Language: UR
ایک معاند احمدیت مولوی یوسف لدھیانوی نے دبئی کی مسجد الشیوخ میں یکم اکتوبر 1985ء کو نماز عشاء کے بعد ایک تقریر کی تھی جسے مرتب کرکے کتابی شکل دی گئی تا لوگوں کو احمدیوں اور دوسرے کافروں کے درمیان فرق کرنا آسان ہوجائے۔ ہر وہ شخص جس کی قرآن کریم اور سنت نبویہ سے سرسری آگاہی ہے ، وہ مولوی موصوف کا کتابچہ دیکھ کر اس رائے سے اتفاق کرے گا کہ کتاب کی زبان نہایت غلیظ اور استدلال (اگر اسکو استدلال کہہ سکیں) تو نہایت بودہ ہے۔ اس کتاب کا مدلل اور حقیقی جواب تیار کرواکر اسلام انٹرنیشنل پبلی کیشنز نے انگلستان سے رقیم پریس سے شائع کیاہے۔ جس میں نہایت اختصار کے ساتھ مولوی موصوف کی تکفیر بازی، عدم برداشت کی فضا اور باہمی قتل وغارت کا ماحول پیدا کرنے کی مذموم اور گھناؤنی حرکت سے پردہ اٹھاکر امت مسلمہ کو درپیش اصل سنگین صورت حال بتائی گئی ہے۔ معصوم احمدیوں کے خلاف عوام الناس کو اکسانے والوں کی اصلیت عیاں کی گئی ہے نیز مولوی صاحب کی ہر بے سروپا بات کا دلیل سے رد کیا گیا ہے۔
کیا احمدی سچے مسلمان نہیں ؟ بجواب قادیانیوں اور دو سے کافروں کے درمیان فرق " اے.ایس موسیٰ
1991 ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD.Published by: Islam International Publications Limited Islamabad Sheephatch Lane, Tilford.Surrey GU10 2AQ U.K.Printed by: Raqeem Press Islamabad.U.K.ISBN 1-853724165 Electronic version by www.alislam.org
1 لم یری A q 11 فہرست مضامین عناوين لدھیانوی صاحب کے کتابچہ کے متعلق ایک عمومی جائزہ احمدیوں کے خلاف مہم کا جوانہ بریلویوں کے خلاف دیو بندی فتویٰ شیعہ بھی کامنہ ہیں اہلحدیث بھی کافر ہیں جماعت اسلامی کے خلاف فتویٰ علمائے بریلی کا فتویٰ علماے حرمین شریفین کا فتوی بابت دیوبندی و شیم علماء اہل سنت کا فتویٰ خطرناک قسم کا کفر احمدیوں کے قتل کا فتویٰ کیا اُمتی نبوت بند ہے کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ؟ نمبر شمار لم 4 4 9 1."I ۱۳ ۱۳
10 ۲۵۰ ۲۸ r4 ۴۹ ۵۰ اه ۵۳ عناوين ۱۴ صاحب فضیلت کون ہوگا ؟ ۱۵ 14 114 TA 14 ۲۰ ۲۱ ۳۲ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی مہر نبوت کی تاثیر سب نبیوں کے خاتم مسیح موعود کی نبوت دلوں کا حال جاننے والے مولوی صاحب! نئی شریعت بنانے کا الزام احمدیوں کے ساتھ رعایتی سلوک راگ وہ گا تے ہیں جس کو آسماں گاتا نہیں ایک اور جھوٹا الزام ۲۳ صلی صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم احمد اثنا عشر ائمہ اربعہ صلحائے امت مولوی صاحب کی ایک بھدی مثال ۲۵ ۲۶ ۲۷
بسم الله الرحمن الرحيم الرَّحْمٰنِ لدھیانوی صاحد کے کتابچہ کے متعلق ایک عمومی جائزہ یہ کتا بچه در اصل مولوی محمد یوسف لدھیانوی صاحب کی ایک تقریر ہے جو انہوں نے دبئی کی مسجد شیوخ میں یکم اکتوبر 19ء کو بعد نماز عشاء کی اور جس کا مقصد مرتب کے نزدیک احمدیوں اور دوسرے کا فروں کے درمیان فرق واضح کرتا ہے.ہر وہ شخص جوفت آن کریم اور سنت نبویہ پر سرسری نظر بھی رکھتا ہے وہ اس کتا بچہ کو پڑھنے کے بعد ہماری اس رائے اسے اتفاق کرے گا کہ کتاب کی زبان انتہائی غلیظ اور استبدلال (اگر وہ استدلالی ہے) انتہائی بودہ ہے.یہ کتاب احمدیت اور اس کے مقدس بانی پر جھوٹے اور بے بنیاد الزامات کا پلندہ ہے اور اس کو پڑھ کر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی درج ذیل حدیث مبارکہ اور اس میں مندرج پیش گوئی یاد آجاتی ہے اور فوٹی کی مسجد میں کی جانے والی یہ تقریر اس پیشگوئی کی صداقت کا ایک مظہر ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- يُوشِكُ أَن يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمَاء وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ الَّا رَسْمُهُ مَسَاجِدُ هُمْ عَامِرَةٌ وَهِيَ خَرَابٌ مِنَ الهُدى ، عَلَمَاءُ هُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ مِنْ عِهْدِهِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وَفِيهِمُ تَعُودُ.مشكورة المصابيح - كتاب العلم - الفصل الثالث یعنی لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا
قرآن کا صرف رسم الخط رہ جائے گا.ان کی مسجدیں بظا ہر آباد ہوں گی مگر حقیقت میں نور ہدایت سے محروم ہوں گی.ان کے علماء اس آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے.ہر فتنہ انہیں سے نکلے گا اور انہیں کی طرف ٹوٹ جائے گا یہ اس فتنہ گری کے شاخسانہ کے طور پر علماء ھم نے مامور زمانہ اور امام وقت کے خلاف ساری دنیا میں جھوٹ اور فساد کی جو مہم شروع کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے.احمدیوں کے خلاف اس شدید طرز عمل کے مقابل پر جب عامتہ السلمین ان علماء کا رویہ دیگر غیرمسلم مذاہب کے متعلق دیکھتے ہیں تو تعجب میں مبتلا ہوتے ہیں کہ آخر کیوں علماء کا غیظ و غضب صرف احمدیوں پر ہی پڑ رہا ہے.جبکہ دنیا میں بیسیوں دوسرے مذاہب اور جماعتیں ہیں مثلاً عیسائی ، یہودی، ہندو ، بدھ وغیرہ وغیرہ جو نہ صرف یہ کہ ان علماء کے نزدیک غیر سلم ہیں بلکہ ببانگ دہل اپنے غیر مسلم ہونے کا اعلان بھی کرتے ہیں اور اس بات پر فخر کرتے ہیں.ان مذاہب میں سے عیسائیت کا تو یہ حال ہے کہ دندناتی ہوئی اسلامی ممالک میں تبلیغ کرتی ہوئی لاکھوں مسلمانوں کو عیسائی بناتی چلی جاتی ہے لیکن اس پر علماء کا غیظ و غضب نہیں بھڑکتا.مذکورہ تقریر جس پر یہ کتابچہ مشتمل ہے اس میں یہی سوال اُٹھایا گیا ہے اور اس کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے مگر مولوی صاحب کے جواب پر غور کرنے سے پہلے اس سوال کی ماہیت پر غور کرنا ضروری ہے.٥٠ دنیا بھر کی انسانی آبادی ۵ ارب بتائی جاتی ہے جس میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً ایک ارب ہے.غیر مسلم دنیا کا ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو اسلام اور عالم اسلام کو دنیا سے عالم نیست و نابود کرنے کی فکر میں رہتا ہے.انگلینڈ سے شائع ہونے والے رسالہ فوکس" کے مطابق عیسائی چرچ نے اگلے گیارہ سال میں دنیا کی آدھی آبادی کو عیسائی بنانے کا منصوبہ تیار کر لیا ہے اور اس کے لئے ہر قسم کے ذرائع استعمال کئے جارہے ہیں ا ا ا ا ا ا ورا ایرانی روی
حقیقت یہ ہے کہ عالم اسلام اس وقت خاص طور پر اسلام دشمنوں کی زدمیں ہے.بنگر علم ہو اسلام کی اس طرف کوئی توجہ نہیں.مسلمانوں کا اخلاقی انحطاط کتنا ہی سنگین ہوتا چلا جائے اسی کوئی فکر نہیں.عالم اسلام کی علمی حالت کا جائزہ لیتے ہوئے ایک مؤقر جریدہ لکھتا ہے :.اس وقت کرہ ارض پر سلمانوں کی تعداد قریباً ایک ارب ہے ان میں سے تقریباً ۶۰ کروڑ ان پڑھ اور بالکل ناخواندہ ہیں.بیشتر قرآن مجید ناظرہ بھی نہیں پڑھ سکتے.یہ علمائے کرام کے لئے سوچنے کا مقام ہے.د هفته وار سائنس میگزین تو در جان اشاره خفته ) مگر علماء کی سوچوں کا رخ اور طرف ہے وہ تکفیر باندی اور باہمی قتل وغارت میں لذت محسوس کرتے ہیں.ان کے نزدیک عالم اسلام کو دجالی طاقتوں سے نہیں، کلمہ گوؤں سے خطرہ ہے.اس لئے وہ عشاق محمد مصطفے صل اللہ علیہ وسلم کا تعاقب کرتے اور ان کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کی فکر میں رہتے ہیں.ان فدائیوں کو مٹانے کے لئے کوشاں ہیں جو ساری دنیا میں دین اور اسکی سربلندی کے لئے تن من دھن کی بازی لگائے ہوئے نہیں.پاکستان کے مشہور مؤرخ مولانا رئیس احمد جعفری فرماتے ہیں :- مسلم قوم کی مرکزیت ، پاکستان یعنی ایک آزاد اسلامی حکومت کے قیام کی تائید مسلمانوں کے پاس انگیز مستقبل پر تشویش عامتہ المسلمین کی اصلاح اور فلاح بنجاح دوام کی کامیابی تفریق بین السلمین کے خلاف بر نمی اور غصہ کا اظہار کون کر رہا ہے.امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور جماعت حزب اللہ کا داعی اور امام الہند ؟ نہیں.پھر کیا جانشین شیخ الہند اور دیوبند کا شیخ الحدیث ؟ وہ بھی نہیں.پھر کون ؟ وہ لوگ جن کے خلاف کفر کے فتووں کا پشتارہ موجود ہے.
جن کی نامسلمانی کا چر چا گھر گھر ہے جن کا ایمان بجن کا عقیدہ مشکوک ہمشتبہ اور محل نظر ہے.کیا خوب کہا ہے ایک شاعر نے سے کامل اس فرقہ زہاد سے اُٹھا نہ کوئی کچھ ہوئے تو یہی رندان قارج خوار ہوئے تاریخ مسلم لیگ یا حیات محمد علی جناح من از مولانا رئیس احمد جعفری) آئیے دیکھیں کہ لدھیانوی صاحب نے اسلام کے ان خدام اور جاں نثاران دین محمد کے خلاف کیا الزامات لگائے ہیں :- احمدیوں کے خلاف مہم کا جواز لدھیانوی صاحب نے احمدیوں اور دوسرے کافروں کے درمیان جو فرق بتایا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ احمدیوں کو کافر قرار دینے کے باوجود یہ اپنے آپ کو کا فر تسلیم نہیں کرتے اور اپنے آپ کو مسلمان کہاں نے پر مصر ہیں.اگر یہی وجہ احمدیوں کے خلاف عالمی ہم چلانے کے لئے کافی ہے تو یاد رکھئے کہ امت مسلمہ میں سے فرقے ہیں اور ان میں سے متعدد اہم فرقے ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں.مگرکوئی فرقہ بھی اپنے آپ کو کا فرتسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں اور اپنے اسلام کا برملا اعلان کرتا ہے.اگر احمدیوں کا بھی یہی قصور ہے تو ان سے الگ اور اونی اسلوک کا کیا جواز ہے؟ 0.عالم اسلام میں تکفیر کا فتنہ اتنی شدت سے پھوٹتا ہے کہ کوئی فرقہ اور گروہ اس سے محفوظ نہیں رہا.بر صغیر پاک و ہند کے مشہور سلمان صحافی مولانا عبد المجید سالک صاحب اس مسئلہ پر گہری نظر ڈالنے کے بعد جامع الشواہد مٹ کے حوالہ سے فرماتے ہیں :-
عالیم اسلام اور تاریخ اسلام کے اکابر اور ملت اسلام کے تمام فرقے کسی نہ کسی گروہ علماء کے نزدیک کافر و مرتد اور خارج اند اسلام میں شریعیت و طریقت کی دنیا میں ایک مسلک اور ایک خانوادہ بھی تکفیر سے محفوظ نہیں.رمسلمانوں کی تکفیر کامسئله از مولانا عبدالمجید سالک که نقوش پریس لاہور انجمن تحفظ پاکستان ہوں اس لمبی اور نہایت دردناک اور تکلیف دہ تاریخ کا من و عن اعادہ تو اس مختصر رسالہ میں ناممکن ہے.تاہم بطور نمونہ از خروار سے حسب ذیل چند فتاوی پیشی ہیں جن سے صورتحال کی سنگینی کا کسی حد تک اندازہ ہو جائے گا.بریلویوں کے خلاف دیوبندی فتوای دیوبندی علماء کے نزدیک سب بریلوی مشرک اور کا فر ہیں.مثلاً لکھا ہے کہ :.جو شخص رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب ہونے کا معتقد ہے سادات حنفیہ کے نزدیک قطعاً مشرک و کافر ہے.فتاوی رشید یه کامل مبواب از رشید احمد گنگوہی ملت نار محمد سعید ایڈ کمپنی قرآن حل مقابل مولوی مسافر تا کراچی شیعہ بھی کافر ہیں نامور علمائے دیوبند کا شیعوں کے خلاف یہ متفقہ فتویٰ ہے کہ وہ : - | صرف مرتد اور کافر اور خارج از اسلام ہی نہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن بھی اس درجہ کے ہیں کہ دوسرے فریق کم نکلیں گے مسلمانوں کوایسے لوگ اسے جميع مراسم اسلامیہ ترک کرنا چاہیئے خصوصاً مناکحت "
علما ء کرام کا متفقہ فتوی درباره ارتداد شیعہ اثنا عشر تیر ناشرہ مولوی محمد عبد الشکور دیکھنڈ مطبوعہ صفر شام اہلحدیثے بھی کافر ہیں ستر علماء دیوبند نے اپنے دستخطوں کے ساتھ اہلحدیث کے کفر کافتویٰ دیا ہے اور لکھا ہے کہ ان سے میل جول رکھتا ، ان کو مساجد میں آنے دینا شرعاً ممنوع اور باعث خوف و فتنہ دین ہے.اشتہار مطبوعہ الیکٹرک ابوالعلائی پلیس آگرہ) جماعت نے اسلامی کے خلاف فتویٰ دارالعلوم دیوبند کی طرف سے جماع ہے اسلامی کے متعلق یہ فتوی دیا گیا.یہ جماعت اپنے اسلاف دیعنی مرزائیوں سے بھی مسلمانوں کے دین کے لئے زیادہ ضرر رساں ہے." داستفتائے ضروری ما ناشر محمد وحید الدخان مطبوعه معنی پریس رام پور شاه) علمائے بریلی کا فتوئی علمائے بریلی نے تمام علمائے دیوبند کے متعلق نام بنام یہ فتوی دیا ہے کہ:.یہ قطعاً کا فر اور مرتد ہیں اور ان کا ارتداد کفر سخت اشتد درجے تک پہنچ چکا ہے ایسا کہ جوان مرتدوں اور کافروں کے ارتداد و کفر میں ذرا بھی شک کرنے وہ بھی انہی جیسا کا فرد مرتد ہے.دپوسٹر علمائے بریلی.بحوالہ روزنامہ آفاق ۱۸ نومبر تائها
علمائے حرمین شریفین کا فتوی بابت ہی بند یہ عظیم یہ سب کے سب مرتد ہیں.باجماع امت اسلام سے خارج ہیں.بے دینی و بد مذہبی کے خبیث سردار ، ہر خبیث اور مفسد اور بہٹ دھرم سے بدتر، فاجر جو اپنی گمراہی کے سبب قریب ہے کہ سب کا فروں سے کینہ کافروں میں ہوں......عالموں ، فقیروں اور نیکوں کی وضع ہفتے ہیں اور باطن انکا خباثتوں سے بھرا ہوا ہے.الم الحين على من الكفر والمن متاع بمصنف مولانا احد رضاخان صاحب ] مطبوعہ مطبع اہل سنت والجماعت واقع.بریلی علمائے اہل سنت کا فتویٰ اس زمانہ میں اسلام کو جتنا نقصان صرف وہابیہ دیوبندیہ کے ایک گروہ نے پہنچایا ہے تمام باطل فرقے مجموعی طور پر بھی اتنا نقصان نہیں پہنچا سکے..اسلام سے علیحدہ ہو جانے کے بعد بھی یہ فرقہ اپنے آپ کو سنی حنفی کے نام سے ظاہر کر رہا ہے اور نا واقف سنی حنفی بھائی اسی وجہ سے دھوکا کھا جاتے ی اور اپنا ہم خیال سمجھ کر خیال رکھنے کی وجہ سے ان کے دام فریب میں پھنس جاتے ہیں.اشتہار محمدابراہیم بھاگلپوری مطبوعہ برقی پریس لکھنوی) اس ساری صورت حال کا تجربہ کار اور نا ہر قانون دان کی حیثیت سے تجزیہ کرتے ہوئے سلہ میں فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت کی انکوائری رپورٹ میں فاضل جج مرحوم جسٹس منیر صاحب نے حسب ذیل فیصلہ دیا جو اس موضوع پر حرف آخر کا مقام رکھتا ہے وہ لکھتے ہیں :.
