Language: UR
مصنف کتاب ہذا نے کوشش کی ہے کہ غیر جانب دار رہ کر بانی جماعت احمدیہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے مختلف النوع و المذہب مخالفین کے درمیان ہونے والے علمی، روحانی اور عدالتی معرکوں کا احوال درج کیا جائے، کیونکہ تاریخ کے یہ اوراق بھی سعید روحوں کے لئے موجب ہدائیت بنتے ہیں کہ کس طرح روز اول سے مسیح موعود کو ہر سطح پر دشمنی، مخالفت اور ایذاؤں کا مقابلہ کرنا پڑا، اور آپ کے مقابل پر آنے والا ہر ایک دشمن خواہ وہ کوئی فرد واحد تھا یا کوئی تنظیم یا ادارہ جس نے اجتماعی کوشش کی، سب نے ہی ناکامی کا منہ دیکھا اور اپنے مذموم مقاصد میں کوئی ایک بھی کامیابی نہ سمیٹ سکا۔ عدالتی کارروائیاں، تحریری مباحثے اور آسمانی نشان، الغرض ہر میدان میں ہی آپ علیہ السلام ایک فتح نصیب جرنیل کی طرح کامران ٹھہرے جس کی سرشت میں ناکامی کا خمیر نہ تھا۔ اس کتاب میں مصنف نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کے ابتدائی حالات، عقائد اور عام مسلمانوں کے ساتھ اختلافات کا بھی اختصار کے ساتھ جائزہ لیا ہے، نیز آخری باب میں مرزا غلام احمد قادیانی اور آپ کی پیدا کردہ جماعت کے بارہ میں غیر از جماعت احباب کے متعدد تبصرے بھی شامل کر دیئے ہیں۔
مخالفین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انجام ڈاکٹر منظور احمد صاحب (مرحوم ) ف کراچی
i 1 σ ۱۳ ۱۴ ۱۶ ۲۴ ۲۷ ۲۷ ۳۰ ۳۱ ۳۱ ۳۳ ٣٨ ۴۰ فہرست مضامین پیش لفظ تمهید باب اول مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی ابتدائی زندگی I П بچپن اور اوائل جوانی رویا میں رسول اللہ کی زیارت قیام سیالکوٹ ( پنجاب ) قادیان واپسی مکالمات الہیہ کی تصنیف براہین احمدیہ کی تصنیف براہین احمدیہ اور مرزا صاحب کی مخالفت کا آغاز IV V VI VII باب دوئم مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کا دعوئے ماموریت الہامات وكشوف دعوی و مجددیت جماعت احمدیہ کی بنیاد مثیل مسیح کا دعویٰ امتی نبی اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ سب مذاہب کے لئے موعود نبی کا دعویٰ مخالفت کا طوفان I II IV V VI VII
۴۳ ۴۳ ۵۳ ۵۵ ۵۹ ۶۱ F ۶۹ ۷۴ ΔΙ ۸۲ ۸۴ !! باب سوئم مرزا غلام احمد قادیانی اور علما کی عقائد کی اختلافی تشریحات I П عقیدہ حیات و وفات مسیح علیہ السلام ظہورامام مہدی موعود ومسئلہ ختم نبوت ا خاتم النبین - مرزا غلام احمد صاحب کی تشریح - خاتم النبین - اکابرین ملت کی تشریح ۲- خاتم النبین.موجودہ دور کے علما کی تشریح اسلام اور مرزا غلام احمد قادیانی" باب چہارم جماعت احمدیہ کے مستقبل کے لئے مرزا صاحب کی پیشگوئی جماعت احمدیہ مرزا صاحب کی وفات کے بعد باب پنجم مرزا غلام احمد قادیانی اور آپ کے آریہ مخالفین سوامی پنڈت دیا نند سے ٹکراؤ E -1 -۱ لالہ شرمیت صاحب کا بیان اور پنڈت شیو نرائن کا تبصرہ ۲.سوامی دیانند کی آریہ عقائد میں ترمیم ۳.مہاشہ رپورٹ کا تبصرہ مرزا صاحب اور آریہ سماجی لیڈ ر ماسٹر مرلی دھر کے درمیان مباحثہ ا تبصرہ مشہور اہل حدیث عالم مولوی محمد حسین بٹالوی ۲- تبصره مولوی ابوالحسن ندوی صاحب -1 - تبصرہ مشہور عیسائی اخبار نورافشاں مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور آریہ سماجی لیڈر پنڈت لیکھرام پیشاوری کے مابین روحانی مقابلہ ا.مرزا صاحب کی طرف سے انعامی چیلنج پہلا چیلنج ۸۷ ۸۹ ۹۱ ۹۷ ۹۸ ۹۹ 1++ 1 4 4 ۱۰۴ ۱۰۴ ۱۰۴ دوسرا چیلنج
۲ - پنڈت صاحب کی مقابلے پر آمادگی.پنڈت صاحب کی طرف سے دعوت مباہلہ ۴.خدا کے قہری نشان کا ظہور ۵- آریوں کا رد عمل -4 -1 IV مرزا غلام احمد صاحب کاردعمل قادیان کے آریہ حضرات اور مرزا غلام احمد صاحب قادیانی قادیان کے آریوں کی طرف سے ایذا رسانی ۲- مرزا غلام احمد صاحب کار د عمل مرزا صاحب کی تصنیف : قادیان کے آریہ اور ہم اخبار شبھ چنتک کے کارندوں پر عذاب الہی کا ورود باب ششم مرزا غلام احمد قادیانی اور برہمو سماج تحریک باب ہفتم مرزا غلام احمد قادیانی اور آپ کے عیسائی مخالفین ڈلیا رام عیسائی وکیل اور افسران محکمہ ڈاک امرتسر کی ملی بھگت I = ۱۰۵ 1+2 ۱۲۴ ۱۲۹ ۱۳۱ في لاني ملے گا کي مالي کے کیا؟ ۱۳۸ ۱۳۹ ۱۴۳ ۱۴۷ ۱۵۱ ۱۵۲ مرزا غلام احمد قادیانی اور پادری عبد اللہ آتھم کے مابین علمی اور روحانی مقابلہ ۱۵۶ ا.ہندوستان میں عیسائیوں کی مذہبی یورش -۲ جنڈیالہ مشن کی کارکردگی اور مرزا صاحب سے تعارف پادری عبداللہ ا نتقم اور مرزا غلام احمد صاحب کے درمیان مقدس جنگ ۴- مباحثے کے اختتام پر مرزا صاحب کی پیشگوئی پیشگوئی پر مسلمان اور عیسائی علما کا رد عمل ♡ - -Y مرزا غلام احمد صاحب کا جوابی رد عمل ے.مرزا صاحب کا فیصلہ کن چیلنج -^ پادری عبد اللہ قم کی وفات پر مرزا صاحب کے تبصرے ۹- مرزا صاحب کی طرف سے اتمام حجت ۱۵۶ ۱۵۷ ۱۶۴ ۱۶۶ گا کر لایا ہو ۱۶۸ ۱۷۵ IZA ۱۸۲
۱۸۳ ۱۸۴ ۱۸۵ ۱۸۸ ۱۸۸ ۲۰۰ ۲۰۹ ۲۰۹ ۲۱۱ ۲۱۴ ۲۱۴ ۲۲۰ ۲۲۳ ۲۲۵ ۲۴۱ ۲۴۲ iv IV ڈا کٹر ہنری مارٹن کلارک کا مرزا غلام احمد قادیانی کے خلاف مقدمہ اقدام مقتل ا.مقدمے کے ابتدائی واقعات -۲ مقدمه اقدام قتل - مرزا صاحب کے خلاف اجراء وارنٹ اور پھر منسوخی ۴.مقدمے کی روداد ۵- دشمنوں کی ناکامی اور ذلت مرزا غلام احمد قادیانی اور ڈاکٹر جان الیگزینڈرڈوئی ا.ڈاکٹر ڈوئی کی ابتدائی زندگی اور عروج ۲.ڈاکٹر ڈولی کی اسلام دشمنی -- ڈاکٹر ڈوئی کا دعوئے رسالت - مرزا غلام احمد قادیانی کی طرف سے ڈاکٹر ڈوئی کو روحانی مقابلے کا چیلنج ۵- مرزا غلام احمد قادیانی کی ڈاکٹر ڈوئی کے متعلق پیشگوئی - - ڈاکٹر ڈوئی کارڈ عمل اور مرزا صاحب کے ساتھ مقابلے کا آغاز ے.ڈاکٹر ڈوئی کا انجام باب ہشتم مرزا غلام احمد قادیانی کی چازاد بھائیوں کی طرف سے مخالفت اور ان کا انجام چچا زاد بھائیوں کی اسلام دشمنی چا زاد بھائیوں کی مرزا غلام احمد سے عداوت چا زاد بھائیوں کے مستقبل کے متعلق مرزا غلام احمد قادیانی کی پیشگوئی ۲۴۳ ۲۴۴ چا زاد بھائیوں کے خلاف مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی خدا سے دعا ۲۴۷ چچا زاد بھائیوں کا انجام ۲۴۹ مرزا غلام احمد قادیانی اور آپ کے چچا زاد بھائیوں کے درمیان قضیه دیوار ۲۵۰ ۱- چچا زاد بھائیوں کا مرزا غلام احمد صاحب کے گھر کے سامنے دیوار کھینچنا ۲۵۱ I II IV V VI
۲۵۲ ۲۵۴ ۲۵۶ ۲۵۸ ۲۶۱ ۲۶۴ ۲۶۹ ۲۷۰ ۲۷۳ ۲۷۸ ۲۸۵ ۲۸۸ ٣٠٢ ۳۰۸ V -۲ مرزا غلام احمد صاحب کا چچازاد بھائیوں کے خلاف مقدمہ - مرزا غلام احمد صاحب کی مقدمہ دیوار کے بارے میں پیشگوئی ۴.مقدمے کی روداداورانجام -۵ مرزا غلام احمد قادیانی کا چچازاد بھائیوں سے حسن سلوک باب نہم مرزا غلام احمد قادیانی کی مسلمان علما کی طرف سے مخالفتیں I II IV V VI VII VIII اور ان کا انجام نواب صدیق حسن خاں کا نار وا طرز عمل اور ان کا انجام مرزا غلام احمد قادیانی کی طرف سے نشان نمائی کا چیلنج مرزا غلام احمد صاحب پر مولوی محمد اسمعیل آف علیگڑھ کے اعتراضات اور بہتانات اور مولوی صاحب کا انجام مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی طرف سے علما کو مباحثے کا چیلنج مباحثہ الحق.دہلی مرزا غلام احمد قادیانی کی طرف سے مخالف علما کو مباہلے کی پہلی دعوت ہندوستان میں ترکی کے وائس کونسل جناب حسین کامی کی طرف سے مرزا غلام احمد قادیانی کی مخالفت اور اس کا انجام منشی الہی بخش صاحب اکو نٹنٹ کی طرف سے مرزا غلام احمد صاحب کی مخالفت اور اس کا انجام مولوی محمد حسین بٹالوی کی مرزا غلام احمد صاحب کے خلاف مقدمہ حفظ امن اور اس کا انجام مرزا غلام احمد قادیانی کی طرف سے مخالف علما کو مباہلے کی فیصلہ کن دعوت ۳۲۲ ۱- حضرت خواجہ فرید صاحب.سجادہ نشین چاچڑاں شریف کا مرزا صاحب کے نام خط ۳۲۸ IX X
۳۲۹ ۳۴۲ ۳۴۵ ۳۴۶ ۳۴۸ £ £ £ £ £ £ £ £ £ £ £ £ £ ۳۳۲ ۳۳۳ ۳۳۵ vi -۲- صاحب العلم.سندھ کی مرزا صاحب کے لئے تصدیق مرزا غلام احمد صاحب کے مکذبین اور مکفرین مسلمان علما کا انجام مولوی سید نذیرحسین دہلوی اور اللہ بخش تو نسوی سنگھڑی کا انجام -1 ۲- مولوی رشید احمد گنگوہی رسل با با امرتسری ۴- مولوی غلام دستگیر قصوری ۵- فقیر مرزا دوالمیالی متفرق علما ے.حکیم حافظ محمد دین صاحب - ابوالحسن پنج گرائیں ۹- امداد علی صاحب ا قاضی ظفر الدین پروفیسر اور مینٹل کالج لاہور.و پسر فیض اللہ خاں -1+ -۱۲ -١٣ حکیم عبدالقادر.طالب پور.پنڈوری مولوی عبد الرحمن محی الدین لکھو کے چراغ دین جمونی ۱۴ مولوی اصغر علی اور مولوی عبدالمجید صاحب دہلوی ۱۵- ماسٹر سعد اللہ لدھیانوی مرزا غلام احمد قادیانی کے خلاف مولوی کرم دین صاحب جہلم کے مقدمات اور ان کا انجام مولوی کرم دین صاحب کا پہلا مقدمہ مقدمے کا خارج ہونا مولوی کرم دین صاحب کا دوسرا مقدمہ ا.مقدمے کے بارے میں مرزا غلام احمد صاحب کے الہامات ۳۵۰ ۳۵۱ ۳۵۷ ۳۶۰ ٣٦٦ ۳۶۷ XI
vii XII -۲ -٣ مقدمے کی کاروائی اور چند ولال مجسٹریٹ کا معاندانہ رویہ چند ولال مجسٹریٹ کا انجام -۴ مرزا غلام احمد صاحب اور مولوی کرم دین صاحب کے درمیان مصالحت ۳۷۸ -۵ کی کوششوں کی ناکامی دوسرے مجسٹریٹ مہتہ اتمارام کا مرزا صاحب سے غیر معقول سلوک ۶- آ تمارام مجسٹریٹ کا انجام ے.مرزا غلام احمد صاحب کی طرف سے اعلیٰ عدالت میں اپیل اور مقدمے کا انجام - مولوی کرم دین جہلمی کا انجام مخالفین کے انجام پر مرزا غلام احمد صاحب کے تبصرے باب دہم مرزا غلام احمد قادیانی اور جماعت احمدیہ غیر از جماعت اصحاب کی نظر میں ۳۸۰ ۳۸۵ ۳۸۸ ۳۸۹ ۳۹۰ ۳۹۲ ۳۹۵ ۳۹۶ ۳۹۷ ۳۹۷ ۳۹۸ ۳۹۸ ۴۰۱ ۴۰۲ ۴۰۲ ۴۰۳ ۴۰۳ -1 ا.اسلام کی مدافعت کا فتح نصیب جرنیل - پاکباز متقی اور قابلِ رشک مرتبہ کا حامل - اسلام کے لئے اعلیٰ خدمات -۴- اولوالعزم حامئی اسلام معین المسلمین ، فاضل اجل اور عالم بے بدل ۵- باخبر عالم، بلند ہمت مصلح اور پاک زندگی کا نمونہ ۶ - اسلام کا ایک بڑا پہلوان ے.مخالفین اسلام کے دانت کھٹے کرنے والا -9 -1+ امام برحق ایسا انسان، جو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت ا.ایک عالم دنیا سے اُٹھ گیا 11- ۱۲.بڑے پائے کے انسان
viii ۱۳- کامل راستباز ۱۴ برگزیدہ انسان اور نبی -10 سچ اور جھوٹ میں تمیز کا پیمانہ ۱۶.قادیان اور ایمان کی روح -17 ۱۷ عیسائیت اور اسلام کی فیصلہ کن جنگ ۱۸- بے ریا تو حید اور قرآن ہی قرآن ۱۹ اسلام کی اصل اور سادہ صورت -19 ۲۰ - اسلام کا با قاعدہ کام -۲۱ تبلیغ اسلام کے لئے شہید کی مکھیوں کا چھتہ ۲۲ - اسلام کی انمول خدمت -۲۳ اسلام کی سچی اور پُر جوش خدمت ۲۴ اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے بے قرار ۲۵- خدمت اسلام کا سچا کام ۲۶- قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح ۲۷- زندگی کے لئے برقی لہر ۲۸- اسلام کی خدمت ، آب زر سے لکھنے کے قابل -۲۹ قابل فخر اور زریں کارنامہ ۳۰.مرزا محمود کے پاس قرآن ہے ۳۱ دلی تمنا ۳۲- مرزا غلام احمد معمولی فانی انسان نہیں ۳۳ کٹھ ملاؤں کے فتووں کے باوجود ۳۴ - منزل پالی ہے ۴۰۵ ۴۰۵ ۴۰۶ ۴۰۷ ۴۰۷ ۴۰۸ ۴۰۸ ۴۰۸ ۴۰۹ ۴۱۰ ۴۱۰ ۴۱۱ ۴۱۱ ۴۱۲ ۴۱۳ ۴۱۵ 좋을을을을을을을을 ㅎㅎ 를 를 를 를 들은 은 즐 ۴۰۳
تمهية جوں جوں سائنسی ترقی کے نتیجے میں انسانوں کی زندگی میں آسانی اور خوشحالی بڑھتی جا رہی ہے انسان خدا کو بھولتا جا رہا ہے.خدا کے وجود کے منکرین یا دہریے تو کلیۂ مذہب یا روحانیت کے قائل ہی نہیں لیکن مخلتف مذاہب کے پیروکاروں کی اکثریت نے بھی خدا اور اس کے انبیا کی اطاعت کو اپنی عملی زندگی سے بے دخل کر رکھا ہے حالانکہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ موجودہ زمانے کے مہذب معاشروں کی اخلاقی اور قانونی بنیادوں کے ماخذ مذاہب ہی ہیں.اسلامی ممالک میں بسنے والے بھی اس عالمی طرز عمل سے الگ تھلگ نہیں.اسی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمان عمائدین،اسلامی معاشروں میں پائے جانے والے انحطاط پر اپنے رنج و غم کا بار بار اظہار کرتے رہتے ہیں.قدیم مذہب مثلاً بدھ مت، ہندومت، یہودیت یا عیسائیت کی حد تک تو ایک مسلمان سمجھ سکتا ہے کہ یہ مذاہب محدود زمانوں اور محدودقوموں کے لئے تھے اس لئے ان کی تعلیمات کا اپنے زمانے کی ضروریات پوری کرنے کے بعد معطل ہونا فطری امر تھا.ان مذاہب کے ماننے والوں نے اگر بدلے ہوئے حالات میں خدا کے فرستادوں کو نہیں پہچانا اور اپنے مسلک پر اڑے رہے تو ان کے اندرٹوٹ پھوٹ ، پراگندگی اور روحانی کمزوری ہونا بھی ضروری تھا.لیکن اسلام کے نزول کے بعد اور قرآن جیسے مکمل ضابطہ حیات کے ہوتے ہوئے مسلمانان عالم میں جو تنزل ، شکست خوردگی اور
اضحال کی حکمرانی ہے.یہ کیونکر ہے اور وسیع پیمانے پر اسلامی معاشروں میں جو بے را ہروی ، دین سے بیگانگی اور اخلاقی گراوٹ کا دور دورہ ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ ایک بات پر سبھی متفق ہیں کہ اس کی اصل وجہ مسلمانوں کی طرف سے قرآنی تعلیم سے انحراف ہے.فطرت کی تعزیروں سے کوئی بالا نہیں اور خدا اپنی سنت کو بھی کبھی تبدیل نہیں کرتا.مسلمان معاشروں کی یہ درد ناک کیفیت کسی حد تک متوقع بھی ہے.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں میں یہ پہلے سے موجود ہے کہ مسلمانوں پر ایک وقت آئے گا کہ وہ قرآن کو لاوارث کی طرح چھوڑ دیں گے ، ایمان ثریا پر پہنچ جائے گا یعنی مسلمانوں سے بہت دور چلا جائے گا، قرآن کے صرف الفاظ رہ جائیں گے، اس کے ماننے والوں میں سے اس کی روح ختم ہو جائے گی ، قرآن اس کے پڑھنے والوں کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا اور دل پر اثر انداز نہیں ہوگا.یہی زمانہ مسلمانوں کے لئے روحانی تنزل کا زمانہ ہوگا اور تمام وہ برائیاں جس نے یہودیوں کو گمراہی کی راہ پر ڈالا وہ مسلمانوں میں پیدا ہو جائیں گی.آج مسلمان معاشرے فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حرف بحرف صحیح ثابت کر رہے ہیں.اسی صورت حال کی ایک حد تک تصویر کشی علامہ اقبال کے اس شعر میں ملتی ہے.وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود مسلمان ہو جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے پچھلی صدی کے آخری سالوں میں یہ دعویٰ کیا کہ امت محمدیہ کی بگڑی ہوئی دینی حالت کو از سر نو درست کرنے اور اسلام کو ایک دفعہ پھر دنیا میں مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے انہیں مسیح موعود اور
مہدی موعود کے طور پر مبعوث کیا ہے.اپنے دعوے کے ثبوت میں مرزا صاحب نے قرآن ، احادیث اور بزرگان امت محمدیہ کے اقوال پیش کئے اور چھوٹی بڑی ۸۰ کے لگ بھگ کتب بھی شائع کیں لیکن اس بات کے باوجود کہ آپ کی اسلام کی زبر دست مدلل روحانی وکالت کے باعث آپ کے شائع کردہ لٹریچر کو برصغیر کے تعلیم یافتہ طبقے میں بے حد پسند کیا گیا، مسلمانوں کی اکثریت نے آپ کے نبوت کے دعویٰ کو ماننے سے انکار کر دیا بلکہ آج بھی بہت سے مسلمان معاشروں میں مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے دعاوی کو ماننے والوں کو نفرت اور حکارت سے دیکھا جاتا ہے.ایک صدی گذرنے کے باوجود مسلمانوں کی بڑی بھاری اکثریت مرزا صاحب کے نظریات کی قائل نہیں ہوئی.پاکستان میں تو مرزا صاحب کے ماننے والوں یعنی احمد یوں کو قانون کی نظر میں غیر مسلم قرار دے دیا گیا ہے اور انہیں شعائر اسلام کی پابندی اور پر چار سے قانو نا روک دیا گیا ہے.گویا اس وقت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی مخالفت اس ملک میں اپنے انتہائی نقطہ عروج تک پہنچ چکی ہے.اتنی شدید مخالفت کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ پر موجود ہے کہ مرزا صاحب نے نہ صرف اپنی زندگی میں اپنے اردگرد فدائین اور مخلصین کی ایک جماعت جمع کر لی بلکہ آپ کی وفات کے بعد بھی آپ کے ماننے والوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے.یہ بات مرزا صاحب کے مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں.مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ سب سے پہلے مارچ ۱۸۸۶ء میں کیا جس کی وضاحت ۱۹۰۱ء میں امتی نبی کی شکل میں کی.اگر چہ آپ کی وفات ۱۹۰۸ء میں ہوئی لیکن ابتدائی دعوے سے وفات تک ۲۶ سال کا عرصہ
iv مرزا صاحب اور آپ کے مخالفین کے درمیان مذہبی بحثوں، مناظروں اور علمی و روحانی مقابلوں کا بڑا بھر پور دور تھا.چونکہ مرزا صاحب نے خدا سے علم کی بنیاد پر اپنے آپ کو سب مذاہب کے ماننے والوں کے لئے حکم اور قابل اطاعت ٹھہرایا تھا اس لئے آپ کی مخالفت میں ہر طرف ایک طوفان برپا ہو گیا.بڑے بڑے علما، صاحبان اقتدار اور جہلا سبھی اپنی اپنی بساط کے مطابق کمر بستہ ہو کر مرزا صاحب کے مقابلے میں کھڑے ہو گئے اور بسا اوقات یہ بھی ہوا کہ مختلف مذاہب کے عالم جو عام طور پر ایک دوسرے کے شدید دشمن تھے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو مشترکہ دشمن قرار دے کر متحد ہو گئے اور مرزا صاحب کی ایذا رسانی کے منصوبے بنانے لگے.زیر نظر کتاب مرزا صاحب اور ان کے مخالفین کے درمیان چیدہ چیدہ معرکوں کی مختصر روداد ہے تاکہ مرزا صاحب کی قائم کردہ جماعت احمدیہ کے موجودہ مخالفین اپنی مخالفت کو تاریخی پس منظر میں دیکھ سکیں اور متوقع نتائج کا موازنہ کر سکیں.تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتی ہے.اس کتاب کو مرتب کرنے کا مقصد ہر گز کسی کی دلآ زاری یا تضحیک نہیں ،ممکن ہے قارئین میں سے کسی کو میرے طرز بیان میں کسی جانبداری کا رجحان نظر آئے لیکن دلوں کے پوشیدہ راز جاننے والا میرا خدا شاہد ہے کہ راقم نے کسی جگہ بھی سچ بات کو چھپانے کی نہ ضرورت محسوس کی ہے نہ کوشش کی ہے بلکہ تاریخی حقائق کو ان کے مکمل حوالہ جات کے ساتھ پیش کرنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ ہر کوئی تاریخ کے اوراق پلٹ کر میرے بیان کی صحت کا امتحان لے سکے.بسا اوقات کسی واقع کی شہادت میں غیر جانبدار یا غیر موافق ذرائع کی آراء کو بھی اس لئے سامنے لایا گیا ہے تا کہ واقعات کی
سچائی میں کوئی شبہ نہ رہے.مرزا غلام احمد صاحب قادیانی “ کے مخالفین کے ساتھ مقابلے ان کی زندگی میں ہی برصغیر پاک و ہند کی حدود سے باہر نکل کر انگلینڈ اور امریکہ تک جاپہنچے تھے اور اس وقت کے سینکڑوں ملکی اور غیر ملکی اخبارات ورسائل میں ان معرکوں کے احوال چھپے ہوئے موجود ہیں.آج ان واقعات کو ۱۰۰ سال سے زائد عرصہ گذر چکا ہے اور وقتی اور انفرادی لاف و گزاف کی سیاہی ڈھل چکی ہے اور حقائق کا چمکتا ، دھمکتا چہرہ نظر آ رہا ہے.مرزا صاحب کے مخالفین میں ہندوؤں ، آریوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے مشہور زمانہ ، نامی گرامی لیڈروں ، عالموں اور دانشوروں کے نام آتے ہیں بلکہ ان کے اپنے حامیوں کے نزدیک ان کی شخصیتیں پہاڑوں کی طرح تھیں لیکن مخالفین نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ان میں سے کوئی بھی مرزا صاحب کا راستہ نہ روک سکا اور وہ آگے ہی بڑھتے رہے.پاکستان میں جماعت احمدیہ کے لئے گزشتہ ۱۶،۱۵ سال سے حالات بتدریج مشکل سے مشکل تر ہوتے جا رہے ہیں.حکومت وقت اعلیٰ ترین سطح پر نہ صرف جماعت احمد یہ کوطعن و تشنیع کا نشانہ بنائے ہوئے ہے بلکہ یکے بعد دیگرے ایسے قوانین بنائے جا رہے ہیں جس سے احمدیوں کو کچلا جاسکے اور بحیثیت جماعت ان کا شیرازہ بکھیرا جا سکے.مسلمان علماء کی طرف سے جماعت احمدیہ کو نیست و نابود کرنے کے لئے دن بدن سخت سے سخت مطالبات کئے جارہے ہیں.یہاں تک کہ وہ حقوق جو بحیثیت شہری اور انسان ، آئین پاکستان اور قرآن کی رو سے ہر شخص کو بلالحاظ مذہب حاصل ہیں ان سے بھی احمدیوں کو محروم کر دیا گیا ہے.مسلمان علماء اور ان کی معاونت کے ساتھ حکومت پاکستان کے صاحبان اقتدار کے احمدیوں کے ساتھ سلوک کے چند
vi نمونے درج ذیل ہیں.-1 -۲ سابق صدر مملکت کا کہنا ہے کہ جماعت احمدیہ کا وجود پاکستان میں سرطان کی مانند ہے.ایک سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ میں احمدیوں کے ہاتھوں میں کشکول پکڑا کر دم لوں گا.ایک اور سابق وزیر اعظم نے کہا کہ میں نہ صرف پاکستان سے بلکہ ساری دنیا سے جماعت احمدیہ کو ملیا میٹ کر دوں گا.مسلمان علماء کا یہ مطالبہ ہے کہ احمدیوں کو پاکستان میں کلیدی عہدوں سے ہٹا دیا جائے.اس پر عمل درآمد بھی ہو چکا ہے.حکومت کی ہدایات کے تحت بعض سرکاری محکموں میں احمدیوں کے لئے ملازمت کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں..حکومت کی طرف سے جماعت احمدیہ کے اخبارات و رسائل کی اشاعت کئی سالوں سے روک دی گئی ہے.پریس سر بمہر کر کے بند کر دیا گیا ہے اور پہلے سے شائع شدہ کتب، قرآن مجید اور دیگر لٹریچر ضبط کیا جارہا ہے..حکومت کی طرف سے آئین پاکستان کی رو سے احمدیوں کو حاصل بنیادی حقوق سلب کر لئے گئے ہیں.احمدیوں کو اپنے عقائد کی تبلیغ منع ہے.اپنے نکتہ نگاہ کی وضاحت منع ہے.اپنے عقائد کے مطابق اپنے مذہب پر عمل کرنے مثلاً قرآن پڑھنے ، نماز ادا کرنے ، کلمہ توحید کا ورد کرنے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے ، بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنے، السلام وعلیکم
vii -1+ ورحمۃ اللہ و برکاتہ کہنے ، اپنے مکانات پر برکت کی خاطر قرآنی آیات کندہ کرانے وغیرہ کی قانو نا ممانعت کر دی گئی ہے.سینکڑوں احمدیوں کو اوپر بیان کردہ ممانعتوں کی عمداً یا سہواً خلاف ورزی پر جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے.جماعت احمدیہ کو اپنی مساجد کو مساجد کہنے سے قانو ناروک دیا گیا ہے.احمدیوں کو اپنی میتوں کو عام مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن کرنے سے روک دیا گیا اور بعض جگہوں پر دفن شدہ مردوں کو قبروں سے نکال باہر پھینکا گیا ہے.گزشتہ حکومت کے اعلیٰ ترین عہدہ داروں کی شہ پر علماء اور شرعی عدالتوں کی طرف سے جماعت احمدیہ کے واجب الاحترام بزرگوں کی کھلم کھلا اور نگی توہین کی جاتی رہی ہے اور اس پر کوئی روک نہیں.۱۲- بعض مقامات پر روز روشن میں احمدیوں کی املاک کو ٹوٹا گیا، علماء کی اشتعال انگیزی پر احمدیوں کو دن دہاڑے شہید کر دیا گیا، قاتلوں کو تھانوں اور عدالتوں میں ہار پہنائے گئے اور پولیس خاموش رہی اور احمدی بے بس.۱۳- حکومت کی طرف سے ماضی قریب تک اخبارات، ٹیلی وژن اور ریڈیو پر احمدیوں کے خلاف الزامات عائد کرنے ، ان کی طرف غلط عقائد منسوب کرنے اور انہیں ہراساں کرنے اور دھمکانے کی یک طرفہ مہم جاری رہی.۱۴ شریعی عدالت میں علماء کی طرف سے احمدیوں کے خلاف انسانیت سوز اقدامات کا مطالبہ جاری ہے مثلاً احمدیوں کی مساجد کے گنبد گرا دیئے جائیں، نماز کی اذان و اذان دینے سے پہلے ہی روک دیا گیا ہے، احمدیوں سے -
viii -10 جزیہ وصول کیا جائے.احمدیوں کو صرف ایک ہی قسم کا لباس پہننے کی اجازت ہو.اگر کوئی مسلمان مشتعل ہو کر کسی احمدی کو قتل کر دے تو اس مسلمان پر قتل کا مقدمہ نہ بنایا جائے.کسی احمدی کو اجازت نہ ہو کہ وہ اپنے مسلمان ہمسایوں کے برابر مکان کی چھت تعمیر کرے وغیرہ وغیرہ.ان قانونی ، معاشرتی اور معاشی زنجیروں سے ہزاروں خوف زدہ اور پریشان حال احمدی خاندان ، پاکستان سے ہجرت کر کے غیر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں.یہاں تک کہ جماعت احمدیہ کے موجودہ امام بھی اس پر مجبور کر دئیے گئے کہ وہ اپنا مشن جاری رکھنے کے لئے کسی انصاف پسند معاشرے کی طرف ہجرت کر جائیں.ہجرت سُنت رسول بھی ہے.آگ ہے.اولادِ ابراہیم ہے.نمرود ہے.پھر کسی کو.پھر کسی کا.امتحان مقصود ہے.ان حالات میں کہ پاکستان میں احمدیوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے اور ظلم و ناانصافی کی انتہا کر دی گئی ہے، مناسب ہو گا کہ اگر ہم مسلمانوں پر وارد ہونے والی مصیبت پر مصیبت اور الہی عذابوں کو نہیں دیکھ سکتے تو تاریخ کے چند صفحات کو ہی الٹ کر دیکھ لیں.وقت بڑا بے رحم منصف ہے.فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو فوت ہوئے ۸۰ سال گذر چکے ہیں کسی کے لئے ممکن نہیں کہ گذرے ہوئے واقعات کو مسخ کر کے تاریخ کو تبدیل کر دے.
ix مرزا صاحب کی اپنی کتب کے کئی کئی ایڈیشن چھپ چکے ہیں اور وہ لاکھوں کی تعداد میں طبع ہو کر دنیا کے کناروں تک پہنچ چکی ہیں.ان کے زیروز بر کو تبدیل کرنا بھی ممکن نہیں رہا.مرزا صاحب کی اپنی زندگی میں مخالفین کے ساتھ کئی روحانی معر کے وقوع پذیر ہوئے.مرزا صاحب کسی دنیاوی منصب کے حامل نہ تھے ، نہ طلب گار.فطرتاً تنہائی پسند اور خاموش مزاج تھے.اپنی کسی ذاتی لیاقت کے بھی دعویدار نہ تھے.ان کا طرز استدلال عالمانہ اور منطقیانہ تھا.اپنی ہر صلاحیت کو الہی تصرف سمجھتے تھے لیکن جیسا کہ آئندہ صفحات میں ہم نے بیان کیا ہے مرزا صاحب کے دشمنوں کا بھی یہ اقرار ہے کہ ان کے مخالف غیر منطقی ، عامیانہ انداز سے ان کی مخالفت کرتے تھے.کمزور استدلال اور کم علمی کا شکار تھے اور مرزا صاحب کی مخالفت میں جتھہ بندی ، گالی گلوچ ،شور و غوغا اور فساد فی الارض کا سہارا لیتے تھے.آج بھی اکثر مسلمان علماء نے اپنا وطیرہ نہیں بدلا.لیکن یہ بات غور طلب ہے کہ کیا وقت کا دھارا بدل دیا گیا؟ کیا مرزا صاحب کے مخالفین نے ۱۰۰ سال کی جتھہ بندیوں کے بعد جماعت احمدیہ کو ملیا میٹ کر دیا ؟ کیا احمدیوں کے قدم ڈگمگائے ؟ ان کا احمدیت اور اسلام پر ایمان متزلزل ہوا.تاریخ بتلاتی ہے کہ بڑے بڑے گدی نشین پیر، سجادہ نشین ، لاکھوں پیروکاروں کے علماء اور صاحبان اقتدار، جماعت احمدیہ کو تباہ کرنے کی حسرت لئے دنیا سے کوچ کر گئے لیکن جماعت احمد یہ آگے ہی بڑھتی گئی.ترقی ہی کرتی چلی گئی اور وہ شخص جوا کیلا اٹھا تھا آج اس کے ساتھ ایک کروڑ مخلصین کی جماعت ہے.یہ سب کیوں ہوا.مرزا صاحب نے ۱۸۸۶ء میں لکھا تھا کہ میرے خدا نے مجھ سے کہا ہے کہ
X وو ایسا ہو گا کہ وہ لوگ جو....تیرے نا کام رہنے کے در پے اور تیرے نابود کرنے کے خیال میں ہیں.وہ خود نا کام رہیں گے...میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور ان کے نفوس واموال میں برکت دوں گا..66 مختلف مذاہب کے معتقدین کے درمیان اختلافات کا ختم ہو جا نا ممکن نظر نہیں آتا لیکن بڑی حد تک مہذب دنیا ہر شخص کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ جس عقیدے پر چاہے کار بند رہ کر اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرے.ملکی اور بین الاقوامی قوانین کی نظر میں سب انسان برابر ہیں.مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے ساتھ مسلمانوں کا اعتقادات کا اختلاف جب حد سے گذر گیا اور باہمی افہام و تفہیم کی کوئی صورت نہ نکلی بلکہ مسلمانوں اور خاص طور پر علماء نے مرزا صاحب کی تو ہین میں انتہا کر دی تو بہت غور وفکر کے بعد مرزا صاحب نے مسلمانان ہند کے ساتھ مذہبی نزاع کے تصیفے کی آخری تجویز پیش کی اور اس کی تحریری نقول تمام علماء کو بذریعہ رجسٹرڈ ڈاک روانہ کیں.آپ نے لکھا کہ ہر ایک جو مجھے کذاب سمجھتا ہے اور ہر ایک جو مکار اور مفتری خیال کرتا ہے اور میرے دعوائے مسیح موعود کے بارے میں میرا مکذب ہے...وہ خواہ مسلمان کہلا تا ہو یا ہندو یا آریہ یا کسی اور مذہب کا پابند ہو اس کو بہر حال اختیار ہے کہ اپنے طور پر مجھے مد مقابل رکھ کر تحریری مباہلہ شائع کرے...کہ یہ شخ...مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے درحقیقت کذاب ہے...جو
xi اور اس کو در حقیقت اپنی کامل بصیرت اور کامل غور کے بعد اور یقین کامل کے ساتھ مفتری اور کذاب اور دجال سمجھتا ہوں.پس اے خدائے قادر ! اگر تیرے نزدیک یہ شخص صادق ہے اور کذاب اور مفتری اور کافر اور بے دین نہیں تو میرے پر اس تکذیب اور توہین کی وجہ سے کوئی عذاب شدید نازل کر ورنہ اس ( یعنی مرزا غلام احمد قادیانی.ناقل ) کو عذاب میں مبتلا کر لے مرزا صاحب کی طرف سے مباہلے کا یہ چیلنج بالکل اسی طرز پر تھا جس طرز کا چیلنج حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں کو دیا تھا لیکن جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عیسائی مخالفین نے مباہلے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا.اسی طرح مرزا صاحب کے مخالف علماء میں سے کوئی بھی کھل کر آپ کے سامنے نہیں آیا لیکن اکثریت پھر بھی تکذیب کرتی رہی.اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ خدا کی تقدیر نے ایک ایک کر کے سب معاندین کو نگل لیا.کسی کو طاعون نے آن پکڑا، کسی کو سانپ کے زہر نے اندھا کر دیا، کوئی فالج سے معذور ہوا.غرض سبھی کسی نہ کسی مصیبت کا شکار ہو کر جہان فانی سے چل دیئے.آج انہیں کوئی جانتا بھی نہیں اور دوسری طرف مرزا غلام احمد صاحب کا لگایا ہوا پودا پھلتا پھولتا رہا، بڑھتا رہا.آپ کے نظریات نے زمین کے کناروں تک شہرت پائی اور مخالفین آپ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے.جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں لے : حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن.جلد ۲۲.صفحات ۷۱-۷۲
Xii ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روباءِ زار و نزار مرزا صاحب نے جماعت احمدیہ کی بنیاد ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء کو لدھیانہ ( پنجاب.بھارت) میں رکھی.اس وقت جماعت احمدیہ کے قیام کی ایک صدی مکمل ہو رہی ہے.مرزا صاحب کے جانشین اور جماعت احمدیہ کے امام حضرت مرزا طاہر احمد صاحب نے پہلی صدی کے اختتام پر اسی مباہلے کے چیلنج کو دہرایا ہے.۱۰ جون ۱۹۸۸ء بروز جمعہ بمقام لندن یہ کہا کہ جماعت احمدیہ کے مخالفین بانی سلسلہ احمدیہ کی ذات کو ہر قسم کے ناپاک حملوں کا نشانہ بنارہے ہیں.مرزا صاحب کو مفتری ، خدا پر جھوٹ بولنے والا ، دجال اور فریبی قرار دے رہے ہیں اور آپ کی طرف ایسے فرضی عقائد منسوب کر رہے ہیں جو ہر گز آپ کے عقائد نہ تھے.جماعت احمدیہ پر سراسر جھوٹے الزامات کا مرتکب قرار دے کر ان کو بیرونی دنیا میں بدنام کرنے کی مہم چلائی جا رہی ہے.چنانچہ مرزا طاہر احمد صاحب امام جماعت احمد یہ اپنی دعوت مباہلہ میں لکھتے ہیں کہ وو یہ جھگڑا بہت طول پکڑ گیا ہے اور سراسر یک طرفہ مظالم کا یہ سلسلہ بند ہونے میں نہیں آ رہا.جماعت احمدیہ نے ہر لحاظ سے صبر کا نمونہ دکھایا اور محض للہ ان یک طرفہ مظالم کو مسلسل حوصلے سے برداشت کیا اور جہاں تک ظالموں کو سمجھانے کا تعلق ہے ہر پُر امن ذریعہ کو اختیار کرتے ہوئے معاندین و مکذبین کے آئمہ کو ہر رنگ میں سمجھانے کی کوشش کی.....اور خوب کھلے لفظوں میں باخبر کیا کہ تم یہ ظلم محض جماعت احمدیہ پر
xiii نہیں بلکہ عالم اسلام اور خصوصیت سے پاکستان کے عوام پر کر رہے ہو.....اور دن بدن جونت نئے مصائب پاکستان کے غریب عوام پر ٹوٹ رہے ہیں.ان کے اصل ذمہ دار تم ہو اور یہ مصائب خدا تعالیٰ کی بڑھتی ہوئی ناراضگی کے آئینہ دار ہیں لیکن افسوس کہ ظلم کرنے والے ہاتھ رکھنے کی بجائے ظلم اور تعدی میں مزید بڑھتے چلے گئے اور اب معاملہ اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ جماعت احمد یہ اس ظلم کو مزید برداشت نہیں کر سکتی.لہذا ایک لمبے صبر اور غور وفکر اور دعاؤں کے بعد میں بحیثیت امام جماعت احمد یہ یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ تمام مکذبین اور معاندین کو جو عمداً اس شرارت کے ذمہ دار ہیں.خواہ وہ کسی طبقے سے تعلق رکھتے ہوں.قرآنی تعلیم کے مطابق کھلم کھلا مباہلے کا چیلنج دوں اور اس قضیہ کو اس دعا کے ساتھ خدا تعالیٰ کی عدالت میں لے جاؤں کہ خدا تعالیٰ ظالموں اور مظلوموں کے درمیان اپنی قہری تجلی کے ساتھ فرق کر کے دکھاوے.“ ان تمہیدی الفاظ کے ساتھ امام جماعت احمدیہ نے مباہلے پر مبنی دو چیلنج دیئے ہیں جن کے الفاظ بالکل سادہ ، واضح اور قطعی ہیں.نہ کوئی جھگڑا، نہ رائے شماری اور نہ جتھہ بندی کی ضرورت ہے.ایک عقائد کا مجموعہ جماعت احمدیہ کا ہے دوسرا مسلمان علماء کا بعض اکابرین قوم اور گزشتہ صدر پاکستان کا موقف ہے کہ احمدی گمراہ ، مرتد اور جھوٹ پر قائم ہیں.امام جماعت احمدیہ نے اپنے مباہلے کے چیلنج میں کہا ہے کہ آؤ مل کر
xiv خدا تعالیٰ کے حضور اس التجا کے ساتھ دعا کریں کہ دلوں کا حال جاننے والا قادر وتوا نا خدا سچ پر قائم گروہ کو سرخرو کرے اور جھوٹ پر قائم گروہ کو ناکام و نامراد اور خائب و خاسر کرے.امام جماعت احمدیہ کی طرف سے اس مباہلے کی تحریری نقول تمام سر کردہ مذہبی لیڈروں ، اکابرین قوم اور گزشتہ صدر پاکستان کو روانہ کر دی گئی تھیں اور ہزاروں پاکستانیوں کو دستی پہنچادی گئی ہیں اور صرف اس قدر تقاضا کیا ہے کہ جو کوئی بھی اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے اس میں امام جماعت کے مد مقابل فریق بننا چاہے وہ اس مباہلے پر دستخط کر دے اور اخبار میں اعلان کر دے اور فیصلہ خدا پر چھوڑ دے.امید ہے کہ جماعت احمدیہ کے کم از کم مشہور مکذبین اس نادر موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے اور فوراً اس چیلنج کو قبول کریں گے.زیر نظر کتاب میں مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے ابتدائی حالات ، عقائد اور عام مسلمانوں کے ساتھ اختلافات کا اختصار سے جائزہ لیا گیا ہے تا کہ ہمارے قارئین کو مرزا صاحب اور آپ کے مخالفین کے درمیان نزاع کا پس منظر معلوم ہو سکے.اس کے بعد آپ کے اور مخالفین کے درمیان چند مشہور علمی اور روحانی معرکوں کا احوال درج کیا ہے.چونکہ جماعت احمد یہ دراصل مرزا صاحب کے وجود ہی کی دوسری تعبیر ہے اس لئے زیر نظر تصنیف کو اس عنوان کی کتاب کا حصہ اوّل ہی کہا جاسکتا ہے.اگر عمر نے وفا کی تو بعد کے واقعات جن کی تاریخ زیادہ طویل ہے بعد میں مرتب کئے جائیں گے.منظور احمد ایم ایس سی ، پی ایچ ڈی کراچی
باب اوّل مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی ابتدائی زندگی بچپن سے تصنیف براہین احمدیہ تک (۱۸۳۵ء – ۱۸۸۰ء) 1- بچپن اور اوائل جوانی: مرزا غلام احمد صاحب قادیانی بانی جماعت احمدیہ کے ابتدائی حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے جد امجد مرزا ہادی بیگ ایک فارسی الاصل شاہی خاندان میں سے تھے جن کی مغلیہ شہنشاہ بابر سے بھی قرابت داری تھی.مرزا ہادی بیگ کی نویں پشت میں مرزا فیض محمد صاحب پیدا ہوئے جن کو شہنشاہ محمد فرخ سیر (۱۷۱۳-۱۷۱۹) کی طرف سے مفت ہزاری کا منصب دیا گیا.اسی خاندان کے مرزا گل محمد ، نیک پارسا اور اعلیٰ درجہ کی حربی صلاحیت کے مالک تھے.ان کے مغل تاجداروں عالمگیر ثانی (۱۷۵۹-۱۷۵۴) اور اس کے جانشین شاہ عالم ثانی (۱۷۵۹-۱۷۰۶) سے بہت گہرے تعلقات تھے.اس سارے عرصے کے دوران قادیان اور اس کے اردگرد کے علاقے میں ایک مضبوط اسلامی ریاست کم و بیش پونے دوسو برس تک قائم رہی.مرزا گل محمد صاحب کی وفات کے بعد ان کے جانشین مرزا عطا محمد سکھوں کی یلغار کے
باعث ۱۸۰۶ ء یا ۱۸۰۳ء میں قادیان چھوڑ کر ریاست کپورتھلہ کی طرف چلے گئے.یہاں جلا وطنی کے دوران ۱۸۱۴ء کے لگ بھگ ان کا انتقال ہو گیا.۱۸۳۴ ء یا ۱۸۳۵ء میں مہا راجہ رنجیت سنگھ نے مرزا عطا محمد کے فرزند اور مرزا غلام احمد کے والد ماجد مرزا غلام مرتضی صاحب کو بلا کر قادیان کی ریاست کے پانچ گاؤں واپس کر دیئے اور اس طرح یہ خاندان ایک دفعہ پھر اپنی جدی پشتی جگہ آ کر آباد ہو گیا.یہ جا گیر مزید ۱۴-۱۵ برس تک اس خاندان کے پاس رہی.یہاں تک کہ ۱۸۴۹ء میں جب پنجاب ہندوستان کی انگریزی سلطنت کا حصہ بنا.تو یہ جاگیر بھی اس خاندان سے لے لی گئی.ان واقعات کو سر لیپل گریفن اور کرنل میسی کی تصنیف ” پنجاب چیفس میں اس خاندان کے تذکرے میں بیان کیا گیا ہے.اس کتاب کا اردو تر جمہ سید نوازش علی مترجم پنجاب گورنمنٹ نے ۱۹۴۱ء میں تذکرہ روسائے پنجاب کے نام سے شائع کیا.مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مقتدر احمدی محققین کے مطابق ۱۳ فروری ۱۸۳۵ء بروز جمعہ قادیان (ضلع گورداسپور پنجاب) ہندوستان میں پیدا ہوئے.آپ کی پیدائش تو ام تھی.خاندانی رواج کے مطابق آپ نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی.ایک بزرگ فضل الہی صاحب نے آپ کو قرآن شریف اور فارسی کی چند گتب پڑھائیں.مولوی فضل احمد صاحب نے آپ کو عربی زبان کی گرامر (صرف اور نحو) کی کچھ تعلیم دی.بعد میں جب آپ سترہ، اٹھارہ برس کے ہوئے تو مولوی گل علی شاہ صاحب سے نحو، منطق اور حکمت کی مروجہ تعلیم حاصل کی.فن طبابت مرزا صاحب نے اپنے والد صاحب مرزا غلام مرتضی صاحب سے سیکھا جو خود بھی بڑے حاذق طبیب تھے لیکن طبابت ان کا پیشہ یا ذریعہ معاش نہ تھا.مرزا غلام احمد صاحب بچپن ہی
سے خاموش ، متین اور سنجیدہ مزاج تھے.عادات پُر وقار تھیں.اپنے ہم عمر بچوں ، لڑکوں سے الگ تھلگ رہتے اور کھیل کو د سے کوئی دلچسپی نہ رکھتے تھے.کسی حد تک تیرنا سیکھا ہوا تھا لیکن گھڑ سواری میں ماہر تھے.جسمانی صحت کے لئے سب سے زیادہ اور مستقل عادت آپ کو پیدل سیر کی تھی جس کے لئے آپ قادیان سے باہر روزانہ کئی کئی میل پیدل جایا کرتے تھے.یہ شوق آپ کو آخری عمر تک رہا.زندگی کے معمولات میں سب سے زیادہ رغبت آپ کو مسجد میں نماز اور تلاوت قرآن پاک سے تھی.دن کا اکثر حصہ آپ انہی مقاصد کی خاطر مسجد میں ٹہل کر گزارتے.1 مرزا غلام احمد صاحب کو اوائل عمر سے ہی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے اس درجہ والہانہ عشق تھا کہ اگر کوئی شخص ذراسی بات بھی رسول اللہ کی ذات کے خلاف منہ سے نکالتا تو آپ کا چہرہ غیرت سے سُرخ ہو جاتا اور آنکھیں متغیر ہو جاتیں.نماز میں خشوع و خضوع غیر معمولی تھا.کچھ عینی شاہدوں کے مطابق سب سے زیادہ انہماک آپ کو قرآن مجید کے مطالعہ ہی میں تھا.آپ کے متعلق آ کے والد صاحب کہا کرتے تھے کہ: وو یہ کسی سے غرض نہیں رکھتا.سارا دن مسجد میں رہتا ہے اور قرآن شریف پڑھتا رہتا ہے ہے مرزا غلام احمد صاحب کے بیٹے مرزا سلطان احمد صاحب کی روایت ہے کہ حضور ( یعنی مرزا غلام احمد - ناقل ) قرآن مجید کے علاوہ بخاری، شیخ یعقوب علی عرفانی - سیرت مسیح موعود جلد اول صفحہ ۵۲ ریویو آف ریلیجنز (اردو).جنوری ۱۹۴۲ء صفحه ۹
مثنوی روم، دلائل الخيرات، تذکرۃ الاولیا، فتوح الغیب اور سفر السادات پڑھتے.اور کچھ نوٹ بھی لیا کرتے.مگر بحر حال اکثر توجہ قرآن مجید کی طرف تھی...آپ کے پاس ایک قرآن مجید تھا.اس کو پڑھتے اور اس پر نشان کرتے رہتے تھے.میں بلا مبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ شائد دس ہزار مرتبہ اس کو پڑھا ہوا مرزا غلام مرتضی صاحب اپنے بیٹے مرزا غلام احمد کے قرآن مجید اور دیگر مذاہب کی کتب میں استغراق کو دیکھ کر کہا کرتے تھے کہ غلام احمد کو پتہ نہیں سورج کب چڑھتا ہے اور کب غروب ہوتا ہے اور بیٹھتے ہوئے وقت کا پتہ نہیں.جب میں دیکھتا ہوں چاروں طرف کتابوں کا ڈھیر لگا رہتا ہے ہے یا آپ کے ملنے والوں سے پوچھتے کہ ہے؟ ہے ؟ قرآن پڑھتے پڑھتے کبھی سانس بھی لیتا ہے.رات کوسوتا بھی اس زمانے میں اپنی روز مرہ کی مصروفیات کے بارے میں مرزا غلام احمد صاحب نے اپنی تصنیف کتاب البریہ میں لکھا کہ ان دنوں میں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ : شیخ یعقول علی عرفانی - حیات النبی جلد اول صفحہ ۱۰۸ : مرزا بشیر احمد - سیرت المہدی حصہ سوئم صفحات ۱۷۸ تا ۱۸۲ : شیخ یعقوب علی عرفانی - حیات احمد صفحه ۹۱
گویا میں دنیا میں نہ تھا.قرآن ، حدیث اور دیگر مذاہب کی کتب کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کئے جانے والے اعتراضات اور مسلمانوں کی زبوں حالی نے آپ کی جو قلبی کیفیت کر رکھی تھی اس کا اظہار آپ نے ایک لمبی غزل میں کیا ہے جس کے تین اشعار نمونے کے طور پر درج ذیل ہیں.وو ” دین و تقویٰ گم ہوا جاتا ہے یا رب رحم کر بے بسی سے ہم پڑے ہیں.کیا کریں.کیا اختیار میرے آنسو اس غم دلسوز سے تھمتے نہیں دیں کا گھر ویران ہے.دنیا کے ہیں عالی مینار اے مرے پیارے مجھے اس سیلِ غم سے کر رہا ور نہ ہو جائے گی جان اس درد سے تجھ پر نثار ہے ۲ مسلسل شب بیداری ، کثرت عبادات و مطالعہ کتب ، شبانہ روز دماغی محنت اور اسلام کے شدید قلبی در دو غم نے آپ کی صحت پر گہرے اثرات مرتب کئے.۳۰ سال کی عمر سے ہی آپ کے سر کے بال سفید ہونے شروع ہو گئے.دوران سر اور ذیا بیطیس کے عوارض بھی لاحق ہو گئے.۱۸۸۰ء میں آپ پر قولنج زمیری کا شدید حملہ ہوا جس سے بمشکل جانبر ہوئے مگر دنیوی تفکرات اور جسمانی بیماریوں سے آپ کے معمولات میں کوئی فرق نہ پڑا.کھانا شروع سے بہت کم مقدار میں کھاتے.جو کھانا ل : مرزا غلام احمد ۱۸۹۸ ء - کتاب البریہ طبع دوئم صفحه ۱۵۰ : مرزا غلام احمد ۱۸۹۸ء- در ثمین صفحات ۱۴۵ تا ۱۴۷
۶ گھر سے آتا تھا محلے کے یتیم بچوں کو بلا کر اس میں شریک کرتے.خود ا کثر بھنے ہوئے دانوں پر ہی اکتفا کر لیتے لا ہم طعام بچوں کو کثرت سے درود شریف پڑھنے کی تلقین کرتے اور نمازوں میں باقاعدگی کی نصیحت کرتے.اگر چہ مرزا غلام احمد صاحب کو دنیاوی معاملات میں طبعا دلچسپی نہ تھی لیکن والد صاحب کے احکامات کی تعمیل کی خاطر آپ کو جائیداد کے مقدمات کی پیروی کے لئے متعدد بار بٹالہ، امرتسر ، لاہور، گورداسپور اور ڈلہوزی تک جانا پڑا.ایسے مقدمات میں جہاں دنیا دار لوگ معمولی فوائد کی خاطر ہر قسم کے مکر وفریب اور جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں وہاں آپ کا مقدمات کی پیروی کا انداز بالکل نرالا تھا.چونکہ آپ سچائی کو ہر چیز پر ترجیح دیتے تھے اس لئے اکثر وکلاء کے مشوروں پر عمل درآمد نہیں کر پاتے تھے اور بعض اوقات عین موقع پر مخالف فریق مرزا غلام احمد صاحب کے مدعی کا نمائندہ ہونے کے باوجود ان کا نام اپنے گواہوں میں لکھوا دیتے تھے اور چونکہ آپ ہر قیمت پر بیچ بولتے تھے اس لئے عدالت کا فیصلہ اکثر آپ کے خلاف ہو جاتا ہے.اس طرح کئی مواقع پر آپ کو اپنے والد صاحب کے سخت سلوک کا نشانہ بننا پڑا لیکن آپ نے راست گفتاری کو نہ چھوڑا.۲ دوسری اہم خصوصیات جن کا اظہار ان مقدمات کی تکلیف دہ پیروی کے دوران مرزا غلام احمد صاحب کی ذات سے نمایاں طور پر ہوتا تھا وہ تھیں آپ کی عاجزانہ طبیعت اور تعلق باللہ.ان مقدمات کی پیروی کے دوران بھی نماز کو ہر چیز پر مقدم : شیخ یعقوب علی عرفانی - حیات احمد صفحہ ۱۹۵ : دوست محمد شاہد.تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ ۱۰۷
رکھتے تھے.نماز میں استغراق کا یہ عالم تھا کہ بسا اوقات عدالت سے پیشی کی آواز میں لگ رہی ہوتیں اور آپ خدا تعالیٰ کے حضور دنیاوی معاملات سے بے نیاز ہوکر گریہ وزاری کر رہے ہوتے اور جب تک جی بھر کر اطمینان سے نماز ختم نہ کر لیتے بالکل بے پرواہ رہتے.اس قسم کا ایک واقعہ مرزا غلام احمد صاحب نے خود بیان فرمایا ہے آپ لکھتے ہیں کہ میں بٹالہ ایک مقدمہ کی پیروی کے لئے گیا، نماز کا وقت ہو گیا اور میں نماز پڑھنے لگا.چپڑاسی نے آواز دی مگر میں نماز میں تھا.فریق ثانی پیش ہو گیا اور اس نے یک طرفہ کارروائی سے فائدہ اٹھانا چاہا اور بہت زور اس پر دیا مگر عدالت نے پرواہ نہ کی اور مقدمہ اس کے خلاف کر دیا اور مجھے ڈگری دے دی.میں جب نماز سے فارغ ہو کر گیا تو مجھے خیال تھا کہ شائد حاکم نے قانونی طور پر میری غیر حاضری کو دیکھا ہو.مگر جب میں حاضر ہوا اور میں نے کہا کہ میں تو نماز پڑھ رہا تھا تو اس نے کہا کہ میں تو آپ کو ڈگری دے چکا ہوں.‘1 -11- رویا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت: مرزا غلام احمد صاحب کے تعلق باللہ کی واضح علامتوں کا اظہار اوائل جوانی سے ہی شروع ہو گیا تھا.زمانہ طالب علمی میں پہلی بار آپ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیار نصیب ہوئی.مرزا صاحب لکھتے ہیں: اوائل جوانی میں نے ( رؤیا میں ) دیکھا کہ میں ایک عالی شان : شیخ یعقوب علی عرفانی - حیات النبی جلد اول صفحہ ۵۶
مکان میں ہوں جو نہایت پاک اور صاف ہے اور اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اور چرچا ہورہا ہے.میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ حضور کہاں تشریف فرما ہیں؟....جب میں حضور کی خدمت میں پہنچا تو حضور بہت خوش ہوئے اور آپ نے مجھے بہتر طور پر میرے سلام کا جواب دیا.آپ کا حسن و جمال اور ملاحت اور آپ کی پُر شفقت اور پُر محبت نگاہ مجھے اب تک یاد ہے اور وہ مجھے کبھی بھول نہیں سکتی...آپ نے مجھے فرمایا: اے احمد تمہارے دائیں ہاتھ میں کیا چیز ہے؟ میں نے اپنے دائیں ہاتھ کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ میرے ہاتھ میں ایک کتاب ہے.اور وہ مجھے اپنی ہی ایک تصنیف معلوم ہوئی میں نے عرض کیا : حضور یہ میری تصنیف ہے.“ غرض آنحضرت نے وہ کتاب مجھ سے لے لی...تو آنحضرت کا ہاتھ مبارک لگتے ہی ایک نہایت خوشرنگ میوہ بن گئی...آنحضرت نے جب اس میوہ کو تقسیم کرنے کے لئے قاش قاش کرنا چاہا تو اس قد راس میں سے شہر نکلا کہ آنجناب کا ہاتھ مبارک مرفق تک شہد سے بھر گیا.تب ایک مردہ جو دروازہ سے باہر پڑا تھا آنحضرت کے معجزہ سے زندہ ہو کر اس عاجز کے پیچھے آ کھڑا ہوا...ایک قاش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو اس غرض سے دی کہ تا اس شخص کو دوں جو نئے سرے سے زندہ ہوا اور باقی تمام قاشیں میرے دامن میں ڈال دیں ! ا : مرزا غلام احمد ۱۸۹۲ء- براہین احمدیہ حصہ سوئم صفحہ ۲۴۹
مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ وہ مردہ شخص اسلام ہے اور اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فیوض کے ذریعے اسے اب میرے ہاتھ سے زندہ کرے گا.“ اس رؤیا کا مرزا غلام احمد صاحب کے مزاج پر اس قدر اثر ہوا کہ جب آپ کی تعلیم کے بعد آپ کے والد صاحب نے آپ کو سرکاری ملازمت دلوانی چاہی تو آپ نے جواب بھجوا دیا.میں تو نوکر ہو گیا ہوں“ ہے یعنی دین اسلام کو از سرِ نو زندہ کرنے پر.III- قیام سیالکوٹ ( پنجاب ): مرز اغلام مرتضی صاحب اپنے بیٹے کا جواب سن کر اس کا اصل مطلب سمجھ گئے اور وقتی طور پر خاموش ہو گئے لیکن کچھ عرصہ بعد ملازمت کی خاطر پہلے جموں (ریاست کشمیر ) اور پھر ۱۸۶۴ء میں سیالکوٹ بھجوا دیا.اگر چہ آپ کی طبیعت دنیاوی ملا زمت سے سخت گریزاں تھی لیکن صرف والد صاحب کی اطاعت کی خاطر اسے قبول کیا.آپ نے بعد میں اپنے ملازمت کے دنوں کے بارے میں لکھا کہ اس تجربہ سے مجھے معلوم ہوا کہ اکثر نوکری پیشہ نہایت گندی زندگی بسر کرتے ہیں.ان میں سے بہت کم ہو نگے جو پورے طور پر : مرزا غلام احمد ۱۸۹۳ ء - آئینہ کمالات اسلام صفحات ۵۴۸-۵۴۹ : مرزا بشیر احمد - سیرت المہدی حصہ اول طبع دوئم صفحہ ۴۸
صوم وصلوٰۃ کے پابند ہوں اور جو ان ناجائز حظوظ سے اپنے آپ کو بچا سکیں جو ابتلا کے طور پر ان کو پیش آتے رہتے ہیں.میں ہمیشہ ان کے منہ دیکھ کر حیران رہا اور اکثر کو ایسا پایا کہ ان کی تمام دلی خواہشیں مال و متاع تک.خواہ حلال کی وجہ سے ہوں یا حرام کے ذریعے سے محدود تھیں اور بہتوں کی دن رات کی کوششیں اس مختصر زندگی کی دنیوی ترقی کے لئے مصروف پائیں.میں نے ملازمت پیشہ لوگوں کی جماعت میں بہت کم ایسے لوگ پائے کہ جو محض خدا تعالیٰ کی عظمت کو یاد کر کے اخلاق فاضلہ، علم اور کرم اور عفت اور تواضع اور انکسار اور خاکساری اور ہمدردی ءِ خلق اور پاک باطنی اور اکل حلال اور صدق مقال اور پر ہیز گاری کی صفت اپنے اندر رکھتے ہوں بلکہ بہتوں کو تکبر اور بد چلنی اور لا پرواہی دین اور طرح طرح کے اخلاق رذیلہ میں شیطان کے بھائی پایا.بسلسلہ ملازمت سیالکوٹ قیام کے دوران مرزا غلام احمد صاحب کا واسطہ کچھ مقتدر ہستیوں سے ہوا.ہم یہاں ان میں سے تین کی مرزا صاحب کے بارے میں آراء درج کر رہے ہیں تا کہ آپ کے کردار، مزاج اور فطرت کو سمجھنے میں مدد ملے.ا حکیم مظہر حسین صاحب: اگر چہ حکیم مظہر حسین صاحب بعد میں مرزا صاحب کے مخالفین میں شامل ہو گئے تھے لیکن پھر بھی مرزا غلام احمد صاحب کے قیام سیالکوٹ کے دوران کے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ل : مرزا غلام احمد ۱۸۹۸ ء - کتاب البریہ طبع دوئم صفحات ۱۵۳-۱۵۴
ثقہ صورت ، عالی حوصلہ اور بلند خیالات کا انسان اپنی علو ہمتی کے مقابل کسی کا وجود نہیں سمجھتا.اندر قدم رکھتے ہی وضو کے لئے پانی مانگا اور وضو سے فراغت پا نماز ادا کی یا وظیفہ میں تھے...درود و وظائف کا لڑکپن سے شوق ہے.مکتب کے زمانے میں تحفہء ہند، تحفہ النهود، خلعت الہنود وغیرہ کتابیں اور سنی اور شیعہ اور عیسائی مناظرہ کی کتابیں دیکھا کرتے تھے اور ہمیشہ آپ کا ارادہ تھا کہ کل مذاہب کے خلاف اسلام کی تائید میں کتا بیں لکھ کر شائع کریں‘ 1 -۲ منشی سراجدین صاحب مولانا ظفر علی خان ایڈیٹر روز نامہ زمیندار لاہور جماعت احمدیہ کے ساری عمر شدید مخالفین میں سے رہے آپ کے والد منشی سراج دین صاحب مرحوم مرزا صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وو مرزا غلام احمد صاحب ۱۸۶۰ ء یا ۱۸۶۱ء کے قریب ضلع سیالکوٹ میں محرر تھے.اس وقت آپ کی عمر ۲۲-۲۳ سال ہو گی اور ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے.کاروبار ملازمت کے بعد ان کا تمام وقت مطالعہ دینیات میں گذرتا تھا عوام سے کم ملتے تھے“ ہے حکمی مظہر حسین ۱۹۳۴ء- اخبار الحکم ۷ را پریل ۱۹۳۴ صفحه ۳ : منشی سراجدین ۱۹۰۸ء - اخبار زمیندار مئی ۱۹۰۸.بحوالہ بدر ۲۵ / جون ۱۹۰۸ صفحه ۱۳
۱۲ -۳ شمس العلما مولانا سید میر حسن صاحب سیالکوٹی : مرزا غلام احمد صاحب اور مولانا سید میرحسن صاحب سیالکوٹی کے درمیان مرزا صاحب کے سیالکوٹ قیام کے دوران ملاقاتوں کا سلسلہ رہا.مولانا صاحب اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ادنی تامل سے بھی دیکھنے والے پر واضح ہو جا تا کہ حضرت (مرزا غلام احمد صاحب.ناقل ) اپنے قول وفعل میں دوسروں سے ممتاز ہیں...چونکہ آپ عزت پسند اور پارسا اور فضول ولغو سے مجتنب اور محترز تھے اس واسطے عام لوگوں کی ملاقات جوا کثر تضیع اوقات کا باعث ہوتی تھی آپ پسند نہیں فرماتے تھے.شہر کے بزرگوں میں سے ایک مولوی محبوب عالم نام سے جو عزلت گزین اور بڑے عابد اور پارسا اور نقشبندی طریق کے صوفی تھے.مرزا صاحب کو دلی محبت تھی.حضرت مرزا صاحب پہلے محلہ کشمیریاں میں جو اس عاصی پر معاصی کے غریب خانہ کے بہت قریب ہے.عمرا نامی کشمیری کے مکان پر کرائے پر رہا کرتے تھے.کچہری سے جب تشریف لاتے تھے تو قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف ہوتے تھے.بیٹھ کر ، کھڑے ہوکر ، ٹہلتے ہوئے تلاوت کرتے تھے اور زار زار رؤیا کرتے تھے.ایسی خشوع و خضوع سے تلاوت کرتے تھے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی.شمس العلما مولانا سید حسن صاحب ۱۹۲۲ء مکتوب بنام مرزا بشیر احمد صاحب سیرت المہدی حصہ اول طبع دوئم صفحہ
۱۳ IV- قادیان واپسی : بالآ خر سیالکوٹ میں چند سال قیام کے بعد مرزا صاحب نے والد صاحب کے حکم پر ملازمت چھوڑ دی اور ۱۸۶۸ء میں قادیان آگئے.سیالکوٹ کی ملازمت سے استعفیٰ اور قادیان وا پسی مرزا صاحب کے لئے گویا قید سے رہائی تھی.قادیان پہنچنے پر معلوم ہوا کہ آپ کی والدہ ماجدہ سیدہ چراغ بی بی صاحبہ جو اپنے بیٹے کی نیکی، تقوی شعاری ، پاکیزگی اور سعادت مندی پر سو جان سے قربان تھیں وہ فوت ہو گئی ہیں.ان کی وفات کا مرزا صاحب کو بے حد صدمہ ہوا.گو آپ خدا کی رضا پر راضی تھے لیکن جب بھی مرزا صاحب کی زبان پر آپ کی والدہ صاحبہ کا ذکر آتا آپ چشم پر آب ہو جاتے.قادیان واپسی کے بعد آپ کے والد مرزا غلام مرتضی صاحب نے آپ کو پھر سے زمین جائیداد کے معاملات میں لگانے کی کوشش کی.ریاست کپورتھلہ سے سررشتہ تعلیم کی افسری بھی پیش کی گئی لیکن آپ دنیاوی الجھنوں کے لئے تیار نہ ہوئے یہاں تک کہ آپ نے اپنے والد صاحب کو فاری زبان میں ایک خط لکھ کر اپنے دل کی کیفیت بیان کی.اس خط کے کچھ حصوں کا ترجمہ درج ذیل ہے: وو مخدومی حضرت والد صاحب سلامت.غلامانہ مراسم اور فدویانہ آداب کی بجا آوری کے بعد آپ کی خدمت میں یہ عرض کرتا ہوں کہ ان دنوں یہ امر مشاہدہ میں آ رہا ہے اور ہر روز یہ بات دیکھی جارہی ہے کہ تمام ممالک اور قطعات زمین میں ہر سال اس قسم کی وباء پھوٹ پڑتی ہے جو دوستوں کو دوستوں سے اور رشتہ داروں کو رشتہ داروں
۱۴ سے جدا کر دیتی ہے اور کوئی سال بھی اس بات سے خالی نہیں گزرتا کہ یہ عظیم الشان آگ اور المناک حادثہ ظاہر نہ ہوتا ہو یا اس کی تباہی کی وجہ سے شور قیامت بپا نہ ہوتا ہو.یہ حالت دیکھ کر میرا دل دنیا سے سرد ہو گیا ہے اور چہرہ غم سے زرد اور اکثر حضرت سعدی شیرازی رحمتہ اللہ علیہ کے یہ دو مصرعے زبان پر جاری رہتے ہیں اور حسرت وافسوس کی وجہ سے آنکھوں سے آنسو بہہ پڑتے ہیں.مکن تکیه برعمر نا پائیدار از بازیء مباش ایمن از بازی ء روزگار اس لئے میں چاہتا ہوں کہ باقی عمر گوشہ تنہائی اور گنج عزلت میں بسر کروں اور عوام اور ان کی مجالس سے علیحدگی اختیار کروں اور اللہ تعالیٰ سبحانہ کی یاد میں مصروف ہو جاؤں تا تلافی مافات کی صورت پیدا ہو جائے.....کیونکہ دنیا کی کوئی پختہ بنیاد نہیں.زندگی کا کوئی اعتبار نہیں اور حیات مستعاد پر کوئی اعتماد نہیں.جس شخص کو اپنا فکر نہ ہوا سے کسی آفت کا کیا غم.۷- مکالمات الہیہ کا آغاز : قبل ازیں ہم نے مرزا غلام احمد صاحب کے اس رؤیا کا ذکر کیا ہے جس میں آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی تھی.اگر چہ اس کا صحیح سن ، سال کہیں ل : مرزا غلام احمد - خط بنام والد صاحب منقول از سیرت المہدی (مصنفہ مرزا بشیر احمد ) حصہ اوّل صفحہ ۵۶
۱۵ درج نہیں لیکن یہ رویا آپ کے زمانہ تحصیل علم کی ہے اور واقعات کی ترتیب کی رو سے ۱۸۶۰ء اور ۱۸۶۴ء کے درمیان کی ہے.اس کے بعد مرزا صاحب کے رؤیا کشوف و الہامات میں تو اتر پیدا ہو گیا اور روز مرہ زندگی میں چھوٹے ، بڑے ، اچھے ، بُڑے واقعات کو آپ الہی اشاروں کے سہارے قبل از وقت بیان کرنے لگے.مثلاً ۱۸۶۲ء میں راجہ تیجا سنگھ جاگیر دار تحصیل بٹالہ کی موت.اے ایک مکان کے کمرے جس میں آپ سمیت ۱۵-۱۶ آدمی سو رہے تھے کی چھت کے گرنے کا انتباہ اور فوری انخلا کے بعد چھت کا گر جانا.۲ امرتسر کی کمشنری کے سررشتہ دار سمج رام جو دین اسلام سے کینہ رکھتا تھا کی موت کا کشف.۳ ضلع سیالکوٹ کے وکالت یا مختار کاری کا امتحان دینے والے تمام امیدواروں میں سے صرف لالہ بھیم سین کی کامیابی کی پیشگی اطلاع.ہے ۱۸۶۸ء میں ایک مقدمہ میں والد صاحب کے حق میں ڈگری کی خبر - ۵ آپ کے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کی بیماری کی اطلاع - 1 مرزا غلام احمد - براہین احمدیہ حصہ اوّل صفحہ ۲۵۶ : مرزا بشیر احمد - سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ ۲۳۶ مرزا غلام احمد - حقیقۃ الوحی طبع اوّل صفحہ ۲۹۶ ه : مرزا غلام احمد ۱۸۸۰ ء - براہین احمدیہ حصہ اوّل طبع اوّل صفحہ ۲۵۶ ۵ : مرزا غلام احمد ۱۸۸۴ ء - براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحات ۵۵۱-۵۵۲ : مرزا غلام احمد - نزول مسیح صفحه ۲۱۷
۱۶ اس کے بعد کے سالوں میں مرزا صاحب مسلسل رؤیا، کشوف والہامات کی بناء پر بہت سے ایسے ملکی و غیر ملکی واقعات کی قبل از وقت اطلاعات بیان کرتے رہے جن کی سچائی کی گواہی کی اکا دُکا یا کبھی چند افراد نے دی لیکن مرزا صاحب نے کبھی ان کشوف والہامات کی تشہیر کی ضرورت محسوس نہیں کی.۱۸۷۵ء کے آخر میں تلاوت قرآن کریم ، ذکر الہی ، اصلاح ، خلوت نشینی اور درود شریف کی کثرت آپ کی زندگی کا معمول تھی.اس دوران آپ نے خاموشی سے ایک رؤیا کی بنیاد پر ۸ یا ۹ ماہ تک مسلسل روزے رکھے.آپ کے والد ماجد مرزا غلام مرتضی صاحب کا ۳ جون ۱۸۷۶ء کو ۸۰-۸۵ سال کی عمر میں انتقال ہو گیا.ان کی بیماری اور پھر وفات کی خبر بھی آپ کو قبل از وقت الہاما بتا دی گئی تھی.مرزا غلام احمد صاحب لکھتے ہیں کہ والد صاحب کی وفات کے ساتھ ہی بڑے زور شور سے سلسلہ مکالمات الہیہ کا مجھ سے شروع ہوا.میں کچھ بیان نہیں کر سکتا کہ میرا کون ساعمل تھا جس کی وجہ سے یہ عنائت الہی شامل حال ہوئی.صرف اپنے اندر یہ احساس کرتا ہوں کہ فطرتا میرے دل کو خدا تعالیٰ کی وفاداری کی طرف ایک کشش ہے جو کسی چیز کے روکنے سے نہیں رکتی سو یہ اس کی عنایت ہے ! VI - براہین احمدیہ کی تصنیف: مرزا غلام احمد صاحب نے ۱۸۸۰ء میں اپنی پہلی کتاب براہین احمدیہ کے نام سے شائع کی جو اسلام کی حقانیت کے زبر دست دلائل پر مشتمل تھی اس لئے یہ لے : مرزا غلام احمد ۱۸۹۸ ء - کتاب البریہ طبع دوئم حاشیه صفحات ۱۶۳، ۱۶۷
۱۷ کتاب ہندوستان کے طول وعرض میں بہت مقبول ہوئی.مرزا صاحب نے اس تصنیف کے متعلق یہ اعلان بھی اسی کتاب کے اندر چھاپا کہ اگر کوئی صاحب منکرین میں سے....ان سب براہین اور دلائل میں جو ہم نے دربارہ حقیقت فرقان مجید اور صدق رسالت حضرت خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم اسی کتاب مقدس سے اخذ کر کے تحریر کیں ہیں اپنی الہامی کتاب میں سے ثابت کر کے دکھلا دے یا اگر تعداد میں ان کے برابر پیش نہ کر سکے تو نصف ان سے یا ثلث ان سے یا ربع ان سے یا خمس ان سے نکال کر پیش کرے یا اگر بکلی پیش کرنے سے عاجز ہو تو ہمارے ہی دلائل کو نمبر وار توڑ دے تو میں مشتہر ایسے مجیب کو بلا عذرے و حیلے اپنی جائیداد قیمتی دس ہزار روپے پر قبض و دخل دے دوں گا.اس کتاب کے چھپتے ہی ہندوستان کے طول وعرض میں ایک تہلکہ مچ گیا.مسلمانان ہند اس سے بہت متاثر ہوئے اور متعدد علمی اور دینی حلقوں میں اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا.کئی مقتدر عالموں نے رسائل کے اندر براہین احمدیہ کے محاسن و کمالات پر شاندار تبصرے شائع کئے.ان میں چند تبصروں کو مختصر طور پر درج کیا جارہا ہے تا کہ قارئین از خود مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور ان کی تصنیف کی قدر و منزلت کا اندازہ لگا سکیں.له : مرزا غلام احمد ۱۸۸۰ ء - براہین احمدیہ حصہ اوّل طبع صفحه ۲۵-۲۶
۱۸ ا.مولانا محمد حسین بٹالوی کا تبصرہ: وو مولا نا محمد حسین صاحب بٹالوی اہل حدیث کے مشہور عالم اور رسالہ اشاعت السنہ کے ایڈیٹر تھے.آپ نے اپنے رسالے میں براہین احمدیہ پر ریویو میں لکھا کہ ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانے میں اور موجودہ حالات کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی اور آئندہ کی خبر نہیں...اور اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے.ہمارے ان الفاظ کوکوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم سے کم ایک ایسی کتاب بتا دے جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفین اسلام خصوصاً آریہ و برہم سماج سے اس زور شور سے مقابلہ پایا جاتا ہو اور دو چار ایسے اشخاص انصار اسلام کی نشان دہی کر دے جنہوں نے اسلام کی نصرت مالی و جانی قلمی ولسانی کے علاوہ حالی نصرت کا بھی بیڑہ اٹھالیا ہو اور مخالفین اسلام اور منکرین الہام کے مقابلے میں مردانہ تحدی کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہو کہ جس کو وجود الہام کا شک ہو وہ ہمارے پاس آکر تجربہ و مشاہدہ کرے اور تجربہ و مشاہدہ کا اقوام غیر کو مزہ بھی چکھا دیا ہو...مؤلف براہین احمدیہ مخالف اور موافق کے تجربے اور مشاہدے کی رو سے...شریعت محمدیہ پر قائم و پرہیز گار اور صداقت شعار ہے.....مؤلف براہین احمدیہ نے
۱۹ مسلمانوں کی عزت رکھ دکھائی ہے...۲- تبصرہ صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی: وو صوفی احمد جان صاحب لدھیانہ پنجاب (حال بھارت) کے مشہور با کمال بزرگ تھے.جو اپنے زمانہ کے بہت زاہد، پر ہیز گار اور مرجع خلائق تھے.مرزا صاحب کی تصنیف براہین احمدیہ کے بارے میں انہوں نے ایک اشتہار بعنوان واجب الاظہار“ شائع کیا.اس کے جستہ جستہ اندراجات درج ذیل ہیں.عالی جناب فیض رسانِ عالم ، معدن جود و کرم ، حجۃ الاسلام ، برگزیدہ ء خاص و عام ، حضرت مرزا غلام احمد صاحب دام بر کاتہم ، رئیس اعظم قادیان...یه کتاب دین اسلام اور نبوت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن شریف کی حقانیت کو تین سو مضبوط دلائل عقلی اور نقلی سے ثابت کرتی ہے اور عیسائی ، آریہ، نیچریہ، ہندو اور برہمو سماج وغیرہ جميع مذاہب مخالف اسلام کو از روئے تحقیق رڈ کرتی ہے.یہ کتاب منکروں کو معتقد اور ست اعتقادوں کو چُست اور غافلوں کو آگاہ، مومنوں کو عارف کامل بنادیتی ہے اور اعتقادات قویہ اسلامیہ کی جڑ قائم کرتی ہے اور جو وساوس مخالف پھیلاتے ہیں ان کو نیست و نابود کرتی ہے.اس چودھویں صدی کے زمانے میں کہ ہر ایک مذہب وملت میں ایک طوفان بے تمیزی برپا ہے.بقول شخصے کا فر نئے نئے ہیں، مسلماں : مولوی محمد حسین بٹالوی - رسالہ اشاعۃ السنہ جلد ہفتم نمبر ۶ صفحات ۱۶۹-۱۷۰، ۳۴۸
۲۰ نئے نئے.ایک ایسی کتاب اور ایک ایسے مجدد کی بے شک ضرورت تھی جیسی کہ کتاب براہین احمدیہ.اس کے مؤلف جناب مخدومنا مولا نا مرزا غلام احمد صاحب دام فیوضہ ہیں جو ہر طرح سے دعوی ء اسلام کو مخالفین پر ثابت فرمانے کے لئے موجود ہیں.جناب موصوف عامی علماء فقراء میں سے نہیں بلکہ خاص اس کام پر منجانب اللہ مامور اور ملہم اور مخاطب الہی ہیں....مصنف صاحب اس چودھویں صدی کے مجد داور مجتہد اور محدث اور کامل مکمل افراد اُمت میں سے ہیں.اس دوسری حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یعنی علما امتی کا نبیاء بنی اسرائیل اسی کی تائید میں ہے.سب مریضوں کی تم مسیحا بنو تمہیں پہ نظر ہے خدا کے لئے اے ناظرین میں سچی نیت اور کمال جوش صداقت سے التماس کرتا ہوں کہ بے شک وشبہ جناب مرزا صاحب موصوف مجد دوقت اور طالبان سلوک کے لئے کبریت احمر اور سنگ دلوں کے واسطے پارس اور تاریک باطنوں کے واسطے آفتاب اور گمراہوں کے لئے خضر اور منکرین اسلام کے واسطے سیف قاطع اور حاسدوں کے واسطے حجۃ البالغہ ہیں.یقین جانو کہ پھر ایسا وقت ہاتھ نہ آئے گا.آگاہ ہو کہ امتحان کا وقت آ گیا ہے اور حجت الہی قائم ہو چکی ہے اور آفتاب عالم تاب کی طرح بدلائل قطعیہ ایسا ہادی کامل بھیج دیا ہے کہ بچوں کو نور بخشے اور ظلمات وضلالت
۲۱ سے نکالے اور جھوٹوں پر حجت قائم کرے.“ تبصرہ مولانامحمد شریف صاحب بنگلوری: مولا نا محمد شریف صاحب مشہور مسلم اخبار منشور محمدی بنگلور کے مدیر تھے.آپ کے براہین احمدیہ پر طویل تبصرے کے کچھ حصے درج ذیل ہیں : منافقوں اور دشمنوں کے سارے حملے دین اسلام پر ہو رہے ہیں.ادھر دہر یہ پن کا زور ، اُدھر لا مذہبی کا شور، کہیں برہمو سماج والے اپنے مذہب کو فیلسوفانہ تقریروں سے دینِ اسلام پر غالب کیا چاہتے ہیں.ہمارے عیسائی بھائیوں کی ساری ہمت تو اسلام کے استیصال پر مصروف ہے اور ان کو اس بات کا یقین ہے کہ جب تک آفتاب اسلام اپنی پرتاب شعائیں دنیا میں ڈالتا رہے گا تب تک عیسوی دین کی ساری کوششیں بے کا راور تثلیث تین تیرہ رہے گی.غرض سارے مذاہب اور تمامی دین والے یہی چاہتے ہیں کہ کسی طرح دین اسلام کا چراغ گل ہو مدت سے ہماری آرزو تھی کہ علمائے اہل اسلام سے کوئی حضرت جن کو خدا نے دین کی تائید اور حمایت کی توفیق دی ہے کوئی کتاب ایسی تصنیف یا تالیف کریں جو زمانہ موجودہ کی حالت کے موافق ہو اور جس میں دلائل عقلیہ اور براہین نقلیہ قران کریم کے کلام اللہ ہونے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ثبوت نبوت پر قائم ہوں.خدا کا شکر ہے ل : صوفی احمد جان صاحب.لدھیانہ اشتہا ر واجب الاظہار
۲۲ کہ یہ آرزو بھی بر آئی.یہ وہی کتاب ہے جس کی تالیف یا تصنیف کی مدت سے ہم کو آرزو تھی.برا ہیں احمد یہ ملقب به ا براہین الاحمدیہ علی حقیقت کتاب اللہ القران والنبوة المحمدیہ جس میں مصنف زاد قدرہ اللهم متع المسلمين بطول حياتہ نے تین سو براہین قطعیہ عقلیہ سے حقیقت قرآن اور نبوت محمدیہ کو ثابت کیا ہے.افضل العلماء فاضل جلیل جرنیل فخر اہل اسلام ہند مقبول بارگه صد جناب مرزا غلام احمد صاحب رئیس اعظم قادیان ضلع گورداسپور پنجاب کی تصنیف ہے.سبحان اللہ.کیا تصنیف منیف ہے کہ جس سے دین حق کا لفظ لفظ سے ثبوت ہو رہا ہے ہر ہر لفظ سے حقیقت قرآن و نبوت ظاہر ہو رہی ہے.ایھا الناظرین ! یہ وہی کتاب ہے جو فی الحقیقت لا جواب ہے اور دعویٰ تو یہ ہے کہ اس کا جواب ممکن نہیں...اور حال یہ ہے کہ اگر مخالفوں کو کچھ بھی خدا ترسی ہو تو وہ بجر دمطالعہ اس کتاب کے جواب یہی دینا چاہئے کہ لا الہ الا اللہ حق اور محمد رسول اللہ برحق.ہم تو فخریہ یہ کہتے ہیں کہ جواب ممکن نہیں.ہاں قیامت تک محال ہے....بھائیو! کتاب براہین احمدیہ ثبوت قرآن و نبوت میں ایک ایسی بے نظیر کتاب ہے کہ جس کا ثانی نہیں.مصنف نے اسلام کو ایسی کوششوں اور دلیلوں.ثابت کیا ہے کہ ہر منصف مزاج یہی سمجھے گا کہ قرآن کتاب اللہ اور نبوت پیغمبر آخر الزماں حق ہے عقلی دلیلوں کا انبار ہے.خصم کو نہ جائے گریز اور نہ طاقت انکار ہے.جو دلیل ہے بین ہے.جو برہان ہے
۲۳ روشن ہے.آئینہ ایمان ہے، لبالب قرآن ہے، ہادی ، طریق مستقیم ، مشعل راه قویم، مخزن، صداقت ، معدن ہدایت ، برق خرمن اعداء، عد وسوز ہر دلیل ہے.مسلمانوں کے لئے تقویت کتاب الجلیل.ام الکتاب کا ثبوت ہے.بے دین حیران ہے مبہوت ہے.ا ارجن سنگھ صاحب کا تبصرہ: ہے.جناب ارجن سنگھ صاحب مدیر اخبار رنگین امرتسر خلیفہ قادیان کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ وو اس وقت کے مسلمان عالم یہ سمجھتے تھے کہ مرزا صاحب نے براہین احمدیہ لکھ کر اسلام کی کوئی بڑی خدمت کی ہے.چنانچہ گھر گھر براہین احمدیہ کا چرچا تھا اور پڑھے لکھے مسلمان اس کتاب کے مطالعہ کو ضروری سمجھتے تھے.ہر ایک مسلمان مناظر اس کتاب کو ایک نظر دیکھ لینا ضروری خیال کرتا تھا.الغرض اس کتاب کی تصنیف کی وجہ سے جہاں مرزا صاحب ایک طرف ہندوستان کے مسلمانوں کی آنکھ کا تارا بن گئے وہاں آپ کو عیسائیوں اور آریوں میں بھی کافی شہرت حاصل ہوگئی.“ ہے براہین احمدیہ حصہ اوّل میں مرزا غلام احمد صاحب نے مخالفین اسلام کو جس دس ہزار روپے کی جائداد کی بطور انعام پیشکش کی تھی وہ عیسائیوں اور آریوں کے لئے بہت پریشان کن تھی.چنانچہ جواباً اخبارات 'سفیر ہند نور افشاں اور رسالہ دوھیا : مولانامحمد شریف بنگلوری ۱۸۸۵ ء - اخبار منشورمحمدی ۲۵ رجب المرجب صفحات ۲۱۴ تا ۲۱۷ ارجن سنگھ - خلیفہ قادیان صفحات ۴-۵
۲۴ پر کا شک میں ان کی طرف سے مرزا صاحب پر نہ صرف نکتہ چینی کی گئی بلکہ براہین احمدیہ کا رد لکھنے کے بڑے پُر جوش اعلان کئے گئے.چنانچہ مرزا غلام احمد صاحب نے مخالفین اسلام کے اعلانات کے جواب میں براہین احمدیہ کے حصہ دوئم میں ایک دفعہ پھر اپنے چیلنج کو دُہراتے ہوئے کہا کہ " آپ سب صاحبوں کو قسم ہے کہ ہمارے مقابلے پر ذرا تو قف نہ کریں افلاطون بن جاویں بیکن کا اوتار دھار میں ارسطو کی نظر اور فکر لاویں اپنے مصنوعی خداؤں کے آگے استمداد کے لئے ہاتھ جوڑیں پھر دیکھیں جو ہمارا خدا غالب آتا ہے یا آپ لوگوں کے الہ باطلہ VII - براہین احمدیہ اور مرزا صاحب کی مخالفت کا آغاز : تمام عیسائی اور آریہ سماجی لیڈروں کی طرف سے براہین احمدیہ کے مقابلے میں ایک خاموشی طاری رہی.صرف پنڈت لیکھرام پشاوری نے ” تکذیب براہین احمدیہ کے نام سے ایک کتاب لکھی جو جواب تو نہ تھی البتہ ہنر لیات اور فضول باتوں کا مجموعہ تھی اس لئے تمام مذاہب کے پڑھے لکھے لوگوں کی نظر میں جگہ نہ پاسکی.پنڈت لیکھرام کی طرف سے اسلام کی مخالفت بڑھتی ہی چلی گئی جو بالآخر پنڈت صاحب کی دردناک موت پر ختم ہوئی.اس کا تفصیلی تذکرہ آئندہ صفحات میں درج ہے.مخالفت کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ نکلا کہ بعض لدھیانہ اور امرتسر کے مسلمان ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۸۰ء- براہین احمدیہ حصہ دوم سر ورق صفحات ۳۰۲
۲۵ علما نے مرزا صاحب کے براہین احمدیہ میں درج الہامات کو غیر ممکن، غیر صحیح اور نا قابلِ تسلیم قرار دے کر مرزا صاحب کی تکفیر شروع کر دی اور حکومت سے گزارش کی کہ مرزا غلام احمد صاحب کو قانون کی گرفت میں لیا جائے اور ان کی تصنیف کو ضبط کر لیا جائے.ان علما کی کارگزاری کا کچھ احوال مولوی محمد حسین بٹالوی مدیر اشاعتہ السنہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ موقع جلسه دستار بندی دیو بند پر یہ حضرات بھی وہاں پہنچے اور....فتاویٰ تکفیر براہین احمدیہ کے لکھ کر لے گئے اور علماء دیوبند اور گنگوہ وغیرہ سے ان پر دستخط اور مواہیر کے خواستگار ہوئے.مگر چونکہ وہ کفران کا اپنا خانہ ساز تھا جس کا کتاب براہین احمدیہ میں کچھ اثر پایا نہ جاتا تھا لہذا دیو بند گنگوہ نے ان فتوؤں پر مہر دستخط کرنے سے انکار کیا اور ان لوگوں کو تکفیر مؤلف سے روکا اور کوئی ایک عالم بھی ان کا اس تکفیر میں موافق نہ ہوا.: مولوی محمد حسین بٹالوی - رسالہ اشاعۃ السنہ جلدے نمبر ۶ صفحات ۱۷۰-۱۷۱
۲۷ باب دوئم مرز اغلام احمد صاحب قادیانی کا دعویٰ ء ماموریت 1- الہامات وكشوف : مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے مجموعہ الہامات ، کشوف ورڈ یا جو تذکرہ کے نام سے شائع ہو چکا ہے کی رو سے مرزا صاحب کا پہلا الہام جس میں آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ٹھہرایا گیا وہ مارچ ۱۸۸۲ء کا ہے اور تقریباً عربی زبان کے۷۰ مختصر جملوں پر مشتمل ہے اس کے ابتدائی چند کلمات کا اردو ترجمہ درج ذیل ہے.”اے احمد ! خدا نے تجھ میں برکت رکھ دی ہے جو کچھ تو نے چلا یا یہ تو نے نہیں چلایا بلکہ خدا نے چلایا.خدا نے تجھے قرآن سکھلایا تا کہ تو ان لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادا ڈ رائے نہیں گئے اور تا کہ مجرموں کی ، راہ گھل جائے کہ میں خدا کی طرف سے مامور ہوں اور میں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں 66 اگر چہ الہام کی عبارت واضح تھی تاہم مارچ ۱۸۸۲ء کے طویل الہام سے مرزا صاحب نے جو نتیجہ اخذ کیا وہ آپ نے اس طرح بیان کیا: ل : تذکره صفحات ۴۳-۴۴
۲۸ وو خدا وند کریم نے اس غرض سے کہ تا ہمیشہ اس رسول مقبول کی برکتیں ظاہر ہوں اور تا ہمیشہ اس کے نور اور اس کی قبولیت کی کامل شعائیں مخالفین کو ملزم اور لاجواب کرتی رہیں.اس طرح پر کمال حکمت اور رحمت سے انتظام کر رکھا ہے کہ بعض افراد اُمت محمدیہ کہ جو کمال عاجزی اور تذلل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت اختیار کرتے ہیں اور خاکساری کے آستانہ پر پڑ کر بالکل اپنے نفس سے گئے گذرے ہوتے ہیں خدا ان کو فانی اور ایک مصفا شیشے کی طرح پا کر اپنے رسول مقبول کی برکتیں ان کے وجود بے نمود کے ذریعے سے ظاہر کرتا ہے اور جو کچھ منجانب اللہ ان کی تعریف کی جاتی ہے یا کچھ آثار اور برکات اور آیات ان سے ظہور پذیر ہوتی ہیں حقیقت میں مرجع نام ان تمام تعریفوں کا اور مصدر کامل ان تمام برکات کا رسول کریم ہی ہوتا ہے.مندرجہ بالا مارچ ۱۸۸۲ء کے الہام کی بنیاد پر مرزا صاحب نے کوئی با قاعدہ دعوئی نہ کیا لیکن اس کے بعد تسلسل سے آپ کو ایسے الہامات ہوتے رہے جن میں خدا تعالیٰ نے مرزا صاحب کی حیثیت ، ذمہ داریوں کے مختلف پہلوؤں کو کھول کر بیان کیا مثلاً آپ نے اپنے ایک ۱۸۸۳ء کے الہام کا ان الفاظ میں ذکر کیا: اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ خاکسارا اپنی غربت اور انکسار اور تو کل اور ایثار اور آیات اور انوار کی رو سے مسیح کی پہلی زندگی کا نمونہ ہے ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۸۲ ء - براہین احمدیہ حصہ سوئم صفحات ۲۴۳-۲۴۴
۲۹ اور اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت باہم نہایت متشابہ واقعہ ہوئی ہے.گویا ایک ہی جو ہر کے دوٹکڑے یا ایک ہی درخت کے دو پھل ہیں اور نیز ظاہری طور پر بھی ایک مشابہت ہے اور وہ یوں کہ مسیح ایک کامل اور عظیم الشان نبی یعنی موسیٰ کا تابع اور خادم دین تھا....اور یہ عاجز بھی اس جلیل الشان نبی کے احقر خادمین میں سے ہے کہ جو سید الرسل اور سب رسولوں کا سرتاج ہے.اسی تسلسل میں ۱۸۸۳ء کا مرزا صاحب کا ایک اور الہام تذکرے میں درج ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے جس طرح پہلے آپ کو عیسی سے تشبیہ دی تھی اس میں آپ کو موسیٰ سے تشبیہ دی.کل الہام جو ۴۸ عربی جملوں پر مشتمل ہے اس کے آخری تین جملوں کا اردو تر جمہ یہ ہے: لوگوں کے ساتھ رفق اور نرمی سے پیش آ اور ان پر رحم کر.تو ان میں بمنزلہ موسیٰ کے ہے اور ان کی باتوں پر صبر کر “ ہے اسی سال یعنی ۱۸۸۳ء کے دوران مرزا غلام احمد صاحب کے تین الہامات آپ کی تصنیف براہین احمدیہ حصہ چہارم میں درج ہیں جنہیں بعد میں تذکرہ میں بھی درج کیا گیا ہے.ان الہامات میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مرزا صاحب کو عیسی ، داؤد اور ابراہیم کے نام سے پکارا گیا مثلاً -1 يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ.لے : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۸۲ء- براہین احمدیہ حصہ چہارم تذکرہ صفحہ ۷۶ : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۸۲ء- براہین احمدیہ حصہ چہارم تذکره صفحه ۸۳
یا عیسی میں تجھے کامل اجر بخشوں گا.اور تیرے تابعین کو ان پر جو منکر ہیں قیامت تک غلبہ بخشوں گا.(مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ ) اس جگہ عیسی کے نام سے بھی یہی عاجز مراد ہے.ا - يَا دَاوُدُ عَامِلُ بِالنَّاسِ رِفْقًا.اے داؤ د خلق اللہ کے ساتھ رفق اور احسان کے ساتھ معاملہ کر...تو محدث اللہ ہے.تجھ میں مادہ فاروقی ہے.۲ سَلَامٌ عَلَيْكَ يَا إِبْرَهِيم.تیرے پر سلام ہے اے ابراہیم.تو آج ہمارے نزدیک صاحب مرتبہ اور امانت دار اور قوی العقل ہے اور دوست خدا ہے.خلیل اللہ ہے.اسد اللہ ہے.11- دعوئی مجددیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج سے ان الہامات اور متعدد دوسرے پے در پے الہامات جو تذکرہ میں درج ہیں کی روشنی میں مرزا صاحب نے مارچ ۱۸۸۵ء میں ایک اشتہار کے ذریعے یہ اعلان کیا کہ آپ مجدد وقت ہیں.اس دعوئی پر مبنی اشتہار آپ نے اپنی تصنیف سرمہ چشم آریہ کے ضمیمے میں شامل کیا جس میں آپ نے تحریر کیا کہ مصنف کو اس بات کا بھی علم دیا گیا ہے کہ وہ مجد دوقت ہے اور ا : مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ۱۸۸۴ء- براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحات ۵۵۶-۵۵۷ : مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ۱۸۸۴ء- براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحات ۵۵۷ ے : مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ۱۸۸۴ء- براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحات ۵۵۷ تا ۵۵۹
۳۱ روحانی طور پر اس کے کمالات مسیح ابن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں....اور اس کو خواص انبیا ورسل کے نمونہ پر محض یہ برکت متابعت حضرت خیر البشر وافضل الرسل صلی اللہ علیہ وسلم.اُن بہتوں پر ا کا بر واولیا سے فضیلت دی گئی ہے کہ جو اس سے پہلے گذر چکے ہیں اور ان کے قدم پر چلنا موجب نجات و سعادت و برکت اور اس کے برخلاف چلنا موجب بعد وحرمان ہے.111- جماعت احمدیہ کی بنیاد : مرز اصاحب کے ساتھ براہین احمدیہ جلد اول کی اشاعت کے وقت یعنی ۱۸۸۰ء سے ہی معتقدین اور فدائین کا گروہ ہو گیا تھا لیکن آپ نے با قاعدہ بیعت کا آغاز الہی منشاء کے مطابق ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء کو بمقام لدھیانہ (حال پنجاب.بھارت) سے کیا جو بیعت اُولی کہلائی.متبعین کی اس جماعت کا نام علیحدہ تشخیص کی غرض سے ۴ /نومبر ۱۹۰۰ء کے اشتہار کے ذریعے جماعت احمد یہ رکھا گیا.مرزا صاحب کے بیعت کنندگان کے لئے یہی نام ہندوستان کی ۱۹۰۱ء کی مردم شماری کے دوران استعمال میں آیا.۱۷ مثیل مسیح کا دعوی مرزا غلام احمد صاحب نے ۱۸۹۰ ء کے آخر میں یہ دعویٰ کیا کہ آپ پر خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عظیم انکشاف ہوا ہے کہ حضرت مسیح ناصری جن کو مسلمانوں نے : مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ۱۸۸۶ ء -سرمه چشم آری اشتہار ضمیمه (تبلیغ رسالت جلد اول صفحات)
۳۲ آسمان پر زندہ سمجھ رکھا ہے اور جن کے متعلق وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آخری زمانے میں وہ اپنے خا کی جسم کے ساتھ دوبارہ دنیا میں تشریف لاویں گے وفات پاچکے ہیں اور خدا تعالیٰ نے ان کے مثیل کی شکل میں آپ کو ( یعنی مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو ) دنیا کی ہدایت اور اسلام کی اشاعت کے لئے مبعوث فرمایا ہے.چنانچہ مرزا صاحب نے لکھا کہ حضرت عالی سیدنا ومولا نا صلی اللہ علیہ وسلم بطور پیشگوئی فرما چکے ہیں کہ اس امت پر ایک زمانہ آنے والا ہے جس میں وہ یہودیوں سے سخت درجہ کی مشابہت پیدا کرے گی اور وہ سارے کام کر دکھائے گی جو یہودی کر چکے ہیں.یہاں تک کہ اگر یہودی چوہے کے سوراخ میں داخل ہوئے ہیں تو وہ بھی داخل ہو گی.تب فارس کی اصل میں سے ایک ایمان کی تعلیم دینے والا پیدا ہوگا.اگر ایمان ثریا میں معلق ہوتا تو وہ اسے اس جگہ سے بھی پالیتا.یہ پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے.جس کی حقیقت الہام الہی نے اس عاجز پر کھول دی ہے اور تصریح سے اس کی کیفیت ظاہر کر دی اور مجھ پر خدا تعالیٰ نے اپنے الہام کے ذریعے کھول دیا کہ حضرت مسیح ابن مریم بھی درحقیقت ایک ایمان کی تعلیم دینے والا تھا جو حضرت موسیٰ سے چودہ سو برس بعد پیدا ہوا.اس زمانہ میں کہ جب کہ یہودیوں کی ایمانی حالت نہایت کمزور ہو گئی تھی اور وہ بوجہ کمزوری ایمان ان تمام خرابیوں میں پھنس گئے تھے جو در حقیقت بے ایمانی کی شاخیں ہیں.پس جب کہ اس امت کو بھی اپنے
۳۳ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے عہد پر چودہ سو برس کے قریب مدت گذری تو وہی آفات ان میں بھی بکثرت پیدا ہوگئیں جو یہودیوں میں پیدا ہوئی تھیں تا وہ پیشگوئی پوری ہو جو ان کے حق میں کی گئی تھی.پس خدا تعالیٰ نے ان کے لئے بھی ایک ایمان کی تعلیم دینے والا مثیل مسیح اپنی قدرت کاملہ سے بھیج دیا.مسیح جو آنے والا تھا یہی ہے.چاہو تو قبول کرو.“ - امتی نبی اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ: ۱۸۹۰ء سے ۱۹۰۰ ء تک مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اسی مسلک پر قائم رہے کہ آپ کے متعلق الہامات میں اور احادیث نبوی میں جو نبی اللہ کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ عجازی رنگ میں ہے.اس سے مقصود فقط کثرتِ مکالہ و مخاطبہ کا شرف ہے جسے محدثیت سے موسوم کرنا چاہیے نہ کہ نبوت سے.اس وقت تک عام مسلمانوں کی طرح آپ کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ نبی کے لئے نئی شریعت لانا یا شریعت سابقہ کے بعض حصوں کی ترمیم یا تنسیخ کرنا یا کم از کم کسی نبی کے فیض کے بغیر براہ راست اس فیض تک پہنچنا لازمی ہوتا ہے.جب کہ آپ اپنے آپ کو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کے طفیل ہی دین اسلام کی تجدید کے لئے مامور سمجھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفش برداری کو تخت شاہی سے افضل اور اپنے لئے سب سے بڑا اعزاز سمجھتے تھے لیکن اس کے بعد متواتر الہامات نے مرزا صاحب کو اس مسلک پر قائم نہ رہنے دیا.خدا ل : مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ۱۸۹۱ ء - فتح اسلام طبع اول ریاض هند پریس امرتسر حاشیه صفحات ۱۴- ۱۵
۳۴ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو نبوت کا ایک نیا مفہوم سمجھایا گیا جس کی رو سے مقام نبوت صرف کثرتِ مکالمہ ومخاطبہ سے مشرف ہونے کا نام ہے اور نئی شریعت لا نا پہلی شریعت میں ترمیم کرنا یا براہ راست نبوت کا حصول نبی کی تعریف میں داخل نہیں.اس انکشاف سے آپ کو سمجھایا گیا کہ خدا تعالیٰ کے الہامات میں آپ کو جو نبی کے نام سے پکارا جاتا رہا ہے وہ مجاز اور استعارہ کے رنگ میں محض مقام محدثیت نہیں بلکہ آپ صحیح معنوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کے طفیل حقیقی طور پر نبی اور رسول ہیں اور حصول نبوت کے طریق کے علاوہ آپ میں اور دوسرے انبیا میں کوئی فرق نہیں.پہلے نبی براہ راست مقام نبوت تک پہنچے جب کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے ذریعے اور افاضہ روحانی کے واسطہ سے مقام نبوت تک پہنچے اور امتی نبی کہلائے.چنانچہ مرزا صاحب نے لکھا کہ اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے.وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اس کو جز کی فضیلت قرار دیتا تھا.مگر بعد میں جو خدا تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدے پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا.مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی طرف سے امتی نبی ہونے کا سب سے پہلا لے : مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ۱۹۰۷ء حقیقۃ الوحی طبع اول صفحات ۱۴۹-۱۵۰
۳۵ واضح اعلان ۵ نومبر ۱۹۰۱ء کو ایک اشتہار کے ذریعے کیا گیا جس کا عنوان ” ایک غلطی کا ازالہ تھا.یہ اشتہار ۱۰ارنومبر ۱۹۰۱ء کے اخبار الحکم قادیان میں بھی شائع ہوا اس میں مرزا صاحب نے لکھا کہ ” خدا تعالیٰ کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے اس میں ایسے لفظ رسول اور مرسل اور نبی کے موجود ہیں.نہ ایک دفعہ بلکہ صد ہا دفعہ بلکہ اسوقت تو پہلے زمانے کی نسبت بھی بہت تصریح اور توضیع سے یہ الفاظ موجود ہیں...پس میں جبکہ اس مدت تک ڈیڑھ سو پیشگوئی کے قریب خدا کی طرف سے پا کر بچشم خود دیکھ چکا ہوں کہ صاف طور پر پوری ہو گئیں تو میں اپنی نسبت نبی یا رسول کے نام سے کیونکر انکار کر سکتا ہوں.اور جبکہ خود خدا تعالیٰ نے یہ نام رکھے ہیں تو میں کیونکر رڈ کروں.یا کیونکر اس کے سوا کسی دوسرے سے ڈروں...اور جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں...ہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے اور ہر گز فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ میں باوجود نبی اور رسول کے لفظ کے ساتھ پکارے جانے کے خدا کی طرف سے اطلاع دیا گیا ہوں کہ یہ تمام فیوض بلا واسطہ میرے پر نہیں ہیں بلکہ آسمان پر ایک پاک وجود ہے جس کا روحانی افاضہ میرے شامل حال ہے یعنی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم “ 1 ا : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۱۰ ء - اشتہار ایک غلطی کا ازالہ.اخبار الحکم قادیان صفحات ۵-۷
۳۶ مرزا صاحب نے کئی کتب اور اشتہارات میں اپنے امتی نبی اور مسیح موعود ہونے کے دعوے کی وضاحت کی اور قرآن و حدیث سے اس کے شواہد پیش کئے.ان تصریحات میں سے چندا کتابات درج ذیل ہیں.وو یادر ہے کہ بہت سے لوگ میرے دعوی میں نبی کا نام سن کر دھو کہ کھاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ گویا میں نے اس نبوت کا دعویٰ کیا ہے جو پہلے زمانوں میں براہ راست نبیوں کو ملی ہے لیکن وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں.میرا ایسا دعویٰ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی مصلحت اور حکمت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا افاضہ روحانیہ کا کمال ثابت کرنے کے لئے یہ مرتبہ بخشا ہے کہ آپ کے فیض کی برکت سے مجھے مقام نبوت تک پہنچایا.اس لئے میں صرف نبی نہیں کہلا سکتا بلکہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمتی...تا معلوم ہو کہ ہر ایک کمال مجھ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور آپ کے ذریعے سے ملا ہے.مرزا صاحب اپنی تصنیف حقیقۃ الوحی میں ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ ”اے نادانو! میری مراد نبوت سے یہ نہیں ہے کہ میں نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل پر کھڑا ہو کر نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں یا کوئی نئی شریعت لایا ہوں.صرف میری مراد نبوت سے کثرت سے مکالمت و مخاطبت الہیہ ہے جو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ا : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ء- حقیقۃ الوحی طبع اوّل صفحہ ۱۵۰ ( حاشیہ )
۳۷ ہے...آپ لوگ جس امر کا نام مکالمہ ومخاطبہ رکھتے ہیں میں اس کی کثرت کا نام بموجب حکم الہی نبوت رکھتا ہوں...اور میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اسی نے مجھے بھیجا ہے اور اسی نے میرا نام نبی رکھا ہے اور اسی نے مجھے مسیح موعود کے نام سے پکارا ہے.مرزا صاحب نے اپنے رسالہ الوصیت میں اُمتی نبی کے فلسفے کو اس طرح بیان کیا.نبوت محمد یہ اپنی ذاتی فیض رسانی سے قاصر نہیں بلکہ سب نبوتوں سے زیادہ اس میں فیض ہے.اس نبوت کی پیروی خدا تک بہت سہل طریق سے پہنچا دیتی ہے اور اس کی پیروی سے خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے مکالمہ و مخاطبہ کا اس سے بڑھ کر انعام مل سکتا ہے جو پہلے ملتا تھا مگر اس کا کامل ہیر وصرف نبی نہیں کہلا سکتا کیونکہ نبوت کا ملہ تامہ محمدیہ کی اس میں تک ہے.ہاں اُمتی اور نبی دونوں لفظ اجتماعی حالت میں اس پر صادق آ سکتے ہیں کیونکہ اس میں نبوت تامہ کاملہ محمدیہ کی ہتک نہیں بلکہ اس نبوت کی چمک اس فیضان سے زیادہ تر ظاہر ہوتی ہے اور جبکہ وہ مکالمہ مخاطبہ اپنی کیفیت اور کمیت کی رو سے کمال درجے تک پہنچ جائے.اور اس میں کوئی کثافت اور کمی باقی نہ ہو اور کھلے طور پر امور غیبیہ پرمشتمل ہوتو وہی ے لفظوں میں نبوت کے نام سے موسوم ہوتا ہے جس پر تمام نبیوں کا اتفاق ہے.پس یہ ممکن نہ تھا کہ وہ قوم جس کے لئے فرمایا گیا: دوسر.: مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ ء- حقیقۃ الوحی طبع پنجم تحر صفحه ۵۰۳
٣٨ كُنتُمْ خَيْر أمة أخرجت الناس اور جن کے لئے یہ دعا سکھائی گئی که اهدنا الصراط المستقیم - صراط الذین انعمت عليهم كے تم افراد اس مرتبہ عالیہ سے محروم رہتے اور کوئی ایک فرد بھی اس مرتبہ کو نہ پاتا اور ایسی صورت میں صرف یہی خرابی نہیں تھی کہ امت محمدیہ ناقص اور نا تمام رہتی اور سب کے سب اندھوں کی طرح رہتے بلکہ یہ نقص تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت فیضان پر داغ لگتا تھا اور آپ کی قوت قدسیہ ناقص ٹھہر تی تھی اور ساتھ اس کے وہ دعا جس کا پانچ وقت نماز میں پڑھنا تعلیم کیا گیا تھا اس کا سکھلا نا بھی عبث ٹھہرتا تھا.مگر اس کے دوسری طرف یہ خرابی بھی تھی کہ اگر یہ کمال کسی فردامت کو براہِ راست بغیر پیروی نور نبوت محمدیہ مل سکتا تو ختم نبوت کے معنی باطل ہوتے تھے.پس ان دونوں خرابیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے مکالمہ مخاطبہ کا ملہ تامہ مطہرہ مقدسہ کا شرف ایسے بعض افراد کو عطا کیا جو فنافی الرسول کی حالت تک اتم درجہ تک پہنچ گئے تھے بلکہ ان کی محویت کے آئینے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود منعکس ہو گیا تھا.‘ ! VI- سب مذاہب کے لئے : موعود نبی کا دعویٰ: مرزا غلام احمد صاحب کا دعوی نبوت اقوام عالم اور مختلف مذاہب کے لی: مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۵ء- رساله الوصیت صفحات ۱۷-۱۹
۳۹ پیروکاروں کے لئے ایک زبردست چیلنج بن گیا.آپ کا تصور نبوت واضح اور جامع تھا.قدیم صحیفوں کی رو سے ہر مذہب کے ماننے والے.آخری زمانے میں ایک ہادی کے آنے کے منتظر ہیں.مرزا صاحب کا کہنا تھا کہ وہ ساری تحریر میں دراصل ایک ہی شخص کی ذات سے تعلق رکھتی ہیں.اس لئے آپ نے ہندوؤں کے لئے کرشن ہونے ، عیسائیوں کے لئے مسیح اور مسلمانوں کے لئے مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کیا.آ نے لکھا کہ " میں کبھی آدم کبھی موسیٰ ، کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار اک شجر ہوں جس کو داؤدی صفت کے پھل لگے میں ہوا داؤد اور جالوت ہے میرا شکار پر مسیحا بن کے میں بھی دیکھتا روئے صلیب گر نہ ہوتا نام احمد جس پہ میرا سب مدار اے مرزا صاحب نے تمام مذاہب کے ماننے والوں پر واضح کیا کہ اسلام کے آخری مذہب ہونے کے باعث سب کے لئے نجات کا راستہ صرف یہی ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت اسلامیہ کی پیروی کریں اور اس کے ساتھ موجودہ زمانے کے لئے مرزا صاحب کو اپنا ہادی ء موعود تسلیم کریں.آپ لکھتے ہیں کہ ”اے تمام وہ لوگو جو زمین پر رہتے ہو! اور اے تمام انسانی روحو! : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۸ ء- براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۱۱۲
۴۰ جو مشرق اور مغرب میں آباد ہو میں پورے زور کے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتا ہوں کہ اب زمین پر سچاند ہب صرف اسلام ہے اور سچا خدا بھی وہی خدا ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے اور ہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اور جلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے.VII- مخالفت کا طوفان : ان دعاوی کا ایک قدرتی نتیجہ یہ نکلا کہ سارے مذاہب کے بڑے بڑے علماء آپ کے شدید مخالف ہو گئے اور ہر گروہ نے اپنے اپنے دائرہ اثر و رسوخ میں مرزا ا صاحب کو ناکام بنانے کی پوری کوشش کی.آریہ ہندو اس ملک کے مالدار طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور کئی وجوہ کی بنا پر انہیں اسلام اور مسلمانوں سے بے پناہ بغض تھا.خاص پور پر اس لئے بھی کہ ہندو بت پرست تھے اور اسلام بت شکنی کی تعلیم دیتا تھا.جب سوامی دیانند نے ۱۸۷۵ء میں بمبئی میں آریہ سماج جیسی قومی اور نسلی تحریک کی بنیا د رکھی اور اسلام اور بانی اسلام پر پوری بے باکی سے حملے شروع کر دیئے تو اسے آریہ ہندوؤں کی پوری تائید حاصل ہوگئی.اسی دوران اس نے ستیارتھ پرکاش جیسی رسوائے زمانہ کتاب لکھی.مرزا غلام احمد صاحب نے آریہ تحریک کے مقابلے میں اسلام کی حقانیت ثابت کرنے کے لئے پہ در پہ کئی کتب شائع کیں مثلاًئر مہ چشم آریہ ۱۸۸۷ء میں، سناتن دھرم ۱۹۰۳ء میں، چشمہ معرفت ۱۹۰۸ء میں وغیرہ وغیرہ.له : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۵ء- تریاق القلوب صفحه ۱۳
اسی دوران مرزا صاحب نے ۱۸۹۰ء میں واضح طور پر الہام الہی کی بنیاد پر یہ انکشاف کیا کہ حضرت مسیح ناصری جن کو مسلمانوں نے آسمان پر زندہ سمجھ رکھا ہے اور جن کے متعلق وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آخری زمانہ میں وہ اپنے خا کی جسم کے ساتھ دوبارہ دنیا میں واپس تشریف لائیں گے وفات پاچکے ہیں اور ان کے مثیل کی شکل میں آپ کو دنیا کی ہدایت اور اسلام کی اشاعت کے لئے مبعوث فرمایا گیا ہے تو عیسائیوں اور مسلمانوں کی طرف سے اس نظریہ کی مخالفت کا طوفان اُٹھ کھڑا ہوا.مرزا صاحب نے اپنے نظریات کو تعلیم یافتہ طبقے کے سامنے نہایت مدلل طریقے سے پیش کرنے کے لئے یکے بعد دیگرے زبر دست لٹریچر شائع کیا جن میں فتح اسلام (۱۸۹۱ء)، چشمہ مسیحی (۱۹۰۶ء) اور نزول مسیح (۱۹۰۹ء ) جیسی تصنیفات بھی شامل تھیں.اس سے عیسائیت کی پوری عمارت متزلزل نظر آنے لگی جو عیسائیوں کے لئے نا قابل برداشت تھا.چونکہ اس وقت انگریزی کی حکومت پورے جاہ وجلال کے ساتھ ہندوستان میں قائم تھی اور انگریزی اور ہندوستانی نژاد پادری حکومت کے ایوانوں میں گہرے اثر و رسوخ کے حامل تھے اس لئے انہوں نے مرزا صاحب کے خلاف ایک زبر دست محاذ بنالیا اور آپ کو ہر طرح سے آزار پہنچانے میں مصروف ہو گئے.آپ کو کئی مقدمات میں پھنسا کر خوار کرنے کی سعی کی گئی.اس بات کے باوجود کہ بہت سے مسلمان زعما مرزا غلام احمد صاحب کے اسلام کی حمایت کے بے پناہ جوش و جذبے کی وجہ سے آپ کو زبر دست خراج عقیدت پیش کر چکے تھے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مرزا صاحب کی سب سے زیادہ اور مسلسل مخالفت بھی مسلمان علماء کی طرف سے کی گئی.ہندوستان کے طول وعرض سے جن میں
۴۲ دلی ، آگرہ، حیدر آباد دکن، بنگال، کانپور ، علی گڑھ ، بنارس ، اعظم گڑھ ، آرہ ، لکھو کے غازی پور، ترہٹ، بھوپال، لدھیانہ، امرتسر، سوجان پور، لاہور ، بٹالہ، پٹیالہ (فیروز پور ) ، پشاور ، سوات، راولپنڈی، ہزارہ، جہلم، گجرات، سیالکوٹ ، وزیر آباد، سوہدرہ، کپورتھلہ ، گنگوہ ، دیو بند ، سہارنپور لکھنو ، پٹنہ، مراد آباد، غرضیکہ ہندوستان کے تمام اہم مقامات کے علماء نے مرزا صاحب کے کفر، ارتداد اور خارج از اسلام کے فتوے دیئے اور آپ کی ناکامی کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا.یہ مخالفت آج تک جاری ہے.یہاں تک کہ ۱۹۷۴ء میں علماء کی ایک ملک گیر متشددانہ تحریک کے بعد حکومت پاکستان نے مرزا غلام احمد صاحب اور آپ کے پیروکاروں کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کا قانون پاس کر دیا.یادر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں اُمت کے علماء کو بنی اسرائیل کے انبیا کی طرح قرار دیا.وہاں بعض علماء کو روئے زمین پر بدترین مخلوق بھی قرار دیا حضرت شیخ محی الدین ابن عربی اور حضرت شیخ احمد سرہندی مجددالف ثانی کے اقوال ہیں کہ جب امام مہدی مبعوث ہوں گے تو ان کے شدید ترین مخالف علماء اسلام ہی ہونگے.
