MusalmanoKaNewton

MusalmanoKaNewton

مسلمانوں کا نیوٹن ۔ ڈاکٹر عبدالسلام

Author: Other Authors

Language: UR

UR
بزرگان جماعت احمدیہ

Book Content

Page 1

د اكر عبد السلام مسلمانان کاشان مولف محمد د کرو ایک

Page 2

مسلمانوں کا نیوٹن محمد زکر یا درک 2397-544-613 نام کتاب مؤلف مقام و تاریخ اشاعت ٹورنٹو کینیڈا.اپریل ۲۰۰۳ء Print 4 U, 5266 General Road, Mississauga, On Box 65, Kingston, On.K7L 4V6, Canada 10610 Jane St.Maple, On L6A 3A2 Phone 905-303-4000/ x 222 www.mansoorbookshop.com (718) 446-9554, 70-64 Broadway, Jackson Heights, NY.پرنٹرز ملنے کا پتہ ٹورنٹو نیو یارک Name: Compiled & edited by: Publisher: Printers: Musalmano Ka Newton Zakaria Virk Abdus Salam Science Academy Box 65, Kingston, On.K7L 4V6 Canada 613-544-2397 zakariavirk@yahoo.com Print 4 U, Mississauga, ON.905-206-9549 Prof Dr Abdus Salam Cover: ISBN: Pages: 1-895195-02-04 412 Canadian Cataloguing- in- Publication Data (1) Salam, Prof Dr Abdus Salam 1926-1996 (2) Imperial College -Professor at (2) ICTP-History (4) Pakistan -founder of scientific institutions (5) Theo- retical Physics - 10 theories of Salam (6) Nobel Prize in Physics (7) Newton, Einstein, Salam – a comparison (8) Drs Riazuddin, Anis Aalam, Ghulam Murtaza, Saadat Anwar Siddiqi, MJ Duff, Hoodbhoy - students remember Salam (9) Fred Hoyle, F.J.Dyson, Shelly Glashow - their impressions of Salam (11) Impressions of Abdus Salam – by 30 writers (12) Zafar Chaudhry - a close friend of Salam (13) Punjabi Salam's speech (14) 110 anecdotes of Salam (15) Z.Virk - Salam as a writer (16) Ahmad Zewail - 2nd Muslim Nobel prize winner (17) Urdu Poetry in honor of Salam (18) Qasim Mahmood – a journalist remembers Salam (19) Ahmad Salam, Aziza Rahman – son daughter remember their father http://members.rogers.com/zakariavirk/index.html

Page 3

تاثرات

Page 4

ڈاکٹر عبد السلام میرے قلم کی نوک سے اس کتاب کا پہلا حصہ ڈاکٹر عبد السلام مرحوم و مغفور کے بارہ میں ان کے جاننے والوں، شاگردوں ، اعزاء، اور مداحوں کے دلی تا ثرات پر مبنی ہے.دوسرے حصے میں ڈاکٹر صاحب کے قیمتی مضامین کے علاوہ چند اہم ، دلچسپ اور علمی افادیت سے بھر پور مضامین اور تیسرے حصے میں ان کی ذات والا صفات پر نظمیں پیش کی گئیں ہیں.راقم الحروف کے ذہن میں موجودہ کتاب کا خاکہ ڈاکٹر صاحب کی رحلت کے معاً بعد ابھر آیا تھا اور میں نے مختلف رسالہ جات میں شائع ہونے والے چیدہ چیدہ مضامین کا انتخاب کرنا شروع کر دیا تھا.رفتہ رفتہ مضامین اتنے جمع ہو گئے کہ بلآخران میں سے کچھ کا انتخاب میرے لئے درد سر بن گیا.ہر مضمون نگار نے اپنے انوکھے رنگ میں اس نابغہ روزگار کی شخصیت کو اجاگر کرنے کی سعی کی تھی.تاہم اس کتاب میں ایسے نوادر مقالات کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جن میں مقالہ نویس اور ڈاکٹر صاحب کے درمیان ذاتی تعلق تھا.یا جس مضمون سے اس عظیم انسان کی ہشت پہلو شخصیت میں سے ایک پہلو روشن ہوتا ہے.پچھلے سال عاجز نے نوبل انعام یا فتہ سائینسدان شیلڈن گلاشو کو الیکٹرانک میل ارسال کی کہ مجھے وہ مضمون بھیجیں جس کا حوالہ سرن کی ویب سائٹ پر ملتا ہے.میری ای میل کا جواب انہوں نے فوراً دیا اور لکھا کہ میں ایک ماہ کیلئے بوسٹن سے باہر جا رہا ہوں، اس لئے واپس آکر مضمون تلاش کر کے بھیجوا دوں گا کیونکہ وہ مضمون میرے ہارورڈ یونیورسٹی والے کمپیوٹر کی فائلوں میں محفوظ رکھا ہوا ہے.چنانچہ میں نے پورے ایک ماہ بعد ان کو اکتوبر ۲۰۰۲ء میں یاد دہانی کرادی اور انہوں نے مجھے وہ دلپذیرم مضمون بخوشی بھجوا دیا جو اس کتاب میں سر فہرست ہے.اس کے بعد میں نے سٹیون وائن برگ کو ای میل بھیجی کہ اگر انہوں نے ڈاکٹر سلام کی شخصیت

Page 5

پر کوئی مضمون لکھا ہو تو مجھے ای میل کر دیں.ان کی طرف سے جواب آیا I am sorry that I have not written anything since the > death of Abdus Salam that would be suitable for inclusion > in the volume you are planning Steven Weinberg میں نے اس کے جواب میں لکھا کہ اچھا کچھ نہیں تو ایک دو ذاتی واقعات ہی سپر د قلم فرما دیں.اس کے جواب میں پروفیسر موصوف نے لکھا کہ sw Sorry, I don't have time for this; SW, اس طرح میری شدید خواہش تھی کہ جس طرح عزیزم احمد سلام نے اپنے والد گرامی کے بارہ میں اپنے خیالات کا اظہار نہایت خوبصورت رنگ میں کیا ہے اسی طرح عمر سلام بھی اپنے قلبی احساسات کو قلم بند کرے.چنانچہ میں نے اس ضمن میں ڈاکٹر لوئیس سلام صاحبہ سے آکسفورڈ یو نیورسٹی میں ای میل کے ذریعہ رابطہ کیا.انہوں نے جواباً لکھا کہ عزیزم عمر اس بات پر رضامند نہیں ہوا ہے لیکن میرے خیال میں ڈاکٹر عبد السلام کی پبلک لائف اور تیسری دنیا میں سائینس کے فروغ میں ان کا کام اتنا زیادہ ہے کہ آپ کو اس کتاب کیلئے کافی موادمل جائیگا.اس کتاب میں ڈاک کے دو ٹکٹ شائع کئے گئے ہیں جو حکومت پاکستان اور حکومت بنین نے ڈاکٹر صاحب کی خدمات کو سراہتے ہوئے جاری کئے تھے.اس ضمن میں اس بندہ پر تقصیر نے مکرم نیم مہدی صاحب امیر جماعت احمدیہ کینیڈا کی تحریک پر کینڈا پوسٹ کے پریڈی ڈینٹ اور چیف ایگزیٹو آفیسر آنر نبیل اندرے اولیٹ Hon Andre Quellet سے رابطہ کیا.میری چھٹی کے جواب میں انہوں نے لکھا: In light of our stamp program criteria, which gives priority to subjects primarily relating to Canada, Dr Salam would not be elegible for commemoration on a Canadian postage stamp.( June 5, 2002) کہنے کا مقصد یہ ہے کہ خاکسار نے ہر ممکن کوشش کی اور ہر جتن کیا کہ اس کتاب میں اچھے سے اچھا مواد اور مضامین شامل کئے جائیں.اس ضمن میں اگر کوئی نادانستہ غلطی یا کوتا ہی ہو گئی ہو تو میں اس کا ذمہ دار میں ہوں.اگر کوئی اچھی بات لکھی گئی تو یہ صرف خدا کی دین ہے میں تو ایک کرم خاکی ہوں.لا ریب مولیٰ کریم کا فضل شامل حال نہ ہو تو کوئی بھی ثریا تک نہیں پہنچ سکتا.

Page 6

میں یہاں امپیرئیل کالج کے پروفیسر ٹام کبل کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں جو ڈاکٹر صاحب کے پچاس سال تک رفیق کار اور معتمد ر ہے.مجھے انہوں نے چند ایک مضامین ارسال فرمائے جو مضامین انہوں نے ڈاکٹر صاحب کی وفات پر لکھے تھے ان میں سے ہیوگرافیکل میموائرز آف رائیل سوسائٹی والا مضمون میرے نزدیک اعلیٰ ترین مقالہ ہے.جنوری ۲۰۰۲ء میں کولمبیا کے ملک کے ایک نوجوان پروفیسر alexis de groin کولندن یو نیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی.ڈاکٹریٹ کا مقالہ انہوں نے ڈاکٹر سلام کی زندگی اور آئی سی ٹی پی کی تاریخ اور اہمیت کے بارہ میں لکھا تھا، افسوس کہ میں اس مقالہ پر تبصرہ اس کتاب میں شامل نہیں کر سکا.یوں تو اس کتاب میں شامل ہر مضمون نہایت دلچسپ اور توجہ کا طالب ہے لیکن میرے نزدیک حکایات سلام اس کتاب کا دل ہے.مجھے قوی امید ہے کہ قارئین اسے پڑھ کر محفوظ ہوں گے.شاید کچھ لوگ کتاب کے عنوان پر حیرت سے بھنوئیں چڑھا ئیں لیکن میرے نزدیک جسطرح سر آئزک نیوٹن کی آمد سے یوروپ میں سائینسی اور تکنیکی انقلاب کی بنیاد رکھی گئی اور اس کی شخصیت یوروپ میں ترقی کا نقطہ آغاز بنی میرے نزدیک یہی چیز ڈاکٹر سلام کی ذات سے ہوگی بلکہ اسلامی ممالک میں سائینس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم اور آگاہی سے ایک نئے انقلاب کی بنیاد پڑ چکی ہے.انشاء اللہ ڈاکٹر عبدالسلام نے جو ایک صد سے زیادہ خطبات پیش کئے کاش کوئی صاحب علم دوست اپنے ذمہ اس کام کو لے اور ان خطبات سلام کو شائع کرنیکا اہتمام کرے.یہ فکر انگیز خطبات آئی سی ٹی پی کی انمول لائیبریری میں موجود ہیں.میں ان تمام احباب کرام کا صمیم قلب سے شکر گزار ہوں جنہوں نے اس کتاب کی اشاعت میں میری رہ نمائی کی.اگر میں یہاں برادرم ہدایت اللہ ہادی کا ذکر نہ کروں تو نا شکر گزاری ہوگی.انہوں نے جن مفید مشوروں سے مجھے نواز اوہ بہت ہی سودمند اور تجربہ پر مبنی تھے.اسی طرح مکرم لال خاں صاحب کے قیمتی مشوروں کا بھی احسان مند ہوں.فجزاء الله احسن الجزاء ۱۲.اپریل ۲۰۰۳ء محمد زكريا ورك ، ٹنگسٹن کینیڈا

Page 7

نام ترتیب مصنف ایک نوبل انعام یافتہ کے تاثرات پروفیسر شیلڈن گلاشو صفحہ نمبر بیٹے کے تاثرات احمد سلام پاکستانی شاگرد کے تاثرات ڈاکٹر سعید اختر درانی امریکن شاگرد کے تاثرات ڈاکٹر ایم جے ڈف میرے ابی.بیٹی کے تاثرات ڈاکٹر عزیزہ رحمن بہن کے تاثرات محترمه حمیده بشیر احمد پہلے انگریز استاد کے تاثرات فری مین جے ، ڈائی سن (1) (4) (۲۴) (۳۳) (۴۳) (۵۴) (۵۸) (۶۴) پہلے برطانوی پروفیسر کے تاثرات سر فریڈ ہوئیل جماعت احمدیہ کے چوتھے امام کے تاثرات حضرت میرزا طاہر احمد صاحب (۷۲) یادگار انٹرویو لوئیس وولپرٹ ایک مداح کے تاثرات محمد زکریا ورک ائیر مارشل کے تاثرات ظفر احمد چوہدری امام مسجد لندن کے تاثرات بشیر احمد خان رفیق حریف مے مرد افگن عشق سعید الظفر ذاتی تاثر پروفیسر ایس ایم انصاری علی گڑھ کے پروفیسر کے تاثرات پروفیسر اسرار احمد ایک سکھ سکالر کے تاثرات ڈاکٹر ایچ ، ایس ، ورک پاکستانی خاتون کے تاثرات نامور صحافی کے تاثرات زاہدہ حنا سید قاسم محمود (۷۵) (۹۰) (۹۸) (۱۰۴) (۱۱۳) (IIM) (IIA) (۱۲۵) (۱۳۴) (۱۳۹)

Page 8

نام یکتائے عصر سائینس دان نکتہ داں، نکتہ سنج ، نکتہ شناس گوہر شب چراغ مصنف انوار احمد شمیم صفحہ نمبر (۱۵۱) مرزا منور احمد عبد الطیف چوہدری ڈاکٹر سلام به حیثیت استاد ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ڈاکٹر سلام بہ حیثیت انشاء پرداز محمد زکریا درک گوہر افشاں ایم ایم احمد سرسید اور عبد السلام منور شمیم خالد شاه اقلیم سائینس ڈاکٹر انیس عالم علم و دانش کا گہوارہ ڈاکٹر مشین احمد خان یادوں کی بارات پاکستان ٹائمنر کا انٹرویو ضوریز شخصیت ڈاکٹر سعادت انور حصہ دوم مسلمانوں کا نیوٹن محمد زکریا ورک (۱۵۴) (۱۵۹) (۱۶۱) (۱۷۱) (۱۸۳) (۱۸۶) (۱۹۲) (199) (۲۰۵) (۲۲۲) پنجابی وچ تقریر.جیڑہ ہی امرتسر وچ کیتی پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام اہم سائینسی تحقیقات پر سرسری نظر ابو ذیشان سلام کی زمین شکن تھیوری پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام سلام کی تعلیم ان کے اپنے الفاظ میں پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام انگریزی اصطلاحات کا مسئلہ پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام قرطبہ مسجد کے افتتاح پر تقریر پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام رموز فطرت پر تبصرے ابو ذیشان (۲۳۱) (۲۴۴) (۲۵۷) (۲۷۰) (۲۷۲) (۲۷۵) (۲۷۸) (۲۸۳)

Page 9

حکایات سلام مصنف صفحہ نمبر محمد زکریا ورک (۲۹۱) (۳۳۸) عالم اسلام کا دوسرا نوبل انعام یافتہ ابو ذیشان منظوم حصہ پیر میکدہ اہل علم سید جعفر طاہر چنها داچین شیر افضل جعفری فخر پاکستان شیر افضل جعفری اے حکیم راز جو ہر محمد عصام (اٹلی) ذوق آگہی آل احمد سرور دانائے طبیعات رہ طلب کا مسافر راغب مراد آبادی ڈاکٹر پرویز پروازی جو اک دنیا کا موضوع سخن تھا راجہ این اے ظفر معترف جس کا اک زمانہ تھا سلیم شاہ جہانپوری سائینس کا تاج محل ایم.زیڈ ورک قدس عنصر راغب مراد آبادی انگریزی میں خراج عقیدت فریڈرک رائینز اہم تاریخیں مؤلف کا تعارف >>>> انگریزی میں مضامین <<<<<<< (۳۴۳) (۳۴۵) (۳۲۶) (۳۴۷) (۳۴۹) (۳۵۰) (۳۵۱) (۳۵۲) (۳۵۳) (۳۵۴) (۳۵۵) (۳۵۷) (۳۵۸) (۳۶۰)

Page 10

بسم الله الرحمن الرحيم In the name of Allah the Most Gracious the Most Merciful و من يوتى الحكمة فقد أوتي خيراً كثيراً شیلڈن گلاشو.بوسٹن امریکہ نوبل انعام یافتہ عبد السلام خو بیوں کا.تعارف.پیکر ہے (1) پرو فیسر شیلڈن گلاشو Sheldon Lee Glashow نے خاکسار کو مندرجہ ذیل دلچسپ مضمون میری درخواست پر ۲۴ اکتوبر ۲۰۰۲ء کوای میل کے ذریعه بھجوایا تها.یہ مضمون انھوں نے ستمبر ۱۹۹۷ء کوسرن (جینوا) کی شهره آفاق لیبارٹری میں ایک خاص میٹنگ میں پڑھا تھا.پروفیسر گلاشو کسی تعارف کے محتاج نھیں.ڈاکٹر سلام کے قوتوں کے وحدت کے نظریہ میں ان کا نام همیشه آتا هی فزکس کا نوبل انعام انھوں نے ڈاکٹر سلام اور ڈاکٹر وائن برگ کے ساتھ شئیر کیا تھا.ایک عرصه در از تک پروفیسر گلاشو ایم آئی ٹی MIT میں فزکس پڑھاتے رھے.۹۸۴ ء ا میں انھوں نے بوسٹن یو نیورسٹی میں ٹیچنگ شروع کر دی لطف کی بات یه هے که نیو یارک میں وائن برگ ان کے ھائی سکول میں ہم جماعت تھے دونوں نے نوبل انعام اکٹھے جیتا.ڈاکٹر گلاشو کا کهنا هے کہ ان کے نوبل انعام جیتنے میں ان کے والدین اور بڑے بھائی کا بہت اثر تھا.ان کے چار بچے ہیں.اس مضمون کو پڑھنے کے بعد آپ

Page 11

(۲) ان کو اپنی رائے اس ایڈریس پر آگاہ کر سکتے ہیں [Shelly Glashow [slg@bu.edu مجھے بعض دفعہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں ہمیشہ ہی سرن CERN میں رہتا ہوں.چاہے ۱۹۵۹ء میں پوسٹ ڈاکٹر یٹ نوجوان کی حیثیت سے، یا پھر اچھا معارضہ ملنے والے وزٹنگ سائینٹسٹ کی حیثیت سے، یا پھر SPC کے ممبر کی حیثیت سے، یا پھر وقتاً فوقتاً وزٹ کرنے کیلئے ، کچھ بھی ہو ہر صورت میں میرا یہاں بہ حیثیت مہمان گرمجوشی سے استقبال کیا جاتا ہے.مگر آج کے روز مجھے یہاں بلائے جانے پر بہت فخر ہے تا کہ آج ہم ایک جلیل القدر سائینسدان، اور انسانیت نواز شخص کی یاد کو تازہ کر کے اسے دل کی گہرائیوں سے خراج عقیدت پیش کر سکیں.عبد السلام سے میری ملاقاتیں اگر چہ محدود تھیں مگر ان کا عرصہ پچاس سال پر محیط ہے.ہمارا باہمی تعلق اگر چہ ایک ایک انٹر ایکشن تھا مگر اسکا لائف ٹائم بہت لمبا تھا.میں عبد السلام کی کمی کو محسوس کرتا ہوں اور اس سے آنیوالی گلاب کے عطر کی خوشبو کو محسوس کرتا ہوں جو وہ لگایا کرتا تھا.ہمارے سائینسی انٹریسٹ اکثر ایک دوسرے کے راستہ میں حائل ہو تے تھے.بعض دفعہ وہ کشیدگی بھی پیدا کر دیتے مگر اس کے باوجود ہم دونوں گہرے دوست رہے اور سائینس کے معاملہ میں خاص طور پر ہمیشہ ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے تھے.میں کف افسوس ملتا ہوں کہ میں اور عبد السلام پرنٹ یا خط و کتابت میں ایک دوسرے سے کبھی تعاون نہ کر سکے تا ہم میں نے لندن میں اس کو دو بار وزٹ کیا، دوبار ٹریسٹ میں اور اس کے علاوہ میری اس سے ملاقاتیں مختلف سائینسی کانفرنسوں، سمر سکولز اور سرن کی سائینس پالیسی کمیٹی کے فیلو ممبر ہونے کی حیثیت سے ہوتی رہیں.اس کے علاوہ ہماری ملاقات سٹاک ہائم میں چار مرتبہ ہوئی.یعنی ایوارڈ ملنے سے پہلے ایک یادگار کا نفرنس میں ، ہمارے خود انعام ملنے کا خاص موقعہ، پھر کارلو رو بیا Rubia اور سائمن وین ڈر میر Van der Meer کو جب انٹر میڈیٹ ویکٹر بوسان کی تجرباتی دریافت کے بعد نوبل انعام ملا اور جس کی وجہ سے ہمیں نوبل انعام کا ملنا بھی سچا ثابت ہوا، اور پھر سٹاک ہالم میں کچھ ہی عرصہ پہلے گرینڈ ری یونین.

Page 12

(۳) اگر چہ ہماری بالمشافہ ملاقاتوں کو ہاتھ کی انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے لیکن میں اور عبد السلام ایک دوسرے سے خوب شنا سا تھے.آج کی اس میٹنگ میں موجود میرے ساتھ کے شرکاء اس بات سے اتفاق کریں گے کہ عبد السلام بلاشبہ ایک روح پھونکنے والا اتالیق ، عالمی شہرت کا حامل سائینسدان ، آئی سی ٹی پی کے سینٹر کا خالق اور تمیں سال تک اس کی رہ نمائی کر نیوالا نیز تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک میں سائینس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کا چیمپئین تھا.میں آج کے اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ کے سامنے چند ایک ذاتی اور ان مہکتی ہوئی یادوں کا ذکر کروں گا اس انسان کے متعلق جو نہایت با مروت، شریف النفس ، اور از حد مہربان تھا.شاگرد کو نوبل انعام ۱۹۵۵ء میں جب میں نے جولین شو نگر Schwinger کے گریجوکیٹ سٹوڈنٹ کی حیثیت سے فزکس کی دنیا میں اپنے کیرئیر کا آغا ز کیا تو میرا تعارف والٹر ( گلبرٹ ) اور اس کی بیگم سیلیا Celia سے مشرق کے ایک پر اسرار اور حیرت انگیز انسان کے متعلق ہوا.والٹر انہی دنوں کیمبرج (برطانیہ) سے کیمبرج (میسا چوٹس) نقل مکانی کر کے آیا تھا.وہ اس وقت ہارورڈ یو نیورسٹی میں جونئیر فیلو تھا کیونکہ اس نے عبد السلام کے زیر نگرانی ڈاکٹرل ریسرچ کے پروگرام کو مکمل کیا تھا.والٹر کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری سلام کے ماتحت ریسرچ کا کام کر کے ملی تھی اور وہ ہاروڈ یو نیورسٹی (بوسٹن ) میں تھور ٹیکل فزکس کا پروفیسر بن چکا تھا.بعد میں اس نے اپنی فیلڈ مالیکیولر بیالوجی میں تبدیل کر لی.۲۵ سال بعد سلام کو اس بات پر بجا فخر تھا کہ اس کے شاگر د و نو بل انعام خود اس کے نوبل انعام ملنے کے ایک سال بعد ملا تھا.عبد السلام سے میرا پہلا ڈائر یکٹ انٹرایکشن اگر چہ میرے لئے شرمساری کا باعث ہوا تھا ، میں انٹر میڈیٹ ویکٹر بوسان پر مقالہ لکھنے کیلئے تحقیق کا کام نیشنل سائینس فاؤنڈیشن کے فیلو کی حیثیت کوپن ہیگن میں میلز بوہر انسٹی ٹیوٹ میں کر رہا تھا میرے ہائی اسکول کے ہم جماعت طالبعلم گیری فائین برگ Feinberg ( سٹیون وائن برگ waeinberg اس کے علاوہ) نے بھی اس موضوع پر ایک اہم تحقیقی پیپر شائع کیا تھا.یہ پیپر میرے لئے کم از کم بہت اہمیت کا حامل تھا.

Page 13

(۴) فائن برگ نے دلیل یہ دے تھی کہ اگر و یک فورس ویکٹر بوسان کے ذریعہ میڈیٹ کرتی ہے اور اگر مو آن muon اور الیکٹران دونوں ایک ہیں تو پھر یہ پروسیس نا قابل یقین حد تک رفتار سے عمل پذیر ہوگا.اس دوران جولین شونگر Schwinger مجھے یقین دہانی کرا چکا تھا کہ مو آن اور الیکٹران نیوٹرینو دونوں ایک جیسے نہیں ہو سکتے ، لہذا میں اس ضمن میں مطمئن ہو چکا تھا.تا ہم وائن برگ کی ایک اور کیلکو لیشن ایسی تھی جس نے مجھے اپنا گرویدہ بنالیا تھا.فائن برگ نے جو نتیجہ اخذ کیا تھا وہ بنگ ملز Yang-Mils گیج تھیوری نے بھی قبل از وقت جتلایا تھا چنانچہ میں نے یہ مصنوعی دلیل اخذ کر لی کہ سافٹ لی بروکن بینگ ملز تھیوریز جو ہیں وہ ری نار مالائز ہو سکتی ہیں.والٹر گلبرٹ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے کہ میں ان کے دلدادہ مرشد سے ملاقات کروں میں نے عبد السلام کی یہ دعوت قبول کر لی کہ میں اپنی ریسرچ امپیرئیل کالج لندن میں پیش کروں.وہاں میری تقریر کی بہت دلپذ برائی ہوئی.تقریر کے بعد سلام مجھے اپنے گھر لے گیا جہاں اس کی بیگم نے ہمارے لئے نہایت مزیدار کھانا تیار کیا ہوا تھا.اس کے بعد جب میں کو پن بیگن واپس پہنچا تو دو پری پرنٹ میری میز پر پڑے تھے ایک سلام نے لکھا تھا اور دوسرا کا مافوچی Kamefuchi نے.دونوں نے میری ریسرچ میں موجود فاش غلطی کی طرف نشان دہی کی تھی.اس کے کئی سال بعد سلام نے مجھے بتلایا کہ یہی وجہ تھی کہ اس نے الیکٹرو و یک پر میرے پہلے سے بہتر پیپر کو نہیں پڑھا تھا.اگر چہ یہ ایک قابل اعتبار بہانہ تھا.استنبول کی سیر ۱۹۶۲ء میں فیضا گرسی Feza Gursey نے دیدہ زیب باسفورس کے کنارے واقع را برٹس کالج میں ترکش سمر سکول کے انعقاد کا انتظام کیا تھا.سلام اور میں دوسرے مقررین کے علاوہ یہاں مدعو تھے.یہ دور پارٹیکل فزکس میں نہایت ایکسا نیٹنگ ٹائم تھا.چند ماہ قبل ہائر سیمٹری کی سویپ سٹیک (یعنی قرعہ لاٹری ) کو عبد السلام کے ایک اور نامور شاگرد یوئیل نی مان Neeman نے سٹرانگ انٹرایکشن کی سکیم کو وضع کر کے جیت لیا تھا اور یہی چیز مری جیل مین

Page 14

(۵) Gell-man G نے بھی خود مختارانہ طور پر وضع کر لی تھی.سائینس کی دنیا میں یہ واقعی سٹرانگ فیلڈ تھی.اس دوڑ میں شریک ہو نیوالوں میں شو نگر کی گلوبل سیمٹری، بیہ رنڈ Behrends ، ٹیا موز Tiommo's کی تھیوری اور سلام و جان وارڈ کی تھیوری بھی شامل تھی جو کامیاب تھیوری سے بہت قریب تھی.(استنبول) میں میری تقریر کا موضوع Eightfold way کی دلچسپ جہتوں پر تھا جس کا پرانا نام (3)SU تھا ، بشمول ان کے جن پر میں نے اور سڈنی کول مین Coleman نے مشترکہ طور پر ریسرچ کا کام کیا عبد السلام کی تقریر کا موضوع بروکن سیمری تھا جس کو اس نے جیفری گولڈ سٹون Goldstone اور وائن برگ Weinberg کے ساتھ مل کر وضع کیا تھا.سلام کو پارٹیکل فزکس میں Spontaneous symmetry breaking کے سینٹرل رول پر پختہ یقین تھا اگر چہ وہ گولڈسٹون بوسان کا عمل بیان نہ کر سکا تھا اور جس کو اس نے بعد میں گھاس میں چھپے سانپ سے تشبیہ دی تھی جو حملہ کرنے پر تیار ہو.ہماری دوستی استقبول کے ڈاؤن ٹاؤن کی بڑکوں پر گھومتے اور دل فضا مقامات کی سیر کرتے ہوئے گہری ہوتی گئی.اور ہم دونوں آخر کار و یک فورس اور الیکٹر میکنیٹک فورس کے باہم اتصال کے سہانے سپنے دیکھتے رہے اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ذہن میں اگلے مزے دار ٹرکش ڈنر کا خیال بھی آتا رہا.اگر چہ ہمیں اس بات کا شدید احساس تھا کہ ہمارے فرسودہ خیالات اور مقالہ جات ( سلام کے پیپرز جان وارڈ کے ساتھ اور میرے کوپن ہیگن میں) کو ہسٹری کی ردی کی ٹوکری میں شاید پھینک دیا جائیگا.اس کے دو سال بعد ہگز Higgs کے علاوہ براؤٹ اور اینگ لرٹ Brouv& Englert اور کچھ عرصہ بعد ٹام کبل Tom Kibble اور اس کے ساتھیوں نے دنیا کو سیمٹی بریکنگ کا گیج وژن دریافت کر کے انگشت بدنداں کر دیا تھا.آئر لینڈ کے سینٹ پیٹرک کی طرح انہوں نے بروکن سیمٹری کی زمین سے سلام کے مفروضہ سانپ کو نکال باہر پھینکا تھا.عبد السلام اور سٹیو وائن برگ دونوں نے آزادانہ طور پر انہی آئیڈیاز کو خود دریافت کر کے لیپٹان کی الیکٹرو ويك تھیوری کو دریافت کر لیا.اگر چہ ان کی عظیم الشان

Page 15

(Y) دریافت سیسے کے بنے گیند کی طرح پانی میں ڈوب گئی.(۱) لیکن کچھ ہی عرصہ بعد جیرارڈ ٹی ہونٹ t'Hooft اور ویلٹ مین Veltman نے سلام.وائن برگ کی ری نار مالائزیشن کی مفروضہ تھیوری کو سچ ثابت کر دکھایا ، (۲) کو ارک کا ثبوت بھی مل گیا (۳) اور ہمارے بہت سارے تجربہ کرنے والے ساتھی سائینسدان جو اس ہال میں موجود ہیں ان پر یہ بات عیاں ہو گئی کہ وہ موعودہ نیوٹرل کرنٹس پر تحقیق کر کے اس کو تلاش کر یں.با وجود اس کے کہ عبد السلام کئی ایک حیرت انگیز کامیابیوں سے ہمکنار ہو چکا تھا.وہ الیکٹر د و یک ماڈل سے پیدا ہونے والے وحدت کے نظریہ سے ذرا بھی مطمئن نہ تھا.برصغیر سے اس کے ساتھی جو گیش پتی کے ساتھ مل کر اس نے سب سے پہلے گیج تھیوری میں تمام ایلی مینٹری پارٹیکلز کی تمام قوتوں کے ہونے کا قابل قبول نظریہ پیش کیا جو موجودہ سٹینڈرڈ ماڈل سے بہت قریب ہے.اور یہ عبد السلام اور جو گیش پتی ہی تھے جنہوں نے اس بات پر زور دیا کہ لیپٹان کے فورتھ کلر کی اور بھی بروکن سیمٹری ہونی چاہئے.یعنی (4)SU یا پھر (5)SU.اور ہم نے جواباً کہا بلاشبہ کیوں نہیں.نوبل پرائز کی تقریب Did't know Sadat had converted 1929ء میں عبد السلام ، سٹیو وائن برگ اور مجھے سٹاک ہالم سے تار موصول ہوا.ٹائم میگزین نے سلام کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ وہ پہلا مسلمان ہے جسے نوبل انعام دیا گیا ہے.سٹیو وائن برگ اور میں نے سلام کو مبارکباد کا ٹیلی گرام دیا اور اس میں یہ بھی لکھا Did y ( یعنی ہمیں معلوم نہیں تھا کہ سادات نے مذہب تبدیل کر لیا ہے ).حقیقت تو یہ تھی کہ عبد السلام پہلا مسلمان سائینس دان تھا جس نے نوبل انعام جیتا تھا.اسے اس بات پر جھنجھلا ہٹ ہوتی تھی کہ کوئی اور دوسرا مسلمان کیوں ابھی تک انعام نہیں جیت سکا.عبد السلام نے اسلامی سائینس میں نشاۃ ثانیہ کو بار بار اپنی تقاریر میں دہرایا.اور سائینس کے معاملہ میں تنگ نظر رجحان (یعنی تقلید کو ختم کرنے کی تلقین کی.میرے خیال میں وہ نئی بننے والی یونیورسٹی آف مڈل ایسٹ کا ضرور زیر دست سپورٹر ہوتا.

Page 16

(<) زاہد و عابد مسلمان تو وہ تھا ہی، عبد السلام نو بل تقریبات کے موقعہ پر بڑے فخر کے ساتھ اپنی دونوں بیگمات اور ان کے تمام بچوں کو ساتھ لے آیا.میں نے اس سے پوچھا: چار بیویاں کیوں نہیں؟ اس نے جواباً کہا کہ دو ہی کافی ہیں.ساتھ ہی یہ کہا کہ برٹش ٹیکس لاء ایک سے زیادہ شادی پر ٹیکس میں رعایت نہیں دیتا ہے.ہمارے سویڈش میزبان اس بات پر خوف زدہ تھے کہ سویڈش اخبارات والے اس بات کا پتہ لگا لیں گے اور اس کی ایک سے زیادہ شادی کو مسئلہ بنا کر اچھا لیں گے.مگر بظاہر ان کو اس بات کا علم ہی نہ ہو سکا اور نہ ہی یہ سوال اٹھ سکا کہ کون سی مسز سلام بادشاہ سویڈن کے ہمراہ سیٹر ہیوں سے نیچے اترے گی.ہم تینوں نوبل انعام یافتگان کے نام تہجی وار لکھے گئے تھے.اس لئے میری بیگم جون Joan بادشاہ کے بازؤں میں بازو ڈال کر سیٹر ہیوں سے نیچے اتری.مگر عبد السلام نے سب کے سامنے ٹوسٹ پیش کیا.اس تقریب کے موقعہ پر تمام نو بل انعام حاصل کرنے والے روایتی پینگوئین لباس میں ملبوس تھے..مگر عبد السلام اپنے شاہانہ پاکستانی لباس میں ملبوس تھا.یعنی طرہ دار پگڑی ، ملتے والے جوتے جو شاید الف لیلی ویلی سے لائے گئے تھے.یہ جوتے بہت ہی تکلیف دہ تھے اور جو نہی تقریب ختم ہوئی سلام نے یہ فوراً اتار دئے.میری بیگم جون نے ان جوتوں کو بہت ہی پسند کیا اور سلام کو اپنی رائے سے آگاہ کر دیا مگر میری اہلیہ کو اس بات کا علم نہ تھا کہ وہ واپس جا کر بلکل نئے جوتے (اگر چہ تکلیف دہ) یادگار کے طور پر اسے بھیجوا ئیگا.میں آپ کو یاد دہانی کرادوں کہ جو تقریبات سویڈن میں شروع ہوئیں تھیں وہ سرن (جینوا) میں منتج ہوئیں.میں نے عبد السلام کو کبھی سگریٹ پیتے یا ڈرنک کرتے یا گالی دیتے نہ دیکھا.وہ بلا شبہ ایک وضعدار ، اپنے اصولوں پر کار بند خوش اخلاق انسان تھا.تمام عمر وہ متقی پر ہیز گار مسلمان رہا.آئیے میں اس تقریر کو اس کے اپنے ہی الفاظ پر ختم کرتا ہوں: قرآن حکیم مومنوں کو تاکید کرتا هے که وہ فطرت کا مطالعہ كريں، اس پر تدبر کریں، اور منتھا ئے مقصود کی تلاش میں عقل کو

Page 17

3 (A) استعمال میں لائیں سائینس کی اہمیت اس بات میں هے که یه هماری ارد گرد کی دنیا کے بارہ میں ھمیں فهم فراهم کرتی هے ، یه مادی منافع همين مهیا کر سکتی ھے نیز اس کے آفاقی ہو نے کی وجه سے..سائینس اور ٹیکنا لوجی کی تظیق تمام انسانیت کا مشترکه ورثه هے.مشرق اور مغرب شمال اور جنوب نے ما ضی میں اس کی تخلیق میں برابركا حصه ليا هے اور هم امید کرتے هیں که وہ ایسا مستقبل میں بھی کریں گے تا که به مشترکه مهم اس کرہ ارض پر موجود مختلف النسل لوگوں میں اتحاد پیدا کر نے کیلئے اتحادی قوت ثا بت هو.عبد السلام کی زندگی با مروت تھی اور عناصر اربعہ اس میں یوں ٹھیک ٹھیک گھلے ملے ہوئے تھے که فطرت شاید بلند بانگ کہہ اٹھے..وہ تو ایک مرد دانا تھا This was a man خدا حافظ Books by Sheldon Glashow: 1.Charm of physics 2.From alchemy to Quarks 3.Interactions: a journey through the mind of a particle physicist.

Page 18

تحریر - احمد سلام ابن ڈاکٹر عبد السلام - لندا گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں ترجمہ محمد زکریا ورک (4) پاکستان کے مایہ ناز سپوت نوبل انعام کی تقریب کے موقعہ پر ساتھ میں شیلڈن گل اشو بیٹھے ہوئے ہیں والدین کے لئے اپنے بچوں کو زندگی بھر یا درکھنے والے سبق سکھانا آسان چیز نہیں ہوتا ہے.لیکن اس لحاظ سے میں بہت خوش قسمت بچہ ہوں جس کے والدین غیر معمولی قابلیت کے حامل تھے.جنہوں نے زندگی بھر میری عملی نمونہ سے رہنمائی کی.عجز کا یہ عملی نمونہ ان میں بہ حثیت مسلمان ہونے کے تھا.ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ انسان کارآمد اور با مصرف زندگی گزارے.جو اللہ تعالیٰ کی مکمل مطبع ہو ، اور اپنے مقاصد کے حصول میں تن من دھن سے پوری طرح وقف ہو.ایسے ان گنت سبق میں نے خوش قسمتی سے ابی جان سے سیکھے.ایک چیز جس کے بارہ میں

Page 19

(۱۰) انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار پوری بے باکی سے کیا وہ ان کی وقت کے زیاں اور کاہلی کے بارہ میں شدید نفرت تھی.وقت کوئی پانی کی بہتی ندی نہیں.جس کے کنارے بیٹھ کر ہم اسے بہتا دیکھ کر لطف اندوز ہوتے رہیں.وقت در حقیقت دنیا کی سب سے زیادہ مہنگی اور قیمت والی جنس ہے.وقت کے ہر لمحہ کی اہمیت و افادیت کو جاننا اور اس کا مناسب مصرف نکالنا بہت لازمی ہے.میرے پیارے اب کے والد چوہدری محمد حسین صاحب فی الواقعہ وہ انسان تھے جنہوں نے اپنے فرزند ارجمند میں کام کی اہمیت یعنی work-ethic کی قابل قدر خصوصیات پیدا کیں اور پھر زندگی بھر یہ خصوصیات ان پر محیط رہیں تا آنکہ وہ آسمان کو چھونے والی غیر ممکن الحصول کامرانیوں سے ہم کنار ہو گئے.میرے پیارے ابی کی یہ شدید خواہش تھی کہ وہ زندگی کے ہر لمحہ کو مفید رنگ میں استعمال میں لا دیں.اس خواہش کا دائرہ اثر ہماری پوری فیملی کے ہر فرد پر بھی تھا کہ وہ بیداری کے لمحات کو کیسے مفید رنگ میں مصرف میں لاتا ہے.ابی کا شمار ہرگز ان لوگوں میں سے نہیں ہوتا تھا جو صبح اٹھ کر شام ڈھلنے کا انتظار کرتے.یا جو ہر شام کو صبح طلوع ہونے کے انتظار میں بے سود وقت گزار دیتے.ان کی یہ خواہش اور توقع ہمارے بارہ میں تھی کہ ہم میں سے کبھی کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ ہو.آپ کی ڈکشنری میں چھٹی کا لفظ تھا ہی نہیں.خود میرے لئے سکول سے تعطیل کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ پرانے اسباق کو دہراؤں.یا ان پر نظر ثانی کروں یا پھر کو رس میں دئے ہوئے اگلے سبق کی تیاری پہلے سے کروں.میں اور میری بہنوں نے ہر روز کا ٹائم ٹیبل بنایا ہو ا تھا.ہمیں سکول کی پڑھائی کا کام اس کے عین مطابق مکمل کرنا ہوتا تھا.ہم ابی کے سٹڈی روم میں اکٹھے مل کر مطالعہ کرتے تھے صرف کھانے اور نمازوں کیلئے اس دوران وقفہ ہوتا تھا.بعض دفعہ ابا جان اگر فون پر کسی سے کانفرنس کر رہے ہوتے جو کہ اکثر ہوتا تھا تو ہماری پوری کوشش ہوتی کہ فون آنے کی وجہ سے ہماری توجہ میں مخل نہ ہو کیونکہ ہمیں بخوبی علم ہوتا تھا کہ انکی آنکھیں ہم سب پر لگی ہوئی ہیں مطمح نظر طے کرنا اور پھر اسکے حصول کی خاطر پوری دلجمعی سے کوشش کرنا اس کے بارہ میں انہوں نے ہمیں مختلف نوع کے موضوعات سے متعارف کرایا تھا.

Page 20

(11) ٹیلی ویژن نہ ہونا ریاضی اور فزکس جو کہ ان کے پسندیدہ مضامین تھے.ان میں میری دلچسپی بڑہانے کے لئے ویک اینڈ پر وہ مجھے اپنے ساتھ اکثر امپیرئیل کا لج آف لندن ( لندن یو نیورسٹی کا حصہ ) لے جاتے تھے.اور جب وہ اپنے ریسرچ کے کام میں مصروف ہوتے تو مجھے اپنے کسی ڈاکٹریٹ سٹوڈنٹ کی نگرانی میں چھوڑ جاتے.مجھے صحیح معلوم نہیں کہ اس صورت حال میں کون زیادہ نروس ہوتا تھا.(سٹوڈنٹ یا میں اگر چہ میرا خیال ہے کہ وہ طالب علم ہوتا تھا جس کے کندھوں پر یہ بھاری بوجھ ڈال دیا جاتا تھا ( یہ کام ان بد نصیب طالب علموں کو اس وقت بھی دیا جاتا تھا ) جب آپ امپرئیل کالج سے گرمیوں کی لمبی تعطیلات کی بناء پر ٹریسٹ (اٹلی) میں واقع سائینس سینٹر میں کام کے لئے چلے جاتے تھے.ٹریسٹ میں بھی دن کا کچھ حصہ کسی طالب علم کے ساتھ گزارتا جو بے چارہ ہر بار خوف سے کانپ جاتا جب اس کا باس پروفیسر اپنے بے ولولہ بیٹے کو اس کے پاس ٹیوایشن کے لئے چھوڑ جاتا تھا.ایک عرصہ دراز تک ہمارے گھر میں کوئی ٹیلی ویژن سیٹ اس لئے نہ تھا کہ ابا جان ٹیلی ویژن دیکھنے کو وقت کے زباں کی سب سے قطعی مثال سمجھتے تھے.جو وقت پڑہائی سے بچتا تھا آپ کی ہدایت تھی کہ وہ وقت کتب کے مطالعہ میں صرف کیا جائے.جس طرح ان کے ابا نے ان سے کتابوں کے مطالعہ کے بعد ان سے خلاصے لکھوائے تھے انہوں نے مجھ سے بھی یہ امید رکھی کہ میں ہر کتاب کے مطالعہ کے بعد اس کا خلاصہ ضبط تحریر میں لاؤں تا زیر نظر موضوع کی سمجھ زیادہ گہرائی سے جان لوں.اس وقت جب میں طفل مکتب تھا شاید یہ کام بہت محنت طلب محسوس ہوتا تھا جبکہ ہر بچہ کا دل کتابوں کی بجائے کسی اور جگہہ کھیل کود میں انکا ہوتا ہے.اب میں لوٹ کے ماضی کے دریچوں میں دیکھتا ہوں تو کہتا ہوں کہ فی لواقعہ اس کام اور مشق کی اہمیت اور افادیت واقعی بہت گہری تھی.علم کی پیاس میرے ابا جان کی علم حاصل کرنے کی نہ سمجھنے والی پیاس کی بہترین مثال کتابوں کا وہ انمول ذخیرہ ہے جو انہوں نے مختلف النوع موضوعات پر اکٹھا کیا ہوا تھا.آپ کے جملہ مشاغل میں سے ایک

Page 21

(۱۲) محبوب مشغلہ جس سے وہ حد درجہ لطف اندوز ہوتے تھے وہ بک اسٹوروں میں کتابوں کی تلاش تھا.لندن کے ارد گرد کے بک اسٹوروں میں آپ کی شخصیت جانی پہچانی تھی.ایسے نادر مواقع پر میں بھی آپ کے ساتھ جاتا تھا.جب میں جی بھر کر آپ کی خوشی میں شریک ہوتا تھا یعنی دماغ کو فرحت بخشنے کے لئے نئے موضوعات پر نئی معلومات حاصل کرنا.ان مواقع پر نہ صرف یہ کہ وقت کی کوئی اہمیت نہ ہوتی تھی (جو کہ خال خال ہی ہوتا تھا ) بلکہ کتابوں کی کل تعداد جو میں خرید سکتا تھا وہ بھی بے معنی ہوتی تھی.ابا جان کو کوئی بھی فضول خرچ نہیں کہہ سکتا تھا.فی الحقیقت وہ اپنی ذات پر خرچ کرنے کے بارہ میں بہت تنگ دل واقع ہوئے تھے.لیکن کوئی ایسا کام یا فعل جس سے انسان علم میں اضافہ کر سکے یا جس سے علم حاصل کرنے کی حوصلہ مندی ہو سکے تو اس صورت میں وہ بہت فیاض واقع ہوئے تھے اس صورت میں خرچ بے دریغ کیا جاتا تھا.اس امر کا اطلاق سکول کے علاوہ دوسرے مفید مشغلوں جیسے ڈرائیونگ سیکھنا.ٹائپنگ سیکھنا پر بھی ہوتا تھا.وہ ہمیشہ نصیحت کیا کرتے تھے کہ دو باتیں ہر انسان کو زندگی میں ضرور سیکھنی چاہئیں ، ایک تو ٹائپنگ اور دوسرے ڈرائیونگ.بدقسمتی سے یا اس وقت یوں محسوس ہوتا تھا کہ ان کی فیاضی میں میری دل پسند کار خریدنا شامل نہ تھی.اوائل بلوغت میں ہی میں نے یہ بات جان لی تھی کہ وہ بے سود خیرات hand-ouls دینا پسند نہ کر تے تھے.جب ایک بار میں نے ان سے اپنی من کی کار خریدنے کیلئے رقم مانگی تو انہوں نے رقم دینے سے صاف انکار کر دیا بلکہ آپ نے کہا کہ اگر میں کار رکھنے کی استطاعت رکھتا ہوں تو پھر مجھ میں رقم کی بچت کر کے خود کا رخریدنے کی بھی استطاعت ہونی چاہئے.بلآ خر میں نے ایسے ہی کیا اور میں اس بیش بہا نصیحت پر آپ کا شکریہ مناسب رنگ میں کبھی بھی ادا نہیں کر سکتا.کئی بار ایسا ہوا کہ بجائے اس کے کہ آپ مجھے اپنے ھاؤس آف وزڈم میں بے تکا نا بینا ؤں کی طرح داخل ہونے دیتے اور اپنے مشوروں سے نوازتے.وہ ایسا کرتے کہ مجھے میرے ذہن کی دہلیز پر لا کر چھوڑ دیتے.اگر چہ آپ بڑے سخت دبا کر کام لینے والے انسان واقع ہوئے تھے مجھے ہمیشہ اس بات پر اطمینان ہوتا کہ اگر میں لڑ کھڑایا ، یا گرا، تو آپ فورا مجھے دبوچنے کیلئے موجود ہوں گے.

Page 22

ہر کام میں سلیقہ آپ نے اپنی زندگی میں کوئی ایسا موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیا جس کو زیر استعمال لانے سے آپ کی رہنی لیاقت اور فطانت میں مزید تر اضافہ ہو سکے.ایر پورٹ پر جہاز کے انتظار میں لا تعداد گھنٹے آپ نے دنیا کا تماشہ دیکھتے رہنے میں ضائع نہیں ہونے دئے.جیسا کہ میں نے قبل ازیں ذکر کیا آپ مطالعہ کے حد درجہ رسیا تھے مطالعہ کی پیاس کبھی شدت میں کم نہ ہوتی تھی اور یہ مطالعہ کا جنون صرف فزکس یا تیسری دنیا میں سائینس کے موضوعات تک محدود نہ تھا بلا شبہ جیسی سائز کا قرآن مجید ہمیشہ آپ کے کوٹ کی جیب میں ہوتا تھا.تا آپ کو جب کبھی اس کی ضرورت پڑے یہ دستیاب ہو.جب آپ لندن گھر میں مطالعہ میں مصروف ہوتے تو قرآن پاک کی تلاوت کا ٹیپ آپ کے کمرہ میں ساتھ ساتھ چل رہا ہوتا تھا.آسان مطالعہ کے لئے آپ کو Woodhouse پی جی ووڈ ہاؤس کے سراغ رساں کیریکٹر Bertie Wooster اور پھر ایک اور مصنف آگا تھا کرسٹی Aghatha Christie کا کیریکٹر Hercule Poiro جن کی سراغ رسانی کا فن اور فراست زبان زد عام تھی.ان سے آپ بہت محظوظ ہوتے تھے.جب آپ فزکس کی کسی تھیوری پر یہ ظاہر کام نہ کر رہے ہوتے تو بھی آپ کا دماغ کسی سائنسی معمہ کو حل کرنے میں شب و روز مصروف کار ہوتا تھا.جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا میرے ابی اس چیز کا بہت خیال رکھتے تھے کہ ہم اپنا وقت ٹیلی ویژن دیکھنے میں ہرگز ضائع نہ کریں مگر جب ان کی پیاری اماں جی نے ہمارے ساتھ گھر میں رہائش اختیار کر لی تو وہ اس معاملہ میں ذرا نرم ہو گئے.اور گھر میں ٹیلی ویژن لانے پر آمادہ ہو گئے پھر اس کے بھی دو مقاصد تھے ایک تو کہ یہ ٹیلی ویژن سیٹ اماں جی کے کمرہ میں نصب کیا جائیگا اور دوسرے یہ کہ ہر وہ پروگرام جو ہم انگلش میں دیکھیں گے اس کا ترجمہ ہمیں پنجابی میں اماں جی کے لئے کرنا ہوگا اس کا بڑا مقصد آپ کا اپنی والدہ محترمہ کا آرام اور دل لگی تھا.پھر خود باپ ہونے کے ناطے سے اس انتظام میں پوشیدہ دانائی اور حکمت بھی تھی.اس بندوبست میں ایک اور ان کا محبوب سبق ہم پر اب روز روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے اور وہ یہ کہ دنیا کے کام جس طرح سر انجام پاتے ان میں ایک سلیقہ اور ترتیب پنہاں (الله)

Page 23

(۱۴) ہے.اگر ہم اپنے بڑہاپے میں اچھے سلوک کی امید رکھتے ہیں تو پھر ہمیں ابھی سے اپنے بزرگوں سے اچھا سلوک کرنا ہو گا جب بھی کبھی ایسا موقعہ پیدا ہو تو بزرگوں سے بہترین سلوک ہمیشہ مد نظر رہے.جتنی بار بھی ممکن ہو ایا جتنا زیادہ سے زیادہ ہو سکا آپ اس قاعدہ یا دستور میں استثنیٰ بھی پیدا کر دیتے اور وقت نکال کر اماں جی کے ساتھ بیٹھ جاتے بعض دفعہ باتیں کرنے کیلئے یا بعض دفعہ ایک دوسرے کی معیت میں خموشی کی حالت میں وقت گزارتے.ہاں بعض دفعہ ایسا بھی ہوا کہ ساتھ کے ساتھ ٹیلی ویژن بھی دیکھ لیا.آپ اماں جی کو اپنے محبوب مزاحیہ ادا کاروں سے بھی متعارف کراتے میں اپنے حافظہ پر زور دے کر اپنی یادداشت کے نہاں خانے سے یہ چیز نکال سکا ہوں کہ آپ صرف خبریں یا مزاحیہ پروگرام ہی دیکھا کرتے تھے.خاموش فلموں میں ایکٹر جب الٹی سیدھی حرکتیں کرتے خاص طور پر چارلی چپلین Chaplin تو پھر آپ دنیا ما فیہا سے بلکل بے خبر ہو جاتے تھے.بعض دفعہ آپ پر زور قہقہہ لگاتے کہ دوسرے لوگ بھی بے اختیار ہنسنا شروع کر دیتے اور ہم بچے آپ کو دیکھ کر اس ہنسی میں شامل ہو جاتے.اس چیز سے بلکل بے خبر کہ بلیک اینڈ وہائٹ ٹیلی ویژن سکرین پر کیا ہنگامہ ہو رہا ہے.ہم ایسے پروگراموں کو کبھی بھی ختم نہیں ہو دینا چاہتے تھے کیونکہ پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ٹیلی ویژن بند کر دیا جائیگا.اور ہر کوئی اپنے اپنے کام میں مصروف ہو جائیگا.بلا شبہ وقت اور مدوجزر کسی کا انتظار نہیں کرتے - Time & tide wait for no man.اچھی گفتگو ہمارے ابا جان کی اچھی گفتگو میں کبھی کوئی خامی تلاش نہیں کر سکتا تھا.آپ اس میں مہارت تامہ رکھتے تھے ہم نے آپ کو کبھی بھی فضول باتوں میں مشغول نہ پایا.بلکہ پاکستانی قوم کی ایک قومی عادت جس سے وہ بہت خفا ہوتے تھے وہ گپ شپ ہانکنے کی بری عادت تھی یعنی یا رلوگوں کا ہجوم بنا کر بیٹھ جانا اور بیکار اور لغو بے معنی باتوں میں وقت ضائع کرنا.جب آپ کسی کے یہاں دعوت پر مدعو ہوتے تو شام کے وقت ان دعوتوں میں غیر ضروری گفتگو میں وقت ضائع کرنا آپ غیر مناسب سمجھتے تھے.آپ میزبان سے معذرت کے ساتھ جلد ہی

Page 24

(10) رخصت لے لیتے بلکہ اپنے گھر میں یہ بھی یہی دستور رکھتے اور جلد ہی اپنے ریسرچ کے کام میں مصروف ہو جاتے.پھر جب آپ مسجد فضل جاتے اور اس کا مقصد اگر صرف نماز ادا کرنا ہوتا تو پھر آپ بلکل یہی کرتے.اگر چہ آپ ایسے مواقع پر اپنے بزرگوں کے احترام میں ان سے جا کر ملاقات کرتے جیسے حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب.مگر ملاقات کے فورا بعد آپ رخصت لے لیتے چاہے اس کا مطلب یہ ہوتا کہ آپ اپنے درجنوں مداحوں کو مایوس چھوڑ کر گھر لوٹ آتے.مجھے یقین واثق ہے کہ اس کا مقصد پیارے ابی کا یہی ہوتا تھا کہ لوگ ان کے عمل سے سیکھیں اور زندگی کے ہر لمحہ کی وقعت کو جان کر اس کا صحیح مصرف تلاش کر کے با ضابطہ دستور والی زندگی گزاریں جس پر موجودہ وقت کا اثر سب سے زیادہ بالا اور مؤثر ہوگا.نیز یہ بھی کہ لوگ خدائے لم یزل کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے مقاصد کے حصول میں پوری تندہی سے جت جائیں گے.الغرض یہ چند اسباق ہیں جو میں نے پیارے ابی سے سیکھے.یہ ان کی مختصر روداد ہے بلاشبہ میں نے اس عظیم شخص کی کامیاب زندگی کے مختصر حصہ پر سرسری نظر ڈالنے کی سعی نا کام کی ہے.ابی اس بات کے بہت ماہر تھے کہ کس طریق سے وہ لا زوال حکمت اور دانائی کی باتوں کی طرف دوسروں کی رہ نمائی کریں جو زندگی کے ہر حادثہ اور تجربہ میں مضمر ہیں.اس سے زیادہ یہ کہ ذہنی طور پر ماؤف ہونا یا سیکھنے کی استعداد کی اہمیت کو خدائے قدوس کے عنایت کردہ ہر قیمتی لمحہ سے خود کو محروم کرنا ان کے نزدیک زندگی کے پرو سیشن سے علیحدہ ہو جانے کے مترادف تھا.جو پوری شان کے ساتھ قدم بڑھاتے مکمل اطاعت سے بسیط اور لا محدود فضا میں عدم کی طرف روانہ ہو رہا ہے.مجھے بلا شبہ معلوم ہے کہ وہ سموئیل جانسن کی ایک نظم کی موزونیت جانتے ہوئے اسکی ضرور قدردانی کرتے جس کا ایک حصہ یہ ہے:.Catch then, O 'Catch the transient hour Improve each moment as it flied Life's a short summer, man a flower He dies - alas.How soon he dies

Page 25

(14) جان سے پیارے میرے ابی ) درج ذیل مضمون احمد سلام نے ایک کتاب کیلئے لکھا تھا جب سے مجھے ٹیسٹ (اٹلی) سے ڈاکٹر ھے مینڈ Hamende کی فیکس ملی ہے کہ کیا میں اپنے ابی جان کی یادوں پر مبنی کتاب کیلئے کچھ لکھنا پسند کروں گا.میں اس شش و پنج میں ہوں کہ اپنے ذہن میں واضح ہو جاؤں کہ میں کیا لکھنا چاہتا ہوں.لکھنے کیلئے تو بہت کچھ ہے لیکن میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ایسی چند یادوں پر مبنی مضمون لکھوں جس سے اندازہ ہو سکے کہ میرے جان سے پیاری ابی کیسے غیر معمولی انسان تھے.مزید برآں ان کی ذاتی پرسنل لائف کے بارے میں بھی کچھ عرض کروں.اگر یہ معروضات بے جوڑ لگیں تو میں معذرت خواہ ہوں.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے دو بیٹوں سے نوازا ہے میں انہیں بڑے ہوتے اور ترقی کرتا دیکھتا ہوں اور ان کی پرورش اور تربیت سے لطف اندوز ہوتا ہوں.یقیناً میرے ابی جان کو بھی اپنے بچوں کی قربت کی نعمت کا پورا احساس تھا لیکن اپنے عظیم مقاصد کے حصول کیلئے انہوں نے اس معاملے میں بہت قربانیاں دیں.ایک دفعہ ہمارے گھر میں بھی اس بات کا تذکرہ ہوا کہ اس بڑے مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے تنہائی اور خلاء کو برداشت کیا.اور وہ مقصد دوسروں کے ضرورت مند بچوں کی پرورش تھا.انہیں ان کی ضروریات کا شدت سے احساس تھا ہمارے پاس تو ہماری امی جان بھی تھیں اور ضروریات زندگی بھی وافر.لیکن ان بچوں کو میرے ابی کی توجہ، رہ نمائی اور شفقت کی ضرورت زیادہ تھی.ابی جان کو چونکہ اپنے والد محترم کی مشفقانہ راہ نمائی اور محبت سے بہرہ مند ہونے کا ذاتی تجربہ تھا اس لئے انہیں اولاد کیلئے پدرانہ شفقت کی ضرورت کا پورا احساس تھا.اور انہیں یہ بھی یقین تھا کہ ان کے بچوں کی اصل حفاظت اور تربیت تو اللہ تعالیٰ نے ہی کرنی ہے لہذا وہ دعا کی طرف بہت توجہ دیتے تھے.ایک بارابی کے ایک قریبی دوست نے مجھے بتلایا کہ ابی سے جب بھی پوچھا جاتا کہ ان کے

Page 26

(۱۷) کتنے بچے ہیں؟ تو وہ جواب دیتے کئی ہزار.یہ وہ بچے تھے جو آئی سی ٹی پی کے ذریعہ انکے پاس پہنچتے تھے میہ وہ بچے تھے جن سے اب میری ملاقات ہوتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے ان کیلئے کیا پاپڑ نہ بیلے.انہیں مالی امداد کے علاوہ کتنی حوصلہ افزائی کی، اور ان میں کتنا جذ بہ پھونکا،.اب احساس ہوتا ہے کہ ان بچوں کو اتنا وقت اور توجہ دینا کتنا ضروری تھا.بہر حال ہم باپ بیٹے کیلئے مشکل تھا کہ ان کے لندن میں چند گھنٹے کے قیام کے دوران ہمارے با ہمی رشتہ کی پیاس کا خاطر خواہ انتظام ہو سکتا.اسی لئے میرے بچپن میں ضروری تھا کہ میں ان مختصر ملاقاتوں سے پورا پورا فائدہ اٹھاتا.مجھے یاد ہے کہ جب میں چھ سال کا تھا تو جب بھی وہ لندن آتے میں اپنا بستر ان کے کمرے میں لے جاتا.تا کہ ان کے ایک روزہ قیام کے دوران ان کے ہمراہ زیادہ سے زیادہ وقت گزار سکوں.اب احساس ہوتا ہے کہ وہ کیوں مجھے کہا کرتے تھے کہ میں انہیں امپر تیل کالج لے جاؤں یا ائر پورٹ چھوڑ آؤں ، تا یوں وہ میرے ساتھ کچھ مزید وقت گزار سکتے.کار میں ہم سفرکی کے دوران مجھے وہ اپنی سوچ، خیالات، اور رہ نمائی سے نوازتے.انجانے طور پر ان سے قیمتی سبق سیکھتا.ایسے موقعوں پر وہ مجھے بتاتے کہ چیز میں کیسے کام کرتی ہیں؟ مثلاً کار کا انجمن ، انسان کا دل ، یا ریاضی کا کوئی پرابلم.یا پھر کسی مشہور راجپوت شہسوار یا راج کمار کی کہانی سناتے.ہم دونوں کیلئے یہ لمحات بہت اہم ہوتے ، ہم دونوں ان سے اکیلے میں بہت ہی لطف اندوز ہوتے تھے.بچوں کی پرورش چنانچہ جب وہ لندن آتے ان کا اصرار ہوتا کہ ہم ایک ڈنرا کھٹے کھا ئیں.کھانے کے دوران وہ ہم سے باری باری پوچھتے کہ سکول کیسے چل رہا ہے؟ تعلیم میں کیسے ہو؟ یا کوئی مسئلہ ہے جس میں ہماری رہ نمائی کر سکتے.میں چونکہ سب سے چھوٹا بچہ تھا اس لئے میری باری سب سے آخر پر آتی اور یہ گفتگو بلعموم کھانے کے بعد ان کے کمرے میں ہوتی.وہ تب تک بستر میں ہوتے ان کا کمرہ گرم ہوتا سوائے ایک لیمپ کے باقی کے بتیاں بجھ چکی ہوتیں.اور کمرے میں اگر بتیوں کی دن سے بچی کچھی خوشبو سے ماحول بہت خوشگوار ہوتا.مجھے یاد ہے وہ میرے مسائل کی تہ تک فوراً پہنچ جاتے اور انہیں ایک لمحہ میں حل

Page 27

(۱۸) فرما دیتے وہ ہمارا بہت خیال رکھتے اور ہر ممکن ذریعہ سے ہماری مددفرماتے.میرے پیارے ابی کو کیسے یقین تھا کہ وہ ہمیں تھوڑا وقت دے کر پورا فائدہ اٹھا سکیں گے؟ دراصل انہیں تسلی ہوتی تھی کہ ان کی مصروفیت میں کوئی وجود ایسا تھا جو ان کے بچوں کی پوری طرح دیکھ بھال کر سکے.نہ صرف جسمانی پرورش، بلکہ اخلاقی اور روحانی پرورش بھی.اور وہ تھیں ہماری والدہ صاحبہ جو ہماری پرورش اور دینی تربیت کیلئے پوری راہبر ہوتی تھیں.اور اس شعبہ میں وہ بہت کامیاب تھیں.محاورہ ہے کہ ہر عظیم مرد کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے.یہ بلکل درست ہے چنانچہ ابی جان میری بہنیں اور میں اپنی والدہ کے مقروض ہیں.ابی کو پورا احساس تھا کہ اگر وہ چاروں بچوں کی اعلیٰ پرورش کی صلاحیت نہ رکھتیں گھر چلانے کا مشکل کام نہ کرتیں، اور وہ تمام دوڑ بھاگ نہ کرتیں جو بلعموم خاوند کرتا ہے جبکہ وہ اس کے ساتھ ساتھ (عورتوں کی تنظیم ) لجنہ اماء اللہ کی نیشنل پریذی ڈنٹ بھی تھیں تو وہ کبھی بھی اپنے عظیم مقاصد کے حصول میں کامیاب و کامران نہ ہو سکتے.ہماری والدہ کی وجہ سے وہ تسلی اور آزادی سے اپنے مشن اور ریسرچ کے کام میں مصروف رہے.اور گھریلو مصروفیات ان کے آڑے نہ آئیں.میں ابی جان مرحوم.اپنی بہنوں اور اپنی طرف سے امی جان کا مشکور ہوں کہ انہوں نے ابی جان کے تقاضوں کا صحیح اندازہ کر کے ضروری مدد مہیا کی اور ایک کھٹن فرض کو بہت خوش اسلوبی سے ادا کیا اور اب بھی نبھا رہی ہیں.ابی جان نے مجھے بعض باتیں سکھا ئیں جو میری شدید خواہش ہے کہ میرے بچے بھی سیکھیں.اول تو یہ کہ انسان کو اپنے او پر مکمل اعتماد ہونا ہے.اور یہ ایمان ہونا چاہئے کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے وہ فی الواقعہ درست ہے اور اگر وہ عمل واقعی ایسا ہی ہے تو پھر جرات اسے کر گزرنا چاہئے.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار انہوں نے مجھے نصیحت کی: دوسروں کی پرواہ مت کرو کہ وہ کیا سوچیں گے اصل بات تو یه هے که تم کیا سو چتے ھو ؟ اگر تم اسے درست سمجھتے ھو تو کر گزرو.ایک چودہ سالہ بچے کیلئے یہ نصیحت ولولہ انگیز تھی.

Page 28

(19) ابی جان اپنے والدین کی شخصیت سے بھی بہت متاثر تھے.خصوصاً اپنے والد گرامی کے نظم و ضبط اور اعلیٰ کردار سے نیز اپنی ماں کی بے لوث محبت سے.ان کے والد مضبوط شخصیت کے مالک تھے اور حسب موقعہ سخت نظم وضبط کے خوگر تھے.ابی اپنے والدین کا بہت خیال رکھتے تھے اور یہی چیز انہوں نے مجھے اور میری چاروں بہنوں کو سکھائی.ان کی حتمی رائے تھی کہ ہم والدین کی دعاؤں کے ہمہ وقت محتاج ہیں اور وہ ہمارے بہترین خیر خواہ ہوتے ہیں.انہوں نے ہمیں اپنے عملی نمونہ سے بتا دیا کہ والدین کی خدمت اولین فرائض میں سے ہے یہ وہ امر ہے جس کی ہم سب کو ہمہ وقت یاد دہانی کی ضرورت ہے.ورثہ کی اہمیت ابی جان نے مجھے شایستگی اور آداب سکھائے.ان سے میں نے مہمان کو خواہ کوئی بھی ہو خوش آمدید کہنا سیکھا اور انکی خدمت کرنا سیکھا.مجھے یاد ہے وہ اپنے کار ڈرائیور کی ہمیشہ کھانے یا مشروب سے تواضع کرتے اور اسے کار میں بیٹھ کر انتظار نہ کرنے دیتے.ہر مہمان کو پوری محبت اور عزت دیتے اور اس امر کا خیال رکھتے کہ مہمان کون ہے اور کسی طبقہ سے تعلق رکھتا ہے.ابی جان نے مجھے اسلام کی اہمیت کا احساس دلایا نیز احمدیت پر یقین اور اپنے راجپوت ورثہ کا بھی.وہ مجھے خاندانی عسکری روایات بھی بتاتے اور دیانت، امانت ، طاقت اور ذہانت کی ریت کا بھی.ابی جان ایک بڑے تاریخ دان بھی تھے.صرف اسلامی تاریخ کے نہیں بلکہ پوری تاریخ انسانی کے.تاریخ پڑہنا انکا محبوب مشغلہ تھا.سوانح عمریوں میں دلچسپی رکھتے تھے.خواہ وہ نپولین کی ہو، یا چرچل یا گاندھی اور شارلے مان کی ، بڑے لوگوں کی شخصیت میں رہ نمائی مستقل مزاجی، پیش بینی ، اور منصوبہ بندی کا عصر نمایاں ہوتا ہے.وہ ان کے تجربات سے سبق سیکھتے.عظمت کے حصول کیلئے کاوش اور وقت کے زباں سے اجتناب اہم اصول ہیں.ابی کسی بڑی شخصیت سے ملاقات کرتے تو بلعموم مجھے بھی ساتھ بٹھا لیتے.ان کی خواہش ہوتی تھی کہ میں بڑوں کی صحبت سے فائدہ اٹھا ؤں نیز دوستوں کا سوچ سمجھ کر انتخاب کروں.لندن جب بھی آتے تو مسجد فضل ضرور جاتے اور نماز ادا کرتے.لیکن نماز کے بعد جلد گھر

Page 29

(۲۰) روانہ ہو جاتے ہاں اگر کوئی ملنا چاہتا تو رک کر بات ضرور کرتے ، مشورہ دیتے یا خوشنودی کا اظہار کرتے لیکن پھر جلد روانہ ہو جاتے انہیں قطعاً پسند نہ تھا کہ بیٹھک لگائی جائے گئیں لگانا اور غیبت کرنا انہیں سخت ناپسند تھا وقت کبھی ضائع نہ کرو، انسان کا ہر لحہ کسی نہ کسی چینی کاوش میں استعمال ہونا چاہئے.ابی کے لئے باتھ روم بھی علمی تفکر کی جگہ تھی آنے والے مهمان همارے باتھ رومز کی لائیبریری دیکھ کر حیران ھوتے - ، لندن، آکسفورڈ، اور ٹریسٹ میں ان باتھ رومز میں ہکسلے داغ ،دهلوی ووڈ ہاؤس کی کتابوں سے لیکر نیوسائینٹسٹ، فزکس ٹوٹے، اور اکانومسٹ رسالے موجود ھوتے تھے.وقت کو سب سے بڑی نعمت سمجھتے تھے چھٹی کا کوئی تصور نہ تھا.مجھے یاد ہے ابی نے زندگی میں کبھی چھٹی نہ کی.خود میری چھٹیوں میں بھی ہوم ورک اور اتالیق کے ساتھ مصروفیت رہتی.روزانہ شام کے کھانے پر میری روزانہ کی پڑھائی کا جائزہ لیتے ، یہ جائزہ میرے لئے کچھ پریشانی کا باعث ہوتا کیونکہ نتیجہ یہی نکلتا تھا کہ وقت کے بہتر استعمال کی ابھی بھی گنجائش ہے.ابی مجھ سے بڑی تو قعات رکھتے تھے محنت کرنا انہوں نے اپنے والد سے سیکھا تھا اور انکی خواہش تھی کہ میں بھی ویسا ہی کروں.اسی طرح ٹیلی ویژن دیکھنا وقت کا زیاں سمجھتے تھے.لیکن مجھے یاد ہے کہ ابی کو دو مزاحیہ پروگرام بہت پسند تھے ایک تو تھا Dads Army جو کلاسیکل کا میڈی پروگرام تھا جسے دیکھتے ہوئے وہ بہت پر زور قہقہے لگاتے.دوسرا پروگرام بھی کامیڈی تھا اس کا نام تھا Morcamb and Wise یہ دونوں صاف ستھرے مزاحیہ پروگرام تھے ایسے پروگراموں کی کمی آجکل بہت محسوس ہوتی ہے.ابی جان کو جلد سوئے اور جلد جا گئے کا اصول ہر دلعزیز تھا.وہ آٹھ بجے بیڈ روم میں چلے جاتے اور نو بجے لائٹ آف کر دیتے.اس کے بعد فون سننا پسند نہ کرتے تھے احباب اور افراد خاندان کو اس کا علم تھا کہ جب وہ لندن آتے ہیں تو رات نو بجے کے بعد فون نہیں کرنا.اسی طرح کھانے کے دوران بھی فون نہ سنتے.فون کر نیوالے کو کہہ دیا جاتا کہ بعد میں فون کریں.یہ پکا اصول تھا.ابی گہری نیند سوتے تھے میں

Page 30

(۲۱) حیران رہ جاتا کہ وہ کیسے آسانی سے آنکھیں بند کرتے ہی سو جاتے ہیں.جہاں کہیں بھی ہوں کار میں، جہاز میں، جب بھی انہیں چند فرصت کے لمحات ملتے وہ سو جاتے.کام کرنے میں بھی یہی طریق تھا جہاں بھی وقت ملتا وہ نوٹس لکھ لیتے.جو چیز ملاتی اخبار.رومال، یا اور کچھ نہیں تو ہاتھ پر ہی اپنے آئیڈیاز تحریر کر لیتے.ایک دفعہ وہ ملكه برطانيه.ايلز بيته دوم.کی دعوت پر لنچ میں شرکت کیلئے قصر بکنگھم گئے لنچ کے بعد جب ملکه چلی گئیں تو ابی جان نے واپس آکر اپنا نیپ کن Napkin مانگ لیا.ابی جان جہاں بھی ہوتے علی الصبح اٹھ جاتے گھر پر تو وہ صبح ساڑھے تین یا چار بجے جاگتے تھے نوافل ادا کرتے اور پھر چند گھنٹے لگا تار ریسرچ کا کام کرتے.اس دوران وہ ساتھ کچھ کھا بھی لیتے جو رات کو ہی مہیا کر دیا جاتا تھامثلاً تھر موس میں چائے ، خشک میوہ جات پسکٹ، پنیر، فروٹ جیسے کیلے یا آڑو.یہ اشیاء مع پانی کے جگ کے بڑے میں رات کو رکھ دی جاتیں.لندن اور ٹریسٹ میں یہ عمل با قاعدہ جاری رہتا پھر غسل کرتے تیار ہوتے اور دل بھر کر ناشتہ کرتے.مجھے یاد ہے سات بجے کے قریب جب وہ ہمیں گھر کے اوپر والے حصہ میں دیکھنے آتے تو ان کے بھاری قدموں کی چاپ ہم سن لیتے اور چھلانگ لگا کر بستر سے اٹھ جاتے اور کوشش کرتے کہ ایسے لگے جیسے نیند سے بیدار ہو چکے تھے.اچھے کپڑوں کا شوق شروع شروع میں ناشتہ بیف سا بیج Beef Sausage ، انڈے اور Smoked Haddock مچھلی پر مشتمل ہوتا تھا بعد ازاں فش فنگر ز بھی پسند تھیں.پھر کچھ عرصہ Muesll Cereal بھی کھایا اور آخر عمر میں فش فنگر ز پسند کرتے رہے.کئی ایک قسم کے سنیک مختلف وقتوں میں پسند کئے جن کا انحصار کام کی نوعیت پر ہوتا تھا انہیں آم کا میٹھا اچار کیمپ کافی ہمیسلی سیرئیل، ڈائی جیسٹواسکٹ، چاکلیٹ اور پاکستانی مٹھائی پسند رہیں.میٹھا بہت ہی پسند تھا کہتے تھے مجھے اس سے کام میں انرجی ملتی ہے، جب بھی سفر کرتے کئی قسم کی میٹھی اشیاء بسکٹ، اور خشک پھل اپنے بیگ میں ساتھ رکھ لیتے اور سفر میں کھاتے جاتے اگر تھیلا خالی ہو

Page 31

(۲۲) جاتا تو ائر پورٹ جاتے ہوئے راستے میں یا ائر پورٹ پر پہنچ کر تھیلا دوبارہ بھر لیتے تھے.ابی کوشا پنگ سے سخت نفرت تھی.اسے وقت کا زیاں گردانتے تھے.لیکن کوئی ستا سودا ہاتھ میں آجاتا تو ڈھیر سارا خرید لیتے.ایک دفعہ نیو یارک میں سات سات ڈالر کی قمیضیں نظر آگئیں تو ایک نہیں پوری پندرہ خرید لیں.پاکستان کی خبروں میں بہت دل چسپی تھی اس لئے روزانہ ریڈیو پاکستان کی خبریں سنتے تھے شروع شروع میں روسی ساخت کے ستے ریڈیو خرید تے لیکن انہیں جلد احساس ہو گیا کہ ان کی ادنی کوالٹی کے باعث بہت سا وقت ٹیوننگ میں ضائع ہو جاتا تھا.چنانچہ بعد ازاں عمدہ کوالٹی کے ریڈیو سیٹ خریدے.پھر قرآنی تلاوت سننے کیلئے سٹیر یو خریدا.قاری عبد الباسط کی آواز بہت سریلی تھی اس کی تلاوت Saville Raw Hawkes سے ابی بہت متاثر تھے اور اپنی وفات تک اس سے متواتر استفادہ کرتے رہے.ابی لباس کے زیادہ شوقین نہ تھے شروع میں جو ملا پہن لیا.لیکن بعد میں وہ Geives and Saville کے نفیس قسم کے سوٹ پسند کرنے لگے.جس کی بڑی وجہ ان کی پائیداری تھی یوں بار بار خریدنے میں وقت ضائع نہ ہوتا.مجھے حال ہی میں پتہ چلا ہے کہ وہ گیوز کے سوٹ کیوں پسند کرتے تھے اسکی تفصیل کیلئے آپ کو میرے چا کی لکھی ہوئی سوانح عمری پڑھنا ہوگی جو جلد ہی طبع ہوگی لیکن اشارہ کر دیتا ہوں کہ ابی گیوز کے سٹور پر سالانہ میل کے موقعہ پر جاتے اور فائدہ اٹھاتے.آخر عمر میں ابی اچھے کپڑے پہننا پسند کرتے تھے.ابی نے مجھے زندگی کے ہر مرحلہ پر تعلیم کی اہمیت سکھائی.نیز کتابوں کی اہمیت، ان کی دیکھ بھال کی اہمیت ، جب کبھی میں کسی کتاب میں دل چسپی کا اظہار کرتا وہ مجھے لے دیتے.کتابوں کے حصول میں میرے اوپر کوئی پابندی نہ تھی.ہاں مجھ پر لازم تھا کہ ان کی مناسب نگہداشت کروں.ہم دونوں بعض اوقات کتابوں کی دکانوں پر گھنٹوں وقت گزار دیتے.جب وہ امپرئیل کالج میں ہوتے تھے تو انہیں دو سٹور بہت پسند تھے گلاسٹر روڈ کا کا نک سٹور Kanac اور ساؤتھ کنز نگٹن کا آپن ہا ئیمر.فائیلز Foyles کا سٹور بھی پسند تھا لیکن اس کی اشیاء ترتیب اچھی نہ تھی رچمنڈ ہل پر نئی اور پرانی کتب کی ایک دکان پر جانا

Page 32

(۲۳) بھی پسند کرتے تھے.ہمارے پٹنی Putney والے مکان میں آنیوالے احباب اس بات کی تائید کریں گے کہ بڑا تر کہ جو ہمارے ابی ہم سب کیلئے چھوڑ گئے وہ کتابیں ہی تو ہیں یعنی علم سے محبت کا ورثہ.ان کی علم کی اشتہاء کبھی کم نہ ہوئی.یہ ان کی عظیم شخصیت کا مستقل جزو تھا ان کی لائیبریری میں قسم ہا قسم کی کتا ہیں تھیں مثلا Teach yourself Russian, Teach yourself Air Navigation وغیرہ وغیرہ ہمارے ہاں انگلش ، اطالین ، ڈکشنریاں بھی تھیں جو کبھی استعمال نہ ہوئیں.میں چاہوں تو بہت سے صفحات اور لکھتا جاؤں لیکن ان کے مثالی کردار کے ایک خاص قابل ذکر وصف کا تذکرہ کر کے اس مضمون کو ختم کرتا ہوں.زندگی کے آخری حصہ میں جب ان کی بیماری شدید ہو گئی اور طول پکڑ گئی تو انہوں نے صبر کے ساتھ سب کچھ برداشت کیا.آزاد منش زندگی گزاری.آخر پر دوسروں کے سہارے کے محتاج ہو گئے یہ ان کیلئے بہت مشکل مرحلہ تھا.اپنی تکلیف کا علم بہت کم لوگوں کو ہونے دیا علالت کو اللہ تعالیٰ کی مشیت سمجھا اور صبر سے برداشت کیا.کبھی ناراضگی یا حرف شکایت زباں پر نہ لائے بلکہ بہادری اور جواں مردی سے مقابلہ کیا تکلیف اور درد کی شدت میں بھی غصہ اور پریشانی کی کوئی بات نہ کی.(نوٹ : یادر ہے کہ ڈاکٹر صاحب ۱۹۸۹ء کے لگ بھگ وہیل چیر استعمال کرنے لگ گئے تھے، اپنے ہاتھ سے لکھ بھی نہ سکتے تھے.جب علالت بڑھ گئی تو بستر سے اٹھ نہ سکتے تھے پھر وہ دن بھی آیا کہ قوت گویائی سے محروم ہو گئے.مؤلف ) اس بات پر ہی اس مضمون کو اب ختم کرنا مناسب ہے کیونکہ قادر مطلق پر ایمان اور اور اسکی مشیت اور رضا پر راضی رہنے کا طریق ابی جان کی زندگی کا بنیادی اور اولین اصول تھا.یہ ان کی زندگی کا لب لباب تھا اور وہ آخری دم تک اس پر مستقل مزاجی سے قائم رہے.( ترجمه شمیم احمد خالد، ہفت روزہ الفضل انٹر نیشنل لندن ۲۸ جولائی ۲۰۰۰ء) XXX

Page 33

(۲۴) ڈاکٹر سعید اختر درانی برمنگھم (برطانیہ) شيخ الرئيس) داكتر عبد السلام کے متعلق میری سب سے پہلی یادداشت ۱۹۴۰ء کے لگ بھگ کی ہے جب موسم گرما میں ہم نے اچانک یہ خبر سنی کہ جھنگ کے ایک غیر معروف اسکول کے طالب علم نے میٹرک کے امتحان میں یونیورسٹی آف پنجاب کے تمام گزشتہ ریکارڈ توڑ دئے ہیں.اس کے تھوڑے عرصہ بعد ہم دونوں کے درمیان ایک ذاتی تعلق (مشترکہ جاننے والا ) نکل آیا.مجھے معلوم ہوا کہ میرے ایک بڑے تایا جن کا نام حکیم محمد حسین تھا اور جو گورنمنٹ انٹر میڈیٹ کالج جھنگ کے پرنسپل تھے انہوں نے سلام کی ایجو کیشن میں بہت ذاتی دلچسپی لی تھی.حکیم صاحب بذات خود ایک مانے ہوئے سکالر تھے.انہوں نے انڈین ایجو کیشن سروس کے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کی تھی ان کی علمی دلچسپیوں کا حلقہ بہت وسیع تھا یعنی تعلیم.ادب.فلاسفی اور مذہب.حکیم صاحب جب عمر رسیدہ ہو گئے تو بتلایا کرتے تھے کہ ایک صبح گاؤں کے سکول کا کوئی ٹیچر یا سکول کا کوئی ملازم اپنے بیٹے کو سکول میں داخلہ دلوانے آیا ( میرے خیال میں سلام اس وقت بارہ سال کا تھا ).اور درخواست کی کہ اس کی بچہ کی خاص نگہداشت کی جائے کیونکہ وہ عبقری بچہ ہے حکیم صاحب پہلے تو چونکے کہ اس ریمارک کی وجہ کیا ہوسکتی ہے.پنجاب کا یہ دیہاتی علاقہ اور اس میں عبقری بچہ ؟ حکیم صاحب جتلایا کرتے تھے کہ جب انہوں نے اس بچہ کو قریب سے دیکھا اور اس کی پر فارمنس دیکھی تو ان کو جلد ہی احساس ہو گیا کہ فی الواقعہ ان کے ہاتھوں میں غیر معمولی پراڈکٹ آ گیا تھا.چنانچہ انہوں نے سلام کو اپنی پوری توجہ دی اور اس کی کو چنگ احسن رنگ میں کی تا وہ اپنی پوٹینشل کو صحیح طور پر پا سکے.یہ چیز شمر آور ثابت ہوئی اور سلام کے والد اور حکیم صاحب کا اس نوجوان کے بارہ میں ان کا یقین صحیح ثابت ہوا جب سلام نے میٹرک کے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کر کے گزشتہ ریکارڈ توڑ دئے.دو سال بعد ہم نے سنا کہ اس کے بعد جھنگ کالج سے انٹر میڈیٹ امتحان بھی اس نے اعلیٰ نمبروں

Page 34

(۲۵) سے پاس کر کے ریکارڈ توڑا.اور پھر ۱۹۴۲ء میں اسے گورنمنٹ کالج میں داخلہ مل گیا جو اس وقت پورے ہندوستان میں سب سے افضل تعلیمی ادارہ تھا.اس کے بعد ہم سلام کو ترقی کے زینہ پر اوپر کی طرف چڑھتے دیکھتے رہے جب وہ ہر دو سال بعد یو نیورسٹی کے ریکارڈ توڑتا رہا.( یعنی میٹرک کے بعد انٹر میڈیٹ کا امتحان.پھر بی اے اور پھر ایم اے ) اس دور کے تمام طلباء کو سلام کا تعلیمی کیرئیر انسا ئر کرتا رہا اور وہ ہم سب کیلئے رول ماڈل بن گیا.افسانوی شخصیت گورنمنٹ کالج لاہور میں راقم الحروف نے پہلی بار جب عبد السلام کو دیکھا.تو وہ اس وقت افسانوی شخصیت بن چکا تھا.پتلا ، خوبصورت، کافی لمبے قد کا نو جوان جس کے چہرہ پر برش قسم کی مونچھیں تھیں.اور جو اپنے کلاس روم یا ہوٹل کے کمرہ سے باہر شاذ و نادر ہی نظر آتا تھا اس وقت میں بھی نیو ہا سٹل کا مکین تھا جہاں عبد السلام بورڈر کے طور پر مکین تھا.یہاں عبد السلام کے محنتی ہونے کے بارہ میں قسم ہا قسم کی کہانیاں سننے میں آتی تھیں.مثلاً لوگ کہتے تھے کہ ہر صبح جب وہ اپنے کمرہ سے باہر آتا تھا تو کمرہ کے باہر کاغذوں کا انبار لگا ہوتا تھا جن پر ریاضی کے فارمولے اور سوالات حل کئے ہوتے تھے میرے گورنمنٹ کالج آنے کے کچھ ہی عرصہ بعد وہ یہاں سے شہرت کی ہواؤں کے دوش پر سوار ہو کر کیمبرج روانہ ہو گیا.پھر ۱۹۵۱ء کے لگ بھگ عبد السلام لیکچرار بن کر کالج واپس آیا وہ اس وقت یو نیورسٹی میں کو انٹم میکے نیکس کے موضوع پر ایک کورس پڑہا رہا تھا.اور کالج کے پرنسپل قاضی محمد اسلم کے گھر پر رہائش پذیر تھا.میری ملاقات بعض دفعہ سلام سے کالج کے سومنگ پول پر ہوتی تھی اس وقت میں فزکس میں ایم ایس سی کر رہا تھا اور اس کے لیکچر سنا کرتا تھا.سلام اس زمانہ میں سادہ اور بے تکلف قسم کا انسان تھا جو طالب علموں سے دوستانہ رنگ میں پیش آتا تھا.اس دور کا اہم ترین واقعہ پاکستان ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانس منٹ آف سائینس لاہور کی طرف سے انٹر نیشنل کانفرنس کا انعقاد تھا جس میں مشہور سائینس دانوں کے علاوہ متعدد نو بل انعام یافتگان نے بھی شرکت کی.جیسے سر جی پی تھامپسن G.P.Thompson.-- پروفیسر اے وی ہل A.V Hill.اس

Page 35

(۲۶) کانفرنس کے دوران ہمیں اس بات کا احساس ہوا کہ عبد السلام دنیا کے ان چوٹی کے سکالرز کی نظر میں کس وقعت اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا.یہ امر سائینس کے طالب علموں کیلئے بہت روح پرور اور اپ لفٹنگ تھا.کانفرنس کے اختتام پر مندوبین کو ریل گاڑی کے ذریعہ پشاور اور تاریخی خیبر پاس کی سیر کرائی گئی.ٹرین کے اس سفر کے دوران مجھے ڈاکٹر عبد السلام کے ساتھ گونا گوں موضوعات پر تبادلہ خیال کا نادر موقعہ میسر ہو ا تھا.طلباء سے حسن سلوک اس کے بعد عبد السلام سے میری ملاقات ۱۹۵۳ء میں کیمبرج یونیورسٹی میں ہوئی.جہاں میں کیونڈش لیبارٹری میں ڈاکٹریٹ کرنے اوپن ریسرچ سٹوڈنٹ شپ کی بناء پر گیا تھا.سلام کیمبرج ۱۹۵۴ء میں فیلو کے طور پر اور سینٹ جانز کالج میں لیکچرار بن کر آیا.اب کی بار میں نے دوبارہ اس کے لیکچروں میں پال ڈائیراک کے بھی) ریاضی کے ڈی پارٹمنٹ میں شرکت کی میں ان دونوں اساتذہ کے لیکچروں سے اس وجہ سے بہت متاثر ہوا کہ ان کو اپنے دقیق موضوع یعنی تھیوری آف کو اٹم مینکس پر زبر دست عبور حاصل تھا.اس کے علاوہ ڈاکٹر سلام مختلف سوسائیٹیوں کی میٹنگز میں بھی شرکت کیا کرتا تھا جیسے مجلس جس کے ممبر ہند و پاکستان کے طلباء ہوتے تھے اور جو کلچرل اور سوشل پروگرام پیش کیا کرتی تھی وہ پاکستانی اور انڈین طلباء کیلئے ہمیشہ رسائی کے قابل ہوتا تھا بلکہ مجھے کئی بار اس کی خوشنما ر ہائش گاہ پر جا کر مشورہ کرنے یا محض بات چیت کرنے کا بھی موقعہ ملا.ایک اور جگہ جہاں میں ڈاکٹر عبدالسلام سے متواتر ملتا رہا وہ جی سسر کا لج Jesus College کا Prioress Room تھا جہاں (ریسرچ کرنے والے) طالب علموں کیلئے ہائی انرجی فزکس میں تازہ بہ تازہ تھیوریز پر بحث کرنے کیلئے ہمارا سپر وائزر سر ڈنیس ول کنسن 2n ن Sir Dennis Wilkinson اجلاس منعقد کیا کر تا تھا.ان بحث و مباحث کے اجلاسوں میں اکثر شرکت کر نیوالے مدعوین ڈاکٹر سلام اور پروفیسر برائن (بعد میں لارڈ) ہوا کرتے تھے.یہ اجلاس اس بات پر فتح ہوئے کہ ۱۹۵۸ء میں عبد السلام میرے ڈاکٹریٹ کے مقالہ کیلئے ایکسٹرنل ایگزیمز مقرر ہوا.باوجود اس کے کہ میں ایکس پیری مینٹل فنزے

Page 36

(۲۷) سسٹ تھا.پروفیسر ول کنسن نے بعدہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں ایکسپیری مینٹل نیوکلیر فزکس کی چیر قبول کر لی.چنانچہ اس کے تمام شاگرد بھی کیمبرج اس کے تعاقب میں آکسفورڈ پہنچ گئے اسی عرصہ میں سلام نہ صرف رائیل سوسائٹی کا نوجوان ترین فیلو (۳۱ سال کی عمر میں منتخب ہوا ، بلکہ اس کی تعیناتی امپیرئیل کا لج لندن میں بطور پروفیسر آف تھیور ٹیکل فزکس کے بھی ہو گئی.میرے ایکس ٹرنل ایگزیمینز کے طور پر سلام میرے ساتھ بہت الفت اور رواداری سے پیش آیا.اور میرے تھیورٹیکل فارمولیشن کیلئے فطری استعداد کو ہائی انرجی فزکس کی فیلڈ میں یہ نظر تحسین دیکھا اور مجھے ہمت دلائی کہ میں اپنے مقالہ کے فٹ نوٹس میں فوٹان بیری اون می سان اور ھائی بر آن جیسے اصطلاحی الفاظ کے روٹس یونانی.فارسی.اور سنسکرت زبانوں سے نکال کر پیش کروں.( مجھے انتہائی افسوس ہے کہ میں اس مشورہ پر عمل درآمد نہ کر سکا ).صائب الرائے جب میں نے ڈاکٹریٹ مکمل کر لی تو میں نے اپنے کیرئیر میں نیا قدم اٹھانے سے قبل سلام سے مشورہ کرنے کیلئے رجوع کیا.اس نے مجھے مشورہ دیا کہ چونکہ پاکستان میں اس وقت سائینسی طور پر ایک ہی عملی ادارہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن ہے اس لئے میں اس ادارے میں ملازمت حاصل کرلوں.اس نے مجھے ڈاکٹر آئی ایچ عثمانی سے متعارف کرنے کی پیش کش کی جو اس وقت کمیشن کا ذہین وفطین چیر مین تھا.اور جو سلام کا قریبی دوست ہونے کے باعث سلام کے گھر واقع پٹنی میں لندن وزٹ کے دوران ہمیشہ ہی قیام کیا کرتا تھا.چنانچہ ڈاکٹر عثمانی اگلی بار جب لندن آیا تو سلام نے میرا تعارف اس سے کرا دیا.یہ ملاقات آکسفورڈ میں ہوئی تھی.ڈاکٹر عثمانی نے مجھے مشورہ دیا کہ ہائپر آن پر تحقیق سے پاکستان کو کوئی فائدہ نہ ہو گا لہذا مجھے اپنی فیلڈ تبدیل کر کے ری ایکٹر فزکس میں خود کو سپیشلائز کرنا چاہئے میں نے اس مشورہ کے مطابق اگلے تین سال یو کے اٹامک اتھارٹی کے ساتھ Harwell & Winfith کے مقامات پر ریسرچ کا کام کیا.اس

Page 37

(۲۸) کے اختتام پر میں نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں ملازمت اختیار کر لی اور مجھے جلد ہی لاہور اٹامک انرجی سینٹر کا ڈائر یکٹر بنا دیا گیا.ڈاکٹر عبد السلام اس سینٹر میں لندن سے بہ حیثیت چیف سائینٹفک ایڈ وائزر، صدر پاکستان اکثر آیا کرتا تھا.یہ ذکر اس دور کا ہے (یعنی ۱۹۶۴ء کے لگ بھگ ) جب ڈاکٹر عثمانی نے بہ حیثیت گورنر انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن (وی آنا آسٹریا) اور سلام نے مل کر ایک پلان تیار کیا جو بعد میں انٹرنیشنل سینٹر فار تھیوریکل فزکس کی صورت میں ٹریسٹ (اٹلی) میں منصہ شہود پر آیا.اس کیلئے اصل صدر مقام لا ہور تجویز ہوا تھا.مگر حکومت پاکستان کی اس ضمن میں بھاری بھر رقم صرف کرنے میں ہچکچاہٹ اور کوتاہ نظری کے باعث اور ساتھ ہی اطالین حکومت کی فراخدلی کی وجہ سے بلاخر ٹریسٹ میں آئی سی ٹی پی کا صدر مقام قائم ہوا.اور باقی کی کہانی جیسا کہ کہتے ہیں تاریخ کا حصہ بن گئی ہے.پھر ۱۹۶۷ء میں خود میں نے یونیورسٹی آف برمنگھم کے شعبہ فزکس میں ملازمت اختیار کر لی اور ۱۹۷۹ء میں جب ڈاکٹر سلام کو نوبل انعام دیا گیا تو میں نے اس کو مبارکباد کا خط روانہ کیا.جس کے جواب میں اس نے مجھے لکھا: I am sorry your grand uncle is not alive anymore for he would have been proud of me today.مجھے افسوس ہے کہ آج تمہارے بڑے تایا جان زنده نهیں هیں ورنه آج کے روز وہ مجھ پر بہت نازاں و فرحاں ہوتے.اس کے بعد سلام سے میرا رابطہ ٹریسٹ میں ۱۹۹۱ میں ہوا.جب میں آئی سی ٹی پی کے ریڈان ورکشاپ میں فیکلٹی لیکچرار کے طور پر شمولیت کیلئے گیا تھا.وہاں سلام نے مجھے پیج پر مدعو کیا اور اسکے بعد ایک صبح ناشتہ کے بعد اپنے آفس میں گفتگو کیلئے مدعو کیا.اس نے میرے سامنے کمیشن آن سائینس اینڈ ٹیکنالوجی ان دی ساؤتھ COMSATS کے اغراض و مقاصد بیان کئے.کمیشن تھرڈ ورلڈ کے ممالک کے حکومت کے سربراہان پر مشتمل تھا تا سائینس اور ٹیکنالوجی میں انقلاب کے لئے اعلی سطح پر منعم ارادے کا اظہار ہو سکے اور جس کے قیام کیلئے وہ تھرڈ ورلڈ اکیڈیمی آف سائینس کے صدر کی حیثیت سے گزشتہ

Page 38

· (ra) کئی سالوں سے پوری تندہی سے مصروف عمل تھا.پاکستانی وزیر اعظم کے نام خط او پر مذکورہ ملاقات میں عبد السلام نے COMSATS کی بنیادی میٹنگ کے پاکستان میں منعقد ہونے اور غیر ضروری التواء کے بارہ میں دل گرفتگی کا اظہار کیا.کیونکہ اس کی شدید خواہش تھی کہ ایسی میٹنگ پاکستان میں لا زما منعقد ہو.اس نے مجھے بتلایا کہ وزیر اعظم پاکستان بے نظیر بھٹو نے کمیشن میں شمولیت پر نہ صرف رضامندی اظہار کیا تھا بلکہ ایسی فاؤنڈنگ میٹنگ کے انعقاد کیلئے بھی ارادے کا اظہار کیا تھا.میمر قبل اس کے کہ ایسا ہو سکتا اس کی حکومت معزول ہو گئی جبکہ نواز شریف کی نئی حکومت اس بارہ میں حیل و حجت سے کام لے رہی تھی.میں نے اسی لمحہ اسے پیش کش کی کہ مجھ سے اس ضمن میں جو ہو سکا ضرور کروں گا کیونکہ ایک ماہ بعد میں پاکستان سائینس کانفرنس میں شمولیت کے لئے جانے والا تھا میں نے اس سے کہا کہ وہ مجھے ایک عریضہ دے جو صدر پاکستان کے نام ہو.اور اسکی کاپی وزیر اعظم کے نام ہو میں نے اسے یہ تجویز بھی وی کہ ترغیب کے طور پر وہ اس بات کا اعادہ اس عریضہ میں کرے کہ جس ملک میں فاؤنڈیشن میٹنگ ہوگی وہیں کامسیٹس کا صدر مقام مقرر کیا جائیگا.سلام نے فوراً دونوں تجاویز کو قبول کر لیا.ڈاکٹر عبد السلام کے خط سے خود کو لیس کر کے سب سے پہلے میں نے جنوری ۱۹۹۲ء میں صدر پاکستان غلام اسحق خاں سے ملاقات کی مگر صدر محترم کو مائل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ثابت ہوا تا ہم آخر کار انہوں نے اس تجویز سے اتفاق کر ہی لیا اور مجھے ہدایت کی کہ وزیر اعظم سے ملاقات کروں جو کہ اس معاملہ میں فیصلہ کن اتھارٹی تھا.وزیر اعظم اس وقت بیرون ملک گئے ہوئے تھے مگر میں نے ان کو سوٹزرلینڈ کے شہر ڈیووز DAVOS میں جا پکڑا جہاں یکم فروری ۱۹۹۲ء کو اکنا مک سمٹ ہو رہی تھی.میں نے نواز شریف کو قائل کر لیا کہ کامسیٹس کی فائنڈنگ میٹنگ پاکستان میں ضرور منعقد ہو بلکہ ان کو عارضی تاریخ پر بھی رضا مند کر لیا یعنی فروری ۱۹۹۳ء.وزیر اعظم نے آئندہ بننے والے بجٹ میں اس مقصد کے لئے دوملین امریکن ڈالر

Page 39

(۳۰) مختص کرنیکا حکم دے دیا جس میں امید تھی کہ پچاس ممالک کے سربراہان مملکت شرکت کریں گے.نواز شریف سے ملاقات میں نے سلام کو فوراً آکسفورڈ فون کیا اور اسے خوش خبری سنائی.وہ اس نوید سے بہت مسرور ہوا اور مجھے کہا کہ میں نواز شریف کا تہہ دل سے شکریہ ادا کروں اور اسے فرصت ملنے پر آئی سی ٹی پی وزٹ کرنے کی دعوت بھی دوں.جون ۱۹۹۲ء میں جب وزیر اعظم پاکستان ریوڈی جو نیرو (برازیل) میں ارتھ سمٹ میں شمولیت کے بعد براستہ لندن پاکستان واپس جارہا تھا تو میں ڈاکٹر سلام کو آکسفورڈ سے کار پر ڈرائیو کر کے ڈور چسٹر ہوٹل میں مسٹر نواز شریف سے ملاقات کیلئے لایا.نواز شریف نے سلام کو مخاطب ہو کر کہا:.سر آپ کی وجہ سے پاکستان کو اتنی عزت ملی ہے اور اس وجہ سے همیں بھی عزت نصیب هوتی هے همیں کوئی حکم دیں اس کی تعمیل فوری طور پر هو گی اور اگر آپکی صحت یابی کیلئے کچھ کر سکتے ہیں جس سے عارضه میں کمی واقع ھو سکے تو از راہ کرم مجھے زاتی طور پر اس سے مطلع کریں میں اس کی تعمیل میں ذرا بھی گریز نه کروں گا.یہ ساراسین بہت رقت آمیز تھا اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ پاکستان کے ارباب اختیار سلام کا دل میں کتنا احترام رکھتے ہیں کامسیٹس کے انعقاد کی قطعی تاریخ کا فیصلہ TWAS کی کویت میں ۱۹۹۲ میں ہونے والی کا نفرنس تک کیلئے ملتوی کر دیا گیا لیکن ایک بار پھر پاکستان کی حکومت (اس بار شریف کی معزول ہوگئی قبل اس کے کہ تاسیسی اجلاس منعقد ہو سکتا.چنانچہ اب ہمیں تمام تگ و دو دوبارہ شروع کرنا پڑی بینظیر بھٹو ایک بار پھر بر سر اقتدار آگئی میں نے تھرڈ ورلڈا کیڈیمی آف سائینسز TWAS کی دسویں سالگرہ کے موقعہ پر سلام سے ایک نیا مخط وزیر اعظم بینظیر کے نام لکھوایا میری ملاقات بے نظیر سے دسمبر ۱۹۹۳ء میں ہوئی اور اس نے اس سے پہلے

Page 40

(۳۱) رہ کئے ہوئے وعدے کو ایفاء کر نیکا عہد کیا اس نے مجھے کہا کہ ہمیں پروفیسر سلام کے پایہ کے لوگوں سے نمائی کی اشد ضرورت ہے اور یہ جاننے پر کہ سلام کی صحت اب کس قدرنا ساز ہے اس نے صحت یابی کا ذاتی پیغام بھجوانے کے ساتھ پھولوں کا گلدستہ لندن ہسپتال بجھوانی کا فوری حکم صادر کر دیا.کامسیٹس کی فائنڈنگ میٹنگ اسلام آباد میں ۴ اور ۵.اکتوبر ۱۹۹۴ ء کو پوری شان و شوکت کے ساتھ منعقد ہوئی.اور اسلام آباد میں کمیشن کا مستقل صدر مقام قائم ہوگیا مگر وائے افسوس کہ اس پلان کا خالق شدید علالت کے باعث اس جگہہ میٹنگ میں شرکت کرنے سے قاصر رہا.جہاں اس کی tong cherished خواب آخر کار سچی ثابت ہو رہی تھی میں نے اس امر کے وقوع ہونے کا امکان مستقبل کے پر وہ پر دیکھ لیا تھا.اور دونوں اداروں یعنی آئی سی ٹی پی اور ٹی ڈبلیو اے ایس کو تجویز کیا کہ سلام کا ایک پورٹریٹ پینٹ کروا کے کامسیٹس کی میٹنگ میں آراستہ کیا جائے.میں نے مشہور زمانہ پاکستانی (مصور) مسٹر گل جی سے درخواست کی کہ وہ سلام کا ایک پور ٹریٹ بنا ئیں ( یہ مصور اس سے پہلے ڈی گال، جارج بش ، شاہ آف ایران ، علامہ اقبال اور راجیو گاندھی کے پورٹریٹ بنا چکے تھے مگر سلام اس قدر علیل تھا کہ پورٹریٹ کیلئے صحیح انداز میں بیٹھنے سے محروم تھا لہذا مسٹر گل جی نے خاکے بنائے جو میٹنگ میں زیبائش کیلئے رکھے گئے.یوں اگر سلام وہاں میٹنگ میں خود حاضر نہیں ہو سکتا تھا تو کم از کم اس پورٹریٹ سیکیچز نے اس موقعہ کو خوشگوار اور پر لطف بنا دیا.۱۹۹۵ ء کے شروع میں ان سات خاکوں میں سے جو گل جی نے بنائے تھے ایک خاکہ میں اسلام آباد سے ٹریسٹ لے کر گیا اور اب یہ آئی سی ٹی پی کے گیلی لیو گیلی لائی گیسٹ ہاؤس میں نمائش کے لئے دیوار پر آراستہ ہے.ستمبر ۱۹۹۴ء میں پورٹریٹ میکنگ والی ملاقات کے بعد میری سلام سے ملاقات نومبر ۱۹۹۶ء یعنی اس کی رحلت تک بہت کم ہوئی.اگر چہ میری اس سے بات چیت فون پر ایک یا دو دفعہ ہوئی.فون پر میں صرف اس کی طرف سے پنجابی زبان میں صرف سر گوشی ہی سن سکا اس کی بیگم لوئیس کی فرمائش پر میں نے اردو شاعر غالب (۱۷۹۷.۱۸۲۹) کی بعض غزلیں انگلش میں ترجمہ کیں جن کے ٹیپ کیسٹ سلام کو

Page 41

(۳۲) بہت ہر دلعزیز تھے.ان کو سن کر اسے بہت ذہنی سکون حاصل ہوتا تھا.پھر میں نے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال (۱۸۷۷ تا ۱۹۳۸ ) کی اردو اور فارسی شاعری کے ٹیپ کیسٹ بھی پر و فیسر سلام کو ارسال کئے جو اقبال اکیڈیمی (برطانیہ) نے ۱۹۹۲ میں تیار کئے تھے اور جس کا میں چیر مین ہوں.تو یہ چند ایک میری دل افروز یا دیں ہیں اس جلیل القدر انسان کے متعلق جو میرے نزدیک آئن سٹائن - پالہ ڈائیر انکے.مائزہ برگ کے پایہ کا عبقری سائینس دان تھا.ہم میں سے بہتوں کے خیال میں سلام دوسرے نوبل انعام کا بھی مستحق تھا مگر اس بار انعام اسے تھرڈ ورلڈ میں سائینس کے فروغ کے لئے اس کی لائف لانگ سروس کی بناء پر ملنا چاہئے تھا.آئی سی ٹی پی اور ٹی ڈبلیو ایس دو ایسے ادارے ہیں جو اس کے زرخیز دماغ کی پیداوار تھے اور جو اس کی شب و روز کی کاوشوں سے سائینس اور تھرڈ ورلڈ کیلئے اس کی پر شوکت خدمات کی بناء پر اس کے پیارے نام کو زندہ جاوید رکھیں گے.سلام کا نام یقیناً لوح زندگی پر ثبت ہو چکا ہے.( ترجمہ محمد زکریا درک) TWAS Newsletter Vol 8, No4....: Oct to Dec 1996 XXX مضمون کے مصنف ڈاکٹر پروفیسر سعید اختر درانی برمنگھم یونیورسٹی سے ریٹائر ہو کر اب پاکستان میں ڈاکٹر سلام کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں مصروف عمل ہیں.

Page 42

(۳۳) ڈاکٹر ایم جے ڈف، ٹیکساس امیریکہ امیریکن شاگرد کے تاثرات ايم -جي - أف M.J.Duff جنہوں نے ڈاکٹر عبد السلام کے زیر نگرانی ڈاکٹریٹ کا تحقیقی کام کر کے فزکس میں ڈگری حاصل کی.انہوں نے درج ذیل قلبی تاثرات اور بیتی ہوئی یا دوں پر اظہار خیال دسمبر ۱۹۹۶ء میں پوری انڈیا) میں منعقد ہو نے والی فزکس کی ورکشاپ میں ایک شام عشائیہ کے بعد کیا.مضمون نگار ایک زمانہ میں ٹیکساس اے اینڈ ایم یونیورسٹی کے سینٹر فار تھیو رٹیکل فزکس کالج سٹیشن.ٹیکساس امر یکہ میں فزکس کے شعبہ سے منسلک تھے.(مترجم) گزشتہ مہینہ ڈاکٹر عبد السلام کی رحلت نہ صرف ان کی فیملی کے لئے ایک بہت بڑا نا قابل تلافی نقصان تھا بلکہ یہ نقصان فزکس کی کمیونٹی اور تمام بنی نوع انسان کا بھی نقصان تھا.کیونکہ نہ صرف وہ بیسویں صدی کا عظیم المرتبت فرسٹ تھا بلکہ جس نے کائینات میں موجود چار میں دنیا نے سائینس کے یہ درخشاں..ڈاکٹر عبد السلام سے دو بنیادی قوتوں کو متحد کیا.اس نے اپنی زندگی سائینس اور ایجو کیشن کی تیسری دنیا میں فروغ اور دنیا میں امن کے قیام کیلئے وقف کر دی تھی.اگر چہ اس نے نوبل پرائز فزکس میں حاصل کیا لیکن امن کے نوبل پرائز کا بھی وہ یقینی طور پر حقدار تھا.عبد السلام کی ولادت جھنگ شہر میں ۱۹۲۶ء میں ہوئی.جو اس وقت پاکستان میں واقع ہے

Page 43

(۳۴) اس کی زندگی کا آغاز نہایت عاجزانہ طریق سے ہوا.فی الحقیقت سلام کا ایک جزو کلام یعنی پسندیدہ فقرہ یہ ہوتا تھا کہ میں تو ایک عاجز انسان ہوں.وہ اس فقرہ کو اس وقت استعمال کرتا تھا جب کوئی شخص فزکس کے مسائل کے بیان کو ضرورت سے زیادہ پیچیدہ بنا نیکی کوشش کرتا جو کہ غیر ضروری ہوتا تھا.اس سے قبل کہ وہ بر طانیہ روانہ ہوتا اس نے گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یو نیورسٹی میں تعلیم مکمل کی.پھر اس نے ۱۹۴۶ میں سینٹ جانز کالج ( کیمبرج ) میں فزکس اور ریاضی میں امتیازی طور پر ڈبل فرسٹ پوزیشن حاصل کی.اسکے بعد ۱۹۵۲ء میں کیونڈش لیبارٹری سے اس نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی.اس کے بعد وہ کچھ سالوں کیلئے لاہور واپس چلا آیا مگر ۱۹۵۴ء میں برطانیہ واپس آنے پر اس کا تقرر کیمبرج میں بطور لیکچرار کے ہوا.بلا شبہ سلام کے تعلیمی کیرئیر کے آغاز کے بنیادی دور میں سب سے زیادہ انفلوئنس سینٹ جانز کالج میں اس کے اتالیق (مینٹر ) پال ڈائیر اک جیسے عظیم انسان کا تھا.ڈائیر اک اسکا ساری زندگی ہیرو رہا نہ صرف عظیم المرتبت فزے سسٹ ہونیکے ناطے سے بلکہ ایک انسان ہونے کے ناطے سے بھی.جو مادی اشیاء اور دولت میں بلکل دلچسپی نہ رکھتا تھا.سلام نے خود بھی کبھی مادی دولت کیلئے دلی آرزو کا اظہار نہ کیا بلکہ اس کے برعکس تیسری دنیا سے آئے ہوئے طلباء اور پوسٹ ڈاکٹریٹ طلباء کے (تعلیمی اخراجات ) وہ اپنی جیب سے بخوشی ادا کرتا تھا.پیٹرک بلیر کاٹ Blackett ۱۹۷۴-۱۸۹۷ ء کی تجویز پر سلام نے ۱۹۵۷ میں امپیرئیل کالج لندن میں نقل مکانی کی جہاں اس نے تھیور ٹیکل فزکس گروپ کی بنیاد رکھی.پھر ۱۹۵۹ء میں اس کا انتخاب رائیل سوسائٹی کے فیلوشپ کے لئے ہوا.امپرئیل کالج لندن میں وہ پروفیسر آف فزکس تا دم زندگی رہا اور یہ وہ جگہہ ہے جہاں میں خوش قسمتی سے اس کا ڈاکٹریٹ سٹوڈنٹ تین سال ۱۹۶۹ تا ۱۹۷۲ رہا اس نے ۱۹۶۴ میں انٹر نیشنل سیٹر فار تھیورٹیکل فزکس کی بنیاد اٹلی کے شہر ٹیسٹ میں رکھی جس کا وہ کچھ ہی عرصہ پہلے تک ڈائر یکٹر تھا.اس سے پہلے کی کامرانیوں میں سے نمایاں کام کو اہم فیلڈ تھیوری میں رینار مالائز یشن کے رول کا تھا.اس نے کیمبرج میں اپنے ہم عصر سائینس دانوں کو فزکس کی نہایت مشکل اور پیچیدہ پرابلم

Page 44

(۳۵) Overlapping divergences کا حل پیش کر کے ہکا بکا کر دیا تھا.اس کی زیرک فہمی کا مظاہرہ دوبارہ اس وقت ہوا جب اس نے اپنا مشہور زمانہ ہائی پاتھے سر تجویز کیا کہ تمام نیوٹران بائیں ہاتھ والے ہوتے ہیں.جسکا مطلب یہ تھا کہ.violation of parity in weak interactions سلام وہ واقعہ ہمیشہ بڑے شوق سے سنایا کرتا تھا جب وہ مشہور فرسٹ دولف گانگ پالی سے ملنے زیورک گیا اور اس کے سامنے ٹو کمپونینٹ نیوٹرینو تھیوری کا آئیڈیا پیش کیا.یا یوں کہیں کہ عاجزانہ طور پر پیش کیا ) پالی Pauli نے اس نوجوان سائینس دان کو اپنے آفس سے بغیر کسی تامل کے یہ طعنہ دے کر خارج کر دیا کہ یہ نوجوان sanctity of parity کا ذرا بھی ادراک نہیں رکھتا ہے.چنانچہ سلام نے اپنی تھیوری کی اشاعت کو التواء میں ڈال دیا تا وقتیکہ Lee and Yang سائینس دانوں نے پیری ٹی وائیولیشن پر تقدس کا لبادہ اوڑھ دیا.اس چیز نے سلام کو یہ سبق سکھلایا اور وہ اسکا ذکر اپنے طلباء سے بار بار کیا کرتا تھا کہ وہ اپنے عمر رسیدہ (اساتذہ) کی باتوں پر زیادہ دھیان نہ دیا کریں ( مجھے قوی امید ہے کہ کم از کم اس طالبعلم نے اس نصیحت پر ضرور عمل کیا ہے ) اس واقعہ نے اسے یہ سبق بھی سکھلایا.کہ سائینس کی فیلڈ میں پبلش آرپیرش ا کا اصول مد نظر رکھنا چاہئے.چنانچہ اس کی سائینٹیفک آؤٹ پٹ گراں قدر تھی، جو کہ ڈھائی سو کے قریب اعلیٰ مضامین پر حاوی ہے.ریسرچ ورک Publish or Perish بلا شبہ وہ تحقیقاتی کام جس کی وجہ سے اسے ۱۹۷۹ء کا نوبل انعام ملا.اور جو اس نے گلا شو اور وائن برگ کے ساتھ شیر کیا اور جو الیکٹرو و یک یونی ٹیکسیشن کے موضوع پر تھا یہ ایک موضوع اس کے دیگر مستقل انٹریسٹ میں سے ایک تھا یعنی : ری نار مالائز یشن renormalization گیج تھیوریز guage theories کائرائیلٹی chirality اس سے پہلے اس کا ریسرچ ورک جو اس نے گلیڈسٹون اور وائن برگ کے ساتھ ۱۹۶۰ء میں

Page 45

(۳۶) کیا تھا اور جو Spontaneous Symmetry Breaking کے موضوع پر تھا.اور ساٹھ کی دہائی میں اس کا ریسرچ ورک جو اس نے جان وارڈ John Ward کے ساتھ کیا تھا اور جو دیک انٹرا ایکشن پر تھا یہ تمام لا ریب بہت دور رس اثرات کا تحقیقاتی کام تھا.اس بات پر میرا دل آزردہ ہے کہ امپیرئیل کالج آف لندن میں جب میں تھیوری گروپ کا بطور طالب علم ایک ممبر تھا.اور اس گروپ میں نہ صرف عبد السلام شامل تھا.بلکہ نام کیبل Kibble بھی تھا کسی ایک شخص نے بھی یہ تجویز نہ کیا کہ ویک انٹرایکشن کا موضوع میری مزید ریسرچ کے لئے نہایت دلچسپ موضوع ہو سکتا ہے.في الواقعہ Spontaneous symmetry breaking کے بارہ میں مجھے اس وقت علم ہوا جب میں پی ایچ ڈی کر چکا تھا.اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ نہ تو وائن برگ اور نہ ہی سلام ( اور نہ کسی اور نے) اس بات کی اہمیت کو اچھی طرح جانا کہ ان کے پیش کردہ ماڈل کی کیا اہمیت ہے.تا آنکہ ہونٹ THoon ڈچ نوجوان سائینس دان نے اس کے ری نار مالائزیشن کا ثبوت ۱۹۷۲ میں پیش کیا.اور تا آنکہ سرن.یوروپین سینٹر فار نیوکلئیر ریسرچ (CERN) میں نیوٹرل کرنٹ دریافت ہوئی.نو بل کمیٹی نے یقیناً گلا شو ، وائن برگ ، اور عبد السلام کو ۱۹۷۹ میں نوبل انعام کا مستحق جان کر دور اندیشی کا ثبوت دیا.کیونکہ ڈبلیو اور زیڈ بوزانہ تجرباتی طور پر سرن میں ۱۹۸۲ تک دریافت نہ ہوئے تھے.جو گیش پتی Pati اور سلام نے اسکے بعد تجویز کیا کہ سٹرانگ نیوکلئیر فورس بھی اس اتحاد کی تھیوری د یک نیوکلئر فورس اور ای ایم ایف) میں شاید شامل کی جاسکتی ہے.گرینڈ یوٹی فیکیشن تھیوری کی پیش گوئی کے دو اہم اجزاء ہیں : میکنیک مونوپول اور پروٹان ڈی کے یہ دو فینا ما ایسے ہیں جن پر ابھی بھی بہت زبر دست اہم تھیور نیکل اور تجرباتی ریسرچ ہو رہی ہیں.ماضی قریب میں یہ سلام ہی تھا جس نے اپنی ریسرچ میں عمر بھر کے رفیق جان سٹرا تھی Strathdee کے ساتھ مل کر سپر سپیس کا آئیڈیا پہلی بار پیش کیا.یہ ایسی سپر پلیس ہے جس کے commuting اور anti-commuting coordinates ہیں اور جو اس وقت سپر سمیٹری کی ریسرچ میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے.

Page 46

کو انٹم تھیوری آف گریویٹی (~) تا ہم یہ عبد السلام ہی تھا جس کا میں تہ دل سے مشکور ہوں جس نے کو اٹم تھیوری آف گریویٹی میں میرے ذوق کو شعلہ زن کیا.اور یہ ایسا موضوع تھا جسکے پیچھے اس دور میں باؤلے سنگ اور انگلش مین سبک گام تھے.میرے ڈاکٹریٹ کے مقالہ کا عنوان یہ تھا.پرابلمز ان دی کلاسیکل اینڈ کو انٹم تھیوریز آف گریوی ٹیشن.جب میں نے اسکا اعلان کا رگیز سمر اسکول کے موقعہ پر کیا جب میں ٹریسٹ پوسٹ ڈاکٹریٹ کیلئے عازم سفر ہو رہا تھا تو لوگوں نے اسکا استقبال استہزاء سے کیا.اس تحقیقی کام کا آغاز عبد السلام اور ہیر من بانڈی Bondi کے مابین ایک شرط سے ہوا تھا کہ آیا فین مین ڈایا گرام استعمال کرتے ہوئے Schwarzchild solution کا استخراج کیا جا سکتا ہے.ہاں ایسا کیا جاسکتا ہے.اور میں نے یہ ثابت بھی کر دکھایا تھا.مگر مجھے معلوم نہیں آیا مسٹر بانڈی نے شرط ہار کر رقم بھی ادا کی تھی یا نہیں ؟.یہ چیز ناگزیز تھی کہ عبدالسلام اس وقت تک چین اور سکھ کا سانس نہ لیتا.جب تک کہ وہ چوتھی فطری قوت اور سب سے زیادہ دقیق اور رمز آمیز قوت یعنی فورس آف گریویٹی، کو تین دوسری قوتوں کے ساتھ متحد نہ کر لیتا.ایسی وحدانیت آئن سٹائین کا بھی ہمیشہ سنہری خواب رہی اور یہ ماڈرن تھیو رٹیکل فزکس کیلئے آج بھی زبر دست چیلنج ہے.یہ قابل اور فعال محقیقین کو اپنی کشش سے اپنی طرف بے اختیار کھینچ لاتی ہے اور جن میں سے کچھ آج شام اس محفل میں یہاں موجود ہیں.سلام اور اس کے شاگرد میں یہاں اس بات کا ذکر چنداں کرنا چاہتا ہوں کہ ایسے شخص کا شاگرد ہونا جو نئے نئے آئیڈیاز سے ہر آن ہر لحہ اہل رہا ہو جیسے عبد السلام تھا یہ ایک قسم کی رحمت کے بھیس میں زحمت تھی.وہ ریسرچ کا کام ایک طالب علم کو دے دیتا ، پھر خود اپنے عالمی سفروں پر مسلسل کئی ہفتوں کیلئے روانہ ہو جاتا تھا (اس صورت میں میں اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالہ کے لکھنے میں عملی مدد کیلئے Chris lsham کی طرف رجوع کرتا تھا ).جب وہ واپس لوٹ کر آتا تو طالب علم سے سوال کرتا.تم کس چیز پر تحقیق کر رہے ہو؟ جب شاگرد وہ معمولی کام جو اس عرصہ میں کیا ہوتا اس کو بیان کرنا شروع کرتا تو عمو مادہ جوابا کہتا نہیں

Page 47

(♡) نہیں ، یہ پرابلم تو بہت پرانی ہو چکی ہے تم کو تو جس موضوع پر کام کرنا چاہئے وہ تو یہ ہونا چاہئے.پھر وہ طالبعلم کو بلکل نئی پرابلم مختص کر دیتا.کچھ عرصہ بعد ہم طلباء بھی دانشمندی سے کام لینے لگے اور اس کو ملنے سے احتراز کرتے.تا وقتیکہ ہم اس ریسرچ کے کام میں مثبت اور ٹھوس چیز تلاش کر لیتے بلا شبہ ایک جگہہ جہاں ہم اس سے چھپ نہیں سکتے تھے وہ مردانہ واش روم تھا اس لئے کوئی طالب علم اگر بد قسمت ہوتا تو یہ وہ جگہ تھی جہاں اکثر اسکو نئے آرڈرز ملتے تھے.مجھے لگتا ہے شاید مشہور جرمن سائینسدان ہانس بتجھے Bethe نے یہ بات کہی ہے کہ دنیا میں جینئیں لوگ دو قسم کے ہوتے ہیں.پہلے گروپ میں (جس میں میرے خیال میں سٹیو وائن برگ شامل ہے ) وہ لوگ ہوتے جو (ریسرچ میں ) نتائج اس غضب کی منطق اور وضاحت کے پیدا کرتے کہ وہ انسان میں یہ احساس پیدا کرتے کہ یہ تو میں بھی کر سکتا تھا.(صرف اگر میں زیادہ سمارٹ ہوتا ) دوسرے گروپ میں وہ جیکیس genius ہو تے جو تخلیقی قابلیت والے لوگ ہوتے ، گویا وہ جادوگر ہوتے جن کے القاء کے ماخذ نا قابل فہم اور چکر ا دینے والے ہوتے.عبد السلام میرے نزدیک اس قبیل کا شخص تھا جس کے خیالات میں مشرقی صوفیت کا رنگ ہمیشہ غالب ہوتا تھا.انسان حیرت کا مجسمہ بن کر رہ جاتا کہ اس کی ذہانت و فطانت کی عمیق گہرائیوں تک کیسے پہنچا جا سکتا ہے؟ عالمی امن کا پیغامبر بلا شبہ یہ سائینسی کا میابیاں سلام کے عظیم کردار کے ایک رخ کی صرف رونمائی کرتی ہیں اس نے اپنی زندگی بین الاقوامی امن اور تعاون کیلئے بھی وقف کر رکھی تھی ، خاص طور پر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں فرق کو دور کرنے کیلئے.وہ اس بات پر مکمل یقین رکھتا تھا کہ یہ فرق اس وقت تک ختم نہ ہو گا جب تک کہ تیسری دنیا کی قومیں اپنے سائینسی اور ٹیکنالوجی کے مقدر کے بارے میں خود حتمی فیصلہ نہیں کر لیں یعنی کہ یہ ممالک مالی امداد اور ٹیکنالوجی ایکسپورٹ کرنے کے علاوہ یہ بھی سوچیں کہ انہوں نے چیدہ چیدہ افراد کا ایسا سائینسی گروپ تیار کرنا ہے جو تمام سائینسی امور میں قابلیت کے ساتھ امتیاز کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں چنانچہ اس ضمن میں وہ اس بات کا پورے زور سے دفاع کرتا کہ ( ان طلباء) کو

Page 48

(۳۹) ایسے دقیق مضامین کی تعلیم دی جائے جن کیلئے خاص ٹریننگ کی ضرورت ہوتی ہے جیسے تھیوریٹیکل ایلی مینٹری پارٹیکل فزکس.مگر بعض نقاد ایسے بھی تھے جو یہ دلیل دیتے تھے کہ بجائے تعلیم کے ان (طلباء) کے وقت اور کوشش کا بہتر مصرف ان ممالک کی زراعت پر ہوسکتا ہے.ٹریسٹ شہر میں آئی سی ٹی پی کا قیام اس ضمن میں پہلا قدم تھا وہ کئی سال تک تھرڈ ورلڈ اکیڈمی آف سائینسز کا صدر رہا.پھر اس کا نام یونیسکو کے ڈائر یکٹر کی نامزدگی کیلئے بھی سرگرمی سے پیش ہوا تا آنکہ کمزور صحت نے اسکو اپنا نام اس الیکشن سے واپس لینے پر مجبور کر دیا.وہ صدر پاکستان کا چیف سائینفٹک ایڈوائزر بھی رہا.تیسری دنیا کے ممالک کو سائینس اور ٹیکنالوجی کی کس قدر اشد ضرورت ہے اسکی دور رس نگاہوں کی جھلک اسکی کتاب آئیڈلز اینڈری ایلے ٹیز میں باضابطہ طور پر دیکھی جاسکتی ہے.میں یہاں ان ان گنت ایوارڈز کی فہرست پیش نہیں کروں گا جو اس کو ملے، مگر چند ایک کا ذکر کرنا ضروری ہے ایٹم فار پیس پرائز ۱۹۶۸ء آئن سٹائن میڈل ۱۹۷۹ء اور پیس میڈل ۱۹۸۱ ء اس کو دنیا کی چالیس یونیورسٹیوں نے آنریری ڈگریاں دیں اور برٹش سائینس کو خدمات کے عوض اسے آنریری نائٹ ہوڑ دی گئی.عبد السلام کی تیز دھار سوچ کا ایک اور قابل ذکر پہلو یہ ہے.کہ وہ تا دم مرگ ایک راسخ العقیدہ مسلمان رہا بد قسمتی سے میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ اس کے روشن کردار کے اس پہلو پر رائے زنی کروں ماسوا یہ کہنے کہ وہ اس امر کو نہایت سنجیدگی سے گلے لگاتا تھا.مثلا اس نے اسلامی قانون کی اس رعایت سے استفادہ کیا جسکے مطابق وہ ایک سے زیادہ شادیاں کر سکتا تھا.اس چیز نے نوبل انعام کی مجلس کے موقعہ پر سفارتی بحران پیدا کر دیا.جب وہ دونوں بیویوں کے ساتھ سٹاک ہالم پہنچا وہ شام اس لحاظ سے بھی قابل دید تھی.کہ سلام اپنے روایتی لباس میں ملبوس وہاں آیا سر پر پگڑی.شلوار.اور رنگین پنجابی جوتے ( یعنی کھے ).اس لباس میں وہ ایسا لگتا تھا گویا وہ الف لیلی ویلی کتاب کے صفحات میں سے ابھی ابھی قدم رنجہ ہوا ہے اس چیز کا ماحصل یہ تھا.کہ اس نے گلاشو

Page 49

(۴۰) اور وائن برگ (سائینسدانوں) کو لباس کے معاملہ میں مات کر دیا.میرے خام خیال کے مطابق اس زرق برق کا بڑا مقصد شاید یہی تھا.سلام کی علالت یہ چیز یقینا ٹریجڈی ہے کہ ایک ایسا انسان جو اس قدر چاق و چوبند اور فل آف لائف ہو جیسا کہ عبد السلام تھا.وہ ایسی نحیف کر دینے والی مرض کا ہدف بنا اسکا joie de vivre یعنی جائے آف لونگ بہت حیرت انگیز اور نرالا تھا.اورس کی پر لطف جنسی جو غراتے ہوئے سی لائن سے بہت مشابہت رکھتی تھی.وہ امپیرئیل کالج کے تھیوری گروپ کے ہالوں اور کمروں میں گونجتی رہے گی اور اس کی یاد کو تازہ اور زندہ کرتی رہیگی.جب با کمال انسانوں کے اچھے اعمال کو یاد کیا جاتا ہے تو اکثر یہ معقولہ سننے میں آتا ہے He did not suffer fools gladly یعنی وہ سادہ لوح افراد کی حماقتوں کو برداشت نہ کرتا تھا.لیکن سلام سے متعلق میری امپرئیل کالج کی یادیں اس سے بلکل برعکس ہیں..دنیا بھر سے لوگ اس سے ملنے کے لئے بڑے اشتیاق سے آتے.اور اسکے دروازہ پر دستک دیتے تا وہ اپنی تازہ عجیب الخلقت تھیوریز اس کے سامنے پیش کر سکیں ان میں سے بعض تھیوریز بے سروپا ہو تیں لیکن اس کے باوجود سلام ان لوگوں سے یہ تمام خوش خلقی اور عزت و وقار کے ساتھ پیش آتا تھا.شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ خود اس کے اپنے خیالات انو کھے قسم کے ہوتے تھے جس کی وجہ سے وہ دوسروں کے خبطی اور نرالا پن کو آسانی سے برداشت کر لیتا تھا.وہ دوسروں کے آئیڈیاز میں حکمت کے موتی شناخت کر لیتا تھا جبکہ دوسرے لوگوں کو ان میں صرف ہیجان پیدا کرنے والے ریت کے ذرات نظر آتے تھے.اس امر کی واضح اور روشن مثال وہ نوجوان اسرائیلی ملٹری اتاشے تھا جو لندن کے سفارت خانے میں متعین تھا وہ ایک روز پارٹیکل فزکس پر اپنے خیالات کا تبادلہ کرنے چلا آیا سلام اس سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے اس نو جوان کو اپنی تربیت میں لے لیا.یہ سائینسدان یو وال نی مان Neeman تھا اور اس کے تھیوری کا ما حصل وہ نئی تھیوری تھی جس کا نام فلیور (3)SU ہے.

