Mushaira Jashn-eKhilafat

Mushaira Jashn-eKhilafat

پُرکیف عالم تصور کا مشاعرۂ جشن خلافت

اور اصحابِ مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار
Author: Other Authors

Language: UR

UR
خلافت اسلامیہ احمدیہ

سب جانتے ہیں کہ رب العالمین خدا کے بے شمار جہانوں میں سے ایک عالم ِتخیل و تصور بھی ہے جو حسب استعداد باطنی طور پر ہر دل و دماغ کو عطا کیا جاتا ہے۔ جس کا ایک نادر اور یگانہ روزگار شاہکار حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کی پرمعارف تقاریر کا مجموعہ ’’سیر روحانی‘‘ ہے جو القائے خاص اور وحی خفی سے آپ کی زبان مبارک پر جاری ہوا۔ یوں تو استعارہ، تشبیہ، کنایہ اور واردات قلبی بھی تو عالم تخیل کی ہی شاخیں ہیں جن کا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے منظوم و نثر کلام میں نمونہ ملتا ہے۔ اس مختصر کتابچہ میں مولانا موصوف نے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے اصحاب کے منظوم کلام میں سے خلافت کے متعلق اشعار  کو یوں سجایا ہے کہ  جیسے کوئی مشاعرہ برپا ہو،اس تمثیلی مشاعرہ کی کل 5 نشستیں مرتب کی ہیں  اور اس میں نشست وبرخاست اور دیگر تفصیلات کو ملا کر ایک دلچسپ اور خاصے کی چیز تیار کردی ہے جو صاحب ذوق احباب کے لئے موجب توجہ بن گئی ہے۔


Book Content

Page 1

الدار اموال وعينوا الشيخ فى الأرض كما تخلف: میں خدا کی ایک مجسم قدر ش اورد جود ہونگے جو دوسری قدر سے کا منظر ہو گئے.پر گری مالی تصور کامشاعره باشی خلافت اور اصحاب من الزمان کے منافقانہ اشعار امور قدرت ثانیه دوست محمد شاہد مؤرخ احمدیت

Page 2

(صرف احمدی احباب کے لئے ) پُرکیف عالم تصوّرکا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسيح الزماں کے عاشقانه اشعار = دوست محمد شاہد مورخ احمدیت

Page 3

ناشر جمال الدین انجم اداره احمدا کیڈ می ربوہ حیات مارکیٹ گولبازارر بوہ لاہور آرٹ پر لیس 15 انار کلی لاہور

Page 4

پُر کیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار 3 پُر کیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب صیح الزماں کے عاشقانہ اشعار رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے رب العالمین خدا کی ربوبیت بیشمار جہانوں پر محیط ہے جن میں عالم تخیل و تصو ر بھی ہے جو حسب استعداد باطنی طور پر ہر دل اور دماغ کو عطا کیا جاتا ہے اور جس کا نادر اور یگانہ روزگار شاہکار حضرت سیدنا محمود مصلح موعود کی پُر معارف تقاریر کا شہر ہ عالم مرقع ”سیر روحانی‘ ہے جو القائے خاص یا وحی خفی کی برکت سے آپ کی زبان مبارک پر جاری ہوا.ایک اعتبار سے استعارہ تشبیہ، کنامی اور واردات قلی کو بھی عالم تخیل کی شاخیں سمجھنا چاہیے جن کی ان گنت مثالیں سلطان العلم مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام کے پر معارف کلام نظم و نثر میں موجود ہیں مثلا اگر ہر بال ہو جائے سخن ور تو پھر بھی شکر ہے امکاں سے باہر دل میں مرے یہی ہے تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے باغ مرجھایا ہوا تھا گر گئے تھے سب شجر میں خدا کا فضل لایا پھر ہوئے پیدا ثمار سو عرض ہے کہ مشاعرہ صد سالہ جشن خلافت کی تمثیلی روداد بھی طلسم خیال ہی کا کرشمہ

Page 5

پُر کیف عالم تصور کا مشاعر و جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار XXXXXXX ہے جس کی بزم آرائی میرے نیرنگ خیال نے کی ہے اور اس در بار ادب کو تصوراتی طور پر سجایا ہے.مقام مشاعرہ قلعہء ہند“.عالم تحیل کا یہ مشاعرہ قلعہ ہند میں ہوا جہاں امام الزماں مہدی دوراں کے الہام کے مطابق رسول اللہ پناہ گزین ہوئے.مشاعرہ اُس سدا بہار گلستان میں ہوا جو بے شمار پھلوں اور پھولوں سے لدا ہوا ہے اور دبستان محمد سے موسوم ہے اور بادشاہ خلافت کی مقدس را بگزر ہونے کے باعث ظاہری آنکھ سے کہکشاں دکھلائی دیتا ہے.مشاعرہ میں تا جداران سخن کا وہ مقدس گروہ شامل ہوا جو اصحاب احمد تھے اور جن کو خود حضرت مسیح موعود نے یہ سرٹیفکیٹ عطا فرمائے.ا.میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ...ایک ایک فردان میں بجائے ایک ایک نشان کے ہیں.۲.ان کی نیکی اور صلاحیت میں ترقی بھی ایک معجزہ ہے“.(حقیقۃ الوحی صفحه ۲۳۸) ( الذكر الحکیم نمبر صفحہ ۱۶.۱۷).وہ اسلام کا جگر اور دل ہیں“.(انجام آتھم ضمیمہ صفحہ ۳۱) ۴.اُن کے دل صدق و عرفاں سے لبریز اور خدا کی رضا جوئی سے معمور ہیں“.( ترجمہ حمامة البشرکی طبع اوّل) بھلا چودہویں صدی کے بعد آنے والے نبی کا مبارک چہرہ دیکھنے والے ان خوش نصیبوں سے بڑھ کر اور کون ہے جو افق احمدیت پر ۲۷ مئی ۱۹۰۸ء سے جلوہ افروز خلافت کے چاند کی ضیاء پاشیوں کے انوار و برکات کا اندازہ کر سکے؟؟ بالخصوص اس لئے کہ وصالِ مسیح موعود کا قیامت خیز منظر اور لاہور برانڈ رتھ روڈ پر دشمنانِ احمدیت کا شور محشر اور فرضی

Page 6

پر کیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار 5 جنازہ اور ماتم انہوں نے بچشم خود مشاہدہ کیا اور پھر ” قدرت ثانیہ کے ذریعہ نازل ہونے والی بے شمار برکتوں کے چلتے پھرتے نشان بن گئے.وہی ہیں جنہوں نے نظام خلافت کی عظمت و برکت کو بصیرت کی آنکھ سے دیکھا.مشاعرہ کی پانچ نشستوں کا احوال اس تمثیلی مشاعرہ کی کل پانچ نشستیں ہوئیں.مشاعرہ کا پنڈال چونکہ انوار خلافت کے روحانی فانوسوں ، قمقموں اور قندیلوں کی روشنی سے جگمگا رہا تھا اس لئے کسی موقع پر روایتی شمع سامنے رکھے جانے کی نوبت نہیں آئی اور نہ مشاعرہ اس شعر کا مصداق بن سکا: سخن مجلس آراستند بشعر نشستند , گفتند و برخاستند اس کے برعکس مشاعرہ نے سامعین میں آفاقی نظام خلافت سے عقیدت میں بے پناہ اضافہ کیا.کبھی اساتذہ فن نے روحانیت کا ایسا سماں باندھ دیا کہ زبانیں درود شریف سے معطر ہو گئیں اور فلک شگاف نعروں نے ان کے دلوں میں اطاعت خلافت کے جذبہ سے موجزن دریا بہا دیے.

Page 7

پر کیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب صیح الزماں کے عاشقانہ اشعار پہلی نشست مشاعرہ کا آغاز سورۃ نور کی آیت استخلاف کی تلاوت سے ہوا.جس کے بعد حضرت مسیح موعود کے مبارک الفاظ میں اس کا یہ ترجمہ سنایا گیا: خدا نے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اور اچھے کام کئے یہ وعدہ کیا ہے کہ البتہ انہیں زمین میں اسی طرح خلیفہ کرے گا جیسا کہ ان لوگوں کو کیا جو ان سے پہلے گذر گئے اور ان کے دین کو جو ان کے لئے پسند کیا ہے ثابت کر دے گا اور ان کے لئے خوف کے بعد امن کو بدل دے گا.میری عبادت کریں گے.میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے.(روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۲۴) ازاں بعد خلفائے راشدین سے متعلق حضرت مسیح موعود کے قصیدہ عربیہ کے چند اشعار اس درجہ خوش الحانی سے پڑھے گئے کہ ناظرین پر وجد کی کیفیت طاری ہوگئی ملخص ان کا اردو میں یہ تھا کہ خلفائے راشدین حزب اللہ اور دین کے محافظ تھے.میں حضرت ابوبکر صدیق کو نصف النہار کے سورج کی طرح پاتا ہوں اور آپ مصطفی امیہ کے کل تھے اور آپ کی عظیم خدمات چودہویں کے چاندوں کی طرح درخشاں ہیں اور حضرت عمر فاروق ہر فضیلت میں آپ کے مشابہ تھے آپ ہی کے عہد میں مصطفی اللہ کے شاہسواروں کے گھوڑوں نے عیسائی ممالک کی غبار اڑا دی اور لشکر دیں نے قیصر و کسریٰ کی شوکت کو پاش سر الخلافة) پاش کر دیا.عربی قصیدہ نے فضا میں زبر دست ارتعاش پیدا کر دیا.پورا ماحول خلفاء راشدین پر درود شریف سے معطر ہو گیا اور پنڈال حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق ، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی شیر خدا زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا.ایسا سماں پہلے چشم فلک XXXXXXXXXXE

