Mujadedeen Ummat

Mujadedeen Ummat

مجدّدین اُمّتِ محمدیہ اور اُن کے تجدیدی کارنامے

Author: Other Authors

Language: UR

UR
بزرگان اسلام

Book Content

Page 1

مجد دین اُمتِ محمدیہ اور اُن کے تجدیدی کارنامے في البيت المال الانشاء الناس

Page 2

مجددین امت محمدیه اور ان کے تجدیدی کارنامے

Page 3

نام کتاب: مجددین امت محمدیہ اور ان کے تجدیدی کارنامے سابقہ اشاعتیں: اشاعت ھذا ( انڈیا ) $2008., 2005 $2017 1000 تعداد: مطبع ناشر فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان نظارت نشر و اشاعت قادیان :ضلع گورداسپور، پنجاب، انڈیا، 143516 Name of the Book: MUJADEDEEN UMMAT-E-MUHAMMADIYA AUR UN KE TAJDEEDI KARNAAME Previous editions: 2005,2008 Present edition India: 2017 Quantity: Printed at: Published by: 1000 Fazl-e-Umar Printing Press Qadian Nazarat Nashr-o-Isha,at Qadian Dist; Gurdaspur, Punjab, India, 143516 ISBN: 81-7912-100-3

Page 4

فہرست مضامین نمبر شمار مضامین 1 2 3 4 5 6 فہرست مضامین الفتاء باره برج وجہ تصنیف پیش لفظ انتساب صفحہ نمبر اے بی سی GGGG ڈی ای I VII IX XIII 1 1 3 4 5 7 7 8 11 12 عرض حال (از مولانا سلطان محمود انور صاحب) چمن اسلام کے مالی ( از مکرم عبدالسمیع خان صاحب) دیباچہ ( مکرم مولانا دوست محمد شاہد صاحب) حفاظت اسلام کا ذریعہ سلسلہ مجددین ( مکر حافظ مظفر احمد صاحب) تجدید کیا ہے اصطلاحی معنی تجدید دین سے مراد مجد دکب پیدا ہوتے ہیں مجد دین کے آنے کا ثبوت قرآن وحدیث سے ہر زمانہ میں مصلح آتے ہیں مجد دین موسوی کے بعد مسجد دین محمدی کی ضرورت ضرورت مجددین دین کی تازگی کیلئے مجددین کی ضرورت خدا تعالیٰ کی صفت کلیم کا ثبوت مجددین کی آمد سے ملتا ہے 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19

Page 5

نمبر شمار مضامین صفحہ نمبر 20 21 23 2222222 مجددین کے ذریعہ زندہ خدا کا ظہور 13 حدیث مجددین 13 صحت حدیث حدیث کا مطلب اور حکمت سلسلہ مجددین اور اسلام کی امتیازی خصوصیت مجدد کے آنے کا وقت صدی کاسر 13 14 17 21 22 23 24 27 28 28 29 30 36 39 39 222222223223 2 40 کیا ہر صدی کے سر پر مجدد کا آنا ضروری ہے؟ علامات مجددین مجدد کی خصوصیات کیا مجدد کیلئے دعوئی لازمی ہے مَنْ يُجَدِّدُ الائمة من القریش سے مراد کیا مجدد پر ایمان لانا ضروری ہے 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 مجد دین کی تعیین فهرست مجددین امت محمد حوالہ جات پہلی صدی کے مجد د حضرت عمر بن عبد العزیز ولادت و نسب خلافت سے قبل بشارت

Page 6

نمبر شمار مضامین صفحہ نمبر سریر آرائے خلافت ہونے کے بعد وفات 40 41 تجدید دین تدوین حدیث 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 شریعت اسلامیہ وسنت نبوی کا نفاذ پابندی نماز زكوة شراب پر پابندی باغ فدک روزه خلافت کی اصلاح بیت المال کی اصلاح محاصل کی اصلاح جیل خانے کی اصلاح بدعات و رسومات کا استیصال مذہبی اصلاح معاصرین کی گواہی اشاعت اسلام حوالہ جات دوسری صدی کے مجد د حضرت امام شافعی ولادت نام ونسب 41 41 42 43 43 44 44 44 44 45 46 46 47 48 49 49 51 53 54

Page 7

و نمبر شمار مضامین 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 76 مختصر حالات زندگی وفات بشارت نبوی دوسری صدی کے مجدد اس زمانہ کے حالات امام شافعی کی یگانہ روزگار شخصیت خدا داد صلاحیتوں کے مالک عباسی عصر میں آپ کا فاضلانہ مقام فضائل مناقب طریق اجتہاد شافعی مسلک تجدیدی کارنامے علوم دینیہ کی اشاعت امام شافعی اور قرآن امام شافعی اور علم حدیث 77 لا الله لا 78 79 80 81 82 اصلاح علوم حدیث سلسلة الذهب فقہ اور امام شافعی اختلافی مسائل میں امام صاحب کا مسلک امام شافعی اور علم کلام قیاس ، استحسان اور امام شافعی صفحہ نمبر 54 54 54 55 55 56 57 57 58 59 59 60 60 61 61 63 65 65 66 68 69

Page 8

نمبر شمار 83 84 85 86 87 88 89 90 91 92 93 31 ∞ 22222222222 94 95 96 97 98 99 100 101 102 103 متفرق امام شافعی کے اقوال مختلفہ تصنیفات اصول تصنیف حوالہ جات مضامین تیسری صدی کے مجد دحضرت ابوالحسن اشعری ولادت و ابتدائی حالات وفات/ اعتزالی دور اعتزال سے علیحدگی تجدیدی کارنامے معتزلہ سے اختلاف تصانیف کتب کی اقسام حوالہ جات چوتھی صدی کے مجد دحضرت ابوبکر باقلانی ولادت و تعارف اس زمانے کے مسائل وفات تجدیدی کارنامے تصنیفی کام حوالہ جات صفحہ نمبر 70 71 لا داد 71 73 75 له لا لا 88 من من 76 77 77 78 80 80 81 83 84 85 85 86 86 87 89

Page 9

نمبر شمار 104 105 106 107 108 109 110 111 112 113 114 115 116 117 118 119 120 121 122 123 124 مضامین پانچویں صدی کے مجدد حضرت امام غزائی حالات زندگی امام غزائی کے متعلق ارشادات حضرت مسیح موعود حضرت امام غزائی کے زمانہ کے پیر زادے اور فقراء وفات حوالہ جات چھٹی صدی کے مجد د حضرت سید عبد القادر جیلانی صفحہ نمبر 90 91 94 95 96 97 98 2022 ولادت و نام و نسب حالات زمانه عظیم روحانی مقام عظمت کردار دیدار رسول اور علم لدنی تجدیدی کارنامے شکستہ دلوں کیلئے موجب راحت تعلیمات قبولیت دعا راست گوئی تصانیف وفات آپ کی سیرت بزبان حضرت مسیح پاک آپ کا نفس بڑا مظہر تھا 99 99 100 103 105 105 106 107 108 108 109 110 110 110

Page 10

ز نمبر شمار خدا کے مقرب مضامین فتوح الغیب سوانح شیخ عبد القادر فتوح الغیب کی تعریف سید عبدالقادر جیلانی ” نہایت حسین تھے عشق الہی کا خاصہ صفحہ نمبر 111 112 112 125 126 127 128 129 130 131 132 133 134 135 136 137 138 139 140 141 142 143 144 145 146 سید عبدالقادر جیلانی کی فضیلت حضرت شیخ عبدالقادر کا مقام انعام حضرت شیخ عبد القادر کی کتب توحید سے بھری ہوئی ہیں میری روح سید عبد القادر جیلانی کی روح سے مناسبت رکھتی ہے اندرونی تبلیغ اور اصلاح اظہار علی الحق بیرونی تبلیغ حوالہ جات ساتویں صدی کے مجدد حضرت خواجہ معین الدین چشتی ولادت نام و نسب ابتدائی حالات وفات با خدا انسان.روحانی مقام حالات زندگی دیدار رسول اور بعثت شخصیت و عظمت ریاضت 112 113 113 114 114 115 115 116 118 120 123 124 124 124 125 125 126 126 127

Page 11

نمبر شمار مضامین صفحہ نمبر 147 148 149 150 151 152 153 154 155 156 157 158 159 160 161 162 163 164 165 166 167 اخلاق حسنه تعلیمات تجدیدی کارنامے تصانیف فنافی الرسول حوالہ جات ساتویں صدی کے ایک اور مسجد د حضرت امام ابن تیمیہ ولادت نام ونسب مختصر حالات زندگی وفات و نماز جنازه مناقب اس دور کی حالت زار تجدیدی کارنامے رسومات اور بد عقائد کے خلاف جہاد مردہ پرستی کے خلاف جہاد قبر پرستی کے خلاف جہاد شراب نوشی بدعات و منکرات کا ازالہ جیل خانے میں اصلاحی اقدام رو فلسفه علوم شریعیہ کا احیاء علم تفسیر 127 128 128 130 130 132 133 134 135 135 136 137 138 138 139 139 139 140 140 141 142

Page 12

نمبر شمار مضامین صفحہ نمبر 168 169 170 171 172 173 174 175 176 177 178 179 180 181 182 183 184 185 186 187 188 سنت و حدیث کی ترویج علم فقہ اور امام صاحب دیگر فقہاء سے اختلاف علم اصول فقہ علم کلام تصانیف جذبہ جہاد امام ابن تیمیہ نے تاتاریوں کے خلاف تلوار کیوں اٹھائی کو ہستانیوں کو تادیب و تبلیغ رو عیسائیت تجدید بذریعہ خطابت تجدید بذریعہ تدریس وافتاء حوالہ جات آٹھویں صدی کے مجد د حضرت علامہ ابن حجر عسقلانی ولادت.نام و نسب حالات زندگی وفات - شخصیت و کردار مسلمانوں کی حالت تجدیدی کارنامے تصانیف حوالہ جات 142 142 142 143 144 144 145 145 148 148 148 150 151 153 154 154 155 157 157 158 160

Page 13

نمبر شمار ص مضامین نویں صدی کے مجد د حضرت امام جلال الدین سیوطی صفحہ نمبر 189 190 191 192 193 194 195 196 197 198 199 200 201 202 203 204 205 206 207 208 209 تعارف وفات تجدید دین تصنیفی تجدیدی کارنامے علم حدیث تصانیف احمدیت اور جلال الدین سیوطی حوالہ جات دسویں صدی کے مجد دعلامہ شیخ محمد طاہر پینٹی حالات زندگی پیدائش حضرت محمد طاہر گجراتی" کا مباہلہ حوالہ جات گیارہویں صدی کے مجد د حضرت شیخ احمد سرہندی مجددالف ثانی ولادت مختصر حالات زندگی بلند روحانی مقام مسلمانوں کی حالت زار دیگر حالات زمانه وفات 161 162 162 162 162 163 163 165 166 167 168 169 169 173 175 176 177 178 179 179 181

Page 14

b نمبر شمار مضامین صفحہ نمبر 210 211 212 213 214 215 216 217 218 219 220 221 222 223 224 225 226 227 228 229 230 تجدیدی کارنامے دعوی مجددیت 181 181 تعلیمات اتباع سنت حقوق العباد وحدت الشہود رو فلسفه بادشاہ وقت کو تبلیغ ایام اسیری میں تبلیغ آپ کی تبلیغ کا اثر تصانیف آپ کا جاری کردہ طریقہ مجددیہ احمدیت اور حضرت مجددالف ثانی ارشادات حضرت مسیح موعود درباره حضرت مجددالف ثانی سرہندی نبوت کی حقیقت محدث کی تعریف 183 183 184 184 185 185 186 187 187 187 187 188 189 190 191 ہر نبی کے وقت ابتلاء آئے 191 سید احمد سرہندی کی پیشگوئی آخری احمد کے متعلق ایک اور پیشگوئی ایک پیشگوئی جوحرف بحرف پوری ہوئی 191 192 192

Page 15

ع نمبر شمار مضامین صفحہ نمبر اور نگ زیب عالمگیر کا تذکرہ 192 حوالہ جات بارہویں صدی کے مجد د حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ولادت و حالات زندگی 231 232 233 234 235 236 237 238 239 240 241 242 243 244 245 246 247 248 249 250 251 حالات زمانه دعوی مجددیت تجدیدی کارنامے آپ کا سب سے بڑا کارنامہ ناسخ و منسوخ سنت و حدیث کی ترویج بدعات کے خلاف جہاد رو فلسفه تصانیف تلقین جهاد دعوت الی اللہ امراء سے خطاب فوجیوں سے خطاب اہل صنعت و حرفت سے خطاب پیرزادوں سے خطاب عالمان دین سے خطاب 194 196 197 197 198 200 201 201 202 202 206 207 207 207 208 209 209 209 209 210

Page 16

نمبر شمار 252 253 254 255 256 257 258 259 260 261 262 263 264 265 266 267 268 269 270 271 272 ف 6.مضامین خشک زاہدوں اور کنج نشینوں سے خطاب صفحہ نمبر 210 210 امت مسلمہ سے خطاب احمدیت اور شاہ ولی اللہ ختم نبوت حوالہ جات تیرھویں صدی کے مجد د حضرت سید احمد بریلوی شہید ولادت و عہد طفولیت مقصد حیات عظمت کردار فطرتی سعادت اعلیٰ اخلاق توحید الہی سے محبت آپ کو شب قدرنصیب ہوئی علم حقیقی سے مراد تصانیف تجدیدی کارنامے دعوی مجددیت دعوت اصلاح متعد د دوره جات طریقہ محمدیہ کا قیام بدعات کے خلاف جہاد 211 212 213 215 216 216 216 217 217 218 218 218 219 219 219 220 221 221 222

Page 17

نمبر شمار ل مضامین صفحہ نمبر 273 بیوہ سے نکاح ثانی کرنا 274 قبر پرستی کے خلاف تعلیم 275 دعوت ارشاد 276 تبت میں تبلیغ 277 ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں تبلیغ 278 کلکتہ میں تبلیغ 279 برما میں تبلیغ 280 آپ کی تجدید دین کا اثر 281 سفر حج اور احیائے اسلام 282 جہاد 222 223 224 224 225 225 226 226 227 228 283 انگریزوں سے جہاد کے بارہ میں جماعت احمدیہ اور سید صاحب ہم مسلک ہیں 229 284 285 استقامت شہادت 286 حضرت مسیح موعود کے ارشادات 287 سید صاحب کے شروع کردہ کام کا اتمام 288 اپنا بھائی 289 حضرت سید صاحب صرف ہندوستان کے مجدد تھے 290 سید احمد صاحب بریلوی بطور ا رہاص 291 سید احمد بریلوی کا ساتھی مسیح موعود کے چرنوں میں 292 سید صاحب غافلوں پر حجت تھے 293 سَلَامٌ عَلَى الْيَاسِين 231 232 233 233 234 234 235 235 235 236

Page 18

نمبر شمار مضامین صفحہ نمبر 294 حوالہ جات 295 ایک نئی تحقیق 296 ایک خط WALI SONGO 297 298 ایک خط 299 حضرت عثمان ڈان فودیو 300 حضرت عثمان ڈان فود یو کے متعلق ایک ارشاد 301 پیدائش 302 نسب نامه 303 ابتدائی علم 304 305 306 307 308 309 310 311 312 مذہب و مسلک اخلاق فاضلہ حج بیت اللہ کا شرف دعوی مجددیت احیائے سنت و تجدید دین ہجرت امیر المومنین کا خطاب شیخ عثمان ڈان فودیو مجد دزمانہ تھے ظہور امام مہدی کے متعلق پیشگوئی 313 مہدی کی سچائی کی علامت سورج اور چاند گرہن 314 تصنیفات 237 240 241 242 258 259 260 260 260 260 261 261 261 262 262 263 264 264 265 266 266

Page 19

نمبر شمار مضامین صفحہ نمبر 315 316 وفات 266 علمی کارنامے 317 چودھویں صدی کے مجدد 318 319 320 321 322 323 324 325 326 327 328 329 330 331 332 333 334 335 حضرت خلیفہ اسیح الرابع سے مجدد کے متعلق ایک سوال اور اس کا جواب چودھویں صدی کے مجدد کے متعلق ہماری طرف سے ایک مثبت جواب ساری دنیا کیلئے مجدد فکر انگیز تحریر حوالہ جات چودھویں صدی کے مجدد اور امام مہدی تعارف مسیح اور مہدی حاکم.کاسر صلیب مؤید اسلام معلم قرآن مسیح موعود نام کی مصلحت مسیح موعود.اس زمانہ میں خدا کا مامور مثیل مسیح مجد دوقت جری اللہ فی حلل الا نبیاء امام الزمان خلیفۃ اللہ 266 267 268 276 271 271 273 275 276 276 277 277 277 278 278 279 280 280 282 283

Page 20

نمبر شمار 336 337 338 339 340 341 342 343 344 345 346 347 348 349 350 مضامین فرشتوں کا نزول اور کامیابی کی بشارت آخری نور عنایات الہی دار النجات کا دروازہ قرآن کی خوبیاں غلبه دین تعلیمات حقہ کی اشاعت خوشخبری موسیٰ کا طور نور کے چشم صراط مستقیم مسیح و مہدی کا مقام اور قرآن شریف مسیح اور مہدی کا مقام اور احادیث مسیح اور مہدی کا مقام اور علماء و بزرگان امت حضرت محمد بن سیرین 351 حضرت امام باقر علیہ السلام 352 حضرت امام عبدالرزاق کاشانی 353 354 355 عارف ربانی محبوب سبحانی سید عبدالکریم جیلانی حضرت ملا عبدالرحمن جامی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی 356 شیخ محمد اکرم صابری صفحہ نمبر 283 283 284 286 287 287 287 288 288 288 288 290 291 292 292 292 292 292 293 293 293

Page 21

نمبر شمار مضامین صفحہ نمبر 357 358 359 360 361 362 363 جناب امام بخش ناسخ 293 حضرت خواجہ فرید الدین شیعہ مجتہد علامہ علی الحائری شیعہ مجہتد سید محمد سبطین قاری محمد طیب سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند حضرت مسیح موعود کے کارنامے زندہ خدا عطا کیا 294 294 294 294 296 296 299 302 318 320 329 329 329 330 330 330 331 331 331 332 364 قرآن مجید کا ارفع مقام 365 قرآن کریم کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ 366 ملائکہ کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ 367 انبیاء کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ 368 زندہ رسول 369 تمام آدم زادوں کیلئے ایک ہی رسول اور ایک ہی شفیع 370 ہمیشہ کیلئے جلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا نبی 371 بنی نوع انسان کا بے نظیر ہمدرد 372 نبی کریم کی فضیلت کل انبیاء پر میرے ایمان کا جزو اعظم اعلیٰ درجہ کا جوانمرد نبی اعلیٰ درجہ کا نور جس کے عالی مقام کا انتہاء معلوم نہیں ہوسکتا خدا نما 373 374 375 376 377 سب سے افضل و اعلی و اکمل وارفع واجلی واصفی نبی

Page 22

نمبر شمار 378 مجددا عظم حضرت محمد الله مضامین 379 ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں 380 381 382 انسان کامل اور کامل نبی جس کے ساتھ ہم...اس عالم گزران سے کوچ کریں گے حقیقی دین 383 پاکیزه اسلامی معاشرہ 384 پاکیزہ تبدیلیاں 385 اختلافی مسائل میں صحیح فیصلہ 386 387 388 وفات حضرت عیسی علیہ السلام روحانی خزائن خدمت خلق 389 اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کے سامان 390 391 393 393 394 امن عامہ کا قیام میں اُس کی طرف سے ہوں علمی کارنامے (کتب کی فہرست ) حرف آخر مراجع والمصادر صفحہ نمبر 332 333 333 333 334 335 336 339 339 340 342 344 350 353 354 356 357

Page 23

اے باره برج حضرت خلیفہ مسیح الرابع نے سورۃ الحجر کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: - اس کے بعد کی آیات میں بروج کا ذکر فرمایا گیا ہے جو سورۃ البروج کی یاد دلاتا ہے اور ہم ہی اس کلام کی حفاظت کریں گئے" کے صلى الله مضمون پر سے پردہ اٹھاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی غلامی میں اللہ تعالیٰ کی - طرف سے ایسے لوگ مامور ہوتے رہیں گے جو قرآن کریم کی حفاظت کیلئے ہمہ وقت مستعد رہیں گے.یہاں بروج میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ جو مجددین رسول اللہ ﷺ کے بعد بارہ برجوں کے طور پر آتے رہے وہ بھی اسی کام پر مامور تھے.ترخية القرآن حضرت خلیلة السبع الرابع صفحه 423

Page 24

بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو النــ اصر وجہ تصنیف فروری 1998ء میں ایک مجلس سوال و جواب میں کسی احمدی دوست نے حضرت خلیفہ امسیح الرابع سے سوال کیا کہ آیا جماعت میں مجددین اسلام کے حالات اکٹھے کتابی صورت میں جماعت نے شائع کئے ہیں.جواب میں ارشاد فرمایا کہ ”نہیں“.اس پر توجہ اس طرف مبذول ہوئی کہ اگر مجد دین اُمت کے حالات اور کارنامے ایک کتاب میں جمع ہو جا ئیں تو مفید ہوگا.چنانچہ اس کارخیر کیلئے خاکسار ( صفدر نذیر گولیکی ) نے جب توجہ کی تو مکرم و محترم برادرم نصیر احمد انجم ( مربی سلسلہ ) استاذ جامعہ احمدیہ کا مقالہ اسی عنوان سے مل گیا جسے حالات کے مطابق مزین کر کے ہم مسجد دین امت محمدیہ اور ان کے تجدیدی کارنامے کے نام سے پیش کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ اسے مقبول عام بنادے.آمین

