Muntakhib Tehreerat

Muntakhib Tehreerat

منتخب تحریرات

Author: Hazrat Mirza Ghulam Ahmad

Language: UR

UR

1989ء میں جماعت احمدیہ کے صدسالہ جشن تشکر کی مبارک تقریب کی مناسبت سے عالمی سطح پر جو پروگرام ترتیب دیا گیا تھااس میں شامل تھا کہ خدا تعالیٰ کے حضور سپاس گذاری اور اپنے جذبات تشکر کے اظہار کے طور پر ایک سو سے زائد زبانوں میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تحریرات کے منتخب اقتباسات کے تراجم شائع کئے جائیں۔ یہ کتابچہ اسی عظیم اور مبارک منصوبہ کا ایک حصہ ہے۔ جس میں 22 موضوعات پرحضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے نظم و نثر سے منتخب اقتباسات باحوالہ اورکمپیوٹر پر ٹائپ کرکے  پیش کئے گئے ہیں۔


Book Content

Page 1

نتخب تحريرات حضرت مرزا غلام احمد قادیانی بانی جماعت احمدیہ

Page 2

نام کتاب منتخب تحریرات حضرت مرزا غلام احمد قادیانی بانئی جماعت احمدیہ سن اشاعت : 2012ء، قادیان تعداد 1000 : ناشر نظارت نشر و اشاعت صدرانجمن احمد یہ قادیان ضلع گورداسپور ، پنجاب 143516 انڈیا مطبع فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان ISBN 978-81-7912-351-5 : نوٹ: کتاب " منتخب تحریرات حضرت مرزا غلام احمد قادیان ، قبل ازیں جماعت احمدیہ کے صد سالہ جشن تشکر (۱۹۸۹ء) کے موقعہ پر شائع کی گئی تھی.اب ضرورت کے پیش نظر اس کتاب کو دوبارہ شائع کیا جارہا ہے.الناشر

Page 3

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ كلمة طيبه لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ محبت کے جرم میں گرفتاریوں ، مقدمات ، قید و بند ، تشد دو تعذیب اور قتل و غارت کو بلالی روح کے ساتھ برداشت کرنے والے احمدیوں کی طرف سے جماعت احمد یہ عالمگیر کی صد سالہ جو ہلی کے مبارک موقع پر ایک پاکیزہ تحفہ.

Page 4

بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم عرض ناشر و على عبده المسيح الموعود بانی جماعت احمدیہ حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام ہمارے پیارے آقا سرور کائنات خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی سالی لا الہ سلم کے روحانی فرزند جلیل ہیں جن کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس زمانہ میں بنی نوع انسان کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے مسیح موعود اور امام آخر الزمان کی حیثیت سے مبعوث فرمایا.آپ نے اپنی ماموریت کے بعد اسلام کی تائید ونصرت میں اپنے عظیم الشان قلمی جہاد کا آغاز فرمایا جس پر عرش بریں سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو سلطان القلم کے خطاب سے نوازا.آپ کی تحریرات نے دنیا میں عظیم الشان انقلاب پیدا کر دیا عالم اسلام میں ایک ٹی زندگی پیداکرہ اور عالم اسلام میں ایک نئی زندگی پیدا کردی اور مسلمانوں کے پژمردہ چہروں پر رونقیں نظر آنے لگیں.۱۸۸۹ء میں احیائے اسلام کی آسمانی تحریک کا دنیا میں با قاعدہ آغاز ہوا اور حقیقی اسلام کی علمبردار اور فدائی جماعت احمدیہ کا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے باز نہ تعالیٰ قیام فرمایا.۱۹۸۹ ء میں جماعت احمدیہ کے صد سالہ جشن تشکر کی مبارک تقریب کی مناسبت سے عالمی سطح پر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی تحریرات کے منتخب اقتباسات کے تراجم مختلف عالمی زبانوں میں شائع کئے گئے تھے.

Page 5

سید نا حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت و منظوری سے احباب جماعت کی ضرورت کے پیش نظر نظارت نشر واشاعت قادیان حضرت اقدس مسیح موعود کی ان منتخبہ تحریرات کو افادہ عام کے لئے پھر شائع کر رہی ہے.الحمد للہ.اللہ تعالیٰ اس کتاب کی اشاعت کو ہر لحاظ سے بابرکت بنائے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے پاک کلام سے کماحقہ استفادہ کی ہم سب کو توفیق عطا فرمائے.آمین خاكسار حافظ مخدوم شریف ناظر نشر و اشاعت قادیان

Page 6

صفحہ ۱۲ ۱۶ ۱۹ 3 ۲۱ ۲۳ ۲۹ E ۳۰ ۳۰ ۳۱ ۳۲ ٣٣ ۲ ۶ 1 فہرست مضامین مضامين نمبر شمار پیش لفظ اللہ تعالیٰ روئیت الہی خدا کا اپنے وفاشعار بندوں سے سلوک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم وحی و الہام ہمارے عقائد مقام حضرت مسیح موعود علیہ السلام پاک جماعت کا قیام اور نصائح انجام سلسله آخری فتح روح حیات بعد الموت مذاہب عالم گناه ٣ L Λ ۹ 1.11 ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ 17

Page 7

۳۴ ۳۵ ۳۶ ۳۷ ۳۸ ۳۹ ۴۰ نجات جہاد دعا ہمدردی بنی نوع انسان فرشتے یا جوج ماجوج نور کا موسم ۱۷ ۱۸ ۱۹ ۲۰ ۲۱ ۲۲ ۲۳

Page 8

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ پیش لفظ آج سے ٹھیک ایک سو سال قبل جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ( ۱۸۳۵-۱۹۰۸) نے یہ دعویٰ فرمایا کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کی اصلاح کے لئے مامور فرمایا ہے اور آپ ہی وہ مہدی آخر زمان اور مسیح موعود ہیں جس کے ذریعہ تمام ادیان پر اسلام کا غلبہ مقد رہے اور جس کے ظہور کی خبر حضرت خاتم النبین محمد مصطفی علی نے دی تھی.آپ کے اس دعوی پر ایک صدی گزر چکی ہے اس عرصہ میں آپ کی جماعت نے محض اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت سے انتہائی نامساعد حالات اور ہر قسم کی مخالفت کے باوجود دنیا کے ہر خطے میں حیران کن ترقی کی ہے اور اس وقت تک یہ جماعت ایک سو چودہ ممالک میں قائم ہو چکی ہے.جماعت احمدیہ کا پیغام ، اس کی اقدار اور اس کے پیش کردہ پروگرام کا صحیح ادراک حاصل کرنے اور جماعت کے بانی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کے دعاوی کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے مناسب طریقہ اور یقینی ذریعہ یہی ہے کہ ان کی تحریرات کا براہِ راست غیر جانبدارانہ مطالعہ کیا جائے.اس رسالہ میں حضرت مرزا صاحب کی نظم اور نثر سے چند ایسے منتخب اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں جو دین کے بنیادی ارکان اور جماعت کے عقائد پر روشنی ڈالتے ہیں.ہم امید کرتے ہیں کہ ان کا مطالعہ جہاں حضرت بانی جماعت احمدیہ کی اسی سے زیادہ مؤقر تصانیف کے بارہ میں کوئی رائے قائم کرنے میں مدد دے گا وہاں ان کا مطالعہ ذہنوں کی جلا ،

Page 9

قلوب کی تنویر اور روح کی بالیدگی کا باعث ہوگا.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو یہ علم دیا ہے کہ آپ ہی وہ موعود مصلح آخر زمان ہیں جس کا انتظار دنیا کے مختلف مذاہب اپنی اپنی مقدس کتابوں کی پیشگوئیوں کے مطابق کر رہے تھے.ہندو کرشن جی کے اور بدھ مذہب کے پیر و کار گوتم بدھ کے منتظر تھے.یہودی اور عیسائی ایک مسیحا کی انتظار کر رہے تھے اور مسلمان مہدی معہود اور مسیح موعود کے ظہور کی راہ دیکھ رہے تھے.خدائی نوشتوں کے مطابق مقد رتھا کہ تمام ملتوں کا موعود ایک ہی وجود کی صورت میں ظاہر ہو جو حضرت خاتم النبین محمد مصطفی کا امتی اور پیروکار ہو.جس کا مقصد بعثت تمام نوع انسانی کو اللہ تعالیٰ کے آخری دین اور مکمل ضابطہ حیات ، اسلام کے جھنڈے تلے جمع کرنا ہے.آپ نے فرمایا ہے کہ آپ کا ظہور اس سنہری دور کا آغاز ہے جس کی انتظار میں نوع انسانی کی بے شمار نسلیں گزر گئیں.وہ سنہری دور جس میں عدل ، امن اور صلح و آشتی کا دور دورہ ہوگا اور کرہ ارض پر آباد تمام انسانوں کا ایک ہی مذہب ہو گا یعنی دینِ اسلام اور ایک ہی پیشوا ہو گا یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم.اس موعود مصلح کی بعثت کے مقاصدِ عالیہ کے حصول کا پروگرام عالمگیر ہونے کے علاوہ زمانہ کے لحاظ سے صدیوں پر محیط ہے.لہذا ایک جماعت کی ضرورت تھی جو نسلاً بعد نسل اپنی جان مال اور وقت کی مسلسل قربانیاں دے کر غلبہ اسلام کی مہم کو آگے بڑھانے کی جد و جہد قیامت تک جاری رکھے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت حضرت مرزا غلام احمد قادیانی نے ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء کے مبارک دن ہندوستان کے شہر لدھیانہ میں ان مخلصین سے بیعت لی جنہوں نے آپ کو خدا تعالیٰ کا فرستادہ یقین کر لیا اور آپ کے جملہ دعاوی پر ایمان صلى الله لائے اور آپ کی اس جد و جہد میں آپ کا ساتھ دینے کا عزم کیا.آپ نے آنحضرت ملے کے اسم مبارک احمد کی مناسبت سے اپنی اس جماعت کا نام جماعت احمد یہ رکھا.

Page 10

آپ نے اپنی زندگی میں آریوں اور عیسائی پادریوں کے اسلام پر حملوں کے دفاع اور قرآن کریم کی روح پرور تعلیم کی اشاعت کی خاطر اسی سے زائد کتب تصنیف فرما ئیں اور باوجود محدود وسائل کے دنیا میں اسلام کی اشاعت فرمائی.۱۹۰۸ء میں آپ کی وفات کے بعد آپ کی جماعت میں خلافت کا نظام قائم ہوا جس کی برکت سے جماعت نے اپنی توانائیوں کو مجتمع کر کے اکناف عالم میں تبلیغ اسلام اور اشاعت قرآن کا عظیم کام جاری رکھا.۱۹۴۷ء میں بر صغیر کی تقسیم کے وقت جب جماعت احمدیہ کے لاکھوں افراد کو پاکستان ہجرت کرنا پڑی تو یہاں جماعت نے پنجاب میں دریائے چناب کے کنارے ایک نیا مرکز تعمیر کیا جور بوہ کے نام سے مشہور ہے.ابتداء سے ہی مخالف علماء کی طرف سے جماعت کے خلاف تحریکیں چلائی جاتی رہی ہیں جن میں سے ۱۹۵۳ء ۱۹۷۴ء اور ۱۹۸۴ء کی تحریکیں زیادہ مشہور ہیں.آخر الذکر تحریک کو اُس وقت کی حکومت کی مکمل تائید اور سرگرم حمایت حاصل تھی ، حکومت نے جماعت کی ترقی روکنے اور احمدیوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم کرنے کے بہت سے ظالمانہ قوانین نافذ کئے جن میں ۱۹۸۴ء کا اینٹی احمد یہ صدارتی آرڈی ننس XX مشہور ہے.چنانچہ جماعت احمدیہ کو پاکستان میں غیر مسلم اور کافر قرار دیا گیا.عبادت گاہیں مسمار اور مقفل کی گئیں.ہزاروں احمدیوں کو مقدمات ، جسمانی عقوبت، ذہنی اذیت ، قید و بند کے علاوہ بہت سے احمدیوں کو قتل کر دیا گیا.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جماعت کے افراد نے انتہائی صبر اور تحمل کے ساتھ بے مثال قربانیاں دے کر حکومت وقت اور اس کے حلیف علماء کی کوششوں کو ناکام بنادیا.پاکستان میں احمدیوں کے خلاف ان ظالمانہ کارروائیوں کے نتیجہ میں دوسرے ممالک کے احمدیوں میں ایک بے مثال روحانی بیداری پیدا ہوئی اور جماعت نے اس دور

Page 11

میں پہلے سے کہیں بڑھ کر ترقی کی.۱۹۸۹ء میں جماعت احمدیہ کے صد سالہ جشن تشکر کی مبارک تقریب کی مناسبت سے عالمی سطح پر جو پروگرام ترتیب دیا گیا ہے اُس کا قابلِ ذکر پہلو یہ ہے کہ جماعت احمد یہ اس موقع پر خدا تعالیٰ کے حضور سپاس گزاری اور اپنے جذبات تشکر کے اظہار کے طور پر ایک سو سے زائد زبانوں میں قرآن کریم اور اس کی منتخب آیات، آنحضرت ہی کی منتخب احادیث اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی تحریرات کے منتخب اقتباسات کے تراجم شائع کر رہی ہے یہ کتابچہ اسی عظیم اور مبارک منصوبہ کا ایک حصہ ہے.