Page 50

(۳۱) اب میں آپ کے سامنے سلام کے صرف ایک کریزی آئیڈیا کی مثال پیش کرتا ہوں.۱۹۶۹ء اور ۱۹۷۲ کے عرصہ کے دوران ایک سائینسی موضوع جس پر خوب گرما گرم بحث چل رہی تھی وہ Veneziano Model تھا مجھے یاد ہے جب سلام نے Regge Trajectory کے mass اور angular momentum کی مشابہت بلیک ہول کے جیسی ہونے پر رائے زنی کی تھی.آج کل اسٹرنگ تھیوری کے ماننے والے بلیک ہول اور Regge Slopes کو آنکھ جھپکے بغیر ایک ساتھ پاس پاس رکھ دیتے ہیں.لیکن ۱۹۶۰ء کی دہائی میں یہ بات کہنا کہ بلیک ہولز بنیادی ذرات کی مانند عمل پذیر ہوتے ہیں یہ آئیڈیا سلام کی ذہانت و فطانت سے کم درجہ کے لوگوں کے نزدیک نہ صرف بے ہودہ بلکہ خلاف فطرت سمجھا جاتا تھا.گھومنے والے بلیک ہولز اور ایلیمنٹری سٹرنگ سٹیٹس کے مابین Gyromagnetic ratios کا موضوع آچ شام میری تقریر کا عنوان ہے تو اس ضمن میں سلام اپنے دور سے ۲۵ سال آگے تھا ہسٹاریکل فٹ نوٹ کے طور پر آئیے یہ بات بھی نہ فراموش کریں کہ اس زمانہ میں سلام کو gravitational constant تبدیل کرنا پڑا تھاتا یہ ہائیڈ رانک سکیل سے میچ ہو سکے اس آئیڈیا سے اس کی سٹرانگ گریوٹی کی تھیوری نے جنم لیا تھا آج اس فیلڈ میں فیشن الٹا ہو چکا ہے اور ہم Regge Slope کو پلانک سکیل سے میچ کر نے کیلئے تبدیل کر دیتے ہیں.تھیور ٹیکل فزے سسٹ عموماً دیانت دار طبقہ کے لوگ ہوتے ہیں یعنی وہ بعض صورتوں میں سائینسی حقائق اور اعداد وشمار کو جان بوجھ کر بدل دیں یہ بات کبھی سنے میں نہیں آئی پھر بھی ہم لوگ انسان ہیں اور اس لئے جب ہم اشاعت کیلئے کوئی مضمون تحریر کر رہے ہوتے ہیں تو ہماری خواہش ہوتی ہے کہ ہم اپنے نتائج بہترین طریق سے نمایاں طور پر پیش کریں.مجھے یاد ہے ایک مرتبہ ایک نوجوان ڈاکٹر عبد السلام کے پاس آیا اور اسے درپیش اخلاقی معمہ کے متعلق مشورہ طلب کیا :.پروفیسر سلام یہ کیلکولیشن ان تمام دلیلوں کو ثابت کرتی ہے جو میں اب تک پیش کرتا آیا ہوں،

Page 51

(۴۲) بدقسمتی سے کچھ دوسری کیلکولیشن ایسی بھی ہیں.جو تصویر کو صحیح صورت میں پیش نہیں کرتیں.آیا مجھے قاری کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرانی چاہیئے ؟ مبادہ یہ اس کا اثر بد مزہ نہ کر دیں یا کہ میں انتظار کروں شاید وہ بلآخر بے محل ہی ثابت ہوں ؟ اس سوال کا جواب جس کو میری رائے میں آکسفورڈ ڈکشنری آف کوٹیشنز میں شامل کر کے لا زوال بنا دینا چاہئے.سلام نے طالب علم کو جواب دیا: When all else fails, you can always tell the truth جب تمام حربے ناکام ثابت ہوں تو تم کچی بات ہمیشہ کہہ سکتے ہو.ڈاکٹر ڈف اس وقت یو نیورسٹی آف مشی گن میں پروفیسر نفيس mduff@umich.edu ڈاکٹر سلام ربوہ میں چند شائیقین کے ہمراہ (دائیں طرف سے ) مسعود احمد دہلوی، پروفیسر نصیر خاں.ڈاکٹر عبدالسلام، منور شمیم اور نصیر احمد قمر

Page 52

(۳) ڈاکٹر عزیز و رحمن لاس اینجلز.امریکہ تعارف میرے ابی کی محترمه عزیزه رحمن ڈاکٹر عبد السلام ( مرحوم ) کی سب سے بڑی صاحبزادی ہیں.آپ نے بائیو کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کیا.آپ اپنے شوہر ڈاکٹر حمید الرحمن ( آرتھو پیڈک سرجن ) اور چار بچوں کے ساتھ لاس اینجلز میں پچھلے بیس سال سے مقیم ہیں.شنید ہے کہ آپ جب لندن سکول میں طالبہ تھیں تو آپنے اپنے ابی کی نئی تھیوری کا ایک امتحان میں ذکر کیا.ٹیچر کو سمجھ نہ آئی اور آپ کو امتحان میں فیل کر دیا اور سرزنش کی کہ تمہارے باپ کو ماڈرن فزکس کا کچھ بھی علم نہیں ہے.پھر یہ بھی ہوا کہ جب آپ کے والد محترم کو نوبل انعام ملا تو دل میں اس خواہش نے جنم لیا کہ اب تو ہم نئی کا رضرور خریدلیں گے مگر ایسا اسلئے نہ ہو سکا کہ ان کے ابی نے تمام انعامی رقم فوراً طلباء کے وظیفوں کیلئے مختص کر دی.درج ذیل مضمون اس لئے دلچسپ اور اہمیت کا حامل ہے کہ یہ ایک قابل بیٹی کے اپنے قابل اور سرفراز ہو نیوالے عظیم المرتبت باپ کے بارہ میں دلی جذبات کا آئینہ ہے.بیٹی سے زیادہ اور کون اتنا قریب ہو سکتا ہے.مضمون کا ایک ایک لفظ ان کی اپنے مشفق باپ سے اتھاہ محبت کا اظہار اور انکی عظمت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے.ہے.ایک سوال جو مجھ سے بار بار پوچھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ تمہارے والد واقعتا کیسے تھے؟ کسی بچے کیلئے ایسے مشکل سوال کا جواب اسکے والد کے بارہ میں دینا اتنا سہل نہیں.مگر میرے نزدیک یہ سوال میرے لئے.میری بہنوں اور بھائی (احمد سلام ) کیلئے خاص طور پر مشکل ہے میرے والد ڈاکٹر عبد السلام واقعتاً ایک منفرد انسان تھے جن کے مقدر میں بانی جماعت احمدیہ کی ایک پیشگوئی کا پورا ہونا مقصود تھا آپ.:

Page 53

(۴۴) یقیناً اس پیش گوئی کا مصداق بن کر اس سے بار آور ہونے والے پھلوں میں سے پہلا پھل تھے.جس کے مطابق حضرت احمد علیہ السلام کے پیرو کارو علم کی بلندیوں کو چھوئیں گے نیز وہ اس دنیا میں اعلیٰ مقام پائیں گے اس لحاظ سے میرے پیارے ابا جان کے کئی اور سنہری روپ تھے سائینس دان.استاد.بین الا قوامی شخصیت.تیسری دنیا کے سنہری مستقبل بنانے کے چمپئین اور بلاشبہ ایک مشفق باپ.میرے ابی کی غیر معمولی کہانی کا آغاز اس وقت سے ہوتا ہے جب میرے دادا کو ان کی ولادت با سعادت کی خبر ایک رویا کے ذریعہ دی گئی.۲ جون ۱۹۲۵ء کے روز میرے دادا جان جھنگ میں واقع احمد یہ مسجد میں نماز مغرب ادا کر رہے تھے انہوں نے درج ذیل تلاوت کی آئیت ختم ہی کی تھی..ربنا هب لنا من أزواجنا وذريتنا قرة أعين واجعلنا للمتقين اماما ( قرآن پاک سورۃ ۲۵ آیت ۷۵) کہ انہوں نے کشف میں دیکھا کہ ان کو ایک بچہ تھمایا گیا ہے.پوچھنے پر کہ یہ بچہ کون ہے؟ جو اباً بتلایا گیا کہ اسکا نام عبد السلام ہے چنانچہ میرے ابا جان کی ولادت ۲۹ جنوری ۱۹۲۶ء کو جھنگ شہر میں ہوئی اور آپ کا نام عبد السلام رکھا گیا جس کے معنی ہیں امن کا بندہ.جھنگ اس وقت پنجاب کا ایک معمولی سا قصبہ بلکہ معمولی سا گاؤں تھا.جس میں اس وقت بجلی ابھی نہیں آئی تھی.آپ کا خاندان زیادہ مالدار نہ تھا.لیکن اس میں تقوی.علمی فضیلت اور مذہبی علوم کے تحصیل کی روایت لمبے عرصہ سے چلی آ رہی تھی.اوائل عمر سے ہی آپ میں ذہانت اور فطانت کے آثار نظر آتے تھے.فی الحقیقت دو سال کی عمر میں آپ نے سب سے صحت مند بچہ ہونیکی بناء پر جھنگ میں انعام جیتا تھا.میرے دادا محترم جو اس وقت ڈسٹرکٹ اسکولز کے سپر نٹنڈنٹ تھے انہوں نے اپنے جیکس بیٹے کی صحیح رنگ میں تعلیمی پرورش کی اور اسکی علم سے والہانہ محبت کی حوصلہ افزائی کی.میرے ابی نے چھ سال کی عمر میں سکول جانا شروع کیا اور سیدھے چوتھی جماعت میں داخلہ مل گیا جلد ہی آپ نے امتحانات میں ریکارڈ توڑنا شروع کئے اور ہیں سال کی عمر میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی.موٹی کریم نے ۱۹۴۶ء میں میرے والد کی کیمبرج یونیورسٹی میں تعلیم کیلئے غیب سے سکالرشپ

Page 54

(۴۵) کا انتظام فرمایا جہاں آپ نے ریاضی اور فزکس میں double tripos کے بعد ڈاکٹریٹ کی ڈگری کیلئے ریسرچ کا کام شروع کر دیا ، جو انہوں نے حیرت انگیز طریق سے پانچ ماہ میں مکمل کر لیا ڈاکٹریٹ کیلئے جو تحقیقی کام آپ نے کیا اس کی بنیاد پر آپ کو Smithz Prize سمتھ پرائز سے نوازا گیا.اس کے بعد پرنسٹن یونیورسٹی.(نیو جرسی.امریکہ) نے آپ کو وہاں آئیکی دعوت دی جہاں آپ نے آئن سٹائن کے ساتھ ایک سال تحقیقی کام کیا.اس کے بعد آپ پاکستان واپس آگئے اس موہوم امید پر کہ وہ تدریس اور تحقیق کا کام وطن عزیز میں کر سکیں گے.مگر یہ بات جلد ہی ان پر منکشف ہو گئی کہ آپ جیسی قابلیت والے جو ہروں کے لئے اس ملک میں کوئی مستقبل نہیں ہے.لہذا آپ دل بر داشتہ ہو کر ۱۹۵۳ء میں کیمبرج واپس لوٹ آئے مگر اس بار ان کے ساتھ میں اور میری والدہ تھے.اس کے بعد فزکس کے علمی میدان میں آپ کی کامیابیوں کا کوئی شمار نہیں تھا آپ نے زندگی میں ۲۵۰ کے قریب تحقیقی مضامین تحریر کئے آپکو بے شمار توثیق نامے.سرفرازیاں.عزت افزائیاں اور بے شمار ایوارڈ دئے گئے ان میں بہت سے ایسے تھے جن کے وصول کرنے والے آپ سب سے پہلے تھے مثلا آپ پہلے پاکستانی نیز سب سے کم عمر نوجوان تھے جس کو رائیل سوسائٹی کا ممبر بنایا گیا.اور لندن یو نیورسٹی میں آپ سب سے پہلے کم عمر پر و فیسر تھے آپ پہلے شخص تھے جسے جیمز میکسویل Maxwell میڈل دیا گیا آپ کو ایٹم فار پیس پرائز دیا گیا.اس کے ساتھ درجنوں انعامات اور میڈل ملے تا آنکہ ۱۹۷۹ء میں نوبل انعام سب سے پہلے مسلمان سائینسدان اور پہلے پاکستانی کو ایسا بین الاقوامی انعام ملا.آپ کو ۲۴ ایوارڈ اور میڈل ملے.۲۵ ممالک کی سائینس اکیڈمیوں کے آپ ممبر تھے آپ کو ۳۶ آخر یری ڈاکٹریٹ ڈگریاں ملیں اور ۱۹۸۹ء میں برطانیہ کی ملکہ معظمہ نے آپکو آنریری نائیٹ ہوڈ سے نوازا.میرے ابی کی یادیں میرے ذہن میں اس وقت سے ہیں جب میں نے اور میری والدہ نے کیمبرج نقل مکانی کی تھی اس وقت میری عمر تین سال کی تھی کیمبرج ایک خوبصورت یو نیورسٹی ٹاؤن ہے جو کیم CAM دریا کے کنارے آباد ہے.ہماری رہائش سینٹ جانز کالج کے پاس چھوٹے سے فلیٹ میں تھی جہاں میرے والد بر سر روزگار تھے انہوں نے ٹرینیٹی کالج کی بجائے سینٹ جانز کالج میں ملازمت

Page 55

(۴۶) کو ترجیح دی تھی کیونکہ یہاں کے دلپذیر باغات سب سے زیادہ حسین تھے.میرے ابا جان کا ایک ہر دلعزیز مشغلہ ہمیں دریا پر لے جا کر پینٹنگ Punting کرنا ہوتا تھا پٹ ایک چھوٹی سی کشتی ہوتی ہے.جس کو ایک شخص کشتی میں پیچھے بیٹھ کر لانگ پول سے آگے دھکیلتا ہے بجائے گنڈولا جیسی کشتی کے.میں اور میری والدہ آگے بیٹھتے تھے.اور ابا جان پول سنبھالتے تھے بعض دفعہ پول پانی میں گر جا تا تھا.تو پھر کنارے تک پہنچنے کے لئے چھوٹا پیڈل استعمال کیا جاتا تھا.کچھ سالوں کے بعد ہم لندن منتقل ہو گئے میرے والد کی امپیرئیل کالج لندن میں پروفیسر کے طور پر تعیناتی ہو گئی اور وہ اپنے علمی کاموں اور ریسرچ میں حد سے زیادہ مصروف ہو گئے وہ تمام دنیا کے سفر کرنے لگے.بعض دفعہ وہ ایک ہفتہ کے دوران چار پانچ ملکوں میں لیکچر دیتے تھے.مگر اس کے باوجود وہ ہماری تعلیم اور تربیت کی نگرانی کے لئے وقت نکال لیتے تھے.جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے وہ اس معاملہ میں کافی سختی کرتے تھے وہ ہم سب کو درک بکس لا کر دیتے اور پھر کالج جانے سے قبل ان صفحات کی نشاندہی کر جاتے جنکا مطالعہ ہمیں کرنا ہوتا تھا جب وہ سمندر پار کے سفروں سے واپس آتے تو ہر ایک کو اپنے کمرہ میں بلاتے اور ہمارے گریڈز اور تعلیمی پروگریس کے بارہ میں استفسار کرتے وہ ہماری دلد ہی کرتے اور اپنے اس محبوب مقولہ سے ہمارے اعتماد میں اضافہ کرتے.پوری پوری کوشش کرو.باقی اللہ پر چھوڑ دو.وہ ہم سے بہتر سے بہتر تعلیمی ریکارڈ کی توقع رکھتے تھے اور اکثر ہمیں زیادہ سے زیادہ محنت کر نیکی نصیحت کرتے تھے.وہ خود بھی ہر وقت کام میں مگن رہتے تھے ۱۹۶۴ء میں ٹریسٹ میں انٹرنیشنل کالج فار تھیور نکیل پار میکلز کے آغاز کے بعد وہ مسلسل لندن اور ٹریسٹ (اٹلی) کے درمیان سفر کرتے تھے ہمارے گھر میں بھی وہ اکثر گھنٹوں مطالعہ میں منہمک رہتے تھے اور بعض دفعہ تو وہ کمرے سے باہر صرف کھانا تناول کرنے کیلئے آتے تھے.ابی نے اپنے کمرے میں محبت کی فضا پیدا کی ہوتی تھی جس میں پر اسراری بھی شامل تھی ان کے کمرہ کا ٹمپریچر ہمیشہ اونچا ہو تھا تھا کہ موسم گرما میں بھی درجہ حرارت کافی اونچا ہوتا تھا اس کے ساتھ کمرہ کے بعض کونوں میں اگر بتیاں جل رہی ہوتی تھیں جن کے خوشبودار دھوئیں سے کمرہ بھرا ہوتا تھا.

Page 56

(۴۷) اسکے بیک گراؤنڈ میں قرآن پاک کی تلاوت کا ٹیپ کیسٹ لگا ہوتا تھا چنانچہ اللہ کا کلام ان کے خیالات میں ہمیشہ سمویا ہوتا تھا.جس کا اظہار ان کے مضامین اور تحریروں سے بخوبی ہوتا ہے با ہر سڑک سے آنے والے شور کو کم کرنے کیلئے کمرہ کی کھڑکیوں کے ویلویٹ کے پر دے اکثر کھینچے ہوتے تھے بچپن سے ہی ہم سب کو تنبیہ تھی کہ جب وہ اپنے کمرہ میں ہوں تو نہ تو اونچی آواز میں بولیں اور نہ ہی بھا گئیں دوڑیں.اگر فون کی گھنٹی ایک سے زیادہ دفعہ بجتی تو فون کو ریسیور سے اتار کر نیچے رکھ دیا جاتا تھا.ابا جان نے اپنے تحقیق کے کام کی عادات کا روزانہ معمول طے کیا ہو اتھا اس پر وہ مذہبی فریضہ کی طرح کار بند رہتے تھے اس فریضہ کو وہ نیند کے وقفوں اور میٹھی گرما گرم چائے سے نباہتے تھے وہ درج ذیل مقولہ پر سختی سے عمل کرتے تھے.wealthy and wise وہ رات آٹھ یا نو بجے بستر پر چلے جاتے پھر چند گھنٹوں بعد بیدار ہو کر وہ رات کی خوشی میں تحقیق کا کام کرتے.تا آنکہ پو پھٹنے کے وقت ان کی قوت ارتکاز اور قوت تخلیق چوٹی پر ہوتی اس ارتکاز کو برقرار رکھنے کیلئے گرم میٹھی چائے سے بھرا تھر موس اور کچھ کھانے کی چیزیں ہم سونے سے قبل انکے بستر کے قریب رکھ دیتے تھے.Early to bed early to rise, makes man healthy, ان کی میراث میرے پیارے ابی کی سب سے بڑی میراث ان کتابوں کا خزانہ ہے جو وہ ہمارے لئے چھوڑ گئے نیز علم سے بے تاب لگن جو وہ ہم میں نمود کر گئے بعض دفعہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ سانس لینا اور مطالعہ کرنا انکی فطرت کا حصہ بن چکا تھا.انہوں نے ہر موضوع پر کتب کا مطالعہ کیا نیز انکا علم مختلف موضوعات پر بحر بیکراں کی طرح تھا نئی اور پرانی کتب خرید نا ان کا محبوب مشغلہ تھا.ہمارے گھر کا کوئی کمرہ بشمول ہاتھ روم کے ایسا نہ تھا جس میں دیواروں پر بک شیلف نہ لگے ہوں اور یہ کتابوں سے بھرے ہوتے تھے ابا جان دنیا کے سفروں کے بعد گھر واپس آتے تو انکا سوٹ کیس کتابوں کے وزن سے پھٹ رہا ہوتا تھا اور میری امی جان کو یہ فکر دامن گیر ہوتی کہ نئی کتا ہیں اب کہاں رکھیں گے.سب سے اہم چیز جو ہمارے والد نے ہمیں سکھلائی وہ وقت کی اہمیت تھی ان کے نزدیک

Page 57

(۴۸) وقت سب سے بیش قیمت تحفہ ہے جس کا زیاں گناہ سے کم نہ تھا.ہماری دادی امی بتلایا کرتی تھیں کہ ہمارے والد بچپن سے ہی وقت کی منصوبہ بندی کرنے کے عادی تھے.یعنی اتنے گھنٹے روزانہ کھیل کیلئے اور اتنے گھنٹے روزانہ مطالعہ کیلئے.حملہ جب وہ کھیلنے کیلئے جاتے تو اپنے ساتھ گھڑی لے جاتے اور جو نہی کھیل کا معینہ وقت ختم ہوتا تو وہ مطالعہ کیلئے گھر آ جاتے چاہے وہ کھیل کتنا ہی فرحت بخش کیوں نہ ہو ؟ وہ ہمیں اکثر تعلیمی سیر و سیاحت جیسے میوزیم.انسٹی ٹیوٹس اور تاریخی مقامات کی سیر کرانے کیلئے لے جاتے تھے اتوار کی صبح جب وہ کالج اپنے کام کے سلسلہ میں جاتے تو ہمیں بھی ساتھ لے جاتے بعض دفعہ وہ ہمیں سائینس میوزیم میں اتار دیتے جو امپیرئیل کالج کے بلکل ساتھ واقع ہے.ایک روز ہماری خوشی اور تعجب کی کوئی انتہا نہ رہی جب انہوں نے ہمیں فلم لارنس آف عربیا دکھانے کا فیصلہ کیا زندگی میں پہلی بار ہم سینما گھر جانے لگے تھے فلم کا ابھی نصف حصہ ختم ہوا تھا کہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وقت کا کافی زیاں ہو گیا ہے اس لئے آئے اب گھر چلیں.ہماری مایوسی کا کوئی عالم نہ تھا ہم نے ان سے درخواست کہ باقی کی فلم بھی دیکھ لینے دیں بلآ خر وہ مان گئے اس شرط پر کہ وہ خود باہر کار میں جا کر بیٹھ جائیں گے.جب فلم ختم ہوئی تو ہم نے دیکھا کہ وہ کار کے اندر اپنی تھیوریز میں دنیا و ما فیہا سے کلیتاً بے خبر مصروف کار تھے.گھر واپس پہنچنے پر ہمیں حکم ہوا کہ اب ہم نے مضمون لکھنا ہے جس میں یہ ذکر ہو کہ ہم نے اس فلم سے کیا سیکھا؟ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ وہ کام میں سے فرصت نکال کر ہمیں رچمینڈ پارک محض کار ڈرائیو یا وہاں پیدل چلنے کیلئے لے جاتے یہ پارک ہمارے گھر کے قریب ہے جس میں فطرت کے مناظر بے تحاشا ہیں.ایسے مواقع پر ابی ہاتھ سے کوئی ایسا موقعہ نہ جانے دیتے کہ وہ ہمیں کوئی سبق یا اچھی کار آمد بات سمجھا تے.مثلاً پارک کے اندر ایک رائیڈ میں جو ایک عمودی ڈھلوان پہاڑی سے نیچے جاتی تھی.آپ کار کا انجن بند کر دیتے اور کار کو رفتہ رفتہ نیچے جانے دیتے.پھر وہ ہمیں کار کے کیچ Clutch اور گئیرز gears کے بارہ میں بتلاتے کہ وہ کس طرح کام کرتے ہیں.تاہم یہ جان سکیں کہ کار خود بخود نیچے ڈھلوان پر جا سکتی ہے اگر اس پر گیئرز سے پیدا ہونے والی مزاحمت عمل پذیر نہ ہو اگلی بار جب ہم دوبارہ آتے تو جو سبق

Page 58

(۴۹) پچھلی بار سیکھا تھا اسکو دہراتے.مزے کی بات یہ کہ وہ قوانین فزکس کو بیان کرنے میں بہت محو ہو جاتے اور ہم یہ سوچتے کہ آیا وہ کار کو بریک بھی لگائیں گے یا نہیں؟ تین باتوں سے عشق ابا جان کو تین باتوں سے وارفتہ لگاؤ تھا ایک تو قرآن مجید دوسرا والدین اور تیسرا وطن عزیز.بچپن میں انہوں نے عربی زبان سیکھ لی تھی.اسلئے وہ قرآن مجید کی آیات کے معانی سے پوری طرح واقف ہوتے تھے.وہ آیات کریمہ پر خوب غور و خوص کیا کرتے تھے خاص طور پر وہ آیات جن کا تعلق سائینس سے ہے ان آیات سے وہ روحانی فیضان حاصل کرتے تھے تا وہ اپنی ریسرچ میں ان سے رہ نمائی اور بصیرت حاصل کر سکیں.وہ اپنی تقاریر ہمیشہ درج ذیل قرآنی دعا سے شروع کیا کرتے تھے: ربنا و آتنا ما وعدتنا على رسلك ولا تخزنا يوم القيامة انك لا تخلف الميعاد (سورۃ ۳ آیت (۱۹۵) ہمارے گھر میں وہ اکثر قرآن پاک کی تلاوت ٹیپ کیسیٹ پر سنا کرتے تھے اپنی تقاریر میں وہ آیات قرآنی کے حوالے دیتے نوبل انعام کی تقریب کے موقعہ پر ابا جان کو بین کوئیٹ کے موقعہ پر ایڈریس پیش کرنیکی عزت و توقیر دی گئی.اس ایڈریس میں انہوں نے سائینس اور مذہب پر بحث کرتے ہوئے قرآن مجید کی درج ذیل آیت پیش کی تھی: الذي خلق سبع سموت طباقا - ما ترى في خلق الرحمن من تفوت.فا رجع البصر هل ترى من فطور ثم ارجع البصر كرتين ينقلب اليك البصر خاسئاً وَ هُو حَسِير ( سورة الملک آیت اور ۵) والدین سے محبت ابا جان کی اپنے والدین کیلئے محبت اور ان کا اپنے بیٹے کیلئے والہانہ عشق فقید المثال تھا میرے دادا جان چو ہدری محمد حسین صاحب بذات خود ایک ممتاز شخصیت کے مالک تھے اللہ تعالیٰ سے عشق اور

Page 59

(۵۰) مذہب اسلام سے محبت ان کو اپنی زندگی کے اوائل سے ہی تھی خدا نے انکی رہ نمائی دعاؤں اور کشوف و روکیا سے کی اور انہوں نے حضرت خلیفتہ امی الاول کے ہاتھ پر ۱۹۱۴ ء میں احمدیت قبول کی جب وہ محض ۱۲ سال کے تھے میرے ابی کی پیدائش کے بعد انہوں نے اپنی زندگی اپنے بیٹے میں جملہ خوبیوں کو اجا گر کر نے اور انکے تعلیمی کیرئیر کو بہتر بنانے کیلئے وقف کر دی.یہ میرے دادا ہی تھے جنہوں نے میرے ابی میں مطالعہ کا ذوق پیدا کیا اور ان میں عرق ریزی سے محنت کرنے کا نظم ونسق پیدا کیا.دادا جان مرحوم و مغفور کا ایک ہر دلعزیز مقولہ یہ تھا Time & Tide wait for no man میرے پیارے ابی دادا مرحوم کے مکمل مطیع اور فرمانبردار تھے.وہ انکی رہ نمائی کو بغیر سوچے و سمجھے قبول کرتے تھے میری دادی اماں کا نام ہاجرہ تھا جو حافظ نبی بخش صاحب کی دختر تھیں.دادی اماں نہایت رحمدل.سراپا محبت اور سادہ لوح انسان تھیں جب کبھی ابا جان امتحان کی تیاری کر رہے ہوتے تو وہ جائے نماز بچھا کر نوافل میں خشوع و خضوع سے دعا کرتیں کہ کامیابی انکے قدم چومے.وہ میرے ابا جان کی بہت عزت کرتیں تھیں یہی حال ابی کا تھا.جب میرے ابی نے نوبل انعام جیتا تو اس سے ملنے والی رقم سے انہوں نے مستحق طلباء کیلئے ایک سکالر شپ جاری کیا جس کا نام تھا.محمد حسین اور ہاجرہ حسین فاؤنڈیشن ابی کی یہ وصیت تھی کہ بعد از وفات ان کو والدین کی قبروں کے ساتھ کی جگہہ میں دفنایا جائے چنانچہ اللہ کے خاص کرم سے ربوہ قبرستان میں ان کے لئے قبر کی جگہ محفوظ کر لی گئی تھی ان کی رحلت کے بعد میں اور میرا بھائی (احمد سلام) انکے کاغذات دیکھ رہے تھے تو پتہ چلا کہ انہوں نے وصیت نامے میں ایک بات کا اضافہ کیا تھا جو یہ تھا.اگر کسی وجہ سے مجھے ربوہ نہ لے جایا جا سکے.تو قبر کے کتبہ پر یہ عبارت کندہ ہو: اسکی خواہش تھی کہ وہ ماں کے قدموں میں دفن ھو.پاکستان سے محبت

Page 60

(۵۱) ابا جان کی وطن عزیز سے محبت زبان زد عام تھی اگر چہ وطن والوں نے انکی قدر نہ کی ۱۹۵۳ء میں انہوں نے برطانیہ منتقل ہو نیکا کر بناک فیصلہ کیا تھا مگر اسکے باوجود انہوں نے ملک کی خدمت صدر ایوب خان کے سائنسی مشیر کی حیثیت سے کی تھی.مجھے خوب یاد ہے وہ اس وقت خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے جب ان کو ۱۹۵۹ء میں ستارہ پاکستان نوازا گیا.جب احمدیوں کے خلاف ایذاء رسانی حد سے بڑھ گئی تو انہوں نے تمام سرکاری عہدوں سے تو استعفیٰ دے دیا مگر انہوں نے پاکستان میں سائینس اور ٹیکنالوجی لا نیکی کوششوں میں ذرہ بھر بھی کمی نہ آنے دی.انہوں نے پاکستانی اسکالروں (خاص طور پر احمد یوں) کی اس دور میں ہر ممکن اعانت کی جو وہ کر سکتے تھے.اگر چہ دوسرے ملکوں نے ان کو شہریت کی پیش کش کی تھی مگر انہوں نے ساری عمر اپنی قومیت نہ بدلی.جب وہ سویڈن (نوبل) انعام وصول کرنے گئے تو انہوں نے پگڑی اور اچکن پہن کر اپنے وطن کا نام بلند کیا تھا.سائینس سینٹر کا قیام ملک سے نقل مکانی کرنے کے تلخ تجربہ نے ہی تو انکو انٹرنیشنل سینٹر فار تھیور ٹیکل فزکس کی بنیاد رکھنے کی ترغیب دی تھی.تا ترقی پذیر ممالک کے سائینس دان دور حاضر کے عظیم سائینس دانوں سے تربیت حاصل کر سکیں اور خود کو اپنے اپنے ممالک میں اکیلا محسوس نہ کریں جس طرح انہوں نے اپنے وطن میں کیا تھا.سینٹر کا قیام ۱۹۶۴ء میں عمل میں آیا تھا اور اب تک غریب ممالک کے ہزاروں غریب طلباء اس سے مستفید ہو چکے ہیں.پھر انہوں نے ترقی پذیر ممالک میں سائینس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کیلئے قعدة ورلڈ اکیڈیمی آف سائینس کی بنیاد رکھی.ان کا ایک شہری خواب یہ بھی تھا کہ وہ کسی طرح بین الاقوامی یو نیورسٹی قائم کر سکیں.تا اسلامی ممالک ایک بار پھر علم اور سائینس میں اپنا کھویا ہو ا مقام حاصل کر سکیں.با و جود یکہ ان کو اتنی کامیابیاں اور آنر زملیں.میرے ابی نے اپنی شخصیت میں غرور کو کبھی بھی ظاہر نہ ہونے دیا انہوں نے خود کو عظیم انسان تصور ہی نہ کیا.اپنی عاجزانہ زندگی کے آغاز کو انہوں نے فراموش نہ کیا.سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ کبھی یہ نہ بھولے کہ جو بھی ان کو ملا یہ خداوند کریم کا انعام اور خاص عنایت تھی.یہ وصف میرے والد اور سر محمد ظفر اللہ خان صاحب میں مشترک تھا ان دو انسانوں نے جو

Page 61

(۵۲) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیش گوئی کا مصداق تھے آپس میں دوستی اور اخوت کو ساری عمر نبھایا جس کا آغاز بھی عجیب طریق سے ہوا.ابی نے ۱۹۴۶ء میں برطانیہ کے لئے سفر کیا اور ان کا جہاز لیور پول کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا.ایک ناقابل یقین اتفاق سے چوہدری صاحب جو اس وقت سپریم کورٹ آف انڈیا کے جج تھے.اس بندرگاہ پر اپنے بھتیجے کو لینے کے لئے تشریف لائے تھے ابا جان کا کتابوں سے بھرا بھاری سوٹ کیس کسٹم شیڈ میں پڑا تھا.اس وقت وہاں کوئی پورٹر نہ تھا چو ہدری صاحب میرے والد کو شش و پنج میں دیکھ کر صورت حال کو بھانپ گئے.چنانچہ انہوں نے سوٹ کیس ایک طرف سے اٹھایا اور ٹرین تک پہنچا دیا.پھر چوہدری صاحب نے دیکھا کہ ابی یخ بستہ ہوا سے بری طرح ٹھٹھر رہے تھے تو انہوں نے اپنا اور کوٹ اتار کر ان کو دے دیا یہ اور کوٹ ابا جان نے سالہا سال تک استعمال کیا.اور اب بھی میدان کے بھائیوں میں سے کسی ایک کے پاس محفوظ ہے.ابا جان جب بھی لندن میں قیام پذیر ہوتے تو چوہدری صاحب اتوار کے روز ناشتہ کے لئے ضرور تشریف لاتے ناشتہ کی میز پر دو عظیم انسانوں کے درمیان ہونے والی گفتگو بہت دلچسپ ہوتی جو مذہب.سیاست.اور دیگر موضوعات پر ہوتی تھی.میرے ابا جان احباب کو اپنے گھر مدعو کرنا بہت پسند کرتے تھے جسے وہ شہر کا بہترین ریستوران کا نام دیتے تھے جو کہ فی الحقیقت میری امی جان کے کھانا پکانے کی مہارت کو خراج عقیدت تھا.ان کے مہمانوں میں وزیر.ڈپلومیٹ.غیر ملکی اعلیٰ عہدیدار.پروفیسرز اور بعض دفعہ ان کے طالب علم بھی ہوتے تھے.زندگی کے آخری ایام میں ابا جان کو پیرا سپرانے کلئیر پالسی Para Supranuclear palsy کا عارضہ لاحق ہو گیا.اس مرض کے بارہ میں انسانی علم ابھی تک محدود ہے اگر چہ ان کا دماغ اور فہم و فراست آخری دم تک برقرار رہے.مگر ان کے پٹھے رفتہ رفتہ کمزور ہو کر ضائع ہو گئے.ابی کے یقین کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے یہ حالت بغیر کسی آہ و بکا کے قبول کر لی تھی.اگر چہ ان کو بیماری کی آئندہ حالت کی پیش بینی کا شروع سے علم تھا.پھر بھی ہم نے علالت کے دوران ان کو شکوہ شکایت کرتے یا بیماری کی شدت کے باعث گریہ زاری کرتے ہوئے نہ دیکھا.

Page 62

(۵۳) اللہ کریم نے اپنے عاجز بندے عبد السلام پر بے شمار فضل اور نوازشیں برسائیں ان کی زندگی مثمر با ثمرات اور اچھی تھی.ان کی رحلت بھی باعزت اور باوقار تھی.ان کو جو الوداع ملا شاید اس سے وہ خود بھی وفور جذبات سے بھر جاتے ان کے لندن سے ربوہ کے بہشتی مقبرہ تک کے آخری سفر کو میں کبھی بھی چشم تصور سے ہٹا نہیں سکتی ربوہ سڑک کے دونوں کنارے ہزاروں ہزار احباب کا لائن بنا کر کھڑے ہونا تا وہ ان کو آخری الوداع کہہ سکیں واقعی جذبات سے بے قابو کر نے والا منظر تھا.نماز جنازہ میں تھیں ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی پھر ان کو ان کے والد مرحوم کے ساتھ والی لحد میں ابدی نیند سلا یا دیا گیا.یوں وہ والدہ کے قدموں میں سلائے گئے جیسا کہ انہوں نے خواہش کی تھی.اللہ نے ان کی آمد اور رحلت کی خبر دی تھی.جس رات ابا جان کی وفات دو بج کر پینتالیس منٹ پر ۲۱ نومبر ۱۹۹۶ء کو ہوئی اس رات میرے چا محمد عبد الرشید جوابی کے چھوٹے بھائی ہیں نے خواب میں دیکھا کہ میرے دادا آئے ہیں انہوں نے دیدہ زیب لباس پہنا ہو ا تھا اور بہت خوش نظر آ رہے تھے.انہوں نے پنجابی میں گویا اعلان کرتے ہوئے ) کہا.سلام پہنچ گیا اے.( یعنی سلام پہنچ گیا ہے ).اللہ جل شانہ ان کی روح کو اعلیٰ (روحانی) انعامات سے نوازے اور مولیٰ کریم جماعت احمد یہ کو بہت سارے عبد السلام نوازے آمین اللهم آمین یا ارحم الراحمین

Page 63

(۵۴) محترمہ حمیدہ بشیر احمد (کراچی) انمول هيرا بہن کے تاثرات ہم سب کے بہت ہی پیارے بھائی جان کے جدا ہونے پر ہم سب اپنے خدا تعالیٰ کی رضا پر راضی ہیں.ہم رشک کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کس قدر عزت اور محبت سب کے دلوں میں پیدا کر دی.حقیقت میں وہ اس کے حقدار بھی تھے.حضرت اقدس خلیفتہ امسیح الرابع کی خصوصی محبت اور شفقت ، عزت افزائی احمد یہ ٹیلی ویژن پر سب نے دیکھی.یہ سب کیلئے ایک انمٹ یاد ہے.اللہ تعالیٰ سے اپنے پیارے محسن آقا کیلئے دعا ہی ہے.احباب کرام لندن، دیگر ممالک، پاکستان اور ربوہ کے ہم سب دل سے شکر گزار ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے.ہم تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ سب احباب کرام نے عزت افزائی بخشی.اخبارات میں جو کچھ شائع ہوا اور جو شائع ہوتا رہیگا.ان کے حالات، ڈگریاں ، اعزازات.میں تو ان کے بارہ میں کچھ بھی نہیں لکھ سکتی.میرے اپنے دلی جذبات اور کچھ یادیں ہیں جن سے میں اپنے دل کی ترجمانی یہاں کر رہی ہوں.بھائی جان تو انمول هيرا تھے.ہمارے خاندان کیلئے اور جماعت کیلئے اور ہماری قوم کیلئے.ہم لوگ ربوہ گئے انہیں ان کے والدین کے پاس ہی سپرد خاک کیا گیا، جس کی تمنا انہیں ہمیشہ رہی وہ اللہ نے پوری کر دی.کسی شاعر کا درج ذیل شعر میری زبان پر بے اختیار آجاتا ہے: موت نے چھینا ہے ہم سے جسم خاکی بالیقیں چھین لے وہ ہم سے تیری یاد یہ ممکن نہیں ان کی یاد میں ہمیشہ ہمارے دلوں میں رہیں گی.میرا بچپن ان کے ساتھ گزرا گو کہ وہ مجھ سے بہت زیادہ عمر میں بڑے نہیں تھے.لیکن مجھے یاد ہے کہ شروع سے ہی والدین نے ہم سب بہن بھائیوں

Page 64

(00) کے دلوں میں بھائیجان کیلئے محبت اور عزت کا ایک مقام پیدا کر دیا تھا.ہم ان کے ایک اشارہ پر ہی ان کا ہر ایک کام کر دیتے تھے.بلکہ فخر کرتے تھے کہ ہم اپنے بھائی کا کام کر رہے ہیں.اس وقت تک تو ہمیں ان کی شخصیت کا کوئی خاص علم نہیں تھا ما سوا اس کے کہ ہمارے بڑے بھائی ہیں.وہ خود والدین کے ہر حکم کی تعمیل بجالاتے تھے.یہی ہمارے لئے مشعل راہ تھا.فطرتاً سادگی پسند، کوئی ناز نخرہ نہیں ، کوئی اکڑ فوں نہیں.سیدھے سادے طالبعلم.ہر بات میں سادگی ، البتہ کھانے میں جو پسند ہوتا تھا وہ ضرور کھاتے تھے.محترمہ والدہ صاحبہ کو بھی اپنے سلام کی پسند کا ہمیشہ احساس ہوتا تھا.گو کہ وہ اس کا اظہار نہیں کرتی تھیں.لیکن ہمیں معلوم ہوتا تھا کہ بھائی جان کی پسند میں ماں کی محبت ظاہر ہے بلکہ ہم خود اس بات میں حصہ دار ہوتے تھے کہ کھانے کے معاملہ میں بھائیجان کی پسند کو ہی اولین درجہ دیں.میرا انگوٹھا آپ لگوالیں وہ ابا جان کے بہت زیادہ تابعدار اور لاڈلے تھے.ہم سب اس بات پر خوش ہوتے تھے.میرے والدین بہت ہی دعا گو و جود تھے.بھائی جان کے ساتھ اباجی کا سلوک ایک عاشقانہ رنگ رکھتا تھا.لا ہور ، لندن یا کسی اور جگہہ سے تعلیم کے دوران جب بھی بھائی جان کا خط آتا تو ہمیشہ اللہ کا نام لے کر کھولتے تھے.اور ہر لفظ پر الحمد للہ کہتے جاتے تھے.کہ اس خط میں ان کی طرف سے تعلیمی ترقی کی باتیں ہوں گی جس کا شکر وہ ادا کر رہے ہوتے تھے.پھر وہ خط ہم سب کو پڑہنے کیلئے دیا جا تا.جواب میں ائر لیٹر کا ایک حصہ ابا جی خود لکھتے چند سطریں ہم سب بھائی بہن لکھتے جس میں ان کیلئے دعا ئیں اور اپنا اپنا حال لکھا جاتا تھا.وہ بھی باقاعدہ ہم سب کو جواب لکھتے اس وقت میرے سامنے ان کا ایک پرانا خط موجود ہے.ان کی مندرجہ ذیل نیک عادت کا اگر ذکر نہ کروں تو ناشکری ہوگی.ہر سال والدین کی وفات کی سالگرہ پر ہم سب جہاں ہوتے وہ خط کے ذریعہ ہم کو یاد دہانی کراتے.میرے سامنے جو خط ہے وہ ۲۴ ستمبر ۱۹۸۵ء کا لکھا ہوا ہے، جس میں انہوں نے لکھا:

Page 65

(۵۶) ہماری والدہ صاحبہ کو ہم سے جدا ہوئے 9 سال کا عرصہ ہو نیوالا ہے.حضرت ابا جان کو بھی گزرے ۱۶ سال ہو گئے ہیں.ان کی شفقت اور محبت ہمارے دلوں میں ہمیشہ تازہ رہے گی.اے خدا تو ان پر اپنے فضلوں کی بارش کر.اور اپنے قرب میں جگہہ دے.ہمارے لئے دعاؤں کا ذخیرہ چھوڑ گئے ہیں وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے اور ہم اس کے اہل ہوں.جب بھائی جان علیل ہوئے اور خط خود نہ لکھ سکتے تھے تو ہر سال اس طرح کا خط محترمہ بھائی جان امتہ الحفیظ صاحبہ یا عزیزم عبد الرشید سے لکھوایا کرتے تھے.بیماری کے شروع میں ان کے دائیں ہاتھ کا انگوٹھا کام نہیں کرتا تھا.اس میں گرفت نہیں تھی یہاں آئے تو میں نے کہا بھائیجان یوں کرتے ہیں کہ ہم دونوں ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں آپ میرا انگوٹھا اپنے ہاتھ پر لگوالیں.اور اپنا انگوٹھا میرے ہاتھ پر.کیونکہ آپ نے تو لکھنا ہوتا ہے بہت ہی حیرت اور محبت سے آنکھیں اٹھا کر مجھے دیکھا اور مسکرا بولے کبھی ایسا ہوسکتا ہے.بس تم میرے لئے دعا کرو.یوں وہ کبھی اپنی تکلیف کا اظہار از خود نہیں کرتے تھے.ان کی سادگی کا عالم تو یہ تھا جب بھی اپنے وطن جھنگ تشریف لاتے تو اپنے ہر ملنے والے کو گلے لگا کر ملتے بغیر اس خیال کے جو مل رہا ہے اس کے کپڑے پسینہ اور مٹی سے شرابور ہیں اور گلے لگا کر ملنے سے ان کے اپنے کپڑے ملنے والوں کے کپڑوں کے نقش و نگار اپنے اوپر لے لیں گے.ملتے ساتھ ہی پوچھتے : خیراے خیراے..یہ ان کا مخصوص فقرہ ہوتا تھا.ملنے والا آدمی اگر ان کے خیال میں مستحق ہوتا تو جیب سے کچھ رقم نکال کر خموشی سے اسکی مٹھی میں دے دیتے.اور اس کے منہ سے اسلام سدا جیویں، سدا خوش رھویں کی دعا نکلتی تھی.نیکی کر کے جتانا تو ان کا شیوہ ہی نہ تھا.جہاں تک میرا علم ہے ان کے بچپن کے اساتذہ کرام کو ان کی طرف سے ہر ماہ معقول رقم خاموشی سے دی جاتی تھی.یہ ان کی فطرت کا خاصہ تھا.والدین اور جملہ وفات یافتگان افراد خاندان کی طرف سے چندہ بھی وہ با قاعدہ ادا کر تے تھے لیکن خموشی سے.جب بھی کراچی آنا ہوتا ان کے میزبان اور کئی احباب ان کے استقبال کیلئے ائیر پورٹ پر

Page 66

(۵۷) موجود ہوتے تھے.ان کے پروگرام میں شامل ہوتا تھا کہ پہلے میرے ہاں تشریف لائیں گے.سب کو بتا دیتے تھے کہ اس وقت کا کھانا میری بہن کے ہاں ہے اس کے بعد اگلا پروگرام ہوگا.میں نے بھی ان کی پسند کا کھانا تیار کیا ہوتا تھا.فرائی مچھلی بہت پسند تھی.سب کچھ چھوڑ کر مچھلی ہی نوش فرماتے.اباجی مرحوم کی ایک پلیٹ میرے پاس تھی اس میں میں نے انار کے دانے نکال کر ان کے آگے رکھے اور بتایا کہ یہ ابا جی کی پلیٹ ہے.پہلے درود شریف پڑھا.پھر دانے اٹھا کر کھائے ، ہرنئی چیز کھانے سے پہلے درود شریف ضرور پڑھتے تھے.کھانا کھانے کے دوران سب رشتہ داروں کا حال کا پوچھتے.وقت محدود ہوتا تھا.ایک روز مجھے کہا کہ تم سب بہن بھائیوں کے بچوں کے نام مجھے لکھ کر دو تا کہ میں سب کیلئے نام بنام دعا کیا کروں.ابا جی اور اماں جی کی وفات کے بعد ہم سب کی ذمہ داری انہوں نے آخری وقت تک ادا کی.میں کیا لکھوں؟ وہ شخص تو سراپا محبت و خلوص تھا.خدا تعالیٰ کا شکر گزار بندہ، بندوں سے اپنے پیارے خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق نیک سلوک کرنے والا.کبھی کسی سے رنجش نہیں.کسی سے گلہ نہیں.مسکراتے ہوئے بات کرنا.ہر اک کا دکھ بانٹنا.اللہ کریم ان کو اپنے قرب میں اعلیٰ مقام بخشے.آمین لکھنے کی باتیں تو بہت ہیں.ان کی زندگی تو صحیح طور پر ابا جی کو کشف میں بتائے ہوئے نام عبد السلام ، یعنی سلامتی کا بندہ کی مصداق تھی.رہتی دنیا تک ان کے نیک کام اور محبت ہر دل میں رہے گی.اللہ تعالیٰ ان کی بیویوں ، بچوں اور جملہ لواحقین کو صبر عطا کرے اور خود ان کا حافظ و ناصر ہو.اس وقت تو میرے ذہن میں اسی طرح کی باتیں ابھر کر میرے سامنے آئی ہیں اللہ نے چاہا تو جلد ان کی یاد میں ایک اور مضمون صفحہ قرطاس کروں گی.یہ مضمون ابھی تشنہ تکمیل ہے.

Page 67

(۵۸) فری میں جے ڈائی سن Freeman J Dyson پرنسٹن انسٹی ٹیوٹ ، نیوجرسی امریکہ غریب ممالک کا حسن اعظم یہ تاثرات امریکن فلاسفیکل سوسائٹی کے رسالہ نمبر ۱۴۳ صفحات ۳۴۵.۳۵۰ (۱۹۹۹ء) میں شائع ہوئے تھے جو پروفیسر عبد السلام کے کیمبرج یونیورسٹی آنے پر ان کے سب سے پہلے انسٹرکٹر اور مشہور ہم عصر سائینس دان.فری مین جے ڈائی سن Freeman J Dyson -1.Freeman.انسٹی ٹیوٹ فار ایڈ وانس سٹڈی ( پرنسٹن ، نیوجرسی امریکہ) نے سپرد قلم کئے تھے.تعارف....پروفیسر ڈائی سن کی پیدائش ۱۵ دسمبر ۱۹۲۳ کو جنوبی انگلستان کے قصبہ Crawthorne میں ہوئی پندرہ سال کی عمر میں انہوں نے خود ایک ٹیکسٹ بک سے کیلکولس کا علم حاصل کیا کیمبرج سے آپ نے ریاضی میں بی اے کیا اور ۱۹۵۱ ء میں امریکہ کی کارنیل یونیورسٹی میں فزکس کے استاد بنے.۱۹۵۳ء میں آپ انسٹی ٹیوٹ فار ایڈوانس سٹڈی پرنسٹن یو نیورسٹی منتقل ہو گئے مشہور سائینس دان ایڈ ورڈ ٹیلر E Te کے ساتھ مل کر آپ نے نیکولئیر ری ایکٹر تیار کیا.۱۹۵۷ء میں آپ نے کیلی فورنیا میں سٹیلائٹ کی تیاری کے پروجیکٹ میں کام کیا.زمین سے باہر دوسرے سیاروں میں انٹیلی جیٹ لائف پر آپ نے بہت کام کیا ہے اور اس موضوع پر کتاب Disturbing the Universe بھی لکھی.ڈائیسن کو بہت ساری - Teller یو نیورسٹیوں سے آنریری ڈگریاں مل چکی ہیں اور بہت سارے انعامات بھی حاصل کر چکے ہیں آپ کی چند ایک کتابیں یہ ہیں Values at War.Weapons & hope, Infinite in all directions آپ ابھی تک پرنسٹن یونیورسٹی سے منسلک ہیں.مندرجہ ذیل مضمون میں انہوں نے پروفیسر سلام مرحوم کی شخصیت کو نہایت دلکش انداز میں پیش کیا ہے.یہ مضمون انہوں نے میری درخواست پر مجھے جون ۲۰۰۰ میں ارسال کیا تھا.

Page 68

(۵۹) عبد السلام ہمارے عہد کا ایک عظیم انسان تھا.عظیم نہ صرف بحیثیت سائینس دان کے عظیم تر بحیثیت آرگنائزر کے.بلکہ سب سے زیادہ عظیم اسلئے کہ انسانیت کے دو تہائی غریبوں میں سائینس کی ترویج کیلئے وہ ان کے ضمیر کی بلا خیز آواز تھا.میری ملاقات اس سے برطانیہ میں اس زمانہ میں ہوئی.جب وہ صرف ۲۴ سال کا تھا اور پاکستان کی نئی مملکت کے ہنگامہ خیز حالات سے گزر کر طالب علم بن کر آیا تھا اس وقت میں برطانیہ میں کو اہم الیکٹرا نوک ڈائینا مکس میں بظا ہر صف اول کا ماہر تھا.مجھے جلد ہی اس بات کا احساس ہو گیا کہ سلام کا علم اس موضوع پر اتنا ہی وسیع تھا جتنا کہ میرا.ایک روز اس نے مجھ سے ریسرچ کے لئے کسی موضوع کے انتخاب پر مشورہ کیا تو میں نے اس کو Overlapping divergences کا موضوع تجویز کیا جو کہ نہایت پیچیدہ ٹیکنیکل پرابلم تھی جس پر میں خود دو سال سے ریسرچ کر رہا تھا اور کامیاب نہ ہو سکا تھا.سلام نے یہ پرابلم چند مہینوں میں حل کر کے سب کو انگشت بدنداں کر دیا.) ایک سال بعد میری ملاقات اس سے زیورخ میں ہوئی وہ اپنے ساتھ ایک ریسرچ پیپر لایا تھا جو کہ Scalar Electro-dynamics پر ریسرچ کا زبر دست مرقع تھا.اس نے مجھ سے کہا کہ میرا تعارف و ولف گانگ پالی Wolfgang Pauli سے کروا دو ، جو اس وقت یوروپ میں کوانٹم فلیڈ تھیوریز میں صف اول کا سائینس دان تھا.میں نے پروفیسر پالی کو ایک ملاقات میں سلام کا تعارف کروا دیا اور وہ اس سے ملاقات پر رضا مند ہو گیا.پالی سے علیک سلیک کے بعد سلام اس سے یوں مخاطب ہوا.سلام - آپ از راہ کرم اس مقالہ پر نظر ڈال دیں اور اپنی رائے سے مجھے مطلع کریں پروفیسر بالی.مجھے احتیاط برتنی ہوگی کہ کہیں میں اپنی آنکھیں زیادہ استعمال نہ کروں میں تمہارا مقالہ نہیں پڑ ہوں گا.یوں یہ ملاقات ختم ہو گئی.سلام نے اسکا شکر یہ ادا کیا.اور باہر چلا گیا اسکے چہرہ پر غصہ یا نا امیدی کے کوئی آثار نہ تھے کیونکہ اسکو اپنی مائیگی اور بالا حیثیت کا خوب احساس تھا.جب میں نے اس

Page 69

(1+) سے پالی کے گستاخانہ رویہ پر اظہار افسوس کیا تو سلام نے جوابا کہا کہ اس کا احساس ہمدردی پالی کے لئے زیادہ ہے نہ کہ اپنی ذات کیلئے.افسوس کہ پالی نے (فزکس میں ) ایک نئی تحقیق کو جاننے کا سنہری موقعہ ہاتھ سے گنوا دیا تھا.وطن عزیز کیلئے تڑپ سلام جب زیورخ آیا تو وہ اس وقت اس مخمصے میں مبتلا تھا کہ وہ پاکستان واپس جائے یا نہیں؟ اس کی تعلیم برطانیہ میں قریب قریب پایہ تکمیل کو پہنچ چکی تھی اگر وہ برطانیہ یا امریکہ میں رہائش اختیار کر نیکا فیصلہ کرتا تو اس کیلئے شاندار ریسرچ کیر ئیر اس کا بے تابی سے منتظر تھا ان دنوں وہ اپنی ذہانت کی استعدادوں میں گویا پہاڑ کی چوٹی پر تھاوہ اپنے دور اور نسل کے ابھرتے ہوئے فرسٹ میں سے منفرد جو ہر تھا مگر اسکا ضمیر اسے یہاں رہائش اختیار کرنے پر ملامت کر رہا تھا.اس نے اپنا یہ اخلاقی فرض جانا کہ وہ اپنے وطن واپس جائے تا وہ جو کچھ بھی کر سکتا ہے وہ اپنے وطن عزیز کے عوام کیلئے کرے.پاکستان اگر چہ غریب ملک تھا مگر اس ملک نے اسکی تعلیم اور رہائش کے بر طانیہ میں اخراجات برداشت کئے تھے.اب اسکی باری تھی کہ وہ اس قرض کو چکائے.اس نے اس مخمصہ پر مجھ سے مشورہ کیا میں نے اسے پر زور مشورہ دیا کہ وہ امریکہ چلا جائے تا پہلے پانچ سال تو وہ ریسرچ میں غوطہ زن ہو جائے.پھر اس کے بعد وہ اپنے عوام کی بے شک خدمت کر لے.اس نے میرا شکر یہ ادا کیا اور جوابا کہا کہ میں اپنے وطن لوٹ رہا ہوں.فزکس میرا انتظار کر سکتی ہے مگر پاکستان کے عوام نہیں.سلام ۱۹۵۱ء میں لاہور چلا گیا اور اس نے وہاں تین سال قیام کیا.یہ عرصہ اس کے لئے سخت مایوسی کا دور تھا لا ہور کے اکیڈیمک جگادریوں کو اس بات سے کوئی غرض نہ تھی کہ وہ لندن سے آئے ۲۵ سالہ عبقری کی خدمات سے مستفید ہوں.سلام کو امید تھی کہ وہ پاکستان کی نوجوان نسل میں سائینس میں ریسرچ کی روح پھونک سکے گا تا وہ سائینس کی تعلیم حاصل کر کے اپنے معاشرہ کو ماڈرن بنا ئیں نیز یہ کہ وہ کسی طریق سے پاکستان میں سائنسی ترقی کی نئی لہر دوڑا سکے گا.مگر اکیڈیمیک گروؤں نے اسے ایسا کوئی کام سر انجام دینے کا موقعہ فراہم نہ ہونے دیا.وہ صرف یہ کر سکتا تھا کہ ریاضی اور فزکس کا سبق

Page 70

(YI) قدیم ترین زمانے سے طے شدہ کری کولم کے مطابق دے.جلد ہی اس نے خود کو جدید سائینس اور بین الا قوامی سائینسی کمیونٹی سے روز بروز منقطع محسوس کیا.تین سال بعد اسے یہ بات سمجھ آئی کہ وہ اپنے وطن کی خدمت بجائے ملک کے اندر رہنے سے ملک کے باہر سے زیادہ کر سکتا ہے.۱۹۵۴ء میں وہ کلئیر کانسٹے اٹنس کے ساتھ برطانیہ واپس لوٹ آیا.اور یہاں ریسرچ کیرئیر کے جادہ پر بڑی سرعت سے دوبارہ گامزن ہو گیا.لندن کے مشہور امپرئیل کالج آف ٹیکنالوجی ( یونیورسٹی آف لندن) میں اس نے ۱۹۵۷ء میں تقرری قبول کر لی، جس پر اس کا تقرر ساری عمر رہا لندن کے باعزت پر وفیسر کی حیثیت میں اس کا تقر ر صدر پاکستان کے چیف سائمی خفک ایڈوائزر کے طور پر ہوا اور اس رول میں اس نے پاکستان کی تعلیمی پالیسیوں پر بہت دیر پا اثر ڈالا ، برعکس اس کے کہ وہ ایسا اثر لا ہور میں رہ کر ڈال سکتا.اپنے وطن کے سب سے باعزت شہری کے روپ میں وہ اکیڈیمک گروؤں کی بودی سیاست سے بالا تر رہا.نوبل انعام سلام سے میری پہلی ملاقات جب ۱۹۵۰ء میں ہوئی تو میں نے اسے اپنے برابر کا اٹلیکچھ ٹیل ایک دم تسلیم کر لیا تھا.ایسا نو جوان جو ریاضی کے پیچیدہ مسائل اتنی برق رفتاری سے حل کر سکتا تھا.جتنا کہ میں خود.دس سال بعد میں نے دیکھا کہ وہ علمی کاموں میں مجھے پر بازی لے گیا تھا جہاں میں ابھی تک ریاضی کے مشکل مسائل کا حل تلاش کرنے میں مصروف تھا وہ فزکس کی کائینات میں خفیہ گہرے رازوں سے پردے اٹھانے میں بہت آگے نکل گیا تھا.جہاں میں پرانی تھیوریز کی تفصیلات تلاش کر نے میں مگن تھا وہ نئی تھیوریز خود تخلیق کر رہا تھا وہ دس سال تک برقی مقنا طیس اور و یک نیوکلئر فورس کے درمیان اتحاد کی تھیوری اخذ کرنے میں گھمبیر گلیوں میں آنکھ مچولی کھیلتا رہا.بالآ خر ۱۹۶۷ء میں کامیابی نے اسکے قدم چومے.سٹیون وائن برگ اور شیلڈن گلا شو نے آزادانہ طور پر ایک دوسرے کے تعاون کے بغیر الیکٹرو و یک تھیوری پیش کی.جسکا تجرباتی ثبوت چھ سال بعد و یک نیوٹل کرنٹ ملنے سے ہوا.الیکٹرو و یک تھیوری نے پارٹیکل فزکس کے سٹینڈرڈ ماڈل میں شامل ہونے والے تمام آئیڈیاز کے لئے

Page 71

(۶۲) راستہ ہموار کر کے ان کو ایک جگہ اکٹھا کر دیا.اس کا میابی پر سلام وائن برگ اور گلا شو کو ۱۹۷۹ء میں حق بجانب نو بل انعام ملا، سلام نے خموشی سے انعام کی سو فی صد رقم غریب طلباء کے سکالرشپ کیلئے دے دی.وہ کہتا تھا کہ مذہب اسلام جس کے مطابق وہ اپنی زندگی گزارتا ہے اس نے اس رقم کے دینے کیلئے اسے دریا دل بنا دیا ہے.اس دوران سلام نے ٹریسٹ (اٹلی) میں انٹرنیشنل سینٹر فار تھیوری شکل فزکس کی بنیاد رکھی جس نے غریب ممالک میں بنیادی سائینس کے لیول کو اوپر بڑھانے کیلئے اس کے سپنے کو پورا کر دیا.یہ سینٹر تیسری دنیا کے ممالک سے آنے والے سائینس دانوں کو فنڈز اور رہائش مہیا کرتا ہے جب وہ اپنے تعلیمی اداروں سے sabbatical leave پر ہوتے ہیں.مگر اپنے وطن میں وہ ان اداروں میں اپنی اکیڈیمک پوزیشن برقرار رکھتے ہیں اس سینٹر میں قیام کے دوران وہ نہ صرف اپنی ریسرچ پر توجہ مرکوز کر تے بلکہ دوسرے ممالک سے آئے ہوئے پروفیسروں سے بھی رابطہ بڑہاتے ہیں.یہ سینٹر ان کو جدید مواصلات اور ان کی ریسرچ کو شائع کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے.سلام نے اس سینٹر کو اس طریق سے ڈیزائن کیا ہے کہ تیسری دنیا کے سائینس دان سائینسی طور پر اپنے وطن سے ہجرت کئے بغیر پروڈکٹو رہتے ہیں نیز ایسے احباب کو امیگریشن یا فرسٹریشن میں سے کسی ایک کا انتخاب نہیں کرنا ہوتا.فنڈ ریزر روز اول سے ہی سینٹر کی مساعی صرف اور صرف پارٹیکل فزکس پر مرکوز نہیں رہیں آنیوالے سائینس دانوں کے درمیان دوسرے موضوعات جیسے پلازما فزکس.ماحولیاتی تجزیہ.اور مالیکیولر بیالوجی میں بھی میٹنگز طے پاتیں اور وزٹر ز کو دعوت دی جاتی ہے.سلام نے ۱۹۵۵ء اور ۱۹۵۸ء میں جینیوا میں اٹامک انرجی کے پر امن استعمال پر منعقد ہونے والی کانفرنسوں کے سکرٹری کے فرائض سرانجام دئے تھے.سلام نے نیو کلئر فشن اور نیو کلئر فیوژن دونوں میں اپنا انسرٹ برقرار رکھا دونوں کو انرجی کے سورس اور سائینسی پرابلم حل کرنے کے زبردست چیلنج کے طور پر.وہ اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ بنیادی سائینس اور اپلائیڈ سائینس دونوں ترقی پذیر ممالک کے لئے اہم ہیں سینٹر

Page 72

(۶۳) میں آنے والے مہمان زیادہ تر بنیادی سائینس پر کام کرتے ہیں مگر اپلائیڈ سائینس کو بھی برا نہیں سمجھا جاتا ہے.پورے تمہیں سال تک سلام اس سینٹر کو زندہ رکھنے کے لئے ناختم ہونے والی مگر کامیاب جنگیں لڑتا رہا اس دوران اس نے فنڈ ریزر کی قابل ستائش صلاحیت اپنے اندر پیدا کر لی.اس نے سینٹر کے لیئے فنڈ ز اطالین حکومت.ٹریسٹ کے شہر، اقوام متحدہ ، اٹامک انرجی کمیشن (وی آنا ).اور صدیوں فاؤ نڈیشنز اور انفرادی لوگوں سے حاصل کئے.سینٹر کے ڈائرکٹر کی حیثیت سے اس نے ایڈمنسٹریشن کی بھاری ذمہ داریاں خود اٹھا ئیں اور اس کے ساتھ وہ انٹلیک چوئیل لیڈرشپ بھی سینٹر کو فراہم کرتا رہا.یہ سینٹر اس کے ویژن، اس کی انرجی ، اس کی بے لوث خدمت کا جیتا جاگتا اور یاد گار نمونہ ہے تا مختلف قوموں کے لوگ سائینس کے کامن پر سوٹ common pursuit کے لئے ایک جگہ اکھٹے ہوسکیں.جب سلام بر طانیہ آیا تھا تو شروع ایام میں وہ کہا کرتا تھا کہ اُس کے ملک میں عزت والے صرف دو پیشے ہیں : عوام الناس میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جانے کے لئے یا تو انسان آرمی جنرل ہو یا پھر شاعر.اس کی بے لوث کوششوں اور فقید المثال نمونہ کے باعث اب پاکستان کی حالت بدل رہی ہے اب وہ جرنیلوں اور شاعروں سمیت اپنے ملک میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے مگر پاکستان اور ایسے ممالک نے ابھی بہت تگ و دو کرنی ہے.تمہیں سال بعد اب امیر ممالک غریب ممالک کی مدد پر پہلے سے کم مائل ہیں سلام ہمارے کندھوں پر تیسری دنیا کے ممالک کی مدد کے لئے بھاری ذمہ داری ڈال گیا ہے جو ہم برے طریق سے نبھا رہے ہیں.میں اس مضمون کو قرآن پاک کی اس آیت کریمہ پرختم کرتا ہوں جس کا حوالہ وہ اکثر دیا کرتا تھا.ان الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما با نفيهم (الرعد (١٢)

Page 73

(۶۴) ڈاکٹر عبد السلام کے بر طانوی پروفیسر سر فریڈرک ہوئیل کے تاثرات کے سر فریڈ ہوئیل Sir Fred Hoyle کا شمار بیسویں صدی کے جلیل القدر اسٹرانو مرز میں کیا جاتا ہے.انہوں نے سب سے پہلے بگ بینگ کی سائینسی اصطلاح سے دنیا کو متعارف کیا.ان کا نام سائینس فکشن رائٹر کی حیثیت سے بھی مغربی ممالک میں زبان زد عام ہے.ان کے بعض خیالات سائینسدانوں کی عام روش سے ہٹ کر بہت عجیب و غریب قسم کے تھے مثلا ۱۹۹۰ء میں ان کا ایک مضمون شہرہ آفاق رسالہ نیچر میں شائع ہوا جس کے مطابق سورج کے اندرسن سپاٹس کی وجہ سے زمین پر انفلوئنزا کی وبا گا ہے بگا ہے پھیلتی ہے.ان کا یقین تھا کہ پیس مختلف قسم کی وائرسز سے بھری پڑی ہے.جو سن سپاٹس un Spots کی وجہ سے زمین پر پہنچ جاتی ہیں.۱۹۵۸ء میں انہوں نے یہ انوکھا اور حیران کن دعوی کیا کہ انسانی جسم کے اندر جو ہیوی کیمکل ایلی منٹ جیسے آکسیجن، کاربن ، اور آئرن موجود ہیں وہ دیو قامت ستاروں کے پھٹنے سے زمین پر آئے تھے گویا ہم لوگ ستاروں کی خاک stardust سے بنے ہیں نہ کی زمینی مٹی سے.زندگی کے آخری ایام تک وہ کائینات کی سٹیڈی سٹیٹ تھیوری کے قائل رہے جس کے مطابق کائینات کا کوئی معین نقطہ آغاز نہ تھا.ان کی مقبول عام تصنیفات میں سے The Alchemy of Love اور A for Andromeda بہت ممتاز ہیں.موخر الذکر کتاب پر ٹیلی ویژن سیریز بھی بنائی گئیں.ان کی خود نوشت داستان زندگی A دلچسپ کتاب ہے.ان کی پیدائش ۱۹۱۵ء میں یارک شائر میں ہوئی وہ کیمبرج یونیورسٹی کے سینٹ جانز کالج میں عرصہ دراز تک پروفیسر رہے.۱۹۷۲ء میں انکو سر کا اعلیٰ خطاب دیا گیا ، ان کی وفات ۲۳ اگست ۲۰۰۱ کو برطانیہ میں ہوئی.✓ ✓ Home where the Wind Blows

Page 74

(۶۵) جب عبد السلام سینٹ جانز کالج میں بطور طالب علم آئے تو سر فریڈرک ہوئیل ان کے استاد مقرر ہوئے مندرجہ ذیل مضمون انہوں نے ڈاکٹر سلام کی وفات پر لکھا جو کالج کے رسالہ The Eagle میں 1992 ء میں شائع ہوا www.joh.cam.ac.uk/publicationsleagle97 مجھے پختہ یقین نہیں لیکن میرا اندازہ ہے کہ عبد السلام سینٹ جانز کالج 1947/48 میں عین اس وقت طالب علم بن کر پہنچا جب اس وقت غیر معمولی قسم کی سردی کے موسم کا دور دورہ تھا.اس سرد موسم کا صحیح اندازہ کرنا کہ یہ کتنا نا موافق تھا یا اس کا محض تصور کرنا اس وقت تک لا محال ہے جب تک انسان نے جنگ عظیم دوم کے بعد کے سالوں کا خود تجربہ نہ کیا ہو.ہمارے وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے تو ہمیں دھوپ بھرے علاقوں کے سہانے سپنے دکھلائے تھے مگر ہوا اس کے برعکس، یعنی ۴۸.۱۹۴۷ کا بدترین موسم سرما.میری رہائش سینٹ جانز کالج میں نیو کورٹ والے حصہ میں تھی.جو اجتماعی رائے عامہ کے مطابق کالج کا بدترین حصہ تھا اس حصہ میں عمارتیں نصف انیسویں صدی کو مد نظر رکھتے ہوئے ڈیزائن کی گئیں تھیں ان کے اندر کمروں میں بڑی بڑی فائر پہلے سز اور وسیع وعریض چمنیاں تھیں جو کوئلہ برے طریق سے ہڑپ کرتی تھیں تا با انلر رومز کو سروس کیا جا سکے جو اکیڈیمک انجن کو سٹیم مہیا کرتا تھا اس کا ڈیزائن ایسا تھا کہ صبح کے وقت کالج کا ملازم اس کو روشن کرتا تھا پھر دن کے وقت بھی یہ سلسلہ متواتر جاری رہتا مگر یہ کام ۴۸ ۱۹۴۷ کے سالوں میں جاری رہ نہ سکا اگر اس سردی کے موسم میں ہم آگ جلانا چاہتے تو یہ کام خود کرنا پڑتا تھا.بلکہ آگ جلانے کا سامان کو بھی خود ہی مہیا کرنا ہوتا تھا ہاں اگر کوئلہ ختم ہو جاتا تو یہ کام جاری نہ رہتا.طلباء کو ۱۸.نیو کورٹ Newcourt 18 میں سپر وائز کرنے کیلئے میرا پورے ہفتہ کا راشن کوئلوں کا ایک بیگ ہوتا تھا.او پر بیان کردہ تکلیف کے برخلاف ہمارے لئے ایک luxury یعنی عیاشی والی چیز یہ ہوتی تھی کہ کالج میں ریاضی کی تعلیم کیلئے ابھی بھی چار لیکچرار ہوتے تھے.Peter White & Smithies پور میتھ

Page 75

(YY) کیلئے اور Howarth کے ساتھ میں اپلائیڈ میچھ کیلئے مقرر تھے.ہاور تھ کا کمرہ میرے ساتھ ملحقہ تھا جو سٹر ھیوں کے قریب تھا.اس کا آفس میرے آفس سے فنی اور تکنیکی اعتبار سے بہت ایڈوانس تھا کیونکہ اس کے اندر فائر پلیس کو بلاک کر دیا گیا تھا اس کی جگہہ کمرہ کے اندر گیس فائر تھی جو طلباء اس کے کمرہ میں کو چنگ کیلئے آتے تھے ان کی خاطر تو اضع اس گیس فائر سے کی جاتی تھی.کمرے کے باہر درجہ حرارت، ۲۰ درجہ منفی متواتر رہنے لگا تھا اور میرے کمرے کے اندر گیس فائر کا کوئی انتظام نہ تھا چنانچہ خود کو گرم رکھنے کیلئے طلباء کو میرے کمرے میں جو کچھ نظر آتا وہ اپنے اوپر اوڑھ لیتے دوسری اشیاء کی طرح جنگ کے بعد پہننے کے کپڑے بھی سخت راشن پر ملتے تھے چنانچہ اس کا مطلب یہ تھا کہ انسان کا ہاتھ جس کپڑے پر پڑتا وہ اسے دبوچ لیتا.چاہے وہ لباس کتنا ہی فرسودہ کیوں نہ ہو.پھر میرے شاگردوں نے یہ بات جلد ہی جان لی کہ جو ملتا ہے پہن لو کیونکہ ہم تو کائینات کے لا نخیل مسائل کا حل تلاش کرنے کے مقصد سے یہاں جمع ہوتے تھے.سیبوں پر گزارا یہ وہ صورت حال تھی جس میں عبد السلام کیمبرج میں وارد ہوا.آئندہ زندگی میں اس کو ملنے والی کامیابیوں کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس نے ایسے دشوار حالات میں زندہ رہنا ممکن بنالیا تھا.عبد السلام انڈیا میں ریاضی کی ڈگری پہلے ہی حاصل کر چکا تھا.جو کہ اس وقت کا دستور تھا پاکستان قریب قریب اسی دور میں بنا جب سلام کیمبرج روانہ ہوا تھا.گرم ملک سے سرد ملک کی طرف جاتے ہوئے اس نے سرد موسم کا ضرور سوچا ہوگا لیکن انڈیا میں اچھا کھانا کھاتے ہوئے (نئے ملک میں) کھانا نہ ملنے کا تو اس کو وہم گمان بھی نہ ہو گا چنانچہ کالج میں آمد پر اس کی فوڈ راشن بک آتے ہی ختم ہو چکی تھی اس پہلے موسم سرما میں اس نے سیب کھا کھا کر گزارہ کیا.کیونکہ مارکیٹ میں صرف سیب ہی Coupons کے بغیر خریدے جاسکتے تھے.شاید آلو بھی خریدے جاسکتے تھے لیکن میرے خیال میں وہ آلو پکا نا نہیں جانتا تھا (یا ان کا صحیح مصرف نہ جانتا تھا).میں مذاق نہیں کر رہا یقین کریں کہ ۵۲ - ۱۹۵۱ء تک ہمارا ہفتہ وار پنیر کا راشن صرف ایک اونس ہوتا تھا لوگ قطار میں کھڑے ہو کر پنیر کیوں لینا چاہتے تھے اس سے

Page 76

(12) انگریز قوم کے مزاج کی کوئی خاص تعریف نہیں ہوتی.ریاضی کے شعبہ میں کالج کا سینیر لیکچرار ہونے کی بناء پر اس بات کی ذمہ داری کہ طلباء کو کن گروپس میں بانٹا جائے یہ پیٹر وائٹ White کے کندھوں پر پڑی.عموماً دو یا سات طلباء کے گروپس بنائے جاتے تھے.جو ایک سال تک برقرار رہتے بعض دفعہ اس میں معمولی تبدیلی ہو جاتی لیکن اکثر ایسا نہ ہوتا تھا ہر طالب علم کو ہفتہ میں دو گھنٹہ کی سپر ویژن ملتی تھی ایک گھنٹہ پور میتھ میں اور ایک گھنٹہ اپلائیڈ میتھ میں.پھر ہم چار لیکچر ارز کے درمیان بھی alternation ہو تی تھی ایک ٹرم سے دوسری ٹرم تک یعنی وائٹ اور سمتھیز ایک ٹرم پور میتھ پڑھاتے اور میرے ساتھ ہاور تھ اپلائیڈ میتھ پڑھاتا اگلی ٹرم میں یہ بدل جاتا اور ہم دونوں پیور میتھ پڑھاتے تھے.اس طریق کار سے کالج کے لیکچر ارز پر کم سے کم دباؤ اور بوجھ پڑتا تھا جبکہ چھوٹے کالجوں میں ایک لیکچرار پور میتھ پڑہا تا تو دوسرا اس کے ساتھ پیور میتھ پڑہا تا اور یوں طالب علم دونوں سے پڑھتے کالج میں لیکن بعض لیکچرار ایسے بھی ہوتے تھے جو پیور اور اپلائیڈ میتھ پڑھانا پسند کرتے تھے جیسے LA Pars جس کا تعلق جی سسر کالج Jesus College سے تھا اور Mr.Ingham جس کا تعلق کنگز کالج سے تھا مجھے کسی نے بتلایا کہ میرے گریجویٹ طالب علموں میں سے J..Narikar کنگز کالج کا آخری طالب علم تھا جس نے ۱۹۶۰ء کی دہائی میں دونوں مضامین پڑہائے تھے..بہر حال عبد السلام ان نادر روزگار طالب علموں میں سے تھا جس کو صرف اکیلے پڑھایا جاتا تھا کیونکہ اس کا کلاس میں کوئی پارٹنر نہ بن سکا تھا جیسے کہ طلباء کے گروپس بنائے گئے تھے.ہاورتھ نے فرسٹ ائیر میں اس کو پڑھایا ایک روز شام کو ڈنر کے بعد کافی پینے کے دوران اس نے مجھے بتلایا کہ اس کا ایک سٹوڈنٹ انڈیا سے آیا ہے جو بہت ہی لائق و فائق ہے یہ پہلا موقعہ تھا کہ مجھے عبد السلام کے بارہ میں کچھ معلوم ہوا.ہاورتھ Howarth سے مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ عبد السلام کی یہ ( عجیب سی ) عادت تھی کہ وہ جھک کر کالج کی کورٹس میں اسلامی (انڈین) طریق سے سلام کرتا تھا گویا اس کے گھٹنے اینٹوں کی سڑک کو لگ

Page 77

(۶۸) جاتے تھے چنانچہ لیس لی Leslie یا پیٹر وائٹ کو سلام کو سمجھانا پڑا کہ ایسی تعظیم اور عزت کے اظہار کی کیمبرج میں کوئی ضرورت نہیں ہے.جب میر اوقت لینٹ ٹرم میں عبد السلام کی فرداً فرداً سپر ویژن کیلئے آیا تو یہ اسلامی طریقہ ( انڈین ) آداب کم ہو کر ہاتھ ہلانے اور دور سے سلام کہنے تک محدود ہو گیا.لینٹ ٹرم Lent Term کے دوران غضب کی سردی پڑی اس کے بعد تو صرف زندہ رہنا ہی محال ہو گیا کلاس روم میں میں گھنٹہ ختم ہونے کا انتظار کرتا تا کہ میں کامن روم میں جاسکوں جہاں آگ کمرہ گرم کرنے کیلئے جل رہی ہوتی تھی اور عبدالسلام اگلے سیب کا منتظر ہوتا تھا.لینٹ ٹرم آئی اور چلی بھی گئی اور پھر جون کے وسط میں میری ملاقات عبد السلام سے دوبارہ ہوئی میری اس سے یہ سرسری ملاقات سیکنڈ کورٹ کی بلڈنگ میں ہوئی.میں نے اس سے پوچھا کہ اس کے ابتدائی امتحانات کیسے رہے؟ اس نے جواب دیا کہ بہت خراب، بہت غلطیاں سرزد ہوئیں اور یہ کہ کر وہ قہقہہ لگاتے رفو چکر ہو گیا.دو کلچرز کا تصادم جہاں تک ابتدائی امتحانات Prelims کا تعلق ہے کلاس میں طلباء کی لیسٹ اور ان کے امتحان میں نمبر ان کے سپر وائزر کو بھجوا دیئے گئے ، عبد السلام نے اول پوزیشن حاصل کی اور میرا خیال ہے وہ فہرست میں تیسرے نمبر پر تھا.اس کے بعد اس کا ٹرائی پوز Tripos کا سال شروع ہوا.اور میری اس سے ملاقات پہلے سے نسبتاً زیادہ ہونے لگی ہاور تھ نے اندازاً اس وقت برسٹل یو نیورسٹی میں اپلائیڈ میتھ کی چیر قبول کر لی.اور میری عبد السلام سے ملاقات کی زیادہ وجہ یہی تھی یہ فی الحقیقت دو کلچرز کا تصادم تھا انڈیا میں اس نے جس مکتب خیال میں تعلیم حاصل کی تھی اسے را ما تو جن سکول کہا جاتا ہے جس کے مطابق یہ جاننا کہ حقیقت کیا ہے اس کو فوقیت حاصل ہے اس امر پر کہ اس حقیقت کو بیچ کیسے ثابت کیا جائے؟ میری ٹرینگ اس کے برعکس کیمبرج کے مکتب خیال میں ہوئی تھی جس کے مطابق یہ جاننا کہ حقیقت کیا ہے اس کی زیادہ اہمیت نہیں صرف اس کو سچا ثابت کرنا زیادہ ضروری ہے.چنانچہ ہم دونوں نے

Page 78

(19) اس پس منظر میں ٹرائی پوز کے بہت سارے مسائل کو جوں توں کر کے حل کر ہی لیا.ٹرائی پوز میں در پیش سوالات کے جوابات کی صاف ستھری فائیلیں تیار کرنا یہ کام جس طرح بہت سارے دوسرے کرتے تھے میری طبیعت اس جانب مائل نہ ہو سکی.چنانچہ اکتوبر کے مہینہ میں جملہ فرائض کو یوں بغیر سوچے سمجھے فوری طور پر کرنے پر مجھے بہت سے مسائل سے دوچار ہونا پڑا کیونکہ لبی تعطیلات کے بعد میرے ذہن کو زنگ لگ چکا ہوتا تھا اور اب مجھے دوبارہ ہر مضمون کو پڑہانا ہوتا تھا.مگر نومبر کے وسط تک یہ خوف ذھن سے مائل ہو چکا ہوتا اور بقیہ سال بھی یہی حالت رہتی جبکہ مئی کا مہینہ آ جاتا اور ہر کام پہلے سے آسان لگنے لگتا تھا.برے اوقات میں میرے لئے یہ کام زیادہ بو جھل نہ ہوتا تھا جب میں عبد السلام جیسے طالب علم کے ساتھ (ریاضی کے ) گھمبیر مسائل میں گم ہو جاتا تھا.یہ نسبت ایسے طلباء کے جو ( کلاس) میں یوں ہی بیٹھے رہتے اور کھڑکی سے باہر دور فضاء میں ٹکٹکی لگائے دیکھ رہے ہوتے مؤخر الذکر طلباء کے ساتھ گویا انسان کو دو بھاری پتھر اونچائی کی طرف لے جانے ہوتے تھے ایک بھاری پتھر تو وہ ریاضی کا اصل مسئلہ ہو تا تھا اور دوسرا کند ذھن طالب علم کو وہ مسئلہ سمجھانا ہوتا تھا.عبدالسلام کے ساتھ انسان کو صرف ایک پتھر اونچائی کی طرف لے جانا ہوتا تھا کیونکہ وہ خود اس پتھر کو پوری قوت و استعداد کے ساتھ دھکیلتا تھا.اس دوران زمین ایک بار پھر اپنے مدار پر گھوم چکی ہوتی تھی اور عبد السلام سے جس کام کی توقع کی جاتی تھی اس کام کو وہ سر انجام دے چکا ہو تا تھا یعنی میتھ کے ٹرائی یوزپارٹ دوم میں اس نے اول پوزیشن ها صیل کی چنانچہ اب کی بار میری اس سے ملاقات تھرڈ کورٹ کی عمارت میں ہوئی جو کہ لائیبریری کی طرف جاتے سونے موڑ پر واقع ھے اس نے مجھے پر جوش سلام کیا میں وہیں رک گیا اور پھر ھم دونوں نے ایک دوسرے کی طرف بے اختیار چلنا شروع کر دیا اس نے مجھے بتلایا کہ

Page 79

(4.) اسے ایک مشکل مسئله در پر تما پیش هے جو که مندرجه ذیل حکومت پاکستان نے اس کے تھرڈ ائیر کا سکالر شپ مہیا کیا تھا اس نے سوچا کہ وہ فزکس پارٹ دوم کا اس سال مطالعہ کرنے کی بجائے میتھ پارٹ دوم کی کلاسز لے.لیکن اس نے ابھی تک چونکہ تجرباتی فر کس نہ کی تھی لہذا اس کو اس مضمون میں دوسرے درجہ سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کی امید نہ تھی جبکہ اگر وہ میتھ پارٹ سوم کرے تو اس کو یقین کی حد تک اعتماد تھا وہ فرسٹ پوزیشن حاصل کر سکے گا جس کی وجہ سے وطن عزیز میں سرکاری حکام مسرت کا اظہار کریں گے.اس نے مجھ سے استفسار کیا کہ مجھے اس صورت حال میں کیا کرنا چاہئے؟ کچھ دیر کی گفتگو کے بعد میں نے بلاآخر یہ کہا کہ اسے وہ مضمون پڑہنا چاہئے جس کی پاکستان کو مستقبل میں زیادہ ضرورت ہوگی بجائے شارٹ ٹرم فائدہ حاصل کرنے کے.جس سے میری مراد یہ تھی کہ وہ فزکس پارٹ دوم کرے (یعنی ریاضی دان بنے کی بجائے وہ فزکس کی فیلڈ اختیار کرے).بعد کے سالوں میں مجھے وہ بتلایا کرتا تھا کہ یہ گفتگو اسکی زندگی کی اہم ترین گفتگو تھی.چنانچہ کیونڈش لیبارٹری میں ریاضی کے ایسے ماہر شخص کا گھومنا پھرنا کیب میں کام کرنے والے افراد کے لئے ایک انوکھا تجربہ تھا خیر کچھ بھی ہو جلد ہی عبد السلام سے ہر کوئی متعارف ہو گیا اور تھیو رٹیکل فزکس میں ہونے والی تازہ بہ تازہ ریسرچ اور ری نارما لائزیشن تھیوری (میں اس کے انکشافات میں وہ ایسا انسان ثابت ہوا جس پر نت نئے آئیڈیاز ہر وقت ہر آن غیب سے نازل ہوتے ہوں.جوں جوں سال تیز رفتاری کے ساتھ گزرتے گئے وہ دیکھتے ہی دیکھتے کالج کا فیلو مقر ر ہو چکا تھا پھر یو نیورسٹی کا لیکچرار.پھر امپرئیل کالج آف سائینس اینڈ ٹیکنالوجی (اندن یونیورسٹی) میں تھیورٹکل فزکس کا پروفیسر.مجھے ہمیشہ یہ امید بندھی رہی کہ عبد السلام ایک روز ضرور کیمبرج واپس آ جائیگا اور میرا یقین ہے کہ اگر اسے تھیور ٹیکل فزکس کی چیئر پیش کی گئی ہوتی تو وہ ضرور واپس لوٹ آتا.ایسے دو مواقع ۱۹۹۰ء کی دہائی میں نمودار ہوئے لیکن دونوں مرتبہ فیکلٹی آف میتھ نے الیکٹرورل بورڈ کو ہدایت کی کہ یونیورسٹی کو Continuum Mechanics کے پروفیسر کی زیادہ ضرورت ہے.یہ نسبت تھیورنیکل فزکس

Page 80

(<1) کے، اس فیصلہ سے میں بھی متفق نہ تھا.اور یہ جملہ وجوہات میں سے ایک وجہ تھی کہ ۱۹۶۰ء کی دہائی کے نصف سے میرے تعلقات فیکلٹی آف میتھ کے ساتھ گرتے گرتے صفر درجہ تک پہنچ گئے.میں نے کیمبرج کو ۱۹۷۲ء میں الوداع کہہ دیا اور عبد السلام آئی سی ٹی پی کا ٹریسٹ (اٹلی) میں ڈائریکٹر مقرر ہو گیا تو میں اس سے ملاقات کی غرض سے تواتر کے ساتھ جاتا رہا.چنانچہ زندگی کے آخری سالوں میں میرا اس سے ملنا جلنا امید سے زیادہ ہوا.اس کا ایک نقطہ نظر تھا جس کو اس نے زندگی کے آخری سانس تک سینے سے لگائے رکھا.اور جس کو میں قابل ستائش سمجھتے ہوئے یہاں ریکارڈ میں لانا چاہتا ہوں.عبد السلام کے نزدیک بیسویں صدی کا سب سے عظیم سائینسدان بلا شبہ پال ڈائیراک تھا Paul Dirac شاید کوئی شخص استدلال کرے کہ ہاں سینٹ جانز کالج کا ایک گریجوئیٹ اسی کالج کے دوسرے گر یجو یٹ کی لازماً تائید کرے گا لیکن جب میں نے اس سے استفسار کیا کہ اس فہرست میں آئن سٹائن بھی شامل ہے ؟.اس کا جواب اس ضمن میں دو ٹوک تھا: آئن سٹائن کیلئے اس کا تمام میته math اس کو کر کے دیا جا تا تھا جبکہ ڈائیراک نے اس کو خود ایجاد کیا نہ صرف په بلکه وه ڈائیراک هی تھا جس نے یہ بات واضح کی که تهیو رتیکل فرکس کی طرف جانے والا راسته abstract math سے ھو کر جاتا هے نه که میته کو انجئینر کر نے سے..میرے نزدیک عبد السلام کا یہ نقطہ نظر بلکل درست تھا نوٹ: اصل مضمون میں عبد السلام کی بجائے abdus کا نام استعمال ہوا ہے.ترجمہ ذکر یاورک)

Page 81

(۷۲) سلام میموریل کا نفرنس کے ۱۹ نومبر تا ۲۲ نومبر ۱۹۹۷ ءٹریسٹ.اٹلی ڈاکٹر عبد السلام کی اندوہ ناک وفات کے ایک سال بعد آئی سی ٹی پی (اٹلی میں سلام یادگاری کانفرنس منعقد ہوئی جس سے دنیا کے چوٹی کے سائینسدانوں هونی ے خطاب کیا.اس خاص موقعہ پر جماعت احمدیه ما کے جو تھے امام حضرت مرزا طاهر احمد صاحب مگیر کے نور اللہ مرقدہ نے جو پیغام ارسال کیا اس کامتن درج ذیل ہے : میں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آئی سی ٹی پی کی انتظامیہ.کانفرنس کے محرکین.اور تمام مند و بین جو وقت نکال کر مرحوم پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام کی دلکش یادوں کو تازہ کرنے اور اپنے تحسین بھرے جذبات کے اظہار کے لئے یہاں تشریف لائے ہیں ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں.اور اس شکریہ کا اعادہ بھی کرتا ہوں کہ اس کا نفرنس کی انتظامیہ نے مجھے یہ نا در موقعہ فراہم کیا ہے کہ میں بھی مرحوم کے ذکر خیر میں شامل ہو سکوں.ایسی کانفرنس جو ایک ایسے فہم و ذہانت میں یکتا انسان کے اعزاز میں منعقد کی جارہی ہے جس کے دل و دماغ کی غیر معمولی صلاحیتیں کسی مخصوص خطہ کیلئے محدود نہ تھیں اور یہی خصوصیت اس کی حقیقی عظمت کا نشان تھی.جس نے انہیں اپنے ہم عصر نادر روزگار دانش وروں میں سر بلند کر دیا تھا.میں انہیں بچپن سے جانتا تھا لیکن صرف اس حد تک کہ جیسے ایک بچہ ستاروں کو جانتا ہے مگر ایسی کوئی بے تکلفی اور ذاتی تعلق نہ تھا جس سے یہ تعلق کوئی غیر رسمی خصوصیت رکھتا ہو.مگر ۱۹۷۸ء کی بات ہے جب میں سیر و تفریح کی غرض سے شمالی امریکہ اور یوروپ کے دورہ پر آیا.ڈاکٹر سلام سوائے اس کے کہ بانی سلسلہ احمدیہ کے خاندان سے دلی عقیدت رکھتے تھے اور ان کی بیگم مکر مہ امتہ الحفیظ صاحبہ میری والدہ مرحومہ سے دلی محبت رکھتی تھیں.بس یہی تعلق تھا جس پر انہوں نے مجھے اپنے گھر کھانے پر آنے کی دعوت دی.اس موقعہ پر جب ہماری خواتین ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت میں مصروف تھیں میں اور ڈاکٹر سلام دوسرے کمرے میں مصروف گفتگو تھے.جس سے ہمیں ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقعہ ملا.یہی وہ پہلا موقعہ تھا کہ ہمارے درمیان بہت گہرے ذاتی مراسم کی ابتداء ہوئی.یہ مراسم با ہم روشن خیالی.روحانی رشتے اور مخلصانہ جذبات پر بنی تھے اور ان کی وفات تک اسی طرح برابر قائم رہے.مگر وہ مسحور کن شخص جس کی دلداری کسی انسانی دائرہ عمل یا دلچسپی تک محدود نہ تھی اس کی رحلت مجھے سوگوار بنا گئی ہے.

Page 82

(۷۳) یہ وہ پہلی ملاقات تھی جس میں میں نے انہیں بہت کشادہ دل اور متوازن طبع انسان پایا.اور یہ وہ حقیقت تھی جو مجھ پر اس وقت عیاں ہوئی جب مجھے پتہ چلا کہ ان کی معلومات بہت وسیع تھیں وہ پر اسرار تصوف کے فلسفہ کا فہم رکھتے تھے تاریخ پر ان کا مطالعہ عمیق تھا.نظریاتی طبیعات اگر چہ ان کا اپنا مضمون تھا مگر یہی ایک مضمون نہ تھا جس پر انہیں قادرانہ عبور حاصل تھا.کیمسٹری کے گہرے علم کے ساتھ ساتھ بیا لوجی.کائینات کے سب اٹامک پاریکلو کا علم بھی حیران کن تھا کاسمالوجی کے علم پر عبور بھی حیرت انگیز تھا.لیکن جہاں تک کار خانہ قدرت کی وسعت اور اس کی خدائے واحد کی صفات کے ساتھ وحدانیت کا تعلق تھا یہ وہ ایک چیز تھی جس میں وہ اپنی تمام دوسری صلاحیتوں میں زیادہ اجاگر تھے.مجھے یقین واثق ہے کہ ان کی تھیوری آف یونیفائیڈ فیلڈ کا اصل منبع ان کے خدائے تعالیٰ کی وحدانیت کے عقیدے پر پختہ ایمان تھا.ان کا پختہ عقیدہ تھا کہ ہر چیز خدا تعالیٰ سے شروع ہوتی اور اسی پر ختم ہو جاتی ہے.اس عقیدہ نے لا زماً ان میں تحریک پیدا کی ہوگی کہ وہ سائینسی اعتبار سے ثابت کریں کہ یونی فائیڈ فیلڈ تھیوری کے تحت اس کی کچھ بینادی طاقتیں ہیں جو موجودات میں کام کرتی نظر آتی ہیں.ہماری اس ملاقات کے دوران انہوں نے مجھے بتلایا کہ وہ اپنی ریسرچ میں اس مسئلہ پر بہت آگے پہنچ چکے ہیں کہ فطرت کی دو اور قوتوں میں وحدانیت ثابت کر سکیں.اگر زندگی نے ان کو اور مہلت دی ہوتی تو مجھے یقین ہے کہ ان کو ایک اور نوبل انعام اس بناء پر دیا جاتا کہ انہوں نے فطرت کی دو اور بینادی قوتوں کا نظریاتی طور پر ایک ہونا ثابت کر دیا ہے.یہ تحسین اور داد کا مختصر خاکہ اس عبقری انسان کی یاد میں پیش کر نیکا یہ مقصد نہیں کہ اس کی سائینسی کا میابیوں پر مزید کچھ کہا جائے میں تو اس بابرکت تقریب میں ڈاکٹر سلام کی صرف چند ایک جھلکیاں پیش کرنا چاہتا ہوں جو کبھی بھی اچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے کہ وہ جدید سائینسی علوم اور ان کی پیچیدگیوں پر مجھ جیسے عام علم رکھنے والے کے ساتھ بے تکلفانہ تبادلہ خیالات کرتے.ادھر میری یہ حالت تھی کہ میری تمام کوشش اس بات کو سمجھنے میں مرکوز تھی کہ روشنی کی رفتار ۱۸۶۰۰۰ میل فی سیکنڈ سے زیادہ کیوں نہیں ہو سکتی؟ پھر بھی ان کے صبر کی داد دیتا ہوں کہ میرے استدلال اور بار بار کے اصرار پر انہوں نے مشروط قسم کی حامی بھر لی.میرا سوال یہ تھا کہ وہ اسباب و علل جو روشنی کے سفر کے لئے زیادہ سے زیادہ موزوں ہیں اگر بنیادی طور پر ان میں تبدیلی ہو جائے جو روشنی کی رفتار کو تیز تر کر سکیں تو کیا روشنی کی رفتار اس موجودہ حد سے آگے نہ بڑھے گی جو اس وقت.ان کی طرف سے جواب اگر چہ ہچکچاہٹ والا تھا اس کے باوجود انہوں نے اثبات میں سر کو جنبش دی.د ہے؟ میں نے اپنی پیاس بجھانے کیلئے اور بھی بہت سے سوالات کئے جن میں میٹ ریڈی ایشن کی نا قابل فہم نوعیت سے متعلق بھی ایک سوال تھا.یہ بھی روشنی کی رفتار پر سفر کر سکتی ہے اگر چہ یہ اپنے ہی طول موج پر سفر کرتی ہے اور رفته رفته حرکت کرتی ہے گویا اس کو کمرے کے ایک کونے سے دوسرے تک جانے کیلئے مدت دراز درکار ہوگی جہاں اس کو

Page 83

(۷۴) سلگایا گیا جبکہ روشنی جو اسی منبع سے نکلتی ہے اس کو کمرے کے اندر سفر کرنے میں عملاً کوئی وقت نہیں لگتا ہے.اس قسم کے بے شمار متجسسانہ سوالات کی بھر مار تھی اور ان کی طرف سے دیانت دارانہ طور پر کوشش تھی کہ وہ آخر تک جواب دیتے رہیں یہاں بھی انہوں نے بلا خر خموش لہجے میں اقرار کیا کہ ہیٹ ریڈی ایشن کی نوعیت کے بارہ میں ایک حصہ ضرور ایسا ہے جس کو بہت سے جدید سائینسدان ابھی تک سمجھنے سے قاصر ہیں.یہ اس بے تکلف اور دلکش ملاقات کی باتیں ہیں جس سے میں عبد السلام کی صحیح عظمت کو جان سکا.یہ ان کے فہم و ادراک کا معراج ہی تھا جس میں ان کی عظمت پوشیدہ ہے.یہ تھی وہ ملاقات جس کے بعد پھر ہم کبھی جدا نہ ہو سکے.میرا ان سے ہمیشہ گفتگو اور استفسار کا تعلق رہا.وہ اپنے پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل جو انہیں در پیش ہوتے ان کو میرے ساتھ زیر بحث لاتے.اور میں نے بھی ایسی ملاقاتوں کو ہمیشہ جاندار بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا ، یہ ملاقاتیں میرے لئے ہمیشہ از دیاد علم کا باعث ہوتی تھیں.ڈاکٹر عبد السلام کے انسان دوستی کے رجحان کی کوئی حد نہ تھی.اس کی کوئی خارجی حد نہ تھی اور نہ ہی اندرونی حد.کوئی مذہبی.سیاسی.غیر ملکی یا قومی حد ان کے شفاف انسانی دل پر واقع نہیں تھی.عبد السلام کے لئے انسان دوستی کا نعرہ تحسین ٹریسٹ میں موجود تھیور ٹیکل فزکس کا عالمی ادارہ ہمیشہ بلند کرتا چلا آیا ہے اور ہمیشہ کرتا چلا جائے گا.اللہ تعالیٰ ڈاکٹر سلام کی روح کو آخرت میں سکون بخشے اور ان نیک مقاصد کو مرہون تکمیل کرے جو وہ اس مادی زندگی کی بے انتہا وسعت میں اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہیں.آمین (انگلش سے ترجمہ بشیر الدین سامی لندن....نظر ثانی ابو ذیشان )

Page 84

(۷۵) انٹرویو از لوئیس دولپرٹ حکمت کے موتی Science Sublime دنیائے اسلام کے سب سے پھلے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدا لسلام كا يه انٹرویو لوئیس و ول پرت Lewis Wolpert نے ان کے گھر واقع ساؤته لنڈن ( پٹنی) میں لیا تھا جب گھر کے اندر بچوں کا شور و غل اور گھر کے کام کاج پو ہے زور شور سے ھو رھے تھے.انٹرویو لینے والے نے اس بات کا اظہار کیا کہ اس ماحول میں یہ چوٹی کا سا ئیسندان کیسے اپنی زمین شکن تهيو ريزكو وضع کرتا ھے.شاید اسکے خیال کی پرواز اس قدر تیز اور گھری اور اتنی اونچائی پر هوتی هے که اسے ارد گرد کے ماحول کا احساس ھی نھیں رھتا ھے.انٹرویو کے آغاز میں ڈاکٹر سلام نے فرمایا..میری تربیت میرے بہی خواہوں اور خاص طور پر میرے والد صاحب نے کی.جو میرے انڈین سول سروس میں جانے کے خواہش مند تھے مگر میرا پار ٹیکل فزے سسٹ بن جانا محض حادثاتی ہے.یہ حادثہ دوسری جنگ عظیم کا ہے اگر جنگ عظیم وقوع پذیر نہ ہوتی تو انڈین سول سروس کے امتحان ضرور ان مہینوں میں منعقد ہوتے جن دنوں میں جنگ عظیم جاری و ساری تھی.اور مجھے فیصلہ کرنا پڑتا کہ میرا مستقبل میں کیریر کیا ہو گا؟ اور اب تک شاید میں سول سرونٹ بن چکا ہوتا.سوال...تو کیا اس وقت آپ کے ذہن میں سائینس میں اپنا مستقبل بنانے کا کوئی وہم و گمان بھی نہ تھا ؟ جواب..نہیں، فی الحقیقت یہ بات حادثاتی ہے جس کا اجمال یہ ہے کہ جنگ عظیم دوم کی

Page 85

(۷۶) وجہ سے تمام آئی سی ایس کے امتحانات بند تھے.جنگ کے معاً بعد بھی سول سروس کے امتحان منعقد نہ ہو رہے تھے میں یونیورسٹی آف پنجاب سے ایم اے ریاضی مکمل کر چکا تھا اور مجھے کیمبرج میں اعلیٰ تعلیم کے لئے وظیفہ ملا تھا.سوال...گویا آپ کا ذہن اور فطری رجحان سائینس کی طرف چھوٹی عمر سے تھا ؟ جواب..ہاں پہنی یا سائینسی رجحان تو ٹھیک ہے مگر میں ریاضی کی تعلیم اس لئے نہیں حاصل کر رہا تھا کہ ریسرچ کروں گا.بلکہ اس کا مقصد سول سروس امتحان میں اعلیٰ نمبر حاصل کرنا تھا.گویا یہ نمبر حاصل کر نیکی ایک ترکیب تھی.سوال...تو گویا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے دل میں سائینس کیلئے شدید خواہش چھپی ہوئی ضرور تھی؟ جواب...میں سائینس کے مضامین پر دسترس ضرور رکھتا تھا.کچھ ہی روز پہلے میں سوچ رہا تھا کہ میں نے سب سے پہلا ریسرچ پیپر سولہ سال کی عمر میں تصنیف کیا تھا جو ریاضی کے ایک جرنل میں شائع ہوا تھا.یعنی ریسرچ کے لئے فطری رجحان ضرور تھا مگر اس کیلئے کوئی موٹی ویشن نہیں تھی.البتہ کیمبرج میں دو سال کی ریسرچ کے بعد میں اس اکھاڑے میں پوری دلجمعی سے اتر چکا تھا.سوال...آپ کا کیمبرج یونیورسٹی جانا کیسے ممکن ہوا؟ میرا کیمبرج جانا ایک سکالر شپ جس کا نام سال پیزنٹ ویلفیئر فنڈ smal جواب....میرا peasant welfare fund تھا.اسکے ذریعہ ممکن ہوا یہ فنڈ اس وقت کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے قائم کیا تھا.سوال...کیا آپ کے خاندان کا پس منظر زراعت میں ہے؟ جواب...جی ہاں اگر چہ میرے والد سول سرونٹ تھے مگر ان کے پاس زرعی زمین کا قطعہ تھا جس کی بناء پر وہ پیزنٹ فنڈ کے معیار پر پورے اترے اس لئے مجھے ان وظائف میں سے ایک وظیفہ دیا گیا اور مزے کی بات یہ ہے کہ صرف پانچ وظائف مقرر کئے گئے مگر میرے علاوہ چار طلباء کو یو نیورسٹی میں اس سال داخلہ نہ مل سکا.پھر بر صغیر کی تقسیم عمل میں آگئی اور یہ وظائف خود بخود ختم ہو گئے

Page 86

(<6) تو یوں اس فنڈ کے قیام کا مقصد اور ان وظائف کا دیا جانا شاید صرف اور صرف میرے لئے مقدر میں لکھا ہوا تھا.سوال...آپ کے خیال میں کیا اس میں قسمت کا بھی کوئی دخل ہے کیونکہ ان واقعات میں ہر واقعہ محض اتفاقی معلوم ہوتا ہے؟ جواب...ہاں یقیناً.میرے والد محترم جو بہت مذہبی اور نیک انسان تھے کہا کرتے تھے کہ میری کامیابیاں ان کی دعاؤں کا ثمرہ ہیں.وہ چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا علم کے کسی برانچ میں ضیاء پاشیاں کرے.وہ مجھے سول سرونٹ بنانا چاہتے تھے مگر جب میں نے فیصلہ کیا کہ میں ریسرچ میں زندگی گزاروں گا تو انہوں نے اس کو مناسب جانا اور میری ہر طرح دلجوئی کی.مگر واقعات کا پورا سلسلہ یعنی میرا سکالرشپ حاصل کرنا صحیح وقت پر میرا کیمبرج پہنچ جانا ، پھر میری - sequence of events سائینس میں دلچسپی کا اظہار ، ان کے خیال میں اس کے پیچھے کوئی خاص قوت کا رفر ماتھی.سوال...جب آپ کیمبرج پہنچے تو کیا آپ فورا تھیور ٹیکل فزکس میں ہمہ تن مشغول ہو گئے؟ جواب...نہیں ہر گز نہیں.میں نے ریسرچ کا کام ریاضی میں شروع کیا، کیونکہ میری بیک گراؤنڈ اس مضمون میں تھی مگر رفتہ رفتہ ریاضی میں دو سال صرف کرنے کے بعد میں نے اپنی فیلڈ تھیورٹیکل فزکس چن لی.اس وقت مشہور زمانہ سائینس دان پال ڈائیراک Paul Dirac وہاں لیکچرار تھے اس لئے میں ان کے لیکچروں میں شامل ہو گیا پھر میرے سکالرشپ کا تیسر ا سال بھی تھا میرے پاس اب یہ چاکس تھا کہ آیا میں ریاضی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کروں یعنی Part Il of Math.Tripos : Part II of Math, Tripos یا پھر فزکس ٹرائی پوز کروں؟ میرے اساتذہ میں سے ایک استاد شہرہ آفاق اسٹرا نومر فریڈ ہوئیل Fred Hoyle تھے میں ان کے پاس مشورہ کی غرض سے گیا کہ اب کیا کروں؟ انہوں نے فرمایا کہ اگر تم فرسٹ بننا چاہتے ہو چاہے تھیو رٹیکل فرسٹ ہی، تو تمہیں کیو نڈش لیبارٹری cavendish میں تجرباتی کورس ضرور کرنا چاہئے اس کے بغیر تم تجرباتی طبیعات دان کو کبھی بھی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہ کر سکو گے.

Page 87

(۷۸) یہ مشورہ نہایت موزوں تھا.مگر اتنا عرصہ تجربات نہ کرنے کی وجہ سے یہ سال میرے لئے تجرباتی کام کرنے کے لئے بہت جان جوکھوں والا تھا فی الحقیقت یہ میرے طالب علمی کے زمانے کا سب سے مشکل ترین سال تھا.سوال...آپ نے کس چیز کو بہت مشکل پایا ؟ جواب...تجربات کرنے کیلئے رجحان ( کا مفقود ہونا ) یہ بات بہت دلچسپ ہے کیونڈش لیبا رٹری میں یہ روایت تھی کہ ( تجربات کرنے کیلئے اعلیٰ قسم کا ساز وسامان نہیں دیا جا تا تھا صرف رہی اور sealing wax دی جاتی تھی اور طالب علم کو بد دل کرنے کیلئے ہر طرح کی رکاوٹ پیدا کی جاتی اور آپ کو اس رکاوٹ کو دور کرنا ہوتا تھا.اس ضمن میں جو سب سے پہلا تجر بہ جو مجھے کرنے کیلئے دیا گیا وہ موم Measure the difference in wave length of 2 sodium D lines, the most promient lines in the sodium spectrum.میں نے سوچا کہ اگر میں نے گراف پر ایک سیدھی لکیر کھینچی.تو اس لکیر کو کاٹنے والی لکیر یعنی intercept سے مجھے وہ مطلوبہ کو انٹی مل جائیگی جس کو میں نے ماپنا تھا.جیسا کہ آپ جانتے ہیں ایک سیدھی لکیر ریاضی میں دو نقاط سے بیان کی جاتی ہے اس لئے اگر آپ ایک اور ریڈنگ لیں تو ریاضی کے اصولوں کے مطابق یہ کافی ہے کیونکہ اب اس لائن پر تین نقاط ہوں گے دوسیدھی لکیروں کو بیان کر نے باڈی فائن کرنے اور تیسرا ، اس چیز کو confirm کرنے کے لئے.مجھے اس ایکس پیر منٹ کی تیاری میں تین روز لگ گئے.اس کے بعد میں نے ریڈنگ لیں اس Sir D.زمانہ میں تجر بہ میں ملنے والے نمبر فائینل میں بھی شامل کئے جاتے تھے سر ڈینیس ولکن سن Wilkinson جو اس وقت Sussex یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے وہ میرے تجربہ کو چیک کرنے والوں میں سے ایک سپر وائزر تھے لہذا میں اپنا ایکس پیری مینٹ ان کے پاس لے گیا انہوں نے میری سٹریٹ لائن کو بغور دیکھا اور پوچھا : تمہاری بیک گراؤنڈ کیا ہے؟

Page 88

ریاضی..میں نے جواباً عرض کیا (69) انہوں نے کہا ہاں، میرا بھی یہی اندازہ تھا کیا تمہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ تمہیں صرف تین ریڈنگ لینے کی بجائے ایک ہزار ریڈنگ لینی چاہئے تھیں.اور پھر ان کے درمیان میں سے سیدھی لائن گزارتے.میں خموش رہا اور دل میں کہا کہ میں واپس تجربہ گاہ میں ہرگز نہیں جاؤنگا.کہ پھر دوبارہ وہاں جا کر سر دردی میں بھر پور تین دن گزاروں.میں اس وقت تک اپنے ایکس پیری میٹ کے ساز و سامان کے اجزاء کو الگ الگ کر چکا تھا اور میں واپس تجربہ گاہ نہیں جانا چاہتا تھا اس کے بعد میں نے پروفیسرول کن سن کو بقیہ سال اپنا مونہہ نہ دکھایا.مجھے ۱۹۴۹ء کا وہ دن ابھی تک ہے جب امتحانات کے ریزلٹ آئے تو میں کیونڈش میں دیوار پر لگی فہرست پر اپنا نام تلاش کرنے میں مگن تھا تو پیچھے سے مسٹر ول کن سن اچانک نمودار ہوئے اور فرمایا تمھا ہے کتنے نمبر آئے اور کیا کلاس ملی ھے ؟ جناب مجھے فرسٹ کلاس ملی ہے.میں نے شرمندگی سے جواب دیا وہ اپنے پاؤں پر کھڑے کھڑے تین سو ساٹھ ڈگری گھوم گئے اور مجھ سے مخاطب ہوئے ، اس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان بعض دفعہ دوسروں کے بارہ میں کس قدر غلط اندازے لگا لیتا ہے.تو ہم بات فریڈ ہوئیل سے مشورہ کی بات کر رہے تھے ان کا مشورہ نہایت مناسب اور موزوں تھا.سوال...پارٹیکل فزکس میں تھیوری کے بعض اجزاء کو ملانے سے آپ کو نوبیل پرائز ملا ہے آپ کو اس کا آئیڈیا کیسے آیا ؟ جواب...یہ آیڈ یا بہت ہی دلکش ہے.پارٹیکل فزکس بلکہ فزکس کی تمام تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ فزکس میں موجود کن سیپٹس Concepts کو کم سے کم تعداد میں سمیٹا جائے اور جب انسان ان آئیڈیاز کو کم سے کم تعداد میں بیان کرنے کے کام میں مصروف ہوتا ہے تو یہ کام بلکل نیچرل معلوم ہوتا ہے.فی الحقیقت اس بات پر مجھے اچنبھا ہوتا ہے کہ میرے بعض احباب جن میں سے بعض ایک نو بیل

Page 89

(A.) انعام یافتہ سائینس دان بھی شامل ہیں میرے آئیڈیاز سے اتفاق نہیں کرتے تھے وہ کائینات میں کارفرما دو بلکل مختلف قوتوں کے فی نامینا phenomenon کو متحد کرنے کے خیال سے اس قدر گھبراتے تھے کہ وہ ایسا کرنے والے یا سوچنے والے کو احمق انسان گردانتے تھے.ہوئے؟ سوال..کیا آپ کے خیال میں آپ کے مذہبی عقائد ان قوتوں کو متحد کرنے میں ممد ثابت جواب...شاید ایسا ہی ہو کیونکہ میرے ذہن کے پیچھے والے خانہ میں یہ خیال ضرور موجود تھا، مگر میں جان بوجھ کر خوب سمجھتے ہوئے ایسا نہیں کہوں گا کیونکہ مذہبی تعلیمات میں بیان کردہ اتحاد یعنی unity انسان کی سوچ پر ضرور اثر انداز ہوتی ہے.نہیں ہے؟ سوال...اسٹیون وائن برگ بھی آزادانہ طور پر اسی نتیجہ پر پہنچا تھا.کیا یہ بات اچنبھا والی جواب..ہر گز نہیں ، ہمارے موضوع میں بیان ہونے والے آئیڈیاز کا من ہیں مگر ان آئیڈیاز کا diffusion یعنی ان کا انتشار حیران کن طریق سے بہت وسیع ہے ہر شخص (سائینسدان ) یہ بات جانتا ہے کہ اس کی فیلڈ میں کیا ریسرچ ہو رہی ہے شاید اس کی وجہ یہ سٹم ہے جو ہم نے ڈی ویلوپ کیا ہے یعنی سمر سکولز اور سمپوزیم.اور پری پرنٹ سسٹم.فی الحقیقت یہ سٹم بہت مؤثر ہے اور تھیورٹیکل فزکس میں یہ کسٹم سب سے زیادہ آرگنا ئز ہو چکا ہے جب میں اور سٹیو Steve اس تھیوری پر ریسرچ کر رہے تھے ہم ان آئیڈیاز کو مد نظر رکھ کر ہی ریسرچ کا کام کر رہے تھے جو اگر چہ شائع ہو چکے تھے مگر ان کو زیادہ وقعت نہیں دی جاتی تھی اس لحاظ سے یہ فیلڈ تمام کی تمام ہمارے حلقہ اثر میں تھی یہ نسبت آج کے دور کے سوال نمبر ۱۲...کیا سائینسدانوں نے آپ کی نئی تھیوری کو فوراً قبول کر لیا تھا ؟ جواب..نہیں ہر گز نہیں، تھیوری کی تشریح منظر عام پر ۱۹۶۷ء میں آئی تھی مگر اس کو بلکل نظر انداز کر دیا گیا بلکہ اس سے پہلے ہی یہ نظر انداز ہو چکی تھی یعنی وہ پیپر جو میں نے ۱۹۶۴ء میں لکھا تھا اور جو میں نے ایک سائنسی جرنل کے ایڈیٹر کو بجھوایا تھا.جس نے جو ابا مجھے لکھا تھا جس چیز کی تم پیش گوئی کر

Page 90

(AI) رہے ہو اس کو ٹیسٹ کیا جا چکا ہے اور یہ کہیں دریافت نہیں ہوئی لہذا تم اس پیپر میں اس بات کا اضافہ کر دو کہ یہ تحقیق تمام کی تمام Speculative قیاسی ہے.اور بادل نخواستہ مجھے ایسا پیپر میں لکھنا پڑا تا کہ میرا پیپر کم از کم شائع تو ہو جائے ، اس وقت ہونے والے تجربات غلط تھے جن کی طرف وہ ایڈیٹر اشارہ کر رہا تھا لیکن ہمیں اس کی اطلاع بعد میں ملی.سوال...تو پھر تھیوری قبول عام کیسے ہوئی ؟ جواب...جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ تھیوری کی تشریح ۱۹۶۷ء میں ہوئی تھی اس ضمن میں ایک ڈچ نوجوان ریاضی دان THoof کا ذکر بہت ضروری ہے جس نے یہ ثابت کیا کہ میری تھیوری ریاضی کے تمام اصولوں پر پر کھے جانے کے بعد قابل تسلیم ثابت ہوتی ہے یہ اس نو جوان کا پہلا تحقیقی کام تھا.جو اس نے ۲۵ سال کی عمر میں کیا اس لئے اس آئیڈیا کو تھیوری ٹیشن کے نزدیک وقعت حاصل ہو گئی.یہ کام ۱۹۷۱ء میں ہوا پھر ۱۹۷۳ء میں تجربہ کر نیوالے سائینس دانوں نے تجربات دوبارہ کئے جو جنیوا میں سرن CERN کے اندر واقع ایکسل رے ٹر میں کئے گئے تھے.ان سے پتہ چلا کہ ہماری تھیوری فی الواقع صحیح خطوط پر ترتیب دی گئی تھی پھر امریکہ میں بھی تجربات کئے گئے جنہوں نے جنیوا کے تجربات کو منفی قرار دیا.یوں کچھ سالوں تک امریکہ اور جنیوا کے تجربات میں یہ عمل دخل جاری رہا.سوال...یہ بات دلچسپی کی حامل ہے کہ وہ تجربات غلط ثابت ہوئے فزکس کی فیلڈ میں ایک آؤٹ سائیڈر ہو نیکی بناء پر ایک شخص یہ سوچتا ہے کہ فزکس میں ایکس پیری مینٹل ڈیٹا تو کم از کم قابل اعتماد ہو میں حیران ہوں کہ ( ٹھوس) حقائق اکثر یوں غلط ثابت ہوتے ہیں جوار دیکھیں بات یہ ہے آئیے مثال کے طور پر ایک تجربہ کولیں جس کا تعلق یونی فی کیشن کے اگلے مرحلہ سے ہے جیسا کہ میں نے عرض کیا ہم نے الیکٹرومیگ نیٹک فورس کو ویک نیوکلئر فورس سے متحد کر دیا ہے.مگر ایک اور نیوکلیئر فورس بھی جس کا نام سٹرانگ نیوکلئیر فورس ہے جس کا اتحاد بھی و یک فورس سے نہیں ہوا ہے ہمیں امید ہے کہ ایسا ضرور ہو گا اور ہم میں سے کئی ایک یہ باور کرنا چاہیں گے کہ ایسا اس وقت ہو رہا ہے اس کیلئے فیصلہ کن تجربہ decay of proton ہے پروٹان اس

Page 91

(AP) تھیوری کے نمودار ہونے سے قبل بنیادی طور پر stable particle سمجھا جاتا تھا مگر یہ تھیوری کہتی ہے کہ ایسا ممکن نہیں بلکہ 1032 سالوں میں پروٹان ضرور فنا ہو جائیگا یہ بہت لمبا عرصہ ہے.جبکہ کا 32 ئینات کی عمر 0 10 سال مانی جاتی، تو پھر خدایا 8 10 سالوں میں پروٹان زوال پذیر ہو جائیگا.اس تھیوری کو تجرباتی طور پر دیکھنے اور پر کھنے کے لئے آپ کو 32 10 پروٹان کی ضرورت ہے جن کا مشاہدہ ایک سال کیلئے کیا جائے، قبل اس کے کہ ان میں سے ایک زوال پذیر ہو جائے.اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ایک انڈین ایکس پیری منٹ کے مطابق جو سات ہزار فٹ گہرائی میں واقع Kolar Gold field mine تجربہ گاہ میں تین ایسے واقعات مشاہدہ میں آئے ہیں جن میں پروٹان کو زوال پذیر ہوتے دیکھا گیا ہے.پھر جاپان میں ایک تجربہ کیا گیا ہے، جس میں ایک بار ایسا ہوتا دیکھا گیا پھر امریکہ میں ایسے ہی اہم تجربات کے گئے جن میں ایسا ہو تے بلکل نہیں دیکھا گیا.تو پھر آپ کسی بات اور تجربہ کو قابل وثوق مانتے ہیں؟ تجر بات کرنا جان جوکھوں والا کام ہے مجھے خود علم نہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا مگر یہ ایک فیصلہ کن تجربہ ہے تو اس لحاظ سے یہ بات عین ممکن ہے کہ بعض تجر بات شاید غلط تھے یا پھر ان کی تعبیر غلط تھی یا پھر ہمیں اور مزید اشارات کے ملنے کے لئے انتظار کرنا ہوگا.سوال...آپ ایک تھیوری ٹیشن ہیں آپ یہاں پر سکون بیٹھے ہیں.اور ادھر ماہر تجربہ کار سائینس دان آپ کی تھیوریز کو ٹیسٹ کر رہے ہیں ان دیو قامت مشینوں کے ذریعہ تجربات کرنا، ان لوگوں کے لئے ضرور مشکل ہو گا جب وہ کوئی تحقیقی کام شائع کرتے ہیں تو اس پر ۵۰ یا ۰۰ مصریفین کے نام لکھے ہوتے ہیں کیا ان لوگوں کو ایسا کرنا برا لگتا ہے؟ جواب...میرے خیال میں بہت سے تجربہ دان اس صورت حال سے مطمئن نہیں ، ان میں سے بہت سارے پرانے طریق کار سے زیادہ اتفاق کریں گے جب ایک دو یا تین اشخاص تجر بہ کرنے میں ایک دوسرے سے معاونت کرتے اور اس سے محظوظ ہوتے تھے مگر اب صورت حال بہت مختلف اور آپ بے یار و مددگار ہیں آپ کو تجربہ کرنے کے لئے بہت سارے سائینس دانوں کی ضرورت ہوتی

Page 92

(۸۳) ہے کیونکہ یہ بہت گراں اور قابل قدر سرمایہ مانگتے ہیں.اور ان کے لئے بہت سارے سائینسی آلات کی ضرورت ہوتی ہے مثلا سرن CERN میں ہونے والے دو تجربات کرنے کے لئے ان پر ۱۵۰ تجربات کئے گئے تھے جس نے اس تھیوری کو سچا ثابت کیا.پھر سائینسی تجربات نا قابل یقین سائز کے ہوتے ہیں جن مشینوں سے (ایٹم یا دوسرے ذرات) کو تلاش کیا جاتا ہے وہ تین منزلہ عمارت کی اونچائی کے برابر ہوتے ہیں.سوال...کیا آپ کی فیلڈ میں بہت مقابلہ بازی ہے؟ جواب...جی ہاں اس فیلڈ میں سرگرم اور فعال تھیوری ٹیشن کی تعداد قریب پانچ ہزار کے قریب ہے.اور اتنی ہی تعداد تجربات کرنے والے ماہرین کی ہے اور پھر نو جوان ہونا بھی اس میں شرط ہے جیسا کہ آپ جانتے ہی ہیں.سوال...ایسا (یعنی جوانی کی شرط) کیوں ہے؟ کیا آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ جوانی میں انسان بہتر ہوتا ہے؟ جواب...نہیں، ایسا نہیں ، در حقیقت انسان جوانی میں زیادہ بوجھ نہیں اٹھائے ہوتا ہے انسان ماضی میں زندہ نہیں رہتا ہے انسان اپنی ناکامیوں پر کف افسوس نہیں ملتا ہے انسان نئے نئے آئیڈیاز کو مختلف طریقوں سے آزمانے پر کچھ زیادہ آمادہ ہوتا ہے.اس کے برعکس زیادہ عمر کے سائینس دان زیادہ بوجھ اس لئے اٹھائے ہوتے ہیں کہ ان کے کندھوں پر انتظامی ذمہ داریاں ہوتی ہیں تا کہ تمام کام چلتا رہے.اور دیگر اس سے ملتی جلتی ذمہ داریاں.مگر اس سے زیادہ یہ ہے کہ انسان ماضی میں جن آئیڈیاز کو آزما چکا ہوتا اور ان میں نا کام ہو چکا ہوتا وہ خود کو ان سے آسانی سے آزاد نہیں کر سکتا ہے، کیونکہ انسان سوچتا کہ فلاں آئیڈیا تو ختم ہو چکا ہے جبکہ فی الحقیقت وہ خاص طریق کار اور approach ختم ہو چکی ہوتی ہے جو آپ نے اس خاص آئیڈیا کے لئے استعمال کیا ہوتا.میرے نزدیک جتنے زیادہ آپ نو عمر ہوں گے اتنا ہی بہتر ہے بشرطیکہ آپ یہ رسک لے سکتے ہوں.

Page 93

(۸۴) سوال...جب آپ نے یوٹی فیکیشن تھیوری پر ریسرچ شروع کی تو کیا آپ بھی نو عمر تھے؟ جواب...اس آئیڈیا کا دراصل آغاز ۱۹۵۷ء کے لگ بھگ ہوا جب میں اس وقت ۳۱ سال کا تھا ، جو کہ جوانی کا ہی زمانہ ہے مگر اس پر عمل درآمد میں کافی عرصہ بیت گیا.سوال..کیا آپ ہر روز علی اصبح اٹھ کر اس تھیوری پر ریسرچ اور غور و فکر کا کام کیا کرتے تھے؟ جواب...نہیں ہرگز نہیں، یہ تمام کام دھیرے دھیرے سے انجام پذیر ہوا انسان ان مخصوص سیٹ آف آئیڈیاز پر کام کرتا ہے پھر انہیں چھوڑ دیتا ہے.پھر کسی اور موضوع پر کام شروع کر دیتا ہے پھر انسان دوبارہ پہلے والے سیٹ آف آئیڈیاز پر واپس کام شروع کر دیتا ہے اور یوں ایسا ہوتا رہتا ہے اس دوران بعض مضامین شائع کرتا رہتا ہے اور رفتہ رفتہ ریسرچ آگے بڑھتی رہتی ہے.سوال نمبر ۲۰...مگر کیا کبھی ( ریسرچ کے دوران ) آپ غلط ڈگر پر تھے یعنی کوئی بڑی غلطی آپ نے کی؟ جواب...شاید یہ خود بینی یعنی Egotism کا معاملہ ہے مگر میں کوئی ایسے کام کا سوچ نہیں سکتا جس میں میں مکمل طور پر غلط ڈگر یا رو پر کام کر رہا تھا ، بہت سارے آئیڈیاز یقینا احمقانہ تھے جن کا نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا مگر ایسا ہم سب کے ساتھ ہوتا ہے نا وے فی صد آئیڈیاز کا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا آپ خود کو بہت خوش قسمت انسان جانتے ہیں کہ اتنے سارے آئیڈیاز میں سے صرف ایک بھی صحیح ثابت ہو جائے.سوال...کیا آپ کو اس بارہ میں کوئی وسوسہ یا اندیشہ نہ تھا ؟ جواب...ہر گز نہیں ہماری فیلڈ میں جب آپ کا میاب آئیڈیاز پر نگاہ ڈالتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ان کے بارہ میں inevitability موجود تھی اس کا پورا اظہار میں ایک لفظ سے کر سکتا ہوں یعنی سلیپ والکنگ.یہ مشہور سائینسدان اور مصنف ، آرتھر کونسلر Arthur Koestler کی کتاب کا نام بھی ہے جس میں کو پر ٹیکس کیپلر ، اور گیلی یو ، جیسے شہرہ آفاق سا ئینسدان موضوع سخن ہیں انسان چھوٹے چھوٹے قدم لے کر ترقی کی جانب رواں ہوتا ہے.سوال...گویا سلیپ واللنگ فزکس میں ریسرچ کرنے کا غیر متحرک passive طریق کار ہے؟

Page 94

(۸۵) جواب...اس قسم کی سلیپ واکنگ در اصل سود مند ثابت ہوتی ہے یونی فیکیشن آئیڈیاز کو جس چیز کی ضرورت تھی اس کو ہم گیج تھیوریز کا نام دیتے ہیں یہ گیج تھیوریز دراصل میکس ویل Maxwell نے ۱۸۷۹ء میں دریافت کیں تھیں.الیکٹرو میگنیٹک کے اتحاد کیلئے اس نے جو مساوات وضع کیں ان سے معلوم ہوتا ہے پھر ان کی تشریح ۱۹۲۹ء میں جرمن ریاضی دان هیر مین وائل Hermann Weyle نے کی ان کو جس صورت میں اب ہم استعمال کرتے ہیں یہ صورت ینگ اور ملز Yang & Mills اور میرے ایک شاگردشاء Shaw نے ۱۹۵۴ء میں دی تھی ان آئیڈیاز کا آغاز میکس ویل سے ہو انگران کو وسیع انداز میں اب موجودہ دور میں زیر استعمال لایا گیا ہے.پھر ہم نے (یعنی میں نے.وائن برگ اور گلا شو) نے سوچا کہ انہی گیج آئیڈیاز کی تو ہمیں اب ضرورت ہے یہ گویا اس سلسلہ میں ہماری کنٹری بیوشن تھی.آپ کو معلوم ہوگا نیوٹن سے جب پوچھا گیا کہ وہ اتنا عظیم انسان کیوں کر بن گیا تو اس نے جواب دیا.میں عظیم انسان نہ تھا مگر میں عظیم انسانوں کے کندھوں پر کھڑے ہو کر عظیم بن گیا.تو میرے نزدیک ہر نسل انسانی میں ایک سیٹ آف آئیڈیاز ہوتے ہیں جو عموماً ان میں اور پرانی نسل میں کا من ہوتے ہیں مگر لوگ ان کی دریافت کا سہرا اس شخص کے سر باندھ دیتے ہیں جس نے ان کا استعمال سب سے اچھا کیا ہوتا ہے اس نوع سے شاید فزکس ہمیشہ ہی سلیپ والکنگ کرتی رہی ہے.جب میں نے یہ کہا کہ ۱۸۷۹ ء میں میکس ویل کو ایک زبر دست آئیڈیا دماغ میں آیا تو در حقیقت اس نے یہ آئیڈیا یا سیٹ آف آئیڈیاز کو فیراڈے Faraday سے ورثہ میں لیا تھا میکس ویل نے فیراڈے کی مساوات کو کاغذ پر لکھ کر اس کا بغور مطالعہ کیا.تو اسے معلوم ہوا کہ وہ بے ربط inconsistent تھیں تو اس نے ایک اور ٹرم کا اس میں اضافہ کر دیا تو یوں اس لحاظ سے یہ چیز اٹل اور مبرم inevitable تھی گویا یہ بھی سلیپ واکنگ کی ایک لطیف صورت تھی.آئن سٹائن کے آئیڈیاز کو دیکھیں ہم ان کو انقلابی اور زمین مسکن تسلیم کرتے ہیں.یعنی وہ آئیڈیاز جن کا تعلق زمان و مکان میں جھکاؤ Curvature of space & time سے.سے ہے اور جو قوت ثقل کے

Page 95

(۸۲) قانون کی تشریح کرتے ہیں ان کو اگر آپ ٹریس بیک کریں تو ان کا آغاز جرمن ریاضی دان گاس Gauss سے ہوا جس نے خلاء میں جھکاؤ Curvature of space معلوم کرنے کے لئے ٹیسٹ کئے جو چیز اس نے نہ کی وہ یہ تھی کہ اس نے اس میں ٹائم کا اضافہ نہ کیا تو دیکھیں ان آئیڈیاز کے بارہ میں inevitability ہے.اگر چہ اس چیز میں میکس ویل کی فطری قابلیت کا بھی عمل دخل ہے کہ اس نے ایکسٹرا ٹرم کو دریافت کیا اور آئن سٹائن کے لئے بھی یہ ایک زبر دست خراج عقیدت ہے کہ اس نے تھری ڈائی مینشنل پھیس میں ٹائم کا اضافہ کر دیا اگر آپ یوں آئیڈیاز کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ان کا آغاز کئی نسلوں میں دور پاک ستان PAKISTAN بہت پہلے ہوا تھا.Rs.2 SCIENTISTS OF PAKISTAN DR.ABDUS SALAM تاریخ احتماء ۲۱ نومبر ۱۹۹۸ء سوال...کیا آپ کے نزدیک اگر یہ فطری قابلیت والے انسان دنیا میں نہ ہو تے تو ان آئیڈیاز کی دریافت ہر صورت میں ہونا مقدر ہی تھی ؟ جواب...جی ہاں میں آپ کی بات سے متفق ہوں.سوال...آپ کی بیک گراؤنڈ مذہبی ہے آپ کے فزکس کی تعلیم حاصل کرنے میں کیا مذہب سے اس کا کوئی تضاد یا ٹکراؤ تھا؟ جواب...نہیں ہر گز نہیں ایسا تضاد کیوں ہونا چاہئے تھا، حسن اتفاق سے اور میں نے اس بات کا اظہار اپنی تحریروں میں خوب کیا ہے کہ تین بڑے مذاہب میں سے اسلام صرف واحد مذہب ہے جو فطرت کے قوانین اور ان پر تفکر پر بہت زور دیتا ہے قر آن پاک کی آیات کا آٹھواں حصہ مومنوں کو فطرت کے مطالعہ کی نصیحت کرتا ہے تا وہ خدا

Page 96

(۸۷) کی ہستی کے نشانات کو فطرت کے مظاہر فینا (فينا منا) میں تلاش کریں تو یوں اسلام اور سائینس میں کوئی تضاد نہیں ہے.سوال...آپ کو فزکس کے مطالعہ اور اس کے مسائل پر غور و فکر سے کس قسم کی مسرت اور دینی سکون حاصل ہوتا ہے؟ جواب..اس کا جواب میں یوں دوں گا جب آپ سونے کی خاطر بستر پر جاتے ہیں آپ تھکے ماندے ہوتے ہیں ، سارا دن انتظامی امور کی انجام دہی کے بعد ، یا کسی دوسرے کام کی وجہ.آپ تھکے ہوتے ہیں، تو اس وقت کس خیال سے آپ کو سب سے زیادہ تفریح حاصل ہوتی ہے.مجھے معلوم نہیں، آپ کو کس خیال سے سکھ.چین اور دینی فرحت حاصل ہوتا ہے مگر مجھے تو جناب فزکس کے پیچیدہ مسائل پر غور و فکر کرنے سے بے انتہا لطف حاصل ہوتا ہے، اور میں ری لیکس محسوس کرتا ہوں.سوال...یعنی فزکس کے پیچیدہ مسائل پر غور و فکر کرنا آپ کے نزدیک کوئی خاص مسئلہ یا بو جھل کام نہیں ہے؟ جواب...میرے نزدیک تو یہ چیز اس کے برعکس لطف اندوز ہے میں اس بیان کو اگر چہ یوں کوالی فائی کروں گا جب آپ کسی مسئلہ پر ریسرچ کر رہے ہوتے ہیں اگر چہ یہ کام بہت مشکل ہوتا ہے اور آپکا جی چاہتا ہے کہ sat your heart out آپ سوچتے ہیں کہ اس آئیڈیا کو کامیاب ہونا چاہیئے مگر وہ کامیاب نہیں ہوتا ہے تو پھر یہ کام رفتہ رفتہ گھبراہٹ کا باعث بن جاتا ہے در آں حالیکہ آپ اس مسئلہ پر متواتر غور کر رہے ہوتے ہیں تو اس لحاظ سے یہ لطف اور مسرت دینی والی چیز ہے.سوال...یہ لطف کس قسم کا ہے؟ کیا یہ لطف اس بات میں مضمر ہے کہ آپ نے اس روز کیا امور سر انجام دئے یا یہ کہ فزکس کی بیوٹی پر غور کرنا ہی لطف اندوزی کا باعث ہے؟ جواب...بات دراصل یہ ہے کہ جب غور و فکر کرنے کے بعد جب آپ کوئی چیز دریافت کر تے ہیں تو یہ بذات خود نادر اور نایاب چیز ہے.سوال...گویا کامیابی سے ہی آپ کو لطف میسر ہوتا ہے؟

Page 97

(۸۸) جواب...یہ صرف کامیابی ہی نہیں ، جب آپ ری لیکس ہو رہے ہوتے ہیں تو اس وقت آپ ماضی کی کامیابیوں پر ہی غور کر رہے ہوتے ہیں فی الحقیقت کوئی بھی تحقیقی مضمون جب آپ تحریر کر رہے ہوتے ہیں تو وہ مخصوص مسرت صرف چند روز کیلئے ہوتی ہے.یا زیادہ سے زیادہ اس مضمون کو لکھنے سے آپ کو ایک ہفتہ تک مسرت ہو گی اور آپ خوشی سے پھول کر سماتے نہیں ہوں گے ، کہ اس سے برآمد ہو نیوالا نتیجہ کس قدر زبر دست اور انوکھا تھا.مگر رفتہ رفتہ یہ چیز آپ کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے شاید یہ آپ کے خوشی دینے والے خلیات کا حصہ بن جاتی ہے یہ خلیات جہاں کہیں بھی آپ کے اندر موجود ہیں یہ آپ کو مزید سے مزید تحقیق کرنے پر آمادہ کرتے ہیں.سوال.کیا آپ پارٹیکل فزکس کی مافوق الفطرت ہیئت سے ورطہ حیرت میں پڑ جاتے ہیں؟ جواب...یقیناً یہ بات بڑے اچھہ کی ہے ، بلکہ نا قابل یقین ہے کہ انسان بعض دفعہ جس یقینا یہ ہے، نا چیز یا پروجیکٹ پر کام کرتا ہے وہ فی الحقیقت سچا یا عین صحیح ثابت ہو جاتا ہے؟ سوال...کیا آپ اس بات سے متاثر ہیں کس طرح لوگ نتائج اخذ کر لیتے ہیں یا اس بات سے متاثر ہیں کہ فطرت کی اصل ماہیت اور حقیقت کیا ہے؟ جواب...دونوں سے متاثر ہوں بہ حیثیت مظاہر فطرت کے مثلاً دماغ کی سائینس کو لے لیجئے یہ بہت حیران کن ہے تو اس صورت میں فزکس منفرد نہیں ہے مگر جب میں اس چیز پر اس صورت میں غور کرتا ہوں کہ فزکس میں کتنی اعلیٰ و ارفع تھیوریز ہیں تو اس لحاظ سے فزکس منفرد ہے سوال...کیا آپ کو میوزک سننا پسند ہے؟ میرا مطلب ہے کہ کیا آپکو موسیقی سننے سے ایسی ہی مسرت حاصل ہوتی ہے جیسے فزکس کے مسائل پر غور و فکر کرنے سے؟ جواب...میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ مجھے (میوزک) سے ویسی ہی sublimity یعنی رفعت اور عروج حاصل ہوتا ہے.در حقیقت میں یہ عروج قرآن پاک کی خود تلاوت کر کے یا سن کر حاصل کرتا ہوں.کیونکہ جب آپ قرآن پاک کو نصف گھنٹہ تک سنتے ہیں تو آپ کو (بلکل ایسا ہی ) سکون اور عروج حاصل ہوتا ہے اور آپ پر سرود کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے.

