MuslimNoJawan

MuslimNoJawan

مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے

Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ صحابہ و صحابیات رسول اللہ ﷺ

حضرت صاجزادہ مرزا بشیراحمد صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ کے مشورہ اور رہنمائی میں مصنف نے اپریل 1939ء میں یہ پُر اثر کتاب تالیف کی تھی تا نوجوان نسل اس کا مطالعہ کرکے اپنی قوم کی مضبوطی اور ترقی میں مدد گار بن سکیں اور اپنے سلف صالح کی روایات پڑھ کر ، ان کی پاک روح اور قوی جذبہ کو لیکر اپنی زندگیاں گزار سکیں اور قوم کے نونہالوں کے پاس ایمان و اخلاص کے ساتھ ساتھ عملی نمونہ بھی موجود ہو، کیونکہ ایسی روایات کا قومی اخلاق پر گہرا اثر پڑتا ہےاورمسلمان نوجوانوں کے ان سنہری کارناموں کی روایات کو محض قصہ کے رنگ میں نہیں لینا چاہئے بلکہ تاریخی مواد کو ایک تحریکی قوت بنا کر آئندہ کی عمارت تعمیر کرنی چاہیئے۔ موجودہ ٹائپ شدہ ایڈیشن میں عناوین کے اعتبار سے ابواب بنا کر ہر باب کے آخر پر ماخذوں کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔


Book Content

Page 1

2 مسلم نوجوانوں کے کارنامـ 1 مسلم نوجوانوں کے سنہ ی کارنامے تعارف از حضرت صاحبزادہ میرزا بشیر صاحب ایم.اے) شیخ رحمت اللہ صاحب شاکر کی کتاب جس کا عنوان ”مسلم نو جوانوں کے سنہری کارنامے“ ہے اسوقت طبع ہو کر اشاعت کے لیے تیار کی جارہی ہے.شاکر صاحب نے مجھ سے خواہش کی کہ میں اس کتاب کے دیباچہ کے طور پر چند سطور لکھ کر دوں جس کی تعمیل میں میں یہ حروف قلمبند کر رہا ہوں.شاکر صاحب نے جس موضوع پر قلم اٹھایا ہے وہ ایک عرصہ دراز سے بلکہ طالب علم کے زمانے سے میرے مدنظر تھا.مجھے خوب یاد ہے کہ جب یہ خاکسار سکول کی نہم اور دہم جماعت میں تعلیم پاتا تھا تو اس وقت ہمیں ایک انگریزی کی کتاب ”گولڈن ڈیڈز Golden Deeds پڑھائی جاتی تھی.جس میں مغربی بچوں اور نو جوانوں کے سنہری کارناموں کا ذکر درج تھا.مجھے اس کتاب کو پڑھ کر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ ایک کتاب اردو میں مسلمان نوجوانوں کے کارناموں کے متعلق لکھی جائے جس میں مسلمان بچوں کے ایسے کارنامے درج کیے جائیں جو مسلمان نونہالوں کی تربیت کے علاوہ دوسری قوموں کے لیے بھی ایک عمدہ سبق ہوں.یہ خواہش طالب علمی کے زمانہ سے میرے دل میں قائم ہو چکی تھی.اس کے بعد جب میں نے اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا تو یہ خواہش اور بھی ترقی کر گئی کیونکہ میں نے دیکھا کہ جو کارنامے مسلمان نوجوانوں کے ہاتھ پر ظاہر ہو چکے ہیں وہ ایسے شاندار اور روح پرور ہیں کہ ان کے مقابلہ پر مسیحی نوجوانوں کے کارناموں کی کچھ بھی حیثیت نہیں.اور میں نے ارادہ کیا کہ جب بھی خدا توفیق دے گا میں اس کام کو کروں گا.مگر افسوس ہے کہ ایک لمبے عرصہ تک میری یہ خواہش عملی جامہ نہ پہن سکی.بالآخر گذشتہ سال اللہ تعالیٰ نے اس کی یہ تقریب پیدا کر دی کہ شیخ رحمت اللہ صاحب شاکر نے مجھ سے مشورہ پوچھا کہ میں آج کل رخصت کی وجہ سے فارغ ہوں.مجھے کوئی ایسا مضمون بتایا جائے جس پر میں ایک مختصر کتاب لکھ کر اسلام اور احمدیت کی خدمت کرسکوں.اس پر میں نے شاکر صاحب کو اپنی یہ خواہش بتا کر یہ تحریک کی کہ وہ اس موضوع پر مطالعہ کر کے کتاب تیار کریں.اور میں نے چند ایسی کتابوں کے نام بھی بتا دیئے جس سے وہ اس مضمون کی تیاری میں مدد لے سکتے تھے.اور انتخاب وغیرہ کے متعلق بھی مناسب مشورہ دیا.اور مجھے خوشی ہے کہ شاکر صاحب نے مطلوبہ کتاب کے تیار کرنے میں کافی محنت سے کام لے کر ایک اچھا مجموعہ تیار کر لیا ہے.میں نے اس سارے مجموعہ کو بالاستیعاب نہیں دیکھا مگر بعض حصے دیکھے ہیں.اور بعض جگہ مشورہ دے کر اصلاح بھی کروائی ہے.اور میں امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ یہ کتاب نوجوانوں کے لیے مفید ثابت ہوگی.یہ ایک فیصلہ شدہ بات ہے کہ کسی قوم کی مضبوطی اور ترقی میں اس کے نو جوانوں کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے اور یہ بھی ایک تسلیم شدہ بات ہے کہ نو جوانوں کی تربیت کا ایک بڑا عمدہ ذریعہ سلف صالح کی روایات ہیں.جنہیں سن کر یا مطالعہ کر کے وہ اپنے اندر کام کی روح پیدا کر سکتے ہیں.تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ بعض مسلمان نوجوانوں نے انحضرت ﷺ کے زمانہ میں اور آپ کے بعد ایسے ایسے حیرت انگیز کارنامے سرانجام دیے ہیں کہ ان کا ذکر پڑھ کر بے اختیار تعریف نکلتی ہے اور ایمان تازہ ہو جاتا ہے.بعض چھوٹی چھوٹی عمر کے بچوں نے ایسی ایسی خدمات صلى الله سرانجام دی ہیں کہ بڑے بڑے لوگ بھی ان میں ہاتھ ڈالتے ہوئے رکتے تھے.دراصل بچپن کا زمانہ ایک بڑا ہی عجیب و غریب زمانہ ہوتا ہے جس میں ایک طرف تو نمو اور ترقی کی طاقت اپنا کام کر رہی ہوتی ہے اور دوسری طرف خطرات سے ایک گونہ بے پروائی کا عالم ہوتا ہے.ایسے ماحول میں اگر انسان کے ذہن کو ایک اچھے راستہ پر ڈال دیا جائے تو وہ حقیقتا حیرت انگیز کام کر سکتا ہے اور اس ذہنی کیفیت کے پیدا کرنے کے لیے ایک طرف تو ایمان اور اخلاص کی ضرورت ہوتی ہے اور دوسری طرف عملی نمونہ کی.پس میں امید کرتا ہوں کہ جب ہمارے نوجوان سلف صالح کے کارناموں کا مطالعہ کریں گے اور انہیں اس بات پر آگاہی حاصل ہوگی کہ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں انحضرت ﷺ اور آپ www.alislam.org

Page 2

4 مسلم نوجوانوں کے سند کارنامے 3 مسلم نوجوانوں کے نامے کے خلفاء کی قوت قدسیہ کے ماتحت مسلمان بچے کیا کیا خدمات بجالاتے رہے ہیں تو چونکہ خدا کے فضل سے ہماری جماعت میں ایمان اور اخلاص پہلے سے موجود ہے.وہ اس عملی نمونہ کو دیکھ کر اپنے اندر ایک حیرت انگیز عملی تبدیلی پیدا کرسکیں گے.روایات کا قومی اخلاق پر اتنا گہرا اثر ہوتا ہے کہ بعض محقیقین نے تو قوم کے لفظ کی تعریف ہی یہ کی ہے کہ روایات کے مجموعہ کا نام ہی قوم ہے.اور اس میں شبہ نہیں کہ ایک قوم کو دوسری قوم سے ممتاز کرنے والی زیادہ تر قومی روایات ہی ہوتی ہیں.مگر روایات کو محض قصہ کے رنگ میں نہیں لینا چاہیے.بلکہ ان کی تحریکی قوت سے فائدہ اٹھانا چاہیے تا کہ گذشتہ تاریخ ہماری آئندہ عمارت کے لیے بنیاد کا کام دے سکے.میں اس مختصر تمہید کے ساتھ اس مجموعہ کو اپنے عزیز نو جوانوں کے سامنے پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ اس سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں گے.میں یہ بھی امید کرتا ہوں کہ شاکر صاحب اس کتاب کے آئندہ ایڈیشن میں احمدی نوجوانوں کے کارناموں کو بھی شامل کر لیں گے کیونکہ ان میں بھی انسان کو بہت روح پرور نظارے ملتے ہیں.والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد قادیان یکم اپریل 1939ء ہر کتاب کے ساتھ اس کے مصنف یا مؤلف کی طرف سے ایک تمہید ضروری سمجھی جاتی ہے اور اس رواج کے مطابق میں نے یہ چند سطور لکھنی ضروری سمجھی ہیں ورنہ تمہید میں جو کچھ ہونا چاہیے وہ سب حضرت صاحبزادہ میرزا بشیر احمد صاحب ایم اے بیان فرما چکے ہیں.اور میرے لیے صرف یہی باقی ہے کہ ہمیں حضرت ممدوح کا اس نوازش اور رہنمائی کے لیے شکر یہ ادا کروں جو دورانِ تالیف میں ہمیشہ میرے شامل حال رہی.اور جو دراصل اس تالیف کا موجب ہے.یہ سخت نا انصافی ہوگی اگر میں اس امر کا اقرار نہ کروں کہ اس تالیف کے سلسلہ میں مجھے دارالمصنفین اعظم گڑھ کی تصنیفات اور تالیفات سے گراں قدر امداد ملی ہے.علاوہ ازیں میں نے " حضرت صاحبزادہ میر نما بشیر احمد صاحب ایم اے کی سیرت خاتم النبین “ سے بھی بہت استفادہ کیا ہے.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ نے 17 مارچ 1939 ء کے خطبہ جمعہ میں، جو 17اپریل 1939 ء کے الفضل میں شائع ہوا ہے.روحانی جماعتوں کے لیے نوجوانوں کی اہمیت کو پوری وضاحت سے بیان فرما دیا ہے اور اس تالیف کا مقصد یہی ہے کہ اس سے نو جوانوں کی تربیت اور اصلاح میں مددمل سکے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اس غرض کے پورا کرنے کا موجب بنائے.اور سلسلہ کے نو جوان اس سے فائدہ اٹھا سکیں.آمین احباب میری علمی کم آئیگی سے بخوبی آگاہ ہیں.اس لیے میری اس کوشش میں انہیں جو کوتاہیاں یا فروگزاشتیں نظر آئیں ان سے مجھے مطلع فرما ئیں تا کہ دوسرے ایڈیشن میں اصلاح کی جاسکے.نیز وہ دوسرے حصہ کی تالیف میں ان کے مشوروں سے فائدہ اٹھایا جا سکے.خاکسار رحمت اللہ خان شاکر اسٹنٹ ایڈیٹر اخبار الفضل مورخہ 5 اپریل 1939ء www.alislam.org

Page 3

6 مسلم نوجوانوں کے 5 مسلم نوجوانوں کے سنہ ی کارنامے ایثار صحابہ کرام کا نوجوان طبقہ اپنے بھائیوں کے لیے مجسم ایثار و قربانی تھا.تاریخ اسلام کے اوراق اس کی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں جن میں سے چند ایک واقعات بطور نمونہ درج کیے جاتے ہیں.ہمارے نوجوانوں دوستوں کو ان سے سبق حاصل کرنا چاہیے.1 ایک غزوہ میں حضرت عکرمہ بن ابی جہل ، حضرت حارث بن ہشام اور حضرت سہیل بن عمر زخمی ہوئے.تینوں جان کنی کی حالت میں تھے اور شدید پیاس محسوس کر رہے تھے.ایسی حالت میں ایک شخص عکرمہ کے لیے پانی لایا.ظاہر ہے کہ ایسے نازک وقت میں اس پانی کے چند قطرات ان کے لیے کتنی بڑی قیمتی چیز تھے.عام حالات میں دوسرے کے لیے ایثار کرنا اور اپنے جذبات کو دوسرے کے لیے قربان کر دینا کوئی ایسی مشکل بات نہیں لیکن جب انسان کو اپنا آخری وقت نظر آرہا ہو اور وہ جانتا ہو کہ اس وقت پانی کا ایک قطرہ میرے لیے آب حیات کا حکم رکھتا ہے.اس وقت اپنی حالت کو فراموش کر دینا اور اپنے بھائی کی ضرورت کا احساس کر کے اسے مقدم کرنا کس قدر مشکل کام ہے.اس کا اندازہ ہر شخص بآسانی لگا سکتا ہے.لیکن لاکھوں لاکھ درود ہوں اس مقدس وجود پر جس نے عرب کے وحشیوں میں ، جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ایسا انقلاب عظیم پیدا کر دیا کہ وہ اپنے بھائی کی ضرورت کود یکھ کر اپنی حالت کو بالکل ہی بھول جاتے تھے.چنانچہ جب پانی حضرت عکرمہ کے پاس لایا گیا تو آپ نے دیکھا کہ حضرت سہیل محسرت بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہے ہیں.اور آپ کی اسلامی اخوت اور جذبہ ایثار کے لیے یہ چیز نا قابل برداشت ہوگی کہ خود پانی پی لیں.در آنحالیکہ آپ کا بھائی پاس ہی پیاسا پڑا ہو.چنانچہ فرمایا کہ پہلے ان کو پلاؤ.وہ شخص پانی لے کر حضرت سہیل کے پاس پہنچا.مگر وہ بھی اسی چشمہ ، روحانیت سے فیض یاب تھے جس کا ہر ایک قطرہ نفسانیت کے لیے موت کا حکم رکھتا تھا.چنانچہ حضرت سہیل کی نظر اس وقت حضرت حارث پر پڑی اور آپ نے دیکھا کہ وہ بھی پانی کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے تک رہے ہیں.اس خیال کا آنا تھا کہ آپ کے لیے اس پانی کو اپنے حلق سے اتارنا ناممکن ہوگیا.یہ کیونکر ممکن تھا کہ آپ اپنی جان کو اپنے بھائی کی جان سے زیادہ قیمتی سمجھ سکتے.اور اسے پیاس کی حالت میں چھوڑ کر خود پانی پی لیتے.چنانچہ پانی لانے والے سے کہا کہ پہلے حضرت حارث کو پلاؤ.وہ پانی لے کر ان کے پاس پہنچا.نتیجہ یہ ہوا کہ ان تینوں میں سے کوئی بھی پانی نہ پی سکا اور سب نے تشنہ کامی میں جانِ عزیز آفریں کے سپر د کر دی.انا اللہ وانا الیہ راجعون.غور فرمائیے کہ ان تینوں کے درمیان کوئی دنیوی رشتہ نہ تھا بلکہ اسلامی اخوت تھی.جس نے دوسرے کو پیاس کی حالت میں دیکھ کر حلق سے پانی کے چند قطرات کا اترنا ناممکن بنا دیا.اور پھر سوچے کہ کیا یہ کیفیت کسی دنیوی تدبیر سے انسان کے اندر پیدا کی جاسکتی ہے؟ 2- ایک مسلمان اپنے باغ کی دیوار تعمیر کرنا چاہتا تھا لیکن بیچ میں ایک دوسرے شخص کا درخت آتا تھا.دیوار بنانے کے خواہش مند نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یہ درخت مجھے دلوا دیجئے.تاکہ میری دیوار سیدھی بن سکے لیکن درخت کا مالک اسے دینا پسند نہ کرتا تھا.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ درخت دے دو تو اس کے عوض جنت میں تمہیں درخت ملیں گے.مگر وہ اپنا درخت دینا پسند نہ کرتا تھا.اور آنحضرت ﷺ بھی بطور حکم اسے یہ کہنا نہ چاہتے تھے.ایک اور نوجوان صحابی حضرت ثابت بن وحداح کو جب اس کا علم ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ اس درخت کے عوض تمہیں جنت میں درخت ملیں گے تو آنحضرت ﷺ کی خواہش کو پورا کر کے جنت الفردوس میں باغات کے حصول کی خواہش نے ان کو بے تاب کر دیا اور فور درخت کے مالک کے پاس پہنچے اور اس سے کہا.کہ مجھ سے میرا باغ لے لو اور اس کے عوض یہ درخت مجھے دے دو.اس کو اور کیا چاہیے تھا.فوراً معاملہ طے ہو گیا.حضرت ثابت یہ طے کر کے آنحضرت ﷺ کی خدمت www.alislam.org

Page 4

8 مسلم نوجوانوں کے کارنامے 7 مسلم نوجوانوں کے نامے میں پہنچے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں نے یہ سودا کیا ہے اور یہ درخت دیوار بنانے والے کے حوالہ کر دینے پر آمادگی ظاہر کی.آنحضرت ہی ہے یہ سن کر نہایت مسرور ہوئے اور فرمایا.ثابت کے لیے جنت میں کتنے درخت ہیں.اس کے بعد حضرت ثابت اپنی بیوی کے پاس باغ میں پہنچے اور کہا کہ یہاں سے نکل چلو.میں نے یہ باغ جنت کے ایک درخت کے عوض فروخت کر دیا ہے.اس نیک بخت بیوی کا ایثار ملاحظہ ہو کہ اس پر نہایت مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ نہایت نفع مند سودا ہے.(اصابہ جلد 7 ص58).صحابہ کرام کے ایثار کے ساتھ یہ واقعہ ان کی ایمانی حالت کا بھی آئینہ دار ہے.موجود الوقت جائیداد کو آئندہ زندگی میں نفع کے خیال سے چھوڑ دینا اس وقت تک ممکن ہی نہیں ہوسکتا جب تک انسانی قلب اس یقین اور ایمان کے ساتھ پر نہ ہو کہ آنحضرت ﷺ کے دہن مبارک سے نکلی ہوئی بات ایک اور ایک دو کی طرح صحیح اور یقینی ہے.اس واقعہ کو پڑھ کر جب ہم اپنے زمانہ کی حالت پر نظر کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کس طرح لوگ معمولی معمولی باتوں پر اپنے بھائیوں کے ساتھ جھگڑتے اور تنازعات کرتے رہتے ہیں.اور نہ صرف یہ کہ ان کے لیے ایثار پر آمادہ نہیں ہوتے بلکہ انہیں ان جائز اور واجبی حقوق سے محروم کرنے کے لیے کس طرح قانونی موشگافیوں کی آڑ لیتے ہیں.اور طرح طرح کے حیلوں اور بہانوں سے کام لیتے ہیں تو ہمارا سرندامت سے جھک جاتا ہے.کیا ہم امید رکھیں کہ ہمارے دوست اپنے بزرگوں کی مثال کو خضر راہ بنائیں گے اور بالخصوص اس واقعہ سے سبق حاصل کریں گے.-3 حضرت لبید بن ربیعہ بہت فیاض آدمی تھے.اور جاہلیت کے زمانہ میں یہ عہد کر رکھا تھا کہ جب بادِ صبا چلا کرے گی میں جانور ذبح کر کے لوگوں کو کھلایا کروں گا.اور ہمیشہ اس عہد کو نبھاتے رہے لیکن ایک زمانہ ایسا آیا.کہ آپ کی مالی حالت اس قابل نہ رہی.تاہم اس عہد کو نہ ٹوٹنے دیا.لیکن اپنے اس عہد کو نباہنے کے لیے خود انہیں جس قدر خیال تھا.ان کے اسلامی بھائیوں کو اس سے کم نہ تھا.اور وہ اپنے بھائی کے اس عہد کو ایفاء ہوتا دیکھنے کا اس قدر خیال رکھتے تھے کہ جب باد صبا چلتی تو بطور امداد اونٹ جمع کر کے حضرت لبید کے پاس بھیج دیتے.کہ وہ اس عہد کے پورا کرنے کے قابل ہوسکیں.اور ان کے اس عہد کی ذمہ داری براہ راست ان پر نہ ہونے کے باوجود وہ کبھی اپنے بھائی کے لیے ایثار سے غافل نہ ہوتے تھے.- آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد جب سقیفہ بنو ساعدہ میں صحابہ کرام خلافت کا سوال حل کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے تو اگر چہ بعض طبائع میں ایک قسم کی کشمکش موجود تھی اور بوجہ اسکے کہ تمام لوگ یکساں طور پر اعلیٰ درجہ کے تربیت یافتہ نہیں ہوتے اور پھر عربوں کی عصبیت تو مشہور ہی ہے.یہ موقعہ نہایت نازک تھا اور اگر آنحضرت مہ کے فیض نے صحابہ کرام کو سراپا ایثار بنا کر نفسانیت کا خاتمہ نہ کر دیا ہوتا اور ادنی سی تحریک بھی عوام الناس کو زمانہ جاہلیت کی عصبیت کی طرف متوجہ کر دیتی تو خطرناک فتنہ کا دروازہ کھل جاتالیکن اس وقت بھی ان لوگوں میں ہمیں ایثار کا پہلو غالب نظر آتا ہے.چنانچہ اس خطرہ کو بھانپ صلى الله کر ایک انصاری نوجوان حضرت زید بن ثابت اٹھے.اور فرمایا کہ آنحضرت مہ مہاجر تھے.اس لیے آپ کا خلیفہ بھی مہاجر ہی ہونا چاہیے.ہمارے لیے یہ کافی فخر ہے کہ آپ کے انصار تھے اور جس طرح آپ کے انصار تھے اسی طرح آپ کے خلفاء کے بھی انصار ہی رہیں گے.اور جذبات و نفسانیت کو اس طرح نظر انداز کر دینے کی تحریک کا نتیجہ یہ ہوا کہ با ہم نفاق و اختلاف کا دروازہ بند ہو گیا.اور باوجود یہ کہ مختلف نسلوں اور قبائل کے مسلمان وہاں جمع تھے.خلافت کا مسئلہ بخیر و خوبی طے ہو گیا اور کوئی جھگڑا پیدا نہ ہوا.(مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 1820) 5- حضرت حمزہ جب جنگ احد میں شہید ہوئے تو ان کی حقیقی بہن حضرت صفیہ نے اپنے www.alislam.org

Page 5

10 کی ضرورت نہ رہی تھی اس لیے فوراً حضرت قیس کے پاس پہنچے.کہ اپنا روپیہ واپس لے لیں.مجھے اب ضرورت نہیں رہی مگر انہوں نے فرمایا ہم کوئی چیز دے کر اسے واپس نہیں لیا مسلم نوجوانوں کے نامے 9 مسلم نوجوانوں کے کارنامه صاحبزادہ حضرت زبیر کو دو چادریں دیں کہ ان سے حضرت حمزہ کے کفن کا کام لیا جائے.جب ان کو کفن پہنایا جار ہا تھا تو حضرت زبیر نے دیکھا کہ حضرت حمزہ کے پہلو میں ایک انصاری کی لاش پڑی ہے جس کے لیے کفن میسر نہیں.آپ نے اس بات کو گوارا نہ کیا کہ اپنے ماموں کو تو دو چادریں پہنا دیں اور دوسرا بھائی پاس بے کفن پڑا رہے.چنانچہ آپ نے ایک چادر ان کے لیے دے دی لیکن ایک چادر حضرت حمزہ کے لیے کافی نہ تھی.سر چھپایا جاتا تو پاؤں ننگے ہو جاتے اور پاؤں چھپاتے تو سرنگا ہو جاتا.آنحضرت ﷺ نے کرتے.دیکھا تو فرمایا کہ چادر سے چہرہ ڈھانک دو اور پاؤں پر گھاس اور پتے ڈال دو.اللہ اللہ! کیسے لوگ تھے کہ فرط غم کی حالت میں بھی جبکہ انسان اپنے ہوش و حواس کھو دیتا ہے انہیں اپنے بھائیوں کا اس قدر خیال رہتا تھا کہ مردوں میں بھی امتیاز گوارا نہ کرتے اور ان کی ضروریات سے آنکھیں بند نہ کر سکتے تھے.-6- حضرت قیس بن عبادہ کے لوگ کثرت سے مقروض تھے.ایک دفعہ آپ بیمار ہوئے تو مقروض عیادت کے لیے آتے ہوئے شرماتے تھے.آپ کو علم ہوا تو اعلانِ عام کرا دیا کہ میں نے سب قرضے معاف کئے.اس پر لوگ اس کثرت سے آنے لگے کہ بالاخانہ کا زینہ جس میں آپ صاحب فراش تھے ٹوٹ گیا.7- حضرت کثیر بن صلت امیر معاویہ کے مقروض تھے.امیر معاویہؓ نے مردان کو لکھا کہ قرضہ میں ان کا مکان خرید لو.مردان نے حضرت کثیر کو بلا کر کہا کہ تین روز کے اندر اندر یا تو روپیہ کا انتظام کر دو.ورنہ مکان دینے کے لیے تیار رہو.حضرت کثیر مکان دینا نہ چاہتے تھے.ادھر روپیہ کا کوئی انتظام نہ تھا.قرض کی رقم میں تمیں ہزار کی کمی تھی.سوچتے سوچتے حضرت قیس بن عبادہ کا خیال آیا.تو ان کے پاس جا کر تیں ہزار قرض مانگا، جو انہوں نے فورا دے دیا.اور وہ روپیہ لے کر مردان کے پاس پہنچے.معلوم نہیں کس وجہ سے اسے ایسا خیال آیا کہ اس نے روپیہ بھی لوٹا دیا اور مکان بھی لینے کا ارادہ ترک کر دیا.اب چونکہ روپیہ 8- حضرت طلحہ جو نوجوان صحابہ میں سے تھے.بنو تمیم کے محتاجوں اور تنگدستوں کی کفالت کیا کرتے تھے.مقروضوں کا قرض ادا کر دیتے تھے.ایک شخص صبیحہ تیمی پر تمہیں ہزار درہم قرض تھا.حضرت طلحہ نے سب کا سب اپنے پاس سے ادا کر دیا.و صحابہ کرام میں لالچ نام کو نہ تھا.اور ہمیشہ دوسرے بھائیوں کا خیال رکھتے تھے.ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر کو عطیہ دینا چاہا تو انہوں نے عرض کیا.یا رسول اللہ مجھے اس وقت ضرورت نہیں اس لیے آپ اسے دیں جو مجھ سے زیادہ محتاج ہو.10 - صحابہ کرام کی زندگیاں مجسم ایثار تھیں اور وہ ہر موقعہ پر اپنے بھائیوں کے لیے قربانی کرنے کے واسطے آمادہ رہتے تھے.لیکن ان کے ایثار کے سب واقعات کو اگر نظر انداز بھی کر دیا جائے تو صرف ایک واقعہ ہی ایسا ہے جس کی نظیر تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے.مسلمان جب ہجرت کر کے مدینہ میں آئے تو اکثر ان میں سے بالکل غریب اور نادار تھے.نہ کھانے کو کچھ پاس تھا نہ پہننے کو اور نہ سر چھپانے کو کوئی جگہ تھی.لیکن انصار مدینہ نے اس اخلاص اور ایثار کے ساتھ ان سے سلوک کیا کہ انہیں محسوس تک نہ ہونے دیا کہ وہ کسی غیر جگہ میں ہیں.اپنے مکانات ان کی رہائش کے لیے خالی کر دیئے اور انہیں اپنے اموال میں حصہ دار بنالیا.اپنی زمینیں اور باغات ان کے ساتھ تقسیم کر دیئے اور یہاں تک ان کے لیے ایثار کرنے کو تیار ہو گئے کہ حضرت سعد بن الربیع نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کو، جن کے ساتھ ان کی مواخات قائم ہوئی تھی ، کہ دیا کہ میری دو بیویاں ہیں.جن میں سے ایک کو میں طلاق دے دیتا ہوں تا کہ آپ اس کے ساتھ نکاح کر سکیں.اگر چہ حضرت عبدالرحمن نے اس تجویز کو بوجہ اس کے ناجائز ہونے کے قبول کرنے سے انکار کر دیا.اور نہ ہی حضرت سعد بن الربیع اسے جائز سمجھتے تھے.تاہم www.alislam.org

Page 6

مسلم نوجوانوں کے نامے رض 11 یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ اپنے بھائی کے لیے کس قدر ایثار پر آمادہ.....ہیں.انہوں نے یہ پیشکش کر دی اور مہاجرین کے لیے انصار کے ایثار کی یہ ایک ایسی درخشاں مثال ہے کہ جس کی نظیر نہ تو آج تک تاریخ عالم پیش کر سکی ہے اور نہ آئندہ پیش کر سکے گی.11.ایک دفعہ ایک یتیم لڑکے نے ایک شخص پر ایک نخلستان کی ملکیت کے متعلق دعویٰ کیا.آنحضرت ﷺ نے اس یتیم کے خلاف فیصلہ کیا.جسے سن کر وہ رو پڑا.ایک یتیم کی آنکھ سے ٹپکے ہوئے آنسو اس سراپا رحم اور مجسم شفقت انسان پر کوئی اثر نہ کرتے ، یہ ناممکن تھا.چنانچہ آپ نے از راہ رحم اس شخص سے فرمایا کہ گو فیصلہ تمہارے حق میں ہے لیکن اگر یہ نخلستان اس بچے کو دے دو تو اللہ تعالیٰ اسکے عوض تمہیں جنت میں دے گا.ہر انسان چونکہ عرفان کے صحیح مقام پر نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ ممکن ہے اس لیے اسے اس مشورہ کے قبول کرنے میں تامل تھا.لیکن وہیں ایک اور صحابی حضرت ابوالدحداح * موجود تھے.آنحضرت ﷺ کے منہ سے اس فقرہ کا سننا تھا کہ حضور کی خواہش کو پورا کرنے اور جنت میں اس کے عوض زیادہ باغات کے حصول کے خیال نے جائیداد کے لئے ان کی محبت کو سرد کر دیا.اور انہوں نے فوراً اپنے دل میں فیصلہ کیا کہ ایک یتیم لڑکے لیے زیادہ سے زیادہ ایثار کا نمونہ دکھا ئیں.چنانچہ انہوں نے اس باغ کے مالک سے کہا کہ تم میرا باغ لے لو اور اس کے عوض اپنا یہ باغ مجھے دے دو.چونکہ یہ سودا نفع مند تھا.وہ فوراً رضامند ہو گیا.معاملے طے کر کے حضرت ابو الدحداح آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! جو نخلستان اس یتیم کو دلوانے کی آپ کی خواہش تھی وہ اگر میں دے دوں تو کیا مجھے جنت میں اس کے عوض باغ ملے گا.آپ نے فرمایا ہاں چنا نچہ وہ باغ اس لڑکے کو دے دیا.ہمارے دوست ان چند مثالوں پر اگر غور کریں اور دیکھیں کہ اپنے جذبات کو اپنے بھائیوں کے لیے قربان کرنے.دو بھائیوں کے جھگڑے اور تنازعہ کا تصفیہ کرانے ،غریبوں کی امداد کرنے مسلم نوجوانوں کے کارنامے 12 اور انہیں قرض کے مصائب سے نجات دلانے ، دین کی راہ میں نقصان اٹھانے والے بھائیوں کے ساتھ سلوک کرنے اور ان کے لیے آسائش کے سامان بہم پہنچانے کے لیے ان پر کس قدر بھاری ذمہ داریاں ہیں تو نہایت ہی قلیل عرصہ میں مسلمانوں کی کایا پلٹ سکتی ہے.اور بلحاظ قوم اس قدر عزت اور ترقی حاصل کر سکتے ہیں.کہ جسے دیکھ کر دنیا دنگ رہ جائے.لیکن اس کا کیا علاج؟ کہ ایثار کے مفہوم سے بھی مسلمان نا آشنا ہیں اور ان کی نگاہ اپنے نفس اور اپنے خاندان سے آگے جاہی نہیں سکتی.حوالہ جات ا.(استیعاب ج 3 ص 19) ۲.(اصابہ ج 7 ص 58).(استیعاب ج 3 ص 393) ۴.(مسند احمد ج 5 ص 238).(سیر انصار ج 2 ص 134) ۵.(ابن سعد ج 3 ص 9) ے.(استیعاب ج3ص539) ؟ ۹.( بخاری کتاب الزکوۃ باب الاستعفاف عن المسئلة ) ١٠.؟ ا.(استیعاب ج 4 ص 210) www.alislam.org

Page 7

14 مسلم نوجوانوں کے کارنامے 13 مسلم نوجوانوں کے کارنامے دین کی راہ میں قربانی 1 - حضرت عکرمہ بن ابو جہل نے قبول اسلام کے بعد یہ عہد کیا تھا کہ جتنی دولت اسلام کی مخالفت میں صرف کر چکا ہوں.اس سے دو گنا خدمت اسلام میں صرف کروں گا اور اسلام کی مخالت میں جتنی لڑائیاں لڑا ہوں اس سے دو گنا اسلام کی تائید میں لڑوں گا.چنانچہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد جوفتنہ ارتداد اٹھا اس میں شام کی معرکہ آرائیوں میں ان کے کا رہانے نمایاں سے تاریخ اسلام کے صفحات مزین ہیں.اور اس طرح لڑائیوں کے متعلق انہوں نے اپنا عہد پورا کیا.مالی قربانی کا یہ حال ہے کہ ان سب لڑائیوں کی تیاری اور اخراجات کے لیے آپ نے کبھی ایک حبہ بیت المال سے نہیں لیا.جب لشکر اسلامی شام پر فوج کشی کے لیے تیار ہو رہا تھا تو حضرت ابو بکر فوج کے معائنہ کے لیے تشریف لے گئے.تو ایک خیمہ کے باہر آپ نے دیکھا کہ چاروں طرف گھوڑے بندھے ہوئے ہیں.تلوار میں اور دوسرا سامان جنگ با افراط رکھا ہے.آپ قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ خیمہ حضرت عکرمہ کا ہے اور سب سامان ان کا اپنا ہے.آپ نے کچھ رقم اخراجات جنگ کے لیے ان کو دینا چاہی.مگر انہوں نے لینے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ میرے پاس تا حال دو ہزار دینار موجود ہیں اس لیے بیت المال پر بوجھ ڈالنے کی مجھے ضرورت نہیں.مالی قربانی کے علاوہ عزت کی قربانی بھی انسان کے لیے بہت مشکل ہوتی ہے.اور کئی لوگ محض اس وجہ سے ہدایت سے محروم رہ جاتے ہیں کہ انہیں لوگوں کی نظروں سے گر جانے کا خوف ہوتا ہے لیکن صحابہ کی حالت بالکل مختلف تھی.اور دین کی راہ میں وہ ہر چیز کی قربانی کے لیے تیار رہتے تھے.حضرت سعد بن معاذ اپنے قبیلہ کے سردار تھے.جب آپ نے اسلام قبول کیا تو قبیلہ کے لوگوں کو بھی اس کی اصلاح ہوگئی.آپ جب ان میں پہنچے تو کھڑے ہوئے کر پوچھا کہ میں تم میں کس درجہ کا آدمی ہوں.لوگوں نے کہا آپ سردار اور اہل فضیلت ہیں.لیکن آپ نے فرمایا کہ جب تک تم لوگ اسلام قبول نہ کرو گے میں تم سے بات چیت کرنا پسند نہیں کرتا.آپ کو اپنے قبیلہ میں جو اثر ورسوخ حاصل تھا.اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ شام سے پہلے پہلے تمام قبیلہ مسلمان ہو گیا.حضرت عبداللہ بن زید کے پاس جائیداد بہت قلیل تھی.اور نہایت تنگی کے ساتھ بال بچوں کا پیٹ پالتے تھے لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ اسلام کے لیے مال کی ضرورت تھی.جسے پورا کرنے کے لیے چندہ کی تحریک کی گئی.حضرت عبداللہ کے پاس گو مال کی کمی تھی لیکن دل میں ایمانی حرارت موجود تھی.اس سے مجبور ہو کر آپ کے پاس جو کچھ بھی تھا آپ نے سب کا سب خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دیا.ان کے باپ نے آکر آنحضرت ﷺ سے شکائتاً اس کا ذکر کیا.تو آپ نے ان کو لا کر فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے تمہارا صدقہ قبول کر لیا ہے لیکن اب تمہارے باپ کی میراث کے طور پر تم کو واپس کرتا ہے.تم اس کو قبول کرلو.-4 جب قرآن کریم کی آیت مَن ذَا الَّذِي يُقَرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَناً نازل ہوئی تو ایک نوجوان صحابی حضرت ثابت بن و حداح آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے.اور عرض کیا یا رسول اللہ کیا خدا تعالیٰ ہم سے قرض مانگتا ہے.آپ نے فرمایا: ہاں، یہ سننا تھا کہ د نیوی ضرورتیں، بیوی بچوں کی فکر اور مستقبل کا خیال سب چیزیں آپ کی نظر سے اوجھل ہو گئیں.اور صرف خدا اور اس کا رسول اور اس کے دین کی ضرورت سامنے رہی.چنانچہ آپ نے اپنا تمام مال صدقہ کر دیا.5 جب آیت کریمہ لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون نازل ہوئی تو صحابہ نے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر قربانیاں پیش کیں.ایک نوجوان صحابی حضرت ابوطلحہ نے اپنی ایک نہایت قیمتی جائیداد وقف کر دی.اس میں ایک کنواں تھا جس کا پانی شیر میں تھا.اور آنحضرت یہ اسے بہت شوق سے پیا کرتے تھے.www.alislam.org

Page 8

مسلم نوجوانوں کے نامے 15 6- حضرت فاطمۃ الزہرا کے ساتھ حضرت علیؓ کی شادی کے بعد ایک روز آنحضرت مہ آپ کے ہاں گئے تو حضرت فاطمہ نے عرض کیا.کہ حارثہ بن نعمان کے پاس کئی مکانات ہیں ان سے فرمائیں کہ ایک مکان ہمارے لیے خالی کر دیں.آپ نے فرمایا کہ وہ ہمارے لیے پہلے ہی اتنے مکانات خالی کر چکے ہیں کہ مجھے اب ان سے بات کہتے ہوئے تأمل ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے ان سے اس کے متعلق کوئی ذکر کر نا بھی پسند نہ کیا.حضرت حارثہ کو کسی اور ذریعہ سے اس بات کا علم ہو گیا.تو آپ بھاگے بھاگے آئے اور عرض کیا.یا رسول اللہ میرا تمام مال اور جائداد حضور پر قربان ہے اور میں تو اس میں خوشی محسوس کرتا ہوں کہ آپ مری کوئی چیز قبول فرمائیں.جو چیز آپ قبول فرمالیں وہ مجھے زیادہ خوشی پہنچاتی ہے بہ نسبت اسکے کہ جو میرے قبضہ میں رہے.اور پھر خود بخود ایک مکان خالی کر کے پیش کیا جس میں حضرت علی اور حضرت فاطمہ نے رہائش اختیار فرمالی.7 - 8 ھ میں مسلمانوں کو ایک غزوہ پیش آیا جسے غزوہ جیش الخبط کہتے ہیں.مسلمانوں کی تعداد تین سو تھی لیکن زاد راہ ختم ہو گیا اور مجاہدین کو سخت پریشانی کا سامنا ہوا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ درختوں کے پتے جھاڑ جھاڑ کر کھانے لگے.حضرت قیس بن سعد بن عبادہ بھی اس لشکر میں شریک تھے.آپ نے تین مرتبہ تین تین اونٹ قرض لے کر ذبح کیے اور سارے لشکر کو دعوت دی..حضرت صہیب ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے.مگر نہایت مسکین اور بے کس آدمی تھے.قریش مکہ ان کو طرح طرح کی تکالیف پہنچاتے تھے.تنگ آکر آپ نے ہجرت کا ارادہ کیا تو مشرکین نے کہا کہ تم جب یہاں آئے تھے تو بالکل مفلس اور قلاش تھے.اب ہماری وجہ سے مالدار ہو گئے ہو تو چاہتے ہو کہ تمام مال و اسباب لے کر یہاں سے نکل جاؤ.ہم ہرگز تمہیں ایسا نہ کرنے دیں گے.آپ کے دل میں ایمان کی جو گن تھی وہ ایسی نہ تھی کہ مال و دولت کی زنجیر ان کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کرنے سے باز رکھ سکتی.آپ نے فرمایا کہ مسلم نوجوانوں کے 16 اگر میں تمام مال و دولت تمہارے حوالہ کر دوں تو پھر تو تم کو میرے جانے پر کوئی اعتراض نہ ہوگا.وہ رضامند ہو گئے.چنانچہ آپ نے سب مال و اسباب ان کے حوالے کیا اور بالکل مفلس ہو کر ہجرت اختیار کی.آنحضرت ﷺ کو جب اس کا علم ہوا تو فرمایا.ریح صہیب یعنی صہیب نفع میں رہے.جو لوگ معمولی مواقع پیش آنے پر دین کی خدمت سے محروم رہ جاتے ہیں اور ثواب کے مواقع ہاتھ سے کھو دیتے ہیں انہیں اپنے اس بزرگ کی مثال پر غور کرنا چاہیے جس نے ایمان کی حفاظت کے لیے اپنا تمام اندوختہ قربان کرنے میں ایک لمحہ بھی تامل نہ کیا..حضرت نوفل بن حارث نے غزوہ حنین میں تین ہزار نیزے اپنی گرہ سے خرید کر مجاہد دین کے لیے پیش کیے.10 - حضرت سعد بن مالک بیمار ہوئے تو آنحضرت ﷺ عیادت کے لیے تشریف لائے.انہیں اپنی اس سعادت پر اس قدر مسرت ہوئی کہ عرض کیا.یا رسول اللہ ! میں خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنا کل مال صدقہ کرتا ہوں.آپ نے فرمایا.ورثاء کے لیے کیا چھوڑتے ہو.تو عرض کیا کہ وہ سب خدا تعالیٰ کے فضل سے آسودہ حال ہیں.مگر آپ نے فرمایا.کہ نہیں صرف 1/10 کی وصیت کرو.لیکن انہوں نے اس سے زیادہ کرنے کی خواہش کی تو آپ نے 1/3 کی اجازت دے دی.11.حضرت ابی وقاص مرض الموت میں مبتلا تھے کہ آنحضرت یہ عیادت کے لیے تشریف لائے.حضرت ابی وقاص نے عرض کیا.یا رسول اللہ میرے پاس دولت بہت ہے اور ورثاء میں سے صرف ایک لڑکی ہے.چاہتا ہوں کہ 2/3 مال صدقہ کردوں.آپ نے منع فرمایا تو عرض کیا.اچھا نصف کی اجازت دیجئے.مگر آپ نے اس کی بھی اجازت نہ دی اور فرمایا کہ تیسرا حصہ کافی ہے.12 - حضرت طلحہ نے سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا.اور جنگِ بدر میں جس www.alislam.org

Page 9

18 مسلم نوجوانوں کے کارنامے 17 مسلم نوجوانوں کے نامے جاں نثاری کے ساتھ رسول کریم اے کے لیے سینہ سپر رہے اس کا ذکر تفصیل کے ساتھ کسی دوسری جگہ آچکا ہے.لیکن مالی قربانی کے لحاظ سے بھی آپ کسی سے پیچھے نہ تھے.عہد کر رکھا تھا کہ غزوات کے مصارف کے لیے اپنا مال پیش کیا کریں گے.چنانچہ اس عہد کو استقلال اور استقامت کے ساتھ نباہا.غزوہ تبوک کے موقع پر جب مسلمان عام طور پر فلاکت میں مبتلا تھے اور سامان جنگ کی فراہمی کے لیے سخت دقت در پیش تھی.آپ نے ایک گراں قدر رقم پیش کی.اس پر آنحضرت مہ نے آپ کو فیاض کا خطاب دیا.13 - جب قرآن کریم کی آیت کریمہ رِجال صَدَقُوا مَا عَاهَدُ وَالله عَلَيْهِ فَمِنهُم مِن قضى نحبہ یعنی کچھ آدمی ایسے ہیں جنہوں نے خدا سے جو کچھ عہد کیا اس کو سچا کر دکھایا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا.طلحہ تم بھی ان لوگوں میں سے ہو.14.حضرت طلحہ غزوہ ذی القرد میں آنحضرت ﷺ اور دیگر مجاہدین کے ساتھ ایک چشمہ آب پر سے گزرے تو اسے خرید کر وقف کر دیا.-15- حضرت عبد الرحمن بن عوف نے جوانی کے وقت اسلام قبول کیا.آپ بہت بڑے تاجر اور بہت بڑے مالدار تھے لیکن دولت سے پیار بالکل نہ تھا.بلکہ اسے راہ خدا میں خرچ کرنے میں ہی خوشی محسوس کرتے تھے.ایک دفعہ ان کا تجارتی قافلہ مدینہ آیا تو اس میں سات سو اونٹوں پر گیہوں، آنا اور دیگر اشیاء خوردنی بارتھیں.چونکہ یہ ایک غیر معمولی بات تھی.تمام مدینہ میں چرچا ہونے لگا.حضرت عائشہ نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ فرماتے تھے عبدالرحمن جنت میں رینگتے ہوئے داخل ہو نگے.حضرت عبدالرحمن تک بھی یہ بات پہنچی.تو حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آپ گواہ رہیں میں نے یہ پورا قافلہ معہ اسباب و سامان حتی کہ کجاوے تک راہ خدا میں وقف کر دیا.16 - مذکورہ بالا مثال پر ہی آپ کی مالی قربانی ختم نہیں ہوتی بلکہ آپ زندگی بھر راہ دین میں کثرت سے قربانیاں کرتے رہے.چنانچہ دو مرتبہ آپ نے یک مشت چالیس چالیس ہزار دینار دیئے اور ایک غزوہ کے موقعہ پر جہاد کے لیے پانچ سو گھوڑے اور اتنے ہی اونٹ حاضر کیے.17 - وفات کے وقت بھی آپ نے پچاس ہزار دینار اور ایک ہزار گھوڑے راہ خدا میں وقف کرنے کی وصیت کی.علاوہ ازیں اس وقت تک بدری صحابیوں میں سے جو جو زندہ تھے ان میں سے ہر ایک کے لیے چار چار سو دینار کی وصیت کی.بیان کیا جاتا ہے کہ اس وقت تک ایک سو بدری صحابی زندہ تھے.اور سب نے اس وصیت سے بخوشی فائدہ اٹھایا حتی کہ حضرت عثمان نے بھی اپنا حصہ لیا.18- دین کی راہ میں صحابہ کی قربانیاں کئی رنگ میں ہوتی تھیں.ایک متمول انسان کا خدا کی راہ میں مال خرچ کرنا اور بات ہے لیکن ایک معمولی حیثیت کے آدمی کا اپنے سرمایہ اور پونچی سے محروم ہو جانا بہت بڑا ابتلاء ہے.اور شیطان نے اس راہ سے بھی صحابہ کے ایمان میں تزلزل پیدا کرنے کی کوششیں کی لیکن باقی تمام راہوں کی طرح وہ اس راہ سے بھی ان کے ایمان کو متزلزل نہ کر سکا.حضرت خباب ایک نوجوان صحابی تھے جن کا ایک مشرک عاص بن وائل کے ذمہ قرض تھا.آپ نے اسلام قبول کرنے کے بعد جب اس سے قرض کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا کہ جب تک ﷺ کی نبوت کا علی الاعلان انکار نہ کرو گے میں یہ روپیہ تم کو ہر گز ادا نہ کروں گا.لیکن آپ نے جواب دیا کہ روپیہ ملے یا نہ ملے لیکن یہ تو قیامت تک نہیں ہوسکتا کہ میں ایک معمولی دنیوی فائدہ کے لیے نبوت ورسالت سے انکار کر دوں.19 - جانی اور مالی اور عزت کی قربانیوں کے علاوہ دنیا میں تعلقات اور رشتہ داروں کی قربانی بھی بہت مشکل ہے.آنحضرت ﷺ کی آواز پر جن لوگوں نے لبیک کہا.ان کے لیے اس قربانی کا موقعہ آنا بھی لازمی تھا.چنانچہ صحابہ کو یہ قربانیاں کرنی پڑیں.اور آپ نے.www.alislam.org

Page 10

20 مسلم نوجوانوں کے کارنامے 19 مسلم نوجوانوں کے نامے دوسرے رنگ کی قربانیوں کی طرح اس میں بھی نہایت عمدہ نمونہ پیش کیا.حضرت سعد بن ابی وقاص اپنی والدہ کے بے حد فرماں بردار اور خدمت گزار تھے.انیس سال کا سن تھا کہ آپ کو قبول اسلام کی سعادت نصیب ہوئی.ماں کو علم ہوا تو سخت رنج ہوا اور قسم کھائی کہ جب تک سعد نئے دین کو نہ چھوڑیں گے میں نہ کھانا کھاؤں گی نہ پانی پیوں گی اور نہ ان سے بات چیت کروں گی.چنانچہ اس قسم کو پورا کیا حتی کہ تیسرے دن بے ہوش ہوگئی.اور نقاہت کی وجہ سے غش پر خش آنے لگے.اسے اپنے سعادت مند فرزند پر یہ امید تھی کہ اسے مسلسل فاقہ اور تکلیف کی حالت میں دیکھ کر ضرور اس کا کہا مان لے گا.اسلام سے برگشتہ ہو جائے گا اور ایمان کو اس کی خوشنودی پر قربان کر دے گا.ایک طرف ماں کی جان جانے کا خیال تھا اور دوسری طرف ایمان کے ضائع ہونے کا.عام حالات میں دنیا دار لوگ اپنی ماں کو کسی عقیدہ پر قربان کرنے کے لیے بہت کم تیار ہو سکتے ہیں.لیکن حضرت سعد اسلام کو ماں کی جان سے بہت زیادہ قیمتی سمجھتے تھے.چنانچہ ماں کی اس سنتیہ آگرہ کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا اور اس سے صاف کہہ دیا کہ اگر تمہارے قالب میں سو جانیں ہوں اور ہر ایک نکل جائے تو بھی میں اپنے دین کو نہ چھوڑوں گا.20.ایسے ابتلاء اور بھی کئی صحابہ کو پیش آئے مگر سب کے سب ثابت قدم رہے.حضرت خالد بن سعید جب اسلام لائے تو ان کے باپ کو سخت صدمہ ہوا.بیٹے کو خوب زدوکوب کیا اور ساتھ ہی خود کھانا پینا ترک کر دیا اور کہا کہ جب تک میرا بیٹا اسلام کو ترک نہ کرے گا میں نہ کھانا کھاؤں اور نہ پانی پیوں گا.گھر میں ان کے بائیکاٹ کا حکم دے دیاحتی کہ سب نے بات چیت تک بند کر دی مگر اس سعید نوجوان پر ان میں سے کسی بات کا بھی کوئی اثر نہ ہوا اور انہوں نے رسول کریم ﷺ کی رفاقت کو ایک لمحہ کے لیے بھی چھوڑ نا گوارا نہ کیا.اور آخر کار حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے.اس پر باپ کو اور بھی رنج ہوا اور وہ بھی اپنا مال واسباب کو لے کر طائف کو چلا گیا.21- حضرت ابو بکر کی عمر آنحضرت ﷺ سے اڑھائی سال کم تھی.آپ نے چالیس سال کی عمر میں دعوی رسالت کیا.اور اس لحاظ سے حضرت ابوبکر کا شمار بھی نوجوان صحابہ میں ہوسکتا ہے.آپ نے دیکھا کہ بہت سے غلام اور لونڈیاں جو اپنے مشرک آقاؤں کے قبضہ میں تھے اسلام قبول کرنے کے باعث طرح طرح کے مظالم کا تختہ مشق بنے ہوئے تھے.اور ان کے ہاتھوں سخت اذیتیں اٹھا رہے تھے.حضرت ابو بکر کی محبت نے اپنے بھائیوں کے مصائب پر جوش مارا اور ان کی محبت نے مال و دولت کی محبت انکے دل میں سرد کر دی.اور انہوں نے کئی ایسے غلام مثلاً حضرت بلال ، حضرت عامر بن فہیرہ ، نذیرہ ، نہد یہ، جاریہ بن نوفل اور بنت تہد یہ وغیرہ کو خرید کر آزاد کر دیا.کسی دنیوی لالچ کے بغیر اور کسی ظاہری نفع کی امید کے بالکل نہ ہونے کے باوجود ایسے لوگوں کے لیے جن سے نہ کوئی رشتہ تھا اور نہ قرابت حتی کہ ہم قوم بلکہ بعض حالتوں میں ہم وطن ہونے کا بھی تعلق نہ تھا.اس قدر مالی قربانی کرنا صرف مسلمانوں کا ہی حصہ ہے.22.حضرت ابو بکر عرب کے متمول ترین لوگوں میں سے تھے.اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو قبول اسلام کی توفیق ایسے وقت میں دی جو امنگوں اور آرزوؤں کا زمانہ تھا یعنی عالم جوانی میں، جو عمر عرب کے تمدن کے لحاظ سے داد عیش و نشاط دینے کی عمر بھی جاتی تھی لیکن آپ نے اپنی دولت و ثروت کو دین کے لیے وقف فرما دیا تھا.قبول اسلام کے وقت آپ کے پاس چالیس ہزار درہم نقد موجود تھے مگر سب راہ دین میں صرف کر دیئے.آپ نے اس قدر مالی قربانیاں کیں کہ زمانہ خلافت میں آپ پر چھ ہزار درہم قرض تھا.وفات کے وقت بھی آپ مقروض تھے.اور وصیت فرمائی تھی کہ میرا باغ بیچ کر قرض ادا کیا جائے اور پھر جو مال بچے وہ حضرت عمر کے سپر د کر دیا جائے.اس عظیم الشان انسان کی وفات پر جو دنیا میں درہم و دینار سے کھیلتا رہا اور سیم وزرلٹا تا رہا جسے اپنی زندگی میں اللہ تعالیٰ نے حکومت کا بھی بلند ترین منصب عطا کیا جب اسکے مال و اسباب کا جائزہ لیا گیا تو صرف ایک غلام ایک لونڈی اور دو اونٹیاں نکلیں.جو حضرت عمرؓ کے سپر د کر دی گئیں.www.alislam.org

