Muqaddas Zamzam Ashaab

Muqaddas Zamzam Ashaab

مقدس ورثہ، چشمہٴ زمزم، اصحاب فیل

Author: Other Authors

Language: UR

UR
متفرق کتب

Book Content

Page 1

مقدس ورثه چشمه از مهرم اصحاب فیل

Page 2

مقدس ورثہ چشمه زمزم اصحاب فیل

Page 3

2 انتساب یہ نھی کتا بیں مکرم داؤ د احمد قریشی صاحب کے نانا جان مکرم سید حافظ عبدالرحمن صاحب مرحوم اور نانی جان مکرمہ سیدہ سردار بیگم صاحبہ مرحومہ اور اپنے نانا جان اور نانی جان کے نام کرتی ہوں.حضرت حکیم عبدالصمد صاحب دہلوی مغل خاندان کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کے شاہی دوا خانے کے مہتمم مکرم حکیم محمد بلاقی صاحب کے پوتے تھے.آپ نے حضرت مسیح موعود کو پہلی بار 1905ء میں دیکھا جب آپ دہلی تشریف لائے.فرماتے ہیں.”جب میری نظر حضرت اقدس کے چہرہ مبارک پر پڑی تو ٹانگیں کا پنپنے لگیں.دل نے کہا کہ یہ جھوٹوں کی شکل نہیں.میں ہمیشہ کے لئے آپ کا ہو رہا.ساری زندگی تبلیغ دین اور مخلوق خدا کی خدمت میں مصروف رہے.پیاری نانی جان حضرت شادمانی بیگم صاحبہ نے اپنے والد صاحب حضرت داروغہ عبدالحمید صاحب رفیق حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے ساتھ بیعت کا خط لکھا.آپ کو لکھنا نہیں آتا تھا.اس لئے آپ کے ماموں زاد بھائی مکرم منشی عابد حسین صاحب نے ہاتھ پکڑ کر دستخط کروائے.آپ کی عمر چھ سال تھی.بہت سادہ طبیعت کی مالک تھیں.دین سے دلی شغف تھا.جوانی میں وفات ہوئی.بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہیں.اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے.آمین

Page 4

3 پیش لفظ صد سالہ جشن تشکر کے سلسلے میں کتابوں کی اشاعت کے منصوبہ کی ابتداء میں بشری داؤد مرحومہ نے بچوں کے لئے سیرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر کتابیں لکھیں جو بہت مقبول ہوئیں.اب تک کئی ایڈیشن آچکے ہیں.عزیزہ بشری کی یہ بھی خواہش تھی کہ ان کو یکجا کر کے بھی شائع کیا جائے.اب ہم اس سلسلہ کی دوسری کتاب مقدس ورثہ ، پانچویں چشمہ زمزم اور تیرہویں اصحاب فیل کو اکٹھا پیش کر رہے ہیں.

Page 5

عرض حال آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق بزرگوں سے ورثہ میں پایا.یہ ورثہ آئندہ نسلوں میں منتقل کرنے کی خواہش تھی.مگر فن تحریر سے نا آشنائی مانع رہی.مطالعے کے شوق میں عیسائی مشنریوں کی طبع کردہ ایسی کتب میری نظر سے گزریں جن میں قابلِ احترام حضرت عیسی علیہ السلام کے مرتبے کو مبالغہ آمیز بیانات سے وراء الوراء ہستی کے طور پر پیش کیا گیا تھا.سیرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر لکھنے کا شوق تڑپ بن گیا اور تڑپ کا اظہار خوبی اسلوب کا محتاج نہیں ہوتا.اب میرا مقصد اولین اُس عظیم الشان انسان کی زندگی سے دنیا کو روشناس کرانا ہے تا کہ دنیا جان لے کہ عظمت کس کا مقدر ہے کون خدا کوسب سے پیارا ہے.کس کے ہاتھ پر ایک مردہ عالم زندہ ہوا.کس کی زندگی تمام خوبیوں کی جامع ہے.کس کے لئے ابراہیمی دعا اس رنگ میں پوری ہوئی کہ کعبتہ اللہ کی حفاظت کے الہی سامان ہوئے.کعبہ کے محافظ کمزور ہو سکتے ہیں مگر کوئی بدفطرت کعبہ پر میلی نظر ڈالے تو خدائی جلال عظمت محمدی کی خاطر قہری بجلی بن کر نازل ہوتا ہے.اس کتاب میں ظہور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی نشانیوں میں سے چشمہ زمزم کی کہانی بھی ہے.بعثت نبوی کے وقت یہودیت کے چشمے خشک ہو گئے تھے.نصرانیت کے کنوؤں کا پانی زمین کے سینے میں اتر گیا تھا.مجوسی اور صابی افراد کے جو ہر خالی تھے.لامذہبیت نے ہر بھلی قدر کو چاٹ لیا تھا.اس تشنہ لبی کے عالم میں آسمانی بارش برسنے کی نوید کا ذوقی نشان چشمہ

Page 6

5 زمزم دوبارہ جاری ہوا.جو ثبوت تھا اس بات کا کہ دنیا کی روحانی پیاس کو بجھانے والا روحانی ،چشمه چشمه محمدی رہتی دنیا تک ہر کس و ناکس کی سیرابی کے لئے جاری ہونے والا ہے.اے رب العالمین! تو آج کے دور کے انسانوں کو بھی جو پیاس کی شدت سے بیقرار ہیں.اور آسمان کی طرف اُمید بھری نظریں لگائے بیٹھے ہیں.اس چشمہ محمدی سے سیراب ہونے کی توفیق بخش.میرے خدا ! اس تحریر کو قبول کر.اور میری تشنگی اپنے محبوب کے دیدار سے بجھا.آمین یارب العالمین

Page 7

مقدس ورثہ پیارے بچو! آج آپ کو ایسے واقعات سنا رہی ہوں جن کو پڑھ کر خدا تعالیٰ کی حکمت اور قدرت پر حیران ہو جاؤ گے کہ دونوں واقعات کس قدر ملتے جلتے ہیں.دونوں واقعات میں ستائیس اٹھائیس سوسال کا فاصلہ ہے.دونوں واقعات مکہ میں پیش آئے دونوں میں اولا دکو اُن کے باپ نے خدا کے حضور قُربان کرنے کا فیصلہ کیا.اور حیرت کی بات ہے کہ دونوں بچوں نے بلا چون و چرا خدا کے حضور قربان ہونا قبول کیا.انہوں نے کوئی احتجاج نہیں کیا.پہلا واقعہ حضرت اسمعیل علیہ السلام کا ہے.جن کو ان کے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک خواب کی بنا پر قربان کرنے کا ارادہ کیا.خدا کا کرنا کیا ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ کوئی کہہ رہا ہے کہ اپنی سب سے پیاری چیز کو خدا کے نام پر قربان کر دو.وہ چونک کر اُٹھ بیٹھے کہ یہ کیا بات ہے مگر خیال گزرا کہ شاید کوئی شیطانی وسوسہ ہو.لیکن دوسرے دن پھر خواب میں دیکھا.کہ اپنی سب سے قیمتی چیز خدا پر قربان کر دو.بچو! جانتے ہو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کون سب سے پیارا تھا.ان کو حضرت اسمعیل علیہ السلام سب سے پیارے تھے.آپ کو بار بار اُن کا خیال ستا رہا تھا کہ خدا جانے کیا بات ہے.اسمعیل ٹھیک تو ہے لیکن دوسرے دن کے

Page 8

7 خواب نے اس راز کو کھول دیا کہ یہ خدائی آواز ہے.پھر تیسرے دن وہی خواب دیکھا جس سے آپ نے پکا ارادہ کر لیا کہ میں اپنے خدا پر ضرور اپنی سب سے پیاری چیز یعنی اسمعیل کو قربان کر دوں گا.اپنی اولا د کو اپنے ہاتھ سے قربان کرنا بہت مشکل کام ہے.مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام تو پہلے بھی خدا کی رضا کی خاطر اس پیارے بیٹے کو جب یہ ابھی بہت چھوٹے تھے ان کی ماں کے ساتھ ایک غیر آباد جگہ جہاں آج مکہ آباد ہے چھوڑ آئے تھے.ایک بار قربانی تو دی تھی اپنی محبت کی، بیوی کی محبت کی ، بچے کی محبت کی.مگر وہ خدا کے پیارے اور اس سے پیار کرنے والے تھے.ان کیلئے یہ سب کچھ کر گزرنا ممکن تھا.پھر کیا ہوا حضرت ابراہیم علیہ السلام فوراً مکہ جانے کے لئے تیار ہوئے ایک لمبے سفر کے بعد جب اپنے بیٹے کے پاس پہنچے تو ان کو دیکھ کر بہت اداس ہوئے اب وہ تیرہ (13) سال کے لڑکے تھے.بہت دنوں بعد ملاقات ہوئی تھی.اور آنے کا مقصد بھی بہت مشکل اور صبر آزما تھا ان باتوں نے قدرتی طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اُداس کر دیا.مگر وہ اپنے عہد کے پکے تھے.بیٹے کو دیکھ کر اس کی محبت کے جوش میں وہ اس قربانی کو بھولے نہیں.بلکہ انہوں نے حضرت اسمعیل علیہ السلام کو بلایا.ان سے سارا ماجرا بیان کیا.جانتے ہو حضرت اسمعیل علیہ السلام نے کیا جواب دیا.انہوں نے کہا کہ ”جس کام کا آپ کو حکم دیا گیا ہے اسے پورا کیجئے انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گئے.(الصفث : 103) دیکھا بچو! کتنی حیرت کی بات ہے کہ اگر کوئی اور بچہ ہوتا تو خوفزدہ ہو جاتا یا بھاگ جاتا یا پھر باپ پر ناراض ہوتا کہ پہلے مجھے اس ویرانے میں چھوڑا اور 1 سیرت خاتم النبیین صفحه 73 از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد

Page 9

8 اب قربان کرنا چاہتے ہیں مگر اس فرمانبردار اور نیک فطرت بچے نے کمال فدائیت سے جواب دیا.کہ آپ اپنا خواب پورا کریں.پھر کیا ہوا.حضرت ابراہیم علیہ السلام اُن کو لے کر ان پہاڑیوں کے درمیان پہنچے.جہاں حضرت ہاجرہ پانی کی تلاش میں تیرہ (13) سال پہلے پریشان ہوئی تھیں.ان پہاڑیوں میں مروہ کی پہاڑی پر بیٹے کو لٹایا.ایک روایت ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام منی سے گزر رہے تھے تو تین (3) مقامات پر آپ کو شیطان نظر آیا جو آپ کو اس قربانی سے روکنا چاہتا تھا اور آپ ہر بار بیٹے کا ہاتھ پکڑے اس پر کنکریاں مارتے تو وہ غائب ہو جاتا اور آپ چل پڑتے.یہ تینوں مقامات جن کو جمرات کہتے ہیں.منی کے میدان میں ہیں.اور آج بھی حاجی ان مقامات پر سات سات کنکریاں مارتے ہیں.جب حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت اسمعیل علیہ السلام کو لے کر مروہ کی پہاڑی پر پہنچے تو آپ نے ان کو زمین پر لٹا دیا.اور اس خدا کے پرستار بچے نے بڑی خوشی اور خاموشی سے خود کو ذبح ہونے کے لئے پیش کر دیا.ابھی آپ چھری پھیرنے ہی والے تھے کہ فرشتہ کی آواز آئی.بیشک آپ نے اپنا خواب سچا کر دکھایا اور خدا کے نزدیک صادق ٹھہرے“.حضرت ابراہیم علیہ السلام ادھر اُدھر دیکھنے لگے کہ کیسی آواز ہے.ابھی میں نے قربانی تو دی نہیں.خواب کیسے پورا ہوا.تو اُسی فرشتہ نے کہا کہ ایک مینڈھے کو اسمعیل (علیہ السلام) کی جگہ یعنی اُن کے بدلے قربان کر دیں“.تو بچو! حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمعیل علیہ السلام کے بدلے اس جانور کو قربان کر دیا.کتنی عجیب بات ہے کہ باپ تو بہر حال خدا کے نبی تھی.وہ خدا کی خاطر

Page 10

قربانیاں دیتے رہے تھے.خدا اور اس کی عظمت ، اس کی قدرت ، اس کی محبت اور پیار سے واقف تھے.مگر بچہ تو ابھی چھوٹا تھا.وہ کیا جانے کہ یہ سب کیا ہے مگر ایسا نہیں.اس بچہ کو خدا کی محبت ورثہ میں ملی تھی.اس میں قربانی کرنے کا جذبہ خدا کی خاطر اپنی ماں اور اپنے باپ سے آیا تھا.وہ چھوٹا ہونے کے باوجود جانتا تھا کہ خدا کے حضور سب کچھ قربان کر دینا ہی بڑی نیکی اور سعادت ہے.بس اُس نے ایسا ہی کیا.لیکن بچو! خدا کبھی اپنے پیاروں کو بھولتا نہیں.بلکہ ان کی نشانیوں کو ان کی قربانیوں کو جو اس کی خاطر کی جائیں، زندہ رکھتا ہے.بعد میں آنے والے انسانوں کے لئے نمونہ کے طور پر.کہ اے میرے بندو! میرے ایسے پیارے بھی گزرے ہیں.لیکن میں نے ان کو ضائع نہیں کیا.بلکہ پہلے سے بھی زیادہ ان سے پیار کیا پہلے سے زیادہ ان پر انعامات کی بارش کی.ان کے درجات کو بڑھایا اور اپنے پیاروں میں شامل کر لیا.تو بچو! خدا اپنے قول میں اپنے وعدے میں بڑا سچا ہے.اس نے حضرت اسمعیل علیہ السلام کی قربانی کو حقیقی رنگ میں آج بھی زندہ رکھا ہے.حج کے بعد عید الاضحی کے دن لاکھوں کروڑوں جانور اسی قربانی کی یاد میں قربان کئے جاتے ہیں.ہر مسجد، ہر عیدگاہ سے حضرت اسمعیل علیہ السلام کی قربانی کا ذکر ہوتا ہے ہرایک جانتا ہے کہ یہ جانور کیوں قربان ہورہے ہیں.اس بات پر غور کرو! کہ جانور قربان کرنا یا بیٹے پر چھری چلا دینا تو کوئی مقصد نہیں.تو پھر یہ کیا تھا؟ یہ بات اس چیز کی وضاحت کرتی ہے کہ خدا کے منصوبے عظیم الشان ہوتے ہیں.اس قربانی کا حقیقی مقصد خدا کی راہ میں اسمعیل کو وقف کر دینا تھا.کیونکہ جو انسان خدا کے لئے وقف ہو جاتا ہے.اس پر بظاہر دنیا