اگر کوئی شخص یہ دعوی کرتا ہے کہ فلان شخص یا جماعت دائرہ اسلام سے خارج ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ دعوی کرنے والے کے ذہن میں اس امر کا واضح تصور موجود ہو کہ اسلم " کس کو کہتے ہیں تحقیقات کے اس حصے کا نتیجہ بالکل اطمینان بخش نہیں نکلا اور اگر ایسے سادہ معاملے کے متعلق بھی ہمارے علماء کے دماغوں میں اس قدر تولیدگی موجود ہے تو آسانی سے تصور کیا جا سکتا ہے کہ زیادہ پیچیدہ معاملات کے متعلق ان کے اختلافات کا کیا حال ہو گا.در پورٹ تحقیقاتی عدالت ما، ناشریق برادر زاتاریکی نامور مطبوعہ انصاف پریس لاہور ) اس کے بعد فاضل جھوں نے دسش مختلف فرقوں کے چوٹی کے علماء کی طرف سے کی جانے والی تعریفیں درج کر کے لکھا ہے:.دین کے کوئی دو عالم بھی اس بنیادی امر پر متفق نہیں ہیں اگر ہم اپنی طرف سے "مسلم" کی کوئی تعریف کر دیں جیسے ہر عالم دین نے کی ہے اور وہ تعریف ان تعریفوں سے مختلف ہو جو دوسروں نے پیش کی ہیں تو ہم کو متفقہ طور پر دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا جائے گا.اور اگر ہم علماء میں سے کسی ایک کی تعریف کو اختیار کر لیں توہم اس عالم کے نزدیک تو مسلمان رہیں گے لیکن دوسرے علماء کی تعریف کی رو سے کافر ہو جائیں گے.(ایضاً ص ۲۳) خطرناک قسم کا کفر لدھیانوی صاحب نے کفر کی تین قسمیں بیان کی ہیں یعنی کافر، منافق اور زندیق.اور احمدیوں کو کفر کی سب سے خطرناک قسم کے حامل قرار د سے کہ زندیق قرار دیا ہے.حث تو یہی بات دیگر فرقوں کے علماء نے دیو بندیوں کے متعلق کہی ہے جو خود جناب ے لوی صاحب
کا فرقہ ہے.قارئین کرام امولوی صاحب نے زندیق کا لفظ استعمال کیا ہے.سوائے اس کے کہ اسے ہرزہ سرائی کہا جائے اور کیا قرار دیا جاسکتا ہے معلوم ہوتا ہے مولوی صاحب کے ذہن میں باقی فرقوں کے فتووں کے یہ الفاظ حاضر نہ تھے جب ہی یہ نیا شوشہ چھوڑنے کی کوشش کی ہے ورنہ زندیق کی اصطلاح تو بہت پہلے ان کے متعلق علمائے حرمین شریفین استعمال کر چکے ہیں.چنانچہ کتاب حسام الحرمين على سحر الكف والمين مصنفہ مولوی احمد رضا خان بریلوی مطبوعه مطبع اہل سنت والجماعت بریلی سن اشاعت ۳۶ د بمطابق منشاء کے صفویہ ہے تا ہے پر دیکھیں کیسا تفصیلی اور غیر مبہم قومی درج ہے جب کسی بعد آپ کو تو ایسی جسارت نہیں کرنی چاہیئے تھی احمدیوں کے قتل کا فتوئی احمدیوں کو زندیق قرار دینے کے بعد لدھیانوی صاحب احمدیوں کے قتل کا فتویٰ جاری کرتے ہیں.شو - تو یاد رکھیے ایہ فتویٰ بھی کوئی نیا نہیں ہے.امت کی سینکڑوں سال کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ یوسف لدھیانوی کے ہم مزاج ظاہر پرست علماء نے بارہا دوسرے فرقوں کو صرف مرتد ہی قرار نہیں دیا بلکہ واجب القتل بھی قرار دیا ہے.صرف فرقوں ہی کو نہیں بلکہ اسلام کے جید علماء کے خلاف اسی طرح قتل کے فتوے جاری کئے گئے اور ان کا خون مباح قرار دیا گیا.سب سے زیادہ دردناک واقعہ کربلا کا واقعہ ہے جس کا دکھ قیامت تک مٹ نہیں سکتا.در میانوی مولوی صاحب کے ہمنوا قاضی شریح کا حضرت امام حسین کے خون کو مباح قرائہ دنیا بتاتا ہے کہ لدھیانوی صاحب کے مزاج کے مفتی محض اس دور کی ہی پیداوار نہیں.یہاں ہم مثال کے طور پر چند ایسے بزرگان است کی مختصر فہرست درج کر رہے ہیں جن کے خلاف صرف کفر کا نہیں بلکہ زندیق کا بھی فتوئی دے کر واجب القتل قرار دیا گیا.
۱۰ نام سن وفات حوالہ حضرت امام ابو حقیقہ حضرت محمد الفقيهة 있으 145 حضرت ذوالنون مصری حضرت احمد راوندی معجم المؤلفين جلد ا مت اباطیل و پاییه جدا معجم المؤلفين جدا اما اليواقيت والجواہر جلد اصلا ٢ حضرت ابن حنان " هفت رازه خورشید سندیده ۲۵ فروری حضرت منصور حلاج قاموس المشاہیر جلد ۲ ص ۲۳۳ الغزالي من حضرت امام غزالی حضرت شیخ ابوالحسن شاذلی ۶۵۴ الیواقیت والجواہر جلد من یہ سینکڑوں مظلوم علماء میں سے چند ایک کے نام ہیں جن کو زندیقیت کے نام پر فلموں کا شانہ بنایا گیا ورنہ کفر کا الزام لگواکر دکھا اٹھانے سے تو کوئی بزرگ بھی محفوظ نہیں رہا.کیا امتی نبوت بند ہے لدھیانوی صاحب نے احمدیوں کو زندیق قرار دینے کی ایک وجہ یہ بیان کی ہے کہ احمدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امتی نبوت کو جاندی مانتے ہیں.لدھیانوی صاحب یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر یہی زندیقیت ہے تو یہ جرم ان اہل اللہ کا بھی ہے جو لدھیانوی صاحب کے نزدیک باعث عزت و باعث احترام ہونے چاہئیں.حسب ذیل علماء امت اسی صف میں کھڑے ہیں جو اس مسئلے پر ایسا ہی موقف رکھتے ہیں جو احمدیوں کی ہے.
حضرت علامہ حکیم ترمندی - سید بدالکریم جیلانی علامه ابن عربی - علامہ عبدالواب شعرانی علامہ قمی، حضرت عبد القادر جیلانی - ملاعلی قاری علامہ تو بیشتی ، علامہ عبد الرحمن جامی " ، حضرت مجددالف ثانی و غیریم لیکن مولانا محمدقاسم نانوتوی صاحب فرقہ دیوبند کے بانی ہیں خاص طور پر ان کا بزرگ اور جید عالم ہو تا کسی دیوبندی کے نزدیک محمل نظر نہیں.ان کا عقیدہ من و عن پیش کیا جاتا ہے کہ :.اگر بالفرض بعد زما نه نیوی علم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدیہ میں کچھ فرق نہ آئے گا.د تحذیر الناس مثبت از مولانا محمد قاسم صاحب - مطبع قاسمی دیوبند) جناب لدھیانوی صاحب ! نہ ندیق کی جو تعریف آپ نے فرمائی ہے وہ ان پر کیوں صادق نہیں آتی.ہمارے نزدیک تو نہ ان پر آتی ہے نہ جماعت احمدیہ پر لیکن آپ نے یہ حماقت کی ہے کہ جس شارخ پر بیٹھے ہوئے ہیں اسی کو کاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں.کیا حضور صلی الہ علیہ وقت کے بعد کوئی نبی نہیں ؟ لدھیانوی صاحب کہتے ہیں :- حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ، حضور کے بعد کسی کو نبوت نہیں دی جائے گی.یہ مطلب نہیں کہ پہلے کا کوئی نبی زندہ نہیں.اگر بالفرض پہلے سارے نبی آجائیں حضور کے زمانے ہیں.اور اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم بن جائیں، حضور پھر بھی آخری نبی ہیں کیونکہ آپ کے بعد کسی کو نبوت نہیں دی گئی.انبیاء کرام کے ناموں کی جو فہرست اللہ تعالیٰ کے علم میں تھی اس میں آخری نام نامی آپ کا تھا آپ کی تشریف آوری سے انبیاء کرام کی وہ فہرست مکمل ہو گئی.منٹ
۱۲ قارئین کرام !مولوی صاحب نے اپنی بچگانہ ٹیڑھی سوچ خدا کی طرف منسوب کرنے میں بھی کوئی عار نہیں کبھی مولوی صاحب بیجھتے ہیں کہ ان وصل الله عمر تک کے زمانہ کے بعدکسی کو بو دیا جانا آپ کی عزت و احترام کے خلاف ہے اور کسی پرانے نبی کا دوبارہ اگر نبوت کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و احترام کے مخالف نہیں.مولوی صاحب کا یہ تصور نہایت جاحلانہ اور قابل رو ہے.آنحضور صل اللہ علیہ وسلم کا آخری نبی ہونا اگر صرف ان معنوں میں ہے کہ آپ کے بعد منصب نبوت کسی کو عطا نہیں کیا جائے گا.لیکن ضرورت نبوت باقی رہے گی تو یہ کیسی عزت افزائی ہوگی.دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ بنے گا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ آخری شخص میں جن کو منصب نبوت عطا کیا گیا لیکن چونکہ آپ کے بعد نبوت کی ضرورت نے باقی رہتا تھا اس لئے آپ کی آخریت کو قائم رکھنے کی خاطر خداتعالی ایک قدیم نبی کو غیر معمولی ملی زندگی عطا کر ے گا تا کہ یہ نبی بنانے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے اور پرانے سے ہی نئی ضرورتیں پوری کر لی جائیں.اللہ تعالٰی کی لازوال حکمت کا ملہ کی طرف ایسی بے وزن بات منسوب کرنالدھیانوی دماغ ہی کو زیب دیتا ہے.سوال صرف یہ ہے کہ آنحضور صل اللہ علہ وسلم کے بعد نبوت کی ضرورت ہے یا نہیں اگر کہا جائے کہ شرعی نبوت کی ضرورت ہے تو احمدی ہوں یا غیر احمدی ، سب بیک آواز یہی کہیں گے ہرگز ضرورت نہیں.وہ شریعت جو کامل ہو گئی اور غیر مبدل ہے اور جس کی قیامت تک حفاظت کا وعدہ دیا گیا ہے اس کی ظہور کے بعد عقلی و نقل و شرعا کسی اور شریعیت کی ضرورت نہیں رہتی.دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا غیر تشریعی نبوت کی ضرورت باقی ہے یا نہیں ؟.اس کا جواب صرف احمدی ہی نہیں ، لدھیانوی صاحب اور ان کے ہمنوا تمام علماء بھی یہ جواب دینے پر مجبور ہیں کہ ہاں غیر تشریعی نبوت کی ضرورت باقی ہے اور بگڑتے ہوئے مسلمانوں کی اصلاح کیلئے
۱۳ اور تمام دنیا میں دین کے غلبہ کے لئے محض مولوی اور پیر، فقیر کام نہیں دے سکتے.لازم ہے کہ کوئی خدا کا نبی اس عظیم کارنامے کو سر انجام دینے کے لئے آئے.اس لئے اس حصہ پر بھی کوئی اختلاف نہیں.اب اختلافی مسئلہ صرف یہ رہ جائے گا کہ و بھی آئے ایسے رنگ میں آئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کس معنی میں بھی تخفیف کا موجب نہ ہو بلکہ عزت افزائی کا موجب بنے.اس مسئلہ کا حل مولوی یوسف لدھیانوی صاحب اور ان کے ہمنواؤں کے نزدیک یہ ہے.کہ آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کی عزت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کی امت میں سے کسی کو خواہ وہ کتنا ہی تابع نبی کیوں نہ ہو، آپ کے بعد منصب نبوت پر فائز نہ کیا جائے بلکہ آپ کی امت کی اور زمانے کی جائزہ ضرورتیں پوری کرنے کے لئے کسی پرانی امت کے نبی کو واپس بلالیا جائے اور سارے کام اسی سے چلا لئے جائیں.جماعت احمدیہ کے نز دیک یہ حل محض مضحکہ خیز ہے اور در حقیقت عزت افزائی کا موجب نہیں بلکہ برعکس نتیجہ پیدا کرتا ہے.اس کی بجائے سیدھا ساد العقول حل یہ دکھائی دیتا ہے کہ فستر آن کریم کی اس آیت کریمہ کے مطابق کہ مَن تُطِيعِ الله وَالرَّسُوْلَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِيْنَ الْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ من النبيين والصديقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ - ترجمہ : جو لوگ بھی اللہ اور اس رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں میں شامل ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء اور صدیقین اورشہداء اور مائیں.رسورة النساء آيت ٢٠) حضرت اقدس محمدمصطفی صلی اللہ علی ولی کی امت اور آپ کے غلاموں میں ہی سے اس غلام کامل کو امتی نبوت کی خلعت عطا کی جائے جو خدا کے نزدیک احیائے دین کے لئے اپنی
۱۴ صلاحیتوں کے اعتبار سے موزوں ترین ہو ، اور ہرگزہ کیسی غیر امت کے نبی کا احسان نہ لیا جائے.اب دونوں مجوزہ حل آپ کے سامنے ہیں.ہر صاحب عقل و فہم انسان برانز دو یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ کسی غیر اور پرانے نبی کا امت محمدیہ کی ضرورت کو پورا کرنے کی خاطر دوبارہ باہر سے دنیا میں آنا منصب ختم نبوت کے کھلم کھلا منافی ہے اور ختم نبوت کی جھر توڑے بغیر وہ ہر گز امت محمد یہ میں داخل نہیں ہوسکتا.لیکن بات صرف یہیں ختم نہیں ہوجاتی.اس صورت میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لئے اس کا آنا انتہائی ہتک آمیز ہو گا کہ اس امت میں سے شیطانی حملوں سے بچاؤ کے لئے اور شیطانی تحریکات پر غلبہ پانے کے لئے عند الضرورت تو کوئی اس قابل نہ سمجھا گیا کہ خدا تعالی اسے امتی نبی بنا کہ امت کے اندر ہی سے امت محمدیہ کی سب ضروریات پوری فرمادے.لہذا ضروری ہوا کہ امت موسوی کے ایک نبی کو واپس لا کر اسی ودینی ضروریات پوری کی جائیں.پس جب کسی نبی کے آنے کی ضرورت باقی رہ ہی تو سوال کی شکل یہ بن جائے گی.کہ خدا تعالیٰ نے آخری نبی تو بھیج دیا لیکن فی الحقیقت ایک اور نبی کے آنے کی ضرورت ابھی باقی تھی.اس شکل میں جب یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے تو ہر صاحب فہم شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ عقیدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان یں بھی گستاخی ہے اور خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں بھی.اگر کسی قسم کی نبوت کی ضرورت باقی تھی تو اس نبوت کو وقت سے پہلے بند کر نا خدا تعالیٰ کی حکمت بالغہ کے خلاف ہے اور جس قسم کی ضرورت ہمیشہ کے لئے پوری ہو چکی ، اُس قسم کی نبوت کو جاری رکھنا بھی خدا تعالٰی کی حکمت کا مر کے خلاف ہے.پس جب یہ بات طے ہوگئی اور احمدیوں سمیت سب کا اس بات پر اتفاق ہوگی کہ في الحقيقت نئی شریعت کی ضرورت باقی نہیں رہی تو اس کا لازمی اور طبعی اور عقلی نتیجہ یہ نکلے گا.کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وجہ سے آخری تشریعی نبی قرار دیا کہ آپ کے بعد بنی نوع انسان کو کسی قسم کی اور شریعت کی ضرورت باقی نہیں رہے گی ، نہایت معقول اور حکیمانہ فعل ہے اور اس کے
۱۵ برعکس کوئی قول عقلاً قابل قبول نہیں جس کی شریعیت کامل ہو اور محفوظ ہو اسکے بعد صاحب شریعیت نبی آنے کا تصور ہی بالبداہت باطل ہے.پس آخری ہونا ضرورت کے لحاظ سے لکھے ہوتا ہے نہ کہ اس بحث سے کہ پہلے کون پیدا ہوا اور بعد میں کون.یا پہلے کس کو نبوت دی گئی یا بعد میں کیس کو.اگر کسی کو بعد میں نبوت دی گئی اور اس کے باوجود پہلے کے دوبارہ آنے کی ضرورت باقی رہی تو لان گا جو نبوت کے لحاظ سے زمانے کی ضرورت پوری کریگا وہی زمانی لحاظ سے آخری نبی ہوگا.جماعت احمدیہ کے نزدیک تو محض زمانی لحاظ سے آخری ہونا ہرگز باعث فضیلت نہیں ہے بلکہ زمانی لحاظ سے آخری صاحب شریعت ہونا باعث فضیلت ہے کیونکہ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے که آخری صاحب شریعت پر جو شریعت نازل ہوئی وہ سب سے افضل واکمل اور دائمی تھی.اسی وجہ سے اس کے بعد کسی اور شریعیت کی ضروتہ نہیں رہی پیس آخری صاحب شریعت نبی ہوتا تو ایک بہت بڑی فضیلت کی بات ہے اور اس کا دوسرا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسے نبی کا سکہ تا قیامت چلے گا اور کوئی نبی ایسا نہیں ہو سکتا جو اس کی حکم کو ٹال دے یا اس میں ترمیم کر دے کیونکہ عقلاً یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ جس کا قانون ہمیشہ کے لئے ہو اسکی فرمانروائی بھی ہمیشہ کے لئے ہے.پس اس پہلو سے آخری ہونا لازما باعث فضیلت ہے.جماعت احمدیہ کا یہی عقیدہ ہے لیکن لدھیانوی صاحب اور ان کے ہمنوا بیہ سمجھتے ہیں کہ محض زمانی لحاظ سے آخری ہونا باعث فضیلت ہے.حالانکہ اس لغو عقیدے کی رو سے ی الحقیقت زمانی طور پر علی علیہ اسلام ہی آخر نبی بنیں گے کیونکہ با وجود اس کی کہ آپ کو نبوت پہلے عطا ہوئی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ضرورت پیش آنے پر وہ آخری شخص جو دنیا میں نبوت کر سے گا وہ علیمی علیہ السلام ہوں گے.لدھیانوی صاحب کہتے ہیں :- صاحب فضیا تے کون ہوگا