۴۳ باب سوئم مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور علما کی عقائد کی اختلافی تشریحات مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی قائم کردہ جماعت احمدیہ اور دوسرے مسلمان فرقوں کے درمیان عقائد کی تشریحات میں اختلاف کی تاریخ کافی طویل اور کم از کم ایک صدی پر محیط ہے.مرزا صاحب اسلام کو جملہ مذاہب کے پیروکاروں کے لئے لازمی طور پر قابل تقلید سمجھتے تھے اس لئے ان کے اختلاف خالصیۂ علمی اور منطقی تھے.چونکہ آئندہ ابواب میں ہم مرزا صاحب اور ان کے مخالفین کے درمیان کئی روحانی معرکوں کے احوال بیان کریں گے اس لئے مناسب ہوگا کہ یہاں ان عقائد کی تشریح کا مختصر جائزہ پیش کر دیا جائے جن میں مرزا صاحب اور دوسرے علما کے درمیان شدید اختلاف تھا تا کہ اگلے ابواب میں بیان کردہ حقائق کو سمجھنے میں مددمل سکے.1- عقیدہ وفات و حیات مسیح علیہ السلام : اکثر مسلمان اور عیسائی فرقے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام واقعہ صلیب سے لے کر اب تک یعنی تقریباً ۲ ہزار سال سے آسمان پر زندہ موجود ہیں اور کسی وقت آخری زمانے میں پھر زمین پر نازل ہوں گے.اگر اہلِ اسلام اور مسیحیوں
۴۴ کے بیان میں فرق ہے تو صرف یہ ہے کہ عیسائی اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے صلیب پر جان دے دی اور پھر زندہ ہو کر مع جسم عنصری آسمان پر چڑھ گئے اور اپنے باپ یعنی خدا کے دائیں ہاتھ جا بیٹھے اب وہ آخری زمانے میں انصاف قائم کرنے کے لئے زمین پر تشریف لائیں گے.عیسائی یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ دنیا کا خدا اور خالق اور مالک وہی یسوع مسیح ہے اس کے سوا اور کوئی نہیں.وہی ہے جو دنیا کے اخیر میں سزا جزا دینے کے لئے جلالی طور پر نازل ہوگا.اس کے مقابلے میں مسلمانوں کا عقیدہ جزوی طور پر مختلف ہے.وہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے بلکہ عین اس وقت جب یہودیوں نے ان کو صلیب پر لٹکانا چاہا خدا کا فرشتہ ان کو مع جسم عنصری آسمان پر لے گیا جہاں وہ اب تک زندہ ہیں نیز مسلمان یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ آخری زمانے میں دمشق کے منارہ کے قریب یا کسی اور جگہ اُتریں گے اور امام محمد مہدی کے ساتھ مل کر جو پہلے سے نبی فاطمہ میں سے دنیا میں آیا ہو گا دنیا کی تمام غیر قوموں کو قتل کر دیں گے بجز اس کے جو مسلمان ہو جائیں، صلیب کو توڑ ڈالیں گے وغیرہ وغیرہ.جماعت اسلامی کے بانی و سابق امیر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی صاحب نزول مسیح کے متعلق فرماتے ہیں کہ د مسیح علیہ السلام کا نزول ثانی مسلمانوں کے درمیان ایک متفق علیہ مسئلہ ہے.اس کی بنیاد قرآن وحدیث اور اجماع امت پر ہے.اس بنا پر یہ بات یقینی ہے اور اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کی ضرور خبر دی ہے.
۴۵ نا قابلِ تردید شہادتوں سے ثابت ہے.اگر ایسی شہادتوں کو بھی رڈ کیا جاسکتا ہے تو پھر دنیا کا کوئی تاریخی واقعہ بھی قابل قبول نہیں ہوسکتا...پہلی صدی سے آج تک اُمت کے علما اور فقہا اور مفسرین اور محدثین کا بھی اس بات پر اجماع ہے کہ مسیح کی آمد ثانی کی خبر صحیح ہے....جو کچھ احادیث سے ثابت ہے اور جس پر امت کا اجماع ہے وہ کسی مثیل مسیح کی پیدائش نہیں ہے بلکہ عیسی ابن مریم کا نزول ہے.تمام احادیث بلا استثناء اس امر کی تشریح کرتی ہیں کہ آنے والے وہی ہیں.کسی حدیث میں عیسی ، کسی میں ابن مریم اور کسی میں عیسی ابن مریم کے الفاظ ہیں.ظاہر ہے عیسی ابن مریم ایک شخص کا ذاتی نام ہے اور اس کے نزول کی خبر لا محالہ اس کی ذات کے نزول کی خبر ہی ہوسکتی ہے.اگر کوئی اس خبر کو قبول کرے تو اسے یہ قبول کرنا ہوگا کہ وہی شخص خاص دوبارہ آئے گا جواب سے دو ہزار سال پہلے بنی اسرائیل میں مریم علیہ السلام کے بطن سے پیدا ہوا تھا.اگر کوئی شخص اسے رڈ کر دے تو اسے سرے سے مسیح موعود کے تخیل ہی کو ر ڈ کر دینا ہو گا.“ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے ان اعتقادات سے اختلاف کی بنیاد الہام الہی قرار دیتے ہوئے لکھا کہ مسلمانوں کے ساتھ بڑی ہمدردی یہ ہے کہ ان کی اخلاقی حالتوں کو درست کیا جائے اور ان کی ان جھوٹی امیدوں کو کہ ایک خونی مہدی ل : فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت.مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے دس نکات کے جواب.نکته ۱-۲
۴۶ اور مسیح کا ظاہر ہونا اپنے دلوں میں جمائے بیٹھے ہیں جو اسلامی ہدایتوں کی سراسر مخالف ہیں زائل کیا جائے...بعض علما کے یہ خیالات کہ مہدی خونی آئے گا اور تلوار سے اسلام کو پھیلائے گا یہ تمام خیالات قرآنی تعلیم کے مخالف اور صرف نفسانی آرزوئیں ہیں اور ایک نیک اور حق پسند مسلمان کے لئے ان خیالات سے باز آ جانے کے لئے صرف اس قدر کافی ہے کہ قرآنی ہدایتوں کو غور سے پڑھے...خدا تعالیٰ کا پاک کلام اس بات کا مخالف ہے کہ کسی کو دین میں داخل کرنے کے لئے قتل کی دھمکی دی جائے....تاہم میری ہمدردی نے تقاضا کیا کہ تاریخی واقعات وغیرہ روشن ثبوتوں سے بھی مذکورہ بالا عقائد کا باطل ہونا ثابت کروں سو میں اس کتاب (مسیح ہندوستان میں.ناقل ) میں یہ ثابت کروں گا کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلوب نہیں ہوئے اور نہ آسمان پر گئے اور نہ کبھی اُمید رکھنی چاہیے کہ وہ پھر زمین پر آسمان سے نازل ہو نگے بلکہ وہ ایک سو بیس برس کی عمر پا کر سرینگر کشمیر میں فوت ہو گئے اور سری نگر محلہ خان یار میں ان کی قبر ہے.1 مرزا صاحب نے اپنے اس الہامی نظریے کو پایہ ثبوت تک پہنچانے کے لئے زبر دست لٹریچر شائع کیا جس میں حضرت مسیح علیہ السلام کی طبعی وفات کو صحیح ثابت کرنے کے لئے انجیل ، قرآن ، حدیث ، کتب طبابت، تاریخ، زبانی روایات، : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۹ء مسیح ہدوستان میں طبع اول صفحہ ۱۲
۴۷ قرائن وقوعہ، منطقی دلائل اور خدا تعالیٰ کے تازہ الہام سے ملنے والی شہادتوں کو کھول کر بیان کیا.آپ کے متعدد رسائل اور کتب مثلاً فتح اسلام (۱۸۹۱ء) ، توضیح مرام (۱۸۹۱ء)، ازالہ اوہام (۱۸۹۱ء) ، مباحثہ دہلی (۱۸۹۱ء) ، مسیح ہندوستان میں (۱۸۹۹ء) اور حقیقۃ الوحی (۱۹۰۷ء) میں متعدد مسائل کے علاوہ مسیح علیہ السلام کی طبعی وفات پر روشنی ڈالی گئی ہے.علاوہ ازیں جماعت احمدیہ کے کئی محققین نے حضرت مسیح علیہ السلام کی طبعی وفات اور ان کے سرینگر کی طرف سفر اور تدفین پر علمی بحث کی ہے.ان میں خواجہ نذیر احمد صاحب کی کتاب Jesus in Heaven on Earth، مولانا جلال الدین صاحب شمس کی کتاب ?Where did Jesus Die ، اور حسن محمد خاں عارف کی کتاب مقدس کفن کے علاوہ مختلف رسالوں میں چھپنے والے بے شمار مضامین شامل ہیں.جماعت احمدیہ کے ایک فاضل مولانا جلال الدین صاحب شمس نے متعدد ایسے اقوال علماء، احادیث اور قرآنی حوالوں کو اس نظریے کی حمایت میں درج کیا ہے کہ ظہور مسیح سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جسمانی ظہور نہیں بلکہ اس سے ایک مثیل مسیح کی آمد مراد ہے.مثلاً امام سراج الدین ابن الوردی کا یہ قول کہ ( ترجمہ ) پھر تاویل کرنے والوں نے نزول عیسی کے بارے میں اختلاف کیا ہے.ان میں سے اکثر نے جو زیادہ سزا وار تصدیق ہیں یہ کہا ہے کہ عیسی علیہ السلام بذاتہ دنیا میں واپس آئیں گے اور ایک اور گروہ نے نزول عیسی سے ایک ایسے شخص کا ظہور مرادلیا ہے جو فضل وشرف میں عیسی علیہ السلام کے مشابہ ہو گا جیسے کہ تشبیہہ دینے کے لئے نیک آدمی
۴۸ کو فرشتہ اور شریر کو شیطان کہ دیتے ہیں مگر اس سے مراد فرشتہ یا شیطان کی ذات نہیں ہوتی اور ایک اور جماعت نے کہا ہے کہ عیسی علیہ السلام کی روح ایک شخص کے جسم میں آئے گی جس کا نام عیسی ہوگا اور آخری دو آراء بے حقیقت ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی زیادہ جانتا ہے کہ حقیقت کیا ہے.مندرجہ بالا بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ اُمت محمدیہ میں نزول مسیح کے بارے میں ایک سے زائد تصورات رہے ہیں جن میں ایک نظر یہ مرزا غلام احمد صاحب کے بیان سے مماثلت رکھتا ہے مثلاً مولانا سید سلیمان ندوی ، علامہ اقبال کے استفسار کے جواب میں لکھتے ہیں کہ مجھے جہاں تک علم ہے نزول مسیح کا انکار کسی نے نہیں کیا.معتزلہ کی کتا ہیں نہیں ملتیں جو حال معلوم ہو البتہ ابن خرم وفات مسیح کے قائل تھے ساتھ ہی نزول کے بھی.“ ہے علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال خود لکھتے ہیں کہ وو ” جہاں تک میں اس تحریک کا مفہوم سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ مرزائیوں کا یہ عقیدہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام ایک فانی انسان کی مانند جام مرگ نوش فرما چکے ہیں نیز یہ کہ ان کے دوبارہ ظہور کا مقصد یہ ہے کہ 1 : امام سراج الدین ابن الوردی ( وفات ۷۴۹ ہجری) - فريدة العجائب وفريده الرغائب.مطبوعہ التقويم العلمی مصر صفحه ۱۴ ہے : اقبال نامہ.مجموعہ مکاتیب اقبال حصہ اوّل مرتبہ شیخ عطاء اللہ صفحہ ۱۹۶ ( حاشیہ )
۴۹ روحانی اعتبار سے ان کا ایک مثیل پیدا ہوگا.کسی حد تک معنویت کا رنگ لئے ہوئے ہے.“ ! ان نمونہ پیش کی گئی آراء سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرزا صاحب اپنے نکتہ نظر میں تنہا نہ تھے بلکہ اولین میں سے بھی اور زمانہ حال کے علما میں سے بھی کئی اس بات کے قائل تھے کہ مسیح علیہ السلام طبعی وفات پاچکے ہیں نہ کہ ۲ ہزار سال سے زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں.اگر چہ اس بحث کو صدیاں گزرگئی ہیں لیکن عام مسلمان ابھی تک وفات مسیح کے قائل نہیں مگر مرزا غلام احمد صاحب نے وفات مسیح کا ایک واضح اور حتمی اعلان کر دیا ہوا ہے.آپ لکھتے ہیں کہ در مسیح موعود کا آسمان سے اتر نامحض جھوٹا خیال ہے.یا درکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اُترے گا.ہمارے سب مخالف جواب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی ان میں سے عیسی بن مریم کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گا اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور ان میں سے بھی کوئی آدمی عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر اولا د کی اولا دمرے گی وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گی.تب خدا ان کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گذر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسی اب تک آسمان سے نہ اُتر ا تب دانشمند یکدفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن روز نامه آزاد - ۲۱ را پریل ۱۹۵۰ء
سے پوری نہیں ہو گی کہ عیسی کا انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سب نو امید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدے کو چھوڑ دیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے اے ظهور امام مهدی موعود اور مسئلہ ختم نبوت: وفات مسیح علیہ السلام پر جو مسلک مرزا صاحب نے اپنا یا اس سے دو اور زبر دست اختلافات نے جنم لیا.ایک مسئلہ ظہور امام مہدی اور دوسرا مسئلہ ختم نبوت.ہم بیان کر چکے ہیں کہ اکثر مسلمان فرقوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام زندہ آسمان پر موجود ہیں اور وہ بجسم عنصری نازل ہوکر پہلے سے مبعوث امام محمد مہدی کے ساتھ مل کر بزور طاقت اسلام کی اشاعت کریں گے.مرزا صاحب نے الہام الہی کی بنیاد پر ان تصورات کی نفی کی.پہلے تو یہ کہ آپ نے مسیح ابن مریم کی طبعی موت کا نظریہ اور علمی تحقیقی ثبوت مہیا کر کے ان کے بجسم عنصری نزول کے تصور کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اس کے ساتھ ہی آپ نے مثیل مسیح کے نازل ہونے کا نظریہ پیش کیا بلکہ یہ بھی بتایا کہ آخری زمانے میں مبعوث ہونے والا مہدی موعود اور مسیح موعود دراصل ایک ہی وجود کے دو نام ہیں.ہم قبل ازیں لکھ چکے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ان کو اس زمانے کے لئے مسیح و مہدی کے مقام کے لئے چن لیا ہے.مرزا صاحب کے اس لا : مرزا غلام احمد صاحب ۱۹۰۳- تذکرۃ الشہا دتین صفحه ۹۳
۵۱ دعویٰ سے مسئلہ ختم نبوت کی بحث شروع ہوئی جو آج تک عام مسلمانوں اور جماعت احمدیہ کے درمیان جاری ہے.ہم مرزا صاحب کے موافقین اور مخالفین دونوں کی آراء پیش کریں گے تاکہ قارئین از خود مواز نہ کر سکیں.ظہور مہدی موعود کے متعلق مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کہتے ہیں کہ اس مسئلہ میں دوستم کی احادیث پائی جاتی ہیں.ایک وہ جن میں لفظ مہدی کی تصریح ہے.دوسری وہ جن میں ایک ایسے خلیفہ کی خبر دی گئی ہے جو آخری زمانے میں پیدا ہوگا اور اسلام کو غالب کر دے گا.ان دو قسم کی روایات میں سے کسی ایک کا بلحاظ سند پایہ نہیں ہے کہ امام بخاری کے معیار تنقید پر پورا اُترتا.چنانچہ انہوں نے اپنے مجموعہ حدیث میں کسی کو بھی درج نہیں کیا....تاہم یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ تمام روایات بالکل ہی اصل ہیں.تمام آمیزشوں سے الگ کر کے ایک بنیادی حقیقت ان سب میں مشترک ہے اور وہی اصل حقیقت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانے میں ایک ایسے لیڈر کے ظہور کی پیشگوئی فرمائی ہے جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا ظلم و ستم مٹادے گا سنت نبوی پر عمل کرے گا اسلام کو غالب کرے گا...مرزا غلام احمد صاحب اور آپ کی جماعت کا عقیدہ عام مسلمانوں سے بالکل ہٹ کر ہے.ایک تو یہ کہ مرزا صاحب نے وضاحت سے بیان کر دیا کہ مسیح علیہ السلام ل : فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت ۱۹۵۳ء - مولانا ابو الاعلیٰ مودودی ، دس نکات کا جواب.صفحات ۴-۵
۵۲ فوت ہو چکے ہیں اور ان کی جگہ امت محمدیہ کے ہی ایک ایسے فرد کو مسیح موعود بن کر مبعوث ہونا تھا جو اپنی صفات میں مثیل مسیح ہوا اور دوسرے یہ کہ مسیح اور مہدی کا نزول الگ الگ نہیں بلکہ ایک ہی شخص کے دو نام ہیں جیسا کہ ابن ماجہ میں درج ہے کہ ” لَا الْمَهْدِيُّ إِلَّا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ لَ د یعنی مہدی عیسی ابن مریم ہوں گے اس کے سوا کوئی اور مہدی نہیں اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ مہدی اور عیسی ایک ہی شخص ہو گا.جماعت احمدیہ کی طرف سے مولانا جلال الدین صاحب شمس ہے اور قاضی محمد نذیر صاحب سے اس مسئلہ پر جماعت احمدیہ کے نکتہ نظر کو قرآنی آیات اور احادیث اور علمائے اُمت کے اقوال کی روشنی میں تفصیل سے بیان کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کے مسیح موعود اور مہدی موعود کے متعلق نظریات کو بہت سی احادیث ، اقوال علمائے امت اور قرآن سے تقویت حاصل ہوتی ہے.ان تصریحات کی روشنی میں جب مرزا صاحب نے دعوی کیا کہ خدا تعالیٰ نے بذریعہ الہام انہیں مسیح موعود اور مہدی موعود کے مقام پر فائز کیا ہے اور امتی نبی کا مرتبہ بخشا ہے تو مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت نے مرزا صاحب کے دعوی نبوت کو محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبین ہونے کے منافی تعبیر کیا.ہم پچھلے صفحات پر ابن ماجہ مطبوعہ مصر جلد ۲ صفحہ ۲۵۷ : مولانا جلال الدین شمس ۱۹۵۳ء.فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت کے دس سوالوں کے جواب صفحات ۲۱ تا ۳۴ ۳ : قاضی محمد نذیر لاسکیپوری ۱۹۷۲ء - امام مہدی کا ظہور ،۳۲ صفحات
۵۳ اختصار کے ساتھ مرزا صاحب کے دعاوی کا ذکر کر چکے ہیں جن میں یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ مرزا صاحب اور ان کے پیروکار نہ صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین مانتے ہیں بلکہ اپنے آپ کو ختمی مرتبت کا سب سے بڑا عاشق ہونے پر ایمان رکھتے ہیں لیکن دوسری طرف مسلمانوں کی اکثریت اس تشریح و تفسیر کو تسلیم نہیں کرتے جو مرزا صاحب قرآن اور حدیث میں درج لفظ خاتم النبیین کی کرتے ہیں.منصف مزاج قارئین کے لئے ہم مرزا صاحب اور آپ کے مخالفین کی طرف سے پیش کردہ تشریحات درج کر دیتے ہیں جس سے آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ مرزا صاحب اور جماعت احمدیہ کے خلاف انتہائی گندی زبان میں فتاویٰ کفر کی حقیقت کیا ہے.ا خاتم النبین : مرزا غلام احمد صاحب کی تشریح: مرزا صاحب نے اپنی زندگی میں ۹۰ کے لگ بھگ اردو، عربی اور فارسی میں نہایت اعلیٰ معیار کی تصنیفات کیں جن میں اپنے عقائد کو کھول کر بیان کیا.خاتم النبین کے بارے میں اپنا موقف بیان کرتے ہوئے آپ نے لکھا کہ ”ہمارا اعتقاد ہے کہ ہمارے رسول (سید نا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ) تمام رسولوں سے بہتر اور سب رسولوں سے افضل اور خاتم النبین ہیں اور افضل ہیں ہر ایسے انسان سے جو آئندہ آئے یا گذر چکا ہو.اے دہم اس آیت پر سچا اور کامل یقین رکھتے ہیں جو فرمایا.وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ " ل ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۲ء- آئینہ کمالات اسلام - صفحه ۳۲۷ : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۱ء.ایک غلطی کا ازالہ
۵۴ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیا ٹھہرایا جس کے یہ معنے ہیں کہ آپ کے بعد براہ راست فیوض نبوت منقطع ہو گئے اور اب کمال نبوت صرف اسی شخص کو ملے گا جو اپنے اعمال پر اتباع نبوی کی مہر رکھتا ہوگا اور اس طرح پر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا اور وارث ہوگا.” صرف اسی نبوت کا دروازہ بند ہے جو احکام شریعت جدیدہ ساتھ رکھتی ہو یا ایسا دعویٰ ہو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے الگ ہو کر دعویٰ کیا جائے لیکن ایسا شخص جو ایک طرف اس کو خدا تعالیٰ اس کی وحی میں اُمتی بھی قرار دیتا ہو پھر دوسری طرف اس کا نام نبی بھی رکھتا ہو.یہ دعویٰ قرآن شریف کے احکام کے مخالف نہیں کیونکہ یہ نبوت باعث امتی ہونے کے دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ایک ظل ہے کوئی مستقل نبوت نہیں.‘‘۲ اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں.شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہوسکتا ہے مگر وہی جو پہلے امتی ہو.“ ”ہمارے سید و مولی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جس قدر خدا تعالیٰ کی طرف سے نشان اور معجزات ملے وہ صرف اس زمانہ تک محدود نہ تھے بلکہ قیامت تک ان کا سلسلہ جاری ہے اور پہلے زمانے میں جو ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۲ء - ریویو بر مباحثہ بٹالوی و جکڑالوی صفحات ۶.۷ سے : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۹۸ء - براہین احمدیہ حصہ پنجم ضمیمه صفحه ۱۸ : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۶ء تجلیات الہیہ صفحہ ۲۶
۵۵ ۲- کوئی نبی ہوتا تھا وہ کسی گزشتہ نبی کی اُمت نہیں کہلا تا تھا گو اس کے دین کی نصرت کرتا تھا اور اس کو سچا جانتا تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ایک خاص فخر دیا گیا ہے کہ وہ ان معنوں سے خاتم الانبیا ہیں کہ ایک تو تمام کمالات نبوت اُن پر ختم ہیں اور دوسرے یہ کہ ان کے بعد کوئی نئی شریعت لانے والا رسول نہیں اور نہ کوئی ایسا نبی ہے جو اُن کی اُمت سے باہر ہو بلکہ ہر ایک کو جو شرف مکالمہ الہیہ ملتا ہے وہ انہیں کے فیض اور انہیں کی وساطت سے ملتا ہے اور وہ امتی کہلاتا ہے نہ کہ مستقل نبی.“ 1 خاتم النبین : اکابرین ملت کی تشریح: ہم نیچے اکابرین ملت میں سے چند بزرگ اور قابل احترام ہستیوں کے بیانات کے اکتباسات درج کر رہے ہیں جو حیرت انگیز حد تک مرزا غلام احمد صاحب کی تشریح سے متفق ہیں.-1 حضرت شیخ محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں.( ترجمہ ) وہ نبوت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر منقطع ہوئی ہے وہ صرف تشریحی نبوت ہے نہ کہ مقام نبوت.اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کرنے والی کوئی شریعت نہیں آ سکتی.نہ اس میں کوئی حکم کم کر سکتی ہے نہ زیادہ.یہی معنی ہیں آنحضرت صلعم کے اس ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۸ ء- چشمہ معرفت خاتمه صفحه ۳۸۰
۵۶ -۲ قول کے کہ ان الرسالة و النبوة قد القطعت فلا رسول بعدى و لا نبی“ یعنی میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو میری شریعت کے خلاف کسی اور شریعت پر ہو.ہاں اس صورت میں نبی آ سکتا ہے کہ وہ میری شریعت کے ماتحت آئے.“ اے ایک اور تصنیف میں لکھتے ہیں کہ (ترجمہ) تشریعی نبوت اور رسالت بند ہو چکی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود پر اس کا انقطاع ہو گیا لہذا آپ کے بعد صاحب شریعت نبی کوئی نہ ہوگا.ہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر مہربانی فرما کر ان کے نبوت عامہ کو جس میں کوئی شریعت نہیں ہوتی جاری رکھا ہے.“ ہے حضرت امام سیوطی نے اپنی تفسیر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول درج کیا ہے فرمایا: قُولُوا إِنَّهُ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَلَا تَقُولُوا لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ “ ترجمہ: اے لوگو! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین ضرور کہو 66 مگر یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد نبی نہ آئے گا.“ سے حضرت امام عبدالوہاب شعرانی علیہ الرحمتہ (وفات ۹۷۶ھ) نے تحریر فرمایا ا : حضرت محی الدین ابن عربی.فتوحات مکیہ جلد ۲ صفحہ ۷۳ ہے : حضرت محی الدین ابن عربی.خصوص الحکم صفحات ۱۴۰-۱۴۱ س : تفسیر الدر المنثور السیوطی - جلد ۵ صفحه ۲۰۴ تکمله مجمع البحار صفحه ۸۵)
۵۷ الا که (ترجمه) یاد رکھو کہ مطلق نبوت بند نہیں ہوئی صرف تشریعی نبوت بند ہوئی ہے.“ -۴- حضرت مولانا روم علیہ الرحمۃ (وفات ۶۷۲ ھ ) فرماتے ہیں کہ (ترجمه) فکر کن در راه نیکو خد متے.تا نبوت یابی اندرا متے“ ہے دو نیکی کی راہ میں خدمت کی ایسی تدبیر کر کہ تجھے اُمت کے اندر نبوت مل جائے.-۵- حضرت امام ملاعلی قاری جو اہل سنت کے زبر دست عالم تھے فرماتے ہیں -Y که (ترجمه) خاتم النبیین کے معنے یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایسا نبی نہیں آ سکتا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرنے والا ہو اور آپ کی اُمت میں سے نہ ہو ۳ حضرت شیخ احمد سرہندی علیہ الرحمۃ مجدد الف ثانی (وفات ۱۰۳۴ ھ ) فرماتے ہیں کہ (ترجمہ) خاتم الرسل علیہ الصلوۃ والسلام کے مبعوث ہونے کے بعد خاص متبعین ا : حضرت امام عبدالوہاب شعرانی - البواقیت والجواہر جلد ۲ صفحہ ۳۵ : حضرت مولانا روم - مثنوی مولانا روم - دفتر اول صفحه ۵۳ : حضرت امام ملاعلی قاری - موضوعات کبیر صفحہ ۶۹
۵۸ آنحضرت کو بطور وراثت کمالات نبوت کا حاصل ہونا آپ کے خاتم الرسل ہونے کے منافی نہیں.یہ بات درست ہے اس میں شک نہ کرو.‘1 حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ( وفات ۶ ۱۱۷ھ) فرماتے ہیں کہ (ترجمہ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبین ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اب کوئی ایسا شخص نہیں ہوگا کہ جسے اللہ تعالیٰ لوگوں کے لئے شریعت دے کر مامور فرمائے یعنی شریعت جدید لانے والا کوئی نبی نہ ہو گا.“ ہے - حضرت مرزا مظہر جان جاناں علیہ الرحمۃ (وفات ۱۷۸۱ء) نے فرمایا کہ (ترجمہ) سوائے مستقل نبوت تشریعہ کے کوئی کمال ختم نہیں ہوا.باقی فیوض +1- میں اللہ تعالیٰ کے لئے کسی قسم کا بخل اور تر دو ممکن نہیں.“ سے جناب مولوی عبدالحی صاحب لکھنوی ( وفات ۱۸۸۴ء) لکھتے ہیں کہ بعد آنحضرت صلعم کے یا زمانے میں آنحضرت صلعم کے مجرد کسی نبی کا ہونا محال نہیں بلکہ صاحب شرع جدید ہونا البتہ منع ہے.مولا نا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیو بند لکھتے ہیں کہ عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلعم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب سے آخری ا : حضرت مجددالف ثانی علیہ الرحمۃ - مکتوبات امام ربانی.مکتوب ۳۰۱، جلد اول صفحہ ۴۳۲ : حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی.تفہیمات الہیہ.برقی پریس بجنور جلد۲ صفحہ ۷۲ حضرت مرزا مظہر جان جاناں علیہ الرحمۃ - مقامات مظہری صفحه ۸۸ : مولوی عبدالحی لکھنوی.رسالہ دافع الوساوس صفحه ۱۲
۵۹ نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں.پھر مقام مدح میں وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتا ہے.ہاں اگر اس وصف کو اوصاف مدح میں سے نہ کہیے اور اس مقام کو مقام مدح قرار نہ دیجئے تو البتہ خاتمیت باعتبار تاخر زمانی صحیح ہو سکتی ہے.مگر میں جانتا ہوں کہ اہل اسلام میں سے کسی کو یہ بات گوارا نہ ہوگی.‘1 ایک اور جگہ مولا نا صاحب فرماتے ہیں کہ اگر خاتمیت بمعنی اتصاف ذاتی بوصف نبوت لے لیجئے جیسا کہ اس بیچمدان نے عرض کیا ہے تو پھر سوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کسی کو افراد مقصود بالخلق میں سے مماثل نبوی نہیں کہہ سکتے بلکہ اس صورت میں فقط انبیا کے افراد خاجی ہی پر آپ کی فضیلت ثابت نہ ہوگی افراد مقدرہ پر بھی آپ کی فضیلت ثابت ہو جائے گی بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا.“ ہے - خاتم النهمین : موجودہ دور کے علما کی تشریح: عام مسلمان علماء بڑی کثرت سے اس بات پر اعتقاد رکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر قسم کی نبوت ختم ہو چکی اور آپ کے بعد تشریعی یا غیر تشریعی کسی قسم کا لے : مولا نا محمد قاسم نانوتوی - تحذیر الناس صفحہ ۳ ے : مولا نا محمد قاسم نانوتوی -تحذیر الناس صفحہ ۲۸
نبی نہیں آسکتا اور ان کے نزدیک یہی خاتم النبین کی صحیح تفسیر ہے اور اس سے اختلاف نا قابل قبول ہے.مثلاً مولانا ابوالاعلیٰ مودودی بانی وسابق امیر جماعت اسلامی لکھتے ہیں کہ ختم نبوت کی یہ تعبیر کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی اور کسی نوعیت کا نبی نہیں آ سکتا.اس عقیدے کی بنیاد قرآن ، سنت اور اجماع ہے.مسئلہ خاتم النبین پر مجلس عمل نے پنجاب کے فسادات کی تحقیقاتی عدالت کے سامنے جملہ فرقہ ہائے مسلمانان پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ بیان دیا کہ اُمت محمدیہ کا ایمان ہے کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں.ان پر سلسلہ وحی اور نبوت ختم ہو چکا ہے اور قرآن مجید اللہ کی آخری وحی اور آخری الہام ہے.“ ہے قارئین کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ لفظ خاتم النبین کی جو تشریح مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے کی اور جس کی بنا پر آپ کے خلاف کفر کے فتوے جاری کئے گئے وہی عقیدہ بہت سے اکابرین ملت اور صلحا کا ہے یہاں تک کہ موجودہ دور کے مدرستہ العلوم، دیو بند کے بانی مولا نا محمد قاسم نانوتوی بھی وہی عقیدہ رکھتے تھے.ان حالات میں جن عقائد کے اختلاف کے باعث مرزا صاحب کو کافر کہا جا رہا ہے.انہی کی بنیاد پر بہت ل : مولانا ابو الاعلیٰ مودودی ۱۹۵۳ء - فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت کے دس نکات کے جواب صفحه ۸ ے : مولانا جلال الدین شمس - فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت کے دس سوالات کے جوابات اور مولانا مودودی کے جوابات پر تبصرہ صفحہ ۱۵۴
۶۱ سے بزرگان دین کی تکفیر لازم آتی ہے.فاعتبر و یا اولی الابصار.111 - اسلام اور مرزا غلام احمد قادیانی: گزشتہ صفحات پر ہم نے ان ۲-۳ بنیادی عقائد کا ذکر کیا ہے جن کی تشریح کے بارے میں مرزا صاحب اور موجودہ دور کے علما میں واضح اختلاف ہے.اصل معاملے کو سمجھنے کے لئے ہم نے احادیث اور اکابرین اسلام کے کچھ اقوال بطور نمونہ بھی درج کر دیئے ہیں.اب ہم مرزا غلام احمد صاحب کے اسلام کے ساتھ تعلق کے چند نمونے اُنہی کے الفاظ میں پیش میں کرتے ہیں تا کہ مرزا صاحب کے اعتقادات کو سمجھنے میں مدد ملے آپ لکھتے ہیں کہ ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور سید نا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول اور خاتم الانبیا ہیں اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائک حق اور حشر اجساد حق اور روز حساب حق اور جنت حق اور جہنم حق ہے.اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو کچھ اللہ جل شانہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے وہ سب بلحاظ بیان مذکورہ بالا حق ہے اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو شخص اس شریعت اسلام میں سے ایک ذرہ کم کرے یا ایک ذرہ زیادہ کرے یا ترک فرائض اور اباحت کی بنیاد ڈالے وہ بے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے اور ہم اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ بچے دل سے اس کلمہ طیبہ پر ایمان رکھیں کہ
۶۲ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ اور اسی پر مریں اور تمام انبیا اور تمام کتابیں جن کی سچائی قرآن شریف سے ثابت ہے ان سب پر ایمان لاویں اور صوم اور صلوۃ اور حج اور خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقرر کردہ تمام فرائض کو فرائض سمجھ کر اور تمام منہیات کو منہیات سمجھ کر ٹھیک ٹھیک اسلام پر کار بند ہوں.غرض وہ تمام امور جن پر سلف صالح کو اعتقادی اور عملی طور پر اجماع تھا اور وہ امور جو اہلِ سنت کی اجماعی رائے سے اسلام کہلاتے ہیں.ان سب کا ماننا فرض ہے اور ہم سب آسمان اور زمین کو اس بات پر گواہ کرتے ہیں کہ یہی ہمارا مذ ہب ہے." ! مرز اصاحب ایک دوسری تصنیف میں لکھتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں.خدائے واحد لا شریک پر ایمان لاتے ہیں اور کلمہ لا الہ الا اللہ کے قائل ہیں اور خدا کی کتاب قرآن اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خاتم الانبیا ہے مانتے ہیں اور فرشتوں اور یوم البعث اور دوزخ اور بہشت پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز پڑھتے اور روزہ رکھتے ہیں اور اہل قبلہ ہیں اور جو کچھ خدا اور رسول نے حرام کیا اس کو حرام سمجھتے ہیں اور جو کچھ حلال کیا اس کو حلال قرار دیتے ہیں اور نہ ہم شریعت میں کچھ بڑھاتے ہیں اور نہ کم کرتے ہیں اور ایک ذرہ کی کمی بیشی نہیں کرتے اور جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لے : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۹ ء ایام الصلح صفحات ۸۶-۸۷
۶۳ ہمیں پہنچا اس کو قبول کرتے ہیں چاہے ہم اس کو سمجھیں یا اس کے بھید کو نہ سمجھ سکیں اور اس کی حقیقت تک پہنچ نہ سکیں اور ہم اللہ کے فضل سے مومن موحد مسلم ہیں.“ گزشتہ صفحات پر ہم نے وفات وحیات مسیح علیہ السلام، ظہور مہدی موعود اور مسئلہ خاتم نبوت پر مرزا صاحب عام مسلمان علما اور احادیث اورا کا برین کی آراء کے چند نمونے پیش کئے ہیں اور پھر مرزا صاحب کی اسلام کے ساتھ وابستگی ان کے اپنے الفاظ میں بیان کی ہے.اب ہم کم از کم دو ایسی تحریروں کے اقتباسات درج کر رہے ہیں جن میں مرزا صاحب نے اپنے الہامات اور دعویٰ نبوت کی نوعیت بیان کی ہے.ا ” میں اُسی خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جیسا کہ اس نے ابراہیم -1 سے مکاملہ مخاطبہ کیا تھا اور پھر اسماعیل سے اور اسحق سے اور یعقوب سے اور یوسف سے اور موسیٰ سے اور مسیح ابن مریم سے اور سب کے بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہم کلام ہوا کہ آپ پر سب سے زیادہ پاک وحی نازل کی ایسا ہی اس نے مجھے بھی اپنے مکالمہ مخاطبہ کا شرف بخشا ہے مگر یہ شرف مجھے محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے حاصل ہوا ہے.اگر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں نہ ہوتا اور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں ہرگز کبھی یہ شرف مکالمہ مخاطبہ کانہ پاتے : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۴ء- نورالحق حصہ اول صفحه۵۰
۶۴ وو ۲ - یہ الزام جو میرے ذمہ لگایا جاتا ہے کہ گویا میں ایسی نبوت کا ذکر کرتا ہوں جس سے مجھے اسلام سے کچھ تعلق باقی نہیں رہتا اور جس کے یہ معنی ہیں کہ میں مستقل طور پر اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتا ہوں کہ قرآن شریف کی پیروی کی کچھ حاجت نہیں رکھتا اور اپنا علیحدہ کلمہ اور علیحدہ قبلہ بناتا ہوں اور شریعت اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء اور متابعت سے باہر جاتا ہوں یہ الزام صحیح نہیں ہے اور ایسا دعویٰ نبوت کا میرے نزدیک کفر ہے اور نہ آج سے بلکہ اپنی ہر کتاب میں ہمیشہ میں یہی لکھتا آیا ہوں کہ اس قسم کی نبوت کا مجھے کوئی دعویٰ نہیں اور یہ سراسر میرے پر تہمت ہے اور جس بنا پر میں اپنے تئیں نبی کہلا تا ہوں وہ صرف اس قدر ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی ہمکلامی سے مشرف ہوں اور میرے ساتھ بکثرت بولتا اور کلام کرتا ہے اور میری باتوں کا جواب دیتا ہے اور بہت سی غیب کی باتیں میرے پر ظاہر کرتا اور آئندہ زمانوں کے وہ راز میرے پر کھولتا ہے کہ جب تک انسان کو اس کے ساتھ خصوصیت کا قرب نہ ہو دوسرے پر وہ اسرار نہیں کھولتا اور انہی امور کی کثرت کی وجہ سے اس نے میرا نام نبی رکھا ہے.“ ہے مندرجہ بالا دوسر اقتباس ہم نے مرزا صاحب کے اس خط سے لیا ہے جو آپ نے اپنی : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۲۲ء - تجلیات الہیہ : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۸ ء - اخبار عام لاہور.۲۶ مئی ۱۹۰۸ء صفحہ ۷
وفات سے ایک دن پہلے اخبار عام لا ہور کولکھا اور عین اس دن شائع ہوا جس دن آپ کا وصال ہوا.ان اعتقادات کی روشنی میں جو ہم نے یہاں درج کئے ہیں مسلمان علما کی اکثریت نے مرزا صاحب کے خلاف کفر کے فتوے جاری کر دیئے.ان میں چند فتاویٰ کے اقتباسات ہم نمونے کے طور پر درج کر رہے ہیں تا کہ اگلے ابواب میں ہم ان علما کا جو انجام درج کرنے جارہے ہیں اس کی وجوہ واضح ہوسکیں.- فتویٰ علم الدھیانہ مولوی محمد صاحب.مولوی عبد اللہ صاحب اور مولوی عبدالعزیز صاحب.۱۸۹۰ء شخص اور ہم عقیدہ اس کے اہل اسلام میں داخل نہیں اور اب بھی ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ یہ شخص اور جو لوگ اس کے عقائد باطلہ کوحق جانتے ہیں.شرعاً کافر ہیں.-۲- فتویٰ شیخ الکل مولوی سید نذیر حسین محدث دہلوی ۱۸۹۰ء اب مسلمانوں کو چاہیے کہ ایسے دجال ، کذاب سے احتراز کریں اور اس سے دینی معاملات نہ کریں جو اہل اسلام میں با ہم ہونے چاہیں نہ اس کی صحبت اختیار کریں اور نہ اس کو ابتد ا سلام کریں اور نہ اس کو دعوت مسنون میں بلاویں اور نہ اس کی دعوت قبول کریں اور نہ اس کی نماز جنازہ پڑھیں اگر انہی اعتقادات واقوال یہ رحلت کریں.رسالہ اشاعۃ السنہ ۱۸۹۰ ء - چهارم جلد ۱۲
۶۶ - مولوی عبدالصمد صاحب غزنوی ۱۸۹۲ء: یہ گمراہ کرنے والا چھپا مرتد ہے بلکہ وہ اپنے شیطان سے زیادہ گمراہ ہے جو اس سے کھیل رہا ہے.اگر یہ اپنے اس اعتقاد پر مرجائے تو اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے اور نہ مسلمانوں کی قبروں میں دفن کیا جائے.“ ہے - فتویٰ قاضی عبداللہ صاحب مدراسی ۱۸۹۳ء وہ شرع شریف کی رو سے مرتد ، زندیق و کافر ہے اور بمصداق ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے تمہیں دجالوں میں سے ایک ہے اور جس نے اس کی تابعداری کی وہ بھی کا فر و مرتد ہے.سے ہم نے علما کے صرف چند فتاوی کے مختصر اقتباسات درج کئے ہیں.قارئین کے لئے مرزا غلام احمد صاحب کے اعتقادات اور اسلام کے ساتھ ان کے قلبی تعلق کی ایک جھلک پچھلے صفحات پر دیکھی ہے جن عقائد کی تشریح میں مرزا صاحب اور علماء وقت میں واضح اختلاف تھا.ان کے بارے میں اکابرینِ اسلام میں سے چند ایک کی آراء ملاحظہ کی ہیں.اس کے بعد آپ کو اندازہ ہو چکا ہوگا کہ علما کے یہ فتاویٰ کس قدر ظالمانہ کا روائی تھی.لیکن یہ کتنا بھی مقام افسوس کیوں نہ ہو خدا کے رسول اور اس رسالہ اشاعۃ السنہ ۱۸۹۰ء- جلد ۱۳ صفحه ۶ رسالہ اشاعۃ السنہ ۱۸۹۲ء- جلد ۱۳ صفحہ ۷ : قاضی عبیدالله مدرسی ۱۸۹۳ء - فتوی در تکفیر منکر عروج جسمی و نزول عیسی علیہ السلام من مطیع محمدی.مدراس طبع اوّل صفحات ۶۶-۶۷ مطبوعه
۶۷ کے پیارے بندوں کی بتائی ہوئی باتیں بھی پوری ہونی ضروری ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں اپنی اُمت کے علما کو بنی اسرائیل کے مماثل قرار دیا ہے وہاں یہ بھی فرمایا کہ آخری زمانے کے بعض علما کو خط و زمین پر بدترین مخلوق بھی قرار دیا.ایسے ہی علما کے متعلق بزرگان دین کے چند فرمودات ہم آپ کے سامنے رکھتے ہیں جن کے مطالعہ سے یہ واضح ہو جائے گا کہ مرزا صاحب کے دعویٰ مسیح و مہدی موعود کی علماء کی طرف سے ہونی ضروری تھی : وو ا.حضرت شیخ محی الدین صاحب ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ (ترجمہ) ” جب یہ امام مہدی آئیں گے تو ان کے سب سے زیادہ دشمن اور مخالف معاند شدید اس زمانے کے علما وفقہا ہوں گے کیونکہ (مہدی موعود کی بعثت کے بعد ) ان کی عوام پر برتری اور ان کا امتیاز باقی نہ رہے گا.۲- حضرت شیخ احمد سرہندی مجددالف ثانی (۱۵۴۶-۱۶۲۴) فرماتے ہیں کہ علمائے ظواہر حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کے مجتہدات سے ان کے ماخذ کے کمال دقیق اور پوشیدہ ہونے کے باعث انکار کر جائیں گے اور ان کو کتاب وسنت کے مخالف جائیں گے.“ ہے.نواب صدیق حسن خان صاحب (۱۸۳۵-۱۸۸۹) لکھتے ہیں کہ ( ترجمہ ) حب امام مہدی علیہ السلام سنت رسول کو جاری کرنے اور بدعت وو ا : حضرت شیخ محی الدین ابن عربی ۱۳۷۲ھ - فتوحات مکیه مطبوعہ مصر جلد ۳ صفحه ۳۰۰۴ ہے : حضرت شیخ احمد سرہندی مجددالف ثانی.مکتوبات امام ربانی.مکتوب ۵۵ صفحه ۱۰۷
۶۸ کو مٹانے کی جنگ میں مصروف ہوں گے علمائے زمانہ جو اپنے فقہا کی تقلید اور اپنے مشائخ کی اقتدا کے خوگر ہیں کہیں گے کہ یہ شخص تو ہمارے دین وملت کے طریق کے برخلاف ہے اس لئے اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو جائیں گے اور اپنی سابقہ عادات کے موافق ان کو کافر اور گمراہ قرار دینے لگیں گے.‘ا.بزرگان دین کے یہ اقوال کس قدر صفائی سے پورے ہوئے اور کس قدر واضح طور پر علما نے مرزا صاحب کے خلاف کفر اور بے دینی کے فتوے جاری کئے اور کیسے صاف طرح سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق علما نے اپنا بدترین مخلوق ہونا ثابت کیا یہاں تک کہ علامہ اقبال کو کہنا پڑا کہ دین مُلا فی سبیل اللہ فساد.جس طرح دنیا بھر میں مسلمان علما نے اپنے اقوال وکردار سے بے دریغ اپنے مسلمان بھائیوں کا خون بہایا ہے اور جس قدر بین الاقوامی اور بین الفرقہ جاتی نفاق اور فسادات علما کی وجہ سے ہورہے ہیں اس کے لئے کسی خاص ثبوت یا وضاحت کی ضرورت نہیں.خدا کی باتیں پوری ہو کر رہتی ہیں.ہم نے ان صفحات میں مرزا صاحب اور مخالف علما کے نکتہ ہائے نگاہ پر تفصیلی بحث نہیں کی صرف اشارہ تذکرہ کر کے منصفانہ فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا ہے کہ کیا ایک علمی اور روحانی مسئلے پر عالمانہ رنگ میں بحث کرنے کے اور خدا سے راہنمائی کے طلب گار بننے متشددانہ راہ اختیار کرنا مناسب تھا ، جائز تھا یا مفید تھا.: نواب صدیق حسن خان ۱۲۹۱ھ.نجی الکرامہ مطبوعہ ۱۲۹۱ھ صفر ۳۶۳
14 ۶۹ باب چہارم جماعت احمدیہ کے مستقبل کے لئے مرزا صاحب کی پیشگوئیاں اب جب کہ مرزا غلام احمد صاحب کی جماعت کو قائم ہوئے ایک صدی پوری ہو رہی ہے اور آپ کو وفات پائے بھی ۸۰ سال سے زائد گذر چکے ہیں اور جماعت جن حالات میں سے گذر کر اور جن مخالفتوں اور مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے یہاں تک پہنچی ہے وہ اہل ملک کے سامنے ہیں.قادیان ایک گمنام، چھوٹا سا غیر اہم قصبہ تھا اور مرزا صاحب مزاجاً فطرتاً تنہائی پسند تھے.آہستہ آہستہ کس طرح براہین احمدیہ کی تصنیف نے مرزا صاحب کو سارے ہندوستان میں متعارف کروایا اور ایک معزز مقام دلوایا، کس طرح ارادتمندوں کا ایک گروہ آپ کے گرد جمع ہوا اور کتنی گھمبیر مخالفتوں اور فتاویٰ تکفیر کا آپ کو ابتدا سے ہی سامنا کرنا پڑا.پاکستان بننے کے بعد جماعت احمدیہ ۱۹۷۴ء اور ۱۹۷۷ء کے طوفانوں میں سے گذری اور اب تک گذر رہی ہے.مرزا صاحب نے ایک صدی پہلے جماعت احمدیہ کے مستقبل کے متعلق کیا کہا تھا اُن کی ایک جھلک قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث ہوگی.ا مرزا صاحب نے ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کو بذریعہ اشتہار اعلان کیا کہ
وو ” خدائے کریم جل شانہ نے مجھے بشارت دے کر کہا کہ تیرا گھر برکت سے بھرے گا.تیری ذریعت منقطع نہیں ہوگی خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے عزت کے ساتھ قائم رکھے گا اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچائے گا....اور ایسا ہوگا کہ وہ سب لوگ جو تیری ذلت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے نا کام رہنے کے در پے اور تیرے نابود کرنے کے خیال میں ہیں وہ خود ناکام رہیں گے اور نا کامی اور نامرادی میں مریں گے لیکن خدا تجھے بکلی کامیاب کرے گا اور تیری ساری مراد یں تجھے دے گا.میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گر وہ بھی بڑھاؤں گا اور ان کے نفوس واموال میں برکت دوں گا اور ان میں کثرت بخشوں گا.قارئین یہ مرزا صاحب کے ایک طویل الہام کا تھوڑا سا حصہ درج کیا گیا ہے.آج ایک صدی سے زائد کا عرصہ گذرنے کے بعد اس کے ایک ایک جملے کو پڑھیے اور پھر بتائیے کہ خدا کی خاص تائید کے بغیر کس طرح ممکن ہے کہ آج مرزا صاحب کی جسمانی اور روحانی اولا دا کناف عالم میں پھیلی ہوئی ہے.جولائی ۱۹۸۸ء میں اسلام آباد (لندن) میں ہونے والے جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ میں ایک سو سے زائد ممالک کے احمدی نمائندے شریک ہوئے اور کس طرح مرزا صاحب کے مخالفین علماء میں سے ہزاروں اس حسرت کے ساتھ دنیا سے چل دیئے کہ کس طرح مرزا صاحب : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۸۶ء- اشتہار رساله سراج منیر مشتمل بہ نشا نہائے رب قد برضمیمہ اخبار ریاض ہند، امرتسر یکم مارچ ۱۸۸۶ء.
اے نا کام ہوں لیکن ایسا نہ ہوسکا.-۲ مرزا صاحب نے اپنی کتاب ازالہ اوہام مطبوعہ ۱۸۹۱ء میں الہاماً لکھا کہ تو مغلوب ہو کر بظاہر مغلوبوں کی طرح حقیر ہو کر پھر غالب ہو جائے گا....کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک بھاری جماعت ہیں.یہ سب بھاگ جائیں گے اور پیٹھ پھیر لیں گے...میں تجھے زمین کے کناروں تک عزت دوں گا اور تیرا ذکر بلند کروں گا اور تیری محبت دلوں میں ڈال دوں گا.“ اے - مرزا صاحب اپنی کامیابی کے یقین کا انوار الاسلام مطبوعہ ۱۸۹۵ء میں اس طرح اظہار کرتے ہیں کہ یہ عاجز اگر چہ ایسے کامل دوستوں کے وجود سے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے لیکن باوجود اسکے یہ بھی ایمان ہے کہ اگر چہ ایک فرد بھی ساتھ نہ رہے اور سب چھوڑ چھاڑ کر اپنا اپنا راہ لیں تب بھی مجھے کچھ خوف نہیں.میں جانتا ہوں کہ خدا میرے ساتھ ہے.اگر میں پیسا جاؤں اور کچلا جاؤں اور ایک ذرے سے بھی حقیر تر ہو جاؤں اور ہر ایک طرف سے ایذا اور گالی اور لعنت دیکھوں.تب بھی میں آخر فتحیاب ہوں گا.مجھ کو کوئی نہیں جانتا مگر وہ جو میرے ساتھ ہے.میں ہرگز ضائع نہیں ہو سکتا.دشمنوں کی کوششیں عبث ہیں اور حاسدوں کے منصوبے لا حاصل ہیں.ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۱ء- ازالہ اوہام صفحه ۶۳۲
۷۲ اے نادانوں اور اندھو! مجھ سے پہلے کون صادق ضائع ہوا جو میں ضائع ہو جاؤں گا.کس بچے وفادار کو خدا نے ذلت کے ساتھ ہلاک کر دیا جو مجھے ہلاک کرے گا.یقیناً یا درکھو اور کان کھول کر سنو کہ میری روح ہلاک ہونے والی روح نہیں اور میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں.مجھے وہ ہمت اور صدق بخشا گیا ہے جس کے آگے پہاڑ پیچ ہیں.میں کسی کی پرواہ نہیں رکھتا.میں اکیلا تھا اور اکیلا رہنے پر ناراض نہیں.کیا خدا مجھے چھوڑ دے گا ؟ کبھی نہیں چھوڑے گا.کیا وہ مجھے ضائع کر دے گا ؟ کبھی نہیں ضائع کرے گا.دشمن ذلیل ہونگے اور حاسد شرمندہ اور خدا اپنے بندے کو ہر میدان میں فتح دے گا.‘لے مرزا صاحب نے اپنی تصنیف اربعین مطبوعہ ۱۹۰۰ء میں مزید فیصلہ کن انداز میں مخالفین کو چلینج دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ ان لوگوں کی غلطی ہے اور سراسر بدقسمتی ہے کہ میری تباہی چاہتے ہیں.میں وہ درخت ہوں جس کو مالک حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے.جو شخص مجھے کاٹنا چاہتا ہے اس کا نتیجہ بجز اسکے کچھ نہیں کہ وہ قارون، یہودا اسکر یوطی اور ابو جہل کے نصیب سے کچھ حصہ لینا چاہتا ہے.میں ہر روز اس بات کے لئے چشم پر آب ہوں کہ کوئی میدان میں نکلے اور منہاج نبوت پر مجھ سے فیصلہ کرنا چاہئے پھر دیکھے کہ خدا کس کے ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۵ ء انوارالاسلام، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۲۳
۷۳ ساتھ ہے...اے لوگو ! تم یقینا سمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو اخیر وقت تک مجھ سے وفا کرے گا.اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جو ان اور تمہارے بوڑھے.اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لئے دعائیں کریں یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جائیں تب بھی خدا ہر گز تمہاری دعا نہیں سنے گا اور نہیں رکے گا جب تک وہ اپنے کام کو پورا نہ کر دے اور اگر انسانوں میں سے ایک بھی میرے ساتھ نہ ہو تو خدا کے فرشتے میرے ساتھ ہونگے اور اگر تم گواہی کو چھپاؤ تو قریب ہے کہ پتھر میرے لئے گواہی دیں.پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو.کا ذبوں کے منہ اور ہوتے ہیں اور صادقوں کے اور...خدا کے مامورین کے آنے کے لئے بھی ایک موسم ہوتے ہیں اور پھر جانے کے لئے بھی ایک موسم پس یقیناً سمجھو کہ میں بے موسم آیا ہوں نہ بے موسم جاؤں گا.خدا سے مت لڑو یہ تمہارا کام نہیں کہ مجھے تباہ کردو.مرزا صاحب اپنی کتاب تحفہ گولڑویہ میں ایک دفعہ پھر مخالفین کو انتباہ کرتے ہیں کہ ٹھٹھا کرو جس قدر چاہو ، گالیاں دو جس قدر چاہو اور ایذا اور تکلیف دہی کے منصوبے سوچو جس قدر چاہو اور میرے استیصال کے ہر قسم کی تدبیریں اور مکر سو چو جس قدر چاہو پھر یا درکھو کہ عنقریب خدا تمہیں ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۲ء - تحفہ گولڑو یہ ضمیمه صفحات ۱۲-۱۳
۷۴ -L دکھلا دے گا کہ اس کا ہاتھ غالب ہے.اپنی وفات سے چند روز قبل مرزا صاحب نے اپنے ایک خط بنام ایڈیٹر اخبار عام لاہور میں لکھا کہ میں خودستائی سے نہیں بلکہ خدا کے فضل اور اس کے وعدوں کی بنا پر کہتا ہوں کہ اگر تمام دنیا ایک طرف ہو اور ایک طرف صرف میں کھڑا کیا جاؤں اور کوئی ایسا امر پیش کیا جائے جس سے خدا کے بندے آزمائے جاتے ہیں تو مجھے اس مقابلہ میں خدا غلبہ دے گا اور ہر ایک پہلو کے مقابلہ میں خدا میرے ساتھ ہوگا اور ہر ایک میدان میں وہ مجھے فتح دے گا.جماعت احمدیہ مرزا صاحب کی وفات کے بعد : اگر چہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے اپنی اولا داور جماعت احمدیہ کی شاندار مستقبل کے لئے بہت زبر دست پیشگوئیاں کی تھیں لیکن مخالف علماء کی کوششیں بھی کم نہ تھیں.سارے ہندوستان میں مرزا صاحب کے مقابلے میں ایک محاذ کھڑا کر دیا گیا اس کے باوجود مرزا صاحب کے پیروکاروں کی تعداد بڑھتی ہی رہی.۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو جب آپ کی لاہور میں وفات ہوئی تو ہزاروں فدائین کی ایک جماعت آپ کے ساتھ تھی.مخالف علماء کا یہ خیال تھا کہ مرزا صاحب کی وفات کے بعد جماعت احمدیہ ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۲ء - تحفہ گولڑو یہ ضمیمه صفحه ۱۳۴ : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۸ء- بحوالہ اخبار بدر قادیان ۱۱ار جون ۱۹۰۸، صفحه ۱ کالم ۱-۲
۷۵ خود بخود تتر بتر ہو جائے گی اور مرزا صاحب کی پیشگوئیاں خود بخو دجھوٹی ہو جائیں گی لیکن ان کی طرف سے جماعت احمدیہ کو منتشر کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود بھی مخالفین کی توقعات پوری نہ ہوسکیں.جماعت احمدیہ کو مٹانے کے لئے نئی نئی تنظیمیں بنتی رہیں لیکن جماعت احمدیہ مرزا صاحب کی پیشگوئیوں کے مطابق ترقی کرتی رہی.مجلس احرار اسلام تو جماعت احمدیہ کے خلاف کامیابی کا اتنا یقین رکھتی تھی کہ ان کے مشہور لیڈر سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے سیالکوٹ میں رام تلائی کے جلسہ عام میں ۱۹ رمئی ۱۹۳۵ء کو فخر یہ اعلان کیا کہ مرزائیت کے مقابلہ کے لئے بہت سے لوگ اُٹھے لیکن خدا کو یہی منظور تھا کہ وہ میرے ہاتھوں سے تباہ ہو.“ لیکن کہاں ہیں سید صاحب.کیا ان کا اعلان صحیح نکلا یا کہ مرزا صاحب کا کہنا کہ ”میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں ؟“ ۲ سید صاحب خود منوں مٹی تلے سور ہے ہیں اور جماعت احمد یہ آگے ہی آگے بڑھ رہی ہے.چوہدری افضل حق صاحب نے آل انڈیا کانفرنس مجلس احرار اسلام پشاور منعقدہ ۷ تا ۹ را پریل ۱۹۳۹ء کو خطبہ صدارت میں جماعت احمدیہ کو ایک فتنہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں خدا کی مہربانی پر بھروسہ ہے کہ احرار کا وسیع نظام باوجود مالی سوانح حیات، سید عطاء اللہ شاہ بخاری ۱۹۴۱ء.ہندوستانی کتب خانہ لاہور صفحات ۱۰۰،۳۹ ہے : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۵ ء - انوار الاسلام روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۲۳
مشکلات کے دس برس کے اندراندر اس فتنہ کوختم کر کے چھوڑے گا.‘ ! سوچنے کی بات یہ ہے کہ کہاں ہیں چوہدری افضل حق اور کہاں ہے مجلس احرار اسلام اور کہاں ہے اس کا وسیع نظام.دونوں کا نام ونشان مٹ چکا ہے.کیا مرزا صاحب کا کہنا حرف بحرف صحیح ثابت نہیں ہوا کہ اور ایسا ہوگا کہ وہ سب لوگ جو تیری ذلت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے نا کام رہنے کے درپے اور تیرے نابود کرنے کے خیال میں ہیں وہ خود ناکام رہیں گے اور نا کامی اور نامرادی میں رہیں گے.“ سے مرزا صاحب کی وفات کے بعد آج تک جماعت احمدیہ، مخالف علماء اور ان کے ہمنواؤں کی شدید مخالفت کے باوجود کس حد تک کامیاب رہی ہے اس کو سمجھنے کے لئے مندرجہ ذیل تین حوالے نمونے کے طور پر درج کئے جار ہے ہیں.-1 مولا نا محمد علی جو ہر نے جماعت احمدیہ کے متعلق لکھا کہ یہ حضرات اس وقت اگر ایک جانب مسلمانوں کی سیاسیات میں دلچسپی لے رہے ہیں تو دوسری طرف تبلیغ اور مسلمانوں کی تنظیم اور تجارت میں بھی انتہائی جدوجہد سے منہمک ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب کہ اسلام کے اس منظم فرقہ کا طرز عمل سواد اعظم اسلام کے لئے بالعموم اور ان اشخاص کے لئے بالخصوص جو بسم اللہ کے گنبدوں میں بیٹھ کر : خطبات احرار - صفحہ ۳۷ : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۸۶ء- اشتہار رساله سراج منیر مشتمل به نشا نہائے رب قد بر ضمیمه اخبار ریاض ہند.امرتسر یکم مارچ ۱۸۸۶ء
22 -۲ خدمت اسلام کے بلند بانگ و در باطن بیچ دعاوی کے خوگر ہیں.مشعل راہ ثابت ہوگا اے مولانا ظفر علی خاں.ایڈیٹر زمیندار کی ساری عمر جماعت احمدیہ کی مخالفت میں گزری آپ کو بھی اعتراف کرنا پڑا کہ یہ ایک تناور درخت ہو چلا ہے.اس کی شاخیں ایک طرف چین میں اور دوسری طرف یورپ میں پھیلی نظر آتی ہیں.اور آج میری حیرت زدہ نگاہیں بحسرت دیکھ رہی ہیں.کہ بڑے گریجویٹ اور وکیل اور پروفیسر اور ڈاکٹر جو کانٹ ، ڈیکارٹ اور ہیگل کے فلسفہ کو خاطر میں نہ لاتے تھے غلام احمد قادیانی کی خرافات واہیہ پر اندھا دھند آنکھیں بند کر کے ایمان لے آئے ہیں.“ سے جماعت اسلامی اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے جماعت احمدیہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی ہر تحریک میں بے حد اہم کردار ادا کیا ہے اس کے ایک لیڈر مولوی عبدالرحیم اشرف اپنی ناکامی کا ان الفاظ میں اعتراف کرتے ہیں کہ ”ہمارے بعض واجب الاحترام بزرگوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں سے قادیانیت کا مقابلہ کیا لیکن یہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ قادیانی جماعت پہلے سے زیادہ مستحکم اور وسیع ہوتی گئی.مرزا صاحب کے بالمقابل جن لوگوں نے کام کیا ان میں سے اکثر تقومی تعلق بااللہ ، لے : مولانا محمد علی جو ہر ۱۹۶۷ء- اخبار ہمدرد، دہلی ۲۶ ستمبر ۱۹۲۷ء ۲ : مولانا ظفر علی خان ۱۹۳۲ء - اخبار زمیندار، لاہور۲ اکتوبر ۱۹۳۲ء
دیانت ، خلوص علم اور اثر کے اعتبار سے پہاڑوں جیسی شخصیتیں رکھتے ھے.سید نذیر حسین دہلوی ، مولانا انور شاہ دیوبندی، مولانا قاضی سید سلیمان منصور پوری، مولانا محمد حسین بٹالوی، مولانا عبدالجبار غزنوی، مولانا ثناء اللہ امرتسری اور دوسرے اکابر.ہم اس تلخ نوائی پر مجبور ہیں کہ ان اکابر کی تمام کوششوں کے باوجود قادیانی جماعت میں اضافہ ہوا ہے.متحدہ ہندوستان میں قادیانی بڑھتے رہے.تقسیم کے بعد اس گروہ نے پاکستان میں نہ صرف پاؤں جمائے بلکہ جہاں ان کی تعداد میں اضافہ ہوا وہاں ان کا یہ حال ہے کہ ایک طرف تو روس اور امریکہ سے سرکاری سطح پر آنے والے سائنسدان ربوہ آتے ہیں اور دوسری طرف ۵۳ء کے عظیم تر ہنگامہ کے باوجود قادیانی جماعت اس کوشش میں ہے کہ اس کا ۵۷-۵۶ ء کا بجٹ پچیس لاکھ روپیہ کا ہو.“ اے قارئین جماعت احمدیہ کی روز افزوں ترقی پر مخالفین کے گرب کا اندازہ لگانا مشکل نہیں.جماعت احمدیہ کا سالانہ بجٹ اب کروڑوں روپے سے تجاوز کر چکا ہے.مرزا صاحب کو خدا نے بذریعہ الہام خبر دی تھی کہ میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور ان کے نفوس و اموال میں برکت دوں گا اور ان میں کثرت بخشوں گا.“ ہے ل : مولوی عبد الرحیم اشرف ۱۹۵۶ء- الخیر، لاہور۲۳ فروری ۱۹۵۶ء : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۸۶ء تبلیغ رسالت ، جلد اول صفحه ۶۰-۶۲ از اشتها ر۲۰ فروری ۱۸۸۶ء)
۷۹ مرزا صاحب کی پیشگوئیوں کو ایک صدی سے زیادہ عرصہ گذر رہا ہے.تاریخ کے بے رحم ہاتھوں نے بے شمار حقائق کو صاحبان بصیرت کے لئے کھول کر رکھ دیا ہے.مرزا صاحب براہین کی پہلی جلد کے شائع ہونے کے بعد قریباً ۲۸ برس تک آریہ، عیسائی اور مسلمان علماء کے مقابلے پر علمی اور روحانی جنگ لڑتے رہے اور بالآخر ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو اپنے مولائے حقیقی سے جاملے.اپنے دعاوی اور مشن کے بارے میں آپ لکھتے ہیں کہ " یہ اگر انساں کا ہوتا کاروبار اے ناقصاں ایسے کاذب کے لئے کافی تھا وہ پروردگار کچھ نہ تھی حاجت تمہاری - نے تمہارے مکر کی خود مجھے نابود کرتا وہ جہاں کا شہریار “ لے ا : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۸ ء- براہین احمدیہ حصہ پنجم طبع سوئم صفحہ ۱۱۳
Al باب پنجم مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور آپ کے آریہ مخالفین سوامی دیانند صاحب سرسوتی نے بمبئی ہندوستان میں ۱۸۷۵ء میں ہندؤوں کے اندر آریہ تحریک کی بنیاد رکھی تاکہ ویدوں کی تعلیم جسے موجودہ زمانے کے روشن دماغ ہندو بھی فرسودہ اور عملی طور پر نا قابل قبول سمجھتے تھے اس کی نئی توضیحات کر کے اسے سائنٹفک رنگ دیا جائے لے اور ہندوؤں کے اندر پائے جانے والے جمود کو توڑ کران میں اجتماعی بیداری پیدا کی جائے.سوامی دیانند صاحب نے ہندؤوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی فضا کو قائم رکھنے کے لئے ستیارتھ پرکاش نامی جیسی رسوائے زمانہ کتاب لکھی جس میں اسلام اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر مکروہ قسم کے حملے کئے گئے.سوامی صاحب نے خود ۱۸۷۷ء میں پنجاب کا دورہ کیا.اسلام کے خلاف دھواں دھار تقاریر کیں اور لاہور، امرتسر اور راولپنڈی وغیرہ جیسے شہروں میں آریہ سماج کی مضبوط شاخیں قائم ہو گئیں.یہ تحریک اگر چہ شروع تو بمبئی سے ہوئی تھی لیکن اس کو سب سے زیادہ کامیابی پنجاب میں نصیب ہوئی جہاں دیکھتے ہی دیکھتے ا : خواجہ غلام حسین پانی پتی ۱۹۳۲ ء سوامی دیاننداورا کی تعلیم صفحات ۱۱۹-۲۹۴
۸۲ اس کو لاکھوں پُر جوش حامی میسر آگئے.اسلام کے خلاف عیسائی مشنری تو سارے ہندوستان میں پہلے ہی سرگرم عمل تھے اب آریہ تحریک کے اس نئے حملے سے مسلمان چاروں طرف سے گھر گئے.یہی وہ وقت تھا جب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور آریہ تحریک کے لیڈروں کے درمیان علمی مقابلے کا آغاز ہوا.-1- سوامی پنڈت دیانند سے ٹکراؤ: مرزا غلام احمد صاحب کے آریہ تحریک سے علمی تصادم کی اولین صورت اس طرح پیدا ہوئی کہ پنڈت دیانند صاحب نے اخبار وکیل ہندوستان کے ۷ دسمبر ۱۸۷۷ء کے شمارے میں ارواح کے متعلق یہ عقیدہ شائع کیا کہ ارواح موجودہ بے انت ہیں اور اس کثرت سے ہیں کہ پر میشر کو بھی ان کی تعداد معلوم نہیں.“ مرزا صاحب نے خدا تعالیٰ کے متعلق اس توہین آمیز عقیدے کی تردید میں ۹ رفروری ۱۸۷۸ء سے ۹ مارچ ۱۸۷۸ء تک اخبار سفیر ہند امرتسر میں مضامین لکھے اور ساتھ ہی سوامی دیانند اور ان کے پیروکاروں کو چیلنج دیا کہ اگر وہ لوگ یہ ثابت کر دیں کہ ارواح بے انت ہیں اور پر میشر کو اُن کی تعداد معلوم نہیں تو وہ ایسے آریہ کو پانچ سو روپیہ انعام دیں گے.انعامی چیلنج اتنا مؤ ثر ثابت ہوا کہ آریہ سماج لاہور کے جنرل سیکرٹری، لالہ جیون داس نے سوامی دیانند کے بیان کردہ اس اعتقاد سے سرے سے انکار ہی کر دیا اور اعلان کیا کہ ا پنڈت دیانند۱۸۷۷ء- اخبار وکیل ۷ دسمبر ۱۸۷۷ء
۸۳ وو یہ مسئلہ آریہ سماج کے اصولوں میں داخل نہیں ہے اگر کوئی ممبر آریہ سماج کا اس کا دعویدار ہو تو اس سے سوال کرنا چاہیے اور اس کو جواب دینا لازم ہے.مرزا صاحب نے سوامی دیانند کے بیان کردہ آریہ عقائد کی تردید میں جو مضامین لکھے ان کو اتنی شہرت حاصل ہوئی کہ آریوں کے لئے خاموش رہنا ناممکن ہو گیا چنانچہ آریہ سماج ، امرتسر کے سیکریٹری باوا نارائن سنگھ نے اخبار آفتاب کی ۱۸ / فروری ۱۸۷۸ء کی اشاعت میں مرزا صاحب کے جواب میں ایک طویل مضمون لکھا جس میں انعامی رقم کے تصفیے کے لئے بعض شرائط اور منصفین کا ایک پینل تجویز کیا.اگر چہ مرزا صاحب نے باوا صاحب کی تجاویز کو منظور کر لیا لیکن اپنی طرف سے مختلف عذرات کے باعث باوا صاحب آریہ سماج کے عقائد پر مرزا صاحب سے بحث کے لئے تیار نہ ہوئے.اس سے آریہ سماج کی کافی سبکی ہوئی.اس کے کچھ دن بعد آریہ سماج امرتسر کے ایک اور معزز ممبر پنڈت کھڑک سنگھ قادیان تشریف لائے اور مرزا صاحب سے مسئلہ تناسخ اور مقابلہ وید و قرآن کے موضوع پر مناظرہ کیا لیکن مرزا صاحب کے پہلے ہی مضمون کے بعد جو مسئلہ تناسخ کے خلاف تھا پنڈت صاحب نے مزید مناظرہ جاری رکھنا مناسب نہ سمجھا اور وہ قادیان سے واپس چلے گئے.بعد کے حالات بتاتے ہیں کہ پنڈت صاحب ویدوں سے کلیہ بدطن ہو گئے.انہوں نے تسلیم کیا کہ وید علوم الہی اور راستی سے بے نصیب ہیں اس لئے وہ خدا کا کلام نہیں ہو سکتے نیز یہ کہ ویدوں کے علم اور فلسفہ اور قدامت کے شیخ یعقوب علی عرفانی - حیات النبی جلد اول طبع دوئم صفحہ ۱۱۳
۸۴ متعلق آریوں کا دعوی باطل ہے.اے پنڈت صاحب کا آریہ تحریک کے متعلق رویہ مرزا صاحب کے مقابلے میں آریہ سماج کو تیسرا دھچکا تھا.مرزا غلام احمد صاحب نے باوا نارائن سنگھ اور پنڈت کھڑک سنگھ صاحب کے بحث سے احتراز کے بعد دوسرے آریہ سماجی لیڈروں کی طرف رجوع کیا اور سوامی دیانند صاحب، منشی جیون داس صاحب ہنشی کنہیا لال صاحب منشی بختاور سنگھ صاحب،ایڈیٹر آریہ در پن، با بوسا دا پر شاد صاحب، منشی لالہ شرمیت صاحب سیکرٹری آریہ سماج قادیان اور منشی اندر من صاحب مراد آبادی کے نام ایک کھلا چیلنج اخبار ہندو باندھو میں شائع کرا دیا اور ان حضرات کی طرف سے چیلنج کے جوابات کے موازنہ کے لئے عیسائی پادری رجب علی صاحب اور پنڈت شیو نرائن اگنی ہوتری صاحب ایڈیٹر رسالہ ہندو باندھو کو بطور منصف تجویز کیا.اب بظاہر آریہ سماج کے لیڈروں کے لئے کوئی راہ فرار نہ تھی ان کے لئے مرزا صاحب کے چیلنج کا جواب دینا ضروری ہو گیا.ا لاله شرمیت صاحب کا بیان اور پنڈت شیو نرائن کا تبصرہ: آریہ سماج کے دیگر لیڈروں میں سے تو کوئی مقابل پر نہ آیا لیکن لالہ شرمیت صاحب سیکرٹری آریہ سماج قادیان نے ہمت کی اور مرزا صاحب اور باوا نارائن سنگھ کے درمیان گزشتہ بحث کی بنیاد پر ایک مضمون لکھا اور اسے مرزا صاحب کے انعامی چیلنج کے جواب میں چھاپنے کے لئے رسالہ ہندو باندھو کو بھیج دیا.یہ ہمت تو انہوں نے کر لی لیکن یہ انہیں بہت مہنگی پڑی اس لئے کہ پنڈت شیو نرائن اگنی ہوتری صاحب ل : مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ۱۹۲۳ء- شحنه حق طبع اوّل صفحه ۲۴
۸۵ نے حسب وعدہ لالہ شرمیت صاحب کا مضمون اپنے رسالہ میں تو شائع کر دیا لیکن انہوں نے بطور منصف اس مضمون پر جو ادارتی تبصرہ کیا اس سے لالہ شرمپت صاحب کی ذاتی لیاقت کا بھی بھانڈا پھوٹا اور اہل علم کی نظر میں آریہ سماج کی وقعت بھی گر گئی.پنڈت شیو نرائن کے تبصرے کے کچھ اقتباسات ملاحظہ ہوں.باوجود اس کے کہ ہم نے مرزا صاحب کے مضمون کا پہلا حصہ اپنے اپریل کے رسالے میں ختم کر دیا تھا اور یہ یقین کیا تھا کہ اثبات دعوی کے لئے جس قدر دلائل وہ اس مضمون میں رقم کر چکے ہیں بخوبی کافی ہیں مگر انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا اور ایک دوسرا حصہ اور تیار کر کے ہمارے پاس چھپنے کے لئے بھیج دیا.اس حصہ کو ہم نے ہنوز رسالہ میں درج نہیں کیا بائیں خیال کے جو دلائل مرزا صاحب پہلے حصے میں مشتہر کر چکے ہیں اگر انہیں کے رڈ کے لئے اہل آریہ تیار ہیں ہیں تو پھر مضمون مذکورہ کو اور زیادہ دلائل کے ساتھ طول دینا بالفعل کچھ ضرور نہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری اُمید بالکل خالی نہیں گئی.لالہ شرمپت صاحب نے جو آریہ سماج قادیان کے سیکرٹری ہیں ایک مضمون اثبات تناسخ پر ہمارے پاس برادر ہند میں مشتہر کرنے کے لئے بھیجا ہے چنانچہ اسے ہم درج رسالہ کرتے ہیں.کس حیثیت کا وہ مضمون ہے اور اس کا نفس مضمون کس سانچہ کا ڈھلا ہوا ہے اور اس کی طر ز عبارت سے راقم مضمون کی ذاتی لیاقت اور فضیلت کا کہاں تک اظہار ہوتا ہے اور اصول مناظرہ سے اس کا ڈھنگ بیان کہاں تک موافق یا ناموافق ہے اس کا
۸۶ فیصلہ ہم خود کرنا نہیں چاہتے بلکہ اپنے ناظرین پر چھوڑتے ہیں.ہاں چند کلمے بطریق ہدایت دوستانہ لالہ صاحب نیز ان کے ہم خیال صاحبوں کے لئے یہاں پر درج کرنا مناسب خیال کرتے ہیں.اول.ہر ایک کام کے لئے اس کے موافق انسان میں ایک خاص مادہ ہونا ضروری ہے.اصول مناظرہ یا بحث بھی اس قاعدہ سے خالی نہیں.پس پیشتر اس کے کہ ہم کچھ کہنے یا لکھنے کی جرات کریں.ہمارے لئے یہ لازم ہے کہ اپنے تئیں اصول مذکورہ کی صفت سے متصف بنالیں اور یہ کوئی آسان بات نہیں.برسوں کی تعلیم اور خاص قسم کی تربیت سے یہ ملکہ پیدا ہوتا ہے.اگر یہ ملکہ نہیں تو پھر بولنا کون نہیں جانتا حیوانات بھی ضد سے آواز برآمد کر سکتے ہیں.دوئم.کسی اخبار یا رسالہ میں جس کے ہزاروں پڑھنے والے ہوتے ہیں جب کوئی مضمون چھپوانا منظور ہو تو اس میں بالخصوص اصول مذکورہ کے مد نظر رکھنے کی سخت ضرورت ہے کیونکہ بے سروپا بکو اس کے ساتھ کاغذ کو سیاہ کر کے ناظرین کے خیالات کو بگاڑنا ، ان کی طبیعت کو منتشر کرنا اور خواہ مخواہ ان کی تضیع اوقات کرنا نہ صرف راقم مضمون کے لئے بے جا ہے بلکہ ایڈیٹر کے لئے بھی (جو اندراج مضامین کے لئے پورا پورا ذمہ دار ہے ) یہ امرنا واجب ہے.اب دیکھنا چاہئے کہ لالہ شرمپت صاحب نے کہاں تک ان اصولوں کی پابندی کی ہے.اوّل جو مضمون مرز اصاحب کا ابطال تناسخ پر
AL ہمارے رسالے میں مشتہر ہوا ہے لالہ صاحب نے اس کا جواب مطلق نہیں دیا.“ پنڈت شیونرائن اگنی ہوتری صاحب نے تبصرے کے آخر میں لکھا کہ اگر لالہ صاحبان اپنے عقیدے سے تائب ہونے کے لئے تیار نہیں تو مرزا صاحب کی بیان کردہ وجوہ ابطال تناسخ کو ہی اصول مناظرہ اور منطق سے غلط ثابت کر دکھا ئیں ور نہ مفت کی بے سروپا اور بے ڈھنگی بکواس کا سلسلہ قائم رکھنا عقلمندوں کے نزدیک ایک حرکت لغو شمار کی جاتی ہے.“ ہے جب سے مرزا غلام احمد صاحب اور آریہ سماج کے لیڈروں کے درمیان و یدک دھرم کے عقائد کی سچائی کے بارے میں پبلک مباحثات کا سلسلہ شروع ہوا تھا پنڈت شیو نرائن اگنی ہوتری صاحب کا یہ تبصرہ آریہ دھرم پر ایک تباہ کن ضرب تھی اور آریہ سماج کے خلاف مرزا صاحب کی چوتھی فتح تھی.- سوامی دیانند کی آریہ عقائد میں ترمیم: اسلام اور آریہ سماج کے درمیان اس علمی مباحثے کو جاری ہوئے کئی ماہ گذر چکے تھے جس میں آریہ سماج کے لیڈروں کو مسلسل زک پہنچ رہی تھی.مرزا غلام احمد صاحب نے چونکہ علمی مضامین کو اخبارات میں چھپوانے اور ان کے رڈ کے لئے انعامی چیلنجوں کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا اس لئے آریہ سماجیوں کے لئے خاموش رہنا بھی ممکن نہ تھا.ل : بحوالہ شیخ یعقوب علی عرفانی - حیات احمد صفحات ۲۲۱-۲۲۴ : بحوالہ شیخ یعقوب علی عرفانی - حیات احمد صفحات ۲۲۱-۲۲۴
۸۸ اس دوران سوامی دیانند کو نام لے کر بھی بار بار مقابلے کی دعوت دی جا چکی تھی لیکن ان سے کچھ جواب نہیں بن پڑ رہا تھا یہاں تک کہ سوامی صاحب مجبور ہو گئے کہ وہ مرزا صاحب کے سامنے اپنے عقائد میں ترمیم کریں.بلاشبہ ان کی طرف سے اپنی غلطی کا کھلا اعتراف اسلام اور آریہ سماج کی جنگ میں مرزا غلام احمد صاحب کی ایک اور واضح فتح تھی.پنڈت شیو نرائن اگنی ہوتری نے اپنے اخبار میں سوامی دیانند کے و یدک دھرم کے عقائد سے اس انحراف پر زور دار تبصرہ کیا.اس کے کچھ اقتباسات ملا حظہ ہوں.ان کے مقلد یقین کر کے اور وید کو خدا کا کلام مان کر اندھا دھند جو کچھ سوامی صاحب کے منہ سے سن لیتے ہیں خواہ وہ کیسا ہی علم و عقل کے مخالف ہومگر اس کے پیرو ہو جاتے ہیں.چنانچہ چند ماہ سے بعض آریہ سماج کے لائق ممبروں اور ہمارے رسالہ کے مضمون نگار صاحب کے درمیان کچھ مباحثہ جاری ہے اس سے ہمارے ناظرین بخوبی واقف ہیں.سوامی صاحب کے مقلد باوجود خدا کے قائل ہونے کے سوامی جی کی ہدایات کے موافق یا یوں کہو کہ وید کے احکام کے موافق اپنا یہ یقین ظاہر کرتے ہیں کہ ارواح بے انت یعنی لا انتہا ہیں اور خدا ان کا پیدا کرنے والا نہیں اور جب سے خدا ہے تب سے ارواح بھی ہیں یعنی وہ انادی ہیں اور نیز خدا کو ارواح کی تعداد کا علم نہیں ہے ماسوائے کسی روح کو نجات ابدی حاصل نہیں ہوتی اور وہ ہمیشہ تناسخ یعنی اواگون کے سلسلہ میں مبتلا رہتی ہے.مگر اب ہمارے مضمون نگار مرزا غلام احمد صاحب
۸۹ کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ آخر کار جب مرزا صاحب نے مسئلہ مذکور اپنی بحث میں باطل ثابت کر دیا تو لا چار سوامی جی نے مرزا صاحب کو یہ پیغام بھیجا کہ حقیقت میں ارواح بے انت نہیں ہیں.ا مہاشہ دیودت کا تبصرہ: مہاشہ دیودت صاحب ایک آریہ سماجی لیڈر تھے.انہوں نے آریہ تحریک کی کارکردگی پر ایک آریہ سماج اور پر چار کے سادھنا“ نامی کتاب تحریر کی.اس میں انہوں نے کھلے دل سے اعتراف نہیں کیا کہ مرزا صاحب کے بیان کردہ اسلام کے اصول صحیح اور آریہ تحریک کے عقائد بقول پنڈت شیو نرائن اگنی ہوتری لغو اور بے ہودہ تھے تاہم انہوں نے بعض عذرات کی شرط کے ساتھ یہ تسلیم کیا ہے کہ مرزا صاحب کے شائع کردہ لٹریچر سے آریہ سماجی لیڈر مسلمانوں میں خاطر خواہ نفوذ پذیر نہیں ہو سکے وہ لکھتے ہیں کہ اجمیر سے چل کر سوامی دیانند چاند پور پہنچے اور مسلمانوں سے زبر دست مناظرہ کیا.مسلمانوں کی طرف سے مولوی محمد قاسم صاحب اور مولوی عبدالمنصو ر صاحب پیش ہوئے اور ان کی مدد کے لئے بہت سے مولوی موجود تھے لیکن سوامی جی مہاراج کے ساتھ صرف منشی بختاور سنگھ اور منشی اندر من مرآد آبادی تھے.سوامی جی نے اعتراضات کی اس قدر ل : پنڈت شیو نرائن اگنی ہوتری - اخبار برادر ہند.جولائی ۱۸۷۸ء بحوالہ حیات النبی.شیخ یعقوب علی عرفانی جلد اول صفحات ۱۱۴ - ۱۱۸
بھر مار کی کہ مولوی ان کا کوئی جواب نہ دے سکے اور میدان چھوڑ کر بھاگ گئے.جس کا یہ اثر ہوا کہ مولوی نور اللہ کئی مسلمانوں سمیت آریہ ہو گئے.آریہ ویروں نے جگہ جگہ شدھی سبھا قائم کر کے مسلمانوں میں پر چار کرنا شروع کر دیا.اگر آریہ سماجی دوست اس پوتر کام کو جاری رکھتے تو مسلمانوں کا کثیر حصہ ویدک دھرم کی شرن میں آجاتالیکن آریہ سماج کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے مرزا غلام احمد قادیانی کو موقع مل گیا.اس نے آریہ سماج کے خلاف سفیر ہندا مرتسر میں مضامین کا ایک لمبا سلسلہ شروع کر دیا اور اس میں سوامی دیانند جی مہاراج کو بھی چیلنج کر دیا.چونکہ سوامی دیانند جی مہاراج اُن دنوں راجستھان کا دورہ کر رہے تھے اس لئے انہوں نے منشی بختاور سنگھ اور منشی اندر من مراد آبادی سے کہا کہ وہ ان کا چیلنج منظور کر لیں لیکن افسوس کہ انہیں ایام میں بعض وجوہ کی بنا پر سوامی جی نے اندر من مراد آبادی کو آریہ سماج سے نکال دیا اس لئے یہ مناظرہ نہ ہو سکا.مرزا غلام احمد نے اس درگھٹنا سے پورا پورا فائدہ اُٹھایا اور آریوں کے خلاف ایسا زہریلا لٹریچر لکھا کہ جس نے مسلمانوں کے دلوں میں آریہ دھرم کے متعلق سخت نفرت پیدا کر دی.“ اگر چہ مہاشہ دیودت نے آریہ سماج کی ناکامی اور مرزا غلام احمد صاحب کی کامیابی کی وجہ آریہ سماج کے اندرونی اختلافات کو قرار دیا ہے لیکن رسالہ برادر ہند کی جولائی ۱۸۷۸ء اور رسالہ جیون دھر کی ۱۵/ جولائی ۱۸۸۶ء کے شماروں سے پتہ چلتا لے : مہاشہ دیودت - آریہ سماج اور پر چار کے سادھنا.صفحہ ۱۲
۹۱ ہے لے کہ مرزا صاحب کے زبردست علمی مضامین نے نہ صرف عام پڑھے لکھے آریوں بلکہ ان کے لیڈروں کے ویدک دھرم پر اعتقادات کو بھی متزلزل کر دیا تھا اور خودسوامی دیانند صاحب بھی مرزا صاحب کے زبردست اعتراضات کے باعث بار بار اپنے عقائد کو تو جیہات بدلتے رہتے تھے.جسے بعض روشن خیال ہندو ان کی متلون مزاجی کا نام دیتے تھے اور حقیقت تو ہے کہ آریہ سماج کے اندرونی اختلافات بھی مرزا صاحب کے زبر دست علمی اور منطقی دلائل کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے.پنڈت شیونرائن اگنی ہوتری کے مطابق تو مرزا صاحب کے دلائل کے سامنے تو آریہ عقائد محض ” بے ہودہ اور لغو نظر آتے تھے اور ان کو تسلیم کرنا آفتاب نیمروز کی روشنی میں اندھوں کی طرح حرکت کرنے کے مترادف تھا.ہے II- مرزا صاحب اور آریہ سماجی لیڈر ماسٹر مرلی دھر کے درمیان مباحثه پچھلے صفحات پر بیان کردہ واقعات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ مرزا صاحب کے مدلل مضامین سے آریہ سماجی لیڈر عملی طور پر کمزور پڑ رہے تھے اور پنڈت شیو نرائن اگنی ہوتری کے تبصروں سے آریہ سماج کی صفوں میں کھلبلی مچی ہوئی تھی لیکن اکثر آریوں کو مرزا صاحب کی وسعت مطالعہ اور عقلی اور نقلی دلائل کی صلاحیت کا ابھی ذاتی تجربہ نہ تھا.اسی کشمکش کے دوران مرزا صاحب اور ایک آریہ سماجی لیڈر ماسٹر مرلی دھر رسالہ جیون دھر - ۱۵ / جولائی ۱۸۸۶ء : اخبار برادر ہند.جولائی ۱۸۷۸ء
۹۲ کے درمیان مباحثے کی صورت نکل آئی.مرزا صاحب ۲۲ جنوری سے ۱۷ / مارچ ۱۸۸۶ء تک ہندوستان کے ایک شہر ہوشیار پور میں بغرض چلہ کشی مقیم رہے اور ۴۰ روز تک آپ عوام الناس اور اعزہ واقربا سے علیحدہ رہ کر پورا وقت انہماک کے ساتھ عبادت الہی میں گذراتے رہے.مارچ کے اوائل میں چلے کے اختتام پر ہوشیار پور کے ماسٹر مرلی دھر ڈرائنگ ماسٹر جو آریہ سماج کے ایک مقتدر رہنما تھے.مرزا صاحب کے پاس تشریف لائے اور درخواست کی کہ وہ مرزا صاحب سے اسلامی تعلیمات پر چند سوالات کے جوابات چاہتے ہیں.یہی ملاقات مرزا صاحب اور ماسٹر مرلی دھر صاحب کے درمیان مباحثے کا سبب بنی.اس مباحثے کو مرزا صاحب نے بعد میں ستمبر ۱۸۸۶ء میں سرمہ چشم آریہ کے نام سے کتابی شکل میں شائع بھی کر دیا تا کہ عوام الناس بھی اس مباحثے کی روداد کو پڑھ سکیں.مباحثے کے لئے مرزا صاحب اور ماسٹر صاحب کے درمیان باہمی رضا مندی سے یہ طے ہوا کہ ایک نشست میں ماسٹر مرلی دھر صاحب اسلام پر اپنے سوالات پیش کریں گے اور مرزا غلام احمد صاحب ان کے جوابات دیں گے اور دوسری نشست میں مرزا غلام احمد صاحب آریہ سماج کے مسلمہ عقائد پر سوالات کریں گے اور ماسٹر صاحب ان کا جواب دیں گے.یہ بھی طے ہوا کہ بحث کا خاتمہ جواب الجواب کے جواب سے ہو گا.مباحثے کی دونشتوں کے لئے گیارہ مارچ ۱۸۸۶ء کی شب اور ۱۴/ مارچ ۱۸۸۶ء کا دن قرار پایا.ہندوؤں اور مسلمانوں کی طرف سے بہت سے معزز شہری جن میں وکیل، ڈاکٹر ، سرکاری افسران اور رؤسا بھی شامل تھے.دور و نزدیک سے اپنے کام کا حرج کر کے مرزا صاحب کی فرودگاہ جہاں یہ مباحثہ ہونا قرار پایا تھا تشریف لائے تا کہ اسلام اور آریہ سماج کے حق
۹۳ میں دیئے جانے والے دلائل کو اپنے کانوں سے سُن سکیں.اس مباحثے کی پہلی نشست گیارہ مارچ ۱۸۸۶ء کی رات کو ہوئی ماسٹر صاحب نے اپنا مشہور اعتراض معجزہ شق القمر کے بارے میں پیش کیا.جب مرزا صاحب نے اس کا جواب لکھا تو اس پر ماسٹر مرلی دھر صاحب نے جواب الجواب لکھا.جب معاہدے کے مطابق جواب الجواب کے جواب کا وقت آیا اور مرزا صاحب اسے لکھنے لگے تو ماسٹر صاحب اُٹھ کر جانے کے لئے تیار ہوئے اور رات بڑی چلے جانے کا عذر پیش کیا.مرزا صاحب نے گزارش کی کہ رات کا سب پر برابر اثر ہے اور نیز یہ کہ معاہدے کی خلاف ورزی مناسب نہیں.اکثر حاضرین نے بھی ماسٹر صاحب کو سمجھایا کہ ابھی رات کچھ ایسی زیادہ نہیں ہوئی.میاں شتر و گن صاحب پسر کلاں راجہ روورسین صاحب والئی ریاست کپورتھلہ جو مباحثہ میں موجود تھے نے کئی بار ماسٹر مرلی دھر صاحب سے التجا کی کہ آپ جواب الجواب لکھنے دیں ہم بخوشی بیٹھیں گے.ہم لوگوں کو کوئی تکلیف نہیں بلکہ ہمیں جواب سننے کا شوق ہے.ایسا ہی کئی دوسرے ہندو معززین نے بھی عرض کی مگر ماسٹر صاحب نے کچھ ایسی مصلحت سوچی کہ کسی کی بات کو نہ مانا اور اُٹھ کر چلے گئے.دوسری نشست ۱۴ / مارچ ۱۸۸۶ء کو دن کے وقت شیخ مہر علی صاحب رئیس اعظم ہوشیار کے مکان پر ہوئی.معاہدے کی رو سے اس دن مرزا غلام احمد صاحب کو آریہ سماج کے عقائد پر اپنے سوالات پیش کرنے تھے لیکن ماسٹر مرلی دھر صاحب نے گیارہ مارچ والی بحث میں پیش کئے گئے ایک حوالے پر بحث شروع کر دی اور اعلان کر دیا کہ اگر مرزا صاحب یہ حوالہ ستیارتھ پرکاش کتاب سے نکال کر دکھا دیں تو اسی سے بچے اور
۹۴ جھوٹے میں فرق ہو جائے گا.بہر حال مرزا صاحب کے اس وعدے پر یہ بحث ختم ہوئی کہ مرزا صاحب بحث کی روداد چھپواتے وقت پورا حوالہ درج کر دیں گے اور وہ حوالہ جس پر ماسٹر صاحب کی طرف سے اعتراض کیا گیا کہ ستیارتھ پرکاش میں نہیں اور یہی بچے اور جھوٹے کی تمیز کے لئے کافی ہے یہ تھا.روحیں اوس وغیرہ پر پھیلتی ہیں اور عورتیں کھاتی ہیں تو آدمی پیدا ہوتے ہیں.چنانچہ بعد میں مرزا صاحب نے جب اس مباحثہ کی روداد سرمہ چشم آریہ کے نام سے شائع کی تو لکھ دیا کہ یہ عبارت ستیارتھ پر کاش اٹھواں سمولاس صفحہ ۲۶۳ پر درج ہے ).اس یقین دہانی کے بعد جب بحث بمشکل دوبارہ شروع ہوئی تو مرزا صاحب نے اپنا تحریری اعتراض پیش کیا کہ آریہ سماج کا یہ عقیدہ کہ پر میشر نے کوئی روح پیدا نہیں کی اور نہ ہی وہ کسی کو خواہ کیسا ہی راستباز اور سچا پرستار ہوا بدی نجات بخشے گا خدا تعالیٰ کی توحید اور رحمت دونوں کے منافی ہے.جب مرزا صاحب کا اعتراض جلسہ عام میں سنایا گیا تو ماسٹر مرلی دھر صاحب وقتی طور پر کچھ گھبرا گئے اور عذر کرنے لگے کہ یہ سوال ایک نہیں دو ہیں لیکن بہت سمجھانے کے بعد کہ سوال ایک ہی ہے جس کے دوجز ہیں ماسٹر صاحب کافی غصے میں جواب لکھنے کے لئے تیار ہوئے.تین گھنٹے کے بعد ماسٹر صاحب نے سوال کے ایک حصے کا جواب لکھ کر سُنایا اور دوسرے حصے کے متعلق فرمایا کہ اس کا جواب وہ اپنے مکان پر جا کر لکھیں گے اور بعد میں بھجوا دیں گے.مرزا صاحب نے گھر جا کر جواب لکھنے اور بھیجوانے کی تجویز کو قبول نہ کیا.اور اصرار کیا کہ معاہدے کے مطابق جو کچھ لکھنا ہے اسی جلسہ میں حاضرین کے رو برو تحریر کریں.