Page 25

سی پیش لفظ مسلم دنیا بالعموم خدا کی طرف سے ملنے پر عظیم تر انعام الہی مثلا مصلحین کی آمد کے حوالے سے ایک طویل انتظار جو اب مایوسی میں بدلتا نظر آتا ہے کا شکار ہے.ہم سمجھتے ہیں کہ چونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آمدہ بڑے انعام کا انکار کرنے کی وجہ سے باقی انعامات بھی اللہ تعالیٰ نے چھین لیے ہیں.مجددین کا سلسلہ جو پہلی صدی کے سر پر شروع ہوا تھا وہ تیرھویں صدی تک آکر بظاہر ان کی نظر میں ختم ہو گیا.اور پھر چودھویں صدی میں آنے والے مجدد کا انہوں نے انکار کر دیا.لیکن جماعت احمدیہ کے نزد یک خدا کے انعامات کا سلسلہ بدستور جاری ہے.پہلے بھی خدا کے نیک بندے رشد و ہدایت کے نام پر مامور ہوتے رہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے.رُشد و ہدایت کے اس چودہ سو سالہ طویل دور میں چند نابغہ روزگار ہستیوں کا ذکر جو مجدد بنا کر اصلاح خلق کی خاطر دُنیا میں آئیں ہماری اس کتاب کا موضوع ہے.اس جگہ ہم نے تمام مجددین کے تفصیلی حالات خوف طوالت سے چھوڑ کر صرف ہر صدی کے چند مشہور و معروف مجددین کا تذکرہ کر دیا ہے.ان مجددین کے انتخاب میں ان کے تجدیدی کام کے لحاظ سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا یہ ارشاد ملحوظ رکھا ہے کہ:- اللہ تعالیٰ ہر صدی پر ایک مجددکو بھیجتا ہے جو دین کے اس حصے کو تازہ کرتا ہے جس پر کوئی آفت آئی ہو.اے اسی طرح حضرت اقدس نے جس جس مجدد کا ذکر خیر اپنی کتابوں میں فرمایا ہے اس سے بھی ہم نے تیرہ صدیوں کے مجددین کے انتخاب میں راہنمائی لی ہے.ان تمام امور کو مدنظر رکھنے کے باوجود بھی ہمارا یہ دعوی نہیں کہ مجددین کی یہ فہرست آخری اور حتمی ہے بلکہ جیسا کہ ہم نے کہا مجددین کو تیرہ کے عدد میں محدود نہیں کیا جاسکتا بلکہ کئی لحاظ سے ان کی کئی فہرستیں بن سکتی ہیں صرف بعض پہلوؤں

Page 26

سے چند مشہور مجددین کا تعارف کر وایا جارہا ہے.ڈی مزید برآں موضوع سے متعلقہ حضرت مسیح موعود کی تحریرات ، خلفاء مسیح پاک کے ارشادات بھی حسب موقع پیش کیے ہیں تا کہ ان شخصیات کی اہمیت و مقام مزید واضح ہو جائے.اس کتاب کی تیاری میں مکرم مولا نا عبدالستار خانصاحب سابق مربی سپین اور مکرم عثمان شاہد صاحب مربی سلسلہ نے بہت تعاون فرمایا جس کیلئے ہم تہہ دل سے مشکور ہیں.اس کے علاوہ درج ذیل اصحاب نے بھی معاونت فرمائی.ا.مکرم مشہود احمد ظفر صاحب مربی سلسلہ ۲.مکرم محمد احمد فہیم صاحب مربی سلسلہ مکرم را نا عمران اسلم صاحب ۴.مکرم ہمایوں طاہر صاحب ۵ مکرم لقمان احمد شاد صاحب ۶.مکرم وزیر خانصاحب ے.مکرم محمد افضل متین صاحب مکرم بدر الزماں صاحب اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر عطا فرمائے.اور ہماری اس کوشش کو مفید ثمرات کی حامل بنائے.آمین

Page 27

ای انتساب ان نیک فطرت انسانوں کے نام جنہوں نے چودھویں صدی کے مجد دکو آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق قبول کیا

Page 28

I بسم اللہ الرحمن الرحیم عرض حال از محترم مولانا سلطان محمود انور صاحب ناظر خدمت درویشاں ربوہ حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی ﷺ کے فرمودات میں سے تین ایسے فرمان ہیں جن کا اُمت کے مستقبل سے تعلق تھا اور جو کثرت اور تواتر کے ساتھ کتب احادیث میں محفوظ چلے آتے ہیں.ان تین اہم فرمانوں میں سے ایک فرمان اپنے اندر کھلے انتباہ کا رنگ رکھتا ہے اور دوسرے دو فرمان امت کے روشن مستقبل کی بابت دراصل دو عظیم بشارتیں ہیں.آنحضرت ﷺ کا پہلا فرمان جو انتباہ پر مشتمل ہے وہ اس پس منظر سے اہمیت پکڑتا ہے کہ پاک محمد مصطفی ﷺ نے اپنے 23 سالہ عہد نبوت میں اپنا لحہ لمحہ اُمت کی تعمیر اور قیام وحدت کیلئے وقف کر رکھا تھا.اور یہ وحدت امت کی جہاں بے مثل کیفیت تھی وہاں آنحضرت کے مستقبل کے پیش نظر حسب ذیل انتباہ بھی امت کیلئے ضروری سمجھتے تھے.چنانچہ فرمایا: - صلى الله عن ابي هريرة رضى الله عنه قال قال رسول الله عليه تَفَرَّقت اليهودُ عَلَى إِحْدَى وَ سَبْعِينَ اَوِ اثْنَتَيْنِ وَ سَبْعِينَ فِرْقَةِ وَالنَّصَارَى مِثْلَ ذَلِكَ و تَفْتَرِقُ أمتى عَلَى ثَلَاثٍ وَ سَبْعِينَ فِرْقَةً“.(ترمذی ابواب الایمان باب افتراق هذه الامة ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہودی اکہتر یا بہتر فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے.اسی طرح نصاریٰ کا حال ہوا اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی.یہ فرمان بلاشبہ ایک انتباہ تھا.لیکن امت کے علماء اور چیدہ شخصیتوں نے امت واحدہ کوٹکڑے ٹکڑے کرنے میں کبھی تامل سے کام نہیں لیا.اور امت کے یہ ” مہربان“ ابھی ٹکڑے کرنے کا کھیل برابر کھیل رہے ہیں.سید الانبیاء ﷺ کو چونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے امت واحدہ کے عبرتناک مستقبل

Page 29

کا علم دیا گیا تھا کہ بیرونی دشمن نہیں بلکہ امت کے اندرونی دشمن یعنی علماء ، امت کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیں گے.اس لیے آنحضرت ﷺ کی روح آستانہ الہی پہ مضطرب پڑی رہی جب تک کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس بشارت کا انکشاف نہ ہو گیا.بحوالہ ابوداؤد کتاب الملاحم باب ما يذكر في قرن المئة روایت ہے.عن ابي هريرة رضى الله عنه فِيمَا اَعْلَمُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ إِنَّ اللهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِيْنَهَا“.ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس امت کیلئے ہر صدی کے سر پر ایسے لوگ کھڑے کرتا رہے گا جو اس امت کے دین کی تجدید کرتے رہیں گے.مقصد یہ پیش نظر تھا کہ فرقہ سازی چونکہ روز مرہ کے مسائل میں اپنی اپنی انا اور ہٹ دھرمی کے باعث ہوگی اس لیے جہاں سابقہ امتوں میں روز مرہ کے اختلافات کے تدارک کیلئے کوئی بالائی نظم ونسق نہ تھا.لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب پاک ﷺ کی مناجات کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے اختلافات امت کے شر سے بچنے کیلئے بشارت دی کہ ہر صدی کے سر پر اللہ تعالیٰ کسی ایسے وجود کو کھڑا کر دیا کرے گا جو ساتھ کے ساتھ حسب حالات وضرورت تجدید کا فریضہ ادا کرے.اس بشارت کے اندر حسب ذیل اہم نکات خصوصیت سے قابل توجہ ہیں.(1) با وجود قرآن کریم اور احادیث نبویہ کی موجودگی کے علمی اور عملی کام تخریب کاری کا کام نہیں روکے گا اس لئے جب ایک معین عرصہ گزرے گا تو اختلافات اور نفسانی تو جیہات کے شر سے امت کی سوچ فکر عمل و اتحاد اور یکجہتی کو بچانے کیلئے خود خدا تعالیٰ کی طرف سے اہتمام ہوا کرے گا اور مجدد کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعثت ہوگی.یہ سابقہ امتوں کے مقابل پر آنحضرت ﷺ کی امت پر اضافی رحمت اور شفقت اور حفاظت کا اہتمام ہوگا.(۲) تجدید سے مراد یہ نہ ہوگی کہ کوئی مجدد نئے احکام یا ردوبدل یا نسخ وترمیم کرنے والا ہوگا.ایسا وجو د شریعت محمدیہ کو قیامت تک مطلوب و در کار نہیں اور تجدید سے مراد علماء سو کی ان چیرہ دستیوں اور غلط نیز بگڑی ہوئی سوچوں کے شر سے دین محمدی کو بچانا ہے اور مضر اثرات کو

Page 30

III مٹانا ہے.سیہ دونوں باتیں ان اللہ یبعث کے اندر مضمر ہیں.علاوہ ازیں یہ امور بھی ان الله يبعث میں موجود ہیں.کہ (۱) مجدد بھیجنے کا فیصلہ کرنا (ب) شخصیت کا تعین و انتخاب ( ج ) علاقہ وجگہ کہ کس ملک / شہر / ماحول میں مجدد کام کرے (ح) وقت کب مجدد کا متقاضی ہے (د) مجدد کی علمی فکری راہنمائی (ز) مجدد کے فرائض کی بجا آوری میں اس کی راہنمائی اور تائید و حفاظت (و) ایک یا ایک سے زائد مسجد دمطلوب و درکار ہیں (ہ) مجدد کی مساعی کو مؤثر و نتیجہ خیز بنانا.یہ جملہ امور ایسے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی ذات کے سوا کوئی انسانی منصوبہ ان امور کو سر انجام نہیں دے سکتا.اس لیے فرمایا گیا کہ ان اللہ یبعث کہ ایسی پر حکمت و با مقصد بعثت خدائے رحیم وقد میر کی بارگاہ سے ہی ہوسکتی ہے.(۳) لهذه الامة کے الفاظ بھی اہم پہلور کھتے ہیں.(0) دل میں عربی زبان کے اعتبار سے یہ حقیقت بتائی گئی ہے کہ امت کے فائدہ یہ اہتمام ہوا کرے گا.اس کی ضرورت اس لیے محسوس فرمائی گئی کہ امت کی وحدت پارہ پارہ کرنے والے گروہ کبھی یہ گوارا نہیں کر سکتے کہ ان کی موجودگی میں کوئی اصلاحی یا تعمیری فکر میدان میں آئے یہی وجہ ہے کہ جس قدر مجد دین امت کی اصلاح اور تجدید کیلئے وقتاً فوقتاً آتے رہے ہیں ان کی بلا استثناء مخالفت اور مزاحمت ہوتی آئی ہے.(ب) لهذه الامة میں کسی معین گروه ، فرقہ یا طبقہ کا ذکر نہیں کیا گیا.اگر چہ امت کی وحدت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا لیکن یہ سبھی ٹکڑے دو حالتوں میں ہیں.ایک حالت ٹکڑا یا فرقہ بنانے والوں کی سوچ.جس کے تحت وہ اپنے سوا کسی دوسرے کو برداشت نہیں کرتے لیکن تجدید کا دائرہ اس فرمان نبوی کے ماتحت کسی خاص گروہ یا فرقہ سے متعلق نہیں بلکہ لهذه الامة ہے.اور یہی وجہ ہے کہ کسی مجدد وقت نے کسی خاص فرقہ یا گروہ تک اپنی خدمات کا دائرہ محدود نہیں رکھا.ہاں مختلف مجددین کو تقسیم کاروں نے اسی طرح باہم فرقوں کے لیبل لگارکھے ہیں جس طرح فرقوں میں امت کی وحدت کو بانٹے بیٹھے ہیں.

Page 31

IV (ج) لهذه الامة میں مسجد دین کے دائرہ کار کی بابت واضح راہنمائی ہے کہ ان کی سوچیں اور مساعی جمیلہ فرقہ بندی سے بالا اور آزاد ہیں.جب وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوں تو خدا تعالیٰ کی مخلوق میں امتیاز اور تفریق کے روادار کیسے ہو سکتے ہیں.پس وہ نہ کسی فرقہ میں شمار ہوں گے اور نہ کسی فرقہ کو وجود میں لائیں گے.(۴) امت کا دائرہ غیر محدود ہے اور قومیت، علاقائیت اور نظریات کی حدود سے بالا ہے.اس لئے جہاں بھی امت کا وجود ممکن ہوسکتا ہے وہاں ھذہ الامۃ کا عنوان صادق آتا ہے اور مجددیت کا دائرہ اس پر حاوی ہے.یہی وجہ ہے کہ ہر صدی کے مجدد تک بات محدود ہوتی تو تیرہ چودہ مجد دین تک تعداد محدود رہتی.لیکن چونکہ امت کی حدود متعین نہیں اس لیے مجد ڈین کی تعداد بھی غیر معین ہیں.ہر علاقہ اور ہر ملک اور قوم میں مسجد دین ظاہر ہوتے رہے.بعض معروف ٹھہرے تو بنیادی فہرست اور شمار میں آگئے.بعض معروف نہ ہوئے تو شمار میں نہیں آئے.لیکن حسب بشارت نبوی ان کی بعثت دنیا بھر میں ہوتی رہی.یہ پہلو لهذه الامة کا بہت ایمان افروز ہے.چنانچہ اس کی تصدیق اگلے الفاظ میں ملتی ہے.(۵) على راس كل مائة سنة.یعنی ہر صدی کے سر پر مجدد مبعوث ہوتا رہے گا.یہاں کل“ کا لفظ اگر استعمال نہ ہوتا تو پھر بھی مضمون واضح رہتا کہ صدی کے سر پر مبعوث ہوا کرے گا.لیکن چونکہ مختلف علاقوں اور قوموں میں سالوں اور صدیوں کا شمار الگ ہے.اسلامی تقویم کے مطابق سن ہجری سے صدی کا حساب ہوتا ہے.عیسوی تقویم کے مطابق سال اور صدی کا حساب الگ ہے.ہندی، ایرانی تقویم الگ الگ ہیں.اسی طرح اور بہت سی علاقائی و قومی سطح پر سال اور صدی کا حساب چلتا ہے.اگر فرمان نبوی اور بشارت نبوی میں صرف اسلامی تقویم کے مطابق صدی کے سر پر مجدد نے آنا تھا تو على راس مائة سنة سے مقصد پورا ہوسکتا تھا.لیکن امت صرف اسلامی بلاک تک تو محدود نہیں.بلکہ دنیا بھر میں امت کا پھیلاؤ ہے.تو کیا اسلامی بلاک سے باہر بھی صدی کے سر پر مجددین آئیں گے یا نہیں ؟ اس کا جواب ”کل “ کے لفظ میں موجود ہے کہ جہاں جہاں اور جس وقت کوئی صدی پوری ہوکر نئی صدی شروع ہوگی.تو امت کی نمائندگی اگر اس معیار پہ ہے کہ تجدید کی ضرورت حقہ ہے

Page 32

V تو وہاں کی صدی کے سر پر مجدد کی بعثت بھی ہوگی.یہی مقصد ان الفاظ سے عیاں ہے کہ على راس كل مائة سنة کہ جہاں جہاں صدی پوری ہورہی ہوگی اور امت کا وجود وہاں ہے تو مجد دضرور مبعوث ہو گا اور یہی وجہ ہے کہ جس حد تک معروف مجددین گزرے ہیں ان کی تعداد تیرہ چودہ سے کہیں زائد ہے اور بہت سے ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو عالمی سطح پہ شمار میں نہیں آتے لیکن ظہور ان کا لازماً ہوا ہے.امت کے روشن مستقبل کے متعلق دوسری عظیم بشارت: جب مجددین کا سلسلہ تیرہ صدیوں تک جاری رہا ( جن کی تفصیل اس کتاب میں قارئین ملاحظہ فرما ئیں گے ) تو دوطرح کے نئے تقاضے سامنے آئے.اول: تیرہ صدیوں کی مساعی کے باوجود امت کی وحدت بحال نہ ہوئی.جو نظام تجدید کے مؤثر ہونے کا ایک طبعی نتیجہ ٹھہرتا ہے.اگر چہ وقتی، مقامی یا علاقائی سطح پہ بنیادی اسلامی تعلیمات پر تجدید کے مثبت اثرات دنیا کے مشاہدہ میں آتے رہے مگر اندرونی تفرقہ نہ مٹا اور وحدت قائم نہ ہو پائی.دوئم دین مصطفوی کے خلاف بیرونی مخالفت مختلف پہلوؤں سے منتظم سطح پر شروع ہوگئی.عیسائیت کی یلغار، یہودی اور دہر یہ نظاموں کی مخالفانہ ریشہ دوانیاں، ہندو دھرم اور دیگر تہذیبوں اور سوسائٹیوں اور ایجنسیوں کا ٹارگٹ صرف امت بیچاری کو بنالیا گیا.عالمی سطح پر ذرائع رسل و رسائل، پریس میڈیا وغیرہ کی مہمات منظم انداز سے اس حد تک مجتمع ہو گئیں کہ اس امت کے اندر سے بھی بہت سے ایسے طبقات کا تعاون انہیں حاصل ہو گیا جو امت کی وحدت کو پامال کرنے کا رویہ شروع سے اپنائے چلے آرہے ہیں.گویا امت پر اندرونی اور بیرونی سطح پر بڑا مشکل اور کڑا وقت آ گیا اور یہ حالات متقاضی تھے کہ مجدد کے لیول (Level) سے اوپر کوئی آسمانی اہتمام ہو اور اسی صورتحال سے نپٹنے کیلئے آنحضرت ﷺ نے وہ عظیم بشارت امت کو عطا فرمائی جو مسند احمد جلد 4 صفحہ 273 اور مشکوۃ باب الانذار والنتخذ یر میں مذکور ہے.اس کا ترجمہ حسب ذیل ہے.ترجمہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے اندر نبوت موجود رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا پھر اللہ تعالیٰ یہ نعمت بھی اٹھالے گا.پھر ایک طاقتور اور مضبوط بادشاہت کا دور آئے گا.جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا

Page 33

VI وہ رہے گا.پھر اسے بھی اٹھالے گا اور ظالم اور جابر حکومت کا زمانہ آئے گا.پھر خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہوگئی.اس کے بعد حضور خاموش ہو گئے.آنحضرت ﷺ کی اس عظیم بشارت کی تفصیلات میں جانے کا موقع نہیں.بہر حال چونکہ امت کے حالات ایسی شکل اختیار کر چکے تھے کہ مجدد جو محدود ماحول اور محدود بساط رکھتا ہے عالمی سطح پر امت کے دفاع ، تربیت و تنظیم کے عظیم مقاصد پورے نہیں کر سکتا.اس لیے بشارت نبوی کے مطابق خلافت علی منہاج النبوت کی ضرورت لازمی شکل اختیار کر چکی ہے اور تیرھویں صدی کے بعد معمول کے مجدد کا ظہور یا بعثت نہ ہونا اس امر کا ثبوت ٹھہرتا ہے کہ اب امت کی وحدت اور استحکام کے معاملات خلافت علی منہاج نبوت کی ذیل میں آچکے ہیں.اور یہی وہ عظیم الشان بشارت نبوی تھی.کتاب ہذ اکرم نصیر احمد انجم صاحب استاذ جامعہ احمدیہ اور مکرم صفدر نذ یر گولیکی مربی سلسلہ نے بڑی محنت اور بڑی تحقیق کے بعد امت کے مجددین کرام کے سوانح و حالات سے قارئین کو باخبر کرنے کیلئے تیار کی ہے.وہ مجددین جنہوں نے اپنے اپنے وقت اور اپنے اپنے ماحول میں امت کی راہنمائی کیلئے علمی و تربیتی کاوشیں کیں اور امت کے اندرونی ماحول کی فضا بھی اکثر ان کیلئے سازگار نہ تھی.لیکن اپنی بعثت کے تقاضے جان جوکھوں سے انہوں نے پورے کئے.فجز اھم اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ کتاب ہذا کے مرتب کنندگان کو اجر عظیم عطا فرمائے جنہوں نے آج تک معروف مجددین کے حالات یکجا پیش کر دیئے جن کو دنیا اس وقت بھول چکی اور ان کے پاک کرداروں سے لاتعلق ہوئی بیٹھی ہے.اور خلافت علی منہاج النبوۃ کی قدر و اہمیت سے فیضیاب ہونے کیلئے تیار نہیں اور کوئی نہیں سوچتا کہ ایسی بے نیازی کے بعد امت کی وحدت کیونکر قائم ہو سکے گی.

