Mujzat Al Quran

Mujzat Al Quran

معجزات القرآن

المعجزات فی اعداد الفاتحہ و المقطعات، اسمائے انبیاء کے اعداد اور معارف مخفیہ، اخبار غیبیہ
Author: Other Authors

Language: UR

UR
Holy Quran

سلسلہ کے بزرگ عالم دین مولانا ظفر محمد ظفر صاحب نے معجزات القرآن کے نام سے یہ قیمتی مسودہ مرتب کیا تھا جسے آپ کی اولاد نے آپ کی وفات کے بعد احسن طریق پر طباعت کے زیور سےآراستہ کیاہے۔ اس کتاب میں قرآن کریم کے مضامین، واقعات، پیش گوئیوں اور دقیق پہلوؤں کو علم الاعداد کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی ہے، جن سے قرآن کریم کے مجمل پہلو یعنی مقطعات کی توضیح و  حقیقت سے شناسائی  ہونے لگتی ہے۔ مولانا موصوف قرآن کے شغل و تدبر میں دل و جان سے مصروف رہے اور قیمتی موتی نکالتے رہے جس کے آپ کے معاصرین معترف تھے۔ کیونکہ ایک زمانہ تھا کہ لوگ علم حساب الجمل سے واقف تھے اور بالخصوص شعراء تو اس علم کے خوب مشاق ہوتے تھے، لیکن اب تو علم کی اس صنف سے شوق فرمانے والے خال خال رہ گئے ہیں، مولانا موصوف کی اس کتاب میں حروف کے اعداد استعمال کرتے ہوئے قرآن کریم کے مقطعات  یا بعض دیگر مقامات سے پیش گوئیوں کی نشاندہی کی ہے ۔ اس سلسلہ میں بانی جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تحریرات سے بھی استفادہ کیا ہے۔ انبیاء کے اسماء مبارکہ کے اعداد سے بھی مفید نکات اجاگر کئے ہیں ، پس جس محنت اور لگن سے یہ تحقیق کی ہے وہ قابل قدر ہے۔


Book Content

Page 1

معجزات القرآن المز ن ق النض كهيعض ضم الر حضرت مولانا ظفر محمد ظفر

Page 2

”معجزات القرآن“ معجزات القرآن (چھٹے باب کے اضافہ کے ساتھ ) معجزات القرآن“ نام کتاب: مصنف: مرتبہ ناشر : تعداد: جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ ہیں سن اشاعت: کمپوزنگ: معجزات القرآن حضرت مولانا ظفر محمد ظفر آصف احمد ظفر طاہر احمد ظفر (جرمنی) 1000 $2017 نصیر احمد چودھری Tahir Ahmad Zafar Werkstr, 8 54516 Wittlich Germany E mail:zafar@t-online.de E_mail:asifbaloch786@ymail.com Tel:0049-15119020385 Mujizat-Ul-Qur'an Written by: Hadhrat Maulana Zafar Muhammad Zafar حضرت مولانا ظفر محمد ظفر سابق پروفیسر جامعہ احمدیہ

Page 3

”معجزات القرآن“ 3 معجزات القرآن“ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ ایک دفعہ حضور ( حضرت مسیح موعود.ناقل ) علیہ السلام اپنے قدیمی مکان کے دروازہ کے آگے کوچہ میں جو جناب مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کے گھر کو نکل جاتا ہے بیٹھے ہوئے تھے اور شیخ غلام مصطفیٰ و شیخ غلام محمد ( یہ نوجوان تھے ) جو بٹالہ کے رہنے والے تھے موجود تھے.ان سے گفتگو کرتے ہوئے حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تو قرآن کریم کے متن یعنی مفصل حصہ کی توضیح ہوئی ہے اور دوسرے حصہ مجمل یعنی مقطعات کی توضیح ہمارے زمانہ میں ہوگی.“ ( یعنی حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں ) (سیرۃ المہدی حصہ پنجم صفحہ 193 روایت نمبر 1294 تالیف لطیف حضرت قمر الا نبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے) قرآن پاک پر ہمیشہ تدبر کرو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.”ہماری جماعت کو چاہئے کہ قرآن کریم کے شغل اور تدبر میں جان و دل سے مصروف ہو جا ئیں.اس وقت قرآن کا حربہ ہاتھ 66 میں لو تمہاری فتح ہے.اس نور کے آگے کوئی ظلمت ٹھہر نہ سکے گی.“ ( بحوالہ اخبارالحکم 17 اکتوبر 1900 صفحہ 5) حقیقی پاکیزگی کے ثمرات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.جس پر خدا تعالیٰ نے یہ مہربانی نہ کی جو اپنے پاک کلام کا علم اس کو عطا کرتا اور اس کے حقائق سے اطلاع دیتا اور اس کے معارف پر مطلع فرماتا.ایسے بدنصیب شخص پر دوسری مہربانی اور کیا ہو گی حالانکہ وہ آپ فرماتا ہے کہ میں جس کو حقیقی پاکیزگی بخشتا ہوں اس پر قرآنی علوم کے چشمے کھولتا ہوں.اور نیز فرماتا ہے کہ جس کو چاہتا ہوں علم قرآن دیتا ہوں اور جس کو علم قرآن دیا گیا.اس کو وہ چیز دی گئی جس کے ساتھ کوئی چیز برابر نہیں.“ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد نمبر 5 صفحہ 363)

Page 4

60 42 49 49 54 57 59 ”معجزات القرآن“ نمبر شمار 1 عرض ناشر 2 پیش لفظ فہرست مضامین 2 کچھ مصنف کے بارہ میں نام مضمون 50 معجزات القرآن“ 12 عمر دنیا ( روایات کی روشنی میں) 13 اعجاز القرآن صفحہ 14 حروف تہجی 9 12 14 مکتوب حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب (خلیفتہ امسیح الرابع " ) 20 4 مکتوب حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب ( صحابی حضرت مسیح موعود ) 22 5 مکتوب حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ (امیر جماعت ہائے احمد یہ ضلع فیصل آباد ) تبصرہ حضرت مرزا عبد الحق صاحب ایڈووکیٹ (امیر جماعت ہائے احمد یہ صوبہ پنجاب وضلع سرگودھا) 23 24 24 7 مکتوب سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن مکرم اقبال احمد صاحب شمیم بریگیڈئیر (ر) 25 مکتوب مکرم ملک منصور احمد صاحب عمر مربی سلسله 27 8 تبصرہ مکرم مولانا نصر اللہ خان صاحب ناصر سابق ایڈیٹر ماہنامہ انصار اللہ ربوہ 28 9 قصیده در مدح قرآن کریم باب دوم ( المعجزات في اعداد الفاتحة والمقطعات) 15 حروف مقطعات ( احادیث نبوی اور اہل اللہ کے کشوف کی روشنی میں ) 16 خلاصہ معارف سورۃ فاتحہ 17 حروف مقطعات سورۃ فاتحہ کی روشنی میں باب سوم 18 اسمائے انبیاء کے اعداد اور معارف مخفیہ باب چهارم 19 قصص قرآن پیشگوئیاں ہیں 20 تفسیر سورۃ مریم (چند آیات) 21 سورة طه ( تفسیر چند آیات) 22 اے چودھویں کے چاند (نظم) 23 تفسير سورة طه 107 111 123 125 129 131 142 157 159 161 177 179 باب پنجم (اخبار غیبیہ) جن کا تعلق دور حاضر کی اختراعات اور انکشافات سے ہے 24 گردش زمین 30 32 35 37 10 تدبر فی القرآن کا طریق باب اوّل (تمهیدی حقائق) 11 تعارف کتاب

Page 5

”معجزات القرآن“ 25 کشش ثقل 26 قرآن کریم کے دولفظ اور زمانہ حال کی ایجادات نو 27 ٹیپ ریکارڈر 28 ایئر کنڈیشن 29 قرآن مجید سائنس کا امام ہے بار 30 یا جوج ماجوج کی زمینی تدبیریں اور خدا تعالیٰ کی آسمانی تقدیریں 31 قرآن کریم کی ترتیب کو سمجھنے کے صحیح وسائل 32 قرآن حکیم میں ترتیب پائی جاتی ہے عربی زبان کی بعض امتیازی خصوصیات 34 عکس خطوط 35 فهرست ماخذ کتاب 7 184 184 189 189 190 193 195 219 223 233 239 245 246 تا 248 معجزات القرآن“ 8

Page 6

”معجزات القرآن“ 9 معجزات القرآن“ 10 عرض ناشر حضرت والد صاحب مرحوم کی تصنیف ”معجزات القرآن“ آپ کی زندگی میں شائع نہ ہو سکی.اس کا پہلا ایڈیشن 2001ء میں میرے بڑے بھائی محترم مبارک احمد صاحب ظفر مرحوم کو شائع کرنے کی توفیق ملی.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ان کی جزا بن جائے.آمین.اس کا دوسرا ایڈ یشن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب شائع کیا جارہا ہے.الحمد للہ علی ذلک خاکسار اپنے والد محترم حضرت مولانا ظفر محمد صاحب ظفر کے کاغذات دیکھ رہا تھا تو اس میں سے ابا جان کا ایک خط محرہ یکم اگست 1978ء ملا جو 7 صفحات پر مشتمل ہے جو آپ نے اپنی کتاب ”معجزات القرآن کے بارہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں تحریر کیا تھا.اس خط کا ایک حصہ جو دراصل قرآنی علوم سے استفادہ کرتے ہوئے تحریر کیا گیا جو MTA کے قیام سے 16 سال قبل کا ہے خاکسار نے سوچا کہ اُسے بھی کتاب میں شامل کر دیا جائے اس خط کے صفحہ 5,4 پر لکھتے ہیں کہ ایک دن جب خاکسار حضور انور کی خدمت میں حاضر تھا تو لفظ کھد ھد کے لغوی معانی پیش کرنے کے بعد عرض کی کہ پندرھویں صدی میں جماعت احمدیہ کے پاس اپنا براڈ کاسٹنگ سٹیشن ہوگا کیونکہ لفظ محمد طد سورہ نمل میں آیا ہے اور اس سورۃ کا تعلق پندرھویں صدی سے ہے.اس پر قدرے تامل کے بعد حضور نے فرمایا کہ ”آپ نے سب کچھ اپنے دل میں رکھا ہوا ہے.“ 66 روزنامه الفضل 2 ستمبر 2004 صفحه 4) آخر پر لکھتے ہیں.بالآخر عرض ہے کہ کتاب " معجزات القرآن“ کی مثال اس پہلی رات کے چاند کی سی ہے جو دھندلی فضا میں نمودار ہو جس کو تیز نگاہیں دیکھ لیتی ہیں مگر کمزور نگاہیں نہیں دیکھ سکتیں پھر وقت گزرنے پر سب نگاہیں دیکھ لیتی ہیں.“ ایک دوسرے خط میں جو آپ نے 28 ستمبر 1966ء کو اپنے ایک قریبی عزیز کو تحریر کیا اس میں لکھتے ہیں کہ مجھ پر مقطعات اور ( سورۃ ) فاتحہ کے اعداد بفضل خدا اس طرح کھل گئے ہیں کہ دنیا کی عمر، اسلام کی دونوں نشاتوں کی مجموعی اور علیحدہ علیحدہ عمر سورۃ فاتحہ کے اعداد میں مل گئی ہے.حتیٰ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیدائش کا سال اور دیگر سابقہ امتوں کے زمانوں کی ابتداء و عمر بھی سورۃ فاتحہ میں موجود ہے.اس کے علاوہ قرآن کریم کی سورتوں کی ایک زمانی ترتیب بھی سامنے آگئی ہے.فالحمد لله خاکسار اپنے والد صاحب مرحوم کیلئے دُعا کی درخواست کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی اس علمی کاوش کو قبول فرمائے اور آپ کو اپنے مقام قرب میں بلند درجات عطا کرے.آمین.نیز اپنے تینوں بھائیوں مکرم منصور احمد صاحب ظفر ، مکرم ناصر احمد صاحب ظفر مکرم مبارک احمد صاحب ظفر کیلئے بھی خصوصی دعا کی درخواست کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور اپنے پیاروں کے قرب میں جگہ عطا فرمائے آمین.مزید برآں میں اپنے بھتیجے مکرم آصف احمد صاحب ظفر ابن برادرم محترم ناصر احمد صاحب ظفر کا شکر گزار ہوں دوسرے ایڈیشن کی تیاری کا سارا کام درحقیقت عزیزم کی مساعی ہی کا رہین منت ہے.جنہوں نے کتاب ھذا کی اشاعت کا بیڑہ

Page 7

“ 11 “ 12 اٹھایا اور اس کتاب کے حوالہ جات کمپوزنگ اور پروف ریڈنگ وغیرہ میں عزیزم نے خصوصی سعی کی ہے.اور بڑی محنت شوق اور توجہ کے ساتھ اس کی تیاری اور تکمیل کی.اللہ تعالیٰ ان کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے اور اپنے فضلوں سے نوازے.آمین اس کتاب میں چھٹے باب کا اضافہ کیا گیا ہے.اس میں عزیزم آصف احمد نے ابا جان کے کچھ ایسے مضامین کو شامل کیا ہے جو اس سے قبل شامل اشاعت نہ تھے یہ مضامین ”الفضل“ اور ”الفرقان“ میں شائع شدہ ہیں.مکرم مولانا الیاس منیر صاحب حال جرمنی نے اپنی مصروفیات کے باوجود کتاب کا مسودہ ملاحظہ کیا اور اپنی قیمتی آراء سے نوازا.اسی طرح مکرم مبشر احمد ظفر صاحب ، مکرم طارق بلوچ صاحب حال کیل جرمنی، مکرم نعمان ظفر صاحب مربی سلسلہ مکرم خلیق احمد صاحب ظفر ایم.اے اور مکرم ادریس احمد چیمہ صاحب مربی سلسلہ کی معاونت بھی شامل حال رہی.اللہ تعالیٰ ان معاونین کو دینی اور دنیوی حسنات عطا کرے.اور اس کتاب کی اشاعت کے نیک اور بابرکت ثمرات ظاہر فرمائے.آمین خاکسارا اپنی اہلیہ جو کہ جرمن احمدی ہیں اور الحمد للہ جماعتی خدمت کی بھی توفیق پا رہی ہیں اُن کے لئے اور اپنے بچوں کے لئے بھی خصوصی دعا کی درخواست کرتا ہے.اللہ تعالیٰ سب کو مقبول خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے.اور ہمیشہ احمدیت کے پر چم کو بلند سے بلند تر کرنے والے ہوں.آمین خاکسار طاہر احمد ظفر (جرمنی) 27 مئی 2017ء پیش لفظ خاکسار کو از تالیفات الاستاذ ظفر محمد ظفر صاحب کا بالاستیعاب مطالعہ کرنے کا موقع ملا.ماشاء اللہ بڑے اچھوتے رنگ میں آپ نے بعض قرآنی معجزات کو حساب الجُمَّل کی روشنی میں دلنشین انداز میں اجاگر کیا ہے.فن جمّل کے ماہرین اور اس سے دلچسپی رکھنے والے کسی زمانہ میں کثرت سے موجود تھے.اب تو خال خال ہی رہ گئے ہیں.بالعموم شعراء کو اس پر خوب دسترس ہوا کرتی تھی.اہم واقعات کی تاریخیں اس سے نکالا کرتے تھے.اب بھی بعض یہ شوق فرمالیتے ہیں.اس فن کے ماہرین نے اس کی ٹو اقسام بیان کی ہیں.ان میں سے جو بالعموم مستعمل ہے وہ ابجد ادریس کے نام سے موسوم ہے.باقی انواع میں سے ابجد آدم اس لحاظ سے نمایاں ہے کہ اس میں عربی حروف ہجاء کی اصل معروف ترتیب کو قائم رکھا گیا ہے.ہر جزء میں آٹھ حروف ہیں.وہ اجزاء یہ ہیں : ابِتُتُ يَحِخُدُ ذَرِزُسٌ شَصِضْطُ طَعِفُفْ قَكِلُمْ اور نُوهِي ان اجزاء کا پہلا حرف مفتوح ، دوسرا مکسور، تیسرا مضموم اور چوتھا ساکن ہے.سوائے آخری جزء نُوهِئ کے.یہ بھی اصل میں نَوِھی ہی تھا.مگر واو کی مناسبت سے اس کے پہلے حرف ن کو پیش دی گئی اور ھ کے معا بعد ی کی وجہ سے ھ پر پیش کی بجائے زیر آگئی.عربی حروف تہجی میں ھ پہلے ہے اور و بعد میں.مگر یہاں اردو طرز پر وکوھ سے پہلے رکھا گیا ہے.ابجد کی اقسام کی تفصیل کے لیے 15 مئی 1990 کے الفضل کا مطالعہ مفید ہوگا.

Page 8

”“ 13 “ 14 اس تالیف میں معروف نوع استعمال کی گئی ہے جو ابجد ادریس کہلاتی ہے.اس میں حروف کی ترتیب عام حروف ہجاء والی ترتیب نہیں.اور صرف یہی نوع ہی عملا مستعمل ہے.فاضل مؤلف نے حروف کے اعداد استعمال کرتے ہوئے قرآن کریم کے مقطعات یا بعض دیگر مقامات سے پیشگوئیوں کی نشاندہی کی ہے.اس سلسلہ میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی تحریرات سے بھی استفادہ کیا ہے.انبیاء کے اسماء مبارکہ کے اعداد سے بھی مفید نکات اجاگر کئے ہیں.جس لگن اور محنت سے یہ تحقیق آپ نے کی ہے وہ قابل تحسین ہے.فجزاہ اللہ احسن الجزاء مضمون کے ساتھ ساتھ قاری کی دلچسپی بڑھتی چلی جاتی ہے.یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ دیگر علمی تحقیقات کی طرح اس میں بھی کہیں کہیں کچھ سوالات بھی ابھرتے ہیں.کسی جگہ قاری کی رائے مؤلف سے مختلف بھی ہو جاتی ہے.مگر مجموعی طور پر حساب الجمل میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے یہ ایک مفید ، دل پسند اور نادر تحفہ ہے.اور شائقین کی ذاتی لائبریری کے لیے باعث تزیین.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تَحْمُدُه وَنُصِلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ کچھ مصنف کے بارہ میں مصنف کتاب ھذ احضرت مولانا ظفر محمد صاحب ظفر مرحوم و مغفور سابق پروفیسر جامعہ احمد یہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ایک مایہ ناز عالم و فاضل استاد اور نابغہء روزگار شاعر تھے.تعلق باللہ اور علم وفضل کے حسین امتزاج سرا پا عجز و انکسار اور نام ونمود سے بے نیاز وجود تھے.1970ء کے بعد کے علماء اور مربیان کو آپ سے علمی اکتساب کا بہت کم موقع ملا.مگر آپ کی گہری علمی تحقیق و تدقیق اور عارفانہ کلام سے ہر کوئی بے حد متاثر ہوا اور اس وقت بھی آپ کی تحریرات سے مستفیض ہو رہا ہے.مولانا موصوف کا مولد دریائے سندھ کے مغربی کنارے تحصیل تونسہ شریف کا گاؤں بستی مندرانی ہے.جس کے بلوچ قبیلہ کی نتکانی شاخ سے آپ کا تعلق تھا.کوہ سلیمان کے دامن میں بسنے والے یہ لوگ اپنے خصائل و اوصاف کے لحاظ سے بلاشبہ کوہ وقار ہیں اور یہ تمام علاقہ دینی مذہبی عادات واطوار اور روایات کا حامل ہے.یہیں سے وہ سعید فطرت انسان حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب مندرانی دولت ایمان سے مستفیض ہوئے جو ظہور امام الزمان علیہ السلام کی خبر پاکر کچھ اور دوستوں کے ساتھ 1901ء میں صحراؤں اور جنگلوں کو عبور کرتے ہوئے پا پیادہ قادیان دارالامان پہنچے اور وقت کے امام کو شناخت کیا اور پھر اسی کے ہو گئے.حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب مندرانی صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاں 9 را پریل 1908ء کو حضرت مولانا ظفر محمد صاحب ظفر کی ولادت ہوئی.

Page 9

" “ 15 موصوف کی ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں ہوئی.آپ کے والد ماجد نے 13 سال کی عمر میں آپ کو قادیان بھجوایا.اس کی تقریب یوں پیدا ہوئی.بچپن میں خواب میں دیکھا تھا کہ قرآن شریف سورۃ فاتحہ سے والناس تک میرے سینہ میں چمک رہا ہے.جب یہ خواب اپنے والد صاحب کو سنائی تو انہوں نے دینی تعلیم کے حصول کیلئے قادیان بھیجنے کا فیصلہ فرمایا.( الفضل 29 جولائی 1982ء) اس طرح مولانا موصوف 22 مارچ 1921ء کو قادیان پہنچے.1922ء سے 1929 ء تک آپ کو حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب ( خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا ہم جماعت رہنے کا شرف حاصل ہوا.1929ء میں آپ نے مولوی فاصل کا امتحان پاس کیا.1930 ء.1931ء میں جامعہ احمدیہ میں مبلغین کورس کرتے رہے جہاں نمایاں کامیابی حاصل کی.اسی عرصہ میں آپ نے جامعہ احمدیہ رسالہ کے دو شمارے مرتب کئے جن میں ایک سالانہ نمبر دسمبر 1930 ء تھا جو بے حد مقبول ہوا.چونکہ والدین کا انتقال ہو چکا تھا اس وجہ سے آپ مستقل قادیان کے ہو گئے.جہاں آپ کا سینہ قرآن کے نور سے روشن ہوا.اسی دوران 1931ء میں آپ کا نکاح محترمہ رشیدہ بیگم صاحبہ بنت صو بیدار میجر حضرت ڈاکٹر ظفر حسن صاحب صحابی حضرت مسیح موعود سے ہوا جو حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب صحابی حضرت مسیح موعود نے پڑھایا.اعلان نکاح الفضل قادیان 25 اگست 1931 صفحه 2) جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد بہاولپور میں بطور مبلغ مقرر کئے گئے.جہاں آپ نے کچھ عرصہ خدمت کی توفیق پائی یہاں تک کہ آپ کو مدرسہ احمدیہ میں بطور استاد متعین کیا گیا.آپ نے تدریسی فرائض 1935 ء تک سرانجام دیئے.“ 16 اسی دوران 2 جولائی 1933ء کوحضرت خلیفتہ مسیح الثانی نے آپ کا تقرر بطور قاضی سلسلہ کیا.1934ء میں آپ حضرت خلیفۃ اسیح الثانی کے اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری رہے.اور 1935ء میں پہلے سیکرٹری نیشنل لیگ قادیان مقرر ہوئے.1937ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کی زیر نگرانی ناظم کار خاص رہے.1938ء میں نصرت گرلز ہائی سکول قادیان میں بطور معلم کا م کیا.مارچ 1939 ء سے مارچ 1944 ء تک اپنے وطن میں قیام پذیر رہے جبکہ اس دوران آپ نے ادیب فاضل، منشی فاضل اور ایف اے کے امتحان پاس کئے.1944ء میں آپ کو جامعہ احمدیہ میں پروفیسر لگا دیا گیا.جہاں 1956 ء تک تدریسی خدمات سرانجام دیں.اور بالآخر آنکھوں کی تکلیف کے باعث درس و تدریس کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکے.تاہم 1964 تا 1966ء کا عرصہ مکرم چودھری احمد مختار صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی کی خواہش پر کراچی تشریف لے گئے جہاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بعض عربی کتب کا ترجمہ کیا.1975ء میں حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے حضرت مصلح موعود کی تحریر فرمودہ تفسیر سورہ کہف کا عربی میں ترجمہ کرنے کا محترم مولانا محمد صادق صاحب سماٹری کو ارشاد فرمایا اور ساتھ ہی آپ کو ان کی مدد کے لئے مقرر کیا گیا.مولا نا موصوف کو عربی اردو اور فارسی زبانوں پر عبور اور دسترس حاصل تھی.چنانچہ آپ تینوں زبانوں کے قادر الکلام شاعر تھے.سلسلہ کے اخبارات اور رسائل میں آپ کا شائع شدہ کلام اس کا ثبوت ہے.1980ء میں پہلی مرتبہ پھر 2010ء میں اور اب 2015ء میں یہ شعری مجموعہ کلام ظفر کی صورت میں شائع ہو چکا ہے.قرآن کریم سے آپ کو گہرا شغف اور بے پناہ محبت تھی.قرآن کریم کے رموز و

Page 10

”“ 17 اسرار اور حقائق و معارف کے جاننے میں منہمک رہتے.مقطعات قرآنی اور علم الاعداد کا گہرا علم رکھتے تھے.چنانچہ پانچ بیش قیمت کتب کے مسودات تحریر کئے.1.ہمارا قرآن اور اس کا اسلوب بیان.2.قرآن زمانے کے آئینہ میں ( كتاب هذا ) 4.سوانح صوفیا (1951 ء شائع شدہ) 5.حروف مقطعات کی حقیقت حضرت خلیفتہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے درس القرآن میں حروف مقطعات میں پوشیدہ پیشگوئیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.ایک احمدی سکالر مکرم مولوی ظفر محمد صاحب تھے جو حروف مقطعات کی تحقیق کا عمدہ ذوق رکھتے تھے اور بڑی محنت سے ان پر تحقیق کیا کرتے تھے.انہوں نے مقطعات کی روسے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ اسیح الثالث ہوں گے.چونکہ خلیفہ وقت کی زندگی میں کسی اور کی خلافت کے بارہ میں سوچنا یا نام لینا منع ہے.انہوں نے اپنی تحقیق کو لکھ کر بند کر کے حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو دے کر یہ استدعا کی کہ میری وفات کے بعد اس کو کھولا جائے یا جب میں آپ سے درخواست کروں.بعد میں یہ ثابت ہوا کہ یہ پیشگوئی صحیح تھی.مولوی ظفر محمد صاحب ایک دن میرے پاس تشریف لائے.اس وقت میں وقف جدید میں خدمات سرانجام دے رہا تھا.مولوی صاحب نے مجھے بتایا کہ میں نے چوتھے خلیفہ کا نام بھی معلوم کر لیا ہے لیکن میں آپ کو بتاؤں گا نہیں ( جبکہ اپنی ڈائری میں انہوں نے لکھ لیا تھا).“ 18 جب خدا تعالیٰ نے مجھے خلافت عطا کی تو ان کی وفات اس سے قبل ہو چکی تھی تو میں نے ان کے بچوں خصوصاً ان کے بڑے بیٹے سے کہا کہ ڈائری کا وہ صفحہ تلاش کریں کہ کس قرآنی سورۃ سے انہوں نے یہ اخذ کیا ہے.ان کے بڑے بیٹے نے مجھے بتایا کہ ان کی ایک ڈائری تھی جو اپنے پاس رکھا کرتے تھے وہ اب ہمیں مل نہیں رہی..میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ کسی سورۃ اور کون سے حروف مقطعات سے انہوں نے اخذ کیا ہے کہ چوتھے خلیفہ کون ہوں گے.“ 66 فرمایا ”جب میں ماضی کے واقعات پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے یاد آتا ہے کہ جب وہ میرے پاس آئے تو ان کی آنکھوں میں ایک چمک تھی ایک روشنی تھی وہ مجھے خلیفہ رابع کے بارہ میں بتانا چاہتے تھے اس کے باوجود انہوں نے اظہار نہ کیا.“ مزید فرماتے ہیں: ”اس سے میرا نظریہ تقویت پکڑتا ہے کہ واقعی اس میں آنے والے زمانہ کے لئے بھی پیشگوئیاں ہیں جو اپنے وقت پر پوری ہوتی ہیں.“ حضرت صاحب فرماتے ہیں : ” ان حروف مقطعات کو مختلف لوگوں نے مختلف انداز میں سمجھنے کی کوشش کی ہے اور مختلف نتائج اخذ کئے ہیں.حضرت مسیح موعود کی تعلیمات اور ارشادات کا غیر خواہ کچھ ہی مطلب نکالیں لیکن احمدی اپنے ظرف اور بساط کے مطابق ان تعلیمات سے فیض پاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ مجھے یقین ہے کہ ظفرمحمد صاحب نے حروف مقطعات کے بارہ میں ایسا طریق اخذ کیا جس سے مذکورہ بالا دو باتیں قبل از وقت بتائیں جو صیح ثابت ہوئیں.“ ( درس القرآن انگریزی 10 جنوری 1987 سورۃ آل عمران بحوالہ روزنامه الفضل 2 ستمبر 2004 صفحہ 4) حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے کے ایک پروگرام مورخہ 15 مارچ1994ء میں فرمایا: مولوی ظفر محمد صاحب ظفر مرحوم و مغفور....آپ کا، میرے

Page 11

”“ ساتھ اگر چہ طالب علمی اور استاد کا رشتہ تو نہیں رہا لیکن مجھ سے تعلق بہت گہرا تھا.وقف جدید میں اکثر آ کے بیٹھتے تھے اور قرآن کریم کے اوپر بھی بہت عبور تو کسی کو نہیں ہو سکتا مگر قرآنی مطالب کو سمجھنے کا شوق بہت تھا اور کئی دفعہ بڑے اچھے نکتے نکال کر لاتے تھے بہت ایک عجیب درویش انسان تھے.66 19 ( بحوالہ روز نامہ الفضل 2 ستمبر 2004 صفحہ 4) سلسلہ احمدیہ کے جید بزرگوں کی بلند پایہ آرا ہیں جو کتاب ھذا میں دی جارہی ہیں.ان میں حضرت خلیفتہ اسیح الرابع ” کا مکتوب بھی ہے جب آپ ناظم وقف جدید تھے.مولانا موصوف کے اخلاق فاضلہ اور اوصاف و محاسن کے بیان کا یہ موقع نہیں.موصوف صاحب رو یا کرامات بزرگ تھے محبت الہی ، محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور محبت قرآن آپ کے رگ وریشہ میں رچی ہوئی تھی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام آپ کے خلفا اور جماعت کے ساتھ سچی محبت تھی.خلاصہ کلام یہ کہ آپ کا وجود عجز و انکسار اور علم و معرفت سے مزین تھا آپ نے 23 را پریل 1982ء میں اپنی جان جاں آفریں کے سپرد کی.آپ بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں.اپنی وفات سے قبل آپ کا کہا ہوا یہ شعر زائر کومحمودعا بنادیتا ہے: آئے مرے عزیز ہیں میرے مزار پر رحمت خدا کی مانگنے مشت غبار پر “ مکتوب نمبر 1 مکتوب حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب (خلیفہ مسیح الرابع ) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تحمُدُهُ وَنُصِلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ مرزا طاہر احمد.ربوہ 12.03.1356/1977 مکرمی محتر می مولانا ظفر محمد صاحب احمد نگر السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ 20 20 آں مکرم کے مرسلہ مسودہ بنام کا خاکسار نے گہری دلچسپی کے ساتھ بالاستیعاب مطالعہ کیا.آپ نے قرآن کریم کی معجزانہ شان کے جس پہلو پر قلم اٹھایا ہے.یہ علم قرآن کی ایک ایسی شاخ ہے جس پر آج تک بہت کم لکھا گیا ہے.اس مسودہ کے مطالعہ سے یہ دیکھ کر طبیعت میں ہیجان پیدا ہو جاتا ہے کہ علوم قرآن کی کائنات میں اس پہلو سے بھی تحقیق اور دریافت کا کتنا بڑا جہان کھلا پڑا ہے.اور اہل فکر کو جستجو کی دعوت دے رہا ہے اس مطالعہ سے مجھے بہت کچھ حاصل ہوا کئی نئے علمی نکات سے لطف اندوز ہوا.تحقیق کی کئی نئی راہوں کی طرف توجہ مبذول ہوئی اور دل میں اس خیال سے شکر و امتنان کے جذبات پیدا ہوئے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کو آپ کے غلاموں کے حق میں قبول فرما رہا ہے.اور علم و معرفت میں ترقی کے نئے نئے دروازے ان پر کھول رہا ہے.الحمد للہ ثم الحمد للہ.

Page 12

”“ 24 21 یہ کتاب چونکہ گہرے اور بار یک مضامین پر مشتمل ہے.نیز ایسے پہلو بھی رکھتی ہے جن میں مزید تحقیق اور اختلاف رائے کی گنجائش ہے.لہذا اس کی اشاعت سے صرف علمی ذوق ورموز رکھنے والا محدود طبقہ ہی استفادہ کر سکے گا.بریں بنا اگر اس کی اشاعت مقصود ہو تو سر دست محدود اشاعت بہتر رہے گی.اس تجربہ کی روشنی میں آئندہ وسیع تر اشاعت کا انتظام کیا جاسکتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو بیش از پیش خدمت دین کی توفیق بخشے اور علم وعرفان کی لازوال دولت عطا فرمائے.آمین.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد “ مکتوب نمبر 2 22 22 مکتوب حضرت چودھری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب ( صحابی حضرت مسیح موعود و سابق وزیر خارجه پاکستان ، صدر مجلس اقوام متحدہ ،صدر عالمی عدالت انصاف) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ لاہور چھاؤنی 26.2.76 خاکسار نے اس قیمتی مسودہ کا بغور مطالعہ کیا ہے اور اس سے استفادہ کیا ہے.میں محترم مؤلف کی وسعت نظر اور ان کے فکر کی بلند پروازی کا معترف ہوں.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا کرے.آمین والسلام خاکسار ظفر اللہ خان دیکھئے عکس خط صفحہ نمبر 240-239 دیکھئے عکس خط صفحہ نمبر 241

Page 13

”“ 23 “ 24 مکتوب نمبر 3 مکتوب حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت ہائے احمدیہ ضلع فیصل آباد بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ محترم مولوی ظفر محمد صاحب نے ایک بہت دقیق رسالہ تصنیف کیا ہے جس میں قرآنی علوم کو ابجد کے لحاظ سے نئے پیرائے میں بیان کیا ہے اور بہت سے نکات اس میں بیان کئے ہیں یہ رسالہ بہت بار یک مضامین پر مشتمل ہے اور اہل ذوق اس سے مستفیض ہو سکتے ہیں محترم مولوی صاحب نے بڑی محنت اور دقیقہ رسی سے کام لیا ہے اللہ تعالیٰ ان کے اس رسالے میں برکت دے اور اُسے اہل ذوق کیلئے روحانی سامان سے مستفیض ہونے کا موقع دے بعض جگہ قاری کو اختلاف ہوسکتا ہے لیکن بہت کم موقعوں پر ایسا ہو سکتا ہے.ورنہ رسالہ مفید اور جدید تحقیق پر مبنی ہے.30.3.77 والسلام خاکسار دستخط : محمد احمد مظهر ایڈووکیٹ لائل پور مکتوب نمبر 4 حضرت مرزا عبد الحق صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت ہائے احمد یہ صوبہ پنجاب وضلع سرگودھا کا تبصرہ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ خاکسار کو کتاب ” “ کا مسودہ دیکھنے کا موقع ملا ہے.اس میں قرآن کریم کی تفسیر کی ایک بالکل نئی طرز اختیار کی گئی ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے حروف مقطعات کے معانی کی طرف جو اصولی اشارات فرمائے ہیں فاضل مصنف کتاب نے ان کی بنا پر ایک شاندار عمارت کھڑی کی ہے.جو کئی پہلوؤں سے فکر انگیز اور حیران کن ہے اور قرآن کریم کی باطنی خوبیوں کو ظاہر کرتی ہے.قرآن کریم کے الفاظ مبارک صرف ظاہری خوبیوں کے ہی حامل نہیں بلکہ باطنی معارف سے بھی پر ہیں.جن کی طرف اس کے حروف کے اعداد رہنمائی کرتے ہیں.یہ مضمون بہت دقیق ہے لیکن معین صورت میں ہے.قرآن کریم کی بعض سورتوں کی ترتیب ان کا آپس میں ربط اور ان کا بعض زمانوں کے ساتھ خاص تعلق رکھنا ما شاء اللہ بہت خوبی سے بیان کیا گیا ہے.اس طرح بعض سائنسی ایجادات کی بنیاد کا قرآن کریم میں پایا جانا اور مزید ایجادات کے لئے اس میں راستہ دکھانا اور قرآنی الفاظ کی گہرائی.فاضل مصنف نے ان تمام باتوں کی نشاندہی کی ہے جو انشاء اللہ بہت مفید ثابت ہوگی.7_5_76 والسلام، خاکسار مرزا عبد الحق دیکھئے عکس خط صفحہ نمبر 242 دیکھئے عکس خط صفحہ نمبر 243

Page 14

”“ 25 25 مکتوب نمبر 5 مکتوب سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن مکرم و محترم جناب مولانا ظفر محمد صاحب فاضل السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ امید ہے.آپ بفضلہ تعالیٰ بخیر وعافیت ہوں گے.وو آپ نے اپنا جو مقالہ بعنوان ” ، فضل عمر فاؤنڈیشن زیراہتمام منعقد ہونے والے انعامی مقابلہ تصانیف میں پیش کیا ہے سرسری جائزہ کے مطابق یہ مقالہ بفضلہ تعالیٰ بہت بلند پایہ کا حامل ہے.خصوصاً اس کے بعض ابواب عام علمی اور تحقیقاتی سطح سے بہت بالا بلکہ روحانی منازل کی نشاندہی کرتے ہیں.کمیٹی مقالہ جات یہ محسوس کرتی ہے کہ ان لطیف توضیحات سے اعلیٰ درجہ کی روحانیت سے مس رکھنے والے قدر قلیل اصحاب ہی اس میں دلچسپی محسوس کر کے اس سے مستفیض ہو سکیں گے.بنا بریں کمیٹی آپ کی خدمت میں یہ مشورہ عرض کرنا مناسب سمجھتی ہے کہ اس مقالہ کو انعامی مقابلہ تصانیف میں رکھنے کی بجائے مخصوص بلند پایہ روحانی ذوق رکھنے والے اصحاب کے استفادہ کیلئے آپ اپنے طور پر (سلسلہ کے قوانین کو ملحوظ رکھتے ہوئے) شائع فرمائیں.ادارہ ھذا آپ کے تعاون اور محنت کے لئے جو اس مقالہ کی تیاری میں “ 26 26 آں محترم نے سرانجام دیئے.آپ کا بہت ممنون ہے.اور اُمید کرتا ہے کہ عوامی علمی تحقیقی موضوعات پر اپنے علمی افادہ کا سلسلہ جاری رکھنے کی سعی فرماتے رہیں گے.وبالله التوفيق.جزاکم اللہ تعالی والسلام ( دستخط ) اقبال احمد شمیم بریگیڈیر(ر) سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن دیکھئے عکس خط صفحہ نمبر 245-244

Page 15

”“ 24-01-2017 مکتوب نمبر 6 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مکرم مولا نا ملک منصور احمد صاحب عمر مربی سلسلہ 27 27 میرا ایمان ہے کہ جیسے آنحضرت سالا ہی ہم اس وقت بھی خاتم النبین تھے جب حضرت آدم علیہ السلام ابھی پانی اور کیچڑ میں لت پت تھے.اسی طرح میرا ایمان ہے کہ اُم الالسنہ عربی زبان کا آغاز بھی حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے ہوا.نیز میرا یہ بھی ایمان ہے کہ عربی زبان جس میں کامل کتاب قرآن مجید نازل ہوئی اس کے الفاظ کے ساتھ ساتھ نیز اس کے حروف کے ساتھ ساتھ اس کی عددی قیمت کی تاریخ بھی اتنی پرانی ہے جتنی پرانی الفاظ اور حروف کی تاریخ ہے.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غلام احمد قادیانی نام کے اعداد 1300 بیان فرمائے ہیں.اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے تفسیر کبیر میں متعدد واقعات ( جو قرآن مجید میں درج ہیں ) کوسن اور تاریخ کے لحاظ سے حروف ابجد کی عددی قیمت میں ثابت کیا ہے.قرآن مجید کی ہر آیت کے مضمون کو مادی لحاظ سے اور سائنس کے اصولوں کے مطابق فارمولوں سے اور عددی قیمت میں ثابت کیا جاسکتا ہے.کتاب سے روشنی پا کر میں نے جب سیدنا حضرت خلیفۃ الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں اهْدِنَا الصِّرَاط الْمُسْتَقِيمَ “ کے اعداد اور الفاظ پیش کئے تو حضور انور نے خاکسار کو اپنے مبارک الفاظ میں اظہار خوشنودی عطا فرمایا.“ 28 تبصرہ مکرم مولا نا نصر اللہ خان ناصر صاحب مرحوم سابق ایڈیٹر ماہنامہ انصار اللہ ربوہ ) زیر تبصرہ کتاب ، حضرت مولانا ظفر محمد ظفر مرحوم کی تصنیف ہے جو سالہا سال کی محنت شاقہ اور تحقیقات کا نتیجہ ہے.موصوف کا یہ علمی اور تحقیقی مسودہ 1972 ء سے پہلے کا تکمیل پذیر ہو چکا تھا مگر اشاعت اب ہوئی ہے مگر ربع صدی پہلے قرآنی معارف کی صداقت زمانہ حال کے انکشافات کے عین مطابق نظر آتی ہے.تفسیر القرآن کا یہ دلکش بیان مقطعات قرآن کے مخفی اسرار پر مشتمل ہے.حروف تہجی کی عددی قیمت کے مطابق حروف مقطعات سے اسرار مخفیہ کا انکشاف ہی در حقیقت اس کتاب کا محور ہے جس سے عمیق در عمیق تفسیری پہلو سامنے آتے ہیں.اس کتاب کے پانچ ابواب میں حروف مقطعات، اسماء الانبیاء قصص قرآنی کوحروف ابجد کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے.اور واقعات کے ساتھ بہت عمدگی سے تطبیق دی گئی ہے.نیز آخری باب میں اخبار غیبیہ کا بیان ہے.جس میں دور حاضر کی اختراعات اور اکتشافات کو بیان کیا گیا ہے.خصوصاً کشش ثقل ، زمانہ حال کی ایجادات ٹیپ ریکارڈر ، وائرلیس ریڈیو اور ائیر کنڈیشنر کا ذکر کیا گیا جو قرآنی صداقت پر عظیم الشان دلیل ہے.اسی حصہ میں عمر دنیا اور تخلیق کا ئنات کے زمانہ پر بھی بحث ہے اور سائنس دانوں کو مزید تحقیقات کی دعوت دی گئی ہے.

Page 16

”“ 29 29 222 صفحات پر مشتمل یہ کتاب نہایت بلند پایہ علمی کاوش ہے جو قرآنی صداقتوں کا تابندہ ثبوت ہے اور ربع صدی بعد اس کتاب کی اشاعت کے لئے اس کے پبلشرز مبارک باد کے مستحق ہیں.یقینا یہ علمی تحقیقی کتاب اہل دانش اور علمی طبقہ کے لئے ان کی تشنگی دور کرنے کا موجب ہوگی...یہ حقیقت ہے کہ یہ موضوع سخن اور ی تفسیری پہلو بقول مصنف تری سورتوں میں تجلیات ربوبیت کا ظہور ہے ترے لفظ لفظ میں نور ہے ترے حرف حرف میں آب ہے تری فاتحہ کا وجود بھی تیرا معجزه در معجزه تو لباب سارے علوم کا تو یہ تیرا لب لباب ہے روزنامه الفضل 11 اگست 2001 صفحہ 5) “ قصیده در مدح قرآن کریم قرآن پاک جہاں میں تو وہ بے مثال کتاب ہے جو کمال حسن و جمال میں فقط آپ اپنا جواب ہے 30 30 تری سورتوں میں تجلیات ربوبیت کا ظہور ہے ترے لفظ لفظ میں نور ہے ترے حرف حرف میں آب ہے تری بسملہ بھی عجیب ہے کہ جو برکتوں کی کلید ہے جو عمل ہو اپنا اعوذ پہ تو وہ شیطنت پر شہاب ہے تری فاتحہ کا وجود بھی ترا معجزه در معجزه تولباب سارے علوم کا تو یہ تیرا لب لباب ہے شاداب ہے دلِ زندگی تری آبیاری کے فیض سے تری آبیاری اگر نہ ہو تو یہ زندگانی سراب ہے تیری آیہ آیہ کے ربط میں ترے امر و نہی کے ضبط میں مری زندگی کا ہے ضابطہ مری بندگی کا نصاب ہے کبھی شرق میں کبھی غرب میں تری رحمتوں کی ہیں بارشیں ہے جہاں جہاں پہ کرم ترا ہمہ گیر تیرا سحاب ہے

Page 17

32 32 31 جو نہ پی سکا وہ نہ جی سکا جو نہ جی سکا وہ نہ پی سکا کچھ اس طرح کی صفات سے موصوف تیری شراب ہے تو کلام رب خبیر ہے تو نشان شان قدیر ہے تیرا کر سکے جو معارضہ بھلا کس غریب کی تاب ہے تدبر فی القرآن کا طریق قرآن کریم میں تدبر مندرجہ ذیل طریق سے کرنا چاہئے.اول: دعا.:دوم وقت نزولی کے کوائف.سوئم فطرت انسانیہ کالحاظ چهارم: کتب سماوی کا علم پنجم ان اسماء الہیہ کا گہرا مطالعہ جو آیات کے آخر میں آتے ہیں.اور ان ششم: قصص انبیاء کے تکرار اور محل وقوع میں غور و خوض اور مختلف مقامات ترا ایک یہ بھی کمال ہے کہ مقطعات کی ذیل میں تری اُمتِ اسلام کی دو نشاتوں کا حساب ہے مجھے رحم آتا ہے اے ظفر ان بدنصیبوں کے حال پر جو جہاں میں آج ذلیل ہیں اور پاس ایسی کتاب ہے کا باہم موازنہ.میں الفاظ کے اختلاف میں تدبر.ہفتم: سورتوں میں باہمی ربط اور ان کے نام سے سورۃ کے مضمون کا مرکزی نقطہ معلوم کرنا.ہشتم: آیات کا باہمی ربط اور بظاہر بے ربطی کے مقام پر خاص توجہ.نہم: الفاظ کے انتخاب میں غور کرنا یعنی یہ سوچنا کہ اس لفظ کے استعمال میں کیا حکمت ہے اس کی بجائے اس کا متبادل کیونکر نہیں رکھا اور پھر قرآن کریم میں اس لفظ کا استعمال دیگر مقامات پر اور پھر اس مجموعی کیفیت سے استنباط.دہم : قرآن کریم کے مقطعات میں غور و خوض خود قرآن کریم کی روشنی میں.یازدہم قرآن کریم کا سورہ فاتحہ سے تو اطو یعنی اس امر میں غور کرنا کہ قرآن

Page 18

”“ 33 33 کریم کی جو آیت یا سورۃ یا مضمون زیر غور ہے اسے سورہ فاتحہ کی کس آیت سے نسبت ہے.دوازدهم: حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دیگر محدثین امت کی تفاسیر کا گہرا مطالعہ.(روز نامه الفضل 11 جولائی 1983 ، صفحہ 6,5) “ 34

Page 19

”“ باب اوّل تمہیدی حقائق 35 “ 56 36

Page 20

”“ تعارف کتاب 40 37 خاکسار نے قریباً پانچ چھ سال کی عمر میں خواب میں دیکھا کہ قرآن پاک اول سے آخر تک میرے دل کے آئینے میں اس طرح چمک رہا ہے کہ بیک وقت اس کا ہر لفظ میری نگاہوں کے سامنے ہے، یہ بشارت ظاہر ہے کہ میرے کسی عمل کی جزا یا صلہ بی تھی بلکہ محض فیضان رحمانیت تھا کہ جس سے مجھے نوازا گیا ورنہ من آنم کہ من دانم البتہ اتنا میں سمجھتا ہوں کہ یہ مبارک خواب میرے والد بزرگوار حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب کی دعاؤں کا نتیجہ تھا.میرے والد بزرگوار ایک دعا گو بزرگ تھے.قرآن شریف کے حافظ ہونے کے علاوہ عربی اور فارسی میں بھی انہیں کافی دسترس تھی.مثنوی رومی سے انہیں بے حد دلچسپی تھی بعض سفید ریش پٹھان اور بلوچ آپ سے با قاعدہ مثنوی رومی کا درس لیتے تھے.یہ بوڑھے طالب علم ایک حلقہ بنا کر مسجد میں بیٹھتے تھے اور پھر سب مل کر مثنوی رومی کے چند اشعار ایک ایسی دلکش ئے سے پڑھتے تھے کہ سننے والے جھوم اُٹھتے تھے.آپ ایک صاحب الہام بزرگ تھے.مجھے یاد ہے کہ بچپن میں میری آنکھیں عموماً خراب رہتی تھیں اور والد صاحب کو یہ فکر رہتا تھا کہ کہیں میں تعلیم سے محروم نہ رہ جاؤں.اس لئے آپ عموماً میرے لئے دعا کرتے رہتے تھے.آخر ایک دن مجھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا ” مبارک ہو تم پڑھ جاؤ گے.اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ تمہاری آنکھیں ٹھیک ہو جائیں گی.حضرت والد صاحب نے میرا خواب تو سنا ہی ہوا تھا اس لئے آپ نے مجھے جبکہ میں قریباً 13 سال کا تھا مدرسہ احمدیہ قادیان میں داخل کرا دیا.خاکسار نے 1929ء “ 38 میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا اور اس طرح قرآن شریف کے معانی اور مطالب کو سمجھنے کی استعداد پیدا ہوگئی.قرآن شریف کے حروف مقطعات میرے لئے ہمیشہ معمہ بنے رہے.متواتر تدبر کرتا رہا.ایک طویل جد و جہد کے بعد آخر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اس ناچیز پر یہ حقیقت منکشف فرما دی که حروف مقطعات کا ماخذ سورۃ فاتحہ ہے اور سورۃ فاتحہ ہمارے فاتح نبی حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور صورت ہے.اور یہ کہ امت محمدیہ کی عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک کا ظل محدود ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر نبوت کے 23 سال کے مقابل امتِ محمدیہ کی عمر بحساب شمسی نیکس صد سال ہے اور قمری حساب کے مطابق امت محمدیہ کی عمر بعد از وصال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم 2363 سال ہے اور بعد از ہجرت 2373 سال ہے اور یہ کہ قرآن شریف کی ترتیب زمانی کی بنیاد بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ پر ہے یعنی جس طرح آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے چار دور ہیں.اسی طرح قرآن شریف کی ترتیب بھی چار حصوں میں منقسم ہے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا پہلا حصہ وہ ہے جو نبوت سے ماقبل کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے اور یہ دور چالیس سالہ ہے اور یہ 40 کا عدد حرف ”م“ کا عدد ہے.دوسرا دور مکہ میں نبوی زندگی کا ہے.یہ دور تیرہ سالہ ہے.لفظ احمد میں سے جب حرف ’م خارج ہو جائے تو باقی حروف بصورت اُحد باقی رہ جاتے ہیں جن کے اعداد تیرہ ہیں اور یہ حضور کی مکی نبوی زندگی کا زمانہ ہے.گویا حضور نے جب مکہ سے ہجرت فرمائی تو حضور کی عمر مبارک 53 سال تھی اور یہ لفظ احمد کے اعداد ہیں.تیسرا دور عبوری ہے یعنی مکہ سے مدینہ کی طرف منتقل ہونے کا دور.اس دور کی علامت غار ثور کی تین تاریک راتیں ہیں اور یہ تین راتیں حضور کی زندگی کے اُن مصائب کے مشابہ ہیں جو دسویں سن نبوت میں حضرت ابو طالب اور حضرت خدیجہ

Page 21

“ 39 39 کی وفات کے بعد عام الحزن کی صورت میں سامنے آئے.ملت میں یہی تین راتیں یا یہی تین سال یعنی گیارھواں ، بارھواں اور تیرھواں سال گیارھویں، بارھویں اور تیرھویں صدی کی صورت میں سامنے آئے.سورۃ فاتحہ اس دور کو لفظ ”صراط سے تعبیر کرتی ہے اس لفظ کے اعداد پورے تین سو ہیں.66 چوتھا دور مدنی زندگی کا ہے.سورۃ فاتحہ اس دور کو لفظ اھل“ سے تعبیر کرتی ہے.اس لفظ کے اعداد پورے دس ہیں اور یہ وہی دس سال ہیں جو حضور نے مدینہ میں گزارے.ملت میں یہی لفظ نشاۃ ثانیہ کا مظہر ہے.گویا اسلام کی نشاۃ ثانیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی نشاۃ ثانیہ کی جو مدینہ سے شروع ہوئی ظل محدود ہے.خلاصہ یہ کہ اس طویل جدوجہد کے نتیجے میں ایسے لطیف اور دقیق معارف حاصل ہوں گے جو انسان کے وہم وگمان سے بالاتر ہیں.حروف مقطعات سورۃ فاتحہ کی جو ام الکتاب بھی کہلاتی ہے بیٹیاں ہیں اور سارا قرآن شریف انہیں کے اشارے کے مطابق چل رہا ہے جب یہ کسی سورت کا کسی معین زمانے سے لگاؤ دکھاتی ہیں تو کتاب مکنون کے چہرے پر جو زمانے کا پردہ پڑا ہوا ہے وہ پردہ اُٹھ جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کے قول و فعل میں مطابقت پیدا ہو جاتی ہے.خدا تعالیٰ کا فعل اس کے قول کی تفسیر کرتا ہے اور قول فعل کی تفسیر کرتا ہے اور پھر ایسے لطیف و دقیق مضامین سامنے آجاتے ہیں جو اپنے حسن و جمال میں لُؤْلُو مَّكْنُون کے مشابہ ہوتے ہیں.سوکتاب ھذا قرآن کریم میں تدبر کے لئے ایک نئے زاویہ فکر کی حامل ہے اور یہ ظاہر ہے کہ ہرنئی بات جو پہلے کبھی نہ کہی گئی ہو اُس میں اجنبیت اور بیگانہ پن کا احساس ضرور ہوتا ہے.پس اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے بھی یہ احساس ضرور کار فرما ہو گا مگر یہ احساس صرف اس وقت تک رہے گا جب تک یہ کتاب جزوی طور پر زیر “ 40 مطالعہ رہے گی لیکن اگر ساری کتاب کا آخر تک مطالعہ کیا گیا تو پھر انشاء اللہ یہ احساس اجنبیت جاتا رہے گا اور اس کی بجائے قرآنِ کریم کا ایک ایسا معجز نما پہلو سامنے آجائے گا جو اس سے پہلے ملت اسلامیہ کی 1400 سالہ تاریخ میں کبھی سامنے نہیں آیا.اس پاک کتاب کے بارے میں اس دنیا میں متضاد نظریات پائے جاتے ہیں.ایک طرف کفار ہیں کہ اسے أَسَاطِيرُ الْاَولین قرار دیتے ہیں.ایسے ہی ولیم میور کا قول ہے کہ انسانیت کے سب سے بڑے دشمن دو ہیں.محمد کی تلوار اور محمد کا قرآن لائف آف محمدؐ.صفحہ 535 ایڈیشن 1877ء ) نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذلك.دوسری طرف مومنین ہیں جو اسے ایک بے مثال کتاب قرار دیتے ہیں لیکن ان میں سے بھی بعض کا کہنا ہے کہ قرآن میں ہمیں تو کوئی خاص معجز نمائی نظر نہیں آتی ( بحر محیط صفحہ 8) ایسے ہی ہمارے زمانے کے ایک ماڈرن مولوی یعنی ابوالاعلیٰ صاحب مودودی کا کہنا ہے کہ قرآن کریم آسمانی کتاب میں نہ تصنیفی ترتیب پائی جاتی ہے اور نه کتابی اسلوب تفہیم القرآن مقدمہ صفحہ 20 طبع 1951ء) مودودی صاحب کا یہ موقف نہایت افسوسناک ہے وہ اپنی تحریروں اور تقریروں کو تو مرتب سمجھتے ہیں لیکن کتاب اللہ کو غیر مرتب قرار دیتے ہیں.ادب کا مقام تو یہ ہے کہ وہ اور ان کے ہم نو ا علماء بجائے کتاب اللہ کو غیر مرتب قرار دینے کے اپنے ذہن کو نارسا قرار دیتے اور اعتراف کرتے کہ ہم اس بے نظیر کتاب کی ترتیب کو سمجھنے سے قاصر ہیں.بعض علماء نے قرآن شریف کو ایک مرتب کتاب قرار دیا ہے اور اسے مرتب ثابت کرنے کیلئے اپنے اپنے رنگ میں مختلف تو جیہات سے کام لیا ہے لیکن ان علماء میں کوئی دو عالم بھی ایسے نہیں ہیں جو باہم متحد ہوں.ہر ایک کا اپنا اپنا رنگ اور اپنا اپنا نظریہ ہے.لہذا اس امر کا قطعی ثبوت مہیا کرنا کہ قرآن شریف ایک مرتب کتاب ہے

Page 22

”“ بظاہر بڑا مشکل ہے.41 حقیقت یہ ہے کہ قرآن شریف ایک ذوالوجوہ اور ذوالمعارف کتاب ہے.اس کی ترتیب کے کئی پہلو ہیں.ایک پہلو وہ تھا جب وہ نازل ہوئی تھی.اس وقت ، وقت کا تقاضا یہ تھا کہ وہ اس ترتیب سے نازل ہو کہ جس ترتیب سے نازل ہوئی.دوسرا پہلو تر تیب وضعی کا ہے.یہ پہلو دراصل ایسا ہے جیسے کوئی ماہر موجد کسی اپنی مشین میں گل پرزے لگاتا ہے اور پھر اس کی مشینری کام کرنے لگ جاتی ہے.ظاہر ہے کہ کوئی ایسا انسان جو اُس مشینری کی حقیقت سے بے خبر ہے اس کے کل پرزوں کی ترتیب کو نہیں سمجھ سکتا.میرے نزدیک قرآن شریف کی ترتیب وضعی ایک روحانی ترتیب ہے جس کا ادراک صرف اہل اللہ ہی کر سکتے ہیں.اس ترتیب کو زمانہ سے کوئی تعلق نہیں.قرآن شریف کی تیسری ترتیب زمانی ہے اور یہ ترتیب حروف مقطعات کی روشنی میں حاصل ہوتی ہے.اگر اس ترتیب کو مد نظر رکھا جائے تو قرآن شریف پر جس قدر بھی بے ترتیبی کے اعتراضات وارد ہو سکتے ہیں سب رفع ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس کتاب کی افادی حیثیت کو شرف قبولیت بخشے.اسے نافع الناس بنائے اور قرآن کریم کی اعلیٰ اور ارفع شان کے اظہار کیلئے اسے ایک روشن مینار کا مقام عطا فرمائے.آمین.رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ “ عمر دنیا (روایات کی روشنی میں) 42 عمر دنیا سے ہماری مراد زمین و آسمان کی پیدائش نہیں ہے اور نہ ہی انسان کی ابتدائی تخلیق بلکہ اس سے مراد شجرہ تخلیق انسان کا پختہ پھل یعنی ہمارے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت صغریٰ یا قیامت کبری تک کا زمانہ ہے سو اس دور کے متعلق اسلامی نظریہ حسب ذیل ہے.ا.احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ آدم سے لے کر آخیر تک عمر دنیا سات ہزار سال ہے چنانچہ حکیم ترندی نے نَوَادِرُ الأُصُولِ “ میں لکھا ہے کہ سب سے زیادہ گنہگار انسان دوزخ میں اتنا عرصہ رہے گا جتنا عرصہ کہ مخلوق کی پیدائش سے لے کر اُس کے فنا ہو جانے تک کا ہے اور وہ سات ہزار سال ہے.(بحجم الکرامہ صفحہ 38) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سات ہزار سال کا اندازہ قرآن شریف کی آیت ان يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ (الحج: 48) ( ترجمہ: یقینا تیرے رب کے پاس ایسا دن بھی ہے جو اس شمار کے مطابق جو تم کرتے ہو ایک ہزار برس کا ہے) کے پیش نظر لگایا گیا ہے.جب خدا تعالیٰ کے نزدیک ایک دن ہزار سال کا ہے تو ظاہر ہے کہ ہمارے سات دن کے مقابلے میں سات ہزار سال دیئے جائیں لیکن سات ہزار کے لفظ سے یہ مستبط نہیں ہوتا کہ ضرور پورے سات ہزار برس پورے کر کے قیامت آجائے گی.وجہ یہ ہے کہ اول تو یہ امر مشتبہ رہے گا کہ اس جگہ خدا تعالیٰ نے سات ہزار سال سے شمسی مدت مراد لی ہے یا قمری حساب کی عمر شمسی حساب

