Muqarban-eIlahi Ki Surkhroi

Muqarban-eIlahi Ki Surkhroi

مقربان الہی کی سرخروئی

روح کافر گری کے ابتلأ میں
Author: Other Authors

Language: UR

UR
بزرگان اسلام

خدا تعالیٰ کے محبوبوں، مقربوں اور مقدسوں کو ہمیشہ امتحان اور ابتلاء میں ڈالا جاتا ہے تا دنیا پر ثابت ہوکہ ہر قسم کے مصائب اور مشکلات کے باوجود وہ اپنے دعویٰ محبت الٰہی میں کیسے ثابت قدم نکلے۔ اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کے صلحاء، اولیاء، ابدال، اقطاب اور محدثین و مجددین کے امتحان کا یہ پرحکمت انتظام جاری فرمایا کہ ان کی آزمائش کے لئے ابتدائے اسلام سے ہی ایک طبقہ میں کافر گری کی ذہنیت پیدا کردی۔ روح تکفیر نے اسلام کی بہت سی بلند پایہ اور مایہ ناز شخصیتوں اور برگزیدہ ہستیوں کا خون بہایا۔ امت محمدیہ کی تاریخ میں سے مختلف صدیوں سے ایسے خوش نصیب مقربان الٰہی کے حالات و واقعات کا تذکرہ کیا گیا ہے تا اسلام کی تاریخ کے اس بظاہر دردناک مگر ایمان افروز اوراق سے اپنے ایمانوں میں تقویت کے سامان پائیں۔


Book Content

Page 1

مقربان الہی کی سرخروئی روح کافر گری کے ابتلاء میں طابع و ناشر دوست محمد شاهد ربوه

Page 2

مقربان الہی کی سرخروئی روح کافر گری کے ابتلاء میں طابع و ناشر دوست محمد شاهد ربوه ۲۹۷۶۸۷ درم

Page 3

기이에 67400 مُقتربان البہی کی سرخروئی روح کا فر گرمی کے ابتدا ہیں اسب ناوک نے تیرے میں نہ چھوڑا زمانے میں تڑپے ہے مرغ قبله نما آشیانے میں

Page 4

V = = ۱۴ ۱۴ ۱۴ ۱۴ ۱۵ ۱۶ 12 14 14 ۱۸ IA 14 19 فهرست مضمون نمبر شمار دیباچه پہلی صدی ہجری : حضرت عبداللہ ابن عباس نے سید الشهدا و حضرت امام مبین کم علیه السلام حضرت علی کرم اللہ وجہ دوسری صدی ہجری : حضرت جنید بغدادی حضرت محمد الفقيه حضرت امام ابو حفیظ حضرت امام مالک بن انس حضرت امام شافعی تیسری صدی ہجری : حضرت امام بخاری حضرت ذوالنون مصرى حضرت سهل نستری حضرت احمد راوندی حضرت ابوسعید خراز 1.۱۲ ۱۳ ۱۴

Page 5

صفی 14 ۲۰ ۲۱ ۲۲ ۲۳ ۲۳ ۲۴ ۲۴ ۲۴ ۲۴ ۲۷ ۲۸ ۲۸ ۲۸ ۲۹ ۳۱ ۳۲ ۳۳ ها I 14 14 مضمون حضرت امام احمد بن حنبل حضرت امام نسائی حضرت ابن حنان حضرت !ل العباس بن عطاء حضرت ابو الحسن النوری چوتھی صدی ہجری : حضرت منصور حلاج حضرت شیخ ابو الحسن اشعری پانچویں صدی ہجری : حضرت ابو سیر شمیلا حضرت ابو عثمان مغربی حضرت امام غزالی حضرت امام ابن حزم چھٹی صدی ہجری : حضرت سید عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ حضرت فرید الدین عطار حضرت علامه ابن رشد حضرت صوفی شعیب بن الحسن المغربي حضرت محی الدین ابن عربی شیخ الاشراق حضرت شهاب الدین سهروردی ساتویں صدی ہجری : حضرت شیخ ابو الحسن شاذلی ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ I L S I I I ٣٠ ۳

Page 6

نمبر شمار ۳۳ م ۳۵ ۳۶ ۳۸ ٣٩ مضمون حضرت شیخ عز الدين عبد العزيز حضرت نظام الدین اولیاء حضرت امام ابن تیمی حضرت شمس تبریز حضرت مولانا جلال الدین رومی آٹھویں صدی ہجری : حضرت امام ابن قیم حضرت تاج الدین سبکی " نویں صدی ہجری : حضرت مولانا عبد الرحمن جامی صفح ۳۲ ۳۴ ۳۵ ۳۵ ۳۵ ۳۵ ۴۱ ۴۲ ۴۳ بهم بم ۴۵ ماکے کئے گئے حضرت سید محمد جو نیوری حضرت شیخ علائی دسویں صدی ہجری : حضرت احمد بہاری حضرت صوفی با یزید سرحدی ۳۶ ۳۶ ۳۶ ۳۶ ۳۷ ۳۸ ۳۸ ۳۸ ۳۸ ۳۸ گیارھویں صدی ہجری : حضرت مجدد الف ثانی حضرت سرمد حضرت محمد بن ابراہیم شیرازی بارھویں صدی ہجری : حضرت معصوم علی شاہ میر " حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ۳۹ بم بهم ۴۱

Page 7

نمبر شمار ۵۰ ۵۲ ۵۳ ۵۴ ۵۵ مضمون حضرت مرزا مظہر جان جاناں حضرت محمد بن عبد الوہاب تیرھویں صدی ہجری : ۵۶ خاتمہ کلام حضرت سیّد احمد صاحب بریلوی حضرت شاہ اسمعیل شہید حضرت مولوی عبداللہ غزنوی حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی صفحه ۲م وم سونم ۴۳ ۴۴ ۴۴ ۴۶

Page 8

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمُ خداوند تعالیٰ کے محبوبوں مغربوں اور مقدسوں کو ہمیشہ امتحان اور ابتداء میں ڈالا جاتا ہے تاکہ دنیا پر ثابت ہو کہ ہر قسم کے مصائب اور مشکلات کے باوجود وہ اپنے دعوئی محبت الہی میں کیسے ثابت قدم نکلے اور مصائب کے زلزلے اور حوادث کی آندھیاں اور قوموں کا ہنسی ٹھٹھا کرنا اور دنیا کی اس سے سخت کراہت اُن کے پائے استقلال میں ذرہ برابر بھی لغزش پیدا نہ کرسکی ہے صادق آن باشد که ایام بلا می گزارد با محبت باون چنانچہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ تحریر فرماتے ہیں :- " ابتلاء جو اوائل حال میں انبیاء اور اولیاء پر نازل ہوتا ہے اور باوجود عزیز ہونے کے ذلّت کی صورت میں اُن کو ظاہر کرتا ہے اور باوجود مقبول ہونے کے کچھ مردود سے کر کے اُن کو دکھاتا ہے.یہ ابتلاء اس لئے نازل نہیں ہوتا کہ انکو ذلیل اور خوار اور تباہ کرے یا صفحہ عالم سے اُن کا نام و نشان مٹا دیوے کیونکہ یہ تو یہ گر ممکن ہی نہیں کہ خدا وند عز و مبل اپنے پیار کرنے والوں سے دشمنی کرنے لگے اور اپنے بچے اور وفادار عاشقوں کو وقت کے ساتھ ہلاک کر ڈالے بلکہ حقیقت میں وہ ابتلاء کہ جو شیر تبر کی طرح اور سخت تاریکی کی مانند نازل ہوتا ہے اسلئے نازل ہوتا ہے کہ تا اُس برگزیدہ قوم کو قبولیت کے بلند مینار تک پہنچاوے اور المی معارت کے بار یک دقیقے اُن کو کھا وے میں سنت اللہ ہے جو قدیم سے خد میقات

Page 9

اپنے پیارے بندوں کے ساتھ استعمال کرتا چلا آیا ہے زبور میں حضرت داؤد کی ابتدائی حالت میں عاجزانہ نعرے اس سنت کو ظاہر کرتے ہیں اور انجیل میں آزمائش کے وقت میں حضرت مسیح کی غریب نہ تفرعات اسی عادت اللہ پر دال ہیں اور قرآن شریف اور احادیث نبویہ میں جناب فخر الرسل کی عبودیت سے ملی ہوئی ابتهالات اسی قانونِ قدرت کی تصریح کرتے ہیں.اگر یہ ابتلاء درمیان میں نہ ہوتا تو انبیاء اور اولیاء آن مدارج عالیہ کو ہرگز نہ پا سکتے کہ جو ابتلاء کی برکت سے انہوں نے پالئے.ابتلاء نے اُن کی کامل وفاداری اور ستقل ارادے اور جانفشانی کی عادت پر مہر لگا دی اور ثابت کر دکھایا کہ وہ آزمائش کے زلازل کے وقت کس اعلیٰ درجہ کا استقلال رکھتے ہیں اور کیسے نیچے وفادار اور عاشق صادق ہیں کہ اُن پر آندھیاں چلیں اور سخت سخت تاریکیاں آئیں اور بڑے بڑے زلزلے اُن پر وارد ہوئے اور ذلیل کئے گئے اور جھوٹوں اور مکاروں اور بے عزتوں میں شمار کئے گئے اور اکیلے اور تنہا چھوڑے گئے یہاں تک کہ ربانی مردوں نے بھی جن کا اُن کو بڑا بھروسا تھا کچھ مدت تک منہ چھپا لیا اور نمدا تعالیٰ نے اپنی مرتبیانہ عادت کو بہ یکبارگی کچھ الیسا بدل دیا کہ جیسے کوئی سخت ناراض ہوتا ہے اور ایسا انہیں تنگی و تکلیف نہیں چھوڑ دیا کہ گویا وہ سخت مورد غضب ہیں اور اپنے تئیں ایسا خشک سا دکھلایا کہ گویا وہ ان پر ذرا مہربان نہیں بلکہ ان کے دشمنوں پر مہربان ہے اور انکے ابتلاؤں کا سلسلہ بہت طول کھینچ گیا ایک کے ختم ہونے پر دوسرا اور دوسرے کے ختم ہونے پر تیسرا ابتلاء نازل ہوا.غرض جیسے بارش سخت تاریک رات میں نہایت شہرت و سختی سے نازل ہوتی ہے ایسا ہی آزمائشوں کی بارشیں اُن پر ہوئیں پر وہ اپنے بچے اور مضبوط ارادہ سے باز نہ آئے اور سست اور دل شکستہ نہ ہوئے بلکہ جتنا مصائب و شدائد کا بار ان پر پڑتا گیا اتنا ہی انہوں نے آگے قدم بڑھایا اور جس قدر وہ توڑے گئے اُسی قدر وہ مضبوط ہوتے گئے اور جس قدر انہیں مشکلات راہ کا خون دلایا گیا اُسی قدر اُن کی ہمت بلند اور اُن کی شجاعت "

Page 10

ذاتی جوش میں آتی گئی ہاں آخر وہ ان تمام امتحانات سے اول درجہ کے پاس یافتہ ہو کر نکلے اور اپنے کامل صدق کی برکت سے پورے طور پر کامیاب ہو گئے اور عزت اور حرمت کا تاج اُن کے سر پر رکھا گیا اور تمام اعتراضات نادانوں کے ایسے حباب کی طرح معدوم ہو گئے کہ گویا وہ کچھ بھی نہیں تھے.غرض انبیاء و اولیاء ابتلاء سے خالی نہیں ہوتے بلکہ سب سے بڑھ کر انہیں پر ابتلاء نازل ہوتے ہیں اور انہیں کی قوت ایمانی ان آزمائشوں کی برداشت بھی کرتی ہے عوام الناس جیسے خُدا تعالیٰ کو شناخت نہیں کر سکتے ویسے اُس کے خالص بندوں کی شناخت سے بھی قاصر ہیں بالخصوص آن محبوبان الہی کی آزمائش کے وقتوں میں تو عوام الناس بڑے بڑے دھوکوں میں پڑ جاتے ہیں گویا ڈوب ہی جاتے ہیں اور اتنا صبر نہیں کر سکتے کہ اُن کے انجام کے منتظر رہیں.عوام کو معلوم نہیں کہ اللہ جل شانہ جس کو دے کو اپنے ہاتھ سے لگاتا ہے اُس کی شاخ تراشی اس مرض سے نہیں کرتا کہ اس کو نابود کر دیوے بلکہ اس غرض سے کرتا ہے کہ تا وہ پودہ پھول اور پھل زیادہ لاو سے اور اس کے برگ اور بار میں برکت ہو.پیس خلاصہ کلام یہ کہ انبیاء اور اولیاء کی تربیت باطنی اور کمیل روحانی کے لئے ابتداء کا اُن پر وارد ہونا ضروریات سے ہے اور ابتلاء اس قوم کے لئے ایسا لازم حال ہے کہ گویا ان ربانی سپاہیوں کی ایک روحانی وردی ہے جس سے یہ شناخت کئے جاتے ہیں " سبز اشتهار صفحه التا ۱۳۴) حضرت اقدس علیہ السّلام نے ابتلاء کے اس فلسفہ پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے نہایت لطیف اور عارفانہ رنگ میں یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ :.لاکھوں مقدسوں کا یہ تجربہ ہے کہ قرآن شریف کے اتباع سے برکاتِ الہی

