رہنما قرۃ العین طاہرہ نے باب کی خود ساختہ شریعت کا اعلان کیا اور اس کے معابعد نظریہ سوشلزم کی پُر جوش تائید کی نیز بتایا کہ مرنے کے بعد تمہیں کچھ نہیں ملے گا.اس موقع کو غنیمت سمجھو جو کچھ کرنا ہے ابھی کر لو.اُس نے کہا." اسمعوا ايها الاحباب والا غيار هاتان الكلمتان في عرف البابية كناية عن المؤمن والكافر بدينهم واعلموا ان احكام الشريعة المحمدية قد نسخت الآن بظهور الباب ، وان احكام الشريعة الجديدة البابية لم تصل الينا ، وان اشتغالكم الآن بالصوم والصلوة والزكوة وسائرماأتى به محمد كله عمل لغو و فعل باطل، ولا يعمل بها بعد الآن الاكل غافل وجاهلان مولانا الباب سيفتح البلاد ويسخر العباد وستخضع له الاقاليم السبع المسكونة وسيوحد الاديان المجودة على وجه البسيطة حتى لا يبقى الادین واحد وذالك الدين الحق هو دينه الجديد وشرعه الحديث الذي لم يصل الينا الى الآن منه الانزريسير: فبناء على ذالك أقول لكم وقولى هو الحق لا أمر اليوم ولا تكليف ، ولا نهى ولا تعنيف، وانا نحن الآن في زمن الفترة فاخرجوا من الواحدة الى الكثرة ومز قواهذا الحجاب الحاجز بينكم وبين نسائكم بأن تشاركوهن بالا عمال وتقاسموهن بالافعال واصلوهن بعد السلوة ، وأخرجو هن من الخلوة الى الجلوة، فماهن الازهرة الحياة الدنيا ، وان الزهرة لا بد من قطفها وشمها لانها خلقت للضم وللشم ولا ينبغيى ان يعد أويحدشاموها بالكيف والكم فالزهرة تجنى ،وتقطف والاحباب تهدى و تتحف و اما ادخار
28 المال عند أحد كم و حرمان غير كم من التمتع به والاستعمال، فهو أصل كل وزر واساس كل وبال لانه لم يخلق لنفس واحدة تتلذذ به من حيثيتحسر المحروم، بل هو حق مشاع غير مقسوم جعل للاشتراك بين الناس ، وللتداول من دون احتكار ولا اختصاص ، فلیشارک بعضکم بعضا بالاموال، ليرفع عنكم الفقر ويزول الوبال ساوواافقير كم بغنيكم، ولا تحجبو احلائلكم عن أحبابكم اذلاردع الآن ولاحد، ولامنع ولا تكليف ولا صد فخذوا حظكم من هذه الحياة فلاشييء بعد الممات انتهى ترجمہ: 23" ( مفتاح باب الابواب محمد المهدی الحکیم محمد المنتقی صفحہ 180-181 مطبوعہ ایران) ”سنواے پیارو اور غیر و ( یہ دو لفظ بابی اصطلاح میں کنایہ ان کے دین کے ماننے والوں اور منکروں کے لئے استعمال ہوتے ہیں) تم جان لو کہ اب ظہور باب کے ذریعہ شریعت محمدیہ کے احکام منسوخ ہو چکے ہیں اور نئی شریعت بابیہ کے احکام ہم تک نہیں پہنچے.اب روزہ، نماز، زکوۃ اور دیگر احکام جو محمد نے دیئے تھے ان کی بجا آوری ایک لغو اور بے کار کام ہے.اِس وقت کے بعد ان احکام (شریعت محمدیہ کے احکام ) پر غافل اور جاہل شخص کے سوا کوئی عمل نہ کرے گا.ہمارا آقاباب عنقریب شہروں کو فتح کرلے گا اور لوگوں کو مسخر کرلے گا اور ساتوں آباد براعظم اس کے آگے سر تسلیم خم کر دیں گے.وہ (باب) اس وقت موجود تمام ادیان کو وسیع تر صورت میں ایک کر دے گا.یہاں تک کہ صرف ایک ہی دین باقی رہ جائے گا اور یہی سچا دین ہے جو کہ اس (باب) کا وہ نیا دین اور اسکی وہ جدید شریعت ہے جس میں سے صرف بالکل معمولی ساحصہ ہی ہم تک پہنچا ہے.پس اس پر بنا کرتے ہوئے میں تم سے کہتی ہوں اور میری بات حق ہے.کہ آج کوئی شرع حکم باقی نہیں.اس وقت فترت ( دوو حیوں یا دو شریعتوں کا درمیانی وقفہ) کے دور میں ہیں.پس تم وحدت سے کثرت کی طرف چلو اور یہ جو تمہارے اور تمہاری عورتوں کے درمیان پردہ ہے اسے پھاڑ دو، اس طرح کہ انہیں بھی کاموں میں شریک کر و.ان میں بھی کام تقسیم کرو.اور تفریح اور استفادہ کے بعد اُن سے تعلق قائم رکھو اور انہیں خلوت سے نکال کر لوگوں کے سامنے لاؤ.کیونکہ وہ تو دنیاوی زندگی کی خوبصورتی ہیں اور لازمی ہے کہ خوبصورت پھول کو ( پودے سے ) توڑا اور سونگھا جائے.یہ عور تیں تو ساتھ لگانے اور سونگھنے کے لئے
29 ہیں اور ان سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد کو کم و کیف کے لحاظ سے محدود رکھنا درست نہیں اور پھول بچنا اور توڑا جاتا ہے اور احباب یعنی مذہب باب کے پیروکاروں کو ہدیہ اور تحفہ میں دیا جاتا ہے.اور جہاں تک تم سے کسی کا مال اپنے پاس ذخیرہ کر رکھنے اور دوسروں کو اسے استعمال کرنے اور فائدہ اٹھانے سے روکنے کا تعلق ہے تو یہ ہر مصبیت اور وبال کی جڑ ہے.کیونکہ مال صرف کسی ایک فرد کے لئے نہیں پیدا کیا گیا کہ وہ اکیلا اس سے مزہ اڑا تا ر ہے جبکہ محروم حسرت کرتا رہے.بلکہ یہ مال عام حق ہے جو صرف کسی ایک سے مختص نہیں اور سب لوگوں کی برابر شراکت کے لئے بنایا گیا ہے.ذخیرہ اندوزی کرنے اور صرف اپنے لئے رکھ لینے کی بجائے لوگوں میں گردش دینے کے لئے ہے.پس تم ایک و دسرے کو مالوں میں شریک کرو تاکہ تم سے غربت اور تکلیف جاتی رہے.اپنے غریب کو اپنے امیر کے برابر بنادو.تم اپنی بیویوں کو اپنے احباب (باب کے پیروکاروں) سے پر دہ میں نہ رکھو کیونکہ اب کوئی روک ٹوک نہیں، نہ کوئی ممانعت ہے نہ کوئی شرعی حکم ہے.پس تم اس زندگی سے اپنا حصہ لے لو کیونکہ موت کے بعد کچھ نہیں.قرة العین نے اس اعلان کے بعد ناصر الدین قاچار شاہ ایران کے دربار میں باب جیسے بدترین دشمن اسلام اور ناسخ شریعت قرآن کی شان میں ایک قصیدہ پڑھا جس میں نبیوں کے سردار خاتم النبیین رحمۃ اللعالمین حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں ایسی دریدہ دہنی، بد زبانی اور گستاخی کی جس کا تصور بھی ایک عاشق رسول کے قلب وروح کو تڑپا دیتا ہے.اس نے کہا.دو ہزار احمد مجتبی زبروق آں شہر اصطفاء شده مختلفی شده در خفا متد شراً متنز ملاً ترجمہ : یعنی شہر اصطفاء باب کی چمک دمک سے دو ہزار احمد مجتبی بالا پوش اوڑھے جھرمٹ مارے ہوئے پوشیدہ ہو گئے.24 اقبال اور قرۃ العین کیا ہے.سر اقبال نے ”جاوید نامہ" میں بابی شاعرہ قرۃ العین طاہرہ کو زبر دست خراج عقیدت ادا از گناہ بندہ صاحب جنوں کائنات تازه آید بروں! شوق بے حد پرده ها را بررد کهنگی را از تماشامی برد!
30 آخر از دارورسن گیرد نصیب برنگردد زنده از کوئے حبیب! جلوه او بنگر اندر شهر ودشت تانه پنداری که از عالم گزشت! در ضمیر عصر خود پوشیده است اندریں خلوت چسال گنجیده است؟25 ترجمہ : ایک صاحب جنون بندے (طاہرہ) کے قیام سے نئی کائنات ظہور میں آرہی ہے.غیر محدود عشق حجابات کو چاک کر دیتا ہے.کہنگی و قدامت کو منظر سے ہٹا دیتا ہے.آخر کار اسے دارور سن نصیب ہو جاتے ہیں اور وہ کوچہ محبوب سے زندہ نہیں لوٹتا.آج اس (طاہرہ ) کا جلوہ شہر اور دیہات میں دیکھ لو.یہ نہ سمجھ بیٹھو کہ وہ اس دنیا سے گزر گئی.وہ تو اپنے عصر کے ضمیر میں چھپی ہوئی ہے.دیکھ لیجئے کہ اس خلوت میں کس طرح سمائی ہوئی ہے.علاوہ ازیں ”جاوید نامہ“ میں ہی قرۃ العین کو ” خاتون عجم “ کا خطاب دیتے ہوئے لکھتے ہیں.پیش خود دیدم سه روح پاکباز آتش اندر سینہ شاں گیتی گداز ! در بر شاں حلہ ہائے لالہ گوں چهره با رخشنده از سوز دروں ! در تب تابے زہنگام الست از شراب نغمہ ہائے خویش مست ! گفت رومی این قدرانه از خود مر و از دم آتش نوایاں زنده شو! شوق بے پروا ندیدستی نگر! زور این صہبا ندیدستی نگر ! غالب و حلاج و خاتون شور با افگنده در جان حرم! اں نوابا روح را بخشد ثبات گرمی او از دروں کائنات ! میں نے اپنے سامنے تین پاکباز روحوں کو دیکھا جن کے سینے میں دنیا کو جلا دینے والی آتش عشق تھی.انہوں نے سرخ کپڑے پہن رکھے تھے.ان کا چہرہ دل کی گرمی سے چمک رہا تھا.یہ ارواح روز الست سے ہی تب و تاب میں تھیں اور اپنے ہی نغمات کی شراب میں مست تھیں.رومی نے مجھ سے کہا اس قدر مت کھو جاؤ.آتش نواؤں کے نفس سے زندہ ہو جاؤ.اگر بے نیاز عشق نہیں دیکھا تو یہ
31 دیکھو.شراب عشق کی طاقت نہیں دیکھی تو ان کو دیکھ لو.غالب، منصور اور خاتون عجم (قرۃ العین طاہرہ) نے حرم کی جان میں ہنگامہ برپا کر دیا ہے.یہ نغمات روح کو ثبات عطا کرتے ہیں.ان کی گرمی کائنات کے اندر سے ہے.اقبال کسی اور اسلام کا بانی اقبال نے ”بانگ درا میں خود تسلیم کیا ہے کہ سیالکوٹ میں اُن کی ہمسائیگی میں رہنے والے ایک بزرگ نے اُن کے مذہبی خد و خال کا قریبی جائزہ لیا تو وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ ان کا آئے کی لائی ہوئی شریعت پر قعطا ایمان نہیں بلکہ وہ کسی اور اسلام کے بانی“ ہیں.چنانچہ لکھتے ہیں: سنتا ہوں کہ کافر نہیں ہندو کو سمجھتا ہے ایسا عقیده اثر فلسفه دانی سمجھا ہے کہ ہے راگ عبادت میں داخل مقصود ہے مذہب کی مگر خاک اڑانی کچھ عار اُسے حسن فروشوں سے نہیں ہے عادت یہ ہمارے شعرا کی ہے پرانی اس شخص کی ہم پر تو حقیقت نہیں کھلتی ہوگا یہ کسی اور ہی اسلام کا بانی26 اقبال کے ایک پرستار شورش کا شمیری صاحب نے سر اقبال صاحب کی زندگی کا ایک چونکا دینے والا واقعہ اپنی کتاب ”نور تن“ صفحہ 52-53 (مطبوعہ 1967ء) میں لکھا ہے جسے بھارتی صحافت نے بعد ازاں بڑے طمطراق سے شائع کیا.شورش صاحب عبد المجید سالک صاحب مدیر ”انقلاب“ و مولف ذکر اقبال“ کا تذکرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں.” ایک واقعہ سنایا کہ مولانا گرامی لاہور تشریف لائے تو مجھے دفتر سے اٹھا کر علامہ اقبال کے ہاں لے گئے.علامہ ان دنوں بازار حکیماں میں رہتے تھے.علی بخش سے پتہ چلا کہ علامہ بیمار ہیں.دھہ لیکر لیٹے ہوئے تھے.داڑھی بڑھی ہوئی، چہرہ اترا ہوا، آنکھیں دھنسی ہوئیں.گرامی دیکھتے ہی آبدیدہ ہو گئے.پوچھا خیریت ہے.معلوم ہوا
32 کہ امیر کی ماں نے میل ملاقات بند کر دی ہے.پچھلے تین روز سے ملاقات نہیں ہوئی.گرامی کھلکھلا کر ہنس پڑے.پنجابی میں کہا.او چھڑ یار توں وی غضب کرنا ایں، او تینوں اپنی ہنڈی کس طرح دے دین.چھوڑو یار تم بھی غضب کرتے ہو، بھلا وہ تمہیں اپنی ہنڈی کیونکر دے دے).علامہ بیحد غمگین تھے.گرامی نے علی بخش سے کہا.گاڑی تیار کرو.مجھے ساتھ لیا اور اُس بازار کو روانہ ہو گئے.امیر کے مکان پر پہنچے.دستک دی.امیر کی ماں نے گرامی کو دیکھا تو خوش دلی سے خیر مقدم کیا.آپ اور یہاں....؟ اهلا و سهلا گرامی نے امیر کی ماں سے گلہ کیا کہ تو نے ہمارے شاعر کو ختم کرنے کی ٹھانی ہے.اُس نے کہا.مولانا شاعروں کے پاس کیا ہے، چار قافیے اور دور دیفیں.کیا میں اپنی لڑکی ہاتھ سے دے کر فاقے مر جاؤں؟ آپ کا شاعر تو ہمارے ہاں نقب لگانے آتا ہے.میری لڑکی چلی گئی تو کون ذمہ دار ہو گا؟ گرامی نے اُجلی داڑھی کا واسطہ دیا اور دو گھنٹہ کی شخصی ضمانت دے کر امیر کو ساتھ لے آئے.میں علی بخش کے ساتھ ، گرامی امیر کے ساتھ ، گھوڑا دڑ کی میں چلا آرہا تھا.علامہ کے ہاں پہنچے تو گر امی نے جھنجھوڑتے ہوئے کہا.اٹھوجی، آگئی امیر.سچ مچ ؟ علامہ نے حیرت سے پوچھا.امیر سامنے کھڑی تھی.دفعتنا اُن کا چہرہ جگمگا اٹھا.سالک صاحب نے یہ واقعہ سناتے ہوئے کہا.زندگی میں اس قسم کی آرزوئیں ناگزیر ہوتی ہیں.انسان کو ان راستوں سے گزرنا ہی پڑتا ہے.فرمایا.جس زمانہ میں اقبال انار کلی میں رہتے تھے ، ان دنوں لاہوری دروازہ اور پرانی انار کلی میں بھی کسبیوں کے مکان تھے.ایک دن میں علامہ کے ہمراہ انار کلی سے گزر رہا تھا کہ اچانک وہ ایک ٹکیائی کے دروازہ پر رک گئے.ادھیڑ عمر کی کالی کلوٹی عورت، مونڈھے پر بیٹھی حقہ سلگا رہی تھی.اندر گئے.حقہ کا کش لگایا.اٹھنی یارو پیہ اس کے ہاتھ میں دے کر آگئے.“
33 بانی آریہ سماج اور با بیت جناب بشیر احمد صاحب نے اپنی کتاب ”بہائیت“ کے صفحہ 131-132 میں لکھا ہے.’1872ء کے لگ بھگ بہاء اللہ نے جمال آفندی بہائی کو اپنا سفیر بنا کر ہندوستان روانہ کیا.اس نے ہندوستان اور پنجاب کے بعض علاقوں کا دورہ کیا.گوالیار کے مشہور آریہ سماجی رہنما نتھو لال گپتا نے انکشاف کیا ہے کہ آریہ سماج کے بانی سوامی دیانند نے جمالی آفندی سے طویل ملاقاتیں کیں.تین ملاقاتوں کے بعد اُس نے اپنے اصول وضع کئے اور آریہ سماج تحریک کی بنیاد رکھی.سوامی دیانند کی رسوائے زمانہ کتاب ستیارتھ پر کاش میں تمام بڑے مذہب خصوصاً اسلام کے خلاف لایعنی باتیں درج ہیں.نتھولال آریہ سماجی ہونے کے ساتھ ساتھ بہائیوں کا مبلغ بھی تھا.اُس نے 1977ء میں وفات پائی.بہائیوں کا ایک اہم مجلہ ”دی بہائی“ ورلڈ 9-1976 نتھولال کی وفات پر لکھے گئے اپنے نوٹ میں ان امور کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جمال آفندی کی بمبئی میں سوامی دیانند سے ملاقات اور پھر آریہ سماجی تحریک کا آغاز ایک اچھوتا مضمون ہے جو مستقبل کے بہائی دانشوروں کو اس عنوان سے مزید تحقیق کی دعوت دیتا ہے.27 جمال آفندی کے بعد کئی بہائی ہندوستان آتے رہے.اقبال اور بابیت اقبال کے پیغمبر اشتراکیت مزدک تحریک کا احیاء دور حاضر میں مسلح بابیت کی شکل میں ظاہر ہوا جس کی دہشت گرد سکیم عراق کے شہر کوفہ میں بنائی گئی اور اس کا خروج خراسان کی سر زمین بدشت سے ہوا.خراسان وہی علاقہ ہے جس کی نسبت آنحضرت خاتم الانبیاء صلی ایلیم نے پیشگوئی فرمائی تھی.الدجال يخرج من ارض بالمشرق يقال لها خراسان يتبعه اقوام كان وجوههم المجان المطرقه“ دجال ارض مشرق سے جسے خراسان کہا جاتا ہے ظاہر ہو گا.اس کی پیروی وہ اقوام کریں گی جن کے چہرے ایسی ڈھالوں کی مانند ہونگی جن پر ہتھوڑے مارے گئے ہیں.28 اس پیشگوئی اور تاریخی حقیقت کے پیش نظر سر اقبال کا یہ پراسرار شعر ملاحظہ ہو.
34 ره عراق و خراساں زن اے مقام شناس دلم گرفته از آهنگ بربط عربی است 29 اے مقام کو پہنچاننے والے عراق و خراسان کی رہ پر چل.میرا دل بربط عربی کے آہنگ سے آزردہ ہوچکا ہے.یہ سب نثری اور شعری کلام ”شاعر مشرق“ کے اصل اور باطنی عقیدہ کا آئینہ دار اور عکاس ہے.اس بنیادی نقطہ سے آگاہی کے بعد یہ معمہ پوری طرح حل ہو جاتا ہے کہ تمام ماہرین اقبالیات خصوصاً در گاہ اقبال“ کے غلام جناب غلام احمد پرویز جیسے مبصر اپنے مقتدا اور پیشوا کے نظریات میں بے شمار تضادات و اختلاف دیکھ کر کیوں محو حیرت رہ گئے ہیں ؟ جیسا کہ ان کی ضخیم کتاب تصوف کی حقیقت“ کے ہر صفحہ سے عیاں ہے.وہ ساری عمر اقبالیات کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد بالآخر اس نتیجہ پر پہنچے کہ "جس....کو وہ اس سے پہلے یکسر اسلام کے خلاف قرار دیتے تھے ، اس کے بعد وہ ان کے کس قدر مبلغ بن گئے.اگر وہ خود ( اپنے دعویٰ کے مطابق) ہر عقیدہ اور مسلک کو قرآن مجید کی کسوٹی پر پرکھتے تو ان کے خیالات اور عقائد میں اس قدر تضاد نہ ہوتا.30" ” جب وہ....پیچھے چلتے ہیں تو پھر پوری کی پوری عقل کو اٹھا کر جہنم رسید کر دیتے ہیں ”زیر کی از ابلیس“ خالص تصوف ہے اور قرآن کے خلاف اعلان جنگ.“31 پھر لکھا.” اس تنقید سے میرا مقصد علامہ اقبال یا کسی اور شخصیت کی تنقیص یا توہین نہیں.میں تو کسی عام انسان کی توہین کو بھی بارگاہ خداوندی میں جرم عظیم سمجھتا ہوں چہ جائیکہ ایسی شخصیتوں کی توہین یا تنکیر جو کسی حلقہ میں بھی واجب الاحترام سمجھی جاتی ہوں.لیکن اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر کسی شخص کی عقیدت یا احترام اظہار حق کے راستے میں رکاوٹ بن جائے تو یہ بھی عدالت خداوندی میں کچھ کم سنگین جرم نہیں.میں اس جرم کے ارتکاب سے خدا کی پناہ طلب کرتا ہوں.“32 اگر جناب پرویز خالی الذہن ہو کر مزید تحقیق و تشخص فرماتے تو انہیں یہ تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ
35 نہ ہو تا کہ ایک ایسا فلاسفر اور شاعر جو اوائل عمر سے زندگی کے آخری لمحات تک مزدک کو پیغمبر اشتراکیت اور سوشلزم کو عین اسلام یقین کرتا ہے.عرب کی بجائے خراسان اور عراق کا والا و شیدا ہے اور ان کی خاک سے اٹھنے والی دہشت گرد تحریک اور اس کی ہیر وقرۃ العین طاہرہ پر فریفتہ اور اس کا شمار عرش کی پاکباز روحوں میں ہونے کا معتقد ہو.اور اس کے باوجود وہ مسلمانوں کی عقیدتوں کا مرکز بننے اور اپنی موت کے بعد اپنی پرستش کا خواب دیکھ رہا ہو.اس کے لئے نظریاتی تضادات کا مرقع بننا لازم اور ناگزیر ہے.خصوصاً اس لئے کہ پیغمبر اشتراکیت کی جانشین تحریک کا مقدس اصول اور ہدایت ہے.”استر ذھبک و ذهابک و مذهبک“ کہ اپنی دولت، اپنا سفر اور اپنا مذ ہب چھپائے رکھنا.(سجنه الصدور صفحہ 83 مطبوعہ بمبئی مارچ 1914ء تالیف میرزا حیدر علی اصفہانی) ابو الکلام آزاد.ظفر علی خاں اور بابیت مولوی سید محفوظ الحق علمی (1895ء.8 فروری 1978ء) بہائیت کے پر جوش مبلغ تھے.اُن کے سوانح نگار محمد یوسف بجنوری کے بیان کے مطابق نہ صرف ڈاکٹر سر اقبال اور ابوالکلام آزاد بلکہ مولوی ظفر علی خاں کو ”امر بہائی“ سے محبت تھی اور اسی لئے علمی صاحب کے ساتھ ان کے گہرے روابط و مراسم تھے.چنانچہ بجنوری صاحب رقمطراز ہیں.مولانا ابوالکلام آزاد دہلی میں علمی صاحب سے بہت سی بہائی کتابیں لے گئے.امر بہائی سے محبت کرتے تھے.ایک مرتبہ سفیر ایران نے بہائیوں کے متعلق گمراہ کہا.مولانا نے انہیں فور آٹو کا اور کہا جناب سفیر کو مفتی کس نے بنایا ہے.آپ اپنی سفارت کے فرائض انجام دیجئے.ڈاکٹر اقبال، مولانا ظفر علی خاں لاہور میں ڈاکٹر صاحب کے دولت کدے پر بہت بار ملاقاتیں ہوئیں اور امر اللہ کے متعلق باتیں ہوئیں.ڈاکٹر صاحب فرماتے تھے کہ میں پورا پورا ہفتہ مرزا محمود زرقانی (مبلغ) سے ملاقات اور بہائی مذاکرات کرتارہاہوں اور ایک بار فرمایا کہ میں سید باب کو شارع اعظم سمجھتا ہوں اور ایک دفعہ مولانا ظفر علی خاں نے سید علمی کی ختم نبوت پر تقریر سن کر کہا کہ حضرت ڈاکٹر صاحب! بہائیت تو بڑا علمی سلسلہ ہے.تو ڈاکٹر اقبال صاحب نے فرمایا.میں تو آپ سے پہلے ہی کہتا تھا بہائیت تو ایک مستقل امر ہے.مولانا ظفر علی خاں ایک مرتبہ بمبئی تشریف لے گئے تو بہائی ہال میں سید علمی نے اُن کو دعوت دی اور محترمہ شیریں فوجدار اور محترمہ شیریں بہن سے بھی امری بات چیت ہوئی جن
36 کے بچوں نے حضرت عبد البہاء کی ایک لوح توحید انگریزی میں پڑھ کر سنائی تو مولانا ظفر علی خاں نے بڑی مسرت سے فرمایا کہ جن بچوں کو توحید الہی کی ایسی اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے ، اُن کا مستقبل بہت شاندار ہے.33 اشتراکی حکومت کی جد وجہد میں بابیت کی جارحانہ پالیسی کارل مارکس نے اشتراکیت پھیلانے کے لئے بورژوا طبقہ کو تہس نہس کرنے کی جو جارحانہ پالیسی پیش کی اس کی ترویج کی خاطر بابی لیڈروں نے اول قدم پر ہی عملی اقدامات شروع کروائے تھے.فرق صرف یہ تھا کہ کارل مارکس نے اپنا انقلابی پروگرام معاشیات کے حوالہ سے مرتب کیا تھا کیونکہ یورپ مذہبی اقدار سے آزاد ہو چکا تھا اور اسے مذہب کے بارہ میں نہ صرف کوئی دلچسپی نہیں تھی بلکہ شدید نفرت پیدا ہو چکی تھی.اس کے مقابل ایران غالی شیعوں کا گہوارہ اور مرکز تھا.وہ معاشیات کی بجائے مذہب کے فریفتہ اور والا وشید اتھے اس لئے بابی پارٹی نے اشتراکیت کی راہ ہموار کرنے اور مخالفین اشتراکیت کو ”مذہب "34 کی طاقت سے کچل دینے کا فیصلہ کیا.بایں ہمہ کارل مارکس کے انقلابی پروگرام پر بھی آنچ نہیں آنے دی.اس ضمن میں بابیت کے بعض پر تشد دوحشیانہ اور امن شکن احکام ملاحظہ ہوں.1.کسی شخص کے لئے جائز نہیں کہ باب کی کتاب البیان کے سوا کوئی دوسری کتاب پڑھے یا پڑھائے.35 2.دنیا میں جس قدر کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، سب کو نیست و نابود کر دیا جائے.36 3.جو لوگ بابی تحریک پر ایمان نہیں لاتے ، وہ پلید اور واجب القتل ہیں.37 4.ہر وہ چیز جو غیر بابی کے قبضہ میں ہے ، پلید ہے مگر جو نہی وہ بابی کے قبضہ میں آجاتی ہے ، پاک ہو جاتی ہے.38 5.ہر غیر بابی کی جائید ادلوٹ لینی چاہیے کیونکہ اس کا قبضہ ناجائز ہے.39 6.بابی مملکت میں کسی غیر بابی کو آنے جانے کی بھی اجازت نہیں دی جائے گی.40 اگر چه با بیت ایران میں کوئی اشتراکی حکومت نہیں بنا سکی مگر تاریخ گواہ ہے کہ اُس نے اقتدار حاصل کرنے کے لئے قتل وغارت سے قطعاً کوئی دریغ نہیں کیا.اور 1917ء میں جو اشتراکی انقلاب برپا ہوا، وہ وسیع پیمانہ پر خونریزی، غنڈہ گردی اور لوٹ مار ہی کا رہین منت تھا.جس کے قیام سے بابی
37 انقلابیوں کی آواز بھی پوری ہو گئی کہ ان کی حکومت کی سرحدیں مخالفین کے لئے بند کر دی جائیں.چنانچہ لینن اور سٹالین روسی حکومتوں نے بر سر اقتدار آکر اپنے ملک کو آہنی پر دہ بناڈالا.حواشی 1 انبیائے قرآن صفحہ 362 از محمد جمیل احمد صاحب ایم اے ناشر غلام علی اینڈ سنز لاہور.اشاعت دسمبر 1954ء.2 یہاں قرآن مجید نے ماضی کے نہیں بلکہ مضارع کے صیغے استعمال فرمائے ہیں جو حال اور مستقبل دونوں پر محیط ہیں.3 ”حقیقۃ الوحی“ صفحہ 81 مع حاشیہ (طبع اول) اشاعت 15 مئی 1907ء.4 تفسیر کبیر سورۃ الفجر جلد ہشتم (جدید ایڈیشن) صفحہ 548 نظارت اشاعت ربوہ.5 خبر بذریعہ اے پی پی مطبوعہ ڈان (کراچی) نوائے وقت (لاہور) پاکستان آبزرور ڈھاکہ.17 ستمبر 1967 بحوالہ ” ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی سوانح حیات“ پہلا حصہ صفحہ 401 از مولوی رشید اختر ندوی ناشر اداره معارف ملی اسلام آباد.اشاعت د سمبر 1974ء.6 جنگ و نوائے وقت 18 ستمبر 1967ء بحوالہ تالیف اختر ندوی صاحب صفحہ 402.پاکستان آبزرور ڈھا کہ 21اکتوبر 1967ء بحوالہ ” ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی حیات “ صفحہ 404-406.ڈان.یکم نومبر 1967ء.نوائے وقت 2 نومبر 1967ء بحوالہ کتاب مذکور صفحہ 407.9 ایضا کتاب مذکور صفحہ 407.10 نوائے وقت 9نومبر 1967ء بحوالہ کتاب مذکور صفحہ 410.11 بحوالہ کتاب مذکور صفحہ 411.12 منشور (جنوری 1977ء) شائع کردہ مرکزی دفتر پاکستان پیپلز پارٹی طالع خورشید پر نٹر ز اسلام آباد.13 رسالہ ” ترجمان القرآن“ اکتوبر 2003ء صفحہ 324.14 ”ریاست“ صفحہ 24-25.اردو ترجمہ ریپبلک مولفہ افلاطون مترجم ڈاکٹر ذاکر حسین پر نسپل جامعہ ملیہ دہلی.15 16 Plato Republic The Reconstruction of Religious Thought in Islam (اردو ترجمہ تشکیل جدید الہیات اسلامیہ مترجم سید نذیر نیازی) 17 " فلسفه عجم " ترجمہ صفحہ 396-400 - مترجم میر حسن الدین بی اے ایل ایل بی (عثمانیہ یونیورسٹی) ناشر نفیس اکیڈمی کراچی طبع پنجم مارچ 1962ء.18 ترجمه الملل والنحل جلد اول صفحہ 66 متر جم مولوی عبد الله العمادی ناشر محمدی کتب خانہ آرام باغ کراچی.19 جلد اول صفحہ 450 تا 488 ناشر مجلس ترقی اردو ادب 2 کلب روڈلاہور.اشاعت اکتوبر 1967ء.20 ” فرق الشیعہ صفحہ 46 ناشر المطبعة الحیدریہ نجف اشاعت 1355ھ /1936ء.21 «تذکرۃ الائمہ “ صفحہ 62 از محمد باقر مجلسی مطبوعہ شیر از.جلاء العیون جلد دوم صفحه 85-86 از ملاباقر مجلسی.جنرل بک ایجنسی انصاف پریس لاہور ” ہزار تمہاری دس ہماری صفحہ 553 مصنف عبد الکریم مشتاق رحمت اللہ بک ایجنسی کراچی ( قرآن اصلی نہیں ) الانوار النعمانیہ جلد 2 صفحہ 360 مطبوعہ بیروت از السید نعمۃ اللہ الجزائری ( اصل قرآن ظہور مہدی تک نظر نہیں آئے گا) کتاب البرھان فی تفسیر القرآن جلد 1 صفحہ 38- سید سلیمانی البحرانی طبع ثانی مطبوعہ تہران ( قرآن بکری کھا گئی) ایضاً " تاریخی دستاویز" ( مجموعه عکسی حوالہ جات شیعہ لٹریچر ) مرتب ضیاء الرحمن فاروقی مطبوعہ جھنگ نومبر 1995ء.22 اقتدار صفحه 47 مصنفہ 13 رجب المرجب 1310ھ مطابق 19 فروری1893ء."23 2 ” اجتناب اہل السنہ “ صفحہ 222 تالیف جناب ابو الطاہر محمد طیب صاحب.مطبوعہ بریلی الیکٹرک پریس بریلی 1361ھ مطابق 1942ء.
38 24 مکمل قصیدہ براؤن کے حوالہ سے ابو القاسم رفیق دلاوری نے اپنی کتاب " آئمہ تلبیس" حصہ دوم صفحہ 226 تا 228 میں بھی شائع کر دیا ہے.یہ کتاب "مکتبہ تعمیر انسانیت" موچی دروازہ لاہور نے 1978ء میں شائع کی ہے.25 جاوید نامہ صفحہ 144.26 بانگ در اصفحه 51-52.27 2 بہائی ورلڈ 9-1976 صفحہ 444.28 ترندی ابواب الفتن "باب من اين يخرج الدجال" 29 کلیات مکاتیب اقبال جلد دوم صفحه 297 ناشر اردو اکادمی دہلی اشاعت دوم 1993ء.30 " تصوف کی حقیقت" صفحہ 333 از غلام احمد پرویز شائع کردہ ادارہ طلوع اسلام گلبرگ لاہور نمبر 11 طبع اول ستمبر 1981ء.31 ایضاً صفحہ 341.3 ایضاً صفحہ 384.32 33 34 3 ”بہائی میگزین “ کراچی 5.جنوری، فروری1980ء صفحہ 18-19.3 بابیت کوئی مذہب نہیں بلکہ بزور شمشیر انقلاب کے خود ساختہ اصول تھے یہی وجہ ہے کہ جب ایرانی شیعہ علماء نے جو موجودہ قرآن کو مصحف عثمان قرار دیتے تھے، باب پر دباؤ ڈالا تو انہوں نے اپنے عقائد سے تو بہ نامہ لکھ کر سامنے کر دیا جو مجلس شوری ملی ایران میں محفوظ ہے اور حیدر آباد دکن میں مطبوعہ حاجی فتح الله مفتون کی کتاب ”باب و بہاء را بشناسید “ کے صفحہ 288 پر شائع شدہ ہے.35 البیان باب 10 واحد صفحہ 4.36 ايضاً البيان "الباب السادس من الواحد السادس فی حکم محو کل الکتب کلھا الخ (صفحہ 198)“.37 نقطة- الکاف ( مقدمہ ).38 البیان باب 14 و 51.39 البیان باب 5 واحد 5-8.40 ايضاً
39 دوسری فصل روس اور با بیت پاکستان کے نامور مصنف جناب بشیر احمد صاحب کے قلم سے اپریل 1993ء میں اسلامک سٹڈی فورم را ولپنڈی کے زیر انتظام ”بہائیت“ کے نام سے ایک فکر انگیز کتاب شائع ہوئی ہے.فاضل مؤلف بابیت کی مسلح بغاوت اور بابیوں کے روس سے گہرے تعلقات کوبے نقاب کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: 1.( بدشت کانفرنس جون 1848ء) ” اس اسلام دشمن اجتماع میں روسی پچھو بشر ومی نے شرکت نہ کی.وہ خراسان کے شورش زدہ علاقے میں باہیوں کو مسلح کر رہا تھا.“ (صفحہ 53) قلعہ شیخ طبرسی کے واقعہ سے ظاہر ہو گیا کہ بابی غیر ملکی اشارے پر ایران کی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے تھے.انہوں نے بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا.ان کے گھر جلائے اور غلہ لوٹا.ہندوستان اور ترکی سے بھی ہم خیال لوگ بلوائے گئے.باہیوں کو یہ بھی اُمید تھی کہ آذر بائیجان سے حکومت مخالف عناصر ان کی مدد کو آجائیں گے “ (صفحہ 55) 2.”بابی بغاوت کے آغاز ہی سے روسی، فرانسیسی اور برطانوی لیگیشن اور ایرانی دربار کے امراء سفارتی اور دیگر طریقوں سے حکومت پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ باہیوں پر سختی نہ کی جائے“(صفحہ 57)1 3.تاریخ نبیل کا بہائی مصنف لکھتا ہے کہ باب کے قتل کے دوسرے دن صبح سویرے روسی قونصل ایک ماہر نقاش کے ساتھ خندق پر پہنچا جہاں ”حضرت باب“ کا جسد پھینکا گیا تھا.خندق کے اردگرد سخت پہرہ تھا.اس نے ان دو پاک جسدوں کی اسی حالت میں نقاشی کرائی.2 قرن بدیع کا مولف شرقی آفندی ایک ہمعصر مورخ کے حوالے سے لکھتا ہے کہ....باب کے قتل کے واقع کو روس میں ایک خونیں ڈرامے کے طور پر پیش کیا گیا.دیگر یورپی ممالک میں بھی اس کی تشہیر کی گئی.“ (صفحہ 59) 4 بہاء اللہ معمولی پڑھا لکھا تھا.اس نے بنیادی تعلیم گھر میں حاصل کی.مذہب سے زیادہ لگاؤ نہ رکھتا تھا.جاہ پرست ایرانی امراء کے طور طریقوں کے مطابق ایرانی دربار سے وابستہ ہو گیا.1839ء–1842ء تک ایرانی دربار میں کافی رسوخ پیدا ہو گیا.اسکے سیاسی عزائم کی تکمیل میں تہران
40 میں موجودہ روسی سفارت خانے (Legation) کو گہر ا دخل ہے.اس کے بعض قریبی رشتہ دار روسی لیکیشن (Legation) سے وابستہ تھے.اس کا بہنوئی عبد المجید آہی روسی نمائندے مقیم ایران پرنس ڈول گور کی کا پرائیویٹ سیکریٹری تھا.اس کا پھوپھا مرزا یوسف روسی شہری اور پرنس کا بہترین دوست تھا.اس کے علاوہ اس کے خاندان کے لوگوں کی روس میں رشتہ داریاں، سیاسی روابط اور کاروبار تھے.ایک لحاظ سے یہ خاندان روس کا خود کاشتہ پودا تھا.“ (صفحہ 78) 5.”جون 1848ء میں بدشت کانفرنس کے انعقاد کے تمام انتظامات اسی نے کئے.طاہرہ کو قزوین میں نظر بندی سے رہائی دلوائی اور دیگر سر کر دہ باہیوں کو بدشت میں جمع کیا.اس کا نفرنس میں باب کی رہائی کی تجاویز پر بحث کی گئی.اسلامی شریعت کی تنسیخ کا اعلان ہوا اور بابیت کو پھیلانے کے لئے ایک پروگرام تیار کیا گیا.اس سازش کے پیچھے سب سے بڑا کردار حسین علی کا تھا.باب اور دیگر بابیوں کو محض مہروں کے طور پر استعمال کیا گیا.اسلامی شریعت کی تنسیخ کے اعلان کے بعد غیر ملکی طاقتوں کو بابی اقلیت کے تحفظ کا موقع حاصل ہو گیا اور ہر طرح کی مدد دینے کا جواز پید اہو گیا.(صفحہ 79) 15-6 اگست 1852ء کو کئی بابی گرفتار ہوئے.بہائیوں کا یہ کہنا کہ بیس ہزار بابی بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کر دئے گئے اور زندہ جلا دئے گئے ، قعط غلط اور تاریخی حقائق کو مسخ کر کے اپنی مظلومیت کو ظاہر کرنے کی گھٹیا حرکت ہے.بعض واقعات سے معلوم ہو تا ہے کہ حسین علی بہاءشاہ کے قتل کے منصوبے سے پہلے سے آگاہ تھا.شاہ پر قاتلانہ حملہ سے قبل حسین علی نے کربلا میں باہیوں سے رابطہ کیا اور واپسی پر وزیر اعظم مرزا تقی کے بھائی کے پاس شمران میں قیام کیا.ایرانی دربار میں حسین علی کا نام بابی سازشیوں میں سر فہرست تھا.شاہ ناصر الدین کی والدہ آقا جان وزیر جنگ اور حسین علی پر کھلے بندوں قتل کی سازش کا الزام لگاتی تھی.3 آخر کار حسین علی کی گرفتاری کے احکامات جاری کر دیئے گئے لیکن جب اسے گرفتار کر کے تہران لایا جارہا تھا تو روسی لیکیشن (Legation) نے اس کو اپنے ہاں پناہ دے دی.یہ ایک غیر متوقع اور غیر معمولی اقدام تھا.ایک قتل کے ملزم کو پناہ دینا سفارتی آداب کے منافی تھا.اس امر کی اطلاع شاہ ایران اور وزیر اعظم کو دی گئی.شاہ ایران نے اپنے اعلیٰ افسروں کو روسی لیکیشن روانہ کیا جنہوں نے روسی سفیر پرنس ڈول گور کی سے پر زور مطالبہ کیا کہ شاہ کے قتل میں ملوث اس ملزم کو ان کے حوالے کیا جائے لیکن لیکیشن نے اس مطالبہ کو ماننے سے انکار کر دیا.4 حکومت کے مسلسل دباؤ کے نتیجہ میں پرنس ڈول گور کی سفیر روس نے وزیر اعظم ایران کو
41 ایک مراسلہ روانہ کیا جس میں کہا گیا تھا کہ مرزا حسین علی کو پناہ دی جائے اور اس کی جان کی حفاظت کی جائے.وزیر اعظم ایسا کرنے کی پوزیشن میں نہ تھا.اپنی معزولی اور عوام اور علماء کے ڈر کی وجہ سے وہ اس بات کو ماننے پر آمادہ نہ ہوا.حسین علی کو شہر ان کے قید خانے میں ڈال دیا گیا.“ (صفحہ 80-81) 7.1917ء کے اشتراکی انقلاب کے بعد عبد البہاء کا وظیفہ کم کر دیا گیا.اس کا باپ بہاء اللہ تمام زندگی روس کا وظیفہ خوار رہا.روسی انقلاب کے ابتدائی سالوں میں اشتراکیوں نے بہائیوں کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھایا بلکہ جہاں کہیں روس کی مذہب دشمنی کا ذکر ہو تا وہاں بہائیوں کے ساتھ حسن سلوک کو بطور مثال پیش کیا جاتا کیونکہ اشتراکی روس میں بہائی آزادی سے رہ رہے تھے.1925ء کے وسط میں اشتراکی روس کی تیرہ کروڑ آبادی میں صرف ایک مذہبی پرچہ نکلتا تھا جو بہائی جریدہ خورشید خاور (انگریزی) تھا.مئی 1927ء میں برطانیہ اور روس کے تعلقات خراب ہو گئے.روس نے ہندوستان کے انقلابیوں کو تاشقند کے مراکز میں فوجی تربیت دینی شروع کی جس پر برطانوی حکومت نے احتجاج کیا.ستمبر 1927ء کے ”بہائی نیوز“ (Bahai (News) نے ترکستان میں محفل روحانی ملی کے قیام کا اعلان کیا.“ (صفحہ 220) حواشی: 1 بحواله شورش با بیان در ایران جلد 20(143-159) روسی کلچرل سینٹر ماسکو کا ماخوذ التوحید شمارہ 1 جلد 1 مضمون مجتبی سلطانی.2 تاریخ نبیل 56 نیز قرن بدیع91.3 تاریخ نبیل 180.4 ایضاً صفحہ 181.
42 تیسری فصل جدید سوشلزم اور اس کا بانی (کارل مارکس) اور حاضر کی سوشلزم کا بانی یہودی نژاد کارل مارکس (Karl Marx) تھا جو 5 مئی 1818ء کو جر منی میں پیدا ہوا اور 14 مارچ 1882ء کو لنڈن میں وفات پائی.اور لنڈن کی ایک پہاڑی پر واقع ہائی گیٹ نامی قبرستان میں دفن کیا گیا.کارل مارکس نے اکتوبر 1842ء میں اپنے معاشی خیالات کی اشاعت کے لئے رائین گزٹ کی ادارت سنبھالی.حکومت کی دھمکی پر اخبار کے مالکوں نے اخبار کی پالیسی تبدیل کرنے کا ارادہ کر لیا جس پر مارکس نے ایڈیٹری سے استعفا دے دیا اور ساتھ ہی حکومت نے اخبار ضبط کر لیا.جس کے بعد وہ پیرس آگیا جہاں اُس نے ایک جرمن فرانسیسی سالنامہ کی ادارت قبول کر لی.اس سالنامہ کا پہلا شمارہ 1845ء میں نکلا.اس پرچہ میں اس کے ہمعصر فریڈرک اینجلز نے ایک مقالہ رائج الوقت اقتصادی نظام کے خلاف لکھا جس سے مارکس بہت متاثر ہوا.اینجلز بھی جرمنی کے اسی علاقہ بریمن (Bremen) میں پیدا ہو ا جہاں کارل مارکس کی ولادت ہوئی تھی.اینجلز کو 1871ء میں لازمی فوجی بھرتی کے قانون کے تحت توپ خانہ میں کام کرنا پڑا.پھر وہ انگلستان کے صنعتی شہر مانچسٹر میں کپڑے کے ایک کارخانہ کا ایجنٹ بن گیا.1845ء میں اینجلز برسلز میں کارل مارکس کے پاس ہی آگیا.1847ء میں اینجلز فرانسیسی مزدوروں کے نمائندہ کی حیثیت سے لندن آیا.اسی دوران کارل مارکس نے بھی لندن میں مستقل سکونت اختیار کرلی.اسی سال لندن میں کمیونسٹ لیگ کی پہلی کانگرس لندن میں منعقد ہوئی جس میں دنیا بھر کے عوام کو مندرجہ ذیل تین نعرے دیئے.ا.سرمایہ داری کا خاتمہ.۲.مزدور حکومتوں کا قیام.۳.دنیا بھر کے مزدوروں کا اتحاد.لیگ کا دوسرا اجلاس اس سال 23 دسمبر کو منعقد ہوا.مارکس نے اس اجلاس کی صدارت کی.اجلاس میں طے کیا گیا کہ مارکس اور اینجلز کمیونسٹ لیگ کے اغراض و مقاصد تحریر کریں.چنانچہ دونوں نے ایک منشور مرتب کیا جو فروری 1848ء میں صنعتی انقلاب فرانس (فروری 1848ء) سے چند ہفتے قبل طباعت کے لئے دیا گیا.یہ وہی شہرہ آفاق عالمی کمیونسٹ مینوفیسٹو ہے جس نے دنیا میں انقلاب کی بنیاد ڈالی اور دنیا بھر کی سوشلسٹ پارٹیوں کا لائحہ عمل بنا.
43 مارکس کے برسلز میں قیام کے باعث کمیونسٹ لیگ کا صدر دفتر لنڈن سے برسلز منتقل کر دیا گیا.مگر انقلاب فرانس کے بعد اس کا صدر دفتر دوبارہ لنڈن میں قائم کر دیا گیا اور بالآخر 23 اگست 1849ء کو مار کس بھی لندن آگیا اور زندگی کے آخری سانس تک یہیں رہا.کارل مارکس کی ایسٹ انڈیا کمپنی پر تنقید کارل مارکس نے قیام لندن کے دوران یورپ اور تیسری دنیا خصوصاً ہندوستان میں برطانوی راج کے خلاف زبردست تنقیدی مضامین لکھے جن کو امریکی پریس نے شائع کیا.چنانچہ 10 جون 1853ء کو اس نے انگریزی میں ایک مضمون لکھا جو نیو یارک ڈیلی ٹریبیون (25 جون 1853ء) کو شائع ہوا.جس میں ہندوستان میں مغلوں اور انگریزوں کے اقتدار کو نفس پرستی اور رنگ رلیوں کا مذہب قرار دیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا:.”ہند وستان میں سماجی انقلاب لانے کے سلسلے میں انگلستان کے محرکات ذلیل ترین تھے اور اس کا اپنے ذلیل مفاد کو ہندوستان پر ٹھونسنے کا طریقہ بھی بہت احمقانہ تھا.“ پھر بتایا :- قدیم دنیا کی تباہی کا نظارہ کتنا ہی تلخ اور ناگوار کیوں نہ ہو لیکن ہمیں تاریخی نقطہ نظر سے گئیے کی ہم نوائی میں یہ کہنے کا حق ہے.یہ تعذیب جو ہمارے واسطے زیادہ مسرت لے کر آئی ہے کیا اسی لئے تکلیف دہ ہونی چاہیے.تیمور کے عہد حکومت میں کیا روحوں کی بیحد و حساب تباہی نہیں ہوئی.2 ہندوستان میں برطانوی اقتدار کی مذمت اس کے بعد مارکس کا ایک اور مضمون نیویارک ڈیلی ٹریبیون (18 اگست 1853ء) میں بھی چھپا جس کے بعض اقتباس کا ترجمہ درج ذیل ہے.”ہندوستان میں برطانوی اقتدار آخر کیسے قائم ہو گیا.مغل اعظم کے اقتدار اعلیٰ کو مغل صوبے داروں نے پاش پاش کیا.صوبے داروں کی قوت کو مرہٹوں نے توڑا.مرہٹوں کی قوت کو افغانیوں نے ختم کیا اور اس وقت جبکہ سب ایک دوسرے کے خلاف جنگ آزما تھے.برطانوی جھپٹ کر پہنچ گیا اور وہ ان سب کو زیر کر سکا.یہ ایک
44 ایسا ملک تھا جو نہ صرف ہندوؤں اور مسلمانوں میں بلکہ مختلف قبیلوں اور مختلف ذاتوں میں بھی تقسیم تھا....ایسے ملک اور ایسے سماج کے مقدر میں بھلا مفتوح اور مسخر ہونا نہیں تو اور کیا لکھا تھا.“ ”ہندوستان کا سیاسی اتحاد جو آج عظیم مغلوں کے زمانے سے کہیں زیادہ استوار اور وسیع ہے ہندوستان کے حیات نو پانے کی اولین شرط تھا.یہ اتحاد جسے برطانوی تلوار نے ہندوستان پر عائد کیا تھا، اب تار برقی کے ذریعہ اور زیادہ مستحکم اور پائیدار بنے گا“ ” وہ سب کچھ جو انگریز بورژوا طبقہ کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے جنتا کی سماجی حالت میں نہ تو کوئی قابل ذکر بہتری پیدا کرے گا اور نہ جنتا کو آزاد کرے گا.....لیکن انگریز بورژوا طبقہ ان دونوں مقاصد کو پورے کرنے کے لئے بنیاد ضرور رکھ دے گا.اور بورژوا طبقے نے کبھی اس سے زیادہ بھی کچھ کیا ہے ؟ کیا وہ کبھی افراد اور قوموں کو خون اور غلاظت، مصیبتوں اور ذلتوں میں جھونکے بغیر کسی قسم کی ترقی کو بروئے کار لایا ہے ؟ ہندوستانی اس وقت تک نئے سماج کے ان عناصر کا فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے جو برطانوی بورژوا طبقے نے ان کے درمیان بکھیر رکھے ہیں جب تک کہ خود بر طانیہ عظمیٰ میں صنعتی پرولتاریہ حکمران طبقوں کی جگہ نہ لے لے.یا پھر جب تک خود ہندوستانی اتنے طاقتور نہ ہو جائیں کہ وہ انگریزی حکومت کے جوئے کو مکمل طور پر اپنی گردنوں سے نکال کر پھینک سکیں.“ کارل مارکس نے اپنے مضمون کے آخر میں ملک کی اکثریتی آبادی رکھنے والے ہندوؤں کی مظلومیت کی زبر دست وکالت کرتے ہوئے ایسٹ انڈیا کمپنی کو تنقید کا نشانہ بنایا.”موسیٰ سے مار کس “ تک کے کمیونسٹ مورخ جناب سبط حسن نے اپنی کتاب کا بیسواں باب مار کس اینجلز اور ہندوستان کے موضوع کے لئے وقف کیا ہے.موصوف نے کارل مارکس اور اینجلز کے متعلق تفصیل سے بتایا ہے کہ غدر 1857ء میں ان کی تمام ہمدردیاں باغی ہندوستانیوں کے ساتھ تھیں.نیز لکھا ہے:- "مارکس ایک خبر نامے میں برطانوی پارلیمنٹ کے حزب اختلاف کے لیڈر بنجامن ڈز ریلی کی تقریر کے اقتباسات دیتا ہے اور اس کی رائے سے اتفاق کرتا ہے کہ
45 3" ہندوستان کی شورش فوجی بغاوت نہیں بلکہ قومی انقلاب ہے.جناب سبط حسن نے اپنی کتاب میں کارل مارکس کا یہ خیال نمایاں رنگ میں پیش کیا ہے کہ ”ہندوستانیوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ انگریزوں کے نافذ کردہ معاشرے کے نئے عناصر یعنی مشینی صنعت کاری کا پھل اُس وقت تک نہیں کھا سکیں گے جب تک برطانیہ میں موجودہ حاکم طبقے کی جگہ پرولتاریہ کا راج نہ ہو جائے یا خود ہندوستانی اتنے قوی نہ ہو جائیں کہ انگریز کی غلامی کا جوا اتار پھنکیں.ہندوؤں سے کارل مارکس کی ہمدردی سے لکھا: 4" ہندو قوم کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے غلیظ زبان بھی استعمال کی اور انتہائی غیظ و غضب ” جب بورژوا تہذیب اپنے وطن سے جہاں وہ معقول اور معزز شکلیں اختیار کرتی ہے، نو آبادیات کی طرف بڑھتی ہے جہاں وہ بالکل عریاں ہو جاتی ہے تو اس کی گہری ریاکاری اور بربریت، جو اُس کی فطرت کا خاصہ ہے ، ہماری آنکھوں کے سامنے بے نقاب ہو جاتی ہے.یہ لوگ ملکیت کے حامی ہیں لیکن کیا کوئی انقلابی جماعت کبھی اس قسم کے زرعی انقلابات عمل میں لائی ہے جیسے بنگال، مدراس اور بمبئی میں ہوئے ہیں.میں خود اس مہا ڈاکو لارڈ کلائیو کا ایک فقرہ استعمال کر کے کہتا ہوں کہ جب معمولی رشوت ستانی ان کی حرص و ہوس کو آسودہ نہیں کر سکی تو کیا انہوں نے ہندوستان میں زور اور زبر دستی سے بے اندازہ دولت نہیں بٹوری ؟ جبکہ وہ یورپ میں قومی قرضوں کی اہمیت اور تقدس کے متعلق بکو اس کرتے نہیں تھکتے تھے تو اسی کے ساتھ ساتھ کیا انہوں نے ہندوستان میں ان را جاؤں کے منافع ضبط نہیں کئے جنہوں نے اپنی نجی بچت کو خود کمپنی کے سرمائے میں لگا دیا تھا.وہ ”ہمارے مقدس مذہب “ کی حمایت کا نام لے کر ادھر تو فرانسیسی انقلاب سے جنگ آزما رہے اور ادھر ہندستان میں کیا انہوں نے عیسائیت کے پر چار کی قطعی مخالفت نہیں کی.اور کیا انہوں نے اوڑیسہ اور بنگال کے مندروں میں جوق در جوق آنے والے یاتریوں سے روپیہ اینٹھنے کے لئے جگن ناتھ کے مندر میں ہونے والی عصمت فروشی اور قتل کی گرم بازاری میں ہاتھ
46 نہیں رنگے.یہ ہیں ملکیت ، قاعدہ، قانون، خاندان اور ”مذہب“ کے نام لیوالوگ.انگریزی صنعت کے تباہ کن اثرات کا مطالعہ اگر ہندوستان کے سلسلے میں کیا جائے جس کی وسعت پورے یورپ کے برابر ہے اور جس میں 15 کروڑ ایکڑ زمین موجود ہے تو وہ صریحا مگر حیران کن معلوم ہوں گے.لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ اس پورے نظام پیداوار کا فطری نتیجہ ہیں جو اس وقت موجود ہے.اس پیداوار کی بنیاد سرمائے کی حکومت عالیہ پر ہے.سرمائے کی مرکزیت اس کے ایک خود مختار قوت کی حیثیت سے قائم رہنے کے لئے ناگزیر ہے.سرمائے کی اس مرکزیت کا دنیا کی منڈیوں پر تخریبی اثر نہایت بڑے پیمانے پر سیاسی معاشیات کے فطری قوانین کو بے حجاب کرتا ہے جو اس وقت دنیا کے ہر مہذب شہر میں مصروف عمل ہیں.تاریخ کے بورژوا دور کو نئی دنیا کے لئے بنیاد کی تخلیق کرنی ہے....جب ایک عظیم سماجی انقلاب بورژوا عہد کے سارے ثمروں پر دنیا کی منڈی پر اور جدید پید اوری قوتوں پر قابض ہو جائے گا اور انہیں سب سے زیادہ ترقی یافتہ لوگوں کی مشتر کہ نگرانی اور تسلط میں لے آئے گا، صرف اسی وقت بت پرستوں کے اس کر یہہ المنظر دیوتا سے انسانی ترقی کی مشابہت ختم ہو گی جو مقتولوں کی کھوپڑیوں کے علاوہ اور کسی چیز میں آسمانی شراب 5" نہیں پیتا تھا.“5 تحریک بر بادی 1857 اور جہادی ملا کا رُخ کردار رام راج کے علمبر داروں کی یہ تحریک جو کارل مارکس کے پراپیگینڈے کے مطابق اس کے خطوط پر چلائی گئی.بیک وقت ایسٹ انڈیا کمپنی اور بہادر شاہ ظفر اور مسلمانوں کے خلاف تھی جس میں جہادی ملاؤں کا کردار نہایت گھناؤنا اور شرمناک تھا.اس حقیقت کا اندازہ صرف الہ آباد میں بغاوت کے حالات سے بخوبی لگ سکتا ہے.ایک غیر جانب دار و قائع نگار اور تاریخ نویس پنڈت کنہیالال کا بیان ہے.وو مفسدین نے خوب شور مچایا، رام چندر کی جے کے نعرے لگائے اور چند ایک نے جیل خانے کی طرف جا کر وہاں سے اڑھائی ہزار قیدیوں کو رہائی دلوائی.ان کی رہائی نے الہ آباد کے تمام ساکنین کو پریشان کیا.قیدیوں کی زنجیروں کی صدا کئی گھنٹے
47 شہر میں گونجتی رہی.تمام قیدی مل کر صاحبان کی جانب روانہ ہوئے اور تمام بنگلوں کو جلا دیا.انہوں نے اور سرکش سپاہیوں نے سب سے پہلے رجمنٹ 6 سے متصل اجین صاحب کے بنگلے کو جلایا اور پھر برل صاحب کی کوٹھی کو آگ لگائی.یوں وہ آگ لگاتے لگاتے ڈاک خانے تک پہنچے اور ایسلی ہاؤس، میجر ہور ہوس، مسز ہیملٹن اور پامر صاحب کے بنگلوں کو جلا کر راکھ کر دیا.بنگلوں کو نذر آتش کرنے اور مال اسباب لوٹ لینے کے بعد قیدی گردو نواح میں پھیل گئے.بعض نے اپنے گھروں کا رخ کیا اور کچھ سرکش سپاہی لوٹے ہوئے مال کی بار برداری کے لئے پکڑے گئے.اکثر نے رعایا کا مال اسباب غارت کرنا شروع کر دیا.اگلے روز یعنی 8 جون کو ساری فوج پریڈ گراؤنڈ پر جمع ہوئی اور فیصلہ کیا کہ خزانہ کو آپس میں تقسیم کر لیں جو ہمیں لاکھ روپے تھے.اگر چہ قبل از میں یہ سارا خزانہ شاہ دہلی کو پیش کرنے کا فیصلہ ہوا تھا لیکن حرص نے ساری تدبیر بدل دی اور تمام مشوروں پر حرص غالب آگئی.دو پہر دو بجے کے قریب خزانے کے صندوق کھلے.کسی سپاہی نے روپے کے تین توڑے، کسی نے چار توڑے اٹھائے (فی تو ڑا ہزار روپے کا تھا).جب ان میں مزید روپیہ اٹھانے کی ہمت نہ رہی تو قیدیوں اور شہر کے بد معاشوں کو حکم دیا کہ باقی ماندہ روپیہ آپس میں تقسیم کر لیں.اس واقعہ کے فوراً بعد ایک مولوی صاحب نے (جن کا نام معلوم نہیں ہو سکا) انگریز سرکار کے خلاف سرکشی کا علم بلند کر کے اکثر بد معاشوں کو جمع کیا.مشہور ہے یہ شخص کسی مکتب میں پڑھاتا تھا، لیکن جب ان احسان فراموش سپاہیوں نے عام فساد برپا کیا اور ان کی سرکوبی کے لیے گورا فوج موجود نہ رہی تو اس نے بھی سرکار کے خلاف سرکشی شروع کر دی.اگرچہ حکومت چند روز تھی لیکن دو باتیں کھل کر سامنے آگئیں : اول یہ کہ مسلمانوں میں اتفاق کی شہرت بے بنیاد نہیں، دوسرے یہ کہ مسلمان انگریزوں کو سخت ناپسند کرتے ہیں.کیونکہ جس وقت مسلمانوں نے سنا کہ ایک مولوی کھڑا ہوا ہے تو روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں اس کے پاس آنے لگے.سب کا مطمح نظر یہ تھا کہ انگریزوں کا بالکل صفایا کر دیں.مولوی اپنے جلسے چھاؤنی کے جنوب مغربی گوشے میں واقع ایک باغ میں لگایا کرتا تھا جو سلطان خسرو کا
48 باغ کہلاتا ہے.یہاں اس نے اپنی ایک ہفتے کی خیالی حکومت چلائی اور اکثر وقت وعظ اور نماز میں بسر کرتا تھا.وہ بہ آواز بلند کہتا تھا کہ اے مجاہد و، قلعے پر جاؤ کیونکہ اب فرنگی موجود نہیں.وہ قرآن سے نیک فال نکال کر اعلان کرتا.مسلمان کئی مرتبہ اس کی ہدایت پر قلعے کی جانب آئے لیکن فصیل پر نصب توپوں کو دیکھ کر واپس ہو گئے.راستے میں وہ عام لوگوں کی شامت لاتے.اس طرح وہ کئی بار قلعے پر آئے لیکن مایوس واپس لوٹے.14 جون کو قلعہ میں موجود صاحبان نے ایک انگریز افسر کے ماتحت کچھ سکھ سپاہیوں کو قلعے سے باہر روانہ کیا تاکہ سرکشوں کو سزا دے سکیں.لیکن مولوی کے ساتھیوں کی تعداد بہت زیادہ ہونے کے باعث یہ دستہ واپس قلعے میں چلا گیا.نیتجے مولوی کا حوصلہ اور بھی بڑھ گیا اور کہنے لگا.خدا نے میری دعا قبول کر لی.دیکھو خدا کی مد د سے انگریزوں کو باہر نکال دو.اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ قلعے سے فائر کیا گیا.کوئی بھی گولہ انہیں نقصان نہ پہنچا سکا تھا.انہوں نے سمجھا کہ مولوی صاحب نے اپنی برکت سے انگریزوں کی تو ہیں بیکار بنادی ہیں، مگر یہ غلط فہمیاں جلد ہی دور ہو گئیں.14 تاریخ کو سکھ پیاروں کا ایک کثیر التعداد گر وہ دریاباد جہاں کی جانب روانہ ہو ا جہاں میواتی باغی قیام پذیر تھے.دریائے جمنا کے راستے سے بھی دخانی جہاز پر گورا فوج کا ایک دستہ اسی مقام کی طرف بھیجا گیا، ان دونوں افواج نے وہاں جاکر خوب قتل عام کیا اور باغیوں کو سبق سکھایا.سرکشوں کو شکست فاش ہوئی اور مولوی صاحب اسی شب فرار ہو گئے.یوں اس کی چند روزہ حکومت ختم ہوئی.اسی شخص کی وجہ سے الہ آباد کے لوگوں نے بڑے دن دیکھے.اوپر مذکور مولوی صاحب نے شاہ اودھ الہ آباد اور قرب وجوار کے دیگر مقامات میں دواشتہار لگائے تھے.ایک صاحب کی مہربانی سے وہ دونوں اشتہارات را قم کو دستیاب ہوئے چنانچہ ان کی تفصیل ذیل میں برائے معلومات درج کی جارہی ہے.“ (آگے مولف نے دونوں اشتہار نقل کر دیئے ہیں مگر یہاں صرف اشتہار اول منظوم کے چند اشعار پر اکتفا کریں گے)
49 جو مسلمان راہ حق میں لڑا لحظہ بھر روضہء خلد بریں ہو گیا واجب اس پر اے برادر تو حدیث نبوی کوسن لے باغ فردوس ہے تلواروں کے سائے کے تلے دل سے اس راہ میں پیسا کوئی دیوے گا اگر سات سواس کوخدا دیوے گاروز محشر زر بھی گر خرچ کیا اور لگائی تلوار پھر تو دیوے گا خدا اس کے عوض سات ہزار جو کہ مال اپنے سے، غازی کو بنا دے اسباب اس کو بھی مثل مجاہد کے خدا دے گا ثواب دین اسلام بہت سست ہوا جاتا ہے غلبہ کفر سے اسلام مٹا جاتا ہے پیشوا لوگ اسی طرح جو کرتے نہ جہاد ہند پھر کس طرح اسلام سے ہوتا آباد زور شمشیر سے غالب رہا اسلام مدام ستی اگلے جو کبھی کرتے تو ہوتا گمنام کب تلک گھر میں پڑے جو تیاں چٹکا ؤ گے اپنی سستی کا جز افسوس نہ پھل پاؤ گے اب تو غیرت کرو نامردی کو چھوڑو یارو ملوچل چل کے امام اپنے سے کافر مارو بارہ سوبرس کے بعد آئی یہ دولت آگے حیف اس دولت بیدار سے مومن بھاگے تھے مسلمان پریشان بغیر از اسباب شکر سب تونے دیا اے میرے رب الارباب
50 آخری شعر میں بد معاشوں کی طرح الہ آباد کے شریف اور امن پسند شہریوں کے احوال کی غارت گری اور بہادر شاہ ظفر کی طرف بھجوائے جانے والے تیس لاکھ روپے کو نہایت بے دردی سے لوٹ لینے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.اگر یہ ” جہاد آزادی ہے تو ڈاکہ زنی اور لوٹ مار کس کا نام ہے.6 66 کارل مارکس کی کتاب ”سرمایہ “ کارل مارکس کے فلسفہ کا شاہکار اسکی کتاب سرمایہ ہے جو عام طور پر جرمن نام - Das Kapital سے مشہور ہے اور اس کے تمام خیالات کا نچوڑ ہے.کارل مارکس نے اس کتاب میں یہ نظریہ پیش کیا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ داروں کا ایک محدود طبقہ معیشت کے تمام وسائل پر قابض ہو جاتا ہے اور سامراجیت کے روپ میں کروڑوں محنت کش طبقے پر حکمرانی کرتا ہے.جس سے نجات پانے کے لئے محنت کشوں اور مزدورں کو حکمرانی اور قانون سازی کی طاقت پر قبضہ کرنا ہو گا اور سرمایہ داروں کے ساتھ وہی سیاسی تعلق قائم کرنا ہو گا جو انہوں نے مزدوروں اور محنت کشوں کے ساتھ قائم کر رکھا تھا.پہلے سرمایہ دار طبقہ جو سماج میں ایک حقیر اقلیت ہوتا ہے ، محنت کار اکثریتی طبقہ پر حکمران تھا.سوشلزم کے انقلاب سے مزدوروں کی اکثریت سرمایہ داروں کی اقلیت پر حکمرانی کرے گی جو حقیقی جمہوریت سے زیادہ قریب ہے.یہاں تک کہ پوری دنیا میں سرمایہ داریت کا امتیاز مٹ جائے اور سوسائٹی کے تمام افراد معاشی اعتبار سے مساوی ہو جائیں اسی کا نام سوشلزم ہے.aCOأى: گئیئے کی نظم نذر زینیا ( مغرب کا دیوان).2 اسکارل مارکس فریڈرک اینگلس.نو آبادیاتی نظام " مضامین اور خطوط کا مجموعہ دارالاشاعت ترقی ماسکو.3 صفحہ 433 ناشر مکتبہ دانیال وکٹوریہ چیمبر ز عبد اللہ ہارون روڈ کراچی طبع ہفتم اکتوبر 1985ء.یہاں یہ بتانا مناسب ہو گا کارل مارکس کے نظریہ "قومی انقلاب " کو بیسویں صدی کے مسلم لٹریچر اور مسلم خطابت کے ذریعہ مقبول بنانے میں جناب ابو الکلام آزاد اور ان کو امام الہند بنانے والے دیوبندی اور کانگریسی احراری علماء نے سب سے زیادہ رول ادا کیا ہے.35.Marx-Engels on Colonialism Masocow, p بحوالہ موسیٰ سے مار کس تک.5 نیویارک ڈیلی ٹریبیون 8 اگست 1955 بحوالہ کارل مارکس فریڈرک اینگلس نو آبادیاتی نظام صفحہ 54-62.4 6 تاریخ بغاوت ہند " صفحہ 209 تا211 طبع دوم 2008، ناشر بک ڈپو کارپوریشن دیلی نمبر 6 انڈیا.
51 چوتھی فصل اقبال مارکسزم کے علمبر دار کی حیثیت سے سر اقبال نے کارل مارکس کی کتاب کو اسلام کی عملی تشریح سے تعبیر کرتے ہوئے لکھا.نکته شرع میں این است و بس کس نه باشد در جہاں محتاج کس یہی نہیں انہوں نے کارل مارکس کو خراج عقیدت ادا کرتے ہوئے اس عقیدہ کا اظہار کیا کہ خ قلب اومومن، دماغش کافر است1 سر اقبال نے کارل مارکس کی شان میں قصیدہ خوانی کرتے ہوئے پہلے تو یہ کہا.وہ کلیم بے تجلی! وہ مسیح بے صلیب نیست پیغمبر ولیکن در بغل دارد کتاب 2 پھر ظلم و ستم کی حد یہ ہے کہ چند صفحے بعد انہوں نے اس کے فلسفہ کو ہی اسلام سے موسوم کیا ہے.کہتے ہیں :- جانتا ہے جس پہ روشن باطن ایام ہے مزدکیت فتنہ فردا نہیں، اسلام ہے 3 سر اقبال کی اصطلاح کے مطابق عہد حاضر کے بانی اسلام کا نام کارل مارکس ہے جس کا وجو د مشرق و مغرب کی قوموں کے لئے چیلنج ہے اور ان کے اس مصرع کا مصداق ہے ؟ توڑ دی بندوں نے آقاؤں کے خیموں کی طناب ارمغان حجاز 218-219) یہی وہ اقبال کا مرد حق ہے جس کا ذکر انہوں نے بابی فرقہ کی شاعرہ قرۃ العین طاہرہ کے تذکرہ کے بعد ”جاوید نامہ“ کے صفحہ 244 پر بایں الفاظ کیا ہے.مرد حق از آسمان افتد چوبرق هیزم اوشهر ودشت غرب وشرق ما هنوز اندر ظلام کائنات او شریک اہتمام کائنات
52 ر کلیم او مسیح و او خلیل او محمد او کتاب او جبرئیل! آفتاب کائنات اہل دل، از شعاع او حیات اہل دل 4 سر اقبال نے اس ”مر دحق“ کی نشان دہی اور راہ نمائی کے لئے خبر دار کر دیا ہے کہ اسے مسلم دنیا میں تلاش نہ کرنا کیونکہ مسلمان ذوق و شوق سے عاری، علماء اسلام قرآن سے بے نیاز فرنگی مآب ہیں جو سراب سے چشمہ کو ثر تلاش کر رہے ہیں.5 انہوں نے اکتوبر 1936ء کو جبکہ روس کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف فتنہ انگیزیوں کے ہولناک واقعات منظر عام پر آچکے تھے، خواجہ غلام السیدین ڈائر یکٹر آف پبلک انسٹرکشنز جموں و کشمیر (سابق پرنسپل ٹرینگ کالج مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) کو خصوصی مکتوب لکھا.سوشلزم کے معترف ہر جگہ روحانیات کے مذہب کے مخالف ہیں اور اس کو افیون تصور کرتے ہیں.لفظ افیون اس سے پہلے کارل مارکس نے استعمال کیا تھا.میں مسلمان ہوں اور انشاء اللہ مسلمان مروں گا.میرے نزدیک تاریخ انسانی کی مادی تعبیر سراسر غلط ہے.روحانیت کا میں قائل ہوں مگر روحانیت کے قرآنی مفہوم کا جس کی تشریح میں نے ان تحریروں میں جابجا کی ہے اور سب سے بڑھ کر اس فارسی مثنوی میں جو عنقریب آپ کو ملے گی، جو روحانیت میرے نزدیک معضب ہے یعنی افیونی خواص رکھتی ہے ، اس کی تردید میں نے جابجا کی ہے.باقی رہا سوشلزم، سو اسلام خود ایک قسم کا 6" سوشلزم ہے جس سے مسلمان سوسائٹی نے آج تک بہت کم فائدہ اٹھایا ہے.“6 سر اقبال نے 28 مئی 1937ء کو قائد اعظم محمد علی جناح کی خدمت میں بصیغہ راز ایک مکتوب لکھا جس میں لیگ کے پروگرام پر تنقید کی کہ اس نے غریب مسلمانوں کی اصلاح احوال کی طرف قطعاً کوئی توجہ نہیں کی حالانکہ روٹی کا مسئلہ روز بروز شدید سے شدید تر ہو تا چلا جارہا ہے.پھر لکھا.” جواہر لال کی منکر خدا اشتراکیت مسلمانوں میں کوئی تاثر پیدا نہ کر سکے گی لہذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو افلاس سے کیونکر نجات دلائی جاسکتی ہے.لیگ کا مستقبل اس امر پر موقوف ہے کہ وہ مسلمانوں کو افلاس سے نجات دلانے کے لئے کیا کوشش کرتی ہے.اگر لیگ کی طرف سے مسلمانوں کو افلاس کی مصیبت سے نجات دلانے کی کوشش نہ کی گئی تو مسلمان عوام پہلے کی طرح اب بھی لیگ سے بے تعلق ہی رہیں گے.“
53 آخر میں اس کا حل یہ پیش کیا کہ ”اسلام کے لئے سوشل ڈیماکریسی کی کسی موزوں شکل میں ترویج جب اسے شریعت کی تائید و موافقت حاصل ہو.حقیقت میں کوئی انقلاب نہیں بلکہ اسلام کی 7" حقیقی پاکیزگی کی طرف رجوع کرنا ہو گا.7 اقبال نے اشتراکیت اور کارل مارکس کو خراج تحسین ادا کرتے ہوئے لکھا.اشتراکیت قوموں کی روش سے مجھے ہوتا ہے یہ معلوم بے سود نہیں روس کی یہ گرمی رفتار اندیشه ہوا شوخی افکار مجبور فرسودہ طریقوں سے زمانہ ہوا بیزار انساں کی ہوس نے جنہیں رکھا تھا چھپا کر کھلتے نظر آتے ہیں بتدریج وہ اسرار قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار جو حرف قل العفو میں پوشیدہ ہے اب تک اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار کارل مارکس کی آواز یہ علم حکمت کی مہرہ بازی پہ بحث و تکرار کی نمائش ! نہیں ہے دنیا کو اب گوارہ پرانے افکار کی نمائش! تری کتابوں میں اے حکیم معاش رکھا ہی کیا ہے آخر خطوط خمدار کی نمائش ! مریز و کجدار کی نمائش! جہان مغرب کے بتکدوں میں، کلیساؤں میں، مدرسوں میں ہوس کی خونریزیاں چھپاتی ہے عقل عیار کی نمائش!
54 انقلاب نہ ایشیا میں نہ یورپ میں سوزوساز حیات خودی کی موت ہے یہ ، اور وہ ضمیر کی موت! دلوں میں ولولہ انقلاب ہے پیدا قریب آگئی شاید جہانِ پیر کی موت! اقبال اور سوشلزم کی تائید میں مستقل تصنیف سیر اقبال نے سوشلزم اور کارل مارکس اور لین کی قصیدہ خوانی کے علاوہ ”علم الاقتصاد“ کے نام پر ایک مستقل تصنیف بھی شائع کی جو اسلامی معاشیات کی روح کچل کر مار کس اور ہیگلز کے دہر یہ نظام کی تعمیر کرنے کی ناپاک سازش تھی جس نے بے شمار مسلمانوں کو اس یا جو جی ماجوجی تحریک کا گرویدہ اور والہ وشید ابنا دیا.اس سلسلہ میں پاکستان کے ایک محقق جناب ڈاکٹر سلیم اختر صاحب کا وہ دیباچہ بھی ہماری رہنمائی کرتا ہے جو انہوں نے ”علم الاقتصاد، کے جدید ایڈیشن (2004ء.ناشر سنگ میل پبلیکیشنز لاہور) کے تعارف میں سپرد قلم فرمایا ہے.آپ تحریر کرتے ہیں :- ”اقبال غیر منصفانہ تقسیم دولت کے تصور سے نا آشنانہ تھے.لگان پر بچت کے دوران یوں لکھا: جوں جوں آبادی بڑھتی ہے ، ضرورت ان زمینوں کو کاشت میں لانے پر مجبور کرتی ہے جو اس سے پہلے غیر مزروعہ پڑی تھیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو زمینیں افزائش آبادی سے پیشتر کاشت کی جاتی تھیں، ان کا لگان بڑھ جاتا ہے.زمیندار روز بروز دولت مند ہوتے جاتے ہیں، حالانکہ یہ مزید دولت جوان کو ملتی ہے نہ ان کی ذاتی کوششوں اور نہ ان کی زمینوں کے محاصل کی مقدار بڑھنے کا نتیجہ ہوتی ہے بلکہ صرف آبادی کی زیادتی سے پیدا ہوتی ہے.ان کی ذاتی کوششیں اور ان کی زمینوں کے محاصل کی مقدار میں کوئی فرق نہیں آتا.پھر ان کا کوئی حق نہیں کہ دولت مند ہوتے جائیں.کوئی وجہ نہیں کہ آبادی کی زیادتی سے قوم کے خاص افراد کو فائدہ پہنچے اور باقی قوم اس سے محروم رہے.اگر یہ فائدہ ان کی ذاتی کوششوں یا ان کی زمینیوں کے محاصل کے بڑھ جانے کا نتیجہ ہوتا تو ایک بات تھی
55 لیکن جب ان کی دولت مندی کے یہ اسباب نہیں تو صاف ظاہر ہے کہ ان کی امیری صریحاً اصول انصاف کے خلاف ہے.“ یہاں اقبال نے واضح الفاظ میں غیر منصفانہ تقسیم دولت کی طرف اشارہ کیا ہے.اقبال کے وقت تک مارکس اور اینجلز کی تصانیف نہ صرف عام تھیں بلکہ ان کے نظریات کا چرچا بھی تھا، گو اقبال نے کسی موقع پر بھی ان دونوں کے نام نہیں لئے لیکن مندرجہ بالا بیان کو جس طرح ختم کیا گیا اس سے واضح ہوتا ہے کہ اقبال، مارکس کے تصورات سے آگاہ تھے.چنانچہ لکھتے ہیں: ان نتائج کو ملحوظ رکھ کر بعض محققین نے بڑے زور وشور سے ثابت کیا ہے کہ یہ سب نا انصافی جائیداد شخصی سے پیدا ہوتی ہے، جس کا وجود قومی بہبود کے لئے انتہا درجے کا مضرت رساں ہے.پس حکماء کے اس فریق کے نزدیک زمین کسی خاص فرد کی ملکیت نہیں بلکہ قومی ملکیت ہونی چاہیے.بالفاظ دیگر یوں کہو کہ لگان کی یہ زائد مقدار جو آبادی کی زیادتی کے سبب سے پیدا ہوتی ہے ، سرکار یا قوم کا حق ہے نہ کہ زمینداران کا“ یہاں واضح طور سے اقبال مارکس کے زائد قدر (Surplus Value) کے نظریے کا حوالہ دے رہے ہیں گو انہوں سے اس نظریہ سے وابستہ تمام جزئیات اور امکانات کو اجاگر کرنے کی کوشش نہ کی.اقبال نے ایک اور موقع پر بھی اسی خیال کا اظہار کیا ہے: سوال یہ ہے کہ پیداوار محنت کی یہ زیادتی کس کا حق ہے ؟زمیندار کا ہر گز نہیں! کیونکہ اس مصالح میں کوئی زیادتی نہیں ہوئی جس کو زمین سے نکال کر اشیاء تجارتی کی تیاری میں صرف کیا جاتا ہے.اس کی مقدار وہی ہے جو پہلے صرف ہوا کرتی تھی بلکہ دستکاروں کی کفایت شعاری کی وجہ سے نسبتا کم ہو گئی ہے، لہذا مصالح مذکورہ کی مانگ میں کوئی تغیر نہ آنے کی وجہ سے ادنیٰ درجہ کی زمینوں کو کاشت میں نہیں لانا پڑتا جس سے لگان یعنی زمیندار کے حصے کی مقدار میں اضافہ ہو جائے.علی ہذا القیاس.یہ زیادتی ساہوکار کا بھی حق نہیں ہے کیونکہ سرمائے کی مانگ بدستور وہی ہے جو پہلے تھی.کوئی وجہ نہیں کہ شرح سود یعنی ساہوکار کا حصہ نسبتاً بڑھ جائے جبکہ سرمائے کی مانگ میں کوئی اضافہ نہ ہو بلکہ دست کاروں کا کاریگری میں ترقی کرنا ساہوکار کے حصے کو الٹا کم کرنا ہے.کیونکہ کاری گر دستکار کو بالعموم اشیاء تجارت کی
56 تیاری کے لئے اس قدر اوزاروں کی ضرورت نہیں ہوتی جس قدر کہ بعد اکام کرنے والے بے ہنر دستکار کو.کاریگر تھوڑے اوزاروں کی مدد سے بھی اپنا کام بخوبی کر سکتا ہے لہذا وہ مجموعی طور سے سرمائے کی مانگ کو کم کرتا ہے یا بالفاظ دیگر شرح سود کم کرتا ہے.کیونکہ وہ اس مقدار کو استعمال میں لائے جانے سے بچاتا ہے جو بصورت دیگر اوزاروں کے بنانے میں صرف کرنی پڑتی.اسی استدلال کی بنا پر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ پیداوار محنت کی یہ زیادتی کارخانہ دار کا حق بھی نہیں ہے کیونکہ کارخانہ دار کا حصہ یا منافع صرف اسی صورت میں زیادہ ہو سکتا ہے جبکہ کارخانہ داروں کی مقدار میں زیادتی ہو....اور یہ کوئی ضروری نہیں کہ دست کاروں کا کاریگری میں ترقی کرنا کار خانہ داروں کی زیادتی مقدار کا مستلزم ہو بلکہ دست کاروں کے ہنر اور کاری گری میں ترقی کرنے سے لیاقت انتظامی کا معیار بڑھ جاتا ہے اور وہ دائرہ تجارت سے روز بروز خارج ہوتے جانے کا میلان رکھتے ہیں.جس کے یہ معنی ہیں کہ کارخانہ داروں کا منافع کم ہو جاتا ہے، لہذ ا ثابت ہوا کہ پیداوار محنت کی زیادتی جو دستکاروں کی ذاتی ترقی سے پیدا ہوتی ہے، خود دست کاروں کا حق ہے.زمینداروں، ساہوکاروں اور کار خانہ داروں کو اس سے کوئی واسطہ نہیں.“ یہ طویل اقتباس اس لحاظ سے بے حد اہم ہے کہ اس میں محنت اور منافع کے باہمی تعلق کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال نے کھل کر اس امر پر زور دیا کہ دست کاروں کی محنت کا ثمر ان ہی کے لئے ہونا چاہیے.”زمینداروں، ساہوکاروں اور کارخانہ داروں کو اس سے کوئی واسطہ نہیں.“ اقبال نے اس ضمن میں جو کچھ لکھا، وہ بالکل غیر جذباتی انداز میں علمی معروضیت کے ساتھ لکھا ہے.چنانچہ ایک اور جگہ پر اجرت اور منافع کے باہمی تعلق کو اجاگر کرتے ہوئے اس خیال کا اظہار کیا: " شرح منافع سے یہ ضروری اصول قائم ہوا کہ شرح منافع مصارف پیدائش اور اس مدت کے ساتھ جس میں منافع کی کل مقدار حاصل ہو نسبت معکوس رکھتی ہے.“ اسی ذراسی بات کو نہ سمجھنے کے باعث بعض محققین نے بڑی بڑی غلطیاں کھائی ہیں.وہ یہ سمجھتے ہیں کہ منافع کی مقدار صرف اسی صورت میں کم ہو سکتی ہے جبکہ اجرت کی مقدار زیادہ ہو.لہذا ان حکماء کے نزدیک کارخانہ داروں اور محنتوں کے
57 سودوزیاں کے درمیان ایک قسم کا ضروری تناقض ہے یا یوں کہو کہ ایک کا نفع اور دوسرے کا نقصان ہے.لیکن....شرح منافع کی تعیین میں مدت کو بھی بڑا دخل ہے یعنی اگر سرمائے اور منافع کے مقادیر میں کوئی تغیر پیدا نہ ہو تو جس مدت میں منافع کی خاص مقدار حاصل ہوتی ہے اس مدت کے کم ہو جانے یا یوں کہو کہ اشیاء تجارتی کے بہت جلد فروخت ہو جانے سے شرح منافع بڑھ جاتی ہے اور اس مدت کی زیادتی سے شرح منافع کم ہو جاتی ہے.خواہ اجرت کی مقدار میں فرق ہویانہ ہو....“ مندرجہ بالا تمام اقتباسات سے علامہ اقبال کی سوچ کا رخ عیاں ہے.وہ مارکس اور اشتراکیت کا نام نہیں لیتے لیکن یہ طرز استدلال وہی ہے اور ان آراء کے تناظر میں مارکس، لینن اور سرمایہ و محنت کے موضوع پر لکھی گئی نظمیں ایک نئی جہت اختیار کر لیتی ہیں.“ سوشلسٹ اقبال کی کہانی اب اقبالیات کے ماہر جناب عتیق صدیقی کے قلم سے سوشلسٹ اقبال کی کہانی حقائق کی زبانی پیش کی جاتی ہے جس سے ”حکیم الامت شاعر مشرق“ کے اصل مذہب اور حقیقی پیر ومرشد کی پوری طرح نقاب کشائی ہو جاتی ہے اور اُن کی تضاد بیانیوں کے بنیادی سبب کی بھی نشان دہی ہو جاتی ہے.8 جناب عتیق صاحب تحریر فرماتے ہیں: اُٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگادو ”اقبال کے نام کے ساتھ مسلم سوشلسٹ“ کی صفت کا اضافہ آج سے چالیس سال قبل 1938ء میں پروفیسر محمد دین تاثیر نے کیا تھا.لیکن اقبال کو اشتراکی اور بالشوک کہنے کی روایت تو نصف صدی سے بھی زیادہ پرانی ہے.خطوط اقبال میں رفیع الدین ہاشمی نے اقبال کا ایک مراسلہ نقل کیا ہے جولاہور کے ایک کمیونسٹ اخبار روزنامہ زمیندار کی اشاعت مورخہ 24 جون 1923ء میں شائع ہوا تھا.یہ قصہ بانگ درا کی پہلی اشاعت سے ایک سال پہلے کا تھا.اقبال نے اس مراسلے میں اشتراکیت سے اپنی لا تعلقی ہی کا نہیں بلکہ اپنے شدید تنفر کا بھی اظہار کیا تھا.ان کے اس اظہار خیال کا محرک ایک مضمون تھا جو متذکرہ بالا اخبار میں ان کے مراسلے کی اشاعت سے ایک ہی دن پہلے چھپا تھا.اس مضمون میں اقبال کو تہمت اشتراکیت سے غالباً پہلی بار متہم کیا گیا تھا.اس کا ایک اقتباس یہ ہے:
58 اشتراکیت کی حمایت کوئی جرم نہیں ہے....علامہ اقبال بھی بالشوک خیالات رکھتے ہیں.کوئی تھوڑی سیعقل کا مالک بھی سر اقبال کی خضر راہ' اور 'پیام مشرق کو بغور دیکھے تو اسی نتیجے پر پہنچے گا کہ علامہ اقبال ایک اشتراکی ہی نہیں بلکہ اشتراکیت کے مبلغ اعلیٰ بھی ہیں، پیام مشرق میں قسمت نامہ سرمایہ دار و مزدور ، اور نوائے وقت کے عنوان سے اُنہوں نے جو مختصر نظمیں لکھی ہیں....کیا ایسے اشعار کی موجودگی میں کسی کو شک ہو سکتا ہے کہ علامہ اقبال ایک انتہائی خیالات رکھنے والے اشتراکی نہیں ہیں ؟“ اس مضمون کی شان نزول یہ تھی کہ ان دنوں لاہور میں بالشوک سازش کا ایک مقدمہ چل رہا تھا اور بزرگ پروفیسر غلام حسین بھی اس مقدمے میں ماخوذ تھے.ان ہی کے دفاع میں یہ مضمون لکھا گیا تھا اور ان کی وکالت کرتے ہوئے اقبال کو کمیونسٹ ہی نہیں بلکہ کمیونزم کا مبلغ اعلیٰ بھی کہا گیا تھا.اقبال پر اس کا جور د عمل ہوا، وہ حد درجہ شدید اور اسی درجہ دلچسپ بھی تھا.جس دن یہ مضمون چھپا اسی دن اقبال کے کسی دوست نے ان سے اس کا تذکرہ کیا تو اقبال کو اپنے پیروں کے نیچے سے زمین سرکتی محسوس ہوئی اور وہ اس درجہ متوحش اور متر ڈر ہوئے کہ مضمون بلا دیکھے ہوئے اس کی تردید اُنھوں نے ضروری سمجھی.چنانچہ اسی وقت ایک تردیدی مراسلہ اُنھوں نے لکھاجو دوسرے دن کے اخبار میں شائع ہوا.اس مراسلے کے ابتدائی اور آخری حصے کے اقتباسات یہ ہیں.”میں نے ابھی ابھی ایک دوست سے سنا ہے کہ کسی صاحب نے آپ کے اخبار میں یا کسی اور اخبار میں (میں نے ابھی اخبار نہیں دیکھا ہے ) میری طرف بالشوک خیالات منسوب کیے ہیں.چونکہ بالشوک خیالات رکھنا میرے نزدیک دائرہ اسلام سے خارج ہو جانے کے مترادف ہے اس لئے اس تحریر کی تردید میر افرض ہے.“ ” میں مسلمان ہوں.میرا عقیدہ دلائل وبراہین پر مبنی ہے کہ انسانی جماعتوں کے اغراض کا بہترین علاج قرآن نے تجویز کیا ہے.اس میں شک نہیں ہے کہ سرمایہ داری کی قوت جب حد اعتدال سے تجاوز کر جائے تو دنیا کے لئے ایک قسم کی لعنت ہے.لیکن دنیا کو اس کے مضر اثرات سے نجات دلانے کا طریق یہ نہیں ہے کہ معاشی نظام سے اس قوت کو خارج کر دیا جائے جیسا کہ بالشوک تجویز کرتے ہیں“....