۹۵ اگر گھر بیٹھ کر کھا تھا تو پھر اس جلسہ بحث کی کیا ضرورت تھی؟ جب ماسٹر صاحب کسی طرح بھی راضی نہ ہوئے تو مرزا صاحب نے کہا.اچھا جو کچھ لکھا ہے وہی دے دیں تا کہ ہم اس کا جواب الجواب لکھیں.اس کے جواب میں ماسٹر صاحب نے کہا کہ اب ہماری سماج کا وقت ہے اب ہم بیٹھ نہیں سکتے.جب وہ جانے لگے تو مرزا صاحب نے ماسٹر صاحب کو مخاطب ہو کر کہا کہ آپ نے اچھا نہیں کیا کہ جو معاہدہ با ہم طے پا چکا تھا اسے توڑ دیا.نہ آپ نے خود ہمارے سوال کا پورا جواب لکھا.اور نہ ہمیں جواب الجواب لکھنے کا موقعہ دیا.اب ہم اپنے جواب الجواب کو بھی کتاب شائع کرتے وقت شامل کر دیں گے.یہ بات سنتے ہی ماسٹر صاحب اپنے ساتھیوں کے ساتھ اُٹھ کھڑے ہوئے اور مجلس سے نکل گئے.حالانکہ اس اجلاس میں سامعین کی تعداد غیر معمولی طور پر زیادہ تھی.صد با مسلمان اور ہندو اپنا کام چھوڑ کر محض مباحثے کی کارروائی دیکھنے کے لئے جمع ہو گئے تھے.مکان کا صحن حاضرین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا جن میں کئی وکلا ، روساء اور سرکاری افسران شامل تھے.اگر چہ قارئین کو یہ باور کرنا مشکل نہ ہوگا کہ بحث کے لئے تیار ہونے سے قبل ماسٹر مرلی دھر کو مرزا صاحب کی صلاحیتوں اور اسلام کی حقانیت کا صحیح اندازہ نہ تھا.پہلے ہی دن جب انہوں نے مرزا صاحب کی مدل تحریر کو پڑھا تو بعد میں راہ فرار اختیار کرنے کی خاطر بار بار طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے رہے یہاں تک کہ اُسے ادھورا چھوڑ کر چل دئے.جسے بعد میں مرزا صاحب نے سرمہ چشم آریہ کے نام سے کتابی شکل میں شائع کیا.جہاں تک مرزا صاحب کی طرف سے پیش کردہ حوالے کو ستیارتھ پرکاش سے دکھانے کا ماسٹر مرلی دھر کی طرف سے مطالبہ اور اُسے بچے اور
۹۶ وو جھوٹے کے درمیان فرق کا ذریعہ بنانے کا تعلق ہے اس حوالے کو مرزا صاحب نے اپنی کتاب سرمہ چشم آریہ کے صفحہ ۷۳-۷۴ پر مکمل درج کیا اور لکھا کہ یہ پنڈت صاحب کی عبارت ہے.جو ہم نے ستیارتھ پرکاش سے نکال کر اس جگہ لکھی ہے.اب ہم ماسٹر صاحب سے پوچھتے ہیں کہ کیوں صاحب ابھی سچ اور جھوٹ کی ترقی ہوئی یا نہیں.اس وقت آپ فرمائیں تو سہی کہ آپ کے دل کا کیا حال ہے.کیا وہ آپ کا قول سچ نکلا کہ مضمون مذکورہ بالا ستیارتھ پر کاش میں کسی جگہ نہیں.افسوس اس روز ناحق آپ نے ہمارے اوقات کو ضائع کیا اور اپنی علمی حیثیت کا پردہ پھاڑا اور آج آپ ہی جھوٹے نکلے.ہر کہ صادقاں آویخت آبروئے خودر یخت مرزا غلام احمد صاحب نے صرف ماسٹر مرلی دھر صاحب کے مباحثے میں ناکامی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کی روداد کو سرمہ چشم آریہ کی کتابی شکل میں شائع کیا بلکہ تمام آریہ صاحبان کو چیلنج دے دیا کہ وہ اس کتاب میں درج شدہ دلائل کا رد کر کے دکھا دیں تو مرزا صاحب ایسے مصنف کے سامنے نہ صرف اپنی شکست تسلیم کریں گے بلکہ اپنی طرف سے پانچ سوروپیہ انعام بھی دیں گے.مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ یہ کتاب یعنی سرمه چشم آریہ تقریب مباحثہ لالہ مرلی دھر صاحب ڈرائنگ ماسٹر ہوشیار پور جو عقائد باطلہ وید کی بکلی بیخ کنی کرتی ہے اس دعوئی اور یقین کے ساتھ لکھی گئی ہے کہ کوئی آریہ اس کتاب کا رڈ نہیں کر ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۸۶ء- سرمه چشم آریہ صفحات ۷۳-۷۴
۹۷ سکتا کیونکہ سچ کے مقابلہ میں جھوٹ کی کچھ پیش نہیں جاتی اور اگر کوئی آریہ صاحب ان تمام وید کے اصولوں اور اعتقادات کو جو اس کتاب میں رڈ کئے گئے ہیں سچ سمجھتا ہے اور اب بھی دید اور اس کے ایسے اصولوں کو اینشرکرت ہی خیال کرتا ہے تو اس کو ایشر کی قسم ہے کہ اس کتاب کا رڈ لکھ کر دکھاوے اور پانچ سو روپے انعام پاوے.یہ پانچ سو روپیہ بعد تصدیق کسی ثالث کے جو پادری یا برہمو صاحب ہوں گے دیا جائے گا.اس قسم کے علمی مباحثوں میں خاص طور پر جن میں دو مذاہب کی مبادیات زیر بحث ہوں صرف غیر جانبدار اصحاب علم کی رائے ہی اہم سمجھی جاتی ہے اگر چہ مباحثے کے وقت موجود حاضرین کی ایک بھاری تعداد ماسٹر مرلی دھر صاحب کے رویے کو شکست کی صورت تعبیر کر رہی تھی جس سے ویدوں کی حقانیت پر زد پڑ رہی تھی لیکن مرزا صاحب نے اسے من وعن شائع کر کے ہمیشہ کے لئے غیر متعصب قارئین کے لئے محفوظ کر دیا.ہم نیچے تین ایسے تبصرے درج کر رہے ہیں جو اس لحاظ سے غیر جانبدار ہیں کہ ان میں سے ایک عیسائی اخبار کا اس کتاب یعنی سرمہ چشم آریہ پر تبصرہ ہے اور دوسرے دو ایسے مسلمان عالموں کے تبصرے ہیں جو ساری عمر مرزا صاحب کے شدید مخالفین میں شامل رہے.ملاحظہ فرمائیے.-۱- تبصرہ مشہور اہلِ حدیث عالم مولوی محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ ا : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۸۶ ء - سرمه چشم آریہ صفحات ۷۳-۷۴، اشتہار انعامی پانسورو پی ٹائٹل آخر صفحات ۳۲۱-۳۲۲
۹۸ اس مباحثہ میں جناب مصنف نے تاریخی واقعات اور عقلی وجوہات سے معجزہ شق القمر ثابت کیا ہے اور اس کے مقابلے میں آریہ سماج کی کتاب (وید ) اور اس کی تعلیمات وعقائد ( تناسخ وغیرہ) کا کافی دلائل سے ابطال کیا ہے.ہم بجائے تحریر ریویو اس کتاب کے بعض مطلب.....اصل عبارت ہدیہ ناظرین کرتے ہیں.وہ مطالب بحکم مشک آن است که خود بوئد نہ کہ عطار بگوئد خود شہادت دیں گے کہ وہ کتاب کیسی ہے اور ہمارے ریویو لکھنے کی حاجت باقی نہ رہنے دیں گے....اور حمیت و حمائت اسلام تو اس میں ہے کہ ایک ایک مسلمان اس کتاب کے دس دس ہیں ہیں نسخے خرید کر ہندومسلمانوں میں تقسیم کرے.“ ۲- تبصره مولوی سیدابوالحسن ندوی صاحب: ”مرزا صاحب نے اپنی اس کتاب میں نہ صرف اس معجزہ بلکہ معجزات انبیا کی پر زور و مدلل وکالت کی ہے.انہوں نے ثابت کیا ہے کہ معجزات و خوارق کا وقوع عقلاً ممکن ہے.محدود انسانی عقل اور علم اور محدود انسانی تجربات کو اس کا حق نہیں کہ وہ ان معجزات و خوارق کا انکار کریں اور اس کائنات کے احاطہ کا دعوی کریں.وہ بار بار اس حقیقت پر زور دیتے ہیں کہ انسان کا علم محدود ومختصر اور امکان کا دائرہ بہت وسیع مولوی محمد حسین بٹالوی ۱۸۸۶ ء - اخبار اشاعۃ السنہ جلد ۹ نمبر ۵-۶ صفحات ۱۴۵-۱۵۸
۹۹ ہے.ان کا اس پر بھی زور ہے کہ مذاہب اور عقائد کے لئے ایمان بالغیب ضروری ہے اور اس میں اور عقل میں کوئی منافات نہیں اس لئے کہ عقل غیر محیط ہے.“ ا - تبصرہ مشہور عیسائی اخبار نورافشاں حقیقت تو یہ ہے کہ اس کتاب نے آریہ سماج کو پورے طور پر بے نقاب کرتے ہوئے اسے پاش پاش کر دیا ہے.کتاب کے فیصلہ کن دلائل کا رڈ کرنا قطعی طور پر ناممکن ہے.“ ہے.قارئین گزشتہ صفحات پر مرزا صاحب کے مقابلے میں لالہ شرمیت صاحب کے مضامین پر پنڈت شیونرائن اگنی ہوتری کا تبصرہ اور دوسرے واقعات پڑھ آئے ہیں اب ماسٹر مرلی دھر صاحب کے ساتھ مباحثے کا احوال بھی پڑھ لیا اور مرزا صاحب کی طرف سے اس مباحث پر مبنی کتاب سرمہ چشم آریہ پر مشہور عیسائی اخبار نور افشاں کا تبصرہ اور مرزا صاحب کے دو مشہور مسلمان مخالفین کے تبصرے بھی پڑھ لئے.آریہ سماج کو جو ہزیمت مرزا صاحب کے ہاتھوں اُٹھانی پڑ رہی تھی وہ نا قابل برداشت تھی اور بالآخران میں سے ایک صاحب پنڈت لیکھرام پشاوری مرزا صاحب کے ساتھ روحانی مقابلے کے لئے تیار ہو گئے جس کی روداد کافی طویل مگر دلچسپ اور عبرت انگیز ہے.: سید ابوالحسن ندوی- قادیانیت صفحات ۶۲-۶۳ : اخبار نورافشاں ۱۸۸۷ء- اشاعت ۶ /جنوری ۱۸۸۷ء
III- مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور آریہ سماجی لیڈر پنڈت لیکھرام پشاوری کے مابین روحانی مقابلہ: پس منظر : انیسویں صدی کی آخری چوتھائی میں آریہ تحریک کی بنیاد پڑی اور ہندوؤں میں اس قدر تیزی سے مقبول ہوئی کہ جلد ہی سارے ہندوستان میں مستحکم ہوگئی.آریہ سماج کا مرکز فلسفہ ہی اسلام اور بانی ء اسلام پر بے سروپا اعتراضات، غلیظ اور اہانت آمیز الزامات کا ملغوبہ تھا.اس زمانے میں قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراضات کی موسلا دھار بارش ہو رہی تھی.برہمو سماج اور عیسائی مشنریوں کا سارا زور بھی اسلام کے خلاف صرف ہو رہا تھا.اس وقت کے حالات کا تذکرہ تقریباً ۹۰ سال بعد مولوی سیدابوالحسن صاحب ندوی ناظم دارالعلوم ندوہ نے ان الفاظ میں کیا.عیسائی پادری مذہب مسیحیت کی تبلیغ و دعوت اور دین اسلام کی تردید میں سرگرم تھے....دوسری طرف آریہ سماجی مبلغ جوش و خروش سے اسلام کی تردید کر رہے تھے.! مسلمانوں پر یاس و نامیدی اور حالات و ماحول سے شکست خوردگی کا غلبہ تھا.عوام کی بڑی تعداد کسی مرد غیب کے ظہور اور کسی ملہم اور کسی موید من اللہ کی آمد کی منتظر تھی.کہیں کہیں یہ خیال بھی ظاہر کیا جاتا : مولوی سید الوالحسن ندوی ۱۹۶۶ء- قادیانیت طبع دوئم لا ہور صفحہ ۴۵ ، ۱۷
1+1 تھا کہ تیرہویں صدی کے اختتام پر مسیح موعود کا ظہور ضروری ہے.“ 1 اسلام کے خلاف عیسائیوں اور آریوں کے ظالمانہ حملے مرزا صاحب کی آنکھوں کے سامنے ہورہے تھے.آپ نے ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر لکھا کہ اس زمانہ میں جو کچھ دین اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی گئی اور جس قدر شریعت ربانی پر حملے ہوئے اور جس طرح سے ارتداد والحاد کا دروازہ کھلا کیا اُس کی نظیر کسی دوسرے زمانے میں بھی مل ن ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ تھوڑے ہی عرصے میں اس ملک ہند میں ایک لاکھ کے قریب لوگوں نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا اور چھ کروڑ اور کسی قدر زیادہ اسلام کے مخالف کتابیں تالیف ہوئیں اور بڑے بڑے شریف خاندانوں کے لوگ اپنے پاک مذہب کو کھو بیٹھے.یہاں تک کہ وہ جو آلِ رسول کہلاتے تھے وہ عیسائیت کا جامہ پہن کر دشمن رسول بن گئے اور اس قدر بد گوئی اور اہانت اور دشنام دہی کی کتابیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں چھاپی گئیں اور شائع کی گئیں کہ جن کے سُنے سے بدن پر لرزہ پڑتا اور دل رو رو کر یہ گواہی دیتا ہے کہ اگر یہ لوگ ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے قتل کرتے اور ہمارے جانی و دلی عزیزوں کو جو دنیا کے عزیز ہیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے اور ہمیں بڑی ذلت سے جان سے مارتے اور ہمارے تمام اموال پر قبضہ کر لیتے تو والله ثم واللہ ہمیں رنج نہ ہوتا اور اس قدر دل کبھی نہ دکھتا جوان گالیوں اور : مولوی سید الوالحسن ندوی ۱۹۶۶ء- قادیانیت طبع دوئم لا ہور صفحہ ۴۵ ، ۱۷
۱۰۲ اس تو ہین سے جو ہمارے رسول کی کی گئی دُکھا ! اسلام پر اس پر آشوب دور میں جب قرآن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر چاروں طرف سے حملے ہو رہے تھے اور بقول مولوی ابو الحسن ندوی عوام پر یاس و نومیدی کا غلبہ تھا اور وہ کسی ملہم اور موید من اللہ کے منتظر تھے.وہ اسلام کا شیدائی دشمنان اسلام کے مقابلے کے لئے میدان میں آ گیا جس کا نام مرزا غلام احمد قادیانی تھا.مرزا صاحب نے اسلام کی صداقت کے ثبوت میں لٹریچر شائع کرنے اور عوام و خواص پر اسلام کی خوبیوں کو واضح کرنے کا ایک زبر دست سلسلہ شروع کیا.آپ نے اشاعت لٹریچر کی ابتداء اپنی کتاب براہین احمدیہ سے کی جس کی یکے بعد دیگرے جلدیں شائع کی گئیں اور ۱۸۸۰ء سے شروع ہو کر ۱۹۰۸ء میں ختم ہوئیں.یہ کتاب کیا تھی کس اہمیت کی حامل تھی اس کی کس قدر پذیرائی ہوئی اس پر چند تبصرے ہم اس کتاب کے پہلے باب میں درج کر آئے ہیں یہاں اس کو دہرانا مقصود نہیں صرف مرزا صاحب اور پنڈت لیکھرام صاحب کے مابین روحانی مقابلے کے پس منظر کو سمجھنے کے لئے مولوی سیدابوالحسن ندوی صاحب کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیے جو براہین احمدیہ کی تصنیف کے ۸۶ سال بعد لکھا گیا.براہین احمدیہ کی تصنیف ۱۸۷۹ء سے شروع ہوتی ہے“ سے کتاب کا مرکزی مضمون اور جو ہر یہ ہے.کہ الہام کا سلسلہ نہ منقطع ہوا ہے اور نہ اس کو منقطع ہونا چاہئے یہی الہام دعوی کی صحت اور ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۳ء- آئینہ کمالات اسلا مطبع ریاض ہندا مرتسر صفحات ۲۹-۳۰ : مولوی سید الوالحسن ندوی ۱۹۶۶ء- قادیانیت طبع دوئم لا ہور صفحہ ۴۶
۱۰۳ مذہب اور عقیدے کی صداقت کی سب سے زیادہ طاقتور دلیل ہے جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کامل کرے گا اس کو علم ظاہر وعلم باطن سے سرفراز کیا جائے گا جو انبیا علیہ السلام کو اصالتاً عطا ہوا تھا اور اس کو علم یقینی اور قطعی حاصل ہوگا.‘1 ہندوستان کے بہت سے علمی اور دینی حلقوں میں اس کتاب کا پُر جوش استقبال کیا گیا.حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب بہت صحیح وقت پر شائع ہوئی تھی.اس کتاب کی کامیابی اور اس کی تاثیر کا اک سبب یہ بھی تھا کہ اس میں دوسرے مذاہب کو چیلنج کیا گیا تھا اور کتاب جواب دہی کی بجائے حملہ آور انداز میں لکھی گئی تھی.“ ہے وو براہین احمدیہ کی اشاعت نے ملک کے مذہبی حلقہ میں ایک غیر معمولی تموج پیدا کر دیا.مسلمانوں نے عام طور پر مصنف براہین احمدیہ کا ایک مجدد ذی شان کے طور پر خیر مقدم کیا اور مخالفین اسلام کے کیمپ میں بھی اس گولہ باری سے ایک ہلچل مچ گئی.“ سے : مولوی سید الوالحسن ندوی ۱۹۶۶ء - قادیا نیت طبع دوئم لا ہور صفحه ۵۳ : مولوی سید الوالحسن ندوی ۱۹۲۶ء- قادیا نیت طبع دوئم لا ہور صفحہ ۵۹ : مولوی سید ابوالحسن ندوی ۱۹۶۶ء- قادیا نیت طبع دوئم لا ہور صفحہ ۶۱
۱۰۴ ا مرزا صاحب کی طرف سے انعامی چیلنج پہلا چیلنج: مرزا صاحب نے اپنی تصنیف براہین احمدیہ (۱۸۸۰ء) میں نہ صرف اسلام کی صداقت کے زبر دست دلائل پیش کر کے اسلامیان ہند کے سر فخر سے بلند کر دیے تھے بلکہ ساتھ ہی آپ نے ایک انعامی اشتہار ، انگریزی اور اردو میں شائع کر کے ہندوستان کے سلاطین وزراء، پادری صاحبان اور پنڈتوں کے پاس بھیجا اور ان سب کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر وہ اس کتاب میں پیش کردہ اسلام کی صداقت کے دلائل کے مقابلے میں اسی تعداد یا اس سے کم اپنے مذہب کی صداقت میں پیش کریں گے تو وہ یعنی مرزا صاحب اپنی دس ہزار روپے کی مالیتی جائداد بلا عذر اس کے حوالے کر دیں گے.اس چیلنج کی مختصر روداد پہلے باب میں آچکی ہے.دوسرا چیلنج: جب پہلے چیلنج کے جواب میں کوئی مقابلے پر نہ آیا تو مرزا صاحب نے ۱۸۸۵ء میں ایک اور انعامی چیلنج اشہار کی شکل میں شائع کرایا اور اسے مختلف مذاہب کی سرکردہ شخصیات کو روانہ کیا.اس میں مرزا صاحب نے لکھا کہ دین حق جو خدا کی مرضی کے موافق ہے صرف اسلام ہے اور کتاب حقانی جو منجاب اللہ محفوظ اور قابل عمل ہے صرف قرآن ہے.....آپ کو اس دین کی حقانیت یا ان آسمانی نشانوں کی صداقت میں شک ہو
۱۰۵ تو آپ طالب حق بن کر قادیان میں تشریف لائیں اور ایک سال تک اس عاجز کی صحبت میں رہ کر آسمانی نشانوں کا بچشم خود مشاہدہ کریں لیکن اس شرط نیت سے ( جو طالب حق کی نشانی ہے ) کہ بجر د معائنہ آسمانی نشانوں کے اسی جگہ ( قادیان میں ) شرف اظہار اسلام یا تصدیق خوارق سے مشرف ہو جائیں گے...اور اگر آپ آویں اور ایک سال رہ کر آسمانی نشان مشاہدہ نہ کریں تو دوسو روپیہ ماہوار کے حساب سے آپ کو ہرجانہ یا جرمانہ دیا جائے گا.اس دوسور و پیہ ماہوار کو آپ اپنے شایان شان نہ سمجھیں تو اپنے حرج اوقات کا عوض یا ہماری وعدہ خلافی کا جرمانہ جو آپ اپنی شان کے لائق قرار دیں گے ہم اس کو بشرط استطاعت قبول کریں گئے.پنڈت لیکھرام کی مقابلے پر آمادگی: جب اخبارات میں مرزا صاحب کا دوسرا انعامی چیلنج چھپا اور ایک سال تک دوسو روپے ماہوار کی ادائیگی کا چرچا ہوا تو پنڈت لیکھرام صاحب پشاوری صدر آریہ سماج پشاور مرزا صاحب کے مقابلے کے لئے قادیان جا پہنچے.پنڈت صاحب برہمن ذات کے ہندو تھے.ان کے والد کا نام تارا سنگھ تھا.آپ ۱۸۵۶ء میں بمقام سید پور تحصیل چکوال ضلع جہلم پنجاب ( حال پاکستان) میں پیدا ہوئے.۱۸۷۶ء سے۱۸۸۴ ء تک پنڈت صاحب نے محکمہ پولیس صوبہ سرحد میں ملازمت کی.سارجنٹ نقشہ نویس کے لے : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۸۵ ء - مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحات ۲۱،۲۰
1+7 عہدے سے استعفیٰ دے کر پنڈت صاحب آریہ سماج پشاور کے صدر بن گئے.ابتداء میں مرزا صاحب نے پنڈت لیکھرام صاحب کو نظر انداز کیا.آپ کا اصرار تھا کہ ”ہمارا مقابلہ عوام الناس سے نہیں بلکہ ہر قوم کے چیدہ اور منتخب اور صاحب عزت لوگوں سے ہے.تم کسی قوم کے مقتدا اور پیشوا نہیں کہ جن کا ہدایت پانا ایک گروہ کثیر پر مؤثر ہو سکتا ہو.“ سے پنڈت صاحب کے مسلسل اصرار پر مرزا صاحب نے اس روحانی مقابلے کو اس شرط کے ساتھ مشروط کر دیا کہ پنڈت لیکھرام صاحب آریہ سماج قادیان، لاہور ، پشاور ، امرتسر اور لدھیانہ کی حلفی تصدیق پیش کرے کہ وہ پنڈت صاحب کو اپنا مقتدا اور پیشوا تسلیم کرتے ہیں.لیکن وہ ایسی کوئی تصدیق پیش نہ کر سکا.لیکن اپنے قادیان میں قیام کے دوران مرزا صاحب سے مسلسل خط و کتابت کے ذریعے بحث و تکرار کرتارہا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کا مذاق اڑاتا رہا یہاں تک کہ وہ ا ار دسمبر ۱۸۸۵ء کو قادیان سے روانہ ہو گیا اور جاتے وقت مرزا صاحب کو ایک خط میں لکھا کہ اچھا آسمانی نشان تو دکھاویں.اگر بحث نہیں کرنا چاہتے تو رب العرش خیر الماکرین سے میری نسبت کوئی نشان تو مانگیں تا فیصلہ ہو سے پنڈت لیکھرام ۱۸۸۵ء- کلیات آریہ مسافر صفحه ۴۱ پنڈت لیکھرام ۱۸۸۵ء- کلیات آریہ مسافر صفحہ ۴۰۸ : پنڈت لیکھرام ۱۸۸۵ء- بحوالہ استفتاء صفحہ ۷
۱۰۷ - پنڈت صاحب کی طرف سے دعوت مباہلہ : اس دوران پنڈت صاحب اپنی تصانیف کلیات آریہ مسافر اور تکذیب براہین کی وجہ سے اچھی خاصی شہرت پاچکے تھے اور اسلام کی تضحیک اور استہزا میں اس قدر آگے بڑھ گئے تھے کہ گویا سچے دل سے یقین رکھتے تھے کہ اسلام نعوذ باللہ ایک جھوٹا مذہب ہے اور مرزا غلام احمد کا چیلینج بے قدرو قیمت ہے.وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گندی گالیاں دیتا اور قرآن کا مذاق اُڑاتا.اُس کی تصنیف کلیات آریہ مسافر میں اس قسم کی تحریروں کے نمونے بکثرت ملتے ہیں.ان ساری کاروائیوں اور مرزا غلام احمد صاحب سے مقابلے کے اعلان سے پنڈت لیکھرام آریہ سماج کے لیڈر بن گئے تھے اور بالآ خر پنڈت لیکھرام صاحب نے اپنی کتاب خبط احمدیہ میں مرزا صاحب کو مندرجہ ذیل الفاظ میں براہِ راست دعوت مباہلہ دے دی.میں پنڈت لیکھرام ولد پنڈت تارا سنگھ صاحب شرما مصنف تکذیب براہین احمدیہ ورسالہ ہذا اقرار صحیح بدرستی ہوش وحواس کر کے کہتا ہوں کہ میں نے اوّل سے آخر تک رسالہ سرمہ چشم آریہ کو پڑھ لیا اور ایک بار نہیں بلکہ کئی بار اس کے دلائل کو بخوبی سمجھ لیا بلکہ ان کے بطلان کو بروئے ست دھرم رسالہ ہذا میں شائع کیا.میں یہ بھی مانتا ہوں کہ وید ہی سب سے کامل گیان کے پتک ہیں....آریہ ورت سے باہر جو بقول مسلمانوں کے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر ۵-۶ ہزار سال سے آئے ہیں اور توریت ، زبور، انجیل اور قرآن وغیرہ کتب لائے ہیں.ان کی
1+1 تمام مذہبی ہدایتوں کو بناوٹی اور جعلی، اصلی الہام کے بد نام کرنے والی تحریر میں خیال کرتا ہوں...اس کی سچائی کی دلیل سوائے طمع یا نادانی یا تلوار کے ان کے پاس کوئی نہیں...اور جس طرح میں اور راستی کے خلاف باتوں کو غلط سمجھتا ہوں ایسا ہی قرآن اور اس کے اصولوں اور تعلیموں کو جو وید کے مخالف ہیں ان کو غلط اور جھوٹا جانتا ہوں لیکن میرا دوسرا فریق مرزا غلام احمد ہے.وہ قرآن کو خدا کا کلام جانتا اور اس کی سب تعلیموں کو درست اور صحیح سمجھتا ہے اور جس طرح میں قرآن وغیرہ کو پڑھ کر غلط سمجھتا ہوں ایسے ہی وہ اُمی محض سنسکرت اور ناگری سے محروم مطلق بغیر پڑھنے یا دیکھنے ویدوں کے ویدوں کو غلط سمجھتا ہے.اے پر میشر ! ہم دونوں فریقوں میں سچا فیصلہ کر کیونکہ کا ذب صادق کی طرح کبھی تیرے حضور سے عزت نہیں پاسکتا.راقم.آپ کا ازلی بندہ لیکھر ام شرما سبھا سد آریہ ضلع پشاور حال آڈیٹر آریہ گزٹ فیروز پور پنجاب 1 اعلان مباہلہ کے بعد کے واقعات کی مختصر رو داد: پنڈت لیکھرام کی طرف سے اعلان مباہلہ چھپنے کے ساتھ ہی پنڈت صاحب اور مرزا صاحب کے درمیان تعلق باللہ کو ثابت کرنے کا مقابلہ شروع ہو گیا جس کے دوران مرزا صاحب اور پنڈت صاحب کے درمیان بیانات اور جوابی بیانات کا دفتر پنڈت لیکھرام ۱۸۸۶ ء - خبط احمدیہ صفحات ۲۴۴ - ۲۴۷
1+9 کھل گیا اور دونوں نے ایک دوسرے کے متعلق خدا سے ملنے والے الہامات اور دوسرے اعلانات اخبارات میں شائع کروانے شروع کر دیئے یہاں تک کہ اس غیر معمولی مقابلے کی طرف جس میں باہمی تحریری رضا مندی سے اسلام اور آریہ مذہب کی سچائی کا فیصلہ ہونا تھا سارے ہندوستان کے مسلمانوں اور ہندوؤں اور دنیا بھر کے مذہبی حلقوں کی نظریں لگی ہوئی تھیں.ہم اختصار کے ساتھ باری باری مرزا صاحب اور پنڈت صاحب کے بیانات اور جواب نیچے درج کر رہے ہیں.مرزا غلام احمد صاحب : مرزا صاحب نے ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کو ایک الہامی پیشگوئی شائع کی جس میں اپنی کامیابی اور مخالفین کی ناکامی کا عمومی تذکرہ تھا اور اسی دن ایک اشتہار شائع کیا جس میں پنڈت لیکھرام صاحب وغیرہ سے ان کے بارے میں انذاری خبر شائع کرنے کی اجازت طلب کی.مرزا صاحب کی طویل پیشگوئی کے کچھ اقتباسات درج ذیل ہیں : میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا...فضل اور احسان کا نشانہ تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے.تادین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آ جائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور
11+ تا اُنہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیٰ کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے.! اس کے ساتھ ہی مرزا صاحب نے ایک اشتہار شائع کیا جس میں تمام موافقین و مخالفین بشمول پنڈت لیکھر ام صاحب کو مخاطب کر کے کہا کہ وہ عنقریب ایک رسالہ تحریر کرنے والے ہیں جس میں پنڈت لکھر ام اور پنڈت اندر من مراد آبادی کی قضا وقدر کے متعلق کچھ لکھنے والے ہیں تا کہ اگر انہیں اعتراض ہو تو ایسی کوئی تحریر شائع نہ کی جائے.مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ چونکہ پیشگوئیاں کوئی اختیاری بات نہیں ہے تا ہمیشہ اور ہر حال میں خوشخبری پر دلالت کریں.اس لئے ہم بانکسار تمام اپنے موافقین و مخالفین کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ اگر وہ کسی پیشگوئی کو اپنی نسبت ناگوار طبع ( جیسے خبر موت، فوت یا کسی اور مصیبت کی نسبت) پاویں تو اس بندہ ناچیز کو معذور تصور فرماویں.بالخصوص وہ صاحب.....جیسے منشی اندر من مراد آبادی و پنڈت لیکھرام پشاوری جن کی قضا و قدر کے متعلق غالباً اس رسالہ میں بقید وقت و تاریخ کچھ تحریر ہوگا.....اگر کسی صاحب پر کوئی ایسی پیشگوئی شاق گذرے تو وہ...دو ہفتہ کے اندر اپنی و تخطی تحریر سے مجھ کو اطلاع دیں تا وہ پیشگوئی جس کے ظہور سے وہ ڈرتے : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۸۶ ء - تذکرہ - الشركة الاسلامیه ربوه-صفحات ۱۳۶ تا ۱۳۸
ہیں.اندراج رسالہ سے علیحدہ رکھی جائے اور موجب دلآزاری سمجھ کر کسی کو اس امر پر مطلع نہ کیا جاوے اور کسی کو اس کے وقت ظہور سے خبر نہ دی جائے.اے پنڈت لیکھرام صاحب: پنڈت صاحب نے مرزا صاحب کی ۲۰ فروری ۱۸۸۶ ء والی پیشگوئی جو عام طور پر پسر موعود والی پیشگوئی کہلاتی ہے اور کافی طویل ہے اس کے جواب میں اپنی طرف سے ایک پیشگوئی ۱۸ / مارچ ۱۸۸۶ء کو شائع کی جس میں مرزا صاحب کی پیشگوئی کے بہت سے حصوں کی قطعی تردید کا الہامی بنیاد پر دعوی کیا.ہم قارئین کی دلچسپی کے لئے مرزا صاحب کی پیشگوئی کے کچھ فقرے اور پنڈت صاحب کی جوابی پیشگوئی کے تقابلی فقرے درج کر رہے ہیں تاکہ قارئین آج اس پیشگوئی کی بنیاد پر ۱۰۲ سال گذر نے کے بعد جھوٹے اور بچے کے درمیان فرق کر سکیں.نمبر شمار مرزا صاحب کی پیشگوئی کے الفاظ پنڈت صاحب کی پیشگوئی کے الفاظ: میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا رحمت کا نشان نہیں ، زحمت کا نشان ہوں.ثابت ہوگا.تیری نسل بہت ہوگی اور میں تیری آپ کی ذریت بہت جلد منقطع ہو ذریت کو بہت بڑھاؤں گا.جائے گی.مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۸۶ ء - اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء مجموعه اشتہارات جلد اصفحه ۹۸
۱۱۲ میں نے تیری تضرعات کو سنا اور جھوٹوں کا جھوٹا ہے.میں نے کبھی تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بپا یہ اس کی دعا نہیں سنی اور نہ قبول کی.قبولیت جگہ دی.تجھے رحمت کا نشان دیتا ہوں.میں نے قہر کا نشان دیا ہے.تیرے سفر کو (جو ہوشیار پور اور خدا اس سفر کو منحوس بتلاتا ہے.لودھیانہ کا سفر ہے) تیرے لئے مبارک کر دیا.اس کا نام عما نویل اور بشیر بھی ہے.خدا کہتا ہے اس کا نام عزرائیل اور شریر بھی ہے.اس کو مقدس روح دی گئی ہے.وہ ناپاک اور پلید روح دی گئی ہے.وہ دیجور کھلم کھلا ہے.نور اللہ ہے.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور وہ صاحب ذلت ونحوست، نکبت ہو دولت ہوگا.گا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی خدا کہتا ہے کہ وہ مرزا کی طرح دنیا نفس اور روح الحق کی برکت سے میں آکر اعزاز شیطانی نفس اور بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے روح منحوس کی نحوست سے بہتوں کو دائم المریض کر کے واصل فی النار گا.کرے گا.
وہ کلمتہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت خدا اسے نا پاک بتلاتا ہے جس کو وغیوری نے اسے اپنے کلمہ تمجید شیطان نے اپنی شیطنت اور سے بھیجا ہے.بے قمیتی سے بھیجا ہے.دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی خدا کہتا ہے.وہ نہایت غلیظ القب سے پر کیا جائے گا.ہوگا اور علوم سوری ومعنوی سے قطعی ۱۳ ۱۴ محروم ہو گا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اس میں شیطان کی روح پڑے گی اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.اور خدا کا غضب اُس پر برسے گا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی خدا کہتا ہے.کہ محض جھوٹھ ہے.رستگاری کا موجب ہو گا اور زمین خدا کہتا ہے.کہ وہ دائم الحبس ہو کے کناروں تک شہرت پائے گا.گا.اس رذیل کا نام قادیان میں بھی بہت سے نہ جانیں گے.تیری ذریت منقطع نہ ہو گی اور آپ کی ذریت بہت جلد منقع ہو آخری دنوں تک سرسبز رہے گی.جائے گی.غائت درجہ تین سال تک شہرت رہے گی.1 مرزا غلام احمد صاحب کے اشتہار کے جواب میں جس میں مرزا صاحب نے منشی اندر من مراد آبادی اور پنڈت لیکھرام سے ان کے متعلق قضا و قدر کی پیشگوئی شائع کرنے کی اجازت چاہی تھی پنڈت صاحب نے ۲۵ را پریل ۱۸۸۶ء کو ایک اشتہار : پنڈت لیکھرام - کلیات آریہ مسافر حصہ سوئم صفحات ۴۹۶ تا ۴۹۸
چھاپا اور اس پر کچھ مزید ریمارکس اپنی تصنیف کلیات آریہ مسافر میں دیئے ان میں کچھ درج ذیل ہیں.-1 -۲ ” میں آپ کی پیشگوئیوں کو واہیات سمجھتا ہوں میرے حق میں جو چاہو شائع کرو میری طرف سے اجازت ہے اور میں کچھ خوف نہیں کرتا.‘1 حضرت کو اس نیاز مند اور منشی اندرمن صاحب کی وفات وحیات ،شادی و غمی کی نسبت الہام ہوئے ہیں مگر نہیں بتلاتے جب تک ہم ان کو اجازت نہ دیویں.منشی اندر من صاحب کا حال مجھے نہیں معلوم مگر میں نے اُن کو تحریری اجازت نامہ ارسال کر دیا جس پر اب تک کوئی انکشاف نہیں ہوا کہ خیر الماکرین سے مرزا صاحب کو کیا الہام ہوتا ہے.“ ہے پنڈت صاحب مزید لکھتے ہیں کہ آپ میں ہر گز یہ قدرت نہیں کہ کسی کے بارے میں صریح خبر بقید تاریخ و وقت لکھ سکیں.“ سے پنڈت صاحب مرزا صاحب کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ اگر خدا سے الہام ہوتا تو کیا وہ تاریخ اور وقت بتانے میں قادر نہ تھا پنڈت لیکھرام.بحوالہ استفتا تصنیف مرزا غلام احمد صفحه 9 : پنڈت لیکھرام - کلیات آریہ مسافر با راول صفحات ۴۱۵ - ۴۱۶ پنڈت لیکھرام - کلیات آریہ مسافر بار اول صفحه ۴۹۴ پنڈت لیکھرام- کلیات آریہ مسافر بار اول صفحه ۴۹۹
۱۱۵ مرزا غلام احمد صاحب: بعد کے واقعات بتاتے ہیں کہ وہ پسر موعود ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء کو پیدا ہوا.اس کا نام پیشگوئی کے مطابق مرزا بشیر الدین محمود احمد رکھا گیا.۲۵ سال کی عمر میں جماعت احمدیہ کا خلیفہ منتخب ہوا.۵۶ سال تک خلافت کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز رہنے کے بعد بالآ خر ۷۷ برس کی عمر میں فوت ہوا.اپنی ذہانت ، فہم ، روحانیت کے باعث زمین کے کناروں تک شہرت پائی.اُس کے عہد میں جماعت احمدیہ نے بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کیں.مرزا صاحب کی پیشگوئی کا ایک ایک لفظ سچا ثابت ہوا اور پنڈت لیکھرام کی پیشگوئی کا ہر لفظ جھوٹا نکلا.ذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ ہم چونکہ لیکھر ام کے انجام پر بحث کر رہے ہیں اس لئے اس پیشگوئی کو یہیں چھوڑتے ہیں کیونکہ پنڈت صاحب کے باقی آریہ ساتھی سالہا سال تک مرزا صاحب کے الہامی الفاظ کو بیچ ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے اسے ثابت کرنے کے لئے مزید شہادتوں کی حاجت نہیں.اب ہم اُن پیشگوئیوں کی طرف آتے ہیں جومرزا صاحب نے پنڈت لیکھرام صاحب کے بارے خدا سے خبر پاکر پنڈت صاحب کی اجازت سے بیان کرنی شروع کیں.یہ الہامی خبریں پہلے بیان کردہ عمومی فتح کی خبر اور مجرموں کی سزا کی خبر کے بعد آہستہ آہستہ پنڈت لیکھر ام کے بارے میں معین وقت اور معین قسم کی سزا کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور مرزا صاحب اس سزا کے بارے میں مسلسل یقین اور تہدی کے ساتھ اس سزا کے قطعی اور بین ہونے کا اعادہ کرتے جاتے ہیں.
117 = پہلا الهام : مرزا صاحب نے ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء کو ایک اشتہار کے ذریعے پنڈت لیکھر ام صاحب کے بارے میں اپنے الہام شائع کئے.پہلا الہام ایک شعر پر مشتمل تھا.الا اے دشمن نادان و بے راہ بنترس از تیغ بران محمد دوسرا الهام : دوسرا الہام ایک عربی فقرہ تھا.اشتہار میں ساتھ ہی اس کی وضاحت تھی.” عِجَلٌ جَسَدٌ لَّهُ خوار - له نصب و عذابٌ “ ۲ دو (ترجمہ) اور وضاحت.وو یہ صرف ایک بے جان گوسالہ ہے جس کے اندر سے مکر وہ آواز نکل رہی ہے اور اس کے لئے اُن گستاخیوں اور بد زبانیوں کے عوض میں سزا اور رنج اور عذاب مقدر ہے جو ضرور اس کو مل کر رہے گا.‘ سے تیسرا الہام: اسی ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء کے اشتہار میں درج ایک اور الہامی خبر کو مرزا صاحب اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہیں جو لیکھرام کے عذاب کے وقت کا تعین کرتی ہے.آپ لکھتے ہیں کہ ۳۲ مرزا غلام احمد صاحب ۱۸۹۳ء - اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء ( شامل کتاب آئینہ کمالات اسلام)
آج ۲۰ / فروری ۱۸۹۳ ء روز دوشنبہ ہے.اس عذاب کا وقت معلوم کرنے کے لئے توجہ کی گئی تو خداوند کریم نے مجھ پر ظاہر کیا کہ آج کی تاریخ سے جو ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء ہے چھ برس کے عرصہ تک یہ شخص اپنی بدزبانیوں کی سزا میں یعنی ان بے ادبیوں کی سزا میں جو اس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں کی ہیں عذاب شدید میں مبتلا ہو جائے گا.مرزا صاحب کی طرف سے متذکرہ بالا اشتہار میں شائع شدہ پیشگوئیوں کے بارے میں اپنی ۲۵ / مارچ ۱۸۹۳ء کی اشاعت میں اخبار انیس چند میرٹھ نے کچھ شکوک وشبہات کا اظہار کیا لیکن مرزا صاحب نے پیشگوئی کی وضاحت کرتے ہوئے اپنی کتاب برکات الدعا میں لکھا کہ سو میں اس وقت اس نکتہ چینی کے جواب میں صرف اس قد رلکھنا کافی سمجھتا ہوں کہ جس طور اور طریق سے خدا تعالیٰ نے چاہا.اُسی طور سے کیا.میرا اس میں دخل نہیں.ہاں یہ سوال کہ ایسی پیشگوئی مفید نہیں ہو گی اور اس میں شبہات باقی رہ جائیں گے.اس اعتراض کی نسبت میں خوب سمجھتا ہوں کہ یہ پیش از وقت ہے.میں اس بات کا خود اقراری ہوں اور اب پھر اقرار کرتا ہوں کہ اگر جیسا کہ معترضوں نے خیال فرمایا ہے پیشگوئی کا ماحصل آخر کار یہی نکلا کہ کوئی معمولی تپ آیا یا معمولی طور کوئی دردہوا یا ہیضہ ہوا اور پھر اصلی حالت صحت کی قائم ہوگئی تو وہ پیشگوئی ل : مرزا غلام احمد صاحب ۱۸۹۳ء - اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء ( شامل کتاب آئینہ کمالات اسلام )
۱۱۸ متصور نہیں ہوگی اور بلا شبہ ایک مکر اور فریب ہوگا کیونکہ ایسی بیماریوں سے تو کوئی بھی خالی نہیں.ہم سب کبھی نہ کبھی بیمار ہو جاتے ہیں.پس اس صورت میں بلاشبہ میں اس سزا کے لائق ٹھہروں گا جس کا ذکر میں نے کیا ہے لیکن اگر پیشگوئی کا ظہور اس طور سے ہوا کہ جس میں قہر الہی کے نشان صاف صاف اور کھلے طور پر دکھائی دیں تو پھر سمجھو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.‘1 مرز اصاحب اس عبارت میں آگے چل کر لکھتے ہیں کہ اگر میری طرف سے بنیاد اس پیشگوئی کی صرف اس قدر ہے کہ میں نے صرف یاوہ گوئی کے طور پر چند احتمالی بیماریوں کو ذہن میں رکھ کر اور انکل سے کام لے کر یہ پیشگوئی شائع کی ہے تو جس شخص کی نسبت یہ پیش گوئی ہے وہ بھی تو ایسا کر سکتا ہے کہ انہی اٹکلوں کی بنیاد پر میری نسبت کوئی پیشگوئی کر دے بلکہ میں راضی ہوں کہ بجائے چھ برس کے جو میں نے اس کے حق میں میعاد مقرر کی ہے وہ میرے لئے دس برس لکھ دے.لیکھرام کی عمر اس وقت زیادہ سے زیادہ تمہیں برس ہوگی اور وہ جوان ، قوی ہیکل ، عمدہ صحت کا آدمی ہے اور اس عاجز کی عمر اس وقت پچاس برس سے کچھ زیادہ ہے اور ضعیف اور دائم المرض اور طرح طرح کے عوارض میں مبتلا ہے پھر باوجود اس کے مقابلہ میں خود معلوم ہو جائے گا کہ کونسی بات انسان کی طرف سے ہے اور کون سی خدا تعالیٰ کی طرف سے.....اگر له : مرزا غلام احمد صاحب ۱۸۹۳ء- برکات الد عاطبع اوّل صفحات ۲-۳
۱۱۹ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور میں خوب جانتا ہوں کہ اُسی کی طرف سے ہے تو ضرور ہیبت ناک نشان کے ساتھ اس کا وقوعہ ہوگا اور دلوں کو ہلا دے گا اور اگر اُس کی طرف سے نہیں تو پھر میری ذلت ظاہر ہوگی اور اگر میں اُس وقت رکیک تاویلیں کروں گا تو یہ اور بھی ذلت کا موجب ہوگا.چوتھا الہام (کشف ): پنڈت لیکھرام صاحب کے بارے میں چوتھا الہام مرزا صاحب نے اپنی کتاب برکات الدعامیں اِن الفاظ میں شائع کیا کہ آج جو ۲ اپریل ۱۸۹۳ء مطابق ۱۴ / ماہ رمضان ۱۳۱۰ھ ہے صبح کے وقت تھوڑی سی غنودگی کی حالت میں میں نے دیکھا کہ میں ایک وسیع مکان میں بیٹھا ہوا ہوں اور چند دوست بھی میرے پاس موجود ہیں.اتنے میں ایک شخص قوی ہیکل مہیب شکل گویا اس کے چہرے پر خون ٹپکتا ہے میرے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا.میں نے نظر اُٹھا کر دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک نئی خلقت اور شمائل کا شخص ہے.گویا انسان نہیں ملائک شداد غلاظ میں سے ہے اور اس کی ہیبت دلوں پر طاری تھی اور میں اُس کو دیکھتا ہی تھا کہ اس نے مجھ سے پوچھا کہ لیکھر ام کہاں ہے تب میں نے اس وقت سمجھا کہ یہ شخص لیکھرام...کی سزا دہی کے ا : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۳ء- برکات الد عاصفحات ۳ ۴ طبع اوّل
۱۲۰ لئے مامور کیا گیا ہے....اور یہ یکشنبہ کا دن اور ۴ بجے صبح کا وقت تھا.کا فالحمد لله على ذلك پنڈت لیکھرام صاحب پر الہی عذاب کے ورد ہونے کی قطعیت پر ہر قسم کے شک و شبہ کو ختم کرنے کے لئے مرزا صاحب نے ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء کو اشتہار دو لیکھر ام پشاوری کی نسبت ایک پیشگوئی میں یہاں تک لکھ دیا کہ اگر اس شخص پر چھ برس کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے کوئی ایسا عذاب نازل نہ ہوا جو معمولی تکلیفوں سے نرالا اور خارق عادت اور اپنے اندرا الہی ہیبت رکھتا ہو تو سمجھو کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور نہ اُس کی روح سے میرا یہ نطق ہے اور اگر میں اس پیشگوئی میں کا ذب نکلا تو ہر ایک سزا بھگتنے کے لئے میں تیار ہوں اور اس بات پر راضی ہوں کہ مجھے گلے میں رسی ڈال کر کسی سولی پر کھینچا جائے..اب آریوں کو چاہیے کہ سب مل کر دعا کریں کہ یہ عذاب اُن کے وکیل سے ٹل جائے“ ہے پانچواں الہام : اس روحانی مباہلے کے بارے میں مزید واضح کرنے والی خبر وہ عربی اشعار کے دوالها می مصرعے تھے جنہیں مرزا صاحب نے اپنی کتاب کرامات الصادقین میں شائع کیا جو یہ تھے.: مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۳ء- برکات الد عاصفحہ ۴۱ : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۳ء- مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۳۷۳
۱۲۱ وإِنِّي انا الرحمن ناصِرُ حِزْ بِهِ ترجمہ: اور میں ہی رحمن اپنی جماعت کی مدد کرنے والا اور جو شخص میرے گروہ میں سے ہو اسے غلبہ اور نصرت دی جائے گی.سَتَعرِف يوم العيد والعيد اقرب ترجمہ: میرے رب نے مجھے بشارت دی اور بشارت دے کر کہا کہ تو عنقریب عید کے دن کو پہچان لے گا اور عید اس سے قریب تر ہوگی.اس طرح مرزا صاحب کے الہام مصرعوں سے اس بات کا تعین ہو گیا کہ اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے دن کا عید کے دن سے قریبی تعلق ہوگا.پنڈت لیکھرام صاحب: مرزا صاحب کے ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کی پسر موعود کی پیشگوئی کے جواب میں پنڈت صاحب نے جو ۱۸ مارچ ۱۸۸۶ء کو پیشگوئیاں کی تھیں اُن کا کچھ تذکرہ پیچھے آچکا ہے.پنڈت صاحب نے اس اشتہار میں مزید لکھا کہ ”ہمارا شعلہ طور بھی تیار ہوتا ہے.ہم بھی اپنا الہام سنائیں گے اور غیب کی باتیں بتائیں گے.“ ہے ل : مرزا غلام احمد صاحب ۱۸۹۳ء کرامات الصادقین صفحه ۴ ۵ ے : پنڈت لیکھرام صاحب ۱۸۸۶ء- کلیات آریہ مسافر صفحات ۴۹۵-۴۹۲
۱۲۲ میں نے عرض کی کہ بار خدایا ایسے مکار ( مراد مرزا غلام احمد صاحب.ناقل ) کوسزا کیوں نہیں دیتا جو بندگان ایزدی کو گمراہ کرتا ہے.فرمایا تین سال میں سزا دی جائے گی...میں نے عرض کی کہ خداوندا اس نے اشتہار جاری کیا ہے کہ مجھ کو الہامات ہوتے ہیں.فرمایا محض جھوٹ ہے.ہم نے کوئی الہام یا پیشگوئی اس کو نہیں بتلائی.‘1 پنڈت صاحب نے اسی تسلسل میں یکے بعد دیگرے مرزا صاحب کے بارے میں کئی اور پیشگوئیاں کیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں.مثلاً "آپ کی ذریت بہت جلد منقطع ہو جائے گی.غائت درجہ تین سال تک شہرت رہے گی....خدا کہتا ہے چند روز تک قادیان میں نہایت ذلت اور خواری کے ساتھ کچھ تذکرہ رہے گا پھر معدوم محض ہو جائے گا.“ ہے مرزا صاحب نے ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کے الہام کی بنا پر جس موعود بیٹے کی پیشگوئی کی تھی اُس کے متعلق لیکھر ام صاحب نے لکھا کہ ابد تک آپ کے کوئی لڑکا پیدا نہ ہوگا جیسا کہ عرصہ ہوا بذریعہ اشتہار مفصل شائع ہو چکا ہے.‘“ سے پہلے یہ بھی اطمینان ہو گیا کہ 9 برس تک آپ اور آپ کی بیوی : پنڈت لیکھرام صاحب ۱۸۸۶ء کلیات آریہ مسافر صفحات ۴۹۵-۴۹۶ : پنڈت لیکھرام صاحب ۱۸۸۶ء- کلیات آریہ مسافر صفحہ ۴۹۷ : پنڈت لیکھرام صاحب ۱۸۸۶ء کلیات آریہ مسافر صفحات ۴۹۹ -۵۰۱
۱۲۳ زندہ رہے گی؟ ہمارا الہام تو تین سال کے اندر اندر آپ سب کا خاتمہ بتلاتا ہے.وو 66 ” ہمارا الہام یہ کہتا ہے کہ لڑکا کیا تین سال کے اندر اندر آپ کا خاتمہ ہو جائے گا اور آپ کی ذریت سے کوئی باقی نہ رہے گا.“ ہے مرزا صاحب کی طرف سے پنڈت لیکھرام کی قہر الہی سے چھ سال کے اندراندر موت کی خبر سے گھبرانے کی بجائے پنڈت صاحب میں پہلے سے بھی زیادہ بیبا کی پیدا ہوگئی تھی.بجائے اس کے کہ وہ اپنی زبان و قلم کو لگام دیتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف دشنام طرازی سے احتراز کرتا وہ آریہ اعتقادات پر پختہ یقین کے ساتھ اسلام کے خلاف مرزا صاحب کے مقابلے کے لئے تیار ہو گیا اور بڑی دھوم دھام اور تکبر کے ساتھ پہلے سے بھی زیادہ تلخ کلامی شروع کر دی.مرزا صاحب کی طرف سے ۱۸۸۶ ء والی پسر موعود کی پیشگوئی اور ۱۸۹۳ء والی چھ سال کے اندر عذاب الہی سے پنڈت لیکھرام کی موت کی پیشگوئی اور اس کے جواب میں پنڈت لیکھرام کی طرف سے مرزا صاحب کے ہاں ابد تک بیٹا نہ ہونے اور مرزا صاحب کی ذریت کے تین سال کے اندر اندر خاتمے کی پیشگوئیاں ۱۸۹۳ء سے ۱۸۹۷ء تک ہندوستان کے طول و عرض میں مختلف اخبارات، رسائل اور اشتہاروں کے ذریعے مسلسل مشتہر ہوتی رہیں اور شہرت پاتی رہیں.اسلام اور آریہ سماج کے درمیان ایک طرح کی جنگ کا طبل بج چکا تھا اور لوگ آریہ اور مسلمان سبھی شدید بے چینی سے نتائج لے ، ۲: پنڈت لیکھرام صاحب ۱۸۸۶ء- کلیات آریہ مسافرصفحات ۴۹۹-۵۰۱
۱۲۴ کا انتظار کر رہے تھے.9 جنوری ۱۸۹۷ء کو پنڈت لیکھرام نے لکھا کہ اُس نے جبرائیل بھیج کر قادیانی کے کان میں ہماری موت کا الہام سنایا وقت گذرتا جا رہا تھا.ایک لحاظ سے پنڈت صاحب کی ۱۸؍ مارچ ۱۸۸۶ء کی مرزا صاحب کے خلاف پسر موعود کے نہ ہونے اور مرزا صاحب کی ذریت کے تین سال میں خاتمے کی پیشگوئیاں تو جھوٹی ثابت ہو ہی چکی تھیں اب در حقیقت ہر ایک کو مرزا صاحب کی پیشگوئی کے پورا ہونے کا انتظار تھا.پنڈت لیکھرام نے ہر طرح سے اپنی حفاظت کے انتظام کر رکھے تھے اور خاص طور پر دو تنخواہ دار سپاہی اپنے مکان میں تعینات کر لئے تھے.پنجاب پولیس کی خفیہ ہدایات کے ذریعے خبر دار کر دیا گیا تھا کہ وہ پنڈت لیکھرام کی حفاظت کا خاص خیال رکھے کیونکہ بقول مسٹر کرسٹی ( پنجاب پولیس) ا: دد گورنمنٹ کو مدت سے معلوم تھا کہ پنڈت لیکھرام پر مخالفوں کی طرف سے ہر طرح کے حملے ہوں گے اور اس لئے پولیس کو خفیہ ہدایات رہتی تھیں کہ ہر جگہ اُن کی حفاظت کو مد نظر رکھیں.“ سے ۴- خدا کے قہری نشان کا ظہور : حالات بتاتے ہیں کہ ۱۸۹۷ء کے آغاز ہی سے جب کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی پنڈت لیکھرام ۱۸۹۷ء- کلیات آریہ مسافر صفحه ۴۳۲ : پنڈت لیکھرام ۱۸۹۷ ء - کلیات آریہ مسافر صفحہ الف کالم ۲
۱۲۵ کو چار سال کے قریب عرصہ گذر چکا تھا مرزا صاحب اور پنڈت صاحب کے درمیان معرکے کے فیصلہ کن لمحات آن پہنچے تھے جن کو قریب تر لانے کے اسباب ہی پنڈت صاحب کے اپنے ہاتھوں پیدا ہورہے تھے.اُن کے قرآن ، اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے استہزاء میں تلخی بڑھ رہی تھی اور وہ مرزا صاحب کی پیشگوئیوں کا مسلسل تمسخر اڑارہے تھے.آخر خدا کے قہری نشان کے ظہور کا وقت آ پہنچا جس کی مختصر روداد یوں ہے.اگر چہ عام طور پر ہندو مذہب کے مطابق ہند و پیدائشی ہوتا ہے اور کسی غیر مذہب والا ہندو مذہب میں داخل نہیں ہو سکتا مگر پنڈت لیکھرام صاحب وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے ہندوستان میں شدھی کی داغ بیل ڈالی.پنڈت صاحب کا نکتہ نگاہ یہ تھا کہ ماضی میں ہندوستان کے مسلمان بادشاہوں نے زبر دستی ہندوؤں کو مسلمان بنالیا تھا جن کو پھر سے اپنے آبائی دھرم ہندو مذہب میں واپسی کے لئے شدھی کا آغاز کرنا چاہیے اس کے نتیجے میں بقول پنڈت صاحب ایک مسلمان آکر ان سے ملتجی ہوا کہ میرے باپ دادا ہندو تھے جو مسلمانوں کے زیر اثر آ کر مسلمان ہو گئے تھے اس نے پھر سے ہندودھرم آنے کے لئے شدھی کی درخواست کی.پنڈت لیکھرام صاحب نے اس کے لئے ے مارچ ۱۸۹۷ء کی تاریخ مقرر کی.ہندوؤں کی طرف سے اس کے لئے زور شور سے جلسے ، جلوس اور خوشیاں منانے کی تیاریاں شروع ہو گئیں.ان دنوں پنڈت صاحب لاہور کے آریہ محلہ وچھو والی کے ایک ایسے مکان میں رہائش رکھتے تھے جو تین منزلہ تھا اور گلی کا آخری مکان تھا گلی آگے سے بند تھی اور مکان مکمل طور پر محفوظ تھا.انہی دنوں ماہ رمضان المبارک کے خاتمے پر ۵/ مارچ ۱۸۹۷ء
١٢٦ بروز جمعہ المبارک مسلمانوں کی عید الفطر کا دن تھا.بیان کیا گیا ہے کہ پنڈت لیکھرام صاحب ۶ / مارچ ۱۸۹۷ء بروز ہفتہ شام کے وقت اپنے مکان کی بالائی منزل پر ننگے بدن بیٹھے، پنڈت دیانند بانی آریہ سماج کی سوانح عمری لکھ رہے تھے اور وہ شدھی کا خواہاں شخص بھی کمبل اوڑھے پاس ہی بیٹھا تھا.اس دوران تصنیف کے کام سے تھک کر پنڈت لیکھرام صاحب کھڑے ہو گئے اور کھڑے ہوتے ہی انگڑائی کی جس پر اس شدھی ہونے والے شخص نے پنڈت صاحب کی بڑھی ہوئی تو ند پر خنجر کا بھر پوروار کیا کہ انتڑیاں پیٹ سے باہر نکل آئیں.پنڈت صاحب کی شیخ کی آواز کوسن کر پنڈت صاحب کی بیوی اور والدہ اس کمرے میں آ گئیں.ان کے شور سے گلی اور محلے کے لوگ بھی جمع ہو گئے مگر ساری روکاوٹوں اور حفاظتوں کے باوجود کسی کو بھی پتہ نہ چل سکا کہ حملہ آور کدھر کو ، کس طرح اور کہاں غائب ہو گیا.پنڈت جی کو زخمی حالت میں لاہور میوہسپتال پہنچایا گیا جہاں انگریز ڈاکٹر پیری کی پوری کوشش کے باوجود پنڈت صاحب آٹھ گھنٹے شدید کرب کے بعد ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات ۱-۲ بجے اس دار فانی سے چل بسے.اس واقعہ کے پس منظر اور اس کی تفاصیل کے بارے مشہور آریہ سماجی لیڈر پنڈت دیو پرکاش نے اس طرح لکھا کہ ۱۳ / فروری یا ۱۴ فروری ۱۸۹۷ء کو ایک شخص لالہ ہنراج جی کے پاس گیا.پھر دوسرے روز دیا نند کالج ہال میں دکھائی دیا.وہ پنڈت لیکھرام جی کو تلاش کرتا تھا.پھر پنڈت جی کو ملا تو اس نے عرض ظاہر کی کہ وہ پہلے ہندو تھا عرصہ ۲ سال سے مسلمان ہو گیا تھا اب پھر اپنے اصل دھرم پر واپس آنا چاہتا ہے...وہ پنڈت جی کے ساتھ
۱۲۷ سایہ کی طرح رہنے لگا.کھانا بھی عام طور پر پنڈت جی کے گھر کھایا کرتا تھا یہاں تک کہ پنڈت جی یکم مارچ کو ملتان تشریف لے گئے.۵/ مارچ کو عید کا دن تھا قاتل نے اس دن پنڈت جی کے گھر ، ریلوے سٹیشن ، آریہ پر تی ندھی سبھا کے دفتر میں ۱۸ یا ۱۹ چکر لگائے مگر پنڈت جی ۵/ مارچ کو ملتان سے نہ آ سکے.اس سے اس ظالم کا ارادہ پنڈت جی کو عید کے دن شہید کرنا تھا.۶ / مارچ کو صبح پنڈت جی کے مکان پر پہنچا اور بعد ازاں پر تی ندھی کے دفتر سے ہوتا ہوار میلوے سٹیشن گیا.اس روز پنڈت جی ملتان سے تشریف لے آئے.قاتل خلاف معمول کمبل اوڑھے ہوئے تھا اور بار بار تھوکتا تھا اور کانپ رہا تھا.یہ حالت دیکھ پنڈت جی نے سوال کیا کہ کیا بخار ہے؟ اس نے کہا.ہاں ، ساتھ کچھ درد بھی ہے.تب پنڈت جی اُسے ڈاکٹر بشن داس کے پاس لے گئے.ڈاکٹر صاحب نے کہا اسے بخار وغیرہ تو کچھ نہیں لیکن خون میں کچھ جوش ہے.ڈاکٹر صاحب نے پلستر لگانے کو کہا مگر اس مکار نے انکار کر دیا اور کہا کوئی پینے کی دوا دیجئے تب پنڈت جی نے ڈاکٹر صاحب کی اجازت سے اسے شربت پلایا.اس کے بعد پنڈت جی نے کچھ کپڑا خریدا اور گھر کو چلے آئے اور وہ ظالم بھی ساتھ تھا.پنڈت جی چار پائی پر جا بیٹھے اور رشی دیانند کے جیون چرتر کے کاغذات مکمل اور مرتب کرنے میں مشغول ہو گئے اور سفاک بھی بائیں طرف بیٹھ گیا عین اس وقت جب پنڈت جی نے تھکاوٹ کے سبب اُٹھ کر
۱۲۸ ے بجے شام کے وقت انگڑائی لی اس وقت اس ظالم نے جو صبح سے موقع کی گھات میں تھا فوراً اُٹھ کر پنڈت جی کے پہلو میں چھرا گھونپ دیا جس سے انتڑیاں باہر نکل آئیں.پنڈت جی نے ایک ہاتھ سے انتڑیوں کو تھاما ایک سے چھری چھین لی.تب پنڈت جی کی ما تا اور دھرم پنی اس کی طرف دوڑیں.اس وقت اس بے رحم ظالم نے پنڈت جی کی بوڑھی ماتا کو بیلنا اس زور سے مارا کہ وہ اچانک چوٹ لگنے کے سبب بے ہوش ہو کر گر گئیں اور وہ بے ایمان قاتل فرار ہو گیا.کچھ دیر کے بعد لوگ جمع ہو گئے اور پنڈت جی کو ہسپتال لے گئے اور آخر ایک بجے رات آپ کی پاک روح قفس عنصری سے عالم جاودانی کی طرف پرواز کر گئی.پنڈت لیکھرام کے اس قتل کے واقعات آریہ سماجی مہاشہ سنت رام آشفتہ نے اپنی تصنیف پنڈت لیکھرام کی سوانح عمری میں یوں لکھے ہیں.متعلقہ حصے کے ہندی مندرجات کا اردو تر جمہ درج ذیل ہے.مار فروری ۱۸۹۷ء کے دن جبکہ دیانند کالج کے ہال میں ایک شخص آپ کی تلاش کرتا ہوا دیکھا گیا اور آپ سے مل کر کہا کہ عرصہ دو سال سے مسلمان ہو گیا ہوں شُدھ کر لیں تو فوراً وعدہ کیا کہ ضرور شد ھ کریں گے حالانکہ صورت شکل خوفناک معلوم ہوتی تھی.اُس کی آواز مہیب لہجے لئے ہوئی تھی...آریہ بھائیوں نے بہتیرا مسافر سے کہا کہ لے : پنڈت دیو پر کاش- دافع الا و ہام صفحہ ۸۱
۱۲۹ یہ خوفناک شخص ہے اس کا ہرگز اعتبار نہ کریں مگر آپ نے یہ کہہ کر کہ بھائی یہ دھرم گرہن کرنا چاہتا ہے سب کو ٹال دیا.سخت حیرانی پیدا ہوتی ہے کہ جب تمام لوگ اس بدمعاش کو خوفناک اور بھیانک بیان کرتے ہیں اور اس کو ریا کار اور دھوکا باز سمجھتے ہیں تو لیکھرام جیسا تجربہ کار اور جہاندیدہ شخص جس نے پولیس میں سالوں تک ملازمت کی تھی...کس طرح دھوکا کھا سکتا ہے./ مارچ کا نا مبارک دن ہے، بہادر مسافر ایک چار پائی پر بیٹھے ہوئے مہرشی دیانند کے جیون چرتر کے کاغذات مکمل کر رہے ہیں، سامنے وہی سفاک بیٹھا ہے..آج اس کی حالت عجیب وغریب ہے، بدن کانپ رہا ہے، آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے، چہرہ دم بدم بدلتا جارہا ہے، اُتار چڑھاؤ جاری ہے، کبھی وہ باہر کی طرف دیکھتا ہے، کبھی کمبل کے اندر ہاتھ ڈالتا ہے.‘! اس کے بعد کے واقعات کے مہاشہ سنت رام اُشفتہ اور پنڈت دیو پرکاش کے بیانات ایک جیسے ہیں.وفات کے بعد پنڈت لیکھرام کی لاش چتا میں جلائی گئی اور راکھ ( گوسالہ سامری کی طرح) دریائے راوی میں بہادی گئی.-۵- آریوں کا رد عمل : مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور پنڈت لیکھرام پشاوری کے درمیان روحانی مقابلہ دراصل اسلام اور آریہ مذہب کے درمیان الہی نصرت کا مقابلہ تھا جسے براعظم : مهاشه سنت رام آشفتہ.پنڈت لیکھرام کی سوانح عمری
۱۳۰ ہندوستان کے سب مسلمان، ہندو اور دیگر مذاہب کے لوگ بڑی دلچسپی سے دیکھ رہے تھے.دونوں نے اپنے اپنے مذاہب کی صداقت کے اظہار کے لئے ایک دوسرے کے مقابلے میں کئی پیشگوئیاں کیں اور دونوں نے ایک دوسرے کو جھوٹا بیان کیا اور خدا سے جھوٹے کی تباہی کی دعائیں کیں لیکن تاریخ بتلاتی ہے کہ پنڈت لیکھرام کی پیشگوئیاں جن کا مختصر تذکر پچھلے صفحات پر کیا گیا ہے سب کی سب غلط نکلیں اور مرزا صاحب کی پنڈت صاحب کے بارے میں پیشگوئیاں بالکل درست ثابت ہوئیں اور وہ بالآ خر مرزا صاحب کی اعلان شدہ پیشگوئی کے مطابق ہلاک ہو گیا اور وہ جس نے مرزا صاحب کے بارے میں الہام الہی کی بنیاد پر کہا تھا کہ ان کی ذریت زیادہ سے زیادہ تین سال تک منقطع ہو جائے گی خود بے اولادمر گیا اور اس کی اپنی ذریت منقطع گئی.جب کہ آج ۱۰۰ سال گذرنے کے باوجود مرزا صاحب کی ذریت نہ صرف منقطع نہیں ہوئی بلکہ ساری دنیا میں پھل پھول رہی ہے اور بڑھتی ہی جارہی ہے بعینہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے مرزا صاحب کو الہاماً کہا تھا کہ تیری ذریت منقطع نہیں ہوگی بلکہ آخری دنوں تک سرسبز رہے گی.ہندوؤں کے لئے یہ آسان نہ تھا کہ خدا تعالیٰ کے اس قہری نشان کو تسلیم کر لیتے اور ہدایت پاتے.ہمیشہ کی طرح منکرین کی راہ کو انہوں نے بھی اختیار کیا اور پنڈت لیکھرام کی ہلاکت کا مرزا صاحب کو ذمہ دار ٹھہرایا اور خطرناک نتائج کی دھمکیاں دینی شروع کر دیں.پنڈت صاحب کی ہلاکت کے جلد بعد اخبار آفتاب ہند نے لکھا کہ "مرزا قادیانی خبر دار.مرزا قادیانی بھی امروز و فرد کا مہمان ہے.بکرے کی ماں کب تک خیر مناسکتی ہے.آج کل اہل ہنود کے خیالات
۱۳۱ مرزا قادیانی کی نسبت بہت بگڑے ہوئے ہیں...پس مرزا قادیانی کو خبر دار رہنا چاہیے کہ وہ بھی بکر عید کی قربانی نہ ہو جاوے.“ اسی طرح لاہور کے پیسہ اخبار نے لیکھرام کے قتل کی خبر کے ساتھ لکھا کہ د و قتل کی نسبت...بعض آریوں کو مرزا صاحب قادیانی کی سازش کا شبہ ہے.“ ہے ۶- مرزا غلام احمد صاحب کا رد عمل : مرزا غلام احمد صاحب نے پنڈت لیکھرام کے قتل اور آریوں کی دھمکیوں اور شبہات پر اپنے رد عمل کا تین طرح سے اظہار کیا.اول: اظہار افسوس و تشکر : اگر چہ انسانی ہمدری کی رو سے ہمیں افسوس ہے کہ اُس کی موت ایک سخت مصیبت اور آفت اور ناگہانی حادثہ کے طور پر عین جوانی کے عالم میں ہوئی لیکن دوسرے پہلو کی رو سے ہم خدا تعالیٰ کا شکر کرتے ہیں جو اس کے منہ کی باتیں آج پوری ہو گئیں.ہمیں قسم ہے اس خدا کی جو ہمارے دل کو جانتا ہے کہ اگر وہ یا کوئی اور کسی خطرہ موت میں مبتلا ہوتا اور ہماری ہمدردی سے وہ بیچ سکتا تو ہم کبھی فرق نہ کرتے.یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نشان ہے کیونکہ اس نے چاہا کہ اس کے بندہ کی تحقیر ل : اخبار آفتاب ہند - ۱۸ مارچ ۱۸۹۷ء صفحه ۵ کالم ۱ : اخبار پیسہ اخبار لاہور.۱۳ مارچ ۱۸۹۷ء صفحہ ۱۰ کالم
۱۳۲ کرنے والے متنبہ ہو جائیں.“ 1 ”ہمارے دل کی اس وقت عجیب حالت ہے.در دبھی ہے اور خوشی بھی کہ اگر لیکھرام رجوع کرتا زیادہ نہیں تو اتنا ہی کرتا کہ وہ بد زبانیوں سے باز آجاتا تو مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں اس کے لئے دعا کرتا اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ اگر وہ ٹکڑے ٹکڑے بھی کیا جاتا تب بھی زندہ ہو جاتا.وہ خدا جس کو میں مانتا ہوں اس سے کوئی بات انہونی نہیں...اور خوشی اس بات کی ہے کہ پیشگوئی نہایت صفائی سے پوری ہوئی.“ سے دوئم: الزام تراشوں کو نصیحت: 66 ہم کہتے ہیں کہ بیشک یہ گورنمنٹ کا فرض ہے کہ ہندو مسلمانوں کو دونوں آنکھوں کی طرح برابر دیکھے.کسی کی رعایت نہ کرے.....جب ثابت ہو گا کہ لیکھرام کا فلاں قاتل ہے اور وہ گرفتار ہوگا تو ایسا ہی وہ بھی پھانسی پائے گا.“ سے یہ بدگمانی کہ ان کے کسی مرید نے مار دیا ہوگا.یہ شیطانی خیال ہے...ہم بآواز بلند کہتے ہیں کہ ہماری جماعت نہایت نیک چلن اور مہذب اور پر ہیز گار لوگ ہیں.کہاں ہے کوئی ایسا پلید اور لعنتی ہمارا مرید مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ۱۸۹۷ء اشتہار ۹ / مارچ ۱۸۹۷ء مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحات ۳۳۶-۳۳۷ : مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ۱۸۹۷ء اشتہار ۹ / مارچ ۱۸۹۷ء مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۳۵۲ س : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۷ ء - اشتہار ۱۵ مارچ ۱۸۹۷ء
۱۳۳ جس کا یہ دعوئی ہو کہ ہم نے اس کو لیکھرام کے قتل کے لئے مامور کیا تھا.ہم ایسے مُرشد کو اور ساتھ ہی ایسے مرید کوگتوں سے بدتر اور نہایت ناپاک زندگی والا خیال کرتے ہیں کہ جو اپنے گھر سے پیشگوئیاں بنا کر پھر اپنے ہاتھ سے اپنے مکر سے اپنے فریب سے اُن کے پورا ہونے کے لئے کوشش کرے اور کرا دے کے کس قدر حماقت ہے کہ ہمارے مخالف دلوں میں خیال کرتے ہیں کہ کسی مرید کو بھیج کر لیکھرام کو قتل کر دیا ہوگا.مجھے اس بے وقوفی کے تصور سے ہنسی آتی ہے کہ ایسی بے ہودہ باتوں کو اُن کے دل کیونکر قبول کر لیتے ہیں جس مرید کو پیشگوئی کی تصدیق کے لئے قتل کا حکم کیا جائے کیا ایسا شخص پھر مرید رہ سکتا ہے.کیا فی الفور اُس کے دل میں نہیں گزرے گا کہ یہ شخص جھوٹی پیشگوئیاں بناتا ہے اور پھر اُن کو سچی پیشگوئیاں ٹھہرانے کے لئے ایسے منصوبے استعمال کرتا ہے.۲ سوئم : اپنی بربیت کا فیصلہ کن اظہار : آریہ صاحبان کی طرف سے مسلسل مرزا صاحب پر پنڈت لیکھرام کے قتل کا الزام لگایا جاتا رہا.مرزا غلام احمد صاحب کے گھر کی تلاشی بھی لی گئی لیکن ان پر لگائے جانے والے الزامات بے بنیاد نکلے اس کے باوجودالزام تراشیوں کا سلسلہ بند نہ ہوا تو : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۷ ء - اشتہار ۱۵ار مارچ ۱۸۹۷ء : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۸ ء - کتاب ابر یہ.(روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۳۹)
۱۳۴ مرزا صاحب نے اپنی بریت کے اظہار کے لئے ایک فیصلہ کن چیلنج دیا جس میں آپ نے آریہ صاحبان کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ اگر اب بھی کسی شک کرنے والے کا شک دور نہیں ہوسکتا اور مجھے قتل کی سازش میں شریک سمجھتا ہے...تو میں ایک نیک صلاح دیتا ہوں کہ جس سے یہ سارا قصہ فیصلہ ہو جائے اور وہ یہ ہے کہ ایسا شخص میرے سامنے قسم کھائے کہ جس کے الفاظ یہ ہوں کہ میں یقیناً جانتا ہوں کہ یہ شخص سازش قتل میں شریک یا اس کے حکم سے واقعہ قتل ہوا ہے پس اگر یہ میچ نہیں ہے تو اے قادر خدا ایک برس کے اندر مجھ پر وہ عذاب نازل کر جو ہیبتناک عذاب ہو مگر کسی انسان کے ہاتھوں سے نہ ہو اور نہ انسان کے منصوبوں کا اس میں کچھ دخل متصور 66 ہو سکے.“ پس اگر یہ شخص ایک برس تک میری بد دعا سے بچ گیا تو میں مُجرم ہوں اور اس سزا کے لائق کہ ایک قاتل کے لئے ہونی چاہئے.اب کوئی بہا در کلیجہ والا آریہ ہے جو اس طور سے تمام دنیا کو شبہات سے چھڑا دے تو اس طریق کو اختیار کرے.“ شکوک و شبہات کو دور کرنے کے اس فیصلہ کن آسان طریق کو اختیار کرنے کے لئے کوئی آریہ تیار نہ ہوا لیکن مرزا صاحب نے از خود مئی ۱۸۹۷ء میں دور سالے سراج ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۷ء- مجموعہ اشتہارات جلد صفحات ۲۵۲-۲۵۳ (اشتہار ۱۵/ مارچ ۱۸۹۷ء)
۱۳۵ منیر اور استفتاء شائع کئے جن میں ہندوستان کے سرکردہ ہندوؤں ،عیسائیوں ،سکھوں اور مسلمانوں کو نام بنام بھجوا کر ان سے پنڈت لیکھرام کے بارے میں اپنی پیشگوئی پوری ہونے یا پوری نہ ہونے کے بارے میں تصدیق طلب کی.تقریباً چار ہزار معزز حضرات نے تصدیق کی کہ یہ پیشگوئی نہایت صفائی سے پوری ہوگئی.ان میں ۲۷۹ معززین کے نام مرزا صاحب نے اپنی تصنیف تریاق القلوب (مصنفہ ۱۸۹۹ء) میں درج کر دئیے.اسلام اور آریہ مذہب اور پیشگوئی پنڈت لیکھرام کی ہلاکت پر تبصرہ: مرزا غلام احمد صاحب نے ۲۲ / مارچ ۱۸۹۷ء کو اپنے ایک اشتہار میں پنڈت لیکھرام کے قتل پر اپنے احساسات کا فیصلہ کن اظہار ان الفاظ میں کیا کہ اسلام کے مذہب اور ہندوؤں کے مذہب کا خدا تعالیٰ کی درگاہ میں سترہ برس سے ایک مقدمہ دائر تھا سو آخر ۶ / مارچ ۱۸۹۷ء کے اجلاس میں اس اعلیٰ عدالت نے مسلمانوں کے حق میں ایسی ڈگری دی جس کا نہ کوئی اپیل نہ مرافع...اب یہ واقعہ دنیا کو بھی نہیں بھولے گا آریہ صاحبان کو چاہئے کہ اب گورنمنٹ کو ناحق تکلیف نہ دیں مقدمہ صفائی سے فیصلہ پا چکا...اگر چاہیں تو قبول کریں کہ مھد ھ ہونے کا طریق صرف اسلام ہے جس میں داخل ہو کر انسان قادر خدا کے ساتھ باتیں کرنے لگتا ہے.زندہ خدا کا مزہ اسی دن آتا ہے اور اسی دن اس کا پتہ لگتا ہے جب انسان لا الہ الا للہ محمد رسول اللہ کا قائل ہوتا ہے اس خدا
۱۳۶ کے سوا باقی سب بے ہودہ قصے ہیں کہ لوگوں کی غلطیوں سے قوموں میں رواج پاگئے ہیں....اسلام کا سچا اور قادر خدا ہمیشہ اپنے زندہ نشانات دکھاتا ہے.“ ۱۷- قادیان کے آریہ حضرات اور مرزا غلام احمد صاحب قادیانی قادیان (ضلع گورداسپور.بھارت) میں مسلمانوں ،سکھوں اور عیسائیوں کے علاوہ اچھی خاصی تعداد میں آریہ ہندو بھی آباد تھے ان میں سے کچھ مثلاً لالہ شرمیت اور ملا وامل صاحب کے مرزا غلام احمد صاحب کے ساتھ مدتوں سے ذاتی تعلقات تھے اور وہ مرزا صاحب کی شرافت ، نیک نفسی، پرہیز گاری اور متعدد پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے عینی گواہ تھے لیکن پھر بھی وہ ہندوستان کے باقی آریوں کی طرح مرزا صاحب کی مخالفت میں پیش پیش تھے.خاص طور پر پنڈت لیکھرام کی موت کے بعد ان کا رویہ انتہائی معاندانہ ہو گیا تھا اور وہ نگی گالیوں اور دھمکیوں پر اُتر آئے تھے.۶ - ۱۹۰۵ء میں قادیان کے آریوں نے ایک اخبار جاری کیا جس کا نام شجھ چنتک تھا.اس اخبار کا بڑا مقصد مرزا صاحب کو بدنام کرنا.اور ان کے مشن کو ناکام بنانا تھا.سوم راج صاحب اس اخبار کے ایڈیٹر ، اچھر چند صاحب مینجر اور اس کا بھائی بھگت رام اس اخبار کا معاون کارکن مقرر ہوئے.ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۷ ء - اشتہار ۲۲ / مارچ ۱۸۹۷ء ( مجموعہ اشتہارات جلد۲۲ صفحات (۳۷۶-۳۷۵
۱۳۷ ا قادیان کے آریوں کی طرف سے ایذا رسانی: اگر چہ اس اخبار کی کوئی اشاعت بھی دشنام طرازی سے خالی نہ ہوتی تھی لیکن بعض اوقات تو نوبت مغلظات تک جا پہنچتی تھی.مثلاً اس اخبار نے اپنی ۲۲ را پریل ۱۹۰۶ء کی اشاعت میں لکھا کہ شخص (یعنی مرزا غلام احمد - ناقل ) خود پرست ہے، نفس پرست ہے، فاسق ہے، فاجر ہے، اس واسطے گندی اور نا پاک خوا ہیں اس کو آتی ہیں.“ پھر ۱۵ مئی ۱۹۰۶ ء کی اشاعت میں لکھا کہ قادیانی مسیح کے الہاموں اور اس کی پیشگوئیوں کی اصلیت طشت از بام کرنے کا ذمہ اُٹھانے والا ایک ہی پرچہ شجھ چنک ہے.....مرزا قادیانی بداخلاق ،شہرت کا خواہاں اور شکم پرور ہے.“ اسی اخبار شبجھ چنک نے ۲۲ رمئی ۱۹۰۶ء کی اشاعت میں لکھا کہ دد کمبخت کمانے سے عار رکھنے والا ، مکر ، فریب اور جھوٹ میں مشاق ہے.“ پھر ۲۲ / دسمبر ۱۹۰۶ء کی اشاعت میں مرزا صاحب کے بارے میں لکھا کہ ہم ان کی چالاکیوں کو ضرور طشت از بام کریں گے اور ہمیں اُمید بھی ہے کہ ہم اپنے ارادہ میں ضرور کامیاب ہوں گے...مرزا مکار اور جھوٹ بولنے والا ہے.مرزا کی جماعت کے لوگ بدچلن اور بدمعاش ہیں.“
اس اخبار نے یکم مارچ ۱۹۰۷ء کی اشاعت میں لکھا کہ ہم نے....پندرہ سال تک پہلو بہ پہلو ایک ہی قصبہ میں ان کے ساتھ رہ کر ان کے حال پر غور کی تو اتنی غور کے بعد ہمیں یہی معلوم ہوا کہ یه شخص در حقیقت مکار، خود غرض ،عشرت پسند، بد زبان وغیرہ وغیرہ ہے نشان تو ہم نے اس مدت تک کوئی نہیں دیکھا البتہ یہ دیکھا ہے کہ یہ شخص ہر روز جھوٹے الہام بناتا ہے.ایک لاثانی بے وقوف ہے.“ مرزا غلام احمد صاحب کا رد عمل : آریوں کی طرف سے مرزا صاحب کی ایذارسانی میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ۲۷ دسمبر ۱۹۰۶ء کے دن جلسہ سالانہ قادیان کے موقعہ پر جب مرزا صاحب مسجد اقصی قادیان میں نماز پڑھ رہے تھے تو ایک آریہ نے بے تحاشہ گالیاں دینی شروع کر دیں.مرزا صاحب اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وو ” جب ہم مع اپنی جماعت کے جو دو ہزار کے قریب تھی اپنی جامع مسجد میں نماز میں مشغول تھے اور دور دور سے میری جماعت کے معزز لوگ آئے ہوئے تھے جن میں گورنمنٹ انگریزی کے بھی بڑے بڑے عہدے دار اور معزز رئیس اور جاگیردار اور نواب بھی موجود تھے تو عین اس حالت میں...ایک نا پاک طبع آریہ برہمن نے گالیاں دینی شروع کیں اور نعوذ باللہ ان الفاظ سے بار بار گالیاں دیتا تھا کہ یہ سب کنجر ایک جگہ جمع ہوئے ہیں کیوں باہر جا کر نماز نہیں پڑھتے اور پہلے سب سے
۱۳۹ مجھے ہی یہ گالی دی.نماز کے اختتام پر مرزا صاحب نے اپنے ساتھیوں کی دلجوئی کی.اور کہا.کہ خدا تعالی دیکھتا ہے.وہ ظالم کو آپ سزا دے گا.-۳- مرزا صاحب کی تصنیف قادیان کے آریہ اور ہم : مرزا غلام احمد صاحب کو اس بات کا بہت افسوس تھا کہ قادیان کے آریہ خصوصاً لاله شرمیت اور ملا دامل صاحب مرزا صاحب کے کئی آسمانی نشانات کے عینی شاہد ہونے کے باوجود نہ صرف ان سے منکر تھے بلکہ مرزا صاحب کے خلاف بے حد گندے الزامات پر مبنی اشتہارات شائع کر چکے تھے جن میں سے کچھ کا ذکر پہلے آچکا ہے.وہ یہ بھی شائع کر چکے تھے کہ شخص محض مکار، فریبی ہے اور صرف دوکاندار ہے ، لوگ اس کا دھو کہ نہ کھائیں ، مالی مدد نہ کریں، ورنہ اپناروپیہ ضائع کریں گے.“ ہے مرزا صاحب کو اس بات کا بھی ملال تھا کہ چونکہ یہ لوگ مدتوں سے ان کے ہم وطن اور ایک ہی قصبہ میں ہمسائیگی میں رہ رہے تھے اس لئے اس بات کا بھی کافی امکان تھا کہ ہمسائیگی کے باعث ان آریوں کا مرزا صاحب کو مکار اور مفتری قراردینا بہتوں کی گمراہی کا باعث بن سکتا تھا یا ان کے دلوں میں مرز اصاحب کے لئے شکوک و مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ء - قادیان کے آریہ اور ہم.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۲۰ : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ ء - قادیان کے آریہ اور ہم.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۲۵
الده شُبہات پیدا کر سکتا تھا چنانچہ مرزا صاحب نے ۲۰ فروری ۱۹۰۷ء کو ایک رسالہ ”قادیان کے آریہ اور ہم شائع کیا.اس رسالے میں مرزا صاحب نے بطور نمونہ اپنی چند پیشگوئیاں لکھ کر لالہ شرمیت اور ملا دال کو چیلنج دیا کہ وہ خدا کی قسم کھا کر کہہ دیں کہ یہ پیشگوئیاں انہوں نے پوری ہوتے نہیں دیکھیں نیز یہ کہ اگر وہ جھوٹ بول رہے ہیں تو خدا ان پر اور ان کی اولاد پر اس جھوٹ کی سزا نازل کرے.اس چیلنج کے ساتھ ہی مرزا صاحب نے لکھ دیا کہ یہ لوگ اس طرح ہر گز فتسم نہ کھائیں گے بلکہ حق پوشی کا طریق اختیار کریں گے اور سچائی کا خون کرنا چاہیں گے تب بھی میں اُمید رکھتا ہوں کہ حق پوشی کی حالت میں بھی خدا اُن کو بے سزا نہیں چھوڑے گا کیونکہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کی بے عزتی خدا کی بے عزتی ہے.“ 1 اس دوران قادیان کے آریہ اخبار شبھ چنتک کی طرف سے مرزا صاحب کی اہانت بھی انتہا کو پہنچ چکی تھی اور لالہ شرمیت اور ملا دامل بھی سچائی کے اظہار سے کترا رہے تھے.انہی حالات میں مرزا صاحب نے اپنے رسالے ” قادیان کے آریہ اور ہم“ کے ٹائٹل کے اندرونی صفحہ پر کچھ اشعار لکھے جن میں آخری شعر یہ تھا.وو میرے مالک تو ان کو خود سمجھا آسماں سے پھر اک نشان دکھلا 66 مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ء - قادیان کے آریہ اور ہم.(روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۴۴۳) : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ء - قادیان کے آریہ اور ہم.ٹائٹل اندرونی صفحہ
۱۴۱ یہ آریہ صاحبان مرزا صاحب کے پرانے شناسا تھے اور ان کی مرزا صاحب کے ساتھ اکثر صحبت بھی رہتی تھی لیکن مذہبی تعصب کی بنا پر وہ مرزا صاحب کی کچی پیشگوئیوں کی شہادت دینے کے لئے تیار نہ تھے کیونکہ اس سے آریہ مذہب پر دھبہ لگتا تھا.مرزا صاحب ۱۸۸۲ء میں یہ الہامی پیشگوئی کر چکے تھے کہ (ترجمہ) ”اے احمد ! خدا نے تجھ میں برکت رکھ دی ہے...وہ لوگ جو تیرے پر ہنسی ٹھٹھا کرتے ہیں ان کے لئے ہم کافی ہیں....خدا کی مدد تجھ سے قریب ہے.وہ مدد ہر ایک دور کی راہ سے تجھے پہنچے گی اور ایسی وں سے پہنچے گی کہ وہ راہ لوگوں کے بہت چلنے سے جو تیری طرف آئیں گے کہ جن را ہوں پر وہ چلیں گے وہ عقیق ہو جائیں گے.تیری مد دوہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے...وہ زمانہ آتا ہے کہ لوگ کثرت سے تیری طرف رجوع کریں گے...اور ایسے لوگ بھی ہوں گے جو اپنے وطنوں سے ہجرت کر کے تیرے حجروں میں آکر آباد ہوں گے ان پیشگوئیوں کو تم لکھ لو کہ وقت پر واقع ہوں گی.‘1 مرزا غلام احمد صاحب ان آریہ صاحبان سے اپنی ملاقات مندرجہ بالا الہام سے پہلے اور بعد کے حالات پر اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وو یہ دونوں آریہ صاحبان (لالہ شرمپت اور ملا وامل.ناقل ) گواہ ہیں اور ان کو معلوم ہے کہ اس زمانے میں میری کیا حیثیت تھی.لے مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۸۲ ء - براہین احمدیہ حصہ سوئم.صفحات ۲۳۸ تا ۲۴۲ حاشیه در حاشیه نمبرا
۱۴۲ کیسی گمنامی میں زندگی بسر کرتا تھا یہاں تک کہ کئی دفعہ یہ دونوں آریہ امرتسر میں میرے ساتھ جاتے تھے اور بجز ایک خدمتگار کے دوسرا آدمی نہیں ہوتا تھا اور بعض دفعہ صرف لالہ شرمیت ہی ساتھ جاتا تھا.یہ لوگ حلفاً کہہ سکتے ہیں کہ اس زمانہ میں میری گمنامی کی حالت کس درجہ تک تھی نہ قادیان میں میرے پاس کوئی آتا تھا اور نہ کسی شہر میں میرے جانے پر کوئی میری پرواہ کرتا تھا اور میں اُن کی نظر میں ایسا تھا جیسا کسی کا عدم اور وجود برا بر ہوتا ہے.اب وہی قادیان ہے جس میں ہزاروں آدمی میرے پاس آتے ہیں اور وہی شہر امرتسر اور لاہور وغیرہ ہیں جو میرے وہاں جانے کی حالت میں صدہا آدمی پیشوائی کے لئے ریل پر پہنچتے ہیں بلکہ بعض وقت ہزار ہا لوگوں تک نوبت پہنچتی ہے.چنانچہ ۱۹۰۳ء میں جب میں نے جہلم کی طرف سفر کیا تو سب کو معلوم ہے کہ قریباً گیارہ ہزار آدمی پیشوائی کے لئے آیا تھا.ایسا ہی قادیان میں صدہا مہمانوں کی آمد کا ایک سلسلہ جواب جاری ہے اُس زمانہ میں اس کا نام ونشان نہ تھا لے " پھر جب چند سالوں کے بعد ان پیشگوئیوں کے آثار شروع ہونے لگے تو مخالفوں میں روکنے کے لئے جوش پیدا ہوا.قادیان میں لالہ ملا وامل نے لالہ شرمیت کے مشورہ سے اشتہار دیا....کہ تالوگ : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ ء- قادیان کے اریہ اور ہم (روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحات ۴۲۴-۴۲۸)
۱۴۳ رجوع سے باز آجاویں اور مالی امداد سے منہ پھیر لیں مگر دنیا جانتی ہے کہ اس اشتہار کے زمانے میں میری جماعت ساٹھ یا ستر آدمی سے زیادہ نہ تھی.زیادہ سے زیادہ تمہیں یا چالیس روپیہ ماہوار آمدنی تھی مگر اس اشتہار کے بعد مالی امداد کا گویا ایک دریا رواں ہو گیا اور آج تک (فروری ۱۹۰۷ ء - ناقل ) کئی لاکھ لوگ بیعت میں داخل ہوئے اور اب تک ہر مہینہ میں پانچ سو کے قریب بیعت میں داخل ہو جاتا ہے...میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس قدر ترقی ہوئی کہ جیسا ایک قطرہ سے دریا بن جاتا ہے اور یہ ترقی بالکل غیر معمولی اور معجزانہ تھی حالانکہ نہ صرف ملا وامل نے بلکہ ہر ایک دشمن نے اس ترقی کو روکنے کے لئے پور از ورلگا یا....اور خدا کی غیرت اور قدرت نے ان کے منہ پر وہ طمانچے مارے کہ ہر میدان میں ان کو شکست ہوئی.اخبار شبھ چنتک کے کارندوں پر عذاب الہی کا ورود : انہی دنوں اخبار شجھ چنتک کی دریدہ دینی اور مرزا صاحب کی اہانت اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی.ساتھ ہی سارے ہندوستان میں طاعون کی وبا تباہی مچار ہی تھی.مرزا غلام احمد صاحب نے ایک پیشگوئی کر رکھی تھی کہ وہ خود اور جو کوئی بھی ان کے گھر میں ہوگا طاعون سے محفوظ رہے گا.اس کو سن کر اچھر چند مینجر شجھ چنتک نے لکھا کہ 66 لو میں بھی دعوی کرتا ہوں کہ میں طاعون سے نہیں مروں گا.“ سے : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ ء - قادیان کے آریہ اور ہم ( روحانی خزائن جلد ۲ صفحات ۴۲۴-۴۲۸) : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ء- حقیقۃ الوحی.تتمہ صفحه ۵۹۳ حاشیہ
۱۴۴ مرزا صاحب کے مقابل پر اچھر چند کا یہ قول خدا تعالیٰ کو ناگوار گزرا اور خدا کا غضب فوراً ہی اُن پر نازل ہونا شروع ہو گیا.چند دن کے اندر شبھ چنتک کا پورا عملہ طاعون سے ہلاک ہو گیا اور خدا کے قہر نے ان کی اولا د اور اہل وعیال کو لپیٹ میں لے لیا.سب سے پہلے شجھ چنتک کے ایڈیٹر سومراج اور پھر بھگت رام ادارتی کارکن کی نرینہ اولاد میں طاعون کا لقمہ بنیں.پھر بھگت رام اور اچھر چند چل بسے.سومراج نے اپنی اولا د اور دوستوں کی موت کا صدمہ اپنی آنکھوں سے دیکھا پھر وہ خود بیمار ہوا اور دوسرے روز وہ بھی راہی ملک عدم ہوا.اے ان عبرتناک حقائق کی نشاندہی پنڈت سومراج نے ایک دوسرے آریہ اخبار ” پر کاش“ کے نام ایک خط میں کی جو ٹھیک اُسی دن شائع ہوا جس دن پنڈت سومراج خود فوت ہوا وہ لکھتے ہیں کہ یکا یک مہاشہ اچھر چند کی استری اور عزیز بھگت رام برادر لالہ اچھر چند کا لڑکا بیمار ہو گئے.خیر اُن کی استری کو تو آرام ہو گیا لیکن لڑکا گذر گیا.اس تکلیف کا بھی خاتمہ نہیں ہوا تھا کہ میری استری اور میرا چھوٹا لڑکا عزیز شوراج بیمار ہو گئے.میری استری گوا بھی بیماری ہے مگر ہونہارلڑ کا پلیگ کا شکار ہو گیا.اس ہیبت کو ابھی بھول نہیں گئے تھے کہ ایک ناگہانی مصیبت اور سر آ پڑی اور وہ یہ تھی کہ عزیز بھگت رام جس کے لڑکے کے گذر جانے کا اوپر ذکر کیا ہے بیمار ہو گیا اور چھ روز بیمار رہ کر ہمیشہ کے لئے داغ مفارقت دے گیا.یہی وجہ ہے کہ ہم گور وکل میں بھی ل : دوست محمد شاہد - ۱۹۶۴ ء - تاریخ احمدیت.جلد سوئم صفحہ ۴۹۷
۱۴۵ نہیں جا سکے اور اخبار بھی دو ہفتہ سے بند ہے.“ 1 وو مرزا غلام احمد صاحب ان آریہ صاحبان کی موت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ ہے.پاداش شرارتوں اور شوخیوں کی...یہ مت خیال کرو کہ ان تینوں کا طاعون سے مرنا ایک نشان ہے بلکہ یہ تین نشان ہیں اور اب ہم منتظر ہیں کہ اب ان کا جانشین قادیان میں کون ہوتا ہے اور کب ان کی طرح میری نسبت اخبار میں شائع کرتا ہے کہ یہ شخص مکار اور کا ذب ہے اور ہم نے اس کا کوئی نشان نہیں دیکھا.“ ہے : اخبار الحکم قادیان-۱۷ اپریل ۱۹۰۷، صفحه ۱۵ کالم۲ : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ء- حقیقۃ الوحی تنتمه صفحات ۵۹۳-۵۹۴
الده
۱۴۷ باب ششم مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور بر هموسماج تحریک اُنیسویں صدی کے اوائل میں آریہ سماج تحریک سے تقریباً پچپن برس قبل مشہور ہندو لیڈر راجہ رام موہن رائے نے ایک جدید مذہبی تحریک کی بنیاد ڈالی اس کا نام بر ہموسماج تھا.راجہ صاحب کی وفات کے بعد برہمو سماج تحریک متعدد شاخوں میں بٹ گئی جن میں سے پنجاب میں اس کے سرگرم لیڈر پنڈت شیو نرائن اگنی ہوتری تھے.ان پنڈت صاحب کا ذکر باب پنجم میں اشارۃ ہو چکا ہے.مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے آریہ سماجی لیڈروں کے ساتھ مباحثوں میں انہی کو ثالث کی حیثیت سے نامزد کیا تھا اور انہوں نے مباحثوں پر اپنے تبصروں میں مرزا غلام احمد صاحب کے اسلام کے حق میں دلائل کی برتری کا فراخ دلی سے اعتراف کیا تھا.جب مرزا صاحب کو آریہ لیڈروں سے چند ابتدائی مباحثوں سے فرصت میسر آئی تو آپ نے پنڈت شیو نرائن اگنی ہوتری صاحب لیڈر برہمو سماج سے ضرورتِ الہام پر مباحثہ کیا جو ۲۱ رمئی سے ۷ ارجون ۱۸۷۹ ء تک جاری رہا.دوران مباحثہ پنڈت صاحب نے یہ تجویز پیش کی کہ مباحثے کی روداد کو اخبار میں شائع کرنا شروع کر دیا جائے.مرزا
۱۴۸ صاحب نے اس تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے یہ اضافہ کیا کہ مباحثے کے فریقین کے دلائل ایک برہموسما جی فاضل مثلاً مسٹر کیشپ چندرسین اور کسی انگریز عالم کے سامنے بحیثیت ثالث پیش کئے جائیں اور اس اخباری روداد میں اُن کی قطعی اور مدلل رائے بھی شامل کی جائے.پنڈت صاحب نے اس تجویز کے جواب میں مکمل خاموشی اختیار کی یہاں تک کہ انہوں نے ۱۶ فروری ۱۸۸۷ء کو برہمو سماج تحریک سے قطع تعلق کر لیا.برہمو سماج تحریک کی کیا اہمیت تھی اور مسلمان اس سے کہاں تک متاثر تھے اور مرزا غلام احمد صاحب نے اس اسلام دشمن تحریک کے مقابلے میں کیا کچھ کیا اس پر روشنی ڈالنے کے لئے ہم دو ایسے مقتدر حضرات کے تبصرے درج کر رہے ہیں جو بر ہمو سماج سے تعلق بھی رکھتے اور مرزا صاحب کے مخالف بھی تھے.۱- ایک برہمو سماج کے مشہورا پدیشک ، دیوندر ناتھ سہائے لکھتے ہیں کہ (ہندی سے ترجمہ ) بر ہمو سماج کی تحریک ایک زبر دست طوفان کی طرح اُٹھی اور آناً فاناً نہ صرف ہندوستان بلکہ غیر ممالک میں بھی اس کی شاخیں قائم ہوگئیں.بھارت میں نہ صرف ہندو اور سکھ ہی اس سے متاثر ہوئے بلکہ مسلمانوں کے ایک بڑے طبقہ نے بھی اس میں شمولیت اختیار کی.روزانہ بیسیوں مسلمان بر ہمو سماج میں پردیش یعنی داخل ہوئے.اس کی دیکھنا لیتے ہمیں معلوم ہے کہ بنگال کے بڑے بڑے مسلم خاندان برہمو سماج کے ل : دیو آتما اور اسکا الولک جیون مرت ۱۹۱۱ء- نول کشور گیس پرنٹنگ ورکس لاہور
۱۴۹ ساتھ نہ صرف بہمت تھے بلکہ اس کے با قاعدہ ممبر تھے لیکن عین انہی دنوں میں مرزا غلام احمد قادیانی نے جو مسلمانوں میں ایک بڑے عالم تھے ہندوؤں اور عیسائیوں کے خلاف کتابیں لکھیں اور اُن کو مناظرے کے لئے چیلنج دیا.افسوس ہے کہ برہمو سماج کے کسی ودوان نے اس چیلنج کی طرف توجہ نہیں کی جس کا اثر یہ ہوا کہ وہ مسلمان جو کہ برہمو سماج کی تعلیم سے متاثر تھے نہ صرف پیچھے ہٹ گئے بلکہ با قاعدہ بر ہمو سماج میں داخل ہونے والے مسلمان بھی آہستہ آہستہ اُسے چھوڑ گئے.“ - برہمو سماجی مصنف رام داس گوڑ نے لکھا کہ راجہ رام موہن رائے کی زبر دست شخصیت نے انگلستان اور امریکہ میں برہمو سماج کو یونی ٹیرین چرچ کی شکل میں قائم کیا اور سینکڑوں خاندانوں نے آپ کے ہاتھ پر برہمو سماج کی دیکھشا لی لیکن افسوس ہے کہ بھارت کے مسلمانوں پر قادیانی سپر وائے کی وجہ سے بہت بُرا پر بھاؤ پڑا اور مسلمانوں میں سے شرو مالو جو ہر ہمو سماج کے ممیوں سے پر بھاوت ہو چکے تھے قریباً قریب پیچھے ہٹ گئے.“ ہے لے : دیونند رناتھ سہائے ۱۹۲۰ء- رساله کومدی ،کلکته اگست ۱۹۲۰ء : رام داس گوڑ.ہند و تو - صفحه ۹۸۲
16 ۱۵۱ باب ہفتم مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور آپ کے عیسائی مخالفین ہم نے باب دوئم میں مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے مذہبی عقائد میں یہ لکھا ہے کہ مرزا صاحب مسیح ابن مریم کے متعلق الہاما یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ فوت ہو چکے ہیں اور سرینگر ریاست کشمیر میں دفن ہیں اور اپنے خا کی جسم کے ساتھ کبھی دنیا میں واپس نہیں آئیں گے نیز حضرت مسیح علیہ السلام کی بعثت ثانی کا یہ مطلب ہے کہ اُمت محمدیہ کا کوئی فرد حضرت مسیح سے ملتی جلتی صفات کا حامل مبعوث ہو گا.مرزا صاحب کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام خدا کے عاجز بندے اور رسول تھے نہ کہ خدایا خدا کے بیٹے.مرزا صاحب نے ان عقائد کو صحیح ثابت کرنے کے لئے زبر دست لٹریچر شائع کیا اور سارے ہندوستان میں اسے پھیلا دیا.مرزا صاحب کے مندرجہ بالا عقائد عیسائیت کی مکمل بیخ کنی کے لئے کافی تھے جس سے ہندوستان کے عیسائیوں میں مرزا صاحب کے خلاف زبر دست غم و غصہ پیدا ہو گیا.ملک میں انگریزوں کی حکومت اپنے عروج پر تھی.ہزاروں پادری ملک میں چاروں طرف عیسائیت کے پر چار میں لگے ہوئے تھے اور ان کا حکومت کے ایوانوں میں بہت
۱۵۲ اثر ورسوخ تھا اس لئے وہ مرزا صاحب کی کا وشوں کو آسانی سے برداشت کرنے کے لئے تیار نہ تھے چنانچہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر مرزا صاحب کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے.اگر چہ ایسے بہت سے واقعات گذرے جن میں عیسائیوں نے اپنے اثر ورسوخ کے بل بوتے پر مرزا صاحب کو گزند پہنچانے کی سعی کی یا قانون کے شکنجے میں کسنے کی کوشش کی یا جھوٹے مقدمات میں پھنسانا اور سزا دلانی چاہی لیکن وہ اس میں ناکام رہے.ہم یہاں نمو تا چند ایسے واقعات کی روداد لکھ رہے ہیں جن سے یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ سارا زور لگانے کے باوجود مرزا صاحب کے مخالفین کو ناکامی و نامرادی کا منہ دیکھنا پڑا.اُن کی دنیا وی وجاہت، حکام کے ساتھ تعلقات اور حکام کا ان سے ہم مذہب ہونا کسی کام نہ آیا.-1 رلیا رام عیسائی وکیل اور افسران محکمہ ڈاک امرتسر کی ملی بھگت سے مرزا صاحب کے خلاف فوجداری مقدمہ: مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی زندگی کا پہلا مقدمہ محکمہ ڈاک امرتسر کی طرف سے آپ کے خلاف ۱۸۷۷ء میں گورداسپور کی عدالت میں دائر کیا گیا.اس میں رلیا رام عیسائی وکیل نے بطور منجر گواہی دی.تا کہ مرزا صاحب کو جرمانہ یا سزا دلوائی جاسکے.مرزا صاحب نے اس کی وجوہات اور نتائج کو اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام میں درج کیا ہے جنہیں تاریخ احمدیت مؤلفہ دوست محمد شاہد کے صفحات ۲۰۷ سے ۲۰۹ پر اور تذکرہ کے صفحات ۲۶ سے ۲۸ پر بھی شائع کیا گیا ہے.ہم اس واقعہ کو
۱۵۳ مختصراً قارئین کی دلچسپی کے لئے درج کر رہے ہیں.مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ تخمیناً پندرہ یا سولہ سال کا عرصہ گذرا ہو گا.( یہ واقعہ ۱۸۷۷ء کا ہے.ناقل ) یا اس سے کچھ زائد ہو کہ اس عاجز نے اسلام کی تائید آریوں کے مقابل پر ایک عیسائی کے مطبع میں جس کا نام رلیا رام تھا اور وہ وکیل بھی تھا اور امرتسر میں رہتا تھا اور اس کا ایک اخبار بھی نکلتا تھا ایک مضمون بغرض طبع ہونے کے ایک پیکٹ کی صورت میں جس کی دونوں طرفیں کھلی تھیں بھیجا اور اس پیکٹ میں ایک خط بھی رکھ دیا.چونکہ خط میں ایسے الفاظ تھے جن میں اسلام کی تائید اور دوسرے مذہب کے بطلان کی طرف اشارہ تھا اور مضمون کے چھاپ دینے کے لئے تاکید بھی تھی.اس لئے وہ عیسائی مخالفت مذہب کی وجہ سے برافروختہ ہوا اور اتفاقاً اُسے دشمنانہ حملے کے لئے یہ موقع ملا کہ کسی علیحدہ خط کا پیکٹ میں رکھنا قا نو نا ایک جرم تھا.( آج کل یہ جرم نہیں.ناقل ) جس کی اس عاجز کو کچھ بھی اطلاع نہ تھی اور ایسے جرم کی سزا میں قوانین ڈاک کی رو سے پانچ سو روپے جرمانہ یا چھ ماہ تک قید ہے سو اس نے مخبر بن کر افسران ڈاک سے اس عاجز پر مقدمہ دائر کر دیا اور قبل اس کے جو مجھے اس مقدمہ کی کچھ اطلاع ہو رڈیا میں اللہ تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ رلیا رام نے ایک سانپ میرے کاٹنے کے لئے مجھ کو بھیجا ہے اور میں نے اُسے مچھلی کی طرح تل کر واپس بھیج دیا ہے.میں جانتا ہوں کہ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آخر وہ مقدمہ جس طرز سے عدالت میں فیصلہ پایا وہ
۱۵۴ ایک ایسی نظیر ہے جو وکیلوں کے کام میں آسکتی ہے.غرض میں اس جرم میں صدر ضلع گورداسپور میں طلب کیا گیا اور جن جن وکلاء سے مقدمہ کے لئے مشورہ لیا گیا انہوں نے یہی مشورہ دیا کہ بجز درنگوئی کے اور کوئی راہ نہیں اور یہ صلاح دی کہ اس طرح اظہار دے دو کہ ہم نے پیکٹ میں خط نہیں ڈالا رلیا رام نے خود ڈال دیا ہوگا اور نیز بطور تسلی دہی کے کہا کہ ایسا بیان کرنے سے شہادت پر فیصلہ ہو جائے گا اور دو جھوٹے گواہ دے کر بریت ہو جائے گی اور نہ صورت مقدمہ سخت مشکل ہے اور کوئی طریق رہائی نہیں مگر میں نے سب کو جواب دیا کہ میں کسی حالت میں راستی کو چھوڑ نا نہیں چاہتا جو ہو گا سو ہوگا.تب اُسی دن یا دوسرے دن مجھے ایک انگریز کی عدالت میں پیش کیا گیا اور میرے مقابل پر ڈاکخانہ جات کا افسر بحیثیت سرکاری مدعی ہونے کے حاضر ہوا.اُس وقت حاکم عدالت نے اپنے ہاتھ سے میرا اظہار لکھا اور سب سے پہلے مجھ سے یہی سوال کیا کہ کیا یہ خط تم نے اپنے پیکٹ میں رکھ دیا تھا اور یہ خط اور یہ پیکٹ تمہارا ہے؟ تب میں نے بلا توقف جواب دیا کہ یہ میرا ہی خط اور میرا ہی پیکٹ ہے اور میں نے اس خط کو پیکٹ کے اندر رکھ کر روانہ کیا تھا مگر میں نے گورنمنٹ کی نقصان رسانی محصول کے لئے بدنیتی سے یہ کام نہیں کیا تھا بلکہ میں نے اس خط کو اس مضمون سے کچھ علیحدہ نہیں سمجھا اور نہ ہی اس میں کوئی نج کی بات تھی.اس بات کو سنتے ہی خدا تعالیٰ نے اس انگریز کے دل کو میری