Page 8

پُرکیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار 7 نے کبھی نہیں دیکھا ہو گا.اسی مسحور کن فضا میں سٹیج سے میر مجلس کی طرف سے اعلان کیا گیا که شعر وسخن کی مبارک محفل کا آغاز ہوتا ہے ہر کلام میجز نظام کو نہایت ادب اور گوش دل سے سماعت فرمائیے..انتظام جماعت نوی نام اس کام کا خلافت ہے جو جماعت کہ ہو فنا فی الشیخ حقیقت وہی جماعت ہے ( بخار دل) حضرت سید میر ناصر نواب صاحب دہلوی نبیرہ حضرت خواجہ میر درد.موعود اقوام عالم مرسل ربانی کے خسر اور حضرت سیدہ نصرت جہاں کے پاک باطن اور عالی پا یہ والد معظم ، جنہیں تین سو تیرہ اصحاب میں شمولیت کا اعزاز بھی حاصل تھا.نمبر ۲۵ ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۴۱) وہ خلیفہ مجھ کو بخشا جس کی سیرت نیک ہے جو اشاعت دین کی کرتا ہے ہم میں دائما حامی سنت ہے جو اور حافظ قرآں ہے حاجی حرمین ہے امت کا جو ہے عابد و زاہد ہے ہم میں ہے مگر ہم سا نہیں ہم میں دنیا کی ملونی اس میں ہے نور و ضیا رہنما ناصر بیکس کی ہے یارب یہی تجھ سے دُعا آجکل بیمار ہے وہ اس کو دے جلدی شفا

Page 9

پُر کیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار رحم کرتا ہے وہ سب پر تو بھی اس پر رحم کر ہے لوگوں کی تو کر اس کی دوا وہ دوا کرتا وہ 8 ہ کرم کرتا ہے خلقت پر تو کر اس پر کرم کیونکہ ہے تو سب سے بڑھ کر باحیا و باوفا دشمنان دین کو ہم پر نہ کرنا خندہ زن مستعد ہیں حملہ کرنے کے لئے جو بے حیا حیات ناصر صفحه ۹۶ مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اشاعت قادیان دسمبر ۱۹۲۷ء) حضرت قاضی محمد ظہور الدین اکمل صاحب گولیکی (سال بیعت ۱۸۹۷ء.معاون خصوصی اخبار "بدر" قادیان بزمانه مسیح موعود و خلافت اولی.آپ کا دیوان ” نغمہ اکمل “ کے نام سے شائع شدہ ہے.پہلی فقہ احمد یہ بنام "سنت احمدیہ آپ ہی کے قلم سے نکلی جس پر حضرت خلیفہ اول نے یہ رائے تحریر فرمائی کہ کتاب ہر ایک پہلو سے مجھے پسند ہے.جزى الله المصنف آمین.تاریخ اشاعت اپریل ۱۹۱۰) بڑا قدیر ہے پروردگا یہ نور الدین بنایا قبلہ عالم دیار نور الدین جو دیکھنا ہو کسی نے صحابہ کیسے تھے وہ آکے دیکھ لے لیل ونہار نور الدین انقطاع و تبتل پھر اس زمانہ میں ہے خاص حصہ با اختیار نور الدین ہر ایک کام میں سنت کا متبع رہنا یہی شعار یہی ہے دثار نور الدین

Page 10

پُر کیف عالم تصور کا مشاعر کو جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار 00000 بوقت عصر جو مسجد میں درس ہوتا ہے دکھائی دیتی ہے کیسی بہار نور الدین 9 سپرو است احمد کی دید بانی ہوئی جناب حق میں ہی اعتبار نور الدین وہ صدق میں ہے ابوبکر فرق میں ہے عمر دلائے یاد علی ذوالفقار نور الدین چو توڑتی سیر اعدا کو ولائل ہے منا کے چھوڑتی ہے افتخار نور الدین غنا میں جامع قرآن کی شان ہی پیدا خدا کے آگے ہی صرف انکسار نور الدین ہے چشم فیض کا جاری برحمت باری بجھائے تشنگیاں آبشار نور الدین مسیح وقت کی خدمت کا نتیجہ ہے کہ خاص وعام کا مرجع ہے دار نور الدین نغمہ اکمل صفحہ ۷۹.ناشر مکتبہ یاد گار اکمل ربوہ.۲۷ ستمبر ۱۹۶۷ء) حضرت ماسٹر نعمت اللہ صاحب گوہر بی اے ( حضرت ماسٹر علی محمد صاحب بی اے بی ٹی ٹیچر تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے شاگرد دنیا بھر میں موجود ہیں.حضرت گوہر آپ کے بھائی تھے جنہوں نے آپ کے ساتھ ۱۹۰۵ء میں سید نا حضرت مسیح موعود کے دست مبارک پر بیعت کی.وصال مسیح موعود کے وقت چنیوٹ ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے.تحفہ ہندو یورپ “ آپ کی مشہور تالیف ہے.

Page 11

پر کیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار یہ پہلی نظم ہے جو در بار خلافت ثانیہ کے حضور پڑھی گئی ) دعائیں سُن لیں ہماری خدائے قادر نے کیسا فضل کیا اک جری کو بھیج دیا جو نور دیں ہوا اوجھل ہماری آنکھوں تو اک آن میں نور نبی کو بھیج دیا بیجا لیا ہمیں گرنے سے چاہ ظلمت میں که خود بخود ہی امام تقی کو بھیج دیا سمجھ نہ سکتے تھے کیا ہو گیا ایسی حالت میں خدا نے وقت یہ کیسے زکی کو بھیج دیا بشیر ثانی ثانی و محمود 03 فضل عمر ہے وہ بہتریں تھا.خدا نے اُسی کو بھیج دیا رہی نہ باقی دلوں میں شکوک کی ظلمت جب آسماں سے وحی خفی کو بھیج دیا کوئی تو ہونا تھا آخر خلیفہ ثانی اعتراض ہی کیا ہے ؟ کسی کو بھیج دیا فسردگی ہوئی کافور احمد بیت سے 10 جلا کے شمع ہدی روشنی کو بھیج دیا دعا کرتا گوہر تیرے لئے محمود ہے جہاں میں پھولو پھلو ہووے عاقبت مسعود (الفضل ۱۸ مارچ ۱۹۱۴ء صفحه ۳ )

Page 12

پُر کیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب صیح الزماں کے عاشقانہ اشعار 11 حضرت مولانا الحاج محمد دلپذیر صاحب بھیروی سال بیعت مئی ۱۹۰۸ ء.پنجابی میں برصغیر کے بے مثال شاعر و مفسر جن کی قادر الکلامی کا سکہ چوٹی کے ادبی حلقوں پر آج تک جاری ہے ) در یغا نور از روئے زمین رفت جہاں تاریک شد چون نور دیں رفت شبگون شده عالم تصویر چراغ دین ختم المرسلیس رفت مکمل من نور بود از ہر کمالے الكملاء اکمل کاملیں رفت حکیم و حاجی الحرمین و حافظ بعشق پاک قرآن میں رفت چہار معمور بود از نور قرآن بریس زاد و بریس بود و برین رفت خلیق و از انوار عرفان الہی مجسم نور شمس العارفین رفت فیاض عالم محسن ممتیں خوبی امام بہر خوبی رفت شفیق عاجزان و بیکساں را انہیں و ہم جلیس و ہم نشیں رفت دلم مجروح از زخم فراقش طبیب حاذق دنیا و دین رفت

Page 13

پر کیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار 000000000000000 چه گویم وصف آن مرحوم و مغفور یکے مقبول رس العالمین رفت بصورت آدمی سیرت فرشته چنین آمد بدنیا ہم چنین رفت بکار خویش منصور و مظفر ازیں عالم بحال بہترین رفت نشانی از نشانات مسیحا خلیفہ اول وہم جانشیں رفت خلافت یافته محمود و بشیر آمد چو نور اولیس رفت ز فضل خویش حق مارا عمر داد 12 چوں صدیق امیر المومنین رفت مبارکباد ایں رور خلافت که صیت شوکتش اندر زمین رفت فیوض مهدی از محمود یا بیم کہ آمیں بر لپ روح الامیں رفت (الفضل ۱۲۹ پریل ۱۹۱۴ء صفحه ۲۰) حضرت حافظ صوفی تصور حسین صاحب اولیس بریلوی مہاجر قادیان غضب کے پر گو شاعر تھے.آپ کی طویل نظموں پر بھی سلسلہ - احمدیہ سے فدائیت کا رنگ غالب تھا اور مذہب کی گہری چھاپ تھی.وفات ۱۲ اپریل ۱۹۲۷ء بعمر ۷۰ سال)