Page 34

VII جمن اسلام کے مالی از محترم عبدالسمیع خانصاحب ایڈیٹر روز نامہ " الفضل اسلام کو دوسرے مذاہب پر ایک زبر دست امتیاز یہ حاصل ہے کہ اسلام کی آمد کے بعد خدا نے پہلے مذاہب کی نگرانی اور دیکھ بھال چھوڑ دی اور وہ ایک بغیر مالی کے باغ کی طرح ہیں جس کا کوئی دلی ہمدرد اور خیر خواہ نہیں ہوتا اور وہ باغ کم اور جھاڑ جھنکار کا مجموعہ زیادہ لگتا ہے.جس کے پودے بے رونق، پھل اگر ہوں تو بے ذائقہ یا تلخ، پھول بے رنگ اور بے خوشبودار اور راستے جنگل کا منظر پیش کرتے ہیں.یہی وجہ کہ اس باغ کی پرانی عظمت کے مداح تو بہت ہیں مگر اس کے تازہ پھلوں اور رونقوں کا کوئی چشم دید گواہ نہیں.محض قصوں اور کہانیوں پر گزارا ہے.بن برسات کے یہ کھیت خشک اور ویران ہو چکے ہیں.اس کے بالمقابل اسلام بھی ایک باغ کا منظر پیش کرتا ہے جس کے پھل خوش ذائقہ اور بکثرت ہیں.جس کے پھول ہر قسم کی خوشبو سے معطر ہیں.جس کے درختوں کی ڈالیاں آسمان سے باتیں کرتی ہیں اور جس کی جڑیں فطرت میں گہری پیوست ہیں.نظام قدرت کے تحت اس باغ میں بھی جڑی بوٹیاں پیدا ہوتی ہیں جو وقتاً فوقتاً پھلوں کو خراب کرنے اور پھولوں کا رس چوسنے کی کوشش کرتی ہیں.کیڑے مکوڑے بھی ظاہر ہوتے ہیں جو آنے والوں کی اذیت کا باعث بنتے ہیں.مگر چونکہ یہ خدا کا آخری مذہب اور کامل دین ہے اس لئے خدا نے قیامت تک اس کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے جس کا ایک طریق خدا نے خلافت کی شکل میں مقررفرمایا ہے.خلافت کے دور اولین اور دور آخرین کے درمیان جب امت بکھر گئی اور تتر بتر ہوگئی تو خدا نے قومی خلافت کی بجائے فردی خلافت کا نظام جاری کیا جسے اصطلاح میں مجددیت کہتے ہیں.اس ادارہ کے جوانمردوں نے اسلام کے چمن کیلئے مالی کا کام کیا.جھوٹی روایات کی آکاس بیلیں اکھاڑ پھینکیں ، بد رسومات کے طوق چاک کر دیے اور خدا تعالیٰ کی تازہ بتازہ تائید و نصرت سے نشان پر نشان دکھاتے رہے اور ایک عالم کو اس دین کا گرویدہ بناتے رہے.انہوں نے بیرونی حملہ

Page 35

VIII آوروں کا بھی دفاع کیا.ضرورت پڑی تو قلم سے اور وقت آیا تو تلوار اٹھائی اور اس گلشن کو نیست و نابود کرنے کا ارادہ رکھنے والوں اور دعوے کرنے والوں کے منہ پھیر دیے.یہ مجددین ہر صدی میں رسول کریم ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق کثرت کے ساتھ ظاہر ہوئے اور حق کا جھنڈا سر بلند رکھا.عالم اسلام کے ہر خطے، ہر قوم اور ہر طبقہ میں حسب حالات اور متقاضائے وقت شیر نر کی طرح میدان میں اترتے رہے.ان کی زندگیوں اور کارناموں کا مطالعہ اسلام کی تاریخ کا وجد آفرین باب ہی نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کی عظیم قوت قدسیہ کا ناقابل تردید ثبوت فراہم کرتا ہے اور یہ کتاب ہمیں اس مطالعہ کا بہترین مواد پیش کرتی ہے.ان عاشقان مصطفی نے دامے درمے سخنے اسلام کی بے پناہ خدمت کی اور پھر تیرھویں صدی کے آخر پر وہ جھنڈا مجدد الف آخر حضرت مسیح موعود کے ہاتھ میں تھما دیا.خدمت کی یہ چھوٹی چھوٹی نہریں ایک وسیع و عریض دریا کی صورت اختیار کر گئیں جو اپنے سارے جہاں میں اسلام کے باغ کو سیراب کر رہا ہے اور تجري من تحتها الا نھر کا منظر دکھاتا ہے.اب رنگوں اور ذائقوں سے مرصع اور خوشبوؤں میں بسا ہوا ایک پر بہار چمن ہے.ہم ان مجددین کی عظمت کو سلام کرتے ہوئے مجد دالف آخر کی ہر آواز پر لبیک کہنے کا عہد کرتے ہیں.

Page 36

IX دیباچه از : مکرم و محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب مؤرخ احمدیت صلى الله زیر نظر کتاب مربی سلسلہ احمد یہ جناب مولا نانصیر احمد انجم صاحب اور جناب مولانا صفدر نذیر گولیکی صاحب کی دیدہ ریزی تحقیق اور فکری بصیرت کا ایک دکش گلدستہ ہے.جس کی خوشبو تاریخ ملت کے تیرہ سو سالہ دریچوں کے مطالعاتی دروازے کھلتے ہی قلب و روح کو معطر کر دیتی ہے اور ان صدیوں میں تجدیدی کارنامے بجالانے والے بزرگان دیں کی قلمی تصویر نمایاں طور پر سامنے آجاتی ہے.دیباچہ میں مجھے اس آفاقی صداقت کو نمایاں کرنا ہے کہ آنحضرت واحد زندہ نبی اور خالق ارض و سما جل شانہ کے جاہ وجلال کے ابدی تخت پر رونق افروز ہیں اور کل کائنات کو اپنے بے شمار فیوض و برکات سے مالا مال کر رہے ہیں جس کا حیرت انگیز ثبوت یہ ہے کہ وصال نبوی کے بعد آپ کے انوار کی تجلیات کا سلسلہ نظام خلافت کی شکل میں قیامت تک جاری وساری ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ نے ”الوصیت میں پیشگوئی فرمائی ہے.بایں ہمہ جیسا کہ خود آنحضرت ﷺ نے قبل از وقت خبر دی.اس نظام خلافت کا پہلا دور آنحضور کے معابعد جاری ہوگا اور میں سال کے بعد پردہ عالم سے غائب ہو جائے گا.اس کے بعد آخری زمانہ میں مسیح موعود کی بعثت کے ساتھ ہی یہ آفاقی نظام دوبارہ منصہ شہود میں آئے گا اور پوری دنیا خدا کے نور سے جگمگا اُٹھے گی ع ہے یہ تقدیر خداوند کی تقدیروں ( مشکوۃ باب الانذار والتحذیر) آنحضرت ﷺ نے یہ بھی خبر دی کہ نظام خلافت کے دونوں ادوار کے دوران مسلم عوام پر آمریت اور شہنشاہیت مسلط ہو جائے گی جس کے نتیجہ میں جو غیر اسلامی افکار و نظریات پیدا ہوں گے اور ان کی نشاندہی اور دین مصطفیٰ کے نہایت حسین و جمیل چہرہ دکھانے کیلئے ہر صدی کے سر پر مجدد آئیں گے (ابوداؤد).چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا.مگر یہ سنہری دور تجدید محض

Page 37

X عبوری رنگ رکھتا تھا جسے وقتی اور عارضی طور پر آسمانی نظام خلافت کی نیابت کا شرف ضرور حاصل ہوا مگر اسے اس مقدس نظام کا متبادل ہر گز نہیں کہا جاسکتا.کیونکہ خلیفہ راشد بین الاقوامی شخصیت کا حامل ہوتا ہے، خدا کا نائب اور محبوب خدا کا نمائندہ جس کی بیعت فرض ہے.جو ایک وقت میں صرف ایک ہی ہوسکتا ہے.برخلاف مجدد کے جن کی تعداد معین نہیں.دوسرے یہ کہ مسجد دتجدید دین کیلئے اور خلیفہ تمکین دین کیلئے جلوہ گر ہوتا ہے (النور ).اور وہ بھی علاقائی اور صوبائی یاملکی سطح پر نہیں بلکہ بین الاقوامی حیثیت سے جس پر خلافت راشدہ کی تاریخ شاہد ناطق ہے.قرآن مجید کی اصطلاح میں ہر مجدد نبی نہیں ہوتا مگر ہر نبی مجد دضرور ہوتا ہے اور اس نقطہ نگاہ سے حضرت مسیح موعود نے آنحضرت ﷺ کو مجد داعظم اور خود کو مجدد مآة حاضرہ “ قرار دیا (لیکچر سیالکوٹ ، صفحہ 604 ).حضرت اقدس کی نسبت دہلی کے شہرہ آفاق صوفی اور روحانی پیشوا حضرت خواجہ میر درد رحمتہ اللہ علیہ نے خبر دی ہے کہ : - اس نیر اعظم کے نور میں سب فرقوں کے ستاروں کی روشنی گم ہو جائے گی.(میخانه در د صفحه 128 مرتبہ سید ناصر نذیر فراق) بایں ہمہ ہر ایک صاحب بصیرت صدائے ربانی بن کر منادی کر سکتا ہے کہ جس طرح حضرت آدم سے حضرت عیسی علیہ السلام جیسے خلفاء یعنی انبیاء صرف مجدد اعظم محمد عربی ﷺ کی آسمانی بادشاہت کی منادی کیلئے تشریف لائے تھے.اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز سے حضرت سید احمد بریلوی شہید بالاکوٹ تک متعدد مجددین منصہ شہود پر آئے.ان کی آمد مسیح موعود اور مہدی مسعود کے استقبال کی تیاری کیلئے تھی.جیسا کہ حضرت فرید الدین عطار رحمتہ اللہ ( ولادت 513 ھ وفات 627ھ ) کے درج ذیل اشعار سے خوب واضح ہوتا ہے صد ہزار آں اولیاء روئے زمیں از خدا خوہند مهدی یقیں 3 9' یا الہی مهدیم از غیب آر عدل گرد تا جہاں , آشکار بنا بیع المودة جلد 3 صفحہ 141 مؤلفہ حضرت شیخ سلیمان متوفی 1294ھ) یعنی روئے زمین پر لاکھوں اولیاء خدا تعالیٰ سے یقیناً مہدی کے خواستگار ہیں.الہی

Page 38

XI میرے مہدی کو غیب سے ظاہر فرمادے تا دنیائے عدل منصہ شہود پر آجائے.قادیان سے ہجرت سے قبل منصب مجددیت کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ نے یہ تصریح فرمائی کہ خلیفہ تو خود مجدد ہوتا ہے اور اس کا کام ہی احکام شریعت کو نافذ کرنا اور دین کو قائم کرنا ہوتا ہے.پھر اس کی موجودگی میں مجد دکس طرح آ سکتا ہے.مجد د تو اس وقت آیا کرتا ہے جب دین میں بگاڑ پیدا ہو جائے“ (الفضل 8 اپریل 1947 ء صفحہ 4) ازاں بعد سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اپنے روح پرور خطاب (27 راکتو بر 1968ء) میں مجددیت اور خلافت پر تیز روشنی ڈالی جو ہمیشہ مینارہ نور ثابت ہوگی.حضور نے فرمایا:- جیسا کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا حضور اس صدی کے مجدد ہی نہیں مجددالف آخر بھی ہیں.لہذا اب اس صدی کے سر پر پہلے مجددین کی طرح کسی نئے مجدد کی آمد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.البتہ حضور کے بعد قائم ہونے والی خلافت راشدہ کی ماتحتی میں ہر زمانہ میں تجدید دین کا فریضہ ادا کرنے والے ائمہ وصلحاء پیدا ہوتے چلے جائیں گے اور خلافت راشدہ کی برکت کے طفیل ایسے مجددین سے جو خلافت راشدہ کی ماتحتی میں خلافت ائمہ کے مظہر ہوں گے کوئی زمانہ بھی خالی نہیں ہوگا“.(انصار اللہ ربوہ.فروری 1969 ء صفحہ 15) حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ (ولادت 1445 ء وفات 1505ء) کی مشہور پیشگوئی ہے کہ عیسى نبى الله ذو الآيات يجددا لدين لهذه الامة....بعد لم يبق من مجدد (حج الكرامه في آثار القیامہ 138 مرتبہ نواب صدیق حسن خان اشاعت ذوالحجہ 1291ھ مطابق جنوری 1875ء).یعنی مسیح موعود جنبی اللہ اور الہی نشانات کا مظہر ہوگا اس امت کے دین کی تجدید کرے گا اور اس کے بعد کوئی مجدد نہ ہو گا.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے مندرجہ بالا خطاب میں اسی پیشگوئی کی روح پرور تشریح و توضیح فرمائی ہے جو قیامت تک مشعل راہ کا کام دے گی.چونکہ نظام خلافت ہی سے عالمی سطح پر دین مصطفوی کی تجدید و تمکین دونوں ہی وابستہ ہیں اس لیے آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کو تاکیدی وصیت فرمائی کہ :- فان رئيت يومئذٍ خليفة الله فى الارض فالزمه و آن نهک جسمک و اخذ مالک (مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 403) یعنی اس زمانہ میں اگر زمین پر کوئی

Page 39

XII خلیفۃ اللہ دیکھو تو اس کی فدائی وشیدائی بن جانا.خواہ تمہارا جسم لہولہان اور تمہاری جائیداد غارت کر دی جائے.سیہ وہ حقیقی پس منظر تھا جس کی روشنی میں حضرت مصلح موعودؓ نے 22 /اگست 1947ء کو ہجرت سے صرف نو دن قبل جماعت احمدیہ عالمگیر کو یہ پر شوکت پیغام دیا اور اسے دنیا بھر کی جماعتوں میں وسیع پیمانے پر پھیلانے کی تلقین بھی فرمائی.خلافت زندہ رہے اور اس کے گرد جان دینے کیلئے ہر مومن آمادہ کھڑا ہو.میں یقین رکھتا ہوں کہ جلد سے جلد اپنے اپنے ملکوں کی طرف توجہ دیں گے اور ہمیشہ خلیفہ وقت کے جو ایک وقت میں ایک ہی ہو سکتا ہے فرمانبردار رہیں گے اور اس کے حکموں کے مطابق ( دین ) کی خدمات کریں گئے تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 723) جب گزرجائیں گے ہم تم پر پڑے گا سب بار ستیاں ترک کرو طالب آرام نہ ہو حشر کے روز نہ کرنا ہمیں رسواء و خراب پیارو آموخته درس وفا خام نہ ہو

Page 40

XIII حفاظت اسلام کا ذریعہ سلسلہ مجددین قرآن شریف خدا کا کلام ہے اور ہمارے نبی محمد مصطفی میلہ کا بے مثل معجزہ ہے.یہ عظیم الشان کلام کیا بلحاظ مضمون و معانی، کیا بلحاظ فصاحت و بلاغت اور کیا بلحاظ ظاہری و باطنی حسن اپنی مثال آپ ہے اور باوجود مطالبہ کے آج تک کسی بھی پہلو سے اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کی جاسکی.اس میں شک نہیں کہ گزشتہ الہامی کتابیں بھی خدا کا کلام تھیں مگر آخری شریعت اور کامل تعلیم ہونے کا دعویٰ کسی نے بھی نہیں کیا.یہی وجہ ہے کہ مرور زمانہ سے ان میں بگاڑ پیدا ہو گیا.ضروری تھا کہ بنی نوع انسان کی ہدایت کیلئے اس کامل و مکمل آخری والہی شریعت کی حفاظت کا دائمی انتظام ہوتا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے خود یہ وعدہ فرمایا کہ انا نحن نزلنا الذکر وانا له لحفظون.ہم نے یہ پاک کلام اتارا ہے اور ہم خود اس کی حفاظت کریں گے.اللہ تعالیٰ نے اس وعدہ کی تکمیل اس طرح فرمائی کہ قرآن کی لفظی حفاظت کی خاطر اسے زبانی یاد کرنے والوں کیلئے آسان کر دیا اور ہر زمانہ میں قرآن کے لاکھوں حفاظ پیدا ہوئے جنہوں نے اس پاک کلام کو اپنے دل وسینہ میں محفوظ رکھا.پھر قرآن چونکہ عربی زبان میں ہے اور اس کا مفہوم سمجھنے کیلئے غیر عربی لوگوں کو اس کا ترجمہ کرنے کی ضرورت پیش آنی تھی اور تراجم میں غلط فہمی کا امکان تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کی معنوی حفاظت کا بھی انتظام فرمایا.جس کا سورہ نور کی آیت استخلاف میں ذکر ہے.یعنی سلسلہ خلافت و مجد ڈیت.جس کی مزید وضاحت نبی کریم کے ان دو ارشاد سے بھی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر مجد دمبعوث فرماتا رہے گا.دوسرے خلافت راشدہ کے انقطاع اور ملوکیت اور ظالم و جابر بادشاہتوں کے ادوار کے بعد پھر خلافت على منهاج النبوت قائم ہوگی.چنانچہ اسلام کی گزشتہ صدیاں گواہ ہیں کہ یہ وعدہ بڑی شان کے ساتھ پورا ہوا اور خلافت راشدہ کے بعد کوئی زمانہ ان مجددین امت سے خالی نہیں رہا.اور ہر صدی کے سر پر بھی مجدد آتے رہے.جو سب اہل اسلام میں مسلّم ہیں.

Page 41

XIV خلفاء راشدین کے زمانہ میں جس طرح خود خلیفہ وقت مجد دین کے سرخیل بن کر تجدید تمکین دین ادا کرتے اور کرواتے رہے اسی طرح چودھویں صدی کے مجدد و مسیح و مہدی کی بعثت اور خلافت علی منہاج النبوت کے دوبارہ قیام کے بعد مسجد ڈیت کی نہر نے خلافت کے دریا میں ضم ہونا تھا اور سلسلہ مجددیت نے خلافت کے تابع ہو کر کام کرنا تھا.جیسا کہ خلافت احمدیہ کے ذریعہ یہ سلسلہ احسن رنگ میں جاری وساری ہے.پس مجددیت امت کی ہر دور میں تجدیدی خدمات و کارنامے دراصل قرآن کی لفظی و معنوی حفاظت کی آئینہ دار ہیں.اللہ جزاء دے مکرم مولانا نصیر احمد انجم صاحب استاذ جامعہ احمدیہ اور مکرم مولا نا صفدر نذیر گولیکی شاہد مربی سلسلہ کو جنہوں نے ان مجددین کی طویل فہرست میں سے صدی کے سر پر ظاہر ہونے والے اور معروف مجد ڈین کے سوانح و کارنامے اجمالی رنگ میں جمع کر دیئے ہیں.جماعت احمدیہ کا ان تمام مسجد ڈین امت پر ایمان ہے.سوال یہ ہے کہ چودھویں صدی کے مجددا گر حضرت مرزا غلام احمد قادیانی نہیں ہیں تو پھر وہ کون ہے اور کہاں ہے؟ زیر نظر مقالہ کی دلچسپ تفاصیل کی روشنی میں یہ سوال تمام امت سلمہ کیلئے غور طلب ضرور ہے؟ اللہ تعالی سنجیدگی سے اس پر سوچنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 42

تجدید کیا ہے 1 عربی لغت کی مشہور کتاب ”المنجد“ میں لکھا ہے جدد و أَجَدَّ الشي صَيَّرَهُ جَدِيدا جدد ثوبًا لبسه جديدًا گویا مجدد کے لغوی معنے کسی چیز کو یا بنا دینا کے ہیں.یعنی مجد دوہ ہے جو کسی چیز کے نقائص دور کر کے اس کی گرد صاف کر کے اسے نکھار عطا کر کے نیا بنا دے.اصطلاحی معنے اسلامی اصطلاح میں مجدد سے مراد ایسا شخص ہے جو اسلام کو غلط تشریحات و تصورات سے چھانٹ کر الگ کرے.صدی کے دوران پیدا شدہ غلطیوں اور بدعات کی اصلاح کرے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجدد کا مطلب واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ ہر ایک صدی کے سر پر وہ ایسے شخص کو مبعوث کرے گا جو دین کو تازہ کرے گا اور اس کی کمزوریوں کو دور کر کے پھر اپنی اصلی طاقت اور قوت پر اسے لے آئے گا.سے اسی طرح فرماتے ہیں :- ” خلیفہ کے لفظ کو اشارہ کیلئے اختیار کیا گیا ہے کہ وہ نبی کے جانشین ہوں گے اور اس کی برکتوں میں سے حصہ پائیں گے.جیسا کہ پہلے زمانوں میں ہوتا رہا اور ان کے ہاتھ سے برجائی دین کی ہوگی اور خوف کے بعد امن پیدا ہوگا.یعنی ایسے وقتوں میں آئیں گے جب اسلام میں تفرقہ پڑا ہو گا.ہے یہاں سوال ہو سکتا ہے کہ بحث مجدد کی اور معانی خلیفہ کے ہیں.تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضور نے مجدد، محدث اور خلیفہ کو ہم معنی مفہوم میں استعمال کیا ہے.اس کیلئے شہادت القرآن صفحہ 44 کا مطالعہ کریں).