Page 23

" “ 43 سے اگر سات ہزار سال ہو تو قمری حساب سے دوسو برس اور اوپر جائیں گے اور ماسوا اس کے چونکہ عرب کی عادت میں یہ داخل ہے کہ وہ کسور کو حساب سے ساقط رکھتے ہیں اور مخل مطلب نہیں سمجھتے اس لئے ممکن ہے سات ہزار سال سے اس قدر زیادہ بھی ہو جائے جو آٹھ ہزار تک نہ پہنچے.مثلاً دو تین سو برس اور زیادہ ہو جائیں.اسلام کی دونشا تھیں چودھویں صدی میں یہ احساس عام ہو گیا ہے کہ ملت میں پھر بیداری کے آثار پیدا ہورہے ہیں اور غیر مسلم قو میں بھی یہی محسوس کر رہی ہیں کہ مسلمان پھر بیدار ہور ہے ہیں لیکن باوجود اس احساس کے مسلمانوں میں ابھی یہ شعور پیدا نہیں ہوا کہ یہ بیداری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی کی آئینہ دار ہے.دیکھیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو نام ہیں یعنی محمد اور احمد اور یہ دونوں نام اپنی ذات میں اسلام کی دو نشاتوں کی نشاندہی کرتے ہیں.لفظ محمد محجلالی شان کا حامل ہے اور لفظ احمد جمالی شان کا.چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت سے محمد کی جلال کے ظہور کا آغاز ہوا اور یہ قریباً ہزار سال تک قائم رہا.بعد میں تین سو سال کا عبوری دور آیا پھر جمالی شان کا رنگ شروع ہوا.جمالی اور جلالی شانوں میں فرق یہ ہے کہ جلالی دور میں طاقت کا جواب طاقت سے دینا پڑا اور جب جنگ ناگزیر ہوگئی تو جنگ سے ہی کام لینا پڑا.اس کے برعکس جمالی شان کا تعلق صرف براہین و دلائل سے ہے.اس دور میں اسلام نے بجائے دفاع کے دوسری قوموں پر دلائل عقلیہ سے حملہ کیا نہ کہ سیف وسنان سے ایسے ہی لفظ مکہ اور مدینہ میں بھی یہی اشارات پائے جاتے ہیں مکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نشاۃ اولیٰ کا مظہر ہے اور مدینہ نشاۃ ثانیہ کا.ملکہ کو قرآن شریف نے بکتہ کہا ہے اور لغت میں اس لفظ کے متعلق لکھا ہے کہ:.“ 44 سميت بذلك لا نُدِحَامِ النّاسِ وَيُقَالُ سُمِيَتْ لا نَّهَا كَانَتْ تبكُ أَعْنَاقَ الْجَبَابِرَة..یعنی اس کا نام بلکہ اس لئے رکھا گیا ہے کہ اس میں لوگوں کا ازدحام اور ہجوم ہوگا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بکتہ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ گردن کشوں کی گردنیں توڑتا ہے.اور پھر لغت میں یہ بھی لکھا ہے کہ بَكَهُ زَاحَمَهُ، وَبَكَ عُنُقَهُ دَقَهَا یعنی بکتہ کے یہ بھی معنی ہیں کہ اس نے مخالفت کی مزاحمت کی اور اس کی گردن توڑ دی.اور ایسے ہی لکھا ہے:.تبَاكَتِ الْإِبِلُ عَلَى الْحَوْضِ تَزَاحَمَتْ یعنی اونٹوں نے پیاس کے مارے حوض پر ایک دوسرے کی مزاحمت کرتے ہوئے ہجوم کیا.(اقرب الموارد) سوان جملہ معانی کا جز ومشترک یہ ہے کہ یہ شہر مرجع خلائق ہوگا اور اگر اس کے مقابل کوئی سرکشی دکھائے گا تو یہ اس کے سر کو توڑ دے گا.لہذا یہ معنی دفاع (Defence) کے ہیں.سونشاۃ اولیٰ کا مقام بھی یہی رہا ہے جب ان پر ظلم ہوا تو انہیں تلوار اٹھا لینے کی اجازت دے دی گئی.اس کے مقابل لفظ مدینہ تہذیبی ترقی اور اعلیٰ تمدن کی طرف اشارہ کرتا ہے.سو اسلام کی نشاۃ ثانیہ بھی اس حقیقت کی مظہر ہے.ایسے ہی سُبْحَنَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بُرَكُنَا حَوْلَہ.( بنی اسرائیل : 2 ) کے الفاظ میں بھی دو نشاتوں کی طرف اشارہ ہے.مسجد حرام کا لفظ نشاۃ اولی کے لئے ہے اور مسجد اقصیٰ کے الفاظ نشاۃ ثانیہ کے لئے ہیں اور اس مسجد کے ساتھ بَارَكُنَا حَوْلَهُ بڑھایا گیا ہے تا کہ یہ اشارہ ہو کہ نشاۃ ثانیہ جامع البرکات ہے.اس موقع پر یہ امر قابل ذکر ہے

Page 24

”“ 45 کہ قرآن کریم میں لفظ آسٹری جہاں جہاں بھی استعمال ہوا ہے وہاں ہجرت مراد ہے.سو اس آسٹری میں بھی اس سیر زمانی کا ذکر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کرائی گئی سی وہ کوائف ہیں جو بدیہی طور پر نظر آ رہے ہیں.یاد رہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی اور مدنی زندگی احمدی اور محمدی دور کا نمونہ ہے.حضور کی مکی زندگی جمالی تھی اور مدنی زندگی جلالی تھی.سو اس جلالی دور سے نشاۃ اولی کی ابتدا ہوئی اور پھر جب اس میں ضعف آگیا تو پھر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کے ان تین سالوں کے مشابہ ہو گئی جو خاموشی اور اخفاء کے تھے یا آخری تین سال جو تکلیف کے تھے اور یہی حالت گیارھویں، بارھویں اور تیرھویں صدی میں ملت کی رہی ہے.اس کے بعد نشاۃ ثانیہ کی ابتدا ہوئی اور یہ نشاۃ بھی اپنی ابتدا میں ایک عرصہ تک سیاسی طور پر کی زندگی کے مشابہ ٹھہری لیکن دلائل و براہین کے میدان میں مدنی زندگی کے ہمرنگ ہو گئی اور پھر یہی نشاۃ ایک مدت کے بعد جو خیر القرون کے لگ بھگ ہے جلالی اور جمالی شان کے دونوں رنگوں سے رنگین ہو جائے گی.ایسے ہی بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم کے کلمات بھی ملت اسلامیہ کو اپنی کیفیت کے اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں.حصہ اول رحمانیت کا مظہر ہے یعنی جاہ وجلال والا اور خدا تعالیٰ کی توحید اور تنزیہہ کا ثبوت بہم پہنچانے والا اور طاقت کا جواب طاقت سے دینے والا.دوسرا حصہ رحیمیت کا مظہر ہے یعنی جمال اور علوم و معارف کا حامل ہے اور دلائل کا جواب دلائل سے دینے والا ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کی تصدیق قرآن شریف کی اس سورت سے بھی ہوتی ہے جو سب سورتوں سے پہلے نازل ہوئی یعنی سورۃ علق سے جیسے فرمایا: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اِقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ “ علق : آیات 2 تا 6 ) مَالَمْ يَعْلَمُ ترجمہ: پڑھ اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا.اس نے انسان کو ایک چمٹ جانے والے لوتھڑے سے پیدا کیا پڑھ، اور تیرا رب سب سے زیادہ معزز ہے جس نے قلم کے ذریعہ سکھایا.انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا.46 46 ان آیات کے بارے میں علامہ موسیٰ جار اللہ اپنی کتاب ” فی مُحُرُوفِ أَوَائِلِ الشور “ میں لکھتے ہیں :.قَوْلُهُ اِقْرَأْ مَرَّتَيْنِ يُشير الى الْمَبْعَتَيْنِ الْمَبْعَثُ الْأَوَّلُ يَتَعَلَّقُ بِالْعَلَقِ وَهُوَ مِنَ اللَّهِ وَالثَّانِي بِالْقَلَمِ.یعنی اللہ تعالیٰ کے ان الفاظ میں لفظ اقرا کا دودفعہ آنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بعثوں کی طرف اشارہ کرتا ہے.پہلی بعثت کا تعلق’علق سے ہے اور خون سے تعلق رکھنے والی چیز ہے.جس کے معنی یہ ہیں کہ بعثت اولیٰ میں خون ریزی کرنی پڑے گی اور بعثت ثانیہ میں بجائے تلوار کے قلم سے کام لیا جائے گا.اور یہی مفتر اس دعوئی کی تائید میں آیت وَآخَرِينَ مِنْهُمْ “ کو بطور ثبوت پیش کرتے ہیں.وہ فرماتے ہیں.دو علق يَرَى الْإِمَامُ السّنْدِي فِي قَوْلِ اللَّهِ وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ" مَا يَرَاهُ النَّاسُ وَفِي قَلْبِي مِنْهُ شَيْءٌ لَا أَنْكِرُ صِحةَ مَا يَرَاهُ النَّاسُ وَيَرَاهُ الْإِمَامُ السّنْدِي مِنْ جِهَةِ الْمَعْنَى وَإِنَّمَا أَرَى فِيْهِ شَيْئًا مِنْ جِهَةِ نَحْوِ الْكَلَامِ فَإِنَّ ضَمِيرَ وَآخَرِينَ مِنْهُمُ لَا يُمْكِنُ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى الْأُمِّيِّينَ فِي أَوَّلِ الْآيَةِ الثَّانِيَةِ فَإِنَّ الْآخَرِيْنَ لَيْسُوا مِنَ الْأُمِّيِّينَ وَالْبَعْضُ مِنَ الْأُمَمِ

Page 25

”“ 47 “ 48 الْآخَرِيْنَ إِنْ كَانَتْ أُمِّيَّةً فَلَا ضَرُورَةً تُلْجِتُنَا إِلَى أَنْ نَقُولَ اِنَّ بَعْثَ النَّبِيِّ مُحَمَّدٍ خَصَّهُ اللهُ إِلَى الْأُمَمِ الأُمِّيَّةِ فَقَط فَعَلى مَايَرَاهُ النَّاسُ وَيَرَاهُ الْإِمَامُ السّنْدِي لَا يَبْقَى فِي الْآيَةِ مَرْجِعُ لِضَمِيرِ مِنْهُمْ وَلَا يَكُونُ فِي مِنْهُمْ إِفَادَةٌ غَيْرَ تَخْصِيصِ رِسَالَةِ الْقُرْآنِ الْكَرِيمِ وَرِسَالَةِ صَاحِبِ الْقُرآنِ الْكَرِيمِ لِلْامَةِ الْأُمِيَّةِ وَالتَّخْصِيْصُ غَيْرُ مَطلُوبِ بَلِ التَّخْصِيْصُ يُنَاقِضُ نُصُوصَ آيَاتٍ كَثِيرَةٍ مِنَ الْكِتَابِ الْكَرِيمِ.کتاب فی حروف اوائل السور صفحہ 132) ترجمہ :.قرآن کریم کے الفاظ وَ آخَرِينَ مِنْهُمْ “ کے بارے میں امام سندی کی وہی رائے ہے جو دوسرے لوگوں کی ہے.لیکن میں اس سے مطمئن نہیں ہوں.گواز روئے معنی میں امام سندی اور دوسرے لوگوں کے نظریے کی صحت کا انکار نہیں کرتا لیکن مجھے جو بات کھٹکتی ہے وہ از روئے نحو کلام ہے.کیونکہ منہم کی ضمیر کا مرجع لفظ امین نہیں بن سکتا.وجہ یہ ہے کہ آخرین یعنی دوسرے سب لوگ امی نہیں ہیں.اور اگر ان میں بعض امی ہوں بھی تو ہمیں کوئی ایسی مجبوری در پیش نہیں ہے کہ ہم بعثت محمدی کو صرف ان پڑھ قوموں کے لئے مخصوص کر دیں.سو امام سندی اور دوسرے لوگوں کی رائے کو اگر اختیار کیا جائے تو پھر ” منهم “ کی ضمیر کا کوئی مرجع نظر نہیں آتا اور پھر لفظ ” منهُم “ کا سوائے اس کے کہ وہ قرآن اور صاحب قرآن کی رسالت کو ان پڑھ قوموں سے مخصوص کر دے اور کوئی فائدہ نظر نہیں آتا.حالانکہ آنحضرت سالی یتیم کی رسالت کو امی قوموں کے لئے مخصوص کرنا مطلوب نہیں ہے بلکہ اس قسم کی تخصیص قرآن کریم کی بہت سی نصوص کی مخالف ہے.دو و وو މވ 66 اس اعتراض کے بعد علامہ موصوف اس آیت کے جو معنی بیان کرتے ہیں وہ حسب ذیل ہیں :.وَمَعْلَى هَذِهِ الْآيَةِ الْكَرِيمَةِ الثَّالِثَةِ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنَ الْأُمِّيِّينَ وَ بَعَثَ فِي آخِرَيْنَ رُسُلًا مِنْ آخَرِيْنَ.فَكُلُّ أُمَّةٍ لَّهَا رَسُولٌ مِّنْ نَفْسِهَا وَهُؤُلاءِ الرُّسُلُ هُمْ رُسُلُ الْإِسْلَامِ فِي الْأُمَمِ مِثْلُ أَنْبِيَاءِ بَنِي إسْرَائِيلَ - هُمْ رُسُلُ التَّوراةِ فِي بَنِي اسْتَرَائِيلَ 66 ( کتاب فی حروف اوائل السور صفحه 133 ) یعنی اس تیسری آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک رسول کو امتیوں میں بھیجا اور کچھ دوسرے رسول ، دوسرے لوگوں میں بھیجے.سو ہر اُمت کا اپنا اپنا رسول ہے اور ان رسولوں سے مرا در سل اسلام ہیں جو دوسری قوموں میں مبعوث ہوں گے.جیسے کہ تو رات کے پیغمبر بنی اسرائیل میں مبعوث ہوئے.علامہ موصوف کی ان تصریحات سے ظاہر ہے کہ وہ نشاۃ ثانیہ کے رسل کوتعلیم یافتہ رسل تسلیم کرتے ہیں جن کا تعلق بجائے تلوار کے قلم سے ہوگا اور وہ اپنے عہد کی علمی دنیا سے دلائل و بینات کی طاقت سے قرآن اور صاحب قرآن کی صداقت منوائیں گے.اس کے علاوہ ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب ہم قرآن شریف کی تلاوت کرنے لگیں تو پہلے اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ پڑھ لیا کریں.سوان کلمات سے بھی امت اسلامیہ کی دونشاتوں کی طرف اشارہ ہے.لفظ شیطان لفظ رحمن کے مقابل آیا ہے اور لفظ رجیم لفظ رحیم کے مقابل واقع ہوا ہے اور ان کلمات میں دراصل یہ پیشگوئی مضمر ہے کہ ملت اسلامیہ جو حزب الرحمن ہے ہمیشہ حزب الشیطان سے

Page 26

" “ 49 49 برسر پیکار رہے گی اور آخری زمانہ میں یہ جنگ اپنے نقطۂ عروج تک جا پہنچے گی اور ابلیسی طاقتیں یعنی دجالی قومیں جن سے مراد یا جوج و ماجوج ہیں جو اسلام کے نور کو بجھانے کیلئے اٹھ کھڑی ہوں گی.لیکن اللہ تعالیٰ ایسے اسباب پیدا کر دے گا کہ وہ نا کام و نامراد ہوکر آخر کار خود ہی مٹ جائیں گی.ان تمام کوائف سے ظاہر ہے کہ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوی زندگی دو حصوں میں منقسم ہوئی.ملت اسلامیہ بھی بعینہ اسی طرح دوحصوں میں منقسم ہے.نشأة اولیٰ کو مکی زندگی کے تیرہ سالہ دور کے مقابل تیرہ صدیاں حاصل ہوئیں.اور نشاۃ ثانیہ کو مدنی عہد کے دس سالہ دور کے مقابل دس صدیاں حاصل ہوں گی.خلاصہ یہ کہ جب سورۃ فاتحہ اور حروف مقطعات کا جائزہ لیا جائے تو وہ ان جملہ کوائف کی تصدیق کرتے ہیں.ان کو ائف تک ہم کس طرح پہنچے اس کی تفصیل آگے آئے گی.اعجاز القرآن معجزہ: معجزہ ایسے خارق عادت امر کو کہتے ہیں جس کے ساتھ چیلنج موجود ہو اور پھر کوئی اس چیلنج کا جواب نہ دے سکے اور اگر کوئی جواب دینے کی کوشش کرے تو ناکام رہے.اقسام معجزہ: معجزہ کی دو قسمیں ہیں (1) حسی (2) عقلی.بنی اسرائیل کے اکثر معجزات حسی تھے جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ قوم بڑی کند ذہن اور کم فہم تھی اور اس اُمتِ محمدیہ کے زیادہ تر معجزات عقلی ہیں جن کا سبب اس وقت کے افراد کی زکاوت اور ان کی عقل کا کمال ہے اور دوسرا سبب یہ ہے کہ شریعت مصطفوی چونکہ قیامت تک باقی “ 50 50 رہنے والی شریعت ہے اس واسطے اس کو یہ خصوصیت عطا ہوئی کہ اس کے شارع اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ قائم اور باقی رہنے والا عقلی معجزہ دیا گیا تا کہ اہل بصیرت اسے ہر وقت اور ہر زمانے میں دیکھ سکیں.(الاتقان.باب اعجاز القرآن صفحہ 352 حصہ دوم ) صاحب اتقان کا یہ نظریہ قرآن شریف اور حدیث شریف سے مستفاد ہے.قرآن شریف کا دعویٰ بھی یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآن ہے.چنانچہ فرمایا:.وَقَالُوا لَوْ لَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَاتٌ مِّنْ رَّبِهِ قُلْ إِنَّمَا الْأَيَاتُ عِنْدَ اللهِ وَإِنَّمَا انَ نَذِيرٌ مُّبِينٌ أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَى عَلَيْهِمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَى لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (العنکبوت آیت 51-52) ترجمہ: یہ لوگ کہتے ہیں اس نبی کو اس کے رب کی طرف سے کوئی معجزہ کیوں نہیں دیا گیا سو آپ ان سے کہہ دیجئے کہ معجزات کا دکھانا یا نہ دکھانا یہ خدا کا کام ہے اور میرا کام تمہیں متنبہ کرنا ہے اور پھر فرمایا ) کیا ان کافروں کے لئے یہ معجزہ کم ہے کہ ہم نے تجھ پر ایک ایسی کتاب اتاری ہے جوان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہے اور جس میں مؤمنین کے لئے رحمت اور نصیحت رکھ دی گئی ہے.اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے.خود حضور نے بھی یہی دعوئی فرمایا کہ میرا سب سے بڑا معجزہ میری وحی ہے چنانچہ حضرت ابو ہریرۃ" سے مروی ہے." قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ

Page 27

“ 51 “ 52 52 نَبِيُّ إِلَّا أُعْطِيَ مِنَ الْآيَاتِ مَا مِثْلُهُ آمَنَ عَلَيْهِ الْبَشَرُ وَ إِنَّمَا كَانَ الَّذِي أُوتِيتُ وَحْيَا أَوْحَى اللَّهُ إِلَى فَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَكْثَرَهُمْ تَابِعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ.“ ( بخاری فضائل القرآن) یعنی ہر نبی کو ایسا نشان دیا گیا کہ جس کو دیکھ کر اس کی قوم اس پر ایمان لا سکتی تھی لیکن جو چیز مجھے دی گئی ہے وہ وحی ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نازل فرمائی سوامید ہے کہ قیامت کے دن میرے ماننے والے تمام انبیاء کے ماننے والوں سے زیادہ ہوں گے.اس حدیث سے بھی صاف ظاہر ہے کہ حضور" کا سب سے بڑا معجزہ قرآن شریف ہے جو ہر زمانے کے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا رہے گا اور اس طرح حضور کے ماننے والے دوسرے انبیاء کی اُمتوں سے کہیں زیادہ ہو جائیں گے.حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم ایک ابدی معجزہ اور زندہ نشان ہے جو ہر وقت دکھایا جا سکتا ہے.عصائے موسی کا جو معجزہ دکھلایا گیا تھا اب اس کو کوئی کہاں سے لائے.اگر وہ ابدی ہوتا تو چاہئے تھا کہ اب تک کسی صندوق میں رکھا ہوتا اور کچھ حصہ اس کا سانپ بھی بنا ہوتا.اس کے برعکس قرآن شریف جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اس کی مثال ایک ایسے سدا بہار درخت کی سی ہے جو ہر زمانے میں ضرورت کے مطابق پھل دیتا ہے.اس کے دقائق اور معارف و حقائق بھی زمانہ کی ضرورت کے مطابق کھلتے ہیں.اس کے باطنی معارف جن کا وجود احادیث صحیحہ اور آیات بینہ سے ثابت ہے فضول طور پر کبھی ظہور نہیں کرتے بلکہ معجزہ فرقانی ایسے ہی وقت میں اپنا جلوہ دکھاتا ہے جبکہ اس روحانی معجزہ کے ظہور کی اشد ضرورت پیش آتی ہے.خاکسارا اپنی اس کتاب میں اس پاک کتاب کے تین ایسے معجزات پیش کر رہا ہے جو ہمارے اس زمانے میں آکر ظاہر ہوئے اور جن کی اس زمانے میں ضرورت تھی وہ معجزات حسب ذیل ہیں :.1 - قرآن شریف کے حروف اور ان کے اعداد بھی معارف مخفیہ سے خالی نہیں.ہی وہ دعوی ہے جو حضرت بانی جماعت احمد یہ مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب نزول امسیح (روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 422) میں فرمایا اور اس کے ثبوت میں سورۃ العصر کے اعداد پیش کر کے بتایا کہ ان اعداد میں آدم علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سنِ وصال تک کا زمانہ دے دیا گیا ہے.خاکسار اس دعویٰ کی تائید میں سورۃ فاتحہ ،حروف مقطعات اور اسماء انبیاء کے اعداد پیش کرتا ہے.2.حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام نے قرآن شریف کی معجزانہ شان کے بارے میں ایک اور عجیب دعوی فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ قرآن شریف صرف قصہ گو کی طرح نہیں ہے بلکہ اس کے ہر ایک قصہ کے نیچے ایک پیشگوئی ہے.“ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 119) اس دعوی کے ثبوت میں خاکسار ان تمام قصوں کے متعلق جن کا تعلق سورۃ طہ کے زمانے سے ہے اس کتاب میں مفصل بحث کر کے یہ ثبوت پیش کر رہا ہے کہ ان قصوں کا تعلق امت محمدیہ کے کس کس زمانہ سے ہے اور ان کا کن افراد سے خصوصی لگاؤ ہے.3.اس حصہ میں قرآن شریف کی ان اخبار غیبیہ کو پیش کیا گیا ہے جو ہمارے زمانے میں آکر پوری ہوئیں.اس عنوان کے تحت انکشافات نو اور اختراعات جدیدہ کے بارے میں یہ ثبوت بہم پہنچایا گیا ہے کہ قرآن شریف میں یہ حقائق پہلے سے

Page 28

53 53 موجود تھے لیکن اس وقت تک دنیا کو ان کی سمجھ نہ آئی جب تک کہ یہ انکشافات نو اور اختراعات جدیدہ ہماری آنکھوں کے سامنے نہ آگئیں.لہذا معجزات قرآن کے بارے میں ہمارا مقصد اس کی فصاحت و بلاغت کو ظاہر کرنا نہیں ہے کیونکہ اس بارے میں بہت سی کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور دور حاضر میں تو حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام نے معجزات قرآن کے بارہ میں جو کچھ لکھا ہے وہ اپنی شان میں تمام کتب سے بالا و برتر ہے.اگر کسی دل میں قرآن شریف کی معجزانہ شان کے متعدد پہلو دیکھنے کی تڑپ ہو تو اسے چاہئے کہ وہ آپ کی کتب کی طرف رجوع کرے.حروف تہجی اور ان کی عدوی قیمت حروف تجی کل 28 ہیں اور ان کے آٹھ گروپ ہیں.54 1 - أبجد حروف عددی قیمت で 4 3 2 1 و 2 هوز حروف DO و ز عددی قیمت 3 حظى حروف عددی قیمت 7 6 5 b 10 9 8 ی 4 كَلِمَن حروف ک ل عددی قیمت 50 40 30 20 5.سَعُفَص حروف س ع ف ص 6.قَرْشَتَ حروف ق عددی قیمت 60 70 80 90 ش ر عددی قیمت 100 200 300 400 7 محل حروف خ ز عددی قیمت 500 8.ضَطَعْ حروف ض عددی قیمت 800 700 600 b 1000 900 غ

Page 29

”“ ہزار کو عربی میں ”الف“ کہتے ہیں اور حدیث شریف میں یہ جو آیا ہے کہ 55 55 الْآيَاتُ بَعْدَ الْمِأَتين - (شکوہ محبتہائی باب اشراط الساعة الفصل الثالث صفحه 471) اس کے معنی یہی ہیں کہ حرف ”غ “ کے عدد ہزار کے بعد حرف ”ر“ کا عدد مقصود بالذات ہے کیونکہ “ کے عدد 200 ہیں.ان تمام حروف کا مجموعی عدد 5995 ہے.یہ عدد یا در کھنے کے قابل ہے کیونکہ آگے چل کر اس کی حکمت آپ کے سامنے آئے گی.حساب ابجد کے سمجھنے کیلئے چند اصولوں کا سمجھنا ضروری ہے.1.حروف کو آگے پیچھے کیا جاسکتا ہے.مثلاً لفظ مالک ہے آپ اگر اس کی حقیقت بیان کرنا چاہیں تو اس کے حروف کو آگے پیچھے کریں تو پھر آپ کو اس میں جو کمالات موجود ہیں نظر آجائیں گے بالفرض اگر آپ اسے الٹا پڑھیں تو لفظ کلام آپ کے سامنے آئے گا اور اسی لفظ سے لفظ کامل اکمل اور کمال بن سکتے ہیں.یہ طریق اختیار کرنا عددی حساب میں جائز ہے اور محلِ اعتراض نہیں کیونکہ اس سے مزید معارف حاصل ہوتے ہیں.فرض کریں لفظ مالک ہزار سال کے بعد واقع ہوا تو ہم ہزار سال کو حرف غ “ سے تعبیر کریں گے اور جب لفظ مالک اس کے ساتھ لگے گا تو پھر بجائے غمالک کے لفظ غلامك بھی ہمارے سامنے آسکتا ہے.2 عددی حساب میں شمسی ، قمری حساب کو بھی سامنے رکھنا پڑتا ہے.اس کا اصول ہمیں قرآن شریف نے یہ بتایا ہے کہ ہر شمسی صدی پر اگر تین سال کا اضافہ کر دیا جائے تو وہ قمری میں تبدیل ہو جاتی ہے جیسے کہ فرمایا اصحاب کہف نو او پر تین سوسال کہف میں رہے.ان کلمات میں اشارہ یہ ہے کہ شمسی حساب سے وہ پورے تین سو سال رہے اور قمری حساب سے تین صدیوں پر 9 سال کا اضافہ ہو گیا.3 - عددی حساب میں ایک اکائی کا تفاوت واقع ہوتا رہتا ہے مثلاً سورۃ العصر “ 56 56 میں جو لفظ اُمَنُوا موجود ہے اس کے الف کے اُو پر جو الف ہے اس کو شمار کرنا یا نہ کرنا ہمارے لئے جائز ہے.اس میں حکمت یہ ہے کہ اگر پورے سال ظاہر کرنے ہوں اور ناقص سال کو چھوڑ دینا مقصود ہو تو ہم اس الف کی اکائی کو ترک کر سکتے ہیں اور اگر ناقص سال بھی دکھانا مقصود ہو تو پھر ہم اس کو شمار کر لیں گے.سورۃ فاتحہ میں بھی یہ گنجائش رکھی گئی ہے.لفظ مالک کی ایک اور قرآت بھی ہے اور وہ ہے لفظ ملک.لہذا ہم حسب ضرورت اس اکائی کے شمار کرنے یا نہ کرنے میں مختار ہیں.اس کے علاوہ اگر بالفرض لفظ حمد اور لفظ غلام آپ کو اکٹھے نظر آئیں تو اُن ہی حروف کو آگے پیچھے کرنے سے احمد مغل کے حروف بھی نظر آسکتے ہیں.سو یہ کیفیت دراصل تصرف نہیں بلکہ یہ بصیرت کا ملہ ہے.جو حروف کے پوشیدہ حسن کو دیکھ لیتی ہے.4.حروف ابجد میں جو اعداد مساوی ہوں وہ ایک دوسرے کے مترادف کہلاتے ہیں مثلاً حروف مقطعات میں حرف ”ص“ کے اعداد 90 ہیں.ایسے ہی سورۃ فاتحہ کے لفظ ملک کے اعداد بھی 90 ہیں.لہذا یہ دونوں مترادف کہلائیں گے.آپ آگے چل کر دیکھیں گے کہ حرف ”ص“ اور لفظ ” ملك “ایک دوسرے کے متوازی واقع ہوں گے جس کے معنی یہ ہوں گے کہ حرف "ص" لفظ ” ملك “ کے قائم مقام ہے.66

Page 30

”“ 57 ب دوم الْمُعْجِزَاتُ في أَعْدَادِ الْفَاتِحَةِ وَالْمُقَطَعَاتِ “ 58

Page 31

”“ 59 “ 60 60 حروف مقطعات احادیث نبوی اور اہل اللہ کے کشوف کی روشنی میں حروف مقطعات کے بارے میں مختلف نظریات اختیار کئے گئے ہیں.بعض علماء نے کہا کہ یہ اسرار غیبیہ ہیں جن کا علم صرف خدا تعالیٰ کو ہے.ہم ان میں تدبر کرنے کیلئے مکلف نہیں ہیں.بعض نے کہا کہ نہیں یہ کتاب اللہ کی آیات ہیں اور آیات اللہ کے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ لِيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ (ص: 30) لہذا ہمیں ان میں تدبر کرنے کا حق ہے پھر جن لوگوں نے ان میں تدبر کیا ان میں سے بعض نے کہا کہ یہ اسماء اللہ ہیں اور بعض نے کہا کہ یہ انہی سورتوں کے مضامین کا خلاصہ ہیں اور بعض نے کہا کہ یہ امتوں کی اجل کو ظاہر کرتے ہیں.میرے نزدیک ان جملہ آرا میں سے صرف آخری رائے مستند ہے.کیونکہ اس رائے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی تصدیق حاصل ہے.باقی آرا ہر عالم کے اپنے ذوق کا نتیجہ ہیں.جب ہم کہتے ہیں کہ حروف مقطعات میں امت محمدیہ کو اجل دی گئی ہے تو اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اہل اللہ نے جو جو معنی بیان کئے ہیں وہ غلط ہیں.ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی جگہ پر سب صحیح ہوں.البتہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے حروف مقطعات کے متعلق فرمایا ہے کہ ” میں نے ایک معنی ان حروف کے یہ بتائے تھے کہ ان کے عدد کے مطابق سالوں کے واقعات کی طرف ان کے بعد کی سورت میں اشارہ کیا گیا ہے.یہ معنی ایک یہودی عالم نے کئے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس نے ان کو دہرایا.آپ نے اس کی تردید نہیں کی بلکہ ایک رنگ میں تصدیق کی.( تفسیر کبیر جلد اول جز اول صفحه 63) علمائے یہود کے نزدیک حروف مقطعات کے اس کے سوا اور کوئی معنی نہ تھے کہ وہ امت محمدیہ کی اجل کو ظاہر کرتے ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس رائے کی تردید نہیں فرمائی بلکہ تصدیق فرمائی.اس بارہ میں مندرجہ ذیل روایت اس حقیقت کی قطعی شاہد ہے کہ حروف مقطعات کے اعداد کے پر دے میں اُمت محمدیہ کی اجل کا حساب رکھا گیا ہے.اس حساب کا اس وقت تک مخفی رہنا ضروری تھا جب تک کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا بانی دنیا میں ظاہر نہ ہوتا اور پھر یہ حروف اس کی صداقت کی شہادت دے کر اُس کی آمد کو منجانب اللہ ثابت نہ کرتے.جس روایت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سند حاصل ہے وہ حسب ذیل ہے: حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب ”الاتقان میں تحریر فرماتے ہیں.بیان کیا گیا ہے کہ یہ حروف مقطعات ابجد کے حساب سے ہیں اور ان کی غرض یہ ہے کہ اُمتِ محمدیہ کی مدت قیام پر دلالت کرتے ہیں.ابن ابی اسحاق نے کلبی سے ، اُس نے ابو صالح سے اور ابو صالح نے ابن عباس سے اور ابن عباس نے جابر سے اور جابر نے عبداللہ بن رباب سے یہ روایت کی ہے کہ ابو یاسر بن اخطب یہودی چند معزز لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہو کر نکلا اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم 66 سورۃ البقرۃ کی ابتدائی آیات الم ذَلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ “

Page 32

”“ 61 “ 62 29 الخ کی تلاوت فرمارہے تھے.ابو یا سر اس کو سن کر اپنے یہودی ساتھیوں کے ساتھ اپنے بھائی محیی بن اخطب کے پاس گیا اور اس سے کہنے لگا: تم لوگ جان رکھو واللہ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اس چیز میں جوان پر نازل کی گئی ہے.العم ذُلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ پڑھتے ہوئے سنا ہے.محیی اس بات کو سن کر کہنے لگا."تم نے اپنے کانوں سے سنا ہے؟“ ابو یاسر نے جواب دیا ”بیشک“ اس کے بعد حیی بن اخطب کئی بڑے بڑے یہودیوں کو جو پہلے سے وہیں موجود تھے ساتھ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور اُن سب نے آپ سے دریافت کیا.” کیا آپ کو یاد ہے کہ اس کتاب میں سے جو آپ پر نازل ہوئی ہے الم ذلِكَ الْكِتَاب کی تلاوت فرما رہے تھے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.”ہاں یاد ہے.“ یہودیوں نے کہا اللہ تعالیٰ نے آپ سے قبل بہت سے نبی مبعوث فرمائے مگر ہم کو یہ معلوم نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اُن میں سے کسی نبی پر اُس کے ملک (حکومت) کی مدت بیان ( واضح کر دی ہو اور یہ بتا دیا ہو کہ اس نبی کی امت کب تک قائم رہے گی.مگر آپ کو یہ بات بتادی گئی ہے.العد" میں الف کا ایک لام کے تیس اور ھر کے چالیس عدد ہیں جو مجموعی طور پر 71 سال ہوتے ہیں.پس کیا ہم ایسے نبی کے دین میں داخل ہوں جس کے ملک کی مدت اور جس کی اُمت کا زمانہ صرف 71 سال ہے.“ پھر اس نے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) آیا اس کلمہ کے ساتھ کا کوئی دوسرا کلمہ اور بھی ہے؟“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہاں“ ہے.المَصَ - حُيَى بن اخطب نے کہا یہ اس سے زیادہ ثقیل اور طویل ہے.الف کا ایک لام کے تیس ھ کے چالیس اور ص کے نوے عدد ہیں جس کا مجموعہ 161 سال ہوا.اور کیا اس کے ساتھ کوئی اور کلمہ بھی ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہاں الر ہے محیی نے کہا یہ دونوں سے بڑھ کر تقیل اور طویل ہے.الف کا 1 ، لام کے 30 را کے 200 جملہ 231 سال ہوئے.محیی نے کہا اس کے ساتھ کوئی اور کلمہ بھی ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہاں المر ہے.محیی نے کہا یہ دونوں سے بڑھ کر تنقیل تر اور طویل تر ہے.الف کا ایک ، لام 66 کے تیس،م کے چالیس را کے دوسو جملہ 271 سال ہوئے.“ پھر اس نے کہا ” اس میں شک نہیں کہ آپ کا معاملہ ہم کو الجھن میں ڈال رہا ہے جس کی وجہ سے ہمیں یہ نہیں معلوم ہوسکتا کہ آیا آپ کو تھوڑی مدت دی گئی ہے یا بہت زیادہ.اور اپنی قوم سے مخاطب ہوکر کہا ”چلو اس کے پاس سے اُٹھ چلو ( یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ) اس کے بعد ابو یاسر نے اپنے بھائی محیی اور اُس کے ساتھ والے اپنے ہم قوم لوگوں سے کہا.” تمہیں کیا معلوم کہ شاید اللہ تعالیٰ نے یہ سب لذتیں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لئے جمع فرما دی ہوں.(الاتقان اردو جلد دوم صفحہ 25 ، 26 اور الاتقان عربی صفحہ 237 ایڈ یشن 1280) یہ روایت باختلاف الفاظ متعدد کتب تفسیر میں موجود ہے.بعض میں لکھا ہے کہ محیی بن اخطب اپنے ساتھیوں سمیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو اس نے آپ سے کہا کہ میں آپ کو خدا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا آپ پر الم کے حروف نازل ہوئے ہیں اور بعض میں لکھا ہے کہ محیی نے جب یہ کہا کہ آپ کی اُمت اور سلطنت کے کل 71 سال ہیں تو اس پر حضور مسکرا دیئے اور بعض

Page 33

" “ 63 میں بجائے مسکرانے کے ہنسنے کا لفظ آیا ہے.اس روایت سے یہود کی قلبی کیفیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے.وہ الھ کے حروف سن کر بے حد خوش ہوئے اور سمجھا کہ آج محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہمارے قابو میں آگئے ہیں.آج ہم ان پر اتمام حجت کر کے چھوڑیں گے اور انہیں بتا دیں گے کہ تمہارے سلسلے کی کوئی اہمیت نہیں.صرف 71 سال کے اندر اس کا خاتمہ ہو جائے گا.یہی وجہ ہے کہ ابو یاسر التھ کے حروف سن کر اپنے کام کو چھوڑ کر واپس اپنے بڑے بھائی کی طرف جو اس سے زیادہ عالم تھا دوڑا دوڑا پہنچا اور اس کو جا کر خوشخبری دی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اللہ کے حروف نازل ہوئے ہیں.اُس کا بھائی محیی بن اخطب یہ بات سن کر حیرت میں پڑ گیا.یہی وجہ ہے کہ اُس نے ابو یا سر سے پوچھا.کہ کیا تم نے اپنے کانوں سے سنا ہے.ابو یا سر نے جب ہاں میں جواب دیا تو پھر وہ اکیلا نہیں بلکہ اپنے ساتھیوں سمیت حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور جاتے ہی خدا کا واسطہ دے کر پوچھا کہ کیا آپ کو یاد ہے کہ آپ المہ پڑھ رہے تھے.یہ سوال اُس نے اس لئے کیا تا کہ حضور کو اُن کے مؤقف پر قائم رکھ سکے.اس ساری کیفیت سے ظاہر ہے کہ یہود قوم کے نزدیک حروف مقطعات کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ یہ حروف امت محمدیہ کی اجل دکھانے کیلئے نازل ہوئے ہیں.لیکن جب حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے یکے بعد دیگرے حروف مقطعات گنوائے تو پھر وہ شرمندہ اور نادم ہو کر واپس چلے گئے اور با ہم کہا کہ وہ امت محمدیہ کی اجل معلوم کرانے کیلئے حروف مقطعات کو مجموعی طور پر شمار کرانا چاہتے ہیں.اسی روایت کی روشنی میں خاکسار نے مجموعی طور پر شمار کیا تا کہ اندازہ لگایا جا سکے کہ اُمت محمدیہ کی عمر کتنی ہے؟ مجموعی طور پر شمار کرنے سے جو اعداد سامنے آئے وہ 3385 ہیں.تفصیل حسب ذیل ہے.قارئین کرام ملا حظہ فرماویں:.64 مقطعات قیمت نمبر شمار نام سورة مقصات قیمت 4 “ نمبر نام سورة 1 بقره الم | 71 | 2 ال عمران المد الاعراف | المص | 161 یونس الر هود الر 231 6 یوسف الر رعد المر 2 8 ابراہیم الر حجر الر مریم كهيعص طه طه 3 5 7 9 11 13 نمل طس 15 17 271 10 231 71 231 231 231 195 14 | 12 شعراء طسم 109 14 الم 71 16 روم طس | 69 قصص طسم 109 عنکبوت الم لقمان العمر 71 18 السجدة الم 19 یس يس مومن حم 70 20 مل 48 22 تم سجده حم شوری حم زخرف حم عشق | 278 21 23 25 48 24 230 دخان حم 48 26 جاشیہ 27 احقاف حم 48 28 ق 29 71 71 90 48 48 100 حم 48 ق قلم 50 کل میزان 3385 یہ کل 29 سورتیں ہیں جن میں حروف مقطعات آئے ہیں اور ان کے مجموعی 71+71+71+109+69+109+14+195+1426+303,161 3385=50+100+48+48+48+48+278+48+48+90+70+71+ ا سورۃ 1 تا 3=303 سورۃ 4تا9= 1426

Page 34

”“ 59 65 راقم الحروف ان تمام سورتوں میں جن میں حروف مقطعات آئے ہیں متواتر کئی سال تک تدبر کرتا رہا تا معلوم ہو کہ ملت اسلامیہ کی عمر کتنی ہے لیکن یہ مشکل حل نہ ہوئی کیونکہ جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تک کتنا زمانہ گزر چکا تھا اس وقت تک کوئی نتیجہ اخذ کر نانا ممکن تھا البتہ چند حقائق قطعی طور پر میرے سامنے آگئے.اول: یہ کہ سورۃ یونس سے پہلے جتنی سورتیں ہیں ان کا تعلق ایسے زمانے سے ہے جب اسلام دنیا میں ظاہر نہ ہوا تھا یا یہ کہ جب اسلام دنیا سے اُٹھ جائے گا.دوم: یہ کہ سورۃ یونس سے لے کر سورۃ حجر تک جتنی سورتیں ہیں یہ اسلام کی نشاۃ اولیٰ کو ظاہر کرتی ہیں.سوم : یہ کہ سورۃ طہ اپنے عدد چودہ کے مطابق بلا شبہ چودھویں صدی کے آغاز کو ظاہر کرتی ہے.اس کا اندرونی مضمون بھی اسی حقیقت کا شاہد ہے.چہارم : یہ کہ سورۃ پخل ، بنی اسرائیل، کہف اور مریم ان سب کا زمانہ سورۃ طہ کے ماقبل کے زمانے سے ہے.پنجم : یہ کہ یہ پانچوں سورتیں یعنی نحل ، بنی اسرائیل، کہف ، مریم اور طہ سورۃ حجر کے تحت آئی ہیں اور ان کا زمانہ وہی ہے.جو سورۃ حجر کا ہے.ششم: یہ کہ سورۃ ابراہیم تک 1195 سال کا زمانہ سامنے آتا ہے.گویا ایک الف کے بعد 195 سال زائد دکھائے گئے اور یہ 195 کے اعداد سورۃ مریم کے حروف مقطعات کے اعداد ہیں جو کہ کھیعص ہیں.جس کے معنی یہ ہیں کہ سورۃ مریم کا دور ہزار سال کے بعد شروع ہو رہا ہے اور حضرت مجددالف ثانی اس دور کی اولین شخصیت ہیں.ہفتم : یہ کہ خلافت محمدیہ کا حساب سورۃ یونس سے شروع ہورہا ہے.خود سورۃ یونس کا مضمون اسی حقیقت کا حامل ہے.“ 66 60 ہشتم : یہ کہ حروف مقطعات میں ایک اور ایسا سلسلہ پایا جاتا ہے جو حروف خم کے تحت آیا ہے.یہ حروف سات سورتوں میں متواتر آئے ہیں.اس تسلسل سے معلوم ہوا کہ یہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے حامل ہیں.حروف لحم سب سے پہلے سورۃ مومن میں ہیں اور اس سورۃ سے پہلے سورہ زمر آئی ہے.اس سورت کا اختتام وَقِيلَ الْحَمْدُ لِلهِ رب العلمین کے الفاظ پر ہوا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ سورۃ یونس میں جو یہ عہد باندھا گیا تھا کہ وَاخِرُ دَعُوهُمْ آنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ یہاں اس عہد کا ایفا دکھایا گیا ہے اور حروف خم O آنِ الْحَمدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ کا خلاصہ ہیں.نهم : یہ کہ حرف ”ص کسی نہ کسی مامور من اللہ کی زندگی کا آئینہ دار ہے.یہ حقیقت ان سورتوں کے مضامین سے واضح ہوتی ہے جن میں حرف ص “ آیا ہے.دہم : یہ کہ الحد والی سورتوں کا تعلق حرف ص سے ہے اور طواسیم کا تعلق حرف طا سے ہے.وو یہاں ایک اہم بات بیان کرنے سے رہ گئی ہے اور وہ یہ کہ جس طرح سورہ یونس سے سورہ حجر تک حروف مقطعات کے اعداد 1426 ہیں اسی طرح سورہ یونس کی پہلی آیت تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيم کے اعداد بھی 1426 ہیں اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ لفظ یونس کے اعداد 126 ہیں.گویا یہاں یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ یہ سورتیں 1300 سال پھر 26 سال اور پھر 100 سال کے کوائف کی آئینہ دار ہیں یعنی یہاں 1326 ہجری کے بعد جو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا سن وصال ہے.اس پر پورا ایک سوسال زائد دکھایا گیا ہے.اس کے علاوہ اور کچھ معلوم نہ ہوسکا اس لئے اس مقام پر راقم الحروف کئی سال تک ورطہ حیرت میں رہا جس سے نکلنے کی کوئی صورت نہ تھی.پھر ایک مدت کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ بعض اہل اللہ کی ایسی تحریرات میرے

Page 35

68 80 “ 67 20 “ " سامنے آئیں جن سے معلوم ہوا کہ حروف مقطعات کا ماخذ سورۃ فاتحہ ہے.ان اہل اللہ میں سے ایک بزرگ حضرت میر محمد اسمعیل صاحب مرحوم ہیں جو دہلی کے مشہور صوفی شاعر حضرت میر درد کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں.انہوں نے اپنے کتابچہ ”مقطعات قرآنی“ میں لکھا ہے کہ محض خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کا رحم تھا کہ کچھ مدت گزری کہ ایک دن بجلی کی طرح بلا کسی وقتی غور و خوض کے یہ ایک بالکل نئی بات میرے دل میں پڑی کہ قرآنی مقطعات دراصل سورۃ فاتحہ کے ہی ٹکڑے ہیں اور ان کی یہی اصلیت ہے پھر فرماتے ہیں:.میں نے قرآن کھول کر کچھ تو جہ اور مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ بات صحیح ہے اور مجھے بعض قرائن اور باتیں ایسی مل گئیں جن سے مجھے انشراح صدر ہو گیا کہ تمام مقطعات صرف فاتحہ کی آیات اور فاتحہ کے الفاظ کا ( مقطعات قرآنی صفحہ 18 ) اختصار ہیں دوسرے بزرگ حضرت مولانا غلام رسول راجیکی قدس سرہ ہیں.آپ ایک صاحب کشوف ورڈ یا بزرگ تھے.آپ نے اپنے قرآن شریف پر نوٹ دیا ہوا ہے کہ الحمد للہ کہ مجھ پر خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے یہ حقیقت منکشف فرما دی ہے کہ حروف مقطعات کا ماخذ سورۃ فاتحہ ہے اور اس پر انہوں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا.اس کے علاوہ بعض صحف سماوی میں مجھے یہ پیشگوئیاں ملیں کہ سورۃ فاتحہ اندر سے لکھی ہوئی ہے.ان جملہ ارشادات کی بنا پر مجھے حروف مقطعات کی حقیقت کو پانے کیلئے سورۃ فاتحہ کی طرف متوجہ ہونا پڑا.آئیے دیکھیں کہ سورۃ فاتحہ کیا کہتی ہے ہے.سورۃ فاتحہ اور صحف سماوی حضرت حز قیل نبی علیہ السلام کی کتاب باب 2 آیت 9-10 میں لکھا.ا ہے.” اور میں نے نگاہ کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک ہاتھ میری طرف بڑھا ہوا ہے اور اس میں کتاب کا طومار ہے اور اُس نے اُسے کھول کر میرے سامنے رکھ دیا.اُس میں اندر باہر لکھا ہوا تھا اور اُس میں نوحہ و ماتم اور آہ و نالہ مرقوم تھا“.حضرت حز قیل علیہ السلام کے ان کلمات سے ظاہر ہے کہ جو کتاب ان کو دکھائی گئی وہ سورۃ فاتحہ ہی تھی.لفظ طومار در اصل مثانی کا ترجمہ ہے.لفظ مثانی کے معنی علاوہ دیگر معانی کے ایک یہ بھی ہیں کہ کسی شے میں بہت موڑ پائے جائیں اور وہ تہ بہ تہ ہو اور اس طرح لیٹی ہوئی ہو کہ تہ پر تہ آئی ہوئی ہو.یہی کیفیت لفظ طومار کی ہے.یہ لفظ جب کا غذات کے متعلق استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد وہ کاغذات ہوتے ہیں جو گولائی میں لیے گئے ہوں اور جنہیں کسی لمبے کھو کھلے اور گولائی رکھنے والے ظرف میں محفوظ رکھنا مقصود ہو.سورۃ فاتحہ کی سات آیات اپنے ترکیبی ، معنوی اور عددی پہلو کے اعتبار سے بالکل اسی قسم کی کیفیت کی حامل ہیں.اس کے علاوہ اس پیشگوئی میں کھول کر “ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں.یہ الفاظ لفظ فاتحہ کا ترجمہ ہیں اور ایسے ہی اس پیشگوئی میں سورۃ فاتحہ کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ صرف باہر ہی سے لکھی ہوئی نہیں بلکہ اندر سے بھی لکھی ہوئی ہے گو یا اشارہ یہ ہے کہ جس طرح اس کے ظاہری کلمات عظیم الشان معارف کے حامل ہیں اسی طرح اس کے کلمات کے اعداد بھی عظیم الشان معارف مخفیہ کے حامل ہیں.اور پھر اس

Page 36

“ 69 69 پیشگوئی کے آخر میں یہ کہنا کہ اس کتاب میں نوحہ و ماتم اور آہ و نالہ مرقوم تھا، یہ الفاظ در اصل اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جو تو میں سورۃ فاتحہ کے کلمات المَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ اور الضّالین کی مصداق ہیں ان پر ساتویں ہزار کے شروع میں غضب الہی ہوگا اور المَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ سے مراد یہود اور امثال یہود ہیں اور ضالین سے مراد عیسائی اور ان کے ہمنوا ہیں اور ان پر جب خدا کا غضب نازل ہوگا تو وہ نوحہ و ماتم اور آہ و نالہ کریں گے لیکن یہ سب کچھ بعد از وقت ہوگا.حضرت حزقیل نبی کی پیشگوئی کے علاوہ بائبل میں سورۃ فاتحہ کے متعلق ایک اور پیشگوئی مکاشفہ یوحنا عارف میں بھی پائی جاتی ہے.اس کے الفاظ بھی ملاحظہ ہوں :.اور جو تخت پر بیٹھا تھا میں نے اس کے داہنے ہاتھ میں ایک کتاب دیکھی جو اندر سے اور باہر سے لکھی ہوئی تھی اور اسے سات مہریں لگا کر بند کیا گیا تھا.(مکاشفہ باب 5 آیت 1) اس حوالے سے بھی ظاہر ہے کہ یہ پیشگوئی بھی سورۃ فاتحہ کے متعلق ہے اور یہ حوالہ بھی بتاتا ہے کہ سورۃ فاتحہ اندر سے بھی لکھی ہوئی ہے اور اس کی اندر سے لکھائی سے مراد اس کا عددی پہلو ہے.کیونکہ لکھنے کا لفظ کسی باطنی پہلو کے اظہار کیلئے استعمال نہیں ہو سکتا لیکن حروف کے اعداد کیلئے اس لفظ کا استعمال بجاطور پر ہوسکتا ہے.اور سات مہروں سے مراد جہاں اس کی سات آیات ہیں وہاں سات ہزار کی طرف بھی اشارہ ہے کیونکہ اس مکاشفہ میں یوحنا عارف کو ملت اسلامیہ کا مجموعی زمانہ بھی دکھایا گیا ہے اور پھر دونوں نشاتوں کے الگ الگ کوائف بھی بتائے گئے ہیں.نشاۃ ثانیہ کو چھٹی مہر کھل جانے کے بعد اس کے آخری حصہ میں دکھایا گیا ہے کیونکہ چھٹی مہر کے کھلنے پر جو الفاظ کہے گئے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ ان میں المَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ اور الضالین کو یہ کہتے سنا گیا ہے کہ و ہمیں اس کی نظر سے جو تخت پر بیٹھا ہوا ہے اور بڑہ کے غضب سے “ چھپالو کیونکہ ان کے غضب کا روز عظیم ( یعنی ہفتم ہزار ) آپہنچا؟“ 70 ( باب 6 آیت 16,17 مکاشفه یوحنا نبی) ان آسمانی پیشگوئیوں نے مجھے مجبور کیا کہ سورۃ فاتحہ کے اعداد کا جائزہ لیا جائے.ممکن ہے کہ اس سورۃ کے اعداد بھی سورۃ العصر کی طرح بعض معارف مخفیہ کے حامل ہوں.چنانچہ اس جائزہ کا عددی نتیجہ جس رنگ میں سامنے آیا ہے وہ حسب ذیل ہے: بِسْمِ الله الرحمن الرَّحِيمِ 289 330 67 102 الحمد لله رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ 96 83 ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ 151 91 289 330 436 إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِين اهْدِنَا 61 836 الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ 300 1012 انْعَيْت عَلَيْهِمْ 561 791 155 غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِم وَلَا الضَّالِّينَ 155 1879 1210 959 میزان میزان 788 (نہ کہ 786) 1476 836 1073 1807 4203 10183

Page 37

”“ 71 ان اعداد میں لفظ مالک کے الف کی اکائی شامل ہے اگر یہ اکائی ہم خارج کر دیں تو پھر یہ اعداد 10182 بنتے ہیں.اس اکائی کے خارج کرنے کا ہمیں اختیار ہے کیونکہ لفظ مالک کی دوسری قرأت ملک ہے.یہ اعداد جو 10182 یا 10183 ہیں عمر دنیا سے کہیں زیادہ ہیں.لہذا ظاہر ہے کہ یا تو یہ اعداد ملتِ اسلامیہ کی عمر اور عمر دنیا کی مجموعی مدت کے مظہر ہیں اور یا پھر حروف مقطعات کی مجموعی قیمت کے جو 3385 ہے اور عمر دنیا کے اعداد کی جامع ہیں.ہم پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دو پیاروں کو اطلاع دی کہ حروف مقطعات کا ماخذ سورۃ فاتحہ ہے.لہذا ہمیں دیکھنا چاہئے کہ وہ کون سے کلمات ہیں کہ جن کے اندر حروف مقطعات کے جملہ حروف بھی پائے جاتے ہوں اور ان کی عددی قیمت بھی 3385 ہو.طویل جدو جہد کے بعد ہم پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ سورۃ فاتحہ کے مندرجہ ذیل کلمات حروف مقطعات کا ماخذ ہیں اور ان کی عددی قیمت بھی 3385 ہے وہ کلمات حسب ذیل ہیں :.الْحَمْدُ لِلهِ.179، رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدين 1297، إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْن 836 ، اِهْدِنَا الصِّرَاط الْمُسْتَقِيمَ 1073 - میزان کل : 3385 یہ سورۃ فاتحہ کا پہلا معجزہ ہے کہ اس نے حروف مقطعات کے ذریعے سارے قرآن شریف کو اپنے ضبط میں لے لیا ہے.یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اگر سورۃ فاتحہ کے جملہ اعداد میں سے جو 10182 ہیں حروف مقطعات کے جملہ اعداد کو خارج کر دیا جائے تو باقی 6797رہ جاتے ہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ حروف مقطعات کے شروع میں تین سورتوں کے “ 72 مقطعات کی عددی قیمت 303 دکھائی گئی ہے اور یہ سورتیں حسب ذیل ہیں:.بقره: الم - 71 ، آل عمران: الم.71، الاعراف: البص 161 میزان : 303 اس کیفیت سے سورۃ فاتحہ کے اعداد کا اور حروف مقطعات کے اعداد کا جو نقشہ سامنے آتا ہے وہ قابل ملاحظہ ہے.اعداد سورۃ فاتحہ = 10182 اعداد ابتدائی حروف مقطعات = 303.اعداد بقیہ حروف مقطعات - 3082 اس نقشے سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حروف مقطعات کے ابتدائی 303 کے اعداد دو طرفہ حیثیت رکھتے ہیں.ایک طرف اُن کا تعلق سورۃ فاتحہ کے اعداد سے ہے اور دوسری طرف حروف مقطعات سے.اگر ان ابتدائی اعداد کو جو 303 ہیں سورۃ فاتحہ کے اعداد میں جمع کیا جائے تو پھر سورۃ فاتحہ کے اعداد 10485 بن جاتے ہیں اور اگر ان میں سے حروف مقطعات کے اعداد خارج کئے جائیں جو 3385 ہیں تو پھر بقیہ اعداد پورے 7100 رہ جاتے ہیں.اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سورۃ فاتحہ کے اعداد اور حروف مقطعات کے اعداد باہم مل کر بتاتے ہیں کہ عمر دنیا بحساب قمری 7100 سال ہے.اور پھر اس کیفیت سے یہ بات بھی از خود سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حروف مقطعات میں سے پہلے التھ کے حروف رکھ کر یہ اشارہ فرمایا ہے کہ عمر دنیا 71 صدیاں ہے.یہاں تک جو کچھ کہا گیا ہے یہ میری تحقیق اور تدبر کا آخری نقطہ تھا.اس سے آگے بڑھنا میرے لئے محال تھا کیونکہ باوجود اس علم کے کہ عمر دنیا سات ہزار سال کے لگ بھگ ہے مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت آدم علیہ السلام کے بعد کب ظہور پذیر ہوئے اور جب تک یہ علم حاصل نہ ہوتا اس وقت