59 ” مجھے یقین ہے کہ خود روسی قوم بھی اپنے موجودہ نظام کے نقائص، تجربے سے معلوم کر کے کسی ایسے نظام کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہو جائیگی جس کے اصول اساسی یا تو خالص اسلامی ہوں گے یا ان سے ملتے جلتے ہوں گے....موجودہ حالات میں روسیوں کا اقتصادی نصب العین کتنا ہی محمود کیوں نہ ہو ، ان کے طریق عمل سے کسی مسلمان کو ہمدردی نہیں ہو سکتی.ہندوستان اور دیگر ممالک کے مسلمان جو یورپ کی پولٹیکل اکانمی پڑھ کر مغربی خیالات سے فوراً متاثر ہو جاتے ہیں، ان کو لازم ہے کہ قرآن کریم کی اقتصادی تعلیم پر نظر ڈالیں.مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی تمام مشکلات کا حل اس کتاب میں پائیں گے“.اس مراسلے کو خطوط اقبال“ میں تمام و کمال نقل کرنے کے بعد رفیع الدین ہاشمی کے ذہن میں قدرتی طور پر سوال تو پیدا ہوا کہ بلا مضمون پڑھے ہوئے اقبال نے اسی روز اور اُسی لمحے ایڈیٹر زمیندار کو خط لکھ کر اس کی تردید (کیوں) ضروری سمجھی.اور تردید بھی اتنی مفصل.لیکن اس کا جواب ڈھونڈنے کی اُنہوں نے ارادی یا غیر ارادی طور پر کوئی کوشش نہیں کی.عبد السلام خورشید نے بھی اپنی ضخیم کتاب ”سر گزشت اقبال“ میں اس مراسلے کے طویل اقتباسات تو درج کیے لیکن انہوں نے بھی اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی.ان دونوں حضرات کے گریز کی وجہ شاید یہ ہے کہ اس کے جواب سے اقبال کے فکر و عمل کی دور نگی ظاہر ہونے کا امکان تھا.اقبال نے اپنی زندگی کے دو خانے بنارکھے تھے.ایک کا تعلق فکر سے تھا اور دوسرے کا عمل سے.فکر کی دنیا میں وہ جس درجہ آزاد تھے ، عمل کی دنیا میں اُس سے شدید تر بندش بھی اُنہوں نے اپنے او پر عائد کر رکھی تھی اور کوئی بھی ایسا اقدام کرنے پر وہ خود کو آمادہ نہیں کر سکتے تھے جس سے حکومت کی چشم ابرو پر شکن پڑنے کا بھی احتمال ہو سکتا ہو.اپنی زندگی کے مؤخر الذکر خانے کو محفوظ رکھنے کے لئے اقبال نے ارادی طور پر کوشش کی کہ ان کے قارئین کا حلقہ وسیع نہ ہونے پائے.اسی کے پیش نظر اُنھوں نے اردو کی جگہ پر فارسی زبان کو اپنے اظہارِ خیال کا ذریعہ بنایا.1932ء میں لندن کے ایک جلسے میں تقریر کرتے ہوئے اقبال نے اردو کی جگہ پر فارسی زبان کو اختیار کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا تھا: اردو کو چھوڑ کر فارسی میں شعر کہنا شروع کرنے سے متعلق لوگوں نے مختلف تو جیہات پیش کی ہیں.مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آج میں یہ راز بھی بتا دوں کہ میں
60 نے کیوں فارسی زبان میں شعر کہنے شروع کئے.بعض اصحاب یہ خیال کرتے ہیں کہ فارسی زبان میں نے اس لئے اختیار کی کہ میرے خیالات زیادہ وسیع حلقے میں پہنچ جائیں.حالانکہ میرا مقصد اس کے بالکل برعکس تھا....ہندوستان میں فارسی جاننے والے بہت کم تھے.میری غرض یہ تھی کہ جو خیالات باہر پہنچانا چاہتا ہوں، وہ کم از کم حلقے تک پہنچیں“ اقبال کی زندگی کے اول الذکر پہلو نے ان سے ایسی نظمیں کہلائیں جن کی بنا پر ایڈیٹر زمیندار نے ان کو اشتراکی ہی نہیں بلکہ اشتراکیت کا مبلغ اعلیٰ گردانا اور موخر الذکر پہلو نے اس دعوے کی فوری تردید پر انہیں مجبور کیا.یہ واقعہ جس زمانے میں پیش آیا وہ تھا بھی ہماری تاریخ کا انتہائی نازک دور.انقلاب روس سے قبل برطانوی سامراج کو ہندوستان کی شمال مغربی سرحد پر زار روس کے عزائم منڈلاتے نظر آتے تھے.انقلاب کے بعد اس کی جگہ بالشوزم کے ہوے نے لے لی تھی.1923ء میں اقبال کوجب اعلانیہ اشتراکی کہا گیا تھا، اس وقت ہندوستان میں اشتراکی خیالات کے نشو نما کا اور اشتراکی طرز کی مزدور یونینوں کے آغاز کا زمانہ تھا.دوسری طرف بین الا قوامی کمیونسٹ تنظیم نے ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی کی تنظیم کا کام برطانوی کمیونسٹ پارٹی کے سپر د کیا تھا.حالات کی اس روش کو حکومت انتہائی پر تشویش اور غضب ناک نظروں سے دیکھ رہی تھی.دارو گیر کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا.لاہور میں بھی بالشوک سازش کا ایک مقدمہ زیر سماعت تھا.ان حالات میں سراسیمہ ہو کر اقبال کا اشتراکیت سے اپنی بریت ہی کا نہیں بلکہ اس سے شدید اختلاف کا اظہار کرنا ان کی افتاد طبع کے عین مطابق تھا.حکومت کو بھی اقبال کے اشتراکی ہونے کا اور اشتراکیت کے مبلغ ہونے کا اگر یقین ہو جاتا تو ان کی زندگی کے اس پہلو پر سرے سے پانی پھر سکتا تھا جس کی تعمیر میں اُنہوں نے اپنی عوامی مقبولیت کو بھی داؤ پر لگا دیا تھا اور ان کی وہ نائٹ ہڈ (Knight-hood) بھی خطرے میں پڑ سکتی تھی جس کے حصول پر ابھی چھ مہینے بھی پورے نہیں ہوئے تھے.دوسری طرف اقبال کے دل و دماغ کو روس کے اس انقلاب نے بے طرح متاثر بھی کیا تھا، جو بیسویں صدی ہی کا نہیں، انسانی تاریخ کا بھی اہم ترین واقعہ تھا.اس نے روس کی وسیع سلطنت میں جو دنیا کے پانچویں حصے پر پھیلی تھی ، زار شاہی کا خاتمہ کر کے پہلی بار محنت کشوں کی حکومت قائم کی تھی.اور اس کے اثرات روس ہی تک محدود نہیں رہے تھے بلکہ پہلی جنگ عظیم کی فاتح طاقتیں برطانیہ اور امریکا بھی اس سے لرز اٹھی تھیں.اس انقلاب نے مشرق کے ملکوں خصوصاً ہندوستان کی جد وجہد آزادی کو نیا حوصلہ بخشا تھا اور اس کی رفتار تیز تر کر دی تھی.اقبال کی فکر نے بھی اس انقلاب کو ” بطن
61 گیتی سے آفتاب تازہ“ کے ظہور سے تعبیر کیا تھا اور اسے خوش آمدید کہنے میں بخل سے کام نہیں لیا تھا.اقبال ہی ہمارے ملک کے پہلے شاعر تھے جنہوں نے انقلاب روس کو اپنی فکر کا موضوع بنایا اور پر جوش انداز میں انقلاب کے نغمے گائے.”پیام مشرق “ (1923ء) کی اکثر اور بانگ درا (1924ء) کے آخری حصے کی بیشتر نظموں میں اقبال نے ، بلا اگر مگر کے جن انقلابی خیالات کا اظہار کیا تھا، ان سے یہ گمان ہو نا غلط نہیں تھا کہ ”علامہ اقبال بھی بالشوک خیالات رکھتے ہیں....“ اقبال کی طویل اور کامیاب ترین نظم ، خضر راہ اسی دور کی یاد گار ہے جس میں شاعر نے خضر راہ سے ایک یہ سوال بھی کیا تھا: اور سرمایہ و محنت میں ہے کیسا خروش؟ اس کے جواب میں خضر نے جن خیالات کا اظہار کیا، انہیں سیدھے سادے الفاظ میں اشتراکی تعلیمات کا نچوڑ کہنا غلط نہ ہو گا، اس کا پہلا بند یہ ہے: بندہ مزدور کو جاکر مرا پیغام دے خضر کا پیغام کیا، ہے یہ پیام کائنات اے کہ تجھ کو کہا گیا سرمایہ دار حیلہ گر شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات دست دولت آفریں کو مُزد یوں ملتی رہی اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو خیرات ساحر الموت نے تجھ کو دیا برگِ حشیش اور تواے بے خبر سمجھا اسے شاخ نبات نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ خواجگی نے خوب چن چن کر بنائے مسکرات کٹ مرا ناداں خیالی دیوتاؤں کے لیے سکر کی لذت میں تولٹوا گیا نقد حیات مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
62 اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے بانگ درا کی اشاعت سے ایک سال قبل ، 1923ء کے وسط میں اقبال کا فارسی مجموعہ کلام ” پیام مشرق “ کے نام سے شائع ہوا.اس کے دیباچہ میں اُنھوں نے لکھا تھا کہ :- یورپ کی جنگ عظیم (1914ء تا 1918ء) ایک قیامت تھی جس نے پرانی دنیا کے نظام کو قریباً ہر پہلو سے فنا کر دیا ہے اور اب تہذب و تمدن کے خاکستر سے فطرت ، زندگی کی گہرائیوں میں ایک نیا آدم اور اس کے رہنے کے لیے ایک نئی دنیا تعمیر کر رہی ہے.“ مندرجہ بالا اقتباس میں اقبال نے جس نئے آدم کے ظہور کا مژدہ سنایا تھا، اس نے سوویت یونین میں جنم لیا تھا.پیام مشرق کی تمام نظموں میں خواہ سیاسی ہوں یا غیر سیاسی، جو نیا ولولہ اور نیا آہنگ ملتا ہے ، وہ انقلاب روس ہی کی دین تھا.خضرہ راہ 1921ء میں کہی گئی تھی.پیام مشرق کی بیشتر نظمیں بھی اسی زمانے کی ہیں اور ان میں سے اکثر نظموں میں اقبال نے ان خیالات کو واضح تر الفاظ میں بیان کیا ہے جو ہمیں خضر راہ میں ملتے ہیں.مثال کے لیے یہ شعر لیجیے.مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات اس کی مکمل تفسیر قسمت نامہ سرمایہ دار و مز دور میں ملتی ہے.سرمایہ دار بڑی پر کاری سے مزدور کو سمجھاتا ہے کہ یہ پر شور کار خانے، مال و منال اور دنیوی عیش و آرام جو عارضی ہیں اور جن کے حصول میں بڑی دردسری کرنی پڑتی ہے ، وہ میں لیے لیتا ہوں اور دوسری دنیا کا ابدی عیش و آرام تمہارے لیے چھوڑ تا ہوں.زمین کے اندر جو کچھ ہے ، وہ میرا ہے اور زمین سے لے کر عرش معلی تک جو کچھ ہے، اس کے مالک تم ہو : غوغائے کارخانہ آہنگری زمن گلبانگ از عنون کلیسا ازان تو نخلے کہ شہ خراج برومی نهد زمن باغ بهشت وسدره وطوبا ازان تو
63 تلخابه که دردِ سر آرد ازان من صہبائے پاک آدم وحوا ازان تو مرغابی و تذرو و کبوتر ازان من ظل ہما و شہپر عنقا ازان تو ایں خاک و آنچه در شکم او ازانِ من وز خاک تابه عرش معلاً ازان تو پیام مشرق ہی کے مندرجہ ذیل اشعار میں اقبال نے انقلاب روس کی پوری داستان بیان کی ہے.زار شاہی کے خاتمے کے ساتھ ہی شہنشاہیت کا بھی خاتمہ ہو چکا ہے.دنیا کے مختلف محنت کش اپنی حکمرانی قائم کرنے کے لیے میدان کارزار میں اُتر آئے ہیں.روس میں لینن کو جلا وطنی سے آزاد کرا کے سر براہ مملکت بنا دیا گیا ہے.جو باتیں پردہ راز میں تھیں، معلوم عوام ہو چکی ہیں.اب باتیں بنانے سے کام نہیں چل سکتا.اس کے بعد اپنے ہم وطنوں کو اقبال متنبہ کرتے ہیں کہ زندگی ایک نئی دنیا تعمیر کر رہی ہے.اگر تم نے بصیرت سے کام نہ لیا تو دوڑ میں تم پیچھے رہ جاؤ گے.افسر یاد شهی رفت و به یغمائی رفت نے اسکندری و نغمه دارائی رفت کوه کن تیشه بدست آمد پرویزی خواست عشرت خواجگی و محنت لالائی رفت یوسفی راز اسیری عزیزی بردند به ہمہ افسانہ وافسون زلیخائی رفت راز ہائے کہ نہاں بود، بیازار افتاد اں سخن سازی و آں انجمن آرائی رفت چشم بکشائی اگر چشم تو صاحب نظر است زندگی تعمیر جهان دگر است در پے
64 اسی مجموعے کی ایک نظم نوائے مزدور ہے جس میں مزدور کا یہ احساس پوری شدت سے کار فرما نظر آتا ہے کہ موٹا جھوٹا پہننے والے اور نیم فاقہ زدہ مزدوروں ہی کے گاڑھے پینے کی کمائی سے حرام خور کار خانہ داروں کو ریشمی کپڑے اور زر و جواہر نصیب ہوتے ہیں.اہل کلیسا بھی ہمارے ہی خون سے جونک کی طرح پلتے ہیں اور کاروبار سلطنت بھی ہمارے زورِ بازو سے چلتا ہے اور اس خرابہ عالم کی ساری رونق ہماری بدولت ہے : زمزد بنده کر پاس پوش و محنت کش نصیب خواجه ناکرده کار، رخت حریر زخوی فشانی من لعل خاتم والی زاشک کودک من گوہر ستام امیر زخونِ من چوز کو فربہی کلیسا را بزورِ بازوے من دستِ سلطنت ہمہ گیر خرابه رشک گلستان زگریه سحرم شباب لاله و گل از طراوت جگرم اسی نظم کے دوسرے بند میں قدیم نظام کو درہم برہم کرنے اور غار تنگرانِ عالم سے انتقام لینے کی محنت کشوں کو دعوت دی گئی ہے: بیا که تازه نوامی تراود ازرگ ساز ے کہ شیشہ گدازد بسافرا اندز یم مغان و دیر مغان را نظام تازه دهیم بنائے میکده های کهن بر انداز یم زر ہرناں چمن انتقام لالہ کشیم به بزم غنچه و گل طرح دیگر انداز یم بطوف شمع چو پروانه زیستن تاکے ز خویش ایں ہمہ بیگانہ زیستن تاکے
65 اس دور میں اقبال کے ذہن پر انقلاب کا تصور جس طرح چھایا ہوا تھا، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ غلام رسول مہر اور عبد المجید سالک نے جب محنت و سرمایہ کی آویزش ہی کی بنا پر ظفر علی خاں کے اخبار ”زمیندار“ سے علیحدگی اختیار کی اور ایک نئے اخبار کی طرح ڈالی تو اقبال نے اس نئے اخبار کا نام ”انقلاب“ تجویز کیا اور اس کے پہلے شمارے کے لیے خواجہ و مزدور کے عنوان سے ایک نظم بھی کہہ کر دی.جس میں سرمایہ داری اور جاگیر داری ہی کے خلاف نہیں بلکہ مذہب کے ٹھیکیداروں کے خلاف بھی احتجاج کیا گیا تھا.خواجه از خون رگ مز دور ساز لعل ناب از جفائے وہ خدایاں کشت دہقاناں خراب انقلاب انقلاب! اے انقلاب شیخ شهر از زشته تسبیح صد مومن بدام کافران ساده دل را بر همن زنار تاب انقلاب انقلاب! اے انقلاب یہ جانا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ انقلاب روس سے پندرہ سال قبل اقبال نے اپنی اولین تصنیف علم الاقتصاد میں ملکیت کے باب میں جن خیالات کا اظہار کیا تھا.ان میں بھی کارل مارکس کے افکار کی صدائے بازگشت سنائی دیتی تھی.مثلاً ایک جگہ اُنہوں نے لکھا ہے: تمدن انسانی کی ابتدائی صورتوں میں ملکیت یا جائیداد شخصی کا وجود مطلق نہ تھا.محنت کی پیداوار میں حسب ضرورت سب کا حصہ تھا.ہر شے ہر شخص کی ملکیت تھی اور کوئی خاص فرد یہ دعویٰ نہیں کر سکتا تھا کہ یہ خاص شے میری ملکیت ہے اور یہ کسی اور کی نہیں.نہ کہیں افلاس کی شکایت تھی، نہ چوری کا کھٹکا تھا.قبائل انسانی مل کر گزارا کرتے تھے اور امن و صلح کاری (کذا) کے ساتھ اپنے دن کاٹتے تھے.یہ مشارکت جو اس ابتدائی تمدن میں انسانی کا اصول معاشرت تھی ہمارے ملک کے اکثر
66 دیہاتوں میں اس وقت بھی کسی نہ کسی شکل میں مروج ہے.زمانہ حال کے بعض فلسفی اس بات پر مصر ہیں کہ تمدن کی یہی صورت سب سے اعلیٰ اور افضل ہے.جائدادِ شخصی تمام برائیوں کا سر چشمہ ہے.لہذا اقوام دنیا کی بہبودی اسی میں ہے کہ ان بیجا امتیازات کو یک قلم موقوف کر کے قدیمی وقدرتی اصول مشارکت فی الاشیا کو مروج کیا جائے اور کچھ نہیں تو ملکیت زمین کی صورت میں ہی اس اصول پر عمل درآمد کیا جائے.کیونکہ یہ شے کسی خاص فرد یا قوم کی محنت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ قدرت کا ایک مشترکہ عطیہ ہے جس میں قوم کے ہر فرد کو مساوی حق ملکیت حاصل ہے.حال کی علمی بحثوں میں یہ بحث بڑی دلچسپ اور نتیجہ خیز رہی ہے.لیکن اس کا مفصل ذکر ہم اس ابتدائی کتاب میں نہیں دینا چاہتے.علم الاقتصاد میں جو بات اقبال نے کہی تھی، وہی اُنھوں نے تیس سال بعد بال جبریل کے اس شعر میں بھی دہرائی: دہ خدایا! یہ زمیں تیری نہیں، تیری نہیں تیرے آبا کی نہیں تیری نہیں، میری نہیں اس مندرجہ بالا اقتباس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہ ہو گا کہ 1903ء میں جب اقبال نے علم الاقتصاد لکھی تھی تو اس وقت ان کا ذہن سوشلزم کے اس تصور کو قبول کر چکا تھا جو انیسویں صدی کے وسط میں کارل مارکس نے ایک مکمل فلسفے کی شکل میں پیش کیا تھا.روس میں مارکس کے فلسفہ کی کامیابی نے اقبال کے سوشلسٹ رجحان کو پختہ کر دیا.لیکن مارکسیت میں خدا کے وجود سے انکار کا اور مذہب سے تنفر کا پہلو بھی مضمر تھا جو اقبال کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتا تھا.مگر اس جزوی اختلاف کے باوجود سوشلسٹ خیالات کی ترویج و اشاعت بھی وہ کرتے رہے.اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ سوشلزم کے داعیوں کی طرح اقبال کو بھی سرمایہ داری اور سامراج سے شدید نفرت تھی.وہ ان دونوں کو انسانیت کے لیے لعنت اور اسلام کی تعلیمات کے منافی سمجھتے تھے.یہی جذبہ اُنھیں سوشلزم سے قریب لاتا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ سوویٹ نظام میں اگر خدا کے وجود کا اقرار بھی داخل ہو جائے تو وہ عین اسلام ہو گا.خلیفہ عبدالحکیم کے الفاظ میں اقبال یہ سمجھتے تھے کہ "زاویہ نگاہ کی ذراسی تبدیلی سے اشتراکیت اسلام بن سکتی ہے یا اسلام اشتراکیت ہو سکتا ہے.“
67 یہ بھی قابل ذکر ہے کہ کارل مارکس کی مذہب دشمنی کے باوجود اقبال نے کارل مارکس اور اس کی تصنیف، سرمایہ (Capital) کا ہر جگہ محبت و عقیدت سے نام لیا ہے.ان کے نزدیک مار کس پیغمبر نہ ہونے کے باوجو د صاحب کتاب تھا: " نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب“ یہی بات اقبال نے جاوید نامہ میں واضح تر الفاظ میں کہی تھی اور سرمایہ کے مصنف ہر بے جبرئیل کارشتہ ابراہیم خلیل اللہ سے جوڑا تھا.ان کے نزدیک کارل مارکس کا اند از فکر تو کافرانہ تھا لیکن اس کا قلب مومن تھا.اس کے باطل خیالات بھی حق پر مبنی ہیں.اس میں خرابی بس یہ ہے کہ اس کا فلسفہ زندگی روحانیت سے تہی ہے اور اس کا سارازور اس پر ہے کہ روٹی سب کو برابر ملے : صاحب سرمایه، از نسل خلیل یعنی آں پیغمبر بے جبرئیل زانکہ حق در باطل او مضمر است قلب اومومن دماغش کافراست رنگ و بوازتن نگیر د جانِ پاک جز به تن کارے ندارد اشتراک دین آں پیغمبر حق ناشناس بر مساوات دار داساس اس بر صغیر ہند میں سوشلزم کی ترویج واشاعت سے متعلق جو تاریخیں اب تک لکھی گئی ہیں، وہ اگر چہ اقبال کے ذکر سے خالی ہیں، تاہم یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ سوشلزم کے تصور کے پر چار کی خدمت اقبال نے بالواسطہ اور براہ راست بھی اس وقت انجام دی تھی جب نہ تو ہمارے ملک کے رہنماؤں میں سے کسی کو باستشنائے حسرت موہانی، اپنے کو کمیونسٹ یا سوشلسٹ کہنے کی ہمت ہوئی تھی اور نہ کسی پارٹی کے نصب العین میں سوشلزم کو جگہ ملی تھی.کمیونسٹ پارٹی کا قیام عمل میں آچکا تھا لیکن وہ غیر قانونی تھی اور اس کے بیشتر کار کر تا قید و بند کی زندگی گزار رہے تھے.اقبال نے 1931ء میں اسلام اور بالشوزم کے باہمی ربط سے متعلق ایک خط میں دوٹوک انداز میں لکھا تھا کہ :
68 بالشوزم میں خدا کا تصور اگر داخل کر دیا جائے تو وہ بڑی حد تک اسلام کے مماثل ہو جائے گا.مجھے حیرت نہ ہو گی اگر آگے چل کر اسلام روس پر یاروس اسلام پر چھا جائے.“ لاہور کے انگریزی اخبار روزنامہ سول اینڈ ملٹری گزٹ کی 30 جولائی 1931ء کی اشاعت میں یہ خط شائع ہو گیا تھا.اس کے چھ مہینے بعد ایک اخبار نویس نے اقبال سے ان کے اس خیال کی وضاحت چاہی تو انہوں نے کہا : ” اسلام سوشلسٹ طرز کا مذہب ہے.مطلق سوشلزم اور نجی ملکیت کے باب میں قرآن نے درمیانی راہ اختیار کرنے کی تعلیم دی ہے....میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ آپ جسے بالشوزم اور سامراج کہتے ہیں، عصر حاضر ان دونوں میں بنیادی تبدیلیاں لائے گا.علاقائی سلطنتوں کے دن لد چکے ہیں.بالشوزم میں بھی مطلق سوشلزم کے معنوں میں ترمیمیں کی جانے لگی ہیں.ممکن ہے کہ معاشی نقطہ نگاہ کے اختلاف کی بنا پر روس اور برطانیہ بر سر پیکار ہو جائیں.اس حالت میں صحیح فکر رکھنے والوں کی ہمدردیاں حق و صداقت کے ساتھ ہوں گی.“ 1929ء میں اقبال نے روزنامہ زمیندار میں شائع ہونے والے تردیدی مراسلے میں بالشوک خیالات رکھنے والوں کو قطعیت کے ساتھ خارج از اسلام قرار دیا تھا.لیکن مندرجہ بالا بیان میں اُنہوں نے اسلام کو سوشلسٹ طرز کا مذہب کہا.بلکہ ایک قدم آگے بڑھا کر انہوں نے یہ بات بھی واضح کر دی کہ معاشی نقطہ نگاہ کے اختلاف کی بناء پر روس اور برطانیہ بر سر پیکار ہوئے تو ان کی ہمدردی روس کے ساتھ ہو گی.یہ دو ٹوک بیان دینے کی ہمت اقبال کو اس وجہ سے ہوئی تھی کہ اس وقت برطانوی سامراج کی گرفت ہندوستان پر ڈھیلی پڑ چکی تھی اور روز بروز کمزور تر ہوتی جارہی تھی.یہ اسی صورت حال کا کرشمہ تھا کہ 1934ء میں اقبال کی یہ علانیہ خواہش تھی کہ ملک میں سوشلسٹ پارٹی کا قیام عمل میں آئے.اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ہندوستان میں پہلی سوشلسٹ کا نفرنس 17 مئی 1934ء کو اچاریہ نرندردیو کی صدارت میں پٹنہ میں منعقد ہوئی.اس کانفرنس کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ پارٹی کی ہیئت کا تھا.یعنی اس کی شکل باضابطہ جداگانہ پارٹی کی ہو کا نگریس کے اندر یا اس کے بازو کی طرح کام کرے.کانفرنس میں اس سوال پر ووٹ لیے گئے تو جدا گانہ پارٹی کے قیام کے حق میں 22
69 ووٹ آئے اور اس کے مخالفت میں 58 ووٹ آئے.اقبال اس کا نفرنس میں شریک تو نہیں ہوئے تھے لیکن ان کی یہ خواہش ضرور تھی کہ سوشلسٹ پارٹی کا ایک جداگانہ وجو د ہو اور کانگریس سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو.اس لیے اس فیصلے سے انہیں دُکھ ہوا لیکن وہ مایوس نہیں ہوئے انہوں نے اس سلسلے میں ایک طویل بیان جاری کیا جس میں اور باتوں کے علاوہ اُنہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ : ”سوشلسٹ پارٹی کو اگرچہ شکست ہوئی ہے لیکن اس کے سامنے مستقبل ہے.گو اس کا انحصار زیادہ تر کانگریس سے علیحدگی پر ہے.“ اسی بیان کے ابتدائی حصے میں اقبال نے ملک کی سیاسی صورت حال کا جو تجزیہ کیا تھا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملکی سیاست کی رفتار کا وہ گہرا مطالعہ کر رہے تھے اور ترقی پسند قومی سیاست کے دھاروں کے ساتھ زیر وزبر ہونے کے لیے وہ تیار تھے.امیروں کے خلاف ملک میں ایک عام جذبہ پیدا ہو گیا ہے.وہ محسوس کر رہے ہیں کہ نازک مرحلوں پر امیر طبقہ ہمیشہ اُن سے غداری کرتا ہے.جو حکومتیں کبھی سرمایہ داری کی پوجا کرتی تھیں، آج مزدوروں اور کسانوں کے رحم و کرم پر جی رہی ہیں.سب طرف بے چینی کی چنگاریاں سلگ رہی ہیں اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ کس وقت ایسی خطرناک صورت اختیار کر لیں گی کہ ایک زبر دست آگ بن کر دنیا کے موجودہ نظام کو بھسم کر دیں.“ ”جب ساری دنیا میں مساوات کی لہر چل رہی ہے تو ہندوستان کب اس کے اثر سے خالی رہ سکتا ہے.یہاں کے غریبوں میں اب بیداری پیدا ہو رہی ہے.اس وقت تک حکومت اور ہمارے لیڈر اُن کی طرف سے بے پروا ر ہے ہیں لیکن یہ حالت زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکتی.سوسائٹی ایک خطر ناک دور سے گزر رہی ہے اور سوشلسٹ خیالات محض روسی پروپیگنڈے ہی کی وجہ سے نہیں پھیل رہے ہیں بلکہ اور بہت سے اسباب ایسے پیدا ہو گئے ہیں جن سے ملک کی اقتصادی حالت میں تبدیلی کا ہونا لازمی ہے.“ ہندوستان میں سوشلسٹ پارٹی کے قیام سے اقبال کو اتنی شدید دلچسپی کیوں تھی اور یہ بیان جاری کرنے کی ضرورت اُنہوں نے کیوں محسوس کی؟ ان سوالوں کا اگر چہ کوئی واضح جواب ہمارے پاس نہیں ہے لیکن ان کے بیان کے لب ولہجے سے یہ نتیجہ اخذ کر نایقیناغلط نہ ہو گا کہ ملک میں باضابطہ سوشلسٹ پارٹی کا قیام اگر عمل میں آجاتا اور کانگریس سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو تا تو اقبال اس پارٹی میں
70 اگر شامل نہ بھی ہوتے تو بھی ان کی تمام تر ہمدردیاں اس کے ساتھ ضرور ہو تیں.سوشلزم کے تصور کو اقبال نے جس حد تک قبول کر لیا تھا اس کا اندازہ بال جبریل سے بھی ہوتا ہے جو 1935ء میں شائع ہوئی تھی.اس مجموعے کی تین نظمیں خصوصیت سے قابل ذکر ہیں جو ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں.لینن (خدا کے حضور میں ) فرشتوں کا گیت اور فرمان خدا (فرشتوں کو).پہلی نظم میں لینن کو بھی مرنے کے بعد خدا کی ذات کے زندہ و پائندہ ہونے پر ایمان لانا ہی پڑتا ہے.آج آنکھ نے دیکھا تو وہ عالم ہوا ثابت میں جس کو سمجھتا تھا کلیسا کے خرافات اس کے بعد لین خدا سے سوال کرتا ہے اور یہی سوال پوری نظم کی جان ہے: اک بات، اگر مجھ کو اجازت ہو تو پوچھوں حل کر نہ سکے جس کو حکیموں کے مقالات جب تک میں جیا خیمہ افلاک کے نیچے کانٹے کی طرح دل میں کھٹکی رہی یہ بات وہ کون سا آدم ہے کہ تو جس کا ہے معبود وہ آدم خاکی کہ جو ہے زیر سماوات؟ تو قادر وعادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ دنیا ہے تری منتظر روز مکافات اس کے بعد فرشتے جو گیت گاتے ہیں.اس سے بھی لینن کی فریاد کی تائید ہوتی ہے : عقل ہے بے زمام ابھی عشق ہے بے مقام ابھی نقش گر ازل! ترا نقش ہے نا تمام ابھی
71 خلق خدا کی گھات میں رند و فقیر دمیر و پیر تیرے جہاں میں ہے وہی گردش صبح و شام ابھی تیرے امیر مال مست ، تیرے فقیر مال مست بندہ ہے کوچہ گرد ابھی،خواجہ بلند بام ابھی لینن کی فریاد اور گیت سننے کے بعد فرشتوں کو حکم دیتا ہے: اُٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کاخ امرا کے درودیوار ہلا دو گرماؤ غلاموں کا لہو سوزِ یقیں کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ ! جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو یہ نظم :- اقبال کی اس نظم پر خلیفہ عبدالحکیم نے بڑے پرجوش انداز میں تبصرہ کیا ہے.ان کا خیال تھا کہ ”ایسی ہیجان انگیز اور درد انگیز ہے کہ اس کے جذبے کو بر قرار رکھتے ہوئے اگر روسی زبان میں اس کا موثر ترجمہ ہو سکتا اور وہ لینن کے سامنے پیش کیا جاتا تو وہ اسے بین الا قوامی اشتراکیت کا ترانہ بنا دینے پر آمادہ ہو جاتا.سوائے اِس کے کہ ملحد لینن کو اس میں خلل نظر آتا کہ اس میں خدا یہ پیغام اپنے فرشتوں کو دے رہا ہے اور اس کے نزدیک وجودنہ خدا کا ہے نہ فرشتوں کا....یہ نظم کمیونسٹ مینی فیسٹو ( اشتراکی لائحہ عمل کا لب لباب ہے اور محنت کشوں کے لیے انقلاب بلکہ بغاوت کی تحریک ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ علامہ اقبال اشتراکیت کے تمام معاشی پہلوؤں سے
72 اتفاق رائے رکھتے تھے.سوا اس کے کہ اس تمام تقسیم جدید نے انسانوں کے دل و دماغ پر یہ غلط عقیدہ مسلط کر دیا ہے کہ تمام زندگی مادی اسباب کی عادلانہ یا مساوی تقسیم سے فروغ اور ترقی حاصل کر سکتی ہے....." اقبال کو کمیونسٹ تو یقیناً نہیں کہا جا سکتا لیکن ان کے سوشلسٹ ہونے سے انکار بھی ممکن نہیں ہے.اقبال کا سوشلزم کا تصور اسی قسم کا تھا جو آج ہمارا ہے.جس میں پبلک سکٹر کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سکٹر کا وجود بھی گوارا کیا جاتا ہے.ان کا عقیدہ تھا کہ :- اسلام سرمایہ کی قوت کو معاشی نظام سے خارج نہیں کرتا....بلکہ اسے قائم رکھتا ہے اور ہمارے لیے ایک نظام تجویز کرتا ہے جس پر عمل پیرا ہونے سے یہ قوت کبھی بھی اپنے مناسب حدود سے تجاوز نہیں کر سکتی.“ اقبال نے اس عقیدے کا اظہار اُس مضمون کے جواب میں کیا تھا جس میں اُن پر بالشوک یا کمیونسٹ ہونے کی تہمت رکھی گئی تھی، اس کے دس سال بعد اُنھوں نے اپنے اسی عقیدے کا اعادہ ایک نجی خط میں بھی کیا جو 9 مئی 1932ء کو لکھا گیا تھا.”اسلامی معاشیات کی روح یہ ہے کہ بڑی مقدار میں سرمایہ میں اضافے کو نا ممکن بنا دیا جائے....بالشوزم نے سرمایہ داری کا کلیتاً خاتمہ کر کے انتہائی اقدام کیا ہے.اسلام زندگی کے تمام پہلوؤں میں اعتدال کی راہ اختیار کرتا ہے.“ جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے، اقبال کے ذہن نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا تھا کہ اس ملک کی بیشتر آبادی جو مزدوروں اور کسانوں پر مشتمل ہے اس کے مسائل کی نوعیت وہی ہے جو انقلاب سے پہلے روس کی تھی.اسی احساس کے پیش نظر انھوں نے سوویٹ روس کے معاشی تجربے کا دلچسپی سے مطالعہ کیا تھا اور اس سے وہ متاثر بھی ہوئے تھے.محمد دین تاثیر کے بیان کے مطابق اقبال نے یہ بات متعد دبار واضح الفاظ میں کہی تھی کہ اگر مجھے کسی مسلم ملک کا سربراہ بنا دیا جائے تو وہ سب سے پہلے اسے سوشلسٹ ریاست بنائیں گے.اقبال کی وفات سے دوڈھائی مہینے پہلے جو اہر لال نہروان سے ملے.ان کا بیان ہے کہ اقبال: زندگی کے آخری برسوں میں سوشلزم سے بہت قریب آگئے تھے.سوویٹ یونین نے جو عظیم ترقی کی تھی، اس نے انھیں گرویدہ بنالیا تھا.“
73 یہی بات کا نول اسمتھ نے دوسرے انداز میں لکھی ہے: ” خدا کی منکر اور روحانیت سے تہی ہونے کے باوجو د سوشلسٹ تحریک اور سوویٹ یونین سے اقبال کو ہمدردی تھی.اقبال کی زندگی کے آخری ایام میں ان کے دوستوں نے انہیں یقین دلایا تھا کہ سوشلزم کو سمجھنے میں انھوں نے غلطی کی ہے.وہ اس کی تلافی کا ارادہ ہی کر رہے تھے کہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے.9% روس میں پہلی سوشلسٹ حکومت کا قیام 16 مارچ 1917ء کو دنیا کے عظیم ترین صاحب جلال اور پر ہیبت بادشاہ نکولس زار روس کو نہایت ذلت ورسوائی کے ساتھ تخت شاہی سے دستبردار ہونا پڑا.15 اگست کو اسے اسکی بیوی الیگزنڈرا اور بچوں کو پیٹروگراڈ کے شاہی محل سے نکال دیا گیا اور سو اسال تک سائبیریا میں قیدی رہنے کے بعد زار اور اسکی فیملی کو نہایت بے دردی اور بے شرمی سے گولیوں سے اڑا دیا گیا اور خدا کے مسیح کی یہ جلالی پیشگوئی پوری ہو گئی کہ.خازار بھی ہو گا تو ہو گا اُس گھڑی باحال زار 10 اس طرح1894ء سے 1917ء تک حکمرانی کرنے والا بادشاہ اپنی زبر دست طاقت وسطوت اور بے شمار وسائل کے باوجود ہمیشہ کے لیے صداقت مسیح موعود کا قہری نشان بن گیا.زار کی معزولی کے ایک ماہ بعد مشہور سوشلسٹ لیڈر، جو فن لینڈ میں گیارہ سال جلا وطن رہا، پیٹروگراڈ پہنچ گیا اور اکتوبر 1917ء میں بالشویکوں نے زار کے جانشین الیگزنڈر کر نسکی سے عنان حکومت چھین لی.اس طرح لینن کی قیادت میں پہلی سوشلسٹ حکومت معرض وجود میں آئی.حضرت اقدس مسیح موعود نے اپنے منظوم کلام میں زار کی حالت زار سے قبل یہ بھی فرمایا اک نشان ہے آنے والا آج سے کچھ دن کے بعد “ اس مصرعہ کے نیچے حضرت اقدس نے تحریر فرمایا ” تاریخ امروزہ 15 اپریل 1905ء“ نیز اگلے شعر کے پہلے مصرعہ میں فرمایا.آئے گا قہر خدا سے خلق پر اک انقلاب عجیب بات یہ ہے کہ سوشلسٹ حلقے اکتوبر 1917ء کے سانحہ کو ”October Revolution“ کے نام سے ہی یاد کرتے ہیں.بالشویکوں نے اپنی حکومت کے قیام پر اس یقین کا اظہار کیا کہ اکتوبر کا
74 انقلاب ایک ایسی چنگاری ہے جو ہر طرف بھڑک اٹھے گا.لینن کے مطابق یہ ایسا انقلاب تھا جس کا اثر مستقبل میں چاروں اطراف ہو گا.11 انگریز مورخ ایچ جی ویلز H.G Wales کے نزدیک روسی انقلاب ظہور اسلام کے بعد تاریخ عالم کا سب سے بڑ اواقعہ ہے.12 بالشویکی حکومت کی روسی مسلمانوں کے خلاف تباہ کن پالیسی ”روسی انقلاب کا اعلان “ ایک بنیادی دستاویز تھی جس پر بالشویکی روس کے پہلے حکمران لینن نے دستخط کئے اور تسلیم کیا کہ روسی مسلمانوں کو ملک کے دوسرے باشندوں کی طرح مساوی حقوق حاصل ہوں گے.13 سٹالن نے اس حق خود اختیاری کی تشریح درج ذیل الفاظ میں کی.تمام ملکوں کی سوشل جمہوریت، عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتی ہے.کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی قوم کی درس گاہوں اور قوانین کو تباہ کرنے اور اس کے رسم ورواج اور عادات و روایات کو مٹانے کے لیے اسکی زندگی میں مداخلت کرے.“14 لیکن اس کے بر عکس بالشویکی حکومت نے مسلم آبادی سے اسلام کو نا پید کرنے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا.مسلمانوں کے مدارس بند اور اوقاف ضبط کر لئے گئے.اسلامی شعائر پر پابندی لگا دی گئی اور سمر قند کی جامع مسجد کا وہ مینار جہاں کھڑے ہو کر مؤذن اذان دیتا تھا، گر ا دیا گیا اور اس کی جگہ لینن کا ایک بہت بڑا سٹیچو (Statue) رکھ دیا گیا اور نیچے جو عبارت درج کی گئی اس کا مفہوم یہ تھا کہ آج سے اس مینار سے اذان کی آواز بلند نہیں ہو گی بلکہ مارکس اور لینن کی آواز سنائی دے گی.15 لینن نے 21 جنوری 1921ء کو وفات پائی جس کے بعد سٹالن (Stalin) جیسا جابر وسفاک آمر برسر اقتدار آگیا.سٹالین کا تیس سالہ دور حکومت روز اول سے آخر تک اسلام دشمنی کے خونی واقعات سے رنگین ہے.دسمبر 1924ء کا واقعہ ہے کہ اس شخص کی استبدادی حکومت نے جماعت احمدیہ کے ایک صوفی منش عالم دین حضرت مولوی ظہور حسین صاحب کو جو بخارا جیسے قدیم عظیم الشان اسلامی مرکز میں قرآن مجید کا نور پھیلانے کے لئے جارہے تھے.ارتھک اسٹیشن پر گر فتار کر لیا اور پہلے ار تھک اور پھر عشق آباد، تاشقند اور ماسکو کے قید خانوں کی تاریک کو ٹھریوں میں ایسی ایسی اذیتیں پہنچائیں کہ جن کا تصور کر کے کلیجہ پھٹ جاتا اور دل پاش پاش ہو جاتا ہے.
75 حضرت مولانا ظہور حسین صاحب نے قید و بند میں بھی قیامت خیز مشکلات کے باوجو د پیغام حق پہنچانے کا فریضہ جاری رکھا اور چالیس کے قریب قیدیوں کو احمدی کر کے روس میں حقیقی اسلام کا پودا لگا دیا.روسی حکام نے پونے دو سال کے بعد آپ کو ایران کی بندر گاہ بنزلی پر چھوڑ دیا جہاں سے آپ تہران، بغداد ، بصرہ اور کراچی سے ہوتے ہوئے 25 اکتوبر 1926ء کی صبح قادیان پہنچ گئے.لاہور کے مشہور ” اخبار کشمیری“ نے 21 اکتوبر 1926ء کو ایک احمدی کا قابل تقلید نمونہ کے زیر عنوان لکھا.دسمبر کے مہینہ میں جبکہ راستہ برف سے سفید ہو رہا تھا، راستے میں روسیوں کے ہاتھ پڑ گئے.جہاں آپ پر مختلف مظالم توڑے گئے.تاریک کمروں میں رکھا گیا.کئی کئی دن سور کا گوشت کھانے کے لیے اُن کے سامنے رکھا گیا لیکن وہ سر فروش عقیدت جادہ استقلال پر برابر قائم رہا.وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جو شخص قید خانہ میں انہیں دیکھنے آیا، ان کی تعلیمات کی بدولت احمدی ہوئے بغیر باہر نہ نکلا.اس طرح تقریباً چالیس اشخاص احمدی ہو گئے.جو باتیں آج مولوی ظہور حسین سے جیل کے اندر اور جیل سے باہر ظہور میں آئی ہیں، قرون اولیٰ کے مسلمانوں میں اشاعت مذہب کے لیے ایسی ہی تڑپ ہوا کرتی تھی.دین اشتراکیت کا بین الا قوامی تفریحی کلب 16 بابیت و بہائیت، اشتراکیت کا صرف ہر اول دستہ ہی نہیں بلکہ اسکا عالمی تفریحی کلب بھی ہے جس کا 17" ماٹو ہے ”عاشر و امع الاديان كلها بالروح والريحان اس عربی ماٹو کا اردو ترجمہ ایک بہائی اہل قلم ابو العباس رضوی کے الفاظ میں یہ ہے کہ ”سب اہل مذاہب کے ساتھ مل جل کر ہنسی خوشی سے زندگی بسر کرو“ اس نصب العین کی روشنی میں اس کلب کی حسب ذیل 9 بنیادی خصوصیات ہیں.اول.ہر مذہب و ملت کے لوگوں سے شادی بیاہ کے تعلقات کی کھلی چھٹی ہے.بہائی رسم ورواج کے قائل نہیں.ان کا نکاح پادری بھی پڑھ سکتا ہے.دوم.جنسی تعلقات کے بعد غسل واجب نہیں.سوم.اگر کوئی بہائی 9ماہ تک سفر میں رہے تو اس کی بیوی نیا شوہر کر سکتی ہے.چہارم.تین طلاقوں کے بعد بھی رجوع جائز ہے.
حواشی 76 پنجم.ماں کے سواسب عورتوں سے نکاح مباح ہے.ششم.شراب کے استعمال پر کوئی قدغن نہیں نہ سور کے گوشت پر.ہفتم.راگ ورنگ عبادت کا حصہ ہے.ہشتم.لواطت (Homosexuality) ممنوع نہیں.نہم.عورتوں کے لئے مردوں سے پر دہ عذاب اور حرام ہے.8 18 1 کلیات مکاتیب اقبال جلد اول صفحہ 1026 مرتبہ سید مظفر حسین برنی ناشر اردو اکادمی دہلی اشاعت چہارم 1993ء.2 ارمغان حجاز صفحہ 218.3 4 5 6 ايضا صفحہ 224.جاوید نامہ صفحہ 244.ايضا صفحہ 243.اقبال نامہ مجموعہ مکاتیب اقبال حصہ اول صفحہ 318-319 مرتبہ شیخ عطاء اللہ ایم اے شعبہ معاشیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ.ناشر شیخ محمد اشرف تاجر کتب کشمیری بازار.7 " اقبال نامه مجموعه مکاتیب اقبال "صفحہ 13 تا 17 (حصہ دوم).8 9 دیکھئے.تصوف کی حقیقت " از جناب غلام احمد پرویز شائع کردہ ادارہ طلوع اسلام گلبرگ روڈ لاہور طبع اول ستمبر 1981ء.اقبال جادو گر ہندی نژاد صفحہ 101 تا 121 مصنف عتیق صدیقی.ناشر مکتبہ جامعہ د بلی طبع اول اگست 1980ء.10 براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 120.تصنیف 1905ء.13 11 بیسویں صدی کا انسائیکلو پیڈیا صفحہ 107(اعظم شیخ) ناشر علم و عرفان پبلشر زمال روڈلاہور.اشاعت جولائی 2002ء.12 کارل مارکس صفحہ 7 از ڈاکٹر احمد حسین کمال ناشر ادارہ ندائے انقلاب 5 بیگم روڈ لاہور اشاعت یکم مئی 1996ء.The Formation of The Soviet Union, p.155, Richerd Pipes بحوالہ " روس میں مسلمان قومیں " صفحہ 98 از آباد شاہ پوری ناشر اسلامک پبلیکیشنز شاہ عالم مارکیٹ لاہور طبع ششم اگست 1989ء.Modernization of Soviet Asia, p.27, By Agha Shaukat Ali بحوالہ " روس میں مسلمان قومیں " صفحہ 98- 14 99( آبادشاہ پوری).15 تاریخ انقلابات عالم حصہ اول صفحہ 604 از ابوسعید بزمی ایم اے.کتاب منزل لاہور طبع اول1949ء.17 16 بحوالہ الفضل 30 نومبر 1926ء صفحہ 3-4.یہ ماٹو بہاء اللہ کے جانشین عبد البہاء نے اگست 1911ء میں مغربی دنیا کے سفر کے دوران دیا.(دیباچہ رسالہ " صلح کل " ناشر بہائی ہال کراچی نمبر 5).18 الاقدس.بدائع الآثار جلد 1 صفحہ 380،158،23 اشراقات اشراق نهم صفحہ 43.ناسخ التواریخ جلد 3 طبع ایران (ذکر قرۃ العین ) "باب و بہاء را بشناسید " صفحہ 195.حاجی فتح الله منتون استاد فارسی حیدر آباد دکن.ملاحظہ ہو کتاب "بہائی مذہب کی حقیقت " (مولف حضرت مولانا فضل الدین صاحب پلیڈ ر قادیان اشاعت قادیان.دسمبر 1925ء)
77 پانچویں فصل بالشویکی روس کے گہرے اثرات اقبال پر اقبال بالشویکی روس کے عمر بھر والا وشیدا بنے رہے چنانچہ روس کو الہامی عظمت کا مہبط قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: بلشویک روس روش قضائے الہی کی ہے عجیب و غریب خبر نہیں کہ ضمیر جہاں میں ہے کیا بات! ہوئے ہیں کسر چلیبیا کے واسطے مامور وہی کہ حفظ چلیا جو جانتے تھے نجات ! وحی دھریت روس پر ہوئی نازل کہ توڑ ڈال کلیسائیوں کے لات و منات! جناب عتیق صدیقی صاحب اپنی تحقیق و تشخص میں اس نتیجہ پر پہنچے کہ :- ”برطانوی ہند میں اقبال جس مسلم ہند کا قیام چاہتے تھے ، وہ پاکستان کے تصور سے بالکل مختلف تھا.زندگی کے آخری چند برسوں میں اقبال کے سیاسی افکار میں ایک اہم انقلاب رونما ہوا.سوشلزم اور سوویٹ یونین سے انہیں اس حد تک دلچپسی ہو گئی تھی کہ لوگوں نے ان کے لئے اسلامی سوشلٹ کی اصطلاح وضع کر ڈالی.اقبال کی شاعری نیز دوسرے مآخذ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک عصر حاضر کے انسان کے معاشی مسائل صرف سوشلزم ہی سے حل ہو سکتے ہیں اور سوشلزم کو وہ مین سمجھتے تھے.اُن کی خواہش تھی کہ ہندوستان میں سوشلسٹ پارٹی کا قیام ایک مستقل سیاسی پارٹی کی حیثیت سے عمل میں آئے اور جب ایسا نہیں ہو سکا تو اس کے خلاف شدید غم وغصے کا اظہار کیا 1 سر اقبال اپنے دل میں اشتراکی روس اور سٹالین سے جو بے پناہ محبت پوشیدہ رکھے ہوئے تھے انہوں نے اس کا راز خود ہی افشاء کر دیا.چنانچہ انہوں نے 28 ستمبر 1922ء کو اپنے احمدی برادر اکبر ، اسلام
78 شیخ عطا محمد صاحب کی خدمت میں بذریعہ مکتوب یہ دلچسپ خبر دی.روس کی سلطنت کا صدر اب ایک مسلمان محمد ستالین نام ہے.لے فن جو پہلا صدر تھا بوجہ علالت رخصت پر چلا گیا ہے.اس کے علاوہ روسی گورنمنٹ کا وزیر خارجہ بھی ایک مسلمان مقرر ہوا ہے جس کا نام قرة خان ہے....یہ سب اخباروں کی خبریں ہیں اور مجھے یقین ہے کہ حقیقت ان سے بھی زیادہ ہے 2 اقبال کے اشتراکی افکار کے خوفناک نتائج بر صغیر کے ادیب سوشلزم کی آغوش میں 1.اقبال اپنی ایک فارسی نظم میں ”موسیولین“ کے عنوان سے لکھتے ہیں: شرار آتش جمہور کہنہ ساماں سوخت ردائے پیر کلیسا، قبائے سلطاں سوخت اقبال کی اشتراکی شاعری نے بر صغیر کے طول و عرض میں سوشلزم کو فروغ دیا اور بلند پایہ ادیب اور شعراء اس کی آغوش میں چلے گئے.اس عبرتناک صورت حال کے لئے جناب انور احسن صدیقی کی کتاب ”نوائے لینن ملاحظہ فرمائیں.یہ کتاب لینن (ولادت 22 اپریل 1870ء.وفات 21 جنوری 1924ء) کی صد سالہ جوبلی پر ٹیکسلا پبلشرز کراچی نے شائع کی.اس کتاب میں سر اقبال کے سوشلسٹ خیالات سے متاثر چالیس اردو شعراء کے نمونے دیئے گئے ہیں.خدا کا انکار 2.خدا کے انکار کے باب میں پنڈت نہرو اور سر اقبال دونوں ہم مذہب تھے.لیکن خوش عقیدگی کی حد یہ ہے کہ کئی ہندو نہرو کو دیوتا یقین کرتے ہیں اور ان کو پر میشور کا روپ سمجھتے ہیں.دوسری طرف پرستاران اقبال انہیں خودی کے پیغمبر اور مذہب عشق کا خدا بنا بیٹھے ہیں.پاکستان کے ایک شاعر نے قیام پاکستان کے بعد منعقدہ یوم اقبال میں عظمت اقبال پر ایک نظم پیش کی جس کے دوشعر ملاحظہ ہوں.تو ہے دین خودی کا پیغمبر مذہب عشق کا خدا تو ہے کعبہ عشق کا تو ہے معمار عقل کے سومنات کا محمود3
79 پنڈت نہرو اور اقبال دونوں ہی اپنی روح کے اعتبار سے سوشلسٹ اور پکے دہر یہ ہیں.پنڈت نہرو نے اپنی دہریت کا اعتراف ”میری کہانی“ میں کیا ہے اور سرا قبال کی ذاتی ڈائری Stray) (Reflection میں صاف لکھا ہے.”میرے دوست اکثر مجھ سے سوال کرتے ہیں کیا تم خدا کے وجود پر یقین رکھتے ہو ؟ اگر میرے دوست اپنے سوال کا جواب چاہتے ہیں تو ان کو مجھے پہلے سمجھانا چاہیے کہ یقین، وجود اور خدا بالخصوص آخر الذکر دو لفظوں سے اُن کی کیا مراد ہے.مجھے اعتراف ہے کہ میں ان اصطلاحات کو نہیں سمجھتا ہوں.“4 تصوف سے بغاوت 3.اقبال فرماتے ہیں.5" ”اس میں ذرا شک نہیں کہ تصوف کا وجود ہی سر زمین اسلام میں ایک اجنبی پودا ہے جس نے عجمیوں کی دماغی آب و ہوا میں پرورش پائی ہے.جب تصوف فلسفہ بننے کی کوشش کرتا ہے اور عجمی اثرات کی وجہ سے نظام عالم کے حقائق اور باری تعالیٰ کی ذات کے متعلق موشگافیاں کر کے کشفی نظریہ پیش کرتا ہے تو میری روح اس کے خلاف بغاوت کرتی ہے.“6 ختم نبوت کی اشتراکی تفسیر اور اسلام سے بغاوت 4.بیسویں صدی کا یہ المناک سانحہ ہے کہ سر اقبال نطشے، گوئٹے اور ہیگل کے تو بہترین ترجمان تھے مگر اُن کا مطہروں کے اس روحانی گروہ سے کوئی تعلق نہ تھا جن پر رب کریم کی طرف سے علوم قرآنی کھولے جاتے ہیں، اُن کا اپنا اقرار ہے:.”میری مذہبی معلومات کا دائرہ نہایت محدود ہے.میری عمر زیادہ تر مغربی فلسفہ کے مطالعہ میں گزری ہے اور یہ نقطہ خیال ایک حد تک طبیعت ثانیہ بن گیا ہے.دانستہ یانا دانستہ میں اسی نقطہ خیال سے حقائق اسلام کا مطالعہ کرتا ہوں.“7 نیز اعتراف کرتے ہیں.میں جو اپنی گزشتہ زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ میں 8" نے اپنی عمر یورپ کا فلسفہ پڑھنے میں گنوائی.“8
80 اور فلاسفروں کی نسبت ان کے مرشد مولانا روم کا پُر معرفت ارشاد ہے کہ.فلسفی کو منکر حنانه است از حواس اولیاء بیگانه است جو فلسفی (آنحضرت کے فراق میں) گریہ وزاری کرنے والے ستون کا منکر ہے، اولیاء کی باطنی جشوں سے بھی بے خبر ہے.لہذا جسے ولایت کا ادراک نہیں جو نبوت کا پہلا زینہ ہے ، وہ مقام نبوت ہی سے بیگانہ ہے اور ایسے بد نصیب کو شان خاتم النبین کا عرفان کیسے حاصل ہو سکتا ہے.مولانا روم نے ختم نبوت کی ایسی ایمان افروز تشریح فرمائی ہے کہ ایک عاشق رسولِ عربی کی روح وجد کر اُٹھتی ہے اور دل کی گہرائیوں سے حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے درود جاری ہو جاتا ہے.فرماتے ہیں.بہر ایں خاتم شد است که بجود مثل اونے بودو نے خواهند بود چونکه در صنعت برد استاد دست نے تو گوئی ختم صنعت بر تواست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی لئے خاتم بنے کیونکہ سخاوت میں نہ آپ جیسا کوئی ہوا اور نہ کبھی ہو گا.جب کوئی استاد فن کاریگری میں دوسروں سے سبقت لے جاتا ہے تو کیا تم نہیں کہتے کہ یہ صنعت اس پر ختم ہے.پھر فرمایا: در در جہاں روح بخشاں حاتمی و کشاد ختمہا تو خاتمی آپ مہروں کے کھولنے میں خاتم ہیں اور روح بخشنے والوں کے جہان میں حاتم ہیں.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کیا خوب فرماتے ہیں: صد ہزاراں یوسفے بینم دریں چاہ ذقن واں مسیح ناصری شد از دم او بے شمار اب فلسفہ مغرب واشتراکیت کی ٹکسال میں ڈھلی ہوئی جناب اقبال کی خود تراشیدہ تفسیر خاتم النبیین پر نظر ڈالتے ہیں جس کا قرآن وسنت اور بزرگان امت سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں،
81 صرف ان کے مغربی اور اشتراکی تخیلات کا خودساختہ ملغوبہ ہے.فرماتے ہیں.A Prophet may be defined as a type of mystic consciousness in which, “unitary experience", tends to overflow its boundaries and seeks opportunities of redirecting or refashioning the forces of collective life.In his personality the finite centre of life sinks into his own infinite depth only to spring up again, with fresh vigour to destroy the old, and to disclose the new directions of life.This contact with the root of his own being is by no means peculiar to man.Indeed the way in which the word Wahy (inspiration) is used in the Quran shows that the Quran regards it as a universal property of Life; though its nature and character are different stages of the evolution of life.The plant growing freely in space, the animal developing a new organ to suit a new environment, and a human being receiving light from the inner depth of life, are all cases of inspiration varying in character according to the needs of the recipient, or the needs of the species to which the recipient belongs.Now during the minority of mankind psychic energy develops what I call prophetic consciousness--a mode of economizing individual thought and choice by providing ready-made judgments, choices, and ways of action.With the birth of reason and critical faculty, however, life in its own interest, inhibits the formation and growth of non-rational modes of consciousness through which psychic energy flowed at an earlier stage of human evolution.Man is primarily governed by passion and instinct.Inductive reason, which alone makes man master of his environment, is an
82 achievement; and when once born it must be reinforced by inhibiting the growth of other modes of knowledge.There is no doubt that the ancient world produced some great systems of philosophy at a time when man was comparatively primitive and governed more or less by suggestion.But we must not forget that this system-building in the ancient world was the work of abstract thought which cannot go beyond the systematization of vague religious beliefs and traditions, and gives us no hold on the concrete situations of life.Looking at the matter from this point of view, then the Prophet of Islam seems to stand between the ancient and the modern world.In so far the source of his revelation is concerned he belongs to the ancient world; in so far as the spirit of his revelation is concerned he belongs to the modern world.In him life discovers other sources of knowledge suitable to its new direction.The birth of Islam, as I hope to be able presently to prove to your satisfaction, as the birth of inductive intellect.In Islam prophecy reaches its perfection in discovering the need of its own abolition.This involves the keen perception that life cannot forever be kept in leading strings; that in order to achieve full self- consciousness man must finally be thrown back on his own resources.The abolition of priesthood and hereditary kingship in Islam, the constant appeal to reason and experience in the Quran, and the emphasis that it lays on Nature and History as sources of human knowledge, are all different aspects of the same idea of finality.10
83 اقبال کے پرستار ملک محمد جعفر خاں (سابق وزیر مملکت برائے مذہبی امور پاکستان 1974ء) نے اس فلسفیانہ تحریر کا حسب ذیل الفاظ میں ترجمہ کیا ہے.” نبوت کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ ایک طرح کا تصوفانہ شعور ہے جس میں وجدانی تجربہ اپنی حدود سے باہر جانا چاہتا ہے اور اجتماعی زندگی کی قوتوں کی از سر نو تشکیل یا اُن کی جدید ر ہنمائی کے مواقع کا متلاشی ہوتا ہے.نبی کی شخصیت میں زندگی کا مرکز اپنی ہی ذات کی لا محدود گہرائیوں میں ڈوب کر تازہ قوت حاصل کر کے اُبھرتا ہے تاکہ قدیم نظام کو ختم کر کے زندگی کی نئی راہیں آشکار کرے.کسی ذات کا اپنے اصل کے ساتھ اس طرح کا الحاق انسان کے ساتھ مختص نہیں ہے.حقیقت یہ ہے کہ جس طرح قرآن نے لفظ وحی استعمال کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن اس کو زندگی کا ایک عمومی خاصہ قرار دیتا ہے.اگر چہ اس کی نوعیت اور خاصیت زندگی کے مختلف ارتقائی مدارج پر مختلف ہوتی ہے.ایک پودے کا آزادی کے ساتھ فضا میں پھیلنا، یا ایک حیوان کا اپنے نئے ماحول کی مناسبت کے لئے ایک نیا عضو بدن پیدا کرنا یا ایک انسانی وجود کا زندگی کی اندرونی گہرائیوں سے روشنی حاصل کرنا....یہ سب وحی (Inspiration) کی مثالیں ہیں، جن کا اپنی خاصیت باہم اختلاف وحی پانے والے وجود یا اس کی نوع کی ضروریات کے اختلافات کی وجہ سے ہے.نوع انسانی کی کم سنی کے دور میں ذہنی قوت وہ شے پیدا کرتی ہے، جسے میں پیغمبرانہ شعور کا نام دیتا ہوں.یہ دراصل ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے فیصلہ ، رڈ واختیار اور راہ عمل کے چند اصول مقرر کر لئے جاتے ہیں.اور اس طرح انفرادی فکر و اختیار میں کمی عمل میں لائی جاتی ہے.لیکن عقل اور جو ہر استنباط کی پیدائش کے ساتھ زندگی اپنے مفاد کے لئے اُن غیر عقلی ذرائع شعور کی نمود اور افزائش کو بند کر دیتی ہے جن میں کہ اس کی ذہنی قوت انسانی ارتقا کے نسبتاً ابتدائی دور میں جاری رہی تھی.ابتداً انسان جذبات اور فطری حسیات کے تابع تھا.قیاس کرنے والی عقل جو انسان کو اپنے ماحول پر قادر بناتی ہے، ایک حاصل کی ہوئی استعداد ہے.اس استعداد کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی اس کی مزید تقویت کے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ علم کے دیگر ذرائع کی منا ہی کر دی جائے.اس میں شکست نہیں کہ قدیم دنیا نے انسان کے ابتدائی دور میں جب کہ وہ کم و بیش القاء (Suggestion) کے تابع تھا.فلسفہ کے بعض اہم سسٹم
84 پیدا کئے.لیکن ہمیں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ قدیم دنیا کا یہ طریق کار نظری خیالات کے عمل کا نتیجہ تھا.یہ طریقہ مبہم مذہبی اعتقادات اور روایات کو منظم شکل دینے سے آگے نہیں جاسکتا اور اس سے ہم زندگی کے ٹھوس احوال پر قابو نہیں پاسکتے.معاملہ کو اس پہلو سے دیکھتے ہوئے پیغمبر اسلام قدیم اور جدید دنیا کے درمیان رے معلوم ہوتے ہیں.اپنے پیغام کے ماخذ کے لحاظ سے وہ قدیم دنیا سے تعلق رکھتے ہیں.لیکن اس پیغام کی روح (Spirit) انہیں جدید دنیا سے وابستہ کرتی ہے.اُن کی ذات میں زندگی نے اپنی جدید رہنمائی کے لئے مناسب اور پہلے سے مختلف ذرائع علم دریافت کئے ہیں.اسلام کی ابتدا قیاسی عقل کی پیدائش ہے.میں امید کرتا ہوں اس امر کی نسبت ( اس لیکچر) میں آپ کو کافی دلائل سے قائل کر سکوں گا.اسلام کے ذریعہ نبوت اپنے خاتمے کی ضرورت کے احساس کے ساتھ اپنے کمال تک پہنچتی ہے.اس سے مراد اس امر کا شدید احساس ہے کہ زندگی ہمیشہ کے لئے خارجی سہارے کی محتاج نہیں رہ سکتی اور یہ کہ خود شعوری کی تعمیل کے لئے ضروری ہے کہ بالاخر انسان محض اپنی استعداد پر انحصار کرنے لگے.اسلام میں مذہبی پیشوائیت اور خاندانی بادشاہت کا خاتمہ اور قرآن میں بار بار عقل اور تجربہ سے خطاب اور اسی طرح اس کتاب کا نیچر اور تاریخ پر بطور ذرائع علم زور دینا.یہ سب امور اُسی ایک تصور خاتمیت کے مختلف پہلو ہیں.“11 ملک محمد جعفر خاں صاحب کے نزدیک اس پورے فلسفیانہ تخیل کا خلاصہ یہ ہے.اول.”سلطانی جمہور اور ختم نبوت ایک ہی ارتقائی عمل کے دو پہلو ہیں.“12 دوم.ختم نبوت کی تکمیل پر انسان مکمل طور پر آزاد ہے جس طرح راستے پر چلنا اس کے 13" اختیار میں ہے اسی طرح Sign Post قائم کرنا بھی اس کا اپنا کام ہے.جو خیال اس صور تحال کے خلاف ہے.وہ لازماً اس حد تک نظر یہ ختم نبوت کے خلاف ہے.سوم.”دنیا عقلیت کے دور میں داخل ہو چکی ہے اور ایسا کرنے میں انسان نے خدا سے کوئی بغاوت نہیں کی بلکہ وہ عین اس راہ پر چل رہا ہے جو خدا نے شروع سے ہی مقدر کر رکھا تھا.“14 اقبال کی اس فلسفیانہ تحریر نے یہ عقدہ حل کر دیا کہ کارل مارکس کے نظریہ سلطانی جمہوریہ اور اس کے Sign Post پر اُن کا ایمان سیاسی یا معاشی زاویہ نگاہ سے نہیں تھا بلکہ آیت خاتم النبیین نے
85 انہیں یہ راہ دکھائی.لہذا سوشلزم کے سامنے سر جھکانا تصور ختم نبوت کا لازمی تقاضا ہے اور ایسا کرنے میں انہوں نے ختم نبوت سے بغاوت نہیں کی بلکہ ”وہ عین اس راستے پر چل رہے ہیں جو خدا نے شروع ہی مقدر کر رکھا تھا اور یہی نظام کائنات کی ارتقائی شکل ہے.“ اب اگر بار یک نظر سے مطالعہ کیا جائے تو قرۃ العین کی تقریر بدشت کا نفرنس اور سر اقبال کی مذکورہ تحریر دونوں ہی سلطانی جمہور کے چشمہ سے نکلے ہیں.فرق صرف یہ ہے کہ قرۃ العین نے سوشلزم کی تائید سے پہلے قرآن مجید کی منسوخی کا اعلان ضروری سمجھا مگر فلسفی اقبال نے کارل مارکس اور اس کی معاشی تھیوری سے محبت و عقیدت کی بنیاد ختم نبوت کے اپنے فلسفیانہ تصور پر رکھی جس سے بڑھ کر قرآن و اسلام سے بغاوت کیا ہو گی ؟ بہر رنگے کہ خواہی جامه می پوش من انداز قدت را می شناسم حواشی: 1 " اقبال " صفحه 15-16 از عتیق صدیقی مکتبہ جامعہ نئی دہلی.اگست 1980ء.2 کلیات مکاتیب اقبال جلد دوم صفحه 392 - از سید مظفر حسین برخی اردو اکادمی دہلی اشاعت 1993ء.3 مقالات یوم اقبال صفحہ 157 قومی کتب خانہ لاہور.جنوری 1948ء.4 اردو ترجمہ صفحہ 53 از ڈاکٹر عبد الحق شعبہ اردو د بلی یونیورسٹی دیلی ناشر بزم احباب دہلی مارچ 1975ء.جمال پر لیس جامع مسجد دہلی.5 کلیات مکاتیب اقبال جلد اول صفحہ 673 مرتب سید مظفر حسین برنی.ناشر اردو اکادمی دہلی اشاعت چہارم 1993ء.6 کلیات مکاتیب اقبال جلد دوم صفحہ 94 مرتب سید مظفر حسین برنی.ناشر اردو اکادمی دہلی اشاعت دوم 1993ء.اقبال نامہ حصہ اول صفحہ 46-47 ناشر محمد اشرف تاجر کتب کشمیری بازار لاہور.8 کلیات مکاتیب اقبال جلد دوم صفحه 157 ناشر اردواکادمی دہلی اشاعت دوم 1993ء.دفتر ششم مثنوی مولاناروم ( ناشر ادارہ الفیصل ) اردو بازار لاہور.جلد ششم صفحہ 30 اشاعت 1976ء.10 The Reconstruction of Religious Thought in Islam، صفحہ 125-126.ناشر شیخ محمد اشرف لاہور1999ء.11 12 13 14 "صفحہ 348 تا350.ناشر سندھ ساگر اکادمی.چوک مینارانار کلی لاہو ر."احمدیہ تحریک" ايضا صفحہ 375.ایضاً صفحہ 378.ايضا صفحہ 387.
چھٹی فصل 98 86 ابوالکلام آزاد، عالمی سوشلسٹوں سے روابط اور پارٹی میں شرکت بر سنسنی خیز انکشاف بر صغیر بلکہ پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دے گا کہ 1905ء میں سرا قبال کی ابوالکلام آزاد سے پہلی ملاقات ہوئی.1 اور اسی سال جناب آزاد (ولادت 22 اگست 1888ء.وفات 22 فروری 1958ء) بنگال کے ہندوؤں کی دہشت گرد اور باغیانہ تحریک میں شامل ہوئے اور ہند و کانگرس کے ممبر 2 کی حیثیت سے فلسفہ کارل مارکس پر عمل پیرا ہونے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا دی.سوشلسٹ اصطلاح کے مطابق یہ انقلابی“ تھے اور ان کی تنظیم کا نام انڈین ایسوسی ایشن تھا جسے جلد ہی غدر پارٹی کے نام سے یاد کیا جانے لگا.چنانچہ حکومت ہند کی قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی جامع اردو انسائیکلو پیڈیا جلد دوم صفحہ 285-286 میں لکھا ہے: ” بیسویں صدی کے شروع میں کینیڈا اور امریکہ کے مغربی حصوں میں آباد کاری ہو رہی تھی اور وہاں کام کرنے والوں اور مزدوروں کی ضرورت تھی.چنانچہ پہلی جنگ عظیم سے ذرا پہلے پنجاب کے بہت سے لوگوں نے کینیڈا کا رخ کیا اور بہت سارے کیلے فورنیا جابسے.جب یہاں اُن سے سخت برتاؤ ہونے لگا تو اُن کے دلوں میں بغاوت کی آگ بھڑک اٹھی.اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے ان ہندوستانیوں نے ہندی ایسوسی ایشن کے نام سے ایک تنظیم بنائی.بعد میں اس کا نام بدل کر غدر پارٹی کر دیا گیا.غدر پارٹی کے پہلے صدر بابا سوہن سنگھ بھکنا اور سیکر ٹری لالہ ہر دیال بچنے گئے.اس پارٹی نے نہ صرف کینیڈا اور امریکہ کے ہندوستانیوں کو منظم کیا بلکہ پیسے اور ہتھیاروں سے ہندوستان کی جنگ آزادی کی خاص طور پر انقلابی تحریکوں کی مدد بھی شروع کی.اس کا صدر مقام سان فرانسسکو میں قائم کیا گیا اور ایک رسالہ غدر بھی شروع کیا گیا.1913ء میں اس کا پہلا شمارہ اردو میں نکلا اور 1914ء میں اس کا پنجابی ایڈیشن بھی نکلنے لگا.3 فروری 1914ء میں غدر پارٹی کی پہلی کا نفرنس اسٹاکٹن میں ہوئی اور س کی شاخیں امریکہ کے علاوہ کینیڈا، پناما اور چین میں بھی قائم کی گئیں جہاں ہندوستانیوں کی آبادی موجود تھی.4 جناب ابو الکلام آزاد کا جدید علماء میں سے ایک ذہین و فطین انسان تھے جنہیں حق تعالیٰ نے تقریری اور تحریری صلاحیتوں سے حصہ وافر بخشا تھا.اور وہ بچپن ہی سے غیر معمولی دماغ اور بلا کا حافظہ لے کر آئے تھے.مگر جیسا کہ حضرت مصلح موعود کو الہام بتایا گیان ”وائے بر علمے کہ برباد کند عالم را“.
87 اُن کا علمی مقام ہی انہیں لے ڈوبا اور ان کا وجو د ہندی مسلمانوں کو سوشلزم اور آل انڈیا نیشنل کانگرس کی چوکھٹ پر ناصیہ فرسائی کا موجب بن گیا.حتی کہ کانگرسی علماء کی طرف سے انہیں ”امام الہند کا خطاب دے دیا گیا.1905ء میں عالمی مسلح بغاوتیں 1905ء کا سال سوشلزم اور اس کے عالمی ایجنٹوں بالخصوص ہندوستان کے مسلح انقلابیوں یعنی سوشلسٹوں کے لئے نہایت درجہ اہمیت کا حامل ہے.کیونکہ اسی سال 12 اپریل 1905ء کولندن میں سوشلسٹوں کی پہلی حقیقی بالشویک پارٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس کے ایجنڈا میں مسلح بغاوت اول نمبر پر شامل تھی.6 سوشلسٹ چونکہ سمجھتے تھے کہ تشدد اور خانہ جنگی اور بغاوت کے ہتھکنڈوں کی کامیابی کا سارا مدار عوام کی حمایت پر ہوتا ہے لہذا اُ سکے انقلابی لیڈروں نے پہلے روس میں عوامی حمایت کی کی ایک مہم چلائی جو پہلے عام سیاسی ہڑتال ہوئی.پھر خونی فسادات کے ذریعہ بغاوت کا آغاز کیا گیا جو اگر چہ ناکام ہوئی مگر اس سے سوشلسٹوں کے حوصلے بڑھ گئے اور وہ روس پر اقتدار کی منزل کو قریب تر کرنے میں سر گرم ہو گئے.چنانچہ سوشلسٹ مفکر و مورخ ایلن وڈز نے بالشوازم راہ انقلاب میں اس بغاوت کی تفصیلات پر تیز روشنی ڈالی ہے.اور لکھا ہے بغاوت انقلاب کا ایک اہم حصہ ہے.7 نیز اعتراف کیا ہے کہ وہ نظری، سیاسی اور تنظیمی آلہ کار جن کی بدولت بالشویک پارٹی نے اکتوبر 1917ء میں محنت کشوں کو فتح سے ہمکنار کیا تھا وہ 1905ء کے انقلاب کی بھٹی کی حدت میں تیار ہوئے تھے.8 1905ء کی فل ڈریس ریہرسل کے بغیر اکتوبر 1917 کے انقلاب کی فتح نا ممکن تھی.و 12 اپریل 1905ء کو لندن بالشویک پارٹی نے مسلح بغاوت کی تجویز پاس کر کے ہڑتالوں، مظاہروں، فسادات اور سب سے بڑھ کر بغاوت کا سگنل دے دیا تھا.اس لئے اُس کا رد عمل صرف روس میں ہی نہیں بلکہ اس کے اثرات یورپ کے علاوہ ایشیا کے ممالک پر بھی ہوئے.چنانچہ روسی مفکر ایلن وڈز لکھتے ہیں.”1905ء کے انقلاب کے گہرے بین الاقوامی اثرات بھی مرتب ہوئے....روس کے انقلاب کے اثرات محض یورپ تک ہی محدود نہ رہے تھے بلکہ اس نے نو آبادیاتی اقوام کی انقلابی تحریکوں کو آگے بڑھانے میں بھی اپنا کر دار ادا کیا تھا.دسمبر 1905ء میں بورژوا انقلاب کا تجربہ شروع ہو ا جو 1911ء میں اپنے نقطہ عروج تک پہنچا.
88 88 1905ء میں چین بھی بورژوا ڈیموکریٹ سین یات سین کے نام سے منسوب عوامی تحریک کے کرب سے گزر رہا تھا.وقت آنے پر اس نے 1911-1913ء کے چین کے بورژوا انقلاب کی راہ ہموار کی تھی.ترکی میں بھی ایک انقلابی تحریک کو ابھار ملا.ایک پرسکون تالاب میں پھینکی گئی ایک بھاری چٹان کی طرح روس کے انقلاب نے بھی ایسی بڑی بڑی لہروں کو جنم دیا جن میں انتہائی دور دراز کے ساحلوں تک پہنچنے کی صلاحیت تھی.10 ہندوستان میں بنگالی ہندوؤں کی بغاوت لندن بالشویک کانگرس کے نئے باغیانہ پروگرام پر روس کے بعد جن ممالک نے سب سے نمایاں مفسدانہ کردار ادا کیا وہ ہندوستان تھا.جس کے شورش پسند ہندوؤں نے 1905ء میں بیک وقت برٹش گور نمنٹ اور بنگال کے مفلوک الحال مسلمانوں کے خلاف ایجی ٹیشن جاری کر دی.بنیاد اس غنڈہ گردی کی یہ تھی کہ لارڈ کرزن نے تقسیم بنگال کا فیصلہ کر کے ہندوؤں کے مفاد پر ضرب کاری لگائی ہے اور مسلمانوں کے لئے ایک نیا صوبہ بنا کر ہمارے رام راج کے لئے شدید خطرہ پیدا کر دیا ہے.ایک ہند و تاریخ دان و دیا دھر مہاجن ایم اے، پی.ایچ.ڈی سابق پروفیسر تاریخ پولیٹیکل سائنس پنجاب یونیورسٹی کالج دہلی تحریر کرتے ہیں.“Unmindful of the reactions of the people, Lord Curzon partitioned Bengal into two parts in 1905.Most probably, his object was to create a Muslim-majority province.The people of Bengal considered the partition to be a subtle attack on the growing solidarity of Bengal nationalism.According to A.C.Mazumdar, the object of Lord Curzon in partitioning Bengal was not only to relieve the Bengali administration but to create a Mohammedan Province where Islam could be predominant and its followers in ascendancy.The people of Bengal felt that they had been humiliated, insulted and tricked.There was a
89 vigorous agitation for the repeal of the partition of Bengal and the result was that the same was cancelled in 1911." "11 آل انڈیا نیشنل کانگرس کی بنیاد 1885ء میں ایک انگریز مسٹر ہیوم اور ایک ہند و سر نید رانا تھ بنیر جی نے رکھی.12 تقسیم بنگال پر ہندوؤں کا غیظ و غضب مسٹر وی ڈی مہاجن نے تقسیم بنگال پر ہندوؤں کے اس غیظ و غضب اور اشتعال کا دوبارہ ذکر کیا ہے جو مسلمانوں کے اکثریتی صوبہ کے وجود میں آنے پر رد عمل کے طور پر ہوا.چنانچہ لکھتے ہیں: "Partition of Bengal and Its Effects As regards the partition of Bengal, Lord Curzon was of the view that its boundaries were unscientific and required re-adjustment.According to Fraser, no other Provincial administrator in India has so large a charge and it was completed by the obstacles to rapid travel.A dispatch written at the time stated that if the Lieutenant-Governor of Bengal spent the whole of the available season of the year in touring he could only succeed during his term of office, in visiting a portion of his vast Province.According to the Calcutta Review, Partition of the unwieldy Province of Bengal was long a crying administrative necessity admitted by all those who knew anything about the difficulty of officials However, the real object of the partition of Bengal was the desire of the foreign rulers to strike a nail in Bengal nationalism by dividing its forces.According to G.N.Singh, It was to drive a wedge between the two communities (Hindus and Muslims) and to create a new Mohammedan Province in which the Government was to be conducted on the basis of creedal differences.By setting up a separate
90 Muslim Province of Eastern Bengal, the Government of India wanted to reward the Muslims for their defiance of British authority.The people of Bengal took up the challenge of Lord Curzon and started an agitation for cancellation of the Partition, and the same was ultimately done in 1911."1 لکھتے ہیں :- مسٹر ودیا دھر مہاجن مسلمانان ہند کی درد ناک صورت اور لرزہ خیز بد حالی کا ذکر کرتے ہوئے "The English were the successors of the Muslim rulers in India, and no wonder, on the eve of British expansion in this country, the Muslims occupied all places of profit, prestige and influence.When that power was snatched away by the British, there was no love lost between the Muslims and the British.The latter also followed a policy of crushing completely the Muslims.According to Mohammad Norman, "The British people had decided that for the expansion of the new power and its continuance, the only source was to crush the Mussalmans and had deliberately adopted policies which had for their aim the economic ruin of Muslims and their intellectual stagnation and general degeneration." (Muslim India) Condition of Muslims before 1871 It is pointed out that the Permanent Settlement of Bengal "elevated the Hindu collectors who up to that time had held but unimportant posts, to the position of land- holders, gave them proprietary right in the soil and allowed them to accumulate wealth which would have gone to the
91 Mussalmans under their own rule." The Muslims were not welcomed into the service of the English East India Company.It is stated that between 1852 and 1862, out of 240 natives admitted as Pleaders of the High Court, there was only one Muslim.In certain cases, the British Government clearly stated that the jobs were only to be given to the Hindus and not to the Muslims.The education policy of British Government was" responsible for the increase of unemployment and the closing of other avenues for the Muslims.The economic policy impoverished the Indian Muslims.In the Army, their recruitment was limited; in arts and crafts they were crippled and rendered helpless.The result of these policies was the catastrophe of 1857, which no human policy could have averted".Even before the Mutiny of 1857, the Muslims had revolted against the British government under the Wahabi leaders.It is true that the Wahabi Movement in India was primarily a religious movement, but it was also a proletarian and revolutionary movement.The Wahabi leaders stirred the Muslims of India and a wave of enthusiasm swept over the whole country.The Movement was ruthlessly suppressed by the British Government but it manifested itself in the form of the Mutiny.The prime movers in the Mutiny of 1857 were the Muslims and those Muslim were undoubtedly Wahabis.As the British considered the Muslims to be responsible for the Mutiny, they were treated very severely after 1858.In 1871, out of total of 2,141 persons employed
92 by the Bengal Government, there were only 92 Muslims, 711 Hindus and 1,338 Europeans.This state of affairs continued up to the 1870's.It was then that a change took place in the attitude of the British Government towards the Muslims.Sir William Hunter's book entitled " The Indian Mussalmans" which was published in 1871, marks the beginning of the change.It was contended that the Muslims were too weak for rebellion."It was expedient now to take them into alliance rather than continue to antagonise them".14 مورخ پاکستان جناب پر وفیسر احمد سعید صاحب نے اپنی مشہور و معروف تالیف ”حصول پاکستان“ (صفحہ 66 تا 70) میں تقسیم بنگال کے خلاف ہندوؤں کی ایجی ٹیشن اور مسلمانوں کے رد عمل کا بڑی شرح وبسط سے تجزیہ کیا ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں.لارڈ کرزن کے دورِ حکومت میں بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا.جس کی بناء پر اس کی سخت مخالفت کی گئی.اگرچہ بنگال کی تقسیم 1905ء میں عمل میں آئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ تقسیم کا سوال کرزن کے زمانے کی پیداوار نہیں بلکہ یہ مسئلہ 1853 ء سے چلا آتا تھا.اس سال سر چارلس گرانٹ نے بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی تجویز پیش کی.1854ء میں لارڈ ڈلہوزی نے بنگال کے لیفٹیننٹ گورنر پر بے حد انتظامی بوجھ کی شکایت کی.1866ء میں اڑیسہ میں رونما ہونے والے قحط کے اسباب معلوم کرنے والی کمیٹی نے بھی اس بے حد وسیع و عریض صوبے کی حدود کا از سر نو تعین کرنے کی سفارش کی.1872ء میں لیفٹیننٹ گورنر بنگال سر جارج کیمپبل نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ایک شخص صوبہ بنگال کے انتظامات کو احسن طریقے سے سر انجام نہیں دے سکتا.15 تقسیم کی وجوھات 1903 میں ہندوستان کے اس سب سے وسیع و عریض صوبہ جس کی آبادی سات کروڑ اسی لاکھ اور رقبہ 189000 مربع میل تھا، کا انتظام صرف ایک لیفٹیننٹ گورنر چلاتا تھا.ظاہر ہے اس کے لئے انتظامات کا احسن طریق پر چلانا ممکن نہیں تھا.اس کی مصروفیتوں کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی پانچ سالہ مدت ملازمت میں ڈھا کہ اور چٹا کانگ جیسے اہم علاقوں کا دورہ صرف ایک ہی مرتبہ
93 سنبھل پور کر سکتا تھا.اور مشرقی بنگال کے دیگر علاقے حکومت کی توجہ سے یکسر محروم رہتے.ان مسائل کے حل کی خاطر بنگال کی تقسیم عمل میں آئی.لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ لارڈ کرزن نے بنگال کی تقسیم کا فیصلہ کسی اور وجہ سے کیا.ہوایوں کہ حکومت ہند نے اُڑ یا زبان (Uria) بولنے والوں کو جو کہ مختلف صوبوں میں آباد تھے ، ایک انتظامیہ کے تحت کرنے کا فیصلہ کیا.سر انیڈ ریو فریزر نے 1901ء میں یہ مشورہ دیا کہ کو اڑیسہ کے ساتھ ملا کر اسے بنگال کی انتظامیہ کے ماتحت کر دیا جائے یا پھر تمام اڑیسہ کو سی پی کے حوالے کر دیا جائے.1901ء میں سی پی کے چیف کمشنر نے اسے ڈسٹرکٹ سنبھل پور کی ذمہ داری سے فارغ کرنے کی درخواست کی.اسی دوران حکومت مدراس نے بھی اپنے انتظامی معاملات کے بارے میں شکایت کی کیونکہ اس کے زیر انتظام نظم و نسق میں مختلف زبانیں تامل، اڑ یا اور ملیالم زیر استعمال تھیں.چونکہ اس مسئلہ کے حل کی خاطر یہ تجویز کیا گیا کہ تمام اُڑیا بولنے والوں کو بنگال کے ساتھ منسلک کر دیا جائے.لہذا بنگال کے انتظامی معاملات میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہونا لازمی امر تھا.چنانچہ ڈھاکہ، میمن سنگھ اور چٹا گانگ کو آسام کے ساتھ ملانے کا فیصلہ کیا گیا.1903ء کے آخر میں جب بنگالیوں کو اس تنظیم نو کا علم ہوا تو انہوں نے ان علاقوں کو آسام جیسے پسماندہ علاقے کے ساتھ ملحق کرنے پر زبر دست احتجاج کیا کیونکہ ان کے خیال میں ایسی صورت میں اس علاقے کے لوگ ان تمام سہولتوں سے محروم ہو جائیں گے جو ایک لیفٹیننٹ گورنر کے صوبے کو حاصل ہوتی تھیں.فروری 1904ء میں لارڈ کرزن نے مشرقی بنگال کا دورہ کیا جہاں اس نے ڈھاکہ ، چٹاگانگ اور میمن سنگھ میں لوگوں کو یقین دلایا کہ حکومت اس نئے مجوزہ صوبے کو بڑا کر کے وہاں ایک قانون ساز اسمبلی اور بورڈ آف ریونیو قائم کرے گی.نیز ڈھاکہ کونئے صوبے کا دارالحکومت بنا کر وہاں ایک لیفٹیننٹ گورنر مقرر کیا جائے گا.چنانچہ انتظامی مسائل کے حل کی خاطر اس وسیع وعریض صوبے کو دوحصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان 20 جولائی 1905ء کیا گیا اور 16 اکتوبر 1905ء کو نیا صوبہ معرض وجود میں آگیا.اس نئے صوبے کا رقبہ 106500 مربع میل اور کل آبادی 31 ملین تھی جن میں دو تہائی مسلمان تھے.صوبے میں آسام، مشرقی اور جنوبی بنگال، چٹا گانگ، ڈھاکہ، راجشاہی اور مالدہ ڈسٹرکٹ شامل کئے گئے.ڈھا کہ نئے صوبے کا دارالحکومت قرار پایا.صوبے کے لئے ایک قانون ساز اسمبلی اور بورڈ آف ریونیو قائم کئے گئے..
94 ہندوؤں کی مخالفت 1903ء میں جب ہندوؤں کو صوبے کی تقسیم کی تجویز کا علم ہوا تو انہوں نے احتجاج کا ایک طوفان کھڑا کر دیا.اس احتجاج کا مرکز کلکتہ تھا.اس نئے مسلم اکثریتی صوبے میں ہندوؤں کو اپنی اجارہ داری کا خاتمہ نظر آیا.کلکتہ کے ہند و وکلاء کو یہ خوف لاحق ہو گیا کہ ڈھاکہ میں ہائیکورٹ کے قیام کے بعد نہ صرف ان کی وکالت متاثر ہو گی بلکہ ان کے سیاسی مفادات کو بھی نقصان پہنچے گا.کلکتہ کے بنگالی اخبارات جن کے مالک تمام تر ہند و تھے ، اس مخالفت میں پیش پیش تھے کیونکہ ان کو یہ تشویش لاحق ہو گئی کہ ڈھاکہ سے مسلم اخبارات کے اجراء سے ان کی اپنی اشاعت متاثر ہو گی.اخبار دی بنگالی ( ایڈیٹر سریندر ناتھ بیز جی) اور امرت بازار پتریکا (ایڈیٹر ایس کے گھوش) اس مخالفت میں پیش پیش تھے.ہندوز میندار اور جاگیر دار جن کی زمینیں تو مشرقی بنگال میں تھیں لیکن وہ خود کلکتے میں رہائش پذیر تھے، کو تقسیم کی صورت میں اپنی سیاسی اور جاگیر دارانہ برتری کا خاتمہ نظر آیا.غرض ہندوؤں کا ہر طبقہ جس کا مفاد جس قدر زیادہ خطرہ میں پڑتا نظر آتا تھا وہ اتنا ہی تقسیم کی مخالفت میں سرگرم تھا.اصل میں تقسیم بنگال سے تمام ہندو قوم کا مفاد خطرے میں پڑ گیا تھا جو تقسیم سے بدیں وجہ خائف تھے کہ اب اس صوبہ کے مسلمان برسوں سے غصب شدہ حقوق کی بازیابی کے لیے جد وجہد کریں گے.اسی خطرہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قاسم بازار کے ایک ہندو لیڈر مہندرا چند ر نے تقسیم کے خلاف تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ” اس نئے صوبے میں مسلمانوں کی اکثریت ہو گی اور بنگالی ہندو اقلیت میں ہو جائیں گے.ہم اپنے ہی شہر میں اجنبی بن جائیں گے.میں اپنی قوم کے بارے میں تشویش محسوس کرتا ہوں.“ ہندوؤں نے 16 اکتوبر کا دن یوم سیاہ کے طور پر منایا.کلکتہ میں ہندوؤں نے سیاہ کپڑے پہنے.اپنے ہاتھوں میں خاک ملی، کاروبار بند کر دیا گیا، مرن برت رکھے گئے، سر بیندر ناتھ بیز جی نے تقسیم کو ”بم کا گولہ پھٹنے “ سے تشبیہ دی.تقسیم بنگال کے خلاف تحریک کو موئثر بنانے اور مذہبی جذبات کو ابھارنے کے لیے کہا گیا کہ تقسیم سے ”کالی ماتا کی توہین ہوئی ہے اور تقسیم نے ”بنگالی نیشنلزم“ پر کاری ضرب لگائی ہے.کانگریس جو کہ تمام ہندوستانیوں کی نمائندہ ہونے کی دعویدار تھی، تقسیم کی مخالفت میں پیش پیش تھی.سودیشی تحریک ہندوؤں نے اپنی تحریک کو موثر بنانے کی خاطر 17 اگست 1905 کو سودیشی تحریک کا آغاز کیا
95 جس کا مقصد یہ تھا کہ ملک میں بنی ہوئی چیزوں کا استعمال کیا جائے.تاکہ ایک تو ہند وصنعت کی سر پرستی ہو اور دوسرے بر طانوی کارخانہ دار بائیکاٹ کی صورت میں اپنی حکومت پر دباؤ ڈال کر اسے یہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور کر سکیں.اس تحریک کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی.جہاں کہیں بھی ولائتی کپڑا ہاتھ آ جاتا، اس کو آگ لگا دی جاتی.طلبا اپنے ان دوستوں پر جو ولائتی کپڑا استعمال کرتے ، حملہ کر دیا کرتے.طلبا نے ولائتی کاغذ پر امتحان دینے سے انکار کر دیا.مانچسٹر چیمبرز آف کامرس کو تار دیا گیا کہ اگر وہ بر طانوی کپڑا بیچنا چاہتے ہیں تو انہیں تقسیم بنگال ختم کرانے میں مدد دینی چاہیے.16 تقسیم کے خلاف تمام بنگالی ہندوؤں نے حصہ لیا.چنانچہ ایک لطیفہ مشہور ہو گیا کہ تقسیم کے خلاف تحریک میں حصہ لینے کے سبب ہر بنگالی مقرر بن گیا اور جو باقی رہ گئے وہ پروفیشنل صحافی بن گئے.آہستہ آہستہ تحریک کا رخ مسلمانوں کی جانب موڑ دیا گیا.ہند واخبارات نے کھلم کھلا مسلمانوں کو دھمکیاں دینا شروع کر دیں.مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا جاتا.روزانہ یہ الزام لگایا جاتا کہ گور نمنٹ مسلمانوں کو ہندوؤں پر حملہ کرنے کے لئے اکسا رہی ہے لہذا مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھالینے چاہئیں.ایک اخبار نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ جب تک تمام غنڈوں (مسلمانوں) اور سرکاری افسر جوان کی مدد کر رہے ہیں، کو زندہ نہیں جلا دیا جائے گا، اس وقت تک مسلمانوں کے خلاف بدلہ لینے کی آگ ٹھنڈی نہیں ہو گی.17 مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ادب اور ڈراموں کے ذریعہ پھیلایا گیا.بنکم چندر چیڑ جی اس دور کا مقبول ترین مصنف تھا.کیونکہ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے میں وہ اپنا کوئی حریف نہیں رکھتا تھا.اس دور کی ”ہندو ذہنیت کی بہترین عکاسی تقسیم بنگال کے خلاف ہند و تحریکوں کے عینی شاہد نراد چودھری نے اپنی کتاب میں کی ہے.اس نے لکھا کہ ہم ابھی پڑھنا لکھنا بھی نہیں جانتے تھے کہ ہمیں یہ بتلایا جاتا تھا کہ ہم پر مسلمانوں نے حکومت کی تھی اوبے حد مظالم ڈھائے تھے.انہوں نے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں تلوار لے کر مذہب کو پھیلایا ہے.مسلمان حکمرانوں نے ہماری عورتوں کو اغوا کیا.ہمارے مندروں کو منہدم کیا اور ہماری مذہبی عبادت گاہوں کی بے حرمتی کی.1906ء کے آخر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایک نئی شکل دیکھنے میں آئی.ہم اپنے بزرگوں سے سننے لگے کہ مسلمان علانیہ طور پر تقسیم بنگال کی حمایت کر رہے ہیں اور برطانیہ کے ساتھ ہیں.نواب سلیم اللہ خاں ہمارے استہز او تمسخر کا خاص طور پر نشانہ بنا.جس کو ہم حقارت سے ”کانا“
96 کہتے تھے.مسلمانوں کے خلاف نفرت ہمارے دلوں میں گھر کر چکی تھی جس نے ہمارے اور ان کے در میان تعلقات کو یکسر ختم کر دیا تھا.اس کی واضح مثال کشور گنج میں پیش آئی جہاں سکول کے ہند و طلبا نے مسلمانوں کے ساتھ یہ کہہ کر بیٹھنے سے انکار کر دیا کہ ”ان کے منہ سے پیاز کی بو آتی ہے“.تقسیم بنگال نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی ایک مستقل خلیج پیدا کر دی.مسلمانوں کے لیے دلوں میں نفرت پید اہو گئی تھی جس کا مظاہرہ سکولوں اور بازاوں میں ہو تا تھا.18 تقسیم کے خلاف ہندوؤں کی مخالفت کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 05-1904ء کے دوران مخالفت کرنے والے اخبارات کی اشاعت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا مثلاً دی بنگالی کی اشاعت تین ہزار سے بڑھ کر گیارہ ہزار ہو گئی.اسی طرح امرت بازار پتریکا کی اشاعت دو ہزار سے سات ہزار پانچ سوتک پہنچ گئی.مسلمانوں کارڈ عمل تقسیم بنگال مسلمانوں کے لیے خدا کی رحمت ثابت ہوئی.انہیں اس بات کا موقع میسر آیا کہ اپنے غصب شدہ حقوق واپس لے سکیں.قدرتی طور پر انہوں نے تقسیم بنگال کا خیر مقدم کیا.نواب سلیم اللہ خان نے تقسیم بنگال کی زبر دست حمایت کی.منشی گنج میں ایک تقریر کے دوران میں انہوں نے کہا کہ ” تقسیم بنگال نے ہمیں خواب غفلت سے جگایا ہے اور ہمیں جد وجہد کی طرف متوجہ کیا ہے.“ ایک اور موقعہ پر لیجسلیٹو کونسل میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ تقسیم سے نہ تو بنگالی بولنے والوں میں کوئی جدائی ہوئی ہے نہ ہی ان میں کوئی کمزوری پید اہوئی ہے.بلکہ اس کے بر عکس تقسیم کے سبب دونوں صوبوں کو ترقی کے مواقع ملے ہیں.دونوں صوبوں میں بہتر گورنمنٹ، بہتر نظم و نسق، بہتر تو اور بہتر ذرائع آمد ورفت قائم ہوئے ہیں.“ نواب علی چودھری نے بھی تقسیم کو مسلمانوں کے حق میں مفید قرار دیتے ہوئے کہا کہ ”اس سے مشرقی بنگال کے مسلمانوں میں جان پڑ گئی ہے.انہیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے حقوق اب بہت جلد تسلیم کئے جاتے ہیں اور پہلے کی نسبت ہماری اہمیت بڑھ گئی ہے.“ ایک اور مسلمان لیڈر سردار علی نے تقسیم بنگال کے خلاف ہندوا ایجی ٹیشن کے بارے میں کہا کہ ”یہ تمام شور وغل جو مچایا جارہا ہے اور یہ تمام تحریکیں جو شروع کی گئی ہیں ان کا اس کے سوا کوئی اور مقصد نہیں کہ اس صوبے میں جہاں ہندو اقلیت میں ہیں، وہاں ان کی طبقاتی برتری کو بحیثیت ایک جماعت کے بر قرار رکھا جائے.“ تقسیم کے اس فیصلے سے نہ صرف مشرقی بنگال بلکہ کلکتہ کے مسلمان بھی خوش تھے جن کو تقسیم سے کوئی فائدہ
97 نہیں تھا.محمڈن لیٹریری سوسائٹی کلکتہ نے مسلمانوں کے اہم لیڈروں کی طرف سے ایک عرضداشت شائع کی جس میں بنگال کو مسلمانوں کے لیے ” نعمت غیر مترقبہ “ قرار دیا گیا اور مسلمانوں سے اپیل کی گئی کہ وہ تقسیم بنگال کے خلاف کسی جلسہ جلوس میں شامل نہ ہوں.یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ جہاں چند مسلمان ایسے تھے جنہوں نے تقسیم بنگال کی مخالفت کی وہاں کچھ ایسے ہندو بھی تھے جو تقسیم بنگال کی حمایت کر رہے تھے.مسلمانوں کو تقسیم سے فوائد تقسیم بنگال سے مسلمانوں کو بہت فوائد حاصل ہوئے.اس صوبہ میں جہاں ان کی اکثریت تھی انہیں اپنی مرضی کے مطابق حکومت چلانے کا موقع میسر آیا.تعلیمی میدان میں مسلمانوں نے خاطر خواہ ترقی کی.1911ء تک صوبے کے پانچوں ڈویژنوں میں اعلیٰ درجے کے کالج قائم ہو چکے تھے.1906ء میں کالجوں میں 1698 طلباء زیر تعلیم تھے.1912ء میں یہ تعداد 2560 تک جا پہنچی.ہائی سکول میں بھی مسلمان طلبہ کی تعداد 8869 سے 20729 تک جاپہنچی.1912ء تک مختلف قسم کے سکولوں میں مسلمان اساتذہ کی تعداد 9654 سے بڑھ کر 14656 ہو گئی.مشرقی بنگال میں نظم و نسق کی ابتری کے سبب دریائی راستوں پر جرائم بے حد ہوتے تھے.اب ان جرائم کی روک تھام کی طرف توجہ کی گئی.دریائی پولیس کا قیام عمل میں آیا.ذرائع آمد ورفت کو بہتر بنایا گیا.1911ء میں سڑکوں کی مرمت کے لیے تین لاکھ روپے کی رقم مخصوص کی گئی.غرض یہ کہ مسلمانوں کو ہر شعبہ زندگی میں ترقی کرنے کا موقع میسر آیا.تنسیخ تقسیم بنگال تقسیم بنگال کے خلاف تحریک آہستہ آہستہ مدہم پڑنے لگی.سریندر ناتھ بیز جی نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ ”ہم اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ تقسیم اب قائم ہو چکی ہے.“ لیکن حکومت نے 12 دسمبر 1911ء کو اس ” طے شدہ فیصلے “ کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا.اس اعلان نے بنگالی ہندوؤں میں ایک نئی روح پھونک دی.کلکتہ میں ایک زبر دست جلوس نکالا گیا اور یہ قرار پایا کہ 12 دسمبر کو ”قومی تہوار “ کی فہرست میں داخل کیا جائے.حکومت کے اس فیصلہ پر بے پناہ اظہار مسرت کرتے ہوئے امیکا چرن مور ندار نے کہا کہ ”آج میں خوشی کے ساتھ مرنے کو تیار ہوں.“ بنگالی ہندو اس فیصلے سے اس قدر خوش ہوئے کہ جب شاہ بر طانیہ جارج پنجم کلکتہ گیا تو بہت سے اخبار نوسیوں
98 نے یہاں تک لکھ دیا کہ بادشاہ اور رانی کو ہند وPantheon میں شامل کر لیا جائے.دوسری طرف حکومت کے اس فیصلے نے مسلمانوں میں غم وغصے کی ایک لہر دوڑا دی.نواب وقار الملک نے ایک مضمون میں لکھا کہ ” مسلمانوں کے حق میں علیحدگی خدا کی طرف سے ایک رحمت ثابت ہوئی اور 66 فیصد آبادی کے جو حقوق اس سے پہلے گورنمنٹ اور عام نگاہوں سے اوجھل تھے ، روز روشن کی طرح سامنے آگئے اور روز بروز مسلمانوں کی حالت اس صوبے میں ترقی کرنے لگی.ایسی حالت میں دونوں صوبوں کا الحاق بغیر کسی ایسے اطمینان دلانے کے کہ آئندہ مسلمانوں کی حفاظت کس طرح ہو گی.19 جناب پر وفیسر احمد سعید صاحب ڈھاکہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام کا تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں.محمڈن ایجو کیشن کانفرنس ڈھاکہ کے اجلاس کے بعد مسلمانوں کی سیاسی جماعت قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا.30 دسمبر 1906ء کو نواب صاحب نے اس جلسہ کی صدارت کی.نواب صاحب نے اپنی صدارتی تقریر میں فرمایا 'آج ہم جس غرض کے لئے جمع ہو رہے ہیں وہ کوئی نئی ضرورت نہیں.ہندوستان میں جس وقت سے کانگرس کی بنیاد پڑی ہے اسی وقت سے یہ ضرورت پید اہو گئی تھی.مسلمان ہندوستان میں اپنی دوسری ہمسایہ قوم سے ایک خمس کے قریب ہیں اور یہ ایک صاف مضمون ہے کہ اگر خدا نخواستہ کسی وقت برٹش حکومت ہندوستان میں قائم نہ رہے تو اس وقت وہی قوم ہم پر حکمران ہو گی جو تعداد میں ہم سے چار حصہ زیادہ ہے اور اب صاحبو ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے دل میں اس بات پر غور کرے کہ ہماری جان، ہمارا مال، ہماری آبرو، ہمارا مذہب خطرے میں ہو گا.آج جبکہ برٹش کی زبر دست حکومت اپنی رعایا کی محافظ ہے، جس قسم کی مشکلات ہم کو بسا اوقات اپنے ہمسایہ دوستوں سے پیش آتی رہتی ہیں، اس کے نظائر کم و بیش ہر صوبہ میں موجود ہیں تو وائے اس وقت پر جبکہ ہم کو ان لوگوں کا غلام ہو کر رہنا پڑے جو اور نگ زیب کا بدلہ صد ہابرس بعد آج ہم سے لینا چاہتے ہیں.جلسہ کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا.نواب صاحب کو اس نئی جماعت کا جوائنٹ سیکرٹری مقرر کیا گیا.“20
99 دہشت گردی کے المناک مناظر بر صغیر کے مشہور تاریخ دان جناب محمد عبد اللہ ملک ایم اے صدر شعبہ تاریخ، اسلامیہ کالج لاہور نے ہندوؤں کی سودیشی تحریک اور دہشت گردی کا نقشہ درج ذیل الفاظ میں کھینچا ہے.و تقسیم بنگال کو منسوخ کرانے کے لئے انتہا پسند ہندوؤں نے حکومت پر دباؤ ڈالنے کی غرض سے 7 اگست 1908ء کو سودیشی تحریک کا آغاز کیا.جس کا مقصد یہ تھا کہ ملکی اشیاء اور غیر ملکی مصنوعات کے استعمال کا پر پیگنڈا کیا جائے اور غیر ملکی مال کا بائیکاٹ کیا جائے.بالفاظ دیگر بر طانوی مال کا بائیکاٹ کر کے برطانوی تجارت کو نقصان پہنچایا جائے تاکہ حکومت اُن کے مطالبہ کو تسلیم کرے.نتیجہ غیر ملکی مصنوعات بند ہو گئیں اور اور جہاں کہیں غیر ملکی چیز نظر آئی اسے بر سر عام نذر آتش کر دیا جاتا.سودیشی تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے دکانوں کی ناکہ بندی کی جاتی.گاہکوں کو مال خریدنے سے جبر آرو کا جاتا.ابتدامیں یہ تحریک محض انگریزوں کے خلاف شروع کی گئی تھی لیکن بتدریج مسلمانوں کو اس کی لپیٹ میں لیا جانے لگا.چنانچہ مسلم تاجروں کو دھمکیاں دی جانے لگیں کہ وہ انگریزی مال کی خرید وفروخت سے باز رہیں.سودیشی تحریک کی تائید میں کانگرس نے کھدر کے کپڑے کا استعمال حب الوطنی کی علامت قرار دی.نتیجہ یہ ہوا کی ہندو تاجروں نے خوب نفع کمایا جبکہ برطانوی تاجروں اور صنعت کاروں کو بھاری نقصان پہنچا.کانگرس نے مانچسٹ، چیمبر آف کامرس پر دباؤ ڈالا کہ وہ بر صغیر میں تجارتی مفاد حاصل کرنا چاہتا ہے تو اُسے حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ تقسیم بنگال منسوخ کر دے.1908ء میں ہندوؤں کی اسی مخالفانہ تحریک نے باقاعدہ دہشت گردی کی صورت اختیار کرلی جس کے نتیجہ میں ہر طرف بدامنی، لاقانونیت اور قتل وغارت کی وارداتوں میں اضافہ ہو گیا.گورنر کی گاڑی کئی دفعہ پٹڑی سے اتارنے اور تباہ کرنے کی کوشش کی گئی.وائسرائے ہند لارڈ منٹو پر ناکام قاتلانہ حملہ کیا گیا.بنگال میں ایک ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ پر بم پھینکا گیا جس سے دو انگریز عور تیں ہلاک ہو گئیں.الغرض بم پھینک کر اور پستول سے قتل کے متعدد واقعات ہونے لگے.پلوں کو اڑانے،
100 سرکاری املاک کو تباہ کرنے اور بد امنی پھیلانے کی خفیہ تربیت گاہیں بھی قائم کی گئیں.اگر کوئی دہشت پسند پکڑا جاتا تو بڑے بڑے ہند و وکلاء اس کا کیس لڑنے اور اسے قانونی گرفت سے بچانے کے لئے فوراً تیار ہو جاتے.اگر وہ بری کر دیا جاتا تو اسے قومی ہیر و تصور کیا جاتا اور اسے پھانسی دے دی جاتی تو اس کا کریا کرم بڑی دھوم دھام اور شان و شوکت سے کیا جاتا.“21 حواشی: 1 اقبال کے ممدوح علماء صفحہ 103 از قاضی افضل حق قریشی کریم پارک لاہور اشاعت 1977ء.2 چونکہ اقبال اور ابو الکلام آزاد 1905ء سے گہرے دوست اور سوشلزم پر ایمان لا چکے تھے اس لئے جناب آزاد نے ان کی وفات پر لکھا " یہ تصور کی قدر المناک ہے، اقبال اب ہم میں نہیں.یہ تنہا ہندوستان ہی کا نہیں بلکہ پورے مشرق کا نقصان ہے.ذاتی طور پر میں ایک پرانے دوست سے محروم ہو گیا ہوں." ( اقبال کے ممدوح علماء صفحہ 103) 3 اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد کے زیر انتظام اگست 1987ء میں " پنجابی ادب دی کہانی" شائع ہوئی جس کے مصنف عبد الغفور قریشی نے "غدر پارٹی" کے زیر عنوان بتایا کہ اس پارٹی نے 1914ء میں سان فرانسسکو سے اخبار " غدر گونج " جاری کیا.یہ 52 صفحے کا اخبار تھا جس کی اشاعت دس ے زیر عنوان ہزار تھی.4 ڈاکٹر محمد حمید اللہ بھٹ صاحب ڈائر یکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو.ویسٹ بلاک -1.آر کے پورم نئی دہلی طبع اول.سن اشاعت 2000ء.5 جناب سید ہاشمی فرید آبادی کی تحقیق کے مطابق ابو الکلام آزاد اصلاً وسط پنجاب کے ایک نو مسلم خاندان کے فرد تھے.آپ تحریر فرماتے ہیں "ممتاز حسن صاحب سیکرٹری محکمہ فنانس پاکستان کی جستجو نے قصبہ قصور کے قریب موضع کیم کرن میں جناب آزاد کی کھتری برادری کا سراغ نکالا.کوئی دو سال ہوئے ممتاز صاحب کا مقالہ حلقہ ارباب ذوق میں پڑھا گیا اور کئی جرائد میں چھپا تھا نیز دیکھو موج کوثر صفحہ 309" ( تاریخ مسلمانان پاکستان و بھارت جلد دوم صفحہ 530 مع حاشیہ ناشر انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی طبع دوم 1988ء) 6 "بالشو ازم راه انقلاب" ایلن وڈز مترجم ایس این شوریدهہ ناشر طبقاتی جد وجہد پبلیکیشنز لکشمی چوک لاہور.پہلا ایڈیشن مارچ 2001ء.7 صفحہ 848 متر حجم الیس ان شوریدہ طبع اول مارچ 2001 ، ناشر طبقاتی جدوجہد پبلیکیشنز لکشمی چوک لاہور.ايضا صفحہ 344.9 10 ايضا صفحہ 343.ايضا صفحہ 343.11 12 13 14 15 16 Constitutional History of India وی.ڈی.مہاجن.ناشر ایس چاند اینڈ کمپنی نیو دہلی 1962ء.ایضاً صفحہ 565.ايضا صفحہ 533.ایضاً صفحہ 530-531.1961 ,1 History of The Freedom Movement, vol.3, part ناشر ایجو ' یجو کیشنل ایمپوریم لاہور اشاعت 1983ء.Abdul Hamid: Muslim Separatism in India (Lahore 1967) Sardar Ali Khan: India of Today (Bombay-1908) 17
101 Nirad C.Chaudhuri: The Autobiography of An Unkown Indian 18 19 اکرام اللہ ندوی و قار حیات ( علی گڑھ 1925ء) صفحہ 93-689.20 "حصول پاکستان "صفحہ 9-288.21 2 تاریخ پاکستان (1708ء تا 1977ء) صفحہ 169-171.مولف جناب پروفیسر محمد عبد اللہ ملک ایم اے.ناشر قریشی بر ادرز چوک اردو بازار لاہور اشاعت 91-1992ء.
102 ساتویں فصل سودیشی تحریک، اقبال، جماعت احمدیہ جناب عتیق صدیقی (جامعہ نگر دہلی) کی تحقیق کے مطابق غدر پارٹی کے بانی لالہ ہر دیال کے اقبال سے دوستانہ تعلقات تھے.وہ یورپ میں دوسرے ہندوستانی انقلابیوں کے ساتھ برطانوی اقتدار کی مخالفت میں سرگرم رہے.1913ء میں امریکہ میں غدر پارٹی کی داغ بیل ڈالی.اقبال ستمبر 1905ء سے جولائی 1908ء تک یورپ میں رہے.وہ مذہبی مسائل کے لئے ابو الکلام آزاد اور سید سلیمان ندوی سے رابطہ کرتے تھے.اقبال کے سفر انگلستان کے دوماہ بعد بنگال کی تقسیم کا فیصلہ ہوا اور ہندوؤں نے سودیشی تحریک کے نام سے شورش برپا کر دی تو انہوں نے کیمبرج میں اس کی تائید میں ایک پُر جوش مضمون لکھا جو رسالہ ” زمانہ کانپور (مئی 1906ء) میں چھپا.1 سودیشی تحریک کے متعلق اقبال کی یہ رائے تھی کہ ”میری رائے میں اس تحریک کی کامیابی سے مسلمانوں کو ہر طرح فائدہ ہے....مسلمان خواہ بیچنے والے ہوں خواہ خریدنے والے ہر طرح فائدہ میں ہیں.ہاں اگر وہ بیچنے والے ہیں تو ان کو زیادہ فائدہ ہے اور یہ کون کہتا ہے کہ وہ بائع نہ بنیں.2 لینن اور سودیشی تحریک لینن نے سودیشی ہندو تحریک کو انڈین اور کنگ کلاس کی پہلی سیاسی تحریک کا نام دے کر خراج تحسین ادا کیا چنانچہ بھارت کے ایک مستند تاریخ دان جناب کے.آر.بمبوال ایم اے3.K.R) (Bombwall, M.A تحریر فرماتے ہیں: "Militant Nationalism and the Congress Militant nationalism arose as an integral part of the Congress movement but the extremists constituted a minority in the organisation.Nevertheless, they succeeded in of the national movement.They brought scope widening the the middle classes into the mainstream of the national struggle and helped in the spread of national consciousness
103 among the common people.Tilak, Pal and Lajpat Rai were popular leaders in a new sense.Their sacrifices in the cause of freedom made them national heroes.They wanted the Congress to appeal directly to the people instead of looking to the White Hall or the Government House.The arrest and conviction of Tilak in 1908 led to widespread rioting.The textile workers of Bombay went on a general strike as a protest against the government action.Lenin aptly described.this strike as the first political action of the Indian working class.Within the Congress, the extremists tried to impart a militant tone to the organisation and to induce it to adopt an attitude of self-reliance and a technique of active opposition to the government".They failed to work a revolution inside the Congress, but they did succeed in persuading it to endorse their programme of Boycott and Swadeshi, at the 21st session (Banaras, 1905).Even Gokhale spoke enthusiastically of Swadeshi.He said: "The devotion to the Motherland which is enshrined in the highest Swadeshism is an influence so profound and so passionate that its very thought thrills and its actual touch lifts one out of oneself".The 22nd Congress Calcutta, 1906) reiterated its approval of Boycott and Swadeshi and the president, Dadabhai Naroji Proclaimed Self-government or Swaraj like that of the U.K.or the colonies' as the ideal of the Congress."4 بغاوت اور جماعت احمدیہ اس فتنہ وفساد اور کھلی بغاوت نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو 12 مئی 1907ء کو حضرت مسیح موعود کی ہدایت و ارشاد پر مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان کے صحن میں ایک جلسہ عام ہوا
104 جس سے خطاب کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب ایڈیٹر تشخیذ الاذہان نے بتایا کہ :- ” اس موجودہ شورش کی ابتداء بنگالیوں سے سے ہوئی اور پھر یہ تحریک بد آناًفاناً بجلی کی طرح پنجاب میں پھیل گئی ہے اور اب بعض بڑے بڑے شہروں میں خطرناک رنگ اختیار کرنے کو تھی کہ یہ گورنمنٹ انگریزی نے (جو اپنی طاقت، شوکت اور اپنی تدبیر سلطنت کے لئے ایک مشہور گورنمنٹ ہے) نہایت قابلیت کے ساتھ قرین انصاف پہلوؤں کی بناء پر اس کے تدارک اور انسداد کی طرف توجہ فرمائی ہے جس سے یقین ہو گیا ہے کہ یہ متعدی مرض رُک جائیگا اور خدا کرے کہ یہ فوراً رک جاوے تا کہ اہل ملک کو آنیوالے خطرہ کا سامنا نہ ہو.اس فساد کی ابتدا جہاں تک واقعات سے پتہ لگتا ہے اور معلوم ہو سکتا ہے ، ہندوؤں سے ہوئی ہے اور ان کے گھروں میں ہی اس نے پرورش پائی.ان کے اثر سے متاثر ہو کر کم فہم مسلمانوں نے بھی انکی ہاں میں ہاں ملائی.مگر عام طور پر مسلمانوں نے اس کو اپنے لئے خطر ناک اور مضر یقین کیا اور وہ اس سے الگ رہے.اگر بعض غیر ذمہ دار اور ضمیر فروش اشخاص ساتھ ہوئے تو وہ کسی گنتی میں نہیں.آجکل راولپنڈی.لاہور.امرتسر میں یہ فساد بہت بُری طرح پھیلا تھا جو بہت جلد دبا دیا گیا.راولپنڈی میں ان شورہ پشت لوگوں نے انگریزوں پر حملے کئے اور لیڈیوں کی توہین کی.گر جا گھر کو آگ لگا کر اسباب جلا دیا.گورنمنٹ سکول کو آگ لگائی.اس قسم کی حماقت کی کارروائیاں کر کے انہوں نے ظاہر کر دیا ہے کہ وہ ملک اور سلطنت کے بدخواہ اور دشمن ہیں.اس قسم کی شرارتوں اور خباثتوں سے مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ بچتے رہیں.اگر وہ خدا پر ، قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر ایمان رکھتے ہیں تو ان کا مذہبی فرض ہے کہ بغاوت اور فساد کے طریقوں سے بچتے رہیں.66 حضرت صاحبزادہ صاحب کی تقریر کے بعد حضرت حکیم الامت مولانانور الدین صاحب نے ایک جامع تقریر فرمائی.آپ نے فرمایا:
105 ” اس ملک کے ہندوؤں نے خدا تعالیٰ کے اس فضل واحسان کا شکریہ ادا نہیں کیا جو کہ آیت كريم وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيْهِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ.(النحل:15) جہازوں کی آمد ورفت کا جو نتیجہ ہے وہ خدا کا ایک فضل ہے جس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے تھا.اور اس سے کیا تجارت میں اور کیا ساہوکارہ میں اور کیا زراعت میں اور کیا ملازمت میں سب سے زیادہ فائدہ ہندوؤں نے ہی حاصل کیا ہے لیکن انہوں نے ہی سب سے زیادہ ناشکری کی اور ان سے اس سے زیادہ کچھ امید بھی نہیں ہو سکتی کیونکہ جو مشرک اپنے حقیقی محسن خالق مالک رب کو چھوڑ کر ایک پتھر کے آگے سر جھکاتا ہے، اس سے کیا اُمید ہو سکتی ہے کہ وہ کسی انسان کے احسان کو شکریہ کے ساتھ دیکھے گا کیونکہ خدا تعالیٰ کے احسانات کے مقابلہ میں انسان کے احسان ہی کیا ہو سکتے ہیں.وہ جس نے خدا کے ساتھ ہی بغاوت کی ہو وہ اپنے ہم جنس انسان کے ساتھ کب نیک سلوک کریگا.خدا تعالیٰ کے حضور اس ناشکر گزاری میں ہندو لوگ جو حصہ لے رہے ہیں وہ تو ظاہر ہی ہے لیکن آریہ لوگ دراصل ان سے بڑھ گئے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کی مخلوق ہو کر وہ کہتے ہیں کہ نہ ہماری روح کا وہ خالق ہے اور نہ ہی ہمارے جسم کے مادہ کا وہ خالق ہے.پھر زمانہ کو بھی خدا کا مخلوق نہیں مانتے یہ کس قدر ناشکری ہے جو ان لوگوں سے ظاہر ہو رہی ہے.گورنمنٹ برطانیہ کے ذریعہ سے آریوں کو جو آرام اور فائدہ حاصل ہوا ہے زراعت میں، اس سے ظاہر ہے کہ مدت کی بات ہے ایک دفعہ دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ پانچ کروڑ روپیہ کی جائیداد ہر سال مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل کر ہندوؤں کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے.سرکاری ملازمت میں دیکھو تو تمام بڑے بڑے عہدے علی العموم ہندوؤں کے قبضہ میں ہیں اور کیا مجال ہے کہ کسی مسلمان کو معمولی دفتر کی کلر کی میں ہی حتی الوسع رہنے دیں.ہاں دفاتر کے چپڑاسی اور فراش مسلمان رکھ لئے جاتے ہیں.پھر مقدمات میں مسلمانوں اور بالخصوص احمدیوں کے ساتھ ہند و مجسٹریٹوں کا جو سلوک ہے وہ چند ولعل اور آتمارام کے مقدمات کرنے سے ظاہر ہے کہ وہ مقدمہ جس کو ایک انگریز نے بغیر اس کے کہ ہمارے امام بلکہ اس کے خدام کو بھی کوئی تکلیف ہو ، ایک ہی روز میں فیصلہ کر دیا، اس پر
106 ان لوگوں نے دو سال تک گورداسپور کی آمد ورفت کی جو تکلیف حضرت امام اور آپ 5" کے خدام کو دی وہ تاریخ زمانہ میں ایک یاد گار رہے گی.“5 حضرت مسیح موعود اور ہندوؤں کی باغیانہ پالیٹکس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سودیشی تحریک کی نسبت اظہار خیال کرتے ہوئے یہ رائے دی.اس تحریک کی ابتدا املکی اشیاء کی ہمدردی سے نہیں بلکہ تقسیم بنگالہ پر بنگالیوں کی 6% ناراضگی اس کی جڑ ہے.اس واسطے یہ امر منحوس معلوم ہوتا ہے.“6 حضرت اقدس نے بنگالی ہندوؤں کی شورش سے جماعت احمدیہ کو بالکل الگ رہنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا.” ہماری جماعت کو بالکل ان سے الگ رہنا چاہیے.تعجب کی بات ہے کہ جو قوم حیوان کو انسان پر ترجیح دیتی ہو اور ایک گائے کے ذبح سے انسان کا خون کر دینا کچھ بات نہ سمجھتی ہو وہ حاکم ہو کر کیا انصاف کرے گی.7 فرمایا:- اس تاکیدی فرمان کے بعد اپنے عہد مبارک کے آخری جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے انتباہ ”ہندوؤں سے بالکل جوڑ نہ رکھیں.اگر انگریز آج یہاں سے نکل جاویں تو یہ 8" ہند و مسلمانوں کی بوٹی بوٹی کر دیں.“ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنی آخری تصنیف ”پیغام صلح“ میں دو قومی نظریہ کی زبر دست تائید کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم لیگ کی ضرورت واہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرمایا: یہ بات ہر ایک شخص بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ مسلمان اس بات سے کیوں ڈرتے ہیں کہ اپنے جائز حقوق کے مطالبات میں ہندوؤں کے ساتھ شامل ہو جائیں اور کیوں آج تک اُن کی کانگریس کی شمولیت سے انکار کرتے رہے ہیں اور کیوں آخر کار ہندوؤں کی درستی رائے محسوس کر کے اُن کے قدم پر قدم رکھا مگر الگ ہو کر اور ان کے مقابل پر ایک مسلم انجمن قائم کر دی مگر ان کی شراکت کو قبول نہ کیا.صاحبو اس کا باعث دراصل مذہب ہی ہے اس کے سوا کچھ نہیں.“و 9"
حواشی 107 1 اقبال صفحہ 38 مکتبہ جامعہ نئی دہلی اگست 1980ء.2 منشی دیانرائن ایڈیٹر "زمانہ " کا نپور کے نام مکتوب از ٹرینٹی کالج کیمبرج انگلینڈ.شائع شدہ "زمانہ " اپریل 1960ء (کلیات مکاتیب اقبال) جلد اول صفحه 123-124 مرتبہ سید مظفر حسین برنی اردو اکادمی دہلی طبع چہارم 1993ء.3 Head of the Department Of Political Science, Government Raza Degree College, Rampur: Formely vice Principal, Taj College, Rohtak, Author of "Principles of Civics" and "Indian Administration" etc, etc.4 Indian Politics and Government, pp.20-21, 1951, Atma Ram & Sons Booksellers, Publishers and Stationers Kashmere Gate Delhi.5 6 اخبار الحکم قادیان 30 مئی 1907 صفحہ 5 تا 8.7 اخبار بد ر24 نومبر 1905ء صفحہ 7 کالم 3.اخبار بد ر9مئی 1907ء صفحہ 5 کالم 3.8 اخبار الحام 10 جنوری 1908ء.9 " پیغام صلح " صفحہ 28-29 طبع اول روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 457.