Page 11

22 مسلم نوجوانوں کے کارنامے 21 مسلم نوجوانوں کے نامے 23.حضرت عثمان نے 34 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا.آپ بہت بڑے دولت مند تھے.مکہ سے ہجرت کر کے جب مسلمان مدینہ میں آئے تو پانی کی سخت تکلیف تھی.صرف ایک کنواں (بیر رومہ ) ایسا تھا جس کا پانی عمدہ اور شیر میں تھا.مگر وہ ایک یہودی کی ملکیت تھا جو پانی قیمت فروخت کرتا تھا.ادھر صحابہ کی مالی حالت عام طور پر ایسی نہ تھی کہ مول لے کر پانی پی سکیں.اس لیے حضرت عثمان نے وہ کنواں اس کے یہودی مالک سے نہیں ہزار درہم میں خرید کر وقف کر دیا.24.آنحضرت ﷺ نے جب غزوہ تبوک کی تیاری کا حکم دیا تو مالی تنگی حد سے زیادہ تھی.اور سامان جنگ کا مہیا کر ناسخت مشکل ہور ہا تھا.آپ نے صحابہ کرام کو مالی اعانت کی تحریک فرمائی.تو حضرت عثمان نے دس ہزار مجاہدین کو اپنے خرچ سے آراستہ کیا.اور ان کے لیے معمولی سے معمولی چیز بھی آپ کے روپیہ سے خریدی گئی.اس کے علاوہ ایک ہزار اونٹ، ستر گھوڑے اور سامان رسد کے لیے ایک ہزار دینار نقد پیش کیے.25.حضرت امام حسنؓ کے متعلق لکھا ہے کہ آپ نے تین مرتبہ اپنا آدھا آدھا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کیا.اور تنصیف میں اس قدر شدت سے کام لیا کہ دو جوتوں میں سے ایک جوتا بھی دے دیا.(اسد الغابہ جلد 2 ص 13) 26.دین کی راہ میں صحابہ کرام کیا مرد اور کیا عورتیں ہر رنگ میں قربانی کے لیے کمر بستہ نظر آتے ہیں.مال و دولت اور جان عزیز کے علاوہ جب موقعہ ہوتا تو اپنی اولادوں کو بھی نہایت اخلاص کے ساتھ قربان کر دیتے تھے.ایک عورت کی مثال پڑھیے اور غور کیجئے کہ ہمارے بزرگ کیسے کامل الایمان تھے.حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب عراق میں قادسیہ کے مقام پر جنگ جاری تھی تو حضرت خنساء اپنے چار بیٹوں کو لے کر میدان جنگ میں آئیں اور ان کو مخاطب کر کے کہا کہ پیارے بیٹو! تم نے اسلام کسی جبر کے ماتحت اختیار نہیں کیا اس لیے اسکی خاطر قربانی کرنا تمہارا فرض ہے.خدا کی قسم میں نے نہ تمہارے باپ سے کبھی خیانت کی اور نہ تمہارے ماموں کو رسوا کیا.یہ دنیا چند روزہ ہے اور اس میں جو آیا وہ ایک نہ ایک دن مرے گا.لیکن خوش بخت ہے وہ انسان جسے خدا تعالی کی راہ میں جان دینے کا موقعہ ملے.اس لیے صبح اٹھ کر لڑنے کے لیے میدان میں نکلو اور آخر وقت تک لڑو.کامیاب ہو کر واپس آؤ.نہیں تو شہادت کا مرتبہ حاصل کرو.سعادت مند بیٹوں نے بوڑھی ماں کی اس نصیحت کو گوش ہوش سے سنا اور لڑائی شروع ہوئی تو ایک ساتھ گھوڑوں کی باگیں اٹھائیں.اور نہایت جوش کے ساتھ رجز پڑھتے ہوئے کفار پر ٹوٹ پڑے.اور چاروں نے شہادت کا درجہ پایا.دلاور ماں نے جب بیٹوں کی شہادت کی خبر سنی تو ان کو قربانی کا یہ موقعہ ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا.(اسد الغابہ جلد 1 ص 560) صحابہ کرام کے مردوزن کی قربانیوں کی یہ چند ایک مثالیں دینی ترقی کا راز اپنے اندر مضمر رکھتی ہیں.انہیں ہر قسم کی قربانیوں کے مواقع پیش آئے.مالی بھی اور جانی بھی.عزت کی بھی اور رشتہ داروں کی اور اولاد کی بھی.اور انہوں نے ہر موقعہ پر نہایت شرح صدر اور بشاشت قلب کے ساتھ یہ قربانیاں پیش کیں.پھر یہ سعادت کسی خاص طبقہ کے لیے مخصوص نہ تھی.بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ مالدار لوگوں کے لیے قربانیاں کرنا کیا مشکل امر ہے؟ مشکل تو غریبوں کے لیے ہے جن کے پاس کھانے کو بھی کچھ نہ ہو لیکن ان واقعات میں جہاں آپ کو نادار لوگوں کی انتہائی قربانیوں کی مثالیں نظر آئیں گی وہاں امراء کی بے مثال قربانیاں بھی ملیں گی.جو یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ جو پہلے ہی تنگ دست ہو اس کے لیے کچھ دے دینا کیا مشکل ہے.مشکل تو ان لوگوں کے لیے ہے جن کی ضروریات وسیع ہوتی ہیں.جن کی تمدنی حالت ایسی ہوتی ہے کہ وہ بوجہ عادی ہونے کے آرام و آسائش کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں.اور تکلیف سے گزارہ نہیں کر سکتے.اور حقیقت یہ ہے کہ قربانی نہ دولت و مال پر منحصر ہے اور نہ تنگدست اور مفلسی کا نتیجہ.بلکہ اس کا تعلق انسان کے قلبی ایمان کے ساتھ ہوتا ہے جس کے دل میں ایمان کی شمع روشن ہو اس کے لیے قربانی کی راہ میں نہ اس کی غربت حائل ہو سکتی ہے نہ کثرت اموال.www.alislam.org

Page 12

مسلم نوجوانوں کے ی کارنامے حوالہ جات ا.(اسد الغابہ ج 3 ص 568) ۲.(سیر انصارج 2 ص 14ص) ۳.(اسد الغابہ ج 2 ص 138 139) ۴.(اسد الغابہ ج اص 305) ۵- (سیر انصارج اص 169،168) ۶.( ابن سعد ج 8 ص 22) ے.( بخاری کتاب المغازی باب غزوہ سیف البحر...) (ابن سعد ج 3 ص 162) ۹.(اسد الغابہ ج 5 ص 573 ،574) ۱۰ ( ترمذی ابواب الجنائز باب ما جاء فی الوصیة فی الثلث والربع) ۱۱.( ابوداؤ د کتاب الوصایا باب ما جاء فی مالا یجوز للموصى في ماله ) ۱۲.(اسد الغابہ ج 2 ص 479،475) ۱۴.(اصابہ ج 3 ص 430) ۱.(اسد الغابہ ج 3 ص 379).(فتح الباری ج ص ) ۱۵.(اسد الغابہ ج 3 ص 378،377) کا.(اسد الغابہ ج 3 ص 379) ۱۸.( بخاری کتاب الاجاره باب هل يواجر الرجل نفسه من مشرک) ۱۹.(اسد الغابہ ج 3 ص235،234) ۲۰.(ابن سعد ج 3 ص 100) ۱۳ - ( فتح الباری ج 7 ص 24) ۲۲.(ابن سعد ج 1 ص 122) ۲۴.(استیعاب ج 3 ص 157) ۲۳.( ابن سعد ج 1 ص 137) ۲۵.(مستدرک حاکم ج 3 ص 103) ۲۶.(اسد الغابہ ج 6 زیر لفظ خنسا) 23 مسلم نوجوانوں کے کارنامے شوق جہاد فی سبیل اللہ 24 حضرت سعد الاسود کے متعلق دوسری جگہ بتایا جا چکا ہے کہ انہیں حصول رشتہ میں سخت مشکلات پیش آئی تھیں.اور آخر آنحضرت ﷺ کی تجویز پر حضرت عمرو بن وہب کی لڑکی نے آپ کے ساتھ رشتہ منظور کر لیا تھا.ہر شخص با آسانی اندازہ کر سکتا ہے کہ ایک ہمہ صفت موصوف پاکباز لڑکی کے ساتھ اس قدر تگ و دو اور کوشش کے بعد رشتہ میں کامیابی ان کے لیے کس قدر مسرت کا موجب ہوئی ہوگی.اور کس طرح ان کا دل امنگوں اور آرزوؤں سے لبریز ہوگا.تقریب رخصتانہ کی تعمیل کے سلسلہ میں آپ بیوی کے لیے بازار سے تحائف خریدنے کے لیے نکلے.اور عین اس وقت کہ آپ نہایت خوش آئند خواب کو پورا ہوتا دیکھنے کے سامان فراہم کرنے میں مصروف تھے.منادی کی آواز سنی جو کہہ رہا تھا کہ یا خیل الله ار کبی و با لجنة البشرى_یعنی اے خدا تعالی کے سپاہیو! جہاد کے لیے سوار ہو جاؤ اور جنت کی بشارت پاؤ.اس آواز کا کان میں پڑنا تھا کہ تمام ولولے سرد پڑے گئے جہاد کا جوش رگوں میں دوڑ نے لگا.اور نوعروس کے ساتھ شادی کا خیال ہی دل سے نکل گیا.اسی روپیہ سے تحائف کی بجائے تلوار، نیزہ اور گھوڑا خرید کیا.سر پر عمامہ باندھا اور مہاجرین کے لشکر میں جا کر شامل ہو گئے.وہاں سے میدان جنگ میں پہنچے اور داد شجاعت دینے لگے.ایک موقعہ پر گھوڑا کچھ اڑا تو نیچے اتر آئے اور پا پیادہ تیغ زنی کرنے لگے.حتی کہ درجہ شہادت پایا اور نو عروس سے ہم آغوش ہونے کی بجائے عروس تیغ سے ہمکنار ہوئے.آنحضرت ﷺ کو خبر ہوئی تو لاش پر تشریف لے گئے.آپ کا سرگود میں رکھ لیا.اور دعا فرمائی اور تمام سامان مرحوم کی بیوی کے پاس بھجوا دیا.یہ واقعہ کسی حاشیہ آرائی یا تبصرہ کا محتاج نہیں.وہ نوجوان جو دین کے لیے بلائے جانے پر عذر تراشتے اور بہانے تلاش کرتے ہیں انہیں اس پر غور کرنا چاہیے.2 حضرت عکرمہ بن ابی جہل کے جہادی کارناموں سے تاریخ کے اوراق مزین ہیں.شام پر www.alislam.org

Page 13

26 مسلم نوجوانوں کے 25 مسلم نوجوانوں کے نامے فوج کشی ہوئی تو محل کے معرکہ میں شامل تھے اور نہایت بے جگری سے لڑتے ہوئے دشمنوں کی صفوں میں گھس جاتے تھے.سرسینہ اور تمام جسم زخموں سے چھلنی ہو چکا تھا.لوگوں نے از راہ ہمدردی کہا کہ اس طرح اپنے آپ کو ہلاکت کے منہ میں نہ ڈالیں تو جواب دیا کہ لات و عزیٰ کے لیے تو جان پر کھیلا کرتا تھا اور آج خدا اور رسول کے لیے لڑنے کا وقت آیا ہے تو کیا جان کو عزیز رکھوں.خدا کی قسم ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا.3 معرکہ یرموک میں حضرت خالد بن ولید نے حضرت عکرمہ کو ایک دستہ کا افسر مقرر کیا.دشمن بہت زبردست تھا اور اس نے ایسا حملہ کیا کہ مجاہدین اسلام کے قدم ڈگمگا گئے.حضرت عکرمہ نے یہ حالت دیکھی تو بہ آواز بلند پکارا کہ کون موت پر بیعت کرتا ہے.فوراً چارسو جان بازسامنے آموجود ہوئے اور خدا کی راہ میں جانیں لڑا دینے کا عزم کر کے دشمن پر ٹوٹ پڑے اور اپنے اس عہد کو ایسی دیانت داری سے نبھایا کہ اکثر نے شہادت پائی.اور جو باقی بچے وہ بھی زخموں سے چور چور تھے.-4- حضرت واثلہ بن اسقع ایک نوجوان صحابی تھے.جو 9 ھ میں اسلام لائے چند ہی روز بعد غزوہ تبوک کی تیاری شروع ہوئی.اور مجاہدین سر سے کفن باندھ باندھ کر میدان کی طرف روانہ ہو گئے لیکن اس نو مسلم کے پاس سواری نہ تھی.بہت کوشش کی مگر کوئی صورت نہ بن سکی.ادھر شوق جہاد نے بے تاب کر رکھا تھا.مدینہ کی گلیوں میں دیوانہ وارصدائیں لگانے لگے کہ کون شخص مجھے مال غنیمت کے عوض تبوک پہنچانے کا ذمہ لیتا ہے.اتفاق سے ایک انصاری بزرگ ابھی روانہ نہ ہوئے تھے.انہوں نے حامی بھری اور کہا کہ میں لے چلوں گا.کھانا بھی دوں گا اور سواری بھی.اس طرح آپ میدان جنگ میں پہنچے اور جہاد میں شامل ہوئے.5- حضرت ابو مجن ثقفی بہت آخر زمانہ میں مشرف بہ اسلام ہوئے.اس لیے ان کا ذکر عہد فاروقی میں ہی نظر آتا ہے.جس زمانہ میں ایران پر مسلمانوں نے فوج کشی کی یہ کسی وجہ سے قید تھے.لیکن جہاد کے شوق نے اس قدر بے تاب کر دیا کہ قید سے فرار ہوکر میدان جنگ میں جا پہنچے.حضرت عمر و اطلاع ہوئی تو آپ نے سپہ سالار لشکر اسلام حضرت سعد بن ابی وقاص کو لکھا کہ انہیں گرفتار کر کے قید کر دیا جائے.چنانچہ وہیں قید کر دیئے گئے.جب جنگ قادسیہ لڑی جارہی تھی یہ اس وقت پابند سلاسل تھے.لیکن میدان جنگ کے واقعات سن کر رگوں میں خون جوش مار ہا تھا.حضرت سعد کی بیوی حضرت سلمی سے کہا کہ مجھے آزاد کر دو کہ میدان میں جا کر داد شجاعت دوں.میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر زندہ بچ گیا تو خود بخود آکر بیٹریاں پہن لوں گا.انہوں نے انکار کیا تو ایسے دردانگیز اشعار پڑھنے لگے کہ حضرت سلمیٰ کا دل بھر آیا.اور انہوں نے آزاد کر دیا.چنانچہ میدان جنگ میں جا پہنچے.اور ایسی شجاعت سے لڑے کہ جس طرف نکل جاتے دشمنوں کی صفیں الٹ دیتے.صحابہ کرام آپ کی شجاعت کو دیکھ کر عش عش کر رہے تھے.6.غزوہ بدر کے وقت حضرت انسؓ کی عمر صرف بارہ برس تھی مگر میدان جنگ میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ پہنچے.اور آپ کی خدمت بجالاتے ہوئے غزوہ احد کے وقت آپ کی عمر تیرہ سال تھی.لیکن اس میں بھی شریک ہوئے.7 حضرت ابو سعید خدری کی عمر غزوہ احد کے وقت صرف تیرہ سال تھی مگر لڑائی میں شامل ہونے کے لیے آنحضرت ﷺ کی خدمت اقدس میں پیش ہوئے.آپ نے سر سے پاؤں تک دیکھا اور فرمایا کہ بہت کم سن ہیں لیکن باپ نے ہاتھ پکڑ کر آنحضرت ﷺ کو دکھایا کہ پورے مرد کا ہاتھ ہے.تاہم آپ نے اجازت نہ دی لیکن اس سے یہ بات واضح ہے کہ صحابہ کرام دینی خدمات کو اس قد رضروری اور قابل فخر سمجھتے تھے کہ اپنے بچوں کو اس کا موقعہ دلانے کے لیے نہایت حریص رہتے تھے.اور ان کو آگے کرتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح یہ سعادت حاصل ہو جائے.ہمارے زمانہ میں جو لوگ نہ صرف خود پیچھے ہٹتے بلکہ اپنی اولاد کو بھی اپنے گھروں میں چھپا کر رکھنا چاہتے ہیں.انہیں سوچنا چاہیے کہ ان لوگوں www.alislam.org

Page 14

28 مسلم نوجوانوں کے 27 مسلم نوجوانوں کے کارنامے کی اپنی اولادوں سے محبت ہم سے کسی طرح کم نہ تھی.وہ بھی ہماری طرح انسان تھے.ان کے پہلو میں بھی دل تھے.جو ہم سے زیادہ پدری شفقت سے لبریز تھے.مگر جوش ایمان اور خدمت اسلام ان کے نزدیک دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب تھی..حضرت ابوسعید خدری کی عمر غزوہ خندق کے وقت صرف پندرہ سال تھی مگر شریک جنگ ہوئے اور بڑھ بڑھ کر داد شجاعت دی.اسی طرح غزوہ بنی مصطلق میں بھی کم سنی کے باوجود شریک ہوئے.حضرت براء بن عازب غزوہ بدر کے وقت بہت کم سن تھے.مگر جوش ایمان پورے جوش پر تھا.اس لیے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے مگر آپ نے شرکت کی اجازت نہ دی.10 - حضرت رافع بن خدیج کی عمر غزوہ بدر کے وقت صرف چودہ سال کی تھی مگر شوق جہاد کا یہ عالم تھا کہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش ہو کر شریک جنگ ہونے کی اجازت طلب کی.مگر آپ نے کمسنی کی وجہ سے واپس کر دیا.اگلے سال اجازت ملی لیکن ایک اور نوعمر لڑکے سمرہ بن جذب کو آنحضرت ﷺ نے کم سنی کی وجہ سے اجازت نہ دی.تو اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ نے رافع کو اجازت دے دی ہے حالانکہ میں کشتی میں اس کو گرا لیتا ہوں.آنحضرت ﷺ کو اس بات کا بہت لطف آیا اور فرمایا کہ اچھا سمرہ سے کشتی کرو.چنانچہ دونوں میں کشتی ہوئی اور آپ نے حضرت رافع کو پچھاڑ دیا.اس پر آنحضرت ﷺ نے اجازت دے دی.11- آنحضرت ﷺ جب غزوہ بدر کے لیے نکلے تو کئی کم عمر بچے بھی شوق جہاد میں ساتھ ہوئے.جن میں حضرت سعد بن ابی وقاص کے چھوٹے بھائی بھی تھے.آنحضرت میا اللہ نے مدینہ سے تھوڑی دور باہر آ کر فوج کا جائزہ لیا تو بچوں کو واپسی کا حکم دیا.حضرت عمیر نے یہ حکم سناتو لشکر میں ادھر ادھر چھپ گئے لیکن آنحضرت ﷺ کو اس کی اطلاع ہوگئی.اور آپ نے واپسی کا ارشاد فرمایا.جسے سن کر آپ رو پڑے.اس شوق اور تڑپ کو دیکھتے ہوئے آخر آپ نے اجازت دے دی.ذرا غور فرمائیے کہ انسان کو اپنی جان کس قدر عزیز ہوتی ہے لیکن صحابہ کرام اس طرح ایسے مواقع پر میدان میں نکلنے کی کوشش کرتے تھے جن میں جان جانے کا بہت زیادہ امکان ہوتا تھا.اور زندہ سلامت واپس گھر پہنچنے کی امید بالکل موہوم ہوتی.ہمارے زمانہ میں باوجود یہ کہ جانی خطرات بہت کم ہیں اور تبلیغ کے لیے نکلنے والوں کا تھوڑے سے عرصہ کے بعد زندہ سلامت گھر آجانے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے.تاہم بعض لوگ اس سے جی چراتے ہیں اور بچنے کی کوشش کرتے ہیں.اور پھر اسلام کی کس مپرسی کا بھی رونا روتے رہتے ہیں.اور یہ نہیں دیکھتے کہ جس راہ پر چل کر صحابہ کرام نے عزت حاصل کی اور اسلام کاعلم بلند کیا اسے اختیار کیے بغیر وہ کامیابی کی امید کس طرح رکھ سکتے ہیں.12 - حضرت عبدالرحمن بن عوف سے احادیث میں ایک ایسا واقعہ بیان ہے جسے پڑھ کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور مجاہدین اسلام کی جان بازی پر جرات و بسالت بھی آفرین کہتی ہے.آپ روایت کرتے ہیں کہ جب جنگ بدر میں صفیں آراستہ ہوئیں اور حملہ عام ہونے لگا تو میں نے اپنے دائیں بائیں نظر ماری تو دونوں جانب انصار کے دو جوان لڑکے پائے.ان کو دیکھ کر مجھ پر افسردگی سی طاری ہوگئی میں نے خیال کیا کہ جنگ میں دونوں پہلو جب تک مضبوط نہ ہوں لڑائی کرنا مشکل ہوتا ہے.اور وہی شخص اچھی طرح لڑ سکتا ہے جس کے پہلو مضبوط ہوں اور جب میرے دونوں پہلو اس قدر کمزور ہیں کہ دو کم سن اور نو عمر بچے کھڑے ہیں تو میرے لیے کوئی قابل ذکر لڑائی کرنے کا کیا امکان ہوسکتا ہے.وہ کہتے ہیں کہ میں ابھی یہ خیال کر ہی رہا تھا کہ ان میں سے ایک لڑکے نے مجھے آہستہ سے ایسے انداز میں کہ وہ دوسرے لڑکے سے اختفاء رکھنا چاہتا ہے پوچھا کہ چا وہ ابو جہل کون ہیں جو مکہ میں آنحضرت ﷺ کو بہت تکالیف پہنچایا کرتے تھے.میں نے اللہ www.alislam.org

Page 15

30 مسلم نوجوانوں کے کارنامے 29 مسلم نوجوانوں کے نامے تعالیٰ سے عہد کیا ہوا ہے کہ اسے قتل کروں گا.اور یا پھر اس مردود کو قتل کرنے کی کوشش میں اپنی جان دے دوں گا.میں نے اس کے سوال کا ابھی جواب نہ دیا تھا کہ دوسرے نے بھی بالکل اسی انداز میں یہی سوال کیا.ان بچوں کے اس بلندا رادہ کو دیکھ کر میں حیران ہو گیا اور خیال کرنے لگا کہ بھلا یہ بچے اپنے عہد کو کس طرح پورا کر سکتے ہیں.جبکہ ابو جہل قریش کے بڑے بڑے نامی پہلوانوں اور آزمودہ کا رسپاہیوں کے حلقہ میں ہے.تاہم میں نے ان کو ہاتھ کے اشارہ سے ابو جہل کا پتہ دے دیا.میرا اشارہ ہی کرنا تھا کہ وہ دونوں نو عمر بچے باز کی طرح جھپٹے اور دشمن کی صفوں کو کاٹتے ہوئے چشم زدن میں ابوجہل پر جا پڑے اور اس پھرتی سے اس پر حملہ کیا کہ آن واحد میں اس سرکش انسان کا مغرور سر خاک پر تھا اور یہ سب کچھ ایسا آنا فانا ہوا کہ ابو جہل کے ساتھی دیکھتے ہی رہ گئے.عکرمہ بھی اپنے باپ کے ہمراہ تھے.اسے تو وہ نہ بچا سکے مگر ان دونوں میں سے ایک لڑکے یعنی حضرت معاذ پر حملہ آور ہوئے اور تلوار کا ایسا وار کیا کہ ان کا ایک بازو کٹ کر لٹکنے لگا.اس قدر شدید زخم کھانے کے باوجود معاذ پیچھے نہیں ہٹا بلکہ مکرمہ کا پیچھا کیا لیکن وہ بچ کر نکل گئے.معاذ نے جنگ بدستور جاری رکھی.اور چونکہ کٹا ہوا ہا تھ لڑنے میں روک ہو رہا تھا اس لیے اسے زور کے ساتھ کھینچ کر الگ کر دیا اور پھر لڑنے لگے.13 - صحابہ جہاد میں شرکت کے لیے کس قدر حریص ہوئے تھے.اس کا اندازہ کرنے کے لئے یہ واقعہ کافی ہے کہ حضرت سعد بن نخشبہ جنگ بدر کے وقت کم عمر تھے.تاہم شرکت کے لیے تیار ہو گئے.چونکہ آپ کے والد بھی میدان جنگ میں جارہے تھے.انہوں نے کہا کہ ہم میں سے ایک کو ضرور گھر پر رہنا چاہیے اور بیٹے کو گھر رہنے کے لیے کہا.بیٹے نے جواب دیا کہ اگر حصول جنت کے علاوہ کوئی اور موقعہ ہوتا تو بسر و چشم آپ کے ارشاد کی تعمیل کرتا اور اپنے آپ پر آپ کو ترجیح دیتا لیکن اس معاملہ میں میں ایسا کرنے کے لیے نہیں ہوں.آخر فیصلہ اس بات پر ٹھہرا کہ قرعہ ڈال لیا جائے.چنانچہ قرعہ میں بیٹے کا نام نکلا.وہ شریک ہوئے اور شہادت پائی.حوالہ جات ۲.(اسد الغابہ ج ۳ ص 569،568) ا.(اسد الغابہ ج 4 ص 202) ۳.( تاریخ طبری ص 2100) ۴.(ابوداؤد کتاب الجہاد ).(اسد الغابہ ج1 ص177) ۵.(استیعاب ج 4 ص 311) ے.( بخاری کتاب المغازی باب غزوہ بنی مصطلق ) ( بخاری کتاب المغازی باب غزوہ بنی مصطلق) ۹.( بخاری کتاب المغازی ص565) ۱۰.( تاریخ طبری ص 1392) ا.(اصابہ ج 4 ص 603) ۱۲.(سیرت خاتم النبین ص 362) ۱۳.(سیر انصارج2 ص34) www.alislam.org

Page 16

32 مسلم نوجوانوں کے 31 مسلم نوجوانوں کے نامے الله آنحضرت ﷺ کے ساتھ اخلاص و فدائیت رسول کریم ﷺ کے ساتھ صحابہ کرام کو جو عشق اور تعلق فدائیت تھا اس کی نظیر تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے.صرف چند ایک واقعات درج کر کے بتایا جاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے الله صحابہ آپ پر فدا ہونے کے لیے ہر وقت اسی طرح تیار رہتے تھے جس طرح پروانہ شمع پر.مردوں کی فدائیت تو کجا مسلم خواتین کو بھی آنحضرت ﷺ کے ساتھ ایسا بے نظیر اخلاص تھا کہ وہ حضور کے وجود کو اپنے تمام اقرباء سے زیادہ قیمتی تصور کرتی تھیں.جنگ احد سے فارغ ہونے کے بعد آنحضرت ﷺ بمع صحابہ کرام کے شام کے قریب مدینہ کو واپس ہوئے.چونکہ اس جنگ میں یہ افواہ پھیل چکی تھی کہ آنحضرت ﷺ نے شہادت پائی ہے اس لیے مدینہ کی عورتیں عالم گھبراہٹ میں گھروں سے نکل کر رستہ پر کھڑی تھیں.اور عالم بے تابی میں منہ اٹھا اٹھا کر دیکھ رہی تھیں کہ اس طرف سے کوئی آتا ہوا دکھائی دے اور وہ آنحضرت ﷺ کے متعلق دریافت کریں.ایک انصاری عورت نے ایک شخص سے جواسے احد سے واپس آتا ہوا دکھائی دیا آنحضرت ﷺ کے متعلق دریافت کیا.اس کا دل چونکہ مطمئن تھا اور جانتا تھا کہ حضور صحیح و سالم ہیں.اس نے اس عورت کے سوال کا تو کوئی جواب نہ دیا لیکن یہ کہا کہ تمہارا باپ شہید ہو گیا ہے.لیکن جس طرح اس مرد نے آنحضرت ﷺ کے متعلق کوئی تشویش نہ ہونے کی وجہ سے اس عورت کے سوال کی طرف کوئی توجہ نہ دی اسی طرح اس عورت نے اپنی بے تابی کے باعث اس خبر کو کوئی اہمیت نہ دیتے ہوئے پھر حضور علیہ اسلام کے متعلق پوچھا.اس نے پھر اپنے اطمینان قلب کے باعث اس کی تشویش کا اندازہ نہ کرتے ہوئے اسے اس کے سوال کا کوئی جواب نہ دیا بلکہ کہا کہ تمہارا بھائی بھی شہید ہو چکا ہے.مگر اسکے نزدیک یہ خبر بھی چنداں اہمیت نہ رکھتی تھی.اس کی نظر میں باپ اور بھائی بہن سب اس وقت پیچ نظر آرہے تھے اور ایک ہی خیال تھا کہ اس محبوب حقیقی کی حالت سے آگاہ ہو.اس لیے اس نے اس خبر کو بھی نہایت بے التفاتی سے سنا اور نہایت بے تابی کے ساتھ پھر وہی سوال دھرایا.یعنی آنحضرت ﷺ کے متعلق دریافت کیا کہ آپ کیسے ہیں لیکن اب بھی اس کو اس بے چاری کے جذبات کا احساس نہ ہو سکا.اور بجائے اس کے کہ اسے آنحضرت ﷺ کی خیریت کی خبر سنا کر اس کے دل کو راحت پہنچاتا اسے اس کے خاوند کی شہادت کی اندوہناک خبر سنائی.مگر اس خبر نے بھی جو اس کے خرمن امن کو جلا کر خاکستر کر دینے کے لیے کافی تھی اس شمع نبوت کے پروانہ پر کوئی اثر نہ کیا اور اس کی توجہ کو نہ ہٹایا.اس نے پھر نہایت بے تابی کے ساتھ آنحضرت ﷺ کی خیریت دریافت کی.اور بے چین ہو کر بولی کہ مجھے ان خبروں کی ضرورت نہیں.مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ کون مرا کون جیتا ہے مجھے تو صرف یہ بتاؤ کہ رسول خداہ کا کیا حال ہے.آخر جب اس کے پاس اس کے متعلقین کے تعلق کوئی اور خبر نہ رہی تو اس نے اسے بتایا کہ آنحضرت مہ بفضلہ تعالی بخیریت ہیں اور صحیح و سالم تشریف لا رہے ہیں.یہ جواب سن کر اس کی جان میں جان آئی او باوجود یکہ ایک لمحہ پہلے وہ اپنے تمام خاندان کی تباہی کی خبر سن چکی تھی لیکن آنحضرت ﷺ کی سلامتی کی خبر نے تمام صدمات کو اس کے دل سے محو کر دیا.اور ایک ایسی راحت اور تسکین کی ہر اس کے رگ وریشہ میں سرایت کر گئی کہ بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا.كل مصيبة جلل.یعنی اگر آپ زندہ ہیں تو پھر سب مصائب بیچ ہیں.2 صحابہ کرام کا آنحضرت ﷺ کے ساتھ عشق کا اندازہ ایک اور واقعہ سے کریں.غزوہ احد میں آنحضرت ﷺ کا چہرہ مبارک زخمی ہوا تو حضرت مالک بن سنان نے بڑھ کر خون کو چوسا اور ادب کے خیال سے چوسے ہوئے خون کو زمین پر پھینکنا گوارا نہ کیا بلکہ اسے پی گئے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص کسی ایسے آدمی کو دیکھنا چاہے جس کا خون میرے خون سے آمیز ہوتو وہ مالک بن سنان کو دیکھے.اس کے بعد حضرت مالک نے نہایت بہادری کے ساتھ لڑ کر شہادت حاصل کی..جنگ بدر کے موقعہ پر آنحضرت ﷺ ایک تیر کے ساتھ اسلامی لشکر کی صفیں درست کر رہے تھے.ایک صحابی سواد نامی صف سے کچھ آگے بڑھے ہوئے تھے.آپ نے تیر کے اشارہ www.alislam.org

Page 17

34 مسلم نوجوانوں کے کارنامـ 33 مسلم نوجوانوں کے سے انہیں پیچھے ہٹنے کو کہا تو اتفاق سے تیر کی لکڑی آہستہ سے ان کے سینہ میں لگی.انہوں نے جرات کر کے عرض کیا.کہ یا رسول اللہ آپ کو خدا نے حق وانصاف کے ساتھ مبعوث کیا ہے.مگر آپ نے مجھے ناحق تیر مارا.میں تو اس کا بدلہ لوں گا.صحابہ کرام ان کی اس بات پر دل ہی دل میں بہت پیچ و تاب کھا رہے تھے اور چاہتے تھے کہ ایسے گستاخانہ کلمات ادا کرنے والی زبان کاٹ ڈالیں.گوادب کی وجہ سے بولتے نہ تھے.ان کے یہ جذبات بھی اس عشق کا نتیجہ تھے جو ان کو اپنے ہادی مے کے ساتھ تھا.لیکن اپنی محبت کے باعث وہ اس محبت کا اندازہ نہ کر سکتے تھے جس کا چشمہ حضرت سواد کے دل میں اہل رہا تھا.اور جس سے مجبور ہوکر انکے منہ سے یہ گستاخانہ الفاظ نکلے تھے.آنحضرت ﷺ جو سراپا انصاف اور مساوات تھے کب اس بات کو گوارا کر سکتے تھے کہ کسی شخص کے دل میں خیال رہے کہ آپ نے اس سے زیادتی کی ہے.چنانچہ آپ نے فوراً فرمایا کہ بہت اچھا تم مجھ سے بدلہ لے لو.انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ میرا سینہ نگا تھا.جس وقت آپ کا تیر مجھے لگا.یہ سن کر آنحضرت ﷺ نے بھی اپنے سینہ مبارک سے کپڑا اٹھا دیا.اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ دنیائے عشق و محبت میں ہمیشہ یاد گار رہے گا.حضرت سواد آگے بڑھے اور نہایت ادب کے ساتھ اپنے پیارے محبوب کے سینہ مبارک کو چوم لیا.اور اس طرح اپنی بے قرار روح کی تسکین حاصل کی.یہ دیکھ کر آنحضرت ﷺ نے مسکراتے ہوئے فرمایا.سواد یہ تمہیں کیا سوجھی.حضرت سواد نے رقت بھری آواز میں عرض کیا.یا رسول اللہ زبردست دشمن کے ساتھ مقابلہ ہے جنگ کا میدان ہے اور کوئی دم معرکہ کارزار گرم ہونے والا ہے خدا جانے کون زندہ رہتا ہے اور کسے شہادت کا درجہ نصیب ہوتا ہے معلوم نہیں.پھر اس مقدس وجود کو دیکھنے کا موقعہ ملتا ہے یا نہیں.میرے دل میں یہ خیالات موجزن تھے کہ معلوم نہیں پھر اس مقدس و اطہر جسم کو چھونے کی سعادت کبھی حاصل ہو سکے گی یا نہیں اس لیے میں نے چاہا کہ مرنے سے قبل ایک مرتبہ آپ کے جسم مبارک کو تو چھولوں اور اس کے لیے میرے دل نے یہی صورت تجویز کی.الله -4 حضرت سعد بن ربیع جنگ احد میں سخت زخمی ہو گئے تھے.جنگ کے بعد آنحضرت ما نے حضرت ابی بن کعب کو انکے متعلق دریافت حال کے لیے بھیجا.وہ تلاش کرتے ہوئے بڑی مشکل سے آپ تک پہنچے.حضرت سعد اس وقت حالت نزع میں تھے.حضرت ابی نے ان سے دریافت کیا کہ کوئی پیغام ہو تو دے دو.اب ہر شخص اپنے دل میں غور کرے کہ ایسی حالت اگر اسے پیش آئے تو وہ کیا پیغام دے گا.یقیناً اس کے سامنے اس وقت اس کے بیوی بچے عزیز واقارب مال اور جائیداد اور لین دین کے معاملات ایک ایک کر کے آتے جائیں گے.اور اس موقعہ کو غنیمت سمجھتے ہوئے جس قدر تفصیل سے ممکن ہو بیوی بچوں کے مستقبل، ان کے ساتھ اظہار محبت والفت تلقین صبر و رضا، جائداد و املاک کے مناسب انتظام وغیرہ وغیرہ امور کے متعلق ہدایات دینا ضروری سمجھے گا لیکن اس سعید نوجوان نے عین اس وقت جبکہ اسے اپنی موت نہایت ہی قریب نظر آرہی تھی اور وہ دیکھ رہا تھا کہ بہت تھوڑے عرصہ کے بعد اس کی آنکھیں بند ہو جائیں گی، طاقت گویائی سلب ہو جائے گی اور اس کے لیے اپنے متعلقین کے واسطے کوئی پیغام دینا ناممکن ہو جائے گا.لیکن باوجود اس کے اس وقت نہ اس کے سامنے اپنی بیوی کی بیوگی آئی، اور نہ اس کے سامنے بچوں کی یتیمی ، کہ ان کے تعلق میں کوئی جملہ زبان سے نکالتا.اور اس نے جو پیغام دیا وہ یہ تھا کہ میرے بھائی مسلمانوں کو میرا پیغام پہنچادینا اور میری قوم سے کہنا کہ اگر تمہاری زندگی میں رسول خدا ﷺ کو کوئی تکلیف پہنچ گئی تو یاد رکھنا کہ خدا تعالیٰ کے حضور تمہارا کوئی جواب مسموع نہ ہوگا.یہ الفاظ کہے اور جان دے دی.اناللہ وانا الیہ راجعون.5- ایک مرتبہ آنحضرت میلہ نے ایک بدو سے گھوڑا خریدا.اور سودا طے ہو گیا لیکن لوگوں کو اس کا علم نہ تھا.اس لیے حضور جب تشریف لے جارہے تھے تو کسی نے اسے زیادہ قیمت پیش کر دی.اس نے چاہا کہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ اس کا جو سودا طے ہو چکا ہے اسے کسی www.alislam.org

Page 18

مسلم نوجوانوں کے نامے 35 بہانہ سے فتح کر دے.چنانچہ اس نے حضور کو آواز دی کہ آپ گھوڑا لیتے ہیں تو لیں ورنہ میں اسے کسی اور کے پاس بیچ دوں گا.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم تو میرے پاس گھوڑا فروخت کر چکے ہو اور سودا مکمل ہو چکا ہے.مگر اس نے انکار کیا اور کہا کہ ہرگز نہیں میں نے کوئی سود انہیں کیا.اگر جیسا کہ آپ کہتے ہیں.سودا ہو چکا ہے تو کوئی گواہ پیش کریں.عین اس وقت ایک صحابی حضرت خزیمہ بن ثابت وہاں آنکلے اور یہ گفتگو سنی.جب آنحضرت ﷺ سے اس شخص نے گواہ طلب کیا تو حضرت خزیمہ نے آگے بڑھ کر کہا کہ میں گواہ ہوں کہ یہ سودا ہو چکا ہے.آنحضرت ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم کس طرح شہادت دیتے ہو کیا تم سودا ہونے کے وقت موجود تھے.تو انہوں نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ جب ہم آپ پر ایمان لے آئے ہیں تو اس بات پر یقین کر کے ایمان لائے ہیں که حضور راستباز اور پاکباز ہیں.اور جب ایسی اہم باتوں میں آپ کی صداقت کی تصدیق کر چکے ہیں تو پھر ایسی معمولی سی بات میں آپ کے راستی پر ہونے کی تصدیق میں کوئی تامل کیسے ہوسکتا ہے.6 جنگ احد کے بعد بعض لوگوں کا آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے قبائل میں تعلیم دین کے لیے قراء بھیجنے کی درخواست کرنے اور پھر ان کو ساتھ لے جا کر بئر معونہ کے مقام پر شہید کر دینے کے واقعہ کا ذکر اس کتاب میں کسی دوسری جگہ آچکا ہے.ان ستر قراء میں سے صرف دو زندہ بچے تھے جنہیں کفار نے اسیر کر لیا تھا.اور ان میں سے ایک حضرت زید تھے جنہیں صفوان بن امیہ کے پاس فروخت کر دیا گیا.صفوان نے انہیں اپنے باپ کا قاتل سمجھ کر اس لیے خریدا تھا کہ شہید کر کے اپنے جذبہ انتقام کو فرو کرے.چنانچہ اس نے ان کے شہید کرنے کا انتظام کیا.انہیں مقتل میں لے جایا گیا.اور عین اس وقت جبکہ وہ موت سے ہم آغوش ہونے کے لیے تیار کھڑے تھے ایک شخص نے کہا کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر اس وقت تمہاری جگہ محمد ﷺ ہمارے قبضہ میں ہوں اور تم اپنے گھر میں آرام سے مسلم نوجوانوں کے کارنامـ 36 بیوی بچوں میں بیٹھے ہو تو تمہیں یہ بات پسند ہے یا نہیں.حضرت زید نے نہایت لا پروائی کے ساتھ جواب دیا کہ تم یہ کیا کہہ رہے ہو.آنحضرت ﷺ کا نعوذ باللہ ظالموں کے پنجہ میں اسیر ہو کر مقتل میں کھڑا ہونا تو در کنار خدا کی قسم! میں تو یہ بھی گوارا نہیں کر سکتا کہ محمد اللہ کے پاؤں میں کانٹا بھی چھے.اور میں گھر میں بیٹھا ہوں.ابوسفیان یہ جواب سن کر عش عش کر اٹھا اور کہنے لگا کہ محمد (ﷺ) کے ساتھی آپ سے جتنی محبت کرتے ہیں دنیا میں اس کی مثال نہیں مل سکتی.7 صحابہ کرام سفر و حضر میں آنحضرت ﷺ کی حفاظت کا خاص خیال رکھا کرتے تھے.ایک سفر کے موقعہ پر ایک جگہ پڑاؤ ہوا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ پانی کا انتظام کر لو ورنہ صبح الله تکلیف اٹھاؤ گے.چنانچہ لوگ پانی کی تلاش میں ادھر ادھر نکل گئے.آنحضرت ﷺ اپنے اونٹ پر تشریف فرما تھے کہ نیند کا غلبہ ہوا اور آپ سو گئے.حضرت ابوقتادہ پاسبانی کے لیے پاس بیٹھے رہے اور حضور نیند میں جس طرف جھکتے ابو قتادہ اس طرف سہارا دے دیتے.تا حضور کی استراحت میں فرق نہ آئے.ایک دفعہ جو سہارا دیا تو حضور کی آنکھ کھل گئی.اور آپ نے فرمایا.ابو قتادہ تم کب سے میرے ساتھ ہو.انہوں نے جواب دیا شام سے.آپ نے فرمایا.حفظك الله كما حفظت رسوله یعنی اللہ تعالی تمہاری حفاظت کرے جس طرح تم نے اس کے رسول کی حفاظت کی ہے..حضرت انس کے متعلق پہلے یہ ذکر آپ کا ہے کہ آٹھ دس سال کی عمر میں آنحضرت ﷺ کی خدمت پر مامور ہوئے تھے لیکن اس کمسنی کے باوجود آپ پر پروانہ وار فدا تھے.اور نہایت محبت و اخلاص کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرتے تھے حتی کہ نماز فجر سے قبل اٹھ کر مسجد نبوی میں پہنچتے.اور حضور کے تشریف لانے سے قبل حضور علیہ السلام کے لیے پانی وغیرہ کا خاطر خواہ انتظام کر کے حاضر رہتے.- حضرت ابوطلحہ نے بیس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا.جنگ احد میں جب بعض www.alislam.org

Page 19

مسلم نوجوانوں کے رنامے 37 مسلمانوں کی غلطی کی وجہ سے کفار نے دوبارہ حملہ کیا تو آنحضرت ﷺ کے گرد و پیش بہت تھوڑے آدمی رہ گئے تھے.حضرت طلحہ نے اس وقت نہایت جان نثاری کا ثبوت پیش کیا.اور اپنی جان پر کھیل کر حضور کی حفاظت کرتے رہے.دشمن کی طرف سے جو تیر آتا اسے اپنے ایک ہاتھ پر روکتے تھے اور جب نیز ا آ کر لگتا تو ہاتھ کو ادھر ادھر جنبش دینا تو در کنار منه سے بھی اف تک نہ کرتے تھے.مبادا حرکت پیدا ہو اور ہاتھ سامنے سے ہٹ جائے اور اس طرح رسول کریم ﷺ کو کوئی گزند پہنچ جائے.آپ نے اسی ایک ہاتھ پر اس قدر تیر کھائے کہ وہ بالکل شل ہو گیا.10 - جنگ بدر کے موقعہ پر آنحضرت ﷺ نے ارشاد الہی کے ماتحت صحابہ کرام کو یہ اطلاع نہ دی تھی کہ یقینا کوئی جنگ پیش آنے والی ہے.جب مدینہ سے باہر آ گئے تو صحابہ کرام کو جمع کر کے تمام حالات ان کو بتائے اور ان سے مشورہ دریافت فرمایا کہ اب ہمیں کیا راہ اختیار کرنی چاہیے.اکثر صحابہ نے نہایت پر جوش تقریریں کیں اور کہا کہ ہمارے مال اور جانیں سب راہ الہی میں حاضر ہیں.ہم ہر وقت اور ہر میدان میں خدمت کے لیے تیار ہیں.مگر آنحضرت ﷺ نے پھر فرمایا کہ لوگو! مشورہ دو.کیا کرنا چاہیے.اس پر صحابہ نے پھر اپنی فدائیت اور جاں نثاری کا یقین دلایا.اور ایک صحابی حضرت مقداد بن اسود نے نہایت پر جوش تقریر کرتے ہوئے کہا.یا رسول اللہ ! ہم موسیٰ کے اصحاب کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ جا تو اور تیرا رب لڑتے پھرو.ہم یہاں بیٹھے ہیں.جبکہ آپ جہاں بھی چاہتے ہیں ہمیں لے چلیں ہم آپ کے دائیں لڑیں گے اور بائیں لڑیں گے ، آگے لڑیں گے اور پیچھے لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہ پہنچ سکے گا.جب تک کہ ہماری لاشوں پر سے نہ گزرے مگران تقریروں کے باوجود آنحضرت ﷺ نے پھر فرمایا کہ لوگو! مشورہ دو کہ کیا کرنا چاہیے.اس پر ایک انصاری حضرت سعد بن معاذ نے کہا کہ یا رسول اللہ شاید آپ کا روئے سخن ہماری طرف ہے.اور بات بھی دراصل یہی تھی.انصار کے ساتھ چونکہ معاہدہ یہی تھا کہ مدینہ پر مسلم نوجوانوں کے کارنامـ 38 حملہ ہونے کی صورت میں وہ دفاع کریں گے اور اب مدینہ سے باہرلڑائی کا امکان تھا.آنحضرت ﷺ کو اس معاہدہ کا خاص خیال تھا اور آپ نہیں چاہتے تھے کہ انصار کو اس سے زیادہ کے لیے مجبور کریں.جتنی ذمہ داری اٹھانے کا انہوں نے وعدہ کیا تھا اس لیے آپ انصار کی رائے معلوم کرنا چاہتے تھے.حضرت سعد نے عرض کیا یا رسول اللہ خدا کی قسم جب ہم آپ کو سچا سمجھ کر آپ پر ایمان لے آئے تو اب اس معاہدہ کا کیا ذکر وہ تو اس وقت تک کے لیے تھا جب تک کہ ہمیں آپ کی پوری معرفت حاصل نہ تھی.اب تو ہم آپ کو خود دیکھ چکے ہیں اس لیے آپ جہاں فرمائیں ہم آپ کے ساتھ چلیں گے.اور قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ معبوث فرمایا اگر آپ ہمیں سمندر میں کود جانے کا ارشاد فرمائیں تو ہم میں سے ایک بھی پیچھے نہ ہٹے گا.11 - حضرت زبیر بن العوام مصرف سولہ برس کے تھے جب اسلام قبول کیا لیکن حد درجہ مستقل مزاج اور جان نثار تھے.آنحضرت ﷺ کے ساتھ خاص فدائیانہ تعلق رکھتے تھے.ایک مرتبہ کسی نے مشہور کر دیا کہ مشرکین نے آنحضرت ﷺ کو نعوذ باللہ گرفتار کر لیا ہے.حضرت زبیر کو یہ خبر پہنچی تو بے تاب ہو گئے اور باوجود یکہ مکہ میں مسلمانوں کی حالت اس وقت نہایت کمزور تھی آپ تلوار لے کر لوگوں کو چیرتے ہوئے حضور کی خدمت میں جا پہنچے.حضور نے دیکھا تو دریافت فرمایا کہ کیا بات تھی.آپ نے سارا واقعہ سنایا.تو حضور بہت خوش ہوئے.12.پہلے بھی یہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ صحابہ کرام آنحضرت ﷺ کی حفاظت کا خاص خیال رکھتے تھے.جنگ احد میں اس خاص نازک موقعہ پر جن لوگوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر اپنے محبوب رسول ﷺ کی حفاظت کی سعادت حاصل کی ان میں سے ایک حضرت عبدالرحمن بن عوف تھے.اس معرکہ میں آپ کے بدن پر بیس زخم آئے.مگر آپ نے قدم پیچھے نہ ہٹایا.پاؤں میں ایک ایسا کاری زخم لگا تھا کہ مندمل ہونے کے بعد بھی اس کا اثر قائم رہا اور www.alislam.org

Page 20

40 مسلم نوجوانوں کے کارنامـ 39 مسلم نوجوانوں کے ہمیشہ کے لیے پاؤں لنگڑا ہو گیا تھا.آنحضرت ﷺ جب کبھی باہر تشریف لے جاتے تو اکثر صلى الله حضرت عبدالرحمن بھی پیچھے پیچھے ہو لیتے تھے.ایک نخلستان میں پہنچ کر آنحضرت میلہ سجدہ میں گر گئے.اور اس قدر لمبا سجدہ کیا کہ حضرت عبد الرحمن کو خیال گزرا کہ شاید روح اطہر قفس عنصری سے پرواز کر گئی.محبت کی وجہ سے یہ خیال آتے ہی بے تاب ہو گئے اور گھبرا کر قریب آئے.پاؤں کی آہٹ پاکر آنحضرت ﷺ نے سر اٹھایا.اور دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے حضرت عبدالرحمن نے اپنی گھبراہٹ کی وجہ بیان کی.تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ سجدہ شکر تھا.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا کہ جو شخص مجھ پر درود بھیجے گا وہ خود اس پر درود بھیجے گا.13 آنحضرت ﷺ جب کہیں باہر تشریف لے جاتے تو حضرت بلال خدمت کے لیے ہمرکاب رہتے اور ہاتھ میں بلم لے کر آگے آگے چلتے تھے.آپ کی ناداری او افلاس ایک معروف بات ہے.تاہم آنحضرت ﷺ کے ساتھ جو عشق تھا اس کے اظہار کے لیے آپ کی دعوت کا بہت شوق رہتا تھا.چنانچہ محنت و مزدوری سے کچھ نہ کچھ اس غرض سے پس انداز کرتے رہتے تھے.ایک دفعہ نہایت اعلیٰ درجہ کی خوش ذائقہ کھجور میں لے کر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا بلال یہ کہاں سے حاصل کیں.عرض کیا، یا رسول اللہ میرے پاس کھجور میں تو تھیں مگر بہت خراب اور حضور کے پیش کرنے کے نا قابل.اس لیے میں نے ان کھجوروں کے دو صاع دے کر یہ ایک صاع حاصل کی ہیں.تا حضور کو پیش کر سکوں.آئندہ کے لیے گو حضور نے اس قسم کے سودے سے منع فرما دیا تا ہم اس سے آنحضرت ﷺ کے ساتھ آپ کی محبت کا با آسانی اندازہ کیا جاسکتا ہے.14 - حضرت زید بن حارث کو ایک اچھے خاندان کے نونہال تھے مگر اتفاق ایسا ہوا کہ ڈاکوؤں کے ایک گروہ نے بچپن ہی میں ان کی متاع آزادی کو چھین لیا.اور عکاظ کے بازار میں فروخت کے لیے لے آئے.جہاں حکیم بن حزام نے خرید کر اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ کے حضور پیش کر دیا اور اس طرح آپ آنحضرت ﷺ کے حضور پہنچے.ایک دفعہ ان کے قبیلہ کے بعض لوگ بہ نیت حج مکہ میں آئے تو انہیں پہچان لیا اور جا کران کے والد کو خبر دی.جس پر اس کا خوش ہونا ایک طبعی بات تھی چنانچہ وہ اپنے بھائی کو ساتھ لے کر مکہ میں پہنچا.اور آنحضرت ﷺ سے بصد منت والحاح عرض کیا کہ میرے لڑکے کو آزاد کر دیں.اور جو فدیہ چاہیں لے لیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ فدیہ کی ضرورت نہیں زید کو بلا کر پوچھ لیا جائے اگر وہ جانا چاہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں.چنانچہ حضرت زید کو بلایا گیا.اور آنحضرت مہ نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا تم ان لوگوں کو جانتے ہو.انہوں نے جواب دیا کہ ہاں یہ میرے والد اور چچا ہیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا اگر ان کے ساتھ جانا چاہو تو جاسکتے ہو.ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ بچپن میں ہی والدین، عزیز واقارب اور وطن عزیز سے چھوٹ جانے والے کو اتنے لمبے عرصہ کی مایوسی کے بعد جب پھر ان سے ملنے کا موقعہ ملے اور پھر اپنے محبوب وطن میں جا کر ماں باپ، بہن بھائیوں دوسرے رشتہ داروں ، دوست ، احباب اور بچپن کے ہم جولیوں سے آزادانہ طور پر ملنے جلنے میں کوئی رکاوٹ بھی نہ اس کے رستہ میں حائل نہ ہو تو اس کے جذبات ایسے وقت میں کیا ہو سکتے ہیں.سامنے باپ اور چچا کھڑے تھے اور اس یقین کے ساتھ ان کے دل بھرے ہوئے تھے کہ ہمارا لخت جگر اب ہمارے ساتھ جائے گا.جدائی کی دیگر از گھڑیاں اب ختم ہونے کو ہیں اور پھر اس کا کوئی امکان بھی نہیں ہوگا.وہ تاعمر ہمارے پاس ہی رہے گا.وہ یہ وہم بھی نہ کر سکتے تھے کہ جب زید کو آنحضرت نہ جانے کا اختیار دے رہے ہیں تو اسے اس میں کوئی تامل ہوسکتا ہے مگر حضرت زید نے جواب دیا کہ میں حضور پر کسی کوترجیح نہیں دے سکتا.آپ ہی میرے باپ اور ماں ہیں.آپ کے در کو چھوڑ کر میں کہیں جانا پسند نہیں کرتا.اس جواب کو سن کر ان کے والد اور چا محو حیرت ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ زید کیا تم ہم پر غلامی کو ترجیح دیتے ہو.حضرت زید نے کہا کہ ہاں مجھے اس ذات پاک میں ایسی خوبیاں نظر آتی ہیں کہ اس پر کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا.www.alislam.org

Page 21

42 مسلم نوجوانوں کے کارنامے 41 مسلم نوجوانوں کے نامے 15.اہل عرب کا خیال تھا کہ کسی کا پاؤں سن ہو جائے تو اگر وہ اپنے محبوب کو یاد کرے تو یہ کیفیت دور ہو جاتی ہے.ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن عمر کا پاؤں سن ہوا تو کسی نے کہا کہ اپنے محبوب کو یاد کریں.تو انہوں نے جھٹ کہا.یا محمد.یہ ایک ذوقی بات ہے.کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے جس سے صحابہ کی فدائیت اور آنحضرت ﷺ کے ساتھ ان کے انتہائی عشق کی کیفیت معلوم ہوتی ہے.16 - کفار جب آنحضرت ﷺ پر تشدد کرتے تو بسا اوقات حضرت ابو بکر ا پنی جان کو خطرہ میں ڈال کر آپ کی حفاظت کی سعادت حاصل کرتے.صلى الله ایک دفعہ آنحضرت مے خانہ کعبہ میں تبلیغ فرما رہے تھے کہ قریش سخت برہم ہوئے.اور آپ پر حملہ آور ہوئے.اس وقت قریش کے غصہ کا پارہ اگر چہ انتہا پر پہنچا ہوا تھا اور ان سے تعرض کرنا گویا اپنے آپ کو ہلاکت کے منہ میں ڈالنا تھا تا ہم حضرت ابوبکر کے جذ بہ جان شاری نے جوش مارا اور آپ نے آگے بڑھ کر قریش کو بہت لعنت ملامت کی اور فرمایا.خدا تم لوگوں سے سمجھے کیا تم آپ کو اس لیے قتل کرنا چاہتے ہو کہ آپ ایک خدا کا نام لیتے ہیں.17- ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک کا فر عقبہ بن معیط نے اپنی چادر کا حضور کے گلے میں پھندا ڈال ڈیا لیکن عین اس وقت حضرت ابوبکر پہنچ گئے.اور اس بدبخت کی گردن پکڑ کر آپ سے علیحدہ کی اور فر مایا: کیا تم اس شخص کو قتل کر دو گے جو تمہارے پاس خدا تعالیٰ کی کھلی نشانیاں لایا ہے اور کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے.18.آنحضرت ﷺ جب ہجرت کے ارادہ سے مکہ سے نکلے اور غار ثور میں پناہ گزین ہوئے تو اس غار کے تمام سوراخ اگر چہ نہایت احتیاط کے ساتھ بند کر دیے گئے تاہم ایک سوراخ باقی رہ گیا.آنحضرت ﷺ حضرت ابو بکر کے زانو پر سر مبارک رکھ کر استراحت فرمار ہے تھے کہ اتفاقاً اس سوراخ میں سے ایک زہریلے سانپ نے سر نکالا.حضرت ابوبکرؓ نے اپنے محبوب آقا کے آرام میں کوئی معمولی خلل بھی گوارا نہ کرتے ہوئے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر خوشی اور مسرت کے جذبات سے اس سوراخ پر پاؤں رکھ دیا جس پر سانپ نے کاٹ لیا.زہر اثر کر نے لگا مگر آپ نے پھر بھی حضور کے آرام کا اس قدر خیال رکھا کہ اف صلى الله الله تک نہ کی.اور معمولی سی معمولی حرکت بھی آپ سے سرزد نہ ہوئی.تا آنحضرت ﷺ کے آرام میں خلل نہ آئے.لیکن درد کی شدت بے قرار کر رہی تھی.اس لیے آنکھوں سے آنسو گر گئے.جن کا ایک قطرہ آنحضرت ﷺ کے رخسار مبارک پر گرا.آپ کی آنکھ کھل گئی اور دریافت فرمایا کہ کیا معاملہ ہے.حضرت ابوبکر نے عرض کیا کہ سانپ نے ڈس لیا ہے.آنحضرت ﷺ نے لعاب دہن اس مقام پر لگایا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے زہر دور ہو گیا.19 - حضرت ام عمارہ ایک صحابیہ تھیں.غزوہ احد میں جب ایک اچانک حملہ کی وجہ سے بڑے بڑے بہادران اسلام کے پاؤں تھوڑے سے وقت کے لیے اکھڑ گئے تو وہ آنحضرت میر کے پاس آپ کی حفاظت کے لیے پہنچ گئیں.کفار آپ کو گزند پہنچانے کے لیے نہایت بے جگری کے ساتھ حملہ پر حملہ کر رہے تھے.ادھر آپ کے گرد بہت تھوڑے لوگ رہ گئے تھے.جو آپ کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں پر کھیل رہے تھے.ایسے نازک اور خطرناک موقعہ الله صلى الله پر حضرت ام عمارہ آپ کے لیے سینہ سپر تھیں.کفار جب آنحضرت ﷺ پر حملہ کرتے تو وہ تیر اور تلوار کے ساتھ ان کو روکتی تھیں.آنحضرت ﷺ نے خود فرمایا کہ میں غزوہ احد میں ام صلى الله عمارہ کو برابر اپنے دائیں اور بائیں لڑتے ہوئے دیکھتا تھا.ابن قیمہ جب آنحضرت میہ کے عین قریب پہنچ گیا تو اسی بہادر خاتون نے اسے روکا.اس کمبخت نے تلوار کا ایسا وار کیا کہ اس جانباز خاتون کا کندھا زخمی ہوا.اور اس قدر گہرا زخم آیا کہ غار پڑ گیا.مگر کیا مجال کہ قدم پیچھے ہٹا ہو بلکہ آگے بڑھ کر اس پر خود تلوار سے حملہ آور ہوئیں اور ایسے جوش کے ساتھ اس پر وار کیا کہ اگر وہ دوہری زرہ نہ پہنے ہوئے ہوتا تو قتل ہو جاتا.20.آنحضرت ﷺ کے ساتھ آپ کے صحابہ کے اخلاص کو دیکھ کر وہ عیسائی مورخین بھی جو مسلمانوں اور ان کے مذہب پر خواہ مخواہ اعتراض پیدا کرتے رہتے ہیں اس کی داد دیئے www.alislam.org