14 " جس بچے کو ماں باپ کی آخری اولاد کہا جائے اس کا مطلب یہ ہوتا ہے.کہ وہ اپنے ماں باپ کے ہاں سب اولاد کے بعد پیدا ہوا.اسکی بعد کوئی بچہ ان ماں باپ کے ہاں پیدا نہیں ہوا.آخری اولاد کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ سب اولاد کے بعد تک زندہ بھی رہے کبھی ایسا ہوتا ہے کہ پیدا بعد میں ہوتا ہے لیکن انتقال اس کا پہلے ہو جاتا ہے.اسکی با وجود آخری اولاد کہلاتا ہے.آپ نے یہ کہتے ہوئے سُنا ہوگا کہ میری آخری اولاد وہ بچہ تھا جو انتقال کر گیا " (من) " لدھیانوی صاحب نے جو آخری اور پہلے کا موازنہ بعد میں پیدا ہونے والے بچے کی مثال دیگر کیا ہے اس کو کئی طرح سے بیان کیا جاسکتا ہے اس لئے محض مشال کے ایک پہلو کولے کر کوئی حتمی دعوی کر بیٹھنا کوئی عقلمندوں کا کام نہیں.جہانتک منصب کا تعلق ہے، اہل منصب میں سے آخری اسی کو قرار دیا جاتا ہے جو اپنے منصب کے ساتھ نہ ندہ رہے اور یہ بحث نہیں کی جاتی کہ وہ کب پیدا ہوا تھا.اگر کہا جائے کہ سلطنت مغلیہ کا آخری بادشاہ بہادر شاہ تھا تو کوئی پاگل مورخ ہوگا جو اس کی تاریخ پیدائش کی جستجو میں اُس کے آخری ہونے کا فیصلہ روک رکھے.یہی حال سب اہلِ منصب کا ہوتا ہے.آخری حکیم ، آخری طبیب ، آخری مفکر، آخری مفتر و غیر هم سب اپنی تاریخ وفات کے حساب سے آخری قرار پاتے ہی نہ کر تاریخ پیدائش کے اعتبار سے.ایک اور اہم غلطی لدھیانوی صاحب یہ کر رہے ہیں کہ محض آخری کی بحث کو چھٹے ہوئے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ موقع محل کیا ہے.ہم تو محض آخری ہونے کو ہرگز عزت و شرف کا نشان شمار نہیں کرتے پس زیر نظر مشال کو محض اس نقطہ نگاہ سے نہیں دیکھنا ہوگا کہ کوئی بچہ پہلے پیدا ہوا یا بعد میں پہلے مر یا بعد زیر یں بلکہ یہ دکھنا ہوگا اسکا پیدا ہونا اور مراکی مینوں میں ا کیلئے عزت او عظمت کا موجب ہے اور کن معنوں میں اسکی بیکن نتیجہ پیا کرتا ہے اسکے بجائے اس کے کہ یہ مثالیں پیش کی جائیں براہ راست حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عیسی کے متعلق اپنے اور ہمارے نظریئے کا موازنہ کر کے دیکھ لیجئے.وہ لوگ جو ذرا '
14 سابھی انصاف رکھتے ہوں گے صاف پہچان جائیں گے کہ جو نظر یہ ہم پیش کرتے ہیں وہ بہت زیادہ عزت و تکریم اور توقیر کا حامل ہے.بہ نسبت آپ کے طفلانہ نظریہ کے.آپ یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام.آنحضور صلی للہ علیہ وسلم سے بہت پہلے پیدا ہوئے اور بہت پہلے منصب نبوت پر فائز کئے گئے اور بہت بعد میں فوت ہوں گے اور آخری نبی جسے منصب نبوت پر فائز اور فرائض نبوت انجام دیتے ہوئے دنیا دیکھے گی وہ حضرت عیسی علیہ السّلام ہوں گے.اگر پہلے اور آخر کے صرف زبانی معنے کئے جائیں جیسا کہ آپ کو اصرار ہے تو پھر بھی نہ رہی شکل بنتی ہے اور اسے دنیا کا کوئی انسان تبدیل نہیں کر سکتا.ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ ضرت محمد صلی الہ علیہ وسلم کی شان میں صریح گستاخی ہے کہ پہلے تو یہ خیال کیا جائے کہ محض زمانہ کے لحاظ سے آخری ہونا اور محض زمانہ کے لحاظ سے اول ہونا باعث فضیلت ہے.اور پھر یہ عقیدہ بھی رکھا جائے کہ منصب کے اعتبار سے بھی اور پیدائش کے اعتبار سے بھی دیگر تمام انبیاء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہیں اور حضرت علی علیہ السلام کو تو نعوذ باشد دوہری فوقیت ہوگی.پہلے آئے اور بعد میں مرے.پہلے نبوت عطا ہوئی اور سب سے بعد میں نے دنیا میں نبوت کی وہ بھی وہی تھے.یہی نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنی اقامت ، امت محمدیہ کے ہی نبی تھے ، عیسی علیہ السلام کو عجیب اعز انہ لا کہ وہ امت موسوی کے بھی نبی تھے اور امت محمدیہ کے بھی نبی ہوں گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہم تو یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ صرف ایک آپ ہیں جو تمام جہانوں کے لئے نبی بنا کر بھیجے گئے اور اس عالمگیریت میں کوئی آپ کا دوسرا شریک نہیں سوائے اس کے کہ بحیثیت غلام امت کا ہر فرد آپ کی نمائندگی میںیہ عالمگیر پیام تمام دنیا تک پہنچانے کے منصب پر فائز ہے لیکن آنجناب کا یہ راسخ عقیدہ ہے کہ عیسی صرف اس معامہ میں آپ کے شریک ہی نہیں بلکہ دوہرا مرتبہ رکھتے ہیں.رسولاً إلى بنی اسرائیل بھی آپ ہی ہیں اور رسولاً الی المسلمین
in والناس اجمعین بھی آپ ہی ہیں.پس آپ نے تو نہ آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کو پہلا رہنے دیا نہ آخری کچھ خدا کا خوف کریں، عقل سے کام لیں.ایسے عقید سے پال کر خدا کو کیا منہ دکھائیں گے.جماعت احمدیہ چونکہ زمانہ کے لحاظ سے اولیت و آخریت کی کوئی اہمیت نہیں سمجھتی بلکہ اولیت اور آخریت کو بحیثیت مرتبہ اور فضیلت اہمیت دیتی ہے.اس لئے جماعت احمدیہ کے عقیدہ پر کوئی عقلی اعتراض وارد نہیں ہو سکتا ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء توکیا اگر کروڑوں انبیاء بھی زمانہ کے اعتبار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ہوتے تو بھی آپ کی اولیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ مرتبہ اور فضیلت کے لحاظ سے خُدا کے حضور آپ ہی اول تھے اور آپ ہی آخر رہیں گے.اسی طرح یہ تمام انبیاء زمانہ کے لحاظ سے آپ کے بعد بھی آتے تو چونکہ ضروری تھا کہ آپ کی غلامی کا دم بھرتے.اس لئے آپ کی خاتمیت پر کوئی اثر نہ پڑتا.اور آپ ہی خاتم رہتے.دیکھئے خود آپ کا یہی تو عقیدہ ہے کہ علیلی دوبارہ بعد میں آنے کے باوجود اس وجہ سے خاتمیت کی مہر تو نیوالے قرار نہیں پائیں گے کہ آپ کے امتی بن جائیں گے اور حلقہ غلامی میں داخل ہو جائیں گے.پس اس بحث سے ہر صاحب عقل و دانش پر یہ حقیقت خوب کھل جاتی ہے کہ اولیت و آخریت، مرتبہ اور مقام کے لحاظ سے قابل ستائش ہیں نہ کہ محض زبانی اعتبار سے.اگر جناب مولوی صاحب کے دماغ میں ابھی تک یہ بات داخل نہیں ہو سکی تو ایک اور مثال سے ان کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں.انسانوں میں سے کوئی ایک انسان بہر حال پہلا تھا.کیا جناب لدھیانوی صاحب کا یہی عقیدہ ہے کہ زمانہ کے لحاظ سے جو پہلا آدمی تھا وہ مرتبہ کے لحاظ سے سب انسانوں سے افضل تھا اسی طرح جب قیامت آئے گی تو کوئی انسان ضرور ایسا ہوگا یا چند انسان ضرور ایسے ہوں گے جو سے آخر پر اس دنیا میں دم توڑیں گے.لہذا بحیثیت انسان زمانی اعتبار سے وہ آخری انسان کہلائیں گے.کیا جناب لدھیانوی صاحب کے نزدیک ان کا آخری ہونا ان کو تمام بنی نوع انسان سے جو پہلے گزر چکے ، اعلیٰ و افضل ثابت کر دے گا.ہر گز نہیں بلکہ صورتحال برعکس ہے.حضرت
۱۹ اقدس محمدرسول اله صلی الہ علیہ وسلم ہمیں طلع فرما چکے ہیں کہ قیامت اشرار الناس پر آئے گی.پس اس دنیا میں سر ہے آخر پر جو انسان دم توڑیں گے وہ نہایت بد بخت اور شریر ہونگے.اب بتائیے جناب لدھیانوی صاحب کر محض زمانی طور پر آخری ہونا کیا اب بھی آپکے نزدیک وجہ فضیلت ہے؟ علاوہ ازیں مرتبہ اور مقام کی بحث مں تو کبھی بھی نہ پیدائش دیکھی جاتی ہے اور نہ موت دیکھی جاتی ہے.مثلاً بنو امیہ کا آخری خلیفہ مروان ثانی بن محمدبن مروان تھا.کیا د مینانوی صاحب یا کوئی اور انکا ہمنوا مولوی جو عربی دانی کا زیم رکھتا ہوا اسے بنو امیہ کا خاتم الخلفاء قرار دے سکتا ہے.اسی طرح کیا بنو عباس کے آخری خلیفہ معتصم بالل کو کوئی اہل علم بنو عباس کا خاتم الخلفاء قرارد ے سکتا ہے.ہرگز نہیں.کیونکہ لفظ خاتم مرتبے اور مقام اور فضیلت کے لحاظ سے اور بلندی کے لحاظ سے آخری مقام پر فائزہ ہونے کا تقاضا کرتا ہے.ورنہ آپ کے معنوں میں یہ لفظ استعمال کیا جائے تو قیامت اشرار الناس پر نہیں آنی چاہئیے بلکہ سار سے بنی آدم میں سے بلند مرتبہ لوگوں پر آنی چاہیے اور انہیں تو پھر انسانوں کا خاتم قرار دینا چاہیئے.مولوی صاحب ایک اور مثال دیکھیں.فضائل صحابہ کا جہاں ذکر ملتا ہے یا فضائل خلفاء کا ، وہاں آپ لوگ یا تو یہ بحث اٹھا تے ہیں کہ پہلا کون تھا.حضرت علی رضی اللہ عنہ پہلے تھے یا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ.یا جب مناقب کی بات کرتے ہیں تو آج تک یہ کبھی پڑھنے سننے میں نہیں آیا کہ اس لحاظ سے کسی صحابی کو افضل و برتر قرار دیا گیا ہو کہ وہ آخری صحابی تھا یا آخری خلیفہ تھا.پس عقل کے ناخن لیں اور ہوش کی آنکھیں کھولیں اور اپنے پیر و مرشد بانی دیوبند حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی صاحب کی پر حکمت ودلیل کو بار بار پڑھنے اور سوچنے کی کوشش کریں کہ :.عوام کے خیال میں تو رسول للہ سلم کا ختم ہونا بایں معنیٰ ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابقی کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں مگر اہل فہم پور روشن گاه مقدم با نافرمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں ولیکن
رَسُولُ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ فرمانا اس صورت میں کیونکہ صحیح ہو سکتا ہے.ہاں اگر اس وصف کو اوصاف مدح میں نہ کہیئے اور اس مقام کو مقام مدرج قرار نہ دیجئے تو البتہ خاتمیت باعتباره تأخر زمانی صحیح ہو سکتی ہے مگر میں جانتا ہوں کہ اہل اسلام میں کسی کو یہ بات گوارا نہ ہوگی.تحذير الناس حب از مولانا محمد قاسم صاحب - مطبع قا سمی دیوبند) مولوی صاحب یہ بھی یاد رکھیں کہ نانوتوی صاحب نے لکھا ہے :.اہل اسلام میں کسی کو یہ بات گوارا نہ ہو گی.یہ مولوی صاحب ! اپنے پیرو مرشد کی بات مانیں اور حضرت محمد رسول الہصلی للہ علیہ وسلم کی عزت و تکریم کا جو جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے اسی کو اپنا کر اپنی عاقبت سنواریں.ارسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی مہر نبوت کی تاثیر لدھیانوی صاحب کہتے ہیں :- قادیانی کہتے ہیں کہ خاتم النبیین کا یہ مطلب نہیں کہ آپ آخری نبی ہیں.نہ یہ کہ آپ کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہے بلکہ یہ مطلب ہے کہ آئندہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شہر سے نبی بنا کریں گئے کہ (ص) پہلی بات تو یہ ہے کہ احمدیوں کا موقف لدھیانوی صاحب نے پیش کیا ہے اور اپنے مخصوص انداز میں نہایت ناقص طریق میں پیش کیا ہے.اگر ان میں تقویمی کی رگ ہوتی تو یہ بیان کرتے.کہ احمدی خاتم النبیین کا جو مطلب بیان کرتے ہیں وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کے بعینہ مطابق بیان کرتے ہیں :- ا تُولُوا خَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَلَا تَقُولُوا لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ : بله در منشور جلده سنگ از علامه جلال الدین سوال - الناشر : دار المعرفه للطباعة والنشر بيروت لبنان -
کہ لوگو یہ تو کہو کہ آنحضرت صلی للہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں مگر یہ نہ کہنا کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا.گویا ان کے نزدیک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ مسلک بالکل درست ہے کہ خاتم النبیین کا یہ مطلب نہیں کہ بالکل کسی قسم کا کوئی نبی نہیںآئے گا بلکہ خاتم النبیین اپنے شان اور مرتبہ کے لحاظ سے سب سے برتر مقام پر فائز نہی ہے اور زمانی لحاظ سے آخری ہونا کوئی فضیلت نہیں رکھتا.اگر لدھیانوی صاحب کی نظر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس بزرگ ارشاد پر نہیں تھی تو بآسانی احمدیوں کا موقف اپنے پیرو مرشد کی زبان سے ہی بیان فرما دیتے اور یہ لکھتے.کہ احمدیوں کا موقف بعینہ وہی ہے جو حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کا ہے اور اس بات کی جسارت کرتے کہ ان کا یہ قول کہ : عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلعم کا خاتم ہونا بایں معنیٰ ہے کہ آپ کا نہ مانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن بیگانه تقدیم یا تأخیر زمان میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں وَلكِن رسُول الله وخاتم النبیین فرمانا اس صورت میں کیونکہ صحیح ہو سکتا ہے.ہاں اگر اس وصف کو اوصاف مدح میں نہ کہیئے اور اس مقام کو مقام مدرح قرار نہ دیجئے تو البتہ خاتمیت باعتبار تأخر زمانی مسیح ہو سکتی ہے مگر میں جانتا ہوں کہ اہل اسلام میں کسی کو یہ بات گوارا نہ ہوگی یہ د تحذیر الناس من مصنف مولانامحمد قاسم صاحب مطیع قاسمی دیوبند؟ درج کر کے جتنے چاہتے حملے کرتے.اگر اپنے استاد پر حملہ کرنے میں ان کی طبیعت میں حجاب ہے یا ر اپنے ہم مذہب دوسرے مولویوں سے ڈرتے ہیں تو پھر امام الہند، مجدد صدی دوازہ دہم حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی زبان میں یہ لکھ دیتے کہ :.