Page 43

اسی طرح حضور فرماتے ہیں:.مجد د وقت ان قوتوں اور ملکوں اور کمالات کے ساتھ آتا ہے جو موجودہ مفاسد کا اصلاح پانا ان کے کمالات پر موقوف ہوتا ہے“.ھے پھر فرمایا :- ” خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے وہی ہو سکتا ہے جو ظلی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو.اس واسطے رسول کریم نے نہ چاہا کہ ظالم بادشاہوں پر خلیفہ کا لفظ اطلاق پائے کیونکہ خلیفہ در حقیقت رسول کا ظل ہوتا ہے“.حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی تفہیمات الہیہ میں فرماتے ہیں:.ترجمہ: ہر نبی کی امت میں مجدد کا ظہور ضروری ہوتا ہے جو نبی کے دین کو فرقہ بندی پیدا کرنے والوں کے انتشار سے پاک کرے اور ایسا مجد دمحدث ہوتا ہے جسے سکینت (وحی، الہام.ناقل ) کالباس عطا ہوتا ہے اور وہ وجوب تجریم، کراہت، سنت اور اباحت کو اپنی اپنی جگہ پر رکھتا ہے اور احادیث موضوعہ ،لوگوں کے قیاسات اور ہر قسم کے افراط و تفریط سے شریعت کو منزہ کرتا ہے.واضح رہے کہ فقیہہ مجد نہیں ہوتا اوراگر وہ مجد داس نبی کا وصی ہوتو اس کے وجود پر مجددیت کا خاتمہ ہو جاتا ہے.سے حضرت المصلح الموعود مجد د کی تعریف یوں فرماتے ہیں:- ہر شخص جو الہام کے ساتھ تجدید دین کا کام کرتا ہے وہ روحانی مجدد ہے.ہر شخص جو اسلام اور مسلمانوں کیلئے تجدید کا کوئی کام کرتا ہے وہ مجدد ہے چاہے وہ روحانی مجدد نہ ہو.حضرت مسیح موعود نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ اورنگ زیب بھی مجدد تھا حالانکہ اور نگ زیب کو خودالہام کا دعویٰ نہیں تھا“.2 علامہ معلمی تجدید کے معنے یہ بیان کرتے ہیں :- قـال الـعـلـقـمـى معنى التجديد احياء ما اندرس من العمل بالكتاب والسنة والامر بمتضاهما واعلم ان المجدد انما هو بغلبة الظن بقرائن احواله والانتفاع بعلمه - 2 علقمی کہتے ہیں کہ تجدید کے معنے کتاب اللہ اور سنت رسول میں سے جومٹ گیا ہے اس کو

Page 44

زندہ کرنے اور ان دونوں کے تقاضوں کے مطابق حکم دینا ہیں اور جان لے کہ مسجد دخن غالب کے طور پر اپنے حالات وقرائن اور علم کی نفع رسانی سے پہچانا جاتا ہے.نواب صدیق حسن خانصاحب لکھتے ہیں :.یعنی میفر سد خدائے تعالیٰ برائے این امت برسر ہر صد سال کسیکہ تازہ میکند برائے امت دین اور مراد بتجدید دین احیاء عمل بکتاب وسنت وامر بمقتضائے ایں ہر دو امت کہ مندرس شده - ۱۰ یعنی خدا فرماتا ہے کہ اس امت کے واسطے ہر صدی کے سر پر کسی شخص کو دین تازہ کرنے کیلئے بھیجے گا.تجدید دین سے مراد کتاب اللہ اور سنت کے عمل کا احیاء اور ان دونوں کے تقاضے کے مطابق امر کرنا جو کہ مٹ چکے تھے.سید ابوالاعلیٰ مودودی کہتے ہیں :- مجدد نبی نہیں ہوتا مگر اپنے مزاج میں مزاج نبوت سے بہت قریب ہوتا ہے.نہایت صاف دماغ، حقیقت رس نظر، ہر قسم کی کبھی سے پاک...اپنے ماحول اور صدیوں کے جے ہوئے امور ، رچے ہوئے تعصبات سے آزاد ہو کر سوچنے کی قوت، زمانہ کی بگڑی ہوئی رفتار سے لڑنے کی طاقت و جرأت، قیادت و رہنمائی کی پیدائشی صلاحیت، اجتہاد وتعمیر نو کی غیر معمولی اہلیت اور ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ اسلام میں شرح صدر...یہ وہ خصوصیات ہیں جن کے بغیر کوئی شخص مجدد نہیں ہوسکتا اور یہی وہ چیزیں ہیں جو ان سے بہت زیادہ بڑے پیمانے پر نبی میں ہوتی ہیں.لاء تجدید دین سے مراد حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:- تجدید کے یہ معنے نہیں کہ کم یا زیادہ کیا جائے اس کا نام تو سخ ہے بلکہ تجدید کے یہ معنی ہیں کہ جو عقائد حقہ میں فتور آگیا ہے اور طرح طرح کے زوائد ان کے ساتھ لگ گئے ہیں یا جو اعمال صالحہ کے ادا کرنے میں ستی وقوع میں آگئی ہے یا جو وصول اور سلوک الی اللہ کی

Page 45

4 طرق اور قواعد محفوظ نہیں رہے ان کو مجدداً تاکید بالاصل بیان کیا جائے.و قال اللہ تعالیٰ اعلموا ان الله يحى الارض بعد موتها.یعنی عادت اللہ اسی پر جاری ہے کہ دل مرجاتے ہیں اور محبت الہیہ دلوں سے ٹھنڈی ہو جاتی ہے اور ذوق اور شوق اور حضور اور خضوع نمازوں میں نہیں رہتا اور اکثر لوگ رُو بہ دنیا ہو جاتے ہیں اور علماء میں نفسانیت اور فقراء میں عجب اور پست ہمتی اور انواع اقسام کی بدعات پیدا ہو جاتی ہیں.تو ایسے زمانہ میں خدا تعالیٰ صاحب قوت قدسیہ پیدا کرتا ہے اور وہ حجتہ اللہ ہوتا ہے اور بہتوں کے دلوں کو خدا کی طرف کھینچتا ہے اور بہتوں پر اتمام حجت کرتا ہے.یہ وسوسہ بالکل نکتا ہے کہ قرآن شریف و احادیث موجود ہیں پھر مجدد کی کیا ضرورت ہے.یہ انہی لوگوں کے خیالات ہیں جنہوں نے کبھی غمخواری سے اپنے ایمان کی طرف نظر نہیں کی.اپنی حالت اسلامیہ کو نہیں جانچا.اپنے یقین کا اندازہ معلوم نہیں کیا بلکہ اتفاقاً مسلمانوں کے گھر پیدا ہو گئے اور پھر رسم و عادات کے طور پر لا الہ الا اللہ کہتے رہے.حقیقی یقین اور ایمان بجر صحبت صادقین میتر نہیں آتا.قرآن شریف تو اس وقت بھی ہو گا جب قیامت آئے گی مگر وہ صدیق لوگ نہیں ہوں گے جو که قرآن شریف کو سمجھتے تھے اور اپنی قوت قدسی سے مستعدین پر اس کا اثر ڈالتے تھے لایمسه الا المطهرون.پس قیامت کا وجود مانع صرف صدیقوں کا وجود ہے.قرآن شریف خدا کی رُوحانی کتاب ہے اور صدیقوں کا وجود خدا کی ایک مجسم کتاب ہے.جب تک یہ دونوں نمایاں انوار ایمانی ظاہر نہیں ہوتے تب تک انسان خدا تک نہیں پہنچتا.فتدبروا و تفکروا.(حیات احمد جلد دوم نمبر سوم - صفحہ 8-9) مجد د کب پیدا ہوتے ہیں فرمایا: یعنی عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہوتے ہیں کہ جب دل مرجاتے ہیں اور محبت اللہ دلوں سے ٹھنڈی ہو جاتی ہے اور ذوق اور شوق اور حضور اور خضوع نمازوں میں نہیں رہتا.اور اکثر لوگ رو بدنیا ہو جاتے ہیں اور علماء میں نفسانیت اور فقراء میں عجب اور پست ہمتی اور انواع و اقسام کی بدعات پیدا ہو جاتی ہیں تو ایسے زمانہ میں خدا تعالیٰ صاحب قوت قدسیہ کو پیدا کرتا ہے اور وہ حجت اللہ ہوتا ہے اور بہتوں کے دلوں کو خدا تعالیٰ کی طرف کھینچتا

Page 46

ہے اور بہتوں پر اتمام حجت کرتا ہے.۱۲ مجددین کے آنے کا ثبوت قرآن وحدیث سے جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے کہ تجدید ہر شے کیلئے ضروری ہے.امت محمدیہ چونکہ قیامت تک ہے اور اس کا تعلق بھی ہر قوم سے ہونا تھا اس لئے لازم تھا کہ اس میں بھی تغیر وانقلاب ضرور ہو.اس مکان و زماں کی تبدیلیوں سے عہدہ برآ ہونے کیلئے خدائے ذوالعرش نے امت محمدیہ کیلئے دو انتظام فرمائے ہیں.ایک طرف تو ہادی عالم کے ہاتھ میں وہ شریعت عزادی جس کی ضیا پاشیاں قیامت تک ممتد ہیں اور دوسری طرف مجددین کا سلسلہ شروع کر دیا اور ہر صدی پر ایسے افراد آتے رہے جو اس شمع نور کے امین بنے رہے.انہوں نے قرآن کی لو کی حفاظت کی اور اسے بلند تر اور روشن تر کیا.ظلمتیں کا فور ہوئیں اور نور جلوہ فگن ہوا.قرآن مجید نے جابجا ارشاد فرمایا کہ امت میں روحانی خلیفے اور مجددین آتے رہیں گے.چنانچہ سورہ نور میں فرمایا و عدالله الذين امنوا منكم وعملو الصالحت ليستخلفنهم في الارض كما استخلف الذين من قبلكم..ومن كفر بعد ذلک فاولئک هم الفاسقون ( ١٣ اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.باطنی طور پر ان آیات میں خلافتِ روحانی کی طرف بھی اشارہ ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک خوف کی حالت میں کہ جب محبت الہیہ دلوں سے اُٹھ جائے اور مذاہب فاسدہ ہر طرف پھیل جائیں اور لوگ رو بہ دنیا ہو جائیں اور دین کے گم ہونے کا اندیشہ ہو تو ہمیشہ ایسے وقتوں میں خدا روحانی خلیفوں کو پیدا کرتارہے گا کہ جن کے ہاتھ پر روحانی طور پر نصرت و فتح دین کی ظاہر ہو اور حق کی عزت اور باطل کی ذلت ہو.تا ہمیشہ دین اپنی اصلی تازگی پر عود کرتا رہے اور ایماندار ضلالت کے پھیل جانے اور دین کے مفقود ہو جانے کا اندیشہ سے امن کی حالت میں آجائیں“.۱۴ دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انا نحن نزلنا الذكر وانا له لحفظون - ١٥ اس میں اللہ تعالیٰ نے حفاظت قرآن کا وعدہ فرمایا ہے اور حفاظت خدا نے دو طرح فرمائی لفظی حفاظت تو قرآن کو تغیر و تبدل سے بچا کر اور حفاظ کے ذریعہ ہوئی جبکہ معنوی حفاظت مجددین کے ذریعے

Page 47

ہوئی اور ان خلفاء کے ذریعے ہوئی جن کا سورہ نور میں وعدہ تھا.اس آیت کی تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:." وکذالک قال فى اية اخرى لقوم يستر شدون انا نحن نزلنا الذكر وانا له لحفظون فامعنوا فيه ان كنتم تفكرون فهذه اشارة الى بعث مجدد في زمان مفسد كما يعلمه العاقلون - اسی طرح دوسری آیت میں ہدایت طلب کرنے والی قوم کو فرمایا انا نحن...لحفظون.اگر تم سوچ سکتے ہو تو غور کرو کہ اس میں ایک فساد کے زمانہ میں ایک مجدد بھیجنے کی طرف اشارہ ہے.جیسا کہ عقلمند لوگ جانتے ہیں“.حفاظت قرآن کس طرح ہوگی.اس کی تشریح خدا نے اس آیت میں کی ہے.انا انزلنا التوراة فيها هدى و نور يحكم بها النبيون الذين اسلمو للذين هادو والربانيون والاحبار بما استحفظوا من كتاب الله و كانوا عليه شهداء......كام ترجمہ: بیشک ہم نے توراۃ نازل فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی ہے اسی کے مطابق انبیاء جو ( خدا کے ) فرمانبردار تھے یہودیوں کو حکم دیتے رہے اور مشائخ اور علماء بھی کیونکہ وہ کتاب خدا کے نگہبان مقرر کئے گئے تھے اور اس پر گواہ تھے..یہاں تین قسم کے افراد کے ذریعے توراۃ کی حفاظت کا ذکر ہے.ا.نبی ۲.ربانی علماء ۳.احبار اور ربانی علماء سے مراد خلفاء ومجد ڈین ہیں اور چونکہ سورہ نور میں یہ وعدہ تھا کہ امت محمدیہ میں بھی بنی اسرائیل کی مانند خلیفے آئیں گے جو کتاب اللہ کی حفاظت اور دین کی تمکنت کریں گے.پس ثابت ہوا کہ امت محمدیہ میں بھی سلسلہ مجد ڈین جاری ہوگا.فھو المراد اسی طرح نبی کریم ﷺ نے بھی امت محمدیہ کو پیش آمدہ فتنوں کے مقابل پر مجد دین کے آنے کی اطلاع دی ہے.چنانچہ جامع ترمذی میں حدیث ہے :- صلى الله عن ثوبان قال قال رسول الله عليه انما اخاف على امتى الائمة المضلين قال قال رسول الله الله لا تزال طائفة من امتى على الحق ظاهرين لا يضرهم من خذلهم حتی یاتی امرالله ۱۸ حضرت ثوبان راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں اپنی امت کیلئے گمراہ کرنے

Page 48

7 والے آئمہ سے ڈرتا ہوں.حضور ﷺ نے فرمایا کہ ہمیشہ میری امت کا ایک گروہ ایسا پیدا ہوتا رہے گا جو حق پر غالب رہیں گے جو ان کو چھوڑ دے گا انہیں کچھ نقصان نہیں پہنچائے گا.(اس طرح رہے گا) یہاں تک کہ اللہ کا امر آ پہنچے.اس حدیث میں حضرت رسول مقبول ﷺ نے ایک طرف تو ایسے اماموں کی خبر دی ہے جو لوگوں کو گمراہ کریں گے اور دوسری طرف امت کی کشتی کو مخالفت کے طوفان سے بچانے والے مجددین کی خوشخبری سنائی ہے.ہر زمانہ میں مصلح آتے ہیں حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں :- ہم یقینی اور قطعی طور پر ہر ایک طالب حق کو ثبوت دے سکتے ہیں کہ ہمارے سید ومولا آنحضرت ﷺ کے زمانہ سے آج تک ہر ایک صدی میں ایسے باخدا لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ غیر قوموں کو نشان دکھلا کر ان کو ہدایت دیتا رہا ہے جیسا کہ سید عبدالقادر جیلائی اور ابوالحسن خرقائی اور بایزید بسطامی اور جنید بغدادی اور محی الدین ابن عربی اور ذوالنون مصری معین الدین چشتی اجمیری اور قطب الدین بختیار کا کئی اور فرید الدین پاک پٹنی اور نظام الدین دہلوی اور شاہ ولی اللہ دہلوی اور شیخ احمد سر ہندی رضی اللہ عنهم و رضوا عنه اسلام میں گزرے ہیں اور ان لوگوں کا ہزار ہا تک عدد پہنچا ہے اور اس قدر ان لوگوں کے خوارق علماء و فضلاء کی کتابوں میں منقول ہیں کہ ایک متعصب کو با وجود سخت تعصب کے آخر ماننا پڑتا ہے کہ یہ لوگ صاحب خوارق کرامات تھے.119 مجددین موسوی کے بعد مسجد دین محمدی کی ضرورت حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- اور اجماع سنت جماعت بھی اسی پر ہے کیونکہ کوئی مومن نہیں کہ جو حدیث محمد مصطفی سے روگرداں ہو سکتا ہے اور قیاس اس کو چاہتا ہے کیونکہ جس حالت میں خدا تعالیٰ شریعت موسوی کی تجدید ہزار ہا نبیوں کے ذریعے سے کرتا رہا ہے اور گو وہ صاحب کتاب نہ تھے مگر

Page 49

8 مجد د شریعت موسوی تھے اور یہ امت خیر الامم ہے.قـال الـلـه تـعـالـى كنتم خير امة اخرجت للناس.پھر کیونکر ممکن ہے کہ اس امت کو خدا تعالیٰ بالکل گوشہ خاطر عاطر سے فراموش کر دے اور باوجود صد ہا خرابیوں کے کہ جو مسلمانوں کی حالت پر غالب ہوگئی ہیں اور اسلام پر بیرونی طور پر حملے ہورہے ہیں نظر اُٹھا کر نہ دیکھے جو کچھ آج اسلام کی حالت خفیف ہورہی ہے.کسی عاقل پر مخفی نہیں یعنی تعلیم یافتہ عقائد حقہ سے دستبردار ہوتے جاتے ہیں.پرانے مسلمانوں میں صرف یہودیوں کی طرح ظاہر پرستی یا قبر پرستی رہ گئی ہے.ٹھیک ٹھیک رو بخدا کتنے ہیں کہاں ہیں اور کدھر ہیں؟“ ۲۰ مزید فرمایا:- یہ وسوسہ بالکل نکما ہے کہ قرآن شریف اور احادیث موجود ہیں پھر مجدد کی کیا ضرورت ہے.یہ انہی لوگوں کے خیالات ہیں جنہوں نے کبھی غم خواری سے ایمان کی طرف نظر نہیں کی.اپنی حالت اسلامیہ کو نہیں جانچا.اپنے یقین کا اندازہ معلوم نہیں کیا بلکہ اتفاقاً مسلمانوں کے گھر پیدا ہو گئے اور پھر رسم اور عادت کے طور پر لا الہ الا اللہ کہتے رہے.حقیقی یقین اور ایمان بجز صحبت صادقین میسر نہیں آتا.قرآن شریف تو اس وقت بھی ہوگا جب قیامت آئے گی مگر وہ صدیق لوگ نہیں ہوں گے کہ جو قرآن شریف کو سمجھتے تھے اور اپنی قوت قدسی سے مستعدین پر اس کا اثر ڈالتے تھے.ولا يمسه الا المطهرون پس قیامت کے وجود کا مانع صرف صدیقوں کا وجود ہے.قرآن شریف خدا تعالیٰ کی روحانی کتاب ہے اور صدیقوں کا وجود خدا کی ایک مجسم کتاب ہے.جب تک یہ دونوں نمایاں انوار ایمانی ظاہر نہیں ہوتے تب تک انسان خدا تک نہیں پہنچتا.فتدبروا و تفكروا“.ضرورت مجددین ایک سوال ذہنوں میں یہ اُبھرتا ہے کہ جب شریعت مکمل ہے تو کسی مصلح یا مجدد کی کیا ضرورت ہے.قرآن بلا تغیر و تبدل ہمارے پاس ہے کیا اس کے ذریعہ اصلاح نہیں ہو سکتی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ کتاب ہمارے پاس مکمل اور محفوظ حالت میں موجود ہے لیکن اس کے باوجود ایسے

Page 50

افراد کی ضرورت ہے جو نائب الرسول ہوں.قرآنی اسرار ان پر کھلیں اور وہ عوام الناس تک پہنچائیں.ان کے عملی نمونہ کے ذریعہ اصلاح ہو.ویسے بھی تجدید اور تغیر تو فطرت میں ہے.دنیا کی ہر شے کسی نہ کسی رنگ میں تبدیلی کے عمل سے گزررہی ہے.اس نکتہ کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- تجدید کا قانون یہ روزہ مرہ دیکھتے ہیں.ایک ہفتہ کے کپڑے بھی میلے ہو جاتے ہیں اور ان کے دھلانے کی ضرورت پڑتی ہے.لیکن کیا پوری صدی گزر جانے کے بعد بھی مجدد کی ضرورت نہیں ہوتی ؟ ہوتی ہے اور ضرور ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے کہ ہر صدی کے سر پر ایک مجدد اصلاح خلق کیلئے آتا ہے کیونکہ صدی کے اس درمیانی حصے میں بہت سی غلطیاں اور بدعتیں دین میں شامل کر لی جاتی ہیں اور خدا تعالیٰ کبھی پسند نہیں فرما تا کہ اس کے پاک دین میں خرابی رہ جائے اس لئے وہ ان کی اصلاح کی خاطر مجدد بھیجتا ہے.۲۲ حضرت مرز البشیر احمد صاحب ایم.اے نے اپنی معرکۃ الآراء تصنیف تبلیغ ہدایت میں ضرورت مجددین پر تفصیلی بحث فرمائی ہے.جس کا خلاصہ درج ذیل ہے.حضرت مرزا صاحب اس سوال کا جواب کہ شریعت مکمل ہے کیا خود اصلاح نہیں ہو سکتی اور کسی مصلح کی کیا ضرورت ہے ، دیتے ہوئے فرماتے ہیں :- ا.ہمارا مشاہدہ اس کے خلاف ہے.باوجود اکمل تعلیم کے مسلمان پستی کی طرف جارہے ہیں اور تاریخ عالم میں ایک مثال بھی ایسی نہیں کہ کوئی قوم مذہبا گر کر پھر خود اٹھی ہو.۲.خدا کی سنت یہی ہے کہ جب ظلمت بڑھ جائے تو خدا کی طرف سے اصلاح کرنے کیلئے کوئی آیا کرتا ہے جس طرح موسیٰ کی امت میں تو راہ مکمل ہونے کے باوجود مصلحین آتے رہے.فرمایا وقفينا من بعده بالرسل - ٢٣.تعلیم تو بیشک مکمل ہے لیکن اگر مکمل تعلیم پر لوگوں کی حاشیہ آرائی چڑھ جائے تو پھر وہ کیسے اصلاح کر سکتی ہے.یتعلیم بیشک ایک جو ہر دار تلوار کی مانند ہے لیکن اس کا دھنی بھی کوئی ہونا چاہئے.۴.کوئی بھی تعلیم ہو جب تک اس کے ہمراہ زندہ نمونے نہ ہوں وہ ناقص رہتی ہے..ایمان کا درخت ایسا ہے کہ اگر اسے بار بارتازہ نشانات سے سیراب نہ کیا جائے تو یہ