108 آٹھویں فصل آزاد دہریت کی آغوش میں یہ وہ زمانہ تھا جبکہ جناب آزاد نے حیرت انگیز طور پر اعتراف کیا ہے کہ وہ اس وقت پکے دہر یہ ہو چکے تھے اور اسلامی اقدار و تعلیمات کو پس پشت ڈال کر ہند وسوشلسٹوں کی تحریک بغاوت کا ہر اول دستہ بن گئے ، چنانچہ لکھتے ہیں: زیادہ سے زیادہ میری تیرہ برس کی عمر تھی کہ میرا دل اچانک اپنی موجودہ حالت اور ارد گرد کے منظر سے اُچاٹ ہو گیا اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں کسی اچھی حالت میں مبتلا نہیں ہوں.یہ بے اطمینانی بڑھتی گئی حتیٰ کہ مجھے اُن ساری باتوں سے جولوگوں کی نظروں میں انتہا درجہ عزت واحترام کی باتیں تھیں، ایک طرح کی نفرت ہو گئی.چند دنوں کے بعد یہ جذبہ ایک دوسرے رخ پر بہنے لگا.اپنی حالت کے احتساب نے اپنے عقائد وافکار کے احتساب پر توجہ دلائی اور اب جو میں نے اپنے مذہبی عقائد کا جائزہ لیا تو اس میں بجز آبائی تقلید ، دیرینہ رسم پرستی اور موروثی اعتقاد کے اور کچھ نہ تھا.“ دیرینہ رسمی عقائد و آبائی تقلید ، خدا کی حقیقت اور مختلف مذاہب کے باہمی اختلافات.یہ تین (ذکر آزاد“.ص256) سوالات تھے جن کے حل میں مولانا سر گرداں و پریشان تھے.آگے چل کر لکھتے ہیں :.” یہ تین سوال تھے جو 14 برس کی عمر میں مجھے پر اس طرح چھا گئے تھے کہ خون اور گوشت کی جگہ میرے اندر صرف انہی کی گونج بھری ہوئی تھی.گرہ کو جس قدر کھنچا جائے اتنا ہی اور زیادہ اُلجھ جاتی ہے.اس طرح میں جس قدر حل کرنے کی کوشش کر تا تھا، اتنا ہی زیادہ اُلجھاؤ بڑھتا جاتا تھا.میں نے ہر طرح کی کتابوں کا مطالعہ کیا.مختلف مذہبوں کی کتابیں بار بار دیکھ ڈالیں.میں اس وقت بمبئی میں تھا.وہاں مجھے متعد دعیسائی، یہودی، پارسی، بہائی، ناسک اور ہند وعالموں سے ملنے اور بحث ومباحثہ کا موقعہ ملا لیکن ان کی باتیں میری الجھن کو اور زیادہ کرتی تھیں.اُن کے جوابات اور مباحث سُن کر مجھے معلوم ہو تا تھا کہ میری پریشانی اس سے کہیں زیادہ ہونی چاہیے
109 جس قدر میں سمجھے ہوا تھا.بالآخر یہ اندرونی تکلیف یہاں تک بڑھی کہ میں بیمار ہو گیا.غذا بند ہو گئی.نیند اُچاٹ ہو گئی.اسی اثنا میں میں نے ماڈرن فلاسفی اور سائنس کی مختلف شاخوں کا مطالعہ کیا.جس قدر مطالعہ مشرقی زبانوں کے تراجم سے کر سکتا تھا.اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مذہب کی طرف سے میری بے اطمینانی اور زیادہ گہری ہو گئی.اب مجھ پر وہ دروازہ کھلا جو اس راہ میں ہمیشہ کھلا کرتا ہے.یعنی مذہب اور عقل کی تطبیق واتحاد کا طریقہ.اس کے بھی متعد د اسکول ہیں.میں نے سب کا مطالعہ کیا، اور اس سے اتنا ضرور ہوا کہ عارضی سکون مجھے ہو گیا.اسی زمانہ میں ، میں نے سر سیّد احمد خان مرحوم کی کتابوں کا مطالعہ کیا جن کی نسبت سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے موجودہ زمانہ میں مذہب اور ماڈرن سائنس کو ملانے کے لئے ایک نئے اسکول کی بنیاد ڈالی ہے.مجھ پر ان کی تصنیفات کا بہت اثر ہوا.حتی کہ کچھ دنوں تک میرا یہ حال رہا کہ میں بالکل اُن کا مقلد اور پیر و ہو گیا تھا.مگر یہ وقفہ عارضی تھا.بہت جلد مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ منزل مذہب کی طرف لے جانے والی نہیں ہے.بلکہ مذہب سے انکار کی ایک نرم اور ملائم صورت ہے.آخری نتیجہ میرے دل و دماغ پر حاوی ہو گیا تھا، یعنی گو میں زبان سے صاف اقرار نہیں کرتا تھا لیکن میرے اندر قطعی انکار والحاد کی آواز گونج رہی تھی.میں اب ایک پکا دہر یہ ہو گیا تھا.میٹر یلیزم (Materialism) اور ریشنلزم (Rationalism) کے اعتقاد پر میرے اندر فخر و غرور تھا.اور مذہب کے نام میں جہل و تو ہم کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا.تاہم وہ چیز کہاں تھی جس کی ڈھونڈھ میں نکلا تھا؟ دل کا اطمینان ؟ وہ تو اب اور زیادہ دور ہو گئی.میرے اضطراب کی اندھیاری میں تسلی کی ایک ہلکی کرن بھی دکھائی نہیں دیتی تھی.14 برس سے لے کر 22 برس کی عمر تک میرا یہی حال رہا.میر ا ظاہری روپ ایک ایسے مذہبی آدمی کا تھا جو مذہب کو عقل و علم کے ساتھ ساتھ چلانا چاہتا ہے.لیکن میرے اندر اعتقاد میں قطعی الحاد تھا اور عمل میں قطعی فسق.یہی منزل آخری مایوسی کی منزل تھی.“ ذکر آزاد “.ص260-1257
110 ہندوؤں کی سوشلسٹ سود بیشی ایجی ٹیشن میں شرکت پکے دہر یہ ہونے کے بعد آزاد نے ہندوستان کے ہندوؤں کے نام کارل مارکس کے پیغام پر پُر جوش لبیک کہا اور آل انڈیا نیشنل کانگرس اور بنگال کے دہشت گرد ہندوؤں کی انقلابی پارٹی میں شامل ہو گئے اور راجہ موہن رائے اور کیشیب چندر سین جیسے فرقہ پرستوں کو اولوالعزم مصلح قرار دینے لگے.2 یہی نہیں غدر پارٹی کے سرگرم ممبر کی حیثیت سے ہندوؤں سے بڑھ کر مشرقی بنگال کے ستم رسیدہ اور مظلوم اور بے کس غریب مسلمانوں کی مخالفت شروع کر دی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کے ملتی جسم میں نہایت بے دردی سے خنجر گھونپ دیا.اُن کا اپنا بیان ہے کہ :- لارڈ کرزن کی تقسیم بنگال کے آگے بنگال نے سر جھکانے سے انکار کر دیا اور وہاں اس قدر زبر دست مخالفانہ شورش برپا ہوئی کہ ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی.آربند و گھوش نے کلکتہ سے کرم یوگن کے نام سے ایک اخبار جاری کر کے غیر ملکی حکومت کے خلاف بغاوت کی تخم ریزی شروع کر دی.یہ انقلابی تحریک و تنظیم جس نے پورے بنگال اور بنگال سے باہر دور دراز تک اپنے اثرات پھیلا دئے تھے، مسلمانوں پر اعتماد کرنے کے لئے تیار نہیں تھی“.”تمام انقلابی جماعتیں مسلمانوں کی مخالفت میں سر گرم عمل ہو گئیں گویا انگریز حکومت کا یہ منشا پورا ہونے لگا کہ مسلمان اور ہندو ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہو جائیں اور بر طانوی حکومت انقلابیوں کی زد سے محفوظ رہے.انگریز کی اس خطر ناک چال کو ناکام بنانے کے لئے ضروری تھا کہ انقلابیوں کے ساتھ میرا ربط وضبط پیدا ہو.اور میں انہیں یہ باور کر اسکوں کہ مسلمان بحیثیت ایک جماعت کے ہر گز ان کے دشمن نہیں ہیں اور چند مسلمان سرکاری ملازمین کا فعل پوری مسلمان امت کی ترجمانی نہیں کرتا.اس مقصد کے لئے میں نے انقلابی رہنما شیام سندر چکرورتی سے کسی طرح رابطہ کیا.انقلابیوں میں ان کا بڑا احترام تھا ان کے ذریعہ دوسرے انقلابی کارکنوں سے ملا.آر ہندو گھوش سے بھی کئی بار ملاقات کی حتٰی کہ میں نے انقلابی تحریک کو اپنی خدمات با قاعدہ پیش کر دیں.اور نوجوانوں کی ایک بڑی جماعت میں نے تیار کر لی.“ یہی وہ سال ہے جس میں اقبال اور آزاد کے خُفیہ مراسم وروابط قائم ہوئے.3
111 ”انقلابی تحریک میں شامل ہونے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ انقلابیوں کی کارروائیاں نہایت محدود ہیں.میں نے انہیں متوجہ کیا کہ ان کا دائرہ وسیع کرنا چاہیئے اور نہ صرف ہندوستان کے تمام صوبوں میں اپنی شاخیں کھول دینا چاہیے بلکہ بیرون ملک کی انقلابی تحریک سے بھی ربط و ضبط بڑھا کر برطانوی سامراج کے خلاف وسیع تر محاذ بنانا چاہیئے.اس زمانہ میں مجھے عراق، شام، مصر اور ترکی وغیرہ جانے کا اتفاق ہوا تھا.میں ان خطوط پر پہلے ہی کام شروع کر چکا تھا.میں نے اس سفر میں ہندوستان کی انقلابی تحریکوں کے درمیان رابطہ کی کڑیاں قائم کیں اور وہاں سے واپسی پر ہندوستان کے مسلمانوں میں حصول آزادی کا ولولہ پیدا کرنے کے لئے ضروری سمجھا کہ ایک اخبار جاری کیا جائے.ہفت روزہ الہلال کا اجراء اسی مقصد کے لئے ہوا.جون 1912ء میں الہلال کا پہلا شمارہ شائع ہوا.میری ان کوششوں سے ایک طرف بنگال کی انقلابی تحریک ہندو انقلاب تحریک کے بجائے ہندوستانی انقلاب کی تحریک میں تبدیل ہو گئی.اس میں مسلمانوں کی شمولیت کا دروازہ بھی کھل گیا.مسلمان نوجوانوں میں سیاسی شعور بیدار ہو گیا.ہندوستان کی انقلابی تحریکوں کا ربط ضبط ایشیاء اور انقلابی تحریکوں کے ساتھ قائم ہو گیا“.4 عالمی سوشلزم اور ابو الکلام آزاد اس بیان کا اگر سوشل ازم کی مستند عالمی تاریخ کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو حقیقت پوری طرح بے نقاب ہو جاتی ہے کہ ابوالکلام آزاد کی انقلابی سرگرمیاں حیران کن حد تک دوسرے انقلابیوں کے قدم بقدم، شانہ بشانہ اور متوازی طور پر چل رہی تھیں جس سے واضح نتیجہ بر آمد ہوتا ہے کہ جناب آزاد جن خطوط پر ہندوستان میں ایجی ٹیشن اور بغاوت پھیلانے کے لئے جو بھی عملی اقدامات کر رہے تھے، وہ فقط عالمی سوشلزم کی ہائی کمان ہی کا عکس تھا.مثلاً 1905ء میں وہ غدر پارٹی میں شامل ہوئے.ٹھیک اسی سال ریاستہائے متحدہ امریکہ کے مزدوروں کی تنظیم کا قیام عمل میں آیا.5 پھر بالشویکی کا قانونی روز نامہ پٹرس برگ سے 1912ء کو نکلا بالکل یہی سال ”الہلال“ کے اجرا کا ہے.6
112 جناب آزاد کی تشد د پسند انقلابیوں کی رفاقت اور مسلح بغاوت میں شرکت کی مزید تفصیل آپ کے قریبی اور گہرے ساتھی جناب مولوی عبد الرزاق ملیح آبادی کے قلم سے درج ذیل ہے.” یہ واقعہ کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ شروع شروع میں مولانا تشدد پسند انقلابیوں کے ساتھ تھے اور ہندوستان میں مسلح بغاوت کی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے.ایک طرف بنگال کے انقلابیوں سے تعلقات استوار تھے.دوسری طرف سرحد کے قبائل میں اُن کے آدمی کام کر رہے تھے.جب اُن کی رفاقت میں (1920ء) آیا تو اس وقت تک مولانا مسلح بغاوت ہی کے قائل تھے.ایک دفعہ خود مجھے ایک جگہ بھیجا تھا اور میں دو در جن پستول لے آیا جو انہوں نے کسی اور کے ہاتھ کہیں بھیج دئے تھے“ 7 آزاد کی اسلامی تعلیم سے بغاوت یہ سب مسلح کوششیں سراسر ، اگر چہ انقلاب سوشلزم کے لئے تو از بس ضروری تھیں مگر اسلامی تعلیم سے سر اسر بغاوت کے مترادف تھیں جیسا کہ حسین احمد صاحب دیوبندی نے خود اسی کتاب میں بر صغیر کے مستند عالم دین اور حضرت سید ولی اللہ شاہ دہلوی کے فرزند حضرت شاہ عبد العزیز کا یہ فتویٰ ریکارڈ کیا ہے کہ.8" اگر کسی ملک میں سیاسی اقتدار اعلیٰ کسی غیر مسلم جماعت کے ہاتھوں میں ہو لیکن مسلمان بھی بہر حال اُس اقتدار میں شریک ہوں اور اُن کے مذہبی ودینی شعائر کا احترام کیا جاتا ہو تو وہ ملک شاہ صاحب کے نزدیک بے شبہ دارالاسلام ہو گا.اور ازروئے شرع مسلمانوں کا فرض ہو گا کہ وہ اس ملک کو اپنا ملک سمجھ کر اس کے لئے ہر نوع کی خیر خواہی اور خیر اندیشی کا معاملہ کریں.اسی طرح انہوں حضرت سید احمد شہید بالا کوٹ ( مجدد تیر ہویں صدی) کے مستند سوانح نگار مولوی محمد جعفر صاحب تھانیسری کی کتاب ”سوانح احمدی صفحہ 70) کے حوالے سے لکھا ہے :- ” ایک مرتبہ ایک سوال کے جواب میں سید صاحب نے صاف صاف فرمایا کہ کسی ملک کو چھین کر ہم بادشاہت کرنا نہیں چاہتے بلکہ سکھوں سے جہاد کرنے کی صرف یہی وجہ ہے کہ وہ ہمارے برادرانِ اسلام پر ظلم کرتے اور اذان وغیرہ مذہبی فرائض
113 9% ادا کرنے میں مزاحم ہوتے ہیں.اگر سکھ اب یا ہمارے غلبہ کے بعد ان حرکات مستوجب جہاد سے باز آجائیں گے تو ہم کو اُن سے لڑنے کی ضرورت نہ رہے گی.جناب سید ہاشمی فرید آبادی، حضرت شاہ اسمعیل شہید کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: شاہ صاحب نے سکھ شاہی پنجاب کا خفیہ دورہ لگایا.وہاں کے مسلمان جس مصیبت میں پھنس گئے تھے ، اُس کی حقیقت اپنی آنکھوں سے دیکھی.مظلوموں کی زبانوں سے سنی.بہت سی غیر آباد مساجد ، مقابر ، خانقاہیں، جنگلی حاکموں کے طویلے بن گئی تھیں.جہاں آبادی باقی رہی، وہاں اذان دینی مخدوش بلکہ کہیں کہیں بالکل ممنوع تھی.“10 سید ہاشم فریدی تحریر فرماتے ہیں: حضرت سید احمد بریلوی نے بار بار اعلان کیا کہ انگریزوں سے ہماری کوئی لڑائی نہیں.ان کے مقبوضات میں شورش و فساد مچانا ہم جائز نہیں سمجھتے (سوانح احمدی کے واقعات اور مکاتیب میں کوئی ہمیں جگہ سید صاحب نے انگریزوں کی مخالفت کو غیر ضروری اور ناجائز بتایا ہے ) سکھوں سے نامہ و پیام کی ضمن میں بھی وہ یہی جتاتے تھے کہ جہاد کا مقصد حکومت و بادشاہی حاصل کرنا نہیں، ہم صرف مسلمانوں کی مذہبی آزادی کے لئے لڑتے ہیں.“11 یہی نہیں خلیفتہ المسلمین ترکی نے غدر 1857ء میں ہندوستانی مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ ہندوؤں کی ناپاک مسلح سازش سے بالکل الگ رہیں اور حکومت وقت کی اطاعت کریں.چنانچہ حسین احمد مدنی صاحب نے ” نقش حیات جلد دوم صفحہ 631 میں اعتراف کیا ہے :- 66 "1857ء میں سلطان عبد المجید مرحوم سے فرمان، مسلمانوں کے لئے انگریزوں سے لڑنے اور اُن کی اطاعت کرنے کا بحیثیت خلافت حاصل کیا اور ہندوستان میں پراپیگنڈا کیا کہ خلیفہ کے حکم پر چلنا مسلمانوں کے لئے مذہبی حیثیت سے فرض ہے.“ جناب شیخ عبد القادر صاحب بیر سٹر ایٹ لاء سیکرٹری خلافت کمیٹی سیالکوٹ کا یہ بیان ماضی کے دبینر پر دوں میں پوشیدہ حقائق کی خوب عکاسی کرتا ہے.فرماتے ہیں.”1857ء میں ہندوستان میں غدر مچا.اس غدر کو فرو کرنے کے لئے انگریزوں
114 کی افواج کو مصر سے گزر کر ہندوستان پہنچنے کی اجازت حضور خلیفہ المسلمين سلطان المعظم نے ہی دی تھی.جنوبی افریقہ میں جنگ بوئر ہوئی.تقریباً تمام یورپ انگلستان کے بر خلاف تلا ہوا تھا.فرانسیسی اخبارات کیا کچھ زہر اگل رہے تھے.اور دنیا بھر کو انگلستان سے بد ظن کر رہے تھے لیکن ترکی نے انگلستان کا ساتھ دیا.ہزار ہا ترکوں نے انگریزی جھنڈے کے نیچے لڑنے مرنے کے لئے اپنی خدمات پیش کر دیں.مساجد میں انگریزوں کی فتح و نصرت کے لئے دعائیں مانگی گئیں.عبید اللہ آمندی رکن مجلس وضع قوانین اور دیگر اکابر حکومت عثمانیہ نے سفارتخانہ انگلشیہ واقعہ پیرا میں جاکر انگریزوں کی بقاء و ظفر کے لئے دعا مانگی.“12 ان مذہبی فتاویٰ کے علاوہ ہندوستان کی ہمسایہ مسلمان مملکت افغانستان کے بادشاہ ”ضیاء الملۃ والدین امیر عبدالرحمن غازی“ نے اپنی کتاب ”دبدبہ امیری“ کے باب ہشتم میں انگلستان، روس، افغانستان کے زیر عنوان صاف لفظوں میں لکھا کہ :- گور نمنٹ روس کی پالیسی امیر بخارا اور دیگر میران وسط ایشاء اور ترکی، ایران اور افغانستان کی نسبت یہی رہی ہے کہ وہ قومی نہ ہونے پائیں جو اُس کی دائمی پیش قدمی میں مخل ہوں.ایشیائی سلطنتوں کی دقتوں اور کمزوریوں سے روس برابر فائدہ اٹھاتا ہے.بعض اسلامی ریاستوں پر وہ بالکل قابض ہو گیا ہے.بخلاف اس کے انگلش پالیسی عموماً اسلام اور گل اسلامی سلطنت ہائے ایشیا کے ساتھ دوستانہ ہے اور انگلستان کی دلی خواہش ہے کہ یہ سلطنتیں قائم رہیں، خود مختار ہوں.بخلاف اس کے روس کی پالیسی اس کے بر عکس ہے ، نہ صرف اس وجہ سے کہ اس کے ملک کے حدود ہندوستان کی سرحد سے مل جائیں بلکہ اُسے ہمیشہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ اگر ترکی یا ایران یا افغانستان یا ہندوستان کے ساتھ جنگ ہوئی تو اس کی مسلمان رعایا میں عام غد ر ہو جائے گا.اس میں شک نہیں کہ تمام دنیا کے مسلمان سلطنت برطانیہ کی دوستی کو روس کی دوستی پر ترجیح دیتے ہیں.“ نیز لکھا.”اگر روس اور برطانیہ اعظم میں جنگ ہوئی تو ہر حالت میں مسلمان سلاطین اور عام مسلمان انگلستان کا ساتھ دیں گے.اول تو انہیں مکہ معظمہ کی عملداری میں اپنے
115 مذہبی رسوم ادا کرنے کی پوری آزادی ہے.دوسرا وہ یہ جانتے ہیں کہ روس کے ظلم وجور سے اُسی وقت تک نجات حاصل ہے جب تک انگلستان سی عظیم الشان سلطنت مشرق میں اس کا مقابلہ کرنے کے لئے موجود ہے.وہ خوب سمجھتے ہیں کہ اگر مشرق میں انگلستان کو زوال آیا تو کل اسلامی سلطنتیں روس کی نوالہ ہو نگی.13" امیر عبد الرحمن کا شمار نہایت ذہین، مذبر اور سخت گیر حکمرانوں میں ہوتا ہے.وہ قیام جماعت احمدیہ سے نو سال قبل 1880ء میں بر سر اقتدار آئے اور یکم مئی 1901ء کو وفات پائی.یہی نہیں خود مسلمانان ہند نے طوائف الملو کی اور سکھا شاہی سے نجات پر برطانوی حکومت کا جس شان و شوکت سے خیر مقدم کیا، وہ تاریخ کا سنہری ورق ہے جس کے بغیر بر صغیر پاک وہند کی کوئی تاریخ مکمل نہیں سمجھی جا سکتی.اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ جس طرح بعض روایات کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایران کے مشرک مگر عادل بادشاہ نوشیر وان کسری کے زمانہ حکومت میں اپنی ولادت پر فخر کرتے تھے ، اسی طرح مسلمانان ہند نے اسوہ نبوی کے عین مطابق محسنہ ملکہ وکٹوریہ کو اپنے دل میں جگہ دی.یہی وجہ ہے کہ جب 16 فروری 1887ء کو ہندوستان بھر میں ملکہ وکٹوریہ کی جوبلی منائی گئی تو مسلمانانِ ہند نے اظہار تشکر کا عدیم المثال اور پر جوش مظاہرہ کیا.چنانچہ شمس العلماء حج سید محمد لطیف صاحب فیلو پنجاب یونیورسٹی و ممبر ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال (1902- 1845ء) نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ”تاریخ لاہور میں بادشاہی مسجد کا ذکر کرتے ہوئے لکھا: ”مہاراجہ رنجیت سنگھ نے مسجد کو اسلحہ خانہ اور فوجی گوداموں کے لئے استعمال کیا.لیکن برطانوی حکومت نے 1856ء میں اس کو مسلمانوں کے حوالے کر دیا.14 پھر ” تاریخ پنجاب“ میں ملکہ وکٹوریہ کے جشن جو بلی میں ہندوستان بھر کے مسلمانوں کی دھوم دھام سے ملک گیر شرکت کا نقشہ کھنچتے ہوئے بتایا کہ ”دنیا نے کبھی اتنا خو شحال دور یا انتہائی محبوب ملکہ نہیں دیکھی تھی.پنجاب ( جہاں پچاس سال پہلے رنجیت سنگھ کی حکومت تھی ہر میجسٹی کے مبارک دور کا پچاسواں برس انتہائی جوش و خروش سے منایا.“ تمام اضلاع کے صدر مقامات پر امراء کے استقبال کے لئے دربار منعقد کئے گئے.سپاس نامے پیش کئے گئے.ہر میجسٹی کی ذات اور حکومت کے لئے پُر جوش وفا داری کے جذبے کا اظہار کیا گیا.66 سلطنت کے طول و عرض میں عوام نے جس مسرت اور خوشی کا مظاہرہ کیا وہ
116 قابل ذکر ہے.دہلی میں جامع مسجد میں ہر میجسٹی کی خیریت کے لئے خصوصی دعائیں مانگی گئیں.“ ”امر تسر میں ہندو سکھ اور مسلمان بہت بڑی تعداد میں اپنی عبادت گاہوں میں جمع ہوئے اور ملکہ عالیہ کے لئے دعائیں کیں.بنوں میں مسلمان ملک، خان، ارباب اور افسران جامع مسجد میں جمع ہوئے اور ملکہ عالیہ کی درازی عمر کے لئے خصوصی دعائیں مانگیں.“ ڈیرہ غازی خان میں سرداروں ، تو مانداروں اور شہریوں کا عوامی اجلاس منعقد ہوا.وزیر آباد میں مسلمانوں نے مسجدوں میں چراغاں کیا اور ملکہ کے لئے خصوصی دعائیں مانگیں.“ ” بہاولپور کے نواب نے اپنے نور محل میں جسے پر تکلف انداز میں روشن کیا گیا تھا، ایک سرکاری استقبالیہ کا اہتمام کیا....یہ سب بر طانوی حکومت اور ملکہ عالیہ کے تخت شاہی کے ساتھ لوگوں کی گہری وابستگی کا ثبوت تھا.دانشمندی، انصاف، پاکیزگی اور فرض جس کے سر پرست رہے ہیں اور جو ان کی (ملکہ عالیہ ) روز مرہ زندگی کے رفیق رہے ہیں.ہر آنے والے سال کے ساتھ ان کی طاقتور حکومت کی بنیادیں زیادہ مضبوط ہوتی گئیں جبکہ اُن کی رعایا کی وفاداری و جانثاری زیادہ نرمی و سرگرمی سے بڑھتی رہی.“15 جناب محمد طفیل صاحب نے اپنے رسالہ ” نقوش“ لاہور نمبر صفحہ 117 پر لکھا ہے: ”سید احمد شہید کو جب سکھوں کے مظالم کا علم ہوا کہ اُن کی مملکت میں صلوۃ واذان تک کی اجازت نہیں، مسجدوں میں گھوڑے بندھتے تھے اور مسلمانوں کی بیٹیاں جبراً چکلوں میں بٹھائی جاتی ہیں تو انہوں نے رنجیت سنگھ کے خلاف اعلان جہاد کر دیا.“ پھر صفحہ 124 پر لکھا:.یکم جنوری 1877ء کو ملکہ وکٹوریہ نے قیصرہ ہند کا لقب اختیار کیا.ملکہ کو بحیثیت حکمران جو ہر دلعزیزی پنجاب میں حاصل ہوئی، وہ شاید ہی کسی حکمران کو حاصل ہوئی ہو.لوگ سکھا شاہی سے تنگ آئے ہوئے تھے.ملکہ کے دور میں ہر طرف امن و سلامتی کا دور شروع ہوا.لوگ آزادی سے اپنے مذہب پر عمل کرنے
117 لگے.ضروریات زندگی سستی تھیں اور لوگ نیک اور متوکل تھے.66 سکھوں نے اپنے عہد حکومت میں حضرت اور نگ زیب رحمتہ اللہ علیہ کی شاہی مسجد لاہور کی بے حرمتی کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھار کبھی چنانچہ جناب محمد عبد اللہ قریشی نے رسالہ نقوش لاہور نمبر صفحہ 567 میں لکھا ہے :- دو سکھوں کے آخری دور میں مسجد کے صحن سے اصطبل کا کام لیا جاتا تھا اور مسلمانوں پر اُس کے دروازے بند تھے.انگریزوں کے آنے تک مسجد کی حالت نہایت خراب و خستہ ہو چکی تھی.1856ء میں سر جان لارنس چیف کمشنر پنجاب کی سفارش پر حکومت ہند نے مسجد مسلمانوں کو واگزار کی اور اس میں ایک بار پھر خدا کا نام گونجنے لگا.“ الغرض برطانوی حکومت کی آمد سے مسلمانوں کی ترقی اور خوشحالی کا نیا دور شروع ہوا اور مدتوں کے بعد انہیں پہلی بار پورے ملک میں اپنے مذہبی فرائض بجالانے کی آزادی ملی.اور یہ ایسی نعمت ہے جس کا عملی شکریہ مسلمانان ہند نے اسلامی روایات کے عین مطابق اپنی بے لوث خدمات اور سچی وفاداریوں سے دیا.جس میں ہندوستان کی مسلم ریاستوں (رام پور، بھوپال، حیدر آباد اور بہاولپور) میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جو تاریخ کا حصہ ہے.مسلمانان ہند کے مقابل ابو الکلام صاحب آزاد 1905ء میں ہند و کانگریس اور غدر پارٹی سے وابستگی کے بعد کس طرح بغاوت کے شعلے بھڑ کانے میں سرگرم ہو گئے ؟ علامہ الطاف حسین پانی پتی نے محمڈن اینگلو اور نٹیل ایجو کیشنل کانفرنس کے اجلاس سالانہ (27 تا30 دسمبر 1898ء) کے نام پیغام میں فرمایا: اگر ہندوستان میں انگریزوں کا قدم نہ آتا تو مسلمانوں کو وہی روز سیاہ دیکھنا پڑتا جو اسپین کے مسلمانوں کو ان کی سلطنت کے زوال کے بعد دیکھنا پڑا وہ اپنی سلامتی بلکہ اپنا وجود ہندوستان میں محض انگریزی حکومت کی بدولت جانتی ہے.16 حواشی: 1 2 بحوالہ " حواشی ابو الکلام آزاد.زیر مطالعہ کتابوں پر صفحہ 32-34- مرتب سید مسیح الحسن.ناشر مکتبہ قدوسیہ غزنی اسٹریٹ لاہور.جنوری 1992ء.الہلال کلکتہ 10 مارچ 1913ء صفحہ 10 کالم 1.3 اقبال کے ممدوح علماء صفحہ 103.مولف قاضی افضل حق قریشی ناشر مکتبہ محمود یہ کریم پارک راوی روڈ لاہور اشاعت دوم اگست 1978ء.
118 4 "مونالا ابو الکلام آزاد نے پاکستان کے بارے میں کیا کہا " صفحہ 48 تا 51 از احمد حسین کمال ناشر مکتبہ جمال اردو مارکیٹ لاہور.لینن منتخب تصانیف حصہ چہارم صفحه 232 ناشر دار الاشاعت ترقی ماسکو 1971ء.5 6 ايضا حصہ دوم صفحہ 317 دار الاشاعت ترقی ماسکو 1969ء وحصہ چہارم صفحہ 341 دارالاشاعت ترقی ماسکو 1971ء.ابو الکلام آزاد اور قوم پرست " مسلمانوں کی سیاست صفحہ 58 از محمد فاروق قریشی.ناشر مکتبہ فکر و دانش اشاعت مئی 1991ء.7 8 ايضا صفحہ 417-418 حصہ دوم.ايضا صفحہ 418.10 تاریخ مسلمانان پاکستان و بھارت جلد دوم تالیف سید ہاشمی فرید آبادی.انجمن ترقی اردو پاکستان.بابائے اردو روڈ کر اچھی طبع دوم 1985ء.11 تاریخ مسلمانان پاکستان و بھارت صفحہ 311-312- جلد دوم.12 "ترکوں کے ارمنوں پر فرضی مظالم صفحہ 23 شائع کردہ مجلس خلافت پنجاب.اشاعت 1920ء سیالکوٹ.13 دبدبہ امیری صفحہ 217-221 متر جم سید محمد حسن بلگرامی حیدر آباد دکن اشاعت جولائی 1901ء مطبع شمسی آگرہ.14 ترجمہ صفحہ 183-184 ناشر تخلیقات ٹمپل روڈ لاہور اشاعت 1997ء.15 16 اردو ترجمہ صفحہ 1105-1107.ناشر تخلیقات ٹمپل روڈ لاہور اشاعت 1997ء.1 " محمڈن اینگلو اور مینٹل ایجو کیشن کا بارھواں سالانہ اجلاس" صفحہ 232 مرتب نواب محسن الملک مولوی سید مہدی علی خاں.مطبع مفید عام آگرہ -1899
119 نویں فصل دیوبند.سوشلزم اور غدر پارٹی کا مرکز جناب آزاد نے نہ صرف خود غدر پارٹی کی حیثیت ہی سے انقلابی کارنامے انجام دئے بلکہ اُن کی کوشش سے دارالعلوم دیو بند بھی غدر پارٹی، سوشلزم اور کانگرس کی سرگرمیوں اور مخفی منصوبوں کا مضبوط مرکز بن گیا اور ہندو کانگرس کو اپنے ایجنٹوں کی فوج ہاتھ آگئی اور اندورن ملک فساد برپا کرنے کی شرعی اور مذہبی سند بھی فراہم ہو گئی.چنانچہ سوشلسٹ انقلابی مولانا حسین احمد دیوبندی اپنے سیاسی استاد مولانامحمود الحسن (شیخ الہند) کے اصل چہرے سے نقاب اٹھاتے ہوئے فرماتے ہیں." حضرت شیخ الہند نے ایک مستقل مکان اپنے مکان کے قریب کرایہ پر لے رکھا تھا جس کو کو ٹھی کے نام سے مشہور کیا جاتا ہے.اس میں حضرت کے غیر مسلم دوست اور رفقاء انقلاب ٹھہرا کرتے تھے.ان کو نہایت راز داری کے ساتھ خدام خاص ٹھہرا دیتے تھے اور اُن کے کھانے پینے کے انتظامات کرتے رہتے تھے.اکثر تنہائی کے اوقات میں یارات کو اُن سے حضرت شیخ الہند کی باتیں ہوتی تھیں.یہ لوگ سکھ یا بنگالی ہندو انقلابی (بنگال) پارٹیشن والے ہوتے تھے.چونکہ رازداری کا بہت زیادہ خیال رکھنا پڑتا تھا، اس لئے ان کے نام اور پتے معلوم نہیں ہو سکے....علاوہ مذکورہ بالا حضرت کے، غیر مشہور حضرات اس تحریک کے ہم خیال اور مشن آزادی کے ممبر بے شمار تھے جن کی تفصیل تطویل چاہتی ہے.یاغستان میں بغاوت اور اس کی ناکامی 1" او پر جناب طلیح آبادی کا حقیقت افروز بیان درج ہو چکا ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ آزاد صاحب بنگال کے علاوہ سر حد یعنی یاغستان میں بھی شورش بپا کرنے کی کمان کر رہے تھے.یاغستان میں اُن کے انقلابی دوست محمود الحسن اُن کے نائب تھے علاوہ ازیں انہوں نے کئی بار براہ راست مولوی عبید اللہ سندھی کو بھیجا تا انگریزی حکومت کے خلاف غدر پارٹی کی بغاوت کے شعلے تیز سے تیز کر دیں.2 سندھی صاحب نے اپنی ذاتی ڈائری میں کھلا اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے دوسال تک دہلی میں آزاد صاحب کی ہدایت پر انقلابیوں سے گہرے مراسم پیدا کرلئے اور ”اعلیٰ سیاسی طاقت“ (یعنی بین الا قوامی سوشلزم) سے متعارف ہوئے.
120 اگست 1914ء میں پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی.چونکہ بنگال کی طرح یاغستان بھی بغاوت کا مرکز بن گیا اس لئے انگریزی فوج نے نام نہاد مجاہدین اور در پر دہ غدر پارٹی کے ایجنٹوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیا جس پر انہوں نے فریاد کی کہ :- ” جب تک کسی منظم حکومت کی پشت پناہی نہ ہو ہماری شجاعت اور جانبازی بیکار ہے.3" یاغستان میں غدر پارٹی اور کانگرس کے انقلابیوں کی شرمناک شکست کا دوسرا اور سب سے بڑا سبب افغانستان حکومت کی زبر دست مخالفت اور ان کے خلاف اسلام ہتھکنڈوں کے خلاف جارحانہ کارروائی تھی جس کی تفصیل دیوبندی انقلابی حسین احمد مدنی کے قلم سے درج ذیل کی جاتی ہے :- پیش بندی کے طور پر انگریزی فوجیں قدیمی سرحدوں سے آگے یاغستان میں میلوں داخل ہو گئیں اور متعدد مقامات پر قبضہ کر لیا.مجاہدین کب تک صبر کر سکتے تھے.انہوں نے نہایت جوش اور جوانمردی سے یکے بعد دیگرے ایسے زور دار متواتر حملے کئے کہ پلٹنوں کی پلٹنیں گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈالیں اور پھر فوجیں آگے بڑھ گئی تھیں.ان کی امداد اور رسد بندی کر دی اس طرح ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کا وارا نیارا ہو گیا اور سامان تو کروڑوں کا تلف ہو گیا....امیر حبیب اللہ خاں کو درمیان میں ڈالا گیا اور سر داران قبائل اور مجاہدین کو توڑا اور زر پاشی کی سبیل اختیار کر کے بچی کبھی سپاہ کو واپس لانا پڑا.جس کی تفصیل یہ ہے کہ اشرفیوں اور روپیوں کی بھر مار کر کے یاغستان کے سرداروں کو توڑ لیا اور یہ پروپیگینڈا کرایا کہ جہاد بغیر بادشاہ کے شریعت اسلامی میں درست نہیں.مسلمانوں کے بادشاہ ان اطراف میں امیر کابل اللہ خاں ہیں.تم ان کے ہاتھ پر بیعت جہاد کر کے منظم ہو جاؤ.جب امیر صاحب اٹھیں اور علم جہاد بلند کریں، سب ان کے ساتھ ہو کر جہاد کرنا.سر دار نائب السلطنت امیر نصر اللہ خاں اس کے ناظم بنائے گئے اور تمام بیعت نامہ کے کاغذات حبیب ان کے پاس جمع ہونے لگے.اس پروپیگنڈے پر پانی کی طرح روپے بہائے گئے.نتیجہ یہ نکلا کہ ”مجاہدین کی قوت کمزور ہو گئی.چند لڑائیوں کے بعد جن میں ”مجاہدین“ کو کامیابی اور انگریزوں کو ناکامی ہوئی تھی.پانسہ پلٹ گیا اور ادھر تو ”مجاہدین رسد اور کارتوس کے خرچ ہو جانے کی وجہ پورے اجتماع کو سنبھال نہ سکے تھے.ادھر دیہاتوں
121 کے لکھیا اور سر داران قبائل لوٹ گئے، ادھر عوام امیر کابل کے پروپیگینڈے کی وجہ سے اپنے جوش و خروش کو قائم نہ رکھ سکے.بالآخر جماعت کو چند مہینوں کے بعد 4" شکست اٹھانی پڑی اور انتشار ہو گیا.4 امان اللہ خاں والئی افغانستان (حکومت 1919ء تا 1929ء) کے دور میں کابل ہندوستان کے انقلابیوں اور روس کے کمیونسٹوں کا پراسرار مرکز بن گیا.چنا نچہ جناب آباد شاہپوری اپنی کتاب روس میں مسلمان قومیں“ کے حاشیہ صفحہ 134 پر تحریر فرماتے ہیں: امان اللہ خاں والئی افغانستان) کے زمانے میں کابل کمیونسٹ ایجنٹوں کی سرگرمیوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا.ان کا سر غنہ میخائیل براؤن تھا جو زار کا ڈپلومیٹ رہ چکا تھا اور اب کمیونسٹوں کے چڑھتے سورج کی پوجا کرنے لگا تھا.ان ایجنٹوں کا ہندوستان کے آزادی پسندوں سے جو کابل میں مقیم تھے، گہرا ربط تھا.میخائیل کا ایک خط برطانوی انٹیلی جنس کے ہاتھ لگا جس میں اُس نے بالشویک حکومت کے پراپیگنڈا محکمہ برائے مشرقی کو لکھا تھا کہ کابل میں مقیم ہندوستانی انقلابیوں کے ساتھ گہرے روابط استوار کرنے میں خاصی کامیابی ہو رہی ہے.( آرنلڈ فلیچر صفحہ 195).بالکل ابتدائی دنوں میں برطانوی انٹیلی جنس کے ہاتھ دو خطوط لگے.ایک امان اللہ خاں 5 کا خط جو اس نے لینن کے نام لکھا تھا اور دوسرا محمود طرازی کا جو اس نے بالشویک وزیر خارجہ کو تحریر کیا تھا.دونوں خطوط سے آرنلڈ فلیچر کے بقول بالشویک حکومت کے ساتھ اخلاص اور تپاک کا اظہار ہو تا تھا.“(ص195) حواشی: 1 نقش حیات جلد دوم صفحہ 627.2 نقش حیات جلد دوم صفحہ 557.4 3 ایضاً صفحہ 562.ایضاً جلد دوم صفحہ 604-605.ولادت 1892ء.حکومت سے برطرفی جنوری 1929ء.وفات 1960ء.5
122 دسویں فصل بین الا قوامی سوشلسٹ پارٹیوں سے استمداد اب غدر پارٹی اور ہندو کا نگرس کو یہ منصوبہ بنانا پڑا کہ نہ صرف مسلمان حکومتوں بلکہ بین الا قوامی سوشلسٹ قوتوں سے براہ راست رابطے کر کے اُن سے ہندوستان کی تحریک آزادی کے لئے (جو مسلم مفاد کے صریح مخالف ہونے کے باعث تحریک بربادی تھی) امداد حاصل کی جائے اور 19 فروری 1915ء کو فیروز پور کی ایک رجمنٹ کے اسلحہ خانہ اور میگزین (Magazine) پر قبضہ کر کے غدر پارٹی کی حکومت کا اعلان کر دیا جائے.اس پر حکومت کا صدر راجہ مہندر پرتاپ کو بنایا گیا اور اس کے سالارِ اعلیٰ دیوبندی مولوی محمود الحسن اور مولوی عبید اللہ سندھی مقرر کئے گئے.1 تا مسلم ممالک سے آزادی کے نام پر امد اولی جاسکے.غدر پارٹی نے اس بغاوت کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے مولوی محمود الحسن کو حجاز بھیجا تا تر کی سلطنت سے جس کا مدینہ منورہ پر قبضہ تھا، ہندوستانیوں کے انقلاب آزادی سے متعلق پارٹی کی جدوجہد کا ذکر کریں اور باضابطہ طور پر امداد کے طالب ہوں.ان دونوں انقلابیوں کو غدر پارٹی نے اپنی خفیہ مگر فرضی حکومت کے سالار اعلیٰ کا عہدہ عطا فرما دیا تھا.چنانچہ محمود الحسن نے مدینہ میں حکومت ترکیہ کے وزیر جنگ انور پاشا اور سویز سینا اور حجاز کے محاذ پر متعین ڈویژن کے کمانڈر جمال پاشا سے ملاقات کی.انہوں نے یقین دلایا کہ ہم اہل ہند کی آزادی کے لئے پوری جد وجہد عمل میں لائیں گے اور ہندوستانیوں کی ہر ممکن امداد واعانت کریں گے.دو تین دن کے بعد ان ترکی لیڈروں کی دستخطی تحریرات بھی پہنچ گئیں.جن میں ہندوستانیوں کے مطالبہ آزادی کے استحسان اور ان سے اس مطالبہ میں ہمدردی کو ظاہر کرتے ہوئے ان کی اس بارہ میں ہر ممکن معاونت کا وعدہ تھا.2 لیکن یہ سارا راز فاش ہو گیا اور محمود الحسن صاحب انگریزی مالٹا میں قید کر لئے گئے.رہائی کے بعد بمبئی پہنچے جہاں گاندھی کی تحریک خلافت کے کارکنوں، دیو بند کے علماء اور غدر پارٹی سے ہمدردی رکھنے والے مقامی باشندوں نے اُن کا پر جوش استقبال کیا.بمبئی میں قیام کے دوران مہاتما گاندھی سے بھی مولوی عبد الباری فرنگی محل کے مکان پر خفیہ ملاقات ہوئی جس کے بعد وہ بذریعہ ریل دیو بند کے لئے روانہ ہوئے تو رستہ میں دہلی ، غازی آباد، میرٹھ شہر ، میر ٹھ چھاؤنی، مظفر نگر اور دیو بند کے عوام جن میں (مسلم و غیر مسلم ) عوام نے ان کا پر جوش سواگت کیا.3 غدر پارٹی کی طرف سے محمود الحسن کے علاوہ مولوی عبید اللہ سندھی کو کابل اور ٹرکی بھیجوا دیا؟
123 جو بعد ازاں پارٹی کی ہدایات کے مطابق سالہا سال تک روسی سوشلسٹوں کے مہمان رہے اور مسلمانوں کو سوشلسٹ بنانے کی مذہبی تجاویز پر غور و فکر میں منہمک رہے اور اشتراکیت کے پر جوش مبلغ بن کر وطن لوٹے.جناب سندھی صاحب کی ذاتی ڈائری کے بہت سے خفیہ اوراق مولوی حسین احمد مدنی نے اپنی کتاب نقش حیات “ میں شائع کر دیئے ہیں جن سے غدر پارٹی کی شورش کے اصل حقائق سے پردہ اٹھ جاتا ہے.جناب سندھی صاحب کی ذاتی ڈائری سے قطعی طور پر شہادت ملتی ہے کہ انہیں ابو الکلام آزاد صاحب کے ذریعہ غدر پارٹی کی سیاسیات کے نشیب و فراز کا علم ہوا اور ان کے ذریعہ انہیں اس پارٹی کے اغراض و مقاصد اور طریق کار سے پوری طرح شناسائی حاصل ہوئی (صفحہ 367) ازاں بعد وہ یاغستان کی شورش میں شریک ہو گئے.بعد ازاں پہلے افغانستان گئے اور پھر جرمنی پہنچے جس میں سوشلزم کا چرچا تھا اور جہاں برلن میں ہندوستانیوں نے کانگرس کی ایک شاخ انڈین نیشنل پارٹی کے نام سے قائم کر رکھی تھی جس میں راجہ مہندر پرتاپ، ہر دیال اور مولوی برکت اللہ وغیرہ شامل تھے.(صفحہ 570) سندھی صاحب نے ہند و ممبروں سے خاص طور پر تبادلہ خیالات کیا.اور انہوں نے ہندوستانی مشن کو بتایا کہ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ابوالکلام نے اپنا اختیار مہاتما گاندھی کے سپر د کر رکھا ہے (صفحہ 577 ) سندھی صاحب کا بیان ہے راجہ مہندر پرتاپ اور مولوی برکت اللہ نے مل کر ہندوستان کے لئے ایک عارضی حکومت کی بنیاد ڈالی.ہمارے ساتھ ان نوجوانوں کے ساتھ دوسکھ بھی تھے جو غدر پارٹی کے ممبر تھے.“ (صفحہ 594) سندھی صاحب لکھتے ہیں.”ہم نے کابل کانگرس کمیٹی بنائی جس کا روح رواں ڈاکٹر نور محمد تھا.اس کا الحاق کانگرس میں منظور ہو گیا.ڈاکٹر نور محمد ہماری کانگرس کمیٹی کا افسر تھا.مہاتما گاندھی اور کانگرس کے نوجوان ممبر اسے جانتے تھے....ہماری کانگریس کمیٹی سب سے پہلی وہ کمیٹی ہے جو برٹش امپائر سے باہر قائم ہوئی تھی.“ (صفحہ 595) جناب سندھی صاحب نے اپنی ڈائری کے آخر میں یہ راز سربستہ بھی طشت از بام کر دیا کہ وہ ماسکو میں ہندوستانی اشترا کی پارٹی کے ہاں مہمان ہو گئے.چنانچہ فرماتے ہیں: ” سوویٹ ایشیا سے تعلقات کی ابتداء اعلیٰ حضرت امیر امان اللہ کی اجازت اور مصلحت سے بروئے کار آئی جس میں راجہ مہندر پرتاپ نے کافی حصہ لیا.انہیں کی
124 تجویز پر ہمارے نوجوان آتے جاتے رہے.جب ماسکو میں ہندوستانی اشتراکی حکومت قائم ہوئی اور اس کا مرکز تاشقند قرار دیا گیا تو اس کے لیڈر جو بند رناتھ رائے مقرر ہوئے جو اسے کئی سال تک چلاتے رہے.اس لئے ہمارے دوست بن گئے اب ہم....دریائے جیحوں ترمذ میں سوویٹ کا رندوں کے مہمان ہوئے اور دنیا کی انٹر نیشنل سیاست کا نیا مشاہدہ شروع کر دیا.5 مولوی عبید اللہ سندھی اپنی ذاتی ڈائری میں لکھتے ہیں: ”1923ء میں ترکی جاتا ہو ا سات مہینہ ماسکو میں رہا.سوشلزم کا مطالعہ اپنے نوجوان رفیقوں کی مدد سے کرتا رہا.چونکہ نیشنل کانگریس سے تعلق سرکاری طور پر ثابت ہو چکا تھا.اس لئے سوویٹ روس نے اپنا معزز مہمان بنایا اور مطالعہ کے لئے ہر قسم کی سہولتیں بہم پہنچائیں.یہ غلط ہے کہ میں لینن سے ملا.کامریڈ لین اس وقت ایسا بیمار تھا کہ اپنے قریبی دوستوں کو بھی نہیں پہچان سکتا تھا.6" میرے اس مطالعہ کا نتیجہ ہے کہ میں اپنی تحریک کو جو امام ولی اللہ دہلوی کے فلسفہ کی ایک شاخ ہے، اس زمانے کے لادینی حملے سے محفوظ کرنے کی تدابیر سوچنے میں کامیاب ہوا.میں اس کامیابی پر اول انڈین نیشنل کانگریس، دوم اپنے ہندوستانی نوجوان رفقاء جن میں ہندو بھی شامل ہیں اور مسلمان بھی، سوم سویٹ روس کا ہمیشہ ممنون اور شکر گزار رہوں گا.اگر ان طاقتوں کی مدد مجھے نہ ملتی تو میں اس تخصص اور امتیاز کو کبھی حاصل نہ کر سکتا.“6 یہاں مناسب ہو گا کہ غدر پارٹی کی مجوزہ انڈر گراؤنڈ حکومت کے صدر مہندر پر تاپ کی کہانی برٹش گورنمنٹ کی مستند رواٹ رپورٹ سے معلوم کر لی جائے.رپورٹ میں لکھا ہے: " یہ شخص ایک معزز خاندان کا جو شیلا ہندو ہے.1914ء کے اخیر میں اسے اٹلی، سوئٹزرلینڈ اور فرانس جانے کا پاسپورٹ دیا گیا.یہ سیدھا جنیوا گیا اور وہاں سے بد نام زمانہ ہر دیال سے ملا.ہر دیال نے اسے جرمن قونصل سے ملایا.وہاں سے یہ برلن آیا.بظاہر اس نے وہاں جرمنوں کو اپنی اہمیت کے مبالغہ آمیز تصور سے متاثر کیا اور اسے ایک خاص مشن پر کابل بھیجا گیا.خود مولانا عبید اللہ کو وزیر ہند اور مولانا برکت اللہ کو وزیر اعظم بننا تھا.مولانا برکت اللہ کر شناور ما کا دوست اور امریکن غدر وو
125 پارٹی کا ممبر تھا اور برلن کے راستہ کابل پہنچا تھا.وہ ریاست بھوپال کے ایک ملازم کا لڑکا تھا اور انگلستان، امریکہ اور جاپان کی سیاحت کر چکا تھا.ٹوکیو میں وہ ہندوستانی زبان کا پروفیسر مقرر ہوا تھا.وہاں اس نے برطانیہ کے خلاف سخت لب ولہجہ کا ایک اخبار جا ری کیا جس کا نام اسلامک فرنیٹر نٹی (اسلامی برادری) تھا.حکومت جاپان نے اس اخبار کو بند کر کے اسے پروفیسری سے معزول کیا اور وہ جاپان چھوڑ کر امریکہ میں اپنی غدر برادری سے جا ملا.1916ء کی ابتدامیں مشن کے جرمن ممبر اپنے مقصد میں ناکام ہو کر افغانستان سے چلے گئے.ہندوستانی ممبر وہیں رہے.اور حکومت موقتہ ( پروویژنل گورنمنٹ) نے روسی ترکستان کے گورنر اور زار روس کو خطوط بھیجے جن میں اُن سے بر طانیہ کا ساتھ چھوڑنے اور ہندوستان میں بر طانوی حکومت کا خاتمہ کرنے کے لئے امداد کی دعوت دی گئی تھی.ان خطوط پر راجہ مہندر پرتاپ کے دستخط تھے اور یہ خطوط بعد میں برطانیہ کے ہاتھ میں آگئے.زار کو جو خط لکھا گیا تھا وہ سونے کی سختی پر تھا.7 مولوی عبید اللہ سندھی کے بھجوانے اور قیام کے سبھی انتظامات آل انڈیا نیشنل کانگریس کے رہین منت تھے.سندھی صاحب اپنی مراجعت وطن کی نسبت لکھتے ہیں.وو 1936 ء سے انڈین نیشنل کانگریس نے میری واپسی کے متعلق کوشش شروع کی.مجھے یکم نومبر 1937ء کو اجازت واپسی وطن کی اطلاع ملی.8 جناب سندھی صاحب اپنی زندگی کے آخری ایام میں بھی اس یقین سے لبریز تھے کہ احمدیوں کا مقابلہ مولویوں سے نہیں صرف سوشل ازم کے انقلاب سے ممکن ہے.چنانچہ پر وفیسر محمد سرور سابق استاد جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی مولوی عبید اللہ سندھی کے حوالہ سے لکھتے ہیں: غلطی یہ ہوئی کہ ہمارے علمائے کرام نے احمدیت کو ایک اعتقادی مسئلہ بنا دیا اور اعتقادیات کی جنگ کبھی فیصلہ کن نہیں ہوتی کیونکہ اس میں تاویلوں کی بڑی گنجائش ہوتی ہے اور مرزا صاحب سے لے کر ایک عام مبلغ اور مناظر تک فن تاویل میں احمدیوں کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا....احمدیت ایک سماجی مظہر (Phenomenon) ہے.تحریک ختم نبوت جیسی تحریکیں نہ پہلے اُن کا کچھ بگاڑ سکی ہیں اور نہ آئندہ بگاڑ سکیں گی.بلکہ ان سے الحاد، ربط وصلابت پیدا ہو گی.جیسا کہ اب تک ہوا ہے.
126 احمدیت اور اس قسم کی دوسری علیحدگی پسند اور رجعت پسند اور استعمار دوست مذ ہبی تحریکوں سے ایک ترقی پسند سماج اور سیکولر اور سوشلسٹ سیاسی نظام ہی کامیابی سے عہدہ برآہو سکے گا.اعتقادی ہتھیاروں سے یہ لڑائی نہیں لڑی جاسکتی.“ مسلمانان ہند کی بغاوت سے بیزاری 9% یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ احمدی مسلمانوں کی طرح اکثر دوسرے مسلمانان ہند نے بھی ہندوؤں کی شورشوں کو سخت تنفر سے دیکھا اور وہ بحیثیت قوم ان سے الگ رہے جس کا ثبوت حسب ذیل سپاسنامہ سے ملتا ہے جو پراونشل مسلم لیگ کے اڑتالیس اصحاب کے ایک وفد نے یکم اپریل 1911ء کی شام کو یونیورسٹی ہال لاہور میں ہرا سیکسی لینسی دی رائٹ آنریبل چارلس بیرن ہارڈنگ وائسرائے و گورنر جنرل ہندوستان کی خدمت میں پیش کیا.اس وفد کے علامہ اقبال بھی ممبر تھے.”ہم اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی جرات کرتے ہیں کہ یورایکسی لینسی کو جو ہندوستان میں ہمارے نہایت مہربان فرمانروا کے نائب ہیں، اسلامی جماعت کی تاج برطانیہ کے ساتھ غیر متبدل وفا داری و جان شاری کا یقین دلائیں.ہم در حقیقت ایسی شاندار سلطنت کی شہریت پر منتفخر ہیں....پنجاب کے اہل اسلام نے ہمیشہ اس کو اپنا مقدس فرض سمجھا ہے کہ حکام کو امن و انتظام بر قرار رکھنے میں پوری مدد دیں اور انہوں نے بار بار نہ صرف الفاظ بلکہ افعال و اعمال کے ذریعہ سے برٹش مقصد کے ساتھ اپنی تمام تر دلی عقیدت کا کافی ثبوت دیا ہے.جب گزشتہ چند سال میں ہندوستان کا پولیٹیکل مطلع اس صوبے میں بھی سیڈیشن (Sedition) اور بے چینی کے بادلوں سے مکدر ہو رہا تھا.مسلمانوں نے کبھی ایک لمحے کے لئے بھی اپنی برٹش گورنمنٹ کی مستحکم عقیدت میں پس و پیش نہیں کیا.“ ہم ایک بار پھر اپنی دلی نفرت کا اظہار ان انارکسٹوں کی کارروائیوں پر کرتے ہیں جنہوں نے گزشتہ سالوں میں اہل ہند کی بے عیب نیک نامی پر ایک بد صورت داغ لگا دیا ہے اور بہ نظر انار کسٹانہ جرائم کے پھر پھوٹ پڑنے کے جیسا کہ کلکتہ میں حال کے جرائم سے ظاہر ہوا ہے، ہم قومی فرض سمجھتے ہیں کہ اس شرمناک تحریک پر اپنی زور دار ناراضگی کا اظہار کریں جس کا نتیجہ یہ خوفناک جرائم ہیں.10
حواشی 127 1 منصوبہ کے مطابق مقررہ دن 40 انقلابی اور شورش پسند جن میں گنتی کے چند مسلمان بھی تھے ریل کے ذریعہ فیروز پور پہنچے مگر فوج پہلے ہی الرٹ ہو چکی تھی اس لئے یہ سازش بری طرح ناکام ہو گئی ( نقش حیات جلد دوم صفحہ 662).2 ایضاً صفحہ 641-642.3 ایضاً صفحہ 650 تا 658.4 ايضا جلد دوم صفحہ 563.5 6 نقش حیات جلد دوم صفحه 557 تا580 از حسین احمد مدنی دارالاشاعت کراچی.ذاتی ڈائری صفحہ 22-23.ناشر ادبستان بیرون موچی دروازہ لاہور طبع اول اکتوبر 1946ء.7 بحوالہ " نقش حیات " جلد دوم صفحہ 241-242.تالیف مولوی حسین احمد ناشر محمد السعد این مولوی حسین احمد مطبع الجمعیۃ دہلی اشاعت 1954ء.8 ذاتی دائری صفحہ 27.ناشر ادبستان.بیرون موچی دروازہ لاہور طبع اول اکتوبر 1946ء.9 افادات و ملفوظات حضرت مولوی عبید اللہ سندھی صفحہ 13-414.مرتبہ پروفیسر محمد سرور.ناشر سندھ ساگر اکادمی ریٹی گن روڈ لاہور اکتوبر -1987 10 اقبال صفحہ 58-59( عتیق صدیقی) ناشر مکتبہ جامعہ نئی دہلی اگست 1980ء.
128 گیارھویں فصل لینن اور ہندوستان کے سوشلسٹ اب ہمیں یہ بتانا ہے کہ روس کے سرخ انقلاب کے بعد لینن نے 22 نومبر 1919ء کو دنیا بھر کی سوشلسٹ تنظیموں کی دوسری کل روسی کانگرس کو بتایا: و ہمیں معلوم ہے کہ 1905ء کے بعد ترکی، ایران اور چین میں انقلاب آئے اور ہندوستان میں بھی ایک انقلابی تحریک ابھری.اسی طرح سامراجی جنگ میں بھی انقلابی جدوجہد کے لئے پوری نو آبادیاتی رجمنٹیں بھرتی کرنا پڑیں.سامراجی جنگ نے مشرق کو بھی جھنجھوڑ دیا، چونکا دیا.اور مشرق کی قوموں کو مسلح کیا اور انہیں فوجی تکنیک اور جدید ترین مشینوں سے روشناس کیا.اس علم کو وہ سامراجی نوابوں کے خلاف استعمال کریں گی.اس موجودہ انقلاب کے دوران میں مشرق کی قوموں کی بیداری کا دور ختم ہو کر اب ایک نیا دور شروع ہو رہا ہے.“ ہندوستان میں انقلابی تحریک کے خصوصی تذکرہ کے بعد لینن نے کہا.”عالمی انقلاب کے ارتقا کی تاریخ میں اور انقلاب کے آغاز کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ابھی اور کئی سال چلے گا اور اس کے سلسلے میں بڑی کوشش اور جاں فشانی کی ضرورت ہو گی.انقلابی جد جہد میں اور انقلابی تحریک میں آپ لوگوں کو اہم رول ادا کرنا ہے اور اس انقلابی جدوجہد کا بین الاقوامی سامراج کے خلاف ہماری جد و جہد سے ناطہ جوڑنا ہے.بین الا قوامی انقلاب میں شرکت آپ کے لئے ایک کٹھن اور پیچیدہ فریضہ لائے گی اور اس فریضے کی انجام دہی ہماری مشتر کہ کامیابی کے لئے بنیاد کا کام دے گی کیونکہ اس وقت زیادہ لوگ پہلی دفعہ چونک کر، بیدار ہو کر آزاد عمل اور حرکت کے میدان میں قدم رکھ رہے ہیں.اور وہ بین الا قوامی سامراج کو نیست و نابود کرنے میں ایک سر گرم اور باعمل عنصر ہوں گے.1
129 ماسکو میں کانگرس اور ہندوستان سے روابط میں استحکام 2 تا 6 مارچ 1919ء کو ماسکو میں کمیونسٹ انٹر نیشنل کی پہلی کانگرس نے ساری دنیا کے پرولتاریہ کے لئے مینی فیسٹو منظور کیا جس میں بتایا گیا کہ کمیونسٹ انٹر نیشنل مارکس اور اینجلز کے ان نظریات کی حامل ہے جن کا اظہار اس میں کیا گیا ہے.دستور کی منظوری کے بعد کمیونسٹ انٹر نیشنل نے ممالک عالم خصوصاً ہندوستان کے سوشلسٹوں سے اپنے روابط غیر معمولی طور پر پہلے سے زیادہ مستحکم اور وسیع کرنے شروع کر دیئے.2 ایک ماہ بعد امرتسر کے جلیانوالہ باغ کا خونیں واقعہ پیش کیا.ایک روسی دانشور اس سانحہ کا ذکر درج ذیل الفاظ میں کرتے ہیں.13 اپریل 1919ء کو پنجاب کے ایک اہم صنعتی شہر امرتسر میں بر طانوی فوجیوں نے ہزاروں محنت کشوں کے جلسے پر گولی چلائی جو برطانوی نو آباد کاروں کے جبر و تشدد کے خلاف احتجاج کر رہے تھے.اس میں تقریباً ایک ہزار آدمی مارے گئے اور دوہزار کے قریب زخمی ہوئے.امرتسر کے قتل وغارت کے جواب میں پنجاب میں عوامی بغاوت پھوٹ پڑی اور اس کی لہر ہندوستان کے دوسرے حصوں میں پھیل گئی.برطانوی نو آباد کاروں نے پنجاب کی بغاوت کو بُری طرح کچل دیا.3 صدر روس لینن نے کمیونسٹ انٹر نیشنل کی تیسری کانگرس میں جلیانوالہ کے قتل عام کا اپنی تقریر میں خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے کہا: نو آبادیاتی عوام اور نیم نو آبادیاتی ملکوں کے محنت کش عوام میں جن پر دنیا کی آبادی کی اکثریت مشتمل ہے.سیاسی زندگی کا احساس بیسویں صدی کی ابتدا ہی میں پیدا ہو گیا تھا....برطانوی ہندوستان ان ملکوں میں سر فہرست ہے اور وہاں انقلاب اتنی ہی تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے جتنا کہ ایک طرف صنعت اور ریلوے کے پرولتاریہ میں اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری طرف جتنا اضافہ انگریزوں کی وحشیانہ دہشت انگیزی میں ہو رہا ہے جو اکثر قتل عام (امر تسر ) اور منظر عام پر جسمانی اذیت وغیرہ پہنچانے کے مرتکب ہوتے ہیں.“ نہرو.کانگرس میں سوشلسٹوں کے لیڈر جناب ابو الکلام آزاد نے غدر پارٹی میں شامل ہو کر سوشلسٹ انقلاب بر پا کرنے اور بنگالی سادہ
130 وو مزاج مسلمانوں اور ملک کے دیو بندی علماء کو اپنے گرد جمع کرنے کے جو کار ہائے نمایاں“ دکھلائے، اُن کی بدولت انہوں نے ہند و آل انڈیا نیشنل کانگرس میں ایک ممتاز مقام حاصل کر لیا اور وہ جواہر لال نہرو کی آنکھ کا تار بن گئے جو کانگرس کے سوشلسٹ ممبروں کے لیڈر تھے.ان کی سوشل ازم سے وابستگی جنون کی حد تک پہنچی ہوئی تھی.اور وہ اس کو ہندوستان کی نجات اور اس کی معاشی مسائل کا واحد حل ا سمجھتے تھے.انہوں نے ایک بارالہ آباد میں منعقد ہونے والی انڈین اکنامکس کو خطاب کرتے ہوئے کہا: سوشلزم کے سوا ہماری اقتصادی نجات کا اور کوئی ذریعہ بھی نہیں.سیاسی جمہوریت کا تجربہ بالکل ناکام ہو چکا ہے اور جب تک ہم اس کے ساتھ ساتھ اقتصادی جمہوریت کو قائم نہیں کرتے، یہ تجربہ کا میاب نہیں ہو سکتا.جمہوریت اسی صورت میں کامیاب ہو سکتی ہے کہ اس کی بنیاد سوشلزم پر رکھی جائے.“ انہوں نے سینٹرل جیل نینی تال سے اپنی بیٹی اندرا گاندھی کے تیرھویں جنم دن کے موقع پر ایک خط میں لکھا: جس سال (1917ء) تم پیدا ہوئیں، وہ تاریخ کا ایک یاد گار سال تھا.اسی سال ایک عظیم الشان لیڈر نے جس کا دل غریبوں کی محبت اور مظلوموں کی ہمدردی سے لبریز تھا، اپنے ملک کے لوگوں سے ایسا شان دار کام کرایا جو تاریخ کے اوراق سے کبھی مٹ نہیں سکتا.ٹھیک اسی مہینہ میں جس میں تم پیدا ہوئیں، لینن نے وہ زبر دست انقلاب شروع کیا جس نے روس اور سائبیریا کا نقشہ بدل دیا.5 4" خود پنڈت جی کا بیان ہے کہ :- میں ہندوستان میں اشتراکیت کا ہر اول نہیں تھا بلکہ سچ پوچھئے تو میں اس میدان میں بہت پیچھے تھا اور بڑی مشکل سے آہستہ آہستہ قدم اٹھایا تھا.بہت سے لوگ مجھ سے آگے نکل چکے تھے اور میں اُن کے روش نقش قدم پر چل رہا تھا.مزدوروں کی اشتراکیت کی تحریک اور نوجوانوں کی اکثر انجمنیں اصولاً صریح طور پر اشتراکیت کی حامی تھیں.ہندوستان میں اشتراکیت کی ایک دھندلی سی فضا چھائی ہوئی تھی اور بعض افراد اس سے بھی پہلے اشتراکی خیالات رکھتے تھے.زیادہ تر یہ لوگ خیالی دنیا میں رہتے تھے مگر مارکس کے نظریہ کا اثر روز بروز بڑھتا جاتا تھا اور چند اشخاص اپنے آپ کو مار کس کا
131 پورا پیرو سمجھتے تھے.یورپ اور امریکہ کی طرح ہندوستان میں بھی اس رجحان کو سوویٹ یونین کی نشو و نما خصوصاً اس کے پنچ سالہ منصوبہ سے تقویت پہنچتی تھی.مجھے اشتراکی کارکن کی حیثیت سے جو کچھ اہمیت حاصل تھی ، وہ اس وجہ سے تھی کہ میں ایک کانگریسی تھا اور کانگرس میں ایک بڑا عہدہ رکھتا تھا.بعض اور مشہور کانگرسیوں پر بھی ان خیالات کا اثر ہو چلا تھا.یہ چیز سب سے زیادہ صوبہ متحدہ کی کانگرس کمیٹی میں نمایاں تھی اور ہم نے 1926ء ہی میں اس کمیٹی میں ایک ہلکا سا اشترا کی پروگرام بنانے کی کوشش کی تھی.“6 6" پنڈت نہرو اور ابوالکلام آزاد کے سوشلسٹ افکار سوشلسٹ ہونے کے ناطہ سے اسلام اور غیر کانگرسی مسلمانوں کا مذاق اڑانے میں ابوالکلام آزاد اور پنڈت نہر و دونوں ہم منصب بلکہ ایک جان دو قالب ہو گئے تھے.پنڈت نہرو کی باطنی کیفیت و ذہنیت کا اندازہ کرنے کے لئے اُن کی ایک توہین آمیز تحریر کے چند الفاظ ملاحظہ ہوں : مسلم قومیت کا ذکر کرنے کے معنی یہ ہیں کہ دنیا میں کوئی قوم ہی نہیں، صرف مذہبی اخوت کا رشتہ ایک چیز ہے اور اس لئے کوئی قوم (جدید مفہوم میں ) ترقی نہ کرنے پائے.اس کا مطلب یہ ہے کہ جدید تہذیب و تمدن کو ترک کر کے ہم لوگ عہد وسطی کے طریقوں کو پھر اخیتار کریں یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ مطلق العنان حکومت یہاں رہنی چاہئے یابد یہی حکومت.“ مسلم قوم کا تخیل تو صرف چند لوگوں کی من گھڑت اور محض پرواز خیال ہے.اگر اخبارات اس کی اس قدر اشاعت نہ کرتے تو بہت تھوڑے لوگ اس سے واقف ہوتے اور اگر زیادہ لوگوں کو اس پر اعتقاد بھی ہو تا تو بھی حقیقت سے دو چار ہونے کے 7" بعد اس کا خاتمہ ہو جاتا.“7 یہی سیاسی وعظ و تلقین جناب ابو الکلام آزاد کی عمر بھر کا مقدور حیات رہا.فرماتے ہیں: ”اگر ایسے مسلمان دماغ موجود ہیں جو چاہتے ہیں کہ اپنی گزری ہوئی تہذیب و معاشرت کو پھر تازہ کریں جو وہ ایک ہزار سال پہلے ایران اور وسط ایشیا سے لائے تھے تو میں اُن سے بھی کہوں گا کہ اس خواب سے جس قدر جلد بیدار ہو جائیں بہتر ہے.کیونکہ یہ ایک قدرتی تخیل ہے اور حقیقت کی سرزمین میں ایسے خیالات آگ
132 نہیں سکتے....اب ہم ایک ہندوستانی قوم اور ناقابل تقسیم ہندوستانی قوم بن چکے ہیں.علیحدگی کا کوئی بناوٹی تخیل ہمارے اس ایک ہونے کو دو نہیں بنا سکتا.ہمیں قدرت کے فیصلہ پر رضامند ہونا چاہئے اور اپنی قسمت کی تعمیر میں لگ جانا چاہئے.8% مسلمانان ہند کی تو ہین اور ہندوؤں کی تعریف جناب آزاد نے مسلمانوں کو ایک بد بخت اور زبوں طالع قوم کے ذلت آمیز اور قابل شرم نام سے یاد کیا اور لکھا کہ آئندہ مورخ یہ لکھے گا کہ ہندوؤں نے ملکی ترقی اور ملکی آزادی کے لئے جہاد کیا.وہ اٹھے اور انہوں نے اپنی تمام قوموں کو ملکی جہاد کے لئے صرف کر دیا.“ دنیا یا د رکھے گی کہ جو کچھ ہوا، اس قوم کی سر فروشی سے ہوا جو مسلم نہ تھی.پر جو مسلم “ تھے انہوں نے ہمیشہ آزادی کی جگہ غلامی کی اور سر بلندی کی جگہ سجدہ مذکت کی کوشش کی....ملک کو حکومت کی خود اختیاری ملی تو صرف ہندوؤں.قابل عزت ہندوؤں، مسلمانوں کے لئے تازیانہ عبرت، ہندوؤں کی وجہ کیونکہ انہوں نے پالیٹکس (Politics) شروع کی اور پھر پالیٹکس کو سمجھا.مگر مسلمانوں نے اس کو معصیت سمجھ کر کنارہ کشی کی اور جب شروع بھی کیا تو شیطان نے سمجھایا کہ گورنمنٹ کے آگے سجدہ کریں یا اس کے آگے بھیک مانگنے کے لئے روئیں.پھر مانگیں بھی تو اشرفی نہیں، چاندی سونا نہیں ، لعل و جواہر نہیں بلکہ تانبے کا ایک زنگ آلود ٹکڑایا سوکھی روٹی کے چند ریزے.“و یہی آزاد انباء الالیم" کے زیر عنوان گاندھی کی شرمناک ثناء خوانی کرتے ہوئے انہیں مجاہد فی سبیل اللہ کے لقب سے نوازتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: 9" ”مسٹر گاندھی نے اس راہ میں اپنی جان اور مال دونوں لٹا دیا پس فی الحقیقت وہ مجاہد فی سبیل اللہ ہیں اور بانفسهم وباموالھم کے ہر دومر احل جہادِ مقدس سے گزر چکے ہیں.“ پھر مسلمانان ہند کی صریح تو ہین کا ارتکاب کرتے ہوئے انہیں بدبخت مسلمان کے نام سے یاد کیا اور لکھا: افسوس کہ یہ سب کچھ ہو رہا ہے مگر مسلمان غافل ہیں اور جس صف میں انہیں سب سے آگے ان کے خدا نے رکھا تھا اپنی بد بختی سے اُس میں سب سے پیچھے بھی ہیں."
133 نیز لکھا: آج تک انہوں نے ملک کی تمام خد متیں صرف ہندوؤں ہی کے لئے چھوڑ دی تھیں اور خود اپنے لئے ہندوؤں کو باغی کہنے کا شریفانہ مشغلہ منتخب کر لیا تھا.ملک کی بہتری و فلاح کی فکر ہو تو صرف ہندوؤں کو ، جابرانہ قوانین کے خلاف احتجاج کریں تو صرف ہندو، جنوبی افریقہ کے ہندوستانیوں کے لئے روئیں تو صرف ہندو.اگر ایسا ہی ہے تو خدارا اپنے دلوں میں سوچو کہ بد بخت مسلمان آخر کس مرض کی دوا ہیں ؟ 10 تحریک پاکستان اور آزاد احراری ”امام الہند “ عمر بھر ہندو کانگرس کے مخالف مسلمانوں کی تحریک آزادی (تحریک پاکستان) کی مخالفت میں گاندھی اور نہرو سے بھی ایک قدم آگے رہے.حتی کہ انہوں نے اپنی آخری تصنیف "India Wins Freedom“ کے صفحہ 142-143 میں یہاں تک لکھا."I must confess that the very term Pakistan goes against my grain.It suggests that some portions of the world are pure while others are impure.Such a division of territories into pure and impure is un-Islamic and a repudiation of the very spirit of Islam.Islam recognises no such division and the Prophet say, God has made the whole world a mosque for me.Further, it seems that the scheme of Pakistan is a symbol of defeatism and has been built up on the analogy of the Jewish demand for a national home.It is a confession that Indian Muslim cannot hold their own in India as a whole and would be content to withdraw to a corner specially reserved for them.One can sympathise with the aspiration of the Jews for such a national home, can they are scattered all over the world and cannot in any region have any effective voice in the administration.The condition of Indian Muslim is quite
134 otherwise.Over 90 millions in number they are in quantity and quality a sufficiently important element in Indian life to influence decisively all questions of administration and policy.Nature has further helped them by concentrating them in certain areas."11 یعنی میں اس کا اعتراف کرتا ہوں کہ پاکستان کا لفظ ہی میری طبعیت قبول نہیں کرتی.اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کا ایک حصہ تو پاک ہے اور باقی نا پاک.پاک اور ناپاک کی بنیاد پر کسی قطعہ ارض کی تقسیم قطعا غیر اسلامی اور روح اسلام کے بالکل منافی ہے.اسلام اس طرح کی کوئی تقسیم قبول نہیں کرتا.آنحضرت کا قول ہے کہ خدا نے ساری دنیا کو میرے لئے مسجد بنایا ہے.علاوہ ازیں میں تو محسوس کرتا ہوں کہ پاکستان کی اسکیم شکست خوردگی کی ایک واضح علامت ہے.اس کی تعمیر جس بنیاد پر رکھی گئی ہے وہ ہے یہودیوں کے قومی وطن کی مثال.یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ ہندوستانی مسلمان ہندوستان کو بحیثیت مجموعی اپنا وطن نہیں بنا سکتے.وہ صرف اس ٹکڑے پر قناعت کریں گے جو ان کے لئے مخصوص کر دیا گیا.جہاں تک یہودیوں کے قومی وطن کا مطالبہ ہے اس سے ہمدردی کی جاسکتی ہے.کیونکہ وہ ساری دنیا میں بکھرے ہوئے ہوئے ہیں اور کسی علاقہ میں بھی نظم وانصرام پر کوئی اثر نہیں رکھتے لیکن ہندوستانی مسلمانوں کی حالت اس سے بالکل مختلف ہے.ان کی تعداد نوے ملین سے زیادہ ہے.وہ کمیت اور کیفیت ہر لحاظ سے ہندوستانی زندگی کا ایک اہم عنصر ہیں.وہ انتظام اور پالیسی کے ہر مسئلہ پر فیصلہ کن طور پر اثر انداز ہو سکتے ہیں.قدرت نے ان کی مزید مد داس طرح کی ہے کہ بعض رقبوں میں ان کی اکثریت بھی ہے.جہاں کانگرس کے سوشلسٹ بلاک کے لیڈر جواہر لال نہرو تھے وہاں رام راج کا علم قیادت مسٹر گاندھی کے ہاتھ میں تھا.نہر وصاحب فرماتے ہیں: ”گاندھی جی....اس زریں زمانہ کو اکثر رام راج کے نام سے تعبیر کرتے تھے.“12 تحریک عدم موالات کے اثرات تحریک عدم موالات کے اصل قائد گاندھی تھے اور ان کی تحریک رام راج کی راہ ہموار کرنے کی غرض سے تھی.مسلمانوں کے نظریات و افکار کی صف لپیٹ دی اور گاندھی پر ستی کا گہر ارنگ چڑھ
135 گیا.اس حقیقت کا خوفناک نقشہ اس دور کے انقلابی لیڈر “ مولوی شبیر احمد عثمانی دیوبندی کی اس تقریر سے بھی ملتا ہے جو انہوں نے اس تحریک کی تائید میں جمعیتہ علماء ہند کے اجلاس میں پڑھی تھی.آپ نے بتایا.” بہت سے خیر خواہ ہند مسلم اتفاق کے عواقب اور عوام الناس اور بعض لیڈروں کی اُن غلط کاریوں پر متنبہ فرمارہے ہیں جو اس اتفاق کے جوش سے پیدا ہوئی ہیں مثلاً قربانی گاؤ میں بعض جگہ تشدد و مزاحمت کیا جانا.یا قربانی کے جانور کو سجا کر رضا کاران خلافت کا گوشالہ میں پہنچانا یا یہ کہنا کہ امام مہدی کی جگہ امام گاندھی تشریف لائے ہیں یا یہ کہ اگر نبوت ختم نہ ہوتی تو مہاتما گاندھی نبی ہوتے یا قرآن وحدیث میں بسر کی ہوئی عمر کو نثار بت پرستی کرنا یا یہ دعا کرنا کہ اگر میں کوئی مذہب تبدیل کروں تو سکھوں کے مذہب میں داخل ہوں وغیرہ وغیرہ.حواشی: بلاشبہ میں بھی جب اپنی قوم کے بڑے سر بر آوردہ کفریات کے مرتکب ہوتے ہیں اور وہ باتیں زبان سے بے دھڑک نکال دیتے ہیں جن کو سن کر ایک سچے مسلمان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں تو میر ادل پاش پاش ہو جاتا ہے.لینن منتخب تصانیف حصہ سوم صفحہ 253-254 دار الاشاعت ترقی ماسکو 1970ء.2 اپنا حصہ دوم صفحہ 304 دار الاشاعت ترقی ماسکو 1969ء.3 اپنا حصہ چہارم صفحہ 340 دار الاشاعت ترقی ماسکو 1971ء.4 الفضل 11 جنوری 1940ء صفحہ 8.13" 5 تاریخ عالم پر ایک نظر (Glimpses of The World History) صفحہ 11 از جواہر لال نہرو ناشر اکرم آرکیڈ ٹمپل روڈلاہو ر سن اشاعت 1992ء.6 میری کہانی حصہ اول صفحہ 307-309.شائع کر دہ مکتبہ جامعہ دہلی اشاعت 1936ء.7 " میری کہانی " حصہ دوم صفحہ 331-332.ناشر مکتبہ جامعہ دہلی.8 خطبات ابو الکلام آزاد صفحہ 317-319 ناشر ایم ثناء اللہ خاں اینڈ سنز 26 ریلوے روڈلاہور.مضامین آزاد صفحه 110- ارسلان بکس علامہ اقبال روڈ میر پور آزاد کشمیر.ارشد یک سیلرز چوک شہیداں میر پور آزاد کشمیر.10" مضامین ابو الکلام آزاد " صفحہ 155تا158.ناشر دارالاشاعت مقابل مولوی مسافر خانہ بند ر روڈ کر اچی اشاعت دوم جولائی 1962ء.11 ناشر اور سینٹ لانک مینز بمبئی.کلکتہ.مدراس.نئی دہلی.طبع اول 1959ء.12 میری کہانی حصہ اول صفحہ 129 طبع اول ناشر مکتبہ جامعہ دہلی اشاعت 1936ء.13 "ترک موالات پر زبر دست تقریر "صفحہ 22 ناشر ناظم جمعیہ علمائے ہند.حمید یہ پر لیس دہلی.
136 بارھویں فصل مولوی اشرف علی صاحب تھانوی کا احتجاج جناب ابوالکلام آزاد کے ہمعصر دیوبندی عالم مولوی اشرف علی صاحب تھانوی چونکہ سیاسیات ہند کے عینی شاہد اور ابوالکلام آزاد اور ان کے دیوبندی رفقاء کے تمام مخفی حالات اور سرگرمیوں سے پوری طرح واقف تھے.اس لئے وہ عمر بھر کانگرس کے زر خرید غلاموں اور ان کی ملی غداریوں پر سر تا پا احتجاج بنے رہے.چنانچہ انہوں نے اس کو بالشویکی روس اور ہندوؤں کا ایجنٹ ثابت کرتے ہوئے واضح لفظوں میں بتا دیا.دو کاموں کے خوب ہیں.ایک تو جو بات گاندھی کے منہ سے نکل جائے، اس کو قرآن اور حدیث میں ٹھونسنا اور اُس پر منطبق کرنا.دوسرا یہ کہ کوئی بات ہوئی لاؤ چندہ.ان دونوں چیزوں میں کمال حاصل کر لیا ہے.دیکھ لیجیے اتنا زمانہ گزر گیا، گاندھی نے کسی نئی بات کا اعلان نہیں کیا.سب خاموش ہیں.اب وہ کسی نئی اسکیم کی فکر میں ہو گا.جستجو کر رہا ہو گا جہاں اُس نے کسی چیز کا اعلان کیا، پھر دیکھنا قرآن وحدیث میں بھی وہ چیز نظر آنے لگے گی اور کوئی چیز بھی تو اس تمام تحریک کی ایسی نہیں جو کسی سلمان لیڈر یا علماء کی تجویز کردہ ہو.دیکھ لیجئے.اوّل ہوم رول(Home Rule)، گاندھی کی تجویز بائیکاٹ اُس کی تجویز، کھلہ اُسکی تجویز، خلافت کا مسئلہ اُس کی تجویز، ہجرت کا سبق اُسکی تجویز، غرضیکہ جملہ تحریکات میں جس قدر اجزاء ہیں سب اُسکی تجویزات ہیں.اُن کا صرف یہ کام ہے کہ جو اُس نے کہا لبیک کہہ کر ساتھ ہو لئے.کچھ تو غیرت آنا چاہئے.ایسے بد فہموں نے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کیا.سخت صدمہ اور افسوس ہے.پھر غضب یہ ہے کہ اُس کو قرآن وحدیث سے ثابت کرنے کی کوشش کی جائے اور اس کو واجب سے تعبیر کیا جاتا ہے.اس سے علیحدہ رہنے والوں کو گمراہ اور مرتکب کبائر کا سمجھتے ہیں.خدا معلوم لکھ پڑھ کر کہاں ڈبو دیا.گاندھی کے اقوال کا انطباق قرآن و حدیث پر ایسا ہی ہے جیسے ایک گاؤں میں بوجھ بھجکڑ رہتا تھا.اتفاق سے اُس گاؤں کے رہنے والوں میں سے ایک شخص کھجور کے درخت پر چڑھ گیا.چڑھ تو گیا تھا مگر اترا نہ گیا.تمام گاؤں جمع ہو گیا مگر کسی کے کوئی تدبیر ذہین میں نہ
137 آئی کہ اُسکے اتر آنے کی درخت سے تدبیر ہے کیا؟ بالآخر بوجھ بھجکڑ بلائے گئے.آکر درخت کے پاس کھڑے ہوئے.کبھی اوپر کو دیکھتے ہیں اور کبھی نیچے کو.سوچ ساچ کر بولے کہ رشی لاؤ.رستمی لائی گئی.کہا کہ اس میں گرہ لگا کر پھند الگاؤ اور اس کو قوت کے ساتھ اوپر پھینکو اور اس شخص سے کہا کہ اُس کو پکڑ پھندہ کمر میں ڈال لے غرضکہ رتا پھینکا گیا.اس نے پکڑ کر کمر میں ڈال لیا.اب نیچے والوں سے کہا کہ زور سے جھٹکا مارو.انہوں نے زور سے جھٹکالگا یا.وہ پٹ سے نیچے آپڑا.ہڈی پسلی ٹوٹ گئیں.بھیجا نکل کر دور جا پڑا.ختم ہو گیا.لوگوں نے بوجھ بھجکڑ سے دریافت کیا کہ یہ کیسی تدبیر تھی یہ تو مر گیا.بوجھ بھجکڑ جواب میں کہتے ہیں.مر گیا تو میں کیا کروں.اسکی قسمت ! میں نے سینکڑوں آدمی اس ہی صورت سے رسی کے ذریعہ کنوئیں سے نکلوائے ہیں.تو جیسے اس بوجھ بھجکڑ نے قیاس کیا، کنوئیں پر کھجور کے درخت کو.ایسا ہی انطباق اور استدلال آجکل کیا جا رہا ہے.اسی استدلال کی بدولت (مشاہدہ ہے) مو پلوں کی قوم کو تباہ وبرباد کر دیا.ان لیڈروں اور اُنکے ہم خیال مولویوں نے لیکچر دیئے.عربی النسل تھے.جوش پیدا ہو گیا.بھڑک اٹھے پھر جو کچھ اُنکا حشر ہوا، اسکو معلوم ہے.پھر ایک لیڈر بھی وہاں نظر نہ آیا.کسی نے بھی ان کی امداد نہ کی.چاہتے یہ ہیں کہ ہم تو کرسی صدارت پر بیٹھے رہیں اور لوگ جانیں دیتے رہیں.یہ انجام ہوتا ہے بے اصول کاموں کا کہ موپلوں کی قوم برباد ہو گئی.بجائے ترقی کے پستی کی طرف پہنچ گئے.بالکل وہی صورت ہے کہ کھجور کے درخت سے زمین پر لایا گیا.بلندی سے پستی کی طرف آیا.انجام ہلاکت ہوا تو یہ جس قدر من گھڑت تدابیر نصوص کے خلاف ہیں انکا درجہ بھی اس بوجھ بھجکڑ کی تدبیر سے کم نہیں.جو انجام وہاں ہو اوہی یہاں ہو گا کہ بلندی سے پستی کی طرف آؤ گے.آؤ گے کرو کے خلاف مت کرو.حدود شرعیہ کا تحفظ.لگاؤ ایڑی چوٹی تک کا زور.واللہ ثم والله ثم واللہ.ایک انچ بھی تو آگے نہیں چل سکتے.کر کے دیکھ لو اور یہ ہی دیکھ لو کہ کسی نتیجہ پر پہنچتے ہو یا نہیں.مسلمانوں کی فلاح اور اُنکی بہبودی تدابیر منصوبہ ہی میں ہے.یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے بعض لوگ دعا ماثور کو چھوڑ کر اور طریق دعا کا اختیار کرتے ہیں.ظاہر ہے کہ اگر یہ طریق مقبول اور پسندیدہ خدا اور رسول کا ہوتا تو وہ بھی تو تعلیم کر دیا جاتا.جب نہیں کیا گیا اس سے
138 معلوم ہوا کہ یہ طریق مقبول اور پسندیدہ نہیں اور اسی سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ غیر مقبول میں خیر اور برکت کہاں.بے برکتی بھی مشاہد ہے اور بے برکتی کے اسباب میں سے یہ بھی ہے کہ یہ اُس شخص کی تعلیمات اور تجویزات ہیں جو توحید اور رسالت کا منکر ، اسلام اور مسلمانوں کا دشمن، رئیس المشرکین والکافرین.یہ سب اُسکا سبق پڑھایا ہوا ہے.تحریک خلافت کے زمانہ میں ہجرت کا رزلیوشن (Resolution) پاس کرنا، اسی پر مسلمان لبیک کہہ کر کھڑے ہو گئے.ہزاروں مسلمانوں کو بے خانماں کرا دیا.اس کا جو مسلمانوں کی ذات پر اثر ہوا اور ناقابل برداشت نقصان پہنچا وہ سب کو معلوم.پھر ملازمتیں ترک کرنے کی تعلیم دی گئی.جن کی متیں ماری گئیں تھیں وہ چھوڑ بیٹھے.مسلمانوں نے تو چھوڑیں اور ہندوؤں نے ان کی جگہوں کو پُر کیا.بہت سے تو اب تک جو تیاں چٹخاتے پھرتے ہیں.بعض کے خطوط آتے ہیں.لکھتے ہیں کہ اُس وقت یہ حماقت ہو گئی تھی.اب تک بے روزگاری سے سخت پریشانی ہے.یہ سب بے اصول کاموں کے انجام.اگر کوئی اصول ہوتا یا کوئی مرکز ہوتا تو ان لوگوں کو کیوں پریشانی ہوتی اور کیوں بد دل ہوتے.غرضیکہ قدم قدم پر ناکامی اور ذلت گلو گیر ہو رہی ہے مگر پھر بھی آنکھیں نہیں کھلتیں.جو سو جھتی ہے نئی سو جھتی ہے.یہ سب مشرک کی تعلیم پر عمل کرنے کے ثمرات ہیں.اگر مسلمان تنہا اصول کے ماتحت حدود شرعیہ کا تحفظ کرتے ہوئے اور کسی کو اپنا بڑا بنا کر کام کریں، اپنی مالی اور جانی قوت کو ایک مرکز پر جمع کر لیں پھر کسی کو بھی اختلافات نہ ہو گا.مسلمانوں کے جو مقاصد شرعیہ یا اپنی بہبودی دنیا و دین کے لئے مطالبات ہیں، مجھ کو اُن سے اختلاف نہیں اور نہ کوئی مسلمان اختلاف کر سکتا ہے.وہ سب ہی کو مطلوب ہیں.مجھ کو جو اختلاف ہے وہ طریق کار سے ہے.حدود شرعیہ کا قطعا تحفظ نہیں.سردار اور امیر کوئی نہیں.اختلاف اور خلاف کی یہ حالت ہے کہ پارٹی بندیاں ہو رہی ہیں کہ علماء ایک طرف کو چلے جارہے ہیں.لیڈر ایک طرف چلے جارہے ہیں.عوام کی یہ حالت ہے کہ جس نے مرضی کے موافق فتویٰ دیدیا یا کوئی عالم یا لیڈر ان کی ساتھ ہو لیا اس میں سب کمالات ہیں.اُسکو عرش پر پہنچا دیں گے.اگر کسی نے مرضی کے خلاف کوئی
139 بات کی تو تحت الثریٰ میں اُس کو جگہ ملنا مشکل.غرضیکہ ایک گڑ بڑ ہے اور یہ طریقہ کار جو موجود ہے.یہ تو سر اسر اسلام اور شریعت سب کے خلاف ہے.اس کو اسلام اور مسلمانوں سے کیا تعلق؟ مثلا کانگریس کی شرکت جو خاص مذہبی یا سیاسی ہندؤں کی تحریک ہے، جس کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کو تباہ برباد کرنا ہے اور مسلمانوں کو ہندوستان سے نکال دینا اُس کا ایک خاص فرض منصبی ہے.یہ سب بالشویک خیالات کے لوگ ہیں.بالشویک نے جیسا کچھ اسلام اور مسلمانوں کو تباہ برباد کیا، مدارس دینیہ و مساجد کو خراب کیا، وہ ساری دنیا کو معلوم ہے.تو حضرت یہ سوراج سوراج ہانکتے پھرتے ہیں، اگر خدانخواستہ اس میں کامیابی بھی ہو گئی تو ہندوستان ایک خونی مرکز بن جائے گا.“1 گاندھی کی اندھی عقیدت کے نتائج 66 جناب ابو الکلام آزاد کی گاندھی سے اندھی عقیدت انتہا تک پہنچ چکی تھی.یہی وجہ ہے کہ اپنے مدرسہ اسلامیہ جامع مسجد (مسجد ناخدا) کلکتہ کے افتتاح کے لئے مسلم دنیا کی کسی شخصیت کے بجائے اُن کی نظر انتخاب اپنے محبوب آقا اور پیرومر شد گاندھی جی پر پڑی اور انہوں نے اُن کی درخواست پر 13 دسمبر 1920ء کو اس کا اپنے دست مبارک“ سے افتتاح فرمایا.اس مدرسہ کے نگران وہ خود تھے اور انہوں نے عبد الرزاق صاحب ملیح آبادی کو اس کا مہتمم اور مجلس احرار کے ”شیخ الاسلام حسین احمد دیوبندی کو صدر مدرس مقرر کیا.یہ مدرسہ گاندھی کے فدائی اور شیدائی علماء پیدا کرنے کی گویا فیکٹری تھی.چنانچہ انہوں نے 7 مارچ 1921ء سے قبل ملیح آبادی صاحب کو حکم دیا کہ :- ”اگر مولوی منیر الزمان کے یہاں چرنے عمدہ ہیں تو آج ہی پانچ چرنے وہاں سے منگوا لئے جائیں.قیمت ان کو دے دی جائیگی.یا یوں کہے کہ جس قدر اُن کے پاس ہو خلافت کمیٹی خریدے اور کمیٹی سے حسب ضرورت مدرسے کے لئے لے لئے جائیں.فضل دین سے کہہ دیجئے، امتحان کی مدت بڑھائی جاسکتی ہے.مجھے کوئی عذر لکھتے ہیں: نہیں.“ ” مکاتیب آزاد “ کے مرتب جناب ابو سلمان شاہجہانپوری یہ خط درج کرنے سے پہلے یہ نوٹ
140 ترک موالات کے زمانہ میں انگریزی کپڑے اور ہر قسم کے مال کا بائیکاٹ کیا گیا.ہر شخص جس کے اندر ذراسی قومی غیرت و حمیت بھی تھی، اس نے دیسی کھڈی کا کپڑا پہنا شروع کر دیا.گھر گھر چرنے چلائے جاتے تھے اور قومی اسکولوں میں بھی ان کا چلانا سکھایا جاتا.گویا کہ چر خا قومی نشان بن گیا تھا.مدرسہ اسلامیہ کے طلباء نے بھی چرخوں کے لئے اصرار کیا نیز درخواست کی سالانہ امتحان 15 رجب کی بجائے یکم شعبان سے لیا جائے.“2 جناب آزاد نے مدرسہ کے مہتمم عبد الرزاق ملیح آبادی کو اخراجات کے بارے میں یقین دلایا کہ ہر سیاسی اور غیر سیاسی جماعتوں اور انجمنوں میں ایک مخصوص فنڈ ہوتا ہے جس سے جماعت اور اس کے مقاصد کی نشر واشاعت ہوتی ہے.اس کے لئے جماعت ایک شعبہ قائم کرتی ہے.اس کا اسٹاف مقرر کیا جاتا ہے اور اس پر اخراجات ہوتے ہیں....اگر آپ کانگرس کے ان مقاصد سے متفق ہیں تو آپ کو اس کا معاوضہ قبول کرنے میں کوئی تکلیف نہیں ہونا چاہئے.جس پر ملیح آبادی قائل ہو گئے.3 عالمی سوشلسٹوں کے نام لینن کا پیغام 1920ء ہی وہ سال تھا جس میں آزاد صاحب آل انڈیا کانگرس کی ہائی کمان کے مطابق ایجی ٹیشن پھیلانے کے ساتھ ساتھ اپنے مدرسہ اسلامیہ کی تعمیر کر رہے تھے اور اسی سال ستمبر 1920ء میں لینن نے سوویٹ آذربائیجان کے دارالسلطنت باکو میں مشرقی ممالک کے سوشلسٹ نمائندوں کی پہلی کا نفرنس کا انتظام کیا.کا نفرنس میں ترکی، مصر اور ایران کے علاوہ ہندوستان کے مندوب بھی پورے جوش و خروش سے شامل ہوئے....کانفرنس نے ہندوستان اور دوسرے مشرقی ممالک کے سوشلسٹ رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ متحد ہو جائیں اور امپر یلزم اور نو آبادیاتی نظام سے آزادی کی جدوجہد تیز کر دیں.4 جنوبی افریقہ میں انقلابی سوشلزم کے نامور مورخ اور عالمی شہرت کے حامل سوشلسٹ رہنما کامریڈ ٹیٹد گرانٹ نے روس کے انقلاب سے رڈ انقلاب تک کی تاریخ لکھی ہے.جس کا ترجمہ ابوفراز نے کیا ہے.پاکستان کے بلند پایہ دانشور جناب لال خاں صاحب اس کے اردو ایڈ یشن کے دیباچہ میں لکھتے ہیں :- ”دنیا کے 7 دوسرے ممالک کی طرح بر صغیر پاک و ہند پر بھی بالشوک انقلاب نے بڑے گہرے اثرات مرتب کئے.اقبال نے بھی مارکس کو ایک ایسا پیامبر قرار
141 دے دیا جس کے پاس کتاب تو تھی مگر نبوت نہیں تھی.اس نے ”لین خدا کے حضور میں “ جیسی بڑی نظم لکھی.حسرت موہانی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے جنرل سیکر ٹری رہے.سوشلزم کا نظر یہ بڑی تیزی سے برصغیر میں پھیلا اور اس نے یہاں کی ثقافت، شاعری اور سیاست کو بڑا متاثر کیا.برطانوی سامراج کے خلاف قومی آزادی کی تحریک میں اشترا کی نظریئے دیکھتے ہی دیکھتے نمودار ہوئے.روس میں ہونے والی تبدیلیاں کسی معجزے سے کم نہ تھیں.دنیا بھر کے محنت کشوں اور مظلوموں کی طرح بر صغیر کے محنت کشوں کے لئے اکتوبر انقلاب صدیوں کی محکومی اور ذلت سے نجات پانے کے لئے ایک مشعل راہ تھا.برطانوی سامراج کے جبر کے باعث بر صغیر کے بہت سے سیاسی کارکن سوویٹ یونین گئے جہاں انہیں خوش آمدید کہا گیا.یہ ان کے لئے سوشلسٹ تعلیم حاصل کرنے کا اہم موقع تھا.اس سے بر صغیر میں اشتراکی نظریئے کی ترویج کا عمل تیز تر ہو گیا.جب 1919ء میں راولٹ ایکٹ کے خلاف ایک عوامی بغاوت ابھری تو 20 مارچ 1920ء کے ”دی ٹائمز لنڈن“ نے یہ سرخی لگائی ”ہندوستان میں انقلاب لانے کا بالشویک منصوبہ.1920ء کی نارتھ ویسٹ ریلوے کی ہڑتال پر برطانوی پر لیس چلا اٹھا کہ اس ہڑتال کو یقینی طور پر بالشویک کروا ر ہے ہیں.اس رجعتی تاریخ دان ایم.آر.مانی کو اپنی کتاب میں لکھنا پڑا.1920ء کی دہائی کے آغاز میں ہندوستانی دانش اور جذبات کا موسم کمیونزم کے لئے نہایت ہی ساز گار تھا.بر صغیر میں ابھرنے والی تحریک کا جو رشتہ بالشویک انقلاب سے براہ راست بنتا تھا اس کا ذکر لینن نے اپنی کئی تحریروں میں کیا تھا.لینن ایک جگہ لکھتا ہے مشرق کے عوام کی یہ انقلابی تحریک اسی صورت میں فعال ہو سکتی ہے اگر یہ سامراج کے خلاف ہماری بین الا قوامی جد وجہد سے براہ راست منسلک ہو جائے.“ اس سے واضح ہے کہ لینن ہندوستان میں قومی آزادی کی تحریک کو طبقاتی جنگ کا حصہ سمجھتا تھا اور اس کو عالمی سوشلزم کی لہر میں اہم عصر کارتبہ دیتا تھا.کیونکہ قومی آزادی کا حصول سوشلسٹ انقلاب کے بغیر ممکن نہ تھا، ہندوستان کے ابتدائی مار کس رہنما لین کی اس پوزیشن سے اتفاق رکھتے تھے.5 لینن کارل مارکس کا سچا جانشین تھا.اسی لئے بر سر اقتدار آنے سے قبل بھی مار کس نظریہ کے
142 مطابق دوسرے ممالک کی طرح ہندوستان میں سوشلسٹ انقلاب اور انٹر نیشنل سوشلزم کی بقا اور ترقی کو لازم و ملزوم سمجھتا تھا.چنانچہ اس نے اگست.اکتوبر 1916ء کے ایک آرٹیکل میں تحریر کیا.We shall endeavour to render these nations.more backward and oppressed than we are "disinterested cultural assistance", to borrow the happy expression of the Polish Social-Democrats.In other words, we will help them pass to the use of machinery, to the lightening of labour, to democracy, to socialism.6 حواشی: 1 " الافاضات الیومیہ " حصہ اول صفحہ 89 تا 94 ناشر مکتبہ جامعہ اشرفیہ نیلا گنبد لاہور.2 مکاتیب ابو الکلام آزاد مرتب ابو سلمان شاہجہانپوری صفحہ 811 مطبوعہ باب الاسلام پر ملنگ پر لیس کر اچی فروری 1968ء.4 ايضا صفحہ 150- 180.A Short History of The Communist Party of The Soviet Union, p ناشر پراگرس پبلشرز ماسکو1970ء(طبع اول).لینن حصہ دوم صفحہ 304 دارالاشاعت ترقی ماسکو1969ء.5 دیباچہ "روس انقلاب سے رد انقلاب“ صفحہ 18-19 ناشر طبقاتی جدوجہد پبلیکیشنز رائل پارک لکشمی چوک لاہور.اشاعت دسمبر 1999ء.6 بحوالہ 4.Marx Engels Lenin Novosti Press Agency Publishing House Moscow 1976 P.