Page 14

پُرکیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار حق ادھر ہے جس طرف یہ مہدی معہود ہے حق نے برکت ڈالی ہے اس کی زباں میں بیشتر جانشیں اس کا جو ہے بیشک ہے راہ راست پر متبع اس کا ہے آفت سے اماں میں بیشتر سایہ رحمت اس پر خوش سپر محمود ہے حامی دیں حق کے لطف بیکراں میں بیشتر ہے خدا اس کا معلم وہ خدا کا دوست ہے ہے نصیبہ اُس کا فیض آسماں میں بیشتر اس کے دل میں تڑپ اسلام کی تائید کی قرر ب حق میں سب سے وہ ہمرہاں میں بیشتر چاہیئے ہر مومن اس کے ہاتھ پر بیعت کرے ور نہ ہو گا 03 گروہ گمراہاں میں بیشتر 13 جو بُرا اُس کو کہے گا وہ بُرا ہو جائیگا آگ لگ جائے گی اس کی بدزباں میں بیشتر کیوں نہ ہم پیرو ہوں اُس کے جان اور دل سے اولیس مرتبہ میں ہے جو سب سے اس زماں میں بیشتر حضرت منشی نعمت اللہ خاں صاحب انور بدایونی ( الفضل ۲ مئی ۱۹۱۴ء صفحه ۲ ) ( مہاجر قادیان.آپ پہلے منظر تخلص رکھتے تھے.حضرت خلیفہ اول کے منشاء مبارک کے مطابق اسے ترک کر کے انور کہلانے لگے.حضرت صوفی تصور حسین صاحب اور آپ کو

Page 15

پُر کیف عالم تصور کا مشاعر و جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار 0000000000 1911 14 یہ شرف حاصل ہے کہ انہوں نے مرکز احمدیت قادیان میں برپا ہونے والی اس پہلی بزم مشاعرہ میں اپنا کلام سنایا جس میں صدر حضرت سیدنا نور الدین خلیفہ ایسیح الاوّل تھے.یہ تاریخی مشاعرہ ۲۳ نومبر ۱۹۶۱ء کی صبح کو مدرسہ تعلیم الاسلام کے صحن میں ہوا.حاضرین کئی سو تھے.مشاعرہ کا آغاز حضرت خلیفہ اسح الاول اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کے تشریف لانے پر ہوا.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے ارشاد پر اکبر شاہ خاں نجیب آبادی (مؤلف " تاریخ اسلام وفات مئی ۱۹۳۸ء ) حسب پروگرام نام پکارتے تھے.دس شعراء نے سامعین کو اپنے کلام سے محظوظ کیا.مشاعرہ کی دلچسپ اور مفصل روداد اخبار بدر دسمبر ۱۹۱۱ء صفحہ ۳ تا۶ میں شائع شدہ اور پڑھنے کے لائق ہے.) ہمارا پیشوا یہی رہبر المومنین محمود ہمارا سراپا راستبازی کا نشاں ہے اولو العزمی میں یکتائے زماں ہے نوجواں ہے احمد خدا رکھے اسے دائم سلامت ہمارا پیر اب اسی کے سر پہ ہے تاج خلافت اُسی کے ہاتھ ہم سب کی عناں ہے ہے راستبازوں کا شہنشاہ جو دل پر مومنوں کے حکمراں ہے یہی مخزن ہے ہے علیم معرفت کا نہیں کان حقیقت بے گماں ہے لٹاتا ہے خزانہ معرفت کا سخاوت اس کے چہرے سے عیاں ہے اسے حق نے دیا جو علم قرآں عیاں ہے وہ نہ محتاج بیاں ہے ہمیں یہ کھول کر سمجھا رہا ہے کہ اس میں سود ہے اس میں زیاں ہے سنو اے دوستو اک بات میری اگر پاس مسیحائے زماں ہے کیا ہے دین کو تم نے مقدم تمہارے دوش پر بار گراں ہے کہا ہے جو اُ سے کر کے دکھاؤ کہ قول صادقاں ہمراہ جاں ہے کرو قربانیاں تم راہ دیں میں ترقی اب اسی میں ہم عناں ہے اٹھو اور اُٹھ کے دُنیا کو دکھا دو کہ خادم دین کا ہم سا کہاں ہے کرو تم مال و زر سے اس کی امداد تمہاری قوم زار و ناتواں ہے خدا ہرگز نہیں محتاج لیکن تمہارا امتحاں ہے امتحاں ہے

Page 16

15 پُر کیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار خدا کے فضل کے بن جاؤ وارث اگر شوق حیاتِ جاوداں ہے خدا کو اس طرح راضی کرو تم فرشتے بھی پکار اُٹھیں کہ ہاں ہے ( الفضل ۳۱ دسمبر ۱۹۱۴ء صفحه ۸) حضرت محمد نواب خان صاحب ثاقب مالیر کوٹلوی میرزاخانی ( تحریک احمدیت کے نہایت با کمال سخنور اور صاحب طرز شاعر.جن کا کلام الحام ، البدر اور بدر کی زینت ہے.حجتہ اللہ حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی زیر قیادت سات مخلصین مالیر کوٹلہ کا ایک قدوسی وفد ۱۴ نومبر ۱۹۰۱ء کو زیارت مسیح موعود کے لئے قادیان پہنچا ( الحکم ۷ ا نومبر ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۳).یہ وفدم دسمبر ۱۹۰۱ ء تک اپنے مقدس امام ہتمام کی بابرکت مجالس سے فیض یاب ہوتا رہا.اس وفد میں حضرت ثاقب بھی تھے جیسا کہ حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے اپنی ڈائری میں بھی ریکارڈ کر دیا ہے.حضرت نواب محمد علی خاں صفحہ ۹۰۰ طبع دوم - مطبوعہ ۱۹۹۹ء) ایک طویل مسدس کے منتخب اشعار جو جلسہ سالانہ ۱۹۱۴ء میں آپ نے پڑھی.اے مسیحا کے خلیفہ پیارے مرزا کے رشید مہدی صاحبقران موعود عیسی کے رشید والا نشاں کے نام لیوا کے رشید میرے آقا کے رشید میرے مولا کے رشید رنگ سلطان القلم ہے آپ کی تحریر میں اک اعجاز مسیحا آپ کی تقریر میں ہے آپ کے چہرہ ہے ہے نجم سعادت آشکار آپ کے رُوئے مبارک سے نجابت آشکار

Page 17

پُر کیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار خال و خط سے آپ کے نقش ولایت آشکار تیوروں سے آپ کے نور نبوت آشکار آپ کی آنکھوں کو حق بینی کا آئینہ کہیں صافی کو زیبا ہے که بے کینہ کینہ کہیں موجزن ہے آپ کے سینہ میں دریائے علوم آپ کے دل میں نہاں لولوئے لالائے علوم آپ دارائے معافی اور دانائے علوم ہیں عرفان حق کے درس فرمائے علوم آپ نے دیکھی ہیں آنکھیں پیارے نور الدین کی پائی ہے تعلیم اُن سے دنیا کے آئین کی مرنے والا جانتا تھا علم قرآن کے رموز ان کو ازبر تھے کلام پاک سبحاں کے رموز دل میں کرنے والے گھر وہ خط جاناں کے رموز آہ وہ وہ دیں کے اشارات اور ایمان کے رموز اُن کی میراث آگئی ہے آپ کی تقسیم میں یہ وہی گنج نہاں ہے آپ کی تعلیم میں ہیں نور دیں بھی آپ ہیں نور نبی بھی آر ایسے نازک وقت میں مرد جری بھی آپ ہیں امعی ولوژی و منتہی بھی آپ ہیں آپ ہیں حق کے ولی مرد سختی بھی آپ ہیں xXxXxXxXxXxXxXxXxXxXxXxXxXxXxXxXxXxXxXxXxXxXxXxXxXxXxXxXxXxXxXxXxXxXxXxXxXx 16

Page 18

پر کیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار آپ ہیں وہ جن کی آمد کی دُعا کرتے تھے ہم بھیج دے ہاں بھیج دے کی التجا کرتے تھے ہم آپ نے شیرازہ وحدت میں باندھا قوم کو کر دیا اپنی اخوت میں اکٹھا قوم کو آپ نے وحدت سکھائی اور ایکا قوم کو پھر وہی لذت ملی، تھا جس کا چسکا قوم کو ہے وہ نور خلافت تھا جو نور الدین میں تھی یہی حمکین یہی تمکین و شوکت مرد با تمکین میں اللہ اللہ اُس بڑھاپے میں وہ طاقت اور زور لوحش اللہ ایسی پیری میں وہ قوت اور زور تو کل کی بات ہے وہ اس کی شوکت اور زور ہم نے خود دیکھا ہے تھی جو اس میں سطوت اور زور کوئی اُٹھتا تو بیٹھا دیتا اُسے تادیب سے روٹھتا بھی تو منا لیتا تھا اک ترکیب سے قوم کا الغرض تھا ایک ہادی اور رہبر قافلہ سالار اک سالار لشکر قوم ایک تھا سردار قوم اور ایک سرور قوم کا ایک ہی تھا زینت محراب و منبر قوم کا اُس کو کہتے تھے مسیحا کا خلیفہ ہے یہی جانشین مهدی و موعود عیسی ہے یہی 17

Page 19

18 پر کیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار مدتوں تک ہم رہے اس کی خلافت کے تلے اس کی حکمت کے تلے.اس کی حکومت کے تلے اُس کی ہمت کے تلے.اس کی حمایت کے تلے.چھ برس تک اس کے ظلنِ عدل و رافت کے تلے اس کے آگے کر دیا ہم نے سر تسلیم خم ہے پتہ کی بات اس کے سامنے مارا نہ دم تھا خدا کا ہاتھ ہی تھا جو ہمارے ہاتھ پر عہد تھا جس نے لیا ہم سے خدا کی بات پر اک حکومت تھی ہمارے طور پر عادات پر جس کا قابو تھا ہمارے نفس کے جذبات پر توڑ دی بیعت تو پھر بیعت کئے آخر بنی تھی مصیبت جو ہماری جان اور دم پر بنی مختصر یہ ہے کہ بیعت کر کے ہم زندہ ہوئے جو پریشاں پھر رہے تھے آخرش یکجا ہوئے رشتہ وحدت میں آئے اور کیا سے کیا ہوئے عیسی احمد میں میٹ مٹ کر دم عیسی ہوئے زندہ کر لینا ہمیں مردوں کا آسان ہو گیا اکمہ و ابرص کے دُکھ کا ہم سے درماں ہو گیا یہ جو کچھ حاصل ہوا وحدت کی برکت سے ہوا نور دیں کے فیض سے اور اسکی صحبت سے ہوا