Page 38

”“ 73 “ 74 تک حروف مقطعات اور سورۃ فاتحہ کے اعداد سے جو 3385 کی صورت میں سامنے آچکے تھے ملتِ اسلامیہ کی عمر کے متعلق کوئی نتیجہ اخذ کرناممکن نہ تھا لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ تھی کہ ان معارف کو جوحروف مقطعات کے اعداد میں ایک سربستہ راز کی طرح تھے اب انہیں منکشف فرما دیں کیونکہ اب وہ وقت آ گیا تھا کہ جس کے بعد انہوں نے ظاہر ہو کر صداقت قرآن اور صداقت اسلام کی گواہی دینی تھی.سو اللہ تعالیٰ نے میری راہنمائی کیلئے بعض ایسی تحریرات دیکھنے کا موقع دے دیا جن کا تعلق حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام سے تھا.اس لئے میں نے اُن تحریرات کو پوری توجہ سے پڑھا.سب سے پہلے آپ کی جو تحریر میرے سامنے آئی وہ میتھی کہ قرآن شریف کے حروف اور ان کے اعداد بھی معارف مخفیہ سے خالی نہیں ہوتے.نزول مسیح.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 422) پھر آپ نے اپنے اس دعویٰ کی تصدیق کیلئے سورۃ العصر کو پیش فرمایا اور لکھا کہ قرآن شریف کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہو سکتے اور جس طرح صحیفہ فطرت کے عجائب وغرائب خواص کسی پہلے زمانہ تک ختم نہیں ہو چکے بلکہ جدید در جدید پیدا ہوتے جاتے ہیں یہی حال ان صحفِ مظہر ہ کا ہے تا خدائے تعالیٰ کے قول اور فعل میں مطابقت ثابت ہو.اس عاجز پر کھلا ہے کہ ابتدائے خلقت آدم سے جس قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ بعثت تک مدت گزری تھی وہ تمام مدت سورۃ العصر کے اعداد حروف میں بحساب قمری مندرج ہے یعنی 4740“.(ازالہ اوہام حصہ اول.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 258-259) نیز آپ نے ایک اور جگہ تحریر فرمایا:.” خدا تعالیٰ نے مجھے ایک کشف کے ذریعہ سے اطلاع دی ہے کہ سورۃ العصر کے اعداد سے بحساب ابجد معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک عصر تک جو عہد نبوت ہے یعنی 23 برس کا تمام و کامل زمانہ یہ کل مدت گزشتہ زمانہ کے ساتھ ملا کر 4739 برس ابتدائے دنیا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روز وفات تک قمری حساب سے ہیں.اور شمسی حساب سے یہ مدت 4598 ہوتی ہے اور عیسائیوں کے حساب سے جس پر تمام مدار بائبل کا رکھا گیا ہے 4636 برس ہیں.اس سے ظاہر ہوا کہ قرآنی حساب جو سورۃ العصر کے اعداد سے معلوم ہوتا ہے اور عیسائیوں کی بائبل کے حساب میں جس کی رو سے بائبل کے حاشیہ پر جابجا تاریخیں لکھتے ہیں صرف اتیس برس کا فرق ہے اور یہ قرآن شریف کے علمی معجزات میں سے ایک عظیم الشان معجزہ ہے.“ 38 (تحفہ گولٹر ویہ.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 251_253) بلا شبہ یہ انکشاف ایک عظیم الشان علمی معجزہ ہے.اگر دنیا بھر کے علماء، ادبا اور شعر امل کر حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سن وصال تک کے زمانہ کی تاریخ نکالنا چاہیں تو ہرگز نہیں نکال سکیں گے اور اگر نکالیں گے بھی تو نہایت بھونڈے اور بے معنی حروف جمع کر دیں گے جنہیں علم و معرفت اور حکمت سے دور کا بھی واسطہ نہ ہوگا.پھر یہی نہیں کہ یہ معجزہ صرف اپنی ذات میں معجزہ ہے بلکہ اس معجزہ کے انکشاف سے ہمارے لئے سورۃ فاتحہ اور حروف مقطعات کے اعداد میں تدبر کرنے کی راہ ہموار

Page 39

“ 75 ہوگئی ہے.اس معجزانہ انکشاف سے پہلے حروف مقطعات کی مثال ایسے سنگ ہائے میل کی سی تھی کہ جن پر میلوں کے اعداد تو دیئے گئے ہوں لیکن یہ معلوم نہ ہو کہ ان کا ابتدائی نقطہ کیا ہے.سو اس قسم کے سنگ ہائے میل سے کوئی مسافر فائدہ نہیں اُٹھا سکتا اور نہ ہی اس کی سمجھ میں یہ بات آسکتی ہے کہ وہ اپنے سفر کے کس مرحلہ سے گزر رہا ہے لیکن اب جبکہ ہمیں اس بات کا علم ہو گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شمسی حساب سے بعد از آدم علیہ السلام 4598 میں مرفوع الی اللہ ہوئے اور قمری حساب سے 4740 میں تو اس کے بعد ہمارے لئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں رہتا کہ ملت اسلامیہ کی عمر تئیس چوبیس سوسال کے مابین ہونی چاہئے.یہ بات ہم تخمینا کہ رہے ہیں.صحیح وہ بات ہوگی جو سورۃ فاتحہ اور حروف مقطعات بتائیں گے.اس کے علاوہ اس انکشاف سے ایک ایسی معرفت حاصل ہوئی ہے جو حروف مقطعات کی حقیقت کو سمجھنے میں بڑی مدد دیتی ہے.اور وہ حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے سن شمسی اور قمری کے مابین پورا ایک سو بیالیس سال کا فرق ہے یعنی 4740 میں سے جب 4598 خارج کئے جائیں تو پورے 142 سال باقی رہ جاتے ہیں اور یہ وہ اعداد ہیں جو قرآن شریف کی شروع کی دوسورتوں میں یعنی بقرہ اور آل عمران میں حروف مقطعات کی صورت میں رکھ دیئے گئے ہیں.ان دونوں سورتوں میں الحمد کے حروف آئے ہیں اور الحر حروف کے اعداد 71 ہیں اور جب ان دونوں سورتوں کے حروف کے اعداد جمع کئے جائیں تو پورے 142 ہوتے ہیں.اس سے معلوم ہوا کہ قرآن شریف کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ وہ حروف مقطعات کے ذریعے یا سورۃ فاتحہ کے کلمات کے ذریعے شمسی اور قمری حساب کے تفاوت کو ظاہر کرتا ہے.سورۃ فاتحہ کے پیش نظر اس تفاوت کو لفظ حمد اور لفظ ملک ظاہر کرتے ہیں.لفظ حمد کے اعداد 52 ہیں اور لفظ ملک کے اعداد پورے 90 ہیں.“ 76 اس موقع پر یہ کیفیت آپ کو عجیب معلوم ہوگی لیکن آگے چل کر آپ کو معلوم ہوگا کہ قرآن شریف کا یہ پہلو نہایت حکیمانہ ہے.حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ الصلوۃ والسلام کے اس انکشاف کے بعد میرے دل میں یہ جذ بہ پیدا ہوا کہ آپ کی ان تحریرات کا جائزہ لیا جائے جن کا تعلق سورۃ فاتحہ سے ہو.سو اس سلسلہ میں میں نے آپ کی کتاب اعجاز اسیح “ (روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 71) کا مطالعہ کیا.اس کتاب میں میں نے سب سے پہلے سورۃ فاتحہ کے متعلق جو الفاظ پائے وہ یہ تھے کہ اس سورۃ کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ یہ سورۃ ہمیں مسیح موعود کے زمانے کی خبر دیتی ہے اور پھر یہ بھی بتاتی ہے کہ دنیا کی عمر کتنی ہے؟ اس کے علاوہ ایک دوسری کتاب میں چند ایسے کلمات لکھے جنہوں نے حروفِ مقطعات کے مسئلے کو پوری طرح حل کر دیا اور وہ الفاظ یہ ہیں :.” یہ ہمارے زمانے کی طرف ایما ہے اس وقت صِراطِ وو مُسْتَقِيمَ یہی ہے جو ہماری راہ ہے.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 397 جدید ایڈیشن) یہ کلمات دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ ہوسکتا ہے کہ حروف مقطعات کے اعداد جو 3385 ہیں اسلام کی دونوں نشاتوں اور نشاۃ ثانیہ کی مدت کے جامع ہوں.اس پر میں نے الصِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کے اعداد کو جو 1012 ہیں.اھدِنَا سے ماقبل کے اعداد کے متوازی رکھا پھر دیکھا کہ الحمد سے لے کر اھدِنَا تک کے کلمات کی مجموعی قیمت 2373 ہے اور اچھینا سے ماقبل کے اعداد کی قیمت 2312 ہے جب الصِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کے اعداد جو 1012 ہیں.2312 کے اعداد کے متوازی واقع ہوئے تو قدرت خداوندی کا ایک عجیب نظارہ آنکھوں کے سامنے آیا اور وہ یہ کہ

Page 40

”“ 77 2373 کے اعداد میں سے 1300 الگ ہو گئے اور 1073 کے اعداد جو اھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیم کے اعداد ہیں الگ ہو گئے.یہ کیفیت دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ حروف مقطعات کے اعداد ملت اسلامیہ کی مجموعی عمر اور نشاۃ ثانیہ کی انفرادی عمر کے جامع ہیں ملت کی مجموعی عمر 2373 سال ہے جو الحمد سے اِھدِنَا تک کے کلمات میں پائی جاتی ہے.اس موقع پر یہ امر قابل توجہ ہے کہ لفظ الحمد میں اسم احمد موجود ہے اور لفظ اھدنا میں لفظ مھدی کا مادہ موجود ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 63 سال تھی جن میں سے 53 سال مکہ میں گزرے اور دس سال مدینہ میں گزرے.لفظ احمد کے اعداد 53 ہیں اور یہ حضور کی مکی زندگی کے آئینہ دار ہیں اور لفظ اھل کے اعداد 10 ہیں اور یہ حضور کی مدنی زندگی کے آئینہ دار ہیں.حضور کی اس بشری عمر میں سے 23 سال نبوی یا نوری زندگی کے ہیں جن میں سے 13 سال مکہ میں گزرے اور یہ اعداد لفظ احد کے اعداد ہیں اور لفظ أحد دراصل احمد سے ماخوذ ہے.احمد میں حرف میم موجود ہے اس کے عدد 40 ہیں.یہ اعداد حضور کی قبل از نبوت زندگی کے حامل ہیں لہذا لفظ آحد مکی نبوی زندگی کے زمانے کا آئینہ دار ہے پھر نبوی زندگی کے 23 سال میں سے 10 سال مدینے میں گزرے سولفظ اچھل اس مدنی زندگی کے 10 سالہ دور کا آئینہ دار ہے.خلاصہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے دو پہلو ہیں.ایک بشری اور ایک نوری.حضور کی بشری عمر احمد اِهْدِ یعنی ” اے احمد ہدایت دے“ میں دکھائی گئی ہے.یہ کل 63 سال ہیں اور حضور کی نوری زندگی کو اَحَدُ.اھدِ یعنی اے یکتائے روز گار ہدایت دے ان کلمات کے اعداد 23 ہیں.یہی 23 سال کے اعداد ملت کے لئے 23 صدیوں میں منتقل ہو گئے اور حضور کی بشری زندگی جو 63 سال ہے وہ بھی ساتھ رہی گو یا ملت کی عمر بعد از وصال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم 2363 سال “ 78 ہے اور از سن ہجرت 2373 سال ہے.سوسورۃ فاتحہ میں اسی کیفیت کو الحمد سے لے کر اهْدِنَا تک کے کلمات میں پیش کیا گیا ہے.لہذا یہ 2373 اعداد اپنی صحت کے آپ گواہ ہیں کسی مزید گواہ کی ضرورت نہیں.سو یہ سورۃ فاتحہ کا دوسرا معجزہ ہے.اب سورۃ فاتحہ کے ایک اور معجزے کی تفصیل ملاحظہ ہو.اس کی کیفیت یہ ہے کہ ملت کی مجموعی عمر 2373 سال بتانے کے بعد اُس میں ملتِ اولیٰ کیلئے 1300 سال الگ کر دیئے اور ملت ثانیہ کے لئے 1073 سال الگ کر دیئے.اس کے بعد 1300 سال کا نہایت لطیف طریقے سے تجزیہ کر کے اُس کے 300 سال الگ کر دیئے اور 1000 سال الگ کر دیئے.300 سال کے مقابلہ میں لفظ صراط رکھا جس کے اعداد 300 ہیں.یہ لفظ صراط وہ ہے جو صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے شروع میں آتا ہے.اور پھر 1000 سال کے مقابلے میں حرف ”غ “ رکھ دیا اور یہ حرف وہ ہے جو غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ وَلَا الضَّالِّينَ کے کلمات کے شروع میں آتا ہے.اب ملتِ اسلامیہ کی مجموعی عمر کا نقشہ مندرجہ ذیل صورت میں سامنے آتا ہے: غ = 1000 ، صِراط = 300 ، اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ = 1073 - میزان : 2373 یہاں یہ چیز قابل توجہ ہے کہ یہ کیفیت ہمارے سامنے دو حقیقتوں کو پیش کرتی ہے.اول یہ کہ :.حدیث شریف میں الْآيَاتُ بَعْدَ الْمِأَتَيْنِ “ 66 (مشکوۃ مجتبائی صفحہ 471) کے جو الفاظ آئے ہیں علمائے اسلام نے ان کی تشریح یہ کی ہے کہ ماتین سے مراد وہ 200 سال ہیں جو 1000 گزر جانے کے بعد آئیں گے.سو اللہ تعالیٰ نے حرف غ‘ پہلے رکھ کر 1000 سال محمدی کو ظاہر فرمایا ہے اور پھر لفظ صراط رکھ کر 66.

Page 41

”“ 79 اسلام کی گیارھویں ، بارھویں اور تیرھویں صدی کو پیش کر کے بتایا کہ یہ تین صدیاں نشأة اولیٰ اور نشاۃ ثانیہ کے مابین ایک عبوری دور کی حیثیت رکھتی ہیں اور حرف ”طا“ سے جو لفظ اچھی کے بعد واقع ہوا ہے مہدی علیہ السلام کا زمانہ شروع ہوتا ہے سو یہ سورۃ فاتحہ کا ایک اور معجزہ ہے.وو دوسری حقیقت یہ ہے کہ اس نقشے میں حرف طا“ اور لفظ اھدنا‘ میں حرف ھا کو باہم متصل کردیا گیا ہے اسی کیفیت کو حروف مقطعات میں سورۃ طہ میں دکھایا گیا ہے.طہ کے اعداد 14 ہیں.گویا حرف’ھا‘ سے جو تیرھویں صدی کے بعد چودھویں صدی کو ظاہر کرتا ہے امام مہدی علیہ السلام کا زمانہ دکھایا گیا ہے.اس کی کیفیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ سورۃ النحل سے لے کر سورۃ طہ تک کا زمانہ 1300 سال ہے اور اس کے بعد امام مہدی کا زمانہ ہے جس کی بشارت سورۃ الحجر میں دی گئی ہے.پھر سورۃ مریم میں دی گئی ہے.اور ان سورتوں میں لفظ غلام استعمال کیا گیا ہے.اس سے پہلے یہ لفظ اللہ تعالیٰ یا ملائکہ کی طرف سے کبھی استعمال نہیں کیا گیا.پھر سورۃ فاتحہ کا ایک اور کمال دیکھئے.وہ ہمیں سمجھاتی ہے کہ سورۃ مریم میں جو حرف’ص “ آیا ہے اس پر 1300 سال ختم ہو رہے ہیں اور آگے چودھویں صدی شروع ہوتی ہے جو مسیح موعود کی ہے اس کیلئے سورۃ فاتحہ نے جوطریق اختیار کیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہے: غير -1210 ص_90=1300 اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ = 1073 اس کیفیت میں الف محمدی اور میں تین کوجمع کر دیا گیا ہے اور پھر بتایا گیا ہے کہ آیات کبری میں سب سے بڑی آیت مسیح موعود کا وجود ہے جو حرف ص کی “ 80 80 صورت میں پیش کیا گیا ہے.یہ حرف ص صورة لفظ صراط سے ماخوذ ہے اور عددًا سورۃ فاتحہ کے لفظ ملک کے مترادف ہے.دونوں کے اعداد 90 ہیں.یہی وجہ ہے کہ جب سورۃ فاتحہ کے کلمات کو الحمد سے شمار کیا جائے تو لفظ ملك.پر پہنچ کر ہم تیرھویں صدی میں داخل ہو جاتے ہیں اور حرف ص اسی لفظ ملک کے متوازی ہوکر لفظ ملک کے مترادف ٹھہرتا ہے ایسے ہی لفظ اهدنا بھی لفظ ملك كے متوازی ہوکر حرف ص سے آکر متصل ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کا یہ طریق کتنا حکیمانہ ہے کہ اُس نے چند حروف کے اشارات میں ہمیں سمجھا دیا کہ حرف ص ابن مریم کی بشارت کو لئے ہوئے ہے اور حرف طه امام مہدی کی بشارت لئے ہوئے ہیں اور لفظ ملك امام مہدی علیہ السلام کے زمانے کو لئے ہوئے ہے.یہ وہ باریک نکات ہیں جو موٹی عقل کے لوگوں کیلئے ناقابل فہم ہیں لیکن حقیقت یہی ہے جو ہم نے بیان کر دی ہے.سورۃ فاتحہ اُم القرآن ہے.اس میں سارا قرآن موجود ہے بشرطیکہ اس میں کوئی تدبر کرنے والا ہو.اس موقع پر بہتر ہوگا کہ ہم ان بعض پیشگوئیوں کا ذکر کر دیں جو امام مہدی علیہ السلام کے زمانہ ظہور سے تعلق رکھتی ہیں اور پھر اُس کے ساتھ حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام کے اہم سوانح حیات اور ان کے وہ کلمات جو سورۃ فاتحہ سے تعلق رکھتے ہیں قارئین کے سامنے رکھیں اور پھر یہ دیکھیں کہ سورۃ فاتحہ ان کوائف کی کس طرح تصدیق کرتی ہے.حضرت امام مہدی کی آمد کے متعلق اہل اللہ نے جتنی بھی پیشگوئیاں کی ہیں اُن سب میں حرف غ اور حرف را پایا جاتا ہے.اُس کی وجہ یہ ہے کہ حرف غ کے عدد 1000 ہیں اور حرف را کے 200.جس کے معنی یہ ہیں کہ امام مہدی علیہ السلام تیرھویں صدی میں پیدا ہوں گے لیکن بدقسمتی سے شیعہ صاحبان نے یہ سمجھ لیا ہے کہ "

Page 42

“ 81 حضرت امام مہدی علیہ السلام ایک غار میں جس کا نام سُر من رأى ہے چھپے بیٹھے ہیں اور اتنا بھی نہ سوچا کہ سُر من رأی کے الفاظ تو یہ بات سمجھا رہے ہیں کہ بڑا ہی خوش نصیب ہے وہ انسان جو اس حقیقت کو سمجھے اور غار سے مراد وہ زمینی غارنہ لے جو عموماً درندوں کا مسکن ہوتی ہے بلکہ غار سے مرادان حروف کے اعداد ہیں.اب ہم یہاں دو پیشگوئیوں کا ذکر کرتے ہیں جو امام مہدی علیہ السلام کے زمانہ ظہور کا تعین کرتی ہیں.پہلی پیشگوئی” بحارالانوار جلد 13 صفحہ 7 میں پائی جاتی ہے جس میں لکھا ہے کہ : امام مہدی علیہ السلام غار انطاکیہ سے نکلیں گے غار انطاکیہ کے اعداد 1297 ہیں.دوسری پیشگوئی حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب محدث دہلوی کی ہے جس کا ذکر نواب صدیق حسن خان صاحب کی کتاب ”حج الکرامہ میں بایں الفاظ پایا جاتا ہے: گویند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تاریخ ظهور او را در لفظ چراغ دین یافته و بحساب جمل عددوے یک هزار و دوصد و شصت و هشت میشود.لیکن ایں سالہا گزشت و از مهدی نشانی در عالم یافته نشد و ایں کشف صحیح نیامد (صفحہ 394) ترجمه : ( حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں.کہ اُس (امام مہدی کے ظہور کی تاریخ لفظ چراغ دین میں پائی جاتی ہے.اور حساب جمل کی رُو سے اس کے اعداد 1268 بنتے ہیں.لیکن یہ سال گزر گئے اور مہدی کی علامات دنیا میں نہیں پائی گئیں اور یہ کشف درست ثابت نہیں ہوا.اس موقع پر پیا امر قابل ذکر ہے کہ لفظ " چراغ " کا تعلق آتشی مادہ سے ہے.لہذا 1268 ء سے مراد شمسی ہجری ہے نہ کہ قمری.اس پیشگوئی کے اندراج کے بعد نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں کہ یہ “ 82 پیشگوئی پوری نہیں ہوئی کیونکہ انہوں نے 1268ء سے مراد قمری حساب لیا نہ کہ سمسی.اگر وہ اس حقیقت کو سمجھتے تو وہ یہ کبھی نہ لکھتے کہ یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.نیز نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں کہ و بعض از مشائخ واہل علم گفته اند که خروج او بعد دوازده صد سال از 66 ہجرت شود ورنه از سیزده صد تجاوز نکند (حج الكرامه صفحه 394) یعنی بعض بزرگوں اور اہل علم نے کہا ہے کہ امام مہدی علیہ السلام بارھویں صدی ہجری کے بعد ظاہر ہوں گے اور اگر کچھ دیر بھی ہوئی تو اُن کے ظہور کا زمانہ تیرھویں صدی سے متجاوز نہیں ہوسکتا.لیکن جب تیرھویں صدی میں سے تیس چالیس سال گزر گئے تو پھر بعض بزرگوں نے کہا کہ تیرہ سو ہجری کے بعد مہدی کا انتظار چاہئے اور شروع صدی میں 66 حضرت کی پیدائش ہے ( بحوالہ امام مہدی کا ظہور صفحہ 38 از مولوی محمد اسد اللہ صاحب الکاشمیری) شیعہ صاحبان نے جب دیکھا کہ امام مہدی علیہ السلام غار سے نکلنے میں نہیں آتے تو پھر انہوں نے بھی یہی موقف اختیار کر لیا کہ غار سے مراد اعداد غار ہیں.چنانچہ تحفہ اثنا عشریہ کے صفحہ 175 پر لکھا ہے:.زیرا که نزد مخالفین از مسلمات است که (ظهور الایات بعد الماتين) یک ہزار دوصد از ہجرت میباید بگذر و بعد ازاں علامات قیامت شروع خواهند شد ترجمه: کیونکہ مخالفوں کے نزدیک یہ امر مسلم ہے کہ الایات بعد الماتین کا ظہور بارھویں صدی ہجری کے بعد ہوگا اور اس کے بعد قیامت کی علامات ظاہر ہوں گی.

Page 43

”“ 83 در حقیقت یہ جملہ پیشگوئیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے ماخوذ ہیں جس میں فرمایا : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا مَضَتْ الْفُ وما كان وَارْبَعُونَ سَنَةً يَبْعَثُ اللهُ الْمَهْدِى.( النجم الثاقب جلد 2 صفحہ 209) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب ایک ہزار اور دوسو چالیس سال گزرجائیں گے تو اللہ تعالیٰ مہدی کو مبعوث فرمائے گا.سورۃ فاتحہ کے فیصلہ کے بعد ہمیں کسی پیشگوئی کے اندراج کی ضرورت یہ تھی لیکن یہ پیشگوئیاں اس غرض سے درج کی گئی ہیں تا کہ کوئی شخص اپنے قلت تذبر کے باعث ہم پر یہ الزام نہ لگا سکے کہ ہم نے سورۃ فاتحہ میں معاذ اللہ بے جا تصرف کر کے لفظ غیر کو سورۃ فاتحہ کے ان کلمات کے جو الحمد سے اھدنا تک ہیں اور جن کے مجموعی اعداد 2373 ہیں اُن کی ابتدا میں بلا وجہ متوازی رکھا ہے.اصل بات یہ ہے کہ جس طرح قرآن شریف اپنی تفسیر آپ کرتا ہے اسی طرح سورۃ فاتحہ بھی اپنی تفسیر آپ کرتی ہے.اور اسی بناء پر سورۃ فاتحہ کو اور قرآن شریف کو مثانی کا نام دیا گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ بعض آیات بعض آیات کے متوازی ہو کر دولائنیں بنالیتی ہیں اور اس طرح یہ دونوں لائنیں ایک دوسرے کی تفسیر اور تشریح کرتی ہیں.اہل اسلام کی پیشگوئیوں کے علاوہ عیسائیوں نے بھی حضرت مسیح علیہ السلام کی تشریف آوری کے وقت کے متعلق پیشگوئیاں کی ہوئی ہیں.چنانچہ لکھا ہے:.” یہودی گماشتے دنیا کے گوشے گوشے میں بھیجے جارہے ہیں کہ “ یہودیوں کو فلسطین کی مراجعت کے لئے جمع کریں.میں تمہیں غیر قوموں سے نکال لوں گا...اور میں تمہیں ایک نیا دل بخشوں گا اور ایک نئی روح تمہارے اندر ڈالوں گا اور تمہارے گوشت میں سے سنگین دل کو نکال ڈالوں گا اور گوشتین دل تمہیں عنایت کروں گا“.(حزقیل 24:36_28) اس پیشگوئی کے اندراج کے بعد اسی صفحہ پر مؤلف کتاب ھذا لکھتے ہیں:.” یہودی آئے تو اپنی سابقہ حالت ہی میں تھے لیکن اب بہتوں نے اپنی واپسی کے بعد سے مسیح کو قبول کر لیا ہے.“ 84 ( مقررہ وقت.مؤلفہ لیفٹینٹ کرنل ایف.ڈی.فراسٹ - صفحہ 95 ایڈیشن اول 1927ء مترجم ایف ایم نجم الدین اختر ) ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ یہودفلسطین میں جمع ہونے کے بعد مسیح پر ایمان لائیں گے اور ظاہر ہے کہ یہ ایمان مسیح کی آمد ثانی کے بعد ہوگا چنانچہ قرآن شریف میں بھی یہ پیشگوئی موجود ہے جیسے فرمایا:.فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيفًا - ( بنی اسرائیل: 105) یعنی جب عیسی ابن مریم آگئے تو پھر تمہیں ہم تمہارے منتشر ہونے کے بعد اکٹھا کریں گے.سواسی پیشگوئی کا نتیجہ ہے کہ قوم یہود فلسطین میں جمع ہو رہی ہے.قرآن شریف کے لفظ وَعُدُ الْآخِرَةِ سے مراد مفسرین کے نزدیک عیسی ابن مریم ہیں.دیکھو تفسیر ابن کثیر جلد 4 صفحہ 35) اس وقت تک جو کچھ کہا گیا ہے اس کا تعلق ان اقوال سے ہے جو اخبار غیبیہ کی حیثیت رکھتے ہیں.اب دیکھنا یہ ہے کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام کا یہ دعویٰ کہ میں مہدی معہود اور مسیح موعود ہوں اس کی کیا حیثیت ہے.آپ دنیا

Page 44

" “ 85 میں اپنی مرضی سے نہیں آئے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو پیدا کیا اور اُس زمانے میں پیدا کیا جس میں آپ کی پیدائش کو مناسب سمجھا.سو آپ کا وجود خدا تعالیٰ کا فعل ہے اور وہ اخبار غیبیہ جن کا پہلے ذکر کیا جا چکا ہے خدا کا قول ہیں.خدا کے فعل اور قول میں مطابقت کا پایا جانا ایک لازمی امر ہے.لہذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس موقع پر حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام کی زندگی کے اُن اہم نکات کا جائزہ لیں کہ جن میں اُن کی اپنی ذات کا کوئی دخل نہیں.سو وہ اہم نکات حسب ذیل ہیں :.“ 86 بحساب شمسی 1214ء میں.پھر 47 سال کی عمر میں یعنی 1297ھ میں اپنی شہرہ آفاق کتاب ” براہین احمدیہ کو مکمل فرمایا اور اس کی تاریخ تکمیل ” یا غفور.1297 کے کلمات میں ظاہر فرمائی.پھر تیرھویں صدی کے آخر پر آپ چودھویں صدی کے مجدد بن کر سامنے آئے.پھر 1306ھ میں آپ نے بیعت لی.بحساب عیسوی یہ سن 1889ء تھا.پھر 1326ھ میں حضور کا وصال ہوا.بحساب عیسوی یہ سن 1908 ء تھا.اب اگر ہم نے آدم علیہ السلام سے لے کر عیسی علیہ السلام کے زمانے تک اور عیسی علیہ السلام سے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے تک اور نبی کریم صلا یا یہ مہم کے حضرت بانی" جماعت احمدیہ کی زندگی کے اہم نکات زمانے سے لے کر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی پیدائش کے زمانے کا حساب لینا ہو اور ہم پہلے یہ بتا چکے ہیں کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام کا یہ دعویٰ ہے کہ سورة فاتحہ عمر دنیا اور مسیح موعود کے زمانے کی بشارت دیتی ہے.آپ کا یہ استنباط سورۃ فاتحہ کے ظاہری کلمات پر مبنی ہے.اب اگر ہم نے یہ دیکھنا ہو کہ آیا سورہ فاتحہ کا عددی پہلو بھی حضور کے زمانہ کی نشاندہی کرتا ہے یا نہیں تو اس کے لئے پہلے ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ حضور عمر دنیا کے کس حصہ میں ظاہر ہوئے اور حضور کی زندگی کے اہم نکات کون کون سے ہیں.حضور کے زمانہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سن ہجرت سے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت آدم علیہ السلام کے سن پیدائش سے کیا نسبت ہے اور حضور علیہ السلام کے زمانہ پیدائش تک شمسی اور قمری حساب میں کس حد تک تفاوت پیدا ہوا؟ از روئے تحقیق ثابت ہے کہ آپ بحساب قمری 1250ھ میں پیدا ہوئے اور پھر آپ کی پیدائش سے لیکر آخر زمانے تک کا حساب لینا ہو تو اس صورت میں ہمیں سورۃ العصر کے اعداد سے مدد لینی پڑے گی.سورۃ العصر کے اعداد ہمیں بتاتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کا وصال بعد از مؤلد آدم علیہ السلام بحساب قمری 4740 میں ہوا اور بحساب شمسی 4598 میں.ان دونوں سنوں میں 142 سال کا فرق ہے اور یہ فرق الحد کے اعداد 71 سے دو گنا ہے.اب اگر ہم نے یہ دیکھنا ہو کہ حضرت عیسی علیہ السلام، حضرت آدم علیہ السلام کے بعد کب پیدا ہوئے اور ان کے وقت تک شمسی قمری حساب میں کس قدر تفاوت واقع ہوا تو ظاہر ہے کہ ہم آپ کا سن پیدائش بحساب شمسی معلوم کرنے کیلئے 4588 میں سے 621 سال خارج کر دیں گے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے 621 سال کے بعد ہجرت فرمائی ہے.سو حضرت عیسی علیہ السلام کاسن پیدائش بعد از آدم علیہ السلام بحساب

Page 45

”“ 87 شمسی 3967 متعین ہوگا.اور قمری حساب کی رو سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے 640 سال کے بعد ہجرت فرمائی.لہذا 4730 میں سے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آدم علیہ السلام کے بعد سن ہجرت ہے 640 سال خارج کر دیں تو ظاہر ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا سن پیدائش بحساب قمری 4090 متعین ہوا.ان دونوں سنوں میں 123 سال کا فرق ہے اور یہ حروف مقطعات میں سے الحمد کے عدد 71 اور سورۃ فاتحہ میں سے لفظ حمد کے عدد 52 کا مجموعہ ہے.گویا آپ کے وقت کو شمسی اور قمری حساب میں الحد اور حمد کے حروف کے اعداد میں ظاہر کیا گیا ہے.اب اگر ہم نے یہ دیکھنا ہو کہ بانی سلسلہ احمدیہ آدم علیہ السلام کے بعد بحساب قمری اور بحساب شمسی کس کس سن میں پیدا ہوئے اور ان سنوں میں کس قدر تفاوت پیدا ہوا تو ظاہر ہے کہ ہم سن قمری معلوم کرنے کے لئے 4730 میں 1250 کو جمع کر دیں گے اور اس طرح 5980 کا سن ہمارے سامنے آجائے گا.اگر یہ معلوم کرنا ہو کہ آپ شمسی حساب کی رو سے آدم علیہ السلام کے بعد کب پیدا ہوئے تو ظاہر ہے کہ ہم 4588 میں 1213 سال جمع کر دیں گے اور اس طرح 5801 کا سن ہمارے سامنے آجائے گا.ان دونوں سنوں میں یعنی 5980 اور 5801 میں 179 سال کا تفاوت ہے اور یہ 179 سال الحمد للہ کے اعداد ہیں.ہماری کتاب کا یہ حصہ نہایت اہم ہے.لہذا اس کیفیت کو پورے طور پر ذہن نشین کرنے کے لئے ہم ذیل میں ایک نقشہ پیش کرتے ہیں.قارئین کرام اسے اچھی طرح ذہن نشین فرمالیں کیونکہ یہ نقشہ بہت سے معارف کا سرچشمہ ہے.نقشہ حس ذیل ہے: “ 88 نقشہ تفاوت سن ہائے مختلفه از آدم علیہ السلام تا یوم آخر نام نبی سن قمری سن شمسی تفاوت اعداد میں تفاوت کلمات میں آدم عيسى 123 3967 4090 1 2 142 179 نبی کریم 4330 4588 امام مہدی 5980 5801 الم - حمد يالحمد الم الم الحمد لله اب ذرا آپ بانی سلسلہ احمدیہ کے سن شمسی میں جو بعد از آدم علیہ السلام 5801 ہے اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سن قمری میں جو 4730 ہے موازنہ فرماویں تو آپ کو صاف نظر آئے گا کہ ان دونوں سنوں میں 1071 کا فرق ہے اور یہ 1071 کے اعداد لفظ ”غلام کے اعداد ہیں.گویا الحد کے حروف کو ایک ہزار سال کے بعد رکھ کر یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ الحمد کے حروف کا مقام ایک ہزار سال کے بعد ہے اور مسیح موعود کا سن پیدائش بعد از ہجرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غلام الحمد للہ کے اعداد 1250 میں مضمر ہے اور بحساب شمسی غلام.الحم - الحد کے اعداد میں جو 1213 میں مضمر ہے.گویا آگے حرف ص کی پہلی اکائی آپ کے شمسی سن پیدائش 1214 کو ظاہر کرتی ہیں.اس کیفیت میں بھی یہی اشارہ ہے کہ حروف مقطعات میں جو العد کے حروف آئے ہیں اور جو سورۃ بقرہ، آل عمران اور اعراف سے تعلق رکھتے ہیں اُن کا مقام دوطرفہ ہے یعنی اُن کا اُس زمانے سے بھی تعلق ہے جب اسلام پورے طور پر دنیا میں ظاہر نہیں ہوا تھا اور اُس زمانے سے بھی جب اسلام دنیا سے اُٹھ گیا.یعنی ہزار سال محمدی کے بعد کے زمانے سے جس کو حرف غ کا عدد ہزار اپنے اندر لئے ہوئے ہے.

Page 46

”“ 80 89 اللہ.اللہ ! یہ کیا عجیب ماجرا ہے.ذرا سوچیے تو سہی کیا حضرت بانی جماعت احمدیہ نے یہ 1214 کا شمسی سن اور یہ 1250 کا قمری سن اپنی پیدائش کے لئے آپ مقر فر ما دیا تھا اور کیا راقم الحروف نے اس بارے میں کسی بے جا تصرف سے کام لیا ہے؟ ہرگز نہیں.اصل بات یہ ہے کہ یہ خدا کے قول اور فعل میں مطابقت کا ایک پاکیزہ منظر ہے.اگر کسی کو شبہ ہو تو اور آگے چلئے اور پھر دیکھئے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ 1303 کے عدد کو آپ کے سامنے لاتا ہے اور یہ عدد وہ ہے جس میں آپ اسم احمد کے مصداق ہوئے یعنی آپ کی عمر 53 سال کی تھی.آپ کو معلوم ہے کہ سورۃ اعراف میں الحد کے ساتھ حرف ص بھی لگا ہوا ہے.یعنی حرف ص اولاً آنحضرت ایم کی بعثت اولی کا مظہر ہے اور پھر یہی حرف ثانیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کا مظہر بن کر سورۃ مریم کے حرف ص کے متوازی واقع ہوتا ہے.سورۃ فاتحہ میں لفظ غیر کے بعد حرف ص پر 1300 سال ختم ہوتے دکھائے گئے تھے اور تیرھویں صدی کے خاتمے کا آخری نقطہ اور چودھویں صدی کا ابتدائی نقطہ ہمارے سامنے لایا گیا تھا لیکن حروف مقطعات میں اسمه احمد والی پیشگوئی کے پیش نظر یہاں بجائے 1300 کے 1303 کا عدد سامنے لایا جا رہا ہے اور وہ اس طرح کہ آپ غلام 1071 المھ.71 ، کے بعد المص.161 کے حروف لکھ دیں.یہ سورۃ الاعراف کے حروف ہیں اور ان کی مجموعی قیمت 1303 اس موقع پر یہ خیال رہے کہ لفظ غلام میں حرف غ کے بعد جو تین حروف پائے جاتے ہیں یہ وہی الھم ہیں جو سورۃ بقرہ میں آئے ہیں اور دوسرا الحد وہ ہے جو سورۃ آل عمران میں آیا ہے اور تیسرا المص وہ ہے جو سورۃ اعراف میں آیا ہے.غلام اور الحمد للہ کی ترکیبی کیفیت ہمیں دو فائدے پہنچاتی ہے.اول یہ کہ 1250 سے ماقبل کا زمانہ بھی ایک غلام کا زمانہ ہے اور اس غلام کا کام اللہ تعالیٰ کی حمد ہے.“ 90 90 ہے یعنی اُس کا کام یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات سے بنی آدم کو اس طرح متعارف کرائے کہ اُس میں نقص یا عیب یا کمزوری کا کوئی شائبہ نظر نہ آئے بلکہ اس کے با عکس ہر کمال اور ہر خوبی اور ہر طرح کی حمد سے اُس کی ذات پاک متصف نظر آئے.دوسرا فائدہ یہ پہنچتا ہے کہ ممکن ہے کہ ان کلمات میں اسمہ احمد والی پیشگوئی کی طرف اشارہ ہو.چنانچہ جب میں نے اس طرف توجہ کی تو میرے ذہن میں فوراً بغیر کسی تدبر کے غَلَامُكَ اسمه احمد کے اعداد آ گئے.جب میں نے ان کے اعداد شمار کئے تو وہ بھی پورے 1250 تھے.پھر مجھے خیال آیا کہ حضرت بانی جماعت احمد یہ علیہ السلام نے لکھا ہے کہ : یہ ہمارے زمانے کی طرف ایما ہے اس وقت صراط وو مستقیم یہی ہے جو ہماری راہ ہے.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 397 جدید ایڈیشن) چنانچہ صراط 300 ، مستقیم - 650،صراط.300 کے کلمات میرے سامنے آئے اور ان کے اعداد بھی پورے 1250 ہیں.ان کلمات کو بے معنی اعداد نہ سمجھئے بلکہ ان کے معنی یہ ہیں کہ صحیح راہ اُس شخص کی ہے جو فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ کے امر پر اس طرح عمل پیرا ہو کہ کوئی کمی واقع نہ ہو.سو مستقیم سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک وجود ہے اور یہاں یہ لفظ بطور علم کے استعمال ہوا ہے.اب اگر آپ چاہیں تو ان جملہ کلمات کے ساتھ جن کا عدد 1250 ہے لفظ احمد اس طرح بڑھا دیں کہ معنی میں کوئی فرق نہ آئے تو پھر بھی 1303 کا عدد آپ کے سامنے آجائے گا.مثلاً : حَمدَ الْغُلَامُ أَحْمَدُ لِلهِ

Page 47

”“ 91 یعنی غلام احمد نے اللہ تعالیٰ کی تعریف کی.ان کلمات کے اعداد بھی 1303 ہیں.ایسے ہی احمد غُلامُكَ اسمه احمد کے اعداد بھی پورے 1303 ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ اے احمد! تیرے غلام کا نام بھی احمد ہے.ایسے ہی صراط احمد صِرَاطٌ مُستَقِیم کے اعداد بھی 1303 ہیں.ان الفاظ کے معنی یہ ہیں کہ احمد کی راہ سیدھی راہ ہے.اس کے علاوہ غُلَامُكَ يَوْمِ الدِّينِ هَدنا کے اعداد بھی 1303 ہیں.پھر عجیب بات یہ ہے کہ جس سورۃ میں اسمہ احمد کی پیشگوئی آئی ہے اسی سورۃ مينَ وَأُخْرَى تُحِبُّونَهَا نَصْرُ مِنَ اللہ وَفَتْحٌ قَرِيب “ کے الفاظ بھی آئے ہیں یعنی ہم تمہیں ایک اور خوشخبری دیتے ہیں اور وہ یہ کہ نَصْرُ مِنَ اللهِ وَفَتْحٌ قَرِيب“ ان کلمات کے اعداد بھی پورے 1303 ہیں.یہی وجہ ہے کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ کو الہام ہوا:.يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ جَاءَ كُمْ نَصْرٌ مِّنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ ( تذکره صفحه 229 طبع چہارم) یعنی اے اہل مدینہ تم میں ایک ایسا انسان آ گیا ہے جو خدا کی نصرت اور فتح مندی کی شان اپنے ساتھ رکھتا ہے.یہ الفاظ عہد نبوی میں اپنے اندر یہ بشارت لئے ہوئے تھے کہ جب تم انصار اللہ ہو تو خدا بھی تمہارا ناصر ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے چودھویں سال مدینہ میں تشریف لائے.ایسے ہی 1400 سال کے بعد آپ کا جمال دوبارہ ظہور پذیر ہوا.اس لئے چودھویں صدی میں جو اہل اللہ آپ کی نفرت کے لئے کھڑے ہو گئے وہ انصار اللہ کہلائے اور یہ چودھویں صدی کا نیا تہذیبی اور تمدنی دور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی کا ظل ٹھہرا اور جس طرح مدینہ کے یہوداہل کتاب تھے اسی طرح اسلام کی اس نشاۃ ثانیہ کا دور بجائے تلوار کے قلم کا “ 92 92 دور ٹھہرا اور خلاف اسلام کتابوں کا جواب کتابوں کی صورت میں دیا جانے لگا.اسی طرح آپ کا ایک اور بھی الہام ہے جو اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز چودھویں صدی سے ہوگا اور اس نشاۃ کا بانی چودھویں صدی میں تشریف لائے گا اور وہ الہام یہ ہے.طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا مِنْ ثَنِيَّةِ الْوَدَاعِ ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 481) یہ الہام در اصل اُسی آواز کی ترجمانی ہے جو اہل مدینہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری کے موقع پر آپ کو خوش آمدید کہنے کے لئے بلند کی تھی.حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام کے کچھ اور کلمات بھی ایسے ہیں جن کا تعلق سورۃ فاتحہ سے ہے.بہتر ہوگا کہ ہم اُن کا بھی جائزہ لیں.ممکن ہے کہ ان کے عددی پہلو میں بھی کوئی معرفت مخفی ہو.آپ فرماتے ہیں.میں نے سورۃ الفاتحہ ( جس کو اُمّ الکتاب اور مثانی بھی کہتے ہیں اور قرآن شریف کی عکسی تصویر اور خلاصہ ہے ) کے صفات اربعہ میں دکھانا چاہا ہے کہ وہ چاروں نمونے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہیں اور خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں ان صفات اربعہ کا نمونہ دکھایا گویا وہ صفات دعوئی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود بطور دلیل کے ہے“.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 333 ، 334 جدید ایڈیشن) خاکسار نے چار صفات یعنی رَبّ العلمين 436، الرحمن - 330 الرَّحِيم - 289 ، مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ - 242 کے اعداد کا جائزہ لیا تو 1297 کے اعداد سامنے آئے.ان اعداد کے ساتھ جب اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ

Page 48

“ 1073 کے اعداد ملائے تو 2370 کے اعداد سامنے آئے.93 اس سے پہلے ملتِ اسلامیہ کی مجموعی عمر 2373 سال دکھائی گئی تھی جو الحمد سے لے کر اھدنا تک کے کلمات میں مضمر ہے.دونوں حسابوں میں تین اکائیوں کا فرق ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ صفات اربعہ کے تحت جو حساب رکھا گیا ہے اُس میں آخری صدی شمسی دکھائی گئی ہے کیونکہ شمسی حساب کی ایک صدی قمری حساب سے 103 سال بنتی ہے.لہذا دونوں حسابوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے.دوسری بات جو قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ پہلے حساب میں الحمد الله اور ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کے کلمات شامل رکھے گئے تھے تا یہ ظاہر ہو کہ دونوں نشا تیں لَهُ الْحَمْدُ فِي الْأَوْلَى وَالْآخِرَةِ کی مصداق ہیں اور تحمید الہی اور توحید میں برابر کی شریک ہیں لیکن اس دوسرے حساب میں جو صفات اربعہ کے تحت آیا ہے.دونوں نشاتوں کی الگ الگ خصوصیات دکھائی گئی ہیں.نشاۃ اولی کے متعلق کہا گیا ہے کہ اُس کا کام دنیا کو اللہ تعالیٰ کی صفات اور ذات سے متعارف کرانا تھا اور دوسری نشاۃ کے متعلق یہ بتایا گیا ہے کہ اُس کا کام ضالین کا یعنی عیسائیوں کا مقابلہ کرنا ہے.اور اس بات کا ثبوت مہیا کرنا ہے کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم ابن مریم سے کہیں برتر ہیں.بالفاظ دیگر یوں کہیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصدِ زندگی حمد اللہ تھا اور آپ احمد اللہ ( اللہ کی سب سے بڑھ کر حمد کرنے والے) تھے اور نشاۃ ثانیہ کے بانی کا کام حمد احمد ہے.یا یوں کہیں کہ آپ احمد احمد اللہ ہیں.یعنی آپ کا مشن یہ ہے کہ آپ احمد مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑھ کر حمد کریں.تیسری بات جو قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ سورۃ العصر نے ہمیں بتایا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جب وصال ہوا تو اس وقت حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش پر 4740 سال گزر چکے تھے.یہ بات عجیب ہے کہ صفات اربعہ کے تحت جو حساب آیا ہے اور جس کے اعداد 2370 ہیں 4740 کا پورا نصف ہیں.جس کے معنی یہ “ 94 ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پر عمر دنیا کا پورا دو تہائی حصہ گزر چکا تھا اور حضور کے وصال کے بعد صرف ایک تہائی عمر د نیا باقی تھی.چوتھی بات جو قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ 2370 کے اعداد کو اگر 4730 کے اعداد تا ہجرت میں جمع کیا جائے تو پورے 7100 سال سامنے آتے ہیں.ان اعداد سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے اگر امت محمدیہ کا حساب لیا جائے تو عمر دنیا 7100 سال کی صورت میں سامنے آتی ہے اور اگر حضور کے سن وصال سے لیا جائے تو عمر دنیا 4740+2370=7110 سال کی صورت میں ہمارے سامنے آتی ہے اور اگر ملتِ اسلامیہ کی 2373 سال کی عمر کو 4740 میں جمع کیا جائے تو پھر عمر دنیا 7113 سال کی صورت میں ہمارے سامنے نظر آتی ہے.اصل بات یہ ہے کہ عمر دنیا پورے 7113 سال ہے.لیکن اللہ تعالیٰ آخری دس سال کو ملت کی عمر میں شمار نہیں کرانا چاہتا کیونکہ وہ دس سال روحانیت سے بالکل خالی ہوں گے اور وہ ایسے لوگوں کا زمانہ ہو گا جو اپنے اخلاق و اطوار کے اعتبار سے خنازیر اور قردۃ کے مشابہ ہوں گے.لہذا ان دس سالوں کو خارج کرنے کے بعد دنیا کی عمر 7103 سال رہ جاتی ہے.جس میں سے 2373 سال ملتِ اسلامیہ کی عمر کے ہیں.لیکن ان آخری تین سالوں کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ ہمیں اختیار دیتا ہے کہ چاہو تو آخری تین سال شمار کرو اور چاہو تو نہ کرو.پانچویں بات جو قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ صفات اربعہ کے اعداد جو 1297 ہیں حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام کی 47 سال کی عمر کو ظاہر کرتے ہیں اور یہ وہ زمانہ ہے جب کہ آپ اپنی شہرہ آفاق کتاب ” براہینِ احمدیہ کی تألیف مکمل فرما چکے تھے.آپ نے اس کی تکمیل کی تاریخ ذیل کے شعر میں بیان فرمائی.از بس کہ یہ مغفرت کا دکھلاتی ہے راہ تاریخ بھی یا غفور نکلی واہ واہ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 208) 1297

Page 49

”“ 95 یا غفور کے اعداد پورے 1297 ہیں اور یہ اعداد اُس پیشگوئی کے مصداق ہیں جو بحار الانوار میں درج ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امام مہدی غار انطاکیہ سے ظاہر ہوگا.غار انطاکیہ 1201+96 کے اعداد بھی پورے 1297 ہیں.چھٹی بات جو قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ صفات اربعہ کو اِهْدِنَا الصِّراط الْمُسْتَقِيمَ کے کلمات سے متصل کر دیا گیا ہے اور اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کے اعداد کو متوازی حیثیت دے دی گئی ہے.اس طریق کے اختیار کرنے سے اللہ تعالیٰ نے مُلِكِ يَوْمِ الدّین اِهْدِنَا کے کلمات کو جمع کر دیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ امام مہدی علیہ السلام صفت مالکیت کے مظہر ہیں.چنانچہ حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام اپنی کتاب اعجاز اسیح میں فرماتے ہیں:.وَبَقِيَتِ الصَّفَةُ الرَّابِعَةُ مِنْ هَذِهِ الصَّفَاتِ، أَعْنِي التَّجَلَ الَّذِي يَظْهَرُ فِي حُلَّةِ مَلِكٍ أَوْ مَالِكٍ فِي يَوْمِ الدِّيْنِ لِلْمَجَازَاتِ.فَجَعَلَهُ لِلْمَسِيحَ الْمَوْعُوْدِ كَالْمُعْجِزَات، وَجَعَلَهُ حَكَماً وَمَظْهَراً لِلْحُكُومَةِ السَّمَاوِيَّةِ بِتَأْبِيدٍ مِنَ الْغَيْبِ وَالْآيَاتِ.وَسَتَعْلَمُ عِنْدَ تَفْسِيرِ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ هَذِهِ الْحَقِيْبَةَ.وَمَا قُلْتُ مِنْ عِنْدِ نَفْسِي بَلْ أُعْطِيْتُ مِنْ لَّدُنْ رَبِّي هَذِهِ النِّكَاتِ الثَّقِيْقَةِ.وَمَنْ تَدَبَّرَهَا حَقٌّ التَّدَبُرِ وَفَكَّرَ فِي هَذِهِ الآيَاتِ إِعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ أَخْبَرَ فِيْهَا وَعَنِ الْمَسِيحِ وَعِنْ زَمَنِهِ الَّذِي هُوَ زَمَنُ الْبَرَكَاتِ! اعجاز امسیح.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 148-149) ترجمہ: اب ان صفات اربعہ میں سے چوتھی صفت جو مالک یوم الدین ہے باقی رہ گئی ہے سو اُس کی روح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے زمانے میں ایک مالک یا ملک کے “ 96 96 پیرائے میں جلوہ گر ہوگا اور یہ وقت جزا سزا کا وقت ہوگا اور مسیح موعود کیلئے بطور معجزات کے ہو گا.آپ اُس وقت اللہ تعالیٰ کی اس صفت مالکیت کے مظہر ہوں گے اور حَكَمُ بن کر اپنے فیصلے صادر فرمائیں گے.اللہ تعالیٰ تائید غیبیہ سے اور نشانات سماویہ سے آپ کی مدد فرمائے گا.جب ہم انعمت علیہم کی تفسیر کریں گے تو یہ حقیقت اچھی طرف منکشف ہو جائے گی.میں اپنے پاس سے کوئی بات نہیں کہہ رہا بلکہ یہ نکاتِ دقیقہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دیئے ہیں.جو شخص ان کلمات میں پورے طور پر تد بر کرے گا اُسے معلوم ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کلمات میں مسیح موعود کی اور اُس کے با برکت زمانے کی خبر دی ہے.اس کے علاوہ آپ فرماتے ہیں:.وو أَنَّ اسْمَ أَحْمَدَ لَا تَتَجَلَّى بِتَحِلَّى تَامٍ فِي أَحَدٍ مِّنَ الْوَارِثِينَ، إِلَّا فِي الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ الَّذِي يَأْتِي اللَّهَ بِهِ عِنْدَ طلُوعِ يَوْمِ الدِّينِ 66 اعجاز امسیح.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 121) یعنی اسم احمد کی تجلی کا پورا وارث صرف مسیح موعود ہوگا جسے اللہ تعالیٰ یوم الدین کے مطلوع پر پیدا کرے گا.سورۃ فاتحہ میں یوم الدین کا مطلع لفظ مالک ہے.خدا تعالیٰ کی شان دیکھیں کہ آپ کی پیدائش اسی لفظ کے زمانے میں ہوئی.آپ 1250ھ میں پیدا ہوئے.الحمد سے لے کر الرحیم تک کے کلمات کے اعداد 1234 بنتے ہیں.الحمد لله 179 ، رب العالمين - 436، الرحمن 330 ، الرحيم - 289 گویا آپ کی پیدائش لفظ مالک کے زمانے میں ہوئی ہے.اس لفظ کے اعداد 91 ہیں اور حساب 1234 سے بڑھ کر 1325 تک بنتا ہے اور 1325 وہ سن ہے جو پورے

Page 50

”“ کا پورا آپ کو ملا.اور 1326 میں آپ کا وصال ہو گیا.97 97 غور فرمائیے یہ کتنی عجیب کیفیت ہے کہ آپ کی تحریرات کے مطابق سورۃ فاتحہ کا عددی پہلو آپ کو صفت مالکیت کا مظہر ٹھہرا رہا ہے.لفظ مالک کے بعد یوم الدین کے اعداد 151 ہیں گویا آپ کے سن وصال 1326 کے بعد 150 سال کا زمانہ یوم الدین کا زمانہ ہے اور یہ زمانہ 1476 ھ تک ممتد ہے لیکن حروف مقطعات نے اس کی تفسیر 1426 تک کی ہے اور حرف ”ن“ کے عدد 50 کو گو یا الگ ظاہر کیا ہے.اس کی تفصیلی بحث آگے آئے گی.66099 حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام کا دعوئی یہ تھا کہ سورۃ فاتحہ مسیح موعود کے زمانے کی خوشخبری دیتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا فعل یہ ہے کہ آپ کو بحساب شمسی 1213ھ کے بعد پیدا فرمایا.اس کی تصدیق حروف مقطعات میں غلام - الحد.الم کے کلمات کی صورت میں پیش کی.ان کلمات کے اعداد 1213 ہیں اور حضور 1214 میں پیدا ہوئے.سورۃ فاتحہ کے پیش نظر یہ غلام حمد ملک کے اعداد میں گویا 1214 کے عدد کی نشاندہی کی.قمری حساب کی رو سے آپ 1250 میں پیدا ہوئے.اس سن کی تصدیق غلام الحمد للہ 1250 کے کلمات نے کی پھر غُلامُكَ اسمه احمد 1250 اور صِرَاط مُسْتَقِیم صراط 1250 کے کلمات نے کی پھر آپ جب 47 سال کی عمر کو پہنچے تو صفات اربعہ اور غار انطاکیہ کے اعداد نے آپ کی تصدیق کی اور جب پورے 50 سال کے ہوئے تو سورۃ فاتحہ میں لفظ غیر 1210 اور حرف ص 90 کے اعداد سے آپ کا زمانہ دکھا دیا اور بتایا کہ سورہ مریم میں مسیح محمدی کا ذکر ہے.پھر اسی سورۃ میں اس 1300 سن کو حرف غ.1000 اور لفظ صراط.300 میں ظاہر فرمایا اور ساتھ ہی بتایا کہ سورۃ طہ مہدی علیہ السلام کی چودھویں صدی کو متعین کرتی ہے.“ 98 90 اس کے علاوہ قدرت خداوندی کا ایک اور معجزانہ نظارہ ملاحظہ فرما دیں اور پھر دیکھیں کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام کے کلمات میں اور سورۃ فاتحہ کے کلمات میں با ہم کس قدر مطابقت ہے حالانکہ آپ کو کبھی یہ خیال بھی نہ آیا تھا کہ سورۃ فاتحہ کے اعداد میں بھی ” غلام احمد قادیانی کے زمانہ ظہور کی تصدیق موجود ہے.آپ اپنی کتاب ازالہ اوہام میں فرماتے ہیں :.1300 چند روز کا ذکر ہے کہ اس عاجز نے اس طرف توجہ کی کہ کیا اس حدیث کا جو اَلا يَاتُ بَعْدَ الْمأْتَيْنِ ہے ایک یہ بھی منشا ہے کہ تیرھویں صدی کے اواخر میں مسیح موعود کا ظہور ہوگا اور کیا اس حدیث کے مفہوم میں بھی یہ عاجز داخل ہے تو مجھے کشفی طور پر اس مندرجہ ذیل نام کے اعدادِ حروف کی طرف توجہ دلائی گئی کہ دیکھ یہی مسیح ہے کہ جو تیرھویں صدی کے پورا ہونے پر ظاہر ہونے والا تھا.پہلے سے یہی تاریخ ہم نے نام میں مقرر کر رکھی تھی اور وہ یہ نام ہے غلام احمد قادیانی اس نام کے عدد پورے 1300 ہیں.“ 6 6 (ازالہ اوہام حصہ اول.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 190-189) آپ کے اس کشف میں اللہ تعالیٰ کے قول اور فعل میں مطابقت کا بین ثبوت موجود ہے.آپ نے اپنا نام خود نہیں رکھا اور نہ ہی اپنی مرضی سے قادیان میں پیدا ہوئے اور پھر ” غلام احمد قادیانی کے حروف میں 1300 کے اعداد رکھنا آپ کا اپنا کام نہ تھا.پھر اس کے مقابل سورۃ فاتحہ دیکھیں کہ وہ بھی آپ کے زمانہ ظہور کے لئے لفظ غلام کے حرف غ‘ کی طرح حرف غ‘اور لفظ صراط میں آپ کی بعثت کا 1300 سال کا زمانہ دکھاتی ہے.پھر لفظ غیر اور حرف ”ص“ میں اسی زمانے کو متعین کر دیا ہے.پھر حرف ”ص کو لفظ ملک کا قائم مقام ٹھہرا کر بتایا ہے کہ آپ صفت

Page 51

“ مالکیت کے مظہر ہیں.99 سورۃ فاتحہ ہمیں یہ بھی سمجھاتی ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کب بیعت لیں گے.ذرا ذیل کے کلمات میں جو 13 صدیوں کے حامل ہیں غور فرمائیے.غ - صراط اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ان كلمات میں حرف ط پر 1300 سال پورے ہورہے ہیں اور آگے لفظ اهْدِنَا ہمیں سمجھا رہا ہے کہ چودھویں صدی کے پہلے 10 سال کے اندر آپ لوگوں سے بیعت لیں گے کیونکہ لفظ ھیں کے اعداد 10 ہیں سو اسی زمانہ کے اندر لوگ امام مہدی علیہ السلام سے کہیں گے.ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نظر تم مسیحا بنو خدا کے لئے حروف مقطعات میں بھی طلہ کے حروف میں یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ تیرھویں صدی کے پانچ سال گزرنے کے بعد آپ بیعت لیں گے.چنانچہ آپ نے 1306ھ میں لوگوں سے بیعت لی.اس سن کی طرف حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب محدث دہلوی کا الہام ”چراغ دین اشارہ کرتا ہے اور چراغ کا تعلق آتشی مادے سے ہے لہذا چراغ دین کے حروف کے اعداد جو 1268 سمسی ہیں نہ کہ قمری گویا اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا کہ مہدی علیہ السلام 1268ھ شمسی میں لوگوں سے بیعت لیں گے.چنانچہ آپ نے 1268ھ میں ہی بیعت لی.سن عیسوی کے مطابق یہ سن 1889ء بنتا ہے.کتنی عجیب بات ہے کہ ان نہایت روشن اور واضح پیشگوئیوں کے ہوتے ہوئے بھی لوگ ابھی تک شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں.بعض نے تو مایوس ہوکر یہاں تک کہ د یا کہ کوئی امام مہدی نہیں آنا اور امت کو کسی مصلح کی ضرورت ہی نہیں.قبل ازیں النجم الثاقب کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث درج کی جاچکی ہے کہ امام مہدی علیہ السلام 1240ھ کے بعد پیدا ہوں گے.سورۃ وو “ 100 فاتحہ اس کی بھی تصدیق کرتی ہے اس کیفیت کی تصدیق یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ میں چار قوموں کا ذکر کیا گیا ہے.اوّل مَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ جس سے مراد حضرت مسیح ابن مریم کے دشمن یہود ہیں.دوم ضالین یعنی عیسائی جنہوں نے تثلیث کا عقیدہ گھڑ لیا.سوم غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ اس سے مراد ملتِ اسلامیہ کی نشاۃ اولی کے لوگ ہیں.چہارم وَلَا الضَّالِتين.اس سے مراد اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لوگ ہیں.ان کلمات میں لفظ ”غیر “ اور حرف ”لا“ نے نہایت خوبی سے اس زمانے کو ظاہر کیا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری سال اور امام مہدی علیہ السلام کے سن پیدائش کا پہلا سال ہمارے سامنے لے آتا ہے.حرف ”لا“ کے اعداد 31 ہیں اور لفظ غیر کے اعداد 1210 ہیں.یہ کل 1241 بنتے ہیں.اور اس سن یعنی 1240 کے بعد آپ کی پیدائش ہوئی.ہماری اس تقسیم سے کوئی یہ نتیجہ نہ نکالے کہ اسلام کی نشاۃ اولی میں معاذ اللہ ضلال پائی جاتی تھی بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہود کے مقابلہ میں نشأة اولیٰ کو رکھا ہے اور عیسائیوں کے مقابلہ میں نشاۃ ثانیہ کو رکھا ہے سو یہ ایک نسبتی چیز ہے ور نہ دونوں نشاتیں منعم علیہم ہیں.یہ ایسی بات ہے جیسے حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ صراط مستقیم میری راہ ہے اور اس میں میرے زمانے کی طرف ایما ہے اب حضور کے اس ارشاد سے یہ لازم نہیں آتا کہ نشاۃ اولی صِرَاط مُسْتَقِيم پر نہیں تھی.حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام کی زندگی کے اہم نکات کو جن کلمات میں قبل ازیں ظاہر کیا گیا ہے اُن سب کا تعلق آپ کے ماقبل کے زمانے سے ہے نہ کہ مابعد کے زمانے سے.لہذا اب ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ مابعد کے زمانے کے لئے کون کون سے کلمات ہمارے سامنے آتے ہیں.