Page 22

مسلم نوجوانوں کے نامے بغیر نہیں رہ سکے.چنانچہ ایک عیسائی مورخ لکھتا ہے کہ 43 عیسائی اس کو یاد رکھیں تو اچھا ہو کہ محمد کے مسائل نے وہ درجہ نشہ دین کا آپ کے پیروؤں میں پیدا کر دیا تھا کہ جس کو حضرت مسیح کے ابتدائی حواریوں میں تلاش کرنا بے سود ہے.جب حضرت مسیح کو یہود صلیب پر لٹکانے گئے تو ان کے پیرو بھاگ گئے اور ان کا نشہ دینی جاتا رہا.اور صلى الله اپنے مقتدا کو موت کے پنجہ میں گرفتار چھوڑ کر چل دیئے.برعکس اس کے محمد ﷺ کے پیرو اپنے مظلوم پیغمبر کے گرد آئے اور اپنی جانیں خطرہ میں ڈال کر کل دشمنوں پر آپ کو غالب کر دیا“.آنحضرت ﷺ کے ساتھ آپ کے صحابہ کے عشق و فدائیت کے واقعات سے یہ بات ظاہر ہے کہ صحابہ کرام آپ کی حفاظت کے لیے ظاہری انتظامات سے بھی غافل نہ ہوتے تھے.اور کبھی اس خیال میں نہ رہتے تھے کہ جب آپ اس قدر مقرب بارگاہ الہی ہیں تو وہ خود آپ کی حفاظت کرے گا.اور آنحضرت ﷺ کے متعلق ایسے واقعات اور انتظامات کی موجودگی کے باوجود حیرت ہے کہ آج کل بعض لوگ ایسے انتظامات کو تو کل کے منافی قرار دیتے ہوئے غیر ضروری سمجھتے ہیں.اور یہ نہیں سوچتے کہ جب آپ کے لیے بھی ایسے انتظامات ضروری تھے تو آپ کے جانشین یا اس کے خلفاء کے لیے وہ کیونکر نا جائز ہو سکتے ہیں.بے شک یہ صحیح ہے کہ اس زمانہ میں جنگیں در پیش نہیں ہیں لیکن کیا حفاظت صرف جنگ کے موقع پر ہی ضروری ہوتی ہے.اور عام حالات میں نہیں.کیا ہمارے زمانہ میں باوجود ایک آئینی حکومت ہونے کے حملوں اور قاتلانہ حملوں کے واقعات نہیں ہوتے.بالخصوص جب مذہبی مخالفت انتہائی شدت پر ہو.اور مطلب پرست مولویوں نے جاہل عوام الناس کو مذہب کے نام پر سخت مشتعل کر رکھا ہو.حتی کہ اپنے مخالفوں کی جان لینے کے جواز کے فتوے صادر کر دیئے ہوں.تو ان کی موجودگی میں حفاظت کے معمولی انتظامات جنہیں زیادہ سے زیادہ احتیاطی تدابیر کہا جاسکتا ہے کیونکر توکل کے منافی سمجھے جاسکتے ہیں اور ان پر ایک دیانت دار اور خدا ترس انسان کیونکر معترض ہوسکتا ہے.مسلم نوجوانوں کے 44 پس یہ خیال بالکل غلط ہے کہ اگر اس قسم کا کوئی انتظام کیا جائے تو وہ تقویٰ اور توکل کے منافی ہے.حقیقت یہی ہے کہ نہ صرف یہ جائز اور بالکل ضروری ہے بلکہ اس سے غفلت برتنا اور آنحضرت ﷺ کے نور کے حقیقی مشعل برداروں کی جان کی حفاظت کے انتظامات سے غفلت برتنا بہت بڑا قومی جرم ہے.ا.(سیرۃ ابن ہشام ج 3 ص 105).(سیرۃ ابن ہشام ذکر غزوہ بدر ) ( مسند احمد بن مقبل ج 5 ص 215).(مسند احمد بن مقبل ج 5 ص 298) و.(سیر انصار جلد 1 ص 160) ا.(اسد الغابہ ج 2 ص 130) حوالہ جات ۲.(سیر انصار جلد 1ص185) ۴.(موطا کتاب الجہاد باب ترغیب فی الجہاد) ۶.(سیر انصار جلد 1 ص 363) - (سیر انصار جلد اص169،168) ۱۰.(سیرۃ ابن ہشام ذکر غزوہ بدر ) ۱۲.( مسند احمد بن حنبل ج 1 ص 191) ۱۶.( بخاری کتاب المناقب باب مناقب ابوبکر) ۱۹.(سیرۃ ابن هشام ذکر احد ).( بخاری کتاب الکفاله باب اذا باع الوکیل شیلا...) ۱۴.( ابن سعد ج 1 ص 28) ۱۵.(ادب المفرد ) ا.( بخاری کتاب بنیان الکعبه باب ذکر مالی النبی اله واصحابه من المشركين بمکة م ) ۱۸.(زرقانی ج1 ص335) www.alislam.org

Page 23

46 مسلم نوجوانوں کے کارنامے 45 مسلم نوجوانوں کے رنامے حلم اور جھگڑوں سے اجتناب صحابہ کرام میں اسلامی تعلیم نے ایسی محبت اور یگانگت پیدا کر دی تھی کہ باہمی جھگڑوں سے بہت بچتے تھے.اور معمولی معمولی باتوں کے پیچھے پڑ کر جو عام لوگوں میں خطر ناک فسادات پیدا کر دیتی ہیں قومی وحدت کو نقصان نہیں پہنچاتے تھے.اور کسی بھائی کی طرف سے اگر کوئی ناخوشگوار بات پیدا ہوتی تو نہایت تحمل اور بردباری کا ثبوت دیتے تھے.دراصل ان کی عظیم الشان طاقت اور قوت کا ایک راز یہ بھی تھا کہ وہ باہم نفاق اور تفرقہ پیدا نہ ہونے دیتے تھے کیونکہ یہ ایک ایسی خطرناک چیز ہے جو قومی قوت اور طاقت کو تباہ کر دیتی ہے.ظاہر ہے کہ جس قوم کے افراد باہم دست وگریباں رہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ آمادہ پر کار ہوں وہ مخالف اور دشمن کا مقابلہ کرنے کی اہلیت کھو بیٹھتی ہے.چند واقعات ملاحظہ ہوں.-1- حضرت قیس بن عاصم المنقری اپنے قبیلہ کے رئیس تھے.ایک مرتبہ ایسا واقعہ ہوا کہ ان کے لڑکے کو ان کے بھائی کے لڑکے یعنی ان کے بھتیجے نے قتل کر دیا اور یہ کوئی معمولی بات نہیں.انسان کے لیے اس سے بڑھ کر اور کوئی صدمہ نہیں ہوسکتا.ایسے موقع پر بڑے بڑے تحمل اور برد بار لوگ بھی ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں.لوگ مقتول کی لاش اور اس کے ساتھ قاتل کو گرفتار کر کے ان کے پاس لے آئے.ہر شخص غور کر سکتا ہے کہ نو جوان فرزند کی لاش اگر سامنے پڑی ہوئی ہو تو اس کے دل کی کیفیت کیا ہوسکتی ہے.اور وہ کس طرح قاتل کوٹکڑے کردینا چاہتا ہے.تاریخ میں ایسے واقعات بکثرت ملتے ہیں کہ ایسے صدمات کے موقعہ پر کمزور سے کمزور اور بے بس سے بے بس انسان بھی خطرناک اقدام کر گزرے ہیں.لیکن حضرت قیس نے ہر قسم کی طاقت اور سامان رکھنے کے باوجود کوئی انتقامی کاروائی نہیں کی بلکہ صرف اتنا کیا کہ اپنے بھتیجے کو بزرگانہ انداز میں نصیحت کی.اس کے فعل کی شناعت کو اس پر واضح کرتے ہوئے کہا کہ دیکھو تم نے کتنا برا کام کیا.اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کی اور اس طرح گنہ گار ہوئے.اور اس کے علاوہ اپنے چازاد بھائی کو قتل کر کے قطع رحمی کی اور اپنی خاندانی طاقت کی کمزوری کا موجب ہوئے.بس اس کے بعد آپ نے اپنے دوسرے لڑکے سے کہا کہ اس کی مشکیں کھول دو اور بھائی کی تجہیز وتکفین کا انتظام کرو.جو لوگ معمولی معمولی باتوں پر اپنے بھائیوں سے برسوں تنازعات کرتے رہتے ہیں ان کے لیے اس واقعہ میں بڑا سبق ہے.2 حضرت حذیفہ بن الیمان ایک نو جوان صحابی تھے.اپنے والد کے ساتھ غزوہ احد میں شریک ہوئے.ایک موقعہ پر مشرکین اور مسلمانوں کے مابین ان کے والد آگئے.مسلمانوں نے مشرکین پر حملہ کیا تو حذیفہ نے آواز دی کہ دیکھنا سامنے میرے والد ہیں.لیکن یہ آواز مسلمانوں تک نہ پہنچ سکی.اور یوں بھی جب گھمسان کی جنگ ہورہی ہو اور دو فریق ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہوں.دور سے آئی ہوئی کسی بیرونی آواز کا کیا اثر ہوسکتا ہے.چنانچہ یہ آواز بھی صدا بصحر اثابت ہوئی اور ایک مسلمان کے ہاتھوں نادانستہ طور پر حضرت حذیفہ کے والد شہید ہو گئے.حضرت حذیفہ کو علم ہوا تو بجائے اس کے کہ کوئی جھگڑا اوغیرہ کھڑا کرتے صرف اتنا کہا.یغفر الله لكم.یعنی اللہ تعالی تم کو معاف کرے.اس واقعہ کے ساتھ اگر اس بات کو بھی مد نظر رکھا جائے کہ اسلام سے قبل عربوں کی ذہنیت کیا تھی اور وہ کس طرح کتیا کے بچوں کی موت پر برسوں برسر پیکار رہتے تھے تو اس عظیم الشان انسان پر بے ساختہ درود بھیجنے کو دل چاہتا ہے جس نے ان کے اندر ایسا عظیم الشان اور پاکیزہ تغیر پیدا کر دیا.3- ایک دفعہ دو صحابیوں یعنی امر القیس اور ربیعہ بن عبدان حضرمی کے مابین کسی زمین کی صلى الله ملکیت کے بارے میں تنازعہ پیدا ہو گیا.جس میں ربیعہ نے بحیثیت مدعی آنحضرت میلہ کے حضور شکایت کی.آپ نے ان سے ثبوت طلب فرمایا اور ساتھ ہی فرمایا کہ اگر تم www.alislam.org

Page 24

مسلم نوجوانوں کے نامے 47 ثبوت پیش نہ کر سکو گے تو ربیعہ سے قسم لے کر ان کے حق میں فیصلہ کر دیا جائے گا.لیکن امرء القیس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ جو شخص اپنا حق سمجھتے ہوئے اسے چھوڑ دے اسے کیا اجر ملے گا.آپ نے فرمایا جنت.اس پر امر بلقیس نے کہا کہ یا رسول اللہ میں اس زمین سے ربیعہ کے حق میں دست بردار ہوتا ہوں.-4 حضرت عروہ بن مسعود کو بعض لوگوں نے زخمی کر دیا تھا اور وہ آخری دموں پر تھے کہ ان کے قبیلہ کے بعض لوگ ان کے خون کا بدلہ لینے کی تیاریاں کرنے لگے.انہوں نے یہ دیکھ کر کہ مسلمانوں میں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی اپنے قبیلہ کے لوگوں کو مخاطب کر کے کہا کہ میں نے خود اپنا خون معاف کر دیا.میرے بارے میں کوئی جنگ وجدل نہ کرو میں چاہتا ہوں کہ تمہارے درمیان مصالحت رہے.- صحابہ کرام اکثر جھگڑے کے مواقع کوحلم و برداشت سے کام لے کر ٹال دیتے تھے.اوراس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کے درمیان مقدمات بہت تھوڑے ہوتے تھے.حضرت سلمان بن ربیعہ باہلی کوفہ کے قاضی تھے.ان کی نسبت حضرت ابو وائل کا بیان ہے کہ میں ان کے پاس مسلسل چالیس روز تک آتا جاتا رہا.لیکن ان کے یہاں کسی فریق مقدمہ کو کبھی نہیں دیکھا.مروان بر سر عام منبر پر چڑھ کر حضرت علی کرم اللہ وجہ کو برا بھلا کہا کرتا تھا.حضرت امام حسنؓ اس کی باتوں کو اپنے کانوں سے سنتے.اور خاموش رہتے تھے.ایک مرتبہ اس نے کسی شخص کے ذریعہ آپ کو نہایت بخش با تیں کہلا بھیجیں.آپ نے سنیں تو فرمایا اس سے کہہ دینا کہ خدا کی قسم میں اسے گالی کا جواب گالی سے دے کر اس پر سے دشنام دہی کا داغ نہیں مٹاؤں گا.آخر ہم دونوں نے ایک روز احکم الحاکمین کے حضور جانا ہے اور وہی منتقم حقیقی جھوٹے سے اس کے جھوٹ کا بدلہ لے گا.سیرت صحابہ کا یہ پہلو ہمارے زمانہ میں خاص طور پر قابل توجہ ہے.عام مسلمانوں میں آج مسلم نوجوانوں کے 48 متحمل و بردباری کا فقدان ہے جس کی ایک بڑی وجہ کسی نظام کا موجود نہ ہونا ہے چونکہ وہ ایک ایسے منتشر گلہ کی طرح ہیں جس کا کوئی نگہبان نہیں.اس لیے قومی وحدت اور اس کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی قومی شوکت کے احساس سے بالکل عاری ہو کر ذرا ذراسی باتوں پر طول طویل تنازعات بلکہ مقدمات میں مبتلا رہتے ہیں.اور اس طرح اپنی اقتصادی بدحالی کے باوجود بہت سارو پیہ ضائع کرنے کے علاوہ اپنا وقت اور قوت عمل بھی ضائع کرتے ہیں.اور اس کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے علماء اور مذہبی رہنما ان کے سامنے ان کے بزرگوں کا اسوہ پیش نہیں کرتے اور انہیں کبھی یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ ان کے آباؤ اجداد کا کیا طریق عمل تھا.اور وہ ایسے موقع پر کس طرح حیرت انگیز حلم کا ثبوت دیتے تھے.حوالہ جات ا.(اسدالغابہ ج 4 ص 127،126) ۲ ( بخاری کتاب المغازی باب از همت طائفتان منکم ان تفشلا ) ۳.(اسد الغابہ ج 1 ص 160) ۵.(اسد الغابہ ج 2 ص 281) ۴.(ابن سعد زکر عروہ بن مسعود) - ( تاریخ الخلفاء سیوطی ص 189) www.alislam.org

Page 25

مسلم نوجوانوں کے سنہ ی کارنامے اطاعت امیر 49 صحابہ کرام کی زندگیوں میں ایک چیز ہمیں نہایت واضح نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ وہ خلفاء اور امراء کی اطاعت سے کسی صورت میں بھی جی نہ چراتے تھے.اور اپنے علم وفضل کے باوجودان کے ساتھ اختلاف کو گوارا نہ کرتے تھے.بلکہ ان کے پیچھے چل کر قومی وحدت کو برقرار رکھتے تھے اور یہی ایک چیز ہے جس نے اختلافات کے باوجود ان کے شیرازہ کو منتشر نہ ہونے دیا.اور من حیث القوم ان کو اس قدر مضبوط کر دیا تھا کہ اپنی کمی تعداد، غربت، بے بسی اور انتہائی کمزوری کے باوجود وہ بڑے بڑے طاقت ور دشمنوں کے مقابلہ میں کامیاب وکامران ہوتے تھے.اس ضمن میں چند ایک اہم واقعات پیش کیے جاتے ہیں.1- ایک دفعہ حضرت عمار نے حضرت عمر کے سامنے ایک حدیث بیان کی.حضرت عمر نے آپ کو ٹو کا.لیکن اپنی بات کامل وثوق کے باوجود انہوں نے امام وقت کے ساتھ اختلاف کی جرات نہیں کی.بلکہ نہایت پشیمانی کے ساتھ عرض کیا.یا امیر المومنین ! اگر آپ فرما ئیں تو آئندہ میں کبھی اس حدیث کی روایت نہ کروں گا.2- ایک دفعہ حضرت ابو موسیٰ اشعری نے حج کے متعلق لوگوں کو کوئی فتو ئی دیا.ایک شخص نے ان سے کہا کہ ابھی ٹھہر جائیے کیونکہ امیر المومنین حضرت عمر نے اس کے متعلق کچھ اور بیان فرمایا ہے.چنانچہ انہوں نے فورا لوگوں سے کہا کہ میرے فتویٰ پر عمل نہ کرو.امیر المومنین تشریف لا رہے ہیں ان کی اقتداء کرو.ایک بار حضرت عثمان نے منی میں چار رکعت نماز ادا کی.حضرت عبداللہ بن مسعود کو ان سے اختلاف تھا اور وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ یہاں دور کعتیں پڑھی ہیں.اور پھر حضرت ابو بکر کے ساتھ اور ان کے بعد حضرت عمرؓ کے ساتھ دورکعتیں پڑھی ہیں.اس لیے میں تو چار رکعتوں پر دو کو ہی ترجیح دوں گا لیکن جب وقت آیا تو خود بھی چار مسلم نوجوانوں کے 50 رکعتیں ہی پڑھیں.لوگوں نے کہا کہ آپ تو اس مسئلہ میں حضرت عثمان سے اختلاف رکھتے تھے اور اب خود بھی ان کی اقتداء کرتے ہیں.قول و فعل میں اس تفاوت کی کیا وجہ ہے تو انہوں نے جواب میں کہا کہ اختلاف بری چیز ہے.اصل بات یہ ہے کہ حضرت عثمان نے چونکہ اس جگہ مکان بنالیا تھا.اس لیے آپ اپنے آپ کو مسافر کی حیثیت میں نہ سمجھتے تھے اس لیے قصر کی بجائے پوری نماز ادا کرناضروری خیال فرماتے تھے.-4- حضرت عبد اللہ بن عمر اتباع سنت کا بہت خیال رکھتے تھے.اس لیے جب منی میں تنہا نماز پڑھتے تو قصر کرتے تھے.لیکن جب امام کے ساتھ نماز کا اتفاق ہوتا تو چار رکعت ہی ادا فرماتے تھے.اور فرماتے کہ اختلاف سے بچنا چاہیے.5- ایک بار حضرت ابو بکر ایک شخص پر بہت ناراض ہوئے.پاس ایک صحابی بیٹھے تھے.انہوں نے عرض کیا یا امیر المومنین اگر ارشاد ہو تو اس کی گردن اڑادوں.جب حضرت ابو بکر کا غصہ فرو ہوا تو اس سے پوچھا کہ اگر میں کہتا تو کیا تم واقعی اس کو مار ڈالتے.انہوں نے جواب دیا یا امیر المومنین ضرور مار دیتا.اس کے متعلق یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ یہ واقعہ اس زمانہ کے تمدن کے مطابق ہے اور اس کے اندراج سے مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ صحابہ کرام کے نزدیک خلیفہ وقت کی خوشنودی اس قدر اہم چیز تھی کہ اس کی ناراضگی اور تنگی کے مورد کو وہ قابل گردن زدنی سمجھتے تھے.گو یہ ثابت نہیں کہ صرف اسی طرح اختلاف کے اظہار کرنے والے کو کبھی بھی سزا دی گئی.تا ہم اس سے اس روح کا پتہ ضرو چلتا ہے جو ان لوگوں کے قلوب میں موجود تھی.یہ چند ایک واقعات صرف اس نقطہ نگاہ سے درج کیے گئے ہیں کہ بتایا جا سکے کہ دین متین کے وہ اولین حامل دینی امور میں خلفاء اور امراء کی آراء کے سامنے کس طرح اپنے علم و فضل کے خیال کو ترک کر کے بلا چون و چرا ان کے پیچھے ہو لیتے تھے.اور ان کے ساتھ کسی قسم کی بحث یا تکرار کا خیال بھی دل میں نہ لاتے تھے.اور دراصل جب تک یہ روح موجود نہ ہو اور ذاتی آراء www.alislam.org

Page 26

52 مسلم نوجوانوں کے کارنامے 51 مسلم نوجوانوں کے نامے کے ماتحت خلفاء کے ساتھ اختلافات کا دروازہ کھول دیا جائے تو خلافت کا منشاء کبھی بھی پورانہیں ہوسکتا اور تسکین دین کا کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا.یہ امر نہایت ہی قابل افسوس ہے کہ بعض علماء کہلانے والے محض ذاتی عداوت ورقابت کی بناء پر آج حریت ضمیر اور مساوات اسلامی کا تقاضا یہی سمجھتے ہیں کہ خلیفہ وقت کے ساتھ کسی بارے میں کوئی اختلاف پیدا ہونے کی صورت میں اعلیٰ درجہ کا ایمان یہی ہے کہ فوراً اس پر اعتراض کر دیا جائے.اور اس کے لیے وہ سطحی خیالات اور معمولی علمیت رکھنے والے ایک دولوگوں کی مثالیں پیش کرتے ہیں.جنہوں نے خلیفہ وقت کے متعلق کوئی اعتراض دل میں پیدا ہونے کی صورت میں بر ملا اور بھری مجلس میں اس کا اعلان ضروری سمجھا.اور یہ نہیں سوچتے کہ وہ لوگ دینی لحاظ سے کسی ممتاز اور نمایاں حیثیت کے مالک ہرگز نہ تھے.اس کے مقابلہ میں ہم نے جو مثالیں پیش کیں ہیں وہ جلیل القدر صحابہ کی ہیں.جو نہایت ارفع دینی مقام پر کھڑے تھے اور اس لیے انہی کے اسوہ کی تقلید ہمارے لیے کسی نفع کا موجب ہو سکتی ہے.اسکے علاوہ صحابہ آنحضرت ﷺ نیز خلفاء وامراء کے احکام کی تعمیل جس مستعدی اور سرگرمی کے ساتھ کرتے تھے اگر چہ وہ بھی اپنی شان میں بے نظیر ہے.لیکن اس جگہ اس کا ذکر ہم نے نہیں کیا.دوسرے عنوانات کی ذیل میں اس کی مثالیں آپ کو ضرور مل سکیں گے.آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد جب اسلامی مجاہدین مرتدین کی سرکوبی میں مصروف تھے تو حضرت خالد بن ولید سجاح بنت الحرث مدعیہ سے مقابلہ کر رہے تھے کہ میدان جنگ میں مالک بن نویرہ سے سامنا ہوا.اور حضرت خالد بن ولید کے حکم سے اسے قتل کر دیا گیا.یہ میدان جنگ کا ایک معمولی واقعہ ہے لیکن بعض مسلمانوں کی رائے تھی کہ مالک مسلمان تھا.اور اس کی بستی سے اذان کی آواز آئی تھی.اس لیے اس کا قتل نا جائز ہے.ایک صحابی حضرت ابوقتادہ نام حضرت خالد بن ولید کی فوج میں شامل تھے اور وہ بھی اسی رائے کے موید تھے کہ مالک مسلمان تھا اور اس کا قتل نا جائز ہے چنانچہ وہ اس قتل پر بہت برہم ہوئے اور اس پر ناراضگی کے طور پر بلا اجازت لشکر سے علیحدہ ہو کر مدینہ چلے آئے.اور یہاں آکر شکایت کی کہ خالد مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں.مدینہ میں بعض اکابر صحابہ حتی کہ حضرت عمر بھی ابو قتادہ کے ہم خیال تھے.اور چاہتے تھے کہ حضرت خالد بن ولید سے قصاص لیا جانا چاہیے.حضرت ابوبکر نے تمام حالات سنے اور فر ما یا قطع نظر اس سے کہ خالد مجرم ہے یا نہیں.ابو قتادہ کے جرم میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ امیر فوج کے حکم اور اجازت کے بغیر واپس آگئے ہیں.اور حکم دیا کہ وہ فوراً واپس جائیں اور حضرت خالد کے لشکر میں شامل ہوکر ان کے ہر ایک حکم کو بلا چون و چرا بجالائیں.چنانچہ انہیں واپس جانا پڑا.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اطاعت امیر کس قدر ضروری چیز ہے اور امیر کے ساتھ اختلاف پیدا ہو جانے کی صورت میں بھی کسی کو اس کی اطاعت سے انحراف کی اجازت نہیں.افسوس کہ آج مسلمانوں میں اول تو کوئی امیر ہی نہیں اور ان کی پستی کی سب سے اہم ترین وجہ یہی ہے.لیکن اگر کسی کو امیر بنا بھی لیں تو اسکی اطاعت ان کے لیے محال ہے.احمد یوں کو اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے ایک نظام میں منسلک کر کے ایک واجب الاطاعت امام کے ماتحت کیا ہے.اور یہ ایک ایسی نعمت ہے جس پر وہ اللہ تعالی کا جتنا بھی شکر کریں کم ہے.لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس نعمت سے فائدہ اسی صورت میں اٹھایا جاسکتا ہے کہ بلا چون و چرا اطاعت امیر کی جائے.ا.(ابوداؤد کتاب الطہارت) ۳.(ابوداؤد کتاب المناسک) ۵.(ابوداؤ د کتاب الحدود ) حوالہ جات ۲.(نسائی کتاب الحج) ۴- (مسلم کتاب الصلوة) www.alislam.org

Page 27

54 مسلم نوجوانوں کے کارنامے 53 مسلم نوجوانوں کے کارنامے سوال سے نفرت بے نیازی اور سیر چشمی صحابہ کرام کے دلوں میں آنحضرت ﷺ نے خدا تعالیٰ پر جو ایمان پیدا کر دیا تھا وہ انہیں تنگ سے تنگ حالت میں بھی انسان کے سامنے جھکنے نہیں دیتا تھا اس لیے وہ سوال کو سخت معیوب سمجھتے تھے.اس کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں.1 حضرت مالک نے جنگ احد میں شہادت پائی تو ان کے فرزند حضرت ابوسعید خدری کی عمر اس وقت صرف تیرہ سال تھی.باپ نے کوئی جائداد نہ چھوڑی تھی کہ جس سے بسر اوقات ہوسکتی.فاقہ پر فاقہ آنے لگاحتی کہ کئی بار پیٹ پر پتھر باندھ کر گزارا کرنا پڑا.ایک روزان کی والدہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جاؤ.آج انہوں نے فلاں شخص کو دیا ہے تم بھی مانگو.ماں کے حکم کے ماتحت وہ حضور کی خدمت میں پہنچے.اس وقت حضور خطبہ ارشاد فرما رہے تھے جس میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جو شخص تنگی کی حالت میں صبر کرے اللہ تعالیٰ اسے غنی کرے گا.یہ سن کر حضرت ابوسعید نے دل میں کہا کہ جب میرے پاس ایک اونٹنی موجود ہے تو مجھے مانگنے کی کیا ضرورت ہے.چنانچہ واپس آگئے.آخر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی بات ان کے حق میں پوری کی اور اس قدر رزق دیا کہ تمام انصار سے دولت و ثروت میں بڑھ گئے.2 حضرت ثوبان ایک غلام تھے جنہیں آنحضرت ﷺ نے خرید کر آزاد کر دیا تھا.اور نصیحت فرمائی تھی کہ کبھی کسی سے سوال نہ کرنا.چنانچہ انہوں نے اس ارشاد پر اس قدر شدت سے عمل کیا کہ اگر کبھی سواری کی حالت میں کوڑا زمین پر گر جاتا تو کسی سے یہ بھی نہ کہتے کہ پکڑا دو بلکہ خود اتر کر پکڑتے تھے.ایک مرتبہ چند صحابہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بیعت کے لیے حاضر ہوئے تو دیگر شرائط بیعت کے علاوہ آپ نے ایک شرط یہ پیش کی کہ لاتسألو الناس شيئا.یعنی لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرنا.اور ان لوگوں نے نہایت سختی کے ساتھ اس ارشاد پر عمل کیا.- ایک بار حکیم بن حزام نے آنحضرت ﷺ سے کچھ سوال کیا جسے آپ نے پورا کر دیا.اس کے بعد انہوں نے پھر مانگا اور آپ نے پھر دیا لیکن ساتھ نصیحت فرمائی کہ اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہر حال بہتر ہے.حضرت حکیم نے اس نصیحت کو سن کر عہد کیا کہ آئندہ کبھی کسی سے کچھ نہ مانگوں گا.اور اس عہد پر اس شدت سے عمل کیا کہ نہ صرف یہ کہ اس کے بعد کسی سے کچھ مانگا نہیں بلکہ اگر خود بخود پیش کیا جاتا تو اسے قبول کرنا باعث عار سمجھ کر رد کر دیتے تھے.چنانچہ حضرت ابو بکر اپنے عہد خلافت میں ان کو عطیہ دینے کے لیے طلب فرماتے تو وہ انکار کر دیتے.حضرت عمرؓ نے بھی اپنے زمانہ میں ان کو عطیہ دینا چاہا مگر انہوں نے قبول نہ کیا.آخر حضرت عمرؓ نے کہا کہ مسلمانو! تم گواہ رہو کہ میں حکیم کو ان کا حق دیتا ہوں مگر وہ خود نہیں لیتے..حضرت مالک بن سنان کو سوال سے اس قدر نفرت تھی کہ ایک مرتبہ تین روز تک بھو کے رہے لیکن کسی سے کچھ مانگا نہیں.6- ایک مرتبہ عبد العزیز بن مروان نے حضرت عبداللہ بن عمر کو لکھا کہ اپنی ضروریات مجھے پیش کریں.میں پوری کروں گا.انہوں نے جواب میں لکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے.خیرات اس شخص سے شروع کرو جس کے تم کفیل ہو میں تم سے کچھ نہیں مانگتا.ایک بار حضرت وائل بن حجر حضرت امیر معاویہ کے پاس آئے تو انہوں نے ان کو عطیہ دینا اور وظیفہ مقرر کرنا چاہا لیکن انہوں نے جواب دیا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں مجھ سے زیادہ مستحق لوگوں کو دو..حضرت عثمان نے ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن ارقم کو میں ہزار درہم دینا چاہے مگر انہوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں.www.alislam.org

Page 28

مسلم نوجوانوں کے نامے 55.مال خمس میں سے ایک حصہ اہل بیت کو ملا کرتا تھا جس کا انتظام اور تقسیم وغیرہ حضرت علی کے سپر د تھی.حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک مرتبہ بہت سا مال آیا.تو آپ نے حسب معمول اہل بیت کا حصہ حضرت علی گودینا چاہا.مگر انہوں نے کہا کہ اس سال تو ہم اس سے بے نیاز ہیں جو مسلمان مستحق ہیں یہ بھی ان میں تقسیم کر دیں اور حضرت عمر نے وہ حصہ بیت المال میں داخل کر دیا.آنحضرت ﷺ کے ان صریح ارشادات اور بزرگوں کے اسوہ کے باوجود جب ہم دیکھتے ہیں کہ آج گداگروں اور بھیک منگوں میں سب سے زیادہ تعداد مسلمان کہلانے اور امت محمدیہ میں اپنا شمار کرانے والوں کی ہے تو ہر غیرت مند اور باحیا مسلمان کا سر ندامت سے جھک جاتا ہے.ا.(مسند احمد ج 3 ص 380) ۳.(ابوداؤد کتاب الزکوۃ) ۵.(اسد الغابہ ج 4 ص 234) ے.(استیعاب ج 4 ص 123) ۹.(ابوداؤد کتاب الخراج) حوالہ جات ۲.(مسند احمد ج 6 ص 373) ۴.( بخاری کتاب الزکوۃ) ۶.(مسند احمد ج 6 ص 4).(استیعاب ج 3 ص 4) مسلم نوجوانوں کے سند کارنامے شوق تحصیل علم 56 کون نہیں جانتا کہ عرب جاہلیت کا مرکز تھا جس میں تعلیم کا نام ونشان بھی مشکل سے ملتا تھا.لیکن نور ایمان کے ساتھ مسلمانوں کے اندر حصول علم کا ایک ایسا جذبہ پیدا ہو گیا جس نے نہ صرف یہ کہ ان کی کایا پلٹ دی بلکہ دنیا بھر کے علوم کا ان کو بانی بنادیا.یہ مضمون اس قدر وسیع ہے کہ اس پر کئی ضخیم جلدیں لکھی جاسکتی ہیں مگر یہ اس کا موقعہ نہیں.اس لیے صرف بطور نمونہ چند نوجوان صحابہ کی علمی شان کے ذکر پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے.1- حضرت ابو ہریرہ کا جو مرتبہ علم حدیث میں ہے اس سے سب دنیا واقف ہے.مگر شاید اس بات کا علم کم لوگوں کو ہوگا کہ آپ نے عین جوانی میں یعنی تمیں سال کی عمر میں اسلام قبول کیا.اور اس زمانہ میں جو امنگوں اور آرزوؤں کا زمانہ ہے آنحضرت ﷺ کے دہن مبارک سے بکھرنے والے موتیوں کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ رکھنے کے جوش میں تمام جذبات کو مار کر ایک بے نوا فقیر کی طرح اپنے آپ کو حضور کے قدموں میں ڈال دیا.اور سایہ کی طرح ہر وقت آپ کے ساتھ رہتے.کئی کئی فاقے گزر جاتے مگر پیٹ پر پتھر باندھ کر اس وجہ سے سجدہ ہی میں پڑے رہتے کہ ایسا نہ ہو کھانے کی فکر میں باہر جائیں اور بعد میں آنحضرت باہر تشریف لا کر کوئی بات ارشاد فرما ئیں اور اس کے سننے سے محروم رہ جائیں.فاقہ کی وجہ سے کئی بار غش کھا کھا کر گرتے.اور لوگ خیال کرتے کہ آپ مرض مرع کے مریض ہیں.حالانکہ یہ حالت صرف بھوک کے باعث ہوتی تھی.اسی جانفشانی کا نتیجہ ہے کہ آپ سے مرویات کی تعداد 5374 ہے.(اصابہ جلد 7 صفحہ 205) 2.آنحضرت ﷺ کی وفات کے وقت حضرت اسامہ بن زید کی عمر صرف بیس سال تھی لیکن یہ بات متفق علیہ ہے کہ آپکا سینہ اقوال النبی ﷺ کا خزینہ تھا.بڑے بڑے صحابہ کو جس بات www.alislam.org

Page 29

58 مسلم نوجوانوں کے کارنامـ 57 مسلم نوجوانوں کے نامے میں شک ہوتا اس کے لیے آپ کی طرف رجوع کرتے تھے.(بخاری جلد 1 - صفحہ 414) 3 حضرت عثمان بن ابی العاص آنحضرت ﷺ کے آخری زمانہ میں اسلام لائے تھے.اور اس وقت آپ کی عمر بھی بہت چھوٹی تھی مگر علمی پایہ کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ یلڑ کا تفقہ فی الاسلام اور علم القرآن کا بڑا حریص ہے.کم سنی کے باوجود امتیاز کے باعث آنحضرت ﷺ نے آپ کو بنی تخفیف کا امام مقرر فرمایا تھا.(تہذیب الناس صفحہ 220) 4 - حضرت ابو سعید خدری کی عمر کو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بہت چھوٹی تھی تاہم آپ سے 1170 احادیث مروی ہیں جس سے اندازہ کیا جا کتا ہے کہ وہ حصول علم کا کس قدر شوق رکھتے تھے.5- حضرت سعد بن زراہ کو آنحضرت ﷺ نے بوجہ ان کی علمیت کے بنو نجار کا نقیب مقررفرمایا تھا.بلحا ظ سن و سال آپ سب نقیبوں میں سے چھوٹے تھے.(اسد الغابہ جلد 1 - صفحہ 71) حضرت جابر بن عبداللہ کی عمر قبول اسلام کے وقت صرف 19-18 سال تھی.لیکن تحصیل علم کا اس قدر شوق تھا کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد آپ کو معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ بن انیس کو ایک حدیث یاد ہے.حضرت عبداللہ اس وقت شام میں رہتے تھے.حضرت جابر نے ایک اونٹ خریدا اور اس حدیث کو سننے کے لیے ان کے پاس شام میں پہنچے.اسی طرح ایک حدیث حضرت مسلمہ امیر مصر کو یاد تھی اور اسکی خاطر حضرت جابران کے پاس مصر پہنچے.( فتح الباری جلد 1 صفحہ 159 ) 7 حضرت زید بن ثابت نے گیارہ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا اور اسی وقت قرآن کریم پڑھنا شروع کر دیا.آنحضرت مہ جب مدینہ تشریف لائے تو آپ سترہ سورتیں حفظ کر چکے تھے.عرب کے نوجوان ابتدائی زندگی جس طرح گزارتے تھے اسے مدنظر رکھتے ہوئے یہ ایک اچنبھا بات تھی.اس لیے لوگ آپ کو آنحضور کی خدمت میں لے گئے.حضور ﷺ نے آپ سے قرآن سنا تو نہایت مسرور ہوئے..حضرت زید بن ثابت جن کا ذکر مندرجہ بالا واقعہ میں ہو چکا ہے نہایت ذکی اور فہیم تھے.ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس بعض خطوط سریانی اور عبرانی میں آتے ہیں جن کا اظہار کسی پر مناسب نہیں ہوتا.اور یہ زبانیں سوائے یہود کے کوئی نہیں جانتا بہتر ہے کہ تم یہ زبان سیکھ لو.چنانچہ آپ سیکھنے لگے.اور اس قدر شوق اور محنت سے کام لیا کہ پندرہ ہی روز میں خطوط پڑھنے اور ان کا جواب لکھنے پر قادر ہو گئے.( سند جلد 5 صفحہ 186) 9- حضرت سہل بن سعد کی عمر آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بہت چھوٹی تھی تاہم تحصیل علم کے شوق کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ آپ سے 1188 احادیث مروی ہیں.(سیر انصاریہ جلد 2 صفحہ 6 10 - حضرت عمر و بن خرم نے کمسنی میں اسلام قبول کیا تھا لیکن علمی قابلیت اصابت رائے اور قوت فیصلہ کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ بیس سال کی عمر میں ہی آنحضرت ﷺ نے آپ کو نجران کا حاکم مقرر کر کے بھیجا.(سیر انصار جلد 2 صفحہ 117) 11 - حضرت عمیر بن سعد آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں اس قدر کمسن تھے کہ غزوہ میں شرکت نہ کر سکے.تاہم صحابہ میں بلحاظ علم وفضل ایسا بلند مرتبہ حاصل کر لیا تھا کہ حضرت عمر فرمایا کرتے تھے کہ کاش مجھے عمیر جیسے چند آدمی اور مل جاتے تو امور خلافت میں ان سے بہت مدد ملتی.(سیر انصار جلد 2 صفحہ 120) 12 - مسلم نو جوانوں کو قرآن سیکھنے کا اس قدر شوق تھا کہ ایک دفعہ حضرت عمر نے کسی خاص غرض کے ماتحت حفاظ کی مردم شماری کرائی.تو معلوم ہوا کہ فوج کے ایک دستہ میں تین سو سے www.alislam.org

Page 30

60 مسلم نوجوانوں کے کارنامے 59 مسلم نوجوانوں کے نامے زائد حفاظ تھے.( بخاری کتاب فضائل القرآن ) 13 - حضرت معاذ بن جبل نے عین عالم شباب یعنی 32 سال کی عمر میں انتقال کیا تھا مگر اس عمر کو عام طو پر نفسانی خواہشات کے غلبہ کی عمر بھی جاتی ہے.آپ نے جس پاکبازی کے ساتھ بسر کیا اس کا انداز اس امر سے ہو سکتا ہے کہ حضرت عمر جب انتقال فرمانے لگے تو لوگوں نے کہا کہ کسی کو خلیفہ مقرر کر دیں مگر آپ نے فرمایا کہ کاش معاذ زندہ ہوتے تو ان کو خلیفہ مقرر کر جاتا.نیز آپ فرمایا کرتے تھے کہ عجزت النساء ان يلدن مثل معاذ يعنى عورتیں معاذ کا ثانی پیدا کرنے سے قاصر ہیں.(سیر انصار جلد 2 صفحہ 184) اس کے علاوہ آپ مجلس شوری کے رکن تھے.(کنز العمال 134 ) مکہ کے بعد آنحضرت ﷺ نے آپ کو یمن کا امیر مقرر فرمایا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ حضور علیہ السلام کے نزدیک آپ کا علمی اور عقلی پایہ بہت بلند تھا.(مسند جلد 5 صفحہ 235) 14 - حضرت مجمع بن جاریہ نے بچپن میں ہی قرآن کریم حفظ کر لیا تھا جو اگر چہ فی زمانہ کوئی خاص بات نہیں سمجھی جاتی لیکن اس زمانہ کے تمدن کے لحاظ سے بہت بڑی بات تھی (اسدالغابہ جلد 4 صفحہ 203) زہد و تقدس کی وجہ سے اپنی قوم میں امام تھے.آپ کا باپ ہی مسجد ضرار کا بانی تھا.مگر آپ نے باوجود کم سنی کے اسلامی تعلیم کی روح کو ایسی عمدہ طرح اخذ کیا ہوا تھا کہ باپ کا قطعا کوئی اثر قبول نہیں کیا.(سیر انصار جلد 2 صفحہ 204) 15- حضرت نعمان بن منذر کی عمر آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں آٹھ سال کی تھی لیکن حضور علیہ السلام کے حالات کا بغور مطالعہ کرتے رہتے اور انہیں یا در کھتے تھے.منبر کے بالکل قریب بیٹھ کر وعظ سنتے تھے.ایک مرتبہ دعوئی سے کہا کہ میں آنحضرت یہ کی رات کی نماز کے متعلق اکثر صحابہ سے زیادہ واقفیت رکھتا ہوں.(مسند جلد 4 صفحہ 269) 16 - حضرت سمرہ بن جندب عہد نبوت میں بالکل صغير السن تھے.مگر سینکڑوں حدیثیں یاد تھیں لکھا ہے کہ کان من الحفاظ المكثرين عن رسول الله عل الله یعنی آپ حدیث کے حافظ اور آنحضرت ماہ سے کثیر روایت کرنے والے تھے.(استیعاب جلد 2 صفحہ 579) 17 - حضرت عمر کے متعلق لکھا ہے کہ مدینہ سے کسی قدر فاصلہ پر اقامت رکھتے تھے مگر تحصیل علم کا اس قدر شوق تھا کہ ایک روز خود آنحضرت ﷺ کے دربار میں حاضر ہوتے اور دوسرے روز اپنے پڑوسی حضرت عتبان بن مالک کو بھیجتے.تاکہ کسی روز بھی حضور کے ارشادات سننے.محروم نہ رہیں.آپ واپس آکر اس روز کی بات پڑوسی کو سناتے اور دوسرے روز ان سے خود سنتے.( بخاری کتاب العلم) 18- مدینہ سے باہر رہنے والے مسلمان قبائل اپنے میں سے بعض کو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بھیج دیا کرتے تھے.جو دربار رسالت میں کچھ عرصہ حاضر رہ کر تعلیم حاصل کرتے اور پھر واپس جا کر اپنے قبیلہ کو کھاتے تھے.(تفسیر ابن کثیر صفحہ 88) 19- اصحاب الصفہ نہایت غریب اور نادار لوگ تھے جو گزارہ کے لیے محنت شاقہ پر مجبور تھے.چنانچہ دن کے وقت جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر اور باہر سے شہر میں پانی بھر کر لاتے.اور اس طرح قوت لایموت کا انتظام کرتے تھے.اس وجہ سے دن میں تعلیم کا وقت بہت کم ملتا تھا اس لیے رات کو پڑھتے تھے.(مسند جلد 3 صفحہ 137) ނ 20- حضرت عمرو بن مسلمہ کی عمر آنحضرت میہ کے زمانہ میں سات آٹھ سال کی تھی مگر اپنے قبیلہ میں سب سے زیادہ قرآن دان تھے.قبیلہ کے لوگوں نے آنحضرت ﷺ دریافت کیا کہ امام الصلوۃ کسے بنائیں.آپ نے فرمایا جو سب سے زیادہ قرآن دان ہو چنانچہ آپکو امام بنایا گیا.21.حضرت سلمان فارسی ابوالدرداء کو لکھتے ہیں کہ علم ایک چشمہ ہے جس پر لوگ پیاس بجھانے کے لیے آتے ہیں.اور دوسروں کو سیراب کرنے کے لیے اس سے نالیاں نکالتے ہیں لیکن (ابوداؤد كتاب الصلوة ) www.alislam.org

Page 31

62 مسلم نوجوانوں کے 61 مسلم نوجوانوں کے رنامے اگر کوئی عالم خاموش ہوتو وہ جسم بے روح ہے.اگر علم کو لٹایا نہ جائے تو وہ مدفون خزانے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا.عالم کی مثال اس شخص کی سی ہے جو تاریک راستے میں چراغ دکھاتا ہے.22.حضرت عبداللہ بن عباس نہ صرف آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بلکہ حضرت عمر کے زمانہ میں کم سن تھے مگر علمی پایہ اتنا بلند تھا کہ حضرت عمرا اکثر پیچیدہ اور مشکل مسائل ان سے حل کراتے تھے.وہ اپنی کم عمری کی وجہ سے مجلس میں بات کرنے سے جھجکتے تو حضرت عمران کی ہمت بندھاتے اور فرماتے کہ علم عمر کی کمی یا زیادتی پر منحصر نہیں.آپ کو شیوخ بدر کے ساتھ بٹھاتے تھے.( بخاری صفحه 615) 23.حضرت عبد اللہ بن عباس کی عمر آنحضرت ﷺ کی وفات کے وقت صرف چودہ پندرہ سال تھی مگر پھر بھی علمی جستجو اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ آپ کی مرویات کی تعداد 6620 ہے.24.بعض لوگ محض اس وجہ سے علم بلکہ بعض دینی خدمات سے محروم رہ جاتے ہیں کہ وہ کسی کے پاس جا کر کسب علم کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں.مگر صحابہ کرام میں یہ مرض نہ تھا.حضرت عبداللہ بن عباس آنحضرت ﷺ کے چازاد بھائی ہونے کی وجہ سے خاص خاندانی وجاہت کے مالک تھے.اس کے علاوہ ان کا علمی پایہ بھی بہت بلند تھا جسکا ذکر اوپر گزر چکا ہے.مگر یہ علو مرتبت تحصیل وطلب علم کے راستہ میں روک نہ تھا.آپ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد آپ کے اصحاب کے پاس جاتے اور ان سے حضور کی باتیں سنتے تھے.جب آپ کو معلوم ہوتا کہ کہ فلاں شخص نے آنحضرت ﷺ سے کوئی حدیث سنی ہے تو فوراً اس کے مکان پر پہنچتے.اور اس سے حدیث سنتے تھے اور اس طرح آپ نے عرب کے کونہ کونہ میں پھر کر ان جواہر پاروں کو جمع کیا.جو اطراف ملک میں مختلف لوگوں کے پاس منتشر صورت میں موجود تھے.( مستدرک حاکم جلد 3 فضائل ابن جساس ) اس محنت کا یہ صلى الله نتیجہ تھا کہ صحابہ کرام میں جب آنحضرت ﷺ کے کسی قول یا فعل پر اختلاف ہوتا تو حضرت عباس کی طرف رجوع کرتے تھے.جس طرح آپ نے کوشش اور سعی کے ساتھ علم حاصل کیا تھا اسی طرح کوشش اور محنت کے ساتھ اس کی اشاعت بھی فرماتے.چنانچہ ان کا حلقہ درس بہت وسیع تھا.اور سینکڑوں طلباء روزانہ ان سے اکتساب علم کرتے تھے.(مستدرک حاکم جلد 3) 25.حضرت عمر نے قبول اسلام کے بعد جہاں دینی علوم میں کمال حاصل کیا وہاں دین کی راہ میں کام آنے والے دنیوی علوم بھی سیکھے.چنانچہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ پہنچنے کے بعد آپ نے عبرانی بھی سیکھ لی تھی.چنانچہ آپ ایک دفعہ توریت کا ایک نسخہ لے کر آنحضرت ﷺ کے پاس گئے اور اسے پڑھنا شروع کیا.آپ پڑھتے جاتے تھے اور آنحضرت ﷺ کا چہرہ فرط انبساط سے متغیر ہوتا جاتا تھا.26- علم الفرائض یعنی تقسیم ترکہ کے علم کو مرتب کرنے والے حضرت عثمان اور حضرت زید بن ثابت ہیں.قرآن شریف میں جو اصول بیان کیے گئے ہیں انہیں بنیاد قرار دے کر ان دونوں بزرگوں نے علم الفرائض کی ایسی مستحکم عمارت کھڑی کر دی کہ آج تک مسلمان اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور قیامت تک اٹھاتے رہیں گے.27.حضرت علیؓ کے متعلق یہ بیان کیا جاچکا ہے کہ آپ نے کمسنی میں اسلام قبول کیا تھا تاہم تحصیل علم کا شوق اس قدر تھا کہ آپ کے علمی کمال کو دیکھ کر آنحضرت ﷺ نے فرمایا انا مدينة العلم و علی بابھا یعنی میں علم کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں.28.آنحضرت ﷺ کی وفات کے وقت حضرت حسن کی عمر صرف آٹھ سال تھی لیکن باوجوداس کے آپ نے علمی لحاظ سے اس قدر ترقی کر لی تھی کہ بعد کے زمانہ میں مدینہ میں جو جماعت علم افتاء کی ترتیب کے لیے مقرر ہوئی آپ اس کے ایک رکن تھے.29.دینی علم میں اضافہ کا شوق ہر چھوٹے بڑے صحابی کو رہتا تھا.ایک دفعہ امیر معاویہ نے www.alislam.org

Page 32

مسلم نوجوانوں کے نامے 63 حضرت مغیرہ بن شعبہ کو لکھا کہ آپ نے رسول کریم ﷺ کی زبان مبارک سے جو کچھ سنا ہے اس سے مجھے بھی مستفید کریں.انہوں نے جواب میں لکھا کہ آنحضرت ﷺ نے فضول گوئی مال کے ضیاع اور سوال سے منع فرمایا ہے.30 دینی علوم کے علاوہ دنیوی علوم کی طرف بھی صحابہ کرام کو خاص توجہ تھی.چنانچہ امیر معاویہ نے اپنے زمانہ کے جید عالم حضرت عبید بن شربہ سے تاریخ گزشتہ کے واقعات سلاطین عجم کے حالات، انسانی زبان کی ابتداء اور اس کی تاریخ اور مختلف ممالک کے واقعات اور مشہور مقامات کے حالات سنے.اور پھر ان کے قلم بند کیے جانے کا مکمل انتظام کیا تھا.31 حضرت عبداللہ بن زبیر کی عمر آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں گو صرف سات آٹھ سال تھی تاہم جب بڑے ہوئے تو دینی علوم میں نہایت بلند پایہ رکھنے کے علاوہ دینوی علوم کے بھی ماہر تھے.ان کے پاس مختلف ممالک کے غلام تھے.اور سب کے ساتھ ان کی مادری زبان میں گفتگو کیا کرتے تھے.اس زمانہ میں حصول علم کی راہ میں جو مشکلات تھیں ان پر نظر رکھتے ہوئے اگر اس بات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوسکتا ہے کہ صحابہ کرام تحصیل علم کے لیے کس قدر محنت کرتے تھے.32 آنحضرت ﷺ کی تعلیم اور صحبت قدسی نے صحابہ کرام کے اندر شوق علم اس قدر بھر دیا تھا کہ اب ایسے وحشی ملک کے نہ صرف مردوں نے بلکہ عورتوں نے اس میں بہت محنت کی.اور کوشش کر کے نہایت بلند مقام علمی میدان میں حاصل کیے.حضرت ربیعہ بنت معوذ بن عفراء باوجود عورت ہونے کے ایسی عالمہ تھیں کہ بڑے بڑے جید عالم مثلاً حضرت ابن عباس اور امام زین العابدین اکثر ان سے مسائل اسلامی دریافت کرتے تھے.33.حضرت اسماء بنت عمیس علم تعبیر الرویا میں اس قدر دسترس رکھتی تھیں کہ حضرت عمر جیسا فاضل اور جید عالم بھی بعض مرتبہ اپنے خوابوں کی تعبیر یں ان سے دریافت کیا کرتا تھا.اپنے بزرگوں کی حصول علم کے لیے جد و جہد اور علمی میدان میں ممتاز مقام حاصل کرنے کو مسلم نوجوانوں کے کارنامے 64 ایک طرف رکھیے.انہوں نے نہ صرف دینی علوم بلکہ اشد ترین رکاوٹوں کے باوجود دنیوی علوم سیکھنے میں جو محنت اور مشقت اٹھائی اور جو ترقیات کیں ان پر نظر ڈالیے اور اس کے ساتھ دورِ حاضرہ کے مسلمان کہلانے والوں کی حالت کو ملاحظہ فرمائیے کہ یہ تعلیم کے میدان میں سب سے پسماندہ اور جاہل سمجھے جاتے ہیں تو طبیعت کس قدر رنجیدہ ہوتی ہے.یه تو دور اول کے مسلمانوں کی علمی جولانیاں تھیں.بعد میں آنے والوں نے اس میدان میں جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ بھی نہایت ہی شاندار اور زندہ جاوید ہیں.آج دنیا میں جو علوم مروج ہیں یہ امر مسلمہ ہے کہ ان تمام کی بنیاد میں مسلمانوں کے ہاتھوں رکھی گئی تھیں اور آج مختلف علوم و فنون میں جو نئی نئی تحقیقا تیں ہو رہی ہیں یہ سب کی سب انہی بزرگوں کی دماغی کا وشوں کی روشنی میں ظہور پذیر ہورہی ہیں.مگر افسوس کہ یورپ نے ان جواہر پاروں سے فائدہ اٹھایا اور اس وجہ سے علمی ترقیات کرتے کرتے زندگی کے ہر شعبہ میں اس قدر ترقی کر گیا کہ ساری دنیا پر چھا گیا.لیکن مسلمانوں نے اپنی اس میراث کی کوئی قدر نہ کی اور اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے ہاتھ سے حکومت تو گئی تھی لیکن وہ آہستہ آہستہ زندگی کے تمام شعبوں میں گرتے گئے اور آج یہ حالت ہے کہ ان کا شمار دنیا کی پسماندہ اقوام میں ہے.اللہ تعالیٰ رحم کرے.ا.(اصابہ ج 7 ص 353) ۳.(تہذیب الناس ص 260) ۵.(اسد الغابہ ج 1 ص 100) ے.(اسد الغابہ ج 2 ص 137) ۹.(سیر انصارج 2 ص 6) ا.(سیر انصار ج 2 ص 120) حوالہ جات ۲.( بخاری کتاب الانبیاء ) ۴.(استیعاب ج 4 ص 235 ص) ۲ - ( فتح الباری ج 1 ص 159) - (مسند احمد ج 5 ص 189) ۱۰.(سیر انصارج 2 ص 117) ۱۲.( بخاری کتاب فضائل القرآن) ۱۳.(سیر انصارج 2 ص 184) ( مسند احمد ج 5 ص 235) ۱۴.(اسد الغابہ ج 4 ص 272) (سیر انصارج 2 ص 204) ۱۵.(مسند احمد ج 4 ص 269) ۱۶.(استیعاب ج 2 ص 213 تا 215) www.alislam.org