Page 20

پر کیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار جماعت سے ہوا اور احمدیت سے ہوا کہہ بھی دو کیا دیر ہے سب کچھ یہ بیعت سے ہوا 19 الوصیت کا معمہ نور دیں حل کر گئے جو وصیت اپنے جیتے جی مکمل کر گئے (الفضل ۵ جنوری ۱۹۱۵ء صفحه ۴)

Page 21

پُر کیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار دوسری نشست حضرت حافظ سید مختار احمد شاہ صاحب مختار شاہجہانپوری 20 20 (تلمیذ خاص حضرت امیر مینائی لکھنوی.بیعت ۱۸۹۲ء.۱۹۰۵ء میں جماعت احمد یہ شاہجہانپور کے سیکرٹری تبلیغ کا فریضہ انجام دیا.سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر کا چلتا پھرتا انسائیکلو پیڈیا تھے.چوٹی کے اکابر علماء احمدیت آپ سے فیضیاب ہوئے مثلاً خالد احمدیت مولانا جلال الدین صاحب شمس ، مولانا غلام احمد صاحب فاضل بدوملہوی.یہ نظم بھی خلافت ثانیہ کے پہلے بابرکت جلسہ سالانہ قادیان دسمبر ۱۹۱۴ء میں پڑھی گئی تھی ) بڑا آج فضل خدا ہو رہا ہے که حاصل مرا مدعا ہو رہا ہے ادھر احمدی ہیں اُدھر احمدی ہیں اولو العزم جلوه نما ہو رہا ل ستاروں میں جس طرح ہو ماه روشن رنگ آج صل علیٰ ہو رہا ہے سے انبوه خلقت جوش نہایت ہی راحت فزا ہو رہا مزے لوٹتی ہیں نگاہیں منظر بہت خوشنما ہو رہا ہے ہے اٹھیں کیوں نہ رہ رہ کے دل میں امنگیں تماشائے شان خدا ہو رہا ہے

Page 22

پُر کیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار ایک ایک محمود احمد کا شیدا ہوں فدا ہو رہا ہے 21 پھرے ہیں نہ عہد وفا سے پھریں گے کہیں تذکرہ جا بجا سوا اس کے ہے اور کچھ جس کے دل میں وہ پابند حرص ہوا و ہو رہا ہے ہو رہا رہا ہے کوئی جاکے کہہ دے اُس خود نما سے جو اپنی ادا فدا ہو رہا مند کی پھوکوں سے بجھتا ہے سورج پر ارے میرے دانا کیا ہو رہا ہے کدھر آج تیر ستم چل رہے کدھر دار تیغ جفا ہو ہوتا تھا بالقصد اسکو بھلایا جو بھولے ہونا نہ تھا ہو رہا ہے جو جائز نہ تھا جو تھا ناروا 05 ہو گیا آج جائز روا ہو رہا ہے ہے این مهدی محمود احمد جو وہ اق پر ستم بر ملا ہو نتیجہ یہ غیروں وہ ہے کس کو سنائیں جو حال دل مبتلا ملنے کا نکلا وہ کیونکر دکھائیں ہو رہا ہے کہ بھائی ت بھائی جدا ہو رہا ہے

Page 23

پر کیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار ہوئی بلاتے ہیں کس واسطے وه ہم 22 مگر ان کو کچھ وہم سا ہو رہا ہے ہے نہ ہو گی امید ان کی پوری کہ اب ان کا راز آئینہ ہو رہا ہے بس اب امن اسی میں ہے مختار احمد اُسے چھوڑ دو جو جدا ہو رہا ہے (الفضل ۱۶ فروری ۱۹۱۵ ء صفحه ۵) حضرت چوہدری محمد علی خاں صاحب اشرف ہوشیار پوری بیعت ۱۹۰۳ء.حضرت فضل عمر کے کلاس فیلو ہونے کا اعزاز رکھتے تھے.سالہا سال تک ملک کے مختلف سکولوں کے ہیڈ ماسٹر رہے.اخبار ” بدر‘ قادیان میں بحیثیت مینجر خوش اسلوبی سے دینی خدمات انجام دیں.سرکاری ملازمت کے دوران شہنشاہ ہند ، مہا راجہ جموں و کشمیر اور کئی امراء اور رؤساء سے اپنی پُر جوش نظموں پر داد وصول کی اور انعام پایا.ہجرت ۱۹۴۷ء کے بعد چنیوٹ میں قیام فرما ہو گئے تھے.) ہمارا خلیفہ محمود ہے نامی کہ شاہی سے بہتر ہے جس کی غلامی وہ بنے ہیں مسیحا کا وارث بنا لعنت کے وارث پیامی نہیں ہیں مریدی میں پنجاب وہندی ہیں اسکی غلامی میں رومی و شامی ہزاروں جماعت میں اسکی ہیں زاہد ہیں اسکی غلامی میں صدہا ہی جامی

Page 24

پر کیف عالم تصور کا مشاعر و جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار عمر برساتی کیڑے پیامی مریں گے سليم ہے ہمارا دوامی عدو کی نہ کچھ پیش جائینگی ہر گز خدا اپنے پیاروں کا بنتا ہے حامی مریدان محمود جال ہیں مگر جو پیامی ہیں سارے ہیں دامی جو دشمن تھے اپنے ہوئے غرق سارے ہمیں آج حاصل ہوئی شاد کامی بیعت میں محمود کی ہوگا اشرف جو ملے گی اس کو مگر نیک نامی حضرت قاسم علی خاں صاحب رامپوری 23 دیوان اشرف صفحه ۱۳۸ مطبوعه ۱۹۵۲) (عہد حضرت مسیح الزماں کے مشہور و معروف اور صاحب طرز شاعر ) شکر خدائے کن فکاں پروردگار قادیان پھر آئی فصل گلستاں.لائی بہارِ قادیان ہے لیلۃ القدر اسکی شب.دن چشم خورشید طرب روشن ہیں کیا آیات رب لیل و نہار قادیان شادابی باغ جہاں رونق وہ ہر بوستاں وہ جاں فزا روح درداں ہے گلعذار قادیان

Page 25

پر کیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار 24 راحت طلب نازک بدن گلہائے گلزارِ چمن ہیں مائل رنج محسن.دل میں ہے خارِ قادیان خوبان عالم یک طرف.یہ ابنِ مریم یک طرف محمود اعظم یک طرف عالی تبار قادیان ہر رنگ رنگ مصطفی، ہر شان شان اصطفی ہے غل صتي على دیکھو نگارِ قادیان ہر سو تحفہ قادیان صفحه ۵ ناشر مولوی محمد عنایت الله بد و ملهوی، نصیر بک ایجنسی اشاعت دسمبر ۱۹۱۹ء) حضرت حکیم ڈاکٹر احمد حسین صاحب لائلپوری (غلہ منڈی) میر مجلس نے حاضرین کو بتایا کہ قبل اس کے کہ میں حضرت ڈاکٹر صاحب کو دعوت کلام دوں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ وہ خوش نصیب رفیق ہیں جنہوں نے ۶ امئی ۱۹۰۸ء کو حضرت اقدس مسیح موعود کے دربار میں پڑھی جانے والی آخری نظم سنائی.مطلع اس تاریخی نظم کا تھا.یا رب قادیاں میں میرا مزار اور میرا ذرہ ذرہ اس ثمار ہووے ہووے (الحکم ۱۸ جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۸) اب نظام خلافت سے متعلق حضرت ڈاکٹر صاحب کی نظم سنئے : وصیت ہے مسیحا کی ، رہو تم ایک جاں ہو کر اگر روٹھے کوئی اسکو منا لو مہرباں ہو کر یہی پہلا سبق ہے.اور یہی تعلیم 1 احمد ہے رہیں سب احمدی آپس میں یکدل یک زباں ہو کر

Page 26

پُر کیف عالم تصور کا مشاعر و جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار انہیں کیا ہو گیا کیوں قادیاں کو چھوڑ بیٹھے ہیں امنگیں دل کی دل میں ہی رہیں اُن کی عیاں ہو کر 25 نبی لکھ کر نبی سے آج جو انکار کرتے ہیں خلافت کے عدو وہ بن گئے ہیں مہرباں ہو کر مرے نالوں سے مرغان چمن فریاد کرتے ہیں جو اُن کے درد میں میں کر رہا ہوں نیم جاں ہو کر الگ جو بھیٹر ہوتی ہے وہ اکثر بھیڑیوں کی ہے یقیناً ایک دن اڑ جائے گی وہ دھجیاں ہو کر یہ کیسے مولوی ہیں گالیوں پر جو اُتر آئے یہ کیوں تہذیب سے عاری رہے پیر مغاں ہو کر مقابل شیر کے آنا نہیں زیبا روباہ کو عجب نادان ہیں اترا رہے ہیں ناتواں ہو کر میاں محمود احمد قدرت ثاني احمد ہے فدائے دیں یہی مصلح ہوا ہے نوجواں ہو کر بتاؤ کس کی جرات ہے کہ جو اسکے مقابل میں سر میداں نکل آئے ذراہ و پہلواں ہو کر یہ ان فضلوں کا جامع ہے جنہیں احمد صحیح لایا زباں کو تھام لے مت چھیٹر اس کو بدزباں ہو کر خدا کی ایک سنت ہے کہ جو ہر گز نہیں ملتی کہ وہ پاکوں کا حامی ہے رہے گا مہرباں ہوکر سنو اور سن کے ایم اے کی جماعت میں یہ کہہ دینا مسیحا کہہ گئے ہیں احمد آخر زماں ہو کر