Page 52

“ 101 سورۃ العصر نے ہمیں سمجھایا تھا کہ آپ کا سن پیدائش غلام الحمد للہ کے اعداد 1250 میں مضمر ہے.ظاہر ہے کہ 1250 کے بعد باقی 1123 کے اعداد ہمارے سامنے آنے چاہئیں اور ان اعداد کو ظاہر کرنے کے لئے ہمیں ایسے کلمات استعمال کرنے چاہئیں جن کو غلام الحمد للہ کے کلمات سے پوری طرح مناسبت ہو.سو وہ کلمات ”حمد غلام ہیں.لفظ حمد کے عدد 52 ہیں اور لفظ غلام کے 1071.ان دونوں کا میزان 1123 ہے اور جب ان اعداد کو 1250 میں جمع کیا جائے تو پورے 2373 سال ہمارے سامنے آتے ہیں اور اس طرح ملت اسلامیہ کی مجموعی عمر ہمارے سامنے آجاتی ہے.آپ اگر چاہیں تو اس کیفیت کو ذیل کے کلمات میں بھی ظاہر کر سکتے ہیں.غلام - الر- غلام اس کیفیت میں الر کے اعداد الحمد لله 179 اور حمد 52 کے اعداد کے جامع ہیں یعنی 231 ہیں.نیز اگر آپ چاہیں تو اسی کیفیت کو غلام.ابوبکر غلام کے کلمات میں بھی ادا کر سکتے ہیں.اس موقع پر آپ ضرور کہیں گے کہ قرآن شریف میں تو ابوبکر کا کہیں نام تک بھی نہیں ہے پھر آپ کو کیا حق ہے کہ اس نام سے کوئی استنباط کریں.اس سوال کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق کا نام حضرت جبریل کا سند یافتہ ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب جبریل علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کا یہ پیغام پہنچایا کہ آج رات مکہ چھوڑ جاؤ تو اس پر حضور نے فرما یا مَن يُصحبنی یعنی میرا ساتھی کون ہوگا تو جبریل علیہ السلام نے جواب دیا ابوبکر.یہ کیفیت اس موقع پر ہم نے اس غرض سے پیش کی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دو غلاموں کے بارے میں جو بشارت دی گئی تھی وہ دراصل حضرت “ 102 ابراہیم کے نام کے پردے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تھی اور آپ کو بتایا گیا تھا کہ جس طرح حضرت ابراہیم کا بیٹا اسماعیل علیہ السلام غلام حلیم تھا اور اسحاق علیہ السلام غلام علیم تھا اسی طرح آپ کی اُمت کے بھی دو حصے ہیں.پہلا حصہ غلام حلیم کا وارث ہے اور دوسرا حصہ غلام علیم کا چنانچہ عملاً یہی ہوا کہ 1300 سال تک غلام علیم کی نسل ملت کی راہنمائی کرتی رہی.اس زمانے میں 12 مجدد آئے اس کے بعد ملت اسلامیہ غلام علیم کی طرف منتقل ہو گئی اور یہ وہی صورت ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش آئی یعنی 13 سال تک آپ مکہ میں رہے.اس شہر کے باشندے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد تھے اس کے بعد آپ یہود کے شہر یثرب میں تشریف لے آئے.جو اہل کتاب تھے اور حضرت اسحاق علیہ السلام کی نسل سے تھے ، حضرت اسحاق علیہ السلام غلام علیم تھے.اصل بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وارث تھے.لہذا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں کی خوبیاں حضور کی طرف منتقل ہوگئیں.حضور کا وجود جامع علم وحلم تھا.اور پھر یہی دونوں خوبیاں امت کی طرف منتقل ہوئیں.حلم کی صفت حضور کے جاں نثار غلام ابوبکر صدیق کی وساطت 66P سے اسلام کی نشاۃ اولیٰ کی طرف منتقل ہوئی اور علم کی صفت حضور کے غلام احمد “ کی وساطت سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی طرف منتقل ہوئی.لفظ غلام اور احمد کی ترکیبی کیفیت دو حیثیتیں رکھتی ہے.ایک اضافی اور دوسری توصیفی.اضافی کیفیت کے اعتبار سے آپ حضرت احمد مکی کے غلام ہیں اور امتی ہیں اور توصیفی ترکیب کی حیثیت سے آپ ایک ایسے غلام ہیں جو اپنے احمد کی سب سے بڑھ کر حمد کرنے والے ہیں.اس جہت سے آپ نبی ہیں.حضرت بانی جماعت احمدیہ نے اپنی کتاب "اعجاز مسیح “ کے آخری صفحہ (جو 66

Page 53

”“ اردو میں ہے) پر سورۃ فاتحہ کے متعلق ایک عجیب بات کہی ہے فرماتے ہیں:.وو ” سورۃ فاتحہ سے ایک عزت کا خطاب مجھے عنایت ہوا ہے.وہ کیا ہے اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.103 (اعجاز لمسیح.روحانی خزائن جلد 18 صفحہب) آپ کے یہ الفاظ دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ اس پہلو سے بھی سورۃ فاتحہ کا عددی جائزہ لینا چاہئے.شاید اس میں بھی کوئی معرفت مخفی ہو.چنانچہ بسم اللہ سے شمار کیا تو أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے کلمات پر پورے 5980 کے اعداد سامنے آگئے اور یہ وہی اعداد ہیں جو حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کے بعد آپ کے سن پیدائش کو ظاہر کرتے ہیں.عددی تفصیل ملاحظہ ہو.بِسْمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيم از الْحَمْدُ تا المُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ 786 788 = 3385 = 1807 5980 = میزان پھر عجیب بات یہ ہے کہ ان اعداد سے اگر الحمد للہ کے اعداد جو 179 ہیں خارج کر دیئے جائیں تو پھر آپ کی پیدائش کا سن شمسی جو 5801 ہے سامنے آجاتا ہے.ہم یہ بتا چکے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت تک سشمسی اور قمری سن میں 142 سال کا فرق واقع ہوا تھا جو الحد کے اعداد 71 سے دوگنا ہے.اب ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ عمر دنیا جو 7113 سال ہے، کے خاتمہ پر کس قدر تفاوت واقع ہوگا.ظاہر ہے کہ ہر صدی میں تین سال کا تفاوت واقع ہوتا ہے.لہذا 71 صدیوں میں 213 سال کا تفاوت واقع ہوگا.اور عمر دنیا بحساب سمسی پورے 6900 سال کی صورت میں ہمارے سامنے آئے گی اور یہ 213 کا جو تفاوت ہے یہ “ 104 تین الحد کے اعداد کے برابر ہے.یہ تین العہ قرآن شریف کی سورۃ بقرہ ،سورۃ آل 9966 عمران اور سورۃ اعراف میں آئے ہیں.سورہ اعراف میں ”حرف ”ص“ بھی موجود ہے جس کے اعداد 90 ہیں اور عجیب بات ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام سے لے کر قیامت تک شمسی اور قمری حساب میں جو تفاوت واقع ہوا وہ پورا 90 سال ہے یعنی حرف ص “ کے اعداد کے برابر ہے.حضرت عیسی علیہ السلام کے وقت 123 سال کا تفاوت واقع ہو چکا تھا.بعد میں جب 90 سال کا اضافہ ہوا تو یہ تفاوت 213 تک جا پہنچا.66 قرآن شریف کے شروع میں سورۃ یونس سے پہلے جو حروف مقطعات آئے ہیں ان کی اصل عددی قیمت 303 ہے جن میں تین العد آدم کی پیدائش سے لے کر قیامت تک واقع ہونے والے شمسی قمری حساب کے تفاوت کو ظاہر کرتے ہیں اور 90 کا عدد ان کے متوازی واقع ہو کر 123 سال کو الگ کر دیتا ہے.لہذا حرف ص“ کا مقام حساب منہی میں مدد دیتا ہے اور ساتھ ہی یہ حرف ہمیں یہ بھی سمجھاتا ہے کہ وہ شخص جو اسم احمد کی کامل تجلی کا مظہر ہے اُس کی پیدائش پر یہ تفاوت آدم علیہ السلام سے لے کر اُس کی پیدائش کے وقت تک 180 تک جا پہنچے گا اور یہ 180 کا عدد 90 کے عدد سے دو گنا ہوگا.لہذا ان ابتدائی حروف مقطعات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ہمیں سمجھاتے ہیں کہ عمر دنیا کتنی ہے؟ اور یہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش تک 123 سال کا تفاوت واقع ہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پر 142 سال کا تفاوت واقع ہوا اور بانی سلسلہ احمدیہ کی پیدائش پر 179 سال کا تفاوت واقع ہوا اور یوم آخرت تک 213 سال کا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر آخرت تک 90 سال کا تفاوت واقع ہوگا.اس حساب سے ظاہر ہے کہ دنیا کی کل عمر بحساب قمری 7113 سال ہے اور بحساب شمسی پورے 6900 سال ہے اس کیفیت

Page 54

”“ 105 سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن شریف میں سب سے پہلے الف، لام، میم کے حروف رکھ کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ عمر دنیا بحساب اوسط حرف لام کے 30 اور حرف میم کے عدد 40 یعنی کل 70 صدیاں ہیں اور بحساب شمسی ستر منفی ایک 69 ہیں اور بحساب قمری 70 + 1 = 71 صدیاں ہیں اور جو 13 سال زائد ہیں وہ نا قابل التفات ہیں.نیز یہ کہ عمر ملت محمدیہ جو بحساب قمری 2373 سال ہے اور جسے غلام الحمد للہ اور حمد غلام کے حروف ظاہر کرتے ہیں وہ بحساب شمسی 2302 سال ہے جے غلام الحمد لله اور حمد غ“ کے حروف ظاہر کرتے ہیں گو یا لفظ غلام سے الد کے حروف گر جاتے ہیں.66 اس موقع پر یہ امر قابل ذکر ہے کہ سوۃ فاتحہ نے جو ہمیں 2373 کے اعداد دیئے ہیں اگر انہیں سن ہجرت نبوی سے شروع کیا جائے تو اس صورت میں ملتِ اسلامیہ کی عمر ہمارے سامنے آئے گی.کیونکہ سورۃ فاتحہ کے حساب کا ابتدائی نقطہ سن ہجرت ہے جیسا کہ لفظ ”غیر “ اور حرف ص نے ہمارے سامنے 1300 سال پیش کئے اور اس کے بعد اچھی نا کا کلمہ رکھ کر ہمیں بتایا ہے کہ چودھویں صدی امام مہدی علیہ السلام کی صدی ہے.لہذا ظاہر ہے کہ سورۃ فاتحہ کے حساب کی بنیا دسن ہجری پر ہے.اس کے برعکس اگر دنیا کی عمر کا حساب لگانا ہوتو پھر 2373 کے اعداد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سن وصال سے شروع ہوں گے کیونکہ سورۃ العصر کے اعداد میں ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سن وصال دکھایا گیا ہے اور یہ طریق اس لئے اختیار کیا گیا ہے تا ظاہر ہو کہ عمر دنیا کے آخری دس سال محمدی اور احمدی انوار سے خالی ہیں اور یہ کہ یہ زمانہ دس سال کا تباہ کن عذاب کا ہے جس کا نتیجہ یا تو قیامت کبری ہوگی یا قیامت صغریٰ.بہر حال ایک انقلاب عظیم بر پا ہوگا جس کی کیفیت کا علم اللہ تعالیٰ “ ہی کو ہے.106 خلاصہ یہ کہ ملت اسلامیہ کی عمر بحساب شمسی سن ہجرت کے بعد 2302 سال ہے اور دنیا کی عمر بھی حضور کے سنِ وصال کے بعد 2302 سال ہے اور حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت کے بعد پورے 2300 سال ہے.اس کیفیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دوسالہ خلافت کو بڑی اہمیت حاصل ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ دوسال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تریسٹھ سالہ عمر کے ساتھ ایک تتمہ کی حیثیت رکھتے ہیں.اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سورۃ فاتحہ کے بقیہ کلمات جو حروف مقطعات کا ماخذ نہیں ہیں ان کی کیا حیثیت ہے سو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہم یہ پہلے بتا چکے ہیں کہ سورۃ یونس سے ماقبل کے حروف مقطعات کی حیثیت دوطرفہ ہے.ان حروف کی عددی قیمت 303 ہے.لہذا یہ حروف جو الھد.المد اور البص ہیں اگر سورۃ فاتحہ کی بسم اللہ کے بعد رکھے جائیں تو پھر ذیل کے کلمات کی صورت میں عمر دنیا ہمارے سامنے آجائے گی یعنی :.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ الَمَ - الم - المَصَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ.غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ لیکن یہ صورت بظاہر بے معنی معلوم ہوتی ہے سو اس خامی کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں کچھ ایسے بامعنی کلمات رکھ دیئے ہیں جن کی عددی قیمت 303 ہے.وہ کلمات حسب ذیل ہیں:.مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ اِهْدِنَا اب ان کلمات کو اگر بسم اللہ کے بعد رکھا جائے تو پھر ایک نہایت لطیف اور جمیل

Page 55

دو “ 107 “ 108 نقشہ ہمارے سامنے آجاتا ہے جس کی کیفیت یوں ہے:.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ اِهْدِنَا صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ 788 = 303 = غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ = 6010 یہ کل اعداد 7101 ہیں اور اگر لفظ مالک کو ملک پڑھیں تو پھر یہ پورے 7100 سال ہیں یہی دنیا کی عمر ہے.ممکن ہے اس موقع پر کوئی اعتراض کرے کہ یہ تو سورۃ فاتحہ میں بے جا تصرف ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تصرف ہم نے نہیں بلکہ خود سورۃ فاتحہ کا حساب کشاں کشاں ہمیں یہاں تک لے آیا ہے اور پھر یہ کیفیت اپنی ذات میں نہایت با معنی ہے اور عقلاً قابل قبول ہے علاوہ ازیں سورۃ فاتحہ جس رنگ میں نازل ہوئی ہے وہ اسی رنگ میں اپنی جگہ قائم ہے اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوئی لہذا کسی اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں رہتی.سورۃ فاتحہ کی اندر کی لکھائی نے ہمیں مندرجہ ذیل معارف دیئے ہیں.خلاصہ معارف سورۃ فاتحہ 1.یہ سورہ حروف مقطعات کا ماخذ ہے اور اس طرح سارے قرآن شریف پر ان حروف کے ذریعہ چھائی ہوئی ہے.2.اس نے ہمیں بتایا ہے کہ ملت اسلامیہ کی مجموعی عمر 2373 سال ہے.3 - نشاۃ اولی کی عمر 1300 سال ہے.4.یہ کہ لفظ صراط کا مقام حرف غ‘ کے بعد ہے یعنی ہزار سال محمدی کے بعد 300 سال عبوری دور کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہی دور مریمی دور ہے.یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ لفظ مریمی کے اعداد بھی پورے 300 ہیں.اس موقع پر یہ امر قابل ذکر ہے کہ اسلام میں تین عبوری دور پائے جاتے ہیں.پہلا عبوری دور ارتقائی ہے جس سے مراد خیر القرون کی ابتدائی تین صدیاں ہیں.دوسرا عبوری دور انحطاطی ہے جس سے مراد گیارھویں بارھویں اور تیرھویں صدی ہے.66 تیسرا عبوری دور ارتقائی ہے جس سے مراد اسلام کی چودھویں پندرھویں اور سولھویں صدی ہے.5 - لفظ "صراط “ کے بعد لفظ اهد“ رکھ کر بتایا کہ یہاں سے مہدی علیہ السلام کا زمانہ شروع ہو رہا ہے اور یہ کہ چودھویں صدی کے ابتدائی دس سال کے اندر اندر لوگ ان سے کہیں گے کہ آپ ہمیں ہدایت دیجئے.سو وہ لوگوں سے بیعت لے کر ایک جماعت قائم کریں گے.66 6.لفظ ” غیر “ نے ہمیں سمجھایا کہ میرے بعد حرف ”ص“ سورۃ مریم 66 کا حرف ص ہے اور یہ کہ سورۃ مریم کا مقام چودھویں صدی سے پہلے ہے اور یہ 66 سورۃ حجر کے ماتحت ہے.لفظ ”غیر میں چھ حرف را‘ پائے جاتے ہیں کیونکہ حرف غ کی قیمت 1000 ہے.اور حرف را‘ کی قیمت 200 ہے.لہذا حرف غ میں پانچ حرف را پوشیدہ ہیں اور لفظ ”غیر “ میں ایک اور حرف ”را “ بھی موجود ہے.قرآن شریف میں اس کے مقابل مسلسل چھ سورتیں حرف’را‘والی آئی ہیں جو سورۃ یونس سے لے کر کہ سورۃ حجر تک ہیں.7 - لفظ مالک نے ہمیں بتایا کہ میں امام مہدی کے اس اعلان کی تصدیق کرتا ہوں کہ امام مہدی یوم الدین کے طلوع پر ظاہر ہوگا اور وہ اللہ تعالیٰ کی صفت مالکیت کا مظہر ہوگا کیونکہ امام مہدی کی پیدائش میرے زمانے میں ہوئی اور سوائے چند ماہ کے

Page 56

”“ 109 ان کی پوری عمر کا آئینہ دار ہوں یعنی مجھ پر 1325 کا سن ختم ہوتا ہے.8.پھر بتایا کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی عمر 1300 سال کے بعد اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کے اعداد کے برابر ہے یعنی 1073 سال ہے اور 1302 کے بعد لفظ غلام کے اعداد کے برابر ہے یعنی 1071 سال اور یہ کہ 1302 کے اعداد غلام 1071 ، ابوبکر.231 کے اعداد ہیں اور 1303 کے بعد نشاۃ ثانیہ کی عمر لفظ مغل کے اعداد کے برابر ہے یعنی 1070 سال زائداور 1303 کے اعداد احمد غُلامُكَ اسمه احمد کے اعداد ہیں اور ملت کی مجموعی عمر کے حامل مندرجہ ذیل کلمات کی صورت میں ہمارے سامنے آتے ہیں یعنی احمد غُلَامُكَ اسمه احمد مغل یعنی اے احمد تیرے غلام کا نام احمد مغل ہے.شاید اس موقع پر کوئی اعتراض کرے کہ لفظ مغل ایک بے معنی لفظ ہے لہذا اس کو اہمیت دینا محض تکلف ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ مغل عربی زبان کا لفظ ہے اور مغل کے معنی ہیں شکار الی السلطان یعنی بادشاہ کے پاس شکایت کی.سوحضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے دجال اور یا جوج ماجوج کے خلاف اللہ تعالیٰ کے سامنے شکایت کرتے ہوئے فرمایا:.قَدْ لَسُوا الْبُلْدَانَ مِنْ أَهْرًا بِهِمْ یعنی ان لوگوں نے اپنی پلیدگی سے شہروں اور بستیوں کو پلید کر دیا ہے.پھر فرمایا: - يَا رَبِّ سَحْقُهُمْ كَسَحُقِكَ طَاغِيًا.نیز یہ دعا کی:.يَارَب سَلْطَنِى عَلَى جُدُرَانِهِمْ نور الحق حصہ اول.روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 126 ، 128 ) یعنی اے خدا تو ان لوگوں کو اس طرح پلیس جس طرح تو ہمیشہ سرکش قوموں کو “ 110 پیتا رہا ہے اور اے خدا تو مجھے اُن کے درو دیوار پر مسلط فرما دے.9.پھر ہمیں بتایا کہ عمر دنیا بحساب قمری چندا کائیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے 7100 سال بحساب قمری ہے.اور بحساب شمسی 6900 سال ہے.10.سورۃ فاتحہ نے عمر دنیا کا حساب بسم اللہ کے تحت رکھا اور ملتِ اسلامیہ کی عمر کا حساب الحمد للہ کے تحت رکھا تا ظاہر ہو کہ یہ کائنات اسماء اللہ کی مظہر ہے.اور اس 66299 کائنات میں امت محمدیہ علاوہ اسماء اللہ کے حمد اللہ کی بھی مظہر ہے.11 - حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے فرمایا کہ سورۃ فاتحہ سے مجھے ایک عزت کا خطاب عنایت ہوا ہے.وہ کیا ہے اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.عجیب بات ہے کہ بِسْمِ اللہ سے لے کر عَلَيْهِمُ کے حرف میم تک اگر اعداد شمار کئے جائیں تو حضور کاسن پیدائش بعد از پیدائش آدم علیہ السلام سامنے آ جاتا ہے جو 5980 ہے حالانکہ حضور کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ان کلمات میں آپ کا سن پیدائش موجود ہے.اس موقع پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہم نے حروف ابجد کی بحث میں بتایا تھا کہ ان حروف کی جو الف سے شروع ہوتے ہیں اور حرف ”غ “ پر ختم ہوتے ہیں، مجموعی عددی قیمت 5995 ہے اور اب جبکہ مسیح موعود علیہ السلام کا سن پیدائش 5980 ہمارے سامنے آیا تو یہ حقیقت بھی از خود ہمارے سامنے آ گئی کہ 5995 میں آپ پندرہ ،سولہ سال کے لڑکے تھے اور عربی زبان میں اس عمر کے بچے کو عموماً غلام کہا جاتا ہے.ظاہر ہے کہ حروف ابجد میں حرف ”الف“ سے آدم کے نام کی طرف اشارہ ہے اور حرف ”غ “ پر اس غلام کی پندرہ سولہ سال کی عمر دکھائی گئی ہے.یہ تصرف الہی ہے کہ اس نے حروف ابجد میں پہلے سے ہی آپ کے زمانے کی نشاندہی کا اہتمام کر رکھا تھا.خلاصہ یہ کہ سورۃ فاتحہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حیات طیبہ کے ہراہم وو 66°

Page 57

“ 111 نکتہ کی تصدیق کی گئی ہے.اگر اب بھی کوئی بدنصیب آپ کو صادق اور راستباز نہ مانے تو اسے چاہئے کہ قرآن شریف کو اور اس کے لانے والے کو اور نازل کرنے والے کو بھی خیر باد کہہ دے اور نمازیں ترک کر دے کیونکہ اُن میں سورۃ فاتحہ پڑھنا لازمی ہے.اب آئیے ہم دوبارہ حروف مقطعات کی طرف متوجہ ہوں اور سورۃ فاتحہ کی روشنی میں اُن کا جائزہ لیں.حروف مقطعات سورۃ فاتحہ کی روشنی میں اس سے پہلے ہم حروف مقطعات کے بارے میں حدیث نبوی اور بعض اہل اللہ کے کشوف کی روشنی میں بحث کر چکے ہیں اور بتا چکے ہیں کہ ان حروف کا ماخذ سورۃ فاتحہ ہے اور یہ کہ ان کے مجموعی اعداد 3385 ہیں.پھر سورۃ فاتحہ میں آکر معلوم ہوا کہ ملت اسلامیہ کی عمر 2373 سال ہے اور 1012 کے اعداد ایک حاشیہ کی صورت اختیار کر کے ملت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیتے ہیں.اب حروف مقطعات میں جو بات غورطلب ہے وہ یہ ہے کہ ان میں کون کون سے وہ حروف ہیں جو ملت اسلامیہ کی عمر کو 2373 سال ظاہر کرتے ہوں اور کون سے وہ حروف ہیں جن کی عددی قیمت 1012 ہو اور حاشیہ کی حیثیت رکھتے ہوں.اس جستجو نے مجھے کئی سال تک پریشان رکھا کیونکہ 1426 کے اعداد جو سورۃ یونس سے سورۃ حجر تک کی سورتوں میں پائے جاتے ہیں میرے سامنے تھے لیکن یہ معلوم کرنا مشکل تھا کہ باقی 947 کے اعداد رکھنے والی سورتیں کون سی ہیں جو 1426 کے اعداد سے مل کر 2373 کے اعداد کو پیش کریں اور وہ سورتیں کون سی ہیں جن کے اعداد 1012 ہوں اور حاشیہ کی حیثیت رکھتی ہوں.“ 112 اس جستجو کے دوران اللہ تعالیٰ نے ایک دن میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ دیکھو کہ وہ کون سی سورۃ ہے جس میں تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ کے الفاظ سورۃ یونس کے بعد دوبارہ آئے ہیں.چنانچہ یہ الفاظ مجھے سورۃ لقمان کی پہلی آیت میں ملے جس سے مجھے یہ احساس ہوا کہ سورۃ لقمان کا مقام سورۃ حجر کے آخری 71 سال کا ترجمان ہے کیونکہ سورۃ لقمان کے حروف مقطعات الحد ہیں اور ان کی عددی قیمت 71 ہے.66 جب میں نے یہ طریق اختیار کیا تو یہ دیکھ کر مجھے بے حد حیرت ہوئی کہ اس سورۃ کے بعد آنے والی سورتوں کے اعداد پورے 947 ہیں.یہ سورتیں وہ ہیں جو سورۃ سجدہ سے شروع ہوتی ہیں اور سورۃ ”ن“ پر ختم ہوتی ہیں.پھر اس کے ساتھ یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ کچھ سورتیں جن کے مجموعی اعداد 1012 ہیں ایک حاشیہ کی حیثیت رکھتی ہیں ان کا ملت اسلامیہ کی عمر ظاہر کرنے میں کوئی دخل نہیں البتہ وہ ملت کے اہم مقامات کی نشاندہی کرتی ہیں اور حساب منہمی میں مدد دیتی ہیں اور وہ سورتیں یہ ہیں:.1 - بقرة: الم = 71 ، 2 آل عمران: الم 1 7 ، 3 - الاعراف البَص = 161 ، میزان کل = 303 4- مریم كهيعص = 195 ، 5 طه : طه - 14 ، 6 شعراء طسم = 109 ، 7- نمل: طس 69 ، 8 قصص : طسم = 109، = 69، عنكبوت: الم = 71 ، 10 - روم : الم = 1 7 ، 11 - لقمان : الم = 71 یہ کل گیارہ سورتیں ہیں جو حاشیہ کی حیثیت رکھتی ہیں اور ملتِ اسلامیہ کے اہم مقامات کی نشاندہی کرتی ہیں اور حساب فہمی میں مدد دیتی ہیں ان کی مجموعی عددی قیمت 1012 ہے اور یہ اعداد الصراطَ الْمُسْتَقِيمَ کے اعداد ہیں.

Page 58

”“ 113 اس موقع پر شاید کوئی یہ اعتراض کرے کہ اس طرح تو قرآن شریف کی وضعی ترتیب میں فرق پڑ جاتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اصل ترتیب اپنی جگہ قائم ہے.البته قرآن شریف کی معجزانہ شان کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان سورتوں کو حروف مقطعات کی دی ہوئی ترتیب کی روشنی میں دیکھا جائے تا کہ ظاہر ہو کہ قرآن شریف زمانہ کے مطابق بھی چل رہا ہے اور خدا تعالیٰ کے قول اور فعل میں مطابقت بھی پائی جاتی ہے.یہ وہ حقیقت ہے جس کی قرآن شریف نے بھی ہمیں ان الفاظ میں توجہ دلائی ہے.اللهُ نَزَلَ اَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُتَشَابِها مَّثَانِي (الزمر : 24) یعنی اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی حسین ترین کتاب نازل فرمائی ہے جس کی سورتیں باہم مشابہت رکھتی ہیں اور ایک دوسرے کے متوازی واقع ہو کر چلتی ہیں.لہذا قرآن شریف کا یہ پہلو بھی اپنی ذات میں ایک معجزانہ شان کا حامل ہے.حروف مقطعات میں سب سے بڑی لائن وہ ہے جو سورۃ یونس اور سورۃ حجر میں اتصال پیدا کرتی ہے.اس کی عددی قیمت 1426 ہے اور یہ عجیب بات ہے کہ لفظ یونس کے اعداد 126 ہیں گویا اس میں یہ اشارہ ہے کہ 1426 کے اعداد تین حصوں میں منقسم ہیں.پہلا حصہ 1300 کا ہے، دوسرا 26، تیسرا 100 کا.گویا اس رنگ میں 1326 سال الگ دکھائے گئے ہیں اور 100 سال زائد دکھائے گئے ہیں.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کا وصال 1326 میں ہوا اور سورۃ فاتحہ کے مطابق یہ 1326 سال لفظ مالک کے بعد سامنے آتے ہیں.لفظ مالک پر 1325 سال ختم ہوتے ہیں اور آگے يَوْمِ الدِّینِ کے کلمات ہیں ان کی عددی قیمت 151 “ 114 ہے.ان کلمات میں حرف ”ن“ کا عدد 50 ہے الْحَمْدُ سے يَوْمِ الدِّینِ کے کلمات کی عددی قیمت حرف ”ن“ سمیت 1476 ہے.حروف مقطعات نے ان 1476 کے اعداد میں سے حرف ”ن“ کے عدد 50 کو الگ کر دیا ہے اور چودہ سو چھہتر کی بجائے 1426 کے اعداد ہمارے سامنے رکھے ہیں تا ظاہر ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سن وصال کے بعد پورا 100 سال جزا سزا کا دن ہے جس میں سے اب 1396 کے بعد صرف 30 سال باقی رہ گئے ہیں.ان 30 سالوں کے اندراندر دنیا کی تمام قوموں کا حساب کتاب مکمل ہو جائے گا اور جو حکومتیں آج دُولِ گبری کہلاتی ہیں اُن کی کبریائی خاک میں مل جائے گی.چھوٹے بڑے کئے جائیں گے اور بڑے چھوٹے کئے جائیں گے.ملتِ اسلامیہ کے سر سے کالی رات چھٹ جائے گی اور صبح صادق کا ظہور ہوگا.یہ 1426 کے اعداد دراصل 1000 سال کے بعد چھ الحد کے اعداد کا مجموعہ ہیں اور یہ چھ الیہ مندرجہ ذیل سورتوں کے ہیں.1.بقرۃ.2.آل عمران.3.الاعراف.-4 عنکبوت - 5- الروم - 6 - لقمان اور سورۃ الاعراف میں جو حرف وو 66 ”ق“ موجود ہے یہ وہی حرف ص ہے جس کو ہم سورۃ فاتحہ میں غلام الحد.البَص کے رنگ میں پیش کر چکے ہیں جن کی عددی قیمت 1303 ہے اور جو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی 53 سالہ عمر کو ظاہر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ یہی وہ ہستی ہے جو احمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسمه احمد کی مصداق ہے.حرف ” ص“ کی جگہ ہم لفظ ملک رکھ سکتے ہیں اور یہ لفظ اپنے عدد کے اعتبار سے چوتھی سورۃ عنکبوت کے حروف الحمد کے عدد 71 سے متجاوز ہو کر سورۃ الروم کے مقابل آجاتا ہے اور اس کے بعد سورۃ لقمان کا زمانہ شروع ہو جاتا ہے.لہذا 1426 کے عدد کو اگر ہم 1426 میل کی لمبی سڑک تصور کر لیں تو نقشہ ذیل کی صورت میں ہمارے سامنے

Page 59

”“ آئے گا.1000 غ 426 ملك الم - الم الم الم الم - الم ج 115 بقره ، آل عمران ، الاعراف عنکبوت، روم لقمان وو اس موقع پر یہ امر قابل ذکر ہے کہ حرف ”ص “بانی سلسلہ احمدیہ کی جمالی شان کا حامل ہے اور حرف ”طا جلالی شان کا.گویا حرف ” ص“ آپ کو مسیح ناصری سے مشابہت دیتا ہے اور حرف ”طا “ آپ کی مہدوی شان کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مشابہت دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ حرف’طا کے تحت جو سورتیں آئی ہیں ان میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کی باہم کشاکش دکھائی گئی ہے.طواسیم والی سورتیں حرف ”طا“ کے تحت ہیں اور الحمد والی سورتیں حرف ص “ کے تحت ہیں.یہی وجہ ہے کہ لفظ ” ملك “ سورۃ روم کے مقابل آ گیا.تا ظاہر ہو کہ قوم روم کے فساد کو مٹانے والا یہی مسیح ابن مریم ہے.حرف ”طا “ اور حرف ”ص‘ کی حقیقت کے متعلق جو کچھ ہم نے لکھا ہے اس کا علم ہمیں حضرت سید ولی شاہ صاحب محدث دہلوی کی کتاب ”الفوز الکبیر سے حاصل ہوا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ حروف مقطعات میں حرف ص “ اور حرف طا، پستی سے رفعت کی طرف حرکت کرنے کو ظاہر کرتے ہیں.دونوں میں فرق یہ ہے کہ حرف ”طا میں فخامت اور عظمت پائی جاتی ہے اور حرف ”ص“ میں لطافت اور صفائی پائی جاتی ہے.وو ( الفوز الکبیر.باب چہارم حروف مقطعات قرآن صفحه (222) پھر دیکھئے کہ اسمه احمد کی بشارت حضرت عیسی علیہ السلام نے دی تھی.سو “ 116 حروف مقطعات ہمیں یہ بھی سمجھاتے ہیں کہ جس وجود کی بشارت دی گئی تھی وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے سن 1834 عیسوی کے بعد پیدا ہوا اور 1303 ہجری میں اسم احمد " کا مصداق ہوا.سورۃ مریم میں حرف ”ص‘ اس حقیقت کا حامل ہے.تفصیل ملاحظہ ہو." آپ سورۃ بقرہ سے سورۃ مریم تک کے تمام حروف مقطعات کے اعداد کو شمار کریں.جب آپ سورۃ مریم کے حروف کھیعص تک پہنچیں گے تو حرف ”ع“ پر پورے 1834 سال آپ کے سامنے آجائیں گے.گویا حرف ”ع“ پر جو لفظ عیسی کا پہلا حرف ہے حضرت مسیح ناصری کا زمانہ ختم ہو جاتا ہے.آگے 1835 سے جو بانی سلسلہ احمدیہ کا سن پیدائش ہے ہمارے سامنے آجاتا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ سورۃ مریم کا حرف ص “بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی حیات طیبہ کا مظہر ہے.اور اس کی پہلی اکائی حضور کے سن پیدائش 1835 کو ظاہر کرتی ہے جیسا کہ سورۃ فاتحہ میں لفظ مالک یا ملک مظہر ہے.پھر 1834 میں جب حرف ”ص‘ کا عدد 90 جمع کیا جائے تو 1924 کے اعداد ہمارے سامنے آجاتے ہیں اور جب ان اعداد میں سے 621 کے اعداد جو عیسی علیہ السلام کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت تک کی مدت کو ظاہر کرتے ہیں خارج کر دیئے جائیں تو باقی وہی 1303 سال رہ جاتے ہی جن کا ذکر پہلے آ گیا ہے.وو اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے زمانے کی نشاندہی کے لئے دوطریق اختیار کئے ہیں.اول.یہ کہ سورۃ یونس سے ماقبل کے اعداد کو جو 303 ہیں سورۃ فاتحہ کی طرح 1000 سال کے بعد لفظ صراط کی جگہ رکھا جائے تو اس طرح بجائے 1300 کے 1303 ہجری کا سن ہمارے سامنے آجاتا ہے.دوسرا طریق یہ ہے کہ مسیح ناصری کے

Page 60

" “ 117 لے کر مسیح محمدی تک کا زمانہ دیکھنا ہو تو پھر سورۃ بقرہ سے لے کر سورۃ مریم تک کے حروف مقطعات شمار کریں.اس طرح کوئی سورۃ حاشیہ کی صورت اختیار نہیں کرتی لیکن پہلے طریق میں 303 کے اعداد اور 1426 کے اعداد میں سے 123 کے اعداد جو 1303 کے بعد باقی رہ جاتے ہیں اور سورۃ مریم کے اعداد جو 195 ہیں حاشیہ کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور ان کی مجموعی قیمت جو 621 ہے، شمار میں نہیں آتی.اور یہ طریق وہ ہے جو حروف مقطعات نے ہمیں سمجھایا ہے.اس کی بھی تفصیل ملاحظہ ہو:.سورۃ یونس سے خلافت محمدیہ کا آغاز ہوتا ہے.یہاں سے آکر آپ سورۃ ابراہیم تک کے اعداد کو شمار کریں تو 1195 کے اعداد آپ کے سامنے آجائیں گے.گویا 1000 سال کے بعد 195 کے اعداد نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آجاتے ہیں اور یہ اعدا دسورۃ مریم کے حروف مقطعات کے اعداد ہیں.جس کے معنی یہ ہیں کہ گیارھویں صدی سے سورۃ مریم کے مضامین کا آغاز ہو رہا ہے یہی وجہ ہے کہ سورۃ مریم کی پہلی آیت میں ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَکریا کے الفاظ آئے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت مجدد الف ثانی کو اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامِ اسمه لیخیلی کی بشارت دے کر آپ کو حضرت زکریا کا مثیل ٹھہرا دیا اور اس طریق سے ہم پر یہ حقیقت واضح فرما دی کہ گیارھویں صدی سے سورۃ مریم کا مضمون شروع ہوتا ہے اور پھر جب سورۃ مریم کے ان حروف کو جو حرف ص“ سے پہلے ہیں اور جن کی قیمت 105 ہے 1195 میں جمع کیا جائے تو پورے 1300 سال ہمارے سامنے آ جاتے ہیں اور حرف ص ایک خط کی صورت میں 1300 سال میں سے 90 کے عدد کو اور بقیہ 1210 کے عدد کو الگ الگ کر کے دکھا دیتا ہے اور یہ وہی بات ہے جو سورۃ فاتحہ میں لفظ غیر کے بعد حرف ” ص“ نے ہمارے سامنے پیش کی تھی اور بتایا تھا کہ 66 66 “ 118 1210 کے بعد جب 90 سال گزریں گے تو آگے امام مہدی علیہ السلام کا زمانہ شروع ہو جائے گا جسے اھدنا کے کلمات ہمارے سامنے لے آتے ہیں.سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے ملتِ اسلامیہ کی عمر کو دوحصوں میں تقسیم کر دیا تھا.پہلے حصے کی عمر 1300 سال دکھائی تھی جبکہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی عمر 50 سال تھی اور دوسرے حصے کی عمر 1073 سال دکھائی تھی لیکن حروف مقطعات میں پہلے حصے کی عمر 1303 سال دکھائی جبکہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی عمر لفظ احمد کے اعداد کے مطابق 53 سال ہوگئی.یہ طریق اختیار کر کے اللہ تعالیٰ نے ہمیں دو باتیں سمجھا ئیں.اول یہ کہ عیسی علیہ السلام نے اپنے جس مثیل کی آمد کی بشارت اسمه احمد کے الفاظ میں دی تھی وہ یہی مسیح ہے جو 1303 ہجری میں اسمه احمد کا مصداق ہوا.سو یہ 1303 کا زمانہ احمد سے احمد تک کا زمانہ ہے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی 53 سال کی عمر سے لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی 53 سال کی عمر تک.دوسری بات جو اللہ تعالیٰ نے سمجھائی وہ یہ ہے کہ 1073 کے اعداد میں جو تین اکائیاں ہیں وہ نشاۃ اولی کا بھی حصہ بن سکتی ہیں اور نشاۃ ثانیہ کا بھی.گویا یہ تین اکائیاں اختیاری ہیں ہم انہیں دونوں طرف ملانے کے مجاز ہیں.اسی بناء پر ہم نے دو اکائیاں جب نشاۃ اولیٰ کے ساتھ ملائیں تو غلام.ابوبکر کا زمانہ جو عدد ا 1302 ہے ہمارے سامنے آ گیا.اس وقت حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی عمر 52 سال تھی جو لفظ حمد کے اعداد ہیں اور جب نشاۃ ثانیہ کی 1073 سال کی عمر میں سے دوا کائیاں کم ہو گئیں تو باقی 1071 سال رہ گئے جو کہ لفظ غلام کے اعداد ہیں اور اس طرح ملت اسلامیہ کی مجموعی عمر غلام + ابوبکر = 1302 ، غلام = 1071 کی صورت میں ہمارے سامنے

Page 61

120 119 آئی اور جب ہم نے تیسری اکائی کو نشاۃ اولی کے ساتھ ملایا تو نشاۃ اولیٰ کی عمر 1303 ہجری کی صورت میں ہمارے سامنے آئی اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اسم احمد کے مصداق ہو گئے اور نشاۃ ثانیہ کی عمر جو 1071 سال تھی اور جسے لفظ غلام کے حروف ظاہر کرتے تھے کم ہوکر 1070 سال رہ گئی.گو یا لفظ غلام سے حرف نکل کر نشاۃ اولی کے ساتھ جاملا اور لفظ غلام سے جب ا‘ غائب ہو گیا تو پھر حرف ”م“ حرف ”غ “ اور حرف ل باقی رہ گئے اور اس طرح لفظ مغل اپنے آپ ہمارے سامنے آگیا.اسی بنا پر ہم نے ملت اسلامیہ کی مجموعی عمر کو احمد غُلَامُكَ اسمه احمد مغل کے حروف میں ظاہر کیا ہے.ان حروف میں غُلَامُكَ اسمه احمد کے اعداد 1250 ہیں جو بانی سلسلہ احمدیہ کے سن پیدائش کو ظاہر کرتے ہیں اور جب ان کلمات کے شروع میں لفظ احمد بڑھا دیا گیا تو یہ اعداد 1303 تک آپہنچے اور جب آخر میں لفظ مغل“ رکھا گیا تو ملتِ اسلامیہ کی مجموعی عمر 2373 سال کی صورت میں سامنے آگئی.لہذا ہمارے حساب میں کسی بے جا تصرف یا تکلف کا کوئی دخل نہیں بلکہ سورۃ فاتحہ اور حروف مقطعات کی روشنی میں اپنے آپ یہ حقائق ہمارے سامنے آتے ہیں.اب آخری بات جو حروف مقطعات کے متعلق کہنے کے لائق ہے وہ یہ ہے کہ یہ حروف ، قرآن شریف کی بعض سورتوں کا کسی نہ کسی زمانے سے خصوصی لگاؤ دکھاتے ہیں.سواس کی تفصیل ملاحظہ ہو.اول : سورۃ یونس سے ماقبل کی سورتیں دوطرفہ حیثیت رکھتی ہیں.ان کا تعلق خلافتِ محمدیہ سے ماقبل کے زمانے سے بھی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصی زندگی سے بھی.دوم : سورۃ یونس سے حجر تک کا زمانہ جو 1426 سال ہے یہ اسلام کی نشاۃ اولیٰ کا آئینہ دار ہے اور یہ سورتیں متن کی حیثیت رکھتی ہیں.سورۃ مریم اور طہ ان سورتوں کے مقابل ایک حاشیہ کی حیثیت رکھتی ہیں جو 1426 سال میں سے 1000 سال کو الگ کر کے گیارھویں، بارھویں اور تیرھویں صدی کو محمدیت اور احمدیت کے مابین ایک عبوری دور کو ظاہر کرتی ہیں اور یہ اسلام کی نشاۃ اولی کے انحطاط کا دور ہے.آگے سورۃ طہ سے لے کر سورۃ قصص تک کی تمام سورتیں 1587 ہجری تک کے زمانے سے خصوصی لگاؤ رکھتی ہیں.یہ سورتیں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی تدریجی ترقی کی آئینہ دار ہیں.ان سورتوں میں ایک مثیل موسیٰ کو خلفاء فرعون سے کشاکش کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ سولھویں صدی میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ اپنے عروج کے ابتدائی نقطہ تک جاپہنچے گی اور ظالم قوموں سے نجات پاچکی ہوگی.سوم : سورۃ عنکبوت کا زمانہ 1213 ہجری سے شروع ہوتا ہے.یہاں سے ابواب فتن کا افتتاح ہوتا ہے اور اسی سورۃ میں اَلنَّشْأَةَ الْأَخِرة کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں.آگے سورۃ روم میں یہی فتنے ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ كى صورت اختیار کر لیتے ہیں.یہی مسیح موعود کا زمانہ ہے.اس سورۃ کا زمانہ 1287 سے لے کر 1355 تک ہے.آگے سورۃ لقمان ہے اس کا زمانہ 1355 سے لے کر 1426 تک ہے.اس کے بعد سورۃ السجدة “ سے لے کر سورۃ ”ن“ تک 947 سال ہیں.یہ سورتیں مسلسل چلتی ہیں.اور اپنے اپنے حروف کے مطابق اپنے اپنے زمانے کو ظاہر کرتی ہیں.یہ عجیب بات ہے کہ الم سجدۃ پھر ٹیس اور پھر حرف ”ق“ کے اعداد اگر اکٹھے کئے جائیں تو ان تینوں سورتوں کے اعداد پورے 231 بنتے ہیں جو حروف الر کے اعداد ہیں.گویا سورۃ حجر کے حروف الر کے بعد پھر الڑکی قیمت رکھنے والے حروف آگئے اور یہ اس لئے کہ با ہم تسلسل نظر آئے.اس موقع پر یہ

Page 62

" “ 121 بات قابل ذکر ہے کہ ہر حرف ص “ والی سورۃ سے ماقبل والی سورۃ میں الحمد للہ کے الفاظ ضرور آتے ہیں اور ہر حرف ”ص“ والی سورۃ ذکر ، ذکری یا اُذکر کے الفاظ سے شروع ہوتی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے بات کی جاتی ہے.ہر سورۃ میں قصہ ابلیس و آدم ضرور آتا ہے.یہ قصہ سورۃ مریم کی بجائے سورۃ طہ میں آیا ہے تا ظاہر ہو کہ یہ دونوں سورتیں ایک ہی سکہ کے دورخ ہیں جس کی ایک طرف ص اور مسیح اور دوسری طرف ”طا “ اور مہدی لکھا ہوا ہے.بالآخر یہ امر خاص توجہ کے لائق ہے جب ہم یہ کہتے ہیں کہ فلاں سورت کا فلاں زمانے سے تعلق ہے تو اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ ان کا باقی زمانوں سے کوئی تعلق نہیں.ہماری مراد صرف یہ ہے کہ ان کو اپنے اپنے زمانے سے خصوصی لگاؤ ہے.ہم نے اسلام کی دونشاتوں کے متعلق صرف دو باتیں بیان کی ہیں جن کی طرف عام طور پر توجہ نہیں جاتی ورنہ قرآن شریف اور حدیث شریف میں بہت سے حوالے موجود ہیں.“ 122

Page 63

”“ باب سوم اسمائے انبیاء کے اعداد اور معارف مخفیه 123 “ 124

Page 64

126 125 اسمائے انبیاء کے اعداد اور معارف مخفیہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے فرمایا ہے کہ: تر آن شریف کے حروف اور اُن کے اعداد بھی معارف مخفیہ سے خالی نہیں ہوتے “ ( نزول المسیح.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 422) حضور کے اس ارشاد پر خیال آیا کہ انبیاء کے اسماء کا جائزہ لیا جائے اور دیکھا جائے کہ اُن کے ناموں کے اعداد میں بھی کوئی معارف پائے جاتے ہیں کہ نہیں.چنانچہ سب سے پہلے لفظ آدم کے اعداد شمار کئے تو معلوم ہوا کہ وہ 46 ہیں اور پھر لفظ محمد کے اعداد شمار معلوم کئے تو معلوم ہوا کہ وہ لفظ آدم کے اعداد 46 سے دوگنا ہیں یعنی 92.یہ کیفیت دیکھ کر مجھے یہ احساس ہوا کہ یہ 92 کا عدد بحساب شمسی عمر دنیا اور عمر ملت اسلامیہ کا مجموعہ ہے کیونکہ عمر دنیا بحساب شمسی 6900 سال ہے اور ملتِ اسلامیہ کی عمر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بعد پورے 2300 سال ہے.لہذا یہ 92 کا عدد انہیں اعداد کا مجموعہ ہے.جب یہ کیفیت دیکھی تو سورۃ العصر کے اعداد میرے ذہن میں آئے کیونکہ اس سورۃ کے اعداد کی رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کے بعد 4598 سن شمسی میں ہوا اور جب ان اعداد میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دو سال جمع کئے گئے تو پورے 4600 سال میرے سامنے آگئے.یہ کیفیت دیکھ کر مجھے محسوس ہوا کہ لفظ آدم کے اعداد 46، بجائے 46 سال کے 46 صدیوں کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی 63 سالہ حیات طیبہ کی نشان دہی کرنے کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دو سال کی خلافت کی بھی نشان دہی کرتے ہیں اور یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جتنے انبیاء گزر چکے تھے ان سب کے کمالات جمع ہو کر حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود مبارک میں مجتمع ہو گئے.اور پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وساطت سے اُمت کی طرف منتقل ہونے لگے.گویا اسم آدم کے اعداد 46 کا مقصد انہی 65 سال کی نشان دہی تھی یعنی 63 سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک کے اور دو سال حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے.اس کے بعد خیال آیا کہ کیا جملہ انبیاء کے اسماء بھی اپنے اعداد کی جہت سے اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں یا نہیں.چنانچہ میں نے ان تمام انبیاء کے اسماء کے اعداد نکالے اور جب تمام اعداد کو جمع کیا تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ان کا میزان پورے 4665 سال ہے گویا ان اعداد میں 4600 کے علاوہ 65 کے اعداد زائد دکھائے اور حضور کی عمر مبارک کے 63 سال کو اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دو سال کو ایک الگ خط کے ذریعہ نمایاں کر کے دکھایا.یہ انبیاء تعداد میں 24 ہیں.تفصیل حسب ذیل ہے: 1.آدم 2.ادریس 3 - نوح 4.ہود 5- صالح 46 275 64 15 129 6.ابراہیم 7 لوط 8.اسماعیل 9.اسحاق 10.یعقوب 45 259 212 170 188 11 - یوسف 12.ایوب 13 - الیسع 14.ذوالکفل 15.موسیٰ.156 19 171 861 107 16.ہارون 17 - شعیب 18.داؤد 19 - سلیمان 20 یونس 262 382 15 191 126 21 - الیاس 22.زکریا 23 یی 24 امسیح کل میزان 29 238 102 عیسی ابن مریم 633 4665

Page 65

”“ 127 “ 128 یہ ایک عجیب نظارہ ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمام انبیاء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں سرتسلیم خم کرتے ہوئے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سلام کرتے ہوئے کہتے ہیں ہمارے امام بھی یہی نبی ہیں.اس نظارہ کو دیکھ کر مجھے یوحنا عارف کے مکاشفہ کے یہ الفاظ یاد آئے.کیا دیکھتا ہوں کہ آسمان پر ایک تخت رکھا ہے اور اس تخت پر کوئی بیٹھا ہے اور اس تخت کے گرد چوبیس تخت ہیں اور ان تختوں پر چوبیس بزرگ سفید پوشاک پہنے ہوئے بیٹھے ہیں.تو وہ 24 بزرگ اس کے سامنے جو تخت پر بیٹھا ہے گر پڑیں گے اور اس کو سجدہ کریں گئے (مکاشفہ باب نمبر 4 آیت 2 تا 10 ) اس حوالہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن شریف میں لفظ محمد اور احمد کے علاوہ صرف 24 نبیوں کے نام آئے ہیں بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ قرآن شریف میں 29 نبیوں کے نام درج ہیں یہ بیج نہیں.لہذاذ والقر نین، عز یر اور لقمان نبی نہیں ہیں.اور نہ ہی قرآن شریف سے ان کا نبی ہونا ثابت ہے.اب لفظ موسیٰ کو دیکھئے.اس کے اعداد 107 ہیں لیکن ہمیں اجازت ہے کہ ہم او پر کے الف کو شامل نہ کریں.لہذا 106 کے اعداد احمد کے عدد 53 سے دو گنے ہیں.اس کا اثر یہ ہے کہ قرآن شریف میں حضرت موسیٰ کی رجعت کا دو دفعہ ذکر آیا ہے.ایک سورۃ اعراف میں جس کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصی زندگی سے ہے اور دوسری دفعہ سورۃ طہ میں جس کا تعلق مہدی علیہ السلام کی شخصی زندگی سے ہے.سورۃ الاعراف میں فرمایا:.وَلَمَّا رَجَعَ مُوسى إلى قَوْمِهِ غَضْبَانَ آسِفًا “.(آیت: 151) ترجمہ: اور جب موسیٰ اپنی قوم کی طرف سخت طیش کی حالت میں افسوس کرتا ہوا لوٹا.فرمایا:.اس کا اثر یہ ہوا کہ مدینہ کے یہودی مورد غضب الہی ہوئے اور پھر طہ میں فَرَجَعَ مُوْسٰى إِلى قَوْمِهِ غَضْبَانَ آسِفًا (آیت:87) ترجمہ : تب موسیٰ اپنی قوم کی طرف سخت غصے اور افسوس کی حالت میں واپس لوٹا اس کا اثر یہ ہے کہ چودھویں صدی میں فلسطین کے یہود مور دغضب الہی ہو رہے ہیں.پھر ذرا ان کلمات کو بھی ملاحظہ فرمائیے :.اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لفظ اسمہ کے اعداد 106 ہیں یعنی احمد احمد اور کلمات المسیح عیسیٰ کے اعداد 290 ہیں اور لفظ ابن کے اعداد 53 ہیں اور یہ احمد کا عدد ہے.مریم کے اعداد المسیح عیسی کی طرح 290 ہیں اور یہ 290 کا عددمحمد، احمد، کے عدد سے دو گنا ہے.محمد ، احمد ، کے الفاظ 145 ہیں گویا لفظ مریم محمد ، احمد ، کے الفاظ کو دہراتا ہے.اس میں حکمت یہ ہے کہ 1000 سال محمدی کے بعد جو گیارھویں ، بارھویں اور تیرھویں صدی آئی وہ محمدیت اور احمدیت کے مابین عبوری حیثیت رکھتی تھی.یہی وجہ ہے کہ اس زمانہ کے مجددین ایک جہت سے محمدی تھے یعنی از روئے نسل قریشی تھے اور دوسری جہت سے احمدی تھے کیونکہ ان کا نام احمد تھا.ان بزرگوں سے ہماری مراد حضرت سید احمد سرہندی مجددالف ثانی جو گیارھویں صدی میں ہوئے اور حضرت سید احمد ولی اللہ شاہ صاحب محدث دہلوی جو بارھویں صدی میں ہوئے اور حضرت سید احمد بریلوی جو تیرھویں صدی میں ہوئے.سولفظ مریم میں اسی دور کی طرف اشارہ ہے یہی مریمی دور ہے جس سے ابن مریم پیدا ہوئے اور ابن سے مراد احمد ہے جو چودھویں صدی میں پیدا ہوئے.