Page 98

(۸۹) ہیں؟ سوال...کیا آپ فزکس کو باعث پرواز یعنی (خیال کی) بلندی پر لے جانیوالا تسلیم کرتے جواب..جی ہاں لازماً، اس بارہ میں کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.میرا مطلب ہے کہ آئن سٹائن کی تھیوری کو لے لیں اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود آپ بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں : what a sublime, what a marvellous idea it is.ترجمہ میم ، زے، واؤ، دسمبر ۲۰۰۰ ء..A Passion for Science, by Lewis Wolpert, Oxford Uni.Press, UK ہید ڈاکٹر عبد السلام میوزیم حمید گلین ڈیل ( کیلی فورنیا, دسمبر ۲۰۰۲ء).کیلی فورنیا کے ایک اشاعتی ادارے ایلومن سٹی نے اعلان کیا ہے کہ اسلامی سائینس کی تاریخ کو ترویج اور اجاگر کرنے کیلئے ایک مہم کا آغاز کیا جا رہا ہے.اس ضمن میں ایک میوزیم ساؤتھرن کیلی فورنیا میں تین ملین ڈالر سے ۲۰۰۵ء میں تعمیر کیا جائیگا.جس کا نام پہلے مسلمان نوبل انعام یافتہ کے نام پر عبد السلام میوزیم ہو گا.میوزیم کیلئے مطلوبہ رقم اکھٹی کرنے کیلئے مشہور زمانہ مصور RO KIM نے ڈاکٹر عبد السلام کی ایک ROKIM دیدہ زیب پورٹریٹ تیار کی ہے جو انٹرنیٹ کے ذریعہ میں امریکن ڈالر میں خریدی جاسکتی ہے.یادر ہے کہ یہ آرٹسٹ اس سے پہلے کوریا کے صدر مملکت اور امریکہ کے سابق صدر بل کلنٹن کی آئیل پینٹنگ بھی بنا چکے ہیں.مزید معلومات کیلئے یہ ایڈریس نوٹ فرما ئیں www.illuminacity.com

Page 99

(۹۰) ابو ذیشان ڈاکٹر عبد السلام میری یادوں کے آئینہ میں ہے زندگی میں کئی ایک سیاست دانوں جیسے بھاشانی.بھٹو.شاعروں اور ادیبوں فیض ، جوش، ابن انشاء، رئیس امروہوی نیز وزیر اعظموں ٹروڈو، مرونی، جان کیرتین کو سنے اور دیکھنے کا موقعہ نصیب ہو امگر جس مرد کامل نے میرے ذہن اور قلب پر انمٹ نقش چھوڑا ، ان میں ڈاکٹر عبدالسلام ( نور الله مر قدہ) کی قد آور شخصیت میری حسین یادوں کی لوح پر سب سے نمایاں ہے.ان کی ذات والا صفات سے میرا تعارف پہلی بار احمد یہ ہال کراچی میں ۱۹۶۷ء کے لگ بھگ ہوا، جب آپ وہاں ایک بار نماز جمعہ ادا کرنے آئے تھے.میں نے دیکھا کہ نماز کے بعد بہت سے اخباری فوٹوگرافر اور نمائندے آپ کی تصاویر لے رہے تھے.میرے استفسار پر میرے دوست نے مجھے بتلایا کہ آپ بہت بڑے سائینس دان ہیں میں نے آگے بڑھ کر مصافحہ کیا مگر اس کے سوا کچھ کہہ نہ سکا کیونکہ لوگوں کا ایک جم غفیر آپ سے ملنے کو مشتاق تھا.پھر ایسا ہوا کہ اس کے بعد امیر صاحب نماز جمعہ میں کئی سال تک دعا کا اعلان کرتے رہے کہ دوست دعا فرمائیں اللہ تعالیٰ ڈاکٹر عبد السلام صاحب کو نوبل انعام عطا فرمائے.اور یوں ہم دانستہ طور پر کئی ایک سال تک اس دعا میں شامل ہوتے رہے.پھر ایک بار ایسا ہوا کہ آپ نے ریڈیو پاکستان پر تقریر کی تو ہم نے اسے بصد اشتیاق سنا.اور جب کبھی کراچی کی بندر روڈ پر ریڈیو پاکستان کے سٹوڈیو کے پاس سے گزر ہوتا تو معصومیت سے دل میں کہہ لیتے کہ ڈاکٹر صاحب نے یہاں تقریر کی تھی.جب ۱۹۷۹ء میں آپ کو نوبل انعام سے نوازا گیا.تو میں نے ٹورنٹو کے ایک کمیونٹی اخبار میں آپ کی اس عظیم الشان کامیابی پر انگریزی میں ایک مضمون لکھا اور اس کی کاپی آپ کو لندن بھجوائی.آپ

Page 100

(41) نے اس مضمون کو یہ نظر استحسان دیکھا اور جواباً خط میں لکھا: the faith of an ahmadi Muslim I appreciate the manner in which you have brought یه نامه تایپ شدہ تھا مگر اس کے سرورق پر بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم ہاتھ سے لکھا ہوا تھا.اس کے بعد میری یہ عادت بن گئی کہ جو کتاب سائینس یا ایلی سینٹری پار ٹیکلز کی مطالعہ کرتا اس کے انڈیکس میں سلام کے نیچے انٹری ضرور دیکھتا.یوں میں نے بہت ساری کتا ہیں اور رسالے اس لئے پڑھ ڈالے کہ دیکھیں مصنف نے آپ کے بارہ میں کیا لکھا ہے؟ بلکہ یہ شغل اب بھی جاری ہے.امریکہ میں ملاقات ۱۹۸۱ء پھر میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب ایک روز مجھے آپ کا والا نامہ موصول ہوا کہ میں فلاں تاریخ کو میڈیسن ( وسکانسن.امریکہ ) لیکچر دینے آرہا ہوں اس لئے اگر ملاقات کیلئے آسکوں تو ضرور آؤں.چنانچہ ایک لمحہ کے تردد کے بغیر میں ٹورونٹو سے ملوا کی اور وہاں سے میڈیسن یونیورسٹی کے اس سٹوڈنٹ ریزی ڈیفنس میں پہنچ گیا جہاں آپ فروکش تھے.یہ دو پہر کا وقت تھا اور آپ لیکچر دینے کے بعد ستار ہے تھے.بستر کے سرہانے دو تین سیب رکھے ہوئے تھے.دل ناداں میں یہ خیال گزرا کہ دنیائے اسلام کے نیوٹن کے پاس بھی سیب پڑے ہیں میں نے فرط جذبات میں آگے بڑھ کر دل بھر کر معانقہ کیا آپ بڑی شفقت سے پیش آئے.پنجابی میں میرا اور میری اہلیہ کا تعارف ہونے کے بعد میں نے آپ سے اجازت طلب کی کہ کچھ پوچھ سکتا ہوں، تو آپ نے مسکرا کر فرمایا بڑے شوق سے.ان دنوں امریکہ میں پاکستان کے اسلامک نیوکلئر بمب بنانے کا بہت چرچا تھا.میں نے اس ضمن میں نیویارک ٹائمز میں اور انڈیا ابراڈ میں بھی مضامین پڑھے تھے.میں نے آپ سے استفسار کیا کہ مغربی میڈیا میں یہ کہا جاتا ہے کہ آپ پاکستان کی اس نیوکلئیر بمب بنانے میں مدد کر رہے ہیں؟ بلکہ بعض ایک نے تو آپ کو فادر آف نیوکلئیر پروگرام بھی لکھا ہے.تو آپ مسکرا دئے اور ایک منجھے ہو

Page 101

(۹۲) ہم تقریباً پینتالیس منٹ تک گفتگو کرتے رہے.دوران گفتگو آپ نے مجھے وہ والا مشہور واقعہ بھی سنایا کہ کس طرح آپ نے جنرل ضیاء الحق صاحب سے اسلام آباد میں پارلیمنٹ کی بلڈنگ میں لفظ خاتم العین کے معنی پر گفتگو کی تھی.اور انہیں مسکت جواب دے کر شش و پنج میں ڈال دیا تھا بلکہ جنرل صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ میں آپ کو خود سے بہتر مسلمان سمجھتا ہوں.( اس واقعہ کی پوری تفصیل اس کتاب میں درج ہے).میں آپ کی باتیں پوری توجہ اور دلچسپی سے طفل مکتب بن کر سنتا رہا.میں نے محسوس کیا کہ آپ انسان کا ظرف اور اسکی پیمائش چند سیکنڈوں میں کر لینے کے ماہر تھے.پنجابی اور انگلش دونوں زبانوں میں گفتگو کرتے رہے میرا بیٹا ذیشان بھی ساتھ تھا میں نے ان سے درخواست کی کہ وہ اس کیلئے دعا فرمائیں کہ مولیٰ کریم اسے بھی آپ کے نقش قدم پر چلاتے ہوئے اچھا انسان بنائے تو آپ نے پیار سے اسے گود میں اٹھالیا اور بوسہ دیا.یہاں سے آپ نے نیو یارک کے لئے فلائٹ لینی تھی.تو میں بھی آپ کے ہمراہ ائر پورٹ کی طرف روانہ ہو گیا وہاں اور بھی پاکستانی حضرات آئے ہوئے تھے.میں نے چند تصاویر اتاریں.ائر پورٹ پر مقامی اخبار دیکھا تو اسکی شہ سرخی آپ کے لیکچر کے متعلق تھی.فلائیٹ کا وقت ہو رہا تھا اس لئے میں نے دوبارہ آپ سے معانقہ کا شرف حاصل کیا اور پھر ہم الوداع کہہ کے ملوا کی کی طرف روانہ ہو گئے.دل خوشی سے بلیوں اچھل رہا تھا کہ ایک بار پھر دنیائے سائینس کے مھر درخشان ،مسلمانوں کے نیوٹن سے ملاقات کا موقعہ نصیب ہوا.میں نے آپ کو شگفتہ مزاج اور ظریف الطبع پایا.مجھے محسوس ہوا کہ قدرت نے آپ کو معاملہ نہی اور خطابت کا جو ہر بھی عطا کیا تھا.چنانچہ اس یادگار ملاقات کا دل و ذہن پر اثر بہت خوشگوار رہا.میری خط و کتابت آپ سے برابر جاری رہی.جب ۱۹۸۹ء میں راقم التحریر نے آپ کا مضمون انگریزی میں ترجمہ کیا جو کہ فی الحقیقت خود نوشت سوانح عمری ہے.اور جو پہلی بار گونمنٹ کالج لاہور کے رسالہ راوی میں شائع ہوا تھا.تو آپ نے میری حقیر کوشش کو بہت سراہا بلکہ اس ترجمہ کو آئی سی ٹی پی کی سکرٹری سے کمپیوٹر پر ٹائپ کروا کے مجھے واپس کھوایا، اور اپنے مریضہ اپریل ۱۹۹۰ ء میں ارشاد فرمایا:

Page 102

(۹۳) Thank you for your good wishes for my health expressed in your kind letter of......26th March 1990 and for the enclosed copy of the translation of my speech.یہ مضمون ریویو آف ریچز کے ایک شمارہ میں ۱۹۹۰ ء میں شائع ہوا.اور انٹر نیٹ پر اس ایڈریس پر بھی 19ء انٹرنیٹ دیکھا جا سکتا ہے.(http://www.alislam.org/ibrary/misc.html (article Poor as a Nation اگلے سال آپ نے مجھے اٹلی سے اپنی کتاب ارمان اور حقیقت Ideals & Realities کی دس کا پیاں ارسال فرمائیں، جو میں نے کینڈا کی معروف یونیورسٹیوں کو ارسال کر دیں.ان کتابوں کے ہمراہ نصف درجن تصاویر بھی تھیں.کچھ مہینوں بعد مجھے آپ کی طرف سے کتاب Notes on Science موصول ہوئی جس پر مصنف کا نام محمد عبد السلام لکھا تھا اس سے آپ کے عشق محمدی کا اندازہ ہوتا ہے.جنوری ۱۹۹۲ء میں مجھے آپ کی طرف سے یونی فی کیشن آف فنڈا منٹل فور سز کتاب موصول ہوئی.جس کے ہمراہ آپ کی سکرٹری Katrina Danfroth کا خط تھا جس میں لکھا تھا.Professor Salam sends his best regards اس کے بعد مجھے آپ کی طرف سے کوئی اور نوازش نامہ موصول نہ ہوا.آپ کی صحت پارکنسن جیسی بیماری کی بناء پر کافی نا ساز ہو چکی تھی.میرے دل کی گہرائیوں سے آپ کی شفایابی اور کامل صحت کیلئے متفرعانہ دعا ئیں تا دم آخر نکلتی رہیں.تاریخ ساز انسان ڈاکٹر صاحب کی شخصیت ہمہ جہت، ہمہ رنگ ہمہ گیر تھی.آپ ایک تاریخ ساز انسان تھے.اندلس کے دانشوروں کے پانچ سو سال بعد امت مسلمہ میں ایک ایسا نا بغہ روزگار انسان پیدا ہوا جو الرازی.بوعلی سینا.الفارابی.ابن الہیشم ، ابن رشد کے پلہ کا سائینس دان تھا.جب سے اندلس میں مسلمانوں کا خاتمہ ہوا تب سے کوئی ایسار جل رشید جنم نہ لے سکا تھا جس کے نام سے، جس کے کام سے مسلمان فخر سے سینہ نکال کر بات کر سکتے.ڈاکٹر صاحب کی ہفت رنگ شخصیت کو چار میموں سے بیان کیا جا سکتا ہے یعنی مفکر، محقق، معلم

Page 103

(۹۴) اور منتظم.ان میں سے ہر ایک کو بیان کرنے کیلئے ایک دفتر درکار ہوگا.(1) آپ ایک زبر دست اعلیٰ پایہ کے بین الا قوامی سائینس دان تھے.(۲) ایک قابل ذکر استاد جس نے چالیس سال تک تدریس کا کام کیا اور ہزاروں لائق و فائق شاگرد پیدا کئے جن میں سے ایک نو بل انعام کا مستحق قرار پایا.(۳) ایک کہنہ مشق ادیب اور فاضل مصنف جس کے اشہب قلم سے ۲۷۳ سائینسی مضامین اور ایک درجن کے قریب مضخیم کتب منظر عام پر آئیں.آپ کے تبحر علمی کا ایک عالم معترف تھا.ایک بلند پایہ، نامور، سکہ بند ، انشاء پرداز جس کے خیال کی رفعت پرواز کا کوئی وہم بھی نہیں کر سکتا تھا.(۴) ایک بلند پایہ مقرر جس نے ایک صد کے قریب بین الاقوامی جلسوں اور کانفرنسوں سے خطاب کیا.حاضرین میں بعض دفعہ چھ سات نوبل انعام یافتگان آپ کو ہمہ تن گوش ہو کر سنتے تھے.(۵) ایک کامیاب و کامران منتظم جس نے ایک یو نیورسٹی کے درجہ کا انسٹی ٹیوٹ اپنے ذاتی اثر د رسوخ سے قائم کیا اور تمیں سال تک اسکے ڈائر یکٹر رہے.(1) سائینس کا ایک با اثر سفیر جس نے تیسری دنیا میں سائینس کے فروغ کیلئے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا.بردباری، اولوالعزمی، معاملہ فہمی ، دور اندیشی ، حسن کردار جیسی خوبیوں کا مرقع.(۷) عبد السلام.امن کا شہزادہ جس نے دنیا میں ایٹمی تباہی کو ختم کرنے اور بین الا قوامی امن کے قیام کے سلسلہ میں ہائی لیول کیمٹیوں کی صدارت کی اور اس ضمن میں کئی ممالک کا سفر کیا.(۸) ایک وسیع القلب، کشادہ ذہن اور مشفق انسان جس نے ہزاروں طلباء کیلئے وظائف کا انتظام کیا.ان کو امریکہ اور یورپ میں داخلے دلوائے اور کم سرمایہ والے سکولوں.کالجوں کو سائینسی سامان مہیا کر نیکا ذمہ اپنے سر خود لیا وطن عزیز کے پانچ سو انجنیر وں اور سائینسدانوں کی تعلیم کا مغرب کی درسگاہوں میں انتظام کیا.(۹) ایک محب وطن جس نے ساری عمر سبز رنگ کے پاسپورٹ پر سفر کرنے میں کوئی عیب محسوس نہ کیا.اور اپنے مادر وطن کی بہبودی اور خوشحالی کے کئی کامیاب منصوبے بنائے.

Page 104

(90) (۱۰) اپنی ذات میں ایک انجمن جس کی ہر محفل باذوق ہوتی تھی.ایک پھول جس کی مہک سے دل و جاں معطر ہو جاتے تھے.(۱۱) ایک خدا ترس انسان جس نے اسلام کے عالمگیر پیغام کی ہر جگہ ہر موقعہ پر تبلیغ کی اور جب اس کے فرقہ کو مزعومہ طور پر دائرہ اسلام سے خارج کیا گیا تو اپنے چہرہ کو سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق مزین کرلیا ، نہ صرف یہ بلکہ اپنے نام کے ساتھ محمد بھی لکھنا شروع کر دیا.(۱۲) ایک عبد غیب کہ جب اس کو نوبل انعام ملنے کی خبر ملی تو پہلا کام یہ کیا کہ مسجد فضل لندن میں جا کر نماز شکرانہ ادا کی یہی وجہ ہے کہ آپ کے سائنسی تحقیقی کام میں وحدت الوجود کا نظریہ کارفرما نظر آتا ہے.ان باره روشن پہلوؤں میں سے کسی ایک پہلو پر خامہ فرسائی کرنا گویا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے تا ہم اس وقت صرف ایک پہلو یعنی بہ حیت سائینس دان پر خیال آرائی کرتے ہیں.بحیثیت سائینسدان ڈاکٹر عبد السلام ایک بین الا قوامی سطح کے بلند پایہ سائینس دان تھے آپ کے نام کا چرچا پورب پچھم میں تھا جمہوریہ چین کے وزیر اعظم چو این لائی سے لے کر مراکش کے بادشاہ حسن یا اردن کے شاہ حسین یا امریکہ کے صدر کینیڈی تک آپ کی رسائی تھی مختلف ممالک کے سیاست دان.وزیر اعظم اقوام متحدہ کے سکرٹری جنرل سے لیکر وٹیکن کے عزت مآب پوپ جان پال آپ سے سائینسی امور پر مشورہ لینے کے علاوہ دوسرے امور میں رہ نمائی حاصل کرتے تھے.سوال یہ نہیں کہ کیا آپ ایک قد آور سائینس دان تھے ؟ اس چیز کا اعتراف تو دنیا بھر کرتی ہے مثلا سٹیفن ہاکنگ اپنی شہرہ آفاق تصنیف بریف ہسٹری آف ٹائم جس کی اب تک ہیں ملین سے زیادہ کا پہیاں فروخت ہو چکی ہیں اس میں وہ رقم طراز ہے: The weak nuclear force was not well understood until 1967, when Abdus Salam at Imperial College, London, and Steven Weinberg at Harvard both proposed theories that unified this interaction with electromagnetism force, just as Maxwell had unified electicity and magnetism about a

Page 105

hundred years ago.(Chap 5, page 71) (47) فزکس میں جو آپ نے جان جوکھوں والا زریں کا رنامہ انجام دیا.وہ آئن سٹائن کے کام سے کچھ کم نہ تھا.اس جرمن سائینس دان نے اپنی متاع عزیز کے آخری تھیں سال اس مشکل کام میں صرف کئے کہ وہ کسی طرح کائینات کی چار بنیادی قوتوں میں سے دو (کشش ثقل اور برق مقناطیس) کو متحد کر سکے مگر اس کوشش میں اسکو نا کامی کا منہ دیکھنا پڑا.تاہم یہ کام عبد السلام نے کر دکھایا ( یعنی کمزور قوت کو برق مقناطیس سے متحد کر دیا) صرف یہ ایک سائینسی کا رنامہ آپ کو نیوٹن.میکس ویل.فیراڈے.اور آئن سٹائین جیسے عظیم المرتبت یونیفا نیرز کے شانہ بشانہ کھڑا کر دیتا ہے.یہ سوال کہ آپ پاکستان جیسے غریب اور پس ماندہ ملک نیز پنجاب کے افتادہ علاقہ کے غیر علمی ماحول میں مکین ہونے کے باوجود بھی اتنے بڑے سائینس دان کیسے بن گئے؟ شاید یہ آپ کے والد ماجد کی تضرعانہ دعاؤں کا نتیجہ تھا.دور ممکن ہے آپ کے والد نے گھر میں جو علمی فضا پیدا کی تھی اس سے آپ کے ذہن کو جلا ملی ہو.شاید قدرت نے آپ میں کچھ وہی خوبیاں ودیعت کیں تھیں جیسے زبر دست قوت ارادی.شاید آپ ایک go-getter انسان تھے طبیعت میں جوش و خروش اور آہنی عزم.شاید آپ ایک visionary تھے جس کے ذہن کے افق کی وسعت فلک تک تھی.شاید خدا نے آپ کو غیر مرئی قوتوں سے نوازا تھا جیسے آپکے ذہن کی دھار چھری کی طرح تیز بھی شاید نظم ونسق کی عادت.وقت کی پابندی نیز تحریر کی بے پایاں استعداد نے آپ کو عظیم بنا دیا.شاید آپ کی یہ پر سحر شخصیت تھی.دھیمی مگر پر کشش آواز.ذہانت سے بھرا چہرہ ارتکاز کی قوت اس قدر کہ انسان حیرت کا مجسمہ بن جائے.شاید اسکی وجہ یہ تھی کہ آپ مطالعہ کے حد درجہ رسیا تھے اور علم و حکمت جذب کرنے کی میں آپ میں غیر معمولی اہلیت تھی کہ آپ کے مضامین علم و حکمت کے موتیوں سے بھرے ہوئے ہیں.شاید ان تمام مذکورہ خوبیوں کا مرقعہ ہونے کی بناء پر آپ افضل اور اکمل سائینسدان بن گئے، کچھ بھی ہو آپ سائینس کے چمن کے دیدہ در باغبان تھے.

Page 106

(92) زمین مسکن تھیوریز پارٹیکل فزکس کے افق پر آپ چالیس برس تک ماہتاب بن کر ضوفشاں ہوئے اور ذراتی طبیعات کی فیلڈ کو بام عروج تک پہنچایا.اس ضمن میں آپ نے اتنی زمین شکن تھیوریز پیش کیں کہ ان کے بیان کیلئے ایک دفتر درکار ہوگا.ایک تھیوری جس کو وضع کرنے کی بناء پر آپ کو نوبل انعام سے نوازا گیا وہ مختصراً یہ تھی کہ برق مقنا طیس قوت اور خفیف نیو کلیائی قوت در حقیقت ایک ہیں یہ فی الحقیقت آپ کے فطری قوتوں کے وحدت کے وسیع تر نظریہ کی ایک کڑی تھی جسکی دوسری کڑی الیکٹرو و یک فورس اور سٹرانگ نیوکلئیر فورس کی وحدت کا نظریہ ہے جس کی ایک پیش گوئی یہ ہے کہ نہ زوال ہونے والا پروٹان ایک لمبے عرصہ کے بعد زوال پذیر ہو جاتا ہے.دنیا کی بڑی بڑی تجربہ گاہوں میں اس وقت آپ کے اس نظریہ کو تجربہ کی کسوٹی پر پرکھا جا رہا ہے اگر ایسا ثابت ہو گیا.تو توحید کے اس پر ستار کا سکہ ایک بار پھر دنیا میں بیٹھ جائیگا.مذہب اور سائینس سائینسدان ہونے کے ناطے آپ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر پختہ اور یقین کامل رکھتے تھے اخلاص اور منکسر المزاجی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی.اسلام کے ازلی پیغام پر آپ کا یقین غیر متزلزل تھا سائینسی علوم آپ کو خدائے ذوالجلال کی یاد سے محو نہ کر سکے اٹلی میں قیام کے دوران جو مسلم طلباء وہاں تعلیم کیلئے آتے تھے آپ جمعہ کے روز با جماعت صلوۃ کا انتظام فرماتے نیز امامت کے فرائض خود انجام دیتے تھے.دین اسلام سے آپ کی والہانہ وابستگی آپ کا ایسا طرہ امتیاز تھی کہ اپنے اور غیر سبھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے تھے اس چیز کا بیان پروفیسر جان زائی مان Ziman نے کچھ یوں کیا ہے: عبد السلام کی زندگی اور کا رہائے نمایاں دونوں میں ایک ھی تصور كارفرما ہے اور وہ ھے ارتباط اور اتحاد عبد السلام دین اسلام پر یقین رکھتے هیں اور انھوں نے اپنی زندگی کو نظریہ وحدت کیلئے وقف *** کردیاہے.

Page 107

(۹۸) ائیر مارشل (ریٹائرڈ) ظفر چوہدری چند خوشگوار یادیں کے اعلیٰ سائینس کی سنگلاخ زمین میں ڈاکٹر عبد السلام کے کار ہائے نمایاں کے متعلق کچھ کہنا میرے بس کی بات نہیں.البتہ میں چند مختصر باتیں ان کی باکمال شخصیت اور اقدار کے متعلق عرض کرنے کی کوشش کروں گا.میری ان سے شناسائی ۱۹۴۲ء میں ہوئی جب وہ گورنمنٹ کالج میں تھرڈ ائیر میں داخل ہوئے اس سے قبل وہ پنجاب یونیورسٹی کے میٹرک اور ایف اے کے امتحانوں میں نئے ریکارڈ قائم کر چکے تھے.اس وقت کا عبد السلام ایک شرمیلا سا لڑکا تھا جو اپنے کام سے کام رکھتا تھا.کبھی کبھی وہ یہ انتظام کر لیتا کہ جب وہ پڑھائی میں مصروف ہوتا تو ہاسٹل کے کمرے کو باہر سے تالہ لگا دیتا تا کہ یار دوست بلا وجہ وقت ضائع نہ کریں.اس کی تفریح فقط شطرنج کی ایک دو بازیاں ہوتی تھیں جو وہ کامن روم کے مار کر خوشیا سے کھیلتا تھا.اس زمانے میں نیو ہاسٹل میں باورچی محمد دین دونوں وقت نہایت لذیذ آلو گوشت پکایا کرتا تھا جو کہ عبد السلام کو بہت مرغوب تھا اور وہ خوب سیر ہو کر کھاتا تھا.ان کے بے تکلف دوست اس کی پر خوری پر اسکا مذاق بھی کرتے لیکن وہ برا نہ مانتا تھا.پھر ۱۹۴۶ء میں عبد السلام ریاضی میں ٹرائی پوز Tripos ( بی ایس سی آنرز ) کرنے کیلئے کیمبرج چلا گیا کبھی کبھار میرا لندن جانا ہوتا تو میری اس سے ملاقات ہوتی.اس کا لباس حد درجہ سادہ ہوتا تھا اور وہ اکثر ایک بڑی سی ٹوپی اور رین کوٹ پہنے رکھتا تھا.فارغ اوقات میں کھیل تماشے کی بجائے لندن کے مختلف میوزیم میں گزارتا اور ہم جیسے کھلنڈروں کو بھی ساتھ گھسیٹ لیتا.اس کی طبیعت بہت سادہ اور ہر قسم کے تکلفات سے مبرا تھی.ایک مرتبہ ہم دونوں بس میں سفر کر رہے تھے اس نے کچھ لکھنے کے لئے جیب

Page 108

(44) سے قلم نکالا جس کی سیاہی کچھ نکل گئی تھی اس نے فالتو سیا ہی بلا تکلف اپنے سر کے بالوں میں جذب کر دی میں نے جب کچھ حیرانی کا اظہار کیا تو اس نے کہا بھئی اس میں کیا حرج ہے سیا ہی بھی کالی ہے اور سر کے بال بھی ، کوئی نقصان نہیں ہوا.کیمبرج سے واپسی پر وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں لیکچرار مقرر ہوا، میں ایک دفعہ کالج گیا تو اس سے سٹاف روم میں ملاقات ہوئی کہنے لگا.کہ میرا بہت سا وقت محکمہ تعلیمات کے فضول اعتراضات کا جوابات دینے میں گزر جاتا ہے اور ساتھ ہی مجھے نابلد کو زبر دستی کالج کی فٹبال ٹیم کا نگران مقرر کر دیا گیا ہے.ان حالات میں کوئی ٹھوس کام نہیں کر سکتا.سوچتا ہوں کہ دوبارہ کیمبرج جا کر تحقیق کا کام کروں چنا نچہ وہ واپس کیمبرج چلا گیا اور ریسرچ کا وہ کام صرف چند ماہ میں مکمل کر لیا جو دوسرے برسوں میں کر پاتے.۱۹۶۵ء میں مجھے مسٹر سٹیفن Stephen نے کیمبرج مدعو کیا جہاں کنگز کالج میں وہ ڈان تھے وہ ہندوستان میں اخبار سٹیسمین Statesman کے ایڈیٹر رہ چکے تھے اور ایک کتاب پاکستان کے متعلق بھی لکھ چکے تھے انہوں نے ذکر کیا کہ پاکستان سے ایک شخص یہاں آیا ہوا ہے جس کے متعلق کیمبرج کے اسا تذہ سمجھتے ہیں کہ وہ سائینس کی دنیا میں ایک ممتاز مقام حاصل کرے گا.اس کا نام عبد السلام ہے اور وہ تمام وقت اپنی دھن میں لگا رہتا ہے.جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کیمبرج کے اساتذہ کی یہ پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی.کار سٹارٹ کرنیکا طریقہ عبد السلام کو ۱۹۵۷ء میں امپیرئیل کالج آف سائینس اینڈ ٹیکنا لوجی میں فزکس کے شعبے کا سربراہ بنا دیا گیا.اس وقت اس کی عمر اس برس کی تھی اور اتنی کم عمر میں آج تک کسی اور کو یہ اعزاز حاصل نہ ہوا تھا.اس طرح انہوں نے لندن کے پیٹنی نامی علاقے میں ایک معمولی سے مکان B-Campion Road میں رہائش اختیار کرلی اور آخر دم تک اسی گھر میں مقیم رہے.۱۹۵۸ء میں میری اہلیہ کو چھوٹے بچے کے علاج کے سلسلہ میں چند ہفتے کیلئے لندن قیام کرنا ہوا.میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ کیا وہ دونوں

Page 109

(100) ان کے ہاں قیام کر سکتے ہیں؟ welcome انہوں نے جواب دیا.ار آلے وی کوئی پچھن والی گل اے they would be most پھر ایک مرتبہ میرا چھوٹا بھائی اور میں صبح کے وقت ڈاکٹر صاحب کے گھر گئے ڈاکٹر صاحب نے قدرے پریشانی کے عالم میں بتلایا کہ انہیں کالج پہنچنا ہے اور ان کی کار کی بیٹری کمزور ہونے کی وجہ سے سٹارٹ نہیں ہو رہی.میرے بھائی نے کہا کہ اگر صرف یہ بات ہے تو لازماً دھکا لگانے سے ضرور سٹارٹ ہو جائیگی.ڈاکٹر صاحب بہت حیران ہوئے اور کہا کہ کیا واقعی اس طرح کار سٹارٹ کی جاسکتی ہے.میرا بھائی کار میں بیٹھا اور ڈاکٹر صاحب اور میں نے دھکا لگایا اور یوں کار سٹارٹ ہو گئی اور یہ مشکل حل ہوگئی.اس طرح ہم پر یہ راز کھلا کہ یہ ضروری نہیں کہ ایک عظیم سائینسدان روزمرہ کے معمولی ٹوٹکوں سے بھی واقفیت رکھتا ہو.ڈاکٹر سلام کا رہن سہن بہت سادہ ہوتا تھا اور گھر میں بیوی بچوں سے ٹھیٹھ پنجابی بولتے تھے ان کے کمرے میں ایک معمولی سا بستر بچھا ہوتا تھا اور ہر طرف کتابیں بکھری ہوتی تھیں.سائینس کے علاوہ انہیں انگریزی.فارسی.اردو اور پنجابی ادب سے بھی گہری واقفیت تھی ہزاروں اشعار ازبر تھے اور موسیقی کے رموز سے بھی آشنا تھے.مختلف مذاہب اور مکاتیب فکر کا گہرہ مطالعہ تھا اور وہ یہ بات کہتے ہوئے بھی نہ تھکتے تھے کہ قرآن کریم قوانین اور عبادات کی نسبت تحصیل علم - تفکر.اور تحقیق پر کہیں زیادہ زور دیتا ہے گویا کہا جا سکتا ہے کہ اس انتہائی ذہین و فطین شخص کا مزاج فلسفی.درویشوں جیسا دل.حساس ادیبوں اور شاعروں جیسا.اور دماغ ایک بلند نگاہ اور مہم جو سائینسدان کا سا تھا.ٹرسٹ کا قیام وہ ہر قسم کے تعصب سے آزاد تھے اور تنگ نظری کی ہر شکل کو غلط قرار دیتے تھے ہر معاملہ میں بنی نوع انسان کی بہتری ان کے پیش نظر ہوتی تھی.باایں ہمہ ان کے دل میں اسلامی دنیا اور خاص طور پر اپنے وطن پاکستان کیلئے سچی تڑپ تھی.اور یہی وجہ تھی کہ با وجود کثیر العیال ہونے اور محدود وسائل رکھنے کے انہوں نے لاکھوں ڈالر کے ملنے والے انعامات میں سے کچھ بھی اپنے پاس نہ رکھا اور ان تمام رقوم

Page 110

(1+1) سے ایسے ٹرسٹ بنادئے جن سے خاص طور پر پاکستانی طلباء اور سائینسدان استفادہ کر سکیں.ایسی قربانی اور بے لوث حب الوطنی کی مثالیں شاذ ہی نظر آتی ہیں.مختلف ترقی یافتہ ممالک نے انہیں اپنی شہریت پیش کی اور امداد کا وعدہ کیا جبکہ ان کے اپنے بد نصیب ملک نے ان سے اکثر و بیشتر سرد مہری اور سوتیلے پن کا سلوک کیا.اس جاہلانہ تنگ نظری کی ایک مثال یہ ہے کہ نوبل پرائز ملنے کے موقعہ پر جو تقریر انہوں نے کی پاکستانی ٹیلی ویژن اور اخبارات نے اسے رپورٹ کرتے ہوئے وہ حصے حذف کر دئے جن میں کہ قرآنی آیات سے استدلال کیا گیا تھا.لیکن اس مرد خدا نے تمام غیر ملکی پیش کشوں کو ٹھکراتے ہوئے آخر دم تک پاکستان کے سبز رنگ کے پاسپورٹ کو سینے سے لگائے رکھا.سچ ہے وفاداری بشرط استواری اصل ایمان ھے ڈاکٹر سلام تیسری دنیا کی اور خاص طور پر اسلام ممالک کی پسماندگی پر بہت رنجیدہ ہوتے تھے حتی کہ وہ پسماندگی اور غربت کو کفر کی ایک قسم قرار دیتے تھے اور اسکی ذمہ داری کسی دوسرے پر ڈالنے کی بجائے یہ کہتے تھے کہ اس کی اصل وجہ ہمارا علم اور سائینس کو نظر انداز کرنا ہے.وہ اس بات زور دیتے تھے کہ سائینس اور تحقیق سے نہ صرف ذہن آزاد ہوتا ہے اور علم و دانش ترقی کرتے ہیں ، بلکہ ان کا صنعت و حرفت اور رہن سہن پر فوری خوشگوار اثر پڑتا ہے اور غربت اور پسماندگی کو دور کرنے میں مددملتی ہے.ان کی تمام عمر اس کوشش میں صرف ہوئی کہ ہم سائینس کی اہمیت کو سمجھیں اور اسے قومی ترجیحات میں مناسب درجہ دیں.وہ چاہتے تھے کہ سائینس کے لئے زیادہ وسائل مہیا کئے جائیں اور سائینسدانوں کو معاشرے میں مناسب مقام حاصل ہو.ایک تجویز انہوں نے یہ پیش کی کہ تمام اسلامی ممالک جن میں کچھ بہت امیر بھی ہیں اپنی پیداوار کا ایک فی صد حصہ سائینس اور تحقیق کے لئے مختص کر دیں تا کہ اعلی تحقیقی ادارے قائم ہو سکیں اور کچھ عملی کام ہو.انہوں نے یقین دلایا کہ اس طرح اسلامی دنیا کا نقشہ بدل جائیگا اور ایک دفعہ پھر وہ علم وفن کا گہوارہ بن جائیگی اور دوسری اقوام بھی اس سے استفادہ کرنے لگیں گی.تمام ممالک نے اتفاق کیا اور مقررہ شرح کے مطابق وسائل مہیا کر نی کا وعدہ بھی کیا لیکن الا ما

Page 111

(۱۰۲) شاء اللہ کسی نے بھی وعدہ ایفاء کر نیکی تکلیف گوارہ نہ کی.افسوس کہ ڈاکٹر سلام کی دردمندانہ اور حق آشنا اپیل صدا بصحر اثابت ہوئی اور مسلمان ممالک کی حالت میں کوئی قابل قدر بہتری نہ ہوسکی.حتی کہ ان کا وجود اور ان کی بقا بھی دوسروں کے رحم و کرم پر موقوف چلے آتے ہیں.ان کا خاص لباس اسی طرح وہ چاہتے تھے کہ وہ بین الاقوامی ادارہ ( آئی سی ٹی پی) جو آ خر ٹریسٹ میں قائم ہوا پاکستان میں قائم کیا جائے.لیکن ان کی یہ خواہش بھی ہماری حکومتوں کے بے اعتنائی کی نظر ہو گئی اور آج جو نا گفته به حالت سائینس اور علم کی ہمارے ملک میں نظر آتی ہے وہ یقینا ہم سب کے لئے دکھ اور شرمندگی کا باعث ہے.چند برس ہوئے ڈاکٹر عبدالسلام کو گرمیوں کے موسم میں دہلی جاتے ہوئے لاہور مختصر قیام کا موقعہ ملا.روانگی کیلئے تیار ہوئے تو کوٹ پتلون کے اوپر رین کوٹ پہنا ہوا تھا.میں نے ازراہ تفن پوچھا کہ کیا دہلی میں برف باری ہوتی ہے جو اسکی تیاری کی گئی ہے؟ انہوں نے اپنا مخصوص قہقہہ بلند کیا اور کہا بھئی بات یہ ہے کہ اس کوٹ نے ایک طویل عرصہ میرے ساتھ وفا کی ہے اور میں نہیں چاہتا کہ سفر میں یہ کہیں کھو جائے.اس لئے میں اسکی حفاظت کیلئے گرمی سردی میں پہن ہی لیتا ہوں.یہ انتہائی سادہ سوچ اس شخص کی تھی کہ جب اس نے کیمبرج میں اپنے استاد سے اپنے کام کے متعلق سرٹیفکیٹ مانگا تو استاد نے کہا کہ بہتر ہوگا کہ تم مجھے سند دو کہ تم نے میرے ساتھ کام کیا ہے.ڈاکٹر عبد السلام سے میری آخری ملاقات کوئی اڑھائی سال قبل ان کے بیٹے کے نکاح کے موقعہ پر ہوئی.وہ اپنی وھیل چیر میں بیٹھے کھوئے کھوئے نظر آرہے تھے.میں قریب آکر بیٹھا تو میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کالج کا زمانہ یاد کرنے لگے.ان کی بات مشکل سے سمجھ آ رہی تھی اور میں اندازے سے جواب دیتا رہا.ان کی یہ حالت دیکھ کر میری آنکھیں نم ہونے لگیں.وہ شخص جو اپنے لطیف نکات اور زور خطابت سے دنیا کے ممتاز ترین دانشوروں کو مسحور کر لیتا تھا.ایک موذی مرض کے سبب بول چال پر بھی قادر نہیں رہا تھا لیکن اس حالت میں بھی اس نے حکومت پاکستان کی علاج کیلئے پیشکش کا یہ جواب دیا تھا کہ میں

Page 112

(۱۰۳) نہیں چاہتا کہ اپنے ملک کے غریب لوگوں کی کمائی سے جمع شدہ پیسے کو اپنی ذات پر خرچ کروں.اور اب وه نا بغہ روزگار شخص اسی چٹیل اور شور زدہ زمین میں ابدی نیند سو رہا ہے جس نے اسے جنم دیا تھا.سچ ہے باقی رہے نام اللہ کا.مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے ٹیم تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کئے یه مضمون ۲۲ دسمبر ۱۹۹۶ء کو پاکستان فزیکل سوسائٹی کی ایک تقریب منعقدہ پریس کلب لاہور میں پڑھا گیا.جناب ظفر چوہدری وزیر اعظم بھٹو کے دور میں پاکستان ائر فورس کے چیف آف سٹاف تھے DATE NAME ڈاکٹر سلام کی مسجد زیورخ میں آمد ADDRESS Telefhme 5.12.01 Merie, Ilind 0921244 Pirat Midland, M.Rink 1.866 44741 Zurgesh 8.12.61 Stekly Elisabeth Burfers.8.12.61 Markera felder Friedenstalets 678 10.12.61 Jahya K.Kalinkar 19.1261 Abono Salam Dm M.Furz 22.12.6, Treichler Jyl 2 1200 Luze Propane of Theontigel Playing london Stafa Anne Guy, London sa 7 ۱۹ دسمبر ۱۹۷۱ء کو ڈاکٹر عبد السلام مسجد زیورخ (سوئٹزر لینڈ ) میں نماز جمعہ کیلئے تشریف لائے تو آپ نے مسجد کی وزیٹر بک میں دستخط ثبت فرمائے.عبد السلام پر و فیسر آف تھیوریٹیکل فزکس امپیرئیل کالج لندن

Page 113

(۱۰۴) بشیر احمد خان رفیق ( سابق امام مسجد ، لندن) اخلاق حسنہ کا گلدستہ کے خاکسار پہلی مرتبہ بر طانیہ فروری ۱۹۵۹ء میں پہنچا.محترم ڈاکٹر عبد السلام ان دنوں پٹنی کے علاقہ میں جو مسجد فضل لندن سے ایک میل کے فاصلہ پر واقع ہے رہائش پذیر تھے اور امپیرئیل کالج لندن میں پروفیسر تھے.مسجد فضل میں نماز ادا کرنے کیلئے تشریف لاتے تو عاجز کو بھی شرف ملاقات حاصل ہوتا.یوں تو ان کے مرتبہ اور علمی مقام کے لحاظ سے خاکسار کی حیثیت ان کے مقابلے میں کوئی خاص نہ تھی لیکن وہ بحیثیت مبلغ جماعت احمدیہ کے میرے ساتھ بہت محبت اور شفقت سے پیش آتے تھے.اور گاہے بگا ہے اپنے دولت کدہ پر مجھے بھی مدعو فر ماتے تھے.عام طور پر آپ اپنے دوستوں کو اتوار کے روز ناشتہ کیلئے دعوت دیتے تھے.ناشتہ کیا ہوتا پورا دو پہر کا کھانا ہوتا تھا کھانے کی میز انواع و اقسام کی ڈشز سے بھری ہوتی تھی ڈاکٹر صاحب کے دوست اور مداح نہ صرف ناشتہ سے لطف اندوز ہوتے تھے بلکہ ان کی علمی گفتگو.حالات حاضرہ پر تبصرے اور شعر و شاعری میں ان کے اعلیٰ مذاق سے بھی لطف اندوز ہوتے تھے.بعد میں جب چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب نے بھی لندن مستقل رہائش اختیار کر لی تو پھر ان کا یہ معمول ہو گیا کہ جب بھی لندن میں ہوتے اتوار کے روز ناشتہ پر چوہدری صاحب کو بھی ضرور بلاتے.خاکسار بھی اکثر ان مجالس میں شامل ہو جاتا.ڈاکٹر صاحب مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے سائنسی علوم کی نعمت سے تو مالا مال کیا ہی تھا.اس کے ساتھ ہی آپ کو شعر و شاعری ، اردو، انگریزی ادب اور تاریخ کے علم سے بھی وافر حصہ عطا کیا گیا تھا.فارسی شعراء میں حافظ آپ کے دل پسند شاعر تھے اور حافظ کے سینکڑوں اشعار ازبر تھے موقع محل کی مناسبت سے ان اشعار کو سنانا آپ کو لطف دیتا تھا.حضرت بانی جماعت احمدیہ کی شاعری کا بھی آپ

Page 114

(1+0) نے بل استعیاب مطالعہ کیا ہوا تھا اور اکثر حضور کے فارسی اور اردو اشعار موقع کی مناسبت سے سناتے تھے چوہدری صاحب کو بھی فارسی شعراء میں سے حافظ کے ساتھ عشق تھا اس لحاظ سے مکرم ڈاکٹر صاحب اور چوہدری صاحب کی طبیعتیں آپس میں بہت ملتی تھیں.صوفی شعراء میں دونوں بزرگوں کو مولینا روم سے عشق کی حد تک عقیدت تھی اور ان کے صدیوں اشعار یاد تھے اس طرح بعض اوقات تو پوری محفل پر حافظ درومی چھائے رہتے تھے.چوہدری صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فارسی شاعری سے بہت لگاؤ تھا اور اگر میں یہ کہوں کہ انہیں قریباً حضور کی فارسی شاعری کا سارا دیوان حفظ تھا تو مبالغہ نہ ہوگا.ڈاکٹر صاحب مرحوم و مغفور کو چوہدری صاحب سے بے انتہا محبت تھی.اکثر اپنے ذاتی معاملات میں ان سے مشورہ طلب کیا کرتے تھے اور جو بھی مشورہ وہ دیتے اس پر عمل پیرا ہوتے.خاکسار کے لندن آنے کے کچھ عرصہ بعد ڈاکٹر صاحب کے والد محترم چوہدری محمد حسین صاحب بھی لندن آگئے.ڈاکٹر صاحب کو اپنے والدین سے عشق تھا اور ان کا بہت خیال رکھتے تھے.جو بھی بڑے بڑے لوگ، سیاست دان، سائینسدان ان سے ملنے کیلئے آتے انہیں وہ اپنے والد محترم سے ضرور ملواتے.ایک دفعہ ڈاکٹر صاحب کی ملاقات ڈیوک آف ایڈ نبرا سے طے ھوئی تو وهان وہ اپنے والد کو بھی ساتھ لے گئے اور ان کی ملاقات ڈیوک سے کروائی.ایک خواب ایک روز ڈاکٹر صاحب خاکسار کے پاس مشن ہاؤس تشریف لائے اور فرمایا کہ ان کے والد گھر میں بیٹھے بیٹھے اکتاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں اس لئے ان کی خواہش ہے کہ وہ انہیں صبح میرے پاس مشن ہاؤس میں چھوڑ جایا کریں.اور شام کو امپرئیل کالج آف سائینس، میڈیسن اینڈ ٹیکنالوجی سے واپس آتے ہوئے گھر لے جایا کریں.اس طرح مشن ہاؤس میں ان کا دل لگے رہے گا.احمدی دوستوں سے ملاقات کا بھی موقع ملتا رہے گا.خاکسار نے عرض کیا بڑی خوشی سے انہیں لے آیا کریں.جماعت کی تربیت کے سلسلہ میں ہم ان کی خدمات سے مستفید ہو نیکا پروگرام بنالیں گے.اس طرح ایک تو انکا دل

Page 115

(۱۰۶) لگا رہے گا دوسرے جماعت کے افراد ان کی ذات سے فائدہ اٹھا سکیں گے.چنانچہ ان کے والد صاحب روزانہ مشن ہاؤس میں تشریف لانے لگے اور اکثر میرے دفتر میں میرے ساتھ بیٹھ کر علمی و تربیتی امور پر گفتگو ہوتی انہی دنوں کی بات ہے کہ ایک دفعہ ان کے والد صاحب نے مجھے کہا کہ دعا کرو سلام کو نوبل پرائز مل جائے.میں نے عرض کیا کہ آپ خود بزرگ ہیں آپ بھی دعا کریں میں بھی دعا کروں گا نیز چند اور بزرگوں کو بھی کہوں گا.کچھ عرصہ کے بعد میں نے ایک رات خواب میں ایک شخص کو دیکھا جو کہہ رہا تھا کہ ڈاکٹر سلام کو نوبل پرائز ضرور ملے گا لیکن ابھی ان کی عمر چھوٹی ہے جبکہ بڑی عمر کے سائینس دانوں کی قطار لگی ہوئی ہے پہلے انہیں یہ پرائز دیا جائے گا اور پھر باری آنے پر ان کو بھی یہ انعام ضرور ملے گا.میں نے اگلے روز یہ خواب چوہدری صاحب کو سنایا دوسرے روز مکرم ڈاکٹر صاحب مسجد تشریف لائے تو مجھ سے خواب سننے کی خواہش کا اظہار کیا میں نے انہیں خواب سنائی تو فرمایا: عجیب بات ھے ابھی چند روز ھوئے بھی بات مجھے ایک نوبل پرائز کمیٹی کے قریبی شخص نے بھی بتلائی ھے مکرم ڈاکٹر صاحب جمعہ کے روز اول وقت مسجد میں تشریف لاتے اور عموماً پہلی صف میں امام کے عین پیچھے بیٹھا کرتے تھے.گرمیوں میں بھی اوور کوٹ اور گرم ٹوپی زیب فرماتے تھے.خاکسار جب خطبہ دیتا تو دوران خطبہ وہ اپنی نوٹ بک نکال کر اس میں کچھ درج کرتے رہتے تھے.ایک دن میں بطور مزاح ان سے پوچھا ڈاکٹر صاحب آپ کو میرا خطبہ بہت پسند آتا ہے کیونکہ آپ اس کے نوٹس لیتے رہتے ہیں.کھلکھلا کر ہنس پڑے اور فرمایا بات یه هے که میرے دماغ میں وقتاً فوقتاً بجلی کی تیز روشنی کی طرح بعض سائینسی نکات آتے ہیں میں انھیں بر وقت نوٹ کر لیتا ھوں بعد میں بھی نکات میری تحقیقات کی بنیاد ثابت ھوتے ھیں اگر

Page 116

(۱۰۷) میں انھیں بر وقت نوٹ نہ کر لوں تو یه اهم مضامين ضائع هونيكا احتمال هوتاهی ان کا یہ طریق دن رات جاری رہتا تھا حتی کہ کھانے کی میز پر بھی اچانک وہ اپنی نوٹ بک کھول کر کچھ لکھ لیا کرتے تھے اس کے بعد گفتگو میں دوبارہ شامل ہو جاتے تھے احمدیت سے عشق ڈاکٹر صاحب ( نور اللہ مرقدہ) کو احمدیت سے مجنونانہ عشق تھا اور جماعت کیلئے بہت غیرت رکھتے تھے ۱۹۷۴ء میں جب پاکستان کی قومی اسمبلی نے جماعت کو دائرہ اسلام سے خارج کر نے کی قرارداد پاس کی تو ان دنوں وہ حکومت پاکستان کے سائینسی مشیر تھے اور ان کا درجہ وزیر کے برابر تھا جو نہی ان کے پاس فیصلہ کی خبر پہنچی تو لندن مشن ہاؤس تشریف لائے وہاں چوہدری ظفر اللہ خانصاحب بھی موجود تھے انہوں نے اپنی جیب سے استعفی نکال کو ان کو دکھلایا اور فرمایا میں ایسی حکومت کے ساتھ کیسے تعاون کر سکتا ہوں جس نے ہمیں دائرہ اسلام سے خارج کر دیا ہو.جنرل ضیاء نے جب اپنا رسوائے زمانہ آرڈی نینس جاری کیا جس میں جماعت کو بہت سے شعائر اسلام کے استعمال سے قانونی طور پر منع کیا گیا تھا تو ڈاکٹر صاحب کو بہت صدمہ پہنچا.کچھ عرصہ بعد جب خاکسار ان کی خدمت میں حاضر تھا تو میں نے ان سے استفسار کیا کہ کیا اس آرڈی نینس کے جاری ہونے کے بعد ان کی ملاقات جرنیل صاحب سے ہوئی ہے؟ فرمایا ہاں ہوئی ہے اور اس کی روداد یوں ہے: جنرل ضیاء کی طرف سے مجھے ٹریسٹ میں کئی فون آئے کہ میں پاکستان جا کر ان سے ملوں لیکن میں ٹالتا رہا.بلا خر مجھے کسی وجہ سے پاکستان جانا ہوا.اس کو اطلاع ہوئی تو ملاقات پر مصر ہو گیا چنانچہ میں ملاقات کیلئے پریذیڈنٹ ہاؤس گیا جہاں بعض اور سائینس دان بھی موجود تھے جنرل صاحب نے باہر آکر میری کار کا دروازہ کھولا اور مجھ سے معانقہ کرنے کے بعد مجھے اپنے ساتھ بیٹھنے کے کمرہ میں لے گئے دوران گفتگو میں نے آرڈی نینس کا ذکر کر کے اس پر اظہار افسوس کیا.جنرل صاحب نے فوراً

Page 117

(۱۰۸) میرا ہاتھ تھام لیا اور کہا آئیے دوسرے کمرے میں چل کر بات کرتے ہیں.اور مجھے دوسرے کمرے میں لے گئے میرے ساتھ اس وقت سائینسی امور کے وزیر بھی کمرے میں موجود تھے.جنرل صاحب نے کہا بات یہ ہے کہ میرے پاس علماء کا ایک وفد آیا تھا انہوں نے مجھے بتایا کہ احمدی قرآن مجید میں تحریف کر تے ہیں اس لئے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں.اس پر ڈاکٹر سلام نے ان سے عرض کیا کہ قرآن کی حفاظت کا وعدہ تو اللہ تعالیٰ نے کیا ہے اس لئے احمدی اس میں تحریف کیسے کر سکتے ہیں؟ اس پر وہ اٹھ کر کتابوں کی الماری کی طرف گئے اور تفسیر صغیر اٹھا لائے اور کہا کہ علماء نے ان آیات کی نشاندہی کی ہے جہاں آپ لوگوں نے تحریف سے کام لیا ہے اور ایک نشان زدہ صفحہ کھول کر میرے سامنے کر دیا.یہ آیت خاتم النبین تھی میں نے جنرل صاحب سے عرض کیا کہ آیت تو مکمل طور پر درج ہے تحریف کہاں ہوئی ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ آپ نے آیت کے معنوں میں تحریف کی ہے اور بجائے نبیوں کو ختم کرنے والے کے نبیوں کی مہر ترجمہ کیا ہے اور یہ نا قابل برداشت ہے.ڈاکٹر صاحب نے مجھے بتایا کہ میں نے جنرل صاحب سے عرض کیا کہ ختم کا لفظ جو یہاں استعمال ہوا ہے وہ پنجابی زبان کا لفظ نہیں ہے بلکہ عربی زبان کا ہے اور اس کے معنی عربی میں مہر کے ہیں لیکن میں اس بحث میں پڑنا نہیں چاہتا کیا آپ کے پاس کسی اور عالم قرآن کا ترجمہ ہے؟ وہ اٹھے اور علامہ محمد اسد کا انگریزی ترجمہ قرآن اٹھا لائے جو مکہ معظمہ میں شائع ہوا تھا میں نے قرآن مجید کھولا آیت خاتم النبین نکالی تو وہاں بھی ترجمہ Seal of the Prophets لکھا تھا.جنرل کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا میں نے عرض کیا علامہ اسد تو احمدی نہ تھے پھر ان کا ترجمہ سعودی حکومت کا شائع کردہ ہے کیا انہیں بھی آپ تحریف کا مجرم قرار دیں گے؟ اس پر جرنیل صاحب کہنے لگے بھی میں تو ان پڑھ جرنیل ہوں جو علماء نے مجھے کہا میں نے اسے تسلیم کر لیا.میں نے عرض کیا جناب بات صرف جرنیلی کی نہیں آپ اس ملک کے صدر بھی ہیں اور بحیثیت صدر مملکت پاکستان کی تمام رعایا کے حقوق کی حفاظت آپ کے فرائض میں شامل ہے یہیں اسلام آباد میں

Page 118

(۱۰۹) جماعت احمدیہ کے مربی موجود ہیں آپ کو جو کچھ علماء نے بتلایا تھا آپ کا فرض تھا کہ احمدی علماء کو بھی بلا کر تسلی کر لیتے اور پھر فیصلہ فرماتے.اس پر جرنیل صاحب نے زور سے کلمہ شہادت پڑھا اور مجھے بھی کلمہ شہادت پڑھنے کو کہا میں نے بھی کلمہ دہرایا تو کہنے لگے : سلام خدا کی قسم میں آپ کو اپنے بہتر سے مسلمان سمجھتا ہوں لیکن کیا کروں علماء سے میں مجبور ہو گیا تھا اور یہ کہہ کر بات کا رخ اور طرف موڑ دیا.وطن سے محبت ڈاکٹر صاحب کو پاکستان سے شدید محبت تھی میں نے جب برٹش پاسپورٹ حاصل کیا تو ایک روز ناشتہ کی میز پر میں نے ان عرض کیا کہ وہ بھی برٹش پاسپورٹ بنوالیں.اس طرح سفر میں آسانیاں پیدا ہو جائیں گی اور یہ بھی عرض کیا کہ اگر وہ چاہیں تو میں برٹش پاسپورٹ کے حصول کیلئے ضروری فارم اور کاغذات ان کو لا کر دے دوں.وہ کچھ دیر خاموش رہے اور پھر فرمایا:.امام صا حب میں هرگز پاکستانی شهریت والا پا سپورٹ نھیں چھوڑوں گا مجھے امید هے که بهت جلد مجھے نوبل پرائز مل جائیگا اور میں نھیں چاھتا کہ یہ اعزاز کسی اور ملک کے کھا نے میں جائے میں پاکستانی رھوں گا خواہ مجھے سفر میں کتنی بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑے چنانچه اپنی وفات تک انھوں نے برطانوی شهریت حا صل نه کی جس کا انھیں حق تھا.اپنے والدین سے ڈاکٹر صاحب (مرحوم) کی عقیدت و محبت مثالی تھی اور یوں لگتا تھا گویا انہیں اپنے والدین سے والہانہ عشق ہے.جب ان کے والد صاحب کی وفات ہوئی تو وہ غم سے نڈھال ہو گئے اور لندن اپنے مکان کے کمرہ میں غم سے نڈھال تنہائی میں وقت گزار نے لگے کچھ عرصہ بعد مسز سلام کا چوہدری صاحب کو فون آیا کہ آکر ڈاکٹر صاحب کو سمجھائیں.چوہدری صاحب مجھے ساتھ لے کر ان کے

Page 119

(+11) گھر گئے ڈاکٹر صاحب کا غم سے برا حال تھا چو ہدری صاحب نے انہیں نصیحت فرمائی اور فر مایا کہ اس قدر غم بھی بعض اوقات شرک کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے.پھر اپنی مثال دی کہ اپنی والدہ مرحومہ سے عشق ہونے کے باوجود ان کی وفات پر صبر اختیار کیا اور اللہ کی رضا پر راضی ہو گیا.بہت دیر تک ان کو نصیحت فرماتے رہے پھر اٹھ کر ڈاکٹر صاحب کو گلے لگایا ڈاکٹر صاحب جی بھر کر روئے ، اور ان کے دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا.ڈاکٹر صاحب مرحوم کا اپنے والدین سے عشق اس وجہ سے تھا کہ دونوں اولیاء اللہ میں سے تھے صاحب کشف و رؤیا تھے ان کی زندگی اوڑھنا اور بچھونا اللہ کی رہنما کا حصول تھا چوہدری محمد حسین صاحب ساری ساری رات عبادت میں گزارا کرتے تھے اور دعاؤں میں خاص شغف رکھتے تھے.دین کے خادم محترمہ مسز سلام ایک لمبے عرصہ تک برطانیہ کی لجنہ اماءاللہ کی صدر رہیں جبکہ عاجز کو بحیثیت امام اور مشنری انچارج جماعت احمد یہ برطانیہ ان کا مکمل تعاون حاصل رہا.مسز سلام دن رات سلسلہ کے کاموں میں اور لجنہ اماءاللہ بر طانیہ کی تعلیم و تربیت میں مگن رہتی تھیں.اس کام میں انہیں ڈاکٹر صاحب کا مکمل تعاون حاصل تھا.مسز سلام ایک طرف جماعت کی خدمت میں لگی رہتی تھیں اور اس کے ساتھ ساتھ مکرم ڈاکٹر صاحب مرحوم و مغفور کے درجنوں مہمانوں کی بیک وقت مہمان نوازی میں بھی کسی قسم کی کمی نہیں آنے دیتی تھیں یہ آسان کام نہیں تھا.اس مہم کو سر کرنے کیلئے دونوں میاں بیوی کا آپس میں تعاون ضروری تھا جو خدا تعالیٰ کے فضل سے انہیں میسر تھا.ڈاکٹر صاحب اور ان کی بیگم صاحبہ کی اعلیٰ تربیت اور ان کے مرحوم بزرگ والدین کی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کے تمام بچے دین کے بچے خادم مخلص ، خلافت کے اطاعت گزار اور کامیاب زندگی بسر کر رہے ہیں.ڈاکٹر صاحب کا بڑا بیٹا احمد سلام جلسہ ہائے بر طانیہ اور دیگر تقاریب پر کچن میں ڈیوٹی پر ہمیشہ مگن رہتا ہے اور خوشی محسوس کرتا ہے.ایک مرتبہ ایک معزز مسلمان مہمان جلسہ سالانہ پر تشریف لائے تو جلسہ کے انتظامات دیکھ کر

Page 120

(11) بہت متاثر ہوئے اور کہا کہ ان تمام والنٹیر ز کو آپ کی جماعت اتنے بڑے کام کیلئے بہت معاوضہ دیتی ہوگی جب انہیں بتایا گیا کہ اس سارے کام کو رضا کارانہ طور پر کیا جاتا ہے تو وہ بے حد حیران ہوئے.وہ لنگر خانے کے پاس کھڑے تھے ان کا تعارف کچن کے کارکنان سے کرایا گیا.احمد سلام کچن میں بڑے بڑے دیگچے مانجھنے میں مصروف تھا جب اسکا تعارف معزز مہمان سے کرایا گیا تو وہ بہت حیران ہوئے کہ اتنے عظیم انسان کا بیٹا کچن میں برتن مانجھ رہا ہے اور اس پر فخر محسوس کرتا ہے کہ اسے دین کی خدمت کی توفیق مل رہی ہے.مذہب اسلام سے ڈاکٹر صاحب کو کس قدر عشق تھا؟ اس کا ثبوت مندرجہ ذیل واقعہ سے ملتا ہے کئی سال ہوئے سعودی حکومت کے تعاون سے حج کے بارہ میں ایک فلم ریلیز ہوئی تھی جس میں ارکان حج کے علاوہ مقدس مقامات کی زیارت بھی کرائی گئی تھی خاکسار نے اس فلم کومشن ہاؤس میں دکھانے کا انتظام کیا اور ان کو بھی دیکھنے کی دعوت دی.انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کر دی کہ میرا ارادہ عمرہ کرنے کا ہے اور میں نہیں چاہتا کہ فلم دیکھنے سے جو لطف مجھے خود ان مقامات پر حاضر ہونے سے نصیب ہو گا کہیں اس میں کمی نہ آجائے.خوش الحان قاریوں کی تلاوت کے بے شمار کیسٹ وہ خود منگواتے رہتے تھے اور انہیں بڑی عقیدت سے سنا کرتے تھے اور اکثر قاریوں کے بارہ میں خاکسار کو بتایا کرتے تھے کہ فلاں قاری کی آواز بہت مسحور کن ہے تو فلاں قاری کی قرات اور الفاظ کی ادائیگی بہت اعلیٰ ہے.قاری عبد الباسط سے بے حد متاثر تھے اور ان کی تلاوت میں پورا قرآن کریم بطور خاص مصر سے منگوایا تھا اور اسے سنا کرتے تھے اور کئی مرتبہ مکرم چوہدری صاحب (مرحوم ) کو بھی سنایا کرتے تھے.ڈاکٹر صاحب (مرحوم) کا ایک اعلیٰ وصف یہ تھا کہ خط کا جواب ضرور دیتے تھے.اکثر اپنے ہاتھ سے اور کبھی کبھی اپنے سکرٹری سے ٹائپ کروا کر اپنے دستخطوں سے جواب بھجواتے تھے.طبیعت تکلف سے بلکل آزاد تھی.چنانچہ اکثر جو بھی پرزہ سامنے آجاتا اس پر خط لکھ دیا کرتے تھے.خاکسار کو بھی تین چار خطوط محض کاغذ کے پرزوں پر ارسال کئے.مقصد جواب دینا ہوتا تھا نہ کہ پیڈ اور اعلیٰ کا غذ کے

Page 121

(lr) تکلفات سے.غرض مکرم ڈاکٹر صاحب مرحوم اخلاق حسنہ کا ایک خوبصورت گلدستہ تھے جس کی خوشبو چار دانگ عالم میں پھیل گئی تھی.Turkmenistan Machhad Kustika Mary Tajikistan Uzbekistan Dushanbe Khorog ° Yeche Kargi China Mor Khun Mazar- Shar Pol-e Knomn Conduz Bal Northern Indian Claim Gilgit⚫.North-West Frontier Areas Khyber Pass Chilas Skardu Azad Saldu Kashin Kabul Muzaffarabad Nowshera ●Snnagar Peshawar slamabad Ghazal ☑ Banny Rawalpifidi ⚫Jammu Fed.Admin.Tribal Areas ara lanati Khan Sargodha Lahor Candamar Ludhiana Afghanistan Dolaram Chaman Quetta Khop: Zahedan Sib Nok Kundi Kala: Dalbandin 24° Iran Gwadar Pasni Jiwani Balochistan Arabian Sea Bala > ☑ Karachi *Noto: The City of Islamabad is encompassed by the Province called islamabad Castal Territory Federalty Administered The Pakistan- Tribal Areas la designated a termory administered portion c1 the discuted Jammu and Kashmir region includes Azad Kashmir and the Northern Aress Zhab Punjab Sahiwal Enatinda Suck Khairpur Sindh Mirpur Khas Hyderabad Jaisalmer /New Dehli India Pakistan ☑ П National Capital Province Capital Secondary Cliy Airport Disputed Terntory International Border Province Border Disputed Border Road Railroad Konda Trail D 100 203 300 km Rajkot 0 :co 203 m Bhusaval 720 مقام پیدائش جهنگ مقام تدفین ربوه (چناب نگر) ●Surat

Page 122

(۱۱۳) پروفیسر سعید الظفر چغتائی (علی گڑھ ، انڈیا) حریف سے مرد انگن عشق پروفیسر عبدالسلام سے مجھے پہلی بار نیاز دسمبر ۱۹۶۴ء میں حاصل ہوا.وہ لندن یو نیورسٹی کے امپیرئیل کالج میں اپنے دفتر سے کالج لا میر میری کی طرف جا رہے تھے اور وہیں کالج کے لمبے چوڑے داخلے کے ہال میں کھڑے کھڑے شاید دس منٹ تک باتیں کرتے رہے.اس وقت تک وہ جدید طبیعات کے ایک سرخیل کے طور پر مشہور ہو چکے تھے اور یہ بات کہی جاتی تھی کہ ۱۹۵۹ء میں جو نو بل انعام خفیف نیو کلیائی اعمال میں اصول موزونی سے انحراف کے سلسلہ میں پروفیسر لی اور یانگ e & Yang & Lee کو دیا گیا اس کے حصے دار سلام بھی ہو سکتے تھے.اس وقت تک پروفیسر سلام علوم کی سرحدوں پر ہونے والی تحقیقات کا کئی بار بڑے دل نشین انداز سے سائینس کے عام قارئین کے لئے تعارف بھی کرا چکے تھے.یہ بات اس لئے اہم ہے کہ عام طور پر ماہرین ان حالات میں جو تعارف لکھتے ہیں وہ غیر ماہروں کی سمجھ میں بلکل نہیں آتے.تقریباً دو سال پہلے ہندوستان چھوڑنے سے قبل مجھے طبیعات سے ماخوذ فلسفہ سائینس کے بعض موضوعات پر مولانا عبدالباری ندوی کے سوالات پر غور کرنے کا شرف حاصل ہو چکا تھا.اس وقت مولانا کی عمر ستر سے اوپر تھی اور وہ اپنی تمیں سال پرانی کتاب اسلام اور عقلیت کا دوسرا ایڈیشن تیار کرنے کے لئے جدید طبیعات پر تقریباً ایک درجن عام فہم کتابیں پڑھ چکے تھے.پروفیسر سلام نے اس موضوع میں دلچسپی لی اور اس اہم گفتگو کو بہت دیر تک یاد رکھا.یہاں تک کہ دس پندرہ سال بعد جب پیرس یو نیورسٹی نے ان سے میرے بارے میں راز دارانہ رائے مانگی تو سلام کے جواب میں ۱۹۶۴ ء کی اس گفتگو کا تصور جھلک اٹھا.اس وقت سلام کی تجویز پر اقوام متحدہ کا پس ماندہ ملکوں کے لئے نظریاتی طبیعات کا ایک بین

Page 123

(۱۱۴) الاقوامی مرکز قائم کرنے کا فیصلہ تازہ تھا اور اس کے لئے شمال مشرق اطالیہ کا ما بہ النزاع شہر ٹریسٹ کا انتخاب ہو چکا تھا.اس مرکز کے قیام میں اٹلی اور سویڈن کی حکومتوں کے علاوہ اقوام متحدہ کا وی آنا میں واقع ادارہ اثر نیشنل اٹامک انرجی ایجنسی مالی طور پر شریک تھا.دائرہ عمل میں توسیع سلام نے خواہش ظاہر کی کہ میں ہندوستان کے ایٹمی توانائی کمیشن کے ذریعے وہاں آنے کی کوشش کروں.یہ کوشش ۱۹۷۳ء میں بلکل نئے انداز سے اس وقت بار آور ہوئی جب میں چار برس ہوئے علی گڑھ آچکا تھا.اور صدی کی آٹھویں دہائی کے شروع میں ٹریسٹ کے مرکز کی سائینٹفک کمیٹی کے صدر منتخب ہو نیوالے فرانس کے نوبل انعام یافتہ آپٹیکل پمپنگ Optical Pumping کے موجد پروفیسر آل فرڈ استلیر کی تجویز پر سلام نے مرکز کے عمل کا دائرہ نظری طبیعات سے بہت وسیع کر کے ایٹمی اور سالماتی طبیعات تک پھیلا دیا تھا.یہ سننے موضوعات دن بہ دن بڑھتے گئے پہلے ان پر سرگرمیاں جدید ترین تحقیق معلومات مہیا کرنے کی حد تک تھیں.جن کیلئے دنیا بھر سے ماہروں کو بلایا جاتا رہا پھر پچھلے برسوں سے تجربہ گاہیں قائم ہونے لگیں جن میں ترقی یافتہ ملکوں کی مدد سے ترقی پذیر ملکوں کے محقق اور طالب علم متعین عرصے کے لئے جا کر کام کرنے لگے ہیں.لیکن اس دوران میرے بھارت آتے آتے ۱۹۶۹ء میں سلام لنج یو نیورسٹی تشریف لے گئے تو وہاں اپنی تقریر سے پہلے مجھے بلا کر بتلایا کہ وہ مجھے امپیرئیل کا لج بلانے کی کوشش کر رہے ہیں ان کے رفیق کار پروفیسر گارٹن نے مجھے ۱۹۶۹ ء اور پھر ۱۹۷۷ء میں پیش کش بھیجی اور مؤخر الذکر سال میں تین مہینے لندن میں رہا.لیکن میں نے امپرئیل کالج لندن پر مسلم یو نیورسٹی علی گڑھ کی ملازمت (ڈی پارٹمنٹ آف فزکس) کو تر جیح دی.سلام کے مرکز (یعنی آئی سی ٹی پی) میں ۱۹۷۳ء سے ۱۹۹۰ء تک ایک مہینے یا اس سے زیادہ کے لئے میرا جانا سات بار ہوا.زیادہ طالب علم کی حیثیت سے لیکن پھر سہ پہر کو کچھ ہلکے پھلکے طالب علمانہ مذاکرے منعقد کرانیکے کام میں بھی مجھے شریک کیا گیا تھا جنہیں لیمپ کا نفرنس کا نام سے یا درکھا جاتا ہے.

Page 124

(110) ٹریسٹ کا مرکز اب ایک سائینس کی فیکلٹی (انسٹی ٹیوٹ) جیسا ہو گیا ہے جس میں نظری طبیعات سے شروع ہو کر لیزرز، الیکڑانکس، ٹھوس مادہ کی طبیعات، سمندر پیمائی، اور حیاتیاتی سائینس کے موضوعات پر الگ الگ پورے پورے انفرادی مراکز اور ان کی تجربہ گا ہیں قائم ہو گئی ہیں یا قائم ہو رہی ہیں.ٹریسٹ یونیورسٹی اور قریب ہی واقع سائیکلوٹرون Cyclotron سے مرکز کا گہرا تعلق ہے اور سلام نے اپنے آخری سال جب انہیں نوبل انعام مل چکا تھا اور ان کی صحت جلتی مشعل کی طرح گھٹ رہی تھی جس کے باعث نظری طبیعات میں وہ پہلے جیسا حصہ نہ لے سکتے تھے تو انہوں نے عمر عزیز کا باقی ماندہ حصہ ان مراکز کی تنظیم اور استحکام پر صرف کر دیا.سلام نے نظری طبیعات میں خفیف قوت کو برقی مقنا طیس قوت کے ساتھ ملا کر نو بل انعام حاصل کیا.اس کے علاوہ وہ زندگی بھر طبیعات میں موزونی یعنی سیمٹری کی جمالیات تلاش کرتے رہے اور طبیعی میدانوں اور قوتوں کی کثرت کو وحدت کی طرف لانے کی عالمی کوششوں کے سربراہ کے طور پر شریک رہے.اس کے علاوہ انہوں نے عمر عزیز اور اپنی جسمانی تیز دماغی طاقتوں کا بڑا حصہ اس لئے صرف کیا کہ پسماندہ ممالک کے غریب باشندے علم و عمل، نیک نامی، اور خوش حالی سے ہم کنار ہوں.اس طرح انہوں نے اپنی مشکل دونوں سروں پر جلائی اور بہ مشکل تمام ستر سال جی سکے.آخری دو سال تقریباً کوما Coma میں گزارے.انہیں ایک بہت شاذ قسم کی پارکنسن کی بیماری ہو گئی تھی جس میں دماغ پوری قوت سے کام کرتا رہتا ہے لیکن اعصاب مفلوج ہو جاتے ہیں.عبد السلام نے اپنے فکر و عمل سے ہماری بے حسی اور نا کردہ کاری کی جتنی تلافی کی جاسکتی تھی کی لیکن ان کی شمع کو ان کے بعد جلتے رکھنا جو بڑا کام ہے اسے کرنے والے ہم میں سے کون ہوں گے..ہے مگر رلب ساقی پہ صلا ان کے بعد ما خوز از ـ تهذیب الاخلاق ـ عبد السلام نمبر ـ مارچ ۱۹۹۷ء

Page 125

(IM) پروفیسر ایس ایم انصاری (علی گڑھ) ایک ذاتی تاثر پروفیسر عبد السلام سے میری پہلی ملاقات ۱۹۲۶ء میں آئی سی ٹی پی (ٹریسٹ اٹلی ) میں ہوئی تھی.یہ ادارہ اس وقت وہاں ایک کرائے کے مکان میں تھا اس وقت وہ بہت جوان اور فعال تھے.بہت آرام سے انہوں نے باتیں کیں اور میری باتیں سنیں.میں اس سے پہلے ۱۹۶۴ میں انسٹی ٹیوٹ آف تھیورٹیکل فزکس ہمبرگ (جرمنی) میں ریسرچ کر رہا تھا تو وہاں ان کو ایک سیمینار میں لیکچر کیلئے مدعو کیا گیا.اس میں وہ واحد پاکستانی تھے لیکچر کے بعد ان کو اس بات میں کوئی جھجک محسوس نہ ہوئی کہ مجھ سے اردو میں دو چار باتیں کریں.انہوں نے بڑی بے تکلفی سے دوسرے ممالک کے لوگوں کی موجودگی میں مجھ سے اردو میں باتیں کیں.میں نے ڈاکٹر آف سائینس ۱۹۶۶ء میں کیا ۶۸.۱۹۶۷ء میں جب میرا تھیس Thesis چھپ گیا تو میں نے لکھا کہ میں ان کے یہاں آؤں اور کچھ ریسرچ کا کام کرسکوں.تو انہوں نے لکھا کہ آپ چونکہ ایک مغربی انسٹی ٹیوٹ میں کام کرتے ہیں اس لئے ہم آپ کو مدعو نہیں کر سکتے.آپ کا انسٹی ٹیوٹ اپنے طور بھیجے تو وہ الگ بات ہے.اس کے بعد متعدد بار میری ان سے ملاقات رہی.۱۹۷۳ء میں کا سالوجی (یعنی کو نیات) پر ایک سیمینار میں وہاں گیا ان کے کمرے کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا تھا.آپ بغیر کسی اپوائنٹ منٹ کے ان سے مل سکتے تھے.یہ ایک بڑی بات تھی بڑی آسانی سے ان تک پہنچا جا سکتا تھا.۱۹۷۶ء میں نتھیا گلی (پاکستان) میں ان سے ملاقات ہوئی ایک کانفرنس اور Physics & contemporary needs پر ایک سیمینار بھی تھا یہ کا نفرنس پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے منعقد کی تھی.اس میں ہندوستان سے سائنسدانوں کو بلانے پر انہوں نے اصرار کیا تھا اس زمانے میں ایمر جیسی کی وجہ سے پاکستان سفر کرنا بہت مشکل تھا ایک صاحب اس میں ڈاکٹر ناگ چودھری اور دوسرے صاحب شاید آئی آئی ٹی کے تھے اس کا نفرنس میں میں نے بھی دو مقالہ جات پڑھے.ایک اپنے

Page 126

(112) موضوع سولر فزکس سے متعلق اور دوسرا ایوننگ ٹاک سپیس ریسرچ ان انڈیا کے موضوع پر.یہ کلاسی فائیڈ نہیں بلکہ پبلشڈ تھا.ہندوستان کی پلیس ریسرچ سے وہ یقیناً واقف رہے ہوں گے لیکن انہوں نے مجھ سے متاثر ہو کر کہا کہ آپ جب بھی یوروپ آئیں تو مجھے مطلع کریں میں آپ کو بلاؤں گا اتفاق سے اسی سال اگست میں مجھے یو نیورسٹی آف گرے نوبل (فرانس) میں جنرل اسمبلی آف انٹر نیشنل اسٹرانومی کل یونین کی سالانہ کا نفرنس میں جانا تھا.میں نے انہیں بتایا تو انہوں نے کہا کہ آپ دو تین ہفتے کیلئے ہمارے یہاں آئیں.وہاں انہوں نے مجھ سے اسٹرانومی ان انڈیا پر لیکچر دلوایا.ایک لیکچر میں وہ بہ نفس نفیس تشریف لائے اور دلچسپی لی دو تین ملاقاتیں حکیم عبد الحمید کے یہاں رہیں.۱۹۸۴ء سے لیکر ۱۹۸۶ء تک میں دہلی میں ڈیپارٹمنٹ آف ہسٹری اینڈ سائینس قائم کرنے کی تگ و دو میں تھا وہ ایک دفعہ وہاں بھی آئے.ان سے میری گفتگو ہسٹری اور سائینس کے سلسلے میں وہ Sciences in Islamic countries in medieval times میں بہت دل چسپی رکھتے تھے.بہت ہوئی.وہ انہیں کوئی عار نہیں تھا کہ اگر کوئی بات انہیں معلوم نہیں ہے تو وہ سیکھیں یا معلوم کریں.کویت میں جب (۱۹۹۲ء) کا نفرنس کے افتتاح کیلئے ان کو بلایا گیا تو اس میں انہوں نے اسلامی سائینسی ورثہ پر بہت زور دیا اور کام کرنے کیلئے کہا کہ اپنے ماضی یعنی Achievements of Muslim Scientists پر بھی کام کرنا چاہئے اور نئی نسل کو بتلانا چاہئے کہ صرف نیوٹن اور آئن سٹائین سے ہی متاثر نہ ہوں بلکہ انہیں معلوم ہو کہ ہمارے یہاں بھی بڑے بڑے سائینسدان ہو گزرے ہیں.اسی طرح مسلم اور عرب ممالک کے سائینسدانوں کی سائینسز سے بھی وہ متاثر تھے.ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ آدمی تو ایلی مینٹری پارٹیکلو کے تھے لیکن انہیں دوسری برانچز سے بھی دلچسپی تھی.کانفرنسیں کرائیں اور دلچسپی لی اور اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو میں Heritage of Science قائم کرائی اور اس پر ایک هند و ستانی سائینسدان کوهی مقرر کرایا.(ماخوذ از تہذیب الاخلاق.مارچ ۱۹۹۷)

Page 127

(IA) پروفیسر اسرار احمد (علی گڑھ) ڈاکٹر سلام کی ساٹھ سالہ برسی پر لکھا گیا سلام کی عظمت کے چار پہلو یقین محکم عمل پیہم، محبت فاتح عالم جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں علامہ اقبال کے اس شعر پر سبھی جھوم اٹھتے ہیں.لیکن اقبال کے مرد کی شمشیریں ہاتھ میں لے اٹھنے کا حوصلہ بہت کم کو ہوتا ہے.نوبل انعام یافتہ پروفیسر عبد السلام ان چند جیالوں میں سے ہیں جس نے نہ صرف اس شمشیر کو اٹھایا بلکہ اس سے بھر پور جہاد بھی کیا.۲۹ جنوری ۱۹۸۶ کو ساٹھ سال پورے ہونے والی ان کی زندگی اقبال کے اوپر مذکورہ شعر کی تفسیر ہے.ساٹھ سال کا زمانہ کائیناتی پیمانہ پر اس کی حقیقت ایک خفیف ترین وقفہ سے زیادہ نہیں.البتہ جب یہی زمانہ کسی مرد کامل کے ہاتھوں کائینات کی حقیقتوں پر پڑے ہوئے دبیز پردوں کو اٹھانے ، منشائے تخلیق کی تہ تک پہنچنے اور مخلوق کائینات کے درد کو سمجھنے اور بانٹ لینے میں صرف ہو تو وہ مستقبل کو جذب کر کے ایک لا متناہی حجم اختیا کر لیتا ہے.وہ جاوداں بن جاتا ہے اور تا ریخ کے اوراق میں ہمیشہ کیلئے نقش ہو جاتا ہے.عبد السلام ایک ایسا ہی مرد کامل ہے جس نے کائینات کے راز سر بستہ سے سرگوشی کی ، فطرت کی بظاہر مختلف قوتوں کو وحدت کی لڑی میں پرو دیا.تیسری دنیا کے دکھ درد کو سمجھا، اور اس کے مداوا کیلئے شب و روز ایک کر دیا.اس طرح انہوں نے اپنی گزشتہ عمر کے ساٹھ سال کو زمانہ مستقبل پر محیط کر دیا.سطح آب پر کبھی مختلف لہروں کو باہم متصل ہوتے ہوئے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہو گا.عموماً ایسا ہوتا ہے کہ باہم ملنے والی لہروں کے نشیب و فراز کسی خاص ترتیب و نظم یا آہنگ سے نہیں ملتے.میزاناً ایک لہر کا نشیب دوسرے کے فراز سے مل کر ایک دوسرے کے اثر کو کم کرتا رہتا ہے.اور سطح آب پر صرف ہلکورے نظر آتے ہیں.البتہ بعض انتہائی مخصوص حالات میں یہ بھی ممکن ہے کہ ایک خاص مقام پر مختلف لہروں

Page 128

(119) کے فراز ایک خاص ترتیب کے ساتھ ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتے ہوئے ملیں.ایسی صورت میں پانی اپنی نارمل سطح سے کافی اونچا اٹھ کر ایک بڑے فراز کی شکل اختیار کر لیتا ہے.عبد السلام کی ابتدائی زندگی حالات کی لہروں کے فرازوں کا باہم مل کر ایک بڑا فراز بن جانے کی مترادف ہے.انہوں نے ایک ایسے خاندان میں آنکھ کھولی جو علم دوست تھا.انہیں ایسے والدین ملے جنہوں نے ان کی تعلیم و تربیت میں غیر معمولی دلچسپی لی.قدرت نے انہیں ایک غیر معمولی ذہن سے نوازا تھا نتیجہ..ان جیسا شاندار تعلیمی ریکارڈ شاید ہی کسی کا ہو.ہر امتحان میں کامیاب ہونیوالوں میں وہ سر فہرست رہے.اور بیشتر میں نئے ریکارڈ قائم کئے.پھر قدرت نے کچھ ایسے حالات پیدا کئے کہ وہ اپنے عزیز و اقارب کی شدید خواہش کے باوجود سول سروس میں نہ جا پائے.اس طرح ان کی عبقریت بے موت مرتے مرتے بچی.اتنا ہی نہیں قدرت یہ بھی انتظام کر دیا کہ وہ علوم جدیدہ کے بہترین گہوارے میں زانوئے تلمذ طے کریں.یعنی اعلیٰ تعلیم کیلئے سکالر شپ کے ایک ایسے فنڈ کا قیام جس سے صرف اور صرف عبد السلام مستفید ہو سکے.اس طرح حالات کی ہر لہر کا فراز انہیں ان کی موجودہ بلندی کی طرف لے گیا.گو قدرت نے عبد السلام کی پشت پناہی قدم قدم پر کی.لیکن یہ سب کچھ اللہ کی سنت کے مطابق ہوا، خدا بھی انہی کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں.عبد السلام کی ہر کامیابی کے پیچھے ان کی شب و روز کی محنت لگن اور اپنے مقصد سے جذباتی لگاؤ کا ہاتھ زیادہ ہے.بنجر زمین اگر وہ قدرت سے عطا کی گئی زرخیزیوں کو اپنے عرق انفعال سے سیراب نہ کرتے ، تو ان بلندیوں کو جن پر وہ آج ہیں چھو پانا ممکن نہ ہوتا.ایسا نہیں کہ زندگی کے سفر میں انہیں ہمیشہ ہموار راستہ ہی ملا ہو.ایسا ہونا خلاف فطرت تھا.ان کی راہ میں کئی ناہمواریاں آئیں.خصوصاً اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد جب وہ اپنے وطن پاکستان واپس لوٹے اور پنجاب یونیورسٹی میں ریاضی کے پروفیسر کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا.اس زمانہ میں پاکستان میں کوئی علمی ماحول نہ تھا.خصوصاً سائینسی علوم کیلئے وہاں کی زمین بلکل بنجر تھی.عبد السلام نے اس بنجر زمین زرخیز بنانے کی بہت کوشش کی مگر کچھ کامیابی نہ ملی.انہیں

Page 129

(۱۲۰) اپنی کوششوں کے جواب میں تمسخر، حوصلہ شکنیاں اور حاسدانہ جذبات ملے.یقینا انہیں اپنی ساری اعلیٰ تربیت خاک میں ملتی نظر آتی ہوگی.اپنے ملک کو بین الا قوامی سائینس میں ایک خاص مقام دلانے کا ان کا خواب چور چور ہو گیا ہو گا.پر وہ عبد السلام ہی کیا جو رکاوٹوں سے گھبرا جائے اور نا مساعد حالات کے سامنے سپر ڈال دے.برہم ہوا ئیں لاکھ مزاحم ہوئیں مگر دیوانہ وار موج نے ساحل کو جالیا انہیں جب یہ یقین ہو گیا کہ وہ اپنے وطن کی خدمت اپنے وطن سے دور رہ کر زیادہ کر سکتے ہیں تو انہوں نے پردیس کی طرف رخ کیا.انگلستان نے ان کا خیر مقدم کیا.جہاں وہ پہلے نظری طبیعات کے لیکچرار پھر چند ہی سال بعد پر و فیسر بنائے گئے.ہر چشم بینا دیکھ سکتی ہے کہ باہر رہ کر انہوں نے جو کمال حاصل کیا اور جسطرح انہوں نے اپنے ملک وملت کی خدمت کی وہ پاکستان میں رہ کر نا ممکن تھی.عبد السلام کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں.ان میں کئی کمال ہیں، کئی خوبیاں ہیں.اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ان میں کوئی انسانی کمزوری نہیں.اگر ایسا ہوتا تو وہ فرشتہ ہوتے.پھر اس دنیا کے کام کے نہ رہ جاتے.ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کی شخصیت میں کمالات کا جمگھٹا ہے اور عظمتوں کا وہ چکا چوند ہے کہ انسانی کمزوریوں کے چند خفیف دھبے جو یقینا ہوں گے نظر نہیں آتے.عظمت کا ایک پہلو عبد السلام کی عظمت کی مضبوط بنیاد یہ ہے کہ وہ ایک عظیم سائینسدان ہیں سائینس کے میدان میں اپنی عظمت کا سکہ انہوں نے نہایت کم عمری میں ہی جما لیا تھا.ان کا پہلا اہم کام یہ تھا کہ انہوں نے ذری طبیعات میں ایک ریاضیاتی بھونڈے پن کو دور کرنیکا طریقہ دریافت کیا.جس سے نظریاتی طبیعات کے حسن میں نکھار آ گیا.سائینسی کمیونٹی میں اس کام کی کافی پذیرائی ہوئی اور انتہائی کم عمر میں ان کو فیلو آف را ئیل سو سائٹی چن لیا گیا.ان کا دوسرا اہم کام بھی نظریاتی طبیعات کو ، تجربات کی روشنی میں، خوبصورت ترسے متعلق ہے.۱۹۵۶ء تک یہ عام خیال تھا کہ کائینات میں کار فرما مختلف قو تیں کسی طبیعاتی عمل اور آئینے

Page 130

(۱۲۱) میں اس کے عکس میں تمیز نہیں کرتیں.انہوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ یہ اصول مطلق نہیں.خفیف نیوکلیائی قوت اس سے انحراف کرتی ہے اسی زمانہ میں دو امریکی سائینسدانوں Lee & Yang نے بھی ایسا نظریہ پیش کیا جس پر انہیں نوبل انعام دیا گیا.یہ ایک طرح کا تعصب تھا جو عبد السلام کو اس انعام میں شریک نہیں کیا گیا.نو بل کمیٹی کا یہ رویہ جس پر منصف مزاج سائینسدانوں کا حلقہ متعجب بھی ہو ا عبد السلام کی دل شکنی کا باعث نہ بن سکا.وہ مستقل اپنی گراں قدر سائینسی تخلیقات سے طبیعات کو نوازتے رہے اور ذراتی طبیعات کو نئی نئی راہوں سے شناس کراتے رہے.۱۹۶۷ء میں انہوں نے دوسرا بنیادی اہمیت کا نظریہ پیش کیا.یہ برق مقناطیس، خفیف نیوکلیائی قوتوں کی وحدت کا نظریہ تھا اس نظرے کی صداقت کا سرن کی لیبارٹری میں تجرباتی ثبوت ۱۹۷۳ء میں ملا.اور اسی نظریہ کو پیش کرنے پر انہیں ۱۹۷۹ء میں نوبل انعام ملا.عظمت کا دوسرا پہلو عبد السلام کی عظمت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ مشرق کی روحانی قدروں کے پر جوش علم بردار ہیں.اپنی زندگی کا بیشتر حصہ مغرب میں گزارنے کے باوجود سر تا پا مشرقی ہیں.مغربی تہذیب کی چکا چوندھ یا اس کے نت نئے رجحانات کے تیز دھاروں سے وہ چنداں مرعوب نہیں، وہ نیوٹن اور میکس ویل کے دیس میں رہتے ہوئے بھی بوعلی سینا، اور ابن الہیشم سے قریب ہیں.وہ اپنے دین اسلام کی حقانیت پر کامل یقین رکھتے ہیں اور اس کی ہدایات پر سختی سے عمل بھی کرتے ہیں.مغرب میں ہونیوالی کانفرنسوں کی پارٹیوں میں جب سب شرکاء جام کے جام لنڈھا رہے ہوتے ہیں عبد السلام کے ہاتھ میں اورنج جوس یا کسی شربت کا گلاس ہوتا ہے.انہیں اپنے کلچر پر فخر ہے اور اس کے اعلیٰ نمونے کا وہ بر ملا اظہار کر تے ہیں.اس بابت ان کے جذبات کا اندازہ نوبل انعام کے جشن کے موقعہ پر ان کے لباس کے انتخاب سے لگایا جا سکتا ہے.نوبل انعام لیتے وقت وہ جھنگ کے مخصوص علاقائی لباس میں ملبوس تھے ، شلوار و شیروانی ، سر پر پگڑی اور پیروں میں بھی نوکوں والے جوتے (یعنی پنجابی کھے ).

Page 131

(۱۲۲) عظمت کا تیسرا پہلو عبد السلام کی عظمت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ وہ پایہ کے سائینسداں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انتہائی کامیاب منتظم بھی ہیں.عموماً محققین میں انتظامی صلاحیت نہیں کے برابر ہوتی ہے.یا اگر کسی میں ہوتی بھی ہے تو وہ انتظامی امور سنبھالنے کے بعد علمی کام یکسر چھوڑ دیتا ہے.اسے عبد السلام کا کمال ہی کہئے کہ وہ اعلیٰ پیمانہ کی تحقیق بھی کرتے ہیں.اور ساتھ میں ایک کافی بڑے بین الاقوامی مرکز کا انتظام بھی سنبھالتے ہیں.ان کے نزدیک ایسا کرنا زیادہ مشکل نہیں.بس ذرا سی توجہ اور اپنے اوقات میں ترتیب کی ضرورت ہے.اکثر وہ اس بات پر اظہار تاسف کرتے ہیں کہ ہمارے پس ماندہ ممالک کی یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ ان کے سائینسدان اعلیٰ انتظامی عہدہ سنبھالتے ہی علمی کام چھوڑ دیتے ہیں.یعنی وہ اسی کام سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں جس کی بدولت انہیں وہ عہدہ ملا تھا.اس وجہ سے علمی ترقیوں سے ان عہدہ داروں کی ناواقفیت روز بروز بڑھتی جاتی ہے.جس کا اثر ملک کی سائینسی پالیسی پر پڑتا ہے.ادھر چند سالوں سے عبد السلام کے کاندھوں پر انتظامی امور کا کچھ زیادہ ہی بوجھ آن پڑا ہے.انہوں نے تھرڈ ورلڈ اکیڈمی آف سائیلسز کو قائم کیا ہے جس کے وہ بانی صدر ہیں.مگر اس کے باوجود وہ علمی تحقیقات کیلئے وقت نکال لیتے ہیں.سب سے زیادہ روشن پہلو آپ کی شخصیت کا سب سے زیادہ روشن پہلو یہ ہے کہ وہ ایک دردمند دل کے مالک ہیں.وسیع القلب ہیں اور منکسر المزاج ہیں.اور یہی وہ پہلو ہے جو انہیں دنیا کے عظیم سائینسدانوں کے درمیان قد آور بنا دیتا ہے.عبد السلام کے ہم پلہ یا ان سے بڑے اور بھی سائینسدان ہوں گے.ان جیسے کامیاب اور بھی منتظم ہوں گے اپنی تہذیب کے پر جوش علمبردار بھی کم نہیں.لیکن کسی ایک فرد میں ان کمالات کا اجتماع ہونا اور ساتھ ہی اس فرد کا منکسر المزاج اور دردمند ہونا صرف انہی کا تشخص ہے.ان کی بلند قامتی صرف اس وجہ سے نہیں کہ انہوں نے بنیادی اہمیت کے سائینسی نظریات پیش کئے بلکہ اس سے زیادہ ان کی اس تگ و دو کی وجہ سے ہے جو وہ پسماندہ ممالک کے سائینسدانوں کو اعلیٰ

Page 132

(۱۲۳) تحقیق کے وسائل فراہم کرنے کیلئے کرتے ہیں.ان کی زندگی کا سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ پسماندہ ممالک میں نہ جانے کتنے عبد السلام پیدا ہونے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں.اور اسی ضمن میں پسماندہ ممالک کے سائینسدان بھائیوں کیلئے انہوں نے اٹلی میں ایک بین الاقوامی مرکز قائم کیا ہے.پچھلے ہیں سال سے وہ اس مرکز کو بڑی خوش اسلوبی سے چلا رہے ہیں.جس سے ہزاروں سائینسدانوں کو فائدہ پہنچا ہے.یہ مرکز بھی عبد السلام کے زرخیز ذہن کی اعلیٰ تحقیق ہے.اس مرکز نے فی الحقیقت پسماندہ ممالک میں ایک سائینسی انقلاب کی بنیاد ڈال دی ہے.عبد السلام ایک فرد کا نام نھیں ایک تحریک کا نام هے.یہ تحریک کے علم و دانش کی عمل و جفاکشی کی اور اپنے تهذیبی ورثه میں جا ئز فخرکی.یه تحریک هے دنیا سے غربت و جھالت مٹانے کی.اور طاقت ور ممالک کے ظلم و استحصال کے خلاف جھاد کی.وہ اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ مستقل باور کراتے ہیں کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بڑی عیاری سے پسماندہ ممالک خصوصاً عالم اسلام کا خون چوس رہے ہیں.ان ترقی یافتہ ممالک کا معاشی و سیاسی استحصال ہے.ترقی یافتہ ممالک نے کبھی بھی دل سے نہ چاہا کہ دنیا سے غربت و افلاس و معاشی و علمی نا ہمواری دور ہو.وہ اس بات کا اظہار انتہائی پر درد الفاظ میں کرتے ہیں کہ پسماندہ دنیا آج جس بحران سے دو چار ہے اس سے پہلے کبھی نہ ہوئی تھی.حتی کہ نو آبادیاتی دور میں بھی نہیں جب تیسری دنیا کے خام مال پر ترقی یافتہ ممالک کو کامل اختیار حاصل تھا.اس دور میں پسماندہ دنیا سے صرف خام مال برآمد ہوتا تھا اور آج خام مال کے ساتھ بہترین دماغ بھی.وہ اس بات کی مستقل تبلیغ کرتے ہیں کہ عالم اسلام کی فلاح خود اپنے پیروں پر کھڑا ہونے اور اپنے گم شدہ ورثہ کے حاصل کر لینے میں ہے.ان کے نزدیک یہ گم گشتہ ورثہ سائینس ہے.وہ مسلمانوں کو بار بار ان کی تاریخ یاد دلاتے ہیں کہ کس طرح ان کے آباؤ و اجداد بلا شرکت غیرے چار سو سال تک دنیائے علم و دانش کے امام رہے، اور سائینس کے میدان میں کا رہائے نمایاں

Page 133

(۱۲۴) انجام دئے.ار ادئے.ان کے خیال میں ملت اسلامیہ کے زوال کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس نے مغرب میں آنیوالے سائنسی انقلاب اور اس کے بطن سے پیدا ہونے والے تیکی یکی انقلاب سے خود کو باخبر نہ رکھا.اور اس کی طرف سے مکمل بے اعتنائی برتی.وہ بڑے اعتماد سے کہتے ہیں کہ ملت اسلامیہ صرف چند دہا یوں میں عالمی برادری میں اپنا کھویا ہوا وقار پھر سے بحال کر سکتی ہے.مسند امامت پر پھر سے فائز ہوسکتی ہے بشرطیکہ وہ علم و دانش کی راہ اپنا لے.سائینسی تخلیق کی عرق ریزیوں کی لذتوں سے خود کو آشنا کر لے اور ایسے نوجوان سائینسداں پیدا کرے جو اس فنافی الذات ماحول میں فنافی الملت ہونے کیلئے آمادہ ہوں.به شکریہ.ماہنامہ تہذیب الاخلاق، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) عبد السلام میڈل فارسائینس اینڈ ٹیکنالوجی اس میڈل کا اجراء تھرڈ ورلڈ اکیڈیمی آف سائینس نے ۱۹۹۵ء میں کیا تھا.یہ میڈل ممتاز سائینس دانوں کو دیا جاتا ہے جہنوں نے پسماندہ ممالک میں سائینس میں کوئی خاص کنٹر و بیوشن کی ہو.ابتک یہ تین سائینس دانوں کو دیا جا چکا ہے.میڈل کے اندر ڈاکٹر صاحب کی شبیہ دائیں طرف دیکھی جاسکتی ہے

Page 134

(۱۲۵) پروفیسر ایچ ایس ورک.گورو نانک دیو مینورسٹی امرتسر انسانوں اور فطرتی قوتوں کو متحد کر نیوالا ہے „Unifier of Men and Forces ______ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں میری پوسٹ گریجوئیشن (۶۳-۱۹۶۱) کے دوران پرو فیسرایم زیڈ خان نے ایک بار پر و فیسر عبد السلام کی تھیو رٹیکل ریسرچ کے بارہ میں تذکرہ کیا تھا انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ پروفیسر عبد السلام اپنے سائیففک کنٹری بیوشن کی بناء پر نوبل انعام کے مستحق ہیں مگر عظیم رشین سائینس دان پر و فیسر لان ڈاؤ Landau کی طرح ان کو بھی نظر انداز کر دیا جائیگا کیونکہ یہ فاؤنڈیشن مغربی نصف کرہ ارض کے سا ه درخشان..ڈاکٹر حمید السلام ئینس دانوں سے بھری ہوئی ہے.پروفیسر خان کی یہ پیش گوئی تب پوری ہوگئی.جب سٹین فورڈ کی نئیر ایکسل ریٹر SLAC میں تجربات کے ذریعہ ان کی تھیوری کی پیش گوئیاں الیکٹرو و یک یونی فیکیشن کے بارہ میں تجرباتی طور پر ثابت ہو گئیں.اور ۱۹۷۹ء میں ان کو نوبل انعام سے نوازا گیا بعد میں مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ شہرہ آفاق کا سمک رے مزے سسٹ پروفیسر پی ایس گل جو مسلم یو نیورسٹی کے فزکس کے شعبہ کے چئرمین تھے انہوں نے ڈاکٹر سلام کو تھیور ٹیکل فزکس کی پروفیسر شپ کی پیش کش کی تھی.۱۹۶۰ء کی دہائی میں ہائی انرجی فزکس کو بیواتران اور کا سموٹر ان مشینوں کی امریکہ میں ایجاد کے بعد بہت تقویت ملی چنانچہ ہر ہفتہ ایک نیا پارٹیکل دریافت ہوا کرتا تھا ایلی مینٹری پارٹیکلز کے خاندان نے خاندانی منصوبہ بندی کے بارہ میں زیادہ توجہ نہ دی تھی پر و فیسر گل ہمیں ہائی انرجی فزکس کا کورس پڑہاتے تھے ایلی میٹری پارٹیکلز کی اکثریت کی دریافت کا سمک ریز میں ہوئی تھی اس فیلڈ میں رہ نما تحقیق کا بنیادی کام شکا گو.لاہور.گلمرگ.اور علی گڑھ میں ہوا تھا.اس زمانہ میں پروفیسر

Page 135

(۱۲۶) گل کے ہائی انرجی فزکس کے لیکچروں نے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا تھا چنانچہ ۱۹۷۰ میں جب مجھے اعلیٰ تعلیم کے لئے فرانس جانی کا موقعہ میسر آیا.تو میں نے اپنی ریسرچ کا انتخاب ایلی مینٹری پارٹیکلز میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کیا.نئے پارٹیکلز کے دریافت کا کام جو ساٹھ کی دہائی میں بڑے دھما کہ سے شروع ہوا تھا ستر کی دہائی میں وہ سرگوشی کے عالم میں ختم بھی ہو گیا.بہت سارے نوجوان روشن دماغ فرے سسٹ دوسری فیلڈز میں ریسرچ کیلئے خود کو منتقل کر رہے تھے.یہ صورت حال اس قدر مایوسی کا باعث ہو گئی کہ پیرس یو نیورسٹی میں صرف میں ہی اکیلا محقق رہ گیا جو نیوکلیر ای ملشن ٹیکنیک میں مصروف کار تھا دوسرے تمام ریسر چر زیا تو تھیورٹیکل ریسرچ میں گھس گئے.یا انہوں نے Bubble chamber کو تجر باتی تحقیق کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا تاہم میں نے اپنی ریسرچ ایل می سان L-Meson کی دریافت میں ہی رکھنا مناسب سمجھا.اسکے موجود ہونے کی پیش گوئی میرے سپر وائزر Tsai Chu اور چند فرنچ تھیوری ٹیشن نے کی تھی.مگر یہ میرے لئے چیستان ثابت ہوئی بلآخر میں نے اس ہا پو تھے ٹیکل پارٹیکل کو مسترد کر دیا اور پیرس یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ میرے نگران پروفیسر کی مخالفت کے باوجود حاصل کر لی.ٹریسٹ میں ورود جب ۱۹۷۲ء میں میں پیرس سے الوداع ہو رہا تھا تو ایک سنہری موقعہ میرے ہاتھ آ گیا وہ یہ کہ میں ٹریسٹ میں ریسرچ کا کام کروں جہاں پر و فیسر عبد السلام نے آئی سی ٹی پی کا ادارہ قائم کر رکھا تھا اور جس کا نصب العین پس ماندہ ممالک کے روشن دماغ نوجوان سائینس دانوں کی علمی مدد کرنا تھا لیکن چونکہ میں گھر سے اتنا عرصہ دور رہنے کی وجہ سے سخت اداس ہو چکا تھا اور میں جلد از جلد انڈیا واپس لوٹ جانا چاہتا تھا.اس لئے واپسی سفر کے راستہ کے دوران و فیس کے خوبصورت شہر کے علاوہ یوگوسلاویہ کے بعض ٹورسٹ ریسارٹ کو دیکھا جو ایڈریاٹک Adriatic کے ساحل پر واقع ہیں میرا گزر ٹریسٹ شہر میں سے بھی ہو انگر عبد السلام کو ملے بغیر.ٹریسٹ شہر سے یہ میری پہلی جان پہچان تھی مگر اس شہر میں مقیم تیسری دنیا کے سائینس دانوں کے پیامبر سے ملاقات کے موقعہ کو میں نے کھو دیا جو یہاں مقیم تھا.

Page 136

(۱۲۷) ۱۹۷۲ء میں میں پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ میں اپنی ٹیچنگ پوزیشن میں دوبارہ لوٹ آیا اس وقت ایلی مینٹری پارٹیکل ریسرچ کو بھارت میں آؤٹ آف فیشن سمجھا جاتا تھا میرے شعبہ میں تجرباتی ریسرچ کرنے کیلئے کوئی بھی سہولت نہ تھی پیرس میں اپنے قیام کے دوران میں TIFR بمبئی کے سائنس دانوں سے مستقبل میں مل کر کام کرنے کیلئے راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی لیکن وہ میری تجویز میں زیادہ دلچسپی نہ رکھتے تھے اس کے علاوہ جن شہروں میں کوئی قابل ذکر ریسرچ ہو رہی تھی وہ دہلی.پنجاب.چندی گڑھ.میں تھی کافی کوشش اور تگ و دو کے بعد میں چندی گڑھ میں سکیننگ ورک ویک اینڈ پر کرنے میں کامیاب ہو گیا یہ کافی جان جوکھوں والا کام تھا اور میں جلد ہی اس سے تنگ آگیا تھر ڈ ورلڈ میں شریک کار ریسرچ کا تصور بہت عجیب سا لگتا ہے کیونکہ وہاں صرف معدودے چند اعلیٰ ادارے ہیں جیسے صحرا میں کوئی نخلستان.ان داروں کے سائینس دان خود کو نیم خدا تصور کرتے ہیں کیونکہ ان کے ہاتھوں میں کثیر فنڈز ہوتے ہیں نہر دو سائینس پالیسی کی وجہ سے یو نیورسٹی کے درجہ کی سائینس کی تعلیم پستی میں گرگئی ہاں اس کا (ضمنی فائدہ یہ ہوا کہ ) بھارت میں سائنسی ریسرچ کے نئے مضبوط قلعے تعمیر ہو گئے.۱۹۷۴ء میں میں نے اس بات میں مصلحت سمجھی کہ اپنی ریسرچ کی فیلڈ کو تبدیل کرلوں تھوڑی سی کوشش اور فنڈز کے مہیا ہونے پر یہ ممکن ہو گیا.کہ میں نیوکلیر جیو فزکس کے میدان عمل میں داخل ہو جاؤں مائیکرو اسکوپی کی فیلڈ میں میری ٹریننگ اب کی بار آڑے آئی اور میں نے پتھروں اور معدنیات کی فشن ٹریک ٹیٹنگ کا کام شروع کر دیا اکتوبر ۱۹۷۷ء میں آئی سی ٹی پی (ٹریسٹ) نے سب سے پہلی ورک شاپ فزکس آف دی ارتھ کے انعقاد کا قائم کیا اور جس میں شرکت کیلئے مجھے دعوت موصول ہو کی تھی یوں میرا تعلق ڈاکٹر عبدالسلام اور ٹریسٹ سے شروع ہوتا ہے.پنجابی میں بات چیت آئی سی ٹی پی کی پرانی روایت کے مطابق جب کوئی نیا کورس شروع ہوتا ہے تو اسکا ڈائر یکٹر مند و بین کو خطاب کرتا ہے اور مہمان سائینس دانوں کے اعزاز میں کاک نیل پارٹی یا عشائیہ کا انتظام کر تا ہے ایک ایسی ہی مجلس میں میرا تعارف پروفیسر عبد السلام سے کروایا گیا پروفیسر موصوف نے نہایت

Page 137

(۱۲۸) التفات سے مجھے اپنے آفس میں مدعو کیا چنا نچہ اگلی صبح مجھے ان سے ملاقات کا اعزاز حاصل ہوا یہ ملاقات بعد میں زندگی بھر برقرار رہنے والی دوستی میں تبدیل ہو گئی میں نے ڈاکٹر سلام کے سامنے امریکہ اور یوروپ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد نوجوان سائینس دانوں کو اپنے ممالک واپس آکر پیش آمدہ نا امیدی سے بھر پور ریسرچ کے مسائل کا دکھڑا سنایا پروفیسر سلام نے مجھے مشورہ دیا کہ میں ان کی کتاب آئیڈیلز اینڈ ری ایلی ٹیز کالا زما مطالعہ کروں.ڈاکٹر عبد السلام کی پیدائش جھنگ میں ہوئی جو پنجاب میں ضلع کا صدر مقام ہے اور پاکستان میں واقع ہے وہ پنجابی میں گفتگو کرنا پسند کرتے ہیں.انہوں نے مجھے اردو یا ہندی بولنے سے منع فرمایا انہوں نے کہا کہ بھارت میں پنجابی زبان سنسکرت زبان کے روپ میں ہے انہوں نے مجھے پروفیسر ہر گو بند کھورانا (ان کے علاقہ سے ایک اور پنجابی نوبل انعام یافتہ ) سے روم میں ایک بین الا قوامی کانفرنس میں ملاقات کا ذکر کیا کھو رانا نے انگلش میں بات چیت شروع کر دی تو پر و فیسر سلام نے قطع کلامی کر تے ہوئے اس کو کہا:.تسیس اپنی ماں بولی پنجا بی وچ گل بات کیوں نئیں کر دے.کھورانا نے اس پر بہانہ تلاش کرنا شروع کر دیا اور کہا کہ چونکہ وہ ایک عرصہ سے ) سوس خاتون سے شادی شدہ ہے اس لئے اس کیلئے پنجابی میں بات کرنا مشکل ہو جاتا ہے مگر اس نے پروفیسر سلام کو یقین دلایا کہ وہ آئندہ ملاقات میں ان سے ضرور پنجابی میں گفتگو کرے گا.ٹریسٹ میں میرے تین ماہ کے قیام کے دوران مجھے پروفیسر سلام سے ملاقات کے اور بھی مواقع میسر نصیب ہوئے وطن واپسی سے قبل میں کیمرہ سے ان کی یادگار تصویر ا تا رنا چاہتا تھا چنانچہ ایک موقعہ پر وہ کلاس روم میں بلیک بورڈ پر کچھ لکھ رہے تھے اور ڈاکٹر سٹرا تھاڑی Strathadee سے ریاضی کے کسی مسئلہ پر گفتگو کر رہے تھے یہ تصویر میرے لئے ہمیشہ حرز جاں اور متاع عزیز رہیگی.1929ء میں راقم الحروف نے گرونانک دیو یو نیورسٹی امرتسر میں ملازمت اختیار کر لی تا وہاں فزکس کے نئے شعبہ کو قائم کر سکوں پر وفیسر عبد السلام اس ضمن میں میرے ریفری تھے انہوں نے مجھے وائس

Page 138

(۱۳۹) چانسلر کے نام سفارشی خط دیا جب ان کو یہ علم ہوا کہ ان کے عریضہ کو قابل خاطر نہیں سمجھا گیا تو وہ کسی حد تک خفا ہوئے اسی سال ان کو نوبل انعام دیا گیا تو میرے وائس چانسلر نے مجھے فون کیا جس نے یہ خبر بی بی سی لندن پرسنی تھی پاکستان اور بھارت دونوں ممالک میں خاص طور پر پنجاب میں ان کے نو بل انعام جیتنے کی خبر سے عوام الناس میں فخر کے جذبہ کا سیلاب رواں ہو گیا تھا.اس خبر کے نشر ہونے کے بعد میں نے ایک روز بیالوجی کے دو گر یجوئیٹ طالب علموں کو ڈاکٹر سلام کی شہریت پر بحث کرتے دیکھا.ایک طالب علم نے کھا.دیکھو ایک پا کستانی نے نوبل انعام جیتا هے جبکه سات سو ملين بها رتيون ) سے سر سی وی رمن کے بعد کسی نے نھیں جیتا انعام دوسرے طالب علم نے جواب دیا : ایک پا کستانی کیسے نوبل انعام جيت سكتا ھے ھمیں ان کی ریسرچ کے معیار کا خوب علم ھے بلاآخر دونوں اس بات پر متفق ہو گئے کہ عبد السلام کا تعلق کیمبرج یونیورسٹی سے ہے.فی الواقعہ عبد السلام نہ صرف ہندو پاک برصغیر کی نمائندگی کرتا تھا بلکہ تمام تیسری دنیا کے ممالک کی بھی.اس انعام نے تھرڈ ورلڈ کے مصروف کار نوجوان سائینس دانوں کی ذہنی استعدادوں کو تقویت دی تھی.آنریری ڈگریاں ۲۵ جنوری ۱۹۸۱ء کو یونیورسٹی آف امرتسر کے ایک خاص کنونشن میں پروفیسر عبد السلام کو ڈاکٹر آف سائینس کی اعزازی ڈگری عطا کی گئی اس روز سخت سردی تھی.موسم سرما کا مخصوص سرد روز اور کنونشن حال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اس موقعہ پر ڈاکٹر سلام نے گورنمنٹ کالج لاہور سے اپنے جملہ اساتذہ کو مدعو کیا ہوا تھا اس نے اپنا کنونشن کا خطاب خالص ( ٹھیٹھ ) پنجابی میں پڑھنا شروع کیا.جس میں ملتانی لہجہ بہت نمایاں تھا حاضرین کنونشن ان کے مسحور کن خطاب سے وجد میں آچکے تھے سامعین نے ان کا ڈیڑھ گھنٹہ کا

Page 139

(۱۳۰) خطاب ہمہ تن گوش ہو کر سنا ڈاکٹر سلام نے اپنے خطاب میں کیمبرج منتقل ہونے کے بعض نہایت دلچسپ واقعات حاضرین کے گوش گزار کئے اور ان مایوسیوں اور نشیب وفراز کا تذکرہ بھی کیا جن کا انہیں لاہور میں ریسرچ سائینس دان کے طور پر سامنا کرنا پڑا انہوں نے اپنے ریسرچ کے کام کا ذکر تفصیل سے کیا جس کی بناء پر ان کو نوبل انعام کا مستحق قرار دیا گیا تھا.۲۶ جنوری ۱۹۸۱ء کو قادیان میں پروفیسر سلام کے اعزاز میں ایک عوامی استقبالیہ منعقد ہوا یہاں کے گردونواح کے دیہاتی علاقوں سے بہت سارے لوگ اپنے اس پنجابی ہیرو کا دیدار کرنے پر وانوں کی طرح چلے آئے جس نے نوبل انعام جیتا تھا.اسکے بعد شام کو گولڈن ٹمپل امرتسر کی مذہبی کمیٹی SGPC نے انہیں تمغہ پیش کیا اور پھر وہ بھارت کے مختلف شہروں کے دورہ پر روانہ ہو گئے جس میں انہوں نے کئی ایک یونیورسٹیوں کو وزٹ کیا اور چھ تعلیمی اداروں نے آپ کو ڈاکریٹ کی اعزازی ڈگریاں پیش کیں.اس دورہ کا ضمنی فائدہ یہ ہوا کہ ہمارے شعبہ فزکس میں نئے دور کی داغ بیل ڈالی گئی پر و فیسر سلام کی تجویز پر ہماری یونیورسٹی (یعنی گرونانک دیو) آئی سی ٹی پی کی فیڈرٹیڈ نمبر بن گئی جس کے تحت ابھرتے ہوئے فیکلٹی کے قابل ممبر ٹریسٹ مزید تربیت کے لئے جاسکتے تھے یو نیورسٹی میں سینٹر فار پروموشن آف سائینس کو معرض وجود میں لانے کیلئے.TWAS.تھرڈ ورلڈا کیڈیمی آف سائینس نے خاص امداد دینے کا اعلان کیا.پروفیسر سلام علی گڑھ یو نیورسٹی.بنارس یو نیورسٹی اور ہماری گرو نانک دیو یونیورسٹی کی ترقی و بہبودی میں بھی مکمل دلچسپی رکھتے تھے.مستقبل کے خواب پر وفیسر عبد اسلام نہایت راسخ العقیدہ مسلمان تھے.آپ کی تربیت ایک دین دار اور پارسا خاندان میں ہوئی.جس میں اسلامی روایات کے عین مطابق اللہ کی ذات اور اس کی کائینات پر یقین جزو ایمان تھا وہ سائینس دان کے روپ میں فی الحقیقت ایک صوفی تھے اور ان کی تمام سائینسی ریسرچ پر صوفیانہ طرز فکر کا خاص اثر رہا ایک صوفی کی طرح آپ فطرت میں حسن اور نکھار کا مزہ محسوس کرنے کے

Page 140

(۱۳۱) ساتھ ساتھ تو حید میں گونا گوں رنگینی تلاش کرتے رہے.فی الواقع آپ انسانوں اور فطری قوتوں کو پر شوکت متحد کرنے والے تھے.سائینسی آئیڈیاز کے اتحاد کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ بذات خود ہسٹری آف سائینس گیلی لیو اور نیوٹن نے یہ بات ثابت کی کہ فزکس کے قوانین زمین سے باہر آسمان پر اور زمین کے اوپر ایک جیسے ہیں فیراڈے اور میکس ویل نے بجلی اور مقناطیس میں اتحاد ثابت کیا جس سے دنیا میں نیا تکنیکی انقلاب رونما ہوا آئن سٹائن بھی ایک عظیم متحدی تھا جس نے سپیس اور ٹائم میں اتحاد ثابت کیا اس نے زندگی کے آخری دس سال ایک یونی فائیڈ تھیوری اخذ کرنے میں صرف کئے جو ہر ( سائینسی عمل ) کو بیان کر سکے یعنی بنیادی ذرات اور ان کا انٹرایکشن نیز کائینات کا ڈھانچہ.افسوس کہ وہ اس تحقیق میں کامیابی سے سرفراز نہ ہو سکا یہ نہیں کہ اس نے زیادہ (دینی) کوشش نہ کی تھی بلکہ یہ کوشش اپنے مقررہ دور کے آنے سے قبل کی گئی تھی (اس لئے ناکام رہی ).پروفیسر سلام نے یہ بیڑا اٹھایا کہ وہ برق مقنا طیس اور و یک نیوکلئیر فورس میں یک جہتی ثابت کریں اس اتحاد کی کوشش کے پیچھے کارفرما مرکزی خیال میں یہ پیش گوئی کی گئی تھی کہ الیکٹرو و یک فورس کے پارٹیکلز میں بھاری بھر ایکس چینج ہوگا یہ ایک انقلابی آئیڈیا تھا جس کی وجہ سے +W اور Z کے نئے ذرات سرن CERN (جینوا) اور دوسری لیبارٹریز میں مشاہدہ میں آئے یوں سلام نے اپنے خواب کو اپنی حیات مستعار میں ہی پورا ہوتے دیکھ لیا جبکہ آئن سٹائین کو نا کامی کا سامنا کرنا پڑا.پروفیسر سلام ان بے نظیر کامیابیوں کا تاج سر پر رکھے جانے کے بعد مزید کامرانیوں کے حصول سے احتراز نہ کرتے رہے.وہ در حقیقت اللہ کی تخلیق کردہ کائینات میں ایک عظیم الشان مقصد کی تصویر اپنے ذہن میں بناتے ہیں انہوں نے اب الیکٹرو و یک فورس کا سٹرانگ نیو کلئیر فورس کے ساتھ اتحاد کے آئیڈیا کو اپنا نصب العین بنایا ہے.بھارت میں موجود کو لار کی سونے کی کانوں میں تجربات گزشتہ دہائی میں کئے گئے ہیں.لیکن اب تک حاصل ہونے والے نتائج سرسری ہیں.پروفیسر سلام کا منبتائے مقصود یہ ہے کہ فطرت کی تمام قوتوں میں اتحاد کی کوشش بر آور ہو اس خواب کو سچا ثابت کر

Page 141

(۱۳۲) نے کیلئے تھیور نیکیل فریم ورک تیار ہو چکا ہے تا ہم ایسے تجربات کامیابی سے کئے جار ہے ہیں جو اس بات کی تائید کریں گے کہ یہ نظریاتی پیش گوئیاں سچی ہیں.آئی سی ٹی پی کی داغ بیل انٹر نیشنل سینٹر فار تھیوریٹیکل فزکس کی تخلیق یونیسکو UNESCO اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی IAEA (وی آنا) کے زیر نگرانی تھرڈ ورلڈ کے سائینس دانوں کو متحد کرنے کی جانب ایک اور فعال قدم ہے.پروفیسر سلام پنجاب یونیورسٹی لاہور میں خود سائینس دان کے طور پر آئی سولیشن کا تلخ تجربہ کر چکے تھے آئی سی ٹی پی ترقی پذیر ممالک کے پر امید زرخیز سائینسی دماغوں کے لئے ایک نہایت مفید فورم مہیا کرتا ہے جہاں وہ ایسے ٹرینگ پروگرامز میں شریک ہوتے جو ریسرچ کے فرنٹیر ایریاز سے تعلق رکھتے نیز وہ ترقی یافتہ ممالک سے آئے ہوئے ہم عصر سائینس دانوں سے تبادلہ خیال کرتے ہیں.شاید آئی سی ٹی پی بذات خود ایک نادر المثال تجر بہ کا ادارہ ہے.جو اقوام متحدہ کی صحیح روح کی نمائندگی کرتا کیونکہ یہ دنیا کے تمام سائینس دانوں کو ایک لڑی میں پروتا ہے.اس چیز کی پرواہ کئے بغیر کہ ان ( سائینس دانوں) کا مقام کیا ہے؟ یہ کس ملک سے آئے ہیں ؟ یا ان کے سیاسی نظریات کیا ہیں.پر وفیسر سلام کا ارادہ ہے کہ آئی سی ٹی پی جیسے ایک درجن کے قریب مراکز ریسرچ کے مخصوص امیر باز میں دنیا کے مختلف ممالک میں قائم کئے جائیں.جبکہ یہ ادارہ پہلے ہی بلوغت کو پہنچ کر انٹر نیشنل سینٹر آف سائینسز کا مقام حاصل کر چکا ہے.ستر ہویں صدی میں نیوٹن کی ایجاد کر وہ فزکس نے یوروپین سوسائٹی پر دیر پا اثر چھوڑا اس کی وجہ سے یوروپ میں نئے ثقافتی انقلاب کا آغاز ہوا جس کے نتیجہ میں ترقی اور خوشحالی کا دور صنعتی انقلاب کے زور اور دباؤ سے شروع ہوا ، ہاں اس کا منفی اثر بھی ہوا.اس صنعتی انقلاب کے بعد کے اثرات میں پس ماندہ ممالک کی کالونائزیشن اور مارکس ازم کا پہنچنا ہے.اس صنعتی انقلاب کے مدعوین کے (بد ارادوں) سے پوری پس ماندہ دنیا کا خوب ہی استحصال کیا گیا.فطری قوتوں کی گرینڈ یونی فیکیشن سے لازماً اکیسویں صدی میں ایک نیا سوشل اور کلچرل

Page 142

(۱۳۳) انقلاب جنم لے گا پر وفیسر سلام اور ان کے رفیق کار سائینس دانوں کی سائینسی تھیوریز سے دنیا میں نئے مناظر کے باب وا ہوں گے انسانی معاشرہ اس وقت سوی لائزیشن کے دوراہے پر سکتے کی حالت میں کھڑا ہے اسلحہ کی دوڑ اور حال ہی میں ہونے والی خلیج کی جنگ (۱۹۹۱) میں ماڈرن ٹیکنالوجی کی ہیبت ناک صورت ہمارے سامنے آئی ہے سائینس میں ترقی نے معاشرہ کے اندر فتنہ و فساد پیدا کر دیا ہے اور دنیا اس وقت HAVE اور HAVE NOT'S میں پہلے سے بھی زیادہ منقسم ہو گئی ہے.ڈاکٹر سلام، ڈاکٹر ہر دیو ورک اور دو نوبل انعام یافتگان (۱۹۸۳ء) عبد السلام کے لفظی معنی ہیں امن و آشتی والا انسان اللہ کریم کے آستانہ پر میں ملتجی ہوتا ہوں کہ وہ اسے لمبی زندگی سے سرفراز کرے ( یہ مضمون ۱۹۹۲ میں لکھا گیا تھا ) تاوہ ایک اور خواب یعنی اس کرہ ارض پر انسانیت کے بچاؤ کو پورا ہوتے دیکھ لے.جو مستقبل میں تمام انسانوں کے گرینڈ یونی فیکیشن کا سنہری خواب ہے جس کی بنیاد فطرت کی بنیادی قوتوں کے عظیم اتحاد کی فلاسفی پر رکھی گئی ہے.

Page 143

(۱۳۴) زاہدہ حنا صاحبہ (کراچی) دنیا میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں ڈاکٹر عبدالسلام کی سترھویں سالگرہ منانے کیلئے بزم عبد السلام کے تحت کراچی کے ایک عالی شان ہوٹل میں ۱۳ مارچ 1991ء کو ایک تقریب منعقد کی گئی جس کی صدرات جسٹس دراب پٹیل نے کی اس موقعہ پر نو جو ان مقررہ زاہدہ حنا نے اپنے پر انگیخت خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا:.جناب صدر اور معزز خواتین و حضرات مکرم شاہ صاحب نے آپ کو بتا ہی دیا کہ میں ادھر ادھر کی باتیں کر جاتی ہوں کہنے کو کچھ آتی ہوں اور کہہ کچھ جاتی ہوں ، آج بھی یہی عالم ہے.کیا ہم آج یہاں اس لئے اکھٹے ہوئے ہیں کہ بیسویں صدی کے اختتام پر دنیا کا ایک ذی وقار شہری اور مایہ ناز سائینس دان ستر برس کا ہو گیا ہے.کیا ہم آج اس لئے یہاں آتے ہیں کہ اس انسان کو اس کے سائینسی کارناموں پر داد دیں؟ اس کے علم و فضل کے باب میں فصاحت اور بلاغت کے دریا بہائیں؟ ہو سکتا ہے کچھ لوگ آج یہاں اس مقصد سے آئے ہوں لیکن میں یہاں اس لئے نہیں آئی.وہ شخص مشرق و مغرب کی دو درجن سے زیادہ یو نیورسٹیوں کا اعزازی ڈگری یافتہ ہے ایک درجن سے زیادہ بین الاقوامی اعزازات سے نوازا جا چکا ہے وہ درجن کے قریب سائینسی کام کرنے والی سوسائیٹیوں کی فیلوشپ رکھتا ہے اس کو اس تعریف و توصیف کی ذرہ بھر ضرورت نہیں.میں یہاں حاضر ہوئی ہوں تو اس لئے کہ ڈاکٹر عبد السلام کی سترھویں سالگرہ کے موقعہ پر اپنی قوم کی بد بختی پر گریہ کروں ہم نے نوبل انعام یافتہ عبد السلام کے ساتھ وہ کچھ کیا جو ہم برسوں سے اپنے علماء و فضلاء کے ساتھ کرتے آئے ہیں.ہم تاریخ کے اتنے بڑے جھوٹے ہیں کہ کل جن اپنے خرد افروز

Page 144

(۱۳۵) مفکروں ، اور دانش وروں اور فلسفیوں پر ہم نے کفر و الحاد کے فتوے لگائے جن پر ہم نے زیست حرام کر دی تھی.اب ان کے ناموں کے آگے رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں اور ان کے نام کے ساتھ امام نہ لکھنے کو کفر قرار دیتے ہیں.ہم بھول چکے ہیں کہ ابن حزم کا مدرسہ اور کتب خانہ ہم ہی نے جلایا تھا اور قید و بند کی صعوبتوں سے ہم نے اسے گزارا تھا اور آج وہ امام ابن حزم ہیں.ابن تیمیہ سے سلوک ہم کسی کو نہیں بتلاتے کہ ہم نے ابن تیمیہ کی کتابیں جلائیں اور اسے بھی قید کیا اور اس پر بھی جب ہمارا جی خوش نہ ہوا تو اس سے تالیف و تصنیف کی آزادی سلب کر لی.اس کی کتابیں اور مسودے ضبط کر لئے.آج اسے ہم ابن تیمیہ رحمتہ اللہ لکھتے نہیں تھکتے.اور ہم تاریخ کا یہ حصہ چھپاتے ہیں کہ کاغذ و قلم سے محروم ہونے والے ابن تیمیہ نے اپنے ناخنوں سے قید کی دیوار کو کھرچ کر کیا جملہ لکھا تھا ؟ مسلم دنیا کا آخری نام.ابن رشد ہے نام اس کا.جو اپنے خیالات و افکار کے سبب قید و بند میں رکھا گیا جسے مسجد قرطبہ کے نمازیوں کے جوتے صاف کرنے کی سزا دی گئی جس کی کتابیں قرطبہ کے چوک میں جلائی گئیں ابن رشد کے حوالے سے یوروپ کی نشاۃ ثانیہ کا سہرا ہم اپنے سر باندھتے ہیں ہم فخر سے کہتے ہیں کہ راجر بیکن نے ۱۲۳۰ء میں ابن رشد کے لاطینی ترجمہ کو یوروپ کی علمی تاریخ کا عظیم واقعہ قرار دیا تھا عالم اسلام میں عقل پروری اور دوستی تو ابن الہیشم اور البیرونی سے پہلے ہی ہو چکی تھی اور یہ عمل بارہویں صدی کے آخر میں ابن رشد کی سپین سے ذلت آمیز جلا وطنی کے ساتھ مکمل ہوا.اس عظیم سانحے کو ہزار برس گزر چکے ہیں لیکن مسلسل پستیوں میں اترتے رہے ، یورپی استعمار کی نو آبادیات بن جانے اور نام نہاد سیاسی آزادی کے بعد مغرب کی اقتصادی غلامی میں آجانے کے بعد سائینس اور ٹیکنالوجی کے باب میں ، ایک روشن الخیال اور وسیع المشرب سماج کی تعمیر میں آج بھی دسویں گیارھویں اور بارھویں صدی سے آگے نہیں بڑھے.ابن رشد کو ہسپانیہ کے یہودیوں نے سینے سے لگایا اور اس کے افکار و خیالات یوروپ کی علمی ترقی کا نقطہ آغاز بنے.اور ہم آج آٹھ سو برس بعد بھی اتنے بد بخت ہیں کہ ہم نے اپنے ایک نابغہ روزگار

Page 145

(۱۳۶) کیلئے اس کے اپنے ملک میں اس کیلئے عرصہ حیات تنگ کر دیا.دیار غیر میں جلا وطنی کی زندگی گزار والے عبد السلام سے مشرق و مغرب کی ذہانتیں استفاده کرتی ھیں وہ نوبل انعام لینے جاتا ہے تو سویدن کا بادشاہ اور ملکہ معظمہ اس کا انتظار کر تے ھیں اسکی آمد کا اعلان بگل بجا کی کیا جا تا ہے اجلاس میں هزارها سا نینسدان، دانشور سب گھڑے ھو کر اس کی تعظیم کرتے هیں جب یہ نوبل انعام یا فتہ سا نینسدان اپنے ملک کا رخ کر تاہے تو بر سر اقتدار افراد اس کو ملاقات کا وقت نہیں دیتے.معمو لی اهل کار سائینس کے فروغ اور ترقی کے معاملہ میں اس کی بیش قیمت آراء کو سرد خانے میں ڈال دیتے ہیں.اور اسی شہر میں (کراچی) کا ایک تعلیمی ادارہ اسے اپنے یہاں مدعو کرتا ہے تو ایک ٹولہ اس کی آمد کو کفر و اسلام کی جنگ میں تبدیل کر دیتا ہے.آج ہم تباہی و بربادی کی جس دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں اس کا بنیادی سبب علم دشمنی، جہل دوستی، اور اپنے عالموں اور فاضلوں کی توہین ہے.ہم اپنی ذہانتوں کو دیس نکالا دیتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں.ہم اس ملک میں تفکر تدبر کے سوتوں پر پہرے بٹھا دیتے ہیں.ہم اپنی دانش گاہوں میں ذہانتوں کو پنپنے نہیں دیتے ، اور دوسروں کو کبھی کافر بھی بے راہرو قرار دے کر مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ مغرب کا رخ کریں ، اور یوروپ و امریکہ میں ان کی ذھانتیں گل و گلزار دکھلائیں.

Page 146

(۱۳۷) آئین پاکستان کسی بھی قوم کی رہ نمائی اس کے سیاست دان ، مدبر ہمفکر اور دانشور کرتے ہیں اور جب یہی طبقہ منافقت و مصلحت کا شکار ہو جائے تو اس قوم کا یہی حال ہوتا ہے جو ہمارا ہے ، آج ہم میں کتنے ہیں جو اٹھ کر بآواز بلند سے یہ کہہ سکیں کہ یہ وہ پاکستان ہے جس کا وعدہ جناح صاحب نے ہندوستانی مسلمانوں سے کیا تھا کہتے ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ گیارہ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کے قیام کے سلسلہ میں بانی پاکستان نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ پاکستان مذہبی ریاست نہیں ہو گا کہ اس ملک میں نسل زبان مذہب کو تفریق کا سبب نہیں ٹھہرایا جائے گا اس میں تمام شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں گے.ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں کے عوام ہر مرتبہ تنگ نظر، مذہبی رہ نماؤں کو مسترد کر دیتے ہیں.اور جمہوریت پسند، روشن خیال کے دعویدار سیاست دانوں کو حق حکمرانی سونپ دیتے ہیں.مگر وہ اقتدار میں آنے کے بعد منافقت اور مصلحت پسندی کا شکار ہو جاتے ہیں.ہر جماعت اقتدار میں آنے کے بعد فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیتی ہے.بانی پاکستان کے افکار کے دعویدار جماعتیں اسٹیلشمنٹ اور اشرافیہ کے سامنے جس قدر خوف زدہ رہتی ہیں اس کی بہترین مثال پاکستان کا آئین ہے.اسٹیبلشمنٹ سے خوف زدہ ہو کر آئین میں ایسی تبدیلیاں یا ترامیم کیں کہ اس کو بانی پاکستان کی سیاسی سوچ سے یکسر متصادم آئین بنا کر رکھ دیا.آج اگر عبد السلام اس محفل میں موجود نہیں اور وطن سے دور شدید اذیت کی زندگی بسر کر رہے ہیں اگر وہ وطن میں اپنی بے وقعتی پر غمزدہ ہیں اور پاکستان میں دوسرے درجہ کی شہری ہیں تو اس کا سبب نا تو بانی پاکستان ہیں اور نہ ہی پاکستانی عوام.اس صورت حال کی تمام ذمہ داری ان جماعتوں پر عائد ہوتی ہے جو خود کو قائد اعظم کا وارث کہتی ہیں مگر عملاً ان کے افکار کی نفی کرتی ہیں.اسکی ذمہ داری ان ترقی پسند اور روشن خیال افراد پر ہے جو پاکستان کے عوام کی عکاسی کرنے سے نا اہل ہیں اس المناک صورت حال کے ذمہ دار تمام ایسے دانش ور ہیں جو خوف سے بچ بولنے سے دامن بچارہے ہیں.ڈاکٹر عبد السلام اس صدی میں طبیعات کے شعبہ کی عظیم ذہانتوں میں سے ہیں جس دھرتی سے

Page 147

(۱۳۸) ان کا خمیر اٹھا ہمیں اس پر ناز کرنا چاہئے تھا ہماری سیاہ بختی ہے کہ ہم نے انہیں جلا وطنی اور بے توقیری کے عذاب میں ڈالا ہے ہماری دعا ہے کہ ہمارے منافق رہ نماؤں کی عمر اور صحت انہیں لگے.مغرب سے متعدد معاملات پر شدید اختلاف رکھنے کے باوجود ہمیں شکر گزار ہونا چاہئے کہ ہمارے جلا وطنوں کو پناہ وہاں ملتی ہے یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مغرب کے شہر اگر ہمارے اس نابغہ روزگار کو پناہ نہ دیتے تو آج وہ بھی ابن تیمیہ کی طرح کسی قید خانے میں ہوتا.اسے بھی کاغذ وقلم کی نعمتوں سے محروم کر دیا جاتا اور وہ اپنے ناخنوں سے کوٹھری کے دیواروں پر یہ کھرچ رہا ہوتا کہ اگر مجھے کوئی حقیقی سزا دی گئی هے تو وه یهی سزا ھے اس اجلاس کا ویڈیو کیسٹ ہمیں یو.زیڈ - تاثیر (مرحوم) نے مہیا کیا تھا پاکستان کے بابائے سائینس.ڈاکٹر عبد السلام کراچی میں ڈاکٹر آئی ایچ عثمانی کے ساتھ ملک کے سب سے ہلے راکت راهبر اول کی لانچ سائٹ پر جو گفتگو ہیں.یادر ہے کہ ڈاکٹر سلام سپارکو کے بانی مبانی اور چیر مین تھے.(۱۹۶۱ء اندازاً )

Page 148

(۱۳۹) سید قاسم محمود ( ایڈیٹر سائینس میگزین ، کراچی) بے نظیر سائینسدان یہ مضمون سید قاسم محمود نے بزم عبد السلام کے تحت ہونے والے اجلاس میں فروری ۱۹۹۶ء کو پڑھا تھا.دل کی گہرائیوں سے نکلے ہوئے اس مضمون میں ڈاکٹر سلام (مرحوم ) کی زندگی کے سبق آموز پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے.ڈاکٹر سلام سے میری نیاز مندی کا رشتہ پینتالیس سال سے ہے.۱۹۵۱ء میں جب آپ کیمبرج سے لاہور تشریف لائے.اور آپ کا تقر ر ریاضی کے صدر کی حیثیت سے گورنمنٹ کالج لاہور میں ہوا.تو اس وقت میں پنجاب یونیورسٹی میں ایک معمولی کلرک تھا.اور میرے انچارج ڈاکٹر محمد افضل تھے جو ضیاء الحق کے دور میں وزیر تعلیم بنے تھے.کالج کے پرنسپل پطرس بخاری کو اقوام متحدہ کو جائن کئے کوئی چھ ماہ ہو چکے تھے اور ان کی جگہہ پروفیسر سراج الدین جو انگریزی کے استاد تھے وہ پرنسپل لگ گئے.وائس چانسلر صاحب نے ڈاکٹر سلام کو شعبہ ریاضی پنجاب یو نیورسٹی کیلئے مستعار لیا میں پنجاب یو نیورسٹی شعبہ ریاضی میں ڈاکٹر صاحب کا ماتحت تھا.اس وقت سے یہ تعلقات چلے آرہے ہیں بے شمار یا دیں ہیں.اس لئے ، چند یادیں چند باتیں، کے عنوان سے اس مضمون کو آپ کی نظر کرتا ہوں.یکم دسمبر ۱۹۸۲ء مجسٹریٹ کراچی ویسٹ نے میرے نام کا سائینس میگزین کا ڈیکلے ریشن کیا جاری کیا میں اپنے آپے میں نہ رہا.ملک میں انقلاب لانے کی کانوں میں جو نوید پڑ رہی ہے وہ یہی رسالہ بپا کرے گا افسانوں اور غزلوں میں کیا رکھا ہے.بھلا افسانوں اور غزلوں سے سماج بدلے ہیں.مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

Page 149

(۱۴۰) اب کے ہم بچھڑیں تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں رومان خیز خواب، اور سوکھے ہوئے پھول نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کی اولین ضرورت سائینس ہے.تلاش بسیار کے بعد ملک کے پچاس بڑے سائینسدانوں کی ایک فہرست تیار کی گئی.اس کے علاوہ عالمی شہرت کے درج ذیل سائینسدانوں سے مضامین کی درخواست کے علاوہ ان سے پیغام خواص طلب کئے گئے.Isaac Asimov, Carl Sagan, Dr Abdus Salam, Arthur Clark سب سے پہلے ڈاکٹر عبد السلام کا مضمون اور ان کا پیغام اور خط موصول ہوا.جو ٹریسٹ اٹلی سے آیا تھا خط کے آخر پر سرخ روشنائی سے دستخط کرتے وقت اپنے ہاتھ میں لکھ دیا تھا ، میں آپ کا دیرینہ مداح ہوں.یہ ایک جملہ ہمیشہ کیلئے میری روح میں اتر کر جینے کی خواہش کو دو آتشاں کر گیا لفظ شاباش یا کوئی اور حوصلہ افزا کلمہ آدمیوں کی زندگی میں بڑی اہمیت رکھتا ہے.شاید یہ پنجاب یو نیورسٹی میں ملازمت کے دوران پیدا ہونے والے تعلقات کی طرف اشارہ تھا.جو تعلق وہیں پیدا ہوا اور و ہیں منقطع ہو گیا تھا شاید یہ اشارہ ان تحریروں کی طرف تھا جو شوق جنوں میں مجھ سے سرزد ہو گئی تھیں.اور جن کا دائرہ کار صرف پاکستان تھا.یہ لندن میں رہنے والا سائینسدان میرے کام سے کیسے واقف ہوا ہوگا ؟ لیکن اس میں مجھے اس قدر اور انکساری محسوس کر نیکی کیا ضرورت ہے.وہ اگر میرے دیر سینہ مداح ہیں تو اس میں کیا مذائقہ ہے.وہ مجھ سے صرف دو سال ہی تو بڑے ہیں.انہوں نے میٹرک میں ۸۵۰ میں سے ۶۵ نمبر حاصل کئے تھے.اور میں نے ۷۶۳، دو نمبروں کا ہی تو فرق تھا.اگر مجھے بر وقت معلوم ہو جاتا تو آخر میں بھی ایک چوکا لگا دیتا.سائینسی اصطلاحیں ڈاکٹر صاحب کا پیغام سائینس میگزین کے شمارہ اول میں صفحہ اول پر شائع ہوا.سرورق ان کی رنگین تصویر سے مزین تھا.شاہد محمود نے ان سے لندن میں ایک انٹرویو لیا تھا جس کا ایک جملہ مجھے نہیں

Page 150

بھولتا.(۱۴۱) میری زندگی میں فقط دو دکھ ہیں.ایک تو یہ کہ پاکستان میں سائینس دانوں کی اتنی تو قیر نہیں جتنی ہونی چاہئے.دوسرے یہ کہ عالم اسلام میں سائینس کی اتنی قدر نہیں جتنی کہ ہونی چاہئے.سائینس میگزین ملک میں خاصی تیزی سے مقبول ہوتا گیا.لیکن ڈاکٹر عبد السلام کے زیر اثر یہ اردو رسالہ ملک میں لوگوں کے ہاتھ میں آ گیا.اور مجھے دنیا بھر کا سائینسی لٹریچر ڈاک میں آنے لگا.جیسے نیچر، نیو سائینس ٹسٹ، یہ جرائد اور رسالے اردن ، ترکی ، امریکہ، برطانیہ سے آتے تھے.کوئی رسالہ چینی میں، عربی میں، اور کوئی ترکی میں.گویا سائینس سے نابلد شخص کے کندھوں پر سائینس کا بوجھ ڈال دیا گیا جو شخص میری خاطر، اردو کی خاطر، پاکستان کی خاطر احسانات کئے جا رہا ہے میرا بھی حق بنتا ہے کہ اس کا احسان اتارا جائے چنانچہ میں نے ریاضی کے علاوہ تمام علوم کے نظریات سے دوستی کر لی.ڈاکٹر صاحب میرے مثالی قاری تھے.میں دراصل انہی سے پڑھوانے کیلئے پر چہ ایڈٹ کرتا تھا وہ غلطیوں کی نشاندہی اور اپنی رائے سے مجھے نوازتے رہے ایک بار مجھے اٹلی سے تار موصول ہوا کہ ڈاکٹر صاحب بنگلہ دیش جاتے ہوئے فلاں روز فلاں ائیر لائن کی پرواز سے کراچی سے گزریں گے اگر آپ نے رابطہ کرنا ہو تو کرلیں.محض گفتگو کرنا تو بیکار کوئی ایسی گفتگو ہونی چاہئے جس سے سائینس میگے زین کے قارئین کو بھی فائدہ پہنچے.ڈاکٹر سلام اور میجر آفتاب حسن کے درمیان انگریزی اور اردو اخبارات میں یہ بحث شروع ہوئی تھی کہ اردو زبان میں انگریزی اصطلاحوں کا استعمال ہو تو کیونکر ہو؟ میرے رسالے نے بھی اس میں حصہ لیا میں آدھا طرف دار ڈاکٹر صاحب کا تھا اور آدھا میجر صاحب کا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ڈاکٹر سے بھی ڈانٹ کھائی اور میجر سے بھی.ڈاکٹر صاحب کی ساری زندگی لندن میں گزری.انہوں نے کہا کہ انگریزی اصطلاحات کو جوں کا توں اردو رسم الخط میں ہی لکھ لینا چاہئے.میجر صاحب کا مؤقف تھا کہ عربی اور فارسی زبانیں اردو

Page 151

(۱۴۲) کی مادری زبانیں ہیں ان سے استمداد لازمی ہے میں دونوں کے درمیان کھڑا تھا.کہتا تھا کچھ تو بین الاقوامی اصطلاحیں لکھی جاسکتی ہیں.مگر تمام کی تمام نہیں.میں نے ڈاکٹر صاحب کی رائے جانچنے کیلئے سندھ ٹیکسٹ بورڈ کی جنرل سائینس کی نصابی کتاب برائے جماعت نہم بغل میں ڈال لی.ائر پورٹ کے وی آئی پی روم میں میں پہلا شخص تھا جس نے ان کا استقبال کیا.وہ ہشاش بشاش اور تازہ دم لگ رہے تھے.صوفے پر بیٹھتے ہی انہوں نے جیب میں سے قرآن مجید نکالا.میں نے سوچا کوئی سوال ذھن میں ابھرا ہوگا.جس کی تائید یا تردید کیلئے قرآن سے مدد لی ہوگی.اس کے بعد میرا حال پوچھا.میں نے انگلش میں جواب دیا تو فرمایا : نہیں صاحب پنجابی یا اردو.انگریزی بول بول کے جبڑے تھک جاتے ہیں.اندھے کو کیا چاہئے دو آنکھیں.میں نے فوراً اس نصابی کتاب کا ایک صفحہ کھولا اور اس کا ایک پیراگراف پڑھنا شروع کر دیا.ڈاکٹر صاحب نے ہنسنا شروع کر دیا.وہ سمجھ گئے کہ اردو میں انگریزی اصطلاحات کو جوں کا توں رکھنے کو تختہ مشق بنایا جا رہا ہے.میں مزید پڑھتا گیا.ڈاکٹر صاحب سنتے جاتے اور قبقہ لگاتے جاتے تھے.ان کا قہقہ حلق کے اندر سے پیدا ہوتا ہے اور پھر اس کی زنجیر در زنجیر لہریں آنکھوں کی باطنی مسکراہٹ سے مل کر یکا یک بگ بینگ کی طرح اس طرح پھیلتی جاتی ہیں کہ اگر وہ خود بھی چاہیں تو روک نہیں سکتے.اور پھر قہقہے کی گونج رفتہ رفتہ دھیرے دھیرے اپنے منطقی انجام تک پہنچ کر خود بخو د رک جاتی ہے.یه گفتگو جاری تھی کہ دوسرے حضرات بھی تشریف لے آئے اور میرا Over اور ختم ہو گیا.تحریک ختم نبوت کوئی ڈیڑھ سال کے بعد ایسا وقت آیا کہ ڈاکٹر عبد السلام کا قادیانی ہونا میرے لئے گویا عذاب بن گیا.یوں تو تحریک ختم نبوت کے رسالہ میں ڈاکٹر صاحب کے سائینسی مضامین کے حوالے سے ہلکے پھلکے مضامین شائع ہوتے رہتے تھے.مگر اب ان کی طرف سے دھمکی آمیز خطوط موصول ہونے شروع ہونے لگے کہ تمہارے دفتر کو نذر آتش کر دیا جائیگا.تم اس زندیق کو اس قدر لفٹ کیوں کراتے ہو کہ ہر

Page 152

(۱۴۳) شمارے میں اس کا مضمون شائع کیا جاتا ہے.اور دوسرے طریقوں سے اس کی پہلیسٹی کی جاتی ہے.ٹیلی فون بھی موصول ہونے لگے.میرے اہل خانہ اور عملہ نے سمجھایا کہ فی الحال ان کی تحریریں چھاپنا بند کر دیں.میں نے سوچا اگر کسی معیاری رسالے میں مضمون شائع ہی کرنا جرم ہے تو ایسے رسالہ کا شائع کر نیکا مقصد ہی کیا ہے؟ میں نے یہ مشورہ قبول کرنے سے انکار کر دیا.بلکل اسی زمانہ میں یونیسکو کی سکرٹری شپ کیلئے اندرون ملک اور بیرون ملک یہ مہم چلی کہ پاکستان کا نمائندہ یعقوب علی خاں ہونا چاہئے یا ڈاکٹر عبد السلام؟ میں نے ایک مضمون لکھ کر ان کی حمایت کی اور کہا کہ ہمارا مفاد اسی میں ہے کہ ملک کا ایک نوبل انعام یافتہ عالمی مقابلے میں کھڑا ہو.جس کے مدبروں اور دانش وروں سے دوستانہ تعلقات ہیں.مجھے امید ہے ہمارا نمائندہ بلا مقابلہ جیت جائے گا.تحریک ختم نبوت کے دفتر سے فون آیا کہ ہم اپنے تازہ شمارہ کیلئے آپ سے انٹر ویو کرنا چاہتے ہیں.میں نے کہا چشم ما روشن دل ماشاد.دوسرے دن کا وقت طے ہوا اور جائے ملاقات میرا دفتر.وہ چار حضرات تھے.بہت ملائم شفیق ، اور بھلے، انہوں نے گفتگو کے آغاز میں ہی مجھے نہتہ کر دیا اور کہا کہ آپ آل رسول ہیں.فاتح سندھ محمد قاسم کے عزیز.ہم آپ کی علمی اور دینی خدمات کے دل سے معترف ہیں.آپ کی تصانیف ہم پڑھتے ہیں آپ نے رسالہ نکال کر قوم پر احسان عظیم کیا ہے مگر جسطرح آپ ڈاکٹر عبد السلام کی تحریریں جوش و خروش سے چھاپتے ہیں کیا آپ خود بھی قادیانی ہیں؟ احتسابی عدالت نے میرے لئے ایک انچ جگہ بھی نہ چھوڑی.میں نے کہا ان کے مضامین شائع کرنے سے میں ان کا ہم عقیدہ تو نہیں ہو جا تا.ایک بولا دیکھیں یہاں صرف ایک تصویر آویزاں ہے اور وہ بھی عبد السلام کی.کیا یہ ہمارے شبہ کا ٹھوس ثبوت نہیں؟ میں کچا پڑ گیا اور کہا کہ آرٹسٹ سے جو تصویر بنوالی وہ فریم کرا کے آویزاں کر دی.دوسرے نے جنگ لاہور کا تراشہ نکالا اور یہ خبر پڑھ کر سنائی کہ ڈاکٹر سلام نے قاسم محمود کی سائینسی خدمات کے اعتراف میں ایک ہزار ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے.کیا یہ ثبوت نہیں کہ قادیانی حضرات سے آپ کا گہرا تعلق ہے؟ یہ خبر سچ تھی کہ لاہور میں فیض صاحب کی برسی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے

Page 153

(۱۴۴) کہا تھا کہ اس ملک میں سائینس کی کچی خدمت قاسم محمود کر رہا ہے تھرڈ ورلڈا کا ڈمی آف سائینس کی طرف سے اس لئے انہیں ایک ہزار ڈالر کا انعام دیا جاتا ہے.اخبار نے یہ خبر خطبہ صدارت سے الگ کر کے نمایاں بکس میں شائع کر دی تھی.یوں کسی دوسرے شہر میں اس چیز کا اعلان میرے لئے بہت بڑے اعزاز کا نشان تھا مگر یہ تو میرے گلے کا طوق بن گیا.میں کچھ بھی نہ کہہ سکا اور چور بنا خموش بیٹھا رہا.تیسرے نے پوچھا ، سچ سچ بتلائیے آپ کو سلام دیتا کیا ہے؟ میں نے عرض کی وہ مجھے کچھ دیتے نہیں.جو کچھ دیتے ہیں وہ دراصل آپ کو دیتے ہیں وہ آپ کے بچوں کو دیتے ہیں.میگے زین کے ستر خریداروں کا چندہ ہر سال بھجواتے ہیں.اس شرط پر کہ یہ کا پیاں میں پاکستان کے پسماندہ سکولوں کو بھجواؤں.میں نے ان کی گتھیاں باندھ رکھی ہیں اور ہر سال کسی نئے صوبے کو یہ کا پیاں ارسال کی جاتی ہیں.یہ مضامین آپ کے بچے ہی پڑھتے ہیں.یہ رسالہ میرے لئے نہیں آپ کے لئے ہے.چوتھے نے کہا، اچھا بتلائے آپ کا عقیدہ کیا ہے؟ میں نے کہا با مسلمان اللہ اللہ.کہا گیا یہ تو نری منافقت ہے.بھائی صاحب مہذب معاشروں میں ایسا نہیں ہوتا کہ چلتے آدمی کو پوچھا جائے بتا تیرا عقیدہ کیا ہے؟ اس لئے عرض کئے دیتا ہوں میں خود کو مذہب کی احتسابی عدالت میں کھڑا محسوس کرتا ہوں.میں نے سائینس میگیرین کے چند شمارے ان کو پیش کئے.مجھے معلوم تھا کہ مجھ سے یہ سوال ضرور کیا جائیگا.میں نے یہ طریقہ ایجاد کر لیا تھا کہ اپنے اداریوں میں کسی نہ کسی طرح حضرت نبی پاک ﷺ کا نام ضرور لے آتا تھا یعنی اللہ کا آخری رسول، پیغمبر آخر الزمان، سمجھنے والوں کیلئے یہ اشارہ کافی ہوتا تھا کہ اس کا مقصد کیا ہے.ہیں؟ وہ میرے چاروں مہمان کافی ہوشیار تھے.مجھ سے اب پوچھا گیا کیا آپ عبد السلام کو کافر سمجھتے میں نے کہا کافر...سخت کافر..نہ جانے میری زباں پر کیوں میر تقی میر شعر آ گیا.