Page 27

پُر کیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار کبھی نصرت نہیں ملتی در مولا سے گندوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا وہ اپنے نیک بندوں کو تازہ آسمانی پیغام 26 ( تحفه قادیان صفحه ۸ تا ۱۰) اس پر جلال کلام نے جادو کا سا اثر دکھلایا اور حاضرین پر ایک وجد کی کیفیت طاری کر دی.ازاں بعد سٹیج سے یہ خوشخبری سنائی گئی کہ ابھی ایک تازہ آسمانی پیغام پڑھا جائے گا.سب مخلصین خلافت اپنی نشست پر پوری دلجمعی سے تشریف فرما ہو جائیں.یہ سنتے ہی پوری مجلس میں خوش و مسرت کی زبر دست لہر دوڑ گئی.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا تازہ آسانی پیغام حسب ذیل روح پرور الفاظ میں تھا.جو مستقبل میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے تحریک احمدیت کا آسمانی ادب نئے سے نئے تابناک ستاروں سے جگمگا اٹھا.فرمایا: ر مجھے رویاء میں بتایا گیا ہے کہ قوم کی زندگی کی علامتوں میں سے ایک علامت شعر گوئی بھی ہے.اور میں اپنی جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم شعر کہا کرو.یہی وجہ ہے کہ سالانہ جلسہ پر نظمیں پڑھنے کے لئے بھی وقت رکھا جاتا ہے.تو میں نظم کو پسند کرتا ہوں اور رویاء میں مجھے بتایا گیا ہے کہ اپنی جماعت کے لوگوں کو شعر کہنے کی تحریک کروں.مگر انہی باتوں کی وجہ سے مجھے یہ بات سخت ناپسند ہے کہ اشعار ایسے طریق سے پڑھے جائیں کہ زبان خراب ہو.ہمیں اس بات کے لئے بڑی غیرت رکھنا چاہیے کہ ہماری

Page 28

پُر کیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار ملکی زبان خراب نہ ہو...چونکہ کوئی زبان صحیح طور پر بغیر سکھے نہیں آسکتی اس لئے تمہارا بھی فرض ہے کہ اردو سیکھنے کے لئے خاص کوشش کرو اور عربی و انگریزی جن کا سیکھنا ضروری ہے ان کے ساتھ ہی اردو بھی سیکھو دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابلہ میں مخالفین جب کوئی جواب نہ رکھتے اور آپ کے دلائل کی تردید بھی نہ کر سکتے تو کہتے کہ ان کی زبان میں جادو ہے.واقعہ میں انبیاء کو جو زبان دی جاتی ہے وہ خاص اور معجزہ کے طور پر ہوتی ہے.تو تمہارے لئے اردو سیکھنا بھی بہت ضروری ہے.“ 27 الفضل ۱۳ جون ۱۹۱۹ء صفحه ۴ ، خطاب اس مئی ۱۹۱۹ء تقریب آمد حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب مجاہد بلاد عربیہ )

Page 29

پُر کیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار تیسری نشست حضرت ڈاکٹر سید میر محمد اسماعیل صاحب دہلوی 28 ( حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم کے مقدس بھائی.یکے از رفقاء کبار۳۱۳ نمبر ۷۰.ضمیمہ انجام آتھم.سیدنا مسیح موعود کے بے مثال عاشق اور علم الا بدان اور علم الادیان کے جامع اور پیکر تصوف.بخار دل آپ کے عارفانہ کلام کا نہایت ایمان افروز مجموعہ ہے جس سے آپ کے فانی فی اللہ ہونے کی خوب عکاسی ہوتی ہے.یہ نظم حضرت مصلح موعود کی سفر یورپ ۱۹۲۴ء سے کامیاب مراجعت پر سپرد قلم ہوئی اور مجمع عام میں سید عبد الغفور صاحب ابن حضرت میر مہدی حسن مجاہد ایران نے خوش الحانی کے ساتھ پڑھ کر سنائی.) شکر صد شکر ! جماعت کا امام آتا ہے الله الحمد! کہ بانیل مرام آتا ہے زیپ دستار کیسے فتح کنکر اور فاتح شام ظفر کا سہرا آتا ولیم الشمس کے ملکوں کو منور کر کے اپنے مرکز کی طرف ماہ تمام آتا ہے پاس مینار مشقی کے بصد جاه و جلال ہو کے نازل یہ مسیحا کا غلام آتا مرحبا! ہو گئی لندن میں وہ (بیت) تعمیر جس کی دیوار پر محمود کا نام آتا ہے ہے

Page 30

پُر کیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار عظمت 29 29 سچ بتانا تم ہی اے مدعیان ایماں کون ہے آج جو اسلام کے کام آتا ہے سلسلہ قائم ہوئی اس کے دم سے پہنچانا اسے حق کا پیام آتا ہے آج سورج نکل آیا یہ کدھر مغرب سے ہم سمجھتے تھے کہ مشرق سے مدام آتا ہے مژدہ اے دل کہ مسیحا نفسی می آید که ز انفاس خوشش بوئے گئے می آید قادیاں! تجھ کو مبارک ہو ورود محمود دیکھ لے! دیکھ لے! شاہنشہ خوباں ہے وہی آج رونق ہے عجب کوچہ و برزن میں ترے بادہ خواروں کے لئے عیش کا ساماں ہے وہی رشک تجھ پر نہ کرے چرخ چہارم کیونکر طور سینا ترے جلوہ فاراں ہے وہی آمد فجر رسل حضرت احمد کا نزول دونوں آئینوں میں عکس رخ جاناں ہے وہی ہیں جنہیں ز آتش وادی ایمن نه منم خرم و بس موسیٰ این جا بامید قبے می آید سب راہ نما کہتے ہیں اہل دل کہتے ہیں اور اہلِ دعا کہتے ہیں آپ کو حق نے کہا ” سخت زکی “ اور ” فہیم" مظہر حق و علی.ظلِ خدا کہتے ہیں

Page 31

پُر کیف عالم تصور کا مشاعر و جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار رستگاری کا سبب آپ ہیں قوموں کیلئے ہر مصیبت کی کی تمہیں لوگ دوا کہتے ہیں 30 آپ وہ ہیں کہ جنہیں فخر رسل“ کا ہے خطاب یکھنے والے جب ہی صلِ علیٰ کہتے ہیں استجابت کے کرشمے ہوئے مشہور جہاں آپ کے در کو در فیض و عطا کہتے ہیں میں بھی سائل ہوں طلبگار ہوں اک مطلب کا کوئے احمد کا لوگ مجھے گدا کہتے ہیں میری اک عرض ہے اور عرض بھی مشکل ہے بہت دیکھئے آپ بھی آپ بھی اسے سن کر کیا کہتے ہیں جس کی فرقت میں تڑپتا ہوں ، وہ کچھ رحم کرے یعنی مل جائے مجھے جس کو خدا کہتے ہیں حضرت ڈاکٹر منظور احمد صاحب منظور بھیروی ابن حضرت مولانا محمد دلپذیر بھیروی صاحب ( الفضل ۲۵ نومبر ۱۹۲۴ ء صفحه ۲ ) سال بیعت ۱۹۰۸ء.۱۹۴۷ کے پرفتن ایام میں مرکز احمدیت قادیان کو الوداع کہہ کر سلانوالی ضلع سرگودہا میں مقیم ہو گئے نظم برائے سلور جوبلی خلافت احمد یہ ۱۹۳۹ء) میرے مہدی کا جگر پارا پیارا محمود میرا محمود، میری آنکھوں کا تارا محمود اس کے ہی قدموں میں اب پائیں گی تو میں برکت بے نواؤں کا ، غریبوں کا ، سہارا محمود

Page 32

پر کیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار 31 احمدی اٹھ ذرا دنیا میں منادی کر دے آج بے چاروں کا ایک ہی چارا محمود وہ حقارت سے جسے بچہ کہا کرتے تھے آئیں اب دیکھیں ذرا آگے ہمارا محمود کاش کہتا کوئی منظور مجھے بھی آکر یاد کرتا کرتا ہے تمہیں آج تمہارا محمود حضرت منشی محمد حسن رہتاسی صاحب این حضرت منشی گلاب دین خان صاحب رہتای (الحکم دسمبر ۱۹۳۹، صفحه ۴۷) سال بیعت ۱۸۹۵ء.رفیق ابن رفیق اور شاعر بن شاعر.پاکستان بننے کے بعد مسجد فضل لائل پور میں بود و باش کرلی اور یہیں انتقال کیا.آپ کے والد کا نام حضرت مسیح موعود نے تین سو تیرہ اصحاب کی فہرست میں نمبر ۳۴ پر تحریر فرمایا ہے) زندگی قرآن پر ہو موت بھی قرآن پر مومنوں کا یہی لب لباب زندگی ہے درس قرآن دے جب امیر المومنین رہے اور تھے خدام بھی کھولے نصاب زندگی طبع رنگیں میں سرور آیا تو بول اٹھے حسن چھیڑتے ہیں یوں خدا والے رباب زندگی کلام حسن رہتاسی صفحہ ۳۸ ۳۹ مرتب ڈاکٹر نذیر احمد ریاض مرحوم مطبوعہ نور آرٹ پریس راولپنڈی) اے امیر المومنیں فضل عمر ، فرخ تبار دیده 多 ور ترے نور خلافت آشکار