Page 66

”“ باب چهارم قصص قرآن پیشگوئیاں ہیں خوشتر آن باشد که سر دلبراں گفته آید در حدیث دیگراں 129 “ 130

Page 67

”“ قصص قرآن پیشگوئیاں ہیں 131 بائبل میں بھی گزشتہ اقوام کے واقعات درج ہیں لیکن مرور زمانہ کے باعث اُن میں تغیر و تبدل ہوتا رہا اور بعض لوگ عمداً تحریف کرتے رہے.قرآن شریف نے تمام واقعات ماضیہ کو صحیح طور پر بیان فرمایا تا کہ بائبل میں جو مشتبہ بیانات آئے ہیں ان کی اصلاح ہو جائے اور انبیاء کی مکذب قوموں کا انجام دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکد بین عبرت حاصل کریں.کفار مکہ نے جب یہ قصے سنے تو انہوں نے بجائے عبرت حاصل کرنے کے انہیں اساطیر الاولین کے نام سے موسوم کیا یعنی یہ کتاب قصے کہانیوں کی کتاب ہے اور کچھ بھی نہیں.اللہ تعالیٰ نے اُن کے اس اعتراض کا سورۃ فرقان میں بدیں الفاظ جواب دیا: وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَاصِيلًا قُلْ انْزَلَهُ الَّذِي يَعْلَمُ السّر فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ إِنَّهُ كَانَ غَفُورًا رحيما (آیات 7-6) ترجمہ: اور انہوں نے کہا کہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جو اس نے لکھوالی ہیں پس یہ صبح و شام اس پر پڑھی جاتی ہیں.تو کہہ دے کہ اسے اس نے نازل کیا ہے جو آسمانوں اور زمین کے بھید جانتا ہے.یقیناً وہ بہت بخشنے والا ( اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.ان الفاظ میں سیٹر الْأَرْضِ سے مراد وہ واقعات ماضی ہیں جن پر مرورِ زمانہ کے باعث پردہ پڑ چکا تھا.اور میٹر السموات سے مراد آئندہ کے واقعات ہیں جو عہد اسلام میں ظہور پذیر ہونے والے تھے.لہذا جواب کا ماحصل یہ ہے کہ یہ “ 132 واقعات جو بظاہر زمانہ ماضی سے تعلق رکھتے ہیں درحقیقت پیشگوئیاں ہیں جو آئندہ اپنے اپنے وقت میں پوری ہوں گی.قرآن شریف کے علاوہ احادیث نبوی سے بھی ثابت ہے کہ قصص قرآن صرف قصص ماضیہ ہی نہیں ہیں بلکہ ان کے پردے میں زمانہ مستقبل کی خبریں دی گئی ہیں.چنانچہ روایت ہے کہ اخرج الترمذى والدارمي عَنْ عَلِي قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُوْلَ سَتَكُونُ فِتَنِ : قُلْتُ وَمَا الْمَخْرَجُ مِنْهَا قَالَ كِتَابُ اللهِ كِتَابُ اللهِ! فِيهِ نَبَأُ مَا قَبْلَكُمْ، وَخَبَرُ مَا بَعْدَكُمْ وَحُكْمُ مَا بَيْنَكُمْ ، لَا تَنْقَضِي عَجَائِبُهُ.(در منثور صفحه (151) یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ حضور فرما رہے تھے کہ بڑے فتنے برپا ہوں گے.حضرت علی نے عرض کی کہ حضور ان سے نجات پانے کی کیا صورت ہے فرمایا اللہ کی کتاب جس میں گزشتہ زمانے کی بھی خبریں ہیں اور آئندہ کی بھی اور تمہارے مابین جو تنازعات ہو سکتے ہیں ان کا حل بھی ہے.پھر فرمایا کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے کہ جس کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہو سکتے.اس روایت سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن شریف کے نقص کو صرف قصص ماضیہ ہی نہیں سمجھتے تھے بلکہ انہیں زمانہ مستقبل کے متعلق پیشگوئیاں بھی سمجھتے تھے پھر اسی پر بس نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض اخبار ماضیہ کو عملاً آئندہ کی خبریں بتایا.درمنثور جلد 4 صفحہ 215 میں لکھا ہے:.قَالَ رَسُولُ اللهِ أَصْحَبُ الْكَهْفِ أَعْوَانُ الْمَهْدِي یعنی اصحاب کہف کے ذکر کے پردے میں امام مہدی علیہ السلام کے اعوان و انصار کا ذکر ہے.اس روایت سے جہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اخبار ماضیہ اپنے اندر

Page 68

”“ 133 “ 134 پیشگوئیاں لئے ہوئے ہیں وہاں یہ بھی معلوم ہوا کہ سورۃ کہف کا تعلق امام مہدی علیہ السلام کے زمانے سے ہے.خلاصہ یہ کہ قرآن شریف ، نبی کریم کے عمل ، اور حدیث سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ قصص ماضیہ پیشگوئیاں ہیں لیکن طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیونکر معلوم ہو کہ ان پیشگوئیوں کا کس کس زمانے سے تعلق ہے اور یہ کب پوری ہوئیں یا ہوں گی؟ پیشگوئی کے مفہوم کا تقاضا یہ ہے کہ وہ کسی نہ کسی وقت پوری ہوتی نظر آئے لیکن اگر کسی پیشگوئی کا کسی وقت بھی پورا ہونا ظاہر نہ ہو تو پھر وہ پیشگوئی، پیشگوئی نہیں کہلا سکتی.سواس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ فریضہ حروف مقطعات ادا کر رہے ہیں.اگر قرآن شریف کی سورتوں کو حروف مقطعات کے معین کردہ زمانہ میں دیکھا جائے تو پھر صاف نظر آتا ہے کہ فلاں قصے کا فلاں زمانے سے تعلق ہے اور یہ کہ آئندہ کیا کچھ ہونے والا ہے.اگر آپ سورۃ بقرہ کی تلاوت کر رہے ہیں تو اُس وقت آپ یہ تصور کریں کہ اس سورۃ کا تعلق آدم علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر بنی اسرائیل کے زمانے تک ہے.یہی وجہ ہے کہ اس سورۃ میں قصہ ابلیس و آدم کے بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے فرمایا لیکن اس کے برعکس سورۃ اعراف میں جس کا تعلق نبی کریم کے زمانے سے ہے قصہ ابلیس و آدم کے بعد بنی آدم کو مخاطب فرمایا.سورۃ بقرہ مغضوب تھم پر براہ راست حجت ہے یہی وجہ ہے کہ اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے ان کی تمام شوخیوں کا ذکر کیا ہے جن کے باعث وہ مغضوب ٹھہرے.اور اگر آپ سورۃ آل عمران کی تلاوت کریں تو اُس وقت یہ تصور کریں کہ اس سورۃ سے عیسائیوں سے بحث ومباحثہ شروع ہوتا ہے.اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ بجائے يُبنى اسرائیل کے يَا أَهْلَ الكِتَابِ فرماتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو اپنے نسب پر ناز تھا اور وہ کہتے تھے.نَحْنُ أَبْنَاءُ اللهِ وَاحِباؤُهُ...یعنی ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں.لہذا بنی اسرائیل سے باہر کسی آنے والے نبی کو ہم تسلیم نہیں کر سکتے.سورۃ آل عمران میں یا اھل الکتاب کے الفاظ اس لئے استعمال فرمائے کہ عیسائیوں میں غیر اسرائیل لوگ شامل ہو گئے تھے.سورۃ آل عمران سے لے کر سورۃ مائدہ تک اسی قوم سے بحث ومباحثہ ہے اور مسلمانوں کے متعلق جو کچھ کہا گیا ہے اس کی حیثیت ضمنی ہے.اگر آپ سورہ انعام کی تلاوت کریں تو اس وقت یہ تصور کریں کہ اس کا تعلق قریش مکہ اور دیگر عرب قبائل سے ہے اس سورت میں اسی اُمی قوم کی بدرسوم کا قلع قمع کیا گیا ہے.اگر آپ سورۃ اعراف کی تلاوت کریں تو اس وقت یہ تصور کریں کہ اس سورۃ کا تعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی سے ہے یہی وجہ ہے کہ اس سورۃ میں یہ دعوی کیا گیا ہے: قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف : 159) ترجمہ: تو کہہ دے کہ اے انسانو! یقیناً میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں.اگر آپ سورۃ انفال کی تلاوت کریں تو پھر یہ تصور کریں کہ اس کا تعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی کے ابتدائی زمانے سے ہے اور سورۃ توبہ کا تعلق مدنی زندگی کے آخری دور سے ہے.یہ تینوں سورتیں یعنی اعراف، انفال اور تو بہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے 23 سالہ نبوی زندگی کی آئینہ دار ہیں.سورۃ توبہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:.

Page 69

”“ " 66 وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ “ (توبه : 129) 135 یعنی اگر کوئی نہیں مانتا تو مجھے کیا پرواہ.میرا خدا مجھے کافی ہے.وہ تو ایک عظیم الشان سلطنت کی ربوبیت فرمانے والا ہے.چنانچہ اس اعلان کے بعد آگے سورۃ یونس سے ملتِ اسلامیہ کی روحانی سلطنت کا آغاز ہوتا ہے.اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے دو اہم اعلان فرمائے ہیں.اول یہ کہ اللہ تعالیٰ نے شمس کو ضیا اور قمر کو نور بنایا ہے اور اُس کی مختلف منازل مقرر کی ہیں تا کہ تم مشمسی اور قمری حساب کو سمجھ سکو.دوم یہ کہ اس سورۃ میں اعلان فرمایا کہ ہم نے تمہیں خَلائِفَ فِي الْأَرْضِ بنایا ہے.اب ہم دیکھیں گے کہ تم کیا کر دار ادا کرتے ہو.سورۃ یونس کے حروف مقطعات الف ، لام ، را، ہیں.ان کی عددی قیمت 231 ہے یہ اعداد اسلام کے ابتدائی 231 سالہ دور کے آئینہ دار ہیں.اس عہد میں مسلمانوں کو اسلام سے انس رہا.سورۃ یونس کے بعد سورۃ ہود ہے.اس کے حروف مقطعات بھی الف.لام.را ہیں.اس کا زمانہ 231 سے 462 سال تک کا ہے.اس سورۃ کے عہد میں ملتِ اسلامیہ خیر القرون کے زمانہ سے نکل کر فیج اعوج میں داخل ہوئی اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:.شَيَّبَتُنِي هُود (ابن کثیر تفسیر سورۃ ہود) 6660 یعنی مجھے سورۃ ہود نے بوڑھا کر دیا.سورۃ ہود کے بعد سورۃ یوسف ہے اس کا زمانہ 462 ھ سے 693 ہجری تک ہے.گویا اس سورۃ میں ساتویں صدی قریب الاختتام ہے.یہی وجہ ہے کہ اس سورۃ میں دکھایا گیا ہے کہ سات موٹی گایوں کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات ہری بالیوں کو سات سوکھی بالیاں کھا رہی ہیں.گویا یہ اعلان ہے کہ اسلام کی سات موٹی “ 136 صدیاں یہاں ختم ہو رہی ہیں اور آئندہ سات صدیاں آہستہ آہستہ ذلت اور پستی کی طرف جائیں گی اور چودھویں صدی میں یہ پستی اپنی انتہا کو جا پہنچے گی لیکن یہی صدی نصرت الہی کا ابتدائی نقطہ ہوگی.سورۃ یوسف کے بعد سورۃ رعد ہے اس کے حروف مقطعات الف.لام.میم.را.ہیں اور اس کی عددی قیمت 271 ہے.اور اس کا زمانہ 946 ھ تک ممتد ہے.گویا دسویں صدی قریب الاختتام ہے.اس سورت میں مصائب و آلام کے کالے کالے بادل نظر آتے ہیں اور خوفناک بجلیاں کڑک رہی ہیں.گو یا ملت نوراسلام سے محروم ہو کر ظلمت کی طرف بڑھ رہی ہے.اس سورۃ کے بعد سورۃ ابراہیم ہے اس کے حروف مقطعات الف.لام.راہیں اور اس کا زمانہ 964 ھ سے لے کر 1195ھ تک ممتد ہے.گویا بارھویں صدی قریب الاختتام ہے اور یہ وہ صدی ہے جس نے ملتِ اسلامیہ کو گھٹا ٹوپ اندھیرے میں لے لیا اور پھر یہ اندھیرا بڑھتا ہی گیا.یہی وجہ ہے کہ اس سورۃ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ابراہیم کا نام دے کر اور کبھی موسیٰ کا نام دیکر یہ حکم دیا جارہا ہے.أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمتِ إِلَى النُّورِ (ابراهیم آیت : 6) یعنی اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لانے کی کوشش کرو.اس سورۃ کے عہد میں حضرت مجدد الف ثانی اور حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب محدث دہلوی نے ملت اسلامیہ کو ظلمت سے نکالنے کی سعی فرمائی.اس سورۃ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ کہتے ہوئے دکھلایا گیا ہے کہ الحمد اللہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بڑھاپے میں اسمعیل اور الحق عطا فرمائے.اس موقع پر یہ یادر ہے کہ یہاں حضرت اسحق کی پیدائش کا ذکر آگیا ہے لیکن اُن کے متعلق لفظ غلام استعمال نہیں کیا گیا.کیونکہ ابھی تیرھویں صدی سامنے نہیں آئی تھی.

Page 70

”“ 137 سورۃ ابراہیم کے بعد سورۃ حجر ہے.اس کے حروف مقطعات بھی الف لام.را.ہیں.اس کا زمانہ 1195ھ سے 1426ھ تک ہے.گویا حضرت امام علیہ السلام کے سن وصال کے بعد جو 1326 ھ ہے پوری ایک صدی زائد رکھی گئی ہے اور یہ وہ صدی ہے جو یوم الدین کی مصداق ہے.اسی صدی کے اندر تمام اقوام کی قسمت کا فیصلہ ہونا مقدر ہے.1426ھ کے بعد پندرھویں صدی کا 27 واں سال اسلام کی صبح ظہور کا نقطہ آغاز ہے.یہ صبح ظہور وہی ہے جس کو سورۃ الصف میں جو اسمہ احمد کی مردہ بردار ہے: فَأَيَّدُنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَى عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَ (الصف: 15) ترجمہ: پس ہم نے ان لوگوں کی جو ایمان لائے ان کے دشمنوں کے خلاف مدد کی تو وہ غالب آگئے.کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے.اسی سورۃ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ابراہیم کے نام کے پردے میں غلام علیم کی بشارت دی گئی ہے.جس میں یہ اشارہ ہے کہ اسلام کی نشاة ثانیہ کا بانی امیوں میں سے نہیں ہوگا.اب قریش کی خلافت کا دور ختم ہوا.اب احیائے اسلام کا کام اللہ تعالیٰ ایک ایسے انسان سے لے گا جو صاحب علم ہوگا ، سلطان القلم ہوگا.يُكَلِّمُ النَّاس کا مصداق ہوگا اور اُس کا کلام دابتہ الارض کے کلام کو کھا جائے گا.اس موقع پر یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ یہ چھ سورتیں جو سورۃ یونس سے سورۃ حجر تک ہیں ان کا جزو مشترک لفظ کتاب ہے اور ان کا مقصد اسلام کی نشاۃ اولیٰ کا صعود اور ہبوط دکھانا ہے.یہی وجہ ہے کہ جب تک آفتاب اسلام اوج پر رہا اُس وقت تک سورۃ یونس، ہود اور یوسف میں لفظ عرش استعمال ہوتا رہا.لیکن جونہی آفتاب اسلام “ 138 ڈھلنے لگا یہ لفظ بھی غائب ہو گیا اور اس کی جگہ ظلمت، برق اور صاعقہ نے لے لی اور سورۃ رعد میں پہلی بار خلق جدید کے الفاظ استعمال کئے گئے یعنی جہانِ نو کا نقطہ آغاز دکھایا گیا.خدا تعالیٰ کی عجیب شان ہے کہ جس طرح ان جملہ سورتوں کے مجموعی اعداد 1426 ہیں اسی طرح ان سورتوں کے شروع میں یعنی سورۃ یونس میں جو پہلی آیت رکھی گئی ہے اس کے اعداد بھی پورے 1426 ہیں اور وہ آیت یہ ہے تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ - لفظ تِلْكَ کے اعداد 450.لفظ آیات کے اعداد 413.الکتاب کے اعداد 454 اور الْحَکیم کے اعداد 109 ہیں.کل میزان 1426 سورۃ حجر کے بعد سورۃ طہ تک جتنی بھی سورتیں ہیں وہ سب اسی سورۃ کے تحت ہیں.اس سورۃ میں چونکہ اسلام نشاۃ اولیٰ سے نشاۃ ثانیہ میں تبدیل ہوتا دکھایا گیا ہے اس لئے بعد کی سورتیں اس اجمالی کیفیت کو مفصل طور پر پیش کرتی ہیں اور اسلوب بیان یہ ہے کہ ایک طرف تو انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے کوائف سے ربط ہے اور دوسری طرف ملت کی ہجرت کے کوائف سے.سورۃ نحل میں فرمایا:.آئی آمر الله - ( محل : 2) یہ وہی کیفیت ہے جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو پہر کے وقت حضرت ابوبکر صدیق کے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ ہجرت کرنے کا حکم آگیا ہے اور ملت کی نسبت سے اس کا یہ مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ اب اپنے ایسے نشانات دکھانے کو ہے جو فتح اسلام پر منتج ہوں گے.سورۃ نحل کے بعد سورۃ بنی اسرائیل ہے.اس سورۃ میں فرما یا :.سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً.....الخ “ ( بنی اسرائیل : 2) ان الفاظ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصی زندگی سے وہی نسبت ہے جبکہ حضور رات کی تاریکی میں گھر سے نکلے اور حضرت ابوبکر صدیق" کو ساتھ لے کر مکہ کو

Page 71

”“ 139 “ 140 چھوڑ گئے اور اُمت سے اس کو یہ نسبت ہے کہ اُمت ایک نئے علمی دور میں داخل ہونے لگی اور خلافت محمد یہ قریش سے نکل کر غیر از قریش قوم کی طرف منتقل ہونے لگی.سورۃ بنی اسرائیل کے بعد سورۃ کہف ہے.اس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت وہی مقام ہے جبکہ حضور غار ثور کی تاریکی میں پناہ گزین ہوئے اور ملت میں اس کا وہ مقام ہے جبکہ اسلام قلعہ ہند میں آکر محصور ہوا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی فرمایا ہے ” اَصْحَبُ الْكَهْفِ أَعْوَانُ الْمَهْدِي (در منثور جلد چہارم صفحہ 215) سورۃ کہف کے بعد سورۃ مریم ہے.اس کا مقام وہی ہے جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غار ثور سے نکل کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور ملت میں اس کا مقام یہ ہے کہ مریمی صفات مشرق کی طرف منتقل ہوئیں اور ملت اسلامیہ دردزہ میں مبتلا ہوئی کیونکہ وہ بچہ جننے کی تکلیف میں تھی.0 یادر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں مومنین کو دو عورتوں سے تشبیہ دی ہے.ایک فرعون کی بیوی سے اور دوسری مریم سے.فرعون کی بیوی سے مراد ملتِ اسلامیہ کے وہ افراد ہیں جو کسی ظالم حکومت کے تحت ہوں اور اپنے فرائض مذہبی کے ادا کرنے سے قاصر ہوں.اور مریم سے مراد وہ مؤمنین ہیں جو کسی ظالم حکومت کے تحت تو نہ ہوں لیکن اُن کا اپنا معاشرہ اس قدر گندا اور بدکردار ہو چکا ہو کہ اس میں اپنے جذبات کو مار کر روحانی زیست کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے پڑیں جیسے گیارھویں، بارھویں اور تیرھویں صدی کے اہل اللہ کا مقام ہے.ان میں قابل ذکر حضرت مجدد الف ثانی ، حضرت سید ولی اللہ شاہ محدث دہلوی اور سید احمد بریلوی ہیں.یہ سارے بزرگ مریمی صفات کے حامل تھے اور انہیں کا دور ابن مریم کا حامل تھا.اصل حقیقت یہ ہے کہ اسی عبوری دور کو سورۃ فاتحہ میں لفظ صراط سے تعبیر کیا گیا ہے جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے.پھر یہ بھی یادر ہے کہ حدیث شریف میں آیا ہے:.إِنَّ اللهَ زَوَجَنِى مَرْيَمَ بِنْتَ عِمران..( تفسیر فتح البیان جلد 7 صفحه 99) ظاہر ہے کہ یہ روحانی زوجیت ہے نہ کہ جسمانی.حضرت امام علیہ السلام کا بھی الہام ہے.يَا مَرْيَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ.يَا أَحْمَدُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 55) یہ الہامات بتاتے ہیں کہ احمد ومریم زوجین ہیں.بالآخر گزارش ہے کہ یہ ایک لمبا مضمون ہے.خاکسار اس بارے میں دو کتابیں لکھ چکا ہے لیکن ابھی وہ شائع نہیں ہوئیں.ایک کتاب کا نام ”ہمارا قرآن اور اُس کا اسلوب بیان ہے اور دوسری کا نام ہے تفسیر قرآن حروف مقطعات کی روشنی میں یہ دونوں کتابیں دراصل اسی کتاب کی فرع ہیں.جب تک یہ اصل کتاب جو آپ کے ہاتھ میں ہے ذہن نشین نہ ہو باقی دو کتابوں کا شائع کر ناقبل از وقت ہوگا.اس موقع پر یہ امر قابل ذکر ہے کہ سورۃ یونس سے سورۃ طہا تک جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے یہ دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کا عکس ہے.حضور کی مکی زندگی کے اہم نکات حسب ذیل ہیں.اول : تین سال اخفا کے.دوم : ساتویں سال شعب ابی طالب میں محصور ہوجانا اور تین سال تک محصور رہنا.یہی وجہ ہے کہ ملت کی ساتویں صدی میں بغداد کا محاصرہ ہوا اور ہلاکو خاں نے متعصم باللہ کو ہلاک کر دیا.سوم : دسویں سال نبوت میں حضرت خدیجہ اور حضرت ابوطالب فوت ہو گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بے یارومددگار رہ گئے.یہی حال دسویں صدی میں اسلام

Page 72

”“ کا ہوا.141 نبوت کے دسویں سال کا نام حضور" نے عام الحزن رکھا یعنی غم واندوہ کا سال.اس سال سے مصیبتیں بڑھتی گئیں اور نبوت کے چودھویں سال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ چھوڑ کر مدینہ جانا پڑا.اس کے مقابل ملت کی چودھویں صدی میں خلافت قریش سے نکل کر ایک غیر قوم کی طرف منتقل ہوگئی اور محمدیت کی جگہ احمدیت نے لے لی.اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے سورۃ محمد کے آخر میں فرمایا: وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ (محمد: 39) یعنی اسے قریش اور اے عرب قوم ! اگر تم اسلام سے روکشی اختیار کر لو گے تو پھر اللہ تعالیٰ ایک اور قوم کو تمہارے بدلے لے آئے گا اور پھر وہ تمہاری طرح نہیں ہوں گے.اب ہم سورۃ مریم اور سورۃ طہ کی ایک مختصر سی تفسیر پیش کرتے ہیں جس سے ظاہر ہوگا کہ قرآن شریف کے بیانات صرف قصے نہیں ہیں بلکہ پیشگوئیاں بھی ہیں.“ تفسیر سورة مريم (چند آیات) ز درگاه خدا مردے بصد اعزاز مے ے آیا ہے 142 مبارک بادت اے مریم کہ عیسی باز می آید الہام حضرت بانی سلسلہ احمدیہ تذکرہ صفحہ 684 طبع چہارم) سورۃ مریم کا ملت اسلامیہ میں وہی مقام ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غار 66 سے نکل کر مدینہ کی طرف روانہ ہونے کا تھا.اس کے حروف مقطعات کھیعص“ 66 ہیں.ان حروف کی معنوی کیفیت خود اسی سورۃ کے الفاظ سے ظاہر ہوتی ہے.اس سورۃ کا ہر رکوع لفظ ”ذکر“ یا اُذْكُر “ سے شروع ہوتا ہے.لہذا حرف ”کاس اذكر “ سے ماخوذ ہے.پھر اس سورۃ میں حضرت زکریا کو بیٹی کی موہبت کی بشارت دی گئی ہے اور حضرت مریم کو حضرت عیسی کی موہبت کی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسحق اور حضرت یعقوب علیہ السلام کی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حضرت ہارون علیہ السلام کی موہبت کی بشارت دی گئی ہے.اور پھر اس سورۃ میں جن انبیاء کا ذکر کیا گیا ہے ان کے متعلق کہا گیا ہے.أُولَئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِم نیز فرمایا هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا یعنی یہ سب لوگ ، منعم مہدی اور مجتبی ہیں.لہذا حرف “ اسی لفظ موہبت اور ہدایت سے ماخوذ ہے اور حرف ی جمع کے لئے ہے اور حرف ع انعام سے اور حرف ”ص‘ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ سے ماخوذ ا ترجمہ : خدا کی درگاہ سے ایک فرد بڑے اعزاز کے ساتھ آتا ہے.6699 وو اے مریم تجھے مبارک ہو کہ عیسی دوبارہ آتا ہے.

Page 73

“ 143 ہے جو آگے سورۃ طہ کی آخری آیت میں مَنْ أَصْحَبُ الصِّرَاطِ السَّوِيِّ وَمَنِ اهتدی کے الفاظ میں مذکور ہے.سو ان حروف مقطعات سے مراد ذکر و موهبت پیچی و عیسی و صاحب القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کے الفاظ ہیں.یا بالفاظ دیگر ذکر المهديين والعباد الصالحين وأصحاب الصراط المستقیم ہے.اس سورۃ کی ہر آیت گیارھویں صدی سے لے کر تیرھویں صدی تک کے اُن جملہ کوائف کی آئینہ دار ہے جن سے ملتِ اسلامیہ دو چار رہی.اس سورۃ کی حروف مقطعات کے بعد پہلی آیت ذكرُ رَحمتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيًّا ہے.یہاں لفظ زکریا سے مراد ان کے مثیل حضرت مجدد الف ثانی بھی ہیں کیونکہ حضرت مجدد الف ثانی کو وہی الہامات ہوئے جو حضرت زکریا علیہ السلام کے ہیں.آپ کو الہام ہوا: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامِ نِ اسْمُهُ يَحْيى چنانچہ آپ کے ہاں لڑکا پیدا ہوا اور آپ نے اس کا نام بیخی رکھا.پھر آپ کو جب آپ کی لڑکی ام کلثوم نزع کی حالت میں تھی ، الہام ہوا ” ہم نے آپ کی لڑکی اُم کلثوم کا عقد اپنے رسول بی حصور علیہ السلام سے کیا.(حدیقہ محمودیہ صفحہ 102 ) آپ کے صاحبزادے خواجہ محمد معصوم کے گھر جب ان کے تیسرے صاحبزادے محمد عبید اللہ پیدا ہوئے تو خواجہ محمد معصوم کو الہام ہوا.سَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْم يُبْعَثُ حَيًّا - حالات مشائخ نقشبندیہ مجددیہ صفحہ 355) قرآن کریم میں یہ الفاظ حضرت زکریا کے بیٹے حضرت یحیی کے متعلق آئے ہیں.لہذا شہادت خداوندی یہی ہے کہ یہاں حضرت زکریا کے نام کے پردے میں گیارھویں صدی کے مجدد حضرت احمد سر ہندی کا ذکر کیا جا رہا ہے.حقیقت یہ ہے کہ حضرت احمد سر ہندی ارہاص بنائے احمدیت کی خشت اول ہیں.چنانچہ آپ بھی اپنی کتاب مبد او معاد میں فرماتے ہیں.“ 144 " وَأَقُولُ قَوْلًا عَجَبًا لَمْ يَسْمَعُهُ أَحَدٌ وَمَا أَخْبَرَبِهِ مُخْبِرُ بِإِعْلَامِ الله سُبْحَانَهُ وَالْهَامِهِ تَعَالَى إِيَّايَ بِفَضْلِهِ وَ كَرَمه ، آنکه بعد از هزار و چند سال از زمان رحلت آن سرور علیه وعلی الہ الصلواۃ والتحیات زمانے می آید، که حقیقت محمدی از مقام خود عروج فرماید و به مقام حقیقت کعبہ متحد گردد.ایس زمان حقیقت محمدی حقیقت احمدی نام یا بد (مبد أو معاد صفحه 79) ترجمہ: میں ایک عجیب بات کہتا ہوں جو کبھی کسی نے سنی نہیں.اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم کے ذریعہ مجھے اس کا علم بخشا ہے اور وہ بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے ایک ہزار اور چند سال بعد ایک ایسا زمانہ آ رہا ہے کہ حقیقت محمدیہ اپنے مقام سے عروج فرما کر حقیقت کعبہ سے متحد ہو جائے گی اور اس وقت حقیقت محمدی کو حقیقت احمدی کا نام دیا جائے گا.( مبد أو معاد صفحه 205 ، 206 ایڈیشن 1984ء) سو انہیں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ سے وہی نسبت ہے جو حضرت ذکریا کو حضرت عیسی علیہ السلام سے تھی.حضرت مجددالف ثانی کے سوانح میں حضرت عبد القادر جیلانی کا ایک کشف مندرج ہے جس میں لکھا ہے کہ ایک دن حضرت شیخ سید عبد القادر جیلانی کسی جنگل میں مراقبہ فرمائے بیٹھے تھے.ناگہاں آسمان سے ایک عظیم نور ظاہر ہوا جس سے تمام عالم نورانی ہو گیا.یہ نور ساعةً فساعةً بڑھتا اور روشن ہوتا گیا اس سے اُمت مرحومہ کے اولین و آخرین اولیا نے روشنی حاصل کی.حضرت نے تامل فرمایا کہ اس مثال میں کس صاحب کمال کا وجود با وجود مشاہدہ کرایا گیا ہے.القا ہوا کہ اس نور کا صاحب تمام اُمت کے اولیا اولین و آخرین سے افضل تر ہے وہ پانچ سوسال بعد ظہورفرما ہوکر ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی تجدید کرے گا.جو اس کی صحبت سے

Page 74

”“ 145 فیض یاب ہو گا وہ سعادت مند ہوگا.اس کے فرزند اور خلیفہ بارگاہِ احدیت کے صدر نشینوں میں سے ہیں.(حدیقه محمودیه ترجمه روضه قیومیه صفحه 32) یہ کشف حقیقتاً اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ احمدیت کے اس نور کی ابتدا جو ساعةً فساعةً بڑھتا اور روشن ہوتا گیا حضرت مجددالف ثانی سے ہورہی ہے اور اس کی انتہا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ پر آ کر ہوئی.حضرت مجددالف ثانی کو بعض پہلوؤں میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ سے خاص نسبت ہے آپ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی طرح جمعہ کے دن پیدا ہوئے اور پھر حضور کی طرح چودا تاریخ کو پیدا ہوئے.لہذا سورۃ مریم کی تلاوت کرتے ہوئے اُس کا اس پہلو سے بھی جائزہ لینا چاہئے کہ یہاں سے حضرت مجددالف ثانی" کا ذکر شروع ہو رہا ہے.اب مزید چند آیات کا ذکر کیا جاتا ہے.(1) فرمایا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامِ نِ اسمه يخى ( مریم : 8 ) اس میں دراصل اسلام کے دوبارہ زندہ ہو جانے کی پیشگوئی ہے.سورۃ آل عمران میں اِنّ الله يُبَشِّرُكَ بِيَحْنِی فرمایا تھا لیکن یہاں بیٹی کی جگہ پر لفظ غلام رکھا.کیونکہ اب غلام کا یعنی غلام احمد کا زمانہ قریب آ گیا تھا.(2) فَخَرَجَ عَلَى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ ( مریم : 12 ) ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زکریا کسی بالا خانے میں رہتے تھے.ورنہ خرج کے ساتھ لفظ ”علی“ نہ لگتا.اس کیفیت کے پیش نظر جب حضرت مجددالف ثانی ” کے سوانح کا مطالعہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ انہیں گوالیار کے قلعے کے برج میں قید کیا گیا تھا.اور آپ تین سال تک قید رہے تھے.یہ تین سال کی قید وہی تین دن غار ثور والے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصی زندگی پر گزرے تھے.یہاں تین سال قید سے مراد ملتِ اسلامیہ کا تین صد سال یعنی گیارھویں، “ 146 بارھویں اور تیرھویں صدی میں محصور ہو کر رہ جانا ہے.اس بنا پر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا الہام ہے کہ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پناہ گزین ہوئے قلعہ ہند میں“ تذکرہ ایڈیشن طبع چہارم صفحہ 404) پھر حضرت زکریا علیہ السلام کے متعلق یہ کہنا "آلا تُكَلَّمَ النَّاسَ ثَلَثَ لَيَالٍ سَوِيًّا “ (مریم : 11) یعنی یہ کہ آپ متواتر تین راتیں بات نہ کر سکیں گے.یہ الفاظ بھی درحقیقت دو پیشگوئیوں پر پر مشتمل ہیں.اول: یہ کہ ملت اسلامیہ گیارھویں، بارھویں اور تیرھویں صدی میں علم کلام کے جوہر سے بے بہرہ ہو کر رہ جائے گی اور یہ تینوں صدیاں اسلام کے لئے تاریکی کی صدیاں ہوں گی.دوسری : پیشگوئی یہ ہے کہ ان تین راتوں کے بعد یحیی پیدا ہوگا یعنی اسلام میں حیات نو کے آثار پیدا ہو جائیں گے اور وہ بیٹی اُس وقت تک پیدا نہ ہوگا جب تک تین راتیں نہ گزر جائیں اور یہ تین راتیں ملتِ اسلامیہ کے لئے نہایت تاریکی کی راتیں ہیں.اگر ان راتوں کو لیلتہ القدر کے پیمانے کے مطابق جو ایک ہزار ماہ کی ہوتی ہے ماپا جائے تو تین راتوں کے 250 سال بنتے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ جس بیٹے کی بشارت دی جارہی ہے وہ الف محمدی کے بعد دوسو پچاس سال گزرنے پر پیدا ہوگا.سو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی پیدائش 1250ھ میں ہوئی.اور اگر ان تین راتوں کو پوری تین صدیاں تصور کیا جائے تو چودھویں صدی سے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا علم کلام نہایت آب و تاب سے سامنے آ گیا.یہی وجہ ہے کہ حضرت مریم کے متعلق کہا گیا ہے کہ انسيَّا فَقُولِى إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَنِ صَوْمًا فَلَنْ أَكَلِمَ الْيَوْمَ (مریم: 27) ترجمہ: تو کہہ دے کہ یقیناً میں نے رحمان کے لئے روزے کی منت مانی ہوئی

Page 75

”“ ہے پس آج میں کسی انسان سے گفتگو نہیں کروں گی.147 گویا حضرت مریم کا یہ قول ملت کی خاموشی کی آخری رات یعنی تیرھویں صدی پر دلالت کرتا ہے اور اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ آج تو میں بات نہیں کرتی لیکن کل کو میرا بیٹا جو یعلم الناس کا مصداق ہے تمہارے ہر سوال کا جواب دے گا.چنانچہ جب حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا ظہور ہوا تو انہوں نے مخالفین کو ایسے مسکت اور مدلل جوابات دیئے کہ معترضین کا ناطقہ بند کر دیا.عام طور پر ان کوائف کو واقعات ماضیہ سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ جملہ کوائف ملتِ اسلامیہ کے کوائف ہیں.ملتِ اسلامیہ کی تیرھویں صدی حضرت مریم " کی طرح در دزہ میں مبتلا تھی اور بے بسی کا یہ عالم تھا کہ کسی سے وہ کلام کرنے کے قابل نہ تھی اور ہر طرف سے لعن طعن اور اعتراضات کی بوچھاڑ ہو رہی تھی اور کسی میں اتنی سکت نہ تھی کہ دشمنوں کا منہ بند کر کے یہ ثبوت دے سکے کہ ملت اسلامیہ حضرت مریم کی طرح صدیقہ ہے اور اس کے تقدس اور پارسائی پر زبان طعن دراز کرنے والے خود خطا کار ہیں.اس دور کے متعلق سر سید احمد خان کے ذیل کے الفاظ ملاحظہ ہوں.وہ لکھتے ہیں:.اگر خدا مجھ کو ہدایت نہ کرتا اور تقلید کی گمراہی سے نہ نکالتا اور میں خود تحقیقات حقیقت پر نہ متوجہ ہوتا تو یقینی مذہب کو چھوڑ دیتا“ ( موج کوثر صفحہ 163 ) اسی دور کے متعلق مؤلف ”موج کوثر“ لکھتے ہیں کہ انیسویں صدی میں بالخصوص غدر کے بعد ہندوستان میں اسلام کو تین خطرے درپیش تھے.پہلا خطرہ تو مشنریوں کی طرف سے تھا جو اس اُمید میں تھے کہ سیاسی زوال کے ساتھ مسلمانوں کا مذہبی انحطاط بھی “ شروع ہو جائے گا اور توحید کے پیر و تثلیث کو قبول کر لیں گے.دوسرا خطرہ یورپ اور ہندوستان میں ان خیالات کا اظہار تھا جنہیں دیکھ کر بقول سرسید مرجانے کو جی چاہتا تھا.یہ لوگ اسلام کو عقل کا دشمن ، اخلاق کا دشمن اور انسانی ترقی کا مانع ثابت کر رہے تھے.ان میں نہ صرف مشنری بلکہ مغربی یونیورسٹیوں کے پروفیسر اور انگریز حاکم بھی شامل تھے.جنہیں خدا نے ہندوستانی مسلمانوں کی قسمت سونپ رکھی تھی.اسلام اور بانی اسلام کے متعلق غالباً بدترین کتاب سرولیم میور کی ہے جو صوبجات متحدہ کے حاکم اعلیٰ تھے اور جنہوں نے اپنی کتاب کا خلاصہ دو فقروں میں لکھ دیا.انسانیت کے دوسب سے بڑے دشمن محمد کی تلوار اور محمد کا قرآن ہیں (نعوذ باللہ ) تیسرا بڑا خطرہ جو آئندہ اور بھی بڑھنے والا تھا خود مسلمانوں کے دلوں میں طرح طرح کے شکوک وشبہات کا پیدا ہونا تھا اور جن لوگوں کی نظروں سے مشنریوں اور دوسرے عیسائی مصنفوں یا آزاد خیال مغربی مفکروں کی کتابیں گزرتیں وہ اسلام کے بعض مسائل کو جو عام علماء بیان کرتے تھے خلاف عقل سمجھنے لگے اور یہ ڈر تھا کہ اگر چہ وہ اسلام چھوڑ کر عیسائیت اختیار نہیں کریں گے لیکن مذہب سے ضرور بریگا نہ ہو جائیں گئے.148 ( موج کوثر صفحہ.162-163) خلاصہ یہ کہ یہ صدی کسی سلطان القلم کی تلاش میں تھی لیکن ایسا مر دمیدان کوئی نہ تھا جو دشمنوں کے دلائل کا جواب دے سکے البتہ حضرت سید احمد بریلوی دشمنانِ اسلام کے مقابلے میں تلوار لے کر اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے جہاد بالسیف کے ذریعے ملت اسلامیہ کی حفاظت کرنا چاہی مگر افسوس کہ اس معاملہ میں انہیں چنداں کا میابی نہ

Page 76

”“ ہوئی چنانچہ ان کے بارے میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں: و, ہند میں دو واقعہ ہوئے ہیں ایک سید احمد صاحب کا اور دوسرا ہمارا.اُن کا کام لڑائی کرنا تھا انہوں نے شروع کر دی مگر اس کا اتمام ہمارے ہاتھوں مقد رتھا جو کہ اب اس زمانہ میں بذریعہ قلم ہورہا ہے“ 149 ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 506 جدید ایڈیشن) سواس سلطان القلم نے اپنے علم کلام سے ہر معترض کا منہ بند کیا اور ہر میدان میں ایسی شکست دی کہ کسی کو پھر مقابل میں آنے کی جرات نہ ہوئی قرآن کریم میں يُكَلِّمُ النَّاس کے الفاظ دو وجودوں کے متعلق آئے ہیں ایک حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق اور دوسرے سورۃ نمل میں دابۃ الارض کیلئے.لہذادابة الارض یعنی یاجوج و ماجوج کے علم کلام کا جواب بج، حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے کسی کے بس کی بات نہ تھی اور یہ سعادت صرف ہمارے حضرت ابن مریم“ کیلئے ہی مقدرتھی سوحضور نے مخالفین اسلام کو ایسے منہ توڑ جواب دیئے کہ وہ قرآن کریم کے الفاظ فَهُمْ لا يَنْطِقُونَ (نمل : 86) کے مصداق ہو گئے اور پھر خَشَعَتِ الْأَصْوَاتُ للرحمن (طه: 109) یعنی خدائے رحمان کے مقابل ان کی آواز میں دب گئیں.یہاں لفظ رحمن اس لئے فرمایا کہ وہ لوگ تثلیث کے قائل تھے اور تثلیث خدائے رحمان کی شان کے منافی ہے جیسے فرمایا: تَكَادُ السَّمَوتُ يَتَفَطَرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُ الْأَرْضُ وَتَخِرُ الْجِبَالُ هَذَا أَنْ دَعَوْ الِلرَّحْمَنِ وَلَدًا.(مريم : 91-92) ترجمہ: قریب ہے کہ آسمان اس سے پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ لرزتے ہوئے گر پڑیں.کہ انہوں نے رحمن کے لئے بیٹے کا دعویٰ کیا ہے.حضرت زکریا کے بعد اس سورۃ میں حضرت مریم کا ذکر آیا ہے.انتَبَذَتْ “ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّا ( مريم : 17) یعنی مریم اپنے اہل کو چھوڑ کر مشرق کی طرف نکل گئی.150 قرآن کریم کے اسلوب بیان کو نہ سمجھنے کے باعث عموماً ان واقعات ماضیہ کو صرف واقعات ماضیہ ہی سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ محض واقعات ماضیہ نہیں بلکہ ماضی کے پردے میں ایسے کنایات ہیں جو اسلام کے مستقبل پر روشنی ڈال رہے ہیں.قرآن کریم کا یہ عام اسلوب ہے کہ گزشتہ واقعات کو بیان کر کے آئندہ پیش آنے والے کوائف کو ظاہر کرتا ہے.سو یہاں حضرت مریم“ کا انتباذ جہاں اس واقعہ کو ظاہر کرتا ہے کہ مریم “ اپنے شخصی وجود کے ساتھ اپنے اہل سے دور چلی گئیں وہاں اس حقیقت کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ مریم اپنی صفات اور اخلاق کی رو سے اپنے عہد کی بداخلاقیوں اور برائیوں سے متنفر ہو کر ان لوگوں سے کہیں دور جا چکی تھیں.اس کیفیت کو قرآن کریم میں حضرت ابراہیمؑ کے متعلق اعتزال سے تعبیر کیا گیا ہے اور حضرت موسیٰ“ کے متعلق لفظ فرار استعمال کیا گیا ہے اور اصحاب کہف کے متعلق ایوا اور اعتزال استعمال کیا گیا ہے.سو یہ جملہ الفاظ انتباذ ، اعتزال فرار اور ایواوغیرہ اخلاقی قوتوں کو محفوظ کرنے کیلئے استعمال کئے گئے ہیں اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جہاں کہیں یہ لفظ استعمال ہوتے ہیں وہاں ان کے موصوفات پر رحمت الہی اور موہبت الہی کے نزول کا ذکر کیا جاتا ہے جیسے فرمایا:.فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ فَوَهَبَ لِي رَبِّي حُكْمًا وجَعَلَنِي مِنَ الْمُرْسَلِينَ ( شعراء:22) یعنی جب میں تم سے خائف ہوا تو بھاگ گیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے حکم عطا فرمایا اور رسول بنا دیا.ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے فرار سے صرف ظاہری فرار مراد نہیں بلکہ اس سے مراد وہ روحانی کیفیت بھی ہے

Page 77

”“ 151 جس کے نتیجے میں انسان بُرے لوگوں کی بدیوں سے بچنے کیلئے انقطاع اور تبتل الی اللہ اختیار کرتا ہے اور پھر اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا مورد ٹھہرتا ہے اسی طرح سورۃ مریم میں حضرت ابراہیم کے متعلق فرمایا:.فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَهَبْنَالَةَ إسْحَقَ وَيَعْقُوبَ، وَكُلًّا جَعَلْنَا نَبِيًّا وَوَهَبْنَا لَهُمْ مِنْ رَّحْمَتِنَا وَجَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِيًّا ( مریم : 50-51) یعنی جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی قوم اور معبودانِ باطلہ سے الگ تھلگ ہو گئے تو ہم نے انہیں الحق “ اور یعقوب عطا کئے اور پھر انہیں نبوت بخشی اور ( یہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ) ان پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دیئے اور ان کے لئے اعلیٰ درجہ کا ذکر خیر پیچھے چھوڑا.پھر اسی طرح سورۃ کہف میں آتا ہے.فَأَوَا إِلَى الْكَهْفِ يَنْشُرْ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِنْ رَّحْمَتِهِ (الكيف : 17) یعنی ان لوگوں سے بھاگ نکلو اور کسی غار میں جا کر پناہ لے لو تب تمہارا خدا تمہارے لئے رحمت کے دروازے کھول دے گا اور درمنثور جلد 4 صفحہ 215 میں لکھا ہے کہ اصحاب کہف سے مراد اعوان مہدی ہیں.سوان آیات سے ظاہر ہے کہ مقربین بارگاہ الہی کا فرار یا اعتزال صفاتی پہلوؤں کا بھی حامل ہوتا ہے سو حضرت مریم کے متعلق یہ کہنا کہ وہ اپنے اہل سے دور چلی گئیں تھیں اس سے یہ بھی مراد ہے کہ آپ کی صفات مشرق کی طرف منتقل ہوئیں.یہی وجہ ہے کہ سیدنا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ جب اپنی شخصی زندگی میں مریمی صفات کو طے کر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کیلئے ان کو بھی مشرق کی طرف جانا پڑا “ 152 اور جب حضور نے ہوشیار پور میں چالیس دن تک اعتزال و انتباذ کو اختیار فرمائے رکھا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی رحمت کا نشان عطا فرمایا.پھر حضرت مریم“ کے متعلق فرمایا:.فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُونِهِمُ حِجَابَاءَ فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْكَ إِنْ كُنْتَ تَقِيَّا قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَمًا زكيا (مریم: 18 تا 20 ) یعنی حضرت مریم نے خلوت اختیار کی اور ہم نے اپنی روح کو اس کی طرف بھیجا اور وہ اس کے سامنے ایک تندرست بشر کی شکل میں ظاہر ہوئی مریم نے اُسے کہا میں تجھ سے خدائے رحمن کی پناہ مانگتی ہوں اگر تیرے اندر کچھ بھی تقویٰ ہے اس پر اس نے کہا میں تو صرف تیرے رب کا بھیجا ہوا پیغامبر ہوں تا کہ میں تجھے لڑ کا عطا کروں.ان الفاظ میں لفظ ” روحنا سے مراد محمدی انوار ہیں جو حضرت مریم کے سامنے ایک بشر کی صورت میں متمثل ہوئے اور حضرت مریم انہی انوار کی حامل بنیں.قرآنِ کریم نے ایک اور انداز سے بھی اس حقیقت کو واضح فرمایا ہے کہ اور وہ یوں کہ اسمہ کے لفظ کو ایک جگہ احمد کے ساتھ لگایا اور ایک جگہ اسیح عیسی ابن مریم کے ساتھ لگایا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ عیسی بن مریم اور احمد ایک ہی چیز ہیں.اور پھر اس موقع پر یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ متمثل ہونے والی روح نے بچے کی موہبت کو اپنی طرف منسوب کیا ہے یعنی یہ کہا ہے کہ میں تجھے بخشوں گا اور یہ نہیں کہا کہ خدا تعالیٰ تجھے بخشے گا سو حقیقت یہی ہے کہ جس طرح جملہ انبیاء انوار محمد یہ کے پر تو ہیں اسی طرح حضرت مریم بھی انوار محمدیہ کی حامل بنیں اور ان کا بیٹا انہی انوار کا وارث ہو کر ایک طرف ابن مریم اور دوسری طرف غلام احمد کہلایا.آگے فرمایا.

Page 78

”“ 153 فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهِ مَكَانًا قَصِيًّا ( مريم : 23) ترجمہ: پس اسے اس کا حمل ہو گیا اور وہ اُسے لئے ہوئے ایک دور کی جگہ کی طرف ہٹ گئی.ان الفاظ میں ”قصيا “ اس حقیقت کا حامل ہے جو سورۃ بنی اسرائیل کے شروع میں المَسْجِدِ الْأَقْصَا کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے.سورۃ بنی اسرائیل میں ہجرت کا ذکر ہے اور سورۃ مریم کے متعلق پہلے یہ بتایا جاچکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصی زندگی کے مقابل اس کا ملی زندگی میں وہی مقام ہے جو غار ثور سے نکل کر مدینے تک سفر کرنے کا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے ہجرت فرماتے ہوئے جس اونٹنی پر سفر کیا تھا اس کا نام قصوا تھا اور ملت نے جس جہت کو سفر کیا اس کا نام المَسْجِدِ الْأَقْصَا رکھا گیا اور سورۃ مریم میں بتایا گیا کہ مسجد اقصیٰ مشرق کی طرف ہے اور بہت دور ہے سو یہ تینوں لفظ اقصیٰ ، قصوا اور قصیا ایک ہی حقیقت کے حامل ہیں.آگے فرمایا: فَنَادَيهَا مِن تَحْتِهَا الَّا تَحْزَنِي قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سيريا (مریم: 25) ترجمہ: تب ایک (پکارنے والے نے ) اسے اس کی زیریں طرف سے پکارا کہ کوئی غم نہ کر.تیرے رب نے تیرے نشیب میں ایک چشمہ جاری کر دیا ہے.اس آیت میں لفظ سریا سے یہ خیال گزرتا ہے کہ کچھ عجب نہیں کہ سری نگر کے شہر کا نام اسی لفظ سے ماخوذ ہو اور ہندو قوم میں جو لفظ ” سری اور شری“ بمعنے سردار استعمال ہوتا ہے وہ بھی اسی لفظ سے مستفاد ہو.بالآخر اس موقع پر یہ امر قابل ذکر معلوم ہوتا ہے کہ لفظ " مریم بیلی اور ابن مریم یہ تینوں اسماملت اسلامیہ کی صفاتی کیفیت کے حامل ہیں.لفظ ”مریم ملت کی ایسی “ 154 کیفیت کو ظاہر کرتا ہے جو انسان کو بے بسی اور بے کسی کے عالم میں قریب المرگ کر دے.اس بنا پر حضرت مریم نے فرما یا یا لیتنی مت (مریم : 24) یعنی کاش که میں مرجاتی.اور لفظ ' یحیی اس موت سے بچ نکلنے کے مقام پر دلالت کرتا ہے اس لئے مسیحی علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا سلمٌ عَلَيْهِ (مریم : 16) یعنی اللہ تعالیٰ نے ملت کو موت کے منہ سے نکال کر بچا لیا اور لفظ ” ابن مریم کا مقام نہ 661 صرف بیچ رہنے پر دلالت کرتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی بچانے والا ہے.گو یا لفظ ”ی“ سے ترقی کر کے لفظ احیا کا مقام ہے اس لئے حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا کہ أخي المولى ( آل عمران : 50) اور اپنے متعلق فرمایا السّلام علی (مریم :34) گویا انہیں اپنی سلامتی کیلئے اقتداری مقام حاصل ہو گیا تھا.اسی بنا پر حضرت مسیح موعود ان تینوں مقامات کے جامع ہیں.حضور پر پہلے فنا کا مقام وارد ہوا اور یہ مریمی مقام تھا پھر حیات کا مقام حاصل ہوا اور یہ یحیائی مقام تھا پھر ابن مریم کا مقام حاصل ہوا اور یہ احیا کا مقام ہے اسی بنا پر حضرت اقدس کے متعلق فرمایا گیا کہ يُحْى الدِّينَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَةً ( تذکر طبع چہارم صفحه 55) یعنی یہ فرد مردہ قوم کو زندہ کرنے کے بعد اس میں اسلام کی روح پھونک کر اسے شریعت پر قائم کر دے گا.سو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسا ہی ہو رہا ہے.نیز اس موقع پر یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت مجددالف ثانی اور حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب محدث دہلوی اور حضرت سید احمد بریلوی مریمی اور یحیا کی مقام کے حامل تھے اور ان کا وجو د سید نا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی آمد کیلئے بطور ارہاص کے تھا گویا یہ لیالی بیض یعنی گیارھویں بارھویں اور تیرھویں صدی کے چاند تھے اور ان کے بعد چودھویں کا چاند طلوع ہوا اسی بنا پر سورۃ مریم کے بعد سورۃ طہ رکھی گئی ہے کیونکہ طلہ کے اعداد 14 ہیں.سوسورۃ طہ سے چودھویں صدی کا آغاز ہوتا ہے اور

Page 79

”“ 155 “ 156 یہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے مبارک عہد کی آئینہ دار ہے.اس موقع پر یہ امر قابل ذکر ہے کہ حضرت مجددالف ثانی اور حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب محدث دہلوی اور حضرت سید احمد بریلوی یہ تینوں بزرگ اسلام کی نشاۃ اولیٰ اور نشاۃ ثانیہ کے مابین ایک عبوری دور کی حیثیت رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ یہ اپنے نام کے اعتبار سے تینوں احمد تھے اور اپنی نسل کے اعتبار سے تینوں قریش میں سے تھے جس کے معنے یہ ہیں کہ اسلام کی نشاۃ اولیٰ ان کی آمد کے بعد آہستہ آہستہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی طرف منتقل ہورہی تھی.ان کے بعد غلام احمد قادیانی تشریف لائے تو وہ غیر امی قوم سے پیدا ہوئے اور غلام حلیم کی بجائے غلام علیم کہلائے.اب ہم سورۃ مریم کے متعلق دو ایسی شہادتیں پیش کرتے ہیں جن کا تعلق آسمان سے ہے نہ کہ زمین سے.دونوں شہادتیں اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ سورۃ مریم کا تعلق مسیح محمدی کی پیدائش اور ظہور سے ہے اور یہ کہ سورۃ مریم میں جس بیٹے کے پیدا ہونے کی خبر دی گئی وہی بیٹا سورۃ طہ میں ہمارے سامنے آتا ہے اور وہ شہادتیں حسب ذیل ہیں:.شہادت نمبرا:.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ وو......والدہ صاحبہ بیان کرتی تھیں کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہماری بڑی ہمشیرہ کو ایک دفعہ کسی بزرگ نے خواب میں ایک تعویذ دیا تھا.بیدار ہوئیں تو ہاتھ میں بھوج پتر پرلکھی ہوئی سورۃ مریم تھی“.شہادت نمبر ۲:.پھر آسمان پر ایک بڑا نشان دکھائی دیا یعنی ایک عورت نظر آئی جو آفتاب کو اوڑھے ہوئے تھی اور چاند اس کے پاؤں کے نیچے تھا اور بارہ ستاروں کا تاج اُس کے سر پر.وہ حاملہ تھی اور دردزہ میں چلاتی تھی اور بچہ جنے کی تکلیف میں تھی.(مکاشفہ یوحنا عارف باب نمبر 12 آیت 2,1) اس دوسری شہادت میں آفتاب سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور بارہ ستاروں سے مراد بارہ مجددین ہیں اور چاند سے مراد حضرت بانی سلسلہ احمدیہ ہیں.سوظاہر ہے کہ جو عورت دردِ زہ میں مبتلا تھی اس سے مراد امت محمدیہ ہے.ایسے ہی سورۃ مریم “ میں حضرت مریم کے دردزہ کا جو ذکر آیا ہے اس کے پردے میں بھی یہی حقیقت ظاہر کی گئی ہے کہ اُمت محمد یہ تیرھویں صدی میں دردِ زہ میں مبتلا ہوگی اور وہ بچہ جنے کی تکلیف میں ہوگی.(سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ 34

Page 80

”“ سورة طه تفسیر چند آیات طلع البدر علينا من ثنيات الوداع وجب الشكر علينا مادعا لله داع 157 “ 158

Page 81

”“ اے چودھویں کے چاند اے چودھویں کے چاند قسم تیرے نور کی 159 تمہید بن گیا ہے تو آج اک سرور کی ہے یاد تجھ سے مجھے آنحضور کی وہ چودھویں کا چاند کہ احمد ہے جس کا نام آئی اے چاند تو بھی شرق میں آکر ہوا تمام مشرق ہی اس کی سمت ہے اتمامِ نور کی اس چودھویں کے چاند سے اے چودھویں کے چاند نسبت تجھے ضرور ہے لیکن ہے دور کی جس چودھویں کی رات میں تجھ کو ملا کمال احمد وہ وہ چودھویں کی رات ہے اس کے ظہور کی ماہتاب محمد وه آفتاب لاکھوں تجلیاں ہیں جہاں کوہ طور کی روحانی روشنی ہو کہ جسمانی روشنی روشن ہیں روشنی سے فقط آنحضور کی اے عالم الغیوب تجھے کیا خبر نہیں جو کیفیت ہے میرے دل ناصبور کی “ کیا چیز ہیں خطائیں مری اے مرے خدا 160 رکھ لاج اپنے نام رحیم و غفور کی یا رب تو میری ساری خطاؤں کو بخش دے کر ڈور میل دل سے میرے ہر قصور کی جو کل کو آج دیکھ سکے وہ نگاہ دے دے منزلیں سمیٹ سنین و شہور کی دیوانگی عشق کی ہوں مستیاں عطا ہشیاریاں معاف ہوں عقل و شعور کی احمد کے عاشقوں میں ظفر کا بھی نام ہے اڑتی خبر سنی ہے زبانی طیور کی

Page 82

”“ تفسير سورة طه 161 حروف طہ کے اعداد 14 ہیں اور یہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی صدی ہے اس سورۃ کا ملت اسلامیہ میں وہی مقام ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نبوی زندگی کے چودھویں سال میں مکہ سے ہجرت فرما کر یہود نامسعود کے شہر یثرب میں پہنچ گئے تھے گویا حضرت موسی غضب ناک ہو کر اس قوم کی سزا دہی کے لئے تشریف لے آئے تھے سو حضرت بانی سلسلہ کا مقام اس چودھویں صدی میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز کی حیثیت رکھتا ہے.چنانچہ قرآن کریم نے اس طرف اشارہ فرمایا.جیسا کہ فرمایا.وَلَقَد نَصَرَكُمُ اللهُ بِبَدْرٍ وَانْتُمْ أَذِلَّةٌ ( آل عمران : 124) یعنی خدا نے بدر میں اس وقت مدد کی جب تم کمزور تھے.قرآن ذوالوجوہ ہے جیسا کہ جلیل القدر علما اس حقیقت سے باخبر ہیں.سواس مقام پر اس آیت کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ مؤمنین کی مسیح موعود کے ظہور سے اس وقت مدد فرمائے گا جبکہ اتنی صدیاں گزرچکی ہوں گی کہ جتنے بدر کے ایام ہیں جبکہ مؤمن ان دنوں میں بے بس اور بے کس ہوں گے.نیز حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے فرما یا.چودہ کے عددکو روحانی تغیر سے بڑی مناسبت ہے.چودھویں صدی کا چاند کمل ہوتا ہے.اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ ( آل عمران : 124) میں اشارہ کیا ہے یعنی ایک بدر تو وہ تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخالفوں پر فتح پائی اس وقت بھی آپ کی جماعت قلیل تھی اور ایک بدر یہ ہے.لدو 66 بدر میں چودھویں صدی کی طرف اشارہ ہے اس وقت بھی اسلام کی حالت ذلة “ “ 162 کی ہو رہی ہے سو ان سارے وعدوں کے موافق اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث کیا ہے.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 363 جدید ایڈیشن) ایسے ہی علامہ موسیٰ جار اللہ اپنی کتاب " ترتیب الٹور صفحہ 88 “ میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ طہ کو سورۃ مریم کے بعد اس لئے رکھا کہ جس نبی کی آمد کی ابن مریم نے خبر دی تھی اس نبی کی سورۃ اس کی والدہ کی سورۃ کے ساتھ رکھی جائے گویا سورۃ طہ علامہ موسیٰ جار اللہ کے نزدیک اس نبی کی سورۃ ہے جس کے متعلق حضرت عیسی نے اسمه احمد “ کے الفاظ میں بشارت دی تھی.سوسورۃ طہ میں محمدیت کے ضمن میں احمدی دور کا آغاز ہوتا ہے.اب ہم ذیل میں اس سورت کی وہ آیت پیش کرتے ہیں جن سے ظاہر ہوگا کہ یہ سورۃ حضرت مسیح موعود سے تعلق رکھتی ہے اور اس کا زمانہ چودھویں صدی ہے اس سورت کے شروع میں فرما یا طه O مَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى (3.2:1b) ان الفاظ میں ایک تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بشارت دی گئی ہے کہ آپ کو روحانی بیٹا ملے گا.دوسرے خود حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو بشارت دی گئی ہے کہ آپ کو بھی روحانی بیٹا ملے گا.اس کا ثبوت یہ ہے کہ حضرت زکریا نے جب ایک بیٹے کی موہبت کے لئے دعا کی تو ساتھ ہی کہا کہ لمْ أَكُنُ بِدُعَابِكَ رَبِّ شَقِيًّا (مريم:5) یعنی اے میرے رب میں تجھے پکارنے کے بعد کبھی نامراد نہیں رہا اور ایسے ہی حضرت ابراہیم نے دعا کی تو ساتھ ہی کہا عَسَى أَلَّا أَكُونَ بِدُعَاءِ رَبِّي شَقِيًّا ( مریم :49) یعنی مجھے امید ہے کہ میں اپنے رب کو پکارنے کے بعد نامراد نہیں رہوں گا سو