Page 51

10 ” ہے“ کی مستحکم چٹان سے ”ہونا چاہئے“ کی پر خطر وادیوں میں چلا جاتا ہے.اس لئے ایسے افراد کی ضرورت ہے جن کے ہاتھ پر نشانات ظاہر ہوں..ظاہری اصلاح تو ہر کوئی کر سکتا ہے لیکن یہ کمل مفید نہیں ہوتی کیونکہ روحانی امور میں اصلاح وہی کر سکتا ہے جو خدا کی طرف سے ہوا اور مرد کامل ہو.ہے.ے.آنحضرت ﷺ کا فرمانا کہ مجد ڈین آئیں گے خود اس ضرورت کو ثابت کر رہا ہے.گزشتہ صدیوں میں ایسے وجودوں کا آنا بھی اس اہم کام کی ضرورت کو عملاً ثابت کر رہا دوران صدی جو فتنے پیدا کئے جاتے ہیں اسلام کا چہرہ گرد و غبار میں چھپ جاتا ہے تو اس کونئی شان اور خوبصورتی عطا کرنے کیلئے مجددین کا آنا ضروری ہے.اسی پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- " ہم کب کہتے ہیں کہ مجدد اور محدث دنیا میں آکر دین میں سے کچھ کم یا زیادہ کرتے ہیں بلکہ ہمارا تو یہ قول ہے کہ ایک زمانہ گزرنے کے بعد جب پاک تعلیم پر خیالات فاسدہ کا ایک غبار پڑ جاتا ہے اور حق خالص کا چہرہ چھپ جاتا ہے.تب اس خوبصورت چہرہ کو دکھلانے کیلئے مجدد اور محدث اور روحانی خلیفے آتے ہیں.نہ معلوم کہ بیچارے معترض نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ مجدد اور روحانی خلیفے دنیا میں آکر دین میں کچھ ترمیم و تنسیخ کرتے ہیں.نہیں وہ دین کو منسوخ کرنے کیلئے نہیں آتے بلکہ دین کی چمک اور روشنی دکھانے کو آتے ہیں.اور معترض کا یہ خیال کہ ان کی ضرورت ہی کیا ہے صرف اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ معترض کو اپنے دین کی پرواہ نہیں اور کبھی اس نے غور نہیں کیا کہ اسلام کیا چیز ہے اور اسلام کی ترقی کس کو کہتے ہیں اور حقیقی ترقی کیونکر اور کن راہوں سے ہوسکتی ہے اور کس حالت میں کس کو کہا جاتا ہے کہ وہ حقیقی طور پر مسلمان ہے.یہی وجہ ہے کہ معترض صاحب اس بات کو کافی سمجھتے ہیں کہ قرآن موجود ہے اور علماء موجود ہیں اور خود بخو دا اکثر لوگوں کے دلوں میں اسلام کی طرف حرکت ہے پھر کسی مجدد کی کیا ضرورت ہے.لیکن افسوس کہ معترض کو یہ سمجھ نہیں کہ مجددوں اور روحانی خلیفوں کی اس امت میں ایسے ہی طور سے ضرورت ہے جیسا کہ قدیم سے انبیاء کی ضرورت پیش

Page 52

11 آتی رہی ہے.اس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نبی مرسل تھے اور ان کی تو راۃ بنی اسرائیل کی تعلیم کیلئے کامل تھی اور جس طرح قرآن کریم میں یہ آیت اليوم اکملت لکم ہے اسی طرح تو راہ میں بھی آیات ہیں جن کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو ایک کامل اور جلالی کتاب دی گئی ہے جس کا نام توریت ہے.چنانچہ قرآن کریم میں بھی توریت کی یہی تعریف ہے.لیکن باوجود اس کے بعد توریت کے صدہا ایسے نبی بنی اسرائیل میں آئے کہ کوئی نئی کتاب ان کے ساتھ نہیں تھی بلکہ ان انبیاء کے ظہور کے مطالب یہ ہوتے تھے کہ تا ان کے موجودہ زمانہ میں جولوگ تعلیم تو ریت سے دور پڑ گئے ہوں پھر ان کو توریت کے اصلی منشاء کی طرف کھینچیں اور جن کے دلوں میں کچھ شکوک اور دہریت اور بے ایمانی ہوگئی ہو ان کو پھر زندہ ایمان بخشیں.چنانچہ اللہ جل شانہ خود قرآن کریم میں فرماتا ہے ولقد اتينا موسى الكتب وقفينا من بعده بالرسل....اسی طرح دوسری جگہ فرماتا ہے ثم ارسلنا رسلنا تترا.پس ان تمام آیات سے ظاہر ہے کہ عادت اللہ یہی ہے کہ وہ اپنی کتاب بھیج کر پھر اس کی تائید اور تصدیق کیلئے ضرور انبیاء بھیجا کرتا ہے“.۲۵ دین کی تازگی کیلئے مجددین کی ضرورت حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں :- رسول کریم اللہ فرماتے ہیں کہ اسلام میں ہر صدی پر ایک ایسا نمونہ آتارہے گا آپ فرماتے ہیں ان الله يبعث لهذه الامة على رأس كل مائة سنة من يجدد لها دينها.اللہ تعالیٰ اس امت میں ہر صدی کے سر پر ایسے شخص بھیجتارہے گا جو دین کو نیا کرتے رہیں گے.یعنی جو تعلیمات باطل انسانوں کی طرف سے شامل ہوتی رہیں گی ان کو دور کرتے رہیں گے.چنانچہ ایسے مجددین اسلام میں ہمیشہ ہوتے رہے ہیں.اگر غور کیا جائے تو اصل میں یہی ذریعہ سب سے اعلیٰ اور اکمل ہے اور دوسرے ذرائع اس کے مد اور معاون تو ہو سکتے ہیں مگر اس کے قائم مقام نہیں ہو سکتے کیونکہ اس کا اثر قطعی اور یقینی ہے اور ان کے اثرات بوجہ اس کے کہ ان کو استعمال کرنے میں ایسے لوگوں کو دخل ہے جوخود کامل استاد نہیں غلطی کا احتمال ہے.مگر چونکہ اس ذریعہ کا مہیا کرنا انسان کے اپنے

Page 53

12 اختیار میں نہیں ہے اسلام نے اور ذرائع بھی بیان کئے ہیں جن سے اعلیٰ اخلاق پیدا کیے جاسکتے ہیں.ہے خدا تعالیٰ کی صفت کلیم کا ثبوت مجددین کی آمد سے ملتا ہے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی فرماتے ہیں :- یا د رکھنا چاہئے کہ الہام ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے کہ ہر ایک زمانہ کے لوگوں کا دل تسلی پاسکتا ہے.اگر کسی زمانہ میں الہام ہوتا تھا تو آج کیوں نہیں ہوتا.کیا خدا پچھلے زمانہ میں بولتا تھا اور اب نہیں بولتا.کیا وہ کسی زمانہ میں سنتا تھا اور اب نہیں سنتا.وہ کیا بات ہے جس کی وجہ سے وہ اب نہیں بولتا؟ ایک طالب حق جو کہ دن رات اٹھتے بیٹھتے خدا تعالیٰ کی محبت ہی میں محور ہتا ہے اس کیلئے یہ کیسی کمر توڑ دینے والی بات ہے کہ خدا نے کسی زمانہ میں کلام کیا تھا مگر وہ اب کسی سے کلام نہیں کر سکتا.آخر اس کیلئے کوئی وجہ ہونی چاہئے تھی.جب بولنا خدا کی صفت ہے تو کیا خدا کی صفات معطل ہو جایا کرتی ہیں؟ اگر معطل ہو جاتی ہیں تو خدا قادر مطلق اور ازلی ابدی کیونکر ہو سکتا ہے.اگر معطل نہیں ہوتیں تو اب وہ کیوں نہیں بولتا ؟ یہ سوالات ہیں جو کہ ایک محقق کے دماغ میں فورا گونج اُٹھتے ہیں جبکہ وہ یہ عقیدہ سنتا ہے اور اس کا جواب کوئی اور مذہب سوائے خاموشی کے اور کچھ نہیں دیتا مگر اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو کہ اس کا دندان شکن جواب دیتا ہے.وہ کہتا ہے کہ جولوگ سلسلہ الہام کو منقطع خیال کرتے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں.اس لئے یہ سوال ہی لغو ہے.خدا بولتا تھا اور اب بھی بولتا ہے.چونکہ یہ اس کی صفت ہے کہ وہ بولتا ہے اس لئے یہ معطل نہیں ہوسکتی اور یہ اسلام کا دعوی ہی نہیں بلکہ اس کا عملی ثبوت بھی وہ دیتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر زمانہ میں مسلمانوں میں ایسے آدمی موجود رہتے ہیں جو الہام الہی سے مستفیض ہوتے ہیں اور ہر صدی کے سر پر ایک مجدد ہوتا ہے جو الہام کے جھٹلانے والوں کے رڈ میں ایک زندہ دلیل ہوتا ہے اور اس بات کے ثبوت کیلئے کہ آیا کسی شخص کو واقعی الہام ہوتا ہے یا نہیں خدا تعالیٰ نے یہ

Page 54

13 علامت رکھی ہے کہ ایسا شخص غیب کی خبریں بتاتا ہے اور وہ پوری ہوتی ہیں“.ہے مجددین کے ذریعہ زندہ خدا کا ظہور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی فرماتے ہیں:- اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جس طرح رسول کریم ﷺ کے ذریعہ ایک زندہ خدا لوگوں کو نظر آیا ہے اسی طرح ابو بکر، عمر، عثمان اور علی کے ذریعہ بھی لوگوں کو ایک زندہ خدا نظر آتا تھا.اور پھر ویسا ہی زندہ خدا حضرت حسن بصریؒ ، حضرت عمر بن عبدالعزیز، حضرت جنید بغدادیؒ، حضرت محی الدین ابن عربی، حضرت شہاب الدین سہروردیؒ ، حضرت معین الدین چشتی اور سید عبدالقادر جیلائی وغیرہ کے ذریعہ نظر آتا تھا.یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اسلام کے زندگی بخش اثرات کو برابر قائم رکھا اور اس طرح رسول کریم ﷺ کے فیضان کی زندگی جاری رہی ۲۸ حدیث مجددین سنن ابو داؤد میں ہے حدثنا سليمان ابن داؤد المهدى اخبرنا ابن وهب اخبرنی سعید ابن ابی ایوب عن شراجيل بن يزيد المعافرى عن ابی علقمة عن ابی صلى الله هريرة رضى الله عنهم فيما اعلم من رسول الله له قال ان الله يبعث لهذه الامة على رأس كل مائة سنة من يجدد لها دينها - 19...حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ ان باتوں میں سے جو میں نے حضور ﷺ سے سیکھیں ایک یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ اس امت ( کی اصلاح) کیلئے ہر صدی کے سر پر ایسا شخص بھیجے گا جو اس اُمت کے دین کی تجدید کرے گا.صحت حدیث محدثین نے اس حدیث کے صحیح ہونے پر اتفاق کیا ہے.چنانچہ مرقاۃ الصعود (شرح ابن داؤد )

Page 55

14 میں اسی حدیث کے تحت لکھا ہے.هذا الحديث اتفق الحفاظ على الصحيح منهم الحاكم فی المستدرک و البیهقی فی المدخل.کہ اس حدیث کے صحیح ہونے پر جن حفاظ میں اتفاق کیا ہے ان میں سے حاکم ( مستدرک میں ) اور بیہقی ( مدخل میں ) ہیں.اسی طرح تنبیہہ میں جلال الدین سیوطی نے لکھا اتفق الحفاظ على صحته حفاظ نے اس حدیث کی صحت پر اتفاق کیا ہے.رسول کریم ﷺ کی یہ عظیم الشان پیشگوئی پوری ہوئی اور ہر صدی کے سر پر مجد دین آتے رہے.دراصل یہ حدیث قرآن کریم کی آیت انسا نحن...کی شرح ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے.۳۰ اسلام کی میراث یہی طائفہ ہے جس نے جہالت اور مادیت کا مقابلہ کیا.امت میں ایمانی روح پیدا کی اور قرآن جیسی لازوال ثروت کی حفاظت کی.اس آب زلال کے چشمے رواں دواں کیسے.نئے فلسفوں کا ابطال کیا.علوم حدیث وفقہ کی تدوین کا کام انجام دیا، اجتہاد کا دروازہ کھولا ، امت کو شریعت کا گمشدہ خزانہ اور معاشرے کا منظم قانون یاد دلایا.معاشرے میں احتساب کا فرض ادا کیا.انحراف اور کج روی پر مکمل تنقید کی.صحیح حقیقی اسلام کی بر ملا دعوت دی جس نے شکوک وشبہات کے پردے چاک کر دیے.اضطراب کے زمانے میں علمی طرز استدلال اختیار کر کے دماغوں کو اطمینان بخشا، دعوت و تذکیروانذار و تبشیر میں انبیاء کی روش اختیار کی.ایمان و عمل کی دبی ہوئی چنگاریوں کو شعلہ جوالہ کی حرارت و تمازت بخشی جس نے مادہ پرستی کے تند و تیز دھارے کی بلا خیزی کم کی.اپنی دعوت اور دام محبت سے اس دشمن کو شکار کیا جو زمہ شمشیر اور نوک خنجر سے زیر نہ ہو سکا.اس طائفہ میں ہر شخص اسلام کی کسی نہ کسی سرحد کا محافظ اور نگہبان تھا.حدیث کا مطلب اور حکمت نواب صدیق حسن خانصاحب لکھتے ہیں کہ :- اس حدیث سے غرض یہ ہے کہ کوئی صدی مجدد سے خالی نہیں ہوگی اور عملاً بھی ہر صدی کے اول و آخر اور وسط میں مسجد دین کے وجود سے یہ بات ثابت ہے.نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہرصدی میں صرف ایک مجدد کا آنا مراد نہیں بلکہ مجددین کی ایک جماعت مراد ہے.اور پھر تجدید کے لفظ میں

Page 56

15 مجد ڈین کے آنے کی حکمت کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ اس سوسال کے عرصہ میں احکام دین اور کتاب وسنت کی اتباع میں جو بدعتیں رواج پاگئی ہوں مجد دان کو ختم کرتے اور حق کو قائم کرتے ہیں اور سنت کو بدعت سے جدا کر کے دکھلا دیتے ہیں.نواب صدیق حسن خانصاحب مزید لکھتے ہیں کہ :- اس لحاظ سے ہر عالم دین ، خدا پرست، سنت کا احیاء کرنے اور بدعت مٹانے والا مجددین نبوی اور کی سنت مصطفوی ہے.اسے حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے حدیث مجددین کی تشریح فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:- اب میں مختصراً کچھ اس حدیث کے متعلق کہنا چاہتا ہوں اور بتانا چاہتا ہوں کہ اس حدیث کے بارہ میں پہلوں نے کیا کہا ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا فرمایا اور اس حدیث کا مقام کیا ہے.یہ حدیث جو صحاح ستہ میں سے صرف ایک کتاب میں صرف ایک بار بیان ہوئی ہے، یہ ہے: ان الله يبعث لهذه الامة على رأس كل مائة سنة من يجدد لها دينها - کہ اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر اس امت کیلئے ”من“ کھڑے کرے گا (من پر میں خاص زور دے رہا ہوں ) یعنی اللہ تعالیٰ کئی لوگ ایسے پیدا کرے گا جو دین کی تجدید کریں گے اور اس کی رونق کو بڑھانے والے ہوں گے اور اگر بدعتیں بیچ میں داخل ہو گئی ہوں گی تو وہ ان کو نکالیں گے اور اسلام کا نہایت صاف اور خوبصورت چہرہ ایک بار پھر دُنیا کے سامنے پیش کریں گے.یہ حدیث ابوداؤد میں ہے.مستدرک میں ہے اور شاید ایک اور کتاب میں بھی ہے.صرف تین کتابوں میں ہمیں یہ حدیث ڈھونڈنے سے ملی ہے.اس حدیث میں تو یہ ہے کہ ہر صدی کے سر پر من آئے گا.یعنی ایسے نائب الرسول ( ) آئیں گے جو تجدید کا کام کریں گے.مَنُ کے معنے عربی لغت کے لحاظ سے ایک کے بھی ہیں، دو کے بھی ہیں اور کثرت کے بھی ہیں.پس اگر کثرت سے معنے لیے جائیں تو یہ معنی ہوں گے کہ ہر صدی کے سر پر کثرت سے ایسے لوگ موجود ہوں گے ( یعنی آنحضرت میہ کے خلفاء واخیار وابرار ) جو دین اسلام کی خدمت میں لگے ہوں گے.اس میں کسی ایک شخص واحد کا کوئی ذکر نہیں.لسان العرب عربی لغت کی ایک مشہور کتاب ہے.اس میں لکھا ہے کہ من کا لفظ تـــــون لواحد والاثنين والجمع کہ یہ لفظ واحد کیلئے بھی ، دو کیلئے بھی اور جمع کیلئے بھی بولا جاتا ہے اور قرآن کریم کی لغت مفردات امام راغب میں ہے کہ يعبر به من الواحد والجمع والمذكر

Page 57

16 والمؤنث کہ اس سے واحد بھی مراد لی جاتی ہے اور جمع بھی مراد لی جاتی ہے.مذکر بھی مراد لیا جاتا ہے اور مؤنث بھی مراد لی جاتی ہے.ان معنوں کے لحاظ سے حدیث کا یہ مطلب ہوگا کہ ہر صدی کے سر پر ایسے مرد ہوں گے نیز خدا تعالی کی درگاہ میں پہنچی ہوئی ایسی مستورات بھی ہوں گی.یعنی مرد بھی خدمت دین میں لگے ہوئے ہوں گے اور مستورات بھی.جب ہم پہلے بزرگ محققین اور اولیاء اللہ کے اقوال کو دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ انہوں نے بھی من کے وہی معنے کئے ہیں جو میں اوپر بتا چکا ہوں.من مجدد کے متعلق امام المناوی فرماتے ہیں کہ اس میں من سے مراد ایک یا ایک سے زیادہ آدمی ہو سکتے ہیں.علامہ ابن کثیر کہتے ہیں کہ ہر ایک قوم کا دعویٰ کہ اس حدیث سے اس کا امام ہی مراد ہے لیکن ظاہر بات یہی ہے کہ اس کو ہر ایک گروہ کے علماء پر چسپاں کیا جانا چاہئے.اور علمی کہتے ہیں کہ تجدید سے مراد یہ ہے کہ اسلام کی جن باتوں پر عمل مٹ گیا ہے ان کو وہ از سرنو زندہ کرے اور وہ کہتے ہیں کہ خوب یا درکھو مجدد دعوئی کوئی نہیں کرتا بلکہ اس کا علم لوگوں کو بعض قرائن اور حالات اور ان خدمات سے ہوتا ہے جو وہ اسلام کی کرتا ہے.شیخ محمد طاہر گجراتی (۱۵۰۹.۱۵۷۸) جو سولہویں صدی میں ایک بہت بڑے عالم گزرے ہیں انہوں نے اس حدیث پر یہ نوٹ دیا ہے کہ اس کے مفہوم کے متعلق اتفاق ہی نہیں علماء نے اختلاف بھی کیا ہے.یعنی اس بات میں اختلاف کیا ہے کہ کون مجدد تھا کس صدی کا اور کون نہیں تھا اور ان میں سے ہر ایک فرقہ نے اسے اپنے امام پر چسپاں کیا ہے.مگر بہتر یہ ہے کہ اسے عام مفہوم پرمحمول کیا جائے اور فقہاء سے اسے مخصوص نہ کیا جائے کیونکہ یہ یقیناً مسلمانوں کو اولوالامریعنی جو بادشاہ ہیں اور جو محدث ہیں اور جو فزاء ہیں اور جو واعظ ہیں اور جو زاہد ہیں ان سب سے بہت فائدہ حاصل ہوتا ہے.اس لئے وہ سارے مجدد ہیں اور حدیث سے مراد یہ ہے کہ ہر صدی جب گزرے گی تو یہ لوگ زندہ ہوں گے.یہ نہیں کہ کوئی صدی ان کا نام و نشان مٹا ڈالے اور حدیث میں اس کے متعلق اشارہ ہے.وہ لکھتے ہیں کہ حدیث میں یہ اشارہ ہے کہ جو لوگ ہر صدی کے سر پر تجدید کا کام کریں گے وہ بڑے بڑے بزرگوں کی ایک جماعت ہوگی.پہلی صدی میں حضرت عمر بن عبد العزیز اور فقہاء اور محدثین اور ان دوسرے طبقات میں سے بھی بے شمار بزرگ تجدید دین کرنے والے ہیں.و مالا یحصی یعنی جن کو گنا نہیں جاسکتا.اتنے مجد دصدی کے سر پر عمر کے ساتھ انہوں نے جمع کر دیئے ہیں.اسی طرح انہوں نے جتنے ان کا یا جو صدی کے سر پر ایک سے زیادہ علماء ان کا ذکر کر دیا ہے.ایک اور کتاب درجات مرقاة الصعود الى سنن ابی داؤد