Page 12

اللہ تعالیٰ ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے.ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی.یہ دولت لینے کے لائق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے اور یہ عمل خریدنے کے لائق ہے اگر چہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو.اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا.یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا.میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں.کس دف سے میں بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سُن لیں اور کس دوا سے میں علاج کروں تا سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں.اگر تم خدا کے ہو جاؤ گے تو یقیناً سمجھو کہ خدا تمہارا ہی ہے.(روحانی خزائن جلد ۱۹ کشتی نوح صفحه ۲۱ ۲۲) اے سُننے والو!سنو ! کہ خدا تم سے کیا چاہتا ہے.بس یہی کہ تم اُسی کے ہو جاؤ.اُس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرو نہ آسمان میں نہ زمین میں.ہمارا خدا وہ خدا ہے جواب بھی زندہ ہے جیسا کہ پہلے زندہ تھا اور اب بھی وہ بولتا ہے جیسا کہ پہلے بولتا تھا اور اب بھی وہ سنتا ہے.جیسا کہ پہلے سنتا تھا.یہ خیال خام ہے کہ اس زمانہ میں وہ سنتا تو ہے مگر بولتا نہیں بلکہ وہ سنتا اور بولتا بھی ہے.اس کی تمام صفات ازلی ابدی ہیں.کوئی صفت بھی معطل نہیں اور نہ کبھی ہوگی.وہ وہی واحد لا شریک ہے جس کا کوئی بیٹا نہیں اور جس کی کوئی بیوی نہیں.وہ وہی بے مثل ہے جس کا کوئی ثانی نہیں جس کا کوئی ہم صفات نہیں اور جس کی کوئی طاقت......وہ کم نہیں.وہ قریب ہے باوجود دور ہونے کے اور دور ہے باوجود نز دیک ہونے کے.سب سے اوپر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اس کے نیچے کوئی اور بھی ہے.اور وہ عرش پر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ زمین پر نہیں.وہ مجمع ہے تمام صفات کاملہ کا اور مظہر ہے تمام محامد حقہ کا اور

Page 13

brò سر چشمہ ہے تمام خوبیوں کا اور جامع ہے تمام طاقتوں کا اور مبداء ہے تمام فیضوں کا اور مرجع ہے ہر ایک شے کا اور مالک ہے ہر ایک ملک کا اور متصف ہے ہر ایک کمال سے اور منزہ ہے ہر ایک عیب اور ضعف سے اور مخصوص ہے اِس امر میں کہ زمین والے اور آسمان والے اسی کی عبادت کریں.(روحانی خزائن جلد ۲۰ الوصیت صفحه ۳۰۹-۳۱۰) روئیت الہی جس کو شبہات سے نجات نہیں اُس کو عذاب سے بھی نجات نہیں.جو شخص اس دُنیا میں خدا کے دیکھنے سے بے نصیب ہے وہ قیامت میں بھی تاریکی میں گرے گا.خدا کا قول ہے کہ مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى (روحانی خزائن جلد ۱۳ کتاب البریہ صفحه ۶۵)

Page 14

خدا کا اپنے وفا شعار بندوں سے سلوک در حقیقت وہ خدا بڑا ز بر دست اور قوی ہے جس کی طرف محبت اور وفا کے ساتھ جھکنے والے ہرگز ضائع نہیں کئے جاتے.دشمن کہتا ہے کہ میں اپنے منصوبوں سے اُن کو ہلاک کر دوں اور بد اندیش ارادہ کرتا ہے کہ میں اُن کو کچل ڈالوں مگر خدا کہتا ہے کہ اے نادان کیا تُو میرے ساتھ لڑے گا؟ اور میرے عزیز کو ذلیل کر سکے گا؟ درحقیقت زمین پر کچھ نہیں ہو سکتا مگر وہی جو آسمان پر پہلے ہو چکا.اور کوئی زمین کا ہاتھ اس قدر سے زیادہ لمبا نہیں ہوسکتا جس قدر کہ وہ آسمان پر لمبا کیا گیا ہے.پس ظلم کے منصوبے باندھنے والے سخت نادان ہیں جو اپنے مکر و ہ اور قابل شرم منصوبوں کے وقت اُس برتر ہستی کو یاد نہیں رکھتے جس کے ارادہ کے بغیر ایک پتہ بھی گر نہیں سکتا.لہذا وہ اپنے ارادوں میں ہمیشہ نا کام اور شرمندہ رہتے ہیں اور ان کی بدی سے راست بازوں کو کوئی ضرر نہیں پہنچتا بلکہ خدا کے نشان ظاہر ہوتے ہیں اور خلق اللہ کی معرفت بڑھتی ہے.وہ قومی اور قادر خدا اگر چہ ان آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا مگر اپنے عجیب نشانوں سے اپنے تئیں ظاہر کر دیتا ہے.روحانی خزائن جلد ۱۳ کتاب البریه مقدمه صفحه ۱۹-۲۰) خدا آسمان وزمین کا نور ہے.یعنی ہر ایک نور جو بلندی اور پستی میں نظر آتا ہے.خواہ وہ ارواح میں ہے.خواہ اجسام میں اور خواہ ذاتی ہے اور خواہ عرضی اور خواہ ظاہری ہے اور خواہ باطنی اور خواہ دینی ہے خواہ خارجی.اسی کے فیض کا عطیہ ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت رب العلمین کا فیض عام ہر چیز پر محیط ہورہا ہے.اور کوئی اس کے فیض سے خالی نہیں.وہی تمام فیوض کا مبدء ہے اور تمام انوار کا علت العلل اور تمام رحمتوں کا سر چشمہ ہے.اس کی ہستی حقیقی تمام عالم کی قیوم اور تمام زیروز بر کی پناہ ہی وہی ہے.جس نے ہر ایک چیز کو ظلمت خانہ عدم سے باہر نکالا اور

Page 15

موسم بھی خلعت وجود بخشا بجز اس کے کوئی ایسا وجود نہیں ہے کہ جو فی حد ذاتہ واجب اور قدیم ہو یا اُس سے مستفیض نہ ہو بلکہ خاک اور افلاک اور انسان اور حیوان اور حجر اور شجر اور روح اور جسم سب اس کے فیضان سے وجود پذیر ہیں.روحانی خزائن جلدا براہین احمدیہ حاشیه صفحه ۱۹۱-۱۹۲) حمد و ثنا اُسی کو جو ذات جاودانی ہمسر نہیں ہے اُس کا کوئی نہ کوئی ثانی باقی وہی ہمیشہ غیر اس کے سب ہیں فانی غیروں سے دل لگانا جھوٹی ہے سب کہانی سب غیر ہیں وہی ہے اک دل کا یار جانی دل میں میرے یہی ہے سُبْحَنَ مَنْ يَرَانِی سب کا وہی سہارا رحمت ہے آشکارا ہم کو وہی پیارا دلبر وہی ہمارا اُس دن نہیں گزارا غیر اُس کے جُھوٹ سارا یہ روز کر مبارک سُبْحَنَ مَنْ يَّرَانِي (روحانی خزائن جلد ۲ محمود کی آمین صفحه ۳۱۹) میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر رُوحوں میں سچی تلاش پیدا ہو اور دلوں میں سچی پیاس لگ جائے تو لوگ اس طریق کو ڈھونڈیں اور اس راہ کی تلاش میں لگیں.مگر یہ راہ کس طریق سے کھلے گی اور حجاب کس دوا سے اُٹھے گا.میں سب طالبوں کو یقین دلاتا ہوں کہ صرف اسلام ہی ہے جو اس راہ کی خوشخبری دیتا ہے اور دوسری قومیں تو خدا کے الہام پر مدّت سے مُہر لگا چکی ہیں.سو یقیناً سمجھو کہ یہ خدا کی طرف سے مہر نہیں بلکہ محرومی کی وجہ سے انسان ایک حیلہ پیدا کر لیتا ہے.اور یقینایہ سمجھو کہ جس طرح یہ ممکن نہیں کہ ہم بغیر آنکھوں کے دیکھ سکیں یا بغیر کا نوں کے سُن سکیں یا بغیر زبان کے بول سکیں اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ بغیر قرآن کے اُس پیارے محبوب کا منہ دیکھ سکیں.میں جوان تھا اب بوڑھا ہوا مگر میں نے کوئی نہ پایا جس نے بغیر اس پاک چشمہ کے اس کھلی کھلی معرفت کا پیالہ پیا ہو.روحانی خزائن جلد ۱ اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ ۴۴۲ - ۴۴۳ ) رکس قدر ظاہر ہے نور اُس مبدء الانوار کا بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا

Page 16

چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بے کل ہو گیا کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اُس میں جمالِ یار کا اُس بہار حسن کا دل میں ہمارے جوش ہے مت کرو کچھ ذکر ہم سے ٹرک یا تا تار کا ہے عجب جلوہ تری قدرت کا پیارے ہر طرف جس طرف دیکھیں وہی رہ ہے ترے دیدار کا چشمه خورشید میں موجیں تری مشہور ہیں ہر ستارے میں تماشا ہے تری چمکار کا تو نے خُو دروحوں پہ اپنے ہاتھ سے چھٹڑ کا نمک اس سے ہے شورِ محبت عاشقان زار کا کیا عجب تو نے ہر اک ذرہ میں رکھے ہیں خواص کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتر اُن اسرار کا تیری قدرت کا کوئی بھی انتہا پاتا نہیں کس سے گھل سکتا ہے بیچ اس عقدہ دشوار کا خوبرویوں میں ملاحت ہے ترے اس حسن کی ہر گل وگلشن میں ہے رنگ اُس تری گلزار کا پشم مست ہر حسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خمدار کا (روحانی خزائن جلد ۲ سر مه چشمه آریہ صفحه ۵۲) توحید ایک نور ہے جو آفاقی اور انفسی معبودوں کی نفی کے بعد دل میں پیدا ہوتا ہے اور وجود کے ذرہ ذرہ میں سرایت کر جاتا ہے.پس وہ بجز خدا اور اُس کے رسول کے ذریعہ کے محض اپنی طاقت سے کیونکر حاصل ہو سکتا ہے.انسان کا فقط یہ کام ہے کہ اپنی خودی پر موت وارد کرے اور اس شیطانی نخوت کو چھوڑ دے کہ میں علوم میں پرورش یافتہ ہوں اور ایک جاہل کی طرح اپنے تئیں تصور کرے اور دعا میں لگارہے تب تو حید کا نور خدا کی طرف سے اس پر نازل ہوگا اور ایک نئی زندگی اُس کو بخشے گا.روحانی خزائن جلد ۲۲ حقیقت الوحی صفحه ۱۴۸) وہ خدا نہایت وفادار خدا ہے اور وفاداروں کے لئے اس کے عجیب کام ظاہر ہوتے ہیں.دُنیا چاہتی ہے کہ اُن کو کھا جائے اور ہر ایک دشمن ان پر دانت پیتا ہے مگر وہ جو ان کا دوست ہے ہر ایک ہلاکت کی جگہ سے ان کو بچاتا ہے اور ہر ایک میدان میں ان کو فتح بخشا ہے.کیا ہی نیک طالع وہ شخص ہے جو اس خدا کا دامن نہ چھوڑے.(روحانی خزائن جلد ۱۹ کشتی نوح صفحه ۲۰)