Page 154

(۱۴۵) سے سخت کافر تھا جس نے میر مذہب عشق ایجاد کیا ایک نے بڑی معصومیت سے پوچھا.یہ مذہب عشق کس نے ایجاد کیا؟ جانے کیوں کر میری زباں پر ایک دم آگیا.اللہ کے آخری رسول نے.اور کس نے؟ میں نے جس حد تک تاریخ میں مشاہیر عالم کے حالات پڑھے ہیں.میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں انسان ے سب سے زیادہ محبت اور رحمت سے پیش آنیوالا انسان بشر کہو، رسول کہ محمد عہ کے ذات اقدس ہے.اللہ نے میری لاج رکھ لی.میرے اس جواب نے اس شعر کی نئی شرح سے میرے مہمانوں کا دل خوش کر دیا.وہ احترام سے اٹھے.ایک چیز کا میں صدق دل سے اعتراف کرتا ہوں کہ انہوں نے نہایت مہذب اور شائستہ طریق سے میرے ساتھ سلوک کیا.یہاں تک کہ وہ انٹرویو بھی نہیں چھپا.چند ماہ بعد تصویر کا دوسرا رخ بھی سامنے آگیا.ڈاکٹر عبد السلام کا تار آ گیا کہ فلاں جہاز سے.کراچی آرہا ہوں.کچھ کتابیں خریدنے کا ارادہ ہے.میں آپ کے دفتر میں پہنچ جاؤں گا.وقت طے نہیں کر سکتا اس روز آپ دفتر میں رہے گا.آپ کی مہربانی.اس تار سے جو میرا حال ہوا ہوگا اس کا اندازہ وہی کر سکتے ہیں جو غالب کے احوال سے واقف ہیں.وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے.کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں ہمارے دفتر میں ڈاکٹر سلام کی تصویر کے سوا کیا رکھا تھا؟ نہ قالین ، نہ تحفہ، لیکن بالفرض اکلوتی تصویر سے انہوں نے فرض کر لیا کہ میں ان کا ہم عقیدہ ہوں.یہ ایک ایسا موضوع تھا جو میری زبان پر نہ ان کی زبان پر کبھی نہیں آئیگا.سچ کی بھی تو زبان ہوتی ہے.تین روز کے بعد انہیں کراچی آنا تھا.میں نے سوچا کہ کہیں سے مسلم سائینس دانوں کی سیاہ و سفید تصاویر دستیاب ہو جائیں.ہمدرد والوں نے بتلایا کہ ان کی طرف سے فراہم کردہ تصاویر کی بنیاد پر ایسوسی ٹیڈ پریس نے ایک کیلنڈر چھاپا تھا.چنانچہ وہ کیلنڈر حاصل کیا.بارہ تصاویر وہ اور ایک تصویر قائد

Page 155

(۱۴۶) اعظم کی.خوبصورتی سے فریم کرایا گیا اور پھر ان کو آفس میں اس شرارت سے آویزاں کیا گیا کہ جب ڈاکٹر سلام اس زاوئے پر بیٹھے ہوں گے تو ان کو اپنی تصویر دیکھنے کیلئے قدرے گھومنا ہوگا.اگلے روز فون آیا کہ میں دو ڈھائی گھنٹے بعد کراچی پہنچ رہا ہوں آپ برائے کرم بارہ بجے کے قریب میری ہمشیرہ کے گھر پہنچ جائیں.مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے یہ ہے انکا فون نمبر.میں ان کی ہمشیرہ کے گھر طارق روڈ (کراچی) پر پہنچ گیا.بارہ بجے کا وقت تھا باہر ایک سوزو کی پک اپ کھڑی تھی.چند ایک ان کے ملنے کے مشتاق بھی کھڑے تھے.اس وقت ڈاکٹر صاحب کی علالت پیروں سے شروع ہو چکی تھی.میں سمجھ گیا یہ گاڑی ان ہی کیلئے ہے.ان کو چلنے کیلئے چھڑی کا سہارا لینا پڑتا ہے.جس کمرے میں ہم بیٹھے ہوئے تھے وہ بیٹھک تھی.دیواروں پر قرآنی آیات کے خوبصورت طغرے لٹکے ہوئے تھے.لیجئے ڈاکٹر صاحب کی سواری آگئی.ان کو بغلی کمرہ میں لے جایا گیا ان کے قدموں کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی.دونوں کمروں کے درمیان کواڑ بند تھے.مگر کچھ جگہہ خالی رہ گئی تھی میری نظر اسی جگہہ جمی ہوئی تھی دوسری طرف اونچی کرسی پر ایک بت رکھا ہوا تھا.سر پر پگڑی لمبی سفید داڑھی ، میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب جھک کر اوتار کی قدم بوسی کر رہے ہیں.کسی نے کواڑ بند کر دیا اور میں خفیف ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگا.ڈاکٹر صاحب کی اس بت پرستی سے میرے خیالات متزلزل ہو گئے.سائینس فاؤنڈیشن کا قیام ڈاکٹر صاحب اپنی ہمشیرہ اور بھانجوں اور بھانجیوں سے مل کر ہمارے کمرہ میں آگئے.سب سے پہلے انہوں نے مجھے اپنے قریب بلایا.فرمایا میں تین دن سے لاہور تھا.پنجاب گورنمنٹ نے بلایا تھا.چیف منسٹر نواز شریف نے سائینس فاؤنڈیشن قائم کرنے کا ایک وسیع پروگرام بنایا ہے.میں نے پورا پلان اور پروگرام بنا کے دے دیا ہے.دراصل اس کے پیچھے اس کے بھائی شہباز شریف کا ہاتھ ہے.آپ کا نام میں نے بطور ڈائریکٹر پبلی کیشن ان کو لکھوا دیا ہے.ہینڈ سم تنخواہ ہو گی، کوٹھی ، کار اور دیگر مراعات.میں نے عرض کیا.ڈاکٹر صاحب جان کی امان پاؤں.آپ کی نوازشات میرے لئے کافی ہیں

Page 156

(۱۴۷).میں کسی سیاست دان کا سایہ بھی اپنے اوپر نہ پڑنے دوں گا.بے نظیر کو پتہ چل گیا تو مجھے ایسی جگہہ پھینک دیں گی کہ میں سائینس میگزین کا نام لینا بھی بھول جاؤں گا.ڈاکٹر صاحب نے اپنی گھورتی ہوئی آنکھوں سے میرے باطن کا ایکس رے لیا، مسکرائے اور کہا آپ ٹھیک کہتے ہیں.میں اٹلی پہنچ کر ان کو فیکس کر دوں گا آپ فکر نہ کریں.میں نے وہاں سے اجازت لی اور اٹھ آیا.وہ رات میں نے گویا کانٹوں پر بسر کی.ایسے سائینسدان کا جو بات بات پر قرآن کے حوالے دیتا ہے.اسکا بت پرست ہونا سمجھ میں نہ آیا.اگلے روز میرے سے رہا نہ گیا اور میں نے ان کی ہمشیرہ حمیدہ کو فون کیا.وہ بہت خوش معلوم تھیں کہ بھائی جان نے غریب نوازی کی.مدت کے بعد ان کے گھر آئے.ورنہ پہلے وہ ہوٹلوں میں ٹھہر کر باہر ہی سے چلے جاتے تھے.میرا بھائی بہت خوش خوارک ہے، پائے بڑے شوق سے کھاتا ہے، میں نے یہ چیزیں پہلے ہی سے تیار کر لیں تھیں.مبشر بتلا رہا تھا کہ آپ جلدی میں چلے گئے.میں نے جسارت کر کے پوچھ ہی لیا.کہ ڈاکٹر صاحب ہمارے پاس بیٹھک میں آنے سے پہلے بغلی کمرے میں کس کے پاس تھے؟ کہنے لگیں بہت بہت ذاتی بات ہے.انہوں نے سختی سے منع کر رکھا ہے.یہ ان کے آخری استاد ہیں جو ابھی تک زندہ ہیں.باقی سب اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں.کیا بتاؤں بھائی جان اپنے سارے استادوں کی اتنی عزت کرتے ہیں کہ کوئی کر ہی نہیں سکتا.وہ اس یا پچاسی سال کے تو ہوں گے.بھائی جان کو انہوں نے چھٹی یا ساتویں جماعت میں پڑھایا تھا.پہلے یہ جھنگ میں تھے کبھی وہ ان سے ملنے خود جھنگ جایا کرتے تھے.اب مصروفیت زیادہ ہوگئی تو ان کو کراچی بلوالیا ہے.کراچی آتے جاتے ہیں تو قدم بوسی کیلئے خود ان کے پیش ہوتے ہیں.لاہور سے بھائی جان نے فون کیا میرے پاس وقت بہت کم ہے.کورنگی سے ان کو کسی آرام کرسی میں بٹھا کر لے آئیں کہ تکلیف نہ ہو.ہم نے گاڑی کرایہ پر لے کر انہیں اپنے یہاں بلوالیا تھا لیکن وہ پانچ منٹ بعد چلے گئے.میں آپ کو کیا بتاؤں.میرا بھائی انسان کے بھیس میں فرشتہ ہے

Page 157

(۱۴۸) یہ کسی کو نہ بتائیں.بھائی جان نے سخت تاکید کر رکھی ہے کہ کسی کو معلوم نہ ہو.کویت میں کانفرنس نومبر ۱۹۹۲ء میں تھرڈ ورلڈا کا ڈمی آف سائینس کے زیر اہتمام کویت میں چوتھی جنرل کا نفرنس منعقد ہوئی.۷۸ سے زائد ملکوں سے تین سو سائینسدانوں نے شرکت کی.مجھے صرف محبت کی ترجیح کی بنیاد پر آپ کی طرف سے بلاوا آ گیا.کا نفرنس کے شرکاء طنزاً کہا کرتے تھے کہ عبد السلام نے اپنے ملک سے سب سے زیادہ نمائندے بلائے ہیں.دنیا میں جتنے بھی رنگ ہیں ان کے نمائندے یہاں موجود تھے.ہر مذہب ہر عقیدہ کے لوگ یہاں کویت میں ایک چھت تلے جمع تھے.ہر زبان بولنے والے، یہاں حاضر و شریک تھے.انسان نے جتنے علوم ایجاد کئے ہیں ان کے نمائندے یہاں موجود تھے.یہ بین الانسانی اجتماع صرف اور صرف ایک شخص عبد السلام کا مشکور تھا.ٹھیک آٹھ بجے ہال کا دروازہ کھلا.دو مددگار ایک شخص کو وھیل چیئر پر سہارا دیتے ہوئے داخل ہوئے ،شرکاء اجلاس تالیاں بجاتے ہوئے احتراماً کھڑے ہو گئے.یہ احترام پاکستان کے اس نامور فرزند کو دیا گیا تھا جس نے روزانہ چودہ سے سولہ گھنٹے کام کر کے یہ اعلیٰ مقام حاصل کیا تھا.ان کی کرسی جب مرکزی میز کے کنارے آہستہ آہستہ آن لگی تو انہوں نے کشادہ مسکراہٹ کے ساتھ سب کا استقبال کیا کیونکہ ان کے ہاتھ ہل نہیں سکتے تھے.سر ہلا کر انہوں نے حاضرین سے بیٹھ جانے کی درخواست کی ، ہال کے اندر خموشی طاری ہو گئی.کسی نے ایجنڈا اٹھا کر ان کی آنکھوں کے آگے کر دیا، ھال کے اندر تمام مائیکروفون گونج اٹھے، بسم اللہ الرحمن الرحیم میرے ساتھ بیٹھے ہوئے روسی نمائندے نے کہا، سلام نے کیا کہا ہے؟ میں نے کہا شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، اس نے کہا یہ اللہ کیا چیز ہے؟ میں نے کہا گاڈ، کیپٹل جی سے، بولا.اتنا بڑا آدمی اور میتھالوجی پر یقین رکھتا ہے.

Page 158

(۱۴۹) ایک عجیب منظر میری آنکھوں کے سامنے گھوم گیا تھا، مسلمانوں کے سامنے یہ شخص بسم اللہ پڑھے تو کافر، کافروں کے سامنے بسم اللہ پڑھے تب بھی کافر.جنرل کانفرنس کے اجلاس کے آخر پر پاکستان کے سفارت خانے میں وہاں سے آئے ہوئے سائینسدانوں کے اعزاز میں پارٹی ہوئی.ایس اے درانی ، عطاء الرحمن، اور دوسرے احباب نے شرکت کی، ڈاکٹر سلام نے کہا کہ چند ماہ قبل جب عمران خاں اپنے ہسپتال کیلئے چندہ لینے آیا تھا.تو چندہ دینے والوں کی قطار لگ گئی تھی ، آٹھ لاکھ روپے جمع ہو گئے تھے.یہ لوگوں کی تعلیم کا معاملہ ہے یہ اس سے بھی بڑا نیک مقصد ہے امید ہے آپ لوگ بڑھ چڑھ کر چندہ دیں گے.ان کی تقریر کے بعد میری باری تھی وہ میرے دائیں بازو میں اپنی وھیل چیر میں بر انجمان تھے.اس وقت وہ نوبل لا رئیٹ ، پروفیسر عبد السلام نہ تھے.بلکہ ان کے اندر سے جھنگ والا دیہاتی نکل کر اپنے یاروں اور دوستوں سے گھل مل گیا تھا.کراچی سے چلتے وقت میں نے ان کی ہمشیرہ کو فون کیا کہ میں کو یت جا رہا ہوں.کوئی چیز یا کوئی پیغام بھیجنا ہوتو بتا دیں.انہوں نے کہا کہ ہاں ایک کام تو ہے.میں نے کہا ضرور کروں گا.فرمایا اس ہجوم عاشقان میں اگر آپ کو میرا بھائی نظر آئے تو اس کو اس بہن کا سلام کہنا.میں نے اپنی تقریر کا آغاز اسی جملے سے کیا.مجھے ڈاکٹر سلام کے سکی لینے کی آواز آئی.کرسی میں دھنسا ہوا ان کا بھاری جسم ہل رہا تھا.اور آنسو چہرے سے پھل رہے تھے.میں ایک دم اداس ہو گیا.رنگ محفل متغیر ہو گیا.وہ علالت کی وجہ سے حرکت نہیں کر سکتے تھے.کسی قدر توقف کے بعد میں نے حاضرین سے کہا.کہ جس روز میں کراچی سے چلا تھا اسی روز ڈان اخبار میں ڈاکٹر سلام کا آئی ایچ عثمانی کی یاد میں مضمون چھپا تھا.میں نے یہ مضمون جہاز میں پڑھا ہے میں نے سوچا.بجائے اپنا مضمون پیش کرنے کی بجائے میں یہ مضمون گوش گزار کروں گا.ڈاکٹر عبدالقدیر کے نام سے بچہ بچہ واقف ہے.مگر پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں رنگ بھرنے والا اور دنیا کو ایٹمی نقشے میں جگہہ بنانیوالا ڈاکٹر عثمانی تھا.میں جب یہ مضمون پڑھ رہا تھا تو میں نے دیکھا

Page 159

(۱۵۰) کہ ڈاکٹر سلام پر رقت طاری ہو گئی تھی.اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے تھے.یہ لفظ دہراتے جاتے تھے کلیجہ منہ کو آتا ہے.ڈاکٹر درانی لپک کر میرے پاس آئے اور کہا قاسم باقی کا مضمون مت پڑھو.میں فوراً بیٹھ گیا، لیکن ڈاکٹر سلام نے فرمائش کی کہ باقی کا مضمون پڑھا جائے.میں نے مضمون جی کڑا کر کے پڑھا، اور انہوں نے جی کڑا کر کے سنا.میں مضمون ختم کر کے مائیک سے ہٹنے لگا.تو انہوں نے اپنی آنکھوں سے مجھے بلایا.اور اپنی خفیف آواز میں کہا میں آپ کا ممنون ہوں.اپنی صدارتی کلمات میں انہوں نے تقریر نہیں کی بلکہ کہا میں کیا عرض کروں.میں تو آپ سے بھیک مانگنے آیا ہوں.ہماری اکیڈیمی کو کوئی صدقہ یا خیرات دیجئے.TWAS ترقی پذیر ممالک میں سائنس کی ترقی اور ترویج کیلئے کام کر رہی ہے.سرسید نے چنکی پنکی آٹا لے کر کالج قائم کیا تھا.میں بھی سرسید کا ایک ادنی خادم ہوں آپ نے چندہ نہیں دینا نہ دیں.مگر اتنا عرض کر دوں کہ آپ کا ملک پاکستان ایک غریب ملک ہے.اپنی کمائی میں سے کچھ نہ کچھ اپنی مادر علم کو بھیجتے رہا کریں.جہاں سے آپ نے تعلیم حاصل کی اور اس قابل ہو سکے کہ یہاں آکر ملازمت کر سکیں.ہمارے ملک میں سب سے کمزور پیشہ استاد کا ہے.ان نصیحتوں کا اثر یہ ہوا کہ اس اجلاس میں کسی نے ایک دھیلہ بھی چندہ جمع نہ کرایا.دنیا کی تیس سے زیادہ یو نیورسٹیوں سے ڈاکٹر آف سائینس کی ڈگری حاصل کرنے والا شخص دنیا کا سب سے بڑا انعام حاصل کر نیوالا شخص، آج کس قدر بے بسی اور بے چارگی کے ساتھ، لیکن کس قدر شائستگی کے ساتھ اور اپنے تین صد مہمانوں کے آگے بھیک مانگ رہا ہے.میں شش و پنج میں پڑا ہوا کہ میں ان کے پاس مصافحہ کیلئے جاؤں نہ جاؤں.بھولی بسریں یادیں معذور جسم کے اندر زہر بن جاتی ہیں.بہتر ہے کہ میں ان سے ملے بغیر چلا جاؤں.ابھی میں مڑنے والا ہی تھا کہ ان کی گردن میں جنبش ہوئی.انہوں نے مجھے دیکھ لیا میں ان کے قریب گیا، ان کی خفیف آواز سننے کیلئے اپنا چہرہ ان کے چہرے کے بلکل قریب کر دیا.فرمایا کل آپ نے ڈاکٹر عثمانی کا ذکر کر کے بہت اچھا کیا.اللہ آپ کو خوش رکھے.جائے پاکستان کی خدمت کیجئے.اور احباب اگر میرا حال پوچھیں تو کہنا اب اچھا ہے.سب کو میرا سلام کہنا.**

Page 160

(۱۵۱) ڈاکٹر انوار احمد شمیم ( ٹورنٹو) یکتائے عصر سائینس دان ڈاکٹر عبد السلام کی دلی خواہش تھی.کہ تیسری دنیا کے ممالک سائینس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی یافتہ ممالک سے پیچھے نہ رہیں.اس مقصد کی خاطر ان کی پوری زندگی جہد مسلسل نظر آتی تھی.ان کے بیشمار سہنری کارناموں میں سے ایک اہم کا رنامہ انٹر نیشنل سینٹر فارتھیو رٹیکل فزکس ہے جس کا اب نیا نام عبد السلام انٹرنیشنل سینٹر ہے.خاکسار کو اس ادارہ کی مائیکرو پروسیسر لیبارٹری میں تین سال تک یعنی 91-1989 کام کرنے کا موقعہ ملا.اگر چہ پروفیسر سلام صاحب سے ہمارے گروپ کا براہ راست تعلق تو نہ تھا.لیکن اس نابغہ روزگار ہستی سے ملاقات کا قریبی تعلق تھا.جب میں پہلی بار ملاقات کیلئے ڈاکٹر صاحب سے ملنے گیا.تو دل میں ملے جلے جذبات کا عصر نمایاں تھا.وہی احساس تھا جو عمو ماً کسی بڑی ہستی سے ملاقات کے وقت جنم لیتا ہے.کہ جانے وہ شخص اتنی عزت، شہرت کا مقام پانے کے بعد خدا جانے کس قدرسخت گیر ہو.اور دوسروں کو کم تر تصور کرتا ہو.مگر ایسی کوئی بات میں ان میں نہ پائی.جوش ملیح آبادی نے اس چیز کو اس شعر میں بیان کیا ہے: بہت جی خوش ہوا اے ہم نشیں کل جوش سے مل کر ابھی اگلی شرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں میں نے ڈاکٹر صاحب کو بے حد ملنسار، سادہ طبع ، خوش مزاج اور خوش گفتار پایا.کسی ہم وطن سے ملتے وقت تو ان کی آنکھوں سے بے پناہ انسانیت کے سوتے پھوٹتے نظر آتے تھے.وہ اپنے ہم وطن کو ملتے وقت پسند کرتے تھے کہ اپنی زبان میں گفتگو کی جائے.یہ ان کی اپنے وطن سے لازوال محبت کی ایک بے ساختہ ہی ادا تھی.ان سے ملاقات کا وقت بالعموم دو پہر کے بعد ہوا کرتا تھا.حیرت کی بات یہ تھی

Page 161

(۱۵۲) کہ ان سے ملاقات کیلئے کوئی پیش گی اپوائنٹ مینٹ کی ضروت نہ ہوتی تھی.اگر ان کے دفتر کا دروازہ کھلا ہوتا تو کسی وقت کوئی بھی شخص ان سے ملاقات کر سکتا تھا.ان کے دفتر کا دروازہ صرف اسی وقت بند ہوتا تھا جب کوئی ان سے ملاقات کرنے آتا تھا.یا وہ خود ٹریسٹ سے باہر ہوتے.میں جب بھی ان سے ملنے گیا ان کے ہاتھ میں کچھ نہ کچھ مطالعہ کیلئے ہوتا تھا.ان کے دفتر میں دیواروں پر ہر طرف قرآنی آیات فریموں میں آویزاں تھیں.جن سے ان کا قرآن حکیم سے عشق اور اسلام سے قلبی لگاؤ ظاہر ہوتا تھا.وہ اپنے لیکچرز میں بھی قرآنی آیات کے حوالے دیا کرتے تھے.نمازوں کے بہت پابند تھے بلکہ آئی سی ٹی پی میں مسلمان ممالک سے آئے ہوئے طلباء کیلئے صلوۃ الجمعہ کی امامت بھی کیا کرتے تھے.دوسرے ممالک سے جب سائینسدان سینٹر میں آتے تو اپنے ساتھ اپنے ممالک کے سو د نیرز اور تحائف لیکر آتے تھے.یہ ان کی ڈاکٹر صاحب سے محبت و چاہت کا اظہار ہوتا تھا.ان اشیاء کو نہایت قرینے سے مرکزی عمارت میں سجایا جاتا تھا.اس کے علاوہ مختلف ممالک کے سربراہان کے ساتھ یادگاری تصاویر بھی اس جگہ پر لگی ہوتی تھیں.ان سب چیزوں اور تصاویر کو ایک جگہ پر دیکھ کر ایک ایسے سادہ سے انسان کی عظمت کردار کا ثبوت ملتا ہے.جو ایک بلند مقام رکھنے کے باوجود دوستی، چاہت، مروت، وضع داری، عاجزی اور انکساری کا مرقع تھا.میں نے اس مرقع اخلاق انسان کو بہت قریب سے دیکھا اور ایک عظیم دل حلیم انسان پایا.اس نیک سیرت انسان کا دلر با سراپا جب بھی نظروں کے سامنے آتا ہے تو قلب و نظر بے اختیار پکار اٹھتے ہیں: پلکوں پہ یوں بھی ہے تیرے رخ کی چاندنی بھولے ہوئے ہیں مدتوں سے تیرگی کو ہم کئی دوست اپنی مالی پریشانیوں کا ذکر کر کے ان سے مالی اعانت کی درخواست کرتے تھے.سینٹر میں قیام کے دوران ایسی درخواستوں کو پڑھنا اور ان کے جواب دینے کا کام میرے سپر د تھا.انہوں نے کبھی کسی ضرورت مند کو انکار نہ کیا.بلکہ بعض دفعہ فوراً چیک لکھ کر دیتے تھے کہ یہ فی الفور میل کر دو.ان

Page 162

(۱۵۳) کی یہ وسیع القلمی اور دریا دلی ساون کے اس بادل جیسی تھی جو ہر طرح کی زمین برستا ہے اور اس زمین کو سیراب کرتا ہے.ڈاکٹر عبدالغنی نے اپنی کتاب میں ان کی اس انسان دوستی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: اسلامی تعلیمات کے زیر اثر ڈاکٹر سلام نے اپنی ساری تو انائیوں اور صلا حیتوں کو پوری انسانیت کیلئے وقف کردیا ھے.ان کا دل بے درودیوار ھے.جس میں ھر محکوم، محروم اور مظلوم کیلئے بلا لحاظ و نسل اور مذهب و ملت ، بے پایاں درد اور تڑپ ھے.(كتاب ڈاکٹر عبد السلام ۱۹۸۲ء صفحه (۱۸۲) سچ تو یہ ہے کہ دکھی انسانیت کے اس مونس شخص کی فراخدلی کا اندازہ لگانا ہی ناممکن تھا.فی الواقعہ ان کا وجود نخر دو عالم ، نبی پاک ﷺ کی اس حدیث کا پورا مصداق تھا: من تواضع لله رفعه الله الى السماء السابعة یعنی جو شخص اللہ تعالی کی خاطر عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ اس کے درجات ساتویں آسمان تک بلند کرتا ہے، آج جب کہ ڈاکٹر صاحب ہم سے ہمیشہ کیلئے جدا ہو چکے ہیں.میرے غم ناک دل کے آنگن میں نا قابل فراموش لمحوں سے آراستہ یادوں کے مہکتے ہوئے گلاب اور ہونٹوں پر کھیلتے ہوئے جناب ثاقب زیروی (مرحوم) کے یہ شعر آپ کی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں : کہاں گئے وہ زمانے کہاں گئے وہ لوگ جو قلب و جاں میں دئے پیار کے جلاتے تھے نوید صبح مسرت تھی جن کے پاؤں کی چاپ جھلک سے جن کی در و بام جگمگاتے تھے زندگی اگر ایک راہ گزر ہے تو عقل اس راہ گزر کا چراغ ہے.اس چراغ کی روشنی میں راستہ صاف نظر آسکتا ہے مگر اس کیلئے چشم بینا کافی نہیں اس کیلئے دل بینا کا ہونا ضروری ہے.انسان کا مشاہدہ اور فہم جب مل جاتے ہیں تو علم و حکمت وجود میں آتے ہیں.

Page 163

(۱۵۴) مرزا منور احمد (ٹورنٹو) انجنیر نکتہ داں ، نکتہ سنج ،نکتہ شناس خاکسار کو پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں پرنسپل انجنیر کی پوسٹ پر تقریباً سترہ سال تک سروس کرنے کے دوران ڈاکٹر عبد السلام مرحوم سے متعدد بار ملاقات کر نیکا شرف حاصل ہوا.اس ناطے ڈاکٹر صاحب جیسے محب الوطن کے متعلق یوں تو بے شمار یادیں ذہن کی لوح پر محفوظ ہیں.جن کا احاطہ تحریر میں لانا ممکن نہیں البتہ ان کی حب الوطنی کے جذبہ کی ایک انمٹ یاد پیش کرتا ہوں.راقم الحروف نے ۱۹۷۳ء میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں بطور اسٹنٹ انجنئیر ملازمت شروع کی.اس سال ڈاکٹر صاحب سے پہلی بار بالمشافہ ملاقات کرنے کے علاوہ ان کی تھیوری اور اس پر مسلسل ریسرچ کے متعلق ان کے لیکچرز سننے کا بھی موقعہ ملا.یہ وہی تھیوری تھی جس کی بناء پر ان کو ۱۹۷۹ میں نوبل انعام دیا گیا تھا.ان کی شخصیت، خود اعتمادی، فراست، اور منکسر المزاجی کا ایک حسین امتزاج تھی.چشمے کے پیچھے ان کی آنکھوں کی چمک اور بارعب چہرے سے چھلکتی ذہانت ان سے ملنے والوں پر ایک عجیب اثر انگیز کیفیت چھوڑ جاتی تھی.مجھے یاد ہے کہ ڈاکٹر صاحب مرحوم جب پاکستان تشریف لاتے تو پاکستان اٹا مک انرجی کے تمام چھوٹے اور بڑے افسران ان کے آگے پیچھے رہتے.ہر فرد اس تگ و دو میں ہوتا کہ ان کی نظر التفات اس پر پڑے.اور ڈاکٹر سلام اس کی ہائیر سٹڈی یا ریسرچ کیلئے سفارش کر دیں.ان کی بھی یہی خواہش ہوتی کہ کسی بھی سائینس دان میں کوئی بھی قابلیت ہو تو اس کیلئے بیرون ملک اعلی تعلیم ، ٹریننگ، یا ریسرچ کا خاطر خواہ انتظام ہو جائے.تا کسی قسم کا جو ہر مستقبل میں ملک وقوم کی احسن رنگ میں خدمت کر سکے.ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں تھیور ٹیکل فزکس کے جتنے پی ایچ ڈی سائینس دان ہیں ان کی اکثریت ڈاکٹر صاحب کی مہربانی سے اس مقام پر پہنچی تھی.

Page 164

امریکہ کا دباؤ (100) پاکستان اٹامک انرجی میں میری سی لیکشن ایک خاص پروجیکٹ میں ہوئی جس کے سپرد نیو کلیر فیول فیریکشن (یعنی ہیوی واٹر کی تیاری) جیسا اہم کام تھا.یہ فیول کراچی کے ایٹمی گھر کیلئے تیار کیا جانا تھا.اس کو تیار کر نیوالے پاکستان اور کینیڈا کی حکومتوں کے باہمی معاہدے کے تحت چار انجیر ز اور دو سائینسدانوں کی ٹیم کینڈا پہنچ گئی.مئی ۱۹۷۴ء میں ہی بھارت نے ایٹمی دھما کہ کیا.جبکہ ہماری ٹیم سے دس سال قبل انڈین انجیر ز کی ایک ٹیم بھی کینیڈا سے مذکورہ پلانٹ کی ٹریننگ حاصل کر چکی تھی.انڈیا کے اچانک ایٹمی دھماکے کے پیش نظر ہمارے پروجیکٹ کا مستقبل بھی خطرے میں پڑ گیا.تاہم پاکستان کی طرف سے حکومت کینڈا کو بعض تحفظات کی یقین دہانی کرانے کے نتیجہ میں وہاں کی حکومت اپنے پلانٹ پر ٹریننگ دینے پر رضا مند ہو گئی.ہماری ٹیم کینڈا میں ٹریننگ لینے میں مصروف تھی کہ اس دوران مئی ۱۹۷۴ء میں ربوہ ریلوے سیشن کے سانحہ کے نتیجہ میں پاکستان کے طول و عرض میں جماعت کے خلاف ایجی ٹیشن شروع ہو گیا.ادھر ملک میں ہمارے محکمہ میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ مذکورہ ٹیم میں مجھ سمیت جو دو احمدی آفیسر ز ہیں وہ اب واپس نہیں آئیں گے.اور یوں یہ پروجیکٹ سبوتاژ ہو جائیگا.چونکہ اللہ کے فضل سے کسی احمدی کی سرشت میں اپنے ملک سے غداری کا خمیر نہیں بلکہ ہمارے بزرگوں نے تو اس مملکت خداداد کے پودے کے قیام اپنے خون جگر سے آبیاری کی تھی لہذا کیسے ممکن تھا کہ جس ملک نے ہم پر اعتماد کرتے ہوئے ایک نازک ذمہ داری کیلئے ہمارک انتخاب کیا تھا.ہم اس کی امانت میں خیانت کر نیکا تصور کیسے لا سکتے تھے.بہر کیف جب ہم اپنی ٹریننگ مکمل کر کے پاکستان واپس آگئے تو علم ہوا کہ امریکہ نے بھٹو کے ایٹمی دھما کہ کے متعلق اعلامیہ بیانات کے ردعمل کے طور پر کینڈا پر دباؤ ڈال کر مذکورہ پلانٹ کی پاکستان کو ترسیل رکوادی ہے.بعد ازاں بھٹو نے ایک سرکردہ شخصیت کو ہماری ٹیم کے پاس بھیجا کہ چونکہ پلانٹ کی ترسیل رکوادی گئی ہے.اسلئے ہماری ٹیم یہ پلانٹ پاکستان میں ہی ڈیزائن اور تیار کرے.اگر چہ ہماری ٹیم کیلئے یہ ایک بہت بڑا چیلنج تھا مگر اللہ کا نام لے کر ہم نے پلانٹ کی تیاری

Page 165

(۱۵۶) شروع کر دی.یہ ایک دلچسپ داستان ہے جس میں بعض امور ایسے ہیں جو میرے وطن کی امانت ہیں اور زندگی کی آخری سانس تک میرے سینے کے نہاں خانوں میں مدفون رہیں گے.۱۹۷۶ء میں ڈاکٹر عبدالسلام مرحوم پاکستان تشریف لائے.ان کا قیام عموماً ہمارے محکمہ کے گیسٹ ہاؤس میں ہوتا تھا.میں انہیں وہاں ملنے گیا.ان کی طبیعت ایسی تھی کہ ہر ایک سے بڑے پیار سے ملتے تھے.میری ان سے شناسائی اچھی خاصی تھی اگر چہ اس وقت انہوں نے سائینسی مشیر کا عہدہ چھوڑ دیا ہوا تھا.تا ہم اٹامک انرجی کمیشن کے ممبر کی حیثیت سے وہ بدستور کام کر رہے تھے.ویسے بھی ان کے قیمتی اور بے لاگ مشوروں کے طفیل ہی اٹامک انرجی کے جملہ کام اور منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچتے تھے.میں ان دنوں ۲۷ سال کا نوجوان تھا اور خون بھی جوش مارتا تھا.میں نے ان سے عرض کی کہ حکومت کی طرف سے اپنے راج سنگھا کا کھونٹا مضبوط رکھنے کی خاطر احمدیوں کو قربانی کا بکرا بناتے ہوئے ہمارے اوپر گھناؤنے الزامات عائد کئے جارہے ہیں.ہماری عزت نفس کو مجروح کرنے کیلئے ہر گھٹیا سے گھٹیا حرکت کی جا رہی ہے.میرے محکمہ میں میرے خلاف مختلف قسم کے سرکلر جاری ہوتے ہیں.اور میرے ساتھ نارواسلوک برتا جا رہا ہے.ان حالات میں میں سخت دہنی کشمکش میں مبتلا ہوں.میں صوفے پر بیٹھا پندرہ منٹ تک مسلسل بولتا رہا.بلآخر میں نے اپنا اصل مدعا بیان کرتے ہوئے ان سے درخواست کی کہ کیا ممکن ہے کہ ان حالات کے پیش نظر میں یہ محکمہ چھوڑ دوں اور کسی باہر ملک میں چلا جاؤں.ان کا مشورہ ڈاکٹر صاحب نے اس موقعہ پر جو مشورہ مجھے دیا.وہ آج بھی میرے کانوں میں کے پردہ سماعت سے ٹکراتا ہوا دل کی گہرائیوں تک اتر تا محسوس ہوتا ہے.انہوں نے جو کچھ فرمایا وہ ارض پاکستان سے ان کی گہری، جذباتی قلبی وابستگی کی عکاسی کرتا ہے.فرمایا دیکھو وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا.قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم دنوں کو انسانوں پر پھیرتے ہیں.حکومت کے ایوانوں میں آنیوالے لوگوں کا وجود دھوپ اور سایہ کی مانند ہے.چند روز کرسی اقتدار کے نشے میں بدمست ہو کر زمین پر متکبر بن

Page 166

(102) کر چلنے اور خوف خدا بھول کر خدا کی مخلوق کو دکھ دینے والے بلاآخر ایک روز اپنے انجام کو ضرور پہنچ جاتے ہیں.یہ قانون قدرت ہے.جو ازل سے جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہتا دیکھو گے.تم گھبراؤ نہیں ، تم جوان ہو.ابھی اس ملک کو تمہاری اشد ضرورت ہے.اگر تم حوصلہ ہار کے یہاں سے چلے گئے تو ملک نے تمہارے ذمہ جو اہم پراجیکٹ لگایا ہے اس کو کون مکمل کرے گا؟ ملک نے تمہاری صلاحیتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے تمہیں خصوصی پرا جیکٹ کی تربیت دلوائی ہے تم پر پیسہ خرچ کیا.محض لوگوں کے طعن و تشنیع سے گھبرا کر ملک کے ہم اہم پراجیکٹ کو ادھورا چھوڑ کر چلے جانا حب الوطنی کے خلاف ہے، بہتر ہوگا کہ تم ملک کو اس سے زیادہ دو ( یعنی جو پانچ سال کا بانڈ ہے اس مدت کو مکمل کرو ) محترم ڈاکٹر صاحب ( مرحوم و مغفور ) کا استدلال کیا تھا فصاحت اور بلاغت کا ایک ایسا شاہکار تھا، جس نے میری روح کو مرنقش اور میرے وجود کو ہلا کر رکھ دیا.ان کا جواب سن کر مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے سر سے منوں بوجھ اتر کر گیا ہو.میری مضحل طبیعت پر سکون ہوگئی.اور دل حزیں کی کلیاں بے اختیار چٹکتی محسوس ہونے لگیں.اس وقت میری حالت کسی ہمدم دیرینہ کا اچا نک آ جانیوالی اس کھوئی ہوئی یاد کی لطافتوں کے مصداق تھا.جس کی عکاسی فیض نے مندرجہ ذیل قطعہ میں کی ہے:.رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی.جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے جیسے صحراؤں میں چلے ہولے سے باد نیم.جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے - امر واقعہ یہ تھا کہ ان کے جواب نے جہاں میری بیقرار روح کے زخموں پر پھاہا رکھدیا وہاں مجھے پراجیکٹ کو مکمل کرنے کا ایک نیا ولولہ اور حوصلہ بھی عطا کیا.چنانچہ میں اپنے مشن میں پوری تندہی سے مصروف کار ہو گیا.اور خدا کے فضل سے دن رات خون پسینہ ایک کر کے اور بعض اوقات تو اپنی زندگی پر داؤ لگاتے ہوئے مقامی طور پر مطلوبہ پلانٹ اور کینڈو فیول دنیا کو بنا کر دکھا دیا.جس پر حکومت امریکہ نے دھمکی دی تھی کہ کراچی کی سڑکیں اندھیری ہو جا ئیں گی.لیکن بقول شخصے :

Page 167

(۱۵۸) برہم ہوا ئیں لاکھ مزاحم ہوئیں مگر.دیوانہ وار موج نے ساحل کو جالیا جنوری ۱۹۷۸ء میں پاکستان دنیا کی نیوکلئیر فیوکل فیریکشن ٹیکنالوجی کی صف میں آن کھڑا ہوا.پاکستان کی اس شاندار کامیابی کو مغربی میڈیا نے منفی رنگ دے کر بہت اچھالا.اور پہلی بار اسلامی بمب کا شوشہ چھوڑا.حالانکہ چشمہ بیراج کے اس کینڈو پلانٹ سے تیار کئے جانے والے نیوکلئیر فیول کا واحد مقصد کراچی کے ایٹمی بجلی گھر کو مقامی فیوکل مہیا کرنا تھا.نہ ستائش نہ تمنا ہم نے یہ تاریخی پرا جیکٹ ملک و قوم کی خدمت کی سپرٹ کے ساتھ مکمل کیا تھا.نہ کہ کسی ستائش یا تمنا کی خاطر.ہم جو اس پلانٹ کے بانی تھے نام کے ، حکومت کے خصوصی ایوارڈ کیلئے ری کیمنڈ ہوئے.لیکن مذہبی تعصب کی انتہا ملاحظہ ہو کہ محض اس بناء پر پوری ٹیم کو ایوارڈ سے محروم کر دیا گیا کہ اس ٹیم میں تو دو آفیسرز احمدی ہیں.یہ وہی کہاوت ہوئی کہ دشمن کو مارنے کیلئے اپنوں کی لاشوں سے بھی گزرا جا سکتا ہے.بہر کیف اپنے محکمے کی سترہ سال تک بے لوث خدمت کر نیکے بعد بہت بوجھل دل کے ساتھ مشکل حالات کے پیش نظر کینیڈا ہجرت کرنے پر مجبو ہو گیا.جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا تھا اللہ تعالیٰ دونوں کو انسانوں پر پھیرتا ہے.مجھے امید ہے کہ میرے پیارے وطن پاکستان کی فضاؤں پر جو عرصے سے تعصبات کے بادل چھائے ہوئے ہیں وہ جلد چھٹیں گے.بانی پاکستان قائد اعظم کی خواہش کے مطابق کبھی نہ کبھی اس ملک کے درو دیوار پر حق و انصاف اور اخوت اور رواداری کا سورج ضرور طلوع ہوگا.جب کبھی ایسا وقت ایسا آئیگا.تو گلستان وطن کے باسیوں سے صرف اتنی استدعا ہے :- ہمارا خوں بھی شامل ہے تزئین گلستان میں ہمیں بھی یاد کر لینا چمن میں جب بہار آئے XXX مرزا منور احمد ( گولڈ میڈلسٹ) پی اے ای سی میں ہیوی واٹر پلانٹ کی تیاری میں پرنسپل انجنئیر تھے

Page 168

(109) عبد الطیف چوہدری (پروفیشنل انجنیر - آباده) گو ہر شب چراغ جب سے یہ دنیا کے آب و گل معرض وجود میں آئے ہیں.موت و حیات کا سلسلہ ان میں جاری و ساری ہے.افق مشرق سے طلوع ہونے والی ہر صبح جہاں اپنے دامن میں زندگی کے ان گنت شگوفے لیکر آتی ہے.وہاں دن ڈھلنے تک کتنی ہی روھیں اپنی زندگی کے ایام پورے کر کے موت کی آغوش میں سو جاتی ہیں.وقت کا پیہم چرخ گردوں جانے والوں کی محبت کو یا تو رفتہ رفتہ بلکل محو کر دیتا ہے.اور یا پھر ان کی داستان حیات عہد ماضی کا ایک حصہ بن کر رہ جاتی ہے.جس میں آنیوالوں کیلئے دل چسپی کا کوئی سامان نہیں ہوتا.اس کے برعکس انہیں اپنائے آدم میں معدودے چند ایسے ممتاز اور نادر روزگار وجود بھی ہوتے ہیں جو گل نرگس کی طرح صدیوں ہی نہیں بلکہ ہزاروں سالوں میں ایک بار شاخ ہستی پر نمودار ہو کر چمن انسانیت کو زینت بخشتے اور اپنی بھینی بھینی خوشبو سے تمام نسل انسانی کو معطر کر دیتے ہیں.اور اپنے نیک اور پاکیزہ عملی نمونہ کی بدولت خدا کے عزوجل کی نگاہ شفقت و التفات کا مرکز بن کر روحانی اعتبار سے ہمیشہ کیلئے زندہ جاوید ہو جاتے ہیں.ان کی روح پرور اور دلنواز یا دیں ذہن کے پردوں پر کچھ اس طرح مرتسم جاتی ہیں.جو دنیا کے ہزاروں پے در پے رونما ہونے والے انقلابات سے بھی مٹائی نہیں جاسکتیں.ایسے ہی نابغہ روزگار اور زندہ جاوید وجودوں میں ایک پیارا وجود محترم ڈاکٹر عبدالسلام مرحوم کا تھا.ان کی آکسفورڈ میں ۲۱ نومبر ۱۹۹۶ء کو وفات کے ساتھ پاکستان بلکہ تیسری دنیا اس عظیم محسن کی خدمات جلیلہ سے محروم ہو گئی.ڈاکٹر صاحب سے میرا بہت لمبے عرصہ کا تعلق تھا.وہ بھی گورنمنٹ کالج کے تعلیم یافتہ تھے اور میں بھی.میں ان سے عمر میں دو سال بڑا ہوں.میرے کینیڈا آنے کے باعث اور ان کی مصروفیات کے

Page 169

(۱۶۰) پیش نظر ہماری ملاقاتوں میں کافی عرصہ تک تعطل رہا.ستمبر ۱۹۸۲ء میں وہ یہاں آٹو ا تشریف لائے.میں انہیں ائیر پورٹ پر لینے گیا.وہاں میں اکیلا ہی تھا کیونکہ دوسرے احباب ان کا استقبال ان کے شایان شان اس لئے نہ کر سکے کہ ان کو انکی آمد کی پیش خبر نہ تھی.مگر میں نے ان کی آمد کا پتہ لگا لیا.چنانچہ ائر پورٹ پر میں ہی انہیں خوش آمدید کہنے والا تھا.مجھے وہ پر تپاک طریق سے ملے.مجھے دیکھ کر بہت ہی خوش ہوئے.چند روز آٹواہ میں انہوں نے قیام کیا.اس دوران میرے غریب خانہ پر بھی تشریف لائے.ان کے ساتھ باتیں کر کے پرانی یادیں تازہ ہو گئیں.حضرت چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے انکو خط کے ذریعہ تاکید کر دی تھی کہ آٹواہ آنے پر وہ مجھ سے رابطہ کریں.میری یادیں تو ان کے ساتھ بہت ہیں.لیکن ان چند باتوں پر ہی اکتفا کرتا ہوں.اب عمر کے اس دور میں ہوں کہ باتیں صفحہ قرطاس پر اتارنا دشوار ہے.لکھتے رہے جنوں میں حکایات خوں چکاں گو ہاتھ اس میں ہمارے قلم ہوئے عظیم لوگوں سے بدسلوکی (روز نامہ جنگ ۲۵ مئی ۲۰۰۱ ، راولپنڈی ) احمد ندیم قاسمی لکھتے ہیں: نہ جانے پاکستان کے بعض عناصر اپنے ہاں کے صحیح معنوں میں عظیم لوگوں کے ساتھ بدسلوکی پر کیوں کمر باندھ رہتے ہیں.پہلے ہم ڈاکٹر عبدالسلام سے بھی کچھ ایسا ہی برتاؤ کر چکے ہیں.وہ بھی پاکستان کا سرمایہ ناز ہیں.انہوں نے اپنی پاکستانیت سے دست کشی کا گناہ کبھی نہ کیا.وہ آخر دم تک بند رہے کہ پاکستان کو سائینسدانوں کے معاملے میں خود کفالت کی طرف بڑھتے رہنا چاہئے.انہیں نوبل انعام ملا تو دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن ہوا.مگر جب پاکستان میں اس وقت کی حکومت نے ان کے اعزاز میں اسلام آباد میں ایک تقریب منعقد کرنا چاہی تو بعض عناصر (جماعت اسلامی اور جمعیت طلباء) نے اس تجویز کی محض اس بناء پر مزاحمت کی کہ ڈاکٹر صاحب ان کے ہم عقیدہ نہیں تھے.یہ عناصر بھول گئے کہ وہ پاکستانی ہیں.جو اعزاز انہیں ملا ہے وہ دراصل پاکستان کا اعزاز ہے.

Page 170

(141) ڈاکٹر غلام مرتضی.پروفیسر سلام چیسٹر گورنمنٹ کالج لاہور ڈاکٹر سلام به حیثیت استاد کے........پیکر علم وعمل....ڈاکٹر عبد السلام ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے.ان کا شمار نہ صرف اس صدی کے اعلیٰ ترین سائینس دانوں میں ہوتا تھا بلکہ وہ ایک زبر دست منتظم بھی تھے.اٹلی کے شہر ٹریسٹ میں واقع ادارہ آئی سی ٹی پی اور اس کے ذریعہ علوم طبیعات کی تحقیق اور فروغ کا حیرت انگیز کارنامہ ہے.ان کی ذات تیسری دنیا کے سائنس دانوں کیلئے مشعل راہ تھی.ان کو اس بات کا احساس تھا کہ تیسری دنیا میں تحقیق کی کوئی روایت نہیں تھی.ٹیکنالوجی بہت پسماندہ ہے اور نظام تعلیم کی حالت نا گفتہ بہ.تیسری دنیا کی سائینس اور ٹیکنالوجی میں سرعت پیدا کرنے کیلئے انہوں نے اپنے سینٹر میں بہت سے پروگرام بنائے.جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے انہوں نے بہ حیثیت سائینسی مشیر صدر پاکستان نظام تعلیم کی منصوبہ بندی کی اور ریسرچ اینڈ ڈی ویلیمینیٹ کے متعدد پروگرام مرتب کئے.ان کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ تیسری دنیا کے ممالک کو سائینس برائے اقتصادی ترقی کی بہت ضرورت ہے چنانچہ اس مقصد کے حصول کیلئے انہوں نے سینٹر میں اپلائیڈ فزکس کے پروگرام شروع کئے.مثلاً لیز رز - سولر انرجی.پلازما فزکس.بائیو فزکس، جیالوجی.کلائیما ٹالوجی.اور سائیکل فزکس وغیرہ.سینٹر میں چار لیبارٹریز قائم ہو چکی ہیں.پروفیسر سلام نے تیسری دنیا کو اس بات کی ترغیب دی کہ وہ اپنے ممالک کی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپلائیڈ فزکس کے مختلف مضامین کی طرف توجہ دیں.میرے خیال میں وہ اس میں کافی حد تک کامیاب رہے.خاص طور پر انہوں نے پاکستانیوں کو اس کام پر راغب کیا.چنانچہ چند دوسرے ساتھیوں سمیت میں نے بھی اپنے سابقہ مضمون کو خیر باد کہا اور نئے مضمون کو اپنالیا.یعنی Physics and controlled Fusion Plasma آج میں فخر کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پچھلے پندرہ سال کو کوشش کے نتیجہ میں اب یہ مضمون پاکستان میں مضبوط بنیادوں پر قائم ہو چکا ہے.

Page 171

(۱۶۴) درجنوں سائینسدان مختلف اداروں اور یو نیورسٹیوں میں اس مضمون کو پڑھا رہے ہیں.میرے لئے یہ بات اطمینان بخش ہے کہ میں نے اپنے عظیم اور محترم استاد پر و فیسر عبد السلام مرحوم کی خواہش کے مطابق اور ان کی زریں نصیحت پر عمل کرتے ہوئے یہ کام کیا.اور یوں پاکستان کی اہم ضرورت کو پورا کرنے کی سعی کی.ڈاکٹر صاحب سینٹر کو کس طرح چلاتے تھے ؟ آئے اس کی جھلک میں آپ کو دکھلاتا ہوں.انہوں نے ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کروائی، جس کا موضوع تھا: Contemporary Physics.یہ کا نفرنس فزکس کے پورے پیکٹرم پر محیط تھی.اس مہینہ بھر کی کانفرنس میں تین سو سے زائد سائینس دانوں نے شرکت کی.جن میں سے بہت سارے تیسری دنیا سے تھے.میں بھی ان خوش نصیبوں میں سے تھا جس نے اس میں شرکت کی.غور کریں کہ تیسری دنیا کا ایک سائینسدان جو عام طور پر کنویں کے مینڈک کی طرح دنیا سے الگ تھلک رہتا ہے.مہینہ بھر ایک ایسے ماحول میں گزارتا ہے جہاں اس صدی کے شہرہ آفاق سائینسدان موجود ہیں.ایسی نامور ہستیاں جن کا ذکر اس نے کتابوں اور رسالوں میں پڑھا ہوتا ہے.انسان ان کے ساتھ کئی دن گزارتا ہے.ان کو سنتا ہے.ان سے گفتگو کرتا ہے.اس کا نفرنس کی ایک خاص بات یہ تھی کہ دن کے معمول والے اجلاسات کے علاوہ شام کو خاص لیکچرز ہوتے تھے.اور اس کیلئے موجودہ صدی کے چوٹی کے چھ سائینسدانوں کو مدعو کیا گیا تھا جن کے نام یہ ہیں: Heisenberg, Dirac, Hans Bethe, E.Wigner, Oscar Klein, Landau.مسٹر لا نڈاؤ علالت کی وجہ سے اس میں بہ نفس نفیس تشریف نہ لا سکے لہذا ان کی طرف سے ان کے ساتھی جرمن سائینسدان لف شٹر Lifshitz نے شرکت کی.یہ گرینڈ اولڈ ماسٹر ز وہ نامور ہستیاں تھیں جنہوں نے بیسویں صدی کی فزکس کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا تھا.گویا کہ شام کے لیکچر ز فزکس کی کہانی ان کے خالق کی زبانی کا پروگرام ہوتا تھا.جس میں یہ لوگ ان واقعات، کیفیات اور پس منظر کا ذکر کرتے تھے جو انہیں اپنے تخلیقی سفر میں پیش آئے تھے.

Page 172

(۱۶۳) ایک شام ہائزن برگ کا لیکچر تھا.پال ڈائیر اک بھی وہاں موجود تھے.دونوں نوبل انعام یافتہ خیال رہے کہ سلام صاحب اس ایلیٹ کلب کے ممبر ا بھی نہیں بنے تھے.میزبان ہونے کی حیثیت سے سلام سٹیج پر آئے اور یہ واقعہ سنایا.وزیر باند بیر صدیوں پہلے ایران کے بادشاہ کے ہاں کسی پڑوسی سلطنت کا بادشاہ مدعو تھا دونوں بادشاہ دربار میں تشریف فرما تھے.اور ساتھ میں ایران کے بادشاہ کا وزیر اعظم بھی.مشروبات پیش کی جاتی ہیں وزیر کے لئے اب مسئلہ یہ ہے کہ مشروب پہلے اپنے بادشاہ کو پیش کرے یا مہمان بادشاہ کو.دونوں صورتوں میں اعتراض کی گنجائش نکلتی ہے.پرانے زمانے کے وزیر باتدبیر سیانے ہوا کرتے تھے.اس نے اپنے بادشاہ کے طرف مشروب بڑھاتے ہوئے کہا ایک بادشاہ کو ہی زیب دیتا ہے کہ وہ دوسرے بادشاہ کو مشروب پیش کرے It befits one King to present to another یہ دلچسپ واقعہ سنا کر سلام نے کہا آج میری بھی یہی کیفیت ہے.مگر اس وزیر با تدبیر نے میرا مسئلہ حل کر دیا.میں دعوت دیتا ہوں کہ جناب ڈائیر اک تشریف لائیں اور ہائیزن برگ کو متعارف کرائیں.It befits one Nobel laureate to introduce another.اس کانفرنس کا ماحول جدا گانہ اور نرالا تھا.یوں لگتا تھا کہ جیسے ایک سہانا خواب دیکھ رہا ہوں.فزکس کی دنیا کے چمکدار ستارے ہر طرف جگمگ جگمگ کر رہے تھے.ماحول اتنا انسپر اتنگ تھا کہ گویا لائف ٹائم کا تجربہ تھا.ایسا کام صرف اور صرف سلام کی شخصیت ہی کر سکتی تھی.ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ڈاکٹر صاحب نے امریکہ میں ہونے والی ایک بین الا قوامی کانفرنس میں اپنی ریسرچ پیش کی.دوسرے روز پریس میں تصویر شائع ہوئی جس میں سلام اور پروفیسر اوپن ہائیمر جو کانفرنس میں صدارت کے فرائض انجام دے رہے تھے سٹیج پر کھڑے ہیں.اس تصویر کا کا پیشن یہ تھا: Salam is asking Prof Oppenheimr: give me my Nobel Prize یادر ہے کہ پروفیسر اوپن ہائیمر ایک مایہ ناز تھیورٹیکل فزے سسٹ تھے جو دوسری جنگ عظیم کے دوران

Page 173

(۱۶۴) امریکی ایٹم بمب بنانے والے مین ہائین پراجیکٹ کے انچارچ تھے.۱۹۷۹ء میں جس روز سلام صاحب کو نوبل انعام ملنے کا اعلان ہوا.اس روز میری خوش قسمتی کہ میں ٹریسٹ میں تھا.انعام ملنے کی خبر پہنچتے ہی پورے شہر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی.ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر سلام مرحوم کے متعلق باتیں اور پاکستان کے چرچے ہوتے رہے.پاکستان کو ان سے بڑھ کر شائد ہی کوئی بڑا سفیر ملا ہو.سلام ان دنوں لندن میں تھے.وہ دو دن کیلئے ٹریسٹ تشریف لائے.جشن کا سماں بندھ گیا.ان کے استقبال کیلئے سارا سٹاف اور وہاں اس وقت موجود سائینسدان با ہر دروازے پر آن کھڑے ہوئے.جو نہی سٹاف کار دروازے پر آکر رکی.میں نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا.اور سلام دی نوبل لا رئیٹ سے مصافحہ کا شرف حاصل کیا.اسی شام سینٹر میں دعوت عام دی گئی.لوگ باری باری ان سے ہاتھ ملا رہے تھے اور اپنے جذبات کا اظہار کر رہے تھے.میری باری آئی.دل کی عجیب کیفیت تھی.پرانا سٹوڈنٹ ہو نے کے حوالے سے ان کے ساتھ میں بے تکلفی سے بات نہ کر سکتا تھا.مگر اس روز خلاف عادت میں نے آگے بڑھ کر ان کو گلے لگا لیا اور مبارکباد دیتے ہوئے کہا: Sir, you have made history, you are the first from Islamic world to have received this honor.وہ جوابا کہہ رہے تھے الحمد للہ.الحمد للہ مجھے میڈل مل گیا ایک اور واقعہ سنئے : ۱۹۷۹ میں ان کو انعام ملنے کے بعد دنیا جہاں سے انہیں اعزازات سے نواز نے کیلئے مدعو کیا جا رہا تھا.حکومت پاکستان نے بھی دعوت کا پیغام ان کو بھیجا.اس سلسلہ میں سلام مرحوم کی طرف سے بہت سے پیغامات آئے.ایک پیغام مجھے بھی لانے کا شرف حاصل ہوا.یہ پیغام اس وقت کے پی اے ای سی کے چیر مین منیر احمد خان کے نام تھا.اور جو اس وقت حکومت کی طرف سے سلام صاحب کی آمد پر تمام تقریبات کا انتظامات کر رہے تھے.ڈاکٹر صاحب نے مجھے پیغام دیا کہ منیر احمد خاں سے کہنا کہ وہ حکومت پاکستان کو بتلا دیں کہ مجھے ذاتی طور پر ان کے کسی اور اعزاز اور میڈل کی بھوک نہیں ہے مجھے جس میڈل کی تمنا تھی وہ مجھے مل چکا ہے.ہاں البتہ اگر وہ پاکستان کی سائینس کی ترقی

Page 174

(۱۶۵) کیلئے کوئی سنجیدہ اقدامات کرنے کیلئے تیار ہیں تو میں ضرور آؤں گا.قصہ مختصر سلام پاکستان آئے ان کی اور ان کے خاندان کی خوب آؤ بھگت ہوئی.قائد اعظم یونیورسٹی کی طرف سے ان کو اعزازی ڈگری بھی دی گئی.یونیسکو کیلئے الیکشن سن ۱۹۸۶ء میں یونیسکو کیلئے نئے ڈائریکٹر کا انتخاب ہونا تھا.ڈاکٹر صاحب کا نام تجویز ہوا.اٹلی کے وزیر خارجہ کی طرف سے ، اور کئی دوسرے ممالک کی طرف سے.سلام صاحب کی نامزدگی کیلئے کوششیں ہونے لگیں.حسن اتفاق سے وہ اس وقت ساری دنیا میں فرد واحد تھے جو اس پوزیشن کے مطلوبہ معیار پر پورے اترتے تھے.افسوس کہ حکومت پاکستان نے ان کو نامزد کرنے سے انکار کر دیا کسی اور کو نا مزد کر دیا.دوسرا شخص (یعقوب علیاں) بری طرح انتخاب ہار گیا.یوں یہ معاملہ سیاست کا شکار ہو گیا.سلام به حیثیت استاد مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں نے امپیرئیل کالج لندن سے پروفیسر عبد السلام کی سر پرستی میں تربیت حاصل کی.اور پی ایچ ڈی کی سند پائی.یہ سن باسٹھ کا زمانہ تھا.میں نے پنجاب یونیورسٹی کی لیکچر شپ چھوڑ کر پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کی ملازمت اختیار کی اور فوراً بعد کولہو پلان سکالر شپ کے تحت اعلیٰ تعلیم کیلئے امپیریل کالج پہنچا.یہ وہ زمانہ تھا جب سلام مرحوم اور ڈاکٹر عثمانی مرحوم نے پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے تحت سائینس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کیلئے بہت سے پروگرام شروع کر رکھے تھے.ان میں ایک اہم پروگرام بیرون ملک ٹریننگ تھا.آج پاکستان میں بہت سے سینئر سائینسدان اور انجنئیر اسی پروگرام کی پیداوار ہیں.اور سلام و عثمانی کی کوششوں کے مرہون منت ہیں.میں نے پارٹیکل فزکس کا انتخاب کیوں کیا؟ یہ فیصلہ قدرتی بات تھی.فزکس اور میتھ کا بیک گراؤنڈ ہو اور ہر طرف پروفیسر سلام کے چرچے ہو رہے ہوں اور حسن اتفاق سے ان کو سننے کا موقعہ بھی مل گیا ہو.وہ پاکستان آئے تھے اور انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کے سینیٹ ہال میں ایک ولولہ انگیز لیکچر دیا سلام مرحوم یقینا نئی نسل کے ہیرو اور آئیڈیل بن چکے تھے.یہی میرے انتخاب کی وجہ بنی.

Page 175

(۱۶۶) سلام کو یہ حیثیت استاد کیسا پایا؟ وہ یقیناً ان اساتذہ میں سے نہیں تھے جو لیکچر کی تیاری میں محنت کرتے ہیں اور کوشش کے ساتھ اس کو آسان فہم بنا کر پیش کرتے ہیں.یہ سٹائل صرف پروفیسر پی ٹی میتھیوز کا تھا.سلام صاحب کا نہیں اور نہ وہ ایسے اساتذہ میں سے تھے جو لیکچرز کے نوٹس تیار کرتے ہیں اور پھر خوبصورت طریق سے بلیک بورڈ پر ہو بہو نقل کر دیتے ہیں.اس طرح بلیک بورڈ پر لکھا ہوا لیکچر کتاب کی صورت بن جاتا ہے.یہ پروفیسر کبل Kbble کا انداز تھا.سلام کا نہیں.ان کا انداز منفرد تھا ان کے نزدیک مذکورہ باتیں خاص اہمیت کی حامل نہ تھیں.یہ نہیں کہ وہ ایسا کر نہیں سکتے تھے.ہم نے ان کے کئی سیمینار سنے اور ان کو کئی انٹر نیشنل کانفرنسوں میں دیکھا اور سنا جہاں وہ وی آئی پی سپیکر کی حیثیت سے مدعو ہوتے تھے.ان کے لیکچر سننے کیلئے لوگ بے تاب ہوتے تھے، ہال کھچا کھچ بھرا ہوتا تھا.سحر انگیز لیکچر.باتیں طبیعات کی ہو رہی ہوں اور انداز بیان لٹریری ہو.زبان پر کیا عبور ہے کہ اہل زبان بھی عش عش کر اٹھتے ہیں.پھر اس پیکر علمیت و فطانت کو کس طرح سامعین سے والہانہ داد ملتی ہے کہ جیسے کبھی کے دل کی آواز ہے.میں امپیرئیل کالج میں ڈی آئی سی کورس لے رہا تھا.سلام نے اپنے کورس کا آغاز تھیوری آف لائی گروپس سے کیا.یہ وہ زمانہ تھا جب پارٹیکل فزکس میں گروپ تھیوری کے نظریات شامل ہونے لگے تھے.جس کے نتیجہ میں SU(3) Symmetry group اور Eighthfold way معرض وجود میں آئے.اور Omega Minus کی دریافت ہوئی.اور ساتھ ہی ساتھ کو ارک ماڈل Quark Model کی باتیں ہونے لگیں.کچھ دنوں بعد سلام کے لیکچرز کا انداز بدل گیا.اب وہ جب کلاس روم میں داخل ہوتے تو ان کے ہاتھ میں ریسرچ جرنلز کے تین چار شمارے ہوتے تھے.جن میں جگہہ جگہہ اشارے رکھے ہوئے ہوتے تھے.اب لیکچرز میں فرنٹیر زآف فزکس کی باتیں ہو رہی ہیں.تحقیقی مسائل کا تجزیہ ہو رہا ہے.لکھتے لکھتے بلیک بورڈ بھر جاتا ہے.خیالات و افکار کے ڈھیر لگ جاتے ہیں.بورڈ پر تیروں کے نشان بکھرے ہوئے ہیں.مختلف اجزاء کو ایک لڑی میں پرویا جا رہا ہے.اکثر باتیں طلباء کے سر کے اوپر سے گزر جاتی ہیں.

Page 176

(142) اس کے باوجود سبھی بے حد متاثر اور وجدانی کیفیت میں بیٹھے نوٹس لے رہے ہیں.سلام کے لیکچرز ایک exciting experience ہوتے تھے جو طلباء میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا کر دیتے تھے.ان کی خواہش ہوتی تھی کہ ان کے طلباء تیز رفتاری سے آگے بڑھیں اور ایسے لگتا تھا جیسے وہ بہت جلدی میں ہیں.ان کے پاس وقت بہت کم ہے اور بہت کچھ کرنا باقی ہے.دوسروں کیلئے پیغام ہوتا تھا کہ اگر آپ ہمارے شانہ بشانہ نہیں چل سکتے تو کوئی اور راہ اختیار کریں.ہم آپ کا انتظار نہیں کر سکتے : If you cannot rise to us, we cannot stoop to you ہمارے شہر میں صرف قد آور بستے ہیں یہاں بونوں کیلئے جگہ نہیں ہے.یہ تھا ان کے کام کروانے کا ٹائل.یہی وجہ ہے کہ اگر چہ ان کے بے شمار شاگرد رہے مگر صرف گنے چنے نے ان کے ساتھ کام کر سکے.ان کی شخصیت سلام مرحوم کی بارعب شخصیت، ان کا دبدبہ، اور جلالی مزاج، اور اس پر طرہ ان کی آنکھوں کی چک کہ کسی کی مجال ہے کہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کر سکے.کسی چیز کا جواب معلوم بھی ہوتا تو کہنے کی جرات نہ ہوتی.شروع شروع میں ہمیں گمان ہوا کہ یہ سب کچھ مشرقی لوگوں کا مسئلہ ہے مگر جلد ہی اس راز کی قلعی کھل گئی.ہم نے دیکھا کہ سفید فام تلامذہ کا بھی یہی حال تھا، وہ بھی اسی کشتی میں سوار تھے.جھنگ کی یہ پیکر علم و عمل شخصیت مغرب ہو یا مشرق ہر ایک پر حاوی تھی.سلام مرحوم کی آنکھوں کی خیرہ کن چمک سے متعلق ایک واقعہ سنا تا ہوں.سلام کی سیکرٹری جو شاید mannerism کی مناسبت سے تھیٹر کی دنیا میں شاید زیادہ موزوں ہوتی.وہ ایک دفعہ پروفیسر متیھوڑ کے پاس شکایت لے کر گئی.آنکھوں سے آنسو رواں تھے.کہنے لگی سلام کیسے انسان ہیں مجھے دفتر میں بلاتے ہیں.میں جاتی ہوں اور سامنے جا کر کھڑی ہو جاتی ہوں.نہ وہ مجھے ہیلو کہتے ہیں اور نہ ہی آنکھ اٹھا کر دیکھتے ہیں اور بس ڈکٹے شن شروع کر دیتے ہیں.میتھیوز بہت بڑے شفیق انسان تھے اور سب ہی ان کے پاس جا کر اپنے دکھڑے سناتے تھے انہوں نے دلا سا دیتے ہوئے کہا: شکر کرو اس نے تمہاری طرف نمیں دیکھا ورنہ تم خوف سے لرز

Page 177

(۱۶۸) جاتیں.ایک روز ایسا ہوا کہ ہم اپنے ساتھی طلباء کے ساتھ چائے کی میز پر بیٹھے تھے.اچانک وہاں پروفیسر میتھیوز تشریف لے آئے.اور ڈاکٹر صاحب کے متعلق باتیں ہونے لگیں.موضوع یہی تھا کہ سلام کو سمجھنا آسان نہیں ہے.متھیوز نے بتلایا کہ میں نے ایک دفعہ سلام سے کہا کہ تم دوسروں کی سہولت کیلئے دقیق موضوعات کو آسان بنا کر کیوں پیش نہیں کرتے ؟ سلام نے ہنس کر جواب دیا اگر میں تمہارے لئے ایسا کروں تو تم کہو گے ارے یہ تو بہت آسان بات تھی.میں خود بھی سوچ سکتا تھا ( اس میں مذاق کا پہلو زیادہ تھا) میں نہیں سمجھتا کہ سلام میں خود غرضی تھی یا کہ تکبر.ان کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ اپنا وقت بے جا صرف کرنے اور سرکھپانے کو تیار نہ تھے یعنی _ He had no patience for mediocrity جب ہمارا ڈی آئی سی کا کورس ختم ہوا تو انہوں نے سب پاکستانیوں کا بلا کر کہا کہ دیکھو بھئی اب تم لوگوں کا امتحان ہونے والا ہے.تمہیں ابھی سے اپنے پی ایچ ڈی پروگرام کا خیال کرنا ہوگا.یہاں پر ہم لوگ تو اپنے اپنے کام میں اسقدر مصروف ہیں کہ تمہیں زیادہ وقت نہیں دے سکیں گے.اس لئے کسی دوسری یو نیورسٹی چلے جاؤ وہاں سپر وائزر بہت خیال رکھیں گے، توجہ دیں گے.ہم تمہارا داخلہ کروا دیں گے ہم لوگ اس پیغام سے بہت مایوس ہوئے.کچھ نے پریشان ہو کر دوسری یو نیورسٹیوں میں داخلہ کی کوششیں شروع کر دیں.مگر اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں تھا کہ وہ طلباء کی مدد کرنے کو تیار نہ تھے.مجھے یاد ہے جب ہم نے DIC کا کورس مکمل کرنے پر تحقیق کا کام شروع کیا تو سلام نے سب کو بلوایا اور ہر ایک کو ریسرچ پرابلمز بتائے.میرے لئے بھی پر اہلم تجویز ہوا.وہ بو لتے جارہے تھے اور میں لکھتا جاتا تھا.پلے کچھ نہ پڑا بعد میں میں اس کاغذ کو بڑے احترام کے ساتھ دراز میں سنبھال دیا.اور پھر خود ہی اپنے معیار کا پرابلم تلاش کر لیا میری خوش قسمتی کہ جلد کامیابی ہوئی.مسودہ تیار کر کے ان کے پاس لے گیا.اس تحقیق کا تجویز کردہ ماڈل انہی کا تھا اور ساتھ SU(3) symmetry group.چند بنیادی ذرات کے decay process کوسٹڈی کیا گیا تھا.انہوں نے مسودہ کو دیکھا ورق الٹے اور پوچھا کہ اس میں kaan particles کی کنٹر یوشنز کیوں شامل نہیں کی گئیں؟ میں نے جواب دیا کہ کسی دوسرے نے بھی Koan

Page 178

(179) ایسا ہی کیا ہے.کہنے لگے یہ کوئی جواب نہیں.سائینسی تحقیق میں دوسرے پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا.پھر میز پر پڑے ہوئے رسالہ فزیکل ریویو اور دوسرے رسالوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تمہارا کیا خیال ہے کہ اس خرافات کے پلندے پر اعتبار کیا جا سکتا ہے؟ Do you think you can trust all this junk? خیر ہم نے ان کی تجویز کردہ کنٹری بیوشن اس میں شامل کیں.اور مسودے کو اشاعت کیلئے بھجوا دیا.یہ ہماری پہلی پبلی کیشن تھی.اس پر سیمینار بھی دیا.جس میں میتھیوز اور دوسرے اساتذہ شامل تھے.مگر سلام کہیں سفر پر گئے ہوئے تھے.اس لئے دل ہی دل میں شکر ادا کیا ورنہ ہم سٹیج پر ہی ڈھیر ہو جاتے.ہمہ جہت شخصیت سلام مرحوم کا یہ خاصا تھا کہ ان کی بات سمجھ میں آئے یا نہ آئے انسان انسپائر ضرور ہوتا تھا وہ ہر وقت excited state میں ہوتے تھے.جس سے دوسرے بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے.جہاں بھی جاتے ہلچل مچا دیتے.نت نئے خیالات ایسا لگتا کہ انقلاب آنیوالا ہی ہے.ڈی پارٹمینٹ کی حالت یہ تھی کہ مسلسل مہمان سائینسدان چلے آ رہے ہیں.کثرت سے سیمینار ہورہے ہیں.کیا یورپ، کیا امیریکہ، دنیا جہاں سے ماہرین طبیعات Kensington South کے طواف کیلئے کھنچے چلے آرہے ہیں.آج فیلڈ مین Feldman آئے ہوئے ہیں تو کل جے سی وارڈ ، Ward.ڈیپارٹمنٹ میں لٹریچر کی بھر مار رہتی.ہر روز ڈاک میں اکناف عالم سے پری پرنٹس کے ڈھیر پہنچ رہے ہوتے تھے.سلام مرحوم ( نوراللہ مرقده) به حیثیت استاد سپون فیڈنگ تو نہ کرتے تھے.مگر وہ آپ کو ایک آئیڈئیل ما حول ضرور مہیا کرتے تھے.جہاں انسان اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر آسمان کی بلندیوں کو چھو سکتا تھا.ان کے کیرئیر پر ایک سطحی نظر ڈالی جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ان کی ہمہ جہت شخصیت اتنی عظیم تھی کہ گورنمنٹ کالج لاہور کے بعد کیمبرج یونیورسٹی بھی چھوٹی ثابت ہوئی.یہاں تک کہ امپیرئیل کالج کو اس بات پر ناز تھا کہ وہاں نوبل انعام یافتہ ستاروں کا جھرمٹ رہتا ہے.جب یہ بھی تخیل

Page 179

(۱۷۰) کی تسکین نہ کرسکا تو امپرئیل کالج کی چار دیواری سے نکل کر دنیا کے سب سے بڑے فورم اقوام متحدہ میں سائینس اور تیسری دنیا کے حق میں آواز بلند کی اور آخر کار اپنی کرشمہ ساز شخصیت اور عالمی شہرت کے بل ہوتے پر اٹلی میں عالمی ادارہ برائے نظری طبیعات قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے.اس مرکز کا وجود میں آنا معجزہ سے کم نہ تھا.مگر جھنگ کے اس عقاب کی پرواز یہاں بھی ختم نہیں ہوتی.اب وہ اسلامی دنیا اور دوسری ترقی پذیر اقوام کیلئے نئے راہیں تلاش کرنے لگا.کہیں تھرڈ ورلڈ ا کا ڈمی آف سائینس قائم کی جا رہی ہے اور کہیں سائنس سٹی بنانے کے ارادے ہیں.یہ سب کچھ فزکس کی گرینڈ یونی فی کیشن تھیوری اخذ کرنے کے ساتھ ساتھ ہو رہا تھا.ان کا ارداہ تھا کہ آئی سی ٹی پی کی طرح بہت سے بین الا قوامی مراکز کا جال بچھا دیا جائے.اور اب کئی ایک مراکز ٹریسٹ والے سائینسی مرکز کی طرز پر نمودار ہو رہے ہیں.اس کے ساتھ اقوام متحدہ کی ایک یونیورسٹی بھی قائم ہو جائے جس کا نمونہ جاپان میں اس وقت کام کر رہا ہے.یہ سب کام ، یہ سب ارادے، یہ سب ارمان ، نومبر ۱۹۹۶ء کو وہ اپنے ساتھ لے کر آسودہ خاک ہو گئے.آج وہ ہم میں نہیں ہیں مگر ان کی باتیں نہ ختم ہو نیوالی ہیں.ان کے کارنامے سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں.آسماں ان کی لحد پر نورافشانی کرے پروفیسر غلام مرتضیٰ ۲۹ کتابوں کے مصنف ہیں.ان کے ۱۳۴ ریسرچ پیپرز ایلی میٹری پارٹیکل فزکس، پلازمہ فزکس، اور کنٹرولڈ نیوکلئیر فیوژن کے موضوع پر عالمی سائنسی جرنلز میں شائع ہو چکے ہیں.ان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ۲۰۰۰ ء میں وہ سلام چئیر کے پہلے پروفیسر مقرر ہوئے تھے.پاکستان میں سلام کے نام پر قائم ہو نیوالی یہ واحد چئیر ہے، خدا کرے یہ ایک روز آئی سی ٹی پی کی شکل میں ڈھل جائے

Page 180

(161) ابو ذیشان اکر سلا به بیت انشاء پرداز کا ڈاکٹر سلام کی گوناگوں صلاحیتیوں اور فکر وعمل کا احاطہ کرنا ایک مشکل کام ہے.ان کی عہد ساز زندگی اور ضیاء پاش کارناموں اور علمی مصروفیات پر طائرانہ نظر ڈالنے سے صریح طور پر یہ نظر آتا ہے کہ وہ ایک ایسی قد آور شخصیت تھے جو ایک بلند مقام سے پوری دنیا کے مسائل کا احاطہ کرتی رہی.وہ درجن بھر ضخیم کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ کئی علمی شاہکاروں اور سائینسی مضامین کے خالق بھی تھے.دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا اہم مسئلہ ہو جس پر انہوں نے محققانہ انداز میں روشنی نہ ڈالی اور اس مسئلہ کا مفید و موزوں حل عالم انسانی کے سامنے نہ پیش کیا.سائینس کی دنیا میں انہوں نے کئی ایک تہلکہ خیز کارنامے سر انجام دئے اور بلا خرنوبل انعام حاصل کر کے اپنوں اور غیروں سے اپنی خدا داد صلاحیتوں کا لوہا منوالیا.اردو اور انگریزی میں آپ کی گراں قدر تصانیف کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے تیسری دنیا کے معاشی اور تعلیمی مسائل کا خاص طور پر گہرا مطالعہ کیا تھا اور ان کو مشرق و مغرب کے گونا گوں اقتصادی، سماجی، سیاسی تعلیمی اور معاشرتی مسائل کا عمیق ادراک حاصل تھا.ڈاکٹر عبدالسلام نہ صرف تحریر کے میدان کے شہسوار تھے بلکہ بہ حیثیت قادر الکلام انشاء پرداز بھی.ان کی ژرف نگاہی ، بصالت فکر اور وسیع النظری کا تو ایک عالم معترف تھا.سلام کی دلر با شخصیت کی تعمیر جن حالات میں ہوئی ، نیز ذہنی تربیت جس دینی و علمی ماحول میں ہوئی اس کے اثرات ان کی پوری زندگی میں جھلملاتے نظر آتے ہیں.سلام کے والد کا سایہ قدم قدم پر ان کی رہبری کرتا رہا اور ایک شاداب شجر کی مانند اپنی علمی شگفتگی کے پھول ان پر برساتا رہا.سلام میں تحریر کی صلاحیت ان کے والد ماجد نے ان میں بچپن سے ہی پیدا کی.اور وہ یوں کہ ان کے والد ان کو اپنے ساتھ سہ پہر کے وقت بائیسکل پر بٹھا کر جھنگ کے مختلف مضافات میں لے جاتے جہاں وہ کھلے میدان، فیکٹریاں، دکانیں، باغات دیکھتے، یا مختلف مشینوں کے انجن جیسے بھاپ کا

Page 181

(۱۷۲) پر انجمن ، کپاس اور فلور ملز کے انجن ، موٹر کار، سائیکل ، اور سائینسی اہمیت کی چیزیں یعنی دریائے چناب کا پل اور تریموں ہیڈ وغیرہ دکھاتے.واپس گھر آکر ان کے والد مطالبہ کرتے کہ جو کچھ انہوں نے مشاہدہ کیا ہے اس کو احاطہ تحریر میں لائیں.یوں ان میں مشاہدہ کی قوت پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ تحریر کی صلاحیت بھی نکھرتی ہوگئی.پھر آپ کے والد ماجد ان کو دلچسپ کہانیاں بھی سنایا کرتے تھے یا اسلامی تاریخ کے سبق آموز واقعات ، بعد میں وہ سلام سے کہتے کہ اب وہ اپنے الفاظ میں کہانی سنائیں یوں سلام میں بولنے، یاد رکھنے، اور طرز بیان کی قوت پیدا ہو گئی.ان کے والد ان کو بتاتے کہ تقریر کرتے وقت کس مقام پر ذرا رکنا چاہئے ، اور کس مقام پر بولتے رہنا چاہئے.یا پھر بعض دفعہ جب وہ کسی کتاب کا مطالعہ کرتے تو ان کے والد ان سے کتاب کا خلاصہ پیش کرنے کو کہتے.یوں آپ کو مضمون نویسی، خیالات کو بیان کرنے، مناسب الفاظ کے انتخاب پر دسترس حاصل ہوتی گئی.ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سلام کے والد کو کہانیاں سنانے کیلئے نئی کتب تلاش کرنا پڑیں کیونکہ اس سے پہلے کی تمام کہانیاں ان کو حفظ ہو چکی تھیں.اس چیز نے سلام میں کتابیں اور رسالے پڑہنے کی امنگ پیدا کر دی.ان کے والد ان کی ذہنی تشنگی کو تسکین دینے کیلئے بڑے شوق سے نئی کتابیں اور رسائل لا کر دیتے.سکول کے زمانہ میں ہی آپ کے والد نے آپ سے کہا کہ وہ مقامی اخبار کے بچوں کے صفحہ کیلئے مضمون لکھ کر بھیجیں.یوں آپ میں انشاء پردازی کی استعداد نکھرنے لگی.اور اپنے افکار کو صفحہ قرطاس ر منتقل کرنے کی قابلیت پیدا ہو گئی.مضامین لکھنے کے لئے سلام نے بڑے لوگوں کے اقوال زریں اور تا ریخی واقعات ازبر کر رکھے تھے.مارچ ۱۹۳۶ء میں ڈی ہی، جھنگ میں ہونے والی تعلیمی نمائش کے مقابلے میں انہوں نے مضمون نویسی میں پہلا انعام حاصل کیا.جب آپ انٹر میڈیٹ کالج جھنگ میں داخل ہوئے تو آپ کو کالج لامیر میری کا انچارج بنا دیا گیا.آپ کے والد نے ایک اور کام یہ کیا کہ جھنگ شہر کے مشہور شاعر شیر افضل جعفری سے گزارش کی کہ وہ سلام کو مضامین لکھنے کی مشق کرائیں تا ان کے مضامین کا معیار اور ان کا طرز تحریر منفرد ہو جائے.

Page 182

(۱۷۳) نیز سلام کی تحریروں میں نکھار آنے کے ساتھ ان کا انداز بیان بھی اچھوتا ہو جائے.کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ لکھنے کی قوت آپ میں خدا نے ودیعت کی تھی اس عمل سے صرف جلاء پیدا ہو گئی.راقم التحریر ۱۹۹۷ء میں حرمین شریفین کی زیارت کی سعادت سے مشرف ہونیکے بعد جب لاہور گیا تو مجھے مکرم ناصر احمد خالد نے ڈاکٹر عبد السلام کے سکول کے زمانے کے لکھے ہوئے ، لطافت زبان سے بھر پور ایک مضمون کی کاپی دی جو مندرجہ ذیل ہے.اصل بھی مضمون کے آخر پر شائع کیا جارہا ہے: اقبال میری نظر میں عزیز محمد عبد السلام متعلم جماعت نہم مادر ہند اپنی کم مائیگی اور تہی دتی پر تا ابد کف افسوس ملتی.اگر اس کی صدف سخن جو کالیداس، خسرو، اور غالب جیسے شاعر پیدا کر چکی ہے.اقبال سا شہوار پیدا نہ کرتی.ہمالیہ کی سر بفلک چوٹیاں زبان حال سے بآواز دہل طور بے کلیم ہونے کا اعلان کرتیں.اور رود مسار گنگا چرخ کی کج ادائی کا شاکی ہوتا.مے خانہ ہند کا ساغر شراب گلگوں سے لبالب ساقی کا انتظار کر رہا تھا جو اس بام بے مثل کو اکناف عالم میں دور دیتا.زہے خوش بختی ، ساقی، خوش جمال پنجاب میں سرزمین سیالکوٹ میں جلوہ افروز ہوا.جس کو اس بات پر بجا فخر ہے کہ اقلیم سخن اردو کے اس تاجدار نے اس مقام پر جسد خا کی پہنا.۱۸۷۶ء میں اس نوزائیدہ کی طبع رسا سے کون واقف تھا.جس سے گیسوئے اردو ا بھی منت پذیر شانہ تھی اور جس نے آکر اس کی کایا پلٹ دی ، اور اس کو گنج زر دیا.اس وقت کیا کسی کو معلوم تھا کہ اس بچہ کی شوخی و گفتار کے چرچوں سے زمین و آسمان گونج اٹھیں گے.نہیں ہرگز نہیں..مگر فیضان خداوندی اس وقت بھی اس بچہ پر رنگینی اور رفعت تخیل بن کر نازل ہو رہے تھے.جو کہ انٹرنس کے درجہ تک طبیعت میں محفوظ رہے.مگر ایف اے کلاس میں مولانا میر حسن کی فیضان صحبت نے ان جواہر کو جلا دی.مگر دنیائے طب آپ کی ولایت کے سفر سے مراجعت تک تشنہ کام رہی.جس کے بعد ساقی، شیر میں جمال نے اپنے چھلکتے ہوئے ساغر مے مئے بیخودی دنیا کے سامنے پیش کی.قوم کے جمود و سکون سے متاثر ہوکر انجمن حمایت اسلام کے سٹیج پر آتش افروزی شروع کر دی.اور دنیائے اسلام کو بیدار

Page 183

(۱۷۴) کر دیا.آپ کی قبولیت عامہ کا یہ عالم ہے کہ آپ کی سوانح حیات آپ کی زندگی ہی میں لکھی گئی.اور آپ کی تصنیفات اسرار بیخودی، پیام مشرق، زبور عجم ، وغیرہ کے تراجم دنیا کی بہت سی زبانوں میں ہو چکے ہیں.اور یہ کتب اکناف عالم میں پھیل چکی ہیں.ہماری دعا ہے کہ وہ سلامت رہیں ہزار برس ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار.........اغلبا يه تحریر ١٩٣٩ کمی ہے...........اوائل عمر سے ہی آپ کو اردو.عربی.فارسی اور انگلش زبانوں پر مکمل عبور حاصل تھا.ہائی سکول کی تعلیم ختم کرنے کے بعد جب آپ گورنمنٹ کالج جھنگ میں داخل ہوئے تو اس وقت بھی آپ ادبی مضامین زیب قرطاس کرتے رہے، آپ کے والد گرامی نے کالج کے پرنسپل سے ایک روز پوچھا کہ کیا سلام کے مضامین معیاری ہوتے ہیں؟ تو انہوں نے مشورہ دیا کہ سلام کو نصیحت کریں کہ وہ اپنے مضمون کے متن میں دوسرے ادیبوں اور قلم کاروں کے لمبے لمبے حوالے نہ پیش کیا کریں.گورنمنٹ کالج جھنگ کے دوسرے سال میں آپ رساله چناب کے ایڈیٹر مقرر ہوئے.اس رسالہ میں آپ نے ایک نہایت نفیس اعلیٰ درجہ کا مضمون اسد اور غالب کے موضوع پر لکھا اور ثابت کیا کہ برصغیر کے مشہور شاعر اسد اللہ خاں غالب نے اپنا تخلص اسد سے کب تبدیل کیا ، آپ نے محنت طلب تحقیق سے اس سال کا تعین کیا.بعد میں یہی مضمون اس دور کے مشہور عالم جریدہ ادبی دنیا کے صفحات کی زینت ۱۹۴۳ء میں بنا..سلام اس عمدہ تحقیقی اور ادبی مضمون پر ہمیشہ فخر کیا کرتے تھے.گورنمنٹ کالج لاہور میں آپ کی قلمی کاوشوں کا اعتراف کرتے ہوئے آپ کو کالج کے رسالہ راوی کے دونوں حصوں (یعنی انگریزی اور اردو) کا مدیر اعلیٰ مقر ر کیا گیا.دریں اثناء آپ کالج کی سٹو ڈنٹ یونین کے صدر بھی تھے.مجھے راوی رسالہ کے پرانے شماروں میں سے ۱۹۴۰ء کا لکھا ہوا آپکا ایک مضمون ملا ہے جس کا عنوان ہے Hair & Hair Dressers یہ مضمون اس کتاب کے انگریزی حصہ میں شامل اشاعت ہے جسے پڑھ کر قارئین آپ کی خداداد لیاقت اور قابلیت کا اندازہ کر سکتے ہیں.

Page 184

(۱۷۵) آپ نے سب سے پہلا سائینسی مضمون ۱۹۴۳ء میں تحریر کیا جب آپ گورنمنٹ کالج لاہور میں طالبعلم تھے.اس کا عنوان تھا: راما نوجن کا ایک مسئلہ جو رسالہ 2&1 Math.student Vol Xl, No (1943) میں شائع ہوا.اس مقالہ میں آپ نے مشہور ہندوستانی ریاضی دان را ما نوجن کے پیش کردہ انتہائی پیچیدہ طریقے سے مساوات کے خصوصی سیٹ کو حل کرنے کے برعکس انہیں حل کرنے کا سادہ اور زود فہیم طریقہ پیش کیا تھا.یہ بلا شبہ سائینسی تحقیق میں آپ کا پہلاعلمی شاہکار تھا.۲۷۳ مقالہ جات پنجاب یو نیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد جب آپ کیمبرج تشریف لائے تو یہاں بہ حیثیت سائینسدان آپ کو اور دقیق مضامین لکھنے پڑے.مثلاً آپ نے پی ایچ ڈی کی ڈگری کیلئے جو مقالہ قلم بند کیا وہ نظری طبیعات کے میدان میں ایک علمی شاہکار تھا جس کی وجہ سے آپ کی دھاک مغربی ممالک میں بیٹھ گئی.اس کے اگلے چالیس سالوں میں آپ نے سائینس کے مختلف موضوعات پر ۲۷۳ بلند پایہ کے مقالہ جات قلم بند کئے، جن کی مکمل تفصیل ترتیب وار ایس ایم احمد (کراچی) نے ایک کتاب Abdus Salam as we know him میں پیش کی ہے.اس فہرست کے مطابق آپ کا پہلا سائنسی مضمون ۱۹۴۳ میں A problem of Ramanujan کے عنوان سے شائع ہوا.اور آخری مضمون ۱۹۹۰ ء میں Fermion Induced Singularities کے عنوان سے، جو دو دوسرے سائینسدانوں کے تعاون سے لکھا گیا تھا، شائع ہوا.اس خریطہ علم کے مطابق آپ ۴۷ سال تک تشنگان علم کی پیاس بجھاتے رہے.مذکورہ بالا مضامین کتابی صورت میں بھی جنوری ۱۹۹۴ء میں شائع ہوئے اس کتاب کے ایڈیٹر ڈاکٹر سلام کے ساتھی امپرئیل کالج کے نام کبل Kibble تھے.یہی مضامین کمینٹری کے ساتھ بھی مئی ۱۹۹۴ء میں شائع ہوئے ، اسکے ایڈیٹروں میں پاکستان کے پروفیسر ریاض الدین ہیں.یہ کتاب Selected Papers of Abdus Salar پیپر بیک میں Barnes & Noble سے دستیاب ہیں.ایک صاحب طرز دیب کی حیثیت سے جو کتابیں آپ کے اشہب قلم سے منظر عام پر آئیں ، ان کی فہرست درج ذیل ہے: Theoretical Physics - lectures 1963 High-energy physics & elementary particles 1965

Page 185

Symmetry concepts in modern physics 1966 Renormalization & Gravity 1971 Aspects of Quantum theory 1972 Ideals & Realities, various editions 1983,84, 89 Science & Education in Pakistan 1987 Science in third world 1989 Notes on Science & technology 1990 Unification of fundamental forces 1990 Supegravities in diverse dimensions 1990 Supersymmetry & Supergravity 1991 Renaissance of Sciences in isl, countries 1994 Selected papers of Abdus Salam with commentary 1994 (۱۷۶) مؤخر الذکر کتاب میں آپ کے تمام مضامین کی فہرست تاریخ دار بھی دی گئی ہے جس کے مطابق آپ کا پہلا سائنسی مضمون ۱۹۴۳ء میں شائع ہوا اور آخری مضمون ۱۹۹۳ء میں عالمی شہرت کے جرنل فزکس لیٹرز میں شائع ہوا.یوں پچاس سال کے عرصہ میں ان کل مضامین کی تعداد ۲۷۶ بنتی ہے.مؤلف کی ذاتی لائیبریری میں او پر مذکورہ کتابوں میں سے سات کے علاوہ متعد دعبد السلام یادگاری رسالہ جات بھی موجود ہیں.مندرجہ بالا گراں مایہ کتابوں میں چند ایک کے نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض ایک ٹیکسٹ بکس ہیں.آپ کی جلیل القدر کتاب آئینڈ لیز اینڈ ریلے ٹیز کا ترجمہ اس کی افادیت کے پیش نظر دنیا کی مختلف زبانوں میں ہو چکا ہے.اردو میں اسکا سب سے پہلا ترجمہ ظفر حسن زیدی نے کیا جو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی نے ۱۹۹۱ء میں شائع کیا، ڈاکٹر انیس عالم نے جو اردو ترجمہ کیا وہ ۱۹۹۲ء میں فرنٹیر پوسٹ لاہور نے شائع کیا.شہزاد احمد نے ۱۹۹۶ء میں اسکا ایک اور اردو ترجمہ کیا جو ارمان اور حقیقت کے عنوان سے دستیاب ہے.اگر چہ اس ایڈیشن میں وہ تمام مضامین شامل نہیں جو اصل کتاب میں تھے.اسی طرح آپ کی شہرہ آفاق تالیف یونی فیکشن آف فنڈا مینٹل فورسز کا ترجمہ ڈاکٹر انیس عالم (شعبہ فزکس، پنجاب یونیورسٹی) نے کیا اور اساسی قوتوں کی یکجائی کے عنوان سے ۱۹۹۷ء میں لاہور سے شائع ہوا.اس کا ترجمہ یونانی

Page 186

(۱۷۷) زبان میں ( کیمبرج ۱۹۹۱ء ) اور جاپانی (ٹوکیو ۱۹۹۱ ء ) زبان میں بھی شائع ہو چکا ہے.خطبات سلام ڈاکٹر سلام ایک شیر میں بیاں فصیح اللسان مقرر بھی تھے.مذکورہ کتابوں کو لکھنے کے علاوہ آپ نے دنیا جہان کے سفر کئے، ہر براعظم کا سفر کیا تا وہاں ہو نیوالی کانفرنسوں میں خطبات پیش کر سکیں.ان معرکہ آراء خطبات کو اکٹھا کیا جائے تو ان کی تعداد ایک سو دس کے قریب بنتی ہے.ان میں سے بعض ایک کا ترجمہ اردو میں کتاب سائینس کا جھان نو ( لاھور ) میں شائع ہو چکا ہے.نیز انگلش میں ایک کتاب سائینس اینڈ ایجو کیشن ان پاکستان (۱۹۸۷) میں بھی آپ کی چند تقاریر کے مجموعہ کو پیش کیا گیا ہے.انگلش میں فصاحت و بلاغت سے لبریز خطبات سر سلام کا مجموعہ ٹریسٹ سے شاید شائع ہو.کتاب ہذا میں بھی ایک ایڈریس کے ترجمہ کے علاوہ ان پر مغز تقاریر کی فہرست دی جارہی ہے.کاش کہ کوئی علم دوست اس کام کو اپنے ذمہ لے اور ان تمام خطبات کو سنوار کر شائع کر دے.پھر سائنٹیفک ریسرچ کے ساتھ ساتھ آپ نے دنیا کے وزراء، امراء، سائینسدانوں اور ملکوں کے سربراہوں اور وزیر اعظموں کو جو تجاویز یا رپورٹیں پیش کیں ان کی تفصیل آپ کے آرکائیوز میں موجود ہے جو قریب ۸۰۰ صفحات پر مشتمل ہے.یہ خط و کتابت عبد السلام آرکائیوز ٹریسٹ سینٹر میں محفوظ ہے.اس کی ایک وجد آفریں مثال وہ مبسوط رپورٹ ہے جو آپ نے اسلامی سائینس فاؤنڈیشن کے قیام کیلئے اسلامی کانفرنس لاہور کے موقعہ پر پاکستان کے وزیر اعظم کو ۱۹۷۳ء میں پیش کی تھی.غرضیکہ ان تمام کتب، مضامین تقاریر ، خطوط ، اور پیغامات میں لکھے جانیوالے الفاظ کو اگر گنا جائے تو وہ کم از کم پانچ لاکھ تو ضرور بنتے ہوں گے.اسلوب بیان آپ کی تحریروں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے.ایک تو وہ جن کا تعلق تھیور ٹیکل فزکس میں برق مقنا طیس قوت اور ویک نیو کلئیر فورس میں وحدت سے ہے.اور اس کا تعلق فزکس کے وسیع مضمون کوانٹم فیلڈ تھیوری سے تھا.دوسرا حصہ ان تحریروں کا وہ ہے جن کا تعلق پاکستان میں سائینس کے فروغ

Page 187

(۱۷۸) کے ساتھ ساتھ اسلامی ممالک اور تیسری دنیا میں سائینس کا فروغ تھا.یاد رہے کہ آپ صدر پاکستان کے تیرہ سال تک سائینسی مشیر رہے نیز آپ نے کئی ایک اہم بنیادی سائینسی اداروں کی پاکستان میں بنیاد رکھی.یہ تمام تحریر میں اور کتابیں ٹمٹماتے ہوئے چراغ راہ کی مانند ہیں جن سے پیش آمدہ مسائل پر رہ نمائی مستقبل میں حاصل کی جاسکتی ہے آخر پرانی علمی تخلیقات پر ہی نئی تخلیقات کی بنیاد رکھی جاتی ہے انگلش میں آپ کی تحریر کا انداز منفرد ہوتا تھا.آپ اکثر اسلامی تا ریخ سے سبق آموز واقعات لیکر تقاریر کو دلچسپ بنانے کیلئے بیان کیا کرتے تھے.مثلاً ترقی پذیر ممالک میں سائینسدان کا تنہا رہ جانا کے عنوان سے تقریر دلپذیر میں درج ذیل واقعہ بیان کیا: پانچ سو سال قبل ۱۴۷۰ء کے لگ بھگ سیف الدین سلمان جو قندھار کا نوجوان ماہر فلکیات تھا اور اس زمانے کی نامور رسد گاه الغ بیگ (سمر قند) میں کام کر رہا تھا، اس نے اپنے والد کو ایک کر بناک خط لکھا.بڑی وضاحت کے ساتھ سلمان نے ان مخمصوں کا ذکر کیا جو ایک غریب ملک میں اعلیٰ تحقیقی کیر ئیر کیلئے دل شکنی کا باعث ہوتے ہیں.اے میرے پیارے والد اس بات پر مجھے فهما ئش نه کیجئے که میں نے آپ کو بڑھاپے میں تھنا چھوڑ دیا اور سمر قند میں عارضی رہائش اختیار کر لی.اس کی وجه یه نهیں هے که مجهے سمر قند کے خوشبودار سردے.انگور اور انار کی هوس هے.یه بهی نهیں که ز ر افشاں کے کنارے پر آباد باغات کا سایه میرے پاؤں کی زنجیر بن گیا ہے.مجھے اپنے آبائی شهر قندھار اور ان شاهراهوں پر دو رویه درختوں سے عشق ھے اور میں واپسی کے لئے بیقرار ہوں.مگر میں معافی چاھتاھوں اے میرے قابل صد احترام والد.میرے دل میں علم حاصل کر نيكا ولوله هے قندھار میں نہ علم دینے والے نہ قدر کر نیوالے ہیں نه کتب خانے هیں نه مزله ( زاوے ناپنے واله آله) اور نه هی فلکیاتی مشاهده گاهیں.میرا استادوں کو گھورتے رھنا خلق کیلئے نفرت اور تعفن طبع کا باعث

Page 188

(۱۷۹) ھے.میرے ہم وطنوں کو عالم کے پر وانے سے قلم کی نسبت تلوار کی چمك كهيں زیادہ پسند ھے.میں اپنے شہر میں اداس ، اور قابل رحم نا کارہ اجنبی ہوں.اے میرے والد اگر چه یه درست هی که گهر سے اتنی دور جب میں گھوڑے پر سوار ہو کر بازار میں نکلتاهوں تو لوگ میرے احترام میں اپنی نشستوں سے نھیں اٹھتے.مگر جلد ھی کچھ دنوں میں سارا سمر قند تمھارے بیٹے کیلئے احترام میں کھڑا ھو گا.جب وہ اپنے علم میں البیرونی ، اور طوسی کی هم سری کریگا.تب آپ بھی فخر محسوس کریں گے.اس خط پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عبد السلام سائینس دانوں کی بیسویں صدی میں تنہائی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: سیف الدین مسلمان اپنے اساتذہ یعنی البیرونی اور نصیر الدین طوسی کی سی عظمت علم بائیت میں تو نہ حاصل کر سکا مگر اس کے دل سے نکلی ہوئی صدا ہمارے زمانے پر مطابقت رکھتی ہے.۱۴۷۰ء کے مقابلہ میں آج کے برکلے میں پڑہنے یا کیمبرج میں، یا مزلہ کے مقابلہ میں اعلیٰ توانائی کے ایکسل ریٹرز کا مطالعہ کیجئے قندھار کے مقابلے میں دہلی میں پڑھئے یا لا ہور میں ، ہمارے مقابل سائینسی تحقیق کی ایک ایڈوانس صورت حال ہے.اسی طرح آپ مغرب میں بننے والی ٹیکنالوجی کا مشرق سے موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: آج سے تقریباً تین سو سال قبل ۱۶۶۰ء میں جدید عالمی تاریخ کی دو عظیم یادگار میں قائم ہوئیں.ایک مغرب میں.لندن کا سینٹ پال کیتھڈرل.دوسری مشرق میں.آگرہ کا تاج محل ، بیان کی ضرورت نہیں یہ دونوں یادگار میں بذات خود اس بات کا مجسم اظہار ہیں کہ تاریخ کے اس دور میں ان دو میں سے کون سی تہذیب فن تعمیرات کا ریگری، دست کاری، صناعی اور ثروت کی کس منزل پر تھی.البتہ لگ بھگ اسی زمانے میں ایک تیسری یادگار بھی وجود میں آئی، جس کے بعد کے اثرات زیادہ گہرے اور دو رس ثابت ہوئے.یہ نیوٹن کی طبیعات کے موضوع پر شہرہ آفاق تخلیق پر نسپیا Principia ہے.مغرب کے اس شاہکار کے ہم پلہ مغل ہندوستان میں کچھ بھی نہ تھا.اب میں آپ کو مختصراً

Page 189

(۱۸۰) بتاؤں گا کہ نادر المثال تاج محل دینے والی ٹیکنالوجی پر، نیوٹن کی کتاب پر نسپیا پر قائم ٹیکنالوجی سے ٹکرانے کے بعد کیا بیتی؟ اس ٹکراؤ کا پہلا دھما کہ ۱۷۵۷ء میں ہوا.شاہجہاں کے تاج محل کی تعمیر کے تقریباً سو سال بعد رابرٹ کلائیو کے ہلکے پھلکے اسلحہ جات کی بہتر کارکردگی نے شاہ جہاں کے وارثوں کو شرمناک شکست دی اور اس کے مزید سو سال بعد ہندوستانی شہنشاہ کا شاندار تاج ملکہ وکٹوریہ کے قدموں پر تھا.آہ.یہ صرف ایک عظیم الشان سلطنت کا خاتمہ نہ تھا بلکہ ایک تہذیب ، ایک تمدن ، اور ایک طرز معاشرت اور ایک ٹیکنالوجی کی موت تھی.۱۸۵۷ء کے بعد ہندوستانی اسٹیٹ کی زبان فارسی کی بجائے انگریزی ہوگئی.مشرق کے شیریں نغموں کو اسکولوں کے نصاب سے نکال کر ان کی جگہ شیکسپئیر اور ملٹن کی ادبیات کو لایا گیا.مشرق کے علمی خزانوں کو تاریخ کے اوراق سے اڑا دیا گیا.اور ڈھاکہ کے ململ کے خاکستر پر لنکا شائر کے سوتی پرنٹوں کا محل تعمیر ہو گیا.اسلامی سائینس کے زریں دور کا ذکر کرتے ہوئے اور مسلمان بادشاہوں کے سائینس اور ایجوکیشن کے بارہ میں لا تعلقی کا اظہار کرتے ہوئے آپ یوں خون کے آنسو رلاتے ہیں: جارج سارٹن نے اپنی کتاب ہسٹری آف سائینس میں سائینسی کارناموں کو عہد بہ عہد تقسیم کیا ہے مثلاً ۴۰۰ ق م تا ۴۵۰ افلاطون کا عہد ہے.۷۵۰ تا ۱۱۰۰ء مسلسل چار سو سال مسلمان سائینسدانوں کا عہد ہے.جن میں جابر بن حیان، موسیٰ الخوارزمی، زکریا الرازی ، مسعودی، ابو الوفا، البیرونی ، اور عمر خیام جیسے مشاہیر اور سائینسدانوں کے نام آتے ہیں.اس کے بعد ڈھائی سو سال کا زمانہ آتا ہے جس میں ابن رشد ، نصیر الدین القوی ، اور ابن نفیس جیسے فرزندان اسلامی سائینس کا پرچم بلند کرتے نظر آتے ہیں.لیکن جب اسلام کو ہندوستان میں عروج ملتا ہے تو حکمت اور سائینس کی روایت ختم ہو چکی تھی.زمام اقتدار نا خواندہ بادشاہوں کے ہاتھ میں تھی جو فقط اپنے جاہ و جلال کا شوق رکھتے تھے اور بس.انہوں نے آئندہ نسلوں کیلئے عالی شان مقبروں کے سوا اور کچھ نہ چھوڑا.کسی مغل مسلمان بادشاہ نے سکولوں، کالجوں ، اور یو نیورسٹیوں کیلئے روپیہ خرچ نہ کیا.مسلمان بادشاہوں کا یہ رویہ ہنوز جاری ہے.

Page 190

(۱۸۱) غرضیکہ آپ کی تحریروں، کتابوں ، تقریروں، اور دبیز رپورٹوں سے یہ بات آفتاب نیم روز کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ آپ ایک صاحب طرز ادیب تھے.آپ بنیادی طور پر ایک ایسے بالغ نظر مفکر تھے جس کے فکر و عمل کا محور وحدت تھا.آپ خدائے واحد کی زندہ ہستی پر پختہ ایمان رکھتے تھے.اور کائینات میں کارفرما قوتوں اور انسانیت کی وحدت پر بھی اتنا ہی.اس لئے یہ ہر گز تعجب کی بات نہ تھی کہ جب بھی انسانیت کے کسی حصہ پر ظلم ہوتا تو آپ مرغ بسمل کی طرح تڑپ اٹھتے تھے.آپ دل سے شاعر، دماغ سے سائینسدان اور مزاج سے ایک صوفی تھے.غرضیکہ آپ کی شخصیت علم و عمل کا دل آویز مرقع تھی.پاک دل، پاک ذات، پاک صفات.زمانے نے نہ جانے کتنی عظمتوں کو دیکھا ہے اور ابھی نہ جانے اور عظمتوں کو دیکھے گا لیکن ان تمام عظمتوں کا وہ جمگھٹ جو پروفیسر عبد السلام کی شخصیت میں تھا وہ شاید پھر کبھی دوبارہ دیکھنے کو نہ ملے.لا ریب تیسری دنیا میں سائینس کے فروغ کیلئے آپ کے طاقتور قلم نے مسیحائی کا کام کیا.حرف آخر قصہ مختصر یہ کہ ڈاکٹر عبد السلام محق، دانشور اور فاضل اجل ہی نہیں خوش فکر اور با ذوق بھی تھے.ان کی تخلیقات کی خوشبو اکناف عالم میں پھیل چکی ہے.ان کے مضامین کے مطالعہ سے ان کے ذوق سلیم کی جھلکیاں نظر آتی ہیں.ان کا مشاہدہ دقیق تھا.اس مقالہ میں لائے گئے ان کے مضامین کے اقتباسات سے ان کی شگفتگی طبع کا اظہار ہوتا ہے.یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان کو اظہار بیان پر ایسی قدرت عطا کی گئی تھی کہ ادق سے ادق مضمون کو بھی وہ اپنے قلم کی جولانی سے قاری کے دل میں اتار دیتے تھے.ان کی تحریروں میں خاص قسم کا تمکنت اور رچاؤ تھا ایسا کہ یہ فکر کے کئی در بیچے وا کر دیتا تھا.

Page 191

(۱۸۲) معلوم تھا.کہ اس بچہ کی شوخی گفتار کے چرچوں سے اقبال میری نظر میں زمین و آسماں گونج اٹھیں گے.نہیں ہرگز نہیں کیا عزیز محمد عبد السلام متعلم مجاعت نیم ما اور پسند اپنی کم مائیگی اور نہی دستی پر گر فیدان خداوندی اس وقت بھی اس بچہ پر دیکھنی اور رفعت تخیل منکر نازل ہورہے تھے جو کہ انٹرنس کے درجہ تک طبیعت میں محفوظ رہے.مگر ایف ہے کا نے اس میں مولانا میر حسن کی فیضان صحبت نے آئی تا اپدیت افسوس ملتی.اگر اس کی صرفت سخنی 2 جواہر کو جلا دی.مگر دنیائے طب آپ کی ولایت کے سفر سے مراجعت تک تشنہ کام رہی جس کے بعد ساقی شیرین جمالی نے اپنے چھلکتے ہوئے ساغر سے سے بیخودی دنیا کے سامنے پیش کی.قوم کے مجوود سکون سے متاثرہ کو پنجمین حمایت اسلام کے پیچ کالید اس خبر واحد غالب جیسے شاعر پیدا کر چکی ہے.اقبال سہارا کے شہدار پیدا نہ کرتی.ہمالیہ کی سر بفلک چوٹیاں زبان حال سے بآوایہ وہی طور بے کلیم ہونے کا اعلان کرتیں.اور ردو مار گنگا چرخ سی کج ادائی کا شاکی ہوتا.کے خانہ ہند کا ساغر پر آتش افروزی شروع کر دی.اور دنیائے اسلام ب گلگوں سے لبالب ساقی کا انتظار کر رہا تھا.کو پیدا و کر دیا.جوان بارم میلے مثل کو اکناف عالم میں دور دنیا ہی نہیں آپ کی قبولیت عامہ کا یہ عالم ہے.کہ آپ کے خوش نمی ساتی خوش حال پنجاب میں سرزمین بیکاری میں حلوہ افروز ہوار حسین کو اس بات کا بکا فخر ہے سوانح حیات آپ کی زندگی ہی میں لکھے گئے.اور آپ کی حقیقات اصرار بخوای رموز بیخودی بیایم شرق ا قلم سخن اردو کے اس تاجدار نے اس مقام پر وابعد عجم وغیرہ کے تراجم دنیا کی بہت سی زبانوں میں ہو چکے ہیں اور یہ کتب الکاف عالم میں پھیل چکی ہیں بہاری دنیا ہے.کہ وہ قید خاکی پہنا ے دار ہیں اس تھا ئیدہ بچے کی بلیغ رسا سے کون واقف تھا.جس سے پہلے دو گیسوئے اردو ابھی وہ منت پذیر شاہ تھی اور جس نے آگر اس کی کایا بیٹے دی.افلاس کو گنج زردیا.اس وقت کیا کسی شعر لامت رہیں ہزار پر ہیں.ہر پر جس کے ہوں دن پچاس ہزار حیدر آباد (انڈیا) میں ڈاکٹر عبد السلام کی یاد میں ہونے والے اطلاس سے نامور اسٹرانومر ڈاکٹر صالح الہ دین خطاب فرما رہے ہیں (ہم تقام مسجد احمدیه ۲۶ جنوری ۰۲۰۰۳)

Page 192

(۱۸۳) صاحبزادہ.ایم ایم احمد (واشنگٹن) علم و دانش کی شمع فروزاں کے پروفیسر عبد السلام نے اسلامی سائینس فاؤنڈیشن (فورڈ فاؤنڈیشن کی طرز ) کا عالمی ادارہ قائم کرنے کا مشورہ اسلامی ممالک کے حکمرانوں کے سامنے پیش کیا تھا.اس حوالے سے پاکستان کے نامور ما ہر معاشیات، سابق چیف سکرٹری مغربی پاکستان، سابق وفاقی سکرٹری خزانہ اور ڈپٹی چیر مین پلانگ کمیشن ، سابق ڈائریکٹر ورلڈ بینک.جناب مرزا مظفر احمد رقم طراز ہیں:.بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ ڈاکٹر عبدالسلام نے مسلم ممالک کی ایک اسلامی سائینس فاؤنڈیشن کی سکیم تیار کی تھی.اس اہم منصو بہ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے راجہ صاحب آف محمود آباد نے تمام مسلم ممالک کے حکمرانوں سے رابطہ قائم کر کے ان کو قائل کرنا تھا کہ وہ اپنی فارن ایکس چینج آمدنی کا ایک کم از کم معین حصہ مجوزہ فاؤنڈیشن کے فنڈ میں پیش کریں.اس فنڈ سے اسلامی ملکوں کے ذہین اور قابل نو جوانوں کو سائینس اور ٹیکنالوجی کی جدید تعلیم دلانا تھا.نیز مسلم ممالک میں فروغ سائینس کا یہ منصوبہ تھا کہ ان مسلم ملکوں کی منتخب یو نیورسٹیوں میں سائینسی فاؤنڈیشن کے فنڈ سے طلباء کو سکالرشپ ادا کئے جائیں.اس فروغ سائینس کے منصوبہ کے تحت راجہ صاحب آف محمود آباد نے سب سے پہلے مڈل ایسٹ کے اسلامی ممالک کا دورہ کرنا تھا.لیکن بدقسمتی سے راجہ صاحب دل کا دورہ پڑنے سے بیمار ہوکر جلد راہی ملک عدم ہو گئے اور یہ منصوبہ وہیں رک گیا.خود میں نے بھی اپنے طور پر ورلڈ بینک کے ایگزیکٹو ڈائر یکٹر کی حیثیت میں پاکستان اور مشرق وسطی کے ملکوں کی نمائندگی کرتے ہوئے تیل کی دولت سے مالا مال عرب ممالک میں اس زبر دست سکیم کو آگے بڑھانے اور اس میں دل چسپی پیدا کرنے کے حتی المقدور کوشش کی لیکن مثبت پیش رفت ممکن نہ ہو سکی.

Page 193

(۱۸۴) پروفیسر عبد السلام نے اسلامی سائینس فاؤنڈیشن کے منصوبہ کا جو پمفلٹ تیار کیا تھا وہ اس بات کا گواہ ہے کہ آپ کی کتنی زبر دست خواہش اور دلی تڑپ تھی کہ ہر ممکن طریق سے دنیائے اسلام میں سائینس اور ٹیکنالوجی کو فروغ دے کر مسلمان ممالک کی غربت اور بد حالی ختم کر کے ان مجبور اور محروم غریب لوگوں کیلئے جدید ترقی یافتہ معیار زندگی ممکن بنایا جا سکے.انگلستان کے وزیر اعظم نے (غالباً کیمبرج یونیورسٹی کے چانسلر کی حیثیت سے ) پاکستان کے وزیر اعظم کو خط کے ذریعہ درخواست کی کہ وہ پروفیسر عبد السلام کو انگلستان بھجوا دیں.تا کہ وہ یہاں موجود سہولتوں کو استعمال کر کے اپنی ذہنی اور علمی صلاحیتوں کو اجا گر کر سکیں.وزیر اعظم نے مزید لکھا کہ انہیں یہ کہتے ہوئے کوئی شک نہیں ہے کہ ایک وقت آئیگا جب ڈاکٹر سلام سے علمی فیض حاصل کرنے کے مقصد سے ساری دنیا سے لوگ پاکستان جایا کریں گے.جب وزیر اعظم پاکستان کو یہ خط ملا تو انہوں نے یہ خط پنجاب کی حکومت کو ارسال کر دیا.کیونکہ اس وقت (سن پچاس کی دہائی کا شروع) ڈاکٹر سلام گورنمنٹ کالج میں پروفیسر تھے.اس درخواست اور پیش کش پر آپ خوش ہوئے اور واپس کیمبرج جانے پر تیار بھی تھے لیکن انہوں نے اپنی ایک خانگی مجبوری اور ضرورت کا اظہار بھی کر دیا.وہ یہ تھی کہ چونکہ وہ اپنے والدین کے کفیل ہیں لہذا اگر حکومت پنجاب، محکمہ تعلیم کچھ عرصہ کیلئے انہیں ایک صد پچاس روپے ماہوار الاؤنس کی منظوری دے دے تو وہ اپنے والدین کی طرف سے عائد ہونے والی ذمہ داری کو سہولت سے انجام دے سکیں گے.محکمہ تعلیم پنجاب نے ڈاکٹر سلام کی اس درخواست پر تائیدی نوٹ لکھ کر محکمہ خزانہ کو بھجوادیا لیکن محکمہ خزانہ نے خالص دفتری انداز (بیورو کر ٹیک) میں اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے لکھا کہ : اس سے ایک بری روایت قائم ھو جائے گی محکمہ خزانہ کی اس رائے کو نظر انداز کرنے میں مجھے کچھ تر در پیش نہ آیا اور میں نے درخواست پر اضافی نوٹ لکھ دیا کہ اس قسم کی نا خوشگوار مثالیں قائم ہونا پاکستان کیلئے خوشی اور خوش بختی کا باعث ہوں گی.لہذا اس درخواست کو محض نا خوشکن روایات قائم ہو جانے کے خوف سے تشنہ تکمیل نہیں رہنا چاہئے.

Page 194

(۱۸۵) ڈاکٹر عبد السلام کا علمی ورثہ ایک قیمتی اثاثہ ہے.اور محفوظ کر کے رکھنے کے قابل ہے.سائینس کے فروغ کی وہ مشعل جو عبد السلام نے روشن کی اور جو عالمی سطح پر پاکستان کی عظمت اور سر بلندی کا ذریعہ بنی.بلا شبہ وہ شمع اور وہی روشنی آج بھی ملک و ملت اور امت مسلمہ کی عظمت رفتہ کو واپس لا کر علم و دانش کے فروغ کی فضا بحال کر سکتی ہے.بشرطیکہ ہم جہالت کے تعصبات کو جھٹک کر پھینک دیں.(روزنامه مسلم - ۸ نومبر ۱۹۹۸ء) افسوس که فاضل مضمون نگار ۲۳ جولائی ۲۰۰۲ء کو واشنگٹن میں رحلت فرما گئے اللہ تبارک و تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے آمین كيا لوگ تھے سوز نفس سے اس کے تھے روشن کئی چراغ فیض سخن سے اس کے تھیں آباد محفلیں کاٹے کا کون شوق سے اب بے ستون درد اب کون سر کرے گا محبت کی منزلیں تھا جادہ حیات پہ یہ روح کا سفر یا بوئے گل تھی ، جس کو صبا ساتھ لے گئی روشن تھا ان کے دم سے شبستان زندگی کیا لوگ تھے کہ جن کو قضا ساتھ لے گئی

Page 195

(۱۸۶) پروفیسر منور شمیم خالد (ربوہ) سرسید اور سلام یہ ایک عجیب حسن اتفاق ہے کہ ۱۹۹۶ ء میں ڈاکٹر عبد السلام کا سترواں یوم پیدائش اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سرکاری اور غیر سرکاری ، ہر دو سطحوں پر عقیدت سے منایا گیا.وزیر اعظم کی طرف سے پاکستانی سفیر کے ذریعہ آپ کے علاج سے متعلق تمام اخراجات کی ادائیگی کی پیش کش کی گئی.جس پر ڈاکٹر صاحب نے شکریہ ادا کرتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان کے علاج پر خرچ کی جانے والی تمام رقم اگر پاکستان میں سائینس کی تعلیم کے فروغ پر خرچ کر دی جائے تو زیادہ بہتر ہوگا.جناب کنور ادریس ( سابق فنانس سیکرٹری سندھ گورنمنٹ) کے مطابق ڈاکٹر صاحب نے اپنی طرف سے یہ پیش کش بھی کی کہ ورلڈ کرکٹ کپ کی چمپین جیتنے کی صورت میں پندرہ کروڑ کی جو انعامی رقم تقسیم کرنا تھی وہ رقم اگر پاکستان کی سائینس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کے فروغ کے لئے حکومت مختص کر دے تو اس کے برابر کی رقم یعنی پندرہ کروڑ روپے کی میچنگ گرانٹ کا اہتمام.قرضہ کے طور پر نہیں بلکہ تحفہ کے طور پر ڈاکٹر صاحب بذات خود کریں گے.ذرا ذہن میں لا ئیں اور تصور کی آنکھ سے دیکھیں کس درد دل سے اور کس کرب کے ساتھ ڈاکٹر سلام ، اہل اقتدار اور حامل وسائل کے سامنے کس کس طریق سے منت سماجت کر کے، ہاتھ جوڑ کر کے، بھیک مانگتے ہوئے ، اپنے پیارے وطن اور اہل وطن کو جنجھوڑ کر جگا رہے تھے.اور سمجھا بجھا رہے تھے کہ آج کے مسابقت کے دور میں ، اگر ہم اپنی صدیوں پرانی حالت غربت، بیماری، بے بسی ، اور ناقدری اور قرضوں تلے دبے رہنے کی نا گفتہ بہ صورت حال ختم کر کے با مقصد زندگی ، خوشحالی اور عزت کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو اس کا واحد راستہ جدید سائینس اور ٹیکنالوجی ہے.یہ وہی عظیم کام ہے جس انیسویں صدی میں سرسید احمد خاں نے مسلمانان ہند کیلئے بھیک مانگ

Page 196

(۱۸۷) مانگ کر سرانجام دیا کہ کسی طرح ان کی قوم جدید انگریزی تعلیم سے بہرہ ور ہو سکے.بلکل اسی عظیم مقصد کی خاطر ایک سو سال بعد سرسید احمد خاں دوبارہ پروفیسر سلام کی صورت میں جلوہ گر ہوتے ہیں.جنہیں ایک ہی غم کھائے جاتا ہے کہ وہ کس طرح اپنے وطن عزیز پاکستان ، امت مسلمہ کے پچاس آزاد ملکوں کو ، اور ایشیا، افریقہ اور لاطینی امیریکہ کے غریب اور پسماندہ..تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک اور قوموں کے اندر جدید سائینس اور ٹیکنالوجی کو عملا رائج کر کے ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں باوقار مقام دلاسکیں.مسلمانوں میں سائینس اور مغربی تعلیم کے رواج کیلئے سرسید احمد نے غازی پور میں سائینٹفک سوسائٹی کی بنیاد ۱۸۶۰ء کے لگ بھگ رکھی تھی.بعد میں اسکا مرکز علی گڑھ منتقل ہو گیا اس کیلئے عمارت خریدی گئی اور پھر اسے انسٹی ٹیوٹ کے نام موسوم کیا گیا، اس عمارت میں ریڈنگ روم، لا ئمبر یری، میوزیم اور لیبارٹری قائم کی گئی تھی بعینہ ڈاکٹر سلام نے قریب ایک سو سال بعد ۱۹۶۴ء میں اٹلی میں سینٹر فار تھیورٹیکل فزکس قائم کیا.جس کا مقصد تیسری دنیا (خاص طور پر اسلامی دنیا ) میں سائینس کی تعلیم کا فروغ تھا.سید احمد خاں کو ملکہ برطانیہ وکٹوریہ نے سر کا خطاب ۱۸۸۸ء میں دیا جبکہ سلام کو سر کا خطاب ملکہ ایلز بیتھ نے ۱۹۸۹ء میں دیا.سرسید بہت سی کتابوں کے مصنف تھے اسی طرح سلام بھی کئی ایک کتابوں کے مصنف تھے.سرسید کی وفات ۱۸۹۸ء میں ہوئی جبکہ سر سلام کی وفات ۱۹۹۶ء میں ہوئی.سرسید احمد خاں نے اپنی درسگاہ کے قیام کے ساتھ مذہب اور سائینس کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کر نی کا خواب دیکھا تھا.عبد السلام کی شخصیت سرسید کے اس خواب کی تعبیر تھی.سید باشم علی ( سابق وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) نے علی گڑھ میں پروفیسر عبد السلام کی آمد پر جو صدارتی خطبہ پیش کیا اس میں آپ نے فرمایا: پروفیسر عبد السلام آج جو کام کر رہے ہیں وہ بنیادی طور پر وہی ہے جسے اس یو نیورسٹی کے بانی سرسید نے غیر منقسم ہندوستان کی ایک اقلیتی کمیونٹی کیلئے تقریباً ایک صدی پہلے کیا تھا.پروفیسر عبد السلام کا

Page 197

(IAA) عظیم کا رنامہ یہ ہے کہ انہوں نے سرسید کے مشن کو تمام دنیا کی تعلیمی طور پر پسماندہ اور غریب اکثریت تک پھیلا دیا ہے.(تہذیب الاخلاق، ستمبر ۱۹۸۹) نومبر ۱۹۹۲ ء کو کویت میں TWAS کی چوتھی جنرل کا نفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر عبد السلام نے فرمایا تھا: ہماری اکیڈیمی ترقی پذیر ممالک میں سائینس کی ترقی اور ترویج کیلئے کام کر رہی ہے سرسید نے چنکی چنکی آٹا لے کر (علی گڑھ) کالج قائم کیا تھا میں بھی سرسید کا ایک ادنیٰ خادم ہوں.اپنی کمائی میں سے کچھ نہ کچھ اپنی مادر د علم کو بھیجتے رہا کریں.۱۹۶۴ء میں ڈاکٹر سلام نے ٹھوس سائینسی ترقی کا منصوبہ پیش کیا اور چاہا کہ حکومت پاکستان سر پرستی کرتے ہوئے عملی تعاون کرے.لیکن اہل اقتدار نے اس منصو بہ کو وقت کا زیاں قرار دیا.لیکن ڈاکٹر سلام کو اس منصوبہ کی افادیت پر یقین کامل تھا.لہذا اقوام متحدہ، یونیسکو اور اٹلی کی حکومت کے تعاون سے آپ نے ٹریسٹ میں یہ سینٹر قائم کر دکھایا.سب سے بڑا کارنامہ ڈاکٹر عبد السلام کے بہت سے شاندار کارناموں میں سے سب سے بڑا کارنامہ در حقیقت اس سینٹر کا قیام تھا.قائم کرنا تو شاید آسان تھا مگر اس کو میں سال تک چلانا تو اور بھی جان جوکھوں والا کام تھا.سینٹ کیلئے فنڈ زلانا ، ملک ملک اس ضمن میں سفر کرنا اور مختلف قومیتوں کے لوگوں کو قائل کرنا کہ وہ اس بارہ میں رقم دیں تو اور بھی مشکل کام تھا.کئی سال تک آپ مختلف فاؤنڈیشنز کے سامنے اپنا کیس ایک کامیاب وکیل کے طور پر خود پلیڈ کرنے گئے.اس ضمن میں فورڈ فاؤنڈیشن کا ذہن میں فوراً ابھر آتا ہے.تیسری دنیا کے قریب اسی ہزار سائینسدان یہاں سے تعلیم حاصل کر کے اپنے اپنے ممالک میں سائنس کی تعلیم کو فروغ دے رہے ہیں.۱۹۹۴ء میں جب آپ ریٹائرڈ ہوئے تو آپ کے اعزاز میں منعقد ہو نیوالی تقریب میں دس نوبل انعام یافتگان نے شرکت کی.اس کے علاوہ ہر رنگ، ہر نسل اور ملک سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں کی تعداد میں سائینسدان موجود تھے.مرکز کے موجودہ ڈائریکٹر پروفیسر مینگوریا ویرا سارو نے ڈاکٹر سلام کے انتقال پر گہرے رنج و غم

Page 198

(۱۸۹) کا اظہار کرتے ہوئے بی بی سی BBC ریڈیو کو بتلایا تھا:.یہ بات نا قابل یقین ہے کہ پروفیسر سلام کو تیسری دنیا کے اتنے لوگ جانتے ہیں.آپ کسی بھی ترقی پذیر ملک میں جائیں.آپ کا نام آپ گھر گھر سن سکتے ہیں.ان کے نظریات کی ہر جگہہ قدر کی جاتی ہے.وہ ہر جگہ موجود ہیں.چاہے کولمبیا ہو، پاکستان ہو یا کوریا.اب دیکھیں نہ ان کا مرکز کوریا میں ہے.پروفیسر سلام ایسے شخص تھے جنہوں نے تیسری دنیا کے لوگوں کو عالمی سطح پر عزت اور وقار دیا.انہوں نے طبیعات میں نمایاں کارنامے سر انجام دئے ہیں انہوں نے اس شعبہ میں جو خیالات پیش کئے وہ جدید سائینس کی بنیاد تصور کئے جاتے ہیں.سائینسی دنیا میں ان کے تخلیقی سائینسی کارنامے دیر تک یاد رکھے جائیں گے.(بی بی سی اردو سروس ، ۲۲ نومبر ۱۹۹۶ء صبح کی نشریات ) صدر پاکستان سردار فاروق احمد لغاری نے ان کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے اپنے تعزیتی پیغام میں ڈاکٹر صاحب کی شاندار قومی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی وفات کو نا قابل تلافی قرار دیا تھا.اور کہا کہ ان کی رحلت سے پیدا ہونے والا خلاء مدتوں پر نہیں ہو سکے گا.وہ مادر وطن کیلئے شہرت اور عظمت کا باعث بنے.اور انہوں نے پاکستان کو سائینسی دنیا کے نقشے پر ایک نمایاں مقام دیا.ان کی وفات سے قوم اپنے ایک عظیم فرزند سے محروم ہو گئی.صدر مملکت نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان کے لواحقین کو یہ نا قابل تلافی صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اسی طرح نگران وزیر اعظم ملک معراج خالد نے ڈاکٹر سلام کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم کی سائینس کے شعبہ میں گراں قدر خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر سلام نے بین الاقوامی حلقوں میں مادر وطن کا نام روشن کیا تھا.سلام کی عظمت ڈاکٹر سلام کے بھائی عبد الحمید (مرحوم) نے ایک گفتگو میں روزنامہ جنگ کو بتلایا تھا کہ ڈاکٹر عبد السلام نے ۴۲ سال برطانیہ میں رہنے کے باوجود نہ صرف وہاں کی شہریت حاصل نہ کی بلکہ جواہر لال نہرو کی جانب سے بھارتی شہریت کی پیش کش بھی ٹھکرا دی تھی.وہ پاکستانی ہونے پر فخر کرتے تھے.جب

Page 199

(140) ڈاکٹر عبد السلام کو نوبیل انعام ملنے کی توقع تھی تو بر طانوی حکومت نے بار بار کوشش کی کہ وہ ان کے ملک کی شہریت حاصل کر لیں.لیکن انہوں نے ہمیشہ جواب دیا کہ وہ اس بین الاقوامی اعزاز کو پاکستان کے نام منسوب کرنا چاہتے ہیں.نوبل انعام ملنے کے بعد برطانوی حکومت نے انہیں مسٹر کا خطاب دینے کی پیش کش کی.علاوہ ازیں جواہر لال نہرو نے ایک وزیر کو خصوصی طور پر برطانیہ بھیج کر انہیں بھاری شہریت اور دیگر مراعات کی پیش کش کی.تاہم انہوں نے اپنے والد کے مشورے سے ہر پیشکش کو ٹھکرا دیا.(جنگ ۲۳ نومبر ۱۹۹۶) ڈاکٹر سلام کے سب سے چھوٹے بھائی محمد عبد الوہاب نے نوائے وقت کو بتایا کہ ڈاکٹر سلام کی وفات سے قوم ایک بڑے سائینسدان سے ہی محروم نہیں ہوئی.بلکہ ان کا خاندان ایک مہربان بزرگ شخصیت کے سایہ سے محروم ہو گیا ہے.ڈاکٹر صاحب کو نوبل انعام سے جو اڑھائی لاکھ ڈالر ملے اس سے انہوں نے مستحق طلباء کیلئے فنڈ قائم کر رکھا ہے.جس میں سے وظائف دئے جاتے ہیں.گورنمنٹ کالج سے بہت محبت کرتے تھے.ان کے دور میں جو چپڑاسی تھا وہ ابھی تک زندہ ہے اس سے خاص لگاؤ رکھتے تھے.اور جب بھی پاکستان آتے اس کو گھر جا کر ضرور ملتے اور ہر ماہ اس چپڑاسی کو وظیفہ ملتا تھا جس سے اسکی مالی امداد ہوتی تھی.(نوائے وقت ۲۲ نومبر ۱۹۹۶) پر وفیسر عبد السلام مرحوم کے پسماندگان میں دو بیگمات (امۃ الحفیظ صاحبہ لندن اور پر وفیسر ڈاکٹر لوئیس جانسن سلام، مالیکیولر بائیو فزکس، آکسفورڈ یونیورسٹی) ، دو بیٹے احمد سلام اور عمر سلام اور چار بیٹیاں ہیں.بڑی صاحبزادی عزیزہ رحمن ( لاس اینجلز ) نے پی ایچ ڈی کیا تھا.خود ڈاکٹر سلام دو بہنوں اور چھ بھائیوں میں سے سب سے بڑے تھے.ایک بھائی عبد القادر ڈاکٹر ہیں اور چوہدری عبد الرشید لندن میں چارٹرڈ اکا ؤٹمینٹ ہیں.(مؤلف کتاب کے نام ایک ای میل مورخہ ۱۰ دسمبر ۲۰۰۲، پروفیسر لوئیس سلام نے بتایا کہ عزیزم عمر سلام کیمبرج یو نیورسٹی سے ریاضی میں اپنے ڈاکٹریٹ کا مقالہ مکمل کرنے کے آخری مراحل میں ہے).ڈاکٹر عبدالسلام کی وفات ۲۱ نومبر ۱۹۹۶ کو آکسفورڈ میں ہوئی.اگلے روز آپ کا جنازہ ۲۲ نومبر

Page 200

(191) ۱۹۹۶ کو بعد نماز جمعہ مسجد فضل لندن میں جماعت احمدیہ کے چوتھے امام سیدنا حضرت اقدس میرزا طاہر احمد صاحب نور اللہ مرقدہ ) نے پڑھایا تھا.حضور نے ان کے ماتھے پر اپنا دایاں دست مبارک رکھ کر چند.ٹانے زیر لب دعا فرمائی تھی اور پھر تابوت کو کندھا دیا تھا.نماز جنازہ اور آخری دیدار عام کی ساری کاروائی انٹرنیشنل احمد یہ ٹیلی ویژن MTA نے نئی حاصل کردہ گلوبل ہیم کے ذریعہ ساری دنیا میں براہ راست دکھائی.۲۴ نومبر بروز اتوار ڈاکٹر سلام کا تابوت جماعت احمد یہ لاہور نے ائر پورٹ پر وصول کرنے کے بعد.دال منکر.میں آخری دیدار کیلئے رکھا جہاں ہزاروں سوگواروں نے آپ کا آخری دیدار کیا.حمید نصر اللہ خاں امیر جماعت احمد یہ لاہور نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی جس میں چھ ہزار سے زائدہ احباب نے شمولیت کی.۲۴ نومبر کی شام جنازہ ربوہ پہنچا جہاں رات گئے تک ہزاروں افراد نے آخری دیدار کیا.۲۵ نومبر ۱۹۹۶ء بروز پیر صبح ساڑھے نو بجے صاحبزادہ منصور احمد.امیر مقامی ربوہ دار بجرت نے نماز جنازہ پڑھائی جس میں ۳۵۰۰۰ ہزار افراد نے شرکت کی.گیارہ بجے بہشتی مقبرہ میں مرحوم کے بزرگ والدین کی قبروں کے پہلو میں دنیا کے اس عظیم انسان، پہلے نوبل انعام یافتہ مسلمان سائینسدان کے جسد خاکی کو لحد میں اتار دیا گیا.تدفین کے بعد صاحبزادہ صاحب نے ہی اجتماعی دعا کروائی ، جس میں پاکستان کے مختلف شہروں سے آئے پروانوں نے نیز غیر ممالک سے آنیوالے سوگواروں نے شرکت کی.آپ کی عمر ستر سال، نو ماہ ، بائیس دن تھی...اصل مضمون میں معمولی ردو بدل کی گئی ہے (مولف)...