Page 58

17 اس میں ابو داؤد کی حدیث کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ انسب یہ ہے کہ حدیث کو عام مفہوم نہ کیا جائے.پس اس سے لازم آتا ہے کہ جو صدی کے سر پر مبعوث ہو وہ فرد نہ ہو بلکہ ہوسکتا ہے ایک یا ایک سے زائد ہوں کیونکہ گواُمتِ فقہاء سے جو فائدہ پہنچتا ہے وہ بھی عام ہے لیکن اسے جو فائدہ ان کے اولی الامر اور محدثین اور قُر اء اور واعظوں اور زہاد کے مختلف درجات سے پہنچتا ہے وہ بھی بہت زیادہ ہے.کیونکہ ہر فن اور علم کا ایک فائدہ ہے جو اُسے حاصل نہیں ہوتا.دراصل حفاظت دین میں قانونِ سیاست کی حفاظت اور ادب کا پھیلانا بہت اہم ہے کیونکہ اسی سے انسان کے خوف کی حفاظت ہوتی ہے، قانونِ شرعی قائم ہوتا ہے اور یہ کام حکام کا ہے.پس جو قانونِ شریعت نافذ کرنے والے حکام ہیں شیخ محمد طاہر گجراتی کے نزدیک وہ اسی طرح مجدد ہیں.ایک فقیہ مجدد ہوتا ہے یا جیسے صوفی بزرگ اور دعا گولوگ مجدد ہیں.پس زیادہ بہتر اور مناسب یہی ہے کہ مانا جائے کہ اس حدیث میں ہر صدی کے سر پر ایسے بڑے بزرگوں کی ایک جماعت موجود ہونے کی طرف اشارہ ہے لوگوں کیلئے.دین کو تازہ کریں گے اور تمام دنیا میں اس کی حفاظت کریں گے.علماء کے ایک گروہ نے یہ لکھا ہے کہ یہ ذمہ داری تو ساری اُمت کی تھی یعنی امت مسلمہ کے ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دین اسلام کی تجدید کرے.جس طرح ہم آپ کو کہتے ہیں کہ آپ دین سیکھیں اور اس کو ساری دنیا میں پھیلائیں.لیکن چونکہ سارے نہیں کرتے اس لئے ہر صدی میں ایک جماعت پیدا ہو جاتی ہے جو فرض کفایہ کے طور پر یہ کام کرتی ہے.کیونکہ وہ جماعت کام کرتی ہے اس لئے کہ جو نہیں کام کرتا اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف کر دیتا ہے اور اگر یہ بھی کام نہ کریں تو ان کے گناہ بھی معاف نہیں ہوں گے.پس حدیث شریف میں کسی ایک کے آنے کا ذکر نہیں نہ لغوی معنوں کے لحاظ سے اور نہ جو پہلے علماء تھے جن کے چند حوالے میں نے پڑھے ہیں.ان کے اقوال کے مطابق اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو اس کی تفسیر کی ہے اس کے مطابق.۳۲ے سلسلہ مجددین - آج اسلام کی امتیازی خصوصیت خدا تعالیٰ نے اسلام اور قرآن کی حفاظت کا ذمہ قیامت تک لیا ہے.آج اس رنگ میں تجدید واحیاء صرف اسلام کی خوبی ہے اور باقی مذاہب اس سے یکسر محروم ہیں.اسلام کی مثال اس سرسبز

Page 59

18 باغ کی سی ہے جس کا مالی ہمہ وقت اس کا خیال رکھتا ہے جبکہ دوسرے مذاہب اب اس خشک باغ کی مانند ہیں جن میں سوکھے درخت تو ہیں مگر وہ پھول اور پھل سے محروم ہیں.مالک نے اس باغ کی آبیاری چھوڑی دی ہے.دوسرے مذاہب کے بگاڑ اور اسلام کی شاندار حفاظت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- ”دنیا کے مذاہب پر اگر نظر کی جاوے تو معلوم ہوگا کہ بجز اسلام ہر ایک مذہب اپنے اندر کوئی نہ کوئی غلطی رکھتا ہے اور یہ اس لئے نہیں کہ در حقیقت وہ تمام مذاہب ابتداء سے بگڑے ہوئے ہیں بلکہ اس لیے کہ اسلام کے ظہور کے بعد خدا نے ان مذاہب کی تائید چھوڑ دی اور وہ ایسے باغ کی طرح ہو گئے جس کا کوئی باغبان نہیں اور جس کی آبپاشی اور صفائی کیلئے کوئی انتظام نہیں.اس لیے رفتہ رفتہ ان میں خرابیاں پیدا ہو گئیں.تمام پھل دار درخت خشک ہو گئے اور ان کی جگہ کانٹے اور خراب بوٹیاں پھیل گئیں اور روحانیت جو مذہب کی جڑ ہے وہ بالکل جاتی رہی اور صرف خشک الفاظ ہاتھ میں رہ گئے.مگر خدا نے اسلام کے ساتھ ایسا نہ کیا اور چونکہ وہ چاہتا تھا کہ یہ باغ ہمیشہ سرسبز رہے اس لیے اس نے ہر ایک صدی پر اس باغ کی نئے سرے سے آبپاشی کی اور اس کو خشک ہونے سے بچایا.ہر صدی پر جب بھی کوئی بندہ خدا اصلاح کیلئے قائم ہوا جاہل لوگ اس کا مقابلہ کرتے رہے لیکن خدا نے اپنی سنت کو نہ چھوڑا مگر دوسرے دینوں کو ہمارے نبی ﷺ کے بعد یہ تجدید کبھی نصیب نہ ہوئی اس لیے وہ سب مذاہب مرگئے ان میں روحانیت باقی نہ رہی.اور بہت سی غلطیاں ان میں ایسی جم گئیں کہ جیسے بہت مستعمل کپڑے پر جو بھی دھویا نہ جائے میل جم جاتی ہے اور ایسے انسانوں نے جن کو روحانیت سے کچھ بہرہ نہ تھا اور جن کے نفس امارہ سفلی زندگی کی آلائشوں سے پاک نہ تھے اپنی نفسانی خواہشوں کے مطابق ان مذاہب کے اندر بیجا دخل دے کر ایسی صورت ان کی بگاڑ دی کہ اب وہ کچھ اور ہی چیز ہیں.۳۳ے اسلام میں اس طرح سلسلہ مجددین جاری کرنے کے کیا نتائج برآمد ہوئے؟ اور اسلام کی حفاظت کیلئے ایسا کرنا کیوں ضروری تھا ؟ تا کہ باقی ادیان پر اس کی فوقیت ثابت ہو.ان باتوں کی تشریح کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: - السر کے لفظ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لفظ مجد دوں اور مرسلوں کے سلسلہ جاریہ کی طرف

Page 60

19 اشارہ کرتا ہے جو قیامت تک جاری ہے.اب اس سلسلہ میں آنے والے مجددوں کے خوارق ، ان کی کامیابیوں، ان کی تاثیروں وغیرہ کو گن بھی نہیں سکتے...غرض ہر صدی کے سر پر مجدد کا آنا صاف طور پر بتلا رہا ہے کہ مردوں سے استمد ادخدا تعالیٰ کے منشاء کے موافق نہیں اگر مُردوں سے مدد کی ضرورت ہوتی تو پھر زندوں کے آنے کی کیا ضرورت تھی.ہزاروں ہزار اولیاء اللہ پیدا ہوئے ہیں اس کا کیا مطلب تھا.مجددین کا سلسلہ کیوں جاری کیا جا تا اگر اسلام مُردوں کے حوالے کیا جاتا تو یقیناً سمجھو کہ اس کا نام ونشان مٹ گیا ہوتا.یہودیوں کا مذہب مُردوں کے حوالے کیا گیا نتیجہ کیا ہوا ؟ عیسائیوں نے مُردہ پرستی کی بتلاؤ کیا پایا.مُردوں کو پوجتے پوجتے خود مُردہ ہو گئے.نہ مذہب میں زندگی کی روح رہی نہ ماننے والوں میں زندگی کے آثار باقی رہے.اوّل سے لے کر آخر تک مردوں کا ہی مجمع ہو گیا.۳۴ چنانچہ مختلف مذاہب کے علماء اور محققین نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ واقعتاً مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ ان مذاہب میں بگاڑ پیدا ہوتارہا ہے.چنانچہ بدھ مت کے بگاڑ کے متعلق پنڈت جواہر لال نہرو لکھتے ہیں :- اس وسیع بدھ دنیا میں اور اس کی حکمرانی کی اس طویل مدت میں کوئی ایسا مصلح سامنے نہ آیا جو حقیقی بدھ مت کی طرف دعوت دے اور اس جدید اور منحرف مذہب کا پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کرے اور اس کا دور شباب اور اس کی گمشدہ سادگی اور صفائی پھر سے واپس لے آئے.۳۵ یہی حال ہندو مذہب کا ہوا اور یہی حال عیسائیت کا ہوا.عیسائیت کے بگاڑ کا تذکرہ کرتے ہوئے انسائیکلو پیڈیا میں لکھا ہے :- اگر ہم اس کے اسباب تلاش کریں کہ سولہویں صدی سے قبل اصلاح مذہب ریفارمیشن ) کی کوششوں میں جزوی کامیابی بھی کیوں نہ ہوئی تو بلا کسی دشواری کے کہہ سکتے ہیں کہ سب سے بڑا سبب قرونِ وسطیٰ کی ماضی کی مثالوں کی غلامی تھی.ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک مذہب میں زندگی کی روح پھونکنے والے افراد موجود نہ ہوں

Page 61

20 مذہب زندہ نہیں رہ سکتا کیونکہ زندگی کے تقاضے ہر وقت جواں ہیں، مادیت کا درخت سدا بہار ہے.نفس پرستی کی تحریک اور اس کے مذہب کو حقیقتاً کسی تجدید کی ضرورت نہیں کہ اس کی ترغیبات اور اس کے محرکات قدم قدم پر موجود ہیں پھر بھی اس کی تاریخ اس کے پر جوش داعیوں اور کامیاب مجددوں سے کبھی خالی نہیں رہی اور حدیث رسول کے مطابق ایسے آئمہ مضلین“ سے پیدا ہوتے رہے جنہوں نے اس کی جوانی کو قائم رکھا اور اس کی دعوت کو ہر دور میں پھیلاتے رہے اور یہ کہتے رہے گرچہ پیر ہے مومن، جواں ہے لات ومنات جب حدیث رسول کا پہلا حصہ پورا ہو گیا تو لازماً دوسرا حصہ یعنی بعثت مجد دین کے وعدے کا ایفاء بھی ضروری تھا.اس مادیت کا مقابلہ جب تک نئی زندگی اور روح کے ساتھ نہ کیا جاتا تو مادیت کی ہما ہمی میں حق کا بچنا بلکہ مادیت پر غلبہ پانا مشکل تھا لیکن خدا نے رحم فرماتے ہوئے سلسلہ مجددین جاری فرمایا اور اسلام میں تاریخ دعوت و عزیمت اتنی ہی طویل ہے جتنی اسلام کی زندگی.جب بھی امت محمدیہ کو کسی فتنے نے گھیرا اور ایک مرد مومن کی ضرورت محسوس ہوئی تو خدا نے اس کا خاطر خواہ انتظام کر دیا.قدریت ، جہمیت ، اعتزال خلق قرآن، وحدۃ الوجود اور دین الہی ایسے بے شمارفتن بپا ہوئے مگر اسلام کے حقیقی علمبرداروں نے خم ٹھونک کر ان کا مقابلہ کیا اور ہر فتنے کے مقابلے میں قرآن وسنت کی افضلیت ثابت کی.ہمارے موجودہ دور میں بھی ہر صدی کے سر پر جب اسلام اندرونی و بیرونی حملوں کی آماجگاہ بن گیا تو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیج کر ایک دفعہ پھر اپنے وعدہ کوسچا ثابت کر دکھایا.مجدد کی جاری و ساری نعمت کا ذکر کرتے ہوئے آیت کریمہ لقـد انـزلـنـا آیات مبینت کی تشریح میں حضرت خلیفہ ایسیح الثانی نے فرمایا :- ” پر اسلام میں ہر زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہوئے جو لقد انزلنا آیات مبینت کے ذریعہ اسلام کی روشنی کو ظاہر کرتے رہے.چنانچہ ابتدائی زمانہ میں حضرت جنید بغدادیؒ ہوئے، رو حضرت سید عبدالقادر جیلائی ہوئے ،شبلی ہوئے، ابراہیم ادھم ہوئے ، ابن تیمیہ ہوئے، ابن قیم ہوئے ، امام غزائی ہوئے ، حضرت محی الدین ابن عربی ہوئے اور ان کے علاوہ ہزاروں اور بزرگ ہوئے.پھر آخری زمانہ میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث ہوئے ، شیخ شہاب الدین صاحب سہروردی ہوئے ، خواجہ بہاؤ الدین صاحب نقشبندی ہوئے، نظام الدین صاحب اولیاء ہوئے ، خواجہ قطب الدین صاحب بختیار کاکی ہوئے،

Page 62

21 فرید الدین صاحب گنج شکر ہوئے ، حضرت سید احمد صاحب بریلوٹی ہوئے ، حضرت شیخ احمد صاحب سرہندی مجددالف ثانی ہوئے.یہ سب لوگ خدا تعالیٰ کا قرب پا کر آیات مبینت کا مقام حاصل کر گئے اور ان میں سے ہر شخص کو دیکھ کر لوگ اپنا ایمان تازہ کرتے تھے.پھر جب ان کا نور دھندلا ہوا تو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہمارے اندر پیدا کیا اور آپ کا وجود ہمارے لئے آیات مبینت بن گیا.۳۸ مجدد کے آنے کا وقت اس ضمن میں ایک سوال یہ ہو سکتا ہے کہ مجد د کب آتا ہے؟ اس کیلئے اصولی جواب تو یہ ہے کہ جب بھی فتنے اتنے بڑھ جائیں کہ ایک مصلح کی ضرورت محسوس ہوگی تو خدا مجدد بھیجے گا.حدیث مسجد دین میں فرمایا ہے کہ على رأس كل مائة کہ ہر صدی کے سر پر مجدد آئے گا.جب ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایک صدی کے کئی مجد د نظر آتے ہیں.لہذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ صدی کے سر پر تو ضرور مجدد آئے گا اور اس کے علاوہ دورانِ صدی بھی مجدد آسکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجدد کے وقت کے بارے میں فرماتے ہیں:.”اے غافلوں کے گرو ہو! تمہیں معلوم ہے کہ خدا دین کو ضائع نہیں کرتا اور خدا تعالیٰ کی سنت اور عادت اسی طرح پر جاری ہے کہ جب تاریکی کا زمانہ آجائے اور دین اسلام تیروں کا نشانہ ٹھہرایا جاوے اور اس پر خواص و عام کی زبانیں جاری ہوں اور لوگ ارتداد کے طریقے اختیار کریں اور زمین میں غایت درجہ کا فساد ڈال دیں.پس اس وقت قیومیت الہی توجہ فرماتی ہے کہ تا دین کی حفاظت کرے اور اللہ کا کوئی بندہ اس کی اعانت کیلئے کھڑا کر دیتا ہے.پس وہ دین اسلام کو اپنے علم اور صدق اور امانت کے ساتھ تازہ کر دیتا ہے اور خدا اس مبعوث کوز کی اور لائق فیض بناتا ہے اور اس کی آنکھ کھولتا ہے اور اس کو تازہ بتازہ علم بخشتا ہے اور نبیوں کے علموں کا اس کو وارث ٹھہراتا ہے.پس وہ ایسے پیراؤں میں آتا ہے جو فسا دزمانہ کے پیرایوں کے مقابل پر ہوتے ہیں اور وہی کہتا ہے جو خدا کی زبان نے اسے سکھایا ہواور مبداء فیضان سے کئی قسم کے علم اس کو دیے جاتے ہیں جو زمانہ کے فساد کے موافق ہیں“.۳۹ پھر حضور اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہ مجد وظلماتی زمانے میں آتا ہے اور صدی کے دوران

Page 63

22 پیدا شدہ فتنوں کا استیصال کرتا ہے، فرماتے ہیں :- ہر ایک مصلح اور مجدد جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے وہ لیلۃ القدر میں ہی اُترتا ہے.تم سمجھتے ہو کہ لیلۃ القدر کیا چیز ہے.لیلۃ القدر اس ظلماتی زمانہ کا نام ہے جس کی ظلمت کمال کی حد کو پہنچ جاتی ہے.اس لیے وہ زمانہ بالطبع تقاضا کرتا ہے کہ ایک نور نازل ہو جو اس ظلمت کو دور کرے.اس زمانے کا نام بطور استعارہ کے لیلتہ القدر رکھا گیا ہے مگر در حقیقت یہ رات نہیں ہے.یہ ایک زمانہ جو بوجہ ظلمت رات کا ہمرنگ ہے.نبی کی وفات یا اس کے روحانی قائمقام کی وفات کے بعد جب ہزار مہینے جو بشری عمر کے دور کو قریب الاختتام کرنے والا اور انسانی حواس کے الوداع کی خبر دینے والا ہے گزرجاتا ہے تو یہ رات اپنا رنگ جمانے لگتی ہے.تب آسمانی کارروائی سے ایک یا کئی مصلحوں کی پوشیدہ طور پر تخم ریزی ہو جاتی ہے جو نئی صدی کے سر پر ظاہر ہونے کیلئے اندر ہی اندر طیار ہورہے ہیں“.۰ صدی کا سر صدی کے سر سے کیا مراد ہے؟ یہ بات بھی زیر بحث ہے.اس کا ذکر کرتے ہوئے نواب صدیق حسن خانصاحب لکھتے ہیں :- " در حاشیه مشکوۃ مسمی بنجوم المشکوة تالیف مولانا محمد صدیق گفته ان الله يبعث لهذه الامة اذا ماتت السنن و حدثت البدع على رأس كل مائة سنة اى عند انقضاء المأئة من وقت بعثه عليه السلام او موته او تكمله.....پس راجح ہمیں ست کہ مراد بر اُس کل مائکہ طول زمان یک مائیکه ست کردر میں عرض مدت از مجدد ناگزیریست خواه در اول مائته باشد یا در وسط یا در آخر اسے ترجمہ: مشکوۃ کے حاشیہ نجم المشکواۃ جو مولانا محمد صدیق کی تالیف ہے میں کہتے ہیں کہ ان الله يبعث لهذه الامۃ یعنی جب سنت ختم ہوگی اور بدعت ظاہر ہو جائے گی اور صدی کے سر سے مراد حضور علیہ السلام کی بعثت یا وفات یا اس حدیث کے بیان کرنے کے ایک سوسال بعد ہے.پس ترجیحی بات یہ ہے کہ ہر صدی کے سر سے مراد ایک صدی کا سارا زمانہ ہے.گویا ایک سوسال کے اندراندر مجد دضرور

Page 64

23 آئے گا خواہ صدی کے شروع میں یا درمیان میں یا آخر پر آئے.اور علامہ جلال الدین سیوطی حدیث مجد دین کی تشریح میں کہتے ہیں :- الحمدلله الذي بعث اى ارسل على رأس اى اوّل و على كل مائة سنه من المولد النبوى او البعثه او الهجرة من اى مجتهدًا واحد او متعددا“.۲ تمام تعریف اس ذات کیلئے ہے جس نے مبعوث کیا یعنی بھیجا صدی کے سر پر یعنی شروع میں اور ہر صدی سے مراد حضور کی پیدائش تا بعثت یا ہجرت کے بعد سو سال مراد ہیں اور منُ کا مطلب ہے کہ ایک یا کئی مجتہد آئیں گے.کیا ہر صدی کے سر پر مجدد کا آنا ضروری ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کے جواب میں فرماتے ہیں:.یہ تو ضروری ہے کہ ہر صدی کے سر پر مجدد آئے.بعض لوگ اس بات کو سن کر پھر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جب کہ ہر صدی پر مجدد آتا ہے تو پھر تیرہ صدیوں کے مجددوں کے نام 66 بتاؤ.میں اس کا پہلا جواب یہ دیتا ہوں کہ ان مجددوں کے نام بتانا میرا کام نہیں.یہ سوال آنحضرت ﷺ سے کرو جنہوں نے فرمایا کہ ہر صدی پر مجدد آنا ہے.۴۳ لیکن جیسا کہ ظاہر ہے یہ جواب مسلمانوں کو مد نظر رکھ کر دیا گیا ہے.اگر کوئی غیر مسلم یہ سوال کرے تو اس کیلئے دوسرا جواب پیش کرنا ہوگا.چنانچہ اس حدیث کا دوسرا جواب حضرت اقدس نے اس طرح پیش فرمایا:- میں یقین دلاتا ہوں کہ یہ حدیث جھوٹی نہیں ہے صحیح ہے.یہ عام طور پر مشہور ہے کہ ہر صدی پر مجدد آتا ہے.نواب صدیق حسن خانصاحب وغیرہ نے ۱۳ مجدد گن کر بھی دکھائے ہیں مگر میں ان کی ضرورت نہیں سمجھتا.اس حدیث کی صحت کا یہ معیار نہیں بلکہ قرآن اس کی صحت کا گواہ ہے.یہ حدیث انا نحن نزلنا الذکر وانا له لحافظون کی شرح ہے.۴۴