143 تیرھویں فصل سٹالن دور حکومت اور ہند وراج کے منصوبہ کی نئی لہر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی چشم کشا تحریر لینن کی زندگی کے آخری سال سٹالین (1953ء.1879ء) کمیونسٹ پارٹی کا سیکر ٹری جنرل منتخب ہوا اور لینن کی وفات کے بعد ٹراٹسکی اور زنیو وی اف کی شراکت میں لینن کا جانشین بنا اور اپنے دو بڑے حریفوں ٹراٹسکی اور زنیو وی اف کو پارٹی سے نکال باہر کیا اور خود کمیونسٹ روس کا آمر بن گیا.دسمبر 1925ء میں روس کی آل یونین کمیونسٹ پارٹی آف بالشویکس کی چودھویں کانگرس کا انعقاد ہوا جس میں پارٹی لین کے نظریاتی مقالہ کی بنیاد پر اس نتیجہ پر پہنچی کہ سوویٹ یونین کا محنت کش طبقہ کسانوں کے ساتھ مل کر اور بین الا قوامی پرولتاریہ کی اخلاقی اور سیاسی حمایت ہی سے سوشلزم کی مادی اور تکنیکی بنیاد بن سکتا ہے اور ایک بین الا قوامی سوشلسٹ سماج تعمیر کر سکتا ہے.1 سٹالن کی وفات (1953ء) یعنی احراری مطالبہ اقلیت تک نسنی کمیونسٹ پارٹی جو 1903ء میں ایک چھوٹی سی انڈر گراؤنڈ پارٹی تھی.اس کے ممبروں کی تعد اد لاکھوں تک جا پہنچی.2 سٹالن کے بر سر اقتدار آنے کے قلیل عرصہ بعد ہندوستان میں خوفناک ہندو مسلم فسادات شروع ہو گئے.کیونکہ آل انڈیا نیشنل کانگرس اور انتہا پسند ہندوؤں کی سوچی سمجھی سازش سے تحریک خلافت اور تحریک عدم موالات نے ایک طرف مسلمانوں کو معاشی طور پر بر بادی کے کنارے تک پہنچا دیا اور دوسری طرف ہندوستان میں سوشلسٹ انقلاب کی راہ ہموار ہو گئی.اس لئے ہندو لیڈروں کے مسلمانان ہند کے خلاف ناپاک عزائم کھل کر سامنے آگئے.جن کا ایک جامع خلاصہ اسی زمانہ میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اپنی معرکہ آراء کتاب ”ہندوستان کے موجودہ مسئلہ کا حل“ میں شائع فرمایا تھا.حضور نے یہ شاہکار کتاب پہلی راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے موقع پر رقم فرمائی تھی اور اس کا انگریزی ترجمہ لندن میں عین اس وقت پہنچا دیا گیا جبکہ کانفرنس کی کارروائی شروع ہونے والی تھی.حضور نے تحریر فرمایا.”مسٹر گاندھی نے 1918ء میں ایک تقریر کے دوران میں بیان کیا.یہ خیال نہ کرنا چاہئے کہ یورپین کے لئے گاؤ کشی جاری رہنے کی بابت ہندو کچھ
144 بھی محسوس نہیں کرتے.میں جانتا ہوں کہ ان کا غصہ اس خوف کے نیچے دب رہا ہے جو انگریزی عملداری نے پیدا کر دیا ہے.مگر ایک ہندو بھی ہندوستان کے طول و عرض میں ایسا نہیں ہے جو ایک دن اپنی سر زمین کو گاؤ کشی سے آزاد کرانے کی امید نہ رکھتا ہو.اور ہندو مذہب کو جیسا کہ میں جانتا ہوں، اس کی روح کے سراسر خلاف عیسائی یا مسلمان کو بزور شمشیر بھی گاؤ کشی چھوڑنے پر مجبور کرنے سے اغماض نہ کرے گا.( سٹیٹسمین کلکتہ) مسٹر گاندھی کے اس بیان کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ یہ جذبہ تعصب صرف چند جاہل افراد میں ہے اور اس کی زیادہ پر واہ نہیں کرنی چاہئے.اس امر کے ثابت کرنے کے بعد کہ زندگی کے ہر شعبہ میں مسلمانوں کا بائیکاٹ کیا جارہا ہے اور مسلمانوں کے لئے اکثریت نے عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے.جس کی موجودگی میں صرف ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کو حفاظت کا ذریعہ نہیں سمجھا جا سکتا.اب میں یہ بتا تا ہوں کہ ہندوؤں کے آئندہ ارادے اقلیت کے متعلق کیا ہیں.کیونکہ جب یہ ثابت ہو جائے کہ ایک اکثریت پہلے سے ارادہ کر کے آزادی کے حصول کو اقلیت کی محبوب چیز کے قربان کرنے کا ذریعہ بنانا چاہتی ہے تو یہ امید کی جا سکتی ہے کہ اس کا نقطہ نگاہ کسی قریب کے مستقبل میں بدل جائے گا.ہندوؤں کے مشہور قومی لیکچر ار ریتہ دیو صاحب اپنے ایک لیکچر میں بیان کرتے ہیں: ”میر اخیال ہے کہ مسلمانوں کا مستقبل اگر وہ قوم پرست نہ بنیں، بڑے خطرہ میں رہے گا.ہندوستان کے مسلمان اگر اپنے مذہبی....دیوانہ پن میں ڈوبے رہے (یعنی ہندونہ ہو گئے ) تو ان کا کام صرف بدیشی گورنمنٹ کی مدد کر کے ہندوستان کو غلام رکھنا رہ جائے گا.جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ کسی آزادی کے موقع پر ملک کے سب لوگ ان کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کی ہستی بڑے خطرے میں پڑ جائے گی.مسلمانوں کی نجات کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ قوم پرستی کا ہے.“ اخبار وکیل امر تسر 9دسمبر 1925ء) اس اعلان کے لفظ کسی تشریح کے محتاج نہیں.آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کو صرف اسلام کے مجرم کی ہی سزا نہیں ملے گی بلکہ انگریزی حکومت سے تعاون کی بھی سزا ملے گی اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ لارڈارون (Lord Irwin) اور مسٹر بن (Mr.Ben) نے جو پچھلے دنوں مسلمانوں کی وفاداری
145 کے متواتر اعلان کئے ہیں، اس میں انہوں نے مسلمانوں کی خیر خواہی نہیں کی بلکہ مذکورہ بالا اعلان کی موجودگی میں ان کے موت کے وارنٹ (Death Warrant) پر دستخط کئے ہیں.یہی ملکی خادم ساگر صوبہ سی.پی میں اپنی تقریر میں یہ بھی بیان کرتا ہے.”ہندوؤ! کھٹن کرو اور مضبوط بنو.اس دنیا میں طاقت کی پوجا ہوتی ہے اور جب تم مضبوط بن جاؤ گے تو یہی مسلمان خود بخود تمہارے قدموں پر اپنا سر جھکا دیں گے.جب ہم ہندو ھن کے ذریعہ سے خاطر خواہ طور پر مضبوط ہو جائیں گے.ٹھٹن تو مسلمانوں کے سامنے یہ شرائط پیش کریں گے.(۱) قرآن کو الہامی کتاب نہیں سمجھنا چاہئے....(۲) حضرت محمد کو رسول خدا نہ کہا جائے.(۳) عرب وغیرہ کا خیال دل سے دور کر دینا چاہئے.(۴) سعدی و رومی کی بجائے کبیر و تلسی داس کی تصانیف کا مطالعہ کیا جائے.(۵) اسلامی تہواروں اور تعطیلیوں کی بجائے ہندو تہوار تعطیلات منائی جائیں.(1) مسلمانوں کو رام و کرشن وغیرہ دیوتاؤں کے تہوار منانے چاہئیں.(۷) انہیں اسلامی نام بھی چھوڑ دینے چاہئیں اور ان کی جگہ رام دین، کرشن خاں 66 وغیرہ نام رکھنے چاہئیں.(۸) عربی کی بجائے تمام عبادتیں ہندی میں کی جائیں.اخبار وکیل امر تسر 9دسمبر 1925ء) پھر یہی صاحب فرماتے ہیں: ”بھارت ورش کی قومی زبان ہے.سنسکرت.عربی اور فارسی کومیں بھارت ورش سے باہر کر دینا چاہتا ہوں.“ اس عبارت سے ظاہر ہے کہ ہند و سوراج میں مسلمانوں سے یہ سلوک کرنا چاہتے ہیں کہ ان سے ان کا مذہب، ان کا تمدن اور ان کی زبان اور ان کے نام تک چھڑوانا چاہتے ہیں.شاید کوئی کہے کہ ستیہ دیو گو کتنے ہی بڑے آدمی ہوں لیکن ہندو قوم کے چوٹی کے لیڈر نہیں اس لئے میں چند چوٹی کے لیڈروں کے حوالہ جات نقل کرتا ہوں.ڈاکٹر مونجے جو راؤنڈ ٹیبل کا نفرنس (Round Table Conference) کے نما ئندے مقرر ہوئے ہیں.ہندوؤں کو یوں نصیحت کرتے ہیں.”ہند واگر سنگھٹ ہو جائیں تو انگریزوں اور ان کے مسلمان پٹھوؤں کوکسی دوسرے کی مدد کے بغیر نیچا دکھا کر سوراج حاصل کر سکتے ہیں.مسٹر جناح کی تجاویز
146 فورٹین ڈیمانڈز آف مسلمز (Fourteen Demands Of Muslims) منتقمانہ مقابلہ کی دھمکی دے رہی ہیں جن کی ہندوؤں کو کچھ پرواہ نہیں.ہندوؤں کو یہ پرانا خیال دل سے نکال دینا چاہئے کہ مسلمانوں کی مدد کے بغیر سوراج حاصل ہونا محال ہے.“ ڈاکٹر مونجے صاف لفظوں میں ظاہر کر رہے ہیں کہ ہندو، مسلمانوں کو ان کا حق دینے کو تیار نہیں ہیں.وہ اپنے زور سے انگریزوں اور مسلمانوں کو درست کر کے رکھ دیں گے اور مسلمانوں سے کوئی سمجھوتا کرنے کے لئے تیار نہیں ہونگے.جن لوگوں کا شروع میں یہ حال ہے ، ان کا انجام کیا ہو گا ؟ ایک اور ہند ولیڈر لالہ ہر دیاں ایم.اے جن سے یورپ وامریکہ کے لوگ خوب واقف ہیں، لکھتے ہیں :.” جب انگلستان کچھ عرصہ بعد ہوم رول (Home Rule) یعنی 75 فیصدی سوراجیہ ہمیں پیش کرے تو وہ ہند و قومی دل کے ساتھ عہد و پیمان کرے.“ پھر یہی صاحب لکھتے ہیں: ”ہندو سکھٹن کا آدرش یہ ہے کہ ہندو قومی سنتھاؤں انسٹی چیوشنز (Institutions) کی بنیادوں پر ہند و قومی ریاست قائم کی جائے.ہند و قومی سنتھا ئیں یہ ہیں.مثلاً سنکرت بھاشا، ہندی بھاشا، ہندو قوم کا انتہاس ، ہندو تہوار ، ہندومہاپرشوں کا سمرن، ہندوؤں کے دیش بھارت یا ہندوؤں کے ستھان کا پریم، ہندو قوم کے ساہتیہ کا پریم وغیرہ وغیرہ.پھر جو لوگ آج کل کے نیم عربی.نیم ایرانی مسلمانوں کو قومی تحریک میں خواہ مخواہ شامل کرنا چاہتے ہیں، وہ اس صداقت کو نہیں سمجھتے کہ ہر ایک قومی ریاست پرانی قومی سنتھاؤں پر قائم کی جاتی ہے جس سے لوگوں میں ریگا نگت کا بھاؤ پید اہوتا ہے.“ پھر یہی صاحب لکھتے ہیں : ”جب ہندو سنگھٹن کی طاقت سے سوراجیہ لینے کا وقت قریب آئے گا.تو ہماری جو ، نیتی (پالیسی) عیسائیوں اور مسلمانوں کی طرف ہو گی اس کا اعلان کر دیا جائے گا.اس وقت باہمی سمجھو تا وغیرہ کی ضرورت نہیں ہو گی بلکہ ہندومہاسبھا صرف اپنے فیصلہ کا اعلان کرے گی کہ نئی ہندوریاست میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے کیا فرائض اور حقوق ہونگے اور ان کی شدھی کی کیا شرائط ہو نگی.“ (ملاپ لاہور 25 مئی 1925ء)
147 اسی طرح یہ صاحب فرماتے ہیں: سوراج پارٹی کا اصول ہونا چاہئے کہ ہر ہندوستانی بچہ کو قومی رتن دیئے جائیں خواہ وہ مسلمان ہو یا عیسائی.اگر کوئی فرقہ ان کے لینے سے انکار کرے اور ملک میں دور نگی پھیلائے تو اس کی قانونی طور پر ممانعت کر دی جائے.یا اس کو عرب کے ریگستان میں کھجوریں کھانے کے لئے بھیج دیا جائے.ہمارے ہندوستان کے آم، کیلے اور نار نگیاں کھانے کا انہیں کوئی حق نہیں.ملاپ " 23 جون 1928ء) یہی لالہ ہر دیال صاحب ایک اور موقع پر فرماتے ہیں: ” میں کہتا ہوں کہ ہندو اور ہندوستان اور پنجاب کا مستقبل ان چار آدرشوں (نصب العین) پر منحصر ہے.یعنی (۱) ہندو سکھٹن (۲) ہندوراج (۳) اسلام اور عیسائیت کی شدھی (۴) افغانستان اور سرحد کی فتح اور شُدھی.“ اگر ہندوؤں کو اپنی رکھشا کرنی منظور ہے تو خود ہاتھ پاؤں ہلانے پڑیں گے اور مہاراجہ رنجیت اور سردار ہری نلوہ کی یادگار میں افغانستان اور سرحد کو فتح کر کے تمام پہاڑی قبیلوں کی شدھی کرنی ہو گی.اگر ہندواس فرض سے غافل رہیں گے تو پھر اسلامی حکومت ہندوستان میں قائم ہو جائے گی.“ پھر یہی صاحب فرماتے ہیں: ” جب تک پنجاب اور ہندوستان بدیشی مذہبوں (یعنی عیسائیت اور اسلام) سے پاک نہ ہو گا تب تک ہمیں چین سے سونا نہیں ملے گا.جو ہند واس آدرش ( مقصد ) کو نہیں مانتا وہ کپوت ہے، بے جان ہے ، مردہ دل ہے ، بے سمجھ ہے ، پر سچے ہندو کی یہ خواہش ہونی چاہیئے کہ اپنے دیش کو اسلام اور عیسائیت سے پاک کر دے.“ (اخبار تیج دہلی) مہاشہ کرشن در نیکر پریس (Vernacular Press) کے سب سے بڑے مالکوں میں سے ہیں.اور آریہ پرتی مذہبی سبھا کے اہم ترین ممبروں میں سے ہیں.وہ لکھتے ہیں: اب وقت دور نہیں سمجھنا چاہئے جبکہ اسلام ہمیشہ کے لئے سر زمین ہند سے غائب ہو جائے گا اور جو شخص خواہ وہ مہاتما گاندھی بھی کیوں نہ ہو.ایسے اسلام کی اشاعت یا ڈیفنس (Defence) میں بالواسطہ یا غیر واسطہ مدد دے گا وہ ملک اور
148 سوراجیہ کا دشمن سمجھا جائے گا اور کوئی سچا ہند وایسے اشخاص کے ساتھ اپنا کسی قسم کا تعلق نہیں رکھے گا.“ ” سب سے پہلے آپ کا یہ فرض ہو گا کہ ایسے اسلام کو ہمیشہ کے لئے گنگاجی کے سپر د کر دو....جب تک مسلمان تبلیغ کو ہندوستان کے اندر سے بند نہیں کریں گے، دونوں قوموں میں اتحاد نہیں ہو گا اور جو لوگ وید بھگوان اور شام کرشن کا نام مٹا کر عرب کے ریگستان کی تہذیب اور حضرت محمد کا نام سر زمین ورت میں پھیلانا چاہتے ہیں ان کے ساتھ ہندوؤں کا اتحاد کبھی نہیں ہو سکتا.“ (آریہ دیر) پروفیسر رام دیو جو آریہ سماج کے بڑے لیڈر اور ان کے مرکزی کالج کے پرنسپل رہے ہیں اور بعد میں سیاسی کاموں میں پڑ گئے ، لکھتے ہیں: ”ہندوستان کی ہر ایک مسجد پر ویدک دھرم یا آریہ سماج کا جھنڈا بلند کیا جائے گورو گھنٹال اشاعت 10 جنوری 1927ء) پنجاب گا.“ یہی صاحب آریہ سماج کے سالانہ جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے فرما چکے ہیں: اسی طرح اب ایک زمانہ آنے والا ہے کہ تمام مسجد میں آریہ مندر بنائے جائیں گے اور ان میں ہون ہوا کریں گے.میں سوچا کرتا ہوں کہ جب دہلی کی جامع مسجد آجائے گی.ہم کیا کریں گے.ہم تمام ہندوستان کے آریہ نہیں بلکہ تمام دنیا کے آریہ جمع ہو کر ایک کا نفرنس کیا کریں گے.“ ڈاکٹر گوگل چند نارنگ ایم.ایل.سی لاہور ہائی کورٹ کی بار کے پریزیڈنٹ جو سائمن کمیشن کی کمیٹی کے ممبر بھی تھے ، فرماتے ہیں: ”مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی شرم نہیں آتی کہ اگر آپ کے ایک ہندو بھائی کو مسلمان بنانے میں آپ کسی کو روکتے نہیں اور وہ باز نہیں آتا تو بہتر ہے کہ آپ وہاں (پرتاپ) کٹ کر مر جائیں.“ یہ تو انگریزی علاقہ کے لوگوں کا حال ہے.اب ریاستوں کا حال دیکھیں.سر والٹر لارنس Sir) (Walter Lawrence اپنی کتاب (India Which We Served) انڈیا جس کی ہم نے خدمت کی ) میں لکھتے ہیں کہ
149 لارڈ کرزن (Lord Curzon) نے میری دعوت کا انتظام کیا تھا.جنرل سر پرتاب سنگھ بہادر برادر مہاراجہ صاحب جودھ پور میرے بڑے دوست تھے.دیر تک مجھ سے باتیں کرتے رہے.دوران گفتگو میں کہنے لگے کہ ”میر امقصد یہ ہے کہ میں مسلمانوں کو ہندوستان میں فنا کر دوں.“ میں نے ان کے تعصب کی مذمت کی اور ان کے اور اپنے مسلمان دوستوں کا ذکر کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ”ہاں میں بھی انہیں پسند کرتا ہوں لیکن مجھے زیادہ اچھا یہ معلوم ہو تا کہ وہ مر جائیں.“ ان حوالہ جات سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر حصہ ہندو لیڈروں کا خواہ انگریزی علاقہ کے ہوں یا ریاستوں کے (۱) مسلمانوں سے شدید تعصب رکھتے ہیں.(۲) وہ علی الاعلان یہ ارادہ ظاہر کر چکے ہیں کہ اگر ان کو طاقت حاصل ہوئی تو وہ مسلمانوں کو ہلاک کر دیں گے.(۳) وہ ہندوستان میں صرف ہندوراج قائم کریں گے.(۴) عیسائیوں اور مسلمانوں سے وہ کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے بلکہ اپنی مرضی کے مطابق ان کو ہندوستان میں رہنے کی اجازت دیں گے.اور اس اجازت کے ساتھ یہ شرط ہو گی کہ وہ اپنے مذہب کو چھوڑ کر ہندو ہو جائیں.(۵) وہ مسلمانوں کی زبان کو مٹادیں گے.(۶) وہ اقلیتوں کے تہواروں کو قانوناً ناجائز کر دیں گے.(۷) ان کی عبادتوں کو بدلائیں گے.(۸) گائے کے ذبیحہ کو بزور شمشیر روک دیں گے.(۹) تبلیغ کو ناجائز کر دیں گے.(۱۰) اگر کوئی ہندو اقلیت کے مذہب کو قبول کرنے لگے گا تو ہندو اس سے روکیں گے لیکن اگر وہ باز نہ آیا تو ہندو کٹ کر مر جائیں گے.(۱۱) افغانستان اور سرحد کو فتح کر کے انہیں شدھ کر لیا جائے گا.(۱۲) مسلمانوں کی مسجدوں کو مندروں میں تبدیل کر دیا جائے گا.(۱۳) مسلمانوں کے اسلامی نام تک بدل دئے جائیں گے.(۱۴) جو لوگ ہند وزبان، ہندو مذہب اور ہندو تہذیب اور ہندو تہوار اختیار کرنے کو تیار نہ ہوں گے انہیں ہندوستان سے نکال دیا جائے گا.(۱۵) اگر کوئی خواہ مہاتما گاندھی ہی کیوں نہ ہوں، اسلام اور مسلمانوں سے نرمی کی تعلیم دے گا تو اس کا بھی ہند و بائیکاٹ کر دیں گے.یہ ارادے ہیں جو سوراج کے قیام پر ہندو مسلمانوں کے متعلق خصوصاً اور دوسری اقلیتوں کے متعلق عمو مار کھتے ہیں.جو ان کا موجودہ سلوک ہے اس کا ذکر پہلے کر آیا ہوں.کیا ان کی موجودگی میں عظمند کہہ سکتا ہے کہ اقلیتوں کو اپنے حقوق کی حفاظت کا مطالبہ نہیں کرنا چاہئے یا یہ کہ ایسا مطالبہ ڈیما کریسی (Democracy) کے حصول کے خلاف ہے.کیا اس قدر سخت سلوک اور اس قدر خطر ناک ارادوں کی موجودگی میں دنیا کی کسی اور اقلیت نے بھی اس قدر نرم مطالبے کیے ہیں جس قدر کوئی
150 کہ مسلمانوں کی طرف سے پیش ہوتے ہیں ؟ میں اس جگہ یہ امر بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میں ہر گز یہ نہیں سمجھتا کہ سب کے سب ہندو مذکورہ بالا خیالات میں مبتلا ہیں.ان میں یقیناً ایسے لوگ بھی ہوں گے جو ان خیالات کو اسی طرح حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہوں گے جس طرح اقلیتوں کے لوگ.چنانچہ بعض ہند و صاحبان نے ان خیالات کے خلاف اظہار نفرت کیا بھی ہے.لیکن افسوس یہ ہے کہ یہ طبقہ بہت تھوڑا اور دوسرے گروہ کے مقابلہ میں کم اثر رکھنے والا ہے.ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ایک دن ایسا آجائے کہ ہندوؤں کے دل سے تعصب اور کینہ نکل جائے اور وہ اپنے اس مرض سے صحت پائیں جس کی وجہ سے اپنی قوم کے سوا ہر قوم انہیں گردن زدنی نظر آتی ہے.لیکن جب تک وہ دن آئے اس وقت تک نہایت ضروری ہے کہ اقلیتوں کی حفاظت کا کوئی سامان ہو.3 حواشی: 3" سویٹ کیمونسٹ پارٹی تاریخ کے آئینہ میں " صفحہ 42-43.مطیع ابن حسن آفسٹ پر لیس کراچی.2 ایضاً صفحه 85-87- 3 ” ہندوستان کے موجودہ مسئلہ کا حل صفحہ 51 تا 57.طبع اول دسمبر 1930ء کا تب قاضی بشیر احمد بھٹی مطبع ہال بازار امر تسر باہتمام شیخ غلام یسین پر نظر وانوار العلوم جلد 11 صفحہ 294-300.ناشر فضل عمر فاؤ نڈیشن ربوہ.
151 چودھویں فصل پنڈت نہرو کاسفر بلجیم و ماسکو اور سٹالین سے ملاقات بلجیم کے شہر برسلز (Brussels) کو سوشلسٹ تاریخ میں ایک مرکزی عظمت حاصل ہے اور وہ یہ کہ مارکس پیرس سے جلاوطن ہونے کے بعد یہیں پناہ گزیں ہوا.یہیں اُس نے اپنے ساتھی وولف کو 1847ء میں لندن کی کمیونسٹ لیگ کی پہلی کانگرس کے لئے برسلز شاخ کی طرف سے نمائندہ کے طور پر بھیجا.پھر برسلز میں اس کا دس روزہ اجلاس دسمبر 1847ء میں ہوا جس میں مارکس نے بھی شرکت کی اور یہیں مارکس اور اینجلز نے کمیونسٹ لیگ کا دستور مرتب کیا.یہی وہ مشہور عالم کمیونسٹ مینی فیسٹو (Manifesto) ہے جس کے بعد اس کے بنیادی خطوط پر دنیا بھر کی سوشلسٹ اور اشتراکی پارٹیوں کے لائحہ عمل تیار کئے گئے.مارکس کے برسلز میں قیام کی وجہ سے کمیونسٹ لیگ کا صدر دفتر لنڈن سے برسلز میں منتقل کر دیا گیا.اسی دوران 1863ء میں سوشلسٹوں نے لنڈن میں انٹر نیشنل تنظیم قائم کی جس کا پہلا اجلاس برسلز ہی میں ہونا قرار پایا تھا لیکن حکومت نے اس پر پابندی لگادی.چنانچہ اجلاس ملتوی کر دیا گیا اور اس کی بجائے لنڈن میں جنرل کونسل کی ایک میٹنگ ہوئی.انٹر نیشنل کا تیسرا اجلاس برسلز میں ستمبر 1868ء کو ہوا.فرانس کے سوشلسٹ مزدوروں نے 18مارچ 1871ء کو پیرس میں کمیون نظام قائم کر دیا.مگر یہ نظام گل دس ہفتہ چل سکا جسے حکومت فرانس نے اس کے چھ ہزار حامیوں کو موت کے گھاٹ اتار کر ختم کر دیا.جس کے بعد ستمبر 1872ء میں مار کس کی تجویز پر انٹر نیشنل کا جنرل کونسل کامرکزی مقام لنڈن سے نیو یارک منتقل کر دیا گیا.1 المختصر یہ کہ ہندو کانگرس کے سوشلسٹ لیڈر جواہر لال نہرو اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ مارچ 1926ء میں یورپ کے لئے روانہ ہوئے.جہاں انہیں پتہ چلا کہ فروری 1927ء میں سوشلسٹوں کی عالمی کا نفرنس برسلز میں منعقد ہو رہی ہے.انہوں نے کانگرس کو توجہ دلائی کہ یہ ایک زریں موقع ہے جس سے فائدہ اٹھانے کے لئے اسے باضابطہ طور پر شرکت کرنا چاہیے.وہ تحریر کرتے ہیں: ”میری تجویز پسند کی گئی اور میں اس کام کے لئے انڈین نیشنل کانگرس کا نمائندہ مقرر کر دیا گیا.2 جناب سروی پلی گوپال (Sarvepalli Gopal) اپنی کتاب ”جواہر لعل نہرو“
152 (Jawahar Lal Nehru) کی پہلی جلد میں سفر یورپ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں."The turning-point in Jawaharlal's mental development was the invitation to help in organizing and to participate as the representative of the Indian National Congress in the International Congress against Colonial Oppression and Imperialism to be held at Brussels in February 1927.The chief organizer of the conference was Willi Muenzenberg, who really invented the fellow-traveller.The Soviet Union kept severely aloof and no one from that country attended the conference.Though as Jawaharlal realized even at the time, the objectives of the conference were wholly in accordance with Soviet foreign policy and were intended to bring together the forces of anticolonialism and organized labour as against imperialism, especially British imperialism.This did not frighten Jawaharlal and he suggested that a large delegation, including an economist and an expert on military matters, be sent from India by the Congress, but in fact he was the only delegate.Clearly, at such a conference where the prime target was British imperialism's the official representative of the Indian Congress would be an important figure; and Jawaharlal was appointed one of the members of the Presidium.He arrived at Brussels on 6 February, took part in all the informal meetings.Presided over one of the formal sessions and played a leading role in the drafting of many of the resolutions.'I am dead tired' he wrote from Brussels on the 16th, "after 8 or 9 days of the Congress here, I have not had a good night's sleep and hardly a decent meal since I
- 153 came here.' It was a strange medley of delegates - European Communists, trade unionists and pacifists, nationalists from Asia, Africa and Latin America, and secret service agents- with many delegates doubling the roles.However, Jawaharlal could not be influenced by some of the men and women he met here Henri Barbusse, George Lansbury, Ellen Wilkinson, Fenner Brockway, Harry Pollitt, Reginald Bridgman, Edo Fimmen, Willi Muenzenburg, Ernst Toller, Mohammed Hatta and Roger Baldwin, apart from a large number of delegates from China, Africa, Mexico and Latin America and his fallow mind was receptive to Marxist and radical ideas.- In his first statement to the press, Jawaharlal merely emphasized the common element in the struggles against imperialism in various parts of the world; the fabric of imperialism looked imposing and appeared to hold together, but any rent in it would automatically lead to its total destruction.Indian nationalism was based on the most intense internationalism, just as the problem of Indian freedom was a world problem; as in the past, so in the future, other countries and peoples would be vitally affected by the conditions of India.But his speech at the inaugural session of the conference was at a deeper level.Jawaharlal pointed out that India was the prime example of imperialism.She had been continuously exploited and terrorized by the British, and her workers and peasants had been systematically crushed.'It does not require statistics, facts or figures to convince you that India in the course of the last
154 few generations had terribly deteriorated, and is in such a bad way that if something drastic is not done to stop this process, India may even cease to exist as a nation.'It was the policy of the British to create differences among Indians or 'where they already existed' to increase them, to maintain the feudal princes in power, to support the rich landowners and to promote an unholy alliance of British and Indian capitalist.'Naturally, therefore concluded, Jawaharlal, introducing into his articulated thought a consciousness of the interlinking economics and politics, from their capitalist and imperialist point of view they wanted to do everything in their power to hold on to India'.For the first time, instead of merely condemning British imperialism, Jawaharlal had tried to understand the motives, manner and methods of its functioning.His mind had taken a big step forward.The resolution on India, drafted by Jawaharlal, accorded the warm support of the conference to the liberation of India from foreign domination and all kinds of exploitation as an essential step in the full emancipation of the peoples of the world.The peoples and workers of other countries should fully cooperate in this task and in particular take effective steps to prevent the dispatch of foreign troops to India and the retention of an army of occupation in India.This was really meant by Jawaharlal for his audience in India, to weaken 'the extraordinary mentality which clings on to the British connection in spite of everything' and took the presence of British troops for granted.Similarly' to goad the Indian National Congress into looking beyond political
155 on freedom, Jawaharlal, in the last paragraph of the resolution, expressed the hope of the conference that the Indian national the full movement would base its programme emancipation of the peasants and workers of India, without which there can be no real freedom, and would cooperate with the movement for emancipation in other parts of the world."3 خلاصہ اس تحریر کا یہ ہے کہ.اس کا نفرنس کے تعلق سے سوویت یونین کارو یہ بالکل بے تعلقانہ رہا اور وہاں سے کسی فرد نے اس میں شرکت نہیں کی.اگر چہ، جیسا کہ جواہر لعل کو اس وقت بھی یہ خیال تھا کہ کا نفرنس کے مقاصد کسی صورت سوویت یونین کی خارجہ پالیسی کے مغائر نہیں تھے.اس کا بنیادی مقصد سامراجیت بالخصوص برطانوی سامراجیت کے خلاف تمام مخالف نو آبادیاتی طاقتوں اور مز دور تنظیموں کو ایک محاذ پر لانا تھا.جواہر لعل جانتے تھے اور انہوں نے صلاح بھی دی تھی کہ ہندوستان سے کانگریس کا ایک بڑا ڈیلی گیشن معاشیات اور فوجی معاملات کے ماہرین کی سرکردگی میں اس کا نفرنس میں شرکت کے لیے بھیجا جائے.یہ ممکن نہ ہو سکا اور ہندوستان کے واحد نمائندے جواہر لعل ہی رہے.لازماً ایک ایسی کا نفرنس میں جس کا اصل نشانہ برطانوی سامراجیت تھی، ہندوستانی کانگریس کے سرکاری نمائندے کی بہت اہمیت تھی.جواہر لعل پریسیڈیم کے بھی رکن چنے گئے.وہ فروری کو بر سلز پہنچے.تمام غیر رسمی جلسوں میں شرکت کی.ایک رسمی جلسے کی صدارت کے فرائض بھی انجام دیئے اور کئی قرار دادوں کی تیاری میں حصہ لیا.جواہر لعل اس کا نفرنس میں شریک بہت سے لوگوں سے ملے اور چند شخصیتوں نے (جس میں خواتین بھی تھیں) ان کو بے حد متاثر کیا، نیز مارکسٹ اور ریڈیکل خیالات نے بھی ان کی فکر و نظر کو بطور خاص کشش کیا.پریس کے اپنے پہلے بیان میں جواہر لعل نے سرسری طور پر دنیا کے مختلف حصوں میں مخالف سامراج جہد کے عناصر سے بحث کی تھی اور اس طرف توجہ دلائی تھی کہ جس طرح ہندوستانی قومیت کی بنیاد انتہائی شدید بین الا قوامیت پر تھی اسی طرح ہندوستان کی آزادی کا مسئلہ ایک عالمی مسئلہ تھا.یقین ماضی کی طرح مستقبل میں بھی دنیا کے تمام دوسرے ممالک اور عوام پر ہندوستان کے حالات کا اثر پڑے گا.لیکن کانگریس کے افتتاحی اجلاس میں انہوں نے جو تقریر کی وہ بہت زیادہ پر مغز اور گہری
156 تھی.جواہر لعل نے بتایا کہ ”ہندوستان سامراجی استحصال کی اولین مثال تھا.برطانیہ کی پالیسی یہ تھی کہ ہندوستانیوں کے درمیان اختلافات پیدا کیے جائیں.جہاں پہلے سے یہ اختلافات موجود ہوں، انہیں اور ہوادی جائے.رجواڑوں، نوابوں، جاگیر داروں کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں.دولت مند زمینداروں کی حمایت اور سر پرستی کی جائے.برطانیہ اور ہندوستان کے سرمایہ داروں کے ناپاک گٹھ جوڑ کو ہر طرح تقویت پہنچائی جائے.جواہر لعل نے اقتصادیات اور سیاسیات کی باہم پیوستگی کے نئے شعور کے ساتھ تقریر اس طرح ختم کی تھی کہ ”برطانیہ اپنے سرمایہ دارانہ اور آمرانہ عزائم کی تکمیل کے لیے ہندوستان کو اپنا محکوم اور غلام بنائے رکھنا چاہتا ہے اور اس کے لئے ہر ممکنہ ذرائع اور طاقت کا استعمال کر رہا ہے“.پہلی بار برطانوی شہنشاہیت کی محض مذمت کرنے، اسے بُرا بھلا کہنے کے بجائے جواہر لعل نے اب اس کے طرز عمل اور محرکات کو سمجھنے کی کوشش کی تھی.ان کی یہ فکر انگلی سمت میں ایک بڑی جست تھی.ہندوستان کے تعلق سے قرار داد کا مسودہ جواہر لعل نے تیار کیا تھا جس کی کانفرنس نے پر زور تائید کی.اس قرارداد میں ہندوستان کو بیرونی اقتدار سے آزاد کرانے اور ہر قسم کے جبر واستحصال سے نجات کو پوری دنیا کے عوام کے لیے ضروری اقدام قرار دیا گیا تھا.تمام دوسرے ملکوں کے عوام اور مزدورں سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ اس کام میں بھر پور حصہ لیں اور خاص طور سے ہندوستان میں بیرونی فوجی دستوں کے بھیجے جانے اور ہندوستان میں قابض فوج کی موجودگی کے خلاف پر زور احتجاج کریں.یہ بات جواہر لعل نے بطور خاص اپنے ہندوستانی بھائیوں کے لیے کہی تھی.مصنف گوپال کانگریس کے کوائف پر روشنی ڈالنے کے بعد ر قمطراز ہیں: "However, it was the Soviet Union that now dominated Jawaharlal's mind, just as it had an unseen presence, dominated the Brussels conference.He read all that he could lay hands on, books both by partisans and by critics, about developments and conditions in that country, and found much to admire.He believed that whatever the tradition of hostility between Britain and Russia, to a free India she would be no threat: and even if India were wholly opposed to communism she could have friendly relations with Russia.Jawaharlal 'far-seeing as ever' recognized that
157 as she grew in power Soviet Russia might develop a new type of imperialism; but he thought there was little chance of this for a long time to come, and for the moment, for reasons of self-interest, Russia was befriending all oppressed nationalities.It seemed logical; therefore, that he should visit the Soviet Union before returning to India; and the opportunity came, after Motilal's arrival in Europe in the autumn, when father and son were invited to the decennial celebrations of the 1917 revolution.When they were at Berlin, the Soviet ambassador conveyed the invitation to them, and though this was short notice they decided 'after some hesitation' to accept it.The invitation came in the last phase of the Soviet policy of support for national liberation movements in Asia, regardless of their ideology.This was a heritage from Lenin, who had believed that colonial countries like India should have their bourgeois 'democratic revolution before they could think of proletarian rule' and that therefore it was the duty of Communists to work at this stage in cooperation with the leadership of the bourgeoisie.So to Lenin, Gandhi was a 'revolutionary' and he rejected the argument of M.N.Roy that the Indian bourgeoisie was no different from the traditional feudal classes.The thesis of Lenin became the official policy of the Soviet Union and the Comintern, and although by the end of 1922 there were the beginnings of Communist party organization in India, the general plan was for the Communists to infiltrate the Congress rather than
158 promote a revolutionary mass party of their own.It was true that in May 1925 Stalin had accepted the position of Roy and advocated the formation of a revolutionary bloc in India led by the proletariat in general and the Communists in particular, and including the revolutionary section of the bourgeoisie.But the other line of working with bourgeoisie leadership still held the field till the end of 1927.The Brussels Congress testified to the importance the Soviet Union still attached to bourgeoisie nationalist movements; and the severance of diplomatic relations by Britain in 1927 followed by strong rumours of British preparations for military invasion' with Peshawar as a base' led to a war scare in the Soviet Union.Now more than ever it seemed invaluable to have the sympathy' if not the active support of the Congress Party.A change in Soviet attitude came towards the end of 1927.The setbacks in China and the failure of the efforts to reach a approachment with the Western Powers unnerved the makers of Soviet and Comintern policy; and Stalin, who was now finally emerging as the victor in his rivalry with Trotsky' viewed the colonial question only against the background of European events and had a more limited idea of the Security of the Soviet Union.At the Fifteenth Party Congress, Bukharin made it clear that the bourgeoisie in India could no longer be supported.The Sixth Congress of the Third International formally abandoned in 1928 the policy of a united front against imperialism and directed the Indian Communist Party to act in isolation and work for an
159 armed insurrection for the bourgeoisie nationalist parties had become supporters of imperialism and 'having assumed a reformist and class-collaborationist character' could not be expected to lead the revolution.So November 1927 was the last occasion, for many years at any rate, when the Nehrus could expect an official invitation to Moscow.They were in Russia for only a few day, but the articles Jawaharlal wrote for The Hindu covering this visit and which were later published as a book, show the deep impression made on him by this strange Eurasian country of the hammer and sickle' where workers and peasants sit on the thrones of the mighty and upset the best-laid schemes of mice and men.They were, he wrote to his sister from Moscow, in topsy-turvy land.All one's old values get upset and life wears a strange aspect here'.He knew that they were on a conducted tour, seeing only what they were allowed to see; he knew too that conditions in the sprawling provinces hardly up to what was to be found in Moscow and its environs.Yet he was convinced that the Soviet Union had made rapid progress in agriculture, prison reform, the eradication of illiteracy, the treatment of women, the handling of the problem of minorities and the removal of the sharp contrasts between luxury and poverty and of the hierarchy of class.He was sure too that the Soviet Union had much to teach India, which also was a large agricultural country with a poor and illiterate population.His mood was defined by the lines which he put on the title page of his book:
160 'Bliss was it in that dawn to be alive, But to be young was very heaven'.Starry-eyed Perhaps; but it is well to remember that the Russia which Jawahar Lal visited was still very much the Russia of Lenin, even though Lenin had been dead for over three years.Stalin had not yet become the undisputed dictator, and there was a considerable amount of mass support for the Soviet regime.The New Economic Policy was still in effect.'Get rich', Bukharin had advised the peasants in 1925; and the peasants still dominated the countryside and brought about a strong recovery in food.production.This was to then the 'golden era of Soviet rule'.The number of family holdings rose to 25 millions in 1927, and comprised 98.3 percent of the sown area.Stalin, like Lenin, was still speaking in terms of voluntary collectivization of agriculture.It was only after 1927 that it was felt that 'Bolshevism in alliance with the peasants', apart from being ideologically untenable, was also impracticable.The food shortages in large cities in the summer of 1927, despite good harvest, showed that 'without mass production of consumer goods' the peasants could not be induced to sell their grain.The percentage of the crops being sent to the urban markets was even less than that in the year before the war.On the other hand, industrial production, which till 1927 had shown a rapid rise because of the reactivation of productive capacity of the years before 1917, now began to slacken.If industrialization and specially heavy industrialization, thought to so necessary with the -
161 imminent prospect of war were to be maintained, it was necessary to insist on the peasants disgorging their supplies; and this meant rapid and enforced collectivization.In December 1927, therefore a month after the visits of the Nehru's the Party congress decided on an offensive against the ruler, opening a new chapter in Soviet history.- So Jawaharlal saw the Soviet Union in the last days of its first, falcyon period.If his reaction was idealistic, it was partly because there was still some idealism in the air.The grounding in Marxism, which he had received at the Brussels conference and after, was followed by a near- conversion to communism by practical testimony.Jawaharlal had been particularly impressed by Lenin's leadership, by his realism and resilience, and above all by his insistence on professional, full-time revolutionaries.The need for such workers in India was obviously even greater, and it was as one such that Jawaharlal now doubtless saw himself.He who had sailed from India as a dedicated disciple of Gandhi returned a self-conscious revolutionary radical.Although always to be deeply influenced by Gandhi, he was never again to be wholly a prisoner in the Gandhian mould.But it is significant that the change was wrought not be the revolutionary situation in India but by what he was and heard and read in Europe.Jawaharlal was always a radical in the European tradition, seeking to apply and adapt its doctrine to his own country.This could be both a strength and a weakness."4
162 ترجمہ : بہر حال جواہر لعل کے ذہن پر اب سوویت یونین کا غلبہ تھا.سوویت روس کے حالات اور ترقیوں کے بارے میں حامیوں اور نقادوں کی جو بھی کتابیں انہیں ہاتھ لگیں،سب پڑھ ڈالیں اور وہاں انہیں بہت کچھ قابل تعریف نظر آیا.ان کا یہ ایقان تھا کہ بر طانیہ اور روس کے درمیان دشمنی کی جو بھی روایت رہی ہو، ایک آزاد ہندوستان کو سوویت روس سے کوئی خطرہ نہیں ہو گا اور اگر ہندوستان کمیونزم کا بالکلیہ مخالف ہو، تب بھی وہ روس سے دوستانہ تعلقات رکھ سکتا تھا اور ہمیشہ کی طرح جواہر لعل کی دور بین نظریں یہ دیکھ رہی تھیں کہ جیسے جیسے اس کی طاقت بڑھے گی، سوویت روس میں ایک نئے طرز کی سامراجیت پروان چڑھ سکتی تھی.لیکن ان کا خیال تھا کہ یہ ابھی بہت دور کی بات تھی.مستقبل قریب میں ایسا کوئی امکان نہیں تھا اور فی الحال وہ اپنے مفاد کے پیش نظر تمام مظلوم قومیتوں کی حمایت کر رہا تھا.ہندوستان واپس ہونے سے پہلے جواہر لعل سوویت یونین جانا ضروری سمجھ رہے تھے.موسم گرما میں جب ان کے والد موتی لعل یورپ آئے تو ان کو اسکا موقع مل گیا.باپ بیٹے دونوں کو 1917ء کے بالشویکی انقلاب کے دو سالہ جشن سالگرہ میں شرکت کا دعوت نامہ ملا.روس میں اگر چہ وہ صرف چند دن رہے لیکن جواہر لعل نے اپنے اس سفر کے بارے میں جو مضامین لکھے ہیں، ان سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے ذہن پر اس کے بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے.ان کو معلوم تھا کہ وہ ایک انفرادی سیاحت پر تھے ، انہوں نے صرف انہی چیزوں کو دیکھا جو انھیں دکھائی گئیں.وہ یہ بھی جانتے تھے کہ بے ترتیب وسیع صوبوں میں حالات ویسے نہیں تھے جیسے ماسکو اور اس کے مضافات میں تھے.تاہم انہیں یقین تھا کہ سوویت یونین نے زراعت میں ، ناخواندگی ختم کرنے میں، جیلوں کی اصلاح میں، عورتوں کے ساتھ سلوک میں ، اقلیتوں کے مسائل سے نمٹنے میں، امیری اور غریبی کے فرق کو مٹانے اور طبقاتی کلیسائیت کو ختم کرنے میں بہت تیز رفتا ترقی کی تھی.انہیں یہ بھی یقین تھا کہ سوویت روس سے ہندوستان بہت کچھ سیکھ سکتا تھا کہ وہ بھی ایک زرعی ملک تھا.جس کی کثیر آبادی نادار اور ناخواندہ تھی.جواہر لعل نے کہنا چاہیے، سوویت یونین کو اپنے ایک زمانہ عافیت Falcyon days“ کے آخری دنوں میں دیکھا تھا.اگر ان کا رد عمل عینیت پسند انہ ہو ا تو اس لیے کہ ابھی فضا میں کچھ عینیت باقی تھی.مارکسزم کی بنیادی تعلیم انہوں نے برسلز کا نفرنس میں اور اس کے بعد حاصل کی.عملی شہادتوں نے اسے تقریباً کمیونزم میں بدل دیا تھا.جواہر لعل بطور خاص لینن کی رہ نمائی، ان کی حقیقت پسندی، لچک اور جہند گی سے بے حد متاثر
163 تھے اور سب سے زیادہ اُن کے اس خیال سے کہ پارٹی کا کام پیشہ وارانہ ہمہ وقتی انقلابیوں کے سپر دہونا چاہیے.ایسے کارکنوں کی یقیناً ہندوستان میں اور زیادہ ضرورت تھی اور اب جواہر لعل بجاطور پر خود کو ایسا ہی کار کن سمجھ رہے تھے.وہ جواہر لعل جو ہندوستان سے یورپ جاتے وقت گاندھی جی کے بے چون و چرا مقلد اور پیر و تھے ، اب ایک خودشناس، انتہا پسند انقلابی بن کر ہندوستان لوٹے.گاندھی جی کا اثر یوں تو ان پر زندگی بھر رہا مگر اب وہ پھر بھی کبھی کبھی خود کو ”گاندھین سانچے“ میں محصور نہیں کر سکتے تھے.لیکن معنی خیز امر یہ ہے کہ ان میں یہ تبدیلی ہندوستان کی انقلابی صورت حال نے پیدا نہیں کی بلکہ یورپ میں انہوں نے جو کچھ دیکھا، سنا اور پڑھا، یہ اس کا نتیجہ تھی.یورپین نظریات اور عقائد کو خود اپنے ملک پر لاگو کرنے اور اپنانے کی کوشش میں جواہر لعل ہمیشہ ایک انتہا پسند رہے.یہ ان کی طاقت بھی تھی اور کمزوری بھی.5 مسٹر گوپال نے اپنے بیان میں پنڈت نہرو اور ان کے والد کے ماسکو جانے اور بالشویکی انقلاب کے دس سالہ جشن انقلاب میں شرکت کا ذکر کیا ہے.6 مگر دنیا بھر کے سینکڑوں نمائندوں سمیت سٹالین کے دربار عام میں حاضری کا انقلاب آفریں واقعہ سیاسی مصلحتوں کی نذر کر دیا ہے.حالانکہ دو سال بعد دسمبر 1929ء میں کانگرس کی طرف سے ملکی آزادی کی قراداد براہ راست اس کا رد عمل تھا.جیسا کہ وہ اگلے باب میں ہی اعتراف کرتے ہیں کہ وو جواہر لعل اب ہندوستان لوٹے تو پہلے کی طرح افسانوی رومانیت کے موڈ میں نہیں تھے بلکہ انقلابی تبدیلی کے لئے ایک فکری انہماک اور سپردگی کا جذبہ لے کر لوٹے.وہ عمل کے لئے بے چین تھے اور اب ان کے سامنے جو مقصود تھا، وہ کامل آزادی تھا.جواہر لعل اس بارے میں عرصے سے سوچ رہے تھے اور آخر میں اس نتیجہ پر پہنچے کہ کانگرس کو اپنی تمام تر کوششیں کامل آزادی کے لئے وقف کر دینی چاہیں.وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھے جیسا کہ اکثر اعتدال پسند کا نگریسیوں کا خیال تھا کہ درجہ نو آبادیات اور کامل آزادی میں کوئی خاص فرق نہیں تھا، جواہر لعل کی نظر میں زمین آسمان کا فرق تھا.مطلب یہ تھا کہ موجودہ نظام بدستور باقی رہے.حکومت بظاہر ہندوستانیوں کی ہو لیکن ہر معاملے میں عمل دخل برطانیہ کا ر ہے اور کامل آزادی کے معنی تھے انگریزوں کو ہندوستان سے نکال باہر کیا جائے اور اپنی آزاد حکومت بنائی جائے....اس ایقان کو لے کر جواہر لعل نئے جوش اور جذبے کے ساتھ کسی لگی لپٹی کے بغیر کامل آزادی کی جدوجہد کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے “.7 اب روس کی مستند تاریخ سے پنڈت نہرو اور ان کے والد کے علاوہ دنیا بھر کے سینکڑوں
164 سوشلسٹ نما ئندوں سے سٹالن کے خطاب کا احوال سنئے : نامور روسی مولف جی ایف الیگزنڈروف (G.F.Alexandrov) لکھتا ہے."The U.S.S.R.became a veritable Mecca to which scores and hundreds of workers, delegations flocked from all parts of the world.And it was with keen interest and profound emotion that they saw how the workers, having ousted their exploiters, were building a new Socialist society.They were interested in everything and wanted to know everything.On November 5, 1927, Stalin gave a long interview to workers' delegations from Germany, France, Austria, Czechoslovakia, China, Belgium and other countries."8 ترجمہ: سوویت یونین دنیا بھر سے آنے والے ہزار ہا مز دوروں کے لئے (مکہ کی طرح) ایک غیر متنازعہ مرکزی مقام کی حیثیت اختیار کر گیا.مزدوروں کے وفود جو گروہ در گروہ وہاں پہنچے تھے.انہوں نے نہایت درجہ دلچسپی اور جذباتی وابستگی کے ساتھ محنت کش طبقے کے مقابلہ میں استحصالی طبقے کی پسپائی کو دیکھا اور مزدور طبقے کو ایک نئے سوشلسٹ نظام کی بنیا درکھتے ہوئے ملاحظہ کیا.محنت کش طبقہ پورے انہماک کے ساتھ دلچسپی لیتے ہوئے ہر بات سے باخبر رہنا چاہتا تھا.5 نومبر 1927ء کو سٹالن نے جرمنی، فرانس، آسٹریا، چیکوسلواکیہ، چین، بیلجئیم اور دیگر ممالک سے آئے ہوئے مزدوروں کے وفود کو ایک طویل انٹر ویو دیا.ماسکو میں انقلاب روس کی دسویں سالگرہ اور نہرو سفر یورپ کی ارتقائی اور آخری منزل ماسکو تھا جہاں مسٹر نہرو کونہ صرف پہلی سوویٹ حکومت کا قریبی مشاہدہ کرنے کا سنہری موقع ملا بلکہ لینن کے جانشین اور مرد آہن سٹالن سے بھی ”شرف باریابی نصیب ہوا.اخبار ”الفضل قادیان 15 نومبر 1927ء کے صفحہ 12 پر عالمی پریس کے حوالہ سے اس سالگرہ کی خبر بایں الفاظ شائع ہوئی.
165 ماسکو.7 دسمبر 1927ء انقلاب روس کی دسویں سالگرہ بڑے تزک واحتشام.منائی گئی....اس سالگرہ پر دس لاکھ آدمی جمع تھے.جلوس نکالا.دیواروں پر سرخ کپڑے لٹک رہے تھے جن پر گزشتہ دس سال کے اہم واقعات لکھے ہوئے تھے.بالشویک حکام لینن کے عجائب گھر میں جمع ہوئے جس کی ایک جانب سیاسی جماعت اور کئی سو غیر ملکی مندوب کھڑے تھے.“ حواشی 1 کارل مارکس“ صفحہ 20 تا 32 از جناب ڈاکٹر احمد حسین کمال ناشر ادارہ ” ندائے انقلاب“ 5 بیگم روڈلاہور بار اول یکم مئی 1976ء.2 میری کہانی حصہ اول صفحہ 272 ناشر مکتبہ جامعہ دہلی.3 Jawahar Lal Nehru A Biography Vol.One (1889-1947) P.100-102.Oxford University Press Delhi.4 Jawahar Lal Nehru A Biography Vol.One (1889-1947) P.107-106.Oxford University Press Delhi.5 ”جواہر لال نہرو صفحہ 175-177 متر جم جناب اختر حسن ناشر نگارشات میاں چیمبر ز 3 ٹیمپل روڈ لاہور اشاعت 1994ء.6 یہاں اس افسوناک مغالطہ انگیزی کا ذکر ضروری ہے کہ جناب ابو الکلام آزاد نے الہلال 6 ستمبر 1927ء میں ”روسی انقلاب کی جو بلی“ پر نوٹ لکھتے ہوئے یہ خلاف واقعہ بات لکھ دی ہے کہ تقریب میں کوئی ہندوستانی رہنما شامل نہیں ہوا جو کانگرس اور روس کے دیرینہ گہرے روابط پر پر وہ ڈالنے کی افسوناک مگر ناکام کوشش کے سوا کچھ نہیں.7 ترجمہ ”جواہر لال نہرو“ صفحہ 78-79."Joseph Stalin" p.94.Foreign Languages Publishing House Moscow 1949.8
166 پندرھویں فصل پنڈت نہرو کا بمبئی میں جماعت احمدیہ کے خلاف بیان سٹالن نے 5 نومبر 1927ء کے طویل انٹر ویو کے دوران پنڈت جواہر لعل نہرو(نمائندہ کانگرس) کو براہ راست ہندوستانی پالیٹکس کے متعلق اور کیا ہدایات دیں اور انگریزوں کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی خلا کو سوشلسٹ انقلاب سے پر کرنے کے معاملہ میں کن خطوط پر راہنمائی کی، اس بارے میں تو مستقبل کا مورخ ہی بتا سکے گا بشر طیکہ اسے ماسکو اور دہلی سے 1927ء کے کانگرس روس پیکٹ کا سراغ مل سکا.مگر یہ ایک یقینی اور قطعی بات ہے کہ پنڈت جی نے سفر یورپ سے واپسی پر ہندوستان میں قدم رکھتے ہی بیان دیا کہ کانگرس کے سوراج کی کامیابی کے لئے جماعت احمدیہ کو تباہ و برباد کئے بغیر کوئی چارہ نہیں.چنانچہ سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے قادیان میں احراریوں کی کانفرنس 1934ء کے معابعد مسجد اقصی کے منبر پر خطبہ کے دوران یہ چونکا دینے والا انکشاف فرمایا: ”ہماری جماعت کی مخالفت نہایت وسیع پیمانہ پر ہے اور سیاستدان یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک احمدیوں کو کمزور نہ کر دیا جائے یا احمدیوں اور حکومت میں لڑائی نہ کرادی جائے اسوقت تک ان کا قدم مضبوطی سے جم نہیں سکتا.یہ صرف خیالی بات نہیں بلکہ خود مجھ سے آل انڈیا کانگرس کے ایک ذمہ دار آدمی نے کہا کہ پنڈت جواہر لعل نہر وجب یورپ کی سیاحت سے واپس تشریف لائے تو اسٹیشن پر ہی دوران گفتگو میں انہوں نے مجھ سے کہا کہ مجھے دوران سیاحت میں محسوس کرایا گیا ہے کہ اگر ہندوستان میں کامیاب ہو نا چاہتے ہیں تو ہمیں اس سے پہلے احمد یہ جماعت کو چل دینا چاہئے.“1 یہ ذمہ دار شخصیت جیسا کہ خود حضرت مصلح موعود نے چند ماہ بعد خطبہ جمعہ میں ہی انکشاف فرمایا، سید محمود صاحب سیکرٹری آل انڈیا نیشنل کانگرس تھے اور یہ بات انہوں نے خود حضور کو قادیان میں ایک ملاقات کے دوران بتائی تھی.2 حواشی الفضل مورخہ 22 نومبر 1934ء صفحہ 10 ،کالم 1.2 الفضل مورخہ 6 اگست 1935ء صفحہ 8.
167 سولہویں فصل جماعت احمدیہ کی تباہی کا منصوبہ پنڈت جواہر لعل نہرو اور ان کے والد موتی لعل نہرو نے یورپ سے واپسی کے معا بعد سٹالین کے ایجنڈ ا پر عمل پیرا ہوتے ہوئے برٹش حکمرانوں سے مکمل آزادی کا مطالبہ کر دیا اور ساتھ ہی جماعت احمدیہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے ملک گیر اور خفیہ منصوبہ کی زور شور سے تیاریاں شروع کر دیں.اور اس کا آغاز لدھیانہ شہر سے کیا کیونکہ یہ شہر 1888 ء سے کانگرسی مولویوں کا مضبوط گڑھ تھا اور یہیں سے سرسید تحریک کے خلاف اور کانگرس کے حق میں ”نصرۃ الابرار“ کے نام سے فتاوی شائع ہوئے.اور 22 دسمبر 1888ء کے اجلاس کانگرس الہ آباد میں تقسیم ہوئے.”نصرۃ الابرار“ کے مرتب مولوی حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی کے دادا مولوی محمد صاحب اور مولوی عبد العزیز تھے.1 یہی لدھیانوی علماء تھے جنہوں نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ پر ”براہین احمدیہ “ کی پہلی چار جلدوں کی اشاعت پر سب سے پہلا فتویٰ کفر دیا تھا.2 مولوی حبیب الرحمن صاحب کے اپنے ایک اقراری بیان کے مطابق وہ 1905ء میں کانگرس کے پر جوش ممبر بنے اور ٹھیک یہی وہ سال ہے جبکہ ابو الکلام آزاد صاحب بھی کانگرس میں شامل ہوئے.اس طرح دونوں ”ہم پیالہ اور ہم نوالہ دوست بن گئے“.ایک بار مولوی حبیب الرحمن صاحب نے پنڈت جواہر لعل نہرو کو اپنے ہاں دعوت چائے پر مدعو کیا اور نہایت ادب سے ان کی خدمت میں ” نصرت الابرار “ کا نسخہ پیش کیا تو انہوں نے مولوی صاحب کو مبارک باد دی.مولوی حبیب الرحمٰن صاحب نے عرض کیا ”ہندوستان میں ہزاروں لیڈروں کو کانگرس تحریک نے جنم دیا لیکن میرے آباء واجداد خود کانگرس کے فونڈر (Founder) تھے.“3 مولوی صاحب کے بیٹے عزیز الرحمن جامعی یہ واقعہ سپر د قر طاس کرنے کے بعد رقمطراز ہیں: " علماء لدھیانہ نے کانگریس کو مقبول بنانے میں جو رہنمائی کی تھی، وہ آج مسلمانان ہند کا ایک تاریخی سرمایہ ہے جس پر ہندوستانی مسلمان جتنا بھی فخر کریں کم ہے.علماء لدھیانہ کے فکر و عمل کی کامیابی کا اس سے بڑا ثبوت اب اور کیا ہو گا کہ آج علی گڑھ یونیورسٹی میں سرسید کی سیاست کا جنازہ نکل چکا ہے.4 مولوی حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی کا بیان ہے کہ جب انہوں نے دارالعلوم دیوبند میں 4"
168 داخلہ لیا تو ” مدرسہ میں اندرونی طور پر نہایت گہری سیاسی تنظیم اور تحریک چل رہی تھی جو میرے 5" جذبات کے عین مطابق تھی.“5 المختصر لدھیانہ کے کانگرسی ملاؤں کی چالیس سالہ روایات کا تقاضا تھا کہ لدھیانہ ہی سے مکمل آزادی کے لیے پورے ملک میں راہ ہموار کی جائے چنانچہ ایسا ہی عمل میں آیا.پنڈت نہرو کی مخالف احمدیت سکیم کو بروئے کار لانے کے لئے ملک بھر کے کا نگر سی ہندوؤں نے 1928ء میں ہی انڈر گراونڈ یہ خوفناک منصوبہ تیار کر لیا کہ جماعت احمدیہ کو تباہ و برباد کر کے صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا جائے.چنانچہ ایک مخلص احمدی وکیل میاں فضل کریم صاحب بی اے (علیگ) ایل ایل بی نے 7 نومبر 1928ء کو حضرت مصلح موعود کی خدمت میں حسب ذیل مکتوب لکھا کہ حضور کو قبل اس کے ہندوؤں کی مخالفت اور بغض کے متعلق کافی علم ہے مگر کل ہی مجھے ایک مسلمان وکیل دوست سے ایک ایسے امر کے متعلق علم ہوا کہ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب ہندوؤں نے Organized ہمارا مقابلہ کرنے کا ارادہ کر لیا ہے اور اس کی طرف اپنے عوام کو بھی توجہ دلا دلا کر تیار کر رہے ہیں.خصوصیت سے گذشتہ ایک دو سال بعد موجودہ نہرورپورٹ کی ہماری طرف سے مخالفت نے انہیں آگ لگا دی ہے.اس دوست نے مجھے بتلایا کہ ایک ہندو نے مجھے بتلایا ہے کہ احمدی ملکی ترقی میں ایک زبر دست روک ہیں.اب ہم ان کو Crush کر کے چھوڑیں گے اور سارے ملک کے ہندوؤں نے یہ ٹھان لیا ہے اور اس کے لئے روپیہ کا بھی انتظام کیا جائے گا.میں نے دوست سے دریافت کیا کہ وہ کس حیثیت کا انسان ہے تو انہوں نے بتلایا معمولی سا آدمی ہے جس سے یہ ظاہر ہے کہ عوام میں بھی ہماری مخالفت اور مقابلہ کی روح پھونکی جارہی ہے.میں انشاء اللہ العزیز مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر وں گا.مجھے تو یہ سن کر ایک پہلو سے خوشی ہوئی اور ایک پہلو سے فکر پیدا ہوئی.خوشی تو اس لئے کہ ملک کی ایک زبر دست قوم بھی سلسلہ کی طاقت کو مان گئی ہے اور روز افزوں ترقی سے گھبرارہی ہے.فکر اپنی کمزوریوں کا ہے کہ مقابلہ کی طاقت نہیں.اللہ تعالیٰ ہی قوت عطا کرے گا.خادم کو دعاؤں میں یاد فرمائیں.خاکسار فضل کریم.“
169 بیان ہے.مولوی حبیب الرحمن لدھیانوی کے بیٹے عزیز الرحمن لدھیانوی مصنف ”رئیس الاحرار “ کا ”1928ء میں آل انڈیا مسلم کا نفرنس لدھیانہ میں ہوئی.اس کی صدارت کے لئے خواجہ محمد یوسف کے ذریعہ پنڈت موتی لعل نہرو کو کشمیر کا نفرنس کا صدر بنایا.کا نفرنس میں بڑے بڑے مسلمان کشمیری تاجروں نے پنڈت موتی لعل کی گاڑی اپنے ہاتھ سے کھینچی.ایک لاکھ ہندو اور مسلمان نے اس کا نفرنس میں شرکت کی.یہ وہ وقت تھا جبکہ نہرورپورٹ کی وجہ سے پنجاب میں پنڈت موتی لعل نہرو کی ہندوؤں، سکھوں اور مسلمانوں میں سخت مخالفت ہو رہی تھی لیکن رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کی اس تدبیر سیاست نے ہوا کا رخ پلٹ دیا....پنڈت موتی لعل مولانا کی اس تدبیر سیاست سے بہت خوش ہوئے اور جب تک زندہ رہے، برابر پنڈت جی نے مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کو اپنے دوستوں اور خاص مشیروں کی فہرست حواشی: میں رکھا.“6 1 کتاب رئیس الاحرار صفحہ 36 (سوانح مولوی حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی صدر مجلس احرار) تالیف عزیز الرحمن جامعی لدھیانوی اشاعت -1961 2 مکتوبات احمد یہ جلد اول صفحہ 74 مرتب حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب انوار احمد یہ مشین پریس قادیان 29 دسمبر 1908ء.3 " رئیس الاحرار " صفحہ 75.4 "رئیس الاحرار " صفحہ 52.5 "رئیس الاحرار " صفحہ 99.6 "رئیس الاحرار " صفحہ 74-75-
170 سترھویں فصل کانگرس کے پلیٹ فارم پر مجلس احرار کا قیام جب مکمل آزادی کے نعرہ کی پذیرائی کے لیے ماحول تیار ہو چکا تو دسمبر 1929ء میں پنڈت جواہر لعل نہروہی کی صدارت میں آل انڈیا نیشنل کانگرس کا اجلاس لاہور منعقد ہوا جس میں کانگرس نے مکمل آزادی کی قرار داد منظور کی اور ساتھ ہی مسلمانوں میں نہرو کے سوشلسٹ خیالات کے پھیلانے، کانگرسی پروگرام کو کامیاب بنانے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جماعت احمدیہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے کانگرس ہی کے پلیٹ فارم پر ڈرامائی انداز میں ایک سیاسی پارٹی کی بنیادرکھی گئی جس کا نام ابوالکلام آزاد صاحب کی تجویز پر ”احرار اسلام “ رکھا گیا چنانچہ ”رئیس الاحرار “مولوی حبیب الرحمن صاحب کی سوانح میں صاف لکھا ہے.”1929ء کے کانگرس کے اجلاس میں 29 دسمبر 1929ء کو مولانا آزاد کے مشورہ پر آل انڈیا کانگرس کے اسٹیج پر چودھری فضل حق کی صدارت میں مجلس احرار کا پہلا جلسہ ہوا.مجلس مشاورت میں مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی، مولانا سید داؤد غزنوی اور مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا مظہر علی صاحب اظہر ، خواجہ عبد الرحمن غازی نے مشورہ کر کے مولانا آزاد کے تجویز کردہ نام کے مطابق.مجلس احرار اسلام ہند قائم کی اور مولاناسید عطاء اللہ بخاری مجلس احرار کے پہلے صدر منتخب ہوئے.کانگرس کی طرف سے عام سول نافرمانی کا آغاز ہو گیا تھا.اس لئے سب احرار تنظیم کو چھوڑ کر کانگرسی تحریک میں شامل ہو گئے.“1 مفکر احرار چوہدری افضل حق صاحب کا بیان ہے: مجلس احرار کا سب سے پہلا جلسہ 29 دسمبر 1929ء کانگرس کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ہوا جس میں سید عطاء اللہ شاہ نے میری صدارت میں تقریر کی اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ مسلمان نوجوان ہندوستان کی آزادی کا ہر اول ثابت ہوں.آزادی کے حصول کا فخر ہمارے حصے میں آئے.اس کے تھوڑے عرصے کے بعد سول نافرمانی کا آغاز ہوا اور کانگرس کے جھنڈے تلے سب نے مل کر قربانیاں پیش کیں....کانگرس کی اس سول نافرمانی میں احرار کے موجودہ کارکن روح رواں تھے.“2
171 لکھا ہے.اس کی تفصیل مصنف ”رئیس الاحرار “ نے اپنی کتاب کے صفحہ 136-137 پر دی ہے اور 2 مئی 1930ء کو امروہہ میں مولوی حسین احمد صاحب کی تائید سے جمعیتہ علماء ہند نے کانگرس کی تحریک سول نافرمانی میں شمولیت کی تجویز پاس ہوئی جس کے بعد بخاری صاحب یوپی بہار کا دورہ کر کے بنگال جا پہنچے اور دیناج پور میں گرفتار ہو گئے.اس دورے میں ایک لاکھ آدمی شاہ صاحب کی تقریروں سے گرفتار ہوئے.گرفتار ہونے والوں میں تیس ہزار مسلمان تھے.اس روداد کے بعد لکھا ہے.پنڈت موتی لعل نہر وسید عطاء اللہ شاہ بخاری کی سحر بیانی کے عاشق تھے.انہی کے پروگرام کے مطابق شاہ صاحب کام کر رہے تھے.الہ آباد میں جب شاہ صاحب پنڈت موتی لعل جی کے یہاں پہنچے تو پنڈت موتی لعل جی نے خود شاہ صاحب کے کھانے کا بندوبست کیا اور اپنے ہاتھ سے دونوں وقت چائے بنا کر پلائی.پنڈت موتی لعل بار بار شاہ صاحب سے کہتے کہ شاہ صاحب کانگرس سیتہ گرہ کی کامیابی صرف آپ ہی سے وابستہ ہے.کانگریسی تحریک میں پنجاب کے احراری رہنماؤں کی شرکت اور شاہ صاحب کے دورہ کا یہ اثر ہوا کہ گاندھی ارون پیکٹ کے بعد جب بھی احرار رہنما گاندھی جی سے ملنے گئے تو گاندھی جی اٹھ کر دروازے تک خود احرار رہنماؤں کو لینے آتے اور چلتے وقت خود ان رہنماؤں کو دروازے تک چھوڑنے آتے.یہ امتیازی بات تھی جو زندگی میں گاندھی جی نے صرف احراری رہنماؤں کی عزت و تکریم میں کی.3 حواشی: 1 «رئیس الاحرار " صفحہ 144 مولف عزیز الرحمن جامعی لدھیانوی اشاعت 1961ء.2 تاریخ احرار طبع اول صفحہ 8 ناشر زمزم یک ایجینسی بیرون موری دوازہ لاہور.3 رئیس الاحرار “ صفحہ 136-137.
172 اٹھارھویں فصل احرار کا سوشلزم کے حق میں اور احمدیوں کے خلاف پراپیگنڈے کا آغاز بہر کیف احرار کے انقلابی رہنما سول نافرمانی میں اپنے سیاسی جوہر کا سکہ جمانے کے بعد مسلمانوں میں سوشلزم کے پراپیگنڈہ اور سوشلزم ہی کے حوالہ سے جماعت احمدیہ کی مخالفت کے لئے وقف ہو گئے اور اس بناء پر انہوں نے تحریک پاکستان کو ملیا میٹ کرنے میں سر دھڑ کی بازی لگادی.یہ کوئی خیالی یا قیاسی بات نہیں بلکہ ایک ایسی ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہے جس کے لفظ لفظ پر مجلس احرار کا مستند لٹریچر شاہد ناطق ہے چنانچہ مفکر احرار چوہدری افضل حق صاحب بانی رکن مجلس احرار اسلام“ نے ” تاریخ احرار کے باب چہارم صفحہ 138 پر فتنہ قادیان کے عنوان سے لکھا.” باب چهارم فتنہ قادیان لوگ بجا طور پر پوچھتے ہیں کہ احرار کو کیا ہو گیا کہ مذہب کی دلدل میں پھنس گئے.یہاں پھنس کر کون نکلا ہے جو یہ نکلیں گے ؟ مگر یہ کون لوگ ہیں ؟ وہی جن کا دل غریبوں کی مصیبتوں سے خون کے آنسو روتا ہے.وہ مذہب اسلام سے بھی بیزار ہیں اس لئے کہ اس کی ساری تاریخ شہنشاہیت اور جاگیر داری کی دردناک کہانی ہے.کسی کو کیا پڑی کہ وہ شہنشاہیت کے خس و خاشاک کے ڈھیر کی چھان بین کر کے اسلام کی سوئی ڈھونڈے تا کہ انسانیت کی چاک دامانی کار فوکر سکے ؟ اس کے پاس کارل مار کس کے سائنٹیفک سوشلزم کا ہتھیار موجود ہے.وہ اس کے ذریعے سے امرا اور سرمایہ دارں کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے.اسے اسلام کی اتنی لمبی تاریخ میں سے چند سال کے اوراق کو ڈھونڈ کر اپنی زندگی کے پروگرام بنانے کی فرصت کہاں ؟ سرمایہ داروں نے ان برسوں کی تاریخ کے واقعات کو سرمایہ داری کے رنگ میں رنگا.اور مساوات انسانی کی تحریک جس کو اسلام کہتے ہیں ، مذہبی لحاظ سے عوام کی تاریخ نہ رہی اور نہ ہی اس میں کوئی انقلابی سپرٹ باقی رہی.عامتہ المسلمین.امیروں جاگیر داروں کے ہاتھ میں موم کی ناک بن کر رہ گئے.ہندوستان میں اس وقت بھی سب سے زیادہ مفلوک الحال مگر حال مست ہیں.انہیں اپنے حال کو بدلنے کا کوئی احساس نہیں.یہ کیوں ہوا.
173 اس لئے کہ خود علمائے مذہب انقلابی سپرٹ سے نا آشنا ہیں اور وہ اب تک مذہب کی اموی عباسی عقائد کے مطابق تشریح کر رہے ہیں.تاہم کسی کی بے خبری یا کسی گروہ کا تعصب واقعات کو نہیں بدل سکتا ہے.محمد رسول اللہ نئے دور کے انقلابی تھے.درانتی اور کلہاڑا تو اب مزدوروں کی نشانی بنا لیکن جس نے سرمایہ داری پر پہلے کلہاڑا چلایا اور قومی امتیاز کے ان ریشوں کو کاٹ کر.رکھ دیا جس نے انسان کو انسان سے علیحدہ کر دیا تھا.صرف سرمایہ ہی طبقات پیدا نہیں کرتا بلکہ انسانوں میں گروہ بندی کرنے والے اور بھی محرکات ہیں.ان سب کا بڑا ذریعہ مختلف نبیوں پر ایمان ہے.قومیں خدا پر ایمان کے نزاع پر مختلف نہیں بلکہ مختلف نبیوں پر ایمان لانے کے باعث الگ الگ ہیں.پہلے آمد ورفت کے وسائل کی کمی کی وجہ سے ہر ملک ایک الگ دنیا تھی.الگ الگ پیغمبروں کے ذریعے ہر ملک کی روحانی تربیت ضروری تھی.ایک ملک میں بیٹھ کر سب ملکوں میں پیغام نہ پہنچایا جاسکتا تھا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دین مکمل ہوا.آپ نے لا نبی بعدی (میرے بعد کوئی نبی نہیں ) کا اعلان کر کے دنیا کو اتحاد کا مشردہ سنایا کہ آئندہ نبیوں کی بنا پر قوموں کی تربیت ختم ہو گئی.آؤ ایک محکم دین کی طرف آؤ.یہ سب کے حالات کے مطابق ہے.اسلام تمہارے سارے عوارض کا مکمل نسخہ ہے.زمانے نے دیکھ لیا کہ حضور کے بعد بتدریج دور دور کے ملک آمد ورفت کے سلسلوں میں آسانیوں کے باعث نزدیک تر ہوتے گئے.اب تو دور دراز ملک ایک شہر کے محلوں سے بھی قریب معلوم ہونے لگے ہیں.اس لئے ملک ملک کے لئے علیحدہ پیغامبر کی ضرورت نہ رہی تھی.اب انسانی دماغ کافی نشو نما پا چکا تھا.لوگ اپنا بھلا برا خود سمجھنے لگے.اب ایک سچائی پیش کرنا کافی ہے.باقی معاملہ لوگوں کی سمجھ پر چھوڑ نا کفایت کرتا ہے.مذہب کی سچائی اب سمجھ سے بالا نہیں.بلکہ تعصب کے باعث اسے قبول کرنے میں دقت ہے.دنیا نے دیکھ لیا سرور کائنات کے آتے ہی اہل دنیا کی عقل اور علم نے حیرت انگیز ترقی کی.محمد رسول اللہ کی نبوت کے معنے یہ تھے کہ اب انسانیت سن شعور کو پہنچ چکی ہے.اب کسی سکول ماسٹر کی ضرورت نہیں....جولوگ دنیا کے حالات کا مطالعہ
174 کر سکتے ہیں.سچی اور جھوٹی بات میں فرق کر کے وہ صحیح راہ تلاش کر سکتے ہیں.اب مکمل سچائی یعنی اسلام ہم تک پہنچ گیا.اب کسی نبی کی ضرورت نہ رہی.اگر ہم نبوت کا سلسلہ ابھی تک جاری مان لیں تو پھر مختلف نبیوں پر ایمان کے باعث قوموں ملکوں پر اور انسانیت میں تقسیم در تقسیم کا عمل جاری رہے گا.پہلے تو ملک ملک ایک الگ دنیا تھی.الگ الگ نبیوں کی ضرورت تھی.اب جب دنیا سمٹ کر ایک کنبہ میں رہتی ہے تو نبوت کے مختلف دعویداروں کا آنا دنیا کو تقسیم بلا ضرورت کرنے سے کم نہ تھا.رسول کریم کا لانبی بعدی کا ارشاد دنیا کے لئے رحمت کا پیغام اور انسانیت کیلئے خوش خبری تھی.“ تاریخ اپنے تئیں دوہراتی ہے.علامہ بلاذری کی معجم البلدان سے بالبداہت ثابت ہے کہ حر وراء مقام پر خوارج نے قرآنی آیت ” ان الحکم الا اللہ کی آڑ میں ہی امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ کی خلافت کے خلاف فتنہ برپا کیا تھا.1 مفکر احرار نے اس تمہید کے بعد سیاسی پیشوا جناب جواہر لعل نہرو کی خفیہ سکیم کا پردہ فاش کرتے ہوئے صاف لکھ ڈالا: قادیانی تحریک کی مخالفت سیاسی اور مذہبی دونوں وجوہات کی بناء پر تھی.جس اسلامی جماعت نے مسلمانوں کو آزاد اور توانا قوم دیکھنے کا ارادہ کیا ہو، اسے سب سے پہلے اس جماعت سے ٹکرانا ناگزیر تھا.اس جماعت کے اثر ورسوخ کو کم کئے بغیر آزادی کا تصور کرنا ممکن نہ تھا.“2 ازاں بعد انہوں نے ”خدا سے انکار بھی مذہب کی شاخ ہے“ کے جلی عنوان سے اپنی دہریت پر اپنے ہاتھوں مہر تصدیق ثبت کر دی.”مذہب کیا ہے، خدا کے متعلق ایک خاص تصور اور عقیدہ.کوئی گروہ اس کا اقرار کر کے مذہبی ہے کوئی انکار کر کے.منکر خدا بھی تو خدا کے متعلق سوچتا ہے.وہ خدا کے اقراری کے خلاف ایسے ہی جذبات رکھتا ہے جیسے منکر خدا کے متعلق خدا کو ماننے والے.پس نفی واثبات کی عملی دنیا میں بحث فضول ہے کیونکہ ذہنی اعتبار سے دونوں کے خیالات کا مرجع و مرکز خدا ہی ہے.مفکر احرار نے ” تاریخ احرار کے آخر میں شہنشاہ اولین و آخرین خاتم النبیین حضرت محمد عربی 3"
175 صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو کامریڈ“ کے نام سے یاد کیا ہے.جس سے ہر عاشق رسول عربی کا دل مجروح اور جگر پاش پاش ہو جاتا ہے.پھر تحریک پاکستان کا ذکر کر کے لکھا ہے: ا قتصادی مساوات کے بغیر ہندوستان میں امن اور آزادی ممکن نہیں.یہ ملک غلام رہے گا.اگر آزادی اور امن حاصل کرے گا تو سوشلزم کی بنیاد پر “ اور کتاب کا اختتام سوشلزم کی تبلیغ پر کرتے ہوئے لکھا: سرمایہ داری حقیقی اسلام کو کھا گئی.سرمایہ داری ختم کر وگے تو اسلام زندہ ہو جائے گا.“ تاریخ احرار کے دوسرے ایڈیشن (1968ء) میں ایک طرف مولوی حبیب الرحمن لدھیانوی کا یہ اعتراف درج ہے کہ.کانگرس کی محبت اور قربانی کا نتیجہ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ ہندوستان کی حکومت انگریزی سرمایہ داروں کے ہاتھ سے نکل کر ہندوستان کے سرمایہ داروں کے ہاتھ دے دی جائے.“ پاکستان کے متعلق احراری سوشلسٹوں کا نظریہ دوسری طرف پاکستان کے خلاف احراری پالیسی بایں الفاظ واضح کی گئی ہے: ”پاکستان کے متعلق ہر روز ہم سے ہماری پوزیشن پوچھی جاتی ہے.سچ یہ ہے کہ ایسے پاکستان کو ہم پلیدستان سمجھتے ہیں “ ہمیں اسلامی پروگرام کے باغی مگر نام نہاد مسلمانوں سے کوئی دلچسپی نہیں.اسلام کے باغی پاکستان سے ہم اس ہندوستان کو پسند کریں گے جہاں نماز روزہ کی اجازت کے ساتھ اسلام کے باقی عدل وانصاف کے پروگرام کے مطابق نظام حکومت ہو گا.یعنی ہر شخص کو حضرت رسول کریم صلی ﷺ ، صدیق اکبر اور فاروق اعظم کی زندگی کی پیروی میں محض ضروریات زندگی مہیا کی جائیں گی اور کسی کو کسی دوسرے پر سیاسی یا اقتصادی فوقیت نہ ہو گی.جن لیگیوں اور کانگرسیوں کو سیاسی اور اقتصادی مُمساوات سے گھن آتی ہے، وہ سن لیں کہ وہ ہمارے دینی بھائی ہیں نہ وطنی بھائی.وہ الله لٹیروں کا ذہن رکھتے ہیں.ان کا اور احرار کا ساتھ نہیں نبھ سکتا.
176 سب کو علم ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ کارل مارکس کی پیدائش سے 58 سال پہلے فوت ہوئے.ان کے قول کے مطابق رسول کریم صلی یکم کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ امراء اور سلاطین کی لوٹ کھسوٹ سے عوام کو بچایا جائے.قیصر و کسریٰ کو اور ان کے سرمایا دارانہ نظام اور امیرانہ رسم و رواج کو برباد کیا جائے اور لوگوں کو امتیازی زندگی بسر کرنے سے منع کیا جائے (حجۃ اللہ البالغہ 64) گو یا نظام اسلامی کو چلانا اور امر ا اور سلاطین کی لوٹ کھسوٹ سے لوگوں کو بچانا پیغمبر (صلی للی ) کا مشن تھا.پس اگر محمد علی جناح اسلام کے اقتصادی اور سیاسی نظام کے خلاف کسی سرمایہ داری کے نظام کو چلائے تو نفع کیا ؟ اور اگر جواہر لعل اور گاندھی، خلفائے راشدین کی پیروی میں سوسائٹی میں نابرابری کے سارے نقوش کو مٹائے چلے جائیں تو بطور مسلمان کے ہمیں نقصان کیا.“ کانگرس اور برطانوی ایجنٹ ہونے کا الزام 4" چوہدری افضل حق صاحب نے ” تاریخ احرار میں کا نگر سی مسلمانوں کے خبث باطن اور کمینہ فطرت کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے اپنا تجربہ بیان کیا ہے کہ.کانگر سی مسلمان کا ذہن بے حد متلک اور متشدد ہے.1935ء سے تو لوگوں کو سی آئی ڈی اور انگریز کے ایجنٹ کا الزام لگانا عام تھا.کا نگر سی مسلمان اپنے دعویٰ اور عمل میں مخلص ہوتے ہیں مگر وہ دوسروں کو ہمیشہ بد عقل اور دوسروں کا آلہ کار سمجھتے ہیں....جھوٹی خبروں کے اصرار اور تکرار کو بھی پروپیگنڈے کے فن کا اہم جز و قیاس کیا جاتا ہے.انسان کچھ وقت کے لئے دروغ بے فروغ کو بھی سچائی کی جان سمجھنے لگ جاتا ہے.بعض وقت تو دوسروں کے کہے بے وقوف سمجھ کر اپنی پگڑی میں ہاتھی ٹولنے لگ جاتا ہے کیونکہ معتبر راوی کہہ دیتا ہے کہ بھلے مانس تیری پگڑی میں ہاتھی ہے.کانگرسی مسلمانوں نے بھی بعض کے کان میں یہی پھونک دیا کہ بھیا 5" مسلمانو احرار انگریز کے ایجنٹ ہیں.یہ ریاست (کشمیر) سے گلگت دلا رہے ہیں.“5 کانگرسی مسلمانوں کی یہ سوشلسٹ گالی احرار کے انقلابی رہنما احمدیت اور پاکستان دونوں کے خلاف معرکہ آزمائی میں بے شمار مرتبہ استعمال کر چکے ہیں اور اب تک کر رہے ہیں.کیونکہ گوئبلز کے فن پر اپیگنڈا کی اصل جان یہی ہے.
177 تاریخ احرار کا پہلا اور دوسرا ایڈیشن ملاحظہ فرمائیے تو ان میں ”سوشلزم“ کے حوالہ سے احمدیت اور تحریک پاکستان دونوں کو برطانوی امپر یلزم کا ایجنٹ قرار دیا گیا ہے.حد یہ ہے کہ اس کتاب میں کانگرس کے ہر مخالف مسلمان کو مسلمان نما، کفر پر ور ، ز له خواران افرنگ، لیگی یا غیر لیگی پشتینی کاسہ لیس اور غدار بلکہ دشمن اسلام کی گالی دینے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا.6 احرار کے ”امام الہند“ ابوالکلام آزاد نے 1905ء میں بنگالی ہندوؤں کے ساتھ ملک کر ملک بھر کے امن وامان کو ملیامیٹ کرنے کی خاطر غدر پارٹی میں شرکت کی تھی.اس لئے احراری ”انقلابی“ میں شرکت کی تھی.اس لئے احراری انقلابی رہنماؤں کے نزدیک 1857ء کو غدر کہنے والا فرنگی سامراج کا ازلی ابدی کاسہ لیس تھا.7 مفکر احرار چوہدری افضل حق نے ”آزادی ہند میں لکھا کہ.”ہندوستان میں ایسے عالم، ایسے مصلح ایسے نبی پیدا ہو گئے جنہوں نے انگریزوں کی خوشنودی کے لئے جہاد کو منسوخ قرار دیا اور تمام مسلمانوں نے اپنے سکوت سے اس تنسیخ کی تائید کی.8" اسی کتاب میں مفکر احرار “ نے ہندوستانی مسلمانوں کو یقین دلایا کہ :- اسلام کو روس کے اقدامات سے کوئی خوف نہیں بلکہ اس کا اقتصادی پروگرام اسلامی پروگرام ہے.....اسلام نے دنیا کو مساوات کی بنیاد پر نئی تعمیر کی دعوت دی.روس کے اقدامات اس اسلامی دعوت کی تجدید ہیں.“و بالفاظ دیگر کارل مارکس، اینجلز، لین اور سٹالین یہ سب ”مجد دین“ اسلام تھے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.مفکر احرار سوشلزم کی تبلیغ کا حق ادا کرنے کے فوراً بعد تخیل پاکستان کے خلاف زہر افشانی کرتے ہوئے لکھتے ہیں: علیحدہ تنظیم کے مدعی ملک کی مستقل نامرادی ہیں.اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا کے تصور کو بتدریج دماغوں سے محو کر دیا جائے.“10 اب اگر " مفکر احرار “ کی تصانیف کے بعد ان کی مشہور تقریروں کا جائزہ لیا جائے تو قریباً ہر اہم خطاب میں سوشلزم کا پر چار اور جماعت احمدیہ اور تحریک پاکستان پر تنقید یہ تینوں موضوع یکجا اور متوازی رنگ میں ضرور ملیں گے.مثلاً آل انڈیا احرار کا نفرنس پشاور (7 تا 9 اپریل 1939ء) کے صدارتی خطبہ میں سے اُن کے چند فقرات ملاحظہ ہوں:
178 لیگ کا نقاب اوڑھے ہوئے انگریز کا ایجنٹ ایسے موقع کی تاک میں رہتا ہے کہ کب کا نگر سی مسلمان کی زبان سے کوئی غیر محتاط کلمہ نکلے اور اسے عوام میں بد نام کر نے کا موقع میسر آئے.“11 ہم لیگ کو دام فرنگ سمجھ کر دور ہی رہنا چاہتے ہیں.”سوشلسٹ کی مایوسیوں میں مجھے اس سے ہمدردی ہے.میں اسے یقین دلاتا ہوں کہ اخوت و مساوات کے علاوہ کسی اورنچ بینچ کے اصول پر سوسائٹی کی تعمیر کرنے والا خدا اگر ڈھونڈے سے بھی مل جائے گا تو احرار کے ہاتھ سے پناہ نہ پائے گا.“13 مسلمانوں کو سوشلسٹ سے نفرت نہ ہونی چاہئے....امید رکھنی چاہئے کہ ایک دن اشتراکی روس لاالہ کہتے کہتے چند سالوں کے بعد یک بیک الا اللہ کا نعرہ بلند کر ے گا.ہم آہستہ سے مشورہ دیں گے کہ بھلے اب محمد رسول اللہ بھی کہہ دے.“14 قادیانی فتنہ کے خلاف ہماری جد و جہد بے حد صبر آزمارہی ہے....تاہم ہمیں خدا کی مہربانی پر بھروسہ ہے کہ احرار کا وسیع نظام....دس برس کے اندر اندر اس فتنہ کو ختم کر کے چھوڑے گا....ملک میں انگریزی اثر ورسوخ جوں جوں کم ہو گا، توں توں سرکار کا یہ خود کاشتہ پودا مر جھاتا چلا جائے گا.“15 16" ”سوچ لو پاکستان کی تحریک بھی برطانوی جھانسہ ہی نہ ہو....پاکستان کی تحریک مکافی لحاظ سے نہیں بلکہ زمانی لحاظ سے بھی شر انگیز ہے.مجلس احرار کا ترجمان ”آزاد لاہور لکھتا ہے: ” جب حجۃ الاسلام حضرت علامہ انور شاہ صاحب کا شمیری،حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی اور حضرت مولانا ثنا اللہ صاحب امرت سری و غیر ہم رحمہم اللہ کے علمی اسلحہ فرنگی کی اس کاشتہ داشتہ نبوت“ کو موت کے گھاٹ نہ اتار سکے تو مجلس احرار اسلام کے مفکر اکابر نے جنگ کا رُخ بدلا، نئے ہتھیار لئے اور علمی بحث و نظر کے میدان سے ہٹ کر سیاست کی راہ سے فرنگی سیاست کے شاہکار پر حملہ آور ہو گئے.“17 بر صغیر کی تاریخ کا ادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے خلاف ملک بھر کے علماء کا فتویٰ کفر شائع کرنے والے محمد حسین صاحب بٹالوی کو انگریزی حکومت نے چار مربعے زمین عطا کی مگر حضرت مسیح موعود کے شاہی خاندان کی جاگیر جو اسی دیہات پر مشتمل تھی، ضبط کر لی گئی.
179 یہی وہ اولین محافظ ختم نبوت تھے جنہیں شمس العلماء کا خطاب ملا اور دربار دہلی میں انگریزی حکومت کے میزبان بنے اور انہی کی تحریک پر وہابی کہلانے والوں کو سرکاری کاغذات میں اہلحدیث لکھا جانے لگا.یہی صاحب تھے جنہوں نے برطانوی حکومت کو خبر دار کیا کہ :- گور نمنٹ کو اس کا اعتبار کرنا مناسب نہیں اور اس سے پر حذر رہنا ضروری ہے.ورنہ اس مہدی قادیانی سے اس قدر نقصان پہنچنے کا احتمال ہے جو مہدی سوڈانی 18" سے نہیں پہنچا.“ اسی طرح مولوی کرم دین صاحب آف بھیں نے انگریزی حکومت کو انتباہ کرتے ہوئے لکھا گور نمنٹ کو اپنی وفادار مسلمان رعایا پر اطمینان ہے.اور گور نمنٹ کو خوب معلوم ہے کہ مرزا جی جیسے مہدی مسیح و غیرہ بننے والے ہی کوئی نہ کوئی آفت سلطنت میں برپا کیا کرتے ہیں....مرزا جی نے تو مسلمانوں میں یہ خیال پیدا کر دیا ہے کہ مهدی و مسیح کا یہی زمانہ ہے اور قادیان ضلع گورداسپور میں وہ مہدی و مسیح بیٹھا ہوا ہے.وہ کسر صلیب کے لئے مبعوث ہوا ہے تاکہ عیسویت کو محو کر کے اسلام کو روشن کرے اور یہ بھی بر ملا کہتا ہے کہ خدا نے اسے بتلا دیا ہے کہ سلطنت بھی اُسی کو ملنے والی ہے.چنانچہ اس نے اپنی متعدد تصانیف میں یہ الہام و کشف سنایا ہے کہ خدا نے اُسے بتلا دیا ہے کہ بادشاہ اس کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.بلکہ یہ بھی لکھ دیا ہے کہ وہ بادشاہ اسے دکھائے بھی گئے ہیں.اور یہ بھی کہتا ہے کہ اس سے معلوم ہو تا ہے کہ بادشاہت مرزائیوں کی جماعت کو کسی زمانہ میں ملے گی.اب خیال فرمائیے کہ یہ خیال کہاں تک خوفناک خیال ہے.جبکہ مرزاجی نے یہ الہام ظاہر کر کے پیشگوئی کر دی ہے کہ بادشاہ اس کے حلقہ بگوش ہوں گے اور بادشاہت مرزائیوں کو ملے گی.کیا عجب کہ ایک زمانہ میں مرزائیوں کو جو اس کی پیشگوئیاں پورا کرنے کے لئے اپنی جانیں دینے کو تیار ہیں....یہ جوش آجائے کہ اس پیشگوئی کو پورا کیا جائے اور وہ کوئی فتنہ و بغاوت برپا کریں.اس میں کوئی شک نہیں کہ مرزاجی نے مسلمانوں کو نصاریٰ سے سخت بد ظن اور مشتعل کر رکھا ہے کہ وہ دجال سمجھتے ہیں تو نصاریٰ کو.خر دجال کہتے ہیں تو ریلوے کو.اب سوال یہ ہے کہ ریلوے کس نے جاری کر رکھی ہے.جب یہ خر دجال ہے تو اس کے چلانے والے بادشاہ وقت کو ہی یہ دجال کہتے ہیں.اور
180 مسلمانوں کو اس کے خلاف سخت مشتعل کر رہے ہیں.گورنمنٹ کو ایسے اشخاص کا ہر وقت خیال رکھنا چاہئے.19 اسی نظریہ کے مطابق جناب ابو القاسم صاحب دلاوری مولف رئیس قادیان“ اخبار ”آزاد“ میں لکھتے ہیں: گو مرزا صاحب نے تقدس کی دکان ابتداء محض شکم پروری کے لئے کھولی تھی لیکن ترقی کر کے سلطنت پر فائز ہونے کا لائحہ عمل بھی شروع سے ان کے پیش نظر تھا.اور انہیں آغاز کار سے اس مطلب کے الہام بھی ہوا کرتے تھے.چنانچہ بقول میاں بشیر احمد ایم.اے مرزا صاحب کا پہلا الہام جو 1868ء یا 1869ء میں ہوا، یہ تھا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے....خود مرزا صاحب نے نہ صرف الہام کا بڑے طمطراق سے براہین میں تذکرہ فرمایا.بلکہ عالم کشف میں وہ بادشاہ بھی مرزا صاحب کی مقدس بارگاہ میں پیش کر دیئے گئے....گو بادشاہوں کی متابعت کا کشف یا خواب کبھی پورا نہ ہو.لیکن اس سے کم از کم قادیانی صاحب کی ذہنی کیفیت، ان کے خیالات کی بلند پروازی اور ان کی الوالعزمی کا ضرور پتہ چلتا ہے اور اس سے یہ بھی متبادر ہوتا ہے کہ قیام سلطنت کے اصل داعی و محرک میرزا صاحب ہی تھے.آخر کیوں نہ ہو.قوم کے مغل تھے اور رگوں میں تیموری خون دوڑ رہا تھا.میرے خیال میں میرزا صاحب نے قیام سلطنت کی جن آرزوؤں کو اپنے دل میں پرورش کیا، درش کیا، وہ قابل صد ہزار تحسین تھیں.“20 لیکن ان حقائق کے باوجود اشتراکیت اور کانگرس کے ایجنٹوں نے جماعت احمدیہ کو برطانوی امپر یلزم قرار دے کر مسلمانان ہند میں نفرت کی ایک خلیج حائل کر دی حالانکہ یہ سو فیصدی جھوٹ تھا جس کی بنیاد انقلابی احرار لیڈروں کے ”شیخ الاسلام حسین احمد دیوبندی کے اس فتویٰ پر تھی کہ ” عام لوگ سمجھتے ہیں کہ جھوٹ ہر حالت میں بُرا اور حرام ہے حالانکہ جھوٹ بعض اوقات میں فرض اور واجب ہو جاتا ہے.” ہمارے بزگوں نے 1857ء میں سب کچھ کیا تھا مگر جب انگریز حکام نے پوچھا تو سب کا انکار کر کے چلے آئے اور کسی چیز کا اقرار نہ کیا....یہ جھوٹ ناجائز نہیں بلکہ ضروری ہے.“21
حواشی 181 1 ”خطبات احرار “ (ناشر مکتبہ احرار لاہور مارچ 1944ء) کے دیباچہ میں شورش کا شمیری لکھتے ہیں ” ان الحکم الا اللہ....اس قرآنی اعلان کی روشنی میں کوئی انسانی بادشاہت احرار کے نزدیک قابل پذیرائی نہیں“ 2 ایضاً صفحہ 141.3 ایضاً صفحہ 142.4 صفحه 59-60 ناشر مکتبہ مجلس احرار اسلام پاکستان لاہور.ملتان طبع ثانی 1968ء.5 طبع دوم صفحہ 114-115.6 تاریخ احرار “ طبع ثانی صفحہ 31.” تاریخ احرار “ طبع ثانی صفحہ ہ.8 صفحہ 202.ناشر تاج کمپنی لمیٹڈ لاہور.9 صفحہ 194.10 صفحہ 200.11 خطبات احرار صفحہ 22.طبع اول مارچ1944ء ناشر مکتبہ احرار لاہور.12 ایضاً صفحہ 22.13 ایضاً صفحہ 27.14 ایضاً صفحہ 31.15 ایضاً صفحہ 37.16 ایضاً صفحہ 42.17 1 ”آزاد“ 30 اپریل 1951ء صفحہ 17."18 ” اشاعۃ السنہ “ حاشیہ جلد 16 صفحہ 168.19 تازیانہ کعبرت طبع دوم صفحه 93-94 از شیر اسلام مولوی محمد کرم دین صاحب دبیر “ مطبوعہ پر نٹنگ پریس لاہور.20 ”آزاد“ 24نومبر 1950ء.21 نقش حیات جلد دوم صفحه 626 از حسین احمد دیوبندی ناشر دار الاشاعت مولوی مسافر خانہ کر اچی نمبر 1 طبع اول.