۱۵۵ طرف پھیر دیا اور میرے مقابل پر افسر ڈاکخانہ جات نے بہت شور مچایا اور لمبی لمبی تقریر میں انگریزی زبان میں کیں جن کو میں نہیں سمجھتا تھا مگر اس قدر میں سمجھتا تھا کہ ہر ایک تقریر کے بعد زبان انگریزی میں وہ حاکم نو ، نو ، کر کے اُس کی سب باتوں کو رد کر دیتا تھا.انجام کار جب وہ افسر مدعی اپنے تمام وجوہ پیش کر چکا اور اپنے تمام بخارات نکال چکا تو حاکم نے فیصلہ لکھنے کی طرف توجہ کی اور شائد سطر یا ڈیڑھ سطر لکھ کر مجھ کو کہا کہ اچھا آپ کے لئے رخصت.یہ سن کر میں عدالت کے کمرہ سے باہر ہوا اور اپنے محسن حقیقی کا شکر بجالایا جس نے ایک افسر انگریز کے مقابلے پر مجھ کو ہی فتح بخشی اور میں خوب جانتا ہوں کہ اس وقت صدق کی برکت سے خدا تعالیٰ نے اس بلا سے مجھ کو نجات دی.میں نے اس سے پہلے یہ خواب بھی دیکھی تھی.کہ ایک شخص نے میری ٹوپی اتارنے کے لئے ہاتھ مارا.میں نے کہا.کیا کر نے لگا ہے؟ تب اُس نے ٹوپی کو میرے سر پر ہی رہنے دیا اور کہا کہ خیر ہے.خیر ہے ! مرزا صاحب نے یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد لکھا کہ اس کے گواہ شیخ علی محمد صاحب وکیل گورداسپور اور سردار محمد حیات خاں صاحب سی ایس آئی ہیں نیز مقدمے کی مثل متعلقہ عدالت میں دیکھی جاسکتی ہے.اگر چہ بعد میں عیسائیوں کے ساتھ مرزا صاحب کے کئی علمی اور روحانی معر کے ہوئے جن کا احوال آگے آئے گا ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۳ء آئینہ کمالات اسلام صفحات ۲۹۷-۲۹۹
۱۵۶ لیکن یہ اس لحاظ سے مرزا صاحب اور مخالف عیسائیوں کے درمیان پہلا ٹکراؤ تھا جس کی بنیاد مذہبی تعصب پر تھی.11- مرزا غلام احمد قادیانی اور پادری عبد اللہ آتھم کے مابین علمی اور روحانی مقابلہ: - ہندوستان میں عیسائیوں کی مذہبی یورش: انیسویں صدی کا نصف آخر ہندوستان اور خصوصاً پنجاب میں عیسائیوں کے لئے بہت اہم اور اُمید افزاء زمانہ تھا.مسیحیت کی تبلیغ اپنے شباب پر تھی.مختلف شہروں اور دیہات میں اُن کے مشن قائم تھے.ہندوستانی مسلمان اور دیگر اقوام کے لوگ پے در پے عیسائی ہو رہے تھے یہاں تک کہ یہ خیال کیا جانے لگا تھا کہ چند سالوں میں سارا ہند وستان عیسائیت کی آغوش میں چلا جائے گا.عیسائیوں کی کامیاب کوششوں کا یہ حال تھا کہ ۱۸۸۸ء میں شملہ ( ہندوستان ) میں عیسائی مشنریوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر چارلس ایچی سن نے کہا کہ د جس رفتار سے ہندوستان کی معمولی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اس سے چار پانچ گنا تیز رفتار سے عیسائیت اس ملک میں پھیل رہی ہے اور اس وقت ہندوستانی عیسائیوں کی تعداد دس لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے.“ ے ریورنڈ رابرٹ کلارک ۱۹۰۴ ء - دی مشنز آف سی.ایم.الیس ان پنجاب اینڈ سندھ
۱۵۷ ہندوستان میں عیسائی مشنوں کے ایک مختصر جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ سب سے پہلے چرچ مشنری سوسائٹی (.C.M.S) نے ۱۷۹۹ء میں تبلیغی کام ہندوستان میں شروع کیا لیکن انیسویں صدی میں کئی مشنری سوسائٹیوں نے کام کرنا شروع کر دیا ان کے صدر مقام جرمنی، انگلستان اور امریکہ وغیرہ میں تھے.۱۹۰۱ء میں ان سوسائٹیوں کی تعداد ۳۷ کے لگ بھگ تھی جن کے تحت سینکڑوں عیسائی مشنری ہندوستان کے طول و عرض میں کام کر رہے تھے.اس کے علاوہ بہت سے عیسائی مشنری ایسے تھے جو ان سوسائٹیوں سے منسلک نہ تھے بلکہ الگ تبلیغ کا کام کر رہے تھے.پنجاب کا علاقہ ان کے لئے بڑا زرخیز ثابت ہو رہا تھا.یہاں کے تیرہ بڑے شہروں میں ان کے مشہور مشن قائم تھے.ان میں سے ایک مشن امرتسر میں چرچ مشنری سوسائٹی نے ۱۸۵۲ء میں قائم کیا.- جنڈیالہ مشن کی کارکردگی اور مرزا صاحب سے تعارف: جنڈیالہ (ضلع امرتسر ) میں عیسائی مشن کی بنیا د ۱۸۵۴ء میں رکھی گئی جب ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک ایم.ڈی سی.ایم (ایڈنبرا ) ایم.آر.اے.ایس سی.ایم.الیس ضلع امرتسر کے میڈیکل مشنری انچارج بنے تو انہوں نے ۱۸۸۲ء میں امرتسر میڈیکل مشن کی ایک شاخ جنڈیالہ ضلع امرتسر میں کھول دی.اس سے عیسائیوں کی تبلیغی مساعی کو اور فروغ حاصل ہوا.اگر چہ عیسائیوں کی تبلیغی سرگرمیاں سارے پنجاب میں زور وشور سے جاری تھیں لیکن جنڈیالہ میں جب میڈیکل مشن کی آڑ لے کر عیسائی مشنریوں کی کوششوں میں اضافہ ہوا تو اس قصبے کے ایک غیرت مند مسلمان
۱۵۸ محمد بخش پاندہ نے باوجود معمولی علمیت ہونے کے عیسائی پادریوں کے مقابلے کا بیڑہ اُٹھایا اور مختلف جلسوں میں وہ اور ان کے ساتھی عیسائی واعظوں کے سامنے عیسائیت پر اعتراض کرنے لگے.جب یہ سلسلہ بڑھا تو عیسائی مشنریوں نے جنڈیالہ کے محمد بخش پاندہ کی مخالفت کا ذکر ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک سے کیا جس نے مسیحیان جنڈیالہ کی طرف سے ایک خط محمد بخش پاندہ کو اپریل ۱۸۹۳ء میں لکھا.اس میں لکھا کہ بخدمت شریف میاں محمد بخش صاحب و جمله شرکاء اہل اسلام جنڈیالہ ! جناب من بعد سلام کے واضح رائے شریف ہو کہ چونکہ ان دنوں میں قصبہ جنڈیالہ میں مسیحیوں اور اہل اسلام کے درمیاں دینی چرچے بہت ہوتے ہیں اور چند صاحبان آپ کے ہم مذہب دین عیسوی پر حرف لاتے ہیں اور کئی ایک سوال و جواب کرتے اور کرنا چاہتے ہیں.لہذا راقم رقیمہ ہذا کی دانست میں طریقہ بہتر اور مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک جلسہ عام کیا جائے جس میں صاحبان اہل اسلام مع علماء دیگر بزرگان دین کے جن پر اُن کی تسلی ہو موجود ہوں اور اسی طرح سے مسیحیوں کی طرف سے بھی کوئی صاحب اعتبار پیش کئے جاویں تا کہ جو باہمی تنازعہ ان دنوں میں ہورہے ہیں.خوب فیصل کئے جاویں اور نیکی اور بدی اور حق اور خلاف ثابت ہوویں لہذا چونکہ اہل چنڈیالہ کے درمیان آپ صاحب ہمت گنے جاتے ہیں ہم آپ کی خدمت میں از طرف مسیحان جنڈیالہ التماس کرتے ہیں کہ آپ خواہ خود یا اپنے ہم مذہبوں سے مصلحت کر کے ایک وقت مقرر کریں اور جس کسی
۱۵۹ بزرگ پر آپ کی تسلی ہوا سے طلب کریں اور ہم بھی وقت معین پر محفل شریف میں کسی اپنے کو پیش کریں گے کہ جلسہ اور فیصلہ امورات مذکورہ بالا کا بخوبی ہو جاوے....دیگر التماس یہ ہے کہ اگر صاحبانِ اہل اسلام ایسے مباحثے میں شریک نہ ہونا چاہیں تو آئندہ کو اپنے اسپ کلام کو میدانِ گفتگو میں جولانی نہ دیں اور وقت منادی یا دیگر موقعوں پر حجت بے بنیاد ولا حاصل سے باز آ کر خاموشی اختیار کریں.از رہِ مہربانی اس خط کا جواب جلدی عنائت فرما دیں تا کہ اگر آپ ہماری اس دعوت کو قبول کریں تو جلسہ کا اور ان مضامین کا جن کی بابت مباحثہ ہوتا ہے معقول انتظام کیا جائے....الراقم مسیحان جنڈیالہ.مارٹن کلارک ا محمد بخش صاحب پاندہ نے اس خط کی نقل اور ساتھ ہی اپنی طرف سے ایک خط کئی علماء کو روانہ کیا اور ان سے اس علمی مقابلے میں مدد کی درخواست کی.انہوں نے ایک خط مرزا غلام احمد قادیانی کو بھی بھجوایا جس کی عبارت درج ذیل ہے.’ الحمد لله ونحمده و نستعينه ونصلى على رسوله الكريم حضرت جناب فیض مآب مجد دالوقت فاضل اجل حامئی دینِ رسول حضرت مرزا غلام احمد صاحب- از طرف محمد بخش السلام علیکم.گذارش یہ ہے کہ کچھ عرصہ سے قصبہ جنڈیالہ کے عیسائیوں نے بہت شور وشر مچایا ہوا ہے بلکہ آج بتاریخ ۱ را پریل ۱۸۹۳ء ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۳ ء - حجۃ الاسلام روحانی خزائن جلد ششم صفحات ۶۰-۶۱
17.عیسائیان جنڈیالہ نے معرفت ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب امرتسر بنام فدوی بذریعہ رجسٹری ایک خط ارسال کیا ہے جس کی نقل خط ہذا کی دوسری طرف واسطے ملاحظہ کے پیش خدمت ہے.عیسائیوں نے بڑے زور وشور سے لکھا ہے کہ اہل اسلام جنڈیالہ اپنے علماء اور دیگر بزرگان دین کو موجود کر کے ایک جلسہ کریں اور دین حق کی تحقیق کی جائے دور نہ آئندہ سوال کرنے سے خاموشی اختیار کریں اسلئے خدمت بابرکت میں عرض ہے کہ چونکہ اہل اسلام جنڈیالہ اکثر کمزور ومسکین ہیں اس لئے خدمت عالی شریف میں ملتمس ہوں کہ آنجناب اللہ اہل اسلام جنڈیالہ کو امداد فرماؤ ورنہ اہل اسلام پر دھبہ آجائے گا....فقط جواب طلب ضروری را قم محمد بخش پاند با مکتب دیسی قصبہ جنڈیالہ ضلع امرتسر ۱۱ را پریل ۱۸۹۳ء ۱ محمد بخش پاند ہا صاحب کے خط کے جواب میں مرزا غلام احمد صاحب نے مندرجہ ذیل خط مسیجان جنڈیالہ کے نام لکھا اس کے ضروری حصے پیش ہیں.دد بسم اللہ الرحمن الرحیم بخدمت مسیحان جنڈیالہ بعد ما وجب آج (۱۳ را پریل ۱۸۹۳ء.ناقل ) میں نے آپ صاحبوں کی وہ تحریر جو آپ نے میاں محمد بخش صاحب کو بھیجی تھی اوّل سے آخر تک پڑھی جو کچھ آپ صاحبوں نے سوچا ہے مجھے اس سے اتفاق لے : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۳ ء - حجتہ الاسلام روحانی خزائن جلد ششم صفحه ۵۹
۱۶۱ رائے ہے بلکہ در حقیقت میں اس مضمون کے پڑھنے سے ایسا خوش ہوا کہ میں اس مختصر خط میں اسکی کیفیت بیان نہیں کر سکتا.یہ بات سچ اور بالکل سچ ہے کہ یہ روز کے جھگڑے اچھے نہیں اور ان سے دن بدن عداوتیں بڑھتی ہیں اور فریقین کی عافیت اور آسودگی میں خلل پڑتا ہے....اس لئے میں آپ لوگوں کو اطلاع دیتا ہوں کہ اس کام کے لئے میں ہی حاضر ہوں.جس حالت میں دونوں فریقوں کا یہ دعویٰ ہے کہ جس نور کو اُن کے انبیاء لائے تھے وہ نور فقط لازمی نہیں تھا.بلکہ متعدی تھا تو پھر جس مذہب میں یہ نور متعدی ثابت ہوا اس کی نسبت عقل تجویز کرے گی کہ یہی مذہب زندہ اور سچا ہے کیونکہ اگر ہم ایک مذہب کے ذریعے سے وہ زندگی اور پاک نور معہ اُس کی تمام علامتوں کے حاصل نہیں کر سکتے جو اُس کی نسبت بیان کیا جاتا ہے تو ایسا مذہب بجز لاف و گزاف کے زیادہ نہیں.اب دنیا میں زندہ مذہب صرف اسلام ہے اور اس عاجز نے اپنے ذاتی تجارب سے دیکھ لیا اور پرکھ لیا کہ دونوں قسم کے نور اسلام اور قرآن میں اب بھی ایسے ہی تازہ بتازہ موجود ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت موجود تھے اور ہم اُن کو دکھلانے کے لئے ذمہ دار ہیں.اگر کسی کو مقابلہ کی طاقت ہے تو ہم سے خط و کتابت کرے.والسلام على من التبع الهدی.بالآخر یہ بھی واضح رہے کہ اس عاجز کے مقابلہ پر جو صاحب کھڑے ہوں وہ کوئی بزرگ نامی اور معزز انگریز پادری صاحبوں میں سے ہونے چاہئیں کیونکہ جو بات
۱۶۲ اس مقابلہ اور مباحثہ سے مقصود ہے اور جس کا اثر عوام پر ڈالنا مد نظر ہے وہ اسی امر پر موقوف ہے کہ فریقین اپنی اپنی قوم کے خواص میں سے ہوں.ہاں بطور تنزل اور اتمام حجت مجھے یہ بھی منظور ہے کہ اس مقابلہ کے لئے پادری عماد الدین صاحب یا پادری ٹھاکر داس صاحب یا مسٹر عبداللہ آتھم صاحب عیسائیوں کی طرف سے منتخب ہوں...سو یہ بحث زندہ مذہب یا مردہ مذہب کی تنقیح کے بارے میں ہوگی اور دیکھا جاوے گا کہ جن روحانی علامات کا مذہب اور کتاب نے دعوی کیا ہے وہ اب بھی اس میں پائی جاتی ہیں کہ نہیں..خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ۱ مرزا صاحب کے اس خط کے جواب میں امرتسر کے مسیحی میڈیکل مشن نے ۱۸ را پریل ۱۸۹۳ء کومرزا غلام احمد صاحب کو لکھا کہ چونکہ ہمارا دعویٰ نہ آپ سے پر جنڈیالہ کے محمد یوں سے ہے.ہم _ آپ کی دعوت قبول کرنے میں قاصر ہیں.اگر اُن کی مدد آپ کو قبول ہے تو مناسب اور باوقار طریقہ یہ ہے کہ آپ فوراً انہیں خطوط لکھیں.....اگر وہ آپ کو تسلیم کر کے اس جنگ مقدس کے لئے اپنی طرف سے پیش کریں تو ہمارا کچھ عذر نہیں.ہے ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۳ ء - حجتہ الاسلام روحانی خزائن جلد ششم صفحات ۶۱ تا ۶۴ ۲ : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۳ء- حجتہ الاسلام روحانی خزائن جلد ششم صفحه ۶۴
۱۶۳ مندرجہ بالا خط کا جواب مرزا غلام احمد صاحب نے ۲۳ را پریل ۱۸۹۳ء کو دیا جس کے کچھ اقتباسات درج ذیل ہیں.و بسم اللہ الرحمن الرحیم مشفق مهربان پادری صاحب یہ وقت کیا مبارک وقت ہے کہ میں آپ کی اس مقدس جنگ کے لئے اپنے چند عزیز دوست بطور سفیر منتخب کر کے آپ کی خدمت میں روانہ کرتا ہوں اور اُمید رکھتا ہوں کہ اس پاک جنگ کے لئے آپ مجھے مقابلہ پر منظور فرما دیں گے.آپ صاحبوں کا مسلمانوں کو مقابلے کے لئے بلانا نہایت مبارک اور نیک تقریب ہے.مجھے اُمید نہیں کہ آپ اس بات پر ضد کریں کہ جنڈیالہ میں کوئی مشہور اور نامی فاضل نہیں اور یہ آپ کی شان سے بھی بعید ہو گا کہ آپ عوام سے اُلجھتے پھریں چاہیے کہ یہ بحث صرف زمین تک محدود نہ رہے بلکہ آسمان بھی اس کے ساتھ شامل ہو اور مقابلہ صرف اس بات میں ہو کہ روحانی زندگی اور آسمانی قبولیت اور روشن ضمیری کس مذہب میں ہے اور میں اور میرا مقابل اپنی اپنی کتاب کی تاثیر میں اپنے اپنے نفس میں ثابت کریں 1 مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۳ء- حجتہ الاسلام روحانی خزائن جلد ششم صفحات ۶۴-۶۶
۱۶۴ -٣ پادری عبد اللہ آتھم اور مرزا غلام احمد صاحب کے درمیان مقدس جنگ : مرزا صاحب کے بھجوائے ہوئے وفد کے ساتھ تھوڑی سی بحث و تمحیص کے بعد مسیحی میڈیکل مشن امرتسر نے ۲۴ را پریل ۱۸۹۳ء کو مباحثے کی شرائط طے کر لیں جن کی منظوری مرزا غلام احمد صاحب نے ۲۵ را پریل ۱۸۹۳ء کو بذریعہ خط دے دی مسلمانوں کی طرف سے نمائندہ مرزا غلام احمد صاحب طے پائے اور اُن کے معاون مولانا نورالدین صاحب، مولانا سید محمد احسن صاحب اور شیخ اللہ دیا لدھیانوی مقرر ہوئے جب کہ عیسائیوں کی طرف سے نمائندگی پادری عبداللہ آتھم صاحب نے کی اور اُن کی معاونت کے لئے پادری ہے.ایل.ٹھاکر داس صاحب، پادری عبداللہ صاحب اور پادری نامس ہاول مقرر ہوئے.عبداللہ آتھم صاحب ۱۸۳۸ء میں انبالہ میں پیدا ہوئے.عمر میں مرزا صاحب سے تقریباً ۳ سال چھوٹے تھے.آتھم صاحب نے ۲۸ / مارچ ۱۸۵۳ء کو عیسائی مذہب اختیار کیا.پنجاب کے مختلف علاقوں میں پہلے تحصیلدار پھر ایکسٹرا اسٹنٹ کمشنر رہے.اس لئے ڈپٹی آتھم بھی کہلاتے تھے.ریٹائر ہونے پر اپنی خدمات امرتسر مشن کے سپر د کر دیں.اسلام کے خلاف کچھ کتب بھی تصنیف کیں.اگر چہ مباحثہ کی تحریری شرائط پر فریقین کے دستخط ۱/۲۴ اپریل کو ہو چکے تھے لیکن اس سے پہلے کہ اصل مباحثہ شروع ہو ڈا کٹر ہنری مارٹن کلارک نے ۱۲ رمئی ۱۸۹۳ء کو ل : مولانا جلال الدین شمس ۱۹۵۹ ء - دیبا چه روحانی خزائن جلد ششم
ܬܙ ایک اشتہار شائع کیا جس میں لکھا کہ چونکہ پنجاب اور ہندوستان کے مسلمان علماء نے مرزا غلام احمد قادیانی کو خارج از اسلام قرار دیا ہے لہذا وہ اسلام کے وکیل نہیں ہو سکتے.اے مرزا صاحب نے ڈاکٹر مارٹن کلارک کو طے شدہ مباحثے پر قائم رہنے کے لئے مندرجہ ذیل دلائل لکھ کر بھجوائے.ا.دونوں فریقوں کے درمیان مباحثے کا معاہدہ تحریری طور پر طے ہو چکا ہے اس -1 -۲ لئے کوئی فریق کسی بھی عذر کی بنا پر اس سے انحراف نہیں کر سکتا.آپ نے بطور نمونہ ڈاکٹر مارٹن کلارک کو تین بزرگ اور مقتدر مسلمانوں کی تحریریں بھجوائیں جن میں لکھا تھا کہ وہ مرزا صاحب جیسے نیک سیرت انسان کو مسلمانوں کا امام سمجھتے ہیں.تکفیر کے ضمن میں مرزا صاحب نے ڈاکٹر مارٹن کلارک کو یاد دلایا کہ پروٹسٹنٹ عیسائی کیتھولک فرقے کو کافر بلکہ واجب القتل یقین کرتے ہیں.اس طرح وہ خود بھی اس الزام سے خالی نہ تھے.اصل بحث تو حق اور باطل کے درمیان ہے.ہم نے اسلام اور قرآن کی وکالت کرنی ہے اور آپ نے اناجیل کی اس سے فتاویٰ کفر کا کیا تعلق؟ ۲ ان حالات میں عیسائیوں کے لئے ممکن نہ تھا کہ وہ یک طرفہ طور پر طے شدہ معاہدہ کو منسوخ کر دیتے.چنانچہ ۲۲ رمئی ۱۸۹۳ء سے ۵/جون ۱۸۹۳ء تک ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کی کوٹھی پر امرتسر میں جاری رہا اور اس طرح ۱۵ دن میں اختتام پذیر : اخبار نورافشان (عیسائی) ضمیمه ۱۲ مئی ۱۸۹۳ء : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۴ء سچائی کا اظہار
۱۶۶ ہوا.روزانہ کی کارروائی فریقین کے نمائندے نوٹ کرتے رہتے جسے آخر میں موازنہ کر کے اغلاط کو درست کر لیا جاتا اور اس درست شدہ مسودے پر فریقین کے نمائندے دستخط کر دیتے.مباحثے کے اختتام پر مباحثے کی مکمل کارروائی شیخ نور احمد صاحب، مالک و مہتمم ریاض ہند ، پریس امرتسر نے فریقین کی منظوری سے ”جنگ مقدس“ کے نام سے شائع کر دی.مہانے کے اختتام پر مرزا صاحب کی پیشگوئی: مباحثے کے اختتامی دن یعنی ۵/ جون ۱۸۹۳ء کو مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے مباحثے کے فیصلے کے لئے ایک واضح پیشگوئی کر دی جس میں آپ نے بتایا کہ آج رات جو مجھ پر کھلا وہ یہ ہے کہ جب کہ میں نے بہت تضرع اور ابتہال سے جناب الہی میں دعا کی کہ تو اس امر میں فیصلہ کر اور ہم تیرے عاجز بندے ہیں تیرے فیصلہ کے سوا کچھ نہیں کر سکتے تو اس نے مجھے یہ نشان بشارت کے طور پر دیا ہے کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بتا رہا ہے وہ انہی دنوں مباحثے کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی ۱۵ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاوے گا اور اُس کو سخت ذلت پہنچے گی بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور جو شخص سچ پر ہے اور بچے خدا کو مانتا ہے اُس کی اس سے عزت ظاہر ہوگی...66 ا : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۳ء- ۵/ جون ۱۸۹۳ء جنگ مقدس روحانی خزائن جلد ششم صفحه ۲۹۱
۱۶۷ اس پیشگوئی کو سنانے کے بعد مرزا صاحب نے پادری عبداللہ آ نقم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ نشان پورا ہو گیا تو کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے نبی ہونے کے بارے میں جن کو معاذ اللہ دجال کے لفظ سے آپ یاد کرتے ہیں حکم دلیل ٹھہرے گی یا نہیں؟ یہ بات سن کر پادری عبداللہ آتھم کا رنگ فق اور چہرہ زرد پڑ گیا ہاتھ کا پنپنے لگے.اُس نے بلا توقف اپنی زبان منہ سے نکالی اور دونوں ہاتھ کان پر رکھے جیسے کوئی انکسار کے ساتھ تو بہ کرتا ہے اور بار بار لرزتی زبان سے کہا میں نے بے ادبی اور گستاخی نہیں کی اور میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرگز دجال نہیں کہا.گویا کہ کوئی پیشگوئی کی شرط حق کی طرف رجوع کا فائدہ اُٹھانے کا اس نے آغاز کر دیا.-۵ پیشگوئی پر مسلمان اور عیسائی علماء کا رد عمل : مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی اس پیشگوئی پر مسلمان عیسائی علماء کی طرف سے کئی طرح کے اعتراضات کئے گئے.مسلمان علماء کی طرف سے پہلا عتراض یہ تھا کہ ایسی پیشگوئیاں تو کاہن ، نجومی ، ریلی ، جوتشی ، فلاسفر مهسمرئز ر، قیافہ شناس، روحانیت کی تسخیر کے عالم اور اٹکل باز بھی کرتے ہیں جو بعض اوقات صحیح نکلتی ہیں.اُن کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ وہ اس پیشگوئی میں فریق مخالف حق کے فوت ہو جانے کی صریح لفظ موت سے خبر نہیں دی صرف یہ کہا ہے کہ وہ ہاویہ یعنی جہنم میں ڈالا جائے گا جو ہر ایک مخالف حق کا ٹھکانہ ہے.“ لے ان دو وجوہ کی بنا پر ان معترض مسلمان علماء نے کہا کہ اگر یہ پیشگوئی پوری بھی ہوگئی تب بھی وہ مرزا غلام احمد صاحب کو سچا نہیں مانیں گے.: مولوی محمد حسین بٹالوی ۱۸۹۳ ء - اخبار اشاعۃ السنہ جلد ۵ نمبر، اصفحه ۲۳۵ تا ۲۳۸
۱۶۸ دوسری طرف عیسائیوں نے پیش بندی کے طور پر پیشگوئی کے دن سے ہی یہ کہنا شروع کر دیا کہ عبداللہ آتھم کے مرنے کی خبر تو ایک ڈاکٹر نے دے رکھی ہے کہ چھ ماہ میں مرجائے گا لے اس پر مستزاد یہ کہ پیشگوئی کی مدت یعنی ۱۵ ماہ کا عرصہ ۵ /جون ۱۸۹۳ء سے شروع ہو کر ۱۵ ستمبر ۱۸۹۴ء کو ختم ہو گیا لیکن عیسائی فریق مباحثہ کا لیڈر پادری عبداللہ آتھم اس عرصہ میں زندہ رہا.اسے عیسائیوں نے عیسائیت کی اسلام پر فتح قرار دیا.چھ ستمبر ۱۸۹۴ء کو انہوں نے امرتسر میں ایک جلوس نکالا جس میں بعض مسلمان علماء جو مرزا صاحب کے مخالف گروہ سے تعلق رکھتے تھے وہ بھی شامل ہوئے اور مرزا صاحب کی پیشگوئی کے غلط ہونے کا دعوی کیا.- مرزا غلام احمد صاحب کا جوابی رد عمل : اگر چہ مسلمان علماء اور عیسائی پادری دونوں گروہ مرزا صاحب کی پیشگوئی کو براه راست سچے اور جھوٹے کے درمیان معیار کے طور پر تسلیم کرنے سے پہلے ہی انکار کر چکے تھے پھر بھی اُنہوں نے ۱۵/ ماہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود پادری عبد اللہ آتھم کے زندہ رہنے کو اپنی فتح قرار دے کر جشن منانا اپنا حق جانا.جہاں تک مسلمان علماء کے مطالبے کا تعلق ہے کہ پیشگوئی میں آتھم کی واضح موت کی خبر نہ تھی ایسی باتوں کے متعلق مرزا صاحب کہہ چکے تھے کہ پیشگوئیاں کوئی انسان کے اختیار میں نہیں اور خدا غضب میں دھیما ہے اس لئے بندے کے عجز وانکساری اختیار کرنے پر اُس سے عذاب کو ٹال دیتا ہے.جس کا پیشگوئی میں اشارہ موجود ہے کہ ”بشر طیکہ حق کی طرف ل : مولانا جلال الدین شمس ۱۹۶۳ ء - پیش لفظ روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۶-۷
۱۶۹ رجوع نہ کرے.اس ساری صورت کو واضح کرنے کے لئے اور پیشگوئی کی سچائی کو ثابت کرنے کے لئے مرزا صاحب نے متعدد حقائق سے پردہ اُٹھایا.آپ نے ستمبر ۱۸۹۴ء سے ۱۵ ستمبر ۱۸۹۴ء کے دن تک رونما ہونے والے واقعات کا تفصیلی ذکر کیا.آپ لکھتے ہیں کہ -1 پیشگوئی میں فریق مخالف سے مراد اگر چہ اولا پادری عبداللہ آتھم ہی ہے لیکن میہ اُن سب پر حاوی تھی جو اس بحث سے متعلق تھے خواہ وہ حامی ، معاون یا سر براہ تھے.اس لئے مقررہ مدت میں اُن میں سے کسی کی ہلاکت بھی اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا ایک حصہ سمجھی جانی چاہئے.چنانچہ عیسائی پادری مشنری رائٹ ہاول (مباحثے میں عبد اللہ آتھم کا معاون.ناقل ) جو امرتسر مشن کا روح رواں تھا عین جوان عمر میں نا گہانی طور پر مر گیا.اس کی موت سے عیسائی پادریوں اور ڈاکٹر مارٹن کلارک کو انتہائی صدمہ پہنچا اور انہوں نے ماتمی لباس پہن لئے.اس کی موت پر گرجے میں تقریر کرتے ہوئے ایک پادری نے یہاں تک کہ دیا کہ آج رات خدا کے غضب کی لاٹھی بے وقت ہم پر چلی اور اس کی خفیہ تلوار نے بے وقت ہم کو قتل کیا.پھر پادری فورمین لاہور میں مرگئے اور جنڈیالہ کا ڈاکٹر یوحنا جو عیسائیوں کا ایک اعلیٰ رکن تھا اور جس کے ذمہ مباحثے کی طباعت کا کام تھا ۱۵ ماہ کی مقررہ میعاد کے اندر اس جہان سے رخصت ہوا.یہ دُکھ ہاویہ سے کم نہ تھے.1 -۲ مخالفین نے مرزا صاحب کی طرف سے پیشگوئی کے وقت اور ۱۵ ماہ کا عرصہ گذر جانے کے بعد عبد اللہ آتھم کے زندہ رہنے پر متضاد تبصرے کئے جو منطقی طور پر ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۴ ء - انوار الاسلام صفحه ۱۹۰۸
صحیح طرز استدلال نہیں.مثلاً مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے اخبار اشاعۃ السنہ میں ابتدا میں یہ تبصرہ کیا کہ پیشگوئی میں کسی کی موت کی معین خبر نہیں لیکن جب عبد اللہ آتھم نہ مرا تو یہ تبصرہ کیا کہ قطع نظر فریق مخالف کے تین سرکردہ لیڈروں کی وفات عبد اللہ آتھم نہیں مرا اس لئے پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.یہ سراسر غیر منصفانہ رویہ ہے.اسی طرح ابتدا میں عیسائیوں نے پیشگوئی پر یہ تبصرہ کیا کہ عبداللہ آتھم کی موت کی پیشگوئی تو بے معنی ہے کیونکہ اُس کے متعلق تو ڈاکٹر بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ چھ ماہ میں مرجائے گا اور جب وہ چھ ماہ بلکہ ۱۵ ماہ میں بھی نہ مرا تو ضد کرنے لگے کہ پیشگوئی غلط نکلی یعنی انہوں نے پیشگوئی کے مطابق صرف آتھم کی وفات کو بھی وساوس کی نذر کرنے کا انتظام کر لیا اور پھر جب اُن کے اپنے اندازے غلط نکلے تو مرزا صاحب کی تحقیر شروع کر دی.- خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ اگر کسی نافرمان اور گمراہ کے دل میں بھی خوف خدا پیدا ہو جائے تو عذاب الہی نازل نہیں ہوتا بلکہ مل جاتا ہے اور خدا کی طرف سے اصلاح کی مہلت ملتی ہے اور بانی سنتوں میں تغیر و تبدل نہیں ہوتا یعنی پادری عبد اللہ آتھم نے پیشگوئی کے اندر درج شرط بشر طیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے“ کے الفاظ سے فائدہ اُٹھایا اور الہی عذاب وقتی طور پر اُس سے مل کر دوسرے وقت پر جا پڑا.مرزا صاحب نے اس بات کے ثبوت میں کہ پادری عبد اللہ آتھم کے دل میں خوف الہی پیدا ہوا.مندرجہ ذیل واضح شہادتیں مہیا کیں: (الف) مرزا صاحب نے مباحثے کے آخری دن پیشگوئی سنانے کے بعد جب پادری عبد اللہ آتھم کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر یہ نشان پورا ہو گیا تو کیا آپ
121 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ دجال کہنا ترک کر دیں گے تو یہ سن کر پادری صاحب کا رنگ فق اور چہرہ زرد ہو گیا.ہاتھ کانپنے لگے اس نے دونوں ہاتھ کان پر تو بہ کے رنگ میں رکھ کر کہا کہ میں نے بے ادبی اور گستاخی نہیں کی.میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر گز دجال نہیں کہا.یہ اُس کی تو بہ اور خوف خدا کی پہلی علامت تھی.(ب) پندرہ ماہ کی پیشگوئی کی مدت کے دوران پادری عبداللہ آتھم نے اسلام کے خلاف ایک حرف بھی منہ سے نہ نکالا جس سے اُس کے پیشگوئی میں مخفی ہاویہ سے اُس کے دلی رجحان کا اشارہ ملتا ہے.(ج) پادری عبد اللہ آتھم نے اپنے بعض بنیادی عقائد میں جو شرک پر مبنی تھے بعض واضح تبدیلی کی جو رجوع الی الحق کے زمرے میں شمار ہوتی ہے.آپ نے لکھا کہ میں عام عیسائیوں کے عقیدہ ابنیت والوہیت کے ساتھ متفق نہیں اور نہ میں اُن عیسائیوں سے متفق ہوں جنہوں نے آپ ( مرزا غلام احمد صاحب - راقل ) کے ساتھ کچھ بیہودگی کی ہے.“ ہے (1) پیشگوئی کی ہیبت نے جس طرح پادری عبداللہ آتھم کے منہ کو اسلام کے خلاف کچھ کہنے سے روک دیا اور جس نے انہیں اس بات کی طرف مائل کیا کہ وہ مسیح کی ابنیت اور الوہیت کا مشرکانہ طریق ترک کر کے خدا کے عذاب سے بچیں وہ حالت اپنی تفصیل میں کسی عذاب یا ہاویہ سے کم نہیں.پادری صاحب کا بیان و عمل پندرہ ماہ 1 : مولانا جلال الدین شمس ۱۹۶۳ء.پیش لفظ.روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۷ ۲ : اخبار نور افشان ۶۱۸۹۴ - ۲۱ ستمبر ( بحواله تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحه ۱۲۰)
۱۷۲ کے دوران ایسا عبرتناک رہا کہ گویاوہ زندہ ہی قبر میں چلے گئے.مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنی تصنیف سیرت المہدی میں اُن واقعات کو پادری صاحب کے اپنے بیانات کی روشنی میں اختصار کے ساتھ جمع کیا ہے.مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ انہیں خدائی تصرف کے تحت مختلف دہشتناک نظاروں میں خونی سانپ نظر آنے لگے جن کی نسبت انہوں نے یہ بتایا کہ وہ تعلیم یافتہ“ سانپ تھے جن کو مرزا صاحب کی جماعت نے میرے ڈسنے کے لئے چھوڑ رکھا تھا.یہ پیشگوئی کی عظمت اور ہیبت کی ابتدا تھی جس نے بالآخر انہیں اس درجہ خوف زدہ کر دیا کہ وہ اپنی عالی شان کوٹھی چھوڑ کر امرتسر لدھیانہ چلے جانے کو جہاں اُن کا داماد رہتا تھا مجبور ہو گئے.لدھیانے میں سانپ دکھائی نہیں دیئے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ایک خوفناک حالت پیدا ہوگئی کہ بعض نیزوں سے مسلح آدمی اُنہیں نظر آنے لگے اور انہیں ایسا محسوس ہوا کہ وہ قریب ہی آپہنچے ہیں اور انہیں قتل کیا چاہتے ہیں.اس نظارہ کے بعد آتھم صاحب گریہ وزاری میں مبتلا ہو گئے اور ہر وقت ایک پوشیدہ ہاتھ کا خوف اُن پر مسلط رہنے لگا یہاں تک کہ اُنہیں اس کوٹھی سے بھی وحشت ہونے لگی.اس پر وہ اپنے دوسرے داماد کی طرف دوڑے جو فیروز پور میں تھا لیکن یہاں بھی اُنہیں چین نصیب نہ ہوا بلکہ یہاں وہ نظارے پہلے سے بھی زیادہ ہیبت ناک شکل اختیار کر گئے.مسٹر آتھم ایک تجربہ کار اور جہاندیدہ سرکاری افسر تھے...وہ چاہتے تو چارہ جوئی کر کے سرکاری طور پر اپنے
۱۷۳ حریف سے باضابطہ مچلکہ لکھوا سکتے تھے.ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک اور دوسرے عیسائیوں نے انہیں بار بار اس طرف توجہ بھی دلائی مگر چونکہ اُن کا دل جانتا تھا کہ سانپوں اور نیزے والوں کے ان نظاروں میں کسی انسان کا دخل نہیں اس لئے انہوں نے اس کے جواب میں دونوں ہاتھ کان پر رکھے.عیسائیوں نے جب یہ حال دیکھا تو انہوں نے انہیں شراب پلا پلا کر مد ہوش رکھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ پایا.اسی دوران میں ہاویہ سے متعلق پیشگوئی کی میعاد کا آخری دن آ گیا.اس دن آتھم صاحب کی کوٹھی کے پہرہ کا انتظام جس انسپکٹر پولیس کے سپر د تھا اس نے بعد کو بیان کیا کہ کوٹھی کے اندر آتھم صاحب کے دوست پادری وغیرہ تھے اور باہر چاروں طرف پولیس کا پہرہ تھا.اُس وقت آتھم صاحب کی حالت سخت گھبراہٹ کی تھی.اتفاقاً باہر دور سے کسی بندوق کے چلنے کی آواز آئی اس پر آتھم صاحب کی حالت یکدم دگرگوں ہونے لگی.آخر جب اُن کا کرب اور گھبراہٹ انتہاء کو پہنچ گئی تو ان کے دوستوں نے ان کو بہت زیادہ شراب پلا کر بے ہوش کر دیا.وہ آخری رات آتھم صاحب نے اس حالت میں گزاری.صبح ہوئی تو ان کے دوستوں نے ان کے گلے میں ہار پہنائے اور ان کو گاڑی میں بٹھا کر جلوس نکالا.اس دن لوگوں میں شور تھا کہ پیشگوئی جھوٹی نکلی مگر ہم سمجھتے تھے کہ جو حالت ہم نے آتھم صاحب کی دیکھی ہے اس سے تو اُن کا
۱۷۴ مرجانا ہی اچھا تھا.اوپر بیان کردہ واقعات کی بنا پر یہ بات قرین قیاس ہے کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی کا پادری صاحب کے دل و دماغ پر بہت ہیتناک اثر ہوا اور بظاہر انہوں نے دل میں تو بہ کر کے پیشگوئی کے اندر موجود شرط بشر طیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے“ کا فائدہ اُٹھایا لیکن وہ واضح طور پر اس کا اقرار کرنے سے کترا رہے تھے اور اس طرح پیشگوئی کو مشکوک بنانے کا باعث بن رہے تھے.اس پر مرزا غلام احمد صاحب نے ۶ رستمبر ۱۸۹۴ء کو لکھا کہ الف.مسٹر عبد اللہ آتھم میں کامل عذاب (یعنی موت ) کی بنیادی اینٹ رکھ دی گئی ہے اور وہ عنقریب بعض تحریکات سے ظہور میں آجائے گی.خدا تعالیٰ کے تمام کام اعتدال اور رحم سے ہیں اور کینہ ور انسان کی طرح جلد باز نہیں.ہے ب.اس ہماری تحریر سے کوئی یہ خیال نہ کرے کہ جو ہونا تھا وہ سب ہو چکا اور آگے کچھ نہیں کیونکہ آئندہ الہام میں یہ بشارتیں ہیں ونمزق الاعداء كُلَّ ممزق : ہم دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے یعنی اپنی حجت کامل طور پر اُن پر پوری کر دیں گے.سے ے مرزا بشیر احمد - سیرت المہدی حصہ اول طبع دوئم صفحه ۱۸۴ س : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۴ء- انوار الاسلام.۶ ستمبر ۱۸۹۴ صفحه ۱۰ سے : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۴ء- انوار الاسلام - ۶ ستمبر ۱۸۹۴ صفحه ۱۵
۱۷۵ ۷.مرزا صاحب کا فیصلہ کن چیلنج: مرزا صاحب کے مخالفین مسلمان علماء اور عیسائی پادری بھی اس حقیقت کو ماننے کے لئے تیار نہ تھے کہ پادری عبداللہ آتھم نے رجوع الی الحق کیا تھا اس لئے وہ پیشگوئی میں مذکورہ عذاب سے زندہ بچ گئے.دوسری طرف پادری عبداللہ آتھم بھی خاموش تھے.وہ بڑی اہم دنیا وی حیثیت کے مالک اور عیسائی فرقے کے لیڈر تھے.اگر چہ زبردست ذہنی کرب میں مبتلا تھے لیکن اس بات کے اظہار پر آمادہ نہ تھے کہ وہ واقعتاً پیشگوئی کے پندرہ ماہ کے دوران خوف زدہ تھے اور پیشگوئی کی ہیبت سے ڈرتے رہے تھے لیکن مرزا صاحب نے آتھم صاحب کے پس و پیش کو ختم کرنے اور حق کے متلاشیوں کے لئے ایک فیصلہ کن چیلنج دے دیا اور مندرجہ ذیل مضمون کی قسم کھانے پر انعامی رقم پہلے ایک ہزار رو پید اور پھر بڑھا کر چار ہزار روپے دینے کا اعلان کیا.قسم کے الفاظ سادہ اور واضح تھے یعنی پیشگوئی کے دنوں میں ہرگز میں نے اسلام کی طرف رجوع نہیں کیا اور ہرگز اسلام کی عظمت میرے دل پر موثر نہیں ہوئی اور اگر میں جھوٹ کہتا ہوں تو اے قادر خدا ایک سال تک مجھ کو موت دے کر میرا جھوٹ لوگوں پر ظاہر کر ! جب آتھم صاحب بار بار توجہ دلانے پر اور پے در پے انعامی چیلنجوں کے بعد بھی مذکورہ بالا تم کھانے کو تیار نہیں ہوئے تو مرزا صاحب نے پادری صاحب کو ان : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۴ء - انعامی اشتہارات.۹ر ستمبر ۱۸۹۴ء سے ۳۰ دسمبر ۱۸۹۵ء
۱۷۶ کے اخفائے رجوع الی الحق کے فعل پر اس قدر زور دار اور مسلسل وارننگ دی کہ آخر کار اُن کی موت کے واقع ہونے کا حتمی اعلان کر دیا.مرزا صاحب کی طرف سے پہلا انعامی چیلنج اشتہار ۹ ستمبر ۱۸۹۴ء کو اور ساتواں ۳۰ دسمبر ۱۸۹۵ء کو دیا گیا.جن میں ہر طرح سے پادری صاحب کو قسم کھانے کے لئے آمادہ کیا گیا مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ اب اگر آتھم صاحب قسم کھا لیو یں تو وعدہ ایک سال قطعی اور یقینی ہے جس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہیں اور تقدیر مبرم ہے اور اگر فتم نہ کھاویں تو پھر بھی خدا تعالیٰ ایسے مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑے گا جس نے حق کا اخفا کر کے دنیا کو دھوکا دینا چاہا اور وہ دن نزدیک ہیں دور نہیں یعنی اس کی موت کے دن ! اگر تاریخ قسم سے ایک سال تک وہ زندہ سالم رہا تو وہ روپیہ ( انعامی چیلنج کا روپیہ.ناقل ) اُس کا ہوگا اور پھر اس کے بعد یہ تمام قومیں مجھ کو جو سزا دینا چاہیں دیں.اگر مجھ کو تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں تو میں عذر نہیں کروں گا اور خود میرے لئے اس سے زیادہ اور کوئی رسوائی نہیں ہوگی کہ میں ان کی قسم کے بعد جس کی بنیا د میرے ہی الہام پر ہے.جھوٹا نکلوں سے اگر آتھم نے جھوٹی قسم کھالی تو ضرور فوت ہو جائیں گے.قسم کھانے کے بعد خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ قطعی فیصلہ کرے سو قسم کھانے کے بعد ایسے مکارکا پوشیدہ ہرگز قبول نہیں ہوگا“ سے ہے : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۴ء ۱۸۹۵ء.انعامی اشتہارات.پادری عبداللہ آتھم
122 مرزا غلام احمد صاحب نے اپنے انعامی اشتہارات میں عیسائی پادریوں کو بھی اس قسم کا واسطہ دے کر ان سے اپیل کی کہ سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کرنے کے لئے وہ عبداللہ آ تتم کو قسم کھانے پر آمادہ کریں.آپ نے لکھا کہ ”جو ولد الحلال ہے اور در حقیقت عیسائی مذہب کو ہی غالب سمجھتا ہے تو چاہئے کہ ہم سے دو ہزار روپیہ لے لے اور آتھم صاحب سے ہماری منشاء کے مطابق قسم دلا دے پھر جو کچھ چاہے ہمیں کہتا رہے.لیکن ان انعامی اشتہارات میں مرزا صاحب نے واضح کر دیا کہ چونکہ آتھم صاحب دل میں عذاب الہی سے خوف زدہ ہیں اس لئے ہر گز جھوٹی قسم نہیں کھائیں گے.آپ نے لکھا کہ تھم اس اشتہار کی طرف رخ نہیں کرے گا کیونکہ کا ذب ہے اور اپنے دل میں خوب جانتا ہے کہ وہ اس خوف سے مرنے تک پہنچ چکا تھا اور اُس کا دل گواہی دے گا کہ ہمارا الہام سچا ہے گو وہ اس بات کو ظاہر نہ کرے لیکن اگر دنیا کی ریا کاری سے اس مقابلہ پر آئے گا تو پھر الہی عذاب کامل طور پر رجوع کرے گا.“ ہے آخری اور ساتویں انعامی اشتہار میں مرزا صاحب نے یہاں تک لکھ دیا کہ اگر آتھم کو عیسائی لوگ ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دیں اور پھر ذبح بھی کر ڈالیں تب بھی وہ قسم نہیں کھائیں گے.‘“ سے ۲۰۱، ۳: مرزا غلام احمد قادیانی - انعامی اشتہارات ا تا ۷ ، ۶ ستمبر ۱۸۹۴ء سے 6 ۳۰ / دسمبر ۱۸۹۵ء
KA لیکن پادری عبد اللہ اعظم صاحب ان تمام ترتیبات کے باوجود قسم کھانے پر آمادہ نہیں ہوئے جس پر مرزا صاحب نے لکھا کہ مگر تا ہم یہ کنارہ کشی آتھم کی ( یعنی قسم سے انکار کرنا ) بے سود ہے کیونکہ خدا تعالیٰ مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑتا.نادان پادریوں کی تمام یا وہ گوئی آتھم کی گردن پر ہے.تم اس جرم سے بری نہیں کہ اُس نے حق کو اعلانیہ طور پر زبان سے ظاہر نہیں کیا.- پادری عبد اللہ آتھم کی وفات پر مرزا صاحب کے تبصرے: آخر کار پادری عبد اللہ آتھم صاحب ۲۷ جولائی ۱۸۹۶ء کو بمقام فیروز پورفوت ہو گئے جس کا اس کے دوستوں کو بہت افسوس ہوا.ایک صاحب تو ان کی موت کے غم میں مر ہی گئے.پادری صاحب کی وفات کے بعد میاں حسام الدین صاحب عیسائی کی طرف سے اُن کے اخبار کشف الحقائق میں مرزا غلام احمد صاحب پر الزام لگایا گیا کہ آتھم صاحب کو مارنے کے لئے وحشیانہ حرکتیں کی گئیں.اُن کے گھر میں زندہ سانپ چھوڑے گئے اور اُن کو زہر کھلانے کی تجویز کی گئی.مرزا صاحب نے آتھم صاحب کی موت اور اس بہتان کا اپنی کتاب انجام آتھم میں تفصیلی جواب دیا.آپ لکھتے ہیں کہ ۳۰ / دسمبر ۱۸۹۵ ء تک ہماری طرف سے اُس کو تبلیغ ہوتی رہی کہ شائد وہ خدا تعالیٰ سے خوف کر کے سچی گوہی ادا کر دے.پھر ہم نے تبلیغ کو چھوڑ دیا اور خدا تعالیٰ کے وعدہ کے انتظار میں لگے سو : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۵ ء - ضیاء الحق مطبوع مئی ۱۸۹۵ء
۱۷۹ آتھم صاحب ۳۰ دسمبر ۱۸۹۵ء میں ابھی سات مہینے ختم نہ کئے تھے کہ قبر میں جا پڑے ! عیسائیوں کی طرف سے عائد کردہ الزامات کے بارے میں مرزا صاحب نے لکھا اگر یہ بہانہ نہیں تھا اور واقعی طور پر ہم نے کوئی تعلیم یافتہ سانپ چھوڑا تھا یا ہمارے سوار اور پیادے اُس کو قتل کرنے کے لئے اُس کی کوٹھی پر آئے تھے یا اُس کو زہر دینے کے لئے ہماری طرف سے کوئی اقدام ہوا تھا تو اُس کو خدا نے خوب موقعہ دیا تھا کہ ہماری پیشگوئی کی قلعی کھولتا اور حملہ آوروں کو پکڑتا اور ان حملوں کے وقوع کا ثبوت دیتا یا کم سے کم اثناء پیشگوئی میں کسی تھا نہ میں رپورٹ لکھواتا یا کسی حاکم سے ذکر کرتا یا اخباروں میں چھپوا تا.جس شخص نے اول جھوٹی پیشگوئی کر کے اس قدر اُس کے دل کو دکھایا اور اس درجہ کا صدمہ پہنچایا اور پھر زہر دینے کی فکر میں رہا اور پھر تین حملے کئے تا اس کو نیست و نابود کر دے اور اُس کی موت کو اُس کے مذہب کے بطلان پر دلیل لاوے کیا ضرور نہ تھا کہ ایسے ظالم کے ظلم پر ہر گز صبر نہ کیا جاتا.اگر اپنے لئے نہیں تو اپنے مذہب کی حمایت کے لئے ہی ایسے مفسد کا واجب تدارک کرنا چاہئے تھا.چنانچہ اخبار والوں نے بھی ہر طرف سے زور دیا کہ آتھم صاحب لوگوں پر احسان کریں گے.اگر ایسے مفسد کو عدالت کے ذریعے سے سزا دلائیں گے مگر ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۷ ء - انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفہیم
۱۸۰ آتھم صاحب موت سے پہلے ہی مر گئے اور ہماری سچائی کے پوشیدہ ہاتھ نے انہیں ایسا دبایا کہ گویا وہ زندہ ہی قبر میں داخل ہو گئے.“ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ نالائق آتھم نے سراسر بے وجہ مجھے زہر خورانی کے اقدام کی تہمت دی.میرے پر یہ افترا باندھا کہ گویا میں نے اس کے قتل کرنے کے لئے اُس کی کوٹھی میں سانپ چھوڑے اور گویا میں ایسا پرانا خونی تھا کہ تین مرتبہ میں نے تین مختلف شہروں میں اُس کے مارنے کے لئے اپنی جماعت کے جوانوں سے حملے کرائے اور کئی سوار اور پیادے مع بندوقوں اور تلواروں اور نیزوں کے اُس کی کوٹھی میں لدھیانہ اور فیروز پور میں میرے حکم سے گھس گئے.خدا کی لعنت کا مارا بہت سا جھوٹ بول کر بھی آخر موت سے بچ نہ سکا.شرطی پیشگوئی سے تو اُس کی جان بوجہ ادائے شرما کے بچ گئی لیکن قطعی پیشگوئی نے آخر اُس کو کھا لیا.“ ہے مرزا صاحب ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ ایک محقق کی نظر میں یہ امر بہت مشکل ہے کہ اگر یہ تمام حملے انسان ہی کے حملے تھے تو ان مختلف حملوں میں کوئی دوسرا شخص کسی موقعہ پر بھی آئٹم کا شریک روت نہ ہو سکا.اور آعظم کی زبان پر مہر لگی رہی اور اُس نے اس میعاد میں کوئی ایسی کاروائی نہ دکھلائی جیسا کہ ایک شخص ا : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۷ ء - انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحات ۱۰-۱۱ : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۷ ء - انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحات ۱۹،۱۴
۱۸۱ خونیوں کے حملے سے ڈرنے والا طبعی جوش سے دکھلاتا ہے بلکہ اُس نے تو اپنا دامن قسم کھانے سے بھی پاک نہ کیا جس کے کھانے میں نہ صرف آسانی بلکہ نقد چار ہزار روپیہ ملتا تھا.سو سوچنا چاہئے کہ وہ کس قدر اپنے اس بہتان اور جھوٹ سے ہراساں اور ترساں تھا کہ باوجود یہ کہ اُس کے داماد بڑی بڑی حکومت کے عہدوں پر معزز تھے اور اُس کے عیسائی دوست گورنمنٹ میں اوّل درجہ کی رسائی رکھتے تھے پھر بھی اُس کا دل اس بات پر مطمئن نہ ہو سکا کہ وہ ایسی نالش کے بعد پھر بچ کر اپنے گھر میں آجائے گا.اگر روئت کی شہادتوں سے یہ ثابت کرنا آتھم کو میسر آ سکتا کہ در حقیقت یہ نا جائز حملے ہوئے تو کم سے کم وہ اخباروں کے ذریعے اس ثبوت کو پبلک پر ظاہر کرتا کیونکہ اس کامیابی کے اندر عیسائیوں کا بڑا مد عا بھرا ہوا تھا.وجہ یہ کہ اس کا عام نتیجہ یہ تھا کہ ہمارا کاذب اور مفتری ہونا ہر ایک پر کھل جاتا اور کم سے کم یہ کہ ہمارے چال چلن کی نسبت ہر ایک کو قومی طبہ پیدا ہو جاتا اور صفحات تاریخ میں ہمیشہ یہ واقعہ قابلِ ذکر سمجھا جاتا.اس امر میں کس کا اطمینان ہو سکتا ہے کہ آتھم نے ان بہتانوں کو پیش کر کے اور پھر ثبوت دینے سے روگرداں ہو کر بے ایمانی اور دروغگوئی کی راہ کو اختیار نہیں کیا.“.مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۷ ء - انجام آتھم.روحانی خزائن جلد اصفحات ۱۹،۱۴ : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۷ ء - انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحات ۲۹-۱۹،۱۳،۳۰
۱۸۲ میں پوچھتا ہوں کہ اب آتھم صاحب جو مر گئے کس زہر سے مارے گئے یا کس سانپ نے اُن کو ڈسا یا کس نے اُن پر بندوق فیر کی یا تلوار چلائی اے پس ان واقعات سے یہ نتیجہ نکالنا عین انصاف ہے کہ کوئی ڈرانے والا امر اُس کو اس حجرات کرنے سے روکتا تھا کہ وہ نالش کرتا یا قسم کھا تا یا خانگی تحقیقات کرواتا.اگر ایک پاک نظر لے کر اس مقدمہ پر سلسلہ وار غور کرو تو تمہیں بہت جلد سمجھ آ جائے گا کہ اول سے آخر تک تمام سلسلہ اس نتیجہ کو چاہتا ہے.کہ آتھم کا وہ خوف جس کا اُس کو اقرار ہے صرف پیشگوئی کی عظمت کی وجہ سے تھا نہ کسی اور وجہ سے ہے - مرزا صاحب کی طرف سے اتمام حجت ہمارے گزشتہ صفحات کے بیان سے ظاہر ہے کہ جب پادری عبد اللہ آتھم صاحب مرزا صاحب کی پیشگوئی کے مطابق نہ تو پندرہ ماہ میں ہلاک ہوئے اور نہ ہی وہ حلفاً اِس امر کو تسلیم کرنے کے لئے بر ملا طور پر رضا مند ہوئے.کہ وہ مرزا صاحب کی پیشگوئی سے ذرہ بھر بھی خائف نہیں ہوئے بلکہ مرزا صاحب پر بہتان لگانے شروع کر دیئے تو مرزا صاحب نے نہ صرف اُن کے خوف کی واضح شہادتیں مہیا کیں جن کی وجہ سے عذاب الہی اُن سے مل گیا تھا بلکہ ساتھ یہ بھی کہا کہ خدا تعالیٰ اُن کو اخفائے حق اور جھوٹ کی سزا دیئے بغیر نہیں چھوڑے گا اور بالآخر جب پادری صاحب مرزا غلام احمد صاحب کی دوسری قطعی پیشگوئی کی مدت کے اندر فوت ہو گئے تو بھی عیسائیوں کے ۱ ، ۲ : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۷ ء - انجام آتھم.روحانی خزائن جلد اصفحات ۲۹-۳۰ ،۱۹،۱۳
۱۸۳ دلوں میں پیشگوئی پر یقین پیدا نہ ہوا.اس پر مرزا صاحب نے عیسائی منکرین پر اتمام حجت کی خاطر ایک آخری چیلنج دیا جس میں آپ نے لکھا کہ اگر اب تک کسی عیسائی کو آتھم کے اس افترا پر شک ہو کہ وہ مرزا صاحب کی پیشگوئی سے نہیں بلکہ حملہ آوروں کے خوف سے ڈرا جو اُس کے بقول مرزا صاحب نے بھجوائے تھے.ناقل ) تو آسمانی شہادت سے رفع رشک کرا لیوے.آتھم تو پیشگوئی کے مطابق فوت ہو گیا اب وہ اپنے تئیں اس کا قائم مقام ٹھہرا کر آتھم کے مقدمہ میں قسم کھا لیوے اس مضمون سے کہ آتھم پیشگوئی کی عظمت سے نہیں ڈرا بلکہ اس پر یہ چار حملے ہوئے تھے.اگر یہ قسم کھانے والا بھی ایک سال تک بچ گیا تو دیکھو میں اس وقت اقرار کرتا ہوں کہ میں اپنے ہاتھ سے شائع کر دوں گا کہ میری پیشگوئی غلط نکلی اس قسم کے ساتھ کوئی شرط نہ ہو گی.یہ نہایت صاف فیصلہ ہو جائے گا اور جو شخص خدا کے نزدیک باطل پر ہے اُس کا بطلان کھل جائے گا.کسی عیسائی نے اس قسم کی جرات نہ کی.11 ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کا مرزا غلام احمد قادیانی کے خلاف مقدمه اقدام قتل : مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور پادری عبداللہ آتھم صاحب کے درمیان مباحثے ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۷ ء - انجام آتھم روحانی خزائن جلدا اصفحه ۱۵
۱۸۴ کے بعد پیش آمدہ واقعات کا مختصر تذکرہ گزشتہ صفحات میں آچکا ہے.اس دوران یکے بعد دیگرے تین عیسائی لیڈروں اور بالآ خر جنگ مقدس کے بڑے فریق پادری عبد اللہ آتھم کی موت سے پنجاب کے عیسائی حلقے سخت مضطرب تھے مرزا صاحب کی قطعی پیشگوئی کے بعد جب پادری عبد اللہ آتھم ۲۷ جولائی ۱۸۹۶ء کو فوت ہوئے تو متعدد بہتان طرازیوں کے باجود اور پنجاب میں بڑے بڑے عہدوں پر عیسائی افسران کے فائز ہونے کے باوجود کوئی بھی مرزا صاحب کے خلاف ثبوت مہیا نہ کر سکا.البتہ عیسائی حلقے اپنے مقتد را حباب کی وفات سے سخت رنجیدہ تھے اور وہ اس بات کے منتظر تھے کہ کسی مناسب موقعہ پر مرزا غلام احمد صاحب قادیانی سے انتقام لیا جا سکے.یہی حال پنڈت لیکھرام کی ۶ / مارچ ۱۸۹۷ء کو وفات کے بعد پنجاب کے آریوں کا تھا.دونوں فرقے اس بات کے لئے کوشاں تھے کہ اِن اموات میں کسی طرح مرزا صاحب کا غیر قانونی حربہ ثابت کیا جا سکے.آخر کا ر جلد ہی بظاہر ایک ایسا موقعہ ہاتھ آ گیا جس سے فائدہ اُٹھانے کی غرض سے امرتسر کے میڈیکل مشنری ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک نے مرزا غلام احمد صاحب کے خلاف مقدمہ اقدام قتل دائر کر دیا.ا.مقدمے کے ابتدائی واقعات: ایک ۱۸ سالہ عبدالحمید نامی نوجوان اس مقدمے کا محرک اور مرکزی کردار بنا.یہ نوجوان جہلم کا رہنے والا تھا اور ایک غیر احمدی عالم مولوی سلطان محمد صاحب کا بیٹا اور مولوی برہان الدین صاحب احمدی کا بھتیجا تھا.یہ نوجوان عادتاً نکما اور جھوٹا تھا.اے ل : مولانا نورالدین صاحب ۱۳ ار اگست ۱۸۹۷ ء - بیان بعدالت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور.ایم ڈبلیوڈ گلس.(کتاب البریہ صفحہ ۲۴۳)
۱۸۵ یہ مرزا صاحب کی بیعت کی غرض سے قادیان بھی پہنچا لیکن اس کے ناقابل اعتبار ہونے کے باعث مرزا صاحب نے نہ صرف اس کی بیعت قبول کرنے سے انکار کر دیا بلکہ اسے قادیان سے بھی باہر نکال دیا گیا.عبدالحمید ۶ جولائی ۱۸۹۷ء کو امرتسر پہنچا اور بٹالہ کے عیسائی پادری نور دین صاحب سے ملا اور بپتسمہ لے کر عیسائی بننے کا ارادہ ظاہر کیا.پادری نور دین صاحب نے اُسے امریکن مشن کے انچارج پادری ایچ.جی.گرے کے پاس بھیج دیا.پادری گرے نے محسوس کیا کہ عبدالحمید نکما اور جھوٹا آدمی ہے بعد میں مقدمے کے دوران پادری گرے صاحب نے عدالت میں بیان کیا کہ عبدالحمید نے اُن سے کہا تھا کہ وہ یعنی عبدالحمید اصلی ہندو ہے اور کچھ دن مرزا غلام احمد قادیانی کا مرید رہا ہے لیکن اب وہ عیسائی ہونا چاہتا ہے.لیکن چونکہ پادری صاحب نے اُس کو نا قابل اعتبار گردانا اس لئے اُسے دھتکار دیا.چنانچہ وہ پادری گرے صاحب سے مایوس ہو کر وہ واپس پادری نور دین صاحب کے پاس پہنچا اور دوسرے عیسائی مشنوں کے بارے میں معلوم کر کے ۱۵؍ جولائی ۱۸۹۷ء کو امرتسر کے میڈیکل مشنری ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے پاس جا پہنچا.- مقدمه اقدام قتل ڈاکٹر مارٹن کلارک نے ۱۵-۱۶ دن بعد عبدالحمید کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ،امرتسر اے.ای.مارٹینو کی عدالت میں یکم اگست ۱۸۹۷ء کو پیش کیا اور عبدالحمید کے ایک تحریری بیان کی بنیاد پر مرزا غلام احمد قادیانی کے خلاف مقدمہ قتل دائر کر دیا.عبدالحمید : پادری ایچ.جی.گرے.۱۸ اگست ۱۸۹۷ء - بیان بعدالت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور.ایم ڈبلیوڈ گلس.(کتاب البریہ صفحہ ۲۴۱)
۱۸۶ کی طرف سے جو تحریری بیان داخل عدالت کیا گیا اس کے اہم نکات یہ تھے کہ ”مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے مجھے اپنے گھر بلا یا اور مجھ سے گفتگو کی.اُس نے مجھے کہا کہ امرتسر میں ڈاکٹر مارٹن کلارک کے پاس جا کر اُس کو کسی نہ کسی طرح قتل کروں.میں نے ڈاکٹر کلارک کے پاس جا کر کہا.کہ میں پہلے ہندو تھا پھر مسلمان ہوا اور اب عیسائی ہونا چاہتا ہوں.میں نے اُس سے یہ بھی کہا کہ میں مرزا صاحب کی طرف سے آیا ہوں...مجھے کل ڈاکٹر کلارک نے پوچھا کہ میں امرتسر کیوں آیا تھا اور پھر میں نے اصل حقیقت کہہ دی اور کہہ دیا کہ مجھے مرزا صاحب نے ڈاکٹر کلارک کے قتل کے لئے بھیجا تھا....مرزا صاحب نے مجھے کہا کہ میں ڈاکٹر کلارک کو کسی موقعہ پر جب میں اُسے اکیلا پاؤں پتھر سے مار ڈالوں.....مرزا صاحب نے مجھے کہا تھا کہ ڈاکٹر کلارک کو قتل کرنے کے بعد قادیان چلے آنا جہاں بالکل محفوظ رہوگے...عبدالحمید کے بیان کے ساتھ ہی ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک نے اپنی طرف سے بھی ایک بیان عدالت میں داخل کیا.اس انگریزی زبان میں دیئے گئے بیان کے اہم حصوں کا اردو تر جمہ درج ذیل ہے.وو....میری واقفیت مرزا صاحب سے اس مباحثہ کے وقت سے ہے جو ۱۸۹۳ء میں موسم گرما میں ہوا تھا.میں نے اس مباحثہ میں ل : عبدالحمید یکم اگست ۱۸۹۷ء.بیان بعدالت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امرتسر اے.ای.مارٹینو (کتاب البریہ صفحات ۱۵۹-۱۶۰)
۱۸۷ بھاری حصہ لیا تھا.یہ مباحثہ اس میں اور ایک بڑے بھاری عیسائی عبداللہ آتھم کے مابین ہوا جو مر گیا ہے میں میر مجلس تھا اور دو موقعوں پر مسٹر آتھم کی جگہ بطور مباحث بیٹھا تھا.اس وقت سے اس کا سلوک میرے ساتھ بہت ہی مخالفانہ رہا ہے.اس مباحثے کے بعد خاص دلچپسی کا مرکز آتھم رہا.چار الگ الگ کوششیں اُس کی جان لینے کے لئے کی گئیں اور یہ کوششیں عام طور پر مرزا صاحب سے منسوب کی گئی ہیں.اُس کی موت کے بعد میں ہی پیش نظر رہا ہوں اور کئی ایک مبہم طریقوں سے یہ پیشگوئی مرزا صاحب کی تصنیفات میں مجھے موت یاد دلائی گئی ہے جس کے لئے سب سے بڑی وہ کوشش تھی جس کو عبدالحمید نے بیان کیا ہے.لاہور میں لیکھرام کی موت کے بعد جس کو تمام لوگ مرزا صاحب کی طرف منسوب کرتے ہیں میرے پاس اس بات کے یقین کرنے کے لئے خاص وجہ تھی کہ میری جان لینے کے لئے کوئی نہ کوئی کوشش کی جائے گی...عبدالحمید کے بیان پر یقین کرنے کے لئے میرے پاس کافی وجوہ ہیں اور نیز اس بات کا یقین کرنے کے لئے کہ مرزا صاحب مجھے نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہیں مرزا صاحب کا یہ ایک ہمیشہ کا طریقہ ہے کہ وہ اپنے مخالفوں کی موت کی پیشگوئیاں کرتے ہیں.‘‘1 لے : ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک یکم اگست ۱۸۹۷ ء - بیان بعدالت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ.امرتسر اے.ای.مارٹینو ( کتاب البریہ صفحات ۱۶۱)
۱۸۸ ۳- مرزا صاحب کے خلاف اجراء وارنٹ گرفتاری اور پھر منسوخی: مندرجہ دونوں بیانات ریکارڈ کرنے کے بعد ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امرتسر نے اسی دن یعنی یکم اگست ۱۸۹۷ء کو مرزا غلام احمد قادیانی کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے.مرزا صاحب کے تمام دشمن اس وارنٹ گرفتاری پر بہت خوش ہوئے اور مرزا صاحب کو ہتھکڑی لگے ہوئے امرتسر ریلوے اسٹیشن پر دیکھنے کے لئے انتظار کرنے لگے لیکن اسے الہی تصرف کے علاوہ اور کیا کہ سکتے ہیں کہ وہ وارنٹ گرفتاری کبھی مرزا صاحب تک نہ پہنچ سکا اور مسلمان علماء اور عیسائی پادریوں کی آرزو پوری نہ ہو سکی یہاں تک کہ چند دن بعد ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امرتسر کو از خود یہ خیال آیا کہ مرزا صاحب کی گرفتاری کا جاری کردہ اُس کا وارنٹ خلاف قانون ہے کیونکہ وہ کسی دوسرے ضلع کے ملزم کے نام وارنٹ جاری نہیں کرسکتا.چنانچہ اُس نے اپنے یکم اگست ا ۱۸۹۷ء کے مرزا صاحب کے خلاف جاری کردہ وارنٹ پر عمل درآمد روک دیا اور ۷/اگست ۱۸۹۷ء کو گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر ڈبلیو.ایم.ڈگلس کو بذریعہ تار مطلع کیا کہ اُس نے اس مقدمے میں جاری کردہ وارنٹ روک دیا ہے کیونکہ یہ مقدمہ اُس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے.۴.مقدمے کی روداد : - جب مقدمہ منتقل ہو کر ڈپٹی کمشنر گورداسپور کی عدالت میں پہنچا تو ڈبلیو ایم.ڈگلس نے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک اور اُن کے وکیل کے اصرار کے باوجود مرزا صاحب کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری نہ کیا بلکہ ۹ / اگست ۱۸۹۷ء کو ایک عام سمن کے ذریعے
۱۸۹ سے مرزا صاحب کو ذاتی طور پر یا بذریعہ مختار کار۱۰ اگست ۱۸۹۷ء کو بٹالہ میں عدالت میں حاضر ہونے کی ہدایت کی.اس طرح مرزا صاحب اس تو ہین سے محفوظ رہے جس کا ہتھکڑی لگنے کی صورت میں امکان تھا اور جس کے لئے آپ کے مخالفین مدتوں سے منتظر تھے.مرزا صاحب کے پیروکاروں کا یہ کہنا قابلِ یقین لگتا ہے کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امرتسر کے یکم اگست کے جاری کردہ وارنٹ کا منسوخی کے دن یعنی ۷ را گست تک گم ہو جانا اور منزل تک نہ پہنچنا اپنے اندر الیسا الہی تصرف رکھتا ہے جس کا مقصد مرزا صاحب کے وقار کو قائم رکھنا تھا.II.دوسرے دن یعنی ۰ ا را گست ۱۸۹۷ء کو مرزا غلام احمد صاحب بٹالہ پہنچ گئے.آپ کے پیروکاروں نے بٹالہ میں عیسائی مشن ہاؤس کے پاس آپ کا استقبال کیا اور وہاں آپ یکے سے اُتر کر پیدل ہی عدالت کی طرف روانہ ہو گئے.راستے میں مقدمے کے سرسری ذکر پر مرزا صاحب نے فرمایا کہ ہم کو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے خبر دے دی ہے اور ہم تو اُس کی تائید و نصرت کا انتظار ہی کر رہے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ کی پیشگوئی کے آغاز پر ہم خوش ہیں اور اس کے انجام بخیر ہونے پر یقین رکھتے ہیں.ہمارے دوستوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں.‘1 گفتگو کے دوران کسی صاحب نے مرزا صاحب کو بتایا کہ آریہ حضرات اور مسلمانوں کی طرف سے مولوی محمد حسین بٹالوی بھی عیسائیوں کے ساتھ مل گئے ہیں اور وہ آپ کے خلاف اس مقدمہ میں کامیابی کی پوری اُمید رکھتے ہیں.اس پر : دوست محمد شاہد - تاریخ احمدیت جلد دوم صفحه ۴۵۹
۱۹۰ مرزا صاحب نے کہا کہ ”ہمارے ساتھ خدا ہے جو اُن کے ساتھ نہیں.اللہ تعالیٰ نے اپنے فیصلے سے ہم کو واقف کر دیا ہے اور ہم اس پر یقین رکھتے ہیں کہ وہی ہو گا.اگر ساری دنیا بھی اس مقدمہ میں ہمارے خلاف ہو تو مجھے ایک ذرہ کے برابر پرواہ نہیں اور اللہ تعالیٰ کی بشارت کے بعد اس کا وہم کرنا بھی گناہ سمجھتا ہوں.“ او پر بیان کردہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے دلی اطمینان کا باعث وہ الہام تھا جو اس مقدمہ اقدام قتل سے تین ماہ قبل آپ نے بیان کیا تھا.اُس الہام کا لفظی ترجمہ درج ذیل ہے.تجھ پر اور تیرے ساتھ کے مومنوں پر مواخذہ حکام کا ابتلا آئے گا.وہ ابتلا صرف تہدید ہو گا اس سے زیادہ نہیں.وہ خدا جس نے خدمت قرآن تجھے سپر د کی ہے پھر تجھے قادیان میں واپس لائے گا.میں اپنے فرشتوں کے ساتھ نا گہانی طور پر تیری مددکروں گا.میری مدد تجھے پہنچے گی.میں ذوالجلال بلندشان والا رحمان ہوں.میں مخالفوں میں پھوٹ ڈالوں گا....اور انجام کار یہ ہوگا کہ تمہیں بری اور بے قصور ٹھہرایا جائے گا اور میرانشان ظاہر ہوگا.“ ہے مخالفوں میں پھوٹ اور ایک متنافس شخص کی ذلت اور اہانت ل : دوست محمد شاہد - تاریخ احمدیت جلد دوم صفحه ۴۵۹ : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۸ء کتاب البریہ.ٹائٹل صفحہ
۱۹۱ اور ملائمت خلق.ڈپٹی کمشنر گورداسپور کیپٹن ایم.ڈبلیو.ڈگلس نے ۱۰ اگست ۱۸۹۷ء کو مقدمے کی سماعت شروع کی.عبدالحمید نوجوان جس کا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امرتسر کی عدالت میں یکم اگست ۱۸۹۷ء کو دیا گیا پہلا بیان اس مقدمہ کی بنیاد بنا تھا.اُس کا تیسرا بیان ۱۳ اگست ۱۸۹۷ء کوڈ پٹی کمشنر گورداسپور کی عدالت میں ہوا.اُس کے بیان سے ڈپٹی کمشنر نے محسوس کیا کہ نہ صرف عبدالحمید کے مختلف موقعوں پر دیئے گئے بیانات میں اختلاف تھا بلکہ اُس کی وضع قطع اور بیان دیتے وقت اُس کی حالت قابل اطمینان یہ تھی اور اُس کے بیان کے بعض حصے بعید از عقل تھے.اس سارے عرصے کے دوران عبدالحمید بٹالہ کے عیسائی مشن کے آدمیوں خاص طور پر عبدالرحیم، وارث دین اور پریم داس کی تحویل میں رہ رہا تھا.ڈپٹی کمشنر گورداسپور نے مشاہدہ کیا کہ دن بدن عبدالحمید کا بیان مفصل اور طویل ہوتا جا رہا تھا.اُس نے اندازہ لگایا کہ یا تو کچھ لوگ اسے سکھلاتے ، پڑھاتے ہیں یا وہ اس سے زیادہ جانتا ہے جو وہ اب تک ظاہر کر چکا ہے.ہے چنانچہ ڈ پٹی کمشنر نے ڈسٹرکٹ سپر نٹنڈنٹ پولیس سے مشورہ کر کے عبدالحمید کو پولیس کے حوالے کر دیا تا کہ آزادانہ تحقیقات ہو سکے.ایس.پی گورداسپور مسٹر لیمار چنڈ نے کچھ دیر عبدالحمید سے اپنے ماتحت افسروں کے ذریعے پوچھ کچھ کروائی اور پھر مقدمے کی اہمیت کے پیش نظر تقیل اپنے ہاتھ میں لے لی لیکن کچھ ہی دیر بعد ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۸ ء - کتاب البریہ.ٹائٹل صفحه : ایم.ڈبلیو.ڈگلس ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور- روداد مقدمہ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک بنام مرزا غلام احمد قادیانی بحوالہ کتاب البریہ - تصنیف مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۸ء صفحات ۲۸۳ تا۳۰۲
۱۹۲ عبدالحمید نا گہاں مسٹر لیمار چنڈ کے قدموں پر گر پڑا اور زار زار رونے لگا.مسٹر لیمار چنڈ نے خود بھی شہادت دی کہ اُس نے نہ تو عبدالحمید کو دھمکایا اور نہ ہی معافی کا وعدہ کیا.نوجوان کی صورت حال اور وضع قطع سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ فی الحقیقت مصیبت اور تکلیف میں تھے.ا عبدالحمید کو پھر سے عدالت میں پیش کیا گیا.اس دفعہ جو بیان اُس نے دیا اس کا خلاصہ ڈپٹی کمشنر گورداسپور نے اپنے فیصلے میں لکھا.ہم اس کے کم اہم حصے ہذف کر کے مختصراً قارئین کے مطالعہ کے لئے درج کرتے ہیں: وو وہ ( یعنی عبدالحمید - ناقل ) اتفاقاً ایک شخص نور دین امریکن مشن کے پاس بھیجا گیا.نور دین نے اُسے مسٹر گرے کے پاس بھیجا جس نے...اس کو نور دین کے پاس واپس بھیج دیا مگر وہ اپنے ہی خرچ پر عیسائی ہونے کو تیار نہیں تھا.نور دین نے اُس کو صلاح دی کہ وہ ڈاکٹر کلارک کے پاس جائے...وہ ڈاکٹر کلارک کے پاس چلا گیا جس نے اُس کو عبدالرحیم کے حوالے کر دیا اور شہر کے شفا خانے میں اُسے کام کرنے کو دیا.وہ خیال کرتا ہے کہ عبدالرحیم نے اُس پر شبہ کیا ہے کہ عبدالحمید کسی شخص کو قتل کرنے آیا ہے....بعد ازاں ڈاکٹر کلارک نے اُس کا فوٹو انتر وایا....اور عبدالرحیم نے پھر اُسے تنگ کرنا شروع کر دیا اور یاد دلایا کہ اُس کا فوٹو لیا جا چکا ہے وہ بھاگ نہیں سکتا.اُس کی رپورٹ پولیس میں کی جائے گی ورنہ بہتر ہے کہ وہ سچ سچ بیان کر دے کہ وہ قتل کرنے کے ارادے پر آیا ہے.کچھ دنوں کے بعد ڈاکٹر کلارک و لے : ایم.ڈبلیو.ڈگلس ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور - روداد مقدمہ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک بنان مرزا غلام احمد قادیانی بحوالہ کتاب البریہ - تصنیف مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۸ صفحات ۲۸۳-۳۰۲
۱۹۳ عبدالرحیم و وارث دین ، پریم داس سب کے سب بیاس میں آئے.اُس سے تاکید سے پوچھا.عبدالحمید مع دیگر اشخاص کی جماعت میں فرش کے اوپر بیٹھا ہوا تھا اور ڈاکٹر کلارک کچھ فاصلے پر ایک کرسی پر بیٹھا تھا.وہ استقلال سے انکار کرتا رہا کہ وہ کسی بُرے ارادے سے یہاں پر نہیں آیا مگر عبدالرحیم نے اس کے کان میں کہا کہ بہتر ہے کہ وہ تسلیم کرے کہ وہ ڈاکٹر کلارک کو مرزا صاحب کے کہنے پر ایک پتھر سے مارڈالنے کے لئے آیا ہے ورنہ اُس کے لئے زیادہ خرابی کا باعث ہو گا اور ڈاکٹر کلارک اس کا ذمہ دار ہو گا کہ اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا.اس نے اس کو مان لیا اور اقبال لکھ دیا پہلے اُس نے لفظ نقصان لکھا اور عبدالرحیم نے اُسے کہا کہ بجائے اس کے لفظ مارڈالنا درج کرو.بعد ازاں انہوں نے کہا.ہم تمہارا شکر یہ ادا کرتے ہیں ہماری مراد پوری ہو گئی.عبدالرحیم و پریم داس اور وارث دین بعد ازاں مسلسل جھوٹی شہادت تیار کرتے رہے جو مجبوراً اُن کے کہنے سے اُسے عدالت میں دینی پڑی...اس نے نور الدین مولوی کو قادیان میں اس غرض سے چٹھی لکھی تھی تا اُن کو معلوم ہو کہ اُس کا ارادہ عیسائی بننے کا ہے.عبد الرحیم نے اُسے بٹالہ میں کہا تھا کہ وہ اس چٹھی بھیجنے کوکسی اور امر کی طرف منسوب کر دے یعنی یہ کہ اُس نے نورالدین کو اس لئے چٹھی لکھی تھی کہ مرزا صاحب کو اس کا پتہ معلوم ہو جائے.عبدالرحیم نے بٹالہ میں اُسے یہ بھی کہا تھا کہ ٹھیک ہے کہ اس نے مرزا صاحب کو جانے سے پہلے گالیاں دی تھیں حالانکہ اُس نے کوئی گالی نہیں دی تھی.امرتسر میں اُس کو کہا گیا کہ تو یہ کہہ دینا کہ میرا دل اس واسطے بدل گیا کہ میں نے ڈاکٹر کلارک کو اچھا آدمی پایا.۱۳ تاریخ کو بوقت جرح عبدالحمید نے پہلی ہی بار مرزا غلام احمد صاحب کے ایک مرید قطب دین نام کا ذکر کیا جو امرتسر میں
۱۹۴ رہتا ہے اور کہا کہ میں سب سے پہلے قادیان سے امرتسر پہنچتے ہی اُسی کے پاس گیا تھا اور قطب دین نے ایک پتھر وزنی تھیں سیر جس کے ساتھ ڈاکٹر مارٹن کلارک کو مار ڈالنا تھا مہیا کرنے کا ذمہ لیا تھا اور بعد اس کام کے ختم ہونے کے اُس نے قطب الدین ہی کے پاس پناہ لینی تھی.عبدالحمید نے بیان کیا کہ یہ تمام تفصیل وارث دین نے بٹالہ میں بتائی تھی اور اُس نے قطب الدین کو اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا.عبدالحمید نے یہ بھی بیان کیا کہ ڈاکٹر کلارک کے وکیل رام بھیج دت نامی نے اُس سے کئی دفعہ بٹالہ میں سوالات کئے اور اُس کے ایک ریمارک سے ہی قطب الدین کے ذکر کرنے کی ضرورت پڑی.وکیل نے اُسے کہا تھا کہ تو پرندہ نہیں ہے.تو نے کس طرح امرتسر سے بھاگ کر جانے کا ارادہ کیا تھا تمہارا ضرور اس جرم میں کوئی ساتھی ہوگا اور وہ کون ہے؟ عبدالحمید نے اس امر سے انکار کیا.اس کے بعد وارث دین اُس کے پاس آیا اور اُس نے کہا کہ تم قطب الدین کا نام لے لو اور اُس کی رہائش کی جگہ کا پتہ بتلایا.اس نے یہ بھی بیان کیا کہ پیشتر اس کے کہ وہ عدالت میں گیا پریم داس نے قطب الدین کا نام اُس کی یعنی عبد الحمید کے ہاتھ کی ہتھیلی پر اس واسطے لکھ دیا کہ وہ اُسے بھول نہ جائے.مزید سوالات کرنے پر اُس نے کہا کہ اس پنسل سے جو ڈاکٹر کلارک کے ہاتھ میں ہے اور پنسل مذکورہ کی طرف اشارہ کر کے کہا یہی ہے اور یہ وارث دین کی ہے.یہ تسلیم کیا گیا کہ ایسا ہی ہے.شہادت میں اول دفعہ تو بمقام بٹالہ بیان کیا گیا تھا کہ عبدالحمید مرزا صاحب کے پاؤں پبلک میں دبایا کرتا تھا.عبدالحمید نے بیان کیا کہ یہ بات بھی وارث دین کی ایجاد ہے.ڈاکٹر کلارک کا دوبارہ اظہار اُسی کی درخواست پر لیا گیا.اُس نے ان ترغیبوں کی بابت جو عبدالحمید کو بیاس
۱۹۵ کے مقام پر اظہار لکھانے سے پیشتر دی گئی ہیں بیان کیا کہ میں نہیں خیال کرتا کہ ایسی ترغیبیں میرے علم کے بغیر دی گئی ہوں اور میں نے ہرگز نہیں دیکھا کہ کوئی اس قسم کی بات کی گئی ہو.خواہ عبدالحمید کا پہلا بیان سچا ہے یا دوسرا تاہم یہ بات ظاہر ہے کہ اس میں وجوہات کافی نہیں ہیں کہ مقدمہ ہذا میں مرزا غلام احمد کے برخلاف کاروائی کی جائے..ہمارا میلان اس خیال کی طرف ہے کہ فی الجملہ دوسرا بیان غالباً سچا ہے اور یہ کہ مرزا غلام احمد نے عبد الحمید کو ڈاکٹر کلارک کے پاس نہیں بھیجا اور نہ اُس نے اُس کو ڈاکٹر کلارک کے مار ڈالنے کو سکھلایا ہے.‘1 اس کے بعد ڈپٹی کمشنر گورداسپور نے اس مقدمہ میں فیصلہ پر پہنچنے کے لئے جو وجوہات بیان کیں اُن میں وجہ نمبر 4 میں لکھتے ہیں کہ ”اگر عبدالحمید کا بیان جو بمقام بیاس اُس نے کیا ہے سچا ہوتا تو کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی.کہ کیوں اس نے بعد تسلیم کر لینے کے اس ضروری امر کے کہ وہ ڈاکٹر مارٹن کلارک کے مارنے کے لئے آیا ہے تفصیلات کے بیان کرنے سے رکا رہا.یہ بات ظاہر ہے کہ بہت سی تفصیلات اُس وقت ظاہر ہوئیں جبکہ وہ نوجوان وارث دین اور پریم داس اور عبدالرحیم کی حفاظت میں بٹالہ میں تھا.لہذا ہماری یہ رائے ہے کہ...غالباً وہی اُس کو تمام وقت ورغلاتے رہے...یہ ممکن ہے کہ اُس نے ( عبدالرحیم نے.ناقل ) اور وارث دین اور پریم داس نے فی الحقیقت ے : ڈپٹی کمشنر گورداسپور.ایم.ڈبلیو ڈگلس فیصلہ مقدمہ ڈاکٹر مارٹن کلارک ( کتاب البریہ صفحات ۲۹۲ تا ۲۹۵ مرزا غلام احمد قادیانی)
۱۹۶ ایسا یقین کر لیا ہو کہ نو جوان قتل کرنے کے ارادے سے آیا ہے اور اس سے اس امر کے تسلیم کرانے میں اُن کو خیال آیا ہو کہ وہ زبر دستی صداقت کو نکال رہے ہیں.بعد ازاں اپنی غلطی پاکر اس جھوٹے قصے کو اور تفصیلات سے ارادہ کر لیا ہو کہ وہ اس معاملہ کو برابر چلائیں گے.در باب ان ترغیبات کے جو ڈاکٹر کلارک کی موجودگی میں ہوئیں جن کی نسبت وہ بیان کرتا ہے کہ نہیں ہو سکتی ہیں.یہ ممکن ہے کہ وہ اس وقت وقوع میں آئے ہوں جبکہ اُس کی توجہ اور طرف مصروف تھی....خواہ حقیقت کچھ ہو ہمیں بالکل یقین ہے کہ اگر عبد الحمید کو فی الحقیقت عبدالرحیم نے اپنے پہلے بیان کے کرنے میں ورغلایا.ڈاکٹر کلارک کو دوران کا روائی میں کامل طور سے دھوکا دیا گیا ہے.یہ بات بھی لکھنے کے قابل ہے کہ مرزا غلام احمد نے اس امر کو کشادہ پیشانی سے مان لیا ہے اور عدالت میں ڈاکٹر کلارک کو ہر ایک قسم کی شمولیت سے مبراء قرار دیا ہے....جہاں تک ڈاکٹر کلارک کے مقدمہ سے تعلق ہے ہم کوئی وجہ نہیں دیکھتے کہ غلام احمد سے حفظ امن کے لئے ضمانت لی جائے یا یہ کہ مقدمہ پولیس کے سپرد کیا جائے لہذا وہ بری کئے جاتے ہیں......( دستخط ) ایم.ڈگلس ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور ۲۳ / اگست ۱۶۱۸۹۷ لے: ایم.ڈبلیو.ڈگلس فیصلہ مقدمہ ڈاکٹر مارٹن کلارک ( کتاب البریه صفحه ۲۹۵ تا ۳۰۱)
192 IV- اگر چہ مقدمے کی روداد کا مختصر تذکرہ اوپر درج کر دیا گیا ہے لیکن یہ ایک عام نوعیت کا مقدمہ نہ تھا.اپنے ممکنہ نتائج کے اعتبار سے بے حد اہم تھا.ڈاکٹر مارٹن کلارک کے عدالت میں بیان سے بھی ظاہر ہے اور حقائق یہ بتاتے ہیں کہ مقدمے سے پہلے کے عرصہ قریب میں آریہ سماجی لیڈر پنڈت لیکھرام اور ڈاکٹر کلارک کے قریبی ساتھیوں میں سے چند ایک کی خاص طور پر پادری عبداللہ آتھم وغیرہ کی اموات ہو چکی تھیں جن کے لئے مرزا غلام احمد صاحب نے پیشگوئیاں کی تھیں.ان مخالفین کی اموات میں مرزا صاحب کے دشمن خدا کا ہاتھ نہیں بلکہ مرزا صاحب کی مجرمانہ کاروائی خیال کرتے تھے.اگر ڈاکٹر مارٹن کلارک کے مقدمہ میں عبدالحمید کے پہلے بیان کے مطابق فیصلہ طے پا جاتا جیسا کہ دنیاوی عدالتوں میں انسانی عقل کی غلطی کے باعث بعض اوقات بے قصور سزا پا جاتے ہیں اور قصور وار بری ہو جاتے ہیں تو باوجود مقدمہ جھوٹا ہونے کے مرزا صاحب دنیا داروں کی نگاہ میں زیر اعتراض آ جاتے اور مخالفین کا یہ شبہ بھی یقین کے قریب پہنچ جاتا ہے کہ پنڈت لیکھرام اور پادری عبد اللہ آتھم کی موت میں بھی مرزا صاحب کا ہاتھ ہو گا.اس لئے یہ مقدمہ معمولی ہونے کے باوجود مرزا صاحب کے لئے خاص اہم ہو گیا.اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو پہلے سے اس مقدمہ کی اطلاع دے دی اور بریت کا بھی بتا دیا.ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور اور سپرنٹنڈنٹ پولیس گورداسپور جو خود بھی دونوں عیسائی تھے ان کی تحقیقات سے اخذ کردہ نتائج کا بیان یہ واضح طور پر بتاتا ہے کہ ڈاکٹر مارٹن کلارک کے کارندے عبدالرحیم ، وارث دین اور پریم داس تینوں عبدالحمید کو
۱۹۸ ورغلاتے ، جھوٹی باتوں پر لگاتے رہے، اور شروع میں آخر تک ایک ایسے مقدے کو بڑھاتے رہے، جو صرف اُن کے اپنے ذہن کی پیداوار تھا ، اور ان ساری کوششوں کا مقصد یہ تھا کہ کسی طرح مرزا صاحب کو زک پہنچائی جائے یہاں تک کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور کے مشاہدے کے مطابق ان تینوں کارندوں نے ڈاکٹر مارٹن کلارک کو بھی دھوکہ دیا.VI - اوپر یہ لکھا جا چکا ہے کہ یہ مقدمہ بظاہر معمولی ہونے کے خاصی اہمیت کا حامل بن گیا اس کے ثبوت میں ہم ایک اور واقعہ پیش کرتے ہیں جو نا قابل یقین بھی اور عبرت انگیز بھی نظر آتا ہے.یہ واقعہ مقدمے کی سماعت کے آخری دن ۱۳ اگست ۱۸۹۷ء کو پیش آیا.اس کے متعلق ایم.ڈبلیو.ڈگلس ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور کے مسل خواں راجہ غلام حیدر خان جو مرزا صاحب کے مرید نہیں تھے بیان کرتے ہیں کہ: ” جب عدالت ( بٹالہ میں.ناقل ) ختم ہوئی تو ڈپٹی کمشنر صاحب نے کہا کہ ہم فوراً گورداسپور جانا چاہتے ہیں تم ابھی جا کر ہمارے لئے ریل کے کمرے کا انتظام کرو.چنانچہ میں مناسب انتظامات کرنے کے لئے ریلوے اسٹیشن گیا.میں اسٹیشن سے نکل کر برآمدہ میں کھڑا تھا تو میں نے دیکھا کہ سر ڈگلس سٹرک پر ٹہل رہے ہیں اور کبھی ادھر جاتے ہیں اور کبھی اُدھر اُن کا چہرہ پریشان ہے.میں اُن کے پاس گیا اور کہا: صاحب آپ باہر پھر رہے ہیں میں نے ویٹنگ روم میں کرسیاں بچھائی ہوئی ہیں آپ وہاں تشریف رکھیں.وہ کہنے لگے : منشی صاحب آپ مجھے کچھ نہ کہیں میری طبیعت خراب ہے.میں نے کہا : کچھ بتا ئیں تو
۱۹۹ سہی آخر آپ کی طبیعت کیوں خراب ہوگئی ہے تا کہ اس کا مناسب علاج کیا جا سکے اس پر وہ کہنے لگے : میں نے جب سے مرزا صاحب کی شکل دیکھی ہے اس وقت سے مجھے یوں نظر آتا ہے کہ کوئی فرشتہ مرزا صاحب کی طرف ہاتھ اُٹھا کر مجھ سے کہ رہا ہے کہ مرزا صاحب گنہ گار نہیں ان کا کوئی قصور نہیں.پھر میں نے عدالت کو ختم کر دیا اور یہاں آیا تو اب ٹہلتا ٹہلتا جب اُس کنارے کی طرف نکل جاتا ہوں تو وہاں مجھے مرزا صاحب کی شکل نظر آتی ہے اور وہ کہتے ہیں : میں نے یہ کام نہیں کیا یہ سب جھوٹ ہے.پھر میں دوسری طرف جاتا ہوں تو وہاں بھی مرزا صاحب کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں اور وہ کہتے ہیں: یہ سب جھوٹ ہے میں نے یہ کام نہیں کیا اگر میری یہی حالت رہی تو میں پاگل ہو جاؤں گا.میں نے کہا : صاحب آپ چل کر ویٹنگ روم میں بیٹھئے سپر نٹنڈنٹ پولیس بھی آئے ہوئے ہیں وہ بھی انگریز ہیں اُن کو بلا لیتے ہیں شائد اُن کی باتیں سُن کر آپ تسلی پا جائیں.سپرنٹنڈنٹ پولیس کا نام لیمار چنڈ تھا.سرڈ کس نے کہا: اُنہیں بلوالو.چنانچہ میں نے انہیں بلوا لیا.جب وہ آئے تو سر ڈگلس نے اُن سے کہا دیکھو یہ حالات ہیں..میری یہ حالت پاگلوں سی ہے.اگر تم اس سلسلہ میں کچھ کر سکتے ہو تو کرو ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گا.لیمار چنڈ نے کہا کہ اس میں کسی اور کا قصور نہیں آپ کا اپنا قصور ہے.آپ نے گواہ کو پادریوں کے حوالے کیا ہوا ہے.وہ لوگ جو کچھ اُسے سکھاتے
۲۰۰ ہیں وہ عدالت میں آ کر بیان کر دیتا ہے چنانچہ اسی وقت سر ڈگلس نے کاغذ قلم منگوایا اور حکم دے دیا کہ عبدالحمید کو پولیس کے حوالے کیا جائے.معزز قارئین اس مقدمے کی روداد میں پہلے پڑھ چکے ہیں کہ پولیس کے حوالے ہوتے ہی عبدالحمید نے وہ بیان دیا جسے عدالت نے اپنے تجزیے کے مطابق سچا تصور کیا.جس سے پادریوں کے پاؤں تلے کی زمین نکل گئی اُن کا جھوٹ کھل گیا اور مرزا غلام احمد صاحب کو بری کر دیا گیا.VI - ہم قبل ازیں مقدمہ کی روداد کے آئٹم س میں مرزا صاحب کی اس پیشگوئی کا ذکر کر چکے ہیں جو اس مقدمے کے دائر ہونے سے قریبا ۳ ماہ قبل آپ نے کی تھی.اُس پیشگوئی کے مطابق آپ نے اللہ تعالیٰ کے الہام کی بنا پر یہ کہا تھا کہ مخالفوں میں پھوٹ اور ایک متنافس شخص کی ذلت اور اہانت اور ملائمت خلق.- دشمنوں کی ناکامی اور ذلت : اب ہم ان امور کے بارے میں چند واقعات کا ذکر کریں گے جو اس مقدمے کے دوران پیش آئے تا کہ اس پیشگوئی کے حرف بحرف ظہور کو ثابت کیا جاسکے.اگر چہ سارے ہندوستان اور پنجاب میں سارے پادری اسلام کے خلاف ل : دوست محمد شاہد ۱۹۵۹ ء - تاریخ احمدیت جلد دوم صفحات ۴۶۶ - ۴۶۷ : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۸ء- کتاب البریہ.ٹائٹل صفحہ
۲۰۱ زبر دست جوش و جذبے اور باہمی تعاون سے کام کر رہے تھے لیکن اس مقدمے کے دوران اُن میں پھوٹ کی پہلی علامت اُس وقت ظاہر ہوئی جب امریکن مشن امرتسر کے پادری ایچ.جی.گرے اور پادری نور دین نے عدالت میں ایسے بیانات دیئے جس سے ڈاکٹر مارٹن کلارک کا مرزا صاحب کے خلاف مقدمہ کمزور پڑا.دوسری پھوٹ اُس وقت پڑی جب مولوی محمد حسین بٹالوی نے اس مقدمے میں ڈاکٹر مارٹن کلارک کی طرف سے مرزا صاحب کے خلاف گواہی دی.ان کی گواہی ڈاکٹر مارٹن کلارک سے متناقض ٹھہری اور مولوی صاحب موصوف جھوٹے ٹھہرے.مرزا صاحب کے دشمنوں میں تیسری پھوٹ عبدالحمید کے آخری بیان سے پیدا ہوئی جس کی رو سے عیسائی پادریوں کی اُس پر شب و روز کی محنت رائگاں گئی اور بالآخر مقدمے کو پادریوں کا جھوٹا قصہ قرار دیا گیا حالانکہ مرزا صاحب کو سزا دلوانے کے لئے سارے عوامل اُن کے موافق تھے مگر بجز بے عزتی کے پادریوں کے ہاتھ کچھ نہ لگا.مرزا صاحب کے الہامی الفاظ ایک متنافس شخص کی ذلت اور اہانت اور ملائمت خلق کے مور د مولوی محمد حسین بٹالوی ہوئے.مولوی صاحب جمیعت اہل حدیث کے لیڈر تھے اور اس مقدمے کے دوران حاصل ہونے والی ذلتوں، اہانتوں کو انہوں نے اپنے لئے خود پیدا کیا.اس مقدمے میں مولوی صاحب عیسائیوں کی طرف سے اس غرض سے گواہی دینے آئے تھے کہ کسی طرح سے عیسائیوں کو کامیابی حاصل ہو اور مرزا غلام احمد صاحب کو سزا ہو جائے لیکن اس سارے معرکے میں سب مخالف فریقوں کے ساتھ مولوی محمد حسین صاحب کو بھی متعدد
٢٠٢ نامرا دیوں ، ندامتوں، ذلتوں ، اہانتوں اور ملائمت خلق کا سامنا کرنا پڑا.ان میں سے چند ایک کا ذکر ہم یہاں کریں گے.(الف) پہلی نامرادی تو مولوی صاحب کے حصے میں اس وقت آئی جب ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امرتسر کے مرزا غلام احمد قادیانی کے خلاف جاری کردہ وارنٹ گرفتاری تعمیل کے لئے سات دن کے بعد بھی منزل مقصود تک نہ پہنچ سکے یہاں تک کہ منسوخ کر دئے گئے حالانکہ قادیان امرتسر سے صرف ۵۰،۴۰ میل دور تھا اور مرزا صاحب کی عزت پر حرف نہ آسکا جس کے مولوی محمد حسین بٹالوی دل سے خواہاں تھے.مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ بقول وارث دین جو اس مقدمہ کی سازش میں شریک ہے عیسائی اس بات کے ہر روز منتظر تھے کہ کب یہ شخص گرفتار ہوکر امرتسر میں آتا ہے اور بعض مخالف مولوی اور اُن کی جماعت کے لوگ ہر روز اسٹیشن امرتسر پر جاتے تھے کہ تا مجھے اس حالت میں دیکھیں کہ ہتھکڑی لگے ہاتھ اور پولیس کی حراست میں ریل سے اُتر ا ہوں.1 (ب) دوسری نامرادی مولوی محمد حسین بٹالوی کے حصے میں اس وقت آئی جب اُس نے بجائے مرزا صاحب کو ہتھکڑی میں گرفتار دیکھنے کے یہ دیکھا کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور کی عدالت میں مرزا غلام احمد صاحب کی پذیرائی کی گئی اور انہیں بڑی مہربانی اور شفقت کے ساتھ پہلے سے رکھوائی گئی کرسی پیش کی گئی.مولوی صاحب کے ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۸ ء - کتاب البریہ - صفحہ ۲۷
٢٠٣ لئے مرزا صاحب کے ساتھ یہ احترام کا سلوک صدمے سے کم نہ تھا.(ج) تیسری اہانت کا سامنا مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کو ۱۳ را گست ۱۸۹۷ء کو گواہی کے دن کرنا پڑا جب وہ ایم.ڈبلیو ڈگلس کی عدالت میں ڈاکٹر مارٹن کلارک کی حمایت اور مرزا غلام احمد صاحب کی مخالفت میں گواہی دینے کے لئے پیش ہوئے.اس کا تذکرہ راجہ غلام حیدر خاں صاحب مسل خواں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور نے ان الفاظ میں کیا.اور اُن ( شیخ رحمت اللہ.ناقل ) کے بعد مولوی محمد حسین بٹالوی شہادت کے لئے کمرے میں داخل ہوئے اور دائیں بائیں دیکھا تو کوئی کرسی فالتو پڑی ہوئی نظر نہ آئی.مولوی صاحب کے منہ سے پہلا لفظ جو نکلا وہ یہ تھا کہ حضور کرسی‘.ڈپٹی کمشنر صاحب نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ ” کیا مولوی صاحب کو حکام کے سامنے کرسی ملتی ہے؟“ میں نے کرسی نشینوں کی فہرست صاحب کے سامنے پیش کر دی اور کہا کہ اس میں مولوی محمد حسین صاحب یا ان کے والد بزرگوار کا نام تو درج نہیں لیکن جب کبھی حکام سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے تو بوجہ عالم دین یا ایک جماعت کا لیڈر ہونے کے وہ انہیں کرسی دے دیا کرتے ہیں.اس پر صاحب ڈپٹی کمشنر نے مولوی صاحب کو کہا کہ آپ کوئی سرکاری طور پر کرسی نشین نہیں ہیں.آپ سیدھے کھڑے ہو جا ئیں اور شہادت دیں.تب مولوی صاحب نے کہا کہ ” میں جب کبھی لاٹ صاحب کے حضور میں جاتا ہوں تو مجھے کرسی پر بٹھایا
۲۰۴ جاتا ہے میں اہل حدیث کا سرغنہ ہوں.تب صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے گرم الفاظ میں ڈانٹا اور کہا کہ ”نج کے طور پر اگر لاٹ صاحب نے تم کو کرسی پر بٹھایا تو اس کے یہ معنی نہیں کہ عدالت میں بھی تمہیں کرسی دی جائے.“ (1) چوتھی اہانت مولوی محمد حسین بٹالوی کو عدالت میں اپنی شہادت کے دوران دیکھنی پڑی.جب جرح کے دوران مولوی صاحب نے کم از کم تین ایسے جھوٹ بولے جو عدالت میں ہی ثابت ہو گئے.مولوی صاحب نے جرح کے سوالوں کے جواب میں کہا کہ وہ اس مقدمہ میں شہادت سے قبل ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کی کوٹھی پر نہیں گئے تھے نیز یہ کہ امرتسر سے بٹالہ کا سفر انہوں نے ڈاکٹر مارٹن کلارک کے ہمراہ نہیں کیا اور تیسرے یہ کہ مولوی صاحب کا ریل کا ٹکٹ ڈاکٹر مارٹن کلارک نے نہیں خریدا تھا.ڈپٹی کمشنر صاحب نے جب یہ باتیں ڈاکٹر مارٹن کلارک سے پوچھیں تو مولوی محمد حسین بٹالوی کی تینوں باتیں جھوٹی نکلیں.اس طرح سب کے سامنے مولوی صاحب کی رسوائی ہوئی اور وہ دروغگو کہلائے.(س) پانچویں ندامت مولوی صاحب کے حصے میں اس وقت آئی جب شہادت کے دوران مولوی محمد حسین بٹالوی نے بے حساب الزامات مرزا غلام احمد صاحب کے خلاف لگائے تو ڈپٹی کمشنر صاحب نے اُن کی گواہی پر نوٹ لکھا کہ ( ترجمہ ) میں خیال کرتا ہوں کہ گواہ کی مرزا صاحب سے عداوت کی کافی شہادت ریکارڈ پر آچکی ہے اور اب ضرورت نہیں کہ مقدمے کی اصل راہ لے : ڈاکٹر بشارت احمد - مجدد اعظم - صفحات ۵۴۱ تا ۵۴۴ ( تاریخ احمدیت جلد دوم صفحات ۴۶۳)
۲۰۵ سے انحراف کیا جائے.(ر) اِن نامرادیوں، ذلتوں اور اہانتوں کے بعد مولوی صاحب موصوف کو ملائمت خلق کا بھی سامنا کرنا پڑا.وہ اس طرح کہ شہادت کے بعد جب مولوی محمد حسین ا بٹالوی عدالت سے باہر نکلے تو برآمدے میں ایک آرام کرسی پڑی تھی.اس پر بیٹھ گئے.عدالت کے سپاہی نے انہیں وہاں سے یہ کہہ کر اٹھا دیا کہ کپتان صاحب پولیس کا حکم نہیں ہے.وہاں سے اُٹھنے کے بعد مولوی صاحب صحن میں بچھے ہوئے ایک کپڑے پر جا بیٹھے جو اُن کے ایک عقیدت مند میاں محمد بخش صاحب بٹالوی نے بچھا رکھا تھا انہوں نے یہ کہہ کر اپنی چادر مولوی صاحب کے نیچے سے کھینچ لی کہ مسلمانوں کا سرغنہ کہلا کر اس طرح صریح جھوٹ بولنا بس ہمارے کپڑے کو نا پاک نہ کیجئے.“ ہے اور اس طرح مرزا غلام احمد صاحب کے اس مقدمہ کے بارے میں الہام کا آخری حصہ بھی حرف بحرف پورا ہوا کہ ” مخالفوں میں پھوٹ اور ایک متنافس شخص کی ذلت اور اہانت اور ملائمت خلق سے اگر چہ گزشتہ بیان کردہ دو واقعات میں مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے پادری عبد اللہ آتھم صاحب کے درمیان مباحثے اور ڈاکٹر مارٹن کلارک کے جھوٹے مقدمے اور اُن کے انجام کا تذکرہ کیا گیا ہے لیکن قارئین کے لئے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہوگا ا : مرزا غلام احمد صاحب ۱۸۹۸ء کتاب البریہ - صفحه ۲۵۴ دوست محمد شاہد ۱۹۵۹ء- تاریخ احمدیت.جلد دوم صفحہ ۴۶۵ : مرزا غلام احمد صاحب ۱۸۹۸ء کتاب البریہ.ٹائٹل صفحہ
۲۰۶ کہ عیسائی حضرات کو اصل اعتراض یہ تھا کہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اسلام کے دفاع کے لئے زبردست لٹریچر شائع کر رہے تھے اور عیسائیوں کے اسلام پر حملوں کا دندان شکن جواب دے رہے تھے جس سے عیسائیوں کوزبردست تکلیف تھی.مسلمان بیدار ہورہے تھے اور عیسائیت کی ہندوستان پر مذہبی یلغار کے مطلوبہ اور متوقع نتائج برآمد نہیں ہورہے تھے.مرزا غلام احمد قادیانی نے ۱۸۸۰ء سے ۱۸۸۴ء تک براہین احمدیہ کے پہلے چار حصے لکھے اور حصہ چہارم میں اسلام کے ساتھ عیسائیت اور ہندومت کا موازنہ کیا.یہ کتا ہیں ہندوستان کے مسلمان حلقوں میں بہت مقبول ہوئیں.۱۸۹۱ء میں آپ نے ازالہ اوہام لکھی جس کے حصہ اول و دوم میں آپ نے وفات مسیح علیہ السلام پر بحث کی جو عیسائیت کے بنیادی عقائد کو غلط ثابت کرتی تھی.۱۸۹۳ء میں آپ نے اپنی تصنیف حجۃ الاسلام میں سرکردہ عیسائی پادریوں کو مذہبی مقابلے کی دعوت دی.۱۸۹۳ء ہی میں مرزا صاحب اور پادری عبد اللہ آتھم کے درمیان مباحثے کی روداد جنگ مقدس کے نام سے شائع ہوئی.۱۸۹۴ء کے فروری میں مرزا صاحب نے نور الحق حصہ اول لکھی.جس میں پادری عماد الدین کی ایک شرانگیز کتاب کا جواب دیا گیا.ستمبر ۱۸۹۴ء میں آپ نے پادری عبد اللہ آتھم کے بارے میں اپنی پیشگوئی کی وضاحت کی.جس کے لئے آپ نے کتاب انوار السلام شائع کی.نورالقرآن حصہ اوّل وحصہ دوم بالترتیب جون ۱۸۹۵ء اور ستمبر ۱۸۹۵ء میں شائع ہوئیں.حصہ اول میں مرزا صاحب نے عیسائیت کے خلاف زبردست دلائل پیش کئے اور حصہ دوم فتح گڑھ ( پنجاب ) کے
۲۰۷ پادری فتح مسیح کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اعتراضات کا جواب تھا.مرزا صاحب نے انجام آتھم ۱۸۹۷ء میں اور ڈاکٹر مارٹن کلارک کے جھوٹے مقدمے کے تجزیے پر مبنی کتاب ۱۸۹۸ء میں شائع کی.۱۸۹۷ء میں ہی آپ نے تحفہ قیصریہ لکھ کر انگلستان کی ملکہ وکٹوریہ کو اسلام قبول کرنے کی ترغیب دی.اسی سال جون ۱۸۹۷ء میں مرزا صاحب نے ایک رسالہ سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جواب پر مشتمل شائع کیا.۱۸۹۸ء میں مرزا صاحب نے راز حقیقت شائع کی جس میں حضرت مسیح علیہ السلام کے صحیح حالات زندگی تحریر کئے.مسیح ہندوستان میں نامی کتاب مرزا صاحب نے ۱۹۰۰ ء میں شائع کی جس میں آپ نے حضرت مسیح کے صلیب پر سے زندہ اتر آنے ، ہجرت کرنے اور بعد ازاں طبعی موت کے متعلق اپنی تحقیق کو شائع کیا.۱۸۹۹ء میں مرزا صاحب نے ملکہ وکٹوریہ کے نام ایک دوسرا مضمون ستارہ قیصریہ کے نام سے شائع کیا.چشمہ مسیحی مرزا صاحب نے ۱۹۰۶ء میں تصنیف کی اُس میں مسیحی عقائد پر زبردست تنقید کی گئی.ان کے علاوہ بے شمار مضامین اور اشتہارات میں مرزا صاحب نے عیسائی عقائد کو اسلام کے مقابلے میں کمزور اور بے بنیاد ثابت کیا.مرزا غلام احمد قادیانی کی یہ ساری کارگزاریاں ایسی نہ تھیں کہ عیسائی ہندوستان میں اپنی حکومت کے ہوتے ہوئے انہیں آسانی سے برداشت کر لیتے.چنانچہ وہ ہر جائز اور ناجائز طریقے سے مرزا صاحب کو روکنا چاہتے تھے.اس لحاظ سے یہ بات واضح ہے کہ مرزا صاحب اور عیسائی پادریوں کے درمیان اصل اختلاف مذہبی برتری