۲۲ ختِمَ بِهِ النَّبِيُّون أنْ لَا يُوجَدُ بَعْدَهُ مَنْ يَأْمُرُهُ اللَّهُ سُبْحَانَهُ بِالتَّشْرِيْمِ على الناس بيه والتعليمات الطبية علوم محمد جبعت في البيع الحيدري شكره لم ) تو بات سب پر واضح ہو جاتی ہے.سب نبیوں کے خاتم لدھیانوی صاحب نے بڑے طنزیہ انداز میں بیان کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و تم نبیوں " کے پروانوں پر مہر لگا کر نبی بناتے ہیں.پہلے نبوت اللہ تعالی خود دیا کرتے تھے لیکن اب یہ محکمہ اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کر دی کہ حضورصلی الہ علیہ وسلم مہر لگائیں اوریہی بنائیں میں لدھیانوی صاحب یا د رکھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر کو مخاطب کر کے فرمایا تھا." يَا جَابِراِنَّ اللهَ تَعَالَى خَلَقَ قَبْلَ الْأَشْيَاءِ نَوْرَ نَبيَّكَ " = و المواهب اللدنيه جلد اول من احمد بن محمد الخطيب القسطلانی - مطبع شرفیه شنا) یعنی اسے جا تیز کند اتعالیٰ نے سب اشیاء سے پہلے تیرے نبی کا نور پیدا کیا پس ہم یقین رکھتے ہیں کہ پہلے انبیاء کو بھی نبوت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے علی اور بعد میں بھی ہر نور آپ ہی کے در سے تقسیم ہوگا.جناب مولوی صاحب! آپ کو احمدیت پر حملہ کرنے کا ایسا جنون ہے ، ایسی وحشت سرسپر سوار ہے کہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ اسی جنون میں حضرت خاتم النبیین صل اللہ علیہ وسلم کی شدید گستاخی کے مرتکب ہو جاتے ہیں.آپ کو کس نے یہ سراسر جھوٹی خبردی ہے کہ احمدیوں کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وتم صرف بعد میںآنے والوں کے پروانوں کے خاتم تھے ؟ احمدیوں کا غیر متزلزل اور محکم d یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کا یہ مطلب ہے کہ آپ کے بعد کوئی ایسا شخص نہیں ہوگا جسے اللہ تعالیٰ لوگوں کے لئے شریعیت اسے کہ مامور فرمائے یعنی شریعت جدیدہ لانے والا کوئی نبی نہ ہوگا.
۲۳ عقیدہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی للہ علیہ وسلم سب اولین و آخرین کے خاتم تھے ہیں اور رہیں گے.آج آپ کی تحریہ سے ہیں یعلم ہورہا ہے کہ آخرین کے خاتم تو رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم ہورہی نہیں سکتے، اولین کے بھی نہیں تھے.اور کسی گذشتہ نبی پر بھی آپ کی مہر نہیں تھی.آپ لفظ ختم کو طنز و مزاح کا نشانہ بناتے ہوئے اس کے حقیقی مفہوم سے کلیتہ نابلد ہو چکے ہیں.یاد رکھیں قرآن کریم جب آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کو ختم النبین قرار دیتا ہے تونی نام کا کوئی ایک وجود بھی باقی نہیں رہتا کہ جس پر آپ کی خاتمیت کی مہر نہ ہو.پس آپ کا یہ انتہائی باطل اور مفسدانہ عقیدہ کہ بعثت نبوی سے پہلے تمام انبیاء پر گوریا خاتمیت کا کوئی اثر نہیں تھا.سراسر جہالت کی بات ہے.واقعہ یہ ہے کہ "خاتم" کے معنے محض افضل ہونے ہی کے نہیں ہوتے بلکہ" مصدق کے بھی ہوتے ہیں اور ہر سے یہ مراد نہیں کہ نعوذباللہ حضرت اقدس محمدمصطفی صلی اللہ علیہ سلم ڈاکخانہ کی مہر کی مانند تھے.جیسا کہ آپ کی طرح آج کل کے مولویوں کی یہنی سوچ ہوتی ہے.بلکہ انحف ر صلی اللہ علیہ وسلم کے نقوش نبوت کو خاتم کے لقد سے نوازا گیا ہے جس کا معنی یہ ہے کہ جس نبی میں نبوت محمدیہ کے منافی کوئی نقوش پائے جائیں گے.اسے ہرگز محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق حاصل نہیں ہوگی خواہ وہ پہلے ہو یا بعد میں ہو.ہاں جس پر محمدرسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے نقوش کی چھاپ ہوگی.خواہ وہ مدرسم ہو یا روشن اور قومی تر، حسب مراتب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تصدیق یافتہ کہلائے گا.انہیں معنوں کی رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم ہونا حدود زمانی سے بالا ہو جاتا ہے اور آپ سے پہلے گزرے ہوئے وہ انبیاء ہی انبیاء کہلاتے ہیں جن پر آپ کی مہر ثبت ہو.انہیں معنوں میں یہ حدیث واقع ہے :- اِنّي عَبْدُ اللهِ فِي أَمّ الكِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَإِنَّ آدَمَ لَمُتَجَدِل فِي طِينَتِهِ - (مسند احمد بن حنبل جلدم مثل المكتبة الاسلاميه الطباعة والنشر بيروت)
ترجمہ :.یقیناً میں اس وقت بھی اللہ کا بندہ خاتم النبیین تھا جبکہ آدم کی مٹی گوندھی جا رہی تھی.مولوی صاحب ! ہم ایک مرتبہ پھر آپ کی توجہ مبذول کرواتے ہیں کہ جب احمدیوں کا عقیدہ بیان کریں تو جب پہلے سے آپ کے بزرگوں نے وہی عقیدہ زیادہ دیانتداری سے بیان کر دیا ہو تو اپنے ناقص الفاظ میں پیش کرنے کی بجائے سیدھی طرز پر یہ پیش کیا کریں کہ احمدی عقیدہ بعینہ وہی ہے جو ہمارے سے فلاں فلاں بزرگ کا تھا.مثلا زیر بحث عقیدہ کے متعلق آپ بلا خوف تردید یہ بات لکھ سکتے تھے کہ اس ضمن میں احمدی عقیدہ بالکل وہی بنتا ہے جو ہمارے بزرگ مولانا محمود الحسن صاحب اور علامہ شبیر احمدعثمانی صاحب کے ترجمہ القرآن کے حاشیہ پر درج ہے کہ :.پر بدین لحاظ کہہ سکتے ہیں کہ آپ رتبی اور زمانی ہر حیثیت سے خاتم النبیاتین ہیں اور جن کو نبوت ملی ہے آپ ہی کی مہر لگ کر ملی ہے؟ وزیر ایت خاتم النبیین، ناشر پاک قرآن پبلشرز لاہور منه ) علاوہ انہیں آپ اگر دیانتداری سے کا لیتے تو یہ بھی کر سکتے تھے کہ احمدی عقیدہ تو ہم نے مذکورہ بالا دو بزرگوں کے ترجمہ قرآن کے حاشیہ سے بیان کر دیا ہے جبکہ ہمارہ سے بعض بزرگ تو دو قدم ان - بھی آگے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جو بھی استعدادوں والا شخص سامنے آگیا وہ خود ہی نبی بن گیا سے چنانچہ دیکھئے ہمارے بزرگ مولانا قاری محمد طیب صاحب مہتم دارالعلوم دیوبند فرماتے ہیں:." حضور کی شان محض ثبوت ہی نہیں نکلتی، نبوت بخشی بھی نکلتی ہے کہ جو بھی نبوت کی استعداد پایا ہوا فرد آپ کے سامنے آگیا نبی ہو گیا " آفتاب نبوت صله مصنف مولانا قاری محمد طیب صاحب ناشر ادارہ اسلامیان ہو یا اہتمام اشرف برادر زیر بار اول -19 مطبوعہ : وفاق پریس لاہور -
PA مسیح موعود کی نبوت لدھیانوی صاحب خدا تعالی کے اختیارات میں دخل اندازی کرتے ہوئے کہتے ہیں :.قادیانیوں کو یہ حق آخر کس نے دیا ہے کہ وہ غلام احمد قادیانی کونبی اور رسول سمجھیں اور پھر اسلام کا دعوئی بھی کریں یا ( ص) مولوی صاحب ! اگر یہ ق قادیانیوں کو دیا ہے تو خدا تعالٰی نے دیا ہے کیسی کو نبی ماننے یا نہ ماننے کا فی خداتعالی دیا کرتا ہے.کوئی مولوی تو نہیں دیا کرتا.آپ تسلی رکھیں کہ یہ حق آپ نے بہر حال نہیں دیا.جس نگرا نے تمام بنی نوع انسان کو یہ حق دیا ہے کہ اس کے فرستادوں کو قبول کر لیں اسی خدا نے احمدیوں کو یہ حق دیا ہے کہ مسیح موعود اور مہدی دوراں کے دعاوی پر بطور امتی نبی کے ایمان لائیں.مولوی صاحب! آپ اپنی فکر کیجیئے اور بتائیے کہ کیا آپ یہ عقیدہ نہیں رکھتے کہ بعد وصال نبوی سینکڑوں سال کے بعد عیسی علیہ السلام اپنے سابقہ جسم کے ساتھ جب دوبارہ امت میں نازل ہوں گے تو آپ اُن پر بطور نبی اللہ ایمان لائیں گے اور اس کے باوجود اپنے آپ کو مسلمان کہنے پر مصر ہوں گے.یہ بات کرنے سے پہلے ذرا ان تحریروں پر بھی نظر ڈال لیتے تو شاید یہ سوال کرنے سے باز رہتے.دیکھیں حضرت محی الدین ابن عربی کیا فرماتے ہیں کہ:.عيْلى عَلَيْهِ السَّلام يَنزِلُ فِيْنَا حَكَمًا مِنْ غَيْرِ تَشْرِيْعٍ وَهُوَ نَبِيٌّ بلا شك - دفتوحات مکیہ جلد اول مرا طبع بمطبعة دارالکتب العربية البري بمصر یعنی علی علیہ السلام ہم میں گم ہونیکی صورت میں شریعیت کے بغیر نازل ہوں گئے اور بلا شک نبی ہوں گے.اور مشہور مفتی اور فاضل دیوبندی مولوی محمد شفیع صاب کیا لکھتے ہیں کہ :-
۲۷ جو شخص حضرت عیسی علیہ السلام کی نبوت سے انکار کر سے وہ کافر ہے.یہی حکم بعد نزول بھی باقی رہے گا.ان کے نبی اور رسول ہونے کا عقیدہ فرض ہو گا.اور جب وہ اس امت میں امام ہو کہ تشریف لائیں گے اس بناء پر ان کا اتباع احکام بھی واجب ہو گا.الغرض حضرت عیسی علیہ السلام بعد نزول بھی رسول اور نبی ہوں گے.اور ان کی نبوت کا اعتقاد جو قدیم سے جاری ہے اس وقت بھی جاری رہے گا یہ در جسر فتاوی الف من ) اب آپ ہی کے الفاظ میں الٹ کر ہم آپ سے سوال کرتے ہیں کہ اگر بفرض محال عیسی علیہ السلام آپ کی زندگی میں تشریف لے آئے اور آپ نے انہیں نبی اللہ تسلیم کر لیا تو آپ کو مسلمان کہلانے کا حق کون عطا کرہ سے گا.جو ذات آپ کو یہ حتی عطا کریگی اس نے ہمیں یہ حق عطا فرمایا ہے.ہم مختلف طریق پر ایک مضمون کو بار بار آپ کے سامنے کھولنے کی کوشش کرتے ہیں.تاکہ شاید کوئی بات آپ پر کھل جائے اور شکن ہے ہر رستہ بند نہ ہو بلک کسی راستہ سے بات آپ کے دل میں اتر جائے.اب ایک اور طریق پر یہ بات پیش کرتے ہیں.یاد رکھیں کہ اگر کوئی شخص یہ دعوی کرے کہ میں وہی مسیح موعود ہوں جس کے نزول کی خوشخبری حضرت محمد مصطفی صلی الہ علیہ وسلم نے دی تھی تو اس کا نبوت کا دعوی اس کے پیچھے ہوتے کی دلیل تو ہو سکتا ہے، چھوٹے ہونے کی نہیں.اور اس کا ہر قسم کی نبوت سے انکار یقینا اس کے جھوٹا ہونے کی دلیل ہوگا.کیونکہ اس صورت میں جب وہ یہ کہے گا ہ میں وہی مسیح موجود ہوں کہ جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانہ میں نازل ہونے کی خبر دی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد و مجمع سلم میں درج ہے اُسے نبی اللہ قرار دے رہا ہوگا اور ایک نہیں چار مرتبہ اس کے متعلق نبی اللہ کے الفاظ سے مخاطب ہوگا.اب بتائے کہ ایسا شخص اگر یہ دعوی کرتا ہو کہ
میں ہوں تو وہی مگر نبی اللہ نہیں تو کیا یقیناً جھوٹا ثابت ہوگا کہ نہیں ؟ کیونکہ حضرت محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی اسے نبی اللہ کہ رہی ہوگی مگر وہ کہ رہا ہوگا کر یں ہوں تو پیش گوئی کا مصداق مگر نبی نہیں.پس جب احمدیوں نے حضرت مرزا غلام احمد کو سیح موعود مانتے ہی نبی اللہ مان لیا تو اس کا حق انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا ہے بلکہ اس حق سے انحراف کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی.پس جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میق عطا فرمائیں کہ آخرین میں ظاہر ہونے والے مسیح موعود کو نبی اللہ قرار دیں اسی مسلمان ہونے کا حق کون چھین سکتا ہے.آپ کی تو بہر حال یہ حیثیت نہیں.آپ کو چاہیے کہ اپنی اوقات دیکھ کر بات کیا کریں.ہمیں ڈبہ ہے کہ آپ کو تو یہ بات سمجھ نہیں آئے گی مگر امت محمدیہ کے خدا ترس اور انصاف پسند لوگ نہ صرف یہ سمجھ چکے ہیں بلکہ انہوں نے اس کا اظہار بھی فرما دیا کہ در اصل اُن کے سیح موعود کے بارہ میں عقیدہ اور احمدیوں کے عقیدہ میں کوئی فرق نہیں.دیکھئے عہد حاضر کے مشهور متدین اور انصاف پسند عالم دین مولانا عبد الماجد دریا آبادی مرحوم نے کیا ستھری بات کی ہے.اللہ تعالی انہیں قولِ سدید کی بہترین جزا د سے.فرماتے ہیں :- "مرزا صاحب مرحوم اگر اپنے تئیں نبی کہتے ہیں تو اس معنی میں ہر مسلمان ایک آنے والے مسیح کا منتظر ہے اور ظاہر ہے کہ یہ عقیدہ ختم نبوت کے منافی نہیں.پس اگر احمدیت وہی ہے جو خود حضرت مرزا صاحب مرحوم بانی ی سلسلہ کی تحریروں سے ظاہر ہوتی ہے تو اُسے ارتداد سے تعبیر کرنا بڑی ہی زیادتی ہے.والفضل ۲۱ مارچ ۱۹۳۵) مولانا نیا نہ فتح پوری صاحب حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :-
۲۸ سے بڑا الزام ان پر یہ عائد کیا جاتا ہے کہ وہ ختم نبوت کے قائل نہ تھے حالانکہ اس سے زیادہ لغو و لایعنی الزام کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا.وہ یقینا ختم نبوت کے قائل تھے اور غالیا اسی شعف وشدت کے ساتھ جو ایک سچے عاشق رسول میں پایا جانا چاہیئے.ملاحظات نیاز فتح پور بجواز نگار لکھنو مئی 2 مرتبه : محمد اجمل شاہد - ناشر : جماعت احمدیہ کراچی.پھر فرماتے ہیں :.وہ اپنے آپ کو یقینا ظلی نبوی یا مہدی موعود سمجھتے تھے لیکن ان کا یہ کہنا عقیدہ خاتم النبیین کے منافی نہیں کیونکہ جس نبوت کو وہ آخری نبوت سمجھتے تھے اس کا انہوں نے کبھی دعوی نہیں کیا اور حسن علی ملکہ نبوت کا حامل وہ اپنے آپ کو کہتے تھے وہ کوئی نئی چیز نہیں " ملاحظات نیاز فتح پوری ط.بحوالہ نگار رکھنی.نومبر ۱ مرتبه :- محمد اجمل شاہدہ، ناشر : جماعت احمدیہ - کراچی - دلوں کا حال جاننے والے مولوی صنا!! لدھیانوی صاحب نے ایک الزام احمدیوں پر یہ بھی لگایا ہےکہ انہوں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلم کو منسوخ کر کے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کا کلمہ دنیا میں جاری کیا ہے.پھر یہ مذموم تاثر بھی دینے کی کوشش کی ہے کہ افراد جماعت احمدیہ جب کر طیبہ پڑھتے یا لکھتے ہیں تو محمد سے ان کی مراد حضرت مرزا غلام احمد ہوتے ہیں.لدھیانوی صاحب ! آپ کو حضرت مرزا صاح کے اتنی نبی ہونے پر تو اعتراض ہے اور اپنی یہ