Page 11

" دل پرنازل ہوتی ہیں اور ایک عجیب پیوند موٹی کریم سے ہوجاتا ہے.خدائے تعالیٰ کے انوار اور الہام اُن کے دلوں پر اُترتے ہیں اور معارف اور نکات اُن کے مونہہ سے نکلتے ہیں ایک قومی تو تحل اُن کو عطا ہوتی ہے اور ایک محکم یقین اُن کو دیا جاتا ہے اور ایک لذیذ محبت الہی جو لذت وصال سے پرورش یا ب ہے اُن کے دلوں میں رکھی جاتی ہے.اگر اُن کے وجودوں کو ہاون مصائب میں پیا جائے اور سخت شکنجوں میں دے کر نچوڑا جائے تو اُن کا عرق بجز حب الہی کے اور کچھ نہیں.دنیا اُن سے ناواقف اور وہ دنیا سے دور تر و بلند تر ہیں.خدا کے معاملات اُن سے خارق عادت ہیں انہیں پر ثابت ہوا ہے کہ خُدا ہے اُنہیں پر کھلا ہے کہ ایک ہے.جب وہ دُعا کرتے ہیں تو وہ اُن کی سنتا ہے.جب وہ پکارتے ہیں تو وہ اُن کو جواب دیتا ہے.جب وہ پناہ چاہتے ہیں تو وہ اُنکی طرف دوڑتا ہے.وہ باپوں سے زیادہ اُن سے پیار کرتا ہے اور ان کی در و دیوار پر برکتوں کی بارش برساتا ہے.پس وہ اُس کی ظاہری و باطنی و روحانی وجسمانی تائیدی سے شناخت کئے بہاتے ہیں اور وہ تاریک میں ان میں ان کی مدد کرتا ہے کیونکہ وہ اُس کے اور وہ اُن کا ہے یا سر چشم آریہ، حاشیه ص ۲۴۲ بار سوم ] تصنیف حضرت باقی مسلسلہ عالیہ احمدیہ مر عن اسمه و جل شانہ کافر گری کی ذہنیت اور صلحائے امت نے امت مسلمہ کے صلحاء، اولیاء، ابدالی اقطاب اور محدثین و مجددین کے امتحان کا یہ پر حکمت انتظام جاری فرمایا کہ اگنی کی آزمائش کے لئے ابتدائے اسلام ہی سے ایک طبقہ میں کافرگیری کی ذہنیت پیدا کر دی.اس ذہنیت نے ابتدائے اسلام سے آج تک خدا کا کوئی مقرب بندہ اور کوئی محبوب درگا ہ الھی ایسا نہیں چھوڑا ا 4.

Page 12

جس ہو کا فر سازی کے تیر نہ چلائے گئے ہوں.سے ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں نتر پے ہے مری قبلہ نما آشیانے میں رورح تکفیر نے اسلام کی بہت سی بلند پایہ اور مایہ ناز شخصیتوں اور برگزید ہستیوں کا خون بہایا متعدد ممتاز اور نامور اسلامی منفکری، مفسر، محدث، محد و متکلم، حکماء اور اصفیاء اس ناپاک روح کی چیرہ دسینیوں کا شکار ہوئے اور کئی ایسے خدا نما وجود جو اپنے زمانہ میں روشنی کا مینار، اُسوہ محمدی کی تصویر اور اسلام کا چلتا پھرتا نمونہ تھے کافروں، محمدول ، زندیقوں اور مرتدوں کے زمرہ میں نہایت بے دردی سے شامل کر دئیے گئے.روح کا فرگری کا پیدا کردہ یہ امتحان نہایت کٹھن ، صبر آزما ، زہرہ گداز اور روح و قلب کو تڑپا دینے والا امتحان تھا مگر خدا کے پیارے اور حضرت نا تم الانبیاء محمدمصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ عشاق کس طرح اپنے اخلاص میں اول درجہ کے ثابت قدم نکلے اور نہایت با مشت استقلال اور مسکراتے ہوئے چہروں سے اس امتحان میں کامیاب و کامرانی ہوئے اور پھر خدا تعالیٰ کی گھر توں اور قبولیتوں نے اُن کے سروں پر فتح و ظفر کے تاج پہنا دیے اور ان کے پیش کردہ عقائد و نظریات کو قبول عام کی سند عطا فرمائی ؟؟ یہ ہے تاریخ اسلام کا بظاہر درد ناک مگر نہایت ایمان افروز پہلو جس پر آئندہ اوراق میں روشنی ڈالی گئی ہے.پہلی صدی ہجری (۱) حضرت عبداللہ بن عباس (ولادت سے قبل ہجرت.وفات سنہ ہجری ) پہلی صدی ہجری کے ممتاز اور متبحر عالم ربانی اور نہایت جلیل القدر صحابی تھے جن کو اسحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ترجمان القرآن کا قابل فخر خطاب عطا فرمایا ( الاستيعاب في معرفت الامتنا جلد ۳۸ اسلامی لٹریچر سے ثابت ہے کہ آپ بھی اپنی زندگی میں کافر گری کی ذہنیت کا شکار ہوئے

Page 13

۱۲ پ صبرو رضا اور توکل و استقلال کے روحانی مدارج میں بڑھتے پہلے گئے اور عشیق الہی کی اُس شمع کو ہمیشہ فروزاں رکھا جو حضرت خاتم الانبیاء محمدمصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے قلب مطہر میں روشن کر دی تھی جیسا کہ لکھا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو بعض معاصری کافر کہا کرتے تھے.(ہفت روزہ خورشید سندیله ۲۵ فروری ۱۹۳۸ء حت کالم م) (۲) سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام (ولادت شده وفات ) حضرت رسول مقبول صلے اللہ علیہ وسلم کے نواسے اور حضرت فاطمتہ الزہر کے جگر گوشہ تھے جنہیں حضور کی زبان فیض ترجمان سے اہلِ جنت کا سردار قرار دیا گیا.آپ اہل بیت نبوی کے پہلے درخشندہ گوہر ہیں جنہیں زمع دیگر افراد خاندان کے) کارگری کا نشانہ بن کر جام شہادت نوش کرنا پڑا.چنانچہ افضل الاعمال فی جواب نتائج الاعمال ص ۲۲ میں لکھا ہے :.یزید پلید نے بوجہ حضرت امام حسین کے انکار اطاعت کے علماء سے قتل کا فتوئی طلب کیا علماء نے آجکل کے علماء کی طرح شقاوت از لی اور طمع نفسانی سے قتل کا فتوی دیا تو موجب فتو کی علماء کے یزید پلید نے حضرت امام حسین علیہ السلام کو مت آل و اولاد بھوکا پیاسا دشت کربلا میں شہید کر دیا ہے آقائی ساجی مرزا احسن صاحب اپنی کتاب جواہر الکلام میں لکھتے ہیں.حضرت علی " پر خارجیوں نے گھر کا فتوی صادر کیا تھا لیکن حضرت سید الشہداء کو یہ شرف حاصل ہے کہ اُن کے قتل کے محضر سپہ دربار بنی امیہ کے ایک سو قاضیوں اور مفتیوں کی مہریں لگی تھیں اور سرفہرست قاضی شریح کا نام تھا.کہتے ہیں کہ بھر ے کے گورنہ ابن زیاد نے قاضی شریح کو دربار میں طلب کیا اور اُس سے کہا کہ آپ حسین ابن علی کے قتل کا فتویٰ صادر کریں قاضی شریح نے انکار کیا اور اپنا قلمدان اپنے سر پر دے مارا...اور اُٹھ کر اپنے گھر چلا گیا.جب رات ہوئی تو ابن زیاد نے چند تھیلیاں زر کی اس کے لئے بھیج دیں صبح ہوئی شریح ابن زیاد کے پاس آیا تو ابن زیاد نے پھر وہی گفت گو شروع کی قاضی شریح نے کہا کہ کل رات میں نے قتل حسین پر بہت غور کیا اور اب اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ راه بحوالہ موریہ تکثیر ما مطبوعہ 4 اپریل ۱۹۳۳ء ہے

Page 14

از اُن کا قتل کر دینا واجب ہے چونکہ انہوں نے خلیفہ وقت پر خروج کیا ہے لہذا بر بنائے دفع مفرده و خارجی یہ لازم ہے.پھر قلم اُٹھایا اور فرزند رسول کے قتل کا فتویٰ اس مضمون کا لکھا : بسم الله الرحمن الرحیم میرے نز دیک ثابت ہو گیا ہے کہ حسین ابن علی دین رسول سے خارج ہو گیا ہے لہذا وہ واجب القتل ہے ؟ القه اصه مطبوعه ۱۳۶۷ در مطبع علمی تبریز - ایران) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام فرماتے ہیں :.حسین رضی اللہ عنہ ظاہر مطہر تھا اور بلاشبہ وہ ان برگزیدوں میں سے ہے جن کو سخدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کر دیتا ہے اور بلاشبہ وہ سرداران بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے موجب سلب ایمان ہے.اور اس امام کی تقوی اور محبت الہی اور صبر اور استقامت او زہرا اور عبادت ہمارے لئے اسوۂ حسنہ ہے اور ہم اس معصوم کی ہدایت کے اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی.تباہ ہو گیا وہ دل جو اُس کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے.اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت الہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندرلیتا ہے جیسا کہ ایک صاف آئینہ ایک خوبصورت انسان کا نقش.یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں.کون جانتا ہے ان کا قدر ؟ مگر وہی جو اُن میں سے نہیں.دنیا کی آنکھ اُن کو شناخت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور ہیں.یہی وجہ حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا.دنیا نے کیس پاک اور برگزید: سے اُس کے زمانہ میں محبت کی ؟ تا حسین رض سے بھی محبت کی بھاتی " (پدر ۳ در اکتوبین ۱۹۰۵ء مٹ)

Page 15

۱۴ (۳) اسد اللہ الغالب حضرت علی کرم اللہ وجہ (مشہادت نشد ہجری ) حضرت علی کو خوارج نے اس موقع پر واضح لفظوں میں کا فر قرار دیا جبکہ آپ نے اپنی طرف سے حضرت ابو موسی اشعری کو معرکہ صفین کے دوران بطور حکم منتخب فرمایا.چنانچہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں اِنَّ الْخَوَارِجَ مُتَعْقُونَ عَلَى كُفْرِها منهاج السنة النبوية جلد م ص طبع اول مصری ) انہی خوارج کے ہاتھوں آپ نے جام شہادت نوش فرمایا سه بنا کردند خوش رکھے بخاک و خون غلطیدن خدا رحمت کند این عاشقان پاک طینت را دوسری صدی ہجری (۱) حضرت جنید بغدادی" (وفات نہ ہجری) حضرت جنید بغدادی " جو " سید الطائفہ" کے نام سے مشہور ہیں اور اپنے زمانہ میں ولی کامل تھے اپنی زندگی کے آخری حصہ میں فتنہ تکفیر کے مصائب و آلام سے دو چار ہوئے.چنانچہ الیواقیت والجواہر جلد اول ص مصری میں صاف لکھا ہے :." وَشَهِدُوا عَلَى الْجُنَيْدِ بِالكُفْرِ مِرَارًا مگر تکفیر کا یہ حملہ انہیں تقومی شعاری اور فداکاری کی باریک راہوں سے نہ ہٹا سکا یہاں تک کہ آپ فوت ہو کر حق تعالیٰ کی آغوش رحمت میں جاگزین ہوئے.(نظم الدرر في سلك السيو موقعہ ملا صفی اللہ صاحب مطبع فاروقی دہلی ۱۳۹۵ (۲) حضرت محمد الفقيه (وفات قبل ۱۳) هـ.معجم المؤلفين (مؤلفہ عمر رضا کمالہ مطبع الترقي بدمشق) میں لکھا ہے :." محمد بن الليث ويعرف بالفقيه (ابو الربيع) ادیب كاتب ، خطيب، متكلم، فقيه، كانت البرامكة تقدمه وتحسن اليه وكان يرفى بالزندقة (جلد علاما)