Page 33

عا.( بخاری کتاب العلم) مسلم نوجوانوں کے کارنامے ۱۸.( بخاری کتاب الجہاد ) ۲۰.(ابوداؤ د کتاب الصلوۃ) ۲۲ - ( بخاری کتاب التفسیر) ۱۹.(مسند احمد ج 3 ص 137) ۲۱- (دارمی باب البلاغ) ۲۳.(تہذیب التہذیب زیر لفظ عبد اللہ بن عباس) ۲۵.(مسند دار می ص 62) ۲۷.(مستدرک حاکم ج 3 ص 493) ۲۹.( بخاری کتاب الزکوۃ) ۳۱.(مستدرک حاکم ج 3 ص 548) ۳۳.(اصابہ ج 8 ص 16) 65 ۲۴ ( متدرک حاکم ج ۳ فضائل ابن عباس) ۲۶.(کنز العمال ج 6 ص 372) ۲۸ - ( اعلام الموقعین ج 1 ص 72) ۳۰.(فہرست ابن ندیم ص 132) ۳۲.(سیر الصحابیات ص135) مسلم نوجوانوں کے کارنامے فیاضی اور غریب پروری 66 1- حضرت عبید اللہ بن عباس آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بہت کم سن تھے.جب جوان ہوئے تو فیاضی آپ کے اخلاق کا طرہ امتیاز تھا.روزانہ دستر خوان کے لیے ایک اونٹ ذبیج ہوتا جو حاجت مندوں کو کھلا دیتے.آپ کے بھائی نے اس کو اسراف قرار دیا اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا مگر آپ نے اس نیک عادت کو ترک کرنے کی بجائے دو اونٹ ذبح کرنے شروع کر دیئے.-2 حضرت ابو شریح نے فتح مکہ سے قبل اسلام قبول کیا تھا.طبیعت بہت فیاض پائی تھی اور اعلان عام کر رکھا تھا کہ جو شخص میرا دودھ، گھی ، برہ پائے.اسے عام اجازت ہے کہ اسے استعمال کرے.ہر شخص میری چیزوں کو بلا تکلف استعمال کر سکتا ہے.حضرت ابوقتادہ کی پیدائش ہجرت نبوی سے اٹھارہ سال قبل ہوئی تھی.اس لیے قبول اسلام کے وقت عالم جوانی تھا.ایک دفعہ آپ آنحضرت ﷺ کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ ایک انصاری کا جنازہ لایا گیا.آنحضرت ﷺ نے دریافت فرمایا کہ اس پر کوئی قرض تو نہیں لوگوں نے عرض کیا کہ کچھ قرض ہے.حضور نے دریافت فرمایا کہ کوئی ترکہ بھی چھوڑا ہے.لوگوں نے بتایا کہ کچھ نہیں.اس پر حضور نے ارشاد فرمایا کہ آپ لوگ جنازہ پڑھ لیں.حضرت ابو قتادہ نے عرض کیا یا رسول اللہ اگر میں اس کا قرض ادا کردوں تو حضور نماز جنازہ پڑھائیں گے.آپ نے فرمایا ہاں چنانچہ ابو قتادہ اٹھے اور گھر سے روپیہ لا کر اپنے مرحوم بھائی کا تمام قرض بے باق کر دیا.-4 حضرت سعید بن العاص خاندان بنی امیہ کے ایک نوجوان رئیس تھے.جن کی دریادلی اور فیاضی مشہور عام تھی.آپ کا معمول تھا کہ ہفتہ میں ایک روز تمام بھائی بھتیجوں اور متعلقین کو جمع کر کے دعوت طعام دیتے.حاجت مندوں کی امداد، پارچات اور نقدی سے بھی www.alislam.org

Page 34

68 مسلم نوجوانوں کے 67 مسلم نوجوانوں کے نامے کرتے.جمعہ کی ہر شب کو کوفہ کی مسجد میں دیناروں سے بھری ہوئی تھیلیاں نمازیوں میں تقسیم کراتے تھے.سوالی کو کبھی رد نہ کرتے تھے اور اس کا اس قدر خیال رکھتے تھے کہ کسی حاجت مند کے سوال پر اگر کچھ پاس نہ ہوتا تو اسے ایک تحریر دے دیتے کہ بعد میں آکر وصول کر لے.5 آپکے متعلق ایک واقعہ لکھا ہے کہ آپ ایک روز مسجد سے واپس تشریف لا رہے تھے کہ ایک شخص پیچھے پیچھے ہولیا.آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا کوئی کام ہے اس نے کہا نہیں یونہی آپ کو تن تنہا آتے دیکھا تو ساتھ ہولیا.آپ نے فرمایا کہ میرے فلاں غلام کو بلا لاؤ اور کاغذ قلم دوات بھی منگواؤ.اس نے تعمیل کی تو آپ نے اسے ہیں ہزار کی ہنڈی تحریر کر دی.اور کہا کہ میرے پاس اس وقت روپیہ نہیں پھر کبھی آکر یہ رقم وصول کر لینا.آپ کی وفات ہوئی تو دس ہزار اشرفی آپ پر قرض تھا.بیٹے نے پوچھا.یہ قرض کیونکر ہوا تو کہا کہ کسی کی حاجت روائی کی اور کسی کو سوال سے پہلے دے دیا.6- حضرت معاذ بن جبل نے عین عالم جوانی یعنی 32 سال کی عمر میں وفات پائی تھی مگر طبیعت کی فیاضی اور غرباء سے ہمدردی کا یہ حال تھا کہ وفات کے وقت تمام جائیداد بیع ہو چکی تھی.7- حضرت سعد بن عبادہ کے پاس ایک مرتبہ ایک ضعیفہ آئی.اور کہا کہ میرے گھر میں چوہے نہیں ہیں جس سے اس کا مقصد یہ تھا کہ اناج وغیرہ کچھ نہیں.کیونکہ چوہے وہیں ہوتے ہیں جہاں اناج وغیرہ ہو.آپ نے اس کی یہ بات سن کر کہا کہ سوال کا طریقہ نہایت عمدہ ہے اچھا جاؤ اور اب تمہارے گھر میں چوہے ہی چوہے نظر آئیں گے.چنانچہ آپ نے اس کا گھر غلہ روغن اور دوسری خوردنی اشیاء سے بھر دیا.حضرت زبیر بن العوام نے صرف 16 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا لیکن اسلامی تعلیم کے رنگ میں بالکل رنگین تھے.آپ کے پاس قریباً ایک ہزار غلام تھے.جو روزانہ اجرت پر کام کر کے ایک معقول رقم لاتے تھے مگر آپ اس میں سے ایک حسبہ بھی اپنے یا اپنے اہل و عیال کے لیے خرچ نہ کرتے تھے بلکہ سب کچھ صدقہ کر دیتے تھے.حضرت زبیر کی فیاضی اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ باوجود اس قدر تمول کے بائیس لاکھ کے مقروض ہو گئے تھے.10 - حضرت زبیر کا دروازہ فقراء اور مساکین کے لیے ہر وقت کھلا رہتا تھا.قیس بن ابی حازم کا بیان ہے کہ میں نے ان سے زیادہ بغیر غرض کے محض ہمدردی کے طور پر خرچ کرنے والا کوئی نہیں دیکھا.11- ایک مرتبہ حضرت طلحہ نے اپنی ایک جائدا د سات لاکھ درہم میں فروخت کی.اور یہ رقم سب کی سب راہ خدا میں وقف کر دی.آپ کی بیوی سعدی بنت عوف کا بیان ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنے شو ہر کو مین دیکھا تو پو چھا کہ آپ ملول کیوں نظر آتے ہیں.کیا مجھ سے کوئی خطا سرزد ہوئی.آپ نے جواب دیا نہیں تم نہایت اچھی بیوی ہو.بات یہ ہے کہ میرے پاس ایک بڑی رقم جمع ہوگئی ہے.سوچ رہا ہوں کہ اسے کیا کروں.میں نے کہا کہ اسے تقسیم کراد یجئے.چنانچہ اسی وقت لونڈی کو بلایا اور چار لاکھ کی رقم اپنی قوم میں تقسیم کردی.12.حضرت جعفر نے بھی جو حضرت علی کے بھائی تھے نو جوانی میں اسلام قبول کیا تھا.فیاضی اور غریب پروری آپ کا خاصہ تھا.مساکین اور غرباء کے ساتھ نہایت مشفقانہ سلوک کرتے تھے.ان کو اپنے گھر لے جاتے اور کھانا کھلاتے.حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ میں نے جعفر کومسکینوں کے حق میں سب سے بہتر پایا ہے.وہ اصحاب صفہ کو اپنے گھر لے جاتے تھے اور جو کچھ ہوتا سامنے لاکر رکھ دیتے تھے.حتی کہ بعض اوقات شہد اور گھی کا خالی مشکیزہ لا کر سامنے رکھ دیتے تھے اور اسے پھاڑ کر ہم لوگ چاٹ لیتے تھے.13 - حضرت عبداللہ بن عمر کا یہ معمول تھا کہ عام طور پر کسی مسکین کو شامل کیے بغیر کھانا نہ کھاتے تھے.ایک بار بعض لوگوں نے ان کی بیوی سے کہا کہ تم اپنے خاوند کی اچھی طرح خدمت نہیں کرتیں تو انہوں نے جواب دیا کہ میں کیا کروں.ان کے لیے کھانا تیار کرتی ہوں.تو www.alislam.org

Page 35

70 مسلم نوجوانوں کے کارنامه 69 مسلم نوجوانوں کے نامے کسی نہ کسی مسکین کو شریک کر لیتے ہیں.ان کی بیوی نے فقراء سے کہلا بھیجا کہ ان کے رستہ میں اب نہ بیٹھا کرو.مگر وہ مسجد سے نکلے تو ان کو گھر سے بلوا بھیجا.آخر ان کی بیوی نے ان سے کہا کہ بلانے پر بھی نہ آیا کرو.چنانچہ ایک مرتبہ وہ نہ آئے تو اس رات آپ نے کھانا ہی تناول نہ فرمایا.14 - حضرت سعد بن عبادہ کی فیاضی مشہور دور و نزدیک تھی.شام ہوتی تو ان کا ایک آدمی با آواز بلند پکارتا کہ جسے گوشت اور چربی کی خواہش ہو یہاں آئے.آپ اسی اسی اصحاب صفہ کو کھانا کھلاتے تھے.15- حضرت قیس بن سعد انصار کے علم بردار اور دریا دل آدمی تھے.ایک غزوہ میں جب سامان رسد کم تھا آپ قرض اٹھا اٹھا کر ساری فوج کو کھانا کھلاتے رہے.حضرت ابوبکر اور حضرت عمر بھی اس غزوہ میں شامل تھے.انہوں نے مشورہ کیا کہ انہیں روکنا چاہیے ورنہ باپ دادا کا سرمایہ لٹادیں گے.لیکن جب ان کے والد کو علم ہوا کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمران کے لڑکے کو فیاضی سے روکنا چاہتے ہیں.تو آنحضرت ﷺ سے شکایت کی اور کہا کہ مجھے ان دونوں سے کون بچائے گا جو میرے لڑکے کو بخیل کرنا چاہتے ہیں.16 - حضرت قیس بن عبادہ اس قدر فیاض تھے کہ آپ جہاں بھی جاتے ایک آدمی گوشت اور مالیدہ کا پیالہ بھرا ہوا ساتھ لے کر چلتا.اور پکارتا جاتا کہ آؤ اور کھاؤ.17.ایک دفعہ حضرت امام حسن نے دیکھا کہ ایک شخص مسجد میں بیٹھا ہوا خدا تعالیٰ سے دعا کر رہا ہے کہ خدایا مجھے دس ہزار درہم عنایت فرما.آپ گھر واپس تشریف لائے اور اسے اتنی رقم بھجوادی جس کے ملنے کی وہ دعا کر رہا تھا.18- ایک مرتبہ ایک شخص جو حضرت علی کا دشمن تھا.مدینہ میں آیا.لیکن اس کے پاس زادراہ اور سواری نہ تھی.لوگوں نے اسے کہا کہ حضرت امام حسن کے پاس جاؤ ان سے زیادہ فیاض کوئی نہیں.چنانچہ وہ آپ کی خدمت میں پہنچا تو آپ نے اسے دونوں چیزوں کا انتظام کر دیا.کسی شخص نے کہا کہ آپ نے ایسے شخص کے ساتھ حسن سلوک کیا ہے جو آپ کا اور آپ کے والد دونوں کا دشمن ہے.آپ نے فرمایا کہ کیا میں اپنی آبرونہ بچاؤں.19 - حضرت امام حسن ایک دفعہ کھجوروں کے ایک باغ میں سے گزرے تو دیکھا کہ ایک حبشی غلام روٹی کھا رہا ہے.لیکن اس طرح کہ ایک لقمہ خود کھاتا ہے اور دوسرا کتے کے آگے ڈال لیتا ہے.حتی کہ اس نے آدھی روٹی کتے کو کھلا دی.آپ نے اس سے پوچھا کہ کتے کو دھت کار کیوں نہیں دیتے.اس نے کہا کہ مجھے شرم آتی ہے.آپ نے اس کے آقا کا نام دریافت کیا اور اس سے فرمایا کہ جب تک میں واپس نہ آؤں یہیں رہنا.وہ تو وہیں کام کرتا رہا اور آپ اس کے آقا کے پاس پہنچے اور باغ اور غلام دونوں چیزیں اس سے خرید کر واپس آئے.اور آکر غلام سے فرمایا کہ میں نے تمہیں معہ اس باغ کے تمہارے آقا سے خرید لیا ہے.اور تمہیں آزاد کر کے یہ باغ تمہارے نام ہبہ کرتا ہوں.غلام نے یہ بات سنی تو کہا کہ آپ نے جس خدا کے لیے مجھے آزاد کیا ہے اسی کی راہ میں یہ باغ صدقہ کرتا ہوں.سبحان اللہ ایک طرف رحم دلی اور نیک عادات کی قدر و قیمت دیکھیے.فیاضی پر نظر ڈالیے اور پھر دوسری طرف سیر چشمی اور بے نیازی ملاحظہ فرمائیے.کہتے ہیں کہ غلامی انسانی فطرت کو مسخ کر دیتی ہے.اسے انسانیت کے اعلی جوہر سے محروم کر دیتی ہے.بلند اخلاقی اور فراخ حوصلگی کو مٹا کر تنگ نظری اور تنگدلی پیدا کر دیتی ہے لیکن اسلام کے اندر کیا تاثیر تھی.اور رسول پاک میتر کی پاک محبت کا کس قدر اثر تھا کہ مسلمانوں کے غلام بھی فیاضی اور بے نیازی میں بادشاہوں سے بڑھے ہوئے نظر آتے ہیں.دنیا کی دولت اور اس کے مال نہ ان کو اپنی طرف مائل کر سکتے تھے اور نہ جسمانی غلامی اور ظاہری بے بسی ان کی روحانی بلند پروازوں کی راہ میں حائل ہوسکتی تھی.اسلام نے ان کے اندر وسعت قلب اور خیالات کی ایسی بلندی پیدا کر دی تھی کہ ان کو اپنی تنگدستی کا احساس تک باقی نہ رہا تھا.20- حضرت امام حسین بے حد فیاض تھے.خدا تعالیٰ کی راہ میں کثرت کے ساتھ اموال خرچ www.alislam.org

Page 36

72 مسلم نوجوانوں کے کارنامـ 71 مسلم نوجوانوں کے نامے کرتے تھے.کوئی سائل کبھی آپ کے دروازہ سے واپس نہ ہوتا تھا.ایک مرتبہ ایک سائل آیا.آپ نماز میں مشغول تھے.سائل کی آواز سن کر آپ جلدی جلدی نماز سے فارغ ہوئے.اس پر نگاہ ڈالی تو چہرہ پر فقر وفاقہ کے آثار دکھائی دیئے.آپ نے اپنے خادم سے پوچھا کہ گھر میں کچھ ہے تو لاؤ اس نے کہا کہ آپ نے دوسو درہم جو اہل بیت میں تقسیم کرنے کے لیے دیے تھے وہ ابھی تقسیم نہیں ہوئے.اس کے سوا کچھ نہیں.آپ نے فرمایا کہ لے آؤ.اب اہل بیت سے زیادہ مستحق ایک شخص آ گیا ہے.چنانچہ وہ تھیلی اس سائل کے حوالہ کر دی.اور اس وقت اس سے زیادہ نہ دے سکنے پر معذرت بھی کی.21 حضرت اسماء بنت ابوبکر کے متعلق کسی دوسری جگہ ذکر آپ کا ہے کہ جب ان کی شادی ہوئی تو ان کے شوہر حضرت زبیر بالکل غریب تھے.اور اس لیے انہیں نہایت تنگی سے گز را وقات کرنی پڑتی تھی.مگر اس تنگی نے ان کی طبیعت میں کوئی تنگ دلی پیدا نہیں کی تھی.اور اسلامی تعلیم انسان کے اندر جو بلندی خیال پیدا کرتی ہے اس پر قطعا اثر انداز نہیں ہوسکی تھی.ان کی بہن حضرت عائشہ کے ترکہ میں سے ان کے حصہ میں ایک جائداد آئی.جسے فروخت کرنے سے ایک لاکھ درہم وصول ہوئے.جس شخص نے مالی مشکلات کا سامنا کیا ہو اور تنگ دستی میں مبتلا رہ چکا ہو.ہاتھ میں کوئی رقم آنے پر طبعا وہ جزرسی کی طرف مائل ہوتا اور اسے سنبھال سنبھال کر رکھتا ہے.لیکن انسانی فطرت کے بالکل برعکس حضرت اسماء نے یہ ساری رقم اپنے غریب اور محتاج اعزہ پر خرچ کردی.صحابہ کرام کی فیاضی اور سیر چشمی کی یہ چند مثالیں ہر ایک انصاف پسند اور حقیقت آگاہ کو اس امر کے اقرار پر مجبور کریں گی کہ دنیا کی تاریخ اور مختلف اقوام وملل کے حالات اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہیں.فیاضی سے کام لینے والے اور رفاہ عام پر اپنی دولت خرچ کرنے والے بے شک آج بھی بعض لوگ نظر آتے ہیں.لیکن صحابہ کرام کی فیاضی کے اندر جو بے نفسی ، خدا ترسی اور ہمدردی نظر آتی ہے وہ کہیں اور دکھائی نہیں دے گی.افسوس ہے کہ میں اس موضوع پر تی تفصیلی بحث اس وقت ہمارے پیش نظر نہیں.اس لیے صرف ایک اصولی فرق کی طرف اشارہ پر اکتفا کرنے پر مجبور ہیں.لیکن اس پر جتنا زیادہ غور کیا جائے.ہمارے خیال کی تصدیق ہوتی جائے اس کے علاوہ اس ضمن میں ایک اور قابل غور پہلو یہ ہے کہ صحابہ کرام کی فیاضیوں کے دریا کی روانی صرف ان کے بھائی بندوں، رشتہ داروں، دوستوں اور بنی نوع انسان تک ہی محدود نہ تھی.بلکہ مندرجہ بالا امثلہ آپ پر یہ بھی واضح کریں گی کہ اس میں دوست دشمن بلکہ جنس و غیر جنس تک کی کوئی تمیز نہ تھی.فخر موجودات اور سرور کائنات میلہ خود جس طرح رحمت للعالمین تھے ، اسی طرح آپ کے فیض صحبت سے تربیت یافتہ مرد و عورت بھی اپنی رحمت اور فیاضی کے دائرہ کو ہر ممکن حد تک وسعت دینے کی کوشش کرتے تھے.ا.(اسد الغابہ ج 3 ص 185).(مسند احمد ج 6 ص 403) اللهم صل على محمد و بارک وسلم حوالہ جات ۲.(استیعاب ج 4 ص 251) ۴.(استیعاب ج 2 ص 184 ،185) ۱۰.( فتح الباری ج 7 ص 66) ؟ ۱۲.( بخاری کتاب المناقب) ۵- (استیعاب ج2 ص185،184).(سیر انصارج2 ص164) ے.(استیعاب ج2 ص185،184) ؟.(اصابہ ج 2 ص 460) ۹.( بخاری کتاب الجہاد ) اا.( ابن سعد ج 1 ص 157) ۱۳ ( ابن سعد ج 4 ص 166 ) ۱۵.(اسد الغابہ ج 4 ص 119) ۷.(ابن عسا کرج4 ص214) ۱۸.( ابن عسا کر ج4 ص214) ۱۹.(ابن عساکرج4 ص214) ۲۰.(ابن عسا کر ج 4 ص 323 ) ۲۱.( بخاری کتاب الصبة ) ۱۴.(اصابہ ج 3 ص 56) ۱۶.(استیعاب ج 2 ص 184 185) www.alislam.org

Page 37

74 مسلم نوجوانوں کے کارنامے 73 مسلم نوجوانوں کے ارنامے دین کی راہ میں شدائد کی برداشت 1- حضرت عمار کے والد یاسر بن عامر یمن سے آکر مکہ میں آباد ہوئے تھے.ان کے حلیف ابو حذیفہ نے اپنی لونڈی حضرت سمیہ کے ساتھ ان کی شادی کر دی.جب مکہ میں آفتاب رسالت طلوع ہوا تو یہ تینوں بزرگ ابتداء ایام میں ہی قبول صداقت کی سعادت سے سرفراز ہوئے.حضرت عمار اس وقت عمر کی ابتدائی منازل طے کر رہے تھے.مسلمانوں کی تعداد 30-35 ہی تھی کہ باپ ماں اور بیٹا مسلمان ہو گئے.یہ وہ زمانہ تھا کہ مکہ کے ذی وجاہت مسلمان بھی قریش کی ستم رانی سے محفوظ نہ تھے تو اس غریب الوطن خاندان کا کیا حال ہوگا.بنی مخزوم نے اس خاندان کو سخت مظالم کا تختہ مشق بنایا.بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ان بے چاروں پر مظالم کی انتہا کر دی اور ایسی وحشت و بربریت کا ثبوت دیا کہ آج بھی اس کا ذکر آنے پر انسانیت کی جبین عرق ندامت سے تر ہو جاتی ہے.دنیا میں سنگین سے سنگین جرائم پر اتنی شدید سزا کی مثال شاید ہی تاریخ پیش کر سکے جو ان بے بس اور بے کس لوگوں کو محض اسلام قبول کرنے پر دی جاتی تھی.مختصر یہ ہے کہ حضرت عمار کی والدہ کو ابوجہل نے شرمگاہ میں نیزہ مار کر شہید کر دیا.لیکن یہ انجام دیکھنے کے باوجود بھی وہ مستقل رہے.اور ان کے قلوب میں نور ایمان کی جو شمع روشن ہو چکی تھی.مظالم کی شدید ترین آندھیاں اور جبر وستم کے بے پناہ طوفان اسے گل نہ کر سکے.حضرت یاسر بھی بوجہ ضعیف العمری ان شدائد سے جانبر نہ ہو سکے اور انتقال فرما گئے.حضرت عمار کو قریش دوپہر کے وقت انگاروں پر لٹاتے ، پانی میں غوطے دیتے ایک مرتبہ انہیں انگاروں پر لٹایا جار ہا تھا کہ آنحضرت ﷺ کا اس طرف سے گزر ہوا.آپ نے حضرت عمار کے سر پر ہاتھ پھیر کر فرمایایـا نـار کـونی برداً وسلاما على عمار كما كنت على ابراهیم اچھا ہونے کے بعد آپ کی پیٹھ پر زخموں کے نشانات باقی رہے لیکن ان پیہم صدمات اور ان تکالیف کے باوجود جو خود حضرت عمار کو دی جاتی تھیں.ان کے ایمان میں کوئی لغزش نہ آئی.اور وہ نہایت پامردی سے اس پر قائم رہے.ایمان ان کے نزدیک دنیا کی ہر چیز بلکہ اپنی جانوں سے بھی زیادہ قیمتی چیز تھی.جس کی حفاظت وہ ہر چیز سے ضروری سمجھتے تھے.! 2.حضرت بلال نے عالم جوانی میں اسلام قبول کیا مگر آپ غلام تھے.اس زمانہ میں عرب کے غلام جو حیثیت رکھتے تھے وہ تاریخ دان اصحاب سے پوشیدہ نہیں.کسی غلام کا اپنے آقا کی مرضی کے خلاف ادنیٰ سے ادنیٰ حرکت کرنا بھی گویا اپنی موت کو دعوت دینا تھا.اور پھر اسلام کو قبول کرنا جسے مٹا دینے کے لیے کفار کی تمام طاقتیں وقف تھیں.کوئی آسان بات نہ تھی.امیہ بن خلف آپ کو چلچلاتی دھوپ میں جبکہ ملکہ کی زمین آگ اگل رہی ہوتی گرم ریت پرلٹا تا اور سینہ پر بھاری پتھر رکھ دیتا تھا.تا کہ آپ حرکت نہ کرسکیں.اور کہتا کہ تو بہ کرو ور نہ یونہی سسک سسک کر جان دینی ہوگی.مگر آپ کی زبان سے عین اس حالت میں بھی احد احد کی آواز نکلتی تھی.یعنی اللہ ایک ہے.اس کا کوئی شریک نہیں.-3 حضرت خباب بن ارت کو بھی طرح طرح کے مظالم کا تختہ مشق بنایا جاتا تھا.وہ خود بیان کرتے ہیں کہ مشرکین انگارے دھکاتے اور مجھے ان پر لٹا دیتے اور اس پر بھی جب ان وحشیوں کا شوق ستم رانی پورا نہ ہوتا تو ایک شخص سینہ پر سوار ہو جاتا کہ جنبش نہ کر سکوں.اور اس طرح اس وقت تک مجھے لٹائے رکھتے جب تک کہ جسم سے رطوبت نکل نکل کر آگ کو سرد نہ کر دیتی.لیکن یہ مرد مجاہد آئے دن کے ان مصائب کے باوجود اپنے ایمان پر مستقل رہا.اور کسی مداہنت سے کام لے کر بھی ان تکالیف سے نجات حاصل کرنے کا خیال دل میں نہ لاتا.-4- حضرت عمر نے اسلام لانے سے قبل اپنی بہن اور بہنوئی حضرت سعد بن زید کو اس قدر مارا کہ ان کے چہرے سے خون کے فوارے چھوٹنے لگے.مگر ان کے ایمان میں کوئی لغزش نہ آئی اور آخران کا استقلال حضرت عمر کو اسلام میں داخل کرنے کا موجب ہوا.www.alislam.org

Page 38

مسلم نوجوانوں کے نامے 75 5 حضرت ابو جندل بن سہیل مکہ میں ہجرت کے بعد مسلمان ہوئے اور ان کے والد نے ان کو قید میں ڈال دیا.بیڑیاں پہنا دیں اور کئی برس تک انہیں مقید رکھا.اس قید پر قناعت نہ کرتے ہوئے انہیں اس قدر زدو کوب کیا جاتا کہ بدن پر نشان پڑ جاتے تھے.صلح حدیبیہ کے موقعہ پر کفار کی طرف سے شرائط طے کرنے کے لیے یہی سہیل در بار رسالت میں آیا تھا.ابھی اس شرط پر بحث جاری تھی کہ قریش کا جو آدمی مسلمان ہو کر آئے گا اسے قریش کے پاس لوٹا دیا جائے گا کہ حضرت ابو جندل اسی طرح پابجولاں کسی نہ کسی طرح کفار کی نظروں سے بچتے ہوئے وہاں آپہنچے.انہیں دیکھتے ہی ان کے والد نے کہا کہ ابو جندل کو واپس کر دیا جائے.اور اس کے بغیر شرائط صلح طے کرنے سے انکار کر دیا.آنحضرت یہ کو چونکہ معاہدات کا بہت خیال تھا.آپ نے ابو جندل کو واپس جانے کا حکم دے دیا.انہوں نے چاہا کہ یہ فیصلہ نہ ہو.اپنی مصیبتوں کا نہایت درد ناک الفاظ میں ذکر کر کے آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام کے جذبات رحم کو اپیل کیا.صحابہ بھی اپنے بھائی کی حالت کو دیکھ کر بے تاب و بے قرار ہوتے جاتے تھے.اور کسی حالت میں انہیں واپس بھیجنا پسند نہ کرتے تھے.وہ اس بات کو زیادہ پسند کرتے تھے کہ اپنی بھائی کو مصیبتوں سے نجات دلانے کے لیے اپنی جان قربان کر دیں.ان کی تلواریں نیاموں میں تڑپ رہی تھیں مگر آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے سامنے کسی کو دم مارنے کا حوصلہ نہ تھا.اس لیے خون کے گھونٹ پی کر خاموش رہ گئے.حضرت ابوجندل کی اپیل پر آپ نے صرف یہی فرمایا کہ صبر سے کام لو.اور واپس چلے جاؤ.چنانچہ نہایت خاموشی سے واپس چلے گئے اور پھر انہی مصائب میں گرفتار ہو گئے.لیکن پائے ثبات میں کوئی لغزش نہ آئی.معرکہ احد کے بعد چند لوگ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ: تعلیم دین کے لیے چند معلمین ہمارے ساتھ بھیجے جائیں.آپ نے ستر مشہور قاری ان کے ساتھ روانہ کیے.جن میں سے ایک حضرت حرام بن ملحان تھے.جب یہ مقدس قافلہ مسلم نوجوانوں کے کارنامے 76 منزل کے قریب پہنچا تو حضرت حرام نے ساتھیوں سے کہا کہ آپ لوگ ٹھہریں اور میں جاکر ان لوگوں کا حال دیکھتا ہوں.چنانچہ آپ ان کے قبیلہ میں پہنچے اور آنحضرت ﷺ کی رسالت پر تقریر شروع کی.ان بد بختوں کی نیت پہلے ہی بدتھی.چنانچہ آپ تقریر کر رہے تھے کہ ایک شخص نے پیچھے سے اس زور سے تیر مارا کہ ایک پہلو کوتوڑتا ہوا دوسری طرف نکل گیا.جب جسم سے خون کا فوارہ چھوٹا تو حضرت حرام نے اس سے چلو بھر کر منہ اور سر پھیرا اور فرمایا فزت و رب الکعبہ یعنی رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا.آپ کے ساتھیوں کو یہ خبر پہنچی تو وہ بھی پہنچے اور لڑ کر شہادت حاصل کی.بنا کر وند خوش رسے بخاک و خون غلطیدن خدا رحمت کند این عاشقانِ پاک طینت را 7 دین کی راہ میں صحابہ تکالیف کو جس قدر خوشی کے ساتھ برداشت کرتے تھے اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ ایک غزوہ میں سب کے پاس صرف ایک سواری تھی.سفر لمبا تھا اور اکثر پا برہنہ تھے.چلتے چلتے بعض کے پاؤں میں زخم ہو گئے.بعض کے ناخن گر گئے.زخموں کی وجہ سے صحابہ نے پاؤں میں چیتھڑے لپیٹ رکھے تھے.اس وجہ سے اس غزوہ کا نام ہی ذات الرقاع پڑ گیا.غزوہ احزاب میں صحابہ کے پاس سامان رسد اس قدر کم تھا کہ ایک ایک مٹھی جو اور تھوڑی سی چربی پر ہر ایک گزارہ کرتا تھا..ایک غزوہ میں سامان رسد کی اس قدر قلت تھی کہ صحابہ کھجوروں کی گٹھلیاں چوس چوس کر پانی پی لیتے تھے.10- ایک غزوہ میں صحابہ کو فی کس ایک کھجور ماتی تھی.جس کو وہ بچوں کی طرح چوس چوس کر کھاتے اور پانی پی لیتے تھے.اس کے علاوہ درختوں کے پتے جھاڑ لاتے اور انہیں پانی میں بھگو کر کھا لیتے تھے.www.alislam.org

Page 39

78 مسلم نوجوانوں کے کارنامه 77 مسلم نوجوانوں کے نامے 11 - حضرت مصعب بن عمیر مکہ کے ایک مالدار گھرانہ کے چشم و چراغ تھے اور اس لیے اس قدر ناز و نعم میں پرورش پائی تھی کہ مکہ میں اس لحاظ سے کوئی ثانی نہ رکھتے تھے.عمدہ سے عمدہ لباس پہنتے اور اعلی سے اعلی خوراک کھاتے تھے.نہایت بیش قیمت خوشبوئیں اور عطریات استعمال میں لاتے تھے غرضیکہ نہایت آسائش کی زندگی بسر کرتے تھے اور اپنے کھانے پینے اور پہننے کا خاص طور پر خیال رکھتے تھے.لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد ایک عرصہ تک تو اسے پوشیدہ رکھا.آخر ایک روز ایک مشرک نے انہیں نماز پڑھتے دیکھ لیا.اور آپ کی ماں اور خاندان کے دوسرے لوگوں کو خبر کر دی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کو قید میں ڈال دیا گیا.آپ ایک عرصہ تک قید و بند کے مصائب نہایت صبر کے ساتھ برداشت کرتے رہے اور موقعہ ملنے پر ترک وطن کر کے حبشہ کی راہ لی.اس قدر پر تکلف زندگی کے عادی نوجوان کو قید اور غریب الوطنی میں جس قدر مصائب کا سامنا ہو سکتا ہے ان کے بیان کی ضرورت نہیں.لیکن ایمان نے دل پر ایسا اثر کر رکھا تھا کہ کسی مصیبت نے ان کو مغلوب نہیں کیا اور پائے استقلال میں کبھی ذرہ بھر لغزش نہ آئی.12 - حضرت ابو فلکیہ صفوان بن امیہ کے غلام تھے.لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور اسلام کی دولت سے مالا مال کیا.صفوان اور دوسرے کفار ان کو طرح طرح کی تکالیف دیتے تھے.ان کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر زمین پر لٹا دیتے.اور اوپر وزنی پتھر رکھ دیتے تھے.تا کہ حرکت نہ کر سکیں.اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ ان کا دماغ مختل ہو جاتا.سفاک ان کے پاؤں میں رسہ باندھتے اور گرم زمین پر گھسیٹتے ہوئے لیے پھرتے تھے مگر وہ نہایت صبر کے ساتھ ان کی سختیوں کو برداشت کرتے اور کبھی یہ خیال دل میں نہ لاتے تھے کہ اپنی جان کو مصیبت سے بچانے کے لیے کسی مداہنت سے کام لیں.13 - حضرت زبیر بن عوام جب اسلام کی دولت سے مالا مال ہوئے تو آپ کے چچانے کوشش کی کہ جبر و تشدد کے ذریعہ ان کو ارتداد اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے.چنانچہ وہ بد بخت آپکو ایک چٹائی میں لپیٹ کر ناک میں دھواں پہنچا تا تھا.-14 - محمل وشدائد کے ضمن میں باوجود یکہ اس جلد میں صحابیات کا ذکر مقصود نہیں تا ہم حضرت ام شریک کا ذکر کیے بغیر ہم نہیں رہ سکتے.جب آپ ایمان لائیں تو ان کے اقارب نے ان کو ایذا دینی شروع کی اور اس کے لیے یہ طریق ایجاد کیا کہ انہیں دھوپ میں کھڑا کر دیتے اور اس سخت گرمی کے ساتھ شہد ایسی گرم چیز کھلاتے اور پانی بالکل نہ دیتے تھے.ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہوتا کہ آپ کے حواس مختل ہو جاتے.ایسی حالت میں ان سے کہتے کہ اسلام چھوڑ دو.مگر ان کی سمجھ میں کچھ نہ آتا.سمجھانے کے لیے وہ آسمان کی طرف اشارہ کرتے تو وہ سمجھ جاتیں کہ توحید کا انکار کرانا چاہتے ہیں.مگر آپ جواب دیتیں کہ یہ ہرگز نہ ہوگا.صحابہ کرام نے دین کی راہ میں جو شدائد اور مصائب برداشت کیے ان میں ہجرت کی داستان نهایت دردانگیز ہے.اپنے گھر بار اور وطن عزیز کے ساتھ تمام عزیز واقارب حتی کہ مال و اسباب کو بھی چھوڑ دینا بیوی بچوں سے منہ موڑ لینا کوئی آسان بات نہ تھی.لیکن صحابہ کرام نے یہ سب کچھ چھوڑا.اور ایسا چھوڑا کہ پھر واپسی کی خواہش بھی ان کے دل میں پیدا نہ ہوتی تھی.چنانچہ لکھا ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف اگر کبھی مکہ میں آتے تھے تو اپنے قدیم مکان میں اترنا تک پسند نہ کرتے تھے.ہر شخص اپنے گریبان میں منہ ڈال کر سوچے تو اسے معلوم ہوسکتا ہے کہ یہ کتنا مشکل کام ہے.کوئی ایک دن کے لیے بھی یہ پسند نہیں کرتا کہ بیوی بچوں اور ماں باپ عزیز واقارب دوست احباب اور وطن عزیز سے جدا ہو.لیکن صحابہ کرام نے خدا تعالیٰ کے لیے ان سب جدائیوں کو گوارا کیا تا کہ اپنے ایمان کو سلامت رکھ سکیں.آنحضرت ﷺ کی ہجرت سے قبل بعض صحابہ نے کفار کی ایذا رسانیوں سے نجات کی کوئی www.alislam.org

Page 40

80 مسلم نوجوانوں کے نامے 79 راہ نہ دیکھتے ہوئے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی اور وہاں غربت اور غریب الوطنی کی زندگی کو مکہ کی زندگی پر ترجیح دی.اور جب آنحضرت ﷺ نے مدینہ کو ہجرت فرمائی تو پھر بہت سے لوگ وہاں چلے گئے.وہاں جا کر ان کو گونا گوں مشکلات کا سامنا ہوا.آب و ہوا راس نہ آئی.اور کئی بزرگ بخار میں مبتلا ہو گئے.صحت برباد ہوگئی کاروبار کا کوئی انتظام نہ تھا گھر بار نہ تھے، وطن عزیز اور مکہ کی وادیوں ، چشموں اور پہاڑیوں کے نظاروں کی یاد ان کو بے تاب کر دیتی تھی.مگر آفرین ہے ان جواں ہمت لوگوں پر کہ اسلام کی راہ میں ان سب مشکلات کو بخوشی برداشت کیا.اور زبان سے اف تک نہ کی.مختصر یہ کہ اسلام قبول کرنے والے جانباز لوگوں کو ظالم وسفاک لوگ سخت دکھ اور اذیتیں پہنچاتے تھے.اور اس کے لیے طرح طرح کے طریقے ایجاد کرتے رہتے تھے.اور ستم پر ستم یہ ہے کہ یہ تکالیف کوئی آئی اور وقتی نہ ہوتی تھیں بلکہ ان کا سلسلہ بہت لمبا چلتا تھا.ایک دفعہ ہی جان دے دینا آسان ہے لیکن مسلسل ظلم برداشت کرنے کے یہ معنی ہیں کہ ہر روز نئی موت قبول کی جائے.لیکن ہمارے نوجوان صحابہ نے اس موت کو پوری جواں مردی اور جرات کے ساتھ برداشت کیا اور یہ ایک ایسی خصوصیت ہے کہ جو کسی اور قوم کو حاصل نہیں چنانچہ صحابہ کرام جب گئے تو ان کے متعلق اہل کتاب کے ایک عالم نے جو رائے ظاہر کی وہ یہ ہے.عیسی بن مریم کے وہ متبع جو آروں سے چیرے اور سولی پر لٹکائے گئے ان لوگوں سے زیادہ شام.تکالیف برداشت کرنے والے نہ تھے (استیعاب جلد 1 صفحہ 2) آج جو لوگ دین کی راہ میں عارضی اور بالکل معمولی سی جدائی بھی برداشت کرتے ہوئے گھبراتے ہیں اور وقتی طور پر بھی تبلیغ اسلام کے لیے گھروں سے نہیں نکلتے ہیں اس لیے تامل کرتے ہیں کہ ان کی عدم موجودگی میں ان کے اہل و عیال کو کوئی معمولی سی تکلیف ہوگی یا کاروبار کو کوئی خفیف سا نقصان پہنچے گا.یا حالت سفر میں وہ گھر جیسا آرام و آسائش حاصل نہ کر سکیں گے.وہ صحابہ کرام کے مثیل ہونے کا دعویٰ اور ان کے نقش قدم پر چلنے کا خیال بھی کس طرح دل میں لا سکتے ہیں.مسلم نوجوانوں کے ان واقعات سے آپ پر ظاہر ہو گیا ہے کہ صحابہ کرام دین کی راہ میں بھو کے اور پیاسے رہتے تھے.سامان کی کمی کی وجہ سے سخت تکالیف اٹھاتے تھے.مگر ان کے قلوب میں ایمان کی اس قدر حرارت موجود تھی کہ جس کے سامنے مصائب کے پہاڑ بھی پگھل کر بہ جاتے تھے اور کوئی چیز ان کے مجاہدانہ اقدام میں حائل نہ ہو سکتی تھی.آج زمانہ بالکل مختلف ہے انسانی تمدن میں بہت حد تک تبدیلیاں ہو چکی ہیں.اور گو علمبرداران صداقت کو آج بھی پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے مگر آج ان کی نوعیت بدل چکی ہے اور شدت میں بہر حال کمی آچکی ہے.دوسری طرف اسلام کی حالت ہم سے یہ تقاضا کر رہی ہے کہ اسے سر بلند کرنے اور اس کی صحیح تصویر کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے پورے جوش کے ساتھ میدان عمل میں نکلیں اور مندرجہ بالا سطور کے مطالعہ سے اگر ہمارے نوجوان دین کی خاطر انتہائی قربانی کرنے کے لیے تیار ہو جائیں اور یہ عزم کریں کہ اس راہ میں جو مصائب بھی آئیں گے.وہ انہیں خوشی سے برداشت کریں گے تو اسلام کی ترقی یقینی ہو جاتی ہے اور اس کے ذریعہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور وہ درجات پائیں گے کہ ان کا نام ابدالا باد تک زندہ رہے گا.اور جس طرح آج صحابہ کے واقعات پڑھ کر ہمارے دلوں کی عمیق ترین گہرائیوں سے ان کے لیے دعائیں نکلتی ہیں آنے والی نسلوں کے قلوب میں ہمارے لیے محبت کے یہی جذبات موجزن ہوں گے.ا.(مستدرک حاکم ج 3 ص 383).( ابن سعد ج 3 ص117) حوالہ جات ۲.(اسد الغابہ ج 1 ص 283) ۴.(سیر الصحابہ ج 2 ص 42) ۵.( بخاری کتاب الشروط ) ۶.( بخاری کتاب المغازی) ۸.( بخاری کتاب المغازی) ۱۰.(ابوداؤد کتاب الاطعمه ) ے.(مسلم کتاب الجہاد ) ۹- (مسلم کتاب الایمان) ا.(ابن سعد ج 3 ص 82) (اسد الغابہ ج 4 ص 387) ۱۲.(اسد الغابہ ج 5 ص 249) ۱۳.(سیر الصحابہ ج 2 ص 42) ؟ ۱۵.(ابن سعد ج 3 ذکر عبد الرحمان بن عوف) ۱۴.(ابن سعد ج 8 ص 111) www.alislam.org

Page 41

مسلم نوجوانوں کے ی کارنامے غیرت ایمانی 81 1- حضرت ابوبکر کی خلافت کے ابتداء میں جو فتنہ ارتداد اٹھا تھا جب وہ فرو ہوا اور باغی مقتل میں لائے گئے تو ایک نو جوان حضرت امرء القیس کے ایک چا بھی ان میں تھے.آپ خود ان کو قتل کرنے کے لیے آگے بڑھے تو اس نے کہا کہ کیا تمہارا ہاتھ اپنے چا پر اٹھ سکتا ہے اور تمہاری تلوار اپنے باپ کے بھائی کی گردن پر چل سکتی ہے.تم مجھے قتل کرو گے.آپ نے جواب دیا کہ بے شک آپ میرے چا ہیں مگر اللہ عز وجل جس کے لیے میں تمہیں قتل کرنا چاہتا ہوں میرا رب ہے.صلى الله 2.غزوہ مصطلق سے جب آنحضرت ﷺہ واپس آرہے تھے تو راستہ میں مریسیع کے مقام پر پڑاؤ کیا.اس جگہ منافقین نے جو ہمیشہ مسلمانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینے اور اس طرح نخل اسلام کو اس کی ابتدائی حالت میں ہی نفاق و اختلاف کی زہر میں ملی ہوا سے مرجھا دینا چاہتے تھے.ایک نہایت خطرناک فتنہ کھڑا کرنا چاہا.جس سے قریب تھا کہ مسلمانوں میں کشت و خون تک نوبت پہنچتی عصبیت کو مٹا کر اسلام نے ان کے اندر جو اخوت پیدا کی تھی اس کا خاتمہ ہوجاتا اور خانہ جنگی شروع ہو جاتی.اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ حضرت عمر کا ایک ملازم جھجاہ نام چشمہ پر پانی لینے گیا.انصار میں سے بھی ایک شخص سنان پانی کے لیے وہاں گیا.دونوں کم علم اور معمولی عقل و سمجھ کے آدمی تھے.پانی بھرتے بھرتے دونوں میں تکرار ہوگئی اور جھجاہ نے سنان کے ایک ضرب لگا دی.سنان نے دہائی مچادی اور انصار کو مدد کے لیے پکارا.جھجاہ نے مہاجرین کو آواز دی اور چشم زدن میں وہاں ایک اچھا خاصہ مجمع ہوگیا اور قریب تھا کہ تلوار میں نکل آئیں اور مسلمان اپنے ہی بھائیوں کے خون سے اپنے ہاتھ آلودہ کر لیتے.مگر بعض سنجیدہ بزرگوں نے معاملہ رفع دفع کرا دیا.اور اس طرح یہ فتنہ رک گیا لیکن فتنہ و فساد پیدا کرنے کا ایک زریں موقعہ ضائع ہو جانے کی اطلاع جب مسلم نوجوانوں کے کارنامه 82 منافقین کے سردار عبد اللہ بن ابی بن سلول کو ہوئی تو اس نے پھر اس فتنہ کی آگ کو ہوا دینا چاہی.اپنے ساتھیوں کو بہت اکسایا اور کہا لئن رجـعـنـا الـى الـمـدينة ليخرجن الاعــز منهـا الاذل یعنی ہمیں مدینہ پہنچنے دوعزت والا شخص یا گروہ ، ذلیل شخص یا گروہ کو وہاں سے نکال دے گا.یہ سن کر مخلصین کے تن بدن میں آگ لگ گئی.اور ان کی تلواریں عبداللہ کے قتل کے لیے بے قرار ہو رہی تھیں کہ عبداللہ کے لڑکے حضرت حباب کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی.وہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پہنچے اور کہا: یا رسول اللہ میں نے سنا ہے کہ میرے باپ نے شرارت کی ہے اور آپ نے اس کے قتل کا حکم دیا ہے.اگر میری اطلاع درست ہے تو آپ مجھے حکم دیں کہ میں اپنے باپ کا سرکاٹ کر حاضر کروں.کیونکہ اگر آپ نے یہ کام کسی اور کے سپرد کیا تو ممکن ہے کسی وقت میری رگ جاہلیت جوش مارے اور میں اس مسلمان کو اپنے باپ کا قاتل سمجھ کر کوئی نقصان پہنچا بیٹھوں.اور اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالوں.مگر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نہیں ہمارا ہر گز یہ ارادہ نہیں.اپنے باپ کی اس گستاخی پر حضرت حباب کو اس قدر طیش تھا کہ جب لشکر نے کوچ کیا تو انہوں نے باپ کا راستہ روک لیا اور کہا کہ خدا کی قسم میں تمہیں ہرگز واپس نہ جانے دوں گا، جب تک تم یہ اقرار نہ کرو کہ معزز ترین وجود آنحضرت ﷺ ہیں اور ذلیل ترین تم ہو.اور اس مطالبہ پر اس قدر اصرار کیا کہ مجبور ہوکر عبداللہ کو یہ الفاظ کہنے پڑے.4- ستر قاریوں کے ایک وفد کے، ایک قبیلہ کی درخواست پر، تعلیم دین کے لیے بھیجنے کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے.بیئر معونہ کے مقام پر کفار نے ان کو گھیرا اور سوائے حضرت منذر بن عمر و کے جو اس وفد کے امیر تھے سب شہید ہو گئے.حضرت منذر سے کفار نے کہا کہ اگر تم درخواست کرو تو تم کو امان دی جاسکتی ہے.مگر آپ کی غیرت نے یہ بے قمیتی گوارا نہ کی کہ اپنی جان بچانے کے لیے کفار سے درخواست کریں.اور بے غیرتی کی اس زندگی پر موت کو تر جیح دی.زندگی کتنی پیاری چیز ہے.اس سوال کا جواب ہر شخص کا دل دے سکتا ہے.www.alislam.org

Page 42

84 مسلم نوجوانوں کے کارنامـ 83 مسلم نوجوانوں کے رنامے اور جب یہ پیاری جان محض منہ سے کہہ دینے سے بچائی جاسکتی ہو اور نہ بچائی جائے تو ایمانی غیرت کا اندازہ کرنا مشکل نہیں.چنانچہ مردانہ وارلڑے اور شہادت پائی.5 جنگ بدر میں جو کفار قید ہوئے ان میں ایک ولید بن ولید مشہور اسلامی جرنیل حضرت خالد بن ولید کے بھائی بھی تھے.ان سے چار ہزار درہم فدیہ طلب کیا گیا.جو ان کے بھائیوں نے ادا کر دیا چنانچہ وہ رہا ہو کر مکہ آگئے.اور یہاں پہنچتے ہی مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا.اس پر ان کے بھائی بہت جزبز ہوئے اور کہا کہ اگر تم نے مسلمان ہی ہونا تھا تو پھر یہ فدیہ ادا کرنے کی کیا ضرورت تھی.آپ نے جواب دیا کہ ایسا میں نے اس لیے کیا تا کہ کوئی یہ نہ کہے کہ فدیہ سے بچنے کے لیے مسلمان ہو گیا.اللہ اللہ کس قدر غیرت ہے.دل واقعی اسلام قبول کر چکا ہے.ایمان گھر کر چکا ہے.ایسے وقت میں ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے سے خاندان کو ایک بہت بڑی مالی سزا سے بھی محفوظ رکھا جاسکتا ہے لیکن غیرت اس کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ کوئی شخص ایمان پر طعنہ زنی کرے.اور اسے مالی بوجھ سے بچنے کا نتیجہ قرار دے.مکہ والوں نے آپ کو قید کر دیا اور سخت ایذا ئیں دیں.مگر تو حید کا نشہ اترنے والا نہ تھا.آپ بالکل ثابت قدم رہے اور موقعہ پا کر مدینہ بھاگ گئے.6- حضرت عمیر بن سعد کے والد کا بچپن میں ہی انتقال ہو گیا تھا.آپ کی والدہ نے ایک شخص جلاس نامی سے نکاح کر لیا جو منافق طبع تھا.اور وہی آپ کی پرورش کرتا تھا.حضرت عمیر بچپن میں ہی مسلمان ہو گئے تھے.اور غزوہ تبوک میں باوجود خوردسالی کے شریک ہوئے.ایک موقعہ پر جلاس نے کہا کہ اگر محمد ﷺ اپنے دعوی میں بچے ہیں تو ہم گدھوں سے بھی بدتر ہیں.آپ نے یہ بات سنی تو یا رائے ضبط نہ رہا اور فوراً جواب دیا.کہ آنحضرت ﷺ ضرور بچے ہیں.اور تم لوگ واقعی گدھوں سے بدتر ہو.ظاہر ہے کہ جلاس کے لیے یہ بات نا قابل برداشت تھی کہ اس کا ربیب اس طرح اس کے سامنے گستاخانہ جواب دے.اور حضرت عمیر بھی اس صاف گوئی کے انجام سے بے خبر نہ ہو سکتے تھے.اور اچھی طرح جانتے تھے کہ جس شخص سے آپ یہ بات کر رہے ہیں وہی آپکا کفیل ہے اور اگر اس نے کفالت سے ہاتھ کھینچ لیا تو کس قدر مشکلات کا سامنا ہوگا.لیکن غیرت ایمانی نے ان تمام خیالات کو نزدیک نہ آنے دیا.اور بر ملا وہ بات کہہ دی جو ایمانی غیرت کا تقاضا تھا.چنانچہ وہی ہوا جس کا ڈر تھا یعنی جلاس نے کہا کہ آئندہ میں ہرگز تمہاری کفالت نہ کروں گا.مگر آپ نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی اور فور اور بار نبوی میں رپورٹ پہنچائی.آنحضرت ﷺ نے جلاس کو بلوا کر دریافت کیا تو اس نے صاف انکار کر دیا.مگر وحی الہی سے حضرت عمیر کی بات کی تصدیق ہوگئی.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے ان کا کان پکڑ کر فرمایا.لڑکے تیرے کانوں نے ٹھیک سنا تھا.بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ وہ جماعت کے اندر فتنہ پیدا کرنے والی باتیں کرتے رہتے ہیں.ایسی باتیں بالخصوص وہ جو امراء اور خلفاء کے بارہ میں ہوں تو نہایت خطرناک ہوتی ہیں.صحابہ کی مجالس میں اگر کوئی شخص ایسی بات کرتا تو ان کی غیرت ایمانی ہرگز اس کی متحمل نہ ہو سکتی تھی.حضرت عمار بن یاسر کا ذکر پہلے آچکا ہے کہ آپ نے بچپن میں اسلام قبول کیا تھا.ایک مسلمان مطرف نام بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں کوفہ میں گیا اور اپنے ایک دوست کے پاس ٹھہرا.اس کے مکان پر ایک اور شخص بھی بیٹھا ہوا اپنے چرمی لباس کو پیوند لگا رہا تھا.میں نے اپنے دوست کے ساتھ حضرت علی کے متعلق بعض ایسی باتیں شروع کیں جو ایک قسم کی نکتہ چینی کا رنگ رکھتی تھیں.اس پر اس شخص نے سخت برہم ہو کر مجھے کہا کہ اے فاسق کیا امیر المومنین کی مذمت کر رہا ہے.میرے دوست نے عذر خواہی کی اور کہا کہ جانے دیں میرا مہمان ہے اور اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ وہ شخص عمار بن یاسر تھے.افسوس ہے کہ ہمارے زمانہ میں اس قسم کی ایمانی غیرت کے اظہار کو تہذیب کے خلاف سمجھا جاتا ہے.اور بعض لوگ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے اس قسم کی فتنہ انگیزی کی باتیں سن کر www.alislam.org