۲۹ جسارت کہ خدا بن رہے ہیں اور خوف نہیں کھاتے.عالم غیب ہونے کا دعوئی تو حضرت محمد مصطفیٰ صلی الہ علیہ وسلم کا بھی نہیں تھا.اور آپ کی یہ بے باکی کہ عالم الغیب بنے بیٹھے ہیں اور ہر احمدی کے دل کے حال پر گواہ بن کر آپ کو اصرار ہے کہ احمدیوں سے بڑھ کر آپ ان کے دل کی باتوں کو بیان کرنے کے مجانہ ہیں.اس کا اصل اور برحتی جواب تو قرآن کریم کے الفاظ میں یہی ہے کہ لعنت الله على الكاذبين.اگر جھوٹے خدا کی لعنت کے سزاوار میں توسب سے بڑھ کر ایسے جھوٹے لعنت کے سزاوارد ہیں جو خدا کے شریک بھی بن بیٹھے ہوں.جناب لدھیانوی صاحب ! آپ تو عام صحابہ کے مقابل پر بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتے.یا د رکھیے کہ ایک موقع پر جب ایک بزرگ صحابی رسول نے صرف ایک شخص کے متعلق ایسا دعویٰ کیا کسی جماعت کے متعلق نہیں بلکہ صرف ایک شخص کے متعلق کہ وہ اپنی زبان سے کچھ اور کہتا تھا لیکن دل میں کچھ اور تھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس پر اتنے شدید ناراض ہوئے کہ وہ عمر بھر اپنی اس لفرش پر پچھتاتا رہا اور پشیمان رہا لیکن آپ نہیں کر ایک فرد پر نہیں ، دنیا بھر کے کھو چکا احمدیوں پر یہ تہمت لگانے کی جرات کرتے ہیں کہ جب وہ زبان سے کلمہ شہادۃ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیتے ہیں تو دل میں مرزا غلام احمد صاحب کا نام جیتے ہیں، تو آپ ایک ایسے جرم کے مرتکب ہو جاتے ہیں جو در حقیقت مذکور صحابی کی لغزش کے مقابل پر لاکھوں گنا زیادہ اور مذموم اور مکروہ ارتکاب جرم ہے.اب ذرا غور سے حسب ذیل حدیث کا مطالعہ فرمائیے اس شفاف آئینہ کی مدد سے اپنے دل کی مکروہ حالت کی تصویر دیکھنے کی کوشش کریں.آپ کو دنیا بھر کے لاکھوں احمدیوں کے دلوں کی حالت پر علیم و خبیر ہونے کا دعویٰ تو ہے، کینچی اپنے گریبان اور اپنے دل میں بھی جھانک کر دیکھا ہے.اگر نہیں تو دیکھئے حدیث میں کیا لکھا ہے :- حضرت اسامہ بن زید فرماتے ہیں :.
بَعَثْنَا رَسُولُ اللهِ صلى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ فَصَبَّحْنَا الْحُرُقاتِ.مِنْ جُهَيْنَة فَأَدْرَكْتُ رَجُلاً فَقَالَ : لَا إِلهَ إِلَّا الله فَطَعَنْتُهُ فَوَقَعَ فِي نَفْسِي مِنْ ذَلِكَ.فَذَكَرْتَهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقالَ: لا إله إلَّا اللهُ وَقَتَلْتَهُ ؟ قَالَ قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّمَا قَالَهَا خَوْفًا مِنَ السّلَاحِ ، قَالَ أَفَلَا شَفَقَتَ عَنْ قَلْبِهِ.حَتَّى تَعْلَمَ أَقالَهَا أَمْلاً " فَمَازَالَ يُكَوِّرُها عَلَى حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنِّي أَسْلَمْتُ يَوْمَئِةٍ مسلم کتاب الایمان، باب تحریم قتل الكا ف بعد قوله لا إله إلا الله) کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ تم نے ہمیں ایک معرکہ کے لئے بھیجا.ہم صبی جنین میں الحاقات کی بستی میں پہنچے.میری ایک شخص سے وہاں مڈھ بھیڑ ہوگئی.جب میں نے اس پر قابو پالیا تو اس نے لا الہ الا الہ کا اقرار کر لیا گوری نے اس کو پھر بھی میز سے سے مار دیا لیکن اس وجہ سے میرے دل میں ایک خلش سی رہ گئی جس کا میں نے بی پاک صلی الہ علیہ وسلم سے ذکر کیا ورسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا اُس نے لا اله الا اللہ کہا اور تو نے اس کے باوجود اُسے قتل کر دیا ؟ توئیں نے عرض کی یا رسول اللہ ! اس نے تو یہ محض ہتھیار کے خوف سے کہا تھا.اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.تونے کیا اس کا دل چیر کر نہ دیکھ لیا کہ تجھے علیم ہو گیا تھا کہ اس نے دل سے کہا ہے یا نہیں.حضرت اسامہ فرماتے ہیں کہ اس بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے افسوس رنج کے ساتھ اتنی مرتبہ دھرایا کہ میں یہ خواہش کرنے لگا کہ کاش میں اس دن تک
I اس مسلمان ہی نہ ہوا ہوتا.میں بحیثیت ایک احمدی مسلمان کے احمدیوں میں پیدا ہوا اور احمدیت میں ہی جوان ہو کر اس پختہ عمرکو پہنچا ہوں.عالم الغیب خدا کی عزت اور تکریم اور جروت کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آج تک ایک مرتبہ بھی کلمہ شہادت پڑھتے وقت جب میں نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے سول ہونے کی گواہی دی تو دل میں کبھی مرزا غلام احد صاحب قادیانی کا نام نہیں آیا بلکہ زبان پر اوردل پر محمدرسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم کا ہی نام تھا.مجھ پر دنیامیں بھی اور آخرت میں بھی خدا کی لعنت پڑسے اگر میں اس بیان میں جھوٹا ہوں.باقی احمدیوں کو چھوڑیئے.مولانا اصرف مجھ پر ہی حلف اُٹھا کر بتائیے کہ خاکسارا سے ایس موسی مصنف کتاب " جب کلمہ پڑھتا ہے تو آپ حلفا اعلان کریں کہ میں یوسف لدھیانوی عالم الغیب والشہادة اعلان کرتا ہوں کہ اسے ایسی موٹی ہر بار کلمہ پڑھتے وقت محمد رسول اللّہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کا نام جیتا ہے.اور اپنے حلف میں اگر میں جھوٹا ہوں تو ہزار بار مجھے پر خدا کی لعنت پڑ ہے.لیجئے لدھیانوی صاحب ! ہم نے دوٹوک فیصلہ کر دیا ہے آپ ایسا حلف اُٹھا کر دیکھائیں.ہمارے دلائل تو نہیں ختم ہوں گے لیکن اب ہماری بحث آپ کے حلف کے بعد ختم ہو جائے گی.اور اس طرح جب خدا تعالٰی کی عدالت میں معاملہ چلے گا تو وہی نیٹے گا اور وہی باز پرس فرمائے گا.اگر ہمارے حلف کے جواب میں لدھیانوی صاحب یہ عذر پیش کریں کہ انہوں نے یہ بات حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی ایک تحریر سے پیش کی ہے تو اول تو دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اس تحریر کا پس منظر کیا ہے.کن معنوں میں انہوں نے یہ لکھا ہے.اگر وہ یہ لکھ رہے ہوں کہ محمد نام چونکہ سب انبیاء کا جامع ہے اسلئے محمد نام میں تمام انبیاء کی تصدیق شامل ہو جاتی ہے خواہ وہ پہلے ہوں یا بعد میں ہوں تو یہ ایک بالکل اور مضمون ہے جس پر ہر عارف باللہ مسلمان ایمان رکھتا
Fr ہے.لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ محمد نام پڑھتے ہوئے علی ہوئی یا کسی اور ہی کا تصور باندھتا ہے.بالکل اسی طرح اگر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس مضمون کی تحریر لکھی ہے تو ہر گز یہ مطلب نہیں کہ جب وہ یہ مضمون پڑھتے تھے تو فورا ان کے دل میں محمد رسول اللہ کی بجائے کسی اور کا نام آتا تھا.یہ آپ جیسے بھی ماں کو ہی زیب دیتا ہے جو عارفانہ کے مجھے بغیر کس کی تحریر پر بے باکانہ حملے شروع کر دے.یاد رکھی ، تادم تحر یا حدیت دنیا کہ ۱۲۴۲ ممالک میں ستحکم ہو چکی ہے اور دنیا کے ۱۲۳ ممالک کے باشندگان آپ کے اس دعویٰ پر لعنت ڈالتے ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ تمام دنیا میں پھیلے ہوئے احمدیوں میں سے ایک بھی ایسی خبیثانہ حرکت نہیں کرتا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم کے نام کی گواہی دیتے وقت یہ سوچتا ہو کہ نعوذ باللہ محمدرسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نہیں بلکہ حضرت رزا غلام احمدقادیانی مرد ہیں.پس و تحریر جوآپ پیش کرتے ہیں اول و سراسر ظلم کی راہ سے اسکے مفہوم کے خلاف پیش کرتے ہیں لیکن اسے بڑھ کر یہ ظلم کہ ایک شخص کی تحریر پر ساری دنیا کے احمدیوں کے احتجاج کے باوجود اس تحریر کے وہ معنے اُن سب کی طرف منسوب کر رہے ہیں جو سمنے آپ کے خود ساختہ ہیں.سپس یا تو یہ جبل مرتب ہے یا کذب مرتب.یا پھر دونوں کی معجون مرتب ہوگی.اب سینیئے! احمدیوں پر تو آپ کو حملہ کرنے کا حق نہیں تھا کیونکہ آپ عالم الغیب بہر حال نہیں.یکن آپ واعالم الشہادت بھی بالکل نہیں ورنہ آپ اپنے ایک نہایت عظیم بزرگ کی یہ شہادت ضرور پیش نظر رکھ لیتے کہ :." اشرف على رسول الله المطار در سالم الاعداد صفر اسلام از مولانا اشرف على من يطلع الا اتابع تا انو) ب بتائے کہ یہاں کلکل مخفی طور پر نہیں بلکہ حکم مکمل تبدیل شدہ صورت میں دکھائی دے رہا ہے یہ آپ کی نظر سے کیوں اوجھل رہ گیا.کیوں آپ اس کے بعد دیوبندی مذہب سے تو یہ کرتے ہوئے بریلوی
مذہب اختیار نہیں کر لیتے، جنہوں نے آپ ہی کے حملے کا طریق اختیار کرتے ہوئے اس ایک شخص کی غیر ذمہ دارانہ تحریر کے بدلے سارے دیوبندیوں کو مشرک قرار د سے رکھا ہے اور کھلے بندوں اعلان کرتے پھر رہے ہیں کہ دیکھو دیوبندیوں کا کلم مسلمانوں کے کلمہ سے بالکل مختلف ہے اور جب وہ محمد رسول اللہصلی الہ علیہ وقت کا کلمہ پڑھتے ہیں تومراد اشرف علی تھانوی صاحب ہوتے ہیں.اب بتائیے کہ آپ کو سوائے اسکی کہ بریلوی ہو جائیں مسلمان کہلانے کا کیا حق باقی رہ جاتا ہے.لدھیانوی صاحب نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی جس عبادت پر اپنے افتراء کی عمارت تعمیر کی ہے.وہ یہ ہے :- و مسیح موجود خود محمد رسول اللہ ہیں جو اشاعت اسلام کے لئے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے.اس لئے ہم کو کسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں.ہاں اگر محمد رسول اللہ کی جگہ کوئی اور آتا تو ضرورت پیش آتی " لكلمة الفصل.۱۵ قارئین کرام.در اصل یہ تحریر ایک ایسے مریض کو پیش نظر رکھ کر لکھی گی جو و تسلیم کرتا تھا کہ احمدوں کا کوئی الگ کہ نہیں ہے اور اس طرح چالاکی سے احمد علم کلام پر حملہ کرنا چاہتا تھا.غرض یہ تھی کہ احمدیوں کو ملزم کرنے کہ اگر تمہارا یعنی حضرت مرزا صاحب کا الگ کلمہ نہیں ہے تو وہ کسی معنوں میں نبی نہیں کہلا سکتے اور اگر کلمہ الگ ہے، تو امت محمدیہ سے خارج ہو جاتے ہیں چالاکی کے اس پھندے سے نکلنے کی کوشش سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یہ عبارت لکھی جس پر جناب لدھیانوی صاحب بھر بھر کر حملہ کر رہے ہیں.درحقیقت اسکا جواب جو مصنف کتاب " کلمۃ الفصل" دینا چاہتے تھے اور وہی آج بھی ہر احمدی کا جواب ہے جو یہ ہے کہ یہ درست ہے کہ جماعت احمدیہ کا کوئی الگ کلمہ نہیں اور مولوی صاحب جو یہ بات پیش کرتے ہیں کہ جماعت کا کوئی الگ کلمہ ہے یہ بالکل جھوٹ ہے.جماعت احمدیہ کا وہی کلمہ ہے جو لا إله إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُول اللہ ہے ہم حضرت
تم بستم مرزا صاحب کو ہرگز محمد رسول للہ صل اللہ علہ وسلم کے مقابل پر آزادی کے طور تسلیم نہیں کرتے ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ محمدرسول الله صل الل ل ا ا ا ا ا ا ا ا ع کو اگر اسی نبی کے مقام پر سرفرات فرمایا جائے تو ہر گز نے کلمہ کی ضرورت نہیں کیونکہ محمد رسل الله صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ ہی قیامت تک کے لئے حاوی ہے اور غیر متبدل ہے.یہ بات معترض کو سمجھاتے ہوئے مصنف کلمتہ الفصل " نے ایک یہ طرز بھی اختیار کی کہ اُسے بتائیں کہ اصل میں محمد نام اور محمد مقام اتنے عظیم ہیں کہ صرف گذشتہ زمانوں پر ہی حاوی نہیں آئندہ زمانوں پر کبھی عادی ہیں.پر جس طرح یہ کہنا درست ہوگا کہ جملہ انبیاء کے نام جیسے آدم، نوح، ابراہیم، موسی، عیسی وغیرہ محمد نام کے تابع اور اسکی کلم میں شامل ہں اسی طرح یہ کہنا بھی درست ہے کہ بعد میں محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم سے فیضیاب ہو کر گر کسی امتی کو مقام نبوت عطا ہو تو وہ بھی اسم محمد کی جامعیت میں داخل ہوگا.یہ استدلال کوئی محض ذوقتی نکتہ نہیں بلکہ ایک ٹھوس حقیقت پر مبنی ہے.جس پر ان ظاہری مولویوں کی نظر نہیں.اسم محمد کی تصدیق میں اس لئے دوسرے انبیاء کی تصدیق شامل ہو جاتی ہے.خواہ وہ بعد میں ہوں یا پہلے ہوں ، کہ قرآن کریم وہ کتاب ہے جیسی دیگر تمام انبیاء کی تصدیق بنائے ایمان میں داخل کر دی اور اسلام ہی وہ مذہب ہے جنسی محمدرسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم پر ایمان لانیوالے شخص پر لازم کر دیا کرم یہ ایمان کافی نہیں جبکہ تم خدا کے دیگر انبیاء میں کسی ایک کا انکار کرنیوالے ہو.یس تیم ملی الہ علیہ وسلم کا عظیم احسان ہے کہ آپ دوسرے انبیاء کے بھی مصدق بن گئے خواہ وہ دنیا میں کہیں بھی کسی بھی زمانہ میں پیدا ہوئے ہوں.یہ محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی امتیازی شان ہی ہے جس کو بیان کرتے ہوئے مصنف کتاب کلمہ الفصل" نے معترض کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اللّہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا مقام ہے کہ ان کے نام میں ہر نبی کی تصدیق شامل ہو گئی.تمہارے اور ہمارے درمیان فرق صرف یہ ہے کہ تم صرف
۳۵ گذشتہ انبیاء کی تصدیق اس نام میں مجھتے ہو ہم اس کی پیش گوئی کے مطابق ظاہر ہونے والے امام مہدی کو بھی جس کا درجہ ہم امتی نبی کادرجہ سمجھتے ہیں، اس تصدیق میں داخل سمجھتے ہیں.پس محمدصلی الہ علی وسلم کا کلمہ پڑھنے والے کے لئے کسی اور کا کلمہ پڑھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر کہ محمدصلی اللہ علیہ سلم کے کل میں داخل ہو چکا ہے.جیسا کہ ابراہیم علی السلام، موسی علیہ السلام اور عیسی لیہ اسلام و دیگر انبیاء کو ہی الہ تسلیم کر نے والے پر یہ حاجت نہیں رہی کہ ابراہیم رسول اللہ موسیٰ رسول اللہ عیسی رسول اللہ یا کسی اور نبی کا کلمہ پڑھے ، اسی طرح احمدیوں کے لئے ہر گز ضروری نہیں کہ محمد رسول اللہ کا کلمہ پڑھنے کے بعد احمد رسول اللہ کا کلمہ پڑھنا شروع کر دیں.یہ وہ نہایت عالمانہ اور عارفانہ نکتہ تھا جسے سمجھانے کی حضرت مرزا بشیر احمد رضا مصنف کتاب "کلمتہ الفصل“ نے کوشش فرمائی لیکن افسوس کر انہوں نے یہ خیال نہ کیا کہ ان کے مخاطبین میں بہت سارے نبی بھی شامل ہیں جو حسن نیت کے ساتھ محض بات سمجھنے والے نہیں بلکہ محض اعتراض برائے اعتراض کرتے ہیں اور حق جوئی سے اُن کی کوئی غرض نہیں.یہ لدھیانوی صاحب بھی اسی قبیل کے لوگوں میں صف اول میں ہیں.مولوی صاحب ! جو بات ہم نے سمجھائی ہے اسے مجھیں اور توبہ کریں کیونکہ یہ عقیدہ مبنی یہ قرآن و حدیث ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب نبیوں کے مصدق بنے اور یہی آیت خاتم النبیین کے معانی میں سے اہم معنی ہیں کہ مدمصطفی صلی اللہ علی وسلم تمام انبیاء کے مصدق بن گئے پس جنسی آپ کی تصدیق کی اُس نے گویا ہر نبی کی تصدیق کر دی خواہ پہلا ہو یا بعد میں ہو.اس وضاحت کے بعد اگر پھر بھی یہ مولوی صاحب ازراہ عناد نا واجب اور ناحق حملوں سے باز نہ آئے تو ہمیں ان سے کلام نہیں.ہماری ان پر محبت تمام ہو چکی.پس اس صورت میں آخری صورت یہی بنے گئی کہ احمدیوں کا یقینا کوئی اور کلمہ نہیں جیسا کہ ہم یقین کرتے ہیں اور ہمارے مخالفین بھی یہی تسلیم کرتے ہیں.اسی لئے تو اعتراض پیدا ہوا ہے.