۲۰۸ کا حصول تھا.اس صورت حال کی ترجمانی مولوی نور محمد قادری نقشبندی، چشتی ، مالک اصبح المطابع و کارخانه تجارت کتب، آرام باغ ، کراچی نے مولوی اشرف علی صاحب تھانوی کے ترجمہ قرآن کے دیباچے میں اس طرح کی کہ اسی زمانے میں پادری لیفرائے پادریوں کی ایک بہت بڑی جماعت لے کر اور حلف اُٹھا کر ولائت سے چلا کہ تھوڑے عرصے میں تمام ہندوسان کو عیسائی بنالوں گا.ولائت کے انگریزوں سے روپیہ کی بہت مدد اور آئندہ کی مدد کے مسلسل وعدوں کا اقرار لے کر ہندوستان میں داخل ہو کر بڑا تلاطم برپا کیا...حضرت عیسی کے آسمان پر جسم خا کی زندہ موجود ہونے اور دوسرے انبیاء کے زمین میں مدفون ہونے کا حملہ عوام کے لئے اُس کے خیال میں کارگر ہوا.تب مولوی غلام احمد قادیانی کھڑے ہو گئے اور لیفر ائے اور اس کی جماعت سے کہا کہ عیسی جس کا تم نام لیتے ہو دوسرے انسانوں کی طرح فوت ہوکر دفن ہو چکے ہیں اور جس عیسی کے آنے کی خبر ہے وہ میں ہوں پس اگر تم سعادت مند ہو تو مجھ کو قبول کر لو.اس ترکیب سے اُس نے لیفر ائے کو اس قدر تنگ کیا کہ اُس کو اپنا پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا اور اس ترکیب سے اس نے ہندوستان سے لے کر ولائت تک کے پادریوں کو شکست دے دی.ل : مولوی نور محمد قادری - دیباچہ ترجمہ قرآن مولوی اشرف علی تھانوی
۲۰۹ -۱۷ مرزا غلام احمد قادیانی اور امریکہ کے مشہور عیسائی رہنما کرسچن اپاسٹلک چرچ کے بانی ڈاکٹر جان الیگزینڈر ڈوٹی کے درمیان قبولیت دُعا کا کھلا مقابلہ اور اُس کا انجام یوں تو مرزا غلام احمد قادیانی اور عیسائی اکابرین کے درمیان متعد دمباحثے ہوئے جن میں سے کچھ کا ذکر پہلے آچکا ہے لیکن عمر کے آخری حصے میں مرزا صاحب اور امریکہ کے مشہور عیسائی رہنما اور کرسچن اپاسٹلک چرچ کے بانی ڈاکٹر جان الیگزینڈر ڈوئی کے درمیان بین الاقوامی سطح پر ایک بڑا روحانی معرکہ ہوا.اصل روحانی مقابلے کے شروع ہوتے ہی اور اس کے انجام تک پہنچنے سے بہت پہلے چونکہ اس مقابلے کی پریس کے ذریعے بڑی تشہیر ہوئی اس لئے اس کی صدائے بازگشت سارے امریکہ اور پوری عیسائی دنیا میں سنی گئی.اب چونکہ اس واقعہ کو پون صدی سے زیادہ کا عرصہ گذر چکا ہے اس لئے اس کے ہر پہلو کو دستاویزات کی بنیاد پر پرکھا جا سکتا ہے.- ڈاکٹر ڈولی کی ابتدائی زندگی اور عروج: جان الیگزینڈر ڈوئی ۲۵ مئی ۱۸۴۷ء کو انگلستان کے شمالی علاقے سکاٹ لینڈ کے شہر ایڈنبرا میں پیدا ہوا.بچپن ہی سے وہ غیر معمولی طور پر ذہین تھا.چھ سال کی عمر میں ساری بائبل پڑھ لیتا تھا اور سات سال کی عمر میں وہ عیسایت کا پرچار کرتا تھا.۱۸۶۰ء میں ڈوئی اپنے خاندان کے ساتھ براعظم آسٹریلیا چلا گیا جہاں وہ مختلف طرح کے چھوٹے ، بڑے کاروبار اور ملازمتوں میں کام کرتا رہا اور خوب روپیہ کما تا رہا.۲۱ سال
۲۱۰ کی عمر میں ڈوئی واپس سکاٹ لینڈ آیا جہاں اُس نے یونیورسٹی آف ایڈنبرا سے دو سال تک با قاعدہ پادری بنے کی تعلیم حاصل کی.۱۸۷۰ء میں ڈوئی واپس آسٹریلیا چلا گیا جہاں اُس نے فن خطابت میں خاص ملکہ حاصل ہونے کی بنا پر خاص شہرت حاصل کی اور یہیں اُس نے روحانی شفا کے نظریے کا پر چار شروع کیا.اُس کا اعتقاد تھا کہ یسوع مسیح کی طرح شفا دینے کی طاقت عیسائی مقدسین میں ہمیشہ قائم رہی ہے اور اس کو بھی ذاتی طور پر یہ طاقت دی گئی ہے.۱۸۸۲ء میں اُس نے میلبورن (آسٹریلیا ) میں اپنا الگ آزاد چرچ قائم کر لیا.۱۸۸۸ء میں دوسرے پادریوں سے شدید اختلافات کی بنا پر ڈوئی کو آسٹریلیا چھوڑنا پڑا.چند ہفتے نیوزی لینڈ میں گزارنے کے بعد ڈوئی ۷ جون ۱۸۸۸ء کو امریکہ کے شہر سان فارسکو جا پہنچا.پہلے اس شہر کے قرب و جوار میں اور بعد میں دوسری مغربی امریکی ریاستوں میں مختلف مقامات پر ڈوئی جلسے کرتا رہا اور اپنے روحانی شفا کے نظریے کا پر چار کرتا رہا.اُس کی اس تگ و دو سے کمزور طبع لوگ اُس کے ہمدرد بن گئے اور اُسے مالی امداد بھی ملنے لگی.اس مرحلے پر ڈوئی جو قبل ازیں صرف پادری ڈوئی تھا اپنے آپ کو ڈاکٹر ڈوئی کہلوانے لگا.جون ۱۸۹۰ ء میں شکاگو کے مضافات میں اور پھر مئی ۱۸۹۳ء میں شہر کے اندر اپنا گر جا بنالیا اور ایک کرائے کی عمارت میں احیائے عیسویت کے مقصد سے زائن ہوم کا آغاز کر دیا.اُسے یہاں جلد ہی بہت شہرت ملی.عیسائیوں کے گروہ در گروہ اُس کی پیروی میں آنے کے باعث اُسے خاطر خواہ مالی آمدنی ہونے لگی اور ڈاکٹر ڈوئی نے مزید عمارتیں خرید کر ”زائن پرنٹنگ اینڈ پبلشنگ ہاؤس کھول دیا جہاں سے اُس کا اخبار لیوز آف ہیلنگ (Leaves of healing) نکلنا
۲۱۱ شروع ہوا.بہت تھوڑے عرصے میں ڈاکٹر ڈوئی کو امریکہ کے طول وعرض میں اتنی مقبولیت حاصل ہوئی اور لوگ اتنی بڑی تعداد میں اُس کے پیروکاروں میں شامل ہونے لگے کہ ۲۲ فروری ۱۸۹۶ء کو اُس نے اپنے نئے فرقہ کی بنیاد رکھ دی جس کا نام کرسچن کیتھولک چرچ رکھا گیا.۱۹۰۰ء کے لگ بھگ جب ڈاکٹر ڈوئی نے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا تو اپنے فرقے کا نام بدل کر کرسچن کیتھولک اپاسٹلک چرچ رکھ دیا.اس وقت تک اُس کے فرقے کا اپنا بنک بھی قائم ہو چکا تھا اور امریکہ سے باہر کے ممالک مثلاً یورپ اور آسٹریلیا سے بھی لوگ اُس کے فرقے میں شامل ہونے لگے جن کی تعد دا ہزاروں تک تھی.ڈاکٹر ڈوئی نے جلد ہی اپنے فرقے کے مرکز کی تعمیر کے لئے شکاگو کے شمال میں ایک نئے شہر کی بنیا درکھی اور اس کا نام اس نے صحون رکھ دیا جو ۳۱ مارچ ۱۹۰۲ ء تک قانونی طور پر وجود میں آ گیا.اس شہر کے سارے بینک، تمام سٹورز ، بڑی بڑی فیکٹریاں، کارخانے اور پرنٹنگ پریس وغیرہ بیش بہا مالیت کے سب ادارے ڈوٹی کی ملکیت تھے اور ڈاکٹر جان الیگزینڈر ڈوئی اس شہر کا مطلق العنان حاکم بن گیا.اس کے ساتھ ہی ڈوئی اپنی طاقت ،شہرت اور دولت کے نصف النہار پر پہنچ گیا.-۲- ڈاکٹر ڈوئی کی اسلام دشمنی: ڈاکٹر ڈوئی شروع سے ہی اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا شدید دشمن تھا.چنانچہ اُس نے اپنے اخبار میں لکھا کہ ( ترجمہ ) میں محمد کے جھوٹوں کا نفرت کے ساتھ تصور کرتا ہوں.اگر میں ان
۲۱۲ کو تسلیم کرلوں تو مجھے یہ ماننا پڑے گا کہ اس مجمع میں یا خدا کی زمین کے کسی قطعے پر ایک عورت بھی ایسی نہیں جو غیر فانی روح رکھتی ہو.مجھے تسلیم کرنا ہوگا کہ تم عورتیں محض وحشی جانور ہو جو ایک گھنٹہ یا ایک روز کے لئے کھلونے کے طور پر استعمال ہوسکیں...اور جب وحشیانہ شہوت والے درندے تم سے اپنی خواہش پوری کر لیں تو تم کتوں کی موت مرجاؤ محمد کے مذہب میں عیسائی ایک مشرک کا درجہ رکھتا ہے.(اس کے بعد اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک گالی لکھی.ناقل ) وہ دودھ اور شراب پینا چاہتا ہے اور زندگی کے دریا پر لیٹے رہنا اور عشرت کرنا چاہتا ہے.‘ا اس کے کچھ دنوں بعد اُس نے اپنے اخبار میں پھر لکھا کہ (ترجمہ) میں امریکہ اور یورپ کی عیسائی اقوام کو خبر دار کرتا ہوں کہ اسلام مردہ نہیں اسلام طاقت سے بھرا ہوا ہے.اگر چہ اسلام کو ضرور نابود ہونا چاہئے.محمڈن ازم کو ضرور تباہ ہونا چاہئے مگر اسلام کی بربادی نہ تو مضمحل لاطینی عیسویت کے ذریعے سے ہو سکے گی نہ ہی بے طاقت یونانی عیسویت کے ذریعے سے اور نہ ہی اُن لوگوں کی تھکی ماندی عیسویت کے ذریعے سے جو مسیح کو صرف برائے نام مانتے ہیں.“ ہے ایک لیکچر میں ڈاکٹر ڈوئی نے کہا کہ ( ترجمہ ) ے: ڈاکٹر جان الیگزینڈر ڈوئی - لیوز آف ہیلنگ.۲۶ رمئی ۱۹۰۰ء جلدے نمبر ۵ : ڈاکٹر جان الیگزینڈر ڈوئی.لیوز آف ہیلنگ - ۲۵ / اگست ۱۹۰۰ ء
۲۱۳ زائن کے لئے محمڈن ازم کو تباہ کرنا ضروری ہے...محمڈن ازم کا لب لباب عورت کی تذلیل اور اس کے لئے ابدی روح سے محرومیت ہے مسلمانوں کو یہ نہیں سکھایا جاتا کہ وہ اگلی دنیا میں اپنی بیوی ، ماں یا بچی سے ملنے کی توقع کرے اُس کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ وہ جنت کا تصور ایک مختبہ خانہ یا حرم سراء کی حیثیت میں کرے جہاں پر وہ اُن عورتوں کے ساتھ زندگی بسر کرے گا جو اُس کی ہوس رانی کے لئے پیدا کی جائیں گی.زائن کے لئے ضروری ہے کہ وہ انسانیت کے دامن سے اس گھناؤنے دھبے کو دھو ڈالے.یروشلم سے اس ملعون جھنڈے کو ہمیں اُتارنا ہوگا.“ کچھ دن بعد پھر ڈوئی نے اپنے اخبار میں لکھا کہ (ترجمہ) (اسلام کے ساتھ ) لعنت زدہ ہوس کاری بھی آئی جس نے قبائل قریش کو اس بات کی رغبت دی کہ وہ اپنے خدا کو چھوڑ کر اسلام کے جھنڈے تلے آجائیں تا کہ وہ اس دنیا میں بھی عورتوں کے ساتھ عیاشی کی زندگی بسر کریں اور پھر لعنت زدہ ہوس کاری میں ہمیشگی کے عیش وعشرت کی زندگی اُس گندے وحشی کی طرح گزاریں جس کی خواہشات کا اعلیٰ ترین مقام اُس کے پیٹ سے اُدھر نہیں جاتا.یہ تھا وہ انعام جو آج بھی محمدن ازم پیش کرتا ہے.ہم محمد ن ازم کے اس انعام کو پاش پاش کر کے رہیں گے.“ ہے لے : ڈاکٹر جان الیگزینڈر ڈوئی - لیوز آف ہیلنگ -۱۵اگست ۱۹۰۳ء ہے : ڈاکٹر جان الیگزینڈر ڈوئی.لیوز آف ہیلنگ ۱۲ ستمبر ۱۹۰۳ء
۲۱۴ - ڈاکٹر ڈوئی کا دعوی ءرسالت : او پر اُن جھوٹے اور مکر وہ تصورات کے چند نمونے پیش کئے گئے ہیں جن کی بناء پر ڈاکٹر ڈوئی اسلام کے مقابلے میں اپنے عیسائی فرقے کی عمارت تعمیر کر رہا تھا.دن بدن اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اُس کی دریدہ دینی بڑھتی جارہی تھی.۱۸۹۶ء میں اس نے کہا تھا کہ اس کا کرسچن کیتھولک اتنا مضبوط اور اتنا دولت مند ہو جائے گا کہ دنیا نے اس کی نظیر نہ دیکھی ہوگی.اب تک اُس کی کہی ہوئی ہر بات صحیح ثابت ہو رہی تھی.۱۹۰۰ ء کے لگ بھگ ڈوئی نے پیغمبر خدا ہونے کا دعویٰ کیا اور ۲۵ ستمبر ۱۹۰۴ء کو رسول اوّل کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ صحون کا سورج طلوع ہو گیا ہے.یہ وہ بادشاہت خدا کی بادشاہت ہے جس کو کوئی بھی ہلا نہ سکے گا.! -۴ مرزا غلام حمد قادیانی کی طرف سے ڈاکٹر ڈولی کو روحانی مقابلے کا چیلنج عین اس وقت جب ڈاکٹر ڈوئی کا اثر و رسوخ ساری عیسائی دنیا میں پھیل رہا تھا اُس کا فرقہ اور اُس کی ذاتی شان و شوکت تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہے تھے یہاں تک کہ ڈاکٹر ڈوئی کا اپنا خیال تھا کہ اُس کے فرقے کی ترقی اسی طرح جاری رہی تو وہ بیس سال کے عرصے میں ساری دنیا کو فتح کر لے گا ہے انہی دنوں مرزا غلام احمد قادیانی لے : ڈاکٹر جان الیگزینڈر ڈوئی - لیوز آف ہیلنگ - ۲۵ رستمبر ۱۹۰۴ء جلد ۱۸ نمبر ۲۶ صفحه ۴۵۸ ے : ڈاکٹر جان الیگزینڈر ڈوئی - اخبار لیوز آف ہیلنگ ۲۰ / جون ۱۹۰۳ء
۲۱۵ کو بھی علم ہوا کہ ڈاکٹر ڈوئی نہ صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوکئی دوسرے عیسائی رہنماؤں کی طرح نگی گالیاں دیتا ہے اور اسلام کو تباہ کر دینے کا عزم رکھتا ہے بلکہ خود بھی پیغمبر ہونے کا دعویدار ہے.مرزا صاحب ڈاکٹر ڈوئی کی تحریروں اور خطابات کے اقتباسات پڑھ کر تڑپ اُٹھے اور یہیں سے مرزا صاحب اور ڈاکٹر ڈوئی کے درمیان اُس روحانی معرکے کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں نہ صرف ڈاکٹر ڈوئی کا فرقہ تباہ ہوا.اُس کا بنایا ہوا شہر تباہ ہوا بلکہ وہ خود انتہائی ذلت کی موت مرا.سب سے پہلے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے امریکہ کے عیسائیوں کو خاص طور پر اور ساری دُنیا کے عیسائیوں کو عام طور پر مخاطب کرتے ہوئے ڈاکٹر ڈوئی کو ایک کھلے چیلنج کے ذریعے روحانی مقابلے کے لئے للکارا.ستمبر ۱۹۰۲ء میں مرزا صاحب نے عقیدہ تثلیث پر تنقید کرتے ہوئے اپنے دعوی مسیحیت پر مبنی اشتہار شائع کیا اور اسے براہ راست ڈاکٹر ڈوئی کے پاس بھجوا دیا.اس اشتہار کا ایک اقتباس درج ذیل ہے.حال میں ملک امریکہ میں یسوع مسیح کا ایک رسول پیدا ہوا ہے جس کا نام ڈوئی ہے.اُس کا دعوی ہے کہ یسوع نے بحیثیت خدا دنیا میں اُس کو بھیجا ہے تا سب کو اس بات کی طرف کھینچے کہ بجر مسیح کے اور کوئی خدا نہیں...اور بار بار اپنے اخبار میں لکھتا ہے کہ اُس کے خدا یسوع مسیح نے اُس کو خبر دی ہے کہ تمام مسلمان تباہ اور ہلاک ہو جائیں گے اور دنیا میں کوئی زندہ نہیں رہے گا بجز اُن لوگوں کے جو مریم کے بیٹے کو خدا سمجھ لیں اور ڈوئی کو اس مصنوعی خدا کا رسول قراردیں.سو ہم ڈوئی صاحب کی خدمت میں باادب عرض کرتے ہیں کہ اس
۲۱۶ مقدمہ میں کروڑوں مسلمانوں کے مارنے کی کیا حاجت ہے ایک سہل طریق ہے جس سے اس بات کا فیصلہ ہو جائے گا کہ آیا ڈوئی کا خدا سچا خدا ہے یا ہمارا خدا.وہ بات یہ ہے کہ ڈوئی صاحب تمام مسلمانوں کو بار بارموت کی پیشگوئی نہ سناویں بلکہ اُن میں سے صرف مجھے اپنے ذہن کے آگے رکھ کر یہ دعا کر دیں کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرجائے کیونکہ ڈوئی یسوع مسیح کو خدا مانتا ہے مگر میں اُس کو ایک بندہ عاجز مگر نبی مانتا ہوں، اب فیصلہ طلب امر یہ ہے کہ دونوں میں سے سچا کون ہے؟ چاہیے کہ اس دعا کو چھاپ دے اور کم سے کم ہزار آدمی کی اس پر گواہی لکھے اور جب وہ اخبار شائع ہوکر میرے پاس پہنچے گی تب میں بھی بجواب اس کے یہی دُعا کروں گا اور انشاء اللہ ہزار آدمی کی گواہی لکھ دوں گا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ڈوئی کے اس مقابلے سے تمام عیسائیوں کے لئے حق کی شناخت کے لئے راہ نکل آئے گی.میں نے ایسی دُعا کے لئے سبقت نہیں کی بلکہ ڈوئی نے کی.اس سبقت کو دیکھ کر غیور خدا نے میرے اندر یہ جوش پیدا کیا اور یادر ہے کہ میں اس ملک میں معمولی انسان نہیں ہوں.میں وہی مسیح موعود ہوں جس کا ڈوئی انتظار کر رہا ہے صرف فرق یہ ہے کہ ڈوئی کہتا ہے کہ مسیح موعود پچیس برس کے اندر اندر پیدا ہو جائے گا اور میں بشارت دیتا ہوں کہ وہ مسیح پیدا ہو گیا اور وہ میں ہی ہوں.صدہا نشان زمین سے اور آسمان سے میرے لئے ظاہر ہو چکے ہیں.ایک لاکھ کے قریب میرے ساتھ جماعت ہے جو زور
۲۱۷ سے ترقی کر رہی ہے.اگر ڈوئی اپنے دعوے میں سچا ہے اور درحقیقت یسوع مسیح خدا ہے تو یہ فیصلہ ایک ہی آدمی کے مرنے سے ہو جائے گا.کیا حاجت ہے کہ تمام ملکوں کے مسلمانوں کو ہلاک کیا جائے لیکن اگر اُس نے اس نوٹس کا جواب نہ دیا یا اپنے لاف و گزاف کے مطابق دُعا کر دی اور پھر دنیا سے قبل میری وفات کے اُٹھایا گیا تو یہ تمام امریکہ کے لئے ایک نشان ہوگا مگر یہ شرط ہے کہ کسی کی موت انسانی ہاتھوں سے نہ ہو بلکہ کسی بیماری سے یا بجلی سے یا سانپ کے کاٹنے سے یا کسی درندے کے پھاڑنے سے ہو اور ہم اس جواب کے لئے ڈوئی کو تین ماہ تک مہلت دیتے ہیں اور دُعا کرتے ہیں کہ خدا سیچوں کے ساتھ ہو.آمین مرزا غلام احمد قادیانی نے مندرجہ بالا اشتہار پہلی دفعہ ۱۹۰۲ء میں اور دوسری دفعہ ۱۹۰۳ء میں ڈاکٹر ڈوئی کو براہِ راست بھجوایا.کئی ماہ کے انتظار کے باوجود ڈاکٹر صاحب نے اسے جواب کے قابل نہ سمجھا.اس کے بعد یہ روحانی مقابلے پر مبنی اشتہار مرزا صاحب نے امریکہ کے کئی مشہور روزناموں کو بغرض اشاعت بھیج دیا.ان اخبارات کے مدیران گوخود بھی عیسائی تھے اور اسلام کے مخالف تھے مگر انہوں نے مرزا صاحب کے اشتہار کی بڑی وسیع اشاعت کی.جس سے اس کی امریکہ اور یورپ میں دھوم مچ گئی اور اس مباہلہ کی خبر ہندوستان میں بھی ہوگئی.نمونے کے طور اس مباہلے کی امریکہ کے اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے کچھ اقتباسات نیچے درج کئے جاتے ہیں.: مرزا غلام احمد قادیانی - رسالہ ریویو آف ریجنز ستمبر ۱۹۰۲ء صفحات ۳۴۲ تا ۳۴۵
۲۱۸ 1- شکا گوانٹر پریٹر ۲۸ جون ۱۹۰۳ ء نے مرزا غلام احمد قادیانی اور ڈاکٹر ڈوئی کی تصاویر ساتھ ساتھ دے کر کیا ڈوئی اس مقابلے میں نکلے گا“ کے عنوان کے تحت لکھا کہ (ترجمه) ”مرزا صاحب کہتے ہیں ڈوئی مفتری ہے اور میں دُعا کرنے والا ہوں کہ وہ اُسے میری زندگی میں نیست و نابود کر دے اور پھر کہتے ہیں کہ جھوٹے اور بچے میں فیصلہ کا طریق یہ ہے کہ خدا سے دعا کی جائے کہ دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ بچے کی زندگی میں ہلاک ہو جاوے.ٹیلیگراف ۵ جولائی ۱۹۰۳ ء نے لکھا کہ (ترجمہ) ”مرزا غلام احمد صاحب پنجاب سے ڈوئی کو چیلنج بھیجتے ہیں کہ اے وہ شخص جو مدعی نبوت ہے آ اور میرے ساتھ مباہلہ کر.ہمارا مقابلہ دُعا سے ہوگا اور ہم دونوں خدا تعالیٰ سے دُعا کریں گے کہ ہم میں سے جو شخص کذاب ہے وہ پہلے ہلاک ہو.“ سے اخبار آرگوناٹ سان فرانسسکو نے یکم دسمبر ۱۹۰۲ء کو اشاعت میں زیر عنوان انگریزی اور عربی ( یعنی عیسائیت اور اسلام ) مقابلہ دُعا لکھا کہ (ترجمہ) ”مرزا صاحب کے مضمون کا خلاصہ جو ڈوئی کو لکھا ہے یہ ہے کہ تم ایک جماعت کے لیڈر ہو اور میرے بھی بہت سے پیرو ہیں پس اس بات کا فیصلہ کہ خدا کی طرف سے کون ہے؟ ہم میں اس طرح ہوسکتا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے خدا سے دُعا کرے اور جس کی دُعا قبول ہو وہ سچے خدا ۱ ، ۲ : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ء.حقیقت الوحی.تتمہ صفحہ ۷۰
۲۱۹ کی طرف سے سمجھا جاوے.دُعا یہ ہوگی کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے خدا اُسے پہلے ہلاک کرے.یقیناً یہ ایک معقول اور منصفانہ تجویز ہے.“ IV - اخبار لنگٹن فری پریس نے اپنی ۲۷ جون ۱۹۰۳ء کی اشاعت میں لکھا کہ ( ترجمہ ) مسیح موعود نے بڑی ہوشیاری سے ایک ایسا ہتھیار تجویز کر دیا ہے کہ اگر ڈوئی اس تجویز کو نہ مانے تو دوسرے الفاظ میں اس کا یہ مطلب ہو گا کہ وہ اپنے معاملہ کو اس بڑے مقتدر حاکم کے ہاتھ میں نہیں دینا چاہتا جس کی طرف سے وہ ہونے کا مدعی ہے.“ ہے مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی تصنیف حقیقۃ الوحی (۱۹۰۷ء) کے تتمہ صفحات ۵۰۶ تا ۵۰۸ پر امریکہ کے ۳۲ ایسے اخبارات مع تاریخ اشاعت کے نام لکھے ہیں جن میں اُن کے اور ڈاکٹر ڈوئی کے درمیان مقابلہ دُعا کی خبر چھپی.جب ذاتی طور پر مقابلہ دُعا کا اشتہار وصول کرنے اور اخبارات میں وسیع شہرت کے باوجود ڈاکٹر ڈوئی اس مباہلے کے لئے تیار نہ ہوا تو شکا گو کے ایک اخبار نے طنز کے طور پر یوں لکھا کہ (ترجمہ) ڈوئی نے چیلنج کو منظور نہیں کیا اور نہ اب تک انکار ہی کیا ہے.غالباً پہاڑ کی خوشگوار ہوا میں وہ جواب تجویز کر رہا ہے.ممکن ہے کہ بحیثیت فریق ثانی وہ شرائط میں کچھ تبدیلی چاہے.اس صورت میں اُس کی درخواست یہ ہوگی کہ بجائے دُعا کے گالیوں میں مقابلہ کیا جاوے اور ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ء.حقیقت الوحی.تتمہ صفحہ ۷۰ : دوست محمد شاہد- تاریخ احمدیت جلد سوم صفحه ۲۵۱
۲۲۰ جو دوسرے کو زیادہ گالیاں دے سکے وہی فتح یاب سمجھا جاوے.‘1 ۵ مرزا غلام احمد قادیانی کی ڈاکٹر ڈوئی کے متعلق پیشگوئی: اس کے باوجود کہ اخبارات نے مرزا غلام احمد قادیانی کے ڈاکٹر ڈوئی کے نام چیلنجوں کو وسیع پیمانے پر مشتہر کر کے اپنے اپنے انداز میں ڈاکٹر ڈوئی کو مقابلے پر آنے کے لئے اُبھارا مگر وہ پھر بھی خاموش رہا.جان.اے.نیپس (۱۹۰۱ء) نے لکھا کہ ڈوئی عظیم الطاقت مناظر اور زیرک منکر ہونے کے ساتھ ظاہر قوت کا مجسمہ تھا.ایک طرف وہ وافر اور بھر پور صحت کا مالک تھا لے اور بقول رسالہ سنچری (۱۹۰۲ء) وہ ایک ایسا انسان تھا جس میں نادر طور پر جسمانی قوت اور دماغی استعداد برابر طور پر جمع ہو گئے تھے سے ظاہری طور پر ۵۰ سال کے لگ بھگ صحت مند ڈوئی کی ستر سال سے زائد عمر کے مرزا غلام احمد صاحب کے مقابلے میں کوئی خطرہ نہ تھا.اس لئے بھی کہ بقول اخبار ٹروتھ سیکر (۱۹۰۷ء) مرزا غلام احمد صاحب ایسے ملک میں رہتے تھے جو طاعون اور تعصب کا گھر تھا اور جہاں اُن کے جواں سال ڈوئی کے مقابلے میں زندہ رہنے کے امکانات بہت کم تھے ہے پھر بھی ڈاکٹر ڈوئی جب مرزا صاحب کے ساتھ روحانی دعا کے مقابلے کے لئے تیار نہ ہوا تو مرزا غلام احمد صاحب نے لاہور ( پنجاب ) سے انگریزی زبان میں ایک چھ صفحے کا اشتہار ۲۳ / اگست ۱۹۰۳ء کو شائع کر دیا.اس کا عنوان تھا ل ریویو آف ریلیجنز - اردو نمبر ۱۹۰۳ء صفحات ۳۴۲ تا ۳۴۶ ہے : جان اے ٹپس - اخبارانڈیپنڈنٹ نیو یارک.یکم اگست ۱۹۰۱ء سے : رسالہ سنچری میگزین ۱۹۰۲ء- جلد ۶۴ صفحه ۹۲۸ اخبار ٹروتھ سپیکر.نیو یارک ۱۵ / جون ۱۹۰۷ء
۲۲۱ پکٹ اور ڈوئی کے متعلق پیشگوئیاں (پکٹ بھی ڈوئی کی طرح جھوٹا مدعی نبوت تھا جولندن سے تعلق رکھتا تھا ).اس اشتہار میں مرزا صاحب نے لکھا کہ ( ترجمہ ) مسٹر ڈوئی اگر میری درخواست مباہلہ قبول کرے گا اور صراحتاً یا اشارہ میرے مقابلے پر کھڑا ہو گا تو میرے دیکھتے دیکھتے بڑی حسرت اور دُکھ کے ساتھ اس دنیائے فانی کو چھوڑ دے گا.اب تک ڈوئی نے میری اس درخواست مباہلہ کا کچھ جواب نہیں دیا اور نہ اپنے اخبار میں کچھ اشارہ کیا ہے اس لئے میں آج کی تاریخ سے جو ۲۳ را گست ۱۹۰۳ء ہے اُس کو پورے سات ماہ کی اور مہلت دیتا ہوں.اگر وہ اس مہلت میں میرے مقابلے پر آ گیا اور جس طور سے مقابلہ کرنے کی میں نے تجویز کی ہے جس کو میں شائع کر چکا ہوں.اس تجویز کو پورے طور پر منظور کر کے اپنے اخبار میں اشتہار دے دیا تو جلد تر دنیا دیکھ لے گی کہ اس مقابلہ کا انجام کیا ہو گا.میں عمر میں ستر برس کے قریب ہوں اور وہ ( یعنی ڈوئی.ناقل ) جیسا کہ بیان کرتا ہے پچاس برس کا جوان ہے جو میری نسبت گویا ایک بچہ ہے لیکن میں نے اس بڑی عمر کی کچھ پرواہ نہیں کی کیونکہ اس مباہلہ کا فیصلہ عمروں کی حکومت سے نہیں ہوگا بلکہ وہ خدا جو زمین و آسمان کا مالک اور احکم الحاکمین ہے وہ اس کا فیصلہ کرے گا اور اگر مسٹر ڈوئی اس مقابلہ سے بھاگ گیا تو دیکھو آج میں تمام امریکہ اور یورپ کے باشندوں کو اس بات پر گواہ کرتا ہوں کہ یہ ل : مرزا غلام احمد قادیانی - اشتہار پگٹ اور ڈوئی کے متعلق پیشگوئیاں.لاہور۲۳/اگست ۱۹۰۳ء
۲۲۲ طریق اُس کا بھی شکست کی صورت سمجھی جائے گی اور نیز اس صورت میں پبلک کو یقین کرنا چاہئے کہ یہ تمام دعوئی اُس کا الیاس بنے کا محض زبان کا مکر اور فریب تھا اور اگر چہ وہ اس طرح سے موت سے بھاگنا چاہے گا لیکن درحقیقت ایسے بھاری مقابلے سے گریز کرنا بھی ایک موت ہے.پس یقین سمجھو کہ اُس کے صحون پر جلد تر ایک آفت آنے والی ہے کیونکہ ان دونوں صورتوں میں سے ضرور ایک صورت اُس کو پکڑے گی.‘1 مرزا غلام احمد صاحب کے اس اشتہار کو بھی امریکہ کے کئی اخبارات نے نمایاں طور پر شائع کیا مثلاً نیو یارک کمرشل ایڈور ٹائزر نے ۲۶ /اکتوبر کی اشاعت میں اور دی مارننگ ٹیلیگراف نے ۲۸ را کتوبر ۱۹۰۳ء کی اشاعت میں اسے مشتہر کیا.گلاسگو ہیرلڈ نے اپنی ۲۷ اکتوبر ۱۹۰۳ء کی اشاعت میں لکھا کہ ( ترجمہ ) ”مرزا غلام احمد اپنی پیشگوئی مورخہ ۲۳/اگست ۱۹۰۳ء میں ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اپنی دعوت مقابلہ کے جواب کا سات ماہ آئندہ تک انتظار کریں گے.اگر اس عرصہ میں ڈاکٹر ڈوئی نے اس مقابلہ کو منظور کر لیا اور اس کی شرائط کو پورا کیا تو تمام دنیا اس مقابلے کا انجام دیکھ لے گی.میری عمر ستر سال کے قریب ہے حالانکہ ڈاکٹر ڈوئی صرف پچپن سال کی عمر کا ہے لیکن چونکہ مقابلے کا انفصال عمر پر نہیں اس واسطے میں ان عمر کے سالوں کی تفاوت کی کچھ پرواہ نہیں کرتا.مرزا غلام احمد صاحب کہتے ہیں کہ اگر اب بھی ڈوئی مقابلہ سے انکار کرے گا تو امریکہ کے پیغمبر کے ل : دوست محمد شاہد- تاریخ احمدیت.جلد سوم صفحه ۲۵۳
۲۲۳ دعاوی جھوٹ اور افتر اثابت ہو جائیں گے.‘ا ڈاکٹر ڈوئی کا رد عمل اور مرزا صاحب کے ساتھ روحانی مقابلے کا آغاز : مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی طرف سے مسلسل اشتہارات کے ذریعے چیلنج اور امریکی اخبارت کے ذریعے اُن کی وسیع تشہیر کے نتیجے میں ڈاکٹر ڈوئی کی خاموشی اس کے لئے بڑی مشکلات کا باعث بن گئی.اب ہیلنگ میں یکے بعد دیگرے مرزا صاحب کے چینج کے اس طرح جواب دیئے کہ وہ بالآ خر بالواسطہ طور پر اشارہ مرزا غلام احمد صاحب کے مقابلے پر آ گیا.ا.اُس نے لیوز آف ہیلنگ کی ۱۲ ؍ دسمبر ۱۹۰۳ء کی اشاعت میں لکھا کہ (ترجمہ) اگر میں خدا کی زمین پر خدا کا پیغمبر نہیں تو پھر کوئی بھی نہیں ہے -۲- پھر ۲۶ / دسمبر ۱۹۰۳ء کی اشاعت میں لکھا کہ (ترجمہ) لوگ مجھے بعض اوقات کہتے ہیں کہ کیوں تم فلاں فلاں بات کا جواب نہیں دیتے.جواب ! کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں ان کیڑوں مکوڑوں کو جواب دوں گا.اگر میں اپنا پاؤں ان پر رکھوں تو ایک دم میں ان کو کچل سکتا ہوں مگر میں ان کو موقع دیتا ہوں کہ میرے سامنے سے دور چلے جائیں اور کچھ دن اور زندہ رہ لیں.“ سے ل : گلاسگو ہیرلڈ ۱/۲۷ اکتوبر ۱۹۰۳ء- ( ریویو آف ریلیجنز.اردو ۱۹۰۴ء صفحات ۷ ۴۷-۴۷۹) ریویو آف ریجنز اردو ۱۹۰۳ء - صفحه ۱۴۶ سے ریویو آف ریلیجنز اردو ۱۹۰۴ء صفحات ۱۴۵-۱۴۶
۲۲۴ ۳ - ۲۷/ دسمبر ۱۹۰۳ء کی لیوز آف ہیلنگ کی اشاعت میں مرزا غلام احمد صاحب کے بارے میں اس نے لکھا کہ ( ترجمہ ) ”ہندوستان میں ایک بیوقوف شخص ہے جو مسیح محمدی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے وہ مجھے بار بار کہتا ہے کہ حضرت عیسی کشمیر میں مدفون ہیں جہاں اُن کا مقبرہ دیکھا جا سکتا ہے.وہ یہ نہیں کہتا کہ اُس نے خود وہ (مقبرہ) دیکھا ہے مگر بے چارہ دیوانہ اور جاہل شخص پھر بھی یہ بہتان لگاتا ہے کہ حضرت مسیح ہندوستان میں فوت ہوئے.واقعہ یہ ہے کہ خداوند مسیح بیت عنیاہ کے مقام پر آسمان پر اُٹھایا گیا جہاں وہ اپنے سمادی جسم میں موجود ہے.66 ۴.پھر اُس نے اپنے اسی اخبار کی ۲۳ جنوری ۱۹۰۴ء کی اشاعت میں لکھا کہ دو سینکڑوں ملین مسلمان جواس وقت ایک جھوٹے نبی کے قبضہ میں ہیں اُنہیں یا تو خدائی آواز سننی پڑے گی یا وہ تباہ ہو جائیں گے.“ ہے ڈاکٹر ڈوئی کے ان بیانات کے بعد ڈاکٹر صاحب اور مرزا غلام احمد صاحب کے درمیان روحانی مقابلے کا طبل بج گیا اور الہی تقدیر کے اپنا چہرہ دکھانے کے لئے ساری شرائط پوری ہو گئیں.قضا و قدر نے کس طرح مرزا غلام امحمد صاحب کی پیشگوئی کو حرف بحرف پورا کر دکھا یا وہ عیسائی دنیا کے لئے ایک عبرتناک داستان ہے.ڈاکٹر ڈوئی کس طرح دیکھتے ہی دیکھتے شہرت اور مقبولیت کی انتہائی بلندیوں سے نیچے گرا اور اُس ا: : خلیل احمد ناصر ۱۹۵۴- عبرتناک انجام - صفحه ۴۵ : خلیل احمد ناصر ۱۹۵۴- عبرتناک انجام.صفحہ ۱۱
۲۲۵ کا انجام کس قدر حسرت ناک اور درد انگیز تھا اور وہ کس طرح ذلیل اور رسوا ہو کر آخر بے یارو مددگار مرا اور وہ جو ایک وقت میں بے مثال جسمانی اور فکری قوتوں کا مالک تھا.کس طرح دیکھتے ہی دیکھتے خس و خاشاک کی طرح ختم ہو گیا اور کس طرح اُس کا بسایا ہوا شہر میحون آفتوں سے دو چار ہوا ہم اسے قارئین کے سامنے اختصار سے بیان کریں گے.ے.ڈاکٹر ڈوٹی کا انجام : 1- بدبختیوں کی ابتدا: بظاہر دنیا داروں کے لئے اس کی وجوہ تلاش کرنا مشکل نظر آتا ہے کہ ڈاکٹر ڈوئی جیسے اعلیٰ منتظم، ہر ایک کا دل موہ لینے والے، بے مثال مفکر اور جادو ء بیاں مقرر کو مرزا غلام احمد قادیانی کا چیلنج ملتے ہی کیا ہوا کہ اُس کی ہر تد بیر الٹی ہونی شروع ہوگئی ، ہر قدم پر لڑ کھڑاہٹ سے دو چار ہونے لگا.اس کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ جنوری ۱۹۰۳ء میں ڈاکٹر ڈوئی نے اپنے اخبار لیوز آف ہیلنگ میں یہ پروگرام شائع کیا کہ وہ اُسی سال اکتوبر میں دو ہفتے تک نیو یارک کی سب سے بڑی اور مہنگی جلسہ گاہ میڈلین اسکوئر گارڈن میں روزانہ روحانی تقاریر کرے گا جس میں اس کے ہزاروں مرید بھی شامل ہوں گے.دس ماہ تک اخبارات میں اُس کے پروگرام کی تشہیر ہوتی رہی.ڈاکٹر ڈوئی کی شہرت اور اہمیت کے پیش نظر ایک ریلوے کمپنی نے صیحون سے نیو یارک تک کے ۹۰۰ میل کے فاصلے کے لئے ۱۵ ڈالر رعایتی ٹکٹ کا اعلان کر دیا.اکتوبر میں ایک دن میں آٹھ ٹرینیں میچونی لشکر کو لے کر نیو یارک پہنچیں.نیو یارک کے اخبارات نے آنے والے مہمانوں کی بہت آؤ بھگت کی اور ان کے پروگرام تفصیل سے شائع کئے.
۲۲۶ عمارات کے کرائے اور خور و نوش کا مجموعی تخمینہ لاکھوں ڈالر تک پہنچ گیا یہاں تک کہ اکتوبر کی ایک مقررہ اتوار کو دو ہفتے کے اس پروگرام کا پورا طمطراق کے ساتھ افتتاح ہوا.قریباً پندرہ ہزار سامعین جلسہ گاہ کے اندر موجود تھے.ہزاروں ہزار لوگ گارڈن کے باہر کھڑے تھے.ایک طرف ڈیوٹی کے لئے تین ہزار سپاہی کھڑے تھے اور دوسری طرف پچاس مختلف بینڈ ز موسیقی کی دھنیں بجارہے تھے.یہ سارا نظارہ جادو کر دینے والا تھا جس میں کچھ ابتدائی کاروائیوں کے بعد ڈاکٹر ڈوئی اپنی پہلی روحانی تقریر کرنے کھڑا ہوا.لوگ بت بنے بیٹھے تھے اور ہمہ تن گوش اور اُن کے سامنے ماہ عوامی مقرر، جانا پہچانا، عیسائیت کی اُمید گاہ ڈاکٹر جان الیگزینڈر ڈوئی، رسول اوّل مگر افسوس کہ تدبیر کند بنده ، تقدیر بود خندہ ، ہزاروں کے مجموعوں کو مسحور کر دینے والا ڈوئی، حاضرین پر چھا جانے والا ڈوئی ، وہ جس کی آواز بڑے بڑے آڈیٹوریموں میں گونجا کرتی تھی ، آج بے ربط طریقے سے بولنے لگا، اُس کی آواز اور گفتار بے اثر لگنے لگی ، اُس کا جادوٹوٹ گیا.ابھی چند منٹ ہی بولا ہوگا کہ لوگوں نے بیزار ہو کر جلسہ گاہ سے باہر نکلنا شروع کر دیا.اُس نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی پوری کوشش کی لیکن حاضرین جلسہ کوسنبھال نہ سکا اور وہ جو ایک لاکھ نئے مریدوں کی اُمید لے کر نیو یارک آیا تھا.اس کے لئے پہلے مریدوں کو بھی سنبھالنا مشکل ہو گیا.ڈوئی کے لئے یہ پہلی بد بختی تھی.اس پر نمونے کے طور پر چند اخبارات کے تبصرے درج ذیل ہیں.(الف) اخبار نیویارک امریکن نے اپنی ۱۹ اکتو بر ۱۹۰۳ء کی اشاعت میں لکھا کہ (ترجمہ) نیو یارک ایلیا ( یعنی ڈوئی.ناقل ) کے لئے واٹر لو کا میدان بن لے : شکا گوایگزامنیر - ۱۴/اکتوبر ۱۹۰۳ء
۲۲۷ گیا...اس کی صلیبی جنگ نا کام ہوگئی...سہ پہر کی میٹنگ میں بدنظمی جلسہ میں لوگوں کے باہر نکلنے کی کوششوں کی وجہ سے بھگڈ بچ گئی ! (ب) نیویارک ورلڈ نے بھی ۱۹ / اکتوبر ۱۹۰۳ ء کی اشاعت میں لکھا کہ (ترجمہ) دو گناہ کے لشکروں نے میونی گارڈوں کی صفوں کو توڑ دیا.تین ہزار لوگوں نے کچھ دیر تک ڈوئی کی تقریر سنی پھر اُس کے غصے بھرے حکموں کے باوجود گارڈن سے باہر نکل آئے.“ سے (ج) مشہور اخبار نیو یارک ٹائمز نے بھی اپنی ۱۹ راکتو بر ۱۹۰۳ء کی اشاعت میں لکھا که (ترجمه) جم غفیر نے ایلیا ( یعنی ڈوئی.ناقل ) سے پیٹھ موڑ لی.گارڈوں کی کوششوں کے باوجود گارڈن کے نصف حاضرین نے جلسہ گاہ خالی کر دی....درخواستوں اور طاقت کا استعمال اُن لوگوں پر بالکل بے اثر رہا جنہوں نے ڈوئی کی تعلیمات کے سننے سے انکار کر دیا.“ سے 1- ڈاکٹر ڈوٹی کا نا جائز اولاد ہونا: اکتو بر ۱۹۰۳ء میں نیویارک میں دو ہفتے کے روحانی تقاریر کے پروگرام کا آغاز اگر چہ ڈاکٹر ڈوئی کے لئے بہت افسوس ناک طریقے سے ہوا اور جیسا کہ اخبارات کے تبصروں سے ظاہر ہوتا ہے لوگوں نے اس کی تعلیمات سُننے سے انکار کر دیا لیکن ڈاکٹر صاحب موصوف کو اپنے پروگرام کے دوسرے ہفتے میں ایک اور ذلت آمیز سانحے ، ٢ : خلیل احمد ناصر ۱۹۵۴- عبرتناک انجام صفحه ۵ : خلیل احمد ناصر ۱۹۵۴- عبرتناک انجام صفحه ۵۲
۲۲۸ سے دو چار ہونا پڑا اور وہ اس طرح ہوا کہ نیویارک ورلڈ اخبار نے ایک دن ڈکٹر ڈوئی کے سات عددا ایسے خطوط شائع کر دیئے جو اس نے اپنے قانونی باپ جان مرے ڈوئی کو لکھے تھے.ان خطوط سے ثابت ہوتا تھا کہ جان مرے ڈوٹی اُس کا حقیقی باپ نہ تھا اور یہ بات ثابت ہوگئی کہ الیکزینڈر ڈوئی اپنی ماں کی ناجائز اولا د تھا.ان خطوط کی اشاعت نے ڈاکٹر ڈوئی کے وقار کو گرا دیا.چنانچہ اُسی شام ڈاکٹر ڈوئی نے جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے ان خطوط کی صداقت کو تسلیم کیا لیکن ساتھ ہی کہا کہ میری ماں ایک اعلیٰ خاندان کی عورت تھی وہ خدا کے لشکر کی ایک سپاہی تھی مگر جان مرے ڈوئی ہمیشہ ہی ایک بزدل ، بد بخت اور منافق شخص تھا.مجھے کبھی یہ سمجھ نہیں آ سکی تھی کہ میں جو کہ بے خوف آدمی ہوں ایسے شخص کا بیٹا کس طرح ہو سکتا ہوں.دوسری طرف جان مرے ڈولی نے بیان کیا کہ (ترجمہ) ” جب جان الیگزینڈر پیدا ہوا تو میری عزیز بیوی کی عمر بیالیس سال کے قریب تھی.جب میں نے اس سے شادی کی تو وہ ایک بیوہ عورت تھی.میری بیوی کا باپ...ایڈنبرا میں ہی شراب کی دوکان کرتا تھا.میں اُن دنوں جوان تھا اور اُن کے ہاں میرے کھانے اور رہنے کا انتظام تھا اس لئے مجھ سے گناہ سرزد ہو گیا مگر میں نے اس گناہ کو چھپانے کے لئے اپنا عیسوی فرض ادا کرتے ہوئے اس عورت سے شادی کر لی تا کہ جان الیگزینڈر کی ولادت ناجائز شمار نہ ہو.“ ہے : خلیل احمد ناصر ۱۹۵۴- عبرتناک انجام صفحه ۵۳ ہے : خلیل احمد ناصر ۱۹۵۴- عبرتناک انجام صفحه ۵۵
۲۲۹ ان انکشافات کا نتیجہ یہ نکلا کہ تقریباً سال بھر غور کرنے کے بعد ۲۵ /ستمبر ۱۹۰۴ء کو ڈاکٹر ڈوئی نے یہ اعلان کیا کہ چونکہ وہ جان مرے ڈوٹی کا حقیقی بیٹا نہیں اس لئے اُس کے نام کے ساتھ آئندہ سے ڈوئی کا نام نہ لکھا جائے.اے مگر اُس کی یہ حسرت بھی پوری نہ ہوسکی کیونکہ اُس کی قبر کے کتبے پر بھی ڈوئی کا لفظ موجود ہے.اپنی زندگی میں اُس نے اپنے باپ کے بیان کو صحیح تسلیم نہ کیا بلکہ وہ اپنے آپ کو کسی ڈیوک کا بیٹا کہا کرتا تھا اور اس طرح سے بھی وہ اپنی ماں کی ناجائز اولا د ٹھہرتا تھا.111- ڈاکٹر ڈوٹی کی بیٹی کی ہلاکت اور ڈاکٹر صاحب کی نسل کا خاتمہ ڈاکٹر ڈوئی کی اولا دایک بیٹا اور ایک بیٹی تھی جو اس کی بیوی جین سے تھے.بیٹا کلیڈسٹون ڈوئی ۱۸۷۷ء میں پیدا ہوا تھا اور بیٹی مس ایستھر ۱۸۸۱ء میں پیدا ہوئی.۱۹۰۲ء میں جب ڈاکٹر الیگزینڈر ڈوئی نے اپنے اخبار لیوز آف ہیلنگ میں مرزا غلام احمد صاحب کا تذکرہ بہت اہانت آمیز لہجے میں کیا تھا اس وقت اُس کی بیٹی کی عمر ۲۱ برس کی تھی اور یو نیورسٹی آف شکاگو کی طالبہ ہونے کے باعث شکاگو میں ہی رہتی تھی.۱۴ مئی ۱۹۰۲ء کو اس کی اکلوتی بیٹی جس سے اُسے بہت محبت تھی لیمپ سے کپڑوں میں آگ لگنے کے باعث جھلس کر مر گئی جس سے ڈاکٹر ڈوئی کو بڑا شدید صدمہ پہنچا.اس کا بیٹا کلیڈسٹون لمبی عمر تک زندہ رہا.اس نے ۱۹۴۵ء میں وفات پائی.چونکہ اس نے ساری عمر شادی نہ کی اس لئے اس کی وفات کے ساتھ ہی ڈاکٹر ڈوئی کی نسل ختم ہوگئی.ڈاکٹر ڈوئی کی بیوی جین آخری عمر میں اس سے الگ ہو چکی تھی اور ڈاکٹر صاحب نے دوسری شادی بھی نہ کی اس لئے ڈوئی کی نسل بھی آگے نہ چل سکی اس طرح یہ بھی خدا : خلیل احمد ناصر ۱۹۵۴- عبرتناک انجام صفحه ۵۶
۲۳۰ کی طرف سے ڈاکٹر ڈوئی کے لئے ایک سزا ہی تھی.اے IV- ڈاکٹر ڈوئی کی بین الاقوامی دورے میں ناکامیاں: اگر چہ اکتوبر ۱۹۰۳ء میں میڈیسن اسکوئر گارڈن میں پیش آنے والی ہزیمت نے ڈاکٹر ڈوئی کو اندر سے ہلا کر رکھ دیا تھا لیکن اس کی تنظیم کچھ زیادہ منتشر نہیں ہوئی تھی اور وہ بظاہر پر اعتما دطور پر یکم جنوری ۱۹۰۴ء کو اپنے بین البراعظمی دورے پر روانہ ہو گیا تا کہ وہ بے مثال کامیابی جوا سے امریکہ میں حاصل ہو چکی تھی اُسی طرح کی کامیابی وہ یورپ اور آسٹریلیا میں بھی حاصل کرے.اس بحری سفر کا انتظام اس کے کارندے کئی ماہ سے کر رہے تھے.ڈاکٹر ڈوئی سان فرانسسکو سے ہونو لولو اور نیوی لینڈ ہوتا ہوا آسٹریلیا پہنچا جہاں اس کا سب سے پہلا قیام میلبورن میں تھا.ڈاکٹر ڈوئی ایک دفعہ پہلے بھی بد دل ہو کر آسٹریلیا سے جا چکا تھا اب بھی امریکہ میں اس کے احوال کی خبریں آسٹریلیا پہنچ چکی تھیں چنانچہ میلبورن کا کوئی ہوٹل ڈاکٹر ڈوئی اور اس کی پارٹی کو اپنے ہاں ٹھہرانے کے لئے تیار نہ ہوا.میلبورن میں وہ دو ہفتوں تک جلسہ کرتا رہا مگر اسے کوئی کامیابی نہ ہوئی.یہیں پر ڈاکٹر ڈوئی اور اس کے اخبار لیوز آف ہیلنگ کے مدیر کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے اور اخبار کا مدیر ڈاکٹر ڈوئی کی پارٹی کو چھوڑ کر ا کیلا ہی یورپ چلا گیا.ڈاکٹر صاحب میلبورن سے ایڈی لیڈ پہنچے یہاں پر ڈاکٹر ڈوئی نے انگلستان کے بادشاہ ایڈورڈ کے خلاف سخت زبان استعمال کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ اس کا کوئی مذہب نہیں ( ترجمہ ) ہے اس سے آسٹریلین ل : خلیل احمد ناصر ۱۹۵۴- عبرتناک انجام صفحات ۵۸ تا ۶۱ آرتھر نیو کومب Dowie, Anointed of The Lord صفحه ۳۰۸
۲۳۱ حکومت نے اس کے جلسوں کا پروگرام بند کر دیا.ناچار وہ آسٹریلیا سے نا کام نکلا اور سری لنکا کے شہر کو لمبو جا پہنچا.یہاں سے اُس کا ارادہ ہندوستان جانے کا تھا جہاں مرزا غلام احمد رہتے تھے مگر اُس نے یہ ارادہ منسوخ کر دیا اور اُسی جہاز پر یورپ پہنچا اور سوئٹزر لینڈ اور جرمنی سے ہوتا ہوا لندن پہنچ گیا.ایڈی لیڈ میں شاہ انگلستان کے متعلق اُس کے ریمارکس کی خبر برطانیہ میں پہنچ چکی تھی یہاں کی پبلک ڈاکٹر ڈوئی کے خلاف سخت مشتعل تھی.ہوٹلوں نے اُس کو ٹھہرنے کی جگہ دینے سے انکار کر دیا.پہلے ہی جلسے میں لوگوں نے ڈاکٹر ڈوٹی کو گھیر لیا اور اسے بھیس بدل کر فرانس کی طرف بھاگنا پڑا.کچھ عرصہ بعد ڈاکٹر ڈوئی روانہ ہو گیا.پچھلے دو سال میں اس کو چوتھا صدمہ تھا.لے ڈاکٹر ڈولی کی بیوی کو طلاق، چرچ کا انتشار اور -V ڈوئی پر فالج کا حملہ: ڈاکٹر ڈوئی کے حالات اب بد سے بدتر ہوتے جارہے تھے.اُس کی کاروائیاں اس کے لئے مزید پریشانیاں پیدا کر رہی تھیں.جب وہ اپنے یورپ کے سفر کے دوران مارسیلز میں تھا تو صحون میں اس کے مقرر کردہ نائبوں نے اسے اپنے اخراجات کم کرنے کی اطلاع دے دی تھی جس سے وہ سخت مضطرب تھا.امریکی اخبارات میں ڈاکٹر ڈوئی کے ہمراہ کسی خوبصورت دوشیزہ کے سفر کی خبریں بھی چھپ رہی تھیں.ستمبر ۱۹۰۴ء میں جب ڈاکٹر ڈوئی اپنے بین البراعظمی دورے سے واپس لوٹا تو صحون پہنچ کر اس نے اپنی بیوی جین کو طلاق دینے کا اعلان کیا جس کی وجہ سے اس کے تقریباً خلیل احمد ناصر ۱۹۵۴- عبرتناک انجام صفحات ۶۲ سے ۶۹
۲۳۲ سارے نائبین اس سے ناراض ہو گئے.اخراجات کے بے انتہا بڑھ جانے اور آمدنی کے توقعات کے مطابق نہ ہونے سے صیحون کی مالی حالت دن بدن خراب ہوتی جارہی تھی دفاتر اور اور فیکٹریوں کے عملہ میں دن بدن کمی کی جارہی تھی.اور صحون کی دوکانیں مال و اسباب سے خالی ہو رہی تھیں ڈاکٹر ڈوئی نے سوچا کہ اگر چندہ جمع کر کے میکسیکو میں زمینیں خرید لی جائیں تو ان کی آمدنی سے صیحون کی مالی مشکلات دور ہو جائیں گی لیکن اس کی چندے کے لئے پہلی اپیل مایوس کن ثابت ہوئی چنانچہ اس نے ستمبر ۱۹۰۵ء کے آخری اتوار کے دن صیحون میں ایک زبر دست جلسہ کیا.ابھی یہ رعب و داب والی تقریب ختم نہیں ہوئی تھی کہ ڈاکٹر ڈوئی پر فالج کا پہلا حملہ ہوا، اُس کا رنگ زرد پڑ گیا، وہ گرنے ہی والا تھا کہ اس کے دومریدوں نے اسے سہارا دیا اور اسے گھسیٹتے ہوئے جلسہ گاہ کے ہال سے باہر لے گئے.یہ وہی ڈوئی تھا جس نے تین ہی سال قبل اپنے متعلق لکھا کہ (ترجمہ) د میں ایک نہ تھکنے والے دماغ کا مالک ہوں اور میراجسم ایک صحت مند جسم ہے.مجھے یقین ہے کہ دنیا میں ایسے شخص کم ہی ہوں گے جو میرے ہم عمر ہوں اور میری طرح کا کام کرتے ہوں اور پھر اُتنے قوی بھی ہوں جتنا کہ میں.“ VI - ڈاکٹر ڈوئی کی چرچ سے برطرفی: اب حالات ڈاکٹر ڈوئی کے ہاتھ سے نکلتے جارہے تھے.مرزا غلام احمد قادیانی : لیوز آف ہیلنگ ۲۰/ دمبر ۱۹۰۳ء- ( خلیل احمد ناصر - ۱۹۵۴- عبرتناک انجام صفحه ۱۰۶)
۲۳۳ کی پیشگوئی مورخہ ۲۳ / اگست ۱۹۰۳ء کے عین مطابق ڈاکٹر ڈوئی کو صیحون ، اپنے چرچ اور اپنی موت تینوں کا سامنا تھا.ستمر ۱۹۰۵ء میں فالج کے حملہ کے بعد ڈوئی نے آسٹریلیا سے اپنے نائب والوا کو بلا لیا اور اپنی صیحون کی جائداد کے سارے قانونی اختیارات اس کے نام کر دیئے اور خود بحالی صحت کے لئے جمیکا روانہ ہو گیا.اس کی روانگی کے فوراً بعد اس کے اخبار لیوز آف ہیلنگ کے مدیروں نے اس کی من مانی کاروائیوں کو احتجاجاً ماننے سے انکار کر دیا.صحون کے دوکانداروں نے صیحون کی انتظامیہ کے جاری کردہ کو پنوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا.ڈوئی کے خزانے میں ادائیگی کے لئے ڈالر موجود نہ تھے.فنڈ ز کی نایابی کے باث اخبار لیز آف ہیلنگ بند کر دیا گیا.ڈاکٹر ڈوئی کے آسٹریلین نائب مسٹر ولبر گلین والوا نے ۱۲رفروری ۱۹۰۶ء کو میچون پہنچ کر جو حالت دیکھی اس کا اسے تصور بھی نہ تھا.سب سے زیادہ اذیت ناک حالت ان بوڑھی عورتوں ، مردوں، نابینا اور لولے لنگڑے افراد کی تھی جو اپنی ہزاروں ڈالر کی رقمیں میحون کی صنعتوں میں لگا چکے تھے لیکن ان کی رقمیں ڈوب چکی تھیں اور وہ فاقہ کشی کی زندگی گزار رہے تھے.ان حالات کے باوجود ڈاکٹر ڈوئی کو اصلاح احوال کی فکر نہ تھی.۳۱ / مارچ ۱۹۰۶ء کو اس نے اپنے نائب اور جانشین والوا کو بذریعہ تار اس کے منصب سے برطرف کر دیا.اسی روز میحون کی انتظامی کیبنیٹ نے اور اگلے روز یعنی یکم اپریل ۱۹۰۶ء کو اس کے ہزاروں مریدوں نے اپنے مشترکہ جلسے میں متفقہ طور پر ڈاکٹر ڈوئی کو غرور، تعلّی ، فضول خرچی، عیاشی اور لوگوں کی رقموں پر پر تعیش زندگی بسر کرنے کا مجرم قرار دیا.صیحون کی انتظامی کینیٹ نے ڈاکٹر ڈوئی کو ایک جوابی تار دے کر اس کی
۲۳۴ فضول خرچیوں، منافقت، جھوٹ، غلط بیانیوں ، مبالغہ آمیزیوں، لوگوں کی رقموں کے ناجائز استعمال، ظلم اور بے انصافیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اسے میحون کی قیادت ، ممبری اور تمام عہدوں سے برطرف کر دیا اور اسے خبر دار کر دیا کہ اگر اس نے نئے انتظام میں کوئی مداخلت کی تو اس کے تمام اندرونی رازوں کا پردہ چاک کر دیا جائے گا.اے اس صورت حال کو رسالہ آؤٹ لگ ( outlook) نے اپنی ۴ ار ا پریل ۱۹۰۶ء کی اشاعت میں مختصر ایوں بیان کیا کہ ( ترجمہ ) وو جان الیگزینڈرڈوئی کے شہر میں جو مشکلات کی آگ کئی ماہ سے سُلگ رہی تھی وہ آخر پچھلے ہفتے شعلوں میں تبدیل ہوگئی...موجودہ مشکلات کی اصل جڑ اگر چہ ان کی مالی مشکلات تھیں مگر اس پر مستزاد ڈوئی کی جسمانی معذوری ہے جس نے اس کے مریدوں کے ایمانوں کو متزلزل کر دیا ہے.وہ اپنے بیوی بچوں سے تو پہلے ہی الگ ہو چکا ہے اور طلاق کی کاروائی بھی عنقریب شروع ہونے والی ہے مگر میحون کے لوگوں کی ہمدردی ڈوئی کے ساتھ نہیں بلکہ اس کی بیوی کے ساتھ ہے اور اس کے نائبین نے جن کو اس نے جملہ اختیارات تفویض کئے تھے ان اختیارات کو نئے نمائندگان کے نام منتقل کر کے ڈوئی کو متنبہ کر دیا ہے کہ اس کو تمام عہدوں سے برخاست کر دیا گیا ہے.“ سے رالوکس پارلان - جان الیگزینڈر ڈوئی اینڈ دی کرسچن کیتھولک اپاسٹلک چرچ ان زائن صفحه ۲۴۰ ۲: خلیل احمد ناصر ۱۹۵۴ء- عبرتناک انجام صفحات ۸۵-۸۶
۲۳۵ VII- صیحون کی تباہی: اپنی برطرفی کی اطلاع پاکر ڈاکٹر ڈوئی غیظ وغضب سے بھرا ہوا صحون پہنچا.پوری کوشش سے عدالتی کاروائی کی.لیکن صیحون کے اقتدار پر قبضہ سے محروم رہا.عدالتی جدوجہد میں ناکامی کے بعد اسے عام عوامی انتخاب میں بھی شکست ہوئی.شکاگو کے ایک رسالہ لنڈ زے نے ان دنوں میحون کی حالت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا که (ترجمه) اب پردہ گرنے ہی والا ہے.لیڈنگ سٹار سٹیج سے جا چکا ہے.سٹیج مینجر نے ( کھیل بند کر دینے کے لئے گھنٹی پر اپنی انگلی رکھ دی ہے.اب صرف چند الفاظ ہی بولے جانے باقی ہیں جو حاضرین خود ہی بول سکتے ہیں اس کے بعد ڈراپ سین ہو جائے گا اور ہم شہر صیحون کے سانحہ کو آخری بار دیکھ رہے ہوں گے.یہ شہر مایوس کن طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے اور موجودہ قرضہ قریباً چھ ملین ڈالر ہے.گویا کہ یہ شہر ریت کی دیواروں پر قائم تھا.صحون کا خواب جو کہ ڈوئی نے دیکھا تھا وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے ختم ہو چکا ہے...ڈوئی بیمار، مبتلائے ہذیان اب اپنے گھر شیلو ہاؤس میں معذور بیٹھا ہوا ہے...اس کی آنکھیں دھنس چکی ہیں اور اس کی آواز مایوسی کے ساتھ کپکپاتی ہے.“ قارئین گزشتہ صفحات پر پڑھ چکے ہیں کہ یہی صیحون جب ۱۹۰۳ء میں ایک : خلیل احمد ناصر ۱۹۵۴ء-عبرتناک انجام صفحه ۸۸
اعلیٰ ترین تصوراتی شہر تھا اور ڈاکٹر ڈوئی نے اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق انتہائی بہتک آمیز الفاظ کہے تھے تو مرزا غلام احمد قادیانی نے ۲۳ اگست ۱۹۰۳ء کو بذریعہ اشتہار اپنی یہ پیشگوئی ساری دنیا میں اور خاص طور پر امریکہ میں نشر کی تھی کہ یقین سمجھو کہ میچون پر جلد تر ایک آفت آنے والی ہے.“ لے اور وه آفت ۳ سال کے اندراندر میحون کو کھا گئی.VIII- ڈاکٹر ڈوئی کی عبرتناک موت: مرزا غلام احمد قادیانی نے ۲۳ / اگست ۱۹۰۳ء کی جس پیشگوئی میں شہر میون پر ایک آفت آنے کی خبر دی تھی اس میں یہ بھی خبر دی تھی کہ ڈاکٹر ڈوئی میرے دیکھتے دیکھتے بڑی حسرت اور دُکھ کے ساتھ اس دنیا سے کوچ کر جائے گا.حسرت اور دُکھ کی اتھاہ گہرائیوں میں تو وہ صیحون کے چھن جانے سے گر ہی چکا تھا مگرا بھی پیشگوئی کا پورا ہونا یعنی ڈاکٹر ڈوئی کی ہلاکت باقی تھی.اب بیمار، معذور اور فالج زدہ ڈوئی کا زیادہ تر وقت بستر پر ہی گزرتا تھا.اس کا زرد چہرہ شکست کی مکمل تصویر بن چکا تھا.اس کی بیوی اور بیٹے نے اس حالت میں بھی اس کی خبر گیری کرنا پسند نہ کیا.وہ دن بدن کمزور ہوتا جار ہا تھا.لیکن کسی کو اس سے ہمدردی نہ تھی.وہ تنخواہ دار سیاہ فام ملازم اس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بٹھاتے اور آخر اسی قابلِ رحم حالت میں ڈاکٹر جان الیگزینڈر ڈوئی ۹ / مارچ ۱۹۰۷ء کو اس جہاں سے رخصت ہوا.ہندوستان کے اخبارات میں اس کی موت کی خبر ۱۳ مارچ ۱۹۰۷ ء کو شائع ہوئی.شکا گوٹریبیون نے اس کی موت پر مرزا غلام احمد - اشتہار ۲۳ را گست ۱۹۰۳ء
۲۳۷ دوسرے دن تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ (ترجمہ) ڈوئی کل صبح سے بچ کر ۴۰ منٹ پر شیلو ہاؤس (صحون میں ڈوئی کی رہائش گاہ کا نام.ناقل ) میں مرگیا....ڈوٹی کے مرنے کے چند گھنٹے بعد ہی اس کی آراسہ پیراستہ اقامت گاہ اور اس کے سارے سامان پر سرکاری ریسیور مسٹر جان ہارٹلے نے صیحون کے قرض خواہوں کے نام پر قبضہ کرلیا.یہ خود ساختہ پیغمبر بغیر کسی اعزاز کے اور باکل کسمپرسی میں مر گیا.اس وقت اس کے پاس نصف درجن سے بھی کم و فادر پیر و موجود تھے...اس کے بستر موت پر کوئی قریبی عزیز نہ آیا.اس کی بیوی اور لڑکا جھیل مشی گن کے دوسری طرف والے مکان میں مکد وہی میں اس عرصہ میں مقیم رہے وہ جس نے دوسروں کو شفا دینے کا پیشہ اختیار کیا وہ خود کو شفا نہ دے سکا...اس کا شفا دینے کا ایمان اس کے فالج، ڈراپسی اور دوسری پیچیدہ امراض کے سامنے بالکل بے طاقت ثابت ہوا.ولبرگلین والوا (اس کا آسٹریلین نائب.ناقل ) اس شخص کے گھر تک نہ گیا - والواڈوئی کے جنازے کی عبادت میں بھی شامل نہ ہوا.! IX مرزا غلام احمد قادیانی کی روحانی فتح مرزا غلام احمد قادیانی نے ۲۳ اگست ۱۹۰۳ء کو جو صحون پر آفت آنے اور ڈاکٹر ڈوئی کے حسرتناک انجام کی پیشگوئی کی تھی اُس کا ایک ایک لفظ پوری شان سے پورا لے : شکا گوٹریبیون ۱۰ مارچ ۱۹۰۷ء ( خلیل احمد ناصر عبرتناک انجام ۱۹۵۴ صفحات ۱۰۶ - ۱۰۷)
۲۳۸ ہوا جس کی متعدد امریکی اخبارات نے بڑی فراخ دلی سے تسلیم کیا.ان میں سے نمونناً کچھ تبصرے درج ذیل ہیں.(الف) اخبار ٹروتھ سیکر (Truth Seeker) نے اپنے ۱۵ جون ۱۹۰۷ء کے اداریے کا عنوان ”مرسلین کی جنگ“ رکھا اور لکھا کہ (ترجمہ) ڈوئی محمد کو مفتریوں کا بادشاہ سمجھتا تھا.اس نے نہ صرف یہ پیشگوئی کی کہ اسلام میحون کے ذریعے تباہ کر دیا جائے گا بلکہ وہ ہر روز یہ دُعا بھی کرتا تھا کہ ہلال (اسلامی نشان ) جلد نابود ہو جائے.جب اس کی خبر ہندوستانی مسیح ( مرزا غلام احمد - ناقل ) کو پہنچی تو اس نے اس ایلیا ثانی کو للکارا کہ وہ مقابلہ کو نکلے اور دُعا کریں کہ جو ہم میں سے جھوٹا ہے وہ سچے کی زندگی میں مرجائے.قادیانی صاحب نے پیشگوئی کی کہ اگر ڈوئی نے اس چیلنج کو قبول کر لیا تو وہ میری آنکھوں کے سامنے بڑے دُکھ اور ذلت کے ساتھ اس دنیا سے کوچ کر جائے گا اور اگر اس نے چیلنج کو قبول نہ کیا تو تب اس کا انجام کچھ تو قف اختیار کر جائے گا موت اس کو پھر بھی جلد پالے گی اور اس کے صحون پر بھی تباہی آئے گی.یہ ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی کہ میحون تباہ ہو جائے گا اور ڈوئی ،احمد کی زندگی میں مرجائے گا مسیح موعود کے لئے یہ ایک خطرے کا قدم تھا کہ وہ لمبی زندگی کے امتحان میں اس ایلیاہ ثانی کو بلائیں کیونکہ چیلنج کرنے والا ہر دو میں سے کم و بیش پندرہ سال زیادہ عمر رسیدہ تھا اور ایک ایسے ملک میں جو پلیگ اور مذہبی دیوانوں کا گھر ہو، حالات اس کے مخالف تھے مگر آخر کار وہ
جیت گیا.۲۳۹ (ب) بوسٹن ہیرلڈ نے اپنی ۲۳ / جون ۱۹۰۷ ء کی اشاعت کا ایک پورا صفحہ مرزا غلام احمد قادیانی کی ڈاکٹر ڈوئی کی ہلاکت اور صیحون کی تباہی کی پیشگوئی کی تفاصیل شائع کرنے کے لئے وقف کر دیا.مرزا صاحب کی ایک بڑی تصویر دی اور ساتھ ہی مندرجہ ذیل دو عنوانات جلی حروف میں دئے.A."Great is Mirza Ghulam Ahmed, the Messiah" (ترجمہ: مرزا غلام احمد المسیح عظیم ہے) B."Foretold pathetic end of Dowie, and now he predicts plague, flood and earthquake".(ترجمہ: پہلے ڈوئی کے حسرت ناک انجام کی پیشگوئی کی اب طاعون ، سیلاب اور زلزلے کی پیشگوئی کرتے ہیں ) ۲۳ را گست ۱۹۰۳ء کو مرزا غلام احمد صاحب آف قادیان انڈیا نے الیگزینڈر ڈوئی موسوم بہ ایلیا سوئم کی موت کی پیشگوئی کی جو کہ اس مارچ میں پوری ہوگئی.یہ ہندوستانی صاحب مشرقی دنیا کے مرغزاروں میں کئی برس سے مشہور ہیں.آپ کا دعوی ہے کہ آپ ہی وہ مسیح صادق ہیں جو آخری زمانے میں آنے والا تھا اور یہ کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو اپنی تائید سے نوازا تھا.امریکہ میں آپ کا تعارف ۱۹۰۳ء میں ہوا جب کہ ل : اخبار ٹروتھ سیکر ۱۵ جون ۱۹۰۷ء
۲۴۰ آپ نے ڈوئی کے ساتھ مقابلہ کیا.اب ڈوئی کی موت کے بعد آپ کی شہرت بہت بڑھ گئی ہے کیونکہ آپ نے نہ صرف ڈوئی کی موت کی پیشگوئی کی بلکہ یہ بھی بتایا تھا کہ وہ آپ کی زندگی میں مرے گا اور بڑی حسرت اور در داور دُکھ کے ساتھ مرے گا...اس وقت ڈوئی ۵۹ سال کا تھا اور یہ نبی ۷۵ سال کا 1 اس تبصرے کے بعد اخبار مذکورہ بالا نے مرزا صاحب کی ۲۳ اگست ۱۹۰۳ء کی پیشگوئی والے اشتہار کا اکثر حصہ شائع کیا اور لکھا کہ پہلے تو ڈوئی نے اس مشرق کی طرف سے آنے والے چیلنج پر کوئی توجہ نہ دی پھر ایک دو دفعہ استہزاء کے طور پر اس کا تذکرہ کیا اور مرزا غلام احمد صاحب کو بیوقوف محمد مسیح کہہ کر پکارا اس پر مرزا صاحب نے چیلنج دیا کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہو وہ دوسرے کی زندگی میں تباہ ہو جائے پھر اخبار لکھتا ہے کہ (ترجمہ) ڈوئی ایسی حالت میں مر گیا کہ اُس کے دوست اس کو چھوڑ چکے تھے اور اس کی جائداد تباہ ہو چکی تھی.اس کو فالج اور دیوانگی کا حملہ ہوا اور وہ ایسی حالت میں ایک درد ناک موت مرا کہ اس کا صحون اندرونی تفرقات سے پارہ پارہ ہو چکا تھا.“ ہے ل ، ۲ : خلیل احمد ناصر ۱۹۵۴ء-عبرتناک انجام صفحات ۹۸ تا ۱۰۲
۲۴۱ باب ہشتم مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے چازاد بھائیوں کی طرف سے مخالفت اور اُن کا انجام مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے والد بزرگوار مرزا غلام مرتضی صاحب کے چار اور بھائی بھی تھے جن کے نام مرزا غلام مصطفیٰ صاحب ، مرزا غلام محمد صاحب، مرزا غلام محی الدین صاحب اور مرزا غلام حیدر صاحب تھے.مرزا غلام مرتضی صاحب کے متعلق چند باتیں باب اوّل میں درج کی گئی ہیں.آپ حاذق طبیب، شاہانہ مزاج کے مالک، عالی ہمت اور جلالی شان رکھنے کے ساتھ ساتھ بہت بامروت اور اعلیٰ اخلاق کے انسان تھے.شعر و شاعری میں بھی دسترس رکھتے تھے اگر چہ مکمل طور پر دنیا دارانہ مزاج رکھتے تھے لیکن خدا تعالیٰ کی ذات اور فرمودات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک خاص صالحا نہ لگاؤ بھی رکھتے تھے.اُن کی اپنی ایک وسیع خاندانی لائبریری تھی.جس میں قیمتی کتب کا ایک نایاب ذخیرہ تھا.یہ سب امور اس خاندان کے اسلام اور علم کے ساتھ تعلق کے آئینہ دار تھے.مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے ایک بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب تھے جو ۱۸۸۳ء میں پچپن سال کی عمر میں فوت ہو گئے.وہ بھی اگر چہ پوری طرح دنیا وی رنگ میں رنگے ہوئے تھے لیکن ساتھ ہی وہ بہادری
۲۴۲ اور غربا پروری کی اعلیٰ صفات کے مالک تھے.اس کے برعکس مرزا غلام محی الدین صاحب جو مرزا غلام احمد صاحب کے چاتھے اُن کے تین بیٹے مرزا امام الدین صاحب ، مرزا نظام الدین صاحب اور مرزا کمال الدین صاحب جو رشتہ کے لحاظ سے آپ کے چا زاد بھائی تھے.وہ اپنے تایا مرزا غلام مرتضی صاحب اور ان کے بیٹوں مرزا غلام قادر صاحب اور مرزا غلام احمد صاحب کے شدید خاندانی دشمن تھے.مرزا امام الدین صاحب اور مرزا نظام الدین صاحب دنیاوی لالچ اور طمع میں اس حد تک ڈوبے ہوئے تھے کہ خدا، رسول اور انسانیت سب کو فراموش کر چکے تھے.1- چچازاد بھائیوں کی اسلام دشمنی: مرزا امام الدین صاحب اپنے ملحدانہ اور بے دینی کے خیالات اور اعمال میں اس قدر پیش پیش تھے کہ وہ نہ صرف مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے دعاوی اور الہامات کا مذاق اُڑتے تھے بلکہ اسلام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کے خلاف بے ادبی کے کلمات اُن کا عام معمول تھا.اسلام کی مقدس تعلیمات کے خلاف گفتگو میں وہ خاص لذت محسوس کرتے تھے.مرزا امام الدین صاحب کی اپنی اخلاقی حالت ی تھی کہ قادیان میں ان کی مجلس میں بھنگ اور چرس پینے والے جمع ہوتے اور نشے میں مست شریعت اسلام پر لغو اعتراضات کرتے.خدا کا کوئی پاک رسول مرزا امام الدین صاحب کی تضحیک سے محفوظ نہ تھا.اے ایک جگہ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ل : دوست محمد شاہد ۱۹۵۹ء- تاریخ احمدیت.جلد دوم صفحہ ۷۳
۲۴۳ ایک پیغمبر دوسرے پیغمبر کو جھٹلاتا اور منسوخ کرتا ہے.اگر عینی صاحب کو سچا مائیں تو محمد صاحب کی غلطی معلوم ہوتی ہے اور اگر محمد صاحب کو راستی پر سمجھیں تو عیسی صاحب کا اعتبار جاتا ہے.چچازاد بھائیوں کو مرزا غلام احمد صاحب سے عداوت : مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے دونوں چچا زاد بھائی مرزا امام الدین اور مرزا نظام الدین صاحب آپ کے پرانے دشمن تھے اس لئے اگر کوئی موقع اپنی دشمنی نکالنے کا میسر آتا تھا تو اسے خالی نہیں جانے دیتے تھے.مارچ ۱۸۸۵ء میں جب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے اپنے مجدد ہونے کا دعوی کیا تو مرزا امام الدین صاحب نے آپ کے خلاف قانونی ہند پر لیں اور چشمہ نور امرتسر سے نہایت گندے اشتہارات شائع کئے اور جب مرزا غلام احمد صاحب اور پنڈت لیکھرام پشاوری کے درمیان بحث مباحثہ ابتدائی مراحل میں تھا تو مرزا امام الدین صاحب اُسے جا کر خود قادیان لائے.اُس کی ہر طرح سے مدد کی تا کہ اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیچا دکھایا جا سکے یہاں تک کہ مرزا امام الدین صاحب اپنے کچھ ہم مشرب ساتھیوں کے ساتھ خود بھی قادیان کے آریہ سماج میں شامل ہو گئے.مرزا امام الدین صاحب کی حمایت کی وجہ سے پنڈت لیکھر ام ۱۹ نومبر ۱۸۸۵ء سے لے کر قریباً ۲ ماہ تک قادیان میں رہا اور اسلام اور مرزا غلام احمد صاحب پر اہانت آمیز حملے کرتا رہا مرزا غلام احمد صاحب کا : مرزا امام الدین-گل شگفت.مطبوعہ چشمہ نور صفحه ۱۷
۲۴۴ خیال ہے کہ پنڈت لیکھرام ابتدا میں اس قدر زبان دراز نہ تھا مگر قادیان کے بعض شریر الطبع لوگوں نے اسے اس قدر خراب کر دیا کہ وہ بالآ خر مورد عذاب الہی ہوا.اے 111- چچازاد بھائیوں کے مستقبل کے متعلق مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی پیشگوئی: انہی حالات میں مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کو ہوشیار پور ( بھارت) سے اپنا طویل الہام شائع کیا جو پسر موعود سے متعلق تھا.اس الہام میں کچھ حصہ آپ کے چچا زاد بھائیوں کے متعلق بھی تھا.متعلقہ الفاظ یہ تھے کہ اور ہر ایک شاخ تیرے جدی بھائیوں کی کائی جائے گی اور جلد لا ولد رہ کر ختم ہو جائے گی اگر وہ تو بہ نہ کریں گے تو خدا اُن پر بلا پر بلا نازل کرے گا یہاں تک کہ وہ نابود ہو جائیں گے.اُن کے گھر بیواؤں سے بھر جائیں گے اور اُن کی دیواروں پر غضب نازل ہوگا لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدا رحم کے ساتھ رجوع کرے گا.“ ہے پسر موعود کی پیشگوئی کے حصوں کے جواب میں پنڈت لیکھرام نے بھی اپنے کچھ الہامات شائع کئے تھے اُن کا تذکرہ اور تجزیہ کسی قدر تفصیل کے ساتھ باب پنجم میں آچکا ہے جہاں تک پیشگوئی کے اُن الفاظ کا تعلق ہے جو آپ کے چچا زاد بھائیوں سے متعلق ہیں مئی ۱۸۸۸ء میں مرزا امام الدین ، مرزا نظام الدین اور اُن کے کچھ : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۸ ء- حقیقۃ الوحی - صفحہ ۲۸۸ : مرزا غلام احمد قادیانی اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء ( مجموعہ اشتہارات.جلد اوّل صفحات ۱۰۰ تا ۱۰۳)
۲۴۵ ساتھیوں مرزا احمد بیگ وغیرہ نے مرزا غلام احمد اور ساتھ ہی اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پوری شدت سے شروع کر دی اور اپنے مراسلات و اشتہارات میں مرزا غلام احمد قادیانی کو نہ صرف مکار اور فریبی قرار دیا بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ ہم کسی کلام کرنے والے یا قضا و قدر کے مالک اور وحی کرنے والے خدا کو نہیں جانتے یہ محض ڈھونگ اور مکر وفریب ہے جو شروع سے چلا آ رہا ہے اور قرآن محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی تصنیف ہے خدا کا الہام نہیں ہوسکتا.ظاہر ہے مرزا امام الدین صاحب، مرزا نظام الدین صاحب اور مرزا احمد بیگ وغیرہ کی اس قسم کی حرکتوں سے آریوں اور عیسائیوں سے زیادہ اور کون خوش ہو سکتا تھا.لے اس کے بعد وہ روح فرسا واقعہ پیش آیا جس پر مرزا غلام احمد صاحب نے اپنے چچا زاد بھائیوں کی ذلت اور رسوائی کے لئے خدا سے عاجزانہ دعا کی.اُس کی تفصیل مرزا غلام احمد صاحب کی تصنیف آئینہ کمالات اسلام کے حوالے سے تاریخ احمدیت میں یوں درج ہے کہ یہ بد زبانیاں زوروں پر تھیں کہ ایک شخص حضور ( مرزا غلام احمد -ناقل ) کی خدمت میں روتا چلاتا آیا.حضرت اقدس نے گھبرا کر پوچھا: کیا کسی فوت شدہ کی خبر آئی ہے.اُس نے کہا: اس سے بھی بڑھ کر.چنانچہ اس نے بتایا کہ میں ان عدووان دین (مرزا امام الدین، مرزا نظام الدین و مرزا احمد بیگ وغیرہ.ناقل ) کے پاس تھا کہ ان میں سے ایک بد بخت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مبارک لی : دوست محمد شاہد ۱۹۵۹ء تاریخ احمدیت.جلد دوم صفحات ۱۳۹ - ۱۴۰
۲۴۶ میں وہ گندے الفاظ استعمال کئے کہ ایسے کلمات کسی کافر سے بھی نہیں سنے گئے.یہی نہیں انہوں نے خدا تعالیٰ کی شان اقدس میں بھی فتیح الفاظ کہے اور قرآن مجید کو نہایت بے دردی سے اپنے پاؤں تلے روند کر بے حرمتی کی.حضرت اقدس ( مرزا غلام احمد صاحب - ناقل) نے اُسے فرمایا کہ میں نے پہلے بھی اُن کے پاس بیٹھنے سے منع کیا تھا پس خدا سے ڈرو اور توبہ کرو مرزا امام الدین اور اُن کے ساتھیوں کی طرف سے اسلام دشمنی کے اظہار کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا اس سے قبل جب انہوں نے چشمہ نور پر لیس امرتسر سے مرزا غلام احمد صاحب کے خلاف اسلام پر اعتراضات سے پُر اشتہار شائع کیا تھا تو اس کے ساتھ ہی انہوں نے بے حد زہر یلا خط بھی شائع کیا تھا اس میں نہ صرف مرزا غلام احمد صاحب سے خدا کے وجود کے بارے میں بہت بے باکی سے ثبوت مانگے تھے بلکہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کے خلاف اس قدر گالیاں درج تھیں کہ ہندوستان کے غیر مسلموں خصوصاً عیسائیوں نے اس کی خوب تشہیر کی تھی.اُن کے ۱۸۸۵ء کے اشتہار کا مضمون بھی اتنا گندہ تھا کہ بقول مرزا غلام احمد صاحب ممکن تھا که آسمان پھٹ جاتا.ان اشتہارات کو اسلام کا کوئی ادنی ہمدرد بھی پڑھتا تو قطعاً برداشت نہ کر سکتا.ل : دوست محمد شاہد ۱۹۵۹ء- تاریخ احمدیت.جلد دوم صفحہ ۱۴۰
۲۴۷ -۱۷ چچازاد بھائیوں کے خلاف مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی خدا سے دُعا: ان نا قابلِ برداشت حالات میں مرزا غلام احمد صاحب نے کمرہ بند کر کے سجدہ میں گر کر خدا کے حضور التجا کرتے ہوئے کہا کہ ”اے میرے رب ! اپنے بندہ کی نصرت فرما اور اپنے دشمنوں کو ذلیل اور رسوا کر.اے میرے رب! میری دُعائن اور اسے قبول فرما.کب تک تجھ سے اور تیرے رسول سے تمسخر کیا جائے گا اور کس وقت تک یہ لوگ تیری کتاب کو جھٹلاتے اور تیرے نبی کے حق میں بد کلامی کرتے رہیں گے.اے ازلی ابدی ، اے مددگار خدا! میں تیری رحمت کا واسطہ دے کر تیرے حضور فریاد کرتا ہوں.اس گریہ وزاری کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مرزا غلام احمد صاحب کو یہ الہام ہوا کہ (ترجمہ) میں نے اُن کی نافرمانی اور سرکشی کو دیکھا ہے.میں اُن پر طرح طرح کی آفات ڈال کر انہیں آسمان کے نیچے سے نابود کر دوں گا اور تم جلد دیکھو گے کہ میں اُن کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہوں اور ہم ہر ایک بات پر قادر ہیں.میں ان کی عورتوں کو بیوہ، ان کے بچوں کو یتیم اور ان کے گھروں کو ویران کر دوں گا اور اس طرح سے وہ اپنی باتوں کا اور اپنی : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۳ ء - آئینہ کمالات اسلام طبع اوّل صفحات ۵۶۶-۵۷۰
۲۴۸ کاروائیوں کا مزہ چکھیں گے لیکن میں انہیں یکدم ہلاک نہیں کروں گا بلکہ تدریجاً پکڑوں گا تا کہ اُنہیں رجوع اور توبہ کا موقعہ ملے.میری لعنت اُن پر ، اُن کے گھروں پر ، اُن کے چھوٹوں اور بڑوں پر ، اُن کی عورتوں اور مردوں پر اور اُن کے اُس مہمان پر جو اُن کے گھر میں داخل ہوگا پڑے گی اور اُن تمام پر لعنت پڑے گی سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائیں اور اچھے عمل کریں اور اُن سے اپنے تعلقات منقطع کر لیں اور اُن کی مجالس سے دوری اختیار کر لیں پس وہی لوگ ہیں جن پر رحم کیا جائے گا.اے اس سے قبل مرزا غلام احمد صاحب کے سفر ہوشیار پور (۱۸۸۶ء) کے دوران الہام ہوا کہ (ترجمہ) میں نے اس عورت (مرزا احمد بیگ کی خوشدامن - ناقل ) کو ایسے حال میں دیکھا کہ اُس کے منہ پر گریہ و بکا کے آثار تھے.تب میں نے اسے کہا کہ اے عورت! تو بہ کر ، تو بہ کر کیونکہ بلا تیری نسل کے سر پر کھڑی ہے اور یہ مصیبت تجھ پر نازل ہونے والی ہے.وہ شخص (یعنی مرزا احمد بیگ ) مرے گا اور اس کی وجہ سے کئی سگ سیرت لوگ ( پیدا ہو کر پیچھے رہ جائیں گے.“ ہے ا تذکرہ مئی ۱۸۸۸ء- مجموعہ الہامات کشوف ورؤیا.مرزا غلام احمد قادیانی صفحات ۱۵۴- ۱۵۵ : تذکره جنوری ۱۹۸۶ء مجموعہ الہامات کشوف و رؤیا مرزا غلام احمد قادیانی - صفحه ۱۳۶ ( تبلیغ رسالت.مرزا غلام احمد صفحه ۹)
۲۴۹ مرزا غلام احمد صاحب نے ڈرانے والے پیغامات اپنے سرکش رشتہ داروں اور چچا زاد بھائیوں مرزا امام الدین وغیرہ تک پہنچا دیئے لیکن وہ اصلاح کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے مزید خود سر ہو گئے.تب خدا تعالیٰ نے بذریعہ الہام مرزا غلام احمد صاحب کو یه خبر دی که (ترجمه) ہم اُنہیں رُلانے والے نشانات دکھائیں گے اور اُن پر عجیب عجیب ہموم و امراض نازل کریں گے اور ان کی معیشت کو تنگ کر دیں -V گے اور ان پر مصائب پر مصائب ڈالیں گے اور کوئی انہیں بچانے والا نہیں ہوگا.- چچا زاد بھائیوں کا انجام : مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی ان پیشگوئیوں کے بعد کے حالات سے پتہ چلتا ہے کہ مرزا امام الدین اور مرزا نظام الدین وغیرہ کو خدا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی توہین کی سزاملنی جلد شروع ہو گئی.ان کے خاندانوں کی تباہی کے آثار نظر آنے لگے.مختلف غموں اور قرضوں نے اُن کی کمریں تو ڑ کر رکھ دیں.موت اور ہلاکت کے دروازے اُن پر کھل گئے اور وہ کئی قسم کے مصائب میں گھر گئے اور جیسا کہ اسی باب کے دوسرے حصے میں ذکر آئے گا وہ اس قابل بھی نہ رہے کہ اپنی جائداد کو قرقی سے رکوانے کے لئے ڈیڑھ سوروپے کے لگ بھگ رقم ادا کرسکیں.دوسری طرف ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کو جب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے اُن کو الہامی پیغام سنایا ل : تذکرہ مئی ۱۸۸۸ء مجموعہ الہامات کشوف ورڈ یا مرزا غلام احمد قادیانی - صفحه ۱۵۵
۲۵ کہ اُن کی یعنی جدی بھائیوں کی بر شاخ کائی جائے گی.اس وقت مرزا امام الدین اور مرزا نظام الدین وغیرہ کے خاندان میں کل ستر کے قریب چھوٹے بڑے مرد تھے لیکن اخبار الحکم قادیان نے ۱۹۴۳ء میں یہ خبر چھاپی کہ سوائے اُن کے جو مرزا غلام احمد قادیانی کی جسمانی یا روحانی اولاد ہیں.ان چچا زاد بھائیوں میں سے کسی کی بھی کوئی نسل موجود نہیں اور عین پیشگوئی کے مطابق جدی بھائیوں کی شاخ کاٹی گئی اور خدا تعالیٰ نے سوائے ان کے جنہوں نے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی بیعت کر لی باقی سب کو آسمان کے نیچے سے نابود کر دیا.واعتبرویا اولیٰ ابصار.VI - مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور آپ کے چا زاد بھائیوں کے درمیان قضیہ دیوار : اس باب کے گزشتہ صفحات سے یہ ظاہر ہوگا مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے چچا زاد بھائی اسلام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، قرآن اور آپ کی ذاتی مخالفت میں بہت آگے نکل چکے تھے اور مرزا صاحب کے اس کثرت سے آنے والے معزز مہمانوں کو اذیت پہنچانے میں بھی پیش پیش رہتے تھے.اگر مقامی آبادی میں.مرزا غلام احمد صاحب کے کسی مرید کا واسطہ آپ کے چچا زاد بھائیوں سے پڑتا تو اُس سے بھی بہت خراب سلوک کرتے.ایسا بھی ہوا کہ اُن وقتوں کے رواج کے مطابق اگر کوئی مرزا غلام احمد کا ساتھی کھیتوں میں رفع حاجت کے لئے جاتا تو آپ کے چچا زاد بھائی اُسے مجبور کرتے کہ وہ اپنا پا خانہ اپنے ہاتھ سے اُٹھائے.اے غرضیکہ انہوں نے لا: مرزا بشیر احمد - سیرۃ المہدی - طبع دوم صفحه ۱۴۳
۲۵۱ مرزا غلام احمد صاحب اور آپ کے مریدوں کی زندگی تلخ بنارکھی تھی مگر آپ کی سب کو تلقین تھی کہ صبر اور برداشت سے ہر مشکل کو نظر انداز کر دیا جائے اور جہاں تک ممکن ہو چا زاد بھائیوں کے ساتھ جھگڑا نہ ہونے پائے.ا چچا زاد بھائیوں کا مرزا غلام احمد صاحب کے گھر کے سامنے دیوار کھینچنا : چچا زاد بھائیوں کی اب تک کی اذیتوں پر صبر ،شکر سے وقت گذر رہا تھا لیکن ٫۵جنوری ۱۹۰۰ء کو مرزا امام الدین صاحب نے مرزا غلام احمد صاحب کے گھر کے سامنے ایسی جگہ دیوار کھینچوا دی کہ وہ راستہ بند ہو گیا جس سے احمدی نماز کے لئے مسجد میں جاتے تھے یا مرزا غلام احمد صاحب کے مہمان گزر کر آپ سے ملاقات کے لئے جاتے تھے.مرزا امام الدین صاحب کی اس کاروائی سے مرزا غلام احمد صاحب اور آپ کی جماعت کو سخت تکلیف پہنچی اور مرزا غلام احمد صاحب عملاً محصور ہو گئے اور آپ کے لئے بھی مسجد جانا خاصا تکلیف دہ امر ہو گیا.مرزا غلام احمد صاحب اپنی کتابوں کے پریس پروف احتیاط خود ہی پڑھتے تھے جس کی خاطر پر لیس کے کارکنوں کو دن میں کئی دفعہ آپ کے پاس آنا پڑتا تھا مگر اب دیوار کے باعث سارے کاموں میں بڑی رکاوٹ پیدا ہوگئی اور سب ملنے والوں اور مسجد میں نماز کے لئے آنے والوں کو ایک لمبا ، چکر دار ، ناہموار اور خراب راستہ اختیار کرنا پڑتا.یہ راستہ جماعت احمدیہ کے شدید مخالفین کے گھروں کے سامنے سے بھی گزرتا تھا جس سے کسی وقت نزاع کی صورت بھی پیدا ہوسکتی تھی.مرزا امام الدین صاحب کی تعمیر کروائی گئی دیوار سے ایک یہ دفت
۲۵۲ بھی ہوئی کہ مختلف ضروریات کے لئے مسجد تک جو پانی پہنچایا جاتا تھا اس میں بھی رکاوٹ پڑ گئی کیونکہ سقے کے لئے بے حد طویل فاصلہ طے کر کے مسجد تک پہنچنا ممکن نہ تھا اور نہ ہی خاص طور پر بوڑھے ضعیف نمازیوں کے لئے نماز فجر اور عشاء کے وقت اندھیرے میں مسجد پہنچنا ممکن رہا.مرزا غلام احمد صاحب نے ان ساری تکالیف کا احساس کر کے چند خدام کو مرزا امام الدین صاحب کے پاس بھجوایا کہ اسے نرمی سے سمجھائیں کہ راستہ بند نہ کریں اس سے میرے مہمانوں کو بہت تکلیف ہوگی اور یہ پیشکش بھی کی کہ میری کوئی اور جگہ دیکھ کر بے شک قبضہ کر لیں لیکن مرزا امام الدین صاحب یہ سنتے ہی آگ بگولا ہو گئے اور کہنے لگے کہ وہ (مرزا غلام احمد صاحب.ناقل ) خود کیوں نہیں آیا اور میں تم لوگوں کو کیا جانتا ہوں.پھر طنزاً کہا کہ جب سے وحی آنی شروع ہوئی ہے معلوم نہیں اسے کیا ہو گیا ہے.۲ - مرزا غلام احمد صاحب کا چچازاد بھائیوں کے خلاف مقدمہ: جب صورت حال کی بہتری کی کوئی امید نہ رہی تو مرزا غلام احمد صاحب نے اپنے دوستوں کے مشورے سے طے کیا کہ ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور کے پاس اپنی مشکلات بیان کر کے اُن کے ازالے کی کوشش ک جائے.چناچہ اتفاقاً انہی دنوں ڈپٹی کمشنر ضلع اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کا دورہ ہر چووال میں تھا جو قادیان کے قریب ایک گاؤں ہے.مرزا غلام احمد صاحب نے حصول انصاف کے لئے پچاس کے قریب معززین کا ایک وفد حافظ حاجی فضل دین صاحب بھیروی کی قیادت میں ہر چواوال : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۸ ء - حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۶۷
۲۵۳ ڈپٹی کمشنر کے پاس بھیجا.ڈپٹی کمشنر وفد کو دیکھتے ہی سخت طیش میں آ گیا اور بہت سی دھمکیاں دے کر وفد کو واپس جانے کو کہا.ضلع کے سب سے بڑے حاکم کے اس نارواسلوک کے بعد مرزا غلام احمد صاحب کے لئے ایک ہی صورت باقی تھی کہ دیوانی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا جائے.مرزا غلام احمد صاحب کی تمام زندگی کا یہ پہلا اور آخری مقدمہ تھا.جو آ نے بحیثیت مدعی کسی کے خلاف دائر کیا.وہ بھی طوعاً کرہا اس لئے آپ نے کیا کہ ڈپٹی کمشنر نے معاملے کو باہمی افہام و تفہیم سے طے کرانے کی طرف توجہ نہ دی اور آپ کو خود اس لئے یہ مقدمہ دائر کرنا پڑا کیونکہ متنازعہ راستہ مرزا غلام احمد صاحب کے خاندان کا پرائیویٹ راستہ تھا اس لئے کوئی اور اس مقدمہ کو دائر نہ کر سکتا تھا چنانچہ مرزا غلام احمد صاحب کی طرف سے مرزا امام الدین صاحب کے خلاف ضلع گورداسپور کے ڈسٹرکٹ حج منشی خدا بخش کی عدالت میں یہ مقدمہ درج کرا دیا گیا.جب مقدمہ دائر ہو چکا تو پیش آمدہ حالات کو مرزا غلام احمد صاحب اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ” جب نالش ہو چکی تو بعد میں معلوم ہوا کہ یہ مقدمہ نا قابل فتح ہے اور اس میں یہ مشکلات ہیں کہ جس زمین پر دیوار کھینچی گئی ہے اس کی نسبت کسی پہلے وقت کی مثل کی رو سے ثابت ہوتا ہے کہ مد عاعلیہ یعنی امام الدین قدیم سے اس کا قابض ہے.اب اس زمین پر امام الدین نے دیوار کھینچ دی ہے کہ یہ میری زمین ہے.غرض نالش کے بعد ایک پرانی مثل کے ملاحظہ سے یہ ایسا مقدۃ لا نخل ہمارے لئے پیش آ گیا تھا جس سے صریحاً معلوم ہوتا تھا کہ ہمارا دعوی خارج کیا جائے گا...اس
۲۵۴ سخت مشکل کو دیکھ کر ہمارے وکیل خواجہ کمال الدین نے ہمیں یہ بھی صلاح دی تھی کہ بہتر ہو گا کہ اس مقدمہ میں صلح کی جائے یعنی امام الدین کو بطور خود کچھ روپیہ دے کر راضی کر لیا جائے.لہذا میں نے مجبوراً اس تجویز کو پسند کر لیا تھا مگر وہ ایسا انسان نہیں تھا جو راضی ہوتا.اس کو مجھ سے بلکہ دینِ اسلام سے ایک ذاتی بغض تھا اور اس کو پتہ لگ گیا تھا کہ مقدمہ چلانے کا ان پر ( یعنی مرزا غلام احمد پر.ناقل ) قطع دروازہ بند ہے.لہذا وہ اپنی شوخی میں اور بھی بڑھ گیا.آخر ہم نے اس بات کو خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیا مگر جہاں تک ہم نے اور ہمارے وکیل نے سوچا کوئی بھی صورت کامیابی کی نہیں تھی کیونکہ پرانی مثل سے امام الدین کا ہی قبضہ ثابت ہوتا تھا جس میں آکر ہماری جماعت کے یکے ٹھہرتے تھے.وہاں پر وقت مزاحمت کرتا اور گالیاں نکالتا تھا اور صرف اسی قدر بلکہ اُس نے یہ بھی ارادہ کیا تھا کہ ہمارا مقدمہ خارج ہونے کے بعد ایک لمبی دیوار ہمارے گھر کے دروازوں کے آگے کھینچ دے تاہم قیدیوں کی طرح محاصرہ میں آجائیں اور گھر سے باہر نہ نکل سکیں.“ مرزا غلام احمد صاحب کی مقدمہ دیوار کے بارے میں پیشگوئی: ان تشویشناک دنوں میں مرزا غلام احمد صاحب نے مالک حقیقی سے مدد مانگی جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مبشر الہام ہوا.اس الہام کے متعلق مرزا : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۸ ء - حقیقۃ الوحی طبع اول صفحات ۲۶۶-۲۶۷
۲۵۵ صاحب لکھتے ہیں کہ وو مجھے یاد ہے کہ اس وقت سید فضل شاہ صاحب لاہور برادر سید ناصر شاہ صاحب اوور سیر متعین بارہ مولا کشمیر میرے پاؤں دبا رہا تھا اور دو پہر کا وقت تھا کہ یہ سلسلہ الہام دیوار کے مقدمہ کی نسبت شروع ہوا.میں نے سید صاحب کو کہا کہ یہ دیوار کے مقدمہ کی نسبت الہام ہے.آپ جیسا جیسا یہ الہام ہوتا جائے لکھتے جائیں.چنانچہ انہوں نے قلم ، دوات اور کاغذ لے لیا.پس ایسا ہوا کہ ہر ایک دفعہ غنودگی کی حالت طاری ہو کر ایک ایک فقرہ وحی الہی کا جیسا کہ سُنت اللہ ہے زبان پر نازل ہوتا تھا اور جب ایک فقرہ ختم ہو جاتا تھا اور لکھا جاتا تھا تو پھر غنودگی آتی تھی اور دوسرا فقرہ وحی الہی کا زبان پر جاری ہوتا تھا.اور یتیم ہوئی کہ انجام کار اس مقدمہ میں فتح ہوگی....اور سب کو کہہ دیا کہ اگر چہ مقدمہ اب خطر ناک اور صورت نومیدی کی ہے مگر آخر خدا تعالیٰ کچھ ایسے اسباب پیدا کرے گا جس میں ہماری فتح ہوگی.‘1 اگر چہ مقدمہ کا فیصلہ تقریباً ڈیڑھ سال بعد ہوا لیکن مرزا غلام احمد صاحب نے ۲۴ جنوری ۱۹۰۰ء کو ہی اپنے احباب کو اپنی فتح کی الہامی خبر سُنادی.اصل الہام عربی میں تھا اُس کے ضروری حصوں کا اردو تر جمہ درج ذیل ہے.چکی پھرے گی اور قضا و قدر نازل ہوگی.یہ خدا کا فضل ہے جس کا : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۸ ء - حقیقۃ الوحی طبع اوّل صفحات ۲۶۶-۲۶۷ (اخبار الحکم قادیان.جلد ( نمبر۳)۲۴ /جنوری ۱۹۰۰ء
۲۵۶ وعدہ دیا گیا ہے اور کسی کی مجال نہیں جو اس کو رڈ کر سکے کہ مجھے میرے خدا کی قسم ہے کہ یہی بات سچ ہے.اس امر میں نہ کچھ فرق آئے گا اور نہ یہ امر پوشیدہ رہے گا اور ایک بات پیدا ہو جائے گی جو تجھے تعجب میں ڈالے گی یہ اس خدا کی وحی ہے جو بلند آسمانوں کا خدا ہے.میرا رب اُس صراط مستقیم کو نہیں چھوڑتا جو اپنے برگزیدہ بندوں سے عادت رکھتا ہے اور وہ اپنے ان بندوں کو بھولتا نہیں جو مدد کرنے کے لائق ہیں.سو تمہیں اس مقدمہ میں کھلی کھلی فتح ہو گی مگر اس فیصلے میں اس وقت تک تاخیر ہے جو خدا نے مقرر کر رکھا ہے ۴.مقدمے کی روداد اور انجام : اگر چہ الہام بالکل واضح تھا لیکن بظاہر اس کے تقاضوں کے پورا ہونے کی کوئی توقع نہ تھی.دوسری طرف مرزا امام الدین صاحب کو ہر ایک پہلو سے یہ خبریں مل گئی تھیں کہ قانون کی رو سے اس مقدمہ مرزا غلام احمد صاحب کی کامیابی کی کوئی سبیل نہیں بلکہ مرزا امام الدین صاحب دعوے سے کہتے تھے کہ مقدمہ عنقریب خارج ہو جائے گا بلکہ یہی سمجھو کہ خارج ہو گیا.اسی نا اُمیدی اور سراسر مخالف حالات میں مقدمے کی کاروائی کم و بیش ڈیڑھ سال تک چلتی رہی یہاں تک چچا زاد بھائیوں کو عدالت میں درخواست پر مرزا غلام احمد صاحب کو ۱۵ار جولائی ۱۹۰۱ء کو بہت سے دلی محبوں کے ہمراہ گورداسپور جانا پڑا جہاں آپ نے ۱۶ جولائی ۱۹۰۱ء کو ڈسٹرکٹ جج کے سامنے ذاتی ل : مرزا غلام احمد قادیانی - الہام اخبار الحکم ۲۴ جنوری ۱۹۰۰ء صفحه ۱۰
۲۵۷ شہادت دی.آپ نے مرزا امام الدین صاحب کی رقابت و عداوت کی وجوہ بیان کرنے کے بعد اُن کی تعمیر کردہ دیوار کے باعث آپ کے اور آپ کے احباب ، مہمانوں اور نمازیوں کے لئے پیدا ہونے والی دشواریاں بیان کیں.مقدمہ ۱۰ را گست ۱۹۰۱ ء تک ملتوی کر دیا گیا اور اس دن دونوں طرف کے گواہ ختم ہو گئے اور وکلاء نے بھی اپنی بحث ختم کر لی.۱۲ اگست ۱۹۰۱ ء فیصلے کا دن تھا.مرزا امام الدین صاحب اور ان کے ساتھی بہت خوش تھے کیونکہ قانونی کا غذات کا ریکارڈ گواہی دے رہا تھا کہ زمین کے قابض مرزا امام الدین صاحب تھے جبکہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے حق میں اب تک ساری گواہیاں زبانی اور کلامی تھیں اور دیوانی مقدمات میں دستاویزات کے مقابلے میں زبانی بیانات کچھ اہمیت نہیں رکھتے.پھر ڈسٹرکٹ جج میں مخالفانہ رجحان رکھتا تھا.اس دن اتفاق مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے وکیل خواجہ کمال الدین صاحب کو خیال آیا کہ پرانی مثل کا انڈیکس دیکھنا چاہئے جس میں ضروری احکام کا خلاصہ ہوتا ہے جب وہ دیکھا گیا تو اس میں وہ بات نکلی جس کے نکلنے کی توقع نہ تھی یعنی حاکم کا تصدیق شدہ یہ حکم نکلا کہ اس زمین پر قابض نہ صرف مرزا امام الدین ہے بلکہ مرزا غلام مرتضی صاحب یعنی مرزا غلام احمد صاحب کے والد صاحب بھی ہیں.تب مرزا غلام احمد صاحب کے وکیل نے سمجھ لیا کہ وحی کے الفاظ کے مطابق ”چکی پھرے گی....اور ایک بات پیدا ہو جائے گی جو مجھے تعجب میں ڈالے گی...سو تمہیں اس مقدمہ میں کھلی کھلی فتح ہوگی کے پورا ہونے کا وقت آن پہنچا ہے.ڈسٹرکٹ جج کے سامنے یہ
۲۵۸ حقیقت بیان کی گئی تو اس نے انڈیکس منگوا کر دیکھا اور بلا توقف مرزا امام الدین پر ڈگری مع خرچ کر دی.زمین کے کاغذات قریباً تمیں سال پرانے تھے اور اس دوران مرزا غلام احمد صاحب کے والد مرزا غلام مرتضی صاحب اور بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب دونوں فوت ہو چکے تھے اس لئے یہ حقیقت مرزا غلام احمد صاحب سے پوشیدہ تھی جو آخری دن اچا نک مثل کا انڈیکس دیکھنے سے ظاہر ہو گئی.-۵ مرزا غلام احمد قادیانی کا چچازاد بھائیوں سے حسن سلوک: مقدمہ دیوار میں مرزا غلام احمد قادیانی کی خبر ۱۲ اگست ۱۹۰۱ء کو شام ۴ بجے قادیان پہنچی تو وہی مزدور جو اس سے پہلے دیوار کی تعمیر کر رہا تھا اسی نے دیوار کو ڈھا دیا اگر چہ عدالتی فیصلے میں مقدمہ خرچ بھی مرزا امام الدین صاحب پر ڈالا گیا تھا لیکن مرزا غلام احمد صاحب کی مزید کسی کاروائی کی طرف توجہ نہ تھی.۱۹۰۴ء میں مرزا غلام احمد صاحب ایک اور سلسلہ میں گورداسپور میں مقیم تھے کہ آپ کے وکیل نے آپ کو اطلاع اور مشورے کے بغیر پرانے مقدے کے خرچے کی ڈگری کا عدالت میں اجراء کر وا دیا.سرکاری آدمی مرزا غلام احمد صاحب کی عدم موجودگی کے دوران قادیان آیا اور خرچے کی رقم ایک سو چوالیس روپے پانچ آنے اور سات پائی کا تقاضا کیا.اس دوران مرزا امام الدین صاحب تو فوت ہو چکے تھے ان کے بھائی مرزا نظام الدین صاحب زندہ تھے.مسلسل غموں اور مصائب کے باعث ان کی حالت اس قدرا بتر تھی کہ وہ مطلوبہ خرچے کی رقم بھی ادا کرنے کے قابل نہ تھے.مرزا غلام احمد صاحب نے چچا زاد بھائیوں کی خدا دشمنی ، رسول دشمنی اور قرآن دشمنی میں انتہا درجے کی بے باکی
۲۵۹ کے باعث ۱۸۸۸ء میں خدا کی طرف سے الہامی طور پر اطلاع دی تھی کہ ہم اُنہیں رُلانے والے نشانات دکھائیں گے...ان کی معیشت کو تنگ کر دیں گے.اور اُن پر مصائب پر مصائب ڈالیں گے...۱۹۰۴ء میں مرزا نظام الدین صاحب ان حالات کی عملی تصویر تھے اس لئے انہوں نے محسوس کیا کہ سوائے جائداد کی قرقی کے خرچے کی ادئیگی کی کوئی صورت نہیں.چنانچہ مرزا نظام الدین صاحب نے مرزا غلام احمد صاحب کو خط لکھ کر درخواست کی کہ انہیں یہ رقم معاف کر دی جائے.مرزا غلام احمد صاحب نے اسی وقت آدمی بھیج کر اطلاع کروائی کہ انہوں نے خرچ معاف کر دیا ہے اور ساتھ ہی معذرت بھی کی کہ مرزا نظام الدین صاحب کو یہ تکلیف ان کی لاعلمی میں پہنچی.ساتھ ہی خرچے کی ڈگری کے اجراء پر خفگی کا اظہار کیا اور ۲۱ راکتو بر۱۹۰۴ء کو تحریری طور پر عدالت کو مطلع کیا کہ میں مرزا نظام الدین صاحب کو مقدمہ دیوار کے خرچے کی رقم معاف کرتا ہوں.اگر چہ عام حالات میں دنیا بھر کی عدالتوں میں چھوٹے بڑے ایسے مقدمے چلتے رہتے ہیں اور قانونی موشگافیوں اور اتفاقی واقعات سے لوگ مقدمات جیتتے اور ہارتے رہتے ہیں لیکن جن مذموم مقاصد اور اسلام اور قرآن کی توہین کے مکروہ عزائم کے خلاف یہ مقدمہ شروع کیا گیا تھا اور جس میں سارے ظاہر عوامل مرزا امام الدین، مرزا نظام الدین وغیرہ کے حق میں تھے اور جس طرح سارے دنیاوی حربوں سے ل: تذکرہ مئی ۱۸۸۸ ء - مجموعہ الہامات کشوف ورؤیا.مرزا غلام احمد صفحہ ۱۵۵
۲۶۰ نا امید ہوکر مرزا غلام احمد صاحب نے خدا سے مدد مانگی اور جس طرح عین آخری دن حیرت انگیز طور پر خدا کی نصرت پہنچی اس نے اس مقد مہ کو سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنے والا ایک کھلا واقعہ بنادیا اور جس طرح آپ نے چا زاد بھائیوں کی حالت زار کا الہام میں نقشہ کھینچا تھا بالآخر ایسا ہوکر رہا.فاعتبرویا اولی ابصار
۲۶۱ باب نهم مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی مسلم علماء کی طرف سے مخالفتیں اور اُن کا انجام ہم اس کتاب کے تیسرے باب میں حضرت شیخ محی الدین ابن عربی حضرت شیخ احمد سرہندی مجد دالف ثانی اور نواب صدیق حسن خان کے اقوال درج کر آئے ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ جب امت اسلامیہ میں مہدی موعود نازل ہوں گے تو ان کی سب سے شدید مخالفت علمائے اُمت کی طرف سے ہی کی جائے گی.انہی خصلتوں کی وجہ سے حدیث نبوی میں ایسے علماء کو زمین پر بدترین مخلوق کہا گیا ہے.اگر چہ اس کتاب کا موضوع بحث یہ نہیں کہ ہم مرزا غلام احمد صاحب کی طرف سے پیش کئے جانے والے دعاوی اور علماء امت کی طرف سے اُن پر اعتراضات کا موازنہ کریں اور ان کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں اپنا نقطہ نظر پیش کریں لیکن یہ بات بالکل واقعات سے ثابت ہے کہ علماء کی طرف سے جس قدر مخالفت کا سامنا مرزا غلام احمد صاحب اور آپ کی جماعت کو کرنا پڑا اور پڑ رہا ہے وہ مخالفت بھی کسی اور کے حصے میں نہیں آئی.مرزا صاحب کی نسبت کا فر ملحد ، دجال ، کذاب ، زندیق وغیرہ کے خطابات سے ہزاروں صفحات سیاہ کئے جاچکے ہیں اور یہ سلسلہ تکفیر جاری ہے.