Page 201

(۱۹۳) ڈاکٹر انیس عالم.شعبہ فزکس، پنجاب یونیورسٹی لاہور اقلیم سائینس کا تاجدار ہے میں نے ۱۹۶۰ء میں اسلامیہ کالج سول لائنیز لاہور میں بی ایس سی آنرز میں داخلہ لیا.طبیعات اور ریاضی میرے پسندیدہ مضامین تھے.یہ دور لاہور کی علمی اور ادبی تاریخ میں اچھا خاصا با رونق تھا.ہر کالج میں مختلف مضامین کی فعال سوسائیٹیاں تھیں.ہمارے کالج کے پرنسپل پروفیسر حمید احمد خان تھے.شعبہ طبیعات کے سربراہ پروفیسر عبد الحمید بیگ تھے.ان کی سربراہی میں فزکس سوسائٹی بڑی فعال تھی ہر ہفتہ، دو ہفتہ بعد کوئی نہ کوئی طبیعات دان شعبہ میں لیکچر کیلئے مدعو ہوتا تھا.ان لیکچروں سے مجھے پہلی بار طبیعات کی باریکیوں کا احساس ہوا اور مجھ میں نظری طبیعات میں کام کرنے کی خواہش پیدا ہوئی.اسلامیہ کالج میں قیام کے تین سال میں مجھے پروفیسر ریاض الدین ، ڈاکٹر اشفاق احمد ، ڈاکٹر نسیم احمد خان ، ڈاکٹر عبد الغنی، جیسے طبیعات دانوں سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا.یہ سب حضرات پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے لاہور کے مرکز سے وابستہ تھے.انہی حضرات نے میرے دل میں طبیعات کو اپنا کیرئیر بنانے کی خواہش پیدا کی.یہ زمانہ میری ذہنی نشو ونما کیلئے بہت اہم تھا.میں نے بے شمار کتب پڑھیں جن میں بیسویں صدی کے طبیعات کے بانیوں آئن سٹائین، پلانک، بوہر، ہائزن برگ، ڈی بروگلی، ڈائراک کے علاوہ دوسرے مشہور سائینسدانوں مادام کیوری، جیمز جینز ، ایڈ یشن کی تحریر یں بھی شامل تھیں.جن میں ان ماہرین نے جدید طبیعات کی باریکیوں کو آسان زبان میں بتلانے کی کوشش کی ہے.۱۹۶۴ء میں ایم ایس سی فزکس کا امتحان دینے کے بعد مجھے بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کیلئے وظیفہ دیا گیا.پروفیسر حمید احمد خان نے پروفیسر عبد السلام سے امپرئیل کالج میں رابطہ کیا اور اس طرح نومبر ۱۹۶۴ء کے پہلے ہفتہ میں پروفیسر سلام کے قائم کردہ نظری طبیعات کے شعبہ میں تعلیم کیلئے پہنچ گیا.لیکن پروفیسر سلام اس سال انالین ساحلی شہر ٹریسٹ منتقل ہو چکے تھے.جہاں انہوں نے بین الاقوامی مرکز

Page 202

(195) برائے نظری طبیعات کے پہلے ڈائر یکٹر کے طور پر ذمہ داریاں سنبھال لیں تھیں.وہ مہینے میں ایک دو بار لندن تشریف لاتے تھے.انہوں نے ہماری کوئی کلاس نہیں لی لیکن ان سے ایک دو بار ملاقات کا شرف حاصل ہوا.جس میں انہوں نے میری ہمت افزائی کی.یہ دور ذراتی طبیعات میں بڑا ہنگامہ خیز تھا.فروری ۱۹۶۴ء میں اومیگا ذرہ دریافت ہوا.جس نے ذراتی طبیعات کی بنیادی اکائیوں یعنی کوارکوں کی نشاندہی کی تھی.پروفیسر سلام کا کالج میں گروپ اس میدان میں بہت فعال تھا.انہی سالوں میں انہوں نے وہ تحقیق کی جس کی بناء پر ۱۹۶۷ء میں انہوں نے اپنا مشہور عالم مقالہ پیش کیا جس میں برق مقناطیسی اور کمزور نیوکلیائی قوتوں کو یکجا کر نیکا نظریہ پیش کیا گیا تھا.یہی نظریہ امریکی فزے سسٹ سٹیون وائن برگ نے آزادانہ طور پر وضع کیا تھا.۱۹۷۹ء میں پروفیسر سلام کو دائن برگ اور گلاشو کے ساتھ طبیعات کا نوبل انعام دیا گیا.اس وقت مجھے ان کے مقالات کی اہمیت کا اندازہ نہ ہو سکا تھا کیونکہ میں اپنی ڈاکٹریٹ کے مقالہ کے لکھنے میں مصروف تھا.جو نسبتاً آسان موضوعات سے متعلق تھا.۱۹۶۷ کے آخر میں میں نے اپنا پی ایچ ڈی کا تحقیقی کام مکمل کر لیا اور اکتوبر میں مجھے ڈگری مل گئی اور میں پاکستان واپس لوٹ آیا.ٹریسٹ کا دورہ لیکن ذراتی طبیعات میں میری دل چسپی کی بدولت میرا رابطہ پروفیسر سلام کے ساتھ برقرار رہا.اور میں ہر سال یا دو سال بعد انٹر نیشنل سینٹر (ٹریسٹ) میں مدعو ہوتا رہا.میری ان سے آخری ملاقات لندن میں اگست ۱۹۹۳ء میں ہوئی.اس ماہ انہوں نے طبیعت کے زیادہ خراب ہونے کے باعث مرکز سے علیحدگی اختیار کر لی.اور آکسفورڈ منتقل ہو گئے.نومبر ۱۹۹۶ میں ان کے انتقال کے بعد میرا ان سے تمیں سال کا رابطہ تمام ہوا.وہ میرے بڑے مہربان تھے.اور میرے تمام کیرئیر کے دوران انہوں نے مجھ سے مشفقانہ برتاؤ جاری رکھا.۱۹۸۷-۸۵ء کے دوران مجھے ان کے بین الاقوامی مرکز میں ڈیڑھ سال کا عرصہ گزارنے کا موقعہ ملا.اپنے قیام کے دوران میں نے ان کے مضامین جو اس سال سنگا پور کے اشاعتی ادارے ورلڈ

Page 203

(۱۹۴) سائینٹفک نے ایک کتاب کی صورت میں Ideals & Realities کے نام سے شائع کئے تھے اس کتاب کو میں نے اردو میں منتقل کیا، اس زمانے کی مسموم فضا میں اردو ترجمہ فوری طور پر منظر عام پر نہ آسکا.کئی سال بعد فرنٹیر پوسٹ پہلی کیشنز لاہور نے یہ مضامین شائع کئے.(ماخوذ از اساسی قوتوں کی یکجائی.لاہور۱۹۹۷ ء ) ۲۰ نومبر ۲۰۰۰ء کو مشعل بکس کے زیر اہتمام لاہور کے آواری ہوٹل میں ڈاکٹر عبد السلام کی یاد میں ایک تقریب منعقد ہوئی.اس تقریب کی صدرات ایم ایچ قاضی.وائس چانسلر پنجاب یو نیورسٹی نے کی.مقررین میں منوچہر صاحب، شہزاد احمد ، ڈاکٹر غلام مرتضی ، ڈاکٹر پرویز ہود بھائی شامل تھے.سٹیج سیکرٹری کے فرائض مسعود اشعر نے انجام دئے.اس موقعہ پر ڈاکٹر انیس عالم نے اپنی تقریر میں کہا:.ڈاکٹر عبد السلام کی وفات کو چار سال ہو گئے ہیں.لیکن ان کا ذکر خیر کسی پبلک میٹنگ میں کم ہی ہوتا ہے.ارباب اختیار سائینس پر زور دیتے ہوئے بھی سائینس کی دنیا کے سب سے روشن ستارے کا نام سائینس کے راہبر کے طور پر تو کیا معاون کے طور پر بھی لینے سے کتراتے ہیں.ہر سال نو بل کمیٹی انعام تقسیم کرتی ہے اب تک ۱۲۰ کے قریب سائینس دانوں کو انعام مل چکا ہے.لیکن ایسے نام بہت کم ہیں جن کو سائینس کی بنیادی تعمیر کے سلسلے میں انعام ملا ہو.ایسے لوگ نیوٹن اور آئن سٹائین کی طرح ہوتے ہیں.ڈاکٹر سلام کا نام بھی انہی عظیم المرتبت لوگوں میں سے ایک ہے.سلام کی عظیم شخصیت ایک انجانی سازش کے تحت ڈاکٹر سلام کا نام عوام سے پوشیدہ رکھا جاتا ہے.جب عام آدمی کو علم نہ ہوگا کہ ڈاکٹر سلام کس مرتبہ کے شخص تھے تو ان کا احترام اور ان کا ذکر کیسے ہو سکے گا؟ ہمیں زیادہ شکایت خود پاکستان کے سائینسدانوں سے ہے جو جانتے ہیں کہ سلام کتنی عظیم شخصیت کا نام ہے.پھر بھی وہ اپنی معلومات کو عوام الناس سے شئیر کرنے پر تیار نہیں ہیں.پنجاب یو نیورسٹی جہاں سے انہوں نے تعلیم حاصل کی تھی آج تک ان کیلئے کسی فنکشن کا اہتمام نہیں کر سکی.

Page 204

(190) ڈاکٹر سلام پر لکھی گئی کتب نا پید ہیں.ایک ہے اور وہ بھی ایک ہندوستانی مصنف نے لکھی ہے.بھارت کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، دارالمصنفین اعظم گڑھ نے سلام کا شاندار استقبال کیا.اور ان کو اپنے یہاں مدعو کیا مگر پاکستان کے سب سے عظیم سائینسدان کو اپنے ملک میں ایسی پذیرائی نہ ملی.سنگا پور سے ۱۹۸۵ء میں ان کے مضامین کا مجموعہ شائع ہوا.ساتھ ہی اس کا اردو ترجمہ ہو گیا.پھر اس طرح کی کتاب اردو میں ہندوستان سے شائع ہوئی.اس کا دیباچہ میں نے لکھا.پھر شہزاد احمد نے اس کتاب کا اردو ترجمہ ارمان اور حقیقت کے عنوان سے کیا.مگر ہم آج تک ان کی معیاری سوانح عمری اردو میں شائع نہیں کر سکے.تمام تعصبات اور تنگ نظری کے باوجود عام آدمی فراخدل اور روادار ہے.جس خطے میں ہم بستے ہیں وہاں مختلف النسل اور اعتقاد و ثقافت والوں کا میل جول رہا ہے.یہاں کچھ ملاؤں اور ادھوری تعلیم والے افراد نے عوام کو تنگ نظر بنانے کی کوشش کی ہے.ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سائینسی حقائق کو اپنا ئیں، سائینسی تجزیہ کو رواج دیں اور ماہرین ہمارے عوام کو باشعور بنا ئیں.پرویز ہود بھائی نے اپنی کتاب میں یہ تاثر دیا ہے کہ مسلمانوں میں کوئی خرابی ہے کہ وہ ایسا کرتے ہیں.در حقیقت ایسا نہیں ہے اصل میں پڑھے لکھوں نے اپنی ذمہ داری کو قبول نہیں کیا.ان کے عمومی رویے سے حالات بگڑتے جارہے ہیں.ہمارے معاشرے پر عصبتیوں اور منافرتوں نے قبضہ کر لیا ہے.ہمارا معاشرہ صدیوں سے Inclusive رہا ہے.اب اس کو Exclusive بنایا جا رہا ہے.ہم ڈاکٹر سلام کو اسلئے اپنانے کو تیار نہیں ہیں کہ وہ اکثریتی فرقہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے.یہ کوتاہ نظری ہے.ماضی کو دیکھ لیں بادشاہوں کے درباروں سے تعلق رکھنے والوں نے ہر مذہب وملت کے لوگوں کو خوش آمدید کہا ان میں سے اکثر کا تعلق آرتھوڈ کس اسلام سے نہیں تھا.انکا نام آج بھی زندہ ہے.سائینسی ترقی کیلئے سائینسی سوچ اپنا نا ضروری ہی نہیں بلکہ لازمی ہے.ہم سلام کو اس طرح بھی خراج عقیدت پیش کر سکتے ہیں کہ پاکستان کو ایک پروگریسو معاشرہ بنا دیں.انہوں نے ساری عمر عالمی امن کیلئے جد و جہد میں گزار دی.

Page 205

(194) ڈاکٹر سلام کے نام پر کمپیوٹر اس تقریب کے میزبان مشعل بكس کے چئیر مین محترم ڈاکٹر پرویز ھود بھائی نے اپنی تقریر میں كها یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ڈاکٹر سلام نے کیا کارنامہ کیا کہ ان کو نوبل انعام دیا گیا.یہ سمجھانا بہت مشکل ہے اس کو سمجھنے کیلئے کئی سال درکار ہوں گے.۷۱-۱۹۷۲ء میں میں امیریکہ میں طالب علم تھا وہاں ڈاکٹر سلام آئے اور اپنی تھیوری پر ایک سیمینار سے خطاب کیا، مجھے کچھ نہ سمجھ آیا.حالانکہ میں کئی سال سے فرکس کا مطالعہ کر رہا تھا.دراصل ان کی تحقیق کو آسان زبان میں بیان کرنا جوئے شیر لانیکے مترادف ہے.و هما کہ کرنا یا کوئی مشین بنانا تو آسان ہے مگر اس قسم کی دقیق تھیوریز کو بیان کرنا مشکل کام ہے.ڈاکٹر سلام نے دو بنیادی قوتوں کو یکجا کیا.ایک قوت وہ ہے جس سے بجلی پیدا ہوتی ہے.خشک موسم میں بالوں میں کنگھی کرنے سے یہ قوت پیدا ہو جاتی ہے.ٹیلی ویژن سیٹ پر جو طرح طرح کے نمونے بنتے ہیں اس کی وجہ یہی قوت ہے.ایک دوسری قوت وہ ہے جس سے سورج گرمی اور روشنی خارج کرتا ہے.اس کو دیک نیوکلئیر فورس کہتے ہیں.ڈاکٹر سلام نے ثابت کیا کہ یہ دو قو تیں (یعنی الیکٹرو میگنے ٹزم اور و یک نیوکلئیر فورس) الگ الگ قوتیں نہیں ہیں بلکہ ایک ہی قوت کے دو پہلو ہیں.انہوں نے اس تھیوری کو ریاضی کی ایک مساوات میں سمو دیا.جس طرح میکسویل نے کیا تھا.سلام کی دریافت سے ریڈیو یا ٹیلی ویژن نئی قسم کے تو نہیں بنیں گے لیکن سائینس میں اس کے اثرات بہت دور رس ہوں گے.۱۵ ارب سال پہلے کائینات وجود میں آئی تھی.کائینات کی ابتداء پر اس تھیوری کا اطلاق ہوتا ہے.پرویز ہود بھائی نے بتایا کہ دنیائے سائینس نے ڈاکٹر سلام کا کسطرح خیر مقدم کیا اس کی ایک مثال یہ ہے کہ میں گرمیوں کا عرصہ امیریکہ کی یونیورسٹی آف میری لینڈ میں گزارتا ہوں.وھاں تین کمپیوٹر رکھے ھوئے ھیں ایک کا نام ھے پالی Pauli ، دوسرے کا نام وائن

Page 206

(196) برك Weinberg اور تیسرے کا نام سلام ھے.Salam سلام نے سائینس میں اتنا بلند مقام حاصل کیا کہ جب بھی میں بیرون ملک اس بات کا ذکر کرتا ہوں کہ میرا تعلق پاکستان سے ہے تو لوگ سلام کا ذکر لازما کرتے ہیں.میں ان کو فخر سے بتاتا ہوں کہ میں نے ان کے ساتھ کام کیا.لیکن اپنے ملک میں وہ تعصب اور تنگ نظری کا نشانہ بنے.کوئی ادارہ ان کے نام پر نہیں.کوئی کتاب ان کے نام پر نہیں.۱۹۹۲ء میں نواز شریف گورنمنٹ کالج آیا اس نے سارے اولڈ راوین کے نام لئے.مگر ڈاکٹر سلام کا نام گول کر گیا.ہر حکمران نے ان سے یہی سلوک کیا.ایک ڈچ سائینسدان جس کا نام وان لیون ہک Vanteuvenhook تھا اس نے تین سوسال قبل مائیکروسکوپ ایجاد کی.اس ایجاد کی اس قدر دھوم مچی کہ برطانیہ کی ملکہ اس سے ملاقات کرنے کیلئے ہا لینڈ خود آئی.یہ انداز ہے ترقی یافتہ ملکوں کا سائینسدانوں کے احترام کا.اور ہمارے یہاں یہ حال ہے کہ ۱۹۸۷ء میں ڈاکٹر سلام بے نظیر سے ملنے اسلام آباد آئے.میں اس وقت ان کے ساتھ کمرے میں موجود تھا.ان کے ایک ساتھی پرائم منسٹر ہاؤس میں بار بار فون کر رہے تھے.بڑی دیر کے بعد وزیر اعظم کے سیکرٹری کے ساتھ رابطہ ہوا.انہوں نے جواب دیا کہ بے نظیر کے پاس اس وقت نہیں ہے.آج بھی نہیں ہے اور کل بھی نہیں ہے.ڈاکٹر سلام کو اس بات پر بہت افسوس ہوا.ان کے چہرے پر ایسا دکھ پھیلا کہ میں ان کی طرف دیکھنا برداشت نہ کر سکا اور دوسری طرف دیکھنے لگ گیا.دیا اس دھرتی میں اور سلام پیدا ہوں گے ؟ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں.اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہاں پر سائینس اور علم فروغ پا سکتے ہیں؟ یہ ترقی ہر قسم کے حالات میں نہیں ہو سکتی.یہ پودہ خاص قسم کے حالات میں ہی پنپ سکتا ہے.طالبان کو سائینس کی ضرورت نهیں وہ ٹیلی ویژن بناتے ھی نھیں اس کو توڑنے ھیں.سوال یہ ہے کہ آیا ہمیں کھلا معاشرہ چاہئے یا نہیں؟ ہم نے عقل و خرد کو قبول کرنا ہے یا نہیں؟ یہ وہ فیصلہ ہے جو ہم سب نے کرنا ہے.ٹھٹھہ میں سائنس سینٹر

Page 207

(۱۹۸) اس تقریب کے صدر ڈاکٹر ایچ ایم قاضی نے رواں دواں انگریزی خطاب میں کیا اور کہا کہ سلام کے مرتبہ کے لوگ صدیوں میں کہیں ایک بار پیدا ہوتے ہیں.سلام کی ذات اس سائینسی وارثت کا اظہار تھا جو مسلمانوں میں صدیوں سے چلی آرہی ہے.ڈاکٹر سلام نے ایک دفعہ سائینس کی ترقی کیلئے ایک ادارے کے قیام کا خاکہ پیش کیا.میں ان کے ساتھ تھا.وہ اس انسٹی ٹیوٹ کو پنجاب میں قائم کرنا چاہتے تھے.ہم نے سلام کی صدرات میں ایک کمیٹی بنائی جس میں جاپان کو ریا.اور انڈیا وغیرہ کے پروفیسر بھی شامل تھے.اس منصوبے کی سمری سیکرٹری ایجوکیشن کے توسط سے بے نظیر زرداری کو بھجوائی گئی.ان کی طرف سے جواب آیا کہ اس قسم کے دو ادارے قائم کئے جائیں ایک اسلام آباد میں اور دوسراٹھٹھہ میں.چنا نچہ ٹھٹھہ میں ایک زمین دار سے سینکڑوں ایکڑ زمین بڑے مہنگے داموں پر خریدی گئی.اس طرح سے اس کام کے لئے ابتدائی رقم زمین خریدنے پر ہی صرف ہو گئی اور منصوبہ خاک میں مل گیا.ایک دفعہ میں نے ڈاکٹر سلام سے پوچھا کہ بتائیں کہ اس ملک کا مسئلہ کیا ہے؟ کیوں ترقی نہیں ہو پاتی؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے ملک کا سب سے مسئلہ بڑا بدانتظامی ہے اسی وجہ سے یہاں پر سائینس ترقی نہیں کر رہی.اور سائینس کے ترقی نہ کرنے کی وجہ سے ملک ترقی کی راہ پر نہیں چل رہا.ڈاکٹر سلام ان لوگوں میں سے تھے جو کہتے تھے کہ ہماری قوم میں تمام صلاحیتیں موجود ہیں.مگر ان کو استعمال میں لانے والا کوئی نہیں.سلام تمام سائینسی قوانین قرآن مجید سے اخذ کیا کرتے تھے.وہ کہتے تھے کہ قرآن علم حاصل کرنے پر بار بار زور دیتا ہے.جو قوم اچھی طرح علم حاصل نہیں کرے گی تو تا ہی اس کا مقدر ہوگی.دنیا میں تبدیلی کا عمل بہت تیز ہے اس پر غالب کا شعر صادق آتا ہے: رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھئے تھے نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں anis_alam@hotmail.com✰✰✰

Page 208

(144) ڈاکٹر مشین احمد خاں (حیدرآباد.انڈیا ) علم و دانش کا گہوارہ کے.....ICTP ----- تعارف : ڈاکٹر شین احمد خاں ایک نوجوان سائینسدان ہیں جن کا تعلق حیدر آباد سے ہے.آپ نے انسٹی ٹیوٹ میتھے میٹیکل.مدر اس سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی.۱۹۹۷ء میں انہوں نے آئی سی ٹی پی میں تین ہفتہ گزارے.میرا ان سے رابطہ ۱۹۹۵ء میں پروفیسر صالح الہ دین کی وساطت سے ہوا.میری درخواست پر یہ مضمون انہوں نے اٹلی سے بھارت واپس جانے پر قلم بند کیا تھا.میکسی کو کے ملک سے دوسری ڈاکٹریٹ کے بعد آجکل وہ امریکہ میں تحقیق کا کام کر رہے ہیں.معروف سائینسی رسالوں میں وہ ڈاکٹر عبد السلام پر مضامین اور کئی ایک خطوط بھی لکھ چکے ہیں.(ترجمہ.میم زے واؤ) ۱۹۹۷ء میں مجھے عالمی شہرت کے سائینسی مرکز.ٹریسٹ میں جانے کا پہلی بارا اتفاق ہوا.اس وزٹ کا مقصد وہاں پر منعقد ہونے والے ونٹر کالج جس کا موضوع کو انٹھ آپ ٹکس تھا اس میں مارچ سے ۲۱ مارچ تک شرکت کرنا تھا.میں نے ۱۹۹۶ء میں آئی سی ٹی پی سے درخواست کی کہ میرے ہوائی خرچ اور وہاں رہائش کے انتظامات کا بندو بست کریں.شروع میں تو انہوں نے نصف کرائے اور مکمل رہائش اور مہمان نوازی کی پیش کش کی.مگر بعد میں جب میں انڈیا سے ہوائی سفر کے کرایہ کے انتظامات نہ کر سکا تو انہوں نے پورے کرایہ کا انتظام کر دیا.اگر وہ میرے کرایہ کا انتظام نہ کرتے تو میں یہ وزٹ نہ کر سکتا جو کئی ایک طور سے بار آور ثابت ہوئی.میری دیرینہ خواہش کہ اس سینٹر کو وزٹ کروں بلا خر پوری ہوئی.ونٹر کالج ان آپٹکس ۳۵ کورسز میں سے منعقد ہونے والے کورسز میں سے ایک ہے.جو ہر މ سال یہاں منعقد ہوتے ہیں.یہ دنیا کے چار مشہور زمانہ پر فیسروں کی زیر نگرانی منعقد ہوتا ہے.یہاں میری ذاتی ملاقات کئی ایک لیکچراروں سے ہوئی جن کا ذکر میں نے کتابوں اور سائینسی جرنلز میں پڑھا ہوا تھا.ہماری گفتگو صرف ریسرچ تک محدود نہ تھی بلکہ اپنے اپنے ممالک میں سائینس اور ٹیکنالوجی کی

Page 209

(۲۰۰) صورت حال اور دوسرے ممالک یا افراد کے ساتھ قومی سرحدوں کو نظر انداز کرتے ہوئے تعاون بھی تھا.ونٹر کالج کے تیسرے ہفتہ میں ایک دو پہر افریقن & LAM ( laser, atomic (molecule network کی میٹنگ منعقد ہوئی.جس میں داخلہ کھلے عام تھا اس کے سپر وائزر پروفیسر ڈی نارڈو اور سینی گال کے پروفیسر احمد تھے.مؤخر الذکر پروفیسر لیم نیٹ ورک کے صدر بھی تھے میٹنگ کا آغاز پر وفیسر عبد السلام کی یاد میں تین منٹ کی خموشی سے ہوا.کیونکہ ان کی رحلت کے بعد لیم کی یہ پہلی میٹنگ تھی.پروفیسر احمد نے مرکز کی ہر قسم کی مدد کا خاص ذکر کیا.بلکہ انہوں نے بڑی شفقت سے مجھے بھارت کا لیم کو آرڈی نیٹر مقرر کیا.اس وقت تو میں طالب علم تھا تا ہم میرا کام فزکس سے متعلق (خاص طور پر آپٹکس ) جملہ مساعی اور پروگرام کا انڈیا میں ہونے والے کام کا ذکر کرنا تھا.مذکورہ میٹنگ کا انعقاد کسی اور جگہہ ہونے والی میٹنگ کو آئی سی ٹی پی میں وزٹ سے منفرد بنا دیتا ہے.وہاں میرے پاس وقت بہت محدود تھا میں مرکز کے کام اور اس میں دوسرے اغراض و مقاصد سے از حد متاثر ہوا ہوں.ونٹر کالج میں شرکت کے علاوہ نظریاتی مرکز میں اور دوسری بھی دیکھنے والی اشیاء ہیں جیسے کہ اس کی شاندار لامپھر میری ، سلام کے آرکائیوز، ایسے افراد سے ملاقات جو مرکز کے روز اول سے ہی اس کی مساعی اور اس کے قیام کے ذمہ دار رہے ہیں.یادر ہے کہ اس مرکز کے اندر کئی ایک دوسرے بھی سینٹر کام کر رہے ہیں جیسے:.یو نیورسٹی آف ٹریسٹ کا تھیورٹیکل فزکس کا ڈی پارٹمینٹ انٹر نیشنل سکول آف ایڈوانس سٹڈیز تھرڈ ورلڈا کا ڈمی آف سائینسز ٹریسٹ انٹرنیشنل فاؤنڈیشن فار سائینٹفک پروگریس ٹریسٹ کا شہر گویا ایک سما ٹینس سٹی ہے جس میں یکے بعد دیگرے سینٹرز آف ایکسی لینس کام کر رہے ہیں.

Page 210

کتاب کے تراجم (۲۰۱) مجھے آئی سی ٹی پی کی لائیر یری بہت ہی پسند آئی.جس کا سارا سٹاف بہت ہی تعاون کرنے والا تھا.ان کا آن لائن ڈاکو من ٹیشن سسٹم بھی اعلیٰ قسم کا تھا.پروفیسر عبد السلام کی ذاتی کتب کا مجموعہ اور کچھ دوسری اشیاء کو مرکزی لائمیر بری کے ایک کشادہ کمرہ میں بہت حفاظت سے رکھا گیا ہے.بلکہ ان اشیاء کی حفاظت کیلئے لا کھیر میری کا سٹاف ویڈیو مانیٹر کے ذریعہ اس کو مسلسل دیکھتا رہتا ہے کہ کوئی ان گنت آنے والے مہمانوں میں سے ان کو چھیڑے نہیں.پچھلے چند سالوں سے سینٹر میں ہر سال چار ہزار کے قریب لوگ آتے ہیں.یہاں اور مرکزی لائیبریری میں میں نے کتاب آئیڈلیز اور ری لیٹیز کے مختلف تراجم دیکھے جیسے اردو، فارسی، عربی، چائینیز ، جاپا نیز ، اور یوروپ کی مختلف زبانوں میں.A Pictorial Biography of Abdus Salam– آئی سی ٹی پی میں قیام کے دوران میں نے دیواروں پر نیز کتابوں میں شائع پر وفیسر سلام کے بہت سارے فوٹو گراف دیکھے جو کہ میرے لئے نئے تھے.مجھے یقین ہے کہ ان کے آرکائیوز میں اور بھی فوٹو ہوں گے.پروفیسر سلام کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ سٹیٹس مین بھی تھے جن کی وجہ سے یہ فوٹوگراف اور بھی قیمتی بن جاتے ہیں.میرے خیال میں تمام تصاویر بذات خود ایک کتابی صورت میں شائع کی جاسکتی ہیں جس کا عنوان یہ ہونا چاہئے.ایسی شائع ہونے والی کتاب اپنی قسم کی خاص ہوگی.اسی طرح ایک اور کتاب شائع ہونی چاہئے جس کا عنوان ہو Collected Speeches of Abdus Salam ایسی کتاب میں ان کی تمام تقاریر شائع کی جائیں جو تعداد میں ایک سو سے زیادہ بنتی ہیں.یہ تقاریر ایسے آنیوالے افراد کیلئے رہ نما ثابت ہوں گی جو ترقی پذیر ممالک میں سائینس اور ٹیکنالوجی کو فروغ دینا چاہتے ہیں.لیکچرز کے ٹائیٹ شیڈول میٹنگز اور دیگر سینٹرز میں جانیکی وجہ سے میں موجودہ ڈائر یکٹر پر وفیسر ویرا سارو Virasoro اور ڈپٹی ڈائریکٹر پروفیسر بیر ٹوچی Bertocchi سے ملاقات نہ کر سکا.جب میں ان سے مل سکتا تھا اس وقت مرکز میں سائینٹفک کونسل کی میٹنگ ہو رہی تھی.انشاء اللہ اگلی بار جب میرا یہاں آنا ہوگا تو ان سے ضرور ملوں گا.

Page 211

(۲۰۲) یہاں قیام کے دوران میں نے جو ضروری کتا بیں اٹھیں کیں ان میں سے چند ایک قابل ذکر یہ ہیں.ڈائریکٹری آف میتھے سے ٹیشنز فرام ڈیوٹیمینٹ کنٹریز ، ڈائریکٹری آف فزی سسٹ ، ڈائیر یکٹری آف فزے سسٹ فرام افریقہ، ڈائریکٹری آف آئی سی ٹی پی عرب فرینڈ سوسائٹی.ان میں سے " پہلی دو کتابیں مجھے پہلی کیشن آفس نے فراہم کیں.ان ڈائریکٹریز کی فہرست سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ڈاکٹر سلام کو ترقی پذیر ممالک کا کتنا خیال تھا.مجھے قوی امید ہے کہ آئی سی ٹی پی ان کتابوں کے نئے نئے اور آپ ٹو ڈیٹ ایڈیشن شائع کرتی رہے گی.حیدرآباد میں سلام سے ملاقات تین ہفتہ کے مختصر قیام کے دوران آئی سی ٹی پی سے میرا دل لگ گیا.یہاں سٹاف کے ممبران نے میری ہر سہولت کا خیال رکھا جس سے پروفیسر سلام کی یاد تازہ ہوتی رہیگی.پروفیسر سلام سے میری ملاقات زندگی میں صرف ایک بار ہوئی اور وہ بھی جب میں ۱۹۸۹ء کے موسم گرما میں ایک ہجوم میں شامل تھا.میں اس وقت اور نگ آباد گیا ہوا تھا مگر اس روز حیدر آباد لوٹ آیا جبکہ ریل گاڑی اس روز دیر سے آئی.جب میں اپنے گھر پہنچا تو مجھے والدہ صاحبہ سے معلوم ہوا کہ اگلی صبح پر وفیسر سلام بر لا میموریل لیکچر دینے والے تھے.مجھے ان سے ملنے کی کوئی امید نہ تھی.لیکن والدہ صاحبہ نے مجھ پر زور دیا کہ میں رکشا لیکر ائر پورٹ جاؤں باجود یکہ میں لیکچر نہیں سن سکا تھا.میں بھاگم بھاگ برلا پلینے ٹیریم پہنچا جہاں اس وقت سوال و جواب کی محفل جاری تھی.وہاں پہنچ کر مجھے معلوم ہوا کہ وہ اسی شام.رخصت ہونیوالے تھے.مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ یہاں سے مسجد جانیوالے تھے جو چار مینار چوک کے تاریخی علاقہ میں واقع ہے.مسجد میں آپ نے ترقی پذیر ممالک میں سائینس اور ٹیکنالوجی کے فروغ پر یادگار تقریر کی.آپ نے تقریر میں قرآن پاک کی آیات مبارکہ کے حوالے دئے.جن میں اللہ تبارک تعالٰی انسانوں سے علم حاصل کرنے پر زور دیتا ہے: ان في خلق السموت والارض و اختلاف الليل والنهار لايت لا ولى الباب ( 3:191 ) آپ نے اپنی تقریر دلپذیر میں مزید فرمایا کہ قرآن مجید میں سات سو پچاس آیات کریمہ ایسی

Page 212

(۲۰۳) ہیں (یعنی قرآن کا آٹھواں حصہ) جن میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو فطرت کے مطالعہ، مدبر کرنے ، اور عقل سلیم کے صحیح استعمال پر زور دیا ہے.تقریر کے بعد میں ہم سب لائن بنا کر آپ سے مصافحہ کرنے کیلئے کھڑے ہو گئے.میرے ذمہ اب یہ کام تھا کہ میں نے ڈاکٹر صالح الہ دین ، سابق پروفیسر اسٹرانومی ڈی پارٹمینٹ ، عثمانیہ یو نیورسٹی کے ساتھ ائر پورٹ ڈاکٹر سلام کو لے کر جانا تھا.ایک دم لوگوں کا جم غفیر ائیر پورٹ جانے کیلئے تیار ہو گیا ان احباب میں سے ایک عمر رسیدہ شخص نے مجھ سے کہا کہ تم جوان ہو تم ان سے ملاقات یوروپ میں جا کر بھی کر سکتے ہو.میں بوڑھا آدمی زندگی کے دن ختم ہونے کو ہیں.چنانچہ یہ سن کر میں کار سے باہر نکل آیا.کاش اس بزرگ کے الفاظ سچ ثابت ہوتے.اگر میری والدہ زور نہ دیتیں تو شاید میں ڈاکٹر سلام کی تقریر سننے سے محروم رہ جاتا اور ان کو دیکھ بھی نہ سکتا.مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ اخبارات نے اس عظیم میٹنگ کا اعلان قبل از وقت خاطر خواہ طریق سے نہ کیا تھا.جبکہ اس کی پلاننگ بہت پہلے سے ہو چکی تھی.ترقی پذیر ممالک میں سائینس کے فروغ میں ڈاکٹر سلام کا انفلوئینس ان کی تحریروں، نیز ان کے یادگار مرکز آئی سی ٹی پی سے ہمیشہ ہوتا رہیگا.گیلی لیوگیسٹ ہاؤس میں میرا قیام و طعام بہت ہی آرام دہ تھا.مہمان نوازی میں ان لوگوں کا جواب نہیں ہے.گیسٹ ہاؤس میں ایک میڈی ٹیشن روم ہے جس میں فلاسفی اور مذہب پر کتابوں کا مجموعہ رکھا ہوا ہے.اس کمرہ میں ہر ہفتہ جمعہ کی نماز صحیح اسلامی روایت کے مطابق ادا کی جاتی ہے.آئی سی ٹی پی میں انٹرنیٹ بھی زبر دست طریق سے دستیاب تھا.اس طریق سے میرا رابطہ میرے انسٹی ٹیوٹ اور میرے سپر وائزر سے برابر برقرار رہا، جس کے ماتحت میں اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ رہا تھا.یوں میں اپنی ایکسائیٹ منٹ اس سے اور دوستوں سے شیر کرتا رہا.یہاں قیام کے دوران وطن عزیز کی یاد نے ایک روز بھی مجھے نہ ستایا.پروفیسر سلام مرحوم نے یہاں کی اکیڈیمک کمیونٹی اور آنے والے مہمانوں کا جس طرح خیال رکھا وہ فی الحقیقت فقید المثال ہے.خدا جانے اب وہاں کب جانا ہو؟ ---rohelakhan@yahoo.com---

Page 213

(۲۰۴) سائینس کا تاج محل تاج محل سے کون واقف نہ ہو گا.مشرق کی یہ وہ نا در المثال یادگار ہے جس نے ہر چشم فکر پر ایک نیا عکس بنایا ہے.اور جسے دیکھنے والا خراج تحسین پیش کئے بغیر نہیں رہ سکتا.سنگ مرمر کے اس تراشہ کے دل کو چھو لینے والے حسن اور آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے جمال کا سر چشمہ درد عشق ہے.جو تاج کی شکل میں مجسم ہو گیا ہے.رابندرناتھ ٹیگور کی زبان میں تاج ايك چشم عاشق کا منجمد آنسو ہے جمال ليلى على و نور، شمع انسا ، نیت كا سر چشمه انٹرنیشنل سینٹر فار تھیور نکل فزکس (تریج) ایک بین الاقوامی ادارہ ہے.جس کا بنیادی مقصد تیسرے دنیا میں سائینسی علم کا فروغ ہے.یہاں دنیا کے کونے کونے سے ترقی یافتہ و پسماندہ ممالک کے سائینسدان مختصر مدت کیلئے علم کی پیاس بجھانے آتے ہیں.کچھ سیکھتے ہیں کچھ سکھاتے ہیں.پھر نئے خیالات اور نئے رجحانات کی ہے سے سر شار ہو کر واپس لوٹ کر اپنے اپنے ممالک کی تعمیر و ترقی میں لگ جاتے ہیں.فی الحقیقت آئی سی ٹی پی ایک اور اہ نہیں بلکہ انسانی برادری کے وحدت کے خواب کی زندہ تعبیر ہے.یہ وہ جگہ ہے جہاں امیر وغریب ، رنگ ونسل اور مذ ہب و قومیت کی ساری سرحد میں ختم ہو جاتی ہیں.یہاں مسلمان عیسائی کو گلے لگاتا ہے.گورا کالے کو خوش آمدید کہتا ہے اور اشترا کی سرمایہ دار کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے.اس ادارے نے دانستہ و نا دانستہ طور پر پسماند و ممالک میں سائینسی علوم کو پھیلانے میں کیا اہم کردار ادا کیا ہے.اسکا صحیح اندازہ تو آنے والا مؤرخ ہی کرے گا.البتہ یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس ادارے نے پسماندہ ممالک میں سائینسی انقلاب کی ایک لہر پیدا کر دی ہے جو ہر آن بڑھتی جا رہی ہے.تاج محل کی طرح آئی سی ٹی پی بھی ہر چشم بینا سے خراج عقیدت وصول کر رہا ہے اٹلی کے ایک شہر میں قائم اس ادارے کے جمال لیلی علم و نور شمع انسانیت کا سرچشمہ ایک دردمند کا خون جگر ہے.چ تو یہ ہے کہ آئی سی ٹی بی ایک غمگسار دل کا منجمد لہو ہے اور وہ غمگسار دل سائینس کے اس تاج محل کے شاہ جہاں محمد عبد السلام کے علاوہ کس کا ہو سکتا ہے جو صرف کائینات کے راز سر بستہ سے سرگوشی ہی نہیں کرتے بلکہ تیسری دنیا خصوصا عالم اسلام کی حالت زار پر اشک خوں بھی رلاتے ہیں.

Page 214

(۲۰۵) جاوید نذیر اور ضیاء الحق.پاکستان ٹائمنز انٹریو ۲۵ فروری ۱۹۸۳ ، ترجمہ محمد زکریا ورک یادوں کی بارات کے ۱۹۷۹ء میں جب ڈاکٹر عبد السلام کونو بل انعام ملاتو انہوں نے اپنے ساتھی سائینسدانوں سٹیون وائن برگ اور گلاشو سے نوبل انعام کی تقریب کے موقعہ پر کہا کہ وہ انعام کی رقم میں سے تعلیمی درسگا ہیں بنانے کیلئے انہیں کچھ رقم چندہ کے طور پر دیں.ان کا حیران کن جواب اس میں انٹرویو میں پڑہئے.سوال: وہ کون سے سب سے بڑی چیز محرک ہوئی جس سے آپ کی فزکس اور میتھ میں اس قدر دل چسپی پیدا ہوئی ؟ جواب: یہ کیمبرج یونیورسٹی تھی، جس کی فضاء میں صحیح سکالر شپ اور جو علم کے خزانے کے قریب واقع تھی جس کی وجہ سے میری دل چہی ان مضامین میں پیدا ہوئی.دراصل مجھے تو انڈین سول سروس کا امتحان دینا تھا لیکن ۱۹۴۶ء میں یک لخت کیمبرج میں تعلیم کیلئے طلباء کے وظائف کے پیدا ہونے سے میری قسمت میں زیر دست تبدیلی آگئی.بنیادی طور پر تو میں ایک سکالر تھا، مجھے یاد ہے میرے والد بزرگوارم بہت دور اندیش انسان تھے.جب میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا تو وہ آئی سی ایس کے امتحانات کے پرچے کتابی صورت میں لے کر آئے.یوں وہ مجھے اس امتحان کیلئے ذہنی طور پر تیار کر رہے تھے.چنانچہ میں نے بی اے آنرز کیا ، اور پھر آئی سی ایس کا مقصد اچھی سی ملازمت کا حصول تھا.خدا کے فضل سے نہ صرف میں نے ریاضی میں اول پوزیشن حاصل کی بلکہ انگلش کے مضمون میں بھی.بی اے کے امتحان میں میں نے ۵۰۰ میں سے ۴۵۱ نمبر حاصل کئے.لیکن جس مضمون کی وجہ سے میرے نمبر کم آئے وہ اردو کا مضمون تھا.ریاضی میں ۳۰۰ میں ۳۰۰، انگلش میں ۱۵۰ میں سے ۱۲۱، اور اردو میں پچاس میں سے ۳۰ نمبر لئے.چنانچہ سوال پیدا ہوا کہ میں ایم اے کیلئے کون سا مضمون لوں؟ انگلش یا کہ ریاضی؟ بہت سے لوگوں نے مشورہ دیا کہ میں انگلش کا مضمون لوں بجائے ریاضی کے.دوسری

Page 215

(۲۰۶) جنگ عظیم شروع ہو چکی تھی اور آئی سی ایس کا امتحان زیادہ دل لبھانے والا نہ رہا تھا.میں نے جب ریاضی میں ایم اے کیا تو اس وقت آئی سی ایس کا امتحان شبہ میں پڑ گیا تھا.میں آپ کو بتلاتا ہوں کہ اتفاقات کس طرح زندگی کا رخ بدل دیتے ہیں.ان دنوں خضر حیات نے کسانوں کے بچوں کیلئے تین لاکھ روپے کا فنڈ اکٹھا کیا تھا.پانچ طالب علموں کو یہ وظائف دئے جانے تھے مجھے یہ وظیفہ امتحانات میں اچھے ریکارڈ کی وجہ سے ملا.۲ ستمبر ۱۹۴۶ء کو مجھے کیمبرج یونیورسٹی سے تار ملا کہ اگر میں برطانیہ اکتوبر تک پہنچ جاؤں تو مجھے داخلہ مل سکتا ہے.میں ملتان سے لا ہور آیا، یہاں سے شملہ گیا، وہاں سے دہلی گیا تین روز یوں سفر میں گزر گئے تھے ، یہاں سے میں واپس ملتان آیا اور پھر بمبئی روانہ ہو گیا تا وہاں سے بحری جہاز سے بر طانیہ روانہ ہو سکوں.مجھے ابھی تک یاد ہے سید غلام خالق نے مجھے نصیحت کی کہ اگر میرا پیٹ سفر میں خراب ہو جائے تو ساتھ میں ایک بوتل اچار کی اور بادام روغن کی ساتھ لیتا جاؤں.بمبئی میں اس وقت کر فیو لگا ہوا تھا میں جس ہوٹل میں ٹھہرا تھا وہاں رات گئے دروازہ پر دستک ہوئی اور ایک انگریز آرمی آفیسر نے مجھے پوچھا کہ آیا میں فوجی بھگوڑا ہوں؟ اس نے میرے کاغذات دیکھے اور میرا پیچھا چھوڑ دیا.بحری جہاز میں ۳۰۰ برٹش فیمیلیز تھیں جن میں سے پندرہ یا ہمیں طالبعلم تھے.اس کے ساتھ چھ سو اطالین جنگی قیدی بھی تھے.اس وقت رنگ اور نسلی تعصب بہت زیادہ تھا.میرے ساتھ سفر کرنیوالے طلباء میں سے مجھے ڈاکٹر فضل الرحمن اور ایس اے بینائی کے نام یاد ہیں.جہاز پر سر ظفر اللہ خان کے بھتیجے حمید نصر اللہ بھی تھے.پہلے ہمارا ٹھہر او نیپلز میں ہوا اور اس کے بعد لیور پول میں.حمید نصر اللہ کو لینے کیلئے سر ظفر اللہ خان آئے ہوئے تھے ان دنوں سر ظفر اللہ نہ صرف صحت مند بھاری جثہ والے بلکہ نہایت خوبصورت بھی تھے.جہاز سے اترنے پر اس قدر سردی تھی کہ میں کانپ رہا تھا چنانچہ سر ظفر اللہ نے بکمال محبت اور شفقت سے اپنا کوٹ میرے اوپر اوڑھ دیا.کیونکہ ان کے پاس ایک اور اوورکوٹ بھی تھا.یہ کوٹ اب بھی شاید میرے پاس موجود ہے.اگلے روز میں کیمبرج پہنچ گیا یہ ۸.اکتوبر ۱۹۴۶ء کا روز تھالیوں میں یہاں پہنچا.یہاں کے طالبعلموں میں سے میں ان کا سٹیز تھا وہ اٹھارہ سال کے اور میں ہیں سال کا تھا.نیز

Page 216

(۲۰۷) میں نے میتھ میں انڈر گریجوئیٹ کا کورس دو سال کا بھی کیا ہوا تھا.چنانچہ مجھے بعض کو رسز نہ لینے پڑے.میرے اور ان انگریز طالب علموں فرق یہ تھا کہ وہ نیوٹن اور میکس ویل کو اپنا ہم پلہ جانتے تھے ان کے اساتذہ نے ان میں یہ بات ذہن نشین کی تھی کہ وہ بھی نیوٹن بن سکتے ہیں.سوال فزکس میں آپ نے پڑہائی کیسے شروع کی؟ جواب فزکس کی پڑھائی میں نے دوسرے سال میں شروع کی.میں نے اپنے موضوع کے علاوہ اور بہت بہت سے لیکچر بھی سنے ان میں سے بہت سارے فزکس کے تھے.ان دنوں فزکس کے بہت سارے سر کردہ پروفیسر اور سائینسدان کیمبرج میں کام کر رہے تھے یا بعض ایک وہاں لیکچر دینے آتے تھے مجھے اب تک یاد ہے ان میں سے ایک ایسا پروفیسر بھی تھا جس کو ۱۹۴۹ء میں نوبل انعام ملا.اس نے ایک لیکچر دیا جو میں نے سنا اور جس کی وجہ سے میں بہت fascinate ہوا.لیکن مسئلہ یہ تھا کہ میں نے تو فزکس میں بی ایس سی بھی نہیں کی ہوئی تھی.چنانچہ اس کمزوری کو کیسے دور کیا جاتا؟ میرے پاس تین سال کا وظیفہ تھالہذا میں نے دو سال تو میتھ پڑھا اور مجھے یہ سہولت تھی کہ یا تو میں ایک سال کا ایڈوانس کورس کرلوں یا پھر فزکس کی پڑھائی کروں.چنانچہ میں اپنے پروفیسر ( فریڈ ہوئیل) کے پاس گیا.اور اس سے پوچھا آیا میرے لئے فزکس لینا مناسب ہو گا؟ اس نے مجھے بہت اچھا مشورہ دیا اور کہا کہ میں اگر واقعی فرے سسٹ بننا چاہتا ہوں تو مجھے فزکس میں ایکس پیری مینٹل کورس کرنا چاہئے.کیونکہ یہی ایک طریق پروفیشنل بننے کا تھا اور اس طریق سے میں دوسرے پروفیشنلو کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کر سکوں گا.میں نے اپنے ٹیوٹر کو اس فیصلہ سے آگاہ کر دیا میرے پاس اب صرف ایک سال رہ گیا تھا.یوں میرا فزکس میں جانا ہوا.ایکس پیری مینٹل فزکس کا مجھے کوئی تجربہ نہ تھا چنانچہ یہ امتحان میرے لئے بہت مشکل کا باعث بنا.میں ایک تھرڈ ریٹ ایکس پیری مینٹل تھا.لیکن جس روز امتحان کا نتیجہ نکلا میں وہاں کھڑا بورڈ پر ریزلٹ شیٹ دیکھ رہا تھا.وہاں اتفاقاً میرا استاد آ گیا اس نے پوچھا کیسے نمبر آئے؟ میں نے کہا فرسٹ کلاس تو اس نے کہا بعض دفعہ انسان دوسروں کے بارہ میں کیسی غلط قیافہ شناسی کرتا ہے.پھر میرا سکالر

Page 217

(۲۰۸) شپ بڑھا دیا گیا تا میں ریسرچ کا کام کر سکوں.لیکن اس کیلئے مجھے پاکستان واپس آنا پڑا.مجھے اور دوسالوں کیلئے وظیفہ دے دیا گیا اور میں نے واپس آکر پی ایچ ڈی ایک سال میں مکمل کر لی.سوال عام آدمی کو سمجھانے کیلئے آپ اپنی تھیوری کیسے بیان کریں گے؟ پروفیسر پالی نے کہا ہے کہ خدا بھی لیفٹ ہینڈڈ left handed ہے.بلکہ کائنات بھی خود لیفٹ ہیڈ ڈمشین ہے.جواب جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ انسان تمام پارٹیکلز کو پر و ٹانز.اور الیکٹرون وغیرہ کی صورت میں دیکھتا ہے.یہ مادہ کے ٹکڑے نہیں بلکہ یہ پیچوں کی طرح ہیں جو اپنے رخ پر لگا تار چکر لگاتے رہتے ہیں.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا لیفٹ ہینڈڈ پارٹیکلز اس قوت کا اظہار کرتے ہیں جیسا کہ رائیٹ ہینڈڈ والے کرتے ہیں.ان کے درمیان سیمری کل فورس ہر صورت میں ایک جیسی ہوتی ہے یعنی لیفٹ.لیفٹ ، راہیٹ.رائیٹ ، تو گویا پتہ یہ چلا کہ قو تیں (فورسز) لیفٹ اور رائیٹ میں تمیز نہیں کرتی ہیں.۱۹۵۶ میں کئے گئے تجربات سے معلوم ہوا کہ یہ چیز و یک نیوکلئیر فورس میں سچ ثابت نہیں ہوتی.فورسز دوستم کی ہیں ہسٹرانگ نیو کلئیر فورس جو نیو کلئیس کو اکٹھا رکھتی اور و یک نیوکلئیر فورس جو ریڈیو ایکٹوسے ٹی Radio activity کی ذمہ وار ہوتی ہے.دو چینی سائینسدانوں (Yang & Lee) نے بہت سارے تجربات تجویز کئے جن سے اس بات کی تصدیق کی جاسکتی.تجربات سے قبل میں نے ان کی تقریر سنی.میں نے سوچا کہ ویک فورسز میں ایک پا رٹیکل ہوتا ہے جس کا نام نیوٹرینو ہے میں نے یہ ثابت کر دکھایا کہ نیوٹر مینولیفٹ ہینڈڈ ہے.اگر یہ پارٹیکل لیفٹ ہینڈڈ ہے تو پھر فورسز بھی لیفٹ ہینڈڈ ہوں گی.اور رائیٹ ہینڈڈ فورسز اپنی جگہہ Locked ہیں.میں نے یہ پیش گوئی تجربات سے قبل کی تھی.یہ تمبر ۱۹۵۶ کی بات ہے میں نے اپنا ریسرچ پیپر زیورخ میں مقیم سائینسدان دولف گانگ پالی Pauli کو بھیجا.وہ ان دنوں بھی آیا ہوا تھا میں اس سے ملنے گیا اس جرم میں پروفیسر سراج الدین نے مجھے چارج شیٹ دے دی.اس وجہ سے مجھے مستقل طور پر جلا وطن ہونا پڑا.سوال: لیفٹ، رائیٹ میں فرق کو شک کی سے نگاہ کس نے دیکھا تھا آپ نے یا چینی سائینس دانوں نے؟ پروفیسر پالی کا کہنا ہے کہ آپ پہلے فرد تھے جس نے اس کا بر ملا اعلان کیا.

Page 218

(۲۰۹) جواب سچی بات یہ ہے کہ انہوں نے (چینیوں) اس کو شک کی نگاہ سے دیکھا تھا میں وہ پہلا شخص تھا جس نے بیان کیا کہ لیفٹ، رائیٹ ای کوالٹی کیوں واقع ہوتی ہے؟ سوال یہ بات ۱۹۵۷ء کی ہے اس بات میں کیوں اتنا عرصہ لگا کہ آپ انعام شئیر کرتے ؟ جواب ان کو انعام اسی سال دیا گیا مگر مجھے نوبل انعام اس ریسرچ کے کام کی وجہ سے نہیں دیا گیا تھا.ہم واپس اس ریسرچ پیپر کی طرف آتے ہیں.میں نے وہ پیپر پالی کو اکتوبر میں بھیجا جس کو اس نے پسند نہ کیا.اس کا خیال تھا کہ بینگ اور لی دونوں غلط ہیں.تجربات میں لیفٹ ، رائیٹ کا کوئی فرق نظر نہیں آتا.چونکہ وہ غلط راستہ پر تھے اس لئے میں بھی غلط ڈگر پر تھا.پروفیسر نے مجھے پیغام بھیجا کہ تمہیں میرا سلام عرض ہولیکن think of something better.سوال دو چینی سائینسدانوں کے ساتھ آپ کو نوبل انعام کیوں نہیں دیا گیا ؟ جواب: نوبل کمیٹی کے نزدیک زیادہ ضروری یہ تھا کہ انسان اس اصول کو پر کھے بجائے اس کے کہ اس کی وضاحت پیش کرے.یہ بات judgement کی ہے آخر انعامات امتحان کی طرح نہیں ہوتے.آپ دروازہ پر دستک دیتے ہیں اور دوسروں سے کہتے ہیں کہ اسے کھولو.آپ نہیں کھول سکتے.آپ کے نزدیک ایک بات دوسری سے اہم ہے لیکن انہوں نے میرے کام کو زیادہ اہم نہ جانا اس لئے میں ان کے خلاف کوئی شکایت نہیں کر رہا.میں صرف یہ کہ رہا ہوں کہ یہ نوبل کی اہمیت کا کام تھا انسان کو ان پانچ عقلمند اشخاص کی رائے پر رائے زنی نہیں کرنی چاہئے.کیونکہ وہی جانتے ہیں کہ دونوں ریسرچ کے کاموں کے میرٹس کیا تھے.میری تھیوری نے ایک نمبر اخذ کیا اور وہ سچ ثابت ہو گیا.سوال کیا آپ کا نام اس ضمن میں لیا گیا تھا ؟ جواب نہ صرف اس سال بلکہ ۱۹۶۹ء میں بھی.بہر حال میرا نیا کام جو قوتوں کی وحدانیت پر ہے وہ پہلے کام سے زیادہ اہمیت کا ہے بلکہ یہ نیوٹن کی دریافت کے مانند ہے جس نے کہا تھا کہ وہ قوت جو سیب کو زمین کی طرف گراتی ہے وہی قوت سیاروں کو سورج کے گرد گھومنے پر مجبور کر رہی ہے.الیکٹر یسٹی اور میگنے نزم کو آپس میں ملانے میں اگلے دو سو سال لگ گئے.تب کسی کو خیال آیا کہ اگر انسان ایک

Page 219

(۲۱۰) مقنا طیس لے اور اس کے اوپر موونگ چارج رکھ دے تو موونگ چارج بھی مقناطیس کی طرح کام کرتا ہے.یوں ان قوتوں کے اتحاد کا آغاز ہوا.یوں ان دو افراد نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ایسے نظریات بنیادی.اتحاد کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں.میکس ویل اپنے دور بلکہ تمام ادوار کا سب سے عظیم سائینسدان تھا.اس نے کہا کہ اگر آپ موونگ الیکٹرک چارج لیں تو اس سے ریڈی ایشن پیدا ہوتی ہے.یہ ریڈی ایشن بلکل ایکس رے کی طرح ہے یا ریڈیو ویوز کی طرح، اس وقت ریڈیو ویوز دریافت نہ ہوئے تھے اس نے ان کی پیش گوئی ایک نمبر کی بنیاد پر کی تھی.اس نے ایک نمبر ایجاد کیا تا کہ دیو ویلا سے ٹی wave velocity کا نمبر تلاش کیا جا سکے جو بعد میں لائٹ کی ولا سے ٹی velocity کا نمبر نکلا جس کا سائینسدانوں کو علم تھا چنانچہ اس نے حتماً کہا کہ لائیٹ کچھ بھی نہیں ، ماسوائے الیکٹرو میگنٹک ویوز کے، جومونگ چارج سے پیدا ہوتی ہیں.دس سال بعد ریڈیو ویوز پروڈیوس کی گئیں جسطرح اس نے شروع میں کہا تھا.اب ہم جانتے ہیں کہ فورسز ریڈے ایشن کے ذریعہ ٹرانسمٹ ہوتی ہیں.اور یوں باقی کی فورسز بھی.جب و یک نیوکلئیر فورس دریافت ہوئی تو سوال پیدا ہوا کہ ویک نیو کلئیر فورس کی ریڈی ایشین کیا ہے؟ کیونکہ ری ایکشن کے دوران یہ پارٹیکلز کے درمیان بھی ٹرانسمٹ ہو رہی ہوتی ہے.د یک نیوکلئیر فورس میں جو پارٹیکلز عمل پذیر ہوتے ہیں وہ پروٹان، الیکٹرون وغیرہ ہیں.چنانچہ ۱۹۳۴ کے لگ بھگ ہی سائینس دانوں نے کہا کہ کچھ ریڈی ایشن بھاری ہو گی یعنی ہیوری پارٹیکلز انہوں نے اس کا نام W رکھا یعنی ویک اور ان کا چارج بھی ہو گا اس لئے ان کو ڈبلیو +W اور w کا نام دیا گیا.یعنی پوزیٹو چارج اور نیگے نیو چارج.اب سوال پیدا ہوا کہ ان کا mass ماس کیا ہے؟ یہ کتنے بھاری ہیں؟ بعض کا خیال تھا کہ وہ پروٹان جتنے بھاری ہیں یا یہ کہ وہ دو پروٹان یا تین پروٹان جتنے بھاری ہیں.لیکن اس بات کا صحیح جواب میں نے اور وائن برگ نے دیا.ہم نے ۱۹۶۷ء میں کہا کہ شاید و یک نیوکلیر فورس اور الیکٹریسٹی دونوں ایک ہی ہیں.جس طرح میں نے پہلے بتایا تھا کہ کہ بجلی اور مقناطیسی قوت دونوں ایک ہی ہیں.اسی طرح یہ دونوں قو تیں بھی ایک ہی ہیں.چنانچہ ایک قوت کا علم حاصل کر کے

Page 220

(۲۱۱) دوسری کا علم حاصل کر سکتے ہیں.یوں ہم ڈبلیو ذرہ کا ماس معلوم کر سکتے ہیں.جب ہم یہ معلوم کر رہے تھے تو پتہ چلا کہ اس فیملی کا ایک اور ممبر بھی ہونا چاہئے جس کو یا زیرو کہتے ہیں جس کا چارج کوئی نہ ہوگا.یعنی یہ نیوٹرل ہو گا.۱۹۷۳ء اور ۱۹۷۸ء میں مزید تجربات کئے گئے جن سے یہ ثابت ہو گیا کہ ہماری پیش گوئی سچ تھی.ان ذرات کا اثر نیوٹرل کرنٹ میں دیکھا گیا کیونکہ یہ نیوٹرل پارٹیکل کے ذریعہ ٹرانسمٹ ہوتے ہیں جو کہ 2 کہلاتا ہے.اب سوال پیدا ہوا کہ اس پارٹیکل کو کیسے بنایا جائے؟ اس پارٹیکل کو بنانے کیلئے ایسے ایکسل ریٹر کی ضرورت تھی جس کی اتنی پاور ہو کہ یہ nuclear strontium پیدا کر سکے.جینیوا میں اس وقت یعنی ۱۹۷۹ء میں جو ایکسل ریٹر موجود تھا وہ proton mass 25 کے آب جیکٹس پیدا کر سکتا تھا مگر ہمیں نوے کی ضرورت تھی چنانچہ اس دیو قامت مشین میں ماڈی فیکیشن کی گئیں جس پر ساٹھ ملین پاؤنڈ خرچ آیا یہ بذات خود ایک ٹیکنیکل کرشمہ تھا.اس قسم کا ایکسل ریٹر نہ امریکہ اور نہ ہی روس میں موجود تھا.اس کی تعمیر ۱۹۷۹ء میں شروع ہوئی اور تحمیل ۱۹۸۲ء میں ہوئی.ایکسل ریٹر پروٹان اور اینٹی پروٹان کیلئے ہے.جنوری ۱۹۸۳ میں ان کو تجربات کے دوران نئی چیز ملی سائینسدانوں کی ٹیم کو Tens بو nine specimens ایک بلین میں سے ڈبلیو پلس اور ڈبلیو مائینس کے ملے.تیسرے پارٹیکل یعنی زیڈ کی ابھی بھی تلاش ہے کیونکہ ہماری پیش گوئی کے مطابق ہر دس ڈبلیو کے بعد زیڈ ملے گا.افسوس کہ انہیں ایکسل ریٹر مین ٹے نینس کیلئے بند کرنا پڑا.اللہ تعالی کی ذات ہم پر بہت مہربان رہی ہے جب زیڈ پارٹیکل دریافت ہو جائیگا تو ہماری تھیوری مکمل طور پر سچ ثابت ہو جائیگی.مگر موجودہ ایکسل ریٹر بھی اس کیلئے اب فٹ نہیں رہا.اب انہوں نے جینیوا میں ایک نیا ایکسل ریٹر بنانیکا ارداہ کیا ہے جس پر ۵۰۰ ملین ڈالر خرچ آئیگا اور جسکا محیط یا گھماؤ ۲۷ کیلو میٹر ہوگا.اور جو ۱۹۸۷ء تک تیار ہو جائیگا.اس نئی قوت کو میں نے الیکٹرو و یک فورس کا نام دیا.کسی نے اس کا گر یک نام بھی تجویز کیا تھا اب اگلا کام یہ ہے کہ الیکٹرو و یک فورس کو سٹرانگ نیوکلئر فورس کے ساتھ ملایا جائے.۱۹۷۳ء میں میں

Page 221

(۲۱۲) نے اور میرے انڈین ساتھی مسٹر جو گیش پتی نے ایک تجربہ اختراع کیا.پھر اسی تھیوری کو ذرا بدل کر پیش کیا گیا چھ ماہ بعد مسٹر گلا شو نے بھی ایسی تھیوری پیش کی.انڈیا میں ہونے والے تجربات میں متنازع نتائج سامنے آئے ہیں تین ایسے مواقع پیدا ہوئے جن میں proton decay و ا دیکھنے میں آیا ہے.اٹلی میں تجربات کے دوران ایک موقعہ ایسا آیا ہے جو ہماری سپورٹ کرتا ہے.پھر امریکہ میں بھی ایک ٹیم کام کر رہی ہے مگر ان کو کوئی شہادت نہیں ملی ہے.اس معاملہ میں بہت سی باتیں ہیں ہو سکتا ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی ٹھیک نہ ہو یعنی یا تو کوئی یونی فی کیشن نہیں ہے یا پھر کوئی ایسی چیز ہے جس کو ہم اب تک جان نہیں سکے.اس کے بعد گریوٹی کے ساتھ اتحاد کرنا ہے جو کہ آئن سٹائین کا سنہری خواب تھا.سوال آپ کے خیال میں کیا آپ کو ایک اور نوبل انعام ملے گا؟ کیا یہ ممکن ہے؟ جواب ان چیزوں کو انسان بجٹ نہیں کر سکتا.میری فلاسفی یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں اللہ کی طرف سے تحفہ ہیں اور مجھے کوئی حق نہیں کہ اس سے ملنے والی رقم کو میں اپنے لئے رکھوں.میں نے یہ اس لئے کہا ہے تا کہ دوسرے بھی ایسا کریں.انسان کو غائب سے دولت مل جاتی جسکی اسکو کوئی امید نہیں ہوتی.سوال: آپ PINSTECH & SUPARCO کے بانی ہیں لیکن آپ نے آئی سی ٹی پی ٹریسٹ میں جا بنایا.آپکو غیر ملک میں جا کر اپنا مقام کیوں بنا نا پڑا؟ نیز آپ کا مرکز تیسری دنیا کے سائینسدانوں کیلئے کیا کر رہا ہے؟ جواب: جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا مجھے وطن بدر کیا گیا.۱۹۷۹ء میں انعام ملنے کے بعد میں پروفیسر سراج سے ملنے گیا تا کہ میں اپنے پرانے پر نسپل کو ہدیہ سلام پیش کر سکوں.تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ کیا تم خوش نہیں کہ میں نے تمہیں ملک بدر کیا.بات یہ ہے کہ میرے لئے ملک میں کوئی جگہ نہ تھی.میں اپنے لئے اس ملک کے اندر مقام پیدا کرنا چاہتا تھا اور ٹریسٹ میں مرکز بنا نیکا واحد مقصد اس جیسا مرکز پاکستان میں بنانا تھا.میں اقوام متحدہ کی مدد سے نہ صرف خود بلکہ اپنے دوستوں کو بھی یہاں لانا چاہتا تھا.۱۹۹۰ء میں آپ کے اخبار پاکستان ٹائمز میں میرے بارہ میں جو مضمون شائع ہوا.اس کے بعد

Page 222

(۲۱۳) گورنمنٹ کو خیال آیا کہ وہ میری خدمات سے استفادہ کر سکتے ہیں.چنانچہ صدر محمد ایوب خان نے مجھے IAEA میں جنرل کا نفرنس کیلئے پاکستان کا نمائیندہ مقرر کیا.وہاں میں نے یہ تجویز پیش کی کہ ایک سائینسی مرکز کسی ترقی پذیر ملک میں تعمیر کیا جائے.اور اس کو اقوام متحدہ سپورٹ کرے.۱۹۶۰ء میں تمام ممالک کے وفود نے میری تجویز سے اتفاق کیا.اور ۱۹۶۱ء میں اطالین حکومت نے ہماری امداد پر حامی بھر لی.کیونکہ ان کا وفد ایسے مرکز کو اٹلی میں قائم کرنا چاہتا تھا.۱۹۶۲ء میں اس موضوع پر بہت بحث ہوئی میں پاکستان کا نمائیندہ تھا.جبکہ ڈاکٹر عثمانی اس وفد کے لیڈر تھے.مجھے ابھی تک یاد ہے کہ بحث صبح دس بجے شروع ہوئی اور تین بجے دوپہر تک جاری رہی.اس مرکز کی مخالفت ہالینڈ، امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، جرمنی، کینیڈا اور بھارت نے کی.ان ممالک نے کہا کہ ایسے مرکز کی کوئی ضرورت نہیں.مگر ہمارے دوست ممالک یعنی تیونس ، سعودی عرب، عراق، نے کہا کہ نہیں ہمیں ایسے مرکز کی سخت ضرورت ہے.حالانکہ ان کو تھیور ٹیکل فزکس کے معنی بھی معلوم نہ تھے.مگر اس روز ہم جیت گئے.سوال کیا یہ سچ ہے کہ بھارت نے مخالفت کی تھی؟ جواب مسٹر بھا بھا جو انڈین کمیشن کے چیر مین تھے ان کو یہ آئیڈیا ذرا بھی دل نہ لگا تھا.بہر حال کام سدھر گیا اور بورڈ آف گورنر نے ۳۵،۰۰۰ امریکی ڈالر کی منظوری دے دی.جو کہ اونٹ کے منہ میں زیرہ تھا.اب ہمیں مرکز کیلئے جائے مقام کی تلاش اور مزید روپے کی ضرورت تھی.میں اس ضمن میں صدر ایوب خان سے ملنے آیا ، میں ان کو کراچی میں مل چکا تھا وہ اس آئیڈیا سے متفق تھے.انہوں نے اپنے وزیر خزانہ کو فون کیا اور انہیں بتلایا مجھے کس چیز کی ضرورت تھی.شعیب نے کہا اس کی کیا قیمت ہوگی؟ صدر ایوب نے ان کو کہا کہ مجھے ایک اچھی عمارت کی ضرورت ہے جہاں ہم قیام کر کے اپنا کام کر سکیں.تو محمد شعیب نے جواب دیا کہ پروفیسر صاحب کو مرکز کی خواہش نہیں بلکہ ان کو انٹر نیشنل ہوٹل کی خواہش ہے.اس دوران اطالین حکومت نے پیش کش کر دی اور مرکز ان کو مل گیا.اب میں اس مرکز کو کئی سال سے چلا رہا ہوں.

Page 223

(۲۱۴) سوال: کیا آپ کے خیال میں ملک میں ایسے رجحان میں کوئی فرق آیا ہے؟ جواب ملک کی تاریخ میں محبوب الحق نے تبدیلی پیدا کی ہے.مگر اس کو بھی کام نمٹانے کیلئے.جہنم کے راستہ سے گزر کر جانا ہوگا.میں بیورو کریسی کے بارہ میں بات کر رہا ہوں.یعنی سیکری ٹیریز ، ان کو یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ سائینسدانوں کو ملک کے اندر کام کیلئے جگہہ دی جائے.وہ تو صرف کنٹرول چاہتے ہیں.ان میں سے بعض ایک میرے دوست اور کلاس فیلو ہیں.مگر ان کو کون سمجھائے.محبوب نے مجھے بتلایا ہے کہ ان لوگوں کو تو کاروائی کی فکر ہے، ان لوگوں کی سوچ بدلنا بہت مشکل ہے.ٹریسٹ میں جس گھر میں میری رہائش ہے اس کا مالک ایک کنسورشیم ہے.جس کو وہاں کے شہریوں نے چنا تھا.وہاں ایک چیری ٹیبل بینک ہے اس کی تمام آمدنی خیراتی کاموں پر خرچ ہوتی ہے.پھر وہاں شہر کا مئیر ہے.اٹلی کی حکومت کا کوئی دخل نہیں.پھر شہر کے مخیر اثر و رسوخ والے شہری ہیں.ان لوگوں نے ہمیں بلڈنگ مہیا کی ہے جس کی قیمت پندرہ لاکھ ڈالر ہے.وہاں کے شہریوں نے مجھے گھر دیا.سوال یہ ہے کہ سائینس کیلئے لوگ کیا کچھ کرنے کو تیار ہیں.ایسی کوئی چیز مذہب اسلام میں پرانے زمانے میں اس کے سنہری عروج کے دور میں تو نہ تھی.سوال آپ نے ایک بار کہا تھا کہ ۷۵۰ء سے لیکر ۱۱۰۰ تک کا عرصہ اسلام کے سائینسدانوں کا زمانہ تھا.اس وقت سائینس کی نشاۃ ثانیہ کی کیا صورت تھی؟ آج حالت یہ ہے کہ پنجاب یو نیورسٹی نے ریاضی میں پچھلے ۳۵ سال میں ایک بھی پی ایچ ڈی پیدا نہیں کیا ہے.یہ سائینسی نشاۃ ثانیہ اب کیسے اور کب ہوگی؟ جواب: میں نے اس نکتہ کی وضاحت کویت میں اپنی تقریر کے دوران کی تھی جس میں چھ وزیر بھی موجود تھے.میں نے ان سے کہا کہ چین ٹیل مین میں آپ کے ملک میں پہلی بار آیا ہوں.میں نے دیکھا ہے کہ آپ میں سے ہر ایک محل کے بعد محل بنا رہا ہے لیکن آپ کے یہاں ایک بھی سائینس کا محل نہیں ہے.میری تقریر کے بعد تمام لوگ تعزیماً کھڑے ہو گئے وہاں قریب چا رصد افراد تھے لیکن ان میں سے ایک نے بھی ایک چینی سائینس کیلئے نہ دی.

Page 224

(۲۱۵) سوال آپ کا برین ڈرین Brain drain کے بارہ میں کیا خیال ہے جو ترقی پذیر ممالک میں ہو رہا ہے اور ان کو کھوکھلا کر رہا ہے؟ جواب: یہ ایک مختلف قسم کا برین ڈرین ہے.اب ہر کوئی مڈل ایسٹ جانیکا خواہش مند ہے بجائے امریکہ جانے کے.اس کے علاوہ جو امریکہ اور یوروپ میں پہلے ہی جاگزیں ہیں وہ کبھی واپس نہیں آئیں گے.علاوہ ازیں میرا جواب یہ ہے کہ آپ نے خود کو تیار رکھنا ہے کہ آپ ریپ لیسمینٹ پیدا کرتے رہیں اور دوسرا یہ کہ ہمارے بچے سائینس کے مضامین کا مطالعہ کا شغف نہیں رکھتے.ہمارے زمانے میں صرف ذہین ترین بچہ کو سائینس کے مطالعہ کا موقعہ دیا جا تا تھا.مگر یہ صورت حال اب نہیں ہے.اس کی ذمہ داری حکومت پر پڑتی ہے کیونکہ انہوں نے ہے ہی نہیں بنایا career structure ہے.ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہمارے ہاں لیبارٹریز ہوتیں جہاں یہ بچے کام کر سکتے ، دوسری ذمہ داری آپ لوگوں پر پڑتی ہے (یعنی اخبار نویسوں پر ) جو قابل بچوں کو پروجیکشن ہی نہیں مہیا کرتے.آپ مجھے بتا ئیں کہ آپ نے سائینس کے مضامین کو کیا پروجیکشن دی ہے؟ آپ نے کتنے اچھے قابل سائینسدانوں کے انٹرویو چھاپے ہیں؟ یہ ذمہ داری آپ کی ہے کہ آپ لوگوں کو ان ذہین بچوں کے بارہ میں مطلع کریں.مثلاً ٹیلی ویژن کو لے لیں.میں نے ایک ٹی والے سے پوچھا کیا آپ نے نازمہ مسعود کو کوئی کوریج دیا ہے جس کو عبد السلام ایوارڈ دیا گیا تھا ؟ ہاں ایک یا دو منٹ کا کوریج دیا جبکہ دوسرے احوال کو گھنٹوں کا کوریج دیا.کیا اسطرح تو میں پنپتیں ہیں؟ چاہئے تو یہ تھا کہ ٹیلی ویژن والے نا زمہ کو اس کی زندگی کے بارہ میں پوچھتے ، اس کے مسائل کا پوچھتے تا دوسرے لوگ ان رکاوٹوں کو دور کریں.جب ایسی باتیں کسی قوم میں نہیں پنپ سکتیں وہ قوم اس وقت ترقی نہیں کرسکتی.یہی چیز اسلام میں بھی ہوئی.ہم لوگ پاکستان اور انڈیا میں رہنے والے مسلمان بہت بد نصیب ہیں کہ ہمارے یہاں اس وقت اسلام پہنچا جب ان کا (عربوں) سائینسی دور اختتام کو پہنچ چکا تھا.اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم لوگ اپنے اندر کوئی learning tradition پیدا ہی نہیں کر سکے.ہمارے حکمرانوں (مغل) نے نہ تو کوئی مدرسہ یا

Page 225

(۲۱۶) دگار چھوڑا اور نہ ہی کوئی لا نمبر میری.ایک یادگار چھوڑ گئے اور وہ ہے تاج محل.آپ تر کی جائیں تو دیکھیں گے کہ وہاں کے (عثمانی) حکمرانوں کے ہر قلعہ کے ساتھ ایک طرف تو مدرسہ ہوتا تھا اور دوسری طرف ہسپتال ہوتا تھا.استنبول کے شہر میں صرف پچاس مساجد ہیں.ہمارے یہاں کوئی ایسا تصور ہی نہ تھا.سوال آپ نے اسلام آباد میں ایک میٹنگ میں شرکت کی ہے کیا آپ کو کوئی خوش آئند تبدیلی ہوتی نظر آتی ہے؟ جواب میں زبر دست تبدیلی نظر آتی دیکھتا ہوں اور اس کی بڑی وجہ محبوب الحق ہے.ان کو اس بات کی سمجھ آگئی ہے کہ ہم سائینس پر جو رقم خرچ کر رہے ہیں وہ بہت کم ہے.ہم لوگ ایک فی صد کا دسواں حصہ خرچ کر رہے ہیں جبکہ انڈیا جی این پی کا ایک فی صد خرچ کر رہا ہے.سب سے بڑا سوال پیسے کا ہے انسان کا پیٹ خالی ہو تو اس کو سائینس کی کیا پڑی؟ یہ شخص ہمیں پہلے سے تین یا چار گنا زیادہ رقم اس سلسلہ میں فراہم کرے گا.سائینس کی فیلڈ میں ہمیں اور لوگوں کی ضرورت ہوگی اب محبوب کی پرابلم یہ ہوگی کہ وہ ایسے لوگ تلاش کرے جو اس سکیم کو چلائیں گے نیز ایسے لوگ جو صرف سائینس کیلئے کام کریں گے.میں امید کرتا ہوں کہ خدا اسے لمبی عمر عطا کرے تا وہ یہ عظیم کام احسن طریق سے انجام دے سکے.سوال: کیا آپ نے انرجی کے بحران کے بارہ میں حکومت سے بات کی ہے جواب نہیں، یہ ایک بہت مشکل مسئلہ ہے نیز کچھ تو یہ اندرونی معاملہ اور کچھ خارجی، مختلف لوگوں کی اس بارہ مختلف آراء ہیں لہذا بہتر یہ ہے کہ میں اس بارہ کچھ نہ کہوں.سوال عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں ریسرچ کی فنڈنگ اپلائیڈ کیلئے ہو نہ کہ بے سک ریسرچ کیلئے.آپ کی اس بارہ میں کیا رائے ہے؟ سوال جیسا کہ میں نے اس بارہ میں اپنی رائے کئی بار دی ہے.جائے اور اپنی فوری پرابلم کو اس طرح حل کریں لیکن آئندہ ایام کیلئے آپ کو سائینس ٹرانسفر کرنا ہوگی قبل اس کے کہ ٹیکنالوجی ٹرانسفر واقع ہو.ہمیں دور اندیشی سے کام لینا اور سوچنا چاہئے.فوری ضرورت کیلئے آپ ٹیکنا لوجی خرید لیں.میں اس کی مثال دیتا ہوں.پاکستان میں فارماسوٹیکل انڈسٹری میں ہم کچھ بھی مینوفیکچر نہیں کرتے

Page 226

(۲۱۷) ہر چیز باہر سے آتی ہے.ہم ان کو کمپاؤنڈ کر کے گولیاں بنا لیتے ہیں.یہ قابل افسوس حالت ہے حتی کہ ہم ملک کے اندر اسپیرین بھی نہیں بناتے.پہلے ہم وٹامن یہاں بنایا کرتے تھے اب وہ بھی نہیں بناتے.لہذا اس ضمن جو شخص ریسرچ کر رہا ہے وہ سوچے گا میری ریسرچ کا کیا فائدہ؟ جب ٹیکنالوجی با ہر سے آرہی ہے.sciences سوال پاکستان میں اس وقت فزکس کی تعلیم کی کیا صورت حال ہے؟ جواب فزکس اس وقت بہت کمزور ہے، فی الحقیقت فزکس اور ریاضی بھی ، یعنی basic کمزور ہیں.کیمسٹری قدرے بہتر ہے.لیکن فزکس اور میتھ تو قابل افسوس حد تک کمزور ہیں.مجھے بتلایا گیا ہے کہ ملک کے اندر دو یا تین پروفیسر ہیں.اگر ملک کے اندر ایک بھی پی ایچ ڈی موجود نہیں جوایم اے کے لیول پر پڑہا سکے تو آپ قابل آدمی کیسے پیدا کریں گے ؟ گزشتہ ایک سو سال میں پنجاب یو نیورسٹی سے ایک شخص نے بھی ریاضی میں پی ایچ ڈی نہیں کیا ہے.سوال: آپ نے نوبل انعام دو دوسرے سائینسدانوں کے ساتھ شئیر کیا تھا ان کا اس اتحاد یعنی و یک فورس اور الیکٹرو میگنے ٹزم کے اتحاد میں کیا کنٹری بیوشن تھا؟ جواب: وائن برگ میرے متوازی کام کر رہا تھا میں نے یہ بات اپنے نوبل لیکچر میں بھی کہی ہے.یعنی شئیر نگ مکمل طور پر محدود تھی.اس میں اور لوگوں کو بھی شیر کیا جا سکتا تھا لیکن ان کا ذکر نہیں کیا گیا لیکن ان کا اصول یہ ہے کہ انعام تین سے زیادہ لوگوں کو نہیں دیا جا سکتا.مجھے نہیں معلوم آپ نے وہ سٹوری سنی ہے کہ نہیں.ایک ٹیلی ویژن پروگرام پچھلے پندرہ سال سے چل رہا تھا اور وہی شخص کئی سالوں سے انٹر ویو لے رہا تھا.وہ میرے پاس ٹریسٹ میں آیا اور ہارورڈ کے علاوہ ان جگہوں پر بھی گیا جہاں انعام لینے والے رہ رہے تھے.ان کا انٹرویو پہلے ان کے گھر جا کر لیا.اس لئے اس روز جب ہم سب میز کے گرد بیٹھ گئے تو اس نے کہا کہ آج ہم چھ انعام یافتہ بیٹھے ہیں تین فزکس میں، ایک کیمسٹری میں اور دو میڈیسن میں ، اس نے کہا جین ٹیل مین آج ہم میں ایک مسلمان ، دو عیسائی ، تین یہودی موجود ہیں.مجھے بتلائے کہ انعام کی اسی سالہ تاریخ میں ہم نے پہلی بار کیوں ایک

Page 227

(۲۱۸) مسلمان کا استقبال کیا ہے.انعام کی تاریخ میں ۳۸ فی صد انعامات یہودی قوم کے لوگوں کو ملے ہیں.پتہ چلا ہے کہ اس میں جینے تک کا کوئی حصہ نہیں ہے.یہ انعام لینے والے یوروپین یہودی اکثر ان میں.سے روس میں رہتے تھے اور امریکہ ہجرت کر گئے اور اسی گروپ نے انعام لئے.اس نے اس کے بعد " اس کی بہت ساری سوشو لا جیکل وجوہات پیش کیں یعنی ان کی فیملی ، خاص طور پر ان کی مائیں.جنہوں نے اپنے بچوں میں یہ بات ذہن نشین کرائی کہ انہوں نے نوبل انعام لے کر ہی چھوڑنا ہے.اس کے بعد گلا شو نے اپنے والد کی کہانی سنائی.اس نے بتایا کہ اس کے باپ کی ہفتہ وار تنخواہ آٹھ ڈالر تھی جب وہ روس سے آئے.اس رقم سے اس نے اپنی فیملی کو پالنا تھا جس میں چار بیٹے تھے، یہودیوں میں ایک حیرت انگیز رواج ہے ان میں ایک سسٹم موجود ہے اگر ایک باپ اپنی بیٹی کیلئے خاوند تلاش کر رہا ہے تو وہ رہائی کے بیٹے کا انتخاب کرتا ہے کیونکہ رہائی علم سے مالا مال ہوتا ہے.اور امید کی جاتی ہے کہ اسکا بیٹا بھی علم سے مالا مال ہو گا.مقصد کہنے کا یہ ہے کہ وہ علم والے شخص کی تلاش کرتے ہیں.وہ میں نے اپنے بارہ میں کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ of.being so attuned to these sciences اس کے علاوہ میں کہہ بھی کیا سکتا تھا.میں نے اس صورت حال سے خلاصی پانے کیلئے یہ راہ اختیار کی.کیا میں یہ کہہ سکتا تھا کہ میں نے اپنے آبا و اجداد کی روایت کو برقرار رکھا ہے.یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں سائینس کی شمع ماند پڑ گئی.this is due to the consequence سوال: آپ کے بین الا قوامی مرکز میں کتنے مسلمان سائینسدان موجود ہیں؟ جواب: بات یہ ہے کہ ایسے لوگ آتے جاتے رہتے ہیں.ہر سال دو ہزار آنیوالے لوگوں میں سے ۱۵۰ یا ۲۰۰ کے قریب مسلمان ہوتے ہیں جو مختلف اسلامی ممالک سے آتے ہیں.ہم ہر سال پچاس وظائف میرے سکول اور کالج کے طلباء جو جھنگ سے ہیں دیتے ہیں.نوبل انعام کی تقریب کے موقعہ پر میں رقم لینے کیلئے گھومتا رہا.میں گلا شو کے پاس گیا اور اس سے رقم مانگی کیونکہ میں ایک فاؤنڈیشن قائم کرنا چاہتا تھا.اس نے کہا تم وہ میرے چار بھائیوں کو دیکھ رہے ہو، ان کے ساتھ ان کے بچے، ان کی بیویاں.یہ تمام مل کر سترہ بنتے ہیں جو میرے ساتھ آئے ہیں ان سب کو

Page 228

.(۲۱۹) میں اپنے خرچ پر لے کر آیا ہوں.وہ پہلی بار یوروپ آئے ہیں اور یہ رقم وہاں خرچ ہوگی.پھر میں نے وائن برگ سے کہا اگر وہ کچھ رقم مجھے دے سکے تو اس نے کہا تم نے وہ سوٹ دیکھا ہے یعنی Luxedo میں نے یہ کرایہ پر لیا تھا اور تمام رقم ختم ہو گئی ہے تم خوش قسمت ہو کہ تم نے اپنی اچکن پہنی ہوئی ہے.چنانچہ اس سے بھی کوئی رقم موصول نہ ہوئی.سوال: ہمارے ملک میں یہ مستقل پرابلم ہے کہ ہم ریسرچ اور انڈسٹری کو باہم ملا کر کیسے کام کریں جو اس وقت ملک میں قائم کی جارہی ہے.اس بارہ میں اپنی رائے دیں.جواب: یہ زیادہ مشکل کام نہیں ہے.مجھے امید ہے کہ لوگ اس سلسلہ میں کامیابی سے ہم کنار ہوں گے.اگر ہم عہد کر لیں کہ بنیادی کیے کلو ملک کے اندر پیدا ہوں گے اور لوگوں سے کہیں کہ وہ ان کے پروسیس کو خود ایجاد کریں تو وہ لازماً ایسا کر لیں گے.جب ایسا ہو جائے تو اس کے بعد آپ ایسے پروسیس کا انٹر نیشنل سٹینڈرڈ کے مطابق موازنہ کریں اس کے بعد ان کو انڈسٹری لگانے کی اجازت دی جائے.آپ انڈیا کی طرح تہیہ کر لیں کہ ہم نے بے سک کیمیکل کو در آمد نہیں کرنا ہے بلکہ اس کو خود بنانا ہے تو یقین مانیں کہ ایسا ہو جائے گا.میں آپ کو اپنے چھوٹے بھائی کی مثال دیتا ہوں جب وہ PIDC میں ملازم تھا ، فیصلہ ہوا کہ ۱۹۵۵ میں چین سی لین کی فیکٹری لگائی جائے.وہ پیجیم سے فیکٹری خرید لائے لیکن ان کے پاس اس کو چلانے کیلئے ایکسپرٹ نہ تھے.چنانچہ تین افراد نے پروسیس خود دریافت کیا جن میں میرا بھائی بھی شامل تھا باوجودیکہ وہ نا تجربہ کار تھے.ہوا یہ کہ بننے والا پروڈکٹ سولہ گنا زیادہ مہنگا تھا بہ نسبت اس کے جو ورلڈ مارکیٹ میں بک رہا تھا.چنانچہ وہ ہمت نہ ہارے کام جاری رکھا اور رفتہ رفتہ قیمت نیچے آگئی.اگر یہ نہ کیا جاتا تو ہم ملک کے اندر چین سی لین کبھی بھی نہ بنا پاتے.تو یہ آپ لوگوں کا مسئلہ ہے.یعنی مسئلہ قابلیت کا نہیں ، ہمارے نوجوان بہت قابل اور ہوشیار ہیں، ایک دفعہ آپ فیصلہ کر لیں تو کام ضرور انجام کو پہنچ جائے گا.سوال: کیا سائینس کا علم (یا مطالعہ ) انسان کو خدا کے نزدیک لے آتا ہے؟

Page 229

(۲۲۰) جواب سائینس اس معاملہ میں بلکل نیوٹرل ہے.یہ بات آپ کے ذاتی رجحان پر مبنی ہے.یہ آپ کی مذہبی اور کلچرل بیک گراؤنڈ ہوتی ہے جو آپ کو ایک خاص ڈگر پر سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے.مثلاً میری بیک گراؤنڈ اسلام کی وجہ سے وحدانیت پر ہے.تو میرے لئے وحدانیت لا زمی امر ہے جن دو کو انعام میرے ساتھ ملا ان میں سے ایک یہودی اور دوسرا عیسائی تھا.وہ تثلیث پر یقین رکھتا تھا اس کیلئے یہ بات واضح نہ تھی.سوال: کیا یہ سچ ہے کہ تمام کائینات کو ایک mathematical equation حسابی مساوات میں سمویا جا سکتا ہے؟ جواب: ہم نے یہ بات مشاہدہ کی ہے اور یہ حقیقت ہے.اس بات کا پتہ نہیں تجربہ سے لگا.ہاں ایک روز شاید آئے کیونکہ بعض کام ابھی نہیں ہو سکتے تو پھر ہم اپنی رائے بدل لیں گے.سوال: کیا خدا کا وجود ریاضی کے ذریعہ ثابت کیا جا سکتا ہے؟ جواب: This is rubbish یہ بلکل بے هوده مفروضه هے.اس بات کو سائینس میں دیکھا اور پر کھا ہی نہیں جاتا ، دیکھیں موت کے موضوع پر سائینس میں کوئی بحث نہیں ہوتی.انسان کیوں پیدا ہوا اور کیوں مرتا ہے؟ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سائینس اس مسئلہ کو تو فا رمولیٹ بھی نہیں کر سکتی.قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے کہ یہ کتاب ان لوگوں کیلئے ہے جو غیب پر یقین رکھتے ہیں.غیب کا مطلب یہ ہے کہ وہ اشیاء جن کا انسان سوچ اور گمان بھی نہیں کر سکتا.لہذا آپ سائینس کے ذریعہ کسی کا مذہب تبدیل نہیں کر سکتے ، نہ ہی غیر مذہبی کو مذہبی بنا سکتے ہیں.سائینس تو صرف آپ کو بعض گائیڈ لائنیز دیتی ہے.سوال: آپ پاکستانی سائینسدانوں کا مقابلہ بھارتی سائینسدانوں سے کیسے کریں گے؟ جواب: میرے خیال میں پاکستانی سائنسدان یقیناً بہت ہی قابل ہیں.میں یہ نہیں کہوں گا کہ ایک گروپ کو دوسرے پر فوقیت حاصل ہے.کیونکہ یہ ہر علاقہ میں مختلف ہے.انڈیا میں ایک نوبل انعام یافتہ ہے جو کہ اب امریکن شہریت حاصل کر چکا ہے.اس کی پیدائش خانیوال کے قریب یا شجاع

Page 230

(۲۲۱) آباد کے قریب ہوئی تھی.میرے نزدیک جہاں تک اعداد و شمار کا تعلق ہے وہ ہمیں Per capita کے لحاظ سے دس سے ایک کے فرق سے شکست دیتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں علم حاصل کرنے کی امنگ بہت زیادہ ہے.ہمارے پروفیسر ز تو سول سرونٹ بن چکے ہیں وہ تمام سہولتیں چاہتے ہیں جیسے کار، بیگم کے زیورات، اپنے بچوں کیلئے تمام سہولتیں.بعض دفعہ مجھے خیال گزرتا ہے کہ اسلام نے کو ختم کر کے ہمیں نقصان میں ڈالا ہے کیونکہ جب اصلی سکالرز موجود نہ تھے تو یہ خود ساختہ مذہبی اجارہ دار پیدا ہو گئے.:سوال سر.پاکستان کے سائنسدانوں کیلئے آپ کا کوئی پیغام؟ Priest class جواب: میرا پیغام تمام قوم کیلئے ہے صرف سائینسدانوں کیلئے نہیں ہے.اس ضمن میں ایک جنرل آبزرویشن کرتا ہوں.ہماری قوم ایک عظیم قوم ہے.ہماری ٹریجڈی یہ ہے کہ ہم کو اس کا احساس نہیں ہے اور ہم ایک چھوٹی قوم کی طرح کام کر رہے ہیں.ہماری تعداد استی ملین ہے کرہ زمین پر جملہ قوموں میں سے ایک بڑی قوم جس کا سائز جاپان کے برابر ہے.ہمارے شہریوں میں قابلیت فرسٹ کلاس کی ہے.ہماری قوم میں فرسٹ کلاس کی اہلیت ہے بشر طیکہ یہ ڈیویلیپ کی جائے.میں یہ بات تجربہ کی بناء پر کہ رہا ہوں میں نے مختلف قوموں کے طلباء کی ریسرچ کا سپر وائز کرنے کے بعد یہ کہا ہے.میری جوانی کے زمانہ میں لوگ کہا کرتے تھے کہ مسلمان ریاضی اور اکاونٹس میں کبھی بھی فوقیت حاصل نہیں کر سکتے.لیکن اب مڈل ایسٹ کو لیں وہاں تمام بینکنگ پاکستانیوں نے سنبھالی ہوئی ہے.لوگ کہا کرتے تھے کہ پاکستانی انفرادی طور پر تو کام کر سکتے لیکن ٹیم بن کر نہیں.پاکستان سے باہر یہ بلکل سچ نہیں ہے.وئیز نیوالا کے وزیر اقتصادیات نے کہا تھا ورلڈ بینک کو پاکستانی مافیا چلا رہا ہے اور یہ بات محبوب الحق کے آئی ایم ایف چھوڑ کر پاکستان آنے سے قبل کی ہے.جاپانیوں نے مجھے بتلایا کہ ان کی ترقی کا راز خوشنویسی (calligraphy) میں ہے اس قوم کے لوگ جو پوری سورۃ چاول کے ایک دانے پر لکھ سکتے تھے کیا ترقی نہیں کر سکتے ؟

Page 231

(۲۲۲) ڈاکٹر سعادت انور صدیقی ( پنجاب یونیورسٹی، لاہور ) ضوریز شخصیت ه یز : پر و فیسر عبد السلام اب اس دنیا میں نہیں رہے.میں نے خود ان کا چہرہ ایک سفید تا بوت میں بند شیشے کی ایک کھڑکی کے راستے دیکھا ہے.جو میت کے دیدار کیلئے دار لذکر میں رکھا گیا تھا.یہ وہ چہرہ نہیں جس سے میں واقف تھا.وہ چہرہ تو بہت تو انا اور شاداب تھا.جس میں عزم اور ہمت کی آنچ میں دہکتی ہوئی دو تیز متحرک آنکھیں تھیں جنہیں اپنی تابانی اور جولانی برقرار رکھنے کیلئے ایندھن کی کوئی کمی محسوس نہیں ہوتی تھی.پروفیسر سلام کے سینے میں ہزاروں بلکہ لاکھوں منصوبوں کے چراغ روشن رہتے تھے جس کے الاؤ کی روشنی اور تپش ان کی آنکھوں کے جھروکوں کے راستے ماحول کو روشن کر دیتی تھی.منصوبے کیا تھے ان کی لگن کیا تھی اور ان کا مقصد کیا تھا؟ اس کا اندازہ مجھ جیسا شخص بخوبی کر سکتا ہے جس کے عزم کی دنیا میں بھی ایک ننھا سا چراغ ٹمٹما تا رہتا ہے.جس کی لو لمحے سمجھنے کیلئے کبھی دا ئیں اور کبھی بائیں پھڑکتی رہتی ہے.اس نھے چراغ کی پہلی خواہش تو یہی ہے کہ یہ کبھی بجھنے نہ پائے اور دوسری یہ کہ اس کی روشنی میں اور اضافہ ہو اور یہ روشنی اتنی بڑھے کہ باہر کی دنیا بھی دیکھ سکے.ایسے کتنے ہی چراغ تیسری دنیا کے ہزاروں سائینس دانوں کے سینوں میں بھی فروزاں ہیں.عبد السلام کی ضوریز شخصیت سے ہم اپنے سینوں کے شبستانوں کو بقعہ نور بنا دیتے ہیں.پسماندہ ممالک کی ناقص اقتصادی ، سائینسی تعلیمی پالیسیوں ، سائینس کی ترویج کیلئے نہایت قلیل رقوم تعلیمی وتحقیقی سہولیات کی عدم موجودگی ، کام کرنے کیلئے مناسب اور موزوں حالات کی کمی ، اور سب سے بڑھ کر اقتصادی اور سماجی ترقی کیلئے تعلیم اور سائینس کے کردار کی اہمیت سے روگردانی سے بھر پور مخالف ہوا ئیں جب زور پکڑتی ہیں تو یہ سائینس دان آسودگی کی تلاش میں انٹر نیشنل سینٹر فارتھیو رٹیکل فزکس کا رخ کرتے ہیں، جہاں پر وفیسر سلام ان سب کو ایک شفیق بزرگ کی طرح اپنی پر خلوص حفاظت میں لے لیتے ہیں.ان کو وہ

Page 232

(۲۲۳) تمام سہولیات مہیا کرتے ہیں جو ایک سائینسدان کو اپنے علمی معیار کو بلند کرنے اور اس میں چینی وسعت پیدا کرنے کیلئے نہایت ضروری ہوتی ہے.یہاں آکر احساس ہوتا ہے کہ ہم بھی ترقی پذیر دنیا میں بسنے والے قابل احترام اور مفید انسان ہیں.انسانی زندگی اور ماحول کو بہتر بنانے میں ہمارا بھی کوئی مسلمہ کردار ہے جس سے ہماری قوم نا واقف ہے.اور وہ تمام سہولیات جو ہمارے تحقیقی اور علمی کاموں کو جاری رکھنے اور اجاگر کرنے کیلئے اشد ضروری ہیں ہمیں بلا معاوضہ اور کثرت سے میسر ہیں.آئی سی ٹی پی کے ادارے میں طعام و رہائش کا بندو بست، بہترین لائیبریری، اور کمپیوٹر کی سہولت، جدید ترین آلات عملی تجربہ گا ہیں اور سب سے بڑھ کر ترقی یافتہ ممالک کے ممتاز سائینسدانوں کے ساتھ براہ راست ملاقات اور ان سے بحث و مباحثہ کا ایک ایسا بندو بست ہے کہ جس کا تصور ترقی پذیر دنیا میں بھی نہیں کیا جا سکتا.جہاں رہائش وہیں سیمینار، مذاکرے اور ورک شاپس، اب تو صرف سائینس دانوں کی اپنی ہمت ہے.یہ وہ ادارہ ہے جہاں سائینسدان اپنے ننھے چراغ اپنے سینوں سے نکال کر بے خوف و خطر با ہر رکھ سکتے ہیں.یہ چراغ راہ گزار باد نہیں ، ایسے ماحول میں رہ کر ان کو اتنا سوز ملتا ہے کہ وہ اپنی ممالک میں آکر بھی اس کی تابانی محسوس کرتے ہیں.میری عزت سلام کی وجہ سے آج تیسری دنیا میں بسنے والے مجھ جیسے سائینسدان پروفیسر عبد السلام کی موت پر کیوں آزردہ ہیں؟.کیا اس لئے کہ وہ نوبل انعام یافتہ تھے اور انہوں نے طبیعات کے ایک بہت اہم گتھی سلجھائی تھی.نہیں میرے خیال میں اس لئے کہ وہ باقی تمام نو بل انعام یافتہ سائینسدانوں سے یک سر مختلف تھے.عظمت کے اس مقام تک پہنچنے کیلئے ایک ترقی پذیر ملک میں رہتے ہوئے انہوں نے جو مشکلات اور مصائب جھیلے وہ نہیں چاہتے تھے کہ دوسرے لوگ بھی اس کا شکار ہوں.آئی سی ٹی پی جیسے ادارے کے قیام کو ایک دیوانے کا خواب کہا جائے تو بے جانہ ہوگا.مگر جب لگن میں خلوص اور مصمم ارادہ ہو تو ایسا خواب ایک پاکستانی سائینسدان کے ہاتھوں بھی پورا ہو سکتا ہے.

Page 233

(۲۲۴) اور پھر ان ہاتھوں نے کتنے ہاتھوں کو مضبوطی سے تھاما.مجھے آج تک ان گر میلے ہاتھوں کی لمس اچھی طرح یاد ہے جب میں ۱۹۸۷ء میں اس ادارے میں پہلی بار گیا تھا اور ایک تقریب میں ان سے ملنے کا شرف حاصل ہوا.ترقی پذیر ملکوں کے سینکٹروں سائینسدان ایک لمبی قطار میں تسبیح کے دانوں کی طرح پروئے ہوئے کھڑے تھے اور پروفیسر سلام سے ہاتھ ملانے اور ان کی نصیحت یا سرزنش کے دو بول سننے کی خوشی حاصل کرنے کیلئے آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے.ان سے ملاقات اس طرح ہو رہی تھی جیسے وہ اپنے ہاتھوں سے ان دانوں کو آگے ترقی کی جانب بڑھا رہے ہوں.میری باری آئی تو انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں میں میرا ہا تھ لے کر اپنی روشن آنکھوں سے جو پیغام مجھے دیا وہ میرے نزدیک یہ تھا: اپنی پوری قوم کی تقدیر بدلنا تمہارا بنیادی فرض ہے اور یہ کام سائینس کو پروان چڑھا کر ہی ہو سکتا ہے.اس موقعہ سے بھر پور فائدہ اٹھاؤ اور دوسروں کو بھی اپنے سفر میں شامل کرلو.۱۹۸۷ء میں آئی سی ٹی پی میں میرے پہلے دورہ نے ہی میری سائینس کی تحقیقی دنیا میں انقلاب بر پا کر دیا.وہاں مجھے ایک نئے تحقیقی عنوان یعنی ہائی نمبر پچر سپر کنڈکٹر ز جیسی نئی ایجاد کا علم ہوا.اور میں نے وہاں موجود سائینسدانوں سے ان کے لکھے ہوئے ریسرچ پیپرز بھی حاصل کئے جو ابھی کسی سائینسی جریدے میں شائع نہیں ہوئے تھے.پاکستان واپس آکر میں نے اس نئی فیلڈ میں تحقیقی کام کا آغاز کیا.پروفیسر سلام نے اس نئے ابھرتے ہوئے میدان کی اطلاقی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے آئی سی ٹی پی میں ہی ایک عملی تجربہ گاہ کے قیام کیلئے ایک خطیر رقم کا بندو بست کر لیا.اس نئی تجربہ گاہ کو قائم کرنے والے چند ایک سائینسدانوں میں میں بھی شامل تھا اور ۱۹۸۹ء میں ایک سال تک وہیں رہ کر اس لیبارٹری کو قائم کیا اور بعد میں وہاں کام بھی کیا.اس وقت سے اب تک اس شعبہ میں تحقیقی کام کرتے ہوئے میرے بائیس سے زیادہ مقالہ جات دنیا کے اعلیٰ ترین سائینسی جرائد میں شائع ہو چکے ہیں.اور مزید ایک شائع ہونے والے ہیں.مجھے

Page 234

(۲۲۵) یہ کہتے ہوئے انتہائی خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ ان سب کا سہرا پر وفیسر سلام کے سر ہے ورنہ شاید مجھے آج یہ عزت اور یہ مقام نصیب نہ ہوتا کہ پروفیسر سلام کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے مدعو کیا جاتا.پروفیسر سلام اگر چہ ہم سے بچھڑ گئے ہیں مگر انہوں نے تمام ترقی پذیر اقدام کو عملی راہ دکھائی.اور وہ ہے اپنی مدد آپ اور صرف اپنے آپ پر بھروسہ کرنا ، اپنی پسماندگی کو دور کر نیکا مصمم ارادہ رکھنا اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم سائینس میں ترقی کے عروج کے کمال تک پہنچ جائیں.اس امر کے لئے ضروری ہے کہ پاکستانی سائینسدانوں کے سینہ میں روشن چراغوں کو موافق حالات کار کی اتنی آکسیجن ملے کہ یہ بجھنے نہ پائیں.بلکہ اور بھی فروزاں ہوں.میں آخر میں یہ بر ملا کہہ سکتا ہوں کہ سائینس دان تو بے شمار ہوں گے مگر پروفیسر سلام جیسے صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں.ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم تعبیر ہے جس کی حسرت و غم ، اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم کتنے ہی مسافر چلتے ہیں، منزل پہ پہنچتے ہیں دو ایک اے اہل زمانہ ، قدر کرو، نایاب نہ ہوں کمیاب ہیں ہم saadat@khwarzimic.org ---- ڈاکٹر عبد السلام ميموريل سو سائٹی کا اجلاس ربوہ.ڈاکٹر عبد السلام میموریل سوسائٹی کے زیر اہتمام ربوہ میں ایک علمی نشست ۳۰ جنوری ۲۰۰۳ء کو منعقد ہوئی جس میں پروفیسر منور شمیم خالد نے ڈاکٹر سلام کے علمی کا رناموں پر ایک مقالہ پیش کیا، چند طلباء نے بھی اس موقعہ پر مقالے پڑ ہے.میٹنگ کے آخر پر مکرم محبوب عالم خالد نے دعا کروائی.روزنامه الفضل ربوه ۳ فروری ۲۰۰۳ء ، صفحه ۷ )

Page 235

"Recent Developmis and Applications of Fundamental Physics" Dr.ABDUS SALAM Premi Nabel de finice 1979 ڈاکٹر عبد السلام بہین میں ہونے والی ایک کانفرنس کی صدارت فرما رہے ہیں، جس کا عنوان تصویر میں نمایاں نظر آرہا ہے (۱۹۹۰ء) اکٹر عبد السلام انسان میں ہون والی مشہور سلیب کا نفرنس کے ایک اجلاس کی صدارت فرما رہے ہیں.سنج پر بشیر احمد رشل اور جناب ایم اے بھی پر ایمان میں (۱۹۷۱)

Page 236

حصہ دوم

Page 237

Letter from Professor Abdus Salam to Michael Roll, August 14, 1982 INTERNATIONAL ATOMIC ENERGY A OENOT UNITED NATIONS EDUCATIONAL SCIENTIFIC AND CULTURAL ORGANIZATION (۲۲۸) INTERNATIONAL CENTRE FOR THEORETICAL PHY 34100 TRIESTE (ITALY) - P.Q.1.KRO - MURAMARE STRADA COSTIERA 11 - TELEPHONEA: 32431 CABILEI CENTRATOM - TELEX OG ICTP DIRECTOR ARUUN SALAM Dear Dr.Roll, 14-10-982 officially You will be intenti K Kni from Islam that I Loun h been already excommunicates the 人 prists in Pakistan.How we jdh behari in Allah and in worship but as something fermal and not wish tatimed У Либре your bak is published th much needed.much against Christian مه munduin pries.How max vellas batrana humill was to unite on this subject.Zone int Mas blan You will be interested to know that officially I have been already excommunicated From Islam by the orthodox priests in Pakistan.However, I do believe in Allah and In worship- but as something personal and not institutional.I hope your book is published.It's much needed- as much against Christian as Muslim Priests.How marvellous Bertrand Russell was to write on this subject.Yours A.S.

Page 238

(۳۲۹) Freeman Dyson, Hans Bethe.ڈاکٹر عبد السلام کی زندگی کے بعض سائینسدان Paul Dirac, Fred Hoyle, Robert Oppenheimer Carlo Rubia,

Page 239

ROUTE ABDUS SALAM ۲۷ جولائی ۱۹۹۸ء کو سرن کی عالمی تجربہ گاہ کے ڈائریکٹر جنرل کرس سمتھ Chris Smith نے روٹ عبد السلام سڑک کا افتتاح کیا.یہ سڑک اس لیبارٹری کے پاس سے گزرتی ہے جہاں نیوٹرل کرنٹ ۱۹۷۳ء میں دریافت ہوئی تھی نیز اس سے الیکٹرو و یک تھیوری کا تجرباتی ثبوت ملا تھا.نیچے کی تصویر میں وہ سائینس دان اس موقعہ پر کھڑے ہیں جن کے لئے ڈاکٹر سلام کا نام خاص اہمیت رکھتا ہے.ROUTE ABDUS SALAM (۲۳۰)

Page 240

(۲۳۱) Bunts #mb 3 ezhivalent Rendan 3 32 500/500/700/100 500 10 ONN RL WI Laboratories SC RUT USING PICTURE WISCONSIN VEPAS TURDUE NOCTRINESTER ON GERS ROPKINS EFFACER ڈاکٹر عبد السلام کا زرخیز ذہن جب جو بن پر تھا.جولائی ۱۹۶۲ء سرن (جینیوا) میں ایک سیمینار میں شرکت کے دوران لی گئی تصویر آپ کے دائیں طرف Pief Panofsky روسی سائینسدان بر الجمان میں (Courtesy CERN archives)

Page 241

(۲۳۲) محمد زکریا ورک مسلمانوں کا نیوٹن بارہویں صدی کے بعد دنیائے اسلام میں سائینس کے افق پر کوئی شہاب ثاقب نظر نہیں آتا ہے.آٹھ سو سال کے طویل عرصے کے بعد بیسویں صدی میں پاکستان کے اسلامی قلعہ میں جب ایک بچہ عبد السلام کے نام کا پیدا ہوا ، تو یہ صدیوں کا جمود ٹوٹا.دنیائے اسلام کے پہلے نوبل انعام یافتہ سائینسدان جناب عبد السلام کی ذات کئی عظمتوں کا جھم کھا تھی.سائینس کی دنیا میں ایک تاریخ ساز شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ آپ ایک نہایت کریم النفس مذہبی انسان بھی تھے.زندگی کا کثیر حصہ مغربی ماحول میں گزارنے کے باوجود مشرق کی روحانیت ہمیشہ ان کی متاع عزیز رہی.اسی روحانیت اور دین اسلام سے وارفتہ وابستگی نے انہیں رواداری اور منکسر المزاجی کے اعلیٰ مدارج تک پہنچایا تھا.ڈاکٹر عبدالسلام کی ولادت با سعادت ۲۹ جنوری ۱۹۲۶ء کو ساہیوال کے قریب سنتوک داس کے مقام پر ہوئی.نیوٹن اور آئن سٹائین کی طرح آپ بھی اپنے والدین کے پہلے چشم و چراغ تھے.آپ کا خاندان انتہائی مذہبی، نیز علمی روایات کو عزیز رکھنے والا تھا.آپ کے والد محترم چوہدری محمد حسین عبادت گزار انسان تھے.عبدالسلام کی بے مثال شخصیت پر ان کے والد محترم کے اعلیٰ کردار کی مہراتم نظر آتی تھی.ان کا فقید المثال کردار آپ کے والد نے خود اپنے سانچے میں ڈھالا تھا.چوہدری صاحب بہت نرم دل انسان تھے.اپنے اوصاف حمیدہ کے باعث وہ ہر جگہہ بڑی عزت اور وقار کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے.اسلام سے لگاؤ ان کو جنون کی حد تک تھا.ان کی پاکیزگی طبع کی بدولت ان سے ہر ملنے والا ان سے بہت متاثر ہوتا تھا.وہ اپنے فرائض منصبی پوری دلجمعی سے ادا کر تے تھے.وہ عزت نفس کا خیال رکھنے والے اور اخلاقی جرات سے مالا مال تھے.وہ حق پسند اور کچی طبیعت کے مالک تھے.ان خوبیوں اور بے

Page 242

(۲۳۳) مثال اوصاف کی بناء پر وہ اپنے شہر کے روشن خیال اور وسیع النظر لوگوں میں شمار ہوتے تھے.پر وفیسر عبد السلام کے والد ماجد کی پہلی رفیقہ حیات جب دو سال کے ازدواجی رشتہ کے بعد رحلت کر گئیں تو یہ صدمہ ان کیلئے نا قابل برداشت تھا، وہ قریب قریب گوشہ نشین ہو کر رہ گئے.اس صدمہ کے بعد انہوں نے خدا سے لو لگالی اور اپنے آپ کو نماز اور دعا میں وقف کر دیا.دنیوی امور سے ناطہ توڑ لیا اور رفتہ رفتہ ان کی شبینہ دعاؤں میں خشوع و خضوع پیدا ہوتا گیا.آخر مولی کریم نے ان کی متضر عانہ دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا اور ان کی شادی محترمہ ہاجرہ بیگم صاحبہ سے ہوگئی جو ایک مثالی رفیقہ حیات ثابت ہوئیں.خدا تعالیٰ نے ان کی دعاؤں کو مزید شرف قبولیت اس وقت عطا کیا جب ۳ جون ۱۹۲۵ء کو نماز جمعہ کے بعد نوافل ادا کرتے ہوئے ان کو ایک فرزند ارجمند کی بشارت دی گئی اور ہونے والے نور نظر کا نام عبد السلام تجویز کیا گیا.ڈاکٹر عبدالسلام کی والدہ نے انہیں احساس تحفظ نوازا.اور ممتا کی مثالی محبت کی طرح ان کو بھر پور محبت سے پالا.ان کی والدہ بھی ایک دیندار گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں.ان کے بڑے بھائی حکیم فضل الرحمن نے ہیں سال بحیثیت داعی اسلام مغربی افریقہ میں گزارے تھے.وہ ایک رحمدل اور نیک فطرت خاتون تھیں.ان کے سادہ سے دل میں جو انمول خزانے تھے وہ انہوں نے اپنے لخت جگر پر نچھاور کر دئے.وہ قناعت پسند بھی تھیں، اپنے خاندان سے محبت، اپنے مذہب سے والہانہ پیار ان کی فطرت میں رچا ہوا تھا.سلام نے یہ اعلیٰ خوبیاں اپنی والدہ سے ورثہ میں پائیں ، سکول جانے سے قبل ان کی والدہ نے ان کو لکھنے پڑہنے کے ساتھ قرآن مجید پڑھنا سکھایا.بچپن سے ہی سلام کا حافظہ بلا کا تھا، چونکہ انہوں نے قرآن کریم چھوٹی عمر میں ہی پڑھ لیا تھا اس وجہ سے انہوں نے میٹرک کے امتحان میں عربی کا اختیاری مضمون چنا تھا.سلام کے مذہبی نظریات اور زندگی میں ان گنت کامیابیوں اور اعزازات کی فہرست بناتے وقت ان کے اوائل زندگی کے حالات کو پس منظر میں رکھنا ضروری ہے.ان کا بچپن ان کے والد گرامی کے وضع کردہ اصولوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے گزرا.اسی تربیت نے آگے چل کر ان کی خصوصی کیفیات اور رجحانات کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا.

Page 243

(۲۳۴) ڈاکٹر سلام بچپن سے ہی ان تھک محنت کر نیوالے انسان تھے.ان میں معلومات جذب کرنے کی صلاحیت، کامل توجہ اور ارتکاز کی استعداد قابل رشک حد تک تھی.کیمبرج میں قیام کے دوران انہوں ان فطری صلاحیتوں کا صد فی صد استعمال کیا.ان تمام مشقت طلب کاموں، ریسرچ، اعلیٰ درجہ کے مضامین کو ضبط تحریر لانے میں، بڑے بڑے وزراء، رؤسا اور سربراہان مملکت سے ملنے کے باوجود انہوں نے اپنی روحانی اور جسمانی صحت کا ہمیشہ خاطر خواہ خیال رکھا.مذہب اسلام سے لگاؤ ، نماز میں شغف، اور متقی ہونے کے اوصاف نے ان کے ذہن کو پراگندہ خیالات سے ہمیشہ محفوظ رکھا.۱۹۸۹ء میں ڈاکٹر سلام پر ایک اعصابی بیماری کا حملہ ہو اگر اس کے باوجود وہ تمام تدریسی ، اور انتظامی امور سر انجام دیتے رہے.نیوٹن جب پچاس سال کا ہوا تو اس کا بھی نروس بریک ڈاؤن ہو گیا تھا کیونکہ وہ ہر وقت ریسرچ، مطالعہ، تجربات اور نئے نئے مضامین لکھنے میں مصروف رہتا تھا) پرنسٹن انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانس سٹڈی (نیو جرسی امریکہ) نے ڈاکٹر سلام کو یہاں آکر ریسرچ کرنے کی دعوت دی.ان دنوں آئن سٹائن بھی پرنسٹن میں رہائش پذیر تھا.یوں سلام کو اس صدی کے ایک نامور سائینسدان کو قریب سے ملنے اور دیکھنے کا اتفاق ہوا.سلام نے ری نارمالا ئز یشن کے دقیق موضوع پر جو کام کیا تھا اسکی بناء پر ان کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملی تھی نیز پرنسٹن میں جب فیلوشپ ملی تھی اس وقت ان کی عمر صرف ۲۵ سال تھی.سلام نے پہلا ریسرچ پیپر ۱۶ سال کی عمر میں لکھا تھا جس کا عنوان راما نو جن کا ایک مسئلہ تھا اور جو ریاضی کے ایک جرنل میں شائع ہوا تھا.آئن سٹائن جب ۱۶ سال کا تھا تو اس کے ذہن میں اس انقلابی خیال نے جنم لیا تھا کہ اگر وہ روشنی کی لہر (لائٹ ویو) پر سوار ہو کر سفر کرے تو اس کو دنیا کیسی نظر آئیگی؟ یا در ہے کہ روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ ہے.اس عمر میں آئین سٹائین ہائی سکول ڈراپ آؤٹ تھا.نیوٹن، آئین سٹائین اور سلام میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ ان تینوں سائینسدانوں نے سائینس کی وہ تھیوریز جو تاریخ ساز تھیں اس وقت اخذ کیں جب ان کی عمر پچیس برس کے قریب تھی.

Page 244

(۲۳۵) جلا وطنی آئین سٹائین نے اپنی متاع عزیز کا کٹھن وقت نازی دور حکومت کے دوران اپنے وطن جرمنی میں گزارا.اس کو فوجیوں سے سخت نفرت تھی.نازی دور حکومت میں جو ظلم وستم یہودیوں پر ڈھائے گئے ان میں آئین سٹائین کو ۱۹۳۳ء میں قتل کر نیکا منصوبہ بھی شامل تھا.نازیوں نے اس کی تمام جائیداد ضبط کر لی تھی.اس واقعہ کے پورے میں سال بعد ۱۹۵۳ء میں لا ہور (پاکستان) میں مارشل لاء نافذ کیا گیا اور ہونیوالے مذہبی فسادات میں سلام کو قتل کرنیکا منصوبہ بنایا گیا مگر وہ اپنے ایک استاد کے یہاں چھپ گئے.جس طرح آئین سٹائین کو مذہبی عصبیت کی بناء پر ملک بدر ہونا پڑا اسی طرح ۱۹۵۴ء میں سلام اپنے مادر وطن پاکستان کو دل برداشتہ ہو کر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور برطانیہ میں مستقل سکونت اختیار کر لی.ڈاکٹر سلام نے برطانیہ منتقل ہو نیکا قدم نہایت بھاری دل سے اٹھایا تھا ان کا دل وطن عزیز کی محبت سے لبالب بھرا ہوا تھا.اس لئے جب صدر پاکستان محمد ایوب خاں نے ان کو اپنا سائینسی مشیر بنانیکا عزم کیا تو سلام نے یہ پیش کش بصد مسرت قبول کر لی.اور جلد ہی پاکستان میں سائینسی انقلاب لانے کیلئے تعلیمی اصطلاحات کی بہت ساری تجاویز پیش کیں.بلکہ تقاریر کے ذریعہ بیوروکریسی کو سائینسی پالیسی اپنانے سے ہو نیوالے فوائک سے آگاہ کیا.آپ نے پاکستان میں سائینس کے فروغ کیلئے انتھک کوشش کی اور کئی دور رس ، نفع مند منصوبے تیار کئے اور خود ان کی راہبری کی جیسے : فاؤنڈر چیر مین سپارکو SUPARCO ہمبر پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نتھیا سمر کالج کا قیام (جو پچھلے ۲۷ سال سے منعقد ہو رہا ہے ) ، چیف سائینفک ایڈوائزر، کراچی کے کانوپ KANUPP ری ایکٹر کی خریداری، ممبر نیشنل سائینس کونسل، ایڈوائز رایجوکیشن کمیشن ، اسلامک سائینس فاؤنڈیشن کے قیام کیلئے بلیو پرنٹ درجنوں مضامین ، پالیسی پیپرز اور تقاریر آپ نے کئی ایک انہونے منصوبوں کو ملک کی ترقی کیلئے پایہ تکمیل تک پہنچایا.غیر ممالک سے کڑوڑوں روپے کا سائینسی سامان اور آلات جو مغربی درسگاہوں اور لیبارٹریوں میں فرسودہ ہو چکے تھے وہ

Page 245

(۲۳۶) پاکستان بجھوانیکا انتظام کیا.نیز صدیوں پاکستانی سائینسدانوں کو امریکہ اور یوروپ کی یونیورسٹیوں میں اپنا اثر و رسوخ استعمال میں لاتے ہوئے داخلے دلوائے.اور اپنی جیب سے ان کی فیسیں ادا کیں.۱۹۷۹ء میں جب ڈاکٹر سلام کو نوبل انعام دیا گیا تو صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے ان کا پاکستان میں شایان شان استقبال کیا، جھنگ میں ان کے آبائی گھر کو قومیا لیا گیا ، ان کو ملک کا سب سے بڑا سولین ایوارڈ نشان امتیاز عطا کیا گیا.پاکستان کی قائد اعظم یونیورسٹی میں ان کے نام سے ایک سائینسی ایوارڈ قائم کیا گیا جس کی مالیت ایک ہزار ڈالر ہے اور جو ہر سال ایک ہونہار طالبعلم کو دیا جاتا ہے.نازمہ مسعودان ہونہار طالبعلموں میں سے اس انعام کو حاصل کرنے والی ایک طالبعلمہ ہے).پچاس تحقیقی مقالے لندن نقل مکانی کرنے کے بعد سلام نے امپرئیل کالج آف سائینس اینڈ ٹیکنالوجی میں اپنی تعینانی کے بعد پہلے آٹھ برسوں ۶۴.۱۹۵۷ء میں پچاس تحقیقی مقالے شائع کئے ، نظریاتی طبیعات میں ۲۵ طالبعلموں نے ان کے ماتحت ڈاکٹریٹ کی.۱۹۸۵ ء تک سلام کے کل شائع شدہ مقالوں کی تعداد ۲۵۰ تک پہنچ چکی تھی اس کے علاوہ انہوں نے ۱۰۰ سے زیادہ بین الاقوامی کانفرنسوں میں بھی شرکت کی.نیز سائنس اور سیاسیات سے تعلق رکھنے والی سر بر آوردہ شخصیات سے ان کے روابط اور ملاقاتوں کی تعداد بھی ان گنت ہے.غرضیکہ سائینس کے فروغ کیلئے انہوں نے دنیا کے گوشے گوشے کا سفر کیا.میری تحقیق کے مطابق ڈاکٹر صاحب مندرجہ ذیل شہروں کو وزٹ کیا تھا: ڈھاکہ، پاسا ڈینا ( کیلی فورنیا)، میکسیکوسٹی ، سوات، نیو یارک، سٹاک ہالم، اسلام آباد، واشنگٹن ، جھنگ ، بادن ( وی آنا)، پیرس، آکسفورڈ ، آلٹن برگ (آسٹریا)، کلکتہ، بمبئی، امرتسر، دہلی، قادیان، قرطبہ، اٹاوہ، ٹورنٹو، میڈرڈ، خرطوم، نیروبی، کا سا بلانکا، مراکش شہر، بٹاویا (ایلی نائس، امریکہ ) ، میڈیسن (وسکانسن ) فلو رینس، باری (اٹلی)، میلان ، روم، نتھیا گلی ، استنبول، کنگٹن (جمیکا)، بی جینگ (چین)، جی نوآ (اٹلی)، تهران، ایڈنبرا، کراکس ( وینزویلا) اوسلو، سری لنکا، ری پبلک آف بنین ، اور پاکستان کے بہت سارے شہر.نیوٹن اور آئن سٹائن بالترتیب کیمبرج اور پرنسٹن سے منسلک رہے جبکہ سلام نے خود ایک بین

Page 246

(۲۳۷) الاقوامی ادارے کا اجراء کیا جس کا نام انٹرنیشنل سینٹر فار تھیوریٹیکل فزکس ہے.اور جو اقوام متحدہ کے زیر نگرانی اٹلی میں گزشتہ قریب چالیس سال سے ہزاروں سائینسدانوں کو اعلیٰ تربیت اور سائینسی و تخلیقی ماحول فراہم کر رہا ہے.سلام اس انوکھے مگر نہایت موثر بین الاقوامی ادارے کے بانی ڈائر یکٹر تھے.ان کی ان تھک محنت ، جذ بہ صادق ، اور کچی لگن سے یہ تعلیمی ادارہ ثمر آور ہو رہا ہے.ڈاکٹر سلام کی کرشماتی شخصیت ، بے پایاں خلوص اور تیسری دنیا کے مفلوک الحال سائینسدانوں کے لئے ان کے والہانہ لگاؤ اور محبت کا ایک جاوداں اظہار، یہ تاج محل جیسا ادارہ ہے.بہ حیثیت استادان کا امپرئیل کالج آف سائینس اینڈ ٹیکنالوجی (لندن) میں چالیس سال تک تقرر نیز ٹریسٹ سے ہر سال ہزاروں سائینسدانوں کا تیار ہونا ، جدید ریسرچ کا کام کرنا ، نیوٹن اور آئن سٹائین کی منفرد شخصیات پر سلام کو فوقیت دیتا ہے.ڈاکٹر سلام کی طلسماتی شخصیت ان کی سائینسی گہری علوم دلچسپی ، ان کا تبحر علمی، نیز اقتصادی اور مذہبی امور پر ان کی زبر دست گرفت ان کو دنیا کی قد آور شخصیات کی صف اول میں کھڑا کر دیتی ہے.آئن سٹائین کو آکسفورڈ یونیورسٹی نے ۱۹۳۱ء میں اعزازی ڈاکٹریٹ سے نوازا، جبکہ سلام کو کیمبرج نے ۱۹۸۵ء میں اعزازی ڈاکٹریٹ سے نوازا.آئین سٹائین اور سلام میں ایک مشترک بات یہ ہے کہ دونوں کو نوبل انعام دیا گیا.آئین سٹائین کے بیٹے نے ڈاکٹریٹ کی جبکہ سلام کی بڑی صاحبزادی عزیزه رحمن (لاس اینجلس) نے بیالوجی میں ڈاکٹریٹ کی.نیز آپ کا منجھلا بیٹا عمر سلام بھی اس کتاب کی اشاعت کے وقت کیمبرج سے ریاضی میں ڈاکٹریٹ مکمل کر رہا ہے.آئین سٹائین کے ایک شاگرد آٹوسٹرن oto Stern کو ۱۹۴۳ء میں طبیعات کا نوبل انعام دیا گیا، جبکہ سلام کے ایک شاگرد والٹر گلبرٹ Walter Gilbert کو ۱۹۸۰ء میں کیمسٹری کا انعام دیا گیا.پر وفیسر گلبرٹ ۱۹۵۳ء میں لندن میں سلام کے پی ایچ ڈی کر نیوالے طلباء میں سے ایک تھے.بعد میں ہارورڈ یو نیورسٹی میں واپس آکر انہوں نے اپنی فیلڈ جینیات میں تبدیل کر لی اور انہیں جینیٹک کوڈ کو ڈی سائیفر کر نے کی تکنیک دریافت کرنے پر نوبل پرائز دیا گیا.اس بات کا اعتراف پروفیسر گلبرٹ نے ان الفاظ میں

Page 247

I spent my first graduate year at Harvard, then went to the University of Cambridge for two years, where 1 received my doctorate degree in 1957.My thesis supervisor was Abdus Salam; I worked on dispersion relation of elementary particle scattering.(۲۳۸) کیا ہے: نیوٹن اور سلام دائیں ہاتھ والے جبکہ آئن سٹائین بائیں ہاتھ والا تھا.جب آئن سٹائین کو نوبل پرائز ملا اس وقت اس کی عمر ۴۲ سال تھی جبکہ ڈاکٹر سلام کو ان کی ۵۳ سالگرہ پر نوبل پرائز ملا.حقیقت تو یہ ہے کہ سلام کو نوبل ۱۹۵۶ء میں ملنا چاہئے تھا جب وہ صرف تیں سال کے تھے.اس بات کا بر ملا اظہار برطانیہ کے موقر اخبار دی ٹائمنز نے ۱۹۵۶ء میں لسی اور یانگ کو نوبل پرائز ملنے کی خبر دیتے ہوئے کیا تھا.آئین سٹائین کی دوسری شادی اس کی کزن ایس Elsa کے ساتھ ہوئی تھی.جبکہ سلام کی پہلی شادی ان کی کزن محترمہ امتہ الحفیظ صاحبہ کے ساتھ ہوئی تھی.آئین سٹائین نے جرمن شہریت ترک کر کے ۱۹۴۰ء میں امریکن شہریت لے لی تھی ، جبکہ سلام نے باوجود مشکلات اور طرح طرح کی رکاوٹوں کے وطن عزیز پاکستان کی شہریت کو ساری عمر حرز جاں بنائے رکھا.ایک بار ڈاکٹر سلام فرینکفرٹ کے ہوائی مستقر پر اترے تو پاکستانی پاسپورٹ دیکھ کر امیگریشن والوں نے ملک میں داخل ہونے سے روک دیا ، تب ڈاکٹر سلام نے اپنا اقوام متحدہ کا پاسپورٹ دکھایا تو افسران نے معذرت کی اور بخوشی جانے دیا ) نیوٹن کی پیدائش ۲۵ دسمبر، آئن سٹائین کی ۱۴ مارچ اور سلام کی پیدائش ۲۹ جنوری کو ہوئی.آئین سٹائین کے پیدائشی شہر الم ulm جرمنی میں ایک سڑک کا نام آئین سٹائین سٹریٹ ہے.جبکہ جینیوا (سوئزرلینڈ ) میں ایک سٹرک کا نام Reu Abdus Salam ہے.نیز کینیڈا کے صوبہ اوٹاریو کے شہر میپل Maple میں ایک سڑک کا نام عبد السلام کریسنٹ ہے.نیوٹن کو بائیل کی بک آف ڈینیل سے بہت دلچسپی تھی جبکہ سلام کے کوٹ کی جیب میں ہمیشہ

Page 248

(۲۳۹) قرآن پاک کا نسخہ ہوتا تھا.نیوٹن اور آئین سٹائین کو ادب سے کوئی شغف نہ تھا مگر پر وفیسر سلام مرحوم کو ادب سے خاص لگاؤ تھا.انکا پہلا ادبی مضمون غالب نے اپنا تخص کب تبدیل کیا ؟ کے عنوان سے رسالہ راوی میں شائع ہوا تھا.فیض کا درج ذیل شعر ان کا محبوب ترین شعر تھا: کئی بار اس کی خاطر ذرے کا جگر چیرا.مگر یہ چشم حیراں جس کی حیرانی نہیں جاتی پروفیسر عبد السلام کو ۳۰ سے زائد یونیورسٹیوں سے اعزازی ڈگریاں دی گئیں.ہیں کے قریب اعلیٰ ترین ملکی و قومی ایوارڈوں سے نوازا گیا تھا.ان کو بیس کے قریب دنیا کی مشہور ترین سوسائٹیوں کی فیلو شپ حاصل تھی.وہ علی الصبح نماز فجر کے بعد اپنا ریسرچ کا کام شروع کرتے تھے اور رات کو جلد سو جایا کر تے تھے.ان کیلئے فزکس اور فطرت کا مطالعہ گویا عبادت کا درجہ رکھتا تھا.ایک بار انہوں نے ایک اخباری نمائندے کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا تھا:.I get my pleasure from thinking about the problems of physics It gives me the biggest relaxation.ایک پاکستانی سائینسدان ڈاکٹر عبد الغنی کے الفاظ میں: اسلامی تعلیمات کے زیر اثر سلام نے اپنی ساری توانائیوں اور صلاحیتوں کو پوری انسانیت کیلئے وقف کر دیا ہے.ان کا دل بے در و دیوار ہے جس میں ہر محکوم، ہر محروم اور ہر مظلوم کیلئے بلا لحاظ رنگ و نسل اور مذہب وملت بے پایاں تڑپ ہے.نیوٹن نے شادی نہ کی ، آئین سٹائین نے دو شادیاں اور سلام نے بھی دوشادیاں کیں.آئین سٹائین کے دو بیٹے تھے.سلام کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں.نیوٹن شکی مزاج تھا جبکہ آئین سٹائین طنز و مزاح کا دلدادہ تھا.سلام بھی طبیعت کے ہشاش بشاش انسان تھے اور خوب زور دار قہقہہ لگا کر محفل کو زعفران زار بنا دیتے تھے.نیوٹن نے بہت سارے سائینسی مقالے لکھے مگر ان کو شائع نہ کیا.آئین سٹائین نے تین صد کے قریب مقالے لکھے جبکہ سلام نے ۲۷۳ مقالہ جات لکھے جو دنیا کے اعلیٰ سائینسی جرنلز میں شائع ہوئے.تینوں سائینسدان یک سوئی کی صلاحیت سے نوازے گئے تھے.تینوں کو لکھنے کی قابلیت سے رشک کی حد تک نوازا گیا تھا.سلام مرحوم نے سویڈن، سپین، مراکش، اردن، کے بادشاہوں اور برطانیہ کی ملکہ سے کئی بار

Page 249

(۲۴۰) ملاقات کی مگر لباس، طعام، بودوباش میں وہ سادگی کا درخشندہ نمونہ رہے.مزاج میں بے نفسی، قناعت، اور مروت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی.واقعی سلام جیسے یگانہ روزگار انسان دنیا میں کبھی کبھی پیدا ہوتے ہیں ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا سلام جیسی عہد ساز شخصیت چشم فلک نے کم ہی دیکھی ہوگی.حیف صد حیف علم وفضل کا یہ آفتاب جس نے زمانے کو ایک عرصہ تک روشن کیا وہ ۲۱ نومبر ۱۹۹۶ء کو غروب ہو گیا.حرف آخر جس طرح نیوٹن کی شخصیت یوورپ اور انگلینڈ میں سائنس کی تا ریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ھے اسی طرح ڈاکٹر عبد السلام کی عظیم اور تاریخ ساز شخصیت اسلامی سائینس کی نشاة ثانيه میں خشت اول کی حیثیت رکھتی ہے.اس کا واضح ثبوت تو ایک چیز یہ ہے کہ نوبل انعام کی سو سالہ تاریخ میں ۱۹۷۹ء تک کسی مسلمان کو نوبل انعام نہ ملا تھا.آپ کو نوبل انعام ملا تو اس کے بیس سال بعد مصر کے ڈاکٹر احمد حسن زویل کو بھی نوبل انعام مل گیا.گویا ڈاکٹر سلام مرحوم بارش کا پہلا قطرہ تھے اب انشاء اللہ یہ قطرہ بحر بیکراں بنے گا اور عنقریب اسلامی سائینس کی نشاۃ ثانیہ سے مسلمان سائینسدانوں کی قطار لگ جائیگی اور دنیا حیران رہ جائیگی کہ یہ کیسے ہوا؟ ڈاکٹر سلام نے خوابیدہ امت مسلمہ کو بیدار کرنے کی جو ان تھک کوششیں کیں وہ رائیگاں نہیں گئیں.تمام اسلامی ممالک میں اب ایک عجیب قسم کی بیداری پیدا ہو رہی ہے.پاکستان کو ہی لے لیں ڈاکٹر سلام نے تھیورٹیکل فزکس کی وطن عزیز میں بنیاد ڈالی، صدیوں سائینسدانوں اور لیبارٹری ٹیکنیشنز کو مغربی ممالک میں اپنا اثر و رسوخ استعمال میں لاتے ہوئے ٹریننگ دلوائی.اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان وہ پہلا اسلامی ملک بن گیا جس نے بزور بازو جوہری ہتھیار بنا کر تاریخ کے دھارے کو موڑ دیا.دنیا میں ترقی اور زوال تو دھوپ اور سایہ کی طرح ہیں، کسی قوم نے کبھی بھی تین سو یا پانچ سو سال سے زیادہ دنیا پر حکومت نہیں کی.آٹھویں صدی سے لیکر تیرھویں صدی تک مسلمان سائینس کی.