Page 16

۱۵ یعنی: ابوالربيع محمد بن الليث الفقیہہ، ادیب، کاتب ، خطیب، متکلم اور فقیہہ بزرگ تھے در بر انکہ ان کا اعزاز و اکرام کرتے تھے.آپ پر بھی زندیق ہونے کا الزام لگایا گیا.(۳) حضرت امام ابو حنیفہ ( ولادت منشر بجری وفات نشہ ہجری ) آپ فقہ حنفیہ کے بانی اور بے مثال فقیہ تھے.آج دنیا بھر میں سب سے زیادہ تعداد آپ ہی کا مسلک رکھنے والے مسلمانوں کی ہے جس سے آپ کی عظمت مرتبت اور جلالت شان کا پتہ لگتا ہے.مولانا ابو الکلام صاحب آزاد بجواله کتاب مجالس المؤمنین ملا رقمطراز ہیں :- این نامه بدست منصور و انیقی افتاد بر ابو حنیفه متغیر شد و او را ایزا داد که سبب وفات ولے گشت.ترجمہ یعنی یہ خط منصور و انیقی کے ہاتھ پڑ گیا اور ابوحنیفہ پر وہ خفا ہو گیا اور ان کو الیستی تکلیف دی کہ جو اُن کی وفات کی باعث ہوئی دُنیا کو یہ معلوم کر کے نہایت با تو سی ہوگی جب وہ لیں گے کہ اس محبت اہل بیت کا اجر امام موصوف کو کیا ملا.قاضی نور اللہ شوستری فرماتے ہیں.شاہ اسماعیل قبر ابو عفیفہ کوفی را که در بغداد بود کند و عظام اور ابسوخت و سگے را بجائے اور فن نمود و آن موضع را مز بلۂ اہل بغداد ساخت - ترجمه - یعینی شاہ اسماعیل نے ابو حنیفہ کوفی کی قبر کو جو کہ بغداد میں تھی اُکھاڑا اور اس کی ہڈیوں کو بھلایا اور ایک کتے کو اس کی جگہ دفن کیا گیا اور اس جگہ کو اہل بغداد کا پاخانہ بنایا گیا.مولوی ابوالقاسم صاحب بنارسی نے ایک کتاب موسوم الجرح على ابي حنيفة شائع کی ہے.اس کتاب سے بعض عبارات کو اباطیل وہابیہ میں نقل کیا گیا ہے جو حسب ذیل ہیں.ابو حنیفہ مرجیہ و جہنیہ زندیق تھے اور مر میہ اسلام سے خارج ہیں.لہندا حنفی بھی اسلام سے خارج ہیں (رسالہ مذکور حت) ابو حنیفہ نے شرک کی جڑ قائم کی لہذا وہ مشرک ٹھرے (ص) ابو حنیفہ شیطان کا سینگ تھا (ص) ابو حنیفہ کا طریق صریح خلاف قرآن ہے ملا ابو ظیفہ باغی تھا بغاوت ہی میں مر گیا مٹا ابو حنیفہ کی تاریخ ولادت" سنگ ہے مڑا ابو حنیفہ سے بڑھ کر کوئی مسلمانوں میں رویل اور منحوس نہیں گزرا منا

Page 17

14 مولانا شبلی نعمانی مرحوم لکھتے ہیں حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کو قید میں رکھا گیا اور آخری تدبیر کی گئی کہ آپ کو بے خبری میں زہر دی گئی.اور جب آپ کو زہر کا اثرمحسوس ہوا تو آپ نے سجدہ کیا اور اسی حالت میں قضا کی.سيرة النعمان مصنفہ شبلی مرحوم صدا تاریخ الخلافه ما بحوالہ تطہیر الاولیاء مع ملفوظات اولیاء ص ۱۴۱ مصنفہ میر مدثر شاہ گیلانی پیشاوری نواب محسن الملک اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں :.امام ابو حنیفہ کی نسبت وہ باتیں لوگوں نے کیں کہ ان کا لغسل کرنا بھی ہے ادبی ہے.بعضوں نے اُن کو جاہل ٹھہرایا بعضوں نے بدعتی بنایا بعضوں نے گھر کی نسبت کی ایک (۴) حضرت امام مالک بن انس (ولادت ششم هجری وفات شله هجری) مدینہ الرسول کے عظیم محدث و عالم تھے.زہد میں یکتا ، حُب رسول میں فرد اور سنت نبوتی پر عمل کرنے میں بے مثال - حدیث کی مشہور کتاب موطا آپ کی ہی محنت و کاوش کا نتیجہ ہے.آپ کا مسلک اندلس اور ساحلی مقامات میں خوب پھلا پھولا.آپ کی سوانح حیات میں لکھا ہے :.} جعفر نے مدینہ پہنچے کہ نئے سرے سے لوگوں سے بیعت کی.امام مالک کو کہلا بھیجا کہ آئنڈ طلاق جبری (منکرہ) کے عدم اعتبار کا فتویٰ نہ دیں کہ لوگوں کو بیعت جبری کی بے اعتباری و عدم صحت کے لئے سند ہاتھ آئے.امام سے ترکی حق کی توقع کسی قدر بے جا خواہش تھی.امام صاحب بدستور معاملہ جبری کے عدم صحت کا فتوئی دیتے رہے سلیمان نے غضبناک ہو کر حکم دیا کہ ان کو سنتر کوڑے مارے جائیں امام دار الہجرت کو محکمہ امارت میں گنہ گاروں کی طرح لایا گیا کپڑے اُتارے گئے اور شاہانہ امامت پر دست ظلم نے ستر کو ڑے پورے کئے.تمام پیٹھ خون آلود ہو گئی.دو ہاتھ مونڈھے سے اُتر گئے.اس پر بھی تسلی نہ ہوئی تو حکم دیا کہ اونٹ پر بٹھا کر شہر میں انکی لے عباسی خلیفہ منصور کے چازاد بھائی : کے ہفت روزہ کا ہورہ" جولائی و من

Page 18

تشہیر کی جائے.امام صاحب بابی حال زار بازاروں اور گلیوں سے گزر رہے تھے اور زبان صداقت نشان باآواز بلند کہہ رہی تھی جو مجھ کو جانتا ہے وہ جانتا ہے جو نہیں جانتا وہ جان لے کہ یکیں مالک بن انس ہوں فتوی دیتا ہوں کہ طلاق جبری درست نہیں.اس کے بعد اسی طرح خون آلود کپڑوں کے ساتھ مسجد نبوئی میں تشریف لائے اور دو رکعت نماز پڑھی اور لوگوں سے فرمایا کہ سعید ابن المسیب کو جب کوڑے مارے گئے تھے تو انہوں نے بھی مسجد میں آگر نماز پڑھی تھی.یہ تعزیر کو تخمیر کے لئے تھی لیکن اس نے امام کی عزت و وقار کے پایہ کو اور بلند کر دیا.یہ واقعہ ہم انجری کا ہے.ا ا ا ا ا نه اربعہ مرتبہ مولانا سید رئیس احمد صاحب جعفری طبع اول شام کشمیری بازار لاہور (۵) حضرت امام شافعی (ولادت ۱۵ ہجری وفات ۲۰۴ ہجری ) ۱۲۹۴۰۲۹۳ آپ فن حدیث میں لکھتا اور فقہ میں لگا نہ تھے.آپ کی کتاب الامیر اپنی مثال آپ ہے.ایک عرصہ تک مصر کا سرکاری مذہب شافعی رہا.روح کا فر گری کے نتیجہ میں آپ پر مصیبتوں اور تکلیفوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے لیکن آپ صبر و رضا کے پیکر بنے رہے اور کوہ وقار کی طرح اپنے مسلک پر قائم رہے.سلوک کی راہ میں ہزار دُکھ سہے لیکن پیشانی پر شکن نہیں آئی.لکھا ہے :.ان کو اضر من ابلیس کہا گیا ، رفض کی طرف نسبت کر کے قید کیا اور ان کے مرنے کی دعائیں کیسی علماء عراق و مصر نے ایسی تہمتیں لگائیں کہ یمن سے دار السلام (بغداد) تک بے حرمتی و بے عزتی سے قید کر کے بھیجے گئے.ہزاروں آدمی سلامت اور گالیاں دیتے جاتے تھے اور وہ ان میں سر جھکائے ہوئے تھے " (حر یہ تکفیر صفحه ۲۳ مطبوعه ۶ را پریل ۱۳۳ ) میری صدی ہجری (۱) حضرت امام بخاری " ( ولادت ۱۹۵ ہجری وفات ۲۵۶ ہجری )

Page 19

آپ محدثین عظام میں سے تھے.آپ ہی نے صحیح بخاری تألیف فرمائی جسے اصح الككُتُبِ بَعْدَ كِتَابِ اللهِ کہا جاتا ہے.بایں علم و فضل آپ سجلا وطن کئے گئے اور آپ پر زندیق ہونے کا فتویٰ لگایا گیا جیسا کہ علامہ ذہر المعتصم باللہ صفی اللہ فرماتے ہیں :." او را از بخارا بیرون ساخته بخر تنگ جلا وطن که دند باز خرننگ بر و تنگ کردند دسر ہزار گرا جهان شاهدان نه ند قه با و می گردیدند و شاهدی می دادند که او زندیق است چونکه بسیار به تنگ آمد از جناب حق تعالی سائل گردید که ای بای خدا این بندگان نگر اہاں بر زمین مالدا جھائی نہ می دهند و تو خالق همه جهان و مالک ہر مکان بستی مارا در جوار قرب خود جائی بده دعایش مستجاب گشت روح او را قبض کردند و بجوار ملک اعلیٰ بروند یا 196 نظم الله رفی سلک السیر مثلا مولفہ علامہ دہر المعتصم باللہ صفی اللہ " مطبع فاروقی دہلی ۱۲۹۵ (۲) حضرت ذوالنون مصری (وفات شله مجری ) آپ کا شمار اپنے وقت کے ممتاز اولیاء اور محبوبان الہی میں سے ہوتا ہے.آپ کو بھی روح کا فرگری نے زندیقوں میں شامل کر دیا چنانچہ حضرت عبد الوہاب شعرانی محرماتے ہیں :- " وشيعوا ذا النون المصري من مصر الى بغداد مقیدا مخلولا وسافر معه اهل مصر يشهدون عليه بالزندقة اليواقيت والجواهر مجلد اول ظلام (۳) حضرت سہل تستری (ولادت ۲۰۳ هجری وفات ۲۸۳ هجری ) آپ اپنے زمانہ کے اکابر بزرگوں میں سے تھے مگر کا فر سازی کی ذہنیت نے آپ کو بھی کافروں کے زمرے میں شامل کر دیا چنانچہ الیواقیت والجواہر جلد اول ملا (مصری) میں ہے :.

Page 20

14 واخرجوا سهل بن عبد الله التسترى من بلدة الى البصرة ونسبوه الى قبائح وكفّروه مع امامته وجلالته (۴) حضرت احمد راوندی (ولادت ۲۰۵ هجری وفات ۲۹۸ ہجری ) علامہ محمد رضا تھا کہ لکھتے ہیں :- " احمد بن يحيى بن اسحاق البغدادي المعروف بالراوندي رابو الحسين ) عالم متكلّم وصف بالالحاد والكفر والزندقة (معجم المؤلفين جلد اول ما ) حضرت احمد بن یحیی بن اسحاق بغدادی المعروف را وندی (ابو الحسین ) عالم و سلم تھے.آپ پر الحاد، نفر اور زندقہ کا الزام لگایا گیا.(۵) حضرت ابوسعید خراز" روفات ۲۸۵ ہجری) حضرت شیخ فرید الدین عطار فرماتے ہیں کہ آپ بغداد کے رہنے والے تھے.طریقت میں مجتہد تھے سب سے پہلے آپ ہی نے بقار و فنا کی کیفیت کی بابت بیان کیا اور اپنے طریقے کو عبارت میں لکھا.آپ کی کتاب کتاب النترا نهایت دقیق روحانی مباحث پرمشتمل تھی جس کے معنے علماء ظواہر سمجھنے سے قاصر رہے اور آپ پر کفر کا فتو ی لگا دیا.فتوی تذكرة الاولياء با اليضًا اليواقيت والجواهر جلد اوّل صدا (۶) حضرت امام احمد بن حنبل" (ونادت ۱۶۴ هجری وفات ۲۴۱ آجری ) حضرت امام احمد بن حبیل بد کا علمی مقام تیسری صدی کے علمائے ربانی میں نہایت بلند ہے ، حضرت امام شافعی کے نزدیک آپ حدیث ، فقہ، لغت، قرآن ، فقر، زہد، درع اور سنت میں امام تھے.(طبقات الحنابلہ نا بن ابی لیلی) اس امام تمام کی آزمائش بھی تکفیر کے ابتلا سے کی گئی مگر آپ اس امتحان میں پوری طرح کامیاب نکلے اور حق و صداقت کی آواز اپنی زندگی کے آخری سانس تک بلند کرتے رہے.