Page 11

10 کے تمام عیش و آرام حرام ہو جاتے ہیں.وہ صرف خدا کے لئے ہوتا ہے.جو کام بھی خدا چاہے.وہ بلا چون و چرا کرتا ہے.مگر بچو! ایسے انسان کبھی دنیاوی نعمتوں سے بھی محروم نہیں رہتے.کیونکہ خدا خود ان کے آرام کا، ان کے رزق کا.ان کی خوشیوں کا انتظام کرتا ہے.اب دیکھو! کہ خدا یہ سب کچھ کیسے کرتا ہے.حضرت اسمعیل علیہ السلام کو خدا کے گھر کی حفاظت کی خاطر جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے وقف کر دیا.اور حضرت اسمعیل علیہ السلام بھی اس گھر کی حفاظت کرنے میں بڑے خوش تھے.ان کو اپنے کھانے پینے کی کوئی فکر نہ تھی.حالانکہ مکہ بالکل صحرا تھا.بعض اوقات وہاں شکار بھی نہیں ملتا تھا.اناج وہاں پیدا ہی نہیں ہوتا تھا.لیکن حضرت اسمعیل علیہ السلام نے کبھی نہیں سوچا کہ میں یہاں سے کسی اور جگہ چلا جاؤں جہاں آرام ہو کھانے پینے کو آسانی سے مل جائے.انہوں نے کبھی اپنی بھوک کی فکر نہ کی.اس کی تو ان کو پرواہ ہی نہیں تھی.لیکن خدا نے کیا کیا.اس نے آپ کو مکہ کا بادشاہ بنا دیا.وہ اس طرح ایک وضاحت حج کے بعد حاجی منی کے مقام پر قربانی کرتے ہیں.اس کی وضاحت ہو جائے تو اچھا ہے.کیونکہ قُربانی کی جگہ مروہ ہے.اور اب منی میں قربانی ہوتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی منی میں ہی قربانی ہوتی تھی.مگر خود رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے مروہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ”یہ قربان گاہ ہے.اور مکہ کے تمام پہاڑ اور گھاٹیاں قربان گاہ ہیں.مروہ کو چھوڑ کر منی میں قربانی دینے کی وجہ حاجیوں کی کثرت ہے.اس لئے منیٰ کو بھی کعبہ کی حدود میں شامل کر لیا گیا.ا حضرت امام مالک، کتاب الحج باب ما جاء في الخر في الحج ،،

Page 12

11 کہ چاہ زمزم کے آپ مالک تھے.خانہ خدا کی ذمہ داری آپ پر تھی.اور جب قافلے پانی کے لئے ، حج کے لئے آتے ، کعبہ کا طواف کرنے آتے تو خوشی، محبت اور عقیدت سے حضرت اسمعیل علیہ السلام کو دور دور علاقوں کے پھل اور اناج تحفہ میں دیتے اور ان کے قبول کر لینے پر فخر کرتے.تو دیکھا بچو! جو انسان خدا کی خدمت میں لگ جاتا ہے.تو خدا دنیا کو ان کی خدمت پر لگا دیتا ہے.یہ صرف حضرت اسمعیل علیہ السلام کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ آپ کی اولاد کو بھی دنیا کی نعمتیں ملیں..پھر آپ کی اولا د ترقی کرتے کرتے بہت پھیل گئی.کئی قبیلوں میں بٹ گئی عرب کے سارے علاقوں میں آپ کی نسل موجود ہے.اور یہ تمام قبیلے خانہ کعبہ کی بے حد عزت کرتے.اس سے محبت کرتے.اور اس کی حفاظت میں اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار رہتے.یہ محبت وقت گزرنے کے ساتھ کم نہیں ہوئی.بلکہ بڑھتی چلی گئی.اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں.کہ خدا نے اپنے سب سے پیارے بندے کو مکہ میں پیدا کرنا تھا.تو خدا نے اس شہزادے کی خاطر وہاں ایسے انسان پہلے سے جمع کرنے شروع کر دیئے تھے جو اس کا استقبال کر سکیں.آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب بھی کوئی بڑا آدمی آنے والا ہوتا ہے تو لوگ اس کے استقبال کے لئے جمع ہوتے ہیں.کچھ کو پہلے سے معلوم ہوتا ہے وہ انتظار میں ہوتے ہیں کہ کب خبر آتی ہے.کچھ اُسی وقت سُن کر جمع ہو جاتے ہیں اور کچھ لوگوں کو آنے والے کے بارے میں بار بار اعلان کر کے بتایا جاتا ہے.تیار کیا جاتا ہے.بالکل اسی طرح کچھ لوگ اپنے باپ دادوں سے سنتے آرہے تھے کہ ایسا

Page 13

12 انسان آئے گا.باقی دنیا کے لوگوں کو ہر زمانے میں آنے والے نبی نے بتایا کہ سنو میری اُمت کے لوگو.مجھے ماننے والو.ایک بہت عظیم اور مقدس انسان آنے والا ہے اور اس کی نشانیاں بھی بتائیں.جو لوگ اس اعلان سے رہ گئے اور ان کو وقت کے وقت پتہ چلنا تھا.ان لوگوں کے لئے خدا نے ایک ایسا انتظام کیا کہ عقل حیران رہ جاتی ہے.اس کی قدرت پر.یہ اسی واقعہ سے ملتا جلتا دوسرا واقعہ ہے.جو حضرت اسمعیل علیہ السلام کے قریباً اٹھائیس سو سال بعد مکہ میں ہی ہوا.خدا کا کرنا کیا ہوا؟ کہ حضرت عبدالمطلب جو ہمارے پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے دادا تھے.ان کو اللہ تعالیٰ نے چاہ زمزم تلاش کرنے کا حکم دیا.انہوں نے اپنے قبیلہ قریش کے لوگوں سے مدد مانگی کہ آؤ مل کر اس مقدس چشمہ کو تلاش کرتے ہیں.یہ چشمہ ایک لمبے عرصہ سے ریت اور مٹی میں دب چکا تھا اور کسی کو یاد نہیں تھا کہ دراصل یہ کس جگہ پر ہے.پہلے تو کچھ لوگ تیار ہوئے مگر بعد میں اس کام کو ناممکن سمجھ کر کوئی راضی نہ ہوا.حضرت عبدالمطلب اپنے اکلوتے بیٹے حارث کے ساتھ چشمہ کی تلاش میں نکلے.کچھ لوگوں نے باپ بیٹے کا مذاق اڑایا.حضرت عبدالمطلب اس وقت غریب تھے.اور ان کا کوئی اور بیٹا بھی نہیں تھا.اس وجہ سے لوگوں کے رویے اور اپنی کمزوری پر ان کو بہت دُکھ ہوا.انہوں نے خدا سے ایک منت مانی.آپ لوگوں کے ذہن میں سوال اُبھرے گا کہ منت کیا ہوتی ہے؟ منت یا نذر کے معنی ہیں کہ انسان اپنے خدا سے وعدہ کرتا ہے کہ اگر میرا یہ کام ہو جائے گا.یا جو بھی اس کی خواہش ہو وہ پوری ہو جائے گی تو میں خدا کی راہ میں شکرانے کے طور پر فلاں چیز قربان کر دوں گا یا اتنی رقم دے دوں گا.

Page 14

13 حضرت عبدالمطلب نے خدا سے کہا کہ اگر میرے دس بیٹے ہوں اور وہ میرے سامنے جوان ہو جائیں تو ان میں ایک بچہ تیری راہ میں قربان کر دوں گائیے.آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ سے پہلے تو سارے عرب میں بُت پرستی تھی.پھر خدا کا نام کیسا، تو بچو! اس جہالت کے دور میں بھی ایسے سعید فطرت لوگ تھے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مذہب پر قائم تھے.یعنی اللہ کی ذات پر ایمان رکھنے والے اور اُسی کو تمام طاقتوں اور قوتوں کا سر چشمہ ماننے والے.حضرت عبدالمطلب کے بارے میں تو خاص طور پر کئی ثبوت ملتے ہیں.کہ آپ کو خدا کی ذات پر مکمل ایمان تھا.اسی ایمان کی وجہ سے خدا نے آپ سے پیار کا سلوک کیا اور آپ کو چاہ زم زم کا پتہ دیا.بتائے ہوئے طریق پر چاہ زم زم مل گیا.اس میں دفن خزانہ بھی ملا.جس سے آپ کی غربت دور ہوئی.اور وہ چشمہ کے مالک بن گئے.پھر خدا نے ان کو دس بیٹے دیے اور وہ جوان بھی ہوئے.یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ خانہ کعبہ ہمارے پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بنایا گیا تھا اب دیکھو کس طرح خدا تعالیٰ کی قدرتیں ان ساری نعمتوں کو ان کے حقیقی وارث تک پہنچانے کا انتظام کرتی ہیں ایک عجیب بات.اس پر ذرا غور تو کرو! کہ خدا نے جو یہ مکہ ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بسایا تھا.چشمہ کے اصلی مالک تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہونا تھا.اور خدا کے گھر یعنی خانہ کعبہ کے حقیقی وارث آپ ہی تھے.) تو بچو! خدا نے پہلے سے آپ کے دادا کو تمام چیزیں عطا کر دیں.اور عرب کے لوگوں کو سمجھایا کہ دیکھو! اس کا سچا اور حقیقی وارث پیدا ہونے والا ہے یہ سب اُسی کا 1 ابن سعد جلد اوّل ذکر نذر عبدالمطلب

Page 15

14 ہے.اس لئے ابھی سے اپنے ذہنوں کو تیار کرو.وقت آنے پر بھول نہ جانا.اور ساتھ ہی خدا تعالیٰ ایک بار پھر اٹھائیس سو سال پرانا واقعہ بھی یاد دلانا چاہتا تھا.اسمعیل علیہ السلام کی اولا د تو بہت قبیلوں، خاندانوں میں بٹ گئی تھی پھر کون سا خاندان ایسا ہے؟ جس میں یہ مبارک وجود پیدا ہو گا.اس کا باپ کون ہو گا؟ پر سوالات تھے جن کے بارے میں خوب کھول کر دکھایا.وہ اس طرح کہ جب سارے بیٹے جوان ہو گئے تو حضرت عبدالمطلب کو اپنی نذر، منت یاد آئی.انہوں نے سب بیٹوں کو لیا اور خانہ کعبہ کی طرف چلے.وہاں جا کر اب وہ اپنی مرضی سے تو کسی کو قربان نہیں کر سکتے تھے.انہوں نے تو اُسی بچے کو قربان کرنا تھا جس کو خدا چاہے، پسند کرے.اس کے لئے حضرت عبدالمطلب نے سارے بیٹوں کے نام قرعہ ڈالا.تو حضرت عبداللہ کا نام نکل آیا.جانتے ہو عبداللہ کون تھے.یہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے والد تھے.حیرت کی بات ہے کہ قرعہ کسی کے نام بھی نکل سکتا تھا.مگر نکلا تو عبداللہ کے نام کیونکہ اللہ تعالیٰ کو عبد اللہ ہی پیارے تھے اس کی وجہ یہ کہ عبداللہ ہی نے اس کے محبوب کا باپ بننا تھا.تو پھر کسی اور کے نام کس طرح قرعہ نکلتا.پھر حضرت عبدالمطلب کو ساری اولاد میں سب سے پیارا یہی بیٹا تھا جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اسمعیل علیہ السلام تھے.اس پیار کی کئی وجوہات ہیں.ایک تو حضرت عبداللہ سب سے چھوٹے تھے.اور چھوٹی اولاد سے ماں باپ کو زیادہ ہی پیار ہوتا ہے.پھر شکل وصورت کے بھی پیارے.عادات و اخلاق بھی بہت اچھے.گویا سارے بچوں میں ہر لحاظ سے سب سے اچھی عادتوں کے مالک تھے.اسی لئے تو خدا نے چُنا.حضرت عبدالمطلب اپنے قول کے پکے تھے.دل کی جو حالت تھی.اس

Page 16

15 کو تو بیان کرنا مشکل ہی ہے کہ ایک باپ کس طرح اپنے سب سے پیارے کو قربان کر دے.مگر سب سے زیادہ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ایک جوان بچہ کیسے بلا چون و چرا باپ کے ساتھ ذبح ہونے جا رہا ہے.اس کو کوئی خوف ، کوئی ڈر نہیں.جان کی پرواہ نہ تکلیف کا احساس.انہوں نے ایک بار بھی تو اپنے باپ کو نہیں روکا.بلکہ خوشی خوشی رواں دواں تھے.لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت عبدالمطلب کو روکنے کا انتظام کیا.کیونکہ خدا کا یہ مقصد تو نہیں تھا کہ سچ سچ انسان کو ذبح کر دیا جائے.بلکہ اس کا منشا تو کچھ اور بتانا تھا.جب قریش کے رئیسوں کو علم ہوا تو انہوں نے حضرت عبدالمطلب کو اپنے بیٹے کو قربان کرنے سے روکا.ایک جاننے والے نے مشورہ دیا کہ انسان کو قربان کرنا درست نہیں.تم عبداللہ کے بدلے دس اونٹ قربان کر دو.اس زمانے میں ایک انسان کا خون بہا دس اونٹ تھالیے.(خون بہا اس کو کہتے ہیں کہ اگر کسی کو کوئی قتل کر دے تو اصولی طور پر قاتل کو بھی مار دیا جاتا ہے.لیکن اگر اس کے رشتہ دار راضی ہو جائیں تو انسان کے بدلے کچھ رقم یا سامان دے کر انسان کو بچایا جاسکتا ہے.) عبداللہ کے بدلے دس اونٹ قربان کرنے کی بات حضرت عبدالمطلب کے دل کو لگی.لیکن انہوں نے پھر قرعہ ڈال کر خدا سے پوچھا.کہ دس اونٹ منظور ہیں یا عبداللہ ہی لینا ہے قرعہ عبداللہ کے نام نکلا.لوگوں نے کہا کہ اونٹوں کی تعداد بڑھا دو.اس طرح دس سے میں ہوئی.پھر عبداللہ کا نام.پھر تمھیں پھر چالیس لیکن ہر بارعبداللہ ہی خدا کو پیارا تھا.کیونکہ جو خدا کا ہے اُس کی اتنی قیمت نہیں ہو سکتی اور بڑھاؤ ، اور بڑھاؤ.1.ابن سعد حصہ اول ذکر نذر عبدالمطلب

Page 17

16 آخر ہوتے ہوتے سو (100) اُونٹ ہو گئے.جب سو اونٹ اور عبداللہ کے نام قرعہ ڈالا تو قرعہ اونٹوں کے نام نکلا.باپ کو کچھ تسلی ہوئی.لیکن دل ابھی مطمئن نہ تھا.دوبارہ مزید تسلی اور اطمینان کے لئے قرعہ ڈالا.ہر بار اونٹوں پر نکلا.اور اس طرح حضرت عبداللہ کے بدلے اُسی وقت سو اونٹ قربان کر دیے گئے.کہتے ہیں کہ قربان گاہ میں اونٹ ہی اُونٹ تھے.انسان تو حقدار تھے ہی.مگر کسی جانور اور پرندے کو بھی روکا نہیں گیا.ہر ایک نے اس مقدس قربانی کے گوشت سے حصہ لیا تھا...تو بچو! اللہ تعالیٰ نے جہاں دنیا کو یہ بتایا کہ قریش کے خاندان بنو ہاشم کا چشم و چراغ عبد اللہ آج مجھے عزیز ہے.اسی کے بچے نے میری خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنا ہے.اس لئے وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں.وہاں یہ بتانا بھی مقصود تھا.کہ انسان کی قدر و منزلت بڑھتی جا رہی ہے اور اُسی وقت سے عربوں میں انسان کا خون بہا سو اونٹ مقرر ہو گیا تھے.گویا انسانی عظمت، انسانی وقار، انسانی قدر و منزلت کی ترقی کا دور شروع ہونے والا ہے.اور خدا نے دنیا کو بتایا کہ اسمعیل پیارا تھا.میں نے اس کو مانگا.اس کو میری راہ میں پیش کیا گیا.مگر میں انسانوں کو قربان نہیں کروا تا بلکہ ان کو آزماتا ہوں اور جو اس آزمائش میں پورے اُتریں سب کو ان کی خدمت میں لگا دیتا ہوں.پھر اسمعیل کی اولاد میں سے عبدالطلب کو چنا.اور ان کو چاہ زم زم دیا مکہ کی سرداری دی.کعبہ کی تولیت دی.دنیاوی دولت دی.پھر خواہش کے مطابق اولا د دی.ان کو جوان بھی کیا.پھر ان بچوں میں سے ایک بچہ عبداللہ کو چنا.اس کو 1 ابن ہشام جلد اوّل 2 ابن سعد حصہ اوّل ذکر نذر عبد المطلب