Page 17

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسانِ کامل کو وہ ملائک میں نہیں تھا، نجوم میں نہیں تھا، قمر میں نہیں تھا، آفتاب میں بھی نہیں تھا.وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا.وہ لعل اور یا قوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا.غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولیٰ سید الانبیاء سید الاحیاء محمد مصطفی ملے ہیں.سو وہ نوراس انسان کو دیا گیا اور حسب مراتب اس کے تمام ہمرنگوں کو بھی یعنی ان لوگوں کو بھی جو کسی قدر وہی رنگ رکھتے ہیں...اور یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سیّد ہمارے مولیٰ ہمارے ہادی نبی امی ، صادق مصدوق محمد مصطفی ﷺ میں پائی جاتی تھی.(روحانی خزائن جلد ۵ آئینہ کمالات اسلام صفحه ۱۶۰ - ۱۶۲) میں ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ﷺ ہے (ہزار ہزار درود اور سلام اُس پر ) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے.اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہوسکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں.افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اُس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا.وہ تو حید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا.اُس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی اس لئے خدا نے جو اُس کے دل کے راز کا واقف تھا اُس کو تمام انبیاء اور تمام اولین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اُس کی مرادیں اس کی زندگی میں اُس کو دیں.روحانی خزائن جلد ۲۲ حقیقت الوحی صفحه ۱۱۸-۱۱۹)

Page 18

هره کم ہمارے نبی ﷺ تمام انبیاء کے نام اپنے اندر جمع رکھتے ہیں کیونکہ وہ وجود پاک جامع کمالات متفرقہ ہے.پس وہ موسیٰ بھی ہے اور عیسیٰ بھی اور آدم بھی اور ابراہیم بھی اور یوسف بھی اور یعقوب بھی.اسی کی طرف اللہ جل شانہ اشارہ فرماتا ہے فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِه یعنی اے رسول اللہ ! تو ان تمام ہدایات متفرقہ کو اپنے وجود میں جمع کر لے جو ہر یک نبی خاص طور پر اپنے ساتھ رکھتا تھا.پس اس سے ثابت ہے کہ تمام انبیاء کی شانیں آنحضرت ﷺ کی ذات میں شامل تھیں اور در حقیقت محم کا نام صلی اللہ علیہ وسلم، اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ محمد کے یہ معنی ہیں کہ بغایت تعریف کیا گیا اور غایت درجہ کی تعریف تبھی متصور ہو سکتی ہے کہ جب انبیاء کے تمام کمالات متفرقہ اور صفات خاصہ آنحضرت ﷺ میں جمع ہوں.(روحانی خزائن جلد ۵ آئینہ کمالات اسلام صفحه ۳۴۳) مجھے سمجھایا گیا ہے کہ تمام رسولوں میں سے کامل تعلیم دینے والا اور اعلیٰ درجہ کی پاک اور پر حکمت تعلیم دینے والا اور انسانی کمالات کا اپنی زندگی کے ذریعہ سے اعلیٰ نمونہ دکھلانے والا صرف حضرت سیدنا ومولانا محمد مصطفی ے ہیں.(روحانی خزائن جلد ۱۷ اربعین نمبر اصفحه ۳۴۵) ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوانمرد نبی اور زندہ نبی اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبی صرف ایک مرد کو جانتے ہیں یعنی وہی نبیوں کا سردار رسولوں کا فخر، تمام مرسلوں کا سرتاج جس کا نام محمد مصطفی واحد مجتبی ﷺ ہے.(روحانی خزائن جلد ۲ اسراج منیر صفحه ۸۲) وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مُردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الہی معارف جاری ہوئے اور دنیا میں یک دفعہ ایک

Page 19

^.ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا.کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچا دیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اس اُمی بے کس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں.اَللَّهُمَّ صَلَّ وَ سَلَّمْ وَبَارِكْ عَلَيْهِ وَ الِهِ بِعَدَ دِهَمِّهِ وَ غَمِّهِ وَ حُزْنِهِ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ وَ اَنْزِلْ عَلَيْهِ أَنْوَارَ رَحْمَتِكَ إِلَى الْأَبَدِ (روحانی خزائن جلد ۶ برکات الدعا صفحہ ۱۰-۱۱) سو تم تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی ہی ہے.کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ وجلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ اور یاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے.نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا ایچ ہے اور محمد ﷺ اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے.اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے.(روحانی خزائن جلد ۱۹ کشتی نوح صفحه ۱۳- ۱۴) واقعات حضرت خاتم الانبیاء ﷺ پر نظر کرنے سے یہ بات نہایت واضح اور نمایاں اور روشن ہے کہ آنحضرت اعلیٰ درجہ کے یک رنگ اور صاف باطن اور خدا کے لئے جاں باز اور خلقت کے بیم و امید سے بالکل منہ پھیر نے والے اور محض خدا پر توکل کرنے والے تھے کہ جنہوں نے خدا کی خواہش اور مرضی میں محو اور فنا ہو کر اس بات کی کچھ بھی پروا نہ کی کہ توحید کی منادی کرنے سے کیا کیا بلا میرے سر پر آوے گی اور مشرکوں کے ہاتھ سے کیا کچھ دُکھ اور درداٹھانا ہوگا.(روحانی خزائن جلد ا براہین احمدیہ صفحہ ۱۱۱)

Page 20

کیا یہ حیرت انگیز ماجرا نہیں کہ ایک بے زر، بے زور، پیکس، اقی ، یتیم تنہا غریب ایسے زمانہ میں کہ جس میں ہر ایک قوم پوری پوری طاقت مالی اور فوجی اور علمی رکھتی تھی ایسی روشن تعلیم لایا کہ اپنی براہین قاطعہ اور نبج واضحہ سے سب کی زبان بند کر دی اور بڑے بڑے لوگوں کی جو حکیم بنے پھرتے تھے اور فیلسوف کہلاتے تھے فاش غلطیاں نکالیں اور پھر باوجود بیکسی اور غریبی کے زور بھی ایسا دکھایا کہ بادشاہوں کو تختوں سے گرا دیا اور انہیں تختوں پر غریبوں کو بٹھایا.اگر یہ خدا کی تائید نہیں تھی تو اور کیا تھی.کیا تمام دنیا پر عقل اور علم اور طاقت اور زور میں غالب آجانا بغیر تائید الہی کے بھی ہوا کرتا ہے.(روحانی خزائن جلد ابراہین احمدیہ صفحہ ۱۱۹) خیال کرنا چاہیئے کہ کس استقلال سے آنحضرت ﷺ اپنے دعوی نبوت پر باوجود پیدا ہو جانے ہزاروں خطرات اور کھڑے ہو جانے لاکھوں معاندوں اور مزاحموں اور ڈرانے والوں کے اول سے اخیر دم تک ثابت اور قائم رہے برسوں تک وہ مصیبتیں دیکھیں اور وہ دُکھ اُٹھانے پڑے جو کامیابی سے بکلی مایوس کرتے تھے اور روز بروز بڑھتے جاتے تھے کہ جن پر صبر کرنے سے کسی دنیوی مقصد کا حاصل ہو جانا وہم بھی نہیں گزرتا تھا بلکہ نبوت کا دعویٰ کرنے سے از دست اپنی پہلی جمعیت کو بھی کھو بیٹھے اور ایک بات کہکر لاکھ تفرقہ خرید لیا اور ہزاروں بلاؤں کو اپنے سر پر بلا لیا.وطن سے نکالے گئے.قتل کے لئے تعاقب کئے گئے.گھر اور اسباب تباہ اور برباد ہو گیا.بار ہاز ہر دی گئی اور جو خیر خواہ تھے وہ بد خواہ بن گئے اور جو دوست تھے وہ دشمنی کرنے لگے اور ایک زمانہ دراز تک وہ تلخیاں اٹھانی پڑیں کہ جن پر ثابت قدمی سے ٹھہرے رہنا کسی فریبی اور مکار کا کام نہیں.(روحانی خزائن جلد ا براہین احمد یه صفحه ۱۰۸-۱۰۹) مصطفی پر ترا بے حد ہو سلام اور رحمت اس سے یہ نور لیا بار خدایا ہم نے ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام دل کو وہ جام لبا لب ہے پلایا ہم نے محمد

Page 21

۱۰ اُس سے بہتر نظر آیا نہ کوئی عالم میں لاجرم غیروں سے دل اپنا چھڑایا ہم نے شانِ حق تیرے شمائل میں نظر آتی ہے تیرے پانے سے ہی اُس ذات کو پایا ہم نے چُھو کے دامن تر اہر دام سے ملتی ہے نجات لا جرم در پہ ترے سر کو جھکا یا ہم نے دلبرا ! مجھ کو قسم ہے تری یکتائی کی آپ کو تیری محبت میں بھلایا ہم نے بخدادل سے مرے ہٹ گئے سب غیروں کے نقش جب سے دل میں یہ تیر نقش جمایا ہم نے ہم ہوئے خیر امم تجھ سے ہی اے خیر رسل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے آدمی زاد تو کیا چیز فرشتے بھی تمام مدح میں تیری وہ گاتے ہیں جو گا یا ہم نے (روحانی خزائن جلد ۵ آئینہ کمالات اسلام صفحه ۲۲۵-۲۲۶) اور میرے لئے اس نعمت کا پاناممکن نہ تھا اگر میں اپنے سید ومولی فخر الانبیاء اور خیر الورای حضرت محمد مصطفی می ہے کے راہوں کی پیروی نہ کرتا.سو میں نے جو کچھ پایا اُس پیروی سے پایا اور میں اپنے بچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اُس نبی کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفت کا ملہ کا حصہ پاسکتا ہے.اور میں اس جگہ یہ بھی جتلا تا ہوں کہ وہ کیا چیز ہے کہ سچی اور کامل پیر وی آنحضرت عہ کے بعد سب باتوں سے پہلے دل میں پیدا ہوتی ہے.سویا در ہے کہ وہ قلب سلیم ہے.یعنی دل سے دنیا کی محبت نکل جاتی ہے اور دل ایک ابدی اور لازوال لذت کا طالب ہو جاتا ہے.پھر بعد اس کے ایک مصفی اور کامل محبت الہی باعث اس قلب سلیم کے حاصل ہوتی ہے اور یہ سب نعمتیں الله آنحضرت ﷺ کی پیروی سے بطور وراثت ملتی ہیں.وسام (روحانی خزائن جلد ۲۲ حقیقت الوحی صفحه ۶۴ - ۶۵) وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا نام اُس کا ہے محمد دلبر مرا یہی ہے سب پاک ہیں پیمبر اک دوسرے سے بہتر لیک از خدائے برتر خیر الوریٰ یہی ہے پہلوں سے خوبتر ہے، خوبی میں اک قمر ہے اُس پہ ہر اک نظر ہے، بدرالۂ جی یہی ہے

Page 22

6llè پہلے تو رہ میں ہارے، پار اس نے ہیں اتارے میں جاؤں اس کے وارے بس ناخدا یہی ہے وہ یارِ لا مکانی ، وہ دلبر نہانی دیکھا ہے ہم نے اس سے بس رہنما یہی ہے وہ آج شاہ دیں ہے ، وہ تاج مرسلیں ہے وہ طیب وامیں ہے اس کی ثنا یہی ہے آنکھ اس کی دور میں ہے، دل یار سے قریب ہے ہاتھوں میں شمع دیں ہے، عین الضیا.یہی ہے جور از دیں تھے بھارے اس نے بتائے سارے دولت کا دینے والا فرماں روا یہی ہے اُس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے (روحانی خزائن جلد ۲۰ قادیان کے آریہ اور ہم صفحہ ۴۵۶) اسی طرح حضرت داؤد علیہ السلام نے آنحضرت ﷺ کی جلالیت و عظمت کا اقرار کر کے زبور پینتالیس میں یوں بیان کیا ہے.(۲) ٹوکسن میں بنی آدم سے کہیں زیادہ ہے.تیرے لبوں میں نعمت بتائی گئی ہے اسی لئے خدا نے تجھ کو ابد تک مبارک کیا.(۳) اے پہلوان کو جاہ وجلال سے اپنی تلوار حمائل کر کے اپنی ران پر لٹکا.(۴) امانت اور حلم اور عدالت پر اپنی بزرگواری اور اقبال مندی سے سوار ہو.(روحانی خزائن جلد ۲ سُر مه چشم آریہ حاشیه صفحه ۲۸۱-۲۸۲)