Page 43

86 مسلم نوجوانوں کے کارنامے 85 مسلم نوجوانوں کے نامے ان پر پردہ ڈالتے بلکہ ان کی ہاں میں ہاں ملانا دوستی اور رشتہ داری کا تقاضا سمجھتے ہیں.اور اگر کبھی ان پر گرفت ہو تو پوری کوشش کرتے ہیں کہ وہ عقوبت سے محفوظ رہ سکیں.حضرت سعد بن ابی وقاص نے جوانی کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا اور اس زمانہ میں چونکہ مسلمانوں کے لیے مکہ میں امن نہ تھا.اس لیے دوسرے مسلمانوں کی طرح یہ بھی چھپ چھپ کر سنسان گھاٹیوں میں نماز پڑھا کرتے تھے.ایک دفعہ بعض کفار نے ان کو دیکھ لیا.تو اسلام پر تمسخر کرنے لگے.حضرت سعد باوجود یکہ مسلمانوں کی بے بسی اور کفار کی طاقت اور ان کی ستم رانیوں سے بخوبی واقف تھے.اس استہزاء کو برداشت نہ کر سکے اور اونٹ کی ہڑی اٹھا کر اس زور سے ماری کہ کا فرکا سر پھٹ گیا.کہا جاتا ہے کہ اسلام کی راہ میں یہ پہلی خونریزی تھی.حضرت عثمان بن مظعون بہت ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے.اور یہ وہ زمانہ تھا جب قریش مکہ ان معدودے چند اور کمزور حاملان توحید کو طرح طرح کے مظالم کا تختہ مشق بنا رہے تھے.کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس طرح اسلام کو مٹانے میں کامیاب ہو جائیں گے.آخران مظالم سے تنگ آکر یہ بھی بعض دوسرے صحابہ کے ساتھ حبشہ چلے گئے.لیکن ایک غلط افواہ کی بناء پر کہ قریش نے اسلام قبول کر لیا ہے واپس آئے.مکہ کے قریب پہنچ کر اس غلطی کا علم ہوا لیکن اب نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والا معاملہ تھا.اور یہ امر مجبوری ایک مشرک ولید بن مغیرہ کی پیشکش پر اس کی پناہ حاصل کر کے مکہ میں واپس آگئے.ولید کے اثر کی وجہ سے یہ تو کفار کے مظالم سے محفوظ تھے لیکن دوسرے صحابہ کو برا براذیتیں پہنچائی جارہی تھیں.جسے دیکھ کر آپ کی غیرت ایمانی جوش میں آئی اور دل میں کہا کہ تف ہے مجھ پر میرے بھائی تو مصائب اٹھارہے ہیں اور میں ایک مشرک کی پناہ میں آرام سے بیٹھا ہوں.ان خیالات نے بے قرار کر دیا اور اسی وقت ولید بن مغیرہ کے پاس پہنچے اور کہا کہ میں تمہاری پناہ سے آزاد ہوتا ہوں.اب تم پر میری کوئی ذمہ داری نہیں میرے لیے رسول خدام کا اور آپ کے صحابہ کا نمونہ کافی ہے.اور اب میں خدا و رسول کی حمایت میں رہنا چاہتا ہوں.تم ابھی میرے ساتھ خانہ کعبہ میں چلو اور جس طرح میری حمایت کا اعلان کیا تھا اسی طرح دستبرداری کا اعلان کر دوچنانچہ ایسا ہی کیا گیا.حضرت عثمان اس اعلان کے بعد قریش کی ایک مجلس میں پہنچے جہاں شعر گوئی ہو رہی تھی.اور اس زمانہ کا ایک مشہور شاعر لبید قصیدہ پڑھ رہا تھا.جس کے ایک مصرعہ کا یہ مطلب تھا کہ تمام نعمتیں زائل ہونے والی ہیں.یہ سن کر آپ بے اختیار بول اٹھے کہ نعماء جنت زائل نہ ہوں گی.لبید نے یہ مصرعہ پھر پڑھا.اور آپ نے پھر اس کی تردید کی.اس پر اس نے قریش کو جوش دلایا کہ تمہاری مجالس میں اس قدر بد تمیزی عجیب بات ہے.اور ایک بدکردار نے بڑھ کر آپ کے منہ پر ایسا طمانچہ مارا کہ آنکھ زرد پڑگئی.اس پر لوگوں نے کہا کہ جب تک تم ولید کی پناہ میں تھے کسی کو یہ جرات تو نہ ہو سکتی تھی.ولید نے کہا کہ اب بھی چاہوتو میں پناہ دے سکتا ہوں مگر آپ کی غیرت نے گوارا نہ کیا.-10 - صحابہ کرام دین کے معاملے میں اس قدر غیور واقع ہوئے تھے کہ انتہائی خطرات کے وقت بھی غیرت ایمانی کا وصف ان کی زندگیوں میں نمایاں نظر آتا ہے.پہلے یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ حضرت ابوفلیہ کو ، جو ایک غلام تھے ان کا آقا صفوان بن امیہ طرح طرح کی تکالیف پہنچاتا تھا.ان کے پاؤں میں رسی باندھ کر گلیوں میں گرم زمین پر گھسیٹتا جاتا تھا.ایک دن اسی حالت میں ان کو گھسیٹ کر لے جارہا تھا کہ راہ میں ایک گبریلا نظر آیا.صفوان نے ان کی دل آزاری کے لیے کہا کہ تیرا خدا یہی تو نہیں.ظاہر ہے اس قدر بے چارگی اور بے بسی کی حالت میں ایک با اختیار آقا کے سامنے اس کے غلام کا جواب دینا اور اس کی تردید کرنا جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ہے.آپ اگر چاہتے تو اس تمسخر پر خاموش رہ سکتے تھے.اور دل میں ہی برا منانے پر اکتفا کر سکتے تھے لیکن آپ کی غیرت ایمانی نے اس بات کو پسند نہیں کیا.یہ کلمہ سنتے ہوئے آپ کو اپنی تمام تکالیف بھول گئیں.اپنی بے چارگی و بے بسی کا www.alislam.org

Page 44

مسلم نوجوانوں کے رنامے 87 احساس جاتا رہا اور آپ نے فوراً جواب دیا کہ میرا اور تیرا دونوں کا خدا اللہ تعالیٰ ہے.اس پر صفوان کو سخت طیش آیا اور اس نے اس زور کے ساتھ آپ کا گلا گھونٹا کہ آپ نیم مردہ نظر آنے لگے.آپکا ایک بھائی بھی اس ایذا دہی کے وقت پاس تھا مگر وہ بجائے آپ کے ساتھ کسی ہمدردی کے اظہار کے الٹا صفوان کو ایذ میں اضافہ کرنے پر ابھار رہا تھا.11 - عتبہ اسلام اور آنحضرت ﷺ کے معاندین کی صف اول میں تھا.جنگ بدر کے موقعہ پر جب وہ شمشیر بکف میدان میں نکلا تو اس کے مقابلہ کے لیے اس کے فرزند حضرت ابو حذیفہ جو اسلام قبول کر چکے تھے آئے.چنانچہ ان کی بہن ہندہ نے یہ دیکھ کر ان کی ہجو میں شعر پڑھے.جس کا مطلب یہ ہے کہ تو بہت ناشکرا ہے.کہ جس باپ نے تجھے پال پوس کر جوان کیا آج اس سے نبرد آزما ہور ہا ہے مگر آپ نے ان باتوں کی مطلقا کوئی پرواہ نہ کی اور غیرت کے نقاضہ کو پورا کیا.12 - صلح حدیبیہ کے موقعہ پر جب معاہدہ تحریر کیا جارہاتھا تو کفار کے نمائندہ نے اصرار کیا کہ آنحضرت ﷺ کے نام کے ساتھ ”رسول اللہ کا لفظ نہ لکھا جائے اور آپ نے اس شرط کو منظور کرتے ہوئے حضرت علی کو حکم دیا کہ یہ جملہ مٹا دیا جائے.باوجود یکہ صحابہ کرام آنحضرت ﷺ کے ہر ارشاد کی تعمیل اپنے لیے ذریعہ سعادت دارین سمجھتے تھے مگر آپ کی غیرت ایمانی نے اس بات کو برداشت نہ کیا کہ اپنے ہاتھ سے اسے قلمزن کریں.اور خود الله آنحضرت ﷺ نے اپنے دست مبارک سے یہ جملہ کاٹ دیا.13 - حضرت خبیب کو جب مشرک شہید کرنے لگے تو آپ نے نہایت اطمینان کے ساتھ دو رکعت نماز ادا کی.اور ان سے کہا کہ میرا ارادہ تو نماز کو بہت طول دینے کا تھا مگر اس خیال سے کہ تم لوگ یہ خیال نہ کرو کہ موت سے ڈرتا ہوں اسے مختصر کر دیا ہے اور پھر بعض شعر پڑھنے لگے.جن کا مطلب یہ ہے کہ جب میں مسلمان ہو کر مرتا ہوں تو اس کا کیا خوف کہ میرا دھڑ کس طرف گرتا ہے اور سرکس طرف.یہ مرنا خدا کے لیے ہے اور اگر وہ چاہے تو مسلم نوجوانوں کے کارنامے میرے بریدہ اعضاء پر برکت نازل کر سکتا ہے.88 14- قریش کی ستم را نیاں صرف غریب اور بے کس مسلمانوں تک ہی محدود نہ تھیں بلکہ صاحب اثر ورسوخ مسلمان بھی اس سے بچے ہوئے نہ تھے.حتی کہ حضرت ابو بکر بھی ان کے مظالم سے محفوظ نہ تھے.جب مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تو حضرت ابو بکر بھی ہجرت کے ارادہ سے نکلے لیکن مکہ سے تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ ایک مشرک ابن الدغنہ سے ملاقات ہوئی.اس نے دریافت کیا کہ کہاں کا ارادہ ہے.آپنے فرمایا کہ میری قوم نے مجھے جلا وطن کر دیا ہے.اس نے کہا کہ تم مفلس لوگوں کی دستگیری کرتے ہو.قرابت داری کا خیال رکھتے ہو.مہمان نوازی کرتے ہو.مصیبت زدگان کی امداد کرتے ہو.تمہارے جیسا آدمی جلا وطن نہیں کیا جاسکتا.تم واپس چلو اور میری امان میں رہو.چنانچہ آپ اس کے ساتھ واپس آگئے.ابن الدغنہ نے اعلان کر دیا کہ میں نے ابوبکر کو امان دی ہے.اور قریش نے اسے تسلیم کر لیا.اور کہا کہ ابو بکر کو اپنے گھر میں نماز و قرآن پڑھنے کی اجازت ہے.حضرت ابو بکر اپنے مکان کے صحن میں نماز ادا کرتے اور بآواز بلند تلاوت قرآن کریم کرتے تھے.قریش کو اس پر اعتراض ہوا کیونکہ آپ کی آواز میں اس قدر رقت تھی اور تلاوت ایسے درد اور سوز کے ساتھ کرتے تھے کہ سننے والوں کے دل میں آپ کی پر سوز آواز اترقی جاتی تھی.اور قریش کو خطرہ تھا کہ ارد گرد کے گھروں میں رہنے والی عورتیں اور بچے اس سے متاثر ہو جائیں گے.اس لیے انہوں نے ابن الدغنہ کے پاس شکایت کی کہ ابوبکر بلند آواز سے قرآن پڑھتے ہیں.جس سے ہمیں اپنی عورتوں اور بچوں کے متعلق خطرہ ہے کہ وہ متاثر نہ ہو جائیں.ابن الدغنہ نے حضرت ابوبکر سے کہا کہ یا تو ایسا نہ کرو اور یا پھر مجھے اپنی حمایت سے بری الذمہ سمجھو.حضرت ابو بکر کی غیرت ایمانی نے کسی مداہنت کو گوارا نہ کیا اور نہایت استغناء کے ساتھ اسے کہہ دیا کہ مجھے تمہاری پناہ کی حاجت نہیں.میرے لیے اللہ ورسول کی پناہ کافی ہے.www.alislam.org

Page 45

90 مسلم نوجوانوں کے کارنامے 89 مسلم نوجوانوں کے نامے 15 - حضرت عمر نے 33 سال کی عمر یعنی جوانی میں اسلام قبول کیا تھا.یہ وہ وقت تھا جب مسلمان نہایت بے بسی کی زندگی بسر کر رہے تھے.حضرت عمر ایمان لائے تو مشرکین کو جمع کر کے اعلان کیا کہ اس پر قریش کا بگڑنا ایک لازمی بات تھی.لیکن آپ کے رشتہ کے ماموں عاص بن وائل نے آپ کو اپنی پناہ میں لینے کا اعلان کیا.مگر آپ کی غیرت ایمانی نے اس آسرے کو پسند نہ کیا.اور صاف کہہ دیا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں.درآنحالیکہ دوسرے مسلمان مشرکوں کے مظالم کا تختہ مشق بنے ہوئے ہیں.میں یہ پسند نہیں کرتا کہ کسی کی پناہ کے باعث آرام کی زندگی بسر کروں.آپ نہایت جوانمردی کے ساتھ مشرکین کے مظالم کا مقابلہ کرتے رہے حتی کہ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ کعبہ میں جا کر نماز ادا کی.16 - دینی غیرت نہ صرف مسلمان مردوں بلکہ عورتوں میں بھی اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ ایمان اور اسلام کے لیے اپنی جانیں اور اپنی عزیز اولادوں کو نہایت جوش کے ساتھ قربان کرنے کے لیے تیار ہو جاتی تھیں.حضرت ابوبکر کے عہد میں جب مسیلمہ کذاب کے ساتھ جنگ یمامہ پیش آئی تو حضرت ام عمارہ اس مردود کے فتنہ سے اسلام کو پاک دیکھنے کے لیے اس قدر بے تاب ہوئیں کہ اپنے نوجوان لڑکے کو ساتھ لے کر حضرت خالد کے لشکر میں شامل ہوئیں اور اس کے مقابلہ کے لیے میدان جنگ میں گئیں.اس جنگ میں حضرت حبیب کو شہادت نصیب ہوئی.ہمارے زمانہ کی مستورات غور کریں کہ ایسے وقت میں کہ ان کا نو جوان لڑکا موت کی نیند سو رہا ہو ان کی کیا حالت ہوگی.وہ یقینا جزع فزع اور نالہ وشیون سے آسمان سر پر اٹھا لیں گی.اور اپنے حواس بھی کھو دیں گی.لیکن اس زندہ جاوید خاتون کی ایمانی غیرت ملاحظہ ہو کہ اپنے فرزند کی لاش کو دیکھ کر کہا کہ اس جنگ میں یا تو مسلمہ قتل ہوگا اور یا پھر میں بھی اپنی جان دے دوں گی.یہ کہا اور تلوار کھینچ کر میدان جنگ میں کود پڑیں.اور ایسی داد شجاعت دی کہ بارہ زخم کھائے.ایک ہاتھ بھی کٹ گیا.مگر پیچھے نہ ہٹیں.اللہ تعالیٰ نے ان کی غیرت کو دیکھتے ہوئے ان کے منہ سے نکلی ہوئی بات کو پورا کر دیا.چنانچہ مسیلمہ اسی جنگ میں مارا گیا.حوالہ جات ا.(استیعاب ج1 ص194) ۳.(استیعاب ج 3 ص 72،71) ۵- (اسد الغابہ ج4 ص654) ے.عمار بن یاسر ؟ و.(اسد الغابہ ج 3 ص493) ا.(اسد الغابہ زیر لفظ ابو حذیفہ ) ۱۳.( بخاری کتاب الجہاد ) ۱۵.(ابن سعد ج 1 ص 193) ۲.(سیرۃ ابن ھشام ص 430) ۴.(ابن سعد ج 2 ص 36 ، 37 ) ۶.(سیر انصار ج 3 ص 107 تا 109).( ابن سعد ج 3 ص 182) ۱۰.(اسد الغابہ ج 5 ص 249) ۱۲.(مسلم کتاب الجہاد ) ۱۴.( بخاری کتاب المناقب) ۱۲.(سیر الصحابیات ص 130) www.alislam.org

Page 46

92 مسلم نوجوانوں کے کارنامے 91 مسلم نوجوانوں کے کارنامے موجودہ زمانہ کے لحاظ سے ایک ضروری سبق صحابہ کرام کے نوجوان طبقہ کی ایمانی غیرت کی جو چندا مثلہ بطور نمونہ پیش کی گئی ہیں ان میں ہمارے موجودہ زمانہ کے لحاظ سے بہت سے اسباق ہیں.ان مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ دین کے معاملہ میں وہ نازک سے نازک تعلقات کو بھی فوراً فراموش کر دیتے تھے.جب مذہب اور دین کا سوال درمیان میں آجاتا تو باپ کو بیٹے کی ، اور بیٹے کو باپ کی ، بیوی کو خاوند کی ، اور خاوند کو بیوی کی پروانہ نہ رہتی تھی.اور صرف یہ مدنظر ہوتا تھا کہ دین کے اقتضاء کو باحسن صورت پورا کیا جائے.اسے پورا کرنے میں کوئی تعلق ان کی راہ میں حائل نہ ہوتا تھا.دین کے مفاد کے خلاف کوئی اقدام کرنے کی صورت میں بیٹا خود تلوار ہاتھ میں لے کر باپ کی گردن اڑا دینے کے عزم کا اعلان کر دیتا تھا.اور باپ تمام پدری شفقت کو بالائے طاق رکھ کر بیٹے کی گردن پر چھری پھیر دینے کو تیار ہو جاتا تھا.ابتدائی ایام میں اسلام جس قدر کمز ور تھا.صحابہ میں اگر ایمانی غیرت اس قدر ز بر دست نہ ہوتی اور وہ چند مسلمان بھی رشتہ داریوں اور تعلقات کا لحاظ کرتے اور مقابلہ کے وقت یہ سوچنے لگتے کہ مد مقابل ان کا عزیز ہے یا اندرونی طور پر اسلام کو نقصان پہنچانے والوں کو اپنے قریبی سمجھ کر سزا سے بچانے کی کوشش شروع کر دیتے تو اسلامی ترقی فورا رک جاتی.آج ہمارے زمانہ میں گولڑائیاں تو ممنوع ہیں اور میدان جنگ سے ہم لوگ بہت دور ہیں.اس لیے تلوار کے ساتھ اعزہ کے مقابلہ کا سوال تو در کنار دشمن کے ساتھ بھی اس کا کوئی موقعہ نہیں.لیکن تہذیب جدید کے ساتھ جو خطرناک امراض ہمارے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں ان میں سے ایک جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے قومی زندگی کے لیے سخت مہلک ہے بے جا ظاہرداری، مصنوعی ہمدردی ، بناوٹی اخلاص اور بعض اس کے مفروضہ تقاضے ہیں.ایک طرف اگر در پردہ فتنہ انگیزی کی عادت زیادہ پائی جاتی ہے تو دوسری طرف اس کی بے جا حمایت ہے.بعض لوگ اپنی عادت سے مجبور ہو کر دین کی حقیقت سے غافل ہونے کی وجہ سے اور یا پھر دشمنوں کا آلہ کار بن کر جماعت کے اندر ایسی باتیں کرتے رہتے ہیں جن کے نتیجہ میں تفرقہ اور شقاق پیدا ہو کر وحدت قومی کونقصان پہنچے.اور ایسے لوگوں کے خلاف نوٹس لینے اور ان کے پھیلائے ہوئے زہر سے دوسروں کو محفوظ رکھنے میں ایک بہت بڑی روک یہ پیدا ہو جاتی ہے کہ لوگ اپنے اعزہ واقارب کی ایسی باتوں پر پردہ ڈالتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کا یہ مرض ظاہر نہ ہو.اور وہ کسی گرفت کے نیچے نہ آسکیں.بلکہ سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اگر ایسی باتیں خود بخود ظاہر ہو جائیں تو تب بھی ان کی ایمانی غیرت میں کوئی حرکت پیدا نہیں ہوتی کہ اپنی شہادت پیش کر کے ہی اس فتنہ کے سدباب میں محمد ہوں اور ثواب حاصل کریں.مذکورہ بالا واقعات سے آپ پر ثابت ہوگا کہ صحابہ اس مرض سے بالکل پاک تھے.حتی کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی اس ضمن میں اپنے فرائض کا پوری طرح احساس تھا.اور اگر وہ کوئی فتنه انگیزی پیدا کرنے والی ایسی بات سن پاتے تو خواہ وہ ان کے کسی عزیز ترین رشتہ دار کی طرف سے ہوتی اور اس کا اظہار ان کے لیے سخت سے سخت مشکلات پیدا کرنے کا موجب ہوسکتا.وہ خود بخود آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے.قومی اور ملی مفاد کو ذاتی مفاد اور اپنے آرام و آسائش پر مقدم کرتے اور عواقب سے آنکھیں بند کر کے حضور کو صحیح واقعات سے آگاہ کر دیتے تھے.بلکہ اپنے ہاتھ سے تلوار کے ساتھ فتنہ کے اس دروازہ کو بند کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کر دیتے تھے.اگر ہمارے نوجوان بھی ان مثالوں کو مشعل راہ بنائیں اور موجودہ زمانہ کے لحاظ سے اس قسم کے فتن کے سد باب کے لیے ہر ممکن اور جائز ذریعہ کو استعمال میں لائیں تو استحکام دین میں اس سے بہت مددمل سکتی ہے.اور دشمنوں کی نقصان رسانی سے محفوظ رہ سکتے ہیں.دینی امور میں راز داری غیرت ایمانی کے باب میں ایسی امثلہ پیش کی جاچکی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام دین میں فتنہ پیدا کرنے والے امور کو کسی صورت میں چھپاتے نہیں تھے.اور ان پر پردہ www.alislam.org

Page 47

94 مسلم نوجوانوں کے کارنامے 93 مسلم نوجوانوں کے نامے نہیں ڈالتے تھے بلکہ فتنہ انگیز باتوں کو خود بخود ظاہر کر دیتے تھے.خواہ وہ ان کے عزیز سے عزیز کے منہ سے کیوں نہ نکلی ہوں.اور جس طرح ایسی باتوں کا اظہار اور ذمہ دار لوگوں تک ان کا پہنچنا ضروری ہے اس طرح قومی ترقی کے لیے ایسی باتوں کو چھپانا بھی ضروری ہوتا ہے جن کا اظہار دشمن کے لیے مفید ہو سکتا ہو.اور اس وجہ سے ان کا چھپانا ضروری ہو اور یہ چیز بھی صحابہ کرام کی زندگیوں میں نہایت نمایاں نظر آتی ہے.ذیل میں اس کی چند ایک مثالیں درج کی جاتی ہیں.-1- حضرت عبداللہ بن ارقم ایک نو جون صحابی تھے.جو مراسلات تحریر کیا کرتے تھے.پوشیدہ سے پوشیدہ مراسلات ان کی تحویل میں رہتے تھے.مگر وہ خود بھی کبھی ان کو کھول کر بلاضرورت نہ پڑھتے تھے.چہ جائیکہ کسی کو ان کے مضمون سے آگاہ کریں.2.حضرت انس آنحضرت ﷺ کے خادم تھے.اور باوجود یہ کہ آپ کی عمر آٹھ دس سال کی تھی آپ حضور کے کاموں میں انتہائی رازداری سے کام لیتے تھے.ایک دفعہ حضور کی خدمت سے فارغ ہو کر گھر کو روانہ ہوئے.راستہ میں بچے کھیل رہے تھے.آپ بھی بتقاضائے عمر کھیل دیکھنے میں مشغول ہو گئے.کہ اتنے میں آنحضرت ﷺ تشریف لے آئے.لڑکوں نے انہیں بتایا کہ حضور ﷺ تشریف لا رہے ہیں.حضور جب قریب پہنچے تو حضرت انس کا ہاتھ پکڑ کر ان کو علیحدہ لے گئے اور ان کے کان میں کچھ ارشاد فرمایا جسے سن کر حضرت انس وہاں سے چلے گئے.اور آنحضرت ﷺ آپ کے انتظار میں وہیں تشریف فرمار ہے.حضرت انس فارغ ہو کر واپس آئے اور حضور کو جواب سے آگاہ فرمایا.جسے سن کر حضور یہ واپس تشریف لے گئے اور حضرت انس گھر چلے گئے.اور اس غیر معمولی کام کی وجہ سے چونکہ گھر واپس آنے میں معمول سے تاخیر ہوگئی تھی.والدہ نے تاخیر کی وجہ پوچھی تو حضرت انس نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے ایک کام پر بھیجا تھا.اس لیے دیر ہوگئی.اور چونکہ آپ ابھی بچے تھے والدہ نے اس خیال سے کہیں یہ بہانہ ہی نہ ہو کہا کہ کس کام پر بھیجا تھا.حضرت انس نے جواب دیا کہ وہ ایک خفیہ بات تھی.جو افسوس ہے کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتا.والدہ کی سعادت دیکھیے کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ خود دریافت کرنے پر اصرار نہیں کیا بلکہ تاکید کہ کہ کسی اور سے بھی اس کا ذکر ہر گز نہ کرنا.غزوہ قریظہ کے موقعہ پر آنحضرت ﷺ نے یہودیوں کا محاصرہ کیا تو یہودیوں نے حضرت ابولبابہ کو قلعہ میں بلوایا کہ آپ سے مشورہ کر کے اپنے مستقبل کے متعلق کوئی فیصلہ کریں.کیونکہ ان کے خاندان سے پرانے حلیفانہ تعلقات کی بناء پر انہیں حضرت ابولبابہ پر اعتماد تھا اور خیال تھا کہ وہ ضرور ہماری بہتری کی کوئی بات کریں گے.حضرت ابولبابہ قلعہ میں پہنچے.تو یہود ان کے جذ بہ رحم کو اپیل کرنے کے لیے اپنے بیوی بچوں کو جو رو پیٹ رہے تھے ان کے سامنے لے آئے.حضرت ابولبابہ نے ان کو مشورہ دیا کہ آنحضرت ﷺ کے منشاء کے مطابق چلو.اس میں تمہاری بہتری ہے.اور ساتھ ہی اپنے گلے کی طرف اشارہ کر کے انہیں یہ بات سمجھائی کہ اگر ایسا نہ کرو گے تو قتل کر دیے جاؤ گے.یہ اشارہ انہوں نے یہود کے سنگین جرائم اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے دوران میں عہد شکنی کی وجہ سے اپنے اجتہاد سے کیا کیونکہ وہ یہی خیال کرتے تھے کہ ایسے جرائم کی سزا قتل ہی ہے.کرنے کو تو اشارہ کر گئے لیکن واپسی پر جب یہ خیال آیا کہ میرا یہ اشارہ رازداری کے منافی ہے اور اس طرح اشارہ کر کے میں خدا اور اس کے رسول کے ساتھ ایک گونہ خیانت کا مرتکب ہوا ہوں تو گھبرا گئے اور سوچنے لگے کہ مجھے اس کی تلافی کی کوئی صورت کرنی چاہیے.اور اپنے خیال سے ہی تلافی کی.یہ صورت ان کے ذہن میں آئی کہ سیدھے مسجد نبوی میں پہنچے اور ایک موٹی زنجیر لے کر مسجد کے ستون کے ساتھ اپنے آپ کو باندھ دیا اور کہا کہ جب تک اللہ تعالیٰ کے حضور میری توبہ قبول نہ ہوگی اور میرا گناہ معاف نہ ہوگا.اسی طرح بندھا رہوں گا.ساتھ آٹھ روز اسی طرح بندھے رہے صرف نماز اور حوائج بشری سے فراغت کے لیے آزاد ہوتے اور فارغ ہوتے ہی ان کے حکم کے ماتحت ان کی لڑکی پھر اسی طرح باندھ دیتی غم کی وجہ سے کھانا پینا بالکل چھوٹ گیا.مسلسل فاقہ کشی اور اذیت برداشت کرنے کی www.alislam.org

Page 48

96 مسلم نوجوانوں کے کارنامـ 95 مسلم نوجوانوں کے نامے وجہ سے صحت پر بہت برا اثر پڑا.کان بہرے ہو گئے اور بینائی میں بھی فرق آگیا.کئی بار بے ہوش ہو ہو کر گرتے.مگر جان کی انہیں کوئی پرواہ نہیں تھی صرف یہ خیال تھا کہ کسی طرح گناہ کی تلافی ہو جائے.آخر اللہ تعالیٰ نے آپ کی توبہ قبول فرمائی.آنحضرت ﷺ نے اس کا اعلان کیا تو صحابہ کھولنے آئے مگر آپ نے فرمایا آنحضرت ﷺ جب تک خود نہ کھولیں گے میں بدستور بندھا رہوں گا.خواہ جان کیوں نہ چلی جائے.آخر آنحضرت می خود تشریف لائے اور اپنے دست مبارک سے ان کو آزاد کیا.اس پر اس قدر خوش ہوئے کہ کہا اب تمام گھر بار چھوڑ کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر رہوں گا اور کل مال صدقہ کرتا ہوں.مگر آنحضرت ﷺ نے صرف ایک ثلث کی اجازت دی.راز داری کے احساس کے علاوہ اس واقعہ میں ان لوگوں کے لیے بھی ایک سبق ہے جو نہ صرف خود کسی جرم کا ارتکاب کرنے کے بعد اس کی سزا سے محفوظ رہنے کے لیے طرح طرح کے بہانے کرتے اور اپنی غلطی کو تاویلات کے ذریعہ درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ دوسرں کے جرائم پر بھی پردہ ڈالنے کی جائز و نا جائز سعی کرتے ہیں.-4 فتح مکہ کے بعد آنحضرت مہ نے ساٹھ صحابہ کو بنو ملوح کے مقابلہ کے لیے بھیجا.جن میں ایک نوجوان حضرت غالب بن عبداللہ تھے.ایک مقام پر پہنچ کر افسر جیش نے ان کو دشمن کی نقل و حرکت اور حالات کی تحقیق کے لیے آگے بھیجا.یہ ان کی آبادی کے قریب پہنچ کر ایک بلند ٹیلہ پر چڑھ کر منہ کے بل لیٹ گئے.اور دشمن کی حرکات کا جائزہ لینے لگے.اتنے میں ایک شخص جس کا مکان ٹیلہ کے قریب تھا گھر سے نکلا.اس کی بیوی اس کے ساتھ تھی.اس نے یونہی جو او پر دھیان کیا تو آپ کا سایہ نظر آیا.اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ ٹیلہ پر مجھے سایہ نظر آتا ہے شاید کوئی آدمی ہے یا ممکن ہے کوئی کتا وغیرہ ہو.جو ہمارے ہاں سے کوئی کھانے پینے کی چیز یا برتن وغیرہ اٹھا کر او پر جا بیٹھا ہو.ذرا گھر میں دیکھو تو سہی کہ کتا کوئی چیز یا برتن وغیرہ تو نہیں لے گیا.بیوی نے سب کچھ دیکھ بھال کر اطمینان دلایا کہ سب چیزیں محفوظ ہیں.اس پر اسے یقین ہو گیا کہ ضرور کوئی آدمی ہے اور بیوی سے کہہ کر تیر کمان منگوایا.اور آپ پر دو تیر چلائے.جن میں سے ایک تو آپ کے پہلو میں لگا اور دوسرا کندھے میں مگر آفرین ہے اس جواں ہمت پر کہ دو تیر لگے اور جسم کے نازک حصوں میں پیوست ہو گئے.لیکن اس قدر زخم کھانے کے باوجود کوئی حرکت کرنا تو در کنار منہ سے اف تک نہ کی کہ مبادا اسے علم ہو جائے اور اس طرح مسلمانوں کا راز افشا ہو کر انہیں کوئی نقصان پہنچے.یہ دیکھ کر اس نے خیال کیا کہ محض واہمہ ہے.ورنہ یہ کس طرح ممکن تھا کہ کوئی آدمی ہوتا تو اس طرح تیر لگنے پر جنبش تک نہ کرتا.چنانچہ وہ مطمئن ہو کر وہاں سے واپس چلا گیا.اس کے جانے کے بعد آپ نے تیر کھینچ کر باہر نکالے.5.آنحضرت ﷺ نے منافقین کے نام حضرت حذیفہ کو بتا دیئے اور اس وجہ سے ان کا لقب ہی ”سر رسول اللہ پڑ گیا تھا.چونکہ اس راز کے افشاء کی آنحضرت ﷺ نے آپ کو اجازت نہ دی تھی.اس لیے آپ نے کبھی ان ناموں کو ظا ہر نہیں کیا.ایک بار حضرت عمر نے ان سے دریافت کیا کہ میرے عمال میں کوئی منافق ہو تو بتائیے.کہ میں ان کے ضرر سے اسلام کو بچانے کا انتظام کر سکوں مگر آپ نے جواب دیا کہ ایک ہے تو سہی مگر افسوس ہے کہ میں اس کا نام نہیں بتا سکتا.کہ اس طرح آنحضرت ﷺ کے راز کے افشا کا مجرم ہوں گا.آنحضرت ﷺ اور حضرت ابو بکر جب به ارادہ ہجرت مکہ سے نکلے تو حضرت ابوبکر نے اپنے نوجوان فرزند حضرت عبداللہ کو ہدایت کی کہ قریش کی نقل و حرکت کا اچھی طرح خیال رکھیں.اور روز شام کے بعد غار ثور میں پہنچ کر اطلاع دیا کریں.چنانچہ آپ اس حکم کی تعمیل نہایت راز داری سے کرتے رہے.شام کا اندھیرا ہوتے ہی غار ثور میں پہنچ جاتے.اور رات وہیں ٹھہر کر سفیدی صبح نمودار ہونے سے قبل واپس آ جاتے.اسی طرح حضرت ابوبکر کے خادم عامر بن فہیرہ کے سپرد یہ کام تھا کہ دن بھر بکریاں چرائیں اور رات کو دودھ وہاں پہنچایا کر یں.چنانچہ وہ بھی اس کی تعمیل اس احتیاط کے ساتھ کرتے رہے کہ کسی کو کانوں صلى الله www.alislam.org

Page 49

مسلم نوجوانوں کے نامے 97 مسلم نوجوانوں کے سند کارنامے 98 کان خبر نہ ہوئی.تین رات تک برابر یہ انتظام رہا مگر اس قدر رازداری کے ساتھ کہ قریش کو جو آنحضرت مے کی تلاش میں دیوانہ وار دشت و جبل کی خاک چھان رہے تھے مطلقاً خبر نہ ہوئی.ا.(مستدرک حاکم ج 3 ص 335) ۲.( بخاری کتاب الادب).(مسند احمد ج 3 ص453) ؟ حوالہ جات ۴.(اسد الغابہ ج 4 ص 34) (سیرۃ ابن ھشام ج 4 سریة بنی ملوح) ۵.(اسد الغابہ ج1 ص235) ۶.( بخاری کتاب المناقب) پاس فرمانِ نبوی 1- ایک صحابی حضرت سعد الاسود سیاہ رنگ اور کم رو تھے.ان کی شکل و شباہت ان کی شادی میں روک تھی.اور ان کی ظاہری بدصورتی کی وجہ سے کوئی شخص ان کے ساتھ اپنی لڑکی کے رشتہ پر رضامند نہ ہوتا تھا.ایک مرتبہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ کوئی شخص مجھے اپنی لڑکی کا رشتہ دینے کے لیے تیار نہیں.کیونکہ میری ظاہری شکل وصورت اور رنگ ڈھنگ اچھا نہیں.عمرو بن وہب قبیلہ بنوثقیف کے ایک نو مسلم تھے.جن کی طبیعت میں درشتی تھی.آنحضرت ﷺ نے حضرت سعد سے فرمایا کہ ان کے دروازہ پر جا کر دستک دو.اور بعد اسلام کہو کہ نبی اللہ (ﷺ) نے تمہاری لڑکی کا رشتہ میرے ساتھ تجویز کیا ہے.عمر بن وہیب کی لڑکی شکل وصورت کے علاوہ دماغی اور ذہنی لحاظ سے بھی نمایاں حیثیت رکھتی تھی.حضرت سعد ان کے مکان پر پہنچے اور جس طرح آنحضرت ﷺ نے فرمایا اسی طرح کہا.عمرو بن وہیب نے یہ بات سنی تو آپ کے ساتھ سختی سے پیش آئے.اور اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ آگے جو کچھ ہوا وہ اس قدر ایمان پرور بات ہے کہ تمام مذاہب وملل کی تاریخ اس کی کوئی مثال پیش نہیں کر سکتی.خودلر کی اندر یہ ساری گفتگوسن رہی تھی.اس کے باپ نے حضرت سعد کو جو جواب دیا اسے سن کر وہ تو واپس آگئے.اور اسکے سوا اور کر بھی کیا سکتے تھے.لیکن لڑکی خود باہر نکل آئی.حضرت سعد کو آواز دے کر واپس بلا یا اور کہا کہ جب رسول اللہ (ﷺ) نے میرے ساتھ آپ کی شادی کی تجویز کی ہے تو پھر اس میں چون و چرا کی کیا گنجائش باقی رہ سکتی ہے.یہ تجویز مجھے بسر و چشم منظور ہے اور میں اس چیز پر بخوشی رضامند ہوں.جو خدا اور اس کے رسول کو پسند ہے اور ایمانی جرات سے کام لے کر باپ سے کہا کہ آپ نے آنحضرت ﷺ کی تجویز سے اختلاف کر کے بہت غلطی کی ہے اور بہت بڑے www.alislam.org

Page 50

100 مسلم نوجوانوں کے کارنامے 99 مسلم نوجوانوں کے نامے گناہ کا ارتکاب کیا ہے اور قبل اس کے کہ وحی الہی آپ کو رسوا کر دے اپنی نجات کی فکر کیجئے.لڑکی کی اس ایمان افروز تقریر کا اس کے باپ پر بھی خاطر خواہ اثر ہوا.ان کو اپنی غلطی کا پوری طرح احساس ہو گیا.فوراً بھاگے ہوئے دربار نبوی میں پہنچے اور کہا یا رسول اللہ مجھ سے بہت بڑی خطا سرزد ہوئی.مجھے سعد کی بات کا یقین نہ آیا تھا.اور میں نے خیال کیا کہ وہ یونہی یہ بات کہہ رہے ہیں.اس لیے انکار کیا مگر اب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو چکا ہے.اور صدق دل سے معافی کا خواستگار ہوں.میں نے اپنی لڑکی سعد سے بیاہ دی.2.حضرت جلیب بھی حضرت سعد کی طرح ظاہری طور پر اچھی شکل وصورت کے مالک نہ تھے.آنحضرت ﷺ نے انصار کے ایک معزز گھرانے کی لڑکی کے ساتھ ان کا رشتہ تجویز کیا.مگر لڑکی کے ماں باپ کو اس پر اعتراض تھا.لڑکی کو اس کا علم ہوا تو قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی.ماكان لمومن ولا مومنة اذا قضى الله و رسوله امرا ان يكون لهم الخيرة من امر هم یعنی جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا فیصلہ کر دیں تو کسی مسلمان کو اس میں چون و چرا کی گنجائش نہ ہونی چاہیے.اور اس صریح حکم خداوندی کے ہوتے ہوئے میں حیران ہوں کہ آپ اس تجویز کے کیوں مخالف ہیں.میں اس رشتہ پر رضامند ہوں.جو مرضی رسول کریم ﷺ کی ہے وہی میری ہے.رسول کریم ﷺ کو اس بات کا علم ہوا تو بہت مسرور ہوئے.آنحضرت یہ ایک دفعہ مسجد نبوی میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے.دوران خطبہ میں آپ نے فرمایا کہ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ جاؤ.حضرت عبد اللہ بن رواحہ ابھی مسجد سے باہر ہی تھے کہ حضور کا یہ ارشاد کان میں پڑا.ان الفاظ میں گویا ایک جادو تھا اور اپنے محبوب کی آواز میں اس قدر شوکت تھی کہ پاؤں نے آگے قدم اٹھانے سے انکار کر دیا.یوں معلوم ہوا کہ گویا کسی نے بریک لگادی.آپ حالت بے اختیار میں وہیں بیٹھ گئے.اور اتنی بھی جرات نہ کر سکے کہ مسجد میں پہنچ لیں اور تو اس حکم کی تعمیل کریں.-4- حضرت طلحہ بن البراء آغاز شباب میں اسلام لائے.تو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ مجھے جو حکم چاہیں دیں میں اس کی بسر و چشم تعمیل کروں گا.آپ نے فرمایا.جاؤ اور اپنے باپ کو قتل کر دو.وہاں کیا دیر تھی ایمان کی حرارت جسم کے رگ وریشہ میں ایسی سرائت کر چکی تھی کہ اس نے تمام دنیوی محبتوں کو رد کر دیا تھا.اور آنحضرت ﷺ کی محبت دل و دماغ میں اس قدر غالب آچکی تھی کہ سب تعلقات اس کے سامنے بیچ نظر آتے تھے.فوراً تلوار سنبھالی اور تعمیل ارشاد کے لیے روانہ ہوئے.آنحضرت ﷺ نے یہ فدا کاری دیکھی تو واپس بلایا اور فرمایا.میں قطع رحم کے لیے نہیں آیا ہوں.-5 صحابہ آنحضرت ﷺ کے ہر حکم کی تعمیل کے لیے کس طرح بدل و جان ہر وقت تیار رہتے تھے.اسے اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتے اور اس کے مقابل پر نفسانی میلانات ور جحانات کو یکسر نظر انداز کر دیتے تھے.اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیے.آنحضرت ﷺ کے ہاں ایک کنیز ام ایمن نام تھیں.آپ ان پر بہت خوش تھے.اور ان کو اماں کہہ کر مخاطب فرمایا کرتے تھے.ایک دفعہ حضور نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص کسی جنتی عورت سے شادی کرنا چاہے تو ام ایمن سے کرے.حضرت زید بن حارثہ نے یہ بات سنی تو فوراً ان کے ساتھ نکاح کر لیا.مشہور صحابی اسامہ جو آنحضرت ﷺ کو بہت محبوب تھے انہی کے بطن سے تھے.آنحضرت ﷺ نے مدینہ کو بھی ملکہ کی طرح حرام قراردیا.اور فرمایا تھا کہ مدینہ کے اردگرد کی نہ گھاس کائی جاسکتی ہے نہ جانوروں کا شکار جائز ہے اور نہ پرندے پکڑنے کی اجازت.صحابہ کرام اس ارشاد کا بہت خیال رکھتے تھے.چنانچہ حضرت ابو ہریرہ فرمایا کرتے تھے کہ مدینہ میں چرنے والے ہرنوں کو بد کانے کی بھی میں جرات نہیں کر سکتا.7- ایک دن ایک بچہ نے کسی پرندہ کا شکار کیا تو حضرت عبادہ بن الصامت نے اسے دیکھ کر پرندہ کو اس سے چھین کر چھوڑ دیا.www.alislam.org

Page 51

102 مسلم نوجوانوں کے سند کارنامے 101 مسلم نوجوانوں کے نامے 8- حضرت سعد بن ابی وقاص نے ایک مرتبہ کسی غلام کو مدینہ میں شکار کرتے دیکھ لیا تو اس کے کپڑے چھین لیے اور کہا کہ آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے خلاف مدینہ کی حدود میں شکار کرنے کی یہی سزا ہونی چاہیے.ا.(اسد الغابہ ج 2 ص 202) ۳.(اصابہ ج 3 ص 462) حوالہ جات ۲.(سیر انصارج1 ص274) ۴.(اصابہ ج 3 ص 426) ۵.(اسد الغابہ ج 2 ص 140 تا 142 ) 4.(مسلم کتاب الحج) ے.(مسند احمد ج 5 ص 317) ۸.(ابوداؤد کتاب المناسک) ہاتھ سے کام کرنا صحابہ کرام کے اخلاق میں یہ چیز نہایت نمایاں نظر آتی ہے کہ وہ لوگ ہاتھ سے کام کرنے میں کوئی عار نہ سمجھتے تھے.اور اس میں کسی قسم کی ہتک یا سبکی کا خیال ان کے دامن گیر نہ ہوتا تھا.جنگ اور اس کے ضمن میں خدمات کے وقت وہ جس شوق سے کام کرتے تھے اس کو نظر انداز کر کے عام زندگی کے چند واقعات پیش کیے جاتے ہیں.آنحضرت ﷺ پہلے پہل جب مدینہ میں تشریف لائے تو سب سے پہلا کام ایک مسجد کی تعمیر تھا.جس کا سنگ بنیاد آنحضرت اللہ نے اپنے ہاتھ سے رکھا.اس مسجد کے معمار اور مزدور سب کچھ صحابہ خود تھے.آنحضرت ﷺ خود بھی کبھی کبھی ان کے ساتھ شرکت فرماتے تھے.یہ کام صحابہ نہایت شوق سے کرتے اور بعض اوقات ساتھ ساتھ یہ شعر بھی پڑھا کرتے ہذا ابرر بنا راھر ہذا الحمال لا حمال خیبر یعنی یہ بوجھ خیبر کے تجارتی مال کا بوجھ نہیں جو اونٹوں پر لاد کر آیا کرتا ہے بلکہ اے مولا یہ تقویٰ وطہارت کا بوجھ ہے جو ہم تیری رضا کے لیے اٹھاتے ہیں.اسی طرح قباء کے مقام پر بھی جہاں مہاجرین پہلے پہل آکر آباد ہوئے تھے صحابہ نے خود اپنے ہاتھوں سے مسجد تعمیر کی تھی.! 2 حضرت ابودرداء ایک نہایت بلند پایہ اور فاضل صحابی تھے.ان کے حلقہ ء درس میں بیک وقت سینکڑوں طلباء کی حاضری لکھی ہے.مگر انہیں ہاتھ سے کام کرنے کا اس قدر شوق تھا کہ دمشق کی مسجد میں جہاں وہ امام تھے اپنے ہاتھ سے درخت لگایا کرتے اور ان کی پرورش و دیکھ بھال کیا کرتے تھے.ایک مرتبہ ایک شخص نے تعجب کے رنگ میں ان سے کہا کہ یہ کام اپنے ہاتھ سے کرتے ہیں تو فرمایا اس میں بڑا ثواب ہے.- حضرت حرام بن ملحان مسجد نبوی میں خود پانی بھرا کرتے تھے.جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتے اور ان کو فروخت کر کے اصحاب الصفہ اور دوسرے محتاجوں کے لیے خوراک مہیا کیا www.alislam.org

Page 52

مسلم نوجوانوں کے ی کارنامے کرتے تھے.103 4- بیئر معونہ کے مقام پر ستر قاریوں کے کفار کے ہاتھوں شہید ہونے کا واقعہ کسی دوسری جگہ ذکر کیا جا چکا ہے.ان قاریوں کے متعلق لکھا ہے کہ وہ دن کے وقت جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتے اور اس طرح اپنے واسطے قوت لایموت کا سامان مہیا کرتے تھے اور پھر رات کا بہت سا حصہ عبادت میں گزارتے تھے.-5- آنحضرت ﷺ پہلے مسجد میں ایک ستون کے سہارے کھڑے ہوکر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے.ایک دفعہ آپ نے منبر کا خیال ظاہر فرمایا تو ایک صحابی حضرت سہل جو کمسن ہی تھے اٹھے اور منبر کے لیے جنگل سے لکڑی کاٹ کر لے آئے.6- حضرت کعب بن عجزہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ حضور کا چہرہ مبارک بھوک کی وجہ سے متغیر ہو رہا ہے.چنانچہ آپ فوراً مجلس سے اٹھے اور باہر چلے گئے.ایک یہودی اونٹوں کو پانی پلا رہا تھا.اس سے فی ڈول ایک چھوہارہ کے حساب سے مزدوری طے کی اور اس طرح کچھ چھوہارے جمع کر کے لائے اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کیے.7- حضرت عبد اللہ بن سلام ایک متمول صحابی تھے.ایک دفعہ لوگوں نے دیکھا کہ آپ لکڑیوں کا گٹھا اٹھائے ہوئے آرہے ہیں تو کہا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس سے مستغنی کیا ہے.آپ نے فرمایا کہ میں کبر وغرور کا قلع قمع کرنا چاہتا ہوں..حضرت سعد بن ابی وقاص، جنہوں نے 19 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا کا شمار کبار صحابہ میں ہے.آپ نہایت عالم و فاضل، جرنیل اور معزز عہدوں پر متمکن ہوتے رہے.آپ کا علمی پایہ اس قدر بلند تھا کہ حضرت عمر فرمایا کرتے تھے کہ جب سعد رسول ﷺ سے کوئی روایت بیان کریں تو پھر اس کے متعلق کسی اور تصدیق کی ضرورت نہیں.لیکن سادگی اور ہاتھ سے کام کرنے کی جو تعلیم معلم اسلام سے حاصل کی اسے کسی رتبہ پر پہنچ کر بھی نہ مسلم نوجوانوں کے 104 چھوڑا.ایک مرتبہ آپ جنگل میں اونٹ چرا رہے تھے کہ خود ان کے لڑکے نے آ کر کہا کہ یہ بھی کوئی اچھی بات ہے کہ لوگ تو بادشاہتیں اور حکومتیں کریں اور آپ جنگل میں اونٹ چراتے پھریں.آپ نے اس کے سینہ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا چپ رہو میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا ہے کہ خدا تعالیٰ مستغنی اور پر ہیز گار بندے کو محبوب رکھتا ہے.و حضرت سلمان فارسی مدائن کے گورنر تھے.پانچ ہزار دینار ماہانہ مشاہرہ ملتا تھا مگر باوجود اس کے اپنے ہاتھ سے چٹائیاں بن کر ذریعہ معاش پیدا کرتے تھے.اور تنخواہ سب کی سب راہ خدا میں صرف کر دیتے تھے.10 - حضرت علی کرم اللہ وجہ کی فضیلت محتاج تشریح نہیں.آپ آنحضرت ﷺ کے داما داور اہل بیت میں شامل تھے.حضرت فاطمہ الزہرا کے ساتھ آپ کا نکاح ہوا تو دعوت ولیمہ کا کوئی سامان نہ تھا.آپ کے پاس صرف دو اونٹنیاں تھیں.آپ نے تجویز کیا کہ جنگل میں سے ایک گھاس جسے اذخر کہتے ہیں اور جو سناروں کے کام آتی ہے لاد کر لائیں اور اسے سناروں کے پاس بیچ کر دعوت ولیمہ کے لیے سامان فراہم کریں.11 - حضرت عقبہ بن عامر فرماتے ہیں کہ کنا مع رسول الله صلعم خدام.یعنی ہم سب آنحضرت ﷺ کے ساتھ خود اپنے خادم ہوتے تھے اور باری باری اپنے اونٹ چراتے تھے.12.ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کو فاقہ کی حالت میں پا کر حضرت علی ایک یہودی کے باغ میں آئے.اور فی ڈول ایک کھجور معاوضہ طے کر کے سترہ ڈول پانی کے کھینچے.اور اس طرح سترہ کھجوریں حاصل کر کے آنحضرت ﷺ کے حضور لا کر پیش کیں.اور 13 - حضرت عبد اللہ بن عمر سفر میں ہوتے تو جو کام خود کر سکتے وہ کسی دوسرے کے سپرد نہ کرتے تھے.حتی کہ اپنی اونٹنی کو خود بٹھاتے.اور خود سوار ہوتے تھے.14.حضرت عبدالرحمن بن عوف ہجرت کر کے آئے تو حضرت سعد بن الربیع کے ساتھ مواخات www.alislam.org

Page 53

106 مسلم نوجوانوں کے کارنامے 105 مسلم نوجوانوں کے رنامے ہوئی.حضرت سعد نے ان کو نصف مال دینا چاہا تو انہوں نے کہا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں.مجھے بازار کا راستہ بتا دو.چنانچہ بازار میں گئے اور گھی و پنیر کی تجارت شروع کر دی.15- حضرت علی حضرت سعد بن مالک حضرت عبد اللہ بن مسعود وغیرہ جلیل القدر صحابہ جب مدینہ میں آئے تو انصار کی زمینوں پر کھیتی باڑی کرنے لگے.اور اس طرح فصل سے حصہ لے لیتے تھے.16- مختصر یہ کہ صحابہ کسی کام کور ذیل نہ سمجھتے تھے.حضرت خباب لوہار تھے.۱۹ 17.بعض صحابیات کپڑے بنا کرتی تھیں.خوادم المؤمنین حضرت سودہ طائف کا ردیم بناتی تھیں.18- ایک صحابی کے ہاتھ سیاہ پڑ گئے.آنحضرت ﷺ نے اس کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے کہا کہ دن بھر پتھر پر پھاوڑا چلاتا ہوں.اس سے اہل وعیال کی روزی کماتا ہوں.آپ نے اس کے ہاتھ چوم لیے.19 - باوجود یہ کہ حضرت ابوبکر بہت بڑے امیر اور صاحب حیثیت آدمی تھے مگر ہاتھ سے کام کرنے میں کوئی عار نہ تھی.آپ خود بھیڑ بکریاں چرا لیتے تھے.محلہ والوں کی بکریوں کا دودھ دوہ دیتے تھے.حتی کہ جب آپ خلیفہ منتخب ہوئے تو آپ کے محلہ کی ایک لڑکی نے نہایت حسرت کے ساتھ کہا کہ اب ہماری بکریوں کا دودھ کون دو ہے گا.20.حضرب ابوبکر کپڑے کی تجارت کیا کرتے تھے.حتی کہ دین و دنیا کے بلند ترین منصب پر فائز ہونے یعنی خلیفہ ہونے کے بعد بھی آپ کے دل میں یہ احساس پیدا نہیں ہوا کہ اب ہاتھ سے محنت کرنا میری شان کے منافی ہے.اور کہ اب مجھے اس سے احتراز کرنا چاہیے.چنانچہ اگلے ہی روز حسب معمول آپ نے کپڑے کے تھانوں کا گٹھا اٹھایا اور خرید وفروخت کے لیے بازار کی طرف چل دیئے.رستہ میں حضرت عمر اور حضرت ابو عبیدہ ملے تو انہوں نے کہا کہ اب تو آپ ہمارے امام ہیں یہ کام چھوڑ دیں اور بیت المال سے وظیفہ لے لیا کریں.یہ واقعہ ہمارے نوجوانوں کے لیے خاص طور پر عبرت انگیز ہے.21- اسلام کی تعلیم کے نتیجہ میں صحابہ کرام کو ہاتھ سے کام کرنے کی ایسی عادت ہوگئی تھی کہ اپنا کام کرنا معمولی بات ہے وہ دوسروں کی خدمت سے بھی دریغ نہ کرتے تھے.باوجود یہ کہ د نیوی لحاظ سے حضرت عمر کو اتنی بڑی پوزیشن حاصل تھی.کہ جو ایک بڑے سے بڑے بادشاہ کو ہو سکتی ہے.مگر آپ کندھے پر مشق ڈال کر بیوہ عورتوں کے لیے پانی بھر دیتے تھے.اور مجاہدین کے بیوی بچوں کو بازار سے سودا سلف خرید کر لا دیتے تھے.اس میں شک نہیں کہ اس وقت کا تمدن ہمارے موجودہ تمدن سے بہت مختلف تھا اور اس زمانہ میں امراء کو بہت سے ایسے دفتری کام نہیں پڑتے تھے جو اس زمانہ میں ضروری ہو گئے ہیں.اور دفتری طرز حکومت نے ذمہ دار لوگوں کے لیے کام کو اس قدر وسیع کر دیا ہے کہ انہیں بہت سا وقت اس پر صرف کرنا پڑتا ہے.تاہم ہمارے نوجوانوں کے لیے جو محض کسر شان کے خیال سے بعض کا موں کو اپنے لیے ہتک آمیز خیال کرتے ہیں ان واقعات میں بہت سے سبق مل سکتے ہیں.22.حضرت عثمان کی امارت میں کسی کو کلام نہیں.گھر میں خدمت گار موجود ہوتے تھے لیکن آپ کی عادت تھی کہ اپنا کام خود اپنے ہاتھ سے کرتے اور کسی کو تکلیف نہ دیتے تھے.رات کو تہجد کے لیے اٹھتے تو وضو وغیرہ کی تیاری کے لیے کسی کو نہ جگاتے تھے.بلکہ تمام سامان خود ہی کر لیتے تھے.جس سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت ﷺ سے براہ راست تربیت حاصل کرنے والوں کے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین ہو چکی تھی کہ آدمی کو اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنا چاہیے.23.حضرت علی با وجود یہ کہ آنحضرت ﷺ کے فرزند نسبتی اور خود بھی ایک ممتاز حیثیت کے مالک تھے.مگر ہاتھ سے کام کرنے میں کبھی عار محسوس نہ کرتے تھے.محنت مزدوری کو کبھی اپنی www.alislam.org