182 انیسویں فصل مسلمانان ہند کے مطالبہ سے غداری سر اقبال نے اجلاس مسلم لیگ الہ آباد 1930ء میں ایک خطبہ دیا جس میں انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ مسلمانان ہند کا متفقہ مطالبہ ہندوستان میں مسلم ریاست کا قیام ہے.اور یہی مطالبہ نہرو کمیٹی میں پیش کیا گیا جسے کمیٹی نے اس بناء پر رڈ کر دیا کہ اس کے نتیجہ میں ملک کا وسیع رقبہ مسلمانوں کے اقتدار میں چلا جائے گا.چاہئے تو یہ تھا کہ وہ اس موقع پر مسلمانان ہند کے قومی مطالبہ کی پر زور وکالت کر کے اسکی تائید میں سیاسی اور قانونی نکات کا دریا بہا دیتے.الٹا انہوں نے مسلم مفاد سے غداری کرتے ہوئے اپنی ذاتی تجویز پیش کی کہ مسلمانوں کی تسلی کے لئے سرحد ، سندھ ، بلوچستان اور صرف مسلم اکثریت کے اضلاع پنجاب پر مشتمل شمال مغربی ہند کو ایک مسلم صوبہ بنا دیا جائے اور ساتھ ہی رام راج کے حامی کا نگر سی لیڈروں کی خدمت میں عرض کیا :- ”ایسی مجوزہ ریاست تو بعض ہندوستانی صوبوں سے بھی کم ہو گی.ادھر اگر ضلع انبالہ اور شاید دوسرے اور اضلاع کو الگ کر دیا جائے جہاں غیر مسلموں کی آبادی ہے تو پھر یہ وسعت اور بھی گھٹ جاتی ہے.“ پھر بتایا، “اس چیز سے مسلمانوں میں احساس ذمہ داری بڑھ جائے گا اور اُن کے احساس وطن کو بھی زبر دست تقویت پہنچے گی.وہ ہندوستان کے بہترین رکھوالے اور محافظ ثابت ہوں گے."1 آل انڈیا نیشنل کانگرس مسلمانوں میں قومیت متحدہ کا جو تصور اپنے احراری اور دیوبندی ایجنٹوں کے ذریعہ مسلط کرنا چاہتی تھی، یہ خطبہ صدارت اس کا شاہکار تھا.ویسے بھی انہوں نے خطبہ کے شروع میں یہ واضح کر دیا تھا کہ ”میں نہ تو کسی جماعت کا قائدور ہنما ہوں اور نہ کسی کا پیر وہوں.“2 بنابریں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں اس ذاتی تجویز پر کسی قرار داد کے منظور کئے جانے کا سوال ہی پیدا نہ ہو تا تھا.خصوصاً اس لئے کہ اس ذاتی تجویز نے مسلمانان ہند کے اصل مطالبہ کورڈی کی ٹوکری میں پھینک دیا اور صرف ایک صوبہ کے قیام پر قناعت کی گئی.جہاں تک مسلمانوں کے سب سے بڑے خطہ یعنی اکثریتی صوبہ بنگال کا تعلق تھا، اسے ہند و سودیش تحریک سے دلی ہم آہنگی کے باعث
183 یکسر نظر انداز کر دیا گیا جو مسلمانان ہند کی وحدت ملی میں چھراگھونپنے کے مترادف تھا.تاریخ مسخ کرنے کی سازش جناب جسٹس جاوید اقبال صاحب شریف الدین پیرزادہ کی کتاب ”ارتقائے پاکستان“ انگریزی کے صفحات 37 تا 120 کے حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں: بر صغیر میں فرقہ وارانہ مسئلہ یا اس کے شمال مغربی اور مشرقی خطوں میں مسلم اکثریت کی موجودگی بجائے خود ایسی حقیقتیں تھیں جو روز روشن کی طرح عیاں تھیں.اس لئے اقبال سے پیشتر بھی بعض شخصیتوں کو ان کا احساس تھا اور فرقہ وارانہ مسئلے کے حل کے طور پر ہندوؤں اور مسلمانوں میں ہندوستان کی تقسیم کے متعلق بسا اوقات خیالات کا اظہار کیا جاتا یا تجاویز پیش کی جاتی تھیں.شریف الدین پیرزادہ نے اپنی انگریزی تصنیف ” ارتقائے پاکستان میں سرسید ، حالی اور عبد الحلیم شرر ( دونوں سرسید کے معتقدین میں سے تھے) کے علاوہ ایسی انیس شخصیتوں کا ذکر کیا ہے ، جن کی کار گزاری کا اس مرحلہ پر جائزہ لینا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا.شریف الدین پیرزادہ کی تحقیق کے مطابق 1857ء میں جان برائیٹ نے برطانوی پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان میں میں مختلف قومیں آباد ہیں جو ہیں مختلف زبانیں بولتی ہیں.اس لئے انگریزوں کو ہندوستان سے نکلنے سے پیشتر وہاں پانچ یا چھ آزا دریاستیں قائم کرنی پڑیں گی.1881ء میں جمال الدین افغانی نے وسطی ایشیا کے روسی مسلم علاقوں، افغانستان اور ہندوستان کے شمال مغرب میں مسلم اکثریتی صوبوں پر مشتمل ایک مسلم ری پبلک کے قیام کا خواب دیکھا تھا.1883ء میں ولفرڈ بلنٹ نے تجویز پیش کی کہ شمالی ہندوستان میں مسلم اور جنوبی ہندوستان میں ہندو حکومتیں قائم کر دی جائیں مگر ہر صوبہ میں انگریزی فوج موجود رہے.1905ء میں وائسرائے لارڈ کرزن نے تقسیم بنگال کا نفاذ کیا تا کہ مشرقی بنگال کے پسماندہ مسلمان ترقی کر سکیں.لیکن چونکہ بنگالی مسلمان سیاسی طور پر منظم نہ تھے ، اس لئے بنگالی ہندوؤں کے احتجاجی مظاہروں کے سبب تقسیم منسوخ کرنی پڑی.1911ء میں سید امیر علی نے سر محمد شفیع کو خط لکھا تھا کہ ہندو اور مسلم دو علیحدہ قومیں
184 ہیں.اس لئے یہاں صرف ایسا دستوری نظام ہی قابل عمل ہو سکتا ہے جو ان کے جداگانہ قومی تشخص یا حقوق کے تحفظ کا ضامن ہو.1913ء میں ولایت علی بمبوق نے اخبار کامریڈ کے مزاحیہ کالم میں تحریر کیا تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ رکھنا چاہیے تا کہ شمالی ہندوستان مسلمانوں کو دیا جا سکے اور جنوبی ہندوستان ہندوؤں کو.1917ء میں ڈاکٹر عبد الجبار خیری اور پر وفیسر عبد الستار خیری نے یورپ میں سٹاک ہوم کی سوشلسٹ انٹر نیشنل کا نفرنس کے دوران ایک تحریری بیان میں کہا تھا کہ ہندوستان کے ہر صوبہ کو خود مختاری کا حق دیا جانا چاہئے تاکہ مسلم اور ہندو اکثریتی صوبے علیحدہ علیحدہ وفاق قائم کر سکیں.1920ء میں محمد عبدا لقادر بلگرامی نے اخبار ذوالقرنین بدایوں میں مہاتما گاندھی کے نام ایک خط شائع کیا جس میں تجویز پیش کی کہ ہندوستان کو مسلمانوں اور ہندوؤں میں تقسیم کر دینا چاہیئے.اس خط میں صوبوں کے مختلف اضلاع میں ہند و مسلم آبادی کے تناسب کا ذکر بھی کیا گیا تھا.1921ء میں نادر علی، جو انگریزوں کے بڑے مداح تھے اور تحریک خلافت کی مخالفت میں سرگرم عمل رہے، نے حکومت بر طانیہ کو مشورہ دیا تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے تنازعوں کے حل کے لئے ہندوستان کی تقسیم لازمی ہے.1923ء میں سردار گل محمد خان، صدر انجمن اسلامیہ ڈیرہ اسمعیل خان نے سر ڈیفنس برے کی زیر صدارت شمال مغربی سرحد کمیٹی کے سامنے شہادت دیتے ہوئے کہا تھا کہ پشاور.سے آگرہ تک کا علاقہ مسلمانوں کو اور آگرہ سے راس کماری تک کا علاقہ ہندوؤں کو دے دیا جائے اور دونوں قومیں آپس میں اپنی اپنی آبادیوں کا تبادلہ کر لیں.1924ء میں مولانا حسرت موہانی نے تجویز پیش کی تھی کہ شمال مغرب کے مسلم اکثریتی صوبوں کو مدغم کر کے ایک صوبہ بنایا جائے اور اسے ہندوستان کے وفاقی نظام میں ایک وحدت کی پوزیشن حاصل ہو.یہ تجویز نہرو کمیٹی نے رد کر دی تھی.1924ء میں لالہ لاجپت رائے نے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ ہند و مسلم آبادی کے لحاظ سے پنجاب اور بنگال کی تقسیم کر دی جائے اور پھر مغربی پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ، بلوچستان اور مشرقی بنگال کے علاقے مسلمانوں کو دے دیئے جائیں اور ہندوستان کے باقی تمام صوبوں میں ہندو حکومتیں قائم کی جائیں.مگر بعد میں لالہ
185 لاجپت رائے مکر گئے اور کہا کہ انہوں نے ایسے کسی خیال کا اظہار نہیں کیا تھا.1924ء میں اسٹالن (روسی آمر) نے کہا تھا کہ ہندوستان بظاہر ایک متحدہ ملک دکھائی دیتا ہے.لیکن جب وہاں انقلاب آیا تو کئی اجنبی قومیں منطقہ شہود پر آجائیں گی.1924ء میں مولانا محمد علی نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ مسلمان اقلیت نہیں بلکہ ایک قوم ہیں اور ہندوستان کا مسئلہ بین الا قوامی ہے.لہذا مسلمانوں کے لئے قسطنطنیہ سے لے کر دہلی تک ایک کارے ڈور“ (رستہ کی شکل میں علاقے کا ٹکڑا) بنا دینی چاہئے.1925ء میں دست شناس کیرو نے پیشین گوئی کی تھی کہ ہندوستان سے انگریزوں کو بالآخر نکلنا پڑے گا اور وہ مسلمانوں اور بدھ مت کے ماننے والوں میں برابر برابر تقسیم ہو جائے گا.1928ء میں ”ایک ہندی مسلمان“ نے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ ہندو اور مسلمان دو ایسی ہی مختلف قومیں ہیں جیسے جرمن اور فرانسیسی اور چونکہ ان میں اتحاد ممکن نہیں، اس لئے ہندوستان کو ان میں تقسیم کر دینا چاہئے.1928ء میں مرتضے احمد خان نے اخبار انقلاب میں مضامین کا ایک سلسلہ شائع کیا جس میں شمال مغرب کے اکثریتی صوبوں پر مشتمل ایک مسلم وطن کے قیام کی تجویز 3" پیش کی گئی.“ انہی حقائق کی بنا پر تحریک پاکستان کے نامور لیڈر اور قائد اعظم محمد علی جناح کے دست راست ایم اے ایچ اصفہانی نے ایڈیٹر پاکستان ٹائمز کے نام خط میں ڈنکے کی چوٹ لکھا.4" ” اس بات سے بلا شبہ انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ڈاکٹر اقبال کا فکر شاعر ی اور خطبات بھی اسی سمت میں اشارہ کرتے تھے.لیکن یہ کہنا کہ وہ مسلم ریاست کے تصور کے خالق تھے ، تاریخ کو مسخ کرنا ہے.“ اوائل 1934ء کا واقعہ ہے کہ لنڈن کے اخبار آبزرور (Observer) میں کیمرج یونیورسٹی کے پر وفیسر ایڈورڈ ٹامسن کا لکھا ہوا ایک مضمون سپر د اشاعت ہوا.اس مضمون میں انہوں نے برسبیل تذکرہ اقبال کو پاکستانی اسکیم کا حامی لکھ دیا.جس پر سر اقبال نے 4 مارچ1934ء کو پروفیسر ٹامسن کے نام خط لکھا جس میں کیمرج سے اٹھنے والی پاکستان اسکیم سے بریت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا.”اپنے (مسلم لیگ) کے خطبے میں جو اسکیم میں نے پیش کی تھی، وہ ایک مسلم صوبے کے قیام کی ہے یعنی شمال مغربی ہند میں ایک ایسے صوبے کا قیام عمل میں آئے
186 جس میں بھاری اکثریت مسلمانوں کی ہے مگر پاکستان کی اسکیم یہ ہے کہ مسلم صوبوں کی ایک جدا گانہ وفاقی ریاست کا قیام عمل میں آئے جس کی حیثیت ایک ڈومینین کی ہو اور اس کا انگلستان سے براہ راست رشتہ ہو.یہ اسکیم کیمرج سے شروع کی گئی ہے اور اس کے مصنفوں کا خیال ہے کہ گول میز کانفرنس کے ہم مسلم ممبروں نے ہندویا 5" نام نہاد ہندوستانی قوم پرستی کی قربان گاہ پر مسلم قوم کو قربان کر دیا ہے.“5 گول میز کانفرنس اور سر اقبال یہ حقیقت ہے کہ سر اقبال دوسری راؤنڈ ٹیبل کا نفرنس میں مسلم وفد کے ممبر کی حیثیت سے شامل ضرور ہوئے مگر انہوں نے مسلم حقوق کے تحفظ سے قطعاً کوئی دلچسپی نہ لی.چنانچہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب تحریر فرماتے ہیں: ”لندن میں ان کا ورود وہاں کے فلسفی، ادبی اور مستشرقین حلقوں میں بہت دلچسپی کا موجب رہا.والڈ ارف ہوٹل میں آپ کے اعزاز میں وسیع پیمانہ پر استقبالی دعوت کا انتظام ہو ا.ڈاکٹر صاحب اپنے پرانے اور نئے احباب کی ملاقاتوں سے بہت محظوظ ہوئے.لیکن کا نفرنس کی سست رفتاری سے اُن کی طبیعت بہت اکتائی رہی."6 کانگرسی سیاست کا فرقہ پرستانہ مفاد اسی میں تھا کہ علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال جیسی مسلمان شخصیت مسلم اقلیت کے مسئلہ میں چپ سادھے رہے.چنانچہ وہ اس میں کامیاب ہوئے اور اس طرح ان کا سکوت کا نگرسی موقف کی تقویت کا موجب بنا اور اگر راؤنڈ ٹیبل کا نفرنس کی روداد کا باریک نظری سے مطالعہ کیا جائے تو قائد اعظم کا کانگرسی رویہ سے بیزار ہو کر انگلستان ہی میں مستقل قیام کے فیصلہ میں اقبال کی مصلحت آمیز خاموشی کا بھی بھاری عمل دخل تھا.گول میز کانفرنس اور انڈیا ایکٹ کے نفاذ سے قبل مطالبہ اقلیت آل انڈیا نیشنل کانگرس اور احرار ، رام راج کے لئے ملک بھر میں اپنی سکیم کے مطابق پورے زور وشور سے باغیانہ کارروائیاں کر رہے تھے.اور اُن کا یقین تھا کہ وہ برٹش حکومت کو ہتھیار ڈالنے اور ملک بدر کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور مسلمانوں اور ملک کی دوسری اقلیتوں کے مستقبل کے بارے میں ہندو کانگرس خود فیصلہ کرے گی.لیکن حکومت نے اس کے سامنے جھکنے کی بجائے مسلم حقوق اور دوسرے فرقہ وارانہ مسائل کے حل کے لئے تین بار لندن میں گول میز کانفرنس کا انعقاد کیا.
187 عظم کانفرنس میں مسلم زعماء میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب، سر آغا خاں اور حضرت قائد اعظم محمد علی جناح پیش پیش تھے.گول میز کانفرنس میں مسلم حقوق کی ترجمانی ایک جہاد سے کم نہیں تھی خصوصاً اس لئے کہ انگریزی حکومت اس وقت آل انڈیا نیشنل کانگرس کی عددی اکثریت سے لزرہ بر اندام تھی اور انگریزی ڈپلومیسی در پردہ مسلم حقوق کو نظر انداز کرنے اور کانگرس کی خوشنودی حاصل کرنے پر تلی ہوئی تھی.یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے 12 نومبر 1930ء کو انگریزی حکومت کو انتباہ کیا: "When you say that a large, a very influential party in India stands for wrecking or misusing the future constitution, I ask you this question.Do you want those parties who have checked, held in abeyance the party that stands for complete independence, do you want those people to go back with this answer from you that nothing can be done because there is a strong party which will misuse or wreck the constitution which we will get from you.Is that the answer you want to give? Now let me tell you the tremendous fallacy of that argument and the grave danger.Seventy millions of Mussulmans all, barring a few individuals here and there, have kept aloof from the non- cooperation movement.Thirty-five or forty millions of depressed classes have set their face against the non co operation movement.Sikhs and Christians have not joined it.And let me tell you that even amongst that party which you characterize as a large party and I admit that it is an important party it has not got the support of the bulk of Hindus.Do you want every one of the parties who have still maintained that their proper place is to go to this conference, and across the table to negotiate and come to a settlement - -
188 which will satisfy the aspirations of India, to go back and join the rest? Is that what you want? Because what other position will they occupy? What will be the answer? I want you to consider the gravity of it, a gravity which was emphasized by previous speaker.You may, of course, argue it as long as you like.7 کانگرس کی مسلمانوں کے خلاف معاندانہ چال راؤنڈ ٹیبل کا نفرنس میں شامل مسلم زعماء کے مقابل کا نگر سی ہائی کمان اور دوسرے تمام لیڈر سرے سے برٹش انڈیا کی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو ملکی قانون میں مراعات دینے کے سراسر خلاف تھے اور ان کا واحد مطالبہ یہ تھا کہ برطانوی حکومت فی الفور ملک کی باگ ڈور ہند و کانگرس کو سونپ دے.کانگرس خود اقلیتوں سے نبٹ لے گی اور جو چاہے گی ان کے حقوق کی نسبت فیصلہ کرے گی.چنانچہ پنڈت نہرو نے گول میز کانفرنس کی کارروائی کا دل کھول کر مذاق اڑایا اور لکھا.”گول میز کانفرنس ختم ہو رہی تھی اور اس کے فیصلوں کی بڑی دھوم دھام تھی.ہمیں اس پر ہنسی آتی تھی اور شاید اس ہنسی میں کسی قدر حقارت بھی شامل تھی.یہ ساری تقریریں اور بحثیں بالکل بے کار اور حقیقت سے خالی معلوم ہوتی تھیں.جناب نہر وصاحب نے گول میز کانفرنس کے بارے میں کانگریس کی پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا.8" ”گاندھی جی لنڈن گول میز کانفرنس میں کانگرس کے تنہا نمائیندہ کی حیثیت سے گئے تھے...ہم گول میز کانفرنس میں کچھ اس لئے تو شرکت نہیں کر رہے تھے کہ جاکر دستور ملکی کی ضمنی تفصیلات (مثلاً مسلم اقلیت کے حقوق.ناقل ) سے متعلق وہ بحثیں چھیڑیں جو کبھی ختم ہی ہونے میں نہ آئیں.اس وقت ان تفصیلات میں ہمیں ذرا دلچسپی نہ تھی.ان پر تو غور اسی وقت ہو سکتا تھا کہ برطانوی حکومت سے بنیادی معاملات پر کوئی سمجھوتا ہو جاتا.اصل سوال یہ تھا کہ جمہوری ہند کو کتنی طاقت منتقل کرنی ہے.تفصیلات کو طے کرنے اور انہیں قلمبند کرنے کا کام تو کوئی بھی قانون دان بعد کو کر سکتا تھا.“
189 ނ نیز مسلم نمائندوں کو برطانوی سامراج کا گماشتہ قرار دیتے ہوئے یہ گوہر افشانی کی کہ کانفرنس کے ہندوستانی ممبروں میں سے بڑی اکثریت زیادہ تر ارادہ کچھ بے ارادہ، اس سرکاری چال کا ساتھ دے رہی تھی.اور یہ مجمع تھا بھی نرالا.ان میں کون تھا جو اپنی ذات کے سوا اور کسی کا نمائندہ ہو.بعض ان میں سے ضرور قابل اور معزز لوگ تھے اور بہت سے ایسے تھے جن کے متعلق یہ بھی نہیں کہا جاسکتا.سیاسی اور معاشرتی اعتبار سے یہ لوگ بہ حیثیت مجموعی ہندوستان کے سب سے زیادہ ترقی دشمن عناصر کے نمائندے تھے اور ایسے رجعت پسند اور تغیر دشمن کہ ہمارے ہندوستانی لبرل تک، جو یہاں اس درجہ محتاط اور معتدل لوگ سمجھے جاتے ہیں، وہاں ان کے مقابلہ میں ترقی خواہ کی حیثیت سے چمکتے رہے ! یہ لوگ ہمارے ملک کے ان اہل غرض گروہوں کی نمائندگی کر رہے تھے جن کا مفاد بر طانوی سامراج سے وابستہ ہے اور اپنی غرضوں کی تکمیل اور تحفظ کے لیے یہ اسی سامراج کا منہ تکتے ہیں.سب ممتاز نمائندگی مختلف اقلیتوں اور اکثریتوں کی طرف سے فرقہ وارانہ مسئلہ کے متعلق تھی، ان میں اونچے طبقہ کے کچھ لوگ تھے جو کسی کی بات نہیں مانتے اور جن کے متعلق مشہور تھا کہ آپس میں بھی متفق نہیں ہو سکتے تھے.سیاسی لحاظ سے یہ سب کٹر ترقی دشمن تھے اور ان کا مقصد بس یہ تھا کہ کچھ فرقہ داری فائدہ حاصل کر لیں، چاہے اس میں ملک کی سیاسی ترقی کو یکسر ہاتھ سے دینا ہی کیوں نہ پڑے.چنانچہ انہوں نے صاف اعلان ہی کر دیا تھا کہ کسی ایسی کارروائی پر جس سے ملک کو کچھ اور سیاسی آزادی ملے ، یہ اس وقت تک راضی نہ ہوں گے جب تک ان کے فرقہ وارانہ مطالبات پورے نہ ہو جائیں.کیسانر الا نظارہ تھا! اور کیسی تکلیف دہ وضاحت سے یہ بات روشن ہوتی تھی کہ ایک محکوم قوم کس قدر نیچے جا سکتی ہے اور کس طرح اسے سامراجی بساط کا مہرہ بنایا جا سکتا ہے.یہ سچ ہے کہ راجوں، مہاراجوں، لاٹ صاحبوں، سروں اور بالقائہم، کا یہ انبوہ ہندوستانی قوم کا نمائندہ نہیں کہا جاسکتا تھا.یہ بھی سچ ہے کہ گول میز کانفرنس کے اراکین کو برطانوی حکومت نے نامز د کیا تھا اور اپنے نقطہ نظر سے واقعی خوب انتخاب کیا تھا.یہ سب صحیح، مگر پھر بھی اس بات سے کہ بر طانوی حکام ہمیں یوں برت سکتے اور اپنے کام میں لا سکتے ہیں، ہماری قوم کی کمزوری ظاہر ہوتی تھی.اور
190 پتہ چلتا تھا کہ ہمیں کس آسانی سے بہکایا جاسکتا ہے اور ایک سے دوسرے کی کوششوں کا کیسے کاٹ کرایا جا سکتا ہے.ہمارے اونچے طبقہ کے لوگ ابھی تک سامراجی حکمرانوں کی ذہنیت میں ڈوبے ہوئے ہیں اور انہیں کا کام کرتے ہیں.کیا انہیں اس کی حقیقت نہیں دکھائی دیتی ؟ یا یہ بات ہے کہ اس کی حقیقت کو جانتے ہیں اور جان بوجھ کر اس لیے اسے قبول کرتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت اور آزادی کے قیام سے انہیں ڈر لگتا ہے.؟ بہت ہی ٹھیک بات تھی کہ اغراض کے اس ہجوم میں سامراجی منصب داری، ،مالیاتی، صنعتی، مذہبی، فرقہ داری اغراض کے اس جمگھٹ میں، برطانوی ہند کے نما ئندوں کی سرداری عموماً آغا خاں کے حصہ میں آئی تھی.اس لیے کہ اغراض کچھ نہ کچھ سب ہی ان کی ذات میں یکجا جمع ہیں.ایک نسل سے زیادہ عرصہ سے یہ بر طانوی سامراج اور برطانوی حکمران طبقہ کے ساتھ وابستہ رہے ہیں.رہتے سہتے بھی زیادہ تر انگلستان ہی میں ہیں.یہ ہمارے حکمرانوں کے مفاد اور ان کے نقطہ نظر کو واقعی خوب سمجھ سکتے ہیں.اگر گول میز کانفرنس میں سامراجی انگلستان کی طرف سے یہ آتے تو اس کے نہایت ہی قابل نما ئندہ ثابت ہوتے.مگر ستم ظریفی یہ تھی کہ یہ ہندوستان کی نمائندگی فرمارہے تھے.کا نفرنس میں ہمارا مقابل پلّہ بہت بھاری تھا اور ہمیں اس سے کوئی زیادہ توقع بھی نہ تھی.پھر بھی اس کی کارروائی کو دیکھ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی اور گھن آتی تھی.ہم قومی اور معاشی مسائل کی بھی سطح کو کھرچنے کی لغو اور جھوٹ موٹ کی کوششوں کو دیکھتے تھے.، معاہدوں اور سازشوں اور چالوں کو دیکھتے تھے.برطانوی کنزرویٹو پارٹی کے ترقی دشمن حصہ سے اپنے بعض اہل وطن کا ساز باز دیکھتے تھے.چھوٹے چھوٹے معاملات پر لامتناہی بک بک سنتے تھے.دیکھتے تھے کہ اصلی معاملات کو کیسے جان بوجھ کر ٹالا جا رہا ہے اور ہمارے ہی آدمی برابر کس طرح اہل غرض اور خصوصاً بر طانوی سامراج کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں.آپس کی جھک جھک دیکھتے تھے اور اسی کے ساتھ ساتھ جشن اور دعوتیں اور باہمی مدح وثنا کا طوفان ! شروع سے آخر تک خدمتوں کی تلاش تھی، بڑی ہوں کہ چھوٹی، ہندووں کیلئے خدمتیں اور نشستیں،
191.مسلمانوں کے لیے خدمتیں ہوں اور نشستیں، سکھوں کے لیے بھی ہوں، اینگلو انڈین جماعت کے لیے بھی اور یورپین گروہ کے لیے بھی.مگر ہوں خدمتیں سب اعلی طبقہ کے لیے، بیچارے عوام کو ان میں ذرا دخل نہ ہو.ابن الوقتی کا دور دورہ تھا اور مختلف گروہ بھوکے بھیڑیوں کی طرح شکار کی گھات میں تھے ، بس یہی فکر کہ نئے دستور سیاسی میں کچھ لے مریں.خود آزادی کے تصور نے بڑے پیمانے پر خدمت طلبی کی شکل اختیار کرلی تھی، جسے Indianisation یا 'ہندیانا' کہتے تھے، یعنی فوج میں ہند وستانیوں کو زیادہ خدمتیں ملیں، سول سروس میں بھی زیادہ ملیں وغیرہ وغیرہ.خود مختاری حقیقی آزادی، جمہوری ہند کو طاقت اور اختیار کی منتقلی، یا ہندوستانی قوم کے کسی اہم اور ضروری معاشی مسئلہ کے حل کا وہاں ذکر ہی نہ تھا.کیا اسی کے لیے ہندوستان نے یوں مردانہ وار جد وجہد کی تھی؟ اور کیا ایثار و قربانی کی اس لطیف فضا کو کانفرنس کی کثیف ہو اسے بدلنا ضروری تھا؟ اُس سنہرے اور بھرے ہوئے ہال میں گاندھی جی بیٹھے تھے ، یکہ و تنہا، ان کا لباس یا بے لباسی، انہیں اور وں سے ممتاز کرتی تھی مگر ان میں اور ان کے خوش لباس ہم نشینوں میں افکار اور نقطہ نظر کا فرق اس سے بھی زیادہ تھا.اس کا نفرنس میں ان کی حیثیت بڑی ہی مشکل کی تھی.اور ہم یہاں دور سے بیٹھے حیرت کرتے تھے کہ یہ اسے کس طرح برداشت کر رہے ہیں.لیکن وہ حیرت انگیز صبر کے ساتھ اپنا کام کئے گئے اور پیہم کوشش کرتے رہے کہ سمجھوتہ کی کوئی صورت پید اہو.اُنہوں نے ایک خاص بات کی جس نے ایک مرتبہ یہ راز فاش کر دیا کہ فرقہ پروری کے پردہ میں دراصل ترقی دشمنی نہاں ہے.کانفرنس کے مسلمان نمائندوں نے جو فرقہ دارانہ مطالبات پیش کئے تھے ، گاندھی جی ان میں سے بہتوں کو پسند نہیں کرتے تھے.ان کا خیال تھا اور ان کے مسلمان قوم پر اور ساتھیوں کا بھی یہی خیال تھا کہ ان مطالبات میں سے بعض آزادی اور جمہوریت کی راہ میں حائل ہوں گے.پھر بھی انہوں نے کہہ دیا کہ میں بلا پوچھے گچھے اور بے دلیل و بحث ان سب مطالبوں کو مان لو نگا اگر مسلمان نمائندے سیاسی مطالبہ یعنی خود مختاری کے مطالبہ میں میرے ساتھ اور کانگرس کے ساتھ مل جائیں.یہ بات انہوں نے بالکل شخصی طور پر کہی تھی اس لیے کہ وہ اس وقت تو
192 کا نگر میں کو اس کا پابند نہیں کر سکتے تھے.لیکن انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ میں کانگریس کو اس کے تسلیم کرنے پر آمادہ کرونگا اور کوئی شخص جو کانگریس میں ان کی حیثیت کو جانتا ہوشبہ نہیں کر سکتا تھا کہ وہ کانگرس سے اس بات کو منوانے میں ضرور کامیاب ہو جاتے.لیکن ان کی بات کسی نے نہ مانی اور سیچ بھی ہے.آغا خاں کو آزادی ہند کی حمایت میں کمر بستہ تصور کرنا بھی ذرا مشکل ہے.نیز لکھا.دو 9% یہ ایک حقیقت بالکل ظاہر تھی کہ اس وقت جب ہماراملک انتہائی مصیبت کے دور سے گزر رہا تھا اور ہماری عورتیں اور مرد حیرت انگیز بہادری کا ثبوت دے رہے تھے ، ہمارے بعض وطن پرست ان سب چیزوں کی طرف سے آنکھیں بند کر کے ہمارے حریفوں کو اخلاقی مدد پہنچارہے تھے.ہم پر یہ بات اور بھی واضح ہو گئی کہ قوم پرستی کے پردے میں متضاد معاشی اغراض کام کر رہے ہیں اور وہ لوگ جو مستقل حقوق کے مالک ہیں اسی قوم پرستی کے نام سے آئندہ کے لئے اپنے حقوق کی حفاظت کا انتظام کر رہے ہیں.گول میز کانفرنس صریحی طور پر ان ہی لوگوں کی ایک جماعت تھی.ان میں سے اکثر نے ہماری تحریک کی مخالفت کی تھی اور بعض دور سے تماشا دیکھا کرتے تھے اور کبھی کبھی ہمیں جتا دیتے تھے کہ ان لوگوں کی خدمت بھی کچھ کم نہیں جو موقع کے انتظار میں کھڑے رہتے ہیں.مگر یہ انتظار کا زمانہ لندن کی نگاہ ناز کے ایک اشارے میں ختم ہو گیا.اور یہ سب حضرات وہاں دوڑے گئے کہ اپنے اپنے حقوق کی حفاظت کریں اور جو کچھ مال غنیمت ہاتھ آجائے اس میں حصہ بٹائیں.لندن میں یہ صف بندی کرنے میں اس خیال سے اور بھی عجلت کی گئی کہ کانگرس کی انتہا پسند کی بڑھتی جاتی ہے اور اس پر عام لوگوں کا اثر غالب آتا جاتا ہے.مستقل حقوق کے مالکوں میں خود بخود یہ احساس پیدا ہو گیا کہ اگر ہندوستان میں کوئی بنیادی سیاسی تبدیلی ہوئی تو عام لوگوں کا طبقہ حاوی ہو جائے گا یا کم سے کم اس کی اہمیت بڑھ جائے گی اور وہ یقینا بنیادی سماجی تبدیلیوں پر زور دے گا جس سے ان کے مستقل حقوق خطرے میں پڑ جائیں گے.اس خطرے کو دیکھ کر یہ حضرات گھبر ائے اور انہوں نے یہ کوشش شروع کر دی کہ کوئی اہم سیاسی تبدیلی نہ ہونے پائے.وہ چاہتے تھے انگریز ہندوستان
193 میں پہنچ بنے بیٹھے رہیں تاکہ وہ موجودہ سیاسی نظام کو قائم رکھیں اور ان کے مستقل حقوق کی حفاظت کرتے رہیں.نو آبادیات کے درجے پر زور دینے میں اصل مصلحت یہی تھی.ایک بار ایک مشہور اعتدال پسند لیڈر مجھ سے اس بات پر خفا ہو گئے کہ میں نے برطانوی حکومت سے معاملہ کرنے کے لئے یہ لازمی شرط قرار دی کہ برطانوی فوج ہندوستان سے فور ہٹا لی جائے اور ہندوستانی فوج جمہور ہند کی نگرانی میں دے دی جائے.انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر خود برطانوی حکومت بھی اسے منظور کر لے تب بھی میں اس کی انتہائی مخالفت کروں گا.وہ قومی آزادی کی اس لازمی شرط کے مخالف کچھ اس وجہ سے نہیں تھے کہ موجودہ حالات میں اس کا پورا ہونا نا ممکن ہے.بلکہ وہ سرے سے اسے ناپسند کرتے تھے.شاید اس کا ایک سبب یہ بھی ہو کہ انہیں بیرونی حملے کا خوف تھا اور وہ چاہتے تھے کہ بر طانوی فوج ہماری حفاظت کے لئے موجودرہے.قطع نظر اس بحث کے کہ بیرونی حملے کا امکان ہے یا نہیں ، یہ بات بجائے خود ہر غیرتمند ہندوستانی کے لئے باعث شرم ہے کہ اپنی حفاظت کی درخواست دوسروں سے کی جائے.مگر میرے خیال میں ہندوستان میں برطانوی قوت قائم رکھنے کی خواہش بیرونی حملے کے خوف پر مبنی نہیں ہے بلکہ اس کی ضرورت اس وجہ سے محسوس کی جاتی ہے کہ وہ مستقل حقوق کے مالکوں کو خود ہندوستانیوں سے یعنی خالص جمہوریت سے اور عام لوگوں کے غلبے سے بچائے.غرض گول میز کانفرنس کے ہندوستانی نمائندے یعنی نہ صرف وہ لوگ جو کھلے ہوئے رجعت پسند اور فرقہ پرست تھے بلکہ وہ بھی جو اپنے آپ کو ترقی پسند اور قوم پرست کہتے تھے ، برطانوی حکومت کے ساتھ بہت سی مشترک اغراض رکھتے تھے “10 پنڈت جی نے گول میز کانفرنس میں شامل مسلم زعماء پر فرقہ پرست، دشمن وطن اور رجعت پسند ہونے کی پھبتی ہی نہیں کسی بلکہ نہایت بے حجابی سے مسلم قومیت کا بھی جی بھر کے مذاق اڑایا.چنانچہ لکھا.مسلم قوم کا تخیل تو صرف چند لوگوں کی من گھڑت اور محض پرواز خیال ہے.اگر اخبارات اس کی اس قدر اشاعت نہ کرتے تو بہت تھوڑے لوگ اس سے واقف
194 ہوتے اور اگر زیادہ لوگوں کو اس پر اعتقاد بھی ہو تا تو بھی حقیقت سے دوچار ہونے کے بعد اس کا خاتمہ ہو جاتا.“11 پنڈت جی پکے اشتراکی اور سوشلسٹ ہونے کے علاوہ مذہب اسلام کے سخت خلاف تھے چنانچہ مزید لکھتے ہیں.”میں نے اسلامی تمدن کا مطلب سمجھنے کی بڑی کوشش کی لیکن میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں اس میں کامیاب نہیں ہوا....ہاں مسلم قوم اور مسلم تمدن کیا ہو گا؟ کیا یہ آئندہ صرف شمالی ہند میں سرکار دولتمدار برطانیہ کے زیر سایہ پھلے پھولے 12" یہ تھی وہ فضا جس میں گول میز کانفرنس کا اختتام ہوا جس کے بعد کانگرسی لیڈروں کی سب امیدوں پر پانی پھر گیا کیونکہ کانفرنس کی بحث و تمحیص کی روشنی میں وزیر اعظم برطانیہ نے کمیونل ایوارڈ(Communal Award) شائع کر دیا اور پھر ملک میں انڈیا ایکٹ 1935ء کے نفاذ کی تیاریاں زور وشور سے شروع ہو گئیں.یہاں بھارت کے مشہور مورخ جناب کے.آر بمبوال ایم اے (K.R.Bombwall) کے قلم سے راؤنڈ ٹیبل کانفرنس، برطانوی حکومت کے قرطاس ابیض اور انڈیا ایکٹ کے نفاذ کا اجمالی ذکر مناسب ہو گا.فرماتے ہیں: Third Round Table Conference: The last and truncated session of the Round Table of the Conference opened in November, 1932, and concluded a few days before the year closed.The Labour party had withdrawn its co-operation from the Conference.As a result, its last session was held under the complete domination of reactionary elements and India was represented by ultra concerned was loyalistsonly.The Conference with reaffirming the decisions already arrived at in regard to the outlines of the new constitution and filling in some of the details.
195 In March.1933, the British Government published the white paper embodying, in the main, the conclusions reached in the Round Table Conference but with significant changes designed to meet Conservative criticism.The proposals in the White Paper were "so reactionary as to be utterly unacceptable to any section of progressive India opinion."The document was described by Srinivasa Sastri as" hideous, grinning anthropoid." The White Paper scheme was examined by a joint select Committee of the two Houses of Parliament.In its report, the Committee generally endorsed the proposals embodied in the White Paper.A few modifications introduced by it only made the scheme worse.For instance, the Committee recommended indirect elections to the Federal Assembly as against the direct representation originally proposed.The constitutional scheme, as it emerged from the Joint Parliamentary Committee was communalism run riot and retrogression in the name of reform.This scheme took the form of Government of India Act of 1935 which Parliament in August 1935."13 موصوف نے اپنی کتاب کے صفحہ 249-250 میں انڈیا ایکٹ کی روشنی میں حق رائے دہی اور انتخابی عمل کا ذکر بھی فرمایا ہے.جس سے صاف پتہ چل سکتا ہے کہ گول میز کانفرنس کے مسلم نمائندگان کی کامیاب نمائندگی نے آل انڈیا کانگرس کی مسلم امہ کے متعلق خوفناک سکیم کو پیوند خاک کر دیا اور وہ بر سر اقتدار برطانوی حکومت کے چوٹی کے سیاسی لیڈروں کو مسلم حقوق سے دستکش ہونے یازیر بحث نہ لانے میں سراسر ناکام و نامراد ہو گئی.چنانچہ لکھتے ہیں."The act of 1935 made some improvement on the Act of 1919 by lowering the property and literary qualifications for franchise.As a result, 35 million persons including more
196 than 6 million women received the vote.While the Montford Reforms had enfranchised only 3 percent of the total population, the Act of 1935 gave the vote to 14 per cent of the total population or 27 per cent of the total adult population." آل انڈیا نیشنل کانگرس اور احرار نے متفقہ سازش کر کے ملک کا تختہ الٹنے اور مکمل آزادی کا جو مطالبہ امن شکنی کی صورت میں کر رکھا تھا، وہ بھی رڈی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا اور انڈیا ایکٹ میں ہوم گورنمنٹ کے قیام سے عملاً تحریک پاکستان کی راہ ہموار ہو گئی.چنانچہ بھارتی ودان کتاب کے صفحہ 250 پر لکھتے ہیں: Franchise and Electorate "Under the Act of 1935, as under the Montford Reforms, the electoral system of India was based on the principle of "communities, classes and interests".To the existing separate communal and class electorates, special electorates for Labour and Women were added for the first time.The system of weightage in representation also continued.Thus, Muslims received 13 per cent seats in Madras and 27 percent in U.P.as against 7.1 percent and 14.8 percent of population respectively.Europeans were particularly favoured.With a population under: 1/35th of one percent, they were given 3 percent seats in the provincial Legislation.Home Government The Act of 1935 made only a few formal changes in the Home Government.No explicit mention was made of the Secretary of State's power of superintendence, direction and control" over the administration of India.This power
197 was now vested in the Crown.The change, however, was nominal.Although the Crown came into the foreground, its power continued to be used in practice by the Secretary of State.He exercised supervision and control on the Governor General and the Governors when they acted in their discretion or exercised their individual judgment.The Act abolished the India Council and provided the Secretary of State with not less than 3 and not more than 6 Advisers of whom atleast one-half must have served in India for not less than ten years and should not have ceased to work there more than two year before appointment.The Advisers were appointed for five years and received a salary of $.1,350 a year with 600 extra for those of Indian domicile.This expenditure was to be provided for by the British Parliament and was not to be charged on Indian revenues.The Advisers could be consulted by the Secretary of State individually or collectively but he was not bound to accept their advice." انڈیا ایکٹ 1935ء کے نفاذ سے قبل مطالبہ اقلیت راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کی سفارشات کی روشنی میں برطانوی حکومت نے انڈیا ایکٹ تیار کر لیا تا کہ اس کے مطابق ملکی انتخابات کروائے جاسکیں لیکن عین اس وقت جبکہ انڈیا ایکٹ کے نفاذ میں صرف چند ماہ باقی رہ گئے ، آل انڈیا کانگرس کے مسلم دشمن رہنماؤں نے ہند و جاتی کی تعداد کو بڑھانے اور مسلم اقلیت کو مزید کمزور کرنے کے لئے یہ شرمناک دوغلی پالیسی اختیار کر لی کہ ایک طرف گاندھی جی نے بڑو دا جیل میں مرن برت رکھتے ہوئے اعلان کیا کہ کانگرس ہر حال میں اچھوتوں کو ہندو شمار کرتی ہے.لہذا برطانوی سیاستدان اچھوتوں کو جدا گانہ نیابت دے کر ہندو قوم کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں جو کبھی برداشت نہیں کریں گے.اور دوسری طرف انڈیا کے مسلمانوں کی تعداد میں کمی کرنے کے لئے اپنے زر خرید اور ایجنٹ ملاؤں کے ذریعہ یہ مطالبہ کرا دیا کہ احمدیوں کو مسلمانوں سے الگ تسلیم کر
198 کے انہیں سرکاری طور پر غیر مسلم قرار دیا جائے.یہ اقدام مظلوم مسلمانوں کے سیاسی اور ملی جسم میں خنجر گھونپنے کے مترادف تھا.احرار کانفرنس 1934ء یہ مطالبہ احرار کا نفرنس کے آخری اجلاس منعقدہ 23 اکتوبر 1934ء کو بذریعہ قرار داد کیا گیا جو مولوی ظفر علی خاں 14 نے پیش کی.یہ وہی صاحب تھے جو تحریک خلافت کے زمانہ سے گاندھی، نہر و اور دوسرے متعصب ہندو لیڈروں کے غلام بے دام بن گئے تھے.وہ اس معاملہ میں اس قدر غالی تھے کہ انہوں نے 23 جولائی 1921ء کو لاہور کے ایک جلسہ عام میں یہاں تک کہہ ڈالا ”ہندوؤں نے اور مہاتما گاندھی نے مسلمانوں پر احسان کئے ہیں.ان کا عوض ہم نہیں دے سکتے.ہمارے پاس زر نہیں ہے.جب چاہیں ہم حاضر ہیں.“15 مولوی ظفر علی خاں کے عقیدت مند اُن کے منظوم کلام کو شعری الہامات“ سے بھی تعبیر کر تے ہیں.گاندھی کی شان میں اُن کے چند تاریخ ساز اشعار ملاحظہ ہوں.”گاندھی نے آج جنگ کا اعلان کر دیا باطل سے حق کو دست و گریبان کر دیا سر رکھ دیا رضائے خدا کی حریم پر کو پھر حوالہ شیطان کر دیا تن من کیا ثار خلافت کے نام پر سب کچھ خدا کی راہ میں قربان کر دیا پروردگار نے کہ ہے وہ منزلت شناس گاندھی کو بھی یہ مرتبہ پہچان کر دیا 16 مولوی صاحب معاندین احمدیت کی صف اوّل میں شمار ہوتے تھے اور انہیں سفیر کانگرس ہونے پر بے حد فخر تھا جس کا کسی قدر اندازہ اُن کے درج ذیل اشعار سے بخوبی لگ سکتا ہے.
199 قادیاں مرزا براندام مرے نام سے کہ میں ویران یہ عمارت بھی کیا کرتا ہوں کیا تعجب کہ احرار بھی گرما جائیں کہ میں پیدا یہ حرارت بھی کیا کرتا ہوں ہندوؤں کو میں ملاتا ہوں مسلمانوں سے کانگرس کی میں سفارت بھی کیا کرتا ہوں 17 مولوی ظفر علی ایڈیٹر زمیندار گاندھی ، نہرو، مالوی جی اور دوسرے متعصب ہندوؤں کے ارادت مند تھے.یہ شعر انہی کا ہے.جو مولوی نہ ملے گا تو مالوی ہی سہی خدا خدا نہ سہی رام رام کر لیں گے پنڈت نہروجی کے سفر یورپ کے بعد انہوں نے فرمایا.جس آزادی کی تلقین آج ہوتی ہے بنارس میں کبھی یہ کان سنتے تھے مدینہ سے پیام اس کا مولانا عبد المجید سالک نے اپنے روزنامہ انقلاب 27 جنوری 1928ء میں ”افکار وحوادث“ کے مشہور کالم میں اس پر زبر دست تنقید کرتے ہوئے لکھا:.شعر بالکل صاف ہے اور اس کے الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ ایک زمانہ وہ تھا کہ مدینہ منورہ سے آزادی کا پیام ملا کر تا تھا.آج اسی آزادی کی تلقین بنارس سے ہورہی تھی.گویا جو پیغام آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پیشتر حضور رسالت مآب صلی ا ہم نے دیا تھا وہی آج بنارس میں پنڈت مالوی جی مہاراج دے رہے ہیں.شعر سے ظاہر ہو تا ہے کہ مدینہ والا پیام تو اب کانوں تک نہیں پہنچتا لیکن بنارس کی تلقین آج بھی زندہ و قائم موجود ہے.نعوذ باللہ منھا.اس شعر میں بہت بے احتیاطی سے کام لیا گیا ہے.تو ہین واضح ہے.ہم شاعر صاحب سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ بنارس کے ساتھ
200 تعلقات اچھے رکھیں.خواجہ مالوی جی کے بھگت بنیں.لیکن خدا را جوش عقیدت یا ہنگامہ آرائی میں ایسے الفاظ کے استعمال سے بچیں جن سے صراحتا اسلام کی توہین ٹپکتی ہے.18" فروری 1928ء کا واقعہ ہے کہ مولوی ظفر علی خاں نے سکھ تبلیغ کا نفرنس میں وعظ کیا کہ ”ایک غلام ملک میں کوئی تبلیغ نہیں ہو سکتی.“ یہ فقرہ آنحضرت صلی ایم کے مکی دور کی تمام سرگرمیوں پر ایک شرمناک حملہ تھا جس پر اخبار انقلاب نے 26 فروری 1928ء کو ”کیا تبلیغ اسلام روک دی جائے.ایک نیافتنہ “ کے زیر عنوان پر زور ادار یہ لکھا جس میں 16 فروری 1928ء کے اخبار ”زمیندار“ سے کانفرنس کی روداد کے تعلق میں مولوی صاحب کے اس فقرہ کو خاص طور پر نقل کیا کہ ” تبلیغ کے لئے فضا ساز گار ہونی چاہیے.تبلیغ جنگ کی حالت میں نہیں ہو سکتی اس کے لئے صلح در کار ہے.“ انقلاب نے مسلم زعماء سے پوچھا کہ کیا قادیانی اور لاہوری احمدی اور دوسری جماعتیں جو تبلیغ اسلام کا کام کر رہی ہیں ”کیا یہ تمام ادارے اور نظام فضول تھے اور فضول ہیں.انہیں جلد بند کر دینا چاہیے.انقلاب نے اپنے اداریہ میں یہ بھی انکشاف کیا کہ مولوی ظفر علی خاں پنڈت جواہر لال نہرو جیسے دہریہ اور سوشلسٹ رہنما کے مشن ہی کی تکمیل کر رہے ہیں جن کے نزدیک ”غلاموں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا“.19 مولوی ظفر علی صاحب نے یہ لکھ کر نہر دو گاندھی سے اپنے خفیہ گٹھ جوڑ کا پردہ چاک کر دیا کہ ”اگر مسلمانوں کو نقصان پہنچنے پر آزادی حاصل ہو جائے تو میں مسلمانوں کے فوائد کو آزادی پر قربان کر دینے کو تیار ہوں.“20 بالکل یہی ذہنیت انتہا پسند اور متعصب ہندو لیڈروں اور ہندو پریس کی تھی.چنانچہ اخبار ”پر تاپ“ نے مورخہ 24 ستمبر 1930ء کالم 3 میں لکھا.”ہندوستان میں اگر رہنا ہے تو ہندوستانی مسلمان بن کے رہنا پڑے گا.فرقہ داری کی اجازت نہ کسی اور ملک میں دی گئی ہے نہ ہندوستان میں دی جاسکتی ہے.غلامی منظور مگر فرقہ داری نامنظور.“21 مسلمانان ہند کو مولوی ظفر علی خاں کے ہندو کانگرس کے در پر دہ ایجنٹ ہونے کا پتہ چلا تو اُن کے خلاف قہر وغضب کی ایک زبر دست لہر اٹھ کھڑی ہوئی.بنگلور میں تو ان کی تقریر کے دوران ہنگامہ ہو گیا.اگر وہ بھاگ نہ جاتے تو یقینا پٹ جاتے.اس ضمن میں بنگلور کے ایک نامہ نگار جناب محمد قاسم
201 خاں کی جور پورٹ انقلاب 11 ستمبر 1931ء میں چھپی.اس کا ایک حصہ درج ذیل کیا جاتا ہے.”شام کو محمد علی میدان میں مولانا نے مذہبی تقریر کی.دوران تقریر میں پہلو بدلتے ہوئے آپ نے کہا کہ اگر ہند کو آزادی ملے گی تو میں جھنڈالے کے سب سے آگے ہوں گا اور میرے بعد مہاتما گاندھی اور پھر جواہر لال نہرو.“ ” جلسہ کے اختتام پر اعلان کیا گیا کہ شب کو محمد علی ہال میں ٹھیک ساڑھے نو بجے مولانا کا وعظ ہو گا....مولانا نے وعظ میں مہاتما کی زبر دست تعریفیں کیں جس پر فساد ہونے کا احتمال تھا لیکن خدا نے رحم کیا کہ مسلمانوں میں خونریزی ہوتے ہوتے رہ اسی روز کانگرس کمیٹی کی طرف سے اشتہار کے ذریعہ اعلان کیا گیا کہ ڈیڑھ بجے محمد علی میدان میں مولانا کا انگریزی لیکچر ہو گا....جلسے کے صدر رضوی صاحب تھے جو مسلمانوں سے زیادہ ہندوؤں کے خادم ہیں.جلسہ میں ہند ورضاکار بھی تھے.ایک ہند و نے کھڑے ہو کر ایڈریس پیش کیا جس کا جواب دینے کے لئے مولانا کھڑے ہی ہوئے تھے کہ چاروں طرف سے شوکت علی زندہ باد کے نعروں نے خاص کر مولانا اور ان کے ننگ قوم ہوا خواہوں کے ہوش اڑا دیئے.ہجوم میں سے ایک نوجوان موسوم بہ محمد یعقوب صدر سے اجازت لے کر اسٹیج پر جا کر کھڑا ہوا اور مجمع کو مخاطب کر کے کہا کہ حضرات ذرا خاموش ہو جائیے! میں مولانا کی خدمت میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں.جب سامعین کچھ خاموش ہو گئے.صاحب موصوف نے دلی جوش ضبط کرتے ہوئے نہایت موثر پیرائے میں تقریر شروع کی اور مولانا کو مخاطب کر کے کہنے لگے کہ مولانا! آپ کی توہین منظور نہیں.ہمارے دل آپ کی خدمات ملی کی قدر کرتے ہیں.آپ نے فارسی اور اردو کی قابل قدر خدمات انجام دی ہیں اور آپ ہی نے مسلمانان ہند میں پہلے پہل بیداری کی روح پھونکی تھی.اس کا شکریہ، لیکن آج کل جو روش آپ نے اختیار کی ہے وہ مسلمانوں کے لیے ناکارہ اور ناقابل برداشت ہے.مولانا آپ کو کیا ہو گیا ہے جو آپ 8 کروڑ غریب مسلمانوں کو بے بسی کی حالت میں چھوڑ کر 32 کروڑ دولت مند ہندوؤں کا ساتھ دے رہے ہیں اور ہم کو بھی ہندوؤں کے ساتھ مل کر رہنے کی ترغیب دلا رہے ہیں ؟ مولانا
202 آپ ہم کو کیوں ہندوؤں کا غلام بنانے کی کوشش کرتے ہیں، جنہوں نے کانپور، مرزاپور، بنارس، آگرہ وغیرہ مقامات میں خدا کے گھر کی توہین کی،کلام پاک کو جلایا، مسلمان بھائیوں کے خون کی ندیاں بہا دیں اور عصمت مآب بہنوں کی درندوں کی طرح عصمت دری کی.معذور بوڑھوں کو لاٹھیوں سے مار مار کر ٹھنڈا کر دیا اور شیر خوار بچوں کو جانوروں کی طرح چھروں سے حلال کر دیا.آخر ان کو مارنے کے بعد لوٹ بھی لیا اور ان کے گھروں کو بھی آگ لگا دی.آہ افسوس صد ہزار افسوس.مولانا کے پٹ جانے کا اندیشہ یہاں تک تقریر ہونے پائی تھی کہ عوام بے صبر ہو گئے اور جلسے میں حد درجے کا جوش اور بد نظمی پیدا ہو گئی.چاروں طرف سے کانگرس بر باد، مخلوطی ظفر علی مردہ باد کے نعروں نے ضمیر فروش خود غرضوں کو خوفزدہ کر دیا اور ہر طرف سے مولانا پر گالیوں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی....ہر ایک مسلمان پر غیظ و غضب میں ایک دیوانگی کا عالم چھایا ہوا تھا.اگر مولانا اپنے ضمیر فروش ہوا خواہوں کے ساتھ چلے نہ جاتے تو خدا جانے ان کی اور ان کا ساتھ دینے والوں کی کیا گت بنتی.22 فخر ملت حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی اسلامی خدمات آل انڈیا نیشنل کانگرس اور ان کے احراری ایجنٹوں کی نگاہ میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی تھیں.اس لئے انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس دہلی میں آپ کے خطبہ صدارت کے موقع پر شرمناک غنڈہ گردی کا مظاہرہ کیا.احرار کا نفرنس میں آپ کے خلاف بھی قرار داد پیش کی گئی کہ انہیں مسلم نمائندہ کی حیثیت سے وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کا ممبر نہ بنایا جائے.یہ قرارداد ابو الکلام آزاد صاحب کے کانگریسی دوست اور سوشلسٹ انقلابی مولوی حسین احمد مدنی دیوبندی نے پیش کی.23 ان دونوں قرار دادوں سے احرار کی تبلیغ کا نفرنس کے کانگریسی مقاصد پبلک کے سامنے پہلی بار گھل کر سامنے آگئے.اور ثابت ہو گیا کہ اس خالص سیاسی اجتماع کو ” تبلیغ کا نفرنس“ سے موسوم کرنا محض ڈھونگ تھا جس کے پیچھے صرف پنڈت جواہر لال نہرو اور آل انڈیا نیشنل کانگرس کے انتہا پسند اور سوشلسٹ ہندو ممبروں کے سیاسی مقاصد کی تکمیل کار فرما تھی.جو ”رام راج“ کے قیام کے راستے میں
203 جماعت احمد یہ کوسب سے بڑی روک اور سدِ راہ یقین کرتے تھے.اس لئے ان کا قطعی فیصلہ تھا کہ احمدیوں کو جلد جلد دوسرے مسلم معاشرے سے کاٹ پھینکنا ضروری ہے تا مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ بے جان ہو کر رہ جائے اور انگریز پر واضح ہو جائے کہ ملک بھر کی واحد پارٹی صرف آل انڈیا نیشنل کانگرس ہے جسے انگریزوں کو اپنا اقتدار سونپ کر ملک چھوڑ دینا ہو گا.سر اقبال جیسے سوشلسٹ اور انقلابی شاعر جو صرف اشارہ کے منتظر تھے، یکا یک جماعت احمدیہ کے خلاف میدان میں کود پڑے اور احراری مطالبہ کی تائید میں پر زور مضامین لکھے اور ساتھ ہی اپنے گہرے سوشلسٹ دوست پنڈت نہرو کو بذریعہ مکتوب لکھا کہ احمدی ہندوستان اور اسلام دونوں کے مخالف اور غدار ہیں.یہ بالواسطہ طور پر اُن کی مخالف احمدیت ایجی ٹیشن کو زبر دست خراج تحسین تھی جس سے انہیں مزید جرات دلانا مقصود تھا کہ آپ اپنی سکیم زور وشور سے جاری رکھیں.ہم دل وجان سے آپ کے ساتھ ہیں.اس ذو معنی فقرہ کے صاف معنی یہ تھے کہ سوشلزم اسلام ہی کا دوسرا نام ہے مگر احمدی اسے گوارا نہیں کر سکتے.اور چونکہ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے ساتھ ہیں اور ہندوستان کی آزادی کے کانگرسی تصور کے خلاف نبرد آزما ہیں اس لئے وہ ملک کے بھی غدار ہیں.یہی وجہ ہے کہ اقبال کی وفات کے بعد 1944ء میں قائد اعظم محمد علی جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس لاہور میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے لئے جو قرار داد عبد الحامد بدایوانی کی طرف سے پیش کی گئی وہ رڈی کی ٹوکری میں ڈال دی تو احراری لیڈروں کی قائد اعظم کے خلاف آتش بغض و عناد شعلے بن کر بھڑک اٹھی اور انہوں نے مسلمانان ہندوستان کو تحریک پاکستان سے برگشتہ کرنے کے لئے پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ جناح صاحب قادیانیوں کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں.24 اقبال اور قائد اعظم کا بنیادی اختلاف قائد اعظم کے دست راست، تحریک پاکستان کے صف اول کے رہنما اور چوٹی کے سیاستدان جناب غلام مرتضیٰ (جی.ایم.سید) قائد اعظم کے قوم پرست خیالات کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: وہ مذہب کو سیاست سے علیحدہ رکھنے کے حامی تھے.مذہب کو افراد کے ذاتی عقیدے سے متعلق سمجھتے تھے....اس کا ثبوت پاکستان بننے کے بعد اُن کی آئین ساز اسمبلی میں کی ہوئی پہلی تقریر سے ملتا ہے.اس کے خاص حصے نیچے دیئے جاتے
204 ہیں....آپ اس حکومت میں آزاد ہیں.اپنے مندروں اور مسجدوں میں جاؤ.آپ کے مذہب یا فرقے کا ملک کے کاروبار سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے.25" غور سے دیکھا جائے تو علامہ صاحب متضاد خیالات، عقائد اور نظریات کے مرکب تھے اور ان کا عمل سب سے جدا گانہ تھا.ایک طرف قادیانی فرقہ کے مسلمانوں کے خلاف سخت مضامین لکھ کر تنگ نظری کا مظاہرہ کر رہے تھے.دوسری طرف ساری دنیا کے مسلمانوں کو ایک مقام پر متحد کرنا چاہتے تھے.26 آپ کا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ جو عناصر ”علامہ“ کو حکیم الامت، شاعر مشرق وغیرہ القاب سے یاد کرتے ، ان کے نام اکیڈیمیاں قائم کر کے اور کتابیں لکھ کر پاکستان بلکہ عالم اسلام میں تشہیر کر رہے ہیں، اُن کے پیچھے مخصوص سیاسی مقاصد ہیں.مثلاً عوام کے طبقہ اعلیٰ کے مفاد کی خاطر مذہب کے نام پر گمراہ کرنے کا مواد اسی طریق سے مہیا ہوتا ہو تا ہے.27 جی ایم سید نے سیاست میں مذہب کو دخیل کرنے پر سر اقبال کی شدید مذمت کی جس کی تشبیہ یہودیوں کی مملکت اور کمیونسٹ ممالک سے دی ہے نیز لکھا:.ایک ہی وطن میں مذہب کی بنیاد پر جدا گانہ قومیت کا وجود ملکی سالمیت واستحکام کے خلاف تھا.یہ بین الا قوامی نظریہ کے اساس پر قائم ہوئی قوم تھی.اس پر مشکل حالات میں اعتبار نہیں کیا جاسکتا ہے.جس طرح کمیونسٹ ممالک نے آزادی حواشی: "1 فکر پر پابندی عائد کر کے عقائد و نظریات پر پہرے بٹھا دیئے.“ 28" علامہ اقبال کا خطبہ صدارت اجلاس مسلم لیگ الہ آباد 1930ء صفحہ 13-15 شائع کر دہ حکومت مغربی پاکستان.2 خطبہ صدارت صفحہ 2.3 ”زندہ رود“ جلد سوم صفحہ 385 تا 387.4 مطبوعہ پاکستان ٹائمز 7 مئی 1967ء بحوالہ زندہ رود جلد سوم صفحه 389-682 از جسٹس جاوید اقبال ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور ، اشاعت اول - 1984 5 اقبال.جادو گر ہندی نژاد صفحہ 131 مولفہ عتیق صدیقی ناشر مکتبہ جامعہ نئی دہلی طبع اول اگست 1980ء.6 تحدیث نعمت طبع دوم صفحہ 294.295.7 Famous letters and speeches edited by L.F.Rush Brook Williams quondam fellow of all souls colleague p:551- 552.
205 9 8 میری کہانی حصہ اول صفحہ 397.399 ناشر مکتبہ جامعہ اشاعت 1936.ایضاً صفحہ 20 تا 22.10 ايضاً صفحہ 398-399."11 1 ”میری کہانی“ حصہ دوم صفحہ 332."12 1 ” میری کہانی“ حصہ دوم صفحہ 337،336،334.Indian Politics and Government 13 14 روز نامہ زمیندار لاہور 24 اکتوبر 1934ء کاروان احرار جلد دوم صفحه 57-58 از جانباز مرزا.ناشر مکتبہ تبصرہ لاہور.دسمبر 1984ء.15 تقاریر مولانا ظفر علی صفحہ 61.16” مولانا ظفر علی خاں“ صفحہ 566-567.17 ”مولانا ظفر علی خاں صفحہ 271 تالیف پروفیسر ڈاکٹر غلام حسنین.ناشر سنگ میل پبلی کیشنز لاہور.سال اشاعت 1993ء.18 افکار و حوادث جلد دوم صفحہ 43-44.مرتب محمد حمزہ صاحب فاروقی.ناشر مغربی پاکستان اردو اکیڈمی لاہور.19 ” افکار حوادث“ جلد دوم صفحہ 512 تا516.20 زمیندار لاہور 16 ستمبر 1928ء.( افکار و حوادث“ جلد دوم صفحہ 410).21 بحوالہ روزنامہ انقلاب 26 ستمبر 1930ء (بحوالہ ” افکار و حوادث“ از مولانا عبد المجید سالک صفحہ 184-185 ناشر مغربی پاکستان اردواکیڈمی لاہور.اشاعت 1991ء."22 افکار و حوادث“ جلد دوم صفحہ 448 تا 454.23 کاروان احرار جلد دوم صفحه 57-58- 24 تحریک کشمیر سے تحریک ختم نبوت تک صفحہ 244 از چوہدری غلام نبی.مکتبہ قاسمیہ اردو بازار لاہور طبع دوم جون 1992ء.25 جدید سیاست کے نورتن صفحہ 26-27 ( متر جم خادم حسین سومر و) ناشر کلاسیک چوک ریگل دی مال لاہور طبع اول دسمبر 1993ء.26 ایضاً صفحہ 110.27 ایضاً صفحہ 110-111- 28 ایضاً صفحه 107-108.
206 بیسویں فصل اشتراکی روس کے ایجنٹ ملاؤں کے ذریعہ طوفانِ ارتداد جہاں برٹش انڈیا میں ابوالکلام آزاد، اقبال اور احرار معصوم مسلمانوں کوسوشلزم کا پرستار بنانے میں سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے وہاں ملا نور وحیدوف‘ ملا سلطان اور دیگر بہت سے دنیا پرست ملا روسی ایجنٹ بن کر بالشویک روس کے مسلمانوں کو مر تذ کر رہے تھے.یہی وہ دشمنانِ اسلام تھے جنہوں نے سوشلزم کے عین اسلام ہونے کا وسیع پیمانے پر پراپیگینڈا کیا اور ”اسلامی سوشلزم کی اصطلاح اختراع کی.1 چنانچہ کتاب ”روس میں مسلمان قومیں “ کے مولف جناب آبادشاہ پوری رقمطراز ہیں: بالآخر وہ مناسب وقت آ پہنچا.ترکستان کا اسلامی معاشرہ اور اس کی تہذیبی و تمدنی عمارت منہدم کرنے کیلئے متواتر کئی برس سے جو بارود بچھایا جارہاتھا، اس کو آگ لگ چکی تھی.اور پھر اس عمارت کی اینٹ سے اینٹ بج گئی جو صدیوں سے طوفان اور آندھیوں کا مقابلہ کرتی چلی آرہی تھی.ہر طرف افتراق و انتشار برپا ہو گیا.فکری و نظریاتی بغاوت نے یقین و ایمان کی دنیا تہہ وبالا کر دی اور لوگ اپنے ارتداد کا اعلان کھلے عام کرنے لگے.ان میں وہ لوگ پیش پیش تھے جو دین متین کے علمبر دار، تعلیمات اسلامی کے حامل اور دعوتِ دیں کے داعی تھے ، جن کا منصب حق و باطل کی کشمکش میں مسلمانوں کی رہنمائی تھی.ترک اسلام کے اعلانات اشتراکی پریس میں جلی سرخیوں میں شائع ہو رہے تھے.ایک عالم نے اپنے اعلانِ ارتداد میں کہا: میں علماء اور جاگیر داروں کا فریب خوردہ ہوں.میر انام بابو عابد شریف ہے، میں غازی آباد کی مسجد میں سالہا سال تک اپنے شب گرفتہ محنت کش کسانوں کے دماغ میں خرافات ٹھونستارہا ہوں.اب مجھ پر صداقت آشکار ہوئی ہے.امیر علماء کے بیانات پڑھ کر میری آنکھیں کھل گئی ہیں.مجھے پتا چل گیا ہے کہ قرآن وحدیث کو یہ لوگ اپنے معاشی مفادات کے لئے استعمال کرتے تھے.میں تمام لوگوں اور سوویٹ حکومت کے سامنے باضابطہ حلفیہ بیان دیتا ہوں کہ اب میں اسلام کا خادم نہیں رہا ، جس پر نہ تو میرا ایمان ہے نہ یقین، جو عوام کو محض فریب دینے کے لئے گھڑا گیا تھا.“
207 علماء کا جب یہ حال تھا تو عام مسلمان کفر والحاد کے اس سیلاب کے آگے کب تک ثابت قدم رہتے.تھوڑی ہی مدت گزری تھی کہ انفرادی ارتداد نے اجتماعی ارتداد کی شکل اختیار کرلی.سڈنی اور پیٹر ز ویب لکھتے ہیں: ” بہت سے علاقوں میں ملاؤں کی بڑی تعداد نے اپنے مقتدیوں سمیت اسلام ترک کر دیا اور سوویٹ یونین کی سرپرستی میں الحاد و بے دینی کی تبلیغ واشاعت شروع 2" کر دی.“2 سوویٹ نظریاتی مجلہ ”سیاسی خود تعلیمی“ نے اکتوبر 1969ء کے شمارہ میں روسی ملاؤں کی اسلام فروشی کا منظر ان الفاظ میں پیش کیا.زیادہ زور اسلام کے اخلاقی احکامات پر دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ سوشلسٹ سوسائٹی میں انہی احکام پر عمل ہو رہا ہے....کہا جا رہا ہے کہ آج محمد (صلی ) کے افکار وخیالات پر ہی عمل ہو رہا ہے.انہوں نے ان افکار کا اعلان کیا اور کمیونسٹ اصولوں کو رواج دینے کی کوشش کی تھی لیکن کامیاب نہ ہو سکے.کیونکہ اس وقت نوعِ بشر تکنیکی طور پر اتنی ترقی یافتہ نہ تھی.اب وہ وقت دور نہیں جب سوویٹ عوام وہ فصل کاٹیں گے جو محمد (صلی ال نے کاشت کی تھی.ملا یہ بھی اعلان کرتے ہیں کہ جو شخص کمیونزم کی تکمیل کے مقدس فریضے میں شامل ہو کر رضائے الہی کو عملی جامہ پہنائے گا 3" وہ جنت میں جائے گا.“3 جناب آباد شاہ پوری صاحب اپنی دوسری کتاب ترکستان میں مسلم مزاحمت “4 کے صفحہ 120 پر رقم طراز ہیں: کمیونسٹ فکری و ذہنی انتشار اور افراتفری پیدا کرنے کے ماہر ہیں.اس کے بغیر وہ کسی سوسائٹی پر کاری ضرب نہیں لگا سکتے.جب بھی وہ کسی معاشرے اور ملک کو اپنے چنگل میں گرفتار کرنے کا منصوبہ بناتے ہیں، سب سے پہلے اس میں ذہنی انتشار اور عملی افرا تفری پیدا کرتے ہیں.یہاں انہیں مسلمانوں کی حد تک یہ زحمت بھی نہ اٹھانی پڑی.انہوں نے انکے اندر قوتِ فیصلہ سے بہرہ مند ، بابصیرت اور متفق علیہ قیادت کے فقدان اور اس سے پیدا ہونے والے انتشار اور صفوں میں ابتری دونوں سے بھر پور فائدہ اٹھایا.وہ مسلمانوں کی قوت سے پوری طرح باخبر تھے اور جانتے تھے
208 کہ اگر وہ بھی اٹھ کھڑے ہوئے تو خانہ جنگی بھی طویل ہو جائے گی اور اس سے پیدا ہونے والی ابتری میں انہیں آزادی کا موقع مل جائے گا.پھر وہ جس کے ساتھ مل گئے تاریخ کا فیصلہ اس کے پلڑے میں ہو گا.انہیں اپنے ساتھ ملا کر قازان سے ترکستان تک ایک ایسی مضبوط حامی قوت مل سکتی تھی جس کے سہارے وہ ان علاقوں میں اپنے کو مستحکم کر سکتے تھے.اس مقصد کے پیش نظر انہوں نے اپریل 1917ء کی ساتویں سوشل ڈیمو کریٹک کانگرس میں ایک قرار داد منظور کی تھی جس میں قومیتوں کے حق خودارادیت بلکہ اپنی قسمت آپ منتخب کرنے اور روس سے الگ ہو جانے تک کا حق تسلیم کر لیا تھا.تاہم اس وقت حالات اتنے پیچیدہ تھے اور افراتفری، ہنگاموں اور انتشار کا کچھ ایسا عالم تھا کہ یہ آواز اس میں ڈوب کر رہ گئی تھی اور صرف چند لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ سکی تھی.اب پیٹروگراڈ پر بالشویکوں (کمیونسٹوں) نے قبضہ کیا تو اس قرار داد کو باضابطہ سرکاری اعلان کی صورت دے دی.اعلان کے الفاظ بڑے دلکش تھے.زار شاہی عہد میں مسلمانوں کے دین اور تہذیب و ثقافت اور ان کی مسجدوں کو جس طرح پامال کیا گیا تھا اس کی مذمت کی گئی تھی.زاروں کو غاصب قرار دیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ آج سے ان کے دین و ایمان، انکی روایات، ان کے قومی و ثقافتی اداروں کی آزادی اور حرمت کا تحفظ کیا جائے گا.وہ پوری آزادی سے اپنی قومی زندگی تعمیر کر سکیں گے.انہیں یہ اختیار ہو گا کہ وہ چاہیں تو سوویٹ یونین کے اندر رہیں یا اس سے بالکل آزاد ہو کر اپنی ریاستیں قائم کر لیں.اپنے اخلاص کا مظاہرہ کرنے اور حلقہ دام تزویر کرنے کے لئے اس اعلان کے کچھ روز بعد کمیونسٹوں نے حضرت عثمان کا نسخہ ، قرآن جو مبینہ طور پر پیٹروگراڈ نیشنل لائبریری میں محفوظ تھا مسلمانوں کو دے دیا.اگلے مہینے قازان کا ایک تاریخی مینار بھی مسلمانوں کے حوالہ کر دیا.اس اعلان اور اقدامات نے دہرا کام کیا.ایک تو یہ کہ مسلمانوں کے اندر پہلے سے پھیلے ہوئے انتشار و افتراق میں اضافہ کر دیا.اب تک مسلمان سیاسی اعتبار سے تین گروہوں میں منقسم تھے.ایک گروہ روس کی وفاقی ریاست کے اندر داخلی یا علاقائی خود مختاری کا حامی تھا.دوسر اوحدانیت پسند تھا اس کے خیال میں وفاقی ریاست مسلمانوں کی اقتصادی اور سماجی ترقی کی راہ میں حائل ہو سکتی تھی.ان دونوں گروہوں
209 کا نقطئہ نظر بنیادی طور پر ایک تھا یعنی وہ روسی ریاست کے اندر رہنا چاہتے تھے.محض زبانی نہیں، تحریری معاہدوں کے ذریعے.تیسر اگر وہ مکمل آزادی کا علمبر دار تھا.اب چوتھا گر وہ بھی پیدا ہو گیا جو ان اعلانات پر اعتبار کر کے کسی قسم کے مذاکرات اور معاہدے کے بغیر بالشویک حکومت کی حمایت کر رہا تھا.قبل ازیں مسلمانوں کے حامی بہت کم اور بڑی حد تک بے مایہ تھے.اب اس نئے عنصر کی بدولت بالشویکوں کو مسلمانوں کے اندر قدم جمانے کا موقع مل گیا.یہ عنصر علماء جمعیتی (جمعیت علماء) پر مشتمل تھا.یہ لوگ پہلے روسیوں کے دائیں بازو کا ساتھ دیتے رہے تھے.لیکن اب بالشویکوں کے بچھائے ہوئے دام پر کچھ ایسے لٹو ہو گئے تھے کہ پیشگی ضمانت حاصل کرنے کی ضرورت بھی نہ سمجھتے تھے اور شیر علی لاپن کی سر براہی میں نئی حکومت سے تعاون کی دعوت دینے لگے تھے.ان کی کوشش تھی کہ مسلمان ان کی پالیسی اجتماعی طور پر اپنا لیں.نومبر 1917ء میں وسطی ایشیا کے مسلمانوں کی تیسری کانفرنس ہوئی.اس میں جمعیت علماء کے لیڈر غالب تھے.انہوں نے دباؤ بھی ڈالا، تاہم کا نفرنس نے نئی اتھارٹی کے خلاف معاندانہ پوزیشن اختیار کر لی.نتیجہ یہ ہوا کہ علماء جمعیتی الگ ہوگئے.مسلمانوں کے باقی تمام سیاسی گروہ مسلم کو نسل کے پرچم کے تلے جمع ہو گئے.یہ گویا روسیوں اور مسلم وسط ایشیا کے درمیان بحران کا آغاز تھا.لاپن نے مخلوط حکومت بنانے اور قدامت پسندوں کو آدھی نشستیں دینے کا مطالبہ کیا.مسلم کونسل کے نمائندوں نے مقامی خود مختاری کی تجویز پیش کی.روسیوں نے ان مطالبات اور تجویزوں کو مسترد کر دیا.لاپن کی خوش گمانیوں کے محل بھی زمین پر آرہے تھے.روسیوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ انہیں ان کے مطالبات منظور نہیں، ” مقامی آبادی کا رویہ بالشویک حکومت کے بارے میں مشکوک ہے ، اس میں کوئی پرولتاری تنظیم بھی نہیں کہ ہم اسے علاقائی حکومت کے بلند ترین شعبوں میں خوش آمدید کہیں.تاہم بالشویکوں کے اثرات گہرے بھی ہو چکے تھے اور نسبتاً وسیع بھی.اس میں وہ علماء جمعیتی کی جانب سے کسی بھی رد عمل کا سامنا کر سکتے تھے.اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک نرالی تحریک مسلمانوں میں اُٹھ کھڑی ہوئی تھی اور اس میں پیش پیش سادہ لوح، بے بصیرت اور لالچی ملا تھے.وہ سوشلزم کو عین اسلام قرار 66W
210 دے رہے تھے.”اسلامی سوشلزم کی اصطلاح سب سے پہلے ایک داغستانی ملا تر کو حاجی نے گھڑی.شیشان مسلمانوں میں ملا سلطان، کبر دینی ترکوں میں ملاکخانوف اور دولگا کے تاتاریوں میں ملار سولوف اسلامی سوشلزم کا پرچم اٹھائے بالشویکوں کی حمایت کر رہے تھے.آزادی کے چند سانس مسلمانوں نے چھ سے آٹھ مہینے مذاکرات میں ضائع کر دیئے تھے.اب کہ حالات نے ایک نئی کروٹ لے کر ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا تھا.وہ ہر جگہ خود مختاری کا اعلان کر رہے تھے.قازقستان نے جولائی 1917ء میں خود مختاری کا اعلان کیا.آذربائیجان نے ماورائے قفقاز کے ساتھ ستمبر 1917ء میں وفاقی جمہوریہ قائم کی.پھر نو مہینے بعد اختلافات کی بنا پر الگ ہو کر مکمل آزادی کا اعلان کر دیا.نومبر 1917ء میں جمہوریہ کریمیا وجود میں آگئی.11 دسمبر کو ترکستان نے آزادی کا اعلان کر دیا اور خوفتند کو دار الحکومت قرار دیا.یہ وہ اقدام تھے جو انہیں فروری 1917ء میں زار شاہی کا تختہ الٹنے کے فوراً بعد الگ الگ نہیں (جیسا کہ اب انہوں نے کیا تھا) متحدہ طور پر کرنا چاہئے تھا.اس وقت روسی آپس میں الجھے ہوئے تھے.مسلمانوں کو اپنی نوزائیدہ ریاست کو مستحکم اور بیرونی دنیا سے روابط قائم کر کے اس کے تحفظ کا سامان کرنے کے لئے خاصا وقت مل جاتا.لیکن ٹکڑوں میں بٹے ، انہوں نے وقت ہاتھ سے کھو دیا.اب کہ بالشویک فیصلہ کن قوت بن کر بر سر اقتدار آگئے تھے اور ملک پر ان کی گرفت روز بروز مضبوط ہوتی جارہی تھی.مسلمان علاقوں کی طرف سے آزادی کے اعلانات ان کی دبی اور کچلی ہوئی آرزوئے آزادی کا اظہار تو ضرور تھے لیکن صحیح وقت کے ضیاع کے سائے ان ریاستوں پر پہلے ہی روز منڈلا رہے تھے.بالشویکوں نے آٹھ نوماہ کے عرصے میں مسلمانوں میں ہر جگہ اپنا حامی عنصر پیدا کر لیا تھا جس میں مذہبی رہنما پیش پیش تھے.مسلمان علاقوں میں آباد روسی تو ہر حال میں پیٹروگراڈ کے ساتھ تھے چاہے وہاں کوئی بھی حکمران ہو تا.چنانچہ ان دونوں عناصر نے اپنے ہتھکنڈوں سے کہیں بھی استحکام نہ ہونے دیا.اور پھر جب روسی فوجوں نے ایک بار پھر ان
211 ریاستوں کی آزادی کا چراغ گل کرنے کے لئے جارحیت شروع کی تو ان عناصر نے اندر سے نقب لگا کر ان کا ہاتھ بٹایا.اس جارحیت کا آغاز جنوری 1918ء سے قازقستان پر حملے سے ہوا.20 مارچ تک سارا قازقستان روسیوں کے چنگل میں کراہ رہا تھا.ان ہی دنوں 12 جنوری کو شرخ روسی فوجیں کریمیا پر حملہ آور ہوئیں اور دو دن کے بعد وہ بھی از سر نو غلام بن چکا تھا.ترکستان کی آزادریاست 14 فروری 1918ء کو ختم ہو گئی.مارچ1918ء میں روسی قازان پر قابض ہو گئے.داغستان، شمالی قفقاز ، اور باشکیر کی باری اگلے سال کے وسط میں آئی.آذربائیجان واحد ریاست تھی جو سوا دو برس زندہ رہی.جنوری 1920ء میں روسی فوجوں نے حملہ شروع کیا اور اپریل ختم ہوتے ہوتے یہ آخری ریاست بھی دم توڑ گئی.روسیوں نے ہر جگہ مسلمانوں کو ان کے جذبہ آزادی کی سزا دی.لیکن سب سے زیادہ خونریزی خوقند میں کی جہاں انہوں نے قتل عام میں چودہ ہزار افراد کوموت کے گھاٹ اتار دیا اور پھر خوراک کے ذخائر ضبط کر کے اور غلے کی درآمد روک کر ہولناک قحط پیدا کر دیا جس میں 25 سے 50 فیصد آبادی ہلاک ہو گئی.یہ قتل عام اس قدر وحشیانہ تھا کہ روسی رہنما بھی اس انسانی المیے کے وقوع سے انکار نہ کر....E چوپلان نے مغربی ترکستان کی غلامی کے بارے میں اپنے اشعار میں کہا تھا: ”ہنسنے والے دوسرے ہیں، رونے والا میں ہوں کھیلنے والے دوسرے ہیں، کراہنے والا میں ہوں آزادی کی داستان سننے والے دوسرے ہیں غلامی کے گیت گانے والا میں ہوں آزاد دوسرے لوگ ہیں ، میں تو غلام ہوں جس کو جانوروں کی قطار میں ہنکایا جارہا ہے وہ میں ہوں 5 سٹالن ازم نے مشرقی ترکستان پر جابرانہ تسلط کے بعد کس طرح مسلمانوں کو آہنی چکی میں
212 پیسا؟ دل کو دہلا دینے اور خون کے آنسور لا دینے والے اس سرخ انقلاب کی المناک داستان جناب عیسی یوسف الپتین صاحب سابق جنرل سیکرٹری مشرقی ترکستان (47-1948ء) ممبر چینی پارلیمنٹ کے قلم سے درج ذیل کی جاتی ہے :.روسیوں نے ایک طرف چینی (مسلم) جنرل ماچنگ ( ینگ) کو مغربی ترکستان میں پناہ لینے پر مجبور کیا، دوسری طرف مشرقی ترکستان کی اس قومی حکومت کے سامنے جو کاشغر میں قائم ہوئی تھی لیکن جس کا دار الحکومت اب ینی حصار منتقل ہو گیا تھا، بعض تجاویز پیش کیں.ان تجاویز میں ایک تجویز یہ تھی کہ خواجہ نیاز علیحدگی کے خیال سے باز آجائیں اور قومی حکومت کو ختم کر کے مشرقی ترکستان کی صوبائی حکومت میں صدر کے معاون کا عہدہ قبول کر لیں.قومی حکومت کے فوجیوں کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ جنرل محمود کی کمان میں کا شغر یار قند اور آق صو کے علاقوں میں آباد کر دیئے جائیں گے اور روس کی قابض فوجیں اور شن سی سای (Shen Shih Tsai) ان فوجیوں سے کچھ نہیں کہیں گے.ان تجاویز کو قبول نہ کرنے کی صورت میں یہ دھمکی دی گئی کہ روسی قومی حکومت کو طاقت استعمال کر کے ختم کر دیں گے اور ترکستان کے تمام قومی رہنماؤں کو گرفتار کر کے سزائے موت دیں گے.ترکستان کی حکومت کے پاس فوجی ساز وسامان نہ تھا اور تحریک آزادی کی حیثیت محض ایک مقامی احتجاج کی تھی.اس کے علاوہ اس کو ابھی بین الا قوامی حیثیت بھی حاصل نہ ہوئی تھی.چنانچہ اس مجبوری کے تحت قومی حکومت کے صدر خواجہ حاجی نیاز نے روس کی پیش کردہ شرائط کو تسلیم کر لینا مناسب سمجھا.روسیوں کو خواجہ نیاز کی اس خواہش کا جیسے ہی علم ہو اوہ ان کو زبر دستی ارومچی لے آئے اور نائب صدر کے عہدہ پر بٹھا دیا.جہاں تک جنرل شن سی سای کا تعلق تھا، اس کی حیثیت روسیوں کے تابع ایک کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں تھی.اس طرح مشرقی ترکستان میں روسی تسلط کے دور کا آغاز ہوا.حالات بہتر ہو جانے کے بعد روسیوں نے اپنی قابض فوجوں کو مشرقی ترکستان کے بیشتر حصے سے واپس بلالیا لیکن قومول اور کاشغر میں اپنی فوجوں کو رہنے دیا کیونکہ یہ وہ مقامات تھے جہاں قومی مقاومت کی صلاحیت زیادہ تھی.
213 1935ء اور 1937ء کے درمیان روسیوں نے مشیر ، انجینئر ، فنی ماہر ، ڈاکٹر اور اساتذہ کی شکل میں تقریباً چار سو افراد کو مشرقی ترکستان بھیج دیا جن کی حیثیت روسی ایجنٹوں کی تھی.ان لوگوں کو فوجی، سول، اقتصادی، ثقافتی اور انتظامی عہدوں پر متعین کیا گیا اور اس طرح ان تمام محکموں اور شعبوں کا انتظام پوری طرح روسیوں کے ہاتھ میں آگیا.مشیروں کی شکل میں روس کے ان ایجنٹوں کا تقرر، شن کے ساتھ ایک خفیہ معاہدے کے تحت عمل میں آیا تھا جو پہلے ہی کر لیا گیا تھا.جولائی 1935ء میں روس سے آنے والے خصوصی ماہروں نے سب سے پہلے مشرقی ترکستان میں روس کے نمونے پر سیاسی پولیس تشکیل کی.پیٹر فلیمنگ نے لکھا ہے: طاقتور پولیس اندرونی سیاست کی نگرانِ اعلیٰ تھی.یہ (G-P-U) کے نمونے کی کے پر تھی اور اسی کی طرح کسی بھی حاکم کے سامنے جواب دہ نہ تھی.اس پولیس کے تحت مشرقی ترکستان میں مقامی باشندوں کے خلاف جاسوسی کی سر گرمیاں بڑھ گئیں اور ترکوں کو ڈرانے دھمکانے کے لئے نئے نئے طریقے ایجاد کئے جانے لگے.ان طریقوں کا مقصد ایذارسانی کے ذریعے ان جرائم کا تعارف کروانا تھا جو ترکوں کے سر تھوپے جاتے تھے.ترکوں پر جھوٹے الزام لگائے جاتے تھے اور پھر ان کا اعتراف کرایا جاتا تھا.روسیوں نے ایذارسانی کے ایک سو پچھیں اور قتل کرنے کے اٹھائیس مختلف طریقے ایجاد کئے تھے.ان میں سے چند یہ تھے.ا.خواتین کے اعضائے تناسل میں برقی قمقمے داخل کر کے ان میں بجلی کی رو چھوڑنا.۲.سروں اور پیروں کو الگ الگ رسیوں سے باندھنا اور ان رسیوں کو مخالف سمت میں کھینچنا.۳.جسم میں سوراخ کر کے اس میں گرہ دار رسی داخل کرنا اور دو دن بعد زخم بھر آنے پر اس رسی کو آری کی طرح چلانا.۴.فوجی تربیت کے دوران ترکوں کو نشانہ بازی کا ہدف بنانا.۵.کانوں کے اندر زہریلی گیس داخل کر کے ہلاک کرنا.التائی کے ہیرو
214 شریف خان تو رہ کو اسی طرح ایک کان میں شہید کیا گیا.روسی ماہرین نے چینیوں کو ایذارسانی کے ان طریقوں کی تربیت دینے کے لئے تربیتی نصاب بھی جاری کئے جن میں بتایا جاتا تھا کہ ایذارسانی کے طریقوں کو کس طرح عمل میں لایا جائے.سیاسی پولیس کے دفتر میں کس طرح کام کیا جائے اور رازوں کو کس طرح چھپایا جائے اور جرائم کا اعتراف کس طرح کرایا جائے.اس مقصد کے لئے ہر ضلع میں کم از کم پانچ سو افراد کی گنجائش کے قید خانے بھی تعمیر کئے گئے.روسیوں نے مشرقی ترکستان میں قدم جمالینے کے بعد تطہیر کی مہم شروع کی.انہوں نے تین لاکھ افراد کو جن میں خواجہ نیاز بھی شامل تھے قید کر دیا.بعد میں ان میں سے کئی ہزار افراد کو شہید کر دیا.ان شہداء میں خواجہ نیاز بھی شامل تھے.باقی لوگوں کو قید خانوں میں ٹھونس کر غیر انسانی انداز میں مرنے کے لئے چھوڑ دیا.روسیوں نے اس زمانے میں جو مظالم کئے ان کی تفصیل کے لئے پوری ایک کتاب درکار ہے.روسیوں کے ان مظالم کے خلاف بطور رڈ عمل1934ء اور 1937ء کے در میان بر قول میں، 1940ء میں التائی میں اور 1950ء میں پھر بر قول میں بڑے پیمانے پر بغاوتیں ہوئیں.1934ء اور 1951ء کے درمیان پاکستان اور ہندوستان کی طرف جو ہجر تیں ہوئیں، ان کا تفصیلی حال میں اپنی خود نوشت میں کروں گا.مختصر یہ کہ مغربی ترکستان کے مشہور شاعر چوپلان 6 نے جن روسی مظالم کا اپنے تند و ترش اشعار میں ذکر کیا ہے وہ سب مشرقی ترکستان میں ہوئے.“ روضہ رسول صلی ا م میں نقب زنی حضرت علامہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ (وفات 1642ء) اپنی شہرہ آفاق کتاب ”جذب القلوب الى ديار المحبوب “ میں تحریر فرماتے ہیں: ”یہ واقعہ 557ھ میں واقع ہوا.کہتے ہیں کہ سلطان نور الدین سید محمود بن زنگی کہ جمال الدین اصفہانی جس کا وزیر تھا.اس نے سرور انبیاء صلی علیکم کو تین دفعہ
215 خواب میں دیکھا.آپ دو اشخاص جو وہاں کھڑے ہیں ان کی طرف اشارہ کر کے فرماتے ہیں کہ مجھے ان دو شخصوں کے شر سے خلاصی دے.سلطان نے فراست سے جان لیا کہ ہو نہ ہو آج مدینہ منورہ میں کوئی امر غریب پیدا ہوا ہے جس کو پہنچنا چاہئے.سلطان اسی وقت آخر شب کو خفیہ طور پر اپنے ہیں خواص اور بہت کچھ مال ومتاع ساتھ لے کر مدینہ طیبہ کو روانہ ہو پڑا.سولہ دن کے عرصہ میں شام سے مدینہ تک پہنچ گیا.ان دو ملعونوں کی کھوج میں آتے ہی لگ گیا.اس نے صدقات انعام و اکرام کو ان کے حاضر ہونے کا وسیلہ بنایا اور حکم دیا کہ ہر خاص و عام اہل مدینہ میں سے اس سے انعام واکرام حاصل کریں مگر پھر بھی وہ دو نا مطبوع اشکال دکھائی تک بھی سلطان کو نہ دیں جو بادشاہ نے خواب میں دیکھی تھیں.سلطان نے آخر کار یہ بھی پوچھا کہ آیا کوئی ایسا شخص بھی رہ گیا ہے کہ جس نے اس سے انعام واکرام حاصل نہ کیا ہو ؟ لوگوں نے کہا رہا تو ایسا کوئی نہیں مگر دو مغربی کہ نہایت صالح، سخی، جواد اور عفیف ہیں جو شب وروز اپنی جگہ پر عبادت کرتے رہتے ہیں اور کسی سے اختلاط نہیں رکھتے.اپنے حجرے سے بہت کم باہر نکلتے ہیں.سلطان نے ان کو حاضر کرنے کا حکم دیا.وہ لوگ لائے گئے.سلطان دیکھتے ہی پہچان گیا کہ یہ وہی دو شخص ہیں جن کو سرورِ انبیاء صلی ا و ہم نے خواب میں دکھایا ہے.پوچھا تم کہاں رہتے ہو.انہوں نے کہا کہ حجرہ شریف کے قریب ایک رباط میں.یہ مقام اب بھی روضہ مبارک کی غربی جانب واقع ہے اور ویران پڑی ہے.اس کی شباک دیوار مسجد میں رکھی ہے.سلطان انہیں وہیں چھوڑ کر اس مکان میں گھس گیا جس کا انہوں نے نشان دیا تھا.کہتے ہیں وہیں سلطان نے ایک قرآن پاک کو طاقچہ میں پڑا ہوا پایا.کچھ کتابیں وعظ و نصیحت کی کچھ مال ایک طرف ڈھیر لگا ہے جو فقرائے مدینہ پر صرف کیا کرتے تھے اور ان کی خواب گاہ پر ایک چٹائی پڑی ہے.سلطان شہید نے اس چٹائی کو اٹھایا تو ایک سرنگ حجرہ مبارک کی طرف کھدی ہوئی دیکھی اور ایک طرف کو ایک کنواں کھد ادیکھا جس میں سرنگ کی مٹی بھرتے تھے.ایک روایت میں ہے کہ ان کے پاس چمڑے کے دو تھیلے تھے جن میں مٹی بھر کر بقیع کے ارد گرد رات کو ڈال آتے تھے.سخت جھڑ کیوں اور کافی سزا کے بعد انہوں نے بتلایا کہ وہ نصرانی ہیں اور نصاریٰ نے انہیں مغربی تجاج کے لباس
216 میں کچھ مال دے کر بھیجا تھا کہ مدینہ طیبہ کو پہنچ کر حجرہ شریفہ میں داخل ہو کر جسم اطہر حضرت سید کائنات صلی املی کام سے نعوذ باللہ گستاخی کریں.جب یہ نقب قبر شریف کے قریب پہنچی تھی کافی ابر و بار، بجلی کی کڑک و دھما کہ اور زلزلہ عظیم پیدا ہوا تھا.اسی رات کی صبح کو سلطان سعید پہنچ گیا.یہ سن کر سلطان پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی اور کافی وقت گریہ وزاری میں گزارا اور حجرہ شریف کی شباک کے نیچے ان ہر دونا پاکوں کی گردنیں مار ڈالیں اور شام کے قریب انہیں جلا دیا.اور حجرہ کے گرد ایک گہری خندق کھودی جو پانی تک پہنچ گئی اور سیسہ پگھلا کر اس میں بھر دیا تاکہ وجود شریف تک پھر کوئی بھی نہ پہنچ سکے.“7 تاریخ اپنے تئیں دہراتی ہے.روضہ رسول صلی ال نیم کی نقب زنی کا پہلا واقعہ ظاہری اعتبار سے ہوا اور بیسویں صدی میں آنحضرت صلی کم کی لائی ہوئی آخری عالمگیر شریعت میں سرنگ لگا کر اسے سوشلزم اور بابیت کے نظریاتی بارود سے اڑانے کا ناپاک منصوبہ بنایا گیا جیسا کہ آئندہ سطور میں واضح ہو جائے گا.7" مفسر قرآن کے بھیس میں تبلیغ بہائیت 1905ء میں جناب ابو الکلام آزاد صاحب غدر پارٹی میں شامل ہوئے اور ساتھ وہ الحاد کی تاریکیوں میں ڈوب کر اسلام بلکہ مذہب سے ہی یکسر برگشتہ ہو گئے.آزاد صاحب نے اپنی خود نوشت میں اسے انکار والحاد اور صدی کے برابر رات سے تعبیر کیا ہے اور تسلیم کیا ہے کہ الحاد وزندقہ کے اس دور کا آغاز سولہ سترہ برس کی عمر میں یعنی 1904ء.1905ء میں ہوا جس کے نتیجے میں نہ صرف انہوں نے نمازیں ترک کر دیں بلکہ مسلمانوں کی حالت کو دیکھ کر وہ ہستی باری تعالیٰ اور اسلام کے دوسرے عقائد ہی سے یکسر منحرف ہو گئے.اس عبرتناک تبدیلی کا نقشہ آزاد صاحب کے قلم سے پیش کیا جاتا ہے: ”ایک رات ، جو اپنی اذیت، اپنی کشمکش، اپنے واقعات کے اعتبار سے ایک سال، ایک قرن، بلکہ ایک پوری عمر کے برابر تھی! اس وقت گویا میں آخری فیصلہ کرنے والا تھا.ایک مستغرق یقین کی جگہ ایک بے رحم انکار میرے حصے میں آنے والا تھا....تمام شب کشمکش و تذبذب میں کٹ گئی.بڑا سخت مقابلہ رہا، یعنی اپنا تمام سرمایہ
217 کھو چکا تھا.لیکن پھر بھی ایک آخری خفیف سا لگاؤ باقی تھا.وہ بھی اتنا قوی نکلا کہ اس کے توڑنے کے لئے ذہن کو اپنی ساری قوت خرچ کر دینی پڑی.صبح کے قریب میں نے فیصلہ کر لیا.ٹھیک صبح صادق کا وقت تھا.میں جب سونے کی کوشش کرنے لگا تو دل میں ایک سخت نا قابل دفع یاس و حسرت پیدا ہوئی، ایسے جیسے کسی مایوس وداع کے بعد پیدا ہونی چاہئے.ایسا محسوس ہوا کہ گویا ایک بڑی محبوب متاع جاتی رہی ہے اور پھر واپس نہیں ملے گی....سورج نکل آیا مگر میں نے نماز نہیں پڑھی.دن بھر یہ حالت رہی کہ کبھی ملامت کا احساس جاگ اٹھتا اور کبھی دماغ میں تو ہمات سے آزادی کا فخر و غرور محسوس ہو تا! اس کے بعد بالالتزام نماز ترک کر دی.تھوڑے ہی دنوں کے بعد عید آگئی.اس میں شرکت ناگریز تھی، چنانچہ دوگانہ عید پڑھا، لیکن پھر اس پر سخت ندامت ہوئی اور یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ اس سے بھی اجتناب کرنا چاہئے.شک واضراب نے جس طرح انکار و الحاد تک ارتقا کیا، اسے مختصر انگر ترتیب کے ساتھ بیان کرنا چاہئے.عقائد کے اذعان ویقین کا خاتمہ ہو گیا اب پوری طرح شک نے جگہ پکڑ لی اور اپنے فہم و نظر کے مطابق از سر نو مذہب اور علوم کا مطالعہ شروع کیا.اس نے ایک دوسری مصیبت پیدا کر دی یعنی خود مذاہب بھی باہم دگر نزاع اور صرف خلاف تعدد نہیں بلکہ خلاف تضاد اور بجائے رفع اختلافات اور دعوت یقین کے خود نفس مذہب کا موجب نزاع و خلاف اس طرح ہو جانا کہ تاریخ جمیعتہ بشریہ میں اس سے بڑھ کر کوئی انسانی نزاع نہیں ملتی.یہ قطعی ہے کہ حقیقت و صداقت میں نہ تو تعدد ہو سکتا ہے نہ اختلاف، اور اگر ایسا ہے تو مختلف و متضاد صدائیں حقیقت نہیں ہو سکتیں.اس سے بھی سخت تر میری مصیبت تھی یعنی ہر دین و تشریع کے متبعین کے داخلی اختلافات اور تعد دو تخرب پر نظر ڈالتا تھا تو اس وقت بجز اختلاف و نزاع کے اور کچھ نظر نہ آتا تھا.مذاہب خود مختلف.ہر مذہب میں پھر اختلاف و نزاع.ان کے فروع شعب میں بھی مزید تفرقه واشتات، کیونکر نزاع و اختلافات کا یہ مکمل سلسلہ حق وصداقت ہو سکتا ہے!
218 مجھ پر اسلام کا اندرونی اختلاف سب سے زیادہ شاق گزرا تھا اور نفس دین ووحی کے بعد اس سے زیادہ شک و انکار کی طرف لے جانے والی اور کوئی چیز نہ تھی.اس بارے میں جس قدر پچھلے اصول وضعیہ ، رفع اختلاف اور وجوہ ترجیح وانتخاب کے لئے پیش نظر رہتے تھے اور موجب اطمینان بھی ہو جاتے تھے ، وہ ایک ایک کر کے آئے اور گرد وغبار کی طرح اڑ گئے.کوئی بات بھی وزنی اور ٹھہر جانے والی سامنے نہ آئی.اس زمانے میں المعتزلہ کی ترتیب کی وجہ سے بکثرت کتب و مقالات کا مطالعہ کر چکا تھا اور کر رہا تھا.عقائد و کلام میں بھی نظر نسبتا بڑھ چکی تھی.اور یہ بات سب سے بڑی آفت ہو گئی تھی کہ جس قدر میں آگے بڑھتا تھا، تاریکی بڑھتی جاتی تھی اور روشنی ناپید تھی.اسی زمانے میں میں نے ادیانِ مشہورہ کی طرح اسلامی مذاہب کا بھی بقد را مکان مطالعہ کرنا چاہا لیکن اب مطالعہ و نظر ہی اس زہر کی تیزی بڑھا رہا تھا جس کا جام میرے ہاتھ میں تھا! میرے خیالات کو ترتیب کے ساتھ ان سوالات میں بیان کیا جا سکتا ہے: (۱) اصحاب ادیان و شرائع کے مبادیات مثلاً وجود باری، بقائے روح اور معاملات معاد، ہم کیونکر اس کا یقین حاصل کر سکتے ہیں اور کیوں ماورائے احساس کے اعتراف پر مجبور ہوں ؟ (۲) لیکن اگر حقیقت اثبات میں ہے اور دین و شریعت من جانب اللہ ہے تو اس میں اختلاف و تعدد کیوں ہے اور کیوں تمام نوع و عرض پر ایک ہی دعوت نہیں بھیجی گئی؟ پیروبے (۳) پھر ایک مذہب کے مان لینے کے بعد بھی نزاع و کشاکش سے نجات نہیں ملتی کیونکہ پھر وہی یکساں وعاوی کا تزاہم موجود ہے.خود اس مذہب کی اصلیت وصداقت، متخالف دعاؤں میں گم ہو گئی ہے اور ایک ایک مذہب کے پیرو بے شمار مذہبوں میں بٹ گئے ہیں.اسلام میں سب سے پہلے بڑے بڑے اصولی مذاہب ہیں مثلاً شیعہ، سنی، معتزلی، اہل الظواہر و غیر ذالک.پھر ان کی بھی بکثرت فروع وشعب ہیں.اصولی، احباری اشعری، حنبلی اور مذاہب فقہیہ وکلامیہ.ایک ہی دعویٰ اور بے شمار زبانیں.کون سا ذریعہ ہے کہ ایک کو مان لیں اور سب کو پس پشت ڈال دیں ؟
219 دعاوی یکساں، دلائل تقریباً یکساں پیش کردہ ثمرات یکساں، جزم واعتقاد یکساں اور قطعی ذریعہ ترجیح مفقود.ٹھیک جس طرح ایک مسیحی صرف اپنے ہی کو مستحق نجات سمجھتا ہے اسی طرح برہمن اور اسی طرح ایک مسلمان.یقین کیوں کر حاصل کیا جاسکتا ہے ؟ اس کے بعد یکا یک دو سر اسمندر موجیں مارنے لگتا تھا.خود یقین کیا ہے ؟ اور یقین کیونکر حاصل ہو سکتا ہے ؟ خود اس کے وسائل اور براہین میں بھی وہی اختلاف و نزاع موجود.خیالات کی بے قیدی و وحشت پھر اچانک ایک دوسری وادی کی طرف رہنمائی کرتی تھی اور ان تمام گوشوں سے ہٹ کر بالکل ایک نئے گوشے میں قدم پہنچ جاتے تھے.خود زندگی کیا ہے ؟ اور زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ کیوں کر وہ یقین حاصل کیا جائے جو زندگی اور زندگی کے مقاصد اسی طرح واضح کر دے جس طرح تمام محسوسات ؟ ایک چیز تو یقینی ہے یعنی وجود کے مان لینے کے بعد ( کیونکہ اس طرف سے بھی اطمینان نہ تھا) ہمارے محسوسات قطعی اور یقینی ہیں تو اس طرح ہمارے اندر یقین و علم کا اگر کوئی واسطہ رکھا گیا ہے تو وہ احساس ہی ہے.پھر کیوں اتنی اہم حقیقت محسوسات سے الگ ہو کر آتی ہے اور کیوں محسوسات میں نہیں ہے ؟ صحیح یاد ہے کہ ایک دن میں نے ابن الرشد کی کشف الادلۃہ دیکھی اور مجھے اس درجہ وہ حقیر و ناچیز نظر آئی کہ اپنی پچھلی رایوں پر سخت تاسف ہونے لگا.ایک زمانے میں اسے علم و حکمت کا سب سے بڑا سرچشمہ سمجھتا تھا.میں نے خیال کیا کہ دنیا کی گمراہی اور تاریکی کا سب سے بڑا سر چشمہ عامۃ الناس کا جہل نہیں بلکہ خواص اہل مذہب کا ادعائے علم و حکمت اور اوہام مذہبی کو نظریات فلسفہ کی طرح ظاہر کرنے کی کوشش.میں نے ابن رشد کا استدلال بقائے روح میں پڑھا اور اس کے صرف ایک معنے سمجھ میں آئے یعنی روح کا وجود ہی نہیں ہے.رفتہ رفتہ دماغ کے عجز نے انکار کی صورت اختیار کر لی اور صاف نظر آنے لگا کہ ادعائے حکمت اور روشن خیالی کے بعد ہم جو کچھ سمجھتے رہے ، وہ بھی وہم و جہل تھا اور روز بروز انکار میں جزم وصلابت بڑھتی گئی یہاں تک کہ اضطراب کی جگہ ایک طرح کا مایوس سکون پید اہو گیا.گویا مشکل حل ہو گئی اور وہ یہی ہے کہ کچھ نہیں ہے....