Page 23

۱۲ قرآن کریم قرآن جواہرات کی تھیلی ہے اور لوگ اس سے بے خبر ہیں ! ( ملفوظات جلد ۲ صفحه ۳۴۴) قرآن کی وہ اعلیٰ شان ہے کہ ہر ایک شان سے بلند ہے.وہ حکم ہے یعنی فیصلہ کرنے والا اور وہ ہیمن ہے یعنی تمام ہدایتوں کا مجموعہ ہے.اس نے تمام دلیلیں جمع کر دیں اور دشمنوں کی جمعیت کو تتر بتر کر دیا اور وہ ایسی کتاب ہے کہ اس میں ہر چیز کی تفصیل ہے اور اس میں آئندہ اور گزشتہ کی خبریں موجود ہیں اور باطل کو اس کی طرف راہ نہیں ہے ، نہ آگے سے نہ پیچھے سے اور وہ خدا تعالیٰ کا نور ہے.(روحانی خزائن جلد ۶ اخطبہ الہامیہ صفحه ۱۰۳) جانا چاہیئے کہ گھلا کھلا اعجاز قرآن شریف کا جو ہر ایک قوم اور ہر ایک اہلِ زبان پر روشن ہوسکتا ہے جس کو پیش کر کے ہم ہر ایک ملک کے آدمی کو خواہ ہندی ہو یا پارسی یا یوروپین یا امریکن یا کسی اور ملک کا ہو ملزم و ساکت ولا جواب کر سکتے ہیں.وہ غیر محدود معارف و حقائق و علوم حکمیہ قرآنیہ ہیں جو ہر زمانہ میں اس زمانہ کی حاجت کے موافق گھلتے جاتے ہیں اور ہر ایک زمانہ کے خیالات کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلح سپاہیوں کی طرح کھڑے ہیں.اگر قرآن شریف اپنے حقائق ودقائق کے لحاظ سے ایک محدود چیز ہوتی تو ہرگز وہ معجزہ تامہ نہیں ٹھہر سکتا تھا.(روحانی خزائن جلد ۳ ازالہ اوہام حصہ اوّل صفحه ۲۵۵-۲۵۶) قرآن شریف ایسا معجزہ ہے کہ نہ وہ اوّل مثل ہوا اور نہ آخر کبھی ہوگا.اس کے فیوض و برکات کا در ہمیشہ جاری ہے اور وہ ہر زمانہ میں اسی طرح نمایاں اور درخشاں ہے جیسا

Page 24

۱۳ آنحضرت ﷺ کے وقت تھا.علاوہ اس کے یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ ہر شخص کا کلام اس کی ہمت کے موافق ہوتا ہے جس قدر اس کی ہمت اور عزم اور مقاصد عالی ہوں گے اسی پایہ کا وہ کلام ہوگا.اور وحی الہی میں بھی یہی رنگ ہوتا ہے.جس شخص کی طرف اس کی وحی آتی ہے جس قدر ہمت بلند رکھنے والا وہ ہوگا اسی پایہ کا کلام اسے ملے گا.آنحضرت ﷺ کی ہمت واستعداد اور عزم کا دائرہ چونکہ بہت ہی وسیع تھا اس لئے آپ کو جو کلام ملا وہ بھی اس پا یہ اور رتبہ کا ہے کہ دوسرا کوئی شخص اس ہمت اور حوصلہ کا کبھی پیدا نہ ہوگا.( ملفوظات جلد سوم صفحہ ۵۷) ہم سچ سچ کہتے ہیں اور سچ کہنے سے کسی حالت میں رُک نہیں سکتے کہ اگر آنحضرت آئے نہ ہوتے اور قرآن شریف جس کی تاثیریں ہمارے ائمہ اور ا کا بر قدیم سے دیکھتے آئے اور آج ہم دیکھ رہے ہیں ، نازل نہ ہوا ہوتا.تو ہمارے لئے یہ امر بڑا ہی مشکل ہوتا کہ جو ہم فقط بائبل کے دیکھنے سے یقینی طور پر شناخت کر سکتے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت مسیح اور دوسرے گزشتہ نبی فی الحقیقت اسی پاک اور مقدس جماعت میں سے ہیں جن کو خدا نے اپنے لطف خاص سے اپنی رسالت کے لئے چن لیا ہے.یہ ہم کو فرقان مجید کا احسان مانا چاہیے جس نے اپنی روشنی ہر زمانہ میں آپ دکھلائی اور پھر اس کامل روشنی سے گزشتہ نبیوں کی صداقتیں بھی ہم پر ظاہر کر دیں.اور یہ احسان نہ فقط ہم پر بلکہ آدم سے لیکر مسیح تک اُن تمام نبیوں پر ہے کہ جو قرآن شریف سے پہلے گزر چکے.(روحانی خزائن جلد ا براہین احمدیہ حاشیه در حاشیه صفحه ۲۹۰) آج رُوئے زمین پر سب الہامی کتابوں میں سے ایک فرقانِ مجید ہی ہے کہ جس کا کلام الہی ہونا دلائل قطعیہ سے ثابت ہے.جس کے اصول نجات کے بالکل راستی اور وضع فطرتی پر مبنی ہیں.جس کے عقائد ایسے کامل اور مستحکم ہیں جو براہینِ قو یہ ان کی صداقت پر شاہد ناطق ہیں جس کے احکام حق محض پر قائم ہیں جس کی تعلیمات ہر یک طرح کی آمیزش

Page 25

اله شرک اور بدعت اور مخلوق پرستی سے بکلی پاک ہیں جس میں تو حید اور تعظیم الہی اور کمالات حضرت عزت کے ظاہر کرنے کے لئے انتہا کا جوش ہے جس میں یہ خوبی ہے کہ سراسر وحدانیت جناب الہی سے بھرا ہوا ہے اور کسی طرح کا دھبہ ، نقصان اور عیب اور نالائق صفات کا ذات پاک حضرت باری پر نہیں لگا تا اور کسی اعتقاد کو ز بر دستی تسلیم کرانا نہیں چاہتا بلکہ جو تعلیم دیتا ہے اس کی صداقت کی وجوہات پہلے دکھلا لیتا ہے اور ہر ایک مطلب اور مدعا کو حج اور براہین سے ثابت کرتا ہے اور ہر ایک اصول کی حقیت پر دلائل واضح بیان کر کے مرتبہ یقین کامل اور معرفت تام تک پہنچاتا ہے اور جو جو خرابیاں اور ناپاکیاں اور خلل اور فسادلوگوں کے عقائد اور اعمال اور اقوال اور افعال میں پڑے ہوئے ہیں ان تمام مفاسد کو روشن براہین سے دُور کرتا ہے اور وہ تمام آداب سکھاتا ہے کہ جن کا جاننا انسان کو انسان بننے کے لئے نہایت ضروری ہے اور ہر یک فساد کی اسی زور سے مدافعت کرتا ہے کہ جس زور سے وہ آجکل پھیلا ہوا ہے.اس کی تعلیم نہایت مستقیم اور قوی اور سلیم ہے گویا احکام قدرتی کا ایک آئینہ ہے اور قانونِ فطرت کی ایک عکسی تصویر ہے اور بینائی دلی اور بصیرت قلبی کے لئے ایک آفتاب چشم افروز ہے.(روحانی خزائن جلد ابراہین احمدیہ صفحه ۸۱-۸۲) نور فرقاں ہے جو سب نوروں سے اجلی نکلا پاک وہ جس سے یہ انوار کا دریا نکلا حق کی توحید کا مُرجھا ہی چلا تھا پودا ناگہاں غیب سے یہ چشمہ اصفی نکلا یا الہی تیرا فرقاں ہے کہ اک عالم ہے جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا سب جہاں چھان چکے ساری دُکانیں دیکھیں مئے عرفان کا یہی ایک ہی شیشہ نکلا رکس سے اس نور کی ممکن ہو جہاں میں تشبیہ وہ تو ہر بات میں ہر وصف میں یکتا نکلا پہلے سمجھے تھے کہ موسیٰ کا عصا ہے فرقاں پھر جو سوچا تو ہر اک لفظ مسیحا نکلا ہے قصور اپنا ہی اندھوں کا وگرنہ وہ نور ایسا چکا ہے کہ صد غیر بیضا نکلا

Page 26

زندگی ایسوں کی کیا خاک ہے اس دنیا میں جن کا اس نور کے ہوتے بھی دل ائمی نکالا (روحانی خزائن جلد ا براہین احمدیہ حصہ سوم حاشیه در حاشیه صفحه ۳۰۵-۳۰۶) اے عزیز و سُنو کہ بے قرآن حق کو ملتا نہیں کبھی انساں سینہ ہے دل میں ہر وقت نور بھرتا ہے کو خوب صاف کرتا اس کے اوصاف کیا کروں میں بیاں وہ تو دیتا ہے جاں کو اور اک جاں سے انکار ہو سکے کیونکر وہ تو چکا ہے نیر اکبر اس بحر حکمت ہے وہ کلام تمام عشق حق کا پلا رہا ہے جام دردمندوں کی ہے دوا وہی ایک ہے خدا سے خدا نما وہی ایک ہم نے پایا خور بڑی وہی ایک ہم نے دیکھا ہے دلربا وہی ایک اُس کے منکر جو بات کہتے ہیں یونہی اک واہیات کہتے ہیں (روحانی خزائن جلد ا براہین احمدیہ حصہ سوم حاشیه در حاشیه صفحه ۲۹۹-۳۰۰)

Page 27

۱۶ وحی والہام جب خدائے تعالیٰ اپنے بندہ کو کسی امر غیبی پر بعد دعا اس بندہ کے یا خود بخود مطلع کرنا چاہتا ہے تو یک دفعہ ایک بیہوشی اور ر بودگی اس پر طاری کر دیتا ہے جس سے وہ بالکل اپنی ہستی سے کھویا جاتا ہے اور ایسا اس بے خودی اور ر بودگی اور بیہوشی میں ڈوبتا ہے جیسے کوئی پانی میں غوطہ مارتا ہے اور نیچے پانی کے چلا جاتا ہے.غرض جب بندہ اس حالت ربودگی سے کہ جو غوطہ سے بہت ہی مشابہ ہے باہر آتا ہے تو اپنے اندر میں کچھ ایسا مشاہدہ کرتا ہے جیسے ایک گونج پڑی ہوئی ہوتی ہے اور جب وہ گونج کچھ فرو ہوتی ہے تو نا گہاں اس کو اپنے اندر سے ایک موزوں اور لطیف اور لذیز کلام محسوس ہو جاتی ہے اور یہ غوطہ ربودگی کا ایک نہایت عجیب امر ہے جس کے عجائبات بیان کرنے کیلئے الفاظ کفایت نہیں کرتے.یہی حالت ہے جس سے ایک دریا معرفت کا انسان پر کھل جاتا ہے کیونکہ جب بار بار دعا کرنے کے وقت خدا وند تعالیٰ اس حالت غوطہ اور ربودگی کو اپنے بندہ پر وارد کر کے اس کی ہر یک دعا کا اس کو ایک لطیف اور لذیذ کلام میں جواب دیتا ہے.اور ہر ایک استفسار کی حالت میں وہ حقائق اس پر کھولتا ہے جن کا کھلنا انسان کی طاقت سے باہر ہے.تو یہ امر اس کے لئے موجب مزید معرفت اور باعث عرفانِ کامل ہو جاتا ہے.بندہ کا دعا کرنا اور خدا کا اپنی الوہیت کی تحیلی سے ہر یک دعا کا جواب دینا یہ ایک ایسا امر ہے کہ گویا اسی عالم میں بندہ اپنے خدا کو دیکھ لیتا ہے اور دونوں عالم اس کے لئے بلا تفاوت یکساں ہو جاتے ہیں.(روحانی خزائن جلد ابراہین احمدیہ حاشیه در حاشیہ نمبر اصفحه ۲۶۰ تا ۲۶۲) صورت پنجم الہام کی وہ ہے جس کا انسان کے قلب سے کچھ تعلق نہیں بلکہ ایک خارج سی آواز آتی ہے اور یہ آواز ایسی معلوم ہوتی ہے جیسے ایک پردہ کے پیچھے سے کوئی