Page 21

چنانچہ مولانا سید رییس احمد صاحب جعفری لکھتے ہیں :.ور دین نبوی کا قیام ایک عظیم الشان قربانی کا طلب گار تھا.وہ صرف امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کی ذاتِ گرامی تھی جس کو سلطان عہد ہونے کا شرف حاصل ہوا.انہوں نے نہ تو بادشاہوں کے سامنے سر جھکایا اور نہ دنیا کے طلب گار علماء کی جانب انتفات فرمایا بلکہ خالص دین کے قیام کے راستہ میں اپنے وجود کو قربان کہ دینے اور تمام خلف اُمت کے لئے ثبات و استقامت علی السنتہ و الحق کا راستہ کھول دینے کے لئے حسب الحکم فاصبر كما صبرا ولو العزم من الرسل اُٹھ کھڑے ہوئے مقابلہ کیا.وہ قید ہوئے.بچار چار بو جھل بیڑیاں پہنائی گئیں.پہن لیں.اسی حالت سے بغداد سے طرطوس لے بجائے گئے.بوجھل بیڑیوں کی وجہ سے ہلنا دشوار تھا بلین رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں جھوم کے پیاسے روزہ ار کو تپتی ہوئی دھوپ میں بٹھایا گیا اور اس مقدس بیٹھ پر جو علوم و معارف نبوة کی حامل تھی پوری قوت سے کوڑے مارے گئے.ہر جلا د پوری قوت سے کوڑے لگا کر جب تھک جاتا تھا تو تازہ دم جلاد آکر پیٹنے لگتا.تازیانے کی ہر مضرب پر جو صدا زبان سے نکلتی تھی وہ یہ تو جزع و فزع کی تھی نہ مشور و فغاں کی بلکہ وہی صدا تھی جس کی بدولت یہ سب کچھ ہو رہا تھا یعنی القرآن كلام الله غیر مخلوقٍ امام صاحب خود فرماتے ہیں کہ روزہ کی حالت میں مجھے اس قدر مارا گیا کہ جسم خون سے رنگین ہو گیا اور میں بہوش ہو گیا." اسیرۃ ائمہ اربعہ مرتبہ سید رئیس احمدرضا جعفری صلا تا مثل) (۷) حضرت امام نسائی (ولادت ۲۱۵ ہجری وفات ۳۰۳ ہجری) 410 تیسری صدی ہجری کے بلند پایہ محدث اور سنن نسائی کے مؤلف.حضرت امام نسائی کرنے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مناقب بیان کئے تو غالیوں نے نہ صرف مارا بلکہ ان پر شیع کا الزام بھی لگایا.حضرت شاہ عبد العزیز اسی واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :.لوگ ان پر ٹوٹ پڑے اور شیعہ شیعہ کہ کر مایہ نا پیٹنا شروع "

Page 22

۲۱ کر دیا دبستان المحد ثمین بحواله مؤلفین صحاح سته ما ناشر ادارہ علوم عصر یہ لائل پور) (۸) حضرت ابنِ حنان رحمتہ اللہ علیہ (وفات ۲۹۷ ہجری) حضرت ابن حنان عالم ربانی بھی زندیق قرار دئیے گئے.هفت روزه خورشید سند بله ۲۵ فروری ۱۹۳۸ ) (9) حضرت ابو العباس بن عطار رحمۃ اللہ علیہ (وفات ۳۰۹ ہجری) یہ بزرگ بھی رُوح کا فر گری کی سفاکیوں سے محفوظ نہ رہ سکے اور زندیق اور کا فر قرار پائے.خورشید سندیله ۲۵ فروری ۶۱۹۳۸ ص۶) (۱۰) حضرت ابوالحسن النوری رحمتہ اللہ علیہ (وفات ۲۹۵ ہجری ) نهایت پاک باطن، صوفی مجتہد طریقت اور شب بیدار عابد و زاہر جنہیں قمر الصوفیاء کہا جاتا تھا.علام الخلیل نے آپ کی نسبت نیز بعض دوسرے صوفیاء مثلاً حضرت ابو حمزة - رقائم شبلی اور جنید کی نسبت بادشاہ وقت کو مخبری کی کہ یہ سب لوگ بے دین ہیں اوراگر انکو تہ تیغ نہ کیا گیا تو ملک میں بے دینی اور الحاد پھیل جائے گا جس پر بادشاہ نے سب کو قتل کرنے کا حکم دے دیا.جلا د نے تلوار سونت کر حضرت رقامہ کو قتل کرنا چاہا تو حضرت ابو حسن النوری رحمۃ اللہ علیہ آگے بڑھے اور کہا کہ پہلے مجھے قتل کرو نیز فرمایا میرا طریقہ ایثار پر مبنی ہے اور سب سے عزیز چیز زندگی ہے میں چاہتا ہوں کہ یہ چند سانس بھی اپنے اس بھائی کے عوض خرچ کر دوں گیونکہ میرے نز دیک زندگی کا ایک دم بھی آخرت کے ہزار سال سے بہتر ہے.بادشاہ وقت آپ کا انصاف اور قدم صدق دیکھ کر حیران رہ گیا اور قاضی کو حکم دیا کہ ان کے بارے میں غور کرو.اس پر قاضی وقت نے ان بزرگوں کی پر معرفت گفتگو شنی اور بادشاہ وقت سے کہا کہ اگر یہ ملحد و بے دین ہیں تو پھر روئے زمین پر کوئی موقد نہیں.اسیر بادشاہ وقت نے ان کو نہایت اعزاز و اکرام سے رخصت کیا.(تذکرة الاولياء باشه در ذکر ابوالحسن النورسي )

Page 23

۲۳ چوتھی صدی ہجری (۱) حضرت منصور حلاج رحمتہ اللہ علیہ (ولادت ۲۱۲ ہجری، شهادت ۳۰۹ ہجری) خیر القرون کے بزرگان اُمت کی تقوی اشعاری ، للہیت، صبر ورضاء ، توکل و استقلال ور را و حتی میں خدا کاریوں اور جاں نثاریوں کا تذکرہ کرنے کے بعد اب ہم فیج اعوج کے عہد مظلہ کے اُن اولیاء و اصفیاء کے حالات پر روشنی ڈالتے ہیں جنہوں نے کا فر سازی کی ذہنیت کے اُٹھائے ہوئے جیب سیلاب کے دوران حق و صداقت کا پرچم سرنگوں نہ ہونے دیا اور عشق الہی اور عقیدت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت سینہ بسینہ اگلی نسلوں میں منتقل کرنے میں کامیاب ہو گئے.اس سلسلہ میں سب سے پہلا نام ہمارے سامنے حضرت حسین منصور حلاج رحمتہ اللہ علیہ کا آتا ہے جو صاحب کرامات بزرگ اور خدا تعالیٰ کے سچے عاشق اور صوفی کامل اور درجہ غنائیت تک پہنچے ہوئے تھے اور جوش وحدت اور حالت بذب میں مسئلہ وحدت الوجود کو مانتے اور آنا الحق کا مجذوبانہ اور مجوہانہ نعرہ بلند کرتے تھے.زہد و ورع کی یہی منزل تھی جس پر کافرکہ ذہنیت ایک بار پھر ٹوری قوت سے جوش میں آئی اور اُس نے نہ صرف راہ خدا کے اس سالک کو کتاب و سنت کی رو سے“ کا فروزندیق بنا ڈالا بلکہ سالہا سال تک قید خانه کی صعوبتوں میں مبتلا کرنے کے بعد بال آخر بغداد کے بادشاہ مقتدر کے حکم سے تختہ دار پر لٹکا کردم لیا." قاموس المشاہیر جلد ۲ ص ۱۳۳۲، متولّفه نظامی بدایونی مطبوعہ نظامی پریس بدایونی ساله) مولانا رئیس احمد صاحب جعفری تحریر فرماتے ہیں:.ہ ہجری میں ابن داؤد الاصفہانی الظاہری کے فتوے کی بناء پر پہلی مرتبہ گرفتار ہوئے....ہجری میں دوسری مرتبہ ان کی گرفتاری عمل میں آئی اور آٹھ سال تک مسلسل امیر زنداں رہے...شہ ہجری میں ان کے مقدمہ کا آخری فیصلہ ہوا اور فیصلہ کیا گیا کہ ۱۸ر ذی قعدہ کو ان کی زندگی ختم کر دی جائے گی ر اس طرح کہ اُنہیں کوڑے مارے جائیں، اُن کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئیے

Page 24

۲۳ جائیں.اُن کا سر تن سے جدا کر دیا جائے.ان کے اعضاء آگ میں جھلسائے جائیں اور اس کے بعد انہیں دجلہ کے پانی میں بہا دیا جائے.اس محکم کی تعمیل کو کوئی نہ روک سکا.علاج کی جان اس جرم میں لی گئی کہ وہ اَنَا الْحَقِّ کا نعرہ لگاتے رہے تھے.اِس قول سے اُن کا مطلب یہ تھا کہ وہ اتحاد ذاتِ الہی کے قائل تھے یعنی اپنی ذات کو ذات الہی میں گم کر کے ذاتِ الہی کا جزو بن گئے تھے یا کتاب انوار اولیاء" ف۱۸۱ زیر عنوان حسین منصور حلاج " وزیر عنوان کیا منصور کا فر تھے ؟ مطبوع علی پرنٹنگ پریس لاہو (۲) حضرت امام شیخ ابوالحسن اشعری رحمتہ اللہ علیہ ( وفات ۳۲۴ ہجری) معتزلہ کی عقلیت اور سطحی فلسفیت کی سطوت و شوکت کو خاک میں ملانے کی اولین سعادت جس عظیم شخصیت کے حصہ میں آئی وہ حضرت امام ابو الحسن اشعری رحمتہ اللہ علیہ تھے جو مجتہد فن اور علم کلام کے بانی ہونے کے علاوہ عبادت و تقوئی ، اخلاق فاضلہ اور روحانیت میں بھی درجہ امامت و اجتہاد کو پہنچے ہوئے تھے حق تعالیٰ نے مذہب اسلام کی تبلیغ ، احتقاق اور حمایت کے لئے انہیں بے پناہ جذبہ عطا فرمایا تھا.معاصرین اُن کی فصاحت و بلاغت، حسین تقریبہ اور قوتِ تحریر کی وجہ سے اُنہیں" لسان الامت کے خطاب سے یاد کرتے تھے.علامہ ابو اسحق اسفرائنی کا پایہ علم کلام و اصول فقہ میں مسلم ہے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں امام ابوالحسن اشعری کے شاگر وشیخ ابو الحسن باہلی کے سامنے ایسا تھا جیسے سمندر کے اندر قطرہ.تاریخ دعوت و عزیمت " حصہ اول صد تا ۹۱ { ۱۹۵۵ رویج کا فرگری نے اسلام کے اس مایہ ناز فرزند کو بھی معاف نہیں کیا اور آپ کو ملحد اور کا فرنک کہہ دیا گیا.(ہفت روزه خورشید ندیله ۲۵ فروری ۹۳۸ در صفحه و کالم ۳)

Page 25

(۳) حضرت ابو بکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ (ولادت ۲۶۷ ہجری وفات ۳۶۴ ہجری) حضرت ابوبکر شبلی اہل تصوف کے امام اور علوم طریقت میں یگانہ اور لاثانی تھے.ریاضات اور کرامات کے باب میں آپ شہرہ آفاق شخصیت تھے.آپ کو جاہلوں اور عوام سے سخت اذیتیں ہیں، آپ پر کئی مرتبہ کفر کا فتوی لگایا گیا.چنانچہ لکھا ہے :- وَشَهدُ وَا عَلَى الشَّبَلِي بِالْكُفْرِ مِرَارًا " اليواقيت الجواهر جلد اوّل حمر ) (۴) حضرت ابو عثمان مغربی رحمتہ اللہ علیہ (ولادت ۳۰۲ ہجری ، وفات ۳۷۳ ہجری ) آپ ارباب طریقت کے بزرگ ، اصحاب ریاضت کے برگزیدہ اذکر و فکر میں خانی اور علوم تصوف میں ماہر اور صاحب تصنیف تھے.آپ کی نسبت بھی لکھا ہے :- ابو عثمان مغربی که علم و بزرگی نظیر خود نداشت از مکه او را بیرون نموده و به تهمت مطعون کرده بودند پانچویں صدی ہجری " نظم الدرر في سلك السير" مثلا مؤلفه علامه دهر وفتنامه عصر المعتصم با بالله ملا صفی ال مطبوع مطبع فاروقی دہلی ۱۲۹ھ ) (۱) حجۃ الاسلام حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ (ولادت ۲۵۰ ہجری وفات ۵۰۵ پیری آپ کی شخصیت اسلامی دنیا میں مختارج تعارف نہیں " احیاء العلوم“، “کیمیائے سعادت“ اور دیگر بے شمار علمی تالیف آپ کی یاد گار اور امت مسلمہ کے لئے سرمایہ افتخار ہیں.جہاں تک رُوح کا فر گری کا تعلق ہے آپ بھی اس کی زد سے بچ نہیں سکے.مولانا رئیس احمد جعفری کے الفاظ میں یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ :." بہت سے فقہاء اور اصحاب ظواہر اور ارباب کلام تھے جو اُن سے نفرت کرتے تھے.اُن کا عنادا اپنے دل میں پوشیدہ رکھتے تھے.ان کی مخالفت کو