Page 18

17 بھی خدا کی راہ میں قربان کرنے کا ارادہ کیا گیا.لیکن اس کو بچا کر انسانی قیمت کو بڑھا دیا.اور ساتھ ہی اس راز پر سے بھی پردہ اُٹھا دیا کہ کون پیارا ہے.ہاں وہی جو عبداللہ کا جگر گوشہ ہوگا.اس کو ہمیشہ ہمیش کے لئے اپنے لئے پچن لیا.وہ ازل سے میرا ہی تھا اور ابد تک میرا ہی رہے گا.یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم.اس کو پہچان لینا.تو بچو! دنیا میں بچوں کو اپنے ماں باپ کی طرف سے ورثہ میں روپیہ ملتا ہے.جائداد ملتی ہے.کارخانے ملتے ہیں.جانوروں کے ریوڑ ملتے ہیں.سونے، چاندی، ہیرے کی کانیں ملتی ہیں.لیکن میرے محبوب خدا کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو جو ورثہ ملا.وہ ان سب دنیاوی ورثوں سے مختلف اور منفرد تھا.غور کرو! ان دنیوی چیزوں کی کیا حقیقت ہے.یہ سب مُردہ ہیں.وقت کے ساتھ فنا ہونے والی ، بے جان ورثہ، مُردہ ورثہ.لیکن جو ورثہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا.وہ ہمیشہ قائم و دائم رہنے والا، زندہ ورثہ یعنی اپنے جد امجد کے ذریعہ قربانی کا ورثہ.خدا کی راہ میں قربانی کا.اور اس مقدس بچہ نے اپنے ورثہ کی بڑی حفاظت کی.اور اس کی اعلیٰ مثالیں دنیا کو دکھائیں کہ اپنی اولاد کو قربان کر دیا.دولت و جائداد لٹا دی.دوستوں، عزیزوں کے جذبات و احساسات کو قربان کیا.ماننے والوں، چاہنے والوں، فدا ہونے والوں کو خدا کی راہ میں سچ سچ ذبح ہوتے دیکھا.لیکن اُف نہ کی.اور اپنا کیا حال تھا کہ اپنا وجود، اپنے جذبات واحساسات و خواہشات، اپنا نفس غرضیکہ سب کچھ اپنے مولا کی رضا پر قربان کر دیا.اپنا کچھ نہ تھا.جو تھا خدا کا تھا.کتنا عظیم اور بابرکت ورثہ تھا جو میرے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کو ملا.اور ایسے قیمتی ورثہ کے مالک بچے کی کیا شان تھی کہ وہ عرب کے سب بچوں سے زیادہ پیارا تھا.پیاری عادتوں کا مالک تھا، سچا تھا اسی لئے صدیق کہلایا، ہر امانت کا اس کو

Page 19

18 احساس تھا.اس لئے امین بنایا گیا.یہاں تک کہ اس کو خدا نے اپنا گھر سونپ دیا.اپنے احکامات، اپنی تعلیمات یعنی قرآن پاک آپ کے سپرد کر دیا کہ یہی ان کی حفاظت کر سکتا ہے اپنی تمام قدرتیں ، قوتیں ، طاقتیں آپ پر ظاہر کر دیں.اور آپ کے ذریعہ آپ کے واسطہ سے دنیا کو بھی دکھا ئیں.یہ بات بالکل اسی طرح ہے بچو! کہ جو بچہ ماں باپ کو سب سے زیادہ پیارا ہوتا ہے، عزیز ہوتا ہے جس سے وہ سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں.اُسی بچہ کو وہ اپنی قیمتی چیزیں دکھاتے ہیں، بتاتے ہیں کہ کہاں کہاں ہم نے ان کو رکھا ہوا ہے اور اس بچے سے ماں باپ کی کوئی بات چھپی ہوئی نہیں ہوتی.اور اپنی ہر اچھی چیز اُسی بچہ کو دینا چاہتے ہیں.بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی ہر قدرت آپ پر ظاہر کی.اور اپنی تمام پیاری چیزوں کو آپ کے سپرد کر دیا.یہ خدا کے پیار کا انداز ہے.جواس نے میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا.اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تجھ پر سلام کہ تیرے آباء و اجداد کی ابتدا قربانیوں سے ہوئی اور انتہا بھی قربانی پر ہوئی ، تجھے قُربانی کرنے کا ڈھنگ ورثہ میں ملا.اور قربانی دینے کی اداؤں سے تو واقف تھا.اسی لئے یہ قربانیاں آج بھی تیرے نام سے زندہ ہیں اور اب جو بھی خدا کی راہ میں قربان ہونا چاہے پہلے تیری راہ میں مٹے، پھر آگے بڑھے.میرے خدا اس پاک وجود پر ہزاروں اسمعیل اور عبداللہ قربان کہ یہ انسانیت کی عظمت کا نشان ہے.اللَّهُمَّ بَارِک وَسَلّمْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيد

Page 20

19 چشمه زمزم پیارے بچو! آج میں آپ کو ایک ایسے چشمے کے بارے میں بتاتی ہوں.جو صرف اور صرف خدا کی مرضی سے اس کے پیاروں کیلئے وجود میں آیا.چشمہ پانی کے اُس خزانے کو کہتے ہیں جو خود بخود زمین کے سینے کو پھاڑ کر نکلا ہو.یہ کنوئیں کی طرح کھود کر نہیں نکالا جاتا.بلکہ خود بخود نکل آتا ہے.چشمہ دو طرح کے ہوتے ہیں.1 گرم پانی کے 2- ٹھنڈے پانی کے یہ چشمہ ٹھنڈے پانی کا ہے.اس کو زمزم کہتے ہیں.زمزم کے معنی ٹھہر ٹھہر یا رک جا، رُک جا.یہ چشمہ وادی مکہ میں ہے.اور مکہ اسی چشمہ کی وجہ سے آباد ہوا.مکہ صحرائی علاقہ ہے.صحراؤں میں پانی نہیں ہوتا.زمین ریتلی ہونے کی وجہ سے اگر بارش ہو جائے تو پانی فوراً جذب ہو جاتا ہے.اس لئے صحراؤں میں جھیل، جو ہر یا تالاب نہیں ملتے.دُور دُور تک پانی کا نام و نشان نہیں ہوتا.اگر قافلے صحراؤں میں بھٹک جائیں تو وہ پیاس سے تڑپ تڑپ کر مر جاتے ہیں.پانی چونکہ انسانی زندگی کا سب سے ضروری جز و ہے.اس لئے انسان چشموں، دریاؤں، جھیلوں کے کنارے رہنا پسند کرتا ہے.اور جہاں پانی نہ ہو.1 خوشی کے موقع پر گایا جانے والا نغمہ بھی زمزم کہلاتا ہے.

Page 21

20 وہاں کوئی انسان نہیں رہتا.مکہ بھی پانی نہ ہونے کی وجہ سے غیر آباد تھا.بس ایک ویران، اُجاڑ جگہ تھی.اس کی مشہور پہاڑیاں صفا اور مروہ ہیں.جس کے درمیان یہ چشمہ پایا جاتا ہے.پیارے بچو! خدا کا کرنا کیا ہوا کہ اس نے اپنے پیارے بندے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ اپنے بڑے بیٹے اسمعیل کو اس کی ماں ہاجرہ کے ساتھ اس غیر آباد وادی میں چھوڑ دے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ سے بے حد پیار تھا.اس لئے انہوں نے کچھ کھانے کا سامان اور ایک مشکیزہ پانی لیا.حضرت ہاجرہ کی گود میں حضرت اسمعیل علیہ السلام کو دیا اور چل پڑے.ایک طویل سفر کے بعد جب وہ اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچے تو انہوں نے کھانے پینے کا سامان زمین پر رکھا.اور واپس چل دیے.حضرت ہاجر گا بڑی حیران ہوئیں.سوچنے لگیں کہ لڑائی بھی نہیں ہوئی.مجھ سے ناراض بھی نہیں ہوئے.بچے سے بھی بے حد محبت کرتے ہیں.پھر کیا وجہ؟ ابھی حضرت ہاجرہ انہی سوچوں میں تھیں کہ کیا دیکھتی ہیں کہ اُن کے شوہر حضرت ابراہیم علیہ السلام واپس جا رہے ہیں.حضرت ہاجرہ بہت پریشان ہوئیں.تیز تیز قدموں سے اُن کے پیچھے چلنے لگیں.اور ساتھ ہی پوچھتی جاتیں کہ ہم سے کیا قصور ہو گیا ہے.کیا آپ ناراض ہیں جو ہمیں اس ویران جگہ پر ایک وضاحت جب حضرت اسمعیل علیہ السلام پیدا ہوئے تو اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر تقریباً 86 سال تھی.اور یہ بچہ بڑی دُعاؤں کے بعد خدا نے دیا تھا.اسی لئے اس کا نام اسمعیل رکھا گیا تھا.اسمعیل کے معنی ہیں.خدا نے سُن لی تھے.11 پیدائش باب 16 آیت 16 2 دیباچہ تفسیر القرآن صفحہ 65

Page 22

21 چھوڑ رہے ہیں.ادھر بچو! حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حالت بھی ویسی ہی تھی.وہ بھی دُکھ کی وجہ سے جواب نہیں دے پا رہے تھے.کیونکہ شدت غم کی وجہ سے ان کی آواز نہیں نکل رہی تھی.انہوں نے بڑے صبر اور ضبط سے آسمان کی طرف اُنگلی اُٹھائی.اس پر وہ نیک خاتون سمجھ گئیں کہ یہ خدا کا حکم ہے.جلدی سے بولیں ، کہ اگر خدا کی رضا کی خاطر آپ نے ہمیں چھوڑا ہے.تو پھر فکر نہ کریں.وہ ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا.آپ اطمینان سے جائیں.حضرت ہاجرہ کو بھی اللہ تعالیٰ سے بہت محبت تھی.وہ اس کے ہر حکم کو ماننا فرض جانتی تھیں.اسی لئے انہوں نے یہ پیارا جواب دیا.بچو! غور تو کرو.جہاں دُور دُور کوئی درخت نہ ہو.جس کے سائے میں انسان بیٹھ جائے.پھر نہ آدم نہ آدم زاد تو کتنا ڈر لگتا ہوگا.لیکن جو خدا سے پیار کرنے والے ہوتے ہیں.ان کو کوئی خوف و خطر نہیں ہوتا.ان کا دل بالکل مطمئن ہوتا ہے.کہ اگر درخت کا سایہ نہیں تو کیا ہوا.خدا کا سایہ تو ہے.اگر انسان نہیں تو خدا تو ہمارے ساتھ ہے.پھر ڈرکس بات کا.حضرت ہاجرہ بچے کو لے کر آسمان کے نیچے بیٹھ گئیں.کچھ عرصہ بعد کھانا اور پانی ختم ہو گیا.اب تو بچے نے پریشان کرنا شروع کر دیا.پیاس اُسے ستا رہی تھی.پہلے تو حضرت ہاجرہ بچے کو ادھر اُدھر لے کر بہلاتی رہیں.ساتھ ہی نظر بھی دوڑاتی جاتیں کہ شاید ادھر اُدھر کہیں پانی ہو.مگر ایک بوند بھی پانی نہ ملا.پیاس کی شدت بڑھنے لگی.اور اس کے ساتھ ہی بچے کی حالت بگڑنے لگی.پھر تو ماں پریشان ہو گئی.بچے کو زمین پر لٹایا اور دوڑ کر پہاڑی پر چڑھ گئیں.دُور دُور تک دیکھا شاید پانی ہو.مگر پانی ہوتا تو ملتا.پھر گھبرا کر نیچے اتریں.بچے کو دیکھا.وہ

Page 23

22 پیاس کی شدت سے زمین پر ایڑیاں رگڑ رہا تھا.دوڑ کر دوسری پہاڑی پر چڑھ گئیں.دور تک نظر دوڑائی لیکن کہیں پانی کا نام ونشان نہ تھا.اسی طرح بیقراری کے عالم میں دونوں پہاڑیوں کے سات چکر لگائے اور ہر بار بچے کو دیکھتی رہیں.آنکھوں سے آنسو جاری تھے بار بار آسمان کی طرف منہ اُٹھا تیں.اور خدا سے مدد طلب کرتیں.اور جب ساتواں چکر لگا رہی تھیں آسمان سے فرشتہ نے آواز دی.اے ہاجرہ تجھ کو کیا ہوا ! مت ڈر کیونکہ خدا نے اس جگہ سے جہاں لڑکا پڑا ہے اس کی آواز سن لی.اُٹھ اور لڑکے کو اُٹھا.اسے ہاتھ سے سنبھال کہ میں اس کو ایک قوم بناؤں گا.حضرت ہاجر کا جب بچے کے پاس واپس آئیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ بچہ جہاں ایڑیاں رگڑ رہا تھا وہاں کی مٹی پرنم ہے.آپ نے جلدی جلدی اپنے ہاتھوں سے مٹی کو ہٹایا.تو پانی پھوٹ پھوٹ کر نکل پڑا.فوراً بچے کو پلایا.پھر خود بھی دوڑ دوڑ کر ہلکان ہو رہی تھیں.پانی پیا، ساتھ ہی خدا کا شکر ادا کرتی جاتی تھیں.کہ اللہ تعالیٰ کتنی عظیم ہستی ہے.ان کا دل حمد سے بھر گیا تھا.کبھی وہ بچے کو دیکھتیں، کبھی پھوٹتے ہوئے پانی کو.اُن کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے.جو تشکر میں بہہ رہے تھے.اچانک انہوں نے دیکھا کہ پانی تیزی سے نکلنے لگا.تو بے ساختہ ان کے منہ سے نکلا.زم زم زم زم یعنی ٹھہر ٹھہر.اس کا مطلب یہ تھا کہ رُک جا، رُک جا.اور ساتھ اردگرد سے مٹی اور پتھر اکٹھے کر کے اس کے گرد ایک منڈیر بنادی.تا کہ پانی بہہ کر ضائع نہ ہو جائے.اسی وجہ سے اس مقدس چشمہ کا نام زمزم پڑ گیا.1 پیدائش باب 21، آیت 17-18

Page 24

23 حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا ہاجرہ پر رحم کرے.اگر وہ پانی کو نہ روکتیں تو یہ بہنے والا چشمہ بن جاتائے.تو بچو! یہ چشمہ جو خاص اللہ تعالیٰ کی محبت اس کی شفقت کی وجہ سے پھوٹا آج بھی دنیا کو ایک پیغام دیتا ہے.کہ اے انسانو! مجھے دیکھو میں ایک نشان ہوں.ان لوگوں کے لئے جو خدا اور اس کی قدرت کو نہیں جانتے.آؤ میرے میٹھے اور ٹھنڈے پانی سے ان تپتے ہوئے صحراؤں میں اپنی پیاس کو بجھاؤ.یقیناً تمہاری روح بھی سیراب ہوگی.بچو! یہ چشمہ انسانوں کو حیرت میں ڈال دیتا ہے کہ خدا کی قدرت، صحرا میں تو پانی ہوتا ہی نہیں.اگر ہو تو زمین اس کو فوراً جذب کر لیتی ہے اور کہاں ریتلی زمین کہ اس نے اپنے سینے کو پھاڑ کر پانی اُگل دیا.ہے نا عجیب بات.ایسی ہی غیر معمولی اور ناممکن باتوں کو معجزہ کہتے ہیں.یہ معجزہ ویسے تو حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کے حق میں ظاہر ہوا.مگر بچو! ان کو یہاں آباد کرنے کا مقصد کیا تھا.کیوں بُلایا اس ویرانے میں؟ اس کی وجہ میں بتاتی ہوں کہ خدا نے اس جگہ اپنے سب سے پیارے شہزادے کو پیدا کرنا تھا.اور خدا نے اپنے اس محبوب کو ایسی اُجاڑ بے آب و گیاہ جگہ تو نہیں پیدا کرنا تھا.اس نے فیصلہ کیا کہ پہلے یہ جگہ آباد ہو.اس لئے حضرت ہاجرہ کو حضرت اسمعیل علیہ السلام کے ساتھ یہاں بلایا اور پانی نکالا.یہ بات بالکل ایسے ہی ہے کہ جب کوئی انسان چھوٹے سے چھوٹا کام کرنا چاہتا ہے تو پہلے اس کی منصوبہ بندی (PLANNING) کرتا ہے.اور جتنا بڑا کام ہو.منصو بہ اُسی کے 1 سیرت خاتم النبین جلد اوّل صفحہ 83