Page 28

آدمی بولتا ہے مگر یہ آواز نہایت لذیذ اور شگفتہ اور کسی قدر سُرعت کے ساتھ ہوتی ہے اور دل کو اس سے ایک لذت پہنچتی ہے.انسان کسی قدر استغراق میں ہوتا ہے کہ یک دفعہ یہ آواز آجاتی ہے اور آواز سُن کر وہ حیران رہ جاتا ہے کہ کہاں سے یہ آواز آئی اور کس نے مجھ سے کلام کی اور حیرت زدہ کی طرح آگے پیچھے دیکھتا ہے پھر سمجھ جاتا ہے کہ کسی فرشتہ نے یہ آواز دی.اور یہ آواز خارجی اکثر اس حالت میں بطور بشارت آتی ہے کہ جب انسان کسی معاملے میں نہایت متفکر اور مغموم ہوتا ہے.(روحانی خزائن جلد ابراہین احمدیہ حاشیه در حاشیه صفحه ۲۸۷) یہی قانون ہے کہ جس کے پاس کچھ نور ہے اسی کو اور نور بھی دیا جاتا ہے اور جس کے پاس کچھ نہیں اُس کو کچھ نہیں دیا جاتا.جو شخص آنکھوں کا نور رکھتا ہے وہی آفتاب کا نور پاتا ہے اور جس کے پاس آنکھوں کا نور نہیں وہ آفتاب کے نور سے بھی بے بہرہ رہتا ہے اور جس کو فطرتی نور کم ملا ہے اس کو دوسرا نور بھی کم ہی ملتا ہے اور جس کو فطرتی نور زیادہ ملا ہے اس کو دوسرا نور بھی زیادہ ہی ملتا ہے.روحانی خزائن جلد ا براہین احمدیہ حاشیه صفحه ۱۹۵-۱۹۶) خدائے تعالیٰ نے اپنے عجیب عالم کو تین حصہ پر منقسم کر رکھا ہے.(۱) عالم ظاہر جو آنکھوں اور کانوں اور دیگر حواس ظاہری کے ذریعہ اور آلات خارجی کے توسل سے محسوس ہوسکتا ہے.(۲) عالم باطن جو عقل اور قیاس کے ذریعہ سے سمجھ میں آسکتا ہے.(۳) عالم باطن در باطن جو ایسا نازک اور لائیڈرک و فوق الخیالات عالم ہے جو تھوڑے ہیں جو اس سے خبر رکھتے ہیں.وہ عالم غیب محض ہے جس تک پہنچنے کے لئے عقلوں کو طاقت نہیں دی گئی مگر ظر محض.اور اس عالم پر کشف اور وحی اور الہام کے ذریعہ سے اطلاع ملتی ہے اور نہ اور کسی ذریعہ سے اور جیسی عادت اللہ بدیہی طور پر ثابت اور متحقق ہے کہ اس نے ان دو پہلے عالموں کے در فیات کرنے کے لئے جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے انسان کو طرح طرح کے حواس و

Page 29

هران قوتیں عنایت کی ہیں اسی طرح اس تیسرے عالم کے در فیات کرنے کیلئے بھی اس فیاض مطلق نے انسان کے لئے ایک ذریعہ رکھا ہے اور وہ ذریعہ وحی اور الہام اور کشف ہے جو کسی زمانہ میں بکتی بند اور موقوف نہیں رہ سکتا بلکہ اس کے شرائط بجالانے والے ہمیشہ اس کو پاتے رہے ہیں اور ہمیشہ پاتے رہیں گے.روحانی خزائن جلد ۲ سرمه چشم آرید حاشیه صفحه ۱۲۷-۱۲۸)

Page 30

6196 ہمارے عقائد صلى الله ہمارے مذہب کا خلاصہ اور کب کباب یہ ہے کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ ہمارا اعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں، جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالیٰ اس عالم گذران سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سیدنا ومولانا محمد مصطفی علی خاتم النبیین و خیرالمرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمالِ دین ہو چکا اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدائے تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے، اور ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے اور ایک شعشہ یا نقطہ اس کی شرائع اور حدود اور احکام اور اوامر سے زیادہ نہیں ہو سکتا اور نہ کم ہو سکتا ہے اور اب کوئی ایسی وحی یا ایسا الہام منجانب اللہ نہیں ہو سکتا جو احکامِ فرقانی کی ترمیم یا تنسیخ یا کسی ایک حکم کے تبدیل یا تغییر کر سکتا ہو.اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ ہمارے نزدیک جماعت مومنین سے خارج اور ملحد اور کافر ہے.روحانی خزائن جلد ۳ ازالہ اوہام صفحه ۱۶۹-۱۷۰) اور ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور سیدنا حضرت محمد مصطفے اللہ اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں.اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائک حق اور کثیر اجساد حق اور روز حساب حق اور جنت حق اور جہنم حق ہے اور ہم ایمان لاتے صلى الله ہیں کہ جو کچھ اللہ جل شانہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا ہے وہ سب بلحاظ بیان مذکورہ بالاحق ہے.اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو شخص اس شریعت اسلام میں سے ایک ذرہ کم کرے یا ایک ذرہ زیادہ کرے یا ترک فرائض اور اباحت کی بنیاد ڈالے وہ بے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے.اور ہم اپنی جماعت کو نصیحت

Page 31

۲۰ کرتے ہیں کہ وہ سچے دل سے اس کلمہ طیبہ پر ایمان رکھیں کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ اور اسی پر مریں.اور تمام انبیاء اور تمام کتابیں جن کی سچائی قرآن شریف سے ثابت ہے اُن سب پر ایمان لاویں.اور صوم اور صلوٰۃ اور زکوۃ اور حج اور خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقرر کردہ تمام فرائض کو فرائض سمجھ کر اور تمام منہیات کو منہیات سمجھ کر ٹھیک ٹھیک اسلام پر کار بند ہوں.غرض وہ تمام امور جن پر سلف صالحین کو اعتقادی اور عملی طور پر اجماع تھا اور وہ امور جو اہل سنت کی اجماعی رائے سے اسلام کہلاتے ہیں اُن سب کا ماننا فرض ہے.اور ہم آسمان اور زمین کو اس بات پر گواہ کرتے ہیں کہ یہی ہمارا مذہب ہے.(روحانی خزائن جلد ۴ ۱ تیام اصلح صفه ۳۲۳) اے تمام وہ لوگو جوز مین پر رہتے ہو! اور اے تمام وہ انسانی روحو جو مشرق اور مغرب میں آباد ہو ! میں پورے زور کے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتا ہوں کہ اب زمین پر سچا مذہب صرف اسلام ہے اور سچا خدا بھی وہی خدا ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے اور ہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اور جلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد ﷺ ہے.صلى الله (روحانی خزائن جلد ۵ ۱ تریاق القلوب صفحه ۱۴۱)

Page 32

ério مقام حضرت مسیح موعود علیہ السلام خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک مخیی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اس نے کہا هذَا رَجُلٌ يُحِبُّ رَسُوْلَ اللهِ يعنى يوه آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرط اعظم اس عہدہ کی محبت رسول ہے سو وہ اس شخص میں متحقق ہے.(روحانی خزائن جلد ا براہین احمدیہ حاشیه در حاشیه صفحه ۵۹۸) دُنیا مجھے قبول نہیں کر سکتی کیونکہ میں دنیا میں سے نہیں ہوں مگر جن کی فطرت کو اُس عالم کا حصہ دیا گیا ہے وہ مجھے قبول کرتے ہیں اور کریں گے.جو مجھے چھوڑتا ہے وہ اُس کو چھوڑتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جو مجھ سے پیوند کرتا ہے وہ اُس سے کرتا ہے جس کی طرف سے میں آیا ہوں.میرے ہاتھ میں ایک چراغ ہے جو شخص میرے پاس آتا ہے ضرور وہ اُس روشنی سے حصہ لے گا مگر جو شخص و ہم اور بد گمانی سے دُور بھاگتا ہے وہ ظلمت میں ڈال دیا جائے گا.اس زمانہ کا حصن حصین میں ہوں جو مجھ میں داخل ہوتا ہے وہ چوروں اور قرب اقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گا.(روحانی خزائن جلد ۳ فتح اسلام صفحه ۳۴) مجھے اُس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ مجھے قرآن کے حقائق اور معارف کے سمجھنے میں ہر ایک روح پر غلبہ دیا گیا ہے.اور اگر کوئی مولوی مخالف میرے مقابل پر آتا جیسا کہ میں نے قرآنی تفسیر کے لئے بار بار ان کو بلا یا تو خدا اُس کو ذلیل اور شرمندہ کرتا.سو ہم قرآن جو مجھ کو عطا کیا گیا یہ اللہ جل شانہ کا ایک نشان ہے.میں خدا کے

Page 33

۲۲ فضل سے امید رکھتا ہوں کہ عنقریب دُنیادیکھے گی کہ میں اس بیان میں سچا ہوں.(روحانی خزائن جلد ۲ اسراج منیر صفحه ۴۱) میں اکیلا نہیں وہ مولیٰ کریم میرے ساتھ ہے اور کوئی اُس سے بڑھ کر مجھ سے قریب تر نہیں.اُسی کے فضل سے مجھ کو یہ عاشقانہ رُوح ملی ہے کہ دُکھ اُٹھا کر بھی اُس کے دین کیلئے خدمت بجالاؤں اور اسلامی مہمات کو بشوق وصدق تمام تر انجام دوں.اس کام پر اُس نے آپ مجھے مامور کیا ہے اب کسی کے کہنے سے میں رک نہیں سکتا.روحانی خزائن جلد ۵ آئینہ کمالات اسلام صفحه ۳۵) ایک تقوی شعار آدمی کے لئے یہ کافی تھا کہ خدا نے مجھے مفتریوں کی طرح ہلاک نہیں کیا بلکہ میرے ظاہر اور باطن اور میرے جسم اور میری روح پر وہ احسان کئے جن کو میں شمار نہیں کر سکتا.میں جوان تھا جب خدا کی وحی اور الہام کا دعوی کیا اور اب میں بوڑھا ہو گیا اور ابتداء دعوی پر بیس برس سے بھی زیادہ عرصہ گزر گیا.بہت سے میرے دوست اور عزیز جو مجھ سے چھوٹے تھے فوت ہو گئے اور مجھے اُس نے عمر دراز بخشی اور ہر یک مشکل میں میرا متکفل اور متو تی رہا.پس کیا ان لوگوں کے یہی نشان ہوا کرتے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ پر افترا باندھتے ہیں.(روحانی خزائن جلدا انجام آنقم صفحه ۵۰)

Page 34

۱۲۳ پاک جماعت کا قیام اور نصائح اے میرے دوستو! جو میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو خدا ہمیں اور تمہیں ان باتوں کی توفیق دے جن سے وہ راضی ہو جائے.آج تم تھوڑے ہو اور تحقیر کی نظر سے دیکھے گئے ہو اور ایک ابتلاء کا وقت تم پر ہے اسی سنت اللہ کے موافق جو قدیم سے جاری ہے.ہر ایک طرف سے کوشش ہو گی کہ تم ٹھو کر کھاؤ اور تم ہر طرح سے ستائے جاؤ گے اور طرح طرح کی باتیں تمہیں سننی پڑیں گی اور ہر یک جو تمہیں زبان یا ہاتھ سے دُکھ دے گا وہ خیال کرے گا کہ اسلام کی حمایت کر رہا ہے.اور کچھ آسمانی ابتلاء بھی تم پر آئیں گے تائم ہر طرح سے آزمائے جاؤ.سو تم اس وقت سُن رکھو کہ تمہارے فتح مند اور غالب ہو جانے کی یہ راہ نہیں کہ تم اپنی خشک منطق سے کام لو یا تمسخر کے مقابل پر تمسخر کی باتیں کرو یا گالی کے مقابل پر گالی دو.کیونکہ اگر تم نے یہی راہیں اختیار کیں تو تمہارے دل سخت ہو جائیں گے اور تم میں صرف باتیں ہی باتیں ہوں گی جن سے خدا تعالیٰ نفرت کرتا ہے اور کراہت کی نظر سے دیکھتا ہے.سو تم ایسا نہ کرو کہ اپنے پر دو العنتیں جمع کر لو ایک خلقت کی اور دوسری خدا کی بھی.(روحانی خزائن جلد ۳ ازالہ اوہام صفحه ۵۴۶-۵۴۷) یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا.تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا.پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعوئے بیعت میں صادق اور کون کاذب ہے.وہ جو کسی ابتلاء سے لغزش کھائے گا وہ کچھ بھی خدا کا نقصان نہیں کرے گا اور بد بختی اس