Page 54

مسلم نوجوانوں کے رنامے 107 شان کے خلاف نہ سمجھتے تھے.ایک دفعہ آپ نے رات بھر کسی کے باغ میں پانی دیا اور اس کے عوض کچھ جو حاصل کیے اور پھر صبح جب کھانے کے لیے ان کا حریرہ تیار کرایا تو عین اس وقت کہ جب آپ کھانے کو تیار ہوئے ایک سائل آگیا.آپ نے وہ اٹھایا اور اس کے حوالے کر دیا.24- لوگ بعض اوقات آپ سے مسائل وغیرہ پوچھنے کے لیے آتے تو آپکو کبھی گھر میں اپنا جوتا مرمت کرتے کبھی زمین کھودتے ، اور کبھی جنگل میں اونٹ چراتے ہوئے پاتے تھے.25- آنحضرت ﷺ کو اپنے جگر گوشہ حضرت فاطمہ الزہرا سے جو محبت تھی اور آپ کی آسائش کا جس قدر خیال رہتا تھا وہ احادیث سے ظاہر ہے.تاہم مقدرت ہونے کے بعد بھی ان کا ہاتھ سے کام کرنا آپ کے لیے باعث تکلیف نہیں ہوا.چنانچہ ایک دفعہ حضرت فاطمہ الزہرا آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ مجھے گھر میں سخت محنت و مشقت کرنی پڑتی ہے حتی کہ چکی پیتے پیتے میرے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے ہیں.آپ کے پاس غلام آئے ہیں ایک مجھے عنایت کر دیں.تا کہ اس مشقت میں مددمل سکے.لیکن سردار دو عالم اور شہنشاہ کونین نے اپنی اکلوتی اور محبوب بیٹی کی یہ بات سن کر جو کچھ فرمایا وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے.ہم لوگ نہایت تنگ دستی کی حالت میں بھی یہ پسند نہیں کرتے کہ اولاد کو معمولی مشقت کا کام بھی کرنا پڑے.مگر آپ کو معلوم ہے حضور نے حضرت فاطمہ کو کیا جواب دیا.آپ نے فرمایا کیا میں تم کو دوں اور اہل صفہ کی آسائش کا انتظام نہ کروں.یہ نہیں ہو سکتا.چنانچہ وہ خالی واپس آگئیں.اس کے بعد آنحضرت ما ان کے مکان پر تشریف لائے اور فرمایا کیا تم کو میں ایسی بات بتاؤں جو اس چیز سے بہتر ہے جو تم نے مانگی ہے.انہوں نے کہا فرمائیے.آپ نے فرمایا کہ ہر نماز کے بعد 33-33 بار تسبیح و تحمید اور 34 بار تکبیر کہہ لیا کرو.26.حضرت علی کے بلند پایہ اور عالی مقام کو ایک طرف رکھئیے اور دوسری طرف اس واقعہ کو صلى الله مسلم نوجوانوں کے 108 پڑھیے جو آپ خود یوں فرماتے ہیں.کہ ایک دفعہ میں گھر سے مزدوری کے لیے نکلا.ایک عورت نے مٹی جمع کر رکھی تھی جسے بھگونا چاہتی تھی.میں نے اس کے ساتھ فی ڈول ایک کھجور مقرر کی اور سولہ ڈول بھرے جس سے میرے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے اور پھر سولہ کھجوریں لے کر میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا.اور آپ کے ساتھ بیٹھ کر وہ کھجوریں کھائیں.27- ہاتھ سے کام کرنا صرف صحابہ تک ہی محدود نہ تھا بلکہ خودسرور کا ئنات شاہ کونین سرور عالم آنحضرت ﷺ کو بھی اپنے ہاتھ سے کام کرنے میں عار نہ تھی.احادیث میں اکثر ایسی روایات ملتی ہیں کہ آپ جب گھر میں تشریف لاتے تو گھر کے کام کاج میں امہات المومنین کا ہاتھ بٹاتے تھے.بکریوں کا دودھ دوہ لیتے تھے اور یہاں تک کہ اپنے ہاتھ سے اپنا جوتا مرمت کر لیتے تھے.پھر قومی کاموں میں بھی آپ صحابہ کے ساتھ کام کرتے تھے.چنانچہ حضرت ام سلمہ کی روایت ہے کہ غزوہ خندق کے موقعہ پر مجھے خوب یاد ہے کہ آپ کا سینہ مبارک گرد و غبار سے اٹا ہوا تھا اور آپ خود دست مبارک سے اینٹیں اور پتھر اٹھا اٹھا کر صحابہ کرام کو دیتے تھے.اور ساتھ اشعار پڑھتے جاتے تھے کہ دفعتاً آپ کی نظر عمار بن یاسر پر پڑی.اور آپ نے فرمایا اے ابن سمیہ تجھ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا.ان واقعات سے ظاہر ہے کہ صحابہ کرام کو ہاتھ سے کام کرنے کی عادت حالات کے تقاضہ کے ماتحت نہ تھی.بلکہ ان بزرگوں نے اپنے رہبر اور ہادی سے یہی ہدایت پائی تھی اور اسی کی وجہ سے وہ ایسا کرتے تھے.اس میں کسی امیر وغریب یا چھوٹے بڑے کا کوئی امتیاز نہ تھا کہ خیال کیا جائے کہ وہ حالات کی مجبوری سے ایسا کرتے تھے.29.حضرت اسماء حضرت ابوبکر کی صاحبزادی تھیں.جو عرب کے متمول لوگوں میں سے تھے.لیکن با ایں ہمہ وہ اپنے ہاتھ سے معمولی سے معمولی کام کرتی تھیں.ان کا نکاح حضرت زبیر کے ساتھ ایسی حالت میں ہوا کہ حضرت زبیر بالکل غریب تھے.ایک اونٹ اور ایک www.alislam.org

Page 55

110 مسلم نوجوانوں کے سند کارنامے 109 مسلم نوجوانوں کے نامے گھوڑا ان کی کل کائنات تھی.حضرت اسماء اونٹ اور گھوڑے کی نگہداشت خود کرتی تھیں.اور اس کے علاوہ گھر کا باقی کام کاج بھی.آنحضرت ﷺ نے حضرت زبیر کو ایک زمین دی تو یہ خود وہاں جا کر کھجوروں کی گٹھلیاں اکٹھی کرتیں.اور تین فرلانگ سے اپنے سر پر اٹھا کر لاتی تھیں.30.حضرت زینب بنت ابو معاویہ کی شادی حضرت عبداللہ بن مسعود سے ہوئی تھی.ان کے شوہر غریب تھے.اور یہ دستکاری جانتی تھیں.اس لیے اپنے ہاتھ سے محنت کر کے گھر کا خرچ چلاتی تھیں.ا.( بخاری کتاب المناقب) ۳.( بخاری کتاب المغازی) (مسند احمد ج 5 ص 337) ے.(تذکرة الحفاظ ج1 ص23) ۹.(اسد الغابہ ج2 ص286) ا.(ابوداؤد کتاب الطہارت) ۱۳ ( ابن سعد ج 3 ص 164) ۱۵.( بخاری کتاب الحرث) حوالہ جات ۲.(سیر انصارج1 ص184) ۴.(سیرت خاتم النبین ص369) ۶.(اصابہ ج 5 ص 449).(اسد الغابہ ج 2 ص 232 235t) ۱۰.(ابوداؤد کتاب الخراج) ۱۲.(ابن ماجہ ابواب الرہون) ۱۴.( بخاری کتاب البیوع) ۱۶.( بخاری کتاب البیوع) ۱۷.(اسد الغابہ ج 6 ص 160) ؟ ۱.(اسد الغابہ ج 2 ص 203) ۱۹.( ابن سعد ج 1 ص 132) ۲۱.(کنز العمال ج12 ص629) ۲۰.(ابن سعد ج 1 ص 13) ۲۲ - ( تاریخ طبری ص 2966) ۲۳.( بخاری کتاب المناقب) ؟ ۲۴.( تاریخ طبری ص 3348) ۲۶.(حلیۃ الاولیاء زیر لفظ علی بن ابی طالب) ۲۵.(بخاری کتاب المناقب) ۲۷.(مسند احمد ج 6 ص 322) ۲۹.( بخاری کتاب النکاح) ۲۸.( بخاری کتاب المغازی) ۳۰.(اسد الغابہ ج 6 ص 128) ایک گزارش صحابہ کرام کی زندگی کا یہ پہلو ہمارے زمانہ کے لیے بہت درجہ سبق آموز ہے.آج مغربی تہذیب و تمدن نے نوجوانوں کے اندر ایسی خطرناک ذہنیت پیدا کر دی ہے اور خودداری اور سیلف رسپکٹ کا ایسا غلط مفہوم ان کے سامنے پیش کر دیا ہے کہ وہ بعض کا موں کو کرنا کسر شان سمجھتے ہیں.اور اس مفروضہ عزت نفسی کے خیال سے بریکاری کے مرض میں نہایت بری طرح مبتلا رہتے اور نہایت حسرت کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں.اپنے والدین اور متعلقین کے لیے ایک بار بنے رہتے ہیں.لیکن جب تک خود ساختہ معیار کے مطابق کام نہ ملے بے کا رہی رہنا پسند کرتے ہیں.جس کا ایک خطرناک نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی تربیت خراب ہو جاتی ہے.طبعیت میں آوارگی اور بے راہ روی پیدا ہو کر بعض اوقات ان کے چال چلن کو بگاڑ دیتی ہے.ایسے نوجوان اگر ان واقعات کوغور سے پڑھیں اور سوچیں کہ وہ خواہ کتنے معزز گھرانوں کے چشم و چراغ کیوں نہ ہوں.سرور کائنات شاہ دو عالم محمد مصطفے اللہ کے خاندان کے افراد سے زیادہ معزز نہیں ہو سکتے.اور جب یہ حالت ہے کہ حضور ﷺ کا فرزند نسبتی اور قریش کے معزز ترین گھرانے کا معزز اور عالم و فاضل فرزند معمولی گھاس کاٹ کر لانے اور اسے بازار میں فروخت کرنے میں کوئی سبکی محسوس نہیں کرتا.اور پیغمبر اسلام ﷺ کی ازدواج مطہرات اپنے ہاتھ سے کام کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتیں.نہ خاندانی وجاہت ان کے دامن گیر ہوتی ہے اور نہ ہی اس فخر موجودات کے خاندان سے انتساب ان کی محنت و مشقت کے راستہ میں حائل ہوتا ہے.تو یقیناوہ اپنی روش پر نظر ثانی کے لیے مجبور ہوں گے.اور اگر یہ واقعات ان کے دل پر اثر انداز ہو کر ان ذہنیتوں میں اصلاح کرسکیں تو مسلمانوں کی قومی اور تمدنی زندگی میں ایک نہایت خوشگوار اور آرام دہ انقلاب پیدا ہوسکتا صلى الله ایک معزز صحابی کے ہاتھوں کی سیاہی کو دیکھ کر آنحضرت ﷺ کا اس کی وجہ دریافت کرنا اور www.alislam.org

Page 56

112 مسلم نوجوانوں کے سند کارنامے (111) مسلم نوجوانوں کے نامے اس کی طرف سے یہ جواب سن کر وہ اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے لیے قوت لایموت مہیا کرنے کے لیے سارا سارا دن پتھر پر پھاوڑہ چلاتا ہے.حضور ﷺ کا اس کے ہاتھوں کو چوم لینا ظاہر کرتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ اپنے ہاتھ سے جو کام بھی ملے کر لینا کوئی کسر شان نہیں بلکہ ہمارے پیارے ن کے نزدیک بہت بڑا درجہ رکھتا ہے.مهمان نوازی مہمان نوازی انسانی اخلاق میں سے ایک بہترین خلق ہے.اور اسلام نے اس پر خاص زور دیا ہے.حتی کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مہمان کا گھر میں آنا اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نشان ہے.یہی وجہ ہے کہ مہمان نوازی صحابہ کرام کی زندگی کا ایک خاص جز و تھا.گو ان میں سے اکثر لوگ غریب اور ظاہری اسباب کے لحاظ سے بالکل نادار تھے لیکن ان کی غربت اور افلاس انہیں مہمان نوازی کے ثواب سے محروم نہیں رکھ سکتا تھا.تاریخ اسلام میں اس کی بے شمار مثالوں میں سے چند ایک درج ذیل ہیں.1- ایک مرتبہ ایک مہمان دربار نبوی میں آیا.چونکہ اس وقت کے لحاظ سے ایک شخص کی مہمان نوازی بھی آسان نہ تھی.اس لیے آنحضرت ﷺ نے صحابہ کو تحریک فرمائی اور فرمایا کہ جو شخص اس کی مہمان نوازی کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے گا.اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحم کی امید پر اپنے گھر میں موجود سامان خورد و نوش کا جائزہ لیے بغیر حضرت ابوطلحہ نے عرض کیا یارسول اللہ میں اس مہمان کو اپنے ساتھ گھر لے جاتا ہوں.چنانچہ اسے ساتھ لے گئے.گھر پہنچے تو بیوی سے معلوم ہوا کہ کھانے کو کچھ نہیں.صرف اتنا ہی کھانا ہے جو بچوں کے لیے بمشکل کفالت کر سکے گا.لیکن بیوی کی طرف سے مایوس کن اطلاع کے باوجود انہیں کوئی تشویش نہ ہوئی.اور جذبہ مہمان نوازی میں کوئی فرق نہ آیا.آپ نے بیوی سے کہا کہ زیادہ فکر تو بچوں کا ہی ہے لیکن ان کو پیار دلا سادے کر بھوکا ہی سلا دو.لیکن ایک مشکل ابھی بھی باقی تھی اور وہ یہ کہ اس وقت کے رسم ورواج کے مطابق مہمان گھر والوں کو ساتھ شریک کرنے پر اصرار کر دیگا.کیونکہ اس وقت تک پردہ کے احکام ابھی نازل نہیں ہوئے تھے.اور اسکا حل یہ سوچا گیا کہ جب میاں بیوی مہمان کے ساتھ کھانے پر بیٹھیں تو بیوی روشنی ٹھیک کرنے کے بہانہ سے چراغ گل کر دے اور پھر دونوں ساتھ بیٹھ کر یونہی منہ مارتے www.alislam.org

Page 57

(114) مسلم نوجوانوں کے کارنامے 113 مسلم نوجوانوں کے نامے رہیں.کہ گویا کھانا کھا رہے ہیں.لیکن دراصل کچھ نہ کھائیں اور اس طرح مہمان سیر ہو کر کھانا کھا لے.چنانچہ اس ایثار پیشہ خاندان نے ایسا ہی کیا.بچوں کو فاقہ سے بہلا کر سلا دیا گیا.بیوی نے روشنی بجھادی اور میاں بیوی ساتھ بیٹھ کر یونہی مچاکے مارتے رہے کہ گویا بڑے مزے سے کھانا کھا رہے ہیں.اس طرح گھر کے سب لوگ تو فاقہ سے رہے اور مہمان نے سیر ہو کر کھانا کھا لیا.اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ ادا ایسی پسند آئی کہ رسول کریم نے کو وحی کے ذریعہ اس کی خبر دی.چنانچہ صبح ہوئی تو آپ نے حضرت ابو طلحہ کو بلایا اور ہنستے ہوئے فرمایا کہ رات تم نے مہمان کے ساتھ کیا کیا.انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا کیا.آپ نے فرمایا جو کچھ تم نے کیا اسے دیکھ کر اللہ تعالی عرش پر ہنسا اور اس لیے میں بھی ہنسا ہوں.احباب اس واقعہ پر غور کریں اور دیکھیں کہ یہ مہمان نوازی کتنی مشکل اور قربانی چاہتی ہے.اگر چہ خود بھوکا رہنا بھی آسان نہیں لیکن اگر خیال کر لیا جائے کہ روزہ رکھنے کے عادی لوگوں کے لیے ایک وقت کا فاقہ کاٹ لینا کوئی بڑی بات نہیں تو کم سے کم یقینا یہ ماننا پڑے گا کہ اپنے چھوٹے چھوٹے جگر گوشوں کو رضا کارانہ طور پر بھوکا رکھنا یقیناً ایک ایسی بات ہے جو ثابت کرتی ہے کہ ہمارے یہ بزرگ مہمان نوازی کو کس قدر اہمیت دیتے تھے.2 صحابہ کی مہمان نوازی صرف مہمانوں تک ہی محدود نہ تھی بلکہ دشمن بھی اس سے محروم نہ تھے.یہاں تک کہ جنگ کے قیدیوں سے بھی یہی سلوک تھا.چنانچہ ایک شخص ابوعزیز بن عمیر جو جنگ بدر میں قید ہوئے تھے بیان کرتے ہیں کہ انصار مجھے تو پکی ہوئی روٹی دیتے تھے اور خود کھجور میں وغیرہ کھا کر گزارہ کر لیتے تھے.اور کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ اگر ان کے پاس روٹی کا کوئی چھوٹا سا ٹکڑا بھی ہوتا تو وہ مجھے دے دیتے اور خود نہ کھاتے تھے اور اگر میں تامل کرتا تو اصرار کے ساتھ کھلاتے تھے.-3- جن اسیران جنگ کے پاس کپڑا نہ ہوتا ان کو مسلمان کپڑے بھی مہیا کرتے تھے.محمد ﷺ کی ہدایات کے ماتحت انصار و مہاجرین قیدیوں کے ساتھ بڑی محبت اور مہربانی کا سلوک کیا کرتے تھے.چنانچہ بعض قیدیوں کی اپنی شہادت ہے کہ خدا بھلا کرے مدینہ والوں کا وہ ہم کو سوار کرتے اور خود پیدل چلتے تھے.ہم کو گندم کی پکی ہوئی روٹی کھلاتے.اور خود کھجوریں وغیرہ کھا کر گزارہ کر لیتے تھے.“ ( بحوالہ سیرت خاتم النبین صفحہ 155) جن لوگوں کا جنگی قیدیوں کا ساتھ یہ سلوک تھا مہمانوں اور اپنے بھائی مہمانوں کے ساتھ ان کا برتاؤ اظہر من الشمس ہے.-4- ایک دفعہ بنی عذرہ کے تین مہمان مدینہ میں آئے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ کون ان کی کفالت کا ذمہ لیتا ہے.حضرت طلحہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ میں.چنانچہ ان تینوں کو اپنے گھر لے گئے.اور پھر وہ جب تک زندہ رہے انہی کے ہاں رہے لیکن انہوں نے کبھی ان کو اپنے لیے بار تصور کر کے ان سے گلو خلاصی کی کوشش نہیں کی اور ایسے اخلاق سے ان کے ساتھ پیش آتے رہے کہ ان کو یہ احساس تک نہیں ہونے دیا کہ وہ کسی اجنبی جگہ میں ہیں.5- حضرت عبد اللہ بن مسعود مہمانوں کی خدمت سے حظ محسوس کرتے تھے اور آپ نے کوفہ میں ایک عالی شان مکان مہمانوں کے لیے مخصوص کر رکھا تھا.آنحضرت ﷺ کی خدمت میں جو و فود آتے آپ ان کی مہمان نوازی کا فرض صحابہ کے سپرد کر دیتے تھے.ایک مرتبہ قبیلہ عبدالقیس کے مسلمانوں کا وفد حاضر ہوا.تو آپ نے انصار کو ان کی مہمان نوازی کا ارشاد فرمایا چنانچہ انصار ان لوگوں کو لے گئے.صبح کے وقت وہ لوگ حاضر ہوئے تو آپ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے میزبانوں نے تمہاری مدارت کیسی کی.انہوں نے کہا یا رسول اللہ بڑے اچھے لوگ ہیں.ہمارے لیے نرم بستر بچھائے ، عمدہ کھانے کھلائے اور پھر رات بھر کتاب وسنت کی تعلیم دیتے رہے.یہ بات سخت افسوس کے قابل ہے کہ اپنے بزرگوں کے ایسے شاندار اسوہ کے ہوتے ہوئے www.alislam.org

Page 58

116 مسلم نوجوانوں کے کارنامے 115 مسلم نوجوانوں کے نامے بھی آج مسلمانوں میں یہ وصف نمایاں نظر نہیں آتا.بے شک ان میں آج بھی مہمان نواز ہیں لیکن ایسے لوگ شاذ ہونے کی وجہ سے معدوم ہونے کے حکم میں ہیں.اور اس کمی کی وجہ جہاں تک سمجھ میں آتی ہے یہ ہے کہ ہمارا تمدن اسلامی سادگی کو کھو چکا ہے اور جو بے تکلفی اور سادگی اسلام کے ان شیدائیوں کی زندگیوں میں نظر آتی ہے وہ ہمارے اندر دکھائی نہیں دیتی.ہمیں وضعدار یوں اور تکلفات نے ایسی بری طرح آگھیرا ہے کہ مہمان نوازی کے لیے اعلی سے اعلی سامان اور عمدہ سے عمدہ کھانوں کو ہم ضروری سمجھنے لگ گئے ہیں.اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر مہمان کو اس سے بہت بڑھ کر کھانا پیش نہ کر سکے جو خود عام طور پر گھروں میں کھاتے ہیں تو اس سے سبکی ہوگی.اور وقار میں فرق آئے گا.اور اس قسم کے خیالات ایسی بری طرح ہمارے قلوب میں جاگزیں ہو چکے ہیں کہ مہمان نوازی کی سعادت سے محرومی کو گوارا کرلیں گے.اس کا کوئی قلق محسوس نہیں کریں گے لیکن یہ کبھی نہیں کریں گے کہ مہمان کے سامنے ماحضر لا کر رکھ دیں.اور اس طرح بغیر کوئی بوجھ برداشت کرنے کے ثواب بھی حاصل کر لیں.بے شک جو استطاعت رکھتا ہو اس کے لیے مہمان نوازی میں اہتمام بھی ثواب کا موجب ہے اور اسے چاہیے کہ مہمان کا اس رنگ میں بھی احترام کرے.لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہونے چاہئیں کہ اس کے بغیر مہمان نوازی ہی کرنی چھوڑ دی جائے.اگر ہمارے دوست اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں اور وضعداریوں اور تکلفات کی خود پیدا کردہ پابندیوں سے آزادی حاصل کر کے سادگی اور بے تکلفی کوراہ عمل بنالیں تو یقینا اگر ایک طرف وہ مہان نوازی کی توفیق پا کر ثواب حاصل کر سکیں گے تو دوسری طرف اس ثواب کے حصول کے لیے انہیں کوئی غیر معمولی اور زائد بوجھ بھی برداشت نہ کرنا پڑے گا.ا.(مسلم ج ۲ ص 198) ؟ ۳.( بخاری کتاب الجہاد) ۵- ( تاریخ طبری ص 2842) حوالہ جات ۲ - ( ابن هشام زکر غزوة بدر ) ۴.(مسند احمد ج اص 163) (مسند احمد ج 3 ص 432) راست گفتاری اور صاف گوئی صحابه کرام راستی اور صدق بیانی کے پیکر اور سچائی و راستبازی کی جیتی جاگتی تصویر میں تھے.عام حالات واقعات میں ان کی راست بیانی کا تذکرہ گویا ان کے مقام صدق کی تو ہین ہے.دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا نقصان اور خوفناک سے خوفناک سزا کا خوف بھی ان کو جادہ صداقت سے منحرف نہیں کر سکتا تھا.وہ اپنی جان پر کھیل جاتے لیکن کیا مجال کہ کوئی خلاف واقعہ حرف زبان پر لائیں.اور روحانی لحاظ سے کوئی نمایاں مقام رکھنے والے تو در کنار ان کے کمزور بھی غلط بیانی کی جرات نہ کر سکتے تھے.حتی کہ اگر کسی سے بتقاضائے بشریت کوئی غلطی بھی سرزد ہو جاتی تو وہ سزا کے خوف یا عقوبت کے خیال سے اسے چھپانے کا وہم بھی دل میں نہ لا سکتے تھے.بلکہ عواقب سے بالکل بے نیاز ہو کر صاف صاف اقرار کر لیتے تھے.چند ایمان پرور اور روح افزا واقعات ملاحظہ ہوں.-1- فتح مکہ کے بعد جب آنحضرت ﷺ نے مال غنیمت تقسیم کیا تو مصلحت و منشائے الہی کے ماتحت اس میں قریش کے ساتھ ترجیحی سلوک روا رکھا.ہر شخص کی نظر معاملات کی تمام باریکیوں تک نہیں پہنچ سکتی.اور ہر شخص معرفت کے اس مقام پر پہنچا ہوا نہیں ہوتا کہ اس کی آنکھ مخفی در مخفی اور باریک در بار یک حکمتوں کو دیکھنے کی اہلیت رکھتی ہو.رسول کریم ﷺ کے حقیقی مقام کی معرفت رکھنے والے اس ترجیح پر معترض ہونا تو در کنار اگر حضور سب کچھ بھی کسی خاص گروہ کے سپرد کر دیتے تو انہیں کوئی اعتراض نہ ہوتا.لیکن ایک حقیقت ناشناس اور کم فہم انصاری نے اس پر معترضانہ رنگ میں نکتہ چینی کی.آنحضرت ﷺ کو اسکا علم ہوا تو آپ کو تکلیف ہوئی.آپ نے انصار کو طلب فرمایا اور اس کے متعلق دریافت فرمایا.انصار نے اپنے آدمی کی اس نادانی پر کوئی پردہ ڈالنے اور تاویلات سے کام لے کر اس کے جرم کو چھپانے کی قطعا کوئی کوشش نہیں کی بلکہ من و عن صحیح صحیح بات بیان کر دی.اور اس پر کوئی پردہ www.alislam.org

Page 59

118 مسلم نوجوانوں کے کارنامه (117) مسلم نوجوانوں کے نامے نہیں ڈالا پھر اس کے ساتھ اپنی پوزیشن کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ واضح کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک نادان کی نادانی اور کم نہمی ہے ورنہ ہمارے دلوں میں ایسا کوئی خیال قطعاً نہیں.2 غزوہ تبوک میں حضرت کعب بن مالک شریک نہ ہوئے تھے.اور حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس اپنی اس غفلت کے لیے کوئی صحیح عذر بھی نہ تھا.وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ان سے سراسر کوتاہی ہوئی.واپسی پر آنحضرت ﷺ نے اس کا سبب دریافت فرمایا.انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ اس غفلت کی سزا انہیں ضرور مل کر رہے گی.لیکن سزا کے خوف سے انہوں نے ادھر ادھر کی باتوں سے اپنی غفلت پر پردہ ڈالنے کی قطعا کوشش نہیں کی اور کسی بہانہ سازی سے کام لینے کا خیال تک نہ کیا بلکہ صاف الفاظ میں اپنی غلطی کا اقرار کر لیا.حضرت ماعز بن مالک ایک نوجوان صحابی تھے.انسان خطا ونسیان کا پتلا ہے.اور شیطان اسے جادہ صراط سے منحرف کرنے کے لیے اس طرح اس کی تاک میں لگا رہتا ہے کہ ہر وقت اس سے خطا کے صدور کا امکان ہے.چنانچہ وہ بھی اس بہکانے میں آگئے.ایک دفعہ ان سے زناء کی لغزش سرزد ہوئی.یہ کوئی معمولی لغزش نہ تھی اور شریعت اسلامی میں اس کی سزا سے وہ نا واقف بھی نہ تھے.لیکن صحابہ کرام اپنی خطا کی سزا اس دنیا میں برداشت کر لینا خدا تعالیٰ کے حضور گنہگار ہونے کی حیثیت میں جانا بہت زیادہ آسان سمجھتے تھے.چنانچہ بعد میں انہیں جب اپنی غلطی کا احساس ہوا تو دامن صبر قرار ہاتھ سے چھوٹ گیا.غفلت کا پردہ اٹھتے ہی اللہ تعالیٰ کا رعب ایسا طاری ہوا کہ بے چین ہو گئے اور بے تاب ہو کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پہنچے.اور عرض کیا یا رسول اللہ مجھے پاک کیجئے.لیکن آنحضرت ﷺ نے چشم پوشی سے کام لیا اور فرمایا جاؤ خدا تعالیٰ سے مغفرت چاہو اور اس کے حضور تو بہ کرو.ماعز یہ جواب سن کر لوٹے مگر جو لغزش ہو چکی تھی اس نے اطمینان قلب ختم کر دیا تھا.طبیعت پر اس کا اس قدر بوجھ تھا کہ جلد از جلد اس کو دور کرنا چاہتے تھے.دل کو سکون نہ تھا.ارشاد کی تعمیل میں واپس تو ہو گئے لیکن تھوڑی دور جا کر پھر واپس آئے.اور پھر دل کی بیتابی سے مجبور ہو کر عرض کیا یارسول اللہ مجھے پاک کیجئے.آپ نے پھر چشم پوشی فرمائی اور پھر یہی جواب دیا کہ جاؤ خدا تعالیٰ سے مغفرت طلب کرو.اور اسی کے حضور تو بہ کرو.یہ ارشاد سن کر آپ لوٹنے کو تو پھر لوٹ گئے مگر قلبی کیفیت نے بالکل بے بس کر رکھا تھا.قدم اٹھائے آگے کو اور پڑتا پیچھے کی طرف تھا.بس ایک ہی خیال دل میں جاگزیں تھا کہ جس طرح بھی ممکن ہو اس گندا اور فسق و فجور کی آلائش سے اپنا دامن پاک کریں.اس لیے چند قدم جانے کے بعد پھر ایک وارفتگی کے عالم میں واپس ہوئے اور پھر یہی درخواست کی یارسول اللہ مجھے پاک کیجئے.اس پر آپ نے فرمایا تم کس چیز سے پاک ہونا چاہتے ہو.ماعز نے نہایت ندامت اور شرمساری کے لہجہ میں عرض کیا زنا کی گندگی سے.ان کی یہ صاف بیانی اور رضا کارانہ اقبال جرم کو دیکھ کر آنحضرت ﷺ کو بھی حیرت ہوئی.اور آپ نے لوگوں سے پوچھا یہ شخص مجنون تو نہیں.اور اس کی یہ باتیں کسی دماغی عارضہ کا نتیجہ تو نہیں.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ نہیں.اس کی دماغی حالت بالکل درست لیکن آپ شرعی حدود قائم کرنے سے قبل چونکہ تمام پہلوؤں کو اچھی طرح معلوم کرنا ضروری سمجھتے تھے اس لیے پھر فرمایا کہ اس نے شراب تو نہیں پی ہوئی.ایک شخص نے قریب جا کر منہ سونگھا.تو معلوم ہوا کہ ایسا نہیں اور منہ سے شراب کی بو نہیں آتی تھی.اس پر آنحضرت ﷺ نے پھر فرمایا.ماعز کیا تم نے واقعی زنا کیا.انہوں نے جواب دیا کہ ہاں یا رسول اللہ واقعی مجھ سے یہ خطا سرزد ہوئی.اس پر آپ نے سنگساری کا حکم دیا.حضرت عمر نے ان کے متعلق فرمایا ہے کہ انہوں نے خدا کی ستاری کی پرواہ نہیں کی.اس لیے انہیں شریعت کی ظاہری سزا بھگتنی پڑی.اگر وہ تو بہ اور استغفار کرتے تو اللہ تعالی ستار ہے.ان کی کچی تو بہ پر ویسے بھی بخش دیتا اور انہیں اس سزا سے بھی بچالیتا.-4 مریسیع کے مقام پر عبداللہ بن ابی نے آنحضرت ﷺ کی شان میں جو نا پاک الفاظ استعمال www.alislam.org

Page 60

120 مسلم نوجوانوں کے کارنامـ 119 مسلم نوجوانوں کے رنامے کیسے ان کا ذکر اور اس سلسلہ میں خود اس کے لڑکے کی غیرت ایمانی کا ذکر شرح وبسط کے ساتھ پہلے گزر چکا ہے.اس کے یہ نا پاک الفاظ ایک بچہ زید بن ارقم نے سنے تو بے تاب ہو گیا اور فوراً اپنے چچا کی وساطت سے آنحضرت ﷺ کوخبر کی.آپ نے عبداللہ بن ابی سے پوچھا لیکن وہ چونکہ مرض نفاق میں مبتلا اور حقیقی ایمان سے محروم تھا.اس نے انکار کر دیا اور اس کے ساتھیوں نے بھی جو اس کی طرح مرض نفاق کے مریض تھے قسمیں کھا کھا کر اس کی تصدیق کی.آنحضرت ﷺ نے حکم خداوندی کے مطابق حسن ظنی سے کام لیا.اور ان کے بیانات کو صحیح سمجھ کر حضرت زید کی بات کو رد کر دیا.لیکن بعد میں وحی الہی نے زید کی بات کی تصدیق کر دی اور اس طرح اس مومن بچہ کے دامن کو اس غلط بیانی کی آلائش سے پاک کرنے کے لیے اپنے رسول کو براہ راست اس کی سچائی کی اطلاع دی.الله 5- حضرت معاذ بن جبل نہایت متقی نوجوان اور اسلامی اخلاق ومحاسن کے پیکر تھے.راست گوئی کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کے متعلق کوئی بات بیان کی.حضرت انس نے جا کر آنحضرت ﷺ سے اس کی تصدیق چاہی تو آپ نے فرمایا صدق معاذ ،صدق معاذ صدق معاذ اور اس طرح اپنے ایک صحابی کی راست بیانی کی تصدیق پورے زور کے ساتھ فرمائی.6- حضرت عبدالرحمن بن عوف نے قریباً تمیں سال کی عمر میں سلام قبول کیا تھا.لیکن تقویٰ و طہارت اور صدق وصفا میں اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ صحابہ کرام کو ان کی صداقت پر کامل اعتماد تھا.حتی کہ وہ کسی تنازعہ کی صورت میں خواہ مدعی ہوتے یا مد عاعلیہ صرف ان کے بیان کو ہی کافی سمجھتے تھے.-7- دین کے معاملہ میں صحابہ کرام نازک سے نازک دنیوی تعلقات کی ذرہ بھر پرواہ نہ کرتے تھے.اور تمام عواقب سے بے نیاز ہو کر کچی بات کہہ دیتے تھے.چنانچہ ایک کمزور مسلمان قدامہ بن مظعون سے ایک مرتبہ ایسی لغزش سرزد ہوئی کہ شراب پی لی.حضرت عمر کو اطلاع ہوئی تو آپ نے قدامہ کے لیے شرعی سزا تجویز کی.لیکن معلوم ہے اس کیس میں شاہدکون تھا.اور کس کی شہادت پر اسے یہ سزا ہوئی.خود مظعون کی بیوی نے اپنے خاوند کے خلاف شہادت دی اور اس کی شہادت کی بناء پر ملزم کو سزادی گئی.مندرجہ بالا واقعات میں صحابہ میں سے بعض کی لغزشوں کا ذکر آیا ہے.اس سے کسی کو کوئی غلط فہمی نہ ہونی چاہیے.ایسے واقعات معدودے چند ہیں جن میں کسی صحابی کا کسی نہ کسی وجہ سے لغزش کھا جانا ثابت ہوتا ہے.ورنہ وہ لوگ پاکبازی اور تقویٰ کے اس قدر بلند مقام پر فائز تھے کہ ان سے ایسے افعال کے صدور کا امکان بھی نہ تھا.تاریخ عرب سے ادفی واقفیت رکھنے والے بھی اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ اس ملک میں شراب خوری اور زنا کاری کا رواج بہت عام تھا.اور اہل عرب شب و روز انہی مشاغل میں مصروف رہتے تھے.اسلام نے آکران برائیوں کو حرام قرار دے دیا اور صحابہ کرام نے اپنی عمر بھر کی عادات کے باوجود ان احکام کی اس قدر شدت کے ساتھ پابندی کی کہ کسی اور قوم کی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے.اور ایسے عادی لوگوں میں سے کسی ایک کے پاؤں میں کبھی لغزش کا آجانا کوئی ایسی بات نہیں جس کی بناء پر صحابہ کرام کی قومی بزرگی اور پاکبازی پر کوئی اعتراض جائز ہو سکے.اور کلی طور پر گنا ہوں سے معصوم اور محفوظ تو اللہ تعالیٰ کے انبیاء ہوتے ہیں.کمزور مومنوں سے کبھی عارضی طور پر لغزش کا ہو جانا ناممکن نہیں ہے.صحابہ میں سے اگر کسی سے ایسا ہو جاتا تو وہ فوراً تو بہ کی طرف رجوع کرتے.اور خود اپنی غلطی اور قصور کا اعتراف کر کے اس کی ہر ممکن تلافی کر لیتے تھے.اور سچ تو یہ ہے کہ ایسے واقعات سے اور پھر ایسی حرکات کے صدور پر ان پاکبازوں کی پشیمانی اقرار جرم اور اس کی سزا کو قبول کرنے کے لیے بے تابی ایک ایسی چیز ہے جو ایک انصاف پسند کی نظر میں ان کی وقعت بڑھا دیتی ہے.ان واقعات میں ایک اور خاص قابل غور اور قابل تقلید پہلو یہ ہے کہ صحابہ کرام اس دنیا کی سزا کو کوئی سزا نہیں سمجھتے تھے.ان کے قلوب پر مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور گناہوں.www.alislam.org

Page 61

مسلم نوجوانوں کے رنامے 121 پاک ہو کر جانے کا خیال غالب تھا.وہ آخرت کی سزا کو اپنے لیے بالکل نا قابل برداشت سمجھتے تھے.اور اس لیے ان کی پوری کوشش یہ ہوتی تھی کہ جس طرح بھی ہوا نہیں گناہوں کی سزا اسی دنیا میں مل جائے.تاکہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور بالکل پاک ہو کر جائیں.لیکن ہمارے زمانہ کی حالت اس سے بالکل برعکس ہے.آج ہم میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو انتہائی کوشش کرتے ہیں کہ ان سے جو غلطی ہوئی اسکی سزا سے جسطرح ہو سکے یہاں بچ جائیں اور اس بچاؤ کے لیے اگر اصل جرم کے علاوہ انہیں جھوٹ اور غلط بیانی وغیرہ دوسرے خطرناک جرائم کا بھی مرتکب ہونا پڑے تو وہ اس کی پرواہ نہیں کرتے.اور اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ کیفیت در اصل خدا تعالیٰ پر کامل ایمان نہ ہونے کا نتیجہ ہے.ورنہ جو شخص دل سے ایمان رکھتا ہے کہ اس نے مرنا اور خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے.جہاں اسے اپنے دنیوی اعمال کے لیے لازماً جواب دہی کرنا پڑے گی.تو وہ کبھی اس قدر جرات نہیں کر سکتا کہ کوئی خطا کرنے کے بعد پھر اس کی سزا سے بھی بچنے کی کوشش کرے.اور اس طرح اپنے لیے اپنے ہاتھ سے آخرت میں سزا کا موقعہ پیدا کرے.سچ یہی ہے کہ ایک ایسے انسان کے لیے جس کا دل نور ایمان سے منور ہو اس دنیا میں انتہائی سز احتی کہ جان دے دینے کی سزا بھی بہت معمولی اور حقیر ہے بجائے اس کے کہ وہ گنہگار ہونے کی حیثیت میں اپنے پیدا کرنے والے خدا کے دربار میں حاضر ہو.اور پھر کسی بداعمالی کی سزا میں عذاب دوزخ کا مستحق سمجھا جائے.ا.(مسلم کتاب الزکوة) ۳- (مسلم کتاب الحدود).(سیر انصارج 2 ص 187) ے.(اصابہ ج 5 ص 323) حوالہ جات ۲.( بخاری کتاب المغازی) ۴.(سیرت خاتم النهمين ص560).(مسند احمد ج 1 ص 192) مسلم نوجوانوں کے کارنامے عبادت گزاری اور زہد وانقاء 122 1- حضرت ابو ہریرہ کے متعلق ثابت ہے کہ آپ نے عالم جوانی میں اسلام قبول کیا مگر شب بیداری آپ کا محبوب مشغلہ تھا.آپ کا کنبہ نہایت مختصر اور صرف تین اصحاب پر مشتمل تھا.یعنی آپ خود، آپ کی بیوی اور ایک خادم.مگر اس مقدس خاندان نے بھی عبادت الہی کے لیے ایسی تقسیم اوقات کر رکھی تھی کہ جس سے ساری رات ہی عبادت میں بسر ہو.اور وہ اس طرح کہ تینوں باری باری ایک تہائی رات جاگتے اور عبادت کرتے تھے.2 حضرت حرام بن تمحان رات کے وقت قرآن کریم کا درس دیتے اور نمازیں پڑھتے رہتے تھے.3 حضرت عبداللہ بن عمر جوانی میں ہی نہایت متقی اور عبادت گزار تھے.عبادت کے شوق میں رات کو مسجد کے فرش پر سورہتے.دنیا وی دلفریبیوں سے کوئی سروکار نہ تھا اور خواہشات نفسانی پر پورا قابور کھتے تھے.آنحضرت پر آپ کی عبادت گزاری اور پاکبازی کا اس قدر اثر تھا کہ بر ملا اس کا اظہار فرمایا.چنانچہ ایک مرتبہ ام المومنین حضرت حفصہ سے فرمایا کہ عبداللہ جوان صالح ہے.-4 پہلے یہ ذکر ہو چکا ہے کہ حضرت عکرمہ بن ابی جہل نے اسلام لانے کے بعد قرار کیا تھا کہ اسلام کی مخالفت میں جو کچھ کیا ہے اور جس جس رنگ میں مخالفت کی ہے.اسی رنگ میں مگر اس سے دو گنا خدمت اسلام کریں گے.چنانچہ اسلام کی تائید میں میدان جہاد میں آپ نے جو جو کار ہائے نمایاں کیے، جس طرح بڑھ بڑھ کر ہر موقعہ پر داد شجاعت دیتے رہے اس کے بے شمار ثبوت تاریخ اسلام میں نظر آتے ہیں.لیکن اس کے علاوہ عبادت میں بھی اس اقرار کو صدق دل کے ساتھ پورا کر کے دکھا دیا.حالت کفر میں آپ کی جبیں بتوں کے آگے سجدہ ریز رہ چکی تھی اور اپنی اس نادانی پر انہیں رہ رہ کر افسوس آتا تھا.اور اس سے اس کلنک کے ٹیکہ کو دھونے کے لیے بے چین و بے قرار رہتے تھے.چنانچہ اسے خدا تعالیٰ کے www.alislam.org

Page 62

مسلم نوجوانوں کے نامے 123 سامنے اس طرح جھکا یا کہ پوری طرح تلاقی مافات کر دی.ارباب سیر تسلیم کرتے ہیں کہ آپ عبادت میں بڑی مشقت اٹھاتے تھے.قرآن کریم کے ساتھ والہانہ عشق تھا.اسے چہرہ پر رکھ کر فرماتے کتاب ربی.کتاب ربی اور یہ کہتے ہوئے ساتھ ساتھ روتے جاتے تھے..حضرت ابوطلحہ کے متعلق بیان کیا جاچکا ہے کہ آپ نے بالکل نوعمری میں اسلام قبول کیا تھا.لیکن عبادت کے ذریعہ تقویٰ میں وہ بلند مقام حاصل کر لیا تھا کہ بڑے بڑے صحابہ ان سے دعائیں کراتے تھے.عبادت اس کثرت سے کرتے تھے کہ سجاد لقب پڑ گیا تھا.6- اسلام لانے سے قبل حضرت ابوسفیان مخالفت میں جس قدر بڑھے ہوئے تھے اس کے ذکر کی ضرورت نہیں.مگر مسلمان ہونے کے بعد اسلامی تعلیم کا ایک زندہ نمونہ بن گئے تھے.رات اور دن کا اکثر حصہ عبادت الہی میں گزارتے تھے.اور اسی وجہ سے آنحضرت ﷺ نے آپ کو جوانانِ جنت کا لقب دیا تھا..حضرت شداد بن اوس کمسنی میں اسلام لائے تھے.مگر نہایت عابد وزاہد تھے.رات کو دیر دیر تک مصروف عبادت رہتے.بسا اوقات ایسا ہوتا کہ لیٹتے تو پھر خیال آتا کہ میں نے خدا تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا نہیں کیا.اور اس وجہ سے فوراً اٹھ بیٹھتے اور عبادت میں مصروف ہو جاتے تھے.حتی کہ بعض اوقات رات رات بھر نماز پڑھتے اور عبادت میں مصروف رہتے.حضرت عبد اللہ بن رواحہ کی بیوی کا بیان ہے کہ جب آپ گھر سے نکلتے تو دورکعت نفل پڑھ کر نکلتے تھے.اور واپس آتے تو بھی اسی طرح کرتے.یعنی فوراً دو نفل ادا کرتے..حضرت حذیفہ بن الیمان بھی نوجوان تھے.مگر عبادت گزاری کا یہ حال تھا کہ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ رات بھر نماز پڑھتے رہے اور عبادت میں برابر شامل رہے.10 - حضرت عتاب بن اسیہ بالکل نوعمر صحابی تھے.حتی کہ وفات کے وقت آپ کی عمر صرف مسلم نوجوانوں کے (124) 25-26 سال کی تھی.لیکن زہد و تقاء کی وجہ سے فضلائے صحابہ میں ان کا شمار ہوتا تھا.اور اپنی عبادت گزاری کے باعث اتنا بلند مقام حاصل کر چکے تھے کہ آنحضرت ﷺ نے انہیں ملکہ کا عامل مقرر فرمایا.اور ان کا تقرر کرتے وقت فرمایا کہ اگر مجھے ان سے زیادہ موزوں آدمی نظر آتا تو اسے اس عہدے پر مقر کرتا.2008 میں آپ پہلے امیر المج مقرر ہوئے.11.حضرت عبدالرحمن بن عوف با وجود یہ کہ بہت دولت مند تھے مگر خشیت اللہ اور تقویٰ سے قلب معمور تھا.اور دنیوی نعماء ان کے لیے کسی ابتلاء کے بجائے ازدیاد ایمان کا موجب ہوتی تھیں.اللہ تعالیٰ کی ہیبت اور اس کے جلال کو یاد کر کے اکثر رویا کرتے تھے.ایک دفعہ تمام دن روزہ سے رہے.شام کے وقت کھانا آیا تو اسے دیکھ کر رو پڑے اور فرمایا.مصعب بن عمیر مجھ سے بہتر تھے مگر وہ شہید ہوئے تو کفن میں صرف ایک چادر تھی.جس سے سر چھپاتے تو پاؤں ننگے ہو جاتے تھے اور پاؤں چھپاتے تو سرنگا ہو جاتا.اسی طرح حضرت حمزہ شہید ہوئے تو یہی حالت تھی.مگر اب دنیا ہمارے لیے فراخ ہوگئی ہے اور اس کی نعمتیں ہمیں بکثرت حاصل ہوگئی ہیں.اور میں ڈرتا ہوں کہ کہیں ہماری نیکیوں کا صلہ ہمیں یہیں نہ مل جائے اور اس قدر رقت طاری ہوئی کہ کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا.آپ نمازیں نہایت خشوع سے ادا فرماتے تھے.خصوصاً ظہر کے فرض ادا کرنے سے قبل بہت دیر تک نوافل میں مشغول رہتے تھے.12 - صحابہ کرام ہمیشہ تقویٰ کی باریک راہوں پر گامزنی کی کوشش کرتے تھے.اور اس بات کی نہایت احتیاط کرتے تھے کہ ان کا کوئی قدم غلط نہ اٹھ سکے.اسکی ایک دلچسپ مثال سنئے.ایک سفر میں چند صحابہ کو ایک گاؤں میں قیام کا اتفاق ہوا.وہاں کے رئیس کو سانپ نے ڈس لیا تھا اہلِ قریہ نے صحابہ کی شکل وصورت سے مذہبیت کا اندازہ کر کے ان سے درخواست کی کہ مریض کے لیے کوئی چارہ کریں.صحابہ نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر پھونک دیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ تندرست ہو گیا.اس کے عوض ان لوگوں نے صحابہ کو کوئی ہدیہ دیا.جب اس www.alislam.org

Page 63

مسلم نوجوانوں کے نامے 125 کی تقسیم کا سوال پیدا ہوا تو بعض نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے جھاڑ پھونک کی ممانعت کی ہوئی ہے.اس لیے اس تقسیم سے قبل آپ سے دریافت کر لینا چاہیے.ایسا نہ ہو کہ اس معاوضہ کا استعمال ناجائز ہو اور ہم خواہ مخواہ گنہگار ہوں.چنانچہ واپسی پر آپ سے دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا یہ کوئی جھاڑ پھونک نہیں.معاوضہ تقسیم کرلو.13- حد درجہ کے جری اور بہادر ہونے کے باجود صحابہ کرام اللہ تعالیٰ کے خوف سے ہر وقت لرزاں رہتے تھے.حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ عہد نبوت میں اگر کبھی تیز ہوا بھی چلتی تھی تو مسلمان خوف الہی سے کانپتے ہوئے مسجد کی طرف بھاگ اٹھتے تھے.14 - حضرت عثمان کے دل پر اللہ تعالیٰ کا خوف اس قدر طاری رہتا تھا کہ جب کوئی جنازہ سامنے سے گزرتا تو بے اختیار آپ کی آنکھوں سے آنسور واں ہو جاتے تھے.قبرستان سے گزر ہوتا تو روتے روتے ریش مبارک تر ہو جاتی تھی.15- باوجود یہ کہ حضرت علی کی عمر قبول اسلام کے وقت بہت چھوٹی تھی لیکن آپ نہایت عابد و زاہد تھے.اس کی تفاصیل میں جانے کے بجائے صرف اس قدر کہہ دینا کافی ہے کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ کان ما علمت صائماً قواماً یعنی جہاں تک مجھے علم ہے وہ بہت روزہ دار اور عبادت گار تھے.16.زبیر بن سعید کی روایت ہے کہ لم ارهاشمیا قط کاناعبداللہ منہ یعنی میں نے کسی ہاشمی کو ان سے زیادہ عبادت گزار نہیں دیکھا.17 - حضرت عبد اللہ بن زبیر آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بہت کم سن تھے.تاہم بے حد عبادت گزار تھے.نماز اس قدر استغراق سے پڑھتے تھے کہ ایسا معلوم ہوتا تھا گویا ایک بے جان ستون کھڑا ہے.رکوع اتنا لمبا کرتے کہ اتنے عرصہ میں ساری سورۃ بقرہ ختم کی جاسکے.سجدہ میں گرتے تو اس قدر محویت طاری ہوتی تھی کہ چڑیاں آکر پیٹھ پر بیٹھ جاتی تھیں.18 - مردوں کے علاوہ مسلم خواتین کو بھی عبادت گزاری اور قرب الہی کے حصول کا بے حد شوق مسلم نوجوانوں کے 126 رہتا تھا.اور وہ یہ گوارا نہیں کر سکتی تھیں کہ تقویٰ اللہ میں وہ مردوں سے پیچھے رہیں.چنانچہ حضرت اسماء بنت یزید جب چند اور عورتوں کے ہمراہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بغرض بیعت حاضر ہوئیں تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں مسلمان عورتوں کی طرف سے کچھ عرض کرنا چاہتی ہوں.حضور نے اجازت دی تو عرض کیا کہ ہم بھی حضور کے دست حق پرست پر ایمان لائی ہیں.مگر ہماری حالت مردوں سے مختلف ہے.مرد نماز باجماعت اور نماز جمعہ میں شریک ہوتے ہیں، نماز جنازہ پڑھتے ہیں، مریضوں کی عیادت کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جہاد فی سبیل اللہ کرتے ہیں مگر ہم پردہ نشین ہیں.اور ان نیکیوں میں حصہ نہیں لے سکتیں.گھروں میں بیٹھ کر اولاد کی پرورش کرتی ہیں اور مردوں کے مال و اسباب کی حفاظت کرتی ہیں تو کیا اس صورت میں ہم کو بھی ثواب ملے گا.آنحضرت ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کیا تم لوگوں نے کبھی کسی عورت سے ایسی برجستہ گفتگو سنی ہے.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ نہیں.آپ نے حضرت اسماء کو فرمایا کہ اگر عورتیں فرائض زوجیت ادا کرتیں، اور شوہر کی اطاعت کرتی ہیں تو جس جس قدر ثواب مرد کو ملتا ہے اسی قدر عورتوں کو بھی ملتا ہے.حوالہ جات ا.(ترمذی ابواب الزہد ) ۳.(تہذیب التہذیب ج 5 ص 330) ( بخاری کتاب الصلوۃ) ۴.(اسد الغابہ ج 3 ص 566) (حلیۃ الاولیاء زیر لفظ عکرمہ ) ؟ ( دار می ص 207) ۲.(حلیۃ الاولیاء زیر لفظ حرام بن ملحان) ؟.(مستدرک حاکم ج 3 ص 374) ۶.(حلیۃ الاولیاء زیر لفظ ابوسفیان بن حارث) ؟.(سیر انصارج 2 ص 63) ۱۰.(اسد الغابہ ج 3 ص 451) ے.(اسد الغابہ ج 2 ص 373) و.(مسند احمد ج 5 ص 45) ۱۱.( بخاری کتاب المغازی) ۱۳.( ابوداؤد کتاب الصلوۃ) ۱۵.(ترمذی کتاب المناقب).(اسد الغابہ ج 3 ص 134) ۱۲.( بخاری کتاب الطب) ۱۴.( مسند احمد ج 1 ص 102) ۱۲.(مستدرک حاکم ج 3 ص 108) ۱.(اسد الغابہ ج 6 ص 18) www.alislam.org

Page 64

مسلم نوجوانوں کے ی کارنامے شوق پابندی نماز 127 -1 صحابہ کرام کو عبادت گزاری بالخصوص نماز با جماعت کا اس قدر خیال رہا کرتا تھا کہ حضرت عتبان بن مالک ایک صحابی تھے.جو نا بینا تھے.ان کا مکان قباء کے قریب تھا.مسجد اور ان کے مکان کے درمیان ایک وادی تھی.بارش ہوتی تو اس میں پانی بھر جا تا تھا مگر باوجوداس کے وہ مسجد میں با قاعدہ حاضر ہوتے اور نماز باجماعت ادا کرتے تھے.2- حضرت عتبان نے جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ سے درخواست کی کہ میں نابینا ہوں رستہ خراب ہے اس لیے مسجد میں آنے میں سخت دقت پیش آتی ہے.اگر اجازت ہوں تو گھر میں ہی نماز پڑھ لیا کروں.مگر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ کیا اذان کی آواز آتی ہے.عرض کیا ہاں.آپ نے فرمایا پھر گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں.چنانچہ آپ مسجد میں ہی حاضر ہو کر نماز پڑھتے.3- حضرت سعید بن ربوح نابینا تھے لیکن صحابہ کے نزدیک نماز با جماعت اس قدرضروری تھی کہ حضرت عمر نے ان کے لیے ایک غلام کی ڈیوٹی لگارکھی تھی کہ نماز کے وقت ان کو مسجد لایا اور پھر واپس گھر پہنچایا کرے.-4 حضرت معاذ اپنی قوم کے امام الصلوۃ تھے مگر نماز کا اس قدر شوق تھا کہ پہلے مسجد نبوی میں حاضر ہو کر آنحضرت ﷺ کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے.اور پھر اپنی قوم میں آکر انہیں نماز پڑھاتے تھے.-5 صحابہ کرام نماز با جماعت کے لیے کس قدر حریص واقع ہوئے تھے اس کا اندازہ کرنے کے لیے یہ واقعہ کافی ہے.کہ قادسیہ کے میدان جنگ میں جب صبح کی اذان ہوئی تو نوجوان مجاہدین اس قدر سرعت کے ساتھ نماز کے لیے دوڑے کہ ایرانیوں نے خیال کیا کہ حملہ کرنے لگے ہیں.مگر جب وہ نماز میں مشغول ہو گئے تو ان کے سپہ سالار رستم نے کہا.کہ عمر مسلم نوجوانوں کے میرا کلیجہ کھا گیا.یعنی یہ قوم ہمیں ضرور نگل جائے گی.128 - حضرت بلال کا معمول تھا کہ جب اذان کہتے دو رکعت نماز ادا کر لیتے اور ہمیشہ باوضو ر ہتے تھے.جب وضو ٹوٹ جا تا فورا دوبارہ کر لیتے تھے.7 عام عبادات اور نوافل کے علاوہ نماز پنجگانہ کو نہایت پابندی اور اہتمام کے ساتھ باجماعت ادا کرتے تھے.حضرت سفیان ثوری روایت کرتے ہیں كـــا نــوايـتبــايـعـون الصلوة المكتوبته في الجماعته یعنی صحابہ کرام خرید و فروخت تو کیا کرتے تھے لیکن نماز با جماعت کبھی نہ چھوڑتے.حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ ایک بار میں بازار میں تھا کہ نماز کا وقت آ گیا.صحابہ فوراً اپنی دکانیں اور کاروبار بند کر کے مسجد کی طرف چل دیئے.رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللہ یعنی صحابہ ایسے لوگ ہیں جن کو تجارت کے کاروبار خدا تعالیٰ کی یاد سے نہیں روکتے.نماز با جماعت کا صحابہ اس قدر خیال رکھتے تھے کہ سخت مجبوری اور معذوری کی حالت میں بھی اسے چھوڑ نا گوارا نہ کر سکتے تھے.حتی کہ بعض بیمار اور معذور دو آدمیوں کے کندھوں پر سہارا لے کر جماعت میں شریک ہونے کے لیے مسجد آتے تھے.بنو سلمہ کا محلہ مدینہ میں مسجد سے بہت دور تھا.ان کو پابندی جماعت کا اس قدر خیال رہتا تھا کہ مشورہ کیا کہ اپنے گھر بار چھوڑ کر مسجد کے قریب جا آباد ہوں.آنحضرت ﷺ کو اطلاع ہوئی تو آپ نے اس طرح ایک محلہ کو ویران کر دینے کی تجویز کو پسند نہ فرمایا اور فرمایا کہ تمہارا جو قدم بھی مسجد کی طرف اٹھے گا اس کا ثواب ملا کرے گا.10 - بروقت نماز ادا کرنے کا خیال صحابہ کے اس قدر دامن گیر رہتا تھا کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے ایک صحابی کو ایک فوری اور اہم کام پر مامور کر کے بھیجا.وہ منزل کے قریب پہنچے تو نماز عصر کا وقت ہو چکا تھا.آپ نے خیال کیا کہ اگر میں اسی طرح چلتا جاؤں تو ایسا نہ ہو نماز قضا ہو جائے.دوسری طرف دینی کام میں تاخیر بھی گوارا نہ تھی.اس لیے www.alislam.org