220 میری غذا بالکل کم ہو گئی تھی.بھوک جاتی رہی تھی.سولہ سترہ برس کی عمر میں نیند اچاٹ تھی اور اگر آتی تھی تو نہایت ہی وحشت انگیز خوابوں میں کٹتی تھی.میں نے اس زمانے میں جو خواب دیکھے ، وہ میرے دماغی التہاب کا ٹھیک ٹھیک عکس تھے اور ذہن و خواب کے رشتے کو ٹھیک واضح کرتے ہیں.میں نے لق و دق صحرا دیکھا جس میں نہ ایک درخت تھانہ کہیں سایہ اور نہ کوئی حد وانتہا.اچانک ریگستان میں آندھی آئی اور میں اس میں چھپ گیا.سمندر دیکھا.میں ہاتھ پاؤں مار رہا تھا اور موجیں مجھے اچھال رہی ہیں.سفر حجاز میں ایک شخص حاجی محمد ابراہیم بمبئی کے تاجر جہاز میں سوار تھے.ان کو مرگی کا عارضہ تھا.ایک دن ڈک میں کھڑے تھے.اچانک چکر آیا اور سمندر میں گر گئے.مرگی کی بیہوشی اور سمندر ! بڑی مصیبتوں سے انہیں نکالا گیا.میں نے سمندر میں ان کا ڈوبنا، اچھلنا اور نزع و احتضار کی سی حالت کا چہرے پر طاری ہونا اچھی طرح دیکھا تھا.کئی مرتبہ خواب میں دیکھا کہ ٹھیک اسی جہاز پر سوار ہوں.مرگی کا دورہ ہوا اور سمندر میں گر گیا.حاجی ابراہیم کو خلاصیوں نے جلد ہی نکال لیا تھا مگر مجھے کوئی نکالنے والا نہیں ہے اور میں محسوس کر رہا ہوں کہ تیزی کے ساتھ قہر سمندر میں گر رہا ہوں.کیا سچ سچ میرے دماغ پر مرگی طاری تھی ؟ اور کیا حقیقتاً ایسا نہ تھا کہ سمندر کی موجوں میں، میں غرق ہو رہا تھا؟ اس کے بعد وہ زمانہ آتا ہے جب گویا ذ ہن اپنی حالت پر قانع ہو گیا ہے اور کاوش اور نامراد طلب و جستجو سے طبیعت تھک کر ایک ہو چکی ہے.یہ میری زندگی کا سب زیادہ سے تاریک وقت تھا.اس سے بھی بہر حال کاوش و جد و جہد تھی.اقتناع نہ تھا، اس لئے نزع تھی.موت طاری نہیں ہوئی تھی لیکن اب وہ طاری ہو گئی اور الحاد و انکار جو بسا اوقات سوفسطائیت کا بھی عنصر اپنے اندر رکھتا تھا.ایک مصنوعی طبیعت بن کر تمام افکار و عقائد پر غالب آگیا.8 ایک ایسے شخص کے لئے جو آل انڈیا نیشنل کانگرس کے سوشلسٹ بلاک سے وابستہ ہو چکا ہو، ترک اسلام کے بعد اپنی عقیدتوں کا رُخ بابیت و بہائیت کی طرف پھیر دینا ایک طبعی، منطقی اور فطری بات تھی کیونکہ بابیت و بہائیت پیغمبر اشتراکیت مزدک کی جانشین تھی اور اس کا اسلام اور دیگر
221 مذاہب سے کوئی تعلق نہیں تھا.ایک بہائی محمد یوسف بجنوری صاحب کا بیان ہے کہ ”ابوالکلام آزاد کے سید محفوظ الحق علمی (بہائی مبلغ) سے گہرے مراسم تھے.ایک دفعہ وہ علمی صاحب سے بہائی کتابیں لے گئے.ان کا بیان ہے کہ آزاد، امر بہائی سے بہت محبت کرتے تھے.ایک دفعہ سفیر ایران نے ان کے سامنے بہائیوں کو گمراہ کہا جس پر انہوں نے فوراً ٹو کا اور کہا کہ جناب سفیر آپ کو مفتی کس نے بنایا ہے ؟ آپ اپنی سفارت کے فرائض سر انجام دیجئے“.9 ابوالکلام آزاد صاحب نے بیسویں صدی کے تیسرے عشرہ میں ”ام الکتاب“ کے نام سے سورۃ فاتحہ کی تفسیر لکھی جس میں بہائیت کے مخصوص عقائد کی ترجمانی میں پورا زور قلم صرف کر دیا.بہائی لوگ قرآنی آیت وَلِكُلِ أُمَّةٍ اَجل سے قرآن کی منسوخی کا استدلال کرتے ہیں ، وہ دنیا ہی کو یوم الدین کا مصداق تسلیم کرتے ہیں اور قیامت سے مراد فقط بہاء اللہ کا ظہور لیتے ہیں اور مرنے کے بعد کی زندگی اور روز حشر کی جزا سزا کے قائل نہیں.آزاد صاحب نے اپنی نام نہاد تفسیر ام الکتاب میں اس بابی اور بہائی مسلک کی بالواسطہ طور پر کھلے لفظوں میں تائید کی.نیز لکھا ” الدین“اور ”الاسلام“ سے مراد فقط وہی بنیادی پیغام ہے جو ہمیشہ ہر نبی اور رسول پیش کرتا آیا ہے اور عمل صالح اس پیغام کی اطاعت کا نام اور اسی پر نجات کا دارومدار ہے اور یہی صراط مستقیم ہے.آنحضرت صلی اللہ کی بھی کوئی نئی چیز نہیں لائے تھے اور ایمان اور عمل صالح پر کسی مذہب یا طبقہ یا علاقہ کی اجارہ داری نہیں ہے.اس گمراہ کن تفسیر پر دار العلوم دیو بند کے چوٹی کے عالم محمد یوسف بنوری استاذ جامعہ ڈا بھیل (سورت) نے زبر دست تنقید کرتے ہوئے لکھا:." ” من التفاسير التى الفت با للغة الهندوستانية تفسير الامام ابي الكلام الذي لا يضاهيه تفسير فى العالم السلامي غير تفسير الامام الحجة المغفور له السيد رشيد ،رضا آه ولا ادری هل اراد بتلك الجملة ثناء ، خرج من جذر قلبه ائتلافا بما قاله ذالك المفسر اوداهن لمصالح يقتضيها العصر و اياما كانت فلست ادين الله بشيء منه فأقول ان ابا الكلام بـ احمد الدهلوى رجل وقاد القريحة واسع الطلاع صاحب بیان و بنان في الأردوية وعسى ان يكون فريداً فى بدائع الانشاء ومحاسن الخطابة في
222 الاردوية بعصره بل كاديكون مخترعالبديع أسلوبه وحيوته قبل عشرين عاما كان انفع للقوم من حيوته الحاضرة وله قدم راسخ في السعى لأنقاذ الوطن عن مخلب الحكومة الاجنبية وسلطة الدولة البرطانية ولم يأخذه فيه خوف الحكومة وصولتها و من ثم سكت كثير من علماء الحق في شانه وحاله وفي قلبي له منزلة من مساعيه الجميلة في سبيل حرية الوطن وانه استحث في اوائل امره كثيرا من اولى الهمم المتوانية وايقاظ الرقود في سبيل جهاد الحرية باجراء جريدته الهلال“ و ”البلاغ“ وبخطابته الجاذبة للقلوب في المحافل السياسية، بيد انه رجل معجب بنفسه بر أیه و فكرته يرذری با لعلماء بل بأكابر علماء الملة اذا خالفت اقوالهم رأيه وهواه فأصبح بحيث ترى فيه شحاً مطاعاً وهوى متبعاً واعجابا برأيه وخروجا عن المسلك القويم العلم الصحيح كان في اول امره رجلا صحيح الاعتقاد فيما نعلم منه ويشهده به آثاره ومقالاته في جرائده ورسائله الا انه لم يكن مقلداً فى الفروع لاحد من الائمة كاهل الحديث من القاضى الشوكاني والنواب صدیق حسن خان وغيرهما غير انه لم يكتف بهذا القدر بل اخذه الموجدة على العلماء الحنفية حتى امام الائمة فقيه الامة ابي حنيفة رحمه الله في تذكرته فكان هذا يسىء الأدب مع اكابر الامة وسعى لان يكون اماماً متفقاً على امامته في الهند و امیر اللمسلمین فی امر دینهم و دنیاهم و حاول ان يجعلوه امام الهندوان يجمعوا على ذالك ولكن كان في الهند رجال اولوعلم صحيح واصحاب معرفة وتقوى وديانة حقة وكان هو كما قلت في سعة من امر دينه حبله على غاربه غير مقيد فى رأيه و كان دون هؤلاء في العلم والعمل بمراحل فقام علماء دیوبند و صدعوا بالحق بانه ليس اهلا لذالك فانهم
223 تفرسوا في امامته من المفاسد التي يشكل ان يغلق بابها فيما بعد فلم يفز بما كان يهواه ويتمناه وبالجملة انه كان على تلك الحالة برهة أعلن انه يؤلّف تفسير أفا ستشرفت اليه الاعناق وارتقبه الناس ترقب الهيمان الى الزلال العذب والنمير البارد حتى يطبع جزء ثم جزء ثم ترجمة القرآن وعليها فوائد مختصرة ومطولة وسماها "ترجمان القرآن وبسط القول في تفسير الفاتحة فاخذته بأشتياق وطالعت منه تفسير الفاتحة بأسره وعدة مواضع من تفسير آيات مختلفة متفرقة فانطفأت في قلبي لوعة الاشتياق بل تأسفت و وددت ان لو لم يطبع لكان احسن واحسن فانه كان له في القلب منزلة ورأيت ان الرجل تشعبت به الاهواء في كل واد ولم ينج من مداحض الاوهام فأحسست ان ذلك الاعجاب بنفسه و برأيه اورده اولاً الى انخلاع ربقة التقليد و انتهى به آخرا الى موارد حائدة عن الصراط السوى وكل يدعى حبّاً بليلى وليلى لا تقر لهم بذاكا شيء من هفواته فمما حقق ذالك الرجل في تفسير اهدنا الصراط المستقيم أن كل دين من الاديان في العالم سواء كان دين النصرانية او اليهودية او الصابئية لودان به الرجل في صورته التى اتى بها شارع ذلک الدین کفی لنجاته يوم القيامة فان اصل هذه الاديان كلها واحد وهو الايمان بالله والعمل الصالح وشارع كل دين اتى با لتوحيد و هدى الى العمل الصالح وانما الشرك واعمال الشر نشأت فى اتباع المذاهب من تخر بهم وتشيعهم وهو يردد ذالک فی تفسیره ويدندن حوله بعبارات مختلفة واساليب شتى
224 وهو يقول ان القرآن ينادى بأعلى نداء الى ذالک و بزعم ان ذالک الذی فهمته هو مغزى القرآن وغرضه ويستدل لذالك بقوله تعالى إن الَّذِينَ امَنُوا وَالَّذِينَ بَادُوا وَالنَّصارى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَى بِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (2:59) والعمل الصالح ليس عنده الاحكام التكليفية والشرائع وليس المدار عليها عنده ويقول ان تلك العبادات وتلك الشرائع ظواهر ورسوم وانها صور واجساد وليست هي حقيقة الدين ولا روحه فكل من انكر الشرائع والاحكام التكليفية اعتقاداً فيكون عنده مسلماً ولابد وقال في تفسير قوله أَنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الإسلام وفى قوله تعالى ومَنْ يَبْتَغِ غَيْرِ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وهُو فِي الْآخِرَةِ مِنَ الخَاسِرِينَ ان الاسلام عبارة عن الوحدة الدينية العامة لا تختص بشرع دون شرع فالملل كلها تدعو الى هذه الوحده العامة والصدق الكامل على سواء فليس الملة الاسلامية عنده مجموع الاعتقادات الخاصة والعبادات المخصوصة وهو يقول وان اختلاف هذه الرسوم والشرائع ومنالهج التحنث والتعبد مما لم يكن عنه محيص فليس مما ينكر او يستحق الملام فاوسعوا له صدوركم الضيقة وذروا ما انتم عليه من التضييق والتحجر فلو تعبد احد بالشريعة الموسوية وأحل حلالها وحرم حرامها ولم يتمسک با لشريعة المحمدية ولم يحل حلالها ولم يحرم حرامها بعد ان جاء السلام ونسخ الشرائع السابقة فذالك الرجل لا محالة مسلم ناج على ما تصدع به اصوله الموضوعة، وغير ذالك مما موهه وزخرفه بأساليب انشائه وحبره بتحبيراته وغر الناس بخضراء دمنته فهو يقعقع بالشنان وجوفه هواء ويجعجع من غير
225 طحين و كله هباء وهذا الذي قلته مغزى عباراته لصريحة لا يكاد يتأوّل في شيء منه اللهم الا ان يكون للصرائح تأويلات غير سائغة فأنه صرح به كفرق الصديع وضوء النهار ولم يترك لشفرة محزّاً ولا للتأويل مساغا في البين فهل قصر قلم الرجل عن افصاح مرامه وهو رجل فصيح يقدر على الصدع بغرضه بلفظ ليس فيه عى ولا يشوبه نغض التعمية ودنس العجمة فكيف يؤثر تعبيراً كم يرد منه ما يتبادر اليه الذهن ويفتقر الى صرفه عما يسرع اليه فكر الناظر مساقاً ومذاقاً ؟ فهل لك لذالك تأویل سبيل يشفى الغليل ويغنى عن القال والقيل ؟ وهو يقول ان الاسلام دعا الناس اهل الديان كافة الى ان يتمسكوا بغرى اديانهم منقحة منخولةمما خلطوا به من الباطل واتباع الهوى ولم يعزم عليهم ان يدروا أديانهم ويختاروا ديناً غيرها الى غير ذالك من التلبيسات والتدليسات مما يوقع الناس في ورطة الهلاك وهرة الردى الا تسألون المرأ ماذا يحاول أنحب فيقضى ام ضلال وباطل وکل امرىء يوماً سيعلم حاله اذا كشفت عند الاله الخصائل واهل جريدة "معارف “كتبوا في الرد عليه مقالة مبسوطة وقابلواتراجم بعض آياته وترجمانه بما ترجمه قبل ذالك بعشرين عاماً في جريدة ”الهلال“واوضحوا بما فيهما من الفرق البين والاختلاف المبين فلا ادري كيف يكون هذا التفسير مما لا يضاهيه تفسير في العالم نعم لا يضاهيه ولا يوازيه بل لا يدانيه تفسير في مثل هذه المخترعات التي ليس عليها سلطان والهفوات التى لم يقم عليها برهان، والعجب ان صاحب
226 تلك المقالة في جريدة الفتح الذى يثني على تفسيره ويعتقد فيه من المديح الغالى من رفقاء اعضاء جريدة المعارف وهو على بصيرة من مقالة المعارف فكيف قال ما قال والى الله الاشتكاء فقد بلغ الحزام التبيين وبلغ السكين العظم لاعاصم اليوم الا من رحم ثم ان ما ذكرته هي اصوله التي عليها أساس تفسيره واما تحويل كثير من الأيات الى ما يهواه والتاويل فيها بما لا يحبه الله ولا يرضاه وما لم ينقل ممن أنزل عليه القرآن ولا من اصحابه المخاطبین به بل ثبت و صح خلاف ما قاله كثير ليس هذا موضع سرده ولا موضع الرد عليه وانما نقتصر على تفسير بعض الآيات ايقاظاً للغافلين وتحذير للمغرورين.....بنوری صاحب نے اس کی بعض مثالیں بیان کرنے کے بعد لکھا: وغيرها من تأويلات الآيات بما لا يتأوّلها ائمة اهل السنة وجماهير الامة و کل تفسیره مشحون بأمثال هذه التاويلات الركيكة التي لا نفاذ لها ولا مساغ و من دابه الخاص انه لا يلتفت قط في تفسير الآيات الى الاحاديث والآثار وينوط الأمر على كتب التاريخ من مورّخي اليونان والفرنسا وغيرهم وان كان مدارها على الجزاف والخرص ولا يلتفت الى الاحاديث وان كانت فى الباب موجودة وكانت اقوى سنداً من تلک الآثار والكتبات التاريخية التي ليس عليها دليل وبرهان كما قال جل ذكرهِ مَا لَهُمْ بِذَالِكَ مِنْ عِلْمٍ أَنْ هُمْ أَلَا يَخْرُصُوْنَ ومن دابه انه اذا قام رأياً فى امر فيز عمه امراً قطعياً بحيث لا يقاومه حديث مرفوع ولا اثر صحيح ولا دراية صحيحة و من دابه انه يعزوا الى المفترين قولاً ضعيفاً في آية ويكون هناک اقوال قوية غيره فيرد على القول الضعيف ويتمسك بقول آخر من اقوالهم ويصدع به مستكبراً كانه ابوعذرته وابن بجدته وان
227 المفسرين لاخبرة لهم به وربما يستهزأبهم متمثلاً بقول الشاعر نزلوا بمكة في قبائل نوفل ونزلت با البيداء ا بعد منزل وذى خطل في القول يحسب انه مصيب فما يلهم به فهو قائله وقد شاع له مكتوب في بعض الجرايد الاردوية وصدع فيه بأن الامور التي عليها مدار النجاة لا بد ان يصرح بها القرآن لصلحة وأَقِيمُوا الصَّلوةَ بل اصرح منها ولا بد أن يأمر بان يصدق به فكلما جاء فی القرآن امر فی غیر الامور التي عليها مناط النجاة ولم يكن منتظما في سلك العقائد فلا يلزم المرء قبوله واعتقاده و قال و من اعتقادى انه لا ينزل المسيح ابن مريم (علیه السلام) فقیل له فی ذالک کیف نعتقد ذالک و قد صح فی نزوله احادیث و تواترت فما قولك فيها فأجاب "ذکر نزوله في سلسلة اشراط الساعة وليس مما يدخل في العقيدة وياللعجب أليس التصديق بما جاء به نبینا القرشي محمد وال الله لهم من العقيدة فاذا جاء رسولنا الله بأمر واخبر بوقوعه وصح الاسناد و اتصل به و تواتر عنه شرقاً وغرباً على ظهر البسيطة فهل نرتقب بعده فی الایمان به و الاذعان له لأمر آخر حتى يامرنا صريحاً بقوله وأمنوا بنزول ابن مريم علاانه لا يكفى هذا عنده في الحديث بل لا بد ان يكون في القرآن وأمنوا بنزول عيسى ابن مريم أفليس يكفى قولة و وكيف انتم اذا نزل فيكم ابن مريم واى صراحة ابين منها وای اخبار اصرح منه ومع هذا تواتر معناه (ع) في طلعة الشمس ما يغنيك عن رجل.ولوكان الامر كما زعم فأين الصلوات الخمس صراحة واين مقادير
228 الزكوة و اين مسائل كفارة الصيام ثم وثم الى ما يشكل استقصائه، أفليس اعتقاد فرضيتها من الامور التي عليها مدار النجاة اوليس يكفر من انكر فريضتها، قال شيخنا امام العصر رحمه الله في رسالته اكفار الملحدين في ضروريات الدين واذا علمت هذا فنقول الصلوة فريضة واعتقاد فرضيتها فرض و تحصیل علمها فرض وجحدها كفر وكذا جهلها كفروا السواك سنة واعتقاد سنیته فرض و تحصیل علمه سنة وجحودها كفر و جهله حرمان و ترکه عتاب او عقاب اه وانما اطنبت و استهبت في غير ما كنت أحاوله من اول الأمر اعلاناً بما بدا لى من الكدر في تفسيره والتدليس البين و لم يكن عندى من الدين لو كنت اغمض واضرب عنه صفحاً فان سموم الالحاد قد هبت في الهند وعمت ارجائها القاصية واصبح اليوم مناط فهم القرآن المجيد على أمثال هذه التفاسير لتعبيراته الرائقة العصرية فقلما سلم منه احد الا رجل اعطاه الله علماً صحيحاً او تزكى نفسه بانفاس الذين لصحبتهم تأثير عظيم في اصلاح النفوس فثلج صدره بما جاء به النبي عليه السلام ولم يحكم فيه رأيه الضئيل الواهي وقد شرع احد من علمائ الفنجاب (وهو العالم الفاضل ابراهيم السيالکوٹی) من اهل الحديث في تأليف تفسير في الرد على ترجمان القرآن وطبع منه جزء لم اوفق بعد لمطالعته واظن انه اشيع في الرد عليه وياليت لو كان ابو الكلام ذا علم صحيح مولعاً با الدين الذي جاء به محمد الله يكاد يعد من اعاظم رجال الدورة الحاضرة الذين يتباهى بهم العصر ولكان له فى القلوب مكانة غير ان محبة الدين اعلق بقلب المؤمن من محبة ابى الكلام فلا بد ان تصان الشريعة من الوسخ الذي يحط من قدرها عند اولى البصائر الناقدة واصحاب العقول
229 السليمة وفق الله الامة كلها الى الصواب وهداهم الى سوى الصراط_10 ترجمہ: نیکی زیادہ دیر پا ہوتی ہے خواہ اس پر ایک زمانہ ہی گزر چکا ہو.جو تم نے جمع کیا ہے اس میں سب سے بُر ازادِ راہ شہر ہے.ترجمان القرآن اردو زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ ہے جو ابو الکلام احمد دہلوی نے کیا ہے اور اس پر بعض جگہ مختصر اور بعض جگہ تفصیلی نوٹس بھی شامل کئے ہیں.ضروری ہے کہ میں اس کتاب کی اصل صورتحال اور جو کچھ اس میں سنت اور اجماع امت کے بر خلاف باتیں ہیں ان کی حقیقت کھول دوں.مجھے یہ سطور لکھنے پر ایک ہم عصر کی تحریر نے مجبور کیا ہے جو اس نے قاہرہ کی اخبار "الفتح" کے شمارہ نمبر 562 میں شائع کی ہے.ضرب المثل ہے کہ يداك اوكتاوفوك نفخ ( یہ کہاوت اس کے لئے بولی جاتی ہے جو پہلے بُرا کام کر لیتا ہے پھر اس سے بری الذمہ بننے کی کوشش کرتا ہے) مضمون نگار نے اس ترجمہ کے متعلق اپنے مضمون میں اس ترجمہ کی وہ تعریف کی ہے جس کا یہ ترجمہ ہر گز سزاوار نہیں اور جو اس ترجمہ میں عیوب اور نقائص ہیں ان سے صرف نظر کیا ہے یا پھر اُسے اِن (علمی ) باتوں کا ادراک ہی نہیں.ہمیں زیب نہیں دیتا کہ ہم ہندوستان کے ایک شخص کی جھوٹی تعریفیں کر کے علماء مصر کو دھوکہ اور فریب میں ڈالیں.کیونکہ خیر خواہی اللہ اور اس کے رسول کی خاطر کی جاتی ہے اور یہ بات درست نہیں کہ ہم ہندوستان کے ایک فرد کی جھوٹی تعریف کریں اور اللہ کی مخلوق کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اللہ کی ناراضگی خرید لیں.ایک شخص کی رضا کے مقابل پر اللہ اور اسکے رسول کی رضامندی کہیں زیادہ اہم اور مقدم ہے.میں پہلے بھی اپنے رسالہ ”نفحہ- العنبر “میں اس ترجمہ کی بعض ہفوات کی طرف اشارہ کر چکا ہوں جس میں میرا مقصد اللہ کی رضا کا حصول اور علم کے متلاشیوں اور ہندوستان کے عامہ المسلمین تک، جو میرے بھائی ہیں، دینی صداقت پہنچانا تھا.لیکن میں خوب جانتا ہوں کہ بعض لوگ مجھ پر طعن و تشنیع کرنے کے لئے اپنے منہ اور دوا تیں کھول دیں گے اور تعصب اور کند ذہنی سے مجھے پر الزام تراشی کریں گے.لیکن یہ گزشتہ زمانوں سے ہی لوگوں کا ایک جاری طریق چلا آرہا ہے.تم نے ہمیں دودھ اور گوشت والے جانوروں کی کثرت کا طعنہ دیا ہے (جبکہ یہ جانور تجارت کے لئے نہیں بلکہ مہمان نوازی کے لئے ہیں) اور اے صحرا کے باسی یہ
230 ہوں.ایسا الزام ہے جو باطل ہے.چغلی کرنے والوں نے اُس کو طعنہ دیا ہے کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں اور یہ ایسا عیب ہے جو باطل ہے.میری توفیق صرف اللہ کی مدد سے ہے.اس پر میر ابھر وسہ ہے اور اسی کی طرف میں جھکتا اس ترجمہ کے متعلق مضمون نگار نے لکھا ہے: ”ہندوستانی زبان میں آج تک جس قدر بھی تفاسیر لکھی گئی ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی امام ابوالکلام کی اس تفسیر کے ہم پایہ نہیں ہے سوائے سید رشید رضا کی تفسیر کے.“ مجھے معلوم نہیں کہ آیا یہ تعریفی کلمات واقعی اس مفسر کے بیان سے متاثر ہو کر اس مضمون نگار کے صمیم قلب سے نکلے ہیں یا پھر محض زمانہ کے تقاضا کے پیش نظر بعض مصلحتوں کی خاطر مداہنت اور چاپلوسی کی ہے.بہر حال یہی سچی بات کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ابوالکلام دہلوی ایک روشن دماغ، وسیع مطالعہ اور معلومات والا اور اردو میں تقریر و تحریر کا ماہر ہے اور شاید کہ وہ اپنے ہم عصروں میں عمدہ انشا پر دازی اور محاسن خطابت کے لحاظ سے یکتا ہو گا بلکہ اپنے اچھوتے انداز کا موجد بھی ہو گا.اسکی ہیں (20) سال قبل کی زندگی اسکی آج کی زندگی سے زیادہ نفع رساں تھی اور غیر ملکی یعنی برطانوی حکومت کے پنجہ سے اپنے وطن کو آزاد کرانے کے سلسلہ میں اس نے بڑی مستحکم کوششیں کی تھیں.اس معاملہ میں اسے حکومت اور اس کی طاقت کا کبھی خوف نہیں ہوا.اس وقت سے کئی علماء حق اسکے کاموں اور اسکی حالت کے بارہ میں کچھ کہنے سے رک گئے ہیں اور خاموش ہیں.لیکن حریت وطن کے لئے اسکی مساعی جمیلہ کی وجہ سے میرے دل میں اس کی بڑی قدر ہے.اپنے آغاز کار میں اس نے کئی پست ہمت لوگوں میں جوش عمل پیدا کر دیا تھا اور اپنے دو اخبارات الہلال اور البلاغ جاری کر کے اور سیاسی جلسوں میں اپنی دلوں کو گرویدہ کر لینے والی تقاریر سے سوئے ہوئے لوگوں کو جہاد آزادی کے لئے بیدار کر دیا تھا.لیکن ایک بات ہے کہ یہ شخص اپنے آپ پر بڑا نازاں ہے اور اپنی رائے اور سوچ کو ہی درست سمجھتے ہوئے عام علماء کو بلکہ بڑے بڑے علماء ملت کو بھی اگر وہ اسکی رائے اور خواہش سے اختلاف رکھتے ہوں، معتبر جانتا ہے.نتیجہ اس میں خساست، اتباع ہوائے نفس، اپنی رائے پر نازاں ہونے اور درست طریق اور صحیح علم کو چھوڑ دینے کے نقائص پید اہو گئے ہیں.جتنا ہم اس کے بارہ میں علم رکھتے ہیں اس کے مطابق یہ شخص اپنے ابتداء کار میں صحیح الاعتقاد
231 آدمی تھا.اس پر اسکی کئی باتیں اور مقالمے جو اسکی جرائد ورسائل میں طبع ہوتے رہے گواہ ہیں.ہاں وہ کئی اہل حدیث علماء مثلاً قاضی شوکانی اور نواب صدیق حسن خان وغیرہ کی طرح فروع میں کسی امام کا مقلد نہ تھا.بلکہ اُس نے صرف اس پر بس نہ کی بلکہ جسارت میں اتنا بڑھ گیا کہ کئی حفنی علماء حتی کہ اپنی کتاب ”تذکرہ“ میں حضرت امام ابو حنیفہ کی شان میں بھی گستاخی سے نہ رُکا اور وہ اکابر امت کی شان میں گستاخی اور سوئے ادب کرتا رہا ہے.کوشش اس کی یہ ہے کہ وہ ہندوستان کے لوگوں کا واحد امام بن جائے جس کی امامت پر تمام لوگ متفق ہوں اور لوگوں کے دین و دنیا کے معاملات میں ان کا امیر المسلمین ہو جائے.اس نے بڑی کوشش کی کہ لوگ اسے امام الہند بنالیں اور اس پر اتفاق کر لیں لیکن اس کی بد قسمتی یہ کہ ہندوستان میں کئی ایسے لوگ موجود ہیں جو علم صحیح، معرفت، تقویٰ اور سچی دیانت رکھنے والے ہیں.جبکہ یہ شخص ان علماء سے علم و عمل میں کوسوں پیچھے ہے.و اس حص کی (اس نفسانی کوششوں پر علماء دیوبند اٹھے اور انہوں نے یہ حقیقت طشت از بام کر دی یہ شخص اس مقام کا اہل نہ ہے.ان علماء نے اپنی فراست سے بھانپ لیا کہ اگر اس شخص کو امام اور قائد بنالیا گیا تو وہ مفاسد کا دروازہ کھلے گا بعد میں پھر اُس کو بند کرنا بڑا مشکل ہو گا.نتیجہ یہ شخص اپنی خواہش اور تمنا میں قطعا کامیاب نہ ہو سکا.اس بے قدری کی کیفیت میں اس نے کچھ وقت ہی گزارا تھا کہ اس نے اعلان کر دیا کہ وہ ایک تفسیر تالیف کر رہا ہے.اس پر لوگوں کی نظریں اس پر لگ گئیں اور لوگ اُس کا ایسے انتظار کرنے لگے جیسے پیاسے اونٹ پانی کے لئے متلاشی ہوتے ہیں.پھر اُس نے پارہ پارہ کر کے ترجمہ قرآن شائع کر دیا جس میں کئی جگہ مختصر اور طویل حواشی بھی شامل کئے اور اُس کا نام ترجمان القرآن رکھا.اس تفسیر میں اس نے سورۃ الفاتحہ پر بڑی تفصیل لکھی ہے.میں نے بڑے اشتیاق سے اس تفسیر کو حاصل کیا.سورۃ الفاتحہ کی تفسیر مکمل اور بقیہ تفسیر سے مختلف مقامات سے مختلف آیات کی تفسیر پڑھی ہے.مگر میرے دل میں جو شوق کی کو جلی تھی وہ بالکل بجھ گئی.بلکہ مجھے سخت افسوس ہوا اور دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ یہ تفسیر شائع ہی نہ ہوئی ہوتی تو زیادہ بہتر تھا کیونکہ پہلے میرے دل میں اس کی بڑی قدر و منزلت تھی.اس تفسیر میں اس شخص کی سوچ منتشر نظر آتی ہے.کبھی کسی وادی میں کبھی کسی وادی میں بھٹکتا ہے اور اوہام کے چنگل سے رہائی نہ پاسکا ہے اس تفسیر کو پڑھ کر مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ شخص اپنے آپ پر اور اپنی رائے پر بڑا نازاں ہے اور بزرگوں کی تقلید کا نجوا اس نے یکسر اتار پھینکا ہے.اس چیز نے اسے صراط مستقیم سے کہیں دُور جا پھینکا ہے.
232 کرتی.اور ہر ایک لیلی کی محبت کا دعویدار ہے جبکہ لیلیٰ ان کی اس محبت کا اقرار نہیں اس ترجمہ کی بعض ہفوات اس شخص نے اھدنا الصراط المستقیم کی تفسیر میں یہ ثابت کیا ہے کہ دنیا میں جس قدر بھی ادیان ہیں خواہ یہودیت و نصرانیت ہو یا مجوسیت ہو.اگر کوئی شخص ان ادیان میں سے کسی ایک کو اُس کی اُس صورت میں اختیار کرے جس صورت میں اس دین کے شارع نبی نے اسے پیش کیا تھا.تو اس کا یہ عمل روز قیامت اس کی نجات کے لئے کافی ہو گا.کیونکہ ان تمام ادیان کی اصل ایک ہی ہے یعنی ایمان باللہ اور عمل صالح.ہر دین کا شارع نبی توحید کی تعلیم لایا تھا اور اس نے عمل صالح کی طرف راہنمائی کی تھی.شرک اور اعمال شر ان مذاہب کے پیروکاروں کے مختلف گروہوں اور فرقوں میں بٹ جانے کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے.مؤلف نے یہ مضمون اپنی تفسیر میں کئی جگہ مختلف انداز اور مختلف اسلوبوں میں دہرایا ہے.اس کا کہنا ہے کہ قرآن اس مذکورہ بالا مضمون کو بآواز بلند بیان کر رہا ہے.مؤلف بزعم خود خیال کرتا ہے کہ یہی بات سارے قرآن کا خلاصہ اور مغز اور غرض و مقاصد ہے.مؤلف نے یہ استدلال اس آیت سے کیا ہے: إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُ وأُ وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (2:63) مؤلف کے نزدیک عمل صالح سے مراد شرعی احکام کی بجا آوری نہیں اور نہ ہی اس کے نزدیک ان شرعی احکام پر مدار کیا جاسکتا ہے.اس کے مطابق یہ تمام شرعی احکام محض خول اور جسم ہیں نہ کہ دین کی اصل حقیقت اور روح.اس اعتبار سے اس کے خیال وہ شخص جو ان شرائع اور ان کے احکام پر اعتقاد رکھنے سے منکر ہو تب بھی اس مؤلف کے نزدیک ایسا شخص مسلم ہو گا.مزید یہ کہ اس مؤلف نے آیت اِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَام اور آیت وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامَ.....الخَاسِرِینَ.کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اسلام سے مراد محض وسیع تر وحدتِ دینی ہے.اسلام کسی ایک شرع کو چھوڑ کر کسی دوسری شرع سے مختص نہیں کیونکہ تمام مذاہب اسی وحدتِ عامہ اور کامل سچائی کی طرف بلاتے ہیں.اس مؤلف کے نزدیک ملت اسلامیہ مخصوص اعتقادات و عبادات کا نام نہیں.وہ مزید لکھتا ہے کہ لوگوں کی ان عادات اور شرائع اور دینی احکام کی بجا آوری کے طریق ایسی چیز ہے جس سے چھٹکارا نہیں اور نہ ہے ایسا امر ہے جس کا انکار کیا جائے یا جس کی بنا پر کسی پیرو کار پر ملامت کی جائے.اس لئے اسے قارئین! اپنے تنگ اور گھٹے ہوئے
233 سینوں کو کشادہ کرو اور جس گھٹن اور سنگدلی پر قائم ہو اسے ترک کر دو.(مؤلف مزید لکھتا ہے کہ ) اگر ایک شخص اسلام کے آجانے کے بعد بھی اور گزشتہ شرائع کو منسوخ کر دینے کے بعد بھی شریعت محمد یہ سے رو گردان رہ کر شریعت موسویہ پر کار بند رہے، شریعت موسویہ کے حلال و حرام کی پابندی کرے اور شریعت اسلامیہ کے حلال و حرام کی پابندی نہ بھی کرے.تب بھی اس مؤلف کے خود ساختہ اصول کی رُو سے ایسا شخص نہ صرف مسلم ہے بلکہ نجات یافتہ بھی ہے.یہ اور اس قسم کی اور کئی باتیں ہیں جو اس نے اپنی چرب زبانی سے اور ملمع سازی سے مختلف اسالیب میں سجا کر پیش کی ہیں اور لوگوں کو اپنی روڑی پر اُگنے والی سبزے سے لوگوں کو دھوکہ دیا ہے.یہ شخص اپنی دشمنی کی بنا پر ہتھیاروں کی جھنکار سنا رہا ہے مگر تہی دست ہے.یہ وہ ہے جو اس کی واضح عبارتوں کا ماحصل اور مغز ہے.ان عبارتوں کی کوئی اور تاویل نہیں کی جاسکتی سوائے اس کے ان کی ایسی تاویلات کی جائیں جن کی گنجائش ہی نہ بنتی ہو.پس کیا اس شخص کا قلم اس کے اصل مقصد کو واضح کرنے سے قاصر رہ گیا ہے؟ حالانکہ یہ ایک فصیح و بلیغ شخص ہے جو اپنی غرض کو بخوبی کھول کر بیان کر سکتا ہے.جس معیاری بات کی اس شخص سے توقع تھی.جبکہ وہ اس سے صادر ہی نہیں ہوئی تو پھر ادنی گھٹیا چیز کو کس طرح ترجیح دے دی جائے ؟ ( پھر اس مؤلف کو مخاطب کر کے لکھا ہے کہ) کیا تیرے لئے کوئی ایسی تاویل کرنا ممکن ہے جو ہر قسم کے بحث مباحثہ سے خلاصی بخشے اور پیاسے کو سیر کر سکے؟ یہ مؤلف کہتا ہے کہ اسلام تمام ادیان کے پیرو کاروں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنے مسخ شدہ دینوں پر اور جو کچھ لوگوں نے ان دینوں میں جھوٹ اور نفسانی خواہشات کو ملا جلا دیا ہے اس پر قائم رہیں.نیز اسلام انہیں ہر گز پابند نہیں کرتا کہ وہ اپنے دینوں کو چھوڑ کر کوئی دوسرادین اختیار کریں.یہ اور اس قسم کی دیگر شبہات سے پر اور دھوکہ کی باتیں مؤلف نے اپنی اس تفسیر میں لکھ دی ہیں جو لوگوں کو ہلاکت کے گڑھے میں گرادیں گی.کیا تم دونوں نے (اس) انسان سے پوچھ لیا ہے کہ وہ کیا (حاصل کرنا چاہتا ہے؟ کیا (وہ) موت جو وہ دیا جائے گا یا گمراہی چاہتا ہے اور بے مقصد کام کئے جارہا ہے.اور ہر انسان ایک نہ ایک دن ضرور اپنا حال جان لے گا جب اللہ کے حضور (اس کے ) فضائل و طبائع ظاہر ہو جائیں گے.اخبار ”معارف والوں نے اس مؤلف کے خیالات کی تردید میں ایک مبسوط مقالہ لکھا ہے اور بعض آیات کا ترجمہ جو اس نے اس تفسیر ترجمان القرآن میں کیا ہے اس کا موازنہ اسی مؤلف کے آج
234 سے ہیں سال قبل ان آیات کے کئے ہوئے ترجمہ سے کیا ہے جو اس کے اخبار ”الہلال“ میں چھپا تھا اور دونوں تراجم میں جو اختلاف ہے اسے کھول کر بیان کیا ہے.اندریں صورت مجھے سمجھ نہیں آئی کہ پھر یہ کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ یہ تفسیر ایسے اعلیٰ پایہ کی ہے کہ دنیا بھر کی تفاسیر میں سے کوئی بھی اس کے ہم پلہ نہیں.ہاں یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی تفسیر اس تفسیر سے اس کی ان بے دلیل گھڑی ہوئی باتوں میں مشابہ نہیں عجیب تر بات یہ ہے کہ وہ شخص جو اس مؤلف کی تفسیر کی تعریفوں کے پل باندھ رہا ہے وہ خیال کرتا ہے کہ اس تفسیر میں بڑی قابل ستائش باتیں بیان ہوئی ہیں.وہ اخبار ” المعارف“ کی مجلس ادارت کارکن ہے اور اس اخبار المعارف میں جو اس تفسیر کی اصل حقیقت پر مبنی مضمون چھپا تھا وہ شخص اس مضمون سے بھی بخوبی آگاہ ہو گا.پھر نجانے اس نے کیسے یہ تعریفی باتیں کہہ دی ہیں.یہ معاملہ تو حد سے ہی باہر ہو گیا ہے.آج کوئی بچانے والا نہیں.ہاں جس پر وہ اللہ رحم کر دے وہی نجات پائے گا.میں نے جو اس تفسیر کے متعلق چند باتیں لکھی ہیں یہ وہ اصول ( بنیادی امور ) ہیں جن پر اس تفسیر کی بنا ہے ورنہ جو اس تفسیر میں کئی آیات کو حسب خواہش نفسانی موڑ توڑ لینے ، ایسی تاویل کرنے جس کو نہ اللہ پسند کرتا ہے اور نہ ہی وہ اس (رسول) سے مروی ہیں جس پر قرآن نازل ہوا تھا اور نہ ان صحابہ سے مروی ہیں جو قرآن کے اول مخاطب تھے.بہت سی ایسی باتیں جو ثابت شدہ اور صحیح ہیں اس تفسیر میں ان کے بر خلاف لکھا گیا ہے مگر یہاں تفصیلاً ان کا ذکر کرنے کا موقعہ نہیں اور نہ ہی ان باتوں کا رد درج کرنے کا موقعہ ہے.تاہم غافلوں کو بیدار کرنے اور دھو کہ خوردوں کو متنبہ کرنے کے لئے اس کی تفسیر میں سے بعض آیات کی تفسیر درج کرتے ہیں.چنانچہ یہ مفسر آیت كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ (2:66) کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ تم انسان کے مر تبہ سے گرتے ہوئے بندروں کی طرح ذلیل ور سوا ہو جاؤ.تم مروت و انسانیت کی محفلوں سے دھتکار کر نکال دیئے جاؤ گے.پھر اپنی تفسیر کے صفحہ 261 پر آیت فَقَالَ لَهُمُ اللهُ مُوْتُوا کی تفسیر میں لکھتا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ تمہاری بزدلی کی وجہ سے تم پر موت ہے یعنی تمہارا دشمن تم پر غالب آجائے گا اور تم دشمن پر فتح و کامرانی کی زندگی سے محروم کر دئے جاؤ گے.ثُمَّ أَحْيَاهُمُ اللهُ یعنی پھر اللہ نے ان میں عزم و ہمت اور ثبات قدم کی روح پھونک دی جس کے نتیجہ میں وہ قتال کے لئے مستعد ہو گئے تو اللہ نے انہیں فتح اور نصرت عطا فرمائی.
235 اسی طرح آیت اَوْ كَالَّذِی مَرَّ عَلی قَرْيَةٍ..کو بھی ظاہر سے پھیرنے کی کوشش کی ہے لیکن صرف ایک میں ایسا کرنے میں کامیاب ہو سکا ہے.ملاحظہ ہو ( ترجمان القرآن صفحہ 269) اسی طرح آیت فَخُذُ اَرُ بَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ کی وہی تفسیر کی ہے جو ابو مسلم اصفہانی معتزلی نے کی ہے جو امام رازی نے اپنی تفسیر میں نقل کی ہے.نیز ابوالکلام اپنی تفسیر کے آخر پر جمہور علما کے اقوال کو رد کر دینے کے قابل چیز قرار دیتا ہے.(ملاحظہ ہو صفحہ 270-271) اس طرح اس مفسر نے اپنی کتاب کے صفحہ 200 وغیرہ پر آیت وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ کی تفسیر میں تحریف کر کے ایسی ایسی تاویلات لکھی ہیں جو ائمہ اہل سنت اور جمہور علماء امت میں سے کسی نے نہیں کیں.اس کی ساری تفسیر ایسی ہی رکیک تاویلات سے بھری پڑی ہے جن کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے.اس مفسر کا ایک خاص اسلوب یہ ہے کہ کس آیت کی تفسیر کرتے وقت احادیث مبارکہ کی طرف قطعاً توجہ نہیں کرتا بلکہ ان کے بالمقابل یونان اور فرانس کے مؤرخوں کی کتب تاریخ پر اعتماد کرتا ہے خواہ ان کی بنا انکل اور قیاسات پر ہی ہو.حالانکہ احادیث تو مستند ہونے کے اعتبار سے آثارِ قدیمہ اور تاریخی کتبوں سے زیادہ تر مر تبہ پر ہیں کیونکہ ان آثار اور کتبون پر دلیل کوئی نہیں جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مَالَهُمْ بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ - إِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُوْنَ.اور ایک اس مفسر کی مخصوص عادت یہ ہے کہ جب وہ کسی معاملہ میں اپنی ایک رائے قائم کر لیتا ہے تو پھر اسی کو ایسی قطعی بات خیال کرتا ہے کہ جس کا مقابلہ اس کے خیال میں مرفوع حدیث یا صحیح روایت اور درست درایت بھی نہیں کر سکتی.ایک طریق اس مفسر نے یہ اختیار کیا ہے کہ مفسرین کے قوی تر اقوال کو ترک کر کے ان کے کمزور تر اقوال درج کر کے ان کو رد کرتا ہے.پھر (بغیر نام لئے ) ان کا کوئی اچھا قول اپنے نام سے لکھ کر اس پر اتراتا ہے اور بسا اوقات یہ شخص ان مفسرین پر استہزا بھی کرتا ہے.بقول شاعر وہ ( مخالفین )مکہ میں نوفل قبائل کے ہاں ٹھہرے اور میں نے صحرا میں اُن سے بہت دُور قیام کیا ہے.اور لغو اور مہمل کلام کرنے والا گمان کرتا ہے کہ وہ ہی درست ہے پس جو خیال اس کے دل میں آتا ہے تو وہ اُسے کہہ دیتا ہے.
236 66 ایک اردو اخبار میں اس (مفسر) کا ایک خط شائع ہوا ہے جس میں وہ لکھتا ہے کہ جو امور مدارِ نجات ہیں لازمی ہے کہ قرآن ان کو کھول کر بیان کرتا ہو جیسا کہ آقيْمُوا الصَّلوة کا حکم بالصراحت آیا ہے بلکہ وہ امور اس سے زیادہ صراحت سے بیان ہونے چاہئیں جو امور مدارِ نجات ہیں ان کے سوا جتنے بھی احکام قرآن میں وارد ہیں جن کو عقائد میں شامل نہیں کیا گیا ان احکام کو مانا اور ان پر اعتقاد رکھنا لازمی نہیں ہے.وہ کہتا ہے کہ میرا اعتقاد ہے مسیح ابن مریم نازل نہیں ہو گا.اس پر اُس سے پوچھا گیا کہ ہم تیری بات کیسے مان لیں جبکہ نزول مسیح کے بارہ میں صحیح اور کثیر روایات موجود ہیں؟ تیرا ان احادیث کے متعلق کیا کہنا ہے ؟ اس کا جواب اس نے صرف اتنا دیا کہ ”نزول مسیح کا ذکر اشراط قیامت میں سے ہے اور عقائد میں داخل نہ ہے “ یہ کس قدر عجیب بات ہے.کیا جو باتیں رسول اللہ صلی الیکم نے بیان فرمائی ہیں کیا ان کی تصدیق کرنا جزو عقیدہ نہیں.جب رسول اللہ صلی الیکم ایک بات بیان فرماتے ہیں اور اس کے وقوع پذیر ہونے کی خبر دیتے ہیں اور وہ روایت صحیح اور متواتر سند کے ساتھ زمین کے مشرق و مغرب میں پھیل چکی ہو تو کیا اس کے علاوہ کوئی اور بات ہو گی جس پر ایمان لانا اور کان دھر نا چاہیے ؟ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علم ہمیں بالصراحت حکم فرماتے ہیں کہ ابن مریم کے نزول پر ایمان لاؤ.لیکن اس مفسر کے نزدیک اس حکم کا صرف حدیث میں وارد ہو نا کافی نہیں بلکہ ضروری ہے کہ قرآن میں بھی صریحاً امنوا بنزول عیسی بن مریم کے الفاظ ہونے ضروری ہیں.کیا اس شخص کیلئے یہ ارشاد نبوی کہ وکیف انتم اذ انزل فیکم ابن مریم کافی نہیں ؟ کون سے وضاحت اور خبر اس “ ارشاد نبوی سے بڑھ کر واضح ہو گی ؟ وہ ارشاد بھی ایسا کہ پورے تواتر سے ثابت ہے.جب سورج طلوع ہو جائے تو پھر کسی اور روشنی کی ضرورت نہیں رہتی.اگر (اعتقادات اور نجات کا معاملہ اسی طرح ہوتا جس طرح کہ یہ شخص (ابوالکلام) خیال کرتا ہے تو بتائے کہ قرآن میں پانچ نمازوں کا، زکوۃ کی شرح کا، روزہ کے کفارہ کا کہاں بالصراحت ذکر آیا ہے ؟ کیا ان ( نماز، زکوۃ، روزہ کی فرضیت کا اعتقاد مدارِ نجات نہیں ہے ؟ کیا ان کی فرضیت کے منکر کو کافر نہیں قرار دیا جائے گا؟ ہمارے بزرگ استاد امام العصر رحمہ اللہ اپنے رسالہ ”اکفار الملحدین فی ضروریات الدین“ میں لکھتے ہیں: ” جب آپ نے میری ابتدائی بحث سمجھ لی ہے تو اب میں کہتا ہوں کہ ان امور ( نماز، زکوۃ، روزہ کی فرضیت کا اعتقاد رکھنا فرض ہے اور ان کا علم حاصل کرنا بھی فرض ہے اور ان کا انکار کفر ہے اور ایسا ہی ان سے لا علم رہنا بھی کفر ہے.مسواک کرنا سنت ہے اور اس کے مسنون ہونے پر اعتقاد
237 رکھنا فرض ہے اور اس کا علم حاصل کرنا سنت ہے.اس کا انکار کفر ہے اور اس سے لا علم رہنا بد نصیبی ہے اور اسے عمداً چھوڑنا باعث عتاب وعقاب ہے.اس تفسیر کے متعلق جو بات میں نے صرف ابتدائی کے بعد پوری وضاحت اور تفصیل سے بیان کر دی ہے وہ یہ ہے کہ مجھ پر اس تفسیر میں صرف گدلا پن ہی اور واضح دھو کہ رہی ہی ظاہر ہوئی ہے اور اس تفسیر کا دین سے کوئی تعلق واسطہ نہ ہے.اگر میں اس تفسیر پر دوٹوک تبصرہ نہ کروں بلکہ اس سے صرف نظر اور چشم پوشی کروں تو (اس تفسیر کی وجہ سے) پورے ہندوستان میں کفر والحاد کی آندھی چل پڑے گی اور ہر طرف پھیل جائے گی اور آج سے فہم قرآن کا مدار اس جیسی تفاسیر پر ہو جائے گا.بڑا مشکل ہو گا کہ اس کی لپیٹ سے کوئی شخص بیچ سکے سوائے اس کے جسے خود اللہ نے علم صحیح عطا کیا ہو اور اسے ان لوگوں کے انفاس قدسیہ کے ذریعہ پاک کیا ہو، جن کی صحبت اصلاح نفوس کی عظیم تاثیر رکھتی ہے.اور اس کا دل نبی کریم ملی ایم کے ارشاد پر مطمئن ہو اور اس معاملہ میں اپنی لولی لنگڑی اور بو دی سوچ کو نہ گھسیڑے.ہندوستان کے علماء اہل حدیث میں سے ایک نے اس تفسیر ترجمان القرآن کا رد لکھنا شروع کر دیا ہے اور اس کا ایک جزو چھپ بھی گیا ہے.لیکن تاحال میں اس کا مطالعہ نہ کر سکا ہوں.مجھے امید ہے کہ اس عالم نے اس تفسیر کار دپوری شرح وبسط سے کیا ہو گا.اگر ابوالکلام علم صحیح رکھتا ہوتا اور رسول کریم کی یہ کام کے لائے ہوئے دین کی کچھ قدر کرتا ہو تا تو بالکل ممکن تھا کہ عصر حاضر کے ان عظیم لوگوں میں شمار ہوتا جن پر زمانہ فخر کرتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں اس کی بڑی قدر و منزلت ہوتی.لیکن کیا جائے کہ مومن کے دل میں سچے دین کی محبت ابو الکلام کی محبت کے مقابلہ میں کہیں زیادہ جاگزیں ہے.پس لازمی ہے کہ شریعت کو اس میل کچیل سے محفوظ رکھا ها الله جائے جو شریعت کی قدر اصحاب بصیرت اور عقل سلیم رکھنے والوں کی نظر میں گرارہی ہے.اللہ تعالی ساری امت کو درست راستے پر چلنے کی توفیق دے اور انہیں سیدھی راہ کی ہدایت وسط 1936ء کا واقعہ ہے کہ گیا کے ایک صاحب حکیم سعد اللہ گیاوی نے ابوالکلام آزاد صاحب سے حدیث مجدد کی نسبت سوال کیا جس پر انہوں نے غضبناک ہو کر جواب دیا: ” ہمیں کون سی ضرورت ہے کہ اس لغویت میں پڑیں.ہم نہیں جانتے مجد د کیا بلا ہوتی ہے.1
238 یہ جواب صرف بابی یا بہائی دے سکتے ہیں.کوئی مسلمان بقائمی ہوش و حواس ایسا جواب نہیں دے سکتا کیونکہ آنحضرت صلی ا علم کی یہ حدیث صحاح ستہ کی کتاب ابو داؤد ”کتاب الملاحم باب ما یذکر فی قرن الماۃ میں موجود ہے اور تمام محدثین امت نے اس کی صحت پر اتفاق کیا ہے.12 یہی نہیں تیرھویں صدی تک کے مجددین کی فہرست اسلامی لٹریچر میں موجود ہے.13 ان مجد دین میں سے بعض نے تو اللہ تعالیٰ کے الہام سے دعوئی مجدد کیا.چنانچہ امام الہند حکیم الامت حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تحریر فرماتے ہیں: ” البسنى الله سبحانه خلعة المجددية حين انتهت بي دورة الحكمة..علمنی ربی جل جلاله ان القيامة مد اقتربت والمهدى تهياء للخروج 14" جب مجھ پر دور حکمت کی انتہاء ہو گئی تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مجھے خلعت مجد دیت پہنائی.مجھے میرے رب جل جلالہ نے یہ بھی علم دیا کہ قیامت قریب آن پہنچی ہے اور مہدی کا ظہور ہونے والا ہے.حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی اسی تصنیف لطیف میں ارشاد فرماتے ہیں: وصیت دیگر » در حدیث آمده است من ادرک منکم عیسی ابن مریم فليقرء منى السلام 15 ایس فقیر آرزوئے تمام دارد که اگر ایام حضرت روح الله را در یابد اول کسی که تبلیغ سلام کند من باشم و اگر من آنرانه در یافتم هر کسی که از اولاد یا اتباع این فقیر زمان بهجت نشان آنحضرت در یابد حرص تمام کند در تبلیغ سلام تاکتی به آخره از کتائب محمد یہ ماباشیم 16" ترجمہ: ایک اور وصیت حدیث میں آیا ہے کہ تم میں سے جو عیسی ابن مریم کو پائے اسے میر اسلام پہنچانا.اس فقیر کی انتہائی آرزو اور تمنا یہ ہے کہ اگر حضرت روح اللہ کا زمانہ مجھے نصیب ہو تو سب سے پہلے آنحضرت علی علیم کا سلام پہنچانے کی سعادت مجھے ملے.لیکن اگر میں یہ زمانہ نہ پاسکوں تو میری اولاد یا اتباع میں سے جو بھی آں حضرت (مسیح
239 موعود) کا زمانہ پائے تو وہ میری دلی آرزو کو پورا کرے تا محمدیت کے لشکروں میں سے آخری لشکر میں بھی شامل ہو سکیں.یہ تو امت کے بلند پایہ مجدد، محدث اور صاحب کشف والہام بزرگ حضرت سید ولی اللہ شاہ دہلوی کا مسلک تھا مگر ابوالکلام آزاد صاحب نے حکیم سعد اللہ صاحب کے نام مراسلہ کے آخر میں آمد مسیح“ کے بارے میں لکھا.: ”اگر آپ طالب حقیقت ہیں تو ان جھگڑوں میں نہ پڑیئے ، نہ ان خرافات کے بارے میں سوال کیجئے.“17 آزاد صاحب کا یہ خط مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے ”اہلحدیث “ میں شائع کر دیا اور اس کو زبر دست تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اعتراض کیا کہ آزاد صاحب نے اپنے مراسلہ میں احادیث کا کیوں ذکر نہیں کیا.اس سلسلہ میں انہوں نے مطبوعہ پرچے کے ساتھ مکتوب کے ذریعہ ان سے وضاحت چاہی جس کا جواب ابوالکلام صاحب نے جن الفاظ میں دیا، اس نے یہ حقیقت پوری طرح بے نقاب کر دی کہ احراری علماء کے ”امام الہند آنحضرت صلی علیم کے باغی ہیں اور ان کی یہ بغاوت بابیت و بہائیت ہی کی پیداوار تھی.آزاد صاحب نے لکھا: نزول مسیح کی خبر محض آثار قیامت کے سلسلے میں دی گئی ہے.مسلمانوں کی 18" نجات وسعادت کے معاملے کا اس سے کوئی تعلق نہیں.آزاد صاحب کی سرور کائنات صلی املی کم سے غداری کا بھانڈا 1927ء میں ہی پھوٹ چکا تھا جبکہ مسلمانان ہند نے حضرت امام جماعت احمدیہ کی قیادت میں ”ور تمان “ اور ”رنگیلا رسول کی مخش اور گالیوں سے بھری مغلظات کے خلاف ناموس رسولِ عربی کی حفاظت کے لئے تحریک اٹھائی.ہائیکورٹ پنجاب کے جسٹس دلیپ سنگھ نے فیصلہ کیا کہ یہ تحریرات دفعہ 153 الف کی زد میں نہیں آتیں.اس فیصلہ نے ہندوستان کے عشاق رسول کو ماہی بے آب کی طرح تڑپا دیا مگر احرار اور ہندو کانگرس کے متفقہ ”امام الہند “ نے بد قماش آریہ سماجیوں کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے اس تحریک کو ”لغویت کا نام دیتے ہوئے ایک غیور مسلمان کو خط لکھا:.”آپ کو معلوم نہیں پچھلے دنوں کسی چیز نے مجھے اتنی اذیت نہیں دی جس قدر آپ کے فدایان رسول کی ان نا قابل برداشت لغویتوں نے.کبرت كلمة تخرج من افواههم ان يقولون الا كذبا لطف یہ ہے کہ آپ از راہ جوش ایمانی مجھے بھی
240 دعوت دیتے ہیں کہ میں حصہ لوں....اپنا جو فرض اسلامی سمجھتا ہوں اس کے مطابق لوگوں کو بتلاؤں گا کہ انہوں نے کیسا غلط اور گمراہ کن طریقہ اختیار کیا ہے.اسی پر بس نہ کرتے ہوئے مزید لکھا: ،، ” مجھے قطعاً اس سے انکار ہے کہ عوام کی یہ ذہنیت بنانے کی کوشش کی کہ کوئی چوہا اچھلا اور انہوں نے رونا پیٹنا شروع کر دیا کہ اسلام کی کشتی ڈوب گئی.جہاں کسی آریہ نے کوئی بات کسی جلسے یا اخبار میں کہہ دی اور بس شور مچانا شروع کر دیا کہ اسلام ختم ہو گیا....آپ نہیں جانتے کہ اس طریقے سے مسلمانوں کی جماعتی ذہنیت کس طرح قتل کی جارہی ہے....ان میں خفیف الحرکتی ، چھچھورا پن اور دوں ہمتی کی تخم ریزی کی جارہی ہے اور اس کا نام رکھا جاتا ہے فدائیان رسول کی فداکاریاں....کیا لغویت ہے اگر کسی ایسی کتاب کے لکھ دینے سے نعوذ باللہ رسول اور امہات المؤمنین کا سوال پیدا ہو جاتا ہے تو ان بر خود غلط لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ دنیا میں تو کب سے ناموس کا خاتمہ ہو گیا ہے....خدارا اخبار فروشوں کی تقلید اعملی میں اس طرح وارفتہ نہ ہو جاؤ.“19 اس بیان نے عشاق رسول عربی کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کیونکہ یہی کا نگر سی امام الہند تھے جنہوں نے اس سے قبل مسٹر گاندھی کی سرپرستی میں تحفظ خلافت، خلاف شریعت اور خلاف قانون تحریک چلائی اور اس ایجی ٹیشن میں انہوں نے نہ صرف لاکھوں مسلمانوں کو دہشت گرد بنا دیا بلکہ ان کو بے خانماں اور برباد کر کے افغانستان کی طرف دھکیل دیا تا ہند و سرمایہ دار ان کی جائیداد پر قابض ہو سکیں.یہ ایجی ٹیشن ناموس رسالت کے مقابلہ میں اتنی بھی حیثیت نہ رکھتی تھی جتنی آفتاب کے مقابلہ میں ذرہ ناچیز کی ہوتی ہے کیونکہ ان کا قطعی یقین تھا کہ سلطان ترکی کی ہر گز ”اسلامی خلافت نہ تھی.یہ ایک خود ساختہ منصب تھا.20 بایں ہمہ انہوں نے آل انڈیا خلافت کمیٹی کے ذریعہ ایک طرف عامتہ المسلمین سے روپیہ اکٹھا کیا اور دوسری طرف معصوم مسلمانوں کو قانون شکنی کی اشتراکی راہوں پر ڈال دیا.انہوں نے کمیٹی کے قیام پر ان الفاظ میں پراپیگینڈا کیا: " تمام مسلمانوں کو ان ہمدردان ملت کا شکر گذار ہونا چاہئے جنہوں نے آل انڈیا خلافت کمیٹی کی بنیاد ڈالی....خلافت کمیٹی روپیہ جمع کرے گی، ایجی ٹیشن جاری
رکھے گی.“21 241 پھر انہوں نے باور کرایا کہ اس ایجی ٹیشن میں برٹش انڈیا کے ہر مسلمان پر اس تحریک میں شمولیت واجب ہے.لہذاوہ برطانیہ کی خاطر اسلام سے باغی“ نہ ہوں.اس ضمن میں یہاں تک کہہ ڈالا :- مسلمان ہندوستان کی مسجدوں اور ان کے اندر نماز کولے کر کیا کریں گے جن کی اجازت دے دینے پر برٹش گورنمنٹ کو ناز ہے.جبکہ شریعت کے وہ احکام (یعنی عراق اور بیت المقدس پر غیر مسلموں کے قبضہ سے متعلق.ناقل ) ان کے سامنے آجائیں گے جن کی تعمیل ہزار نمازوں سے بھی بڑھ کر اور ہزار روزوں سے بھی اشد واہم ہے اور جن کی نافرمانی کے بعد نہ تو اُن کی نمازیں ان کے لئے سود مند رہیں گی نہ ان کے روزے ہی نجات دلا سکیں گے.22 مسلم لٹریچر میں قدیم وجدید آئمہ مضلین کے بہت سے فتاویٰ محفوظ ہیں مگر ایسا گمراہ کن فتویٰ جو الحاد وزندقہ سے رنگین ہے کسی فرقے یا کسی مفتی نے آج تک نہیں دیا.اس لئے کہ نماز اور روزہ اسلام کے پانچ بنیادی احکام میں شامل ہیں جن کی بجا آوری فرض ہے.جس کا عرب کے کسی علاقہ پر غیروں کے تسلط یا عدم تسلط سے قطعا کوئی تعلق نہیں.نہ آنحضرت صلی علیم نے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کو عرب ممالک کی اندرونی سیاست میں دخل دینے اور اس کی بناء پر اپنے وطن میں بغاوت برپا کرنے کی سند جواز دی ہے.یہ خالص ”گاندھی اسلام“ ہے اور ”نہر وسوشلزم“ ہے.ایسا فتوییٰ وہی شخص دے سکتا ہے جس کا پیشہ ہی اپنی مطلب براری کے لئے قرآن کو بازیچہ اطفال بنانا ہو اور یہ جسارت اسلام کے بھیس میں بابی اور بہائی مبلغ کر سکتا ہے.وجہ یہ کہ بہائیوں کی اصل نماز اپنے معبود بہاء اللہ سے دعا ہے جو ہر جگہ ہو سکتی ہے.اور اس کے لئے کسی عبادت گاہ کی ضرورت نہیں اور نہ باجماعت نماز جائز ہے.3 عبادت کے وقت گانے بجانے کا انگریزی باجہ ہر جگہ رکھا جاسکتا ہے.”الا قدس“ کے مطابق مسافر، مریض اور بوڑھوں کو نماز بالکل معاف ہے اور جن پر نماز واجب ہے انہیں سورج چڑھتے ، ڈھلتے اور غروب کے وقت تین نمازیں پڑھنی پڑتی ہیں اور وہ بھی اس قدر کہ بہاء اللہ کے مدفن کو قبلہ بنا کر کھڑا ہو جائے اور چند منٹوں میں تین رکعتیں ادا کرے جن میں بہاء اللہ کی مقررہ دعائیں پڑھے اور رکوع اور سجدہ کرلے.4 اس پہلو پر مزید تبصرہ کی بجائے یہ بتانا از بس ضروری ہے بہائیت میں مثالی مبلغ و ہی شمار ہوتا ہے 23 24
242 جو اپنا مذ ہب نہایت ہوشیاری اور چالاکی سے پوشیدہ رکھے.چنانچہ بہاء اللہ نے میرزا حیدر علی اصفہانی کو استنبول کا مبلغ مقرر کیا تو اولین حکم یہ دیا کہ ” استر ذهبک و ذهابک و مذهبک 25" ترجمہ : اپنی دولت، سفر اور مذھب تینوں چیزوں کو عوام سے چھپا کر رکھنا.کانگرسی امام الہند نے اپنے مرشد کے اس تاکیدی فرمان پر اس درجہ سختی اور شدت سے عمل کیا کہ انسان داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا.انہوں نے اس راز پر ہمیشہ پر وہ ڈالے رکھا کہ انہیں کن کن ذرائع سے روپیہ مل رہا ہے.انہوں نے حکومت کا تختہ الٹ کر جب کانگرسی سکیم کے مطابق ترکی وغیرہ مسلم ممالک سے گٹھ جوڑ کرنے کے لئے سفر کیا تو کسی کو خبر نہیں ہونے دی.بابیت و بہائیت کے سب بنیادی اصولوں کو تفسیر کے نام پر مسلمانوں میں پھیلانے کا حق ادا کر دیا مگر کسی کو شبہ تک نہیں ہونے دیا کہ یہ حضرت بھی در پردہ بہائی مشنری ہیں جو ان کی سیاسی پالیسی کا شاہکار ہے.حالانکہ انہی کے ہمعصر ”حضرت علامہ سید محفوظ الحق علمی صاحب (ولادت 1894ء.وفات 1978ء)26 جن سے انہیں بابیت و بہائیت کا ”فیض “ ملا نے 1908ء میں میرزا محمود زرقانی کے ذریعہ بہائی دھرم اختیار کیا.بعد ازاں بہائی مبلغ کی حیثیت سے داخل احمدیت ہو گئے اور خفیہ طور پر قادیان اور دوسرے مقامات پر بہاء اللہ کی تعلیم پھیلاتے رہے.27 لیکن مارچ 1924ء میں جب ان کی انڈر گراؤنڈ سر گرمیوں کا پردہ چاک ہو گیا تو وہ نہایت بے آبروئی سے قادیان کے مقدس گلی کوچوں سے نکل گئے اور آگرہ میں جا کر دم لیا.پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ علمی صاحب کی اس ذلت ورسوائی کے تجربہ سے ”مولانا آزاد“ نے خوب سبق سیکھا.تبھی تو وہ زندگی کے آخری سانس تک تقریر و تحریر کے ذریعے مسلمانوں میں بہائیت کے جراثیم بلا روک ٹوک پھیلانے میں سرگرم رہے.نہ صرف آزاد بلکہ اقبال کے لٹریچر کا گہری نظر سے مطالعہ کرنے والے مفکر یقیناً اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ ان حضرات کی ہر بات ذو معنی اور پہلو دار ہوتی تھی.انہوں نے مسلمانوں کے زوال اور زبوں حالی پر آنسو بھی بہائے جس پر ابوالکلام کا تذکرہ “ اور اقبال کا شکوہ “ اور ”جواب شکوہ شاہد ناطق ہیں.مگر اس کی غرض محض مسلمانوں کی “ ہمدردیاں حاصل کرنے اور ان میں مقبولیت اور شہرت پانا ہی نہیں تھا بلکہ اصل مقصد بہائیوں کے اس دعوی کو تقویت دینا تھا کہ مسلمانوں کا اسلام کو چھوڑ دینا ہی یہ ظاہر کرتا ہے کہ اب انہیں کسی نئی
243 شریعت کی ضرورت ہے.وہ خود آنحضرت صلی اللہ یکم کی خبر کے مطابق ہر اعتبار سے ”علماء ھم میں شامل تھے.مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ منظر علماء سوء کو نشانہ تضحیک بنا کر اپنی تفریح طبع کا سامان کرتے اور عامتہ المسلمین کا بھی دل بہلاتے رہے.بھولے بھالے عقیدت مندوں نے ان تابڑ توڑ حملوں کا پر جوش استقبال کیا اور یقین کیا کہ قرون مظلمہ کی ملائیت کی باقیات سے تو ہمیں نجات مل رہی ہے لیکن یہ سب نمائش تھی کیونکہ ان کی پوری زندگی ملائیت میں ہی ڈھلی ہوئی تھی اور وہ نہایت سنگدلی سے تکفیر کی شمشیر کا بے دریغ استعمال کر رہے تھے.چنانچہ یہ ابوالکلام آزاد ہی تھے جنہوں نے کانگرس کی خود کاشتہ مجلس احرار کی ہمیشہ سر پرستی کی اور انہیں کانگرس کی طاقت اور سیاست سے مسلح کر کے احمدیت کے پاک جسم میں خنجر گھونپ دیا اور خود پردہ کے پیچھے اپنے گماشتوں کی انسانیت سوز کاروائیوں کا تماشہ کرتے رہے اور جب احمدیوں کو مسلم معاشرہ سے کاٹ پھینکنے کا منصوبہ عروج پر پہنچاتو علامہ اقبال“ جو اسی تاک میں بیٹھے تھے، یکا یک میدان میں آگئے اور کروڑوں احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کا قانونی اور سیاسی حربہ احرار کو تھما دیا اور کارل مارکس، نطشے، سپینسر ، گوئٹے، ہیگل، بلکہ ابلیس کے مشیروں سے بھی جو فلسفہ سیکھا تھا، اس کو احمدیوں کے خلاف استعمال کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا.ان تمام حرکتوں کا واحد مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو اللہ جلشانہ کے آستانے سے ہٹا کر باب، بہاء اللہ اور کارل مارکس کا پجاری بنا دیا جائے اور ان کے قبلہ کا رخ مکہ کی بجائے ماسکو اور عکہ کی طرف ہو جائے.اس مقصد کی تکمیل کے لئے 1929ء سے 1974ء تک جماعت احمدیہ پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑے گئے اور اسے کچلنے کے لئے عالمگیر سطح پر ہر جائز اور خلاف انسانیت حربہ استعمال کیا گیا.لیکن جیسا کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا، خلافت کی برکت سے سارے خوف امن میں تبدیل ہو گئے اور ہر بڑی سے بڑی سازش خدا تعالیٰ کے آسمانی سلسلہ کی ترقی کو روکنے میں ناکام و نامر اور ہی.میں سمجھتا ہوں مستقبل کا مورخ جب ماضی کے دریچوں سے انیسویں صدی کے ان واقعات کو جھانک کر قلم اٹھائے گا تو اسے لکھنا پڑے گا کہ یہ محض سچے وعدوں والے خدا کا فضل اور نظام خلافت ہی کی برکت تھی کہ کشتی احمدیت مخالفت کے مہیب عالمی طوفانوں کو چیرتی ہوئی پوری شان و شوکت سے ساحل مراد تک پہنچ گئی.سر اقبال کی بہائیت سے بے پناہ عقیدت جناب ڈاکٹر صابر آفاقی صاحب نے 1995ء میں ”اقبال اور امر بہائی“ کے عنوان سے ایک
244 تحقیقی مقالہ شائع کیا تھا.28 درج ذیل ضروری اقتباسات واقعات اسی مقالہ سے ماخوذ ہیں جن کی تردید کی آج تک پاک و ہند کے کسی اقبال شناس ادارے یا شخصیت کو جرات نہیں ہو سکی."1900ء میں ایک امریکن بہائی سڈنی اسپراگ لاہور شہر میں بسلسلہ تبلیغ قیام پذیر رہے.1900ء میں ایران کے معروف بہائی مبلغ اور عالم، مرزا محمود زرقانی (وفات 1927) لاہور تشریف لائے اور 1908ء تک یہاں مقیم رہے.مرزا صاحب طبیب بھی تھے اس لئے انہوں نے انار کلی میں اپنا مطب قائم کر لیا تھا.علامہ اقبال بھی ان دنوں لاہور میں رہتے تھے.چنانچہ 1902ء میں پروفیسر پریتم سنگھ (1959ء-1881ء) کے ذریعے علامہ اقبال کی ملاقات مرزا محمود زرقانی سے ہوئی اور پھر یہ دوستی 1925 تک قائم رہی.29 بہائی دوست جناب مهربان اختری (پشاور) کا بیان ہے : ” میں 1944 میں لاہور گیا اور وہاں بیڈن روڈ پر ریستوران چلاتا رہا.پروفیسر پریتم قیام پاکستان کے بعد سات ماہ تک لاہور میں ہی رہے.جناب پروفیسر مجھ سے بیان کیا کرتے کہ وہ کبھی مرزا محمود زرقانی اور کبھی سید محفوظ الحق علمی کے ہمراہ اقبال سے ملاقات کرتے.علامہ اقبال بڑے شوق سے اپنا فارسی کلام مرزا محمود زرقانی کو سناتے اور آپ جہاں ضروری ہو تا، اصلاح فرمایا کرتے تھے.اس طرح مرزا محمود کی دوستی علامہ اقبال سے 1901ء سے لے کر 1925 ء تک برقرار رہی.“ افسوس ہے کہ تعصب کی وجہ سے کسی ماہر اقبالیات نے ابھی تک اس موضوع ہ نہیں لکھا اور ان ملاقاتوں کا ذکر بھی نہیں کیا.یہ بتانا ضروری ہے کہ پر وفیسر پر یتیم سنگھ علامہ اقبال کے ہم شہری اور ہم عمر تھے.ان کے آپس میں دوستانہ روابط عمر بھر قائم رہے.پروفیسر مرحوم بر صغیر کے معروف ترین بہائی مبلغ، عالم اور صحافی تھے.انہوں نے علامہ اقبال کو امر بہائی کا مفصل تعارف کروایا تھا.پروفیسر پریتم سنگھ 1905ء میں ایچی سن کالج میں لیکچر ارر ہے اور آخری عمر میں دیال سنگھ کالج میں پروفیسر رہے.ڈاکٹر عبد اللہ چغتائی راقم کے نام اپنے خط میں تحریر کرتے ہیں: ” مجھے پروفیسر پریتم سنگھ کا علم ہے.میں ان سے ملا ہوں.وہ سیر پانیک آدمی تھے.مگر کٹر بہائی تھے.انہوں نے اولاد نہ ہونے کی وجہ سے ایک ایرانی لڑکی کو اپنایا
245 ہوا تھا.میں نے اسے بھی دیکھا ہے.وہ اکثر علامہ کے ہاں آتے تھے اور لاہور میں ٹمپل روڈ پر رہتے تھے.مگر شکل وصورت میں وہ سکھ تھے.“30 پروفیسر پر یتیم سنگھ 39 ٹمپل روڈ لاہور سے ایک ہفتہ روزہ انگریزی اخبار ”دی بہائی “ شائع کرتے تھے.اس کا پہلا شمارہ 7 جنوری 1931 کو شائع ہو اتھا.خیال ہے کہ یہ اخبار وہ اپنے دوست علامہ اقبال کو ضرور بھیجا کرتے ہوں گے.مرزا محمود زرقانی سے علامہ اقبال کی ملاقات کا حال دیپ چند کھیا نڑا یوں لکھتے ہیں : ”مرزا محمود زرقانی کو 1900ء میں حضرت عبد البہاء نے پنجاب میں امر بہائی کا پیغام دینے کے لئے بھیجا تھا.پروفیسر پریتم سنگھ سیالکوٹ کے ایک حج کے بیٹے تھے اور علامہ اقبال کے دوست تھے.وہ ایک دن مرزا محمود زرقانی سے ان کے مطب میں ملے تو علامہ اقبال کو بھی اس بارے میں بتایا.اس پر علامہ اقبال کے دل میں اشتیاق پیدا ہوا کہ وہ اس ایرانی عالم وادیب سے ملاقات کریں.چنانچہ یہ دونوں دوست مرزا محمود زرقانی کے پاس گئے اور پھر مرزا محمود زرقانی سے 1905ء تک ملاقاتیں ہوتی رہیں.“31 قیام لندن کے دوران ترک اسلام کا دستاویزی ثبوت حقیقت یہ ہے کہ لندن پہنچتے ہی بہائی مبلغ مورخ ڈاکٹر ای جی براؤن نے محمد اقبال صاحب کو اسلام سے متنفر کر دیا تھا جس کا دستاویزی ثبوت ان کے قلم کا وہ مکتوب ہے جو انہوں نے لاہور سے 7 ستمبر 1921ء کو لکھا جس میں انکشاف کیا کہ :- ”اس زمانہ میں سب سے زیادہ بڑا دشمن اسلام اور اسلامیوں کا نسلی امتیاز و ملکی قومیت کا خیال ہے.پندرہ....برس ہوئے جب پہلے پہل اس کا احساس ہوا.اس وقت میں یورپ میں تھا اور اس احساس نے میرے خیالات میں انقلاب عظیم پیدا کر دیا.“ اگلا فقرہ نہایت معنی خیز اور مغالطہ آفرینی کا فلسفیانہ شاہکار ہے.فرماتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ یورپ کی آب و ہوا نے مجھے مسلمان کر دیا.32 اگر تاریخ کا کوئی ادنی طالبعلم بھی پہلے فقرہ کی روشنی میں اس آخری فقرہ کے لفظ ”مسلمان کا گہری نظر سے مطالعہ کرے گا، اس پر فورا کھل جائے گا کہ یہ لفظ یقینا مسلمانوں کی اس قوم پر اطلاق
246 نہیں پاسکتا جن کے متعلق 1906ء میں یورپ نے اس یقین پر قائم کر دیا تھا کہ وہ نسلی امتیاز اور ملکی قومیت کی علمبر دار اور دشمن زمانہ ہے.یقینا اقبال نے چابکدستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسی اسلوب کو اختیار کیا جو پچھلی صدی میں عیسائی اختیار کئے ہوئے تھے.چنانچہ ان کا موقف تھا کہ حضرت یسوع مسیح ہی خاتم النبیین ہیں.اصل اسلام کلیسا ہے اور حقیقی مسلمان اس کے پیروکار ہیں.چنانچہ لدھیانہ کر سچن لٹریچر سوسائٹی نے 1900ء میں ” مسیح یا محمد “ کے زیر عنوان پمفلٹ میں لکھا ” یسوع مسیح سب سے برتر اور خاتم المرسلین ہیں.“ اسی طرح اسی سال سوسائٹی نے ”سچا اسلام “نامی ٹریکٹ شائع کیا جس کالب لباب یہ تھا کہ عیسائیت ہی اسلام ہے اور مسیحی حقیقی مسلمان ہیں.یہ ٹریکٹ پہلی بار چار ہزار کی تعداد میں چھپ کر پورے ملک میں پھیلا دیا گیا.بالکل یہی اسلوب اقبال نے یہاں اختیار کیا ہے اور سیاق وسباق کے مطابق یہ تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ یورپ کی فضا اور بہائی مبلغ و مورخ مسٹر براؤن کی دستگیری، راہنمائی اور تبلیغ نے اقبال کو ” دشمن اسلام کے چنگل سے بچا کر جس صورت کا مسلمان بنایا ہے ، وہ ایک الگ چیز ہے.جس کا دوسرا نام ”بابی اور بہائی مسلمان“ ہے جو اقبال کی نگاہ میں ”نسلی امتیاز و ملکی قومیت“ سے داغدار نہیں بلکہ صوفیاء اسلام کے مخالف اتحاد عالم کا پیامبر اور جامع اور ہمہ گیر ہے.چنانچہ اقبال نے اپنے مقالہ میں نہایت چابکدستی سے پہلے مزدکیت کا ذکر کیا ہے جو قرۃ العین طاہرہ کی بدشت کا نفرنس کی تقریر کے مطابق بابیت کی بنیادی اینٹ اور فکر اساس ہے.ازاں بعد مسلم صوفیاء کے نظریہ وحدت الوجود کا ذکر کیا ہے تا مسلمانان عالم، باب اور بہاء اللہ کے دعویٰ خدائی کو تصوف کا باب سمجھ لیں اور ان کی نئی شریعت پر جرح قدح کرنے کا خیال تک نہ لائیں.یوں عالم اسلام کی آنکھوں میں خاک جھونکنے کے بعد بابیت اور اور بہائیت کی تمام اسلامی فرقوں پر فوقیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا: ایرانی تفکر کے یہ مختلف سلسلے ایران جدید کی اس زبر دست مذہبی تحریک سے ایک بار پھر متحد ہو گئے جو بابی یا بہائی مذہب کے نام سے موسوم ہے.33 مقالہ کے آخر میں مبلغ بابیت و بہائیت محمد اقبال نے اس جدید مذہب کی تمام ادیان عالم پر برتری کا ڈنکے کی چوٹ اعلان کیا.تحریر فرماتے ہیں: ”بعد کے مفکرین میں ہم دیکھتے ہیں کہ نوفلاطونیت سے حقیقی فلاطونیت کی طرف جو حرکت شروع ہوئی تھی.اس کو ملا ہادی کے فلسفہ نے تکمیل تک پہنچا دیا تھا.لیکن خالص تفکر اور خواب آور تصوف کے راستے سے بابی مذہب بری طرح حائل
247 ہو گیا.یہ مذہب ظلم و تعدد کی پروانہ کر کے تمام فلسفیانہ اور مذہبی میلانات کو متحد کر تا اور روح میں اشیاء کی ٹھوس حقیقت کا شعور پیدا کر دیتا ہے.اگرچہ اس کی نوعیت بہت ہی جامع اور ہمہ گیر تھی.“34 اقبال کے معاصر علماء اہلسنت نے اقبال کے اس فلسفہ الحاد وزندقہ کی بناء پر (جو اسلام سے ارتداد کے بعد باب اور بہاء اللہ اور قرۃ العین کے آستانہ تک پہنچا دیتا ہے ) واضح لفظوں میں مولوی محمد دیدار علی صاحب خطیب مسجد وزیر خاں اور وسط ہند کے سنی علماء نے اقبال پر کھلے بندوں فتاویٰ کفر دیئے.مولوی دیدار علی کے فتوی کا متن اخبار زمیندار 15 اکتوبر 1925ء میں شائع شدہ ہے.35 بالکل یہی وجہ ہے کہ اقبال کی نماز جنازہ کسی سنتی عالم نے نہیں بلکہ کٹر شیعہ عالم سید علی الحائری نے پڑھائی.36 ماہرین اقبالیات برسوں سے اس پریشان خیالی میں مبتلا ہیں کہ کلام اقبال میں بے حد تضاد ہے.حالانکہ اقبال 1906ء سے بہائی وہابی مذہب اختیار کر چکے تھے اور گستاخ رسول قرۃ العین طاہرہ کے اول نمبر کے پرستاروں میں سے تھے.یہی ان کا باطنی دین تھا جو اول سے آخر تک قائم رہا جس سے کبھی ان کے قلم سے انکار ثابت نہیں کیا جاتا.بایں ہمہ اسلام اور مسلمانوں کی بابت جو کچھ بھی ان کے قلم سے نکلا اس کو بہائیت ہی کا نام دیا جاسکتا ہے.اور وہ دین بہائی کے اس بنیادی اصول کی عکاسی کرتا ہے کہ ہر مسلمان، سکھ ، ہندو، عیسائی، یہودی، پارسی حتی کہ ہریجن یا دہر یہ بھی اپنے اپنے ذاتی خیالات پر رہتے ہوئے بھی خود بخود بہائی بن جاتا ہے.بشر طیکہ وہ بہاء اللہ پر ایمان رکھے.پس سر اقبال کے حقیقی خد و خال صرف آئینہ بہائیت میں نمایاں ہو سکتے ہیں اور اسلام اور مسلمان کا نام وہ عمر بھر اپنی فلسفیانہ اصطلاح میں استعمال کرتے رہے کہ دونوں چیزیں دشمن زمانہ ہیں.علامہ اقبال کیمبرج یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہے جہاں 1902ء کے بعد براؤن (متوفٰی 16 جنوری 1926ء) جیسا معروف مستشرق بحیثیت پروفیسر خدمات انجام دے رہا تھا.براؤن نے بابی اور بہائی دین پر وقیع کام کیا ہے.اس نے 1891ء میں امر بہائی کے بانی بہاء اللہ سے عکہ میں ملاقات کی تھی.وہ نو دن ان کا مہمان رہ چکا تھا.اس لئے بعید نہیں کہ علامہ اقبال نے براؤن وغیرہ سے بھی استفادہ کیا ہو.علامہ اقبال براؤن کے مداح تھے.براؤن کی وفات پر انہوں نے قطعہ تاریخ بھی کہا تھا.37 تا به فردوس بریں ماوی گرفت گفت ہاتف ” ذالک الفوز العظيم 66
248 علامہ اقبال نے ڈاکٹریٹ کا مقالہ فلسفہ ایران پر قلم بند کیا تھا جس کا اردو ترجمہ ”فلسفہ عجم “ کے نام سے شائع ہو چکا ہے.اس مقالہ کے لئے انہوں نے براؤن کولیکشن سے استفادہ کیا.جہاں بابی تحریک پر کافی لٹریچر موجود ہے.علامہ اقبال نے اس مقالہ میں باب، بہاء اللہ اور ان کی تعلیمات کی تعریف کی ہے.این میری شمل لکھتی ہیں.” اس مقالہ کا آخری حصہ اس تجزیہ پر مشتمل ہے جو اس نے مسٹر فلیپ کی کتاب عباس آفندی سوانح و تعلیمات “مصنفہ 1902ء سے لیا ہے.اقبال اس کا خود ذکر کرتے ہیں.خاص طور سے ”فلسفہ ونفسیات“ والا باب اسی سے ماخوذ ہے.ان کا آخری ایام کا فلسفہ امر بہائی کے بنیادی نظریات سے ہم آہنگ ہو گیا تھا.“38 علامہ اقبال فلسفہ عجم (انگریزی) میں فرماتے ہیں: لیکن فلسفہ عجم کے سارے مختلف دھارے ایک دفعہ پھر ایران جدید کی اس عظیم دینی تحریک بابی ازم و بہائی ازم میں آکر مل گئے تھے.جس کا آغاز سید علی محمد باب (متولد 1819) کے ظہور سے شیعہ فرقے کی حیثیت سے ہوا.لیکن یہ تحریک بڑھتے ہوئے متعصبانہ قتل عام کے باعث اپنے کردار میں کم سے کم اسلامی ہوتی گئی.“ 39 مرحوم اسفند یار بختیاری اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ : ” میں نے مار تھاروٹ اور علامہ اقبال کا ہم شہری اور ہم جماعت پر وفیسر پریتم سنگھ (دیال سنگھ کالج) کی معیت میں 22 جون 1930ء کو علامہ اقبال سے ملاقات کی.جناب قرۃ العین طاہرہ کے کلام کا مجموعہ ”تحفہ طاہرہ “ اور ”بہاء اللہ و عصر جدید “ ان کی خدمت میں پیش کی.علامہ نے یہ دونوں کتابیں شوق سے قبول کیں اور مطالعہ کرنے کا وعدہ کیا.اس موقع پر علامہ اقبال نے اپنے لیکچروں کا مجموعہ ” تشکیل جدید الہیات اسلامیہ “ مار تھا روٹ کو پیش کیا تا کہ آئندہ ملاقات میں اس پر گفتگو ہو سکے.تین اشخاص پر مشتمل یہی وفد 24 جون کو دوبارہ ان کی خدمت میں پیش ہوا.بختیاری لکھتے ہیں کہ : اس مرتبہ اقبال پہلے دن سے زیادہ مسرور نظر آتے تھے.آپ نے امریکن خاتون مار تھاروٹ کا بیحد احترام کیا.دوران گفتگو علامہ نے بتایا کہ وہ ایک کتاب میں قرۃ العین طاہرہ کا ذکر کریں گے جو زیر تنظیم ہے.آج کی ملاقات کے دوران مار تھاروٹ نے علامہ کو بتایا کہ ان خطبات
249 میں جدید عہد کے مسائل کا حل نہیں ملتا.اس پر علامہ مسکرا دیئے اور فوراً موضوع گفتگو تبدیل کر لیا.40 چنانچہ ”جاوید نامہ “ میں جو 1932ء میں شائع ہوا، آپ نے جناب طاہرہ کو ” خاتون عجم کا لقب دیا اور ”تحفہ طاہرہ “ میں درج وہ غزل بھی دی جس کا مطلع ہے.گر بتوافتدم نظر چهره بچهره روبرو شرح دهم غم ترا نکته به نکته موبه مو علامہ اقبال جناب قرۃ العین طاہرہ سے بڑی عقیدت رکھتے تھے.جاوید نامہ کے فلک مشتری پر وہ حسین بن منصور حلاج، غالب اور طاہرہ کو یکجا دکھاتے ہیں.وہ حضرت طاہرہ “ کو شجاعت و شہادت اور انقلاب کا سمبل سمجھتے تھے.ان تینوں میں صفت مشترک یہ تھی کہ وہ قدیم نظام کے خلاف اور بدید آئین حیات کے علم بردار تھے.اقبال تینوں کو ” ارواح پاکباز “ کا لقب دیتے ہیں.پیش خود دیدم سم روح پاکباز آتش اندر سینه شان گیتی گداز غالب و حلاج و خاتون عجم شور با افگنده در جان حرم غالب کا پیغام طاہرہ کا پیغام بیا که قاعده آسمان بگردانیم قضا بگروش رطل گران بگردانیم شوق بیحد پرده ہارا بر درد کہنگی را از تماشا می برد آخر از دار و رسن گیرد نصیب بر نگردد زنده از کوئے حبیب 41
250 یادر ہے کہ علامہ اقبال جناب طاہرہ کے مقام و کلام سے بہت پہلے یعنی بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں واقف ہو چکے تھے.مثال کے طور پر بانگ درا کی نظم ”میں اور تو ملاحظہ ہو جس کا پہلا شعر ہے: نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا میں ہلاک جادوئے سامری تو قتیل شیوہ آزری یہ نظم قرۃ العین طاہرہ کی اس مشہور غزل کی بحر میں کہی گئی ہے جس کا بیت الغزل یہ شعر ہے: تو و ملک و جاه سکندری من درسم راه قلندری اگر آن نیکوست تو در خوری وگر این بد است مراسزا اقبال نے طاہرہ کے الفاظ ” سکندری “اور ” قلندری “ بھی اس نظم میں برتے ہیں.بلکہ نظم کا عنوان بھی طاہرہ کے اس شعر سے لیا ہے: کہا گیا ہے: بگذر ز منزل ما ومن بگر نیں بملک فناوطن فاذا فعلت بمثل ذا فلقد بلعت بما تشاء 42 اسی طرح ” بال جبرئیل“ کی نظم ”جبرئیل و ابلیس کا یہ شعر بھی طاہرہ کی غزل کے تتبع میں خضر بھی بے دست و پا الیاس بھی بے دست و پا مرے طوفاں یم بہ یم دریا به دریا جو بہ جو 43 جس زمانے میں بہائی شاعر اور صحافی سید محفوظ الحق علمی لاہور ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے ، علامہ اقبال سے مسلسل ملاقاتیں کرتے رہے.ان کی زبانی روایت ہے کہ لاہور ہوٹل کے سامنے روزنامہ ”زمیندار“ کا دفتر تھا.میں زمیندار کے دفتر میں جاتا اور پھر مولانا ظفر علی خان کے ہمراہ علامہ کے پاس چلے جاتے.علمی صاحب کی روایت ہے کہ علامہ اکثر کہا کرتے.میں باب کو شارع اعظم مانتا ہوں.44 اس زمانے میں پروفیسر پریتم سنگھ بھی علامہ سے برابر ملاقات کرتے رہے.اس کے بعد بھی بہائی احباب آپ سے ملتے رہے.اقبال بہائی تعلیمات کی طرف اس قدر راغب ہوگئے تھے
251 کہ 1935ء میں وفات سے تین سال قبل یہ اعلان کر دیا تھا.میرے نزدیک قادیانیت سے بہائیت زیادہ ایمان دار ہے.45 علامہ اقبال بنیادی طور پر فلسفی تھے.شاعر و مفکر ہونا ان کی ثانوی حیثیت ہے.یہی وجہ ہے کہ وہ حق کی تلاش و جستجو میں رہے.کچھ دیر کے لئے ایک چمکدار پتھر کو ہیر ا سمجھ لیا اور پھر اسے پھینک کر اصل ہیرے کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے اور آخر کار ان کو ماننا پڑا کہ امر بہائی حق ہے.علامہ اقبال فرماتے ہیں.....فلسفہ کی روح ہے آزادانہ تحقیق.وہ ہر ایسی بات کو شک وشبہ کی نظر سے دیکھتا ہے جس کی بناء ادعا اور تحکم پر ہو.اس کا منصب یہ ہے کہ فکر انسانی نے جو مفروضات بلا جرح و تنقید قبول کر رکھے ہیں، ان کے مخفی گوشوں کا سراغ لگائے.46 جناب بہاء اللہ 16 نومبر 1817ء کو ایران کے پایہ تخت طہران میں پید اہوئے اور یہیں پرورش پائی.طہران نے آپ کے محل تولد ہونے کی وجہ سے عالم گیر شہرت پائی اور دنیا بھر کے اہل بہاء اس شہر کو بے حد احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں.جناب بہاء اللہ شہر طہران کی عظمت اور اس کے مستقبل کے بارے میں کتاب ” الا قدس “ میں اس طرح فرماتے ہیں: ”اے طہران کی زمین! کسی چیز سے مغموم نہ ہو.اللہ نے تجھے سب جہانوں کا مطلع فرح بنایا ہے.جب خد ا چاہے گا تو تیرے تخت کو ایسے وجود سے بابرکت بنائے گا جو عدل کے ساتھ فیصلہ کرے گا اور خدا کی ان بھیٹروں کو اکٹھا کرے گا جو بھیڑیوں کے ڈر سے پراگندہ ہو گئی ہیں.وہ اہل بہاء سے مسرت و شادمانی سے ملے گا.وہ خدا کے نزدیک مخلوق کا جوہر ہو گا.اس پر ہر گھڑی خدا اور ملکوت الامر والوں کی طرف سے بہاء ہو.تو خوش ہو کہ اللہ نے تجھ کو افق نور بنایا.کیونکہ تجھ میں مطلع ظہور پیدا ہوا اور سجے وہ نام دیا گیا جس کے ذریعے سے آفتاب فضل چمک اٹھا اور آسمان وزمین روشن ہو گئے.عنقریب تیرے سارے امور میں انقلاب آجائے گا اور تجھ پر جمہور کی حکومت ہوگی.تیر ارب جاننے والا اور احاطہ کرنے ولا ہے.اپنے رب کے فضل پر مطمئن رہ کیونکہ تجھ سے الطاف کی نظریں منقطع نہ ہوں گی.اضطراب کے بعد تجھے اطمینان حاصل ہو گا.کتاب بدیع میں اسی طرح فیصلہ کیا گیا ہے.47" اقبال نے طہر ان کے بارے میں اس بشارت آسمانی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا:
252 طہراں ہواگر عالم مشرق کا جنیوا شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے جناب بہاء اللہ نے جس سلطان عادل کے ظہور کا وعدہ فرمایا ہے، اقبال اس کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں: می رسد مردی که زنجیر غلامی بشکند دیده ام از روزن دیوار زندان شما 48 جناب ڈاکٹر صابر آفاقی صاحب نے اپنے تحقیقی مقالہ کے اضافہ شدہ دوسرے ایڈیشن میں.محفوظ الحق علمی صاحب (بہائی لیڈر) کا حسب ذیل بیان بھی شائع کیا: 1932ء میں بہائی میگزین لاہور سے نکلتا تھا اور کشمیر بلڈنگ میں دفتر تھا جواس وقت لاہور ہوٹل ہے.ڈاکٹر اقبال مرحوم میکلوڈ روڈ پر رہتے تھے اور مولانا ظفر علی صاحب اپنے دفتر اخبار ”زمیندار“ میں تشریف رکھتے تھے.تمام سال میں کافی مرتبہ ڈاکٹر اقبال مرحوم کے پاس جانا ہوا.ادھر سے مولانا ظفر علی خان صاحب آجاتے تھے اور کشمیر بلڈنگ سے ہم دونوں ساتھ جاتے تھے اور ساتھ ہی واپس آجاتے تھے.اس مجلس میں اکثر امر بہائی پر بھی علمی گفتگو ہوتی تھی.ڈاکٹر اقبال مرحوم عموماً امری باتوں کی تائید کرتے تھے.ایک مر تبہ ڈاکٹر اقبال مرحوم نے بڑے پر زور لہجے میں کہا کہ میں سید باب کو شارع اعظم سمجھتا ہوں.اس قسم کی باتیں وہ اکثر فرمایا کرتے تھے.اس مجلس میں ایک دن مولانا ظفر علی خان صاحب نے مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ: "علمی صاحب! آج ختم نبوت کے بارے میں بہائی نقطہ نظر کی وضاحت کیجئے.“ میں نے جو کچھ کہا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ ”قانون قدرت کے مطابق ہر چیز جس کی ابتداء ہے، اس کی انتہا بھی ہے، دور نبوت کا آغاز آدم سے ہوا اور حضرت خاتم صلی کم پر ختم ہو گیا.لیکن قانون ارتقاء کے مطابق ایک عظیم دور کا آغاز ہوا.اس کی خبر دورِ نبوت بڑی شان سے دیتا رہا تھا.اس دور کو قرآن مجید میں ”اجل اللہ “ اور ”اليوم الموعود " کہا گیا ہے.یہ ایک بین الا قوامی دور ہے.توحید الہی کے زیر سایہ عالم انسانی کی وحدت پورے طور پر قائم ہو گی.اس دور کی بشارت
253 دور نبوت نے دی اور جو اپنا کام کر کے ختم ہو گیا.اب نبوت کے نام سے کوئی نہیں آئے گا.تفصیل سے یہ بیان ( اقبال کی موجودگی میں ) دیا گیا.“جناب مولانا ظفر علی خان صاحب نے کہا: ”ڈاکٹر صاحب بہائیت تو بڑا علمی سلسلہ ہے!“ اس پر ڈاکٹر اقبال مرحوم نے کہا: ”میں تو آپ سے پہلے ہی کہتا تھا کہ بہائیت ایک مستقل علمی امر ہے.“ اور میری طرف اشارہ کر کے کہا کہ ”جو بات انہوں نے کہی ہے یہ تقریب وہی ہے جو میں نے اپنے اس قصیدہ میں لکھی ہے جو سیالکوٹ میں پڑھا تھا اور آپ نے اسے دکن ریویو میں شائع کیا تھا 49 اور ڈاکٹر صاحب نے ایک شعر بھی پڑھا جس میں اس قسم کے خیال کا اظہار کیا گیا تھا کہ نبوت اپنا کام ختم کر چکی اور اب دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہے.“50 بہائی اصول کے عین مطابق سر اقبال کا اخفاء جیسا کہ میرزا حیدر علی اصفہانی (متوفی 1920 ء) نے اپنی کتاب بہجۃ الصدور صفحہ 83 (مطبوعہ بمبئی مارچ 1914ء) میں لکھا ہے.بہاء اللہ (1892-1817ء) کی بنیادی ہدایت ہے کہ اپنا مذہب چھپائے رکھو.اس بہائی اصول کے مطابق سر اقبال نے اپنا بہائی مذہب چھپائے رکھنے کی کامیاب کوشش کی.اس ضمن میں انہوں نے اپنے جگری دوست اور گہرے راز دان سید محفوظ الحق علمی صاحب مبلغ بہائیت (1978-1894ء) کے اس تبلیغی کارنامہ کو مشعل راہ بنایا ہے کہ وہ ”باب الحیات“ کے اردوایڈیشن کی اشاعت (1908ء) کے معاً بعد جناب میرزا محمود زرقانی سے متاثر ہو کر خفیہ طور پر بہائی ہوئے.بعد ازاں وہ جولائی 1918ء سے مارچ 1924ء تک احمدیت کالبادہ اوڑھ کر منافقانہ طور پر بہائی خیالات پھیلاتے رہے 51 اور جب تک یہ ناپاک سازش بے نقاب نہیں ہو گئی وہ انڈر گراؤنڈ بہائیت کا پوری گرم جوشی سے پر چار کرتے اور بہائی ہونے والوں کو مخفی رہنے کی تلقین کرتے رہے.انہوں نے تحقیقاتی کمیشن کے سامنے بیان دیا کہ میں بہائی ہوں.شریعت جدیدہ کا ظہور ہو چکا ہے.رمضان کے اسلامی روزے اب فرض نہیں رہے اور کعبہ کی بجائے عکہ قبلہ ہے.علمی صاحب نے بعد میں اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کے لئے کئی داستانیں وضع کر لیں مگر تحقیقاتی کمیشن کو انہوں نے اصل واقعہ صرف یہی بتایا کہ وہ کہلاتے احمدی رہے مگر خفیہ طور پر بہائیت کی تائید میں تین چار سال سے ایک کتاب لکھنے کی تیاری کر رہے تھے.52
254 علمی صاحب کی منافقت کا پردہ تو انہی کے ہاتھوں چاک ہو گیا.لیکن جناب اقبال کے کمال اخفا کی داد دینا چاہئے کہ وہ عمر بھر روح بہائیت سے سرشار رہنے کے باوجود آخر دم تک مسلم فلاسفر کالبادہ اوڑھے رہے اور اپنے ذو معنی الفاظ ، پہلودار اصطلاحات اور استعارات و مجازات کے ذریعہ اپنی بہائیت کو چھپانے میں کامیاب ہو گئے.53 سر اقبال کی وفات کے کچھ عرصہ بعد جبکہ پاک وہند میں اقبالیات پر وسیع پیمانہ پر لٹریچر چھپنا شروع ہوا اور سرکاری سطح پر اقبالیات کی اشاعت کی سر پرستی شروع ہو گئی تو بہائی حلقے جو اب تک مصلحتاً خاموش نظر آتے تھے ، یکا یک میدان میں آگئے.اور بابیت اور بہائیت سے اقبال کی پوشیدہ والہانہ عقیدتوں کی پوری داستان پبلک کے سامنے رکھ دی.اقبال فرمایا کرتے تھے.پوچھتے کیا ہو مذہب اقبال گنہ گار بو ترابی ہے 54 لیکن اب انہیں ”پیغمبر گلشن “ اور ”رسول چمن “55 بنایا جا چکا تھا اس لئے ان کے پرستاروں کو قرۃ العین طاہرہ کی زلفوں کا اسیر بنا کر بآسانی بہائیت کی چوکھٹ پر سجدہ ریز کیا جاسکتا تھا اور چونکہ سر اقبال 1935ء میں تحریک احمدیت کے مقابل بہائیت کو دیانت دار ہونے کا اعلانیہ سر ٹیفکیٹ دے چکے ہیں اس لئے بہائیوں کا ختم نبوت محمدیہ 56 ہی کا نہیں قرآنی شریعت کے خاتمہ کا جشن اقبالیات کی آغوش میں منانے کی راہ بھی ہموار ہو گئی.سر اقبال فرماتے ہیں: ”جب تصوف فلسفہ بننے کی کوشش کرتا ہے اور عجمی اثرات کی وجہ سے نظام عالم کے حقائق اور باری تعالیٰ کی ذات کے متعلق موشگافیاں خیال کر کے کشفی نظریہ پیش کرتا ہے تو میری روح اس سے بغاوت کرتی ہے.57 اقبالیات کے عمیق مطالعہ سے یہ راز طشت از بام ہو جاتا ہے.سر اقبال کی بغاوت کا آغاز 1901ء سے ہوا جبکہ انہوں نے دنیا کو جدید معاشرتی نظام سے متعارف کرنے کا بیڑہ اٹھایا.چنانچہ آپ نے ”اسرار خودی“ کے انگریزی مترجم اور کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر نکلسن کے نام 24 فروری 1921ء کو ایک خصوصی مکتوب لکھا.58 میں بیس سال سے دنیا کے افکار کا مطالعہ کر رہا ہوں اور اس طویل عرصے نے
255 مجھ میں اس قدر صلاحیت پیدا کر دی ہے کہ حالات و واقعات پر غیر جانبدار نہ حیثیت سے غور کر سکوں.میری فارسی نظموں کا مقصود اسلام کی وکالت نہیں بلکہ میری قوتِ طلب و جستجو 59 تو صرف اس چیز پر مرکوز رہی ہے کہ ایک جدید معاشرتی نظام تلاش کیا جائے اور عملا یہ نا ممکن معلوم ہوتا ہے کہ اس کوشش میں ایک ایسے معاشری نظام (یعنی اسلام ناقل) سے قطع تعلق کر لیا جائے جس کا مقصد وحید ذات پات رتبہ و درجہ رنگ و نسل کے تمام امتیازات کو مٹا دینا ہے.60 60" اس خط میں انہوں نے آنحضرت صلی ایم کے عہد مبارک سے اب تک کی مسلم مملکتوں کی نسبت یہ رائے دی کہ :- ” اسلام کو جہاں سنانی اور کشور کشائی میں جو کامیابی ہوئی ہے میرے نزدیک وہ اس کے مقاصد کے حق میں بے حد مضر تھی.اس طرح وہ اقتصادی اصول نشو و نمانہ پاسکے جن کا ذکر قرآن کریم اور احادیث نبوی میں جابجا آیا ہے.یہ صحیح ہے کہ مسلمانوں نے ایک عظیم الشان سلطنت قائم کر لی لیکن ساتھ ہی ان کے سیاسی نصب ہیں: 61" العین پر غیر اسلامی رنگ چڑھ گیا.سر اقبال جیسے قادر الکلام اور فلسفی شاعر نے خود ہی اپنی باطنی بغاوت کا نقشہ کھینچا ہے.فرماتے تمدن، تصوف، شریعت، کلام ہے کہ :- بتان عجم کے پجاری تمام حقیقت روایات میں کھو گئی یہ امت خرافات میں کھو گئی 62 ماہر اقبالیات خواجہ عبد الحمید صاحب ایم اے لیکچرار فلسفہ گورنمنٹ کالج لاہور کی تحقیق یہ ہے ”اقبال کہتا ہے کہ مرد کامل نہ صرف مادی دنیا پر حاوی ہو کر اسے جذب کر لیتا بلکہ وہ تو ربانی صفات کا اکتساب کر کے خدا کو بھی اپنی خودی میں جذب کرلیتا ہے.63"
256 یہ تخیل سراسر بہائیت کی پیداوار ہے جس سے ہم آہنگ ہو کر سر اقبال نے یہ نظریہ پیش کیا :- ”میرا عقیدہ یہ ہے کہ کائنات میں جذبہ الوہیت جاری و ساری ہے....اس باب میں میرا عقیدہ یہ ہے کہ یہ قوت ایک اکمل واعلیٰ انسان کے پیکر خاکی میں جلوہ گر ہو گی.“64 بہائی مورخ مسٹر ایڈورڈ.جی.براؤن (Mr.Edward.G.Brown) نے تاریخ ادبیات فارس (A Literary History of Persia) کی چوتھی جلد کے صفحہ 430 پر ڈاکٹر سر اقبال کی تالیف مابعد الطبیعات کے حوالہ سے ان کے نظریہ مذہب بابی سے کلی طور پر اتفاق ظاہر کیا ہے.65 مسٹر براؤن کے الفاظ یہ ہیں: "Matu'l-'Arshiyya Masha'ir.the and Shaykh Muhammad Iqbal is therefore probably right when he says that "the Philosophy of Sadra is the source of the metaphysics of early Babaiism," and that "the origin of the philosophy of this wonderful sect must be sought in the Shi'a sect of the Shaykhis, the founder of which, Shaykh Ahmad, was an enthusiastic student of Mulla Sadra's philosophy, on which he had written several commentaries." مذہب اقبال اور تحریک احمدیت کا بنیادی فرق در حقیقت مذہب اقبال کا روح رواں جدید معاشرتی نظام ہے جو امر بہائی کا دوسرا نام ہے.اس کے برعکس تحریک احمدیت کی بنیاد ہی اس الہامی نظریہ پر ہے کہ :- الْخَيْرُ كُلَّه فِي الْقُرْآنِ لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ“ یہ الہام حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ پر 1883ء میں نازل ہوا.جسے آپ نے اپنی پہلی شہرہ آفاق کتاب ”بر اہین احمدیہ “ (صفحہ 511-513) میں شائع فرما دیا اور اس کا ترجمہ اپنے قلم سے یہ لکھا کہ تمام خیر اور بھلائی قرآن میں ہے.بجز اس کے اور کسی جگہ سے بھلائی نہیں مل سکتی اور قرآنی حقائق صرف انہیں لوگوں پر کھلتے ہیں جن کو خدائے تعالیٰ اپنے
257 ہاتھ سے صاف اور پاک کرتا ہے.“ اسی کتاب میں آپ نے دس ہزار روپیہ کا انعامی اشتہار دیتے ہوئے اعلان فرمایا کہ "اگر کوئی شخص ایک ذرہ کا ہزارم حصہ بھی قرآن شریف کی تعلیم میں کچھ نقص نکال سکے یا بمقابلہ اس کے اپنی کسی کتاب کی ایک ذرہ بھر کوئی ایسی خوبی ثابت کر سکے جو قرآنی تعلیم کے برخلاف ہو اور اس سے بہتر ہو تو ہم سزائے موت بھی قبول کرنے کو طیار ہیں.“66 نیز تحدی کے ساتھ فرمایا: " آج صفحہ دنیا میں وہ شے جس کا نام تو حید ہے.بجز امت آنحضرت صلی اللہ علم کے اور کسی فرقہ میں نہیں پائی جاتی اور بجز قرآن شریف کے اور کسی کتاب کا نشان نہیں ملتا کہ جو کروڑ ہا مخلوقات کو وحدانیت الہی پر قائم کرتی ہو اور کمال تعظیم سے اس سچے خدا کی طرف رہبر ہو ہر یک قوم نے اپنا اپنا مصنوعی خدا بنالیا اور مسلمانوں کا وہی خدا ہے جو قدیم سے لازوال اور غیر مبدل اور اپنی ازلی صفات میں ایسا ہی ہے جو پہلے تھا.67 حضرت اقدس نے اس کتاب کے حصہ سوم کے صفحہ 206 پر قرآن کو ناقص سمجھنے والوں (برہمو سماجیوں، بابیوں اور بہائیوں) کو کھلا چیلنج دیا.جس حالت میں تیرہ سو برس سے قرآن شریف بآواز بلند دعوی کر رہا ہے کہ تمام دینی صداقتیں اس میں بھری پڑی ہیں.تو پھر یہ کیسا خبث طینت ہے کہ امتحان کے بغیر ایسی عالیشان کتاب کو ناقص خیال کیا جائے.اور یہ کس قسم کا مکابرہ ہے کہ نہ قرآن شریف کے بیان کو قبول کریں اور نہ اسکے دعوی کو توڑ کر دکھلائیں.سچ تو یہ ہے کہ ان لوگوں کے لبوں پر تو ضرور کبھی کبھی خدا کا ذکر آجاتا ہے.مگر ان کے دل دنیا کی گندگی سے بھرے ہوئے ہیں....گھر میں بیٹھ کر اس کامل کتاب کو نا قص بیان کرتے ہیں.جس نے بوضاحت تمام فرما دیا.الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي - الجزو نمبر ۶.یعنے آج میں نے اس کتاب کے نازل کرنے سے علم دین کومرتبہ کمال تک پہنچا دیا.اور اپنی تمام بہ کمال تک پہنچا دیا.اور اپنی تمام نعمتیں ایمانداروں پر پوری کر دیں.اے حضرات کیا تمہیں کچھ بھی خدا کا خوف نہیں؟ کیا تم ہمیشہ اسی طرح جیتے
258 رہو گے ؟ کیا ایک دن خدا کے حضور میں اس جھوٹے منہ پر لعنتیں نہیں پڑیں گی ؟ اگر آپ لوگ کوئی بھاری صداقت لئے بیٹھے ہیں جس کی نسبت تمہارا یہ خیال ہے کہ ہم نے کمال جانفشانی اور عرق ریزی اور موشگافی سے اس کو پیدا کیا ہے اور جو تمہارے گمان باطل میں قرآن شریف اس صداقت کے بیان کرنے سے قاصر ہے تو تمہیں قسم ہے کہ سب کاروبار چھوڑ کر وہ صداقت ہمارے روبرو پیش کرو.تا، ہم تم کو قرآن شریف میں سے نکال کر دکھلا دیں.مگر پھر مسلمان ہونے پر مستعد رہو اور اگر اب بھی آپ لوگ....مناظرہ کا سیدھا راستہ اختیار نہ کریں.تو بجز اس کے اور کیا کہیں کہ 66 لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ.“ حضرت اقدس مسیح موعود نے یہ انعامی چینج اس زمانہ میں دیا جبکہ باب 68 اپنی جعلی شریعت البیان“ کو بالکل ادھورا چھوڑ کر ناکامی اور نامرادی میں قتل ہو چکا تھا اور اس کے وصی میرزا یحی 69 صبح ازل اور میرزا حسین علی 70 ( باب کی طرف سے بہاء اللہ سے ملقب) دونوں نے البیان کو منسوخ قرار دے دیا اور قلمی نسخے خود بابیوں نے تلف کر دیئے.اس طرح باب اور قرۃ العین طاہرہ نے 1863ء میں تنسیخ قرآن کی جو انتقامی سازش کی تھی، اپنے منطقی انجام تک پہنچی اور مذہب کو بازیچہ اطفال بنانے والے سب کردار بالکل بے نقاب ہو گئے.علاوہ ازیں ذلت ورسوائی کا غیبی سامان یہ بھی ہوا کہ باب کے دونوں جانشینوں نے ایک دوسرے کا حریف بن کر اپنی اپنی شریعتیں خود تصنیف کر لیں.چنانچہ صبح ازل نے المستيقظ لکھی اور بہاء اللہ نے الاقدس.71 باب کے یہ نام لیوا زندگی بھر ایک دوسرے کو دجال کہتے رہے اور کسی کو مرتے دم تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چیلنج قبول کرنے کی جرات نہ ہوئی.بہاء اللہ کی وفات کے بعد 1892ء میں اس کا بڑا بیٹا عبد البها عباس آفندی جانشین قرار پایا اور 1921ء میں راہی ملک عدم ہوا.اسی شخص کے زمانہ میں ڈاکٹر سر اقبال بہائیت کی دہلیز تک پہنچے.حضرت مصلح موعود نے 1917ء میں عبد البہاء اور دوسرے مذہبی لیڈروں کو للکارا کہ اسلام ہی زندہ ہب.کوئی دوسرا مذہب اس کے مقابل نہیں ٹھہر سکتا کوئی نہیں جو قبولیت دعا کا نشان دکھلا سکے.72 مگر کسی نے مرد میدان بننے کی جرات نہیں کی کجا یہ کہ حضرت مسیح موعود کا چیلنج قبول کر سکتا.الغرض حضرت مسیح موعود نے قرآن مجید کی حقانیت سے متعلق 1883ء میں جو فیصلہ کن چیلنج دیا اسے حضرت مسیح موعود کے یوم وصال 26 مئی 1908 ء تک کوئی بابی یا بہائی لیڈر قبول نہیں کر سکا.