Page 26

۲۵ سب سے بڑی سعادت سمجھتے تھے.اُن پر طنز و تعریف کرتے تھے اور اُن کی تعلیمات پر شکوک و شبہات وارد کرتے تھے " ( انوار اولیاء" ص 19).آپ نے " منقول " نامی کتاب فقہ میں تصنیف فرمائی جس پر آپ کے زندیق و ملحد ہونے کا پراپیگنڈا شروع کر دیا گیا چنانچہ علامہ شبلی نعمانی اس کتاب کی طرف اشارہ کر کے فرماتے ہیں :.امام صاحب کے مخالفین کے لئے یہ ایک محمدہ دستاویز تھی.یہ لوگ سنجر کے دربار میں یہ کتاب لے کر پہنچے اور اس پر زیادہ آب و رنگ چڑھا کر پیش کیا.اس کے ساتھ امام صاحب کی اور تصنیفات کے مطالب بھی الٹ پلٹ کر بیان گئے اور دعوی کیا کہ غزالی کے عقائد زندیقانہ اور ملحدانہ ہیں.یے الغزالي مره مؤلقہ علامہ شبلی نعمانی ۵۶ ناشر ایم ثناء اللہ خال.۲۶ ریلوے روڈ لاہور طبع دوم ۹۵ار تکفیر کی اس کارروائی کا پس منظر بقول جناب اعجاز الحق قدوسی یہ تھا کہ :.امام غزالی کی شہرت ملکوں ملکوں پھیل رہی تھی.اس آڑے وقت میں وہ اسلام کی جو خدمت انجام دے رہے تھے وہ بلاشبہ بہت اہم تھی لیکن دنیا کا دستور ہے کہ سیدھی راہ بتانے والوں اور نیک لوگوں کے کچھ نہ کچھ دشن ضرور پیدا ہو جاتے ہیں.امام غزالی کے بھی کچھ دشمن پیدا ہو گئے یہ دشمن اُس وقت کے بناوٹی پیر اور دنیا وار عالم تھے جو نیکوں کی صورت بنا کو اپنا مطلب نکالنے کے لئے بڑی باتوں کو دین کا رنگ دے دیتے اور شاہانِ وقت امراء اور عام لوگوں کو خوش کرنے کے لئے طرح طرح کے ڈھونگ رچاتے ہیں.امام غزالی نے ایسے بناوٹی پیروں اور دنیا دار مولویوں کے قریب کھے پردے چاک کر کے رکھ دیئے تھے.اپنی کتابوں کے ذریعہ ان کے کرداروں

Page 27

کو بے نقاب کر دیا تھا اس لئے یہ لوگ ان سے کدورت رکھتے تھے.ان لوگوں کو احساس تھا کہ اُن کا اقتدار کم ہو رہا ہے اور اگر کچھ دان یہی حالت رہی اور اسی طرح اسلام کی صحیح ترجمانی کی جاتی رہی تو پھر لوگ اُن کا نام بھی نہ لیں گئے یہ امام غزالی - صفحه ۳۲ تا ۴۲ ، ناشر فیروز سنز لاہور) غہ الی نامہ" میں لکھا ہے کہ :.躁 على بن يوسف بن تاشفین متولد ار جب که متوفی ، رجب هم با دشاہ مغرب یعنی اندلس و مراکش مالکی مذہب پر عامل تھا اور نہایت کڑ اور متعصب، فلسفه و منطق کا سخت مخالف تھا.فقہائے مالکی اور دوسرے دشمنان غزالی نے مشہور کر دیا کہ مؤلفات غزالی سرا پا فلسفہ و تعلق ہیں علی بن یوسف بن تاشقین نے محکم دیا کہ احیاء العلوم کے نسخے جہاں ملیں جمع کئے جائیں نیز ان کی دوسری کتابیں بھی فراہم کی جائیں اور ان سب کو نذر آتش کر دیا جائے اور ساری مملکت میں جتنے پیروان غزالی ملیں اور اُن کی تالیفات کو رواج دینے والے دستیاب ہیں ان سب کو ہلاک اور قتل کر دیا جائے....قاضی عیاض جن کی وفات مراکش میں سنہ ہجری میں ہوئی نے علی بن تاشفین کے بعد فتوی دیا کہ مؤلفات مالی کو نذر آتش کر دیا جائے.....ابن حرام مغربی نے کہ جن کا شمار رئیس فقہائے بلا و مغرب میں ہوتا تھا فتوی دیا کہ احیاء العلوم کا پڑھنا حرام ہے اور اُس کے نسخوں کا جلا دینا واجب ہے نطفہ میں یافعی نے لکھا ہے کہ جس زمانہ میں مؤلفات غزالی پر تیل و قال کا سلسلہ جاری تھا فقہائے ناحیہ جہال نے فتوی دیا کہ غزالی کی کتب کا پڑھنا حرام اور ان کا جلا دینا واجب " " غزالی نامه اردو ترجمہ از مولانا رئیس احمد جعفری ص۳۶، ص۳۶) خدا کی قدرت اریج کا فر گری جس مقدس امام کا پیدا کردہ اسلامی تشریح مغفور ہستی سے..

Page 28

۲۷ نیست و نابود کر دینا چاہتی تھی اس لڑیچر کو حق تعالیٰ نے ایسی مافوق المعادت عظمت بخشی کہ صد یابی گذرنے کے بعد آج چار دانگ عالم میں اُس کی دھوم ہے جو حضرت امام غزالی رح جیسے پاک نفس اور پاک باطی بزرگ کے جذبۂ خلوص، میر اور دعاؤں کی کرامات ہے.(۲) حضرت امام ابن حزم رحمتہ اللہ علیہ (ولادت ۳۸۴ ہجری ، وفات ۴۵۶ ہجری ) آپ حدیث نبوئی اور اقوال صحابہ کے متبحر عالم، تاریخ و نفسیات کے ماہر، نابغہ روزگار متکلم، بہترین ادیب عظیم فقیہ اور مورخ تھے علم انساب، نحو، گفت ، شعر، طب، منطق اور فلسفہ میں بھی آپ کو ید طولی حاصل تھا.آپ کی امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ آپ چرا او را است کتاب و سنت سے احکام شریعیت کا استنباط کرتے تھے.یہ چیز علمائے وقت اور فقہائے زمانہ کو سخت ناگوار گزری اور انہوں نے بالا تفاق آپ کے گمراہ ہونے کا فتوی صادر کر دیا چنانچہ" معجم المؤلفین میں لکھا ہے :.كَانَ يَسْتَنبِطُ الاحكام مِنَ الْكِتَابِ وَالسُّنَةِ وَانْتَقَدَ كَثِيرًا مِّنَ الْعُلَمَاءِ وَ الْفُقَهَاءِ فَاجْمَعَ هَؤُلَاءِ عَلَى تَضْلِيلِهِ وَحَذَرُوا اَرْبَاب الْحَلِ وَالْعَقْدِ مِنْ فِتْنَتِهِ وَنَهَوْا عَوَامَهُمْ مِنَ الدُّنُو مِنْهُ وَالاحْدِ عَنْهُ فَافْهِيَ وَطُورِد فَرَحِل إلى بادِيَةِ لَيْلَةَ بِالْأَنْدُلُسِ فَتُونِي بِهَا (جلد ، صفحہ ۱۶ مطبوعہ دمشق ) ترجمہ :.آپ کتاب و سنت سے شرعی احکام کا استنباط کرتے اور علماء اور فقہاء پر بکثرت تنقید کرتے تھے جس پر انہوں نے متفقہ طور پر آپ کو گمراہ قرار دیا.ارباب حکومت و سیاست کو آپ کے فتنہ سے خبردار کیا اور عوام کو آپ کے قریب آنے اور آپ سے استفادہ کرنے کی ممانعت کر دی اور نہایت بے عزتی سے آپ کو بہت دُور شہر بدر کر دیا گیا چنانچہ آپ اندلس کے قبلہ نامی جنگل کی طرف تشریف لے گئے اور وہیں وفات پائی.

Page 29

۲۸ چھٹی صدی ہجری (۱) حضرت غوث اعظم سید عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ ولادت ۴۷۰ ہجری وفات ۵۶۱ ہجری ) آپ صوفیاء کے مشہور و معروف سلسلہ قادریہ کے بانی اور صاحب کرامات عالم ربانی تھے.آپ کی تصانیف بکثرت ہیں جن میں غُيَّةُ الطَّالِبِينَ " فُتُوحَ الْغَيْبِ اوربَهَجَةُ الاسرار" بہت مشہور ہیں." الفتح الربانی" آپ کے ملفوظات کا نہایت عصر افروز مجموعہ ہے.اقلیم روحانیت کے اس روحانی بادشاہ کو بھی ہدف تکفیر بنایا گیا ہے کس کیم یا رصد یقے نہ شد تا بخشم غیر زندیقی نه شد مشہور ہے کہ علامہ ابو الفرح عبد الرحمن علی بن جوزی اور اُس کے ہمنوا دو سو علماء نے عالم اسلام کی اس برگزیدہ ہستی کے خلاف فتوی کفر دیا.علامہ مذکور کی کتاب تلبیس ابلیس میں جابجا صوفیاء پر سخت تنقید کی گئی ہے اور حضرت غوث اعظم کی شان میں بالواسطہ طور پر اشاروں اور کتابوں سے بڑی گستاخیاں کی گئی ہیں."حالات جناب غوث الاعظم " " میں لکھا ہے :.و به "بعض کوتاہ بینیوں نے انہیں اہل الضلال والطغیان کے موافق فتویٰ دے دیا (صفحہ ) مولفه این وسیم، مکتبه عزیزی میری بازار لاہور) (۲) حضرت خواجہ فرید الدین عطار رحمتہ اللہ علیہ (ولادت ۵۱۳ ہجری ، شہادت ۶۲۷ ہجری) شریعت و طریقت میں یکتا تھے " تذکرۃ الاولیاء آپ ہی کی تصنیف ہے.آپ پر شیعیت کا الزام دے کر بازار کا فگری کو زینت دی گئی.ناچار آپ نے لوگوں سے بالکل تقلع تعلق کر لیا اور گوشہ نشین ہو گئے.مقدر من تذكرة الاولياء" ناشر منزل نقشبندیہ لاہو)

Page 30

۲۹ اور (۳) حضرت علامہ ابن رشد رحمۃ اللہ علیہ ( ولادت ۲۰ ۵ ہجری ، وفات ۵۹۵ ہجری) علامہ ابن رش را علم و فضل کے آفتاب تھے.فلسفہ ، علیم الہیات حکمت، طبت ریاضی میں امام تھے.اِن علوم و فنون میں آپ نے چالیس تصانیف کی چھ کے لاطینی اور عبرانی زبانوں میں تراجم ہوئے.یورپ کے فلسفہ جدید کی بنیاد آپ ہی کی تصانیف ہیں.علم کے اعتبار سے ارسطو کے بعد ابن رشد کو دوسرا بڑا انسان سمجھا جاتا ہے.یوں روح کا فرگری نے اس یگانہ روزگار اور نہایت باکمال بزرگ کو بھی معاف نہیں کیا.مولانا عبد السلام ندوی آپ کے خلات کفر و ارتداد کے فتاوی کا ذکر کرتے ہوئے ".لکھتے ہیں :- ابن رشد کے دشمنوں نے اس پر الحاد و بے دینی کا جو الزام لگایا تھا اس کی بناء پر اس معاملے نے ایک قومی اور مذہبی صورت اختیار کر لی تھی اور اسی حیثیت سے اس پر فرد قرار داد جرم لگائی گئی بچنا نچہ قرطبہ کی جامع من مسجد میں ایک عام اجتماع ہوا جس میں تمام علماء وفقہاء شریک ہوئے.اس اجتماع کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ ابن رشد " گمراہ اور لعنت کا مستوجب ہو گیا ہے.اور چونکہ قاضی ابو عبد اللہ بن ابراہیم الاصولی کی بعض باتوں سے بھی اس الحاد و بے دینی کا اظہار ہوا تھا اس لئے وہ بھی بھا مر کئے گئے تو سب سے پہلے قاضی ابو عبد اللہ بن مروان نے تقریر کی اور کہا کہ اکثر چیروان میں نفع و ضرور دونوں ہوتا ہے.لیکن جب نفح کا پہلو ضرر کے پہلو پر غالب آجاتا ہے تو این ام سے فائدہ اُٹھایا جاتا ہے ورنہ وہ چیز چھوڑ دی بھاتی ہے.آکسن کے بعد خطیب ابوعلی بن حجاج نے اعلان کیا کہ یہ تمام لوگ ملحد اور بے دین ہو گئے ہیں.اس کے بعد ان لوگوں کو جلا وطن کیا گیا اور ابن رستا ن کو بوسینا میں جو قرطبہ کے پاس ہو دیوں کی ایک بستی ہے نظر بند کیا گیا کیونکہ بعض لوگوں نے شہادت دی تھی کہ اس کا سلسلہ نسب یہودیوں سے ملتا ہے ، حکمائے اسلام...