Page 250

(rm) تاریخ میں پوری دنیا پر چھائے رہے.یوروپ کے عالم اور سائینسدان اسلامی سپین کی یو نیورسٹیوں میں آکر علم حاصل کرتے رہے اور اس عمل سے یوروپ میں نشاۃ ثانیہ ہوئی اور سپین، ہالینڈ، جرمنی بر طانیہ فرانس نے غلبہ حاصل کر لیا.پھر یوروپ پر قدرے زوال آیا تو امیریکہ نے دنیا پر غلبہ حاصل کر لیا.ایک روز آئیگا کہ گردش ایام کی طرح تاریخ اپنے آپ کو دہرائیگی اور دوبارہ اسلامی ممالک غلبہ حاصل کر لیں گے.اور یقین جانیں وہ دن دور نہیں جب مغرب کے سائینسدان ایک بار پھر اسلامی ممالک کی جامعات میں تعلیم حاصل کرنے آیا کریں گے.انشاء اللہ العزیز آ تجھے کو بتاؤں میں تقدیر امم کیا ہے.شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر ما خوز از رسالہ تہذیب الاخلاق (علی گڑھ، انڈیا))، جنوری ۱۹۹۶ء.یہ مضمون ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں شائع ہوا تھا اس لئے بعض فقروں کو ماضی میں تبدیل کر دیا گیا ہے.-XXX- ید پروفیسر عبد السلام سکالرشپ ہیں جماعت احمد یہ امریکہ کی طرف سے ہر سال ڈھائی ہزار ڈالر کا پروفیسر عبد السلام سکالر شپ کسی نو جوان طالب علم کو دیا جاتا ہے.۲۰۰۲ء میں دو ایسے تعلیمی وظائف شعیب ابو الکلام (کوئیز ، نیویارک ) اور نصیر الدین احمد ، نارتھ جرسی (امریکہ) کو دئے گئے.

Page 251

(۲۴۴) و آئین سٹائین اور عبد السلام کے ایک موازنه آئن سٹائین کی پیدائش جمعہ کے روز ۱۴ مارچ ۱۸۷۹ء کو بمقام الم (جرمنی) میں ہوئی عبد السلام کی پیدائش بروز جمعہ ۲۹ جنوری ۱۹۲۶ء کو بمقام جھنگ (انڈیا) میں ہوئی آئین سٹائین کا تعلق یہودیوں کی ایک چھوٹی سے کمیونٹی سے تھا عبد السلام کا تعلق مسلمانوں کے فرقہ احمدیہ سے تھا جرمنی اور سوٹزر لینڈ میں تعلیم حاصل کی انڈیا.پاکستان اور برطانیہ میں تعلیم حاصل کی ۱۹۴۵ء میں اسکا آبائی ملک جرمنی مشرق و مغرب میں تقسیم ہوا ۱۹۴۷ء میں انڈیا بھارت اور پاکستان میں تقسیم ہوا، بعد میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا آئن سٹائین کی شادی ۱۹۰۳ء میں ۲۳ سال کی عمر میں ہوئی عبد السلام کی شادی ۲۳ سال کی عمر میں ۱۹۴۹ء میں ہوئی ۱۹۰۵ء میں ۲۶ سال کی عمر میں ڈاکٹریٹ کی ۲۵ سال کی عمر میں ۱۹۵۱ء میں ڈاکٹریٹ کی ۲۴ سال کی عمر میں ۱۹۰۳ء میں پہلا ریسرچ پیپر لکھا ۲۵ سال کی عمر میں پہلا ریسرچ پیپر لکھا حمد نوبل پرائز وننگ پیپر ۱۹۰۵ء میں لکھا.عمر ۲۶ سال ۴۱ سال کی عمر میں نوبل پرائز وننگ پیپر لکھا سوٹزرلینڈ سے امریکہ ہجرت کی مگر شہریت برقرار رکھی

Page 252

(۲۴۳) پاکستان سے برطانیہ ہجرت کی مگر پاکستانی شہریت برقرار رکھی ہی ۱۹۳۳ء میں انسٹی ٹیوٹ فار ایڈوانس سٹڈی (پرنسٹن ) میں ملازمت اختیار کی ۱۹۶۴ء میں انٹر نیشنل سینٹر فار تھیورٹیکل فزکس (اٹلی) کی خود بنیا د رکھی ید آئن سٹائین نے دو شادیاں کیں اسکی دوسری بیوی کزن تھی عبد السلام نے بھی دو شادیاں کیں پہلی بیگم کزن تھی دو بیٹوں کا باپ تھا بڑے بیٹے نے ڈاکٹریٹ کی دو بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں بڑی بیٹی نے ڈاکٹریٹ کی اور چھوٹے بیٹے نے ڈاکٹریٹ کی ہید گریوی ٹیشنل ویوز کے وجود کی پیش گوئی کی مگر دریافت نہیں ہو سکی پروٹان ڈی کے Proton decay کی پیش گوئی کی مگر حتمی ثبوت ابھی تک نہیں ملا ۲۵۰ کے قریب ریسرچ پیپر شائع کئے.۲۷۳ ریسرچ پیپر شائع کئے جرمنی میں جب ہٹلر بر سر اقتدار آیا تو یہودیوں کو نشانہ ستم بنایا گیا پاکستان میں جب جنرل ضیاء الحق بر سر اقتدار آیا تو احمد یوں کو نشانہ ستم بنایا گیا * ۱۹۵۵ میں ایک دستاویز پر دستخط کئے جس میں تمام ممالک سے کہا کہ وہ ایٹمی ہتھیار ضائع کر دیں...عبد السلام بھی ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف تھے ایٹمز فار پیس پرائز دیا گیا آئن سٹائین نے ۵۴ سال کی عمر میں ہر برٹ اسپنسر لیکچر آکسفورڈ میں دیا عبد السلام نے یہی لیکچر ۱۹۷۹ میں ۵۳ سال کی عمر میں دیا دنیا کے مختلف ممالک کا دورہ کیا.عبدالسلام بھی عالمی سیاح تھے آئن سٹائین کو انٹم تھیوری کا معتقد نہ تھا.عبد السلام کو اہم تھیوری کو تسلیم کرتے تھے الیکٹرو میگنیٹک فورس کو گریوٹی سے متحد نہ کر سکا.الیکٹرو و یک کی نئی قوت کو اخذ کیا حمد آئن سٹائن کی وفات ۱۸ اپریل ۱۹۵۵ پرنسٹن.عبدالسلام وفات ۲۱ نومبر ۱۹۹۶ آکسفورڈ

Page 253

(۲۴۴) ڈاکٹر عبدالسلام دی پنجابی وچ سوادی تقریر کے جیہڑی اونہاں گرو نانک دیو، یو نیورسٹی وچ ۲۵ جنوری ۱۹۸۱انوں فرمائی جناب چانسلر صاحب ، وائس چانسلر صاحب ، حضرات...میں تہاڈا بہت ای ممنون آن کہ تساں ایسے خوبصورت لفظاں وچ ( تاڑیاں) اپنی محبت اور شفقت واالیس طرحاں اظہار کیا اور مینوں اک ڈگری دیتی اے ایس واسطے میں تہاڈا بہت شکریہ ادا کرناں.ایس اعزاز نال پاکستان وچ وی اک خوشی دی لہر آگئی اے ایس موقعے اتے انڈین گورنمنٹ دا ، انڈین فریکس ایسوسی ایشن دا.ایس آئی آردا...وی شکریہ ادا کرناں کہ اوہناں مینوں موقعہ دتا اے، تے مینوں سارے ہندوستان وچ مختلف جگہہ اتے ڈگریاں عطا کیتیاں گئیاں نیں...ایس واسطے میں مشکور آں جیہڑی دوسری چیز داوی شکریہ ادا کرنا چاہندا واں اوہ ایہہ کہ تساں میری درخواست نوں قبول کر دیاں ہویاں میرے استاد لالہ ہنس راج بھاٹلا، جو بیٹھے نہیں آخر وچ سٹیج اتے ( تاڑیاں ) نوں بلا یا اے.لالہ ہنس راج بھاٹلا نے جھنگ کالج وچ مینوں پہلے فزکس پڑہائی آہی اور فزکس بارے جو کچھ اوہناں وکلوں سکھیا اوہدے بعد فیر کچھ نہیں رہیا.ایسے طرحاں آڈینس وچ لالہ ایش کمار جی میرے انگریزی دے استاد نہیں ، اوہوناں نوں میں مل نہیں سکیا ہن تیک ( تاڑیاں) میں ایہناں ساریاں نوں دعوت دین واسطے تہاڑا بہت مشکور آں.ساڈے کلچر اور ساڈے مذہب وچ استاد دی عزت، والدین دی عزت توں بعد سب توں زیادہ کیتی جاندی اے، استاد سانوں محبت دیندے نہیں او سے طرح جس طرحاں باپ اور ماں دیندے نیں.

Page 254

(۲۴۵) اوہدے بدلے ساڈا ایہ فرض ہوندا اے کہ اسیں وی او سے طرحاں عزت کرئے جس طرحاں اپنے والدین دی کرنے آں.اور ا یہ یقینی گل اے، کیونکہ میں خطاب کر رہیا واں سٹوڈنٹس نوں...اور ایہ یقینی گل اے جتھوں تیک میری زندگی دا تعلق اے میرے کیرئیر Career نوں بناون وچ جس طرحاں استاداں دا ہتھ ہی ، اوس توں زیادہ میں کوئی چیز نہیں سوچ سکدا مینوں ایس ویلے وقت یاد آرہیا اے.جھنگ وچ سکول وچ چھیویں جماعت وچ پڑھداں اں نے مولوی محمد لطیف صاحب نے سانوں پہلی وار سمجھایا کہ پریسی Pracis کیویں لکھی دی اے، اوہدے بعد اوہناں نے ایک Passage پڑھایا تے فیر ساری کلاس نوں کہیا کہ ایس دی پر لیسی بناؤ، اوہ پریسی ساریاں نے بنائی میں کالج وچ ٹاپ داگنیاں جاندا ساں، جس ویلے میری پریسی مولوی صاحب نے دیکھی ، اوہناں مینوں کیا کہ اخیر تے ( کلاس وچ) کھڑا ہو جا مینوں بڑی شرم آئی اوہ ساری کلاس دا معائنہ کرن توں بعد فیر میرے کول آئے اور فرمان لگے : تیرا دماغ خدا نے تینوں اچھا دتا اے، تو میرا اک اک لفظ سنیا ، اسے طرح reproduce کر دتا اے پر ایهداناں پریسی نئیں اے میں تینوں ایهه سبق سکھانا چاھناں ساری عمر دے واسطے کہ تینوں اپنے آپ نوں ڈسپلن کرنا پئے گا، سو اوہ سبق مینوں ہن تک نہیں بھلیا یعنی سزادے کے ،شفقت نال اک ایسا سبق سکھا یا جیہڑا اسدے بعد ہمیشہ مینوں یاد رہیا، جناب وائس چانسلر صاحب نے ذکر کیتا اے اوس کم دا جنید ھے واسطے مینوں انعام دتا گیا.تے اوہناں بڑے خوبصورت لفظاں وچ اوس تھیوری دا ذکر کر دتا سو میرے واسطے اوہدے بارے زیادہ کہنا مناسب نئی اسو تھیوری دی بنیاد وحدت او تے اے...اساڈے مولاں وچ کم از کم جہناں دی کہ کہ اس قسم دی شروع توں اک

Page 255

(۲۴۶) ٹرینینگ رہی ہو دے اور اوہناں دے دماغاں وچ شروع توں ایہہ خیال پایا گیا ہو دے کہ وحدانیت دی اک چیز ہوندی اے، ظاہر اے کہ اوہ او سے قسم دے اصول ہی تلاش کرن گے لیکن ایہہ میں صحیح نہیں سمجھ دا کہ اگر اسیں تلاش کرئے اللہ دی ذات دے قانون بنائے ہوئے ، ساڈی تلاش ضرور صحیح ہو دے، ایس گل وچ موجودہ سائینس اور پرانی سائینس دا فرق ایہہ دے کہ سانوں ہر اک شے ٹیسٹ کرنی پوندی اے، اور اگر اوہ ٹیسٹ وچ کامیاب نہ ہو وے تے فیر سانوں اوس نظرئے نوں چھڑناں پوندا اے ، سوالیس لحاظ نال اللہ دی ذات دی ایہہ اک دین اے کہ تسیں جیہڑے خیالات توں شروع کر کے آگے چل دے او، اوہ خیالات صحیح وی ثابت ہوں ! یہ دی مثال میں ایس طرحاں دیناں، آجکل دو تھیوریاں میں یونیورس Universe دے بہن دیاں ، اک تھیوری دے ایہہ ہے کہ کائینات نوں اللہ دی ذات نے شروع توں ای بڑا سمر یکل Symmetrical بنایا اور اوس دے بعد جیڑا ایہہ سانوں Lack of symmetry نظر آندی اے ایہہ بعض ایسے dynamical circumstances دا نتیجہ اے جھاں دی بنیاد وی شروع توں سمٹیریکل سی..دوسری تھیوری ایس دے بلکل opposite اے، اوہ تھیوری ایہ اے کہ کائینات جیہڑی بنی اے وہ chaos توں بنی ، کیاس دے وچ آہستہ آہستہ ایسا انجماد ہو یا کہ اوہدے وچوں سمٹری دے لاز نظر آؤن لگ پئے، ایس ویلے کائینات دی بنیاد بارے ایسے تجربات نہیں کیتے گئے جیہڑے ایہناں دو تھیوریاں وچ فرق سکن، جیہڑے لوگ اپنے پرانے بیک گراؤنڈ دی وجہ توں ایس چیز دا یقین رکھدے نہیں کہ اللہ دی ذات نے ہر اک چیز نوں سمٹریکل پیدا کیا ، اونوں وچوں میں وی آں، میں او سے قسم دی تھیوری اتے کم کراں گا اور دوسری تھیوری نوں میں discard کر دیاں گا..لیکن ہو سکدا اے کہ دوسری تھیوری زیادہ درست ہو دے میں نہیں کہہ سکدا..بطور سائینسدان دے مینوں کہنا ای پئے گا، ہن تک تاں پہلی ای تھیوری زیادہ صحیح ثابت ہوئی اے، لیکن ہو سکدا اے کہ میں بطور سائینسدان دے بطور rationalist دے، جس طرحاں وائس

Page 256

(۲۴۷) چانسلر صاحب نے فرمایا ، میں ایہ نہیں کہہ سکدا کہ اگلے تجربات کیہوے جے ہوں لیکن ایس طرحاں تہاڑی جیری پہلی مذہبی ، اور تہاڑی جیری Environmental training وا حساب ہوندا اے، اوہ تہاڑی سائینس اتے اثر انداز ہونداے اوسے دے نال ہن تک جس طرحاں میں پہلاں عرض کیتا اے چیزاں دی وحدت ول پہلے نیوٹن نے ایسی چیز دا اعلان کیا کہ اوہ کشش جیبری سیب نوں زمین ول گراندی اے اور اوہ کشش جیبری Planets نوں سورج دے دو آلے گھماندی اے ، اکوں ای اے فیراڈے اور میکس ویل دی تھیوری ایہہ اک وحدت آہی جیہڑی اوہ اس شخص نے پیدا کیتی، اوہدے بعد دوسرا وحدت دا کرشمہ دکھایا فیراڈے اور میکس ویل صاحب نے جھاں نے بجلی اور مقناطیس قوت نوں بیان کیا کہ ایہہ دود میں اکواری شے نیں ، تو میں بجلی دا اک پائیکل لے لو، اوس نوں Move کرو تے مقناطیسی قوت پیدا ہو جائیگی..ایسے طرحاں اگر acclerate کرواک الیکٹریکل پارٹیکل نوں اوس توں ہیٹ اور لائٹ، اور ریڈی ایشن ساری پیدا ہو جاندی اے، ایہہ دوسری وحدت اے تیسری وحدت جیند ھے کچھے ایس بنے ہوئے آں، اوہ ایہہ اے کہ نیوکلئیر قو تاں اور بجلی دیاں قو تاں اصل وچ اکوالی شے نہیں...ایس نظرئے نوں ۱۹۵۷ ء وچ پیش کیا گیا اور ۱۹۷۸ء وچ ایس اتے پہلے تجربے یوروپ وچ ہوئے اور ۱۹۷۸ ء وچ آخری تجربات ایسی چیز اتے ہوئے ، ہٹین فرڈ (Stanford Liner Accerlator (SLAC اتے اور ایہہ کامیاب ہوئے تے اوہناں نے ساڈی تھیوری نوں ثابت کرد تا اوہدے متعلق مینوں کو یں خبر ملی ، میں اوہدی تہانوں کہانی سنادیناں تھیوری کنفرم ہوگئی ۱۲ جون ۱۹۷۸ وچ مینوں پتا لگا کہ تجربات SLAC وچ ختم ہو گئے نیں ، لیکن ایہہ نہیں پتہ لگا کہ رزلٹ کیہہ آئے نہیں.ساڈی تھیوری نوں کنفرم کر دے نہیں جاں نہیں.چنانچہ میں ٹریسٹ (اٹلی) شہر وچوں فون کیا ڈاکٹر ٹیلر Taylor سٹین فور ڈلیٹر ایکسٹر یٹر لیبارٹری اوہدے

Page 257

(۲۴۸) لیڈرسن، اوس ویلے اوہناں نوں میں فون کیا کہ دسو کیہ بنیا؟ رات دے دس وجے سن، ٹریسٹ (اٹلی) وچ اوس ویلے تے اوتھے کیلی فورنیا وچ اوس ویلے باراں وجے سن دن دے اون کہن لگے کہ اسیں چاہی بندے آں جہاں نے تجربہ کیتا ، سانوں تین سال ہو گئے ہیں تجربہ کر دیاں ایک ملین ڈالر ساڈا لگا، ایس ویلے رپورٹر سارے جہان توں آکے محاصرہ پٹے کردے نیں تے آساں آپس وچ قسم کھاہدی اے کہ اساں نہیں ایہہ رزلٹ دساں گے، کسے نوں کل تک..کل اسیں لیکچر دیاں گے پبلک ورچ، اوس ویلے آکے رپورٹر سارے اوہ سن سکدے نہیں، میں ہین قسم کھا بیٹھا ہوئیاں اور مینوں ایہہ وی سب پتا اے کیونکہ تھیوری تیری اے، تے ایہدے وچ سب توں زیادہ دلچسپی تسی رکھدے اور ہن میں کیہ کراں؟ میں اوہناں نوں آکھیا.تسیں قسم کھا بیٹھے او تے تسیں قسم نے قائم رہو، ایہہ کو یں ہو سکدا اے کہ تسیں قسم نوں توڑو اوہناں جس ویلے ایہہ سنیا ، کہن لگے کہ وقت کیہہ ہویا اے ٹری ایسٹ وچ ؟ میں کہیا ، رات دے دس و جے آ اوہناں پچھیا سون ن دا وقت اے؟ میں کہیا ہاں، اور کہن لگے.I can tell you is, go to bed and sleep well سوایس طرحاں مینوں پہلی وار پتہ لگا کہ واقعی تھیوری کامیاب ہوئی اے تھیوری دا دوسرا حصہ اوس تھیوری دا اک حصہ جو اجے ٹیسٹ نہیں ہو یا اور اوہ ایہ اے کہ جیہڑیاں نیوکلئیر طاقتاں دو قسم دیا ہوندیاں نیں.یعنی کمزور اور مضبوط.ویک اینڈ سٹرانگ.اساڈا کم کمزور طاقت دے بارے رہیا ، ایہ نئی کہ کم کمزور ریہاسی لیکن ایس قوت دے داناں کمزور قوت رکھیا ہویا اے، دوسری قوت جیبری اے مضبوط قوت ، اوہدے بارے اجے تجربے ہو رہے نہیں سجھ توں اہم تجربہ ایس ویلے کولار گولڈ فیلڈ Kolar Gold Fields, India وچ ہو رہیا اے، ست ہزار فٹ تھلے ، میں ایہناں مائینز وچ گیا،

Page 258

(۲۴۹) بڑے خوبصورت مائیز نہیں ، میرا خیال کسی کہ مائینز وچ بندے ہون گے پسینہ آرہیا ہونا اے، خدا جانے کیہہ حساب ہوئی لیکن اوہ بڑی well-kept ، ائیر کنڈیشنڈ بڑی سوہنی مائن اے، ست ہزارفٹ اساں تھلے گئے ، اوتھے ۵۰ ٹن لوہے دے اک سلیب نوں کور کیتا ہویا اے پروپورشنل کاؤنٹرز دے نال، اور اوتھے پروٹون جیہڑے ہر جگہہ تے زوال decay کر رئے نہیں، میرے جسم وچ ڈیکے کر رئے نیں لیکن جیبرے اوس آئرن وچ ڈیکے کرن گے اوہ اپنا اک سگنل چھوڑن گے، تے پر پورشنل کاؤنٹرز جگمگا اٹھن گے، اوہدے نال اوہ بنے گا، کہ سال وچ دس پندراں جاں ویہہ events جس ویلے اکٹھے ہو جان گے تے ثابت ہو جائیگا کہ مضبوط نیو کلیئر طاقت دی وحدت رکھدی اے کمزور اور بجلی دی طاقت دے نال، او دوں بعد جس طرح اساں نسان نوں دسیا ، آخری مرحلہ ہونا اے جیہڑا آئن سٹائن نوں ہمیشہ ، بین تمہیں سال اوس نے زندگی دے لگائے ، پین تھیں اوس شخص نے کم کیتا کہ قوت ، نیوٹن دی قوت تے ( گریوٹیشن ) بجلی دی قوت نوں ملا دیوے تے اوہدے وچ وحدت پیدا کرے ایہہ اساں فیر اوہدے اتے لگانی اے، ہور وی ایہدے متعلق ساڈے خیالات ہیں ، میں بعض ہور جاگہاں اتے عرض کر چکاں، اوہ خیالات بڑے عجیب جئے خیالات نہیں ، اوہ خیالات ایہہ ہین کہ زمینی کائینات جیہڑی اے اوہدے وچ چار ڈائی مینشنز dimensions میں بلکہ زیادہ ڈائی مینشنز ہین، اور باقی ڈائی مینشنز دے متعلق سانوں خبر کوئی نئی لگدی سوائے indirectly اور ان ڈائریکٹلی اوہناں دا سگنل سانوں پہنچ دا اے، بجلی دے ذریعے جاں نیوکلئیر دے ذریعے، ایہہ سگنلز ہن کہ ہو روی ڈائی مینشنز ہین ، ، ڈائی مینشنز دی تعداد جیہڑی ساڈے زہن وچ ہے اوہ گیاراں اے اور گیاراں توں مینوں بڑی خوشی ہندی اے.الیس نمبر دے نال کوئی mystical significance نئی مینوں ہمیشہ خطرہ رہندا اے کہ مسٹیکل سگنی فیکنیں والے لوگ سائینس اتے حاوی نہ ہو جان، کیونکہ سائینس ، میں بار بار دہرارہیاں کہ سائینس تجر بے نال چلدی اے، اگر تجر بہ اک چیز نوں غلط ثابت کرے تاں ساڈے واسطے ضروری

Page 259

(۲۵۰) اے کہ اوہناں چیزاں نوں اسیں غیر بدل کے نوین سریوں شروع کرئے، ایہ فرق اے پرانی نے نویں سائینس دا، سانوں ہمیشہ ایس معاملے وچ اپنے دماغ نوں کھلا رکھنا چاہی دا اے سائینس اک کھیڈ ایہ کو لا ر مائیز ایکسپیری منٹ دا میں ذکر کر دیواں، میرے اک ساتھی ہین پروفیسر گولیش چند رپتی ، جیہڑے بھونیشور وچ پیدا ہوئے تے اجکل امریکہ وچ (میری لینڈ) وچ کم کردے ہین، جیہڑے کم دا میں ذکر کیتا اے ایہہ اوہناں دے نال اے.میں اپنی تقریراں وچ ہر جگہہ اتے ایہہ دہراؤندار ہیاں کہ سائینس ہمیشہ اک اتے اک تھلے دی کھیڈ کدی ساڈے کول زیادہ ہوئی اے کدی دو جے پاسے زیادہ ہوئی اے، ایس گل نوں بھل نئی جانا چاہیدا ، اچ سائینس چونکا دیندی اے، ساڈیاں اکھاں نوں چندھیا دیندی اے لیکن ایہہ سانوں یا درکھنا چاہیدا اے کہ ساڈے کول وی بڑے زبر دست لوک پیدا ہوئے نہیں، میں جارج سارٹن صاحب دی کتاب دا ذکر کیتا اے کئی واری، اوس نے بیچ والیومز وچ ہسٹری آف سائینس لکھی اے، ایہ کتاب ترجمہ ہون دے قابل اے.تساں پنجابی وچ کراؤ ،، ایس کتاب وچ اوس نے پنجاه سالہ دور مقرر کیتے نیں سائینس دے اوس نے لکھیا اے کہ ہر پنجاه سال بعد میں ایس دور داناں اک وڈے شخص دے ناں نال رکھاں گا، مثلاً سن ۴۵۰ توں سن ۴۰۰ بی سی ، اوس نے اوس دور داناں رکھیا، افلاطون دا دور..اوس دے بعد ارسطو دا دوراے، اہدے بعد آرشیمیدس Archimedes دا دور اے.ایسے طرحاں اوہ دور بنا ندائے.سن ۵۰۰ توں لے کے ۵۵۰ بعد مسیح اوہدے ذہن وچ جیہڑا دوراے اوہ آریہ بھٹ دا دوراے جیہڑے ایس ملک وچ پیدا ہوئے نہیں اور اوہ بڑے زبر دست mathematician ہوئے نہیں تساں اوہناں دا ناں سنیا ہونا اے.اوہدے بعد سن ۶۰۰ توں ۷۰۰ تک جیہڑا دور اے اوہ چینیاں تے ہندوستانیاں دا دور اے، چینی سیا نگ سانگ اینڈ آئی چینگ اور ہندوستان وچ آریہ بھٹ اور برہم گپتا بر ہم گپتا پنجاب دے آئے اور ملتان دے نیڑے پیدا ہوئے ہن ، اوہدے بعد سن ۷۵۰ توں

Page 260

(۲۵۱) سن ۱۱۵۰ء تک جادیو، الخوارزمی، الرازی، ابولوفا، عمر خیام ، ایہہ اوہناں دا دور اے، سو پنجاه سال دے دوراں دے وچ ساڈے ناؤں آوندے نہیں لیکن اوہدے بعد غیر ہولے ہولے سائینس دے وچ supermacy سائینس وچ ساڈے کولوں چلی جاندی اے، آخری واقعہ شاید مهاراجا جے سنگھ را اے، جھاں زج محمد شاھی لکھی اور سن ۱۷۲۰ ء وچ ویسٹرن ٹیبلز نوں ٹھیک ایہہ کر میکشن بڑی زبردست کریکشن اے اپنے وقت وچ، ایہہ ساڈی بڑی بدقسمتی اے کہ اوہدے بعد الیس لحاظ نال بد قسمتی تاں خیر نئی کہنا چاہی دا اے، اوہدے بعد ایہہ ہویا کہ ٹیلی سکوپ دی ایجاد ہوگئی یوروپ نے اک بہت بڑا جمپ کر لیا ، اساں ٹیلی سکوپ دے متعلق بے بہرہ رہے تے پیچھے رہ گئے لیکن ہن فیر اوہو دور آگیا کہ ایہہ چیز اک چکر چلے تے اسیں کم از کم برتری نئی تاں اوہناں دے نال برابری حاصل کر لیے تے ایہہ برابری کوئی مشکل نئی ، بہت بہت اعلیٰ قسم کے دماغ ساڈے ملک وچ ہین ، جیہڑے بچے مینوں سن رہے نیں اوہناں نوں ایہہ ہی آکھاں گا کہ تہاڈا ایہہ فرض اے جس ویلے میں جاناں کسے ہسپتال وچ ، جاں دوائی خانے بین سیلین ، جاں Streptomycin اور ایس قسم دیاں ہور دوائیاں لیناں تاں مینوں ہمیشہ ایہہ خیال آنداے کہ ایس دوائی نال میں اپنی جان تاں بچالٹی لیکن کیا ایس ایجاد وچ میرے والدین ، اوہناں دے والدین دا کتنا حصہ اے ؟ ساڈا self respect وی ایہہ چا ہوندا اے گورنر صاحب کہ ساڈے وچوں بعضیاں نوں ایہ موقعہ دیتا جائے کہ اوہ بس ایس قسم دے کم وچ اپنے آپ نوں indulge کر کے اگے رہن، پتہ نہیں الیس پنجاب دا کیہ حال اے لیکن باقی جگہاں اتے اجے دی ساڈا سائینس دان بننا اک ایکسی ڈینٹ ہندا اے میں تہانوں اپنی زندگی دے حالات سنا دیناں، میں سائینس دان نہ ہندا اگر دو چار ایکسی ڈینٹ نہ ہندے، میں سائینسدان نہ ہندا اگر دو چارا ایکسی ڈینٹ میری زندگی وچ نہ ہندے، پہلا ایکسی ڈینٹ تاں اے ہو یا کہ جس ویلے ایف اے دا امتحان ہو یا میں ریلوے وچ

Page 261

(۲۵۲) سلیکٹ ہو گیا اور چنگی نوکری آہی ، حضرت والد صاحب نے قادیان وچ خلیفہ مسیح الثانی نوں خط لکھیا، اوہناں نوں پچھیا کہ میرا بچہ select ہو گیا اے، ریلوے دی نوکری وچ پنجاب وچ اوہ اول آچکا اے، ریلوے دی نوکری وی بڑی اچھی اے، حضرت صاحب نے جواب وچ خط دے اتے لکھ و تا....6666666 اگر یه بچه ریلویے کی نوکری میں چلا جائے تو میں اسے کم همتی سمجھتا ھوں سو اوہدے بعد میں بیکار رہیا ، لیکن فیر وی ایہہ خیال آیا کہ چلوایم.اے کر کے اوس دے بعد آئی سی ایس ہو جاواں گا، خدادی قدرت ایہہ ہوئی کہ Indian Civil Service بند ہو گیا ، سن ۱۹۴۶ ء وچ جدوں میں امتحان دتا آئی سی ایس کوئی نہیں سی ہندا، سن ۴۵ ، وچ جنگ دے آخری دناں وچ ملک خضر حیات ٹوانہ نے جو پنجاب دے چیف منسٹر ہن دے سن ، اوہناں نے بہت سارا...( میں بہت وقت نے نئی لئے رہیا ) کیونکہ مینوں تاں مزا آرہیا...ہا سے تے تاڑیاں دی آواز - تہاڈیاں ڈگریاں نہ رہ جان...) ملک ٹوانہ نے وار فنڈ واسطے پیسے اکٹھے کیتے..اوہ جنگ ختم ہو گئی البتہ پیسے بچ گئے ، چنانچہ اوہناں نے ایس وارفنڈ دااک Parent Welfare Fund قائم کیتا ، اوہدے وچ پنج وظیفے رکھے باہر جان واسطے..اور ایہہ وظیفے بڑے اچھے آہے ، اوس وچ کوئی شرط نہیں آرہی کہ گورنمنٹ دی بعد وچ نوکری کرنی اے، جاں کی بڑے مضمون دے وظیفے ہون کے ، جو مرضی آئے کر وسوسن ۴۶ ء وچ میں ایم اے کر لیا میں خواہش مند ماں کہ کوئی چیز مینوں ملے جس دے نال میں انتظار کر سکاں کہ آئی سی ایس کھلے گا تاں میں امتحان دے لواں گا ،ہوا نتظار وچ میں اوس وظیفے واسطے اپلائی کیتا...حسن شریف اجکل لاہور وچ ہین، میاں افضل حسین جھاں دا اکثر تساں ناں سنیا ہونا ائے ، ایہہ لوک سن وظیفہ دین والے اوہناں بڑی عنایت کیتی مینوں سلیکٹ کر لیا نال چار بندے ہو روی سلیکٹ ہو گئے ، مینوں یاد آیا کہ اوس ویلے جس سلیکشن را اجے مینوں پتہ نہیں سی میں کیمبرج وچ داخلے

Page 262

(۲۵۳) واسطے اپلائی کیا سی ، اور اوتھے میری بڑی خوش متنی آہی لوک نے کئی کئی سال پہلاں اپلائی کر دے نہیں کہ مینوں اوتھوں ٹیلی گرام آئی ۲ ستمبر ۴۶ ، نوں کہ تینوں اساں Uni-accepted admission دے دتی اے.سو دو دسمبرنوں میں گڈی چڑھیا تے لاہور آ کے پتہ کرن واسطے کہ مینوں وظیفہ ملیا کہ نہیں پتہ لگا کہ دفتر شملے گیا ہو یا اے، سو میں انگلی رات میں شملے پہنچیا.اوتھے خالہ صاحب ، اللہ مغفرت کرے، اوہ وظیفیاں دے انچارج مینوں ملے ، اوہناں کہیا کہ تینوں وظیفہ مل گیا اے توں ھنے چلا جا، هنے دلی چلا جا اور اپنے passage دا انتظام کر: میں اوسے طرحاں چڑھیا، ایداں تیسری رات دلی پہنچیا ، اوہناں کہیا کوئی بھیج Passage ، ویسج نھیں دوڑ جا، اپنی جلدی چلے آؤندے نے.میں دفتر وچوں گھبرا کے باہر جارہیا ساں کہ اک کلرک نکلیا مبارک علی او هنداں دا نام سی، پستہ نہیں اوہ وچارے زندہ نہیں کہ نہیں ، اوہ آئے کہن لگے، میں تینوں پیپرتاں نہیں دے سکدالیکن میں تنیوں پروویژنل بنا دینا اک فارم ، ایہ افسرتاں بیوقوف ہندے نیں ( ہا سے دی آواز ) تساں چلے جاؤ، Take a risk and go to Bombay او تھے جہاز ٹائی کو نیا اے جیہڑا آٹھ تاریخ نوں جا رہیا اے، ایہہ پیچ تاریخ دی گل اے تسیں سیدھے چلے جاؤ تہاڑی قسمت ہوئی تاں تساں ٹر جاؤ گے لندن واسفر میں ایہہ کہانی ساری ایس واسطے سنا رہیاں اخیر تے تسیں دیکھو گے کہ کویں ایہ ایکسی ڈنٹ سن سارے، جناب میں گھر ملتان پہنچیا، آٹھ تاریخ توں جا رہیا اے جہاز ، او تھے والدین نوں کہیا کہ میں ہنے ای جانا اے، ہنے ای میرا سامان جیہڑا وی اے بکسے وچ پاؤ، گڑی جارہی اے بمبئی ، آٹھ تاریخ نوں جارہیا اے جہاز میں پہنچ گیا بمبئی، اوتھے واقعی مینوں جگہ مل گئی ، انگلش فیمیلیز واپس جارہے سن، اطالین قیدی واپس جارہے سن ، واقعی جہاز وچ کوئی جگہ نہیں کی، پر میری خوش قسمتی کہ مینوں جگہ مل گئی اور میں اوتھے کیمبرج جا پھنچیا،

Page 263

(۲۵۴) اوہدے بعد سارے وظیفے غائب ہو گئے سوائے میرے سوا وہ سارا کارنامہ جو ملک خضر حیات نے کیا، یعنی وار فنڈ اکٹھا کیا، وظیفے بنائے اور وظیفے دتے، کمشن بیٹھے اور اوہناں کمشناں نے سارے فیصلے کیتے اوہدا اکوامی نتیجہ نکلیا کہ مینوں کیمبرج وچ جگہ مل گئی کیمبرج دی فضاوچ، سائینس دے میدان وچ ظاہر ہے آئی سی ایس وغیرہ تاں اسیں بھل گئے ، ایس سائینس دے نال ای رہے، ہوا یہ کہانی میں ایس واسطے تفصیل نال سنائی اے کہ ایس قسم دے accidents اتے آئندہ نوبل پرائز وا انحصار رکھنا غلط ہے، اگر تسیں چاہوندے او کہ سائینس دے میدان وچ ترقی کرو، تاں تہانوں کوئی ایسی چیز بنانی ہے گی جس طرحاں امریکہ وچ اے کہ بچے دا شروع توں خیال رکھیا جانداے اور جہیڑے ایسی چیز دے اہل ہین اور جیہڑے ایسی چیز دے واسطے محنت کرن نوں تیار ہین ، اور جہیڑے اپنے آپ نوں ڈسپلن کر رہے نہیں، اوہناں چیزاں واسطے، اوہناں نوں اوہناں دا صحیح اجر ملے، ایہہ بہت ضروری اے خدا کرے ایہ چیز ایتھے ہوگئی ہووے لیکن ایہ میں یاد دلانا چاہناں ، ایہہ بہت ضروری اے، اخیر اتے میں اوہناں لوکاں جیڑے ایس ویلے ڈگریاں لین گے اور ٹیچنگ اور ریسرچ دے پروفیشن وچ جان گے ، اوہناں نوں میں ایہ وارننگ دینا چاہتاں کہ اوہناں دی زندگی بڑی فرسٹریشن دی بھری ہوئی زندگی ہو دے گی ، کیونکہ ساڈے ملک وچ resources دی کمی اے اور اسیں ایہہ سمجھدے آں کہ اسمیں اک طرحاں بڑی مشکلاں وچ پیٹے ہوئے آں، میں اوہناں نوں آئن سٹائن دی کہانی سناؤنا چاہناں جیند ھے نال تہانوں ایہ اندازہ ہو دے گا کہ آئن سٹائن جیب شخص وی کس طرحاں اپنی زندگی وچ کنیاں frustrations دا شکار ہو یا اور چونکہ ایہہ کہانی میں انگریزی وچ لکھی اے، میں انگریزی وچ ہی پڑھ کے سنادیاں گا ، ( انگلش را حوالہ تھلے دیتا جاندا اے.مؤلف ) وائس چانسلر صاحب نے پنجاب دا ذ کر کیتا اے، پنجاب بڑی زبر دست زمین اے، ایتھے بڑے بڑے سائینس دان ہوئے نہیں، میں برہم گپتا دا ذ کر کیتا اے، اوہدے بعد میڈی ایول ایجز medieval ages وچ لطف اللہ محمد کی اور عطاء اللہ راشدی دولڑ کے سن، استاد احمد معمار لا ہور دے

Page 264

(۲۵۵) جس نے تاج محل تعمیر کیا ، اور آجکل دے زمانے وچ ڈاکٹر ہر گو بند کھورا نا جیڑے ماتان دے قریب پیدا ہوئے ، سو ایہہ سارے لوک بہت وڈے سن اور مینوں یقین اے کہ ایس audience وچ بڑے اچھے اچھے دماغ موجود نہیں ، جیرے خدادی مدد دے نال آئندہ اگے ودھن گے گرو گرنتھ صاحب وچ ذکر آؤندا اے اوہناں چیزاں دا بنیریاں اساں پڑھیاں اور جنھاں نال اساں نوں انسپریشن Inspiration ملدی اے..لکھ پاتاں پاتال آگاساں آگاس..سوالیس قسم دے جیڑے وڈے ہورائزنز horizons ساڈے اگے موجود ہین، ایہناں نوں سانوں بھلنا نہیں چاہیدا، اوہناں تکلیفاں اور مشکلاں وچ جیڑی ڈیلی لائف وچ سانوں پہنچدیاں نہیں.بہت شکریہ Failures of Einstein There has been no one like Einstein in this century perhaps never in the whole history of human thought so far as physical sciences are concerned.Certainly there never has been anyone so much responsible for so much revolutionary thinking in physics.But Einstein may have been lost.Let me recount the Accidents in his life.At the age of fifteen, he was called by one of his Teachers at the Gymnasium school in Munich and the teacher said: “ Einstein you should leave the school".Einstein said: "I have done nothing amiss." The teacher said, "Your mere presence spoils the respect of the class for me." This is a reference to Einstein's, independence of thought.At the age of sixteen and a half-year, Einstein wanted to enter theZurich Polytechnic.He took the entrance examination for Engineering.Unfortunately for physics he failed.A year later, he succeeded but by then he had given up all thoughts of becoming an Engineer.Einstein graduated from the Zurich Polytechnic in the year 1900.He wanted University position, but he failed because his teachers would not write a recommendation letter for him.Einstein maintained himself by finding temporary jobs performing calculations, private tuition's at three Franc an hour and school teaching.In November 1901 he submitted a research paper as a thesis for a Doctors degree.Although this paper was accepted by the prestigious journal “ Annalen der Physick” the University of Zurich rejected it as inadequate for the Ph.D.According to his biographer, Banesh Hoffman, Einstein felt himself sinking hopelessly in a world that had no place for him.An episode in 1901 will illustrate what I mean.Einstein wrote a letter to Prof.Ostwold later to become a Nobel prize winner, and the letter is this.Since I was inspired by your book on general Chemistry, I am taking the liberty of sending you a copy of my paper.I venture

Page 265

(۲۵۶) also to ask you whether perhaps you might help such a physicist, I am taking the liberty of making such a request only because I am without means.Inspite of this Einstein got no reply.Inspite of his second Reminder he still got no reply.At this stage a beautiful event occurred in his life of which he knew nothing.Einstein's father, un-successful merchant, in ill health and a stranger to the academic community, took it upon himself to write to Ostwald.His father received no reply.Eventually as is well known in 1902 Einstein did find a job at the Swiss Patent Office in Bern first as a Probationary Technical Officer third class, later promoted to Engineer second class.It was here far from a adequate scientific libraries, far from the stimulating research atmosphere of a University physics department.Snatching a few morsels of time for his own calculations, which he did in a drawer when footsteps approached.Einstein wrote the revolutionary papers on Quantum theory of light and unification of space and time during 1905.All this time he was without a Ph.D.“I shall not become a Ph.D.The whole comedy has become bore to me", he observed.For his second attempt, which he had made in 1905 also, failed.A third attempt eventually did succeed but by then he did not care for any Ph.D.from any University.So this is the greatest intellect which we have had in the history of mankind.I have read the story for those people who may go to academic profession and find the same frustrations that they may remember what happened to that very great man.Now I conclude Sir, he was the greatest man of his age, and of his time.He was indeed very, very great.KUNGLIGA SURABAY ITENSKAPSASADE ALIK PASTEN FOROREGI NOBELPRIS SOM DETTA ÄR TILLERKÄNNES DIEN TOALINOM FYSIKENSOMRADE GJORT PEN VIKTIGASTE LIPTACKTEN ELLERUPTINNINGEN GEALEN SAMT HELĪNA ABDUIS SALAM SHELDON LGLASHOW OCH STEVENWEINFUĘĆ FÖR DERAS INSATSERINOMITEORIN FOR FÖRENAD SVAG OCH ELEKTROMAGNETISK VÄXTLY ZAKAN MELLAN ELEMENTARPARTIKLAR, INNEMATTANDE HANDANNAT FÖRUTSÄGELSIN AYDEN SVAGA NEUTRALASTRÖMMEN F LION 9.علم و دانش کے امام کو ملنے والے نوبل پرائز کا سٹر یفکیٹ

Page 266

(۲۵۷) ڈاکہ عبد السلام کی دس تہلکہ خیز تحقیقات پر ایک نظر پر و فیسر عبد السلام نے نظریاتی طبیعات کے میدان میں بنیادی ذرات پر بہت ہی اہم تحقیقاتی کام کیا تھا.آپ فزکس کی مختلف برانچز پر پچاس سال تک ریسرچ کا کام کرتے رہے اور نت نئی راہوں اور لگا تار انکشافات سے دنیا کو انگشت بدنداں کرتے رہے ، یوں تو ان کی کئی ایک تحقیقات اتنی جامع اور وجد آفریں ہیں کہ اعلیٰ سے اعلیٰ انعام کے قابل سمجھی جاسکتی تھیں مگر جس سائینسی اور تحقیقی کے کام کی بناء پر ان کو دنیا کے اعلی ترین سائینسی انعام یعنی نوبل انعام سے نوازا گیا وہ برق مقناطیس اور ضعیف نیکولٹئیر قوت کی وحدت کا نظریہ تھا.یہ کام بلا شبہ اعلی تحقیق کا عمدہ ترین نمونہ ہے.ڈاکٹر سلام نے اپنی زندگی میں ذراتی طبیعات پر ۲۷۶ اعلیٰ مضامین اور مقالے قلم بند کئے.ان مقالہ جات کی مکمل فہرست کی اشاعت کا کام کر اچی کے فاضل مصنف اور سائینسدان ایس ایم ڈبلیو احمد نے اپنے ذمہ لیا اور یہ کتابی صورت میں abdus salam- as we know him کے عنوان سے جون ۱۹۹۲ء میں زیور طبع سے آراستہ ہو کر منصہ شہود پر آئی.پر نٹنگ کے عالمی ادارہ ورلڈ سائینٹفک ، سنگا پور نے ۱۹۹۴ء میں ایک ۶۷۹ صفحات کی ضخیم Selected Papers of Abdus Salam with commentary, editors Ali, Isham, Kibble, Riauzddin شائع کی، جس میں ڈاکٹر عبد السلام کے مضامین فزکس کے درج ذیل عنوانات پر جمع تبصرہ شائع کئے ہیں: Quantum Field Theory and Dispersion Relations Symmetries and Electroweak Unification Lepton-Hadron Unification Gravity, Supersymmetry, and Strings Condensed Matter and Biology اس کے مطابق آپ کا پہلا مضمون ۱۹۴۳ء میں شائع ہوا اور آخری مضمون ۱۹۹۳ء Sivaram

Page 267

(۲۵۸) List of publications in کے ساتھ مل کر لکھا تھا.کتاب کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ آخر پر Chronological order بھی دی گئی ہے.مؤلف کی ذاتی لائیبریری میں یہ کتاب موجود ہے.ان سائینسی مضامین کے علاوہ آپ نے پاکستان اور دوسرے ترقی پذیر ممالک کی سائینسی اور تعلیمی ترقی کے مسائل اور ان کے حل پر بھی عالمانہ مضامین لکھے.آپ نے مختلف یو نیورسٹیوں سے ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں ملنے پر صدارتی خطبات بھی پیش کئے.آپ نے اقوام متحدہ کیلئے بہت سارے پالیسی پیپرز لکھے ، آپ نے ایک درجن کے قریب ضخیم کتا بیں بھی تصنیف فرما ئیں، غرضیکہ آپ نے جو تحریری کام کیا اس کی آؤٹ پٹ حیران کن ہے.اس ضمن میں یو نیورسٹی آف ہاتھ ، برطانیہ میں آپ کے تمام کا غذات، کتابوں، مضامین، خطوط کی تدوین کا کام شروع ہو چکا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ ان کی مکمل فہرست جلد تیار ہو کر انٹرنیٹ پر دستیاب ہو جائیگی تا تشنگان علم و ادب اس بحر نا پید کنار سے کچھ آب شیر میں پی کر سیراب ہو سکیں.اس ضمن میں اگر کوئی خواہش مند مزید معلومات حاصل کرنا چاہے تو درج ذیل پتہ نوٹ فرمائیں: Abdus Salam Papers, National Cataloging Unit Archives of Contemporary Scientist, University of Bath, UK ان تمام دستاویزات کی کل تعداد ۸۸۰ صفحات بنتی ہے اور یہ آئی سی ٹی پی (ٹریسٹ ) میں محفوظ ہیں: اہم تحقیقات اردو زبان میں آپ کی پچاس سال پر محیط اہم تحقیقات کو قلم بند کرنا آسان کام نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو بنیادی طور پر ایک ادبی زبان ہے.اس میں سائینسی اور تکنیکی جدیدترین ترقیات بیان کرنے کیلئے الفاظ موجود نہیں ہیں اور نہ ہی جدید ترین سائینسی تھیوریز کو اردو میں بیان کرنے کی طاقت ہے.اسی لئے اردو میں انگلش کے الفاظ اس کثرت سے استعمال ہوتے ہیں کہ پتہ نہیں چلتا کہ آپ اردو بول رہے ہیں کہ اردنگلش میری ناقص رائے کے مطابق ہمیں سائینس کی تکنیکی اصطلاحات کو اردو میں تبدیل کرنے کی بجائے جوں کا توں استعمال کرنا چاہئے.بہر حال اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اور

Page 268

(۲۵۹) اپنی کوتاہیوں کو جانتے ہوئے میں ڈاکٹر صاحب نوراللہ مرقدہ) کی چند ایک تہلکہ خیز دریافتوں کا ذکر کرنے کی کوشش کرتا ہوں.(۱) ری نار مالائزیشن ڈاکٹر عبد السلام نے اس دقیق موضوع پر اپنی تحقیق ۱۹۵۴ء میں پیش کی یہ ان کا نہایت دقیق ریسرچ کا کام تھا جس کی بناء پر آپ کے نام کو سائینس کی دنیا میں چار چاند لگے.اور مغرب کی درسگاہوں میں آپ کا نام معروف ہو گیا.اس کام کا تعلق کو انٹم فیلڈ تھیوری کے ری نار مالائزیشن تھیوری سے ہے.ہوتا یہ ہے کہ ایک تھیوری میں مختلف ناپی جا سکنے والی طبعی خاصیتوں کے Integrals بعد میں diverge ہو جاتے ہیں اور نتیجہ Unphysical Infinities کی شکل میں بار بار نمودار ہوتا ہے اس دقت کو دور کرنے کیلئے ری نار مالائزیشن کی ترکیب استعمال کی جاتی ہے.ایک کوانٹم فیلڈ تھیوری کے ری نارما لا ئزیشن ہونے کے قابل کا مطلب یہ ہے کہ اس تھیوری میں جو بار بار بے ضابطہ لامتناہیات Infinities آتی ہیں ان سے بچا جا سکے.تا کہ اس تھیوری کو کسی طبیعی جا خاصیت کی کیل کلولیشن میں استعمال کیا جا سکے، اور جوابات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ تجربات کر کے حاصل ہونے والے نتائج سے ان کا موازنہ بھی کیا جا سکے.۱۹۴۹ء میں فائن مین - شونگر.ٹومونا گا.اور ڈائی سن سائینسدانوں نے کو اہم الیکٹرو ڈائنامکس QED کی تشکیل مکمل کر لی تھی.یہ تھیوری نظری طبیعات میں سب سے زیادہ کامیاب مانی جاتی تھی.اس تھیوری کے ری نار مالائز ہونے کا مکمل ریاضیاتی ثبوت عبد السلام نے مہیا کیا تھا.اس کے بعد عبد السلام اور میتھیوز P.T.Mathews نے میسان تھیوریز کے ری نار مالا ئز ہونے کی قابلیت کو پر کھا اور یہ معلوم کیا کہ زیرو سپین zero spin والے میسان پارٹیکلز کیلئے یہ نظریہ ری نار مالائز ہو نے کے قابل ہوتا ہے اس وقت جو میسان پارٹیکلز ہمیں معلوم تھے ان کی یہی خاصیت تھی.(۲) دو اجزائی نیوٹرینٹو کا نظریہ عبد السلام کے دوسرے اہم کام کا تعلق پارٹیکلز فرکس میں پیرے ٹی کے تصور سے ہے پیرے

Page 269

(۲۶۰) نی Party سے مراد اس عمل سے ہے جو کسی وہ تھے اور آئینے میں اس کے عکس کی یکسانیت یا سیمٹری کے تعلق کو بیان کرتا ہے.۱۹۵۶ء تک خیال تھا کہ مدت نے دائیں اور بانہیں میں کوئی بنیادی فرق نہیں رکھا ہے اور تمام قوانین فطرت پیرے ٹی برقرار رکھنے نا شرط کے پابند ہوں گے.اس کا نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ جب ایک ریڈیو ایکٹو اپنے نیوکلیس سے بیٹا پارٹیکل یعنی الیکٹران کو خارج کر کے زوال پذیر ہوتا ہے اور ساتھ میں نیوٹرینو بھی خارج ہوتے ہیں تو پیرے ٹی برقرار رکھنے والی شرط کے تحت اس بات کا احتمال کہ یہ ذرات نکلتے وقت بائیں طرف یا دائیں طرف گھومیں گے یہ برابر ہو گا ، ۱۹۵۶ء میں امریکی شہریت والے ماہر طبیعات دان لی اور یانگ نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ضعیف نیوکلئیر قوتوں کیلئے پیرے ٹی کا قانون من سب نہیں ہے.لہذا اوپر والی مثال میں دائیں اور بائیں طرف گھومنے والے الیکٹران کی تعداد برابر نہ ہو گی.اگلے سال یہ بات لیبارٹری میں ثابت ہو گئی اس بارہ میں سوئزرلینڈ کے طبیعات دان وولف گانگ پالی نے کھا تھا کہ ایسا لگتا هے که خدا بائیں ها ته والا هے؟ ڈاکٹر سلام کے نزدیک پیرے ٹی وائیولیشن برقرار رکھنے کے اصول کے ٹوٹنے کی وجہ سے قانون فطرت میں جو بدشکلی پیدا ہوتی ہے اس کا کوئی نہایت بنیادی جواز ہونا لازمی ہے.تا کہ یہ بد شکلی قابل قبول بن سکے.انہوں نے اس طرف توجہ دلائی کہ کسی نے نیوٹرینڈ کے زیرو ماس zero mass ہونے کی کوئی وجہ نہیں پیش کی ہے.تب انہوں نے ۱۹۵۷ء میں نیوٹرینو کے متعلق نیا نظریہ پیش کیا کہ یہ پارٹیکل اس خصوصیت کا حامل ہے کہ اس کی ایک مخصوص Helicity ہے ( یعنی گھومتے وقت یہ صرف ایک ہی مخصوص سمت میں گھومتا ہے ) اس کے نتیجہ میں نہ تو اس میں کمیت ہوتی ہے اور نہ ہی یہ پیرے ٹی کے اصول کو مانتا ہے.نیوٹر مینو کا یہ نظریہ Two Component Theory of Neutrino یا پھر کا ئرل سیمٹری chiral symmetry کہلاتا ہے.یہی بات ۱۹۵۷ء میں روسی سائینسدان لینڈ اؤ Landau اور الگ سے یانگ اور لی سائینسدانوں نے بھی ثابت کی.اس تصور کو بڑھانے کے بعد و یک انٹر ایکشن کا موجودہ نظر یہ قیام میں آیا.

Page 270

(۲۶۱) مقام افسوس هے کہ یانگ اور لی کو اس ریسرچ کے کام کی بناء پر نوبل پر ائز سے نوازا گیا جبکہ ڈاکٹر سلام کو نظر انداز کر دیا گیا کیونکہ وہ کم عمر تھے اوران کا تعلق تیسری دنیا سے تھا.(۳) ذرات کی یکسانیت اوپر بیان کردہ کام کے بعد انہوں نے اس بات کی طرف توجہ دی کہ کیا یہ تمام بنیادی ذرات بنیادی کہلائے جاسکتے ہیں ؟ یا ان میں سے کچھ دوسروں کی نسبت زیادہ بنیادی ہیں؟ ان پیچیدہ سوالات کے جوابات کی تلاش کے سلسلے میں انہوں نے بنیادی ذرات کے یکساں خواص symmetry properties پر بڑا زور دیا اور فیملی گروپ کی تلاش کی تاکہ معلوم ہو کہ اگر ایک ذرہ پایا جا تا ہے تو دوسرے ذرات جو سیکٹری پرنسپل کے تحت اس فیملی گروپ میں شامل ہوں گے ان کے متعلق پیش گوئی کی جاسکے.(۴) یو نیٹری سیمٹری اس سلسلہ میں جاپانی سائینسدان او بنو کی Ohnuki نے ۱۹۶۰ء میں : رات کے مابین یو نیٹری او کی سیمٹری کے نظرے کو اجاگر کیا.ڈاکٹر سلام نے اس نظریہ کی پر جوش حمایت کی اور مسٹر وارڈ Ward کے ساتھ مل کر ۱۹۶۱ء میں آٹھ ذرات پر مشتمل ذرات کے ایک نئے خاندان (جن کی اسپن واحد ہے ) کی پیش گوئی کی.یہ ذرات کچھ ماہ بعد تجربات سے دریافت ہو گئے ، اسی زمانے میں عبد السلام کے ماتحت کام کر نیوالے اسرائیلی سائینسی محقق یوال نی مان نے یہ ثابت کر دیا کہ اہم بنیادی ذرے پروٹان، نیوٹران بھی اسی طرح کے ہشت پہلو یعنی Eight fold سیمٹری کے ایک خاندان میں شامل ہیں.امیر یکہ میں مرے جیل مان Cellman نے اس طرح کے نظرے کو استعمال میں لا کر اومیگا مائی نیں ذرے کی پیش گوئی کی جو کہ ۱۹۶۴ء میں دریافت ہو گیا اور اس طرح یو نیٹری سیمٹری نظرئے کی تجرباتی تصدیق ہوگئی اور بعد میں یہ اور ترقیوں کا ذریعہ بنا.مثلاً عبدالسلام نے رابرٹ ڈل بورگو اور جان سٹراھد کی Stradthee کے ساتھ مل کر زمان اور مکان کی فور ڈائی مینشنز کو استعمال کر کے Symmetry pattern دریافت کیا.

Page 271

(۲۶۲) (۵) گیج وحدت کا نظریہ اس کے بعد انہوں نے نیوٹر نیو کیلئے اپنی کا کرال سیمٹری کے نظرئے کو بڑھا کر اس کو الیکٹران اور میو آن پر بھی لاگو کیا.چونکہ الیکٹران اور میو آن کی کمیت صفر نہیں ہوتی اسی لئے شروع میں ری نارملا ئزیشن برقرار رکھنے کیلئے تو یہ ذرات صفر مقدار مادے کیلئے جاتے ہیں.بعد میں سیمری ٹیا از خود شکستگی spontaneous symmetry breaking کی مدد سے غیر صفر کمیت ظہور میں لا کی جاتی ہے ان : رات کی کا ئرال سیمٹری chiral کا ایک نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ویک نیوکلئیر فورس کے ماتحت زوالوں pecay کیلئے اسپین واحد بوسان ( وہ ذرات جن پر بوس، آئن سٹائن شماریات لاگو ہوتی ہے اور جو کہ Intermediate vector bosons کہلاتے ہیں کے تبادلے کی ضرورت ہوتی ہے.ان ذرات کی کمیت بہت زیادہ ہونی چاہئے کیونکہ ویک فورس کا دائرہ عمل یعنی Range بہت کم ہوتا ہے اس کے برعکس برق مقناطیس تفاعل کیلئے فوٹان کے تبادلے کی ضرورت ہوتی ہے (اس قوت کا دائرہ عمل بہت دور تک ہوتا ہے ) بوسان اور فوٹان کے اس فرق کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کوانٹم الکٹرو ڈائی نامیکس QED کا نظریہ تو مقامی گیج یعنی locally guage invariant کی صفت رکھتا ہے اور ری نار ما !! ئزیشن کے قابل ہوتا ہے مگر ضعیف تفاعل کے (نظریہ کی غیر صفر کمیت کی وجہ سے ) میں یہ صفت نہیں ہوتی ہے.۱۹۵۹ء میں عبد السلام اور وارڈ اور الگ سے گلیشا ؤ نے ان نظریات کو استعمال کر کے ویک نیو کلئر فورس اور برق مقنا طیس کو یک جا کرنے کے تصور کو عملی جامہ پہنانے میں کافی ترقی کی.بعد میں ۱۹۶۱ء میں گلیشا ؤ اور ۱۹۶۴ء میں عبد السلام اور وارڈ دونوں نے برق مقناطیس کرنٹ اور و یک نیوٹرل کرنٹ اور ان سے متعلق صحیح نظریات کی اہمیت پر زور دیا.اس دوران عبد السلام نے ڈاکٹر سٹیون وائن برگ کے ساتھ مل کر ان ہی مسائل سے متعلق ایک مشہور تھیورم کا ثبوت مہیا کیا یہ گولڈ اسٹون تھیورم کہلاتا ہے اس تھیورم کے تحت از خود شکستہ سیمٹری کی وجہ سے زیرو اسپن کے ذرات کا ظہور پذیر ہونا ضروری ہوتا ہے جبکہ ایسے ذرات کی تجرباتی تصدیق نہیں

Page 272

(۲۶۳) ہے.اس دشواری سے نکلنے کا راستہ امپیرئیل کالج لندن کے کئی ریسرچرز کے مشترکہ کاوشوں سے مل گیا.یہ Higgs Mechanism کہلاتی ہے.آخر کار ۶۸.۱۹۶۷ء کے دوران عبد السلام اور وائن برگ نے الگ الگ ریسرچ کر کے از خود شکسته گیج نظر یہ مکمل کر لیا جو کہ (1)SU(2) XU) کہلاتا ہے جو کہ دو بنیادی قوتوں یعنی و یک نیوکلئیر فورس اور برق مقناطیس کو ایک ثابت کرتا ہے اس میں ایک پیرا میٹر کی مدد سے دونوں قوتوں سے متعلق تمام طبعی واقعات کو بیان کیا جا سکتا ہے.اس طرح وحدت کا پرانا خواب جزوی طور پر پورا ہو جاتا ہے اس تحقیقی کام کی بناء پر عبد السلام ، وائن برگ اور گلیشا و کو۱۹۷۹ء میں فزکس کا نوبل انعام دیا گیا.۱۹۷۰ء میں گلیشا ؤ اور ان کے ساتھ کام کرنیوالے محققوں نے چار قسم کے کوارک کو استعمال کر کے ہیڈران ذرات کو بھی اس تھیوری میں شامل کر دیا اس کا ثبوت ڈچ سائنسدان ٹی ہوفٹ T Hooft نے مہیا کر کے اس میدان میں تحقیقی کاموں میں جان ڈال دی اور ماہرین طبیعات اس نوع کے نظریات پر مزید تحقیق گرم جوشی سے کرنے لگے.(۶) و یک نیوٹرل کرنٹ او پر پیش کردہ نظرے کے ماتحت فوٹان کے علاوہ ایک نئے ذرے نیوٹرل وکٹر بوسان کا ہونا بھی ضروری ہے.جو کہ لیپٹان ذرات اور کوارک ذرات سے منسلک ہوتا ہے.اور و یک نیوٹرل کرنٹ کا باعث ہوتا ہے.اسی طرح سے ویک چارج کرنٹ W ذرات کے تبادلے کی وجہ سے ہوتے_ +W ذرات کا ہونا پہلے سے سوچا جارہا تھا مگر 2 ذرے کی پیش گوئی عبد السلام اور وائن برگ کی دین ہے اس کے علاوہ اس نظرے نے ان ذرات کی کمیتوں کے متعلق بھی ٹھوس پیش گوئی کر دی.۱۹۷۳ء میں جینیوا (سوئزرلینڈ) کی تجربہ گاہ CERN میں ویک نیوٹرل کرنٹ دریافت ہوگئی اور اس سے علم طبیعات کی دنیا میں جہل کا بچ گیا اور وحدت کے نظریات کے انداز فکر میں جان پڑ گئی.بعدہ اس طرح کے نیوٹرل کرنٹ کی تجرباتی تصدیق امریکہ کی مختلف لیبارٹریز جیسے فرمی لیب.(شکا گو) بروک ہیون Brookhaven.اور SLAC میں بھی ہو گئی اس طرح سے وحدت کے اس تصور میں کشش زیادہ سے

Page 273

(۲۶۴) زیادہ ہوتی گئی.۱۹۸۳ء میں جینیوا کی تجربہ گاہ سرن میں دو ٹیموں نے ۲۷۰.ارب الیکٹران وولٹ GEV 270 کی طاقت والے پروٹان ذرات کو اتنی ہی طاقت رکھنے والے اینٹی پروٹان ذرات سے تصادم کرا کے +W اور 2 ذرات کی تجرباتی تصدیق کر دی اور ان ذرات کے متعلق اور ان کی صفات کے متعلق پیش گوئیوں کو صحیح ثابت کر دیا.(۷) وحدت عظمی اس کے بعد عبد السلام نے بنیادی قوتوں کی وحدت کے زینے پر اگلا قدم رکھا.یعنی د یک برقی نظر (1) (2)SU کوسٹرانگ نیوکلئر فورس سے ملانے کے کوشش کی.یہ عمل گرینڈ یونی فی کیشن کہلاتا ہے اور ایسے نظریات G.U.T کہلاتے ہیں.سٹرانگ نیوکلئر فورس یا کوار کس Quarka کے درمیان قوت کا گیج نظریہ (3)SU گروپ کا حامل ہے کیونکہ کوارکس تین قسم کے رنگین چارج رکھتے ہیں.یہ نظریہ جو ان تینوں رنگوں کو گیج نقطہ نظر سے دیکھتا ہے.یہ Quantum Chromodynamics کہلا تا ہے.اس گرینڈ یونی فیکیشن کے سلسلہ کو آگے بڑہانے میں عبد السلام اور یو نیورسٹی آف میری لینڈ (بالٹی مور امریکہ ) کے پروفیسر جو گیش پتی Pati نے ۱۹۷۳ء میں ایک بڑا اہم قدم اٹھایا.انہوں نے لپٹان ذرات کو کوارکس کے ساتھ ایک یونی فائینگ گروپ میں ساتھ ساتھ رکھا.گو یا لپٹان ذرات کو ارکس کیلئے چوتھے رنگ کی طرح ہیں اسی طرح کے کام کو جارجی.گلیشا ؤ.کوئین اور وائن برگ نے بھی آگے بڑہایا.اس انداز فکر کے تحت یہ اندازہ لگایا گیا کہ کائینات کے ارتقاء کے شروع میں ایک بہت بڑی طاقت GE 13 10 ) پر یہ تمام فنڈ مینٹل فورسز ایک ہی پیمانے کی ہوتی تھیں.اور اس طرح سے وحدت کی لڑی میں پروئی ہوئی تھیں.اور وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ یہ طاقت کم ہوتی جاتی ہے عام حالت میں یہ متینوں قو تیں الگ الگ سمجھی جاتی ہیں (۸) پروٹان کا زوال پذیر ہونا

Page 274

(۲۶۵) ڈاکٹر عبد السلام کی ایک زبر دست پیش گوئی یہ تھی کہ پروٹان زوال پذیر ہے.ان کے اس نظرے کے ماتحت اب بیرے یان نمبر اور لپٹان نمبر کا الگ الگ برقرار ہونا ضروری نہیں رہتا ہے.بلکہ ان کا مجموعہ برقرار رہتا ہے یعنی اس نظرے کے تحت بیرے بان ذرات لپٹان میں تبدیل نہیں ہو سکتے.اس کا ایک اہم نتیجہ یہ ہے کہ پروٹان قائم اور دائم ذرہ نہیں ہے بلکہ زوال پذیر ہے.یعنی ہر مادہ خود ایک عرصہ کے بعد زوال پذیر ہو جاتا ہے پروٹان کے زندہ رہنے کا عرصہ بہت لمبا ہے ورنہ قیات کبرای شاید بالکل نزدیک ہو جاتی.اس نظرے کی اس اہم پیش گوئی کو پر کھنے کے لئے دنیا کے کئی ایک ممالک میں پروٹان کے زوال کا مشاہدہ کر نے کی کوششیں ہو رہی ہیں جیسے بھارت میں کولار گولڈ فیلڈز کے اندر ٹیسٹ کئے جارہے تھے.عبد السلام کے علاوہ کچھ اور سائینسدانوں نے بھی پروٹان کے زوال پذیر ہونے کی پیش گوئی کی ہے امید کی جاتی ہے کہ ڈاکٹر سلام کا یہ اہم نظریہ جلد یا بدیر صحیح ثابت ہو جائے گا.اس تجربہ کا نام Proton Stability Experiment ہے.(۹) مادی کشش کی قوت کی اہمیت بنیادی ذرات میں مادی کشش کی قوت کو عام طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے کیونکہ اس انٹر ایکشن کی شدت بنیادی ذرات کے لئے بہت کم ہے لیکن عبد السلام اور کچھ دوسرے ماہرین طبیعات کا خیال ہے کہ تمام بنیادی طبعی اعمال کو مکمل طور پر سمجھنے کیلئے مادی کشش کی قوت کو بھی شامل کرنا ضروری ہے.ورنہ صرف قدرت سے متعلق نظریاتی تصویر ادھوری رہ جائیگی ، بلکہ نامکمل نظرے کے اندرونی تضاد کی بنیاد پر لامتناہیات سے چھٹکارا نہیں مل سکے گا.گرینڈ یونی نی کیشن کے نقطہ نظر میں یہی کمی ہے کہ وہ چوتھی بنیادی قوت یعنی گریویٹی کو شامل نہیں کرتا ہے.جو نظریہ ان چاروں قسم کی بنیادی قوتوں کو متحد کر نیکی کوشش کرتا ہے.وہ سپر یونی فی کیشن کہلاتا ہے.یادر ہے کہ اسپلیس اور ٹائم ( زمان و مکان) کی چار ڈائی مین شنز کی جیومیٹری کی صفات سے

Page 275

(۲۶۶) مادی کشش کی قوت کا اور اک ہوتا ہے.اس قوت کے علاوہ بقیہ تین قوتوں کا جو گیج نظریہ ہے اس میں مقامی اور داخلی سیمٹری کا دخل ہے اور ان دونوں طرح کے نظریوں کو یکجا کر نیکا کام یقینا آسان نہیں ہے.اور موجودہ طبیعات کے بے حد بنیادی سوالات میں سے ایک ہے.(۱۰) سپر سیمٹری گریوی ٹی کے نظرے کی بنیاد ایک اور نئی اور بنیادی یکسانیت پر ہے جس کو سپر سیمری کہتے ہیں یہ ایک ایسی یکسانیت کا تصور ہے جس میں فرمی ذرات Fermions یعنی وہ ذرات جن کی اسپن نصف اکائی ہوتی ہے اور بوس 800 ذرات یعنی بوسان Bosons یعنی وہ ذرات جن کی اسپن پوری اکائی ہو تی ہے ساتھ ساتھ ایک ہی زمرے میں لئے جاتے ہیں.اور اس طرح سے فرمی ذرات اور بوس ذرات کا ایک دوسرے میں تبدیل ہونا ممکن ہو جاتا ہے.اس سپر سیمٹری کی شرط اگر گلوبل سے کم کر کے لوکل کر دی جائے تو نئی گیج فیلڈ اور نئے ذرات حاصل ہو جاتے ہیں.سپر سیمٹری کی بڑی خاص بات یہ ہے کہ بار بار سیمٹری کے عمل کو دوہرانے سے فرمی یان اور بوسان کو ایک نقطہ سے دوسرے نقطہ پر منتقل کیا جا سکتا ہے.ایسی ایپلیس اور ٹائم والی سیمٹری Paincare symmetry کہلاتی ہے جو مادی کشش کی حامل ہوتی ہے اس طرح یہ ممکن ہو جاتا ہے کہ مادی کشش کو اور دوسری قوتوں سے ملایا جا سکے.یہی نظریہ سپر گر یو ٹی کہلاتا ہے.سپر گریوے ٹی میں مادی کشش کو انٹم فیلڈ کی زبان میں بیان کیا جاتا ہے.اس کے علاوہ یہ نظریہ جیومیٹری کی زبان میں بھی بیان کیا جاسکتا ہے.ایسا کرنے کیلئے Coordinates اور dimensions کی ضرورت ہوتی ہے ان نقطوں کے مکان کو سپر اسپیس super space کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے.عبد السلام اور جان سرادھی Stradthee نے ۱۹۷۴ء میں اس طرح کے مکان اعلیٰ کو استعمال کر کے اعلیٰ قوت کشش کا نظریہ پیش کیا اور کئی مقالے لکھے.الیکٹرو و یک تھیوری کی تشریح درج ذیل مضمون میں نیو یارک ٹائمز کے مضمون نگار Malcom Brown نے الیکٹرو

Page 276

(۲۶۷) دیک تھیوری کی تشریح بیان کی ہے یہ مضمون انہوں نے ڈاکٹر عبد السلام کی وفات پر نومبر ۱۹۹۶ میں لکھا تھا ڈاکٹر سلام نظری طبیعات میں دھوم مچانے والی تحقیقات کرنے کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک کے طلباء کی علم طبیعات تک رسائی ہو سکنے کی عالمی کوششوں کے ایک عظیم رہ نما تھے آپ نے دو امریکن سائینسدانوں کے ساتھ مل کر حسابی فارمولے وضع کئے جن برقی مقناطیست ، اور کمزور نیوکلیائی قوت میں با ہمی ربط ثابت ہو گیا اس کو سیمٹری کہتے ہیں یادر ہے کہ برقی مقناطیسی طاقت روشنی اور دیگر اقسام کی ریڈی ہے جبکہ کمزور نیوکلیائی قوت ایٹم کے ایشن کے ذریعہ اپنا اظہار کرتی مرکزے کے اندر اپنا اظہار کرتی کے radioactive decays ہوتے ہیں.ہے اس کی وجہ سے بعض اقسام ماہرین طبیعات کا اندازہ ہے کہ آج سے تقریبا ۱۵ بلین سال پہلے کائینات کا آغاز آگ کے گولے جیسے ایک وجود میں ایک عظیم دھماکے سے ہوا.ابتدائی وقت میں فطرت میں سیمٹری نے تمام بنیادی طبعی قوتوں کو ایک طاقت کی صورت میں یکجا رکھا ہوا تھا.جیسے جیسے اس کا درجہ حرارت کم ہوتا گیا یہ سیمٹری ٹوٹ گئی اور مختلف طبعی قوتوں نے الگ الگ صورت اختیار کر لی.ڈاکٹر سلام سیمٹری کے ٹوٹنے کی تشریح اس مثال سے دیا کرتے تھے کہ فرض کریں کہ کھانے کی میز پر مہمان گول میز کے گرد بیٹھے ہیں.ہر دو مہمانوں کے درمیان سلاد کی ڈش رکھی ہوئی ہے.تو ہم کہیں گے کہ میز پر سلاد سیمری کے ساتھ رکھا گیا ہے.اب اگر کوئی شخص اپنے دائیں یا بائیں طرف سے سلاد کی ڈش اٹھا لے تو ہم کہیں گے کہ سلاد کی ڈشوں کی سیمٹری ٹوٹ گئی اس کا اثر دوسرے مہمانوں پر بھی ہو گا.اور وہ اپنی مرضی کے مطابق اپنے دائیں یا بائیں طرف سے سلاد کی ڈش کے انتخاب کے حق سے محروم ہو جا ئیں گے.خفیف نیو کلیائی قوت کی سیمٹرکی ٹوٹنے سے ایسے تعاملات پیدا ہوتے ہیں جن میں بائیں پن کے رجحانات پائے جاتے ہیں.بائیں پین کا رجحان ڈاکٹر سلام - گلیشا ؤ.اور وائن برگ سائینسدانوں نے یہ ثا بت کر دیا کہ گو بظاہر کمزور نیوکلیائی

Page 277

(۲۷۸) قوت اور برق مقناطیس قوت ایک دوسرے مختلف نظر آتی ہیں لیکن ان میں ایک چھپی ہوئی سیمٹری مشترک ہے.جو نہایت مشکل ریاضیاتی فارمولوں کی مدد سے ثابت کی جاسکتی ہے مگر دقت یہ تھی کہ ان فارمولوں کو حل کرنے کے بعد جو ریاضیاتی جواب حاصل ہوتے تھے وہ بے معنی ہوتے تھے.چنانچہ ریاضیاتی طریقے وضع کر کے ان فارمولوں کو ری نار مالائز کیا گیا.یعنی ان کا بے معنی پن دور کیا گیا یہ ایک بہت ہی مشکل کام تھا جو احسن طریق سے انجام پایا.ڈاکٹر سلام کے ساتھ نوبل انعام میں شریک سائینس دان ڈاکٹر گلا شو Glashow نے ایک انٹر دیو میں بتلا یا کہ ۱۹۶۰ ء میں انہوں نے اپنا تحقیقی مقالہ کو پن ہیگن میں پیش کیا جو ان کے نزدیک ذراتی طبیعات کے اسٹینڈرڈ ماڈل کا پیش خیمہ ہو سکتا تھا.مگر اس مقالے پر سب متفق نہ ہوئے بلکہ ایک ماہ بعد سلام نے یہ ثابت کر دیا کہ میں بلکل غلط تھا اس طرح اس موضوع پر تحقیق آگے بڑھتی رہی تا وقتیکہ ان تینوں سائینس دانوں نے الگ الگ کام کرتے ہوئے ایک جیسے نتائج حاصل کر لئے.ان میں ایک نتیجہ یہ تھا کہ خفیف نیو کلیائی قوت اپنا اثر ایسے ذرات کے ذریعہ ایک جگہہ سے دوسری جگہہ پہنچاتی ہے جو ابھی تک لیبارٹری میں دریافت نہ ہوئے تھے ان کوweak vector bosons weak vector bosonsor کہا جاتا ہے ان مجوزہ ذرات کو ڈبلیو پلس اور ڈبلیو ما ئینس، اور زیرو کے الگ الگ نام دئے گئے تھے.یہ مفروضہ ذرات فوٹان پارٹیکلز جیسا کام کرتے ہیں جن کے ذریعہ برق مقنا طیس قوت کی ترسیل ہوتی ہے.چنانچہ اس کے بعد ان ذرات کی دریافت کے بارہ میں دیو قامت accelerators میں دوڑ شروع ہو گئی یہ دیو قامت ایکسل لیٹر سید ھے یا دائرے میں بنی ہوئی میلوں لمبی سرنگیں ہوتی ہیں، جن میں خاص انداز میں مقناطیس لگے ہوتے ہیں ان کے اندر دو مخالف سمتوں سے بنیادی ذرات کو برق رفتاری سے چلا کر ایک درمیانی جگہہ پر آپس میں ٹکرا کر مزید نئے ذرات پیدا کئے جاتے ہیں.اور پھر ان سے نتائج اخذ کئے جاتے ہیں.۱۹۸۳ء میں ڈاکٹر کا رلورو بیا Carlo Rubia کی سربراہی میں تجربہ کر نیوالے تین سو سے زائد سائینس دانوں کے گروپ نے جینیوا میں موجود CERN لیبارٹری میں ڈبلیو ذرات دریافت کر لئے اور

Page 278

(۲۶۹) اگلے سال انہوں نے زیر و یعنی 2 ذرہ کی موجودگی بھی ثابت کر دی اس کے ذریعہ و یک نیوٹرل کرنٹ ثابت ہوگئی جو ایٹم کے مرکزہ کے اندر کام کرتی ہے.چنانچہ نوبل انعام دینے والی کمیٹی نے کا رلورو بیا اور سائمن وین ڈر میر Van der Meer کو ۱۹۸۴ ء کا نوبل انعام کا حقدار قرار دیا.اس طرح ڈاکٹر عبد السلام کی الیکٹرو و یک تھیوری نہایت شاندار طریق سے حتمی طور پر ثابت ہوگئی.(میلکم براؤن Malcom Brown.نیو یارک ٹائمنر.۲۳ نومبر ۱۹۹۶ ).(یادر ہے ڈاکٹر سلام نے تھیورنیکل فزکس میں بہت سارے نئے الفاظ کو رواج دیا تھا جیسے سپیر پیس، پیر سیمٹری.نیز الیکٹرو و یک تھیوری کا نام بھی انہوں نے ہی وضع کیا تھا).STOP ڈاکٹر عبد السلام کا تاریخی و یڈیو - 1 نٹر نیٹ پر اگر آپ ڈاکٹر عبد السلام کا تاریخی انٹرویو انٹرنیٹ پر دیکھنا چاہتے ہوں تو اس ایڈریس کو اپنے کمپیوٹر پر ٹاپ پر کریں ، اور آگے دی ہوئی ہدایات ہر عمل کریں: HTTP://WEBLIB.CERN.CHGO TO THE QUICK SEARCHBOX, TYPE IN 'THE GENEVA EVENTTHEN CLICK ON SEARCH, CLICK ONWATCH THE MOVIE یہ ویڈیو تھیں منٹ کا ہے.میں منٹ کے بعد ڈاکٹر صاحب کا انٹر ویو آتا ہے.یہ انٹر ویو ا۲ جنوری ۱۹۸۳ کولیا گیا تھا ، جب ان کی تھیوری کا سرن ( یوروپین لیبارٹری فار نیوکلیر ریسرچ ، جیوا) کی لیبارٹری میں تجرباتی ثبوت مل گیا تھا.جن سائینسدانوں نے اس دریافت میں حصہ لیا تھا ان کو ۱۹۸۴ء میں نوبل انعام ملا تھا.ویڈیو ضرور دیکھیں ، ویڈیو دیکھ کر دل کا کنول کھل جاتا ہے.

Page 279

(۲۷۰) ڈاکٹر عبد السلام کی زمین شکن تھیوری ان کے اپنے الفاظ میں کہے ابھی بیس بائیس سال پہلے تک طبیعات کے عالموں کو یقین تھا کہ دنیا میں چار بنیادی تو انا ئیاں ہیں انہیں نقلی توانائی (یعنی گریوی ٹیشن)، برق مقناطیسی توانائی ، اور دو طرح کی نیوکلیائی توانائی یعنی خفیف اور شدید (ویک اور سٹرانگ نیو کلئر فورسز ( سے تعبیر کیا جاتا رہا.یہ سب ہی جانتے ہیں کہ یہ چاروں تو انائیاں ایک دوسرے میں تبدیل ہو سکتی ہیں مثلاً نقلی توانائی برق مقناطیس میں تبدیل ہو سکتی ہے جس کی ایک مثال پانی سے بنے والی بجلی ہے.شدید نیوکلیائی توانائی برق مقناطیس میں تبدیل ہو سکتی ہے جس کی مثال سورج کے قلب سے نکلی ہوئی برق مقناطیسی شعاعیں ہیں.تقریباً بیس سال ہوئے جب میں نے اور میرے ساتھیوں نے یہ رائے بیان کی کہ خفیف نیو کلیائی اور برق مقناطیس قوتوں کی ماہیت ایک ہی ہے.اسکا مطلب صرف یہی نہیں تھا کہ یہ دونوں قو تیں ایک دوسرے میں تبدیل ہو سکتی ہیں.بلکہ بات تو اس سے آگے کی تھی.ہماری رائے یہ تھی کہ ان دونوں قوتوں میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے.ہمارا خیال تھا کہ اگر تجربہ گاہ میں مناسب حالات پیدا کئے جائیں تو ان کی وحدانیت جو عام طور پر پوشیدہ رہتی ہے، وہ عیاں کی جاسکتی ہے.ہمارے نظریہ کے صحیح ہونے کا پہلا اشارہ ۱۹۷۳ء میں ملا جب جیلیوا کی عظیم یوروپین نیوکلئیر ریسرچ لیبارٹری سرن میں اس نظریہ کی بنیادی کڑی یعنی نیوٹرل کرنٹ کے وجود کی شہادت تجربات سے ملی اس کے بعد ۱۹۷۸ء میں امریکہ میں سٹین فورڈ لیٹیئر ایکسیل لیٹر پر کئے گئے تجربات نے نہ صرف ہمارے نظریہ کی صداقت کا حتمی ثبوت فراہم کر دیا بلکہ اس کے دوسرے اہم اور بنیادی پہلو کی تصدیق بھی کر دی.ان تجربات سے ہماری یہ پیش گوئی صحیح ثابت ہوئی کہ برق مقناطیسی و خفیف نیوکلیائی قوتیں فی الحقیقت ایک ہی ہیں اور یہ کہ ان کے انضباط میں ایک اور چار ہزار کی نسبت ہوتی ہے.ان باتوں کی

Page 280

(۲۷۱) مزید تصدیق پروفیسر بار کو Barkov کی سربراہی میں نووسی برسک Novosi Birsk میں کئے گئے تجربات سے بھی ہو گئی.میں ان دونوں اور دوسری بہت سی بڑی بڑی تجر با گاہوں کی خدمت میں خراج عقیدت پیش کرنا چاہتا ہوں جہاں یہ ثابت کر دیا گیا کہ خفیف نیوکلیائی قوت اور برقی مقناطیسی قوت کی حقیقت ایک ہے.آگے کا مرحلہ یہ دیکھنا ہے کہ تیسری یعنی شدید نیوکلیائی قوت بھی اس وحدت کا ایک حصہ ہے.اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ہم نے اس نظریہ کو پیش کیا ہے اور ساتھ ہی کچھ ایسے تجربات بھی تجویز کئے ہیں جن سے اس نظریہ کی تصدیق ہو سکے.یہ تجربات امریکہ، یوروپ، اور ہندوستان میں شروع ہو چکے ہیں.اگر ان تجربات سے مثبت نتائج بر آمد ہوئے تو انشاء اللہ چند برسوں میں ہم یہ ثابت کر دیں گے کہ ہر قسم کی نیوکلیائی قوت ( اور صرف خفیف نیوکلیائی قوت ہی نہیں ) بعینہ برقی قوت ہے جو ایک ایٹم کو گرفت میں رکھے رہتی ہے.اس کے بعد آخری مرحلہ یہ رہ جائیگا کہ نقلی ، برق مقناطیسی اور نیوکلیائی قوتوں کی وحدانیت بھی ثابت کی جا سکے.اس نظریہ وحدت کا نقطہ عروج یہ ہو گا کہ وہ قوت جو چاند کو اپنے دائرہ گردش میں رکھتی ہے اور جس کی وجہ سے سیب زمین پر گرتا ہے یعنی کشش ثقل اس وحدانیت کا ایک جزو ہے جس کے اجزاء نیوکلیائی اور برق مقناطیسی قو تیں ہیں.آج یہ بات ناممکنات میں شمار کی جاتی ہے لیکن ہمیں یقین کامل ہے کہ یہ بھی ایک دن صحیح ثابت ہو جائیگی اس نظریہ کو جس کا اشارہ آئن سٹائن کے یہاں ملتا ہے صحیح طور پر پیش کرنے اور اس کے لئے ثبوت حاصل کرنے میں شاید ابھی پچاس سال اور لگ جائیں.کتنا جی چاہتا ہے کہ اس مسئلہ کے حل کا سہرا عالم اسلام کے کسی جواں سال اور جواں فکر ماہر طبیعات کے سر بندھے.فطرت کی بظاہر غیر متعلق قوتوں کے درمیان وحدانیت کی تلاش سائینس دانوں کا مسلک ہے اور میرے لئے مسلمان ہونے کے ناطے سے جزو ایمان.اللہ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس نے مجھے توفیق عطا فرمائی اور اسکی قدرت کے راز اس طرح آشکار ہوئے.ذلک فضل الله يوتيه من يشاء

Page 281

(۲۷۲) ڈاکٹر عبد السلام کی تعلیم ان کے اپنے الفاظ میں کچھ میں جھنگ کالج میں ۱۹۳۸ء میں ۱۲ برس کی عمر میں داخل ہوا.چار سال یہاں گزارے اس زمانے میں یہ کالج انٹر میڈیٹ کالج تھا، نویں دسویں، فرسٹ ائیر ، اور سیکنڈ ائیر کی کلاسیں تھیں.کثرت ہندو طلباء کی تھی میری خوش قسمتی کہ کالج میں مجھے نہایت قابل اور شفیق استاد ملے.پرنسپل حکیم محمد حسین گجرات کے رہنے والے تھے، انگریزی کے استاد شیخ اعجاز احمد ،عربی کے شفیق استاد صوفی ضیاء الحق ، فارسی کے استاد خواجہ معراج الدین حساب اور سائینس کے مضمون اس زمانے میں ہندؤں اور سکھوں کی ملکیت سمجھے جاتے تھے.حساب کے لالہ بدری ناتھ ، اور لالہ رام لال، فزکس کے استاد لالہ ہنس راج اور کیمسٹری کے استاد لالہ نوبت رائے تھے.میرے تعلیمی کیرئیر کی بنیاد اسی کالج میں رکھی گئی میں سمجھتا ہوں کہ میری بعد کی حقیر کا میا بیاں اس کالج کی تعلیم اور میرے جھنگ کے اساتذہ کی شفقت کی مرہون منت ہیں.میرا ایمان ہے کہ استاد کی شفقت اور اس کی توجہ کی نگاہ شاگرد کو آسمان تک پہنچا دیتی ہے اس توجہ کی ایک مثال عرض کروں فرسٹ ائیر کے دوران میں نے انگریزی کے بہت سے نئے اور خوبصورت الفاظ سیکھے.پسند آئے اور میں اپنی تحریر میں ان مشکل اور بعض اوقات متروک الفاظ کا بے تکلف اور بے محل استعمال کرنے لگا.استاد گرامی جناب شیخ اعجاز احمد صاحب نے کئی بارٹو کا، تنبیہ فرمائی.میری طرف سے تعاون نہ ہو ا سہ ماہی کا امتحان آیا شیخ صاحب نے پر چہ مارک فرمایا ، ہر متروک اور بے محل لفظ کے استعمال پر فی لفظ پانچ نمبر کے حساب سے نمبر کاٹ لئے ، ظاہر ہے میر اٹوٹل صفر کے قریب پہنچ گیا.پھر اسی پر اکتفا نہ کی.کلاس میں میرا پر چہ لائے اور ہر ہر غلط لفظ کا تذکرہ ساری کلاس کو سنایا.اس کے بعد پر چہ میرے حوالے کیا اس پر تحریر تھا: ترسم نہ رسی کعبہ اے اعرابی کیس راه که میروی تبرکستان است

Page 282

(۲۷۳) اس وقت مجھے یہ خصوصی سلوک بہت ناگوار گزرا لیکن اب غور کرتا ہوں تو یہ سراسر شفقت تھی ، نوازش تھی کرم تھا اس شاک تھراپی کا اثر یہ ہوا کہ کم از کم انگریزی میں خوب صورت لیکن بے محل الفاظ استعمال کرنے کی عادت چھوٹ گئی.میری تعلیم جہاں اسا تذہ کی مرہون منت تھی.اس سے زیادہ قبیلہ والد صاحب کی نگاہ اور ان کی دعاؤں کی مرہون منت تھی.اس زمانے میں میٹرک کا امتحان صوبہ پنجاب کے لئے ایک قسم کا اکھاڑہ ہوا کرتا تھا، جس میں مختلف اسکولوں کے پہلوان دنگل کیا کرتے تھے.خاص طور پر سناتن دھرم اور آریہ سکولوں کے طلباء اس دنگل کے نامی پہلوان تصور کئے جاتے تھے.مجھے یاد ہے جس دن میٹرک کا نتیجہ نکلا میں مگھیانہ کچہری میں قبلہ والد صاحب کے دفتر میں بیٹھا تھا رزلٹ کی کاپی دو پہر کے وقت لا ہور سے مکھیا نہ سٹیشن پہنچی.والد صاحب نے آدمی وہاں بیٹھا رکھا تھا کا پی ان کے دفتر میں لائی گئی ساتھ ہی لاہور سے مبارکبادوں کے تار آنے لگے.جس طرح میں نے عرض کیا اس زمانے میں میٹرک کا رزلٹ گویا ایک نیشنل ایونٹ event کی حیثیت رکھتا تھا.اور اسکی وجہ ہندو کمیونٹی کی علم دوستی تھی.مجھے یاد ہے میں دو بجے دوپہر سائیکل پر سوار ہو کر مگھیانہ سے جھنگ شہر واپس لوٹا.رزلٹ کی خبر جھنگ شہر میں میرے پہنچنے سے قبل پہنچ چکی تھی.چوکی پولیس والے گیٹ سے مجھے بلند دروازے کی طرف جانا تھا.مجھے ابھی تک یاد ہے وہ دکان دار جو عموما مئی کی اس تیز دھوپ کے وقت اپنے کھاٹوں پر دکانوں کے چھپروں کے سائے تلے سوئے ہوتے تھے جس وقت میں سائیکل پر وہاں سے گزرا وہ سب تعظیماً اپنی دوکانوں میں میرے آنے کے انتظار میں قطاروں میں کھڑے تھے ، ان کی اس علم نوازی کا نقشہ ہمیشہ میرے دل ثبت پر رہا ہے.لا ہور سے کیمبرج میں جھنگ سے گورنمنٹ کالج لاہور اور وہاں سے کیمبرج پہنچا.کیمبرج میں انگریز طلباء کی علم نوازی کا ایک نیا مشاہدہ ہوا.کیمبرج کے کلاس روم میں طالبعلم اس انداز سے بیٹھتے ہیں جس طرح نماز سے پہلے نمازی مسجد میں آکر بیٹھتے ہوں.لیکچرار کے آنے سے پیشتر ایک سناٹا ہوتا ہے.لیکچر کے دوران

Page 283

(۲۷۴) انگریز طالبعلم چار چار قسم کی سیاہیوں والا قلم ، لکیریں ڈالنے کیلئے رولر استعمال کر رہا ہوگا.اس کی نوٹس لینے والی کا پیاں ایسی احتیاط سے لکھی گئی ہوں گی جیسے پروفیشنل خوش نویس لکھ رہا ہو.میرے ساتھ والے طالبعلم براہ راست سکولوں سے آئے تھے عمر میں مجھ سے گو سب کم تھے لیکن ان کی خود اعتمادیوں اور ان کی امنگوں کا یہ عالم تھا جسے تحصیل کرنے کیلئے مجھے کم از کم دو سال لگ گئے.وہ ایسے ماحول سے آئے تھے جن میں ان کے سکولوں کا استاد اچھے پڑھنے والے بچوں کو یہ سمجھا کر کیمبرج روانہ کرتا کہ عزیز و.تم ایسی قوم کے فرزند ہو جس میں نیوٹن پیدا ہوا تھا.سائینس اور یاضی کا علم تمہاری میراث ہے اگر تم چاہو تو تم بھی نیوٹن بن سکتے ہو.کسے معلوم تھا کہ آپ مسلمانوں کے نیوٹن بنیں گے.مؤلف ) کیمبرج میں ڈسپلن کا انداز بھی میرے لئے نیا تھا کیمبرج میں بی اے کا امتحان آپ زندگی میں صرف ایک بار دے سکتے ہیں آپ خدانخواستہ فیل ہو جائیں تو پھر دوبارہ امتحان دینا ممکن نہیں ہوتا.ہوٹل کے ڈسپلن کا یہ عالم تھا کہ دس بجے رات تک آپ بلا اجازت کالج سے باہر رہ سکتے ہیں.دس سے بارہ بجے تک ایک پینی جرمانہ.لیکن اگر آپ بارہ بجے رات کے بعد واپس آئے تو سات دن کی gating ہوگی اور اگر سال کے دوران تین بار ایسا ہوا تو آپ کو کیمبرج سے نکال دیا جائیگا.کیمبرج میں ہر طالب علم بالغ العمر تصور کیا جاتا ہے.اپنے تمام کاموں میں وہ مکمل طور پر ذمہ دار گنا جاتا ہے.اس سے بیجا تعرض نہیں ہوتا لیکن اس کے ساتھ سزائیں بھی سخت قسم کی ہیں جنہیں ایسے طالبعلم مردانہ وار قبول کرتے ہیں.کیمبرج کا ہر طالبعلم ہاتھ سے کام کرنے کا عادی ہوتا ہے.مجھے یاد ہے پہلے روز جب میں سینٹ جانز کالج پہنچا، میں تمہیں سیر کا بکس ریلوے سٹیشن سے ٹیکسی پر تو لے آیا لیکن جب کالج پہنچ کر میں نے پورٹر کو بلایا اور کہا یہ میرا بکس ہے اس نے کہا وہ وھیل بیرو wheel barrow ہے آپ اسے لیجئے اور باقی لوگوں کی طرح اپنے کمرے میں لے جائیں.ان پرانے قصوں کی باز خوانی محض ذاتی حظ لینے کیلئے نہیں کر رہا.میں تعلیم اور علم نوازی کے موضوع پر چند گزارشات کرنا چاہتا ہوں اور اس سلسلہ میں یہ داستانیں میرے مضمون کا حصہ ہیں.(اس مضمون کا مکمل انگریزی ترجمہ مولف کتاب نے کیا جو جون ۱۹۹۰ کے ریویو آف ریلجز میں شائع ہوا تھا، یہ مضمون انٹر نیٹ پر بھی پڑھا جا سکتا ہے http://www.alislam.org/library/links/00000126.html) (ماخوذ تهذيب الاخلاق - عبد السلام نمبر.مارچ ۱۹۹۷)

Page 284

ڈاکٹر عبد السلام (۲۷۵) انگریزی اصطلاحات کا مسئلہ انگریزی کا کوئی مواد اردو میں منتقل کرنے کا مسئلہ سامنے آتے ہی کئی اور سوالیہ نشان ذہن میں ابھرتے ہیں.ایک مسئلہ تو اردو میں تعلیم کا ہے خاص طور سے جدید سائینسی علوم.اور دوسرا اردو کے رسم الخط کا.اردو میں ( جس سے میری مراد خالص معرب و مفرس اردو ہے ) تعلیم میرے خیال میں اب سائینسی علوم کے پھیلاؤ سے تقریباً ناممکن سی ہوگئی ہے.ہر سال ہزار ہا کتا بیں مختلف سائینسی مضامین پر انگریزی میں چھپتی ہیں.اسی طرح سینکڑوں کی تعداد میں معیاری رسالے، سائینسی ریسرچ، اور تنقید کے مضامین انگریزی میں چھپتے ہیں.صرف اردو پڑھا ہوا انسان اس گراں قدرا انگریزی سائینسی لڑیچر سے محروم رہ جاتا ہے.وجہ یہ ہے کہ یہ ناممکن ہے کہ اتنا بڑا اعلم کا ذخیرہ ترجمہ کر کے اردو میں منتقل کیا جائے.آتی ہے.تو پھر کیا کیا جائے؟ میں نے اس مسئلہ پر بہت غور کیا ہے ، اور میری سمجھ میں صرف ایک بات انگریزی کی بنیادی تعلیم بھی بچوں کیلئے لازم قرار دی جائے، اگر چہ اردو پر زیادہ توجہ دی جائے.اس انگریزی کی تعلیم میں پڑہائی پر زیادہ زور دیا جائے اور لکھائی پر کم.وجہ یہ ہے کہ یہ بہتر ہوگا کہ بنیادی انگریزی سیکھنے کے بعد طالب علم لکھے اپنی مادری زبان یعنی اردو میں.اس طرح وہ دنیا کا بہترین اور اہم سائینسی لٹریچر بخوبی پڑھ سکے گا.اور اس لٹریچر کو اردو میں منتقل کرنے کی ضرورت نہ رہے گی.اب رہا اردو میں لکھنے کا سوال، اس کیلئے یہ کیا جا سکتا ہے کہ انگریزی کے تکنیکی لفظ اردو میں لکھے جائیں.ان کے لئے اردو میں نئے الفاظ اختراع نه کئے جائیں.چین، جاپان اور روس نے کم و بیش بھی کیا ھے.مثلاً یہ لکھنے میں بہت سی مشکلات کا حل ہے کہ ایٹم کے اندر نیوکلئیس ہوتا ہے ( یہ جملہ کہ جو ہر

Page 285

(۲۷۶) کے اندر مرکزہ ہوتا ہے اور بر قئے باہر چکر لگاتے ہیں.یہ خالص اردو تو ہوئی مگر طالب علم کیلئے خاصی مصیبت بنی ).وجہ یہ ہے کہ اسے ہزار ہائیکنیکل ٹرم انگریزی میں پڑہنے ہی ہیں.ان کو جانے بغیر وہ نہ تو کوئی سائینسی کتاب پڑھ سکے گا اور نہ رسالے، جو سب انگریزی میں ہوتے ہیں.پھر ان ہزار ہا اصطلاحوں کو ان کی اردو اصطلاح میں یاد رکھے.اس حال میں بہت زیادہ قباحت نہیں ہے اگر شروع ہی سے بچے کو انگریزی کی اصطلاحیں لکھائی اور سمجھائی جائیں.دوسرا مسئلہ دوسرا مسئلہ اردو کے رسم الخط کا ہے، اگر آپ غور کریں تو ہمارا رسم الخط خاصا مشکل ہے.لفظ سی لیکشن کو لے لیں، کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ اس لفظ کو سیلے بلز میں توڑ کر سی لیک شدن لکھا جائے.بچے کو اردو نیز اردو لکھنے والوں کو اس طرح زبان بہت آسان لگے گی ، اور لکھنا مشکل نہ رہے گا.پھر انگریزی لکھنے کی دوسری پیچیدگیوں کو کسی حد تک امریکیوں نے کم کر دیا ہے مثلاً وہ Colour کو Color لکھتے ہیں جو کہ دونوں صورتوں میں Calar پڑھا جائیگا.کم از کم ویبسٹر ڈکشنری کی رو سے اس کی یہی آواز نکلتی ہے.چاہے آپ اسے Colour لکھیں یا Color.امریکیوں کے اس تجدیدی عمل کو دنیا میں کافی مقبولیت حاصل ہوئی ہے سوائے انگلستان کے.کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تحریر میں زبان کو آسان کرنے کا یہ تجربہ خاصا کامیاب رہا ہے اور انگریزی کے علاوہ دوسروں کیلئے انگریزی لکھنا، پڑھنا قدرے آسان ہو گیا ہے.اردو حروف کو کم کرو ایک دوسرا مسئلہ اردو کے حروف کا ہے.کچھ عرصہ پہلے مجھے کسی نے بتایا تھا کہ اردو کے ایک بڑے مشہور ادیب نے ٹیلی ویژن پر ایک ڈرامہ سیریز چلائی ، جسکا عنوان ٹیلی ویژن پر تو تا کہانی لکھا ہوا دکھایا جاتا رہا.جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں اردو میں اس نام کے پرندے کو عام طور پر طوطا لکھا جاتا ہے.ذ، ز، ظ، اورض کا فرق کس طرح اور کیونکر کسی زبان کے بچے یا زبان کے نئے سیکھنے والے کو

Page 286

(۲۷۷) سمجھایا جائے؟ اتنے سارے حروف ایک ہی قسم کی آواز کے نکلنے کیلئے صرف مشکلات ہی پیدا کرتے ہیں.کیا زبان کو آسان کرنے کیلئے ان کی تعداد کم نہیں کی جاسکتی؟ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ زبان کو آسان بنانے کیلئے امریکیوں کی طرز پر تجربات کرنے کی ضرورت ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ میرے ان خیالات کو لوگ ضرور قبول کریں گے.چونکہ زبان کلچر کا حصہ ہے اور سینکڑوں سال میں یہ ارتقائی منازل طے کرتی ہے.یہ بہت پیچیدہ مسئلہ بھی ہے مگر وقت کے بھی تقاضے ہوتے ہیں.اور ان کے تابع ہونا پڑتا ہے.اسلئے میں چاہتا ہوں کہ میری گزارشات کو لوگوں تک پہنچا ئیں اور آج کی تیز رفتار دنیا میں جو رخ ست رفتاری اور مشکلات کی طرف لے جا رہا ہو اس کو موڑنے کی کوشش کی جائے.شاید کچھ لوگ رومن رسم الخط کی طرف جانے کی بھی سوچ رہے ہوں، جیسا کہ اس صدی کی پہلی چند دہائیوں میں ترکی کے ملک میں ہوا تھا.مگر میرے خیال میں وہ بہت انقلابی قدم تھا اس لئے اس سے گریز بہتر ہے.بڑے لفظوں کو ٹکڑوں میں توڑنے اور اردو حروف کم کرنے کا تجربہ اگر شروع کیا جائے تو بہتر ہو گا.آخر میں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ زبان کے معاملے میں کسوٹی لوگ ہوتے ہیں.جو کچھ مقبول عام ہو جائے بلکہ بازار میں جو مقبول ہو جائے وہ ٹھیک ہوتا ہے اس لئے شاید غلط العام فصیح کی اصطلاح مشہور ہے.کیا یہ ممکن ہے کہ سوچ بچار کے بعد ایسے تجربات کچھ کتابوں سے شروع کئے جائیں؟ پھر لوگوں کا رد عمل دیکھا جائے.اگر ممکن ہو تو ساتھ ہی ساتھ کچھ رسالوں اور اخباروں میں چند صفحات ان تجربات کیلئے مخصوص کئے جائیں.ٹیلی ویژن جیسے میڈیم کو بھی اس سلسلہ میں استعمال کیا جائے.تجرباتی طور پر عنوانات ، پروگرام ، وغیرہ جو تحریری شکل میں سکرین پر نظر آتے ہیں اس مہم میں شامل کئے جائیں اور لوگوں کا رد عمل دیکھا جائے.اس سے ایک بحث چھڑے گی اور آخر میں مثبت نتیجہ پر پہنچا جاسکے گا.یه فکر انگیز مضمون اردو میں ڈاکٹر عبدالسلام نے کتاب ، ارمان اور حقیقت کیلئے خاص تحریر فرمایا تھا ۱۹۹۶ء

Page 287

ڈاکٹر عبد السلام قرطبہ مسجد کے افتتاح پر تقریر کے ۱۰ ستمبر ۱۹۸۲ - بزبان انگلش.ترجمہ محمد زکریا ورک اشتہارات کا اللہ الا الله و اشهدان تیری عید تا در سوله اعوذ بالله من الشيطن الرجيم المبسم الله الا من الرحيرة Speech Deliiend on the shining the corn mosque 10-9-1982.(۲۷۸) رسالت مآب حضرت محمد ﷺ نے اپنے پیروکاروں کو تاکید کی کہ علم کا حاصل کرنا خاص طور پر سائینسی علم کا، ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے.یه ارشاد قرآن مجید میں بار بار دہرائے گئے احکامات کے عین مطابق تھا.جو کہ قرآن پاک کا آٹھواں حصہ ہیں جن میں مومنوں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ فطرت کا مطالعہ کریں، تدبر کریں، عقل کا پورا پورا استعمال کریں، اور سائینسی امور کو اپنی کمیونٹی لائف کا لازمی جزو بنا لیں.مسلمانوں کو یہ بھی نصیحت کی گئی کہ وہ سیکھیں کہ فطرت کو تسخیر کیسے کیا جا سکتا ہے؟ سائینس اور ٹیکنالوجی کے حاصل کرنے کے بارہ میں یہ احکامات در اصل تفکر اور تسخیر کا حصہ ہیں جس پر پاک کتاب میں زور دیا گیا ہے.حضور اکرم کی رحلت کے ایک سو سال کے اندر اندر مسلمانوں نے اوپر مذکورہ احکامات پر عمل کرتے ہوئے اس دور میں موجود تمام یونانی، عبرانی، اور ہندوستانی سائینسی علوم کی کتب کو عربی زبان میں منتقل کر دیا.یہ کام اس رفتار سے کیا گیا کہ انسانی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے.نہ صرف یہ کہ مسلمانوں نے سائینسی علوم پر عبور حاصل کیا بلکہ ان میں خود انہوں نے اتنی سبقت حاصل کر لی کہ انہوں نے بذات خود نئے سائینسی علوم کو تخلیق کرنا شروع کر دیا.

Page 288

(۲۷۹) اس علمی تخلیق کے اعلیٰ درجہ ہونے کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے جارج سارٹن Saton کی پانچ جلدوں والی ہسٹری آف سائینس کو پڑہیں جس میں اس نے انسانیت کی سائینس میں ترقیات کو ادوار سے منسوب کیا ہے ، ہر دور پچاس سال کے عرصہ کا ہے اور ہر پچاس سالہ دور کو اس نے ایک مرکزی شخصیت سے منسوب کیا ہے.مثلاً ۵۰۰ - ۴۵۰ ق م کے عرصہ کو اس نے افلاطون کا دور کہا ہے.اس کے بعد کی نصف صدی کو اس نے ارسطو کا دور کہا ہے.پھر اقلیدس کا اور پھر ارشمیدس کا ، وغیرہ اس چمکتی ہوئی کہکشاں کے عرصہ ۷۵۰ تا ۱۰۰ ء کو سارٹن نے مسلمانوں کے مسلسل یکے بعد دیگرے آنیوالے سائینسدانوں کے نصف صدی کے دور سے منسوب کیا ہے.یعنی جابر، الخوارزمی، الرازی، ابوالوفا، البیرونی اور عمر خیام.ذرا یاد کریں کہ ۷۵۰ء کا سال نبی اکرم ﷺ کی وفات کے قریب ۱۲۰ سال بعد کا ہے.ذراسو چیں کہ یہ قریب قریب وہ وقت تھا جب امیہ پرنس عبد الرحمن اول نے افریقہ سے چین کی طرف سمندر پار کیا تھا.اگر چہ چین کا ملک امیہ اور عباسی شہزادوں کے درمیان عداوت کے باعث باقی اسلامی دنیا سے الگ تھلگ تھا لیکن مسلمانوں نے سپین میں سائینسی علوم کے حاصل کرنے میں حضور اکرم نے کے حکم کی تعمیل میں اتنے جوش و خروش کا مظاہرہ کیا کہ قرطبہ ( دنیا کا ہیرا) کا شہر سائینسی علوم کے فروغ میں ایک زبر دست علمی مرکز بن گیا اور مشرق کے اسلامی ممالک سے سبقت حاصل کرنے میں مصروف ہو گیا.مثلاً خلیفہ الحکم ثانی جس نے ۹۶۱.۹۷۱ ء تک حکمرانی کی اس نے ایک لائیپر مری بنائی جس میں اس نے چار لاکھ کتابیں اکٹھی کی ہو ئیں تھیں.اس کے دور حکومت یعنی دسویں صدی کے آخری حصہ میں یہاں ابو القاسم ( متوفی ۱۰۱۳) Abulcasis کے نام کا ایک عظیم سر جن ہو گزرا.اس کے ساتھ یہودی فزیشن حصدے بن شپروت Sharut (متوفی ۹۹۰ء) اور ابن جبرئیل Gabirol (متوفی ۱۰۵۸ء) بھی وہاں ہو گزرے.طلیطلہ Toledo کے شہر میں سائینسی آلات بنانے کے فن کو خوب فروغ ملا.خاص طور پر گیارہویں صدی میں الزرقالی Arzachel نامی سائینسدان نے ایک پہلے سے بہتر اصطرلاب بنایا نیز اس نے ستاروں کی زج ٹولیڈین ٹیبلز کو ایڈٹ کیا اور طلیطلہ شہر میں کئے جانیوالے ستاروں کے

Page 289

(۲۸۰) مشاہدات کو بنیاد بنا کر ستاروں کا محل وقوع پیش کیا.اگلے سو سالوں میں میڈیسن کے علم میں بھی یہاں پیش رفت ہوئی.اس روایت کو ابن ظہر Avenzoar کے خاندان نے برقرار رکھا.ابن ظہر اشبیلیہ شہر کا رہنے والا تھا جہاں اس کی پیدائش ۱۰۹۰ء میں اور وفات ۱۱۶۲ ء میں ہوئی.اس کی تین کتابوں کتاب الاستقلال، کتاب السیسیر ، کتاب الاغذیہ کے لاطینی تراجم نے یوروپ کی میڈیسن پر اپنا اثر سترھویں صدی تک برقرار رکھا.اس ضمن میں سب سے عظیم نام ابن رشد Avorrors کا ہے جس کی پیدائش قرطبہ میں ۱۱۲۶ء میں ہوئی.اس کی تصنیف کتاب الکلیات فی الطب میڈیسن کا انسائیکلو پیڈیا تھی.یہاں ابن رشد کے ایک قریبی ہم عصر اور سب سے عظیم یہودی طبیب موسیٰ ابن میمون Maimonedes کا ذکر بھی ضروری ہے جس کی پیدائش قرطبہ میں ۱۱۳۵ء میں ہوئی اور وفات قاہرہ میں ۱۲۰۴ء میں ہوئی.جہاں وہ سلطان صلاح الدین ایوبی کا شاہی طبیب تھا.اس کے تئیں سال بعد سپین نے اسلام کا سب سے عظیم بوٹا نسٹ اور فارماسسٹ پیدا کیا جس کا نام ابن بیطار تھا اس کی وفات ۱۲۴۸ء میں ہوئی.۱۲۳۶ء میں قرطبہ کے زوال کے باوجود میڈیسن میں فوقیت کی روایت سپین کے مسلمانوں میں برقرار رہی، اس ضمن میں مثلاً لسان الدین ابن الخطیب کا نام لیا جا سکتا ہے جس کا زمانہ حیات ۱۳۱۳ تا ۱۳۷۴ء ہے.اس نے اپنی کتاب میں پلیگ کا ذکر کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس کے پھیلنے کی وجہ جراثیم سے ہو نیوالا ان فیکشن تھا.دوسرے علوم میں فوقیت میں یہاں میڈیسن کے علاوہ ریاضی اور علم بایت میں عظیم علمی کارناموں کا ذکر کر سکتا ہوں.تا ہم اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ ان علوم میں بھی سپین نے چند ایک نامور عالم و فاضل پیدا کئے.لیکن اس کے علاوہ اسلامی سپین کا ایک اور رول بھی تھا جو کہ بلکل منفرد تھا.اور جس کے بارہ میں اب یہاں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں.یہ اہم رول سائینسی علوم کے تمام ذخیرہ کا یوروپ کو ٹرانسمٹ کرنا تھا چا ہے یہ ذخیرہ یونانی،

Page 290

(۲۸۱) لاطینی اور اب عرب تھا جو گیارہویں، بارہویں اور تیر ہو یں صدیوں میں وہاں پہنچایا گیا.اور جس کے بغیر یوروپ میں نشاۃ ثانیہ کبھی بھی ظہور میں نہ آسکتی.مسٹر ہین Heaton نے اپنی کتاب اکنامک ہسٹری آف یوروپ میں بیان کیا ہے : نارتھ کے ممالک سائینس میڈیسن ، زراعت ، انڈسٹری ، اور سوے لائن ڈلیونگ اگر کچھ سیکھنا چاہتے تھے تو ان کو اس کے لئے چین جانا پڑتا تھا.اور یہ امر واقعہ تھا کیونکہ انگلینڈ، سکنڈے نیویا ، جرمنی، فرانس کے طلباء پین کو بھاگے جاتے تھے تا سائینسی علوم سیکھ سکیں.Adelard of Bath عربی زبان سے لاطینی اور کا ستیلین Castilian زبانوں میں کتابوں کے تراجم کرنے کے لئے ایک زبر دست مہم شروع ہو چکی تھی.ان تراجم کا کام طلیطلہ کے شہر میں شروع ہوا جہاں آرک بشپ آف ٹولیڈورے منڈ اول 1 Raymond نے اس کام کی قیادت سنبھال لی.ٹولیڈو میں جن سکالرز نے کام کیا ان میں ایک تو ایڈے لارڈ آف ہاتھ جس نے اقلیدس کی کتاب کا عربی سے ترجمہ کرنے کے علاوہ الخوارزمی کے الجبرا اور ٹریگنومیٹری کا ترجمہ کیا نیز اس کے ساتھ رابرٹ آف چیسٹر Robert of Chester اور جیرارڈ آف کیریمونا Gerard of Cremona اور جان آف سویل John of Seville بھی اس کام میں مصروف کار رہے.اس تحریک کی معاونت کنگ الفانسو دہم نے کی جو لیون اور کاسٹیل کا بادشاہ تھا.جس نے ان لا تعداد تراجم کے پیش لفظ خود لکھے اور جس نے ۱۲۷۲ء میں الزرقالی کی ستاروں کی زج کی جگہہ الفانسو کی زج تیار کروائی.اس سائینسی کام میں ایک اور قابل غور چیز یہ ہے کہ ذرا ان دانشوروں کے ناموں میں یہودی سکالرز کے ناموں کو غور سے دیکھیں جنہوں نے اسلامی سائینس کے بنانے اور سکالر شپ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جن کا میں نے ذکر کیا ہے.مثلاً میں نے ابن جبرئیل، ابن شہروت، موسیٰ ابن میمون کی کتابوں کا ذکر کیا ہے خاص طور پر مؤخر الذکر نے یہودی تھیولوجی میں سب سے اعلیٰ مقام حاصل کیا ہے.یہ بات دلچسپی کی حامل ہے کہ موسیٰ ابن میمون (متوفی ۱۲۰۴ء) نے یہودی تھیولوجی کی معرکۃ الآراء کتاب Guide to the perplexed دلالتہ الحیرین کو عربی زبان میں لکھا تھا.اس کا بعد میں عبرانی میں ترجمہ ہوا، میرے

Page 291

(۲۸۳) نزدیک عربی زبان کو اس سے زیادہ خراج تحسین نہیں دیا جا سکتا.اسلامی سائینس کے ان اعلیٰ پہلوؤں پر خاص طور پر اس کے ہائی لیول کی تخلیق کے کام کا سپین اور دوسرے ممالک میں میں نے طائرانہ ذکر کیا ہے.سپین کا خاص مقام یہ ہے کہ یہاں سے بارہویں اور تیر ہویں صدی میں تمام سائینسی علوم کے ذخیرہ کو عربی زبان سے لاطینی زبان میں منتقل کیا گیا.نیز مسلمان خلفاء کے دربار میں بردباری و تحمل کا اظہار جو یہودی اور عیسائی عالموں کیلئے کیا گیا وہ بھی قابل ذکر ہے.کیا سپین ایک بار پھر یوروپین ، لاطینی امریکہ اور عرب مسلمان سائینس کے کلچرز کے درمیان ایک مقام اتصال کے طور پر کام کر سکتا ہے؟ پچھلے سال مجھے سپین کے بادشاہ کنگ کارلوس King Carlos کے ساتھ اس تجویز پر گفتگو کا موقعہ ملا تھا جس میں سپین کے بعض طبیعات دانوں نے ایک انرجی سینٹر کے قیام کا منصوبہ پیش کیا ہے جس میں تین زبانوں میں کام ہو گا سپینش ، انگلش، اور عربی.لیکن سوال یہ ہے کہ اس سینٹر میں کس کو الٹی کی سائینس میں ریسرچ ہوگی؟ ڈاکٹر صاحب نے یہ تقریر پید رو آباد ( جو قرطبہ سے کوئی ۲۵ کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے) میں مسجد بشارت کے افتتاح کی تقریب کے موقعہ پرفرمائی تھی.تقریر کے نہروع میں تشہد و تعوذ اور انگلش میں نوٹ آپ کے خوشخط ہینڈ رائیٹنگ میں ہے

Page 292

(۲۸۳) نقد و نظر رموز فطرت پر تبصرے اس حقیر پر تقصیر نے عالم اسلام کے بطل جلیل کی معرکہ خیز زندگی پر ایک کتاب عنوان بالا سے ۱۹۹۶ ء میں تالیف کی تھی.اردو میں چونکہ ڈاکٹر عبد السلام کی کامیاب زندگی پر جو کتا ہیں دستیاب ہیں ان کو ہاتھ کی انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے، اس لئے یہ کتاب علمی حلقوں میں بہت مقبول ہوئی.جون ۱۹۹۶ء میں یہ کتاب منصہ شہود پر آئی.برقی رفتار سے اس کی ایک کاپی لندن ارسال کی گئی جو ڈاکٹر صاحب کو پیش کی گئی.یوں ان کی سوانح حیات پر ان کی زندگی میں شائع ہو نیوالی یہ آخری کتاب تھی.نومبر ۱۹۹۷ء میں ٹریسٹ میں جب سلام میموریل میٹنگ منعقد ہوئی تو اس کو وہاں کتابوں کی نمائش میں نمایاں جگہ دی گئی.بلکہ اسکے بعد آئی سی ٹی پی کے ویب سائیٹ پر یہ کتاب کئی ماہ تک کوما ما طور پر دکھلائی جاتی رہی.کتاب کا ایک ایڈیشن بھارت سے بھی ۱۹۹۷ء میں شائع ہوا.یہ کتاب دنیا کی درج ذیل یو نیورسٹیوں میں دستیاب ہے اور انٹرنیٹ پر ان کی کیٹلاگ میں دیکھی جا سکتی ہے: روبارٹس لائیبریری ( یو نیورسٹی آف ٹورٹو)، ٹورنٹو پبلک ریفرنس لائی ہی، یو نیورسٹی آف شکاگو ( ساؤتھرن ایشیا بک کولیکشن)، یو نیورسٹی آف علی گڑھ ، لا ئمپر میری آف کانگریس، دی برٹش پبلک لائبریری، امپرئیل کالج لندن لامیر مربی ، آئی سی ٹی پی لامیر مری نیشنل لا میر مری آف پاکستان (اسلام آباد) ، پنجاب یونیورسٹی (لاہور) نیشنل لا میر بری آف کینیڈا، آٹواہ.(648255 legal deposit)، خدا بخش اور کینٹل لائیپر میری پٹنہ، جیرارڈ سٹریٹ لائیبریری ( ٹورنٹو ).خلافت لائیبریری ، ربوہ.کتاب پر تبصرے مختلف اخبارات و رسائل میں شائع ہوئے ، جیسے ڈان (کراچی)، احمد یہ گزٹ (کینیڈا) ہفت روزہ لاہور (پاکستان) ، نیز ای میل کے ذریعہ بہت سے احباب نے دلی مسرت کا اظہار کیا.ان تبصرہ جات میں سے چند ایک یہاں قارئین کے استفادہ کیلئے پیش کئے جاتے ہیں: (۱)جناب حسن محمد خار عارف ايم ماہے ،ایڈیٹر احمد یہ گزٹ ، نے فرمایا:

Page 293

(۲۸۴) جناب ڈاکٹر عبد السلام فزکس کی دنیا میں چند نادر روزگار ہستیوں میں شمار ہوتے ہیں.آپ پاکستان کیا دنیا کے واحد مسلمان سائینسدان ہیں جنہوں نے نو بل انعام حاصل کیا (۱۹۹۹ ء تک ).انہوں نے جو علمی اور سائینسی کا رہائے نمایاں سرانجام دئے ہیں ان کا انگریزی زبان میں کثیر مواد موجود ہے مگر اردو زبان اس علمی و فکری خزانہ سے محروم ہے.اگر ہے تو خال خال کسی اخبار یا رسالہ کے کسی کو نہ کھدرے میں کوئی مضمون نظر آتا ہے.احمد یہ گزٹ کے مستقل اور فاضل قلمی معاون جناب زکریا ورک صاحب نے جناب ڈاکٹر عبد السلام کی تحقیقات ، ان کے بارہ میں مضامین ، علماء کے مقالے، کتابی صورت میں جمع کرنے کا اعزاز حاصل کرنے میں اولیت حاصل کی ہے.جس کا نام انہوں نے رموز فطرت رکھا ہے.کچھ مقالے ایسے ہیں جو اردو کے ہی مشہور رسائل میں شائع ہوئے اور کچھ انگریزی سے ترجمہ کئے گئے ہیں.ان مضامین کی فراہمی اور تدوین میں خاصی محنت اور عرق ریزی سے کام لیا گیا ہے.جن میں ڈاکٹر صاحب کی پر وقار شخصیت اور ان کی تخلیق کے بارہ میں مؤلف نے بہت قیمتی مواد فراہم کیا ہے.کتاب دو حصوں میں منقسم ہے.حصہ اول میں تو خالصتاً ڈاکٹر صاحب کی زندگی یا ان کے علمی کارناموں کے بارہ میں مضامین ہیں.دوسرے حصہ میں بعض نہایت عمدہ اور معلوماتی سائینسی مضامین شامل ہیں.مگر آخر پر کچھ حصہ ڈاکٹر صاحب کے بارہ میں بھی درج کیا گیا ہے.کتاب کے حصہ اول میں پاکستان کے مشہور شاعر جناب شیر افضل جعفری کی جو ڈاکٹر صاحب مرحوم کے اپنے ہی دیس یعنی جھنگ کے ہی رہنے والے ہیں ایک دل آویز نظم بھی شامل ہے.اس نظم کے دو شعر ملاحظہ فرمائیں شخص کیمیا کا ہے ابدال خوش خیال فزکس کی فرات کا صادق نہنگ ہے اے پاک سرزمین تیرے ست جنہاں دی خیر اسکے جنوں پر عقل ارسطو بھی دنگ ہے

Page 294

- (۲۸۵) کتاب کی لکھائی چھپائی دیدہ زیب ہے.حجم ۲۱۸ صفحات اور قیمت صرف پانچ ڈالر ہے.۱ (۲) جناب ثاقب زيروى صاحب دیر شہیر اا ہور نے یوں تبصرہ فرمایا: زیر تعارف کتاب رموز فطرت جناب محمد زکر یا ورک (آف عبد السلام سائینس اکیڈیمی ) نے دنیا ئے سائینس کے مہر درخشاں ڈاکٹر عبد السلام کے متعلق ترتیب دی ہے.جسے انہوں نے امت مسلمہ کے عظیم المرتبت سائینسدانوں موسیٰ الخوارزمی، اسحاق الکندی، ابن ابیشم ، البیرونی، جابر ابن حیان، زکریا الرازی، ابن سینا اور پروفیسر عبد السلام کے نام سے منسوب کیا ہے.کتاب کا سب سے پہلا مضمون اقبال کا مرد مومن جسے پروفیسر اسرار احمد علی گڑھ یو نیورسٹی نے تحریر فرمایا ہے جو بجائے خود ڈاکٹر سلام کے نام اور کام کے معلومات آفریں تعارف کا حکم رکھتا ہے.اس میں ڈاکٹر سلام کی سائینس سے محبت اور سائینس کی دنیا میں موجودہ مقام و مرتبہ حاصل کرنے کی جد و جہد کو اس شعر سے واضح کیا گیا ہے: برہم ہوا ئیں لاکھ مزاحم ہوئیں مگر دیوانہ وار موج نے ساحل کو جالیا علاوہ از میں اس خریطه علم و ادب میں پاکستان اور بیرون پاکستان کے جرائد و رسائل میں ڈاکٹر سلام اور ان کی تھیوری سے متعلق شائع ہونیوالے مختصر وطویل مقالات ہیں.چنھاں دا چن.کے عنوان سے جھنگ کے معروف شاعر شیر افضل جعفری کی نظم ہے جس کا مقطع ہے: اے پاک سرزمین تیرے ست چھاں دی خیر اسکے جنوں پر عقل ارسطو بھی دنگ ہے کتاب میں ڈان، پاکستان ٹائمز، اور بعض انگریزی اور اردو جریدوں میں شائع ہونیوالے مقالات کے ترجمے بھی شامل ہیں.بی بی سی اور ٹورنٹو ریڈیو پر ڈاکٹر سلام کے کئے جانیوالے ( نشری) انٹرویو ہیں.خود پروفیسر سلام کا مقالہ اسلام اور سائینس ہے.جسے علی گڑھ کے پروفیسر نسیم انصاری نے اردو کے سانچے میں ڈھالا ہے.الغرض X۲۲ ۱۸ سائز کے ان ۲۱۸ صفحات میں سائینس ، رموز سائینس ٹیکنالوجی ، شہرہ آفاق اسلامی سائینس دانوں اور مغربی مفکروں کے بارے میں ایسا وقیع اور قابل قدر مواد جمع کر دیا گیا ہے.جو

Page 295

(۳۸۶) اسلامی دنیا کے ایک عام قاری کو رموز فطرت سے آگہی بخشتا ہے.اور جو صرف علمی و تحقیقی لا سمیر سریوں ہی کیلئے نہیں پاکستان کے ہر محب وطن کیلئے ایک ایسے خزینے کا حکم رکھتا ہے جو اسے اپنے روشن ماضی اور خوشگوار مستقبل سے آگاہ کرتا ہے.دبیز دور نگا مصور سرورق.عمدہ ٹائیپ.بہترین طباعت.اور قیمت صرف پانچ ڈالر.(لا ہور ، مؤرخہ ۱۷.اگست ۱۹۹۶) (۳) جناب ڈاکٹر پر ویز پروازی صاحب اپسالا ، سویڈن) نے فرمایا (۳۱ اکتوبر ۱۹۹۶ ) عزیزم محمد زکر یا ورک نے ، عبد السلام سائینس اکیڈیمی کی جانب سے رموز فطرت کے عنوان سے دنیائے سائینس کے مہر درخشاں ڈاکٹر عبد السلام کی شخصیت اور ان کے کارناموں کے بارہ میں کتاب شائع کی ہے جس میں پروفیسر سلام کے بارہ میں مختلف اہل علم کے مضامین جمع کر دئے گئے ہیں.یہ کتاب اپنی افادیت کے لحاظ سے منفرد ہے اور ان لوگوں کیلئے جو پر وفیسر عبد السلام کی شخصیت اور ان کی تھیوری کے بارہ میں علم نہیں رکھتے بہت مفید کتاب ہے.اللہ تعالیٰ مرتب کو جزا دے کہ انہوں نے ایسے وقت میں جب پروفیسر سلام اپنی علالت کے باعث تمام عالم اسلام کی دعاؤں کے مستحق ہیں.یہ مفید کتاب شائع کی ہے.اس کتاب کا نام مرتب نے رموز فطرت رکھا ہے.عنوان سے اندازہ ہوتا ہے کہ مرتب کے ذہن میں محض پر وفیسر سلام ہی کے بارہ میں مواد جمع کرنیکا خیال نہیں.با ایں ہمہ کتاب کی افادیت مسلمہ ہے.کم از کم میرے علم میں بہت سی باتیں پہلی بار آئیں ہیں.میں پروفیسر عبد السلام کو کوئی تمہیں برس سے جانتا ہوں.تعلیم الاسلام کالج ربوہ سے ان کا گہرا تعلق رہا.حالانکہ وہ اس کالج کے طالب علم نہیں رہے.مگر جب بھی ربوہ تشریف لاتے تو کالج میں اور خاص طور پر کالج کے نیو کیمپس میں تو ضرور ہی آتے.کالج کا نیو کیمپس عملا کالج کا فزکس کا ڈی پارٹمنٹ تھا.پروفیسر نصیر احمد خاں مرحوم نے رات دن کی محنت سے اس پودے کو سینچا تھا.اور جنگل میں منگل کر دیا تھا.تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے فزکس کے پوسٹ گر یجو کیٹ شعبہ کو ملک کے تمام حصوں میں نامور بنانے کیلئے انتھک محنت کی ضرورت تھی.پروفیسر نصیر احمد خاں

Page 296

(۲۸۷) نے محنت کے اس چیلنج کو قبول کیا اور یہ انہونا کام کر دکھایا.اس کام میں عملی امانت پر وفیسر سلام نے دی.ربوہ آتے تو کہیں اور جانا ہوتا یا نہ ہوتا کالج کے نیوکمپس میں ضرور جاتے اور ضروریات کا جائزہ لیتے اور پھر مناسب سائینسی سامان کا عطیہ دیتے.تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے پرنسپل حضرت مرزا ناصر احمد جو بعد کو جماعت احمدیہ کے تیسرے امام ہوئے ، پنجاب یونیورسٹی سینیٹ میں ہمیشہ سے اس بات کے حامی تھے کہ اعلیٰ تعلیم کو محض یو نیورسٹی تک محدود نہیں رہنا چاہئے.اس پر اعتراض یہ کیا جاتا تھا کہ مختلف جگہوں پر اعلیٰ تعلیم کی اجازت دے دی گئی تو تعلیم کا معیار گر جائیگا.اس لئے انہیں کے کالج میں جب فزکس اور عربی کی پوسٹ گر یجوکیٹ کلاسز کا اجراء ہوا تو ان کیلئے بڑا چیلنج تھا.مگر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا کر تعلیم الاسلام کالج کے ایم اے (عربی) اور ایم ایس سی (فزکس) کے شعبوں نے مدتوں پنجاب یونیورسٹی سے کہیں بہتر نتائج دکھلائے.اور ہمارے طلباء یو نیورسٹی کے امتحانات میں اول پوزیشن حاصل کرتے رہے.یا پھر تمام کے تمام طلباء الا ماشاء اللہ فرسٹ ڈویژن میں کامیاب ہوتے رہے.فزکس میں اس کامیابی میں پروفیسر عبدالسلام کی عملی اعانت اور حوصلہ افزائی نمایاں رہی.کالج والوں کیلئے اور دوسروں کیلئے یہ بات ہمیشہ تعجب کا موجب ہوتی تھی کہ فزکس کے ایسے جلسوں میں جہاں پروفیسر سلام مدعو ہوتے تھے مجھ جیسا سائینس سے نابلد شخص بھی مدعو ہوتا تھا اور پروفیسر سلام کے ارشادات سنتا تھا.یہ پروفیسر نصیر خاں کی محبت تھی.سلام صاحب سے انہیں جلسوں میں ملاقات کا شرف حاصل ہوا.انہیں ادب سے بھی اتنی ہی دلچسپی تھی جتنی سائینس سے تھی.میں نے ایک بار تفنن سے کہا کہ آپ ادب کی آدمی ہوتے تو بھی نوبل پرائز حاصل کر لیتے کیونکہ آپ کے اندر نو بلیت موجود ہے.پچھلے دنوں سٹاک ہالم میں مجھے ایک وفد کی ہمراہی میں مراکش کے سفیر محترم سے ملنے کا اتفاق ہوا.ہز ایکسی لینسی نے جہاں اور باتیں پوچھیں وہاں یہ سوال بھی کیا کہ پر وفیسر سلام آجکل کہاں ہیں؟ جب انہیں بتایا کہ وہ آجکل صاحب فراش ہیں تو ہز ایکسی لینسی نے لمبا تاسف کا سانس لیا اور کہا اے کاش

Page 297

(۲۸۸) عالم اسلام اپنے اس بطل جلیل کیلئے کچھ کر سکتا.میں نے عرض کی کہ کر تو سکتا ہے.پوچھنے لگے کیا؟ میں نے کہا.....دعا ئیں.نوبل پرائز سے پہلے کی بات ہے پروفیسر عبد السلام کو جھنگ کالج کے پرنسپل عبد الباقی نے کا نووکیشن ایڈریس کیلئے مدعو کیا.ربوہ کالج سے پروفیسر نصیر خاں کے علاوہ مجھے بھی مدعو کیا.مہمانوں کی پہلی صف میں شیر افضل جعفری بھی اپنے مخصوص لباس میں تشریف رکھتے تھے.جب کالج کے اساتذہ کا جلوس پر وفیسر سلام کی معیت میں پنڈال میں داخل ہوا تو پروفیسر سلام کے سامنے آتے ہی شیر افضل جعفری نے بے اختیار نعرہ لگایا جیو پتر سلام سلام صاحب نے اس نعرہ کا جواب کا نووکیشن کا ایڈریس پڑھتے ہوئے یوں دیا کہ سب سے پہلے اپنے استاد کو مخاطب کیا: استاذي المحترم شیر افضل جعفری صاحب اور محترم پرنسپل صاحب لوگ جانتے ہیں کہ کالجوں کی کانووکیشن میں پرنسپل کے علاوہ کسی اور کو مخاطب نہیں کیا جاتا.سلام صاحب نے اپنے استاد کا اعزاز کرنے کیلئے یہ پرانی روایت توڑ دی.جعفری صاحب کہیں پرائمری کی کلاسوں میں سلام صاحب کے استاد ر ہے تھے.پروفیسر سلام کے انہی استاد شیر افضل جعفری نے نوبل پرائز کے بعد جو قصیدہ اپنے مخصوص جھنگ رنگ میں سلام کیلئے لکھا تھا وہ بھی اس کتاب میں شامل ہے.یہ قصیدہ راقم الحروف نے ربوہ میں رسالہ انصار اللہ کا عبد السلام نمبر مرتب کرتے وقت جعفری صاحب سے لکھوایا تھا اور پہلی بار اس رسالہ میں شائع ہوا تھا.ساتھ میں ایک اور قصیدہ بھی اردو نما فارسی میں ہے.اس پر شاعر کا نام درج نہیں نہ اس بات کا ذکر ہے کہ یہ قصیدہ کہاں سے لیا گیا.غالبا یہ وہی قصیدہ ہے جو انصار اللہ میں جعفر طاہر مرحوم نے لکھا تھا.میرے پاس وہ رسالہ موجود نہیں کہ اس بات کی تصدیق کر سکوں.مرتب کا فرض تھا کہ وہ ایسی چیزوں کے حوالے ضرور دیتے.