Page 35

۲۴ کو جہنم تک پہنچائے گی.اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو اس کے لئے اچھا تھا.مگر وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے اور اُن پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قومیں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دُنیا اُن سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی وہ آخر فتحیاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے اُن پر کھولے جائیں گے.خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے ایسا ایمان جو اس کے ساتھ دُنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بز دلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں.اور خدا فرماتا ہے کہ وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے.(روحانی خزائن جلد ۱۲۰ الوصیت صفحه ۳۰۹) نا انصافی پر ضد کر کے سچائی کا خون نہ کرو.حق کو قبول کر لو اگر چہ ایک بچہ سے اور اگر مخالف کی طرف حق پاؤ تو پھر فی الفور اپنی خشک منطق کو چھوڑ دو.بیچ پر ٹھہر جاؤ اور سچی گواہی دو.جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوا قَوْلَ النُّورِ یعنی جُوں کی پلیدی سے بچو اور جھوٹ سے بھی کہ وہ بُت سے کم نہیں.جو چیز قبلۂ حق سے تمہارا منہ پھیرتی ہے وہی تمہاری راہ میں بہت ہے.سچی گواہی دو اگر چہ تمہارے باپوں یا بھائیوں یا دوستوں پر ہو.چاہیئے کہ کوئی عداوت بھی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو.باہم بخل اور کینہ اور حسد اور بغض اور بے مہری چھوڑ دو اور ایک ہو جاؤ.قرآن شریف کے بڑے حکم دو ہی ہیں.ایک توحید و محبت و اطاعت باری عزاسمہ.دوسری ہمدردی اپنے بھائیوں اور اپنے بنی نوع کی.(روحانی خزائن جلد۳ ازالہ اوہام صفحه ۵۵۰) سچائی اختیار کرو.سچائی اختیار کرو کہ وہ دیکھ رہا ہے کہ تمہارے دل کیسے ہیں.کیا انسان اس کو بھی دھوکا دے سکتا ہے.کیا اس کے آگے بھی مکاریاں پیش جاتی ہیں.(روحانی خزائن جلد ۳ ازالہ اوہام صفحه ۵۴۹)

Page 36

۲۵ سواے دے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو.آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ سچ تقوی کی راہوں پر قدم مارو گے.سواپنی پنج وقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو اور اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو.ہر ایک جو زکوۃ کے لائق ہے وہ زکوۃ دے اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے.نیکی کو سنوار کر ادا کرو اور بدی کو بیزار ہوکر ترک کرو یقیناًآیا درکھو کہ کوئی عمل خدا تک نہیں پہنچ سکتا جو تقوی سے خالی ہے ہر ایک نیکی کی جڑ تقوی ہے جس عمل میں یہ جڑ ضائع نہیں ہوگی وہ عمل بھی ضائع نہیں ہوگا ضرور ہے کہ انواع رنج و مصیبت سے تمہارا امتحان بھی ہوجیسا کہ پہلے مومنوں کے امتحان ہوئے.سوخبر دارر ہوایسانہ ہو کہ ٹھوکر کھاؤ.زمین تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی اگر تمہارا آسمان سے پختہ تعلق ہے جب کبھی تم اپنا نقصان کرو گے تو اپنے ہاتھوں سے نہ دشمن کے ہاتھوں سے.اگر تمہاری زمینی عزت ساری جاتی رہے تو خدا تمہیں ایک لازوال عزت آسمان پر دے گا سو تم اس کو مت چھوڑو اور ضرور ہے کہ تم دکھ دئے جاؤ اور اپنی کئی امیدوں سے بے نصیب کئے جاؤ.سو ان صورتوں سے تم دلگیر مت ہو کیونکہ تمہارا خدا تمہیں آزماتا ہے کہ تم اس کی راہ میں ثابت قدم ہو یا نہیں.اگر تم چاہتے ہو کہ آسمان پر فرشتے بھی تمہاری تعریف کریں تو تم ماریں کھاؤ اور خوش رہو اور گالیاں سنو اور شکر کرو اور ناکامیاں دیکھو اور پیوندمت تو ڑو تم خدا کی آخری جماعت ہو سودہ عمل نیک دکھلا ؤ جو اپنے کمال میں انتہائی درجہ پر ہو.(روحانی خزائن جلد ۱۹ کشتی نوح صفحه ۱۵) تم اگر چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خدا راضی ہو تو تم با ہم ایسے ایک ہو جاؤ جیسے ایک پریٹ میں سے دو بھائی تم میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشا ہے اور بد بخت ہے وہ جو ضد کرتا ہے اور نہیں بخشتا سو اُس کا مجھ میں حصہ نہیں.خدا کی لعنت سے بہت خائف رہو کہ وہ قدوس اور غیور ہے بد کا رخدا کا قرب حاصل نہیں کر سکتا.متکبر اس

Page 37

۲۶ کا قرب حاصل نہیں کر سکتا.ظالم اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا خائن اُس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا.اور ہر ایک جو اس کے نام کیلئے غیرت مند نہیں اس کا قرب حاصل نہیں کرسکتا.وہ جو دنیا پر کتوں یا چیونٹیوں یا گڑوں کی طرح گرتے ہیں اور دنیا سے آرام یافتہ ہیں وہ اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتے ہر ایک ناپاک آنکھ اس سے دور ہے ہر ایک نا پاک دل اس سے بے خبر ہے وہ جو اس کے لئے آگ میں ہے وہ آگ سے نجات دیا جائے گا وہ جواس کے لئے روتا ہے وہ ہنسے گا.وہ جو اس کے لئے دنیا سے تو ڑتا ہے وہ اس کو ملے گا.تم سچے دل سے اور پورے صدق سے اور سرگرمی کے قدم سے خدا کے دوست بنو تا وہ بھی تمہارا دوست بن جائے.تم ماتحتوں پر اور اپنی بیویوں پر اور اپنے غریب بھائیوں پر رحم کرو تا آسمان پر تم پر بھی رحم ہو.تم سچ سچ اُس کے ہو جاؤ.تاوہ بھی تمہارا ہو جاوے.(روحانی خزائن جلد ۱۹ کشتی نوح صفحه ۱۲ - ۱۳) میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ تکبر سے بچو کیونکہ تکبر ہمارے خدا وندِ ذوالجلال کی آنکھوں میں سخت مکروہ ہے مگر تم شاید نہیں سمجھو گے کہ تکبر کیا چیز ہے پس مجھ سے سمجھ لو کہ میں خدا کی رُوح سے بولتا ہوں.ہر ایک شخص جو اپنے بھائی کو اس لئے حقیر جانتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ عالم یا زیادہ عظمند یا زیادہ ہنر مند ہے وہ متکبر ہے کیونکہ وہ خدا کو سر چشمہ عقل اور علم کا نہیں سمجھتا اور اپنے تیں کچھ چیز قرار دیتا ہے.کیا خدا قادر نہیں کہ اُس کو دیوانہ کر دے اور اُس کے اُس بھائی کو جس کو وہ چھوٹا سمجھتا ہے اس سے بہتر عقل اور علم اور بہنر دے دے.ایسا ہی وہ شخص جو اپنے کسی مال یا جاہ و حشمت کا تصورکر کے اپنے بھائی کو حقیر سمجھتا ہے وہ بھی متکبر ہے کیونکہ وہ اس بات کو بھول گیا ہے کہ یہ جاہ وحشمت خدا نے ہی اُس کو دی تھی اور وہ اندھا ہے اور وہ نہیں جانتا کہ وہ خدا قادر ہے کہ اُس پر ایک ایسی گردش نازل کرے کہ وہ ایک دم میں اسفل السافلین میں جا پڑے اور اس کے اس بھائی کو جس کو وہ حقیر سمجھتا ہے اس سے بہتر مال و

Page 38

۲۷ دولت عطا کر دے.ایسا ہی وہ شخص جو اپنی صحت بدنی پر غرور کرتا ہے یا اپنے حسن اور جمال اور قوت اور طاقت پر نازاں ہے اور اپنے بھائی کا ٹھٹھے اور استہزا سے حقارت آمیز نام رکھتا ہے اور اُس کے بدنی عیوب لوگوں کو سُناتا ہے وہ بھی متکبر ہے اور وہ اس خدا سے بے خبر ہے کہ ایک دم میں اُس پر ایسے بدنی عیوب نازل کرے کہ اس بھائی سے اس کو بدتر کر دے.(روحانی خزائن جلد ۱۸ نزول مسیح صفحه۴۰۲) بدظنی ایک سخت بلا ہے جو ایمان کو ایسی جلدی جلا دیتی ہے جیسا کہ آتش سوزاں خس و خاشاک کو اور وہ جو خدا کے مرسلوں پر بدظنی کرتا ہے خدا اس کا خود دشمن ہو جاتا ہے اور اس کی جنگ کے لئے کھڑا ہوتا ہے اور وہ اپنے برگزیدوں کے لئے اس قدر غیرت رکھتا ہے جو کسی میں اُس کی نظیر نہیں پائی جاتی.میرے پر جب طرح طرح کے حملے ہوئے تو وہی خدا کی غیرت میرے لئے برافروختہ ہوئی.(روحانی خزائن جلد ۱۲۰الوصیت صفحه ۳۱۷ حاشیہ) میں سچ کہتا ہوں کہ بدظنی بہت ہی بُری بلا ہے جو انسان کے ایمان کو تباہ کر دیتی ہے اور صدق اور راستی سے دور پھینک دیتی ہے اور دوستوں کو دشمن بنادیتی ہے صدیقوں کے کمال حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان بطنی سے بہت ہی بچے اور اگر کسی کی نسبت کوئی سُوءظن پیدا ہو تو کثرت کے ساتھ استغفار کرے اور خدا تعالیٰ سے دعا ئیں کرے تا کہ اس معصیت اور اس کے بُرے نتیجہ سے بچ جاوے جو اس بدظنی کے پیچھے آنے والا ہے اس کو کبھی معمولی چیز نہیں سمجھنا چاہیے.یہ بہت ہی خطرناک بیماری ہے جس سے انسان بہت ہی جلد ہلاک ہو جاتا ہے.( ملفوظات جلد اول صفحه ۳۷۲) اور چاہیئے کہ تم بھی ہمدردی اور اپنے نفسوں کے پاک کرنے سے روح القدس سے حصہ لو کہ بجز روح القدس کے حقیقی تقوی حاصل نہیں ہو سکتی اور نفسانی جذبات کو بکلی چھوڑ کر

Page 39

۱۳۸ خدا کی رضا کے لئے وہ راہ اختیار کرو جو اُس سے زیادہ کوئی راہ تنگ نہ ہو.دنیا کی لذتوں پر فریفتہ مت ہو کہ وہ خدا سے جدا کرتی ہیں اور خدا کے لئے تلخی کی زندگی اختیار کرو.وہ درد جس سے خدا راضی ہو اُس لذت سے بہتر ہے جس سے خدا ناراض ہو جائے.اور وہ شکست جس سے خدا راضی ہو اُس فتح سے بہتر ہے جو موجب غضب الہی ہو.اُس محبت کو چھوڑ دو جو خدا کے غضب کے قریب کرے.اگر تم صاف دل ہو کر اُس کی طرف آجاؤ تو ہر ایک راہ میں وہ تمہاری مدد کرے گا اور کوئی دشمن تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا.(روحانی خزائن جلد ۲۰ الوصیت صفحه ۳۰۷) لباس التقوی قرآن شریف کا لفظ ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقوی سے ہی پیدا ہوتی ہے.اور تقوی یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے یعنی ان کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تا بمقدور کار بند ہو جائے.(روحانی خزائن جلد ۲۱ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۲۱۰)