Page 33

پر کیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار تجھے ابنائے ظلمت دیکھ سکتے کس طرح از چشم شیراں ، پنہاں خُور نصف النہار رو 32 ( ایضاً صفحه ۱۲۰) حضرت خان ذوالفقار علی خاں صاحب گوہر رامپوری ، شاگرد داغ دہلوی ( بیعت ۱۹۰۰ء.وفات ۲۶ فروری ۱۹۵۴ء بعمر ۸۵ سال.برٹش انڈیا کے شہرہ آفاق علی برادران کے برادر اکبر.والد بزرگوار حضرت مولانا عبدالمالک خاں صاحب مرحوم ناظر اصلاح وارشادر بوہ.نذرانہ عقیدت بحضور حضرت مصلح موعود ) نہ مانا جس نے تجھ کو پھر خدا کو اس نے کیا مانا زہے قسمت جنہوں نے تجھ کو سمجھا تجھ کو عد و محروم تیرے فیض صحبت سے نہ کیوں رہتے پہنچانا مگس کی یہ کہاں قسمت کہ پائے سوز پروانا خدا کی نفرتیں دن رات تیرے ساتھ رہتی ہیں نشاں کافی ہیں یہ انکے لئے جو خود ہیں فرزانا ترقیات تیرے عہد زریں کی نمایاں ہیں انہیں گر دیکھ سکتی ہے تو دیکھے چشم کورانا سیادت نے تری بخشا ہے ہم کو رتبه عالی حقیقت ہیں نگاہوں نے اسے سمجھا اسے جانا بنا ہے مربع اہل خرد یہ تیرے ہی دم سے ضروری جانتے ہیں غیر بھی اب تو یہاں آنا خدا کا فضل اے فضل عمر تجھ سے ہے وابستہ زبان بحر و پر احمدیت کا افسانا ہے

Page 34

پر کیف عالم تصور کا مشاعر و جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار بہارِ بے خزاں تیری خلافت کا زمانہ ہے 33 اجاڑا جائے گا چاہے گا جو اس کا اُجڑ جانا عروج احمدیت گرچه تقدیر الہی ہے ضروری ہے مگر احکام کا تیرے بجالانا تیری تدبیروں سے شیرازہ بندی ہے جماعت کی تیری طاعت سے وابستہ ترقیات کا پانا اٹھو اے نوجوانو ! آؤ قربانی کے میداں میں دکھاؤ ہمت مردانہ اور شان دلیرانا مناد دنیوی پر اہلِ دنیا جان دیتے ہیں تمہارا ہو خدا ہی کے لئے جینا کہ مرجانا تمہیں محمود سا سالار غازی حق نے بخشا ہے مصائب سے نہ مندی یقینی ہے گھبرانا کلام کو ہر صفحه ۶۴-۶۵ مرتبہ پروفیسر حبیب اللہ خاں صاحب دسمبر ۱۹۹۱ء) حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی قدسی ( بیعت ۱۸۹۷ء.سلسلہ احمدیہ کے صاحب کشف والہام بزرگ، عالم ، صوفی اور مناظر جنہیں عہد حاضر کا ابن عربی کہا جائے تو ہرگز مبالغہ نہ ہوگا.وصیت نامہ مرقومه ۲ امئی ۱۹۵۱ء) سارے ہی احمد نبی پر ہوں شار آل احمد سے ر.رہے سب کا پیار آل احمد سے محبت جاوداں ہے ہدایت اور ایماں کا نشاں

Page 35

پُرکیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار جب جماعت میں بھی ہو اختلاف میرے بچو مجھ سے سُن لو صاف صاف سبھی آل احمد سے وہ مل جائیں اس سے گمراہی نہ پائیں گے کبھی ہے یہی میری وصیت آخری ہے عمل کرنا اسی پر بہتری یاد رکھنا تفرقہ جب ہو عیاں ہے خلافت ہی ہدایت کا نشاں آل احمد اور خلافت ہو جدھر سب میری اولاد ہو جائے اُدھر ہے ہدایت کا یہی معیار ایک میرے پیارے اس سے ہونگے پاک و نیک ہوتا ہوں رخصت پیارو آپ سے یاد رکھنا بات اپنے باپ سے 34 حیات قدسی حصہ سوم اشاعت جنوری ۱۹۵۱ء صفحه ۷۹)

Page 36

پُر کیف عالم تصورکا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار چوتھی نشست 35 اس نشست کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ یہ سید نا حضرت مسیح الزماں کی موعود و مبشر دختر اور خنساء وقت حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے پر معارف کلام کے لئے مخصوص تھی.اس تقریب سعید میں حضرت سیدہ کی حسب ذیل دو نظمیں خوش الحانی سے پڑھی گئیں جنہوں نے سامعین میں خلافت سے والہانہ عشق و فدائیت کی نئی بجلیاں بھر دیں اور اطاعت امام کی برقی لہریں دوڑا دیں.پہلی نظم خدا کا فضل ہے اُس کی عطا ہے محمد کے وسیلے ملا ہے ”مبارک تھا یہ ام المؤمنیں کا ہوا مقبول رب العالمیں کا نوید تنویر محمود موعود این موعود این موعود بر موقعه قیام خلافت ثالثه ۸ نومبر ۱۹۶۵ء)

Page 37

پر کیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار دوسری نظم خلیفہ خدا نے جو تم کو دیا ہے عطاء الہی ہے فضل خدا ہے مولا کا اک خاص احسان ہے وجود اس کا خود اس کی بُرھان ہے خلیفہ بھی اور موعود بھی ہے مبارک بھی ہے اور محمود بھی لیوں ترانه محمود کا پر ہے زمانه 6 زمانه ہے محمود کا ( الفضل ۴ اپریل ۱۹۷۰ صفحه) 36

Page 38

پر کیف عالم تصور کا مشاعر کو جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار پانچویں نشست مہمانِ خصوصی حضرت ماسٹر چوہدری علی محمد سرور صاحب 37 آج مشاعرہ کی آخری نشست کا انعقاد عمل میں آیا.مہمان خصوصی حضرت چوہدری علی محمد سرور صاحب بی اے بی ٹی لدھیانوی سابق ایڈیٹر یویو آف ریلیجنز انگریزی ربوہ تھے ( آپ کو حضرت مسیح موعود کے پاک گروہ کے آخری شاعر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا.وفات ۱۴/۱۳ دسمبر ۱۹۷۸ء) صدر محفل نے بتایا کہ حضرت سرور کے شعری کلام میں خلفاء مسیح موعود کے انقلاب انگیز سفر افریقہ کی متحیر العقول برکات پر روشنی ڈالی گئی ہے بالخصوص شاہ خلافت امام همام سید نا حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے حالیہ سفر افریقہ کے عظیم الشان برکات اور شاہانہ اور ہمہ گیر اثرات کا تو ایسا نقشہ کھینچا گیا ہے جیسا کہ انہوں نے اسے خود اپنی آنکھ سے مشاہدہ کیا ہو.بہر حال وہ نظم یہ تھی.المومنین وارث تخت خلافت اے امیر قدرت ثانی کے مظہر اے امام المتقين صد مبارک اے شہ لولاک کے قائم مقام شادمانی کامرانی ور رو ون متیں جان و مال و آبرو اور دیدہ و دل فرش راہ فاتح اقوام شود ، اے رہبر دین متیں نہیں اہل افریقہ کے دل تو نے منور کر دیئے اے مسیح و مہدی دوراں کے مند

Page 39

پر کیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار اک اشارے میں ہزاروں کے لئے دل، ہاتھ میں ہو مبارک ، صد مبارک تجھ کو یہ فتح میں 38 ایکہ آئی فاتحانہ سوئے ما با عز و شاں هدیه تبریک پیش است از من و جمله جہاں ایکہ تیری ذات ہے سر چشمه جود و کرم ہیں تیرے ممنونِ احساں کیا عرب اور کیا عجم ہے تیری ذات گرامی معدن اسرار دیں فیض کیوں پائیں نہ تجھ سے آج شاہانِ تجم ہے سراسر یہ کرامت ، تیرے قدموں کے طفیل بن رہا ہے دشتِ افریقہ بھی گلزار گلزار ارم آج افریقہ میں وہ شان صلیبی ہے کہاں اب تو بحر وبر میں لہراتا ہے اسلامی ہورہے ہیں سرنگوں جھنڈے مسیحی قوم کے ایسے اکھڑے ہیں کہ جمتے ہی نہیں انکے قدم طارق اول بڑھا الرّیف سے تھا سوئے عرب نائیجر نے فاتح سوڈان کے چومے قدم ہے محبوب الہی تو ہے فخر اولیاء چهره پرنور نور سماوی کی قسم xxxxxxxxxxxxxxxxxxxx