Page 31

۳۰ حه دوم ص ۱ ص ۱۲ مطبوعہ مطبع معارف، اعظم گڑھ) (۴) حضرت صوفی شعیب بن الحسن المغربي (ابومدین) رحمة الله علیه و قام ۵۹ ہجری) آپ اندلس کے ممتاز صوفی تھے علم توحید میں آپ کی کتاب انس الوحيد ونزهة المرید خاص طور پر قابل ذکر ہے.یہ بزرگ بھی جناب انہی کی طرف سے رُوح کا فرگرمی کے امتحان میں ڈالے گئے اور صبر و رضاء کی منازل طے کرنے کے بعد مقبول درگاہ الہی بنے.علامہ عبدالوہاب شعرانی نے الیواقیت والجواہر جلد اول کے صفحہ ۱۵ پر تحریر فرمایا ہے کہ اُس وقت کے علماء نے آپ پر زندیق ہونے کا فتویٰ لگایا.(۵) حضرت الشیخ الاکبر محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ (ولادت ۵۶۰ ہجری، وفات ۶۳۸ ہجری ) مسلم سپین کی جن شخصیتوں نے دنیائے اسلام پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں اور اذہان و قلوب میں زبر دست انقلاب برپا کیا ہے اُن میں آپ سر فہرست ہیں حکمت، تصوف علم کلام ، فقہ، تفسیر، ادب اور شعر و سخن کے آپ شہسوار تھے.آپ کے قلم سے بے شمار تصانیف نکلی ہیں اور اپنے موضوع کے اعتبار سے نہایت بلند مقام رکھتی ہیں.آپ کو یہ فخر و اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ نے مسئلہ فیضان ختم نبوت پر اپنے مکا شفات اور باطنی علوم کی بناء پر نہایت تفصیلی اور فیصلہ کن روشنی ڈالی ہے جو قیامت تک کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے.حضرت محی الدین ابن عربی ” جیسے مجاہد اسلام کو بھی کا فرسازی کا تختہ مشق بنایا گیا اور اُن کے خلاف کفر و ضلال کے فتوے صادر کئے گئے حتی کہ انہیں کافر اعظم ملک کہا گیا.ابن عربی کا مصنفہ ابو جاوید نیاز کی، ناشر فیروز سنز لا ہو ر ۱۹۶۹ م ) راسی پر ایسی نہیں، مصر میں تو آپ کے قتل کی باقاعدہ کوشش بھی کی گئی.انوار اولیار ۳۳ ۲۲ مرتبہ مولانا انیس احمد جعفری) حضرت ابن عربی ” اپنے اس آزمائشی دور میں اس درجہ کامیاب نکلے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی دنیا میں ایسے بزرگ اور صوفی پیدا کر دئیے جنہوں نے آپ کی خدمات کو خراج تحسین ادا کیا

Page 32

۳۱ اور اپنی گردنیں ان کے سامنے عقیدت سے جھکا دیں.چنانچہ علامہ قطب الدین شیرازی کا پر قول ہے کہ :.حضرت شیخ اکبر شریعت و حقیقت دونوں میں کامل اور بے نظیر تھے.جولوگ اُن کے کلام پر طعن کرتے ہیں وہ کیا کریں.اُس کو وہ سمجھ نہیں سکتے تھے.اور جوکوئی اُن کو برا کہتے ہیں تو ان کو ایسا جا تو جیسے وہ لوگ ہیں جو نبیوں کو بُرا کہتے ہیں حضر امام فخر الدین رین رازی رح فرماتے ہیں کہ امام محی الدین ابن عربی بہت بڑے جلیل القدر ولی اور اپنے زمانہ کے قطب الاقطاب تھے.علامہ جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں کہ شیخ اکبر عارفوں کے مرتی اور حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم بقدم چلنے والے تھے.امام ابن سعد یا فعی کہا کرتے تھے کہ حضرت شیخ اکبر کو ولایت عظمی حاصل تھی.امام سبکی " کہتے ہیں کہ آپ من آیات اللہ تھے اور اُس زمانہ میں علم وفضل کی گنجی اُنہیں کے ہاتھ میں تھی.حضرت شیخ الشیوں شہاب الدین سہروردی اور حضرت شیخ کمال الدین رحمہا اللہ ان کے عالی مقام کا اعتراف کرتے تھے اور اُن کی نگاہ میں آپ کا کامل محقق اور صاحب کرامات ہونا مسلم تھا.مشاہیر اسلام جلد اما ناشر، صوفی پرنٹنگ این پایا کہ کمپنی منڈی بہاؤالدین پنجاب (۶) حضرت شیخ الاشراق شهاب الدین سهروردی رحمتہ اللہ علیہ (شات ۵۸۵ ہجری) آپ کا شمار اولیائے کرام میں ہوتا ہے.آپ عمو ٹا شیخ مقتول اور قتیل اللہ کہلاتے ہیں حلب کے فقہاء کو آپ نے جب بحث و مناظرہ میں بالکل لاجواب کر دیا تو روح کا فر گری حرکت میں آئی اور آپ کا فر اور واجب القتل قرار پائے.چنانچہ علماء کے فتویٰ پر سلطان صلاح الدین ایوبی کے بیٹے ملک الظاہر نے آپ کو جیل خانے میں ڈال دیا اور آپ کو قلعہ حلب کے قیب رخانہ میں گلا گھونٹ کر شہید کر دیا گیا." معجم المولفين" جلد ۱۳ ما :} و انوار اولیاء ما و حکمائے اسلام حصہ دوم ما مرد

Page 33

۳۲ ساتویں صدی ہجری (۱) حضرت شیخ ابوالحسن شاذلی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی ۶۵۲ ہجری) آپ جلا و مغرب کے رہنے والے مشائخ کبار میں سے تھے.آپ پر بھی زندقہ کا الزام لگایا گیا.(الیواقیت والجواہر جلد اصلا) (۳) حضرت شیخ ہور الدین عبد العزيز بن عبد السلام رحمة الل عليه المنتوی ۲۰ ہجری) آپ شہرۃ المعارف کے مصنف تھے جنہیں دوسرے اہل اللہ کی طرح تکفیر کا نشانہ بنایا گیا.(الیواقیت والجواہر جلد اصلا) (۳) حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ (ولادت ۶۳۴ ہجری وفا ، ۵ ہجری) بر صغیر پاک و ہند کے نامور صوفی اور سلطان المشائخ تھے.حضرت بابا گنج شکر آپ کے پیرو مرشد اور مشہور شاعر امیر خسرو دہلوی ” آپ کے مرید با صفا تھے " انوار اولیاء میں لکھا ہے کہ اب ہ شاہی محل کے سامنے زمین پہ فرش بچھایا گیا.صدر ملی بادشاہ اپنے فوجی افسروں کے جھرمٹ میں بیٹھا تھا جو سب ہتھیار بند تھے.اُس کے دائیں طرف علماء کی صف بھی میں کے بیچ میں مفتی اعظم حاکم شرع بیٹھے تھے مفتی صاحب نے پوچھا کیا آپ مسلمان حضرت نے جواب دیا الحمد للہ میں مسلمان ہوں میغنی نے سوال کیا کیا آپ منفی ہیں ؟ حضرت نے جواب دیا ہاں ! یکی امام ابو حنیفہ کی تقلید کرتا ہوں مفتی نے پوچھا کیا آپ گانا سنتے ہیں ؟ حضرت نے جواب دیا ہاں یکس گانا سنتا ہوں....مفتی صاحب نے کہا کوئی دلیل اس طرح گانا سننے کے جواز میں آپ کے پاس ہے؟ حضرت نے فرمایا بخاری شریف میں صحیح حدیث موجود ہے.اس کے بعد حضرت نے وہ حدیث پڑھی جس کا مطلب خواجہ سید محمد امام نے مجھے بتایا کہ حضرت نے یہ حدیث پڑھی ہے کہ رسول اللہ کے سامنے مدینے کے انصار کی لڑکیاں دکن بجابجا کر گار نہیں تھیں اور حضرت اُن کا گانا سُن رہے تھے.اتنے میں حضرت عمر رض وہاں

Page 34

۳۳ آگئے اور انہوں نے لڑکیوں کو گانے بجانے سے روکا.اس پر رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر سے فرمایا ان لڑکیوں کو گانے بجانے سے نہ رو کو آج ان کا عید کا دن ہے اور ہر قوم کا ایک عید کا دن ہوتا ہے.یہ حدیث سن کر مفتی اعظم نے کہا " ترا با حدیث چه کار تو کہ مشرب ابوحنیفه داری قول ابو حنیفہ بسیار تو جمہ.تم کو رسول کی حدیث سے کیا واسطہ تم حنفی ہو اور ابو حنیفہ کا مشرب رکھتے ہو تو ابو حنیفہ کا قولی دلیل میں پیش کرو.حضرت نے جواب دیا.سبحان اللہ ! من که قول رسول می آرم تو می گوئی کہ قول امتی بسیار ؟ ابوحنیفه که بود که من قول او بمقابلہ قول رسول سے آرم ؟ " ترجمہ : سبحان اللہ میں رسول اللہ کا قول پیشیں کرتا ہوں اور تم ایک امتی کا قول مانگتے ہو.ابو حنیفہ کون تھے جن کا قول رسول کے مقابلے میں پیش کروں.جو قوم رسول کے قول کے مقابلے میں ایک اُمتی کا قول مانگتی ہے وہ اس سے نہیں ڈرتی کہ وہ قوم جلا وطن ہو جائے اور قحط میں مبتلا ہو اور شہر برباد و ویران ہو جائے.یہ ستار مفتی اعظم اور شیخ زادہ فرحام نے بادشاہ اور حاضرین کو اشتعال ولانے کے لئے کہا.خدا کی پناہ! اس شخص نے معامی شریعت اور نا صر فقہ حنفی بادشاہ کی موجودگی میں امام ابو حنیفہ کی توہین کی ہے اور کہتا ہے ابو حنیفہ کون تھے سالانکہ ابھی اس نے کہا تھا کہ ایک حنفی ہوں اور امام ابو حنیفہ کا مقلد ہوں.مفتی اعظم کی حکمت کارگر ہوئی اور جتنے میلاد اُس کے ساتھ تھے اُن سب نے بیگی بگرد کر تے کے لہجے میں کہنا شروع کیا اس نے امام کی توہین کی ہے اور مجلس میں چاروں طرف سے آواز میں آنے لگیں یہ شخص مجرم ہے.یہ خص گستاخ ہے.کتاب " انوار اولیاء " ۲۹ ، ۲۹ در ذکر خواجه نظام الدین اولیاء مطبوعہ علمی پرنٹنگ پریس لاہور.

Page 35

خم شد (۴) حضرت امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ (ولادت ۶۱ ہجری ، وفات ۷۲۸ ہجری ) آپ عالم جلبیل اور مجاہد کبیر تھے.مزہد و تقویٰ علم و فضل اور شجاعت میں بیگانہ روزگار تھے.آپ ایک لمبے عرصہ تک رُوح کا فرگری کے ہاتھوں ستائے گئے اور بالآخر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے قید خانہ میں ہی انتقال فرما گئے.اس اجمال کی تفصیل ہمیں علامہ محمد بن شاکر قطبی کی مشہور کتاب فوات الوفیات صفحہ ۳۹ و بم سے یوں ملتی ہے کہ علماء و فقراء زمانہ نے یہ خیال کر کے کہ امام ابن تیمیہ ہمارے طریقہ کے خلاف چلتا اور ہماری جماعت کو توڑتا ہے.ان لوگوں نے آپ کا معاملہ متفقہ کوشش سے حکام تک پہنچایا اور ہر ایک نے اپنی منکر آپ کے گھر میں چلائی اور محضر نا مے تیار کر کے عوام کو بھڑ کا یا کہ انکو اکابر کے پاس جلد لے جائیں.آخر آپ دیار مصریہ کے دربار حکومت میں پیشیں کئے گئے اور جاتے ہی قید خانے میں ڈال دئیے گئے اور باندھے گئے.گوشہ نشین فقراء اور مدارس کے علماء وغیرہ ہر قسم کے لوگوں نے آپ کو موت کے گھاٹ اُتارنے کے لئے مجالس عمل قائم کیں.شیخ الاسلام کے مصائب یہیں تک ختم نہیں ہو گئے بلکہ اس کے بعد بھی یکے بعد دیگر نے کئی آزمائشوں میں سے آپ کو گزرنا پڑا اور عمر بھر ایک ابتلاء میں سے دوسرے ابتلاء سے دو چار ہونا پڑا یہاں تک کہ آپ کا معاملہ ایک قاضی کے سپرد ہوا جس نے آپ کو قید میں رکھنے ہی کا فیصلہ دیا یہاں تک کہ قضائے الہی نے قید خانے سے خدا کی آغوش رحمت اور جنت میں آپ کو پہنچا دیا.تاریخ اہل حدیث ، صفحه ۱۵۹ ۱۶۰ از مولانا حافظ حمد ابراہیم میر سیا اکوانی ناشر: اسلامی پبلشنگ کمپنی اندرون لوہاری دروازہ لاہور.طبع اول ۱۹۵۳ در من الموت میں وزیر مشق آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ جو قصور مجھ سے سر زد ہوا ہے مجھے معاف کر دیا جائے.چونکہ امام موصوف یہ سب آزمائشیں محض خدا کے لئے جھیل رہے تھے اس لئے آپ نے جواب میں فرمایا میں نے تم کہ بھی اور ان تمام لوگوں کو بھی معاف کیا جنہوں نے مجھ سے دشمنی کی.میرے مخالفین کو یہ معلوم نہ تھا کہ لیکن حق پر ہوں.یکس نے شاہ وقت