Page 25

24 ا مطابق بناتا ہے.بالکل اسی طرح خدا نے یہ چشمہ دراصل اپنے پیارے کے نشان کے طور پر نکالا.آج یہ زمین پیاسی ہے میں اس کو سیراب کرتا ہوں.کل جب یہ آباد ہو گی.اور اس پر بسنے والے روحانی طور پر پیاس کی شدت سے تڑپ رہے ہوں گے.ان کے اخلاق اور کردار بگڑنے کی وجہ سے بے سُدھ ہوں گے لے.اس وقت میں اسی سرزمین میں اس چشمہ کی طرح ایک روحانی چشمہ جاری کروں گا جس کا پانی کبھی خشک نہیں ہو گا.اور جو بھی اس کو پیے گا.ہمیشہ کی زندگی پا جائے گا اور وہ چشمہ چشمہ محمدی ہو گا.میرے محبوب کے فیض کا چشمہ.گویا یہ چشمہ زمزم میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے اظہار کے لئے آپ کی خاطر آپ کے آباء واجداد کو دیا گیا.میں آپ کو بتا رہی تھی کہ حضرت ہاجر کا چشمہ کے پاس بیٹھی تھیں.کھانا تو ختم ہو چکا تھا مگر ان کو پورا یقین تھا کہ جس طرح خدا نے پانی کا انتظام کیا ہے وہ کھانے کا بھی کرے گا.تو ہوا یوں کہ ایک قبیلہ یمن سے شام کی طرف جا رہا تھا.وہ راستہ بھول گیا.اور مکہ کے قریب پڑاؤ ڈالے پڑا تھا.اس کے پاس بھی پانی ختم ہو رہا تھا.کیونکہ سفر میں آخر کتنا پانی لے کر چلا جا سکتا ہے.پھر اس قبیلہ کے اونٹ گم ہو گئے.اور دو جوان ان کو تلاش کرتے کرتے حضرت ہاجرہ کے پاس پہنچ گئے.وہاں اکیلی عورت کو ایک بچے کے ساتھ چشمہ پر بیٹھا دیکھ کر حیران ہو گئے.اور جلدی ہی اپنے قبیلہ کے سردار مضاض بن عمر و جرہمی کے پاس گئے اور سارا ماجرا بیان کیا.پانی کے اچانک مل جانے پر سارے قبیلہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی.اور انہوں نے وہاں سے کوچ کیا.جب حضرت ہاجرہ کے 1 کیونکہ پیاس سے انسان فوراً مر نہیں جاتا.بلکہ بے سُدھ ہو جاتا ہے.پھر جب بہت دیر تک اس کو پانی نہ ملے پھر مرتا ہے.

Page 26

25 پاس پہنچے تو اُن سے اس چشمہ کے بارے میں دریافت کیا.وہ لوگ کئی بار تجارت کی غرض سے اس جگہ سے گزرے تھے.مگر یہاں تو کوئی چشمہ نہ تھا.جب حضرت ہاجرہ نے ساری بات بتائی تو وہ حضرت ہاجرہ کی نیکی اور پارسائی کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھنے لگے.انہوں نے بڑی عزت کے ساتھ درخواست کی کہ اگر آپ اجازت دیں تو ہم یہیں پڑاؤ ڈال لیں لے.حضرت ہاجرہ اچانک اس دوسرے انعام پر حیران ہو گئیں کہ خدا نے میری تنہائی بھی دور کر دی.ساتھ ہی ان لوگوں نے حضرت ہاجرہ سے پانی لینے کی اجازت لی اور احسان مندی کے جذبہ کی وجہ سے ان کی خدمت میں کھانے کی چیزیں پیش کیں اس طرح کھانے کا بھی انتظام ہو گیا.سب سے پہلا قبیلہ جو مکہ میں آباد ہوا یہی قبیلہ جرہم تھا.لیکن جیسا کہ میں نے پہلے ہی بتایا ہے کہ صحرا میں پانی بہت قیمتی ہوتا ہے.جو بھی قافلے اُدھر سے گزرتے وہ پانی کے لئے رُکتے اور پانی کے بدلے دُور دُور کے علاقوں سے لائی ہوئی کھانے کی اشیاء پھل، اناج وغیرہ حضرت ہاجرہ کی خدمت میں پیش کرتے.اس طرح خدا تعالیٰ نے ماں اور بیٹے کے لئے دُور دُور سے نعمتیں آنے کا ذریعہ پیدا کر دیا.اسی سردار کی بیٹی سے حضرت اسمعیل علیہ السلام کی شادی ہوئی.اور خدا نے آپ کو ملکہ کا بادشاہ بنا دیا.مکہ کو خدا نے ایک اور عظمت یہ دی کہ اپنا گھر جس کو خانہ کعبہ کہتے ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمعیل علیہ السلام سے بنوایا.یہ گھر کسی زمانہ میں موجود تھا.مگر اب اس کے صرف نشان باقی تھے.جن پر لے ایک روایت میں آبی پرندے کا ذکر آتا ہے.کہ اس کو دیکھ کر قافلہ والوں نے چشمہ تلاش کیا.

Page 27

26 یہ تعمیر کیا گیا.یہ گھر بڑی عظمت اور برکت والا ہے.اس کی حفاظت بھی حضرت اسمعیل علیہ السلام کے سپرد ہوئی اور اس کے طواف کا حکم دیا گیا.ساتھ ہی چشمہ کے مالک بھی آپ ہی تھے.چنانچہ حضرت اسمعیل علیہ السلام جو اپنے وقت کے نبی تھے.انہوں نے اس گھر کی عزت اور احترام کو قائم کیا.قبیلہ جرہم کے علاوہ دوسرے قبائل جو مکہ میں آئے تھے.وہ بھی اس کا طواف کرتے اور اس پر نذرانے دیتے.جب حضرت اسمعیل علیہ السلام کا انتقال ہوا.تو کعبہ کی خدمت ان کے بڑے بیٹے نابت کے حصہ میں آئی.ان کے بعد یہ سعادت نابت کے نانا مضاض بن عمرو کو ملی.اس قبیلہ نے سینکڑوں سال خانہ کعبہ اور حاجیوں کی خدمت کا فریضہ ادا کیا.لیکن ایک اور قبیلہ جس کا نام خزاعہ تھا کی نظر کعبہ کی دولت اور مکہ کی سرداری پر تھی.اس نے لڑائی کر کے قبیلہ جرہم سے کعبہ کی تولیت چھین لی.اور اس قبیلہ کو مکہ سے نکلنے پر مجبور کر دیا.اس وقت قبیلہ کے سردار عمرو بن الحرث جرہمی نے کعبہ کی دولت چشمہ میں ڈال کر اس کو مٹی سے بند کر دیا ہے.قبیلہ حجر ہم کو مکہ چھوڑنے کا بہت صدمہ تھا.وہ یمن کی طرف ہجرت کر گئے.جب قبیلہ خزاعہ مکہ میں داخل ہوا تو مقدس چشمہ گم ہو چکا تھا.وہ لوگ سخت حیران ہوئے.بہت تلاش کیا.لیکن زمزم نہ ملا.اصل میں اس چشمہ کو تو خدا نے حضرت اسمعیل علیہ السلام کی اولاد کی خاطر جاری کیا تھا.اور قبیلہ جرہم حضرت اسمعیل علیہ السلام کی اولاد کے نانا کا قبیلہ تھا.ایک خون کے رشتہ کی وجہ سے خدا نے اس قبیلہ کو بھی اس سعادت سے نواز 1 سيرة خاتم النبيين جلد اوّل صفحہ 97

Page 28

27 دیا.قبیلہ کے لوگوں نے اس پانی کو زبردستی یا لڑائی سے نہیں چھینا تھا.اس لئے خدا نے بھی ان سے اس نعمت کو واپس نہیں لیا.مگر قبیلہ خزاعہ نے لڑائی کی.امن والے شہر مکہ کے امن کو خراب کرنا چاہا.پھر اس قبیلہ کی حضرت اسمعیل علیہ السلام کی نسل سے کوئی رشتہ داری بھی تو نہیں تھی.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس مقدس چشمہ کو چھپا دیا.اور بچو سینکڑوں سال یہ دُنیا کی نظروں سے اوجھل رہاہے.لیکن یہ چشمہ ہمیشہ ہمیش کے لئے غائب نہیں ہوا.بلکہ جب اس کا اصل وارث دُنیا میں آنے والا تھا اور تھوڑا وقت رہ گیا تھا اس کے آنے میں، تو خدا نے اس کے جاری ہونے کا سامان کر دیا.خدا کا کرنا کیا ہوا کہ حضرت عبدالمطلب جو ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا تھے.انہوں نے خواب دیکھا کہ کوئی شخص آیا اور کہہ رہا ہے کہ طیبہ تے کو کھودو.آپ نے پوچھا طیبہ کیا ہے.تو وہ شخص غائب ہو گیا.پھر دوسرے دن جب آپ سوئے.تو وہی شخص آیا اور بولا بڑ ھ کوکھودو.آپ نے سوال کیا کہ بڑہ کیا ہے.تو وہ غائب ہو گیا.پھر تیسرا دن ہوا اور جب آپ کام سے واپس آئے اور رات کو سوئے تو کیا دیکھتے ہیں.کہ وہ شخص آ گیا اور کہنے لگا مضنون کو کھودو.آپ نے پوچھا مضنو نہ کیا ہے تو پہلے کی طرح وہ پھر چلا گیا.ان تین دنوں میں آپ بڑے پریشان رہے.آپ نے قریش کے لوگوں کو اپنا خواب سنایا.تو وہ بھی حیران تھے.یہ سب کیا ہے.لیکن ان کو یہ یقین نہیں تھا کہ اللہ تعالی سینکڑوں سال بعد اپنی قدرت دوبارہ دکھانا چاہتا ہے.ان کو خیال ہوا کہ شاید کوئی شیطانی وسوسہ نہ ہوئے.قریش نے سوال کرنے شروع کر دیئے کہ وہ 1 سیرۃ النبی ابن ہشام جلد اول 2 3 4 یہ سب چاہ زمزم کے نام ہیں.سیرۃ النبی ابن ہشام جلد اوّل صفحہ 173

Page 29

28 کہاں ہے.اس کی پہچان کیا ہے.کون سی جگہ کو کھودا جائے.اور حقیقت بھی یہی تھی کہ حضرت عبدالمطلب بھی ابھی تک پوری طرح سمجھ نہیں پائے تھے کہ کس کے بارے میں کہا جا رہا ہے.آخر جب وہ چوتھے دن ان ہی خیالات میں کھوئے ہوئے سوئے تو پھر وہ آدمی آ گیا.اور بولا زمزم کو کھودو.انہوں نے پھر پوچھا کہ زمزم کیا چیز ہے.اس سوال پر وہ شخص غائب نہیں ہوا.بلکہ اس نے تفصیل سے بتایا کہ زمزم وہ چشمہ ہے جو کبھی نہیں سوکھے گا.نہ ہی اس کا پانی کم ہو گا.بلکہ وہ کعبہ کے طواف کے لئے آنے والے حاجیوں کے گروہوں کو سیراب کرے گا.خواب میں ہی حضرت عبدالمطلب سمجھ گئے کہ اُسی مقدس چشمہ کے بارے میں بتایا جا رہا ہے.لیکن یہ تو بتایا نہیں کہ وہ کہاں ہے.اتنے میں پھر اُسی شخص نے کہنا شروع کر دیا.کہ لید اور خون کے درمیان غراب اعصم لے کے پاس چیونٹیوں کی بستی کے قریب ہے تھے.آپ اُٹھے تو آپ کو اطمینان تھا.کیونکہ خدائے ربّ العزت نے کھول کر وضاحت کر دی تھی.اس جگہ کی نشاندہی کر دی تھی کہ کہاں گھدائی کرنی ہے.ایک اور روایت میں ہے کہ بتایا گیا.چیونٹیوں کے گھر کے پاس جہاں کل کو اچونچ مارے گائے.ان تمام باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ جب خدا کی مرضی ہوتی ہے یا جس کام کے لئے جس مقصد کے لئے جو وقت مقرر ہوتا ہے.اس وقت خدا ایسے انسانوں کو بھی پیدا کرتا ہے جن کو وہ بتا سکے اور جن سے کام لے سکے.چنانچہ ایسا 1 چشمہ زمزم 2 ایسا کو ا جس کے پروں کی نوک سفید ہوتی ہے.3 سیرۃ النبی ابن ہشام جلد اوّل صفحہ 170

Page 30

29 ہی ہوا.اب وقت آ گیا تھا کہ چشمہ ظاہر ہو جائے اور جو چھوٹے چھوٹے کنوئیں اس وقت مکہ میں موجود تھے.ان سے پانی تو حاصل ہوتا تھا.وہ مکہ کے لوگوں کو تو شاید پورا ہو جاتا.مگر حاجیوں کی کثرت کی وجہ سے ہمیشہ کمی کا احساس رہتا.اب اللہ تعالیٰ یہ چاہتا تھا کہ پانی کی کمی نہ رہے.پیاس محسوس نہ ہو.بظاہر یہ دُنیا کے پانی کی بات ہو رہی تھی.لیکن وہ قادر خدا اپنی قدرت کے ذریعہ بتا رہا تھا کہ اب ایسا چشمہ بھی ظاہر ہو گا جس کا پانی کبھی نہیں سوکھے گا.یعنی اسلامی تعلیم قرآن پاک جو سب آنے والوں کو سیراب کرے گا.اب ان چھوٹے کنوؤں کی ضرورت نہیں پڑے گی.یعنی دوسرے نبیوں کی تعلیمات کیونکہ وہ تو چھوٹے کنوئیں تھے نا.اس میں پانی بھی کم تھا.سب مل کر بھی ضرورت پوری نہیں کرتے تھے.لیکن اس چشمہ سے ہر دور کے ہر انسان کی ضرورت پوری ہوگی.یہ زمزم ایک ظاہری اور جسمانی چشمہ ہے مگر روحانی اور حقیقی چشمہ چشمہ محمدی ہو گا جو کبھی کسی کو پیاسا نہیں چھوڑے گا.تو بچو! چاہ زمزم چشمہ محمدی کا ایک ظاہری نشان ہے.خدا تعالیٰ ان ظاہری نشانوں سے ہی اپنے روحانی نشانات سمجھاتا ہے مگر جو اس کی قدرت سے اس کے فضل سے سمجھ رکھتے ہیں یا جن کو ایسی طاقت ہوتی ہے کہ وہ خدائی نشانات کو سمجھ سکیں.وہ جان لیتے ہیں کہ کیا ہونے والا ہے اور کیا ظاہر ہوگا.میرے حسین بچو! حضرت عبدالمطلب نے اس چشمہ کی تلاش کا ارادہ کیا.انہوں نے کعبہ میں کھڑے ہو کر قریش سے مدد مانگی.پہلے تو کچھ لوگ راضی ہوئے مگر بعد میں انکار کر دیا.آپ نے بڑے عزم سے کہا کہ مجھے جس کا حکم دیا 1 ابن اسحق