Page 40

پُر کیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار جمله خوبان جہاں را کرده زیر 39 زیر قدم مژده بادت اے شہ خوباں والے ترک کس قدر روشن مستقبل ترا آل حام ہے ہے چمک تیرے مقدر کی ثریا سے سوا مل گئی تجھ کو رہائی ظالموں کی قوم کی قدر تجھ ہوا پر ہے مہرباں تیرا خدا عرش سے دیکھا جو اُس نے تیرے دل کا اضطراب تجھ کو آزادی کی نعمت سے شناسا کردیا یوں کہو اس سے بھی بڑھ کر ہوا فضل الہی یہ کہ دولت ایماں سے تیرا دامن دل بھر دیا وقت کے دامن سے وابستہ ہوئی تيرا قدم اوج فلک پر جا پڑا بخت پر نازاں ہو اپنے آج تُو اپنے آج تو قوم بلال پی رہی ہے سرمدی چشمے سے تو آر بقا ہے مقدر احمدیت کی ترقی بالیقیں تیرا حصہ بھی خدا نے اس میں وافر رکھ دیا - ہو مبارک.صد مبارک تجھ کو اے قوم بلال چودھویں کا چاند بن جانے کو ہے تیرا ہلال (الفرقان مئی ۱۹۷۲ء صفحه ۳۱)

Page 41

پُرکیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار جشن جو بلی پر حضرت اکمل کا تہنیتی کلام 40 یہ بصیرت افروز نظم نہایت ترنم سے پڑھی گئی اور جو نہی ختم ہوئی سٹیج پر دو نھے منے پیارے احمدی بچے دکھلائی دیئے جور نمین لباس میں ملبوس تھے اور انہوں نے حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب کا یہ نغمہ دلنواز الفاظ میں پڑھا: - مبارک اے جماعت احمد کی ہو مبارک خلافت جو بلی ہو.ނ پڑھے آتے ہیں ہر طرف کہ جوں ارض حرم تیری گلی ہو مسرت کی ہوائیں چل رہی ہیں شگفتہ اس چمن کی ہر کلی ہو ( الحکم جو بلی نمبر دسمبر ۱۹۳۹ء صفحه ۱۲) ہر شعر پر سو مبارک کے الفاظ زبانوں پر جاری ہو گئے جس نے محفل میں زبر دست ارتعاش پیدا کر دیا.اس دلکش ماحول میں تین اور نونہالانِ احمدیت نمودار ہوئے جنہوں نے شاہ مدنی کے الله پرشوکت السلام علیکم سے سب کو متوجہ کر لیا.( آنحضرت ﷺ نے ہر مسلمان کو تاکیدی وصیت فرمائی ہے کہ جب مہدی آئے تو خواہ تجھے گھٹنوں کے بل جانا پڑے اس کے حضور جا کر بیعت کرنا اور میر اسلام کہنا.) ازاں بعد حضرت اکمل ہی کی یہ نظم کچھ ایسے ولولہ ذوق و شوق اور پُر جوش لب ولہجہ میں پڑھی گئی کہ پوری فضا اللہ اکبر، اسلام احمدیت ، غلام احمد کی جے اور سید نا حضرت خلیفة اصبح الخامس، ارض بلال اور جماعت احمدیہ غانا زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی.

Page 42

پر کیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزمان کے عاشقانہ اشعار اس موقع پر جماعت احمد یہ غانا کے حق میں جو پُر جوش نعرے لگائے گئے انہوں نے ایسا سماں باندھ دیا جس کی یا درمانہ بھی مونہیں کر سکے گا.ے او چو بر کس مہربانی می کند از زمینی آسمانی ی کند ( ترجمہ: اللہ جلشانہ جب کسی پر مہربانی کرتا ہے تو اسے زمینی سے آسمانی بنا دیتا ہے) وہ دن نزدیک ہے اپنی دعائیں رنگ لائیں گی (ورزشین) ہمارا ذاکر قرآن ہی صاحبقراں ہو گا شمار خلق پر ہم ابر رحمت بن کے چھائیں گے جدھر برسیں گے کھل کر بوستاں ہی بوستاں ہو گا طفیل احمد مختار ایمان ہے اپنا 59 ہماری ہی زمیں ہو گی ہمارا آسماں ہو گا نظر آئیں گے ہم نغمہ سرا گلزار احمد میں نہ کچھ اندیشہ میرا نے فکر زیاں ہو گا فساد وفتنہ.شور وشر سے جب گھبرائے گی دُنیا تو یہ مرکز ہمارا قادیاں.دارالاماں ہو گا خلافت جوبلی اے بھائیو.بہنو! مبارک ہو یہ دور خسروی تا دیر ہم پر حکمراں ہو گا خدا کی بادشاہت میں جو امن و چین پائیں گے زبانوں پر نہ کچھ بھی شکوہ جور کہاں ہو گا به فیض احمدیت نیکی ہی نیکی جو پھیلے گی آدم زاد خاکی پر فرشتوں کا گماں ہو گا

Page 43

پر کیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشہ عجب توحید کی سرسبز کھیتی لہلہائے گی 42 بروز مصطفیٰ کے فیض کا چشمہ رواں ہو گا خواتین جماعت نے مبارک صد مبارک ہو نظام احمدی میں ان کا حصہ بھی عیان ہو گا جو بچے پارہے ہیں پرورش آج انکی گودوں میں علم بردار اسلامی انہی سے ہر جواں ہو گا ہمارے ساقیء کوثر لبا لب جام بخشیں گے خراب وخته حال اکمل بھی خوش خوش نغمہ خواں ہوں گے صدر مجلس کا اختتامی خطاب الفضل ۲۸ دسمبر ۱۹۳۹ جوبلی نمبر صفحه ۳۰) آخر میں صدر مجلس نے فرمایا للہ الحمد کہ اس نے اپنے خاص فضل اور اعجازی شان سے اس یادگار مشاعرہ کو ہر لحاظ سے کامیابی بخشی.خلافت کے آفاقی نظام کا وعدہ ربّ العرش نے فرمایا اور خصوصاً آخرین میں مسیح موعود کے بعد دوبارہ اس کے قیام کی نہ صرف خوشخبری دی بلکہ خلفاء کے لئے یہ دعا کی." اللهم ارحم خلفاءى الذين ياتون من بعدى.الذين يروون < احادیثی وسنتى و يعلمونها الناس (جامع الصغير للسيوطي) ”اے میرے اللہ میرے خلفاء پر رحم فرما، جو میرے بعد آئیں گے اور میری احادیث اور میری سنت بیان کریں گے اور اس کی تعلیم گل عالم کو دیں گئے.غلامان مسیح محمدی اور شمع خلافت کے پروانو ! ! ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم بھی اپنے نبی نبیوں کے سردار محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مقبول دعا کی برکتوں سے فیضیاب ہونے کے لئے اجتماعی دعا کریں.تا خالقِ کائنات کی یہ نعمت عظمیٰ قیامت تک ہم پر سایہ فگن رہے.آمین میرے پیارے بھائیو! آیئے ہم رب کریم کے حضور رونے والی آنکھ پیش کر

Page 44

پُر کیف عالم تصور کا مشاعر و جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار 43 کے سورۃ فاتحہ کے بعد درود شریف پڑھیں اور قطعی طور پر یقین رکھیں کہ ہمارے محبوب آقا حضرت خلیفۃ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس زمانہ میں آل محمد کے اولین مصداق اور اسلامی افواج کے عالمگیر روحانی قافلہ سالار ہیں.اللہ تعالیٰ ہمارے دل و جان سے پیارے آقا کو صحت و سلامتی کے ساتھ فتوحات نمایاں سے معمور، عمر خضر عطا کرے اور یہ انقلاب عالم حضور ہی کے عہد مبارک میں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ ماسکو ، لنڈن یا نیو یارک کی بجائے مکہ معظمہ حقیقی معنوں میں دنیا بھر ک فعال مرکز بن جائے اور قرآن کو عالمی دستور حیات تسلیم کیا جائے اور خدا کا خلیفہ برحق براہ راست میدانِ عرفات سے اقوام عالم سے خطاب کر کے ان پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا سکہ بٹھا دے اور ساری دنیا اسی طرح توحید سے بھر جائے جس طرح آسمان لا تعداد ستاروں سے بھرا ہوا ہے اور سمندر پانی کے قطرات سے پُر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پوری عمر اپنے مولیٰ سے یہ دعا کرتے رہے.میرے آنسو اس غم دل سوز سے تھمتے نہیں دیں کا گھر ویران ہے دنیا کے ہیں عالی منار دل نکل جاتا ہے قابو سے یہ مشکل دیکھ کر اے میری جاں کی پنہ فوج ملائک کو اتار نئے ارض وسماء ان مختصر مگر دل سے نکلے ہوئے پُر خلوص کلمات نے ہر دل میں ایک زلزلہ سا بپا کر دیا جس کے بعد اس تضرع، ابتیال ، آہ و بکاء اور گریہ وزاری سے اجتماعی دعا ہوئی گویا عرش کے پائے بھی لرز گئے ، فرشتے بھی کانپ اٹھے اور رب جلیل بھی زمین پر آ گیا تا محمد رسول اللہ کی حکومت دوبارہ دنیا میں قائم کر دی جائے.اب ہجوم عاشقاں پنڈال سے باہر آیا تا پہلی گزرگاہ سے گھروں تک پہنچے لیکن کیا دیکھتے ہیں کہ پہلا رستہ سرے سے غائب ہے اور اسکی بجائے ایک نئی زمین اور نیا آسمان