Page 65

130 مسلم نوجوانوں کے کارنامے 129 مسلم نوجوانوں کے نامے چلتے چلتے اشاروں میں ہی نماز ادا کر لی.11 - باجماعت نماز کے لیے صحابہ سخت سے سے سخت تکلیف بھی بخوشی برداشت کرتے تھے.ایک رات آنحضرت ﷺ کو کوئی نہایت ضروری کام پیش آگیا.صحابہ کرام عشاء کی نماز باجماعت ادا کرنے کے انتظار میں صبر کے ساتھ مسجد میں بیٹھے رہے.کئی بیٹھے بیٹھے سو گئے پھر جاگے، پھر سوئے اور پھر آنحضرت ﷺ کے تشریف لانے پر اٹھے.حضرت انس فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام نماز عشاء کے لیے اس قد لمبا انتظار کرتے تھے کہ نیند کے مارے ان کی گردنیں جھک جاتی تھیں.12.حضرت ابو سعید خضدری سے روایت ہے کہ صحابہ بعض اوقات نصف شب تک نماز عشاء کے لیے آنحضرت اللہ کا انتظار کرتے تھے.13 - باجماعت اور بر وقت نماز ادا کرنے کے لیے صحابہ نہایت ہی خضوع اور خشوع کے ساتھ حاضر ہوتے.اپنے خالق حقیقی کے حضور جبین نیاز خم کرنے میں ان کو جو مزا آتا تھا اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک مرتبہ نو جوان ایک پہاڑی درہ پر مامور تھے.جن میں سے ایک تو سو گئے اور دوسرے نے نماز شروع کر دی.اتنے میں ایک مشرک کا اس طرف سے گزر ہوا تو اس نے نماز پڑھنے والے مجاہد پر تین تیر چلائے.جو تینوں ہی ان کے جسم میں پیوست ہو گئے لیکن نماز میں محویت کا یہ عالم تھا کہ اف تک نہ کی.اور برا بر نماز پڑھتے رہے.آپ کے رفیق نے بیدار ہونے پر جب آپ کے جسم پر خون کے نشانات اور زخم دیکھے اور اس کی وجہ معلوم کی تو کہا تم نے مجھے پہلے کیوں نہ جگایا.کہنے لگے میں ایک سورت نماز میں پڑھ رہا تھا اور میں نے اس بات کو پسند نہ کیا کہ اسے نا تمام چھوڑ دوں.14 - جیسا کہ مذکورہ واقعات سے ظاہر ہو چکا ہے نماز صحابہ کے لیے بہت قیمتی چیز تھی اور اس کی راہ میں حائل ہونے والی کسی چیز کو وہ برداشت نہیں کر سکتے تھے.حضرت ابوطلحہ انصاری ایک مرتبہ اپنے باغ میں مصروف نماز تھے کہ ایک چڑیا پر نظر پڑی.اس کی رنگت اس قدر خوشکن تھی کہ دیر تک اسے دیکھتے رہے.نماز سے توجہ ہٹ گئی اور یہ بھی بھول گئے کہ کتنی رکعت باقی ہیں اور کتنی پڑھ چکے ہیں.اس سے آپ کو اس قدر قلبی اذیت پہنچی کہ آپ نے فیصلہ کر لیا کہ یہ باغ چونکہ میرے لیے فتنہ روحانی کا موجب ہوا ہے اس لیے اسے صدقہ کر دوں گا.چنانچہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے سارا واقعہ بیان کیا اور باغ صدقہ کر دیا.اسی طرح ایک اور صحابی نے جو نماز پڑھتے ہوئے کھجور کی فصل کو دیکھتے ہوئے بھول گئے کہ کتنی رکعت ادا کر چکے ہیں.اپنا باغ محض اس وجہ سے کہ وہ ان کی نماز میں غفلت کا موجب ہوا اسے صدقہ کر دیا.باغ س قدر قیمتی تھا کہ حضرت عثمان نے اسے پچاس ہزار درہم میں فروخت کیا.15 - حضرت انس کے متعلق آتا ہے کہ آپ قیام و سجدہ کو اس قد لمبا کرتے تھے کہ لوگ سمجھتے بھول گئے ہیں.یہ ان کی اکیلی نماز کے متعلق ذکر ہے.ورنہ جب کسی نماز میں انسان امام ہو تو اس وقت شریعت کا حکم ہے ملکی نماز پڑھائے تاکہ بیمار اور دوسرے لوگ اکتا نہ جائیں.16.عرب میں جب شدت کی گرمی پڑتی ہے وہ ظاہر ہے.نماز ظہر اس وقت ادا کی جاتی تھی جب سورج کی تمازت پورے جوبن پر ہوتی.اسلام کا ابتدائی زمانہ تھا اور مسلمانوں کی غربت کا یہ عالم تھا کہ مسجد پر چھت تک نہ تھی.پتھریلی زمین توے کی طرح تپ جاتی تھی.صحابہ کرام اسی زمین پر نماز پڑھنے کے لیے بڑے شوق کے ساتھ جمع ہوتے تھے.کنکریاں اٹھا کر ان پر پھونکیں مار مار کر پہلے ان کو ٹھنڈا کرتے اور پھر سجدہ کی جگہ پر رکھ لیتے اور ان پر سجدہ کرتے تھے.حضرت زید بن ثابت سے روایت ہے کہ نماز ظہر سے زیادہ کوئی نماز ہم پر مشکل نہ تھی لیکن پھر بھی اس میں غفلت نہ ہوتی تھی.جو نو جوان آج کل مسقف اور فرش سے آراستہ برقی پنکھوں کے نیچے بھی مساجد میں آکر نماز ظہر ادا کرنے میں تامل کرتے ہیں وہ اگر صحابہ کرام کے اس شوق پر نظر کریں تو شرم سے ان کی www.alislam.org

Page 66

مسلم نوجوانوں کے ی کارنامے گردنیں جھک جائیں.131 17 - ایک صحابی کا مکان مسجد سے بہت دور تھا مگر بایں ہمہ وہ کوئی نماز قضا نہ ہونے دیتے تھے اور با قاعدہ مسجد میں آکر ادا کرتے تھے.ایک صحابی نے ان سے کہا کہ کاش آپ سواری کے لیے گدھا خرید لیں تا دھوپ اور اندھیرے میں آنے جانے میں تکلیف نہ ہو.مگر انہوں نے کہا کہ میرا آنا جانا بھی نیکی ہے.اس لیے اس سے محروم نہیں ہونا چاہتا.اپنے خالق و مالک خدا کی عبادت اور بالخصوص نماز باجماعت ادا کرنے کی اسلامی تعلیم کے مطابق جس قدر اہمیت ہے وہ کسی تشریح کی محتاج نہیں لیکن افسوس ہے کہ ہمارے زمانہ میں بالخصوص نوجوان اور آسودہ حال طبقہ اس میں بے حد غفلت کا مرتکب پایا جا تا اور آرام طلبی اور فضول مجالس و مشاغل کے باعث عبادت الہی اور نماز کی پابندی میں بہت ست ہورہا ہے.اور مسلمانوں کے تنزل کا سب سے اہم سبب یہی کوتا ہی ہے.صحابہ کرام کے مندرجہ بالا واقعات نے آپ پر ثابت کر دیا ہے کہ آنحضرت ﷺ سے براہ راست تعلیم حاصل کرنے اور حضور کے فیض صحبت سے بلا واسطہ استفادہ کرنے والوں کے نزدیک یہ چیز کس قدر ضروری اور اہم تھی.ان واقعات میں ایک اور چیز جو آپ کو نمایاں نظر آئے گی وہ یہ ہے کہ عبادت کے معاملہ میں امیر طبقہ بھی ایسا ہی مستعد ہے جیسا غریب تندرست و معذور چھوٹے اور بڑے مرد وعورت سب یکساں طور پر اس کے حریص تھے.اور اس راہ میں انتہائی مشکلات کی برداشت بخوشی کرتے تھے.ان واقعات سے ہمارے نوجوانوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے.کیونکہ صحابہ کرام کا نوجوان طبقہ اس کا جس قدر مشتاق تھا.اس زمانہ کے مسلمان نوجوان اسی قدرست نظر آتے ہیں.بے شک جوانی کا زمانہ امنگوں اور آرزوؤں کا زمانہ ہے.دلچسپیوں اور مسرتوں کا زمانہ ہے لیکن اس میں بھی کلام نہیں کہ اس عمر کی عبادت بھی خاص درجہ رکھتی ہے.ان واقعات میں وہ مثالیں بالخصوص اس زمانہ کے لحاظ سے اہم ہیں کہ بعض صحابہ نے اپنے قیمتی باغ اور نخلستان محض اس لیے راہ خدا میں صدقہ کر دیئے اور ان کو اپنے قبضہ میں رکھنا پسند نہ کیا مسلم نوجوانوں کے (132) کہ ان کی وجہ سے نماز میں ان کے استغراق اور محویت میں فرق آیا تھا.نیز نماز کے وقت صحابہ کا تمام کاروبار اور بازار بند کر کے مسجد میں جا پہنچنا بھی ایک قابل تقلید نمونہ ہے.افسوس ہے کہ آج لوگ نماز اور عبادت کی خاطر اپنا معمولی سے معمولی نقصان بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے.دکاندار نماز با جماعت سے اکثر محروم رہتے ہیں.محض اس وجہ سے کہ دکان سے اٹھ کر جانے سے بکری میں کچھ کمی آجانے کا احتمال ہے.ان دونوں ذہنیتوں کو اگر بالمقابل رکھ کر دیکھا جائے تو صحابہ کرام کی ترقیات اور اس زمانہ کے مسلمانوں کی پستی کی وجوہ بہت اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہیں.جماعت احمدیہ صحابہ کرام کی مثیل ہے.اور اس میں شک نہیں کہ وہ بہت حد تک عبادت و نماز کی پابندی میں اپنے بزرگوں کے اسوہ کو پیش نظر رکھتی ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ابھی اس میں بھی کئی افراد ایسے ہیں جو اپنی حالت میں بہت بڑی اصلاح کے محتاج ہیں.اور نو جوانوں میں بالخصوص اس پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے.اور مختصر تو یہ ہے کہ جو شخص نماز سے بھی غافل ہے اور اس کو اس کے تمام شرائط کے ساتھ ادا کرنے میں بلا وجہ کوتاہی کرتا ہے وہ کس منہ سے ان بزرگوں سے مماثلت کا دعوی کر سکتا ہے.ا.( بخاری کتاب الصلوۃ) ۳.(اسوہ صحابہ ج 2) ؟ ۵- ( تاریخ طبری ص 2291) حوالہ جات.(مسند احمد ج 4 ص 43) ۴.(ابوداؤد کتاب الصلوۃ) ۶.(مسند احمد ج 5 ص 30) ے.(فتح الباری ج 4 ص 253) ۸- ( نسائی کتاب الامامة ) ۹.(ابن ماجہ کتاب الصلوۃ) ۱۱.( بخاری کتاب الصلوۃ) ۱۴.(موطا كتاب الصلوۃ) ۱۰.(ابوداؤ د کتاب الصلوۃ) ۱۲.( ابوداؤ د کتاب الصلوۃ) ۱۵.( بخاری کتاب الصلوۃ) ۱۲.( ابوداؤد کتاب الصلوۃ) ۷.(ابوداؤ د کتاب الصلوۃ) www.alislam.org

Page 67

(134) مسلم نوجوانوں کے کارنامـ 133 مسلم نوجوانوں کے رنامے آنریری قومی خدمت و بے نفسی حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب امور سلطنت کی سرانجام دہی کے لیے عمال کی ضرورت بکثرت پیش آنے لگی تو انہیں عمال کے انتخاب میں ایک بہت بڑی دشواری یہ پیش آئی کہ یہ لوگ حق الخزمت لینازہد و تقاء کے منافی سمجھتے تھے اور قومی خدمت بغیر معاوضہ ادا کرنا پسند کرتے تھے.1- ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن سعدی حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے فرمایا کہ کیا مجھے خبر نہیں کہ آپ بعض ملکی خدمات سرانجام دیتے ہیں.لیکن جب کوئی معاوضہ پیش کیا جاتا ہے تو اسے لینے سے انکار کر دیتے ہیں.حضرت عبداللہ نے جواب دیا کہ میرے پاس گھوڑے ہیں اور میری مالی حالت اچھی ہے اس لیے چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کی خدمت کروں.2 حضرت عبد اللہ بن ارقم آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں مراسلات کی کتابت پر مامور تھے.حضرت ابوبکر کے زمانہ اور پھر حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بھی اس خدمت کو سرانجام دیتے رہے.بلکہ حضرت عمر نے انہیں خزانچی بھی مقرر کر دیا تھا.حضرت عثمان کے زمانہ میں جب سبکدوش ہوئے تو انہوں نے تمیں ہزار یا بعض روایات کے مطابق دو لاکھ درہم بطور معاوضہ پیش کیے.مگر آپ نے لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں نے یہ کام خدا تعالیٰ کی رضا کے لیے کیا ہے.اور وہی مجھے اسکا اجر دے گا.3.اس سے کس کو انکار ہو سکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی خدمت اسلام کی سب سے بڑی خدمت تھی.کیونکہ حضور کی ذات سے ہی اسلام کا قیام وابستہ تھا.اس لیے صحابہ گرام آنحضرت ﷺ کی خدمت بھی بڑے شوق سے کرتے تھے.اور اس کے لیے کوئی معاوضہ پسند نہ کرتے تھے.حضرت ربیعہ بن سلمی کے متعلق آتا ہے کہ آپ دن رات خدمت کے لیے آپ کے حضور کمر بستہ رہتے تھے.عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر جب آنحضرت مہ اپنے گھر تشریف لے جاتے تو حضرت ربیعہ دروازہ پر بیٹھ جاتے.تا اگر حضور علیہ السلام کو کوئی ضرورت پیش آئے تو اسے پورا کر سکیں.ایک بار آنحضرت ﷺ نے ان کو خدمت کا کچھ معاوضہ دینا چاہا.لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور کہا.یا رسول اللہ مجھے صرف اس چیز کی ضرورت ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور میری شفاعت کر دیں کہ آگ سے نجات ہو جائے.ایک بار آنحضرت ﷺ نے ان کو شادی کرنے کا مشورہ دیا مگر انہوں نے کہا کہ چھنجٹ حضور کی خدمت گزاری میں مخل ہوگا.اس لیے مجھے پسند نہیں.4.ان کے علاوہ اور بھی کئی صحابہ تھے.جنہوں نے اپنی زندگیاں خدمت نبوی کے لیے وقف کر رکھی تھیں.حتی کہ معمولی خدمات بھی نہایت اہتمام سے ادا کرتے تھے.آنحضرت ﷺ کو صلى الله ٹھنڈا پانی بہت مرغوب تھا.چنانچہ ایک صحابی نے یہ خدمت اپنے ذمہ لے رکھی تھی اور آپ کے لیے پانی ٹھنڈا کر کے لایا کرتے تھے..آج کل یہ مرض عام ہے کہ جو کام کسی کے سپرد کیا جائے وہ پہلے یہ دیکھتا ہے کہ اسے مالی لحاظ سے کیا فائدہ ہوگا.لیکن صحابہ کرام اس قسم کے خیالات سے بالا تر تھے.ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عمرو بن العاص سے فرمایا.کہ میں تم کو ایک مہم پر بھیجنا چاہتا ہوں.خدا تعالیٰ مال غنیمت دے گا تو اس میں سے کثیر حصہ تمہیں ملے گا.آپنے جواب دیا کہ میں مال کے لیے مسلمان نہیں ہوا.صرف اس لیے اسلام لایا ہوں کہ آپ کا فیض صحبت حاصل ہو.حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی آنحضرت ﷺ کے ایک خادم تھے.ایک مرتبہ آپ نے چاہا کہ ان کو کچھ معاوضہ دیں.چنانچہ فرمایا کہ کچھ مانگو.انہوں نے جواب میں کہا کہ یارسول اللہ میں جنت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں اور کچھ نہیں.آپ نے فرمایا کچھ اور.تو انہوں نے کہا کہ بس یہی ایک چیز چاہتا ہوں.آپ نے فرمایا کہ کثرت سے نماز پڑھو.تو تمہیں دولت نصیب ہوگی.www.alislam.org

Page 68

136 مسلم نوجوانوں کے سند کارنامے 135 مسلم نوجوانوں کے نامے -7 بے نفسی اور کسی طمع ولالچ سے بے نیاز ہو کر قومی خدمت سرانجام دینے کی تاریخ میں حضرت خالد بن ولید کا واقعہ سب سے زیادہ ممتاز ہے.بعض وجوہ کی بناء پر حضرت عمر نے اپنے زمانہ خلافت کی ابتدء میں ہی ان کو لشکر اسلامی کی سپہ سالاری کے عہدہ جلیلہ سے معزول کر دیا اور حضرت ابوعبیدہ کے ماتحت کر دیا.حضرت خالد بن ولید کی جنگی خدمات، بہادری، جرات ، تدبر اور معاملہ نہی کے واقعات سے تاریخ اسلام کے صفحات بھرے پڑے ہیں.یہ انہی کی جانبازانہ مساعی کا نتیجہ تھا کہ جنگ یرموک میں رومی امپریلزم کی کمر ہمت ٹوٹ گئی.اور قیصر کا ایوان مسلمانوں کے رعب سے کانپنے لگا.لیکن اس کے باوجود حضرت عمرؓ نے ان کا عزل ضروری سمجھا اور اس کے احکام صادر کر دیئے.حضرت خالد نے نہایت کشادہ پیشانی کے ساتھ خلیفہ وقت کے احکام کی تعمیل کی.اور دل میں کوئی انقباض بھی پیدا نہیں ہونے دیا.حضرت ابو عبیدہ کے ماتحت ہو کر بھی وہ اسی جانبازی اور سرفروشی کے ساتھ میدان جہاد میں داد شجاعت دیتے نظر آتے ہیں.جس طرح اپنے سپہ سالار ہونے کے وقت میں تھے.دراصل یہی جذبہ ہے جسکے ماتحت قومی خدمات کوئی نتیجہ پیدا کر سکتی ہیں.جولوگ معمولی اور برائے نام عہدوں کی وجہ سے قومی وملی کاموں میں رکاوٹیں ڈالتے اور ایسے بگڑ جاتے ہیں کہ بجائے کسی امداد کے تخریبی مساعی میں حصہ لینے لگتے ہیں.وہ قوم کے لیے ایک لعنت ہیں.قومی خدمت میں خلوص، بے نفسی اور شہرت سے بعد ہونا چاہیے.اور جو قومی کام کسی کے سپرد ہوا سے نفسانی جذبات سے بلند و بالا رہ کر ادا کرنا چاہیے.اور یہی وہ سپرٹ ہے جو کسی قوم کی کامیابی کی ضامن ہوسکتی ہے.ا.(مسند احمد ج 1 ص 17) ۳.(مسند احمد ج 4 ص 58) حوالہ جات ۲.(اسد الغابہ ج 3 ص 68) ۴.(مسلم کتاب الزہد ) ؟ ۵- (ادب المفرد باب اعمال الصالح) ۶.(ابوداؤد کتاب الصلوة ) سادہ معاشرت 1 صحابہ کرام میں سے وہ لوگ بھی جن کو اللہ تعالیٰ نے مال کثرت سے دے رکھا تھا، ہمیشہ کھانے اور پہننے میں سادگی اختیار کرتے تھے.حضرت عبدالرحمن بن عوف بہت مالدار شخص تھے.یہاں تک کہ ان کے ورثاء نے سونے کی اینٹوں کو تقسیم کرنے کے لیے کلہاڑیوں سے کٹوایا تھا اور کاٹنے والوں کے ہاتھوں میں آبلے پڑ گئے تھے.نقد دولت میں سے بیویوں کو آٹھویں حصہ میں سے اسی اسی ہزار دینار آئے تھے.ہزاروں اونٹ اور بکریاں ان کے علاوہ تھیں.(اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 317).مگر با ایں ہمہ کھانے پینے میں تکلفات سے بالکل بالا تھے.اور آپ کا دستر خوان گو بہت وسیع ہوتا لیکن تکلف نام کو نہ ہوتا تھا.اور ابتدائی ایام میں مسلمانوں کے فقر وفاقہ کو یاد کر کے آنکھیں پرنم ہو جاتی تھیں.2.حضرت جابر بن عبداللہ گو نہایت ہی بلند مرتبت صحابی تھے مگر ساتھ ہی بہت سادگی پسند اور بے تکلف تھے.ایک دفعہ بعض صحابہ ان سے ملنے آئے آپ اندر بیٹھے سرکہ کے ساتھ روٹی کھا رہے تھے.وہی اٹھا کر ان دوستوں کے پاس لے آئے.اور ان کو شریک طعام ہونے کی دعوت دی.اور ساتھ فرمایا کہ اگر کسی کے پاس اس کے دوست احباب آئیں تو اسے چاہیے کہ جو کچھ حاضر ہو پیش کر دے.اور مہمانوں کو بھی چاہیے کہ کسی چیز کو حقارت سے نہ دیکھیں اور بے تکلفی کے ساتھ ماحضر تناول کر لیں.کیونکہ تکلف فریقین کی ہلاکت کا موجب ہے.- اس ضمن میں حضرت عمر کا ایک واقعہ بھی بہت سبق آموز ہے.آپ ایک دفعہ اپنی بیٹی حضرت حفصہ کے ہاں تشریف لائے.تو انہوں نے سالن میں زیتون کا تیل ڈال کر پیش کیا تو آپ نے فرمایا کہ ایک وقت میں دو دو سالن.خدا کی قسم کبھی نہ کھاؤں گا.یاد رکھنا چاہیے کہ عرب میں زیتون کا تیل بھی سالن کی بجائے روٹی کے ساتھ کھایا جاتا ہے.www.alislam.org

Page 69

138 مسلم نوجوانوں کے کارنامـ 137 مسلم نوجوانوں کے رنامے 4 - حضرت مصعب بن عمیر نہایت خوشرو نوجوان تھے.والدین مالدار تھے اس لیے بہت ناز و نعم میں پرورش پائی تھی.نہایت بیش قیمت لباس زیب تن کیا کرتے تھے اور اعلی درجہ کی خوشبوئیں اور عطریات کے استعمال کے عادی تھے.آنحضرت ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ مکہ میں مصعب سے زیادہ کوئی حسین ، خوش پوش اور ناز و نعم میں پلا ہوا نہیں.لیکن یہ حالت اسلام لانے سے قبل کی تھی.جب اسلام لائے تو رسول کریم ﷺ کی تربیت کا ایسا اثر ہوا کہ یہ تمام تکلفات فراموش ہو گئے.اور یہاں تک تبدیلی پیدا ہوگئی کہ ایک دفعہ دربار نبوی میں حاضر ہوئے تو بدن پر ضروریات ستر کو پورا کرنے کے لیے صرف ایک کھال کا ٹکڑا تھا.جس میں کئی پیوند لگے ہوئے تھے.آنحضرت ﷺ نے دیکھا تو فرمایا.الحمد اللہ اب سب اہل دنیا کی حالت بدل جانی چاہیے.یہ وہ نوجوان ہے جس سے زیادہ ناز و غم کا پہلا ہوا مکہ میں کوئی نہ تھا.لیکن خدا اور سول کی محبت نے اسے ظاہری تکلفات سے بے نیاز کر دیا ہے.5- حضرت سلمان فارسی کے متعلق یہ ذکر آچکا ہے کہ آپ مدائن کے گورنر تھے.لیکن طرزِ معاشرت اور ظاہری لباس میں اس قدر سادگی تھی کہ ایک دفعہ کسی شخص نے بازار سے گھاس خریدی تو انہیں مزدور سمجھ کر گانٹھے ان کے سر پر لاد دی.کسی واقف کار نے دیکھا تو اس سے کہا کہ یہ تو ہمارے امیر اور رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ہیں.اس پر وہ بہت نادم ہوا معذرت چاہی اور گانٹھ اتارنے کے لیے لپکا.مگر آپ نے فرمایا کہ نہیں اب تو تمہارے مکان پر پہنچ کر ہی اتاروں گا.6- حضرت عبداللہ بن عمر کی زندگی دیگر صحابہ کی طرح بہت سادہ تھی.ایک دفعہ کسی نے ان کے لیے بیش قیمت کپڑے بطور ہدیہ بھیجے تو انہیں یہ کہہ کر واپس کر دیئے کہ میں غرور کے خوف سے ان کو پہن نہیں سکتا.7 صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا تمدن بے حد سادہ تھا.حتی کہ شادی بیاہ کے مواقع پر بھی انتہائی سادگی نظر آتی تھی.اگر کسی کے پاس مال و دولت نہ ہوتو وہ مقروض ہو کر اپنی زندگی کو تلخ نہیں بناتے تھے.بلکہ جو میسر ہوا اسی پر کفایت کر لیتے تھے.اور چونکہ یہ روح ہر ایک میں تھی اس لیے اس بات کو معیوب بھی خیال نہیں کیا جاتا تھا بلکہ اچھا سمجھا جاتا تھا.ایک صحابی ایک عورت سے شادی کرنا چاہتا تھا.آنحضرت ﷺ نے فرما یا مہر کے لیے کچھ ہے.بولے صرف تہبند ہے.آپ نے فرمایا اگر یہ مہر میں دے دو تو ستر پوشی کیسے کرسکو گے.کچھ اور تلاش کرو.اور نہیں تو لوہے کی ایک انگوٹھی ہی سہی.آپ نے قرآن کی چند سورتوں کا سکھانا مہر مقرر کر کے نکاح پڑھا دیا.۲ حضرت ابوبکر کے متعلق سب کو معلوم ہے کہ آپ متمول اور امیر آدمی تھے.علاوہ ازیں اسلام میں انکو بہت بڑا مقام حاصل تھا.خاندانی وجاہت اور عزت کے علاوہ آپ اپنے زہد و تقدس او فدائیت کی وجہ سے تمام مسلمانوں کی آنکھ کا تارا تھے.لیکن طرز معاشرت نہایت سادہ تھی.نہایت معمولی لباس زیب تن فرماتے اور سادہ غذا کھاتے تھے.9 - حضرت عمر نے اسلامی مجاہدین کے لیے جو چیزیں ضروری قرار دے رکھی تھیں.ان میں اس بات کا خاص خیال رکھا تھا کہ ان میں عیش و عشرت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی طرف رغبت پیدا نہ ہو سکے.اور مشقت پسندی ، اور تکالیف کی برداشت کی عادت اور جفا کشی قائم رہے.چنانچہ ان کو تیرنے.گھوڑے کی سواری، نشانہ بازی، اور ننگے پاؤں چلنے کی مشق کرائی جاتی تھی.نیز حکم تھا کہ وہ رکاب کے سہارے گھوڑے پر سوار نہ ہوں ،حماموں میں غسل نہ کیا کریں، دھوپ میں کھانا کھانا نہ چھوڑیں اور نرم کپڑے نہ پہنا کریں.10 - یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ صحابہ کی سادگی تنگ دستی کی وجہ سے تھی.وہ سادہ زندگی اس واسطے بسر کرتے تھے کہ اسوہ رسول کریم ﷺ اور تعلیم اسلام سے انہوں نے یہی اخذ کیا تھا.اور اسے تعلیم اسلام کا ایک ضروری حصہ سمجھتے تھے.چنانچہ روم و ایران کی فتوحات کے بعد بھی جب دولت و اموال کی کثرت تھی اس وقت بھی صحابہ کرام نہایت سادہ زندگی بسر کرتے تھے.ایک دفعہ ام المومنین حفصہ نے حضرت عمر سے کہا کہ اب تو خدا تعالیٰ نے فراخی عطا www.alislam.org

Page 70

140 مسلم نوجوانوں کے کارنامے 139 مسلم نوجوانوں کے نامے فرمائی ہے آپ عمدہ غذا اور اچھے کپڑے استعمال کیا کریں.تو آپ نے جوابدیا کہ خدا کی قسم میں تو اپنے آقا کے نقش قدم پر ہی چلوں گا.خواہ کتنی خوش حالی کیوں نہ نصیب ہو اور اس کے بعد دیر تک آنحضرت ﷺ کی سادگی اور عسرت کا تذکرہ کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت حفصہ بے قرار ہوکر رونے لگیں.11- ایک مرتبہ حضرت عمر یزید بن ابی سفیان کے ساتھ کھانے پر بیٹھے ، دستر خوان پر عمدہ کھانے لائے گئے تو آپ نے کھانے سے انکار کر دیا.اور فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر تم اسوہ رسول اللہ ﷺ کو ترک کرو گے تو صراط مستقیم سے دور جاپڑو گے.12 - حضرت عمر با وجود یہ کہ شہنشاہ کی حیثیت رکھتے تھے پھر بھی ضرورت سے زیادہ کپڑے نہیں بنواتے تھے.ایک دفعہ آپ دیر تک گھر سے باہر نہ آئے اور لوگ انتظار کرتے رہے.دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ کپڑے میلے ہو گئے تھے اس لیے ان کو دھو کر سو کھنے کا انتظار کر رہے تھے.ایک دفعہ ایک شخص نے آپ سے کہا کہ آپ کی غذا اتنی سادہ اور معمولی ہوتی ہے کہ ہمارے لیے اسکا کھانا دشوار ہوتا ہے.آپ نے فرمایا.کیا تم سمجھتے ہو کہ اعلیٰ درجہ کی غذا کھانے کی طاقت نہیں رکھتا.یہ میچ نہیں.خدا تعالیٰ کی قسم ہے اگر مجھے قیامت کا خوف نہ ہوتا تو میں بھی نہایت اعلیٰ درجہ کی غذائیں کھا سکتا تھا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سادگی عدم مقدرت کی بناء پر نہ تھی بلکہ اکا برصحابہ اسے اسلامی تعلیم کا جزو سمجھتے تھے.13- ایک مرتبہ حضرت عمر نے بعض صحابہ کو عراق کی ایک مہم پر روانہ فرمایا.وہ وہاں سے کامیاب و کامران واپس آئے تو زرق برق لباس میں ملبوس تھے.حضرت عمرؓ نے ان کو دیکھا تو منہ پھیر لیا.اور بات تک نہ کی.وہ اس برہمی کی وجہ سمجھ گئے.وہاں سے اٹھ کر گھروں کو گئے اور سادہ لباس پہن کر واپس آئے.تو آپ ان کے ساتھ نہایت خندہ پیشانی سے ملے اور ہرا ایک سے بغلگیر ہوئے.جو ثبوت ہے اس بات کا کہ حضرت عمر سادہ لباس کو تعلیم اسلام کے ماتحت ضروری سمجھتے تھے.اور سادگی تنگ دستی کے نتیجہ میں نہ تھی.14 - حضرت عثمان امرائے عرب میں سے تھے اور اگر چاہتے تو امیرا نہ ٹھاٹھ رکھ سکتے تھے.لیکن آپ نے کبھی زیب وزینت کی چیز میں استعمال نہیں کیں.حتی کہ اس زمانہ میں عرب کے متوسط طبقہ کے لوگ جو کپڑے استعمال کرتے تھے اس سے بھی آپ پر ہیز کرتے تھے.15- آنحضرت ﷺ کے جگر گوشہ حضرت فاطمۃ الزہرا کی شادی حضرت علیؓ کے ساتھ ہوئی.تو جہیز میں ایک پلنگ، ایک بستر ، ایک چادر، دو چکیاں اور ایک مشکیزہ دیا گیا.اور آپ کی دعوت ولیمہ میں صرف کھجور ، جو کی روٹی، پنیر اور شور بہا تھا.اس پر بھی حضرت اسماء کا بیان ہے کہ اس زمانہ میں اس سے زیادہ پر تکلف ولیمہ نہیں ہوا.آج مسلمانوں کی ابتر حالت دیکھ کر ہر دردمند کا دل خون ہو جاتا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اس کے علاج تک عوام کی نظر تو جاتی نہیں اور لیڈروں کو اس کی طرف کوئی توجہ نہیں.فی زمانہ مسلمانوں کے مصائب کی وجوہ میں سے ایک بڑی وجہ ان کی کام سے نفرت اور پر تکلف زندگی کی عادت ہے.مسلمانوں میں بریکاری بہت زیادہ ہے.نوجوان بالخصوص کام سے متنفر ہیں.اور جو کام انکے خودساختہ معیار کے مطابق نہ ہوا سے اختیار کرنے سے گریز کرتے ہیں.اور اس کے ساتھ اپنے آپ کو ایسے تکلفات اور بے جا اسراف کا عادی بنا رکھا ہے کہ جس میں اخراجات بہت زیادہ ہیں.اور ظاہر ہے کہ جب انسان ایسی مشکلات میں مبتلا ہو تو دین کی راہ میں قربانی بھی مشکل ہوتی ہے.صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تمدن اور سادہ زندگی کا نقشہ متذکرۃ الصدر مثالوں سے بالکل واضح اور نمایاں صورت میں ہمارے سامنے آجاتا ہے.عسرت کی حالت کو نظر انداز کر دیں پھر بھی آپ دیکھیں گے کہ وہ لوگ بالکل سادہ تھے.حتی کہ جب اموال بکثرت آنے شروع ہوئے اس وقت www.alislam.org

Page 71

142 مسلم نوجوانوں کے 141 مسلم نوجوانوں کے نامے.بھی ان کی سادگی میں کوئی فرق نہیں آیا.اور انہوں نے معلم ربانی سے جو تعلیم حاصل کی تھی اسے کسی حالت میں بھی نظر انداز نہیں کیا.نہ کھانوں میں اسراف کے عادی ہوئے اور نہ پہننے میں، شادی بیاہ کے موقع پر بھی اس سادگی کو بدستور قائم رکھتے تھے.حتی کہ شہنشاہ کونین سرور دو صلى الله عالم ﷺ نے اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمتہ الزہرا کی شادی ایسے رنگ میں کی کہ آج کوئی معمولی سے معمولی حالت رکھنے والا مسلمان بھی کرنا گوارا نہ کرے گا.مسلمان شادی بیاہ پر آج جس قدر اسراف کرتے ہیں اس کا مقابلہ آنحضرت ﷺ کے اسوہ کے ساتھ کرتے ہوئے شرم آ جاتی ہے.اگر استطاعت ہو تو ایک حد تک جائز خرچ کو گوارا بھی کیا جاسکتا ہے لیکن آج جو مصیبت در پیش ہے وہ یہ ہے کہ پاس نہ ہونے کی صورت میں قرض اٹھایا جاتا ہے.جو بعض صورتوں میں کئی پشتوں تک ادا نہیں ہوتا اور دادا کی غلطی پوتوں تک کی زندگی کو اجیرن کیے رکھتی ہے.آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں دین کی راہ میں قربانیوں کا رنگ اور تھا.اور آج بالکل اور ہے.آج سب سے زیادہ مالی قربانیوں کی ضرورت ہے.اور ظاہر ہے کہ جب تک انسان اپنی ضروریات کو محدود کر کے اپنی آمدنی میں سے کچھ بچت نہ کرے وہ مالی قربانی کرنے کے قابل کسی صورت میں نہیں ہوسکتا.اور اسی وجہ سے جماعت احمدیہ کے امام حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ نے مخالفین کے مقابلہ میں جماعت کی مضبوطی کے لیے جو تحریک کی اس میں سادہ زندگی اختیار کرنے پر خاص زور دیا گیا ہے.سادہ کھانا، سادہ کپڑے پہنا،ضروریات سے زیادہ کپڑے نہ بنوانا اور اس طرح کے غیر ضروری اخراجات مثلاً عورتوں کے لیس، فیتہ، گوٹا، کناری اور پھر بے فائدہ بلکہ مخرب الاخلاق اخراجات مثلا سینما، تھیٹر، سرکس وغیرہ تماش بینیوں کی ممانعت فرمائی ہے.اور ان باتوں پر عمل کرنا جہاں ہمارے لیے اخروی نجات کا ذریعہ بن سکتے ہے.وہاں ہمیں طرح طرح کی تمدنی اور اقتصادی پریشانیوں سے بھی نجات دلا سکتا ہے.اور یہ ایک ایسی مفید اور مبنی یہ دور اندیشی تجویز ہے کہ اگر آج مسلمان من حیث القوم اسے اختیار کر لیں تو جہاں ایک طرف وہ اپنے پیغمبر ﷺ اور بزرگان دین کے نقش قدم پر چل کر ثواب حاصل کریں گے.وہاں تمدنی مشکلات سے بھی نجات حاصل کر سکیں گے.اور اقتصادی حالت کی درستی کے ساتھ اس قابل ہوسکیں گے کہ قومی طور پر ترقی کرسکیں.حوالہ جات ا.(اصابہ ج 4 ص 177) (اسد الغابہ ج 3 ص 375) ۳.(اسد الغابہ ج 3 ص 653) (ابن سعد ج 4 ص 88) ے.(ابوداؤد کتاب النکاح) ۹.(ابوداؤ د کتاب الخراج) ا.(کنز العمال ج 12 ص 621) ۲.( مسند احمد ج 1 ص 371) ۴.(ابن سعد ج 1 ص 82).(ابن سعد ج 4 ص 161) ابن سعد ج 3 ص 139) ۱۰.(کنز العمال ج 12ص635) ۱۲.(کنز العمال ج 12ص624) ۱۳.(کنز العمال ج12 ص 637) ۱۴.(زرقانی ج 2 ص 8) www.alislam.org

Page 72

144 مسلم نوجوانوں کے سند کارنامے 143 مسلم نوجوانوں کے ارنامے قرض کی وصولی میں آسانی مقروض کے ساتھ نرمی اور احسان کا سلوک کرنا بھی اعلیٰ اخلاق میں سے ہے اور اسلام نے اس کی خاص طور پر تعلیم دی ہے.اس لیے صحابہ اس کا خاص خیال رکھتے تھے.-1- حضرت ابو قتادہ ایک نوجوان صحابی تھے.ایک مسلمان پر ان کا قرض آتا تھا.یہ مانگنے کے لیے جاتے مگر ملاقات نہ ہوتی.اور ممکن ہے وہ عمدا سامنے نہ آتا ہو کیوں کہ تنگ دستی انسان کے لیے سخت ندامت کا موجب ہو جایا کرتی ہے.ایک روز یہ گئے تو بچے نے باہر آ کر بتادیا کہ میرے والد صاحب گھر میں موجود ہیں.آپ نے آواز دی اور کہا کہ مجھے علم ہو گیا ہے کہ تم گھر میں ہو.اس لیے ضرور باہر آ جاؤ.آخر وہ آیا تو آپ نے پوچھا کہ چھپنے کی کیا وجہ تھی.اس نے کہا کہ بات دراصل یہ ہے کہ میں بہت تنگ دست ہوں.عیال دار آدمی ہوں.آمدنی محدود ہے اس لیے قرض ادا نہیں کرسکا.اور ندامت کی وجہ سے سامنے بھی نہیں ہوتا رہا.آپ نے کہا کہ تمہیں خدا کی قسم واقعی تمہاری یہی حالت ہے.اس نے قسم کھا کر کہا تو آپ آبدیدہ ہو گئے اور سارا قرض اسے معاف کر دیا.2- حضرت ابوالیسر کعب بن عمر و بھی نو جوان صحابہ میں سے تھے.بنو حرام کا ایک شخص ان کا مقروض تھا.اور چونکہ ادائیگی کی استطاعت نہ تھی اس لیے سامنے آنے سے گریز کرتا تھا.آخر ایک دن وہ ملا اور اپنے فقر و افلاس کی داستان ایسے الم ناک پیرا یہ میں بیان کی کہ آپ کا دل بھر آیا.کاغذ منگوا کر اس پر وصولی کر دی اور کہا کہ اگر کبھی مقدرت ہوئی تو ادا کرد دینا ور نہ میں معاف کرتا ہوں.حوالہ جات ا.(مسند احمد ج 5 ص 308) ۲.(مسلم ج 2 ص 45) ادائیگی قرض قرض کی وصولی میں مقروض کے ساتھ آسانی اور سہولت کے معاملہ کی مثالیں آپ پڑھ چکے ہیں.اس کا دوسرا حصہ اپنے قرض کی ادائیگی ہے.صحابہ کرام جہاں دوسروں سے اپنے قرض کی وصولی میں سہولت کا معاملہ کرتے تھے وہاں اپنے قرض ادا کرنے میں نہایت محتاط تھے.چند واقعات درج ذیل ہیں.1- حضرت عبداللہ بن مسعود نے ایک مرتبہ کسی شخص سے ایک لونڈی خریدی.لیکن قیمت ابھی بے باق نہ ہوئی تھی کہ وہ شخص مفقود الخبر ہو گیا.حضرت عبداللہ ایک سال تک اس کی تلاش میں رہے لیکن وہ نہ ملا.آخر جب اس کے ملنے سے مایوس ہو گئے تو ایک ایک دو دو درہم کر کے اس کی طرف سے صدقہ کر دیا.ساتھ یہ وعدہ بھی کیا کہ اگر وہ واپس آگیا تو اسے بھی قیمت ادا کر دوں گا.اور یہ صدقہ میری طرف سے ہوگا.2 حضرت زبیر بن العوام کے متعلق یہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ باوجود تمول و ثروت کے وفات کے وقت آپ پر بائیس لاکھ روپیہ قرض تھا.آپ جب ایک جنگ میں شرکت کے لیے روانہ ہونے لگے تو گھر والوں سے کہا کہ مجھے اپنے قرض کا سب سے زیادہ خیال ہے.اگر میں شہادت پاؤں تو میرا مال و متاع فروخت کر کے سب سے پہلے میرا قرض ادا کرنا.حضرت زبیر کی مذکورہ بالا وصیت کے مطابق ان کے صاحبزادہ کی طرف سے مسلسل چار سال تک حج کے موقعہ پر یہ اعلان کرایا جاتا رہا کہ میرے والد کے ذمہ کسی کا قرض ہو تو مجھ سے وصول کرے.-4 فیاضی کے عنوان کے ماتحت یہ واقعہ درج ہو چکا ہے کہ حضرت سعید بن العاص اس قدر فیاض تھے کہ اگر کسی وقت کچھ پاس نہ ہوتا تو حاجت مند کو ہنڈی تحریر کر کے دیتے تھے کہ پھر آکر وصول کر لے.ایک دن مسجد سے واپس آرہے تھے کہ ایک شخص ساتھ ہولیا.آپ نے www.alislam.org

Page 73

146 مسلم نوجوانوں کے کارنامـ 145 مسلم نوجوانوں کے نامے اس سے پوچھا.کیا کوئی کام ہے تو اس نے کہا نہیں.آپ اکیلے تھے.یونہی ساتھ ہولیا.آپ نے کاغذ قلم اور دوات منگوائی اور اسے بیس ہزار کی ہنڈی تحریر کر دی.اتفاق کی بات ہے کہ آپ کی وفات ہوگئی لیکن وہ شخص اس ہنڈی کو کیش نہ کر سکا.وفات کے بعد اس شخص نے وہ ہنڈی ان کے صاحبزادہ حضرت عمر کے سامنے پیش کی تو انہوں نے اسے فور التسلیم کر لیا اور بلا چون و چرا رو پیادا کر دیا.ہمارے زمانہ کے لوگوں کو اس واقعہ پر غور کرنا چاہیے.آج کل یہ حالت ہے کہ بعض لوگ خود جو قرض لیتے ہیں اسے بھی ادا کرنے میں لیت و لعل کرتے اور قرض خواہوں کو سخت پریشان کرتے ہیں.اور پھر والدین کے قرضہ کو ادا کرنے والے تو بہت ہی کم ہیں.لیکن اس نوجوان نے اتنی گراں قدر رقم باپ کی طرف سے ادا کی.حالانکہ یہ قرض نہ تھا.بلکہ محض ایک عطیہ تھا اور اگر وہ چاہتے تو کہہ سکتے تھے کہ میں اس کا ذمہ دار نہیں لیکن انہوں نے اس بات کو پسند نہ کیا کہ والد نے جو عطا کی تھی اس کی ادائیگی نہ کریں.5- حضرت عبد اللہ بن عمر جب غزوہ احد پر جانے کے لیے تیار ہوئے تو اپنے لڑکے حضرت جابر سے فرمایا.کہ اس غزوہ میں ضرور شہید ہو جاؤں گا.مجھ پر جو قرض ہے اسے ادا کرنا اور اپنی چھ بہنوں کے ساتھ حسن معاملات کرنا.باوجود یہ کہ اتنے بڑے کنبہ کی پرورش کا بار حضرت جابر پر تھا وہ باپ کے قرض کو جلد از جلد ادا کرنا اس قدرضروری سمجھتے تھے کہ جب کھجور کی فصل تیار ہوئی تو انہوں نے پوری دیانت کے ساتھ تمام قرض ادا کیا.اور فرمایا کہ میں اس بات کے لیے بالکل تیار ہوں کہ اپنی بہنوں کے پاس ایک کھجور بھی نہ لے کر جاؤں لیکن قرض ادا کر دوں.6 قرض کو ادا کرنے کا خیال صحابہ کرام کو اس طرح دامن گیر رہتا تھا کہ وہ اپنی ضروریات کی اشیاء بیچ کر بھی اس سے سبکدوش ہونے کے لیے تیار رہتے تھے.ابن حداد ایک صحابی تھے جن پر ایک یہودی کے چار درہم قرض تھے.اس نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں کر دیا.استغاثہ کیا تو آپ نے تین بار اس صحابی سے فرمایا کہ یہودی کا حق اسے ادا کرو.اس نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے پاس کچھ نہیں.کہاں سے ادا کروں.اس پر آنحضرت یہ تو خاموش ہو گئے مگر حضرت ابن حداد کو خیال آیا.چنانچہ آپ اٹھے اور بازار میں گئے.اپنے عمامہ کو اتار کر اس سے تہبند کا کام لیا اور تہبند کو چار درہم پر فروخت کر کے یہودی کا قرض ادا آنحضرت مہ خود قرض کی ادائیگی اور قرض خواہ کی دل جوئی کا خاص خیال رکھتے تھے.اور در اصل صحابہ کرام نے جو اخلاق سیکھے وہ آپ ہی سے سیکھے تھے.ایک یہودی زید بن سعنہ کا کچھ قرض آنحضرت ﷺ کے ذمہ تھا.ایک دن وہ آنحضرت ﷺ کی مجلس میں آیا.قرض کی واپسی کا مطالبہ کیا اور نہایت ناشائستہ باتیں کرنے لگا.یہاں تک کہہ گیا کہ تم بنی عبدالمطلب بہت نادہندہ ہو وغیرہ وغیرہ.حالانکہ حسب معاہدہ قرض کی ادائیگی کی معیاد میں ابھی تین روز باقی تھے.اور اس کا تقاضا قبل از وقت تھا.صحابہ کرام کو اس کی بے ہودہ کلامی سخت ناگوار گزری.اور حضرت عمرؓ نے اس کے ساتھ کچھ درشتی کی لیکن آنحضرت مہ نے اس سے منع فرمایا اور فرمایا.کہ لازم ہے اس کا قرض ادا کر دو.اور ہیں صاع جو زیادہ دے دو.آنحضرت مہ کی اس خوش معاملکی کا اس پر ایسا اثر ہوا کہ وہ مسلمان ہو گیا.ا.( بخاری کتاب الطلاق) ۳.(بخاری کتابالجهاد) ۵.( بخاری کتاب المغازی) حوالہ جات ۲.( بخاری کتاب الطلاق) ۴.(استیعاب ج 2 ص 185) ۶- (اصابہ زیر لفظ عبد اللہ بن ابی حداد ) ؟ www.alislam.org

Page 74

مسلم نوجوانوں کے سنہ ی کارنامے شوق تبلیغ 147 صحابہ کرام نے سرور کائنات ﷺ سے جو روحانی خزانہ حاصل کیا تھا.اس کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے ہمیشہ بے تاب و بے قرار رہتے تھے.اور اس راہ میں تکلیف کی کوئی پرواہ نہ کرتے تھے.آنحضرت ﷺ نے جب دعوئی رسالت کیا تو حضرت عبداللہ بن مسعود ا بھی کم سن تھے اور بکریاں چرایا کرتے تھے.ایک دفعہ آنحضرت یہ حضرت ابوبکر کے ساتھ اس طرف جا نکلے جہاں آپ بکریاں چرا رہے تھے.حضرت ابو بکر نے ان سے کہا کہ لڑکے اگر تمہارے پاس دودھ ہو تو پلاؤ.مگر حضرت عبداللہ نے جواب دیا کہ یہ بکریاں کسی کی ہیں اس لیے میں آپ کو دودھ نہیں پلا سکتا.آنحضرت ﷺ نے فرمایا.اگر کوئی ایسی بکری ہو جس نے ابھی بچہ نہ جنا ہو تو اسے لاؤ.حضرت عبداللہ ایک بکری لے آئے.آپ نے اس کے تھنوں پر ہاتھ پھیر کر دعا مانگی تو اتنا دودھ اتر آیا کہ تینوں نے سیر ہو کر پیا.یہ معجزہ دیکھ کر حضرت عبداللہ کے دل پر اس قدراثر ہوا کہ اسلام قبول کر لیا.یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمان نہایت کمزور حالت میں تھے.حتی کہ علانیہ عبادت الہی بھی نہ کر سکتے تھے.ایک روز مسلمانوں نے جمع ہو کر مشورہ کیا کہ قریش کو قرآن کریم سنایا جائے لیکن یہ کام اس قدر مشکل تھا کہ اس کو سرانجام دینا سخت خطرناک تھا.حضرت عبداللہ بن مسعود نے اس خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا.لیکن دوسرے صحابہ نے کہا کہ آپ اس کام کے لیے موزوں نہیں ہیں.کوئی ایسا شخص چاہیے جس کا خاندان وسیع ہو تا کہ اس پر حملہ کرنے میں قریش کو کچھ تو تامل ہو.مگر حضرت عبداللہ نے کہا کہ نہیں مجھے جانے دو.میرا خدا میرا محافظ ہے.چنانچہ اگلے روز جب قریش کی مجلس لگی ہوئی تھی یہ شمع قرآنی کا پروانہ وہاں جا پہنچا اور تلاوت قرآن کریم شروع کر دی.یہ دیکھ کر تمام مجمع مشتعل ہو گیا اور سب کے سب آپ پر ٹوٹ پڑے اور اس قدر مارا کہ چہرہ متورم ہو گیا.لیکن پھر آپ کی زبان بند نہ ہوئی اس سے فارغ ہو کر مسلم نوجوانوں کے کارنامـ 148 جب صحابہ میں واپس آئے تو آپکی حالت نہایت خستہ ہو رہی تھی.صحابہ نے کہا کہ ہم اس ڈر کی وجہ سے تمہیں جانے سے روکتے تھے.مگر حضرت عبداللہ نے کہا کہ خدا کی قسم اگر تم کہو تو کل پھر جا کر اسی طرح کروں گا.دشمنان خدا آج سے زیادہ مجھے کبھی ذلیل نظر نہیں آئے.2 شوق تبلیغ صرف مردوں تک ہی محدود نہ تھا بلکہ عورتیں بھی اس ضمن میں اپنے فرض کو پورے احساس کے ساتھ ادا کرتی تھیں.ام شریک ایک صحابیہ تھیں جو مخفی طور پر قریش کی عورتوں میں جا کر تبلیغ کیا کرتی تھیں.حالانکہ یہ وہ زمانہ تھا کہ اسلام کا نام بھی زبان پر لانا خطرناک تھا.قریش کو ان کی تبلیغی مساعی کا علم ہوا تو مکہ سے نکال دیا.حضرت عکرمہ بن ابی جہل فتح مکہ کے بعد بھاگ کر یمن چلے گئے تھے لیکن ان کی بیوی ام حکیم بنت الحارث مسلمان ہو گئیں اور اس نعمت سے متمع ہونے کے بعد اپنے خاوند کو بھی اس میں شریک کرنے کے لیے اس قدر بے تاب ہوئیں کہ صعوبات سفر برداشت کر کے یمن پہنچیں، اپنے خاوند کو تبلیغ کی اور مسلمان بنا کر واپس لائیں.-4 حضرل ابو طلحہ ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے کہ ایک مسلمہ حضرت ام سلیم کے ساتھ نکاح کے خواہاں ہوئے.ان کو پیغام بھیجا تو انہوں نے کہا کہ میرا نکاح تم سے نہیں ہوسکتا جب تک تم اسلام نہ قبول کرو.ہاں اگر مسلمان ہو جاؤ تو میں بخوشی نکاح کرلوں گی اور میرا مہر بھی صرف تمہارا قبول اسلام ہی ہوگا.اس کے سوا تم سے کچھ نہ مانگوں گی.چنانچہ وہ مسلمان ہو گئے.حضرت ابو ذر غفاری نہایت ابتدائی زمانہ میں اسلام لائے تھے.مکہ میں ان کا کوئی حامی اور مددگار نہ تھا.لیکن تبلیغ اسلام کا جوش اس قدر تھا کہ تمام خطرات سے بے نیاز ہو کر خانہ کعبہ میں آئے اور با آواز بلند اشہد ان الا الہ الا اللہ واشھد ان محمد رسول اللہ کہا.کفاء کی مجلس لگی ہوئی تھی.یہ آواز سنتے ہی ان پر ٹوٹ پڑے اور جو کچھ کسی کے ہاتھ میں آیا دے مارا.حتی کہ آپ بے ہوش کر گر پڑے.ہوش آیا تو تمام بدن خون آلود تھا.اس وقت تو وہاں سے اٹھ کر چلے گئے لیکن اگلے روز پھر اسی طرح آکر اسلام کا پیغام پہنچانے لگے اور کفار www.alislam.org

Page 75

150 مسلم نوجوانوں کے سند کارنامے 149 مسلم نوجوانوں کے نامے نے پھر اسی طرح مارنا پیٹنا شروع کر دیا.6- حضرت ابوبکر کا قلب جب نوراسلام سے منور ہوا تو اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی اس نعمت سے فیض یاب کرنے کے لیے ان کے دل میں ایک خاص تڑپ تھی.آپ اسلام کی تبلیغ ان مشکلات کے باوجود جو قریش کی طرف سے درپیش تھیں برابر کرتے رہتے تھے.اور اس کے نتیجہ میں بعض ایسے بزرگ داخل اسلام ہوئے جو بعد میں افق اسلام پرستارے بن کر چمکے.حضرت عثمان، حضرت زبیر بن العوم، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت طلحہ ، حضرت عثمان مطعون، حضرت ابوعبیدہ،حضرت ابوسلمہ، اور حضرت خالد بن سعید بن العاص آپ کی تبلیغ سے ہی دولت اسلام سے مالا مال ہوئے.-- آنحضرت ﷺ جب عرب کے مختلف قبائل اور عام اجتماعوں میں تبلیغ و ہدایت کا فرض سرانجام دینے کے لیے جاتے تو حضرت ابو بکر آپ کے ساتھ رہتے تھے.اور چونکہ آپ کا حلقہ تعارف بہت وسیع تھا اس لیے آنحضرت میلہ کا تعارف بھی لوگوں سے کراتے تھے.حوالہ جات ا.(اسد الغابہ ج 3 ص 280) ۲ - ( ابن سعدج 8 زکرام شریک) ۳.(موطا کتاب النکاح) ۴.(اسد الغابہ ج 6 زکرام سلیم) ۵- ( بخاری کتاب المناقب) ۶- ( بخاری کتاب بنیان الکعبة ) ۷.(کنز العمال ج 6 ص 319) صبر ورضا اسلام سے قبل مراسم ماتم اہل عرب کے تمدن کا ایک اہم جزو تھا.جو نہایت اہتمام کے ساتھ ادا کی جاتی تھی.کسی کی وفات پر اس کے اعزہ اپنا منہ نوچتے ، بال کھوٹتے ، سینہ کوبی کرتے اور سخت جزع فزع سے کام لیتے تھے.عورتوں کا یہ فرض سمجھا جاتا تھا کہ سر کے بال کھول کر خاک ڈالیں.روتی پیٹتی جنازہ کے پیچھے پیچھے چلیں حتی کہ بعض عورتیں سر کے بال منڈوا دیتی تھیں.رونے پیٹنے اور نوحہ کرنے کے لیے اجرت پر عورتیں بلوائی جاتی تھیں.جو بڑے زور کے ساتھ ماتم کرتیں.مردہ کی تدفین کے بعد دستر خوان بچھایا جاتا اور تمام نوحہ کرنے والی عورتوں کو کھانا کھلایا جاتا تھا.اسی طرح مرنے کے بعد تیسرے اور چالیسویں دن نیز ششماہی اور سالانہ تقاریب تھیں اور ان کو نظر انداز کر کے کوئی شخص سوسائٹی میں اپنی عزت کو برقرار نہیں رکھ سکتا تھا.لیکن رسول کریم ﷺ نے ان تمام لغور سوم کی ممانعت فرما دی.اور یہ تعلیم دی کہ اللہ تعالی کی طرف سے جو مصیبت پہنچے اسے صبر کے ساتھ برداشت کرنا چاہیے.قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ مومن وہی ہے جو ہر تکلیف کے وقت انا للہ وانا الیہ راجعون کہہ کر اللہ تعالی کی قضا پر صبر کرتے ہیں.اور غیر معمولی اور غیر طبعی جزع و فزع سے کام نہیں لیتے.صحابہ کرام نے اس تعلیم کو اپنی تمام پرانی اور صد ہا سالوں کی عادت کے باوجود حرز جان بنایا.اور ہمیشہ اس پر سختی کے ساتھ قائم رہے.جیسا کہ ذیل کی چند ایمان پر ور مثالوں سے واضح ہوتا ہے.1- حضرت ابوطلحہ صحابی کا ذکر گذشتہ صفحات میں کئی بار آچکا ہے.آپ جلیل القدر صحابی تھے.ان کا لڑکا بیمار تھا جسے اسی حالت میں چھوڑ کر وہ صبح اٹھ کر اپنے کام کاج کے لیے باہر چلے گئے.اور لڑکا بعد میں فوت ہو گیا.ان کی بیوی نے نہ صرف یہ کہ خود کوئی جزع فزع نہ کیا بلکہ تمام پڑوسیوں اور متعلقین کو روک دیا.کوئی صف ماتم نہ بچھائی.صرف انا للہ وانا الیہ راجعون کہہ کر خاموش ہور ہیں.اور سب سے کہہ دیا کہ حضرت ابوطلحہ آئیں تو وفات کی www.alislam.org