259 بایں ہمہ حضرت اقدس نے اپنی آخری سانس تک جہاد القرآن کا سلسلہ پوری قوت وشوکت کے ساتھ جاری رکھا.چنانچہ فرمایا: ” مجھ پر کھلا کہ اس مبارک لفظ میں زبر دست پیشگوئی ہے.وہ یہ ہے کہ یہی قرآن یعنی پڑھنے کے لائق کتاب ہے اور ایک زمانہ میں تو اور بھی زیادہ پڑھنے کے قابل کتاب ہو گی جبکہ اور کتابیں بھی پڑھنے میں اس کے ساتھ شریک کی جائیں گی، اس وقت اسلام کی عزت بچانے کے لئے اور بطلان کا استیصال کرنے کے لئے یہی ایک کتاب پڑھنے کے قابل ہو گی....اس وقت قرآن کریم کا حربہ ہاتھ میں لو تو تمہاری فتح ہے.اس نور کے آگے کوئی ظلمت ٹھہر نہ سکے گی.“73 حضور کی پُر معارف کتاب چشمہ معرفت“ اس موضوع پر تھی جو 15 مئی 1908ء کو شائع ہوئی.اس کتاب نے پوری تحدی کے ساتھ اعلان کیا.فرمائی.”ایسے زمانے میں نئی شریعت نازل ہوتی ہے.جبکہ نوع انسان پہلے زمانہ کی نسبت بد عقیدگی اور بد عملی میں بہت ترقی کر جائے اور پہلی کتاب میں ان کے لئے کافی ہدایتیں نہ ہوں لیکن یہ امر ثابت شدہ ہے کہ قرآن شریف نے دین کے کامل کرنے کا حق ادا کر دیا ہے.جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے.اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (المائدہ: 4 ناقل) یعنی آج میں نے تمہارا دین تمہارے لئے کامل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی ہے.اور میں اسلام کو تمہارا دین مقرر کر کے خوش ہو ا.سو قرآن شریف کے بعد کسی کتاب کو قدم رکھنے کی جگہ نہیں کیونکہ جس قدر انسان کی حاجت تھی وہ سب کچھ قرآن شریف بیان کر چکا ہے.اب صرف مکالمات الہیہ کا دروازہ کھلا ہے اور وہ بھی خود بخود نہیں بلکہ سچے اور پاک مکالمات جو صریح اور کھلے طور پر نصرت الہی کارنگ اپنے اندر رکھتے ہیں اور بہت سے امور غیبیہ پر مشتمل ہوتے ہیں وہ بعد تزکیہ نفس محض پیروی قرآن شریف اور اتباع آنحضرت صلی کم سے حاصل ہوتے ہیں.“74 اسی پر بس نہیں حضور نے اپنے وصال (26 مئی 1908ء) سے صرف چند روز قبل یہ پیشگوئی ” میرا بڑا حصہ عمر کا مختلف قوموں کی کتابوں کے دیکھنے میں گزرا ہے.مگر میں
260 سچ سچ کہتا ہوں کہ میں نے کسی دوسرے مذہب کی تعلیم کو خواہ اس کا عقائد کا حصہ اور خواہ اخلاقی حصہ اور خواہ تدبیر منزلی اور سیاست مدنی کا حصہ اور خواہ اعمال صالحہ کی تقسیم کا حصہ ہو ، قرآن شریف کے بیان کے ہم پہلو نہیں پایا.اور یہ قول میرا اس لئے نہیں کہ میں ایک مسلمان شخص ہوں.بلکہ سچائی مجھے مجبور کرتی ہے کہ میں گواہی دوں اور یہ میری گواہی بے وقت نہیں.بلکہ ایسے وقت میں جب کہ دنیا میں مذاہب کی کشتی شروع ہے.مجھے خبر دی گئی ہے کہ اس کشتی میں آخر اسلام کو فتح ہے.میں زمین کی باتیں نہیں کہتا.کیونکہ میں زمین سے نہیں ہوں.بلکہ میں وہی کہتا ہوں جو خدا نے میرے منہ میں ڈالا ہے.زمین کے لوگ خیال کرتے ہوں گے کہ شاید انجام کار عیسائی مذہب دنیا میں پھیل جائے یا بدھ مذہب دنیا پر حاوی ہو جائے.مگر وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں.یاد رہے کہ زمین پر کوئی بات ظہور میں نہیں آتی جب تک وہ بات آسمان پر قرار نہ پائے.سو آسمان کا خد ا مجھے بتلاتا ہے کہ آخر اسلام کا مذہب دلوں کو فتح کرے گا.75 پھر اپنے آخری مکتوب 23 مئی 1908ء میں یہ تحریر کر کے بالخصوص بابیوں اور بہائیوں پر اتمام حجت کر دی کہ ”میری گردن اس جوئے کے نیچے ہے جو قرآن شریف نے پیش کیا اور کسی کو مجال نہیں کہ ایک نقطہ یا ایک شوشہ قرآن شریف کا منسوخ کر سکے.“76 سر اقبال صاحب سید نا حضرت مسیح موعود کے وصال کے بعد تیس سال تک بقید حیات رہے.لیکن اپنی تمام تر دماغی صلاحتوں کو بروئے کار لانے کے بعد حضرت مسیح موعود کے 1883ء کے چیلنج کے جواب میں ایک حرف تک نہ کہہ سکے.اور نہ قرآن مجید کے کسی ایک حکم کی بھی نشان دہی کرنے میں کامیاب ہو سکے جسے عصر حاضر میں بدلنے کی ضرورت ہو اور ان کے جدید معاشرتی نظام کی بنیاد بن سکے.یہ ہے قرآن کی علمبر دار تحریک احمدیت کے مقابل مذہب اقبال کا اصل اور حقیقی چہرہ جس کو اقبال کے پرستار نہاں در نہاں مصلحتوں کے باعث آج تک دبیز پر دوں میں چھپائے بیٹھے ہیں.حواشی 1 روس میں مسلمان قومیں “صفحہ 100.Dawn Over Samarkand بحوالہ ”روس میں مسلمان قومیں ، صفحہ ۴۱۲.۴۱۳.181.cit.p.op.2
261 3 بحوالہ ”روس میں مسلمان قو میں صفحہ 413.4 ناشر اسلامک پبلیکیشنز لمیٹڈ لاہور طبع دوم ستمبر 1986ء.5 مشرقی ترکستان صفحه ۹۲ تا ۹۷ تالیف عیسی یوسف الپتیگن، ترجمه و تلخیص اور حواشی جناب ثروت صولت صاحب، ناشر اسلامک پبلیکیشنز، شاہ عالم مارکیٹ لاہور اشاعت اول مئی ۱۹۸۷ء.6 از بکستان کا شاعر عبد الحمید سلیمان (1898ء تا 1938ء) جو چو پلان (ستارہ صبح) کے تخلص سے زیادہ مشہور ہے.وہ ازبکستان کا ممتاز شاعر، ناول نگار اور ڈرامہ نگار تھا.1938ء میں قوم پرستی کے الزام اور اشتراکیت دشمنی کے جرم میں پھانسی دے دی گئی اور اس کی کتابوں کو سوویت یونین میں شائع کرنا ممنوع قرار دے دیا گیا." تاریخ مدینہ " ترجمہ جذب القلوب صفحہ ۱۲۶-۱۲۸ متر جم مولوی محمد صادق صاحب بہاولپوری.ناشر نوری بک ڈپو لاہور طبع اول ۱۹۸۸ء.8 " خود نوشت صفحه ۲۹۰ تا ۲۹۶، از ابو الکلام آزاد، ناشر ار شد یک سیلرز.علامہ اقبال روڈ، میر پور آزاد کشمیر.9 و رسالہ بہائی میگزین کراچی جنوری فروری ۱۹۸۰ء صفحہ ۱۸.۱۹.10 دہلی.مقدمه ”تمہ البیان مشکلات القرآن“ مشمولہ کتاب ”مشکلات القرآن“ مؤلفه محمد انور شاہ کشمیری ناشر مطبوعات المجلس العلمی.مطبع جمال پر میں 11 "تبر 1 «تبرکات آزاد صفحه ۱۸۵ مرتب غلام رسول مہر ناشر کتاب منزل لاہور.جولائی ۱۹۵۹ء.12 حج الكرامة (نواب صدیق حسن خاں) صفحہ 133.13 ایضاً صفحہ 135 تا 139.14 ”ASAÇáÇáãÇÊÇaÊYA“ جلد ۲ صفحہ ۶۰ ا ناشر اکاڈمی شاہ ولی اللہ حیدر آباد.پاکستان.15 متدرک للحاکم عن انس ابیضا مسند احمد بن حنبل.1 ”ASAÇaÇáãÇÊÇaEYA“ جلد ۲ صفحہ ۲۹۸ ناشر اکاڈمی شاہ ولی اللہ حیدر آباد.پاکستان." 16 17 تبرکات آزاد صفحہ ۱۸۶.18 تبرکات آزاد صفحہ ۱۹۲.19 تبرکات آزاد صفحه ۵۶ تا ۵۸.20 تبرکات آزاد صفحہ ۵۵.21 مسئلہ خلافت صفحه ۱۹۴ ناشر خیابان عرفان کچہری روڈ لاہور.22 مسئلہ خلافت صفحه ۱۸۰ (ابو الکلام آزاد) 23 دروس الد یانۃ درس نمبر ۱۹.24 ايضاً درس نمبر۱۷.ادعیہ محبوب ۸۱ تا ۸۴.25 CaOiaeNalAE صفحه ۸۳ ) از میرزا حیدر علی اصفہانی) مطبوعہ ۱۹۱۴ء.26 قبر گلستان جاوید لاہور میں ہے.27 تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو خاکسار کا مضمون ” بہائی میگزین کا علمی نمبر “ مطبوعہ ہفت روزہ بدر قادیان ۱۱ستمبر ۱۹۸۰ء صفحه ۵-۶- 28 ناشر ادبیات پوسٹ بکس نمبر 9مظفر آباد آزاد کشمیر.29 صفحہ نمبر 6-5.30 صفحہ نمبر 7 خط عبد اللہ چغتائی بنام مولف 16 مئی 1976ء.
262 31 ایضا، کو الہ امار ٹلز انگریزی صفحہ 114 مطبوعہ نئی دہلی 1988ء.32 مکاتیب اقبال جلد دوم صفحہ 271-270.مرتب سید مظفر حسین برنی ناشر اردو اکادمی دہلی.طبع دوم 1992ء.33 فلسفه عجم (ترجمہ اردو) 431 متر جم میر حسن الدین بی اے، ایل ایل بی عثمانیہ.ناشر نفیس اکیڈمی کراچی.34 ايضا صفحہ 245.35 بحوالہ ” ذکر اقبال “صفحہ 129 از مولانا عبد المجید سالک ناشر بزم اقبال کلب روڈلاہور اشاعت جون 1955.36 ”اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد دوم صفحہ 109 ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور چیئر مین ایس اے رحمان.( مدیر اعلی حامد علی خاں برادر مولوی ظفر علی خاں آف ”زمیندار“ 37 باقیات اقبال صفحہ 493 مرتب سید عبد الواحد معینی صاحب ایم اے ناشر آئینہ ادب چوک مینار انار کلی لاہور.38 دی بہائی فیتھ اینڈ اسلام.این میری شمل کینیڈ ا1988ء.39 ڈویلپمنٹ آف میٹا فزکس ان پرشیا (اقبال) اشاعت سوم لاہو ر 1964ء.40 صفحہ 22-21.بحوالہ نجم دری ترجمہ صابر آفاقی مطبوعہ کراچی 1964ء.41 صفحہ 23.بحوالہ جاید نامہ (اقبال).43 42 صفحہ 23 بحوالہ ” قرۃ العین طاہرہ “ اشاعت سوم کر اچی 1986ء.بحوالہ کلیات اقبال اردو صفحہ 122 مطبوعہ لاہور.44 زبانی روایت سید محفوظ الحق صاحب علمی.بہائی مبلغ.45 روزنامہ زمیندار 5 مئی 1935ء.(لاہور) 46 " تشکیل جدید الہیات اسلامیہ صفحہ 1 مطبوعہ لاہور.47 الاقدس آیت 5.102- مطبوعہ بمبئی.48 زبور عجم (اقبال) 49 مولف نے اس کا حوالہ نہیں دیا.50 صفحہ 144-143 بحوالہ ” بہائی میگزین “ لاہور جولائی 1968 ئی.(جدید ایڈیشن کی تاریخ اشاعت 14 اگست 1999ء).51 تفصیل کیلئے دیکھئے مولف کا مقالہ مطبوعہ بدر قادیان 10 ستمبر 1980.اس مقالہ میں بہائی میگزین کراچی کے شمارہ جنوری فروری 1980 (علمی نمبر) پر تنقیدی نظر ڈالی گئی ہے اور مستند دستاویزی شواہد کی رو سے ثابت کیا گیا ہے کہ نہ صرف حضرت مسیح موعود اور اکابر جماعت احمدیہ کی تاریخ بلکہ علمی صاحب سے متعلق اصل واقعات کو شرمناک حد تک مسح کر ڈالا ہے.52 الفضل 29-25 اپریل 1924ء صفحہ 8-6.53 علامہ کا شعر ہے فلسفہ و شعر کی اور حقیقت کیا ہے حرف تمنا جسے کہہ نہ سکیں روبرو 54 باقیات اقبال صفحہ 573.مرتب سید عبد الواحد معینی ایم اے.ناشر آئینہ ادب.چوک مینار، انار کلی لاہور.بار سوم 1978ء.55 جناب عبد الکریم شمر کا شعر ہے : وہی پیغمبر گلشن وہی رسول چمن کلی کلی یہ نمایاں اسی کا حسن و جمال رسالہ قندیل 24 اپریل 1955ء.مسلمانوں کا ایک کثیر طبقہ نبی اور رسول میں فرق کرتا ہے.ان کے نزدیک نبی وہ ہے جو پہلی شریعت ہی کا علمبر دار ہو اور رسول کے لئے نئی شریعت کا لانا ضروری ہے.اہل بہار نے اسی غیر قرآنی نظریہ کو بنیاد بنا کر یہ عقیدہ اختراع کر لیا کہ آیت خاتم النبیین کے مطابق نبوت ختم ہو گئی مگر رسالت جاری 56 ہے.57 مکتوب بنام اسلم جیراج پوری 17 مئی 1919ء.اقبال نامہ وکلیات مکتو بات اقبال جلد 2 صفحہ 94.
263 58 اصل خط انگریزی میں تھا جس کا پہلا اردو ترجمہ جناب چراغ حسن حسرت نے کیا اور وہی اقبال نامہ میں شامل ہے.فارسی کلام: اسرار ورموز پیام مشرق زبور عجم.جاوید نامہ.پس چہ باید کر د.ارمغان حجاز.60 اقبال نامہ حصہ اول صفحہ 472.مکتوب بنام ڈاکٹر نکلسن پروفیسر کیمبرج یونیورسٹی ناشر شیخ محمد اشرف تاجر کتب کشمیری بازار لاہور 1945ء.61 "62 کہا: ايضاً صفحه 471-470.باقیات اقبال“صفحہ 493.بار سوم 1978ء.ناشر آئینہ ادب چوک انار کلی لاہور.اقبال نے حضرت حافظ شیرازی پر زبر دست تنقید کرتے ہوئے نغمه چنگش دلیل انحطاط با تف او جبرئیل انحطاط 63 رسالہ پیغام حق ( اقبال نمبر ) بے نیاز از محفل حافظ گذر الحذر از گوسفنداں الخدر ( ایضاً صفحه 603) 64 مکتوب بنام ڈاکٹر نکلسن پر وفیسر کیمبرج یونیورسٹی.یہاں یہ بتانا از بس ضروری ہے کہ بزرگان امت میں جن میں حضرت شاہ ولی اللہ جیسے اکابر صوفیاء بھی شامل ہیں ، بروز کی اصطلاح صدیوں سے مروج چلی آرہی ہے جس کا ماخذ آیت "و آخرین منھم " ( الجمعہ) ہے مگر سر اقبال کے نزدیک یہ مسئلہ مجھی مسلمانوں کی ایجاد ہے اور اصل اس کی آرین ہے“ ( اقبال نامہ حصہ اول صفحہ 420-419) 65 66 67 رسالہ ”پیغام حق “ ( اقبال نمبر ) جنوری تا مارچ 1946 ئی.صفحہ 181.مقام اشاعت ظفر منزل تاجپورہ لاہور.براہین احمدیہ حصہ دوم، حصہ سوم طبع اول صفحہ 269.حاشیہ در حاشیہ مطبوعہ سفیر ہند پر لیس 1880ء.ايضا صفحہ 115.68 ولادت 1819ء.قتل 1850ء.69 70 71 وفات 1912ء.ولادت 1817ء.وفات 1892ء.الاقدس 1891-1890ء میں بمبئی سے پہلی بار خفیہ طور پر چھپی اور مدتوں تک بصیغہ راز رکھی گئی.72 الفضل 23 اگست 1917ء.73 الحلم 17 اکتوبر 1900، صفحہ 5.74 صفحہ 72."75 پیغام صلح» صفحه 63-62(آخری تالیف) 76 ہند و اخبار عام مورخہ 26 مئی 1908ء صفحہ 7.بحوالہ مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعود جلد سوم صفحہ 597.الناشر الشركة الاسلامیہ ربوہ.جون 1975ء.
264 اکیسویں فصل مذہبی لیڈروں کی سیاست کا ذکر حدیث میں یہ حیرت انگیز امر اسلام کی صداقت کا چمکتا ہوا نشان ہے کہ آنحضرت صلی علیم نے صدیوں قبل یہ خبر دی کہ آپ کی امت پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جب اس پر آفات و مصائب کا بادل چھا جائے گا اور وہ اپنی رہنمائی کے لئے اپنے مذہبی لیڈروں کے پاس جائیں گے مگر ان کی سیاست و قیادت جنگل کے ان جانوروں سے مشابہ ہو گی جو دوسروں کے اشارہ پر رقص کرتے اور نقالی کر سکتے ہیں یا وہ نجاست خور ہیں.اپنے حلیف پر جارحانہ حملہ کرتے ہیں اور اپنی بھوک مٹانے کے لئے اپنے بچوں ہی کو چٹ کر جاتے ہیں اور کھیت کو ویران اور برباد کر دینا ان کی ناپاک سرشت اور خصلت میں داخل ہے.آنحضرت صلی اللی علم کی اس پر اسرار حدیث کے الفاظ یہ تھے.1" تكون في امتى فزعة فيصير الناس الى علماء هم فاذا هم قردة وخنازير یعنی میری امت پر ایک زمانہ اضطراب اور انتشار کا آئے گا.لوگ اپنے علماء ( دینی رہنما) کے پاس بغرض راہ نمائی جائیں گے تو وہ انہیں بندروں اور سوروں کی طرح پائیں گے.آنحضرت صلی اللہ ملک کے اس بلیغ استعارہ کی حقیقت برٹش انڈیا کے آخری دور میں خوب بے نقاب ہو گئی جب کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے کانگرس کے کٹھ پتلی راشٹرپتی کو شو بوائے 2 کا نام دیا اور انجمن حزب الاحناف لاہور کے بانی اور مسجد وزیر خاں کے خطیب ابو محمد سید دیدار علی شاہ 3 نے اقبال صاحب کے صریح طور پر کا فرو فاسق ہونے کا فتویٰ دیا.جس کا مکمل متن ان کے فرزند جناب جسٹس جاوید اقبال صاحب نے اپنی کتاب ”زندہ رود “ جلد 2 صفحہ 289-290 پر ہمیشہ کے لئے ریکارڈ کر دیا ہے.سر اقبال کے جن اشعار پر فتویٰ دیا گیا، ان میں سے بعض درج ذیل ہیں.”شاعر مشرق سورج کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں.ہر چیز کی حیات کا پروردگار تو زائیدگان نور کا ہے تاجدار تو نے ابتدا کوئی نہ کوئی انتہا تری آزاد قید اول وآخر ضیاء تری
265 موازنہ مذاہب کے سکالرز جانتے ہیں کہ ارض و سماء کے انادی (ازلی) ہونے کا عقیدہ صرف آریہ دھرم کی میتھالوجی کا جزولاینفک نہیں بلکہ کارل مارکس اور دوسرے سوشلسٹ لیڈر جو پکے دہر یہ تھے، بلا استثناء اسی خیال کے علمبر دار رہے اور اسی بناء پر انہوں نے مذہب کو افیون قرار دے کر اسے صفحہ ہستی سے نابود کرنے میں اپنی تمام تر صلاحتیں اور قوتیں وقف کر دیں.بابیت چونکہ قدیم وجدید اشتراکیت ہی کے امتزاج کا نام ہے اس لئے سر اقبال نے بابیوں اور بہایوں کی ہم نوائی میں اسلامی تصور قیامت پر فریب کی پھبتی کسی اور نہایت بے باکی اور بے حجابی سے اعلان کیا.کہاں کا آنا کہاں کا جانا فریب ہے امتیاز عقبیٰ نمود ہر شی میں ہے ہماری کوئی ہمارا وطن نہیں ہے ”علامہ“ اس فتویٰ پر اظہار ندامت کرنے کی بجائے اور بھی زیادہ شوخ ہو گئے.چنانچہ خدا تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہا.عیاں ستارے، ہویدا فلک، زمیں پیدا تری خدائی تو پیدا ہے تو نہیں پیدا؟ مشہور بابی و بہائی مورخ ڈاکٹر ای جی براؤن (Adward Dranville Brown) کی وفات پر یہ قطعہ تاریخ کہا جو ان کی بابیت و بہائیت سے شیفتگی کا منہ بولتا ثبوت ہے.نازش اہل کمال ای جی براؤن فیض او در مغرب و مشرق عجم مغرب اندر ماتم اوسینه چاک از فراق اودل مشرق دونیم تا به فردوس بریں ماوی گرفت گفت باتف ذالك الفوز العظيم اسی طرح بابی و بہائی کسی مسیح و مہدی کی آمد کے قائل نہیں.بدائع الآثار جلد 1 (سفر نامہ عبد البہاء) صفحہ 23 میں لکھا ہے :-
266 ” دوستان غرب عرض کردند در خصوص غذا با حباء امریکہ دستورالعمل عنایت شود فرمودند امداخله در طعام جسمانی آنها نمی کنیم “ عبد البہاء سے بعض یورپین دوستوں نے عرض کیا کہ کھانے پینے کی چیزوں کے متعلق امریکن دوستوں کے لئے کوئی دستورالعمل عنایت کیا جائے تو عبد البہاء نے فرمایا کہ ہم ان لوگوں کے جسمانی کھانے پینے میں کوئی دخل نہیں دیتے (یعنی ہر شخص جو چاہے کھائے اور جو چاہے پیئے ) اقدس میں بہاء اللہ نے لکھا ہے کہ a-EOaa CaOUN EOásaç کہ اے اہل بہاء نمازوں میں شعر پڑھنا تمہاری نماز کو نہیں توڑے گا.یہی نہیں بہائیوں کے عبادت خانہ جسے وہ ”مشرق الاذکار “ سے موسوم کرتے ہیں، گانے بجانے کا سامان رکھنا ضروری ہے.چنانچہ بدائع الآثار جلد 1 صفحہ 352 میں لکھا ہے کہ عبد البہاء نے یہ ہدایت دی که از لوازم مشرق الاذکار داخل مشرق الاذکار از غنون و غرفات خواہد بود یعنی مشرق الاذکار کے لوازم میں یہ بھی ہے کہ مشرق الاذکار میں اونچی جگہیں بنائی جائیں جن پر گانے بجانے کا سامان انگریزی باجہ وغیرہ بھی رکھا جا سکے.یہی وجہ ہے کہ عبد البہاء کے سفر یورپ و امریکہ میں پیانو وغیرہ سے خوب کام لیا جاتا تھا اور فن موسیقی کے ماہر لائے جاتے اور راگ ورنگ کی محفلیں برپا ہو تیں.7 اس کے مطابق علامہ مشرق راگ ورنگ کو اپنا دین وایمان سمجھتے تھے چنانچہ فرماتے ہیں: لوگ کہتے ہیں مجھے راگ کو چھوڑو اقبال راگ ہے دین مرا.راگ ہے ایمان مر 81 اس باب میں ابوالکلام آزاد بھی اقبال کے ہم مشرب تھے.چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ :- اس بات کی عام شہرت ہو گئی ہے کہ اسلام کا دینی مزاج فنون لطیفہ کے خلاف ہے اور موسیقی محرمات شرعیہ میں داخل ہے.حالانکہ اس کی اصلیت اس سے کچھ زیادہ نہیں کہ فقہاء نے سد وسائل کے خیال سے اس بارے میں تشدد کیا اور یہ تشدد بھی باب قضا سے تھا، نہ کہ باب تشریع سے “و بلاشبہ اقبال ”علامہ“ بھی تھے اور ”شاعر مشرق“ بھی مگر ان کی شاعری کی روح بابیت واشتراکیت میں مضمر تھی جو آخری عمر میں نقطۂ معراج تک پہنچ گئی.باقی جو دوسرے رنگارنگ کے مضامین ان کے شعری کلام میں پائے جاتے ہیں ، وہ اس قرآنی آیت کی تصویر ہیں.أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ
267 يَهِيمُونَ - وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ.(الشعراء:226-227) یعنی شاعر لوگ قافیہ اور ردیف کے پیچھے ہر یک جنگل میں بھٹکتے پھرتے ہیں یعنی وہ کسی حقانی صداقت کے پابند نہیں رہتے اور جو کچھ کہتے ہیں ، وہ کرتے نہیں.اقبال نے کھلے بندوں عملاً تسلیم کیا کہ وہ اس نظریہ قرآن کے چلتے پھرتے پیکر ہیں ان کے قول اور عمل میں واضح تضاد ہے.جس کی تلقین دوسروں کو کرتے ہیں خود اس پر کبھی عمل پیرا نہیں ہوتے چنانچہ خود فرماتے ہیں.اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے گفتار کا غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا جو میں سر بہ سجدہ ہوا کبھی تو زمین سے آنے لگی صدا ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں (بانگ درا) اس ” اقبال جرم “ کی تفصیل بھی عبرت ناک ہے جو اقبال صاحب ہی کے فصیح و بلیغ اسلوب میں ہی حیطہ تحریر میں لائی جاسکتی ہے.”علامہ“ اپنی زندگی کے شام و سحر کا حاصل ان فخر یہ الفاظ میں بیان فرماتے ہیں: میں نے اقبال سے ازراہ نصیحت یہ کہا عامل روزه ہے تو، اور نہ پابندِ نماز تو بھی شیوه ارباب ریا میں کامل ہے دل میں لندن کی ہوس، لب یہ ترے ذکر حجاز جھوٹ بھی مصلحت آمیز ترا ہوتا ہے تیرا انداز تملق بھی سراپا اعجاز ختم تقریر تری مدحتِ سرکار پہ ہے فکر روشن ہے ترا موجد آئین نیاز
268 تحکام ہے تجھ کو مقام محمود پالسی بھی تری پیچیده تر از زلف ایاز اور لوگوں کی طرح تو بھی چھپا سکتا سکتا ہے پردہ خدمت دیں میں ہوس جاہ کا راز نظر آجاتا ہے مسجد میں بھی تو عید کے دن اثر وعظ سے ہوتی طبیعت بھی گداز ہے دست پرورد ترے ملک کے اخبار بھی ہیں چھیڑ نا فرض ہے جن پر تری تشہیر کا ساز اس پر طرہ ہے کہ تو شعر بھی کہہ سکتا ہے تیری مینائے سخن میں ہے شراب شیر از جتنے اوصاف ہیں لیڈر کے ، وہ ہیں تجھ میں سبھی تجھ کو لازم ہے کہ ہو اٹھ کے شریک تگ و تاز چه دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد منافقت خدا کی نظر میں کفر سے بھی زیادہ مبغوض ہے.چنانچہ اللہ جلشانہ کا فرمان مبارک ہے.كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ.(الصف: 4) اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ تم وہ کہو جو تم کرتے نہیں.کتاب اللہ کے اس واضح فیصلہ کے باوجو دجو لوگ خدائی احکام کے کسی باغی کی اتباع کرتے ہیں ، ان پر قرآن کی یہ آیت چسپاں ہوتی ہے کہ :- وَالشُّعَرَاء يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوَنَ.(الشعراء :225) شاعروں کی پیروی تو وہی کرتے ہیں کہ جو گمراہ ہیں.یہ ہے رب محمد کا سر ٹیفکیٹ ان احراری علماء اور ممبران اسمبلی 1974ء کو جنہوں نے سر اقبال جیسے بابی اور اشتراکی شاعر کے بیان پر اپنے مطالبہ اقلیت کی بنیادر کھی.
269 حضرت مسیح موعود آیت وَ الشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاؤں.(شعراء:225) کی تفسیر میں فرماتے ہیں: شاعر تو اگر مر بھی جاویں تو صداقت اور راستی و ضرورت حقہ کا اپنے کلام میں التزام نہ کر سکیں.وہ تو بغیر فضول گوئی کے بول ہی نہیں سکتے اور ان کی ساری گل فضول اور جھوٹ پر ہی چلتی ہے.اگر جھوٹ نہیں یا فضول گوئی نہیں تو پھر شعر بھی نہیں.اگر تم ان کا فقرہ فقرہ تلاش کرو کہ کس قدر حقائق ودقائق ان میں جمع ہیں.کس قدر راستی اور صداقت کا التزام ہے.کس قدر حق اور حکمت پر قیام ہے.کس ضرورت حقہ سے وہ باتیں ان کے مونہہ سے نکلی ہیں اور کیا کیا اسرار بیمثل و مانندان میں لیٹے ہوئے ہیں تو تمہیں معلوم ہو کہ ان تمام خوبیوں میں سے کوئی بھی خوبی ان کی مردہ عبارات میں پائی نہیں جاتی.ان کا تو یہ حال ہو تا ہے کہ جس طرف قافیہ ردیف ملتا نظر آیا اسی طرف جھک گئے اور جو مضمون دل کو اچھا لگا وہی جھک ماری.نہ حق اور حکمت کی پابندی ہے اور نہ فضول گوئی سے پر ہیز ہے اور نہ یہ خیال ہے کہ اس کلام کے بولنے کے لئے کونسی سخت ضرورت در پیش ہے اور اس کے ترک کرنے میں کونسا سخت نقصان عائد حال ہے.ناحق بے فائدہ فقرہ سے فقرہ ملاتے ہیں.سر کی جگہ پاؤں، پاؤں کی جگہ سر لگاتے ہیں.سراب کی طرح چمک تو بہت ہے پر حقیقت دیکھو تو خاک بھی نہیں.شعبدہ باز کی طرح صرف کھیل ہی کھیل.اصلیت دیکھو تو کچھ بھی نہیں.نادار ، ناطاقت اور ناتواں اور گئے گزرے ہیں.آنکھیں اندھی اور اس پر عشوہ گری.ان کی نسبت نہایت ہی نرمی کیجئے تو یہ کہیئے کہ وہ سب ضعیف اور بیچ ہونے کی وجہ سے عنکبوت کی طرح ہیں اور ان کے اشعار بیت عنکبوت ہیں.ان کی نسبت خداوند کریم نے خوب فرمایا ہے.یعنی شاعروں کے پیچھے وہی لوگ چلتے ہیں جنہوں نے حق اور حکمت کا راستہ چھوڑ دیا ہے.کیا تو نہیں دیکھتا کہ شاعر تو وہ لوگ ہیں جو قافیہ اور ردیف اور مضمون کی تلاش میں ہر ایک جنگل میں بھٹکتے پھرتے ہیں.حقانی باتوں پر ان کا قدم نہیں جمتا اور جو کچھ کہتے ہیں وہ کرتے نہیں.سو ظالم لوگ جو خدا کے حقانی کلام کو شاعروں کے کلام سے تشبیہ دیتے ہیں.انہیں عنقریب معلوم ہو گا کہ کس طرف پھریں گے.“ (براہین احمدیہ صفحہ 391-393 حاشیہ)
270 اس قرآنی پیشگوئی کے مطابق وہ وقت دور نہیں جبکہ خالص قرآنی زاویہ نگاہ سے اقبالیات کا جائزہ لیا جائے گا اور کوئی ماہر قرآن، شاعر مشرق کے بابی اور اشتراکی ”جواہر پاروں “ ہی کا نہیں ان کے مکمل اردو اور فارسی کلام کا تجزیہ کرے گا اور گل دنیا پر کھل جائے گا کہ یہ کلام محض شاعرانہ تخیلات کا ملغوبہ ہے جس کا ایک ایک شعر ” فِي كُلّ وَادِيَّهِیمُونَ “ کا نقشہ پیش کرتا ہے.حواشی: 1 الحکیم.عن ابی امامہ.بحوالہ کنز العمال جلد 14 صفحہ 280.ناشر موسستہ الرسالہ بیروت سال اشاعت 1405ھ مطابق 1985ء (طبع پنجم) 2 ”خطبات قائد اعظم “صفحہ 313 مولفہ جناب سید رئیس احمد جعفری.ناشر مقبول اکیڈمی لاہور اشاعت 1991ء.3 وفات 22 رجب 1354ھ مطابق 20 اکتوبر 1935 ء مدفن اندرون دبلی دروازہ دارالعلوم حزب الاحناف لاہور.4 ”باقیات اقبال صفحہ 440 مرتب سید عبد الواحد معینی ایم اے آکسن.ترمیم و اضافہ محمد عبد اللہ قریشی.ناشر ائینہ ادب چوک مینار انار کلی لاہور.5 وفات 6 جنوری 1926ء.6 اینا صفحہ 493.پروفیسر براؤن نے بابی مورخ مرزا جانی کا شانی کی کتاب نقطة الکاف کا دیباچہ لکھا ہے.7 بدائع الآثار.جلد 1.صفحہ 192.8 باقیات اقبال صفحہ 504.9 ” غبار خاطر صفحه 337-336 پبلشر مکتبہ احرار لاہور.
271 بائیسویں فصل تحریک پاکستان کا نگرس اور احرار کی شدید مخالفت جیسا کہ اپنے مقام پر مفصل روشنی ڈالی جاچکی ہے.جماعت احمد یہ برٹش انڈیا میں واحد مذہبی جماعت تھی جس نے اپنے امام ہمام کی قیادت میں مارچ 1940ء کی تحریک پاکستان میں قائد اعظم کے دوش بدوش مثالی اور بھر پور حصہ لیا.اس کے مقابل آل انڈیا کانگرس اور احراری دیوبندی علماء نے مطالبہ پاکستان کی آخر دم تک ڈٹ کر مخالفت کی اور اس کے خلاف زہر افشانی، اشتعال انگیزی اور بد زبانی کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا.کانگرس کے سدھائے ہوئے مسلمان کارندے“ قائد اعظم محمد علی جناح نے 1945ء میں ملکی انتخاب سے قبل ہی مسلمانان ہند کو پیغام دیتے ہوئے انتباہ کر دیا تھا کہ :- ” مجھے معلوم ہے کہ ہمارے خلاف بعض طاقتیں کام کر رہی ہیں اور کانگرس ارادہ کئے بیٹھی ہے کہ ہماری صفوں کو ان مسلمانوں کی امداد سے پریشان کر دیا جائے جو ہمارے ساتھ نہیں.مجھے افسوس ہے کہ وہ مسلمان ہمارے ساتھ نہیں ہیں بلکہ ہمارے دشمنوں کے ساتھ ہیں.یہ مسلمان ہمارے خلاف مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے کام میں بطور کارندے استعمال کئے جارہے ہیں.یہ مسلمان سدھائے ہوئے پرندے ہیں.یہ صرف شکل و صورت کے اعتبار سے ہی مسلمان ہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ کانگرس کے پاس دولت کے وسیع خزانے ہیں.ان کے پاس مضبوط تنظیم اور پر لیں ہے مگر حق ہمارے ساتھ ہے.1 احرار کے ”امیر شریعت“ نے پسرور میں تقریر کرتے ہوئے کہا کسی ماں نے ایسا بیٹا نہیں جناجو پاکستان کی پ بھی بنا سکے.“2 جالندھر کے ایک مسلم لیگی ممبر جناب سید عبد القدیر صاحب کی چشم دید شہادت ہے کہ :- ”سید عطاء اللہ شاہ بخاری مجلس احرار کے نامور خطیب اور اپنی پر سوز خوش الحانی کی بناء پر ہر دلعزیز تھے.ان کا نام ہی کسی جلسہ میں تل بھر جگہ نہ بیچنے کی ضمانت تھا.
272 یہ باون یاتر بین سال پہلے کی بات ہے.غالباً 1943ء میں جالندھر میں مجلس احرار کے جلسے کا اعلان ہو ا.جلسہ گاہ کھچا کھچ بھری تھی اور عطاء اللہ شاہ بخاری بول رہے تھے.موضوع پاکستان تھا اور انہوں نے اپنے زور خطابت میں کہا کہ ”ہمارے دکھوں اور مصائب کا علاج پاکستان نہیں اور پاکستان نہیں بنے گا.“ قوم بیدار ہو چکی تھی اور ہم جیسے پندرہ سولہ لڑکوں میں پاکستان کا خون سرایت کر چکا تھا.ہم میں سے احسان محسن (مرحوم) غصے میں چلایا ” آپ جھوٹ بول رہے ہیں “.کارکنان احرار ہماری طرف لیکے مگر شاہ صاحب نے انہیں خاموش کروا دیا اور یوں گویا ہوئے ”ہاں میں جھوٹا ہوں اس لئے کہ میں حافظ قرآن ہوں.میں جھوٹا ہوں کہ میری بیوی حافظ قرآن ہے.میں جھوٹا ہوں کہ میری بیٹی حافظ قرآن ہے.میں پھر کہتا ہوں کہ پاکستان نہیں بنے گا، ہر گز نہیں بنے گا.اگر یہ بن پایا اور میں زندہ رہا تو میرے منہ پر آکر تھوک دینا اور میں زندہ نہ ہوا تو میری قبر پر آکر پیشاب کر دینا.“ اس کے بعد احراری کارکنوں نے ہم پر طعن و ملامت کی اور ہمارے سمیت بہت سے اور نوجوان جلسے سے اٹھ آئے.یہ 3" آنکھوں دیکھا اور کانوں سنا واقعہ ہے.سید عطاء اللہ شاہ بخاری امیر شریعت احرار نے پاکستان ، قائد اعظم اور مسلم لیگی مسلمانوں کو گالیاں دینے کے گزشتہ تمام ریکارڈ مات کر دیئے.ان کے ملت اسلامیہ کے خلاف سیاہ جرائم کی فہرست اتنی طویل ہے کہ ان کا اپنا اعتراف ہے کہ :- ” میں نے قائد اعظم کے بوٹ پر اپنی داڑھی رکھی ، پر وہ نہ پیجے.85 یہ تو احراری لیڈروں کی تحریک پاکستان سے شرمناک نفرت و حقارت اور بغض وعناد کا عالم تھا.خود بائی احرار ابو الکلام آزاد صاحب کے مشتعل جذبات اس باب میں نہ صرف احرار کے مقابل بلکہ متعصب ترین ہندوؤں سے بھی ہزار قدم آگے تھے اور آتش فشاں کی طرح ان کے دل و دماغ لاوا اگلتے رہے.ان کا عقیدہ تھا کہ پاکستان کا نام ہی سرے سے قرآن و اسلام کے خلاف ہے جو میرے لئے نا قابل برداشت ہے.البتہ وہ یہودی ریاست کے حامی ہیں کیونکہ مسلم ممالک تو موجود ہیں مگر ان مظلوموں اور مسکینوں کے پاس سر چھپانے کو کوئی وطن موجود نہیں.چنانچہ فرماتے ہیں :- "I must confess that the very term Pakistan goes against my grain.It suggests that some portions of the world
273 are pure while others are impure.Such a division of territories into pure and impure is un-Islamic and a repudiation of the very spirit of Islam.Islam recognizes no such division and the Prophet says, "God has made the whole world a mosque for me." Further, it seems that the scheme of Pakistan is a symbol of defeatism and has been built up on the analogy of the Jewish demand for a national home.It is a confession that Indian Muslims cannot hold their own in India as a whole and would be content to withdraw to a corner specially reserved for them.One can sympathise with the aspiration of the Jews for such a national home, as they are scattered all over the world and cannot in any region have any effective voice in the administration.The condition of Indian Muslims is quite otherwise.Over 90 millions in number they are in quantity a sufficiently important element in Indian life to influence decisively all questions of administration and policy.Nature has further helped them by concentrating them in certain areas."5 ” مجھے اس کا اعتراف ہے کہ پاکستان کا نام ہی میرے حلق سے نہیں اترتا، اس سے یہ خیال پیدا کیا جاتا ہے کہ دنیا کے کچھ حصے پاک اور ناپاک ہیں.پاک اور ناپاک علاقوں کی یہ تقسیم سراسر غیر اسلامی ہے، بلکہ اسلام سے انحراف ہے.اسلام کسی ایسی تقسیم کو تسلیم نہیں کرتا.آنحضرت صلی الله علم فرماتے ہیں: ”خدا نے ساری زمین کو میرے لئے مسجد بنایا ہے.“ ” اس کے علاوہ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی اسکیم شکست خوردہ ذہنیت کی علامت ہے اور اس کا خیال اسی طرح پیدا ہوا ہے ، جیسے یہودیوں میں قومی وطن کا خیال.یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ
274 ہندوستانی مسلمان، ہندوستان میں اپنی حیثیت قائم نہیں رکھ سکتے اور اس پر راضی ہیں کہ ایک کونے میں ، جو ان کے لئے مخصوص کر دیا گیا ہو ، سمٹ کر بیٹھ جائیں.“ ” یہودیوں کی اس آرزو سے ہمدردی کی جاسکتی ہے کہ ان کا ایک قومی وطن ہو، کیونکہ وہ پوری دنیا میں منتشر ہیں اور کسی ایک علاقے میں بھی وہ حکومت کے انتظامات پر اثر نہیں ڈال سکتے.ہندوستانی مسلمانوں کی حالت اس سے بالکل مختلف ہے.ان کی تعداد نو کروڑ سے اوپر ہے اور کمیت اور کیفیت کے لحاظ سے وہ ہندوستانی زندگی کا اتنا اہم عنصر ہیں کہ حکومت کے انتظامات اور پالیسی پر فیصلہ کن حد تک اثر ڈال سکتے ہیں.اس کے علاوہ قدرت نے ان کو چند مخصوص علاقوں میں بڑی تعداد میں یکجا بھی کر دیا ہے اور اس طرح انہیں تقویت پہنچائی ہے.“6 آزاد صاحب کی لفظ ”پاکستان“ سے عداوت در اصل اس شدید دشمنی کا فطری نتیجہ تھا جو غدر پارٹی میں شمولیت کے زمانہ ہی سے ان کے سینہ میں مسلمانان ہند خصوصاً بنگالی مسلمانوں کے خلاف سلگ رہی تھی.جو آخری عمر میں شعلہ جوالہ بن چکی تھی.جس کا دستاویزی ثبوت ان کی آخری کتاب ”انڈیا ونز فریڈم“ (India Wins Freedom) ہے جس میں انہوں نے صاف طور پر ان خیالات کا اظہار کیا کہ 1906ء سے مسلمانان ہند خصوصاً بنگالی مسلمان انگریزوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنے ہوئے ہیں اور ان کے اشاروں پر رقص کر رہے ہیں.7 6" یہی نہیں آزاد صاحب بابی و بہائی نظریات کے پیکر تھے اس لئے نہ صرف کروڑوں مسلمان ان کے معتوب تھے بلکہ وہ اسلام کی روحانی قوت ہی سے منکر تھے.چنانچہ انہوں نے ”انڈیا ونز فریڈم “ میں لکھا:."History has however proved that after the first few decades, or at most after the first century, Islam was not able to unite all the Muslim countries into one State on the basis of Islam alone."8 حواشی: 1 اخبار انقلاب لاہور.18 اکتوبر 1945ء صفحہ 8.2 روز نامه جدید نظام استقلال نمبر 1950ء.بحوالہ رپورٹ تحقیقاتی عدالت اردو فسادات پنجاب 1953ء صفحہ 274.3 روزنامہ خبریں 30 جون 1996ء.
275 4 احراری ترجمان ”آزاد“ لاہور.14 نومبر 1949ء.بحوالہ چند معروضات از جناب اصغر بھٹی بی اے علیگ ایل ایل بی ایڈووکیٹ سرگودھا.ممبر پانجاب پر او نشل مسلم لیگ کو نسل اشاعت 1952ء پاکستان پر ملنگ پر لیس ایبٹ روڈ لاہور.5 "India Wins Freedom", Orient Longmans, Bombay, Calcutta, Madras, New Delhi.Printed in India by V.N.Bhattacharya, M.A.at the Inland Printing Works 60/3 Dharamsala Street, 13 Calcutta صفحه 143-142 طبع 1959ء.6 اردو ترجمہ صفحہ 217 تا 219 ( محمد مجیب صاحب) ناشر مکتبہ رشیدیہ.پاکستان چوک کراچی 742.اشاعت 1991ء.7 انگریزی ایڈیشن 1959ء.مطبوعہ کلکتہ صفحہ 4.8 ایضاً صفحہ 207.
276 تئیسویں فصل ایک ممتاز برطانوی افسر کا انکشاف برٹش انڈیا کے ایک ممتاز برطانوی افسر سر جارج منظم (Sir George Cunningham) کی مطبوعہ ڈائری مورخہ 21 ستمبر 1947ء سے یہ انکشاف منظر عام پر آچکا ہے کہ 1945ء میں پنڈت جو اہر لال نہر وصاحب نے جنرل سر فرینک میسروی کو بتا دیا تھا کہ ہمارا اصل منصوبہ یہ ہے کہ وہ جناح ( قائد اعظم) کو ان کا پاکستان بالآخر دے دیں گے.پھر بتدریج پاکستان کے معاشی اور دوسرے ذرائع سے ایسے حالات پیدا کر دیں گے جن میں پاکستان کا قائم رہنا بالکل ناممکن ہو جائے گا.اس وقت پاکستان کا مطالبہ کرنے والوں کو جھک کر ہمارے سامنے آنا ہو گا اور یہ درخواست کرنا ہو گی کہ ہمیں دوبارہ ہندوستان میں شامل ہونے کی اجازت عطا فرمائی جائے.1 اسی منصوبہ کی روشنی میں آل انڈیا کانگرس کمیٹی نے وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی سکیم 3 جون 1947ء کی توثیق کرتے ہوئے حسب ذیل قرار داد منظور کی کہ جغرافیائی حالات نے ، پہاڑوں نے اور سمندروں نے ہندوستان کو ویساہی بنایا ہے جیسا کہ وہ اس وقت ہے اور کوئی انسانی طاقت نہ تو اس صورت و ہیئت کو تبدیل کر سکتی ہے اور نہ ہی اس آخری صورت کے راستے میں روکاوٹ بن سکتی ہے.آل انڈیا کانگرس کمیٹی اس بات پر پورا پورا یقین رکھتی ہے کہ موجودہ جذباتی شدت میں کمی آجائے گی تو ہندوستان کا مسئلہ اس حقیقی تناظر میں دیکھا جائے گا اور دو قوموں کے مصنوعی نظریئے کو تمام لوگ ساقط اور ترک کر دیں گے.“2 بر صغیر کی تاریخ سے ثابت ہے کہ نہر و حکومت نے پہلے روز ہی سے اس سازش پر کام کرنا شروع کر دیا.جس کا مستند دستاویزی ثبوت یہ ہے کہ قیام پاکستان پر ابھی صرف ڈیڑھ ماہ ہوئے تھے کہ فیلڈ مارشل آکنلک (Auchinleck) نے لنڈن میں اپنے افسران بالا کو ایک خفیہ پیغام میں لکھا کہ ” اس امر کی تصدیق میں میرے شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ موجودہ انڈین کا بینہ اپنی ہر ممکن کوشش اور طاقت کے ذریعہ پاکستان کی مملکت کو مستحکم بنیادوں پر کھڑا ہونے سے روکنے کا مصمم ارادہ کر چکی ہے.میری اس رائے سے میرے تمام سینئر افسر بھی متفق ہیں بلکہ اس کی تائید ہر وہ ذمہ دار برٹش افسر کر رہا ہے جو حالات سے ذرا بھی آگاہ ہے.“3
277 حد یہ ہے کہ ہندوستان کے پہلے سفیر جناب سری پرکاش نے گورنر جنرل پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح سے ملاقات کے دوران صاف صاف کہہ ڈالا کہ میں پاکستان کو ایک علیحدہ ملک ہر گز نہ سمجھوں گا.میری نظر میں تو وہ وطن کا ایک ٹکڑا ہے جو سیاسی مصلحتوں سے ایک آزاد ریاست بنا دیا گیا ہے اور میں ہمیشہ اس کو ایسا ہی سمجھوں گا.4 حواشی 1 سر جارج کنگھم ڈائری 1948-47ء صفحہ 12.بحوالہ (1948-1857) Pakistan-The Formative Phase مطبوعہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس لنڈن(1968ء) Vide V.P.Menon "The Transfer of Power in India" P.384.(Calcutta, 1957) 2 3 ترجمه (1959 John Connell, "Auchinleck" P.912 (London 4 ”پاکستان“(مصنف سری پرکاش ) صفحہ 74.اردو ایڈیشن مترجم محمد حمایت الحسن صاحب ناشر تخلیقات ٹمپل روڈ لاہور.سال اشاعت اگست 1993ء.
278 چوبیسویں فصل احرار لیڈر کی پنڈت نہرو سے خفیہ ملاقات سے فسادات پنجاب 1953ء تک بر صغیر کے نڈر صحافی دیوان سنگھ مفتون نے اپنے اخبار ریاست دہلی کے 10 دسمبر 1956ء کے شمارہ میں یہ بیان شائع کیا کہ :- ”مسٹر جناح کے انتقال کے بعد پاکستان کے ایک بہت بڑی پوزیشن کے ذمہ دار احراری لیڈر دہلی آئے اور یہاں پنڈت جواہر لال نہرو سے ملے.ان احرار لیڈر نے پنڈت نہرو سے کہا کہ پاکستان کے مسلمان اب ملک کی تقسیم کی غلطی کو محسوس کرتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کو ہندوستان میں مدغم کر دیا جائے تاکہ پاکستان اور ہندوستان کے مسلمان تباہ نہ ہوں اور اگر پنڈت نہر و جماعت احرار اور دوسرے اس خیال کے حلقوں کی امداد کے لئے تیار ہوں تو پاکستان کو ہندوستان میں مدغم کیا جاسکتا ہے.“ اس خفیہ ملاقات کے بعد جماعت احمدیہ کے خلاف احراری پر اپیگینڈ ایکا یک تیز ہو گیا جسے دیکھ کر دہلی کے مشہور مذہبی راہ نما جناب خواجہ حسن نظامی نے واضح طور پر اپنے ایک بیان میں کہا:.قادیانیوں کے خلاف تقریر کرنے والے بھارت کے ایجنٹ اور ہندو کے تنخواہ دار ہیں.1" احرار کی لیڈروں نے قیام پاکستان کے بعد 1953ء میں مطالبہ اقلیت کے نام پر جس طرح احمدیوں اور پاکستان دونوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے فسادات برپا کئے ، اس کی تفصیلات میں فاضل جج صاحبان نے اپنی رپورٹ تحقیقاتی عدالت برائے تحقیقات فسادات پنجاب 1953ء میں احراری تاریخ پر بلیغ روشنی ڈالی ہے.یہی نہیں بلکہ چوہدری فضل الہی صاحب کا (جو 7 ستمبر 1974ء کی قرار داد اسمبلی کے وقت پاکستان کے صدر مملکت تھے ) یہ انکشاف درج کر کے احراری مطالبہ کے حقیقی عالمی پس منظر کا مشاہداتی ثبوت فراہم کر دیا ہے.فاضل جج صاحبان فرماتے ہیں :- ”مسٹر فضل الہی نے تو ایک وقت پر یہ اشارہ بھی کیا تھا کہ مسٹر دولتانہ کی اس سیاست بازی کا مقصد صرف داخلی نہ تھا بلکہ بین الا قوامی سیاسیات سے بھی متعلق تھا.ان کا مقصد یہ تھا کہ خواجہ ناظم الدین کو اقتدار کی کرسی سے اتار پھینکیں، خود اپنی
279 قیادت میں ایک مرکزی حکومت قائم کریں اور پاکستان کو ایک کمیونسٹ مملکت بنا دیں.“2 فاضل جج صاحبان تحقیقاتی عدالت (فسادات پنجاب 1953ء) تحریر فرماتے ہیں.احرار کے رویے کے متعلق ہم نرم الفاظ استعمال کرنے سے قاصر ہیں.ان کا طرز عمل بطور خاص مکر وہ اور قابل نفرین تھا.اس لئے کہ انہوں نے ایک دنیاوی مقصد کے لئے ایک مذہبی مسئلے کو استعمال کر کے اس مسئلے کی توہین کی اور اپنے ذاتی اغراض کی تکمیل کے لئے عوام کے مذہبی جذبات و حیات سے فائدہ اٹھایا.اس بات پر صرف احرار ہی یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ اپنے اعمال میں مخلص تھے کیونکہ ان کی گزشتہ تاریخ اس قدر واضح طور پر غیر مستقل رہی ہے کہ کوئی احمق ہی ان کے دعوائے مذیت سے دھوکا کھا سکتا ہے.خواجہ ناظم الدین نے ان کو دشمنان پاکستان قرار دیا اور وہ اپنی گزشتہ سر گرمیوں کی وجہ سے اسی لقب کے مستحق تھے.ان کے بعد کے رویے سے یہ واضح ہو گیا کہ نئی مملکت کے وجود میں آنے کے بعد وہ اس کے مخالف ثابت ہوئے.جو پارٹی پاکستان اور مسلم لیگ اور اس کے تمام لیڈروں کی مخالف اور کانگرس کی محض ایک کنیز تھی، اس کے لئے یہ کیونکر ممکن تھا کہ وہ اپنے گزشتہ نظریات کو ترک کر دیتی اور قیام پاکستان پر جو اس کی مخالفانہ کوششوں کے باوجو د وجو د میں آگیا تھا، راتوں رات اپنے عقائد کو بدل کر اس مملکت میں اسلام کی واحد اجارہ دار بن بیٹھی جس کے قیام کے خلاف اس نے ایڑی سے چوٹی تک کا زور لگا دیا تھا.کیا احرار پر اپنے نصب العین کا انکشاف تقسیم کے بعد ہی ہو اتھا؟ پاکستان کے لئے اسلامی مملکت کا جو نعرہ وہ لگا رہے تھے.وہ اس وقت کہاں تھے جب وہ ان جماعتوں اور ان لوگوں کے خلاف برسر پیکار تھے جو مسلمانوں کے لئے صرف ایک وطن کا مطالبہ کر رہے تھے....پاکستان میں احرار کا ساماضی رکھنے والی جماعت بھی اگر ایک بظاہر معقول مذہبی شاخسانہ کھڑا کر دے تو وہ حکومت کا تختہ الٹ سکتی ہے.“ ختم پاکستان کے منصوبہ کی تکمیل کے لئے نئی جد وجہد 3" احرار لیڈروں کی اکثریت 1953 ء کی ایجی ٹیشن سے قبل ہی عوامی لیگ میں شامل ہو چکی تھی اور اینٹی پاکستان تخریبی سرگرمیوں میں مصروف تھی.اب 1953ء کی ایجی ٹیشن میں ملک کے استحکام
280 اور یکجہتی کو بھاری نقصان پہنچانے کے بعد وہ اپنے منصوبہ ختم پاکستان کی تکمیل میں پہلے سے زیادہ زور شور سے منہمک ہو گئے جس نے پورے پاکستان میں تشویش و اضطراب کی لہر دوڑا دی جیسا کہ کتاب ”پاکستان میں وفاقیت کی سیاست“ کے درج ذیل اقتباس سے بخوبی پتہ چل سکتا ہے :- ”ہندوستان کی تقسیم کے خلاف بھارت کے انتہا پسند عناصر کے احساسات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اکثر یہ الزامات لگائے گئے کہ ہندوستانی ایجنٹ اور سازشی مشرقی پاکستان میں سرگرم ہیں تاکہ ملک کی سیاسی وحدت کو تباہ کیا جاسکے.مار نگ نیوز کا مورخہ 4 فروری 1957ء کا اداریہ اس ضمن میں اشارہ کرتا ہے جس میں کہا گیا: کلکتہ سے موصولہ مصدقہ اطلاعات کے مطابق بھارت نے ایک زور دار مہم شروع کی ہے تاکہ پاکستان کو ختم کر کے اس کو دوبارہ بھارت کے ساتھ متحد کیا جاسکے.ایک سیاسی جماعت شری آروبند و سیوک سنگھ Sri Aurobindo Sevak) (Sangha جو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس کا سیاسی پروگرام شری آروبند کی تعلیمات پر مبنی ہے، وہ بھارت کے عام انتخابات میں ایک پروگرام کے تحت حصہ لے رہی ہے جس کا پہلا آئٹم یہ ہے ”بد قسمتی سے ہو جانے والی تقسیم کا خاتمہ اور ہند وستان کا دوبارہ اتحاد اس کے انتخابی منشور میں جسے کثرت سے تقسیم کیا گیا ہے حتی کہ بعض پاکستانی اخبارات کو بھی بھیجا گیا ہے، دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں بھی ایک پارٹی ایسی ہے جو ہندوستان کے از سر نو اتحاد کے لئے کام کر رہی ہے اور اس پارٹی کی طاقت میں دن 4" بہ دن اضافہ ہو رہا ہے.”ڈان“ نے بھی اپنے اداریے میں عوامی لیگ میں بھارتی ایجنٹ اور تخریبی عناصر کی موجودگی کی طرف اشارہ کیا جو پاکستان کی قومی وحدت کو تباہ کرنے کے لئے کام کر رہے تھے.5 حواشی: 1 احراری ترجمان اخبار آزاد لاہور 28 جون 1950ء.2 رپورٹ تحقیقاتی عدات صفحہ 304."3 رپورٹ تحقیقاتی عدالت “صفحہ 277 تا 279.4 لیمبرٹ آر ڈی صفحہ 56.ڈان کراچی 6 اپریل 1957ء بحوالہ ”پاکستان میں وفاقیت کی سیاست صفحہ 104-103 متر جم سید راشد علی.تالیف مہر النساء علی.ناشر آکسفورڈ یونیورسٹی پر لیس اشاعت 1996ء.
281 پچیسویں فصل پاکستان کا پہلا متفقہ آئین بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے فروری 1948ء کے ایک نشری پیغام میں جو آپ نے امریکی عوام کے نام دیا دنیا بھر کے سامنے آئین پاکستان کا بھی تصور پیش کر دیا.چنانچہ فرمایا :- ”پاکستان آئین ساز اسمبلی نے ابھی پاکستان کا آئین مرتب کرنا ہے.میں نہیں جانتا کہ اس آئین کی آخر کار شکل کیا ہو گی لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ جمہوری طرز کا آئین ہو گا.جس میں اسلام کے بنیادی اصول متشکل ہوں گے.یہ اصول آج بھی اسی طرح عملی زندگی میں قابل عمل ہیں، جس طرح تیرہ سوسال پہلے تھے.اسلام اور اس کی مثالیت نے ہمیں جمہوریت کا درس دیا ہے.اس نے انسانی مساوات، عدل اور ہر شخص سے منہ سے منصفانہ برتاؤ سکھایا ہے.ہم ان درخشاں روایات کے وارث ہیں اور پاکستان کا آئندہ آئین بنانے والے کی حیثیت میں ہمیں اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کا پورا احساس ہے.بہر حال پاکستان ایک ایسی مذہبی مملکت نہیں ہو گا جس میں مذہبی پیشوا مامور من اللہ کے طور پر حکومت کریں گے.ہمارے ہاں بہت سے غیر مسلم ہیں ہندو، عیسائی اور پارسی.لیکن وہ سب پاکستانی ہیں.وہ بھی تمام دوسرے شہریوں کی طرح یکساں حقوق اور مراعات سے بہرہ ور ہوں گے اور پاکستان کے معاملات میں 1" کما حقہ کردار ادا کریں گے.“1 دستور 1956ء کا عوامی خیر مقدم چودھری محمد علی صاحب وزیر اعظم پاکستان کا یہ عظیم کارنامہ ہے کہ انہوں نے قائد اعظم کے دست وبازو ہونے کی حیثیت سے آپ ہی کے فرمودات کی روشنی میں پہلا متفقہ آئین دیا.جس کے نتیجہ میں پاکستان ”جمہوریہ اسلامیہ “ بن گئی اور صدر ریاست نو آبادیاتی کے گورنر جنرل کی بجائے صدر پاکستان قرار پائے.اسلامی جمہوریہ کا دستور ایک تاریخی دستاویز تھی جسے قائد اعظم کے پاکستان نے دستور ساز اسمبلی میں اپنے نمائندوں کے ذریعہ 29 فروری 1956ء بمطابق 17 رجب 1375ھ کو اختیار کیا.اسے قانونی حیثیت دی اور اپنا دستور گردانا اور جو 23 مارچ 1956ء کو ملک کے دونوں
282 حصوں میں نافذ کر دیا گیا.اس دستور کا ملک بھر میں جس جذبہ اور جوش و خروش کے ساتھ سیاسی پارٹیوں اور عوام نے خیر مقدم کیا، وہ ایک دیدنی منظر تھا جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا.احراری لیڈر شورش کا شمیری نے لکھا:.” ہمارے لئے یہ امر انتہائی مذمت کا باعث تھا کہ ہم نو سال کی مدت میں بھی دستور بنانہ سکے جو کچھ وہ بوجوہ غارت ہو تا رہا.بحمد اللہ اب چوہدری محمد علی کی مساعی مشکور سے پاکستان 23 مارچ کو جمہوریہ اسلامیہ کی شکل اختیار کرے گا....نا انصافی ہو گی اگر ہم اس پر چودھری محمد علی صاحب کو مبارکباد نہ دیں.2 جماعت اسلامی کے ترجمان ماہنامہ ”ترجمان القرآن لاہور نے اپریل 1956ء کو خصوصی ادار یہ سپر د قلم کیا کہ :- :- دستور کا خیر مقدم جس جذبہ وجوش کے ساتھ عوام نے کیا ہے اور ”یوم جمہوریہ اسلامیہ پاکستان کی تقریب جس دلی ذوق و شوق سے منائی ہے، اس کا انہیں في الواقع حق پہنچتا تھا.”یوم آزادی“ کی سرکاری تقریب کے مقابلے میں یہ تقریب صحیح معنوں میں عوامی تھی اور اسی وجہ سے اس کا معیار اور پیمانہ زیادہ اونچار ہا.پاکستان کی ایک ایک مسجد میں اسلام اور پاکستان اور ملت کی سربلندی کے لئے دعائیں مانگی میں.دستور کے موضوع پر جامع مساجد میں خطبات دیئے گئے.جلسوں میں اسلامی نظام پر تقریریں کی گئیں.شکرانہ کے نوافل پڑھے گئے.غریبوں کو کھانے کھلائے گئے اور مختلف اسالیب سے لوگوں نے اپنے جذبات مسرت کا اظہار کیا.یہ فی الواقع ایک حقیقی مسرت کا موقع تھا.ہماری سیاسی و قومی تاریخ میں ایک بڑا دن 14 اگست 1947ء کا تھا اور اب دوسرا بڑا دن 23 مارچ 1956ء کا دن قرار پایا ہے.اُس دن ہمارے جغرافیے میں ایک تبدیلی واقع ہوئی تھی اور اس دن سے ہماری تاریخ میں تغیر آرہا ہے.اُس دن زمین کی لوح پر نئی لکیریں کھینچی گئی تھیں اور اس دن ہماری زندگی کے نامہ تقدیر پر نئے نقوش نمودار ہورہے ہیں.اُس دن ملتی زندگی کا محض نیا قالب کھڑا کیا گیا تھا اور اس دن اس قالب میں اصول و مقصد کی روح پھونکی جارہی ہے.66 اس کے بعد دستور کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا:.
283 آزاد ہونے کے باوجود آٹھ برس کی لمبی مدت تک ہمارا اپنا کوئی دستور نہ تھا اور ہم ایک غیر قوم کے متروکہ دستور کے تحت....کام چلا رہے تھے.زندگی کے لئے کوئی نظریہ نہ تھا.عمل کے لئے نصب العین کی کوئی منزل نہ تھی.منزل تک لے جانے والا راستہ معین نہ تھا.تعمیر کا کوئی نقشہ طے نہ تھا.گویا ہم اندھیرے میں بھٹکتے پھر رہے تھے.اب ہمارے ہاتھوں میں اپنا بنایا ہوا ایک دستور ہے.اس دستور میں ایک ملی نصب العین طے کر دیا گیا.اس نصب العین کے اصولی تقاضے متعین کر دیئے گئے ہیں اور بہ حیثیت ایک مسلم ملت کے ہم نے مطلوبہ تبدیلیوں کو اس دستوری نقشے میں سامنے رکھ لیا ہے.اب ہم خدا خدا کر کے دنیا کی آزاد اقوام سے آنکھیں چار کرنے کے قابل ہوئے ہیں.ہماری آزادی اور ہماری حاکمیت 22 مارچ 1956ء کے نیم شب تک ملکہ برطانیہ کی نمائندگی کرنے والے ” فرد واحد کے پاس رہن تھی اور اب 23 مارچ سے اس کا فک رہن عمل میں آیا ہے.اس سے قبل 1935ء کے ایکٹ کے رُو سے سرے سے ہمارا کوئی شہری حق نہ تھا.اب پہلی مرتبہ ہم دستوری حیثیت سے کچھ نہ کچھ شہری حقوق کے مالک ہوئے ہیں اور ایک آزا دریاست کے شہریوں کے مرتبے کو پہنچے ہیں.گومگو کا ہشت سالہ دور جس میں ایسے مواقع پیدا ہوئے کہ آمریت اپنے ڈراؤنے چہرے کے ساتھ قومی زندگی کے دروازے سے آکر جھانکتی رہی، اس دستور کے نفاذ کے ساتھ ختم ہو گیا.سب سے بڑھ کر یہ کہ اس دستور میں خدا کی حاکمیت کے اقرار کے ساتھ یہ بنیادی اصول مان لیا گیا ہے کہ قانون سازی کا اساسی سر چشمہ اور معیارِ فیصلہ کتاب وسنت کی شریعت ہو گی.یہ اسلامی رجحان کی ایک کھلی کھلی فتح ہے.الحاد پسند مغرب زدہ عناصر پر باوجودیکہ اس اصول کو عمل میں لانے کے لئے جو طریق کار تجویز کیا گیا ہے ، وہ حد درجہ ناقص اور ڈھیلا ڈھالا ہے تاہم ایک مسلمان قوم کے اندر اس اصول کے طے پاجانے کے بعد کسی طاقت کی یہ مجال نہیں ہو سکتی کہ وہ کتاب وسنت کے خلاف قانون سازی کرتی چلی جائے.یہ چند ایسے کھلے کھلے وجوہ ہیں جنہوں نے 23 مارچ کی تقریب پر عوام کے دلوں میں ایک نئی روح دوڑا دی ہے.“
284 1956ء کے دستور میں صدر مملکت کے لئے مسلمان کا ہونا ضروری قرار دیا گیا مگر اس کے لئے کوئی حلف نامہ مسلمان ہونے کا شامل قانون نہیں کیا گیا تھا.کیونکہ قائد اعظم محمد علی جناح نے فرقہ پرست ملاؤں کو شکست دے کر ہی ہر کلمہ گو مسلمان کو تحریک پاکستان کے جھنڈے تلے جمع کرنے میں کامیاب ہوئے.کلمہ طیبہ ہی کی برکت سے پاکستان معرض وجود میں آیا تھا.لہذا اس کے دستور میں کلمہ کے سوا مسلم کی کوئی دستوری پہچان قرار نہیں دی جاسکتی تھی.جناب اعجاز حسین بٹالوی تحریک پاکستان کے نامور راہنما) تحریر فرماتے ہیں: ”حقیقت یہ ہے کہ جناح مسلمانوں کا سب سے پہلا سیکولر لیڈر تھا جس نے ہماری سیاست کو پیشہ ور مولویوں کے پنجے سے نجات دلائی اور ہم کو کانسٹی ٹیوشن، وحدانی حکومت، قانون پارلیمنٹری جمہوریت اور اکثریت واقلیت کے مسائل پر دور حاضر کے جدید تقاضوں سے غور کرنا سکھایا.“3 احراری ایجی ٹیشن جو انہوں نے بظاہر آئین میں احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے نعرہ بھی سے شروع کی تھی، دراصل پاکستان کی نوزائیدہ مملکت کے خاتمہ اور اکھنڈ بھارت بنانے کی سوچی سازش تھی جو بری طرح ناکام ہوئی.اس لئے احرار لیڈروں کی اکثریت نے نہر وایجنڈا پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مشرقی پاکستان کا رخ کیا اور ان کی اکثریت حسین شہید سہر وردی صاحب کی عوامی لیگ میں شامل ہو گئی تا مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان دشمنانِ پاکستان نے جن نفرتوں کا بیج بو دیا تھا ، ان کی آبیاری کر کے اسے تناور درخت بنادیں.بنگلہ دیش کے سابق صدر اور وزیر خارجہ جناب کھنڈ کر مشتاق احمد صاحب کا بیان ہے: اس وقت کے مشرقی پاکستان اور آج کے بنگلہ دیش میں اور اس وقت کے مغربی پاکستان اور آج کے پاکستان میں متعدد چھوٹے چھوٹے مسائل نے سنگین اہمیت اختیار کرلی دونوں خطوں کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ تھا.ان کے مابین انڈر سٹینڈنگ اور ہم آہنگی نہ تھی.بہت سے عناصر نے جن کا مفاد وابستہ تھا ان اختلافات کو ہوا دی.آپ کو شاید یہ سن کر حیرت ہوگی کہ ایسے مسائل بھی اٹھائے گئے اور نوبت یہانتک پہنچ گئی کہ یہ تک کہا گیا کہ مشرقی پاکستان کے مسلمان صحیح معنوں میں سچے مسلمان نہیں ہیں گویا ہمیں مسلمان ہونے کے لئے بھی سرٹیفکیٹ درکار تھا.یہ ثابت کرنے کے لئے کہ ہم مسلمان ہیں ، ہمیں مغربی پاکستان کے لیڈروں سے فتویٰ
285 4 حاصل کرناضروری تھا.“ الغرض ان دشمنان پاکستان کی گھناؤنی سازشیں شب وروز جاری رہیں یہانتک کہ پاکستان کا مشرقی بازو کٹ گیا اور پاکستانی فوج نے ہندوستانی کمانڈر کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے.اس طرح پنڈت نہرو کے ایجنڈے کا پہلا مرحلہ ان کے ایجنٹوں کے ہاتھوں کامیاب ہو گیا.احراری لیڈر شیخ حسام الدین تو پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ ”بنگال پاکستان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تیس سال نکال سکے گا اور ان غداروں نے ایسا کر کے دکھا دیا.5 حواشی: 1 « ظہور پاکستان“صفحه 451 از چوہدری محمد علی صاحب سابق وزیر اعظم پاکستان.ناشر مکتبہ کارواں کچہری روڈلاہور 1972ء.2 ہفت روزہ چٹان لاہور.5 مارچ 1956ء صفحہ 3.3 ہماری قومی جد وجہد حصہ اول تا چہارم صفحہ 63.ناشر سنگ میل پبلیکیشنز لاہور اشاعت 1995ء.4 ” سیارہ ڈائجسٹ“ لاہو را پریل 1986 صفحہ 25.5 " تحریک کشمیر سے تحریک ختم نبوت تک صفحہ 141-140 ( چوہدری غلام نبی صاحب)
286 چھبیسویں فصل 1973ء کا آئین اور کانگرسی ملاوں کا شب خون ستوط ڈھاکہ کے قومی المیہ پر ہر محب وطن پاکستانی خون کے آنسورور ہا تھا مگر احرار بچے کھچے ملک میں بھی فتنہ فساد پھیلانے کی سکیمیں تیار کرنے میں لگ گئے.خصوصاً اس لئے کہ 1953ء کی احراری ایجی ٹیشن کے خلاف مشرقی پاکستان نے وسیع پیمانہ پر مخالفت کی تھی اور اس کے ممبران اسمبلی، محترم سیاسی و سماجی شخصیات اور بنگالی پریس نے احراری مطالبہ کو پیوند خاک کر دیا تھا.لیکن ان کی انڈر گراؤنڈ سازشوں اور منصوبوں سے یہ مشرقی بازو پاکستان سے کٹ کر ہندوستان کی جھولی میں جاچکا تھا اور مغربی پاکستان اسمبلی سے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دلوا کر بقیہ ملک کو تباہی کے دہانے تک پہنچانا اب زیادہ مشکل نہ رہا تھا.چنانچہ ادھر مشرقی پاکستان میں افواج پاکستان نے ہتھیار ڈالے اُدھر ان سنگ دلوں نے موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے جماعت احمدیہ کے خلاف وسیع پیمانے پر پراپیگنڈہ شروع کر دیا.اسی اثناء میں پاکستان کی برسر اقتدار پیپلز پارٹی نے 2 فروری 1973ء کو ملک کا نیا آئینی مسودہ پیش کر دیا.احرار نے جو قائد اعظم اور آپ کے تصور آئین کے ازلی دشمن تھے اور اسی موقع کی تاک میں بیٹھے تھے ، خم ٹھونک کر میدان مخالفت میں آگئے اور اپوزیشن کے تمام ممبروں سے جو سبھی مخالف احمدیت تھے ، دیکھتے ہی دیکھتے کمال چالا کی اور عیاری و مکاری سے گٹھ جوڑ کر لیا.اس سلسلہ میں پارلیمنٹ کے دیوبندی ممبر مولوی مفتی محمود نے نمایاں رول ادا کیا.یہ وہی صاحب تھے جنہوں نے ڈنکے کی چوٹ اعلان کیا کہ ”ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں “1 اخبار ”نوائے وقت“ 30 جنوری 1986 صفحہ 11) کے رپورٹر کے مطابق ان کے الفاظ یہ تھے کہ ”خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہ تھے.“ مفتی صاحب کے بیٹے اور سیاسی جانشین مولوی فضل الرحمن صاحب نے اپنی پاکستان دشمنی میں اپنے باپ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے اور ایک قدم اور آگے بڑھا کر یہاں تک گوہر افشانی کر چکے ہیں: ”جہاں تک پاکستان کی اساسیت کا سوال ہے تو یہ فراڈ اعظم تھا جو اسلام کے نام پر کھیلا گیا.پاکستان کا وجود اسلام کے لئے قطعا نہ تھا بلکہ مغربی سیاست کو بچانے کے لئے اس کے غلط ہاتھوں کے ذریعہ وجود میں لایا گیا.یہ سب فراڈ اسلام کے نام پر کھیلا گیا.“2
287 جسٹس کیانی اور جسٹس منیر نے اپنی رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب 1953ء میں احرار کی نسبت لکھا: ” اسلام ان کے نزدیک ایک حربے کی حیثیت رکھتا تھا جسے وہ کسی سیاسی مخالف کو پریشان کرنے کے لئے جب چاہتے بالائے طاق رکھ دیتے....جب وہ لیگ کے خلاف صف آرا ہوئے تو ان کی واحد مصلحت اسلام تھی جس کا اجارہ انہیں خدا کی طرف سے ملا ہو ا تھا.ان کے نزدیک لیگ اسلام کی طرف سے محض بے پروا ہی نہ تھی بلکہ دشمن اسلام تھی.ان کے نزدیک قائد اعظم کا فراعظم تھے....ملاپ لاہور نے اپنی اشاعت مورخہ 27 دسمبر 1945ء میں احراری لیڈر امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی ایک تقریر شائع کی جو انہوں نے علی پور کی احرار کا نفرنس میں کی تھی.اس تقریر میں امیر شریعت نے ڈنکے کی چوٹ یہ اعلان کیا کہ مسلم لیگ کے لیڈر....جس مملکت کی تخلیق کرنا چاہتے ہیں وہ پاکستان نہیں خاکستان ہے.اس رہبر محترم نے پسرور میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اب تک کسی ماں نے ایسا بچہ نہیں جنا جو پاکستان کی پ بھی بنا سکے (حوالہ استقلال نمبر روزنامہ جدید نظام 1950ء) فسادات (1953ء) کے دوران احراری لیڈر امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے لاہور میں جو تقریریں کیں ان میں سے ایک تقریر میں انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک بازاری عورت ہے جس کو احرار نے مجبوراً قبول کیا ہے.3 باکل یہی عقیدہ مفتی محمود صاحب کے دست راست مولوی غلام غوث ہزاروی کا تھا جنہوں نے ایک بیان میں بر ملا کہا: ”ہم نے اس طرح پاکستان کو قبول کیا ہے کہ کوئی لڑکا کسی لڑکی کو بھگا کر لے جائے.والدین پسند تو نہیں کرتے لیکن بیٹے کی غلطی کو تسلیم کر لیں.“4 مسودہ میں حلف کا اضافہ مفتی محمود صاحب اور مولوی غلام غوث ہزاروی اور ان کے ہم نوا ممبران اسمبلی نے مسٹر ذوالفقار علی بھٹو پر زور دیا کہ مسودہ میں صدر اور وزیر اعظم کے مسلمان ہونے کی شرط کا معاملہ طے ہو چکا.لہذ ا ضروری ہے کہ آئین پاکستان میں ان کا حلف نامہ بھی تجویز کیا جائے جس میں ان کا اقرار ہو کہ ہم مسلمان ہیں اور ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں.مسٹر بھٹو جنوبی ایشیا کے ہیرو بننے کے خواب
288 دیکھ رہے تھے.اور وہ چاہتے تھے کہ پہلے زینہ کے طور پر وہ اولین کارنامہ سیاست متفقہ آئین کی صورت میں انجام دیں.انہوں نے اس مطالبہ کے سامنے بھی گھٹنے ٹیک دیئے اور صدر اور وزیرا کے لئے درج ذیل الفاظ میں حلف شامل آئین کر لیا گیا.میں ایک مسلمان ہوں اور قادر مطلق کی توحید ، اللہ تعالیٰ کے صحیفوں، قرآن کریم جوان صحیفوں میں آخری ہے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور ان کے نبی آخر الزمان ہونے اور ان کے بعد کسی اور نبی کے نہ ہونے، روز حساب اور قرآن کریم وسنت کی تمام تعلیمات و مقتضیات پر مکمل ایمان رکھتا ہوں.“5 اب مسودہ آئین بالاتفاق پاس ہو گیا.12 اپریل 1973ء کو صدر مملکت چوہدری فضل الہی صاحب نے اس کی توثیق کر دی اور اسے 14 اگست 1973ء کو نافذ کر دیا گیا.چور دروازے سے غیر مسلم قرار دینے کی شاطرانہ چال یہ حلف نامہ در پردہ چور دروازے سے خدا کی پاک اور حقیقی مسلمان جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دینے کی شاطرانہ چال تھی جس کے معابعد پاکستان دشمن ملاؤں نے مطالبہ کیا کہ اس حلف نامہ کی بنیاد پر ”مسلم “ کی ایسی تعریف کی جائے جس سے پاکستان کے احمدی باقی مسلمانوں سے یکسر کاٹ دیئے جائیں.ساتھ ہی بھٹو صاحب کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی خاطر یہ سراسر جھوٹا اور مفتریانہ پر اپیگنڈا وسیع پیمانے پر شروع کر دیا کہ ”مرزائی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر ملک پر قبضہ کرنے کا خواب دیکھ رہے ڈالا: 6" ہیں.“6 حتی کہ شورش کا شمیری صاحب نے چنیوٹ میں ایک اشتعال انگیز تقریر میں یہاں تک کہہ ”اگر بھٹو کی ایک انگلی کا خون بھی بہایا گیا تو میں سب سے پہلے اپنی جان کی قربانی 7" دوں گا اور بھٹو کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیا جائے گا.اس پر اپیگینڈا کے صرف دو ایک ماہ کے بعد مسلم سر بر اہان مملکت کی لاہور میں کا نفرنس منعقد ہوئی.جس میں احرار نے جماعت احمدیہ کے خلاف شر انگیز عربی اور اردو پمفلٹ شائع کئے اور پھر سعودی عرب نے رابطہ عالم اسلامی سے احمدیوں کے غیر مسلم ہونے کا فتویٰ لے کر تمام مسلمان ملکوں میں پھیلا دیا.
289 اس ماحول میں احرار نے اپنے ناپاک منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے پاکستان میں ملک گیر شورش بر پا کرنے کا سٹیج تیار کر لیا جو شورش کا شمیری صاحب اور مولوی تاج محمود صاحب ایڈیٹر ”لولاک فیصل آباد کا رہین منت تھا.چنانچہ اخبار لولاک نے 8 مئی 1987ء صفحہ 91 میں مولوی تاج محمود صاحب کو ”محافظ ختم نبوت“ قرار دیتے ہوئے لکھا: 1974ء کی تحریک ختم نبوت کی بنیادی حکمت عملی دراصل آغا شورش اور مولانا تاج محمود ہی کی متعین کردہ تھی....مولانا نے ستمبر 1974ء کے قادیانی فیصلے سے کئی ماہ قبل احباب کو پورے یقین کے ساتھ کہہ دیا تھا کہ اس دفعہ تحریک کامیاب ہو جائے گی.“ مولوی تاج محمود نے اس کامیابی کا فوری سبب یہ بتایا کہ ”مولوی منظور احمد سندھی....ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کے لئے خاص طور پر مدینہ سے تشریف لائے ہیں.“ حواشی 1 رسالہ ” چٹان لاہور 8 ستمبر 1975ء صفحہ 5.2 ہفت روزہ ”زندگی“ لاہور 22 تا 28 جنوری 1994ء.رپورٹ اردو ایڈیشن صفحہ 275-272.4 اخبار ” نوائے وقت“30 جنوری1986ءصفحہ 11.5 آئین پاکستان 1973، صفحه 169-168 از جناب صفدر محمود صاحب اشاعت دوم 1974- ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشر چوک انار کلی لاہور.6 ”لولاک» فیصل آباد 14 ستمبر 1973ء صفحہ 1.7 روز نامه ” امروز“ 30 دسمبر 1973ء صفحہ 2 کالم 5.
290 ستائیسویں فصل طلبہ نشتر کالج کا ڈرامہ.بھٹو حکومت اور سوشلسٹ ملا سٹیج تیار ہو چکا تو مجوزہ سکیم کے عین مطابق نشتر کالج کے طلبہ کے ذریعہ ربوہ اسٹیشن پر ڈرامہ رچایا گیا جسے خونریز تصادم کا نام دے کر چند گھنٹوں کے اندر اندر مختلف سیاسی عناصر خصوصاً صحافی مولوی تاج محمود کے سگنل پر لائل پور (فیصل آباد) اسٹیشن پر جمع ہو گئے.اگلے ہی روز اخبارات نے ضرب خفیف کے ایک معمولی واقعہ کو میدان جنگ کے رنگ میں پیش کر کے ملک بھر میں آگ لگادی اور مظلوم احمدی اپنے ہی پیارے وطن میں (جس کے لئے انہوں نے تقسیم ہند سے قبل بے پناہ قربانیاں دی تھیں) ایک ملک گیر خونی کربلا سے دوچار ہو گئے.بھٹو حکومت نے پاکستان کے مظلوم احمدیوں کی امداد کرنے اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بجائے فسادیوں کو کھلی چھٹی دے دی.اور ساتھ ہی ڈپلومیسی اور منافقت کی یہ دوغلی پالیسی اختیار کی کہ ایک طرف اس نے ممالک عالم پر اپنی جمہوریت نوازی کا سکہ بٹھانے کے لئے یہ اعلان کیا کہ وہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے بارہ میں خود کوئی فیصلہ نہیں کرے گی بلکہ اسے قومی اسمبلی پر چھوڑ دے گی.دوسری طرف عیاری و مکاری سے کام لیتے ہوئے احراری ملاؤں کے ہم عقیدہ و مسلک ہونے کے واضح بیانات دیئے اور ظلم وستم کی حد یہ کہ اس نے اسمبلی میں اس مسئلہ کے حل کیلئے جو ”رہبر کمیٹی قائم کی، اس کے فرائض میں ختم نبوت متعلق جماعت احمدیہ کے عقیدہ کی قرآن و سنت کو روشنی میں چھان بین کرنے کی بجائے پہلے از خود فرض کر لیا کہ احمدی واقعی منکر ختم نبوت ہیں.اور پھر رہبر کمیٹی کے فرائض میں صرف یہ بات شامل کی کہ وہ منکرین ختم نبوت کی دستوری اور آئینی حیثیت متعین کرے.چنانچہ اس ضمن میں 30 جون 1974ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی کا جو پہلا اجلاس ہوا اسکی رپورٹ پاکستانی پر میں نے حسب ذیل الفاظ ނ میں شائع کی.پاکستان اسمبلی کا اجلاس 30 جون 1974ء اسمبلی کا اجلاس ساڑھے 12 بجے دوبارہ شروع ہوا تو وزیر قانون مسٹر عبد الحفیظ پیرزادہ کی طرف سے پیش کردہ منکرین ختم نبوت کی اسلام میں حیثیت کے تعین کے بارے میں ایک تحریک اور اپوزیشن کی قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے اور
291 اس مقصد کے لئے آئین میں ترمیم کرنے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی.قرار داد اور تحریک کی منظوری کے وقت وزیر اعظم بھٹو بھی ایوان میں موجو د رہے.قرار داد اور تحریک، ایوان کی رائے کے مطابق تمام ممبروں پر مشتمل ایک خاص کمیٹی کے سپر د کر دی گئی.اس کمیٹی کے اجلاس کے لئے چالیس ممبروں کا کورم ضروری قرار دیا گیا.ان میں دس ارکان حکومت کی مخالف جماعتوں سے ہوں گے.“ سرکاری تحریک کا متن ” یہ ایوان سارے ایوان پر مشتمل ایک خصوصی کمیٹی قائم کرتا ہے....جس کے چیئر مین اس ایوان کے سپیکر ہوں گے اور یہ خصوصی کمیٹی حسب ذیل فرائض سر انجام دے گی.(1) ان لوگوں کی حیثیت متعین کی جائے جو آنحضور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتے.“1 ان الفاظ سے یہ حقیقت پورے طور پر بے نقاب ہو کر سامنے آجاتی ہے کہ بھٹو حکومت اور اپوزیشن ممبر دونوں ہی کمیٹی کی تشکیل سے قبل احمدیوں کو منکر ختم نبوت سمجھتے تھے.اور اس خصوصی کمیٹی کا مقصد احمدیوں کو سزا دینے کے لئے قانونی جواز کا سہارا ڈھونڈنے کے سوا کچھ نہیں تھا.بالفاظ دیگر حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی جماعت احمدیہ کی مخالفت میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی فکر میں تھے اور دونوں ہی متحد ہو کر اپنے اپنے سیاسی مفادات کی جنگ لڑ رہے تھے.یہی اور صرف یہی وجہ ہے کہ رہبر کمیٹی نے حضرت امام جماعت احمدیہ سید نا خلیفہ المسیح الثالث سے بہت سے سیاسی اور معاشرتی سوالات کئے مگر ختم نبوت کی حقیقت کے متعلق ایک سوال بھی نہیں پوچھا! جنگ زرگری اس صور تحال کی وضاحت حضرت امام شمس الدین ابن الجوزی بغدادی رحمتہ اللہ علیہ (متوفی 1200 ء) کے بیان کردہ ایک دلچسپ واقعہ سے خوب ہو جاتی ہے.علامہ یکتائے روز گار، کثیر التصانیف اور علم حدیث کے ماہرین میں شمار ہوتے تھے.آپ نے اپنی تصنیف ”کتاب الاذ کیا“ میں علی بن محسن سے روایت کی ہے کہ ان کے والد نے بتایا کہ ہمیں بغداد کے بہت سے اکابر سے معلوم ہوا کہ بغداد کے پل کی دوسری جانب دونا بینا گداگر تھے.ان میں سے ایک تو امیر المومنین سیدنا علی کے نام کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہے اور دوسر ا حضرت معاویہ کے نام پر بھیک مانگتا ہے.بہت لوگ ان کے
292 گرد جمع ہو جاتے ہیں.وہ اپنی بھیک کے ٹکڑوں کو جمع کرتے رہتے ہیں.جب لوٹتے ہیں تو ان ٹکڑوں کو برابر بانٹ لیتے ہیں اور اس حیلہ سے لوگوں سے وصول کرتے رہتے اور ان کے اموال پر ڈاکہ ڈالتے رہتے ہیں.2 اسی امر کو اردو لغت میں جنگ زرگری کہتے ہیں.چنانچہ مولوی سید احمد دہلوی نے اپنی مشہور عالم اردو لغت ” فرہنگ آصفیہ میں جنگ زرگری کی تشریح میں لکھا ہے.جھوٹ موٹ کی لڑائی.وہ مصلحت کی لڑائی جو دشمن کو دھوکہ دینے کے واسطے بغیر از عداوت لڑیں.سازشی لڑائی جس طرح پتنگ بازی میں غوطم چارہ یا کشتی میں کمالہ ہوتا ہے.“ 1974 ء کی شورش کا بھی بالکل یہی حال تھا.احراری مل 1953ء کی طرح (بقول مودودی صاحب) تحفظ ختم نبوت کا سہرا صرف اپنے سر پر باندھنا چاہتے تھے.دوسری طرف مسٹر بھٹو وزیر اعظم اور ان کی پارٹی اسے اپنا فقید المثال کارنامہ ظاہر کر کے اگلے انتخابات جیتنا چاہتی تھی جیسا کہ ان کے وزیر مذہبی امور جناب کوثر نیازی کا بیان ہے کہ ”مسٹر بھٹو احمدی مسئلے پر قومی اسمبلی کا فیصلہ کرانے کے بعد انتخابات کے نقطہ نظر ہی سے سوچ رہے تھے.“3 خالص اس سیاسی مصلحت کی بناء پر بھٹو صاحب نے آئین میں شامل صدر اور وزیر اعظم کے لئے مجوزہ حلف کے ایک حصہ کو دستوری الفاظ میں ڈھال لیا اور اسمبلی میں احمدیوں کے ناٹ مسلم ہونے کی قرار داد پاس کرالی گئی.تاہم جناب بھٹو صاحب نے اپنی جمہوریت پسندانہ پالیسی کی دھاک بٹھانے کے لئے اپنی تقریر میں واضح کیا کہ یہ فیصلہ محض ان معنوں میں مذہبی ہے کہ یہ پاکستان کی مسلم اکثریت کا فیصلہ ہے جو عوام کی امنگوں کے مطابق کیا گیا ہے.ساتھ ہی انہوں نے بانگ دہل اعلان کیا کہ ہم سوشلزم کے اقتصادی اصولوں کو اپنائے ہوئے ہیں.اس وضاحت سے یہ حقیقت بالکل بے نقاب ہو جاتی ہے کہ مسٹر بھٹو وزیر اعظم پاکستان اور ان کی حکومت نے 7 ستمبر کی قرارداد کا سارا ڈرامہ سوشلزم کے اصول کی تعمیل میں رچایا تھا جس کا اسلام اور قرآن وسنت سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا.اگر چہ بھٹو صاحب نے سوشلزم کو ” مساوات محمدی“ کا نام دے رکھا تھا مگر یہ محض فراڈ تھا جیسا کہ انہی دنوں روزنامہ نوائے وقت“ لاہور نے اپنے اداریہ میں لکھا:- 4" شمالی علاقوں کے حالیہ دورے کے دوران مسٹر بھٹو نے کہا تھا کہ ہمارے اسلامی سوشلزم کا مطلب ” مساوات محمدی“ ہے.پارٹی کے جو کارکن یا لیڈر اس
293 مطلب کو نہیں سمجھ سکے ، میں انہیں تربیت دوں گا.اب (خورشید حسن) میر صاحب فرماتے ہیں کہ اصطلاحوں کا جھگڑ اپارٹی میں انتشار پیدا کرنے کے لئے کھڑا کیا جارہا ہے.ہمارا نصب العین باکل واضح ہے.ایک اسلامی ملک میں سوشلزم اور وہ بھی ”مساوات محمد می“ کے نام پر.اب اس تضاد کو مسٹر بھٹو ہی دور کر سکتے ہیں.سوشلزم چین، روس، یوگوسلاویہ اور روسی سامراج کے زیر نگین مشرقی یوروپ کے ممالک میں رائج ہے.سوشلزم صرف اقتصادی نظام نہیں.اسلام کی طرح مکمل ضابطہ حیات ہے.اس کے لوازمات میں ایک مخصوص ظاہر ہے یہ سب سنگل پارٹی نظام حکومت بھی شامل.کچھ ”مساوات محمدی کے نام پر نافذ نہیں ہو سکتا.”مساوات محمدی“ کے نام پر تو ” اسلامی مساوات کا نفاذ ہی ممکن ہے.چیئر مین بھٹو کو اب یہ ابہام فوراً دُور کر دینا چاہیئے کہ ان کا اور ان کی پارٹی کا نصب العین کیا ہے ؟ لوگ انہیں جانتے ہیں.میر صاحب کو نہیں.ہم سرمایہ داروں اور ان کے ایجنٹوں پر لعنت بھیجتے ہیں.اسلام نہ سرمایہ داروں کا مذہب ہے نہ ان کے ایجنٹوں کا ہے.“5 5" پاکستان کو سوشلسٹ ملک بنانے کا اعلان وزیر اعظم بھٹو صاحب نے ایوان سے 7 ستمبر کی قرار داد منظور کراتے ہی قومی اسمبلی کو بتایا کہ نوے سالہ مسئلہ حل ہو گیا ہے.اب ہم اپنی پارٹی کے بنیادی اصول کے مطابق پاکستان کوسوشلسٹ ملک بنانے میں کوئی دقیقہ فرد گزاشت نہیں کریں گے.چنانچہ انہوں نے کہا: ”ہمارا دوسرا اصول یہ ہے کہ جمہوریت ہماری پالیسی ہے.چنانچہ ہمارے لئے فقط یہی درست راستہ تھا کہ ہم اس مسئلہ کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش کرتے.اس کے ساتھ ہی کہہ سکتا ہوں کہ ہم اپنی پارٹی کے اس اصول کی بھی پوری طرح پابندی کریں گے کہ پاکستان کی معیشت کی بنیاد سوشلزم پر ہو.ہم سوشلسٹ اصولوں کو تسلیم کرتے ہیں.“6 آئینی اغراض کی قانونی اصطلاح جناب بھٹو صاحب نے نئی قرار داد کو جمہوریت کی ٹکسال میں ڈھالتے ہوئے ان الفاظ کا اضافہ کرایا تھا کہ احمدی آئین و دستور کی اغراض کے لئے ”ناٹ مسلم ہیں.
294 در اصل "آئینی و دستوری اغراض کی اصطلاح دنیا کے کانسٹی ٹیوشنز میں مروج ہے.جس کا نمونہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور مجریہ 25 مارچ 1987ء میں بھی موجود ہے.چنانچہ اس میں دفعہ 251(1) کے تحت لکھا ہے: پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور یوم آغاز سے پندرہ برس کے اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لئے استعمال کرنے کے انتظامات کئے جائیں گے.(2) شق (1) کے تابع انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری اغراض کے لئے استعمال کی جاسکے گی جب تک کہ اس کے اردو سے تبدیل کرنے کے انتظامات نہ ہو جائیں.7 پھر باب پنجم میں زیر دفعہ 262 لکھا ہے.” دستور کی اغراض کے لئے کسی مدت کا شمار گریگری نظام تقویم کے مطابق 8" کیا جائے گا.“8 بالکل اس اصطلاح میں احمدی، اسمبلی پاکستان میں محض قانون و آئین کی اغراض کے لئے ” ناٹ مسلم “ قرار پائے جس کا مذہب اسلام سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں تھا.یہ محض جمہوری اور سیاسی اور آئینی فیصلہ تھا جس کا مقصود صرف یہ تھا کہ اگر پاکستانی احمدی پارلیمنٹ میں اکثریت بھی حاصل کر لیں تو وہ صدر اور وزیر اعظم نہیں بن سکیں گے کیونکہ 1973ء کے آئین میں مشمولہ ”حلف نامہ “ ان کے لئے روک ہو گا.قرارداد کا مقصد احرار لیڈروں کی نظر میں یہ ایسی واضح بات تھی کہ احرار لیڈروں نے 1973ء کے آئین میں صدر اور وزیر اعظم کے حلف ناموں کے اضافہ پر بعض عام جلسوں میں خود بتائی اور اس پر جشن مسرت مناتے ہوئے مسٹر بھٹو وزیر اعظم کو زبر دست خراج تحسین پیش کیا.بطور نمونہ ایک خبر ملاحظہ ہو.قادیانی اب کبھی اقتدار اعلیٰ پر قابض نہیں ہو سکتے “ مجلس تحفظ ختم نبوت کھرڑیانوالہ کے زیر اہتمام چک نمبر 100 رڑکا میں 14 اگست کو ایک جلسہ عام ہوا جس سے مجلس تحفظ ختم نبوت لائل پور کے مبلغ مولانا اللہ وسایا نے خطاب کرتے ہوئے موجودہ آئین میں ختم نبوت کے عقیدہ کو صدر اور وزیر اعظم کے حلف اور مسلمان کی تعریف میں شامل کرنے پر مسرت کا اظہار کیا اور اسے نیک شگون قرار دیا.مولانا نے مفتی اعظم، مفتی محمود، مولانا نورانی، وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور صدر مملکت چوہدری فضل الہی کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے ملک
295 9" کو ایسا آئین دیا ہے جس میں ختم نبوت کے مسئلہ کو کسی حد تک حل کرنے کے لئے قدم اٹھایا گیا ہے.آپ نے کہا کہ اب آئین کی رو سے کوئی منکر ختم نبوت نہ ملک کا صدر بن سکتا ہے نہ وزیر اعظم.اس شق سے قادیانیوں کے اقتدار (میں) آنے کی تمام آرزوؤں پر پانی پھر گیا ہے.بالکل یہی نقطہ نگاہ مشہور دیوبندی محمد تقی عثمانی صاحب سابق جسٹس شریعت بینچ سپریم کورٹ آف پاکستان کا ہے.چنانچہ آپ 1973ء کے متفقہ آئین کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں: دفعہ نمبر 44 ذیلی فقرہ نمبر 2 میں پچھلے تمام دساتیر کی طرح صدر مملکت کے لئے مسلمان ہونے کو لازمی شرط قرار دیا گیا ہے.دفعہ نمبر 94 ذیلی فقرہ نمبر 2 وزیر اعظم کے لئے بھی مسلمان ہو نا ضروری قرار دیا گیا ہے.یہ شرط بھی پہلی بار پاکستان کے دستور میں شامل کی گئی ہے اور اس کا اضافہ ، خیر مقدم اور مبارک باد کے لائق ہے.تیسرے شیڈول میں صدر اور وزیر اعظم دونوں عہدوں کے حلف نامہ میں مسلمان ہونے کے اقرار کے ساتھ یہ الفاظ بھی شامل ہیں: میں قسم کھاتا ہوں کہ میں ایک مسلمان ہوں اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کے ایک ہونے پر، اللہ کی کتابوں پر ، قرآن پر جو ، ان میں سے آخری کتاب ہے.آخری نبی ہونے کی حیثیت سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر اور اس بات پر کہ آپ کے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہو سکتا، یوم حساب پر اور قرآن و سنت کی تمام تعلیمات اور ضروریات پر ایمان رکھتا ہوں.“ ان جملوں میں ایک صحیح العقیدہ مسلمان کی پوری تعریف آگئی ہے.دستور میں اس تعریف کی شمولیت اس لئے ضروری تھی کہ اس کے بغیر کوئی بھی شخص، خواہ کتنے کافرانہ عقائد رکھتا ہو، مسلمانوں جیسا نام رکھ کر اسلامی مملکت کے ان اہم ترین عہدوں پر فائز ہو سکتا تھا.حلف نامہ میں مسلمان کی یہ تعریف شامل ہونے کے بعد یہ خطرہ کم ہو گیا ہے اور جب تک کوئی شخص کھلی منافقت سے کام نہ لے، کسی کافرانہ عقیدے کے ساتھ صدارت یا وزارت عظمی کے منصب تک نہیں پہنچ سکتا.بنیادی اسلامی عقائد کی توضیح کا یہ اعزاز بھی پاکستان کے اس دستور کو پہلی بار حاصل ہوا ہے
296 ور پچھلے کسی دستور میں یہ توضیح موجود نہیں تھی.10 بھٹو حکومت اور احرار کا متحدہ محاذ مخالفت ثابت ہوا کہ یہ جنگ زرگری تھی جس میں مسٹر بھٹو آئین 1973ء کی تشکیل کے وقت سے عقیدۃ احراری ملاؤں کے سو فیصدی ہم نوا تھے اور احمدیوں کو منکر ختم نبوت یقین کرتے تھے اور جماعت احمدیہ کو اپنے اقتدار کا سیاسی حریف سمجھ کر اسے کچل دینا چاہتے تھے.یہی وجہ ہے کہ 7 ستمبر 1974ء کی قرار داد اسمبلی اور ان کی وضاحتی تقریر کے صرف چند ہفتہ بعد ، پہلے سے زیادہ وسیع پیمانے پر قتل وغارت اور دہشت گردی کا بازار گرم کر دیا گیا جس پر پاکستان کے قدیم اور جری صحافی جناب ثاقب زیر وی تڑپ اٹھے اور آپ نے اپنے رسالہ ”لاہور “ (10 مارچ 1975ء) کے خصوصی اداریہ میں بھٹو صاحب کی اسمبلی میں وضاحتی تقریر کے الفاظ دے کر لکھا: ارباب اختیار واقتدار کی مصلحت اندیشیاں یا شومئی استحکام پاکستان کہ ابھی اس تقریر دلپذیر کی گونج وطن عزیز کی فضاؤں میں سنائی دے ہی رہی تھی کہ پنجاب کے ایک ڈویژنل صدر مقام سرگودھا میں اس کی روح کا وہ مذاق اڑایا گیا اور وہ ذلیل ترین بے حرمتی کی گئی کہ شرافت و انصاف آج تک اس غارت گری اور اس تہذیب سوزی کی کوئی موثر اور قابل یقین تاویل نہیں کر پائے.یعنی تقریر کے بعد ٹھیک اٹھا ئیسویں دن 5 اکتوبر 1974ء کو ایک فتنہ ساز کی خود تراشیدہ خراشوں پر اشتعال دلا کر جماعت احمدیہ کے ارکان کے 34 مکان اور گیارہ دو کا نہیں دن دہاڑے لوٹی، اجاڑی اور جلا کر راکھ بنادی گئیں.آگ اور خون کی یہ ہولی (جس کا اعتراف دبے الفاظ میں خود انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب نے بھی کیا ہے.ملاحظہ ہو صفحہ 9) پوری دیدہ دلیری، ڈھٹائی بلکہ بے حیائی سے نظم و نسق کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کی کھیلی گئی اور اس دن کھیلی گئی جس دن پنجاب کے سب سے بڑے وزیر اور ان کے معتمد ترین وزیر صغیر بھی وہاں موجود تھے اور جب ڈویژن کی پولیس کا بیشتر حصہ بھی ان کے جلوس کی شوکت کو دوبالا کرنے اور ان کے جلسہ کی رونق بڑھانے کے لئے شہر میں موجو د تھا.پاکستان کے اس معزز و محب وطن طبقے کے ارکان کی املاک اور اثاثوں کو دن کے آٹھ بجے سے لے کر شام کے چار بجے تک نظم و نسق کے تمام ذمہ داروں کی موجودگی میں لوٹنے کے بعد جلا کر راکھ بنا دیا گیا.لیکن
297 نہ وزیر اعلیٰ کو اپنے فرائض یاد آئے.نہ اس ڈویژن کے نمائندہ وزیر کے کانوں پر کوئی جوں رینگی.نہ کمشنر ، ڈی آئی جی، ڈپٹی کمشنر اور ایس پی صاحبان ہی کو اپنی ذمہ داریاں یاد آئیں.اور نہ حکومتی پارٹی یاکسی اپوزیشن پارٹی ہی کو وزیر اعظم کی یقین دہانی کی لاج رکھنے کا خیال آیا.یہ مکان اور دکانیں سارادن جلتی رہیں اور عوام کے مسلح پاسبان اس خونی ڈرامے کو دیکھ کر صرف ہنستے اور قہقے ہی لگاتے رہے.فائر بریگیڈ اگر چند گھنٹوں کے بعد آئے بھی تو معتوبین کی املاک کو بچانے کے لئے نہیں بلکہ ادھر ادھر کے مکانوں اور دو کانوں کی حفاظت کے لئے.جلائی جانے والی ان دوکانوں میں ایک ایسا بک ڈپو بھی تھا جس میں ہزاروں نسخے قرآن پاک کے تھے.اللہ تعالیٰ پاکستان پر رحم کرے.ان بر بریت کے ماتوں کو خدائے برحق کے پاکیزہ و منزہ کلام کو جلا کر خاکستر بنا دینے میں بھی کوئی خوف محسوس نہ ہوا.“ احرار نے اسمبلی کی خالص سیاسی اور دستوری قرار داد کی آڑ میں دنیا بھر میں یہ پر زور پر اپیگینڈہ کیا کہ احمدی دائرہ اسلام سے خارج کر دیئے گئے ہیں.اس لئے دوسرے مسلم ممالک بھی انہیں غیر مسلم بلکہ مرتد اقلیت قرار دیں تا یہ فتنہ صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح ہمیشہ کے لئے مٹا دیا جائے اور واقعات گواہ ہیں کہ مسٹر بھٹو اور ان کی حکومت نے اس ناپاک سازش کی تعمیل میں تحریک پاکستان کے دشمن احراری عناصر کی دل کھول کر امداد اور پشت پناہی کی.بہت سے احمدیوں کو ملاؤں کی خوشنودی اور انتخاب جیتنے کی خاطر ظالمانہ طور پر ان کی ملازمتوں سے نکال باہر کیا اور ان پر قافیہ حیات تنگ کر کے پاکستان سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا گیا.بے شمار احمدیوں کو جیل خانوں میں ٹھونس دیا گیا اور کئی عشاق رسول عربی صلی الل علم محض احمدی ہونے کے جرم میں نہایت بے دردی سے شہید کر دیئے گئے مگر حکومت نے ہر قاتل کو ”غازی ختم نبوت “سمجھتے ہوئے قتل وغارت کی کھلی چھٹی دے دی اور کسی ایک کو بھی گرفتار کر کے سزا نہیں دلوائی.اسی پر بس نہیں اس نے ربوہ کے غریب احمدیوں کی 19 ایکڑ زمین غصب کر کے اپنے محبوب طائفہ کے حوالہ کردی تا وہ اپنی مسجد ضرار اور احراری کالونی کے ذریعہ مرکز احمدیت کو فتنہ و فساد کا مستقل اڈہ بنالیں.