Page 65

24 24 علامات مجددین حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- ” خدا کی عادت ہے کہ وہ ایسے بندوں کو بھیجا کرتا ہے جنہیں اس دین کی تجدید کیلئے پسند فرمالیتا ہے اور انہیں اپنے حضور سے قرآن کے اسرار عطا کرتا ہے اور حق الیقین تک پہنچاتا ہے اس لیے کہ وہ لوگوں پر حق کے معارف کو پوری قوت اور غلبہ اور چمک کے رنگ میں ظاہر کریں اور ان معارف کی حقیقت اور کیفیت اور راہوں اور ان کی شناخت کے نشانوں کو بیان کریں اور لوگوں کی بدعتوں اور بدکرداریوں اور ان کے طوفان وطغیان چھڑائیں اور شریعت کو قائم کریں اور اس کی بساط کو بچھائیں اور افراط و تفریط کو جو اس میں داخل کی گئی ہے دور کریں.اور جب خدا اہل زمین کیلئے چاہتا ہے کہ ان کے دین کو سنوارے اور ان کے برہانوں کو روشن کرے، ہول اور مصیبت کے پیش آنے پر ان کو مدد دے تب ان بزرگوں میں سے کسی کو ان میں کھڑا کر دیتا ہے اور نشانوں اور قاطع حجتوں سے ان کی تائید کرتا ہے.۴۵ مجدد کی خصوصیات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ضرورۃ الامام میں امام کی چھ خصوصیات بیان کی ہیں.یہی خصوصیات ایک مجدد میں بھی پائی جانی ضروری ہیں کیونکہ وہ بھی اپنے زمانے کا امام ہوتا ہے.اول قوت اخلاق چونکہ ایسے لوگوں کا واسطہ اوباشوں سے پڑتا ہے.لہذا ایک امام اعلیٰ اخلاق کا مالک ہونا چاہیے.یہ قابل شرم بات ہے کہ خدا کا دوست ہو اور اخلاق رذیلہ میں دوم گرفتار ہو.آیت انک لعلی خلق عظیم اس پر پوری طرح صادق آنی چاہیے.قوت امامت یعنی نیک باتوں ، اعمال اور تمام الہی معارف اور محبت الہی میں آگے بڑھنے کا شوق ہوا اور حالت ناقصہ پر راضی نہ ہو.یہ ایک فطرتی قوت ہے.سوم بسطت فی العلم کی قوت: چونکہ امامت کے مفہوم میں تمام حقائق و معارف اور لوازمِ

Page 66

25 محبت اور صدق اور وفا میں ترقی شامل ہے اس لیے وہ اپنے تمام قولی کو اسی خدمت میں لگادیتا ہے اور رب زدنی علما کی دعا میں ہر وقت مشغول رہتا ہے.خدا کے فضل سے علوم الہیہ میں اس کو بسطت عنایت ہوتی ہے اور شریعت پر ہرقسم کے اعتراضات طبابت کی رو سے عقلی بناء پر یا نفلی بناء پر ہوتے ہیں.امام کا کام ہے کہ وہ ان کا جواب دے بلکہ اسلام کی خوبصورتی ظاہر کرے.چهارم قوت عزم یعنی کسی حالت میں بھی نہ تھکنا اور نا امید نہ ہونا.ارادہ میں سست نہ - ہونا.بسا اوقات امام کو ایسے ابتلاء پیش آتے ہیں کہ نصرت الہی میں تاخیر ہو جاتی ہے اور مخالفین کی ایذاء انتہاء کو پہنچ جاتی ہے.ایسے حالات میں قوت عزم اس کا ساتھ دیتی ہے.اقبال علی اللہ کی قوت: ابتلاؤں کے وقت ، جب لوگ نشان نمائی کا مطالبہ کریں ،سخت دشمن سے مقابلہ ہو یا کسی فتح کی ضرورت ہو تو خدا کی طرف جھکے.تب اس کی دعائیں ملاء اعلیٰ نا میں ایک غلغلہ اور شور برپا کر دیتی ہیں اور خدا اس کی سہولت کے سامان پیدا کر دیتا ہے.ششم کشوف والہامات امام الزماں اکثر بذریعہ الہامات کے خدا تعالیٰ سے علوم اور حقائق اور معارف پاتا ہے.اس کے الہامات کیفیت اور کمیت میں دوسرے اولیاء سے بڑھ کر ہوتے ہیں.امام الزماں کی الہامی پیشگوئیاں اظہار علی الغیب کا مرتبہ رکھتی ہیں یعنی غیب کو ہر ایک پہلو سے اپنے قبضہ میں کر لیتی ہیں“.ہے یہ آخری بات زیادہ تفصیل کی متقاضی ہے کیونکہ جولوگ انقطاع وحی والہام کے قائل ہیں وہ امام کی اس خصوصیت کے بھی منکر ہیں.لیکن قرآن پکار پکار کر ان کی تردید کر رہا ہے.اور اس کے علاوہ آئندہ صفحات میں بعض مجددین کے الہامات و کشوف پیش کیے جائیں گے جو معترض کا دعوی باطل کریں گے.اس وقت قرآن کریم سے ثابت کیا جارہا ہے کہ مجدد کیلئے الہام ضروری ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے ان الذين قالوا ربنا الله ثم استقاموا تتنزل عليهم الملائكة.....نحن أولياء كم في الحيوة الدنيا والآخرة....نزلاً من غفور رحیم.فرمایا: جولوگ خدا کے راستے میں استقامت کا مظاہرہ کریں گے ان پر ملائکہ خوشخبریاں لے کر

Page 67

26 دنیا و آخرت میں نازل ہوں گے.مسجد کو وقت کے جابر بادشاہوں اور باطل پرستوں کے خلاف استقامت کا پہاڑ بنا پڑتا ہے.اس لیے اس پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور اسے ثبات قدم عطا کرتے ہیں.-۲- اسی طرح فرماتا ہے لا يمسه الا المطهرون - کہ قرآن کے گہرے مطالب صرف وہی لوگ پاسکتے ہیں جنہیں خوب پاک کیا گیا ہو.اب ظاہر ہے کہ مجدد کا سب سے بڑا کام قرآن کریم کی غلط تفاسیر کو کالعدم کر کے اس کے حقیقی مطالب کا بیان ہے.اس کام کیلئے انہیں خدا کی طرف سے پاکیزگی بخشی جاتی ہے اور علوم قرآنیہ سکھائے جاتے ہیں اور جسے یہ شرف ملے لازماًوہ صاحب مکالمہ و مخاطبہ ہوگا.پھر فرمایا الا ان اولياء الله لا خوف عليهم ولا هم يحزنون ) الذين امنوا و كانوا يتقون لهم البشرى فى الحيوة الدنيا و في الاخرة الخ.9 فرماتا ہے کہ اولیاء اللہ پر کوئی خوف اور حزن نہیں ہوتا.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان پر دنیا و آخرت میں بشارتوں کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور یہ بشارتیں یقیناً خدا کے فرشتے ہی لے کر آتے ہیں.اللہ تعالیٰ سورۃ القصص میں فرماتا ہے و اوحينا الى ام موسى ان ارضعيه فاذا خفت عليه فالقيه فى اليم ولا تخافى ولا تخزني الخ.کہ خدا کے الہام نے موسیٰ کی والدہ کے دل میں اتنا اطمینان اور یقین بھر دیا کہ وہ اپنے دودھ پیتے جگر گوشے کو دریا کی لہروں کے سپرد کرنے پر تیار ہوگئی.ایسی سکینت سوائے الہام کے حاصل ہو نہیں سکتی.اور آیت نمبر ۳ میں بھی خدا نے اولیاء اللہ کیلئے لا خوف عليهم......کے الفاظ ر کھے ہیں اور یہی الفاظ لا تخافی و لا تحزنی یہاں ہیں.گویا یہ بتایا کہ اولیاء اللہ پر خوف و ملال کا نہ ہونا اور سکینت کا نازل ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ان پر الہام نازل ہوتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس حقیقت کو فتح اسلام میں بھی واضح فرمایا ہے کہ مجد دزمانہ مکالمہ مخاطبہ کے شرف سے مشرف ہوتا ہے.حضور فرماتے ہیں:.تجدید دین وہ پاک کیفیت ہے کہ اول عاشقانہ جوش کے ساتھ اس پاک دل پر نازل ہوتی ہے کہ جو مکالمہ الہی کے درجہ تک پہنچ گیا ہو.پھر دوسروں میں جلد یا بدیر سے اس کی سرایت ہوتی ہے.جو لوگ خدا کی طرف سے قوت پاتے ہیں وہ نرے استخوان

Page 68

27 فروش نہیں ہوتے بلکہ وہ واقعی طور پر نائب رسول ﷺ اور روحانی طور پر آنجناب کے خلیفہ ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ انہیں ان تمام نعمتوں کا وارث بناتا ہے جو نبیوں اور رسولوں کو دی جاتی ہیں اور ان کی باتیں از قبیل جوشیدن ہوتی ہیں نہ کہ محض از قبیل کوشیدن اور وہ حال سے بولتے ہیں نہ مجرد قال سے اور خدا تعالیٰ کے الہام کی تجلی ان کے دلوں پر ہوتی ہے.اور وہ ہر ایک مشکل کے وقت روح القدس سے سکھائے جاتے ہیں اور ان کی گفتار اور کردار میں دنیا پرستی کی ملونی نہیں ہوتی.کیونکہ وہ بلکلی مصفا کیے گئے اور بتمام و کمال کھینچے گئے ہیں.۵۱ کیا مجدد کیلئے دعوئی لازمی ہے؟ ایک سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ مجدد کیلئے دعوئی ضروری ہے یا نہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ اتنی بات تو بہر حال واضح ہے کہ مجد دصاحب کشف والہام ہوتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کو مجددیت کا الہام بھی ہو یا اگر اسے الہام ہو بھی تو اس کیلئے اس کی اشاعت اور اظہار ضروری نہیں ہے کیونکہ نبی وہ واحد وجود ہے جس پر دعویٰ کا اظہار ضروری ہے اور اس کو نہ ماننے والا کافر ہوتا ہے اور تمام مجددین کا دعوی ویسے بھی نہیں ملتا.اس لیے جب دعویٰ موجود ہی نہیں تو یہ سوال باقی ہی نہیں رہتا.لیکن دوسری طرف چند مجددین کا دعوی ملتا بھی ہے جیسے ( تفصیل آئندہ آئے گی ) حضرت جلال الدین سیوطی صاحب، حضرت مجدد الف ثانی صاحب ، حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی، حضرت سید احمد صاحب شہید وغیرہ.غور کرنے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جوں جوں فتنے بڑھتے جارہے تھے اور چودھویں صدی کے مجدد کا زمانہ قریب سے قریب تر آتا جا رہا تھا جس نے بہر حال مسیح موعود اور مہدی موعود ہونے کے باعث دعوی کرنا تھا مجددین کا قریبی دعوی بھی ملتا جا تا تھا.لیکن پہلی صدیوں کے مجد ڈین کا دعوی نہیں ملتا.گویا ذہنوں کو مجددماًة آخر کے دعوی کیلئے تیار کیا جارہا تھا.لیکن اسبارہ میں ایک بات قطعی اور یقینی ہے کہ باقی مجددین کیلئے دعویٰ ضروری ہو یا نہ ہو چودھویں صدی کے مجدد کیلئے دعوئی کرنا بہر حال ضروری تھا.کیونکہ نعوذ باللہ اگر ایک جھوٹا شخص میدان میں کھڑا بڑے زور وشور سے دعویٰ کر رہا ہو اور سچا مجد دکھڑا نہ ہو اور جھوٹ اور سچ میں تمیز کر کے نہ دکھلائے تو خدا کے اس سلسلہ مجددین کے تو اتر پر زد پڑتی ہے.ان حالات میں اس کا خاموش رہنا الساکت عـن الهـق شيطان اخرس کے

Page 69

28 مطابق اسے گونگا شیطان“ قرار دیتا ہے.چہ جائیکہ اس کو مدعی مفقود اور گواہ موجود کا مصداق بناتے ہوئے مضحکہ خیز طور پر مجدد قرار دیا جائے.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :- آنحضرت ﷺ سے ثابت ہے کہ ہر ایک صدی پر ایک مجدد کا آنا ضروری ہے.اب ہمارے علماء کہ جو بظاہر اتباع حدیث کا دم بھرتے ہیں انصاف سے بتلا دیں کہ کس نے اس صدی کے سر پر خدا سے الہام پا کر مجدد ہونے کا دعویٰ کیا ہے.یوں تو ہمیشہ دین کی تجدید ہورہی ہے مگر حدیث کا تو یہ منشاء ہے کہ وہ مجد دخدا تعالی کی طرف سے آئے گا یعنی علوم لدنیہ و آیات سماویہ کے ساتھ ۵۲ پس چودھویں صدی کے مجدد کیلئے دعوئی ناگزیر تھا.جیسا کہ حضور مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں:- اس آخری خلیفہ کیلئے یہ ضروری تھا کہ آخری حصہ ہزار ششم میں آدم کی طرح پیدا ہو اور سن چالیس میں آنحضرت ﷺ کی طرح مبعوث ہو اور نیز صدی کا سر ہو اور یہ تین شرطیں ایسی ہیں کہ اس میں کا ذب اور مفتری کا دخل غیر ممکن ہے.مَنْ يُجَدِّدُ ۵۳ حدیث مجددین میں مَنْ يُجَدِّدُ کا لفظ ہے جو جمع پر بولا جاتا ہے.اس لیے ایک صدی میں ایک سے زائد مجد دین نہیں آسکتے بلکہ آتے رہیں ہیں.بہر حال کوئی بھی صدی مجدد کے وجود سے خالی نہیں ہے.اس کی تشریح کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فر ماتے ہیں:- مجد دین کے متعلق لوگوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ ایک ہی مسجد دساری دنیا کیلئے مبعوث ہوتا ہے حالانکہ یہ بالکل غلط ہے.اصل بات یہ ہے کہ ہر ملک میں اور ہر علاقہ میں اللہ تعالیٰ مجدد پیدا کیا کرتا ہے.مگر لوگ قومی یا ملکی لحاظ سے اسے اپنی قوم اور ملک کے مسجد دکو ہی ساری دنیا کا مجد دسمجھ لیتے ہیں.حالانکہ جب اسلام ساری دنیا کیلئے ہے تو ضروری ہے کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں اور مختلف ملکوں میں مختلف مسجد دین کھڑے ہوں.( مختلف ممالک کا ذکر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں ) ان ممالک کی تاریخ دیکھی جائے تو

Page 70

29 ان میں بھی ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو صاحب وحی اور صاحب الہام تھے اور جنہوں نے اپنے ملک کی رہنمائی کا فرض سرانجام دیا.پس وہ بھی اپنی اپنی جگہ مجد دتھے اور یہ بھی اپنی جگہ مجدد تھے ۵۴ الائمة من القريش سے مراد یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ امام قریشی ہوں گے اور سلسلہ مجددین اور آئمہ ایک ہی مفہوم میں ہے تو کیا سارے مسجد دین قریشی ہوں گے.اس کا جواب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ نے آئمہ کے بارے میں ایک سے زائد پیشگوئیاں فرمائی ہیں.مثلاً مشکوۃ میں ایک حدیث یوں ہے: صلى الله عن جابر بن سمرة قال سمعت رسول الله عليهم يقول لا يزال الاسلام عزيزا الى اثنى خليفة، خليفة كلهم من قريش - ده.حضرت جابر بن سمرہ راوی ہیں کہ رسول اللہ اللہ نے فرمایا اسلام ہمیشہ بارہ خلفاء کے ذریعہ غالب رہے گا.جن میں سے ہر ایک قریشی ہوگا.دوسری طرف یہ بات بھی مسلم ہے کہ قیامت تک بارہ نہیں بلکہ ہزار خلفاء و اولیاء آئیں گے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو کئی جگہ بیان کیا ہے.اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ بارہ مجد ڈین قریشی ہوں گے اور باقی ان کے علاوہ دوسرے بھی ہو سکتے ہیں.دوسراصل یہ ہے کہ قریش سے کیا مراد ہے.کیا صرف خاندان نبوی کے افراد یا حضرت نبی کریم ﷺ کے تمام صحیح متبعین قریش میں شامل ہیں.مؤخر الذکر بات قبول کرنے سے کوئی مسئلہ نہیں رہتا.کیونکہ ہر مجد د سیح متبعین ہونے کی حیثیت سے قریشی ہوا ہے.چنانچہ یہی حل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی پیش فرمایا ہے.اصل بات یہ ہے کہ پیغمبر خدا کوکشفی طور پر دکھایا گیا تھا کہ خلیفے قریش سے ہوں گے خواہ حقیقی طور پر یا بروزی طور پر جیسے دجال کا بروز بنایا اسی طرح پر سلاطین مغلیہ وغیرہ.بروزی طور پر قریش ہی ہیں.جب تک کوئی بروز کے مسئلہ کو نہیں سمجھتا اس پیشگوئی کی.حقیقت کو سمجھ نہیں سکتا....جب اصل قریش میں استعداد نہ رہی اور اس قوم میں وہ استعداد پائی گئی تو خدا نے وہ عہدہ اس کے حوالے کیا.الالی امور ہمیشہ ہوتے ہیں اور ہوں گے یہ معنے ہیں الائمة من القريش“ کے“.۵۶

Page 71

30 مجدد پر ایمان لانا ضروری ہے ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ مسجد دوں پر ایمان لانا ضروری ہے یا نہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ سلسلہ مجددین کے آنے پر تو ایمان لانا ضروری ہے کیونکہ یہ آنحضرت ﷺ کی بیان کردہ حدیث ہے.اور جو مجدد دعوی کرے اسے ماننا بھی ضروری ہے.جو ان کا انکار کرے وہ فاسقوں میں سے ہوگا.اس میں ان لوگوں کے خیال کا رڈ ہے جو کہتے ہیں کہ مجدد کی بیعت ضروری نہیں ہے.اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- یہ کہنا کہ مجد دوں پر ایمان لانا کچھ فرض نہیں خدا تعالیٰ کے حکم سے انحراف ہے کیونکہ وہ فرماتا ہے ومـن کـفـر بعد ذلک فاولئک ھم الفاسقون.یعنی بعد اس کے جو خلیفے بھیجے جائیں پھر جو شخص ان کا منکر رہے وہ فاسقوں میں سے ہے.تھے مجد ڈین کی تعیین ایک آخری سوال یہ بھی رہ جاتا ہے کہ مجددین کی تعیین کیسے ہو؟ اور کون سے مجددین لیے جائیں ؟ اس کا حتمی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ مجددین کی لسٹ نہ تو قرآن میں ہے نہ حدیث میں اور نہ اس طرح ہوسکتی ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس بارہ میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:- یہ تو ضروری ہے کہ ہر صدی کے سر پر مجدد آئے.بعض لوگ اس بات کو سن کر پھر اعتراض کرتے ہیں کہ جب ہر صدی پر مجدد آتا ہے تو پھر تیرہ صدیوں کے مجددوں کے نام بتاؤ ؟ میں اس کا پہلا جواب یہ دیتا ہوں کہ ان مجددوں کے نام بتانا میرا کام نہیں.یہ سوال آنحضرت ﷺ سے کرو جنہوں نے فرمایا ہے کہ ہر صدی پہ مجدد آنا ہے.۵۸ اسی طرح خطبہ الہامیہ میں فرمایا : - اس آیت سے صاف وعدہ اس امت کیلئے ایسے خلیفوں کا ہے جو ان خلیفوں کی طرح ہوں جو بنی اسرائیل میں گزر چکے ہوں اور قرآن کریم جب وعدہ کرتا ہے تو اسے پورا کرتا ہے.اور ہم ان تمام خلیفوں کے نام نہیں جانتے جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں مگر اس

Page 72

31 امت کے اور اگلی امت کے چند گزرے ہوئے آدمی.اور خدا نے ان سب کے نام سے بھی ہم کو اطلاع نہیں دی.پس ہم ان پر اجمالی طور پر ایمان لاتے ہیں اور ان ناموں کی تفصیل کو اپنے خدا کو سونپتے ہیں.لیکن ظاہر ہے کہ یہ جواب مسلمانوں کیلئے ہے اگر کوئی غیر مسلم حفاظت قرآن کی آیات اور احادیث درباره مجد دین کی صداقت کے زمرہ میں مجددین کی بابت پوچھے تو ہمیں اس کو جواب دینا پڑے گا.چنانچہ حضور نے بھی دوسرا جواب یہ فرمایا : - ہم یقینی اور قطعی طور پر ہر ایک طالب حق کو ثبوت دے سکتے ہیں کہ ہمارے سیڈ ومولا آنحضرت ﷺ کے زمانہ سے آج تک ہر ایک صدی میں ایسے با خدا لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ غیر قوموں کو نشان دکھلا کر ان کو ہدایت دیتا رہا ہے جیسا کہ سیّد عبد القادر جیلانی اور ابوالحسن خرقانی اور...معین الدین چشتی....اور نظام الدین دہلوی اور شاہ ولی اللہ دہلوی اور شیخ احمد سرہندی رضی الله و رضوا عنه اسلام میں گزرے ہیں.

Page 73

32 (1 (۲ فہرست مجد دین امت محمدیہ حضرت عمر بن عبد العزیزز حضرت امام شافعی.احمد بن حنبل ۳) حضرت ابو شریح.ابوالحسن اشعری الد حضرت ابو عبید اللہ نیشیا پوری.قاضی ابوبکر باقلانی رم کم کم کم کم (۵ (4 (< (٨ حضرت امام غزالی حضرت سید عبدالقادر جیلانی حضرت امام ابن تیمیہ.حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ حضرت حافظ ابن حجر عسقلانی.حضرت صالح بن عمر و) حضرت امام سیوطی (1+ (If حضرت امام محمد طاہر گجراتی حضرت مجددالف ثانی سرہندیؒ ۶۶ الله حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ۱۳ حضرت سید احمد بریلوی.حضرت عثمان ڈان فود یو ۱۴) حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مجدد و مہدی مسعود و مسیح موعود علیہ السلام ہے نوٹ: اس فہرست میں کوشش کی گئی ہے کہ کل عالم اسلام کے مختلف علاقوں کے اور ہر صدی کے منتخبہ مجددین کا تذکرہ ہو جائے.