۲۶۲ مرزا غلام احمد صاحب کو وفات پائے ۸۰ سال سے زائد گزر چکے ہیں اور آپ کی مخالفت براہین احمدیہ حصہ اول ۱۸۸۰ء لکھنے کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی.ہم گزشتہ ایک صدی کے بے شمار چھوٹے بڑے واقعات کا احاطہ تو ایک کتاب یا باب میں نہیں کر سکتے لیکن ان معرکوں کا ضرور جائزہ پیش کر سکتے ہیں جو مرزا صاحب اور آپ کے شدید ترین مخالفین کے درمیان پیش آئے اور جو اپنے وقت پر دور دور تک مشہور ہوئے.چونکہ ان معرکوں کو ماضی کا حصہ بنے ہوئے پون صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے تاریخی لحاظ سے یہ بالکل ممکن ہے کہ فاتح اور مفتوح صحیح اور غلط ، بچے اور جھوٹے کے در میان مستند حوالوں کی مدد سے تمیز کی جاسکے.ایسے لوگ جن کے دل میں خوف خدا ہے جن میں بے جاضر اور اندھی مخالفت کا مادہ نہیں ان کے لئے یہ واقعات اور ان کے نتائج حق وصداقت کو پہچاننے میں مددگار ہوں گے.وما علینا الا البلاغ.جب مرزا غلام احمد صاحب نے ۱۸۸۰ء میں براہین احمدیہ تصنیف کی تو عام طور پر ہندوستان کے طول و عرض میں اس کا زبر دست خیر مقدم کیا گیا اور دشمنان اسلام خاص طور پر آریوں اور عیسائیوں کے مقابلے میں اسلام کی خوبیاں بیان کرنے میں اسے بے مثال قرار دیا گیا.( باب اوّل ) مرزا صاحب نے زندہ خدا کے ثبوت کے لئے طالبان حق کے سامنے نشاں نمائی کا چیلنج بھی دیا اور کتاب کے اندر اپنے کئی الہامات بھی درج کئے لیکن اس تصنیف کی بنا پر مرزا صاحب کی مخالفت بھی ۱۸۸۰ء سے ہی شروع ہو گئی.امرتسر اور لدھیانہ کے بعض علماء کے نزدیک مرزا صاحب کے الہامات غیر ممکن، غیر صحیح اور نا قابل تسلیم تھے.چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی نے ان مخالف علماء کے بارے میں اپنے اخبار اشاعۃ السنہ میں لکھا کہ ان علماء کی مخالفت کا سبب ان کی
۲۶۳ نامنہی ، بے ذوقی اور کسی قدر عموماً اہل اللہ اور اہل باطن سے گوشہ عصبی تھا.مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کے خیال میں لدھیانہ کے کچھ علماء کی طرف سے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی مخالفت کی کچھ وجہ یہ بھی تھی کہ وہ روپیہ جولدھیانہ کے مسلمان عوام کی طرف سے ان علماء کو برائے تعمیر مدرسہ ملنے کی توقع تھی وہ مرزا غلام احمد صاحب کی خدمت میں برائے طبع واشاعت براہین احمدیہ پیش کر دیا گیا.بحرحال یہ علماء مرزا غلام احمد صاحب کے خلاف تکفیر کا فتویٰ لکھ کر دیو بند اور گنگوہ کے اسلامی مدرسوں میں پہنچے تا کہ وہاں کے علماء کے اس پر تصدیقی دستخط حاصل کر سکیں لیکن کوئی ایک عالم بھی ان کی اس تکفیر میں ملوث ہونے کے لئے تیار نہ ہوا اور یہ علماء کا گروہ بے مرا د واپس ہوا.اس وقت سے لے کر آج تک مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی مسلمان علماء کی طرف سے مخالفت جاری ہے لیکن مرزا صاحب کے پیروکاروں کی تعداد بھی دن بدن بڑھ رہی ہے.مرزا صاحب کے مخالفین میں سے آریوں ، برہمو سماج والوں، عیسائیوں اور کچھ اقرباء کا تذکرہ گزشتہ ابواب میں آچکا ہے.مرزا صاحب کے مخالف مسلمان زعما میں ہر طبقے کے لوگ شامل تھے.کچھ اپنی دنیاوی طاقت ، جاہ و جلال اور اثر و رسوخ کی بنا پر مرزا صاحب کو زک پہنچانے کے درپے ہوئے ، کچھ پیر وسجادہ نشین تھے اور لاکھوں مریدوں کے روحانی پیشوا ہونے کے دعویدار تھے اور انہیں تعلق باللہ کا گمان تھا کچھ اپنی علمی قابلیت ، فصاحت بیان یا حسب نسب پر نازاں تھے.غرضیکہ مرزا صاحب کو براہین احمدیہ کی تصنیف کے بعد کی ۲۸ سالہ زندگی میں غیر مسلموں کے : مولوی محمد حسین بٹالوی - اخبار اشاعۃ السنہ جلدے حصہ ۶ صفحات ۱۷۰-۱۷۱
۲۶۴ علاوہ بہت سے مسلمان علماء اور اکابرین کے ساتھ علمی اور روحانی معرکہ آرائی کرنی پڑی.ہم ان میں سے چند اہم معرکوں کا اختصار سے جائزہ پیش کریں گے اور یہ واضح کریں گے کہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے مخالفین کا کیا انجام ہوا.ނ - نواب صدیق حسن خان کا ناروا طرز عمل اور اُن کا انجام : نواب صدیق حسن خان صاحب آف بھوپال مولوی سید اولا د حسن قنوجی کے فرزند تھے.انہوں نے علوم دین علمائے یمن اور ہندوستان سے حاصل کئے تھے.پھر ریاست بھوپال کی ملازمت اختیار کر لی اور بتدریج ترقی کر کے وزارت و نیابت پر فائز ہو گئے یہاں تک کہ اُن کا عقد والیہ ریاست نواب شاہجہاں بیگم سے ہو گیا جس ، پوری ریاست کی باگ ڈور عملاً انہی کے ہاتھ میں آ گئی.حکومت برطانیہ نے انہیں نواب والا جاہ، امیر الملک اور معتمد المہام کے خطابات سے نوازا.نواب صاحب موصوف اہل حدیث فرقے کے مشہور عالم تھے اور اپنی شاہانہ ٹھاٹ باٹھ کے باوجود اسلام کی تحریری خدمات انجام دے رہے تھے.ان کی علمی تصانیف کا ہندوستان کے طول و عرض میں شہرہ تھا.اُن کے بیٹے نواب محمد علی حسن خان سابق ناظم ندوۃ العلماء کی شائع کردہ فہرست کے مطابق نواب صدیق حسن خان صاحب ۲۰۰ سے زائد کتب کے مصنف تھے.مولوی محمد حسین بٹالوی جو خود بھی مشہور اہل حدیث عالم تھے وہ نواب صاحب موصوف کو مجدد وقت تسلیم کرتے تھے.خود مرزا غلام احمد صاحب نواب صاحب کو ” پارسا طبع اور متقی اور فضائل علمیہ سے متصف اور قال اللہ اور قال الرسول سے بدرجہ غائت خبر رکھنے والا سمجھتے تھے.لا : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۸۸ء- براہین احمدیہ حصہ چہارم طبع اول صفحه ۳۲۰
۲۶۵ مرزا غلام احمد صاحب کی تصنیف براہین احمدیہ کا حصہ اوّل جب ۱۸۸۰ء میں چھپ چکا تو متعدد وجوہ کی بنا پر آپ نے اس کتاب کے ڈیڑھ سو نسخے ملک کے مسلمان امراء اور رؤساء کو اس خیال سے بھجوائے تا کہ اگر وہ اس کتاب کی خریداری انتہائی معمولی قیمت پر بھی منظور کر لیں اور وہ رقم پیشگی ارسال کر دیں تو کتاب کے اگلے حصے جن میں سے کچھ چھپ بھی چکے تھے ان کے لئے روپے کا انتظام ہو جائے.اس کتاب کی اہمیت کا مختصر سا ذکر باب اوّل میں آچکا ہے.بار بار کی یاد دہانیوں کے با وجود.چند کے علاوہ باقی رؤساء نے کتاب کی خریداری کی طرف کوئی توجہ نہ دی لیکن نواب حسن خاں صاحب آف بھوپال کا طرز عمل سب سے زیادہ افسوسناک تھا.مرزا غلام احمد صاحب نے انہیں ایک دردمند دل رکھنے والا مسلمان سمجھ کر جب پہلی مرتبہ براہین احمدیہ کی اشاعت میں اعانت کے لئے اس کا پہلا حصہ بھجوایا تو انہوں نے پہلے تو رکھ رکھاؤ کا طریق اختیار کرتے ہوئے لکھ دیا کہ وہ کتاب کے پندرہ ہیں نسخے ضرور خرید لیں گے مگر دوبارہ یاد دہانی پر کتب خریدنے سے انکار کرتے ہوئے لکھ دیا کہ دینی مباحثات کی کتابوں کا خریدنا یا ان میں مدد دینا خلاف منشاء گورنمنٹ انگریزی ہے اس لئے اس ریاست سے خرید وغیرہ کی کچھ امید نہ رکھیں.‘“ ہے حافظ حامد علی صاحب کا چشم دید بیان ہے کہ نواب صدیق حسن خان صاحب نے براہین احمدیہ کا پیکٹ وصول کرنے کے بعد اُسے چاک کر کے آپ کو واپس کر دیا ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۸۸ء- براہین احمدیہ حصہ چہارم طبع اوّل صفحہ ۳۲۰
۲۶۶...کتاب کی یہ حالت دیکھ کر کہ وہ پھٹی ہوئی ہے اور نہایت بُری طرح اس کو خراب کیا گیا ہے حضرت ( مرزا غلام احمد صاحب - ناقل ) کا چہرہ مبارک متغیر اور غصے سے سُرخ ہو گیا.یکا یک آپ کی زبان سے نکلا اچھا تم اپنی گورنمنٹ کو خوش کر لو.نیز یہ دعا کی کہ اُن کی عزت چاک کر دی جائے.لے یہ واقعہ ۱۸۸۳ء کا ہے.مرزا صاحب نے جب براہین احمدیہ حصہ چہارم شائع کی تو اس واقعہ کا پھر تذکرہ کرتے ہوئے لکھا کہ سو ہم بھی نواب صاحب کو اُمید گاہ نہیں بناتے بلکہ اُمید گاہ خداوند کریم ہی ہے اور وہی کافی ہے.( خدا کرے گورنمنٹ انگریزی نواب صاحب پر بہت راضی رہے )‘ ۲ مرزا غلام احمد صاحب کے منہ سے نواب صدیق حسن خاں کے بارے میں یہ انذاری الفاظ ” کہ اُن کی عزت چاک کر دی جائے ۱۸۸۳۴ء میں براہین احمدیہ کی توہین کرنے پر نکلے تھے کہ وہی سلطنت انگریزی جس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے نواب صاحب نے مرزا صاحب کے ساتھ یہ ناروا سلوک کیا تھا اُسی گورنمنٹ نے نواب صاحب پر متعدد الزامات عائد کر کے اُن کے خلاف ایک تحقیقاتی کمیشن بٹھا دیا.ان الزامات میں ریاست بھوپال میں بے گناہوں کے قتل سوڈانی مہدی کو امداد بھجوانے اور اپنی تصانیف میں گورنمنٹ انگریزی کے خلاف بغاوت کی ترغیب جیسے سنگین الزامات شامل تھے ان تحقیقات کا یہ نتیجہ نکلا کہ اُن کے نوابی کے خطابات ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ء- حقیقۃ الوحی.تتمہ صفحہ ۳۷ ے : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۸۸ء- براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحه - و (۳۲۰)
۲۶۷ چھن گئے.یہاں تک بے آبرو ہوئے کہ خود مسلمانوں کے ایک طبقے نے حکومت پر زور دیا کہ اُن سے ذرہ بھر رعایت نہ کی جائے اور ان جرائم کی پاداش میں یا تو وہ تختہ دار پر لٹکا دیئے جائیں یا کالے پانی بھیج دیئے جائیں.مولوی محمد حسین بٹالوی جو خود انگریزی حکومت کے بڑے خیر خواہ اور حکومت کی نظر میں اہم شخصیت تھے انہوں نے حکومت سے نواب صاحب کے خطابات کی بحالی کے لئے التجا بھی کی مگر حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی اور اس طرح مرزا غلام احمد صاحب کے منہ سے نکلے ہوئے یہ الفاظ پورے ہوئے کہ ” اُن کی عزت چاک کر دی جائے“.انہی حالات میں کہ نواب صدیق حسن خاں صاحب معزول ہو چکے تھے پنڈت لیکھرام نے طنزیہ لہجے میں مرزا غلام احمد صاحب کو مخاطب کر کے لکھا کہ آپ تو مقبولوں کے سرغنہ ہیں اور آپ کی دُعا تو تقدیر معلق کو باسلوبی ٹال سکتی ہے...صدیق حسن خاں معزول ہیں اور اُن کی نسبت جو جو مقدمات اور غبن مال سرکاری دائر ہیں اُن سے نہایت ملول ہیں...جناب بیگم صاحبہ والی ء بھوپال صدیق حسن خاں معزول کو تین لاکھ دے کر خارج کرنا چاہتی ہیں اُن کا ارادہ نسخ کیجئے.الغرض جب نواب صاحب کے معاملات نے تشویشناک صورت اختیار کر لی تو انہوں نے نہایت عجز و انکسار سے مرزا غلام احمد صاحب کی خدمت میں دعا کی درخواست کی.مولوی محمد حسین بٹالوی نے بھی حافظ محمد یوسف صاحب ضلع دار نہر : پنڈت لیکھرام پیشاوری ۱۹۰۴ء- کلیات آریہ مسافر - صفحه ۴۹۵
۲۶۸ امرتسر کے ذریعے مرزا صاحب کی خدمت میں نواب صاحب کے لئے دعا کی سفارش کی.حافظ صاحب کا بیان ہے کہ مرزا صاحب نے اولاً دُعا کرنے سے انکار کر دیا اور براہین احمدیہ کا واقعہ بیان کر کے کہنے لگے کہ وہ خدا کی رضا پر گورنمنٹ کی رضا کو مقدم کرنا چاہتے تھے اب گورنمنٹ کو راضی کر لیں.آخر حافظ صاحب کے مسلسل اسرار پر مرزا صاحب نے دُعا کی اور جواب دیا کہ وہ تو بہ کریں خدا تعالیٰ تو بہ کرنے والے کو معاف کرتا ہے.مرزا صاحب نے لکھا کہ نواب صدیق حسن خاں کو قابل رحم سمجھ کر جب اُن کے لئے دُعا کی گئی تو خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ سرکوبی سے اُس کی عزت بچائی گئی ! مرزا غلام احمد صاحب نے نواب صدیق حسن خاں مولوی محمد حسین بٹالوی اور حافظ محمد یوسف صاحب کو اس الہام سے مطلع کر دیا.حافظ صاحب نے نواب صاحب اور مرزا صاحب کے درمیان پیدا شدہ رنجش کو دور کرنے کے لئے براہین احمدیہ کی خریداری کی درخواست کی جسے مرزا صاحب نے نامنظور کر دیا اور خدا کی شان دیکھئے کہ جس دعا کے لئے پنڈت لیکھرام نے مرزا صاحب کو طنز یہ انداز میں کہا تھا اسی دعا کے نتیجے میں نواب صاحب بالآ خرالزامات سے بری کر دیئے گئے اور حکومت کی طرف سے ان کے خطابات باعزت بحال کر دیئے گئے.: مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ ء- حقیقۃ الوحی.تتمہ صفحہ ۳۷
۲۶۹ 11 مرزا غلام احمد قادیانی کی طرف سے نشان نمائی کا چیلنج: مرزا غلام احمد صاحب نے ۱۸۸۰ء میں براہین احمدیہ کی اشاعت کے ساتھ ہی ہر مذہب کے پیروؤں کو اسلام کی حقانیت سے روشناس کرانے کے لئے زبردست کوششیں شروع کر دی تھیں اور یکے بعد دیگرے تحریری و تقریری طریقوں سے اُن کو قائل کرنے کا آغاز کر دیا تھا.مارچ ۱۸۸۵ء میں جب مرزا صاحب نے مجد دوقت ہونے کا دعویٰ کیا تو اُس کے فوراً بعد ۲۰ رمئی ۱۸۸۵ء کو ایک اشتہار کے ذریعے آپ نے مذاہب عالم کے سرکردہ لیڈروں اور مقتدر رہنماؤں کو آسمانی نشانات کے عالمگیر مشاہدے کی دعوت دی.آپ نے اشتہار میں لکھا کہ آپ طالب صادق بن کر قادیان میں تشریف لاویں اور ایک سال تک اس عاجز کی صحبت میں رہ کر اُن آسمانی نشانوں کا بچشم خود مشاہدہ کر لیں...اور آگر آپ آویں اور ایک سال رہ کر کوئی آسمانی.......نشان مشاہدہ نہ کریں تو دو سو روپیہ کے حساب سے آپ کو ہرجانہ یا جرمانہ دیا جائے گا.اس دو سو روپیہ ماہوار کو آپ اپنے شایانِ شان نہ سمجھیں تو اپنے ہر ج اوقات کا عوض یا ہماری وعدہ خلافی کا جرمانہ جو ا آپ اپنی شان کے لائق قرار دیں گے.ہم اُس کو بشرط استطاعت قبول کریں گے.مرزا غلام احمد قادیانی - اشتہار ۲۰ مئی ۱۸۸۵ء ( مجموعہ اشتہارات.مرزا غلام احمد.جلد اوّل صفحات ۲۰ تا ۲۲)
۲۷۰ مرزا صاحب نے اس اشتہار کو انگریزی اور اردو زبان میں چھپوا کر ۲۰ ہزار کی تعداد میں ایشیا، یورپ اور امریکہ کے تمام بڑے بڑے مذہبی لیڈروں، فرمانرواؤں، مہاراجوں، عالموں، مدیروں، مدبروں اور نوابوں کو کثیر اخراجات صرف کر کے بذریعہ رجسٹری ڈاک بھجوایا تا کہ کوئی نامور اور معروف شخصیت ایسی نہ رہ جائے جس تک یہ خدائی آواز نہ پہنچے.اگر چہ اس کا روائی سے بیرونی دنیا سے تو کوئی خاص اور فوری ردعمل سامنے نہ آیا لیکن ہندوستان میں اس سے ضرور ہلچل مچ گئی اور اہم واقعات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا.ان میں سے کچھ کا احوال آپ گزشتہ ابواب میں پڑھ آئے ہیں.III- مرزا غلام احمد صاحب پر مولوی محمد اسمعیل آف علی گڑھ کے اعتراضات اور بہتانات اور مولوی صاحب کا انجام : 1 علی گڑھ کے تحصیل دار سید محمد تفضل حسین صاحب کو براہین احمدیہ کے زمانے سے مرزا غلام احمد صاحب سے بڑی عقیدت تھی.اُن کی متعدد بار کی درخواستوں پر مرزا صاحب اپریل ۱۸۸۹ء میں لدھیانہ سے علی گڑھ تشریف لے گئے اور انہی کے ہاں ٹھہرے.علی گڑھ کے ایک مولوی محمد اسمعیل صاحب مرزا صاحب سے ملنے آئے اور نہایت انکسار سے درخواست کی کہ لوگ مدت سے آپ کی باتیں سننے کے شائق ہیں بہتر ہے کہ لوگ ایک جگہ جمع ہو جائیں اور آپ کچھ وعظ فرماویں.مرزا صاحب کی طبیعت کچھ ناساز تھی جس کی وجہ سے اس قابل نہ تھے کہ وہ ان دنوں کوئی کام دماغی.: مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۱ء فتح اسلام.حاشیہ صفحہ ۲۵
۲۷۱ محنت کا کر سکیں یا کوئی لمبی گفتگو یا تقریر کرسکیں لیکن پھر بھی اس خیال سے کہ موقع غنیمت تھا کہ لوگوں کو اسلام کی حقیقی روح کے بارے میں کچھ رہنمائی کر دیں اور پھر اُن کو تو یہی عشق تھا اور یہی اُن کی دلی خواہش رہتی تھی کہ اسلام کی خوبیاں بیان کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے.آپ نے باوجود طبیعت ناساز ہونے کے اس بات پر رضا مندی ظاہر کر دی کہ وہ انشاء اللہ اسلام کی حقیقت کے موضوع پر تقریر کریں گے.چنانچہ اس لیکچر کے بارے میں اشتہار بھی شائع کر دیا گیا اور سب تیاری مکمل ہوگئی.لیکچر کا وقت قریب آیا تو مرزا صاحب کو خدا تعالیٰ کی طرف سے الہاما اس لیکچر سے روک دیا گیا.اس پر مرزا صاحب نے لیکچر دینے کا ارادہ ترک کر دیا اور مولوی صاحب موصوف کو بھی اس سے مطلع کر دیا.سید تفضل حسین صاحب نے بھی عرض کی کہ حضور اب تو ساری تیاری ہو چکی اگر اب لیکچر نہ ہوا تو بڑی بدنامی ہوگی.مرزا غلام احمد صاحب نے جواباً کہا کہ خواہ کچھ ہو ہم خدا کے حکم کے مطابق کام کریں گے.جب اور لوگوں نے بھی مرزا صاحب سے لیکچر کے لئے اصرار کیا تو آپ نے جواب دیا کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ میں خدا کا حکم چھوڑ دوں.اس کے حکم کے مقابل میں مجھے کسی ذلت کی پرواہ نہیں.مولوی محمد اسمعیل صاحب نے مرزا صاحب کے غذرکو نیک ظنی سے دل میں جگہ نہ دی بلکہ اسے مرزا صاحب کی دروغگو ئی سمجھا اور اگلے دن نماز جمعہ کے بعد مرزا صاحب کے خلاف ایک زہریلی تقریر کی جسے اُن کی اجازت سے لکھ کر مشتہر کر دیا گیا.ان کی تقریر کے کچھ اقتباسات درج ذیل ہیں: میں نے اُس سے ( یعنی مرزا غلام احمد صاحب سے.ناقل ) کہا
۲۷۲ کہ کل جمعہ ہے وعظ فرمائیے.اس کا انہوں نے وعدہ بھی کیا مگر صبح کو رقعہ آیا کہ میں بذریعہ الہام وعظ کرنے سے منع کیا گیا ہوں.میرا خیال ہے کہ یہ سبب عجز بیانی و خوف امتحانی انکار کر دیا.یہ شخص محض نالائق ہے علمی لیاقت نہیں رکھتا.میں نے الہام کے بارے میں اس سے چند سوال کئے کسی قدر بے معنی جواب دے کر سکوت اختیار کیا.ہرگز یقین نہیں ہوسکتا کہ ایسی عمدہ تصانیف کے یہی حضرت مصنف ہیں.سید احمد عرب جن کو میں ثقہ جانتا ہوں وہ مجھ سے بلا واسطہ بیان کرتے تھے کہ میں دو ماہ تک اُن کے پاس ان کے معتقدین خاص کے زمرہ میں رہا اور وقتاً فوقتاً بہ نظر تجسس و امتحان ہر ایک وقت خاص پر حاضر رہ کر جا پہنچا تو معلوم ہوا کہ در حقیقت ان کے پاس آلات نجوم موجود ہیں.وہ اُن سے کام لیتے ہیں.مجھے فقرات الہام پر غور کرنے سے ہرگز یقین نہیں آتا کہ وہ الہام ہیں.مدعی ہونا کرامات کے خلاف ہے اور یہ کہنا کہ جس کو انکار ہو وہ آکر دیکھے یہ دعاوی باطلہ ہیں.میں ملاقات کرنے سے بالکل بے عقیدہ ہو گیا ہوں.میری رائے میں جو موجدان سے ملاقات کرے گا.ان کا معتقد نہ رہے گا نماز ان کی اخیر وقت ہوتی ہے جماعت کے پابند نہیں.“ 1 مرزا غلام احمد صاحب نے ان مشتہر شدہ اعتراضات کے جوابات اپنی تصنیف ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۱ء فتح اسلام - حاشیہ صفحات ۲۷ تا ۳۶
۲۷۳ فتح اسلام میں مولوی محمد اسمعیل صاحب کو آلات نجوم کے معلق بہتان طرازی پر دعوت مباہلہ دی.مولوی صاحب نے جواب میں ایک کتاب لکھنے کا تہیہ کیا.جس میں مرزا صاحب کو بد دعا دی لیکن مولوی محمد اسمعیل صاحب جلد ہی خدا کی گرفت میں آگئے.ابھی اُن کی کتاب مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ وہ اس دار فانی سے کوچ کر گئے اور اس طرح مباہلے کا آسمانی فیصلہ سامنے آ گیا.IV- مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی طرف سے علماء کو مباحثے کا چیلنج: مرزا غلام احمد قادیانی کے جن دعاوی اور عقائد کا اس کتاب کے دوسرے اور تیسرے ابواب میں تذکرہ ہو چکا ہے ان کی بنا پر بعض مسلمان علماء مرزا صاحب کو مسلسل کا فرقرار دے رہے تھے اس لئے مرزا صاحب نے ۲۶ / مارچ ۱۸۹۱ء کو جاری کردہ ایک اشتہار کے ذریعے کچھ علماء کو خاص طور پر مخاطب کر کے مباحثے کا چیلنج دیا.ان علماء میں مولوی محمد حسین بٹالوی ، مولوی رشید احمد گنگوہی ، مولوی عبدالجبار غزنوی، مولوی عبد الرحمن لکھو کے والے، مولوی شیخ عبد اللہ بنتی ، مولوی عبدالعزیز لدھیانوی اور مولوی غلام دستگیر قصوری وغیرہ شامل تھے.مرزا صاحب نے لکھا کہ وو چونکہ مسئلہ وفات و نزول مسیح کے بارے میں یہ خیال کرتے ہیں کہ اس عاجز کے یہ دعاوی قال اللہ و قال الرسول کے برخلاف ہیں تو وہ ایک عام مجلس مقرر کر کے تحریری طور پر اس عاجز سے.....مباحثہ کر لیں تا کہ جلسہ عام میں حق ظاہر ہو جائے.اور کوئی فتنہ بھی پیدا نہ ہو...
۲۷۴ مناسب ہے کہ ان سب میں سے وہ مولوی صاحب جو کمالات علمی میں اول درجے کے خیال کئے جائیں وہی فریق ثانی کی طرف سے مختار مقرر کئے جائیں...اے (۱) مرزا صاحب کے اس چیلنج کے جواب میں اکثر علماء تو خاموش رہے لیکن پیر سراج الحق صاحب جو مرزا صاحب کے مرید تھے اور مولوی رشید احمد گنگوہی کے ہم زلف تھے اُن کی ذاتی کوشش سے مولوی صاحب اس شرط پر مباحثے کے لئے تیار ہوئے کہ بحث تقریری اور صرف زبانی ہوگی اور تحریری ہرگز نہ ہوگی.مرزا صاحب نے جوا با لکھوایا کہ بحث تحریری ہونی چاہئے تا کہ چھپ سکے اور جو لوگ حاضر نہ ہوں وہ بھی بعد میں پڑھ کر حقیقت سے آگاہ ہو سکیں لیکن اگر مولوی صاحب کو منظور نہ ہو تو مباحثہ بے شک تقریری ہو لیکن وہ اس قد ر ا جازت دے دیں کہ مولوی صاحب تقریر کرتے جائیں اور کوئی دوسرا شخص آپ کی تقریر لکھتا جائے اور جب تک کوئی ایک شخص تقصیر کر رہا ہو کسی دوسرے کو اس دوران بولنے کی اجازت نہ ہو اور یہ مباحثہ لا ہور جیسی مرکزی جگہ پر ہو.مولوی رشید احمد گنگوہی نے تینوں شرائط رڈ کر دیں اور کہا کہ دوران تقریر کسی کو ایک لفظ لکھنے کی اجازت نہ ہو گی.حاضرین میں سے جس کا جی چاہے دوران تقریر اپنے شکوک کو رفع کرنے کے لئے بول سکتا ہے اور یہ کہ میں لا ہور نہیں آ تا مرزا صاحب سہارن پور آ جائیں.مرزا صاحب نے پھر پیر سراج الحق کے ذریعے لکھوایا کہ مرزا صاحب مرزا غلام احمد قادیانی - اشتہار ۲۶ / مارچ ۱۸۹۱ء ( مجموعہ اشتہارات مرزا غلام احمد جلد اوّل صفحات ۲۰۲-۲۰۳
۲۷۵ مولوی صاحب کا لاہور آنے جانے اور قیام کا خرچ دینے کو تیار ہیں تا کہ لاہور جیسے دارالعلوم اور مخزن علم میں مباحثہ ہو سکے مگر مولوی صاحب راضی نہ ہوئے بالآ خر مرزا صاحب نے لکھوایا کہ وہ خود سہارنپور آنے کے لئے تیار ہیں تا کہ کسی صورت مباحثہ ہو سکے اور ساتھ ہی لکھ دیا کہ وہ یعنی مولوی رشید احمد گنگوہی انتظامات کروالیں اور جہاں تک تحریری یا تغییری مباحثے کا سوال ہے یہ بوقت مباحثہ حاضرین کی کثرت رائے سے طے ہو جائے گا.مولوی صاحب نے مباحثے کے انتظامات سے معذوری ظاہر کر دی اور پھر بار بار کی یاددہانیوں پر بھی کچھ جواب نہ دیا اور اس طرح یہ مباحثہ نہ ہو سکا.لے (۲) اسی دوران پیر سراج الحق صاحب نے مشہور سجادہ نشینوں میاں اللہ بخش صاحب تونسوی سنگھر، وی اور شاہ نظام الدین صاحب بریلوی نیازی کو مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی طرف سے دعوت دی کہ وہ مرزا صاحب سے روحانی ، باطنی اور علمی مقابلہ کریں جو وفات مسیح پر خواہ تحریری ، خواہ باطنی قوت قلبی یا دُعا سے ہو تا حق ظاہر ہو اور باطل مٹ جائے.اس دعوت مقابلہ کا سنگھڑ سے تو کوئی جواب ہی نہ آیا البتہ شاہ.نظام الدین صاحب نے معذرت کے ساتھ لکھا کہ : فقیر میں اتنی قوت نہیں ہے کہ جو مقابلہ کر سکے یا اسی باطنی اور روحانی طور سے مقابل پر کھڑا ہو سکے ہے : پیر سراج الحق نعمانی ۱۹۰۳ ء - تذکرۃ المہدی.حصہ اوّل صفحات ۱۶۵ تا ۱۸۳( تاریخ احمدیت جلد دوئم صفحات ۲۰۷ تا ۲۰۹) : پیر سراج الحق نعمانی ۱۹۰۳ ء - تذکرۃ المہدی - حصہ اوّل صفحات ۱۶۵ تا ۱۸۳ ( تاریخ احمدیت جلد دوئم صفحه ۲۰۸)
۲۷۶ (۳) دسمبر ۱۸۹۱ء میں مرزا غلام احمد صاحب نے ایک مختصر رسالہ آسمانی فیصلہ“ لکھا.یہ جنوری ۱۸۹۲ء میں شائع ہوا.اس میں بھی آپ نے ایک دفعہ پھر میاں نذیر حسین دہلوی ، مولوی محمد حسین بٹالوی، مولوی عبد الجبار صاحب، مولوی عبدالرحمن صاحب لکھوکے والے ، مولوی محمد بشیر صاحب بھو پالوی اور مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کو مخاطب کر کے بطور خاص ایک غیر جانبدارانہ اور منصفانہ انتظام کے تحت چار امور میں مقابلے کی دعوت دی.ان میں الہامی بشارتیں، اخبار الغیب بسلسلہ حادثات اور زلازل، مصیبت زدوں کے لئے قبولیت دعا اور معارف قرانی کی علامات میں مقابلہ کرنا تھا.مرزا صاحب نے لکھا کہ اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر میں اس مقابلے میں مغلوب ہو گیا تو اپنے ناحق پر ہونے کا خود اقرار شائع کر دوں گا اور پھر میاں نذیر حسین صاحب اور شیخ بٹالوی کی تکفیر اور مفتری کہنے کی حاجت نہیں رہے گی اور اس صورت میں ہر ایک ذلت اور توہین اور تحقیر کا مستوجب وسزاوار ٹھہروں گا اور اسی جلسے میں اقرار بھی کر دوں گا کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوں اور میرے تمام دعاوی باطل ہیں.(۴) مرزا غلام احمد قادیانی نے مباحثے کے چیلنج کے جواب میں مولوی محمد حسین بٹالوی نے بھی مرزا صاحب کے مباحثے کا چیلنج دیا.چونکہ مولوی صاحب موصوف بحث کے ا : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۲ء- آسمانی فیصلہ - صفحات ۲۷ تا ۳۵
۲۷۷ دوران گندی زبان استعمال کرنے کے عادی تھے اس لئے مرزا صاحب کے چند ہمدردوں نے آپ کو مولوی صاحب سے مباحثہ کرنے سے منع کیا لیکن اس خیال سے کہ سنجیدہ بحث کے جواب میں مولوی صاحب کی بد زبانی عوام وخواص کے لئے باعث اطمینان نہیں ہوگی اس لئے وہ اس سے گریز پر مجبور ہوں گے.مرزا صاحب ۱۸۹۱ء نے اس مباحثے سے تامل نہ کیا.یہ مباحثہ دس دن ۲۰ سے ۲۹ / جولائی ۸۹۱ تک جاری رہا لیکن اصل موضوع پر بحث نہ ہوسکی.یہ بحث مباحثہ الحق لدھیانہ کے نام سے چھپ چکا ہے اور ہر خواہشمند اسے پڑھ سکتا ہے.مولوی محمد حسین بٹالوی یہ چاہتے تھے کہ بحث سے پہلے چند اصول طے کر لئے جائیں جن میں سے وہ سب سے اہم اصول یہ طے کرانا چاہتے تھے کہ قرآن شریف کو حدیث پر مقدم کرنا صحیح عقیدہ نہیں ہے.جب کہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کا عقیدہ تھا کہ کتاب اللہ مقدم اور امام ہے.جس امر میں احادیث نبویہ کے معانی جو کئے جاتے ہیں کتاب اللہ کے مخالف واقع نہ ہوں تو وہ معانی بطور حجت الشرعیہ کے قبول کئے جائیں گے لیکن جو معنی نصوص بینہ قرآنیہ سے مخالف واقع ہوں گے ان معنوں کو ہم ہر گز قبول نہیں کریں گے بلکہ جہاں تک ہمارے لئے ممکن ہوگا ہم اس حدیث کے ایسے معانی کریں گے جو کتاب اللہ کی نص بین کے موافق و مطابق ہوں اور اگر ہم کوئی ایسی حدیث پائیں گے جو مخالف نص قرآنی ہوگی اور کسی صورت میں ہم اُس کی تاویل کرنے پر قادر نہیں ہوسکیں گے تو ایسی حدیث کو ہم موضوع قرار دیں گے کیونکہ اللہ جلشانہ فرماتا ہے
۲۷۸ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّهِ وَايَتَهِ يُؤْمِنُونَ“ ! اگر چہ دس روز تک مرزا صاحب تفصیل کے ساتھ حدیث کے مقابلے میں قرآن کی اولیت پر دلائل دیتے رہے لیکن ہر دفعہ مولوی محمد حسین بٹالوی کا یہ جواب ہوتا کہ مرزا صاحب نے میرے سوال کا صاف جواب نہیں دیا.سامعین بھی مولوی صاحب کے رویے سے تنگ آگئے لیکن مولوی صاحب اصل موضع بحث یعنی حیات و وفات مسیح کی طرف آنے سے گریز کرتے رہے.آخر جب دلی کے علماء نے مولوی صاحب کے اس گریز پر تنقید کی تو انہوں نے کہا کہ اصل بحث کس طرح کرتا...میں مرزا صاحب کو حدیثوں پر لے جاتا تھا اور وہ مجھے قرآن کی طرف لے جاتے تھے.“ سے ۷- مباحثه الحق دہلی : - مرزا غلام احمد صاحب قادیان سے روانہ ہو کر ۲۹ ستمبر ۱۸۹۱ء کو دہلی پہنچے اور ۲ اکتو بر کو آپ نے بذریعہ اشتہار شیخ الکل مولوی سید نذیر حسین دہلوی اور شمس العلماء مولوی عبدالحق حقانی کو دعوت دی کہ وہ قرآن وحدیث کی رو سے وفات مسیح پر تحریری بحث کرنے کے لئے تیار ہو جائیں.اس اشتہار کے نکلتے ہی شمس العلماء مولوی عبدالحق صاحب مرزا غلام احمد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گزارش کی کہ حضرت میں آپ کا بچہ ہوں آپ میرے بزرگ ہیں.آپ کا 1 : مولوی عبدالکریم سیالکوٹی ۱۹۰۳ ء- مباحثہ الحق لدھیانہ (طبع دوم ) صفحات ۹-۱۰ : پیر سراج الحق نعمانی ۱۹۰۳ء- تذکرۃ المہدی.حصہ اوّل صفحہ ۳۵۶
۲۷۹ مقابلہ بھلا مجھ جیسا نا چیز آدمی کیا کر سکتا ہے.میرا نام اشتہار مباحثہ سے کاٹ دیں.میں ایک فقیر، گوشہ نشین اور ایک زاد یہ گزین درویش ہوں اور مباحثات سے مجھے کوئی سروکار نہیں.1 مرزا غلام احمد صاحب نے ان سے کہا.اچھا آپ اپنے ہی ہاتھ سے اپنا نام کاٹ دیں.چنانچہ انہوں نے اپنا نام اپنے ہاتھ سے کاٹ دیا.ہے اس دوران مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی دہلی پہنچ گئے اور انہوں نے مولوی نذیر حسین صاحب کو مرزا صاحب کے مقابلے پر آنے کے لئے اکسانا شروع کر دیا.مولی سید نذیر حسین صاحب نے انہیں کہا بھی کہ بڑھاپے میں مجھے رسوا نہ کرو اور اس قصے کو جانے ہی دو.حضرت مسیح کی جسمانی زندگی کا ثبوت کہیں بھی نہیں مل سکتا.سے لیکن مولوی محمد حسین بٹالوی نے مولوی نذیر حسین کو تیار کر لیا اور مرزا صاحب کو اطلاع دیئے بغیر ایک دن مباحثے کا مقرر کر دیا اور ساتھ ہی مفسدین کو جمع کرکے مرزا صاحب کی جائے رہائش کا محاصرہ کر لیا تا کہ آپ مکان سے نکل ہی نہ سکیں اور اس طرح آپ کی شکست کو مشتہر کر دیا جائے.۱۷ اکتو بر ۱۸۹ء کو مرزا غلام احمد صاحب نے ایک اور اشتہار شائع کر کے مولوی سید نذیر حسین صاحب کو مخاطب کیا کہ اب ہم نے اپنی حفاظت کا انتظام کر لیا ہے.مولوی صاحب جہاں چاہیں گے مباحثہ کے لئے حاضر ہو جاؤں گا ہر گز تخلف نہیں کروں گا.مرزا صاحب نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ اگر بحث نہیں کرنا چاہتے تو ایک لے ، ۲ : پیر سراج الحق نعمانی ۱۹۰۳ء- تذكرة المهدی حصہ اوّل صفحات ۲۲۴ تا ۲۲۶ س : پیر سراج الحق نعمانی ۱۹۰۳ء - تذکرۃ المہدی حصہ اوّل صفحه ۳۳۴
۲۸۰ مجلس میں میرے تمام دلائل سن کر تین مرتبہ قسم کھا کر کہ دیں کہہ یہ دلائل صحیح نہیں ہیں اور صحیح اور یقینی امر یہی ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم زندہ بجسد عصری آسمان کی طرف اُٹھائے گئے ہیں اور یہی میرا عقیدہ ہے.اس پر اگر ایک سال کے اندر اندر آپ خدا کے عبرتناک عذاب سے بچ نکلیں تو میں جھوٹا ہوں.چنانچہ دلی کے لوگوں کے مجبور کرنے پر اس مقصد کے لئے ہزاروں لوگوں کا ایک اجتماع ۲۰ راکتو برا ۱۸۹ء کو دلی کی جامع مسجد میں جمع ہوا.مرزا صاحب کو قتل کی متعدد دھمکیاں مل رہی تھیں لیکن پھر بھی آپ ظہر اور عصر کی نمازیں.ظہر کے وقت جمع کر کے اپنے احباب کے ہمراہ جامع مسجد کے محراب کے پاس جا پہنچے.تھوڑی دیر کے بعد مولوی نذیرحسین صاحب مع مولوی محمد حسین بٹالوی ، مولوی عبدالمجید انصاری وغیرہ بھی مسجد میں تشریف لے آئے.لوگ منتظر تھے کہ مباحثہ شروع ہو یا مولوی سید نذیر حسین قسم کھا لیں تاکہ کوئی فیصلہ ہو لیکن جب کافی انتظار کے بعد بھی مولوی صاحب مرزا صاحب کی طرف راغب نہیں ہوئے تو مولوی سید نذیر حسین صاحب جو سخت پریشان نظر آ رہے تھے مرزا صاحب نے اُن کی طرف ایک رقعہ لکھ کر انہیں دعوت دی کہ وہ آ کر بحث شروع کریں یا مؤکد بعذاب قسم ہی کھائیں لیکن مولوی نذیر حسین صاحب نے آخر کار ہر چیز سے انکار کر دیا اور پولیس افسر جو امن و امان کا ذمہ دار تھا اس کے سامنے یہ عذر پیش کر دیا کہ یہ شخص ( یعنی مرزا صاحب ) عقائد اسلام سے منحرف ہے جب تک اپنے عقائد کا ہم سے تصفیہ نہ کر لے ہم حیات و وفات مسیح کے بارے میں اس سے ہرگز بحث نہ کریں گے.اے 1 : پیر سراج الحق نعمانی ۱۹۰۳ء - تذکرۃ المہدی حصہ اوّل صفحه ۳۴۹-۳۵۰
۲۸۱ (۲) مرزا غلام احمد صاحب کے ہاتھوں مولوی سید نذیرحسین صاحب اور ان کے ساتھیوں کی یہ کھلی ہزیمت دہلی کے مخالف مسلمانوں کے لئے بڑی تکلیف دہ تھی.شرفاء نے بھی اس بات کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا کہ ایک علمی اور خالصتا مذ ہبی بحث کی دعوت دینے والے کو جواب میں پتھر ، گالیاں اور استہزا دیا گیا.انہی میں علی جان والے بھی شامل تھے جو عقید تا اہل حدیث تھے.اُن کا خیال تھا کہ اگر حیات مسیح جیسے عقیدے پر بحث کرنے کے لئے کوئی بھی اہل حدیث عالم مرزا صاحب کے مقابلے پر نہ آیا تو اس عقیدے کو شدید ضعف پہنچے گا اس لئے انہوں نے دہلی کے علماء سے مایوس ہو کر ضلع بدایوں کے ایک مشہور اور جید عالم مولوی محمد بشیر صاحب کو مرزا غلام احمد صاحب کے ساتھ حیات مسیح پر مباحثے کے لئے تیار کیا.مولوی صاحب موصوف ، مولانا سید محمد احسن صاحب امروہی کے ساتھ نواب صدیق حسن خان آف بھوپال کے قائم کردہ اشاعتی ادارے سے منسلک تھے.وفات مسیح کے مسئلہ پر مرزا صاحب نے ۱۸۹۰ء میں جب خدا تعالیٰ سے الہام کی بنا پر اظہار خیال کیا تھا تو اس وقت سے ہی دونوں علماء کے درمیان مبادلہ خیالات ہوتا رہتا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مولانا سید محمد احسن صاحب امروہی تو مرزا غلام احمد صاحب کی بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں داخل ہو گئے لیکن مولوی سید محمد بشیر صاحب عوام کی ناراضگی کے خوف سے ایسا نہ کر سکے.بالآ خر مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور مولوی محمد بشیر صاحب کے درمیان دہلی ل : مباحثه الحق دہلی ۱۹۰۵ء مطبع ضیاء الاسلام.قادیان صفحات ۹۴-۹۵
۲۸۲ میں مباحثہ ہوا جو بعد میں مباحثہ الحق دہلی کے نام سے شائع ہوا.مباحثہ شرائط کے مطابق جاری نہ رہ سکا.مباحثے کی ایک شرط تو یہ تھی کہ فریقین نے جو کچھ بحث میں لکھنا ہو گا وہ سب جائے مباحثہ پر ہی لکھنا ہوگا نہ کہ پہلے سے کچھ لکھا ہوا پیش کیا جائے.مولوی محمد بشیر صاحب نے پہلے ہی دن اس شرط کو توڑ دیا اور وہ اس طرح کہ مولوی صاحب نے مرزا صاحب سے درخواست کی کہ وہ ایک کونے میں بیٹھ کر اطمینان سے اپنا پہلا مضمون لکھنا چاہتے ہیں.یہ کہہ کر وہ ایک گوشے میں چلے گئے اور اپنے پہلے سے لکھے ہوئے مضمون کو جو وہ گھر سے لائے تھے دوسرے کاغذ پر نقل کرنا شروع کر دیا.جب اُن سے پہلے سے طے شدہ شرائط کی خلاف ورزی کی طرف توجہ دلائی گئی تو انہوں نے کچھ تو جیہات پیش کیں کہ پورا مضمون نہیں بلکہ صرف کچھ حوالہ جات لکھے ہوئے ہیں.اُن سے درخواست کی گئی کہ لکھا ہوا مضمون ہی دے دیں تا کہ وقت ضائع نہ ہو اور مرزا غلام احمد صاحب جواب لکھ سکیں.چنانچہ مرزا صاحب نے اول سے آخر تک ان کے مضمون پر تیز نظر دوڑائی اور جواب لکھنا شروع کر دیا.مرزا صاحب نے جواب اس قدر تیزی سے لکھنا شروع کیا کہ زود نو لیس بھی حیران رہ گئے اور مولوی سید محمد بشیر صاحب بھی گھبرا گئے کہ ان سے اس روانی سے جواب لکھناممکن نہ ہو سکے گا.چنانچہ پہلے ہی دن مولوی صاحب نے مرزا صاحب سے درخواست کی کہ اگر وہ اجازت دیں تو مولوی صاحب اپنا جواب گھر سے لکھ کر لائیں.۲۳ /اکتوبر سے ۲۷ اکتوبر ۱۸۹۱ء تک یہ مباحثہ جاری رہا اور فریقین کی طرف سے پانچ پانچ کی بجائے ابھی تین تین پرچے ہوئے تھے کہ مرزا صاحب نے اس مباحثے کو مزید جاری رکھنے سے ختم کر دیا.اس کی کئی وجوہ تھیں.ایک تو یہ کہ مولوی سید محمد بشیر صاحب نے
۲۸۳ پہلے ہی دن سے رو برو بیٹھ کر لکھنے سے اپنے بجز کا اعتراف کر لیا تھا.اگر گھر بیٹھ کر ہی جواب لکھنا ہے تو پھر مباحثہ بذریعہ مراسلت قادیان اور دہلی میں بیٹھ کر بھی ہوسکتا ہے کیونکہ آمنے سامنے بیٹھ کر لکھنے میں جو حکمتیں پوشیدہ ہیں وہ گھر سے لکھ کر لانے میں ظاہر نہیں ہوسکتیں.دوسری وجہ یہ تھی کہ مولوی سید محمد بشیر صاحب ابھی تک اس بات کے اقرار پر تیار نہ تھے کہ حیات مسیح کے ثبوت مہیا کرنا ان کی ذمہ داری ہے اس لئے مرزا صاحب کا کہنا تھا کہ اگر مباحثہ کا اصل موضوع ہی اختلاف کی زد میں آجائے تو پھر بحث کس بات پر جاری رکھی جائے.اے مرزا غلام احمد صاحب نے مولوی سید محمد بشیر صاحب کے آخری مضمون پر مندرجہ ذیل تبصرہ کیا حضرت مولوی صاحب ( مولوی سید بشیر صاحب - ناقل) نے اپنے اس دعویٰ کی تائید میں کہ حضرت مسیح جسم خاکی کے ساتھ زندہ ہیں پانچ آیتیں اپنی طرف سے پیش کی تھیں.پھر چار آیتوں کو تو خود اس اقرار کے ساتھ چھوڑ دیا کہ ان سے حضرت مسیح کا جسم خاکی کے ساتھ زندہ ہو نا قطعی طور پر ثابت نہیں ہوتا....اور تمام مدارا اپنے اس دعوے کا اس آیت پر رکھا جو سورہ النساء میں موجود ہے اور وہ یہ ہے وانُ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ الَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ o مولوی صاحب اس آیت کو حضرت عیسی کی جسمانی زندگی پر قطعی دلالت قرار دیتے ہیں اور فرماتے ل : دوست محمد شاہد ۱۹۵۹ء تاریخ احمدیت جلد دوم صفحات ۲۴۷ - ۲۴۸
۲۸۴ ہیں کہ اس آیت کے قطعی طور پر یہی معنی ہیں کہ کوئی اہل کتاب میں سے ایسا نہیں کہ جو عیسی پر اُس کی موت سے پہلے ایمان نہیں لائے گا اور چونکہ اب تک تمام اہل کتاب کیا عیسائی اور کیا یہودی حضرت عیسی پر سچا اور حقیقی ایمان نہیں لائے بلکہ کوئی اُن کو خدا قرار دیتا ہے اور کوئی اُن کی نبوت کا منکر ہے.اس لئے ضروری ہے کہ حسب منشاء اس آیت کے حضرت عیسی کو اُس زمانہ تک زندہ تسلیم کر لیا جائے جب تک کہ سب اہل کتاب اس پر ایمان لے آویں.مولوی صاحب اس بات پر حد سے زیادہ ضد کر رہے ہیں کہ ضرور یہ آیت موصوفہ بالا حضرت مسیح کی جسمانی زندگی پر قطعی طور پر دلالت کرتی ہے اور یہی صحیح معنے اس کے ہیں کسی دوسرے معنے کا احتمال اس میں ہر گز نہیں اور اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ گویا بعض صحابہ اور تابعین اور مفسرین نے اور بھی کتنے معنے اس آیت کے کئے ہیں مگر وہ معنے صحیح نہیں ہیں.اور فرماتے ہیں کہ جو حضرت ابن......عباس وغیرہ صحابہ نے اس کے مخالف معنے کئے ہیں.یہ معنے ان کی نحو.....کے اجماعی قاعدہ کے مخالف ہیں...سمو مولوی صاحب کی اس تقریر کا حاصل کلام یہ معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ ابن عباس ، عکرمہ اور ابی ابن کعب وغیرہ نحو نہیں پڑھے ہوئے تھے اس لئے وہ ایسی صریح غلطیوں میں ڈوب گئے جو انہیں وہ قاعدہ یاد نہ رہا جس پر تمام نحویوں کا اجماع اور اتفاق ہو چکا تھا...ابن عباس اور عکرمہ پر یہ الزام دینا کہ وہ نحوی قاعدہ سے بے خبر تھے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا مولوی صاحب یا کسی اور کا حق ہے
۲۸۵ کہ ان بزرگوں پر ایسا الزام رکھ سکے جن کے گھر سے ہی نخونکلی ہو.ظاہر ہے کہ نحو کو ان کے محاورات اور ان کے فہم کے تابع ٹھہرانا ہو گا نا کہ اُن کی بول چال اور ان کے فہم کا محک اپنی خود تراشیدہ نحو کوقرار دیا جائے.“ VI - مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی طرف سے مخالف علماء کو میا ملے کی پہلی دعوت : اب تک مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اپنے دعاوی (باب دوئم ) کی سچائی ثابت کرنے کے لئے علماء سجادہ نشینوں اور دیگر مکفرین کو مباحثوں کی دعوت چلے آرہے تھے لیکن بہت سے مولوی صاحبان مرزا صاحب کو مسلسل کا فر کہتے رہتے تھے.چنانچہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے پہلی دفعہ ۱۰ دسمبر ۱۸۹۲ء کو بذریعہ اشتہار ایسے تمام علماء خصوصاً مولوی نذیر حسین دہلوی، مولوی محمد حسین بٹالوی اور دیگر سرکردہ مولوی صاحبان کو مباہلے کی درخواست کی اور اُن کو دسمبر ۱۸۹۲ء سے چار ماہ کی مہلت دی تا کہ اس دوران وہ مباہلہ کے لئے شرائط طے کر لیں.مرزا غلام احمد صاحب نے یہ دعوت مباہلہ فرداً فرداً تمام مکفر علماء کو بھیجی لیکن ہزاروں علماء میں سے صرف مولوی عبدالحق صاحب غزنوی اور مولوی محمد حسین بٹالوی چند شرائط پر مباہلے کے لئے تیار ہوئے.مباہلے کے لئے ۲۷ مئی ۱۸۹۳ ء کا دن امرتسر کا عید گاہ کا میدان ، متصل مسجد خان بہادر حاجی محمد شام قرار پایا.چنانچہ مرزا صاحب نے امرتسر کے مسلمانوں کو : الحق مباحثہ.دہلی ۱۹۰۵ء صفحات ۷ ۷-۷۸
۲۸۶ مخاطب کر کے اشتہار دیا کہ ”اے برادران اسلام ! کل دہم ذیقعد وشنبہ کو بمقام مندرجہ عنوان میاں عبد الحق غزنوی اور بعض دیگر علماء جیسا کہ انہوں نے وعدہ کیا ہے اس عاجز سے اس بات پر مباہلہ کریں گے کہ وہ لوگ اس عاجز کو کا فراور دجال اور بے دین اور دشمن اللہ جلشانہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سمجھتے ہیں اور اس عاجز کی کتابوں کو مجموعہ کفریات خیال کرتے ہیں اور اس طرف یہ عاجز نہ صرف اپنے تئیں مسلمان سمجھتا ہے بلکہ اپنے وجود کو اللہ اور اس کی راہ میں فدا کئے بیٹھا ہے....اگر میری کتابیں خدا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ کے مخالف اور کفر سے بھری ہوئی ہیں تو خدا تعالیٰ وہ لعنت اور عذاب میرے پر نازل کرے جو ابتدائے دنیا سے آج تک کسی کافر، بے ایمان پر نہ کی ہو....بڑے ثواب کی بات ہو گی اگر آپ صاحبان کل دہم ذیقعد کو دو بجے کے وقت عید گاہ میں مباہلہ میں آمین کہنے کے لئے تشریف لاویں لے ۲۷ رمئی ۱۸۹۳ء کے دن ۲ بجے کثیر تعداد میں امرتسر اور نواح کے لوگ مباہلہ دیکھنے کے لئے جمع ہو گئے.مرزا غلام احمد صاحب مع احباب کے دو بجے عید گاہ میدان میں پہنچ گئے.تھوڑی دیر بعد مولوی حسین بٹالوی بھی تشریف لے آئے اور آتے ہی عید گاہ کے منبر پر کھڑے ہو کر گالیوں سے بھر پور تقریر شروع کر دی حالانکہ یہ : مرزا غلام احمد قادیانی - اشتہار ۲۶ رمئی ۱۸۹۳ء ( مجموعہ اشتہارات مرزا غلام احمد صاحب جلد 1 صفحات ۴۲۶ - ۴۲۷)
۲۸۷ پہلے طے ہو چکا تھا کہ کوئی فریق مباہلے کے علاوہ کوئی تقریر کرنے کا مجاز نہیں ہوگا.حاضرین نے طے شدہ شرائط کی خلاف ورزی اور گندی تقریر کو سخت ناپسند کیا.خواجہ یوسف شاہ صاحب رئیس امرتسر منشی غلام قا در فصیح اور دیگر معززین کے مجبور کرنے کے باوجود مولوی صاحب مباہلے پر راضی نہ ہوئے.ان معززین کی کوششوں کو رائیگاں جاتا دیکھ کر مرزا صاحب اپنے طور پر مولوی عبدالحق صاحب کے ساتھ مباہلے کے لئے کھڑے ہو گئے اور خدا تعالیٰ سے صرف اپنے لئے دُعا کی کہ اگر میں اپنے دعوے میں جھوٹا ہوں تو خدا تعالیٰ مجھے ہلاک کر دے.تین بار دُعا کے الفاظ دُہرائے لیکن مولوی عبد الحق کے لئے کوئی بددعا نہ کی.دوسری طرف نہ صرف مولوی عبدالحق صاحب اور دیگر مولوی صاحبان نے جوابی مباہلہ نہ کیا بلکہ اس یک طرفہ مباہلے کے اختتام پر مولوی صاحبان نے مرزا صاحب کے دعاوی پر بحث کرنے کے لئے شور مچادیا.مرزا صاحب نے بحث بھی منظور کر لی لیکن مولوی صاحبان نے اپنے درمیان مشورہ کرنے کے لئے کچھ مہلت مانگی اور مشورے کے بہانے مسجد محمد جان کے حجرے میں چھپ کر باہر سے قفل لگا لیا.جب وہاں بھی لوگوں نے ڈھونڈ لیا تو مولوی غلام اللہ قصوری نے علماء کو یہ مشورہ دیا کہ مرزا صاحب سے بحث سے انکار نہ کرنا یہ کہہ دو کہ بحث تو ہوگی مگر کابل یا مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ میں ہوگی نہ وہاں جائیں گے نہ مباحثہ ہوگا.ا : شیخ نور احمد صاحب - رسالہ نور احمد.نمبر صفحات ۳۳ تا ۳۵ ( تاریخ احمدیت جلد ۲ صفحات ۲۷۷ تا ۳۸۰)
۲۸۸ VII - ہندوستان میں ترکی کے وائس کونسل جناب حسین کامی کی طرف سے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی مخالفت اور اس کا انجام : -1 جناب حسین کامی ۱۸۹۷ء میں سلطنت ترکی کی طرف سے ہندوستان میں وائس کونسل تھے اور کراچی میں مقیم تھے.اپریل مئی ۱۸۹۷ء میں جب وہ لا ہور آئے تو مسلمانان لاہور کی طرف سے خلیفتہ المسلمین سلطان عبدالحمید ثانی کے ساتھ گہری عقیدت کے باعث حسین کامی صاحب کا شاندار استقبال کیا گیا.اس موقع پر جماعت احمد یہ لاہور کے بعض اصحاب نے اُن سے ملاقات کی اور جماعت کا لٹریچر بھی دیا.اس ملاقات سے متاثر ہو کر جناب حسین کا می صاحب نے مرزا غلام احمد صاحب سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی اور ایک تحریری درخواست مرزا صاحب کی خدمت میں بھجوائی.انہوں نے اس درخواست میں جو فارسی زبان میں تھی ان القابات سے مخاطب کیا.”جناب مستطاب معلى القاب فدوة لمحققين قطب العارفين حضرت پیر دستگیر مرزا غلام احمد صاحب دام کرامانه.66 مرزا غلام احمد صاحب کی اجازت ملنے پر جناب حسین کا می صاحب ۱۱/۱۰ رمئی ۱۸۹۷ء کو نماز عشا کے وقت قادیان پہنچے دوسرے روز مرزا صاحب سے علیحدگی میں ملاقات کی درخواست کی مرزا صاحب نے ان کو مہمان سمجھ کر قابل التفات سمجھا اور : مرزا غلام احمد قادیانی - اشتہار ۲۴ مئی ۱۸۹۷ء.مجموعہ اشتہارات جلد دوئم صفحہ ۴۱۸
۲۸۹ اپنے مزاج کے خلاف اس سے خلوت میں ملاقات کی جس کے دوران جناب حسین کامی صاحب نے سلطان ترکی ( سلطان روم) کے لئے خاص دعا کی درخواست کی اور یہ بھی چاہا کہ آئندہ قضاء قدر سے جو آنے والا ہے اس سے بھی مطلع کیا جاوے.مرزا صاحب نے اس کو صاف بتلا دیا کہ سلطان کی حالت اچھی نہیں ہے اور یہ کشفی طریق سے اس کے ارکان کی حالت اچھی نہیں دیکھتا اور میرے نزدیک ان حالتوں کے ساتھ انجام اچھا نہیں.‘ا مرزا صاحب نے کئی اشارات سے اس بات پر بھی زور دیا کہ رومی ( یعنی ترکی ناقل ) سلطنت خدا کے نزدیک کئی باتوں میں قصور وار ہے اور خدا سچے تقویٰ اور طہارت اور نوع انسانی کی ہمدردی کو چاہتا ہے.اور روم کی موجودہ حالت بر بادی کو چاہتی ہے.تو بہ کرو تا نیک پھل پاؤ.“ ہے مرزا صاحب نے اسے یہ بھی بتایا کہ اول اس کشف کا نشانہ تم ہو اور تمہارے حالات کشف کی رو سے اچھے معلوم نہیں ہوتے“ سے یہ الہامی باتیں جو مرزا صاحب نے وائس کونسل ترکی کو اس کی اپنی درخواست کے له : مرزا غلام احمد قادیانی - اشتہار ۲۴ رمئی ۱۸۹۷ء.مجموعہ اشتہارات جلد دوئم صفحہ ۴۱۸ : مرزا غلام احمد قادیانی - اشتہار ۲۴ مئی ۱۸۹۷ء.مجموعہ اشتہارات جلد دوئم صفحہ ۴۱۶ : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۰ ء- تریاق القلوب صفحه ۲۸۱
۲۹۰ جواب میں از راہ ہمدردی بتائی تھیں اور ان سے سلطان ترکی کی شان میں بے ادبی کرنا مقصود نہ تھا.ان کو سُن کر جناب حسین کا می صاحب حیرت زدہ رہ گئے اور اُنہوں نے مرزا صاحب کے انکشافات کا بہت بُرا منایا.قادیان سے واپس جانے کے بعد جناب حسین کامی صاحب نے مرزا غلام احمد صاحب کے خلاف ایک نہایت اہانت آمیز خط لکھ کر شیعہ مکتبہ فکر کے ایک اخبار ناظم الہند لا ہور کی ۱۵رمئی ۱۸۹۷ء کی اشاعت میں چھپوا دیا.اس خط میں جناب حسین کا می صاحب نے مرزا صاحب کے خلاف بہت گندے اور اخلاق سے گرے ہوئے الفاظ استعمال کئے جن میں مرزا صاحب کو نمرود اور شداد اور شیطان لکھا نیز جھوٹا اور مردود قرار دے کر مرزا غلام احمد صاحب کو مورد غضب الہی قرار دیا.لے یہ خط ہی کیا کم تھا کہ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اسی اشاعت میں ایڈیٹر ناظم الہند نے اپنی طرف سے یہ اضافہ کیا کہ یہ نائب خلیفہ اللہ سلطان روم ( یعنی حسین کا می.ناقل ) جو پاک باطنی اور دیانت اور امانت کی وجہ سے سراسر نور ہیں یہ اس لئے قادیان میں بلائے گئے ہیں کہ تا مرزائے قادیان اپنے افترا سے اس نائب الخلافت یعنی مظہر انوار الہی کے ہاتھ پر تو بہ کرے اور آئندہ اپنے تئیں مسیح موعود ٹھہرانے سے باز آ جائے ہے ل : حسین کامی.وائس کونسل ترکی ۱۸۹۷ ء - خط اخبار ناظم الہند.لاہور ۱۵ رمئی ۱۸۹۷ء ( مجموعہ اشتہارات مرزا غلام احمد قادیانی.حصہ دوئم.صفحات ۴۱۸ - ۴۱۹ ) ے ایڈیٹر اخبار ناظم الہند لاہور.۱۵ رمئی ۱۸۹۷ ء - ( تریاق القلوب.مرزا غلام احمد صاحب ۱۹۰۰ - صفحه ۲۷۹)
۲۹۱ - جناب حسین کا می.وائس کونسل ترکی کی مرزا صاحب کے ساتھ اس طرح پیدا شدہ عداوت کو بہت سے مخالفین اور اخباروں نے مسلمانوں میں مرزا صاحب کے خلاف اشتعال پیدا کرنے کے لئے خوب استعمال کیا.چنانچہ مرزا صاحب نے ۲۴ مئی ۱۸۹۷ء کو ایک اشتہار شائع کیا جس میں جناب حسین کا می صاحب کی غلط بیانیوں اور ایڈیٹر اخبار ناظم الہند کے اپنی طرف سے ریمارکس کا خاص طور پر جواب دیا.مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ میں مکرر ناظرین کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ مجھے اس سفر کی ملاقات کا ایک ذرہ شوق نہ تھا بلکہ جب میں نے سُنا کہ لاہور کی میری جماعت اس سے ملی ہے تو میں نے بہت افسوس کیا اور ان کی طرف ملامت کا خط لکھا کہ یہ کاروائی میرے منشا کے خلاف کی گئی ہے.پھر آخر سفیر نے لاہور سے ایک انکساری کا خط میری طرف لکھا کہ میں ملنا چاہتا ہوں.سو اس کے الحاج پر میں نے اس کو قادیان آنے کی اجازت دے دی لیکن اللہ جل شانہ جانتا ہے جس پر جھوٹ باندھنا لعنت کا داغ خریدنا ہے کہ اس عالم الغیب نے مجھے پہلے سے اطلاع دے دی تھی کہ اس شخص کی سرشت میں نفاق کی رنگ آمیزی ہے ! اللہ تعالیٰ اس بات پر گواہ ہے کہ مجھے دنیا داروں اور منافقوں کی ملاقات سے اس قدر بیزاری اور نفرت ہے جیسا کہ نجاست سے.مجھے نہ : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۰۷ ء اشتہار ۲۴ رمئی ۱۸۹۷ء ( مجموعہ اشتہارات مرزا غلام احمد.حصہ ۲ صفحه ۴۱۷)
۲۹۲ کچھ سلطان روم ( یعنی سلطان تر کی.ناقل ) کی حاجت ہے اور نہ اس کے کسی سفیر کی ملاقات کا شوق ہے.میرے لئے ایک سلطان کافی ہے جو آسمان اور زمین کا حقیقی بادشاہ ہے اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ قبل اس کے کہ کسی دوسرے کی طرف مجھے حاجت پڑے اس عالم سے گزر جاؤں.آسمان کی بادشاہت کے آگے دنیا کی بادشاہت اس قدر بھی مرتبہ نہیں رکھتی جیسا کہ آفتاب کے مقابلہ پر ایک کیڑا مرا ہوا.پھر جب کہ ہمارے بادشاہ کے آگے سلطان روم بیچ ہے تو اس کا سفیر کیا چیز 1.جب حسین کا می صاحب وائس کونسل ترکی کا ۱۵ رمئی ۱۸۹۷ء کے اخبار ناظم الہند لا ہور میں چھپا ہوا خط راولپنڈی کے ایک دقیع عالم اور رئیس راجہ جہاں داد کی نظر سے گزرا تو انہوں نے بھی مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے متعلق بہت سے نازیبا الفاظ استعمال کئے.گو انہوں نے خود تو کوئی مضمون مرزا صاحب کے خلاف نہیں لکھا لیکن ان کے تبصرے کو زیر بحث بنا کر اخبار چودہویں صدی نے ۱۵ جون ۱۸۹۷ء کی اشاعت میں سلطان ترکی کے بہانے سے مرزا صاحب کے متعلق سخت توہین آمیز ، تحقیر اور استہزاء پر مبنی جملے لکھے.مرزا صاحب نے چودھویں صدی میں چھپنے والے اس مضمون کا جواب ۲۵ جون ۱۸۹۷ء کو ایک اشتہار کے ذریعے دیا.اس میں آپ نے لکھا کہ جب یہ اخبار جو دھویں صدی میرے روبرو پڑھا گیا تو میری ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۰۷ ء اشتہار ۲۴ رمئی ۱۸۹۷ء ( مجموعہ اشتہارات مرزا غلام احمد.حصہ ۲ صفحه ۴۱۵)
۲۹۳ روح نے اس مقام میں بددُعا کے لئے حرکت کی جہاں یہ لکھا ہے کہ ایک بزرگ نے جب یہ اشتہار ( یعنی اس عاجز کا اشتہار ) پڑھا تو بے ساختہ ان کے منہ سے یہ شعر نکل گیا.چوں خدا خواہد کہ پرده کس درد میلش اندر طعنه پاکاں بُرد میں نے ہر چند اسی روحی حرکت کو روکا اور دبایا اور بار بار کوشش کی کہ یہ بات میری روح میں سے نکل جائے مگر وہ نہ نکل سکی تب میں نے سمجھا کہ وہ خدا کی طرف سے ہے.تب میں نے اس شخص کے بارے میں دعا کی جس کو بزرگ کے الفاظ سے اس اخبار میں لکھا گیا ہے اور میں جانتا ہوں کہ وہ دُعا قبول ہوگئی اور وہ دُعا یہ ہے کہ یا الہی اگر تو جانتا ہے کہ میں کذاب ہوں اور تیری طرف سے نہیں ہوں اور جیسا کہ میری نسبت کہا گیا ہے ملعون اور مردود ہوں اور کاذب ہوں اور تجھ سے میرا تعلق اور تیرا مجھ سے نہیں تو میں تیری جناب میں عاجزانہ عرض کرتا ہوں.کہ مجھے ہلاک کر ڈال اور اگر تو جانتا ہے کہ میں تیری طرف سے ہوں اور تیرا بھیجا ہوا ہوں اور مسیح موعود ہوں تو اس شخص کے پردے پھاڑ دے جو بزرگ کے نام سے اس اخبار میں لکھا گیا ہے لیکن اگر وہ اس عرصہ میں قادیان میں آ کر مجمع عام میں تو بہ کرے تو اسے معاف فرما کہ تو رحیم وکریم ہے.یہ دعا ہے کہ میں نے اس بزرگ کے حق میں کی مگر مجھے اس بات کا
۲۹۴ علم نہیں ہے کہ یہ بزرگ کون ہے اور کہاں رہتے ہیں اور کس مذہب اور قوم کے ہیں جنہوں نے مجھے کذاب ٹھہرا کر میری پردہ دری کی پیشگوئی کی اور نہ مجھے جاننے کی کچھ ضرورت ہے مگر اس شخص کے اس کلمہ سے میرے دل کو دُ کھ پہنچا اور ایک جوش پیدا ہوا تب میں نے دعا کر دی اور یکم جولائی ۱۸۹۷ء سے یکم جولائی ۱۸۹۸ء تک اس کا فیصلہ کرنا خدا تعالیٰ سے مانگا ہے.اور بزرگ مذکور جس نے ہماری پردہ دری کے پیشگوئی کیاس بات کو یاد رکھے کہ ہماری طرف سے اس میں کچھ زیادت نہیں.انہوں نے پیشگوئی کی اور ہم نے بددعا کی.آئندہ ہمارا اور اُن کا خدا تعالیٰ کی جناب میں فیصلہ ہے اب حقیقت میں جوڑ وسیاہ ہے وہی روسیاہ ہوگا.اس بزرگ کو روم کے ایک ظاہری فرمانروا کے لئے جوش آیا اور خدا کے قائم کردہ سلسلہ پر تھوکا اور اس کے مامور کو پلید قرار دیا حالانکہ سلطان کے بارے میں میں نے ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا تھا.لیکن پھر بھی اس بزرگ نے وہ شعر میری نسبت پڑھا کہ شائد مثنوی کے مرحوم مصنف نے نمر و دوشدا داور ابو جہل اور ابولہب کے حق میں بنایا ہوگا.ل : مرزا غلام احمد قادیانی - اشتہار ۲۵ جون ۱۸۹۷ء ( مجموعہ اشتہارات.مرزا غلام احمد حصہ دوئم صفحات ۴۳۱ تا ۴۴۲)
۲۹۵ حسین کامی اور مرزا غلام احمد صاحب کے درمیان قضیے کے انجام : حسین کا می وائس کونسل ترکی اور مرزا غلام احمد صاحب کے درمیان پیدا ہونے قضیے کے نتیجے میں مرزا صاحب نے تین فریقوں کے بارے میں پیشگوئیاں کیں.سلطان ترکی کے اراکین کی حالت اچھی نہ ہونا اور انجام اچھا نہ ہونا.حسین کامی کی سرشت میں منافقت کا ہونا.۳.چودھویں صدی رسالہ میں درج ”بزرگ کی توبہ نہ کرنے کی صورت میں پردہ دری.اس قضیے کو گزرے ۹۰ سال سے زائد ہو چکے ہیں اور تینوں پیشگوئیوں کے انجام کا تاریخی ثبوت حیرت انگیز اور عبرتناک ہے ملاحظہ فرمائیے.- اخبار چودھویں صدی میں مذکور بزرگ کی تو بہ: اخبار چودھیوں صدی نے حسین کامی کے قضیے میں جن بزرگ کا حوالہ دیا تھا وہ راجہ جہانداد خاں رئیس راولپنڈی تھے.اگر چہ مرزا صاحب کی طرف سے انہیں معافی کے لئے ایک سال کا عرصہ دیا گیا تھا مگر وہ چند ماہ کے اندر ہی عاجزانہ طور پر مرزا صاحب سے معافی کے خواستگار ہوئے.انہوں نے مرزا غلام احمد صاحب کو خط لکھا کہ وسیدی و مولائی ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ایک خطا کاراپنی غلط کاری سے اعتراف کرتا ہوا ( اس نیاز نامہ کے ذریعے سے ) قادیان کے مبارک مقام پر (گویا) حاضر ہو کر آپ کے رحم کا خواستگار ہوتا ہے.یکم جولائی ۹۷ ء سے یکم جولائی ۹۸ ء تک جو اس گنہگار کو مہلت دی گئی اب آسمانی بادشاہت میں آپ کے مقابلہ میں اپنے آپ کو مجرم قرار دیتا
۲۹۶ ہوں.(اس موقعہ پر مجھے القا ہوا کہ جس طرح آپ کی دُعا مقبول ہوئی اسی طرح میری التجا و عاجزی قبول ہو کر حضرت اقدس کے حضور معافی و رہائی دی گئی.اس وقت تو میں ایک مجرم گنہگاروں کی طرح آپ کے حضور میں کھڑا ہوتا ہوں اور معافی مانگتا ہوں.( مجھ کو حاضر ہونے میں بھی کچھ عذر نہیں مگر بعض حالات میں حاضری سے معاف کیا جانے کا مستحق ہوں ) شاید جولائی ۱۸۹۸ء سے پہلے حاضر ہی ہو جاؤں.اُمید ہے کہ بارگاہ قدس سے بھی آپ کو راضی نامہ دینے کے لئے تحریک فرمائی جائے کہ نسی نعِدُ لَهُ عرضًا قانون کا بھی یہی اصول ہے کہ جو جرم عمد او جان بوجھ کر نہ کیا جاوے.وہ قابل راضی نامہ و معافی ہوتا ہے.فاعفو واصلِحُوا إِنّ اللهَ يُحِبُّ المحسنين - میں ہوں حضور کا مجرم دستخط بزرگ راولپنڈی ۲۹ /اکتوبر۱۶۱۸۹۷ مرزا غلام احمد قادیانی نے ۲۰ نومبر ۱۸۹۷ء کو شائع شدہ اشتہار میں اس معافی نامہ کے متعلق لکھا کہ ” خدا تعالیٰ اس بزرگ کی خطا معاف کرے اور اس سے راضی ہو.66 میں اس سے راضی ہوں اور اس کو معافی دیتا ہوں.“ ہے ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۸ء- کتاب البریہ - صفحہ ۸۷ : مرزا غلام احمد قادیانی اشتہار ۲۰ / نومبر ۱۸۹۷ء ( مجموعہ اشتہارات مرزا غلام احمد.حصہ دوم صفحات ۴۷۴ تا ۴۸۲)
۲۹۷ -۲- حسین کامی کی مجرمانہ خیانت رسوائی اور سفارت سے برطرفی: مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے اپنے اشتہار ۲۴ رمئی ۱۸۹۷ء میں جناب حسین کا می وائس کونسل ترکی کی بے شمار افتر اپردازیوں کے جواب میں یہ کہا تھا کہ مجھے اول ملاقات میں ہی اس سے دنیا پرستی کی بو آئی تھی اور اس کا طریق منافقانہ دکھائی دیا تھا لیکن اخبار ناظم الہند لا ہور نے مرزا صاحب کی عداوت میں سفیر مذکور کو پاک باطنی اور دیانت اور امانت کی وجہ سے سراسر نور قرار دیا تھا آخر وہی سچ ثابت ہوا جو مرزا صاحب نے حسین کامی کے متعلق کہا تھا.مرزا صاحب کی اہانت کرنے کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کی جناب سے انہیں ایسی سزا ملی کہ مجرمانہ خیانت کے مرتکب ہونے کے باعث اُن کی جائیداد ضبط ہوئی غداری کے مجرم ٹھہرے، زمانے میں رسوا ہوئے اور بالآ خر سفارت سے برطرف کئے گئے.اس کا مختصر احوال یوں ہے.انہی دنوں یونانیوں نے ترکی کی اسلامی سلطنت کے ایک مقبوضہ جزیرہ کریٹ پر قبضہ کر لیا اور وہاں کے مسلمانوں کا بے دردی سے قتل عام شروع کر دیا.پورے عالم اسلام میں اس کا شدید رد عمل ہوا اور ساری دنیا کے مسلمانوں نے اپنے ان مظلوم ترک بھائیوں کے لئے چندے جمع کرنے شروع کر دیئے.ہندوستان کے کچھ علاقوں کے مسلمانوں نے اپنے چندے جناب حسین کا می صاحب سفیر ترکی کراچی کے پاس جمع کروائے تا کہ وہ انہیں کریٹ کے مظلوم ترکوں تک پہنچا دیں مگر حسین کا می صاحب یه سا را چندہ غبن کر گئے اور ستم رسیدوں تک نہ پہنچایا.حکومت ترکی کو جب اس غداری کا علم ہوا تو حکومت ترکی کی طرف سے جناب حسین کا می کو سفارت سے برطرف کر دیا گیا اور غبن شدہ رقم کی واپسی کے لئے اُن کی جائیداد ضبط کر لی گئی.جناب حسین کا می صاحب
۲۹۸ کی ان رُسوا کن منافقانہ کاروائیوں کی اطلاع ایک ہندوستانی سیاح جناب حافظ عبدالرحمن صاحب امرتسری کے ذریعے اخبار نیر آصفی مدارس کی ۱۲ اکتوبر ۱۸۹۹ء کی اشاعت میں چھپی.اور اس طرح ہندوستانی مسلمانوں کو ان سفیر صاحب کی مکروہ اخلاقی حالت کا علم ہوا.حافظ صاحب نے اپنے خط میں لکھا کہ ”ہندوستان کے مسلمانوں نے جو گزشتہ دوسالوں میں مہاجرین کریٹ اور مجروحین عسا کر حرب یونان کے واسطے چندہ فراہم کر کے قونصل ہائے دولت علیہ ترکیہ مقیم ہند کو دیا تھا معلوم ہوتا ہے کہ ہر ز ر چندہ تمام و کمال قسطنطنیہ میں نہیں پہنچا اور اس امر کے باور کرنے کی یہ وجہ ہوتی ہے کہ حسین بک کا می وائس قونصل مقیم کرانچی کو جو ایک ہزار چھ سو روپیہ کے قریب مولوی انشاء اللہ صاحب ایڈیٹر اخبار وکیل امرتسر اور مولوی محبوب عالم صاحب ایڈیٹر پیسہ اخبار لاہور نے مختلف مقامات سے وصول کر کے بھیجا تھا وہ سب غبن کر گیا ایک کوڑی تک قسطنطنہ نہیں پہنچائی مگر خدا کا شکر ہے کہ سلیم پاشا ملحمہ کارکن کمیٹی چندہ کو جب خبر پہنچی تو اس نے بڑی جانفشانی کے ساتھ اس روپیہ کے اگلوانے کی کوشش کی اور اس کی اراضی مملو کہ کو نیلام کرا کر وصولی رقم کا انتظام کیا اور باب عالی میں خبر بھجوا کر نوکری سے موقوف کرایا.حافظ عبدالرحمن امرتسری کے اس خط میں درج انکشاف پر تبصرہ کرتے ہوئے له : اخبار نیر آصفی مدراس - ۱۲ / اکتوبر ۱۸۹۹ء ( تریاق القلوب.مرزا غلام احمد صاحب ۱۹۰۲ء صفحات ۲۸۵-۲۸۶)
۲۹۹ ایڈیٹر صاحب اخبار غیر آصفی مدر اس نے چندہ مظلومان کریٹ اور ہندوستان کے عنوان کے تحت لکھا کہ ہمیں آج کی ولایتی ڈاک میں اپنے ایک لائق اور معزز نامہ نگار کے پاس سے ایک قسطنطنیہ والی چٹھی ملی ہے جس کو ہم اپنے ناظرین کی اطلاع کے لئے درج کئے دیتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے ہمیں کمال افسوس ہوتا ہے.افسوس اس وجہ سے کہ ہمیں اپنی ساری اُمیدوں کے برخلاف اس مجرمانہ خیانت کو جو سب سے بڑی اور سب سے زیادہ مہذب و منظم اسلامی سلطنت کے وائس قونصل کی جانب سے بڑی بے دردی کے ساتھ عمل میں آئی اپنے ان کانوں سے سننا اور پبلک پر ظاہر کرنا پڑا ہے جو کیفیت جناب مولوی حافظ عبدالرحمن صاحب الہندی نزیل قسطنطنیہ نے ہمیں معلوم کرائی ہے اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ حسین بک کامی نے بڑی بے شرمی کے ساتھ مظلومان کریٹ کے روپیہ کو بغیر ڈکار لینے کے ہضم کر لیا اور کارکن کمیٹی چندہ نے بڑی فراست اور عرق ریزی کے ساتھ ان سے رو پید ا گلوایا....ہماری رائے میں ایسے خائن کو عدالتانہ کاروائی کے ذریعے عبرت انگیز سزادینی چاہئے.“ ! حسین کامی کی خیانت، رسوائی اور برطرفی کی خبر جب اخبار ناظم الہند لاہور، دوسرے اخبارات اور مولوی صاحبان تک پہنچی جنہوں نے سفیر مذکور کو امانت و دیانت له : اخبار نیر آصفی مدراس - ۱۲ / اکتوبر ۱۸۹۹ء ( تریاق القلوب.مرزا غلام احمد.صفحات ۲۸۴-۲۸۵)
میں سراپا نور قرار دے کر اس کی مدح سرائی میں زمین و آسمان کے قلابے ملا ر کھے تھے تو یہ خبر ان پر بجلی بن کر گری.مرزا غلام احمد صاحب نے اس موقع پر لکھا کہ ”ہماری وہ پیشگوئی حسین کامی کی نسبت نہایت صفائی سے پوری ہو گئی اور وہ نصیحت جو ہم نے اپنے خلوت خانہ میں اس کو کی تھی کہ تو بہ کروتا نیک پھل پاؤ جس کو ہم نے اپنے اشتہار ۲۴ رمئی ۱۸۹۷ء میں شائع کر دیا تھا اس پر پابند نہ ہونے سے آخر وہ اپنی پاداش کردار کو پہنچ گیا اور اب وہ ضرور اس نصیحت کو یاد کرتا ہوگا مگر افسوس یہ ہے کہ وہ اس ملک کے بعض ایڈیٹران اخبار اور مولویان کو بھی جو اس کو نائب خلیفتہ المسلمین اور رکن امین سمجھ بیٹھے تھے اپنے ساتھ ہی ندامت کا حصہ دے گیا اور اس طرح پر انہوں نے ایک صادق کی پیشگوئی کی تکذیب کا مزہ چکھ لیا.اب اُن کو چاہیے کہ آئندہ اپنی زبانوں کو سنبھالیں.کیا یہ سچ نہیں کہ میری تکذیب کی وجہ سے بار بار اُن کو خجالت پہنچ رہی ہے؟ اگر وہ سچ پر ہیں تو کیا باعث کہ ہر ایک بات میں آخر کار کیوں اُن کو شرمندہ ہونا پڑتا ہے.- سلطنت ترکی کی پراگندگی اور سلطان عبدالحمید ثانی کی معزولی: -٣ اگر چہ مرزا غلام احمد قادیانی اور سلطنت ترکی یا سلطان عبدالحمید ثانی کے مابین کوئی عداوت یا مخالفت نہ تھی تاہم ہم گزشتہ صفحات میں بیان کر آئے ہیں کہ مرزا صاحب نے جناب حسین کا می صاحب کی درخواست پر کہ آئندہ پیش آنے والے حالات کے : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۲ ء - تریاق القلوب.ضیاءالاسلام پر لیس قادیان صفحه ۴ ۲۸
٣٠١ " بارے میں کچھ بتایا جائے.مرزا صاحب نے اسے بتایا تھا کہ سلطان کی سلطنت کی اچھی حالت نہیں اور وہ کشفی طریق سے ان کے ارکان کی حالت اچھی نہیں دیکھتا اور میرے نزدیک ان حالتوں کے ساتھ انجام اچھا نہیں لے چنانچہ سلطنت ترکی کے بعد کے حالات بتاتے ہیں کہ وہی ہوا جو مرزا صاحب نے کشفی طور پر دیکھا تھا.جس وقت مرزا صاحب نے اپنا کشف بیان کیا تھا اس وقت تر کی ایک وسیع و عریض سلطنت تھی جس میں طرابلس ، سرزمین حجاز ، عراق ، فلسطین، اردن ، شام ، لبنان اور براعظم ایشیا کے کچھ دوسرے حصے شامل تھے.اگر چہ ان کے عمال کی اخلاقی حالت اچھی نہ تھی پھر بھی مرزا صاحب ان مسلمان علاقوں میں اسلامی حکومت کو غنیمت سمجھتے تھے جو کچھ مرزا صاحب نے کشفی طور پر دیکھا تھا.اس سے بھی آپ کو صدمہ تھا لیکن وہ بہر حال خدا کا الہام تھا.چنانچہ ۱۹۰۴ء میں سلطنت ترکی میں تبدیلی کے آثار پیدا ہوئے جو ارکان حکومت کی غداری کے باعث خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے.چنانچہ اخبار وکیل امرتسر ترکی کے ان دنوں کے حالات کے بارے میں لکھتا ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ کسی نہ کسی نمک حرام ٹرک افسر کی غداری کی خبریں مشہور نہ ہوتی ہوں.اب جو شخص...غداری کے میدان میں نکلا ہے کمال الدین پاشا فرزند عثمان پاشا ہے.یہ نوجوان (سلطان ترکی کا.ناقل ) دامادتھا...کیا دردناک سبق ہے کہ جس شخص کو سلطنت کی ترقی ، اقبال میں ساعی ہونا چاہیے تھا وہ سازش کے جرم میں ا : مرزا غلام احمد قادیانی - اشتہار ۲۴ مئی ۱۸۹۷ء ( مجموعہ اشتہارات جلد دوئم - صفحہ ۴۱۶)
٣٠٢ زندان میں ڈالا جائے جب تک ترکوں میں اس قسم کے آدمی ہیں اپنے آپ کو کبھی بھی خطرہ سے باہر نہیں نکال سکتے.‘لے وہ غرضیکہ سلطنت کے اراکین کی پے در پے غداریوں سے ملک میں سخت ابتری پھیل گئی.۱۹۰۹ء میں سلطان عبدالحمید ثانی کو معزول کر دیا گیا اور ان کے بھائی سلطان محمد شاہ پنجم بادشاہ بن گئے.ملکی خزانے اور فوج کی حالت ناگفتہ بہ تھی.اس کمزوری سے فائدہ اُٹھا کر اٹلی نے طرابلس پر قبضہ کر لیا.۱۹۱۸ء میں جنگ عظیم اول کے اختتام پر اتحادیوں نے اس جرم کی سزا میں کہ ترکی نے جنگ میں جرمنی کا ساتھ دیا تھا ترکی کے حصے بخرے کر کے آپس میں بانٹ لئے.حجاز ، عراق، فلسطین اور اردن انگریزوں کے زیر اقتدار چلے گئے.فرانس نے شام اور لبنان پر قبضہ کر لیا.اشیائے کو چک یونان کے حصے میں آیا اور اس طرح ترکی کی عظیم سلطنت کا انجام عین مرزا غلام احمد صاحب کے کشف کے مطابق خراب ہوا.سے Vill - منشی الہی بخش صاحب اکومنٹ کی طرف سے مرزا غلام احمد صاحب کی مخالفت اور اس کا انجام : منشی الہی بخش صاحب اکومنٹنٹ لا ہورا بتدا میں کافی عرصہ تک مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے عقیدت مندوں میں شامل رہے.مرزا صاحب کے لئے معمولی سے معمولی خدمت کرنے حتیٰ کہ پاؤں دبانے تک کے لئے مستعد رہتے.اکثر قادیان ل : اخبار وکیل امرتسر - ۲۷ اگست ۱۹۰۴ء.صفحہ ۸ کالم ۲ : دوست محمد شاہد ۱۹۵۹ ء - تاریخ احمدیت.جلد دوم صفحات ۴۳۹ - ۴۴۰
٣٠٣ بھی آتے رہتے اور مرزا صاحب کی تصانیف میں بھی مالی مدد دیتے.جب کبھی مرزا صاحب لدھیانہ، انبالہ یاکسی اور جگہ جاتے تو منشی صاحب بھی کوشش کر کے وہاں پہنچتے تا کہ مرزا صاحب کی خدمت کا کوئی موقعہ مل سکے.اس طرح منشی صاحب مرزا صاحب کے ساتھ اخلاص اور عقیدت کا برتاؤ کرتے.کچھ عرصے کے بعد انہیں یہ احساس ہوا کہ انہیں بھی الہام ہوتا ہے.اس کے ساتھ ہی منشی صاحب میں مرزا صاحب کے ساتھ تعلق میں ایک تبدیلی آنے لگی وہ اپنے آپ کو خدا کا پاکیزہ اور برگزیدہ بندہ سمجھنے لگے یہاں تک کہ انہوں نے اور ان کے ایک اور ساتھی منشی عبدالحق صاحب اکو نٹنٹ نے ۱۸۸۹ء میں نہ صرف مرزا صاحب کی بیعت نہ کی بلکہ با قاعدہ مخالفت میں بہت آگے بڑھ گئے.اے مرزا صاحب اور منشی الہی بخش صاحب اکو نٹنٹ کے درمیان چونکہ کافی عرصہ تک مخلصانہ تعلقات رہے تھے اس لئے طبعا مرزا صاحب کو ان کی بدلی ہوئی حالت پر افسوس ہوا.مرزا صاحب نے ان دنوں ایک رسالہ تحریر کیا جس کا نام اور موضوع بحث ضرورۃ الامام تھا اس میں مرزا صاحب نے لکھا کہ امامت کے لئے کس قدر اخلاق ، قوت امامت، بسطت في العلم ، عزم ، اقبال علی اللہ کی قوتوں اور کشوف والہامات کا سلسلہ ضروری ہے.آپ کا رسالہ لکھنے کا مقصد ایک یہ بھی تھا کہ منشی الہی بخش صاحب کے وساوس کو دور کر کے انہیں گمراہی سے بچایا جا سکے.اس کے پڑھنے کے بعد منشی صاحب کھل کر مرزا صاحب کے مخالف بن گئے.نوبت یہاں تک پہنچی کہ انہوں نے : مرزا غلام احمد صاحب ۱۹۰۷ ء - حقیقۃ الوحی - تتمه صفحه ۵۳۴
۳۰۴ اپنے ساتھیوں میں یہ کہنا شروع کر دیا کہ مرزا صاحب کے الہامات محض جھوٹ ہیں اور منشی صاحب خود اپنے الہامات مرزا صاحب کے بارے میں شائع نہیں کرتے کہ کہیں مرزا صاحب اُن کے خلاف انگریزی عدالت میں مقدمہ نہ دائر کر دیں.جب مرزا صاحب کو منشی صاحب کے اس خوف کا علم ہوا تو آپ نے انہیں یقین دلایا کہ وہ ان کے بارے میں الہامات ضرور شائع کرائیں مرزا صاحب کوئی مقدمہ دائر نہیں کریں گے.مرزا غلام احمد صاحب نے منشی صاحب کے نام اپنے خط میں لکھا کہ چونکہ مجھے آسمانی فیصلہ مطلوب ہے یعنی یہ مدعا ہے کہ تالوگ ایسے شخص کو شناخت کر کے جس کا وجود حقیقت میں اُن کے لئے مفید ہے راہ راست پر مقیم ہو جائیں اور تا لوگ ایسے شخص کو شناخت کر لیں جو در حقیقت خدا تعالیٰ کی طرف سے امام ہے اور ابھی تک یہ کس کو معلوم ہے کہ وہ کون ہے.صرف خدا کو معلوم ہے یا ان کو جن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بصیرت دی گئی ہے.اس لئے یہ انتظام کیا گیا ہے (یعنی یہ کہ بابو صاحب اپنے وہ تمام الہامات جو میری تکذیب کے متعلق ہیں.شائع کر دیں) پس اگر منشی صاحب کے الہامات درحقیقت خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں تو وہ الہام جو میری نسبت اُن کو ہوئے ہیں اپنی سچائی کا کوئی کرشمہ ظاہر کریں گے (یعنی ضرور ان کے بعد میرے پر کوئی تباہی اور ہلاکت آئے گی ) اور اس طرح پر یہ خلقت جو واجب الرحم ہے مُسرف کذاب سے نجات پالے گی (یعنی جب کہ بابو صاحب مجھ کو کذاب خیال کرتے ہیں کہ گویا میں نے دعویٰ مسیح موعود کر کے خدا پر افترا کیا ہے
۳۰۵ تو میں ہلاک ہو جاؤں گا ) اور اگر خدا تعالیٰ کے علم میں کوئی ایسا امر ہے جو اس بدظنی کے خلاف ہے تو وہ امر روشن ہو جائے گا (یعنی خدا تعالیٰ کے علم میں در حقیقت میں مسیح موعود ہوں تو خدا تعالیٰ میرے لئے گواہی دے گا ) اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ نعوذ باللہ میری طرف سے نہ کوئی آپ پر نالش ہو گی اور نہ کسی قسم کا بے جا حملہ آپ کی وجاہت اور شان پر ہوگا صرف خدا تعالیٰ سے عقدہ کشائی چاہوں گا (یعنی یہ چاہوں گا کہ اگر میں مفتری نہیں ہوں اور میرے پر یہ جھوٹا اور ظالمانہ حملہ ہے تو میری بریت اور بابو صاحب کی تکذیب کے لئے خدا آپ کوئی امر نازل کرے) کیونکہ بریت کی خواہش کرنا سنت انبیاء ہے جیسا کہ حضرت یوسف نے خواہش کی.“ منشی الہی بخش صاحب اکو نٹنٹ نے مرزا غلام احمد صاحب کا مذکورہ بالا خط ملتے ہی ایک کتاب ۴۰۰ صفحات پر مشتمل لکھی اور اس کا نام عصائے موسیٰ رکھا.اس کتاب میں اپنے اور مرزا صاحب کے متعلق کچھ کلمات لکھے.چونکہ اس کتاب کو چھپے ہوئے پون صدی سے زائد عرصہ گزر چکا ہے ہم ان میں سے چند الہامات کا تذکرہ درج کریں گے تاکہ اُن کی صداقت کا تعین کیا جاسکے.تیرے لئے سلام ہے.تم غالب ہو جاؤ گے اور اُس پر (یعنی مرزا صاحب پر ) غضب نازل ہوگا اور وہ ضرور ہلاک ہو جاوے گا.ا : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ ء- حقیقۃ الوحی.تتمہ صفحات ۵۸۴-۵۸۵
۳۰۶ 11- ”جیسا کہ ہزاروں مخالفین چاہتے ہیں اسی کے موافق مرزا صاحب ہلاک ہو جائیں گے.‘ سے - ( ترجمہ ) "طاعون نازل ہوگی اور وہ مع اپنی جماعت کے طاعون میں بتلا ہو جائے گا اور خدا ان ظالموں پر ہلاکت نازل کرے گا “ سے IV- جو خدمت مجھ کو سپرد ہوئی ہے جب تک پوری نہ ہو تب تک میں ہرگز نہ مروں گا.“ ہے قضیے کا انجام : بالآ خر منشی الہی بخش اکو نٹنٹ مصنف عصائے موسیٰ اور مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے درمیان اس روحانی مقابلے کا انجام منشی صاحب کے بیان کردہ الہامات کے بالکل بر عکس نکلا.منشی صاحب کے الہامات میں سے کوئی بھی صداقت کی کسوٹی پر پورا نہ اترا.منشی صاحب اپنے ایک تعلق دار یعقوب ولد محمد اسحاق جو طاعون سے ہلاک ہوا تھا اس کے جنازے میں شریک ہوئے وہاں سے انہیں طاعون کا مرض لاحق ہوا.ایک ہی دن میں ان کے اندر طاعون کی ساری علامتیں ظاہر ہو گئیں اور وہ ۷ را پریل ۱۹۰۷ ء کو اس دار فانی سے کوچ کر گئے.ان کی وفات کی خبر اس طرح چھپی کہ افسوس منشی الہی بخش صاحب لاہوری مصنف عصائے موسیٰ بھی لے ، ہے : منشی الہی بخش اکونٹنٹ ۱۹۰۰ ء - عصائے موسیٰ.صفحہ ۷۹ ( حقیقت الوحی.مرزا غلام احمد قادیانی صفحات ۵۴۹،۵۴۲) ۳، ۴ : منشی الہی بخش اکو نٹنٹ ۱۹۰۰ء - عصائے موسیٰ.صفحہ ۷۹ ( حقیقت الوحی.مرزا غلام احمد 6 قادیانی صفحات ۵۵۰،۵۴۹)
۳۰۷ طاعون سے شہید ہو گئے ! منشی صاحب نے مرزا صاحب کے لئے طاعون سے ہلاکت کا الہام بتایا تھا لیکن فی الواقعہ خود طاعون سے ہلاک ہوئے جب کہ مرزا صاحب کا سارا گھرانہ طاعون سے مکمل طور پر محفوظ رہا.جب کہ مرزا صاحب کے چاروں طرف طاعون کے زوردار حملے گیارہ سال تک ہوتے رہے اور سینکڑوں دوسرے لوگ ہلاک ہوئے.منشی صاحب نہ ہی سلامت رہے تا کہ غالب آ سکیں اور جو خدمت ان کے الہام کے مطابق ان کے سپرد ہوئی تھی اسے پورا کر سکیں اور نہ کوئی دوسرا قابل قدر کارنامہ سر انجام دے سکے.آج یہ حالت ہے کہ اچھے اچھے تعلیم یافتہ لوگوں میں سے شائد ہی کوئی ہو جو نشی الہی بخش صاحب کے نام اور ان کے کسی علمی کارنامے سے واقف ہو.دوسری طرف مرزا غلام احمد صاحب جن کی ہلاکت کا منشی صاحب نے الہام کی بنا پر دعویٰ کیا تھا ان کی جماعت نہ صرف ختم نہیں ہوئی بلکہ بڑھتی اور پھیلتی ہی جارہی ہے.۱۸۸۹ء میں بیعت اولی کے دن کل ۴۰ مریدوں نے بیعت کی تھی اور منشی صاحب نے روگردانی کا پہلا قدم اُٹھایا تھا.۱۹۰۷ء میں منشی صاحب کی وفات کے وقت مرزا صاحب کے مریدوں کی تعداد۴ لاکھ تک پہنچ چکی تھی.ہے اور آج ۱۹۸۸ء کے وقت بعض اندازوں کے مطابق ایک کروڑ ہو چکی ہے.ایک غیر جانبدار قاری کے لئے سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہلاک کون ہوا؟ طاعون سے کون مرا؟ غالب کون ہوا؟ کامیابی کی طرف کون گامزن ہے؟ مرزا غلام احمد صاحب یا منشی الہی بخش صاحب اور اخبار اہل حدیث ۱۱ را پریل ۱۹۰۷ء : مرزا غلام احمد قادیانی.حقیقۃ الوحی.تتمہ صفحہ ۵۳۸
اس طرح کون مفتری نکلا اور کس کے الہامات غلط ثابت ہوکر شیطانی وساوس نکلے؟ الغرض منشی الہی بخش صاحب کی موت ہر پہلو سے مرزا صاحب کی سچائی کی ایک واضح دلیل بن گئی.1- مولوی محمد حسین بٹالوی کی مرزا غلام احمد صاحب کے خلاف شورش مقدمہ حفظ امن اور اس کا انجام : اس سے قبل اسی باب اور باب ہفتم میں بھی ان چند واقعات کا ذکر کر چکا ہوں جن میں مولوی محمد حسین بٹالوی کی مرزا غلام احمد صاحب سے طویل عداوت کا پتہ چلتا ہے.ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے مقدمے میں (باب ہفتم) مرزا صاحب کے مقابلے میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی شدید تو ہین کے بعد مولوی صاحب نے مرزا صاحب کی مخالفت میں حد کر دی اور کوئی دن ایسا نہ جاتا جب مولوی صاحب اپنے رسالے اشاعتہ السنہ میں مرزا صاحب کو کذاب ، مفتری اور دجال نہ لکھتے.اس دوران جو مختلف مباحثات اور مباہلات کے چیلنج مرزا صاحب کی طرف سے دیئے گئے.ان میں بھی مولوی صاحب کے کردار کی تھوڑی سی جھلک آپ کی نظروں سے گزر چکی ہے.مرزا صاحب کے مباحثوں اور مباہلوں کی دعوت سے تنگ آ کر مولوی صاحب نے ۱۰ نومبر ۱۸۹۸ء کو مرزا صاحب کے خلاف ایک اشتہار شائع کر دیا جس میں مرزا صاحب کے خلاف بہت گندے اور نا پاک الفاظ استعمال کئے گئے اور آپ کو رسوا کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی.یہ اشتہار مولوی صاحب نے دو اور علما ء مولوی ابوالحسن صاحب تبتی اور محمد بخش جعفر زٹلی کے اشتراک کے ساتھ دیا.۷۰
۳۰۹ مرزا صاحب کو جب یہ اشتہار ملا تو آپ نے ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کو اس کے جواب میں جو اشتہار دیا.اس کا اقتباس درج ذیل ہے.اس وقت وہ اشتہار میرے سامنے رکھا ہے اور میں نے خدا تعالیٰ سے دُعا کی ہے کہ وہ مجھ میں اور محمد حسین میں آپ فیصلہ کرے اور وہ دعا جو میں نے کی ہے یہ ہے کہ اے میرے ذوالجلال پروردگار ! اگر میں تیری نظر میں ایسا ہی ذلیل اور جھوٹا اور مفتری ہوں جیسا کہ محمد حسین بٹالوی نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں بار بار مجھ کو کذاب اور دجال اور مفتری کے لفظ سے یاد کیا ہے اور جیسا کہ اس نے اور محمد بخش جعفر زٹلی اور ابوالحسن تبتی نے اس اشتہار میں جو • ارنومبر ۱۸۹۸ء کو چھپا ہے میرے ذلیل کرنے میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہیں رکھا تو اے میرے مولا میں تیری نظر میں ایسا ہی ذلیل ہوں تو مجھ پر تیرہ ماہ کے اندر یعنی ۱۵؍ دسمبر ۱۸۹۸ء سے پندرہ جنوری ۱۹۰۰ء تک ذلت کو مار وارد کر اور ان لوگوں کی عزت اور وجاہت ظاہر کر اور اس روز کے جھگڑے کو فیصلہ فرمالیکن اگر اے میرے آقا ، میرے مولی، میرے منعم ، میری ان نعمتوں کو دینے والے جو تو جانتا ہے اور میں جانتا ہوں ! تیری جناب میں میری کچھ عزت ہے تو میں عاجزی سے دُعا کرتا ہوں ان تیرہ مہینوں میں جو ۱۵ار دسمبر ۱۸۹۸ء سے ۱۵ جنوری ۱۹۰۰ ء تک شمار کئے جائیں گے شیخ محمد حسین اور جعفر زٹلی اور تیتی مذکور کو جنہوں نے میرے ذلیل کرنے کے لئے یہ اشتہار لکھا ہے ذلت کی مار سے دنیا میں رسوا کر.غرض اگر یہ لوگ تیری نظر میں بچے اور
۳۱۰ متقی اور پرہیز گار ہیں اور میں کذاب اور مفتری ہوں تو مجھے ان تیرہ مہینوں میں ذلت کی مار سے تباہ کر اور اگر تیری جناب میں مجھے وجاہت اور عزت ہے تو میرے لئے یہ نشان ظاہر فرما اور تینوں کو ذلیل اور رسوا اور ضربت عليهم الذلة کا مصداق کر.آمین ثم آمین ! اس اشتہار کے اندر ہی مرزا صاحب نے یہ بھی درج کر دیا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے الہام کے ذریعے بتادیا ہے کہ میں ظالم کو ذلیل اور رسوا کروں گا“ ہے اور وہ اپنے ہاتھ کاٹے گا“ سے iii- ترجمه بدی کا بدلہ ویسا ہی ہوگا ۴ iv- ترجمہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور جو نیکو کار ہوتے ہیں ۵ -- ترجمہ ” تم صبر کرو اس وقت تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم نافذ کر دے“ 1 اُس الہام کی جس کے کچھ حصے ہم نے شق وار ( i ) سے ( v ) یہاں درج کئے ہیں وضاحت کرتے ہوئے مرزا صاحب نے اپنے ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کے اشتہار میں لکھا کہ یہ خدا تعالیٰ کا فیصلہ ہے جس کا ماحصل یہی ہے کہ دونوں فریقوں ل : مرزا غلام احمد قادیانی - اشتہار۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء ( تاریخ احمدیت جلد سوئم ۱۹۶۲ صفحه ۳۲) ۳۲ ، ۴، ۵ ، ۶ : مرزا غلام احمد قادیانی - اشتہا ر۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء تذکره 6 صفحات ۳۲۴-۳۲۵
۳۱۱ میں سے جن کا ذکر اس اشتہار میں ہے یعنی یہ خاکسار ایک طرف اور شیخ محمد حسین اور جعفر زٹلی اور مولوی ابوالحسن تبتی دوسری طرف خدا کے حکم کے نیچے ہیں.ان میں سے جو کا ذب ہے وہ ذلیل ہوگا.یہ فیصلہ چونکہ الہام کی بنا پر ہے اس لئے حق کے طالبوں کے لئے ایک کھلا کھلا نشان ہو کر ہدایت کی راہ ان پر کھولے گا “ا مرزا صاحب کے مندرجہ بالا ۲۱ / نومبر ۱۸۹۸ء کے اشتہار کے جواب میں ۳۰ نومبر ۱۸۹۸ء کو جعفر زٹلی نے ایک اور دشنام طرازی سے بھر پوراشتہار شائع کیا اور مرزا صاحب کی پیشگوئیوں کی تکذیب کی لیکن مرزا غلام احمد صاحب نے اس بنا پر اپنی جماعت کو صبر، نرمی، تواضع اور تقویٰ کی نصیحت.کہ چونکہ یہ مقدمہ اب خدا کی عدالت میں ہے اس لئے خدا تعالیٰ کی عدالت کی توہین نہ کرو اور اس کے فیصلے کا انتظار کرو.نتائج کا ظہور : اگر چہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے پیشگوئی اور الہی فیصلے کے لئے تیرہ ماہ یعنی ۱۵ جنوری ۱۹۰۰ ء تک کی مدت کا تعین مانگا تھا لیکن واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدائی فیصلے کا ظہور بہت جلد شروع ہو گیا.اس بارے میں چند واقعات کا بیان نیچے دیا گیا ہے.(الف) مولوی محمد حسین بٹالوی نے ۱۴ راکتو بر ۱۸۹۸ء کو وکٹوریہ پریس لاہور سے مرزا غلام احمد قادیانی اشتہار ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء ( تذکره صفحات ۳۲۵-۳۲۶)