Page 40

۲۹ انجام سلسله میں بڑے دعوی اور استقلال سے کہتا ہوں کہ میں سچ پر ہوں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس میدان میں میری ہی فتح ہے اور جہاں تک میں دور بین نظر سے کام لیتا ہوں تمام دنیا اپنی سچائی کے تحت اقدام دیکھتا ہوں اور قریب ہے کہ میں ایک عظیم الشان فتح پاؤں کیونکہ میری زبان کی تائید میں ایک اور زبان بول رہی ہے اور میرے ہاتھ کی تقویت کے لئے ایک اور ہاتھ چل رہا ہے جس کو دنیا نہیں دیکھتی مگر میں دیکھ رہا ہوں.میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے.جو میرے لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخشتی ہے اور آسمان پر ایک جوش اور اُبال پیدا ہوا ہے جس نے ایک پتلی کی طرح اس 'مشت خاک کو کھڑا کر دیا ہے.ہر یک وہ شخص جس پر توبہ کا دروازہ بند نہیں عنقریب دیکھ لے گا کہ میں اپنی طرف سے نہیں ہوں.کیا وہ آنکھیں بینا ہیں جو صادق کو شناخت نہیں کرسکتیں.کیا وہ بھی زندہ ہے جس کو اس آسمانی صدا کا احساس نہیں.(روحانی خزائن جلد ۳ ازالہ اوہام صفحه ۴۰۳) یقیناً سمجھو کہ یہ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودہ ہے خدا اس کو ہر گز ضائع نہیں کرے گا.وہ راضی نہیں ہو گا جب تک کہ اس کو کمال تک نہ پہنچا دے.اور وہ اس کی آبپاشی کرے گا اور اس کے گردا حاطہ بنائے گا اور تعجب انگیز ترقیات دے گا.کیا تم نے کچھ کم زور لگایا.پس اگر یہ انسان کا کام ہوتا تو کبھی کا یہ درخت کا ٹا جاتا اور اس کا نام ونشان باقی نہ رہتا.(روحانی خزائن جلدا، انجام آنقم صفحه ۶۴)

Page 41

۳۰ آخری فتح زمین کے لوگ خیال کرتے ہونگے کہ شاید انجام کا رعیسائی مذہب دنیا میں پھیل جائے یا بدھ مذہب تمام دنیا پر حاوی ہو جائے مگر وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں.یادر ہے کہ زمین پر کوئی بات ظہور میں نہیں آتی جب تک وہ بات آسمان پر قرار نہ پائے.سو آسمان کا خدا مجھے بتلاتا ہے کہ آخر کا ر اسلام کا مذہب دلوں کو فتح کرے گا.(روحانی خزائن جلد ۲۱ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۴۲۷) رُوح غور سے معلوم ہوتا ہے کہ روح کی ماں جسم ہی ہے.حاملہ عورتوں کے پیٹ میں روح کبھی اوپر سے نہیں گرتی بلکہ وہ ایک نور ہے جو نطفہ میں ہی پوشیدہ طور پر خفی ہوتا ہے اور جسم کی نشو ونما کے ساتھ چمکتا جاتا ہے.خدا تعالیٰ کا پاک کلام ہمیں سمجھاتا ہے کہ روح اس قالب میں سے ہی ظہور پذیر ہو جاتی ہے جو نطفہ سے رحم میں تیار ہوتا ہے.جیسا کہ وہ قرآن شریف میں فرماتا ہے.ثُمَّ انْشَانَهُ خَلْقًا أَخَرَ فَتَبَرَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَلِقِينَ یعنی پھر ہم اس جسم کو جو رحم میں تیار ہوا تھا ایک اور پیدائش کے رنگ میں لاتے ہیں.اور ایک اور خلقت اس کی ظاہر کرتے ہیں جو روح کے نام سے موسوم ہے اور خدا بہت برکتوں والا ہے اور ایسا خالق ہے جو کوئی اس کے برابر نہیں.(روحانی خزائن جلد ۱ اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ ۳۲۱)

Page 42

جیسا کہ کوئی باغ بغیر پانی کے سرسبز نہیں رہ سکتا ایسا ہی کوئی ایمان بغیر نیک کاموں کے زندہ ایمان نہیں کہلا سکتا اگر ایمان ہو اور اعمال نہ ہوں تو وہ ایمان بیچ ہے اور اگر اعمال ہوں اور ایمان نہ ہو تو وہ اعمال ریا کاری ہیں.اسلامی بہشت کی یہی حقیقت ہے کہ وہ اس دنیا کے ایمان اور عمل کا ایک خلق ہے وہ کوئی نئی چیز نہیں جو باہر سے آ کر انسان کو ملے گی بلکہ انسان کی بہشت انسان کے اندر ہی سے نکلتی ہے اور ہر ایک کی بہشت اسی کا ایمان اور اسی کے اعمال صالحہ ہیں جن کی اسی دنیا میں لذت شروع ہو جاتی ہے.(روحانی خزائن جلده ا اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ ۳۹۰) حیات بعد الموت اسلام میں یہ نہایت اعلیٰ درجہ کی فلاسفی ہے کہ ہر ایک کو قبر میں ہی ایسا جسم مل جاتا ہے کہ جو لذت اور عذاب کے ادراک کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے.ہم ٹھیک ٹھیک نہیں کہہ سکتے کہ وہ جسم کس ماڈہ سے طیار ہوتا ہے کیونکہ یہ فانی جسم تو کالعدم ہو جاتا ہے اور نہ کوئی مشاہدہ کرتا ہے کہ در حقیقت یہی جسم قبر میں زندہ ہوتا ہے اس لئے کہ بسا اوقات یہ جسم جلایا بھی جاتا ہے اور عجائب گھروں میں لاشیں بھی رکھی جاتی ہیں اور مدتوں تک قبر سے باہر بھی رکھا جاتا ہے.اگر یہی جسم زندہ ہو جایا کرتا تو البتہ لوگ اس کو دیکھتے مگر بایں ہمہ قرآن سے زندہ ہو جانا ثابت ہے لہذا یہ ماننا پڑتا ہے کہ کسی اور جسم کے ذریعہ سے جس کو ہم نہیں دیکھتے انسان کو زندہ کیا جاتا ہے اور غالباً وہ جسم اسی جسم کے لطائف جو ہر سے بنتا ہے تب جسم ملنے کے بعد انسانی قوی بحال ہوتے ہیں اور یہ دوسرا جسم چونکہ پہلے جسم کی نسبت نہایت لطیف ہوتا ہے اس لئے اس پر مکاشفات کا دروازہ نہایت وسیع طور پر کھلتا ہے.(روحانی خزائن جلد ۱۳ کتاب البریہ صفحہ ۷۰-۷۱)

Page 43

۳۲ مذاہب عالم منجملہ ان اصولوں کے جن پر مجھے قائم کیا گیا ہے ایک یہ ہے کہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے کہ دنیا میں جس قدر نبیوں کی معرفت مذہب پھیل گئے ہیں اور استحکام پکڑ گئے ہیں اور ایک حصہ دنیا پر محیط ہو گئے ہیں اور ایک عمر پاگئے ہیں اور ایک زمانہ ان پر گذر گیا ہے ان میں سے کوئی مذہب بھی اپنی اصلیت کے رو سے جھوٹا نہیں اور نہ ان نبیوں میں سے کوئی نبی جھوٹا ہے.(روحانی خزائن جلد ۲ اتحفہ قیصریه صفحه ۲۵۶) یہ اصول نہایت پیارا اور امن بخش اور صلح کاری کی بنیاد ڈالنے والا اور اخلاقی حالتوں کو مدد دینے والا ہے کہ ہم ان تمام نبیوں کو سچا سمجھ لیں جو دنیا میں آئے.خواہ ہند میں ظاہر ہوئے یا فارس میں یا چین میں یا کسی اور ملک میں اور خدا نے کروڑ ہا دلوں میں ان کی عزت اور عظمت بٹھا دی اور ان کے مذہب کی جڑ قائم کر دی.روحانی خزائن جلد ۲ اتحفہ قیصر به صفحه ۲۵۹

Page 44

گناه گناہ درحقیقت ایک ایسا زہر ہے جو اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ جب انسان خدا کی اطاعت اور خدا کی پُر جوش محبت اور محبانہ یاد الہی سے محروم اور بے نصیب ہو.اور جیسا کہ ایک درخت جب زمین سے اکھڑ جائے اور پانی چوسنے کے قابل نہ رہے تو وہ دن بدن خشک ہونے لگتا ہے اور اس کی تمام سرسبزی برباد ہو جاتی ہے.یہی حال اس انسان کا ہوتا ہے جس کا دل خدا کی محبت سے اکھڑ ا ہوا ہوتا ہے.پس خشکی کی طرح گناہ اُس پر غلبہ کرتا ہے.سو اس خشکی کا علاج خدا کے قانون قدرت میں تین طور سے ہے.(۱) ایک محبت (۲) سواس استغفار جس کے معنے ہیں دبانے اور ڈھانکنے کی خواہش.کیونکہ جب تک مٹی میں درخت کی جڑ جمی رہے تب تک وہ سرسبزی کا امیدوار ہوتا ہے.(۳) تیسر ا علاج تو بہ ہے.یعنی زندگی کا پانی کھینچنے کے لئے تذلیل کے ساتھ خدا کی طرف پھرنا اور اس سے اپنے تئیں نزدیک کرنا اور معصیت کے حجاب سے اعمال صالحہ کے ساتھ اپنے تئیں باہر نکالنا.اور تو بہ صرف زبان سے نہیں ہے بلکہ تو بہ کا کمال اعمال صالحہ کے ساتھ ہے.تمام نیکیاں تو بہ کی تکمیل کے لئے ہیں.? ( روحانی خزائن جلد ۱۲ اسراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب صفحہ ۳۲۸-۳۲۹) الله الله

Page 45

۱۳۴ نجات وہ مسئلہ جو انجیل میں نجات کے بارہ میں بیان کیا گیا ہے یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کا مصلوب ہونا اور کفارہ.اِس تعلیم کو قرآن شریف نے قبول نہیں کیا اور اگر چہ حضرت عیسی کو قرآن شریف ایک برگزیدہ نبی مانتا ہے اور خدا کا پیارا اور مقرب اور وجیہ قرار دیتا ہے لیکن اس کو محض انسان بیان فرماتا ہے اور نجات کے لئے اس امر کو ضروری نہیں جانتا کہ ایک گناہ گار کا بوجھ کسی بے گناہ پر ڈال دیا جائے.اور عقل بھی تسلیم نہیں کرتی کہ گناہ تو زید کرے اور بکر پکڑا جائے.اس مسئلہ پر تو انسانی گورنمنٹوں نے بھی عمل نہیں کیا.افسوس کہ نجات کے بارہ میں جیسا کہ عیسائی صاحبوں نے غلطی کی ہے ایسا ہی آریہ صاحبوں نے بھی اس غلطی سے حصہ لیا ہے اور اصل حقیقت کو بھول گئے ہیں کیونکہ آریہ صاحبان کے عقیدہ کی رُو سے تو بہ اور استغفار کچھ بھی چیز نہیں اور جب تک انسان ایک گناہ کے عوض وہ تمام جو نہیں نہ بھگت لے جو اس گناہ کی سزا مقررہ ہے تب تک نجات غیر ممکن ہے.(روحانی خزائن جلد ۲۳ چشمه معرفت صفحه ۴۱۴)