Page 83

”“ 163 “ 164 زکریا کو بھی بیٹا عطا کیا گیا اور حضرت ابراہیم کو بھی بیٹا عطا کیا گیا.سورۃ طہ کی اس پہلی آیت میں ان ہی واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرما یا مَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقى یعنی جس طرح حضرت زکریا اور حضرت ابراہیم کو ورثا عطا کئے گئے تھے ایسے ہی تیرے لئے بھی مقدر ہے کہ تجھے ایک روحانی بیٹا عطا کیا جائے گا، پھر فرمایا.الرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوى (طه: 6) قرآن کریم استَوى عَلَى العَرش سے مراد ہفتم ہزار کا زمانہ لیتا ہے کیونکہ ہر جگہ فرماتا ہے کہ چھ دن میں زمین و آسمان پیدا کئے اور ساتویں دن عرش پر مستوی ہوا.پس حضرت بانی سلسلہ احمد یہ ساتویں ہزار میں احمد بن کر سامنے آئے اور اللہ تعالیٰ ان کے مبارک قلب پر جلوہ گر ہوا اس کے علاوہ مادی طور پر بھی یہ زمانہ خدائے رحمان کی عظیم الشان تجلیات کا حامل ہے.اس زمانے کی ایجادات ایسی ایجادات ہیں جو اس سے پہلے نہ کبھی سنی نہ دیکھی گئی تھیں اور نہ کبھی وہ وہم و گمان میں آسکتی تھیں.آگے فرمایا.وَ هَلْ أَتُكَ حَدِيثُ مُوسَى إِذْ رَا نَارًا فَقَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِلى انسْتُ نَارًا لَّعَلَى اتِيْكُمْ مِّنْهَا بِقَبَسٍ أَوْ أَجِدُ عَلَى النَّارِ هُدًى فَلَمَّا أَتَهَا نُودِيَ يَمُوسَى إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعُ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى وَانَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوحَى ( طه : 10 تا14) ترجمہ: اور کیا موسیٰ کی سرگزشت تجھ تک پہنچی ہے؟ جب اس نے آگ دیکھی تو اپنے اہل سے کہا ذرا ٹھہرو، میں نے ایک آگ سی دیکھی ہے امید ہے کہ میں تمہارے پاس اس میں سے کوئی انگارہ لے آؤں یا اس آگ کے پاس مجھے راہنمائی مل جائے.پس جب وہ اس تک پہنچا تو آواز دی گئی کہ اے موسیٰ ! یقیناً میں تیرا رب ہوں.پس اپنے دونوں جو تے اُتار دے.یقینا تو طولی کی مقدس وادی میں ہے.اور میں نے تجھے چن لیا ہے.پس اُسے غور سے سن جو وحی کیا جاتا ہے.ان آیات میں دراصل حدیث موسیٰ کے پردے میں یہ بتایا جارہا ہے کہ موسیٰ کو جو آگ دکھائی گئی تھی اور جس سے انہوں نے اقتباس کرنا تھا اور ہدایت پانا تھی وہ یہی آگ ہے اور اس چودھویں صدی حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ روشن کی گئی ہے اور جو دراصل آتش محمدی سے مقتبس ہے.چنانچہ حضور خود فرماتے ہیں: این آتشم ز آتش مهر محمدی ست پھر فرما یا انّى اَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ ان الفاظ میں یہ لطیف اشارہ ہے کہ اب تیری قوم کی تربیت کا وقت آ گیا ہے لیکن یہ تربیت تیرے ذریعہ سے نہیں ہوگی کیونکہ تیرے سفر کا وقت ختم ہو گیا ہے کیونکہ عالم کشوف ورڈ یا میں جوتا اتارنے سے مراد سفرختم کرنا ہوتا ہے.پھر فرمایا اِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى“ یعنی اب تو وادی مقدس طوئی میں آپہنچا ہے ان الفاظ میں طوی“ ایک عظیم الشان حقیقت کا حامل ہے اور وہ حقیقت یہ ہے کہ تیری قوم جس سفر کو تین ہزار سال میں طے نہ کر سکی اب وہی سفر دو تین سو سال میں طے ہو جائے گا کیونکہ عربی زبان میں طوی“ کے حسب ذیل معنے ہیں:.طَوَيْتُ الشَّيْء طَيَّاً، وَذَلِكَ كَفِي الشَّرَجِ وَمِنْهُ: طَوَيْتُ الْفَلَاةَ وَيُعَبَّرُ بِالتّي عَنْ مُضِي الْعُمُرِ.يُقَالُ: طَوَى اللهُ عُمرَهُ، قَالَ الشَّاعِرُ : قلوتُكَ خُطُوبُ دَهْرِكَ بَعْدَ ذَكَرٍ وَقِيلَ إِنَّ ذلِكَ جُعِل إشَارَةٌ إِلَى حَالَةٍ عَصْلَتْ لَهُ عَلى طريق

Page 84

”“ 165 الْإِجْتِبَاءِ فَكَأَنَّهُ طَوَى عَلَيْهِ مَسَافَةً، لَوِ احْتَاجَ أَنْ يَنَالَهَا بِالْإِجْتِهَادِ (مفردات راغب) لبَعْدَ عَلَيْهِ یعنی کسی چیز کو طے کرنا ایسا ہی ہے جیسے درجات کو طے کرنا یا دشت کو طے کرنا اور پھر طے سے یہ بھی مراد لیا جاتا ہے کہ اس کا زمانہ ختم ہو گیا ہے جیسے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی عمر کو سمیٹ لیا یعنی ایک وقت تھا کہ تمہاری بڑی دھوم دھام تھی اب سب کچھ سمٹ کے رہ گیا ہے.اور بعض نے کہا کہ حضرت موسیٰ کے متعلق یہ لفظ اس لئے استعمال کیا گیا ہے تا یہ ظاہر ہو کہ اللہ تعالیٰ نے از راہ نوازش ان پر منزل آسان کر دی اور اگر وہ اسے اپنی تگ و دو سے حاصل کرنا چاہتے تو حاصل نہ کر سکتے.سوان کو ائف سے ظاہر ہے کہ یہاں لفظ طویٰ سے مراد یہی ہے کہ حضرت موسیٰ کا زمانہ ختم ہو گیا ہے اور اب موسیٰ کی قوم محمدی اور احمدی انوار سے مستنیر ہو کر جھٹ پٹ اپنی منزل پالے گی.عام لوگ وادی مقدس کو کوئی مکانی چیز سمجھتے ہیں ممکن ہے کوئی ایسی جگہ بھی ہو جس کو طوی“ کہا گیا ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ وادی مقدس طویٰ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے زمانہ سے شروع ہوتی ہے اور سولھویں صدی کے آخر پر منتہی ہوتی ہے.سو یہ تین صدیاں یعنی چودھویں، پندرھویں اور سولھویں صدی زمانی طور پر وادی مقدس طویٰ کا حکم رکھتی ہے.سواس وادی مقدس طوی کا طواسیم کی سورتوں میں تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے اور یہ سب سورتیں سورۃ طہ کا تمہ ہیں.پھر فرمایا.إِنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ مَا تَسْعَى (16:ab) “ 166 یعنی اب جزا سزا کا وقت آنے کو ہے اس وقت سے میں پردہ اٹھانے کو ہوں تا کہ ہر نفس اپنی اپنی سعی کے مطابق جزا پائے اس آیت کی تشریح میں جو لفظ سعی آیا ہے آگے اس کی تشریح میں فرما یا فَإِذَا هِيَ حَيَّةٌ تَسْعَی یعنی اس دور میں وہی قوم جو کبھی موسیٰ کا عصا تھی اب ایک سانپ بن کر تگ و دو کر رہی ہے سوظاہر ہے کہ اب اس قوم کی سزا دہی کا وقت آپہنچا ہے اور پھر سزا دہی کے بعد اس کے راہ راست پر آنے کی ساعت بھی آ پہنچی ہے.آگے فرمایا: قَالَ خُذْهَا وَلَا تَخَفْ سَنُعِيْدُهَا سِيرَتَهَا الْأُولى (طه:22) ترجمہ: اس نے کہا اسے پکڑ لے اور ڈر نہیں ہم اسے اس کی پہلی حالت پر لوٹا دیں گے.ان الفاظ میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ یہی تو میں جو آج اثر دھا بنی ہوئی ہیں ایک وقت آئے گا کہ پھر اپنی پاکیزہ سیرت کو اختیار کر کے انبیاء کی جماعتوں والے اخلاق پیدا کرلیں گی.آگے فرمایا:.وَالْقَيْتُ عَلَيْكَ فَجَبَةً مِّنِي “ (طه: 40) ترجمہ: اور میں نے تجھ پر اپنی محبت انڈیل دی.یہ الفاظ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو بھی الہام ہوئے سو یہ ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ کے ذکر کے پردے میں اسی مثیل موسیٰ کے زمانے کا ذکر کیا جارہا ہے.آگے فرمایا : ” وَلِتُصْنَعَ عَلَى عَيْنِي “ (طه: 40) یعنی اے موسیٰ میں چاہتا ہوں کہ تو میری آنکھوں کے سامنے پروان چڑھے یہی الفاظ حضرت سید عبد القادر جیلانی کو بھی الہام ہوئے تھے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سید عبد القادر جیلانی کو حضرت موسیٰ سے مماثلت تھی.اور پھر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو کہا گیا ہے کہ یا عبد القادر اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت سید عبدالقادر جیلانی " باہم مماثلت

Page 85

" “ 167 رکھتے ہیں سورۃ اعراف میں جو حضرت موسیٰ کی میقات کی تھیں راتوں کا ذکر آیا ہے وہ راتیں لیلتہ القدر کے حساب کے مطابق حضرت عبد القادر جیلانی ” کے زمانے کو ظاہر کرتی ہیں اور جب چالیس راتوں کا ذکر کیا گیا تو اس میں اسی لیلتہ القدر کے حساب کے مطابق حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا زمانہ دکھایا گیا ہے جو چودھویں صدی ہے.آگے فرمایا:.مِنْهَا خَلَقْنَكُمْ وَفِيهَا نُعِيْدُ كُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى (56:4b) یعنی ہم نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور پھر ہم اسی میں دوبارہ داخل کر دیتے ہیں اور پھر اسی سے دوبارہ نکالتے ہیں.یہی مضمون سورۃ اعراف کے دوسرے رکوع کے شروع میں آیا تھا.وہاں فرمایا تھا.قَالَ فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ (اعراف : 26) گویا وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ“ کے الفاظ میں یہ عہد کیا گیا تھا کہ امت محمدیہ کو ایک موت کے بعد دوبارہ زندگی بخشی جائے گی.سورۃ اعراف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصی زندگی کی آئینہ دار ہے اس سورہ طہ میں جو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی شخصی زندگی کی آئینہ دار ہے یہ دکھایا گیا ہے کہ سورۃ اعراف کا وعدہ یہاں پورا ہورہا ہے اور مردہ قوم کو دوبارہ زندہ کیا جا رہا ہے پھر فرمایا.اسْمَعُ وَآری (طه: 47) یہی الفاظ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو الہام ہوئے ہیں سو ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ کے نام کے پردے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کو موسیٰ کا نام دیا جارہا ہے اور بنی اسرائیل کے پردے میں علاوہ بنی اسرائیل کے امت محمدیہ بھی مراد لی جارہی ہے ایسے ہی فرمایا." قُلْنَا لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنْتَ الأعلى (طه: 69) ترجمہ : ہم نے کہا مت ڈر.یقینا تو ہی غالب آنے والا ہے.یہ بھی حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا الہام ہے.پھر فرمایا.فَرَجَعَ مُوسى إلى قَوْمِهِ غَضْبَانَ آسِفًا “ (طه: 87 ) “ 168 قرآن کریم میں رجعت موسیٰ کا دوسورتوں میں ذکر آیا ہے ایک سورۃ اعراف میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصی زندگی کی آئینہ دار ہے اس میں فرمایا: ہوا لوٹا.وَلَمَّا رَجَعَ مُوسَى إِلى قَوْمِهِ غَضْبَانَ آسِفًا (الاعراف : 151) ترجمہ: اور جب موسیٰ اپنی قوم کی طرف سخت طیش کی حالت میں افسوس کرتا گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اس بات کا اعلان تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام دوبارہ تشریف لے آئے ہیں اور یہ کہ ان کی قوم بنی اسرائیل آنحضرت کی تشریف آوری کے بعد مزید غضب الہی کی مورد ہوگی یہی وجہ ہے کہ بالآخر مدینہ کے یہود کو ان کی بد چلنی اور بد عہدی پر جلا وطنی اور موت کی سزائیں دی گئیں اور مدینہ منورہ کو ان کے ناپاک وجود سے پاک کر دیا گیا.دوبارہ رجعت موسیٰ کا ذکر سورۃ طہ میں آیا ہے یہاں بجاۓ لَمَّا رَجَعَ کے فَرَجَعَ فرمایا ہے جس میں یہ اشارہ ہے کہ اُمت محمدیہ میں موسوی صفات کی دوبارہ رجعت ہو رہی ہے سوجس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مدینہ کے یہود غضب الہی کا نشانہ بنے تھے سو ایسے ہی یہ بھی مقدر ہے کہ اس چودھویں صدی میں یہود اور امثال یہود غضب الہی کا نشانہ بنیں گے.چنانچہ واقعات خارجہ گواہ ہیں کہ اب یہ دونوں قومیں انتہائی مصائب اور آلام میں مبتلا ہورہی ہیں اور آگے جو کچھ ہونے والا ہے وہ تصور سے بھی بالاتر ہے.پھر فرمایا: يبَنِي إِسْرَاءِيلَ قَدْ أَنجَيْنَكُمْ مِنْ عَدُوِّكُمْ وَ وعَدُنَكُمْ جَانِبَ الطُّورِ الْأَيْمَنَ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَ والسلوى (طه:81) ترجمہ: اے بنی اسرائیل ! یقیناً ہم نے تمہیں تمہارے دشمن سے نجات بخشی اور

Page 86

”“ " 169 تم سے طور کے دائیں جانب ایک معاہدہ کیا اور تم پر من وسلویٰ اتارے.لغت عرب میں متوازی پہاڑ اور متوازی دیوار میں طور کہلاتی ہیں سوموسوی سلسلہ اور محمدی سلسلہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دو متوازی سلسلے ہیں حضرت موسیٰ کے سلسلے کی ابتدا عرب کے مغرب کی طرف سے ہوئی اور محمدی سلسلہ کا آغاز مشرق کی طرف سے ہوا.اس لئے بائبل میں عرب کو عبرانی زبان میں لفظ ” قدوم“ سے یاد کیا گیا ہے جس کے معنی مشرق کے ہیں اور سورۃ مریم میں بھی یہی بتایا گیا تھا کہ انوار مشرق کی طرف منتقل ہوئے.سو اس سورۃ میں جانب ایمن سے مراد سلسلہ محمدیہ ہے جس میں بنی اسرائیل کے لئے مقدر ہے کہ وہ آخر کا ر اس میں داخل ہو کر امن پائیں گے اور فساد فی الارض کی بیماری سے محفوظ ہو جائیں گے.لفظ ایمن“ لفظ ”طور“ کی صفت نہیں بلکہ لفظ ” جانب کی صفت ظاہر کی گئی ہے تاکہ ظاہر ہو کہ جانب شرقی ہی میمون اور مبارک ہے.پھر فرمایا: فَتَنَّا قَوْمَكَ مِنْ بَعْدِكَ “ (طہ: 86) ترجمہ: ہم نے تیری قوم کو تیری غیر حاضری میں آزمایا.ان الفاظ میں دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتا یا گیا ہے کہ آپ کے بعد آخری زمانے میں ایک بہت بڑا فتنہ برپا ہوگا اور آپ کی قوم بھی اس فتنے کی لپیٹ میں آجائے گی.چنانچہ آج یہی ہو رہا ہے کہ مسلمان اپنی وضع تمدن اور اسلامی شعار کو ترک کر کے مغربیت کی رو میں بہہ گئے ہیں.پھر فرمایا.فَأَخْرَجَ لَهُمْ عَجَلًا جَسَدً الَّهُ خُوَارٌ ( طہ: 89) ترجمہ: پھر وہ ان کے لئے ایک ایسا بچھڑا نکال لایا جو ایک ( بے جان ) جسم تھا جس کی گائے جیسی آواز تھی.قرآن کریم میں بچھڑے کے معبود بنانے کا ذکر سورۃ اعراف میں بھی آیا ہے گویا سورۃ اعراف میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ آپ کی قوم آپ کے بعد کسی گوسالہ پرست قوم میں رہ کر فتنے میں پڑ جائے گی سو یہ پیشگوئی سورۃ طہ میں پوری ہوتی دکھائی گئی ہے.سیدنا “ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کولیکھر ام کے متعلق الہام ہوا:.عجل جَسَدٌ لَّهُ خَوَارٌ لَّهُ نَصَبٌ وَعَذَابٌ 170 ( تذکرہ صفحہ 229 ایڈیشن سوم ) اور پھر تفہیم ہوئی کہ مقلۂ یعنی لیکھرام کی کیفیت اب سامری کے گوسالہ کی سی ہے جو روحانیت سے بالکل خالی اور بلند بانگ دعوی کرنے والا اور ڈینگیں مارنے کا عادی ہے سو اس کے لئے وہی سزا مقدر ہے جو سامری کے بچھڑے کے لئے تھی یعنی جلایا جانا اور بہایا جانا.اس الہام میں دراصل ہندو قوم کے متعلق پیشگوئی کی گئی ہے کہ یہ قوم جو گوسالہ پرست ہے سامری کے گوسالے کی طرح پہلے جلائی جائے گی پھر دریا میں بہائی جائے گی ہندو قوم دراصل مصر سے آئی ہوئی ہے اور یہ گوسالے کی پرستش اسی سامری تعلیم کے ماتحت کرتی چلی آرہی ہے.چنانچہ پڑھے لکھے ہند و کو جو کچھ طب بھی جانتا ہو ”مصر“ کہا جاتا ہے.سیدنا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں: د لیکھر ام مغضوب علیہ تھا.آریہ بھی یہود میں داخل ہیں ان کا ھون وغیرہ تمام رسوم یہود سے ملتی ہیں بعض نے لکھا ہے کہ برہمن مصرجی اس لئے کہلاتے ہیں کہ یہ لوگ مصر سے آئے تھے.( ملفوظات جلد دوئم صفحہ 419 جدید ایڈیشن) اس کے علاوہ ہندوؤں کی ایک قدیم کتاب میں جو سینکڑوں سال قبل لکھی گئی تھی مذکور ہے.پرتی سرگ پرب.کھنڈا.ادہیائے 5.شلوک 30.سرسوتی ندی کے پوتر بر ہماورت کے ماسوا سارا جگت ملیچھ آچار یہ حضرت موسیٰ کے پیرووں سے بھرا پڑا ہے ( بحوالہ بھوشیہ پر ان کی آلو چنا.مؤلفہ پنڈت منسارام جی کرت صفحہ 9)

Page 87

172 171 قرآن کریم میں اس قوم کی دو بیماریوں کی نشاندہی کی گئی ہے اول یہ کہ ہند وقوم احساس برتری کی بیماری میں مبتلا ہے جس کے نتیجہ میں وہ اپنے آپ کو ہر قوم سے بہتر اور برتر سمجھتی ہے اس بیماری کی قرآن کریم میں بَصُرْتُ بِمَا لَهُ يَنْصُرُوا بِهِ (طه:97) ترجمہ: اس نے کہا کہ میں نے وہ بات جان لی تھی جسے یہ نہیں پاسکے.کے الفاظ میں نشاندہی کی گئی ہے دوسری بیماری چھوت چھات کی ہے جس کی نشاندہی قرآن کریم میں لا مساس“ کے الفاظ سے کی گئی ہے.پھر فرمایا: قَالُوا لَن نَّبْرَحَ عَلَيْهِ عَرِفِيْنَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَيْنَا مُوسَى 66 (92:ab) ترجمہ : انہوں نے کہا ہم اس کے سامنے ضرور بیٹھے رہیں گے.یہاں تک کہ موسیٰ ہماری طرف لوٹ آئے.یعنی جب تک موسیٰ واپس نہ آئیں ہم بچھڑے کی پرستش سے باز نہیں آئیں گے یہ الفاظ در اصل ایک عظیم الشان پیشگوئی پر مبنی ہیں اور وہ یہ کہ ہندو قوم سامری کی طرح گوسالے کی پرستش کرتی رہے گی لیکن جب حضرت موسیٰ کے بروز یعنی حضرت امام مہدی دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کی تشریف آوری کے بعد یہ قوم ان کی تعلیمات سے متاثر ہو کر بچھڑے کی پوجا ترک کر دے گی اور بالآ خر تو حید کی قائل ہو جائے گی اس پیشگوئی کی صداقت کے آثار ابھی سے ظاہر ہونے شروع ہو گئے ہیں ہندوستان کی قومی اسمبلی میں بار بار یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ جب ہمارے باپ دادے گائے کھاتے تھے تو ہم کیوں نہ کھائیں اور اس کی تائید میں بہت سے حوالہ جات پیش کئے گئے ہیں ( ہندوؤں کا اسلام کی طرف رجوع کرنا ) کہ واقعی ان کے آباؤ اجداد گائے کا گوشت کھاتے تھے سو یہ تاریخ ہند میں پہلا موقع ہے کہ ہزاروں ا تفصیل کیلئے دیکھیں الفضل 3.اپریل 1932ء ، الفضل 25 مئی 1939ء، نیز الفضل 23.اکتوبر 1946ء سال کے بعد جب موسیٰ بصورت رجعت بروزی تشریف لے آئے ہیں تو یہ قوم بچھڑے کے احترام کو خیر باد کہہ کر اس کا گوشت کھانے پر آمادہ ہو رہی ہے اور وہ دن دور نہیں جبکہ ہندوستان میں گائے کی قربانی ممنوع نہ رہے گی پھر فرمایا: وَيَسْتَلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّ نَسْفًا“ (106:b) ترجمہ: اور وہ تجھ سے پہاڑوں کے متعلق سوال کرتے ہیں.تو کہہ دے کہ انہیں میرا رب ریزہ ریزہ کر دے گا.ان الفاظ میں دراصل یا جوج ماجوج اور دیگر دشمنان اسلام قوموں کی تباہی اور بر بادی کا ذکر کیا گیا ہے.چنانچہ بائبل میں لکھا ہے: ” ہر ایک نشیب اونچا کیا جائے اور ہر ایک پہاڑ اور ٹیلہ پست کیا جائے اور ہر ایک ٹیڑھی چیز سیدھی اور ہر ایک ناہموار جگہ ہموار کی جائے.اور خداوند کا جلال آشکارا ہو گا اور تمام بشر اس کو دیکھے گا.کیونکہ خداوند نے اپنے منہ سے فرمایا ہے.“ (یسعیاہ باب 40 آیت 4 تا5) دیکھو میرا خادم جس کو میں سنبھالتا ہوں.میرا برگزیدہ جس سے میرا دل خوش ہے.میں نے اپنی رُوح اُس پر ڈالی.“ وو (یسعیاہ باب 42 آیت 1 ) ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ پہاڑوں کے اڑا دینے سے مراد صرف ظاہری کیفیت نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ہی اسلام کے راستے میں جور کا وٹیں ہیں ان کو اٹھا دینا بھی مراد ہے پھر فرمایا خَشَعَتِ الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمَنِ (طه: 109) ترجمہ: اور رحمن کے احترام میں آواز میں نیچی ہو جائیں گی.یہ وہی اصوات ہیں جن کا ذکر سورۃ بنی اسرائیل میں یوں آیا ہے.

Page 88

”“ 173 “ 174 وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ (بنی اسرائیل : 65) ترجمہ: پس اپنی آواز سے ان میں سے جسے چاہے بہکا.یعنی اے مظہر ابلیس یا جوج ماجوج تو اپنے پراپیگینڈے سے جسے چاہے فریب دے کر اپنا بنالے لیکن ایک وقت آئے گا کہ تیرے یہ پراپیگنڈے اور ہتھکنڈے ختم ہو جائیں گے اور بالآخر تجھے خدائے رحمن کے سامنے سر جھکانا پڑے گا اور تثلیث کو ترک کر کے توحید کو اختیار کرنا پڑے گا سوسورۃ طہ کے یہ الفاظ کہ ” خَشَعَتِ الْأَصْوَاتُ لِلرِّحْمنِ “ میں اس عہد کے الفاظ کا اعلان کیا گیا ہے پس 1426 سال سے پہلے پہلے یہ تمام شور و شر ختم ہو جائے گا اور یہ یا جوجی ماجوجی طاقتیں یوں اڑ جائیں گی جس طرح تیز و تند آندھیوں میں بھوسہ اڑ جاتا ہے.اور پندرھویں صدی کے ربع اول کے بعد یہ قومیں اسلام کی طرف بڑی شدت سے رجوع کریں گی جس کا تفصیلی ذکر آگے آئے گا.پھر فرمایا: "يَوْمَن يَتَّبِعُونَ الدَّاعِيَ“ (طه: 109) ترجمہ: اس دن وہ اس دعوت دینے والے کی پیروی کریں گے جس میں کوئی کبھی نہیں.66 یہ داعی وہی امام ہے جس کا ذکر سورۃ بنی اسرائیل میں آیا تھا کہ : يَوْمَ نَدْعُوا كُل اُنَاس بِاِمَامِهِمْ “ ( بنی اسرائیل : 72) جس کا سن آیت کے اعداد میں موجود ہے یعنی جس کی دعوت کے آغاز کا سن "يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ کے اعداد کے مطابق 1276 ہے اور یہی اعداد وَ أَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ( الجمعة : 4) کے کلمات کے ہیں.پھر فرمایا فَقُلْنَا يَأْدَمُ إِنَّ هَذَا عَدُةٌ لَّكَ وَ لِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقَى إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرُى.وَأَنَّكَ لَا تَطْمَوا فِيهَا وَلَا تَضْحى (طه: 118 120) پس ہم نے کہا اے آدم یقینا یہ تیرا اور تیرے ساتھیوں کا دشمن ہے یہ تم دونوں کو جنت سے نہ نکلوا دے اور پھر تم مصیبت میں پڑ جاؤ حالانکہ جنت میں رہتے ہوئے تیرا یہ حق ہے کہ نہ تو بھوکا رہے نہ تو نگا ر ہے نہ پیاسا ر ہے اور نہ بغیر مکان کے رہے قصہ ابلیس و آدم کے ضمن میں اِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرُى.وَأَنَّكَ لَا تَطْمَوا فِيْهَا وَلَا تَضُحى (طه: 118 تا 120) یه کلمات صرف سورۃ طہ میں آئے ہیں اور کہیں نہیں آئے یہی وجہ ہے کہ چودھویں صدی میں ملت اسلامیہ میں یہ بھی سوال بڑے زور وشور سے اٹھ چکا ہے کہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ نہ تو رعایا کو بھوکا رہنے دے اور نہ ننگا اور یہ کہ ان کے لئے پانی کا اور مکان کا بھی انتظام کرےسواس کیفیت سے ظاہر ہے کہ ہمارا یہ کہنا کہ سورۃ طہ کا تعلق چودھویں صدی سے ہے کسی مزید دلیل کا محتاج نہیں.قرآن کریم کے ان الفاظ میں دراصل جنت سے مراد اس دور کے آدم کی تعلیم پر عمل کرنا ہے یعنی احمدیت کی جنت میں داخل ہو کر ہر قسم کی شقاوت سے محفوظ ہو جانا ہے مکاشفہ یوحنا عارف سے اس حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے کہ جنت سے مراد اس دور کا مامور من اللہ ہے جیسا کہ لکھا ہے.” اور جو تخت پر بیٹھا ہے وہ اپنا خیمہ ان کے اوپر تانے گا اس کے بعد نہ کبھی ان کو بھوک لگے گی اور نہ پیاس اور نہ کبھی ان کو دھوپ ستائے گی نه گرمی (مکاشفہ باب 7 آیت 15-16 ) ان الفاظ میں تخت پر بیٹھنے والے سے مراد ( سید نا حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمد یہ ہیں.) پھر فرمایا: فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مَّتِي هُدًى ( طه : 124 ) ( ترجمہ : جب بھی میری طرف سے تم تک ہدایت آئے ) یہ الفاظ در حقیقت حضرت امام مہدی علیہ السلام کی تشریف آوری کے لئے بطور اعلان کے ہیں.پھر فرمایا:.யய

Page 89

”“ 175 فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى (طه: 124 ) ( ترجمہ: تو جو بھی میری ہدایت کی پیروی کرے گا تو نہ وہ گمراہ ہو گا.اور نہ بد نصیب ) یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی لائی ہوئی ہدایت کی اتباع کرنے والے آسمانی اور زمینی انعامات سے بہرہ ور کئے جائیں گے اور نامرادی کبھی ان کے پاس نہیں آئے گی.چنانچہ مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کو بھی الہام ہوا کہ:.قُلْ لِلْحُسَيْنِ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى (سوانح عمری صفحه 41) یعنی حسین سا سے کہہ دو کہ جو شخص میری بھیجی ہوئی ہدایت کی اتباع کرے گا وہ نہ تو بھٹکے گا اور نہ ہی نامراد ر ہے گا حضرت مولوی عبد اللہ غزنوی صاحب کا یہ الہام اس حقیقت کا مؤید ہے کہ یہاں کھدائی سے مراد حضرت امام مہدی کی تعلیم ہے جو عنقریب ظہور میں آنے والی تھی پھر فرمایا: وَلَا تَمدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بة أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا (طہ: 132 ) یعنی مختلف گروہوں کو جو ہم نے مال و متاع اور ساز و سامان بخشا ہے ان کی طرف نگاہ طمع دراز نہ کر یہ صرف چار دن کی چاندنی ہے ان الفاظ میں موجودہ زمانہ کے ان اسباب و آرائش کی طرف اشارہ ہے جو عروج تک پہنچ چکے ہیں.پھر فرمایا وَأمُرُ أَهْلَكَ بِالصَّلوة (طه: 133 ) ( ترجمہ: اور اپنے گھر والوں کو نماز کی تلقین کرتا رہ.) یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ اس دور میں مسلمان نمازیں ترک کر چکے ہوں گے یہی وجہ ہے کہ سورۃ مریم میں فرمایا تھا أَضَاعُوا الصَّلوةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوتِ ( مریم : 60) یعنی انہوں نے نمازوں کو ضائع کر دیا اور شہوات کے پیچھے لگ گئے اور ایسے ہی سورۃ مریم لے حسین آپ کا ایک خادم تھا لیکن اس الہام میں اشارہ ہے کہ مولوی محمد حسین امام مہدی کی مخالفت کریں گے.“ 176 میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذکر کے ضمن میں فرمایا تھا: كَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلوة ( مريم : 56 ) جس کے معنی یہ ہیں کہ اور تو اور خود قریش کہلانے والے بھی نمازوں سے غافل ہو چکے ہوں گے اور عرب قومیں اسلام سے دور جا پڑی ہوں گی.

Page 90

”“ اخبار غیبیہ جن کا تعلق دور حاضر کی اختراعات اور انکشافات سے ہے 177 “ 178

Page 91

”“ گردش زمین 179 یہود اور نصاری نے اول تو یہ ظلم کیا کہ آسمانی صحیفوں میں لفظی اور معنوی تحریف کر کے ان کی سیرت اور صورت مسخ کر دی اور پھر دوسر اظلم یہ کیا کہ اپنی محرف و مبدل کتب کو سائنس کے مطابق نہ پایا تو اعلان کر دیا کہ مذہب اور سائنس میں کوئی تعلق نہیں گویا اپنی خطا خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے خود تو بری ہو گئے اور اللہ تعالیٰ پر یہ اتہام لگا دیا کہ تیرے قول اور فعل میں مطابقت نہیں ہے.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قول اور فعل میں ہمیشہ تطابق رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا.کیونکہ اللہ تعالیٰ جھوٹ نہیں بولتا.وہ جو کہتا ہے وہی کرتا ہے اور جو کرتا ہے وہی کہتا ہے.اس کے قول اور فعل میں نہ صرف تطابق ہے بلکہ ساتھ ہی تلازم بھی ہے اگر سائنس کا کوئی سچا اور ثابت شدہ مسئلہ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہونے والے کسی کلام کے مخالف ہو تو یہ اس امر کا ثبوت ہوگا کہ وہ کلام در حقیقت اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں.ایسے ہی اگر سائنس کا کوئی مسئلہ کسی ایسے کلام سے ٹکرا رہا ہو جو واقعی اللہ تعالیٰ کا کلام ہو تو پھر مسئلہ بجائے سائنس کا مسئلہ کہلانے کے کسی غلط نظریہ کی پیداوار کہلائے گا کیونکہ خدا تعالیٰ کے قول اور فعل میں مطابقت لا زمی ہے اور ٹکراؤ ناممکن ہے.یہ ایک حقیقت ثابتہ ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور کلام بھی ایسا کہ جس کی حفاظت کا خود اللہ نے اعلان فرمایا ہوا ہے اور صدیوں کا تجربہ شاہد ہے کہ یہ اعلان سچا ہے کیونکہ مخالفین قرآن با وجود ہزار کوشش کے قرآن کریم میں کوئی تغیر و تبدل ثابت نہیں کر سکے.پس قرآن نہ صرف یہ کہ حقیقی سائنس کا مخالف نہیں بلکہ وہ خود ایک علمی سائنس ہے اور ہر عملی سائنس کا وہ منبع اور معیار ہے.عملی سائنس دنیا میں جو بھی “ 180 صداقت پیش کرے گی قرآن حکیم میں اسے پہلے سے موجود پائے گی اور یہ وہ حقیقت ہے جسے زمانہ مستقبل تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے گا بلکہ ایک وقت آئے گا کہ جب انسان کی ذاتی تحقیقات کی حدود ختم ہو جائیں گی تو پھر انسان قرآن کریم ہی کی روشنی میں آگے بڑھے گا اور پھر اللہ تعالیٰ کے قانون قدرت کے ایسے عجائبات کا انکشاف ہوگا جو آج انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتے.گردش زمین کا مسئلہ ایک نیا مسئلہ ہے قرآن کریم کے نزول سے قبل کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ زمین حرکت کر رہی ہے اسی طرح قرآن کریم کے نزول کے بعد بھی دنیا صدیوں تک اس حقیقت سے نا آشنا رہی ہے حتی کہ خود مسلمان مفسرین اپنی تفاسیر میں حرکت زمین کا ذکر کرتے ہوئے تاویلات سے کام لینے لگ جاتے تھے اور کہہ دیتے تھے کہ یہ قیامت کے دن ہوگا.اور وہ ایسا کرنے پر مجبور تھے کیونکہ ان کے پاس کوئی عملی ثبوت موجود نہ تھا.حالانکہ قرآن کریم کی متعدد آیات زمین کی حرکت اور گردش کی شہادت دے رہی ہیں اور نہ صرف گردش کی بلکہ گردش کی کیفیت بھی بتاتی ہیں.ذرا اس بارے میں قرآن کریم کا انداز بیان ملاحظہ فرمائیے اور غور فرمائیے کہ کس قدر لطیف ہے بعض آیات میں ایسے الفاظ رکھے گئے ہیں جن سے صرف زمین کی حرکت کی طرف اشارہ ہوتا ہے.مثلاً زمین کے متعلق (1) ظهر ( یعنی سواری) (2) مناکب (یعنی کندھے ) اور (3) مهدومهاد ( یعنی جھولا.پنگھوڑا) کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زمین حرکت کر رہی ہے.پھر بعض آیات میں بتایا ہے کہ زمین کی حرکت محوری ہے.مثلاً سورۃ نحل میں فرمایا: وَالْقَى فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ (النحل: 16) ترجمہ: اور اس نے زمین میں پہاڑ رکھ دیئے تا کہ تمہارے لئے کھانے کا سامان مہیا کریں.

Page 92

”“ 181 اور یہی الفاظ پھر سورۃ لقمان میں دہرائے ان الفاظ میں لفظ روایتی اور لفظ میں خاص طور پر قابل توجہ ہیں روایتی کے عام معنی جبال سمجھے جاتے ہیں لیکن حقیقتا جبال اور روایتی دو الگ الگ معنی پر روشنی ڈالتے ہیں.جبال پہاڑوں کی ظاہری پر عظمت صورت کا نام ہے اور روایتی ان کی اندرونی کیفیت اور عام حیثیت پر روشنی ڈالنے کے لئے مخصوص ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس فرق کو واضح کرنے کیلئے فرمایا وَ الْجِبَالَ أَرُسُهَا یعنی جبال کو رسو بخشا گیا تو وہ روایتی کہلائے.لہذا ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ رسو کے کیا معنی ہیں مفردات راغب میں لکھا ہے رَسَا الشَّيئ ثَبَتَ “ یعنی کسی چیز کے رسو پانے کے یہ معنے ہیں کہ اس نے قرار پایا اور ٹک گئی اور ایسے ہی رسوتُ بَيْنَ الْقَوْمِ “ کے معنے ہیں.اَثْبَتُ بَيْنَهُمْ اِيْقَاعَ الصُّلْحِ یعنی جولوگ لڑنے لگے تھے میں نے انہیں سمجھوتہ کرا کے صلح کرادی.پھر دوسرا لفظ تیمیک ہے یہ لفظ فعل مضارع ہے اس کی ماضی مادہ اور مصدرمید ہے جس کے معنے ہیں اضْطِرابُ الشَّيْ الْعَظِيْمِ كَاضْطِرابِ الْأَرْضِ یعنی بہت بڑی چیز کی حرکت جیسے کہ زمین کی حرکت.مَادَتْ بِهِ الْأَرْضُ یعنی زمین نے اسے چکر دیا.رَجُلٌ مَائد.ایسا آدمی جس کو چکر آتے ہوں.الْمَائِدَةُ - الدَّائِرَةُ مِنَ الْأَرْضِ یعنی زمین کا دائرہ - وَالْمَائِدَةُ الطَّبَقُ الَّذِي عَلَيْهِ الطَّعَامُ وَيُقَالُ لِكُلِ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا مَائِدَةٌ.یعنی وہ ظرف جس پر کھانا دھرا ہوا سے بھی مائدۃ کہتے ہیں ، اور دستر خوان اور کھانا دونوں الگ الگ بھی مائدہ کہلاتے ہیں.اس لغوی تحقیق سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ان الفاظ میں یعنی الفی فی الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ (النحل : 16 ) میں مندرجہ ذیل حقائق پوشیدہ ہیں.“ اول.یہ کہ زمین گول ہے.دوم.یہ کہ گھوم رہی ہے.182 سوم.یہ کہ رواسی یعنی پہاڑ اس کی گردش میں توازن پیدا کرتے ہیں اور اس کو بے جا ہچکولوں سے بچاتے ہیں.چہارم.یہ کہ رواسی اور گردش زمین انسانوں اور حیوانوں کے لئے سامان معیشت پیدا کرنے میں ممد ہیں.پنجم.یہ کہ زمین کی یہ گردش چکی کی گردش کی طرح ہے کیونکہ چکی کی گردش کے متعلق بھی دَارَتِ الرّحی بولتے ہیں اور یہاں زمین کی گردش کے متعلق بھی مَادَتِ الْأَرْضُ بمعنى دَارَتِ الْأَرْضُ استعمال ہوا ہے.لہذا زمین کی اس گردش سے مراد گر دش محوری ہے جس سے دن رات پیدا ہوتے ہیں.پھر اسی پر بس نہیں بلکہ قرآن مجید میں اس گردش محوری کے علاوہ زمین کی ایک اور گردش کا بھی ثبوت ملتا ہے.جیسے فرمایا: وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَهِيَ تَمْرُ مَرَّ السَّحَابِ (النمل: 89) یعنی جب تم پہاڑوں کو دیکھتے ہو تو سمجھتے ہو کہ وہ ایک ہی جگہ کھڑے ہیں حالانکہ وہ بادلوں کی طرح اڑے جا رہے ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ بادلوں کی حرکت محوری نہیں ہوتی.لہذا اس آیت میں زمین کی اس گردش کی طرف اشارہ ہے جس سے فصول اربعہ پیدا ہوتی ہیں جو ایک سال میں جا کر پوری ہوتی ہیں.نیز قرآن کریم کے ان الفاظ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پہاڑوں کی زمین میں وہی حیثیت ہے جیسے بادبانوں کی کشتی میں.پھر اسی پر بس نہیں بلکہ قرآن کریم زمین کی سالانہ گردش پر مزید روشنی ڈالتا ہے جیسے فرمایا.وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذلِكَ دَحَهَا “ (النازعات : 31 ) اور پھر دوسری جگہ سورۃ الشمس میں فرمایا: وَالْأَرْضِ وَمَا طَهَا (الشمس: 7 ) ( ترجمہ: اور

Page 93

”“ 183 زمین کی قسم اور جیسے اس نے اسے بچھا یا.اور مفردات راغب میں لکھا ہے کہ الطحو کالدا خو یعنی کلخو اور دخو ہم معنی ہیں اور طلحو کے معنی ہیں بَسْطُ الشّيء وَالنَّهَابُ به یعنی کسی چیز کو پھیلا بچھا کر کشاں کشاں لئے پھرنا.پھر اس پھر نے کے ثبوت میں حضرت امام راغب ایک شاعر کا یہ مصرع بطور شاہد پیش کرتے ہیں : طَحَابِكَ قَلْبْ فِي الْحِسَانِ طَرُوْبٌ یعنی تیرا حسینوں کو دیکھ کر آپے سے باہر جانے والا دل تجھے کہاں کہاں لئے پھرا.اب اس حقیقت کی روشنی میں وَالْأَرْضِ وَمَا طَحَهَا کے معنے یہ ہوئے کہ خود زمین اور پھر اس کو سر گرداں رکھنے والی طاقت ایک حسن ازل کے وجود کی شاہد ہے.پھر قرآن کریم صرف اسی بیان پر اکتفا نہیں کرتا کہ زمین کسی خارجی کشش کے ہاتھوں گردش پر مجبور ہے بلکہ ساتھ ہی اس سالانہ گردش کی کیفیت بھی طلحو اور دحو کے الفاظ میں بیان فرما دی ہے کیونکہ زمین جس رنگ میں سالانہ گردش کر رہی ہے اس رنگ کی گردش کو عربی میں طلخو اور دخو سے تعبیر کیا جاتا ہے چنانچہ اقرب الموارد میں لکھا ہے يُقَالُ لِلأَعِبِ بِالْجَوْزِ أَبعِدِ الْمُدَى وَادْحُهُ یعنی اخروٹوں سے تماشہ دکھانے والے مداری سے کہا جاتا ہے کہ لمبا فاصلہ رکھ کر اخروٹوں کو چکر دو.اب ذرا اس کیفیت پر غور فرمائیے کہ جب ایک چابک دست مداری چار پانچ اخروٹوں کو دائیں بائیں باری باری ہوا میں اس طرح پھینکے کہ اس کے ہاتھ میں ہر وقت ایک ہی اخروٹ رہے تو اخروٹوں کی آمد ورفت کی کیا صورت بنتی ہے ظاہر ہے کہ ذیل کی صورت بنے گی : “ 184 اور یہی صورت زمین کی سالانہ گردش کی ہے.لہذا قرآن شریف سے نہ صرف زمین کی گردش ثابت ہے بلکہ اس کی دونوں گردشوں کے اسباب، فوائد اور کیفیات پر بھی قرآن کریم روشنی ڈالتا ہے: تَبَارَكَ اللهُ رَبُّ الْعَلَمِينَ کشش ثقل دور حاضر میں جہاں یہ انکشاف ہوا کہ زمین گردش کر رہی ہے وہاں یہ بھی علم ہوا کہ زمین میں کششِ ثقل پائی جاتی ہے.ہمارے زمانے سے پہلے کسی کے تصور میں بھی یہ بات نہ تھی کہ زمین میں کششِ ثقل پائی جاتی ہے.لیکن ہمارا وہ خدا جو خالقِ ارض و سما ہے اس نے اپنے پیارے نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ دیا تھا:.الَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ كِفَاتَاهِ أَحْيَاء وَأَمْوَاتًا...(المرسلات : 26-27) یعنی کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ہم نے زمین میں ایک ایسی کشش رکھ دی ہے جو ہر جاندار اور بے جان چیز کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے.لغت عرب میں گفتِ الشّيء کے معنی ہیں ضمه إلى نَفْسه (منجد) یعنی کسی کو کھینچ کر اپنے ساتھ لگانا.سو یہ بھی قرآن شریف کا کمال ہے کہ اُس نے قریباً آج سے 1400 سال پہلے ہمیں بتادیا کہ زمین میں کششِ ثقل پائی جاتی ہے.قرآن کریم کے دو لفظ اور زمانہ حال کی ایجادات کو عربی زبان چونکہ الہامی زبان ہے اس لئے اس میں دوسری زبانوں کے مقابلہ میں بعض ایسی خوبیاں پائی جاتی ہیں جو اُسی کے ساتھ مخصوص ہیں.مثلاً اس کی ایک

Page 94

“ 185 خوبی یہ ہے کہ اس کے الفاظ اپنے معانی پر آپ دلالت کرتے ہیں اور اس کے اسما اپنے مسمات کی وجہ تسمیہ پر خود روشنی ڈالتے ہیں اور یہ خوبی وہ ہے جس کو قرآن کریم نے بھی عربی مبین “ کے الفاظ سے ظاہر فرمایا ہے.سوعربی زبان کی اسی خوبی کی بنا پر قرآن کریم کے دو لفظوں رفرف اور ھدھد کی حقیقت پیش خدمت ہے.لیکن ان الفاظ کی لغوی تحقیق سے پہلے دو باتوں کا سمجھنا ضروری ہے.اول یہ کہ قرآن کریم میں انبیاء علیہم السلام کے جس قدر واقعات بیان کئے گئے ہیں ان کی حیثیت صرف تاریخی قصوں اور کہانیوں کی نہیں ہے اور نہ ہی وہ صرف ماضی کے واقعات ہیں بلکہ وہ پیشگوئیاں ہیں جن کا تعلق امت محمدیہ اور دشمنانِ اسلام کے مستقبل کے ساتھ ہے اور مستقبل کی ضرورت کے مطابق سابقہ انبیاء کے احوال کو الگ الگ مواقع پر بیان کیا گیا ہے.اور دوئم یہ کہ قرآن کریم میں جزاوسز ا.ثواب وعقاب.حشر ونشر اور جنت و جہنم کے متعلق جس قدر آیات آئی ہیں ان سب کا ایک ادنیٰ نمونہ پہلے اس دنیا میں دکھایا جاتا ہے تاکہ وہ نمونہ بعد از موت کے احوال کے لئے ایک زندہ گواہ کا کام دے سکے.اسی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام سے فرمایا کہ جنت کی انہار صرف اگلے جہان سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ دریائے نیل.دریائے فرات، دریائے جیحون اور دریائے سیحون بھی انہار جنت میں سے ہیں.( مسلم باب الجنة ) ان دو حقیقتوں کی وضاحت کے بعد لفظ رفرف اور ھدھد کی حقیقت از روئے لغت پیش خدمت ہے.منجد میں لکھا ہے ، رَفَرَفَ الطَّائِرُ بَسَطَ جَنَاحَيْهِ وَحَرَّكَهُمَا یعنی پرندہ جب پر پھیلا کر انہیں ہلاتے ہوئے دوڑا.عربی زبان میں اس کیفیت کو رفرف الطائر کے الفاظ سے ادا کرتے ہیں گویار فرفَ الطَّائِرُ کے معنے ہیں پرندے نے اپنے پروں کو پھڑ پھڑایا اور رَفَرَفَ الشَّی ءُ صَاتَ یعنی اگر “ 186 کوئی شے آواز نکالے تو اسے بھی رفرف کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے.ایسا ہی لکھا ہے الرَّفْرَافُ الطَّائِرُ يُسَتُونَهُ خَاطِفُ ظِلہ.یعنی رفراف ایک ایسے تیز پرواز پرندے کا نام ہے جس کا دوسرا نام خَاطِفُ ظلہ بھی ہے یعنی اتنا تیز پرواز کہ نگاہ اس کے سائے کا تعاقب نہ کر سکے.ایسے ہی لکھا ہے الرَّفْرَافُ : الظَّلِيْمُ لِأَنَّهُ يَرِفُ بِجَنَاحَيْهِ ثُمَّ يَعْدُوْ یعنی شتر مرغ کو بھی رفراف کہتے ہیں کیونکہ وہ دونوں پر مارتا ہوا دوڑتا ہے.پھر لکھا ہے الرَّفْرَفُ شِبُهُ الطَّاقِ يُجْعَل عَلَيْهَا طَرَائِفُ الْبَيْتِ یعنی وہ تختے یا پڑ چھتیاں جن پر گھر کا قیمتی سامان رکھا جاتا ہے انہیں بھی عربی زبان میں رفرف کہا جاتا ہے.پھر اقرب میں لکھا ہے ذَاتُ الرَّفِيْفِ ـ سُفْنْ تَنْضَدُ سَفِيْنَتَانِ أَوْ ثلاث یعنی وہ شاہی کشتیاں جو دو منزلہ یا سہ منزلہ ہوں عربی میں ” ذات الرفیف“ کہلاتی ہیں.پھر ا قرب اور منجد میں لکھا ہے کہ الرَّفْرَفُ : الْفِرَاشُ الْبَسِيطُ الْوِسَادَةُ یعنی پچھونے سرہانے کو بھی رفرف کہتے ہیں.اور اس تکیہ کو بھی رفرف کہتے ہیں جو مسند کا کام دے.اب ان تمام معنوں کے پیش نظر غور فرمائیے کہ قرآن کریم کے ان الفاظ میں کہ مُتَّكِئِينَ عَلَى رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَعَبْقَرِ حِسَانٍ ( الرحمن : 77 ) یعنی یہ کہ جنت میں مومنوں کو ایسی رفرفیں عطا کی جائیں گی جن کا رنگ سبز ہوگا اور بناوٹ کے اعتبار سے محیر العقول ہوں گی اور صورت کے لحاظ سے نہایت حسین ہوں گی.کس حقیقت کو پیش کیا گیا ہے؟ ظاہر ہے کہ اگر رفرف کے جملہ مفاہیم کو پیش نظر رکھا جائے تو رفرف کا نمونہ دورِ حاضر کی برق رفتار سواریاں ہیں جو اپنی بناوٹ کے اعتبار سے حسین و جمیل ہیں.اور جب دوڑتی یا اڑتی ہیں تو پھڑ پھڑاہٹ کی آواز پیدا کرتی ہیں

Page 95

187 اور پھر ان میں بعض سواریاں ایسی بھی ہیں جن میں نہایت آرام دہ تکیے لگے ہوئے ہیں اور صرف تکیے ہی نہیں بلکہ اگر لیٹنا چاہیں تو نرم نرم بچھو نے بھی موجود ہیں اور اگر سامان رکھنا چاہیں تو تختے اور پڑ چھتیاں موجود ہیں اور اگر شہروں کے اندر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا چاہیں تو دو منزلہ لوکل بسیں موجود ہیں اور اگر سمندری سفر کریں تو دو منزلے سہ منزلے جہاز موجود ہیں اور اگر فضائی سفر کرنا چاہیں تو خَاطِفُ ظله یعنی جن کے سایہ کا نگاہ تعاقب نہ کر سکے ، برق رفتار طیور یعنی ہوائی جہاز موجود ہیں.سو یہ علیم و خبیر خدا ہی کی شان ہے کہ جس نے ایک رفرف کے لفظ میں تمام سواریوں کا نقشہ پیش فرما دیا ہے.ވ ވ ވ މ اس موقع پر یہ امر قابل وضاحت ہے کہ یہ رفرف اس دنیا کی ہے اور یہ دنیا کافروں کی جنت ہے.لہذا اس رفرف میں کافر و مومن ہر دو شریک ہیں لیکن بعد از موت جو رفرف ہوگی وہ صرف مومنوں کیلئے مخصوص ہوگی.نیز لفظ خُضر سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں سبز رنگ خصوصی حیثیت اختیار کر جائے گا.(2) رفرف کے بعد دوسرا لفظ ھدھد ہے.یہ لفظ بھی اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے.لغت میں ھدھد کے معنی دَوِيُّ الْبَحْر اور أَصْوَاتُ الْجِنَّ کے لکھے ہیں یعنی سمندر کی گونج اور ایسی آوازیں جو سنائی تو دیں لیکن بولنے والے سامنے نہ ہوں.اسی بنا پر ایک ایسے پرندے کا نام ڈھڈ رکھا گیا ہے جس کی عادت ہے کہ وہ درختوں کے پتوں میں چھپ کر اپنی چونچ کو اس طرح مارتا رہتا ہے جس طرح کہ چکی کوٹھنگو رنے والا لوہے کی منقار سے چکی کی پاٹ کوٹھنگو رتا ہے اسی لئے پنجاب کے بعض علاقوں میں اُدھر کو چکی را کہتے ہیں اور بعض علاقوں میں ” ترکھان پاکبھی کہتے ہیں اور ایسے ہی ھدھد کے متعلق اقرب میں لکھا ہے كُنْيَتُه ابو الاخبار یعنی ھدھد کی کنیت ابو الاخبار بھی ہے یعنی خبریں پہنچانے والا اور پھر “ ود 188 لکھا ہے کہ عرب لوگ کسی شخص کی بصارت اور تیز نگاہی کی تعریف کرنا چاہیں تو اس کے متعلق کہتے ہیں فُلانٌ أَبْصَرُ مِنْ هُدُهُد یعنی فلاں شخص ھدھد سے بڑھ کر تیز نگاہ ہے اور یہ بات عرب لوگ اس بنا پر کہتے ہیں کہ ھدھد کے متعلق ان کا خیال ہے کہ زمین اس کیلئے شیشے کی طرح ہے اور وہ زمین کے نیچے کے پانی کو دیکھ لیتا ہے.لفظ ھدھد کے ان جملہ اوصاف کے پیش نظر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے مخالفوں کے ارادوں اور اُن کی سازشوں سے باخبر رہنے کیلئے ایک ایسا محکمہ قائم فرمایا ہوا تھا جو نہایت تیز رفتاری سے ان کو دشمن کی خبریں خفیہ طور پر پہنچاتا رہتا تھا اور انہیں یہ اطلاعات ایسے خفیہ انداز میں ملتی تھیں کہ خود آپ کے ساتھ رہنے والے لوگوں کو بھی معلوم نہ ہوسکتا تھا کہ یہ اطلاعات کیونکر پہنچتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ وہ کہتے تھے کہ حضرت سلیمان نے جنات کو مسخر کیا ہوا ہے جو آپ کو خبریں پہنچاتے ہیں.حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس محکمہ کو پوشیدہ رکھنے کیلئے یہاں تک احتیاط فرمائی ہوئی تھی کہ اس محکمہ کے افسر کا نام اپنی پر حکمت اور مناسب حال اصطلاح کے مطابق هُدهُد رکھ چھوڑا تھا.لہذا حضرت سلیمان علیہ السلام کے طیر اور ھدھد سے مراد وہ شعبہ ہے جس کا کام پوشیدہ طور پر اطلاعات حاصل کرنا اور آپ تک پہنچانا تھا.اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کا قرآن شریف میں اس لئے ذکر فرمایا ہے تا کہ بتایا جائے کہ ایک وقت ایسا بھی آنے والا ہے کہ اسلام اور خدام اسلام کی خدمت بجالانے کیلئے کچھ ایسی ایجادات وجود میں آئیں گی.جو اصوات الجن کے مشابہ ہوں گی یعنی آواز میں تو سنی جائیں گی مگر بولنے والے سامنے نہیں ہوں گے اور پھر ایسے آلات بھی پیدا ہو جائیں گے کہ دور بیٹھے بولنے والے نظر بھی آنے لگ جائیں گے.سو یورپ کے موجدوں نے آج ٹیلی گرام.ٹیلی فون.ریڈیو.لاسلکی اور پھر ٹیلی ویژن جیسی ایجادات ، ایجاد کر دی ہیں.یہ ٹھیک ہے کہ یہ ایجادات فی الحال ودود

Page 96

دو “ 189 “ 190 انہی کی ملکیت اور ان ہی کی ایجاد کردہ ہیں مگر کل کو یہ تمام ھڈھڈ اسلام کی خدمت کیلئے مسخر ہونے والے ہیں.ھدھد کا ذکر قرآن شریف کی سورۃ نمل میں ہے اور سورۃ نمل کا خصوصی لگاؤ پندرھویں صدی سے ہے.لہذا پندرھویں صدی میں یہ ایک ایسی مشین ایجاد کرادی ہے جو مکانات کو اور چلتی پھرتی گاڑیوں کو ہر شخص کی طبیعت کے تقاضا کے مطابق گرم اور ٹھنڈا رکھ سکتی ہے اور اپنے عمل سے قرآن شریف کے منجانب اللہ ہونے پر گواہی دے رہی ہے.آلات کفر و ضلال کی نسبت اسلام اور ایمان کے زیادہ خدمت گزار اور زیادہ مقر آن مجید سائنس کا امام ہے: فرمانبردار ثابت ہوں گے.ان شاء اللہ.ٹیپ ریکارڈر: " مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ (ق:19) یہ قرآن شریف کے الفاظ ہیں ان کا مطلب یہ ہے کہ انسان جو بھی بات اپنے منہ سے نکالتا ہے ایک چست نگران اسے فوراً محفوظ کر لیتا ہے.غور فرمائیے کہ جب یہ الفاظ نازل ہوئے تھے کیا کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات آسکتی تھی کہ کیا کسی وقت اللہ تعالیٰ ایک ایسی مشین ایجاد کرا دے گا جو آواز کو قید کر کے اسے محفوظ کرلے گی اور پھر یہ آواز رفتہ ہر وقت دوبارہ سنی جاسکے گی.لیکن آج یہ مشین به بانگ دہل یہ اعلان کر رہی ہے کہ قرآن شریف بلاشبہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور یہ کہ انسان جو بھی بات منہ سے نکالتا ہے وہ ضائع نہیں جاتی بلکہ فضا میں محفوظ رہتی ہے اور اللہ تعالیٰ جب چاہے اسے دوبارہ سنا سکتا ہے.ائیر کنڈیشن (Air Condition): لا يَرَوْنَ فِيهَا شَمْسًا وَلاَ زَمْهَرِيرًا “ (الدهر : 14) یعنی اہل جنت جب جنت میں ہوں گے تو وہاں نہ تو موسم گرما کی تمازت انہیں تنگ کرے گی اور نہ موسم سرما کی سخت ٹھنڈک انہیں پریشان کرے گی بلکہ وہاں ہوا کی کیفیت معتدل ہوگی اور ہر شخص کی طبیعت کے تقاضا کے مطابق ہوگی.لہذا اللہ تعالیٰ نے اپنے اس دعویٰ کی صحت کی گواہی دلانے کیلئے زمانہ حال میں دور حاضر میں سائنس نے جتنی بھی ترقی کی ہے وہ الہام الہی کا نتیجہ ہے ورنہ عقل بیچاری بغیر الہام کی روشنی کے اس قابل نہ تھی کہ یہ حیرت انگیز اختراعات وجود میں لاسکتی.اللہ تعالیٰ حسب ضرورت اپنے بندوں کو علمی ترقی کی منازل کی طرف لے جارہا ہے.قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان میں بھی جاندار مخلوق موجود ہے.وَمَابَةٌ فِيهِمَا مِن دَابَّةٍ ( شوری: 30) ( ترجمہ: اور جو اس نے ان دونوں میں چلنے پھرنے والے جاندار پھیلا دیئے ) اور ایک وقت آئے گا کہ اس زمینی اور آسمانی مخلوق کا باہم رابطہ قائم ہو جائے گا.سوسائنسدانوں کو چاہئے کہ اس مخلوق سے رابطہ پیدا کرنے کیلئے پوری سعی کریں.نیز قرآن شریف سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سورج اپنے سارے خاندان سمیت موسفر ہے.وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرَّلُهَا (يس: 39) ( ترجمہ: اور سورج (ہمیشہ) اپنی مقررہ منزل کی طرف رواں دواں ہے.) سائنسدانوں کو چاہئے کہ وہ اس سفر کے اثرات اور نتائج کا پتہ لگائیں اور معلوم کریں کہ حیات بشری پر اس سفر کا کیا اثر پڑ رہا ہے.نیز قرآن مجید سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نوع انسانی کی عمر ایک کروڑ چالیس لاکھ سال ہے اور یہ حقیقت ان مراحل سے منکشف ہوتی ہے جو کہ ایک بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں طے کرتا ہے.یہ سات مراحل ہیں اور ہر مرحلہ چالیس دن میں طے ہوتا ہے گو یا دوسواسی (280) دن میں بچہ تعمیل کو پہنچتا ہے.اللہ تعالیٰ