۳۱۲ ایک رسالہ انگریزی زبان میں شائع کیا جس میں حکومت سے زمین کے مربعے حاصل کرنے کی خاطر امام مہدی کے ظہور سے نہ صرف انکار کیا بلکہ اس بارے میں احادیث کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی.مرزا غلام احمد صاحب کو جب مولوی صاحب کی اس منافقانہ کاروائی کا علم ہوا تو آپ نے بہت سے مقتدر علماء ہند کو اس سے مطلع کیا اور ایسے شخص کے بارے میں اُن سے فتویٰ طلب کیا جو امام مہدی کے ظہور کا منکر ہو چنانچہ وہی کا فر، دجال، کذاب، مفتری ہونے کے فتوے جو مولوی محمد حسین اور اس کے ساتھی مرزا صاحب کے بارے میں دیا کرتے تھے وہی ہندوستان کے مولویوں نے اس کے بارے میں دیئے بلکہ خود محمد حسین کے استاد نذیرحسین دہلوی نے اس کی نسبت فتویٰ دے دیا یعنی کہ وہ کذاب اور دجال اور مفتری اور کافر اور بدعتی اور اہل سنت سے خارج بلکہ اسلام سے خارج ہے اور اس طرح مرزا غلام احمد قادیانی کی یہ الہامی پیشگوئی پوری ہوئی کہ بدی کا بدلہ ویسا ہی ہوگا ، میں ظالم کو ذلیل اور رسوا کروں گا“ (ب) اگر چه مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے نزول امام مہدی کے عقیدے کی تردید کر کے ہندوستان کے مسلمان علماء کی لعنتوں اور سارے زمانے میں ذلت اور رسوائی کے عوض حکومت سے ۴ مربعے اراضی بطور انعام تو حاصل کر لی لیکن اب بھی مرزا صاحب کے مقابلے میں کئی نامرادیاں اور نا کامیاں اُن کی قسمت میں تھیں.اس کی ایک صورت تو اس وقت پیدا ہوئی جب مرزا صاحب کے ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کے شائع اشتہار میں درج ایک الہام اَتَعْجَبُ لامری “ پر مولوی صاحب نے ایک اعتراض کیا کہ یہ گرامر کے لحاظ سے غلط عربی ترکیب ہے.مرزا صاحب نے اس کا
۳۱۳ جواب اپنے رسالے راز حقیقت میں شعرائے عرب اور احادیث سے مثالیں دے کر دیا جن سے مرزا صاحب کی ترکیب کی تائید ہوتی تھی تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بالکل لا جواب ہو گئے اور ان کی علمیت پر حرف آیا اور خاموشی کے سوا چارہ نہ رہا.(ج) تیسری نامرادی کی مولوی صاحب کے لئے یہ صورت پیدا ہوئی کہ انہوں نے انگریزی حکومت سے اس بات کی جھوٹی مخبری کی کہ مرزا غلام احمد قادیانی انگریزوں کے خلاف والی ءِ افغانستان امیر عبدالرحمن سے ساز باز کر رہے ہیں.چنانچہ ایک انگریز کپتان پولیس اور رانا جلال الدین انسپکٹر پولیس سپاہیوں کا ایک دستہ لے کر قادیان پہنچ گئے.مرزا صاحب کے مکان کا محاصرہ کر لیا تاکہ تلاشی لے سکیں لیکن پولیس افسران مرزا صاحب سے فقط ایک ملاقات میں ہی اس قدر متاثر ہوئے کہ انہیں یقین ہو گیا کہ مرزا صاحب ایک راستباز انسان ہیں اس لئے وہ لوگ بغیر تلاشی لئے واپس چلے گئے.یہ بات بھی مولوی حسین کے لئے بہت تکلیف دہ تھی.قدم قدم پر ثابت ہو رہا تھا کہ مرزا صاحب کے خلاف ہر تد بیر ناکام ہو رہی ہے.اے -۲- مولوی محمد حسین بٹالوی کا مرزا صاحب کے خلاف مقدمہ: ان مسلسل ہزیمتوں کے بعد جب وہ ہر طرف سے مایوس ہو گئے تو مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی طرف سے ۲۱ نومبر ۱۸۹۸ء کی پیشگوئی کو بنیاد بنا کر مولوی محمدحسین : ڈاکٹر بشارت احمد - مجدد اعظم.جلد اوّل صفحات ۵۹۰-۵۹۲ ( تاریخ احمدیت جلد سوئم صفحات ۴۳ - ۴۴)
۳۱۴ بٹالوی نے جگہ جگہ ایک چھری دکھا کر یہ شور و غوغا شروع کر دیا کہ جس طرح پنڈت لیکھرام ہلاک ہوا ہے ( باب پنجم ) اسی طرح مرزا صاحب مجھے بھی قتل کروانا چاہتے ہیں.مولوی صاحب کے اس شور و غل کا بہانہ بنا کر مرزا صاحب کے ایک شدید مخالف پولیس افسر محمد بخش صاحب ڈپٹی انسپکٹر بٹالہ نے یکم دسمبر ۱۸۹۸ء کو ڈپٹی کمشنر گورداسپور مسٹر جی.ایم.ڈوئی کے پاس ایک رپورٹ بھجوائی جس میں مرزا صاحب کے مذکورہ بالا اشتہار کے باعث نقص امن کا اندیشہ ظاہر کیا.اس کے ساتھ ہی ۵/ دسمبر ۱۸۹۸ء کو مولوی محمد حسین بٹالوی نے بھی ڈپٹی کمشنر گورداسپور کو درج ذیل مضمون کی درخواست دی.مرزا غلام احمد ساکن موضع قادیان نے بر خلاف سائل بدیں مضمون اشتہار دیا ہے کہ مولوی ابوسعید محمد حسین کو ۱۳ ماہ کے اندر ذلت کی مار اور رسوائی ہو گی جس سے مجھے کو اندیشہ ہے کہ وہ اپنی پیشگوئی کو سچا کرنے کے لئے میری جان کو نقصان پہنچانے کی کوئی ناجائز تد بیر کرے گا.اس مقدمہ کے دوران مرزا صاحب کو دو دفعہ گورداسپور، ایک دفعہ دھار یوال اور ایک دفعہ پٹھانکوٹ اور بالآخر فیصلے کے لئے پھر گورداسپور جانا پڑا.مولوی محمد حسین بٹالوی کے شدید مخالفانہ بیان ڈپٹی انسپکٹر پولیس سید شبیر حسین صاحب وغیرہ کے مولوی محمد حسین بٹالوی کے حق میں تصدیقی بیان کے باعث مقد مے کی نوعیت : اخبار الحکم قادیان-۳/ مارچ ۱۸۹۹ء صفحات ۶-۷
۳۱۵ کافی خطرناک ہو گئی تھی.ڈپٹی کمشنر کا اپنا رویہ بھی ناروا نظر آ رہا تھا.اس کے باوجود مرزا صاحب نے جوابی بیان میں مولوی صاحب اور پولیس افسران کے مخالفانہ بیان کے مدلل جوابات کے بعد یہ بھی کہا کہ امن اور سلامتی کے نشان اور امن اور سلامتی کی پیشگوئیاں جن کو آسودگی عامہ خلائق میں کچھ دست اندازی نہیں ہمیشہ ایک بارش کی طرح نازل ہو رہے ہیں لیکن خدا کی قدیم سنت کے موافق ضرور تھا کہ میں اسی طرح عوام کی زبان سے دُکھ دیا جاتا جیسا کہ پہلے پاک نبی دیئے گئے.خاص کر وہ اسرائیلی نبی سلامتی کا شہزادہ جس کے پاک قدموں سے شعیر کے پہاڑ کو برکت پہنچی اور جو قوم کی نا انصافی اور نا بینائی سے مجرموں کی طرح پیلاطوس اور ہیروڈوس کے سامنے عدالت میں کھڑا کیا گیا تھا سو مجھے اس بات پر فخر ہے کہ اس پاک نبی کی مشابہت کی وجہ سے میں بھی عدالتوں کی طرف کھینچا جاؤں...اس بیان کے جلد بعد ۱۸ جنوری ۱۸۹۹ء کو اللہ تعالیٰ نے الہاما مرزا صاحب کے فیصلے کے بارے میں مطلع کر دیا.”ہم نے دشمنوں کو مغلوب کیا اور اس کے تمام اسباب کاٹ دیئے.اُن پر واویلا ہے.کیسے افتر ا کرتے ہیں.ظالم اپنے ہاتھ کاٹے گا اور اپنی شرارتوں سے روکا جائے گا اور خدا نیکوں کے ساتھ ہوگا...ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۹ ء - بیان عدالت جی.ایم.ڈوئی.ارجنوری ۱۸۹۹ء ( تاریخ احمدیت جلد سوم صفحه ۵۰)
٣١٦ مقدمے کا انجام : اگر چہ متعصب پولیس افسران نے مرزا صاحب کے خلاف بڑی محنت سے مقدمہ تیار کیا تھا اور اپنی سرتوڑ کوشش کی کہ کس طرح مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو سزا ہو جائے لیکن ۲۴ فروری ۱۸۹۹ء کو ڈپٹی کمشنر نے پولیس کا مقدمہ خارج کر دیا جس کے نتیجے میں پے در پے ایسے واقعات رونما ہوئے جن سے مرزا صاحب کی ایک ماہ قبل کی پیشگوئی حرف بحرف پوری ہوئی.ملاحظہ فرمائیے : ڈپٹی کمشنر گورداسپور نے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے جب مقدمے کو خارج کر دیا تو اس طرح مرزا صاحب کے الہام کا یہ حصہ پورا ہوا کہ ”ہم نے دشمنوں کو مغلوب کیا اور اس کے تمام اسباب کاٹ دیئے.II- ڈپٹی کمشنر صاحب نے مرزا صاحب سے مندرجہ ذیل نوٹس پر دستخط کر وائے کہ آئندہ کوئی فریق اپنے مخالف کی نسبت موت وغیرہ دلآ زار مضمون کی پیشگوئی نہ کرے ، کوئی کسی کو کافر اور دجال اور مفتری نہ کہے، کوئی کسی کو مباہلے کے لئے نہ بلاوے...ایک دوسرے کے مقابل پر نرم الفاظ استعمال کریں، بد گوئی اور گالیوں سے مجتنب رہیں.....اور یہ طریق نہ صرف باہم مسلمانوں میں بلکہ عیسائیوں میں بھی یہی چاہئیے ! ڈپٹی کمشنر گورداسپور کا یہ فیصلہ کئی لحاظ سے مرزا صاحب کے دلی منشا اور مرضی سے ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۹ ء - حقیقة المهدی - ۲۱ فروری ۱۸۹۹ء طبع اول صفحات ۱۰ تا ۱۳
۳۱۷ مطابقت رکھتا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ تکفیر بازی کا مشغلہ بند ہو.مرز اصاحب ۱۸۹۷ء میں اس خواہش کا اظہار کر چکے تھے کہ علماء ” میری جماعت سے سات سال تک اس طرح صلح کر لیں کہ تکفیر اور تکذیب اور بدزبانی سے منہ بند رکھیں.‘۲ III- اگر چہ مولوی محمد حسین بٹالوی اس مقدمے میں فریق نہیں رہے تھے اور پولیس ہی سرا سر مقد مے کو چلا رہی تھی لیکن ۲۴ فروری ۱۸۹۹ء کو جب اس کا فیصلہ تھا مولوی صاحب محض تماشا دیکھنے کے لئے اور مرزا صاحب کو سزا سنائے جانے کی امید لے کر وہاں آگئے.ڈپٹی کمشنر نے ان کو دیکھتے ہی ان سے بھی مندرجہ بالا نوٹس پر دستخط کروائے.اس طرح مرزا صاحب جو دل سے تکفیر و تکذیب کو نا پسند کرتے تھے ان کی دلی مراد بر آئی جب کہ مولوی صاحب جو تا عمر مرزا صاحب کو کافر لکھتے رہنے کے عزم کا بار ہا اظہار کر چکے تھے وہ بھی اب قانونا اس بات کے پابند ہو گئے کہ آئندہ وہ کسی کی تکذیب نہیں کریں گے.مرزا صاحب کو اس سے دوہری خوشی ہوئی اور مولوی صاحب نے عدالت میں غیر ضروری طور پر آکر اپنے ہاتھ کاٹ لئے“.اب وہ اپنے رسالے اشاعۃ السنہ میں مرزا صاحب کو دجال مفتری ، کذاب وغیرہ نہ لکھ سکیں گے اس طرح مرزا صاحب کے الہام کا یہ حصہ پورا ہوا کہ ظالم اپنے ہاتھ کاٹے گا اور اپنی شرارتوں سے روکا جائے گا.لے : ڈپٹی کمشنر گورداسپور- فیصله ۲۴ فروری ۱۸۹۹ء ( تریاق القلوب مرزا غلام احمد صفحه ۱۸۶) ہے : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۷ء - انجام آنقم طبع اول - ضمیمہ صفحات ۲۷-۲۸
۳۱۸ IV ڈپٹی کمشنر گورداسپور جی.ایم.ڈوئی نے مقدمہ خارج کرتے ہوئے مرزا صاحب کے متعلق لکھا کہ وو وہ گندے الفاظ جو محمد حسین اور اس کے ساتھوں نے آپ کی نسبت شائع کئے آپ کو حق تھا کہ عدالت کے ذریعے سے اپنا انصاف چاہتے اور چارہ جوئی کرتے اور وہ حق اب تک قائم ہے ہے ڈپٹی کمشنر کے ان الفاظ سے مولوی محمد حسین بٹالوی اور ان کے دوستوں کی دریدہ دہنی اور غیر اخلاقی زبان استعمال کرنے کا یہاں تک اعتراف کیا گیا کہ وہ عدالت کے نزدیک قابل مواخذہ گردانے گئے.یہ بھی مولوی صاحب اور ان کے ساتھیوں کی ایک لحاظ سے تذلیل اور رسوائی تھی.مرزا غلام احمد قادیانی کی پذیرائی: یہ مقدمہ ایک طرف اپنی تمام جزئیات میں مولوی محمد حسین بٹالوی کے لئے خجالت ، رسوائی اور نامرادی لایا وہاں دوسری طرف مرزا صاحب کے لئے بے انتہاء پذیرائی کا موجب بھی بنا اور مرزا صاحب کی ان سفروں کے دوران جو آپ مقدمے کی پیروی کے لئے کرتے تھے مقبولیت عوام قابلِ دید تھی.۲۶ جنوری ۱۸۹۹ء کا دھار یوال میں عدالت میں پیشی کا سفر تو قابل دید تھا.اس سفر کے کچھ اقتباسات اخبار الحکم قادیان کی ۳۱ / جنوری ۱۸۹۹ء کی اشاعت سے یہاں درج کئے جاتے ہیں : حضرت اقدس ( مرزا غلام احمد قادیانی - ناقل ) معہ رفقا ریلوے له : مرزا غلام احمد قادیانی ۲۱ فروری ۱۸۹۹ء حقیقت المهدی طبع اوّل صفحات ۱۰ تا ۱۳ : ڈپٹی کمشنر گورداسپور.فیصلہ ۲۴ فروری ۱۸۹۹ء ( تاریخ احمدیت.جلد سوئم - صفحه ۵۶)
۳۱۹ کی سڑک گزر کر دھار یوال کے کارخانے کے ساتھ گزرتے ہوئے آگے بڑھے تو دیکھا کہ ایک ہجوم حضور کے استقبال کے لئے چشم براہ ہے.....ذرا اور آگے جب ڈاکخانہ کے متصل پہنچے تو دھاریوال کے مشہور اون کے کارخانہ کے ہندو، مسلمان ملازم اور ڈاکخانہ کے کلرک دوڑ کر آگے آئے اور کیمپ ( عدالت کا کیمپ.ناقل ) کا پتہ بتایا...حضور آگے آگے جارہے تھے اور پیچھے خلقت کا ایک انبوہ تھا.اور پھر خیمہ سے کوئی سو قدم کے فاصلہ پر اتر پڑے.آپ بیٹھ گئے اور حضور کے مخلصین بھی ارد گرد حلقہ بنا کر مؤدبانہ بیٹھ گئے...اور چند ہی منٹوں میں کوئی تین، چار سو آدمی جمع ہو گیا.اور یہ مجمع اس قدر بڑھا کہ حضور کو بیٹھنا ہی دشوار ہو گیا...اسی دن آنے والوں کی تعداد...ایک محتاط اندازے کے مطابق....دو اڑھائی ہزار تک پہنچ چکی تھی...( جمعہ کا دن تھا.ناقل ) ڈیڑھ ہزار نے نماز جمعہ دا کی نماز جمعہ کے بعد لوگوں کا ہجوم بہت ہو گیا.چلنے کو راستہ نہ ملتا تھا.آخر عبادت علی نام ایک صاحب نے کہا کہ حضور لوگ دور دور سے سے کاروبار چھوڑ کر آئے ہیں حضور پل پر کھڑے ہو کر سب کو زیارت کرائیں چنانچہ حضور انور چند منٹ پل پر رونق افروز ر ہے.( اور دوسری طرف.ناقل ) مولوی محمد حسین بٹالوی کی حالت یہ : اخبار الحکم - قادیان ۳۱ / جنوری ۱۸۹۹ء ( تاریخ احمدیت جلد سوم - صفحات ۵۲-۵۳)
۳۲۰ تھی ( کہ باوجود اونچی آواز سے بلانے کے.ناقل ) ان کے پیچھے نماز پڑھنے والوں کی تعداد ۲۰ سے بڑھ نہ سکیا ۴- مرزا غلام احمد صاحب کو اس مقدمے کے دوران اس بات پر بھی مسرت ہوئی کہ نہ صرف آپ کو مجسٹریٹ کے سامنے ایک صاف ستھرا اور سچا بیان دینے کا فرض ادا کرنا میسر آیا بلکہ آپ نے عیسائی ڈپٹی کمشنر کے سامنے اپنے مسیح محمدی ہونے کی نہایت احسن رنگ میں تبلیغ بھی کی.۵ مؤلف کتاب 'مسجد داعظم نے مرزا غلام احمد صاحب کے سفر پٹھانکوٹ (بسلسلہ مقدمہ - ناقل ) کا ایک ایمان افروز واقعہ راجہ غلام حیدرخان تحصیل دار پٹھانکوٹ کے حوالے سے لکھا ہے.وہ لکھتے ہیں کہ اتفاق ایسا ہوا کہ جس مقام پر مسٹر ڈوئی ڈپٹی کمشنر گورداسپور کا خیمہ لگا ہوا تھا اس کے نزدیک ہی ایک مکان میں حضرت مرزا صاحب جا کر قیام پذیر ہوئے درمیان میں ایک میدان تھا جہاں حضرت مرزا صاحب اور آپ کے احباب نماز باجماعت پڑھا کرتے تھے.مغرب کا وقت تھا....مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی حسب معمول امام بنے.انہوں نے نماز میں جو قرآن پڑھنا شروع کیا تو ان کی بلند مگر خوش الحان اور اثر میں ڈوبی ہوئی آواز مسٹر ڈوئی کے کان میں پڑی.وہ اپنے خیمے کے آگے کھڑے ہوئے اور ایک انہماک کے عالم میں کھڑے قرآن : اخبار الحکم.قادیان ۳۱ / جنوری ۱۸۹۹ء ( تاریخ احمدیت جلد سوم - صفحات ۵۲-۵۳)
۳۲۱ - سنتے رہے.جب نماز ختم ہوئی تو راجہ غلام حیدر خاں صاحب تحصیلدار پٹھان کوٹ کو بلا کر پوچھا کہ آپ کی ان لوگوں سے واقفیت سے ہے؟ انہوں نے عرض کی کہ ہاں.کہا کہ میں نے ان لوگوں کو نماز میں قرآن پڑھتے سنا ہے.میں اس قدر متاثر ہوا ہوں کہ حد سے باہر ہے.اس قسم کا ترنم اور اثر میں نے کسی کلام میں نہیں سنا اور نہ کبھی محسوس ہوا کیا پھر بھی یہ نماز پڑھیں گے اور مجھے نزدیک سے سننے کا موقع دیں گے؟ راجہ غلام حیدر صاحب حضرت اقدس (مرزا غلام احمد - ناقل ) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کل ماجرا عرض کیا.آپ نے فرمایا.ہمارے پاس بیٹھ کر قرآن سنیں.چنانچہ اب کی دفعہ نماز کے وقت ایک کرسی قریب بچھا دی گئی اور صاحب بہادر اس پر آ کر بیٹھ گئے.نماز شروع ہوئی اور مولوی عبدالکریم صاحب نے قرآن پڑھنا شروع کیا اور صاحب بہادر مسحور ہو کر جھومتے رہے ! نہ صرف مولوی محمد حسین بٹالوی اسے سارے قضیے کے دوران خائب و خاسر رہے بلکہ یہ مقدمہ ہر لحاظ سے مرزا صاحب کے لئے پذیرائی ، عزت افزائی اور الہی بشارتوں کے پورا ہونے کی نوید لے کر ساتھ آیا.مولوی صاحب کے اپنے ہاتھ بھی کٹ گئے کہ انہیں تکفیر بازی کے مشغلے سے حکماً روک دیا گیا بلکہ یہی حال مولوی صاحب کے ساتھیوں جعفر زٹلی اور ابوالحسن تبتی کا ہوا.ان کی قلمیں بھی ایسی ٹوٹیں کہ پھر خبر ہی نہ لگی ے: ڈاکٹر بشارت احمد مجدد اعظم.حصہ اوّل صفحہ ۶۰۶ ( تاریخ احمدیت.جلد سوم صفحه ۵۵)
۳۲۲ کہ کہاں گئے اور ان کا کیا ہوا.ساتھ ہی اس مقدمے کے اہم کردار محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر بٹالہ جس نے تعصب کی بنا پر مرزا صاحب کے خلاف ایک جھوٹا مقدمہ بنایا اور اسے سچ ثابت کرنے کے لئے ناخنوں تک زور لگا یا وہ بھی طاعون سے ہلاک ہوا اور اپنے کئے کی سزا پا کر اس جہاں سے رخصت ہوا.X - مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی طرف سے مخالف علماء کو مباہلے کی فیصلہ کن دعوت : ۱۸۹۷ء میں جب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی تصنیف انجام آتھم منظر عام پر آئی تو مرزا صاحب کے الہام الہی کے دعوے کو بیس برس سے زائد کا عرصہ گذر چکا تھا.اس دوران آپ گوشہ گمنامی سے نکل کر ساری دنیا اور خاص طور پر ہندوستان کے طول وعرض میں روشناس ہوئے.آپ نے مامور وقت ہونے کا دعویٰ کیا اور بلا شبہ ہزاروں نیک اور پر ہیز گاراور تعلیم یافتہ لوگوں کی جماعت آپ کے ہاتھ پر بیعت کر کے آپ کے گرد جمع ہو گئی.متعدد آریوں، عیسائیوں اور مختلف مکاتیب فکر کے مسلمان علماء سے آپ کے مذہبی مسائل پر مباحثے ہوئے.اس دوران مرزا صاحب نے ایسا لٹریچر بھی پیدا کیا جس کو بڑے پیمانے پر مسلمان حلقوں میں پسند کیا گیا.اس کے ساتھ ہی مسلمان علماء کا ایک کثیر طبقہ ایسا بھی سامنے آیا جس نے نہ صرف مرزا صاحب پر کفر کا فتویٰ لگایا بلکہ اُن میں سے بہت سے اس فتویٰ پر بضد ہو گئے اور آج تک آپ کی قائم کردہ جماعت احمدیہ کے متعلق ایسا ہی عقیدہ رکھتے ہیں جوں جوں مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اپنے دعاوی کی صداقت کے لئے دلائل مہیا کرتے گئے
۳۲۳ توں توں آپ کی مخالفت بھی بڑھتی گئی.مسلمانوں کے ساتھ اس روز روز کے تکفیر کے غلیظ مشغلے کے خاتمے کی خاطر مرزا صاحب نے ۱۸۹۷ء میں ملک کے تمام مشہور ، قابل ذکر علماء اور سجادہ نشینوں کا نام لے کر ان کو مباہلے کی ایک فیصلہ کن دعوت دی تا که حق و باطل کے درمیان فیصلہ ہو سکے اور تکفیر و تکذیب کا جو فتنہ بڑھتا جا رہا ہے اس سے نجات حاصل ہو سکے.چونکہ تاریخی اعتبار سے اس مباہلے کے دوررس اور عبرتناک نتائج نکلے اس لئے مناسب ہوگا کہ نتائج کا بیان دینے سے پہلے مرزا صاحب کی مجوزہ مباہلے کی عبارت کے ایک طویل اقتباس پر نظر ڈال لی جائے.مرزا......صاحب نے لکھا کہ سواب چونکہ تکذیب اور تکفیر اُن کی انتہا تک پہنچ گئی اس لئے وقت آ گیا کہ خدائے قادر اور علیم اور خبیر کے ہاتھ سے جھوٹے اور سچے میں فرق کیا جائے.ہمارے مخالف مولوی اس بات کو جانتے ہیں کہ خدا تعالی...پر افتراء کرنا اور یہ کہنا کہ فلاں فلاں الہام مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوا ہے حالانکہ کچھ بھی نہیں ہوا ایک ایسا سخت گناہ ہے کہ اس کی سزا میں صرف جہنم کی ہی وعید نہیں بلکہ...ایسا مفتری اسی دنیا میں دست بدست سزا پالیتا ہے اور خدائے قادر وغیور کبھی اس کو امن میں نہیں چھوڑتا اور اس کی غیرت اس کو کچل ڈالتی ہے اور جلد ہلاک کر دیتی ہے سو ایک تقوی شعار آدمی کے لئے یہ کافی تھا کہ خدا نے مجھے مفتریوں کی طرح ہلاک نہیں کیا.میں جوان تھا.جب خدا کی وحی اور الہام کا دعوی کیا اور اب میں بوڑھا ہو گیا اور ابتدائے دعوئی پر بیس برس سے بھی
۳۲۴ زیادہ عرصہ گذر گیا.بہت سے میرے عزیز جو مجھ سے چھوٹے تھے.فوت ہو گئے اور مجھے اس نے عمر دراز بخشی اور ہر ایک مشکل میں میرا متکفل اور متولی رہا...اب بھی اگر مولوی صاحبان مجھے مفتری سمجھتے ہیں تو اس سے بڑھ کر ایک اور فیصلہ ہے اور وہ یہ کہ میں ان الہامات کو ہاتھ سے لے کر جن کو میں شائع کر چکا ہوں مولوی صاحبان سے مباہلہ کروں اب اسے مخالف مولویو اور سجادہ نشینو! یہ نزاع ہم میں اور تم میں حد سے بڑھ گئی ہے اور اگر چہ یہ جماعت ( جماعت احمدیہ - ناقل ) تھوڑی سی اور فیہ قلیلہ ہے اور شائد اس وقت تک چار، پانچ ہزار سے زیادہ نہ ہوگی تاہم یقیناً سمجھو کہ یہ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودہ ہے اور خدا اس کو ہر گز ضائع نہیں کرے گا وہ راضی نہیں ہو گا جب تک کہ اس کو کمال تک نہ پہنچا دے اور وہ اس کی آب پاشی کرے گا اور اس کے گردا حاطہ بنائے گا اور تعجب انگیز ترقیات دے گا.کیا تم نے کچھ کم زور لگایا؟ پس اگر یہ انسان کا کام ہوتا تو کبھی کا یہ درخت کاٹا جاتا اور اس کا نام ونشان باقی نہ رہتا...سواب اُٹھو اور مباہلہ کے لئے تیار ہو جاؤ....اور یوں ہوگا کہ تاریخ اور مقام مباہلہ کے مقرر ہونے کے بعد میں ان تمام الہامات..کو جولکھ چکا ہوں اپنے ہاتھ میں لے کر میدان مباہلہ میں حاضر ہو جاؤں گا اور دُعا کروں گا کہ یا الہی اگر یہ الہامات جو میرے ہاتھ میں ہیں میرا ہی افترا ہے اور تو جانتا ہے کہ میں نے ان کو اپنی طرف سے بنالیا ہے یا اگر یہ شیطانی وساوس ہیں اور تیرے الہام نہیں تو آج کی تاریخ سے ایک
۳۲۵ برس گزرنے سے پہلے مجھے وفات دے یا کسی ایسے عذاب میں مبتلا کر جو موت سے بدتر ہو اور اس سے رہائی عطا نہ کر جب تک کہ موت آ جائے میری ذلت ظاہر ہو اور لوگ میرے فتنہ سے بچ جاویں لیکن اے خدائے علیم وخبیر! اگر تو جانتا ہے کہ یہ الہامات جو میرے ساتھ میں ہیں تیرے ہی الہام ہیں اور تیرے منہ کی باتیں ہیں تو ان مخالفوں کو جو اس وقت حاضر ہیں ایک سال کے عرصہ تک نہایت سخت دُکھ کی مار میں مبتلا کر کسی کو اندھا کر دے اور کسی کو مجزوم اور کسی کو مفلوج اور کسی کو مجنوں اور کسی کو مصروع اور کسی کو سانپ یا سگ دیوانہ کا شکار بنا اور کسی کے مال پر آفت نازل کر، کسی کی جان پر، کسی کی عزت پر اور جب میں یہ دُعا کر چکوں تو دونوں فریق کہیں کہ آمین.ایسا ہی فریق ثانی کی جماعت میں سے ایک شخص جو مباہلہ کے لئے حاضر ہو جناب الہی میں یہ دعا کرے کہ اے خدائے علیم وخبیر ! ہم اس شخص کو جس کا نام غلام احمد ہے در حقیقت کذاب اور مفتری اور کافر جانتے ہیں پس اگر یہ شخص در حقیقت کذاب اور مفتری اور کافر اور بے دین ہے اور اس کے یہ الہام تیری طرف سے نہیں بلکہ اپنا ہی افترا ہے تو اس امت مرحومہ پر یہ احسان کر.کہ اس مفتری کو ایک سال کے اندر ہلاک کر دے تا کہ لوگ اس کے فتنہ سے امن میں آجائیں اور اگر یہ مفتری نہیں اور تیری طرف سے ہے اور یہ تمام الہام تیرے ہی منہ کی پاک باتیں ہیں تو ہم پر جو اس کو کافر اور کذاب سمجھتے ہیں دُکھ اور ذلت سے بھرا ہوا عذاب ایک برس کے اندر
۳۲۶ نازل کر اور کسی کو اندھا کرے اور کسی کو مجزوم اور کسی کو مفلوج اور کسی کو مجنون اور کسی کو مصروع اور کسی کو سانپ یاسگِ دیوانہ کا شکار بنا اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر اور جب یہ دُعا فریق ثانی کر چکے تو دونوں فریق کہیں کہ آمین....اور اس مباہلے کے بعد اگر میں ایک سال کے اندر مر گیا یا کسی ایسے عذاب میں مبتلا ہو گیا جس میں جانبری کے آثار نہ پائے جائیں تو لوگ میرے فتنہ سے بچ جائیں گے اور میں ہمیشہ کی لعنت کے ساتھ ذکر کیا جاؤں گا.اس صورت میں میرا انجام نہایت ہی بد ہو گا جیسا کہ بدذات کا ذبوں کا ہوتا ہے.لیکن اگر خدا نے ایک سال تک مجھے موت اور آفات بدنی سے بیچا لیا اور میرے مخالفوں پر قہر اور غضب الہی کے آثار ظاہر ہو گئے اور ہر ایک اُن میں سے کسی نہ کسی بلا میں مبتلا ہو گیا اور میری بددعا نہایت چمک کے ساتھ ظاہر ہو گئی تو دنیا پر حق ظاہر ہو جائے گا...میں یہ بھی شرط کرتا ہوں کہ میری دُعا کا اثر صرف اُس صورت میں سمجھا جائے گا کہ جب تمام وہ لوگ جو مباہلہ کے میدان میں بالمقابل آویں.ایک سال تک ان بلاؤں میں سے کسی بلا میں گرفتار ہو جائیں.اگر ایک بھی باقی رہا تو میں اپنے تئیں کا ذب سمجھوں گا اگر چہ وہ ہزار ہو یا دو ہزار اور پھر اُن کے ہاتھ پر تو بہ کروں گا اور اگر میں مرگیا تو ایک خبیث کے مرنے سے دُنیا میں ٹھنڈ اور آرام ہو جائے گا.
۳۲۷ گواہ رہ اے زمین اور اے آسمان ! کہ خدا کی لعنت اس شخص پر کہ اس رسالہ کے پہنچنے کے بعد نہ مباہلہ میں حاضر ہو اور نہ تکفیر اور تو ہین کو چھوڑے“ مرزا غلام احمد قادیانی نے مباہلے کے چیلنج کی عبارت لکھنے کے بعد اُن تمام مشہور علماء اور سجادہ نشینوں کے نام بھی لکھ دیئے جن کو یہ دعوت مباہلہ بذریعہ رجسٹر ڈ ڈاک بھجوایا گیا تھا اور یہ بھی لکھ دیا کہ اگر یہ مباہلے کا خط اتفاقا کسی صاحب کو نہ ملے تو وہ اطلاع دیں تا کہ ان کو دوبارہ بھجوایا جائے.آخر میں مرزا صاحب نے یہ بھی لکھ دیا کہ ہر شخص گھر بیٹھے بٹھائے بھی مباہلہ کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ مباہلے کی معین عبارت کو اپنے دستخطوں سے مشتہر کرد.دے.اگر چہ مکذب علماء مباہلے کے لئے مرزا صاحب کے مقابلے پر تو نہ آئے تاکہ ایک سال کے اندر واضح نشان البہی کا نمونہ ٹھہر تالیکن پھر بھی سچائی کو چھپانے کی پاداش میں بہت سے مخالف علماء جلد یا بدیرہ پکڑے گئے اور کچھ نے مرزا صاحب کی صداقت کی کھلے عام تصدیق بھی کر دی.اس سے پہلے کہ مرزا صاحب کی تکذیب کرنے والے علماء پر وارد ہونے والی آسمانی سزاؤں کا ذکر کریں ہم کم از کم دو مشہور ہستیوں کے تصدیقی بیان درج کریں گے جو انہوں نے مباہلے کی دستاویز کی وصولی کے بعد مرزا صاحب کو بھجوائے.ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۷ء- انجام آتھم.صفحات ۴۹ تا ۶۷
۳۲۸ حضرت خواجہ غلام فرید صاحب سجادہ نشین چاچڑاں شریف کا مرزا صاحب کے نام خط : (عربی سے اردو ترجمہ ) تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو رب الا رباب ہے اور درود اس رسول مقبول پر جو یوم الحساب کا شفیع ہے اور نیز اس کی آل اور اصحاب پر اور تم پر (یعنی مرزا غلام احمد پر.ناقل ) سلام اور ہر ایک پر جو راہ ثواب میں کوشش کرنے والا ہو.اس کے بعد واضح ہو کہ مجھے آپ کی وہ کتاب پہنچی جس میں مباہلے کے لئے جواب طلب کیا گیا ہے اور اگر چہ میں عدیم الفرصت تھا تاہم میں نے اس کتاب کی ایک ایک ججز کو جو حسن خطاب اور طریق عتاب پر مشتمل تھی پڑھی ہے.سواے ہر ایک عبیب سے عزیز تر ! تجھے معلوم ہو کہ میں ابتدا سے تیرے لئے تعظیم کرنے کے مقام پر کھڑا ہوں تا مجھے ثواب حاصل ہو اور کبھی میری زبان پر بیجز تعظیم اور تکریم اور رعایت آداب کے تیرے حق میں کوئی کلمہ جاری نہیں ہوا اور اب میں مطلع کرتا ہوں کہ میں بلا شبہ تیرے نیک حال کا معترف ہوں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ تو خدا کے صالح بندوں میں سے ہے اور تیری سعی عند اللہ قابلِ شکر ہے جس کا اجر ملے گا اور خدائے بخشندہ بادشاہ کا تیرے پر فضل ہے.میرے لئے عاقبت بالخیر کی دعا کر اور میں آپ کے لئے انجام خیر وخوبی کی دُعا کرتا ہوں.اگر مجھے طول کا اندیشہ نہ ہوتا تو
۳۲۹ میں زیادہ لکھتا....سن مقام چاچڑاں ! - صاحب العلم سندھ کی مرزا صاحب کے متعلق تصدیق: حضرت صاحب العلم سندھ کے مشہور مشائخ میں سے تھے.ان کے مریدوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زائد تھی.ان کے خلیفہ عبدالطیف صاحب اور شیخ عبداللہ عرب صاحب مرزا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پیر صاحب العلم کی تصدیق شہادت از خود مرزا صاحب کی خدمت میں پہنچائی.انہوں نے عام مجلس میں کھڑے ہو کر اور ہاتھ میں عصا لے کر تمام حاضرین کو بلند آواز میں سُنا دیا کہ میں ان کو (یعنی مرزا غلام احمد صاحب کو.ناقل ) اپنے دعوے میں حق پر جانتا ہوں.ان کے عربی کشف کا ترجمہ درج ذیل ہے.میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم کشف میں دیکھا.پس میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ شخص جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے کیا یہ جھوٹا اور مفتری ہے یا صادق ہے؟ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ صادق ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.پس میں نے سمجھ لیا کہ آپ حق پر ہیں.اب بعد اس کے ہم آپ کے امور میں شک نہیں کریں گے اور آپ کی شان میں ہمیں کچھ شبہ نہیں ہوگا اور جو کچھ آپ فرما ئیں گے ہم وہی کریں گے.پس اگر آپ : حضرت خواجہ فرید صاحب چاچڑاں ۱۸۹۷ء خط بنام مرزا غلام احمد ( انجام آتھم.مرزا غلام احمد صفحات ۳۲۳-۳۲۴)
۳۳۰ یہ کہو کہ ہم امریکہ چلے جائیں.تو ہم وہیں جائیں گے اور ہم نے اپنے تئیں آپ کے حوالے کر دیا ہے اور انشاء اللہ ہمیں فرمانبردار پاؤ گے.مرزا غلام احمد صاحب کے مکذبین اور مکفرین مسلمان علماء کا انجام : مرزا غلام احمد قادیانی کی تکذیب اور تکفیر کرنے والے علماء میں سے کوئی بھی با قاعدہ مباہلے کے لئے تیار نہ ہوا اس لئے خدائی فیصلے کی ایک سالہ مدت کا ان میں سے کوئی بھی طالب نہ ہوا لیکن بعد کی تاریخ بتلاتی ہے کہ ان میں سے اکثر خاص طور پر ان کے لیڈر جلد یا بدیر ایسے حالات سے دو چار ہو گئے کہ کثرت حادثات اس بات کی دلالت کرتی ہے کہ الہبی تقدیر جلد یا بدیر انہیں ہی سزا دے رہی تھی.محمد یوسف خان صاحب ہوتی اور مولوی عبدالمجید صاحب لدھیانوی کی کتب عاقبۃ المکذبین ، مرزا صاحب کی اپنی تصنیف حقیقۃ الوحی ، تاریخ احمدیت کی دوسری اور تیسری جلدیں اور بعض انفرادی سوانحی واقعات میں بہت سے مخالف علماء کی حسرتناک اموات کا تذکرہ ملتا ہے.اس مختصر تذکرے میں ہم مرزا صاحب کے چند مشہور ، سرکردہ مخالف علماء پر گذرنے والے حالات کا دردناک ذکر کریں گے تاکہ قارئین اس بارے میں رائے قائم کر سکیں کہ کیا ایسا انجام خدا کے پیاروں کا ہوتا ہے یا درگاہ الہی کی سزا پانے والوں کا.۱۰ را گست ۱۹۰۲ء کو مرزا صاحب نے اپنا الہام بتایا کہ لے : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۷ ء- انجام آنقم ضمیمہ - صفحه ۳۴۴
۳۳۱ تخرج الصدور الى القبور‘ ! یعنی ( مخالفین کے سرکردہ قبروں کی طرف منتقل کئے جائیں گے.اس کے بعد بعض سرکردہ مخالفین یکے بعد دیگرے موت سے ہمکنار ہوئے.1- اولیں ہلاک ہونے والوں میں مولوی نذیر حسین دہلوی ، مولوی فتح علی اور اللہ بخش تونسوی تھے.شیخ المشائخ مولوی نذیرحسین دہلوی ہندوستان کے اکثر علماء کے اُستاد تھے.یہ مرزا صاحب کے خلاف سب سے پہلے کفر کا فتویٰ دینے والوں میں سے تھے.انہوں نے اپنے شاگردمولوی محمد حسین بٹالوی کے ایما پر لکھا تھا کہ مرزا صاحب ضال مضل اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور ایسے لوگوں کو مسلمانوں کی قبروں میں دفن نہیں کرنا چاہئے.ابتدا ۱۸۹۱ء میں جب مرزا غلام احمد صاحب دہلی گئے تھے تو مولوی صاحب موصوف اس وقت شیخ الگل کہلاتے تھے.مرزا صاحب نے ان کو بھی مباحثے کے لئے للکارا تھا ( دیکھئے اس باب میں.مباحثہ الحق.دہلی ) لیکن مولوی صاحب نے ہر طرح سے مباحثے سے بچنے کی کوشش کی اور پوری سعی کر کے سچائی کو چھپایا.مرزا صاحب نے جب ۱۸۹۷ء میں مباہلے کا چیلنج دیا تو بھی مولوی صاحب اول المدعوین تھے مگر پھر بھی اس روحانی طریق سے اجتناب کیا.بالآخر اپنے لائق بیٹے کی موت کا صدمہ دیکھا اور ابتر حالت میں دنیا سے کوچ کر گئے.میاں اللہ بخش تونسوی سنگھڑی بھی مشہور سجادہ نشین تھے.۱۸۹۱ء میں مرزا صاحب نے ان کے لئے متکبر کا لفظ استعمال کیا تھا.آپ بھی مرزا صاحب کے شدید مخالفین ا : مرزا غلام احمد قادیانی - اخبار الحکم قادیان.۳۱ راکتو بر۱۹۰۲ء( تذکره صفحه۴۳۲ )
۳۳۲ میں سے تھے.اسی طرح لدھیانہ کے مفتی مولوی محمد ، مولوی عبداللہ اور مولوی عبدالعزیز صاحبان مرزا صاحب کے شروع کے مخالفین میں سے تھے.ان کا مختصر ذکر باب سوئم میں کیا جا چکا ہے.یہ سب مرزا صاحب کے اراگست ۱۹۰۲ ء کے الہام کے بعد دنیا سے کوچ کر گئے.ا -۲- اس باب کی ابتدا میں (آئٹم -IV) میں مولوی رشید احمد گنگوہی کا تذکرہ مختصراً آچکا ہے.۱۸۹۱ء میں انہوں نے مرزا صاحب کی طرف سے تحریری یا تقریری مباحثے کی ہر کوشش کو ٹھکرا دیا.یہ بھی مرزا صاحب کے شدید سر کردہ مخالفین میں سے تھے.انہوں نے مرزا صاحب کے مقابلے میں نہ صرف یہ کہ لعنت اللہ علی الکاذبین“ کہا بلکہ اپنے ایک اشتہار میں مرزا صاحب کے لئے شیطان نام رکھا.مولوی صاحب سانپ کے کاٹے کے لئے دم کرنے کی شہرت رکھتے تھے لیکن مرزا صاحب کی دعا کے بعد پہلے اندھے ہوئے، پھر سانپ نے کاٹا مگر ڈاکٹروں کی پوری کوشش کے باوجود فوت ہو گئے.انہی کی طرح مولوی شاہ دین صاحب جو مرزا صاحب کے سخت مخالف تھے پاگل پن کا شکار ہو کر دنیا سے چل بسے.سے مرزا صاحب نے لکھا کہ ۱۹۰۷ ء تک ان کے مخالف ۵۲ مولویوں میں سے صرف ۲۰ زندہ تھے اور وہ بھی کسی نہ کسی بلا میں گرفتار.باقی سب موت سے جاملے.۴ ۳- مفتی مولوی غلام رسول عرف رُسل بابا امرتسری نے مرزا غلام احمد قادیانی کے ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ء- حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۴۷ ۲، ۳، ۴ : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ ء- حقیقۃ الوحی صفحہ ۳۰۰
۳۳۳ عقیدے وفات مسیح کو غلط ثابت کرنے کے لئے ایک رسالہ حیات المسیح لکھا جس میں مرزا صاحب کے خلاف بہت سخت زبان استعمال کی اور عین اُن دنوں جب طاعون ہر طرف پھیلی ہوئی تھی یہ کہا کہ اگر بقول مرزا صاحب یہ طاعون کی وبا مسیح موعود یعنی مرزا غلام احمد کی صداقت کی نشانی ہے تو وہ اسے کیوں نہیں ہو جاتی.آخر طاعون نے مولوی رسل بابا کو آن پکڑا اور وہ ۱۸ دسمبر ۱۹۰۲ءکو صبح ساڑھے پانچ بجے اس دار فانی سے کوچ کر گیا.- لد مولوی غلام دستگیر قصوری بھی مرزا صاحب کے شدید مخالفین میں شامل تھے جب انہیں علم ہوا کہ خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف نے مرزا صاحب کی صداقت کی تصدیق کی ہے تو وہ اُن کے گاؤں پہنچے اور انہیں مرزا صاحب کی تکذیب پر آمادہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ برابر تصدیق کرتے رہے اور اپنی تصنیف اشارات فریدی میں مرزا صاحب پر مخالفین کے اعتراضات کے مدلل جواب بھی دیئے.مولوی غلام دستگیر نے مرزا صاحب کی مخالفت میں ایک کتاب ”فتح رحمانی لدھیانہ سے ۱۸۹۷ء میں شائع کی جس میں مباہلہ کے رنگ میں مرزا صاحب کے خلاف ایک بددُعا بھی لکھی جس میں لکھا کہ اللهم ذو الجلال والاكرام یا مالک الملک جیسا کہ تو نے ایک عالم ربانی حضرت محمد طاہر مؤلف مجمع بحارالانوار کی دُعا اور سعی سے اس مہدی کا ذب اور جعلی مسیح کا بیڑہ غرق کیا (جو ان کے زمانے میں پیدا ہوا تھا ) ویسا ہی دُعا اور التجا اس فقیر قصوری کان اللہ لہ سے ہے جو لے مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ء- حقیقۃ الوحی.صفحات ۲۹۹-۳۰۰
۳۳۴ سچے دل سے تیرے دینِ متین کی تائید میں حتی الوسع ساعی ہے کہ تو مرزا قادیانی اور اس کے حواریوں کو توبتہ النصوح کی توفیق عطا فرما اور اگر یہ مقدر نہیں تو ان کو مورد اس آیت فرقانی کا بنا...یعنی جو لوگ ظالم ہیں وہ جڑ سے کاٹے جائیں گے اور خدا کے لئے حمد ہے.تو ہر چیز پر قادر ہے اور دُعا قبول کرنے والا ہے.آمین 1 مولوی غلام دستگیر قصوری نے اس یک طرفہ مباہلے میں ظالم کی جڑ کاٹنے کی دُعا کے بعد مرزا صاحب کے متعلق لکھا کہ وہ اور ان کے پیروکار ہلاک کئے جائیں گے.مولوی صاحب نے مرزا صاحب کی تکفیر کے لئے بڑے جتن کئے.مکہ معظمہ تک سے کفر کے فتوے منگوائے لیکن جب مرزا صاحب پر بددعا کی تو وہ الٹی مولوی صاحب پر پڑ گئی اور وہ اپنی دُعا کے چند دن کے بعد ہی فوت ہو گئے اور انہیں اس قدر بھی مہلت نہ ملی کہ اپنی کتاب کی اشاعت ہی دیکھ لیتے جب کہ مرزا صاحب نے صرف مولوی صاحب کی بد دعا کے بعد ا اسال تک زندہ رہے بلکہ ان کی جماعت کی تعداد بھی لاکھوں تک جا پہنچی.مرزا صاحب نے مولوی صاحب کی وفات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ پس اب بتلاؤ کہ غلام دستگیر اس بد دُعا کے بعد مر گیا ہے یا نہیں لہذا بتلاؤ کہ اس میں کیا بھید ہے کہ محمد طاہر کی بد دعا سے تو ایک جھوٹا مسیح مر گیا اور میرے پر بددُعا کرنے والا خود مر گیا؟ خدا نے میری عمر تو بڑھا : مولوی غلام دستگیر قصور ۱۸۹۷ء فتح رحمانی صفحات ۲۶-۲۷ (حقیقۃ الوحی صفحات ۳۳۰-۳۳۱)
۳۳۵ دی کہ گیارہ سال سے میں اب تک زندہ ہوں اور غلام دستگیر کو ایک مہینہ کی بھی مہلت نہ دیا -۵- فقیر مرزا صاحب موضع دوالمیال تحصیل پنڈ دادن خاں ضلع جہلم ( پنجاب ) کے رہنے والے تھے.ولی اللہ سمجھے جاتے تھے اور ان کے مریدوں کی بڑی جماعت تھی.وہ بھی مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو اپنے دعوؤں میں جھوٹا سمجھتے تھے اور اپنے اس اعتقاد کی بنیاد الہامی الہی بتاتے تھے.انہوں نے ۱۹۰۳ء میں ایک حلفیہ بیان اپنے گاؤں کے معززین کے دستخطوں بحیثیت گواہان کے کیا جس میں مرزا غلام احمد صاحب کی تکذیب کے علاوہ وہ اُن کی جماعت کی ایک ماہ کے اندر اندر تباہی کا دعوی کیا.ان کا اصل بیان جس میں ان کے علاوہ ۲۳ دوسرے معززین قصبہ کے دستخط تھے درج ذیل ہے.منکہ مرزا ( فقیر مرزا دوالمیالی - ناقل ) ولد فیض بخش قوم اعوان سکنہ دوالمیال علاقہ کہون تحصیل پنڈ دادنخاں ضلع جہلم کا ہوں.میں اس اقرار کور و بر واشخاص ذیل لکھ دیتا ہوں کہ میں نے بارہا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت اور خود عرش معلیٰ تک میرا گزر ہوا اور یہ مجھ پر ظاہر کیا گیا کہ مرزا غلام احمد صاحب کا سلسلہ ۲۷ / رمضان المبارک ۱۳۲۱ ھ ( ۱۹۰۳ء - ناقل) تک ٹوٹ پھوٹ جاوے گا اور بڑے سخت درجہ کی ذلت وارد ہوگی جسے تمام دنیا دیکھے گی.اگر یہ پیشگوئی ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ ء- حقیقۃ الوحی صفحه ۳۳۲
۳۳۶ پوری نہ ہوئی یعنی اگر مرزا ( مرزا غلام احمد صاحب قادیانی.ناقل ) کا یہ سلسلہ اور عروج ۲۷ /رمضان المبارک ۱۳۲۱ھ تک قائم رہا یا ترقی کی تو میں ہر قسم کی سزا قبول کرنے کو تیار ہوں.اشخاص ذیل کو اختیار ہے کہ خواہ مجھے سنگساری سے قتل کریں یا کوئی اور سزا مقرر کریں مجھے ہرگز انکار نہ ہوگا اور نہ میرے وارثان کو اختیار ہے کہ میری سزا میں کسی قسم کی حجت پیش کر کے میرے سزا دینے والوں کے مزاحم ہوں.لہذا میں یہ چند سطور بطور اقرار نامہ لکھ دیتا ہوں کہ سندر ہے اور کل مجھے انکار کی گنجائش نہ رہے اور تمام دنیا میں حق و باطل میں تمیز ہو جاوے اور خلق خدا اس واقعہ سے ایک سبق حاصل کرے خصوصاً میرے اہل شہر کو نہایت فائدہ مند اور عبرتناک نظارہ ہے.پس ایک مہینے میں یہ فیصلہ ظاہر ہو جاوے گا.المرقوم ۷/ رمضان المبارک ۱۳۲۱ھ.العبد دستخط ۲۳ دوسرے معززین- دوالمیال) فقیر مرزا ولد ملک فیض بخش سکنہ دوالمیال.نشان انگوٹھا قارئین ! اس اقرار نامے کی ضرورت اس طرح پیش آئی کہ موضع دوالمیال کے ایک احمدی حکیم کرم داد صاحب اور فقیر مرزا صاحب کے درمیان صداقت مرزا غلام احمد صاحب پر بحث ہوئی اور بالآ خر فیصلہ کا یہ طریق طے پایا.حکیم صاحب نے فقیر مرزا ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ء - حقیقۃ الوحی صفحہ ۳۶۸-۳۶۹
۳۳۷ صاحب کا اصل دستخطی اقرار نامہ برائے اطلاع مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو بھجوا دیا.اس اقرار نامے کو تحریر کرنے کے ٹھیک ایک سال کے اندر فقیر مرزا اور اس کا خاندان خود کیسے تباہ ہوا.اس کا احوال بھی حکیم کرم داد ساکن دوالمیال نے مرزا صاحب کو ان الفاظ میں لکھ کر بھجوایا.گردو نواح کے علاقے میں بھی اس پیشگوئی کی شہرت ہوگئی اور لوگ کہنے لگے کہ دیکھنا چاہیے اب کون جیتتا ہے مرزا قادیانی یا مرزا دوالمیالی؟ بلکہ مخالف لوگ نماز کے بعد اپنے فقیر مرزا کی کامیابی کے لئے دعائیں مانگنے لگے...تھوڑا ہی عرصہ گزرا کہ علاقہ میں طاعونی لشکر نے ڈیرے لگا دیئے.ملہم صاحب ( فقیر مرزا.ناقل ) کو اپنے الہامات پر اس قدر فخر تھا کہ میرے طفیل میرا تمام محلہ طاعون سے محفوظ رہے گا.جب دوسرا رمضان آیا تو اس کے محلہ میں طاعون شروع ہوگئی.اس وقت چار آدمی گھر میں موجود تھے ایک ملہم (یعنی فقیر مرزا - ناقل ) ، دوسری ملہم کی بیوی، تیسری لڑکی ، چوتھی لڑکے کی زوجہ.پہلے مہم کی بیوی کا طاعون سے انتقال ہوا.پھر خود فقیر صاحب ۵ یا ۶ رمضان ۱۳۲۲ھ کو شام کو سخت طاعون میں مبتلا ہو گئے ساتھ ہی زبان بند ہوگئی.شدت ورم اور حبس دم کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا تھا گویا آنکھوں سے خون ٹپک رہا ہے.آخر پورے ایک سال کے بعد جس روز پیشگوئی کی گئی تھی یعنی ۷ رمضان ۱۳۲۲ھ کو ہلاک ہو گیا.دولڑکیاں جو پیچھے رہ گئی تھیں وہ بھی تھوڑے دنوں کے بعد سخت بیار ہو گئیں.راقم ( حکیم کرم داد- ناقل ) کو
۳۳۸ -۲ علاج کے واسطے بلا کر لے گئے.میں ان کی حالت دیکھ کر ڈر گیا.علاج کرانے والوں کو کہا کہ اس گھر میں خدا کا غضب نازل ہو رہا ہے تم اپنی ہمیشر کو گھر لے جاؤ.وہ گھر میں لے گئے اور مریضہ کچھ دن بعد اچھی ہو گئی جو مہم کی لڑکی تھی وہ اُسی گھر میں دوسرے روز باپ سے جاملی اور بجائے ۲۷ رمضان المبارک کے لے رمضان المبارک کو حضرت مرزا صاحب قادیانی کے سلسلہ کے عوض مرزا دوالمیالی کے گھر کا سلسلہ تباہ ہو گیا.- مرزا غلام احمد قادیانی کے ۱۸۹۷ء کے فیصلہ کن مباہلے کے چیلنج کے مقابلے پر اگر چہ کوئی مولوی کھڑا نہ ہوالیکن تاخیر سے وارد ہونے والی آسمانی سزاؤں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ جلد یا بدیر بہت سے علماء کرام ہلاک ہوتے چلے گئے.کسی نے اشارہ بھی چیلنج کیا تو وہ سزا کی زد سے نہ بچ سکا.حافظ آباد (ضلع گوجرانوالہ - پنجاب ) کے نوراحمد صاحب بھی مرزا صاحب کے سخت مخالف تھے.ان کا بھتیجا منشی محبوب عالم احمدی تھا.نور احمد صاحب نے اپنے بھتیجے سے کہا کہ مرزا صاحب اپنے دعوے مسیحیت پر کوئی نشان کیوں نہیں دکھلاتے ؟ منشی صاحب نے جواب دیا کہ مرزا صاحب کے نشانوں میں سے ایک نشان طاعون ہے.اس پر انہوں نے کہا کہ طاعون ہمیں نہیں چھوٹے گی بلکہ یہ طاعون مرزا صاحب کو ہی ہلاک کرنے آئی ہے نیز یہ کہ طاعون کا اثر ہم پر ہرگز نہ ہوگا بلکہ مرزا صاحب پر ہی ہوگا.یہ الفاظ اپنے اندر : حکیم کرم داد صاحب ۱۹۰۳ء- خط بنام مرزا غلام احمد قادیانی (حقیقۃ الوحی صفحه ۳۸۴)
۳۳۹ مباہلہ کا رنگ رکھتے تھے.اس بیان کے چند دن بعد ہی نور احمد صاحب طاعون سے ہلاک ہو گئے.انجمن حمایت اسلام لاہور کے ایک مدرس مولوی زین العابدین صاحب مولوی فاضل اور منشی فاضل نے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی سچائی کے بارے مولوی محمد علی سیالکوٹی کے ساتھ کشمیری بازار لاہور میں ایک دوکان پر کھڑے ہو کر مباہلہ کیا.تھوڑے دنوں کے بعد وہ خود، اس کی بیوی ، داماد، کل سترہ افراد طاعون سے ہلاک ہو گئے.اسی طرح کریم بخش نامی لاہور کا ایک ٹھیکیدار مرزا صاحب کے بارے میں بہت بے عزتی کے الفاظ استعمال کیا کرتا تھا.کئی دفعہ اسے سمجھایا گیا.مگر وہ گندی زبان استعمال کرتا ہی رہتا تھا باز نہیں آتا تھا.آخر عین جوانی میں موت کا شکار ہوا سے حافظ مرزا صاحب کی سواری گزرے گی اس پر راکھ ڈالے گا.آخر ۱۹۰۶ ء میں خود مع گھر کے ۱۰۹ افراد کے طاعون سے ہلاک ہوا.حکیم محمد شفیع سیالکوٹی مرزا صاحب کی بیعت سے مرتد ہو کر سخت مخالفوں کے گروہ میں شامل ہو گیا.اس نے مدرستہ القرآن کی بنیاد بھی ڈالی.آخر وہ بھی طاعون کا شکار ہوا اس کی بیوی ، والدہ اور بھائی سب یکے بعد دیگرے طاعون سے مر گئے اور وہ لوگ بھی ہلاک ہوئے جو اس کے مدرسہ کے معاون تھے.۴ ایسا ہی مرزا سردار بیگ سیالکوٹی کا حشر ہوا.وہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے خلاف سخت گندہ زبان اور شوخ تھا.ایک دن اس نے ایک احمدی سے کہا کہ کیوں طاعون، طاعون کرتے ہو ہم تو تب جانیں کہ ہمیں طاعون ہو.اس بات کے دو دن بعد وہ ۲۰۱، ۳، ۴ : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ء- حقیقۃ الوحی صفحات ۲۳۷-۲۳۸ 6
۳۴۰ طاعون سے مر گیا.! 7 - حکیم حافظ محمد دین صاحب: ساکن موضع منکر تحصیل و ضلع لاہور جو متصل ریلوے اسٹیشن کا نہ کے رہنے والے تھے مرزا صاحب کے مخالفین میں سے تھے.انہوں نے مرزا صاحب کی تکذیب میں ایک کتاب لکھی اور اس کا نام ” فیصلہ قرآنی اور تکذیب قادیانی “رکھا.اس تصنیف میں حافظ محمد دین صاحب نے کئی الفاظ مرزا صاحب کے لئے بطور مباہلہ لکھ کر جھوٹے کے لئے خدا تعالیٰ کے غضب اور لعنت کی درخواست کی تھی.مثلاً ایک جگہ مندرجہ ذیل قرآنی آیات لکھیں.وو ويلٌ لِكُلّ افاک اثيم ويل يومئذ للمكذبين ـ لعنة الله على الكاذبين حافظ صاحب نے یہ آیت لکھ کر اس طرف اشارہ کیا کہ گویا مرزا غلام احمد صاحب مغزی گنہگار ہیں اور اس کی زندگی میں دردناک عذاب میں مبتلا ہو جائیں گے لیکن اس کتاب کے شائع کرنے کے ایک سال تین ماہ بعد وہ خود ہلاک ہو گیا اور اس طرح خدا تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا کہ کون افاک اثیم ہے.سے - محمد جان صاحب المعروف ابوالحسن ساکن پنج گرائیں تحصیل پسرور مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ء - حقیقۃ الوحی صفحات ۲۳۸ : حکیم حافظ محمد دین.فیصلہ قرآنی اور تکذیب قادیانی.صفحات ۶۳ تا ۸۵ (حقیقۃ الوحی.صفحات تنتمه ۵۴-۵۵
۳۴۱ ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے اور مرزا غلام احمد صاحب کے مشہور مخالف تھے.اُنہوں نے صحیح بخاری کی شرح لکھی تھی اور اس کا نام فیض الباری رکھا تھا.مرزا صاحب کی تکذیب میں انہوں نے ایک کتاب لکھی جس کا نام ” بجلی آسمانی برسر دجال قادیانی“ رکھا.اس کتاب میں ابو الحسن صاحب نے کئی مقامات پر مرزا صاحب کو کاذب قرار دے کر ان کی موت کے لئے بد دعا کی بلکہ فرضی طور پر مرزا صاحب کی وفات کا فی الواقعہ ہو جانا ظاہر کر کے ایک ماتم شعروں کی زبان میں لکھا جو پنجابی میں تھا.ان میں ابوالحسن صاحب نے دُعا کی کہ خدا مرزا صاحب کی بیخ کنی کرے اور اس کا کچھ بھی باقی نہ رہے اور وہ مرجائے.پھر مرزا صاحب کو مخاطب کر کے اس کتاب میں لکھا کہ جلدی تو بہ کر تیری موت نزدیک آ گئی ہے اور اے غافل تو آج کل میں مرجائے گا.ابوالحسن کی کتاب کا یہ حصہ اوّل تھا.انہوں نے کتاب کا دوسرا حصہ تیار نہیں کیا تھا کہ اسے طاعون نے آ پکڑا.انیس دن تک جان کنی کی حالت میں چیختارہا اور دردناک حالت میں مرگیا.قدرت الہی کہ آسمانی بجلی اُن ہی پر گری.اُن کے بعد ابو الحسن عبدالکریم صاحب نے اس کتاب کو دوبارہ چھپوایا.وہ بھی طاعون سے ہلاک ہوا.اے امداد علی.اسی طرح امداد علی صاحب نے ایک رسالہ بنام’درہ محمدی“ لکھا جس میں نہ صرف مرزا غلام احمد صاحب کی تکذیب کی بلکہ خدا سے مرزا صاحب کے حق میں بددُعا کی کہ خدا انہیں جلدی موت دے دے.ایک جگہ مرزا صاحب کے بارے میں لعنت اللہ علی الکاذبین بھی لکھ دیا.پھر اس نے کتاب کا دوسرا حصہ لکھنے کا پروگرام بنایا مگر وہ اس سے پہلے ہی طاعون میں مبتلا ہو گیا.اپنا گوشت اپنے دانتوں لے : ابوالحسن بجلی آسمانی بر سر دجال قادیانی صفحات ۳ تا ۱۵ (حقیقۃ الوحی صفحات تتمه ۱۶۰.حاشیہ)
۳۴۲ سے کاٹنے لگا آخر اسی دردناک حالت میں خود مر گیا.اے ۱۰- مرزا غلام احمد صاحب نے ۲ سے ۱۶ / نومبر ۱۹۰۲ء کے دوران ایک قصیدہ عربی زبان میں لکھا اور مع ترجمہ اپنی کتاب اعجاز احمدی کے صفحات ۴۶ تا ۹۷ پر شائع کر دیا.مرزا صاحب نے اس قصیدے کی بابت الہامی طور پر دعوی کیا کہ کوئی اس قصیدے کے مقابلے میں اتنی ہی مدت میں ایسی فصاحت و بلاغت پر مبنی قصیدہ نہیں لکھ سکے گا اور کوئی شخص اگر ایسی قابلیت رکھتا بھی ہوگا تو خدا کوئی نہ کوئی روک ڈال دے گا.مرزا صاحب نے خاص طور پر اس قصیدے کو اعجازی کلام قرار دے کر مولوی ثناء اللہ امرتسری ، مولوی محمد حسین بٹالوی اور پیر مہر علی شاہ گولڑوی کو بھیج دیا کہ انہوں نے اس قصیدہ کا جواب اتنی ہی مدت میں چھاپ دیا تو سمجھا جائے گا کہ میں نیست و نابود ہو گیا اور میرا سلسلہ باطل ہو گیا.اس صورت میں میری جماعت کو چاہئے کہ مجھے چھوڑ دیں اور قطع تعلق کر لیں“ ہے ان حالات میں قاضی ظفر الدین صاحب پروفیسر اور مینٹل کالج لاہور نے اس قصیدے کا جواب لکھنا شروع کیا تا کہ مرزا غلام احمد صاحب کو کسی طرح مفتری ثابت کیا جا سکے.قاضی صاحب کو مرزا صاحب سے سخت تعصب تھا.ابھی وہ جوابی قصیدہ لکھ رہے تھے کہ ملک الموت نے قاضی صاحب کا کام تمام کر دیا اور نامکمل مسودہ اس کے گھر پر پڑا رہا.قاضی صاحب کا بیٹا فیض اللہ خاں بھی مرزا غلام احمد صاحب کا سخت مخالف تھا.ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ ء- حقیقۃ الوحی تنتمہ - صفحہ ۱۶۰ : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۲ ء - اعجاز احمدی صفحه ۱۰۱
۳۴۳ اپنے والد کی وفات کے چند سال بعد اس نے موضع جنڈیالہ باغوالہ ضلع گوجرانوالہ پنجاب میں جماعت احمدیہ کے ایک فردمنشی مہتاب علی صاحب سے تحریری مباہلہ کیا.ہر دو کی دستخطی تحریروں کا مضمون یوں تھا.وو.....بعد مد وصلوات برسول رب العالمین کے میں قاضی فیض اللہ خان بن قاضی ظفر الدین احمد مرحوم ایک مسلمان حنفی سنت نبویہ کا پورا تابعدار اس بات کا قائل ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جو کہ خاتم النبین ہو چکے ہیں وحی کا نازل ہونا خلاف مذہب قرآن وحدیث ہے اور مرزا صاحب کے اس دعوے کی تردید کرتا ہوں کہ وہ مثیل مسیح موعود ہیں اور منشی مہتاب علی صاحب خلف الرشید منشی کریم بخش صاحب سکنہ شہر جالندھر جو کہ مرزا صاحب موصوف کے تابع ہیں دعوی کرتے ہیں کہ جو شخص ان کے اس دعوی کی تردید کرے اس پر عذاب الہی نازل ہو گا مثل موت یا بیماری طاعون یا مقدمہ میں گرفتاری اور میں بمطابق سنت نبوی کے ایک سال میعاد ٹھہراتا ہوں اور یہ شرط کرتا ہوں کہ اگر یہ عذاب میرے یا منشی مہتاب علی کے بغیر کسی اور شخص قرابتی پر ہو تو یہ شرط میں داخل نہ ہوگا.قاضی فیض اللہ خان سکنہ جنڈیالہ باغوالہ ضلع گوجرانوالہ مورخہ ۱۲ جون ۱۹۰۶ء اس کے بالمقابل منشی مہتاب علی صاحب کی مباہلے کی تحریر یوں تھی.لے : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ ء - حقیقۃ الوحی.تتمہ صفحات ۱۶۵ - ۱۶۶
۳۴۴ وو میں حضرت اقدس مرزا غلام احمد کوسا مسیح سمجھتا ہوں اور ان کا ہر دعویٰ جو دین کے متعلق ہے بلا کسی شک و شبہ کے صحیح مانتا ہوں مگر میرے مقابلے پر قاضی فیض اللہ خلف الرشید قاضی ظفر الدین مرحوم یقین کے ساتھ کہتا ہے کہ مرزا صاحب جھوٹا اور ان کا دعوی بالکل گھڑا ہوا اور خود تراشیدہ ہے اس لئے میں قاضی صاحب کے مقابلہ میں مباہلہ کرتا ہوں اور پورا پورا اور کامل یقین مجھے ہے کہ جو ہر دو میں سے جھوٹا ہوگا اللہ تعالیٰ اس پر عذاب الیم نازل کرے گا.زمین آسمان ٹل جائیں گے.لیکن یہ عذاب نہیں ملے گا اور وہ اپنی چکار دکھا کر رہے گا...پس خدا سے میری دعا ہے کہ وہ جلد تر نتیجہ پیدا کرے میں سنت نبوی کے مطابق ایک سال کی میعاد تجویز کرتا ہوں اور وہ عذاب مجھ عاجز پر یا قاضی پر نازل ہونا چاہئے مثلاً موت یا طاعون یا کسی مقدمہ میں ماخوذ ہو جانا..خاکسار عاجز مہتاب علی سیاح جالندھری مورخه ۱۲ جون ۱۶۱۹۰۶ اس مباہلے کا نتیجہ یہ نکلا کہ فیض اللہ خاں ۱۳ را پریل ۱۹۰۷ء کو ایک سال کی میعاد کے اندر اندر بمقام جموں نہ صرف خود طاعون سے ہلاک ہوا بلکہ بعض دوسرے عزیزوں کو بھی لے ڈوبا اور اس طرح اپنی ہی تحریر کے مطابق خود مر کر اپنے جھوٹے ہونے اور مرزا غلام احمد صاحب کی صداقت پر مُہر لگا گیا.ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ ء-حقیقۃ الوحی.تتمہ.صفحات ۱۶۵-۱۶۶
۳۴۵ -11 ۱- یہی حال حکیم عبد القادر صاحب ساکن طالب پوری پنڈوری ضلع گورداسپور کا ہوا انہیں مرزا غلام احمد صاحب سے سخت عناد اور بغض تھا اور ہمیشہ مرزا صاحب کا تذکرہ مغلظ گالیوں سے کرتے تھے.بالآ خر انہوں نے مرزا صاحب کی مخالفت میں ایک نظم اس طرح لکھی جس سے مباہلے کا گمان ظاہر ہوتا تھا.اس نظم میں حکیم صاحب نے مرزا صاحب کے کریکٹر پر کافی گندگی اُچھالی.مرزا صاحب نے ان کی نظم میں سے زیادہ گندے اشعار حذف کر کے کچھ اشعار کا عکس اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں درج کیا.چندا شعار درج ذیل ہیں.”ابن مریم زندہ ہے حق کی قسم صورت ملکی بفلک محترم ذکر و فخر اُن کا ہے قرآن سے ثبوت جھوٹ کہتے ہیں غلام احمدی جھوٹ کا بازار تھوڑے روز ہے بعد اس کے حسرت دلسوز ہے جب خدا کا قہر ہو تم پر نزول پھر نہ مرزا مہدی ہو گا نہ رسول صرف اس کی عقل کا طومار ہے عیش و عشرت کے لئے یہ کار ہے یا الہی جلد تر انصاف کر جھوٹ کا دنیا سے مطلع صاف کر“ اے ا : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ء- حقیقۃ الوحی.تتمہ.صفحات ۴۹-۵۰
۳۴۶ شیخ محمد ولد علی محمد ساکن ڈیری والا ضلع گورداسپور جو حکیم عبد القادر صاحب کے شاگرد تھے نے تحریری طور پر مرزا غلام احمد صاحب کے پاس شہادت دی کہ ان اشعار کی تصنیف کے چند روز بعد نہ صرف حکیم عبد القادر صاحب خود طاعون سے ہلاک ہو گئے بلکہ ایک داماد اور کئی دوسرے عزیز بھی طاعون کا شکار ہو گئیا ورجیسا کہ ان اشعار کے مصنف نے جناب الہی سے دُعا کی تھی کہ وہ انصاف کرے اور جھوٹ کا مطلع صاف کرے ایسا ہی خدا نے جلد تر انصاف کر دیا اور حکیم اور ان کے رشتہ داروں کے مرنے سے جھوٹ کا مطلع صاف ہو گیا.مولوی عبدالرحمن محی الدین صاحب لکھو کے والے مرزا غلام احمد صاحب کے شدید ترین مخالفین میں سے ایک تھے.اپنے آپ کو صاحب الہام سمجھتے تھے.انہوں نے حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب کو مندرجہ ذیل خط لکھا.دو.اس عاجز نے دعا کی کہ یا خبیر اخرنی.مرزا کا کیا حال ہے.خواب میں یہ الہام ہوا.ان فرعون وهامان وجنودهما كانوا خاطئين و ان شانئک هو الابتر “.مرزا صاحب کی طرف سے جواب آیا.کہ یہ الہام مشتمل المعانی ہیں.اس میں میرا نام نہیں اور بڑے زور ( سے.ناقل ) دعویٰ کیا.میرے نام سے الہام نہ بخشا جائے گا.ہر دو الہام مذکورہ ماہ صفر کو ہوئے تھے جب مرزا کا جواب آ گیا.بعد ازاں ماہ صفر کو یہ الہام خواب میں ہوا.”مرزا صاحب فرعون‘ الحمد للہ علی ذالک.اب مرزا کا دعوی بھی غلط ہو گیا اور مرزا صاحب مراد کو پہنچ گئے اور جس وقت مجھ کو پہلا الہام ہوا تھا بیدار ہوتے ہی یہ تعبیر دل میں آئی
۳۴۷ کہ فرعون مرزا صاحب ہیں اور ہامان ٹور دین.مجھے اہلِ اسلام کی خیر خواہی کے لئے اطلاع دینی ضروری تھی.العبد عبدالرحمن محی الدین لکھو کے بقلمہ بتاریخ ۲۱ ماہ ربیع الاول ۱۳۱۲ھا اس خط میں درج الہام کی رو سے مولوی صاحب نے مرزا صاحب کو فرعون قرار دیا جسے خدا نے حضرت موسیٰ کے مقابلے میں عذاب دے کر ہلاک کر دیا تھا مولوی صاحب نے دوسرے الہام میں مرزا صاحب کو ابتر یعنی لا ولد رہ جانے کی اطلاع دی لیکن یہ عجیب بات ہوئی کہ الہام میں جس ہلاکت اور ابتر رہنے کی طرف اشارہ تھا.وہ دونوں مولوی عبد الرحمن محی الدین لکھو کے والے کے کھاتے میں جا پڑے.۱۸۹۶ء میں حج کے لئے گئے اور مکہ اور مدینہ کی راہ میں تھے کہ چل بسے.مرزا صاحب کے ہاں اولاد نہ ہونے والا الہام بھی جھوٹا نکلا کیونکہ مرزا صاحب کے گھر اس کے بعد بھی تین بیٹے پیدا ہوئے لیکن مولوی عبدالرحمن محی الدین کے ہاں کوئی اور لڑکا پیدا نہ ہوا بلکہ پہلے سے موجود ایک بیٹا بھی فوت ہو گیا اور یہ الہام بھی اُلٹا ان پر ہی پڑ گیا.مولوی عبدالرحمن محی الدین صاحب کے خاندان کی تباہی کے بارے میں مرزا صاحب لکھتے ہیں.میں نے بعض عورتوں کو ان کے گھر میں بھیج کر دریافت کیا ہے کہ ان کی بیوی خود اپنی زبان سے کہتی ہے کہ اس بد دعا کے بعد ان کے گھر کا ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ء- حقیقۃ الوحی صفحات ۳۵۴-۳۵۵
۳۴۸ تختہ الٹ گیا مولوی محی الدین بہت جلد مکہ اور مدینہ کی راہ میں فوت ہو گئے.اور اس قدر تنگی اور تکلیف دامنگیر ہوئی کہ اب صرف گدا گری پر گزارہ ہے.چند دیہات سے بطور گدا گری آٹا لاتے ہیں تو اس سے پیٹ بھرتے ہیں اور جس دن آٹا نہ آوے اس روز فاقہ.ان کی بیوی کہتی تھی کہ اب ہمارے پر رات پڑ گئی ہے ! مولوی عبد الرحمن صاحب علماء کے خاندان میں سے تھے اور ہزاروں مریدوں پر ان کا اثر تھا.اپنے علاقے میں ان کا خاندان بہت مشہور اور مرجع خلائق تھا.اگران کے الہام کے مطابق مرزا غلام احمد صاحب ہلاک ہو جاتے اور لاولد مر جاتے تو مولوی صاحب لاکھوں لوگوں میں صاحب کرامات مشہور ہو جاتے لیکن ان کا انجام بتاتا ہے کہ ان کے الہام کے سارے اور کچھ مزید بد اثرات ان کی ذات پر پڑے.عزت ،شہرت ، خاندان سب جاتے رہے گویا کہ ان پر رات پڑ گئی.۱۳- چراغ دین ساکن جموں جو چراغ دین جمونی کے نام سے مشہور ہوئے نے مرزا غلام احمد قادیانی کے بالمقابل دعویٰ الہام کیا بلکہ مرزا صاحب کی ہلاکت کی دعائیں اور بالآخر بڑے حسرت ناک انجام سے دو چار ہوا.چراغ دین صاحب پہلے مرزا صاحب کے مرید تھے پھر بیعت سے منحرف ہوکر مرزا صاحب کے شدید مخالفین میں شمار ہونے لگے.مرزا صاحب کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے انہوں نے پہلے ایک کتاب ”منارة المسیح ، لکھی اور اس میں بار بار درج کیا کہ انہیں الہام ہوا ہے کہ ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ء- حقیقۃ الوحی صفحہ ۳۵۷
۳۴۹ مرزا غلام احمد صاحب دجال ہیں اور خدا نے انہیں یعنی چراغ دین صاحب کو دجال کو نابود کرنے کے لئے مامور مقرر کیا ہے اور یہ کہ انہیں حضرت عیسی کا عصا دیا گیا ہے تا کہ اس عصا سے دجال کو قتل کر دیا جائے.کتاب ” منارة امسیح “ کی تصنیف کے ایک سال بعد اس نے ایک اور تصنیف اعجازی محمدی لکھی جس میں مباہلہ کے رنگ میں مرزا صاحب کو ایک فتنہ قرار دے کر اللہ تعالیٰ سے ان کی ہلاکت کی دُعا کی.مرزا صاحب نے چراغ دین کی تحریر کا عکس اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں چھاپ دیا.ہم ذیل میں اس تحریر کے کچھ اقتباسات درج کر رہے ہیں.وو اے میرے خدا! تو جانتا ہے کہ میں وہی شخص ہوں جس کو تو نے اپنے مقدس اور بچے دین اسلام کی خدمت اور نصرت کے لئے اہل دنیا میں سے چن لیا اور اس کام کے واسطے مخصوص کیا ہے اور تو نے ہی میرے ہاتھ سے وہ روحانی منارہ جس پر نزول ابن مریم مقدر تھا تیار کرا دیا ہے اور تو نے ہی مجھے نزول عیسی کی منادی کرنے اور نصاریٰ پر حجت اسلام ثابت کرنے کی خدمت میں مقرر فرمایا ہے.لیکن اے میرے خدا تو خود جانتا اور دیکھ رہا ہے کہ دنیا میں ایک شخص نبوت اور رسالہ کا مدعی اور مسیحیت کا دعویدار موجود ہے جو کہتا ہے کہ خاتم الانبیاء میں ہوں اور پیشگوئیوں کے مطابق نزول ابن مریم کا مصداق بھی میرا وجود ہے اور کہتا ہے کہ میرے لئے آسمان اور زمین سے نشان ظاہر ہوتے ہیں بلکہ طاعون اور زلزلے بھی میری ہی تائید میں ظاہر ہورہے ہیں تا کہ میرے مخالفوں کو ہلاک اور تباہ کر دیں...اس لئے اے میرے
۳۵۰ خدا! دنیا کے دل تذبذب میں ہیں...تیرے دین میں گڑ بڑ پڑ رہی ہے اور تیرے حبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہتک کی جارہی ہے.....اور ایک نئے دین کی بنیاد ڈالی گئی ہے یعنی مرزا قادیانی کی نبوت اور رسالت پر ایمان لائے بغیر کوئی مسلمان خواہ وہ کیسا ہی مخلص ، ایماندار ہو مسلمان نہیں رہ سکتا...پس اے میرے خدا! اب تو آسمان پر سے نظر فرما اور اپنے دین اسلام اور اپنے مقدسوں کی عزت بچا اور ان کی نصرت کے لئے اپنی قدرت کا ہاتھ ظاہر کر اور اس فتنہ کو دنیا پر سے اٹھا لے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کا مباہلہ والا کا غذا بھی کا تب کے ہاتھ میں تھا اور وہ کا پی لکھ رہا تھا کہ پہلے اس کے دونوں بیٹے جو گل دو ہی تھے طاعون میں مبتلا ہوکرمر گئے اور پھر خود۴ را پریل ۱۹۰۶ء کو طاعون سے مر گیا اور لوگوں پر ظاہر کر گیا کہ صادق کون ہے اور کاذب کون.وہ اپنی موت کے قریب کہتا تھا کہ ”اب خدا بھی میرا دشمن ہو گیا ہے.۲ - ۱۴ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے دعوت مباہلہ میں بہت سے علماء میں مولوی اصغر علی صاحب اور مولوی عبدالمجید صاحب دہلوی کو بھی مخاطب کیا تھا.مولوی اصغر علی صاحب کی بد گوئی اس وقت تک ختم نہ ہوئی جب تک خدائی قہر سے ان کی ایک آنکھ نہ نکل گئی.مولوی عبدالمجید صاحب دہلوی مرزا صاحب سے دہلی میں پہلی بار ملے اور : چراغ دین جمونی ۱۹۰۲ ء - اعجاز محمدی (حقیقۃ الوحی - صفحات ۴۱۲ تا ۴۱۷) : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ ء - حقیقۃ الوحی.صفحہ ۳۷۳
۳۵۱ مرزا صاحب سے کہا کہ یہ الہام شیطانی ہیں.اس نے مرزا صاحب کو مسیلمہ کذاب سے مشابہت دی اور کہا کہ تو بہ نہ کرو گے تو افترا کی سزا بھگو گے.مرزا صاحب نے کہا کہ میں اگر مفتری ہوں تو افترا کی سزا پاؤں گا ورنہ جو شخص مجھے مفتری کہتا ہے وہ مواخذہ سے نہیں بچ سکتا.مولوی صاحب نے مرزا صاحب کی تکذیب میں سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے ایک اشتہار بھی چھاپ کر بیچا.بالآ خر مولوی صاحب دہلی میں ۹ رفروری ۱۹۰۷ء کو ہیضہ سے ہلاک ہو گئے.۱۵- مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے معاندین میں سے جس نے آپ کے خلاف سب سے زیادہ گندی زبان استعمال کی اس کا نام ماسٹر سعد اللہ لدھیانوی ہے.اس کی عداوت کے بارے میں مرزا صاحب نے خود لکھا کہ وہ میری موت کا خواہاں تھا اور اپنی نظم ونثر میں میرے لئے بددعائیں کرتا تھا اور اپنی سفاہت اور جہالت سے میری تباہی اور ہلاکت کو بدل چاہتا تھا اور لعنة الله على الكاذبین میرے حق میں اس کا ورد تھا اور تمنا کرتا تھا کہ میں اس کی زندگی میں تباہ ہو جاؤں اور ہلاک ہو جاؤں اور یہ سلسلہ زوال پذیر ہو جائے اور اس وجہ سے جھوٹا ٹھہروں اور مخلوق کی لعنت کا نشانہ بنوں میں باور نہیں کر سکتا کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے کسی نے ایسی گندی گالیاں کسی نبی اور مُرسل کو دی ہوں جیسا کہ اس نے مجھے دیں.چنانچہ جس شخص نے اس کی مخالفانہ نظمیں اور نثریں اور اشتہار دیکھے ہوں گے اس کو معلوم ہوگا کہ وہ میری ہلاکت اور نابود ہونے کے لئے اور نیز میری ذلت اور نامرادی دیکھنے کے لئے کس قدر
حریص تھا.۳۵۲ ماسٹر سعد اللہ لدھیانوی نے اپنی کتاب ”شہاب ثاقب بر مسیح کا ذب“ میں فارسی زبان میں شعروں کے اندر مرزا غلام احمد صاحب کی تباہی و نامرادی کی پیشگوئی کی تھی اس کے متعلقہ شعر تھے کہ اخذ يمين و قطع و تین است بهر تو بے روتی و سلسلہ ہائے مزوری اکنوں باصطلاح شما نام ابتلا است آخر بروز حشر وبائیں دار خاسری ۲ (" ترجمہ: خدا تجھے پکڑے گا اور تیری رگ جاں کاٹ دے گا.تب ترے مرنے کے بعد یہ جھوٹا تیرا سلسلہ تباہ ہو جائے گا اور اگر چہ تم لوگ کہتے ہو کہ ابتلاء بھی آیا کرتے ہیں مگر آخر تو حشر کے دن اور نیز اس دنیا میں ریاں کار اور نامراد مرے گا) جب ماسٹر سعد اللہ لدھیانوی کی طرف سے دریدہ دینی کی انتہا ہو چکی تو اس کی مندرجہ بالا مباہلانہ انداز میں کی گئی پیشگوئی کے بعد مرزا صاحب نے اس کے لئے جناب الہی سے دعا کی تو ۲۹ رستمبر ۱۸۹۴ء الہام ہوا کہ : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ ء - حقیقۃ الوحی - تنمته صفحات ۴-۵ : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ ء - حقیقۃ الوحی.تتمہ صفحات ۱۶-۱۷ ( ماسٹر سعد اللہ لدھیانوی.شہاب ثاقب بر مسیح کا ذب۱۸۹۰ء)
۳۵۳ وو ان شانئک هو الابتر تیرا دشمن ہی ابتر ہوگا.اس الہام کے بارے میں مرزا صاحب نے اپنی کتاب انجام آتھم میں لکھا کہ یه الهام که ان شانِئَكَ هو الابتر “ اس وقت اس عاجز پر خدا تعالیٰ کی طرف سے القا ہوا.کہ جب ایک شخص نو مسلم سعد اللہ نام نے ایک نظم گالیوں سے بھری ہوئی اس عاجز کی طرف بھیجی تھی اور اس میں اس عاجز کی نسبت اس ہندو زادہ نے وہ الفاظ استعمال کئے تھے کہ جب تک ایک شخص در حقیقت شقی، خبیث طینت ، فاسد القلب نہ ہو ایسے الفاظ استعمال نہیں کر سکتا....سویہ الہام اس کے اشتہار اور رسالہ کے پڑھنے کے وقت ہوا کہ ان شانِئَكَ هو الابتر “سواگر اس ہندو زادہ بدفطرت کی نسبت ایسا وقوع میں نہ آیا اور وہ نامراد اور ذلیل اور رسوا نہ مرا تو سمجھو کہ یہ خدا کی طرف سے نہیں ہے ماسٹر سعد اللہ لدھیانوی نے ۱۸۹۰ء میں مرزا غلام احمد صاحب کی موت اور اس کے سلسلہ کی تباہی اور نابود ہو جانے کی پیشگوئی کی تھی جب کہ مرزا غلام احمد صاحب نے ۱۸۹۴ء میں ماسٹر سعد اللہ لدھیانہ کی ہلاکت اور اس کی نسل کے ختم ہو جانے کی الهامی پیشگوئی کی تھی.اس دوران یکے بعد دیگرے متعدد ایسے واقعات گزرتے لی : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۴ ء - اشتہار مندرجہ انوار الاسلام.صفحہ ۱۲ ( مجموعہ اشتہارات.جلد دوم صفحه ۷۹) ہے : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۸ء- انجام آتھم.حاشیہ صفحات ۵۸-۵۹
۳۵۴ رہے جو دونوں میں سے بچے اور جھوٹے کے درمیان تمیز کرنے کا موقع میسر کرتے رہے.ان میں سے چند کا تذکرہ درج ذیل ہے.66 1- جب ماسٹر سعد اللہ کی نسبت مرزا صاحب کو الہام ہوا کہ ان شانِئَكَ هو الابتر “ اُسی وقت ماسٹر سعد اللہ صاحب کا ایک ۱۵-۶ سال کی عمر کا بیٹا تھا مرزا صاحب کی اس وحی کے بعد ماسٹر صاحب ۱۳ سال تک زندہ رہے اور خدا سے گڑ گڑا، گڑ گڑا کر اولاد کی دعا کرتے رہے لیکن ان کے ہاں بچے پیدا ہو کر مرتے رہے اور کوئی مزید بچہ زندہ نہ بچا اور صرف وہ بیٹا رہا جو پیشگوئی سے پہلے پیدا ہو چکا تھا.اس طرح مرزا صاحب کی پیشگوئی کے مطابق ماسٹر صاحب کے ابتر رہ جانے کی پہلی علامت ظاہر ہوگئی.اے II- مرزا صاحب نے مسلسل ماسٹر سعد اللہ لدھیانوی کو چیلنج پر چیلنج دیا کہ وہ الہام کے مطابق ابتر رہنے کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے اپنے گھر اولاد پیدا کر کے دکھا دے یا پہلے بچے کے گھر اولاد پیدا کر کے دکھا دے.چنانچہ آپ لکھتے ہیں.اگر سعد اللہ کا پہلالڑ کا نامرد نہیں ہے جو الہام ان شانِنگ هو الابتر “ سے پہلے پیدا ہو چکا تھا جس کی عمر تخمینا میں برس کی ہے تو کیا وجہ کہ اس قد رعمر گذر نے اور استطاعت کے اب تک اس کی شادی نہیں ہوئی اور نہ اس کی شادی کا کچھ فکر ہے.اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے.سعد اللہ پر فرض ہے کہ اس پیشگوئی کی تکذیب کے لئے یا تو اپنے گھر میں اولاد پیدا کر کے دکھا دے اور یا پہلے لڑکے کی ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ء حقیقۃ الوحی صفحه ۳۶۴
۳۵۵ شادی کر کے اور اولاد حاصل کرا کر اس کی مردمی ثابت کرے اور یا در کھے ان دونوں باتوں میں سے کوئی بات اس کو ہرگز حاصل نہیں ہو گی کیونکہ خدا کے کلام نے اس کا نام ابتر رکھا ہے اور ممکن نہیں کہ خدا کا کلام باطل ہو.یقیناوہ ابتر ہی مرے گا جیسا کہ آثار نے بھی ظاہر کر دیا ہے.III- ماسٹر سعد اللہ لدھیانوی کے ابتر رہنے کا چیلنج جب مرزا صاحب نے اپنی تصنیف حقیقۃ الوحی میں لکھ کر ۱۹۰۶ء میں چھپنے کے لئے پریس میں دینے کے لئے تیار کیا تو مرزا صاحب کے وکیل اور مرید خواجہ کمال الدین صاحب مرزا صاحب کے پاس گئے اور عرض کی کہ چونکہ ماسٹر سعد اللہ صاحب اور ان کا بیٹا ابھی دونوں زندہ ہیں اس لئے ان کے متعلق ابتر کہنا قابل مواخذہ قانون ہے اس لئے یہ الہام اخفا میں ہی رکھنا چاہئے لیکن مرزا صاحب نے اس مشورے کو سخت نا پسند کیا اور کہا کہ خواجہ صاحب آپ کوئی فکر نہ کریں اگر مقدمہ ہمارے خلاف چل بھی گیا تو ہم آپ کو وکیل نہیں کریں گے.میرے نزدیک تو صحیح راہ یہی ہے کہ الہام کی تعظیم مقدم ہے اور اس کا اخفا اللہ تعالیٰ کی معصیت اور کمینگی.یادرکھو خدا تعالیٰ کے سوا کوئی بھی ضرر نہیں پہنچا سکتا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے بعد مجھے حکام کے عتاب کی قطعا پرواہ نہیں ہے.ہم جناب الہی میں (جو ہر فضل کا سرچشمہ ہے ) دعا کریں گے اگر قضاء قدر میں ہمارے لئے مصیبت لکھی ہے تو ہم اس ذلت کی زندگی پر ہی راضی ہیں مگر ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ء- حقیقۃ الوحی.صفحہ۳۶۵ ( حاشیہ )
۳۵۶ خدا کی قسم وہ اس شریر کو مجھ پر ہرگز مسلط نہیں کرے گا.اس پر خدا کی آفت نازل ہوگی اور میں جو اس کی پناہ کا طالب ہوں محفوظ رہوں گا.IV- مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی پیشگوئی مندرجہ بالا کی موجودگی میں بہت سے دوست احباب ماسٹر سعد اللہ لدھیانوی کو بار بار کہتے رہے کہ اتنی زیادہ عمر ہو جانے اور ساری تیاری مکمل ہو جانے کے باوجود وہ کیوں اپنے بیٹے محمود کی شادی نہیں کرتا ، تا کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی کے سچا یا جھوٹا ہونے کا پتہ چل سکے لیکن جیسا کہ بعد میں مولوی ثناء اللہ امرتسری نے اپنے اخبار میں بڑی حسرت سے لکھا کہ سعد اللہ کے بیٹے کی نسبت حاجی عبدالرحیم صاحب کی دختر سے طے ہو چکی تھی اور عنقریب شادی ہونے والی تھی کہ سعد اللہ لدھیانوی کا جنوری ۱۹۰۷ء کے پہلے ہفتے میں چند گھنٹے کی نمو نیا پلیگ کی بیماری کے بعد انتقال ہو گیا.ماسٹر صاحب اس طرح فوت ہو کر مرزا صاحب کی پیشگوئی پر سچائی کی مہر لگا گئے.ہے V - ماسٹر سعد اللہ لدھیانوی کی وفات کے بعد ان کے اکلوتے بیٹے نے شادی بھی کر لی لیکن ایک لمبا عرصہ زندہ رہنے کے بعد ۱۲ جولائی ۱۹۲۶ء کو بے اولا دمر گیا اور اس کے ساتھ ہی ماسٹر صاحب کی نسل منقطع ہوگئی اور مرزا صاحب کا الہام پورا ہوا که ان شانئک ھو الابتر “ اور سچے اور جھوٹے کا بھی فیصلہ ہو گیا.سعد اللہ کے ابتر رہنے کا الہام کے ذریعے اعلان مرزا صاحب نے پہلی دفعہ ۲۹ ستمبر ۱۸۹۴ء کو کیا تھا اور آخری چیلنج 1904ء میں حقیقۃ الوحی کی تصنیف میں دیا تھا.لے : دوست محمد شاہد- تاریخ احمدیت.جلد سوم صفحه ۴۹۴ : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ء- حقیقۃ الوحی.تتمہ صفحہ ۵
۳۵۷ VI - اس کے برعکس ماسٹر سعد اللہ لدھیانوی نے مرزا صاحب کی ہلاکت اور ان کے سلسلہ کی تباہی کی ۱۸۹۰ء میں پیشگوئی کی تھی.اپنی پیشگوئی کے بعد ماسٹر صاحب ۷ار برس زندہ رہے اور ان کے سامنے نہ صرف مرزا صاحب زندہ رہے.ان کی جماعت دن بدن بڑھتی رہی، پھلتی پھولتی رہی.جماعت احمدیہ جس میں شامل افراد کی تعداد ماسٹر سعد اللہ کی پیشگوئی کے وقت چند سوتھی بڑھتے بڑھتے ماسٹر صاحب کی وفات کے وقت جماعت میں شامل افراد کی تعداد لاکھوں میں تھی.سب کچھ ماسٹر سعد اللہ کی پیشگوئی کے برعکس ہورہا تھا اور آج جب کہ جماعت احمدیہ کی تعداد ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے اور یہ ساری دنیا میں پھیل چکی ہے ماسٹر سعد اللہ کی پیشگوئی کے جھوٹا ہونے میں کسی کو شک وشبہ نہیں رہتا.XI - مرزا غلام احمد قادیانی کے خلاف مولوی کرم دین صاحب جہلمی کے مقدمات کا انجام : پس منظر : مرزا غلام احمد صاحب نے ۲۳ فروری ۱۹۰۱ء کو ایک کتاب اعجاز لمسح ، نامی شائع کروائی.یہ کتاب سورہ فاتحہ کی فصیح و بلیغ عربی زبان میں تفسیر تھی.مرزا صاحب نے یہ تصنیف خاص طور پر پیر مہر علی شاہ آف گولڑہ شریف اور ان کے ہمنوا علماء کو یہ چیلنج دے کر لکھی تھی کہ وہ قرآن کی کسی سورۃ کی تقسیم پرمشتمل ایسی معجزانہ کتاب لکھنے پر قادر نہیں ہو سکتے.مرزا صاحب نے کتاب الجہاز اسیج اور بعد میں ۱۹۰۲ء میں چھپنے والی کتاب نزول امسیح.دونوں میں اپنا الہام بھی سب کی اطلاع کے لئے شائع کر دیا تھا
۳۵۸ کہ جو شخص اس کتاب کے جواب پر آمادہ ہوگا وہ دیکھ لے گا کہ وہ نادم ہوگا اور حسرت کے ساتھ اس کا خاتمہ ہوگا.اے مولوی محمد حسین فیضی ساکن موضع بھیں تحصیل چکوال مدرس مدرسہ نعمانیہ شاہی مسجد لاہور نے عوام میں ارادہ ظاہر کیا کہ وہ مرزا صاحب کی کتاب اعجاز امسیح کا جواب لکھیں گے.جب وہ اپنی تصنیف کے لئے نوٹ تیار کر رہے تھے تو مرزا صاحب کی کتاب میں بیان کردہ بعض حقائق پر انہوں نے "لعنة اللہ علی الکاذبین “ کے ریمارکس لکھے.مولوی محمد حسن فیضی صاحب کو ان تحریروں پر لعنت بھیجے ابھی ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ وہ خودموت کے پنجے میں آ کر ہلاک ہو گئے اور بظاہر خود ہی اپنی لعنت کا شکار ہو گئے.مولوی صاحب پیر مہر علی شاہ آف گولڑہ شریف سے قریبی تعلق رکھتے تھے.مولوی صاحب کی وفات کے بعد پیر صاحب نے ایک کتاب اعجاز اسیح کے جواب میں لکھی اور اس کا نام ” سیف چشتیائی رکھا.یہ کتاب اگر چہ مرزا صاحب کی کتاب اعجاز امسیح کے جواب میں تھی لیکن اردوزبان میں تھی نہ کہ مرزا صاحب کی تفسیر کی طرح عربی میں اور نہ ہی قرآن کی تفسیر پر مبنی تھی اس لئے دونوں کتب کا کوئی موازنہ نہ تھا.اس کے مقابلے میں مرزا صاحب کی کتب عربی ، اردو اور فارسی زبان میں اسلام کی حمایت میں چھپ کر دنیا بھر میں پھیل چکی تھیں اور بے پناہ شہرت اور احترام حاصل کر چکی تھیں پیر صاحب نے اپنی کتاب سیف چشتیائی میں مرزا صاحب کی کتاب اعجاز مسیح کے بارے میں الزام لگایا کہ اس کے کچھ اندراجات سرقہ ہیں.مرزا صاحب نے ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۱ء- اعجاز امسیح.ٹائٹل صفحہ
۳۵۹ اس الزام کو اپنی کتاب نزول مسیح کے اندر انصاف اور دیانت کا خون قرار دیا اور مشاہیر عالم نے بھی پیر صاحب کے الزام کو قابل توجہ نہ سمجھا.دوسری طرف قدرت کی یہ عجب ستم ظریفی دیکھئے کہ چاہ کن را چاہ در پیش.مرزا صاحب کو مولوی محمد حسن فیضی کے دوست میاں شہاب الدین صاحب ساکن بھیں کا خط ملا جس میں انہوں نے مرزا صاحب کو مطلع کیا کہ پیر مہر علی شاہ آف گولڑہ کی تصنیف ”سیف چشتیائی دراصل مولوی محمد حسن فیضی کے مسودے کی من و عن نقل اور اس لئے مسروقہ مضمون پر مبنی ہے.میاں صاحب نے اس سرقے پر افسوس کا ایک خط پیر صاحب کو براہ راست بھی لکھا.اس طرح ممکنہ بدنامی کے پیش نظر پیر مہر علی شاہ آف گولڑہ نے مولوی محمد حسن فیضی کے والد کو خط لکھا کہ وہ میاں شہاب الدین صاحب کو مولوی محمد حسن فیضی کا مسودہ کتاب نہ دکھائیں.اس کے ساتھ ہی پیر صاحب نے ایک خط موضع بھیں کے مولوی کرم دین صاحب کو لکھا کہ انہوں نے اپنی کتاب ” سیف چشتیائی“ میں مولوی محمد حسن فیضی کے صرف نوٹ استعمال کئے ہیں.مولوی کرم دین صاحب اور میاں شہاب الدین صاحب نے پیر صاحب کے خطوط ، دوسری تفاصل اور مولوی محمد حسن فیضی کے نوٹس اور متعلقہ کتب سب مرزا غلام احمد صاحب کو بھجوا دیئے تا کہ ان کا پیر صاحب کی تحریروں سے مقابلہ کر کے پیر صاحب پر سرقہ کا الزام ثابت ہو سکے.چنانچہ مولوی کرم دین صاحب، میاں شہاب الدین اور پیر مہر علی شاہ آف گولڑہ کے سارے خطوط اخبار الحکم قادیان کی ۷ ار ستمبر ۱۹۰۲ء کی اشاعت میں شائع کرا دیئے گئے تا کہ عوام کو اصل صورت سے آگا ہی ہو سکے نیز اس ساری تفصیل کو مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے اپنی تصنیف نزول مسیح (۱۹۰۲ء) میں بھی درج کر دیا.جب اس پورے قصے کی اخبار میں
تشہیر ہوئی اور پیرمہر علی شاہ آف گولڑہ کی علمی اور سماجی دیانت پر حرف آیا تو مولوی کرم دین صاحب ان خطوط کے اصلی ہونے سے صاف مکر گئے جن میں انہوں نے پیر صاحب کے علمی سرقے کا انکشاف کیا تھا.اس کے ساتھ ہی مولوی صاحب نے جہلم سے چھپنے والے سراج الاخبار کی ۶ اکتوبر ۱۹۰۲ء کی اشاعت میں ایک مضمون لکھ کر یہ اعلان بھی کر دیا کہ الحکم قادیان ۱۷ ستمبر ۱۹۰۲ء میں چھپنے والے سب خطوط جعلی ہیں نیز یہ کہ مرزا غلام احمد صاحب کا تمام کاروبار محض مکر وفریب ہے اور آپ اپنے دعوے میں کذاب اور مفتری ہیں.مولوی کرم دین صاحب نے جو دروغ گوئی اور الزام تراشی کا رویہ مرزا صاحب کے ساتھ اختیار کیا.مرزا صاحب نے تین ماہ تک اسے صبر وتحمل سے برداشت کیا تا کہ مولوی صاحب از خود اپنے رویے پر نظر ثانی کر لیں اور حقائق کو تسلیم کر لیں لیکن جب مولوی صاحب نے اصلاح احوال کی کوئی ضرورت محسوس نہ کی تو مرزا صاحب کے کچھ ساتھیوں نے یکے بعد دیگرے مولوی صاحب پر تین استغاثے دائر کر دیئے تا کہ عدالت کے ذریعے داد رسی ہو سکے.ان حالات میں مولوی کرم صاحب نے جواب میں پہلا مقدمہ مرزا صاحب کے خلاف دائر کر دیا.اے مولوی کرم دین صاحب کا پہلا مقدمہ: جن حالات میں مولوی محمد حسن فیضی کی وفات ہوئی مرزا غلام احمد صاحب نے اس کا تذکرہ اپنی تصانیف نزول اسیح (۱۹۰۲ء ) اور پھر مواہب الرحمن (۱۹۰۳ء) میں کیا اور واضح کیا کہ کس طرح مولوی صاحب مرزا صاحب کے ساتھ روحانی ا : دوست محمد شاہد ۱۹۶۲ء- تاریخ احمدیت.جلد سوئم صفحات ۲۷۱-۲۷۲
۳۶۱ مقابلے کی کوشش کے باعث ہلاک ہو گئے.مولوی کرم دین صاحب نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ مولوی محمد حسن فیضی چونکہ ان کے بہنوئی ہونے کے باعث قریبی عزیز تھے اور مرزا صاحب نے اپنی کتب میں ان کی توہین کی ہے جو تعزیرات ہند کی متعدد دفعات کے تحت مجرم ہے اس لئے حصول انصاف کی خاطر انہوں نے مرزا صاحب اور ان کے دو احباب کے خلاف رائے سنسار چند مجسٹریٹ درجہ اول جہلم کی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا جس کے لئے عدالت میں حاضری کی تاریخ ۱۷ار جنوری ۱۹۰۳ء مقرر ہوئی.مولوی کرم دین کے اس مقدمے کا سُن کر مرزا صاحب کے مخالفین میں مسرت کی لہر دوڑ گئی یہاں تک کہ لاہور کے اخبار پنجاب سما چاڑ نے لکھا کہ ”مرزا قادیانی پر نالش ہے.ان کا طرز تحریر بھی جہاں تک پڑھا ہے ملک کے لئے کسی طرح مفید نہیں بلکہ بہت دلوں کو دکھانے والا ہے.اگر عدالت نالش کو سچا سمجھے تو مناسب ہے کہ سزا عبرت انگیز دیوے تا کہ ملک ایسے شخصوں سے جس قدر پاک رہے ملک اور گورنمنٹ دونوں کے لئے مفید ہے خدائے علیم و حکیم نے ایک لیم شخص کی نسبت اور اس کے بہتان عظیم کی نسبت مجھے خبر دی.اور مجھے اپنی وحی سے اطلاع دی کہ یہ شخص میری عزت دور کرنے کے لئے حملہ کرے گا اور انجام کار میرا نشانہ آپ بن جائے گا اور خدا نے تین خوابوں میں یہ حقیقت میرے پر ظاہر کی اور خواب میں میرے پر ظاہر کیا کہ یہ دشمن تین حمایت کرنے والے اپنی : اخبار الحکم قادیان ۳۱ جنوری ۱۹۰۳ء.صفحہ ۱۳ کالما