Page 45

پر کیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار 44 جلوہ گر ہے.جہاں ہر طرف طیور ابراہیمی " الصلوۃ معراج المومنین‘ کے چھوٹے چھوٹے رنگین قطعات اپنی چونچوں میں لئے ہر عاشق رسول کو تحفہ پیش کر رہے ہیں.سامنے سنگ مرمر کا ایک شاہ نشین ہے جس کے اطراف میں اونچی سطح پر تین قد آدم بورڈ آویزاں ہیں.ایک بورڈ پر یہ حدیث جلی حروف میں درج ہے کہ ” الفردوس ربوة الجنة » ( کنز العمال جلد ۴ صفحه ۴۵۶) یعنی فردوس جنت کا ربوہ ہے ( یہ کتاب ۱۹۸۴ء کے بدنام زمانہ آرڈنینس کے ایک سال بعد ۱۹۸۵ء میں بیروت سے شائع ہوئی ) دوسرا بڑا بورڈ اس فرمان رسول سے مزین تھا کہ جنت میں موتیوں کا ایک خیمہ ہو گا جو ساٹھ میلوں میں پھیلا ہوا ہو گا جسے صرف آخرین ہی دیکھیں گے.(ایضاً صفحہ ۴۵۸) خیمہ کے باہر غانا، بین اور نائیجیریا اور ارض بلال کے کئی احمدی نظر آئے جن کے چہرے بظاہر سیاہ مگر باطن چاند سورج کی طرح چمک رہے تھے.میں حیرت زدہ رہ گیا کہ احمدیوں میں سے صرف افریقن ہی کو یہ اعزاز حاصل ہو رہا ہے کہ یکا یک بجلی کی طرح دماغ میں رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ مبارک حدیث آگئی کہ من ادخل بيته حبشيا او حبشية ادخل الله بيته بركة “ ( كنوز الحقائق للعلامہ حافظ حضرت امام مناوی ) یعنی جس نے اپنے گھر میں کسی افریقن مرد یا عورت کو ( رضا الہی کی خاطر ) جگہ دی.خدا اس کے مکان کو بھی متبرک بنا دے گا.تیسرے بورڈ پر یہ حدیث نبوی نقش تھی." افتتحت المدينة بالقرآن“ (جامع الصغير للسيوطي ) یعنی مدینہ قرآن سے فتح ہوا.شاہ نشین سے کچھ فاصلہ پر ایک نہایت پُرشکوہ اور سر بفلک مینار دعوت نظارہ دے رہا تھا.مینار کے دروازہ کی پیشانی پر مسیح محمدی کا یہ مقدس پیغام زریں الفاظ میں کندہ تھا.”خوب یا درکھو دعا وہ ہتھیار ہے جو اس زمانہ کی فتح کے لئے مجھے آسمان سے

Page 46

پر کیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار دیا گیا ہے لہذا اے میرے دوستوں کی جماعت تم صرف اسی حربے سے غالب آ سکتے ہو ( ترجمه تذکرۃ الشہادتین صفحه ۱۸۷) 45 یہ پیغام صور اسرافیل تھا جسے پڑھتے ہی ہر زائر میں زندگی کی ایک نئی برقی رو دوڑ گئی.میں ابھی اجے دل کی آنکھوں سے پڑھ ہی رہا تھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ میرے سامنے عرش معلی سے عشاق خاتم النبین کے بہت سے شاہی تخت اترے ہیں جن میں سب سے اونچا تخت کا سر صلیب مسیح الزمان مہدی دوران کا تھا.ایوان خلافت کا یہ خادمِ در تصویر حیرت بنے اور دم بخود ہو کر اس روح پرور نظارے سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اچانک میری آنکھ کھل گئی اور ساتھ ہی خیال آیا کہ فوری طور پر مجھے تذکرہ کا مطالعہ کرنا چاہیئے.حسن اتفاق سے تذکرہ کاربوہ سے چھپا ہوا تازہ ترین ایڈیشن ساتھ ہی میز پر رکھا تھا میں نے اسکی ورق گردانی شروع کی تو ابتدا ہی میں میرے سامنے ۲۷ اگست ۱۸۹۹ء کا یہ پُر شوکت الہام آگیا.” خدا نے ارادہ کیا ہے کہ تیرا نام بڑھاوے اور تیرے نام کی خوب چمک آفاق میں دکھاوے....آسمان سے کئی تخت اترے مگر تیرا تخت سب سے اونچا بچھایا گیا.“ ( الحلم و تمبر ۱۸۹ صفحه ۵ کالم ۳ مکتوب حضرت مولاناعبدالکریم صاحب سیالکوٹی) نظام خلافت اور مقام محمود کی تجلیات عالم تخیل کے مشاعرہ مئی ۲۰۰۸ء کی روداد اختتام کو پہنچی.اب حرف آخر کے طور پر مجھے یہ کہنا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی اس حیرت انگیز وجی نے مجھے اسلام کے زندہ مذہب اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زندہ نبی ہونے پر ایک زندہ ایمان بخشا کیونکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح محمدی کو چار بار نبی اللہ کے خطاب سے نوازا

Page 47

پر کیف عالم تصور کا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار 46 اور امت محمدیہ کے پاک نفس بزرگوں کو اس موعود اقوام عالم کی نسبت قبل از وقت اطلاع دی گئی.چنانچہ حضرت شیخ عبدالرزاق قاشانی تحریر فرماتے ہیں.المهدى الذى يجئى فى اخر الزمان فانه يكون في الأحكام صلى الله الشرعية تابعاً لمحمد عل وفى المعارف والعلوم والحقيقة تكون جميع الانبياء والأولياء تابعين له كلّهم ولا يناقض ما ذكرناه لأن باطنه باطن محمد عليه السلام ولهذا قيل انه حسنة من حسنات سيد المرسلين.کانا ترجمہ : مہدی آخر الزمان احکام شریعت میں تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہوگا، لیکن معارف ، علوم اور حقیقت میں تمام انبیاء اور اولیاء اُس کے تابع ہونگے کیونکہ اس کا باطن خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا باطن ہو گا.اور اسی لیے اسے سید المرسلین خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم الشان نعمت و برکت قرار دیا گیا ہے.( شرح القاشانی علی فصوص الحکم الاستاذ الاکبر الشیخ محی الدین بن العربی صفحہ ۳۵ طبع مصر ۱۳۲۱ھ ) مغلیہ عہد حکومت میں حضرت ناسخ دہلوی کا شمار شعر وخن کے تاجداروں میں ہوتا ہے.آپ کی وفات سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ولادت سے قریباً دو برس قبل ہوئی.آپ نے امام مہدی کی منقبت اور مدحت میں ارشاد فرمایا.دیکھ کر اس کو کریں گے لوگ رجعت کا گماں یوں کہیں گے معجزے سے مصطفیٰ پیدا ہوا کیا سلیماں اور کیا سلیماں دوستو خاتم ختم نبوت کا پیدا ہوا دیوان تاریخ جلد ۲ صفحه ۵۴ - ۵۵ مطبع نولکشو ۱۹۲۳ء)

Page 48

پُر کیف عالم تصورکا مشاعرہ جشن خلافت اور اصحاب مسیح الزماں کے عاشقانہ اشعار 47 اسی طرح مشہور عالم ہسپانوی مفسر اور صاحب کشف والہام صوفی حضرت محی الدین ابن عربی (متوفی ۱۲۴۰ء) اپنی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ مقام محمود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ختم الولایت ہے جس کا ظہور مہدی علیہ السلام سے ہوگا.هو مقام ختم الولاية بظهور المهدى“ ( تفسیر ابن عربی جلد اصفحہ ۷۲۸ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۱ء) صدیوں قبل کے اس حیرت انگیز انکشاف سے صاف کھل گیا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدوں کے مطابق مسیح موعود کی بدولت قائم ہونے والا نظام خلافت ( آخرین کا نظام خلافت) آفتاب محمدیت کے مقام محمود کا انعکاس کامل یعنی بدر کامل ہے جس کے ذریعہ یہ دنیا جسے عدوان محمد نے ظلمت کدہ بنا رکھا ہے خاتم النبیین محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار و برکات سے بقعہ نور بن جائے گی.اور تمام مشرقی و مغربی اور اسود و ابیض اقوام عالم شہنشاہ نبوت کے قدموں میں جمع ہو جائیں گی اور یہ سب کچھ اب محمد کے آسمانی اسباب اور خلافت کے عشاق کی قربانیوں اور دعاؤں اور عمل سے رونما ہوگا.انشاء اللہ.خدا خود میر سامان خلافت ہے جو دنیا ساری میدان خلافت ہے ضياء افگن ہے اکناف عالم ہے کہ جو بدیر درخشان خلافت گل سرسبز باغ بہارِ بے خزاں آن خلافت احمدیت مطبوعه هفت روزه الفضل انٹرنیشل لندن ) ہے (نغمه اکمل صفحه ۵۲۴)

Page 49

اے مسیحا کے خلیفہ پیار مرزا کے رشید مهدی صاحبقران موعود کے رشید والا نشاں کے نام لیوا کے رشید میرے آقا کے رشید میر رنگ سلطان ہے مولا کے رشید تحریر میں 3 3 اک اعجاز مسیحا میں چهره سے سعادت آشکار آپ کے روئے مبارک سے نجابت آشکار خال و خط آپ کے ولایت آشکار تیوروں ރ آپ کے نور نبوت آشکار کلام حضرت محمد نواب خان صاحب ثاقب مالیر کوٹلوی میرزا خانی)

Page 49