Page 36

۳۵ ملک ناصر کو بھی معاف کیا جس نے مجھے قید کر رکھا ہے کہ اُس کا یہ فعل اختیار کے بہکائے کے سبب وقوع میں آیا.اللہ اللہ ! حضرت رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوت قدسیہ سے کیسے کیسے رحیم و کریم اور شفیق و مهربان شاگر و پیدا کئے.اللهم صل على محمد وَعَلَى اللِ مُحَمَّدٍ وَبَارِك وَسَلَّمْ (۵) حضرت شمس تبریز رحمۃ اللہ علیہ (وفات ۶۲۵ ہجری) مشہور عالم بزرگ حضرت مولانا جلال الدین رومی " آپ ہی کے شاگر داور مرید با صفا تھے آپ کو محفل سماع منعقد کرنے کی پاداش میں کھلم کھانے کا فر کہا گیا.کہتے ہیں کہ آپ کی کھال کھینچی گئی اور آپ قتل کر کے کنوئیں میں ڈال دیئے گئے.مولانا روم از امتیاز محمد خان صدا ۲ ، ۲۵۰ ، ناشر: فیر شیر خوار بودم و قاموس المشاہیر ، جلد دوم ص ، (۲) حضرت مولانا جلال الدین رومی رکن اللہ علیہ (ولادت ، و هیجری و تام و بیری) سلسلہ جلالیہ کے بانی ہیں جو روم ، شام، مصر، عراق اور عرب وغیرہ میں پایا جاتا ہے.مثنوی مولانا روم جو مقبول مناص و عام ہے آپ ہی کی مبارک تصنیف ہے.دنیائے اسلام کی یہ مایہ ناز شخصیت بھی رُوح کا خرگری کی یلغار سے بچ نہ سکی حتی کہ یہ فتوی دیا گیا کہ جوشخص ان کو کا فرنہ کہے وہ بھی کافر ہے.ہفت رو نو خورشید سند بله ۲۵ فروری ۱۹۳۸ء صب کالم ۲) آٹھویں صدی ہجری (۱) حضرت امام ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ (ولادت ۶۹۱ ہجری ، وفات (۷۵ ہجری ) آپ نامور مصنف اور ممتاز متکلم اسلام گزرے ہیں.آپ کی سواریخ میں لکھا ہے.آپ کو بھی امام ابن تیمیہ کی طرح بہت ایذاء دی گئی.ایک اونٹ پر سوار کر کے شہر میں پھرا یا گیا.بدن اقدس پر ڈر نے مارے جاتے تھے.پھر استاد مکرم کے ساتھ اسی قلعہ میں بند کر دیا گیا.جرم یہ تھا کہ آپ حضرت ابراہیم خلیسان کی

Page 37

۳۶ قبر کی زیارت کے لئے شد رحیل کے قائل نہ تھے " " حیات حافظ ابن قیم 7 تصنیف عبد العظیم عبد السلام مشرف ترجمہ غلام احمد حریری ایم.اے.(۲) حضرت تاج الدین سبکی رحمتہ اللہ علیہ ( ولادت ۲۷ ہجری ، وفات 21 ہجری ) آپ جیسے بزرگ صوفی کامل ، فقیہہ ، مؤرخ ، ادیب پر بھی گھر کا فتوی لگا یا گیا جیسا کہ "الیواقیت والجواہر جلد مث پر مذکو رہے.نویں صدی ہجری (۱) حضرت مولانا عبد الرحمن جامی رحمه الله علیه ( ولادت ۸۱۷ هجری ، و نامه ۸ هجری) علوم عقلیہ و نقلیہ میں بڑے باہر اور جامع اور عارف کامل تھے.آپ کی مولفات بہت ہیں جن میں شرح کا فیہ اور شرح نقایہ مختصر الوقایہ کو بڑی شہرت حاصل ہوئی.آپ کو قتی تغیر کے امتحان میں ڈالا گیا.دہفت روزہ " خورشید سندیله ۲۵ فروری ۱۹۳۸ و حت کالم ع۳) (۲) حضرت سید محمد جونپوری رحمتہ اللہ علیہ بائی فرقہ جہد ویہ (ولادت ۴ ۸ ہجری وفات ۹۰۲ ہجری ) مشہور ولی کامل تھے جنہوں نے مہدی دوراں ہونے کا دعوئی فرمایا جس پر علمائے خواہر کی طرف سے آپ پر فتوئی گغفر لگایا گیا.مولانا ابوالکلام آزاد " تذکرہ" میں لکھتے ہیں :- " اُسی زمانہ میں مہدوی فرقہ کا نیا نیا چرچا ہر طرف پھیلا ہوا تھا اور علماء دربار کے لئے اس فرقہ کے قتل وسلب اور تکفیر و تضلیل کا مشغلہ سب سے زیادہ دلپسند اور کامیاب مشغلہ تھا.ان لوگوں کو ہر زمانے میں اپنی ویبستگی و سکرانی کے لئے فرقہ آرائی اور جنگ و قتال مسلمین کا کوئی نہ کوئی مشغلہ ضرور ملتا

Page 38

۳۷ چاہئیے.اُس وقت کے مناسب حال اس سے بڑھ کر اور کوئی مشغلہ نہیں ہو سکتا تھا.یہ فرقہ سید محمد جونپوری کی طرف منسوب ہے جن کی نسبت بیان کیا جاتا ہے کہ مہدی ہونے کے مدعی تھے یے " حضرت شاہ ولی الله کا قول شاہ عبدالعزیز صاحب نے ایک مکتوب میں تقبل کیا ہے کہ سید محمد عالم حق اور واصل باللہ تھے.بعض خواطر و واردات ان پر ایسے گزرے ہیں کہ اُن کے درک و فہم میں درماندہ و عاجز رہ گئے اور خود اپنے مقام کی نسبت دھوکے میں پڑ گئے.یہ بات نہ تھی کہ انہوں نے دانستہ غلط دعوی کیا.حضرت مجد و صاحب اور مرزا مظہر جان جاناں سے بھی ایسا ہی منقول ہے.علماء حق کا تو یہ حال تھا مگر علمائے دین نے اس جماعت کے استیصال پر کمر باندھی اور سید محمد کی نسبت اعتقاد مهدویہ و غیرہ کو بنیا دو تکفیر قرار دیا " تذكرة ما تا صا للخصا) (۳) حضرت شیخ علائی رحمۃ اللہ علیہ (شہادت ۱۹۵۵ ہجری) مہدوی طریقے کو بنگال کے مشہور عالم شیخ علائی کے ذریعہ بہت فروغ ہوا اور ہزاروں لوگوں نے اس فرقہ کے عقائد اختیار کرلئے.مہدوی عقائد کے متعلق شرعی فیصلہ کرنے کے لئے علماء کی ایک مجلس منعقد کی گئی لیکن کوئی قطعی فیصلہ نہ ہو سکا.اُس زمانے میں سلیم شا حکمران تھا اور اُس کے دربار میں مخدوم الملک ملا عبد الله سلطان پوری کو بڑا رسوخ حاصل تھا.مخدوم الملک نے شیخ علائی کے قتل کا فتوی دیا اور پھر آپ کو کوڑے مروا کر شہید رود کوثر ۲ تا ۲ از شیخ محمد اکرام ایم اے صدتا طبع سوم، ناشر، فیروز سنز لاہور.کرا دیا.ام اہم اسے کم منتخب التواریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ مخدوم الملک نے حضرت شیخ علائی کے واجب القتل ہونے کے مقدمات کیوں ترتیب دئے ہیں :- این مبتدع دعولی محمد وقیت می کند و مهدی خود پادشاہ رُوئے زمین خواهد شد و چون سر خروج دارد واجب القتل است " منتخب التواريخ

Page 39

٣٨ جلد اول من بجواللہ تذکره از مولانا ابوالکلام آزاد مثا) دسویں صدی ہجری (۱) حضرت احمد بہاری رحمتہ اللہ علیہ یہ بزرگ بھی روح کا فرگری کی تار ہو گئے.فیروز تخلق نے آپ کی تعلمیات کی بناء پر نذر تعالی آپ علمیات کی پر بموجب فتویٰ علمائے وہی شہید کر دیا.۴۹۸ آپ کو ترا، مصنفہ شیخ محمد اکرام صاحب ص ۲۹ حاشیہ) (۲) حضرت صوفی با یزید سه عدی رحمتہ اللہ علیہ (ولادت ۹۳۲ هجری ، وفقا ۹۸۰ هجری) آپ کا شمار سرحد کے قدیم صوفیاء میں سے ہوتا ہے.آپ جب اپنے اُصولوں کی تبلیغ کے لئے پہلی بار پیشاور تشریف لائے تو آپ کو گمراہ ، بے دین اور بے شرع قرار دیا گیا.تذکرۂ صوفیائے سرحد ،ص۱۳۹ ، از اعجاز الحق قدوسی اجبارالحق قدوسی ناشر: مرکزی اُردو بورڈ لاہور.گیارھویں صدہ کی ہجری (۱) حضرت محمد والف ثانی رحمۃ اللہ علیہ (ولادت ۹۷۱ ہجری ، وفات ۱۰۳۲ ہجری ) آپ گیارھویں صدی مچھری کے مجدد تھے جنہوں نے زبان و قلم سے بدعتوں کا قلع قمع کرنے کا مسلسل جہاد کیا.آپ کے مکتوبات جو کلام و تصوف کے اسرارورموز کا قیمتی خزانہ ہیں اپنی مثال آپ ہیں.حضرت مجدد کو اشاعت حق اور اعلائے کلمتہ اللہ کی راہ میں جن امتحانوں اور ابتلاؤں میں سے گزرنا پڑا ان میں نمایاں ترین ابتلاء اور امتحان یہ تھا کہ علمائے زمانہ نے جہانگیر کے دربار میں مخبری کی کہ سر پسند کا ایک مشائخ زادہ ایسے دعوے کرتا ہے جن سے گفر المازم آتا ہے.ختر بیتہ الاصفیاء" میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ بعض علماء نے آپ کے قتل کا فتوی بھی

Page 40

۳۹ دیا تھا اور آپ کے خلاف ملک میں ایک عام شورش پیدا کر دی گئی اور آپ نے بادشاہ کے فرمان پر تقریباً ایک سال تک قلعہ گوالیار میں قید رہ کر پھر سے سنت یوسفی کو تازہ کردیا.رود کوثر، ص۲۳ تا ۲۲۰ اشاعت سوم شیخ محمداکرام ایم اے، شائع کر وہ فیروز سنز لاہور (۲) حضرت سرید رحمتہ اللہ علیہ ( ولادت ۲ ہجری، شہادت ۷۰ ہجری) آپ آرمینیا کے رہنے والے ایک شاعر تھے.جوانی میں مشرف بہ اسلام ہوئے.آپ اپنے مخلص سرکہ کے نام سے مشہور ہیں.شاہجہان کے عہد میں ایران سے ہندوستان آئے.یہاں جذب و جنون طاری ہوا اور سوریاں پھرنے لگے مرید کی مشہور رباعی ہے ہے " ہر کسی که سر حقیقتش باورشد او پهن تر از سپهر نهال در شد مالا گوید که بر فلک شد.احمد سرند گوید به احمد در شد تذکرۃ الخیال میں ہے کہ اِس رہائی پر آپ کو کافر قرار دیا گیا کہ معراج جسمانی سے منکر ہیں.علاوہ ازیں آپ کے قرار و او جرم میں اُس وقت اضافہ ہوا جب علماء نے آپ سے کلمہ طیبہ پڑھنے کے لئے کیا مگر مرید نے لا الہ سے زیادہ نہ پڑھا اور " کہا کہ ابھی تک یکی نفی میں مستغرق ہوں مرتبہ اثبات تک نہیں پہنچا جب پہنچوں گا تو الا اللہ بھی کہوں گا.علمائے ظواہر نے فتوی دیا کہ فقط لا اللہ کہنا کفر ہے اگر سر یک تو بہ نہ کرے تو واجب القتل ہے.سرد رحمہ اللہ علیہ نے جو محبت الہی میں فانی تھے اپنے مسلک سے منحرف ہونے سے انکار کر دیا.چنانچہ دوسرے روز مسجد جامع کے سامنے مقتل میں لے جائے گئے جلا د سامنے آیا تو ذیل کا شعر پڑھ کر اپنی گروی رکھ دہی سے شوری شد و از خواب عدم دیده کشوریم دیدیم که باقی است شب فتنه هنوردیم رود کوثر من۳۹، طب و قاموس المشاہیر جلد اول ق، م)