Page 298

(۲۸۹) اس کتاب میں پروفیسر سلام کے بارہ میں، ان کی تھیوری کے بارہ میں معلومات جمع کرنے کے علاوہ مرتب نے پروفیسر سلام کے حق میں اور ان کے خلاف لکھے جانے والی باتیں بھی بیان کر دی ہیں اور سب سے اچھی بات یہ کی ہے کہ ان باتوں کا جواب خود نہیں دیا دوسروں نے جو جواب دیا ہے وہ شامل کر دیا ہے اس سے کتاب کی افادیت بڑھ گئی ہے.اس کتاب میں پروفیسر سلام کی بعض نادر اور نایاب تصاویر بھی شامل ہیں.توقع ہے کہ یہ کتاب پروفیسر سلام کے نام اور کام میں دلچپسی رکھنے والوں کیلئے بہت مفید حوالہ ثابت ہوگی.(۴) مکرم صاحبزادہ میرزا مظفر احمد صاحب (امیر جماعت احمدیہ امیریکہ) نے فرمایا: آپ کا خط ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے بارہ میں تصنیف جو ۲۲ جون کا لکھا ہوا تھا یہاں ۲۰ جولائی کو آیا.جب کہ جلسہ سالانہ امیر یکہ ۲۶ جون تا ۲۸ جون کو ہو چکا تھا.اس لئے جلسہ کے موقعہ پر اس کی فروخت کا کوئی امکان نہیں رہا تھا.یہ کتاب لکھ کر آپ نے اسلام، جماعت احمد یہ اور ملک کی خدمت سرانجام دی ہے اللہ تعالیٰ آپ کو اسکی احسن جزاء دے.آمین.سردست آپ ہمیں اس کتاب کی ۱۰۰ کا پیاں بجھواد ہیں.جس کی قیمت آپ کو ادا کر دی جائیگی.( ۳۰ جولائی ۱۹۹۶ء) DAWN, Karachi, Feb 21, 1997 Book Review, (*) Page 6 The book under review is a collection of articles based on the life and work Of Pakistan's only Nobel Laureate Prof.Dr.Abdus Salam compiled and published from Abdus Salam Science Academy, Kingston.Most of the articles with a few exceptions and the radio-interviews have been translated from English text published in reputed journals.Translation of English language articles load with scientific vocabulary, into Urdu is not an easy task but Virk and his associates, if any, have done the job with care and distinction.Anyway some of the articles may not be found relevant to this book which serves its purpose even without adulatory verses, newspaper cuttings and their references.The book has been divided into two parts.The first one carries articles mostly covering Dr.Salam's person and his scientific theory.In the second part, scientific papers have been included.Since it is difficult to

Page 299

(۲۹۰) separate Dr.Salam's fascinating personality from his magnificent researches, this division could not successfully maintained.The publisher "committed to promoting science among Urdu speaking migrants" has in a separate letter expressed his desire to publish extra copies of his publication and sought assistance from interested persons in this venture.XYZ ڈاکٹر سلام کیلئے میکس ویل پرائز نوائے وقت ۱۴ جون ۱۹۶۲ء صدر پاکستان کے چیف سائینٹفک ایڈوائیزر پروفیسر عبد السلام کو ان کے ملک کی طرف سے جو انتہائی شایان شان خطاب ستارہ پاکستان اور دوسرے اعزازات دئے گئے وہ تو گھر کی بات ہے.حال ہی میں انسٹی ٹیوٹ آف فزکس اینڈ دی فزیکل سوسائٹی کی کونسل آف دی انسٹی ٹیوٹ نے میکس ویل سیٹل اینڈ پرائز دے کر ان کی خداداد ذہانت کے حضور ایک اور ہدیہ عقیدت پیش کیا ہے.یہ پہلا انعام ہے جس کیلئے سلام صاحب کو منتخب کیا گیا ہے.پروفیسر سلام کی مناسبت سے دنیائے سائینس میں پاکستان کا نام ہمیشہ تا بند دور ہیگا.ہر دوسرے سال تھیو رتیکل فزکس میں دنیا کے کسی بھی سائینسدان کو یہ انعام ممتاز خدمات کے صلہ میں دیا جاتا ہے.یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس وقت تک اس میدان میں نیوٹن، میکس ویل، ڈائر اک ، آئین سٹائین ، اور ہائزن برگ نے جو خدمات انجام دیں ہیں ان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.بلاشبہ انہیں فزکس کا پیغمبر کہا جا سکتا ہے.پروفیسر سلام کے اس اعزاز پر علمی پریس میں ان کی خدمات جلیلہ کا اعتراف کیا گیا ہے.صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے اپنے ایک ذاتی خط میں پروفیسر سلام کو لکھا: مجھے یہ سن کر بے انتہا مسرت ہوئی ہے کہ کونسل آف دی انسٹی ٹیوٹ آف فریکس اینڈ فزیکل سوسائٹی لندن نے تھیوری آف ایلی میتری پارٹیکلز میں نمایاں خدمات انجام دینے کے سلسلہ میں آپ کو پہلا میکس ویل میڈل اینڈ پرائز دیا ہے.آپ ہم سب کے ہنے سرمایہ فخر و مباہات ہیں.لندن میں پاکستان کے ہائی کمشنر جنرل محمد یوسف نے پروفیسر سلام کو لکھا: یہ صرف آپ کا ہی نہیں بلکہ آپ کے ملک کا بھی اعزاز ہے.اس شان امتیاز پر دل و جان سے آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں.میں جس بات کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں اور میرے خیال میں جو سب نو جوانوں کیلئے قابل تقلید بات ہے وہ یہ ہے کہ پروفیسر سلام کی زندگی بے انتہا سادہ اور پاکیزہ ہے.اور وہ ایک دین دار آدمی ہیں.اتنی طویل مدت سے یوروپ میں رہتے ہوئے انہوں نے لہو و لعب کی طرف بھی نظر اٹھا کر نہیں دیکھا.باقاعدہ پانچ وقت کی نماز اور بعض اوقات تہجد اس نوجوان کے روز مرہ مشاغل کا حصہ ہیں.ادھر ادھر وقت ضائع کرنا ان کے نزدیک سب سے بڑا گناہ ہے.وہ کہتے ہیں کہ کامیابی کا راز اس بات میں مضمر ہے کہ جو شخص جس کام میں دل چسپی رکھتا ہے....اسے انتہائے کمال تک پہنچا

Page 300

(۲۹۱) ترتیب محمد زکریا ورک حکایات سلام.......فیض میموریل لیکچر میں ڈاکٹر سلام نے فرمایا: یوروپ میں میرے دوستوں کو جب یہ معلوم ہوا کہ میں لا ہور فیض میموریل لیکچر دینے جارہا ہوں تو وہ حیران ہوئے.اس حیرانگی کی کئی ایک وجوہات تھیں.فیض ایک شاعر تھے اور میں سائینسدان.وہ خوبصورتی پسند کرتے تھے جبکہ میں ایٹم کے دنیا میں رہتا ہوں ان کو دھوم دھام اور نمود نمائش پسند تھی جبکہ میں خشک مزاج مگر مخلص انسان جو نماز پانچ وقت ادا کرتا ہے.وہ سوشلزم کا پرچار کرتے تھے.جبکہ میں اسلام کا محافظ، وہ حکمرانوں کے سامنے خود کو مظلوم محسوس کرتے تھے جبکہ میں تعاون پسند کرتا ہوں اور کئی کام مختلف حکومتوں سے کروارہا ہوں.سرسید ایک تعلیمی مصلح: جب ہمارے عظیم رہنما سرسید احمد خاں نے علی گڑھ تحریک کا آغاز کیا تو ان کو ہر قسم کی مخالفت کا سامنا کر پڑا، ان کو مرتد کا خطاب دیا گیا نیز ان کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا.ایک بار سرسید نے کہا: تم مجھے مرتد کہتے ہو یا جس سے بھی تمہیں خوشی ہوتی ہے لیکن خدا کے واسطے مجھے مسلمان بچوں کی تعلیم سے ان کا مستقبل تو بنانے دو.بلکل جس طرح تم ایک غیر مسلم معمار کو مسجد بنانے دیتے ہو.ان کو اتنی تکالیف کا کیوں سامنا کرنا پڑا؟ محض اس لئے کہ انہوں نے کہا تھا کہ قرآن مجید ہمارے دائیں ہاتھ میں ہو اور سائینس ہمارے بائیں ہاتھ میں، اور کلمہ لا الہ الا اللہ ہمارے ماتھے پر لکھا ہو.ان کے مخالفین کی پر شدت مخالفت کی بناء پر ان کی تحریک نے زیادہ ترقی نہ کی اور ماڈرن ایجوکیشن بھارت کے مسلمانوں میں رائج نہ ہوئی بعینہ ہماری قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ ہم تعصب اور تنگ نظری کو دور نہ کریں.اور ایسی معاشرے کی بنیا د رکھیں جس میں اخوت اور رواداری کا چرچا

Page 301

(۲۹۲) ہو.(ڈاکٹر سلام) آدمی کے خیالات اور نظریات پر اس کی ثقافتی میراث اور تمدنی روایات کا اثر ہوتا ہے (سلام ).......ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ ڈاکٹر کسنجر نے ۱۹۷۸ء میں عالمی اشترا کی ترقی کی ضروریات کے سلسلے میں امریکہ کی جانب سے وعدہ کیا کہ انواع و اقسام کے اداروں کا قیام عمل میں آئیگا.جیسے انٹرنیشنل انرجی انسٹی ٹیوٹ انٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ایکس چینج آف ٹیکنا لوجیکل انفارمیشن انٹرنیشنل انڈسٹرالائزیشن انسٹی ٹیوٹ.کسنجر نے ایسے اداروں کی ضرورت کے متعلق اظہار خیال کیا کہ : اس صدی کے رہے سہے سالوں میں کرہ ارض کو شمال اور جنوب میں بانٹ دینے کا مطلب شاید سرد جنگ کے سیاہ ترین دنوں سے بھی بدتر دور میں سے گزرنا ہوگا.نتیجہ بڑا بھیا نک ہو گا...باتیں تو بڑی ہوئیں مگر ان میں سے کسی پر بھی پر عمل نہ کیا گیا.۱۹۸۳ء میں مراکش میں میری ملاقات ڈاکٹر کسنجر سے ہوئی تو میں نے ان کو ان کے کئے ہوئے وعدوں کی یاد دہانی کرائی اور خاص طور پر ادارہ توانائی کے قیام کے بارے میں ان سے گفتگو کی انہوں نے فرمایا کہ مجھے اس کے بارہ میں لکھو.میں نے خط لکھا انہوں نے میرے خط کو رسیدگی سے نوازا اور کہانی ختم ہو گئی.یہ میری خوش قسمتی تھی کہ میرا باپ ایسا شخص تھا جو علم کا دلدادہ تھاوہ اگر چہ مجھے سرکاری افسر بنانا چاہتے تھے.لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ میرا رجحان طبع سائینس کی طرف ہے تو پھر انہوں نے میری ہر ممکن حوصلہ افزائی کی.میرے تایا جان جو بعد میں میرے خسر بھی بن گئے وہ بھی علم کے بڑے قدردان تھے ، اور ان سے میں نے بہت اثر قبول کیا.اور پھر مجھ پر بڑے شفیق، محبت کرنے والے اور محنتی اساتذہ

Page 302

(۲۹۳) کا سایہ رہا.مجھے مولوی عبد الطیف بار بار یاد آتے ہیں جنہوں نے مجھے آٹھویں جماعت میں پڑہایا تھا میں نے جب ایک سوال ایک منٹ میں کر دکھایا تو وہ بہت خوش ہوئے.انہوں نے جیب سے ایک پیسہ نکال کر مجھے انعام دیا اور آبدیدہ ہو کر کہا اگر میرے پاس کچھ اور ہوتا تو وہ بھی دے دیتا.میں ایک بار پلاننگ کمیشن کے سابق چیر مین سے ملنے گیا اور ان کو سائینسدانوں کو پیش رہائش کے مسائل سے آگاہ کیا اور درخواست کی کہ وہ ان مسائل کو دور کریں.انہوں نے جواب دیا کہ کراچی کی نصف آبادی فٹ پاتھ پر سوتی ہے وہ بھی وہاں سو جائیں.ایک اور موقعہ پر میں نے ان سے کہا کہ وہ انڈسٹریز لگانے کے معاملے میں جن میں سائینسی علم استعمال ہوتا ہے ان کے لگانے سے قبل ان سے مشورہ کریں.انہوں نے کھر ا سا جواب دیا: میں سائینسدانوں سے کیوں مشورہ کروں؟ میں اپنے گھر میں باورچی سے کھانے کے معاملہ میں کوئی مشورہ نہیں کرتا........میں اور نگ زیب عالمگیر کے دربار میں ۱۶۹۰ء میں رونما ہونیوالا ایک واقعہ پیش کرتا ہوں.دربار کے ایک بڑے رتبہ والے درباری نے بادشاہ سلامت سے درخواست کی کہ وہ دو، درباریوں کو برخواست کر دیں کیونکہ وہ زرتشتی ہیں اور آگ کی پوجا کرتے ہیں.درباری نے اپنی دلیل کے حق میں قرآن پاک کی یہ آیت کریمہ پیش کی.اے لوگو جو ایمان لائے ہو میرے دشمن اور اپنے دشمن کو کبھی دوست نہ بناؤ.تم ان کی طرف سے محبت کے پیغام بھیجتے ہو جبکہ وہ حق کا جو تمہارے پاس آیا انکار کر چکے ہیں.وہ رسول اور تمہیں ( وطن سے) در بدر کرتے ہیں محض اسلئے کہ تم اپنے رب اللہ پر ایمان لائے.اور نگ زیب نے یہ درخواست مسترد کر دی اور کہا کہ تم نے اس آیت کا مفہوم ہی نہیں سمجھا کیونکہ اسی آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں: اگر تم میرے راستے میں اور میری رضا چاہتے ہوئے جہاد پر نکلے ہوئے ہو اور ساتھ ہی انہیں محبت کے خفیہ پیغام بھیج رہے ہو جبکہ میں سے سب زیادہ جانتا

Page 303

(۲۹۴) ہوں جو تم چھپاتے ہو اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو.اور جو بھی تم میں سے ایسا کرے وہ سیدھی راہ سے بھٹک چکا ہے.اور نگ زیب نے اسی سورۃ کی آیت نمبر ۹ بھی تلاوت کی: اللہ تمہیں ان سے منع نہیں کرتا جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں قتال کیا اور نہ تمہیں بے وطن کیا.تم ان سے نیکی کرو اور ان سے انصاف کے ساتھ پیش آؤ.یقینا اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے............۱۸۳۵ء میں برٹش انڈیا میں ایک پے ٹیشن انگریز حکومت کے سامنے پیش کی گئی جس پر آٹھ ہزار مسلمانوں کے دستخط تھے اس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ مسلمانوں کو انگلش میں تعلیم کی کوئی ضروت نہیں.بیان کیا جاتا ہے کہ ڈاکٹر عبد السلام کی عظیم زندگی اور سائینسی کارناموں نیز سائینس کی دنیا میں انہوں نے جو حیران کن تھیوریز پیش کیں ان پر مزید تحقیق کا کام کر کے دنیا کے ۱۶.سائینس دان اب تک ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کر چکے ہیں.اس ضمن میں دسمبر ۲۰۰۱ء میں نیشنل یو نیورسٹی آف کولمبیا (بو گوٹا، جنوبی امریکہ) کے نو جوان لیکچرار Alexis De Greift نے لندن یونیورسٹی کو اپنا ڈاکٹریٹ کا مقالہ پیش کیا، جس کا نام ہے: ICTP, 1960-1979 Idealogy & Practice in a UN institution for scientific co-operation and Third World Deveopment, Imperial College, University of London, UK ڈاکٹر ڈی گرائیف نے یہ عالمانہ مقالہ مجھے جون ۲۰۰۲ ء میں ای میل کے ذریعہ بھجوایا تھا کیونکہ عاجز نے ان کی اس کے لکھنے، پہلے دو ابواب کی نوک پلک سنوارنے ، نیز پروف ریڈنگ میں مدد کی تھی.مقاله ۴۳۲ صفحات پر مشتمل ہے.مقالہ میں کتابوں ، خطوط، رسالہ جات کے حوالے ان گنت ہیں.دنیائے اسلام اور عرب ممالک میں سائنس کے احیاء کیلئے کم سے کم پانچ چیزوں کا ہونا لازمی

Page 304

(۲۹۵) ہے.جذباتی وابستگی.فیاضانہ امداد مستقبل کی ضمانت.انتظامی آزادی.اور ہماری سائینسی کاوشوں کا بین الاقوامی برادری سے تعلق.تعلیم میں پسماندگی کی وجہ : ایک عصر جس نے ہمارے ممالک کی خواندگی پر اثر ڈالا ہے وہ علماء کرام کا پر نٹنگ کی مخالفت ہے.ترکی مسلمان ممالک میں سے پہلا ملک تھا جس نے چھاپہ خانہ کھولنے کی اجازت دی تھی.یہ واقعہ ۱۷۲۷ء کا ہے.جب ابراہیم متفرقہ Ibrahim Mutafariqa کو یہ شاہی اجازت نامہ ملا که و ۱۵۸۳۵ء سے پہلے کے مسودات کے ایڈیشن شائع کر سکتا ہے.یہ مسودات نو دریافت ملک امریکہ کے متعلق تھے.ابراہیم متفرقہ کے چھاپے خانے اس کی موت کے بعد بند کر دئے گئے.اور پھر انیسویں صدی کے وسط میں ان کو دوبارہ شروع کیا گیا.تب قرآن کریم کو چھاپنے کی اجازت (جو صرف عربی متن تک محدود تھی) ۱۸۷۴ء میں دی گئی.یہ واقعہ گٹن برگ Guttenberg کی انجیل کے شائع ہونے کے ۳۲۰ سال بعد پیش آیا تھا.میں خود یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ قرآن کریم کا عربی متن وینس سے سولہویں صدی کے آخر میں شائع ہوا تھا.یہ نسخہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی لائیر بیری میں محفوظ ہے.I سائینسی فکر کے خلاف مذہبی اداروں کی مخالفت اس قدر شدید تھی کہ (۱۰۰۰ء سے بعد تک) البیرونی کا وہ واقعہ یاد آتا ہے کہ اس پر مرتد ہونیکا الزام اس کے ایک ہم عصر نے اس وقت لگایا تھا جب البیرونی نے اپنے بنائے ہوئے ایک آلے میں (شمسی)، بزنطینی کیلنڈر کا استعمال کیا تھا.اس ایجاد کا مقصد نماز پنجگانہ ادا کرنے کیلئے صحیح وقت کا تعین تھا.البیرونی نے اس الزام کو رد کرتے ہوئے جواب دیا: بزنطینی تو روٹی بھی کھاتے ہیں، کیا اب آپ روٹی کے خلاف بھی شریعت کا کوئی حکم جاری کر دیں گے.۱۳

Page 305

(۲۹۲) ایک امیریکن سائنسدان جو نظریاتی طبیعات میں میرا شاگرد تھا یعنی والٹر گلبرٹ Gilbert جس کے ساتھ مل کر میں نے ڈسپرشن dispersion پر ایک مضمون بھی لکھا تھا وہ جینیٹک کوڈ کے امریکن دریافت کنندہ جے ڈی واٹسن کا (کیونڈش لیبارٹری) میں ہمسایہ تھا.جب گلبرٹ ۱۹۵۶ء میں اپنی پی ایچ ڈی کمل کرنے کے بعد ہم سے رخصت ہوا تو وہ ہارورڈ یو نیورسٹی واپس چلا گیا.اسکے بعد میری اپنے عزیز طالب علم گلبرٹ سے ملاقات ۱۹۶۱ء میں ہوئی جب میں امریکہ گیا ہوا تھا.یہ فرض کرتے ہوئے کہ وہ ابھی تک نظریاتی طبیعات پر کام کر رہا ہے میں نے اس سے پوچھا کہ اب کیا ارادے ہیں.وہ کچھ لیا گیا اور کہا میں شاید تمہارے لئے شرمندگی کا باعث ہوں.میر اوقت آجکل جراثیموں کی افزائش پر گزرتا ہے.واٹسن نے گلبرٹ کو جینے ٹکس کی طرف مائل کر لیا تھا.گلبرٹ نے جلد ہی نیو کلک ایسڈ میں سی کیوئینگ sequencing کرنیکی ایک شاندار تیکنیک ایجاد کر لی.اور اسے ۱۹۸۰ میں کیمسٹری کا نوبل پرائز دیا گیا.۱۴ ۱۹۵۱ء میں مجھے بلایا گیا کہ میں انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانس سٹڈیز ، پرنسٹن (امریکہ) آکر ایک لیکچر دوں اس وقت تک میں اپنے نظرے کا اطلاق افزودہ سپین زیرو میسان کے فوٹان کے ساتھ باہمی رو عمل پر ری نار مالائزیشن تیکنیک پر کر چکا تھا.میں اپنے نئے مضمون کی نقل لیکر رابرٹ اوپن ہائیمر کے پاس گیا.اس خیال سے کہ شاید وہ اس کو صاد کر دے.اور میں اسے اشاعت کیلئے فزکس ریویو رسالہ میں بھیجوا دوں.تب مجھے خیال آیا کہ مضمون کی نقل جو میں نے اوپن ہا ئیمر کو بھجوائی ہے.اس کے ساتھ ڈایا گرام لگانا تو میں بھول گیا ہوں.چنانچہ میں اس مسودہ کو واپس لینے کیلئے اس کے دفتر گیا.مجھے وہاں کچھ دیر انتظار کرنا پڑا.کیونکہ اس کو ملنے کیلئے لوگ آئے ہوتے تھے.پھر وہ اپنے دفتر سے باہر آیا اور مجھے دیکھ کر کہا: میں نے تمہارا مسودہ بہت مزے لیکر پڑھا ہے.یہ بہت اچھا مضمون ہے مجھے اس پر خموش ہو جانا چاہئے تھا مگر میں ایک احمق کی طرح بولا: میرا خیال ہے کہ آپ اس کو سمجھ نہیں سکے

Page 306

(۲۹۷) کیونکہ اس کے ساتھ ڈایا گرام نہیں تھیں.اوپن ہائیمر کے چہرہ کا رنگ بزی طرح بدل گیا مگر اس نے صرف اس قدر کہا اس کے نتائج بہر حال درست ہی ہیں اور وہ ڈایا گرام کے بغیر بھی سمجھ آ جاتا ہے.۱۵ ۱۹۵۶ء میں پروفیسر بلیک ایٹ امپرئیل کالج لندن میں فزکس ڈیپارٹمنٹ کے چیئر مین تھے ان کو کالج کے تھیوریٹیکل ڈیپارٹمنٹ کیلئے چیر مین کی تلاش تھی.پروفیسر ہانس بیتھ Bethe نے اس کو کہا کہ وہ پر وفیسر سلام کو اس چیز کیلئے منتخب کر لیں.چنانچہ انہوں نے سلام کو پیشکش کر دی.البتہ ڈاکٹر سلام کو پروفیسر ٹیمپل Temple کے سامنے انٹرویو کیلئے حاضر ہونا تھا جو کہ ایڈنگٹن کے معترف تھے.انٹرویو کے دوران ٹیمپل نے ڈاکٹر سلام سے پوچھا کہ ان کی رائے ایڈ منٹن کی اسٹرانومی پر کتاب کے بارہ میں کیا ہے؟ سلام کی رائے کچھ اچھی نہ تھی مگر چونکہ ان کو ٹیمپل کی رائے کا علم تھا ، اس لئے یوں جواب دیا: I had not read the book with the detachment of a neutral mind.Professor Temple smiled and said: Young man, you should go to diplomatic service.۱۶ ایک بار سرظفر اللہ خان نے ڈاکٹر سلام کو مشورہ دیا کہ وہ پاکستان کی شہریت کے ساتھ برطانیہ کی شہریت بھی حاصل کر لیں.لیکن سلام نے یہ مشورہ قبول کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ جب ان کو نوبل انعام ملے تو اس کا سہرا کسی اور ملک کو جائے.اسی طرح جب لندن سے ڈاکٹر سلام ۱۹۵۱ء میں لاہور واپس آئے تو انہوں نے پروفیسر قاضی محمد اسلم ( سابق پرنسپل گورنمنٹ کالج لاہور) کے ہاں رہائش اختیار کی.قاضی صاحب نے اس دور کا یہ مشاہدہ سنا یا Salam worked very hard but never gave the impression of working hard Whenever one entered his room, one would find Salam working at his table.But he would immediately stand up to converse with you with complete ease and delight until one begged for leave.And after leaving his room, if one cared to peep back, one would

Page 307

find Salam back at his table working as if nothing had disturbed him (۲۹۸) جنرل یحیی خان کے دور حکومت میں ایم ایم احمد فنانس سکرٹری تھے.ایک بار وہ لندن آئے اور ڈاکٹر سلام کے گھر چٹنی میں قیام کیا.اس قیام کے دوران سلام نے ان کو قائل کر لیا کہ وہ پاکستان سائینس فاؤنڈیشن کے قیام کے لئے ایک کروڑ روپیہ مختص کریں جو بعد میں پچاس لاکھ روپیہ کر دیا گیا.یہ ۷۰.۱۹۶۹ کی بات ہے.14- ڈاکٹر سلام کو خدا تعالیٰ نے غضب کے حافظہ سے نوازا تھا.جب سلام گورنمنٹ کالج لاہور میں طالب علم تھے تو طلباء کو اس چیز کا بخوبی علم تھا.پروفیسر ڈاکٹر وحید قریشی اس وقت ان کے ہم جماعت تھے.ایک روز طلباء کا ایک گروپ انار کلی بازار یونہی گھومنے گیا جب وہ بازار کے ایک طرف سے گھومتے ہوئے دوسری طرف پہنچ گئے تو وحید قریشی نے سلام سے پوچھا کہ کیا وہ بازار کے دائیں طرف کی ہر دکان پر لگے ہوئے بورڈ پر لکھے نام کو دہرا سکتے ہیں؟ قریشی صاحب حیران رہ گئے جب سلام نے نوے فی صد نام یک لخت دہرادئے.سلام کو اس ٹیسٹ کا بازار میں داخل ہونے سے پہلے بتلا یا نہیں گیا تھا.جب بھٹو گورنمنٹ نے پاکستان میں احمد یہ جماعت کو آئینی طور پر غیر مسلم قرار دے دیا تو ڈاکٹر سلام نے بہ حیثیت سائینسی مشیر وزیر اعظم کو اپنا استعفیٰ پیش کر دیا.اور کہا کہ جہاں تک ملاؤں کا تعلق ہے میں اس ضمن میں بوعلی سینا کے مرتبہ کا ہوں جس کو اسکے زمانے کے ملاؤں نے کافر قرار دیا تھا.اس ضمن میں آپ نے ابن سینا کے یہ فارسی رباعی پیش کی: کفرے چومن گزاف آسان نبود محکم تر از ایمان من ایمان نبود درد ہر چومن یکے و آنہم کافر پس در همه د هر یک مسلمان نبود 19_ ڈاکٹر سلام کے طالب علمی کے زمانے میں سر ظفر اللہ خاں نے ان کی پڑھائی کے سلسلہ میں نصیحت کی: (۱) اپنی صحت کی طرف خاص توجہ رکھو.بجائے کتابوں کا کیڑا بننے کے چینی نشود نما کی طرف

Page 308

(۲۹۹) توجہ دو (۲) کالج میں جو لیکچر پروفیسر نے کل دینا ہے وہ آج اچھی طرح دیکھ کر جاؤ تا اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے اور گھر آکر اسے دہراؤ.(۳) اگر سفر کا موقعہ ملے تو اس کا علمی رنگ میں فائدہ اٹھاؤ چاہے محض سیر و تفریح کے رنگ میں، یا علمی مجالس سے استفادہ حاصل کرنے کیلئے.گھر سے نکل کر دوسرے علاقے دیکھنے سے دماغی وسعت پیدا ہوتی ہے.جو کہ بجائے خود تعلیم ہے.There is nothing more destructive of morale than economic inequality.(Dr.Salam) ڈاکٹر عبد السلام کے چند ایک نامور شاگرد والٹر گلبرٹ (امریکہ).ڈاکٹر ریاض الدین (پاکستان).ڈاکٹر غلام مرتضیٰ (پاکستان).ڈاکٹر مجاہد کامران( پاکستان) ڈاکٹر فیاض الدین (پاکستان) Dr.M.J.Duff (امریکہ ).ڈاکٹر منیر رشید (پاکستان) - Yuval Neeman Yuval ٹیکساس یو نیورسٹی.جے.سی ٹیلر ( کیمبرج).رائلڈ شاء Shaw.( ڈرہم یو نیورسٹی).J.Polkinghome( کیمبرج یونیورسٹی مصنف Belief in God in an age of science ).ڈاکٹر فہیم حسین (پاکستان).........۲۲ ۱۹۸۸ء میں ڈاکٹر عبد السلام نے برطانیہ میں ڈائیر اک میموریل لیکچر دیتے ہوئے بتلایا کہ بچپن میں (۱۹۳۶ء) انکا تعارف فطرت کی چار قوتوں کے بارہ میں ان کے ٹیچر سے ہوا.پہلے تو اس نے گر یویٹی ( یعنی قوت ثقل) کے بارہ میں بتایا.ہر کوئی اس کے بارہ میں شدھ بدھ رکھتا تھا کیونکہ نیوٹن جیسے سائینسدان کا نام جھنگ جیسے شہر میں بھی ہر ایک کو معلوم تھا.پھر اس نے مقناطیسی قوت کے بارہ میں ہمیں بتلایا اور اسکے ساتھ ہمیں ایک مقناطیس بھی دکھلایا.پھر اس نے الیکٹریسٹی کا ذکر کیا اور کہا کہ یہ جھنگ میں نہیں پائی جاتی بلکہ یہ لاہور میں پائی جاتی ہے جو کہ ایک سومیل دور تھا.آخر پر اس نے نیوکلئیر فورس کا ذکر کیا اور کہا کہ یہ فورس یوروپ میں پائی جاتی ہے انڈیا میں نہیں، اس لئے ہمیں اس کے بارہ میں فکر کر نیکی

Page 309

(۳۰۰) کی کوئی ضرورت نہیں.90 Unification of Fundamental Forces, A.Salam, page 35, 1990- ۲۳ ڈاکٹر سلام کی خواہش تھی کہ ان کی بڑی بیٹی عزیزہ بھی ان کی طرح فرے سسٹ بنے.چنانچہ اس نے سکول میں فزکس کے مضمون کا مطالعہ کیا، ۱۹۷۳ء میں جب ڈاکٹر صاحب نے پروٹان ڈی کے کی تھیوری وضع کی تو انہوں نے اس کو بتلایا کہ پروٹان جو ہے وہ unstable ہے.چنانچہ وہ اپنے اے لیول کے ٹیچر کے پاس گئی اور اس کو بتلایا کہ میرے والد نے یہ کہا ہے.ٹیچر نے اس کو کہا: My dear girl, whatever nonsense your father teaches you at home, don't put it in the exam paper, or you will fail.بیٹی نے امتحان میں وہ کچھ لکھ دیا جو باپ نے سمجھایا تھا اور نتیجہ یہ کہ وہ امتحان میں فیل ہو گئی.اس کے بعد ان کی بیٹی نے فزکس کو چھوڑ کر لٹریچر کا مضمون لے لیا.۱۹۶۷ء میں ڈاکٹر سلام اور ڈاکٹر وائن برگ الگ الگ اس تھیوری پر ریسرچ کا کام کر رہے تھے جس کی بناء پر ان کو نوبل انعام دیا گیا.اس تھیوری کو وضع کرنے میں بہت سے آئیڈیاز سے کام لیا گیا تھا ان میں سے ایک آئیڈیا کا نام spontaneously breaking symmetry تھا.سوال یہ تھا کہ سیمٹری ٹوٹتی کیسے ہے؟ اس کو سمجھانے کیلئے ڈاکٹر سلام درج ذیل مثال دیتے تھے: فرض کریں کہ آپ نے شام کے کھانے پر بارہ افراد کو بلایا ہے.وہ ایک بڑے گول میز کے گرد بیٹھنے کا انتظار کر رہے ہیں.اگر آپ کو کسی قاعدہ کا علم نہیں تو آپ کسی بھی کرسی پر بیٹھ سکتے ہیں اور پلیٹ کو چاہے دائیں طرف سے یا بائیں طرف سے لے لیں.یہ سیمٹری کی حالت کہلاتی ہے.لیکن جو نبی ان مہمانوں میں سے کسی نے پہل کر کے پلیٹ اٹھالی تو پھر باقی کے تمام مہمانوں کو اسی طرف سے پلیٹیں اٹھانا ہوں گی یوں لیفٹ اور رائیٹ کی سیمٹری spontaneously broken ہوگئی.۲۵ آنر یہل چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کے عشق رسول ﷺ کا ایک واقعہ ڈاکٹر سلام نے یہ سنایا کہ

Page 310

(۳۰۱) ایک دفعہ چوہدری صاحب موصوف کمر درد کی وجہ سے صاحب فراش ہو گئے اور وانڈ زورتھ کے ہسپتال میں داخل تھے.ڈاکٹر سلام انکی عیادت کیلئے ہسپتال گئے.ساتھ میں وہ کتاب شمائل ترمذی بھی لیتے گئے جو امام ترمذی نے لکھی تھی اور جس میں رسول مقبول میے کی روزانہ زندگی ، آپ کے خدوخال، آپ کیا پہنتے تھے.نیز آپ کی روزانہ کی مصروفیات، عائلی زندگی اور پبلک لائف کو بیان کیا گیا ہے.ڈاکٹر سلام کا خیال تھا کہ اللہ نے چاہا تو وہ ایک روز اس کتاب کا انگلش میں ترجمہ کریں گے.یہ کتاب وہ چوہدری صاحب کے پاس چھوڑ آئے اور خود ملاقات کے بعد ٹریسٹ روانہ ہو گئے.چند ماہ کے بعد ڈاکٹر صاحب واپس لندن آئے اور چوہدری صاحب سے ملاقات کیلئے ان کی رہائش گاہ پر گئے.چوہدری صاحب نے شمائل ترمذی کا انگلش ترجمہ ان کو پیش کیا جو کہ چھپ بھی چکا تھا اس پر انہوں نے دستخط بھی کر دئے تھے.ڈاکٹر سلام نے احتجاج کیا کہ یہ ترجمہ تو میں کرنا چاہتا تھا تا کہ میرا بھی غفران ہو سکے.چوہدری صاحب نے فرمایا مجھے لگتا تھا کہ تمہیں مستقبل قریب میں شاید اتنا وقت نہ ملے تو میں نے سوچا کہ میں جو ہسپتال میں بستر پر پڑا ہوں میرے وقت کا صحیح مصرف یہی ہوگا کہ یہ ترجمہ کر ڈالوں.دعا کی قبولیت پر یقین کامل: Personally I do have faith in the efficacy of prayer at times of distress.I could elaborate on this intensely personal thought but I shall forbear to do this.My greatest desire before I die is that Allah in His Bounty may grant me the mystical vision - so that I too can partake first-hand of what was vouchsafed to the Seers in the past.(Ideals & Realities, P296) ۲۷ روز نامه مشرق لاہور.۱۹ اکتوبر ۱۹۷۹ ڈاکٹر صاحب کی بیگم (امتہ الحفیظ صاحبہ) سے کسی نے ایک بار پوچھا کہ آپ کے شوہر سائینس

Page 311

(۳۰۲) دان ہیں اور ایسے لوگوں کے متعلق مشہور ہے کہ وہ غائب دماغ ہوتے ہیں.کیا ڈاکٹر صاحب بھی ایسے ہیں؟ بیگم صاحبہ نے کہا کہ وہ اکثر خیالات میں مستغرق ہوتے ہیں اور یوں نظر آتا ہے کہ سوچتے سوچتے وہ کسی دوسری دنیا میں چلے گئے ہیں.اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ کھانے کی میز پر ہیں اور اچانک نوالہ ہاتھ سے رکھ کر لکھنے پڑہنے کی میز پر چلے جاتے ہیں.اور پھر گھنٹوں مصروف رہتے ہیں.دراصل وہ ہر وقت سوچتے رہتے ہیں اور یہی ان کے کھوئے رہنے کا سبب ہے.PA_ ڈاکٹر عبد السلام کا ایک پسندیدہ شعر اور ان کی بیان کردہ اسکی تشریح: کئی بار اسکی خاطر ذرے ذرے کا جگر چیرا مگر یہ چشم حیراں جس کی حیرانی نہیں جاتی (فیض) If there is one hallmark of true science, if there is one perception that scientific knowledge heightens, it is this spirit of 'tahayyar.The deeper that one goes, the more profound one's insight, the more is one's sense of wonder increased.کسی نے ڈاکٹر سلام سے سوال کیا 7 : ?What happened to Islamic Science انہوں نے جواب دیا Nothing, instead what we cultivated in Ishpahan and Cordoba is now being cultivated at MIT, Caltech, and at Imperial College, London.It's just a geographical translations of place.والدین کی خدمت: ڈاکٹر عبد السلام کو اپنے والدین کی ہر سہولت کا خیال ہمیشہ مد نظر ہو تھا تھا.اس ضمن میں پاکستان کے نامور ادیب شیخ محمد اسماعیل پانی پتی نے درج ذیل واقعہ بیان کیا ہے.ڈاکٹر صاحب کی تعیناتی امپرئیل کالج میں جب پروفیسر کے ہوگئی تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے والدین کولندن بلوا لیں.اس ضمن میں انہوں نے ایک گھر پتنی کے علاقہ میں خرید لیا حالانکہ یہ

Page 312

(۳۰۳) گھر امپرئیل کالج سے کافی دور تھا.ان کے ایک دوست نے ان سے پوچھا کہ آپ نے یہ گھر اتنی دور کیوں خرید لیا ، یوں آپ کا کتنا وقت آنے جانے میں ضائع ہو جائیگا ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر وہ چاہتے تو گھر لندن کے کسی اعلیٰ مضافات میں بھی خرید سکتے تھے.ڈاکٹر صاحب نے اس دوست کو جواب دیا: میں نے یہ گھر اپنے والدین کی سہولت کو مد نظر رکھتے ہوئے خریدا ہے.میرے والدین نماز با جماعت کے پابند ہیں اور جو روحانی سکون ان کو نماز با جماعت ادا کر کے حاصل ہوتا ہے وہ اگر میں گھر کہیں دور خرید لیتا تو حاصل نہ ہوتا.پٹنی کے علاقہ میں مسجد فضل بھی واقع ہے یوں ان کے لئے مسجد جا کر نماز ادا کرنا بہت آسان ہو گا.جہاں تک میرے روزانہ سفر کا تعلق ہے مجھے اس کی ہرگز پرواہ نہیں.اسی طرح ایک دفعہ ڈاکٹر صاحب کی ملاقات ڈیوک آف ایڈنبرا (ملکہ ایلر بیتھ کے شوہر.پرنس فلپ) سے طے ہوئی تو وہاں وہ اپنے والد صاحب کو بھی ساتھ لے گئے اور ان کی ملاقات ڈیوک سے کروائی.جنوری ۱۹۶۱ء میں ڈاکٹر سلام ڈھا کہ جاتے ہوئے کراچی رکے جہاں ان دنوں ویسٹ و ہارف میں PAEC کی لیبارٹریز تھیں اور سائینسدانوں کا ایک فعال ریسرچ گروپ meson-interaction پر تحقیق کا کام کر رہا تھا ڈاکٹر سلام نے sir John Cockcroft ( نوبل ۱۹۵۱ء ) کو دعوت دی تھی کہ وہ ان لیباٹریز کو وزٹ کریں صبح کے وقت یہ گروپ اپنے کام میں مصروف تھا قبل اس کے کہ سر کاک کرافٹ کمرہ میں آتے کسی نے بلیک بورڈ کو صاف کر دیا.چند منٹ بعد ڈاکٹر سلام آئے اور بلیک بورڈ صاف دیکھ کر کہا ایسا لگتا ہے کبھی استعمال ہی نہیں ہوا چنانچہ انہوں نے بلیک بورڈ پر ایک پرابلم سمجھانا شروع کر دیا عین اس وقت سر کاک کرافٹ تشریف لائے اور سلام سے مخاطب ہو کر کہا Oh you have started your research group already ڈاکٹر عزیزہ رحمن نے درج ذیل دلچسپ واقعہ اپنے ابی کے بارہ میں سنایا:

Page 313

۱۳۰۴) ایک روز ہماری خوشی اور تعجب کی کوئی انتہا نہ رہی جب انہوں نے ہمیں فلم لارنس آف عربیا دکھانے کا فیصلہ کیا زندگی میں پہلی بار ہم سینما گھر جانے لگے تھے فلم کا ابھی نصف حصہ ختم ہوا تھا کہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وقت کا کافی زیاں ہو گیا ہے اس لئے آئے اب گھر چلیں ہماری مایوسی کا کوئی عالم نہ تھا ہم نے ان سے درخواست کہ باقی کی فلم بھی دیکھ لینے دیں بلآخر وہ مان گئے اس شرط پر کہ وہ خود باہر کار میں جا کر بیٹھ جائیں گے.جب فلم ختم ہوئی تو ہم نے دیکھا کہ وہ کار کے اندر اپنی تھیوریز میں دنیا و ما فیہا سے کلینا بے خبر مصروف کار تھے.گھر واپس پہنچنے پر ہمیں حکم ہوا کہ اب ہم نے مضمون لکھنا ہے جس میں یہ ذکر ہو کہ ہم نے اس فلم سے کیا سیکھا؟ وطن عزیز.ابا جان کو تین باتوں سے مجنونانہ عشق تھا: ایک تو قرآن مجید دوسرا ان کے والدین اور تیسرا ائر مارشل ظفر چوہدری نے بیان کیا: ۳۳ ایک مرتبہ میرا چھوٹا بھائی اور میں صبح کے وقت ڈاکٹر صاحب کے گھر گئے ڈاکٹر صاحب نے قدرے پریشانی کے عالم میں بتلایا کہ انہیں کالج پہنچنا ہے اور ان کی کار کی بیٹری کمزور ہونے کی وجہ سے سٹارٹ نہیں ہو رہی.میرے بھائی نے کہا کہ اگر صرف یہ بات ہے تو لاز ما دھکا لگانے سے ضرور سٹارٹ ہو جائینگی.ڈاکٹر صاحب بہت حیران ہوئے اور کہا کہ کیا واقعی اس طرح کار سٹارٹ کی جاسکتی ہے.میرا بھائی کار میں بیٹھا اور ڈاکٹر صاحب اور میں نے دھکا لگایا اور یوں کار سٹارٹ ہو گئی اور یہ مشکل حل ہوگئی.اس طرح ہم پر یہ راز کھلا کہ یہ ضروری نہیں کہ ایک عظیم سائینسدان روزمرہ کے معمولی ٹوٹکوں سے بھی واقفیت رکھتا ہو.یم کیمبرج سے رخصت ہوتے وقت ڈاکٹر سلام نے اپنے نگران پر وفیسر Nicholas Kemmer سے درخواست کی کہ وہ انہیں ایک سفارش نامہ لکھ کر دیں کہ انہوں نے پی ایچ ڈی کرنے

Page 314

(۳۰۵) کے دوران تسلی بخش طریق سے اپنا کام سرانجام دیا تھا اس پر ان کے نگران نے کہا: تم مجھے یہ تصدیق نامہ لکھ کر دو کہ تم نے میرے ساتھ کام کیا ہے.عظیم قدوائی نے بیان کیا: ۳۵ ۱۹۷۱ء میں جب کراچی نیوکلئیر پاور پلانٹ نے critically حاصل کر لی تو ڈاکٹر سلام کراچی تشریف لائے.ڈاکٹر سلام، آئی ایچ عثمانی ، کے ہمراہ کار میں گورنمنٹ گیسٹ ہاؤس سے کینوپ جا رہے تھے.عظیم قدوائی بھی کار میں پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے.عظیم قدوائی جو کئی سال سے ڈان کراچی کے نامور سائینس رائٹر تھے انہوں نے ڈاکٹر عبد السلام سے پوچھا.? (3) What about یعنی وہ تھیوری جو ڈاکٹر سلام نے ۱۹۶۰ء کی دہائی میں پیش کی تھی اور جس کی وجہ سے ان کی سائینسی دنیا میں بہت عزت افزائی ہوئی تھی.ڈاکٹر سلام نے یہ جواب دیا اور پھر خوب قہقہ لگا کر ہنستے رہے:.I am no longer on the trinity wicket, I am working for unity (DAWN, Nov 3, 79) زکر یا ورک کو ڈاکٹر صاحب نے میڈلین ( وسکانسن ، امریکہ ۱۹۸۱) میں یہ واقعہ سنایا تھا: ایک بار ڈاکٹر صاحب کی ملاقات جنرل ضیاء الحق سے پریذی ڈینٹ ہاؤس میں ہوئی ، باتوں باتوں میں ۱۹۸۴ والے انیٹی احمد یہ آرڈی نینس کا ذکر بھی آ گیا.جنرل صاحب نے کہا بات یہ ہے کہ میرے پاس علماء کا ایک وفد آیا تھا انہوں نے مجھے بتایا کہ احمدی قرآن مجید میں تحریف کرتے ہیں اس لئے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں.اس پر ڈاکٹر سلام نے ان سے عرض کیا کہ قرآن کی حفاظت کا وعدہ تو اللہ تعالی نے کیا ہے اس لئے احمدی اس میں تحریف کیسے کر سکتے ہیں؟ اس پر وہ اٹھ کر کتابوں کی الماری کی طرف گئے اور تفسیر صغیر اٹھا لائے اور کہا کہ علماء نے ان آیات کی نشاندہی کی ہے جہاں آپ لوگوں نے تحریف سے کام لیا ہے اور ایک نشان زدہ صفحہ کھول کر میرے سامنے کر دیا.یہ آیت خاتم النبین تھی میں

Page 315

(۳۰۶) نے جنرل صاحب سے عرض کیا کہ آیت تو مکمل طور پر درج ہے تحریف کہاں ہوئی ہے.انہوں نے جواب دیا کہ آپ نے آیت کے معنوں میں تحریف کی ہے اور بجائے نبیوں کو ختم کرنے والے کے نبیوں کی مہر ترجمہ کیا ہے اور یہ نا قابل برداشت ہے.ڈاکٹر صاحب نے مجھے بتایا کہ میں نے جنرل صاحب سے عرض کیا کہ ختم کا لفظ جو یہاں استعمال ہوا ہے وہ پنجابی زبان کا لفظ نہیں ہے بلکہ عربی زبان کا ہے اور اس کے معنی عربی میں مہر کے ہیں لیکن میں اس بحث میں پڑنا نہیں چاہتا کیا آپ کے پاس کسی اور عالم قرآن کا ترجمہ ہے؟ وہ اٹھے اور علامہ محمد اسد کا انگریزی ترجمہ قرآن اٹھا لائے جو مکہ معظمہ سے شائع ہوا تھا میں نے قرآن مجید کھولا آیت خاتم النبین نکالی تو وہاں بھی ترجمہ seal of the prophets لکھا تھا.جنرل کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا میں نے عرض کیا علامہ اسد تو احمدی نہ تھے پھر ان کا ترجمہ سعودی حکومت کا شائع کردہ ہے کیا انہیں بھی آپ تحریف کا مجرم قرار دیں گے؟ اس پر جرنیل صاحب کہنے لگے بھئی میں تو ان پڑھ جرنیل ہوں.جو علماء نے مجھے کہا میں نے اسے مان لیا.سلام خدا کی قسم میں تمھیں اپنے سے بھتر مسلمان سمجھتا ھوں لیکن کیا کروں میں علماء کے سامنے مجبور ھوں.۳۷ پروفیسر ڈاکٹر محمد ادریس بھٹی (یونیورسٹی آف ٹیکساس) نے بیان کیا: bhati@panam.edu ۱۹۸۲ء میں عاجز پروفیسر عبد السلام کا اٹلی میں شاگر د تھا.امریکہ میں داخلہ حاصل کرنے کیلئے انہوں نے کئی سفارشی خطوط میری خاطر بھجوائے.آخر کار مجھے نوٹرے ڈیم یو نیورسٹی میں داخلہ مل گیا.۱۹۸۷ء میں عاجز نے اٹامک فزکس میں ڈاکٹریٹ مکمل کر لی.میں نے ان کو اس امر کی اطلاع دی تو وہ بہت خوش ہوئے.اسکے بعد میں نے ان کو خط لکھا کہ اب میری رہ نمائی فرمائیں کہ مزید کیا کروں؟ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ امریکہ میں ہی کسی جگہہ ملازمت حاصل کرلوں ، ۱۹۸۹ء میں مجھے یو نیورسٹی آف ٹیکساس میں ملازمت مل گئی ، ہم نے ان کو یہاں مدعو کیا وہ آئے سب لوگ ان کو مل کر خوش ہوئے.☐

Page 316

زکر یا ورک نے بیان کیا: (۳۰۷) انیس سو اسی کی دہائی کے شروع میں پاکستان کے نیوکلئیر پروگرام کا اخبارات میں بہت چرچا تھا اور صحافی چہ میگوئیاں کیا کرتے تھے کہ اس ضمن میں پاکستان کی کون مدد کر رہا ہے میں نے نیو یارک ٹائمنر میں اور انڈیا ابراڈ میں بھی مضامین اس ضمن میں پڑھے تھے جن میں یہ ذکر کیا گیا تھا کہ عبد السلام ضرور پاکستان کی مدد کر رہے ہیں.چنانچہ میں نے آپ سے استفسار کیا کہ مغربی میڈیا میں یہ کہا جاتا ہے کہ آپ پاکستان کی نیوکلئیر بمب بنانے میں مدد کر رہے ہیں؟ بلکہ بعض ایک نے تو آپ کو فادر آف نیوکلئیر پروگرام بھی لکھا ہے.تو آپ مسکرا دئے.اور ایک منجھے ہوئے ڈپلومیٹ کی طرح جواب دیا: It's a double edge sword ایک رات کیلئے فیلڈ مارشل عبد السلام؟ میں ستمبر ۱۹۵۶ء میں سی اسٹیل کا نفرنس Seattle Conference میں شمولیت کے لئے امریکہ کی ریاست واشنگٹن گیا، جہاں پروفیسر یانگ اور پروفیسر لی Yang & Lee نے لیفٹ رائٹ سیمٹری کے مقدس اصول کو و یک نیوکلئر فورس میں غلط ہونے کے امکانات پر شبہ کا اظہار کیا تھا.اس کے بعد میں امریکن ائر فورس کے ٹرانسپورٹ جہاز MATS پر لندن واپس آرہا تھا.کیونکہ اس زمانے میں ہوائی سفر کی سہولتیں اتنی اچھی نہیں تھیں جتنی اب آرام دہ ہیں.جہاز پر سوار امریکن فوجیوں نے ازراہ تفنن مجھے ایک رات کے لئے برگیڈئیر یا فیلڈ مارشل کا عہدہ دے دیا تھا.مجھے ٹھیک طرح یاد نہیں کون سا؟ جہاز کا سفر بہت تکلیف دہ تھا کیونکہ فوجیوں کے بچے ساری رات روتے رہے.یعنی فوجی نہیں بلکہ ان کے بچے ، اور میں اس خیال میں مگن کہ ویک انٹرایکشن میں لیفٹ رائٹ سیمٹری کیوں ٹوٹے گی؟ Ideals & Realities, 1987, page 280

Page 317

(۳۰۸) انیس سو ساٹھ کی دہائی کے شروع میں جب ڈاکٹر عبدالسلام ایک بین الاقوامی مرکز برائے نظری طبیعات بنانے کے پراجیکٹ پر کام کر رہے تھے.تو ان کی شدید خواہش تھی کہ یہ مرکز پاکستان میں قائم ہو اس ضمن میں انہوں نے ۱۹۶۳ء میں صدر پاکستان محمد ایوب خان سے کراچی میں ملاقات کی اور ان کو اپنی ضرورت سے آگاہ کیا جس میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ مالی وسائل کے ساتھ سائینسدانوں کو ایک بلڈنگ بھی فراہم کی جائے.صدر ایوب نے اپنے وزیر خزانہ محمد شعیب کو فون کیا اور ان سے اس تجویز کے بارہ میں مشورہ مانگا.اس پر وزیر خزانہ نے فرمایا: جناب پروفیسر دنیا بھر کی سائینسی کمیونٹی کیلئے ایک بین الاقوامی ہوٹل قائم کرنا مانگتے ہیں نہ کہ پاکستان میں کوئی نظری طبیعات کا مرکز.صدر پاکستان نے اس مشورے پر ڈاکٹر عبد السلام سے معذرت کر لی.بعد میں یہ سینٹر اٹلی میں قائم ہو گیا.اور آج چالیس سال بعد دنیا اس سینٹر کی کامیابی پر انگشت بدنداں رہ گئی ہے.تیسری دنیا میں سائینس کے فروغ میں اس سینٹر کا وہی کردار ہے جو پین کے شہر ٹولیڈ و Toledo کو یوروپ کی نشاۃ ثانیہ میں حاصل ہے.یا اسلامی سائینس کے آغاز میں بغداد کو آٹھویں صدی میں حاصل تھا.......حمیدہ بشیر احمد صاحبہ ( ڈاکٹر صاحب کی ہمشیرہ) نے بیان کیا: ایک مرتبہ ڈاکٹر صاحب سنگا پور جانے کیلئے پاکستان سے گزر رہے تھے کہ ان کا سوٹ کیس جو وہ جہاز پر ساتھ لے کر چلے تھے، گم ہو گیا.ائر لائین والوں کا فون آیا کہ آپ نئے کپڑے خرید لیں.ہم آپ کو ان کی قیمت ادا کردیں گے.ڈاکٹر صاحب نے کوئی غم و غصہ کا اظہار نہ کیا صرف اتنا کہا ان کو کپڑوں کی پڑی ہے مجھے ان ضروری کاغذات کی ، جن کی مجھے وہاں ضرورت ہوگی.۴۳ بر اور اصغر، چوہدری عبد الرشید (لندن) نے بیان کیا: ڈاکٹر صاحب، حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب کی بہت عزت اور احترام کرتے تھے ، دونوں مختلف مسائل پر بعض دفعہ لمبی گفتگو کیا کرتے تھے.دسمبر ۱۹۷۹ میں ڈاکٹر صاحب کے اعزاز میں

Page 318

(۳۰۹) گورنر پنجاب نے اعشائیہ کا اہتمام کیا ، اس موقعہ پر گورنر پنجاب سوار خاں نے پوچھا کہ اب آپ کا آئیڈیل کون ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے جوابدیا.سرظفراللہ خاں.اس پر گورنر خاموش ہو گئے.ڈاکٹر صاحب کو قرآن مجید سے عشق تھا.جب بھی سفر کرتے تو کوٹ کی جیب میں قرآن پاک ہوتا تھا.اپنی تقاریر میں وہ درج ذیل آیات کے حوالے دیا کرتے تھے: سورۃ الجاثیہ آئت نمبر ۱۴.سورۃ الملک آئت نمبر ایک تا پانچ.سورۃ العلق آئت نمبر ۱۳.سورۃ یسین آئت نمبر ۸۲ تا ۸۴.سورة الرعد آئت نمبر ۱۲.سورۃ بنی اسرائیل آئت ۲۴ تا ۲۵.سورۃ البقرۃ آئت نمبر ۳ اور ۲۵۶.۱۹۷۹ء میں جب آپ نوبل انعام وصول کرنے کیلئے سویڈن گئے تو آپ نے کنگ آف سویڈن کے سامنے فزکس کا انعام حاصل کر نیوالوں کی طرف سے بین کو سیٹ ایڈریس پیش کیا، اس موقعہ پر آپ نے درج ذیل آیہ کریمہ تلاوت فرمائی: ما ترى في خلق الرحمن من تفاوت....الخ.یہ پہلا موقعہ تھا کہ سٹاک ہالم کے اس بلینکویٹ ہال میں قرآن پاک کی تلاوت کی گئی.آپ کا یہ بھی دستور تھا کہ والدین کی طرف سے قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے تا ان کی روح کو ثواب پہنچے.اٹلی میں قیام کے دوران جو مسلم طلباء وہاں تعلیم کیلئے آتے تھے.آپ جمعہ کے روز با جماعت صلوۃ کا انتظام فرماتے نیز امامت کے فرائض انجام دیتے تھے.۱۹۴۷ء میں جب آپ لندن میں اکیس سال کے نوجوان طالب علم تھے تو آپ مسجد فضل لندن میں اعتکاف بھی بیٹھے تھے.ڈاکٹر طاہرہ ارشد ( یو نیورسٹی آف ٹینی سی ، امریکہ ) نے بیان کیا: میں اپنے شوہر کے ہمراہ ، جو پارٹیکل فزے سمسٹ ہیں.قریب میں سال تک آند سد تو ہو وزٹ کیلئے جاتی رہی.ڈاکٹر سلام کو اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ سائینسدانوں کو تھیورنیکل فزکس کی بجائے اپلائیڈ ریسرچ فیلڈز میں بھی جانا چاہئے.اس ضمن میں انہوں نے کئی ایک سائینسدانوں کو مشورہ دیا اور وہ دوسری فیلڈز میں چلے گئے.

Page 319

(۳۱۰) ایک ہندوستانی میاں بیوی جو زیمبیا سے ٹیسٹ موسم گرما میں ٹریننگ کیلئے آئے تھے.ان کی کوئی اولاد نہ تھی.وہاں قیام کے دوران یہ خاتون حاملہ ہو گئیں، اس سے پہلے اس کے کئی بچے حمل کے دوران ضائع ہو چکے تھے.اطالین ڈاکٹر ز نے اس خاتون کا علاج کیا مگر اس کیلئے اور وقت درکار تھا.اس دوران اس سائینسدان کا وظیفہ ختم ہو چکا تھا اور وہ علاج کیلئے وہاں مزید قیام کرنا چاہتے تھے.ڈاکٹر سلام کو جب اس چیز کا علم ہوا تو انہوں نے ان کی مدد پر ٹھان لی.اس وقت مزید وظیفہ کے لئے سولر انرجی کی فیلڈ میں ریسرچ کیلئے رقم موجود تھی ڈاکٹر صاحب نے اس سائینسدان سے کہا کہ وہ اپنی فیلڈ سولر انرجی میں تبدیل کر لے.چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور ان کے مزید ایک سال کے قیام کا انتظام ہو گیا اس دوران اللہ نے ان کو ایک جاذب نظر بیٹے سے نوازا.دونوں میاں بیوی ڈاکٹر صاحب کے ممنون احسان کہ ان کو بیٹا بھی مل گیا اور خاوند کو پیسے والی اچھی سائینس کی فیلڈ بھی.اسی طرح ایک اور سائینسدان سینٹر میں موقعہ سے فائدہ اٹھانے کے لئے دن میں ہیں ہیں گھنٹے کام کرتا تھا.اس وجہ سے ان کی صحت اچانک خراب ہوگئی.اس نے ڈاکٹر سلام سے ملاقات کی اور ان کو اپنی دینی حالت سے آگاہ کیا کہ وہ کس قدر شدید تناؤ کا شکار ہے.ڈاکٹر صاحب نے اس کو ایک ہفتہ کی چھٹی دے دی اور ساتھ میں دوسو امریکن ڈالر بھی دئے کہ جاؤ آسٹریا کے پہاڑوں میں جا کر وقت گزارو اور ری لیکس ہو جاؤ.اس نے ایسا ہی کیا اور صحت مند ہو کر واپس آکے کام دوبارہ تحقیق کا کام شروع کر دیا.ڈاکٹر منیر احمد خان، سابق چئیر مین اٹامک انرجی کمیشن پاکستان.نے ڈاکٹر سلام کی پاکستان کیلئے سائینسی خدمات کا ذکر تے ہوئے کہا: ڈاکٹر سلام صدر پاکستان کے ۱۴ سال تک سائینسی مشیر رہے نیز ۱۹۵۹ میں سائینفک کمیشن آف پاکستان کے رکن کی حیثیت سے سائینسی تعلیم کا ڈھانچہ استوار کیا.اس کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان اٹامک

Page 320

(۳۱۱) انرجی کمیشن کے بھی ممبر تھے.انہوں نے PINSTECH کے قیام کے لئے جگہہ کا انتخاب کیا.انہوں نے پہلے ری ایکٹر KANUPP کے حاصل کرنے میں ہر ممکن مدد کی.انہوں نے گورنمنٹ کو مائل کیا کہ وہ سائینسدانوں کو بیرون ملک ٹرینگ کے لئے بھیجے.پھر ان سائینسدانوں کو بیرون ملک یو نیورسٹیوں اور لیبارٹریز میں ذاتی تعلق کی بنیاد پر داخلے دلوائے.انہوں نے SUPARCO کے محکمہ کی بنیاد رکھی.انہوں نے صدر ایوب خاں سے کہا کہ سیم و تھور کے مسئلہ کے حل کیلئے امریکی سائینسدانوں سے مدد لیں.انہوں نے نتھیا گلی میں سمر کالج کے انعقاد کا انتظام کیا جو پچھلے ستائیس سال سے منعقد ہو رہا ہے.انہوں نے نیو کلئیر پروسسنگ پلانٹ کیلئے بلیو پرنٹ تیار کیا مگر صدر ایوب خان نے اس کو ملتوی کر دیا.۱۹۷۰ء میں انہوں نے پاکستان کی سائینس پالیسی کیلئے جامع رپورٹ مرتب کی جو نیشنل سائینس کونسل آف پاکستان نے شائع کی.۱۹۷۳ء میں انہوں نے اسلامک سائینس فاؤنڈیشن کے قیام کی تجویز پیش کی.ان کی تجویز پر ہی منسٹری آف سائینس اینڈ ٹیکنالوجی الگ قائم کی گئی تھی.جب پاکستان کا سب سے پہلا راکٹ رہبر خلاء میں گیا اس وقت جائے مقام پر سلام اور عثمانی دونوں کھڑے تھے.......پیکنگ میں چائینیز اکیڈیمی آف سائینس نے ڈاکٹر سلام کے اعزاز میں استقبالیہ دیا اس میں وزیر اعظم چواین لائی شریک ہوئے.لیکن چین کے صدر نے بھی پروٹوکول کے تمام تکلفات کو پس پشت ڈالتے ہوئے اس پروقار تقریب میں شرکت کی، اور آپ کے خطاب کو سامعین میں بیٹھ کر سنا..اسی طرح جب ڈاکٹر سلام جنوبی کوریا گئے تو وہاں کے صدر مملکت نے دوران ملاقات ان سے خاص طور پر پوچھا کہ وہ انہیں مشورہ دیں کہ کسطرح تحقیق اور علمی کارنامہ کے ذریعہ ایک کورین شہری بھی انعام حاصل کر سکتا ہے..۴۸ ۱۹۹۴ء میں ڈاکٹر صاحب کی آئی سی ٹی پی سے ریٹائر منٹ پر ایک الوداعی تقریب منعقد ہوئی.اس موقعہ پر دنیا کے مختلف قوموں اور ملکوں کے نمائندوں اور سائینسدانوں نے شرکت کی.اور سب نے

Page 321

(۳۱۲) بڑھ چڑھ کر ان کے علمی کارناموں پر خراج تحسین پیش کیا.ان کو الوداع کہنے کیلئے ایک طویل قطار بن گئی.تمام سائینسدان آہستہ آہستہ آگے بڑہتے جا رہے تھے ، ڈاکٹر صاحب علالت کی بناء پر وہیل چیئر پر بیٹھے ہوئے تھے.لوگ ان کے سامنے آکر رکتے اور الودائی الفاظ میں ان سے رخصت لیتے اور آگے گزر جاتے.ایک پاکستانی کیلئے یہ عقیدت اور عزت و احترام ، چشم فلک نے یہ نظارہ کب دیکھا ہوگا.اس تقریب میں پروفیسر ہود بھائی بھی موجود تھے.آپ نے بتلایا کہ کسطرح ایک نوجوان پاکستانی طالبعلم بھی آپ کے پاس پہنچ گیا اور جھک کر ڈاکٹر سلام سے کہا: سر پاکستان کو آپ پر فخر ہے.پاکستان کا لفظ سنتے ہی ڈاکٹر صاحب کی آنکھوں سے آنسو نکل کر رخسار پر بہنے لگے.۴۹ ما ہر علم و ادب ، پر وفیسر خواجہ مسعود نے بیان کیا: مختلف ممالک نے کوشش کی کہ ڈاکٹر سلام ان کے ملک کی شہریت لے لیں.مثلاً جواہر لال نہرو نے کہا کہ ڈاکٹر سلام تقسیم ہند سے پہلے تو بھارتی تھی.ایک دفعہ انڈیا آجائیں ہم جیسا ادارہ کہیں گے بنا دیں گے.لیکن ڈاکٹر صاحب بھلا کہاں ماننے والے تھے.بلکہ ہم نے ان کی علالت کے دوران انڈین اخبارات کے تراشے دیکھے ہیں جن سے پتہ چلتا تھا کہ انہوں نے ڈاکٹر صاحب سے بار بار کہا تھا کہ ہم آپ کو ۳۰۰ کروڑ روپیہ کی آفر دیتے ہیں، ہم سلام یو نیورسٹی سری نگر میں بنا ئیں گے.لیکن ڈاکٹر صاحب نے کہا آپ میرے نام پر جو مرضی بنا ئیں میں اول و آخر پاکستانی ہوں.(دی نیوز ۲۳ دسمبر ۱۹۹۹) پروفیسر پاؤلو بوڈینک Prof.Paolo Budinich جن کو آئی سی ٹی پی کا معاون فاؤنڈر تسلیم کیا جاتا ہے ، اور جو سترہ سال تک اس کے ڈپٹی ڈائر یکٹر رہے.ڈاکٹر سلام کے ساتھ ان کی دوستی کا عرصہ ۳۵ سال پر محیط ہے.انہوں نے بیان کیا: جب مجھے پتہ چلا کہ عبد السلام نے اقوام متحدہ کے ماتحت چلنے والے ایک ادارے کا منصوبہ تیار

Page 322

(۳۱۳) کیا ہے تو میں نے اس کو لکھا کہ وہ اپنے ذہن میں ٹریسٹ شہر کو بھی رکھے.چنانچہ ہم دونوں نے مل کر تعاون کے ساتھ کام شروع کیا ۱۹۶۱ء، ۶۲ ء ، اور ۶۳ء میں ہمیں IAEA، وی آنا کے سامنے سفارتی جنگیں لڑنا پڑیں.چونکہ اس ادارے کے سیشن طویل ہو جایا کرتے تھے اسلئے سلام ڈھیر سارے انگور اپنے ہمراہ لے آیا کرتا تھا ، تا وہ انرجی حاصل کر سکے.ایک روز تو سیشن بہت ہی لمبا ہو گیا مگر فتح ہماری ہوئی.اس کے بعد سلام نے مجھ سے کہا: Paolo, ask your friends in the municipality of Trieste to dedicate to us two tombs here in the Park of Miramare, where we can rest at the end of our lives.۵۱ عرب ممالک میں امراء اور حکمران بڑے بڑے محل تعمیر کر رہے ہیں، کاش کوئی سائینس کا محل بھی تعمیر کر سکتا.یہ لوگ مغرب سے لڑنے کی باتیں کرتے ہیں مگر سائینس کی بات کوئی بھی نہیں کرتا.سلام.........۵۲ ڈاکٹر سلام نے اسلامک کامن ویلتھ آف سائینس کا سنہرا خواب دیکھا تھا جس کے قیام کیلئے انہوں نے اسلامک سائینس فاؤنڈیشن کا بلیو پرنٹ تیار کیا تھا.اسلامی ممالک میں سائینس کی نشاۃ ثانیہ کیلئے انہوں نے پانچ شرائط کا ذکر فر مایا تھا: ,Passionate commitment, generous patronage self-governance, and internationalization of the scientific enterprise.ڈاکٹر عقیلہ اسلام، سابق پرنسپل گورنمنٹ کالج فار ویمن ، کراچی نے بیان کیا: ۱۹۵۸ء میں کراچی میں ایک سائینس کانفرنس منعقد ہوئی جس کا افتتاح پرنس فلپ نے کیا.جملہ نامور شرکاء میں جولین بکس لے Hudoy کے علاوہ ڈاکٹر عبد السلام نے بھی لیکچر دیا.پاکستان کے کئی ایک ابھرتے ہوئے سائینسدانوں نے بھی شرکت کی.جب ڈاکٹر سلام نے لیکچر دینا شروع کیا اس وقت ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا.آپ کے لیکچر کا موضوع Matter & Anti-matter تھا تمام لیکچر بہت ہی مشکل اور ٹیکنیکل تھا.مگر اس کے باوجود ان کی طلسماتی شخصیت اور جوانی کی عمر کے باعث لوگوں کا وہاں جم غفیر تھا

Page 323

(۳۱۴) لیکچر کو سننے کے بعد میں نے سائینسدان بنے کا فیصلہ کیا اور نیوکلئر فزکس کی فیلڈ میں چلی گئی.۵۴ ڈاکٹر عبد السلام کے ایک شاگرد کا نام Yuval Neeman تھا.وہ اسرائیل کے لندن میں سفارت خانے میں کرنل کے عہدہ پر فائز تھے.ان کو فزکس کے مضمون سے بھی لگاؤ تھا.ایک روز وہ ڈاکٹر سلام کے پاس امپرئیل کالج لندن آئے اور اپنی تھیوریز کا ذکر کیا.ڈاکٹر صاحب نے اس کو اپنا سٹوڈنٹ بنالیا.نی مین نے پارٹیکل فزکس میں ریسرچ کا کام شروع کر دیا اور ۱۹۶۲ء میں ڈاکٹر سلام کے ماتحت کام کر کے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر لی.انہوں نے جو زبر دست تھیوری پیش کی اس کا نام (3)SU ہے.انہوں نے ایک کتاب بھی لکھی ہے جس کا نام Particle Hunters ہے.اس واقعہ سے ڈاکٹر صاحب کی دور بین نگاہوں کا علم ہوتا ہے ، کوئی اور ہوتا تو کہتا کہ یہ ملٹری کا بندہ فزکس میں کیوں ٹانگ اڑا رہا ہے مگر نہیں گوہر شناس نے گوہر کو پہچان لیا تھا.سلام کی نگاہ کرشمہ ساز نے اس نوجوان ملٹری اتاشی کی شخصیت کو تاب دار بنا دیا.ڈاکٹر سلام کے اور شاگرد کا نام Ray Streator ہے.۵۹.۱۹۵۷ء کے سالوں جب وہ لندن | میں پی ایچ ڈی کر رہا تھا تو ڈاکٹر سلام اس کے سپر وائزر تھے.اس کی ریسرچ فیلڈ کا نام axiomatic quantum field theory تھا.ڈاکٹر صاحب نے کوشش کر کے اس کو پارٹیکل فزکس میں ایک پرابلم تلاش کر کے دیا جس کا عنوان double dispersion relations تھا.مگر اسے یہ موضوع اچھا نہ لگا، کچھ روز کے بعد ڈاکٹر سلام نے اس سے پوچھا کہ تحقیق کا کام کیسے چل رہا ہے؟ اس نے بددلی کا اظہار کیا تو ڈاکٹر صاحب نے کہا تم اس کے پروف کو غلط ثابت کر سکتے ہو.اگر نہیں کرنا تو مجھے بتلا دو.چنانچہ یہ پرابلم انہوں نے کسی اور شاگرد کو دے دی.اس کے بعد ڈاکٹر سلام نے اس کو ایک اور پرابلم دی جس کا نام Gram determinant تھا.اس کے بارہ میں اس شاگرد کچھ علم نہ تھا.کچھ روز یونہی ضائع ہو گئے تو اس نے ڈاکٹر سلام سے کہا کہ وہ اس کو

Page 324

(۳۱۵) تھوڑا سا سمجھا دیں تو اس پر انہوں نے جوابدیا: these things can be found out, If you dont want....the problem چنانچہ یہ پرابلم انہوں نے جے سی ٹیلر کو دے دی.جس نے یہ پرابلم چند روز میں حل کر لی.اب یہ شاگرد کف افسوس ملتا ہے اور کہتا ہے: due to immaturity as a researcher, I had thrown away what were to become the two most important topics of research in particle physics for next five years.www.mth.kcl.ac.uk/~streater/salam.html AY_ محمد زبیر منگلا (ٹورنٹو) نے بیان کیا: خاکسار نصرت جہاں سکیم کے تحت نائیجیریا کی کوارا سٹیسٹ کے شہر Gbedde Aiyegunle میں نئے احمد یہ سیکنڈری سکول کے اجراء کے سلسلہ میں مقیم تھا.سکول کی تعمیر مکمل ہو چکی تھی تاہم وزرات تعلیم کی طرف سے معائنے اور منظوری کیلئے سکول کی سائینس لیبارٹری میں سائینسی سامان رکھوانے کا مرحلہ ابھی باقی تھا.اتنے فنڈز نہ تھے کہ فوری طور پر لیبارٹری کیلئے سامان کا انتظام ہو سکتا.سٹاف کو سخت تشویش لاحق کہ مطلوبہ رقم کہاں سے لائی جائے ؟.ذہن فوراً ڈاکٹر صاحب کی طرف لپکا.آؤ دیکھا نہ تاؤ.ٹریسٹ ان کو خط روانہ کر دیا کہ وہ اس سلسلہ میں ہماری مدد کریں.پھر میرا دل تشکر سے لبریز ہو گیا جب چند ہفتوں کے اندر ڈاکٹر صاحب کی طرف سے ایک گراں قدر رقم کا عطیہ موصول ہو گیا.کس قدر فراخ دل تھا وہ عظیم انسان.اللہ ان کے فیض کو تا ابد زندہ رکھے.آمین...۵۷ سید عبد المومن ( ٹورنٹو ) نے بیان کیا: خاکسار کو تعلیم الاسلام کا لج ربوہ سے ایم ایس سی کرنے کے بعد کچھ عرصہ گیمبیا (مغربی افریقہ) میں نصرت جہاں سکیم کے تحت جاری ہونیوالے سکول میں کام کرنیکا موقعہ ملا.وہاں قیام کے دوران میں نے ارادہ کیا کہ مجھے فزکس میں ایڈوانس سٹڈی کرنی چاہئے.میں نے سن رکھا تھا کہ ڈاکٹر عبد السلام نوجوانوں کی بھر پور حوصلہ افزائی کرتے ہیں.

Page 325

(۳۱۶) میں نے ان کو اٹلی خط لکھا کہ مجھے آپ کے مشورہ کی ضرورت ہے.چند ہفتوں بعد جواب آگیا، مگر یہ کوئی چھوٹا سا جواب نہ تھا.ان کے سیکرٹری کی طرف سے کاغذات کا اتنا بڑا بنڈل تھا کہ محض ان کو پڑہنے کیلئے چند ہفتے درکار ہوں گے.مسلکہ کا غذات میں ایڈوانس سٹڈی اور پی ایچ ڈی کیلئے ہر قسم کی معلومات شامل تھی.کہنے کو تو یہ معمولی سی بات ہے مگر اسکی گہرائی میں اتر کر دیکھیں تو اس عظیم انسان کی دلی ترپ کا اندازہ ہوتا ہے جو تیسری دنیا کے نوجوانوں کی تعلیمی ترقی کیلئے ان کے دل میں تھی.استاد کا احترام : O^_ قیام پاکستان سے قبل لالہ ایش کمار ، گورنمنٹ کالج جھنگ میں انگریزی کے استاد تھے.ان کے شاگردوں میں عبد السلام بھی شامل تھے.دہلی یو نیورسٹی نے ڈاکٹر عبد السلام کے اعزاز میں نوبل پرائز ملنے کے بعد ایک تقریب کا اہتمام کیا.سٹیج پر وزیر اعظم ہندوستان کے ساتھ ڈاکٹر صاحب بھی بر انجمان تھے.دو تین ہزار سامعین میں وزیروں، سفیروں، اور امیروں کی صف کے بعد ایک بوڑھا شخص گوشے میں بیٹھا ہوا تھا.ڈاکٹر صاحب نے اس ضعیف العمر شخص کو پہچان لیا، وہ سٹیج سے اتر کر سرخ قالین پر چل پڑے اور سید ھے اس بوڑھے کے پاس پہنچ گئے ، یہ لالہ ایش کمار تھے، ان کو ساتھ لیکر ڈاکٹر صاحب سٹیج پر آئے اور وزیر اعظم کے ساتھ کی کرسی پر ان کو بٹھا دیا.(چناب سے کو مستی تک.لالہ ایش کمار، ماہنامہ افکار کراچی جنوری ۱۹۸۲) اطہر نوید ملک (ٹورنٹو) نے بیان کیا: میرے ایک دوست نے ڈاکٹر صاحب کو خط اردو میں لکھا اور ان سے فزکس میں مزید تعلیم کیلئے مشورہ مانگا.ڈاکٹر صاحب نے اس کو اپنے پروفیشنل مشورے سے نوازا.مگر ساتھ یہ بھی لکھا کہ : You must have an excellent command in English, if you ask me for professional advice

Page 326

(۳۱۷) in future, write to me in English, otherwise Urdu is welcome.اعجاز رؤف (کینیڈا) نے بیان کیا: میری سب سے پہلی ملاقات ڈاکٹر عبد السلام سے کیمبرج میں ۱۹۸۸ء میں ہوئی ، جہاں وہ ڈائر اک لیکچر دینے کیلئے تشریف لائے تھے.میں اور چند دوسرے طالبعلم یہ لیکچر سنے گئے.لیکچر کے بعد ڈاکٹر صاحب نے سٹیون ہاکنگ سے گفتگو کی اور پھر ہماری طرف چلے آئے.انہوں نے ہم سب کے ساتھ بڑی گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اور ہماری تعلیم کے بارہ میں دریافت کیا.ایک دفعہ میں نے ان کو احمدی طالبعلموں میں سائینس کے فروغ کیلئے ایک ایسوسی ایشن بنانے کی تجویز کے متعلق مشورہ مانگا.آپ نے فوری جوابدیا اور اس تجویز پر کڑی تنقید فرمائی اور لکھا کہ سائینس ایک آفاقی چیز ہے اس کو فرقہ واریت کا رنگ نہیں دینا چاہئے.ہمیں تو تمام انسانیت کی بہبودی کیلئے کام کرنا چاہئے.ڈاکٹر عبد السلام نے بیان کیا: YL ۱۹۶۲ء میں میری ملاقات اقوام متحدہ کے جنرل سیکر ٹری Dag Hammerskold سے ہوئی.انہوں نے سائینس اور ٹیکنالوجی کے موضوع پر ایک کانفرینس کے اہتمام کا پراجیکٹ تیار کیا تھا.ان کے ذہن میں ترقی پذیر ممالک کی ٹیکنا لا جو کیل پراجیکٹس کے ذریعہ ترقی کا ایک منصوبہ تھا.میرا ان کے ساتھ ایک لمبا انٹرویو ہوا اور یہی وہ موقعہ تھا کہ ان سے میری بالمشافہ ملاقات ہوئی.سائینس اور ٹیکنالوجی کے متعلق ان کے نظریات semi-mystical تھے.یعنی اس ترقی کیلئے زبردست انوسٹ منٹ کی ضرورت تھی.یہ کانفرنس اگلے سال ۱۹۶۳ء میں ان کی رحلت کے بعد منعقد ہوئی.ڈاکٹر پرویز ہود بھائی ( قائد اعظم یونیورسٹی، اسلام آباد ) نے بیان کیا:

Page 327

(۳۱۸) ڈاکٹر سلام نے ایک مضمون پاپولر آڈیفنس کیلئے لکھا تھا جس میں انہوں نے یونی فی کیشن آف فورسز کا ذکر کرتے ہوئے وحدت الوجود کے نظریہ کا ذکر کیا تھا.پھر ایک بار ٹیلی ویژن پر انٹرویو میں انہوں نے بیان کیا کہ کس طرح و field symmetrya کے کن سمیٹ کیلئے با دشاہی مسجد کے بلند میناروں سے انسپائر ہوئے تھے.اور ایک بار واہ کے شہر میں جنرل طلعت محمود کی دعوت پر دئے گئے لیکچر میں سلام نے کہا تھا کہ دنیا شاید dimensions 11 گیارہ ابعاد) کی ہے اور اس طرف بھی اشارہ کیا کہ شاید ان میں سے سات ابعاد کا تعلق غائب سے ہے.پروفیسر ایم اختر، ڈی پارٹمیٹ آف بائیو کیمسٹری، یونیورسٹی آف ساؤتھ ہمپٹن، برطانیہ نے بیان کیا.پروفیسر سلام نے ارادہ کیا کہ کلب آف روم کی طرز پر مسلمانوں کا بھی ایک کلب بنایا جائے جس کا نام انہوں نے امۃ العلم فی الاسلام رکھا.اس ضمن میں انہوں نے وی آنا ( آسٹریا) میں تمام شرکاء کی ایک میٹنگ کے انعقاد کے دعوت نامے جاری کئے جو ۲۸ ستمبر ۱۹۸۱ء کو منعقد ہو نا تھی.اندازہ تھا کہ پچاس کے قریب ممبر ضرور وہاں آئیں گے، اور اس تجویز کی حمایت تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک ضرور کریں گے.پروفیسر عبد السلام کے اصرار پر میں بھی وی آنا پہنچ گیا.جب میں وی آنا میں اقوام متحدہ کے ادارے UNIDO کے صدر مقام پر میٹنگ کیلئے پہنچا تو یہ دیکھ کر بہت مایوسی ہوئی کہ وہاں صرف چار یا پانچ افراد موجود تھے اور وہ بھی ایسے جو دی آنا میں اپنے ممالک کے سرکاری کاموں کی وجہ سے شہر میں پہلے ہی موجود تھے.افسوس کہ عبد السلام کا وہ سنہری خواب کہ سائینس الخوارزمی اور ابن سینا جیسے سائینسدانوں کے ممالک میں دوبارہ زندہ ہوشرمندہ تعبیر نہ سکا.www.ias.ac.in/currsci/oct252001/contents.Current Science vol 81, No 8, 25 Oct 2001 ڈاکٹر عبد السلام ( نوبل انعام یافتہ ) اور احمد حسن زیویل ( نوبل انعام یافتہ ) میں مماثلت: اول الذکر کو فزکس میں انعام ۱۹۷۹ میں ملا جبکہ مؤخر الذکر کو کیمسٹری میں انعام ۱۹۹۹ء میں ملا.سلام کی پیدائش ۲۹ جنوری ۱۹۲۶ کو ہوئی جبکہ احمد کی پیدائش ۲۶ فروری ۱۹۴۶ کو ہوئی.سلام نے کیمبرج

Page 328

(۳۱۹) سے ڈاکٹریٹ کیا.جبکہ احمد نے ڈاکٹریٹ یونیورسٹی آف بین سلوانیا سے کیا.سلام کے 4 بچے تھے احمد کے ۴ بچے ہیں.سلام کیلئے حکومت پاکستان اور حکومت بنین نے ڈاک ٹکٹ جاری کئے جبکہ احمد کیلئے حکومت مصر نے ٹکٹ جاری کیا.ڈاکٹر سلام مرحوم کی دوسری زوجہ لوئیس جانسن آکسفورڈ یو نیورسٹی میں پروفیسر آف با یوفرکس ہیں جبکہ ڈاکٹر احمد حسن کی بیگم کیلی فورنیا میں فزیشن ہیں.ڈاکٹر سلام کے بڑے بیٹے کا نام احمد ہے.دونوں نے ترک وطن کر کے مغرب میں سکونت اختیار کی.ڈاکٹر انیس عالم ( پنجاب یونیورسٹی ، لاہور) نے بیان کیا: ڈاکٹر سلام نے ایک دفعہ سائینس کی ترقی کیلئے ایک ادارے کے قیام کا خاکہ پیش کیا.میں ان کے ساتھ تھا.وہ اس انسٹی ٹیوٹ کو پنجاب میں قائم کرنا چاہتے تھے.ہم نے سلام کی صدرات میں ایک کمیٹی بنائی جس میں جاپان کو ریا.اور انڈیا وغیرہ کے پروفیسر بھی شامل تھے.اس منصوبے کی سمری سیکر ٹری ایجو کیشن کے توسط سے بے نظیر زرداری کو بھجوائی گئی.ان کی طرف سے جواب آیا کہ اس قسم کے دو ادارے قائم کئے جائیں ایک اسلام آباد میں اور دوسر اٹھٹھہ میں.چنانچہ ٹھٹھہ میں ایک زمین دار سے سینکڑوں ایکڑ زمین بڑے مہنگے داموں پر خریدی گئی.اس طرح سے اس کام کے لئے ابتدائی رقم زمین خریدنے پر ہی صرف ہوگئی اور منصوبہ خاک میں مل گیا.12.ڈاکٹر غلام مرتضی نے بیان کیا: ایک روز ایسا ہوا کہ ہم امپرئیل کالج میں اپنے ساتھی طلباء کے ساتھ چائے کی میز پر بیٹھے تھے.اچانک وہاں پروفیسر پال میتھیوز تشریف لے آئے.اور ڈاکٹر صاحب کے متعلق باتیں ہو نے لگیں.موضوع یہی تھا کہ سلام کو سمجھنا آسان نہیں ہے.میتھیوز نے بتلایا کہ میں نے ایک دفعہ سلام سے کہا کہ تم دوسروں کی سہولت کیلئے دقیق موضوعات کو آسان بنا کر کیوں پیش نہیں کرتے ؟ سلام نے ہنس کر جواب دیا اگر میں تمہارے لئے ایسا کروں تو تم کہو گے ارے یہ تو بہت

Page 329

(۳۲۰) آسان بات تھی.میں خود بھی سوچ سکتا تھا (اس میں مذاق کا پہلو زیادہ تھا) میں نہیں سمجھتا کہ سلام میں خود غرضی تھی یا کہ تکبر.ان کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ اپنا وقت بے جا صرف کرنے اور سرکھپانے کو تیار نہ تھے.یعنی - He had no patience for mediocrity اصغر علی گھر ال ( کالم نگار روزنامہ پاکستان، لاہور ) رقم طراز ہیں: نوبل انعام یافتہ سائینسدان ڈاکٹر عبد السلام کے بارے میں بعض مولویوں نے یہ سنسنی خیز انکشاف کیا کہ وہ پاکستان کے سائینسی راز (؟) امریکہ، یوروپ اور روس کو سمگل کرتے رہتے ہیں.کہتے ہیں ایک بستی سے درزی اچانگ بھاگ گیا، بستی میں کہرام مچ گیا.کسی کے سوٹ کا کپڑا لے گیا اور کسی کی شیروانی کا.کوئی اپنے غرارے کو رو رہی ہے اور کوئی شلوار قمیض کو.لیکن ان سے زیادہ اونچی آواز میں گاؤں کا میراثی رو رہا تھا.اس سے کسی نے پوچھا: تمہار کیا نقصان ہوا ہے؟ ہچکیاں لیتے ہوئے اس نے انکشاف کیا کہ: ظالم، میرا ناپ لے گیا ( اسلام یا ملا ازم - ص ۱۴۵) جواں سال جواں نکز عبد السلام پاکستان ٹائمنر کے رپورٹر نے ڈاکٹر صاحب سے سوال کیا: کیا خدا کا وجود ریاضی کے ذریعہ ثابت کیا جاسکتا ہے.ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا.This is

Page 330

(۳۲۱) rubbish یہ بلکل بے ہودہ مفروضہ ہے.اس بات کو سائینس میں دیکھا اور پرکھا ہی نہیں جاتا، دیکھیں موت کے موضوع پر سائینس میں کوئی بحث نہیں ہوتی.انسان کیوں پیدا ہوا اور کیوں مرتا ہے؟ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سائینس اس مسئلہ کو تو فارمولیٹ بھی نہیں کر سکتی.قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے کہ یہ کتاب ان لوگوں کیلئے ہے جو غیب پر یقین رکھتے ہیں.غیب کا مطلب یہ ہے کہ وہ اشیاء جن کا انسان سوچ اور گمان بھی نہیں کر سکتا.لہذا آپ سائینس کے ذریعہ کسی کا مذہب تبدیل نہیں کر سکتے ، نہ ہی غیر مذہبی کو مذہبی بنا سکتے ہیں.سائینس تو صرف آپ کو بعض گائیڈ لائنیز دیتی ہے.سعادت انور صدیقی (صدر، پاکستان فزیکل سوسائٹی لاہور ) نے بیان کیا: ۱۹۸۷ء میں آئی سی ٹی پی میں پہلی بار گیا تھا اور ایک تقریب میں ان سے ملنے کا شرف حاصل ہوا.ترقی پذیر ملکوں کے سینکڑوں سائینسدان ایک لمبی قطار میں تسبیح کے دانوں کی طرح پروئے ہوئے کھڑے تھے اور پروفیسر سلام سے ہاتھ ملانے اور ان کی نصیحت یا سرزنش کے دو بول سننے کی خوشی حاصل کرنے کیلئے آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے.ان سے ملاقات اس طرح ہو رہی تھی جیسے وہ اپنے ہاتھوں سے ان دانوں کو آگے ترقی کی جانب بڑھا رہے ہوں.میری باری آئی تو انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں میں میرا ہاتھ لے کر اپنی روشن آنکھوں سے جو پیغام مجھے دیا وہ یہ تھا: اپنی پوری قوم کی تقدیر بدلنا تمہارا بنیادی فرض ہے اور یہ کام سائینس کو پروان چڑھا کر ہی ہو سکتا ہے.اس موقعہ سے بھر پور فائدہ اٹھاؤ اور دوسروں کو بھی اپنے سفر میں شامل کر لو.ڈاکٹر سلام نے دو نوبل انعام یافتگان کا تعارف یوں کرایا: صدیوں پہلے ایران کے بادشاہ کے ہاں کسی پڑوسی سلطنت کا بادشاہ مدعو تھا دونوں بادشاہ دربار میں تشریف فرما تھے.اور ساتھ میں ایران کے بادشاہ کا وزیر اعظم بھی.مشروبات پیش کی جاتی ہیں وزیر کے لئے اب مسئلہ یہ ہے کہ مشروب پہلے اپنے بادشاہ کو پیش کرے یا مہمان بادشاہ کو.دونوں صورتوں میں

Page 331

(۳۲۲) اعتراض کی گنجائش نکلتی ہے.پرانے زمانے کے وزیر با تدبیر سیانے ہوا کرتے تھے.اس نے اپنے بادشاہ کے طرف مشروب بڑھاتے ہوئے کہا: ایک بادشاہ کو ہی زیب دیتا ہے کہ وہ دوسرے بادشاہ کو مشروب پیش کرے It befits one King to present to another یہ دلچسپ واقعہ سنا کر سلام نے کہا آج میری بھی یہی کیفیت ہے.مگر اس وزیر باتدبیر نے میرا مسئلہ حل کر دیا.میں دعوت دیتا ہوں کہ جناب ڈائیر اک تشریف لائیں اور ہائیزن برگ کو متعارف کرائیں.آئزک نیوٹن ایک دفعہ انڈا ابالنے کیلئے باورچی خانہ میں کھڑے تھے کہ اسی دوران ان کے کوئی دوست ملنے کیلئے آگئے.وہ بھی باورچی خانہ میں چلے آئے.پوچھا کیا کر رہے تھے؟ نیوٹن نے جواب دیا انڈا ابال رہا ہوں.دوست نے بتایا کہ انڈا تو آپ کے ہاتھ میں ہے البتہ گھڑی پانی میں اہل رہی ہے نیوٹن نے فوراً گھٹڑی پانی سے نکال لی اور انڈا ڈال دیا ڈاکٹر سلام کے بچپن کے زمانہ میں آپ کی والدہ نے آپ کے سامنے کھانا لا کر رکھا آپ کتاب کے مطالعہ میں مصروف تھے اور کھانا بھی کھا رہے تھے اس دوران مرغی آپ کی روٹی اٹھا کر لے گئی تھوڑی دیر بعد والدہ نے دیکھا کہ روٹی تو مرغی کھا رہی ہے اور آپ مسلسل مطالعہ میں مصروف ہیں.سید قاسم محمود (کراچی) نے بیان کیا: کراچی ائر پورٹ کے وی آئی پی روم میں میں پہلا شخص تھا جس نے آپ کا استقبال کیا.وہ ہشاش بشاش اور تازہ دم لگ رہے تھے، صوفے پر بیٹھتے ہی انہوں نے جیب میں سے قرآن مجید نکالا.میں نے سوچا کوئی سوال ذہن میں ابھرا ہوگا.جس کی تائید یا تردید کے لئے قرآن سے مدد لی ہوگی.اس کے بعد میرا حال پوچھا.میں نے انگلش میں جواب دیا تو فرمایا: نہیں صاحب پنجابی یا اردو.انگریزی بول بول کے جبڑے تھک جاتے ہیں.

Page 332

احمد سلام (لندن) نے بیان کیا: (۳۲۳) ابی گہری نیند سوتے تھے میں حیران رہ جاتا کہ وہ کیسے آسانی سے آنکھیں بند کرتے ہی سو جاتے ہیں.جہاں کہیں بھی ہوں، کار میں یا جہاز میں، جب بھی انہیں چند فرصت کے لمحات ملتے وہ سو جاتے.کام کرنے میں بھی یہی طریق تھا ، جہاں بھی وقت ملتا وہ نوٹس لکھ لیتے.جو چیز ملتی اخبار رومال، یا اور کچھ نہیں تو ہاتھ پر ہی اپنے آئیڈیاز تحریر کر لیتے.( تا وہ آئیڈیا زہن سے محو نہ ہو جائے) ایک دفعہ ابا جان ملکه برطانیه.ایلزبیتھ دوم - کی دعوت پر ایچ میں شرکت کیلئے قصر بمنگھم گئے.پنچ کے بعد ملکہ معظمہ کے رخصت ہونے پر ابی نے اپنا نیپ کن Napkin واپس لے لیا.۷۵- ڈاکٹر عبد السلام نے ایک دفعہ پچاس سے زیادہ مسلمان ممالک کے ممتاز فقہاء اور علماء کرام کی خدمت میں عریضہ روانہ کیا اور کہا کہ قرآن مجید میں صدیوں آیات کریمہ ایسی ہیں جن میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے تخلیق عالم اور دیگر سائینسی حقائق و شواہد کی طرف انسان کی توجہ مبذول کروائی ہے.اگر ہر مہینے جمعۃ المبارک کے چار خطبات میں سے صرف ایک خطبہ میں وہ کسی ایک آیت کریمہ کی تشریح وتغییر فرما دیں تو مسلمان نوجوان رفتہ رفتہ سائینسی علوم کی طرف راغب ہونا شروع ہو جا ئیں گے.غور فرمائیں کہ پچاس ممالک میں سے صرف چند ایک نے جواب دینے کی تکلیف گوارا کی اور معذرت کرتے ہوئے عرض کیا کہ ہم ایسا کرنے کو تیار ہیں مگر اس موضوع پر زیادہ مواد میسر نہیں ہے.ڈان اخبار کے معروف و مقبول کالم نویس اردشیر کاؤس جی نے بتایا: میں ڈاکٹر سلام سے ان کو نوبل انعام ملنے کے بعد ملا اور پوچھا کہ پاکستان کی حکومت نے ۱۹۸۴ء میں آرڈی نینس پاس کر کے جو سلوک آپ کے ساتھ کیا ہے.اس کے بعد کیا آپ خود کو ابھی تک مسلمان اور پاکستانی خیال کرتے ہیں: ڈاکٹر سلام نے جواب دیا.Does it really matter

Page 333

LL_.(۳۲۴) رسالہ اپنا گھر کراچی، نے ۶ ستمبر ۱۹۹۲ء کو ڈاکٹر سلام کا انٹر ویو شائع کیا اور پوچھا: سوال: کہا جاتا ہے کہ چار قوتوں کے مابین آپ جو وحدت تلاش کر رہے ہیں وہ آپ کے توحید کے عقیدہ پر یقین کی وجہ سے ہے؟ جواب: آدمی کے خیالات و نظریات پر اس کی ثقافتی میراث اور تمدنی روایات کا اثر ہوتا ہے.میرے نظرئے اور عقیدے کی اساس تو حید ربانی ہے اور یہ عین حقیقت ہے کہ نظریہ تو حید کا میں قائل تھا.خود سائینس میں بھی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ اصول جہاں تک ہو سکے کم سے کم ہوں.لیکن یہ اصول بلکل سادہ اور مختصر ہونے چاہئیں.ZA میری زندگی میں فقط دو دکھ ہی ہیں.ایک تو یہ کہ پاکستان میں سائینسدانوں کی اتنی تو قیر نہیں کی جاتی جتنی ہونی چاہئے.دوسرے یہ کہ عالم اسلام میں سائینس کی قدر نہیں کی جاتی.(عبد السلام )...........جولائی ۱۹۸۰ء میں ٹورنٹو کے مشہور ریڈیو CHIN اسٹیشن کے جرنلسٹ پروفیسر نر ندرناتھ نے ڈاکٹر سلام کا انٹرویو فون پر لیا جب آپ نیو یارک میں سفر کے دوران مقیم تھے.اس اہم انٹرویو کا انتظام زکریا ورک نے کروایا تھا، آپ سے سوال کیا گیا، آپ روزانہ اندازاً کتنے گھنٹے کام کرتے ہیں؟ جواب: میرے اوقات کچھ اس طرح ہیں کہ میں پانچ بجے کے قریب اٹھتا ہوں جس طرح ہمارے ملک میں صبح اٹھنے کی عادات ڈالی جاتی ہے.اس کے بعد نماز پڑہنے کے بعد ناشتہ کرتا ہوں اور پھر کام شروع کر دیتا ہوں.آٹھ بجے کے قریب اپنے دفتر جاتا ہوں، اٹلی میں میرا دفتر ساتھ ہی ہے اور وہاں کوئی سات بجے شام تک کام میں مصروف رہتا ہوں.شام کو جب میں گھر آتا ہوں تو جلدی سو جاتا ہوں.(رموز فطرت ، صفحہ ۱۷۳.مؤلف کتاب کے پاس یہ کیسٹ ابھی تک محفوظ ہے.)

Page 334

(۳۲۵) Whenever faced with two rival theories for the same set of phenomena one has always found that a theory more aesthetically satisfying is also the correct one.(Dr.Salam) AL.چوہدری عبد الحمید (لاہور، برادر اصغر ڈاکٹر سلام ) نے بیان کیا: نوبل انعام ملنے کے بعد ڈاکٹر سلام ۱۵ دسمبر ۱۹۷۹ء کو کراچی تشریف لائے.اسکے بعد وہ اسلام آباد ۱۸ دسمبر کو گئے.اگلے روز نیشنل اسمبلی ہال میں جنرل ضیاء الحق نے بہ حیثیت چانسلر قائد اعظم یونیورسٹی آپ کو ڈاکٹر آف سائینس کی آنریری ڈگری دی.کنور کیشن سے قبل عصر کی نماز ادا کر نے کیلئے لوگ ہال میں سے نکل رہے تھے تو جنرل ضیاء الحق نے ڈاکٹر صاحب سے مخاطب ہو کر کہا: پروفیسر صاحب، کیا آپ ہمارے ساتھ نماز ادا کریں گے یا علیحدہ پڑہیں گے؟ پروفیسر سلام: سر، میں نماز علیحدہ پڑھوں گا.جنرل صاحب: مجھے پتہ ہے کہ آپ ہم سے اچھے مسلمان ہیں پروفیسر سلام: کیا میں آپ کا یہ بیان اخبارات میں شائع کروا سکتا ہوں؟ جنرل صاحب: ضرور کروائیں، لیکن میں انکار کر دوں گا.آپ کے امیریکن شاگرد ڈاکٹر ڈف (DUFF) نے بیان کیا: ایسے شخص کا شاگرد ہونا جو نئے نئے آئیڈیاز سے ہر آن ہر لمحہ ابل رہا ہو جیسے عبد السلام تھا یہ ایک قسم کی رحمت کے بھیس میں زحمت تھی.وہ ریسرچ کا کام ایک طالب علم کو دے دیتا پھر خود اپنے عالمی سفروں پر مسلسل کئی ہفتوں کیلئے روانہ ہو جاتا تھا ( اس صورت میں میں اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالہ کے لکھنے میں عملی مدد کیلئے Chris Isham کی طرف رجوع کرتا تھا).جب وہ واپس لوٹ کر آتا تو طالب علم سے سوال کرتا.تم کس چیز پر تحقیق کر رہے ہو جب شاگرد وہ معمولی کام جو اس عرصہ میں کیا ہوتا اسکو بیان کرنا شروع کرتا تو عموما وہ جوابا کہتا.نہیں نہیں، یہ پرابلم تو بہت پرانی ہو چکی ہے تم کو تو جس مو

Page 335

(۳۲۶) ضوع پر کام کرنا چاہئے وہ تو یہ ہونا چاہئے.ڈاکٹر فہیم حسین نے بیان کیا: ۸۳ امپرئیل کالج لندن سے ۱۹۶۸ء میں ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد میں پاکستان واپس لوٹ آیا، میرے ساتھ یوروپ کے ممالک سے دس اور پارٹیکل فزے سسٹ بھی واپس آگئے اور ہم نے ایک ریسرچ گروپ بنا لیا.ہمیں آئی سی ٹی پی نے ملک کے اندر رہ کر ریسرچ کرنے کی ہر ممکن مدد فراہم کی.یہی وہ حالات تھے جن کا سامنا ڈاکٹر سلام کو پندرہ سال قبل لا ہور میں کرنا پڑا تھا ، خدا کا شکر ہے ہمیں ان حالات سے دوچار نہ ہونا پڑا ور نہ ہم بھی غیر ممالک میں چلے جاتے.اسلام آباد میں ہیں سال کے قیام کے دوران بطور فرے سسٹ میں ڈاکٹر سلام کی کوششوں سے زندہ رہا......ڈاکٹر ٹام کبل Tom Kibble ایف آرایس (امپرئیل کالج ) نے بیان کیا: (۱۹۶۵) میں جب ہندوستان اور پاکستان پر کشمیر کے تنازعہ پر جنگ کے گھمبیر بادل چھائے ہوئے تھے.تو ڈاکٹر عبد السلام اور ڈاکٹر ہومی بھابھا ( فاونڈر ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ، ممبئی ) نے صدر ایوب اور جواہر لال نہرو کے درمیان مصالحت کی کوشش کی مگر یہ کوشش بار آور نہ ہوئی.Obituary, The Independent, UK, Nov 23, 1996 ڈاکٹر عبد السلام کے معتمد اور رفیق خاص ڈاکٹر جو گیش پتی ، یو نیورسٹی آف میری لینڈ نے بیان During our collaboration, Salam always reacted to our occasional disagreements ::✓✓ with a good-natured spirit.If he were greately excited about an idea that I did not like, he would impatiently ask, "My dear sir, what do your want? Blood? | would reply, "No Professor Salam, 1 would like something better." Whether I was right or wrong, he never took it ill.( Obituary Physics Today, August 1997, page 74,75).

Page 336

(۳۲۷) بشیر الدین سامی (لندن) نے بیان کیا: محترم ڈاکٹر عبد السلام کو جب نو بل انعام ملنے والا تھا تو ایک ہفتہ قبل حمید احمد لائل پوری نے خواب میں دیکھا کہ ٹیلی ویژن پر اعلان ہورہا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو نوبل انعام دیا گیا ہے.انہوں نے فی الفور اس خواب کی اطلاع ڈاکٹر صاحب کی بیگم محترمہ امتہ الحفیظ صاحبہ کو دی.بعد ازاں حمید احمد، ڈاکٹر صاحب کی دعوت پر سویڈن میں منعقدہ شاہی تقریب میں بطور مہمان کے شامل ہوئے تھے.(الفضل انٹر نیشنل لندن - ۲۴ اپریل ۱۹۹۶) چوہدری عبد الحمید (لاہور) نے بیان کیا: جب ڈاکٹر عبدالسلام صدر پاکستان کے سائینسی مشیر تھے تو وہ پاکستان سال میں چار پانچ مرتبہ آیا کرتے تھے.ایک دفعہ ملتان کے ہوائی اڈہ پر کمشنر، اور دیگر اعلیٰ افسران انہیں خوش آمدید کہنے کیلئے آئے ہوئے تھے، ڈاکٹر صاحب جب ہوائی جہاز سے اترے تمام افسران وی آئی پی روم کی طرف چل پڑے، اتنے میں ان کی نظر ایک نہایت چاق و چوبند حوالدار پر پڑی.ڈاکٹر صاحب اس کی طرف چل دئے اور اس کے پاس پہنچ کر اس کو پیار سے گلے لگایا اور اسے اپنے ہمراہ وی آئی پی روم میں لے آئے، افسران سے اسکا تعارف کرایا.یہ حوالدار ملازم حسین تھے جو بچپن میں ان کے کلاس فیلو تھے.جتنی دیر ڈاکٹر صاحب وہاں رہے انہوں نے ملازم حسین کو ساتھ بٹھائے رکھا.(الفضل ۷ ، اکتوبر ۱۹۹۵)......۸۸ اسی طرح چوہدری عبد الحمید صاحب نے خاکسار کی کتاب رموز فطرت پڑہنے کے بعد اس پر پانچ صفحات پر مشتمل (مورخه ۲۲ مئی ۱۹۹۷ ء) سیر حاصل تبصرہ فر ما یا.نیز بعض باتوں ، واقعات ،اور ناموں کے غلط ہونے کی طرف نشاہد ہی کی.ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ کیا ڈاکٹر سلام کو آئن سٹائین

Page 337

(۳۲۸) کے ساتھ پرنسٹن میں کام کرنیکا موقعہ ملا تھا؟.کے دسمبر ۱۹۸۷ء کو لاہور میں ڈاکٹر صاحب نے اپنی زندگی کے واقعات کے بارے میں انٹرویو دیا جس کی ویڈیو کیسٹ موجود ہے، یہ انٹر ویو ساڑھے چار گھنٹے پرمشتمل ہے.اس میں ڈاکٹر صاحب کے جوابات انگلش اور پنجابی میں ہیں.اس سوال کے جواب میں کہ کیا وہ آئن سٹائین سے ملے تھے.انہوں نے جواب دیا: آئن سٹائین، پرنسٹن انسٹی ٹیوٹ سے ملحقہ ایک مکان میں رہتا تھا.He was too old to do any work وہ صرف انسٹی ٹیوٹ کا ایک چکر لگا لیا کرتا تھا.We used to stand outside his house when he came out of the house, we used to walk him to the Institute and then walk back with him to his house.He was too old to do any work.ایک مرتبہ آئن سٹائین نے مجھ سے پوچھا کہ تم کیا کرتے ہو؟ میں نے جواب دیا کہ میں رینار مالائز یشن تھیوری پر کام کر رہا ہوں.تو یہ سن کر اس نے کہا ،I am not interested in that پھر آئین سٹائین نے مجھے سے پوچھا کہ تم نے میری تھیوری پڑی ہے؟ تو میں نے اس کو جواب دیا: ۸۹ I am not intrested in that.جناب ایم ایم احمد نے بیان کیا: ڈاکٹر عبد السلام کو جو اعزاز ملا ( یعنی نوبل انعام سے ملنے والی رقم ساٹھ ہزار ڈالر ) انہوں نے

Page 338

(۳۲۹) وہ ملک کیلئے وقف کر دیا اور حکومت سے کہا کہ اسے تعلیم کی ترقی کیلئے استعمال کریں.مجھے ایک دن کہتے ہیں کہ مجھے اعزاز ملا ہے اور مجھے بھارت (اندرا گاندھی) کی طرف سے بار بار پیغام آرہے ہیں کہ تم یہاں آؤ ہم تمہیں ہر طرح سے نوازیں گے.لیکن مجھے یہ بہت ناگوار گزرتا ہے جب تک میں پاکستان نہ جاؤں گا کسی اور ملک کی دعوت قبول نہیں کروں گا.انہوں نے وفات تک پاکستانی شہریت قائم رکھی.انٹرویو.ہفت روزہ ، حرمت ۲۷ دسمبر ۱۹۹۹) ضروری احکامات جاری کر دیے گئے: مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کے سیکرٹری اطلاعات نے ایک یادداشت کے ذریعہ وفاقی وزیر تعلیم ، گورنر پنجاب سے مطالبہ کیا تھا کہ جماعت نہم اور دہم کی کتاب طبیعات کے صفحہ نمبر ۸ سے قادیانی غیر مسلم عبد السلام کا نام خارج کیا جائے.اگر درج ہی کرنا ہے تو اس کو غیر مسلموں کے ساتھ لکھا جائے اور اسکے نام کے ساتھ قادیانی لکھا جائے تاکہ مسلم طلباء کو دھوکہ نہ دیا جا سکے.وفاقی وزرات تعلیم نے طبیعات کلاس نہم کے نئے ایڈیشن میں سے قادیانی غیر مسلم سائینسدان عبد السلام کا نام مسلمان سائینسدانوں کی فہرست سے خارج کرنے کیلئے چیر مین ٹیکسٹ بک بورڈ لا ہور کو ضروری احکامات جاری کر دئے ہیں.(نوائے وقت، جولائی ۲۰۰۰) نعوذ بالله من ذالك 91 بحوالہ ماہنامہ خالد.ربوہ ڈاکٹر عبد السلام نمبر ۱۹۹۷: ڈاکٹر سلام میں بہت بڑا وصف تھا کہ لوگوں کی مدد کرنے میں ایک لمحہ تاخیر نہیں کرتے تھے.ان کو کسی نے اپنا مسئلہ بتا دیا تو ڈاکٹر صاحب جو کر سکتے تھے وہ کرتے تھے.کسی نے ایک واقعہ سنایا کہ ۱۹۶۸ء میں کسی پاکستانی لڑکے کو امریکہ میں مزید تعلیم کیلئے داخلہ اور سکالر شپ مل گئی مگر اس کے پاس جانے کیلئے جہاز کا کرایہ نہیں تھا.اس نے ڈاکٹر سلام کو لکھا ، انہوں نے فوراً اس کے ٹکٹ کا بندو بست کر دیا.ترقی پذیر ممالک میں بھی انہوں نے بہت سے لوگوں کے کیرئیر بنائے تھے.

Page 339

(۳۳۰)......۹۲ نومبر ۱۹۹۷ کو ٹریسٹ میں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ویتنام کے پروفیسر دین ہیو VAN HIEU نے کہا: ویت نام میں سائینس کی حمایت میں جو کام عبد السلام نے کیا اس کی قدر شناسی کے طور پر یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ہنوئی شہر میں سلام سینٹر فار تھیور ٹیکل فزکس قائم کیا جائے.یہ امر لچسپی کا باعث ہے کہ ری پبلک آف بنین (افریقہ ) کے شہر COTONOU میں سلام ریسرچ انسٹی ٹیوٹ پہلے ہی کام کر رہا ہے اس کے ڈائریکٹر Prof Jean Pierre Ezin ہیں.بنین کے ملک نے تو ڈاکٹر عبدالسلام کی سائینس کیلئے سنہری خدمات کے اعتراف میں نومبر ۲۰۰۱ میں ایک ڈاک کا ٹکٹ بھی جاری کیا تھا.عورتوں میں سائینس کی تعلیم کو رواج دینے کیلئے ڈاکٹر عبدالسلام نے ایک آرگنا ئز بیشن قائم کی تھی جس کا نام Third World Organization for Women in Science ہے، اس کا صدر مقام قاہرہ (مصر) میں ہے.اس کی موجودہ صدر سوازی لینڈ کی شہری ہیں جنہوں نے یونیورسٹی آف ٹورنٹو سے پی ایچ ڈی کیا تھا.....۹۴ ۲۳ ستمبر ۲۰۰۲ ء کی وہ شام میرے لئے مسرتوں کا باعث ہوئی جب پر وفیسر ڈاکٹر ایچ ایس ورک، گرونانک دیو یو نیورسٹی عاجز کے غریب خانہ پر فروکش ہوئے.ان کے اور میرے درمیان قدر مشترک یہ تھی کہ ایک تو وہ میرے ورک بھائی تھے.دوسرے ان کا تعلق ڈاکٹر سلام کے ساتھ بہت قریبی رہا تھا.ڈاکٹر ورک اٹلی میں آئی سی ٹی پی میں قیام کر چکے تھے.نیز ڈاکٹر سلام نے جب ۱۹۸۱ء میں گرونانک دیو یونیورسٹی میں ایڈریس دیا تو اس کا انتظام بھی انہوں نے کیا تھا.پھر جب ڈاکٹر سلام قادیان کے جلسہ سالانہ میں شرکت کیلئے گئے تو ڈاکٹر ورک ان کے ہمراہ تھے.ڈاکٹر ورک آئی سی ٹی پی کے سینیر ایسوسی ایٹ ہونے کے ساتھ ڈاکٹر سلام کی کتاب deals & Realities کے گورکھی میں مترجم بھی ہیں.یہ

Page 340

(۳۳۱) ترجمه ادرشت انے حقیقت کے عنوان سے ۱۹۸۸ میں شائع ہوا تھا.ڈاکٹر ورک نے مجھے بتایا کہ پنجابی ترجمہ کا دیباچہ انہوں لکھا تھا اور اس میں اس واقعہ کا ذکر کیا تھا کہ کس طرح ڈاکٹر سلام کی ملاقات روم میں ڈاکٹر کھورانا (نوبل لا رئیٹ ) سے ہوئی.جب کھو رانا نے انگلش میں بات کرنا چاہی تو سلام نے ان کو ٹوک دیا اور کہا پنجابی میں بات کریں.کھو رانا نے معذرت کی کہ ان کی بیگم سوس ہے اسلئے پنجابی بولنے میں دقت ہوتی ہے.البتہ ڈاکٹر سلام سے وہ آئندہ ہمیشہ پنجابی میں بات کریں گے.ڈاکٹر ورک نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ سلام صاحب کی پنجابی اس لئے ابھی تک اعلیٰ ہے کیونکہ ان کی ایک بیگم پنجابی اور دوسری اطالوی ہے.........۹۵ کیا مذہب اور سائینس میں تضاد ہے؟ ڈاکٹر سلام نے فرمایا : There is no conflict between the study of nature and the study of Islam.A study of these natural laws, and seeing how they operate is a form of prayers and gratitude to Allah (Dr.Abdus Salam) ڈاکٹر لوسی آنوبرٹا کی Bertocci سابق ڈپٹی ڈائریکٹر آئی سی ٹی پی نے سلام میموریل ۱۹۹۷ کے موقعہ پر اپنی تقریر میں ڈاکٹر سلام کی انسانی ہمدردی کا ایک دلچسپ واقعہ سنایا: جب ڈاکٹر سلام ٹریسٹے میں مقیم تھے تو ایک بار ان کی غیر حاضری میں چوری ہوگئی.چور ان کے تمام میڈل چوری کر کے لے گیا، نہ صرف یہ بلکہ وہ وہاں کے جینے ٹر Janitor کے گھر میں بھی گیا اور وہاں سے پیسے چوری کر لئے.جب ڈاکٹر سلام کو اس بات کا علم ہوا تو ان کو فوراً یہ فکر لاحق ہوگئی کہ کس طرح اس مظلوم کے پیسے ادا کئے جائیں.ان کو اپنے میڈلوں کے چوری ہونی کی کوئی فکر نہ تھی.(نوٹ) سلام میموریل کی مکمل کاروائی کے چار ویڈیو کیسٹ مؤلف کتاب ہذا کو ICTP کی محترمہ کیتھرین ڈین فورڈ Katrina Danforth نے بھجوائے تھے ، یہ ویڈیوز تاریخی اور ایمان افروز ہیں.9

Page 341

(۳۳۲) یکم فروری ۱۹۸۱ء کے الرسٹیڈ ویکلی آف انڈیا lustrated Wookiy میں ڈاکٹر سلام کا ایک انٹر ویو شائع ہوا.آپ سے پوچھا گیا کیا آپ ای ایس پی ESP- extra sensory perception پر یقین رکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ایک سائینسدان کی حیثیت سے میں اس پر یقین نہیں رکھتا.لیکن کل کلاں کو اگر اس کا سائینسی ثبوت مجھے مل جائے تو میں اس پر یقین کر لوں گا.پھر آپ سے پوچھا گیا آپ کی دعا کی فلاسفی کیا ہے؟ آپ نے جوابدیا: ایک مزے سسٹ کیلئے اس موضوع پر بحث کرنا مشکل ہے.مجھے نہیں معلوم دعا کا فائدہ آپ کو کیا ہوتا ہے.پھر آپ سے پوچھا گیا کہ صوفی ازم کے متعلق آپکا کیا خیال ہے؟ آپ نے فرمایا میں صوفی ازم میں بہت دلچسپی رکھتا ہوں.لیکن میں خود کو ایک صوفی تسلیم نہیں کرتا.صوفی وہ شخص ہوتا ہے جس کو (لقاء اللہ ) کا ذاتی تجربہ ہو، اگر اللہ کی ذات مجھے ایسا تجربہ کر دے تو میں بہت مشکور ہوں گا.میرے والد گرامی یقیناً صوفی تھے.ڈاکٹر گورڈن فیلڈ مین G.Feldman جان ہاپکنز John Hopkins یو نیورسٹی، بالٹی مور، میری لینڈ، امریکہ نے نومبر ۱۹۹۷ء میں سلام میموریل کے موقعہ پر ٹریسٹ میں حاضرین کو ۱۶ اکتوبر ۱۹۷۵ء کا سویڈش اخبار دکھایا جس پر وائن برگ اور سلام کی تصاویر تھیں.اس مضمون میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ یہ دو سائینسدان شاید کچھ دنوں میں فزکس کا نوبل انعام حاصل کریں، کیونکہ انعامات کا اعلان ہر سال اکتوبر میں ہوتا ہے.اخبار والوں کیلئے یہ Scoop تھا.مضمون کے آخر پر لکھا تھا کہ سلام کے بارہ میں کہا جاتا ہے: He is the modern day Einstein خاکسار نے ڈاکٹر فیلڈ مین سے ای میل پر رابطہ کیا اور درخواست کی کہ وہ مذکورہ اخبار کا تراشہ مجھے بھجوا دیں تا اسے شائع کر سکوں ، مگر انہوں نے جواب دیا کہ مجھے سویڈن کے اخبار سے رابطہ کرنا چاہئے.ڈاکٹر میگویل ویرا سارو Virasaro (برزایل کے باشندے، جو اس وقت آئی سی ٹی پی کے ڈائریکٹر ہیں ) نے سلام میموریل کے موقعہ پر بتلایا کہ جب وہ نئے نئے آئی سی ٹی پی میں آئے تو ایک روز

Page 342

(۳۳۳) سلام سے ملاقات کی کسی نے ان کو باتیں کرتے دیکھ لیا تو بعد میں ان سے کہا Don't go near Salam, he will always find something for you to do.ڈاکٹر محمد حسن (یونیورسٹی آف خرطوم، جنرل سیکرٹری TWAS) نے سلام میموریل منعقدہ ٹریسٹ کے موقعہ پر اپنی تقریر دلپذیر میں بتایا: تھرڈ ورلڈ اکیڈیمی کے بانی ممبران میں ۴۱ چوٹی کے سائینسدان شامل تھے جن کا تعلق تیسری دنیا یا پسماندہ ممالک سے تھا، ہر وہ نوبل انعام یافتہ جس کا تعلق پسماندہ ممالک سے تھا وہ بھی اس میں شامل تھا، اکیڈیمی کے افتتاح کیلئے ۱۹۸۳ء میں اقوام متحدہ کے جنرل سیکر ٹری کو مدعو کیا گیا تھا.سلام نے ان کی آمد پر پورے دن کا پروگرام تیار کر لیا تھا.اٹلی کی حکومت نے اکیڈیمی کیلئے ڈیڑھ ملین ڈالر وئے تھے.افتتاح سے چند روز قبل اٹلی کے وزیر خارجہ کا سلام کو فون آیا کہ ہمیں روم میں جنرل سیکرٹری کی اشد ضرورت ہے سلام نے افسوس کا اظہار کیا کہ میں نے تو پورے دن کا پروگرام طے کیا ہوا ہے.وزیر موصوف مصر کہ نہیں وہ روم ضرور آئیں.خیر سلام اس شرط پر رضامند ہو گئے اگر وزیر خارجہ اکیڈیمی کے لئے گرانٹ دگنی کر دیں، چنانچہ گرانٹ دگنی کر دی گئی.سلام میموریل کے موقعہ پر یرموک یو نیورسٹی (اردن) کے پروفیسر عدنان بدران نے مندرجہ ذیل واقعہ سنایا: ۱۹۸۰ء میں میں نے سلام کو دعوت دی کہ وہ یرموک یونیورسٹی آئیں اور گر یجویشن کر نیوالے طلباء کو ڈگریاں دیں.اس موقعہ پر ان کو بھی آنریری ڈگری دی گئی اور اس کنونشن میں شاہ حسین بھی موجود تھے.سلام نے اس موقعہ پر دو گھنٹہ لمبی تقریر کی جو طلباء نے ہمہ گوش ہو کر سنی.اردن کے طلباء کیلئے یہ نادر موقعہ تھا کہ ان کے درمیان ایک مسلمان نوبل انعام یافتہ موجود تھا.اگلے روز ڈاکٹر بدران نے سلام کے سامنے تجویز پیش کی کہ اردن کے سائینس دانوں کو نئے

Page 343

(۳۳۴) نئے سائنسی انکشافات اور تھیوریز سے آگاہ رکھنے کیلئے ہر سال لیکچر منعقد کئے جائیں مگر سلام اس تجویز سے متفق نہ ہوئے.اس روز دونوں حضرات اردن کا مشہور آثار قدیمہ کا شہر PETRA دیکھنے گئے.سلام اس کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئے جب دونوں واپس ہوٹل پہنچے تو سلام نے بدر ان سے کہا.got it ابدران نے عرض کیا ?Prof.Salam what did you get سلام نے جوابد یا کل جو تجویز تم نے دی تھی اس کا حل مجھے مل گیا ہے اور وہ یہ کہ اردن میں Petra School of Physics قائم کیا جائے پیٹرا شہر کے نام میں بہت اثر یکشن ہے سائینسدان خود بخود آئیں گے.سکول قائم ہو گیا اور یہ اب بھی چل رہا ہے.......۱۰۲ سلام میموریل کے موقعہ پر ڈاکٹر منیر احمد خاں ( سابق چیر مین PAEC) نے بتایا: سلام سے میری ٹریسٹ میں آخری ملاقات ۱۹۹۲ ء میں ہوئی.صبح کے وقت اس نے میرے لئے ناشتہ تیار کیا اور ہم کچن میں بیٹھ گئے اور سلام نے خوب دل کھول کر دل کی باتیں بیان کیں.اس نے مجھے بتایا زندگی کے اس موڑ پر وہ اب بیالوجی کی فیلڈ میں ریسرچ کر رہا ہے ، وہ مالیکیول کے سٹرکچر کو سمجھنے کی کوشش میں ہے.اس کا ارادہ تھا کہ وہ میٹھے میٹیکل فزکس کے اصولوں کو اس موضوع پر لاگو کرے.دیکھنا یہ ہے کہ مالیکیول کے اندر کیا عمل کام کرتا ہے.جدید ریسرچ کا یہ کام جو سلام نے شروع کیا وہ علالت کی شدت کے باعث مکمل نہ کر سکا، مجھے امید ہے مستقبل میں کوئی دوسرا ضرور کرے گا.خانصاحب نے یہ بھی بتلایا کہ سلام سے ان کی آخری ملاقات آکسفورڈ میں وفات سے تین ماہ قبل ہوئی تھی.(یادر ہے کہ سلام اور منیر خان کی دوستی کا عرصہ ۵۵ سال پر محیط تھا، دونوں نے گورنمنٹ کالج کی یونین کا الیکشن لڑا تھا، مگر سلام جیت گئے تھے ) ڈاکٹر نام کبل ( امپیرئیل کالج) نے ڈاکٹر سلام کی آخری ریسرچ کو یوں بیان کیا ہے.ہر ایک کو امید تھی کہ ان کو اس موضوع پر شاید دوسرا نوبل انعام بھی ملے: One of the unresolved puzzles of biology is the origin of chirality: why it is that most biological molecules appear in only one of two mirror-image forms.Salam wondered whether this problem could be related to the weak interactions, which exhibit a

Page 344

(۳۳۵) fundamental lack of mirror symmetry.(Memoirs of Royal Society by Dr Tom Kibble, FRS) ڈاکٹر سعید احمد درانی ( برمنگھم یو نیورسٹی) نے اس موقعہ پر آخری اجلاس کی صدارت کی اور درج ذیل واقعہ سنایا: جب سلام سے پنجابی زبان میں بات کی جاتی تھی تو وہ تر و تازہ دکھائی دینے لگتے تھے.چنانچہ ایک بار میں آکسفورڈ ان کے گھر عیادت کیلئے گیا.تو اطالوی بیگم کی موجودگی میں انگلش میں باتیں ہوتی رہیں.ڈاکٹر سلام قوت گویائی سے معذور تھے.مسز لوئیس سلام نے مجھے کہا کہ پنجابی میں بات کرو تو میں نے سلام سے پوچھا: اجے وی پڑھ لکھ رہے او ؟ سلام نے دھیمی آواز میں جواب دیا ہاں پڑھ ریاں ، ہاں پڑھ ریاں، ان کے چہرہ پر یہ الفاظ کہہ کر تازگی کے آثار نمایاں ہو گئے.ملاقات کے دوران صرف یہی الفاظ تھے جو انہوں نے ادا کئے.اسی طرح درانی صاحب نے یہ بھی بتایا کہ پرویز ہود بھائی نے ڈاکٹر سلام کی علالت کے دوران اسلام آباد سے اپنا سرونٹ سلام کی نگہداشت کیلئے خاص بجھوایا تھا.- ڈاکٹر درانی نے ایک اور واقعہ سنایا: ۱۹۷۴ء میں جب حکومت پاکستان نے احمدیوں کو نان مسلم قرار دے دیا تو سلام سے میری ملاقات لندن میں ہوئی.میں نے پوچھا کہ سلام صاحب آپ نے استعفیٰ کیوں دیدیا.تو ڈاکٹر سلام نے جوابد یا: غیرت بھی کوئی چیز ہوتی ہے.پھر ۱۹۸۸ء میں میں پاکستان ایک سائینس کانفرنس میں شرکت کیلئے گیا.ملتان بھی لیکچر دینے گیا میں وائس چانسلر کے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا تو وائس چانسلر نے کہا کہ جس کرسی پر آپ بیٹھے ہیں وہاں ڈاکٹر سلام کچھ عرصہ قبل تین گھنٹے بیٹھے رہے تھے.میں نے پوچھا وہ کیوں؟ انہوں نے بتلایا کہ میں نے سلام کو لیکچر دینے کیلئے بلایا تھا.مگر طلباء (جمیعت طلباء اسلامی کے احمقوں) نے لیکچر سننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ہم جلوس نکالیں گے.A prophet is never recognized in his land.۱۰۵ ---- عمران سعدی ( ڈاکٹر سلام کے نواسہ) نے بتایا: ایک بار میں اپنے ابا کے ساتھ کار میں نانا جان

Page 345

(۳۳۶) کو ائر پورٹ لینے گیا.میں نانا کے ساتھ کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا.نانا جان سے جب بھی ملاقات ہوتی تو وہ ہمیشہ ہماری تعلیم کے بارہ میں استفسار کرتے خاص طور پر فزکس اور میتھ کے بارہ میں.نانا جان نے میرا امتحان لینا چاہا اور پوچھا ? What is square میرے ابا نے عرض کیا کہ میں ابھی اتنی عمر کا نہیں کہ یہ سوال سمجھ سکوں.نانا نے یہ سوال مجھے اتنے اچھے طریق سے بتانا شروع کیا کہ مجھے کچھ کچھ سمجھ آگئی.اس کے بعد انہوں نے ایک اور سوال کیا پھر میرے ابا نے جوابدیا کہ میری عمر بھی چھوٹی ہے.تب انہوں نے میری طرف دیکھا تو میں نے کہا مجھے معلوم نہیں.مجھے خیال آیا کہ جب نانا بھی میری عمر کے ہوں گے تو کسی نے ان سے اسی قسم کا سوال کیا ہو گا.ایک اور بات جو میں بتانا چاہتا ہوں وہ یہ کہ نانا جان کو میٹھا بہت پسند تھا.ہمیشہ ان کے کوٹ کی جیب میں چاکلیٹ ہوتی تھی اور وہ ہمیں دیتے تھے.ڈاکٹر رام پرشاد با مبا ( سابق پروفیسر ریاضی، پنجابی یونیورسٹی، پٹیالہ ) جو ڈاکٹر سلام کے گورنمنٹ کالج لاہور میں ہم جماعت تھے اور پھر اسکے بعد سینٹ جانز کالج میں بھی ان کے ہم جماعت رہے.انہوں نے سلام میموریل کے موقعہ پر حاضرین کو سلام کا وہ دو صفحہ کا الجبرا کا مضمون دکھایا جو انہوں را ما نوجن کا مسئلہ کے موضوع پر لکھا تھا.ڈاکٹر با مبا Bamba نے یہ بھی بتایا کہ گورنمنٹ کالج میں ایک دفعہ ایک طالبعلم کو اپنڈکس ہو گیا.سلام نے فوراً اس کے بارہ میں انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا سے معلومات حاصل کیں اور پھر لگا تار ۴۸ گھنٹے اس کی عیادت میں سوئے بغیر گزار دئے.Salam had there a vigorous laughter, where ever Salam was, Seven Pillars of Wisdom was attention.طالب علمی کے زمانہ میں سلام کو لٹریچر میں آسکر وائلڈ بہت پسند تھا نیز وہ کتاب " کے چند صفحات روزانہ مطالعہ کیا کرتا تھا.

Page 346

(۳۳۷) نيو سائینٹسٹ رسالہ کے ایڈیٹر Nigel Calder نے بتایا: Gordon was talking last night about the short lived career of Salam as experimental physicist.What I heard is, what really annoyed the experimentalist at Cavendish was not that he kept getting bad results, but he kept inventing new theories to explain why his He was a patient teacher of stupid journalists.badresults were correct..اسی طرح ڈاکٹر پروفیسر جان زائی مان برسٹل یونیورسٹی) نے اس موقعہ پر بتایا: John Spears who was at Oxford said to me I hear you are going to Cambridge.Then he said you will meet there Abdus Salam, and you would know who he is from his conversation.His conversation is like this: dispersion relations ha ha ha (loud laughter).His laughter was physics, Salam radiated around it.1+9 جینوا ( سوٹزرلینڈ) میں ایک سڑک کا نام Route Abdus Salam جولائی ۱۹۹۸ء میں رکھا گیا.اگلے سال (۱۹۹۹) کینیڈا کے شہر میپل Maple.ON میں ایک سڑک کا نام Abdus Salam Crescent رکھا گیا.ڈاکٹر سلام کی کتاب آئیڈیز اینڈ ریلے ٹیز کا ترجمہ دنیا کی آٹھ زبانوں عربی، ترکش، چینی، پنجابی، فارسی ، اردو ، اطالین، فریج میں ہو چکا ہے، اسکی تفصیل یہ ہے عربی میں ترجمہ دمشق ۱۹۸۷، چارصد صفحات.ترکش میں ترجمہ Gulecyuz نے کیا (۲۷۲ صفحات)، اور استنبول سے ۱۹۸۷ شائع ہوا.اطالین ۱۹۸۶ (۴۶۹ صفحات).فریج (۲۹۶ صفحات) رباط مراکش.چائینیز (۲۳۳ صفحات ) بیجنگ ۱۹۸۹.فارسی میں ترجمہ محمد اسدی (۴۱۳ صفحات) نے کیا اور طہران سے شائع ہوا.گورمکھی پنجابی میں ترجمہ ڈاکٹر ہر دیو سنگھ ورک نے کیا اور ۱۹۸۸ء میں شائع ہوا.اردو میں تین تراجم ہو چکے ہیں جو ۱۹۹۱ء ۱۹۹۲ ء اور ۱۹۹۶ میں شائع ہو چکے ہیں.

Page 347

(۳۳۸) ابو ذیشان عالم اسلام کے دو سرے نوبل انعام یافته احمد حسن زویل ) سویڈن کی نوبل کمیٹی نے ۱۲.اکتوبر ۱۹۹۹ء کو کیمسٹری میں نوبل انعام مصری سائینس دان احمد حسن زویل کو دینے کا اعلان کیا انہوں نے لیزر شعاعوں کی ایک ایسی تکنیک کا عملا مظاہرہ کیا تھا جس سے ایٹم کی موشن کو مالیکیول کے اندر کیمیائی ردعمل کے دوران دیکھنا ممکن ہو گیا ہے.احمد حسن ذویل ZEWAIL کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (CALTECH) میں پروفیسر ہیں.جس روز علی اصبح ان کو نوبل کمیٹی نے فون کے ذریعہ انعام ملنے کی اطلاع دی وہ زکام کے باعث صاحب فراش تھے.اور انکی بیگم طرح طرح کی ادویاء سے ان کا علاج کر رہی تھیں.ڈاکٹر زی ویل نے مسکراتے ہوئے کہا کہ جب یہ ٹیلی فون کال آئی اس کے آتے ہی زکام کی وائرس ہلاک ہوگئی.اس لئے ہر وہ شخص جوفلو سے بیمار ہو اس کیلئے میں نوبل انعام تجویز کرتا ہوں.ڈاکٹر زویل نے کیمیائی رد عمل دیکھنے کیلئے جس تکنیک کو ایجاد کیا ہے اس کو فیمٹو سیکنڈ سپیکٹرو سکوپی Femto Second Spectroscopy کہا جاتا ہے.یہ کیمیکل ری ایکشن جس ٹائم سکیل پر نمودار ہو تے ہیں ان کا معائنہ الٹرا شارٹ لیزر فلیشز کے ذریعہ کیا جا سکتا ہے.اس تکنیک کو دنیا کا تیز ترین کیمرہ بھی کہا جا سکتا ہے.اس عمل میں لیزر فلیشز بہت ہی کم مدت کی استعمال کی جاتی ہیں.یہ قلیل عرصہ اور کیمیائی ردعمل میں ٹائم سکیل ایک جیسی ہوتی ہیں.ایک فیمٹو سیکنڈا Femto second کو یوں لکھا جاتا ہے 0.000000000000001 اسکا موازنہ ۳۲ ملین سالوں کا ایک سیکنڈ سے کیا جا سکتا ہے کیمسٹری کی اس شاخ کا نام فیمٹو کیمسٹری ہے.اس تکنیک کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ اب ہم کیمیائی رد عملوں کو کنٹرول کر سکتے ہیں فیمٹو کیمسٹری کی وجہ سے ہمارا نقطہ نظر کیمیائی رد عمل کے بارہ میں انقلابی طور پر بدل گیا ہے جس تیز رفتاری سے

Page 348

(۳۳۹) لیزر فلیشز کام کرتی ہیں کیمیائی ری ایکشنز اس سے زیادہ رفتار سے عمل پذیر نہیں ہوتے ہیں.حالات زندگی ڈاکٹر زویل اس وقت کال ٹیک میں لینوس پالنگ Linus Pauling چئیر آف کیمسٹری کے پرو فیسر ہیں نیز وہ لیبارٹری فارمالى كيولر سائینسز کے ڈائریکٹر بھی ہیں.قاہرہ میں قیام کے دوران وہ امریکن یونیورسٹی میں پروفیسر تھے.امریکہ ہجرت کرنے سے قبل وہ کچھ عرصہ فرانس.اور بلجیم میں بھی یو نیورسٹیوں میں تدریس کا کام کرتے رہے.انہوں نے ۱۹۶۷ء میں بی ایس سی اور ایم ایس سی کی ڈگریاں الیگزنڈر یہ یونیورسٹی سے حاصل کیں.۱۹۷۴ء میں انہوں نے یو نیورسٹی آف پین سلو انیا سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اس کے بعد وہ یو نیورسٹی آف کیلی فورنیا.بر کلے آئی بی ایم ریسرچ فیلو بن کر چلے گئے.کال ٹیک ( کیلی فورنیا) میں وہ ۱۹۸۲ء میں فل پروفیسر بن گئے ۱۹۹۰ء میں ان کو سب سے پہلی بار لینوس پالنگ چیر بڑے اعزاز سے دی گئی.آپ کو چھ یو نیورسٹیوں سے آنریری ڈاکٹریٹ مل چکی ہیں آپ ایک صد سے زیادہ بڑے بڑے اجلاسوں میں لیکچر دے چکے ہیں.ہالینڈ.برطانیہ.جرمنی کی یو نیورسٹیوں کے آپ آنریری پروفیسر ہیں اسکے علاوہ ان کو مندرجہ ذیل ایوارڈ بھی مل چکے ہیں : وولف پرائز.کنگ فیصل پرائز بنجمن فرینکلن میڈل.رونگٹن پرائز.کارل زائس Zeiss پرائز.رابرٹ اے ویلش پرائز.ہوجسٹ ایوارڈ Hoechst.امریکن فزیکل سوسائٹی کی طرف سے ہر برٹ برائیڈ ایوارڈ.امریکن کیمیکل سوسائٹی کی طرف سے آٹھ ایوارڈ بشمول لینوس پالنگ ایوارڈ امریکن حکومت کی طرف سے لارنس ایوارڈ نیشنل اکیڈیمی آف سائینسز کی طرف سے ایوارڈ ۱۹۹۵ء میں صدر حسنی مبارک نے آرڈر آف میرٹ دیا ۱۹۹۸ء میں مصر کی حکومت نے ڈاک کے ٹکٹ جاری کئے

Page 349

(۳۴۰) آپ کی پیدائش ۲۶ فروری ۱۹۴۶ء کو دامان آور (مصر) میں ہوئی.آپ کے چار بچے ہیں آپ کی اہلیہ کا نام دیما زیویل ہے جو پبلک ہیلتھ (یونیورسٹی آف کیلی فورنیا.لاس اینجلز ) میں فزیشن ہیں گذشتہ میں سالوں میں ۱۵۰ کے قریب طالب علم ان کے ماتحت پوسٹ ڈاکٹریٹ کر چکے ہیں.جن میں ریسرچ فیلو.گریجویٹ سٹوڈنٹ.اور و زننگ ایسوسی ایٹ شامل ہیں آپ کی رہائش اس وقت کیلی فورنیا کے شہر سان مارینو میں ہے.فیمٹو کیمسٹری کیا ہے کیمیا دانوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ کیمیکل ری ایکشن کا بغور.بڑی گہرائی کے ساتھ کے ساتھ مطالعہ کر سکیں اس کیلئے ایڈوانس ٹیکنا لوجی استعمال میں لائی جاتی ہے.ڈاکٹر ز ویل نے ایٹمز اور مالی کیلوئز کو سلو موشن میں کیمیائی رد عمل کے دوران اس لمحہ دیکھا ہے.جب کیمیکل بانڈز ٹوٹتے یا نئے جنم لے رہے ہوتے ہیں.فیمٹو کیمسٹری سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ بعض مخصوص کیمیائی رد عمل کیوں ظہور میں آتے اور بعض ایک ظہور پذیر نہیں ہو پاتے.اب ہم یہ بتلا سکتے ہیں کہ کیمیائی ردعمل میں رفتار اور اس کے نتیجہ یا آؤٹ پٹ کا انحصار درجہ حرارت پر ہوتا ہے.فیمٹو کیمسٹری کے بانی مبانی احمد زویل ہیں.جو کال ٹیک میں پروفیسر آف فزکس ہیں ج تکنیک انہوں نے ایجاد کی ہے اس میں الٹرا فاسٹ لیزر ultra fast lasers استعمال ہوتے ہیں جو کیمیکل ری ایکشن کو رئیل ٹائم real time میں پروب کرتے ہیں.اس تکنیک سے پتہ چلتا ہے کہ کیمیکل بانڈز کر طرح پیدا ہوتے اور کس طرح ٹوٹتے ہیں اس نئی فلیڈ کے تعارف سے کیمسٹری اور فوٹو بیالوجی کی فیلڈز مختلف النوع کا اثر ہوا ہے.