298 احرار کا اپنے محافظ ختم نبوت کی بارگاہ میں ہدیہ عقیدت کا عملی مظاہرہ احرار لیڈر اسمبلی کی کارروائی سے قبل بھٹو صاحب کے بوٹ اپنی داڑھیوں سے صاف کرنے کی پیشکش کر چکے تھے.چنانچہ اب جو اسمبلی نے یہ قرارداد منظور کر لی تو انہوں نے شورش کا شمیری کی تحریک پر ملک بھر میں جشن منایا اور بھٹو صاحب کو الیکشن میں ووٹ دینے اور ان سے اپنی عقیدت کا اظہار کرنے کے لئے جہازی سائز کے جلی قلم سے ایک اشتہار شائع کیا جس پر اپنے ”امیر شریعت “ اور محسن اعظم اور ”محافظ ختم نبوت مسٹر بھٹو کی تصاویر دیں اور پھر حسب ذیل الفاظ میں پیپلز پارٹی اپنے کو ووٹ دینے کی تلقین کی.”امیر شریعت حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری کا اعلان سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے....باغ بیرون دہلی دروازہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا.جو شخص قادیانیوں کا مسئلہ حل کر دے گا اس کے کتنے بھی میرے لئے باعث 66 عزت ہوں گے.“ جناب قائد عوام بھٹو صاحب نے جس دلیری اور ہمت سے کام لیتے ہوئے اس دیرینہ مسئلہ کو حل کیا ہے، اس سے تمام عالم اسلام قائد عوام جناب ذوالفقار علی بھٹو صاحب کا ممنون و مشکور ہے.میں بحیثیت سابق صدر مجلس احرار اسلام لاہور کے تمام احراری بھائیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بھر پور حمایت کریں.منجانب: حاجی محمد جہانگیر سابق صدر مجلس احرار اسلام لاہور.جہانگیر بک ڈپو.چوک اردو بازار.لاہور.یہ تو ” امیر شریعت احرار " کا فرمان تھا.اب جناب رشید اختر صاحب ندوی جیسے غیر احمدی اہل قلم کے جذبات عقیدت ملاحظہ ہوں.جناب اختر صاحب نے ” ذوالفقار علی بھٹو کی سوانح حیات کا پہلا حصہ ادارہ معارف ملتی اسلام آباد کے زیر اہتمام شائع کیا جو قریباً آٹھ سو صفحات پر محیط تھا.آپ نے کتاب کے دیباچہ صفحہ 7 پر تحریر فرمایا: ”میرے نزدیک ذوالفقار علی بھٹو نے جون 1969ء کے بعد اس ملت کے احیاء کے سلسلہ میں وہی خدمت انجام دی ہے جو جناب محمد بن قاسم، موسیٰ بن نصیر ، طارق بن زیاد، نورالدین زنگی، حضرت صلاح الدین ایوبی اور آخری ایام میں حضرت اور نگ
299 زیب عالمگیر اور حیدر علی نے سر انجام دی تھی.“ قائد عوام ریسرچ اکیڈمی کا قیام بھٹو صاحب کی قرارداد تکفیر کی بدولت ان کے لاہوری عقیدت مندوں نے ” قائد عوام ریسرچ اکیڈمی“ قائم کی جس کی غرض وغایت ایک جہازی سائز کے اشتہار کے ذریعہ پبلک کو ان الفاظ میں بتائی گئی.محسن قوم، فخر ایشیا، قائد عوام جناب ذوالفقار علی بھٹو بلاشبہ ایک مقدس تحریک کا نام ہے.زمانہ گواہ ہے کہ اس فرزند خلیل نے تباہیوں ، بربادیوں اور قومی مایوسیوں کو مردانہ وار قبول کر کے مثالی تدبر و فراست، انتہائی سرعت، تندہی اور جرات و شجاعت کے ساتھ کھنڈرات پر عالیشان عمارات تعمیر کر دکھائی ہیں.قائد عوام کی اعلیٰ وارفع سوچ اور فکر نے قوم کو فکر نو عطا کر دی ہے.چنانچہ قائد عوام کے مجاہدانہ سر فروشانہ اور حریت پرستانہ کارناموں اور ارشادات وافکار کو عظیم قومی سرمایہ سمجھ کر "تحریک فکر قائد عوام“ کا قیام عمل میں لایا جاکر قائد عوام کے کارناموں پر ریسرچ اکیڈمی قائم کی گئی ہے." اس کے بعد لکھا: ” پہلے مرحلہ میں درج ذیل موضوعات پر ریسرچ ورک کرنے والوں کو ہر موضوع پر علی الترتیب ایک ہزار روپے ، پانچصد روپے انعامات دیئے جائیں گے.ملک کے ذہین و متین افراد خصوصاً وزرا، قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین، صحافی، یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز، اساتذہ ، طلباوطالبات سنجیدہ فکر پارٹی کارکنان کو اس ریسرچ ورک میں حصہ لینے کی دعوت دی جاتی ہے.قائد عوام ریسرچ اکیڈمی دوسرے مرحلہ کا عنقریب اعلان کر دے گی.“ بعد ازاں جن ہیں موضوعات میں دعوت تحقیق دی گئی، ان میں سے چند یہ تھے.قائد عوام اور اتحاد بین المسلمین.ایشیائی اور اسلامی دنیا کے محبوب لیڈر قائد عوام کا عطا کر دہ آئین دیگر ممالک کے دساتیر کے مقابلے میں بہترین آئینی دستاویز ہے.قائد عوام بحیثیت عاشق رسول، محافظ ختم نبوت اور ان کی اسلامی خدمات.یہ اشتہار رانا اعجاز احمد خاں ایڈووکیٹ چیئر مین تحریک فکر قائد عوام صدر دفتر سلیمی چیمبرز
300 ایڈورڈ روڈ لاہور کی طرف سے دیا گیا اور اسکی طباعت رضا کارانہ طور پر نیازی پر نٹنگ پر لیں 12 ہسپتال روڈ لاہور نے کی.نعمت اللہ ولی کے نام پر جعلی اشعار بھٹو صاحب کے رسوائے عالم فیصلہ 7 ستمبر پر ہدیہ تبریک پیش کرنے کی ایک صورت یہ کی گئی کہ حضرت نعمت اللہ ولی کے نام پر شائع شدہ ایک قصیدہ میں مندرجہ ذیل جعلی اشعار کا اضافہ کر کے پورے ملک میں بذریعہ اشتہار ان کا خوب پر اپیگنڈہ کیا تا انہیں ایک موعود اور مذہبی شخصیت کی حیثیت دی جاسکے چنانچہ لکھا: - ”حضرت شاہ نعمت اللہ ولی نے اپنی منظوم پیشگوئیوں میں واضح طور پر ذوالفقار علی بھٹو کے بر سر اقتدار آنے کا بھی واضح اشارہ کر دیا تھا.انہوں نے پیشنگوئی کی تھی.با نام ذال مردے حق گوونیک نامے گیرد عناں شود زوکارے مجاہدانہ یعنی ذال سے شروع ہونے والے نام کا ایک شخص جو حق گو اور شہرت یافتہ ہو گا عنان حکومت ہاتھ میں لے گا اور اس کے ہاتھ سے کوئی مجاہد انہ کام انجام پائے گا.اس پیشگوئی سے پہلے دو شعر اور بھی ہیں: الزام کفر باشد برنیک خُو مسلماں از زاهدان به به خامه اقدام کافرانہ یعنی نیک خُو مسلمانوں پر زاہدوں کے قلم سے کفر کا الزام لگانے کا کافرانہ کام واقدام کیا جائے گا.مثل یہوداں فرقه در قلب کبر و نخوت طامع نمود دنیا انداز عالمانہ یعنی یہودیوں کی طرح ایک فرقہ ہو گا جس کے دلوں میں کبر و نخوت بھری ہو گی.یہ فرقہ شہرت اور دنیاوی جاہ کا لالچی ہو گا.بظاہر اس کا اند از عالمانہ ہو گا.عرب صحافت اور بھٹو کے مامور من اللہ ہونے کا پراپیگنڈہ جہاں تک عرب صحافت کا تعلق ہے.1973ء کے آئین کے منظر عام پر آتے ہی اس نے بھٹو کی شان میں قصیدہ خوانی شروع کر دی اور یہانتک غلو کیا کہ انہیں خدا کی طرف سے مبعوث قائد
301 قرار دینے لگے.چنانچہ عرب کے با اثر مقبول اور کثیر الاشاعت روزنامہ ”الاتحاد“ نے 11 دسمبر 1973ء کی اشاعت میں صفحہ 3 پر بھٹو صاحب کی بڑی تصویر کے ساتھ ان کا تعارف درج ذیل الفاظ سے جلی قلم سے کر ایا: " القادم الينا اليوم زعيم من الزعماء الذين يبعث الله بهم الى الامم عند ماتشتد المحن وتتكاثف ظلمات الياس ذو الفقار على بوتو واحد من هؤلاء الرجال العظام القلائل في تاريخ كل امة یعنی ذوالفقار علی بھٹو ان زعماء میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ امم کے مصائب اور مایوسی کے ظلمات میں مبعوث فرماتا ہے.بھٹو صاحب کا شمار ان عظیم شخصیات میں سے ہوتا ہے جو کسی امت کی تاریخ میں شاذ و نادر ہی ابھرتی ہیں.حواشی: 1 ”نوائے وقت “ کیم جولائی 1974ء صفحہ 6 کالم 3.2 لطائف علمیہ ترجمہ ”کتاب الا ذ کیا صفحہ 148 تالیف حضرت ابن جوزی ناشر دارالاشاعت مقابل مولوی مسافر خانہ کراچی نمبر 1 اشاعت اول مارچ 1974 بنام مولوی محمد رضی عثمانی.3 ” اور لائن کٹ گئی صفحہ 18 از مولانا کوثر نیازی ناشر جنگ پبلشر زلاہور.اشاعت خشم مارچ 1988ء.4 ” مساوات“ لاہور 8 ستمبر 1974ء صفحہ 10 کالم 1.5 روز نامہ ” نوائے وقت“ کیم اکتوبر 1974 (اداریہ).6 ہفت روزہ ” لیل و نہار “ لاہور 13-19 ستمبر 1974ء.بحوالہ ”بھٹو اور قادیانی مسئلہ “ صفحہ 118 مؤلف سید محمد سلطان شاه ناشر جنگ پبلشر ز اشاعت اول اگست 1993ء.7 اردو ترجمه دستور صفحه 162-157 زیر نگرانی جسٹس ارشاد حسن خاں ناشر کلاسک چوک ریگل دی مال لاہور.اشاعت اگست 1992ء.8 ايضاً 9 ہفت روزہ ”لولاک 24 اگست 1973ء صفحہ 7 کالم 1.10 " نفاذ شریعت اور اس کے مسائل " صفحہ 36-35 ناشر مکتبہ دارالعلوم کر اچھی جون 1990ء.
اٹھا ئیسویں فصل 302 بھٹو اور مفتی محمود سوشلزم کے سفیر 7 ستمبر 1974ء کا فیصلہ بھٹو اور مفتی محمود کی ساز باز سے ہوا جو عالمی سوشلزم کے پر جوش نمائندے اور سر سے لیکر پاؤں تک سوشلسٹ تھے.چنانچہ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی نئی پیپلز پارٹی کی تشکیل سے قبل بر ملا اعلان کر دیا تھا کہ میری پارٹی سوشلزم کے اصولوں کو اپنائے گی.1 جہاں تک مفتی محمود کی دیو بندی پارٹی ”جمعیتہ علمائے اسلام “ کا تعلق ہے ، صاحبزادہ فاروق علی صاحب سابق چیئر مین رہبر کمیٹی و سپیکر نیشنل اسمبلی کا بیان ہے کہ 1970ء2 الیکشن میں میرے مقابل جمعیۃ علماء اسلام کے مفتی عبد اللہ دستبردار ہو گئے کہ ” پیپلز پارٹی اور جمعیۃ علماء اسلام کے درمیان اچھے تعلقات تھے.“3 پھر کہتے ہیں :- یوں تو جمعیت اور پارٹی کے درمیان دوستانہ مراسم پہلے ہی موجود تھے جمعیت بھی سرمایہ داری کے خلاف تھی لیکن دونوں پارٹیوں کے در میان با قاعدہ اتحاد کا آغاز لاہور میں قرآن سوزی کے واقعہ کے بعد ہوا.جمعیت نے یہ موقف اختیار کیا کہ یہ حرکت سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کے ایجنٹوں کی ہے.اگر چہ ہمارے مابین چند مشترکہ قدریں موجود تھیں اور ہم ایک دوسرے کے قریب تھے مگر اس واقعہ کے بعد جمعیت نے جو سچا موقف اختیار کیا اس نے یہ ثابت کر دیا کہ اگر ہم کسی مذہبی تنظیم سے اتحاد کرنا چاہیں تو صرف جمعیۃ ہی ایسی تنظیم ہے جس سے اتحاد کیا جاسکتا ہے.مزید بر آس حالات نے ہمیں یہ بھی باور کر ادیا کہ اگر جمعیتہ سے اتحاد نہیں کریں گے تو سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کے ایجنٹ ہمیں کافر قرار دے کر اپنی سیاسی دکان چمکائیں گے....بھٹو نے کہا کہ ٹھیک ہے اگر کسی دینی جماعت سے اتحاد کرنا ہے تو جمعیۃ علمائے اسلام کو ترجیح دی جائے.کیونکہ اس جماعت کی جڑیں عوام میں ہیں اور یہ جماعت اپنے کردار اور روایات کے حوالے سے سرمایہ دارانہ نظام کے مخالف ہے....علاوہ ازیں یہ بات بھی پایہ ثبوت کو پہنچ چکی تھی کہ ہم لوگ جمعیت کے مذہبی نظریات سے قریب ہیں اور جمعیت ہمارے سیاسی نظریات سے قریب ہے.کیونکہ اس سے قبل 1968ء میں جب بعض مذہبی حلقوں نے ترقی پسندوں کے خلاف کفر کا
303 فتویٰ دیا تو جمعیت اس سیاسی فتوی بازی کے خلاف سینہ سپر ہو گئی.جمعیت کا موقف یہ تھا کہ اگر فتویٰ بازی کی اس مہم کو روکا نہ گیا تو ملک کی ایک بڑی اکثریت غیر مسلم قرار پائے گی.جمعیت نے نہ صرف ہم پر بلکہ اکثر اہل ملک پر ثابت کر دیا تھا کہ جمعیت علماء اسلام میں رجعت پسندانہ طرز فکر کی گنجائش نہیں.“ یہاں بھٹو دور حکومت کے وزیر اعلیٰ پنجاب جناب محمد حنیف رامے صاحب کے اشتراکی خیالات کا تذکرہ بھی ضروری ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں: ” بچے کھچے پاکستان میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار آگئی.ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم بن گئے.میں پنجاب کا وزیر اعلیٰ مقرر ہوا.میں تو ایک سوچ کے تحت سیاست میں شامل ہوا تھا.ابتد ا بھٹو مرحوم نئی جماعت نہیں بنانا چاہتے تھے.میں نے اور میرے جیسے کچھ لوگوں ہی نے انہیں اس پر آمادہ کیا تھا.میں پنجاب میں پہلا شخص تھا جس نے 1966ء میں ان سے اقتدار سے الگ کیے جانے کے بعد مل کر الاشتر اکسیۃ الاسلامیہ کے حوالے سے ایک نئی جماعت بنانے کے لئے کہا تھا.اس وقت مصر میں صدر ناصر کا انقلاب آچکا تھا اور اسلامی سوشلزم کے فلسفے کا عالم عرب میں بڑا چرچا تھا.یہی فلسفہ اقبال، قائد اعظم 5 اور لیاقت علی خان کے افکار میں بھی نمایاں تھا.پھر میرے ہفت روزہ نصرت نے نیشنل پریس ٹرسٹ کے چیئرمین مسٹر اے.کے سومار اور میرے در میان اسلامی سوشلزم کے موضوع پر ہونے والی ملک گیر بحث پر ایک خصوصی شمارہ بھی شائع کر رکھا تھا.اگر چہ پیپلز پارٹی نے ”اسلام ہمارا دین ہے“ اور سوشلزم ہماری معیشت ہے“ کے دوالگ الگ نعرے دیئے تھے لیکن میری سوچ اور عوامی دباؤ کے تحت یہ دونوں نعرے ”اسلامی سوشلزم “ کی ایک اصطلاح میں ڈھل گئے تھے.“6 اس ضمنی بات کی طرف اشارہ کر کے ہم دوبارہ پہلے موضوع کی طرف آتے ہیں کہ اشتراکی وحدت فکر کے علاوہ بھٹو صاحب اور جمعیتہ کے دیوبندی علماء کا عوامی خواہشات اور امنگوں کے مطابق فیصلہ کرانے کا دوسرا نام ہی سوشلزم ڈیما کریسی ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے.مشہور دیوبندی مفتی محمد شفیع صاحب کے بیٹے محمد تقی عثمانی صاحب ( سابق جسٹس شریعت بینچ سپریم کورٹ آف پاکستان ) تحریر کرتے ہیں: 6" ”اسلام “ اللہ تعالیٰ کے آگے جھک جانے کا نام ہے، اور اس کی ”شریعت“ کے واجب العمل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ کا حکم ہے اور ایک بندے کی حیثیت
304 سے ہمارا فرض ہے کہ اسے مان کر اس پر عمل کریں.خواہ عوام اس سے خوش ہوں یا ناراض ہوں.اتباع شریعت کا مقصد مخلوق کو نہیں، خالق کو راضی کرنا ہے.لہذا اس کے نفاذ کے پیچھے قوت حاکمہ عوام کی مرضی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے.”اسلام“ عوام کے پیچھے پیچھے چلنے اور ان کی خواہشات کی پیروی کے لئے نہیں بلکہ ان کی قیادت اور ہنمائی کرنے اور انہیں نفسانی خواہشات کی غلامی سے نکالنے کے لئے آیا ہے.قرآن کریم کا ارشاد ہے: وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَ هُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَوتُ وَالْأَرْضُ اگر حق ان لوگوں کی خواہشات کے تابع ہو جائے تو آسمان وزمین میں فساد پھیل جائے."اسلام" تو ایسے ماحول میں آیا تھا کہ اس کے ارد گرد عوام کی اکثریت شروع میں اسے ناپسند کرتی تھی، اگر عوام کی مرضی “ ہی فیصلہ کن ہوتی تو اسلام کو کبھی بھی نافذ ہونا نہیں چاہیے تھا.وہ تو ہمیشہ مخالفین کے نرغے میں پروان چڑھا ہے.اس نے لوگوں کے طعنے سہہ کر اور علامتیں سن کر اپنی راہ بنائی ہے اور عوام کی خواہشات کے پیچھے چلنے کے بجائے ان کی اصلاح کو اپنی منزل مقصود قرار دیا ہے.لہذا ”اسلام“ کو عوام کی مرضی “ اور ”جمہوریت“ کے تابع قرار دینا درحقیقت اسلام کے بنیادی تصور ہی سے متضاد ہے.پھر یہ بھی عجیب ستم ظریفی ہے کہ عموماً سب کے لئے قابل قبول ہونے کے اس ” نظریئے کی ساری زدبیچاری ”شریعت“ ہی پر پڑتی ہے.یہ خیال ہمارے ریت پسند حکام اور دانشوروں کو بہت کم آتا ہے کہ جو قوانین ہم پر چالیس سال سے مسلط چلے آرہے ہیں ، وہ کتنے افراد کیلئے ” قابل قبول ہیں ؟ وہ کون سے عوام ہیں جنہوں نے ان قوانین کوسند منظوری عطا کی ہے ؟ اور ”سب کے لئے قابل قبول “ کی یہ شرط ان قوانین پر کیوں لاگو نہیں ہوتی ؟.وہاں تو حال یہ ہے کہ ایک بدیسی اور غیر مسلم حاکم ہمارے سینوں پر بندوق رکھ کر یہ قوانین ہمارے سروں پر مسلط کر گیا اور ہم ہیں کہ انہیں چالیس سال سے اپنے اوپر نہ صرف لادے چلے آہے ہیں، بلکہ مسلمان عوام کی فریاد و فغاں کے باوجود اس بات پر مصر ہیں کہ یہ قوانین غیر محدود مدت تک عوام پر مسلط رہیں گے ، تا آنکہ ایسی ”شریعت“ وجود میں نہ آجائے
305 جو سب کے لئے قابل قبول ہو.یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ اگر اسلام کو ٹھیک ٹھیک نافذ کیا جائے گا تو اس کے نتیجے میں بہت سے لوگوں کے ذاتی مفادات کو نقصان پہنچے گا.کسی کی آمدنی کم ہو جائے گی، کسی کے خرچ میں اضافہ ہو گا ، کسی کی لیڈری جاتی رہے گی، کسی کے منصب پر حرف آئے گا.کسی کی بے مہار آزادی میں فرق پڑے گا.کسی کے عیش و تنعم میں کمی ہوگی اور ایسے افراد جو ملکی مسائل کو اسی قسم کے مفادات کے دائرے میں رہ کر سوچتے ہیں ، وہ یقینا ایسے احکام کے نفاذ کی مخالفت کریں گے یا کم از کم انہیں ناگوار سمجھیں گے جو ان کے ذاتی مفادات کے خلاف ہیں.اس کے علاوہ اسی ملک میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کی تعداد کم ہے لیکن اثر ورسوخ خاصا ہے، اور وہ نظریاتی طور پر اسلامی قانون کے بجائے لادینی طرز زندگی کو پسند کرتے ہیں اور نفاذ اسلام کے ہر اقدام کی کسی نہ کسی حیلے بہانے سے مخالفت کرتے رہتے ہیں.ظاہر ہے کہ ایسے اسلام کے ٹھیک ٹھیک نافذ ہونے سے کیسے خوش ہو سکتے ہیں ؟ لہذا سب خوش رہیں کی پالیسی کے ساتھ ” شریعت کا نفاذ عملا ممکن ہی نہیں ہے.اگر شریعت پر عمل کرنا ہے اور اللہ کے لئے کرنا ہے تو اس کے لئے کچھ حلقوں کی مخالفت مول لینی ہی پڑے گی.اگر ہم اس مخالفت کے لئے تیار نہیں ہیں تو نفاذ شریعت کے کام سے ہمیشہ کے لئے ہاتھ دھو لینے چاہئیں.“ حواشی: "1 7" ”ذوالفقار علی بھٹو “صفحہ 131 تالیف جناب ایم ایس نیاز.ناشر مقبول اکیڈمی چوک انار کلی بازار.لاہور.طبع اول 1976ء.2 انتخاب 1970ء میں موصوف پیپلز پارٹی ملتان کے چیئر مین تھے.4 5 3 " جنگ "جمعہ میگزین 3 ستمبر 1982، صفحہ 4 کالم 5-4.ايضا صفحہ 5 کالم 3-2 اقبال اور حنیف رامے کے تصور سوشلزم کو قائد اعظم کی طرف منسوب کرنا سراسر زیادتی اور خلاف حقیقت بات ہے جس پر قائد اعظم کی تحریرات وخطابات گواہ ہیں.6 ماہنامہ ”ترجمان القرآن اکتوبر 2003ء صفحہ 122.7 ” نفاذ شریعت اور اس کے مسائل“ صفحہ 184-182.مکتبہ دارالعلوم کراچی.اشاعت جون 1990ء.
306 انتیسویں فصل حضرت مسیح موعود اور آپ کے ہم عصر مغرب کے دہر یہ فلاسفر اسلام نے چودہ سو سال قبل جس خدا کا تصور پیش کیا ہے سورۃ فاتحہ میں اس کی پہلی صفت رب العالمین بتائی گئی جس کی تفسیر حضرت بانی احمدیت مسیح موعود نے درج ذیل الفاظ میں فرمائی ہے.” اس کی ربوبیت کسی خاص قوم تک محدود نہیں اور نہ کسی خاص زمانہ تک اور نہ کسی خاص ملک تک بلکہ وہ سب قوموں کا رب ہے اور تمام زمانوں کا رب ہے اور تمام مکانوں کا رب ہے اور تمام ملکوں کا وہی رب ہے.“ نیز فرمایا: رب العالمین کیسا جامع کلمہ ہے.اگر ثابت ہو کہ اجرام فلکی میں آبادیاں ہیں تب بھی وہ آبادیاں اس کلمہ کے نیچے آئیں گی.2 اسلامی نقطہ نگاہ سے خدا تعالیٰ رب العالمین بھی ہے اور مالک یوم الدین بھی جس کے لطیف 3" معنی حضرت مسیح موعود کے الفاظ میں یہ ہیں کہ :- ” وہ خدا ہر ایک کی جزا اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے.اس کا کوئی کار پر داز نہیں جس کو اس نے زمین و آسمان کی حکومت سونپ دی ہو اور آپ الگ ہو بیٹھا ہو اور آپ کچھ نہ کرتا ہو ، وہی کار پر داز سب کچھ جزا دیتا ہو یا آئندہ دینے والا ہو.“ غذا کا مسئلہ کوئی دوسو سال سے مختلف ممالک کے ماہرین معاشیات کے زیر بحث آرہا ہے.مگر قرآن مجید نے اپنا یہ فیصلہ صادر فرمایا ہے کہ خواہ کیسے ہی انقلابات آئیں اور انسانی آبادی کس قدر بڑھ جائے اللہ تعالیٰ اس زمین سے اس کی ضروریات کے دائمی سامان کر تا رہے گا.چنانچہ فرمایا: وَ جَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَ بَرَكَ فِيْهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا (لحم السجدة: 11) (ترجمہ) اس نے زمین پر پہاڑ بنائے ہیں اور اس میں بڑی برکت رکھی ہے اور اس میں رہنے والوں کے کھانے پینے کے لئے ہر چیز کو اندازہ کے مطابق بنادیا ہے.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں: ” اس آیت سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ ایک زمانہ میں زمین کو پوری غذا پیدا کرنے
307 کے قابل نہیں سمجھا جائے گا مگر اللہ تعالیٰ اس کا رد کرتا ہے اور فرماتا ہے ہم نے زمین میں ایسے سامان پیدا کر دیئے ہیں جن کی وجہ سے وہ حسب ضرورت غذا دے گی خواہ زمین سے نکال کر یا نئی غذا کے ایجاد ہونے یا آسمانی شعاعوں کی مدد سے “.4 اس طرح قرآن مجید نے قبل از وقت خبر دی کہ اِن مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَايِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ (الحجر:22) یعنی دنیا کی تمام چیزوں کے ہمارے پاس خزانے ہیں مگر بقدر ضرورت و مقتضائے مصلحت و حکمت ان کو نازل ( یعنی پیدا) کرتے ہیں.اس کے برعکس یورپ و امریکہ کے ہر مذہب یا دہر یہ فلاسفر اور معاشیات کے سکالرز عرصہ سے سر گرداں و پریشاں ہیں کہ انسانی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے ، ان کی غذا کا کیا سامان ہو گا ؟ چنانچہ التھس (Malthus) نے اپنی تحقیقات کی بنیاد ہی اسی مفروضہ پر رکھی.اس طرح سینٹ سائین پرودھن (Proudhon) اور فوریے (Fourier)، ایلفرڈمارشل ڈیون پورٹ سلیگ مین، ٹاسگ، واکر اور ویلبین کی علمی کاوشوں میں یہی روح کار فرما تھی.حضرت مسیح موعود کے ہم عصر ماہرین اقتصادیات میں کارل مارکس کو ایک نمایاں حیثیت حاصل ہوئی کیونکہ اس نے اپنی مشہور کتاب ”سرمایہ میں سوشلزم کا فلسفہ پیش کیا جس نے پوری دنیا میں دہریت کی بساط بچھا دی اور رب العالمین کے فطری نظام معیشت کو تہہ وبالا کرنے کی ناکام کوشش کی.یہ تاریخی توارد یقینا عالم الغیب خدا کی قدرت نمائی کا ایک کرشمہ ہے کہ اس دہر یہ فلاسفر (ولادت 5 مئی 1818ء.وفات 14 مارچ 1883ء) کے زہر کا تریاق چونکہ مہدی آخر الزماں اور آپ کی جماعت کے ذریعہ مقدر تھا اس لئے اس دہر یہ فلسفی اور ماہر معاشیات کی زندگی کے بعض اہم مراحل کے ساتھ ساتھ حضرت مسیح موعود کی زندگی کے احوال ووقائع بھی متوازی طور پر چلتے رہے ہیں مثلاً حضرت اقدس مسیح موعود کی ولادت 1835ء میں ہوئی اور کارل مارکس نے اسی سال ٹرائر (Trier) کے ہائی سکول سے میٹرک کیا.1872ء میں کارل مارکس کی کتاب ”سرمایہ کا روسی ترجمہ شائع ہوا.اسی سال حضرت اقدس نے ملکی اخبارات میں دینی مضامین کا سلسلہ جاری کر کے قلمی جہاد کا آغاز فرمایا.اس طرح کارل مارکس کی زندگی کا آخری سال مسلمہ طور پر 1882ء ہے جس کے بعد وہ بیمار
308 ہو کر راہی ملک عدم ہوا.ٹھیک اسی سال حضور کو ماہ مارچ میں پہلا الہام ماموریت ہوا جس میں آپ کو الہاماً بتایا گیا کہ باطل مذاہب اور فلسفوں پر دین اسلام کا عالمی غلبہ آپ کے ظہور سے مقدر ہے.حضرت اقدس نے 1882ء میں ہی یہ الہام براہین احمدیہ حصہ دوم میں شائع کرتے ہوئے ایک نہایت بصیرت افروز نوٹ بھی شائع فرمایا جس میں قرآنی فلسفہ معاشیات پر بھی روشنی ڈالی اور انیسویں صدی کے مغربی فلاسفروں اور مفکروں کی نام نہاد تحقیقات کی دھجیاں بکھیر دیں چنانچہ حضور نے آیت:- أَهُمُ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيْشَتَهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا - (الزخرف: 33) کی تفسیر کرتے ہوئے تحریر فرمایا: یعنی کفار کہتے ہیں کہ یہ قرآن مکہ اور طائف کے بڑے بڑے مالداروں اور رئیسوں میں سے کسی بھاری رئیس اور دولت مند پر کیوں نازل نہ ہوا.تا اس کی رئیسانہ شان کے شایان ہو تا اور نیز اس کے رعب اور سیاست اور مال خرچ کرنے سے جلد تر دین پھیل جاتا.ایک غریب آدمی جس کے پاس دنیا کی جائداد میں سے کچھ بھی نہیں کیوں اس عہدے سے ممتاز کیا گیا (پھر آگے بطور جواب فرمایا) أَهمُ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ- کیا قَنامِ ازل کی رحمتوں کو تقسیم کرنا ان کا اختیار ہے.یعنی یہ خداوند حکیم مطلق کا فعل ہے کہ بعضوں کی استعدادیں اور ہمتیں پست رکھیں اور وہ زخارف دنیا میں پھنسے رہے.اور رئیس اور امیر اور دولتمند کہلانے پر پھولتے رہے اور اصل مقصود کو بھول گئے اور بعض کو فضائل روحانیت اور کمالات قدسیہ عنایت فرمائے اور وہ اس محبوب حقیقی کی محبت میں محو ہو کر مقرب بن گئے اور مقبولان حضرت احدیت ہو گئے.(پھر بعد اس کے اس حکمت کی طرف اشارہ فرمایا کہ جو اس اختلاف استعدادات اور تباین خیالات میں مخفی ہے) نحن قسمنا بينهم معیشتھم.یعنی ہم نے اس لئے بعض کو دولتمند اور بعض کو درویش اور بعض کو لطیف طبع اور بعض کو کثیف طبع اور بعض طبیعتوں کو کسی پیشہ کی طرف مائل اور بعض کو کسی پیشہ کی طرف مائل رکھا ہے.تا ان کو یہ آسانی پیدا ہو جائے کہ بعض کے لئے بعض کا ربر آر اور خادم ہوں اور صرف ایک پر بھار نہ پڑے اور اس طور پر مہمات بنی آدم
309 بآسانی تمام چلتے رہیں.اور پھر فرمایا کہ اس سلسلہ میں دنیا کے مال و متاع کی نسبت خدا کی کتاب کا وجود زیادہ تر نفع رساں ہے.یہ ایک لطیف اشارہ ہے جو ضرورت الہام کی طرف فرمایا.تفصیل اس کی یہ ہے کہ انسان مدنی الطبع ہے اور بجز ایک دوسرے کی مدد کے کوئی امر اس کا انجام پذیر نہیں ہو سکتا.مثلاً ایک روٹی کو دیکھئے جس پر زندگانی کا مدار ہے.اس کے طیار ہونے میں کس قدر تمدن و تعاون درکار ہے.زراعت کے تر ڈد سے لے کر اس وقت تک کہ روٹی پک کر کھانے کے لائق ہو جائے، بیسیوں پیشہ وروں کی اعانت کی ضرورت ہے.پس اس سے ظاہر ہے کہ عام امور معاشرت میں کس قدر تعاون اور باہمی مدد کی ضرورت ہو گی.اسی ضرورت کے انصرام کے لئے حکیم مطلق نے بنی آدم کو مختلف طبیعتوں اور استعدادوں پر پیدا کیا.تاہر ایک شخص اپنی استعداد اور میل طبع کے موافق کسی کام میں یہ طیب خاطر مصروف ہو.کوئی کھیتی کرے.کوئی آلات زراعت بناوے.کوئی آٹا پیسے.کوئی پانی لاوے.کوئی روٹی پکاوے.کوئی سوت کاتے.کوئی کپڑا بنے.کوئی دوکان کھولے.کوئی تجارت کا اسباب لاوے.کوئی نوکری کرے اور اس طرح پر ایک دوسرے کے معاون بن جائیں اور بعض کو بعض مدد پہنچاتے رہیں.پس جب ایک دوسرے کی معاونت ضروری ہوئی تو ان کا ایک دوسرے سے معاملہ پڑنا بھی ضروری ہو گیا.اور جب معاملہ اور معاوضہ میں پڑ گئے اور اس پر غفلت بھی جو استغراق امور دنیا کا خاصہ ہے ، عائد حال ہو گئی تو ان کے لئے ایک ایسے قانون عدل کی ضرورت پڑی جو ان کو ظلم اور تعدی اور بغض اور فساد اور غفلت من اللہ سے روکتار ہے.تا نظام عالم میں ابتری واقعہ نہ ہو کیونکہ معاش و معاد کا تمام مدار انصاف و خداشناسی پر ہے اور التزام انصاف وخدا ترسی ایک قانون پر موقوف ہے.جس میں دقائق معدلت و حقائق معرفت الہی بدرستی تمام درج ہوں اور سہو یا عمداً کسی نوع کا ظلم یا کسی نوع کی غلطی نہ پائی جاوے.اور ایسا قانون اسی کی طرف سے صادر ہو سکتا ہے جس کی ذات سہو و خطا و ظلم و تعدی سے بکلی پاک ہو.اور نیز اپنی ذات میں واجب الانقیاد اور واجب التعظیم بھی ہو.کیونکہ گو کوئی قانون عمدہ ہو مگر قانون کا جاری کرنے والا اگر ایسانہ ہو جس کو باعتبار مر تبہ اپنے کے سب پر فوقیت اور حکمرانی کا حق ہو.یا اگر ایسا نہ ہو جس کا وجو دلوگوں کی نظر میں ہر
310 ایک طور کے ظلم وخبث اور خطا اور غلطی سے پاک ہو تو ایسا قانون اول تو چل ہی نہیں سکتا.اور اگر کچھ دن چلے بھی تو چند ہی روز میں طرح طرح کے مفاسد پیدا ہو جاتے ہیں اور بجائے خیر کے شر کا موجب ہو جاتا ہے.ان تمام وجوہ سے کتاب الہی کی حاجت ہوئی.کیونکہ ساری نیک صفتیں اور ہر یک طور کی کمالیت و خوبی صرف خدا ہی کی کتاب میں پائی جاتی ہے وبس.“ ازاں بعد آپ نے ایک سوال کا جواب درج ذیل الفاظ میں سپر د قلم فرمایا: ” وسوسه ششم : معرفت کامل کا ذریعہ وہ چیز ہو سکتی ہے جو ہر وقت اور ہر زمانہ میں کھلے طور پر نظر آتی ہو.سو یہ صحیفہ نیچر کی خاصیت ہے جو کبھی بند نہیں ہوتا اور ہمیشہ کھلا رہتا ہے اور یہی رہبر ہونے کے لائق ہے.کیونکہ ایسی چیز کبھی رہنما نہیں ہو سکتی جس کا دروازہ اکثر اوقات بند رہتا ہو اور کسی خاص زمانہ میں کھلتا ہو.جواب : صحیفہ فطرت کو بمقابلہ کلام الہی کھلا ہو ا خیال کرنا یہی آنکھوں کے بند ہونے کی نشانی ہے.جن کی بصیرت اور بصارت میں کچھ خلل نہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ اسی کتاب کو کھلے ہوئے کہا جاتا ہے جس کی تحریر صاف نظر آتی ہو جس کے پڑھنے میں کوئی اشتباہ باقی نہ رہتا ہو.پر کون ثابت کر سکتا ہے کہ مجرد صحیفہ قدرت پر نظر کرنے سے کبھی کسی کا اشتہاہ دور ہو ؟ کس کو معلوم ہے کہ اس نیچیری تحریر نے کبھی کسی کو منزل مقصود تک پہنچایا ہے ؟ کون دعوی کر سکتا ہے کہ میں نے صحیفہ قدرت کے تمام دلالات کو بخوبی سمجھ لیا ہے ؟ اگر یہ صحیفہ کھلا ہو اہو تا تو جو لوگ اسی پر بھروسہ کرتے تھے، وہ کیوں ہزار ہا غلطیوں میں ڈوبتے.کیوں اسی ایک صحیفہ کو پڑھ کر باہم اس قدر مختلف الرائے ہو جاتے کہ کوئی خدا کے وجود کا کسی قدر قائل اور کوئی سرے سے انکاری.ہم نے بفرض محال یہ بھی تسلیم کیا کہ جس نے اس صحیفہ کو پڑھ کر خدا کے وجود کو ضروری نہیں سمجھا، وہ اس قدر عمر پالے گا کہ کبھی نہ کبھی اپنی غلطی پر متنبہ ہو جائے گا.مگر سوال تو یہ ہے کہ اگر یہ صحیفہ کھلا ہوا تھا تو اس کو دیکھ کر ایسی بڑی بڑی غلطیاں کیوں پڑ گئیں.کیا آپ کے نزدیک کھلی ہوئی کتاب اسی کو کہتے ہیں جس کو پڑھنے والے خدا کے وجود میں ہی اختلاف کریں اور بسم اللہ ہی غلط ہو.کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اسی صحیفہ فطرت کو پڑھ کر ہزار ہا حکیم اور فلاسفر دہریے اور طبعی ہو کر
311 مرے.یا بتوں کے آگے ہاتھ جوڑتے رہے اور وہی شخص ان میں سے راہ راست پر آیا جو الہام الہی پر ایمان لایا.کیا اس میں کچھ جھوٹ بھی ہے کہ فقط اس صحیفہ کے پڑھنے والے بڑے بڑے فیلسوف کہلا کر پھر خدا کے مدبر وخالق بالا رادہ اور عالم بالجزئیات ہونے سے منکر رہے اور انکار ہی کی حالت میں مر گئے.کیا خدا نے تم کو اس قدر بھی سمجھ نہیں دی کہ جس خط کے مضمون کو مثلاً زید کچھ سمجھے اور بکر کچھ خیال کرے اور خالد ان دونوں کے بر خلاف کچھ اور تصور کر بیٹھے.تو اس خط کی تحریر کھلی ہوئی اور صاف نہیں کہلاتی بلکہ مشکوک اور مشتبہ اور مبہم کہلاتی ہے.یہ کوئی ایسی دقیق بات نہیں جس کے سمجھنے کے لئے باریک عقل در کار ہو بلکہ نہایت بد یہی صداقت ہے.مگر ان کا کیا علاج جو سراسر تحکم کی راہ سے ظلمت کو نور اور نور کو ظلمت قرار دیں.اور دن کو رات اور رات کو دن ٹھہر اویں.ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ مطالب دلی کو پورا پورا بیان کرنے کے لئے یہی سیدھا راستہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہے کہ بذریعہ قول واضح کے اپنا مافی الضمیر ظاہر کیا جائے.کیونکہ دلی ارادوں کو ظاہر کرنے کے لئے صرف قوت نطقیہ آلہ ہے.اسی آلہ کے ذریعہ سے ایک انسان دوسرے انسان کے مافی القلب سے مطلع ہوتا ہے.اور ہر ایک امر جو اس آلہ کے ذریعہ سے سمجھایا نہ جائے، وہ تفہیم کامل کے درجہ سے متنزل رہتا ہے.ہزارہا امور ایسے ہیں کہ اگر ہم ان میں فطرتی دلالت سے مطلب نکالنا چاہیں تو یہ امر ہمارے لئے غیر ممکن ہو جاتا ہے اور اگر فکر بھی کریں تو غلطی میں پڑ جاتے ہیں.“ حضرت مسیح موعود نے 1882ء میں اپنی حیرت انگیز ایمانی بصیرت سے کارل مارکس و غیرہ دہر یہ مغربی فلاسفروں کے معاشی نظریات کی نسبت جو کچھ تحریر فرمایا، بالشویکی روس کے عبرت ناک انجام سے حرف بحرف درست نکلا اور دنیا پر خوب کھل گیا کہ کلام اللہ کے بغیر جو فلسفہ بھی اختراع کیا جاتا ہے وہ ناکام ونامر اور ہتا ہے.مشہور جرمن نو مسلم محمد اسد نے اپنی کتاب The Road To Macca میں اپنے سفر روس (1926ء) کا تذکرہ کیا ہے اور صفحہ 299 پر اپنے مشاہدات و تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ” سوویٹ روس کے بارے میں میر اسب سے پہلا اور دیر پا تاثر وہ ہے جو مرد کے ریلوے سٹیشن پر میرے ذہن میں رقم ہوا.یہ ایک بہت بڑا پوسٹر تھا جس میں 5"
312 مزدوروں کے یونیفارم میں ملبوس ایک نوجوان کی تصویر تھی.یہ نوجوان ایک سفید ریش اور عباقبامیں ملبوس شخص کو ( جسے ابر آلود آسمان سے نکلتے دکھایا گیا تھا) ٹھوکریں مار رہا تھا.اس تصویر کے نیچے لکھا ہوا تھا.سوویت یونین کے مزدوروں نے اسی طرح خدا کو اس کی بلندی سے اتار پھینکا ہے.یہ اشتہار سوویت یونین کی اشتراکی جمہور تیوں کی بدمذہب اور بد قماش انجمن کی طرف سے آویزاں کیا گیا تھا.“6 یہ وہ حکومت تھی جو اکتوبر 1917ء کے سرخ انقلاب سے کارل مارکس کے نظریات کی بنیادوں پر استوار کی گئی اور سٹالین دور میں بام عروج تک پہنچی اور بالآخر 15 مارچ 1990ء کو اپنے منطقی انجام تک پہنچی جبکہ سویت یونین میں کمیونسٹ پارٹی کا خاتمہ ہو گیا اور تاجکستان، ترکمانستان ، قازقستان، ازبکستان، کرغستان، آذربائیجان، بیلا روس، یوکرائن، مالد ورا، جارجیا، اسٹونیا، لیتھونیا، اور لٹویا نے آزادی کا اعلان کر دیا.13 اکتوبر 1990ء کو برلن کی دیوار گرا دی گئی اور مشرقی اور مغربی جرمنی کے یکجا ہونے سے روس کے آہنی پر دے پاش پاش ہو گئے اور 1991ء میں روس میں شامل تمام جمہوری ریاستوں نے علیحدگی اختیار کرلی.روس کی بالشویک حکومت نے پون صدی تک جس طرح معاشی مساوات کے نام پر معصوم مزدوروں بلکہ پوری انسانیت کا قتل عام کیا، اس کے سامنے چنگیز خاں اور ہلاکو خاں کے مظالم بھی مات ہو گئے جس کا کسی قدر اندازه مارکس، اینجلز ، لین اور ٹراٹسکی کے انقلابی خیالات کے پیامبر کامریڈ ٹیڈ گرانٹ (Ted Grant) کی درج ذیل کتاب سے بخوبی لگ سکتا ہے :- "Russia from Revolution to Counter Revolution" 7" ذیل میں اس کتاب کے ترجمہ ”روس انقلاب سے رڈ انقلاب تک 7 سے نمونته چند اقتباسات سپر د قرطاس کئے جاتے ہیں.سٹالن کی طاقت کا دارو مدار اس کی ذہنی صلاحیتوں پر نہیں بلکہ اس حقیقت پر تھا کہ وہ ان لاکھوں سرکاری اہلکاروں کے دباؤ اور مفادات کی عکاسی کرتا تھا جو طاقت کے حصول کے لئے پاگل ہو رہے تھے....یہ عمل بالآخر پرانے بالشویکوں کے قتل عام پر منتج ہو ا جو انقلاب اور لینن کی پارٹی کو تباہ ہوتے نہیں دیکھ سکتے تھے.اس طرح سٹالن نے بالشویک پارٹی کے خلاف جلاد کا کردار ادا کیا.“ (صفحہ 166) اس مجنونانہ اشتراکیت کے لئے اقدامات کا ایک جزویہ تھا کہ ”کلاکوں کو بحیثیت طبقے کے ختم کر دیا جائے.این ایو ٹسکی کے مطابق تین لاکھ کلاک خاندانوں
313 کو جلا وطن کیا گیا....یہ سب سٹالنسٹ نظام حکومت کی نوکر شاہانہ حکمرانی کا خوفناک نتیجہ تھا.“ (صفحہ 187) سٹالن کے اقدامات ساری بیورو کریسی کے لئے خطرہ بن رہے تھے.صرف یہی بات نہیں کہ وہ بالائی پرت کو قتل کرنے کے درپے تھا.سوویٹ یونین نے ابھی بمشکل جنگ کی تباہ کاریوں سے بحال ہونا شروع کیا تھا.اسے ایک اور تطہیر کے انتشار اور پاگل پن کی نذر کرنے کے انتہائی تباہ کن اثرات مرتب ہوئے تاہم 5 مارچ 1953ء کو اچانک سٹالن کا انتقال ہو گیا.“ (صفحہ 396) کامریڈ ٹیڈ گرانٹ نے اپنی کتاب میں سٹالین کے بعد بر سر اقتدار آنے والے ظالم اور سفاک حکمرانوں کے ” فرعونی کارناموں پر بھی روشنی ڈالی ہے چنانچہ خروشچیف حکومت کی نسبت لکھا ہے: اس جابرانہ نظام نے نوجوانوں پر شدید اثرات مرتب کئے جنہوں نے نام نہاد کمیونسٹ پارٹی کی آمرانہ حکمرانی کے خلاف کھلی تشکیک اور بد گمانی کا اظہار کرناشروع کر دیا.سوویٹ ویکلی نے آٹھ نومبر 1990ء کو ایک جائزہ شائع کیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سوویت یونین کے صرف 14 فیصد نوجوان سی پی ایس یو پر ایمان رکھتے ہیں.سکولوں میں ان پر مارکسزم لینن ازم کی جو مضحکہ خیز شکل مسلط کی جاتی تھی، وہ اس کے خلاف رد عمل کا اظہار کرتے تھے.اسی جائزے میں یہ شرمناک دعوی بھی کیا گیا کہ ان کی صرف 15-20 فیصد تعداد سوشلزم پر یقین رکھتی ہے....ان کا پالا صرف اس کی بے جان اور دماغ کو سن کر دینے والی مضحکہ خیز نقل سے ہی پڑا تھا.ان کے علم میں آنے والا واحد ”سوشلزم ایک آمرانہ عفریت تھا.“(صفحہ 454) بالشویکی روس کے سب دعاوی جس طرح ریت کے گھروندے ثابت ہوئے اور اس کی ٹوٹ پھوٹ نے عالمی سطح پر جو تباہی مچادی ہے، اس کا نقشہ کامریڈ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے.تجربے نے ثابت کیا ہے کہ سوویت یونین کی ٹوٹ پھوٹ تمام قومیتوں کے لئے تباہی کا پیغام لائی ہے.“ (صفحہ 517) ”سارے جہان کی خرابیاں روس کے حصے میں آئیں یعنی نوکر شاہانہ گھپلے اور بد انتظامی اور ایک بد عنوان اور غنڈہ گردی پر مبنی سرمایہ داری کی تمام تر خامیاں.“ (صفحہ 553) کئی دہائیوں کی آمرانہ حکمرانی کے بعد سٹالن ازم کی طرف واپسی کے سلسلے میں دو
314 کوئی جوش و خروش نہیں پایا جاتا تھا.عوام انتشار، بدعنوانی اور بدمعاشی، روسی بورژوازی کے عمومی گھٹیا پن سے جس کی ریاستی اداروں کی لوٹ کھسوٹ کو فنانشل ٹائمز نے بھی اس صدی کی سب سے بڑی چوری قرار دیا تھا.“ (صفحہ 597) کامریڈ ٹیڈ گرانٹ نے مستقبل کی نسبت یہ رائے دی ہے کہ : روس کی قسمت ایک ڈوری سے لٹک رہی ہے جو بالآخر ٹوٹ جائے گی.میلسن اور چبائس بے رحمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مزدوروں کی اجرتیں ادا کرنے سے انکار کر کے بجٹ کو متوازن بنانے کا ڈرامہ رچا رہے ہیں.سماجی تصادم کے لئے یہ ایک آزمودہ فارمولا ہے ایک مخصوص مرحلے پر مایوسی اور بے دلی شدید غصے میں تبدیل ہو جائے گی.“ ( صفحہ 726) الغرض کارل مارکس، لینن اور ٹراٹسکی کے پرستار پون صدی بعد جس نتیجہ پر پہنچے ہیں خدا کے مسیح نے 1882ء میں اس کی نشان دہی کر دی تھی اور قبل از وقت انتباہ فرما دیا تھا کہ ” خدائی قانون کے مقابل جو نظام بھی قائم ہوتا ہے اگر کچھ دن چلے بھی تو چند ہی روز میں طرح طرح کے مفاسد پیدا ہو جاتے ہیں اور بجائے خیر کے شر کا موجب ہو جاتا ہے.خلفائے احمدیت اور سوشلزم سید نا حضرت مصلح موعود خلیفتہ المسیح الثانی کے زمانہ خلافت میں زار روس سے متعلق خدا کا قہری نشان رو نما ہوا.سرخ روسی انقلاب آیا اور پنڈت نہرو کی سکیم کے مطابق مجلس احرار اسلام نے جماعت احمدیہ کی مخالفت کا بیڑہ اٹھایا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے سوشلزم کی نسبت 1942ء اور 1945ء میں سوشلزم اور اشتراکیت جیسی ملحد تحریکوں پر فاضلانہ لیکچر دیئے جو نظام نو اور اسلام کا اقتصادی نظام کے نام سے قیام پاکستان سے قبل چھپ گئے اور کئی زبانوں میں ترجمہ ہو کر خراج تحسین حاصل کر چکے ہیں خصوصاً ہسپانوی ترجمہ نے وہاں کے اونچے طبقوں پر گہرے اثرات ڈالے ہیں.حضرت مصلح موعود ایشیا میں ہی نہیں دنیا بھر کے واحد مذہبی پیشوا ہیں جنہوں نے خدا سے علم پاکر سوشلزم اور کمیونزم کے عبرتناک زوال کی اس وقت خبر دی جب یہ تحریکیں عالمی رفعتوں کی آخری حدوں کو چھورہی تھیں.چنانچہ فرمایا: 1:- ” کمیونزم انسان کو انسان نہیں بلکہ ایک مشین سمجھتا ہے.....مگر یہ مشینری
315 زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی.وقت آئے گا کہ انسان اس مشینری کو توڑ پھوڑ کے رکھ دے گا اور اس نظام کو اپنے لئے قائم کرے گا جس میں عائلی جذبات کو اپنی پوری 8" شان کے ساتھ بر قرار رکھا جائے گا.“8 2:.” اس وقت بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ روس اقتصادی طور پر کامیاب ہو رہا ہے لیکن جب اس کی صنعت بڑھے گی، اس وقت اس کا بھانڈا پھوٹ جائے گا اور اقتصادی طور پر وہ بالکل گر جائے گا“.و 3: - حال ہی میں اسٹیفن کنگ حال ممبر پارلیمنٹ انگلستان روس میں دورہ کر کے آئے ہیں انہوں نے اس دورہ کا مفصل ذکر ایک مضمون میں کیا ہے جو Soviet Union کے پرچہ میں شائع ہوا ہے.اس میں وہ لکھتے ہیں: روسی گورنمنٹ نہیں چاہتی کہ روس کی قوم آزادی سے اور بغیر کسی روک کے ہمارے خیالات سے یا کسی اور خیال سے جو روسی نہ ہو واقف ہو سکے.“ یہ بتانے کے بعد حضرت مصلح موعود نے پیشگوئی فرمائی: ٹوٹے گی“ آخر یہ کولڈ سٹورج میں رکھنے کا معاملہ کب تک چلے گا؟ ایک دن یہ دیوار اور یہ بتانے کے بعد حضرت مصلح موعود نے پیشگوئی فرمائی.10" ”دنیا ایک زبر دست تغیر دیکھے گی.حضرت مصلح موعود نے کمیونزم کی مذہب دشمنی کا پردہ چاک کرتے ہوئے واضح فرمایا کہ اس نظام میں وہ شخص جس کے پیروں کی میل کے برابر بھی ہم دنیا کے بڑے سے بڑے بادشاہ کو نہیں سمجھتے ، جس کے لئے ہم میں سے ہر شخص اپنی جان کو قربان کرنا اپنی انتہائی خوش بختی اور سعادت سمجھتا ہے یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم....اسی طرح مسیح، موسیٰ، ابراہیم....سب کے سب نکے اور قوم پر بار تھے اور ایسے آدمیوں کو ان کے قانون کے ماتحت یا تو فیکٹریوں میں کام کرنے کے لئے بھجوا دینا چاہئے تاکہ ان سے جوتے بنوائے جائیں....اور اگر یہ لوگ اس قسم کے کام کرنے کے لئے تیار نہ ہوں تو پھر ان کا کھانا پینا بند کیا جانا چاہئے.ان کے نزدیک یہ لوگ نکے اور قوم پر بار ہیں.کمیونزم کے اس ظالمانہ اور ناپاک نظریہ کو پیش کرنے کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے صدائے ربانی بن کر نہایت درجہ شوکت اور جلال سے فرمایا:
316 ”میں دوسری دنیا کو نہیں جانتا مگر میں اپنے متعلق یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ نظام جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ نہیں خدا کی قسم، اس میں میری بھی جگہ نہیں.“11 یہی نہیں حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے اپنے عہد خلافت سے بھی ہیں سال قبل جلسہ سالانہ قادیان 1945ء کے سٹیج سے جو پہلی تقریر فرمائی اُس کا عنوان ہی یہ تھا " اشتراکیت کے اقتصادی اصول کا اسلامی اقتصادی اصول سے موازنہ “.ازاں بعد جب خدا تعالیٰ نے آپ کو منصب خلافت پر متمكن فرمایا تو آپ نے اسلام کے اقتصادی نظام کے اصول اور فلسفہ پر بصیرت افروز خطبات ارشاد فرمائے نیز پاکستان کے عوام اور سیاسی پارٹیوں کی راہ نمائی کے لئے ” اسلام غریبوں اور یتیموں کا محافظ “ کے نام سے حضرت مصلح موعود کی تفسیر کبیر کے اہم اقتباسات کا دلکش مجموعہ شائع کرایا جو سید میر محمود احمد صاحب ناصر (سابق پرنسپل جامعہ احمدیہ) نے حضور کی ہدایت پر مرتب کیا اور نظارت اشاعت لٹریچر و تصنیف صدر انجمن احمد یہ پاکستان نے شائع کیا.اس کا پہلا ایڈیشن دو ہزار کی تعداد میں چھپا.12 حواشی 1 ”پیغام صلح صفحہ 6 طبع اول جون 1908.2 «کشتی نوح “صفحہ 38 حاشیہ طبع اول.3 ” اسلامی اصول کی فلاسفی “صفحہ 57.4 «تفسیر صغیر.“ 5 ” براہین احمدیہ “ جلد دوم صفحہ 188 تا 191 حاشیہ در حاشیہ 11 طبع اول.6 روس میں مسلمان قو میں صفحہ 228.7 مترجم ابو فر از ناشر جد وجہد پبلیکیشنز لکشمی چوک لاہور دسمبر 1999ء.8 " اسلام کا اقتصادی نظام صفحہ 85 لیکچر 26 فروری 1945 اشاعت اگست 1945 ناشر دفتر تحریک جدید.9 10 ايضا صفحہ 87 ايضا صفحہ 100.11 ایضا صفحہ 70.12 اس مجموعہ کا دیباچہ ناشر کی طرف سے حضرت خلیفہ السیح الثالث" کے ارشاد کی تعمیل میں راقم الحروف ( دوست محمد شاہد ) نے لکھا.
317 تیسویں فصل احمدیوں نے الیکشن 1970 ء میں اکثر ووٹ پیپلز پارٹی کو کیوں دیئے اب آخر میں طبعاً یہ سوال اٹھتا ہے کہ جماعت احمدیہ نے ملکی انتخاب دسمبر 1970ء میں اپنے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے خصوصی ارشاد پر اکثر ووٹ پیپلز پارٹی کو کیوں دیئے؟ دوسری مذہبی سیاسی پارٹیوں کو مسترد اور نظر انداز کرنے کا جواز کیا تھا.بلاشبہ یہ نہایت اہم سوال ہے جس پر تین زاویہ نگاہ سے غور کیا جانا ضروری ہے.اول: جنرل یحییٰ خاں نے انتخاب سے قبل دو ایسے اقدامات کئے جن سے مشرقی پاکستان کو پورے ملک پر سیاسی برتری حاصل ہو گئی.ایک تو یہ کہ انہوں نے مغربی پاکستان کے ون یونٹ کو ختم کر دیا جس کے ٹوٹنے سے مغربی پاکستان کے سابق صوبے پنجاب، سندھ ، سرحد اور بلوچستان بحال ہو گئے.دوسرے انہوں نے مشرقی پاکستان کے لیڈروں کا یہ مطالبہ منظور کر لیا کہ پاکستان کے دونوں حصوں میں نمائندگی برابر نہیں بلکہ آبادی کی بنیاد پر ہو.چنانچہ انہوں نے 27 مارچ 1970ء کے آئین کے ڈھانچے (Legal Frame) میں تسلیم کیا کہ آئندہ انتخابات بالغ رائے دہی کی بنیاد اور ”ایک آدمی ایک ووٹ کے اصول پر ہوں گے.مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ کے لیڈر شیخ مجیب الرحمن صاحب کے چھ نکات اور بیٹی حکومت کے لیگل فریم کے پیش نظر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی دور بین نگاہ نے بھانپ لیا کہ اگر کسی ایسی پارٹی کو کامیاب نہ کرایا گیا جس کے جڑیں چاروں صوبوں میں مضبوط ہوں ، پاکستان کا وجو د شدید خطرہ میں پڑ جائے گا.اور چونکہ عوامی لیگ کو مغربی پاکستان سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ از حد بغض ہے اس لئے ممکن ہے وہ بنگال کی آزادی کا اعلان کر کے صوبوں کو بھی خود مختاری دے دیں اور ہر صوبہ ہمسایہ ملک میں سے کسی کے ساتھ الحاق کرلے جو یقینا پاکستان کی مکمل تباہی پر منتج ہو گا.چنانچہ آپ کی مدبرانہ فراست و سیاست نے چاروں صوبوں میں ابھرنے والی نئی پارٹی کو ووٹ دلائے جس کا نتیجہ یہ بر آمد ہوا کہ جب 16 دسمبر 1970ء کو ملک کا مشرقی بازو عوامی لیگ اور اس کے حامی احرار لیڈروں کی ملی بھگت اور سازش سے کٹ گیا اور افواج پاکستان کے ترانوے ہزار سپاہی ہندوستان کے قبضہ میں چلے گئے تو پیپلز پارٹی کی بدولت مغربی پاکستان کے چاروں صوبے دوبارہ ایک مرکز تلے جمع ہو گئے اور کچھ عرصہ بعد پاکستانی فوج کے سپاہی آزاد ہو کر اپنے پیارے وطن میں آبرومندانہ طور پر پہنچ گئے.اس طرح قافلہ پاکستان پھر سے رواں دواں ہو گیا.بصورت دیگر خدا نخواستہ
318 اس خطہ میں پاکستان کا نام و نشان ہمیشہ کے لئے مٹ جاتا اور مسلم سپین کی طرح صرف قصہ پارینہ بن کے رہ جاتا.اس سنگین اور لرزہ خیز صورت حال ہی کا کسی قدر اندازہ لگانے کے لئے پیپلز پارٹی کے ترجمان ”مساوات“ کے ایڈیٹر اور پارٹی کے نامور مبصر جناب عباس علی شاہ (عباس اطہر) کے تازہ اور حقیقت افروز انٹرویو کے درج ذیل حصہ کا مطالعہ کرنا از بس ضروری ہے جو انہوں نے رسالہ ”قومی ڈائجسٹ“ کے خصوصی نمائندہ کو دیا اور اس رسالہ نے خاص اہتمام سے جولائی 2008ء کے شمارہ میں زیب اشاعت کر دیا ہے.متعلقہ حصہ درج کیا جاتا ہے.” سوال: بھٹو صاحب سیاستدان تھے کہ شعبدہ باز تھے ؟ جواب: پتہ نہیں سیاستدان کیا ہوتا ہے اور شعبدہ باز کیا ہوتا ہے؟ لیکن وہ ایک درد مند دل رکھنے والا انسان تھا.وہ ایک آدمی تھا جس نے غریب آدمی کو عزت نفس کا احساس دلایا.اس کے دور کے پاکستان کا باقی ادوار سے موازنہ کر لیں تو میرے خیال میں اس کا دور معاشی اعتبار سے پاکستان کا بہترین زمانہ تھا.انہوں نے ملک کے اندر روزگار کے مواقع پیدا کئے.بیروزگاری ختم ہوئی.عرب ممالک کے دورے کر کے پاکستانیوں کو باہر کے ممالک، خلیجی ریاستوں میں ملازمتیں دلوائیں.اس کے لئے انہوں نے آتے ہی باہر کے دورے ( پندرہ ایک دفعہ دورے کئے، تیرہ ایک دفعہ) کیے جس کے نتیجے میں ہمارے لوگ باہر جانے لگے.زرمبادلہ کی پاکستان آمد شروع ہوئی جس سے معاشی سرگرمیوں میں مثبت اثر پڑا.گاؤں گاؤں میں ریڈیو بج اٹھا.آج تو ٹیلی ویژن ہر گھر میں ہے.ان دنوں ریڈیو بڑی شے ہوتی تھی.لوگوں کو ضروریات زندگی کے ساتھ ساتھ کچھ آسائشیں بھی میسر آئیں.سعودی عرب، کویت، عراق، لیبیا اور خلیج کی ریاستوں میں پاکستانیوں کے جانے سے پاکستان میں باہر کا پیسہ آنا شروع ہوا تو یہاں پر ان کے رشتے داروں کے دن پھر گئے.سوال: بھٹو اور مجیب نے مغربی اور مشرقی پاکستان میں انتخابات میں ایک دوسرے کے مد مقابل امیدوار کیوں کھڑے نہیں کئے تھے ؟ یہ سب غیر ارادی تھایا کسی سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ؟ جواب: میر اخیال ہے یہ سب حالات کا تقاضا تھا.دراصل بنگالیوں یا مشرقی پاکستانیوں کے دل میں مغربی پاکستان بالخصوص پنجاب کے خلاف نفرت انتہا پر تھی.وہ اپنا ذہن بنا چکے تھے کہ یا تو ان کے استبداد سے نجات حاصل کرنی ہے یا پھر ان سے چھٹکارا پانا ہے.یہ سارا کیا دھر اہماری فوج کا تھا.وہاں پر مجیب صاحب کی مقبولیت عروج پر تھی.وہاں کے لوگ انہیں ”بنگلہ بندھو“ کے نام سے پوجتے تھے.میرے خیال میں ان کے مقابلے میں صرف ایک بندہ جیتا تھا.نور الامین.بھٹو صاحب اگر وہاں
319 جا کر انتخابی مہم چلاتے.امید وار کھڑے کرتے تو صورت حال ہی کچھ ایسی ہو چکی تھی کہ سارے کے سارے امیدوار ہار جاتے.تو انہوں نے اس لئے حالات کی نزاکت کو بھاپنتے ہوئے مغربی پاکستان بالخصوص پنجاب پر توجہ مرکوز کر دی جس سے اس حصے سے وہ اکثریت حاصل کر گئے.سوال : مجیب الرحمن نے مغربی پاکستان سے امید وار کیوں نہیں کھڑے کئے ؟ جواب: مجیب الرحمن کو بھی پتہ تھا کہ مغربی حصے میں اس کو پسند نہیں کیا جاتا.مجیب کے چھ نکات ادھر پسند نہیں کیے جاتے تھے.مجھے مجیب کا جلسہ یاد ہے وہ ادھر آئے تو برکت علی سلیمی کے گھر پر ٹھہرے.ایک جلسہ ہوا تھا گول باغ میں جسے اب ناصر باغ کہتے ہیں.وہ جلسہ میں آئے تو وہاں جماعت اسلامی والوں نے ہنگامہ کر دیا.وہ یہ کہہ کر وہاں سے چلے آئے کہ مجھے تو لوگوں کے ووٹ نہیں چاہئیں.میں تو ویسے ہی آیا تھا.1" سوال: بیچی مجیب مذاکرات ناکام بنانے میں کس کا ہاتھ تھا؟ جواب: خود یحی کا.آپ کا کیا خیال ہے بیٹی کوئی صدارت چھوڑنی چاہتا تھا ؟ فوج اقتدار سے ہاتھ دھونا چاہتی تھی؟ یہ سب بیٹی اور فوج کی کارستانی تھی.اگر اس وقت مجیب وزیر اعظم بن کر چھ نکاتی ایجنڈ انا فذ کر دیتا تو ایک پاکستان کی جگہ پانچ پاکستان بن جاتے.کیونکہ چھ نکات کے مطابق ہر صوبہ اپنی جگہ ایک خود مختار ملک کی صورت ہوتا.اس وجہ سے یہاں مغربی پاکستان میں اس کے سیاسی پروگرام کو پذیرائی نہ مل سکی تھی.“1 دوم: پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے کی پاکستان کی سالمیت کے اعتبار سے بھی قومی ضرورت تھی اور وہ یہ کہ ملک اب تک ملاؤں کی فتنہ خیزیوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا اور 1953ء کی ایجی ٹیشن نے پورے ملک کا امن غارت کر رکھا تھا اور خون ریز تصادموں کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آرہا تھا.بلکہ ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ فرقہ پرست پارٹیوں کا طوفانِ غیظ و غضب تھمنے میں ہی نہیں آرہا تھا بلکہ روز بروز اس کی تلاطم خیزیوں میں اضافہ ہورہا تھا حتی کہ انہوں نے دوسروں کی تکفیر کو اپنے انتخابی منشور کا جزواعظم بنالیا تا اپنے ہم مذہبوں کے زیادہ سے زیادہ ووٹ بٹور سکیں.مثلاً کل پاکستان جمعیت علماء اسلام نے ستمبر 1969ء میں اپنے شائع شدہ منشور 2 کی دفعہ 8 میں مسلمان کی خود ساختہ تعریف کر کے احمدیوں کے بھی غیر مسلم ہونے کا مفروضہ پورے طمطراق سے شامل کیا جس کے مطالبہ دفعہ 9 میں لکھا: ”جو فرقے اسلام کے کسی بنیادی عقیدہ مثلاً ختم نبوت وغیرہ سے انحراف کے مر تکب ہوچکے ہیں ، انہیں غیر اسلامی قرار دیا جائے گا اور آئندہ اس قسم کے
320 انحراف کو دستور میں ممنوع اور واجب التعزیر قرار دیا جائے گا.“(صفحہ 14) منشور کی دفعہ 7 میں درج کیا گیا کہ ”صدر مملکت کا مسلمان ہونا اور پاکستان کی 98 فیصد مسلمان اکثریت اہل سنت کا ہم مسلک ہو ناضروری ہو گا.“ دفعہ 6 یہ تجویز کی گئی: مملکت کی کلیدی اسامیاں غیر مسلموں اور مرتدوں کے لئے ممنوع قرار دے دی جائیں گی “ (صفحہ 13) فرقہ پرست پارٹیوں کے مقابل پاکستان پیپلز پارٹی کا منشور اس مذہبی دہشت گردی سے بالکل مبر ا تھا بلکہ اس نے عین انتخابات کے ایام میں مکتبہ جدید پریس لاہور سے ایک جہازی سائز کا اشتہار شائع کیا جس میں نہایت جلی قلم سے لکھا تھا.”ہم مسلمانوں کو کافر بنانے نہیں ، کافروں کو مسلمان بنانے آئے ہیں“ سوم: انتخابات 1970ء میں جماعت احمدیہ کی طرف سے فرقہ پرست اور نام نہاد مذہبی پارٹیوں کو ووٹ نہ دینے کی تیسری اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح ارشاد مبارک ہے.” انا والله لا نولى على هذا العمل احداً سأله ولا احد أحرص عليه " (بخاری و مسلم) خدا کی قسم ہم اس منصب پر کسی ایسے شخص کو مقرر نہیں کرتے جو اس کا طالب ہو اور نہ کسی ایسے شخص کو جو اس کا حریص ہو.ابو داؤد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ مبارک الفاظ ریکار ڈ ہیں.ان اخوانكم عندنا من طلبه ”ہمارے نزدیک سب سے بڑا خائن وہ شخص ہے جو اس چیز کا حریص ہے.“ امیر جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے اپنے رسالہ ” انتخابی جدوجہد “ صفحہ 9 پر یہ احادیث نقل کر کے لکھا ہے.”رسول حق کے یہ ارشادات بجائے خود حکمت و دانائی کے جو اہر تھے جن کی سچائی پر عقل عام گواہی دے رہی تھی.لیکن اب تو زمانے کے تجربات نے بھی ان پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے.اب ہم کو اس امر پر کوئی شک باقی نہیں رہا ہے کہ ہماری
321 اجتماعی زندگی اور قومی سیاست کو جن چیزوں نے سب سے بڑھ کر گندا کیا ہے ، ان میں ایک امیدواری اور پارٹی ٹکٹ کا طریقہ ہے.3 فرقہ پرست علماء ان احادیث سے پوری طرح واقف تھے.ان کا اپنے مدرسوں میں درس دیتے چلے آرہے تھے اور کتابوں میں عہدہ طلبی کی لعنت سے بچنے کی تلقین کرتے آرہے تھے.مسٹر بھٹو اور ان کی نئی پارٹی ایک سیاسی پارٹی کے طور پر مطلع سیاست پر ابھری.اس نے ان حدیثوں کو دیکھانہ پڑھا.اس کا درس دیانہ کسی تقریر و تحریر میں ان کا حوالہ دیا مگر پاکستانی عوام یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے کہ ختم نبوت کے نام نہاد محافظ علماء نے محض اقتدار کی ہوس میں حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس حدیث ردی کی ٹھوکری میں پھینک دی.الہذا احمدیوں کا دینی فرض تھا کہ وہ اس دنیا پرست طائفہ کو کسی صورت میں بھی ووٹ نہ دیں کیونکہ یہ عشق رسول عربی کے منافی تھا اور ایسا اقدام جذبہ غیرت رسول پر ڈاکہ ڈالنے اور روح اسلام کو کچلنے کے مترادف تھا جس کا تصور کوئی احمدی ہر گز نہیں کر سکتا تھا.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے تیرے منہ کی ہی کی قسم میرے پیارے احمد تیری خاطر سے یہ سب بار اٹھایا ہم نے کافر و ملحد و دجال ہمیں کہتے ہیں نام کیا کیا غم ملت میں رکھایا ہم نے حواشی: 1 ” قومی ڈائجسٹ“ جولائی 2008ء صفحہ 24-23.2 مرتبہ احمد حسین کمال ناظم مرکزی دفتر علماء اسلام بیرون لوہاری دروازہ ملتان چوک رنگ محل لاہور.3 " جماعت اسلامی کی انتخابی جد و جہد.اس کے مقاصد اور دو طریق کار "صفحہ 7 شعبہ نشر و اشاعت جماعت اسلامی پاکستان.
322 اکتیسویں فصل وزیر اعظم پاکستان کا حیرت انگیز اعتراف واقعہ ربوہ کا تعلق بیرونی استعمار سے ہے اب آخر میں فقط یہ بتانا مقصود ہے کہ قطع نظر اس بات کے کہ اس دور کے وزیر اعظم پاکستان مسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے شاہ فیصل اور علماء یا عوام کے دباؤ میں نیشنل اسمبلی سے کیا فیصلہ کرایا ، یہ حقیقت ہے کہ ان کے نزدیک بھی احراری مطالبہ کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں تھی بلکہ ایک ایسا خوفناک سیاسی ناٹک تھا جو بیرونی استعمار کے ایجنٹوں نے رچایا تھا.جس کا مقصد بیک وقت پاکستان کے جہاد میں شامل مذہبی جماعت، جماعت احمدیہ اور مملکت پاکستان پر ضرب کاری لگانا تھا.اس حقیقت کا ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ وزیر اعظم پاکستان مسٹر بھٹو نے پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی اطلاعات پر سانحہ ربوہ سے ایک ماہ پیشتر ایک خصوصی انٹرویو میں قبل از وقت بتایا: روس بھارت کو جدید میزائلوں ، جنگی طیاروں اور بحریہ کی سامان کی صورت میں بڑے پیمانے پر امداد دے رہا ہے.اس کے علاوہ بھارت خود بھی ہتھیاروں کی خریداری پر ڈھائی ارب خرچ کر رہا ہے....جب آپ کے ارد گرد کے ممالک اپنے آپ کو ہتھیاروں سے لیس کر رہے ہیں تو قدرتی طور پر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ 1" ضرور کچھ ہونے والا ہے.“1 پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں (Intelligentia) کی یہ اطلاعات حرف بحرف درست ہوئیں اور مئی 1974ء کے تیسرے ہفتہ میں بھارت نے پوکھراں (راجستھان) میں پہلا ایٹمی دھما کہ کیا جس کو اس درجہ مخفی رکھا گیا کہ امریکہ ، چین اور یورپ تو رہا ایک طرف خود بھارت کے سیاسی حلقوں بلکہ اکثر بھارتی سائنسدانوں تک بھی اس راز سر بستہ کی بھنک تک نہیں پہنچی.چنانچہ جناب زاہد ملک صاحب اپنی کتاب ”ڈاکٹر عبد القدیر خاں اور اسلامی بم “ کے صفحہ 179 پر رقم طراز ہیں.چین کے جون 1967ء میں چھٹے دھماکے سے بہت پہلے بھارت ایٹم بم بنانے کا حتمی فیصلہ کر چکا تھا.اور بھارت کی نیوکلیائی اہلیت کے فوجی استعمال کی طرف جانے کا فیصلہ لال بہادر شاستری نے کیا تھا.لیکن ان دنوں کمیشن کے چیئر مین سارا بھائی کی زیادہ توجہ خلائی پروگرام پر مرکوز تھی.البتہ 1971ء میں سقوط مشرقی پاکستان کے بعد مسز اندرا گاندھی نے بھارت کی سیاسی برتری کو دیر پا بنانے کے لئے ایٹمی طاقت
323 بنے کا پختہ فیصلہ کر لیا اور 1972ء میں اس بارے میں ایٹمی سائنس دانوں کو ضروری ہدایات جاری کر دی گئی تھیں.مگر انہی دنوں ایٹمی ادارہ کا سر براہ اچانک چل بسا.اور وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی کو یہ منصوبہ نئے سر براہ ڈاکٹر ایم این سیتھنا کو سونپنا پڑا.بھارتی مصنفین اور خفیہ اداروں کا کہنا ہے کہ بھارت کے تمام ایٹمی سائنسدانوں میں سے وزیر اعظم کے اس فیصلے کا علم صرف سیتھنا کو تھا.اس لئے اس منصوبے پر ٹکڑے ٹکڑے کر کے کام کیا گیا.یہ فیصلہ وزیر اعظم نے ذاتی طور پر کیا تھا اور اس کے لئے اپنی کا بینہ سے بھی مشورہ کرنے سے گریز کیا تھا.جب منصوبے کے مختلف ٹکڑوں کو یکجا کیا جانے لگا تب جا کر مسٹر سیتھنانے اپنے پانچ قریب ترین ساتھیوں کو بتایا کہ وہ لوگ شب روز کس چیز پر دماغ سوزی کرتے رہے ہیں.جبکہ وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کے سینئر وزراء، منتخب فوجی جرنیلوں اور چند اعلیٰ سول افسروں کو صرف چند روز قبل اپنے منصوبہ سے آگاہ کیا تھا.باقی وزراء اور جرنیلوں کو 18 مئی 1974ء کو پوکھراں (راجستھان) میں دھماکے کے بعد خبر ملی تھی.اس دھماکے سے نہ صرف یہ کہ بھارت ایٹمی ہتھیاروں کے حامل ممالک کے کلب کا چھٹا ممبر بن گیا.بلکہ اس نے ایٹمی میدان میں ایک زبر دست پیش رفت حاصل کر لی اور جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے نگہبان، چو دھری کچھ نہ کر سکے.“2 66 یہ تھی بھارت کی خفیہ جارحانہ کارروائی جس سے بے خبر رکھنے کے لئے بھارت کے ازلی ایجنٹ، موقع پرست اور طالع آزما احراری ملا یکا یک میدان میں آگیا اور ایک خونی سکیم تیار کر کے خود ہی 29 مئی 1974ء کو نشتر کالج کے طلباء کے ذریعہ ایک ہنگامہ کھڑا کیا اور پھر اپنے خبث باطن سے اسے احمدی نوجوانوں کے جبر و تشدد کا نام دے کر اخباری رپورٹروں کو پر افتر بیانات دے کر اگلے ہی دن پورے ملک میں جماعت احمدیہ کے خلاف پر تشد د فسادات کے شعلے بلند کر دیئے اس طرح پاکستان دشمن صحافت نے ملا کے مفتریات کو پوری طرح کوریج دے کر اہل پاکستان کی توجہ بھارت کے خفیہ دھماکہ سے منعطف کر کے مظلوم اور بے بس پاکستانی احمدیوں کی طرف کر دی.اور دیکھتے ہی دیکھتے تمام مخالف احمدیت و پاکستان عناصر جماعت احمدیہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور بھٹو حکومت سے پر زور مطالبہ کیا کہ ” قادیانیوں کو فی الفور غیر مسلم قرار دیا جائے“.حالانکہ ربوہ میں تو صرف ضرب خفیف کی واردات ہوئی جب کہ ملک کے ہر حصہ میں مذہب کے نام پر قتل وغارت کا بازار گرم تھا اور
324 اس بناء پر کسی فرقہ نے دوسرے کو غیر مسلم قرار دینے کا کبھی مطالبہ نہیں کیا تھا اور نہ ہی اس کا کوئی جواز ہو سکتا تھا.ضمناً یہاں یہ ذکر کرنا از بس ضروری ہے کہ اسمبلی سے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیئے جانے کی پہلی آواز سانحہ ربوہ سے پہلے ملتان سے احرار اور " مجلس تحفظ ختم نبوت “ ہی نے اٹھائی تھی.ان دین فروش اور خلاف اسلام حرکات کے خلاف خود علماء ہی کے حلقوں سے احتجاج کیا جار ہا تھا.چنانچہ ایک سابق احراری و مودودی راہنما مولوی عبد الرحیم اشرف مدیر ”المنیر“ فیصل آباد نے واضح لفظوں میں لکھا:.اس وقت جو کوشش ”تحفظ ختم نبوت“ کے نام سے قادیانیت کے خلاف جاری ہے، قطع نظر اس سے کہ اس کوشش کا اصل محرک خلوص، خدا کے دین کی حفاظت کا جذبہ ہے یا حقیقی وجہ معاشی اور منفی ذہن کے رجحانات کا مظاہرہ ہے.ہماری رائے میں یہ کوشش نہ صرف یہ کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے مفید نہیں ہے.بلکہ ہم علی وجہ البصیرت کامل یقین واذعان کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ جدوجہد قادیانی شجرہ کے بار آور ہونے کے لئے مفید کھاد کی حیثیت رکھتی ہے.تحفظ ختم نبوت ہو یا مجلس احرار....ان دونوں کے نام سے آج تک قادیانیت کے خلاف جو کچھ کیا گیا ہے، اس نے قادیانی مسئلہ کو الجھایا ہے.ان حضرات کے اختیار کردہ طرز عمل نے راہ حق سے بھٹکنے والے قادیانیوں کو اپنے عقائد میں پختگی کا مواد فراہم کیا ہے اور جو لوگ متذبذب تھے انہیں بد عقیدگی کی جانب مزید دھکیلا ہے.استہزاء اشتعال انگیزی، یاوہ گوئی، بے سروپا لفاظی، اس مقدس نام کے ذریعہ مالی نین، لادینی سیاست کے داؤ پھیر ، خلوص سے محروم اظہار جذبات ، مثبت اخلاق فاضلہ سے تہی کر دار ، ناخد اتر سی سے بھر پور مخالفت کسی بھی غلط تحریک کو ختم نہیں کر سکتی.اور ملت اسلامیہ پاکستان کی ایک اہم محرومی یہ ہے کہ ” مجلس احرار اور تحفظ ختم نبوت“ کے نام سے جو کچھ لکھا گیا ہے اس کا اکثر و بیشتر حصہ انہی عنوانات کی تفصیل ہے.“3 یہی نہیں مولوی عبد الرحیم صاحب نے ختم نبوت اور وحدت امت“ کے زیر عنوان نام نہاد محافظین ختم نبوت کو چیلنج کرتے ہوئے یہاں تک لکھا:.
325 ختم نبوت کا ایک لازمی تقاضا یہ تھا کہ امت محمدیہ بنیان مرصوص کی حیثیت سے قائم علی الحق رہتی.اس کے جملہ مکاتب فکر اور تمام فرقوں کے مابین دین کے اساسات پر اس نوع کا اتحاد ہوتا جس نوع کا اتحاد ایک صحیح الذہن امت میں ہونا ناگزیر تھا.لیکن غور کیجئے کیا ایسا ہوا؟ بلاشبہ ہم نے متعد د مراحل پر اتحاد امت کے تصور کو پیش کیا اور سب سے زیادہ قادیانیوں کے خلاف مناظرہ کے سٹیج سے ڈائر کٹ ایکشن کے ویرانے تک ہم نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسلام کے تمام فرقے ”یک جان ہیں کیا حقیقہ ایسا تھا؟.کیا حالات کی شدید سے شدید تر نا مساعدت کے باوجود ہماری تلوار نیام میں داخل ہوئی؟ کیا ہولناک سے ہولناک تر واقعات نے ہمارے فتاوی کی جنگ کو ٹھنڈا کیا ؟ کیا کسی مرحلہ پر بھی ”ہمارا فرقہ حق پر ہے اور باقی تمام جہنم کا ایندھن ہیں“ کے نعرہ سے کان نامانوس ہوئے ؟ اگر ان میں سے کوئی بات نہیں ہوئی تو بتائیے اس سوال کا کیا جواب ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ایمان رکھنے والی امت کے اگر تمام فرقے کافر ہیں اور ہر ایک دوسرے کو جہنمی کہتا ہے.تو لا محالہ ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو سب کو اس کفر اور جہنم سے نکال کر اسلام اور جنت کا یقین دلا سکے.4 خلاصہ کلام یہ کہ احراریوں، دیوبندیوں کی شورش کے دوران ہی وزیر اعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی صاحب بھٹو کو بھارت کے خفیہ دھماکہ کا پتہ چل گیا.جس پر انہوں نے 13 جون 1974ء کو تقریر کی جس میں انہوں نے بتایا کہ واقعہ ربوہ کے پیچھے بھارت، کابل اور روس کا ہاتھ کار فرما ہے اور یہ سب کچھ دشمنان پاکستان کی طرف سے پاکستان کو تباہ کرنے کا خوفناک منصوبہ ہے.مسٹر بھٹو کی انگریزی تقریر کا متن اخبار ” پاکستان ٹائمز “ (Pakistan Times) نے حسب ذیل الفاظ میں شائع کیا."The Prime Minister said that the people were aware that there were deep-rooted conspiracies against their country.The conspiracies had existed long before Pakistan came into benign.They existed even when the struggle for Pakistan had been launched.
326 He wanted the people to take note of the timing when the Ahmadiyya issue had been raised.There was a nuclear explosion by India, Sardar Dawood of Afghanistan had gone on a visit to Moscow where consultations had taken place, some leaders were in Kabul and the people knew why they were there.He said that the people were as well aware of the conspiracies against him and they knew that there were foreign hands in plots against Pakistan.It was not for him to point that out as the people were conscious enough to take note of developments across their borders, the Prime Minister said." (The Pakistan Times, Lahore, June 14, 1974 page 1 and 10 Column 8) وو روزنامہ امروز کے رپورٹر نے یہ تقریر درج ذیل الفاظ میں شائع کی :- ”ہندوستان کا ایٹمی دھماکہ ، سردار داؤد کا دورہ روس اور واقعہ ربوہ ایک ہی سلسلہ کی کڑیاں ہیں.“ وزیر اعظم نے آج ہی شام لاہور میں اپنی نشری تقریر میں کہا کہ عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کی جار ہی ہیں.انہوں نے کہا ہندوستان کی طرف سے دھماکہ، افغانستان کے صدر داؤد کا دورہ روس اور ربوہ میں پیش آنے والا واقعہ جیسے تمام واقعات بیک وقت 5" پیش آئے ہیں اور ان کا مقصد دوسرے مرحلے میں پاکستان کو تباہ کرنا ہے.5 اس انکشاف نے اس بنیادی حقیقت پر ہمیشہ کے لئے مہر تصدیق ثبت کر دی کہ احراری دیو بندی ملا کے تصورِ ختم نبوت نے دراصل روسی کمیونزم کی کوکھ ہی سے جنم لیا ہے اور اسی دہریہ تحریک کی پیداوار ہے جیسا کہ مفکر احرار چوہدری افضل حق کو تاریخ احرار باب دوم میں کھلے بندوں تسلیم کرنا پڑا ہے.یہی وجہ ہے کہ لینن اور سٹالن کے پرستار اور کمیونسٹ شاعر مدتوں سے یہ راگ الاپ رہے ہیں کہ ،
327 پھر کوئی آیا دل زار 6 نہیں کوئی نہیں راہرو ہوگا، کہیں اور چلا جائے گا گئی راستہ تک تک کے ہر ایک راہ گزر اجنبی خاک نے دھندلا دیئے قدموں کے چراغ بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو اب یہاں کوئی نہیں ،کوئی نہیں آئے گا (فیض احمد فیض) اور سر اقبال کا تو با بیت، بہائیت اور اشتراکیت کے سفیر کی حیثیت سے تمام سادہ لوح مسلمانوں کے لئے آخری پیغام فقط یہی ہے مینار دل پہ اپنے خدا کا نزول دیکھ انتظار مهدی و عیسی بھی چھوڑ دے 7 حواشی 1 روزنامه " جسارت کراچی 30 اپریل 1974 ، صفحہ 1.2 " ڈاکٹر عبد القدیر خاں اور اسلامی ہم صفحہ 179 تالیف جناب زاہد ملک صاحب طبع سوم اگست 1989ء ناشر مطبوعات حرمت مرکز جی 8 اسلام آباد.3 " المنیر “ 6 جولائی 1956ء صفحہ 7.” المنیر “9مارچ1956ء صفحہ 5.5 روز نامہ ” امروز “ لاہور 14جون 1974ءصفحہ 1.رنج و غم اٹھانے والا.مونس و غم خوار.7 رسالہ مخزن مئی 1905ء بحوالہ باقیات اقبال صفحہ 451 مرتب سید عبد الواحد معینی ایم اے (آکسن) طالع و ناشر آئینہ ادب چوک مینارانار کلی لاہور طبع دوم 1966ء.
328 مسلم سر بر اہان کا نفرنس 1974ء میں عیسائی وفد کے لیڈر کی تقریر کا مکمل متن ذیل میں کا نفرنس میں عیسائی وفد کے لیڈر کی تقریر کا مکمل متن دیا جاتا ہے جو کانفرنس کی سرکاری رپورٹ کے صفحہ 84 سے 87 پر مع تصویر درج ہے.یادر ہے کہ حضرت مسیح کے آسمانی صعود اور ان کے خالق طیور اور محی الاموات کے عقیدوں میں تمام غیر احمدی دنیا متفق ہے.مگر جماعت احمد یہ 1889ء سے اب تک ان غلط عقائد اور صلیب پرستی کے خلاف سر گرم جہاد ہے اس لئے قیام جماعت سے لے کر اب تک عیسائی بشپ، پادری اور عیسائی مولف سب دوسرے فرقوں کے مخالف احمدیت علماء کے دوش بدوش تحریک احمدیت کے خلاف محاذ قائم کئے ہوئے ہیں.خصوصاً 1974،1953 اور 1984ء میں تو پاکستان کے مسیحی لیڈروں نے اپنے بیانات میں ڈٹ کر احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیئے جانے کی تائید کی ہے.سید نا حضرت مسیح موعود نے اس لئے دعویٰ مسیحیت کے آغاز میں ہی مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے نہایت درد بھرے دل سے یہ حقیقت بیان فرما دی تھی کہ بحمد اللہ کہ خود قطع تعلق کرد ایں قومے خدا از رحمت واحساں میسر کرد خلوت را مسیح ناصری را تا قیامت زندہ سے فہمند مگر مدفون یثرب را ندادند این فضیلت را ہمہ عیسائیوں را از مقال خود مدد دادند دلیری با پدید آمد پرستاران میت را (ترجمہ) الحمد للہ اس قوم نے خود ہی مجھ سے قطع تعلق کر لیا اور خدا نے مہربانی اور کرم سے ( خدمت دیں کے لئے.ناقل ) خلوت میسر کر دی.یہ مسیح ناصری کو قیامت تک زندہ سمجھتے ہیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فضیلت نہیں دی انہوں نے اپنے عقیدہ سے تمام عیسائیوں کی مدد کی.اسی وجہ سے مردہ پرستوں میں بھی دلیری آگئی.اس پس منظر میں اب عیسائی وفد کے لیڈر کی تقریر ملاحظہ فرمائیے.
329 Speech of His Beatitude Muawad Elias IV Patriarch of Antioch and All Orient Mr.Chairman, What can there be that is more enchanting than the meeting of brethren, when God Almighty is their purpose? Your Majesties, Excellences, It is indeed a great source of joy for our delegation to convey to your conference this message of brotherly love, and our prayers for your success.Is not Jerusalem the goal of this long journey on the path to liberty which we are all engaged in together? Are we not, Muslims and Christians alike, dedicated to Jerusalem, in hope, determination and sacrifice? How can we forget thee Jerusalem, when thou art Humanity's "Meraj" to God and the symbol of the spiritual values that descended upon us from His holy inspiration? In thee, O Jerusalem, Muslims and Christians, in their common yearning for eternal peace, find each according to his religion, their sacred community in their obedience to God and their concern for humanity.To your esteemed Conference, we have come from the Ancient Churches of the East, prompted by the spirit of friendship and amity which has bound us to you, generation after generation.For God's mercy and benevolence have made it such that there has developed in our homeland more than a common humanity: a oneness that cannot be destroyed.Hence, we are conscious that it is our destiny to
330 convey to the Christian world abroad, the message of Palestine to kindle its fire wherever it is fading; voicing this message longest where sometimes people deafen their ears or close their eyes to its reality and truthfulness.Whence the great honour that we have asked for, to speak from the rostrum of this very great conference, the Islamic Summit to the Christians of the world, and to the Muslims as well, proclaiming that Jerusalem is their pride and glory and that, once delivered by rightful struggle, this Holy City of God will be the source of the virtues of the new man who will, in our homelands, stand against the injustices from which we have all suffered.You will allow me at this junction to salute His Highness Pope Paul VI for his constant concern about Jerusalem, his indefatigable struggle against, its judiazation, and his insistence on its remaining the city of faith and peace.For then will Jerusalem appear again, in its glorious light, giving a new life to the oppressed who through their sufferings, have dreamt of it as the unique symbol of their perfection and ideals.Now we say how much we are all nostalgic of this particular beauty and nobility of Jerusalem that emanated from a holiness that no other city has ever had, and which had been in the blessed custody of its Arab inhabitants, now subjected to tyranny, and many of whom have been forced to emigrate from their most beloved city.But let the enemy know: the Arabs are still alive, a nation determined to fight for its right to return to Jerusalem.
331 This and no other is the sacred right to return, for then will the Arabs have recovered their spiritual home, saved their history.And then, and then only, will they be true to their civilization, able to fulfil their mission to mankind.The continuity of the tradition which the Palestinians have kept as a cherished trust is an imperative call.A call for a Jerusalem delivered that will be again the home of its people.To us, the preservation of stones, be they sacred temples, cannot be more important than the live presence of peoples.For the presence of God is where people live in constant devotion.Such is, in our understanding, the Palestinian character of Jerusalem, a human image both national and universal, a call upon all believers to meet in the free and tolerant pursuit of truth.To us in particular, the significance of the Holy Places has acquired its latitude by the fact that through two thousand years, the temples have derived the substance of their life from the very life of the believers who constitute the human context of the temples.It is, in this spirit that we understand the historic encounter, so rich in noble meanings, between the Caliph Omar and the Patriarch of Jerusalem: an encounter in friendship and mutual respect.Today, in our common struggle, the encounter between Muslims and Christians has become a creative unity, within the framework of Arabism.
332 For we are both threatened by Zionist and by racist and militaristic persecution of our people; a movement that has reversed the values that we have cherished in the Arab East.Such is the arrogance of Zionism that it has not hesitated to egress the historical features of the City of God, thus attempting to destroy our common heritage, which had filled our lives with joy and inspiration.In conclusion, let this be our common prayer: that we should all want a Jerusalem delivered that will be again a sanctuary of spirituality.There shall we defend the respect of man whilst yearning for God.There shall we lay the foundations of a new civilization for all the peoples of the world, a civilization based not on exploitation but on peace and justice which alone can assure a fruitful and brotherly meeting of nations.Mr.Chairman, It is with the greatest pleasure that I offer on behalf of my delegation and on my own behalf our sincere congratulations to the delegations of Cameroon, Gabon, Gambia, Guinea-Bissau, Uganda and Upper Volta on their admission as members of our Organization.We are also happy with the participation of Iraq for the first time as observer at this historic conference.I bid them a warm welcome and we are happy to have them with us.Their presence here is a clear indication of the growing strength and unity of our Muslim brother-hood.
333 Another unforgettable event which warms all our hearts is the reconciliation between Pakistan and Bangladesh.Pakistan and Bangladesh were one people and one country, but were separated by accident of history.However, thanks to the untiring efforts of this Conference, both the Governments of Pakistan and Bangladesh have forged a new bond of relationship between them.We all cannot but admire the magnanimity and a deep sense of understanding and accommodation shown by you, Mr.Chairman, as leader of Pakistan, and by His Excellency Prime Minister Shaikh Mujibur Rahman.May this historic event be the beginning of a new era of close and cordial relations between your two countries as brother nations within the Muslim World." قرآن عظیم میں ہندوستان کے مفسدہ عظیم 1857ء کی پیشگوئی سید نا حضرت اقدس مسیح موعود نے وسط 1891ء میں ”ازالہ اوہام “ جیسی معرکہ آراء تالیف شائع کی جس میں آیت قرآنی إِنَّا عَلَی ذَهَابِ بِهِ لَقَدِرُونَ (المومنون:19) کے اعداد کی روشنی ہے میں تحریر فرمایا: آیت إِنَّا عَلَى ذَهَابِ بِهِ لَقَدِرُونَ“ میں 1857ء کی طرف اشارہ جس میں ہندوستان میں ایک مفسدہ عظیم ہو کر آثار باقیہ اسلامی سلطنت کے ملک ہند سے ناپدید ہو گئے تھے کیونکہ اس آیت کے اعداد بحساب جمل 1274 ہیں اور 1274 کے زمانہ کوجب عیسوی تاریخ میں دیکھنا چاہیں تو 1857ء ہوتا ہے.سو در حقیقت ضعف اسلام کا ابتدائی زمانہ 1857ء ہے جس کی نسبت خدا تعالیٰ آیت موصوفہ بالا میں فرماتا ہے کہ جب وہ زمانہ آئے گا تو قرآن زمین پر سے اٹھا لیا جائے گا.سوالیسا ہی1857ء میں مسلمانوں کی حالت ہوگئی تھی کہ بجز بد چلنی اور فسق و فجور کے اسلام کے رئیسوں کو اور کچھ یاد نہ تھا جس کا اثر عوام پر بھی بہت پڑ گیا تھا.انہیں ایام میں انہوں نے ایک ناجائز اور ناگوار طریقہ سے سرکار انگریزی سے باوجو د نمک خوار اور
334 فتووں پر رعیت ہونے کے مقابلہ کیا.حالانکہ ایسا مقابلہ اور ایسا جہاد ان کے لئے شرعا جائز نہ تھا کیونکہ وہ اس گورنمنٹ کی رعیت اور ان کے زیر سایہ تھے اور رعیت کا اس گور نمنٹ کے مقابل پر سر اٹھانا جس کی وہ رعیت ہے اور جس کے زیر سایہ امن اور آزادی سے زندگی بسر کرتی ہے، سخت حرام اور معصیت کبیرہ اور ایک نہایت مکر وہ بدکاری ہے.جب ہم 1857ء کی سوانح کو دیکھتے ہیں اور اس زمانہ کے مولویوں کے نظر ڈالتے ہیں جنہوں نے عام طور پر مہریں لگا دی تھیں جو انگریزوں کو قتل کر دینا چاہئے تو ہم بحر ندامت میں ڈوب جاتے ہیں کہ کیسے مولوی تھے اور کیسے ان کے فتوے تھے جن میں نہ رحم تھانہ عقل تھی نہ اخلاق نہ انصاف.ان لوگوں نے چوروں اور قزاقوں اور حرامیوں کی طرح اپنی محسن گورنمنٹ پر حملہ کرنا شروع کیا اور اس کا نام جہادر کھا.ننھے ننھے بچوں اور بے گناہ عورتوں کو قتل کیا، اور نہایت بے رحمی سے انہیں پانی تک نہ دیا.کیا یہ حقیقی اسلام تھا یا یہودیوں کی خصلت تھی.کیا کوئی بتلا سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ایسے جہاد کا کسی جگہ حکم دیا ہے.پس اس حکیم و علیم کا قرآن کریم میں یہ بیان فرمانا کہ 1857ء میں میر اکلام آسمان پر اٹھایا جائے گا ، یہی معنے رکھتا ہے کہ مسلمان اس پر عمل نہیں کریں گے جیسا کہ مسلمانوں نے ایسا ہی کیا.خدا تعالیٰ پر یہ الزام لگانا کہ ایسے جہاد اور ایسی لڑائیاں اس کے حکم سے کی تھیں یہ دوسرا گناہ ہے.کیا خدا تعالیٰ ہمیں یہی شریعت سکھلاتا ہے کہ ہم نیکی کی جگہ بدی کریں.اور اپنی محسن گورنمنٹ کے احسانات کا اس کو یہ صلہ دیں کہ ان کی قوم کے صغر سن بچوں کو نہایت بے رحمی سے قتل کریں اور ان کی محبوبہ بیویوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالیں.بلاشبہ ہم یہ داغ مسلمانوں خاص کر اپنے اکثر مولویوں کی پیشانی سے دھو نہیں سکتے کہ وہ 1857ء میں مذہب کے پردہ میں ایسے گناہ عظیم کے مرتکب ہوئے جس کی ہم کسی قوم کی تواریخ میں نظیر نہیں دیکھتے.“ (ازالہ اوہام طبع اول حاشیہ بحوالہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 489 تا492)
335 تاریخ کا انتقام سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے قادیان میں 2 جولائی 1935ء کے خطبہ جمعہ میں عالمی جماعت احمدیہ کو خطاب کرتے ہوئے نہایت پر شوکت الفاظ میں فرمایا: ”ہماری جماعت تاریخی ہے.آئندہ کوئی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی جب تک جماعت احمدیہ کی تاریخ کا ذکر نہ کرے.یہ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے عنقریب دنیا پر چھا جانے والی ہے.پس جو کچھ تم سے ہو رہا ہے اس کا بدلہ تاریخ لے گی اور آج جولوگ تمہارے حقوق تلف کر رہے ہیں، ان کی نسلیں انہیں گالیاں دیں گی کیونکہ کون ہے جو اپنے آباء کی شرارتوں کا ذکر تاریخوں میں پڑھ کر شرمندہ نہیں ہوتا.بے شک آج لوگ ہم پر ظلم کر کے ہنتے ہیں جس طرح رسول کریم ملی کم پر اونٹوں کی اوجھڑی ڈالنے والے ہنستے تھے.ان لوگوں کو کیا معلوم تھا کہ ان کی اس حرکت کو ہزار سال تک یادر کھا جائیگا اور ہمیشہ کے لئے ان کی ناک کاٹنے کا موجب ہو جائیگی.آج بھی ہمارے دشمن اور بعض حکام خوش ہوتے ہیں اور اسے ایک کھیل سمجھتے ہیں مگر انہیں کیا معلوم ہے کہ یہ باتیں تاریخوں میں آئیں گی.بڑے سے بڑے مورخ کے لئے یہ ناممکن ہو گا کہ ان واقعات کو نظر انداز کر دے کیونکہ انکے بغیر اسکی تاریخ نامکمل سمجھی جائیگی.پڑھنے والے ان باتوں کو پڑھیں گے اور حیران ہونگے ان لوگوں کی انسانیت پر جنہوں نے یہ افعال کئے اور حیران ہونگے ان حکام کے رویہ پر جنہوں نے علم کے باوجود کوئی انتظام نہ کیا اور آنیوالی نسلوں کی رائے انکے خلاف ہو گی.ان کی وہ چیز جس کیلئے انسان جان کی قربانی کر سکتا ہے یعنی نیک نامی بر باد ہو جائے گی.“ (روزنامه " الفضل“ 20 جولائی 1935ء صفحہ 5-6)