Page 76

152 مسلم نوجوانوں کے کارنامے 151 مسلم نوجوانوں کے نامے اطلاع ان کو نہ دی جائے چنانچہ وہ جب شام کو واپس لوٹے تو دریافت کیا کہ بچہ کیسا ہے.بیوی نے جواب دیا کہ پہلے سے زیادہ پرسکون ہے.اس کے بعد خاوند کے لیے کھانا لائیں.رات نہایت سکون اور آرام کے ساتھ بسر کی.صبح ہوئی تو خاوند سے کہا کہ اگر ایک قوم کسی کو کوئی چیز عاربیڈ دے اور پھر واپس لینا چاہے تو کیا اس کو حق ہے کہ اس پر کوئی اعتراض کرے.حضرت ابوطلحہ نے نفی میں جواب دیا تو کہا کہ اچھا پھر اپنے بیٹے پر صبر کرو.2 حضرت عبداللہ بن عمر کے صاحبزادہ کا جب انتقال ہوا اور آپ اس کی تجہیز و تکفین سے فارغ ہوئے تو بدوؤں کے ساتھ دوڑ میں مسابقت کرنے لگے.اس پر حضرت نافع نے کہا کہ ابھی تو آپ بیٹے کو دفن کر کے آئے ہیں اور اب بدوؤں کے ساتھ دوڑ رہے ہیں.حضرت عبد اللہ بن عمر نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت نے جو کام کر دیا ہے اس کے نتائج کو جس طرح بھی ممکن ہو بھلا دینا چاہیے.جب اسلامی لشکر غزوہ احد سے واپس آرہا تھا تو صحابیات اپنے عزیز و اقارب کا حال دریافت کرنے کے لیے شہر سے باہر نکل آئیں.ان عورتوں میں ایک حضرت حمنہ بنت ججش تھیں.آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا کہ حمنہ اپنے بھائی عبداللہ بن جحش پر صبر کرو.انہوں نے یہ سن کر صرف انا اللہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور مرحوم کے لیے دعائے مغفرت کی.اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اپنے ماموں حمزہ بن عبدالمطلب کو بھی صبر کرو.اس پر پھر انہوں نے انا اللہ وانا الیہ راجعون پڑھا.دعائے مغفرت کی اور خاموش ہو رہیں.4- حضرت عبداللہ بن عباس کوسفر میں اپنے بھائی قسم ابن عباس کے انتقال کی خبر ملی.سن کر اناللہ وانا اليه راجعون پڑھا.راستہ سے ہٹ کر دورکعت نماز ادا کی اور پھر اونٹ پر سوار ہو کر آگے چل دیئے.صحابہ کرام کی زندگیوں میں ایسے اعلی اور شاندار نمونے صبر ورضا کے نظر آتے ہیں کہ پڑھ کر عقل انسانی ورطہ حیرت میں غرق ہو جاتی ہے اور صرف مردوں کے نہیں بلکہ عورتوں کے بعض حالات کو پڑھ کر جب اپنے زمانہ کو دیکھا جاتا ہے تو اپنے بزرگوں کے اسوہ سے اس قدر بعد دیکھ کر آنکھیں پرنم ہو جاتی ہیں.5- ایک صحابیہ حضرت ام عطیہ کا لڑکا خلافت راشدہ کے زمانہ میں کسی غزوہ میں شریک تھا کہ بیمار ہوکر بصرہ چلا آیا.ماں کو اطلاع ہوئی تو اس کی عیادت کے لیے بصرہ کا رخ کیا.اور بہ عجلت تمام وہاں پہنچیں.لیکن پہنچنے سے ایک دو روز قبل اس کا انتقال ہو گیا.آپ نے اس صدمہ جانکاہ پر نہایت اعلی نمونمہ صبر ورضا کا پیش کیا.اور تیسرے روز خوشبو لگائی اور فرمایا کہ شوہر کے سوا کسی کے لیے تین روز سے زیادہ سوگ جائز نہیں.جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ اسلام کی تعلیم یہی ہے.کہ بین اور نوحہ کرنا منع ہے.لیکن ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ کسی عزیز کی موت کے صدمہ پر دلی رنج کا پیدا ہون طبعی چیز ہے.جس کا فقدان کوئی خوبی نہیں بلکہ سنگدلی پر دلالت کرتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اگر آنسونکل آئیں تو یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں.اسلام ن جس چیز سے منع کیا ہے وہ نوحہ اور بین کرنا یا اور ایسی حرکات کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ کے فعل پر شکوہ یا گلہ کا رنگ رکھتی ہوں.اور بے صبری کو ظاہر کرتی ہوں.آنحضرت ﷺ کی تعلیم اور صحابہ کرام کے اسوہ کو نظر انداز کر کے ایسے مواقع پر آج کل مسلمان جو کچھ کرتے ہیں وہ اسلام کی تعلیم پر سخت دھبہ لگانے والی بات ہے.اپنے غیر مسلم ہمسایوں کے تمدنی اثرات کو قبول کر کے مسلمانوں نے اپنی روایات کو بالکل بھلا دیا ہے.اور موت فوت کے موقعہ پر بالکل وہی کچھ کرتے ہیں جو ہندو یا زمانہ جاہلیت کے عرب کرتے تھے.یعنی نوحہ اور بین ، سینہ کوبی ، بال نوچنا، کھانے کی دعوتیں، اور تیسرا، چالیسواں وغیرہ کی رسوم ادا کرنا.حالانکہ ان میں سے کوئی ایک چیز بھی اسلامی تعلیم کے رو سے جائز نہیں.اور سب سے زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ ملا اومولوی اسلام کی صحیح تعلیم کو زندہ رکھنے کے ذمہ دار تھے.انہوں نے www.alislam.org

Page 77

154 مسلم نوجوانوں کے سند کارنامے 153 مسلم نوجوانوں کے نامے جلب منفعت اور معمولی لالچ کے لیے ان سراسر غیر اسلامی باتوں کو جز واسلام بنا کر عوام الناس کے قلوب پر یہ بات نقش کر رکھی ہے کہ یہ باتیں نہایت ضروری ہیں.اور ان کے بغیر مرنے والے کی روح قرار حاصل نہیں کر سکتی.اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی حالت پر رحم کرے.آمین.ا.(مسلم کتاب الاداب) ۳- (ابن سعد زکر حمنہ بنت جحش) ۵.( بخاری کتاب الجنائز) حوالہ جات ۲.(ابن سعد ذکر واقد بن عبد الله ).(اسد الغابہ ج 4 ص 85) خدمت والدین صحابہ کرام کے اخلاق میں دوسری نیکیوں کے ساتھ والدین کی اطاعت اور خدمت کا جذبہ بھی اسلام نے بہت اعلیٰ پیمانہ پر پیدا کر دیا تھا اور اس میں کافر و مومن کی کوئی تخصیص نہ تھی.وہ دنیوی امور میں ان کی خدمت نہایت اہتمام سے کرتے اور ان کی خوشنودی کا ہر ممکن خیال رکھتے تھے.اور دینی امور کے سوا تعلیم کے مطابق وہ کسی بات میں بھی ان کے منشاء کو نظر انداز نہیں کرتے تھے.-1- حضرت عثمان کے زمانہ میں کھجور کی قیمت بہت زیادہ ہوگئی تھی.اس وجہ سے کھجور کا درخت بھی بہت قیمت پانے لگا تھا.لیکن ایک دفعہ حضرت اسامہ بن زید نے کھجور کے ایک درخت میں شگاف کیا اور اس میں سے جمار نکالا.چونکہ اس درخت کے ضائع ہو جانے کا احتمال تھا.کسی نے کہا کہ جب کھجور کے درخت کی قیمت بہت بڑھ گئی ہے.آپ اسے اس طرح کیوں ضائع کرتے ہیں.تو انہوں نے جواب دیا کہ میری ماں کی یہ خواہش تھی اور میں حتی الوسیع اس کی فرمائش کو پورا کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں.2 حضرت ابو ہریرہ کی ماں نے اسلام قبول نہ کیا تھا.آپ اسے تبلیغ کرتے رہتے تھے لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوتا تھا.ایک روز انہوں نے تبلیغ کی تو ماں نے آنحضرت ﷺ کی شان مبارک میں کوئی ناشائستہ کلمات کہے.اور کوئی ہوتا تو نتیجہ نہایت خطرناک نکلتا.جیسا کہ بعض دوسرے واقعات سے ظاہر ہے لیکن ماں تھی اس لیے آپ نے صبر کیا.تا ہم دل پر اس قدر چوٹ لگی کہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے.اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ دعا کیجئے.اللہ تعالی میری ماں کو ہدایت دے.باوجود یہ کہ حضرت ابو ہریرہ کی والدہ مومنہ نہ تھیں تاہم جب تک وہ زندہ رہی آپ نے حج نہیں کیا.مبادا ان کی غیر حاضری میں اسے کوئی تکلیف پہنچے.www.alislam.org

Page 78

مسلم نوجوانوں کے رنامے 155 مسلم نوجوانوں کے سند کارنامے 156 4 حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص مسلمانوں کی خانہ جنگی کے زمانہ میں حضرت علی کے خلاف کوئی حصہ نہ لینا چاہتے تھے.تاہم جب ان کے والد نے اصرار کیا تو بادل نخواستہ شریک ہو گئے.۴ 5- ایک صحابی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا.یا رسول اللہ میرے پاس دولت ہے اور میرا باپ محتاج ہے.کیا میں اسے دے دوں.آپ نے فرمایا تم اور تمہاری دولت دونوں تمہارے باپ کے لیے ہو.6- ایک اور صحابی نے اپنا باغ اپنی ماں کے نام پر وقف کر دیا.7- حضرت عبداللہ بن ابی بکر کو اپنی بیوی سے حد درجہ محبت تھی.اس محبت نے ایک دفعہ انہیں جہاد میں شامل نہ ہونے دیا.حضرت ابی بکر نے یہ دیکھ کر بیوی دین کے رستہ میں ایک رکاوٹ ثابت ہوئی ہے انہیں حکم دیا کہ اسے طلاق دے دیں.اس حکم کی تعمیل ان پر سخت گراں تھی.تاہم باپ کے حکم کا وہ انکار نہ کر سکے.اور طلاق دے دی.لیکن نہایت درد انگیز اشعار کہے.جن کا حضرت ابی بکر" پر اس قدر اثر ہوا کہ انہوں نے رجوع کی اجازت دے دی.- حضرت حارثہ بن سراقہ کے متعلق مصنف اسرا انعابہ کا بیان ہے کہ کان عظیم البر بامه یعنی اپنی ماں کے ساتھ نہایت نیکی کا برتاؤ کرتے تھے.ا.( ابن سعد زکر اسامہ بن زید) ۳- (مسلم کتاب النور ) ۵.(ابوداؤد کتاب المناقب) حوالہ جات ۲- (مسلم کتاب المناقب) ۴.(اسد الغابہ ج 3 ص 245) ۶.(ابوداؤد کتاب المناقب) ے.(اسد الغابہ ذکر عاتکہ بن زید) ۸.(سیر انصار ج 1 ص 302) دیانت اور امانت ہے.دیانت اور امانت انسانی اخلاق کی بہت بڑی نیکیوں میں سے ایک نیکی آنحضرت ﷺ کی زندگی کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ بعث سے قبل امانت آپ کا طرہ امتیاز تھا حتی کہ اپنے ہم وطنوں میں آپ الامین کے لقب سے پکارے جاتے تھے اور عرب میں آپ کی ذات ہی الصادق اور الامین کی مشار الیہ سمجھی جاتی تھی.آپ کی یہ خوبی ایسی تھی کہ غیر مسلموں پر بھی اس کا خاص اثر ہے.چنانچہ مسز اپنی بیسنٹ جو ہندوستان میں تھیوسافیکل کی پیشوا اور بڑی مشہور یورپین لیڈی ہیں مھتی ہیں.پیغمبر اعظم اللہ کی جس بات نے میرے دل میں ان کی عظمت و بزرگی قائم کی ہے وہ ان کی وہ صفت ہے جس نے ان کے ہم وطنوں سے الامین کا خطاب دلوایا.کوئی صفت اس سے بڑھ کر نہیں ہوسکتی.اور کوئی بات اس سے زیادہ مسلم اور غیر مسلم دونوں کے لیے قابل اتباع نہیں.ایک ذات جو مجسم صدق ہو اس کے اشرف ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے.ایسا ہی شخص اس قابل ہے کہ پیغام حق کا حامل ہو.آنحضرت ﷺ کے فیض صحبت نے جہاں صحابہ کرام میں اور بے شمار خوبیاں پیدا کر دی تھیں وہاں دیانت و امانت میں بھی ان لوگوں کا پایہ بہت بلند کر دیا تھا.چنانچہ سخت ابتلا کے مواقع پر بھی انکے پائے دیانت نے کبھی لغزش نہیں کھائی.چند واقعات بطور نمونہ ملاحظہ ہوں.1- ایک مرتبہ رومیوں کے ساتھ جنگ میں ایک نوجوان مجاہد کو ایک گھڑ املا.جو کہ اشرفیوں سے پر تھا.وہ اگر چاہتے تو اسے اپنے لیے رکھ سکتے تھے لیکن ایسا نہیں کیا.بلکہ اسے اٹھا کر سالار جیش کی خدمت میں لے آئے.جنہوں نے اسے مسلمانوں میں بحصہ رسدی بانٹ دیا لیکن اس دیانت داری کا ان پر ایسا اثر تھا کہ کہا اگر اسلام کا یہ حکم نہ ہوتا کہ شمس سے پہلے کسی کو عطیہ نہیں دیا جا سکتا تو میں یہ اشرفیاں تمہیں دے دیتا.لیکن اب صرف یہ کرسکتا ہوں کہ www.alislam.org

Page 79

158 مسلم نوجوانوں کے کارنامه 157 مسلم نوجوانوں کے نامے اپنا حصہ تمہارے حوالہ کر دوں.سو یہ حاضر ہے لیکن ان کی بے نیازی ملاحظہ ہو کہ کہا مجھے اس کی ضرورت نہیں.2.حضرت ابی بن کعب کو ایک مرتبہ ایک تھیلی کہیں سے ملی.جس میں سو اشرفیاں تھیں لیکن اسے اپنے پاس رکھ لینے کا خیال تک ان کے دل میں نہ گزرا.اور اٹھا کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پہنچے.آپ نے فرمایا کہ ایک سال تک مالک کی جستجو میں اعلان کرتے رہو.انہوں نے ایسا ہی کیا.لیکن ایک سال کے بعد پھر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر عرض کیا کہ مالک نہیں ملا.آپ نے پھر ایسا ہی کرنے کا ارشاد فرمایا.چنانچہ انہوں نے پھر ایک سال تک تلاش کیا.مگر کوئی دعویدار نہ ملا.تیسرے سال پھر حضور کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا تو آپ نے فرمایا کہ اپنے پاس رکھو.اگر مالک مل گیا تو خیر ور نہ خرچ کرلو.-3 ایک مرتبہ حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی کو کسی کا تو شہ دان کہیں سے ملا.جسے وہ حضرت عمرؓ کے پاس لے آئے.حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ایک سال تک اعلان کرو.اگر مالک کا پتہ نہ چلے تو تمہارا ہے.جب سال گزرنے پر بھی مالک نہ ملاتو آپ پھر حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوئے.آپ نے فرمایا کہ اب یہ تمہارا ہے.مگر آپ نے کہا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں اور اس وجہ سے حضرت عمر نے اسے بیت المال میں داخل کر دیا.-4 حضرت مقداد کسی باغ میں گئے تو دیکھا کہ ایک چوہابل سے اشرفیاں نکال کر باہر ڈال رہا ہے.جو تعداد میں اٹھارہ تھیں.آپ اٹھا کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لائے.آپ نے فرمایا کہ تم نے خود تو بل سے نہیں نکالیں.بولے نہیں.آپ نے فرمایا کہ پھر خدا تمہیں برکت دے.۴ 5- حضرت زبیر کے پاس بوجہ ان کے امین ہونے کے لوگ اپنے مال امانت رکھ جاتے تھے.لیکن اس خیال سے کہ کہیں ضائع نہ ہو جائے آپ اسے اپنے اوپر قرض قرار دے لیتے تھے.متعدد صحابہ کا مال ان کے پاس امانت رہتا تھا اور وہ اس قدر دیانت داری سے کام لیتے تھے کہ ان لوگوں کے اہل و عیال کے لیے بھی بوقت ضرورت اپنی جیب سے خرچ کر دیتے تھے.لیکن ان کی امانت نہیں چھیڑتے تھے.6- ایک دفعہ ایک صحابی کی اونٹنی گم ہوگئی.تو انہوں نے ایک دوسرے صحابی سے کہا کہ اگر کہیں مل جائے تو پکڑ لینا.اتفاقاً انہیں اونٹنی مل گئی.لیکن اس کا مالک کہیں چلا گیا.انہوں نے اونٹنی کو بحفاظت تمام اپنے ہاں رکھا اور مالک کی تلاش کرتے رہے.مگر اسے نہ ملنا تھا نہ ملا.ایک روز اونٹنی سخت بیمار ہوگئی.بیوی نے اسے ذبح کر ڈالنے کا مشورہ دیا.گھر میں فاقہ کشی کی نوبت پہنچی ہوئی تھی.لیکن آپ کی امانت نے اسے ذبح کرنا گوارا نہ کیا اور اونٹنی مر گئی.7- ایک صحابی کے پاس کسی کی امانت محفوظ تھی.لیکن مالک کہیں چلا گیا.وہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ بیان کیا.آپ نے فرمایا کہ جاؤ ایک سال تک تلاش کرو.چنانچہ انہوں نے پوری کوشش کی لیکن وہ نہ ملا.سال کے بعد پھر دربار رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا.کہ وہ نہیں ملا.تو آپ نے فرمایا پھر تلاش کرو.چنانچہ سال کے بعد پھر آکر کہا کہ وہ نہیں ملا.اس پر آپ نے فرمایا کہ اس قبیلہ کا جو آدمی پہلے ملے اس کے حوالے کر دو چنا نچہ انہوں نے ایسا ہی کیا.حضرت عقیل بن ابی طالب جنگ حنین کے بعد واپس آئے تو بیوی نے پوچھا کہ مال غنیمت میں کچھ لائے ہو یا نہیں.انہوں نے کہا کہ یہ ایک سوئی کپڑے سینے کے لیے ہے.یہ کہہ کر سوئی بیوی کے حوالہ کر دی.اتنے میں منادی کرنے والے کی آواز آئی کہ جو کچھ مال غنیمت میں سے کسی کے پاس ہے وہ جمع کرا دے.چنانچہ آپ نے فوراً سوئی بیوی سے لے لی اور جا کر جمع کرا دی.و فتح خیبر کے بعد آنحضرت ﷺ نے وہاں کی زمینیں مقامی مزارعین کو بٹائی پر دے دی تھیں.جب فصل پک کر تیار ہوئی تو آپ نے ایک صحابی حضرت عبداللہ بن رواحہ کو پیدا وار کا حصہ www.alislam.org

Page 80

160 مسلم نوجوانوں کے سند کارنامے 159 مسلم نوجوانوں کے نامے لینے کے لیے بھیجا.انہوں نے جا کر پیداوار کے دو حصے کر دیئے اور مزار عین سے کہا کہ ایک حصہ جو تمہیں پسند ہو تم لے لو لیکن یہود اس سے زیادہ لینے کے خواہش مند تھے.انہوں نے اپنی عورتوں کے زیور جمع کیے اور بطور رشوت حضرت عبداللہ گود دینا چاہے تا کہ ان کے ساتھ رعایت کر دیں.لیکن انہوں نے جواب دیا کہ اے یہود تم میرے نزدیک مبغوض ترین مخلوق ہو.لیکن یہ بغض مجھے تمہارے ساتھ کسی نا انصافی پر آمادہ نہیں کرسکتا.باقی رہا رشوت کا سوال تو یہ مال حرام ہے.اور مجھ سے یہ امید نہ رکھو کہ میں یہ کھانے کے لیے تیار ہوں گا.10.حضرت ابو بکر بھی قبول اسلام کے وقت نو جوان تھے.رسول کریم ﷺ نے 40 سال کی عمر میں دعوئی رسالت کیا.اور آپ آنحضرت ﷺ سے اڑھائی سال چھوٹے تھے.اسلام سے قبل آپ بہت بڑے تاجر تھے اور آپ کی دیانت وامانت مسلمہ تھی.قریش میں بہت عزت کے مالک تھے.ایام جہالت میں بھی خون بہا کی رقوم آپ کے پاس جمع ہوتی تھیں.اگر کسی دوسرے شخص کے پاس کوئی رقم جمع ہوتی تو قریش اس کو تسلیم نہیں کرتے تھے.11.ایرانیوں کے ساتھ نبرد آزما ہونے اور فتوحات حاصل کرتے ہوئے جب مجاہدین اسلام نے نہاوند کے آتش کدہ کو ٹھنڈا کیا تو آتش کدہ کے ایک پجاری نے ایک صندوقچہ لاکر حضرت خذیفہ بن الیمان کے سپرد کیا جو بیش قیمت جواہرات سے بھرا ہوا تھا اور جو ا سکے پاس شاہی امانت کے طور پر تھا.یہ کوئی مال غنیمت نہ تھا بلکہ پرائیویٹ طور پر حاصل شدہ چیز تھی یا کم سے کم اگر کوئی شخص دیانت داری کی باریک راہوں کا خیال نہ رکھے تو وہ ایسے مال کو اپنے تصرف میں لانے کے لیے کئی تاویلیں کر سکتا ہے لیکن انہوں نے یہ سب کا سب قومی خزانہ میں داخل کر دیا.ا.(ابوداؤد کتاب الجہاد ) ۳.( دار می کتاب البیوع) ۵- (اصابہ ج 2 ص 460) ے.(ابوداؤ د کتاب الفرائض) ۹.(موطا كتاب المساقاة) حوالہ جات ۲.(ابوداؤد کتاب اللقطة ) ( بخاری کتاب اللقطة ) ۴.(ابوداؤد کتاب الخراج) ۶.(ابوداؤد کتاب الاطعمة ).(اسد الغابہ زیر لفظ فاطمہ بنت سوده) ۱۰.(کنز العمال ج 6 ص 312) www.alislam.org

Page 81

162 مسلم نوجوانوں کے 161 مسلم نوجوانوں کے سنہ ی کارنامے پابندی عہد صحابہ کرام کی زندگیوں میں پابندی عہد کا وصف بھی دوسری خوبیوں کی طرح بہت ممتاز نظر آتا ہے حتی کہ وہ دشمنوں کے معاملہ میں بھی اس کو نظر انداز نہ ہونے دیتے تھے اور خواہ کس قدر نقصان کیوں نہ اٹھانا پڑے اپنے عہد سے ہرگز نہ پھرتے تھے.1 حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب رومیوں سے مجاہدین اسلام نبرد آزما ہوئے تھے اور حمص کو فتح کر چکے تھے کہ کسی فوجی مصلحت کے ماتحت بعد مشورہ یہ طے ہوا کہ تمام مفتوحہ علاقہ کو خالی کر کے دمشق میں تمام قوت کو از سر نو مجتمع کیا جائے.لیکن جزیہ کی رقم ان علاقوں کے رہنے والوں سے وصول کی جا چکی تھی.اور اس کے عوض مسلمانوں نے ان کی حفاظت کا وعدہ کیا ہوا تھا.جب ان علاقوں کو خالی کر دینے کا فیصلہ ہوا تو چونکہ رومیوں کی حفاظت کا ذمہ نہ لیا جاسکتا تھا اس لیے جو کچھ ان سے لیا گیا تھا سب کا سب واپس کر دیا گیا.اس شریفانہ سلوک کا وہاں کے عیسائیوں اور یہودیوں پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ رو رو کر دعائیں کر رہے تھے کہ خدا تعالیٰ مسلمانوں کو جلد واپس لائے.2- ایک مرتبہ مسلمانوں نے ایک قلعہ کا محاصرہ کر رکھا تھا.کہ مجاہدین اسلام میں سے ایک غلام نے اہل قلعہ کے ساتھ وعدہ کیا کہ انہیں امان دی جائے گی.اور چونکہ اس کا کوئی خاص موقعہ نہ ملا تھا اس لیے عام طور پر مسلمانوں نے اس کی وعدہ کی پابندی سے انکار کر دیا.لیکن محصورین نے کہا کہ ہمیں اس کا کیا علم کہ وعدہ کرنے والا غلام ہے یا آزاد.ہم سے جو وعدہ ہوا ہے وہ بہر حال پورا ہونا چاہیے.آخر یہ معاملہ حضرت عمر کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ نے فرمایا کہ مسلمان غلام کا وعدہ بھی قوم کا وعدہ ہے.جس کی پابندی لازمی ہے.پابندی عہد کا مسلمان اس قدر خیال رکھتے تھے کہ بڑے سے بڑے حاکم کو بھی اس کی خلاف ورزی کی طرف مائل دیکھتے تو فوراً روک دیتے تھے.ایک دفعہ حضرت امیر معاویہ نے رومیوں کے ساتھ معاہدہ کیا تھا لیکن ابھی اسکی معیاد ختم نہ ہوئی تھی کہ حملہ کی تیاری شروع کر دی.حضرت عمر بن عفسہ کو جب اسلامی فوج کی تیاریوں کا علم ہوا تو گھوڑے پر سوار ہو کر حضرت معاویہ کے پاس پہنچے اور فرمایا کہ وفا کرنی چاہیے.بدعہدی مسلمان کے لیے مناسب نہیں.4 کفار کے ساتھ جو وعدہ ہو تا مسلمان اس کی خلاف ورزی بھی گوارا نہ کرتے تھے.امیر معاویہ نے حضرت عقبہ بن عامر کو مصر کا گورنر مقرر کیا.وہ مصر کے ایک گاؤں میں اپنے لیے رہائشی مکان تعمیر کرنا چاہتے تھے.اور اسکے لیے انہوں نے ایک غیر آبادز مین جو کسی کی ملکیت نہ تھی انتخاب کی.ان کے ایک ملازم نے کہا کہ آپ کوئی عمدہ قطعہ مکان کے لیے تجویز کریں.یہ زمین جو آپ لے رہے ہیں کوئی اچھی نہیں لیکن حضرت عقبہ نے جواب دیا کہ یہ نہیں ہوسکتا کیونکہ ذمیوں کے ساتھ جو ہمارا معاہدہ ہے اس کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ ان کی کوئی زمین ان کے قبضہ سے نہیں نکالی جائے گی.-5 پہلے یہ ذکر آچکا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ستر حفاظ اور قراء کا ایک وفد ایک قبیلہ کی درخواست پر تعلیم دین کے لیے ان کے ساتھ بھیجا تھا.مگر کفار نے ان پر حملہ کر کے سوائے دو کے سب کو شہید کر دیا.ان میں سے زندہ بچنے والوں میں سے ایک حضرت عمرو بن امیہ ضمیر تھے.وہ جب واپس مدینہ آرہے تھے تو رستہ میں قبیلہ بنو عامر کے دو شخص ملے.حضرت عمرو نے جذبہ انتقام کے ماتحت ان کو قتل کر دیا.مدینہ میں پہنچ کر جب سب حالات حضور کی خدمت میں عرض کیسے تو ساتھ ہی ان دو اشخاص کے قتل کا بھی ذکر کیا.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ دونوں تو ہم سے عہد و پیمان کر گئے تھے.اس لیے ان کا قتل جائز نہ تھا.اور اس کی تلافی کے لیے اب ان کا خون بہا ادا کرنا ضروری ہے.- صلح حدیبیہ کے موقعہ پر جو معاہدہ مرتب ہوا تھا اس کی رو سے یہ طے پایا تھا کہ اگلے سال مسلمان مکہ میں آکر عمرہ کر سکتے ہیں.مگر تین روز سے زیادہ مکہ میں ٹھہر نہیں سکتے.چنانچہ آنحضرت ﷺ دو ہزار مسلمانوں کے ساتھ تشریف لائے اور ارکان عمرہ سے فارغ ہو کرام www.alislam.org

Page 82

مسلم نوجوانوں کے نامے 163 المومنین حضرت میمونہ کے ساتھ نکاح کیا.چوتھے روز مشرکین کا ایک وفد آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا کہ تین روز ہو گئے اس لیے آپ مکہ سے چلے جائیں.آپ نے فرمایا کہ اگر تم لوگ اجازت دو تو میں یہاں دعوت ولیمہ دوں اور مکہ والوں کو بھی کھلاؤں.مگر انہوں نے کہا کہ ہمیں دعوت کی ضرورت نہیں.آپ عہد کی پابندی کریں.چنانچہ آپ نے فوراً کوچ کے اعلان کی منادی کرادی.اور مکہ سے نکل کر وادی سرف میں قیام فرمایا.-7- جنگ یمامہ میں جب مسیلمہ کذاب مارا گیا تو اسکے بقیہ السیف لوگوں میں سے کچھ تو قید ہو گئے اور کچھ فرار.قلعہ و شہر یمامہ میں زیادہ تر عورتیں اور بچے ہی رہ گئے تھے.لیکن حضرت خالد کو اس حقیقت کا علم نہ تھا.قیدیوں میں سے ایک شخص مجاعہ بن مرارہ نے ان سے کہا کہ ابھی شہر میں بہت سے جنگجو سپاہی ہیں جن کے پاس رسد بھی کافی ہے.اور وہ آپ کو کافی لمبے عرصے تک پریشان کر سکتے ہیں.اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں اندر جا کر ان کو مصالحت پر آمادہ کروں.حضرت خالد اس بات پر رضامند ہو گئے اور اسے جانے کی اجازت دے دی.وہ شخص شہر میں گیا اور جا کر عورتوں اور بچوں کو مسلح کر کے فصیل پر کھڑا کر دیا.تا کہ یہ ظاہر ہو کہ قلعہ میں زبردست فوج موجود ہے اور صلح کی شرائط میں مسلمان ہمارے ساتھ نرمی پر آمادہ ہو سکیں.خیر صلح ہوگئی اور اہل شہر کو کچھ مراعات بھی حاصل ہو گئیں.لیکن جب اسلامی لشکر قلعہ میں داخل ہوا تو مجاعہ کے فریب کا پتہ چلا.حضرت خالد نے اس سے کہا کہ تو نے مجھے دھوکا کیوں دیا.اس نے کہا کہ اگر میں ایسا نہ کرتا تو میری قوم تباہ ہو جاتی.اگر چہ اسنے معاہدہ صلح میں دھوکا سے کام لیا تھا.لیکن حضرت خالد بن ولید نے پھر بھی اس کی پابندی ضروری سمجھی اور کسی شق کی خلاف ورزی کا خیال تک بھی دل میں نہ لائے.تھوڑی ہی دیر کے بعد حضرت ابوبکر امیرالمومنین کا حکم نامہ پہنچا کہ فتح کے بعد یمامہ کے بالغ مردوں کو قتل کر دیا جائے اور عورتوں اور بچوں کو قید کر لیا جائے.لیکن چونکہ اس حکم کے پہنچنے سے قبل صلح نامہ مکمل ہو چکا تھا اس لیے اس کی تعمیل نہ کی جاسکی اور یہ واقعہ مسلمانوں کے ایفائے عہد کے واقعات میں خاص طور پر ممتاز ہے.مسلم نوجوانوں کے کارنامـ 164 ایرانیوں کا ایک سردار ہرمزان نامی تھا.ایرانی جب قادسیہ کے میدان میں شکست کھا کر بھاگے تو اس شخص نے خوزستان کے علاقہ میں اپنی ایک خود مختار حکومت قائم کرلی.مسلمانوں نے اسے شکست دی تو اس نے اطاعت قبول کر لی لیکن پھر بغاوت کی.مسلمانوں نے پھر اس کی سرکوبی کی لیکن اس کے بعد پھر اس نے جب دیکھا کہ شاہ فارس اپنی فوجیں جمع کر کے مسلمانوں کے ساتھ مقابلہ کے لیے آ رہا ہے تو اس کی مدد کے لیے آمادہ ہو گیا اور مسلمانوں کے ساتھ برسر پیکار ہوا.بہت سی تگ ودو اورلڑائیوں کے بعد اس نے درخواست کی کہ میں پھر صلح کرتا ہوں.لیکن شرط یہ ہے کہ مسلمان مجھے مدینہ میں اپنے خلیفہ کی خدمت میں بھیج دیں.وہ جو فیصلہ میرے متعلق کریں گے مجھے بسر و چشم منظور ہوگا.چنانچہ اسے مدینہ بھیجا گیا.جب وہ فاروق اعظم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اس سے دریافت کیا کہ تم نے اتنی مرتبہ کیوں بد عہدی کی ہے.ہرمزان نے کہا کہ مجھے پیاس لگی ہے چنانچہ پانی لایا گیا.تو پیالہ پکڑ کر اس نے کہا کہ مجھے خوف ہے کہ آپ مجھے پانی پینے کی حالت میں ہی قتل کر دیں گے.حضرت عمر نے فرمایا کہ نہیں اس کا کوئی فکر نہ کرو.جب تک تم پانی نہ پی لو تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا.یہ سنتے ہی اس نے پیالہ ہاتھ سے رکھ دیا اور کہا کہ میں پانی پیتا ہی نہیں.اور اس وعدہ کے مطابق اب آپ مجھے قتل نہیں کر سکتے.اب دیکھیں کہ یہ بھی کوئی وعدہ ہے.عام رنگ میں ایک بات کی گئی جسے توڑ مروڑ کر اس سے فائدہ اٹھایا جارہا ہے.اور پھر یہ ایک ایسے شخص کی طرف سے ہے جو کئی بار بد عہدیاں کر چکا ہے.اور عرصہ دراز تک پریشانی کا باعث بنارہا.لیکن اس کے باوجود حضرت عمر نے فرمایا کہ گوتم نے میرے ساتھ دھوکا کیا مگر میں تم کو دھوکا نہ دوں گا اور تمہیں قتل نہ کراؤں گا.حوالہ جات ۱ کتاب الخراج لقاضی ابو یوسف ص (31) ؟ ۲.(فتوح البلدان ص 1398) ؟ ۳.(ابوداؤد کتاب الجہاد ) ۴- مقریزی ج1 ص208) ؟ ( تاریخ اسلام مصنفہ اکبر شاہ خان ص 174) www.alislam.org

Page 83

مسلم نوجوانوں کے سندھ کارنامے جرات و بہادری 165 مسلمانوں نے نہایت ہی قلیل تعداد اور بے سروسامانی کی حالت میں چند ہی سالوں میں دنیا کا نقشہ بدل دیا تھا.اسکی کئی ایک وجوہات ہیں.جن میں سے ایک ان لوگوں کی غیر معمولی جرات و بہادری ہے.ایمان نے ان کی قلبی کیفیت ایسی کر دی تھی.اور مشق الہی میں انہیں اس قدر سرشار کر دیا تھا کہ اسلام کے مقابلہ میں وہ نہ اپنی زندگی کی کوئی قدر و قیمت سمجھتے تھے اور نہ اپنے عزیز واقارب کی.ان کے حوصلے بلند اور ارادے اس قدر مضبوط تھے کہ سخت مشکلات کے وقت بھی وہ کسی بات سے خوف نہ کھاتے تھے.ان کی جرات و بہادری کے واقعات تاریخ میں اس قدر بیان ہے کہ ان کے بیان کے لیے کئی تنخیم جلدیں درکار ہیں لیکن ہم یہاں بطور نمونہ چند ایک واقعات درج کرتے ہیں.1- صحابہ کرام نے جب مدین میں داخل ہونا چاہا تو بیچ میں دریا ٹھاٹھیں مار رہا تھا.اس مشکل کا کوئی حل اس وقت نہ تھا.آخران جواں مردوں نے نتائج سے بے پرواہ ہو کر اپنے گھوڑے دریا میں ڈال دیئے.اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی اور اکثر ان میں سے صحیح و سالم کنارے پر پہنچ گئے.اور اس طرح دریا پار کر کے شہر میں پہنچے.ایرانیوں نے دیکھا تو کہا کہ دیوان آمدند اور شہر کو خالی کر دیا.2 قادسیہ کے میدان میں حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں جب ایرانیوں کے ساتھ فیصلہ کن جنگ ہوئی تو ایک سخت مشکل سامنے آئی.ایرانی ہاتھیوں کو میدان جنگ میں لائے.اور وہ جس طرف رخ کرتے مسلم مجاہدین کو کچلتے ہوئے چلے جاتے.اور صفوں کی صفیں الٹ دیتے تھے.حضرت قعقاع نے یہ تدبیر کی کہ اونٹوں پر سیاہ رنگ کے جھول ڈال کر ان کو ہاتھیوں کے مقابلہ پر کھڑا کیا.مگر اس سے خاطر خواہ نتیجہ مرتب نہ ہوا.حضرت سعد بن ابی وقاص اسلامی لشکر کے سپہ سالار تھے.اور ہاتھیوں کی وجہ سے بہت پریشان تھے.انہیں مسلم نوجوانوں کے 166 بعض پاسی نومسلموں نے بتایا کہ اگر ان کے سونڈ اور آنکھیں بریکا ر کر دی جائیں تو پھر یہ کوئی ضر نہیں پہنچا سکیں گے.آپ نے حضرت قعقاع ، حضرت محال اور حضرت ربیع کو اس پر مامور فرمایا.ان تینوں بہادروں نے ہاتھیوں کو گھیرے میں لے لیا اور بر چھے مار مار کر ان کی آنکھیں ضائع کرنے لگے.ہاتھیوں میں ایک سفید رنگ کا ہاتھی تھا جسے گویا ان کا سپہ سالار کہا جاسکتا تھا.حضرت قعقاع نے جرات سے کام لے کر اس کے سونڈ پر ایسی تلوار ماری کہ وہ کٹ کر الگ جاپڑی.اور وہ بے قرار ہو کر ایسا بے تحاشا بھا گا کہ سب ہاتھی اس کے پیچھے ہو لیے.3 جرات و بہادری صرف اس کا نام نہیں کہ انسان تلوار کے ساتھ میدان جنگ میں دشمن کے ساتھ نبرد آزما ہو بلکہ صداقت کو اس وقت قبول کرنا جب ہر طرف سے اس کی مخالفت ہورہی ہو.اور دشمن ایذا رسانی پر اترے ہوئے ہوں، اور صداقت کو قبول کرنا گویا اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہو.اسکی حمایت کے لیے کھڑے ہو جانا اصل جرات و.بہادری ہے اور صحابہ کرام کی زندگی میں اس بہادری کی مثالوں کی بھی کمی نہیں.حضرت علی کی عمر بمشکل چودہ پندرہ برس کی ہوگئی کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے خاندان کو تبلیغ کرنے کے لیے ایک دعوت کا انتظام کیا.جب سب لوگ کھانے سے فارغ ہو چکے تو آپ نے اٹھ کر ان کو دعوت اسلام دی اور فرمایا کہ میں تمہارے سامنے دین ودنیا کی بہترین نعمت پیش کرتا ہوں.کون ہے جو میر ا معاون و مددگار ہو گا.سب لوگ یہ بات سن کر چپ رہے لیکن حضرت علیم نے اٹھ کر فرمایا کہ گو میں سب سے چھوٹا ہوں اور کمزور ہوں تاہم آپ کا دست و بازو بنوں گا.آپ نے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ.پھر اسی سوال کو دہرایا.آپ نے تین مرتبہ ایسا کیا لیکن تینوں مرتبہ کوئی نہ بولا.سوائے حضرت علی کے کہ آپ نے تینوں مرتبہ کھڑے ہو کر آپ کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا.اور اس بات کی کوئی پرواہ نہ کی کہ خاندان کے سب بڑے بڑے لوگ اس بار کو اٹھانے سے انکار کرتے ہیں.www.alislam.org

Page 84

168 مسلم نوجوانوں کے کارنامے 167 مسلم نوجوانوں کے رنامے آنحضرت ﷺ نے جب مدینہ کی طرف ہجرت کا ارادہ فرمایا تو یہ وہ وقت تھا جب مشرکین نے بھی یہ دیکھ کر کہ مسلمان ایک ایک دو دو کر کے مکہ سے نکلتے جارہے ہیں یہ فیصلہ کیا کہ آنحضرت ﷺ کا کام تمام کر دیا جائے.چنانچہ جس شب آپ نے مکہ کو چھوڑنا تھا وہ مسلح ہو کر آپ کے مکان کے اردگرد پہرہ دینے لگے.آنحضرت ﷺ نے اس خیال سے کہ کفار کو شک نہ ہو حضرت علی کو اپنے بستر پر سونے کا ارشاد فرمایا.چنانچہ حضرت علی نے اپنی جان کے خوف سے بے نیاز ہو کر اس خدمت کو قبول کیا اور عین اس وقت جب کفار کی تلواروں کی جھنکار مکان سے باہر صاف سنائی دے رہی تھی حضرت علی نہایت اطمینان کے ساتھ آپ کے بستر پر لیٹے رہے.اور کفار کو چونکہ آپکے اندر ہونے کا یقین تھا اس لیے انہوں نے دوسری طرف توجہ نہ کی.اور آنحضرت ﷺ کو مکہ سے نکل جانے کا موقعہ مل گیا.صبح کے وقت جب ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو بہت برہم ہوئے مگر اب کیا ہوسکتا تھا.5- بہادری اور جرات کے واقعات صرف مردوں تک ہی محدود نہیں بلکہ عورتوں میں بھی یہ وصف ہمیں نمایاں نظر آتا ہے.غزوہ خندق کے موقعہ پر آنحضرت ﷺ نے تمام مسلمان خواتین کو ایک قلعہ میں محفوظ کر دیا تھا اور وہاں حضرت حسان کی ڈیوٹی لگادی تھی.ایک دفعہ ایک یہودی قلعہ پرحملہ کی راہ تلاش کرتا ہوا اس کے پھاٹک پر پہنچا.حضرت صفیہ نے اسے دیکھا تو حضرت حسان سے کہا کہ اسے قتل کر دیں.ورنہ یہ جا کر اپنے ساتھیوں کو اطلاع دے گا.جس سے حملہ کا خطرہ ہے.لیکن حضرت حسان کی طبیعت ایک بیماری کی وجہ سے ایسی ہوگئی تھی کہ خونریزی کو دیکھ بھی نہ سکتے تھے.چہ جائیکہ اس میں خود کوئی حصہ لے سکیں اس لیے انہوں نے معذوری کا اظہار کیا.اور یہودی کے بہ سلامت واپس چلے جانے کی صورت میں چونکہ سخت خطرہ کا احتمال تھا اس لیے حضرت صفیہ خود آگے بڑھیں.خیمہ کی ایک چوب اکھیڑی اور قلعہ سے اتر کر اس زور سے یہودی کے سر پر ماری کہ وہ بد بخت وہیں ڈھیر ہو گیا.اس کے بعد حضرت صفیہ نے اس کا سرکاٹ کر قلعہ سے نیچے پھینک دیا تا کہ یہودیوں پر رعب طاری ہو جائے.چنانچہ اس کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہوا اور یہودیوں نے سمجھ لیا کہ قلعہ میں بھی ضر ور فوج موجود ہے اور اس وجہ سے انہیں قلعہ پر حملہ کی جرات نہ ہوئی.6- حضرت ام سلیم غزوہ حنین میں ایک خنجر ہاتھ میں لیے پھر رہی تھیں.حضرت ابوطلحہ نے آنحضرت ﷺ کو اس سے مطلع کیا.حضور نے فرمایا کہ خنجر کیوں پکڑے ہوئے ہو.تو انہوں نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ ﷺہ اگر کوئی مشرک قریب آئے گا تو اس کا پیٹ چاک کر دوں گی.آنحضرت ﷺ یہ جواب سن کر مسکرائے.7.ایرانیوں کے ساتھ جنگوں کے دوران میں ایک مرتبہ مسلمانوں نے ایک مقام انبار پر محاصرہ کیا.جس کا حاکم شیرزاد نامی ایک ایرانی سردار تھا.اس نے شہر کی فصیل کے باہر مٹی کا ایک دیدمہ تیار کر لیا تھا.اسلامی لشکر کے سپہ سالار حضرت خالد بن ولید تھے.جب محاصرہ نے طول کھینچا تو حضرت خالد اپنے جان باز سپاہیوں کو لے کر آگے بڑھے.رستہ میں خندق حائل تھی اور اس کے دوسری جانب ایرانیوں نے تیروں کی بارش شروع کر رکھی تھی.خندق کو عبور کرنے کے لیے حضرت خالد نے حکم دیا کہ کمزور اور دبلے اونٹ ذبح کر کے اس میں ڈال دیے جائیں اور اور اس طرح ایک قسم کا پل بنالیا گیا.باقی رہا تیروں کی بارش سویدان سرفروشوں کے لیے کوئی درخور اعتناء چیز نہ تھی.دشمن اپنا کام کر رہے تھے اور یہ اپنا.وہ تیر برسا رہے تھے اور یہ آگے بڑھتے جارہے تھے.مسلمان مجاہدین کو تیروں نے جس قدر نقصان پہنچایا اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ ایک ہزار کی آنکھیں بے کار ہوگئیں.مگر یہ برابر بڑھتے گئے حتی کہ پہلے دمدمہ پر قبضہ کر لیا اور پھر فصیل پر پہنچ گئے.ایرانیوں نے سخت مزاحمت کی لیکن جو لوگ اس طرح موت سے کھیلتے ہوئے یہاں پہنچے تھے وہ کسی مزاحمت کو کب خاطر میں لاتے تھے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہیں فتح ہوئی اور وہ فاتحانہ شان کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے.www.alislam.org

Page 85

170 مسلم نوجوانوں کے کارنامے 169 مسلم نوجوانوں کے نامے محض شجاعت اور بہادری ہرگز کام نہیں آسکتی بلکہ اس کے ساتھ فہم وفراست سے کام لینا بھی کامیابی کے لیے ضروری ہوتا ہے.مسلمان جب ایرانیوں کے ساتھ نبرد آزما تھے تو بصرہ کے حاکم حضرت عبداللہ بن عامر نے حضرت ہرم بن حیان کو جور کا محاصرہ کرنے کے لیے بھیجا.اس محاصرہ نے طول پکڑا اور شہر میں داخلہ مشکل نظر آنے لگا.حضرت ہرم بن حیان دن کے وقت روزہ رکھتے اور شب کو عبادت کرتے تھے.ایک دن افطاری کے وقت انہیں کھانا نہ ملا لیکن انہوں نے صبر کیا اور اگلے روز پھر روزہ رکھ لیا.مگر شام کو پھر کھانا نہ ملا اور اس طرح کئی روز گزر گئے.آخر ایک روز انہوں نے اپنے خادم سے پوچھا کہ میرے لیے کھانا کیوں تیار نہیں ہوتا.اس نے بتایا کہ میں تو ہر روز تیار کر کے رکھ جاتا ہوں معلوم نہیں کہاں جاتا ہے.اس روز خادم نے مقررہ جگہ پر کھانا رکھا اور خود نگرانی کرتا رہا.تھوڑی دیر میں ایک کتا آیا اور کھانا اٹھا کر چلتا ہوا.خادم بھی پیچھے پیچھے ہو لیا اور اس نے دیکھا کہ کتا ایک بد رو کے رستہ شہر میں داخل ہو گیا.خادم نے واپس آکر حضرت ہرم کو اطلاع دی.انہوں نے اسے تائید غیبی سمجھا.اور چند شجاع نو جوانوں کو ساتھ لے کر رات کے وقت اسی بدرو کے رستہ شہر میں جا داخل ہوئے.محافظوں کو قتل کر کے دروازے کھول دیئے اور اس طرح اسلامی لشکر شہر پر قابض ہو گیا.9- جنگ قادسیہ کے موقعہ پر جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو پہلے لشکر ایران میں سے ایک شہزادہ ہرمز نامی میدان میں نکلا اور مبارز طلب کیا.حضرت غالب بن عبد اللہ اسدی اس کے مقابلہ کے لیے نکلے اور فوراً ہی اسے گرفتار کر کے اسلامی لشکر میں لے آئے.اس کے بعد اہل فارس کا ایک اور بہت بڑا نا مور پہلوان آیا اور اس کے مقابلہ کے لیے حضرت عاصم پہنچے.اور دونوں میں زور آزمائی ہونے لگی.لیکن تھوڑی ہی دیر بعد ایرانی پہلوان میدان سے بھاگا.حضرت عاصم نے اس کا پیچھا کیا اور عین اس وقت جب کہ وہ اپنے لشکر کی صف اول کے قریب پہنچ چکا تھا پیچھے سے اس کے گھوڑے کی دم کو پکڑ کر اسے ایک قدم بھی آگے اٹھانے سے روک دیا.اور پھر اس پہلوان کو اس کے گھوڑے سے زبر دستی اٹھا کر اپنے گھوڑے پر بٹھا لیا اور اس طرح گرفتار کر کے اپنی فوج میں لے آئے.10- ایرانی جب قادسیہ سے بھاگے تو ان کا ایک سردار شہر یار کوٹی کے مقام پر اپنی فوج کو جمع کر کے مسلمانوں سے انتقام لینے کے منصوبے سوچنے لگا.حضرت زہرہ بھی تھوڑی سی فوج کے ساتھ ادھر سے گزرے تو ان کو شہریار کی تیاریوں کا علم ہوا.اور وہ بھی ان کی آمد کی خبر سن کر باہر نکلا.دونوں لشکر بالمقابل ہوئے اور شہر یار نے چیلنج کیا.کہ تم میں سے جو شخص بہادر ترین ہو وہ میرے سامنے آئے.حضرت زہرہ نے کہا کہ پہلے تو میرا ارادہ خود تم سے مقابلہ کرنے کا تھا مگر تمہارے اس غرور کو دیکھ کر میں کسی عام سپاہی کو بھیجتا ہوں.چنانچہ آپ نے حضرت نائل بن چشم اعرج کو جو قبیلہ بنو تمیم کے غلام تھے بھیجا.حضرت نائل دبلے پتلے اور شہر یار بڑی ڈیل ڈول کا آدمی تھا.اور اس نے فورا ہی حضرت نائل کوگردن سے پکڑ کر نیچے گر الیا اور چھاتی پر چڑھ بیٹھا.لیکن حضرت نائل کے منہ میں ان کے ہاتھ کا انگوٹھا آ گیا.اور آپ نے اس پر اس زور سے کاٹا کہ وہ شدت درد کی تاب نہ لا سکا.اور حضرت نائل اس کے نیچے سے نکل کر اس کی چھاتی پر چڑھ بیٹھے اور خنجر کے ساتھ اس کا پیٹ چاک کر دیا.اسلامی لشکر کے سپہ سالار نے حضرت نائل کو حکم دیا کہ شہر یار کی زرہ ہتھیار اور سارا لباس پہن کر سامنے آئے.چنانچہ اس کی تعمیل کی گئی.11- رومیوں کے ساتھ جنگ کے سلسلہ میں مسلمانوں نے ایک قلعہ کا محاصرہ کیا.جس نے بہت طول کھینچا.کفار باہر آتے نہ تھے اور مسلمان قریب جائیں تو تیر اور پتھر برساتے تھے.حضرت ابو عبیدہ نے مدینہ سے کمک منگوائی.جس میں ایک حبشی نژاد غلام حضرت وامس بھی تھے جن کی کنیت ابوالہول تھی.انہوں نے آکر حضرت ابو عبیدہ سے کہا کہ مجھے تمہیں جان بازدے دیئے جائیں.تو میں قلعہ کے اندر داخلہ کی کوئی صورت انشاء اللہ پیدا کرلوں گا.رات کے وقت حضرت وامس تمہیں نوجوانوں کو لے کر قلعہ کے نیچے پہنچے اور ساتھیوں کو ذرا www.alislam.org

Page 86

172 مسلم نوجوانوں کے نامے 171 پیچھے ٹھہرا کر خود قلعہ کے اردگرد چکر لگایا.اور اندازہ لگایا کہ ایک چھوٹا سا برج سنسان ہے یا تو اس پر کوئی پہریدار نہیں ہے اور یا اگر ہے تو سویا پڑا ہے.حضرت وامس نے اپنے ساتھیوں میں سے دو کو تو واپس حضرت ابو عبیدہ کے پاس یہ پیغام دے کر بھیج دیا کہ ایک ہزار سوار صبح ہونے سے قبل قلعہ کے نیچے پہنچ جائیں.فصیل کی بلندی کو دیکھ کر اندازہ کیا کہ سات آدمی اگر نیچے اوپر کھڑے ہوں تو آخری آدمی او پر پہنچ سکتا ہے.چنانچہ آپ نیچے کھڑے ہوئے اور چھ آدموں کو ایک دوسرے کے اوپر چڑھایا.اس طرح آخری آدمی فصیل پر پہنچ گیا.اور اس نے ایک رسہ کنگروں سے مضبوط باندھ دیا.جس کے سہارے یہ سب مجاہدین برج میں داخل ہو گئے.وہاں دو پہریدار شراب کے نشہ میں مدہوش پڑے تھے.کیونکہ سویرے ہی مسلمانوں نے مصلحا لشکر اٹھا کر کوچ کا اعلان کر دیا تھا اور رومی ان کے واپس جانے پر جشن منا کر شراب سے بے ہوش ہو رہے تھے.چنانچہ برج کے بے ہوش پہریداروں کو قتل کر دیا گیا.حضرت وامس اپنے ساتھیوں کو لے کر دروازہ پر پہنچے اور پہریداروں کو قتل کرنا شروع کیا.انکے شور مچانے پر فوجی بیدار ہو کر حملہ آور ہوئے.حضرت وامس نے اپنے ساتھیوں کو دروازہ کے ساتھ ساتھ کھڑا کر دیا تا کہ اس پر قبضہ رہے اور رومیوں سے با قاعدہ جنگ ہونے لگی.حضرت وامس نے ایسا مورچہ قائم کر لیا تھا کہ رومی زیادہ تعداد میں ان پر حملہ نہیں کر سکتے تھے.جگہ تنگ تھی.اور اتنے ہی رومی آگے بڑھ سکتے تھے جتنے اس میں سماسکیں.اور جو آگے بڑھتے مسلمان مجاہدین ان کو تہ تیغ کر دیتے.نصف شب سے لے کر صبح تک برابر یہ معرکہ جدال گرم رہا اور آٹھ مسلمان شہید ہو گئے.صبح کے قریب قلعہ سے باہر اسلامی لشکر پہنچ گیا اور نعرہ ہائے تکبیر بلند کرنے لگا.حضرت وامس نے یہ معلوم کر کے کہ مسلمان آپنے مدافعت کا خیال چھوڑ کر قلعہ کا دروازہ کھول دیا اور مسلمان فاتحانہ انداز میں اندر داخل ہو گئے.اس لڑائی میں حضرت وامس کے بدن پر ستر زخم آئے مگر وہ برابرلڑتے رہے.مسلم نوجوانوں کے سند کارنامے ا.( تاریخ طبری ص 2441) ۳.(مستدرک حاکم ج 3 ص 4) ه - ( مسلم ج 2 ص 103) ۷- ( تاریخ اسلام ص 40) ۹- ( تاریخ اسلام) حوالہ جات ۲ - ( تاریخ طبری ص 1172) ۴.(ابن سعد ج 8 ص 27) ۲ - ( تاریخ اسلام ص 307) - ( تاریخ اسلام ص 353) www.alislam.org

Page 86