Page 97

192 " “ 191 نے انہی ایام کو نوع انسانی کی تکمیل کیلئے آئینہ دار بنایا ہے اور بتایا ہے کہ نوع انسانی کی تکمیل کا ہر دن 50 ہزار سال کا ہوتا ہے اور چالیس دن کا ہر مرحلہ میں لاکھ سال کا ہوتا ہے اور اس طرح سات مراحل طے کرنے میں ایک کروڑ چالیس لاکھ سال صرف ہوتے ہیں.یاد رہے کہ اس زمانے میں زمین و آسمان کی پیدائش کا زمانہ شامل نہیں ہے کیونکہ زمین و آسمان کی حیثیت ماں باپ کی سی ہے اور ماں باپ بچے سے پہلے موجود ہوتے ہیں اور ہمارا یہ قیاس ان مراحل پر مبنی ہے جو ایک جنین اپنی والدہ کے بطن میں طے کرتا ہے.پس سائنسدانوں کو چاہئے کہ وہ اس لطیف اشارہ کی روشنی میں تخلیق کائنات کی مدت کو معلوم کرنے کی کوشش کریں اور دیکھیں کہ اب ہم کس دور سے گزر رہے ہیں.ہمارے اس آدم کا دور قریباً سات ہزار سال ہے جس کے ختم ہونے میں قریباً 980 سال باقی ہیں اس کے بعد اگر قیامت گبری آگئی تو پھر ہمارا یہ دور نوع انسانی کی عمر کی آخری کڑی ثابت ہوگا اور اگر قیامت صغریٰ ظاہر ہوئی تو پھر اس کے بعد ایک انقلاب عظیم بپا ہوگا جس کی حقیقت کا علم صرف خدا تعالیٰ ہی کو ہے.“

Page 98

”“ چھٹا باب متفرق مضامین 193 “ 194

Page 99

”“ یا جوج و ماجوج کی زمینی تدبیریں اور خدا تعالیٰ کی آسمانی تقدیریں آخری زمانہ میں غلبہ اسلام ایک اٹل حقیقت ہے گرچہ شاہین خرد بر سر پروازے اندریں بادیہ پنہاں قدر اندازے ہست 195 یا جوج و ماجوج ، دابتہ الارض اور دجال آج ان تینوں ناموں کی مصداق وہ اقوام ہیں جنہوں نے عیسائیت کو قبول تو کیا لیکن عملاً اس سے بہت دُور جا پڑیں حتی کہ ان اقوام میں سے بعض نے خدا تعالیٰ کی ہستی کا بھی انکار کر دیا ، خدا تعالیٰ کے ماننے والوں کا مذاق اُڑانا شروع کر دیا اور مذہبی کتب کو خرافات کا انبار قرار دیا.حالانکہ ان کا یہ مسلک اور یہ مؤقف بجائے خود خدائے واحد کی ہستی کا ثبوت ہے کیونکہ کتب سماوی متفقہ طور پر خبر دبے رہی تھیں کہ آئندہ آخری زمانہ میں ایسا ہی ہوگا.چنانچہ بنی اسرائیل کے صحیفوں میں ، انجیل میں ، پھر احادیث نبویہ اور قرآن شریف میں ان اقوام کے متعلق اور ان کے طریق کار اور انجام کے متعلق جو کچھ کہا گیا ہے وہ قابل توجہ ہے خصوصاً اہل روس کے لئے کیونکہ ان کا انجام نہایت ہی بھیانک ہے.یا جوج و ماجوج اور آسمانی نوشت: ماجوج کے متعلق پیدائش باب 10 آیت 2,3 میں مرقوم ہے کہ.د بنی یافت یہ ہیں جمر اور ماجوج اور مادی اور یاوان اور توبل اور مسک اور تیر اس " “ اور حز قیل باب 39 آیت 1,2 میں لکھا ہے:.پس اے آدم زاد تو جوج کے خلاف نبوت کر اور کہہ خداوند خدا یوں فرماتا ہے.دیکھ اے جو ج ! روش اور مسک اور توبل کے فرمانروا میں تیرا مخالف ہوں“.196 اس حوالے میں جوج سے مراد یا جوج ہے اور روش سے رشیا یعنی روس ہے اور مسک سے مراد ماسکو ہے اور توبل سے مرادٹو مالسک کا علاقہ ہے.حدیث شریف میں مذکور ہے :.عَنْ عَبْدِ اللهِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ يَأْجُوجَ ومَأْجُوجَ مِنْ وَلَدِ آدَمَ ، وَلَوْ أُرْسِلُوا لأَفْسَدُوا عَلَى النَّاسِ مَعَايِشَهُمْ وَلَمْ يَمُتُ مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلا تَرَكَ مِنْ ذُرِّيَّتِهِ أَلْفًا فَصَاعِدًا، وإِنَّ مِنْ وَرَائِهِمْ ثَلَاكَ أُمَمٍ : تَأْوِيلٍ، وَتَارِيس.ومَنْسِكٍ (المعجم الكبير للطبرانی حدیث عبد اللہ بن عمر و بن العاص) یعنی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یاجوج و ماجوج ( کوئی دیو یا بھوت نہیں ہیں بلکہ ) اولاد آدم ہیں.اگر انہیں کھول دیا جائے تو لوگوں کی معاشی زندگی کو تباہ کر کے رکھ دیں اور یا درکھو که اگر ان میں سے ایک مرے گا تو ہزار یا ہزار سے بھی زائد چیلے اپنے پیچھے چھوڑ جائے گا.اور ان کے پیچھے تین قومیں ہیں یعنی تاویل ، تاریں اور منسک“.اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یاجوج ماجوج کا اصل مولد روسی علاقہ ہے لیکن ماجوج اقوام کچھ زمانہ کے بعد مغرب کی طرف بڑھیں اور بعض جزائر میں سکونت اختیار کر لی اور پھر عیسائیت کو قبول کر لیا.چنانچہ ماجوج کے متعلق حز قیل باب 39 آیت 6

Page 100

" “ میں لکھا ہے کہ: میں ماجوج پر اور ان پر جو بحری ممالک میں امن و سکونت کرتے ہیں آگ بھیجوں گا“.197 یا جوج و ماجوج کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ خطبہ دیا اور صحابہ کرام کو ان اقوام سے بہ الفاظ ذیل متعارف فرمایا:.وو " إِنَّكُمْ تَقُولُونَ لَا عَدُوَّ وَإِنَّكُمْ لَا تَزَالُونَ تُقَاتِلُونَ عَدُوًّا حَتَّى يَأْتِي يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ عِرَاضُ الْوُجُوهِ صِغَارُ الْعُيُونِ شُهْبُ الشَّعَافِ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ كَأَنَّ وُجُوهَهُمُ الْمَجَانُ الْمُطْرَقَةُ “ (مسند أحمد؛ کتاب باقی مسند الأنصار ، حدیث امرأة رضى الله عنها) یعنی آپ لوگ سمجھتے ہیں کہ اب کوئی تمہارا دشمن نہیں رہا؟ حالانکہ یہ بات غلط ہے.آپ لوگوں کو متواتر اپنے کئی دشمنوں سے لڑنا پڑے گا تا وقتیکہ یاجوج ماجوج اقوام ظاہر ہو جائیں.یہ لوگ چوڑے چوڑے چہروں والے ہیں ، آنکھیں چھوٹی ہیں اور ان کی داڑھیوں کے سرے کے بال بھورے رنگ کے ہیں.یہ ہر بلندی پر دوڑ کر چھا جائیں گے اور ان کے چہرے اُلٹی ڈھال کی طرح ہیں.اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یا جوج ماجوج کا جو حلیہ بیان فرمایا ہے وہ روسی اقوام اور اُن کے پڑوسی چینی اقوام کا حلیہ ہے.نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یاجوج ماجوج کے ظہور پر اسلام کی مدافعانہ جنگیں ختم ہو جا ئیں گی کیونکہ اول تو یا جوج ماجوج کو کسی مذہب سے کوئی سروکار نہیں ہوگا.وہ اگر کسی قوم سے لڑیں گے تو سیاسی اغراض کے ماتحت اور دوم یہ کہ مسلمانوں میں ان سے لڑنے کی طاقت ہی نہیں ہوگی.“ یا جوج ماجوج کے معاصر : 198 یا جوج ماجوج کے مقاصد پر اور اُن مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے جو جو تدبیریں وہ اختیار کریں گے اُن پر بھی آسمانی کلمات روشنی ڈالتے ہیں.چنانچہ حز قیل باب 38 آیت 10 تا 12 میں لکھا ہے کہ:.خداوند خدا یوں فرماتا ہے کہ اُس وقت (یعنی آخری زمانہ میں ) یوں ہوگا کہ بہت سے مضمون تیرے دل میں آئیں گے اور تو ایک بڑا منصوبہ باندھے گا اور تو کہے گا کہ میں دیہات کی سرزمین پر حملہ کروں گا.میں ان پر حملہ کروں گا جو راحت و آرام سے بستے ہیں.تا کہ تو لوٹے اور مال کو چھین لئے“.پھر دانی ایل باب 11 آیت 36 تا 40 میں شمال کے بادشاہ ، یعنی روس کے متعلق لکھا ہے:.وہ ”بادشاہ اپنی مرضی کے مطابق چلے گا اور تکبر کرے گا اور سب معبودوں سے بڑا بنے گا اور الہوں کے الہ کے خلاف بہت سی حیرت انگیز باتیں کہے گا اور اقبال مند ہوگا.نہ کسی اور معبود کو مانے گا بلکہ اپنے آپ ہی کو سب سے بالا جانے گا.بیگانه معبود کی مدد سے محکم قلعوں پر حملہ کرے گا.جو اس کو قبول کریں گے اُن کو بڑی عزت بخشے گا اور خاتمہ کے وقت میں شاہ جنوب اس پر حملہ کرے گا“.ان حوالوں سے ظاہر ہے کہ یا جوج اور ماجوج ایک نیا معبود تراشیں گے اور وہ نیا معبود اُن کا حیرت انگیز فلسفہ ہوگا جو انہیں اللہ تعالیٰ کی معرفت سے محروم کر کے جوع الارض کی بیماری میں مبتلا کر دے گا لہذا ان کا معبود اس دنیائے فانی کی عیش و عشرت اور کھانا پینا ہوگا.اور یہ کہ یا جوج اور ماجوج ایک دوسرے پر حملہ کریں گے

Page 101

”“ 199 اور ایک دوسرے کے ساتھیوں پر بھی حملہ کریں گے اور اُن کے حملے کا ہتھیار نہ صرف عام آلات جنگ ہوں گے بلکہ اُن کا فلسفہ اور پروپیگینڈا بھی اُن کا ہتھیار ہوگا.اور یہ کہ دنیا دو حصوں میں منقسم ہوگی.ایک حصہ شاہ شمال یعنی روس کے ساتھ ہوگا اور دوسرا اس کے حریف کے ساتھ جو اس کے مقابل شاہ جنوب ہوگا.بخاری شریف میں بھی انہی دو بلاکوں کی باہمی جنگ و جدال کو اقتتال فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ“ کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے.یعنی یہ دونوں بلاک آخری زمانے میں ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوں گے اور انجیل میں ماجوج کو سمندر کا حیوان اور یاجوج کو زمین کا حیوان قرار دے کر اُن کے مقاصد اور طریق کار پر مندرجہ ذیل الفاظ میں روشنی ڈالی گئی ہے.” اور میں نے ایک حیوان کو سمندر میں سے نکلتے ہوئے دیکھا.اس کی شکل تیندوے کی سی تھی اور پاؤں ریچھ کے سے بڑے بول بولنے اور کفر بکنے کیلئے اسے ایک منہ دیا گیا اور اسے بیالیس مہینے تک کام کرنے کا اختیار دیا گیا اور اس نے خدا کی نسبت کفر بکنے کیلئے منہ کھولا کہ اس کے نام اور اس کے خیمہ یعنی آسمان کے رہنے والوں کی نسبت کفر بکے.اور اسے یہ اختیار دیا گیا کہ مقدسوں سے لڑےاور اُن پر غالب آئے اور اُسے ہر قبیلہ اور اُمت اور اہلِ زبان اور قوم پر اختیار دیا گیا.اور زمین کے وہ سب رہنے والے جن کے نام اُس بڑہ کی کتاب حیات میں لکھے نہیں گئے جو بنای عالم کے وقت سے ذبح ہوا ہے اس حیوان کی پرستش کریں گے.(مکاشفہ باب 13 آیت 1 تا8 ) اس حوالے میں ماجوج کا یعنی انگریزوں کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور خدا کی نسبت کفر بکنے سے مراد تثلیث کا عقیدہ اور یورپین فلسفہ ہے اور بیالیس ماہ سے مراد 1260 دن ہیں.چنانچہ آنحضرت صلی شا یہ ستم کے اظہار نبوت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام “ 200 کی پیدائش تک پورے بارہ سو ساٹھ سال کا زمانہ ہے.یعنی ہزار محمدی کے بعد یہ حیوان یا دابتہ الارض نکلنا شروع کرے گا اور دو سو سال کے عرصہ میں چھا جائے گا اور پھر مسیح موعود علیہ السلام کی پیدائش ہوگی اور اس کے بعد اس حیوان کے تنزل اور زوال کے اسباب پیدا ہونے شروع ہو جائیں گے اور بنائے عالم سے ذبح ہونے والے برہ سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود مبارک ہے اور کتاب حیات میں لکھے ہوئے ناموں سے مراد سچے مسلمان اور خلص مؤمن ہیں.پھر یا جوج کے متعلق اسی مکاشفہ میں آیت 11 تا 18 میں لکھا ہے:.09.پھر میں نے ایک اور حیوان کو زمین میں سے نکلتے ہوئے دیکھا.بڑے بڑے نشان دکھاتا تھا یہاں تک کہ آدمیوں کے سامنے آسمان سے زمین پر آگ نازل کر دیتا تھا.اور اس نے سب چھوٹے بڑوں دولت مندوں اور غریبوں آزادوں اور غلاموں کے دہنے ہاتھ یا ان کے ماتھے پر ایک ایک چھاپ کرا دی تاکہ اس کے سوا جس پر نشان یعنی اس حیوان کا نام یا اس کے نام کا عدد ہو اور کوئی خرید و فروخت نہ کر سکے حکمت کا یہ موقع ہے جو سمجھ رکھتا ہے وہ اس حیوان کا عدد گن لے کیونکہ وہ آدمی کا عدد ہے اور اس کا عدد چھ سو چھیاسٹھ ہے.اس حوالے میں زمین کے حیوان سے مراد دابتہ الارض ہے جس کا اولین مصداق روسی ہیں.نیز اس حوالے سے یا جوج کے معنے پر بھی روشنی پڑتی ہے کیونکہ لفظ یا جوج کا مادہ آج یعنی آگ ہے اور روس آج جس رنگ میں آسمان سے زمین پر آگ نازل کر رہا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں.اور اس کا عدد جو چھ سو چھیاسٹھ بتایا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ مختلف زمانوں میں مختلف صورتوں میں تغیر و تبدل پاتا رہا ہے.تورات میں اسی روس کو تیر اس کہا گیا ہے اور حدیث میں اسے تاریں کہا گیا ہے.سو عجب نہیں کہ کسی زمانے میں اسے تروس بھی کہا گیا ہو اور اسی تروس سے یہ روس یا روش

Page 102

”“ 201 بن گیا ہو.لہذا اگر ایسا ہوا ہو تو پھر تروس کے اعداد پورے چھ سو چھیاسٹھ ہیں.اِس موقع پر یہ بات قابل ذکر معلوم ہوتی ہے کہ روس در اصل عربی زبان کا لفظ ہے جو راس يَرُوسُ روسا سے بنا ہے اور راس رؤسا کے معنی ہیں اكل اكلا كَثِيرًا یعنی بہت زیادہ کھایا اور مَشَى مُتَبَخْتِرًا اور پھر ناز سے چلنے لگا.نیز راس السَّيْلُ کے معنے ہیں جَمعَ الغُشَاءَ وَحَمَلَہ.یعنی سیلاب نے کوڑے کرکٹ کو جمع کر لیا اور پھر اُسے اُٹھا کر بہنے لگا.سوان معنوں کے اعتبار سے روس آج اسم با مسٹمی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ اُس نے اپنے ایک منکر اور جاحد کے کچھ ایسے نام رکھ چھوڑے کہ ہزاروں سالوں کے بعد اس کے اپنے نام ہی اللہ تعالیٰ کے موجود ہونے کی شہادت دینے لگے.انجیل میں جس طاغوت کو حیوان کہا گیا ہے قرآن مجید اور حدیث میں اس کا نام دابۃ الارض رکھا گیا ہے.دابتہ الارض کے لفظی معنی زمین کے جانور یا زمین کے کپڑے کے ہیں.اس سے طاعون بھی مراد ہے اور یا جوج ماجوج بھی مراد ہیں.کیونکہ دونوں کا کام اپنی جرح سے دوسرے کو مجروح کرنا ہے.طاعون کا کیڑا بدنِ انسانی میں طعنہ زنی اور نیش زنی کرتا ہے اور یہ قومیں بدن کے علاوہ اپنے علم کلام اور فلسفیانہ جرح کے وار سے روح انسانی کو بھی مجروح کرتی ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمُ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِّنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِأَيَتِنَا لا يُوقِنُونَ (نمل :83) یعنی جب لوگوں پر فرد جرم لگ جائے گا تو ہم اُن کو سزا دینے کے لئے زمین سے ایک دابۃ“ کو پیدا کردیں گے جو انہیں مجروح کرے گا.کیونکہ ان لوگوں کو ہماری آیات پر یقین نہیں رہے گا.اس آیت میں لفظ تکلّم دو معنی دیتا ہے ایک کلام کرنے کے اور دوسرے زخمی “ 66 202 کرنے کے.اور یہاں دونوں معنی مراد ہیں.نیز اس آیت میں لفظ دابه “ اور لفظ تکلّم “ یا جوج ماجوج کی پالیسی اور طریق کار پر بھی روشنی ڈالتے ہیں کیونکہ دابةُ کے اصل معنے ایسے جاندار کے ہیں جو دبے پاؤں چلے یا جس کے چلنے کی آہٹ محسوس نہ ہو.یہی وجہ ہے کہ عربی زبان میں ریچھ کو ڈب کہتے ہیں کیونکہ جب وہ چلتا ہے تو اُس کے قدموں کی آہٹ نہیں محسوس ہوتی اور یہی وجہ ہے کہ یوحنا عارف کواس جانور کے پاؤں ریچھ کے دکھائے گئے.گویا مقصود یہ ہے کہ یا جوج ماجوج اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے ایسی چالیں چلیں گے جسے عام لوگ محسوس نہ کر سکیں گے.پھر ایسے ہی لفظ ” تُكلّم “ بھی ان کے طریق کار پر روشنی ڈالتا ہے.یعنی پہلے تو یہ لوگ اپنی چرب زبانی اور سحر نگاری سے عوام کو قابو کریں گے اور اُن کا یہ ہتھیار اتنا کارگر ہوگا کہ اولاد آدم کا بیشتر حصہ اُن کے آگے سر تسلیم خم کر دے گا اور وہ اپنے دجل و فریب سے لاکھوں راست رو انسانوں کو کجر و بنا دیں گے انہیں گمراہ کر دیں گے.اگر دیکھا جائے تو درحقیقت زبان کا ہتھیار آہن کے ہتھیار سے زیادہ مؤثر اور زیادہ کارگر ہے کیونکہ لوہے کا ہتھیار تو صرف بدن کو نقصان پہنچاتا ہے لیکن زبان کے ہتھیار کا وار دل پر پڑتا ہے عالم اسلام کو زیادہ نقصان اسی فلسفہ نے پہنچایا ہے اور مسلمانوں کو اسلام سے دُور پھینک کر اسے مغرب کے نقش قدم پر چلا دیا ہے اور اس میں ایک ایسی روح بھر دی ہے کہ وہ مغربی تہذیب و تمدن اور مغربی فلسفہ کو اسلامی تہذیب و تمدن اور قرآنی معارف پر ترجیح دیتا ہے اور یہ ایک ایسا نقصان ہے کہ جس کی تلافی آہنی ہتھیاروں سے پہنچائے ہوئے نقصان سے زیادہ مشکل ہے.سچ ہے: جراحَاتُ السَّنَانِ لَهَا الْتِقَامُ وَ لا يَلْتَامُ مَاجَرَحَ اللَّسَانُ یعنی نیزوں کے زخم تو مندمل ہو جاتے ہیں لیکن زبان کے زخم مشکل سے مندمل

Page 103

”“ ہوتے ہیں.203 قرآن کریم کے اسلوب بیان کے پیش نظر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خود قرآن کریم لفظ " تُكلّم “ کے معنے کلام کو پہلا درجہ دیتا ہے کیونکہ آگے فرمایا.وَوَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِم بِمَا ظَلَمُوا فَهُمْ لَا يَنْطِقُون یعنی جب یہ بڑھ بڑھ کے باتیں بنانے والے مستوجب سز ا ٹھہر کر سزا پائیں گے تو پھر اُن میں بات کرنے کی سکت نہ رہے گی اور سارا فلسفہ دھرا دھرا یا رہ جائے گا.لہذا یہ " لَا يَنْطِقُون“ کے الفاظ لفظ تکلم “ کے معنی کلام کو ترجیح دینے کا فائدہ پہنچاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مسیح علیہ السلام کے متعلق ”تُكلّمُ النَّاسَ “ کے الفاظ رکھے گئے ہیں کیونکہ مسیح کا کلام دجال کے لادینی فلسفہ کو کھا جائے گا.دوو پھر بائبل میں یا جوج ماجوج کی عیاری اور فریب کاری کی روش کو دانی ایل باب گیارہ آیت 27 میں مندرجہ ذیل الفاظ میں دکھایا گیا ہے: ان دونوں بادشاہوں کے دل شرارت کی طرف مائل ہوں گے.وہ ایک ہی دستر خوان پر بیٹھ کر جھوٹ بولیں گے پر کامیابی نہ ہوگی کیونکہ خاتمہ مقررہ وقت پر ہوگا.حدیث شریف میں بھی ان کے متعلق کہا گیا ہے کہ ان کی زبانیں شہد سے زیادہ شیریں ہوں گی لیکن دل بھیڑیوں کی طرح ہوں گے.یا جوج ماجوج کی تباہی: اس کے متعلق بھی بہت سی پیشگوئیاں موجود ہیں اس تباہی کے اکثر اسباب اب مہیا ہو چکے ہیں اور کچھ ہورہے ہیں اور تباہی کے ابتدائی آثار بھی ظاہر ہو چکے ہیں ؎ اشارے دست قدرت کے نمایاں ہوتے جاتے ہیں خدا کے دین کی نصرت کے ساماں ہوتے جاتے ہیں “ بائبل میں لکھا ہے کہ:.تو اپنی جگہ سے شمال کی دُور اطراف سے آئے گا تو اور بہت سے لوگ تیرے ساتھ جو سب کے سب گھوڑوں پر سوار ہوں گے ایک بڑی فوج اور بھاری لشکر تو میری اُمت اسرائیل کے مقابلہ کو نکلے گا اور زمین کو بادل کی طرح چھپالے گا.یہ آخری دنوں میں ہوگا.اور میں تجھے اپنی سرزمین پر چڑھا لاؤں گا.تاکہ قومیں مجھے جانیں جس وقت میں اے جوج اُن کی آنکھوں کے سامنے تجھ سے اپنی تقدیس کراؤں.خداوند خدا یوں فرماتا ہے کہ کیا تو وہی نہیں جس کی بابت میں نے قدیم زمانہ میں اپنے خدمت گزار اسرائیلی نبیوں کی معرفت جنہوں نے اُن ایام میں سالہا سال تک نبوت کی فرمایا تھا کہ میں تجھے اُن پر چڑھالاؤں گا اور یوں ہوگا کہ اُن ایام میں جب جوج اسرائیل کی مملکت پر چڑھائی کرے گا تو میرا قہر میرے چہرہ سے نمایاں ہوگا.خداوند خدا فرماتا ہے کیونکہ میں نے اپنی غیرت اور آتش قہر میں فرمایا کہ یقیناً اس روز اسرائیل کی سرزمین میں سخت زلزلہ آئے گا.یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں اور آسمان کے پرندے اور میدان کے چرندے اور سب کیڑے مکوڑے جو زمین پر رینگتے پھرتے ہیں اور تمام انسان جوڑوئے زمین پر ہیں میرے حضور تھر تھرا ئیں گے اور پہاڑ گر پڑیں گے اور کراڑے بیٹھ جائیں گے اور ہر ایک دیوار زمین پر گر پڑے گی اور میں اپنے سب پہاڑوں سے اس پر تلوار طلب کروں گا.خداوند خدا فرماتا ہے اور ہر ایک انسان کی تلوار اس کے بھائی پر چلے گی اور میں و با بھیج کر اور خونریزی کر کے اسے سزا دوں گا اور اس پر اور اس کے لشکروں پر اور 204

Page 104

”“ 205 “ 206 ان بہت سے لوگوں پر جو اُس کے ساتھ ہیں شدّت کا مینہ اور بڑے بڑے اولے اور آگ اور گندھک برساؤں گا اور اپنی بزرگی اور اپنی تقدمیں کراؤں گا.اور بہت سی قوموں کی نظروں میں مشہور ہوں گا.اور وہ جانیں گے کہ خداوند میں ہوں“.( حز قیل باب 38 آیت 15 تا 23) پھر لکھا ہے کہ:.” ساتویں (فرشتے) نے اپنا پیالہ ہوا پر الٹا اور مقدس کے تخت کی طرف سے بڑے زور سے یہ آواز آئی کہ ہو چکا.پھر بجلیاں اور آوازیں اور گرجیں پیدا ہوئیں اور ایک ایسا بڑا بھونچال آیا کہ جب سے انسان زمین پر پیدا ہوئے ایسا بڑا اور سخت بھونچال بھی نہ آیا تھا اور اس بڑے شہر کے تین ٹکڑے ہو گئے اور قوموں کے شہر گر گئے...اور ہر ایک ٹائو اپنی جگہ سے ٹل گیا اور پہاڑوں کا پتہ نہ لگا اور آسمان سے آدمیوں پر من من بھر کے بڑے بڑے اولے گرے“.پھر لکھا ہے:.(مکاشفہ باب 16 آیت 17 تا 21) اور جب ہزار برس پورے ہوچکیں گے تو شیطان قید سے چھوڑ دیا جائے گا اور اُن قوموں کو جو زمین کی چاروں طرف ہوں گی یعنی یا جوج ماجوج کو گمراہ کر کے لڑائی کے لئے جمع کرنے کو نکلے گا.اُن کا شمار سمندر کی ریت کے برابر ہوگا اور وہ تمام زمین پر پھیل جائیں گی اور مقدسوں کی لشکر گاہ اور عزیز شہر کو چاروں طرف سے گھیر لیں گی اور آسمان پر سے آگ نازل ہو کر انہیں کھا جائے گی“.(مکاشفہ باب 20 آیت 7 تا 9) اس حوالے میں ہزار سال سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے ہزار سال ہیں اور عزیز شہر اسلامیوں کا مرکز مکہ معظمہ ہے.جس میں بیت اللہ الحرام یعنی خانہ کعبہ ہے.اور بیت الحرام کے معنے عزت والے اور حرمت والے گھر کے ہیں لہذا عزیز شہر اور مقدسوں کی لشکر گاہ سے مراد عالم اسلام ہے.پھر حز قیل باب 39 آیت: 1 تا 10 میں لکھا ہے کہ:.دو پس اے آدم زاد تو جوج کے خلاف نبوت کر اور کہہ کہ خداوند خدا یوں فرماتا ہے.دیکھ اے جو ج روش اور مسک اور توبل کے فرمانروا میں تیرا مخالف ہوں اور میں تجھے پھرا دوں گا اور تجھے لئے پھروں گا اور شمال کی دُور اطراف سے چڑھا لاؤں گا اور تجھے اسرائیل کے پہاڑوں پر پہنچاؤں گا اور تیری کمان تیرے بائیں ہاتھ سے چھڑا دوں گا اور تیرے تیر تیرے داہنے ہاتھ سے گرا دوں گا.تو اسرائیل کے پہاڑوں پر اپنے سب لشکر اور حمایتیوں سمیت گر جائے گا...اور میں ماجوج پر اور اُن پر جو بحری ممالک میں سکونت کرتے ہیں آگ بھیجوں گا اور وہ جانیں گے کہ میں خداوند ہوں.اور میں اپنے مقدس نام کو اپنی امت اسرائیل پر ظاہر کروں گا.اور قومیں جائیں گی کہ میں خداوند اسرائیل کا قدوس ہوں.دیکھ وہ پہنچا اور وقوع میں آیا.خداوند فرماتا ہے یہ وہی دن ہے جس کی بابت میں نے فرمایا تھا تب اسرائیل کے شہروں کے بسنے والے نکلیں گے اور آگ لگا کر ہتھیاروں کو جلائیں گے یعنی سپروں اور پھر یوں کو کمانوں اور تیروں کو اور بھالوں اور برچھیوں کو اور وہ سات برس تک اُن کو جلاتے رہیں گے یہاں تک کہ نہ وہ میدان سے لکڑی لائیں گے اور نہ جنگلوں سے کاٹیں گے کیونکہ وہ ہتھیار ہی جلائیں گے اور وہ اپنے لوٹنے

Page 105

”“ 207 “ 208 والوں کو لوٹیں گے اور اپنے غارت کرنے والوں کو غارت کریں گے خداوند خدا فرماتا ہے.اس حوالے میں اسرائیل سے مراد نیک لوگ ہیں مسیح موعود کی جماعت کو بھی بنی اسرائیل قراردیا گیا ہے اور پھر جن ہتھیاروں کا ذکر کیا گیا ہے ضروری نہیں کہ وہی ہتھیار ہوں.مراد آلات حرب ہیں خواہ وہ کسی قسم کے ہوں.ان حوالہ جات کے بعد اب حدیث شریف اور قرآن کریم کے چند حوالہ جات ملاحظہ ہوں.حدیث کی کتاب ترمذی شریف باب فتنہ دجال“ میں لکھا ہے: وَيَبْعَثُ اللَّهُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَهُمْ كَمَا قَالَ اللَّهُ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ قَالَ فَيَمُرُّ أَولُهُمْ بِبُحَيْرَةِ الطَّبَرِيَّةِ فَيَشْرَبُ مَا فِيهَا ثُمَّ يَمْرُ بِهَا آخِرُهُمْ فَيَقُولُ لَقَدْ كَانَ بِهَذِهِ مَرَّةً مَاءٍ ثُمَّ يَسِيرُونَ حَتَّى يَنْتَهُوا إِلَى جَبَلِ بَيْتِ مَقْدِسِ فَيَقُولُونَ لَقَدْ قَتَلْنَا مَنْ فِي الْأَرْضِ فَهَلُمَّ فَلْنَقْتُلْ مَنْ فِي السَّمَاءِ فَيَرْمُونَ بِنُشَّابِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ فَيَرُدُّ اللَّهُ عَلَيْهِمْ نُشَابَهُمْ مُحْمَرًا دَمًا وَيُحَاصَرُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَأَصْحَابُهُ حَتَّى يَكُونَ رَأْسُ الثَّوْرِ يَوْمَئِذٍ خَيْرًا لِأَحَدِهِمْ مِنْ مِائَةِ دِينَارٍ لِأَحَدِكُمْ الْيَوْمَ قَالَ فَيَرْغَبُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ إِلَى اللَّهِ وَأَصْحَابُهُ قَالَ فَيُرْسِلُ اللهُ إِلَيْهِمُ النَّغَفَ فِي رِقَابِهِمْ فَيُصْبِحُونَ فَرْسَى مَوْتَى كَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ قَالَ وَيَهْبِطُ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ فَلَا يَجِدُ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلَّا وَقَدْ مَلَاتُهُ زَهَمَتُهُمْ وَنَتَنُهُمْ وَدِمَاؤُهُمْ قَالَ فَيَرْغَبُ عِيسَى إِلَى اللَّهِ وَأَصْحَابُهُ قَالَ فَيُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ طَيْرًا كَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ قَالَ فَتَحْمِلُهُمْ فَتَطْرَحُهُمْ بِالْمَهْبِلِ وَيَسْتَوْقِدُ الْمُسْلِمُونَ مِنْ قِسِيَهِمُ وَنُشَّابِهِمْ وَجِعَابِهِمْ سَبْعَ سِنِينَ (سنن الترمذی، کتاب الفتن عن رسول الله باب ما جاء فى فتنة الدجال) یعنی پھر اللہ تعالیٰ یا جوج ماجوج کو کھڑا کرے گا اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ارشاد وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ “ کے مصداق ہوں گے اور وہ اتنے زیادہ ہوں گے کہ اُن کا اگلا حصہ بحیرہ طبریہ کے پاس سے گزرے گا تو اُس کا سارا پانی پی جائے گا.پھر اُن کا آخری حصہ جب اُسی جگہ سے گزرے گا تو وہ کہے گا کہ یہاں تو کبھی پانی ہوا کرتا تھا.پھر وہ آگے بڑھیں گے اور بیت المقدس کے پہاڑ پر جا پہنچیں گے اور کہیں گے کہ ہم نے زمین کے لوگوں کو تو قتل کر دیا ہے آداب اُن کو قتل کریں جو آسمان میں ہیں.پھر وہ آسمان کی طرف تیر چھوڑیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے تیروں کو خون آلودہ کر کے واپس بھیجے گا.نیز عیسی بن مریم اور ان کے ساتھیوں کا محاصرہ کیا جائے گا یہاں تک کہ ایک راس بیل ان کیلئے اس سے کہیں بہتر ہو گا جتنے کہ آج تم میں سے کسی کو سو دینار پیارے ہوں.پھر عیسی علیہ السلام اور اُن کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے اور اللہ تعالیٰ یا جوج ماجوج کی گردنوں میں ایک کیڑا پیدا کر دے گا سو وہ سب صبح کو اس طرح مرے پڑے ہوں گے جیسے کہ کوئی ایک شخص مرجاتا ہے.پھر عیسی علیہ السلام اُتریں گے (یعنی اُن پہاڑیوں سے جہاں انہوں نے پناہ پائی تھی) وہ کوئی جگہ ایسی نہ پائیں گے جو یا جوج ماجوج کی گندگی، بدبو اور خون سے خالی ہو.اس پر ( حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام ) اور اُن کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے.تب اللہ تعالیٰ لمبی گردن والے اونٹ جیسے پرندے بھیجے گا اور وہ انہیں اٹھا کر غاروں میں پھینک

Page 106

" “ دیں گے اور مسلمان ان کی کمانوں، تیروں اور ترکشوں سے سات سال تک آگ جلاتے رہیں گئے.209 اس روایت میں آسمان سے تیروں کے خون آلودہ ہو کر واپس آنے کا جو ذکر ہے اس میں ایک لطیف اشارہ ہے اور وہ یہ کہ یاجوج اپنے راکٹ آسمان پر چھوڑ کر اپنے اس دعوی میں اور بھی مضبوط ہو جائیں گے کہ کوئی خدا موجود نہیں ہے.اور وہ پھر اعلان کریں گے کہ اے خدا کو ماننے والو ہم نے اپنے راکٹ چھوڑ کر آسمان کو دیکھ لیا ہے وہاں کوئی خدا موجود نہیں.لہذا آج تمہارا موہوم خدا ہمارے ہاتھوں مقتول ہو چکا ہے.اور پھر دوسری جہت سے تیروں کے خون آلودہ ہو کر واپس ہونے میں یہ اشارہ ہے کہ گو یا اللہ تعالیٰ انہی تیروں کو جو یا جوج اسے قتل کرنے کے ارادے سے چھوڑے گا خون آلودہ کر کے واپس کر دے گا اور یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ اے یاجوج تو جن تیروں سے مجھے قتل کرنا چاہتا ہے میں انہی تیروں کو تیرے خون سے رنگین کروں گا.اور بڑے بڑے پرندوں سے مراد علاوہ پرندوں کے ہوائی جہاز بھی ہو سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے یا جوج ماجوج کے عبرتناک انجام پر روشنی ڈالنے کیلئے اصحاب فیل کے واقعہ کو بیان فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ جس طرح اصحاب فیل کو طیر ابابیل نے تباہ کیا تھا اسی طرح آئندہ البیت الحرام کے دشمنوں کو اللہ تعالیٰ طیاروں یعنی ہوائی جہازوں کے حملوں سے تباہ کرے گا اور پھر جس طرح اصحاب فیل وبا سے تباہ ہو گئے تھے اسی طرح یہ لوگ بھی وباؤں وغیرہ سے تباہ کئے جائیں گے.اب قرآن کریم کی پیشگوئیاں بھی ملاحظہ ہوں.سورۃ انبیاء میں ارشاد ہے.وَحَرُمُ عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ “ 210 الْحَقُّ فَإِذَا هِيَ شَاخِصَةُ أَبْصَارُ الَّذِينَ كَفَرُوا يُوَيْلَنَا قَدْ كُنَّا فِي غَفْلَةٍ منْ هَذَا بَلْ كُنَّا ظلِمِينَ ( انبياء 96 تا98) یعنی یہ ناممکن ہے کہ کوئی بستی جسے ہم ہلاک کر چکے ہیں (پھر اس جہان میں ) رجوع کرے حتی کہ جب یا جوج و ماجوج کو کھول دیا جائے گا اور وہ ہر نشیب وفراز سے دوڑ پڑیں گے اور وہ وعدہ جو اٹل ہے قریب آجائے گا تو اس وقت ناشکرے انسانوں کی آنکھیں گھل جائیں گی اور وہ بے اختیار کہہ اٹھیں گے کہ وائے مصیبت ! ہم تو اس حقیقت سے بالکل غافل تھے اور صرف یہی نہیں بلکہ ہم ظالم بھی تھے.اس آیت میں لا یرجعون“ کے یہ معنے نہیں ہیں کہ یاجوج و ماجوج کے گھل جانے پر تمام ہلاک شدہ قو میں اپنے اجسام کے ساتھ دنیا میں دوبارہ زندہ ہو جائیں گی بلکہ مراد یہ ہے کہ جب یا جوج و ماجوج کا ظہور ہوگا.تو وہ زمانہ رجعت بروزی کا زمانہ ہوگا یعنی ایک طرف تو تمام ہلاک شدہ قوموں کے گناہ دوبارہ اس دنیا میں اپنے انتہائی نقطہ تک پہنچ کر دوبارہ عود کر آئیں گے اور دوسری طرف ان ہلاک شدہ قوموں کے ناصح انبیاء کی روحانی طاقتیں انتہائی جوش میں آجائیں گی اور اس صورت حالات کا نتیجہ یہ ہوگا کہ پہلے اہل کفر پر ہمہ گیر تباہی آئے گی اور پھر اہل ایمان کو ہمہ گیر غلبہ نصیب ہوگا.یہی وجہ ہے کہ اسی سورہ انبیاء کے شروع میں فرمایا اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُعْرِضُونَ (انبیاء:2) یعنی لوگوں کے حساب کتاب کا وقت سر پر آپہنچا ہے مگر وہ غفلت اور ناعاقبت اندیشی کے باعث بے رخی کا شکار ہیں.پھر فرما يامَا آمَنَتْ قَبْلَهُمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا أَفَهُمْ يُؤْمِنُونَ ( انبياء:7) یعنی ان سے پہلے ہم نے جن بستیوں کو ہلاک کیا تھا وہ کفر پر اصرار کرنے اور انبیاء کی بات نہ ماننے کے باعث ہلاک کی گئی تھیں.سواب یہ کیونکر ممکن ہے کہ یہ لوگ فوراً ایمان لے آئیں لہذا یہ غافل بھی جب تک عذاب میں مبتلا نہ کئے جائیں گے اس

Page 107

”“ 211 وقت تک متوجہ نہ ہوں گے اور اگر عذاب بھی انہیں متوجہ نہ کر سکا تو پھر سابقہ اقوام کی طرح ہلاک کر دیئے جائیں گے.لہذا اس آیت کی روشنی میں أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ یعنی دنیا کے لوگ اس وقت تک اسلام کی طرف رجوع نہیں کریں گے.جب تک کہ یاجوج و ماجوج کی ہلاکت اُن کی آنکھیں نہ کھول دے.اس موقع پر یہ امر قابل ذکر ہے کہ قرآن کریم کی تمام سورتیں زمانے کو اپنے کلمات کے مطابق چلا رہی ہیں اور وہ باوجود ہمہ گیر ہونے کے اپنے اندر کسی خاص زمانے کی خصوصیات کو بھی لئے ہوئے ہیں.سورۃ انبیاء کا تعلق چودھویں صدی ہجری اور اس کے بعد کے زمانہ سے ہے.آخری انجام اب اس حقیقت کے واضح ہو جانے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیریں یا جوج و ماجوج کی تدبیروں کو خاک میں ملا کر اُن کو مٹانے پر تلی کھڑی ہیں.یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قیامت نما زلزلے کے بعد دنیا کا مستقبل کیا ہوگا.آیا دنیا خدا تعالیٰ کی منکر ہو جائے گی یا تین خدا مانے گی یا لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کی قائل ہو جائے گی ؟ سو اس بارے میں قرآن کریم اور احادیث میں بہت سی پیشگوئیاں موجود ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ اور تو اور مغربی اقوام بھی جو تثلیث پرست ہیں لا إلهَ إِلَّا اللہ کی قائل ہو جائیں گی اور تثلیث پر تو حید غالب آجائے گی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرق و مغرب میں مقام محمود حاصل ہو جائے گا اور یہ وہ حقیقت ہے جس کے ظاہر ہوکر رہنے کے نہ صرف قرآن و حدیث مدعی ہیں بلکہ بائبل میں بھی اس کی تصدیق میں متعدد حوالے پائے جاتے ہیں.مکاشفہ یوحنا عارف کا بیشتر حصہ اسی حقیقت کے اظہار کیلئے وقف ہے لیکن اس وقت طوالت سے بچنے کیلئے صحف سماوی کے صرف چند حوالہ جات پیش کئے جاتے ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دین اسلام “ 212 تمام ادیان پر غالب آجائے گا.نیز یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ جس مبارک وجود کے ذریعے یہ انقلاب آئے گا وہ مبارک وجود اس زمانے میں پیدا ہو گا اور کہاں پیدا ہو گا.چنانچہ دانیال نبی کی کتاب میں لکھا ہے کہ :.پھر میں دانی ایل نے نظر کی اور تو کیا دیکھتا ہوں کہ دو شخص اور کھڑے تھے ایک دریا کے اس کنارہ پر اور دوسرا دریا کے اُس کنارہ پر اور ایک نے اُس شخص سے جو کہ کستانی لباس پہنے تھا اور دریا کے پانی پر کھڑا تھا پوچھا کہ ان عجائب کے انجام تک کتنی مدت ہے اور میں نے سنا کہ اس شخص نے جو کستانی لباس پہنے تھا جو دریا کے پانی کے اوپر کھڑا تھا.دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کرحی القیوم کی قسم کھائی اور کہا کہ ایک دور اور دور اور نیم دور.اور جب وہ مقدس لوگوں کے اقتدار کو نیست و نابود کر چکیں گے تو یہ سب کچھ پورا ہو جائے گا.اور میں نے سنا پر سمجھ نہ سکا.تب میں نے کہا اے میرے خداوندان کا انجام کیا ہوگا ؟ اس نے کہا اے دانی ایل تو اپنی راہ لے کیونکہ یہ باتیں آخری وقت تک بند وسر بمہر رہیں گی اور بہت لوگ پاک کئے جائیں گے اور صاف و براق ہوں گے لیکن شریر شرارت کرتے رہیں گے اور شریروں میں سے کوئی نہ سمجھے گا پر دانشور سمجھیں گے اور جس وقت سے دائمی قربانی موقوف کی جائے گی اور وہ اُجاڑ نے والی مکروہ چیز نصب کی جائے گی ایک ہزار دوسونوے دن ہوں گے.مبارک ہے وہ جو ایک ہزار تین سو پینتیس روز تک انتظار کرتا ہے.پر تو اپنی راہ لے جب تک کہ مدت پوری نہ ہو کیونکہ تو آرام کرے گا اور ایام کے اختتام پر اپنی میراث میں اُٹھ کھڑا ہو گا دانیال باب 12 آیات : 5 تا 13 )

Page 108

”“ 213 “ 214 اس حوالے میں اُس مبارک وجود کے زمانہ کی نشاندہی کی گئی ہے کہ جس کی آمد سے پہلے مقدس لوگوں یعنی مسلمانوں کے اقتدار کو یاجوج و ماجوج یا دابتہ الارض اور دجال نے نیست و نابود کر دینا تھا اور جس کے وصال کے بعد خود یا جوج ماجوج، دابتہ الارض اور دجال کا نیست و نابود ہونا مقدر تھا.اس حوالے میں ایک دور ، دور اور نیم دور سے مراد ایک ہزار سال اور دوسو سال اور پچاس سال کا زمانہ ہے جس کی طرف قرآن شریف میں لیال عشر “ یعنی دس صدیاں اور والشفع “ یعنی دوصدیاں اور پھر " وَالوَثر “ اور ایک صدی کے الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے اور حدیث شریف میں اَلا يَاتُ بَعْدَ الْمِائَتَيْنِ یعنی ” عجائب‘ آیات کا زمانہ بارہ سوسال کے بعد شروع ہوگا.گویا دانیال کے ان الفاظ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے پیدائش کے سال کی تعیین کی گئی یعنی وہ 1250 ہجری میں پیدا ہوں گے اور اسی حقیقت کو مکاشفہ یوحنا عارف میں ظہور نبوی کے زمانہ سے 1260 سال کی تعیین کی گئی ہے.اور پھر اسی حوالہ میں 1290 سال کا حوالہ دے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی چالیس سال کی عمر اور بعثت کا وقت دکھایا گیا ہے اور پھر 1335 سال تک انتظار کرنے کی ہدایت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کا سن دکھایا گیا ہے کیونکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پورے 1335 سال بعد مرفوع الی اللہ ہوئے کیونکہ حضور کا وصال 1326 ہجری میں ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ظہور ہجرت سے نو دس سال پہلے ہوا کیونکہ مکی زندگی کی نبوت کا کل عرصہ بارہ تیرہ سال کے مابین ہے اور نبوت کے ابتدائی تین چار سال اخفا کے ہیں.نیز دانیال نبی کے الفاظ میں اس حقیقت کو بھی ظاہر کر دیا گیا ہے کہ جب وہ مبارک وجود آئے گا تو تمام انبیاء اپنی میراث میں اُٹھ کھڑے ہوں گے گویا اس کا زمانہ رجعت بروزی کا زمانہ ہوگا اور اس کی آمد زندہ شد ہر نبی به آمدنم (روحانی خزائن جلد 18 نزول المسیح صفحہ 478) کی مصداق ہوگی.حضرت دانیال کی اس پیشگوئی کے بعد اب حضرت یسعیاہ کی پیشگوئی بھی ملاحظہ ہو.اس پیشگوئی میں اُس ملک کی نشان دہی کی گئی ہے جس ملک میں موعود اقوامِ عالم نے پیدا ہونا تھا.چنانچہ آپ فرماتے ہیں:." آہ بہت سے لوگوں کا ہنگامہ ہے جو سمندر کے شور کی مانند شور مچاتے ہیں اور امتوں کا دھاوا بڑے سیلاب کے ریلے کی مانند ہے اُمتیں سیلاب عظیم کی طرح آپڑیں گی پر وہ ان کو ڈانٹے گا اور وہ دُور بھاگ جائیں گی اور اس بھوسے کی طرح جو ٹیلوں کے اوپر آندھی سے اُڑتا پھرے اور اس گرد کی مانند جو بگولے میں چکر کھائے رگیدی جائیں گی شام کے وقت تو ہیبت ہے صبح ہونے سے پیشتر وہ نابود ہیں.یہ ہمارے غارت گروں کا حصہ اور ہم کو لوٹنے والوں کا بخرہ ہے.آہ ! پرندوں کے پروں کے پھڑ پھڑانے کی سرزمین جو کوش کی ندیوں کے پار ہے جو دریا کی راہ سے بردی کی کشتیوں میں سطح آب پر اپلیچی بھیجتی ہے.اے تیز رفتار پلیچیو! اس قوم کے پاس جاؤ جوز در آور اور خوبصورت ہے.اس قوم کے پاس جو ابتدا سے اب تک مہیب نے ایسی قوم جو زبر دست اور فتح یاب ہے.جس کی زمین ندیوں سے منقسم ہے.اے جہان کے تمام باشند و! اور اے زمین کے رہنے والو! جب پہاڑوں پر جھنڈا کھڑا کیا جائے تو دیکھو اور جب نرسنگا پھونکا جائے تو شنو اس وقت ایک ہدیہ ربّ الافواج کے نام کے مکان پر جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت ثانیہ میں جبل الكرمل پر مسجد محمود کی تعمیر ہوئی وہاں سے رسالہ البشری کے ذریعہ قوموں کو اسلام کی دعوت دی جارہی ہے پیشگوئیاں زوالوجوہ اور اخفا پر مشتمل ہوتی ہیں.(ابوالعطا )

Page 109

”“ کوہ صیون ہے پہنچایا جائے گا.215 (یسعیاہ باب 17 آیت : 12 تا 14 - باب 18 آیت 2,3,7) اس حوالے میں کوش کے پار جو ملک بتایا گیا ہے اس سے مراد ہندوستان ہے کسی زمانہ میں یہ کوش جس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اسلاف بھی تشریف لائے ہندوستان کا ایک صوبہ تھا.بائبل کی کتاب آستر کی پہلی اور دوسری آیت میں اسی کوش کو ہندوستان کا صوبہ دکھایا گیا ہے اور اسی کوش اور ہندوستان کے درمیان کوہ ”ہند.و کوش حد فاصل بنا ہوا ہے.لہذا معلوم ہوا کہ اس حوالے میں جس وجود کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے اس نے ہندوستان میں پیدا ہونا تھا.اور پھر آگے اسی حوالے میں اُس صوبے کی بھی تعین کر دی گئی ہے کہ جس صوبے میں اس نے پیدا ہونا تھا اور بتایا گیا ہے کہ جس کی زمین ندیوں میں منقسم ہے.گویا مراد پنجاب ہے اور پہاڑوں پر جھنڈا کھڑا کئے جانے کی علامت بھی نہایت عجیب ہے.اب قادیان ثانی یعنی ربوہ جہاں آباد ہوا ہے وہ پہاڑیوں کی سرزمین ہے اور فلسطین میں جماعت احمد یہ کا مرکز جبل الكرمل یعنی کو ہ کرمل پر ہے اور کرمل سے مراد کرم اللہ یا کرم ایل یعنی اللہ کا کرم ہے.اور یہ وہ علاقہ ہے جہاں صیہونیت کا تسلط ہے.اس کے بعد اب حضرت زکریا نبی کی پیشگوئی بھی ملاحظہ ہو.آپ فرماتے ہیں:.ایک دن ایسا آئے گا جو خداوند ہی کو معلوم ہے.وہ نہ دن ہوگا نہ رات لیکن شام کے وقت روشنی ہوگی اور اُس روز یروشلم سے آب حیات جاری ہوگا جس کا آدھا بحر مشرق کی طرف بہے گا اور آدھا بحرِ مغرب کی طرف.گرمی سردی میں جاری رہے گا اور خداوند ساری دنیا کا بادشاہ ہوگا اور اس کا نام واحد ہوگا“.زکریا باب: 14 آیت : 7 تا 9) اس پیشگوئی میں جس یروشلم کا ذکر ہے اس سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام “ 216 کا شہر قادیان ہے جیسے کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتاب نزول مسیح میں اس کے متعلق صراحت فرمایا ہے کہ اس سے مراد قادیان ہے اور یہ تأویل ایک ایسی تأویل ہے کہ جس کی صحت کا ثبوت اسی کتاب زکریا کے ایک دوسرے حوالے سے ملتا ہے اور وہ حوالہ یہ ہے: وو رب الافواج فرماتا ہے اسے تلوار تو میرے چرواہے یعنی اس انسان پر جو میرا رفیق ہے بیدار ہو چرواہے کو مار کہ گلہ پراگندہ ہو جائے اور میں چھوٹوں پر ہاتھ چلاؤں گا.اور خداوند فرماتا ہے سارے ملک میں دو تہائی قتل کئے جائیں گے اور مریں گے لیکن ایک تہائی بیچ رہیں گے اور میں اس تہائی کو آگ میں ڈال کر چاندی کی طرح صاف کروں گا اور سونے کی طرح تاؤں گا وہ مجھ سے دعا کریں گے اور میں ان کی سنوں گا میں کہوں گا یہ میرے لوگ ہیں اور وہ کہیں گے خداوند ہی ہمارا خدا ہے.66 (زکریا باب 13 آیت 7 تا 9) اس حوالے میں اُن تمام فتنوں کی طرف اشارہ ہے جو آج تک مسلمانوں کی خون ریزی کیلئے اٹھائے گئے ہیں جن میں وہ فسادات خاص طور پر شامل ہیں.جو 1947ء میں رونما ہوئے اور جو مسلمانوں کے خلاف انگریزوں ہندوؤں اور سکھوں کی باہمی سازش کا نتیجہ تھے ، ان فسادات کی طرف اشارہ کرنے والے اسی نبی زکریا کے ذیل کے الفاظ بھی ملاحظہ ہوں : وو دیکھو خداوند کا دن آتا ہے جب تیرا مال لوٹ کر تیرے اندر بانٹا جائے گا کیونکہ میں سب قوموں کو فراہم کروں گا کہ یروشلم ( یعنی مسیح موعود کے شہر ) سے جنگ کریں اور شہر لے لیا جائے گا.اور گھر لوٹے جائیں گے اور عورتیں بے حرمت کی جائیں گی اور آدھا شہر اسیری میں

Page 110

" “ 217 جائے گالیکن باقی لوگ شہر ہی میں رہیں گے.تب خداوند خروج کرے گا اوران قوموں سے لڑے گا جیسے جنگ کے دن لڑا کرتا تھا.اور خداوند یروشلم سے جنگ کرنے والی سب قوموں پر یہ عذاب نازل کرے گا کہ کھڑے کھڑے ان کا گوشت سُوکھ جائے گا اور اُن کی آنکھیں چشم خانوں میں گل جائیں گی اور اُن کی زبان اُن کے منہ میں سڑ جائے گی اور اس روز خداوند کی طرف سے اُن کے درمیان بڑی ہل چل ہوگی.اور یروشلم سے لڑنے والی قوموں میں سے جو بیچ رہیں گے سال بہ سال بادشاہ رب الافواج کو سجدہ کرنے اور عید خیام منانے کو آئیں گے.ذکر یا باب : 14 آیت : 1 تا 16 ) اس حوالے میں تمام باتیں واضح ہیں پیشگوئیوں میں اخفاء بھی ہوتا ہے اور ان کے الفاظ بہت وسیع معانی پر مشتمل ہوتے ہیں اس جگہ سال بہ سال آنے سے مراد ایک تو حج کیلئے خانہ کعبہ کی طرف جانا ہے اور دوسرے جلسہ سالانہ مسیح موعود کی بستی میں حاضر ہونا ہے.پھر مکاشفہ باب 21 میں لکھا ہے:.پھر میں نے ایک نئے آسمان اور نئی زمین کو دیکھا کیونکہ پہلا آسمان اور پہلی زمین جاتی رہی تھی اور سمندر بھی نہ رہا ( یعنی یا جوج و ماجوج جو خشکی اور تری پر چھائے ہوئے تھے ختم ہو چکے تھے ) پھر میں نے شہر مقدس نئے یروشلم کو آسمان پر سے خدا کے پاس سے اُترتے دیکھا اور وہ اس دلہن کی مانند آراستہ تھا جس نے اپنے شوہر کے لئے سنگار کیا ہو.پھر میں نے تخت میں سے کسی کو بلند آواز سے کہتے سنا کہ دیکھ خدا کا خیمہ آدمیوں کے درمیان ہے اور وہ اُن کے ساتھ سکونت کرے گا اور وہ اس کے لوگ ہوں گے اور خدا آپ اُن کے ساتھ رہے گا اور اُن کا خدا “ ہوگا اور وہ اُن کی آنکھوں کے سب آنسوؤں کو پونچھ دے گا اس کے بعد نہ موت رہے گی اور نہ ماتم رہے گا.نہ آہ و نالہ نہ درد.پہلی چیزیں جاتی رہیں گی اور جو تخت پر بیٹھا ہوا تھا اُس نے کہا دیکھ میں سب چیزوں کو نیا بنا دیتا ہوں......میں پیاسے کو آب حیات کے چشمے سے مفت پلاؤں (مکاشفہ باب 21 آیت: 1 تا6) گا.218 اس حوالے میں بھی نئے یروشلم سے مراد عالم اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا مرکز قادیان ہے.قرآنی آیات اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ چودھویں صدی ہجری زلزلۃ الساعۃ کی صدی ہے اور پندرھویں صدی رُبع اوّل کے بعد اسلامی فتوحات کی صدی ہے.اس صدی میں انسانیت پر بارانِ رحمت برسنا شروع ہو جائے گا اور جو قو میں روحانی طور پر مُردہ ہو چکی ہیں وہ زندہ کی جائیں گی حتی کہ مغرب میں بھی آفتاب اسلام چمک اُٹھے گا اور تثلیث پر توحید غالب آجائے گی اور زمین اپنے رب کے نور سے جگمگا اُٹھے گی اور یہ سارا انقلاب اس مبارک وجود کی پرسوز دُعاؤں اور مخلصانہ مساعی کے نتیجہ میں ظاہر ہوگا جو ملک ہندوستان کے صوبہ پنجاب میں تیرھویں صدی کے وسط میں پیدا ہوا اور چودھویں صدی کے ربع اول تک وفات پا گیا.ہاں اس کی آواز صور اسرافیل ہے جس سے مُردے زندہ ہو جائیں گے اور جوصدیوں سے قبروں میں پڑے تھے وہ قبروں سے باہر نکل آئیں گے اور خدائے رحمن و رحیم کی رحمت سے شیطان رحیم یعنی دابتہ الارض، یا شعبان مبین مرحوم ہو کر ختم ہو جائے گا.تب ایک مذہب اسلام ہوگا اور ایک ہی پیشوا ( حضرت محمد مصطفی سایلی اینم ) ہو گا.واخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین (ماہنامہ الفرقان جون 1963 ، صفحہ 34 تا 48)