Page 31

30 گیا ہے وہ میں ضرور کروں گا.تم لوگ میری مدد نہیں کرتے تو کوئی بات نہیں.میں اپنے بیٹے کے ساتھ جاؤں گا اور اپنے اکلوتے بیٹے حارث کو لے کر چشمہ کی تلاش میں نکل پڑے.اس پر تمام قریش کے سردار آپ کا مذاق اُڑانے لگے کہ اکیلے بچے کے ساتھ کیا ہوگا.حضرت عبدالمطلب کو سخت دُکھ ہوا کہ بجائے مدد کرنے کے یہ میرا مذاق اُڑا رہے ہیں.میری کمزوری کا کہ ایک بیٹا ہے.پھر میں غریب بھی ہوں.ان لوگوں کی طرح میرے پاس دولت نہیں.اسی وقت انہوں نے کعبہ کے پاس کھڑے ہو کر دعا مانگی.اے خدا ! اگر تو نے مجھے دس بیٹے دے.اور وہ میری آنکھوں کے سامنے جوان ہوں تو میں ان میں سے ایک جسے تو چاہے تیری راہ میں قربان کر دوں گا.یہ لوگ اس نیک مقصد میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں.میری دعا ہے کہ میری اولاد تیرے گھر کی محافظ ہو.پھر وہ دعا کرتے ہوئے حارث کے ساتھ چلے.جہاں قریش اپنے جانور قربان کیا کرتے تھے.وہاں انہوں نے چیونٹیوں کے گھر کو دیکھا.ساتھ ہی کو ابھی چونچ مار رہا تھاتے.و ہیں انہوں نے کھدائی شروع کی.یہ دیکھ کر قریش کے لوگ بھی وہاں جمع ہونے لگے.آپ کھودتے جا رہے تھے.اور قریش کے افراد حیرت سے دیکھ رہے تھے.کیا ہو گیا ہے عبدالمطلب کو.صرف خواب کی وجہ سے اتنی محنت کر رہا ہے.کیا معلوم ملے نا ملے.مگر آپ کے عزم اور حوصلہ کی وجہ سے خاموش تھے.ابھی زیادہ کھودا بھی نہ تھا کہ اندر کا راز کھل گیا.اس پر حضرت عبدالمطلب نے تکبیر کا نعرہ لگایا.اب قریش جان گئے کہ آپ کو سچ بتایا گیا تھا.جب اور کھودا گیا تو اس میں سے وہ دولت جو چشمہ میں ڈالی گئی تھی یعنی دوسونے کے ہرن اور نہایت سفید 1 سیرۃ ابن ہشام جلد اول 2 ابن اسحق

Page 32

31 تلوار میں اور زر ہیں لے ملیں.یہ قبیلہ جرہم کے سردار عمرو بن الحرث جرہمی نے مکہ سے جاتے ہوئے اس میں ڈال دی تھیں.اب تو قریش کو سخت افسوس ہوا.کہ اگر ہم مدد کرتے تو ان سب چیزوں سے ہم کو بھی حصہ ملتا.مگر اب کیا کریں.قریش کو فوراً ہی احساس ہوا کہ یہ تو ہمارے آباؤ اجداد یعنی باپ دادا کی دولت ہے اس میں ہم بھی حصہ دار ہیں.انہوں نے حضرت عبدالمطلب کو کہا کہ ہم کو بھی حق دو.ورنہ ہم جھگڑا کریں گے.آپ نے قریش کے لوگوں کو جواب دیا.کہ جھگڑے کی کوئی بات نہیں.چلو کسی کو ثالث بنا لیتے ہیں.جیسے حج ہوتا ہے نا.اور وہ جو فیصلہ کرتا ہے.اس کو مان لیتے ہیں.اس پر قریش نے کہا کہ قبیلہ بنی سعد کی کاہنہ یعنی جادوگرنی جس کا نام ہذیم تھا.اسے مقرر کرتے ہیں.اور بچو وہ ملک شام کے بلند علاقوں میں رہتی تھی.حضرت عبدالمطلب کے ساتھ قریش کے قبیلوں کا ایک ایک آدمی سوار ہو کر شام کی طرف چلے.تاکہ اس کا ہنہ سے فیصلہ کروا سکیں.اس زمانہ میں چونکہ شہر آج کل کی طرح پھیلے ہوئے اور دُور دُور تک آباد نہیں ہوئے تھے.بلکہ چھوٹی چھوٹی بستیاں تھیں.راستے پر خطر اور ویران تھے.اس وقت تیز رفتار سواریاں بھی نہیں تھیں.اسی لئے اونٹوں پر سفر ہوتا تھا.اور بعض اوقات مہینوں بعد کوئی قافلہ گزرتا تھا.اس وجہ سے وہ راستے بہت ہی ویران تھے.پھر جیسا کہ پہلے بھی آپ کو بتایا تھا کہ عرب ایک صحرا ہے.اور صحرا میں پانی نہیں ہوتا.اس لئے لوگ سفر کے لئے کافی پانی لے کر چلتے تھے.اگر راستہ میں ختم ہو جاتا تو بڑی مشکل ہوتی.اور بعض دفعہ تو قافلے کے قافلے پیاسے مرجاتے تھے.1 سيرة النبي حصہ اوّل ابن ہشام صفحہ 171

Page 33

32 جب یہ قافلہ حجاز اور شام کے درمیان پہنچا.تو ان کا پانی ختم ہو گیا.گرمی، پیاس کی شدت پھر آبادی سے دُور ان تمام باتوں نے ان کو خوفزدہ کر دیا.کچھ لوگوں کے پاس تھوڑا سا پانی تھا.مگر ان لوگوں نے دینے سے انکار کر دیا کہ اگر تم کو دے دیا تو پھر ہمارا بھی وہی حال ہو گا جو اب تمہارا ہے.حضرت عبدالمطلب چونکہ کعبہ کے متولی تھے.اس لئے وہ معزز اور سردار بھی مانے جاتے تھے.اور وہ عام سرداروں کی طرح نہیں تھے.کہ صرف اپنی بات منوائیں بلکہ ان میں یہ خوبی تھی کہ ان کو اپنے لوگوں کے آرام اور دُکھ کا احساس ہوتا تھا.اس وقت بھی ان کو اپنی قوم کے ان لوگوں پر افسوس ہوا.جن کے پاس پانی تھا.اور وہ دینے سے انکار کر چکے تھے.ساتھ ہی دوسرے لوگوں کی ہلاکت کی بھی فکر تھی کہ کیا کریں.آپ نے سب سے مشورہ کیا تو سب بولے جو آپ فیصلہ کریں ہمیں منظور ہے.اس پر آپ نے کہا کہ ہر شخص اپنے لئے ایک گڑھا کھودے.تاکہ جب اس کو موت آئے تو اس کے ساتھی اُس کو اس میں دھکیل دیں.اور وہ گدھوں چیلوں کی خوراک بننے سے محفوظ رہے.یہاں تک کہ کوئی ایک بچ جائے گا.تو اس ایک کی بربادی بہتر ہے.بجائے اس کے کہ سب اس طرح مر جائیں.اور ان کی لاشیں صحرا میں بکھری پڑی ہوں.چنانچہ سب نے اس بات کو مان کر اپنا گڑھا کھودا.اور ان کے کنارے بیٹھ کر موت کا انتظار کرنے لگے.پیاس اور خوف سے ان سب کی بُری حالت تھی.ان میں ہمت ہی نہ تھی کہ کچھ سوچتے.وہ زندگی سے مایوس ہو گئے.حضرت عبدالمطلب نے جب قوم کی یہ حالت دیکھی.تو ان کو بہت دُکھ ہوا.انہوں نے قریش کے لوگوں کو حوصلہ دینا چاہا کہ اُٹھو آگے چلتے ہیں.شاید کوئی

Page 34

33 بستی مل جائے جہاں پانی ہو.اس طرح مایوس ہو کر بیٹھ جانا اچھا نہیں.خدا مدد کرے گا.مگر وہ تو جہاں جسے تھے وہیں بیٹھے رہے.چند لوگ آپ کے ساتھ جانے پر آمادہ ہوئے.آپ اُٹھے اور جب اُونٹنی پر سوار ہونے کے لئے اُس کو اُٹھایا.تو خدا کی شان اُس کے پاؤں کے نیچے سے میٹھے پانی کا چشمہ بہ نکلا.یہ دیکھ کر وہ حیران ہو گئے.حضرت عبدالمطلب نے خود بھی پانی پیا اور آپ کے ساتھیوں نے بھی اپنی پیاس بجھائی.پھر آپ نے قریش کے لوگوں کو بلایا اور کہا یہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے پانی دیا.پیو اور سیر ہو جاؤ.جی بھر کے پیاس بجھاؤ.ساتھ ہی سفر کے لئے بھی بھر لو.اور دیکھو میرے خدا کا نشان.اس تازہ نشان اور خدا کی عظمت کو دیکھ کر قریش کے لوگوں نے کہا کہ خدا نے فیصلہ کر دیا.حضرت عبدالمطلب نے پوچھا.کیسا فیصلہ؟ انہوں نے جواب دیا کہ آپ کے حق میں فیصلہ.اس خدا نے ثابت کر دیا کہ چشمہ کے مالک آپ ہیں.کیونکہ اس صحرا میں پانی کا عطا کرنا اور پانی بھی آپ کی اونٹنی کے قدموں میں نکلنا بتاتا ہے وہ پانی آپ کا ہے.اس طرح قریش کے تمام قبائل متفقہ طور پر چشمہ زمزم سے آپ کے حق میں دستبردار ہو گئے.لیکن اس دولت کا فیصلہ ہونا باقی تھا.انہوں نے کہا اس دولت میں سے ہمیں بھی حصہ دو.حضرت عبدالمطلب نے جواب دیا کہ تیر ڈالیں گے.اس زمانہ میں تیروں سے فال نکالتے تھے.پھر بچو! یہ طے کیا کہ کعبہ کے نام کے دو تیر.دو تیر قریش کے قبیلوں کے اور دو تیر حضرت عبدالمطلب کے.جس چیز پر جس کے دو تیر نکلیں گے وہ اُسی کو 1 سیرۃ النبی ابن ہشام جلد اوّل

Page 35

34 ملے گی.جس کے دو تیر نہیں نکلیں گے اس کو کچھ نہیں ملے گا.آپ خدا کے حضور دُعا کرنے لگے.اور تیر ڈالنے والے نے اپنا کام شروع کیا.تو خدا نے کیا کیا کہ کعبہ کے نام دوسونے کے ہرن نکلے.تلواریں اور زرہیں حضرت عبدالمطلب کے نام نکل آئیں.اور قریش کے تیر خالی گئے.اس طرح ایک بار پھر خدا نے فیصلہ کر دیا کہ قومی دولت کا حق بھی اسی خاندان کا ہے.چونکہ اس نے آگے چل کر امین ہونا ہے.لیکن بچو! حضرت عبدالمطلب نے بھی امانت کا حق ادا کر دیا.انہوں نے تلواروں کو کعبہ کے دروازے کے طور پر لگایا.ہرنوں کو دروازے میں نصب کر دیا.اور خود چشمہ سے حاجیوں کی خدمت کا حق ادا کرنے لگے لیے کہتے ہیں کہ یہ سب سے پہلا سونا تھا.جو خانہ کعبہ کو سجانے کے لئے استعمال ہوا.حضرت عبدالمطلب اگر چاہتے تو اس ساری دولت کو اپنے عیش و آرام پر خرچ کر سکتے تھے.مگر خانہ کعبہ کی محبت نے ان کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ سب خدا کے گھر کی نذر کر دیا جائے.اور ایک بچے امین کی یہی پہچان ہے کہ وہ خود اس امانت کو اس کی صحیح جگہ پر خرچ کرے.یوں خدا نے ایک بار پھر اس مقدس چشمہ کو جاری کر کے دنیا کو بتایا کہ اب اس کا مالک آنے والا ہے.اب مکہ میں انسانوں کی کثرت ہو گی.اس لئے کوئی قوم پیاسی نہ رہے.چنانچہ یہ چشمہ تمام دوسرے کنوؤں پر سبقت لے گیا.اس کا پانی اتنا بڑھا کہ سارے حاجیوں کی ضرورت کو پورا کرتا.چونکہ مسجد الحرام میں تھا.اس لئے سب اسی سے اپنی پیاس بجھاتے تھے.پھر یہ محترم بھی تھا.کیونکہ مقدس اور نیک ل ابن اسحق

Page 36

35 افراد اس کے جاری ہونے کا سبب بنتے رہے.یہ سارے قریش اور سارے عرب کے لئے باعث فخر اور ان کی عزت اور عظمت کا نشان بھی تھا.اے قریش! تم نے چشمہ کی عظمت کو تو مان لیا.اس پر تو فخر کیا.اس کی شان میں قصیدے کہے جو آج بھی تاریخ میں محفوظ ہیں.مگر تم میں سے ان پر افسوس! جو اس چشمہ کے ظاہری حسن کو دیکھتے رہے.اس کے باطنی نشان اور عظمت سے واقف نہ ہو سکے.یہ نہ سمجھ سکے کہ عبدالمطلب نے اسی چشمہ کی خاطر نب اپنے سب سے عزیز اور پیارے بیٹے عبداللہ کو خدا کی منشا کے مطابق قربان کرنا چاہا.تو خدا نے اس قربانی کو ظاہری رنگ میں قبول نہیں کیا.بلکہ باطنی رنگ میں عبداللہ کے جگر گوشے عبدالمطلب کے پوتے اور آمنہ کے لال کو ہمیشہ ہمیش کے لئے اپنا محبوب بنا کر قبول کر لیا.اس چشمہ کے ساتھ ایک اور چشمہ کو جاری کیا.کہ اس کے بعد پھر کسی چشمہ کی ضرورت نہ رہی.ہر پیاسا چاہے وہ دنیا کے کسی خطے سے تعلق رکھتا ہو.اگر اس کی پیاس بجھتی ہے تو اس چشمہ محمدی کے ٹھنڈے اور میٹھے پانی سے.ورنہ وہ پیاسا صحراؤں میں بھٹکتا ہے.تڑپتا ہے.کبھی وہ بنی اسرائیل کے چشموں پر جاتا ہے.کبھی نصرانیت کے کنوئیں اس کو تشنگی بجھانے کی دعوت دیتے ہیں.کبھی ہندو ازم کے جو ہر اس کو پکارتے ہیں.اور کبھی سوشلزم کی جھیلیں اس کو اپنا جلوہ دکھاتی ہیں.کبھی بدھ مت کے تالاب اور کبھی آتش پرستوں کے گڑھوں میں بھرا ہوا ٹھہرا ہوا پانی اس کو بُلاتا ہے مگر پینے کے باوجود بھی پیاس نہیں بجھتی.تشنگی بڑھتی ہے اور بڑھتی چلی جاتی ہے.جب اس کی صدائیں صحراؤں میں گونجتی اور پہاڑوں سے ٹکراتی ہوئی اس چشمہ یعنی چشمہ محمدی پر پہنچتی ہیں.تو ایک مترنم گیت پیدا ہو کر اس کی بازگشت سارے جہان میں سنائی دیتی ہے کہ آؤ! اور