۳۶۲ کامیابی کے لئے مقرر کرے گا تاکہ کسی طرح اہانت کرے اور رنج پہنچا وے اور مجھے خواب میں دکھایا گیا گویا میں کسی عدالت میں گرفتاروں کی طرح حاضر کیا گیا ہوں اور مجھے دکھلایا گیا کہ انجام ان حالات کا میری نجات ہے اگر چہ کچھ مدت کے بعد ہو اور مجھے بشارت دی گئی کہ اس دشمن کذاب مہین پر بلارد کی جائے گی....پھر میں انتظار کرتا رہا کہ کب یہ پیشگوئی کی باتیں ظہور میں آئیں گی.پس جب ایک برس گذرا تو یہ مقدر باتیں کرم دین کے ہاتھ سے ظہور میں آگئیں (یعنی اس نے ناحق میرے پر فوجداری مقدمات دائر کئے ).پس اس کے مقدمات دائر کرنے سے پیشگوئی کا ایک حصہ تو پورا ہو گیا اور جو باقی حصہ ہے یعنی میرا اس کے مقدمات سے نجات پانا اور آخر اس کا سزا یاب ہونا یہ بھی عنقریب پورا ہو جائے گا ! مقدمے میں حاضر ہونے کے لئے مرزا صاحب ۱۵/جنوری ۱۹۰۳ء کو قادیان سے روانہ ہو کر بٹالہ ہوتے ہوئے رات گیارہ بجے کے قریب لاہور پہنچے اور رات وہیں قیام کیا.اگلے روز ۱۶ار جنوری کو مرزا صاحب نماز فجر کے بعد پیدل ہی ریلوے اسٹیشن کی طرف چل پڑے تا کہ جہلم جانے والی گاڑی پر سوار ہوسکیں.راستہ میں مرزا صاحب نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ رات کثرت سے یہ الہام ہوا ہے کہ (ترجمہ) ”میں ہر جانب سے تجھے برکتیں دکھاؤں گا“ ہے ل : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۳ ء- مواہب الرحمن صفحات ۱۲۹-۱۳۰ : اخبار البدر قادیان ۲۳، ۳۰ /جنوری ۱۹۰۳ء.جلد ۲.نمبر۱-۲ صفحه ۹
۳۶۳ چنانچہ وہ سفر جو مرزا صاحب نے قادیان سے جہلم تک اس لئے اختیار کیا تھا کہ ایک مقدمے میں ملزم کی حیثیت سے پیش ہو کر اپنی صفائی پیش کریں وہی سفر کئی لحاظ سے آپ کے لئے موجب خیر و برکت ہوا.اس کے چند شواہد درج ذیل ہیں.i- لاہور میں مرزا صاحب کا قیام بہت مختصر اور سخت سرد موسم میں تھا یعنی رات گیارہ بجے کے بعد سے صبح نماز فجر تک کا پھر بھی ۴۰ کے لگ بھگ افراد مرزا صاحب کی بیعت میں داخل ہوئے.اے ii - لا ہور سے جہلم تک کا سفر مرزا صاحب کے لئے بے مثال تعظیم و تکریم کا باعث بنا.راستہ میں ہر اسٹیشن پر انبوہ خلائق مرزا صاحب کے استقبال اور زیارت کے لئے موجود تھا.مولوی عبدالواحد صاحب سیالکوٹی نے وزیر آبا در میلوے اسٹیشن پر استقبالیہ ہجوم کا حال یوں بیان کیا کہ وزیر آباد میں ضور علیہ السلام (یعنی مرزا غلام احمد صاحب- ناقل) کی ٹرین ہمارے سامنے دوسرے پلیٹ فارم پر کھڑی تھی.لوگوں کا ہجوم بہت تھا اور ٹرین کے ڈبے کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے.یہ دیکھ کر ہمیں مایوسی ہوئی کہ ہم لوگ شائد اس میں سوار نہ ہوسکیں گے.لوگ کثرت سے زیارت کے لئے چلے آرہے ہیں.پلیٹ فارم پرٹکٹ ٹکٹ کا شور مچ رہا ہے اتنے میں سٹیشن ماسٹر صاحب تشریف لائے اور بکنگ کلرک پر ناراض ہوتے ہوئے بولے ٹکٹ بند کرو گیٹ کھول دولوگوں کو جانے دو ہجوم میں مرزا صاحب کی زیارت کا جوش ہے کھڑ کی جلد بند کر وخطرہ ہے ل : روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد ۹ - صفحات ۱۸۱-۱۸۲) تاریخ احمدیت.جلد سوم.۱۹۶۲ء صفحہ ۱۶۲)
۳۶۴ کہ لوگ کھڑ کی نہ توڑ دیں...حضور علیہ السلام کی زیارت کا لوگوں میں اس قدر جوش تھا کہ ہجوم نے ٹرین روک لی اور اسٹیشن ماسٹر نے بھی ٹرین لیٹ کردی اے III- خدا تعالیٰ کی برکتوں کے نزول کے راستے میں کئی مشاہدے کرنے کے بعد جب گاڑی جہلم پہنچی تو مرزا صاحب کا استقبال کرنے والوں کا بے مثال ہجوم تھا اس نظارے پر مرزا صاحب نے خود یوں تبصرہ کیا.” جب میں جہلم کے قریب پہنچا تو تخمینا دس ہزار سے زیادہ آدمی ہو گا کہ وہ میری ملاقات کے لئے آیا اور تمام سڑک پر آدمی تھے اور ایسے انکسار کی حالت میں تھے کہ گویا سجدے کرتے تھے اور پھر ضلع کچہری کے ارد گرد اس قدر لوگوں کا ہجوم تھا کہ حکام حیرت میں پڑ گئے.گیارہ سو آدمیوں نے بیعت کی اور قریباً دوسو کے قریب عورت بیعت کر کے اس سلسلہ میں داخل ہوئی...بہت سے لوگوں نے ارادت اور انکسار سے 66 نذرانے دیئے سے IV- جہلم ریلوے اسٹیشن اور جہلم میں مرزا صاحب کی قیام گاہ پر رجوع خلائق کا نظارہ مولوی عبد الغنی صاحب جہلمی نے سوانح مولوی برہان الدین صاحب جہلمی صفحه ۲۹ (غیر مطبوعہ ) پر یوں لکھا ہے..ل : مولوی عبدالواحد سیالکوٹی.جنوری ۱۹۵۷ء رسالہ خالد صفحہ ۳۹ ( تاریخ احمدیت ۱۹۶۲ء جلد سوم.صفحات ۲۷۴ - ۲۷۵) : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ء-حقیقۃ الوحی.صفحہ ۲۵۲
۳۶۵ گاڑی دو بجے کے قریب جہلم پہنچی.جناب غلام حیدر خاں صاحب تحصیل دار جہلم نے شائقین کی تڑپ دیکھ کر حضرت اقدس (مرزا غلام احمد صاحب.ناقل ) سے درخواست کی کہ حضور دو، ایک منٹ کے لئے گاڑی کے دروازے میں کھڑے ہو کر اپنے منور چہرہ کی زیارت کرا دیں...ازاں بعد حضور ایک گاڑی میں مجوزہ فرودگاه ( بنگلہ سردار ہری سنگھ صاحب رئیس جہلم) کو چلے.ایک انبوہ کثیر اس وقت حضور کے ساتھ تھا اور جہاں تک نگاہ جاتی تھی ہر طرف آدمی ہی آدمی دکھائی دیتے تھے.اس قدر مخلوق تھی کہ اثر دھام اور بھیڑ میں حضور کی گاڑی بڑی مشکل سے آہستہ آہستہ چلتی تھی.حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی کی خوشیوں کا اس دن کوئی ٹھکانہ نہیں تھا.آپ اس دن ضعیف العمری کے باوجود کمر کے ساتھ چادر باندھے گاڑی کے آگے آگے یہ کہتے جا رہے تھے کہ پیلی ( چیونٹی) کے گھر نارائن ( یعنی بروز حدا) آیا ہے.تین بجے گاڑی بنگلہ کے سامنے آکرڑ کی....باہر بہت سے لوگ زیارت کی غرض سے کھڑے تھے لہذا یہاں بھی حضور سے عرض کیا گیا کہ لوگ حضورانور کو دیکھنے کے لئے ترس رہے ہیں.یہ دیکھ کر حضور کمرہ سے بنگلہ کی چھپ پر تشریف لے گئے اور آرام کرسی پر بیٹھ گئے.1 - ۱۷ار جنوری ۱۹۰۳ء کو پیشی کے دن مرزا غلام احمد صاحب گاڑی میں بیٹھ کر کچہری : مولوی عبد اغنی جبلی.سوانح مولوی برہان الدین جہلمی صفحه ۲۹ ( غیر مطبوعہ ) ( تاریخ احمدیت جلد سوم صفحات ۲۷۶،۲۷۵)
۳۶۶ تشریف لے گئے جس قدر ہجوم ایک دن قبل جہلم ریلوے اسٹیشن پر استقبال کے لئے آیا تھا.اس سے بھی زیادہ اب موجود تھا.مرزا صاحب کی گاڑی جب کچہری کے میدان میں جا کر ٹھہری تو کثرت ہجوم کے باعث مرزا صاحب گاڑی کے اندر ہی ٹھہرے رہے.آدمی پر آدمی گرا پڑتا تھا.پولیس ڈنڈوں سے لوگوں کو پیچھے ہٹاتی تھی مگر وہ آگے ہی بڑھتے جاتے تھے.تین بجے کے قریب مرزا صاحب نے عدالت میں قدم رکھا.عدالت کا کمرہ لوگوں سے بھرا ہوا تھا حتی کہ جس پلیٹ فارم پر مجسٹریٹ کی کر سی تھی اس پر بھی لوگ کھڑے تھے.ا VI مقدمے کا خارج ہونا: ۱۹ جنوری ۱۹۰۳ء کو فاضل مجسٹریٹ رائے سنسار چند نے فیصلہ دے کر مولوی کرم دین صاحب کا مرزا غلام احمد صاحب کے خلاف مقدمہ خارج کر دیا.مولوی صاحب نے سیشن جج جہلم کی عدالت میں نگرانی دائر کی جو خارج کر دی گئی اور اس طرح مرزا صاحب کی بریت ہوئی.سے بادی النظر میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کا قادیان سے جہلم تک اور وہاں قیام اور پھر واپسی کا سفر کسی مقدمہ کو بھگتانے کی خاطر نہ تھا بلکہ الہی فضلوں اور برکتوں اور حمتوں کی بارش سمیٹنے کا باعث تھا.مرزا صاحب کے مخالف کس طرح اہانت کے درپے تھے اور خدا تعالیٰ کس طرح ان کے سارے منصوبے خاک میں ملا کر آپ کا احترام اور وقار کو بڑھاتا جارہا تھا.ا : دوست محمد شاہد ۱۹۶۲ء - تاریخ احمدیت.جلد سوم - صفحات ۲۷۶-۲۷۷ : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ء- حقیقۃ الوحی صفحه ۲۶۴
مولوی کرم دین صاحب کا دوسرا مقدمہ: مولوی کرم دین صاحب نے پہلے مقدمے میں ناکامی کے بعد ۲۶ /جنوری ۱۹۰۳ء کو ایک دوسرا فوجداری مقدمہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور حکیم فضل دین صاحب کے خلاف رائے سنسار چند صاحب ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جہلم کی عدالت میں دائر کر دیا.مولوی صاحب کے اس مقدمے کی بنیاد یہ تھی کہ مرزا صاحب نے اپنی تصنیف مواہب الرحمن (۱۹۰۳ء) میں کذاب مہین کے الفاظ جن کا ذکر گزشتہ صفحات پر مولوی صاحب کے پہلے مقدمے میں آچکا ہے مولوی کرم دین صاحب کے بارے میں استعمال کر کے ان کی توہین کی ہے کیونکہ ان کے بیان کے مطابق یہی الفاظ ایک خاص کا فرولید بن مغیرہ کی نسبت استعمال کئے گئے ہیں.اس لئے مرزا صاحب نے یہ الفاظ مولوی کرم دین صاحب کے لئے استعمال کر کے انہیں کا فر سے تشبیہ دی ہے.مولوی صاحب کا دائر کردہ مقدمہ تقریباً ۲ سال تک مختلف عدالتوں میں چلتا رہا جس میں کئی اہم شخصیتوں نے مرزا صاحب کی عزت پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی لیکن درد ناک انجام سے دو چار ہوئیں اور مولوی کرم دین صاحب نہ صرف آخر کار عدالت سے کذاب اور لئیم کا خطاب لے کر نکالے گئے بلکہ ان کا انجام بھی بڑی درد ناک موت پر ہوا.ہم واقعات کے تسلسل کو اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں.ا.مقدمے کے بارے میں مرزا غلام احمد صاحب کے الہامات: جونہی مولوی کرم دین صاحب نے مرزا صاحب کے خلاف فوجداری مقدمہ
۳۶۸ ۲۶ جنوری ۱۹۰۳ء کو دائر کیا مرزا صاحب کو اس کے بارے میں وقفے وقفے سے الہامات کا سلسلہ شروع ہوا جنہیں آپ قادیان سے نکلنے والے اخبارات الحکم اور البدر میں چھپواتے رہے ان میں سے درج ذیل کے ذریعے اس مقدمے کے نتیجے کو سمجھنے میں مدد ملتی تھی : i - (عربی سے ترجمہ) ”خدا اپنے بندوں کے ساتھ ہے.وہ تیری غمخواری کرے گا.الہام بوقت شام - ۲۸ / جنوری ۱۹۰۳ء ) ii- (عربی سے ترجمہ ) شاندار رنگ میں تیری عزت قائم کی جائے گی“ ہے الہام بوقت صبح ۲۹ جنوری ۱۹۰۳ء) iii- (عربی سے ترجمہ) روز دوشنبہ اور حسین والی فتح سے ( الہام ۷ ارفروری ۱۹۰۳ء) iv- (عربی سے ترجمہ) ”بے شک خدا اُن کے ساتھ ہے جو پرہیز گار ہیں اور ان لوگوں کے ساتھ جو خدا کے بندوں کے ساتھ ہمدردی اور نیکی کرتے ہیں اور پوچھنے والوں کے لئے اس میں کئی نشانات ہیں“ ہے الہام رات ۲۸ / جون ۱۹۰۳ء) : اخبار الحکام قادیان ۱۴ار فروری ۱۹۰۳ء صفحه ۵ - کالم ۲ (البدر ۳۰ /جنوری ۱۹۰۳ء.صفحہ ۱۱.کالم ۲۰) ( تذکره صفحه ۴۵۷) ۲ : اخبار الحکم قادیان ۳۱ / جنوری ۱۹۰۳ ، صفحہ ۱۵.کالم ۲ ( تذکرہ صفحہ ۴۵۷) : اخبار البدر - قادیان ۲۰ / فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۹.کالم ۲ ( تذکره صفحه ۴۶۴) ۴ : اخبار الحکم- قادیان ۳۰ / جون ۱۹۰۳ صفحہ۱۱.( تذکره صفحه ۴۷۶)
۳۶۹ ۲۸ / جون ۱۹۰۳ء کے اس الہام پر مرزا صاحب کی طرف سے مندرجہ ذیل تبصرہ ۳۰ /جون ۱۹۰۳ء کے دن اخبار الحکم میں شائع ہوا.”میرے خیال پر یہ کشش غالب ہوئی کہ یہ مقدمات جو کرم الدین کی طرف سے میرے پر ہیں یا بعض میری جماعت کے لوگوں کی طرف سے کرم الدین پر ہیں ان کا انجام کیا ہو گا سو اس غلبہ کشمکش کے وقت میری حالت وحی الہی کی طرف منتقل کی گئی اور خدا کا یہ کلام میرے پر نازل ہوا.اس کے معنے یہ مجھے سمجھائے گئے کہ ان دونوں فریقوں میں سے خدا اس کے ساتھ ہوگا اور اس کو فتح اور نصرت نصیب کرے گا کہ جو پر ہیز گار ہیں یعنی جھوٹ نہیں بولتے ظلم نہیں کرتے ، تہمت نہیں لگاتے اور دعا اور فریب اور خیانت سے ناحق خدا کے بندوں کو نہیں ستاتے اور ہر ایک بدی سے بچتے اور راستبازی اور انصاف کو اختیار کرتے ہیں اور خدا سے ڈر کر اُس کے بندوں کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی اور نیکی کے ساتھ پیش آتے ہیں اور بنی نوع کے وہ بچے خیر خواہ ہیں.ان میں درندگی اور ظلم اور بدی کا جوش نہیں بلکہ عام طور پر ہر ایک کے ساتھ وہ نیکی کرنے کے لئے تیار ہیں سو انجام یہ ہے کہ ان کے حق میں فیصلہ ہو گا.تب وہ لوگ جو پوچھا کرتے ہیں جو ان دونوں گروہوں میں سے حق پر کون ہے؟ ان کے لئے نہ ایک نشان بلکہ کئی نشان ظاہر ہوں گے.“ (عربی سے ترجمہ) میں بعد اس کے جو مخالف تیری تو ہین کریں گے.مرزا غلام احمد قادیانی - اخبار الحکم- قادیان ۳۰ / جون ۱۹۰۳ء.صفحه اا ( تذکره صفحه ۴۷۶)
۳۷۰ تجھے عزت دوں گا اور تیرا اکرام کروں گا“ اے اگر چہ ۶ - ۷ ماہ کے اندر یہ ۵ الہامات مقدمے کے انجام کو واضح کر رہے تھے لیکن مرزا صاحب نے مقدمے کی کاروائی کے آغاز کے ساتھ ہی اس کے انجام کو وضاحت سے بیان کر دیا.آپ نے اخبار الحکم میں لکھا کہ وو یہ استغاثہ ہم پر نہیں اللہ تعالیٰ پر ہی معلوم ہوتا ہے کہ لوگ مقدمات کر کے ٹھکانا چاہتے ہیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا زور آور حملوں سے سچائی ظاہر کر دے گا اس وقت یہ پورے زورلگائیں گے تاکہ قتل کے مقدمے ( ڈاکٹر مارٹن کلارک کا مقدمہ - ناقل.دیکھئے باب ہفتم) کی حسرتیں نہ رہ جائیں کہ کیوں چھوٹ گیا.یہ لوگ ان باتوں پر یقین نہیں رکھتے جو خدا کی طرف سے میں پیش کرتا ہوں مگر وہ دیکھ لیں گے کہ اکرام عجبا ( الهام عربی ۲۹ جنوری ۹۰۳ء) کیا ہوتا ہے“ سے -۲- مقدمے کی کاروائی اور چندر لال مجسٹریٹ کا معاندانہ رویہ: مولوی کرم دین صاحب کا جہلم میں مرزا غلام احمد صاحب کے خلاف دائر کردہ مقدمہ منتقل ہو کر ۲۹ / جون ۱۹۰۳ء کو گورداسپور میں ایک آریہ مجسٹریٹ درجہ اول لالہ چند و مل بی.اے کی عدالت میں آ گیا.اسی عدالت میں بعض احمدی احباب کی طرف سے مولوی کرم دین صاحب کے خلاف دائر کردہ مقدمات بھی چل رہے تھے.اخبار الحکم.قادیان-۱۷ راگست ۱۹۰۳ء صفحه ۲۰( تذکر صفحه ۴۷۹) : اخبار الحکم قادیان- اخبار الحکم- قادیان ۱۴ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۵ کالم ۲( تاریخ احمدیت جلد سوم صفحه۲۹۰)
۳۷۱ ۱۸ اگست ۱۹۰۳ء گورداسپور میں اس مقدمہ کی پیشی ہوئی.مرزا صاحب کے وکیل خواجہ کمال الدین صاحب نے مرزا صاحب کی طرف سے درخواست دی کہ عدالت اس مقدمہ میں مرزا صاحب کی اصالتاً حاضری معاف کر دے.عدالت کی طرف سے یہ درخواست رد کر دی گئی.چندو لال مجسٹریٹ کی طرف سے مرزا صاحب کے خلاف بغض کا یہ پہلا اظہار تھا.گزشتہ صفحات پر مولوی کرم دین صاحب کے مرزا صاحب کے خلاف پہلے مقدمے کے بیان میں ان خطوط کا ذکر آچکا ہے جو مولوی کرم دین صاحب اور مولوی شہاب الدین صاحب نے مرزا صاحب حکیم فضل دین کو پیر مہر علی شاہ آف گولڑہ کی تصنیف ”سیف چشتیائی کے مبینہ طور پر سرقہ ہونے کے بارے میں لکھتے تھے اور جن کے بارے میں بعد میں ۶ اکتو بر ۱۹۰۳ء کو سراج الاخبار“ میں چھپوا دیا تھا کہ مذکورہ بالا خطوط جعلی ہیں.مقدمے کی سماعت کے دوران جرح کے جواب میں مولوی صاحب نے ۶ اکتو بر ۱۹۰۳ء کو سراج الاخبار میں چھپنے والے اپنے مضمون کے بھی اصلی ہونے سے انکار کر دیا.آپ نے بیان کیا کہ را کتوبر ۱۹۰۳ء کو اخبار سراج الاخبار میں جو مضمون چھپا ہے وہ میرا نہیں ہے.میں نے کوئی خط حکیم فضل دین صاحب کو نہیں لکھا نہ لکھوایا نہ میں نے شہاب الدین کو کوئی اطلاع دی.کہ پیر صاحب نے فیضی صاحب کی کتاب سیف چشتیانی سرقہ کی ہے.مسل مقدمه مولوی کرم دین جہلمی - صفحه ۷۳٬۶۹،۵۸،۵۶،۵۱ ( تاریخ احمدیت.جلد سوم.صفحات ۲۹۱-۲۹۲)
۳۷۲ ii- مقدمے کی اگلی پیشی ۱۳ جنوری ۱۹۰۴ء کو تھی جس کے لئے مرزا صاحب ۱۲/جنوری کو پچھلے پہر گورداسپور پہنچ گئے.مرزا صاحب کو چندو لال مجسٹریٹ کی مخالفانہ اور متعصبانہ روش کی تفصیلات کا پہلے سے علم ہو چکا تھا.اس کا ارادہ تھا کہ وہ پہلی پیشی پر ہی آپ کو گرفتار کر کے جیل میں بند کر دے.مرزا صاحب کے گرفتار کرنے کی سازش میں چند ولال مجسٹریٹ کے ملوث ہونے کی شہادت اور اگلے دن عدالت میں پیش آمدہ واقعات کے باعث مرزا صاحب کی باعزت واپسی کا پس منظر اور پیش منظر مرزا صاحب کے ایک قریبی معتمد مولاناسید سرور شاہ صاحب کے الفاظ میں پڑھیے.محمد حسین مذکور گورداسپور میں کسی کچہری میں محرر یا پیش کا رتھا اور سلسلہ (احمدیہ.ناقل ) کا سخت مخالف تھا.ڈاکٹر صاحب ( ڈاکٹر محمد اسمعیل خاں.ناقل ) نے بیان کیا کہ محمد حسین منشی آیا اور اس نے مجھے کہا کہ آج کل یہاں آریوں کا جلسہ ہوا ہے....جلسہ کی عام کا روائی کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ...اب لوگ چلے جائیں کچھ ہم نے پرائیویٹ باتیں کرنی ہیں.پھر ان آریوں میں سے ایک شخص اُٹھا اور مجسٹریٹ (لالہ چند ولال- ناقل ) کو مرزا صاحب کا نام لے کر کہنے لگا کہ یہ شخص ہمارا سخت دشمن اور ہمارے لیڈ لیکھرام کا قاتل ہے اب وہ آپ کے ہاتھ میں شکار ہے اور ساری قوم کی نظر آپ کی طرف ہے اگر آپ نے شکار کو ہاتھ سے جانے دیا تو آپ قوم کے دشمن ہونگے.....مجسٹریٹ نے جواب دیا کہ میرا تو پہلے سے خیال ہے کہ ہو سکے تو نہ صرف
۳۷۳ مرزا صاحب کو بلکہ اس مقدمہ میں جتنے بھی اس کے ساتھی اور گواہ ہیں سب کو جہنم میں پہنچا دوں مگر کوئی ہاتھ ڈالنے کی جگہ نہیں ملتی لیکن اب عہد کرتا ہوں کہ خواہ کچھ ہو اس پہلی پیشی میں ہی عدالتی کاروائی عمل میں لے آؤں گا....ڈاکٹر صاحب بیان کرتے تھے کہ محمد حسین مجھ سے کہتا تھا کہ عدالتی کاروائی کا مطلب یہ ہے کہ ہر مجسٹریٹ کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ شروع یا دوران مقدمہ میں جب چاہے ملزم کو بغیر ضمانت قبول کئے گرفتار کر کے حوالات دے دے....آپ اس کا کوئی انتظام کر لیں اور میرے خیال میں دو تجویزیں ہو سکتی ہیں.ایک تو یہ کہ چیف کورٹ لاہور میں یہاں سے مقدمہ تبدیل کرانے کی کوشش کی جاوے اور دوسرے یہ کہ خواہ کسی طرح ہومگر مرزا صاحب اس آئندہ پیشی میں حاضر عدالت نہ ہوں اور ڈاکٹری ٹیفکیٹ پیش کر دیں....ڈاکٹر صاحب نے یہ واقعہ بیان کیا تو ہم سب بھی خوفزدہ ہو گئے...رات ہو چکی تھی ہم نے یکہ تلاش کیا...مگر کوئی یکہ والا راضی نہ ہوا.آخر ہم نے شیخ حامد علی اور عبدالرحیم باور چی اور ایک تیسرے شخص کو قادیان پیدل روانہ کیا.وہ صبح کی نماز کے وقت قادیان پہنچے اور حضرت صاحب (مرزا غلام احمد صاحب - ناقل ) سے مختصراً عرض کیا.حضور نے بے پروائی سے جواب دیا.خیر ہم بٹالہ چلتے ہیں.چنانچہ اسی دن حضور بٹالہ آگئے.گاڑی میں مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ صاحب بھی مل گئے.انہوں نے خبر دی کہ تبدیلی مقدمہ کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی....جب آپ گورداسپور پہنچے
۳۷۴ تو تھوڑی دیر کے بعد مجھے بلایا گیا.میں گیا مجھ سے فرمایا کہ میں نے آپ کو اس لئے بلایا ہے کہ وہ سارا واقعہ سُکوں کہ کیا ہے.اس وقت کمرے میں کوئی اور آدمی نہ تھا.میں نے سارا واقعہ سنایا.حضور خاموشی سے سنتے رہے.جب میں شکار کے لفظ پر پہنچا تو یکلخت حضرت صاحب اُٹھ کر بیٹھ گئے.اور آپ کی آنکھیں چمک اُٹھیں اور چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ نے فرمایا.میں اس کا شکار ہوں میں شکار نہیں ہوں ، میں شیر ہوں اور شیر بھی خدا کا.وہ بھلا خدا کے شیر پر ہاتھ ڈال سکتا ہے.ایسا کر کے تو دیکھے...اور اس وقت آپ کی آنکھیں جو ہمیشہ جھکی ہوئی اور نیم بند رہتی تھیں واقعی شیر کی آنکھوں کی طرح کھل کر شعلہ کی طرح چمکتی تھیں اور چہرہ اتنا سرخ تھا کہ دیکھا نہیں جاتا تھا.پھر آپ نے فرمایا.میں کیا کروں میں نے تو خدا کے سامنے پیش کیا ہے کہ میں تیرے دین کی خاطر اپنے ہاتھ اور پاؤں میں لوہا پہنے کو تیار ہوں مگر وہ کہتا ہے کہ نہیں میں تجھے ذلت سے بچاؤں گا اور عزت کے ساتھ بری کروں گا.پھر آپ محبت الہی پر تقریباً نصف گھنٹے تک جوش کے ساتھ بولتے رہے لیکن پھر یکلخت بولتے بولتے آپ کو ابکائی آئی اور ساتھ ہی تے ہوئی جو خالص خون کی تھی...ڈاکٹر کو بلوایا.ڈاکٹر انگریز تھا...اس نے کہا.اس وقت آرام ضروری ہے.میں سرٹیفکیٹ لکھ دیتا ہوں....خود ہی کہنے لگا.میرے خیال میں دو مہینے آرام کرنا چاہئے.خواجہ صاحب نے کہا.فی الحال ایک مہینہ کافی ہوگا.اس نے فوراً ایک مہینے کے لئے
۳۷۵ سرٹیفکیٹ لکھ دیا اور لکھا کہ اس عرصہ میں میں ان کو کچہری میں پیش ہونے کے قابل نہیں سمجھتا.اس کے بعد حضرت صاحب نے واپسی کا حکم دیا...بعد میں ہم نے سُنا کہ مجسٹریٹ نے سرٹیفکیٹ پر جرح کی اور بہت تلملایا اور ڈاکٹر کو شہادت کے لئے بلوایا مگر اس انگریز ڈاکٹر نے کہا کہ میرا سرٹیفکیٹ بالکل درست ہے اور میں اپنے فن کا ماہر ہوں.اس پر میرے فن کی رو سے کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا اور میرا سرٹیفکیٹ تمام اعلیٰ عدالتوں تک چلتا ہے.مجسٹریٹ بڑا بڑا تا رہا مگر کچھ پیش نہ گئی 1 اس روداد سے ظاہر ہوتا ہے کہ لالہ چندر لال مجسٹریٹ جو مرزا صاحب کو پہلی ہی پیشی پر گرفتار کر کے جیل میں ڈالنے کا مصمم ارادہ کر چکا تھا ہاتھ ملتا رہ گیا اور مرزا صاحب کا گزشتہ صفحات پر درج الہام ” خدا اپنے بندوں کے ساتھ ہے.وہ تیری غمخواری کرے گا پورا ہوا.مرزا صاحب کے وکلا نے لالہ چندو لال کی کھلم کھلا معاندانہ روش کے باعث مقدمے کے انتقال کے لئے پہلے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور اور پھر چیف کورٹ لا ہور میں درخواستیں دیں جو بالترتیب ۱۲ فروری ۱۹۰۴ء اور ۲۲ فروری ۱۹۰۴ء کو نا منظور کر دی گئیں.اس طرح ۲۴ فروری ۱۹۰۴ء کو جب مقدمے کی سماعت پھر سے شروع ہوئی تو چند ولال مجسٹریٹ کا رویہ پہلے سے بھی زیادہ جارحانہ تھا.دو تین دفعہ کی پیشیوں کے بعد مقدمہ کی سماعت ۱۴؍ مارچ ۱۹۰۴ء کو ہوئی تھی کہ کیپٹن لے : مرزا بشیر احمد - سیرۃ المہدی.حصہ اوّل ( طبع دوم) صفحات ۹۲ تا ۹۸
پی.ایس سی مقر ر سول سرجن گورداسپور قادیان آئے اور انہوں نے مرزا صاحب کو چھ ہفتے تک سفر کے نا قابل ہونے کا سرٹیفکیٹ دے دیا لہذا مرزا صاحب اس دن بھی عدالت میں حاضر نہ ہوئے.چند ولال مجسٹریٹ سرٹیفکیٹ دیکھ کر بہت سٹپٹایا لیکن اگلے دن یعنی ۱۵/ مارچ کو ڈاکٹر کی ذاتی شہادت لے کر مقدمے کی تاریخ ۱۰ را پریل ۱۹۰۴ء مقرر کر دی.- چند ولال مجسٹریٹ کا انجام : اگر چہ اب تک اسے کوئی موقعہ نہ ملا تھا لیکن ایک دن چند غیر احمدی احباب نے مرزا غلام احمد صاحب سے گزارش کی کہ لالہ چند ولال مجسٹریٹ کا ارادہ بالآ خر آپ کو قید کرنے کا ہے.مرزا صاحب دری پر لیٹے لیٹے اُٹھ بیٹھے اور فرمایا کہ میں تو چند ولال کو عدالت کی کرسی پر نہیں دیکھتا 1 ۲۴ فروری ۱۹۰۴ء کو مرزا صاحب نے اپنا کشف بیان کیا کہ وو میں نے دیکھا کہ کوئی کہتا ہے کہ فلاں شخص کی جگہ شیخ آیا.خیال گزرتا ہے کہ چندو لال کی جگہ آیا.واللہ اعلم ہے واقعات بتاتے ہیں کہ قضا و قدر کا فیصلہ چند ولال مجسٹریٹ کے خلاف صادر ہو چکا تھا.۱۰ را پریل ۱۹۰۴ء کی مقرر کردہ تاریخ پر چندو لال کو مرزا صاحب کے خلاف دائر کردہ مقدمہ کی سماعت نصیب نہ ہوئی اور وہ فی الواقع اس دن عدالت کی کرسی پر نہ لے : اخبار الحکم قادیان ۱۴ / جولائی ۱۹۳۵ء صفحه ۴ کالم ۳ ( تاریخ احمدیت.جلد سوم صفحہ ۳۰۰) : مرزا غلام احمد قادیانی الهام ۲۴ فروری ۱۹۰۴ء ( تذکره صفحه ۵۰۶)
۳۷۷ تھا اور اس کی جگہ ایک دوسرا مجسٹریٹ آچکا تھا.اس دوران ۱۰ مارچ ۱۹۰۴ء کے ایک گزٹ نوٹیفکیشن کے ذریعے لالہ چندو لال کو مجسٹریٹ درجہ اول سے تنزلی کے بعد گورداسپور سے تبدیل کر دیا گیا اور ملتان میں ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر بنا دیا گیا.لے کچھ عرصہ بعد پنشن پاکر ریٹائر ہوئے اور لدھیانہ میں آگئے ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے لالہ صاحب کی تنزلی کے اسباب کس طرح پیدا ہوئے اس ضمن میں تین واقعات کا بیان دلچسپی سے خالی نہیں.حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ لالہ چند ولال نے مقدمے کے دوران مرزا صاحب سے دریافت کیا.آپ کو نشان نمائی کا دعویٰ ہے؟ آپ نے فرمایا.ہاں اور تھوڑی دیر بعد آپ نے فرمایا.جو نشان چاہیں میں اس وقت دکھا سکتا ہوں.یہ سن کر وہ سنائے میں آ گیا اور خاموش ہو گیا.سے ii- ایک دفعہ چند ولال مجسٹریٹ نے عدالت میں حضور کے الہامانی مُهِينٌ مَنْ اَرَادَ اِهَا نَتَكَ “ کے متعلق سوال کیا کہ یہ خدا نے آپ کو بتایا ہے؟ حضور نے فرمایا.یہ اللہ کا کلام ہے اور اس کا مجھ سے وعدہ ہے.وہ کہنے لگا.جو آپ کی ہتک کرے وہ ذلیل و خوار ہوگا ؟ آپ نے فرمایا.بے شک.چندو لال نے کہا.اگر میں کروں مرزا صاحب نے کہا.چاہے کوئی کرے.تو اُس نے دو تین مرتبہ کہا.اگر ا : گورنمنٹ گزٹ نوٹیفکیشن نمبر ۱۰۸۵- ۱۰ / مارچ ۱۹۰۴ ء صفحه ۳۰۹ : اخبار الحکم قادیان ۱۴؍ جولائی ۱۹۳۵ء صفحه ۴ کالم ۴ : اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ ۱۰۷ ( تاریخ احمدیت جلد سوم صفحه ۳۰۰)
۳۷۸ میں کروں تو مرزا صاحب یہی فرماتے رہے.چاہے کوئی کرے.پھر چند ولال خاموش ہو گیا.iii- ڈاکٹر بشارت احمد مؤلف مسجد داعظم لالہ چند ولال مجسٹریٹ درجہ اول کی تنزلی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ گورداسپور جیل میں ایک مجرم کو پھانسی لگنی تھی قاعدہ ہوتا ہے کہ ڈپٹی کمشنر لالہ چندو لال کی ڈیوٹی لگی.انہوں نے ڈپٹی کمشنر کو لکھا کہ میں بہت رقیق القلب ہوں کسی مجرم کو پھانسی لگتے نہیں دیکھ سکتا اس لئے مجھے معاف رکھا جائے.ڈپٹی کمشٹر نے...کسی دوسرے مجسٹریٹ کی ڈیوٹی لگا دی لیکن ساتھ ہی گورنمنٹ میں رپورٹ کر دی کہ یہ شخص یعنی چند ولال اس قابل نہیں کہ اسے فوجداری اختیارات دیئے جائیں.چنانچہ اس کی اس رپورٹ پر رائے چندو لال صاحب ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنری سے تنزل ہوکر منصف بنا دیئے گئے“ ہے -۴- مرزا غلام احمد صاحب اور مولوی کرم دین صاحب کے در میان مصالحت کی کوششوں کی ناکامی: جون ۱۹۰۴ء میں گورداسپور کے بعض نیک دل مسلمانوں نے مولوی کرم دین جہلمی کومرزا صاحب کے خلاف دائر کردہ مقدمہ سے دستبردار ہونے پر راضی کر لیا اور ل : اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ ۱۰۷ ( تاریخ احمدیت جلد سوم صفحات ۳۰۱،۳۰۰) ہے : ڈاکٹر بشارت احمد مجد داعظم صفحات ۹۶۷،۹۶۶ ( تاریخ احمدیت جلد سوم صفحه ۲۹۹ حاشیه )
٣٧٩ پھر وہ مرزا صاحب کی خدمت میں مصالحت کی غرض سے پہنچے.مرزا صاحب نے جواب دیا کہ صلح کی صرف ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ کرم دین صاحب کہہ دیں کہ متنازعہ خطوط انہوں نے ہی لکھے تھے.وفد کے ایک ممبر نے کہا کہ وہ مقدمہ سے دستبردار ہونا چاہتا ہے.مرزا صاحب نے کہا کہ یہ مقدمہ ایماء الہی سے ہے.جب تک کرم دین صاحب اپنے خطوط کا اقرار نہ کریں کہ اُن کے ہیں جن کا اس نے عدالت میں انکار کیا ہے تب تک کوئی صفائی نہیں.وفد نے مرزا صاحب سے کہا کہ حکام کی نظر اچھی نہیں.مرزا صاحب نے کہا کہ حکام کیا کریں گے مجھے سزا دے دیں گے اور کیا کریں گے ؟ ! اس کے بعد بھی مصالحت کی کوششیں جاری رہیں.بالآخر یہ قرار پایا کہ مرزا صاحب اور مولوی کرم دین صاحب متنازعہ خطوط اور سراج الاخبار کے مضمون کے بارے میں خدا کی لعنت کی شرط رکھ کر اپنے اپنے مؤقف پر قسم کھا ئیں لیکن مولوی کرم دین صاحب اپنے ہی بیان کی سچائی پر قسم کھانے کے لئے تیار نہیں ہوئے که لعنت کا لفظ بہت سخت ہے.آخر لعنت کا لفظ نکال کرفتم کھانے پر معاملہ طے ہوا مگر مولوی کرم دین صاحب پھر بھی تیار نہ ہوئے.اس طرح یہ مصالحت کی کوششیں ترک کر دی گئیں.اخبار الحکم قادیان ۱۴/اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحه ۵ کالم ا ( تاریخ احمدیت جلد سوم، صفحه ۳۰۳)
۳۸۰ -۵- دوسرے مجسٹریٹ مہتہ آ تمارام کا مرزا صاحب سے غیر معقول سلوک : لالہ چند ولال کی تنزلی اور تبدیلی کے بعد مولوی کرم دین جہلمی کا مرزا غلام احمد صاحب کے خلاف مقدمہ سماعت کے لئے اار اپریل ۱۹۰۴ء کو مہتہ آتما رام صاحب کی عدالت میں پیش ہوا.انہوں نے بھی مرزا صاحب کے ساتھ بہت غیر معقول اور درشت رویہ رکھا.اس سے پہلے مرزا صاحب کو ہر عدالت میں خاندانی وجاہت کے ریکارڈ کی مناسبت سے با قاعدہ کرسی ملتی تھی لیکن مہتہ صاحب نے نہ صرف کرسی دینے سے انکار کیا بلکہ بعض مواقع پر سخت پیاس کے باوجود پانی پینے کی بھی اجازت نہ دی.اور سب سے زیادہ تکلیف اس طرح دی کہ مقدمے کی تاریخیں اتنی قریب قریب مقرر کرنا شروع کر دیں کہ مرزا غلام احمد صاحب کو مئی ۱۹۰۴ء سے جولائی ۱۹۰۴ ء تک کئی دفعہ گورداسپور آنا جانا پڑا اور اس بارے میں اتنی سختی برتی کہ وسط اگست سے ۱۰ را کتوبر ۱۹۰۴ء تک مقدمے کی سماعت کی خاطر مرزا صاحب مسلسل گورداسپور میں ہی ٹھہرے رہے اور بالآ خرا ارا کتوبر کو قادیان واپس آئے.معلوم ہوتا ہے کہ مہتہ آتما رام نے اپنے پیشر ولالہ چند ولال کے حشر سے کوئی سبق حاصل نہ کیا اور آخر تک اس بات کے لئے کوشاں رہا کہ کسی طرح مرزا صاحب کو قید کر سکے.اس سلسلہ کے چند واقعات کا بیان خالی از دلچسپی نہ ہوگا.-- آتما رام مجسٹریٹ نے مقدمہ کو بے حد طویل کر دیا اور سماعت ۱٫۱۱ پریل ۱۹۰۴ء سے جاری کر کے ۲۴ ستمبر ۱۹۰۴ء تک کرتا رہا لیکن اس دوران ان گواہوں کو طلب
۳۸۱ کرنے پر تیار نہ ہوا جن کو مرزا صاحب کے وکیل حکیم فضل دین صاحب بلوانا چاہتے تھے.وہ متعدد پیشیوں کے دوران اس بات پر بھی تیار نہ ہوتا تھا کہ مرزا صاحب کو ذاتی طور پر حاضر ہونے سے مستثنیٰ کر دیا جائے.ii- مقدمے کی کاروائی ۲۴ ستمبر ۱۹۰۴ء کو ختم ہوئی.تو اگلی تاریخ یکم اکتو بر ۱۹۰۴ء مقرر کی گئی جو عام روایات کے مطابق فیصلہ سنانے کا دن ہونا چاہیے تھا.اس دن فیصلہ سننے کے لئے مرزا غلام احمد صاحب کے ڈھائی تین سومرید کراچی، حیدر آباد، پشاور، وزیر آباد، قادیان ، لاہور، امرتسر وغیرہ سے احاطہ عدالت میں جمع ہو گئے تھے لیکن مہتہ آتما رام نے اس دن فیصلہ نہ سُنایا بلکہ ایک نئی تاریخ ۱/۸ کتوبر ۱۹۰۴ء مقرر کر دی.اس طرح نہ صرف دور دراز کے علاقوں سے دشوار گزار سفر طے کر کے آئے ہوئے سینکڑوں احباب کو ذہنی اذیت دی گئی بلکہ مجسٹریٹ صاحب کی نیت بھی مشتبہ ہوگئی.iii معلوم ہوتا ہے کہ فیصلے کے لئے یکم اکتوبر سے ملتوی کر کے ۸/اکتو بر ۱۹۰۴ء کا دن بھی ایک منصوبے کے تحت تھا کیونکہ دور دراز کے سینکڑوں احمدی آ تمارام کے منصوبے میں رکاوٹ بن سکتے تھے.۱/۸ اکتوبر ہفتہ کا دن تھا اگلا دن اتوار تھا اور تعطیل تھی مجسٹریٹ کا پروگرام تھا کہ فیصلہ عدالت کا وقت ختم ہونے سے صرف چند منٹ قبل سنایا جائے تاکہ اس کا عائد کردہ جرمانہ فوری طور پر ادا نہ ہو سکنے کی صورت پیدا ہو اور اس طرح مرزا صاحب کو کم از کم دو دن یعنی ہفتہ اور اتوار جیل میں بند رکھا جا سکے اسی لئے یکم اکتوبر کو فیصلہ نہ سنایا کیونکہ اتنے سارے احمدیوں کے ہوتے ہوئے جرمانے کی خطیر رقم کی ادائیگی بھی مشکل نہ تھی.اس ضمن میں مؤلف مجدد اعظم نے ۱۸ اکتوبر کی کاروائی کا نقشہ یوں کھینچا ہے.
۳۸۲ حضرت اقدس (مرزا غلام احمد صاحب - ناقل ) اور حکیم فضل دین صاحب کو عدالت میں بلایا گیا اور عدالت میں پہرہ لگا دیا گیا اور سپاہیوں کو کہہ دیا گیا کہ سوائے مرزا صاحب اور حکیم فضل دین صاحب کے کوئی دوسرا شخص عدالت کے کمرہ میں نہ آوے اور ایک سپاہی ہتھکڑیاں لے کے عدالت کے کمرہ میں کھڑا کر دیا گیا اور کہہ دیا گیا کہ جرمانہ کا حکم سنتے ہی اگر فوراً جرمانہ ادا نہ ہو تو دونوں صاحبوں کو فوراً ہتھکڑی لگا کر جیل خانہ پہنچا دیا جائے.حضرت اقدس ان تمام منصوبوں سے بے خبر نہایت بے پروائی سے کمرہ عدالت میں داخل ہو گئے اور ساتھ ہی حکیم صاحب بھی.خواجہ صاحب حوائج ضروریہ کے لئے گئے ہوئے تھے وہ واپس آئے تو دیکھا کہ حضرت اقدس عدالت کے کمرہ میں اکیلے داخل ہو رہے ہیں.دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ مجسٹریٹ نے فیصلہ سنانے کے لئے بلایا ہے اور حکم دیا ہے کہ اور کوئی آدمی کمرہ میں نہ آوے.اُن کا ماتھا ٹھنکا انہوں نے سمجھ لیا کہ خیر نہیں.بھاگ کر عدالت کے کمرہ کے دروازے پر پہنچے.اندر گھنے لگے تو دو سپاہیوں نے دروازہ پر دونوں طرف سے آگے بڑھ کر روکا.انہوں نے کہا.میں کیسے اندر نہ جاؤں میں ملزمان کا وکیل ہوں اور ساتھ ہی بغیر کسی جواب کے انتظار کے دونوں ہاتھ پھیلا کر دونوں سپاہیوں کو دروازہ کے باہر دھکیل دیا.ماشاء اللہ تنومند آدمی تھے.سپاہی پھر نہ بولے.کمرہ کے اندر گئے تو مجسٹریٹ فیصلہ سنا رہا تھا..وہاں جو سات سو روپے جرمانہ سنا تو
۳۸۳ انہوں نے فورا سات سو روپے کے نوٹ جیب میں سے نکال کر عدالت کی میز پر رکھ دیئے.مجسٹریٹ ہکا بکا رہ گیا.اس کا سارا منصو بہ حضرت اقدس کو قید کرنے کا خاک میں مل گیا بہت تلملایا اور چہرہ سیاہ پڑ گیا لیکن نوٹوں کو دیکھ کر پھر چہرہ پر رونق آگئی....خواجہ صاحب نے جو نوٹ عدالت کے آگے پیش کئے تھے ان پر ”مدراس، کراچی“ لکھا ہوا تھا.فوراً مجسٹریٹ بولے کہ یہ نوٹ مدراس، کراچی کے ہیں یہاں قابل قبول نہیں.خواجہ صاحب نے کہا.کہ آپ لکھ دیں....چاروناچار اس نے نوٹ قبول کر لئے اور بصد حسرت و یاس حضرت اقدس اور حکیم صاحب کو جانے کی اجازت دے دی ! -۶- آتما رام مجسٹریٹ کا انجام : -- آتما رام کے انجام کے بارے میں مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ جب کرم دین صاحب نے ان پر مقدمہ دائر کیا تو مخالف مولویوں نے اس کی تائید میں آ تمھارام اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کی عدالت میں جا کر گواہیاں دیں اور ناخنوں تک زور لگایا اور ان کو بڑی امید ہوئی کہ اب کی دفعہ ضرور کامیاب ہوں گے اور ان کی جھوٹی خوشی پہنچانے کے لئے ایسا اتفاق ہوا کہ آ تما رام نے اس مقدمہ میں اپنی نافہمی کی وجہ سے پوری غور نہ کی اور مجھ کو سزائے قید دینے کے لئے لے : ڈاکٹر بشارت احمد محمد داعظم جلد دوم صفحات ۹۷۶-۹۷۷
۳۸۴ مستعد ہو گیا.اس وقت خدا نے میرے پر ظاہر کیا.وہ آتما رام کو اس کی اولاد کے ماتم میں مبتلا کرے گا.چنانچہ یہ کشف میں نے اپنی جماعت کو سُنا دیا اور پھر ایسا ہوا کہ قریباً بیس پچیس دن کے عرصہ میں دو بیٹے اس کے مر گئے.“ ii - آتمارام کے ساتھ گزرنے والے واقعات کے بارے میں قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت ہائے احمد یہ صوبہ سرحد لکھتے ہیں کہ حضور ( مرزا غلام امحمد صاحب- ناقل) نے رؤیا دیکھا کہ ایک شیر آ تمارام کے دونوں لڑکوں کو اُٹھا کر لے گیا اور ادھر حضرت صاحب نے رویا سنائی اُدھر آتما رام کو تار آ گئی کہ آپ کے لڑکے کو طاعون ہو گیا.66 دو نو جوان لڑکے یکے بعد دیگرے طاعون سے مر گئے.“ ہے iii- بیٹوں کی وفات کا لالہ آتما رام پر کس قدر اثر تھا اس کو بیان کرتے ہوئے مرزا بشیر الدین محمود احمد جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ کہتے ہیں کہ (لالہ آتما رام.ناقل ) اس غم میں نیم پاگل ہو گیا.اس پر اس واقعہ کا اتنا اثر تھا کہ وہ لدھیانہ کے اسٹیشن پر مجھے ملا اور بڑے الحاح سے کہنے لگا کہ دُعا کریں.اللہ تعالیٰ مجھے صبر کی توفیق دے مجھ سے بڑی بڑی غلطیاں ہوئی ہیں اور میری حالت ایسی ہے کہ میں ڈرتا ہوں : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ء حقیقۃ الوحی صفحات ۱۲۴-۱۲۵ : قاضی یوسف- ظہور احمد موعود - صفحات ۵۱-۵۲ ( تذکره صفحات ۵۱۸-۵۱۹)
۳۸۵ کہ میں کہیں پاگل نہ ہو جاؤں‘1 اس طرح لالہ آتما رام کی مرزا صاحب کے ساتھ غیر معقول روش کی اسے سزا ملی اور وہ قہر الہی کی زد میں آکر اپنے دونوں بیٹوں سے ہاتھ دھو بیٹھا اور اس طرح مرزا صاحب کا کشف بھی ہوا ہوا کہ (خدا) آتما رام کو اس کی اولاد کے ماتم میں مبتلا کرے گا.مرزا غلام احمد صاحب کی طرف سے اعلیٰ عدالت میں اپیل اعلیٰ اور مقدمے کا انجام : مہتہ آتما رام کی عدالت میں مولوی کرم دین صاحب کا یہ موقف تھا کہ مرزا صاحب نے اپنی تصنیف مواہب الرحمن میں جو لئیم اور کذاب کے الفاظ اس کے لئے استعمال کئے ہیں ان میں سے لئیم کے لفظ کے معنی ہیں ولد الزنا اور کذاب کے معین ہیں جو ہمیشہ جھوٹ بولتا ہو.اگر چہ مرزا صاحب اور آپ کے وکلاء کا موقف یہ تھا کہ ٹیم کا لفظ ان معنوں میں مستعمل نہیں لیکن مہتہ آتما رام نے مولوی کرم دین کے معانی کو صیح تسلیم کر کے مرزا صاحب اور حکیم فضل دین صاحب کو جرمانہ کر دیا مگر عین اس مقدمے کے دوران مرزا صاحب کو الہام ہوا کہ دو معنی دیگر نه پسندیم ما ۲ ترجمہ: ہم کسی اور معنی کو پسند نہیں کرتے : مرزا بشیر الدین محمود احمد تفسیر کبیر (سورۃ النور ) صفحه ۳۸۹ کالم۲ مرزا غلام احمد قادیانی - اخبار الحکم ۲۴ رمئی ۱۹۰۴ء جلد ۸ نمبر ۷ صفحه ۲ ( تذکره صفحه ۱۴)
۳۸۶ چنانچہ ۵/نومبر ۱۹۰۴ء کو مرزا صاحب نے ماتحت عدالت کے فیصلے کے خلاف سیشن جج مسٹر اے.ای.ہری امرتسر کی عدالت میں اپیل کی.مرزا صاحب کو یقین تھا کہ لئیم کے وہ معنی جو مرزا صاحب کا مؤقف تھا عدالت صرف اُنہی کو بالآ خر قبول کرے گی اور ان الہامات کی روشنی میں جو ہم نے اس مضمون کی ابتدا میں درج کئے ہیں ضرور نچلی عدالت کے فیصلے کو رد کر دیا جائے گا تا کہ مرزا صاحب کا احترام و اکرام واضح ہو سکے.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور عدالت نے ے جنوری ۱۹۰۵ء کو مولوی کرم دین کے خلاف اپیل منظور کرتے ہوئے مقدمے کا فیصلہ مرزا صاحب کے حق میں کردیا اور مولوی صاحب کے تمام عذرات رد کر دیئے گئے.فاضل سیشن جج نے لکھا کہ مستغیث ( مولوی کرم دین.ناقل ) کذاب اور لیم وغیرہ الفاظ کا بالکل مستحق تھا تا کہ عوام الناس اس بات کا اندازہ لگاسکیں کہ مستغیث کے قول اور فعل کی کیا اہمیت ہونی چاہئے.مضمون عدالت نے سراج الاخبار میں چھپنے والے مولوی کرم دین صاحب کے مضمو سے ان کے تصنیف کردہ ہونے سے انکار پر لکھا کہ ان سے (مولوی کرم دین سے.ناقل ) ایک دانستہ منصو بہ چال بازی اور خلاف بیانی اور جعل سازی کا ظاہر ہوتا ہے.جس پر بے حیائی سے ایک عام اخبار کی سطروں میں دنیا کے سامنے فخر کیا گیا ہے....اندرونی شہادت سے دلالت ہوتی ہے کہ سوائے مستغیث نے اس تحریر کو جواس کی بیان کی جاتی ہے شناخت میں اس قدر ٹال مٹول کیا ہے کہ ہم : الحکم قادیان ۲۴ / جنوری ۱۹۰۵ ء صفحه ۷، ۸ ( تاریخ احمدیت جلد سوم صفحه ۳۰۹)
۳۸۷ اس پر کوئی عتبار نہیں کر سکتے ! سیشن جج صاحب نے نچلی عدالت کے مہتہ رام کے فیصلے اور طویل سماعت کے بارے میں لکھا کہ ” بہت ہی افسوس ہے کہ ایسے مقدمے میں جو کا روائی کے ابتدائی مرحلے پر ہی خارج کیا جانا چاہیے تھا اس قدر وقت ضائع کیا گیا ہے.لہذا ہر دو ملزمان مرزا غلام احمد و حکیم فضل دین بری کئے جاتے ہیں.ان کا جرمانہ واپس دیا جائے گا“ سے آخری فیصلے کے ساتھ ہی مولوی کرم دین صاحب کے مقدمات کے بارے میں سارے الہامات پورے ہو گئے.مرزا صاحب کو فتح ہوئی.جہلم کی عدالت میں پیشی کے لئے اختیار کئے گئے سفروں میں بے انتہا برکتیں حاصل ہوئیں.مولوی کرم دین صاحب نے مرزا صاحب کی اہانت کی پوری کوشش کی مگر خود عدالت سے کذاب اور لیم کے خطابات پر مہر لگوائی.چند ولال مجسٹریٹ نے مرزا صاحب کے ساتھ بدسلوکی کی اور مسلسل بدنیتی سے سازش کرتا رہا لیکن ناکام ہوا، تنزلی ہوئی اور ہلاک ہوا.مہتہ آتما رام نے مرزا صاحب سے بدسلوکی کی لیکن بیٹوں سے ہاتھ دھو بیٹھا اور نوبت پاگل پن تک پہنچ گئی اور بالآ خر مرزا صاحب کا احترام و اکرام قائم کیا گیا.ل : الحكم قادیان ۲۴ جنوری ۱۹۰۵ء صفحه ۷-۸ ( تاریخ احمدیت جلد سوم صفحات ۳۰۹-۳۱۰) : مولوی سمیع اللہ فاروقی - اظہار حق صفحه۱۱-۲۰،۱۲ ( تاریخ احمدیت جلد سوم صفحات ۳۱۱-۳۱۲)
۳۸۸ - مولوی کرم دین تسلیمی کا انجام اگر چہ سیشن جج امرتسر کے یہ ریمارکس که مولوی کرم دین نہ صرف کذاب اور لیم بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت الفاظ کا مستحق ہے مولوی صاحب کے لئے بڑی ذلت کا باعث تھے بلکہ ان کی باقی زندگی اور بھی درد ناک تھی.وہ ۱۹۴۶ء تک زندہ رہے اور کئی قسم کی ذلتوں میں سے گزرے مثلاً ۱۹۴۰ء میں انہوں نے ایک ساس اور داماد کا نکاح پڑھا دیا جس پر گردونواح میں شور پڑ گیا اور علماء نے وہاں کے ۲۰۰ افراد کی مولوی صاحب کے خلاف گواہی سننے کے بعد ان کے لئے ننگ اسلام ہونے کا فتوی دے دیا.اے اگلے سال یعنی ۱۹۴۱ء میں ان کا بیٹا منظور حسین چکوال کے ایس.ڈی.اوکو قتل کر کے فرار ہو گیا.چند دن بعد پولیس نے مولوی صاحب کو گرفتار کر لیا اور انہیں جگہ جگہ لئے پھرتی رہی.اُن کی بیوی بھی کئی دن تک پولیس کی تحویل میں رہی.آخر جب ان کے قاتل، مفرور بیٹے کا کوئی سراغ نہ لگا تو ۲۵ / جولائی ۱۹۴۲ء کو ان کی جائداد کی نیلامی کا حکم دے دیا گیا.ان کا بیٹا ۲۹ نومبر ۱۹۴۲ء کو بنوں پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہوا جس کی خبر اخبار پر بھات نے تفصیل سے شائع کی اور بالآ خر مولوی کرم دین صاحب خود حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ پنجاب میں ۱۹۴۶ء میں ایک چھت کی منڈیر سے گر کر راہی ء ملک عدم ہوئے اور اس طرح مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی عزت پر حملہ آور ہونے والا ایک معاند بھیانک نتائج کا سامنا کر کے خود ذلیل ہو کر مر گیا.“ ہے : قاضی محمد عابد - اشتہار ننگ اسلام مولوی کرم دین صاحب کی شکست ( تاریخ احمدیت جلدسوم صفحه ۳۱۶) : اخبار الفضل ۱۳/ جون ۱۹۵۲ء صفحہ ۷ کالم ا( تاریخ احمدیت جلد سوم صفحه ۱۳۱۶) خواجہ محمد شفیع وکیل چکوال
۳۸۹ XII - مخالفین کے انجام پر مرزا غلام احمد صاحب کے تبصرے: ہم نے اس پورے باب میں مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور ان کے معاندین کے درمیان چیدہ چیدہ معرکوں کا تذکرہ کیا ہے.یہ سب کے سب روحانی اور تائید الہی کی بنیاد پر تھے نہ کہ دنیاوی اثر و رسوخ ، مال و دولت اور جتھے بندی پر.ہر معرکے کا انجام بھی آپ نے پڑھ لیا.مرزا صاحب نے ان نتائج کو دلیل بنا کر لکھا ہے کہ افسوس کہ میرے مخالفوں کو باوجود اس قدر متواتر نامرادیوں کے میری نسبت کسی وقت محسوس نہ ہوا کہ اس شخص کے ساتھ در پردہ ایک ہاتھ ہے جو ان کے ہر ایک حملہ سے اس کو بچاتا ہے.اگر بدقسمتی نہ ہوتی تو ان کے لئے یہ ایک معجزہ تھا کہ ان کے ہر ایک حملہ کے وقت خدا نے مجھ کو ان کے شر سے بچایا اور نہ صرف بچایا بلکہ پہلے اس سے خبر بھی دے دی کہ وہ بچائے گا.یہ عجیب بات ہے.کیا کوئی اس بھید کو سمجھ سکتا ہے کہ ان لوگوں کے خیال میں کا ذب اور مفتری اور دجال تو میں ٹھہرامگر مباہلہ کے وقت میں یہی لوگ مرتے ہیں.کیا نعوذ باللہ خدا سے بھی کوئی غلط فہمی ہو جاتی ہے؟ ایسے نیک لوگوں پر کیوں قہر الہی نازل ہے جو موت بھی ہوتی ہے پھر ذلت اور رسوائی بھی ہے : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ ء- حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۲۲ : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ء- حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۲۷
۳۹۰ کوئی بھی ان میں سے یہ سوچتا نہیں کہ یہ تائیدات الہیہ کیوں ہو رہی ہیں.کیا کا ذبوں، دجالوں اور فاسقوں کے یہی نشان ہیں کہ ان کے مقابل پر مباہلہ کی حالت میں خدا مومنوں، متقیوں کو ہلاک کرتا جائے پر چند مولویوں کی طرف سے روکیں ہوئیں اور انہوں نے ناخنوں تک زور لگایا کہ رجوع خلائق نہ ہو یہاں تک کہ مکے تک سے بھی فتوے منگوائے گئے اور قریباً دو سو مولویوں نے میرے پر کفر کے فتوے دیئے بلکہ واجب القتل ہونے کے بھی فتوے شائع کئے گئے لیکن وہ اپنی تمام کوششوں میں نامرادر ہے.اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا تو کچھ بھی ضرورت نہ تھی کہ تم مخالفت کرتے اور میرے ہلاک کرنے کے لئے اس قدر تکلیف اُٹھاتے.بلکہ میرے مارنے کے لئے خدا ہی کافی تھا ہے : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ ء- حقیقۃ الوحی تمه صفحه ۵۱ : مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۷ء- حقیقۃ الوحی تنتمه صفحات ۲۵۰ - ۲۵۱
۳۹۱ باب دہم مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور جماعت احمدیہ غیر از جماعت اصحاب کی نظر میں مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے علمی اور روحانی معرکوں کی ایک طویل اور پُر عزم زندگی گزارنے کے بعد ۲۶ رمئی ۱۹۰۸ء کو بوقت ساڑھے دس بجے صبح.بمقام لاہور پنجاب وفات پائی.وفات کے وقت آپ کی عمرسوا تہتر برس تھی.یوم وفات منگل تھا.آپ کی حیثیت کے مطابق مرزا صاحب کی وفات سارے ہندوستان میں نشر ہوگئی اور بہت سے مذہبی اور سیاسی رہنماؤں ، دانشوروں ، ادیبوں اور اخبارات نے آپ کی وفات پر تبصرے کئے اور مرزا صاحب کی شخصیت ، علمیت، اسلام کے لئے خدمات وغیرہ پر اپنے اپنے تاثرات بیان کئے.ہم یہاں نمونے کے طور پر صرف چند ایسے اصحاب اور اداروں کے تبصرے پر اکتفا کریں گے جو مرزا صاحب کے مرید نہیں تھے اور اس لحاظ سے اُن کا جماعت احمدیہ سے تعلق نہ تھا.ان اقتباسات کے پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان اور دوسرے ممالک میں بسنے والے انصاف پسند حضرات جماعت احمدیہ کے افراد اور نظریات کے ساتھ ملک میں روار کھے جانے والے سرکاری سلوک کا تنقیدی جائزہ لے سکیں اور حقائق اور پرو پیگنڈہ کا موازنہ کرسکیں.
۳۹۲ ا.اسلام کی مدافعت کا فتح نصیب جرنیل: مولانا ابوالکلام آزاد جو مرزا صاحب کی وفات کے دنوں میں اخبار وکیل امرتسر کے ایڈیٹر تھے نے (بقول مولانا عبدالمجید سالک.یاران کہن.صفحات ۴۱-۴۲) مرزا صاحب کی وفات پر مندرجہ ذیل ریو یولکھا.و شخص ، بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو.وہ شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا.جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی.جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تار اُلجھے ہوئے تھے اور جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں.وہ شخص جو مذہبی دنیا کے لئے تیں برس تک زلزلہ اور طوفان رہا.جو شور قیامت ہو کے خفتگان خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا خالی ہاتھ دنیا سے اُٹھ گیا.مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی رحلت اس قابل نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جاوے اور مٹانے کے لئے اسے امتداد زمانہ کے حوالے کر کے صبر کر لیا جاوے.ایسے لوگ جن سے مذہبی یا عقلی دنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے.یہ نازش فرزندان تاریخ بہت کم منظر عالم پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں دنیا میں انقلاب پیدا کر کے دکھا جاتے ہیں....مرزا صاحب کی اس رحلت نے اُن کے بعض دعاوی اور بعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو ہاں تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کرا دیا ہے کہ ان کا ایک بہت بڑا شخص اُن سے جُدا ہو گیا اور اس
۳۹۳ کے ساتھ مخالفین اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اس شاندار مدافعت کا جو اُس کی ذات سے وابستہ تھی خاتمہ ہو گیا.ان کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جاوے تا کہ وہ مہتم بالشان تحریک جس نے ہمارے دشمنوں کو عرصہ تک پست اور پاماں بنائے رکھا آئندہ بھی جاری رہے...مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر اُن سے ظہور میں آیا قبول عام کی سند حاصل کر چکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں.اس لٹریچر کی قدر و عظمت آج جب کہ وہ اپنا کام پورا کر چکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے.اس لئے کہ وہ وقت ہرگز لوح قلب سے نسیا منسیا نہیں ہوسکتا جب کہ اسلام مخالفین کی یورشوں میں گھر چکا تھا اور مسلمان جو حافظ حقیقی کی طرف سے عالم اسباب و وسائط میں حفاظت کا واسطہ ہو کر اس کی حفاظت پر مامور تھے اپنے قصوروں کی پاداش میں پڑے سک ا رہے تھے اور اسلام کے لئے کچھ نہ کرتے تھے یا نہ کر سکتے تھے.ایک طرف حملوں کے امتداد کی یہ حالت تھی کہ ساری مسیحی دنیا اسلام کی شمع عرفان حقیقی کو سر را و منزل مزاحمت کچھ کے ملا دینا چاہتی تھی اور عقل و دولت کی زبردست طاقتیں اس حملہ آور کی پشت گری کے لئے ٹوٹی پڑتی تھیں اور دوسری طرف ضعف مدافعت کا یہ عالم تھا کہ تو پوں کے مقابلے پر تیر بھی نہ تھے اور حملہ اور مدافعت دونوں کا قطعی وجود ہی نہ تھا
۳۹۴ کہ مسلمانوں کی طرف سے وہ مدافعت شروع ہوئی جس کا ایک حصہ مرزا صاحب کو حاصل ہوا.اس مدافعت نے نہ صرف عیسائیت کے اس ابتدائی اثر کے پر خچے اڑائے جو سلطنت کے سایہ میں ہونے کی وجہ سے حقیقت میں اس کی جان تھا اور ہزاروں لاکھوں مسلمان اس کے اس سے زیادہ خطرناک اور مستحق کامیابی حملہ کی زد سے بچ گئے بلکہ خود عیسائیت کا طلسم دھواں بن کر اُڑنے لگا.غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گرانبار احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہو کر اسلام کی طرف سے فرض مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یادگار چھوڑا جو اس وقت تک کے مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایت اسلام کا جذبہ ان کے شعار قومی کا عنوان نظر آئے قائم رہے گا..اس کے علاوہ آریہ سماج کی زہریلی گچلیاں توڑنے میں مرزا صاحب نے اسلام کی بہت خاص خدمت کی ہے.مرزا صاحب اور مولوی محمد قاسم صاحب نے اس وقت سے کہ سوامی دیانند نے اسلام کے متعلق اپنی دماغی مفلسی کی نوحہ خانی جابجا آغا ز کی تھی اُن کا تعاقب شروع کر دیا تھا.اس وقت سے اخیر عمر تک برابر مرزا صاحب آریہ سماج کے چہرے سے اُنیسویں صدی کے ہندو ریفارمر کا چڑھایا ہوا ملمع اُتارنے میں مصروف رہے.ان کی آریہ سماج کے مقابلہ کی تحریروں سے اس دعوئی پر نہایت صاف روشنی پڑتی ہے کہ آئندہ ہماری مدافعت کا سلسلہ خواہ کسی درجہ تک وسیع ہو جائے
۳۹۵ ناممکن ہے کہ یہ تحریریں نظر انداز کی جاسکیں.فطری ذہانت ، مشق و مہارت اور مسلسل بحث مباحثہ کی عادت نے مرز اصاحب میں ایک شان خاص پیدا کر دی تھی.اپنے مذہب کے علاوہ مذہب غیر پر ان کی نظر نہایت وسیع تھی اور وہ اپنی ان معلومات کا نہایت سلیقہ سے استعمال کر سکتے تھے.تبلیغ تلقین کا یہ ملکہ اُن میں پیدا ہو گیا تھا که مخاطب کسی قابلیت یا مشرب و ملت کا ہو ان کے برجستہ جواب سے ایک دفعہ ضرور گہرے فکر میں پڑ جاتا تھا.ہندوستان آج مذاہب کا عجائب خانہ ہے....مرزا صاحب کا دعویٰ تھا کہ میں ان سب کے لئے حکم و عدل ہوں لیکن اس میں کلام نہیں کہ ان مختلف مذاہب کے مقابلے پر اسلام کو نمایاں کر دینے کی ان میں بہت مخصوص قابلیت تھی اور یہ نتیجہ تھا ان کی فطری استعداد کا ، ذوق مطالعہ اور کثرت مشق کا....آئندہ امید نہیں کہ ہندوستان کی مذہبی دنیا میں اس شان کا شخص پیدا ہو جو اپنی اعلیٰ خواہشیں محض اس طرح مذاہب کے مطالعہ میں صرف کر دے ! - پاکباز متقی اور قابل رشک مرتبہ کا حامل: اخبار وکیل امرتسر نے پھر لکھا کہ کیریکٹر کے لحاظ سے مرزا صاحب کے دامن پر سیاہی کا ایک چھوٹے سے چھوٹا دھبہ بھی نظر نہیں آتا.وہ ایک پاکباز کا جینا جیا اور لے : ایڈیٹر اخبار وکیل امرتسر مئی ۱۹۰۸ء
۳۹۶ اس نے ایک متقی کی زندگی بسر کی.غرضیکہ مرزا صاحب کی ابتدائی زندگی کے پچاس سالوں نے بالحاظ اخلاق و عادات اور کیا بلحاظ خدمت و حمائت دین مسلمانان ہند میں ان کو ممتاز و برگزیدہ اور قابلِ رشک مرتبہ پر پہنچا دیا.۳- اسلام کے لئے اعلیٰ خدمات: اخبار کرزن گزٹ دہلی کے ایڈیٹر مرزا حیرت دہلوی مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی وفات پر لکھتے ہیں کہ مرحوم کی وہ اعلیٰ خدمات جو اُس نے آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں اسلام کی کی ہیں وہ واقعی ہی بہت تعریف کی مستحق ہیں.اس نے مناظرہ کا بالکل رنگ ہی بدل دیا اور ایک جدید لٹریچر کی بنیاد ہندوستان میں قائم کر دی.بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے بلکہ محقق ہونے کے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور بڑے سے بڑی پادری کی یہ مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم کے مقابلہ میں زبان کھول سکتا....اگر چه مرحوم پنجابی تھا مگر اس کے قلم میں اس قدر قوت تھی کہ آج سارے پنجاب بلکہ بلندی ہند میں بھی اس قوت کا کوئی لکھنے والا نہیں.اس کا پُر زورلٹر بچر اپنی شان میں بالکل نرالا ہے اور واقعی اس کی بعض عبارتیں پڑھنے سے ایک وجد کی سی حالت طاری ہو ا: اخبار وکیل امرتسر - ۳۰ مئی ۱۹۰۸ء (اخبار بدر قادیان ۱۸؍جون ۱۹۰۸ء صفحات ۲-۳)
۳۹۷ جاتی ہے...اس نے ہلاکت کی پیشگوئیوں ، مخالفتوں اور نکتہ چینیوں کی آگ میں سے ہو کر اپنا رستہ صاف کیا اور ترقی کے انتہائی عروج تک پہنچ گیا.- ا - اولوالعزم حامی اسلام معین مسلمین ، فاضل جل، عالم بے بدل: بے اخبار ” صادق الاخبار ڈیواڑی بہاولپور کے ایڈیٹر نے مرزا غلام احمد صاحب کی وفات پر لکھا کہ ”مرزا صاحب نے اپنی پر زور تقاریر اور شاندار تصانیف سے مخالفین اسلام کو ان کے پھر اعتراضات کے دندان شکن جواب دے کر ہمیشہ کے لئے ساکت کر دیا ہے اور کر دکھایا ہے کہ حق حق ہی ہے اور واقعی مرزا صاحب نے حق حمائت اسلام کماحقہ ادا کر کے خدمتِ اسلام میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا.انصاف متقاضی ہے کہ ایسے اولوالعزم حامئی اسلام اور معین المسلمین.فاضل اجل، عالم بے بدل کی ناگہانی اور بے وقت موت پر افسوس کیا جائے“ ہے ۵- باخبر عالم ، بلند ہمت مصلح اور پاک زندگی کا نمونہ: شمس العلما سید ممتاز علی صاحب نے رسالہ تہذیب النسواں لا ہور میں لکھا کہ مرزا صاحب مرحوم نہایت مقدس اور برگزیدہ بزرگ تھے اور نیکی : میرزا جرت دہلوی.کرزن گزٹ دہلی.یکم جون ۱۹۰۸ء (اخبار احکام قادیان -۱۴ جنوری ۱۹۰۸ء صفحه۱۱) : اخبار صادق الاخبار ڈیواڑی بہاولپور.جون ۱۹۰۸ء ( تسخیر الا زبان ۱۹۰۸ء جلد ۳ نمبر ۱۰ صفحه ۳)
۳۹۸ کی ایسی قوت رکھتے تھے جو سخت سے سخت دل کو تسخیر کر لیتی تھی.وہ نہایت باخبر عالم ، بلند ہمت مصلح اور پاک زندگی کا نمونہ تھے.ہم انہیں مذہبا مسیح موعود تو نہیں مانتے لیکن اُن کی ہدایت اور رہنمائی مردہ روحوں کے لئے واقعی مسیحائی تھی.“ ۶- اسلام کا ایک بڑا پہلوان : -6 علیگڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ نے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی وفات پر لکھا کہ مرحوم ایک مانے ہوئے مصنف اور مرزائی فرقہ کے بانی تھے.وو آپ نے اپنی تصنیف کردہ اسی (۸۰) کتابیں پیچھے چھوڑی ہیں جن میں سے ۲۰ عربی زبان میں....بے شک مرحوم اسلام کا ایک بڑا پہلوان تھا.مخالفین اسلام کے دانت کھٹے کرنے والا : وو مشہور صحافی سید حبیب صاحب سابق ایڈیٹر اخبار سیاست نے تحریک قادیان“ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے عقائد و نظریات کا تفصیل سے جائزہ لیا کہ مرزا صاحب کی ان خدمات کا اعتراف کریں جو آپ نے آریوں اور عیسائیوں کے خلاف اسلام کے دفاع میں کیں.: سید ممتاز علی رسالہ تہذیب النسواں لاہور ۱۹۰۸ء ( رساله تشحیذ الا ذہان قادیان ۱۹۰۸ء جلد۳ نمبر ۱۰ صفحه ۳) : علیگڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ (رسالہ تحیۃ الاذہان قادیان ۱۹۰۸ء جلد۳ نمبر ۸ صفحه ۳۳۲)
۳۹۹ سید حبیب صاحب کے طویل تبصرے کے چیدہ چیدہ اقتباسات قارئین کی دلچسپی کے لئے یہاں درج کئے جار ہے ہیں.وہ لکھتے ہیں کہ غدر ۱۸۵۷ء کی تمام تر ذمہ داری بے جاطور پر مسلمانوں کے سر منڈھ دی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ارباب حکومت کے دلوں میں مسلمانوں کی طرف سے بغض پیدا ہو گیا...مسلمانوں نے علماء کے فتاوی کے باعث انگریزی مدارس سے...اجتناب کیا.مساجد اُجڑی پڑی تھیں.مکاتب کا نشان مٹ چکا تھا.صوفیا کے تکیے حدیث شریف و قرآن مجید کے مسائل کی جگہ بھنگ نواز دوستوں کی گپ بازی کا مرکز بن چکے تھے مسیحی پادری ہمیشہ تسلیم کرتے رہے ہیں کہ دنیا میں اُن کے عقائد کے لئے اگر کوئی خطرہ موجود ہے تو اس کا نام اسلام ہے.انہوں نے اس وقت کو غنیمت اور موقع کو بے حد مناسب جان کر مسلمانوں کو بہکانے کیلئے ایک عالمگیر جد جہد شروع کی...دین حقہ اسلام اور اس کے بانی صلعم پر بے پناہ حملے شروع کر دئیے جن کا جواب دینے والا کوئی نہ مسلمانوں میں سرسید علیہ الرحمۃ نے سپر سنبھالی اور ان کے بعد مرزا غلام احمد صاحب اس میدان میں اترے مذہبی حملوں کا جواب دینے میں البتہ سرسید کا میاب نہیں ہوئے.نتیجہ یہ نکلا کہ مسیح پرو پیگنڈا زور پکڑ گیا اور علیگڑھ کالج مسلمانوں کی بجائے ایک قسم کے ملحد پیدا کرنے لگا.یہ لوگ محض اتفاق پیدائش کی وجہ سے مسلمان ہوتے تھے ور نہ انہیں اسلام پر کوئی اعتقاد نہ ہوتا تھا.اس وقت کے آریہ اور مسیحی
۴۰۰ مبلغ اسلام پر بے پناہ حملے کر رہے تھے.اکتے ڈ کے جو عالم دین بھی کہیں موجود تھے وہ ناموس شریعت حقہ میں مصروف ہو گئے.مگر کوئی زیادہ کامیاب نہ ہوا.اس وقت مرزا غلام احمد صاحب میدان میں اترے اور انہوں نے مسیحی پادریوں اور آریہ اُپدیشکوں کے مقابلہ میں اسلام کی طرف سے سینہ سپر ہونے کا تہیہ کر لیا.میں مرزا صاحب کے ادعائے نبوت و غیرہ کی مقامی کھول چکا ہوں.لیکن بقولے عیب سے جملہ بگفتی ہنرش نیز بگو مجھے یہ کہنے میں ذرا باک نہیں کہ مرزا صاحب نے اس فرض کو نہایت خوش اسلوبی سے ادا کیا اور مخالفین اسلام کے دانت کھٹے کر دیئے.اسلام کے متعلق اُن کے بعض مضامین لا جواب ہیں اور میں کہہ سکتا ہوں کہ اگر مرزا صاحب اپنی کامیابی سے متاثر ہو کر نبوت کا دعوی نہ کرتے.تو ہم انہیں زمانہ حال میں مسلمانوں کا سب سے بڑا خادم مانتے.اگر چہ مولانا سید حبیب صاحب نے مرزا غلام احمد صاحب کی اسلام کے لئے خدمات کا اعتراف کیا ہے لیکن اُن کا مرزا صاحب کا موازنہ خالصتاً دنیا دارانہ ہے.انہوں نے صورت حال کے اس پہلو کو اہم نہیں سمجھا کہ ایسے تاریک زمانے میں جب اسلام کی حالت بہت خستہ تھی اور اس پر چاروں طرف سے حملے ہورہے تھے.کیا ا : مولانا سید حبیب ۱۹۳۳ تحریک قادیان - صفحات ۲۰۷ تا ۲۱۰
۴۰۱ مرزا صاحب کا اسلام کے دفاع کے لئے اُٹھنا اور بقول سید حبیب صاحب سارے ادیان غیر کے مقلدین کے دانت کھٹے کر دینا اپنے اندر کوئی مشیت الہی بھی رکھتا تھا یا اس کے متعلق یہ کہنا قرین انصاف لگتا ہے کہ مرزا صاحب نے اپنی کامیابی سے فائدہ اُٹھایا.اور نبوت کا دعویٰ کر دیا.یہ یہی فرق ہے جو مرزا غلام احمد صاحب اور ان کے مخالفین کی سوچ میں ہے.پچھلے قریباً سو سالوں میں بے شمار رسائل ، اخبارات، مسلم اور غیر مسلم مقتدر ہستیوں اور سکالروں نے مرزا صاحب کے افکار پر بحث کی ہے لیکن مرزا صاحب کی قائم کردہ جماعت کی روز افزوں ترقی بذات خود بھی کسی حقیقت کی غمازی کرتی ہے.- امام برحق : اخبار البشیر “ اٹاوہ نے مرزا صاحب کی وفات پر ” حضرت اقدس مرزا صاحب کی وفات“ کے عنوان کے تحت مندرجہ ذیل شذرہ تحریر کیا.اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ حضرت اقدس اس زمانے کے نامور مشاہیر میں سے تھے.ان کے مریدوں میں عوام الناس اور جہلا ، پڑھے لکھے ،غریب وامیر ، عالم و فاضل اور نے تعلیم یافتہ غرضیکہ ہر درجہ اور ہر حیثیت کے مسلمان موجود ہیں....جواثر کہ حضرت اقدس کا اپنی جماعت پر تھا اس میں کچھ کلام نہیں کہ ہندوستان کے مسلمانوں میں نہ یہ اثر کسی مولوی اور نہ عالم فاضل کو اپنے مریدوں پر تھا اور نہ کسی صوفی اور ولی اللہ کا اپنے مریدوں پر تھا اور نہ کسی لیڈر اور نہ کسی ریفارمر کا اپنے
۴۰۲ - مقلدین پر.چونکہ وہ مسلمانوں کی ایک کثیر جماعت کے پیشوا اور امام برحق تھے لہذا تہذیب مجبور کرتی ہے کہ ہم ان کی عزت کریں اور ان کے انتقال پر افسوس ظاہر کریں.“ ایسا انسان جو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے : الہ آباد سے نکلنے والے انگریزی اخبار پایونیر مرزا صاحب کی وفات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے وہ لوگ جنہوں نے مذہبی میدان میں دنیا کے اندر حرکت پیدا کر دی ہے وہ اپنی طبیعت میں انگلستان کے لارڈ بشپ کی نسبت مرزا غلام احمد سے بہت زیادہ مشابہت رکھتے ہیں...قادیان کا نبی ایک ایسا انسان تھا جو ہمیشہ دنیا میں نہیں آیا کرتے.ان کی روح پر سلامتی ہو.-۱۰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت : آریہ اخبار اندر لا ہور نے لکھا کہ مرزا صاحب اپنی ایک صفت میں محمد صاحب ( صلی اللہ علیہ وسلم.ناقل ) سے بہت مشابہت رکھتے تھے اور وہ صفت ان کا استقلال تھا.خواہ وہ کسی مقصود کو لے کر تھا اور ہم خوش ہیں کہ وہ آخری دم تک اس پر اخبار البشیر اٹاوہ ۲ جون ۱۹۰۸ء : اخبار پایونیر.الہ آباد (انگریزی) ۳۰ مئی ۱۹۰۸ء
۴۰۳ ڈٹے رہے اور ہزاروں مخالفتوں کے باوجود ذرا بھی لغزش نہیں کھائی.“ ۱۱- ایک عالم دنیا سے اُٹھ گیا: میونسپل گزٹ لا ہور نے مرزا صاحب کی وفات پر نوٹ لکھا کہ مرزا صاحب علم وفضل کے لحاظ سے خاص شہرت رکھتے تھے.تحریر میں بھی روانی تھی.بحر حال ہمیں ان کی موت سے بحیثیت اس بات کے کہ وہ ایک مسلمان عالم تھے نہایت رنج ہوا اور ہم سمجھتے ہیں کہ ایک عالم دنیا سے اُٹھ گیا.“ ہے بڑے پائے کے انسان : اخبار بر ہم پر چارک نے مرزا غلام احمد صاحب کے بارے میں نوٹ لکھا کہ ہم یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ وہ کیا بلحاظ لیاقت اور کیا بلحاظ اخلاق اور کیا بلحاظ شرافت کے ایک بڑے پایہ کے انسان تھے.“ سے ۱۳ - کامل راستباز : مولوی فضل دین صاحب نے متعدد مقدمات میں مرزا غلام احمد صاحب کی طرف سے وکالت کی لیکن وہ مرزا صاحب کے مرید نہیں تھے.مقدمات کی پیروی کے دوران اُنہیں مرزا صاحب کے کیریکٹر کا قریب سے مطالعہ کرنے کا موقع ملا.ایک : آرید اخبار اندر لاہور ( عبدالمنان شاہد.حضرت مسیح موعود اور جماعت احمدیہ صفحه ۲۱۴) میونسپل گزٹ لاہور ( عبدالمنان شاہد.حضرت مسیح موعود اور جماعت احمدیہ صفحه ۲۱۵) : اخبار بر ہم پر چارک ( عبدالمنان شاہد.حضرت مسیح موعود اور جماعت احمدیہ صفحہ ۲۱۵)
۴۰۴ مجلس میں جب مرزا صاحب پر شرافت اور اخلاق سے گری ہوئی تنقید کی گئی تو مولوی صاحب نے مرزا صاحب کا ان الفاظ میں زبر دست دفاع کیا."" میں جناب مرزا صاحب کو ایک مہا پرش اور روحانی آدمی کے لحاظ سے بہت بڑے مرتبے کا انسان مانتا ہوں....میں نے اپنی عمر میں مرزا صاحب ہی کو دیکھا ہے جنہوں نے سچ کے مقام سے قدم نہیں ہٹایا.میں ان کے ایک مقدمہ میں وکیل تھا.اس مقدمہ میں میں نے اُن کے لئے ایک قانونی بیان تجویز کی اور ان کی خدمت میں پیش کیا.انہوں نے اسے پڑھ کر کہا کہ اس میں تو جھوٹ ہے.میں نے کہا.ملزم کا بیان حلفی نہیں ہوتا اور قانوناً اسے اجازت ہے کہ جو چاہے بیان کرے.اس پر آپ نے فرمایا.قانون نے تو اسے یہ اجازت دے رکھی ہے مگر خدا تعالیٰ نے تو اجازت نہیں دی کہ وہ جھوٹ بھی بولے اور قانون ہی کا یہ منشاء ہے.میں نے کہا کہ آپ جان بُو جھ کر اپنے آپ کو بلا میں ڈالتے ہیں.انہوں نے فرمایا.جان بوجھ کر بلا میں ڈالنا یہ ہے کہ میں قانونی بیان دے کرنا جائز فائدہ اُٹھانے کے لئے اپنے خدا کو ناراض کرلوں.یہ مجھے سے نہیں ہوسکتا خواہ کچھ بھی ہو.میں نے یہ سن کر کہا کہ پھر آپ کو میری وکالت سے کچھ فائدہ نہیں ہوسکتا.اس پر انہوں نے فرمایا کہ میں نے کبھی و ہم بھی نہیں کیا.کہ آپ کی وکالت سے فائدہ ہوگا یاکسی اور شخص کی کوشش سے فائدہ ہوگا اور نہ میں سمجھتا ہوں کہ کسی کی مخالفت مجھے تباہ کر سکتی ہے.میرا بھروسہ تو خدا پر ہے جو میرے دل کو دیکھتا ہے.اگر فرض
۴۰۵ کر لیا جاوے کہ دنیا کی نظر میں انجام اچھا نہ ہو یعنی مجھے سزا ہو جاوے تو مجھے اس کی پرواہ نہیں کیونکہ میں اس وقت اس لئے خوش ہوں گا کہ میں نے اپنے رب کی نافرمانی نہیں کی...میں انہیں (یعنی مرزا صاحب کو.ناقل ) ایک کامل راستباز یقین کرتا ہوں اور میرے دل میں ان کی بہت بڑی عظمت ہے.“ ۱۴- برگزیدہ انسان اور نبی: ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے مرزا صاحب کے خلاف مقدمہ قتل کے وقت کیپٹن ایم.ڈبلیو.ڈگلس کمشنر تھے (باب ہفتم) اور مقدمہ انہی کی عدالت میں چلا.ریٹائرمنٹ کے بعد وہ واپس لنڈن انگلستان چلے گئے.جہاں انہوں نے مرزا صاحب کے خلاف مقدمے کے فیصلہ کے حیرت انگیز روحانی محرکات بیان کئے.جن کا کچھ ذکر باب ہفتم میں آچکا ہے.جناب ڈگلس صاحب نے بیان کیا کہ ” میرا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت مسیح انسان تھے اور خدا کے رسول جیسے دوسرے انبیاء کرام میں انہیں خدا نہیں مانتا اور نہ ہی میں تثلیث کا قائل ہوں اور مرزا غلام احمد کو بھی خدا کا برگزیدہ انسان اور نبی تصور کرتا ہوں.“ ہے ۱۵- سچ اور جھوٹ میں تمیز کا پیمانہ: مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی وفات پر اخبار وفا دار لا ہور نے مندرجہ ذیل : مولوی فضل دین صاحب وکیل-الحکم ۱۴ نومبر ۱۹۳۳ء : کیپٹن ایم.ڈبلیو.ڈگلس.اصلح کراچی ۲۹ ستمبر ۱۹۵۳ء
۴۰۶ تبصرہ کیا.مرزا صاحب کے بعد اگر سلسلہ احمد یہ نابود ہو جائے گا تو سمجھو کہ مرزا جھوٹا اور اگر ترقی کرے گا اور اس کے بعد اس کی جماعت یا اس کا کوئی جانشین اس کے عشق میں ترقی دینے میں کامیاب ہوا تو سمجھ لینا کہ مرزا سچا اور وہ الہام باری سے مستفیض ہوا اور اگر اُس کی جماعت اور جانشین مٹتے چلے گئے تو سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی ایسی مذہبی رخنہ اندازی کبھی بھی پسند نہیں ! ۱۶- قادیان اور ایمان کی روح: ایچ.اے.والٹر سیکرٹری آل انڈیا ینگ مین کرسچن ایسوسی ایشن ایک کٹر مسیحی تھے وہ ۱۹۱۶ء میں قادیان گئے.انہوں نے ”احمدیہ موومنٹ“ کتاب میں جماعت احمدیہ کے متعلق مندرجہ ذیل رائے کا اظہار کیا.” میں نے ۱۹۱۶ء میں قادیان جاکر ایک ایسی جماعت دیکھی جس میں مذہب کے لئے وہ سچا اور زبردست جوش موجود تھا جو ہندوستان کے عام مسلمانوں میں آج کل مفقود ہے.قادیان میں جا کر انسان سمجھ سکتا ہے کہ ایک مسلمان کو محبت اور ایمان کی وہ روح جسے عام مسلمانوں میں بے سود تلاش کرنا ہے احمد کی جماعت میں بافراط ملے گی“ سے ل : اخبار وفادار.لاہور.۱۴؍ جولائی ۱۹۰۸ء : ایچ.اے.والٹر - احمدیہ موومنٹ (عبدالمنان شاہد.مسیح موعود اور جماعت احمدیہ صفحات ۲۲۳-۲۲۴)
۴۰۷ ۱۷ عیسائیت اور اسلام کی فیصلہ کن جنگ: مسٹر لیوکس نے سری لنکا میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ عیسائیت اور اسلام کے درمیان جو جنگ جاری ہے اس کا فیصلہ کسی بڑے شہر میں نہیں ہوگا بلکہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں ہوگا جس کا نام قادیان ہے.۱۸ بے ریاء توحید اور قرآن ہی قرآن: مشہور جرنلسٹ محمد اسلم خاں بلوچ ایڈیٹر المعین امرتسر نے قادیان کا دورہ کرنے کے بعد اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھا کہ ,, عالم اسلام کی خطر ناک تباہ انگیزیوں نے مجھے اس اصول پر قادیان جانے پر مجبور کیا کہ احمدی جماعت جو بہت عرصہ سے یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ دنیا کو تحریری و تقریری جنگ سے مغلوب کر کے اسلام کا حلقہ بگوش بنائے گی آیا وہ ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے....جو کچھ میں نے احمدی قادیان میں جا کر دیکھا وہ خالص اور بے ریاء تو حید پرستی تھی اور جس طرف نظر اٹھتی تھی قرآن ہی قرآن نظر آتا تھا.“ ہے : لیوکس- تفسیر کبیر سورہ کوثر صفحہ ۱۷۶ : محمد اسلم خاں بلوچ - اخبار بدر قادیان ۱۳/ مارچ ۱۹۱۳ء
۴۰۸ ا.اسلام کی اصلی وسادہ صورت : مشہور مسلم لیڈر محی الدین غازی نے تاثرات قادیان میں لکھا کہ اس جماعت نے تبلیغی مقاصد کے لئے سب سے پہلے اسی سنگلاخ زمین کو چنا اور یورپ و امریکہ کا رُخ کیا اور اُن کے سامنے اسلام کو اصلی و سادہ صورت میں اور اس کے اصولوں کو ایسی قابل قبول شکل میں پیش کیا کہ ان ممالک کے ہزار ہا افراد و خاندان دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے...-۲- اسلام کا با قاعدہ کام : پیسہ اخبار لا ہور نے لکھا کہ اس وقت ملک میں ایک احمد یہ جماعت ہی اسلام کا با قاعدہ کام کر رہی ہے اور دیگر تمام مسلمانوں کی کوئی انجمن اشاعت اسلام نہیں کرتی ہے تبلیغ اسلام کے لئے شہد کی مکھیوں کا چھتہ : مشہور امریکن پادری ڈاکٹر زویمر نے ۲۸ رمئی ۱۹۲۴ء کو قادیان کا دورہ کیا.واپسی پر چرچ مشنری ریویو میں جماعت احمدیہ کے متعلق مندرجہ ذیل ریمارکس دیئے.محی الدین غازی- تاثرات قادیان صفحات ۱۷-۱۸ تاریخ احمدیت حصہ اول صفحات ۲۸-۲۹) پیسہ اخبار لاہوراا نومبر ۱۹۲۲ء
۴۰۹ وو ہم نے وہ سب کچھ دیکھا جو کہ وہاں قابل دید تھا.چھاپہ خانہ، دفتر ڈاک ، دینیات کا مدرسہ، لڑکیوں اور لڑکوں کا مدرسہ.گویا یہ جگہ شہد کی مکھیوں کا ایک چھتہ ہے جو کہ تبلیغ اسلام کی نشر واشاعت میں ہمہ تن مشغول ہے.خط و کتابت کا رابطہ لنڈن ، پیرس ، برلن ، شکاگو، سنگاپور کے ساتھ قائم ہے.کاغذات کے طاقچے شاندار مستقبل کے ممکنات سے بھرے پڑے ہیں.الماریاں دینی انسائیکلو پیڈیاؤں ، ڈکشنریوں اور خلاف عیسائیت لٹریچر سے لدی ہوئی ہیں.گویا یہ ایک اسلحہ خانہ ہے جو کہ غیر ممکن کو ممکن ثابت کر نے کے لئے تیار کیا گیا ہے.راسخ الاعتقادی کا یہ عالم ہے کہ وہ پہاڑوں کو جنبش دینے والی ہے.‘1 :۲۲ اسلام کی انمول خدمت: مولانا ظفر علی خاں ایڈیٹر روز نامہ زمیندار لاہور نے لکھا کہ مسلمانان جماعت احمدیہ اسلام کی انمول خدمت کر رہے ہیں جو ایثار ، کمر بستگی، نیک نیتی اور تو کل علی اللہ ان کی جانب سے ظہور میں آیا ہے وہ اگر ہندوستان کے موجودہ زمانے میں بے مثال نہیں تو بے انداز عزت اور قدردانی کے قابل ضرور ہے.جہاں ہمارے مشہور پیراور سجادہ نشین حضرات بے حس وحرکت پڑے ہیں اس اولوالعزم جماعت نے عظیم الشان خدمت اسلام کر کے دکھا دی ۲ لے : ڈاکٹر زویر ۱۹۲۵ء چرچ مشنری ریویو.لنڈن (اخبار الفضل ۱۸؍ جولائی ۱۹۲۵ء) : مولانا ظفر علی خاں - اخبار زمیندار لاہور ۲۴ / جولائی ۱۹۲۳ء
۴۱۰ ۲۳- اسلام کی سچی اور پُر جوش خدمت: مشہور اہل قلم جناب مولا نا عبد الحلیم شرر نے لکھا کہ " آج کل احمدیوں اور بہائیوں میں مقابلہ و مناظرہ ہو رہا ہے مگر دونوں میں اصل فرق یہ ہے کہ بابیت اسلام کو مٹانے کو آئی ہے اور احمدیت اسلام کو قوت دینے کے لئے اور اسی کی برکت ہے کہ باوجود چند اختلافات کے احمدی فرقہ اسلام کی سچی اور پُر جوش خدمت کرتے ہیں دوسرے مسلمان نہیں‘1 -۲۴- اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے بے قرار: میاں بشیر احمد صاحب.ایڈیٹر رسالہ ہمایوں لاہور نے لکھا کہ ”ہندوستان میں فرقہ احمدیہ نے اسلام کو....لا مذہب مسلمانوں اور غیر مسلم نقادوں کے سامنے پیش کیا.اشاعت اسلام کے سلسلہ میں انہوں نے انگلستان اور امریکہ میں مستقل طور پر کام شروع کر دیا اور انگریزی میں کتابیں اور رسائل شائع کئے.یہ فرقہ صوم وصلوٰۃ کا پابند ہے اور مذہبی رسوم کا ادا کرنا ضروری سمجھتا ہے....اور اسلام کے پیغام کو دنیا تک پہنچانے اور لوگوں میں پھیلانے کے لئے بے قرار نظر آتے ہیں سے : مولاناعبدالحلیم شرر- رسالہ دلگداز لکھنؤ جون ۱۹۲۶ء : میاں بشیر احمد - رسالہ ہمایوں لاہور مئی ۱۹۲۷ء
۴۱۱ ۲۵- خدمت اسلام کا سچا کام : وو اخبار مشرق گورکھپور نے جماعت احمدیہ کی مساعی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا.ہم جماعت احمدیہ کو مبارکباد دیتے ہیں کہ وہ سچا کام خدمت اسلام کا دے رہی ہے اور اس وقت ہندوستان میں کوئی جماعت اتنا اچھا اور ٹھوس کام نہیں کرتی کہ وہ ہر موقع پر مسلمانوں کو حفاظت اسلام اور بقائے اسلام کے لئے توجہ دلاتی رہتی ہے.باوجود اختلاف عقائد کے ہمارے دل پر اس جماعت کی خدمات کا گہرا اثر ہے اور آج سے نہیں جناب مرزا غلام احمد صاحب مرحوم کے زمانے سے.اس وقت تک ہم نے کبھی اس کے خلاف کوئی حرف زبان اور قلم سے نہیں نکالا.-۲۶ قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح: اخبار مشرق نے حضرت امام جماعت احمدیہ کے احسانات“ کے عنوان کے تحت لکھا کہ ” جناب امام صاحب جماعت احمدیہ کے احسانات تمام مسلمانوں پر ہیں.اس وقت ہندوستان میں جتنے فرقے مسلمانوں میں ہیں سب کسی نہ کسی وجہ سے انگریزوں یا ہندوؤں یا دوسری قوموں مرعوب ہو رہے ہیں.ایک احمدی جماعت ہے جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح کسی فرد یا جمیعت سے مرعوب نہیں ہے اور خالص ل : اخبار مشرق.گورکھ پور - یکم ستمبر ۱۹۲۸ء
۴۱۲ اسلامی کام سرانجام دے رہی ہے.۲۷- زندگی کے لئے برقی لہر : تحریک احمدیت کی ان زبر دست کوششوں کا نتیجہ ہے کہ وہ مسلمان جو اٹھارویں صدی میں اپنی موت پر دستخط کئے ہوئے تھے خدا کے فضل سے اپنے اندر زندگی کی ایک برقی لہر محسوس کرتے ہوئے اعلان کر رہے ہیں کہ یہ بیسویں صدی ہر جگہ مسلمانوں کے لئے نشاۃ ثانیہ کے لئے یا بیداری کا آغاز ہے.“ ہے ریمارکس ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم ایم.اے.ایل.ایل.بی.پی ایچ ڈی.لاہور ) ۲۸- اسلام کی خدمت آب زر سے لکھنے کے قابل : اردو اخبار ناگپور نے تحریک شدھی میں مسلمانوں کو ہندو بنانے کے خلاف مساعی میں جماعت احمدیہ کے کردار کو سراہتے ہوئے لکھا کہ پچھلے دنوں جب یکا یک شدھی کا طوفان عظیم اُمڈ آیا تھا اور جس نے ایک دو آدمیوں کو نہیں گاؤں کے گاؤں مسلمانوں کو متاثر بنا کر مرتد کر لیا تھا یہی ایک جماعت تھی جس نے سب سے پہلے سینہ سپر ہو کر اس کا مقابلہ کیا اور وہ کچھ خدمات سرانجام دیں اور کامیابی حاصل کی دشمنانِ اسلام انگشت بدنداں رہ گئے اور ان کے بڑھے ہوئے حوصلے ل : اخبار مشرق.گورکھ پور - ۲۳ /ستمبر ۱۹۲۸ء : خلیفہ عبدالحکم - رساله استقلال لا ہور صفحہ ۱۰
۴۱۳ پست پڑ گئے.یہ مبالغہ نہیں بلکہ واقعہ ہے جس ایثار و انہماک سے یہ مختصرسی جماعت اسلام کی خدمت سرانجام دے رہی ہے وہ اپنی نظیر آپ ہے اور بلا شبہ اسی کے یہ تمام کارنامے تاریخی صفحات پر آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں ! ۲۹: قابل فخر اور زریں کارنامہ: جب جماعت احمدیہ نے سیرت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر مذہب و ملت کے مقررین کے لیکچروں کی روایت ڈالی تو اس کی تعریف کرتے ہوئے اخبار عزیز وطن نے لکھا کہ اگر حقیقتا دیکھا جائے تو اس جماعت نے اسلام کی جس قدر خدمت کی ہے اور اس کے لئے جتنا ایثار کیا ہے اور انجمنیں تو در کارخود تبلیغی انجمنوں نے بھی مشکل سے کیا ہوگا.یورپ میں آج جس قدر غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا ہے اور کر رہے ہیں یہ اس جماعت کا قابلِ فخر اور زریں کارنامہ ہے“ ہے.۳۰- مرزا محمود کے پاس قرآن ہے: مولا نا ظفر علی خاں ایڈیٹر روز نامہ زمیندار لاہور نے امرتسر میں ایک جلسہ عام میں مجلس احرار اسلام اور جماعت احمدیہ کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ ل : اخبار اردو نا گپور - ٫۵جولائی ۱۹۲۸ء : اخبار عزیز وطن - ۲۱ / اپریل ۱۹۲۹ء
۴۱۴ کوئی ان احرار سے پوچھے.بھلے مانسو! تم نے مسلمانوں کا کیا سنوارا ہے، کوئی اسلامی خدمت تم نے سرانجام دی ہے، کیا بھولے سے بھی تم نے تبلیغ اسلام کی؟ احرار یو! کان کھول کر سُن لو.تم اور تمہارے لگے بندھے مرزا محمود کا مقابلہ قیامت تک نہیں کر سکتے.مرزا محمود کے پاس قرآن ہے، قرآن کا علم ہے تمہارے پاس کیا خاک دھرا ہے.تم میں سے ہے کوئی جو قرآن کے سادہ حروف بھی پڑھ سکے؟ تم نے کبھی خواب میں بھی قرآن نہیں پڑھا تم خود کچھ نہیں جانتے لوگوں کو کیا بتاؤ گے مرزا محمود کی مخالفت تمہارے فرشتے بھی نہیں کر سکتے.میرزا محمود کے ساتھ ایسی جماعت ہے جو تن ، من ، دھن اس کے ایک اشارہ پر اُس کے پاؤں میں نچھاور کرنے کو تیار ہے.تمہارے پاس کیا ہے گالیاں اور بدزبانی؟ تف ہے تمہاری غداری پر ! ۳۱ دلی تمنا نواب بہادر یار جنگ ۱۹۴۰ء میں قادیان تشریف لے گئے.واپس آ کر اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وو ” میری دلی تمنا ہے کہ میں تمام دنیا کے مسلمانوں کو اس چھوٹی سی جماعت کی طرح منظم اور ایک مرکز کے تحت جو اصول اسلامی کے مطابق ہے حرکت کرتا ہوا دیکھوں.‘‘ ۲ لے : مولانا ظفر علی خان - ایک خوفناک سازش - صفحات ۱۹۵-۱۹۶ نواب بہادر یار جنگ - الفضل ۱۳ / دسمبر ۱۹۶۳ء
۴۱۵ ۳۲- میرزاغلام احمد - معمولی فانی انسان نہیں: ایڈیٹر اخبار The Sentinel رانچی نے لکھا کہ قادیان کے نور و برکت کی حد بندی کرنے کی ضرورت نہیں.تمام دنیا اس کو براہ راست یا بالواسطہ جانتی ہے.کچھ عرصہ پیشتر یہ مقام زاویہ گمنامی میں پڑا ہوا تھا لیکن اکسٹھ سال پہلے ایک روحانی کیفیت اس تہذیب کے لحاظ سے پسماندہ جگہ میں ظاہر ہوئی.اس کا ظہور میرزاغلام احمد کے وجود میں ہوا.کاؤنٹ ٹالسٹائے بھی ان لوگوں میں سے تھے جو آپ کے افکار عالیہ سے سیراب ہوئے.انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ جو شخص قادیان سے کلام کر رہا ہے وہ کوئی معمولی فانی انسان نہیں“ ! کٹھ ملاؤں کے فتووں کے باوجود: ایڈیٹر اخبار”حقیقت،لکھنؤ نے لکھا کہ کٹھ ملاؤں کے فتووں کے باوجود احمدی بہر حال اسلام ہی کا ایک فرقہ ہے...پھر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام کی تبلیغ آج سب سے زیادہ منظم اور وسیع پیمانے پر احمدی جماعت ہی کر رہی ہے.وہ جس ڈھنگ سے تبلیغ کر رہے ہیں اس کو پسند کیا جائے یا نہ کیا جائے مگر یہ واقعی ہے کہ آج صرف یہی ایک جماعت ہے جس نے : اخبار The Sentinel رانچی ۱۴ جولائی ۱۹۵۱ء
۴۱۶ اپنے آپ کو تبلیغ اسلام کے لئے ہمہ تن وقف کر رکھا ہے.اس کا اعتراف نہ کرنا سخت نا انصافی ہے.۳۴ - منزل پالی ہے: علامہ نیاز فتح پوری مد بر نگار لکھنؤ لکھتے ہیں کہ اگر میں احمدی جماعت کو پسند کرتا ہوں تو صرف اس لئے کہ اس نے اپنی منزل پالی ہے اور یہ منزل وہی ہے جس کی بانی اسلام نے نشاندہی کی تھی.“ ہے.: اخبار حقیقت لکھنؤ - ۲۰ جون ۱۹۶۲ء علامہ نیاز فتح پوری - رسالہ نگار لکھنؤ ستمبر ۱۹۶۰ء