Page 41

۴۰ امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے آپ کے درد ناک واقعہ شہادت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے :- " اسلام کے اس تیرہ سوبرس کے عرصہ بلی فقہاء کا قلم ہمیشہ تیغ بے نیام رہا ہے اور ہزاروں حق پرستوں کا خون اُن کے فتووں کا دامنگیر ہے.اسلام کی تاریخ کو خواہ کہیں سے پڑھو مگر سینکڑوں مثالیں کہتی ہیں کہ بادشاہ جب خونریزی پہ آتا تھا تو دارالافتاء کا قلم اور سپہ سالار کی تین دونوں یکساں طور پر کام کرتے تھے صوفیاء اور ارباب وطن پر ہیں نہیں علمائے شریعت میں سے بھی جو نکتہ میں اسرار حقیقت کے قریب ہوئے فقہاء کے ں انہیں مصیبتیں اُٹھانی پڑیں اور بالآخر سر دے کر نجات پائی.سر مرد بھی اسی تیغ کا شہید ہے " مشاہیر اسلام» بجلد اول مرها ناشر، شوقی پرنٹنگ اینڈ پیلٹ گن مینی منڈی بہائی اشی ایینی بہاؤالدین انجاب (۳) حضرت محمد بن ابراہیم شیرازی رحمۃ اللہ علیہ (وفات ۵۰ ہجری ) یہ بزرگ بھی جو فلسفیانہ مسائل پر کامل دستگاہ رکھتے اور عام فہم اسلوب تحریر اختیار کرنے میں اپنی نظیر آپ تھے محض اس " برویم کی پاداش میں کا فر قرار پائے کہ آپ کا طرز تحریر عام شھر اور سلیس تھا.دہ حکمائے اسلام، حصہ دوم ماه مواد عبد السلام ندوی) بارھویں صدی ہجری (۱) حضرت معصوم علی شاہ میر رحمۃ اللہ علیہ (وفات ۱۲۱۵ انجری ) آپ حضرت سید علی رضا و گنی کے مرید اور خلیفہ تھے اور طبقہ صوفیاء میں ایک نئے فرقہ کے بانی بھی.آپ کے اور آپ کے فرقہ کے خلاف تکفیر کی ذہنیت نے جو مظاہرہ کیا وہ رہتی دنیا تک یاد رہے گا.علماء ظواہر نے علی مراد خاں بادشاہ کے پاس

Page 42

عرضداشت بھیجی کہ یہ فرقہ اسلام اور سلطنت دونوں کا غدار ہے.بادشاہ نے حکم دیا اس ترقہ کے بڑے بڑے لوگوں کے ناک اور کان کاٹ ڈالے جائیں اور اسکے تمام پیروؤں کی ڈاڑھیاں مونڈ دی جائیں.اسی فرمان شاہی پر حضرت معصوم علی شاہ میر رد نہایت بے دردی سے شہید کر دئے گئے.ر قاموس المشاہیرا، جلد ۲ ص ۳۲) (۲) حضرت حکیم المیات شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہ ولادت ۱۲ امیری الله وفات 16 ہجری) بارھویں صدی کے مسلمہ مجدد تھے.آپ پہلے بزرگ ہیں جنہوں نے ساڑھے گیارہ سو پر کس کے بعد سرزمین ہندوستان میں قرآن مجید کا ترجمہ فارسی زبان میں کیا اور اس کے بعد ترجمہ نشر آن کی بنیاد پڑی....اگر غور کیا بجائے تو یہ امت مسلمہ پر آپ کا بہت بڑا احسان ہے....لیکن اُس زمانہ کے علماء اُصول بجائے آپ کے ممنونِ احسان ہونے اور ہمت افزائی کرنے کے آپ کے مخالف بن گئے اور عوام میں آپ کے خلاف شورش برپا کر دی کہ اس طرح یہ شخص لوگوں میں مگر انہی پھیپ لانا چاہتا ہے.قرآن کا ترجمہ پڑھ کر لوگ بھٹک جائیں گے.اس نے دین اسلام میں ایک زبر دست بدعت کی بنا ڈالی ہے.سلمت صالحین نے کبھی ایسا نہیں کیا.ایسا مجرم اور بدعت سیئہ کا مرتکب واجب القتل ہے وغیرہ وغیرہ.مخالفین نے آپ کے اس فعل حسن کو محض اپنے عناد اور دشمنی کی بنار پر عجب رنگ چڑھایا.بہت سے لوگوں کو آپ کے خلاف ورغلایا اور تمام شہر میں اس کے خلاف پراپیگینڈا کیا حتی کہ ایک مرتبہ عصر کے وقت جب شاہ صاحب مسحب فتجپوری سے نکل رہے تھے تو ان معاندین نے چند فنڈوں کو ہمراہ لے کر آپ کو گھیر لیا لیکن آپ کسی طرح بیٹے کو نکل گئے.اس کے بعد یہ مخالفت آہستہ آہستہ ٹھنڈی پڑتی گہ گئی.

Page 43

اور آج یہ کیفیت ہے کہ ہم اسی کار نمایاں پر آپ کو ہدیہ تحسین پیش کر رہے ہیں.14.دیا چہ البلاغ المبين ما ، ص19 ناشر: اداره تعمیر تبلیغ دیوبند (۳) حضرت مرزا مظہر جان جاناں رحمۃ اللہ علیہ (ولادت ۱۱۱۰ ہجری ، وفات ۱۱۹۵ تبری) آپ مشہور صوفی اور شاعر تھے.آپ نے ترک دنیا کر کے تصوف اور شعر و ادب کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی تھی.آپ کا شمار زبان اُردو کے عظیم محسنوں میں ہوتا ہے.روح تکفیر کا انتقام آپ کی شہادت پر ملتی ہوا اور گولی لگتے ہیں آپ کی رُوح عالم بالا کو پرواز کر گئی.(رود کوثر) (۴) حضرت محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ علیہ (ولادت ۱۵ ہجری ، ونا ۲۰۶ ہجری) آپ بغیر کے عظیم دینی مصلح ، انقلاب انگیز مدد اور وبائی تحریک کے دینی و راہنما اور پیشوا تھے.قیام سنت و تو حسیب میں آپ کے دینی معر کے ہمیشہ اسلام کی مذہبی من ریخ میں آپ زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں مگر افسوس کا فر گیر ذہنیت نے اس بطل تجلیل کو بھی کافروں کے زمرہ میں داخل کر دیا.حضرت محمد بن عبد الوہاب کے خلاف حرم شریف کے مفتی و امام السید احمد بن ذینی کا فتوى الدرر السنية في الرد على الوهابية " میں درج ہے.وہابی مذہب کی حقیقت موقفہ مولانا محمد علیاء اللہ قادری ] ناشد قادری کتب خانہ سیالکوٹ سٹوض )

Page 44

۴۳ تیرھویں صدی ہجری (۱) حضرت سید احمد صاحب بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ( ولادت ۲۰۱ ہجری، شہادت ۱۲۴۶ ہجری - ) (۲) حضرت شاہ اسمعیل شہید رحمتہ اللہ علیہ ( ولادت ۱۹۶ ہجری، شهادت ۱۲۴۶ هجری ) یہ دونوں بزرگ جو مجدد وقت تھے بالا کوٹ کی سرزمین میں آسودۂ خواب ہیں.مولانا مسعود عالم صاحب ندوی تحریر فرماتے ہیں:.قریب تھا کہ سارا پنجاب و سر بعد اسلامی نور سے جگہ گانے لگت اور ایک مرتبہ پھر خلافت راشدہ کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے آجاتا....علمائے شور اور قبر پرستوں نے مجاہد ہیں اُنت پر کفر کے فتوے لگائے.خوا نہیں نے اپنے مرشد اور محسن سے غداری کی نتیجہ یہ ہوا کہ سید شہید نے بالا کوٹ میں جام شہادت نوش فرمایا.مولانا اسمعیل شہید بھی دلی مراد پاگئے....ایک طرف ان نفوس قدسیہ کی یہ قربانیاں اور خدا کا ریاں ہیں اور دوسری طرف ہندوستان کے قدرشناس مسلمانوں کی طرف سے تکفیر و تفسیق کا صد سالہ لٹریچر جو بدایوں سے لے کر مدیر اس تک پھیلا یا گیا اور اب تک پھیلایا جا رہا ہے......بر تصیبی یہ ہے کہ بد بختوں نے آج تک اللہ کے ان بندوں کو معاف نہیں کیا.مشہد بالا کوٹ کو آج سو برس سے اوپر ہو چکے ہیں مگر ان پاک ارواح پر طعن و تشنیع کا سلسلہ جاری ہے.لہ نے حضرت مولانا اسمعیل شہید پر ایک فتوی : " اس کے گھر میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور یہ اس کے ارتداد میں اور اس کے لاڈ گا ڑی کے گھر میں اور ارتداد میں بھی شک و شبہ نہیں ہے.اور جو اس کے گھر اور ارتداد میں شک کرے وہ کا فر ہے " (کتاب بھونچال برش کی د قال صدا با خود از هفت روزه خورشید ۲۵ فروری ۱۹۳۸م من

Page 45

۴۴ تفو بر تو اسے چرخ گرداں تفو بالا کوٹ کی تربت میں آرام کرنے والو تم پر اللہ کی رحمت اور سلام ! ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک، صفحہ ۳۸ تا ۴۰ ١٣١هـ شائع کرد مکتبه نشاة ثانیہ حیدر آباد دکن بار { - (۳) حضرت مولوی عبداللہ غزنوی رحمتہ اللہ علیہ (ولادت ۱۲۳۰ ہجری ، وفات ۱۲۹۸ هجری ) آپ زہد و تقویٰ میں بے مثل بزرگ تھے اور توحید و سنت کی تبلیغ اور مشرک و بدعت کی تردید میں شمشیر برہنہ تھے اور اسی لئے رُوح کا فر گری کے ہاتھوں ایک بے عرصے تک مصائب و آلام سے دو چار رہے.جلا وطن ہوئے.امیر دوست محمد خان الی کابل کے وقت میں ملا مشکی اور ملا نصر اللہ نے آپ پر کفر کا فتویٰ دیا.بعد ازاں محمد فضل خالی اور محمداعظم خاں کی مرضی سے علماء نے آپ کو ڈڑے مارنے اور گدھے پر سوار کر کے شہر میں پھرانے کا فتوی صادر کیا.اس تشہیر اور زدو کوب سے فارغ ہوئے تو آپ کو بیٹوں سمیت قید خانہ میں ڈال دیا گیا مگر آپ زندگی کے آخری سانس تک تقوی کی باریک راہوں پر گامزن رہے اور کتاب و سنت کی تبلیغ کو شعار بنائے رکھا.تاریخ اہلحدیث از مولانا میرابراہیم سیالکوٹی ص ۲ تا ۴۳) (۴) حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمتہ اللہ علیہ (ولادت ۱۲۴۸ ہجری، وفات ۱۲۹۷ هجری )....آپ حضرت شاہ عبد الغنی دہلوی کے شاگرد اور دارالعلوم دیوبند جیسی عظیم الشان دینی و علمی درس گاہ کے بانی تھے.ہندوؤں اور عیسائیوں سے آپ نے کامیاب مناظرے کئے جس سے پورے بر صغیر میں آپ کی دھوم مچ گئی.نہایت بلف رپا یہ لڑ پھر آپ نے یا و گار چھوڑا جس میں سے " تحذیر النّاس کا مرتبہ علم کلام کی تاریخ میں نہایت بلند " ہے.مگر یہی کتاب تکفیر بازی کی جنوں خیز ذہنیت کو مشتعل کرنے کا موجب بن گئی اور اسی

Page 46

۴۵ کی بناء پر علمائے حرمین شریفین نے آپ پر کفر کا فتوی لگایا جس کا خلاصہ درج ذیل ہے :- نذیریہ نذیر حسین دہلوی کی طرف منسوب اور قاسمیہ قاسم نانوتوی کی طرف منسوب جس کی تحذیر الناس ہے اور اُس نے اپنے اس رسالہ میں کہا ہے :." بلکہ بالفرض آپ کے زمانہ میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہو تو بھی خاتمیت محمد مٹی میں کچھ فرق نہ آئے گاہ ---- یہ طائفے سب کے سب کا فر و مرتد ہیں باجماع امت اسلام ۱۱۳,۱۰۰ أحسام الحرمي على منحر الكفر و المين ) وَالْمَيْنِ.سے خارج ہیں.یا ! راس فتوی پر مکہ معظمہ کے بیت نے اپنی گھر میں بہت کیں.طی یہ کے تین علما کرام و مفتیان عظام

Page 47

خاتمہ کلام گذشتہ تیرہ صدیوں کے اُن مقربان درگاہ الہی کا مختصر اور اجمالی ذکر کرنے کے بعد جو کا فر گرمی کی ذہنیت کے امتحان میں مبتلا کئے گئے اور اپنے مال ، عزت و آبرو بلکہ خون کی قربانی دے کر عشق الہی کے مقدس اور پاکیزہ درخت کو سینچتے رہے.ہم اس مقالہ کو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے ایک پر معارف ارشاد و مبارک پر ختم کرتے ہیں.فرمایا :- عجیب بات یہ ہے کہ مقتنے اہل اللہ گزرے ان میں کوئی بھی تکفیر سے نہیں بچا.کیسے کیسے مقدس اور صاحب برکات تھے......یہ تو کفر بھی مبارک ہے تو جو ہمیشہ اولیاء اور خدا تعالیٰ کے مقدس لوگوں کے حصہ میں ہی آتا رہا ہے ؟ (اخبار الحكم ۱۸ میلی ها واخرد وانما ان الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ

Page 47