Page 37

36 اپنی پیاس بجھاؤ.کیونکہ یہی وہ صاف میٹھا، ٹھنڈا اور بہتا ہوا چمکدار پانی ہے.جس میں کوئی ملاوٹ نہیں.ایسا شفاف جیسا آئینہ.پیو بھی اپنا چہرہ بھی دیکھو! اور ساتھ ہی اپنے خدا کو بھی پا جاؤ.تو بچو! یہ چشمہ زمزم اصل میں نشان ہے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا.ان کی عظمت کا.ان کی شان کا.ان کے جلال و جمال کا.اور یہ اس وقت تک جاری رہے گا.جب تک میرے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کا فیضان جاری ہے.اللَّهُمَّ بَارِک وَسَلَّمُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيد

Page 38

37 اصحاب فیل ہمارے پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے پہلے کی بات ہے ملک یمن پر ذونواس حمیری بادشاہ حکومت کرتا تھا.یہ یہودی مذہب سے تعلق رکھتا تھا اور عیسائیوں کا دشمن.ایک دفعہ اس کو بے پناہ غصہ آیا.جس کی وجہ سے اس نے اپنے ملک کے بیس ہزار عیسائیوں کو گرفتار کر لیا.اور خندقوں میں ڈال کر زندہ جلا دیا.ان میں سے ایک شخص دوس ثعلبان بیچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا اور بچتا بچاتا قیصر روم کے پاس پہنچا.وہاں جا کر تمام احوال سنایا اور فریاد کی کہ اس قتل عام اور ظلم کا بدلہ لیا جائے.قیصر خود عیسائی تھا اس لئے اُسے بہت غصہ آیا.اس زمانہ میں دو حکومتیں بڑی مشہور تھیں.اور بہت طاقتور.ان کے قبضہ میں دُنیا کے بیشتر حصے تھے اور بعض حصوں پر ان کی براہِ راست حکومت نہیں تھی.مگر ان کی قوت کی وجہ سے وہ ان کے اطاعت گزار تھے.نمبر ایک روم کی حکومت جس کے بادشاہ قیصر کہلاتے تھے.دوسری ایران کی جو کسریٰ کی حکومت کہلاتی تھی.جیسے آج کل روس اور امریکہ ہیں.اور دنیا کے بیشتر ملک اور قومیں ان کی طاقت کی وجہ سے ان کی اطاعت کرتی ہیں.بالکل ایسا ہی اُس وقت بھی تھا.ان دونوں حکومتوں یعنی قیصر و کسریٰ کی اکثر لڑائی رہتی تھی جیسے آج کل بھی امریکہ اور روس میں ناراضگی چلتی رہتی ہے.ان لڑائیوں کی وجہ سے قیصر روم سال کا زیادہ

Page 39

حصہ شام میں گزارتا تھا.38 جب یہ عیسائی دوس تعلبان ملک شام میں قیصر کے پاس فریاد لے کر گیا.تو اس نے حبشہ کے بادشاہ کو خط لکھ کر دیا کہ عیسائیوں کے قتل کا بدلہ لو.اس زمانہ میں حبشہ کے بادشاہ نجاشی کہلاتے تھے.شاہ نجاشی نے دو جرنیلوں اریاط اور ابرہہ بن الصباح کی نگرانی میں یمن پر فوج کشی کے لئے لشکر بھجوائے.جب یہ لشکر یمن پہنچا.تو اس نے حمیری بادشاہ پر حملہ کر دیا.بڑے زور کی لڑائی کے بعد یمن کی حکومت کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا وہاں عیسائی جبش حکومت قائم ہو گئی.کچھ عرصہ کے بعد اریاط اور ابرہہ میں اختلاف پیدا ہو گیا.کوشش کے با وجود صلح نہ ہوئی.اور دونوں جنگ پر آمادہ ہو گئے.لیکن ابھی ان میں قومی غیرت باقی تھی.اس لئے خیال پیدا ہوا کہ لڑائی آپس کی ہے.بلا وجہ فوج کو ٹکرا کر جانیں کیوں ضائع کریں.پھر اس لڑائی کے نتیجہ میں نجاشی کی حکومت بھی کمزور ہوگی.اور دشمن کو فائدہ پہنچے گا.چنانچہ دونوں نے آپس میں مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا.اس طرح کہ جو دوسرے کو مار دے وہ فاتح ہو گا اور حکومت کا حق دار بھی.اس طرح ابر ہہ اور اریاط ایک دوسرے کے سامنے ڈٹ گئے.اریاط نے نہایت چابک دستی سے ابرہہ کے سر پر وار کرنا چاہا.مگر وہ اس کے چہرے پر پڑا.جس کی وجہ سے اس کے چہرے کا ایک حصہ یعنی گال اور ناک بری طرح زخمی ہو گئے.اس دوران ابرہہ کے غلام نے اپنے آقا کی محبت کی وجہ سے پیچھے سے اریاط پر خنجر سے وار کیا اور اس کو ڈھیر کر دیا.ابرہہ کے زخم بہت گہرے تھے جو آہستہ آہستہ ٹھیک ہونے لگے.لیکن چہرہ ہمیشہ کے لئے بگڑ گیا.اسی وجہ سے اس کا نام ابرہہ الاشرم پڑ گیا.اب وہ

Page 40

39 یمن کا واحد حکمران تھا.جب شاہ نجاشی کو اس واقعہ کا علم ہوا.تو اُسے سخت دُکھ پہنچا کہ ان دونوں جرنیلوں نے کیا کیا.اس نے قسم کھائی کہ اریاط کا بدلہ ابر ہ سے لیا جائے گا.اس زمانہ میں جب کسی کو ذلیل کرنا ہوتا تو اس کی پیشانی کے بال کھینچے جاتے تھے.چنانچہ اس نے اعلان کیا کہ ابرہہ کے بال کٹوا کر اس کے ملک میں پیروں تلے روند ڈالوں گا.جب یہ خبر ابرہہ کو ملی.تو اس نے اپنے سر کے بال کٹوائے اور یمن کی مٹی سے بوری بھر کر بادشاہ کی خدمت میں دونوں چیزیں بھیج دیں.ساتھ ہی کہلوایا.کہ آپ کے ارشاد کے مطابق بال بھی حاضر ہیں اور مٹی بھی.جو چاہے سلوک ان سے کیا جائے.میں اپنے اس فعل پر شرمندہ ہوں.مگر قصور ہم دونوں کا تھا.اگر میں مارا جاتا.تو وہ حاکم ہوتا.اب جو ہونا تھا ہو گیا.وہ بھی آپ کا غلام تھا اور میں بھی.اس لئے اس غلام کو معاف کر دیا جائے.یہ ہمیشہ آپ کا مطیع اور فرمانبردار رہے گا“ کے شاہ نجاشی کے بارے میں تاریخ میں لکھا ہے کہ وہ فطرتا نیک اور شریف آدمی تھا.اس نے ابرہہ کو معاف کر دیا.اور کہا کہ ہم تم کو یمن کا گورنر مقرر کرتے ہیں.اس خبر کے ملنے پر ابرہہ نے خوشی کے اظہار اور عقیدت کے لئے فیصلہ کیا کہ وہ یمن میں ایک شاندار گر جا بنائے گا.اُس نے گر جا بنانے کے لئے دُور دُور سے انجینئر بلوائے.قیمتی لکڑی اور بہترین رنگساز جمع کئے.جنہوں نے ایک انتہائی بلند اور عالی شان گرجا کی تکمیل کی.یہ گرجا اتنا بلند تھا کہ جب اس کو دیکھا جاتا تو ٹوپی گر جاتی تھی.اس لى سيرة النبي ابن ہشام صفحہ 70 تفسیر کبیر، جلد دہم ،سورۃ الفیل

Page 41

40 وجہ سے عربوں نے اس کا نام قلیس رکھ دیا.عربی میں کلاہ کو قلنسوہ کہتے ہیں.ابرہہ نے گرجا بنانے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ عرب خانہ کعبہ چھوڑ کر اس عالیشان گرجا کی پرستش کریں.اپنی اس تمنا کا اظہار اس نے شاہ نجاشی سے بھی کر دیا.جب عرب کے لوگوں کو ابرہہ کی خواہش کے بارے میں پتہ چلا.تو وہ بھڑک اُٹھے.کہ یہ کیا بات ہوئی.مانا کہ اس نے اپنے گرجے کو خوبصورت بنایا ہے.اس میں قیمتی لکڑی کثرت سے استعمال ہوئی ہے.رنگ اور روغن کا کام بھی اچھا ہے.پھر وہ اونچا بھی بہت ہے مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہم اس مقدس گھر سے منہ موڑ لیں.یہ گھر ہمارے آباء و اجداد کی قربانیوں کی نشانی ہے.ہماری قوم کے اتحاد کا مرکز ہے.اس کے علاوہ اس گھر سے بہت سی عظمتیں اور برکتیں بھی تو وابستہ ہیں.پھر ہم کیسے اس کو چھوڑ سکتے ہیں.اس طرح تو خانہ کعبہ کی عظمت پر حرف آئے گا.یہ کوئی پہلا گر جانہیں بنا کہ سب اس کی طرف متوجہ ہو جائیں.دنیا میں تو ہزاروں گرجے تھے.ایسے سینیا میں بھی تو اس سے بڑے اس سے زیادہ عالیشان گرجے تھے.پھر یمن تو اس کے ماتحت تھا.رومن حکومت جو قیصر کی سلطنت کہلاتی تھی.بہت طاقتور اور مضبوط تھی.اس میں بھی ہزاروں گرجے تھے.حبشہ بھی اس کے ماتحت تھا.مگر اس نے کبھی کوشش نہیں کی کہ عرب خانہ کعبہ کو چھوڑ دیں.آخر اس میں راز کیا ہے؟ جب عرب قبائل کے سرداروں نے غور کیا تو اُن کی سمجھ میں آ گیا کہ یہ خانہ کعبہ کی ہتک ہے.اس طرح وہ عربوں کے اتحاد و اتفاق کو برباد کرنا چاہتے ہیں پھر تو وہ جوش میں آگئے.وہ سب کچھ برداشت کر سکتے تھے.مگر خانہ کعبہ کی 1 طبقات ابن سعد حصہ اوّل

Page 42

41 ہتک ان کی برداشت سے باہر تھی.اور جب انسان بہت زیادہ جوش میں آ جائے تو اس کے ہوش ٹھکانے نہیں رہتے.بالکل ایسا ہی ایک جوان کے ساتھ ہوا.یہ بنو فقیم کے قبیلہ نساہ کا فرد تھا.آج دنیا کو اس کا نام معلوم نہیں مگر اس گھر کی خاطر جو اس نے نادانی میں حرکت کی وہ ساری دنیا کو معلوم ہے.وہ صنعاء گیا.پھر گر جے کے محافظوں سے ملا اور اُن سے کسی نہ کسی طرح وہاں رہنے کی اجازت لے لی.ایک دن جب سب لوگ کہیں چلے گئے تو وہ رات کو گرجے کے عین اس مقام پر پہنچا جو عبادت کے لئے مقرر تھا.وہاں اس نے نجاست پھیلا دی اور خود بھاگ آیا.صبح جب صفائی ہونے لگی.تو کیا دیکھتے ہیں کہ عین عبادت کی جگہ پر پاخانہ پڑا ہے.لوگوں نے جلدی سے افسروں کو اطلاع دی.افسروں نے ابرہہ کو بتایا کہ یہ کام ایک عرب کا ہے.کیونکہ وہ ہی رات ٹھہرا تھا.اور اب غائب ہے.جب ابرہہ نے پوچھا کہ ایسی حرکت کی کیا وجہ ہو سکتی ہے.تو انہوں نے بتایا کہ آپ نے جو عربوں کو کعبہ چھوڑ کر اس کی پرستش کرنے کا حکم دیا ہے.وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ کعبہ تو عبادت کیلئے ہے.مگر آپ کا بنایا ہوا یہ گر جا اس قابل ہے کہ یہاں یہ حرکت کی جائے.یہ سُن کر ابرہہ آگ بگولا ہو گیا کہ عربوں کو اتنی جرأت کہ وہ میرے بنائے ہوئے گرجے کی بے عزتی کریں.اس نے قسم کھائی کہ مکہ پر چڑھائی کر کے خانہ کعبہ کی اینٹ سے اینٹ بجادے گا.اس کے بعد ایک اور واقعہ ہو گیا.قریش کے چند جوان صنعاء گئے اور گرجے کے پاس ٹھہرے.وہاں کسی کام سے آگ جلائی تو ہوا گر جے کے رُخ پر چلنے لگی.جس کی وجہ سے چند چنگاریاں عمارت میں جا گریں.چونکہ گرجے میں 1 ابن ہشام حصہ اول صفحہ 71 2 روایت مقاتل بن سلیمان

Page 43

42 روغن استعمال ہوا تھا.اور روغن کو آگ جلدی لگ جاتی ہے.یوں گرجے کو آگ لگ گئی.اور اس کا کچھ حصہ تباہ ہو گیا.اب تو ابر ہ کو یقین ہو گیا کہ جب تک خانہ کعبہ ہے.یہ عرب اس گرجے کی عظمت کو قائم نہیں ہونے دیں گے.اس طرح مکہ کے لئے اس کے دل میں نفرت پوری طرح بھر گئی.اب ابرہہ نے ایک چال چلی اس نے اپنے آدمی بھیج کر عرب کے رئیسوں کو جمع کیا تاکہ بغیر لڑائی کے عربوں کو قلیس کی طرف مائل کیا جائے.اور ان کو کہا جائے کہ وہ اب حج بھی اسی کا کیا کریں.قبیلہ خزاعہ کے دو بڑے سردار جن میں محمد بن خزاعی اور قیس بن خزاعی آئے.وہ عیسائی نہیں تھے.مگر انعام و اکرام کے لالچ نے ان کو اندھا کر دیا.دونوں مکہ کے لوگوں کو جمع کر کے ترغیب دیتے کہ حاکم وقت سے اپنے تعلقات اچھے رکھو اس کی بات مان لو.قلیس کا طواف کیا کرو.اگر ایسا کرو گے تو وہ عرب کی حالت بدل دے گا.یہاں بھی ترقیاتی کام ہوں گے.جب یہ دونوں بنو کنانہ کے علاقہ میں پہنچے تو مکہ کے لوگوں کو اس پروپیگنڈے کی اطلاع مل گئی.انہوں نے تصدیق کی خاطر ہذیل قبیلہ کے سردار عروہ بن حیاض کو صحیح حالات معلوم کرنے بھیجا وہ سفر کرتا ہوا جب بنو کنانہ کے ہاں پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ دونوں رئیس عربوں کو کعبہ کی عبادت اس کے طواف سے روک رہے ہیں اور قلیس کی شان بیان ہو رہی ہے.پھر کیا تھا.اس نے سوچا کہ اب قوم سے کیا مشورہ لینا.خود ہی ان کا علاج کرو.تیر کمان نکالی اور محمد بن خزاعی کے سینہ کا نشانہ لیا.وہ تو اسی وقت مر گیا.مگر دوسرا بھاگا اور ابرہہ کو اس واقعہ کی اطلاع دی.اب تو ابر ہہ غصہ سے پاگل ہو گیا کہ میرے ایلچی کو یعنی سفیر کو مار دیا.اس کو پکا یقین ہو گیا کہ کعبہ کی موجودگی 1 تفسير كبير سورة الفيل