Page 46

۳۵ جہاد اسلام نے کبھی جبر کا مسئلہ نہیں سکھایا.اگر قرآن شریف اور تمام حدیث کی کتابوں اور تاریخ کی کتابوں کو غور سے دیکھا جائے اور جہاں تک انسان کے لئے ممکن ہے تدبر سے پڑھا یا سنا جائے تو اس قدر وسعت معلومات کے بعد قطعی یقین کے ساتھ معلوم ہوگا کہ یہ اعتراض کہ گویا اسلام نے دین کو جبڑا پھیلانے کے لئے تلوار اٹھائی ہے نہایت بے بنیاد اور قابل شرم الزام ہے اور یہ ان لوگوں کا خیال ہے جنہوں نے تعصب سے الگ ہو کر قرآن اور حدیث اور اسلام کی معتبر تاریخوں کو نہیں دیکھا بلکہ جھوٹ اور بہتان لگانے سے پورا پورا کام لیا ہے.مگر میں جانتا ہوں کہ اب وہ زمانہ قریب آتا جاتا ہے کہ راستی کے بھوکے اور پیا سے ان بہتانوں کی حقیقت پر مطلع ہو جائیں گے.کیا اس مذہب کو ہم جبر کا مذہب کہہ سکتے ہیں جس کی کتاب قرآن میں صاف طور پر یہ ہدایت ہے کہ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ یعنی دین میں داخل کرنے کے لئے جبر جائز نہیں.کیا ہم اس بزرگ نبی کو جبر کا الزام دے سکتے ہیں جس نے مکہ معظمہ کے تیرہ برس میں اپنے تمام دوستوں کو دن رات یہی نصیحت دی کہ شر کا مقابلہ مت کرو اور صبر کرتے رہو.ہاں جب دشمنوں کی بدی حد سے گذرگئی اور دینِ اسلام کے مٹا دینے کے لئے تمام قوموں نے کوشش کی تو اس وقت غیرتِ الہی نے تقاضا کیا کہ جولوگ تلوار اٹھاتے ہیں وہ تلوار ہی سے قتل کئے جائیں.ورنہ قرآن شریف نے ہرگز جبر کی تعلیم نہیں دی.اگر جبر کی تعلیم ہوتی تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب جبر کی تعلیم کی وجہ سے اس لائق نہ ہوتے کہ امتحانوں کے موقع پر بچے ایمانداروں کی طرح صدق دکھلا سکتے.لیکن ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی وفاداری ایک ایسا امر ہے کہ اس کے اظہار کی ہمیں ضرورت نہیں.یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں کہ ان کے صدق اور

Page 47

وفاداری کے نمونے اس درجہ پر ظہور میں آئے کہ دوسری قوموں میں ان کی نظیر ملنا مشکل ہے.اس وفا دار قوم نے تلواروں کے نیچے بھی اپنی وفاداری اور صدق کو نہیں چھوڑا بلکہ اپنے بزرگ اور پاک نبی کی رفاقت میں وہ صدق دکھلایا کہ کبھی انسان میں وہ صدق نہیں آ سکتا جب تک ایمان سے اس کا دل اور سینہ منتو رنہ ہو.غرض اسلام میں جبر کو دخل نہیں.(روحانی خزائن جلد ۵ مسیح ہندوستان میں صفحہ ۱۱- ۱۲) تمام سچے مسلمان جودُنیا میں گذرے کبھی ان کا یہ عقیدہ نہیں ہوا کہ اسلام کو تلوار سے پھیلانا چاہیئے بلکہ ہمیشہ اسلام اپنی ذاتی خوبیوں کی وجہ سے دنیا میں پھیلا ہے.پس جولوگ مسلمان کہلا کر صرف یہی بات جانتے ہیں کہ اسلام کو تلوار سے پھیلانا چاہیئے وہ اسلام کی ذاتی خوبیوں کے معترف نہیں ہیں.دعا (روحانی خزائن جلد ۱۵ تریاق القلوب حاشیه صفحه ۱۶۷) جب اللہ تعالیٰ کا فضل قریب آتا ہے تو وہ دعا کی قبولیت کے اسباب بہم پہنچا دیتا ہے.دل میں ایک رقت اور سوز و گداز پیدا ہو جاتا ہے لیکن جب دعا کی قبولیت کا وقت نہیں ہوتا تو دل میں اطمینان اور رجوع پیدا نہیں ہوتا.طبیعت پر کتنا ہی زور ڈالومگر طبیعت متوجہ نہیں ہوتی.اُس کی وجہ یہ ہے کہ کبھی خدا تعالیٰ اپنی قضاوقدر منوانا چاہتاہے اور کبھی دعاقبول کرتا ہے اس لئے میں تو جب تک اِذن الہی کے آثار نہ پالوں قبولیت کی کم امید کرتا ہوں اور اُس کی قضا و قدر پر اس سے زیادہ خوشی کے ساتھ جو قبولیت دعا میں ہوتی ہے راضی ہو جاتا ہوں کیونکہ اس رضا بالقضا کے ثمرات اور برکات اس سے بہت زیادہ ہیں.( ملفوظات جلد اول صفحه ۴۶۰)

Page 48

6126 ہمدردی بنی نوع انسان ہمارا یہ اصول ہے کہ کل بنی نوع کی ہمدردی کرو.اگر ایک شخص ایک ہمسایہ ہندوکو دیکھتا ہے کہ اس کے گھر میں آگ لگ گئی اور یہ نہیں اٹھتا کہ تا آگ بجھانے میں مدد دے تو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ مجھ سے نہیں ہے.اگر ایک شخص ہمارے مریدوں میں سے دیکھتا ہے کہ ایک عیسائی کو کوئی قتل کرتا ہے اور وہ اس کے چھڑانے کیلئے مدد نہیں کرتا تو میں تمہیں بالکل درست کہتا ہوں کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے.(روحانی خزائن جلد ۲ اسراج منیر صفحه ۲۸) میں تمام مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں اور آریوں پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ دنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں ہے.میں بنی نوع سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے والدہ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بڑھ کر.میں صرف ان باطل عقائد کا دشمن ہوں جن سے سچائی کا خون ہوتا ہے.انسان کی ہمدردی میرا فرض ہے اور جھوٹ اور شرک اور ظلم اور ہر ایک بد عملی اور نا انصافی اور بداخلاقی سے بیزاری میرا اصول.روحانی خزائن جلد ۱۷ اربعین نمبر اصفحه ۳۴۴)

Page 49

6rno فرشتے قرآن شریف پر بدیدہ تعمق غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان بلکہ جمیع کا ئنات الارض کی تربیت ظاہری و باطنی کے لئے بعض وسائط کا ہونا ضروری ہے اور بعض بعض اشارات قرآنیہ سے نہایت صفائی سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض وہ نفوس طیبہ جو ملائک سے موسوم ہیں اُن کے تعلقات طبقات سماویہ سے الگ الگ ہیں.بعض اپنی تاثیرات خاصہ سے ہوا کے چلانے والے اور بعض مینہ کے برسانے والے اور بعض بعض اور تا ثیرات کو زمین پر اتارنے والے ہیں.(روحانی خزائن جلد ۳ توضیح مرام صفحه ۷۰) یہ بھی یا درکھنا چاہیئے کہ اسلامی شریعت کی رو سے خواص ملائک کا درجہ خواص بشر سے کچھ زیادہ نہیں بلکہ خواص الناس خواص الملائک سے افضل ہیں اور نظام جسمانی یا نظام روحانی میں اُن کا وسائط قرار پانا اُن کی افضلیت پر دلالت نہیں کرتا بلکہ قرآن شریف کی ہدایت کے رو سے وہ خدّام کی طرح اس کام میں لگائے گئے ہیں.(روحانی خزائن جلد ۳ توضیح مرام صفحه ۷۴ ) فرشتوں کا انتر نا کیا معنی رکھتا ہے.سو واضح ہو کہ عادت اللہ اس طرح پر جاری ہے کہ جب کوئی رسول یا نبی یا محدت اصلاح خلق اللہ کے لئے آسمان سے اترتا ہے تو ضرور اس کے ساتھ اور اس کے ہمرکاب ایسے فرشتے اُتر ا کرتے ہیں کہ جو مستعد دلوں میں ہدایت ڈالتے ہیں اور نیکی کی رغبت دلاتے ہیں اور برابر اترتے رہتے ہیں جب تک کفر و ضلالت کی ظلمت دُور ہو کر ایمان اور راستبازی کی صبح صادق نمودار ہو جیسا کہ اللہ جلشانہ فرماتا ہے تَنَزَّلُ الْمَلَيكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ ۚ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ سَلَمُ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ.سو ملائکہ اور روح القدس کا تنزل یعنی آسمان سے اُترنا اُسی

Page 50

۱۳۹۱ وقت ہوتا ہے جب ایک عظیم الشان آدمی خلعت خلافت پہن کر اور کلامِ الہی سے شرف پا کر زمین پر نزول فرماتا ہے روح القدس خاص طور پر اس خلیفہ کو ملتی ہے.یا جوج ماجوج (روحانی خزائن جلد ۳ فتح اسلام حاشیه صفحه۱۲) یا جوج ماجوج وہ قوم ہے جو تمام قوموں سے زیادہ دنیا میں آگ سے کام لینے میں استاد بلکہ اس کام کی موجد ہے.اور ان ناموں میں یہ اشارہ ہے کہ اُن کے جہاز اُن کی ریلیں اُن کی کمیں آگ کے ذریعہ سے چلیں گی اور اُن کی لڑائیاں آگ کے ساتھ ہوں گی اور وہ آگ سے خدمت لینے کے فن میں تمام دنیا کی قوموں سے فائق ہونگے اور اسی وجہ سے وہ یا جوج ماجوج کہلائیں گے.سو وہ یورپ کی قومیں ہیں جو آگ کے فنون میں ایسے ماہر اور چابک اور یکتائے روزگار ہیں کہ کچھ بھی ضرور نہیں کہ اس میں زیادہ بیان کیا جائے.پہلی کتابوں میں بھی جو بنی اسرائیل کے نبیوں کو دی گئیں یورپ کے لوگوں کو ہی یا جوج ماجوج ٹھہرایا ہے بلکہ ماسکو کا نام بھی لکھا ہے جو قدیم پایہ تخت روس تھا.سو مقر ر ہو چکا تھا کہ مسیح موعود یا جوج ماجوج کے وقت میں ظاہر ہوگا.(روحانی خزائن جلد ۱۴ ایام الصلح صفی ۴۲۴- ۴۲۵)

Page 51

61.6 نور کا موسم جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ پھل اپنے وقت پر آتے ہیں ایسا ہی نور بھی اپنے وقت پر ہی اُترتا ہے.اور قبل اس کے جو وہ خود اترے کوئی اس کوا تار نہیں سکتا.اور جبکہ وہ اتر ہے تو کوئی اس کو بند نہیں کر سکتا.مگر ضرور ہے کہ جھگڑے ہوں اور اختلاف ہو مگر آخر سچائی کی فتح ہے.کیونکہ یہ امر انسان سے نہیں ہے اور نہ کسی آدم زاد کے ہاتھوں سے بلکہ اُس خدا کی طرف سے ہے جو موسموں کو بدلا تا اور وقتوں کو پھیرتا اور دن سے رات اور رات سے دن نکالتا ہے.وہ تاریکی بھی پیدا کرتا ہے مگر چاہتا روشنی کو ہے.وہ شرک کو بھی پھیلنے دیتا ہے مگر پیار اُس کا توحید سے ہی ہے اور نہیں چاہتا کہ اس کا جلال دوسرے کو دیا جائے.جب سے کہ انسان پیدا ہوا ہے اس وقت تک کہ نابود ہو جائے خدا کا قانون قدرت یہی ہے کہ وہ توحید کی ہمیشہ حمایت کرتا ہے.(روحانی خزائن جلد ۵ اسیح ہندوستان میں صفحہ ۶۵) اے خدا اے کار ساز و عیب پوش و کردگار اے میرے پیارے مرے محسن مرے پرودگار یہ سراسر فضل و احسان ہے کہ میں آیا پسند ورنہ درگہ میں تیری کچھ کم نہ تھے خدمت گزار دوستی کا دم جو بھرتے تھے وہ سب دشمن ہوئے پر نہ چھوڑا ساتھ تو نے اے مرے حاجت برار اے مرے یار یگانہ اے میری جاں کی پسند بس ہے تو میرے لئے مجھ کو نہیں تجھ بن بکار میں تو مر کر خاک ہوتا گر نہ ہوتا تیرا لطف پھر خدا جانے کہاں یہ پھینک دی جاتی غبار اے فدا ہو تیری راہ میں میرا جسم و جان و دل میں نہیں پاتا کہ تجھ سا کوئی کرتا ہو پیار ابتداء سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کے گود میں تیری رہا میں مثل طفل شیر خوار نسلِ انساں میں نہیں دیکھی وفا جو تجھ میں ہے تیرے دن دیکھا نہیں کوئی بھی یارِ غمگسار لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول میں تو نالائق بھی ہو کر پا گیا درگہ میں بار اس قدر مجھ پر ہوئیں تیری عنایات و کرم جن کا مشکل ہے کہ تا روز قیامت ہو شمار روحانی خزائن جلد ۲۱ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۱۲۷)

Page 51