My احمدیوں کو اس لئے الگ کلمہ کی ضرورت نہیں کہ ہم حمدرسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم کے کل میں تمام انبیاء کی تصدیق داخل سمجھتے ہیں.لیکن لدھیانوی صاحب چونکہ اس عقیدہ کو ملحدانہ عقیدہ سمجھتے ہیں.شاید اسی لئے ان کے بزرگ اور مرشد نے اپنا الگ کلمہ بنالیا اور ان کے متبعین کو بھی یہ ضرورت پیش آئی کہ اشرف علی رسول اللہ کے نعرے لگائیں.مصنف کتاب "کلمتہ الفصل" کی اس تحریر سے متعلق جسے انتہائی بھیانک کلمہ کفر کے طور پر مولوی صاحب پیش فرمارہے ہیں، ہم قارئین پر خوب اچھی طرح واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ لدھیانوی صاب نے جو معنے اس تحریک کو پہنانے کی کوشش کی ہے سراسر ظلم اور افتراء ہے اور ویسا ہی ظلم و افتراء ہے جیسا کہ کوئی شخص ان بزرگان امت پر حملہ کر سے جن کے عقائد ہم ذیل میں تحریر کریں گے اور انکی تحریرات اور فرمودات سے کفر و الحاد کے منے اخذ کر ہے.قرآن کریم اور احادیث نبویہ کی روشنی میں امت میں ظاہر ہونے والے امام مہدی کے متعلق حضرت شاہ ولی اللہ اپنی کتاب الخير الكثير میں فرماتے ہیں: حق له أن يَنْعَكِسَ فِيْهِ أَنْوَارُ سَيْدِ الْمُرْسَلِينَ صَلَّى الله عليه وسلم وَيَزْعَمُ الْعَامَّةُ أَنَّهُ إِذَا نَزَلَ فِي الْأَرْضِ كَانَ وَاحِدًا مِنَ الْأُمَّةِ - كَلَّا بَلْ هُوَ شَرح للإسمِ الْحَامِعِ الْمُحَمَّدِي وَنُسْخَةٌ مُنتَسَحْةُ مِنْهُ فَشَتَان بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَحَدٍ مِنَ الْأُمَّةِ.ر الخيرُ الكَثِيرُت مدینه برلین بجنور مصنف حضر شاه ولی الله یعنی آنیوالے موعود کا یہ حق ہے کہ اس میں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار یہ کا انعکاس ہو.عامتہ الناس یہ گمان کرتے ہیں کہ جب وہ موعود دنیا میں تشریف لائے گا تو اس کی حیثیت محض ایک امتی کی ہوگی.ایسا ہرگز نہیں بلکہ وہ تو ہم جامع
محمدی ہی کی پوری تشریح ہوگا اور اسی کا دوسراستہ (TRUE COPY) ہوگا.پس اس کے اور ایک عام امتی کے درمیان بہت بڑا فرق ہوگا.پھر شرح فصوص الحکم میں امام مہدی علیہ السلام کے بارہ میں لکھا ہے :.الْمَهْدِي الَّذِي يَجِينُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ فَإِنَّهُ يَكُونُ فِي أَحْكَامِ الشَّرِيقِهِ تابعًا لِمُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلَّم وَفِي الْمُعَارِفِ وَالْعُلُومِ وَالْحَقِيقَةِ تَكُونُ جَمِيعُ الأَنْبِيَاءِ وَالْأَوْلِيَاء تَابِعِينَ لَهُ كُلُّهُمْ وَلَا يُنَا قِضُ مَا ذَكَرْنَاهُ لان باطِنَهُ بَاطِنُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم د شرح فصوص الحکم طبع مصطفی البابی الحلبی ۳۳ از امام عبد الرزاق کاشانی یعنی آخری زبان میں جو امام مہدی آئیں گے وہ احکام شریعیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہوں گے اور معارف و علوم اور حقیقت میں تمام انبیاء اور اولیاء ان کے تابع ہوں گے.اور یہ بات ہمارے مذکورہ بیان کے خلاف نہیں ہے کیونکہ امام مہدی کا باطن حضرت محمد مصطفے لی اللہ علیہ وسلم کا باطن ہوگا.پھر گیارھویں صدی کے مشہور شیع مجتہد علامہ باقر مجلس اپنی کتاب بحارالانوار میں لکھتے ہیں کہ حضرت امام باقرعلیہ السلام نے فرمایا :- " يَقُولُ (المهدى) يا مَعْشَرَ الخَلَائِقِ أَلَا وَمَنْ أَرَادَ أَن يَنظُرُ إِلَى إبراهيمَ وَاسْمعِيْلَ.فَهَا أَنا ذَا إِبْرَاهِيمُ وَاسمعيل أَلَا وَمَنْ أراد أن يَنظُرَ إِلى مُوسَى وَيُوشَعٌ فَهَا أَنَا ذَا مُوسَى وَيُوشَع - ألا وَمَنْ أَرَادَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى مُحَمَّدٍ وَامِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (صلوات الله عليه) فَهَا أَنَا ذَا محمد صلى الله عليه وسلم وَأَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ : (بحار الانوار جلد ۱۳ ص)
یعنی جب امام مہدی آئے گا تو اعلان کرے گا کہ اے لوگو ! اگر تم میں سے کوئی ابراہیم اور اسٹیل کو رکھنا چاہتا ہے تو سن لے کہ میں ہی ابراہیم و اسمیں ہوں.اور اگر تم میں سے کوئی موسی اور یوشع کو دیکھنا چاہتا ہے تو سن نے کہ میں ہی موسی اور یوشع ہوں.اور اگر تم میں سے کوئی محمد صل اللہ علیہ وسلم اور امیر المومنین علی رام کو دیکھنا چاہتا ہے تو سن لے کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور امیر المومنین میں ہی ہوں.لیکن اگر حضرت مرزا صاحب مدعی مہدویت ہوتے ہوئے ان پیش خبریوں کی روشنی میں اپنا مقام بیان فرماتے ہیں تو لدھیانوی صاحب کے نزدیک یہ بات محل اعتراض بن جاتی ہے.کاش لدھیانوی صاحب اعتراض سے قبل حضرت امام باقر علیہ اسلام کی اس رائے کا مطالعہ کر لیتے.پھر عارف ربانی محبوب سبحانی سید عبدالکریم جیلانی " فرماتے ہیں :.اس ر امام مهدی....ناقل)، سے مراد وہ شخص ہے جو صاحب مقام محمدی ہے اور ہر کمال کی بلندی میں کامل اعتدال رکھتا ہے یہ دانسان کامل دارد و با لا مہدی علیہ السلام کا ذ رشته نفیس اکیڈمی کراچی) پھر حضرت خواجہ غلام فرید صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :.حضرت آدم سے لیکر خاتم الولایت امام مهدی تک حضور حضرت محمدمصطفی صلی الله علیہ وسلم باید نہ ہیں.پہلی بار آپ نے حضرت آدم علیہ السلام میں برون گیا...اسکی بعد دوسرے مشائخ عظام میں نوبت بنتوت بروز کیا اور کرتے رہیں گے حتی کہ امام مہدی میں برو نہ فرمائیں گے پس حضرت آدم سے امام مہدی تک جتنے انبیاء اور اولیاء قطب مدارہ ہوئے تمام روح محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے مظاہر ہیں.Z مقابیس المجالس من ارشادات خواجه نام فریدا مرتبه محمد ان الدین ناشری اسلامک با نان داین (51464
۳۹ نئی شریعت بنانے کا جھوٹا الزام لدھیانوی صاحب نے احمدیوں پر نئی الگ شریعت بنانے اور مسلمانوں کو کافر کہنے کا الزام بھی لگایا ہے.جبکہ یہ الزام بھی باقی الزاموں کی طرح کلیتہ بے بنیاد اور بے حیثیت ہے جسکا جماعت احمدیہ سے قطعا کوئی تعلق نہیں.دنیا کے ۱۲۴ ممالک میں احمدی پھیلے ہوئے ہیں کیسی ایک جگہ بھی یہ الزام نہیں عائد ہو سکتا کر ان کی شریعیت الگ ہے.صرف پاکستان میں بد بخت لوی زبردستی الگ بنانے پر تنگے ہوئے ہیں.وہاں یہی تو جھگڑا ہے کہ مولوی دن رات اسی شر انگیزی میں مبتلا ہے کہ احمدی کہیں شریعت محمدیہ پر عمل نہ کر سے اور ادہر احمدی انتہائی صبر و استقلال کے ساتھ اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت سے کامل وابستگی اختیار کئے ہوئے ہیں.اور اسی وجہ سے سینکڑوں احمدیوں کو جیلوں میں ڈالا گیا ، زدو کوب کیا گیا ، لازمتوں سے علیحدہ کیا گیا، سکولوں، کالجوں سے نکالا گیا ، ان پر قاتلانہ حملے کئے گئے اور قتل کئے گئے.اس کی یہی تو وجہ ہے کہ مولوی کو دکھ ہے کہ یہ شریعت محمدیہ پرعمل کیوں کہتے ہیں.اگر احمدیوں کی شرعیت الگ ہے تو پاکستان میں قانون بنانے کی ضرورت کیا تھی.کہ احمدی شریعت محمدیہ پر عمل نہ کریں.اب مولوی کے اس اعتراض کا مقصد صرف فاد ہے.اس کے علاوہ کوئی وجہ نہیں یہ مولوی خود جاتا ہے کہ احمدی کسی اور شریعت پر عمل نہیں کر سکتا.آج کا ملا تو اپنی عاقبت برباد کر چکا ہے ، ہم عامتہ الناس سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس کی خلاف اسلام باتوں کے پیچھے چل کر اپنی عاقبت نہ خراب کریں.حضرت مرزا صاحب نے جو عقیدہ جماعت احمدیہ کا بیان فرمایا ہے وہ یہ ہے.اسے پڑھ کر ماں کے ظالمانہ الزام کی قلعی خود بخود کھل جاتی ہے.حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں :- (1) ہم تو کہتے ہیں کہ کافرہے وہ شخص جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعیت سے ذرہ بھر
راد ہر ادہر ہوتا ہے.آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کی اتباع سے روگردانی کرنے والا ہی ہمارے نزدیک جب کافر ہے تو پھر اس شخص کا کیا حال ہے جو نئی شریعیت لانے کا دعوی کرے یا قرآن اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تغیر و تبدل.کرے یا کسی حکم کو منسوخ جانے اہمارے نزدیک تو مومن وہی ہے جو قرآن کریم کی سچی پیروی کرے اور قرآن شریف ہی کو خاتم الکتب یقین کر ہے.اس شریعت کو جو آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم دنیامیں لائے تھے اس کو ہمیشہ تک رہنے والا مانے اور اس میں ایک ذرہ بھر اور ایک شعر بھی نہ بدلے اور اس کی اتباع میں فنا ہو کر اپنا آپ کھود سے اور اپنے وجود کا ہر ذرہ اسی راہ میں لگائے.عملا اور علما اس شریعت کی مخالفت نہ کر سے تب پکا مسلمان ہوتا ہے" (الحکم پر سٹی کی حیث) یں تمام مسلمانوں کویقین دلاتا ہوں کہ مجھے کسی ایک حکم میں بھی دوسرے مسلمانوں H سے علیحدگی نہیں.جس طرح سارے اہل اسلام احکام بلینه قرآن کریم و احادیث صحیحہ و قیاسات مسلم مجتہدین کو واجب العمل جانتے ہیں.اسی طرح میں بھی جانتا ہوں.الحق لدھیانہ منت روحانی خزائن جلد منت ) (۳) جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں.باقی سب اسی کے قبل تھے.سو تم قرآن کو تدیر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو.ایسا پیار کر تم نے کسی سے نہ کیا ہو" (کشتی نوح ص ) تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سر چشمہ قرآن میں ہے.کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جومتہ ان میں نہیں پائی جاتی.تمہار سے ایمان کا مصدق یا مکذب
قیامت کے دن قرآن ہے.اور بجزء قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلا واسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے.خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی.دکشتی نوح ۲۳ روحانی خزائن جلد ۱۹ ۲۰) مجھےاللہ جل شانہ کی قسم ہے کہیں کا فرنہیں لا إِلهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ میرا عقیدہ ہے.اور لکن رسول الله وخاتم النبيين پر انحضرت صلی اللہ علیہ وستم کی نسبت میرا ایمان ہے.میں اپنے اس بیان کی صحت پر اس قدر قسمیں کھاتا ہوں جس قدر خدا تعالٰی کے پاک نام ہیں.اور جس قدر قرآن کریم کے حرف ہیں اور جس قدر آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کے خدا تعالیٰ کے نزدیک کمالات ہیں.کوئی عقیدہ میرا اللہ اور رسول کے فرمودہ کے برخلاف نہیں.اور جو کوئی ایسا خیال کرتا ہے خود اس کی غلط فہمی ہے.اور جو شخص مجھے اب بھی کا فرسمجھتا ہے اور تکفیر سے بانہ نہیں آتا وہ یقینا یاد رکھے کہ مرنے کے بعد اس کو پوچھا جائے گا.میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرا خدا اور رسول پر وہ یقین ہے کہ اگر اس زمانہ کے تمام ایمانوں کو تراندو کے ایک پتہ میں رکھا جائے اور میرا ایمان دوسرے پلہ میں تو بفضلہ تعالی یہی پہ بھاری ہو گا.44 كرانات الصادقین م۲۵ - روحانی خزائن جلد، ص ۶) جہانتک اور مسلمانوں کو کا فرقرار دینے کا تعلق ہے اس بارہ میں بھی مولوی یوسف لدھیانوی صاحب یہاں واضح بدیانتی سے کام لے رہے ہیں اور یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ تو سب فرقوں کو مسلمان سمجھتے ہیں لیکن احمدی غیر سلم سجھتے ہیں.ذیل میں چند حوالے پیش کئے جاتے ہیں جن سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ جماعت احمدیہ پر مین تحریروں کی وجہ سے یہ اعتراض کر رہے ہیں ان سے نبیوں گنا زیادہ سخت اور متشددانہ طور پر دوسروں نے کافر قرار دیا ہے.اس لحاظ سے یہ تلوار جومولوی صاب "
نے اُٹھائی ہے سب سے پہلے ان پر چلنی چاہیے جو اسے زیادہ متشدد ہوں.دوسری بات یہ مد نظر یہ ہے کہ دوسرے فرقوں کے سربراہوں کے جو حوالے دیئے گئے ہیں، انہوں نے تو گنجائش ہی نہیں چھوڑی اور دوسرے فرقوں کے مسلمانوں کو کافر اور مشرک تو گیا.جانوروں سے بد تر قرار دینے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اس وقت تک تسلی نہیں ہوئی جب تک انہیں حرامی نہیں قرار دے لیا."جو چنانچہ بریلویوں کو دیکھیں ان کے متعلق دیوبندی علماء ہیں یہ شرعی حکم سناتے ہیں کہ:.جو شخص اللہ جل شانہ کے سوا علم غیب کسی دوسرے کو ثابت کر سے اور کر لہ تعالی کے برابر کسی دوسرے کا علم جانے وہ نیے شک کا فر ہے.اسکی امامت اور اس سے میل جول محبت و مودت سب حرام ہیں.پہر فتاوی رشید یه کامل مبوب از مولوی رشید احد صاحب گنگوهی ماند ناشر محمدسعید اینڈ سنز تاجران کتب قرآن محل با مقابل مولوی فرخان کراچی (۱۳۳۳) اور انہیں کے بارہ میں مشہور دیوبندی عالم جناب مولوی سید حسین احمد صاحب مدنی سابق صدر مدرس وار العلوم دیوبند ہمیں یہ خبر وہ سے رہے ہیں کہ :.رسول مقبول علی السلام دنبال بریلوی او ران کے اتباع کو سحقا سحقاً فرما کر حوض مورود و شفاعت محمود سے کتوں سے بدتر کر کے دھتکار دیں گے اور امت مرحومہ کے اجر و ثواب و منازل و نیم سےمحروم کئے جائیں گے.رجوم المذنبين على رؤس الشياطين المشهور با الشهاب الثاقب على المسترق الكاذب صلا مؤلفه مولوی سید حسین حد صاحب مدنی - ناشرکتب خانہ اعزاز یہ دیوبند ضلع سہارنپور پر ویزیوں کے متعلق ولی حسن ٹونکی صاحب اور محمد یوسف بنوری صاحب متفقہ طور پر یہ فتوی صادر فرماتے ہیں کہ.