Page 44

43 کبھی بھی قلیس کی عظمت کو قائم نہیں ہونے دے گی.کعبہ کو گراؤ تا کہ قلیس کی شان بڑھے.اس نے ایک روایت کے مطابق میں ہزار کا لشکر لیا.اس میں 9 ہاتھی تھے.جو ہاتھیوں کا سردار ہاتھی تھا اس کا نام محمود تھا.اس پر ابر ہ سوار تھا.اب وہ مکہ کی طرف روانہ ہوا.اس کی آمد کی خبر جنگل کی آگ کی طرح سارے عرب میں پھیل گئی.اور عربوں میں ایک جوش ایک ولولہ پیدا ہوا.ادھر ذونفر حمیری نامی ایک شخص نے اس جوش کو اور بھڑ کا یا.جس کی وجہ سے عرب کے بعض قبائل اس کے جھنڈے تلے جمع ہونے لگے.جو نہی ابرہہ کا لشکر صنعاء سے نکلا اس کی مڈ بھیڑ ذونفر حمیری کی فوج سے ہو گئی.یہ اس کی بھاری قوت سے مقابلہ نہ کر سکے اور ہار گئے.ذونفر قید ہوا.جب اس کو قتل کیا جانے لگا تو اس نے کہا کہ مجھے جان سے نہ مارو بلکہ قید کر لو.شاید میں کسی کام آ سکوں.ابرہہ نے اس کی پیش کش کو قبول کر لیا.جب وہ شمال کی طرف بڑھتے بڑھتے قبیلہ خشم کے علاقہ میں پہنچا.تو ایک اور بڑا لشکر اس کا منتظر تھا.جس کا لیڈر نفیل بن حبیب تھا.یہ بھی اس طاقتور فوج کا مقابلہ نہ کر سکے.آخر نفیل قید ہوا.اس نے بھی ذونفر والی بات کی کہ مجھے زندہ رکھو.میں تمہارے بہت کام آؤں گا.غرض ابرہہ نے اس کو بھی قید کر لیا.جب ابرہہ بڑھتے بڑھتے طائف پہنچا.تو وہاں کے سردار مسعود بن معتب نے مقابلہ کرنے کی بجائے اس کا استقبال کیا.اس کی وجہ تاریخ میں آتی ہے کہ طائف والوں کا بُت لات تھا.جسے انہوں نے ایک بت کدے میں نصب کیا ہوا تھا.حالانکہ طائف کے لوگ بھی کعبہ کا طواف کرتے.اس پر چڑھاوے 1 تفسير كبير سورة الفيل

Page 45

44 چڑھاتے مگر ان کی یہ خواہش تھی کہ ہمارے بت کدے کا مقام کعبہ کی طرح ہو.چنانچہ انہوں نے بھی ابرہہ کا ساتھ دیا کہ جب یہ خانہ کعبہ کو گرا دے گا.تو ہمارے بت کدے کا مقام بڑھ جائے گا.انہوں نے ابورغال نامی آدمی کو راہنمائی کے لئے لشکر کے ساتھ کر دیا.جب لشکر مغمس نامی جگہ پہنچا تو ابورغال کا انتقال ہو گیا.شاید اس شخص پر کعبہ کے ساتھ غداری کا خوف ہو.جس سے وہ مر گیا.مغمس کے مقام پر پہنچ کر ابرہہ نے اسود بن مقصود کو کچھ فوج دے کر مکہ کی سمت روانہ کیا.کہ وہاں کا حال معلوم کرے.جب یہ شخص ضروری معلومات حاصل کر چکا تو واپسی پر وادی میں چرتے ہوئے جانوروں کو بھی لے آیا.ان میں اُونٹ کثرت سے تھے.ان اونٹوں میں دوسو اونٹ حضرت عبد المطلب سردار قریش کے بھی تھے.جب اس طرح جانور غائب ہوئے تو مکہ والوں کو یقین ہو گیا کہ حملہ ہونے والا ہے.مکہ میں بسنے والے قبائل کنانہ ھذیل اور قریش کے بڑے بڑے سرداروں نے مل کر غور شروع کیا کہ اب کیا کیا جائے.سب کی متفقہ رائے تھی کہ اتنے بڑے لشکر سے لڑائی ممکن نہیں.ادھر ابرہہ نے اپنا ایک خاص آدمی حیاطہ جو حمیری قبیلہ سے تھا.مکہ والوں کے پاس بھیجا.اس نے دریافت کیا کہ قبیلہ کا سردار کون ہے.بتایا گیا عبدالمطلب.وہ حضرت عبدالمطلب کے پاس گیا اور ابرہہ کا پیغام دیا کہ ” میں صرف خانہ کعبہ کو گرانا چاہتا ہوں.مکہ کے لوگوں کو تکلیف دینا میرا مقصد نہیں.اور نہ ہی تم لوگوں سے میری دشمنی ہے.اس لئے تم لوگ اپنی جانیں ضائع نہ کرو.بلکہ ایک طرف ہو جاؤ.اور کعبہ کو گرانے دو“.حضرت عبدالمطلب نے کہا کہ لڑنے کی ہماری بھی نیت نہیں.اور بڑی

Page 46

45 سادگی سے ساری بات بتادی کہ ہم نے آپس میں مشورہ کر لیا ہے.ہم اتنے بڑے لشکر سے لڑ ہی نہیں سکتے.جس کی تعداد میں ہزار ہے.لیکن اس مقدس گھر کے بارے میں ہمارا ایمان ہے کہ یہ خدا کا گھر ہے.اس کی حفاظت کا اس نے وعدہ کیا ہے اور ساتھ ہی ہمارا عقیدہ ہے کہ اگر خدا نے اس کو بچانا ہے اور اس کی عزت و احترام کو قائم رکھنا ہے.تو کوئی طاقت اس کو بر باد نہیں کر سکتی.اور اگر خدا نہیں چاہتا تو ہم میں ہرگز اتنی طاقت نہیں کہ اس کو بچا ہیں.یہ سن کر حیاطہ نے کہا کہ آپ میرے ساتھ چلیں اور خود بادشاہ کو بتا دیں.شاید آپ کی باتیں سُن کر وہ اس ارادہ سے ہی باز آ جائے.چنانچہ حضرت عبدالمطلب نے سرداروں اور اپنے بیٹوں سے مشورہ کیا.اور بیٹوں کے ساتھ مغمس کے مقام کی طرف روانہ ہوئے.مغمس مکہ سے پندرہ سولہ میل کے فاصلے پر ہے.راستے میں حیاطہ کی زبانی معلوم ہوا کہ ذونفر حمیری سے ابرہہ کی لڑائی ہوئی تھی اور اب وہ اس کی قید میں ہے آپ نے پہلے ذونفر سے ملنے کی خواہش کی.( تجارت کے لئے آتے جاتے لوگوں سے دوستی ہو جاتی ہے) کیونکہ یہ آپ کا دوست تھا.جب آپ اس سے ملے تو اس کو ملامت کی.کہ تجھے کعبہ اور کعبہ والوں کی کوئی پرواہ نہیں.اس نے کہا میں نے تو مقابلہ بھی کیا مگر کیا کروں اب تو قید ہوں.لیکن میں اتنا کر سکتا ہوں کہ میری دوستی بادشاہ کے ہاتھی کے مہابت سے ہو گئی ہے.اور بادشاہ اس کو بہت پیار کرتا ہے.ہوسکتا ہے کہ وہ شخص کچھ تمہاری مدد کر دے.اس کا نام انہیں تھا.ذونفر نے اس کو بلایا اور کہا کہ یہ قریش کے سردار ہیں.انسان تو کیا

Page 47

46 جانوروں کا بھی خیال رکھتے ہیں، اُن کے اُونٹ شاہی سوار لے آئے ہیں.ان کو بادشاہ سے ملوا دو.اور کوئی مدد کر سکتے ہوں تو سفارش کر دو.انہیں حضرت عبدالمطلب کو لے کر شاہی خیمہ کے پاس گیا.اور دروازے پر کھڑے ہو کر اجازت طلب کرتے ہوئے کہنے لگا.”حضور یہ مکہ کے رئیس ہیں.آپ سے ملنے آئے ہیں.بڑے احسان کرنے والے ہیں.ان پر التفات فرمائیں.بادشاہ نے اپنے خادم کی زبانی جو تعریف سنی تو فوراً اجازت دے دی.حضرت عبدالمطلب نہایت وجیہہ خوبصورت اور لمبے قد کے سُرخ و سفید انسان تھے.اور حبشہ کے لوگ چھوٹے قد کے ہوتے ہیں.جب ابرہہ کی نظر آپ پر پڑی تو وہ بہت مرعوب ہوا.آپ کو دیکھتے ہی کھڑا ہو گیا.اور آپ کے ساتھ قالین پر نیچے بیٹھ کر ترجمان سے کہا کہ ان کو بتاؤ کہ مجھے ان سے مل کر بہت خوشی ہوئی ہے.یہ آنے کی وجہ بتا ئیں.حضرت عبدالمطلب نے کہا کہ آپ کے آدمی میرے دو سو اونٹ لے آئے ہیں وہ واپس کر دیئے جائیں.یہ سن کر ابرہہ حیران ہو گیا.کہنے لگا کہ آپ سے مل کر میں بہت متاثر ہوا تھا.اسی وجہ سے اپنا تخت چھوڑ کر آپ کے ساتھ زمین پر بیٹھ گیا.آپ کو میں بہت عقل مند اور لائق سمجھتا تھا.شاید آپ کو معلوم نہیں کہ میں آپ کے مقدس گھر کو گرانے آیا ہوں.جو آپ کے باپ دادوں سے آپ کا مرکز چلا آ رہا ہے.نہ صرف آپ کی بلکہ آپ کے آباء واجداد کی عبادت گاہ ہے.لیکن اُس کی آپ کو کوئی پرواہ نہیں.صرف اونٹوں کا خیال آیا.اور اس گھر کو بھول گئے جس سے آپ اور آپ کے باپ دادوں کا دین وابستہ ہے.حضرت عبدالمطلب نے جواب دیا کہ میں اونٹوں کا مالک ہوں میرے

Page 48

47 دل میں ان کا درد ہے.اور ہمارا عقیدہ ہے کہ اس گھر کا مالک بھی ایک ہستی ہے.جس نے اس کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے.کیا اس کو اپنے گھر کی فکر نہ ہوگی کہ اس کو حملہ سے بچائے؟ دوسرے یہ کہ ہم میں اتنی طاقت ہی نہیں کہ ہم لڑائی کر سکیں.اب اگر ہم لڑ کر مر بھی جاتے ہیں تو کیا فائدہ.جس نے اس کی حفاظت کرنی ہے.وہ ضرور کرے گا.ہم چاہے نہ لڑیں پھر اگر اس نے بچانا ہے تو ضرور بچائے گا.لیکن اے بادشاہ اس گھر پر حملہ کر کے تم بیچ نہ سکو گے.یہ سن کر ابرہہ سکتہ میں آ گیا.پھر فوراً ہی بولا.میں دیکھوں گا کہ کون اس گھر کو میرے حملہ سے بچاتا ہے.حضرت عبدالمطلب اپنے اونٹ لے کر واپس آئے.آپ بہت اُداس تھے.مکہ کے لوگوں کو جمع کیا اور بادشاہ کے ارادہ سے آگاہ کیا.بڑے دُکھ سے کہا کہ ہمارے پاس طاقت نہیں کہ اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ کر سکیں.اس لئے تم لوگوں کو مشورہ ہے کہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر چلے جاؤ.جوابرہہ نے کرنا ہے وہ کر لے.اور جو خدا نے کرنا ہے وہ ظاہر ہو جائے.اس کے بعد ہم پھر مکہ میں آجائیں گی پھر آپ خانہ کعبہ کے پاس آئے.دل سخت تڑپ رہا تھا اپنی بے بسی پر رونا آ رہا تھا اپنی کم طاقتی پر.دروازے کے حلقہ کو پکڑا اور بڑے درد سے اپنے خدا کو پکارتے ہوئے کچھ شعر پڑھے جن کا ترجمہ اس طرح ہے تھے.”اے اللہ جب بندے کے گھر کو کوئی ٹوٹنے آتا ہے تو وہ اس کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہو جاتا ہے.وہ کسی کو اپنا گھر لوٹنے نہیں دیتا.چونکہ وہ اس کا گھر ہوتا ہے.اے رب تو نے لوگوں کو کہا ہے کہ آؤ یہاں عبادت کرو.میں تجھ.1 تفسیر کبیر سورة الفيل 2 سیرت النبی ابن ہشام حصہ اول ابن اسحاق

Page 49

48 درخواست کرتا ہوں کہ تو بھی اپنے اس گھر کی حفاظت کر اور اسے دشمن کے حملہ سے بچا.اے میرے رب کل ابر ہ اپنی صلیبیں اور لشکر لے کر تمام طاقتوں کے ساتھ خانہ کعبہ کو گرانے آئے گا.اس کی طاقت تیری قدرت پر غالب نہ آئے.یہ دعا کی اور روتے ہوئے قریش کو لے کر پہاڑ پر چلے گئے اور حملہ کا انتظار کرنے لگے.ابرہہ ہاتھیوں کو عربوں پر رُعب ڈالنے کے لئے لایا تھا.کیونکہ انہوں نے اس جانور کو دیکھا نہیں تھا.پھر اس کا ارادہ تھا کہ کعبہ کی چار دیواریں ہی تو ہیں.دو دو ہاتھی ایک ایک دیوار سے کنڈیوں سے باندھ کر جب ان کو دوڑایا جائے گا تو ہاتھی کی طاقت سے دیوار میں گر جائیں گی.اور یہ گھر ختم ہو جائے گا.مگر اس کو کیا معلوم تھا کہ اس کی تدبیر کے ساتھ ہی خدا نے بھی تدبیر کر لی ہے.وہ تو طاقتور ہاتھیوں سے حملہ کرے گا.مگر خدا تھے سے پرندے کو ان کی تباہی کا ذریعہ بنا دے گا.جب صبح ہوئی تو بادشاہ نے اپنے لشکر کو تیار رہنے کا حکم دیا.اور اعلان کیا کہ پہلے ہاتھی نکالے جائیں.ان کے پیچھے پیچھے لشکر روانہ ہو.سب سے بڑا اور سردار محمود نامی ہاتھی جس پر ابرہہ خود سوار تھا.جب اسے باقی ہاتھیوں کے آگے لا کر خانہ کعبہ کی طرف چلایا گیا تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کہ اس نے چلنے سے انکار کر دیا اور زمین پر بیٹھ گیا.ہاتھیوں میں ایک حس ہوتی ہے.اگر ان کا سردار ہاتھی چلے تو وہ چلتے ہیں.اگر نہ چلے تو رُک جاتے ہیں.اگر وہ حملہ کرے تو وہ بھی کرتے ہیں.اسی وجہ سے جب سردار محمود نہ چلا تو باقی کیا چلتے.جب اس کو مشرق کی طرف چلایا جاتا تو چل پڑتا.شمال کو جاتا ، جنوب کو جاتا مگر مکہ کی طرف جانے سے انکار کر دیتا.اس کو مارا گیا.نیزے چھوئے