Page 111

”“ 219 “ 220 طبیعات عاجز ہیں اُسی طرح عالم قرآن کی وسعتوں کو سمجھنے سے اہل ایمان قاصر ہیں.قرآن کریم کی ترتیب کو سمجھنے کے صحیح وسائل دنیا کے کسی انسان کے لئے خواہ وہ اپنے ایمان کے اعتبار سے کتنا ہی بلند پایہ سے کتناہی بلند پایہ کیوں نہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قرآن کریم میں کوئی ترتیب نہیں ہے اور اگر ترتیب ہے تو صرف اتنی کہ لمبی سورتیں پہلے رکھ دی گئی ہیں اور چھوٹی بعد میں.اس غلط خیال کی ترویج میں مستشرقین یورپ نے خاص حصہ لیا ہے اور بعض مسلمان بھی اپنی سادگی کی بناء پر ان کے ہمنوا ہو گئے.لیکن اس قسم کے خیالات رکھنے والے مسلمان ایک حد تک معذور تھے کیونکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی معجزانہ ترتیب کا فہم اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے ساتھ وابستہ تھا.جیسے فرمایا:.إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ (القيامة:18تا20) قرآن کریم کی ترتیب کو سمجھنے کیلئے دو باتوں کی ضرورت ہے.اول یہ کہ انسان عربی زبان میں ماہر ہو.دوم یہ کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر پورا ایمان ہو.اور اس کا آئینہ قلب اتنا صاف ہو کہ صفات الہیہ کا چہرہ اس میں منعکس ہو سکے.اگر یہ دو باتیں کسی انسان میں موجود نہ ہوں تو پھر وہ قرآن کریم کی ترتیب کو سمجھنے سے یقیناً محروم رہے گا.قرآن کریم کی ترتیب کو سمجھنے میں ایک اور مشکل بھی حائل ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات لَا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا ینسی کی مصداق ہے.یعنی بھول چوک سے ہے.لیکن انسان سہو و نسیان کا پتلا ہے وہ قرآن کریم کے جملہ مضامین اور مطالب کو بیک وقت مستحضر نہیں کر سکتا.اگر انسان میں یہ کمزوری نہ ہوتی تو پھر ہر مومن قرآن کریم کی ترتیب کو بیک وقت اپنے ظرف کے مطابق سمجھنے کی اہلیت رکھتا.اصل بات یہ ہے کہ جس طرح زمان و مکان کی وسعتوں کو ماپنے سے اہل ہو قرآن کریم کے جملہ معارف و حقائق کا احاطہ کر لینا ممکن نہیں.ہاں ہر شخص اپنے اپنے ظرف کے مطابق اس میں حصہ لے سکتا ہے اور دامن مراد کو مالا مال کر سکتا ہے.راقم الحروف کا خیال ہے کہ کائنات میں جو کچھ وقوع میں آچکا ہے یا آئندہ وقوع میں آئے گا.وہ سب کا سب قرآن میں بالترتیب موجود ہے لیکن انسان چونکہ غیب دان نہیں ہے.اس لئے جب وہ قرآن کریم میں ایک مستقبل کے واقعہ سے پہلے ماضی کے ان واقعات کو جو مستقبل کے واقعہ کے لئے بطور علل و اسباب کے ہوتے ہیں پیوست پاتا ہے تو وہ گھبرا جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ قرآن کریم کے بیان کی ترتیب میں خلل آگیا.لیکن اگر وہ ماقبل اور مابعد کی آیات یا سور میں تدبر کرے تو اس کا عقدہ خود قرآن کریم ہی سے حل ہو جاتا ہے.قرآن کریم تقدیر عالم ہے اور اسی کے بیان کے مطابق مزاج عالم میں ہمیشہ تغییرات واقع ہوتے رہتے ہیں.قرآن کریم ابتدائے آفرینش سے لے کر یوم آخرت تک کے جملہ تغیرات کو عموماً اور تغیرات نوع انسانی کو خصوصاً بالترتیب بیان فرماتا ہے اور اس رنگ میں بیان فرماتا ہے کہ ہر تغیر کے علل و اسباب اور اس کے نتائج بھی انسان کے سامنے آ جاتے ہیں اور اپنے دلائل کو ایسی پختہ صورت میں بیان فرماتا ہے کہ ہر زمانے کا انسان ان دلائل کے آگے بشرطیکہ اس کی فطرت مسخ نہ ہو چکی ہو.سر جھکا لینے پر مجبور ہو جاتا ہے.مثلاً احیائے موتی کے ثبوت میں وہ یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ جس طرح پانی کی بارش سے مردہ زمین زندہ ہو جاتی ہے اسی طرح مرے ہوئے دل کلام اللہ کی باران رحمت سے زندہ ہو جاتے ہیں اور پھر جب کوئی قوم کلام اللہ کی تربیت کے نتیجہ میں زندہ ہو جاتی ہے تو پھر قرآن کریم اس روحانی احیا کے واقعہ کو

Page 112

“ 66 221 احیائے موتی کے ثبوت میں پیش فرماتا ہے.جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر سلیم الفطرت انسان کو پورا یقین ہو جاتا ہے کہ انسان مرنے کے بعد یقینا زندہ کیا جائے گا اور پھر یہی نہیں بلکہ ساتھ ہی اُسے یہ بھی محسوس ہونے لگتا ہے کہ یہ مادی عالم ایک روحانی عالم کے متشابہ ہے.اور روحانی عالم ایک نورانی عالم سے مستفیض ہے.اور اللہ تعالیٰ کی ذات ہر فیض کا سرچشمہ اور ہر تغیر و تبدل کے لئے علت العلل ہے.بہر حال اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے کہ قرآن کریم سورۃ فاتحہ کی بسمہ اللہ کی ”ب“ سے لے کر اپنے آخری لفظ والناس کی ”س“ تک ایک ہی کلمہ ہے اور یہ کہ جملہ کا ئنات اسی کلمہ کے اشارے پر چل رہی ہے.اور یہ کہ نوع انسانی کا قافلہ جنت سے نکل کر پھر فردوس تک پہنچنے کے لئے جس رفتار سے گامزن ہے اس کے جملہ مراحل و منازل اس کلام میں بمع علل و اسباب اور نتائج بالترتیب بیان ہو رہے ہیں.ذیل کے وسائل سے قرآن کریم کے اسلوب بیان کو سمجھنے کی کوشش کی جاسکتی ہے.اول.قرآن کریم کے مقام کو خود اللہ تعالیٰ کے کلام ، رسول اللہ کی احادیث، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات ، حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تفسیر اور ائمہ سلف کے ارشادات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے.دوم :.قرآن کریم کی ہر سورت کے محل وقوع پر اور ان اسماء اللہ پر غور کیا جائے جن اسما کی یہ سورت مظہر ہو.نیز یہ دیکھا جائے کہ ان اسماء اللہ سے سورت میں کیا مضمون پیدا ہوا.سوم:.ہر سورت کے نام، مضمون اور ابتدائی کلمات اور آخری کلمات پر غور فرمائیے.چہارم :.سورۃ فاتحہ میں اور قرآن کریم کی سور میں مؤاخات اور مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے.پنجم :.مقطعات پر غور کیا جائے اور ان کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے ان سورتوں “ 222 میں غور کیا جائے.جن کے شروع میں ایک ہی طرح کے حروف مقطعات آئے ہیں اور وجہ اشتراک تلاش کی جائے.ششم :.قرآن کریم کی جملہ آیات بلکہ جملہ الفاظ کا تتبع کیجئے.کہ وہ کہاں کہاں مگر رآئے ہیں اور جن سورتوں میں ایک ہی مضمون کی آیات یا الفاظ مگر رآئے ہوں.ان میں باہم رابطہ کی وجہ تلاش کیجئے.نیز بوقت تکرار آیات کے الفاظ میں یا آیات کے حروف میں کوئی فرق واقع ہو تو اس کی حکمت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے.ہفتم : قصص انبیاء کے محل وقوع پر غور کیا جائے اور ان کے بظاہر غیر مرتب طور پر اور پھر بار بار مذکور ہونے کی وجہ تلاش کی جائے.ہشتم کسی صورت آیت اور لفظ یا حروف کی حکمت کو سمجھنے کے لئے اپنے پاس سے کوئی بات پیدا نہ کی جائے بلکہ ہر بات کو قرآن کریم سے دریافت کرنے کی کوشش کی جائے.اگر توفیق ایزدی اور خوش نصیبی نے ساتھ دیا تو یہ ہادی کتاب صد ہا بصائر کے ساتھ آپ کو اصل حقیقت تک پہنچا دے گی.لیکن اگر کسی حجاب کے باعث کوئی مشکل پیش آئے.تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام، مصلح موعود ایدہ اللہ الودود اور امت کے ائمہ سلف کی طرف رجوع کرنا چاہئے.غرض یہ آٹھ طریق ہیں.جن کو پیش نظر رکھنے سے مؤمن کی نگاہ قرآن کریم کےالفاظ کے پردوں سے نکل کر اس کے باطن تک پہنچ سکتی ہے اور وہ لطیف تر تیب جو بظاہر نگاہوں سے پنہاں ہے.خود بخو د نظر آنے لگتی ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سعادت نصیب ہو جائے تو پھر اس کتاب مکنون کے حسن پنہاں کی ایک ادنی سی جھلک انسان کو وارفتہ کر دیتی ہے اور انسان بے ساختہ پکار اٹھتا ہے.دامان نگه تنگ و گل حُسنِ تو بسیار گل چین بهار تو ز داماں گله دارد ( منقول از الفضل مؤرخہ 2 ستمبر 1958 ، صفحہ 4،3)

Page 113

”“ 223 “ 224 قرآن حکیم میں ترتیب پائی جاتی ہے قرآن کریم کی ترتیب کے بارہ میں اختلاف ہے.بعض علما کے نزدیک قرآن شریف کی سورتوں میں با ہم کوئی ربط نہیں ہے.سوائے اس کے کہ لمبی لمبی سورتیں شروع میں رکھ دی گئی ہیں اور باقی سورتیں بغیر کسی ترتیب کے آخر میں رکھ دی گئی ہیں.لیکن یہ خیال کہ سورتوں میں کوئی ربط نہیں سراسر غلط ہے کیونکہ اس خیال کی بنیاد قرآن شریف کو زمانہ ماضی کے آئینے میں دیکھنے پر ہے.اگر قرآن شریف کو زمانہ ماضی کے آئینہ میں دیکھا جائے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس میں بظاہر کوئی ترتیب نظر نہیں آتی.مثال کے طور پر دیکھئے کہ قرآن شریف میں چھ سورتیں انبیاء کے نام پر آئی ہیں لیکن قرآن کریم میں انہیں اس طرح رکھا گیا ہے کہ با ہم کوئی ربط نظر نہیں آتا.پہلی سورۃ یونس ہے.دوسری ہود ہے.تیسری یوسف ہے.چوتھی ابراہیم ہے، پانچویں محمد ہے.چھٹی نوح ہے.ان تمام سورتوں کو قرآن شریف میں جس ترتیب سے رکھا گیا ہے از روئے زمانہ ان میں با ہم کوئی ربط نہیں.اس کے علاوہ بعض ایسی باتیں بھی ہیں انہیں اگر زمانہ ماضی کے آئینہ میں دیکھا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ بے ترتیبی کیسی ہے.مثلاً سورۃ ابراہیم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق عطا فرمائے.“ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ سورۃ ابراہیم کے بعد جو اگلی سورۃ الحجر ہے اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا جا رہا ہے کہ " ہم تجھے غلام علیم کی بشارت دیتے ہیں“ اور ( غلام علیم سے مراد حضرت اسحاق علیہ السلام ہیں ) جن کی پیدائش پر سورۃ ابراہیم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے.کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ جو بچہ پہلے پیدا ہو چکا ہے بعد کی سورۃ میں اس کی پیدائش کی خوشخبری دی جا رہی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ واقعی قرآن شریف میں کوئی ترتیب نہیں ہے لیکن اس بے ترتیبی کا باعث انسان کی یہی کمزوری ہے کہ وہ قرآن شریف کے ہر قصہ کو زمانہ ماضی کے آئینہ میں دیکھتا ہے حالانکہ قرآن شریف ایک قصہ گو کتاب کی طرح نہیں ہے بلکہ اس کے ہر ایک قصہ کے نیچے پیشگوئی ہوتی ہے.وہ زمانہ ماضی کی تاریخ بیان نہیں کرتا بلکہ زمانہ ماضی کے پردے میں مستقبل کی باتیں کرتا ہے اور آئندہ میں جو کچھ ہونے والا ہوتا ہے اس کے مناسب حال وہ زمانہ ماضی کے نقص پیش کرتا ہے.قرآن شریف اپنے آپ کو قرآن حکیم اور کتاب حکیم کہتا ہے اور عربی زبان میں لفظ حکیم اور لفظ حکمت کا مفہوم یہ ہے کہ ہر چیز کو اس کے موقع اور محل کے مطابق رکھا جائے اور اپنے ما بعد اور ماقبل سے اس چیز کو یا اس بات کو ایسا ربط ہو کہ درمیان میں کسی خلا کی ذرہ بھر بھی گنجائش نہ ہو.لہذا اگر قرآن شریف کی سورتوں میں با ہم کوئی ربط نہ ہو تو پھر ہم اس کتاب کو کتاب حکیم نہیں کہ سکیں گے حالانکہ اس کا اپنا دعویٰ یہ ہے کہ میں کتاب حکیم ہوں.علاوہ ازیں قرآن شریف ہمیں تدبر کی دعوت دیتا ہے اور تدبر کے معنے سیاق و سباق اور آگا پیچھا دیکھنے کے ہیں اور اگر سورتوں میں با ہم کوئی ربط نہ ہو تو پھر تدبر کی دعوت بے معنی ٹھہرتی ہیں.نیز آنحضرت نے فرمایا ہے کہ: " مجھے تو رات کی جگہ سات طوال سورتیں اور زبور کی جگہ پر

Page 114

" “ لمئین اور انجیل کی بجائے المثانی سورتیں دی گئی ہیں اور مفصل کے ذریعہ سے مجھ کو فضیلت عطا کی گئی.“ 225 (الاتقان اردو صفحہ 143) اس حدیث سے ظاہر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک قرآن شریف کی تمام سورتیں ایک ترتیب سے چل رہی ہیں اور سات لمبی سورتوں سے مراد سورۃ التوبہ تک کی سورتیں ہیں اور المئین ( یعنی وہ سورتیں جن میں ایک سو کے قریب آیات ہیں ) ان سے مراد سورۃ یونس سے لے کر سورۃ الحجر تک کی سورتیں ہیں جن میں اسلام کی نشاۃ اولیٰ کا سیاسی دور دکھایا گیا ہے.اسی بنا پر ان سورتوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زبور قرار دیا ہے تا کہ اس طرف اشارہ ہو کہ اسلام کی نشاۃ اولیٰ بنی اسرائیل کے داؤدی دور کی مماثل ہے یعنی نشاۃ اولی میں جنگی سامان کا مدار لو ہے پر ہوگا اور نشاۃ ثانیہ سلیمانی دور کی مماثل ہے اور اس کے جنگی سامان کا دارو مدار ہوا پر ہوگا.یعنی ہوائی جہازوں پر.آج کل ہم عبوری دور سے گزررہے ہیں.اس دور میں فی الحال لوہے کا ہتھیار اور ہوائی جہاز دونوں کام کر رہے ہیں.سورۃ الحجر کے بعد کی سورتیں جو المثانی کہلاتی ہیں ان سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوتا ہے جس کا واضح اعلان سورۃ مریم کرتی ہے.حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیم نے بھی قرآن شریف کے مرتب ہونے کی ایک عقلی دلیل پیش کی ہے وہ یہ کہ حامیم والی سورتوں کو متصل رکھا گیا ہے لیکن اس کے برعکس مسجات کو متصل نہیں رکھا گیا بلکہ ان کے درمیان بعض ایسی سورتیں آگئی ہیں جن کا تسبیح سے آغاز نہیں ہوا.آپ فرماتے ہیں کہ اگر قرآن شریف کی سورتوں کی ترتیب میں انسانی دماغ کا دخل ہوتا تو حوامیم کی طرح مسجات کو بھی احم سے شروع ہونے والی سورتیں “ متصل رکھا جاتا.226 خاکسار اس وقت اس مختصر مضمون میں انہی مسجات کے متعلق بتانا چاہتا ہے کہ ان کی ترتیبی کیفیت کیا ہے اور ان سورتوں میں جو سورتیں بغیر تسبیح کے آئی ہیں اس میں کیا حکمت ہے ؟ جو سورتیں مسجات کہلاتی ہیں وہ اور ان کے درمیان جو سورتیں بغیر تسبیح کے آئی ہیں وہ حسب ذیل ہیں: 1.الحدید.اس میں تسبیح پائی جاتی ہے.2.المجادلہ.اس میں تسبیح نہیں ہے.3- الحشر.اس میں تسبیح پائی جاتی ہے.4- الممتحنہ.اس میں بھی تسبیح نہیں پائی جاتی.5.الصف.اس میں تسبیح پائی جاتی ہے.6- الجمعہ.اس میں بھی تسبیح پائی جاتی ہے.7 - المنافقون.یہ بھی تسبیح سے خالی ہے.8.التغابن.اس میں تسبیح پائی جاتی ہے.ان سورتوں میں سے جن میں تسبیح پائی جاتی ہے ان میں کہیں تو ما في السموت وَالْأَرْضِ کے الفاظ آئے ہیں اور کہیں مَا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ اور یہ ظاہر ہے کہ جن سورتوں میں حروف کو زیادہ کیا گیا ہے وہ تسبیح کی زیادتی پر دلالت کرتی ہیں اور جہاں پر حروف ترک کر دیئے گئے ہیں وہاں تسبیح کی قلت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.اب سب سے پہلے سورۃ الحدید کو لیجئے.اس میں تسبیح کے الفاظ یوں آئے ہیں.سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ - وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيم ان الفاظ کو دیکھئے.ان میں لفظ الارض “ سے حرف ما اور حرف ”فی“ کو حذف 66

Page 115

”“ 227 کر دیا گیا ہے تا کہ یہ بتا یا جائے کہ اس تسبیح کا جس زمانہ سے تعلق ہے اس زمانے میں اس رنگ میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح نہیں ہو سکی جس رنگ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری پر ہوئی.اس سورۃ کا تعلق حضرت نوح سے لے کر حضرت عیسی کے زمانے تک ہے اور اس کا ثبوت اس سورۃ کی مندرجہ ذیل آیات ہیں ترجمہ :.اور ہم نے نوٹ اور ابراہیم کو بھی رسول بنا کر بھیجا تھا اور ان کی ذریت سے نبوت اور کتاب کو مخصوص کر دیا تھا.لیکن بعض ان میں ہدایت پانے والے تھے اور بہت لوگ ان میں سے فاسق تھے.پھر ہم نے ان ( یعنی اولا د نوح و ابراہیم ) کے بعد اپنے رسول ان کے نقش قدم پر بھیجے اور عیسی ابن مریم کو بھی ان کے نقش قدم پر چلایا.“ (الحديد 3/19 تفسیر صغیر ) ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ اس سورۃ میں جس تسبیح کا ذکر ہے اس کا تعلق حضرت نوح سے لے کر حضرت عیسی تک کے زمانہ سے ہے.یہی وجہ ہے کہ اس تسبیح میں لفظ ” الارض “ سے پہلے حرف ما‘اور حرف ” فی “ کو ترک کر دیا گیا ہے تاکہ ظاہر ہو کہ ان انبیاء کی قو میں کماحقہ تسبیح نہ کر سکیں اور معرفت الہی کا جو حق ہے اس سے قاصر رہیں.66 یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سورتوں کے نام بھی اپنی ذات میں ایک اہم حقیقت کے حامل ہوتے ہیں.اس سورۃ کا نام الحدید اس لئے رکھا گیا ہے کہ حضرت نوع کا زمانہ لوہے کا زمانہ تھا اور پتھر کا زمانہ اس سے بہت پہلے گزر چکا تھا.سورۃ الحدید کے بعد اگلی سورۃ تسبیح سے خالی ہے اور اس کا نام المجادلہ رکھا گیا تا کہ ظاہر ہو کہ حضرت نبی کریم کے ظہور سے پہلے دنیا ظهرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ کی مصداق ہو چکی تھی اور ابنائے آدم کے قلوب معرفت الہی سے سراسر خالی ہو چکے تھے اور مذہبی مسائل کی بنیاد دلائل و براہین پر نہ تھی بلکہ ہنگامہ آرائی اور جنگ و جدال کے ذریعہ “ 228 اپنے اپنے مذاہب کی تائید کی جاتی تھی.سورۃ المجادلہ کے بعد سورۃ الحشر ہے اس سورۃ میں تسبیح کے الفاظ یوں آئے 66 66 ہیں.سَبَّحَ لِلهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيم ان الفاظ میں لفظ ” الارض “ سے پہلے حرف ما‘ اور حرف ” فی“ بڑھا دیا گیا ہے کیونکہ اس سورۃ کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اولیٰ سے ہے اور سورۃ کا مضمون شاہد ہے کہ یہود مدینہ کے اخراج کا ذکر ہے اور سورۃ کا نام الحشر اس لئے رکھا گیا کہ یہ پہلی مڈبھیڑ تھی جو یثرب کے یہود قبیلہ بنونظیر سے ہوئی اور لفظ الحشر یہ بھی بتا تا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم الحاشر اس بنا پر ہیں کہ حضور آخر کار تمام ادیان باطلہ کو شکست دے کر تمام قوموں کو اسلام کے سائے میں جمع کر دیں گے.یہ بات ابھی کہی جا چکی ہے کہ اس سورۃ کا تعلق حضور کی بعثت اولی سے ہے اور یہ ظاہر ہے کہ ہزار سال کے بعد جب امت محمدیہ نے قرآن شریف کی تعلیم کو نظر انداز کر دیا تو پھر ان میں لازمی طور پر معرفت الہی میں کمی آ گئی.اسی بنا پر اس سورۃ میں فرمایا گیا ہے کہ يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَوتِ وَ الْاَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الحکیم ان الفاظ میں بجائے فعل ماضی سَبَّحَ کے فعل مضارع کا صیغہ يُسَبِّحُ استعمال کیا گیا ہے تا کہ اس طرف اشارہ ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد اسلام کی نشاۃ اولی میں معرفت الہی والی وہ بات نہیں رہے گی جو اسلام کے خیر القرون میں تھی.اس بنا پر ” الارض “ سے قبل حرف ” ما‘ اور حرف ”فی “ کو حذف کر دیا گیا ہے تا ظاہر ہو کہ اب تسبیح میں کمی آگئی ہے.سورۃ حشر کے بعد سورۃ ممتحنہ ہے اس میں تسبیح نہیں آئی تا ظاہر ہو کہ اسلام کی نشأة اولیٰ پر ایک ایسا وقت بھی آجائے گا کہ جبکہ امت محمدیہ امتحان میں پڑ جائے گی.زبان پر تو لفظ اسلام ہو گا لیکن دل نور ایمان سے خالی ہوگا اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ 66

Page 116

”“ 229 غیر مسلم طاقتیں ان پر چھا جائیں گی.اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اس سورۃ میں امت کو یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلَّذِينَ كَفَرُوا یعنی اے خدا ہمیں کافروں کے ظلم و ستم کا تختہ مشق نہ بنانا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب کسی نبی کے ظہور کا وقت آتا ہے تو اس سے پہلے جاہلیت کا دور آتا ہے.اکثریت تاریکی میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہے سوائے شاذ و نادرافراد کے.سورۃ ممتحنہ کے بعد سورۃ صف آئی ہے اس کی تسبیح کے الفاظ وہی ہیں جو سورۃ حشر کے تھے.یعنی سَبَّحَ لِلهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الحكيم یہ الفاظ دوبارہ اس لئے لائے گئے ہیں تا ظاہر ہو کہ سورۃ ”صف“ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کا ذکر ہے.سورۃ حشر محمدی جلال کی مظہر ہے اور سورۃ صف احمدی جمال کی مظہر ہے.اسی بناء پر اس میں اسمہ احمد “ والی پیشگوئی رکھی گئی ہے.سورۃ صف کے بعد سورۃ جمعہ ہے ان دونوں سورتوں کے درمیان کوئی ایسی سورۃ نہیں رکھی گئی جو تسبیح سے خالی ہو.یہ اس لئے کیا گیا ہے تا ظاہر ہو کہ پھر امت مسلمہ دوبارہ زندگی پا کر صدیوں تک تسبیح و تحمید میں لگی رہے گی.سورۃ جمعہ میں تسبیح کے الفاظ یوں آئے ہیں ” يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ، اس تسبیح میں الْمَلِكُ الْقُدوس کے الفاظ بڑھائے گئے ہیں.تا ظاہر ہو کہ ملت اسلامیہ دوبارہ اللہ تعالیٰ کی شان الْمَلِكُ القدوس کی مظہر ہوگی اور لفظ جمعہ میں تین اشارے پائے جاتے ہیں.اول : یہ کہ بعثت ثانیہ ششم ہزار میں ہوگی کیونکہ جمعہ چھٹا دن ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک ایک دن ہزار سال کے برابر ہے.“ دوم : یہ کہ وہ زمانہ اجتماعی دور کا ہوگا.سوم : یہ کہ نشاۃ ثانیہ کا بانی جمعہ کے دن پیدا ہوگا.230 سورۃ جمعہ کے بعد سورۃ المنافقون آتی ہے.اس کا تعلق قرب قیامت سے ہے کیونکہ اس کے بعد سورۃ تغابن آئی ہے اور تغابن سے مراد یہی نفع نقصان کا دن ہے جو کہ روز جزا کہلاتا ہے.سورۃ تغابن میں بھی تسبیح رکھی گئی ہے.اس کے الفاظ ملاحظہ ہوں يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ اس تسبیح میں لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ کے الفاظ آئے ہیں اور پھر وَ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَکیم کی بجاۓ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير کے الفاظ آئے ہیں.یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ تغابن کے دن انسان کی آنکھیں کھل جائیں گی اور اس پر یہ حقیقت منکشف ہو جائے گی کہ حقیقی بادشاہت اللہ تعالیٰ کی ہے اور تمام خوبیوں کا سر چشمہ بھی وہی ہے اور یہ کہ وہ ہر بات پر قادر ہے.اس مختصر بیان سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ قرآن شریف کی سورتوں کی ترتیب میں کسی انسانی دماغ کا دخل نہیں ہے بلکہ اس کی ترتیب عالم الغیب خدا کی مشیت پر مبنی ہے بالآخر یہ امر قابل ذکر ہے کہ قرآن شریف کی ترتیب کے تین پہلو ہیں.(1) نزولی (2) وضعی(3) زمانی اگر قرآن شریف کے نزولی پہلو کو سامنے رکھ کر مکی سورتوں کی پہلے تلاوت کی جائے اور مدنی سورتوں کی حسب نزول بعد میں تلاوت کی جائے تو اس طریق سے قرآن نہی میں بڑی مددملتی ہے.قرآن شریف کے دوسرے وضعی پہلو کی ترتیب بلا شبہ دقیق ہے.اس کا صحیح طور پر احاطہ کرنا ناممکن ہے لیکن اس کے باوجود قرآن مجید میں بعض سورتوں میں

Page 117

232 " “ 231 باہمی ربط اپنے آپ ہمارے سامنے آجاتا ہے.مثال کے طور پر دیکھئے مثلاً اللہ تعالیٰ سورۃ احقاف کے آخر میں فرماتا ہے.فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ سورة احقاف کے بعد سورۃ محمد ہے.اس کی پہلی آیت کے الفاظ الَّذِينَ كَفَرُوا “ ہیں.اب صاف ظاہر ہے کہ دونوں سورتوں میں باہم ربط ہے.ایسے ہی سورۃ طور کے آخر میں فرمایا وَمِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَإِدْبَارَ النُّجُومِ سورۃ طور کے بعد دوسری سورۃ النجم ہے.اس کے شروع میں فرمایا وَ النَّجْمِ إِذَا هَوَى‘ اس سے بھی ظاہر ہے کہ دونوں سورتوں میں باہم ربط ہے.ایسے ہی سورۃ واقعہ کے آخر میں فرمایا ” فسبح بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ “ اس کے بعد آنے والی سورۃ الحدید کو سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السمواتِ وَالْأَرْضِ کے الفاظ سے شروع فرمایا.اس سے بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں سورتوں میں باہم ربط ہے اور یہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ جملہ مسجات بھی باہم مربوط ہیں.ایسے ہی سورۃ الفیل کے آخر میں فرمایا.’ فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مأكول‘ اس کے بعد سورۃ قریش کو لإيلافِ قُريش“ سے شروع فرمایا تا ظاہر ہو کہ اصحاب فیل کو اللہ تعالیٰ نے اس گئے ہلاک کیا کہ خانہ کعبہ کے محافظ قریش محفوظ رہیں.66 جملہ مثالوں سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہے کہ قرآن شریف کی جملہ سورتوں میں باہم ربط ہے اور اگر انسان کو کسی جگہ باہم ربط نظر نہ آئے تو اس کے دو سبب ہیں: اول : یہ کہ انسان کمزور ہے اور اس کا حافظہ بھی کمزور ہے اس کو بسا اوقات یہ بات بھول جاتی ہے کہ وہ کن کن مضامین سے گزر کر آیا ہے.اسی لئے اسی نسیان کے باعث اس کو ربط نظر نہیں آتا.علاوہ ازیں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ترتیب کے معنے کیا ہیں.لفظ ترتیب مختلف کیفیات پر اطلاق پاسکتا ہے.اگر علما ء اسلام کو یہ اجازت دے دی جائے “ کہ آپ اپنے منشا کے مطابق قرآن شریف کی سورتوں کو ترتیب دے دیں تو ہر عالم کی ترتیب الگ ہوگی اور سینکڑوں میں سے دو عالم بھی متفق نہیں ہو سکیں گے.آسمان کے ستاروں کو دیکھئے ان میں باہم ترتیب نظر نہیں آتی حالانکہ ان میں انتہائی لطیف تربیت کا ہونا بد یہی امر ہے کیونکہ اگر ان میں ترتیب نہ ہوتی اور باہم توازن قائم نہ ہوتا تو یہ آپس میں ٹکر اٹکرا کر ختم ہوجاتے اور زمین کو اور اس میں رہنے والوں کو وہ جو فائدہ پہنچارہے ہیں نہ پہنچا سکتے.دوسرا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے اور انسان عالم الغیب نہیں ہے.لہذا لازم آتا ہے کہ قرآن شریف کے حقائق و معارف رفتار زمانہ کے مطابق اپنے اپنے وقت پر ظاہر ہوتے رہیں.جوں جوں زمانہ گزرتا جائے گا توں توں قرآن شریف کی سورتوں میں باہمی ربط نمایاں طور پر سامنے آتا جائے گا.ترتیب قرآن شریف کا تیسرا پہلو زمانی ہے اور اس کی کلید حروف مقطعات ہے.حروف مقطعات قرآن شریف کی ہر سورۃ کا کسی نہ کسی زمانہ سے لگاؤ دکھاتے ہیں.قرآن شریف کے مضامین پر وقت کا پردہ پڑا ہوا ہے لیکن حروف مقطعات جب یہ پردہ اٹھا دیتے ہیں تو قرآن شریف کا ہر وہ مقام جو بے رابطی کا مظہر ہوسکتا ہے.وہی مقام نہایت حکیمانہ شان کا مظہر بن جاتا ہے اور قرآن شریف کے وہ قصے جنہیں عام پر قصص ماضیہ سمجھا جاتا ہے پیشگوئیوں کی صورت میں سامنے آتے ہیں.طور (روز نامہ الفضل 19 فروری1980ء)

Page 118

”“ 233 “ 234 عربی زبان کی بعض امتیازی خصوصیات عربی زبان چونکہ الہامی زبان ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس میں اپنی بے مثال ذات کی طرح بعض ایسی بے نظیر صفات رکھ دی ہیں کہ جن کی بدولت وہ تمام زبانوں میں بیگانہ اور منفرد ہے.ان امتیازی صفات میں سے ایک صفت یہ ہے کہ اس کے اسماء اور افعال اپنے معانی پر آپ دلالت کرتے ہیں.کیونکہ وہ جن حروف سے ترکیب پاتے ہیں وہ حروف اپنی ذات میں بعض ایسی خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں کہ جب وہ کسی اسم یا فعل میں مجتمع ہوتے ہیں تو اس اسم یا فعل میں ایک ایسی کیفیت یا ایک ایسا رنگ پیدا کر دیتے ہیں کہ جس کے باعث وہ اسم یا فعل اپنے مسمی یا اپنے معنی کے لئے مخصوص ہو جاتا ہے.مثلاً اگر ہم اپنی اردو زبان میں مچھر کا نام مکھی رکھ دیں اور مکھی کو مچھر کا نام دے دیں.تو ہماری زبان کے وہ حروف جو لکھی اور مچھر کے کلمات میں مستعمل ہیں یعنی م.کھی یا مچھ...وغیرہ ہم سے یہ شکوہ نہیں کریں گے کہ آپ نے ہمیں بے محل کیوں استعمال فرمایا.اور ہمیں اصل مسلمی سے الگ کر کے ایک نقلی مسلمی پر کیوں چسپاں فرمایا.کیونکہ ان حروف کی ذات میں کوئی ایسی خصوصیت نہیں پائی جاتی کہ جسے نظر انداز کرنے سے ہم وَضْعُ الشَّيئ فِي غَيْرِ فَحَلِهِ “ کے گناہ کے ارتکاب میں مورد الزام ٹھہریں لیکن اس کے برعکس اگر ہم عربی زبان میں مچھر (بَعُوضَةٌ ) کو کھی ( ذباب) کا نام دے دیں اور مکھی کو مچھر کا نام دے دیں تو اس صورت میں ہم ” وَضْعُ الشَّيْءٍ فِي غَيْرِ محله “ یعنی بے محل اقدام کے ارتکاب کے مجرم ٹھہریں گے اور ہمارے اس فعل سے ان الفاظ کے حروف کی طرف سے صدائے احتجاج بلند کی جائے گی کہ آپ نے ہم پر یہ ظلم کیوں کیا اور ہمارے قبیلہ کے پر ایک فرد کو بلا وجہ کیوں جلا وطن کر دیا ؟ اور یہ اس لئے کہ عربی زبان کا مچھر.م.چھ...کی بجائے.ب.ع.ض.سے بنا ہوا ہے.اور یہ حروف جب مجتمع ہوتے ہیں تو ان میں بعضیت اور جزویت یعنی کچھ چیز.تھوڑی چیز یا ذراسی چیز کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں.اس لئے مچھر کو بَعُوضَةٌ کہا گیا.کیونکہ وہ اپنے خاندان ” بعض“ کا ایک فرد ہے اور اپنے وجود میں وہ ایک تھوڑی سی ، ذراسی ، اور نا چیز سی چیز ہے.اس لئے اسے اپنے خاندان سے الگ کرنا نا جائز اور ناروا ہے.ایسے ہی اگر ہم ذباب کو بعوضتہ کہہ دیں تو پھر ذبیان کے قبائل میں تہلکہ پڑ جائے گا.کیونکہ یہ قبائل ذب کی نسل سے ہیں.اور ذب کے معنے ہٹانے اور ہٹائے جانے کے ہیں.اور ذباب اسی قبیلہ کا ایک فرد ہے.کیونکہ وہ چاہتی ہے کہ صاحب طعام ، طعام سے ہٹ جائے اور وہ خود طعام کو چٹ کر جائے.اور صاحب طعام ہر وقت اس کوشش میں رہتا ہے کہ یہ موذی کھانے کے قریب نہ پھٹکنے پائے اور فریقین میں یہ ہٹ ہٹاؤ کا سلسلہ ابتدائے آفرینش سے جاری ہے اس لئے عربی کی مکھی صرف ذباب ہی کہلا سکتی ہے.اگر اسے بعوضۃ کہا جائے تو پھر اسے اپنی قدیم عادت کو چھوڑنا پڑے گا اور لذیذ وشیر میں طعام سے منہ موڑنا پڑے گا.مگر ظاہر ہے کہ وہ اپنی خونہ چھوڑے گی.اور جب ع وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں ایک اور بات بھی توجہ کے لائق ہے اور وہ یہ کہ عربی زبان میں جن کلمات میں ایک جنس کے حروف جمع ہو جاتے ہیں.ان میں باہم ایک ایسا رشتہ پیدا ہو جاتا ہے کہ جو کسی کے توڑنے سے ٹوٹ نہیں سکتا.اور اس رشتہ کی کیفیت کا مدار حروف کی کمیت پر ہے.یعنی دو کلموں میں جتنے ہم جنس حروف زیادہ ہوں گے اتنا ہی ان کے معانی میں ارتباط زیادہ ہو گا.اور جتنے کم ہوں گے اتنا کم مثلاح.ل.م

Page 119

”“ 235 “ 236 تین حرف ہیں.اگر یہ اکیلے اکیلے لئے جائیں تو ان کی ذاتی خصوصیات اپنی انتہائی لطافت کے باعث انتہائی باریک بینی اور انتہائی غور و خوض کی محتاج ہو جائیں گی.لیکن جب یہ تینوں کسی کلمے میں مجتمع ہو جائیں تو پھر ان کے اجتماع سے ان کی اجتماعی خصوصیت ایسی اجاگر ہو جاتی ہے کہ وہ سرسری نگاہ کا بھی دامن تھام لیتی ہے اور اسے مسکرا کر یہ پیام دیتی ہے کہ یہ تین حرف جہاں بھی پائے جائیں گے وہاں ظاہری یا باطنی حسن اور قوت کا پایا جانا ضروری ہے.اور آپ خواہ انہیں کتنا الٹ پلٹ کریں یہ حسن وقوت کی خصوصیت ان کا ساتھ نہیں چھوڑے گی.مثلاً لفظ حلم اندرونی قومی کی قوت پر دلالت کرتے ہے اور اسی سے حلیم مشتق ہے.اور یہ حلم بالغ ہونے اور عقل مند ہونے کی ظاہری قوت کی طرف اشارہ کرتا.ایسے ہی حمل برداشت کرنے کی قوت کی طرف اشارہ کرتا ہے.اور اسی لفظ سے متحمل اور تحمل کے الفاظ بنے ہیں.ایسے ہی لحم گوشت اور موٹاپے کی طرف اشارہ کرتا ہے اور اسی سے لفظ لحیم بنا ہے.اور ایسے ہی ملح نمک نمکین یعنی ملاحت اور حسن ظاہری کی طرف اشارہ کرتا ہے.غرضیکہ عربی زبان کے حروف میں یہ کمال ہے کہ وہ ایک مخصوص خدوخال کے مالک ہیں.یا ایک امتیازی رنگ و بو کے حامل ہیں.گویا حروف پھول ہیں اور کلمات گلدستے اور انہی پھولوں کی کثرت وقلت کی بدولت ان کے گلدستوں میں باہم رشتہ پیدا ہو جاتا ہے.ہم جنس پھول زیادہ ہیں تو رشتہ قریب کا ہے اور اگر ہم جنس کم تو رشتہ بعید کا.اوپر کی مثال میں تین حرفوں کے اجتماع کی خاصیت پیش کی گئی ہے.اب ذرا دو حرفوں کے اجتماع کی خصوصیت بھی ملاحظہ فرمائیں.مثلاًق اور ض دو حرف ہیں.اگر یہ اکیلے اکیلے ہوں تو ایک کم بصیرت کو ان کا خدو خال نظر نہیں آسکتا.لیکن جو نہی یہ جمع ہوتے ہیں تو پھر ایک نابینا بھی پکار اٹھتا ہے کہ ہٹاؤ انہیں پرے یہ تو مجھے کاٹنے لگے ہیں.یہ ق.ض کیا ہیں گو یا مقراض کے دو باز و.جب تک یہ الگ الگ تھے ناکارہ تھے.لیکن جو نہی جمع ہوئے ایک کارگر قینچی بن گئے.یعنی ق اور ض جس کلمے میں پائے جائیں گے وہ کلمہ کسی نہ کسی رنگ میں کاٹنے توڑنے پھوڑنے اور جدا کرنے کی ڈیوٹی سرانجام دے گا.مثلاً قضب.شاخ کاٹنا.گھاس کاٹنا.قرض.قینچی کی طرح کاٹنا.قضم.چنوں جیسی اجناس کو چبانا.قبض کسی چیز میں سے کچھ چیز لے لینا.قبض بیماری کو بھی اسی لئے قبض کہتے ہیں کہ انتڑیاں کچھ فضلہ اپنے پاس رکھ لیتی ہیں.قطبی: دوا لجھے ہوؤں کو سلجھانا.فیصلہ کرنا اور قضیہ کو نپٹانا.اب ایک ایک حرف کی الگ الگ خصوصیات کی توضیح بھی ملاحظہ فرمائیں.آپ ذیل کے تین اسما پر غور فرمائیں رب آب اور اُم میں ان کلمات میں سے رب اور ام کے حروف میں کوئی اشتراک نہیں لیکن اس کے برعکس لفظ اب کو حرف (ب) کے واسطے سے رب سے تعلق ہے.اور حرف (۱) کے واسطے سے ام سے.اور اب کے معنی ہیں آلہ ایجاد اور پھر سامان معیشت مہیا کرنا پہلا مفہوم علیٰ قدر مراتب رب.اب اور اُم کے تینوں کلمات میں پایا جاتا ہے لیکن رب مقدم ہے اب اوسط ہے اور ام مؤخر ہے.اس کے برعکس دوسرا مفہوم صرف رب اور اب کے ساتھ مخصوص ہے.لہذا معلوم ہوا کہ حرف با میں بقا کے لئے چارہ سازی کی روح پائی جاتی ہے.اس لئے عربی زبان میں چارہ کو اب کہتے ہیں : اب اس حقیقت کو سمجھنے کے بعد کہ عربی زبان کے حروف اپنی ذات میں کسی نہ کسی مخصوص روح کے حامل ہوتے ہیں اور یہ کہ جن اسما میں ہم جنس حروف جمع ہو جاتے ہیں ان اسما میں با ہم کوئی نہ کوئی معنوی مناسبت ضرور ہوتی ہے آپ اللام والدواء کے حروف پر غور فرمائیے دونوں لفظوں کے حروف ہم جنس ہیں.لہذا

Page 120

”“ 237 معلوم ہوا ہے کہ عربی زبان کی ادویہ کو ان بیماریوں سے خاص تعلق ہے جن بیماریوں کے اسما میں دوائیوں کے اسما کے حروف پائے جاتے ہوں.مثلاً جدوار آپ کو پیغام دیتی ہے کہ اگر آپ جددی (چیچک ) کا شکار ہو گئے ہیں تو میں آپ کی امداد کے لئے حاضر ہوں اور ”عسل‘ درخواست کر رہا ہے کہ سعال ( کھانسی ) میں مجھے استعمال فرمائیے اور جائفل کہتا ہے کہ فالج کے وقت مجھے یاد فرمائیے اور صبر اور مصبر کا اشارہ یہ ہے کہ برص کا علاج ہم ہیں ایسے ہی ارز (چاول ) کہتے ہیں کہ زیر پیچش میں آپ ہمیں مفید پائیں گے اور کلونجی کا اشارہ یہ ہے کہ اگر آپ قولنج میں مبتلا ہو گئے ہیں تو مجھے کھائیے اور نجات پائیے ( یعنی کل کھا اور درنج نجات پا ) اور بقول اور باقلہ قلب کی امراض میں خدمت کے لئے حاضر ہیں اور عشر اور عشیر یعنی آگ اور جو کا پیغام یہ ہے کہ رعشہ میں ہم آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہیں اور طحلب ( کائی) کا پیغام یہ ہے کہ ڈال کی امراض میں مجھ سے کام لیجئے اور بلبل آواز دے رہی ہے کہ اگر آپ بول نہیں سکتے تو مجھے کھائیے یا میرا خون پیجئے اور آواز کی بیماریوں سے نجات پائیے.کیونکہ آپ نے بولنے کا لفظ میرے نام سے لیا ہے.اور خدا نے مجھے بلبل کا نام اس لئے دیا ہے کہ میں طرح طرح کی بولیاں بول سکتی ہوں.اور بولنے سے مجھے خاص تعلق ہے.ایسے ہی یا قوت کا اشارہ ہے اگر آپ اپنی قوت ضائع کر بیٹھے ہیں تو مجھے استعمال فرمائیں.میں قوت کا خزانہ ہوں.اور یاسمین پکار رہی ہے کہ اے کمزور اور لاغر لو گو میری طرف آؤ اور مجھ سے فائدہ اٹھاؤ میں تمہیں سمین (موٹا) بنادوں گی.ایسے ہی درخت بان (بکائن ) کہتا ہے کہ اگر آپ کی ناب یعنی ڈاڑھ میں تکلیف ہے تو میرا انجن استعمال فرمائے.تکلیف جاتی رہے گی.ایسے ہی ریحان یعنی نیاز بو کی درخواست یہ ہے کہ اگر آپ ریح کی شکایت میں مبتلا ہیں تو نیاز “ 238 مند راحت پہنچانے کو حاضر ہے.غرضیکہ عربی زبان اپنی ساخت کے لحاظ سے ہمیں نہایت لطیف اشارے کر رہی ہے.مگر ان اشاروں کو سمجھنا ان لوگوں کا کام ہے جو اس کے اہل ہوں.میں طبیب نہیں ہوں اس لئے اس بارہ میں کوئی مکمل تحقیق پیش نہیں کر سکتا.البتہ جو چند کلمات پیش خدمت کئے ہیں وہ طب کے مطابق ہیں.اور طبی کتب ان کی تصدیق کرتی ہیں.عربی دان اطبا سے گزارش ہے کہ وہ اس طرف خاص توجہ مبذول فرما کر تحقیق فرما دیں ممکن ہے کہ اس الہامی زبان (عربی) کی بدولت علم طب میں ایک نئے باب کا اضافہ ہو جائے.یا اس جدید انکشاف سے علم طب کا محل نئی بنیادوں پر کھڑا ہو جائے.اس تحقیق کے وقت ہمیں سیدنا حضرت مسیح موعود کا یہ ارشاد پیش نظر رکھنا چاہئے کہ عربی کے الفاظ وہ الفاظ ہیں جو خدا کے منہ سے نکلے ہیں اور دنیا میں فقط یہی ایک زبان ہے جو خدائے قدوس کی زبان اور قدیم اور تمام علوم کا سر چشمہ اور تمام زبانوں کی ماں اور خدا کی وحی کا پہلا اور آخری تخت گاہ ہے.“ اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ 102 ایڈیشن 1996ء) (روز نامه الفضل 15 مئی 1958 ، صفحہ 4،3)

Page 121

”“ مرزا طاهر احمد ریوه 12.3.1356 ب الله العين الي مر الى الى ورسوله الكرمة حمد ر ده اسامی که ه کر می تقوی ہوں تا تو پھر ڈوب اینگر در هشتم زیر در یگانه 239 انگرام کے مرسلہ مسودہ تمام معجزات القران کا ذاکر نے گیا چینی کے ساتھ با استعاب مطاعم کیا.آپ قران کریم کا تنجز انشا کے میں ہو پر قلم اٹھایا ہے.یہ علمت ان کی ایک ایسی شاخ ھے میں ہر آج تک بہت کم لکھا گیا ہے.اس منشور کے مطالعہ سے یہ دیکھ کر طبیعت میں ایجان پیدا ھو جاتا ہے کہ علوم قران کی کائنات میں اس پہلو سے بھی تحقیق اور دریافت کا کتنا بڑا جہان کھاوڑا ہے.اور وہیل منکر کو جستجو کی دعوت د سارہا ہے اس مظالم سے مجھے بہت کچھ حاصل ہوا.کہئے نئے علمی نکات کے تلف انداز ہوا تحقیق کی گئی تھی راہوں کی طرف توجہ سند دی توی اور دن میں اسی خیال سے شکر و انسان کے جذبات پیدا لاتا.کو جو تم نے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی دوائی نا کر دیکھ نہ ہوں کے حق میں قبول فرما رہا ہے.مسلم ومعرفت میں ترین کے نئے ے اور رائے ان پر کنونی ریاست اشهد انه تم العمر شد در “ یر کتاب چونکہ گیریت اور باز یک مضامین پر مشتمل ہے.نیز ایسے ہو بھی سکتی ہے جن میں مرید حقیق در افتراف اور اور ایران 240 کی گنجی شش ھے.سنا سکی اشاعت سے صرف علمی ذوق و بونا رکنے ورند محدود طبقہ بھی استفادہ کر سکے گا.بریں بنا اگر اس کی اشاعت مقصود ھو تو سر دست محمد در انتانات بہتر رہے گا اس تجت کی روشنی میں مر شده وسیع اور - اشاعت کا انتظام کیا جا سکتا ھے د و شمائلہ آپ کو پیش از بسیایی خدمت دین کا توفیق میشه اور علم و عرفان کی باد شادروان دروست عطا فرمائے یہ یقین با السلام خاکار ندالله

Page 122

”“ کو بہورچھاوئی.26.2.76 بسم الله الرحمن الرحيم 241 خاک رتے اس قیمتی سودہ کا بغور مطالعہ کیا ھے اور اسی لیے استفادہ کیا ہے.میں محترم مولف کی وسعت نظر اور انکے فکر کی بلند نیز وازی کا معترف بنوں.اللہ تعالٰی انہیں جزائے خیر عطا کر ہے.آمین.خاکسار والسلامم ظفر اللہ خان “ نحمده ونصلى على رسوله الكريم 242 و على عبده المسيح الموعود جماعت احمد یہ لائل پور مسجد فضل گول احديه روانگی امیر تاریخ.السلام عليكم و رحمت الله و بركاته تم ولی ظرف مرمریت نے ایک بہت دقیق کتاب رسالہ تصنیف کیا مه حبس میں ریای علم کو اچھ کے لحاظ سے نئے پیرائے میں بیان کیا ہے اور بہت سے رکا درس میں بیان کئے ہیں کو تیوب پر مسالہ بہت باریک مضامین پر مشتمل ہے し اور رہیں ذوقی اس سے مستفیض ہو سکتے ہیں محرم مولوی صاحب نے بیڑی محنت اور دقیقہ رسی سے کام لیا ہے اللہ تعالی انکی اس رسالے میں رکت ہے اور اُسے اہل ذوں کیلئے یہ حالی سامان سے مستفیض ہونے کا مو بعد کے معنی دیگر قاری کو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن وہ بہت کم موتوں دے پر ایسا ہو سکتا ہے ورنہ رسالہ مفید اور جدید تحقیق پر مبنی ہے واسطح خاکی و 230 برید فوریک سائل نور

Page 123

”“ ا الہ الرحمن الرحيم 243 ناکسار که کتاب " کا مسودہ دیکھنے کا موقعہ ملا ہے.اس میں قر آن کریم کی تفسیر کی ایک بالکل نئی طرز اختیار کیاگیا ہے.حضرت بی کریم علی امر علیه ک کم از نفرت کا مداود علیہ اسلام نے قرآن کریم کے حروف متعلقات کے معانی کی طرف جو اصولی اشعار امت فرمائے ہیں.فاضل مضب کتاب نے ان کی بہناز ہر ایک شاندار عمارت کردن کی ہے جو کئی پہلوؤں سے نکر انگیز اور حیران کن ہے.اور قرآن کریم کی باطنی خوبیوں کو ان پر کرتی ہے.قرآن کریم کے الفان مبارک عرف نامز پول خوبیوں کے ہی حامل نہیں بلکہ باطنی معارف سے ہوا پیر ہیں.جن کی طرف اس کے حروف کے اعداد رہنمائی کرتے ہیں.یہ مضمون بہت دقیق ہے لیکن معیون صورت میں ہے.قرآن کریم کی بنی سورتوں کی شر ہیں.ان کا آپ میں دسیوں اور ان کا بینن زبانوں کے ساته نامق تعلق رکھنا باشارانہ پیشہ قول کے بیان کیا گیا ہے.اسی کرنے بعض سائنسی ایجادات کی بنیاد کا قرآن کریم میں پایا جانا.اور نوید ایجاداشت کے لئے اس میں راستہ دکھانا.اور قرآنی الفاظ کی گہرائی.فاضل مصنف نے ان تمام ابوں کے نشاندہی کی ہے جو انشار الہ میں بہت مفید ثابت ہوگی.7.5.76 امیر جماعت هائي احمدية صوبة بنجاب.از خاکسار ران یرزا عبید بخور) “ به الله الا في التحفة فضل عمر فاونڈیشن 27/ ربوه- پاکستان استفاده میگه مرده شده برای آنها فون 489 1/12/ تاریخ 1 / 12 /1 آپ نے اپنا جو مقاله العنوان " ونقل الوفا و ندارش 久 244 زیرہ کام منعقد ہونے والے ا ا ا ا ا ا ا ا یف میں پیش کیا ہے تیری باشتره مطابقتی به متمانه بفضله شمالی است بلاتے ہیہ کا حامل ہے.خصوصا پر دو انا ابواب ام سلمہ اور تحقیقاتی سطح کے بہت بالا نیکو روحانی منازل کی نشاندہی کرتے ہیں.کمیٹی مقاله حیات یہ محسوس کرتی ہے کہ ان لطیف تو انجانے سے اسے را در جو کی رومانیاں سے میں رکھنے والے قدر قلیل اصحاب ہی سوس کرنے پر سے مستفیض ہو سکیں گے.عوامی علی علیہ پر یا ڈی سی رمانہ سے کما حقہ، فائدہ نہیں اٹھا لینگا چرمین با او بری کمیٹی آپ کی خدمت میں یہ مشوره اوران کے نا

Page 124

“ 245 “ 246 مطالب کمی را که همان اند که دارای مقابله الا الیت رکھنے کی بھارد محور بی بلند پایہ روحانی فروق رکھنے والے واعجاب 2 آپ اپنے طور پر (سلسلہ کے قوانین کو ملحوظ انتفادہ کرنے رکھتے ہوئے ) سائے کرائیں.اداره بزار آیت تعاون اور مفت کالا اور سر مایہ کار تیاری میں انگرام نے سرانجام وے آپ کا بہت معنوں سے دور سے دید کرنا مه که خوانی علمی تحقیقی اپنے علمی افادہ کا سلسلہ میانی رکھنے کا اسی زبائے کرینگے وبالله التوفيق جزا ئے.مقالہ کا سر دوست آپ کا بی.جیب دوسری جلد رو لس آنجاستگی زنده نقل مطابق اس کے دسته پدرت حاجه فهرست مآخذ کتاب نمبر شمار نام کتاب 1 قرآن کریم 2 مؤلفہ حضرت محمد بن اسماعیل بخاری حضرت مسلم بن الحجاج الہامی بائیل الہامی بخاری شریف 4 مسلم شریف 5 جامع ترمذی ابو عیسی محمد بن عیسی 6 مشکوۃ مجتبائی امام ولی الدین محمد بن عبد اللہ الخطیب العمری 7 تذکرہ الہامات وكشوف حضرت بانی جماعت احمدیہ 8 ازالہ اوہام حضرت بانی جماعت احمدیہ و تحفہ گولر وید حضرت بانی جماعت احمدیہ 10 اعجاز اح حضرت بانی جماعت احمدیہ 11 نزول ایج حضرت بانی جماعت احمدیہ میدر تری میشون 13 حقیقة الوحی 12 براہین احمدیہ حصہ پنجم حضرت بانی جماعت احمدیہ حضرت بانی جماعت احمدیہ 14 اسلامی اصول کی فلاسفی حضرت بانی جماعت احمدیہ 15 نور الحق حصہ اول حضرت بانی جماعت احمدیہ 16 ملفوظات جلد 1,2 حضرت بانی جماعت احمدیہ 17 تفسیر کبیر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ اسیح الثانی

Page 125

”“ 247 “ 18 تفسیر صغیر حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمدخلیفہ المسیح الثانی 38 بھوشیہ پر ان کی آلوچنا مؤلفہ پنڈت منسارام جی کرت 19 الفوز الكبير حضرت سید ولی اللہ شاہ محدث دہلوی 39 سوانح عمری مولوی عبداللہ غزنوی 20 تفسیر فتح البیان نواب صدیق حسن خان 40 مبد أو معاد حضرت مجد دالف ثانی شیخ احمد سر ہندی 248 21 حج الكرامه نواب صدیق حسن خان 22 مقطعات قرآنی حضرت میر محمد اسماعیل 41 حدیقہ محمودیہ ترجمه روضہ قیومیہ مترجم ولی اللہ صدیقی 42 حالات مشائخ نقشبندیہ مجددیہ محمد حسن 23 تفسیر ابن کثیر 24 | الاتقان 25 الدر المنشور ابوالفداء اسماعیل بن عمر 43 | مفردات قرآن امام راغب اصفہانی حضرت علامہ جلال الدین سیوطی 44 امام مہدی کا ظہور مولوی محمد اسد اللہ صاحب الکاشمیری حضرت علامہ جلال الدین سیوطی 45 مقررہ وقت مولف لیفٹیننٹ کرنل ایف.ڈی.فراسٹ 26 بحارالانوار 27 تفہیم القرآن علامہ محمد باقر مجلسی 46 ولیم میور لائف آف محمد مولانا ابوالاعلیٰ مودودی 28 کتاب فی حروف اوائل السور علامہ موسیٰ جار الله 29 کتاب ترتیب السور علامہ موسیٰ جار الله 30 سیرت المہدی حضرت مرزا بشیر احمد 31 بحر محیط ابن حیان اندلسی 32 تحفہ اثنا عشریہ 33 النجم الثاقب حافظ غلام حليم المعروف ابن شیخ قطب الدین حسین بن محمد تقی 34 سوانح حضرت مجددالف ثانی شمس وارثی 35 موج کوثر شیخ محمد اکرام ایم اے 36 اقرب الموارد سعید الخورى الشرتوني اللبنانی 37 المنجد فى اللغة والاعلام لوییس معلوف

Page 126

حضرت مولانا ظفر محمد ظفر 1982-1908 MU'JIZAT -UL-QURAN WRITTEN BY HADHRAT MAULANA ZAFAR MUHAMMAD ZAFAR

Page 126