غلام احمد پرویز شریعت محمدیہ کی رو سے کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج - نہ اس شخص کے عقد نکاح میں کوئی مسلمان عورت رہو سکتی ہے اور نہ کسی مسلمان عورت کا نکاح اس سے ہو سکتا ہے.نہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی.نہ مسلمانوں کے قبرستانمیں اس کا فن کرنا جائز ہوگا اور ریحکم صرف پرویزی کا نہیں بکہ ہر کافرکا ہے.اور ہر وہ شخص جو اس کے متبعین میں ان عقائد کفریہ کے ہمنوا ہو اس کا بھی یہی حکم ہے اور یہ مند ٹھہر تو پھرا کے ساتھ کسی قسم کے بھی سلامی تعلقات رکھنا شرعاً جائز نہیں ہیں یہ ولی حسن ٹونکی غفراللہ مفتی و مدرس مدرسه عربیہ اسلامیہ نیو ٹاون کراچی ] محمد یوسف بنوری شیخ الحدیث مدرسہ عربیہ اسلامیہ ٹاؤن - کراچی شیعوں کے تعلق علماء عامتہ السلمین کو ان لرزہ خیز الفاظ میں تنبیہ کرتے ہیں :- " بالجملہ ان رافضیوں تبرائیوں کے باب میں حکم یقینی قطعی اجماعی یہ ہے کہ علی الموم کفار مرتدین نہیں ان کے ہا تھ کا ذبیحہ مردار ہے.ان کے ساتھ مناکحت نہ صرف ترام بلکہ خالص زنا ہے.معاذاللہ مرد رافضی اور عورت مسلمان ہو تو یہ بخت قہر الہی ہے.اگر مردشتی اور عورت ان خبیشوں کی ہو جب بھی نکاح ہرگز نہ ہو گا محض زنا ہو گا.اولاد ولد الزنا ہوگی.باپ کا ترکہ نہ پائے گی اگرچہ اولاد بھی سنی ہی ہو.کہ شرعا ولد الزنا کا باپ کوئی نہیں.عورت نہ یہ کہ کی مستحق ہوگی نہ مہر کی کہ زانیہ کے لئے مہر نہیں.رافضی اپنے کسی قریب حتی کہ باپ بیٹے ماں بیٹی کا بھی ترکہ نہیں پاسکتائینی تو شستی کسی مسلمان بلکہ کسی کافر کے بھی.یہاں تک کہ خود اپنے ہم مذسیب رافضی کے ترکہ میں اس کا اصل کچھ چی نہیں.ان کے مرد عورت ، عالم، جاہل کسی سے میل جول اسلام کلام سخت کبیره اشد حرام جو ان کے علون عقیدوں پر آگاہ ہوکر بھی نہیں مان جانے
مهم بم یا ان کے کافر ہونے میں شک کرے با جماع تمام ائمہ دین خود کا فر بے دین ہے.اور اس کے لئے بھی یہی سب احکام ہیں جو ان کے لئے مذکورہ ہوئے.مسلمان پر فرض ہے کہ اس فتوی کو بگوش ہوش منیں.اور اس پر عمل کر کے بیچتے بیچتے ستی بنیں".فتوی مولانا شاہ مصطفیٰ رضا خاں - بجواله رساله به والرفضہ (۲) شائع کرده : نوری کتب خانه با نوار داتا صاحب لاہور پاکستان مطبوعہ.گلزار عالم پریس بیرون بھاٹی گیٹ لاہور - ۱۳۳ آج کل کے روافض تو عموما ضروریات دین کے منکر اور قطعا مرتد ہیں.ان کے مرد یا عورت کا کسی سے نکاح ہو سکتا ہی نہیں.ایسے ہی وہابی ، قادیانی ، دیوبندی، نیچری ، چکڑالوی، جملہ مرتدین ہیں کہ ان کے مرد یا عورت کا تمام جہان میں جب سے نکاح ہوگا مسلم ہو یا کافر اصلی یا مرتد ، انسان ہو یا حیوان محض باطل اور زنا خالص ہوگا.اور اولاد ولد الزنا الملفوظ حصہ دوم مته مرتبه مفتی اعظم مهند) اور اب دیو بندیوں کے متعلق علمائے عرب و عجم کا فتوی ملاحظہ فرمائیں.فرماتے ہیں :- ہابیہ دیو بند یہ اپنی عبارتوں میں تمام اولیاء ، انبیاء حتی کہ حضرت سید الاولین و آخرین صلی الہ تعالی علیہ وسلم کی اور خاص ذات باری تعالیٰ شانہ کی اہانت و ہتک کرنے کی وجہ سے قطعا مرند و کافر ہیں اور ان کا ارتداد و گفر سخت سخت سخت اشد درجہ تک پہنچ چکا ہے ایسا کہ جو ان مرتدوں اور کافروں کے ارتداد کفر میں ذرا بھی شک کرے وہ بھی انہیں جیسا مرتد اور کا فر ہے اور جو اس شک کرنے والے کے گھر میں شک کرے وہ بھی مرتد و کافر ہے مسلمانوں
دام کو چاہیے کہ ان سے بالکل ہی محترند و مجتنب رہیں ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا تو ذکر ہی کیا اپنے پیچھے بھی ان کو نماز نہ پڑھنے دیں.اور نہ اپنی مسجدوں میں گھسنے دیں نہ ان کا ذبیحہ کھائیں اور نہ ان کی شادی غمی میں شریک ہوں نہ اپنے ہاں ان کو آنے دیں.یہ بیمار ہوں تو عیادت کو نہ جائیں.مریں تو گا نے تو پنے میں شرکت نہ کریں مسلمانوں کے قبرستان میں جگہ نہ دیں.غرض ان سے بالکل احتیاط واجتناب رکھیں.یہ ہے حضرات علمائے اہل سنت کے فتووں کا خلاصہ اور یہ فتوی دینے والے صرف ہندوستان ہی کے علماء نہیں ہیں بلکہ جب وہابیہ دیوبندیہ کی عبارتیں ترجمہ کہ کے بھیجی گئیں تو افغانستان و خوا دیخارا و ایران و مصر و روم و شام اور تر معظمه و مدینه منوره و غیره تمام دیار عرب و گوفہ و بغداد شریف.غرض تمام جہان کے علمائے اہل سنت نے بالا تفاق یہی فتویٰ دیا ہے.کہ ان عبارتوں سے اولیاء انبیاء اور خود خدائے تعالیٰ شانہ کی سخت سخت اشد اہانت و توہین ہوئی.پس و پایه دیو بند یه سخت سخت اشد مرند و کا فر ہیں ایسے کہ جو ان کو کافر نہ کہے خود کا فر ہو جائے گا اس کی عورت اس کے عقد سے باہر ہو جائے گی اور جو اولاد ہوگی وہ حرامی ہوگی اور ازروئے شریعیت ترکہ نہ پائے گی.المعلن خاکسار محمد ابراہیم بھاگلپوری.با اہتمام شیخ شرکت تے حسین مطبوعہ برقی پریس - اشتیاق منزل مت ہیوٹ روڈ لکھنو.) تفصیل کے لئے دیکھئے (0).- f ، تقدیس الوكيل (۲) المنيف المسلول (۳) عقائد و ابیه دیو بندی (۴) تاریخ دیوبندید - حسام الحرمین.(۶) فتاوی الحرمین (4) صوارم الهنديه على مر شياطين الديوبنديه و غیره و شیر
یہ محض نمونہ کے طور پر بڑے اختصار کے ساتھ بہت سے طویل فتاوی میں سے چند اقتباسات پیش ہیں جن سے ہر قاری نے تکفیر کے فتووں میں علماء کے متشددانہ رویہ کا قدرے اندازہ کر لیا ہو گا مگر جماعت احمدیہ کا ایسا متشددانہ موقف نہیں ہے.اس سلسلہ میں ہمارا بعینہ وہی موقف ہے جو ان سب علماء کا امام مہدی کے منکرین کے متعلق ہے.ہم یقین رکھتے ہیں کہ امام مہدی وعدوں کے مطابق مبعوث ہوئے ہیں اس لئے ان کے انکار سے کفر لازم آتا ہے اور بعینہ یہی عقیدہ ان علماء کا ہے.اور یوسف لدھیانوی صاحب کا خصوصیت سے ہے.ان کے نزدیک امام مہدی جب بھی تشریف لائے گا توان کا منکر کافر کہلائیگا.فرق صرف یہ ہے کہ ہم اس منطقی نتیجہ و تسلیم کرنے کے باوجود اس کو غیرمسلم قرار نہیں دیتے.یہ مولوی ہمارے اوپر سراسر جھوٹ باندھتے ہیں.آپ ہمیشہ ہمارے محاورے میں غیر احمدی مسلمان اور دوسرے سلمان کی اصطلاحیں پڑھیں گے اور جب بھی جماعت احمدیہ کے لٹریچرمیں غیر حدی کالفظ لکھا جاتا ہے توان معنوں میں کہ دوسرے مسلمانوں میں سے وہ مسلمان جو امام مہدی کے منکر ہیں.پس وہ شخص جو مول اله صلی الہ علی ا م ا ا ا ا ا ا ا اور وہ امام مہدی کا منکر ہوا سے ہم اسلام سے خارج نہیں قرار دیتے بلکہ غیر احمدی مسلمان کہتے ہیں جو کفر دون گھر والے مسئلہ سے تعلق رکھنے والی بات ہے.اس کفر سے یہ مرادلی جاتی ہے کہ حقیقی اور سچا مسلمان نہیں رہا کیونکہ اس نے خدا کے بھیجے ہوئے ایک امام کا انکار کر دیا ہے لیکن اس کے باوجود شہر سلمان کو یہ حق دیتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان قرار د سے اور سمجھتے ہیں کہ خدا نے یہ حق دیا ہے اور کوئی یہ حق چھین نہیں سکتا.حتی کہ اگر واقعہ کسی فرقہ کے مسلمان کو غیرمسلم یقین کرلیں تو ہمارے اس یقین کا ہرگز یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ اسے سلمان کہلانے کے حق سے محروم کر دیں.جماعت احمدیہ کایہ عقیدہ توصرف معقول ہے بلکہ سوفی صدی قرآن کے اس فرمان کے مطابق ہے :- قَالَتِ الْأَعْرَابُ أَمَنَاء قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوْا وَلَكِنْ تُوَلُوا أَسْلَمْنَا
وَلَمَّا يَدْخُلِ الإيْمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ (الحجرات : آيت ها) اعراب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے توان سے کہد سے کر تم حقیقتہ ایمان نہیں ائے لیکن تم یہ کہا کہ و ہ ہم اسلام سے آئے کیونکہ ابھی ایمان تمہار سے دلوں میں داخل نہیں ہوا.لیکن افسوس کہ ان مولویوں کا یہ موقف نہیں بلکہ جن دوسرے فرقوں کو یہ کافر کہتے ہیں انہیں غیر سلم بینی کلیتہ اسلام سے خارج ہی سمجھتے ہیں.احمدیوں کے ساتھ رعائتی سلوک لدھیانوی صاحب نے اپنی اس تقریریں یہ احسان بھی جتایا ہے کہ :.ہم احمدیوں سے رعائتی سلوک کر رہے ہیں اور ان پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی " مٹا حیرت ہے مولوی صاحب کسی خطہ پاکستان پر زندگی بسر کر رہے ہیں.ان مولوی صاحبان کی کوششوں کی وجہ سے تو ضیاء الحق ڈکٹیٹر نے جماعت پر یہ پابندیاں لگارکھی ہیں جن کی فہرست یہ ہے :- م اسلامی اصطلاحات کا استعمال نہیں کرسکتے مثلاً صحابی خلیفہ المومنین خلیفتہ اسلامی امیرالمونین رضی اللہ عنہ اہل بیت.ام المومنین مسجد وغیرہ کے الفاظ استعمال نہیں کر سکتے.اذان نہیں دے سکتے.بالواسطہ یا بلا واسطہ مسلمان ہونا ظاہر نہیں کر سکتے.م تبلیغ اور اپنے عقائد کا اظہار نہیں کر سکتے.وغیرہ وغیرہ ایسی پابندیاں ہیں جن کا ہر کس و ناکس کو علم ہے اور آر ڈینس کی صورت میں چھپا ہوا ہے.