Page 350

صدر محمد ایوب خاں نے جب چین کا دورہ کیا تو صدر کے سائینسی مشیر ڈاکٹر عبدالسلام بھی ان کے ہمراہ تھے.تصویر میں صدر ایوب چیرمین ماؤزے تنگ اور وزیر اعظم چو این لائی کے ساتھ کھڑے ہیں.ڈاکٹر عبد السلام سامنے سے بائیں طرف سے تیسری قطار میں چوتھے نمبر پر ہیں

Page 351

منظوم حصہ

Page 352

(۳۴۳) سید جعفر طاہر ۱۹۷۳ پیر میکدہ اہل علم میری زباں پہ ذکر ہے عبد السلام کا خوش آج دیکھتا ہوں میں دل خاص و عام کا آنے لگے ہیں ماہ و سما سے مجھے سلام میں نے لیا ہے نام جو تجھ نیک نام کا تو سرزمین جھنگ کا فرزند نامور اہل وطن کا ناز شرف روم و شام کا استاد بھی ہے دوست بھی قدرداں بھی پیکر حیا کا پتلا ہے تو خلق عام کا خوش فکر خوش مزاج جوان و شگفته دل دریائے بے کنار ہے لطف مدام کا حیران مصل ہے تیرے لطف و کمال پر اندازہ کرسکوں نہ میں تیرے مقام کا اے تو کہ پیر میکدہ اہل علم ہے اے تو کہ صدر بزم ہے اہل کلام کا فکر ارسطو فہم فلاطوں تیرے نار نشہ تیرے سخن میں ہے کوثر کے جام کا لازم ہے اب نہ کوئی نیوٹن کا نام لے تھا رکن گرچہ وہ بھی گروہ کرام کا تو رشک فیثا غورث و آئن سٹائین ہے تو فخر ابن سینائے عالی مقام کا تو نورچشم جابر ابن حیان ہے رازی کا راز آئینہ فکر خیام کا واقف ہے تو بروج و عروج نجوم ہے تو رازداں ہے شمس و قمر کے نظام کا زہرہ کو پیشوائی کا ہر لحظہ شوق ہے مریخ میں تو چرچا ہے تیرے پیام کا پھیلی پے تیرے علم کی یہ روشنی کہ آج دل کانپنے لگا فلک نیلی نام کا کیا روشنی فرنگ کی تجھ پر اثر کرے تو آفتاب تازہ ہے بیت الحرام کا نوبل پرائز لے کے ہو تو فائز المرام و زیبا ہے اب حوصلہ جو ملے تجھ کو کام کا تو میرا ہم وطن ہے شرف یہی ہے مجھے ورنہ میں دین کا ہوں نہ دنیا کے کام کا آباد و شاد کام وسدا کامراں رہے سایہ ہو سر پہ سرور خیر الانام کا

Page 353

(۳۴۴) ہاتھوں میں ہو جو مرکب ایام کی عناں ہو تیرے سر پہ تاج بقائے دوام کا طاہر زباں کو یاد فقط ذکر یار ہے دل نے سبق پڑھا ہے فقط احترام کا ی هم نوبل پرائز ملنے سے چھ سال قبل لکھی گئی تھی

Page 354

(۳۴۵) شیر افضل جعفری ۱۹۷۳ فخر پاکستان تم جواں عشق و جواں بخت بشر ہوتے ہو محل سائینس کے دلدار شمر ہوتے ہو تم نے صحرائے ریاضی میں کھلائے ہیں گلاب دشت الجبرا میں شاخ گل تر ہوتے ہو قدرت حق سے ملا ہے تمہیں کشمیر خلوص دل کی جاگیر کے لج پال کنور ہوتے ہو جھنگ والوں کے لئے قوت پرواز ہو تم بے پروں کیلئے سرخاب کا پر ہوتے ہو آزمائش میں نکھرتا ہے تمہارا کردار تم بہر رنگ و بہر حال امر ہوتے ہو تم سے یوروپ میں بھی چھوٹے نہ صوم و صلوۃ شام تاریک میں گل بانگ سحر ہوتے ہو تم سیالوں کی کھنکتی ہوئی نگری میں سلام عید کے چاند کے چڑہنے کی خبر ہوتے ہو آکے دیتے ہو تمہیں دانش افرنگ خراج تم یہ اور رنگ جنوں تاج بہ سر ہوتے ہو تم اے سلطان قلم طاہر وافضل کے لئے ذوق و غالب کی قسم رھیک ظفر ہوتے ہو ہاتھ اٹھیں جو تہجد میں کبھی پچھلی رات ٹوٹ تم بہ ہنگامِ دعا پیش نظر ہوتے ہو شیر افضل جعفری ڈاکٹر عبد السلام کے استاد تو نہ تھے مگر ڈاکٹر صاحب ان کی استادوں سے زیادہ عزت کیا کرتے تھے.جب بھی جھنگ آتے تو ان کے دولت کدہ پر حاضری دیتے ، معانقہ کرتے اور ان کا ماتھا چومتے.ڈاکٹر صاحب ان کے سامنے ایک مودب شاگرد کی طرح بیٹھتے تھے.

Page 355

(۳۴۶) شیر افضل جعفری ۱۹۷۹ء و جہادا چن کے عبد السلام اوپرا فرزند جھنگ ہے سلطان ہاتھی وان کا نوبل ملنگ ہے لیتا ہے گنگنا کے ریاضی کو بانہہ میں سائینس اس کتاب دلارے کی منگ ہے ڈرے کے بھوم راگ کی سولہ سنگارتان تارے کی چندر کونس کا سنگیت انگ ہے ی شخص کیمیا کا ہے ابدال خوش خیال فزکس کی فرات کا صادق نہنگ ہے خمرا ہے یہ تو حضرت با ہو ا کے دیس کا اس کے سرود وسوز پہ اللہ کا رنگ ہے کرتا ہے رام گردش دوراں کو فکر سے چودھار سے اسکی سوچ کلائی کی ونگ ہے کنکو اباز ہے یہ خدا کی بسنت ہے اس کی نگاہ دور ہے چندا پتنگ ہے لکھ بخش کے طفیل ہیں یہ گہما گہمیاں جلسہ نہیں ہے یہ خی سرور کا سنگ ہے اس کی خموشیوں میں غزلخواں مذاکرے اور اسکی بات بات میں نیرنگ چنگ ہے ڈالے ہوئے ہیں غریباں دانتوں میں انگلیاں اسکے جمال ذہن پہ یوروپ بہ چنگ ہے یه راز دان آتش و آب و هواگل دانش وران دیس کے دل کی امنگ گاتا ہے تجزئے کے نشے میں ازل غزل اسکے لئے وضو کی تری جل ترنگ ہے اللہ رے سپوت محمد حسین کا کردار کے چنار کی رنگیں پھنگ ہے اے پاک سرز میں تیرے مست چنہاں کی خیر اس کے جنوں یہ عقل ارسطو بھی دنگ ہے ہے + یہ جھنگ کے تین اولیاء کرام ہیں.یہ نظم ۲۴ دسمبر ۱۹۷۹ کی شام کو گورنمنٹ کالج جھنگ کی ایک تقریب میں جعفری صاحب نے پڑہی تو ڈاکٹر صاحب نے ان کو ایک ہزار روپیہ بطور نذرانہ پیش کیا تھا.

Page 356

(۳۴۷) محمد عصام.(اٹلی) اے حکیم راز جو ہر کا اے نگار علم و دانش اے محقق اے سلام اے حکیم راز جو ہراے حریم رنگ جام اے مفکر اے مبصر تو بنائے انقلاب تو کشوری عقدہ ہائے راز پیچیدہ نظام تو نیاز دل نشیں در کاروانِ علم وفن تو شرار مہر صولت در فضائے صبح و شام وصل مقناطیس کر دی جو ہر کمزور را می نمائی در جہاں اصل اصول نظم عام تو نگار فیض نوبل تو بہار اندر بہار تو مثال شعر و نغمه خود پیام اندر پیام چوں نوائے فیض گستر می رسی با کار خویش می کنی این راز فطرت آشکارا بر عوام فن طبیعات رازیبا کنی بر دوش عقل تو نگار علم را مشاطه نقش دوام

Page 357

1 (۳۴۸) تو سرا با خلق واللت تو نوائے کیف دل تو سرور دل کشی با نزہت موج شمام تو وسیم دل ربا را کیف ہائے سوز و ساز تو برائے شعر و نغمہ نگہت روح عصام به شکریہ.ہفت روزہ بدر.۱۱ اکتوبر ۱۹۹۰ء

Page 358

(۳۴۹) جناب آل احمد سرور (انڈیا) ذوق آگہی کے ہمارے دور میں مغرب کے علم و دانش سے بشر کو نور ملا.زیست کو شعور ملا ہمارے دور میں مشرق کے مے فروشوں کو ملا تو بادہ دو شبینہ کا شبینہ کا سرور ملا سلام تجھ پہ تیرے ذوق آگہی کے طفیل دیار شرق کا دیدہ وری میں نام ہوا وہ کم طلب جو گریزاں تھا بزم عرفاں سے تیری کشش سے بالآخر شریک جام ہوا عمیق بحر کی موجوں سے کر کے سرگوشی فضا میں ہر نئے سورج سے ہم کلام ہوا یہ جستجو یہ متاع نظر ہی سب کچھ ہے یہ تازہ کاری زخم جگر ہی سب کچھ ہے سوال کرتے رہے تو جواب بھی ہونگے یہ سوز و ساز یہ سعی بشر ہی سب کچھ ہے

Page 359

(۳۵۰) راغب مراد آبادی ۱۹۷۹ء دانائے طبیعات کے ڈاکٹر عبدالسلام اے ساجد رب الانام اے فرید عصر حاضر لائق صد احترام لوٹ کر آتا نہیں ہرگز وہ بے نیل مرام جانب منزل بڑھے اللہ کا لیکر جو نام آئینہ ہے دل تر ا.تا بندہ تیری فکر ہے جادہ تحقیق انہیں شمعوں سے ہے روشن مدام شرط ہے انجام مقصد کیلئے اخلاص دل اور اسی کے ساتھ لازم ہے دعا بالالتزام رشک اک دنیا کو ہے تیرے علو فکر پر فتح نا دیدہ عناصر پر رقم ہے تیرے نام چیر کر ذرات کا دل.تو نے ثابت کر دیا بزم آب و گل کا ، ان دو قوتوں سے ہے قوام تیری چشم حق نگر پر ہو گیا راز فاش رخ بدل دے گا عناصر کا جو اک دن لا کلام اشرف المخلوق ہے انساں یہ ساری قوتیں لا محالہ، آئیں گی اک دن اسی کے زیر دام اے گل گلزار پاکستان، متاع اہل حق تیری خوشبو سے معطر ہو گیا عالم تمام نوبل انعام اک علامت قدردانی کی تو ہے ایسے ہر انعام سے بالا ہے لیکن تیرا کام اہل مغرب ہی کریں گے تیری قدر و منزلت اہل مشرق میں نہیں پاتا یہ رسم اب تک میں عام اس بلندی سے تجھے کوئی گرا سکتا نہیں حق تعالٰی نے تجھے بخشا عجب ارفع مقام ہے جلو میں صرف حکمت ہی کی وہ خیر بشر ذکر ہے قرآن میں جس کی یہ حسن اہتمام خندہ زن ہے عشرت دنیا پر ان کی زندگی معمل تحقیق میں جن کے بسر ہوں صبح شام قطعہ تاریخ راغب کی طرف سے نذر ہے محورحمت، مردحق ہیں ، ڈاکٹر عبد السلام (۱۹۷۹ء)

Page 360

(۳۵۱) ڈاکٹر پرویز پروازی ٹورنٹو کینیڈا ورہ طلب کا مسافر رہ طلب کا مسافر تھا اور یگانہ تھا گدائے عشق بہ انداز خسروانہ تھا اس احمدی سے تعلق برادرانہ تھا مرا سلام کا رشتہ بڑا پرانا تھا و شخص بو علی سینا تھا اس زمانہ کا وہ شخص دانش و حکمت کا اک خزانہ تھا وہ کائینات کے اسرار کھولنے والا غلام حکمت حکمت گر زمانہ تھا اسے وطن کی ہر اک چیز سے محبت تھی مگر وطن کا رویہ مخالفانہ تھا بس اس لئے ہی کہ وہ شخص احمدی کیوں تھا بس اسی لئے کہ عمل اس کا قادیا نہ تھا وہ بدنصیب نہیں جانتے کہ اس میں بھی زیاں خودا نکا تھا دوسرے کسی کا نہ تھا سلا دیا جسے مٹی میں ھم نے پچھلے پھر وہ ایک شخص نه تها پو را اک زمانه تها

Page 361

(۳۵۲) ڈاکٹر راجہ نذیر احمد ظفر (ربوہ) جو اک دنیا کا موضوع سخن تھا کہ شہید جستجوئے علم وفن تھا وہ اپنی ذات میں اک انجمن تھا اسے اپنا رہی تھی ساری دنیا مگر اپنے وطن میں بے وطن تھا وہ آخر مر کے پہنچا دیں اپنے قتیل جذبہ حب وطن تھا خدا کی طرف موڑی سائینس یہ اک مومن موحد کا چلن تھا نکالی جوئے شیر اٹلی میں اسنے یہ پاکستان کا اک کوہ کن تھا لیا انعام نوبل شاہ سے جب لباس قومی اس کے زیب تن تھا شمی دربار میں اچکن پر طرہ یہ اک جھنگوی کا دیسی با نمکین تھا بڑی قوموں نے جانا اسکو مانا کہ منوانے کا اسکے پاس فن تھا پڑوسی مشرکوں کو دیں شکستیں سپوت پاک یہ باطل ممکن تھا خداوند تیری رحمت ہو اس پر کہ اک دنیا کا پیارا یارمن تھا یہ چند الفاظ نذر اس کی ہیں راجہ جواک دنیا کا موضوع سخن تھا

Page 362

i سلیم شاہجہانپوری (کراچی) ۲۸ دسمبر ۱۹۹۶ء معترف جس کا اک زمانہ تھا کہ ہو گئے ڈاکٹر سلام بھی فوت موتِ عالم ہے اک جہان کی موت جب بلایا رفیق اعلیٰ نے پھر نہ کی دیر مرد دانا نے ماہر علم طبیعات تھا وہ کاشف راز کا کینات تھا وہ جب مرض نے کیا اسے مہجور چلنے پھرنے سے ہو گیا معذور کام کرتا رہا دماغ اس کا جگ میں روشن رہا چراغ اس کا سائینس دانوں کو ناز تھا اس پر اس عاشق تھے اسود و احمر طاقتیں چار تھیں مدار حیات اور انہیں پر تھا انحصار حیات اس نے ثابت کیا کہ تین ہیں وہ اثر انداز ہیں زمیں جو تین کو دو وہ کرنے والا تھا رو کو پھر ایک ہی بنا دیتا اس کا بہت اعلیٰ تھا کرامت بھی وہ دکھا دیتا رو کر جب ایک کر دکھاتا وہ راه وحدانیت لاتا وہ پھر وہ کہتا کہ ایک ہی طاقت حکمراں ہے یہاں ہے بلا شرکت ہے وہی کا سکنات کا محور نام ہے اس کا خا لق اکبر ایک ہی طاقت عظیم ہے وہ حی و قیوم ہے قدیم ہے وہ اس نے ایسا عظیم کام کیا جگ میں اونچا وطن کا نام کیا بلیقیں یہ وہ کارنامہ ہے معترف کا جس کا اک زمانہ ہے ایسا انسان بھی کوئی آئے گا تین کو ایک کر دکھائے گا (۳۵۳)

Page 363

(۳۵۴) محمد زکریا ورک سلام کی سائنس کا تاج محل کے بڑائی ہمارے کام آئی کہ آئی سی ٹی پی نے اچھی راہ دکھلائی یہ سینٹر ایسا ہے جو علم کا نگر نکلا دماغ نکلا ادھر ނ جو با ہنر ہنر نکلا یہ اس کا قول جو سر چڑھ کے آج بولا ہے کہ سائنسی علم نے عقلوں کا تالہ کھولا ہے تھا باب علم جن جاہلوں کا کل رہے سلام سے کیوں سوچتے ہیں بے بہرہ پہرہ سلام آئے تو اسلامی دنیا جاگ اٹھی طلسم آئینہ میں چشم فردا جاگ ٹھی ورک سلام سائنس دان رے اے عظیم سائنس ہمیشہ ہی رہے عظمتوں کا عالی شان تو

Page 364

راغب مراد آبادی تاریخ وفات بالیقین تھے ڈاکٹر عبد السلام برگزیده عابد رب الانام رحمت باری ہو ان کی قبر پر جنت الماویٰ میں ان کا مقام نام پاکستان کا روشن کیا چرخ شہرت کے تھے وہ ماہ تمام نوبل انعام انکا حق تھا جو ملا ان کی عظمت کو میسر ہے دوام منفر د سائینسدان تھے ان سے بھی آبرو سائینس کی ہے لا کلام خوبیوں کی ان کی ہے احاطہ محال ہے نہایت ہی بلند ان کا مقام نام نامی ان کا لب پر آئے گا اہل علم وفن کے با صد احترام (۳۵۵)

Page 365

نہیں ان کی نعم البدل اب کوئی بے بدل، بیشک رہیں گے وہ مدام خاک میں ربوہ کی آسودہ ہیں آج قدی عنصر، ڈاکٹر عبد السلام (۱۴۱۷ ہجری) (۳۵۶)

Page 366

(۳۵۷) A Tribute to Abdus Salam By Prof.Frederick Keins University of California Department of Physics, Irvine, CA.Presented at the closing ceremonies of 25th anniversary of ICTP.From out of the East there came a man Who thought to divine the cosmic plan To unify the hearts of man And make whole, concepts deep and grand.From out of the West came Nobility To grace the deep insight, the unity Arising from diversity.From out of the East there came such a man Whose heart and mind did most nobly span Man's highest hopes and dreams and plans Transcendent with love and humility.From out the depths of human soul Came this man so well crafted for this role Came this man who would make That which is fragmented whole.

Page 367

(۳۵۸) ڈاکٹر عبد السلام کی زندگی کی تاریخ ولادت با سعادت بعض اہم تاریخیں ----Chronology-- پہلا سائینسی مقالہ (راما نوجن کا مسئلہ، الجبرا) بی اے ایم اے (ریاضی) کیمبرج کو روانگی برائے اعلیٰ تعلیم ۲۹ جنوری ۱۹۲۶ء (بروز جمعہ ) جھنگ جون ۱۹۴۳ء ۱۹۴۴ء گورنمنٹ کالج لاہور ۱۹۴۶ء پنجاب یونیورسٹی لاہور ١٩٤٦ء سمجھ پرائز ( کیمبرج یونیورسٹی ، ڈاکٹریٹ سے پہلے کی ریسرچ پر ) ۱۹۵۰ء پرنسٹن انسٹی ٹیوٹ، نیوجرسی ، امریکہ میں تعلیم ، پاکستان واپسی پی ایچ ڈی مقالہ لاہور سے بھجوا یا ) پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور لیکچرار، کیمبرج یونیورسٹی سائیخلک سیکرٹری جیوا کانفرنس (اقوام متحدہ) آنریری ڈگری ( ڈاکٹر آف سائینس ) پنجاب یونیورسٹی پروفیسر امپیرئیل کالج ، یونیورسٹی آف لندن ۱۹۵۱ء ۱۹۵۲ء کیمبرج یونیورسٹی، انگلینڈ ۱۹۵۱ء تا ۱۹۵۴ء ۱۹۵۴ء ۱۹۵۶۴ء ۱۹۵۵ء ۱۹۵۷ء ۱۹۵۷ء ہاکنز پرائز اور ایڈمز پرائز، ستارہ پاکستان کے اعزازات ۵۸۶۵۷ء اور ۱۹۵۹ء رائیل سوسائیٹی (برطانیہ) کے فیلو منتخب ہوئے بی بی سی لندن ریڈیو پر تقریر (ایٹم فار ہیں) انٹر نیشنل سینٹر فار تھیور ٹیکل فزکس کی بنیاد رکھی ، پہلے ڈائر یکٹر ۱۹۵۹ء ۱۹۶۲ء ١٩٦٤ء جماعت احمد یہ انگلستان کے پہلے جلسہ سالانہ پر اجلاس کی صدارت ۲۹.اگست ۱۹۶۴ء ہند و پاکستان جنگ کو ختم کرنے کیلئے واشنگٹن کا سفر کیا ریڈیو پاکستان سے اقبال میموریل لیکچر نشر ہوا الیکٹرو و یک کی زمین شکن تھیوری پیش کی ستمبر ۱۹۶۵ء ۱۹۶۵ء ١٩٦٧ء

Page 368

ایٹمز فار پیس پرائز ( اوتھانٹ، جنرل سیکرٹری UN نے پیش کیا ) ۱۴ اکتوبر ۱۹۶۸ء آپن بائیمر میموریل پرائز ( یو نیورسٹی آف میامی، امریکہ) ١٩٧٩ء نیوٹرل کرنٹ کا ثبوت سائینفک ایڈوائزر، صدر پاکستان ۱۹۷۳ء - ١٩٦١ء تا ۱۹۷۴ء رائیل میڈل دیا گیا.اور ٹیسٹ میڈل Tate Medal ١٩٧٨ء دنیا کا سب بڑا انعام نوبل پرائز ملا ( پہلے مسلمان، پہلے پاکستانی) ۱۰ دسمبر ۱۹۷۹ ء قائد اعظم یونیورسٹی کی طرف سے ڈاکٹریٹ ڈگری بنشان امتیاز ملا ۱۸دسمبر ۱۹۷۹ء جماعت احمد یہ عالمگیر کے ۸۷ دیں جلسہ سالانہ سے خطاب دسمبر ۹۷۹ اور بوہ بھارت کا دورہ کیا مختلف یو نیورسٹیوں سے اعزازی ڈگریاں ١٩٨١ء اٹاوہ (کینیڈا) میں تقریر (ترقی پذیر ممالک میں تعلیم) ۲۳ ستمبر ۱۹۸۲ء سوانح ، ڈاکٹر عبد السلام (عبد الغنی کی کتاب اور اسکا اردو ترجمہ ) ۱۹۸۲ء الیکٹرو و یک تھیوری کا سرن میں تجرباتی ثبوت مل گیا آئیڈیلز اینڈ ریلے ٹیز کتاب کی اشاعت علالت اور وھیل چیر کا استعمال یونی فیکیشن آف فنڈامینٹل فورسز.کتاب کی اشاعت آئی سی ٹی پی کی ڈائریکٹر شپ اور امپیرئیل کالج سے سبکدوشی ١٩٨٣ء سنگاپور ۱۹۸۴ء (۸۸۷۸۷، ۱۹۸۹ء) 19ء کے لگ بھگ -19A9 ١٩٩٠ء ١٩٩٤ء سیلیکوڈ پیپرز آف عبد السلام اینڈ کمینٹری (۲۷۳ مقالہ جات) ورلڈ سائی فلک ، سنگا پور ۱۹۹۴ء رموز اور کتاب رموز فطرت ، ڈاکٹر سلام کی زندگی اور سنہری کارنا ہے جون ۱۹۹۶ء ٹورنٹو کینیڈا وفات حسرت آیات نماز جنازہ اور تدفین سلام میموریل کانفرنس ۲۱ نومبر ۱۹۹۶ ء آ کسفورڈ، برطانیہ ۲۵ نومبر ۱۹۹۶ ء ربوه، پاکستان ۱۹ تا۲۲ نومبر ۱۹۹۷ و ٹریسٹ اٹلی جینیوا میں روٹ عبد السلام کا افتتاح پاکستان ڈاک ٹکٹ کا اجراء ۲۷ جولائی ۱۹۹۸ء.۲۱ نومبر ۱۹۹۸ء سلام چیر کا قیام، گورنمنٹ کالج لاہور بنین BENIN حکومت کی طرف ڈاک ٹکٹ کا اجراء پورٹریٹ ، مصور کا نام RO KIM مسلمانوں کا نیوٹن، کتاب کی اشاعت ١٩٩٩ء نومبر ۲۰۰۱ء ٢٠٠٢ء ۲۰۰۳ ، ٹورنٹو، کینیڈا (۳۵۹)

Page 369

.ڈاکٹر عبد السلام پاکستان کے عظیم ، محب وطن شاعر اور ادیب جناب ثاقب زیروی کے ساتھ ، لاہور کی ایک تقریب میں ڈاکٹر عبد السلام آٹا وہ کینڈا میں ایک اجلاس سے خطاب فرما رہے ہیں.کوٹ پر کینیڈا کا جھنڈا بھی نظر آرہا ہے (۱۹۸۲ء)

Page 370

ڈاکٹر عبد السلام اپنے نور نظر احمد سلام کی لندن میں شادی خانہ آبادی کے موقعہ پر In 1979, Sheldon Glashow (near right), Abdus Salam (far right), and Steven Weinberg (below) shared the Nobel prize for a theory unifying the electromagnetic and weak forces.Glashow's initial work in the late 1950s ran into problems of of mass: One set of equa- tions called for carriers of the electroweak force to be massless, although they were known to be mas- sive.In 1967, Salam and Weinberg showed that shortly after the Big Bang, a symmetry break allowed massless force carriers to acquire mass.پاکستان کے بابائے سائینس.ڈاکٹر عبد السلام، دوامریکن سائیسدانوں کے ساتھ

Page 371

های آن کی گانی اب الأخلاق ڈاکٹر عبد السلام کی زندگی پر شائع ہونیوالی چند کتابیں اور رسالہ جات.میرا گراں مایہ اثاثہ 77 عالم اسلام کے تین عظیم ہستیاں صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب.ڈاکٹر عبد السلام صاحب.اور سر ظفر اللہ خاں صاحب.جماعت احمدیہ کے چوتھے امام نے مؤلف کتاب کی درخواست پر اس تصویر پر با کمال شفقت آٹا وہ (کینیڈا) وزٹ کے دوران دستخط ثبت فرمائے تھے ۲ جولائی ۱۹۹۷ء

Page 372

زکریا دورک لندن کے امپیرئیل کالج کے شعبہ نظری طبیعات میں دیوار پر لگے ڈاکٹر عبد السلام کے نوبل شریفکیٹ اور تصویر کے ساتھ.اگست ۱۹۹۹ء جماعت احمد یہ کراچی کے احباب اپنے ہیرو کے ساتھ ، ہا میں ہاتھ چوہدری عبد الرشید اور ان کے پیچھے مرزا عبد الرحیم بیگ بھی نظر آ رہے ہیں

Page 373

عالی و قار ڈاکٹر سلام ریسرچ کے علاوہ درس و تدریس کا کام بھی کرتے رہے ڈاکٹر عبد السلام جماعت احمد یہ کینیڈا کے احباب کے ساتھ ایک دعوت میں ( ۲۰ مارچ ۱۹۸۷ء )

Page 374

ڈاکٹر احمد حسن زیعی، عالم اسلام کے دوسرے نوبل انعام یافتہ سویڈن کے بادشاہ سے نوبل انعام وصول کر رہے ہیں (مبر (1999) ڈاکٹر زبیر میں نے یہ تصویر خاکسار کو حال ہی میں بھجوائی تھی مولف کتاب ڈاکٹر عبد السلام کی آ آرامگاہ پر محمودعا ہے (ربوہ فروری ۱۹۹۷ء)

Page 375

ڈاکٹر عبد السلام کویت کے امیر کے ساتھ اس کے عمل میں اس پر گفتگو فرمارہے ہیں (۱۹۹۲ء ) امت مسلمہ کے مایہ ناز سائینس دان.پروفیسر عبد السلام نوبل لارئیٹ کے ساتھ ذکر یا ورک کا ایک نادر اور تاریخی فوٹو - ۱۹۸۲ء میڈیسن و سکانسن امریکہ

Page 376

آئی سی ٹی بی.اٹلی کی ایک دلکش بلڈنگ کا نام گیلی لیو ہے ABDUS SALAM CRES صوبہ اونٹاریو کے شہر میپل کے ہیں ویج میں ایک ٹرک کا نام عبد السلام کر بیسنٹ ہے ( تصویر بشیر ناصر )

Page 377

۲۵ نومبر ۱۹۹۶ء ڈاکٹر عبد السلام کی نماز جنازہ لجنہ اماءاللہ ( ربوہ) کے دفاتر کی گراؤنڈ میں صاحبزادہ مرزا منصور احمد کی امامت میں ادا کی

Page 378

نوبل انعام یافتہ سائینسدان جماعت احمدیہ کے تیسرے امام حضرت حافظ میرزا ناصر احمد سے با ادب مصافحہ کر رہے ہیں

Page 379

ڈاکٹر عبد السلام کی ٹورنٹو ائر پورٹ پر آمد.مارچ ۱۹۸۷ ء (دائیں سے بائیں ) رشید احمد کلیم ملک.احمد علی حسن محمد خاں عارف مرزا فضل الرحمن عیسی جان صاحب ؟ نیم مہدی صاحب کینیڈا کے نو دارد امیر جماعت احمدیہ.وحید خاں.نصیر خاں اور دوسرے احباب

Page 380

361 ABDUS SALAM 5.We know S₂+p S₂+p S₁ + 3p₁ = 0 Substituting for S.S₁, S₁.P₂ we get 6p₁ = 3p₁² + p₁³ - 10 ap₁ +2 Substitute for p、 from (g) in (ƒ) we get P₁' - (4a - 3) pr² - 4p₁ = 0 P₁ {p₁³ - (4a − 3) ₪ − 4} = 0 - : (g) (k) The cubic in p₁ can be solved by the usual methods.pɩ known, På.Pr.Pɩ can easily be discovered and the corresponding biquadratic in can be framed.The hiquadratic may be solved by usual methods for x, y, zu; For the particular value p₁=0 the biquadratic is - t* − 2a t³ + } l'+ a³ − a=0 6.By employing the same methods, we can solve the system of equations ³=a+y y=a+'z 2'-a+r much more rapidly than Ramanujan did.His is a very laborious method.Govt.College, Lahore.} ABDUS SALAM, Fourth Year Student

Page 381

A Problem of Ramanujar.By Abdus Salam Reprinted from the Maths, Student—Vol.XI.Nos.1-2, Mar.-June 1943 A Problem of Ramanujam Solve 2=a+y y=a+z z-a+u 1³-a+I (i) (ii) · (iii) (iv) 1.Supposer, y, z, u are the roots of a biquadratic (* + p₂ t³ + p₂ l² + Pq ! + P₁ = 0.We denote Σr" by S..Now S₁ Pr S₁ = 4a + S₁ = 4α-p from the given equations Alan S.+ P₁ S₁ + 2p = 0 Substituting for S₁, S, we have p.- (a) B+P-40 2 (b) 2.Subtract (iii) from (i) and (iv) from (ii) Fª³ - ¿' = y - u; y² - u² = z − x " (2ª³ − zª³){µ³ – u³) = (y − u}( z − x) or ±Y+2y+ux+ 112 − − 1 But Σxy = pa So ±z+uy-P₂+1 3.arzy y-ay+yz Adding S₁-αS₁+xy+z! + ux:+12 ---1 Also ¹³-a²+au+ay + uy y³u² = a³ + az+01+2x Adding, ±²²+³u² = &a³ + α8, + n}} 4° zx (T2+y)=2a + aS₁ + p₂+1+2p.(p₂+1)-2a²- np₁ + pa +1 +2p.1.2p,= p²² + p₂ − 2a² + api.(c) (d) [zyzu-p₁] (e) 4.Evidently or - (z³ − y³)(y³ − z³)(zª − u²){u² — z³) — (a: − y) − 2)(z - µ)(µ − x') (x+y)(y + z)(z+ «){µ+ x} = 1 or! (22}+u*y*+2ryzu) + Σ x²yz - 1 ( P₂ + 1)² + P₁ Ps – 4p.— 1 Substituting for p, from (e) P₁ Pa − P₂² + 4a² – 2ap, – 0 {Σx³yz = p Ps - 4p,) (f) + Vide Collected Papers of Srinivasa Ramanujan, 1927, p.332 Q.722 Also J.I.M.S.Series I Vol VII p.240.362

Page 382

363 shave of Akbar heralded in a new era in Indian history.Recently, when King Farouk let a fine black beard to sprout on his comely face certain political observers forestalled the formation of a Pan-Arab Movement.Events have justified the significance they attached to what then appeared trifles.But what has been the urge for me to write about beards and barbers.Perhaps my own chin is itching and is almost overdue.Who can say? Salam was 14 years old at the time of writing the above article.Ravi is the name of the magazine published by Government College, Lahore.Pakistan.On 25th January 1981 Prof Salam addressed the convocation of Guru Nanak Dev University, Amritsar, India in Punjabi.(L-R) V.S.Karam Singh, Dr Salam, and J.L.Hathi, Governor Punjab (Courtesy Dr.H.S.Virk)

Page 383

364 the modern counterpart of 'The Muhtasib', hauled up a lusty roister, vociferous with drink and youth, and flushed with his late nocturnal revels.Waxing as black as Moses so quoth the reveler."Defile me not, Heaven's anointed, with their unsanctified hands.Knoweth thou not my illustrious parent - he who presides over multitudes, who out-weeds rebels, he to whom the whole world bows." They narrate that the dignity stood aghast at the grim disclosure that beads of perspiration coursed down his brow, that he prostrated himself and apologized.Subsequent inquiries, however, revealed that the desperado was none else except the direct lineal descendant of a barber.So it was stipulated that it is to a barber alone that the whole world inclines its head.To one thing I can testify - that barbers do keep well abreast of the intellectual movement of the time.I can never forget the horrible yarns I heard some years back from the professional who exercised his shearing capabilities on the growth at my chin, blood curdling tales of murder, grim, gruesome, that would make my hair stand on end - and thus facilitate his work.Psychology in the service of shaving.Man's progress What part have hair played in man's march to progress? Cleopatra's nose, they say, changed altogether whole chapters of Rome's history.Why not her raven black tresses? Pope has asserted in his Rape of the Lock that beauty draws us with a single hair.....But this aspect of the question will lead us too far into aesthetics.Let it be merely stated that the growth on the virgin chin of their boy-beloved has had a mystic significance for our Eastern Sufi poets, proving for some the veritable road to Paradise.-- for Has hair anything to do with personal valor? Perhaps yes Shakespeare mentions the "beards of Hercules and Mars." The cases of Samson and Shagpat may also be adduced.Samson on one-occasion remarks: "God, when he gave me strength, to show withal, how slight the gift was, hung it in my hair".No man could subdue him but his wife: "Like a deceitful concubine, shore me, Like a time wether; no worthy match But by the barber's razor best subdued." When his hair grows again he recovers his strength and revenges himself on his enemies.Similar was the case with Shagpat.According to Meredith Shagpat wears his hair long, contrary to the custom of Mohammedan countries, where all men shave their heads, with the exception of one tuft on the top of the head, by which tuft, after death, the true believer is to be lifted up by angels and carried into paradise.Shagpat wears his hair long because in his head there has been planted one magical hair taken out of the head of a Djinn and Genie and this hair was the power of making all men worship the person on whose head it grows....From this it may appear that perhaps it is not worth while to shave at all.Apart from the diplomatic significance of long hair and beard in social circles, beard has a political significance as well.For myriads of historians the clean

Page 384

365 From Ravi magazine -1940 Hair and Hair Dressers Abdus Salam Hair dressing and shaving is one of the most atrocious ordeals that have yet been the gloomy lot of civilized humanity.I have always held that Rousseau's savage was noble for the very plain and simple reason that he never handled a razor or a pair of scissors.Anthropological research may have failed to lift the veil that countless centuries have drawn across his immortal name his, the pioneer of shaving and trimming.But the march of time has not abated the exuberance of those fervent excretions that all accompany tears, with every rake of the razor.These superlatives may surprise some virgin chins.I may, therefore, adduce the account of Mark Twain's melancholy shave in Paris.From earliest infancy, he says, it had been his cherished ambition to be shaved some day in a palatial barbershop in Paris."I wished to recline at full length in a cushioned invalid chair, with frescoed walls and gilded arches about me, and sumptuous furniture, with perfumes of Araby to intoxicate my senses, and the slumberous drone of distant noises to soothe me to sleep.At the end of an hour I would wake regretfully and find my face as smooth and as soft as an infant's.Departing, I would lift my hands above that barber's head and say, "Heaven bless you, my son." I entered the shop; I said I wanted to be shaved, there on the spot.There was a wild consultation among the barbers, after which they took me into a mean little room, they got an ordinary sitting room chair and slopped me into it, with my coat on.My old, old dream of bliss vanished into thin air.I sat bolt upright, silent sad- solemn.One of the villains lathered my face for ten terrible minutes and finished by plastering a mass of suds into my mouth.I expelled the nasty stuff with a strong English expletive and said, Foreigner beware.Then this outlaw strapped his razor on his boot; hovered over me ominously for some fearful seconds and then his razor loosened the very hide from my face and lifted me out of the chair.I stormed and raved, tears of exquisite agony coursed down my cheeks.Then the incipient assassin held a basin of water to my chin and slopped its contents over my face and into my bosom and down the back of my neck, with a mean pretense of washing away the soap and blood.He dried my features with a towel and was going to comb my hair; but I asked to be excused.I said with withering irony, that it was sufficient to be skinned – I declined to be scalped.Fraternity of barbers This is how this fraternity has made a conspiracy to victimize the human race.Worse still, barbers, as a class have always been a proud people.In our village, where the fabric of caste system is till intact the barbers represent the frontier the upper and lower strata of society.He is surgeon, matchmaker and scandal monger, all in one.For ages he has handled the knife of circumcision, with hereditary precision and skill.He must perforce be a high brow.In fact his superciliousness may be traced, through the night of time, back to the glorious days of the great Caliph Haroon al-Rashid, the illustrious patron of the art.One night all the nights, so say the Arabian Nights the excise sub-inspector,

Page 385

366 We have wasted a great deal of time and allowed other countries to get ahead of us in the educational area.This must be halted.Never doubt your abilities to produce the best in the world.But remember the best will not come without hard work and total dedication.As Muslims we have a great heritage to inspire us and we should never forget that great and learned Muslims scholars few centuries ago led the world in so many fields.If I leave you with one final thought and a request, it is that now you must turn your minds to building a better Pakistan.They deserve far more than we are giving them at present.Do not let them fall by the wayside simply because you are looking the wrong way.May Allah bless you and all your efforts.Once again my salam and best wishes to you all.Sincerely yours, Abdus Salam, K.B.E., FRS Oxford, England

Page 386

367 Professor Salam's Last Message March 13, 1996 TO: Mr.Mumtaz Hussain Shah, Karachi Your telegram of February 24, 1996 has been forwarded to me.I am grateful to know that you are organizing my birthday in Pakistan.I have received so many get-well cards from Pakistan that it has touched my heart.I am immensely blessed to have so many people who deeply care for me.I understand the meeting is to be held on March 8, 1996, I will ask you firstly to pass my salam and best wishes to all the assembled broiners and sisters.Please continue to pray for me as I continue to pray for you because without the power of prayer we are nothing.As you all know I am suffering from a rare illness which is known as PSP.This is a disease, which essentially leaves the brain functioning perfectly but slowly destroys bodies physical responses.This disease has prevented me from visiting my beloved Pakistan.I miss my home country and would dearly love to see all my family and friends.I would be with you today but please know you are in my heart and shall be thinking of you today.I would be grateful for a video of the proceedings.Pakistan needs you; I have tried to show to its aspiring people what a Pakistani can achieve.You as a scholar must continue to aspire and drive the future Pakistani generations to greater heights.One of the saddest moments for me comes when I receive letters from parents asking me to write a few words of encouragement to their children.Parents complain of their low morale.That must not be allowed.It must be the role of each and every one of you to provide role model for all its citizens.We as the older generation failed to build the ideas and opportunities the country needs.We must put our differences and private agendas behind us and we must build a better Pakistan.

Page 387

368 Again he wrote: "Today the Third World is only slowly waking up to the realization that in the final analysis, creation, mastery and utilization of modern science and technology is basically what distinguishes the South from the North.On science and technology depend the standards of living of a nation.The widening gap in economics and influence between the nations of the South and the North is essentially the science and technology gap.Nothing else neither differing cultural values, nor differing perceptions or religious thoughts, nor differing systems of economics or of governance can explain why the North (to the exclusion of the South) can master this globe of ours and beyond." Indeed, scientific knowledge and innovation are becoming leading factors of production and economic development around the world.There can be no high technology without first-rate science.Science develops new tools in laboratories for its progress, and trains students and technicians to build them.These tools find users outside, and some young people become entrepreneurs and launch their own companies, which then grow into large enterprises.However, such companies grow around big centres of scientific research, for example Silicon Valley around Stanford.But the Third World countries do not have big centres of research.So do they have a chance, or have they lost out for ever? I believe the answer lies in linkages with big science centres in developed countries.A fine example is CERN, where high technology and fundamental science reinforce each other.Let me end by quoting from a paper by Salam, presented on 11 May 1983 in Bahrain: "We forget that an accelerator like the one at CERN develops sophisticated modern technology at its furthest limit.I am not advocating that we should build a CERN for Islamic countries.However, I cannot but feel envious that a relatively poor country like Greece has joined CERN, paying a subscription according to the standard GNP formula.I cannot rejoice that Turkey, or the Gulf countries, or Iran, or Pakistan seems to show no ambition to join this fount of science and get their men catapulted into the forefront of the latest technological expertise.Working with CERN accelerators brings at the least this reward to a nation, as Greece has had perception realize." Since then, Pakistan and Iran have joined CERN collaborations and, if Salam were alive today, I am sure he would be delighted to see that aspects of his vision are at last being transformed into the Courtesy CERN Courier, April 2003 http://www.cerncourier.com/main/article/43/3/18 to reality.Prof.Dr Riazuddin, a pupil of Prof Abdus Salam, is head of the National Centre for Physics, Quaid-i-Azam University, Islamabad.

Page 388

369 Science, technology and the Third World Abdus Salam believed that the gap between rich and poor nations is one of science and technology.His former student Riazuddin describes efforts to bridge that gap.Rizzuddin Abdus Salam, who died on 21 November 2001, would have been 77 on 29 January 2003.In remembering him on such occasions, one misses his sharp intellect and his passion for promoting science and technology in Third World countries.Few have discovered a universal law of nature, and still fewer have founded an Institute for the underprivileged.Salam accomplished both.In addition to seeking "unity in seemingly disparate forces of nature", he sought unity in mankind, and his crowning achievement was the creation in 1964 of the International Centre for Theoretical Physics at Trieste - now named after him which has touched the lives of physicists and other scientists the world - over.Yet Salam failed in one of his lifelong goals, perhaps the one closest to his heart.Near the end of his life, he lamented: "Countries like Turkey, Egypt and my own country, Pakistan, have no science communities geared to development because we do not want such communities.We suffer from a lack of ambition towards acquiring science, a feeling of inferiority towards it, bordering sometimes even on hostility." Passive tolerance of poverty in the Third World was of deep concern to Salam.The greatest failure of science and technology is their failure to act as a social equalizer, and the gap between rich and poor has increased, despite the fact that the wealth created by science and technology is sufficient to alleviate poverty."Predictions that the 'poor might not always be with us' have not come true.In 1990, there were optimistic forecasts that the percentage of absolute poor in the world (those with income below US$1 a day) would drop to 18% by 2000.By 1998, the figure was at 24% and the trend-line had turned upward" (Mooney 1999).- This echoes what Salam said in 1988: "This globe of ours is inhabited by two distinct types of humans.According to the UNDP count of 1983, one- quarter of mankind - some 1.1 billion people are developed.They inhabit two-fifths of the land area of the Earth and control 80% of the world's natural resources, while 3.6 billion developing humans - 'les miserables', the 'mustazeffin' - live on the remaining three-fifths of the globe.What distinguishes one type of human from the other is the ambition, the power, the elan which basically stems from their differing mastery and utilization of present-day science and technology.It is a political decision on the part of those (principally from the South) who decide on the destiny of developing humanity if they will take steps to let the less miserable create, master and utilize modern science and technology for their betterment."

Page 389

370 Salam not only to remember his great contributions but to also remember his belief "that only liberal, tolerant, and pluralistic societies can advance scientifically and culturally" and work towards such a society.

Page 390

371 have them.All the shouting and patting on the back of "our boys" doesn't mean a thing to me if it cannot be translated into a way of life for them." Like Constantine, Salam cannot be faulted for returning to the West.The tragedy is that this kind of situation has persisted till today and many of the best and brightest Pakistani students of science immigrate to the US for want of adequate facilities or an intellectually stimulating environment.This state of affairs also reflects the fact that government claims about supporting science and technology really only pertain to supporting things like nuclear weapons science and ballistic missile technology.to It was during his second stint in England that Salam made his greatest contributions to physics.By the 1930s physicists had realised that there were four fundamental forces in nature.The most familiar among these are gravity and the electromagnetic force, both very apparent in daily life.The other two are the weak and strong nuclear forces, both of which act only at very short ranges, less than a billionth of a millimetre.The first of these is responsible for radioactive decay.Through the work of a number of scientists in the 1960s, the possibility that the weak nuclear force and the electromagnetic force were closely related and could in fact be unified into one electroweak force.Salam was an important contributor to this effort.It was for their work on electroweak unification that Salam, along with Steven Weinberg and Sheldon Glashow, was awarded the Nobel Prize.While being deeply involved in such fundamental research, Salam also found time to be involved in developing science and technology in Pakistan.In the words of Ishfaq Ahmad, formerly the chairman of Pakistan Atomic Energy Commission, Salam is "one of the main architects of whatever modern science exists in Pakistan today.' He was appointed Chief Scientific Advisor to the President of Pakistan and held this position from 1961 to 1974 when he resigned from this position." One suggested reason for this resignation has been his opposition to the nuclear weapons programme that was initiated by Prime Minister Zulfikar Ali Bhutto.There may be a basis for that.Salam was part of a larger movement within the scientific community that has been involved in raising awareness of the dangers stemming from nuclear weapons.In 1988, Salam, along with 26 other eminent scientists, put out a public petition to free Mordechai Vanunu; Vanunu was an Israeli nuclear technician who was imprisoned for having publicised Israel's nuclear weapons programme.There was, however, a more serious and tragic reason for his resignation.Salam was a member of the Ahmadiyya sect and in September 1974 the Ahmadiyyas were declared non-Muslims in Pakistan.This was a great blow for Salam personally but the harm may have been greater.As Pervez Hoodbhoy explains, “1974 was the first step down the steep slippery slope, the bottom of which is not yet in sight.More and more Islamic sects and communities are facing the threat of persecution and possible excommunication as the fires of religious extremism burn ever higher." The tragedy persists.On this anniversary of his death, it would be fitting tribute to

Page 391

372 Daily Times, Nov 25, 2002 Remembering Abdus Salam By M.V.Ramana On this anniversary of his death, it would be a fitting tribute to Salam not only to remember his great contributions to science but to also remember his belief "that only liberal, tolerant, and pluralistic societies can advance scientifically and culturally” and work towards such a society Professor Abdus Salam, the greatest Pakistani scientist and winner of the Nobel Prize for Physics in 1979, died this week six years ago.Apart from his numerous scientific contributions, Salam was also a great institution builder, as exemplified by the Centre for Theoretical Physics in Trieste, Italy that he founded and directed.Born in 1926 in Jhang, Salam could well claim to be a child prodigy.At the age of 14, he made history by scoring the highest marks ever recorded in the Matriculation Examination of the University of Punjab.When it came to going to college, Salam was clearly attracted by science and mathematics.The last six or seven decades of British rule witnessed an extraordinary growth of science in the subcontinent.Several scientists made their mark in different fields.Among them were people like J.C.Bose, S.N.Bose, C.V.Raman, S.Ramanujan, P.C.Ray, Meghnad Saha and S.S.Bhatnagar.It is likely that Salam was inspired by some of them.Indeed his very first research publication, done when he was only 16 years of age and an undergraduate at Government College in Lahore, was about the work of Ramanujan in Mathematics.Like many of the leading scientists of that period, Salam went to England to study.There again he was extraordinarily successful and won many prizes and scholarships.His 1951 Ph.D.thesis contained fundamental work in the field of quantum electrodynamics - which tries to explain the interactions between light and matter in a manner consistent with the methods of quantum mechanics gained him a formidable reputation.- - and The same year he returned to Pakistan to teach mathematics at Government College, Lahore, and in 1952 became head of the Mathematics Department of Punjab University.But he was intellectually isolated and found no opportunities to interact with fellow scientists.So Salam returned to England where he became a lecturer at Cambridge University.This was clearly not an easy decision for him and he seemed to be trying to make amends for it forever.If only one cricketer had to be given credit for putting the West Indies on the world map, it would have to be Learie Constantine.Constantine did this by immigrating to England and making his mark as a great bowler by playing in the English league.About this, the great West Indian historian C.L.R.James writes: "if the West Indies cannot afford to keep their great cricketers at home they don't deserve to

Page 392

373 Dr.Abdus Salam Museum Construction to begin in 2005 GLENDALE, CA - Dec.9, 2002 -- Illuminocity (www.illuminocity.com), a premier publisher of limited edition fine art, announced today that it is beginning the "Abdus Salam" campaign to promote an accurate image of Islam through the construction of a museum celebrating the history of Islamic sciences.The museum will be named after the late Dr.Abdus Salam, the first Muslim Nobel Prize winning physicist, and is scheduled to begin construction 2005 in Southern California.in Money for the museum project will be generated through the sales of limited edition canvas prints of a series of original paintings which celebrate historical and contemporary Muslim scientists and thinkers: The fiscal goal for the project is at least three million dollars.The series, officially called the "Heroes of Science" collection, will debut with canvas prints of a remarkable oil painting of Dr.Abdus Salam, by the world renowned artist Ro Kim.Master artist Kim, who was commissioned to.paint the official portrait of the president of Korea, and President Clinton, is considered by many respected art collectors to be one of the most gifted realists in the world.Subsequent limited editions will be released to the public over the course of 2 years, including prints of Omar Al Khayyam and medical genius Ibn Sina.the Each "Abdus Salam" limited edition (total edition size is 2000 prints) is signed by Master Kim, numbered, and available for purchase online at: http://www.illuminocity.com.Please use contact below to request 300 DPI print-ready color image file of the" AbdusSalam"print.An image is available for online viewing at: http://www.illuminocity.com/science-collection.asp

Page 393

374 1987 1988 1989 1990 1991 1993 - - Highlights of science for Turkey, Istanbul, Turkey - Science transfer for development, New Haven, CONN.- Scientific exchanges between.....Trieste, Italy - Lecture delivered at a symposium, Cordoba, Spain - Nuclear security, disarmament....Moscow.- Science and development, address to IDRC, Ottawa - Keynote address to society of scientist, Jamaica.- Science and development, Mexico - The Ultimate of Nuclear accident, Paris.- Address to Congress of African Scientist, Congo - Tribute to Sir Wilkinson, Sussex, UK - The regeneration of sciences in Third World, Beijing - Science & Tech.Transfer to third world, Vienna - Global problems of science & edu.Brescia.- Global problems of science & edu, Florence, Italy - Science, Tech.& Development, New York, USA - The Blindness of Third World, Ghent, Belgium - Scientific thinking, Torino, Italy - The University in the world today, Bologna, Italy - A study of global change, Stockholm, Sweden - Genova Sviluppo dei Popoli, Genova, Italy - Opening remarks to a workshop, Trieste - Science & high tech for Iran, Tehran 3rd National Conference on Physics, Cairo What the third world expects from first, Pasadena, CA - Address on receiving Edinburgh award, Scotland - Address to symposium, Planet Earch, Paris, France - Keynote address to a Penal of UNO, New York, USA - Opening speech on 25th anniversary of ICTP, Trieste - From a life of physics, address at ICTP, Trieste Science, technology and development in Turkey Speech delivered on receiving an award, Barcelona - Opening address to TWAS & TWNSO, Caracas - Building science and technology, Caracas - Opening statement to a conference, Trieste - Speech to conference of Nobel laureates, Castelporziano Address delivered on Salam's 65 birthday, Trieste ཡ - Opening statement to scientific meeting, Trieste - Address delivered to ICSU, Vienna - Why they gave me prize in Physics, Oslo, Norway - Address delivered at the foundation stone laying Ceremony of Int.Center of Science, technology, and Environment, Dhaka, Bangladesh

Page 394

375 1980 1981 1982 1983 1984 1985 1985 1986 Unification of the Forces, Oxford Uni.UK -Address delivered to University of Dacca -Speech delivered at University of Calcutta.India -Reflections on Science & Tech.New Dehli -Renaissance of Sciences in Arab & Islamic lands, Kuwait -Speech delivered at University of Maiduguri, Nigeria Speech delivered at opening of Mosque in Cordoba - Expatriate Nationals - University of Ottawa, Canada Welcome address to Fed of Institutes of Adv Stu, Trieste Address on the Establishment of Cent.for Bio.Belgrade Statement delivered at symposium of INFN, Rome - Address on the award of D.Sc.Uni.Of Madrid, Spain - Arab Universities as Centres for Sc.Research, Khartoum - Keynote address at Sc & Tech Conference, Islamabad - Sharing of Int.Resources, Royal Moroccan Academy - The Gulf Uni.And Science, Bahrain - Opening address at the center for Gen Eng.Madrid - Speech at the Inauguration of TWAS, Trieste, Italy - - - - Beam Weapons in Space, Casablanca, Morocco Lecture delivered at Nairobi, Kenya Islam and Science, UNESCO House, Paris Science transfer for Development, New York - Liberty scientific belief in Islam, Rome, Italy - High Energy physics and UK, Evidence to Kendrew Com - The rights of people in Islam, Marrakech, Morocco - Speech delivered at the opening SID, Trieste - Dirac and Finite Field Theiries, Cambridge U.- Physics and the Excellencies of life...Batavia, ILL Global tasks for Europe, Florence, Italy - - Nuclear Security, disarmament, and Dev.Geneva - Opening address at N/S cooperation, TWAS, Trieste - Concluding remarks at N/S cooperation, TWAS -> Int.Euro-physics Conf.In High Energy Physics, Bari - Development: The human dimension, Istanbul Why Kendrew recommendations be scrapped, London - Third world higher education and Italy, Trieste - Science and Peace, Vienna - A vision for the future for the ICTP, ICTP, Trieste.- La Cooperazione Italianna Vista Milano, Italy - Speech at the award of Premio Umberto, Rome - Message delivered at Inauguration of AAS, Nairobi - Address delivered at a symposium, Nairobi - On Pakistan Science, Nathiagali summer college, Pak

Page 395

SPEECHES OF DR.ABDUS SALAM 376 YEAR 1961 1962 1964 1965 1965 1965 1966 1967 1968 1969 1970 1970 1971 1972 1972 1974 1975 1977 1979 1980 Name & Given at Technology and Pakistan's attack on poverty Dacca Science Conference Need for an International Centre for Theoretical Physics IAEA, Vienna Pakistan and technical development, address delivered at Uni.of California Science and technology in the emerging nations, Mexico Symmetry concepts in Modern Physics, Lahore.Five lectures broad-casted by Radio Pakistan Address delivered at Science Conference, Swat, Pakistan Advance Scientific Research in Developing Countries, Rockefeller University, New York.International Collaboration in Physics, Rhode Island, NY Nuclear Physics in Pakistan, Dacca Contribution to 17th Pugwash Conference, Sweden Response upon the presentation of Atoms for Peace Award Rockefeller University, NY Advance of Science for the Dev.Countries, Nobel Symposium 14, Stockholm, Sweden Towards a Scientific Research and Dey Policy for Pakistan National Science Council, Islamabad Theoretical Physics and ICTP, Vienna International cooperation in Physical Sciences, Panel on Science & Tech.US House of Rep.Washington, USA Why are we poor as a Nation? Delivered in Urdu to students of Government College, Jhang, Trans by Z Virk Remark made at banquet in honor of PAM Dirac at ICTP Address to 24th Pugwash Conference, Baden, Vienna Lecture given to students at Uni of Stockholm Discussion remarks for a UNESCO meeting, Paris -Einstein's Last Dream, UNESCO celebration, Paris - Address delivered on receiving Einstein Award, Paris - The Nature of Ultimate explanation in Physics, Oxford - Address delivered on receiving D.Sc.degree, Islamabad - Speech delivered at the Nobel Banquet, Stockholm - Internationalization of Science in Dev countries, Vienna - Guage Uni.Of Funda Forces, Nobel Lecture, Trieste - Speech delivered at Pugwash Workshop, Altenburg, Aus

Page 396

377 1990 1990 1990 1991 1991 1991 1991 1991 1991 1991 1991 1991 1991 1991 1992 1992 1992 1992 1994 1994 1994 1994 1995 1996 1996 1996 1997 1997 1999 1999 2000 2002 Ideals & Realities (Persian) Uni.Of Funda.Forces 1988 A.Salam Dirac/Salam Science, tech.Et education pour le devel.A.Salam Ideals and Realities (Urdu) Notes on science & technology(Chinese) - Islam and Science – intro by Salam L'Islam et al science Salam's 65th birthday ceremony Ciencia, technologia education Em busca da unificacao La Grande Unification La Unificaction de las fuerzas Uni.Of Funda.forces (in Greek) Uni of Funda.Forces (In Japanese) Ideals and Realities (Urdu) Se & tech.Challege for the south Abdus Salam, a biography Abdus Salam, as we know him Great Scientists Zafar Zaidi A.Salam P.Hoodbhoy A.Salam A.Salam A.Salam Salam, et al A.Salam A.Salam A.Salam A.Salam Anis Alam A.Salam Jagjit Singh S.Ahmad Mary Joseph Renaissance of sciences in Islam countries Salam/Dalafi Salamfestschrift Selected papers of Abdus Salam Ujedinjenje temeljnih sila prirode 1988 From vision to a system Ramooze Fitrat (Urdu) Trentanni di fisica con la bandiera Recent dev.In condensed matt physics Uni of Funda.Forces (in Urdu) Tribute to Abdus Salam 21/11/1997 Abdus Salam memorial meeting Sc.& Tech for Third World A guide to early history of ICTP Ali, Ellis, Daemi Isham/Kibble Dirac/Salam A.M.Hamende Zakaria Virk A.M.Hamende Salam/ Islam Anis Alam A.M.Hamende Ellis, Hussain M.Farooque A.M.Hamende

Page 397

YEAR 1963 1965 1966 1967 1971 1972 1975 1982 1984 1985 1986 1987 1987 1987 BOOKS OF DR.ABDUS SALAM Name of the Book Theoretical Physics High energy Physics & Elem Particles Symmetry concepts in mod physics Il Concetto di simmertia nella Fisica moderna Fundamental interactions Aspects of Quantum theory Chigio to Hoshi no Nakano energy Guage theories of Funda.Forces Ideals & Realities- first edition Notes on nuclear security Ideali e realta: saggi scelti Idealler ve gercekler (Turkish) Ideals & Realities (Arabic) Ciencia, educacion desarrollo Ensayos selectos de abdus salam By>>>> 378 Capps/Salam G Fronsdal A.Salam A.Salam A.Salam Dirac, Salam & A.Salam A.Salam et al A.Salam A.Salam A.Salam Kazim Gulecyuz A.Salam A.Salam 1987 Educazione, scienza e sviluppo A.Salam 1987 A man of science A.Salam 1987 Science, edu.Et developmente receuil A.Salam 1988 A man of science (Persian) M.Behari 1988 Adarsha O Bastabata 1988 Adarsh ate Haqiqat A.Salam H.S.Virk 1988 Dev.& Scientific progress in A.Salam.- Third World – selected-essays 1988 1988 1988 1988 1988 1989 1989 1989 Ideal et realite Notes on science and technology Science and education in Pakistan Science, technology and Dev.Speeches of Abdus Salam Supergravities in diverse dimensions Notes on science & technology(Arabic) Science in the third world A.Salam Salam/sezgin A.Salam A.Salam A.Salam A.Salam A.Salam 1989 Ideals & Realities (chinese) 1989 Scienza, technologia e formazione 1989 1989 1990 1990 The Greats in science from third world From a life of Physics L'unificazione delle forze fondamentali Abdus Salam - un physicien A.Salam A.Salam A.Salam A.Kidwai A.Salam A.Salam J.Vauthier

Page 398

379 years ago.Unless developing countries grasp this fact, they will remain impoverished.66 As a religious man, Salam insisted that the Holy Quran encourages its followers to seek knowledge about nature.But he wrote many times that religious people in Islamic countries often boycott science, despite the magnificent accomplishments of Muslim scientists and philosophers of past centuries.Hussain concurs that, "science is often ignored by many religious scholars and Mullahs in some Islamic countries like Pakistan".However, he believes the Islamic world is not inherently opposed to science."Most people in the Islamic world, "Hussains says, "adapt to modern science very well and are hungry for knowledge.Except for misguided minority, who oppose modern science in the name of so-called indigenous non-Western knowledge, most people welcome scientific knowledge and the benefits it brings." That, too, is one of the enduring legacies of Salam, another example of his relentless desire for unification.RESEARCH GROUP LEADERS AT THE ICTP.(L-R) Miguel Virasaro Second director of ICTP, G.Panza, Alberto Colavita, Yu Lu, Filippo Giorgi, Seifallah Randjbar-Daemi.Dr Virasaro has now retired, and the third director Of ICTP is Professor Sreenivasan of University of Maryland, USA.

Page 399

380 Fahim Hussain, a Pakistani who is a coordinator of the ICTP Diploma Course in High Energy Physics, first met Salam at Imperial College, where he began his postgraduate studies in 1963."I don't know whether at the time of his formulation of the Standard Model, Salam felt he was close to the truth." Hussain recalls."Salam was always enthusiastic and adventurous in his theories.Some of his ideas, of course, turned out to be great successes.But Salam also had some failures, some of them quite big.” Hussain notes."This was the mark of the man, to speculate, to go the edge." "Salam was very enthusiastic about supersymmetry, and especially about superstrings.When superstring theory really took off with the work of Green and Schwarz in the mid 1980's, he wanted everybody to work on it.I think he felt that superstring theory would lead towards further unification." By then, Salam had certainly come a long way.After receiving a Ph.D.in Cambridge in 1951, Salam had decided to return to Pakistan to work in his native country.But he was soon frustrated by the environment in which he found himself.Within three years after his arrival, Salam realized that he faced an unwelcome choice between emaining in his native country and pursuing his professional career.He rationalized his decision to return to England by claiming he would be of no use to Pakistan if his work failed to progress because of the obstacles he faced."When Salam returned to Pakistan from Cambridge, he found that he simply could not do physics there." Hussain notes."There was no structure, no tradition of research and no one to talk to." Hussain also observes there's no doubt that Salam remained deeply troubled by his decision to turn his back on his homeland.In fact, that very personal decision subsequently prompted Salam to propose the creation of the ICTP.In his mind, such a Center would help other young scientists avoid the difficult choice that he had to make.Salam's journey, in fact, eased the way for others who followed in his path."After I returned to Pakistan in 1968, upon receiving my Ph.D.from Imperial College in London and working as a postdoctoral student at the University of Chicago in the US, I faced an entirely different situation," Hussains says."Thanks to his example, 10 particle theorists returned together to Pakistan to set up a group.We also received support from the ICTP through its Associateship Programme and Federation Scheme." "We were not so isolated and could continue to do research in our home country, although with difficulty because we were not at one of the main centers of research.Periodic visits to the ICTP during my 20 years in Islamabad, before I left again, kept me alive as a physicist.Salam pursued realistic dreams, Hussains says, He succeeded in implanting science in some developing countries, but not as much as he or others would have liked." 66 Science, in fact, has flourished in countries like India, where the government has shown the political will to patronize science.There, the ICTP's help has been crucial.However, science is stagnating in countries like Pakistan, where successive governments have refused to support education and science." "I think Salam's belief that there can be no economic and social development without scientific development remains as valid today as it was 20

Page 400

381 Professor Salam's Legacy Randjbar-Daemi and Fahim Hussain Two of Prof.Abdus Salam's long-time colleagues reminisce about the founder and the driving force behind the ICTP."As a scientist, Salam always had a wide range of interests", says Seifallah Randjbar-Daemi, an Iranian scientist who heads the ICTP's High Energy Physics Section.Daemi first met Salam in 1976 and worked closely with him from the early 1980's until Salam's death."His name, however, will forever be tied to the theory that has come to be known as the Standard Model, which is one of the greatest intellectual achievements of this century.The theory represents the cumulative effort of many imaginative thinkers who sought to discover what the physical world is made of and how it works." "This endeavor, "Randjbar-Daemi observes, "is very much in the European tradition.As a result, much of the work was carried out in the wealthy universities of Europe and North America." "But among the creators of this intellectual system are representatives from other, less wealthy parts of the world." Together with John Strathdee of the ICTP, Salam in the mid 1970's invented a mathematical framework of super-symmetry known as super-space.And, in 1979, Salam shared the Nobel Prize with Sheldon Glashow and Stephen Weinberg for the mathematical and conceptual unification of the electromagnetic and the weak forces - concepts proven to be correct by accelerator experiments in Europe and the United States.Then, during the 1980's and the early 1990's, Salam worked on various aspects of supersymmetry and superstrings.As Randjbar notes, “Unification was the guiding principle of Salam's scientific thought.He was confident that the new theories of supersymmetry, developed during the 1970's, would permit the ultimate unification of all forces of nature." Randjbar still marvels at the speed at which Salam could join an entirely new field of research.He recalls, for example, that "in 1984, Michael Green of Queen Mary College in London and John Schwarz of Caltech in the US circulated a preprint that launched the first superstring revolution."Their work made substantial use of the 10-dimensional supergravity theories."Salam asked us to examine the same quantum mechanical consistency problems in models of less than 10-dimensions.We soon constructed a 6- dimensional model and we sent our findings to the editors of Physics Letters B less than 10 weeks after they had received the breakthrough essay." "This gives you some idea of the speed with which Salam and the ICTP would enter new fields", Randjbar observes."He was always fired by an intense enthusiasm towards everything that was new and challenging." Unification and speed characterized Salam's work as a promoter of science in the developing world as well.

Page 401

382 Salam was a remarkable persuader, charismatic, with unbounded energy and enthusiasm, and a slightly irreverent, unorthodox approach that was much more effective than staid diplomacy would have been.Within three years, he had persuaded the IAEA to back the idea, though with very modest funding and got the Italian government to foot most of the bill, provided the center was sited in Trieste.In 1964, the ICTP opened its doors in temporary quarters, moving to a handsome new building in the suburbs of the city in 1968.It has been an astonishing success, and has indeed enabled large number of theoretical physicists to continue working effectively in Third World countries.Towards the end of his life, Salam was campaigning vigorously for the establishment of three similar centers in other scientific disciplines.Salam played an important role in various UN bodies, for example as member and chairman of the Advisory Committee on Science and Technology.In Pakistan his efforts were less successful.After the fall of Ayub Khan, his relations with the government became increasingly strained.Salam belonged to the Ahmadiyya sect of Islam, regarded by many orthodox Muslims as heretical; they believed that their 19th century founder Mirza Ghulam Ahmad, was the Mahdi, the true successor of Muhammad.In 1974, under Zulfiqar Ali Bhutto, they were declared non-Muslim and effectively deprived of civil rights.Salam, who saw himself as a devout Muslim, was outraged and broke off all contact with the Pakistani government.The situation has perhaps eased slightly in recent years, in 1995; for example, there was special summer school session in honor of Salam, addressed by the President.But the Ahmadiyyas are still an oppressed minority.The award of the Nobel Prize in 1979 made Salam famous throughout the Third World, especially in Islamic countries.He received a constant stream of prizes and honors, and spent much of his time travelling.This gave him the opportunity to promote the idea of Third World academy of Sciences.It was set up in 1983, and Salam became its first president.He used his influence to argue tirelessly for the need to invest in science - not for its own sake but as the only viable way of eliminating the curse of poverty and the terrible divide between the rich and the poor.Salam has a secure place among the great men of science.He was the most stimulating colleague, a man of humanity and passion, with many friends and admirers, and some detractors, not least in his own country.In the mid-eighties, he developed a degenerated neurological disorder, progressive supranuclear palsy (PSP), that made his life increasingly difficult.He bore the affliction with remarkable stoicism, continuing to work so long as he was physically able, on new ideas both in theoretical physics and for Third World development.Prof.Dr.Tom Kibble has been a colleague of Prof Salam at Imperial College, London for more than fifty years.

Page 402

383 In 1959, at the age of 33, Salam became the youngest Fellow of the Royal Society.His research ranged widely, but the dominant theme was unification the search for a unified description of the different fundamental forces.It culminated in the discovery in 1967 of the electroweak theory, showing how the weak force manifested in radioactivity decay can be seen as parts of unified symmetric structure.For this achievement Salam shared the 1979 Nobel Prize in Physics with Sheldon Glashow and Steven Weinberg, both of Harvard University.It was with great reluctance that Salam decided to move to Britain.He always hoped to be able to use his talents to promote the development of Pakistan.He was convinced that what the developing countries needed above all was rapid development of science and technology.In 1959, he eagerly accepted an appointment as a scientific adviser to President Ayub Khan.He began working on ambitious plans for all kinds of development, and recommended that the government devote at least one percent of national income to this program.For example, he brought in experts to study the severe problem of waterlogging and salinity of irrigated land.They recommended a drastic program of drainage, but the government was unwilling to devote the required resources and the project failed.Indeed, many of Salam's plans foundered on a similar lack of commitment.Only in the high-profiles areas of nuclear energy and space research was the government willing to commit enough resources to make things happen.Ironically, Salam was often criticized in the development community for directing all scientific manpower into these arcane areas that did little for the mass of people, though it was certainly not what he had wanted.At the time of impending hostilities with India over Kashmir, Salam and the great Indian physicist Homi Bhaba, founder of the Tata Institute in Bombay, tried to mediate between Ayub Khan and the Indian leader J.Nehru, but unfortunately without success.Creation of ICTP One very positive thing did come out of Salam's appointment as a scientific adviser.He had felt frustrated at being unable to carry on his chosen career in his own country, and determined to help others with the same problem.He concluded that what was needed was first class international research center to which scientific associates from Third World countries would come for regular visits, so that they could keep with international research, but still go home to work in their own countries.He conceived the idea of an International Center for Theoretical Physics, and determined to use his position as Pakistani delegate to the International Atomic Energy Agency to win support for the idea.

Page 403

384 The Independent, UK Nov.29, 1996 A Colorful Personality Dr.Tom Kibble Abdus Salam was one of the foremost theoretical physicists of his generation and the first Muslim to win a Nobel Prize, in 1979.He was a warm and colorful personality, but often a controversial one in his native Pakistan.Salam was born in 1926, in Jhang, a small town in the Punjab, son of a minor education official.His talents were clear from an early age.At 14, he became something of a local hero when he won a scholarship to Government College, Lahore, with the highest marks ever recorded.His first paper was published when he was 17 and a fourth year student at the college.It was an ingenious improvement on the solution of an algebraic problem discussed earlier by the Indian mathematical genius Srinivasa Ramanujan.In 1946, he won a scholarship to Cambridge, where he obtained a Double First in Physics and Mathematics.He briefly embarked on experimental research, but rapidly discovered that his talents lay in other directions and switched to theory.He started at just the right moment.Physicists had just learned how to get finite (and spectacularly confirmed) predictions out of quantum electrodynamics, the theory that describes interactions between charged particles and electromagnetic radiation, using the techniques of renormalization theory devised by Julian Schwinger, Sin- itiro Tomonaga, Richard Feynman and Freeman Dyson.Salam and his research supervisor, Paul Matthew's, later his lifelong friend and collaborator showed how to extend these methods to other theories.Salam's very first paper on the subject attracted widespread interest and won him a place among the leaders of the field.In 1951, Salam returned, as he had always planned, to Pakistan.He spent three increasingly frustrating years as Profess of Mathematics at both Punjab University, and his Alma Mater Government College, where his duties apparently included coaching the football team.He had hoped to continue his research, but found little time or stimulus and no official support.Finally he took leave of absence and returned to Cambridge as a lecturer in mathematics and Fellow of St.John's College in 1954.Three years later, at the instigation of Patrick Blackett, then head of Imperial College's rapidly expanding physics department, Salam was offered the chair of Theoretical Physics.He persuaded Matthews to join him as a Reader, and together they set up what soon became of the world's leading centers for fundamental theoretical physics.

Page 404

385 names.Dr.Qureshi remarked that what was remarkable was the fact that the question was not planned and Salam had not been mentally prepared before hand.Salam had a very critical mind and from a young age, he displayed this in various ways.He had read widely and avidly.He was fond of literature, history, religion, philosophy and science.As a student of FA at Government College, he wrote an article in Urdu Asad Aur Ghalib.This article was an investigation into the question as to when Ghalib changed his pen name from Asad to Ghalib.The article was published in the Humayun edited by the late mian bashir ahmad.After the publication of the article, Salam asked Dr.Qureshi to accompany him for a courtesy call to the editor.Dr.Qureshi told me that the editor was astonished to see that the writer was a mere lad."I expected the writer to be a person of mature age- around 50 or so." Said the Editor.Salam deeply respected his father and always obeyed him.When he graduated from Government College in 1946, he had never gone to the cinema because his father had forbidden him to do so.His father scolded him for playing chess after which he never played.He used to say that he owed his success to his father's intense prayers.Salam had great leadership qualities.He was elected president of GC student union, and was also the editor of the college magazine "Ravi".Those who knew him were well aware that he was magnanimous, arrived at decisions after discussing them, was decisive, quick, and forceful.In addition, Salam instinctively helped people.He liked to help them in their careers, and there are no doubt, people all over the world who owe their careers in a greater or smaller measure to Salam.All these ingredients made for a highly successful administrator.Salam was one of those rare scientists of stature who combine their supreme creative powers with a great capacity for institution building.He was, therefore, to use the categorization of the late Prof Baqi Beg, simultaneously a Greek and Roman.He built the department of Theoretical Physics at Imperial College within a short span as the leading research center after having been installed there professor and department head in 1957.In 1964 he established ICTP, & in 1983 the Third World Academy of Sciences.Abdus Salam was the most respected, influential and eloquent spokesman for science in the developing countries.His great intellectual stature, his mastery over language, his commitment and deep sense of self-respect, his enormous confidence and diplomatic skills made him a People's Emperor of scientists from the developing countries.His admirers shall mourn his death all over the world.With his departure, an era has come to an end.

Page 405

386 The News International, Nov.26, 1996 A Gifted Scientist Dr.Mujahid Kamran Abdus Salam was born to Muhammad Hussain, an employee of the Punjab education department on January 29, 1926.Salam inherited from his father two dominant traits a drive to make a mark in the world and a deep religious commitment.His personality was shaped by these traits.Those who knew him well were aware of both these facets of his great personality.From very early age Salam, under the watchful eyes of his father, developed a love of reading.I once said to him that his father had left a deep mark on him to which he promptly responded, "You are correct." He was not only brilliant but also had the gift of immense concentration.He was able to develop and retain this trait throughout his life.There are numerous instances that illustrate this.I will mention only two, one from his childhood and one from his later years.The childhood incident has been narrated to me by his first his cousin Col.G.M.Iqbal, who is also his brother- in-law.One day, his mother kept on calling him but there was no response.The worried family launched a search for him.Eventually, he was discovered inside the house hidden behind a stack of quilts (razais) reading a book quite oblivious of the hullabaloo that accompanied the search for him.Col.Iqbal further said that Salam used to find for himself suitable nooks and corners or other places in the house where he could concentrate on whatever he was reading.Second incident The second incident is from the year 1992 when I met him for the last time.At the time his illness, a rare disorder of the nervous system, had rendered it impossible for him to walk easily even with a stick.Adjoining his office was a room where he used to rest alone around lunchtime.He asked me to walk him to that room.It was with quite a bit of difficulty that we managed to walk up to the door of his office when he spotted a recent research paper lying on the top of a stack of papers on a chest high rack.He stopped instantly and started looking at the paper.And then suddenly I felt that he was no longer with me.He was.completely absorbed in it for several minutes and I could sense his immense powers of concentration.His illness, his difficulty in standing, seemed to have disappeared from those minutes and there was an air of such intense absorption about him that it appeared to me that he would not come out of it.Then he gradually came out of it and we walked to the next room silently.Salam was gifted with an extraordinary memory.While he was a college student his class fellows were well aware of this gift of his.Prof.Dr.Waheed Qureshi, one of the foremost experts in Urdu language, was his class fellow in BA at Government College Lahore.Dr.Qureshi has confirmed to me the following incident.One day, a group of classmates including Salam walked through Anarkali Bazar in Lahore.When they reached the other end, Dr.Qureshi tested Salam by asking him to recall the name 'boards on the shops on the right hand side.In the words of Dr.Qureshi, Salam was surprisingly able to recall about 90% of the

Page 406

387 nominate Salam, but he was unwilling to give up his coveted Pakistani citizenship for this to happen.Salam increasingly began to turn his attention to wider Third World issues, an area where he achieved far more fame and recognition.In 1964, Salam after four years of strenuous lobbying, managed to convince the Italian government, the UN and the International Atomic Energy Agency in Vienna to invest in the ICTP, where scientists from the Third World would interact with their peers from the West, exchange ideas, brush up on developments, and return home rejuvenated.The Center has been a noted success.In its three decades of existence, more than 60,000 physicists from 150 countries have passed through its doors, and produced more than 5,000 scientific papers in international journals.Despite the name, ICTP has branched out into many, more 'applied' areas of physics.An equivalent center for biotechnology opened in New Delhi recently.In 1989 Salam founded the Third World Academy of Sciences to reward scientific excellence in the developing world, and later the Third World Network of Scientific Organizations, to promote better cooperation.Despite being a devoutly religious man, and evangelical about physics and Third World issues, Salam was never evangelical about his faith, which he viewed as a private affair between him and His God.“Every human being needs religion," he said in an interview with New Scientist in 1976."I would like you to become a Muslim," he told his interviewer Robert Walgate."But I wouldn't stick swords into you if you don't”.In the middle of 1980's Salam contracted a mysterious affliction in his right leg, and began to use a walking stick.This neurological illness slowly took over his entire body, and the early 1990's confined him confined to a wheelchair, barely able to speak.His mind, however, was still active.Pervez Hoodbhoy, a professor of physics at Quaide Azam University, in Islamabad, recalls a three-day conference in Trieste to honor Salam's retirement from Imperial College a few years ago.Salam listened from his wheelchair, says Hoodbhoy, but made no attempt to speak.At the end of the formal proceedings, people thronged towards Salam to offer their congratulations."As I watched it was the turn of a nervous young Pakistani visitor to ICTP.Sir, I am a student from Pakistan.We are very proud of you,' he said.The rest I was unable to hear clearly.Salam's shoulders shook and tears coursed silently down his face." Robert Walgate ended his interview with Salam 20 years ago, with the following worlds, the last sentence of which could be his epitaph: Salam is a man with tremendous enthusiasm, but he is one man without time, strung across two worlds and two problems.It is a loss to the world that he cannot have two lives".I am a humble man (Prof Dr Salam)

Page 407

388 became disillusioned.He hated the isolation, and was unable to convince his peers and superiors of the importance of research.All the while, Cambridge was quite keen to take him back.Salam was faced with a dilemma: he did not want to leave, but knew.he would be wasted if he stayed.A wave of anti-Ahmadiyya riots in 1953 clinched it, says Salam's biographer Jagjit Singh.Salam felt unsafe and Cambridge beckoned.It was at this point that he promised himself that no other outstanding' Pakistani student should ever be forced to choose between home and abroad.For three years, Salam was Stokes lecturer in Mathematics in St.John's College, Cambridge, on a total salary of 950 pounds per annum.He fulfilled his three-year contract, before being asked to set up the department of theoretical physics at Imperial College in London, and the chance to pursue research more or less full time.Salam was now a full professor, his salary had trebled, and he was only 31.Salam's successes had, upto this point, gone largely unnoticed in Pakistan.But later that year Mian Iftikhar al-din, a Pakistani politician on his summer holiday to Europe came across Salam, and found it difficult to comprehend that a young Pakistani could be made a professor at the University of London.Iftikharuddin also owned the Pakistan Times, the establishment daily newspaper, & published a large article on Salam on his return.Salam had at last ‘arrived' in the country of his birth, but it would be an unhappy and often stormy relationship.Scientific advisor Salam began to represent Pakistan on various intergovernmental science bodies, and it was not long before the country's military president, Gen Ayub Khan, asked him to become chief scientific advisor.Salam had high hopes with this appointment, despite the fact he was still based in London, and was also planning to set up a research center for Third World physicists in Italy.These hopes were soon dashed.His calls for more money to be spent on science and education failed to wash on a political elite keen to maintain the feudal status quo.He brought a high-powered team of scientists assembled by his friend Jerry Wiesner, US president John Kennedy" science adviser, to investigate ways of alleviating Pakistan's chronic water, logging and salinity problems.But the government rejected the proposed solutions as too expensive.Salam also set up a space and upper atmosphere research commission, which remains in the doldrums through lack of funds.Salam's influence was thus restricted to nuclear energy and physics.Even here, he fell out with Zulfiqar Ali Bhutto, Prime Minister from 1971-1977, over the latter's plans to turn Pakistan into a nuclear weapons state, which Salam, a staunch anti-nuclear campaigner, bitterly opposed.As a result, ordinary Pakistani citizens are full of praise for a man called Abdul Qadeer Khan, who gave Pakistan the capability to build a nuclear bomb, and not Salam, who refused.Salam's religion remains a major reason for his checkered record in Pakistan.Fearful of sparking off anti-Ahmadiyya riots, governments since 1974- when Ahmadiyyas were expelled from Islam - have steered clear of Salam, rarely mentioning his name in public.No senior government official was present at his funeral.Salam himself resigned the chief scientist's job in protest at the expulsion.The government refused to nominate him for the job of director general of UNESCO, despite Salam being the clear favorite.The Italian government offered to

Page 408

389 In this Salam was almost messianic.Like the prophets of Judaism, Christianity, and Islam, whose lives he tried to emulate, Salam felt duty-bound to complete his mission.He was tremendously impatient and experienced much frustration when politicians failed to share his zeal and enthusiasm every time he presented them with another of his schemes for science, technology, or development.Salam was particularly passionate about his native Pakistan, and desperately wanted to 'make a difference' to the lives of ordinary people.Yet in Pakistan he remains a deeply controversial figure, and his passion was not reciprocated.Some cannot comprehend why he never made Pakistan his home.Others cast a critical eye over his record of achievement as the president's chief scientist for 14 years until 1974.And controversy will never cease about his Ahmadiyya religious faith, whose adherents are subject to much discrimination and persecution in Pakistan.Ahmadis differ from Muslims.They believe their founder, Mirza Ghulam Ahmad, a civil servant in 19th century British India, was the reincarnation of Christ, the promised messiah.This is considered heresy in orthodox Islam, Salam was born on 29th January, but the year and place of birth are in dispute.Official documents and his biographer Singh say Salam was born in the Jhang district in 1926.But Salam's sister told a Pakistani newspaper that he was born in 1927, and in the neighboring district of Sahiwal, not Jhang.Salam's six brothers and two sisters lived with their parents in a one-room tenement supported by wooden beams.A couple of rope beds were at either end, with a table and some stools in the middle for mealtimes.Salam had to learn to shut out these impoverished conditions to focus on his studies.He quickly developed into 'hot-house' child, and, age six, went straight into the third year of primary school.He began his 'advanced level' examinations, high school diplomas usually taken when a student is at least 16 years old, at the astonishingly early age of 12.Science lesson Recalling his schooldays during the Dirac memorial lecture at Cambridge in 1988, Salam remembered a science lesson on the forces of nature."Our teacher spoke of gravitational force.Of course gravity was well known and Newton's name had penetrated even to a place like Jhang.Our teacher then spoke of magnetism, and showed us a magnet.Then he said, 'electricity', ah, that is a force which does not live in Jhang, it only lives in the capital city of this province, Lahore, 100 miles east.And the nuclear force? That was a force, which lived only in Europe.It did not live in India and we were not to worry about it." Salam soon got the chance to experience electricity first hand as he moved to the big city of Lahore to study at the University of Punjab.He published his first scientific paper at the age of 17, and also finished a Master's degree.Salam then won a scholarship to Cambridge, a haven for particle physicists under the great theorist Paul Dirac.In 1946, he boarded the P&O Franconia from Bombay; a steamship headed for Liverpool with 600 Italian prisoners of war and 600 British families leaving India in anticipation of the British withdrawal the following year.At Cambridge, Salam finished a first degree, and almost completed his Ph.D., when he had to return home at the expiry of his scholarship in 1951.He took up a professorship in physics at the University of Punjab.His Ph.D.was awarded the following year.Being the only practicing theoretical physicist, Salam quickly

Page 409

390 Nature, December 27, 1996 Physics With A Purpose Ehasn Masood Muhammad Abdus Salam, the Nobel-prize winning scientist, who died last week age 70, was in London when the phone rang at noon on an autumn day in 1979.The call was long-distance from Stockholm, headquarters of the Alfred Nobel Foundation.Salam, the devoutly religions son of a schoolteacher from a village in Punjab had won the Nobel Prize for physics.He remains the first and only Pakistani to have been given science's highest order.Salam's instinctive reaction, according to his biographer, the Indian science writer Jagjit Singh, was to jump into his car and drive to his local mosque where he took off his shoes and knelt in prayer.Salam's joy turned to near ecstasy when he learnt that he had been nominated by Paul Dirac, of the leading physicists of this century, who was also an atheist."What impressed Salam most was that the atheist Dirac had become an instrument in executing Allah's will." Salam's next action was to use his new-found recognition to secure a four- fold increase in funding for the ICTP, a center providing modern research facilities for Third World scientists.The facility was founded by Salam in 1964 and is based on the shores of the Adriatic in Italy, near the border with what was then Yugoslavia.Salam was later given a presidential reception in his native Pakistan, before embarking on a tour of the Third World countries giving lectures on science, education, and the eradication of poverty, the three subjects.(apart from physics) for which Salam's passion ran very deep.Salam's major scientific achievement was to take the first step towards an idea that his scientific peers still dream about the unification of the four fundamental forces of nature: gravity, the strong force between particles in the atom, the weak force that causes radioactive decay and electromagnetism.Salam shared the Nobel prize with Stephen Weinberg and Sheldon Glashow for unifying the weak force with electromagnetism.John Hassard, a colleague at Imperial College in London, where Salam was a professor- of theoretical physics since 1957, ranks him in the "top ten if not top five, physicists of this century.” But just as the organizers of the Miss World annual pageant feel obliged to delve into social causes under the banner 'beauty with a purpose', Salam felt he could not restrict his time and energy to just theoretical physics.He felt compelled to use his fame to champion a plethora of Third World causes.This was 'physics with a purpose.” " Like his Nobel-winning colleague Stephen Weinberg, Salam, too dreamed of a final theory unifying the forces of nature, but he had an additional wish: that the developing world would one- day catch up with the West.A part of him wished that no one should have to experience life without electricity, running water, medical care, proper roads and decent transport, as he had to while growing up In Punjab during the inter-war years.Another part of him pined for a return to the 'glorious years' of Islamic civilization when sciences flourished in the Muslim world.Salam's mission

Page 410

391 numerous political difficulties that inevitably accompany an international project of this kind.Abdus Salam was a member of the Ahmadiyya branch of the Islamic religion and would sometimes lead prayers for fellow Muslims visiting the Center in Trieste.Although his membership of this particular sect caused some difficulties in his relationships with his home country, he never forgot his natural affiliation with the developing nations.He was also deeply concerned about the proliferation of nuclear weapons and served on many high-level committees involved in the promotion of international peace and collaboration and in the development of peaceful uses of atomic energy.Salam's outstanding scientific and political achievements were recognized in many ways in addition to his receipt of the Nobel Prize.He was elected to fellowship of the Royal Society at an early age and received its Copley Medal in 1990.He was elected a member of scientific academies & societies in 24 countries and received a large number of honorary degrees.He was made an honorary KBE in 1989.He received nine medals for his contribution towards peace and the promotion of international collaboration.On a personal level, Salam was a striking man.Any young scientist who had the privilege of working closely with him invariably found it to be an exhilarating and character-forming experience.In addition to his great intellectual gifts, Salam had a genuine sense of humor, including that rarest of qualities of being able to laugh at himself.A warm twinkle would often accompany his more unorthodox suggestions as to how exactly the foundation of physics should be revolutionized.Abdus Salam was twice married.He had one son and three daughters by his first marriage and a son and a daughter by the second.View of the Enrico Fermi Building on the campus of the Abdus Salam International Centre for Theoretical Physics (ICTP).Trieste, Italy, site of the secretariat of the Third World Acad- emy of Sciences (TWAS).

Page 411

392 Obituary, THE TIMES, November 26, 1996 A Man of Remarkable Vision Professor Abdus Salam, theoretical physicist and Nobel laureate, died on November 21, age 70.He was born on January 29, 1926.The death of Abdus Salam leaves the world of theoretical phycis without one of its most distinguished and respected members.Born in Jhang, Pakisan,he was soon to display the outstanding creative ability that was such a consistent feature of his professional career.Indeed, his first published scientific paper was produced at the early age of 17.Undergraduate and postgraduate degrees followed from Government College, Lahore, and from the University of Cambridge.The focus of his research was quantum field theory, with particular emphasis on the long-term goal of finding a unified approach to the fundamental forces at work in the worlds of nuclear and sub-nuclear physics.In the 1960's Salam was closely involved with the attempts to construct a theoretically coherent account of the "strong" interactions that bind together the constituents of nuclei.The mathematical technique on which he worked at that time provided the foundations of the developments that followed a sustained program of research culminating in his construction of a theory that unified the electric and magnetic forces with the "weak" nuclear force responsible for the radioactive decay of elementary particles.The dramatic confirmation of this theory by experiments at the European particle-accelerator facility CERN lead to his sharing the 1979 Nobel prize for Physics with the American physicists, Sheldon Glashow and Steven Weinberg.This critical theoretical development became the central component of what became known as the "Standard Model" of the electromagnetic and nuclear forces.The incorporation of the gravitational field into this unified picture is a notoriously difficult problem and it is no surprise that this is another area to which Salam turned his formidable attention.The solution of this particular issue remains elusive but, working with this long-term collaborator John Strathdee, Salam developed some of the main tools for handling the "superfields" that later became major ingredient in the development of the superstring theory currently one of the most promising approaches to the problem of adding gravity to the list unified forces.Intellectual gifts In addition to his brilliant intellectual gifts, Salam was a man of remarkable vision and outstanding energy who played a major role in developing science throughout the world.Of particular significance was his success in 1964 in persuading the Italian government and the UN to found a research institute for theoretical physics in Trieste, Italy, the prime mission of which was to provide a base for young scientists from the developing countries to carry out research with each other and with visitors from the West.Salam was the director of the International Centre for Theoretical Physics from 1964 to 1993, and it is a striking tribute to his charismatic and energetic personality that the Center survived, and indeed, flourished notwithstanding the

Page 412

393 Weinberg an avowed atheist." I can confirm that he is right.We were both geographically and ideologically remote from each other when we conceived the same theory of physics for unifying the weak and electromagnetic forces.If there was any bias toward the unification paradigm in my thinking, it was unconsciously motivated by my background as a Muslim." Certainly, Salam's integrity and intelligence did not permit his beliefs, or matters of personal preference and ego, to determine the outcome of his scientific work.The creator of Electroweak Unification never, for example, claimed that this theory was the last word; he spent much of years before 1968 seeking routes for a more complete vision of physics.But his religious beliefs and cultural background deeply influenced the course of his life.These became more important as he grew older.At the one level he sought peace, tranquility, and inspiration in contemplation and prayer.He became persuaded that the Holy Quran demands man to seek scientific truth, and that man has been uniquely empowered to solve the deep mysteries of the universe.At another level, he became an intrepid fighter for the causes of even those who would have nothing to do with him.Intensely proud of the Muslim contribution to science and civilization and upset at how they are usually forgotten or sidelined, Salam would gently bat eloquently admonish Western audiences for their ignorance.Significantly, he began his Nobel Prize speech about the travel of the Michael the Scot to Muslim Spain in the search for knowledge; in those days the lands of Islam were the sole repositories of learning.Before Muslim audiences he would make passionate exhortations that Muslims should re-enter the world of science and technology before they became utterly marginalized.Nothing hurt him more than the stony barrenness of the intellect in Islamic countries today.He was deeply mortified, he recalled, when a Nobel Prize winner in physics said to him: "Salam do you really think we have an obligation to succor, aid, and keep alive those nations who have never created or added an iota to man's stock of knowledge.14 Salam's epoch-making achievements as a scientist stand in stark contrast with dismal failure to bring science back to Islam.It was not for lack of trying, but nothing ever really worked.The Islamic Science Foundation, a grand scheme for scientific advancement with an endowment of $1 billion collected from oil rich countries, came to nought after Salam was banned from ever setting foot in Saudi Arabia.Kuwait and Iran did give some money for supporting their scientists at the ICTP, but the amounts were niggardly.Promises by kings, princes, and emirs remained promises.Salam's efforts did contribute towards creating at least some of the score or so organizations whose raison d'être was to accelerate science and technology in Muslim countries.But these organizations are but litter on the landscape, providing nothing but cushy jobs for those who sits at their helms.Salam died on the 21st November 1996.The Islamic world, deep in medieval slumber, scarcely noted it.Prof.Hoodbhoy is professor physics at Quaide Azam University, Islamabad, and author of a book Islam and Science.

Page 413

394 science as a self-propelling secular activity, which could comfortably go about its own merry way? Considerably confusion exists on this matter among admirers of Salam.This is partly because many non-scientists wishfully look towards Salam's writings and speeches, reading into them what appears to support their own beliefs, prejudices, and desires.Also confusing is the fact Salam, who was a believer not just by birth but also by conviction, often quoted from the Holy Quran in addressing lay audiences and sometimes used religious symbolism in his descriptions of scientific concepts and discoveries.Several of Prof.Salam's writings and speeches leave room for ambiguity of interpretation.For example, in one of his important essays for a popular science, Salam refers to the concept of wahdatul wajood while discussing the unification of forces.Then, in a television interview he speaks of how he was inspired into the concept of symmetry by the stately towers (minars) of Badshahi Mosque.I can remember attending a lecture that Salam gave at General Talat Masud's invitation in Wah city (1987).He talked about the world being quite probably 11 dimensional, and then perhaps hinted that seven of these dimensions might belong to the Ghaib (unseen).Time has effaced the words from my memory, but I do recall feeling quite uncomfortable.Being a rather simple person-simple minded perhaps attempts to marry scientific discovery with spiritualism or religious concepts always leave me very worried.Was this one such attempt? - If it was, then it could have scarcely come at a worse time.During the Zia al-Haq years, every pseudo-scientist and crackpot in this country had taken a shot at proving that all discoveries of science were to be found in the Holy Quran.Some had made discoveries about the speed of receding Heaven, others estimated the temperature of Hell and one even suggested capturing Jinns to solve Pakistan's energy problems.While they roundly despised Salam for his Ahmadi faith, these scientific nonentities were nonetheless delighted that they had found an ally in a Nobel Prize winner who also believed in the unity of science and faith.Or so they thought.Clarification became very important.Over the General Zia al-Haq years, I had written a book, which emphasized the wholly secular character of modern science, detailed the absurdities of so-called new Islamic science.And made the case that the long and glorious period of Muslim science was ultimately terminated by the rise of an inflexible religious orthodoxy.Would Prof.Salam write a preface to this book and comment upon a viewpoint that was so different from his? What was the relevance of his belief in wahdatul wajood given that Steven Weinberg, the co-discoverer of the same electroweak theory was an ex-Jew and a declared atheist? I presumed that Salam would react against many parts of my book, although not the whole, but had suggested that his dissimilar views would be welcome as a means to balance an otherwise one-sided analysis.Prof.Salam's response left me pleasantly shocked."I do not disagree with anything that Dr.Hoodbhoy has written in this book", he wrote in the preface, and then went on to state in the clearest and most unequivocal terms the irrelevance of religions beliefs to scientific discovery."Dr.Hoodbhoy quotes Steven Weinberg and my research and says that it made no basic difference to our work whether I was an avowed believer and

Page 414

395 into supporting his dream of a major center for physicists from the developing world.With this unhappy period at Government College at the back of his mind, Salam wanted a place where third world physicists could practice the advanced science of the West without being forced to become part of the brain drain, as he himself had seen.In 1964, supported by the International Atomic Energy Agency, Salam succeeded in setting up the ICTP in Trieste, Italy.A great scientist How great a scientist was Salam? This is an important question because in our country one has to chart a delicate course between the Scylla of adulation and hyperbole, and the Charybdis of stupidity and prejudice.An honest answer is made still more unlikely because there is no community of scientists in Pakistan, which can understand and sensibly evaluate his work.The truth is that Abdus Salam was not Isaac Newton or Albert Einstein or Richard Feynman; he never claimed otherwise and would have felt deeply uncomfortable if someone else had claimed this for him.But his achievement of unifying two basic forces of nature has had greater impact upon the development of physics, and is deeper and more profound, than the works of most other Nobel Prize winners in this century.Today unification theory is a touchstone of modern physics.Although it is not Salam's only important- the full spectrum is much too broad to cover here - it certainly is his most important one.It took me many years to appreciate the delicate complexity and marvelous mathematical symmetry of Salam's theory.To explain it in ordinary language is impossibility.An analogy, however, may help.Over a century ago the Scotsman, James Maxwell, showed that the two apparently different phenomena of electricity and magnetism were in fact just different facets of the same basic force, which he called the electromagnetic force.Maxwell's discovery led to an unending stream of other discoveries, such as the existence of radio waves, which have had profound consequences of human civilization.Somewhat similarly, Salam was able to show that two apparently very different forces, which govern nature, have the same mathematical origin.One is the electromagnetic force mentioned above.The other is the "weak nuclear force" which, among other things is that force which causes the sun to convert its hydrogen into nuclear energy.Although there were suspicious that the two were somehow related, nobody could pinpoint in mathematical terms the precise relation until Salam (from London) and Weinberg (from MIT, USA), working independently of each other, came up with a sound explanation almost simultaneously.Now called the electroweak force, it has been tested in dozens of clever experiments and has passed with flying colors in each.Today the search for the Higgs particle, predicted by Salam, is considered the number one priority in the world of physics.Billions of dollars continue to be spent on building accelerators with energies high enough to produced highly elusive particle.Its discovery will be a key to understanding the universe in its early stages of birth.Science and faith What relation did Salam see between his work as a scientist and his religious faith? Did he perceive the two to be inextricably intertwined? Or did he see

Page 415

396 Encounters With Salam Prof.Pervez Hoodbhoy The year was 1972 and all the big guns of physics had turned up to hear Prof.Abdus Salam speak at a joint MIT Harvard seminar.It was rare for so many of the famous to come, but this was no ordinary seminar and here was no ordinary speaker.Salam confidently navigated this arena, the graveyard of many a bold idea, presenting his work and easily disposing of the questions which followed.Obviously something big was going on but I understood little what he said; as a mere master's student in physics I was far too unknowledgeable.After the applause had died down and the seminar was declared over, I momentarily thought about introducing myself but could not summon the courage.My second encounter with Salam was no less daunting.I had just finished my Ph.D.in nuclear physics and was the ICTP in Trieste, Salam's proud creation.One day we happened to be in the same elevatur.After introducing myself, I asked him for advice on physics matter that was occupying my mind then."Go read it in a book", was his curt reply.I was mortified.People told me later that asking him easy questions was looking for trouble.It was not until many years later - 1984 to be precise that I approached Salam again.This time it was different.Perhaps he had mellowed, or may be I was slightly less ignorant now.I could now discuss with him many issues, ranging from scientific ones to philosophy and Pakistan's scientific development.He didn't insist that I always agree with him, but clearly preferred that I did.One day he asked me if I would like to co-author an article with him.I instantly agreed feeling much honored.Strong, assertive, enthusiastic, vibrant, bluntly authoritarian, and with a mind sharp as razor's edge, Abdus Salam was a most remarkable person.Born in a lower middle-class family in a village near Jhang, he went to a perfectly ordinary Urdu-medium school.One of his brothers, who now lives in Islamabad, says that as a boy Salam had never seen an electric light until one day he was told about it by somebody, at which point he was wonder struck.Subsequently, he was delighted to go to Lahore and have the exquisite pleasure of studying under an electric light.An unsophisticated home and environment notwithstanding, this child prodigy mastered his studies and rapidly outpaced his teachers who recognized and respected the young boy's talent, and bore him no grudge.Salam's talent for physics and mathematics soon brought him fame and recognition after he set off to England on a scholarship.In 1949 he earned a first- class degree in physics from Cambridge University in just a year.Then in 1950 he solved an important problem in renormalization theory and instantly became a minor celebrity.In 1951 he returned to Government College, Lahore, but found to his disappointment that research was not encouraged, even frowned upon.Without a library or colleague to talk to, he reluctantly went back to Britain in 1954.By the early 60's, Salam was already one of the world's top particle physicist with an enviable reputation in this most difficult and fundamental area of search.In all he was to win 20 international prizes and honors.Salam started to skillfully use his growing reputation to push his European and American colleagues

Page 416

397 had been suggested by others two or three years before.I felt that I was getting nearer to the present......However Salam was skeptical.He proposed another subject, and when I insisted on trying to classify the hadrons he said: "I wanted to assign you an easier problem, on the assumption that it would be better for you to produce a complete work during one year of leave from the army.However, since your mind is made up, do it your way, but you should know that you are embarking on a highly speculative search.If indeed you have already decided, at least do it properly.Learn group theory thoroughly." So he recommended Dynkin book.I learnt Dynkin's work and was now able to define what I was looking for: a rank two Lie group which would permit the classification of hadrons according to isospin and strangeness, in a manner that would fit the properties of the observed particles.I found that only four groups might do the job, and began to examine each of these separately.I remember that one of them (called (G2)) yielded diagrams in the shape of the Star of David, and I hoped that it might be the correct one- but it was not.On the other hand SU (3) gave a perfect fit.I finished my work in December 1960, and discussed it with Salam.I then submitted a paper for publication early in 1961, and it appeared shortly after.Excerpt from the book The Particle Hunters, by Yuval Neeman, Prof.Emeritus, University of Texas, Austin, 1983,

Page 417

398 How I discovered SU (3) By Yuval Neeman I arrived in London at the beginning of 1958.I wanted to study (general relativity) which had attracted me as a student, and found out that the place for that was King's College, with the astrophysicist Bondi.However this institution was located in a region of high traffic, and I soon realized that it would be quite impractical to work at the embassy in the west of London, and study at a college in the east of the city.So I settled for Imperial College, which was a five-minute walk from the Embassy.My choice of a supervisor for my thesis was somewhat incidental.I consulted the College's prospectus and approached one of the professors whose names appeared there under 'Theoretical Physics'.I told him about my interest in Einstein's unified field theory, to which he replied that he did not know if anyone was still working on that, but Abdus Salam and his group in the Mathematics Department were working on field theory.I came to Salam, presenting the only letter of recommendation that I had, which was from Moshe Dayan.Salam laughed and commented 'What can a General know about scientific abilities." Nevertheless he agreed to take me on probation, on the strength of my degree from the Technion- Israel Institute of Technology - and the recommendation letter.I had missed the first term, and had to absent myself from some lectures in the second term too, when my duties as a defense attaché interfered.Eventually in May 1960 I resumed my studies with the status of an officer on leave with a one-year scholarship from the Government.I was captivated by group theory, which I had first met in Salam's course.I learned group theory from a textbook by A.B.Dynkin, translated from Russian.It was Salam who suggested that I should study Dynkin's work.He understood that I was interested in classifying the particles and finding their symmetries, when on the basis of my rather scanty knowledge of group theory I began to suggest possible models in this area.When I first showed him my suggestions, Salam told me that they had already been attempted five or six years previously.My next proposals, he told me,

Page 418

399 "But the obscurantist forces in the college did not allow the function to be held there and we had to arrange it in the district council premises".She said.The minister also recalled how Dr Salam struggled to arrange a hydrology centre for Jhang through foreign assistance.“He felt very strong for Pakistan and I hope we must consider all our people as Pakistanis.She also revealed that Islamabad was about to start a project with Egypt on the development of cottonseed and staple.She regretted that for the 130 million population in Pakistan there were only 19,000 science teachers.But it was heartening that more young women were opting for science subjects in colleges.Dr.Javed Iqbal Dr.Javed Iqbal said Dr.Salam symbolized the ideas of Sir Syed Ahmad Khan, Jamaluddin Afghani and Allama Iqbal who believed in reason and rationality because these qualities promoted tolerance and camaraderie and not confrontation and hatred that were the hallmark of emotions."All these personages were opposed by the conservative forces, which we now call fundamentalist, as is the case with Dr Abdus Salam", he said, adding the situation required developing bonds of understanding among religion, rationality and science.Dr.Iqbal asked the government to set up trusts in the name of people like Abdus Salam so as to attract new generation towards science and technology."We have tested our nuclear device but we still require to progress in the other fields of sciences," he said asking whether it was possible to locally develop resources for which ‘we look towards the West”.Prof Hoodbhoy said conditions for the development of science were not very conducive."It develops in a tolerant society and not in an atmosphere of narrow mindedness.If we want Pakistan to progress in science we must have to create society where varying ideas can sustain", he said.Other speakers dilated upon the personality of Dr Salam as a human being, friend, teacher, and research scholar having no sympathy with mediocrity.They said he was a kind-hearted person who used to financially support poor students from unknown areas in the sub-continent.He led a simple life and kept his work above monetary considerations.They said Dr Salam used to express his anger over the division of the world into the poor and the rich societies.Many young scientists in the Third World benefited from his skill and experience.Courtesy: Khalid Ameer, Lahore.

Page 419

400 DAWN November 23, 1998 Name Physics Institute after Salam Lahore: Rich tributes were paid to the late Dr.Abdus Salam, at a memorial meeting held at a local hotel to mark the scientist's second death anniversary.Mashal Books organized the memorial meeting.It was addressed by Federal Minister of Science and Technology Syeda Abida Hussain, Senator Javed Iqbal and colleagues and pupils of the late physicist, including Prof.Pervez Hoodbhoy, Prof.Ghulam Murtaza, Prof Faheem Hussain and Dr.Salam's friend Air Marshal (retd) Zafar Chaudhary.The meeting adopted a resolution, which was presented by the minister, asking the federal government to name Physics department of Quadi Azam University after Dr.Abdus Salam.The speakers termed the late physicist as true Pakistani who wanted the Muslim world to progress in the field of science and technology.He also remained concerned over the poverty and hunger in the Third World, striving to help it come out of the mess through scientific advancement.Dr us alam Memorial Meet Dr Abdus Salam Memorial Meeting Pakistan's former Federal Minister Begum Abida Hussain presiding over a Dr Abdus Salam Memorial meeting that took place in Lahore on November 22, 1998.Dr Pervaiz Hoodbhoy and Justice (Ret'd) Javed Iqbal can be seen in the photograph as well Begum Abida Hussain recalled how as the Jhang District Council chairperson she had to face problems in arranging a reception for the late physicist in 1979 when he won the Nobel Prize.General Zia wanted to give the reception and Dr.Salam requested that the venue should be his alma mater, Government College Jhang.

Page 420

401 The other day he wrote to me: Dear daddy, do you know what is infinity plus infinity? I do.It is a big zero......then he gave me some sort of an idea of plotting points in a circle--- starting at a point in and returning to it.When I told him infinity plus infinity was very special, he was very reluctant to accept it.He said; Three infinities are infinity but four are back to zero.Q: A: Do you give him special attention? I would like to.But he is so independent, so reluctant to accept any explanation....that reminds me, the first research paper I wrote was literary....establishing the date on which Ghalib changed nom de plume.The Illustrated Weekly once had rejected a short story I had written.But the Weekly did publish a short article in the early forties.I have forgotten the title; it was an adolescent literary effort.Q: creative career...constant exposure? A: Q: A: People say the receipt of Nobel prize often signals the end of a If the recipient is a scientist, his work suffers on account of That is absolutely right.Have you got to give up active research? No, no look here, am spending 21 days in India on this trip.I have never spent 21 days on anything like this before.And everybody tells me that it's very important that I should talk to people.It's incredible that I have spent a month already, preparing, talking, preparing my lecture etc.It's incredible strain.- "All science-physics in particular – is concerned with discovering WHY things happen as they do.The WHYs so adduced must clearly be 'deeper', more universal, more axiomatic, less susceptible to direct experimental testing than the immediate phenomenon we week to explain.The search for the universal, the search for the whole, the search for unity; that is what gives science its meaning and beauty.' " Prof.Abdus Salam in his Herbert Spencer Lecture- 1979

Page 421

Q: What is your concept of God? 402 A: There are many concepts of God.For instance, there is the concept of God as the Law Giver...says such as Einstein's God.And there is the God of moral order.If you do well, the outcome will be good.And if you do evil, you will reap evil.Most of us believe in such things without ascribing them to God of Moral order.Some people believe in a God of History, a God who controls history.Then there is the personal God to whom we pray.Q: A: what it does to you.Q: A: Could I you describe your philosophy of prayer? It is very difficult for a physicist to discuss prayer.I don't know What do think of Sufism? I am deeply interested in Sufism but do not claim to be a Sufi myself.My father is someone with direct personal experience.If Allah grants me such experience I will be grateful.My father was a Sufi.I doubt if physics can give any special perspective.All you can do is do physics as physics.Q: A: Do you believe in ESP? A number of scientist & astronauts do.No, I don't as a scientist.But if I get scientific evidence for such things tomorrow, I will believe in it.I am a product of purely empirical European....No I should not say European - the scientific tradition is not confined to Europe; it is universal.That is why I respect Aryabhatta.He was a real scientist.Albiruni was a real scientist with an absolutely rational approach.But not Bharmagupta, for example.Q: A: How was the Nobel ceremony like? The Nobel Prize ceremony is a wonderful experience.For 10 days we were the guests of the King and Queen of Sweden.In the first seven days, every day there was a party at which the main thing to do was to drink.They accommodate you in a hotel and all your expenses are paid for including breakfast; but they don't pay for lunch and dinner.Probably they feel that various parties to which you are invited take care of your needs.The award ceremony is well rehearsed.On the day the awards are presented, the King and Queen wait for you and your arrival is announced with the blowing of a trumpet.When the trumpet sounds, you walk along and when it stops you also stop.Then there is a citation and then again the trumpet sounds.You receive the prize and bow to King and Queen and walk back.The winner of the Prize for 1979 in literature was a Greek poet - Odysseus Elytis.When he came to Sweden, he was ill shod and he bought a pair of brand new shoes for the great occasion.As he walked up the smooth floors of the royal palace to receive the prize he slipped and fell.I had taken my grandchildren.One of them who was just three years old started talking during the function.And his was the only voice heard in the royal hall during the function.Such a thing had never happened earlier because normally Nobel laureates do not take their children or grandchildren along with them when they go to receive their prizes.Q: A: How many children do you have, are they interested in physics? I have five.The eldest, a girl, has a Ph.D.and is doing cancer research.But none of others are interested in pure science except perhaps the youngest who is now little over five years old.

Page 422

403 getting the award until the actual announcement had been made.The first I received was from Dr Eckland's assistant.Then came the confirmation from Sweden itself.Immediately I drove the mosque and did what is called Namaze Shukrana, the prayer of gratitude.Newsweek described it as "the research that represents an extraordinary achievement of the human intellect – a triumph of ideas which like politics, music and what have you should be part of human culture”.Q: A: What are the implications of your work for the layman? Newton's unification had no practical significance for the layman for nearly 300 years until the launching of the satellite; and mind you, Newton's unification was a tremendous feat - an intellectual tour de force.Maxwell's unification, on the other hand, had the greatest practical significance for mankind in a mere 10 years after the Scottish scientist's death.For instance it was found that a rotating electric charge produces magnetic forces- the radiation of heat and light etc.Now in our case also one may have to wait for 300 years.One never knows...there is nothing that I think of at the moment except that some people have suggested that our theory provides the raison d'être for what is called handedness of biological molecule.It is believed that the atomic potential is not left-right symmetric because of this interposition - because of the unity with the nuclear force.Do you believe in destiny? Q: A: I don't know what destiny is.All I can say that I am continually being amazed at the depth revealed at each successive level we explore.I would like to quote to you a prediction which Oppenheimer made more than 25 years ago and which has been fulfilled today in a manner the did not live to see."Physics will change even more....If it is radical and unfamiliar....We think that the future will be only more radical and not less, only more strange and not more familiar and that it will have its own new insights for the inquiring human spirit" Q: How would you comment on the view about the ultimate 'unknowability' of the universe? And what about the despair which many eminent physicists have expressed? A: My own reaction is totally different.I feel we should go to the limit of what we can do.We should not speculate and worry about not being able to do things.That I think was also Einstein's attitude (although he is believed to have said that God did not play dice with the world).Somehow the other the idea of despair just does not enter my mind.As I had said earlier, my felling is one of wonder.Q: A: Is this sense of wonder that drives you on? That's right.That is my inspiration.People have different sorts of driving forces.My colleague Weinberg has remarked in his book First Three Minutes that life is so miserable that the only thing, which makes it worthwhile, is the change given to us to indulge in the scientific endeavor to understand and know.We are reminded of Einstein's words that "the serious research scholar in our materialistic ages is the only deeply religious human being".Well you see Einstein defined religion as the discovery of the basic laws.He was deeply religious in the sense of wanting to discover the fundamental laws by which the Lord has created the world.

Page 423

Illustrated Weekly of India 404 February 1, 1981 A Genius Called Abdus Salam By Dr.V.S.Venkatavaradan Prof.Salam visited India for 21 days and captured the public imagination.Following interview gives a glimpse into the creative mind of a great scientist.This is a partial text of the interview.Q: A: When did you decide to become theoretical physicist? When I went to Cambridge; it was my idea to get a tripos.Until 1948 I did mathematics.I had by then already listened to the lectures of Dirac and Pauli and I drifted more and more towards physics.In 1948 when I had finished my mathematics course, I still had one year's scholarship on and I had almost decided to do physics.Fred Hoyle, my supervisor, said to me that if I wanted to become a physicist I must do experimental course; otherwise I wouldn't ever be able to look a physicist in the eye.You follow me? He asked.‘In order to be able to do well in your future life.Physics is experiment, not theory.Science is experiment.You Indians are very good at theory.You must even if it kills you, take this last year for experimental physics.I told Fred Hoyle, Sir, for the last four or five years I haven't done an experiment.Never mind, he said, you must do the experimental course.I finished the two years course in one year.Q: A: At Princeton did you work with Einstein? Einstein was out of bounds for us, but still I had a long chat with him.From Princeton I returned to Lahore.It was at this time that I visited Bombay.Pauli was also in the city then.I was the only theoretical physicist in Pakistan at that time.I therefore felt lonely- theoretical physicist has got to be able to talk, to discuss, to shout if need be.When Pauli came to Bombay he sent me a cable saying he was alone and wanted to me to come and talk to him.So I took a plane from Karachi and a taxi to his hotel.I went up to his room and knocked.He told me to come in and without a word of greeting said; Schwinger is wrong, I have proof for that.What was the feeling when you learnt that you had been chosen for the Nobel award? Q: A: I think one should realize that prizes are not something, which you can merit for.They are God's gift.(According to New York Times he is reported to have said: my first reaction, of course, is the greatest gratitude to Allah who has guided our thoughts jointly in the way the truth lies in finding out the laws of nature).Q: A: Where were you when the prize was announced? I was in London.It was at 12 O'clock that I received a telephone call.The director general of IAEA, Dr Eckland, happened to be a Swede and he himself was a member of the Academy.But he was not going to tell me about my

Page 424

405 to the Centre worked mostly on fundamental science, but applied science was not despised.For thirty years, Salam fought unending and successful battles to keep the Centre afloat.He developed formidable talents as a fund-raiser.He raised funds from the Italian government, from the City of Trieste, from the UN, from the International Atomic Energy Agency in Vienna, from a host of foundations and private benefactors.He bore much of the administration load as Director of the Centre, besides providing the intellectual leadership.The Centre remains a monument to his energy, his vision, and his unselfish dedication to the task of bringing all peoples together in a common pursuit of science.Salam used to say when he first came to England that in his country there were only two honorable professions.To enjoy the esteem of the public, you had to be either a general or a poet.Thanks to his effort and his example, the situation in Pakistan has changed.He is now honored in his own country, together with the generals and the poets.But Pakistan and the other third-world countries still have far to go.The rich countries have become even less inclined to help the poor than they were thirty years ago.Salam has left us with a huge responsibility to the third world, a responsibility that we are fulfilling very badly.quoted: Let me end this brief memoir with the words from the Koran that he often The Lord changeth not what is with a people until the People change what is in themselves." Freeman Dyson is a distinguished physicist and educator best known for his speculative work on the possibility of extraterrestrial civilizations.He is the author of several books, including Disturbing the Universe (1979), Weapons and Hope (1984), Origins of Life (1985), and Infinite in All Directions (1988).Zakaria Virk, Sorry no photograph available! ABDUS SALAM, 1926-1996 Biographical memoir for American Philosophical Society Published in Proceedings of the American Philosophical Society, 143, Freeman J.Dyson.'Institute for Advanced Study.Princeton, New Jersey 345-350

Page 425

406 All he could do was to teach mathematics and physics within the constraints of a rigid and antiquated curriculum.He felt himself growing rapidly.out of touch with modern science and with the international community of scientists.After three years, he understood that he could help his country more from outside than from inside.In 1954 he returned with a clear conscience to England and resumed his research career.In 1957 he accepted a chair at Imperial College, the position that he held for the rest of his life.As a London professor, he became chief scientific advisor to the President of Pakistan and wielded far greater influence on his native country than he could ever had achieved from Lahore.As his country's most distinguished citizen, he stood above academic hierarchies.When I first met Salam in 1950 I recognized him as an intellectual equal, a young man who could solve mathematical puzzles as quickly as I could.Ten years later I could see that he had grown over my head.While I was still solving mathematical puzzles, he had come to grips with deep mysteries physical reality.While I was exploring the details of old theories, he was creating new ones.For ten years he struggled, with many false starts leading into blind alleys, to create a unified theory of electromagnetic and weak interactions.In 1967 he succeeded.At the same time as Steven Weinberg and Sheldon Glashow, working independently, he created the electroweak theory, the theory that was triumphantly vindicated by the experimental observation of weak neutral currents six years later.The electroweak theory set the pattern for all the ideas that were later incorporated in the standard model of particle physics.Salam and Weinberg and Glashow received well-earned Nobel Prize in 1979 for this achievement.Salam quietly gave away a hundred percent of his prize to fund scholarships for poor students.He said that the Muslim faith by which he lived made it easy for him to be generous.Creates a Center Meanwhile, Salam had founded the International Centre for Theoretical Physics in Trieste, the institution which fulfilled his dream of raising the level of fundamental science in poor countries.The Centre provides funds and accommodation for scientists from all over third world, who visit for periods of sabbatical leave while maintaining academic positions in their home countries.While they are at the Centre, they have a chance to concentrate on their own research and to keep in touch with colleagues from other countries.They can remain a part of the world community of science.The Centre gives them access to modern communications and an opportunity to publish their work.The purpose of the Centre, as Salam designed it, is to enable third-world scientists to remain scientifically productive without being forced, as he was, to emigrate.Those who come to the Centre no longer have to choose between frustration and emigration.From the beginning, the Centre was not narrowly concentrated on particle physics.Meetings were organized and visitors welcomed in many other areas of science, from plasma physics to environmental analysis and molecular biology.Salam had served as a scientific secretary helping to organize the two Geneva Conferences on Peaceful Uses of Atomic Energy in 1955, and 1958.He maintained a serious interest in nuclear fission and nuclear fusion, both as sources of energy and as sources of challenging scientific problems.He believed that fundamental and applied science were equally essential to the vitality of developing countries.Visitors

Page 426

407 Biographical memoirs Abdus Salam Freeman J Dyson The following article was published in Proceedings of the American Philosophical Society, 143, pp 345-350( 1999).Abdus Salam was one of the great spirits of our time, great as a scientist, greater as a organizer, greatest as the voice of conscience speaking for the advancement of science among the poorer two thirds of mankind.I met him first in England when he was 24; a student recently arrived from the turmoil of newly independent Pakistan.I was then supposed to be a leading expert on the theory of quantum electrodynamics.I quickly found out that Salam knew as much about that subject as I did.He asked me for a topic for his research.I gave him the topic of overlapping divergences, a highly technical problem that had defeated me for two years.He solved it in a few months.I met him a year later in Zurich.He came with a completed paper, a pioneering piece of work on scalar electrodynamics.He asked me to introduce him to Wolfgang Pauli, at that time the leading European expert on quantum field theories.I told Pauli who he was, and Pauli agreed to see him.After the formal introduction, Salam said: Professor Pauli, could you please be so kind to look at this paper and let me know what you think of it.” Pauli said," I have to be careful not to use my eyes too much.I will not read your paper”.That was the end of conversation.Salam thanked Pauli and left the room, showing no trace of anger or disappointment.He knew his own worth.When I apologized for Pauli's rudeness, Salam said he was sorry for Pauli, not for himself.Pauli had missed the chance to learn something interesting.When he visited Zurich, Salam was wrestling with the question, whether or not to return to Pakistan.His studies in England were almost finished.If he should decide to stay in England or America, a brilliant research career awaited him.He was at the height of his intellectual powers, an outstanding talent among the rising generation of physicists.But his conscience would not allow him to stay.He felt a compelling duty to go home and do whatever he could to help his people.Pakistan, inspite of its poverty, had paid the expenses for his living and studying in England.Now it was his turn to repay his debt to Pakistan.He discussed his dilemma with me.I advised him strongly to come to America, to plunge into research for five years first, and then help his people afterwards.He thanked me for my advice and told me he was going home.Physics could wait, but his people could not.Returns to Pakistan Salam returned to Lahore in 1951 and stayed for three years.Those were years of deep frustration.The academic hierarchy in Lahore had no wish to be helped by a 25-year-old genius from London.Salam had hoped to inspire the young people of Pakistan to learn science and modernize their society, to launch a wave of scientific progress.

Page 427

408 I never knew Abdus to drink, to smoke or to swear.Always a principled gentleman, he was a devout Moslem throughout his life.Let me conclude my brief talk with a few of his own words: "The Holy Koran exhorts believers to study Nature, to reflect, and to make the best use of reason in their search for the ultimate...The quest for knowledge and science is obligatory to every Muslim from cradle to grave...Science is important because of the understanding it provides of the world about us, for the material benefits it can give us, and because of its universality...Science and technology are a shared heritage of all mankind..East and West, South and North have all equally participated in their creation in the past as, we hope, they will do in the future, this joint endeavor becoming a unifying force among the diverse peoples on this globe." Amen! Abdus Salam's life was gentle and the elements so mixed in him that Nature might stand up and say to all the world: "This was a man!' INTERNATIONAL ATOMIC ENERGY AGENCY UNITED NATIONS EDUCATIONAL.SCIENTIFIC AND CULTURAL ORGANIZATION INTERNATIONAL CENTRE FOR THEORETICAL PHYSICS 34100 TRIESTE OTALY) - P.O.A.588 - MIRAMARE STRADA CONTIERA 11 TELEPHONES: 224251/2-3 4-5/8 TELKX 400892 ICTH CABLE CENTRATOM DIRECTOR ARDUS NALAM که انه برایم مر مع الرد نگر کا بے کم و کمی ابر اسلام سیلم 6 February 1980 Dear Mr.Virk I deeply appreciate the articel you have written.I received a copy in London and very much liked the manner in which you had brought out the faith of an Ahmadi Muslim.Allah bless you.Yours sincerely, Als klem.(D) Abdus Salam Hr.Zakaria Virk Grenoble Drive.mi 21 Don Mills, Ontario 130 131 Canada

Page 428

409 version of spontaneous symmetry breaking.Like Saint Patrick in Ireland, they had driven Salam's snakes from the land of broken symmetry.Quite independently, Abdus and Steve each seized the idea and formulated the electroweak theory of leptons.Their brilliant creation sank like a lead balloon, to be resurrected much later after (1) 'tHooft and Veltman proved the Salam-Weinberg conjecture of renormalizability, (2) quarks became politically correct, and (3) our experimental colleagues (many of them in this room!) were at last convinced to search for and find the promised neutral currents.Despite his many phenomenal triumphs, Abdus was never satisfied with the mere hint of unification offered by the electroweak model.Along with his subcontinental pal Jogesh Pati, he was the first to exhibit a coherent theory of all of the elementary-particle forces in their gauged glory---today's anonymous standard model.And, it was Salam and Pati who insisted that there must be even more broken symmetry with the still-current notion of lepton-ness as a fourth color.Why not $SU(4)$, they asked? Or $SU(5)$, we answered.Why not, indeed? In October 1979, Abdus, Steve and I got our telegrams from Stockholm.Time Magazine quoted Salam as being proud to be the first Moslem to win a Nobel Prize.Steve and I sent Abdus a telegram of congratulation with the comment: "Didn't know that Sadat had converted." In fact, Abdus was the first Moslem Laureate in science, but to his great chagrin, there has not yet been another.Salam had repeatedly called for a renaissance of Islamic science and an end to the scientifically intolerant attitude of {taqlid.} He would have been a strong supporter of the newly- conceived University of the Middle East.Pious Moslem that he was, Abdus proudly brought both his wives and all their children to the Nobel ceremonies."Why not four wives?" I asked.“Two are quite enough," said Abdus, adding that British tax law permitted no more than one marital exemption.Our Swedish hosts were a bit concerned that the press would discover and reveal their polygamous choice, but apparently they never did.Nor did the question ever arise of which Mrs.Salam should accompany the king as he led the procession down the grand staircase: We three Laureates were listed alphabetically, so it was my wife Joan who got the royal arm.But it was Abdus who offered the first toast.Incidentally, while all the other Laureates were dressed as conventional penguins, Abdus adorned himself in glorious Pakistani regalia, from a swirling white turban to turned-up golden slippers right out of Arabian Nights.They were immensely uncomfortable and Abdus took them off as soon as possible.Joan found the slippers fascinating and told Abdus as much.Little did she know that he would send her a brand-new (and equally painful) pair as a keepsake a few years later.I may remind you that the festivities that began in Sweden culminated here at CERN, where Abdus, Steve and I were received as heroes.

Page 429

410 a century later, Salam was both proud and delighted when the student won a Nobel Prize just one year after the teacher.Gary had to use a cutoff to get a finite result---unless the vector boson had a particular anomalous magnetic moment corresponding to gyromagnetic ratio two.For this value and only for this value the divergence cancels and the result is manifestly finite.And, this was precisely the anomalous moment predicted by a Yang-Mills gauge theory! If one divergence cancelled in a gauge theory, maybe all of them did.So I concocted and published a spurious argument alleging that softly- broken Yang-Mills theories are renormalizable.Following the Gilberts' advice to meet their beloved guru, I accepted Salam's invitation to present my results at Imperial College.After my talk, which seemed well received, Salam brought me to his home for a wonderful dinner his wife had prepared.When I returned to Copenhagen, two preprints awaited me: one by Salam, the other by Kamefuchi---both of them pointing out my silly error.Years later, Abdus confided to me that this was the reason he had not read my next (and somewhat better) electroweak paper.It was a good excuse! In 1962, Feza Gursey organized a marvellous Turkish summer school at Roberts College by the beautiful Bosporus.Salam and I were among the invited speakers.It was an exciting time in particle physics.A few months earlier, the higher symmetry sweepstakes had been won by the scheme of strong interactions devised by Yuval Ne'eman (another of Salam's remarkable students), and independently, by Murray Gell-Mann.It had been a strong field: The also-rans included Schwinger's global symmetry, Behrend's $G_2$, Tiomno's $SO(7)$, and Salam \& Ward's symplectic hedge bet.$SU(3)$ \`a la Sakata (later pursued by Salam and Ward) was somewhat closer to the mark.My talks explicated the intricacies of the eightfold way the old name for flavor SU(3)], including those I had just worked out with Sidney Coleman.Abdus used his lectures to describe his just-completed exploration of broken symmetry with Jeffrey Goldstone and Weinberg.Salam seemed absolutely convinced of the central role played by spontaneous symmetry breaking in particle physics, although he could not yet handle the seemingly unavoidable Goldstone boson, which he would later describe as "a snake in the grass ready to strike." Our friendship blossomed as we wandered about the scenic splendors and seedier side streets of downtown Istanbul, dreaming together of an eventual and obligatory synthesis of weak and electromagnetic forces, and of the next wondrously imaginative Turkish dinner.Of course, we realized all too well that our old ideas (his several papers with John Ward and mine at Copenhagen) were likely to be consigned to the dustbin of history.Two years later, Higgs (as well as Brout \& Englert, and somewhat later, Tom Kibble and his collaborators) surprised the world with their discovery of the gauged

Page 430

411 Presented at CERN, 23 Sep 1997 Memories of Abdus Salam Sheldon Glashow, Nobel Laureate This work [HUTP-97/A062] was supported in part by the National Science Foundation under grant NSF-PHYS-92-18167.} It sometimes seems that I have always been at CERN; whether as a young postdoc in 1959, as a visiting---and generously paid---scientist, as a member of the SPC, or as an occasional and always warmly welcomed guest.I am especially proud to have been invited back today for this moving salute to the memory of a great scientist and humanitarian.My encounters with Abdus were all too few and far between, but they extended over five decades.Our relationship, most appropriately, was a weak interaction with a very long lifetime.I miss Abdus, and will always remember the scent of attar of roses that he was never without.Our scientific interests often overlapped, sometimes somewhat uncomfortably, but we were always fast friends and mutually supportive colleagues in science.We coulda, shoulda, and woulda, but I regret that Abdus and I never actually collaborated in print or by correspondence.I visited him only twice in London, twice again in Trieste, and otherwise saw him only at conferences and summer schools, or as a fellow member of the CERN Science Policy Committee.In addition, we met four times in Stockholm: At a remarkable conference just prior to our awards; at our own very special occasion; once again when Carlo Rubbia and Simon Van der Meer (and CERN itself) were honored for the discovery of all three intermediate vector bosons, thereby justifying our own awards; and lastly, at a grand reunion in Stockholm not so long ago.Although our face-to-face meetings could be counted on our fingers and toes, Abdus and I knew each other very well.My colleagues at this meeting will undoubtedly recall Abdus as an inspirational mentor, as a world-renowned scientist, as the creator of the International Centre for Theoretical Physics and its guiding spirit for 30 years, and as a champion of science and technology in the Third World.I would take this opportunity to tell you of a few personal and memorable moments I have enjoyed with one of the kindest, gentlest and most gracious people I have ever known.In 1955, soon after I began my career in physics as Julian Schwinger's graduate student, I heard tales of a marvelous and mysterious man of the East from Wally and Celia Gilbert, who had just moved from Cambridge England to Cambridge Massachussetts.Wally was a Junior Fellow at Harvard as he completed the doctoral research program he had begun under Salam's guidance.Wally got his degree with Abdus, became a promising professor of formal theoretical physics at Harvard, and then turned his attention to hands-on molecular biology.A quarter of

Page 431

THESEL UNITED NATIONS EDUCATIONAL, SCIENTIFIC AND CULTURAL ORGANIZATION INTERNATIONAL ATOMIC ENERGY AGENCY INTERNATIONAL CENTRE FOR THEORETICAL PHYSICS I.C.T.P., P.O.BOX 586, 34100 TRIESTE, ITALY, CABLE: CENTRATOM TRIESTE We have been requested by the family of Professor Abdus Salam as well as the entire families of the International Centre for Theoretical Physics and the Third World Academy of Sciences to convey to you our deepest appreciation for your message of condolences.The expressions of solidarity and friendship shown by all those who knew, admired and respected Professor Salam have been of the greatest comfort to all of us in this period of mourning.We shall all work together to keep Professor Salam's spirit alive and fulfill his dream of achieving equity in the world through Science and Technology.MAN M.A.Virasoro Director, ICTP M.H.A.Hassan Executive Director, TWAS

Page 432

Impressions Of Dr.Abdus Salam Noble Laureate Editor: Zakaria Virk

Page 433

کچھ مؤلف کے بارہ میں مؤلف کتاب (۱۹۴۶ء) پاکستان اور جرمنی میں قیام کے بعد پچھلے تمہیں سال سے کینیڈا میں مقیم ہیں.تعلیم الاسلام کالج ربوہ سے ایف اے، اور سندھ مسلم لاء کالج کراچی سے بی اے ایل ایل بی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے جرمنی کی سب سے پرانی یونیورسٹی کو تھنگن میں جرمن زبان سیکھنے کے ساتھ ساتھ دو سال تک قانون کی تعلیم حاصل کی.آپ کا ایک بیٹا کیمیکل انجنئیر اور دوسرا بیٹا ٹیلی ویژن جرنلسٹ ہے.تحریر کا ملکہ آپ کو اپنے والد محمد ابراہیم خلیل (درک) مرحوم سے ورثہ میں ملا ہے.آپ کے مبسوط اور سکہ بند مضامین پچھلے تمیں سال سے پاک و ہند کے مختلف جرائد جیسے الفرقان، لاہور، حریت، جنگ، سیارہ ڈائجسٹ، اردو ڈائجسٹ، حکایت ، الفضل ، بدر، تہذیب الاخلاق (علی گڑھ) برطانیہ کے الفضل انٹرنیشنل، ریویو آف ریلجز.کینیڈا کے ٹورنٹو سٹار، گلوب اینڈ میل، پاکیزہ، احمد یہ گزٹ اور امریکہ کے ہفت روزہ پاکستان لنک میں شائع ہو چکے ہیں.انگلش زبان پر بھی آپ کو قدرت حاصل ہے اور ایک درجن سے زیادہ عالمانہ مضامین اسلام اور ہسٹری آف سائینس کے موضوع پر شائع ہو چکے ہیں.آپ کے ایک انگلش مضمون کی افادیت کے پیش نظر اس کا جرمن میں ترجمہ ہوا.اور اب قازقستان کے ایک صاحب علم اس کا رشین زبان میں ترجمہ کر رہے ہیں.انگلش کے مضامین انٹرنیٹ پر بھی مطالعہ کئے جاسکتے ہیں.۱۹۶۷ء میں آپ نے سیارہ ڈائجسٹ لاہور کے انعامی مقابلہ مضمون نویسی میں تین صد روپے کا اول انعام حاصل کیا.۱۹۷۹ء میں آپ نے مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کے مقابلہ مضمون نویسی میں تیسرا انعام حاصل کیا اور پھر ۱۹۹۷ء میں تہذیب الاخلاق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (انڈیا) کے مقابلہ مضمون نویسی میں آپ کو اول انعام کے ساتھ تین ہزار روپے نقد کا انعام دیا گیا.مضمون نگاری کے علاوہ آپ ترجمہ نگاری میں بھی مشاق ہیں چنانچہ ۱۹۸۹ء میں آپ کی ترجمہ کردہ کتاب عظیم زندگی منصہ شہود پر آئی.پھر آپ کی تالیف میف رموز فطرت ۱۹۹۶ء میں شائع ہوئی.اور ۲۰۰۰ء میں ایک اور ترجمہ کردہ کتاب گلدسته خیال زیور طبع سے آراستہ ہو کر کینیڈا کے اردو ادب میں زبردست اضافہ کا باعث ہوئی.- مسلمانوں کا نیوٹن کی اشاعت کے بعد آپ اپنا مجموعہ مضامین شائع کرنیکا ارادہ رکھتے ہیں.و با الله التوفیق

Page 433