Page 50

49 گئے.مگر اس نے نہ چلنا تھا نہ چلا.اس کی وجہ سے لشکر میں گھبراہٹ پھیل گئی.اس دوران خدا تعالیٰ نے ان پر پرندوں کے غول کے غول بھیجے.جن کے پیروں میں مٹی لگی ہوئی تھی.جب پرندے گیلی مٹی پر بیٹھ کر اٹھیں تو مٹی اُن کے پیروں سے چمٹ جاتی ہے اور خشک ہو کر جھڑتی ہے.بالکل ایسا ہی ہوا.اس مٹی میں چیچک کے جراثیم تھے.جب یہ مٹی لشکر پر برسی تو ان میں چیچک کی وبا پھوٹ پڑی.اور اتنی تیزی سے پھیلی کہ اس نے سارے لشکر کو اپنی گرفت میں لے لیا.اور تین دن بعد سپاہی مرنا شروع ہو گئے.طائف کے جو لوگ اس خیال سے لشکر میں شامل ہو گئے تھے کہ ان کے مندر کی عظمت بڑھ جائے.وہ بھی اس بیماری کا شکار ہوئے.چونکہ عرب میں چیچک کی بیماری کبھی نہیں ہوئی تھی.اس لئے وہ اس سے قطعی ناواقف تھے وہ کعبہ سے غداری کرنے پر سخت شرمندہ ہوئے.مگر بیماری نے تو پکڑ ہی لیا تھا.ان میں خوف و ہراس پھیل گیا اور یقین ہو گیا.کہ اس گھر کی عظمت کو پامال کرنے کی سزا مل رہی ہے.جو لوگ ابھی صحت مند تھے.وہ بھاگ کھڑے ہوئے.مگر بیماری کے جراثیم ان میں داخل ہو چکے تھے.اس لئے وہ بھی آہستہ آہستہ اس کا شکار ہو گئے.وہ افراد جو لشکر کی راہنمائی کے لئے ساتھ تھے.وہ بھی عرب تھے اس بلا سے سخت خوف زدہ تھے مگر ان کو بھی بیماری نے نہیں چھوڑا.بیماری اتنی شدید تھی کہ بیمار کا سارا جسم پیپ کا چھالا بن جاتا جس کی وجہ سے انگلیاں، ناک، اعضاء جھڑنے لگتے.پھر تو ہر طرف افرا تفری پھیل گئی.کچھ تو بیماری کی شدت کا خوف، کچھ ساتھیوں کو لے کر چلنے میں دقت.ہر شخص کی یہ کوشش تھی کہ وہ اس جگہ سے بھاگ جائے.جو سامان ان کے ساتھ تھا.اس کو پھینکا اور بھاگے.کچھ اپنے بیمار ساتھیوں کو لے کر چلے.تو راستہ میں سخت پریشان ہوئے.کچھ لشکر والے مکہ کے

Page 51

50 اطراف کی وادیوں، صحرا اور جنگل کے مشکل راستوں میں بھٹک گئے.اور بھوک پیاس اور بیماری سے تڑپ تڑپ کر مرنے لگے.اب جو لاشوں کے ڈھیر بکھرے ہوئے چیلوں اور گدھوں کو نظر آئے تو وہ ان پر حملہ آور ہو گئے.اور اُن کے گوشت کو نرم کرنے کے لئے پتھروں پر چیخ چیخ کر کھانا شروع کر دیا.جہاں سارا گوشت گل گیا وہاں صرف ہڈیاں اور کھال رہ گئی تو دیکھنے میں یوں لگتا تھا جیسے بھوسا ہو.اور کچھ بھی باقی نہ بچا.لوگوں کی شکلیں بھی پہچانی نہیں جاتی تھیں.یہ ایک بہت بڑا ہولناک عذاب تھا.جس نے ہر اُس انسان کو اپنی گرفت میں لے لیا.جو کعبہ کو مسمار کرنے کی سازش میں شریک ہوا.جب عام انسانوں کی یہ حالت ہوئی تو اس شخص کے بارے میں سوچیں.جس کا یہ منصوبہ تھا.جو سب کو لے کر چلا تھا.اس کی حالت تو یقیناً اور بھی خوفناک ہو گی.اور اس کا وجود عذاب الہی کی گواہی دے رہا ہو گا.ابرہہ نے اپنی آنکھوں کے سامنے سپاہیوں کو تڑپتے ہوئے دیکھا.ان کے جسموں سے بہتی ہوئی پیپ اور خون.گرتے ہوئے اعضاء، ضائع ہوتی ہوئی آنکھیں دیکھیں.ان کی چیخ و پکار آہ و بکا اس کو مزید خوفزدہ کرنے کے لئے کافی تھی.وہ بھاگنا چاہتا تھا.مگر اس کی عقل اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی.اتنا بڑا لشکر، اس کے ساتھ جنگی سامان، پھر شان و شوکت سب دیکھتے دیکھتے ختم ہو چکی تھی.کل حضرت عبدالمطلب اس کو اپنی کمزوری اور بے بسی کے بارے میں بتا رہے تھے.کہ ہم اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ نہیں کر سکتے.آج اسی لشکر کے صحت مند جوان بغیر کسی حملہ، بغیر لڑائی کے خود بہ خود زخمیوں، بیماروں میں تبدیل ہو رہے تھے.جانور مر رہے تھے.اس کے کانوں میں بار بار یہ آواز آ رہی ہو گی.کہ اس

Page 52

51 گھر کا بھی ایک مالک ہے.وہ خود اس کی حفاظت کرے گا.جس عمارت کو وہ صرف چار دیوار میں تصور کرتا تھا.جس کو گرانا مشکل نہ تھا.جس کی خاطر وہ ہاتھی لایا تھا.اور حقیقت بھی ہے کہ اس کے قلیس کی شان کے سامنے کعبہ بظاہر صرف چار دیواروں کا ایک چھوٹا کمرہ ہی تو تھا.نہ اس میں قیمتی لکڑی اور روغن استعمال ہوا تھا.نہ ہی اس کی سجاوٹ و زیبائش میں سونے چاندی کا کام تھا.نہ اس کے دروازوں میں ہیرے جواہرات لگے تھے بلکہ بالکل سادہ دیکھنے میں معمولی سی عمارت.مگر کتنی مضبوط تھی کہ تمام کوشش کے باوجود اس کی طرف بڑھنے سے ہاتھی نے ہی انکار کر دیا.وہ جانور جو نہ صرف بے زبان بلکہ عقل سے بھی عاری تھا.اس کو خدائی منشاء سمجھ آ گیا.مگر ابرہہ انسان ہونے کے با وجود نہ جان سکا.مگر اب اس پر حقیقت آشکار ہو چکی تھی.اس کا تکبر اس کا غرور خاک میں مل چکا تھا.وہ جان چکا تھا.کہ خدائی عذاب نے اس کو اس کے لشکر کو اور اس کا ساتھ دینے والوں کو پکڑ لیا ہے.ساتھ ہی وہ اس مقدس گھر کی عظمت سمجھ گیا تھا.خدا کی حفاظت کا دل سے قائل ہو چکا تھا.اور یہ بھی جان چکا تھا کہ واقعی اس گھر کا ایک مالک ہے اور اُسی مالک نے اس کی حفاظت کی ہے.اس گھر کو رب العزت نے اپنے پیارے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کو کہہ کر ایک بار پھر تعمیر کروایا تھا.ان ہی بنیادوں پر اُٹھایا گیا تھا.جہاں پرانے نشان تھے.پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب کے حضور دعا کی تھی.کہ اے خدا تو اس گھر کی حفاظت کرنا.اور ساتھ ہی پیشگوئی کر دی کہ اس پر جو بھی حملہ کرے گا وہ تباہ ہو جائے گا.پھر تاریخ میں آتا ہے کہ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ایک شخص اس پر حملہ آور ہو گا اور برباد ہو جائے گا.

Page 53

52 ابرہہ کی کتنی بڑی بدقسمتی کہ کعبہ پر دو ہزار سال سے زائد عرصہ گزرا کسی نے حملہ نہ کیا.پھر اس کو یہ بتایا بھی گیا تھا کہ تم اس گھر پر حملہ کر کے بچ نہیں سکتے.لیکن وہ اپنی ضد پر قائم رہا.ابھی حملہ کرنے کے لئے اس کے لشکر نے قدم بھی نہ اُٹھائے تھے کہ عذاب نے گھیر لیا.تاریخ ابرہہ کی حالت کے بارے میں کہتی ہے کہ بادشاہ ہونے کی وجہ سے اس نے چند رہنماؤں کو روکے رکھا.اور بھا گا تو سیدھا صنعاء پہنچ کر دم لیا.لیکن راستے ہی میں اس پر چیچک کا شدت کے ساتھ حملہ ہوا.اس کا گوشت گل کر جھڑنے لگا.اعضاء گرتے رہے.جب اس کی انگلیاں گرنی شروع ہوئیں تو دیر تک اس میں سے خون اور پیپ بہتا رہتا.آخر جب وہ اپنے ملک پہنچا تو صرف ہڈیاں اور سر رہ گیا تھا.سب کچھ گل کر ختم ہو چکا تھا.آخر وہ اسی عذاب کی تکلیفیں جھیلتا ہوا مر گیا.ابرہہ کے لشکر کے جو افراد باقی بچے ان میں سے دو کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے مکہ میں دو اندھوں کو بھیک مانگتے دیکھا.معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ یہ ابرہہ کے ہاتھیوں کے مہاوت گویا خدا تعالیٰ نے بعد میں آنے والوں کے لئے بھی عبرت کے ایسے نشان چھوڑے اور اس واقعہ کو تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا.کہ جب تک دنیا قائم ہے.اگر پھر کسی کو یہ جرات ہوئی کہ وہ اس مقدس گھر کو گرانے کی کوشش کرے تو اس کو ابر ہہ کے انجام سے سبق سیکھنا چاہیئے.اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ ایک چیز کی وضاحت کرنا چاہتا ہے.کہ لى تفسير كبير سورة الفيل 2 ابن اسحاق

Page 54

53 حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس گھر کو بناتے ہوئے جہاں اس کی حفاظت کی دعا کی تھی.وہاں پہلے اس موعود پیارے اور اس گھر کے حقیقی مالک کے بارے میں خدا سے التجا کی تھی کہ اس کو میری اولاد میں پیدا کر.دو ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک کوئی اس پر حملہ نہیں کرتا.پھر محرم کے مہینہ میں حملہ ہوتا ہے.خدا کا قہر حملہ آور کو پکڑتا ہے.اس کی حکومت کے ساتھ وہ سلطنت جس کے ماتحت وہ تھا وہ بھی آہستہ آہستہ اپنی طاقت کھو دیتی ہے.کمزور ہو جاتی ہے اور ربیع الاول میں خدا کا محبوب پیدا ہوتا ہے.یہ اس بات کا نشان ہے کہ جب وہ دنیا میں جلال کے ساتھ ظاہر ہو.تو کوئی اتنی بڑی حکومت باقی نہ رہے جو اس پر دوبارہ حملہ آور ہو.ساتھ ہی اس حملہ کا انجام اتنے قریب کے زمانہ میں ہوا کہ اس کی دہشت دیر تک باقی رہی.اور کعبہ کو آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی بھی کسی کی مجال نہ تھی.اب اس واقعہ سے آج کے دور کا مقابلہ کریں.تو حقیقت بہت روشن ہو جاتی ہے کہ اُس زمانہ میں دو طاقتور حکومتیں تھیں اور باقی دنیا کسی نہ کسی طرح اُن کے ماتحت تھی.آج بھی دوسو پر پاور ہیں.اور ساری دنیا ان ہی دو بلاک میں بٹی ہوئی ہے، امریکن ، رشین.اس وقت میرے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے چندہ ماہ پہلے عربوں کی قوت ، ان کے اتحاد کے مرکز کو قیصر ا چھی نگاہ سے نہ دیکھتے تھے.اس لئے اس کو ختم کر دینا چاہتے تھے.آج بھی وہ چکر کاٹ کاٹ کر مسلمانوں کو آپس میں لڑوا کر ان کی حکومتوں کو کمزور کرتے کرتے.ان کے ایمان پر ، ان کی تعلیم پر محمد بن خزاعی اور قیس بن خزاعی جیسے ضمیر فروشوں کی مدد سے حملہ آور ہوتے ہیں.ان میں سے ایک طاقت کی دلی تمنا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے در کو چھوڑ کر مسیح کے در پر آ

Page 55

54 جائیں.وہ خانہ خدا کو خیر باد کہہ کر گر جے کے ہو جائیں.لیکن یہ سب کچھ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کعبہ موجود ہے.یہ مرکز ہے، مسلمانوں کا ، اسلام کا، ایمان و اعتقاد کا.جب اس کے پروانے اس کے گرد جمع ہوتے ہیں تو ان میں کوئی ایرانی و عراقی نہیں ہوتا.کوئی مصری وفلسطینی نہیں ہوتا.کوئی عربی و عجمی نہیں ہوتا.اسی طرح فرقہ واریت بھی اس مرکز پر دم توڑ دیتی ہے.نہ شیعہ، نہ سنی ، نه دیو بندی، نه بریلوی، ساری طاغوتی قوتیں سلب ہو جاتی ہیں.صرف ایک جذبہ زندہ رہتا ہے اور وہ ہے خدا کی محبت کا ، اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کا.سارے دیوانہ وار خدا کو پکارتے ہوئے دوڑتے ہیں.ان کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو رواں ہوتے ہیں.ایک تمنا ہوتی ہے کہ اس پاک وجود کے قدموں میں جگہ مل جائے.وہ دیوانہ وار مکہ کی گلیوں میں گھومتے ہیں اور چشم تصور سے اس نورانی وجود کو دیکھتے ہیں جو یہاں چلتا پھرتا تھا.اور فدا ہو جانا چاہتے ہیں.اگر اس وقت کوئی آکر ان دیوانوں کو کہے کہ اس مرکز کو چھوڑ دو.اس گھر سے جدا ہو جاؤ تو خدا شاہد ہے وہ ایک آواز کے ساتھ اس پر ٹوٹ پڑیں گے.اسی لئے یہ قو تیں اس مرکز کو ختم کر دینا چاہتی ہیں.اور آج اُمت محمدیہ کی حالت بالکل ویسی ہی ہے جیسی اس وقت قریش اور عبدالمطلب کی تھی.لیکن جو خدا کا وعدہ ہے وہ کبھی نہیں مل سکتا.جس طرح سینکڑوں سال پہلے اس نے اس گھر کی حفاظت کی آج بھی کرے گا.اور ہر اُس بڑی سے بڑی

Page 56

55 قوت کو پارہ پارہ کر دے گا جو اس کے گھر اور اس گھر کے بچے محافظوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں.وہ خدا آج بھی اس گھر اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق رکھنے والوں کو ضرور یہ معجزہ دکھائے گا کہ اس گھر کے نام پر زندہ رہنے والے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں.اور اس کے پیارے سے محبت کرنے والوں کا عشق کبھی نہیں مرتا.اس کی خوشبو سارے عالم کو معطر کر دیتی ہے.اللَّهُمَّ صَلَّى عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيد اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيد کتب جن سے استفادہ کیا گیا: - -1- تفسیر کبیر، جلد دہم نظارت اشاعت ربوہ.-2 -3 -4 ابن اسحاق.ابن ہشام سیر روحانی.-5 سیرت خاتم النبین از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد 5-

Page 57

56 نام کتاب مُقدس ورثه، چشمه زمزم ، اصحاب فیل مرتبہ بشری داؤد لجنہ اماء اللہ ضلع کراچی 13 - 5 2.........ششم شمارہ نمبر.طبع.تعداد.کمپوزنگ 1000....وحید منظور میر ٹائٹل ڈیزائننگ محمد وحید احمد پرنٹر.پرنٹ گرافکس ڈیزائنز اینڈ پرنٹرز فون : 2260712-0300 ,2560760-0300 "Muqaddas Wirsah, Chashma-e-Zamzam, Ashab-e-Feel" By BUSHRA DAWOOD Published by Lajna Ima'illah Karachi Printed by Print Graphics Karachi Phone : +92-300-2260712, +92-300-2560760

Page 57