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جان بوجھ کر جھوٹ بولتے ہیں.جو شخص اس چھپے ہوئے قانون کا انکار کر دے تو اندازہ کریں کہ یہ جیسی دشمنی کی اس حد تک بڑھتے ہوئے ہوں اُن سے کیا سلوک کرتے ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں سے بھی یہ ہی سلوک کرتے ہیں.باقی جو احمدیوں پر مظالم کا قصہ ہے.ہر روز پاکستان کے اخباروں میں چھپتا رہتا ہے کہ کوئی کلمہ پڑھنے پر گرفتار کیا جارہا ہے کسی کے گھر ے بسم اللہ بھی مل جائے تو پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے.بے شمار داستانیں ہیں ان مظالم کی.قرآن کریم کی آیت تک رکھنا ایک جرم بن کر رہ گیا ہے.صرف بروزنامہ نوائے وقت کے ان اعداد و شمار کو ملاحظہ کر لیجئے جب کسی مطابق تین ہزارہ ایک سو تیرہ احمدیوں کو انہیں باتوں کی وجہ سے گرفتار کیا گیا لیکن گرفتار ہونے والوں کی اصل تعداد نوائے وقت کیسے ان اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے اور نشاء کے بعد اب تک تو یہ تعداد اور بھی بڑھ جاتی ہے ۹۴ار سے مشورہ کے محدود ریکارڈ کو اس اخبار نے اس طرح پیش کیا ہے :- ۱۲۵ گرفتاریاں خود کو مسلمان کہنے پر ١٩٨٤ء ۵۸۸ گرفتاریاں کلمہ طبقیہ کا بیج لگانے پر ion گرفتاریاں مسجد پر کلمہ لکھنے پر شعائر اسلامی کے استعمال پر ہوئیں.۲۰۴ گرفتاریاں اذان کہنے پر 24 گرفتاریاں مزید برآن ۱۴۲۱ احمدیوں کو دیگر مقدمات میں گرفتار کیا گیا.١٩٨٨ (نوائے وقت رستمبر شه) یہ سب باتیں عامتہ الناس کے علم میں ہیں اور یہ مولوی صاحب کہتے ہیں کہ احمدیوں پر کوئی پابندی نہیں.مولوی صاحب کو بھی ان کا پتہ تو ضرور ہو گا مگر ان کی عادت نہیں بدلتی.چنانچہ ہم حکومت پاکستان سے درخواست کرنی چاہتے ہیں کہ وہ یہ دعائیں " احمدیوں سے واپس لیکر
ہمارے ان مخالف مولویوں اور ان کے پیرو کاروں کو عنایت کر دے اور ہماری بجائے اسی طرح ان سے رعایتی سلوک کر ہے.سے راگھے دوہی جاتے ہیں جن کو آسماں گاتا نہیں لدھیانوی صاحب سامعین کو نصیحت کرتے ہیں کہ :.ہماری غیرت کا اصل تقاضا تو یہ ہے کہ دنیا میں ایک قادیانی بھی زندہ نہ بیچے کم از کم اتنا ہونا چاہئیے کہ ہم قادیانیوں سے مکمل قطع تعلق کریں.ان کو اپنی کسی مجلس میں کسی محفل میں برداشت نہ کریں (۲۲) انگریزی محاورہ ہے CAT IS OUT OF THE BAG اب ہمیں سمجھ آئی ہے کہ مولانا کے نزدیک رعایت کے کیا معنی ہیں.دیکھیں کرکس قدر رعائتی سلوک ہے کہ احمدیوں سے رعائتی سلوک کرنے کی دوسروں کو تلقین فرما رہے ہیں.ہمارا پھر وہی جواب ہے کہ مولوی صاحب ابیہ رعایت ہے اور اپنے مریدوں سے جائزہ رکھئے.اگر یہی رعایتی سلوک ہے تو اللہ تعالیٰ آپ سے ایسی رعایت فرمائے.جہاں تک آپ کی غیرت کے اصل تقاضے کا تعلق ہے تو آپ کے دل کی تو یہ حسرت ہے کہ ایک بھی قادیانی دنیا میں زندہ نہ بیچے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے دل کی دھڑکنیں تقدیر الہی کے مخالف چل رہی ہیں اور آپ حضرت مرزا صاحب کے اس شعر کے مصداق ہیں کہ : راگ وہ گاتے ہیں جس کو آسماں گاتا نہیں وہ اراد سے ہیں کہ جو ہیں یہ خلافت شہر یار چنانچہ یہ عجیب بات ہے کہ آپ کے ہم پیالہ علماء نے جب بھی کوشش کی کہ جماعت کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں تو اس کے بر خلاف خدا تعالیٰ نے جماعت کو بہت ترقی دی اور آپکے پیرو مرشد
ضیاء صاحب نے جب یہ اعلان کیا کہ میں اور میری حکومت دنیا سے احمدیوں کا قلع قمع کرنے پر تگے ہوئے ہیں.اس وقت تونے سے زائد ملکوں میں جماعت نہ تھی اور ان کے اس اراد سے کے اظہار کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے اب تک ۲۴ مزید ممالک میں جماعت پھیل چکی ہے اور ہر جگہ رفتار اس قدر تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے کہ اگر آپ کو علم ہو جائے تو آپ کی حرکت قلب بند ہو جائے.پس یہ بات آپ کو تکلیف دینے کی خاطر نہیں سمجھانے کے لئے لکھ رہے ہیں کہ اگر آپ اسی طرح متقی پر بہتر ا ر اور اسلام کی خدمت کرنے والے ہیں جیسا کہ آپ سمجھتے ہیں در جماعت احمدیہ ویسی ہی ہے جیسا کہ آپ اس پر بہتان باندھ رہے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ آپ کی ہر تمنا کو نا کام کرتا چلا جاتا ہے اور جماعت کو بڑھاتا چلا جارہا ہے.ذاعتبروا یا اولی الابصار یہاں ہم اولوا الباب نہیں لکھ سکتے کیونکہ اس رسالہ کے بعد آپ خواہ کسی زمرہ میں آتے ہوں مولانا ! آپ اولوا الباب کے زمرہ میں نہیں آتے.ایک اور جھوٹا الزام مولوی لدھیانوی صاحب نے ایک نہایت ہی جھوٹا اور بے بنیاد الزام جماعت احمدیہ پرپہ لگایا ہے کہ جماعت گویا چودہ صدیوں کے مسلمانوں کو کا فر قرار دیتی ہے.یہ بھی ان کے افتراء کی ایک قسم ہے البتہ انہوں نے خود ضرور چودہ سو سال کے مسلمانوں پر انتہام لگائے ہیں.جماعت احمدیہ کو قائم ہوئے تو سو سال ہوئے ہیں اور جماعت نے دوسروں کی کفر بازی میں کبھی کسی کی تصدیق نہیں کی.جماعت احمدیہ تو صرف یہ کہتی ہے کہ اگر یہی پیچھے امام مہدی ہیں تو خدا کے نزدیک اسکا منکر کا فر ہے.جب حضرت مرزا صاحب کا دعوی ہی شاہ کا ہے تو پھر گذشتہ ۴ صدیوں کے مسلمانوں کو کس طرح تم کیا جاسکتا ہے.یہ مولوی صاحب کے افتراء کی ایسی قسم ہے جس سے وہ
۵۱ عامتہ الناس میں اشتعال پھیلانا چاہتے ہیں.گذشتہ صدیوں کے مسلمانوں کے بارہ میں حضرت مرزا صاح بنے جو عظیم جماعت احمدیہ کو دی، وہ یہ ہے اور یہی جماعت احمدیہ کا گذشتہ چودہ سو سال کے مسلمانوں کے بارہ میں عقیدہ ہے لیکن یہ مولوی صاحب جھوٹ بول رہے ہیں.حضرت مرزا صاحب اہلِ بیت نبوی کے متعلق فرماتے ہیں سے جان و دلم فدائے جمال محمد است خاکم نشار کو چر آل محمد است ر در ثمین فارسی مث نظارت اشاعت (بوه ) کر میری جان اور دل محمدمصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے حال پر نا ہیں اور میری خاک آلِ محمد کے کوچے پر قربان ہے.صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت نے اپنے رسول مقبول کی راہ میں ایسا اتحاد اور ایسی روحانی یگانگت پیدا کر لی تھی کہ اسلامی اخوت کی رو سے بیچ بیچ عضو واحد کی طرح ہو گئی تھی اور ان کے روزانہ برتاؤ اور زندگی اور ظاہر اور باطن میں انوار نبوت ایسے رچ گئے تھے کہ گویا وہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عکسی تصویر میں تھے.د فتح اسلام مشت روحانی خزائن جلد ۳ صدا نظارت اشاعت دیوه ) ائمہ اثناعشر ائمہ اثنا عشر نہایت درجہ کے مقدس اور راستبانہ اور ان لوگوں میں سے
تھے جن پر کشف صحیح کے درواز سے کھولے جاتے ہیں ؟ دازاله او ما حصر دوم من - روحانی خزائن جلد یا نظارت اشاعت کبوده) ائمہ اربعہ یہ چار امام اسلام کے واسطے مثل چار دیواری کے تھے ؟ البدر ۱۳ نومبر ۱۹۰۵ء ص۳) صلحائے امت ہمارے سید مولی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے آج تک ہر ایک صدی میں ایسے باخدا لوگ ہوتے رہے جن کے ذریعہ سے اللہ تعالے غیر قوموں کو آسمانی نشان دکھلا کر ان کو صدایت دیتیا رہا ہے.جیسا کہ سید عبد القادر جیلانی اور ابوالحسن خرقانی اور ابو یزید بسطامی اور جنید بغدادی اور محی الدین ابن العربی اور ذوالنون مصری اور معین الدین چشتی اجمیری اور قطب الدین بختیار کاکی اور فرید الدین پاک ٹینی اور نظام الدین دہلوی اور شاہ ولی اللہ دہلوی اور شیخ احمد سرہندی رضی الله مهم و رضواعنہ.اسلام میں گزرے ہیں اور ان لوگوں کا ہزار ہا تک عدد پہنچا ہے اور اس قدر ان لوگوں کے خوارق علماء اور فضلاء کی کتابوں میں منقول ہیں.کہ ایک متعصب کو باوجود سخت تعصب کے آخر ماننا پڑا ہے کہ یہ لوگ صاحب خوارق و کرامات تھے......جس قدر اسلام میں ، اسلام کی تائید میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کی گواہی میں آسمانی نشان بذریعہ اس امت کے اولیاء کے ظاہر
۵۳ ہوئے اور مہورہے ہیں ان کی نظیر دوسرے مذاہب میں ہرگزہ نہیں " پھر منبر مایا : د کتاب البریه قلت ۴ روحانی خزائن جلد ۱۳ ۹۲۹۰- نظارت اشاعت ربوه) درمیانی زمانہ کے صلحائے امت محمدیہ بھی باوجود طوفان بدعات کے ایک دریائے عظیم کی طرح ہیں.تحفہ گولڑویہ مش با راول مولوی صاحب کی ایک بھڑی مثال مولوی صاحب اپنے اختیرا کو اب ایک مثال سے ثابت کرنے کے لئے کہتے ہیں.کہ مثال تو بھدی سی ہے پھر کہتے ہیں کہ ایک باپ کے دس بیٹے تھے جو اس کے گھر پیدا ہوئے وہ ساری عمران کو اپنا بیٹا کہتا رہا.باپ مر گیا.اس کے انتقال کے بعد ایک غیر معروف شخص اُٹھا اور یہ دھوئی کیا کہ میں مرحوم کا صیح بیٹا ہوں.یہ دسوں کے دستی لڑکیے انس کی ناجائز اولاد ہیں.آگے جاکر مولوی صاحب تعلی کرتے ہیں کہ تیرہ صدیوں کے مسلمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی اور دھی.چودھویں صدی کے شروع میں مرزا غلام احمد قادیانی کھڑا ہوا.اس نے کہا کہ حضور کی روانی اولا د صرف میں ہوں.باقی سارے مسلمان کا فر ہیں " لدھیانوی مولوی صاحب ! آپ نے ثابت کر دیا ہے کہ آپ عقل سے بالکل عاری ہیں.مثال آپ نے ایسی دی ہے کہ اپنے جال میں بری طرح پھنس چکے ہیں اور مجال نہیں کہ اپنے ہی پھینکے ہوئے جال سے بچ سکیں.آپکے دعاوی اور طرفہ کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ قرآن کریم پر آپ کی نظر ہے.نہ احادیث نبویہ پر اور نہ سنت رسول پرہ.اور نہ ہی اہل اللہ کے اقوال پر نظر ہے.اور حمل کرنے کا آپکے "
۵۴ ایسا جوش ہے کہ دیکھتے نہیں کہ حملہ کس پر ہو رہا ہے اور اس کی کیا عواقب ہوں گے.آپ نے جو مشال پوشش بچوں والی پیش کی ہے، ایسی بے ہودہ اور لغو مشال کو دینی مسائل میں پیش کرتے ہوئے آپ کو شرم آنی چاہیئے تھی.اول تو اسی سے پتہ چلتا ہے کہ آپکے ذہن میں کیا ہے اور آپ کی سوچ کیا ہے.کیا یہ شال پیش کرنے سے پہلے آپ کو یاد نہیں آیا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی الہ علیہ وسلم نے فرمایا.تَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةٌ کہ میری اُمت کے تہتر فرقے ہوں گے.مولوی صاحب ! آپ ون کا رونا رو رہے ہیں اور حضرت اقدس محرمصطفی صلی الہ علیہ وسلم امت کے تہتر فرقوں میں بٹ جانے اور منتشر ہوجانے کی تنبیہ فرار ہے اور آخر میں یہ فرمار ہے ہیں :.كُلُّهُمْ فِي النَّارِ الَّا مِلَّةَ وَاحِدَةً - ر جامع ترمذی کتاب الایمان باب افتراق هذه الامة ) کہ سوائے ایک کے باقی سب آگ میں ہوں گے.کوئی بڑا ہی بد نخبت انسان ہو گا جو اس پر ایسی پھبتی کسے جیسی کہ آپنے جسارت کی ہے کہ " کسی کے بہتر بیٹے تھے جو اس کے گھر پیدا ہوئے وہ ساری عمران کو اپنا بیٹا کہتا رہا.باپ کے بعد ایک غیر معروف شخص اُٹھا اور یہ دعویٰ کیا کہ وہ صحیح بیٹا ہے.علاوہ انہیں آپ جانتے ہیں کہ ہر فرقہ امت محمدیہ کا یہی دعویٰ ہے کہ وہ حق پر ہے اور دوسرے غلطی پر ہیں بلکہ اس قدر شدید غلطی پر ہیں کہ کافر ہو گئے ہیں.اسے عقل کے کور سے مولوی صاحب ! کیا آپ کو اس موقعہ پر وہ بد بخت اور کمینی مشال چسپاں ہوتی دکھائی نہ دی.پس اذا لم تَسْتَعِى فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ - جب تیرے اندر حیا ہی نہیں رہی تو جہ تیرا دل چاہے کہ.ومشكواة - باب الرفق والحياء وحسن الخلق) -
۵۵ مولوی صاحب! آپ نے تو یہ دعوی کیا ہے کہ جھوٹے کو اس کی ماں تک پہنچا دیا ہے.ہم نے تو آپ کے ہر جھوٹ کو کلیتہ طشت از بام کر دیا ہے.لیکن آپ کے جھوٹ کی اتنی نسلیں ہیں کہ ہم کس کس ماں کا نام لیں.بہر حال یہ بات تو خوب روز روشن کی طرح کھل چکی ہے کہ ماضی میں اللہ تعالیٰ کے مقدس ہندوں کے خلاف وساوس اور خباثت کی ماؤں کے بیچے جس قسم کے جھوٹ بھی بولے گئے ، جناب نے ان میں سے کسی جھوٹ کو اختیار کرنے سے کراہت محسوس نہیں کی.اور آپ کی ہر مکروہ کوشش کو ہم نے ننگا کر کے دکھا دیا ہے.اتنی ماؤں تک پہنچانے کی بجائے ہم قرآن کریم کا محاورہ استعمال کرتے ہیں جو بزرگوں پر تمسخر کرنے والے ایسے اندھے مخالفین کی ایک ماں کی خبر ان الفاظ میں نہیں دیتا ہے.فاما هَادِيَة پس بجائے اس کے کہ سو مختلف ماؤں تک ہم آپ کو پہنچاتے رہیں.ہم اس سب پر حاوی اور سب سے آخری ماں کی گود تصاویہ کے سپرد کر کے آپ سے اجازت لیتے ہیں.لیکن جاتے جاتے اس امر کی طرف متوجہ کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ انگریز توان کی ماں بنیں گے جن کے مصنوعی خدا کو ان کی طرح آپ نے بھی آسمان پر چڑھا رکھا ہے.وہ ان کی ماں کیسے بن گئے جنہوں نے اُن کے خُدا کے اکلوتے بیٹے کی موت کا اعلان کر کے ہمیشہ کے لئے زمین میں سلا دیا.تمت بالخير