Page 74

33 P- ملفوظات.جلد 4 صفحہ 2 آئینہ کمالات اسلام سے آئینہ کمالات اسلام.صفحہ 340 شہادت القرآن.صفحہ 43 هم دم // "1 صفحه 42 صفحه 57 حوالہ جات تفہیمات الہیہ.جلد دوم صفحہ 133 تفسیر کبیر.جلد 7 صفحہ 199 نج الکرامہ.مصنفہ نواب صدیق حسن خان.صفحہ 140 حجج الکرامہ - صفحہ 133 تجدید و احیائے دین از مودودی.صفحہ 47 الفضل 16 / مارچ 1965ء سورۃ نور 24 - آیت 53 تفسیر حضرت مسیح موعود سورۃ مریم تا عنکبوت.صفحہ 271 سورة الحجر.10:15 سر الخلافہ - صفحہ 37 ک المائدہ -45:5 ۱۸ ترمذی ابواب الفتن باب ما جاء فی الائمة المتصلين کتاب البریہ - صفحہ 67 الفضل 16 / مارچ.1965ء الفضل 16 / مارچ 1965ء ملفوظات.جلد 3 ، صفحہ 254

Page 75

34 البقره - 87:2 تلخیص از تبلیغ ہدایت.مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے، صفحہ 9 شهادة القرآن - صفحہ 44 انوار العلوم - جلد 5 صفحہ 252 انوار العلوم.جلد 1 صفحہ 80 تفسیر کبیر.جلد ہفتم صفحہ 198 سنن ابی داؤد.کتاب الملاحم باب ما یذکر فی قدر المائة الحکم.21 فروری 1903ء نج الکرامہ - صفحہ 133-134 الفضل 21 مئی 1978ء لیکچر سیالکوٹ.صفحہ 1-2 الحکم 24 / جولائی 1902ء صفحہ 7 تلاش ہند.پنڈت جواہر لال نہر وصفحہ 201، بحوالہ تاریخ دعوت و عزیمت از مولانا محمد سلیمان ندوی جلد 1 صفحہ 32 ايضاً، صفحہ 28 ترمذی ابواب الفتن باب ما جاء فی الائمة المضلين تفسیر کبیر.جلد ششم ،صفحہ 359-358 نور الحق حصہ دوم.صفحہ 41 ایڈیشن اوّل فتح اسلام ،صفحہ 59 حج الکرامہ - صفحہ 142-141 نج الکرامہ - صفحہ 140 ملفوظات.جلد پنجم صفحہ 100 ملفوظات جلد پنجم صفحہ 101 الهدى والتبصرة لمن يرى - صفحه 2 ۲۵

Page 76

ا.صفحہ 136.صفحہ 136 ا - صفحه 138 ا.صفحہ 138 " ۵۶۶ " " 35 مام ام دم حمام تلخیص از ضرورت الامام - صفحہ 13 تا 201 تم السجدہ - 31:41 الواقعہ -80:56 سورہ یونس.63:10 تا 65 القصص - 8:28 ال فتح الاسلام صفحہ 9 حاشیہ له له له له له له ۵۸ ازالہ اوہام حصہ اوّل.صفحہ 154 ایڈیشن اوّل تحفہ گولڑویہ.صفحہ 190 تفسیر کبیر جلد 7.صفحہ 199 مشکوہ باب مناقب قریش ملفوظات.جلد 1 صفحہ 453 شہادۃ القرآن صفحہ 48 ملفوظات.جلد 5 صفحہ 100 ترجمہ از خطبہ الہامیہ صفحہ 39 کتاب البریہ - صفحہ 67 نج الکرامہ - صفحہ 135 نج الکرامہ.صفحہ 13 " ا.صفحہ 136 - صفحہ 136 136/1/1 ".صفحہ 137 " ا.صفحہ 137 اتا.ايضاً

Page 77

36 پہلی صدی کے مجدد حضرت عُمر بن عبد العزيز رَحْمَةُ الله عَلَيْهِ - ”ہر وہ بدعت جسے اللہ میرے ہاتھ سے میرے گوشت کے ٹکڑے کے عوض مردہ کر دے اور ہر وہ سنت جسے اللہ میرے ہاتھ پر قائم کر دے یہاں تک کہ اس کا انجام میری جان پہ ہو تو میرے لیے یہ آسان ہے.اے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- (ارشاد حضرت عمر بن عبد العزیز) پس یاد رکھو کہ وہ راہ جہاں انسان کبھی نا کام نہیں ہوسکتا وہ خدا کی راہ ہے.دنیا کی شاہراہ ایسی ہے جہاں قدم قدم پر ٹھوکریں اور نا کامیوں کی چٹانیں ہیں.وہ لوگ

Page 78

37 جنہوں نے سلطنتوں تک کو چھوڑ دیا آخر بیوقوف نہ تھے.جیسے ابراہیم بن ادھم ، شاہ شجاع، شاہ عبدالعزیز جو مجد د بھی کہلاتے ہیں حکومت ، سلطنت اور شوکت دنیا کو چھوڑ بیٹھے.اس کی یہی وجہ تو تھی کہ ہر قدم پر ایک ٹھوکر موجود ہے.خدا ایک موتی ہے اس کی معرفت کے بعد انسان دنیاوی اشیاء کو ایسی حقارت اور ذلت سے دیکھتا ہے کہ ان کے دیکھنے کیلئے اسے طبیعت پر ایک جبر اور اکراہ کرنا پڑتا ہے.پس خدا کی معرفت چاہو اور اس کی طرف ہی قدم اٹھاؤ کہ کامیابی اسی میں ہے.ہے خلافت راشدہ کے بعد نیم تربیت یافتہ مسلمانوں اور غیر عربی اقوام میں جاہلی رجحانات عود کر آئے تھے.تفاخر و عصبیت کی روح جس کو اسلام نے شہر بدر کر دیا تھا اور جو بادیہ عرب میں پناہ گزیں تھی ، پھر لوٹ آئی.قبائلی غرور، خاندانی جنبه داری، اعزہ پروری اب دوبارہ محاسن میں شمار ہونے لگے تھے.بیت المال خلیفہ کی ذاتی جاگیر بن گیا تھا.پیشہ ور شعراء، خوشامدی درباریوں اور آبرو باختہ مصاحبین کا ایک طبقہ پیدا ہو گیا تھا.جس پر امت مسلمہ کی دولت بے دریغ صرف ہورہی تھی.معترضین کا ایک طبقہ معرض وجود میں آگیا تھا.یوں لگتا تھا جیسے زخم خوردہ جاہلیت اپنے فاتح حریف سے چالیس سالہ شکست کا انتقام ایک ہی دن میں لینا چاہتی ہے.اسلام غریب الدیار ہورہا تھا.حضرت نبی اکرم کی پیشگوئی کے مطابق خلافت راشدہ کے اختتام کے بعد ملكاً عاضًا“ کا دور دورہ تھا.طاؤس و رباب ، رقص و سرود اور مئے و معشوق مسلم حکمرانوں کے دربار کی رونق تھے.انہیں ملک کی گرتی ہوئی اخلاقی حالت سے کوئی سروکار نہ تھا.اور الناس علی دین ملو کھم“ کے تحت عوام کالانعام ہورہے تھے.مسجد میں ویران ہو رہی تھیں.بدعات بڑھ رہی تھیں.امت مسلمہ کی اخلاقی حالت پستی کے عمیق گڑھوں میں سسکیاں لے رہی تھی.لاھہ میں تاریخ اسلام کا وہ جانگسل واقعہ رونما ہوا جس کے باعث اہل اسلام کی گردنیں قیامت تک شرم سے جھکی رہیں گی.مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام کی مثالیں بھی موجود تھیں، غلط فتوے دیے جاتے تھے.لیکن چشم فلک نے یہ کبھی نہ دیکھا تھا که یزید پلید جیسا شخص خلیفتہ السلمین نامزد کیا جائے.قاضی شریح جیسا بد بخت قتل حسین علیہ السلام کا فتویٰ ایک اشرفیوں کی تھیلی پر جاری کرے.۱۰ محرم کی شام مسلم دنیا کی کتنی سیاہ شام تھی.جب امام المعصومین، سید الشہداء، نواسہ رسول، جگر گوشته بتول، فرزند علی حضرت امام حسین علیہ السلام کا سرسجدہ

Page 79

38 ریز ہونے کی حالت میں سنان بن انس نے تن سے جدا کر دیا.انا للہ وانا الیہ راجعون ہمارا وجدان ششدر ہے اور ہماری نظر کوتاہ ہے اس بات کے ادراک سے کہ کوفے والے کیسے مسلمان تھے جن کے دلوں میں محبت رسول اور آل رسول اتنی سرد ہو چکی تھی کہ ایک چنگاری بھی سلگ نہ سکی.وہ معصوم جسے رسول نے اپنا محبوب، سردار بہشت اور جنت کی خوشبو قرار دیا تھا بیدردی سے شہید کر دیا گیا.یقیناً اس المناک واقعہ پر آسمان بھی گریہ کناں ہوا ہوگا ، زمین نے بھی فریاد کی ہوگی مگر وہ پتھر دل ” مسلمان ٹس سے مس نہ ہوئے ، غفلت کے لحاف اور گمراہی کی دبیز اوڑھنیاں ان پر طاری رہیں.وہ رسول جو عالمی رواداری کا علمبر دار تھا جو دشمنوں کیلئے بھی بارانِ رحمت تھا اس کی طرف منسوب ہونے والوں نے جگر گوشہ رسول کو پانی پینے سے روک دیا.سخت پیاس کی حالت میں جب آپ دریائے فرات کی طرف بڑھے تو پانی کی بجائے سنسناتے تیر نے آپ کا استقبال کیا.چہرہ مبارک خون آلودہ ہو گیا ، اس طرح زخموں سے چور اور نڈھال وجود کو ظالموں نے تیروں و تلواروں سے شہید کر دیا.امت محمدیہ انتشار کا شکار تھی.مروان کے زمانے میں ایک طرف توابین کا خروج تھا تو دوسری طرف مختار بن ابی عبید ثقفی ظاہر ہو چکا تھا جس نے خود کو مہدی وقت ظاہر کیا اور قتل حسین کے نام پر بہت سے بے گناہوں کے سر قلم کرادیے.جو عرب اس کے مقابل اُٹھے انہیں قتل کرا دیا.خوارج الگ فتنہ بن کر ظاہر ہو چکے تھے.یوں امت میں متعدد فرقے تھے جن میں سے ہر ایک دوسرے کی جان کا دشمن تھا.حالت اتنی دگر گوں تھی کہ حرم مقدس جہاں گھاس کے سوا کسی درخت کو کاٹنا بھی منع تھا وہاں جنگ و جدل شروع ہو چکا تھا اور انسان گاجر مولی کی طرح کٹ رہے تھے.حجاج نے حرم پر سنگ باری کرائی جس سے خانہ کعبہ کی عمارت کو نقصان پہنچا.سے کھ میں عبدالمالک کے زمانے میں رومیوں نے شام پر حملے کا ارادہ کیا.ادھر اندرون ملک ابن زبیر خطرے کا الارم بنا بیٹھا تھا.تب مسلمان ملک کے خلیفہ نے ہزار دینار فی ہفتہ تاوان پر رومیوں سے صلح کرلی...حجاج کے ظلم وستم کی تو طویل داستان ہے.ابن زبیر اور سعید بن جبیر جیسے نڈر، بیباک اور صاف گو صحابہ کو شہید کر دیا.بعض بزرگ صحابہ کو کوڑے لگائے گئے.نا جو ہر شناسی اور بیقدری کا یہ عالم تھا کہ محمد بن قاسم اور موسیٰ بن نصیر جیسے عظیم جرنیلوں کو ذاتی عناد کی بناء پر ہلاک کرا دیا گیا.اور موسیٰ

Page 80

39 بن نصیر کے بیٹے عبد العزیز کا یہ حال تھا کہ اس نے راڈرک کی بیوہ سے نکاح کر لیا تھا.وہ اس کی زلف کا اسیر تھا.اس کی خواہش کے مطابق اس نے دروازہ چھوٹا بنوایا تا کہ لوگ جھک کر اس کی بیوی کے سامنے آئیں، گویا اس کو سجدہ کریں.عبدالعزیز کے متعلق لکھا ہے کہ وہ عیسائی ہو گیا تھا.اموی بادشاہ نماز تاخیر سے پڑھا کرتے تھے.بلکہ صحابہ کہا کرتے تھے قد ضيعت الصلوۃ.لوگ سنت رسول سے بیگانہ ہوا جاتے تھے.خطبات میں حضرت علی کے خلاف زبان طعن دراز کی جاتی تھی اور سب و شتم سے کام لیا جاتا تھا.گویا دین ملا کی میراث بن کر رہ گیا تھا.یہ وہ سنگین و پر آشوب حالات تھے جو زبانِ حال و قال سے ایک مصلح کا مطالبہ کر رہے تھے.تب خدا نے دین کی تجدید کرنے کا اپنا وعدہ پورا کیا اور 99ھ میں حضرت عمر بن عبد العزیز کے وجود میں مسلمانوں کو ایک مجد دعطا کیا جنہوں نے فاروقی عہد کی یاد تازہ کر دی.ہے ولادت ونسب آپ 11ھ میں پیدا ہوئے.آپ بانی سلطنت بنوامیہ مروان کے پوتے تھے.آپ کی والدہ ام عاصم حضرت عمر بن خطاب فاروقِ اعظم کی پوتی تھیں.فاروقیت اور امویت کے اس سنجوگ کے نتیجہ میں ایک جو ہر قابل ظاہر ہوا جس نے خلافت راشدہ کی یاد تازہ کردی.خلافت سے قبل چونکہ آپ شاہی خاندان کے فرد تھے اس لیے زندگی عیش و تم سے لبریز تھی.آپ کی تعلیم و تربیت بڑے اہتمام سے ہوئی.مشہور محدث صالح بن کیسان آپ کے نگران مقرر ہوئے.خوش لباسی اور نفاست پسندی کا یہ حال تھا کہ جس لباس پر ایک دفعہ کسی کی نظر پڑ جاتی دوبارہ اسے استعمال نہ کرتے.داڑھی پر عنبر چھڑکتے تھے.رجاء بن حیوۃ کا بیان ہے کہ آپ اپنے زمانے کے سب سے زیادہ خوش لباس، معطر اور تبختر کی چال چلنے والے تھے.ھے بشارت

Page 81

40 حضرت عمر بن خطاب فرمایا کرتے تھے کہ میری اولاد میں سے ایک شخص پیدا ہوگا جس کے چہرے پر داغ ہوگا اور وہ زمین کو عدل سے بھر دے گا.21 یہ پیشگوئی حضرت عمر بن عبدالعزیز کے وجود میں پوری ہوئی.چہرے پر داغ بھی تھا اور عدل پھیلانے کا عزم بھی شروع سے ہی کر رکھا تھا.جب ولید نے انہیں مدینہ کی گورنری پیش کی تو انہوں نے اس شرط پر اسے قبول کیا کہ میں دوسرے عمال کی طرح کام نہیں کروں گا.ولید نے اسے منظور کیا.ہے سر پر خلافت پر آنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ سے احیائے دین کا کام لینا تھا اس لیے ماہ صفر ۹۹ ھ میں آپ خلیفہ بنے اور خلافت کے بعد آپ کی زندگی یکسر بدل گئی.اب آپ عمر بن خطاب کے جانشین نظر آتے تھے.آپ کی زندگی میں ابوذر غفاری کا سا زہد نظر آتا تھا.جب اپنے پیش روسلیمان کی تجہیز و تکفین سے فارغ ہو کر آ رہے تھے تو آپ کو شاہی سواریاں پیش کی گئیں.آپ نے انہیں خالی واپس لوٹا دیا اور فرمایا مجھے میرا خچر ہی کافی ہے.۵ یوں آپ کی زندگی میں ایک انقلاب بپا ہوا.آپ کی عیش پرست زندگی پر موت وارد ہوئی اور ایک نئے وجود نے جنم لیا جو ایک دینی رہنما اور مجدد اسلام کی تمام خصوصیات اپنائے ہوئے تھا.جب آپ کو خلیفہ منتخب کیا گیا تو آپ نے آغا ز خلافت میں تقریر فرمائی.جس میں آپ نے فرمایا:- يـا ايـهـا الـنـاس انه ليس بعد نبيكم نبئ و ليس بعد الكتاب الذي انزل عليكم كتاب....الا اني لست بقاضى وانما انا منفذ الا ولست بمبتدع ولكن متبع - 2 تمہارے نبی کے بعد دوسرا نبی آنے والا نہیں ہے اور جو کتاب اس پر اتاری گئی ہے اس کے بعد دوسری کوئی کتاب آنے والی نہیں ہے.میں (اپنی طرف سے ) کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں ہوں بلکہ صرف احکام الہی کو نافذ کرنے والا ہوں.خود اپنی طرف سے کوئی بدعت پیدا کرنے والا نہیں بلکہ محض پیرو ہوں.اور واقعتاً دو سال کے قلیل عرصہ میں آپ نے احکام الہی کو ہی نافذ کیا.بدعات کا خاتمہ کیا، امراء وعمال کا احتساب کیا اور بگڑے ہوئے دین کی اصلاح کر دی.جس کا تفصیلی تذکرہ آئندہ صفحات

Page 82

میں کیا جائے گا.وفات 41 آپ بڑے شکیل تھے.رنگ گورا اور چہرہ وجیہ تھا.خلافت کی کل مدت دو سال پانچ ماہ تھی.اشاھ میں اس دنیا سے رخصت ہوئے.اس بات کے قرائن موجود ہیں کہ آپ کے خاندان والوں نے زہر دے کر آپ کی زندگی کا خاتمہ کیا.دیر سمعان میں دفن ہوئے.چالیس برس کی عمر پائی.آپ کی چار بیویاں اور پندرہ بچے تھے.تجدید وین آپ نے جو تجدیدی کارنامے کیسے مختلف اطوار سے ان کا جائزہ لیا جاتا ہے.تدوین حدیث آپ کا یقینا سب سے بڑا کارنامہ تدوین حدیث کی طرف شدت سے رغبت اور اس کی طرف عملی توجہ ہے.ابوبکر بن حزم جو کہ ایک بڑے عالم تھے، کو تدوین حدیث کی طرف توجہ دلاتے ہوئے لکھا: انـظـر مـاكـان مـن حـديـث رسول الله علي فاكتبه فانی خفت دروس العلم و ذهاب العلماء.جہاں حدیث رسول پاؤ سے لکھ لو کیونکہ میں علم مٹ جانے اور علماء کے ختم ہو جانے سے ڈرتا ہوں.الله اس کے ساتھ تعین فرمائی کہ عمرہ بنت عبد الرحمن انصاریہ اور قاسم بن محمد بن ابی بکرہ کے ذخیرہ روایات کو فوراً قلمبند کیا جائے.عمال سلطنت اور مشاہیر علماء کو بالعموم اس کی ضرورت کی طرف توجہ دلائی اور گشتی فرمان جاری کیا.فرمایا انظروا الى حدیث رسول الله الا الله اجمعوہ.اس امر کیلئے آپ نے علماء کے خصوصی وظائف مقرر کر دیے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ علماء کی توجہ اس طرف ہو گئی اور بعد میں پھر باقاعدہ حدیثوں کے عظیم الشان مجموعے تیار ہوئے.سعد بن ابراہیم اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:-

Page 83

42 امرنا عمر بن عبدالعزيز بجمع السنن فكتبناها دفترًا فبعث الى كل ارض له سلطان دفترا.کہ عمر بن عبدالعزیز نے ہمیں احادیث جمع کرنے کا حکم دیا تو ہم نے کا پیاں لکھ ڈالیں اور آپ نے جہاں جہاں آپ کی حکومت تھی اس کا ایک ایک نسخہ بھجوا دیا.آپ کا یہ کارنامہ یقینا عظیم الشان اور قابل بیان ہے.اب تدوین حدیث کا جب بھی تذکرہ ہوگا تو آپ کا نام سرفہرست ہوگا.کیونکہ عین اس وقت جب مسلمان رسول اللہ ﷺ کے طریق سے پرے جارے تھے آپ نے اس ضروری اقدام کی طرف توجہ دی.شریعت اسلامیہ وسنت نبوی کا نفاذ اسلام کی حالت زار کا بیان پہلے کیا جاچکا ہے.اب صرف آپ کی مساعی جمیلہ کا ذکر ہی کیا جائے گا.آپ نے آغاز خلافت میں ہی ایک فرمان جاری کیا جس میں فرمایا :- ان للايمان فرائض و شرائع و حدودًا و سننا فمن استكملها ستكمل الايمان و من لم يستكملها لم يستكمل الايمان فان اعش فسأبينهالكم حتى تعملوا بها و ان امت فما أنا على صحبتكم بحریص “.اسلام کے کچھ حدود و قوانین و سنن و شرائع ہیں.جو ان پر عامل ہوگا اس کے ایمان کی تکمیل ہوگی.جو ایسا نہیں کرے گا اس کا ایمان نا مکمل رہے گا.اگر زندگی نے وفا کی تو میں تمہیں اس کی تعلیم دوں گا حتی کہ تم ان پر کار بند ہو جاؤ گے.اگر اس سے پہلے میرا وقت آ گیا تو میں تمہارے درمیان رہنے پر کچھ ایسا حریص بھی نہیں ہوں.اللہ آپ احیائے شریعت کے بارہ میں اتنے سنجیدہ اور فکرمند تھے کہ آپ کے ہر فرمان، ہر خط اور مراسلے میں شریعت پر عامل رہنے اور بدعات سے پر ہیز کرنے کی تلقین ہوتی تھی.چنانچہ ابن جوزی لکھتے ہیں :- ماطلع كتاب عمر بن عبدالعزيز الاباحدى ثلاث احياء سنة و اماتة بدعة و قسم يقسمه بين الناس - 1 کہ عمر بن عبدالعزیز کا ہر خط ان تین باتوں میں سے کسی ایک پر مشتمل ہوتا تھا.سنت کے احیاء

Page 84

43 پر، بدعت کے خاتمہ پر یا اس انعام پر جو آپ لوگوں میں تقسیم کیا کرتے تھے.ایک خط میں عمال سلطنت کو فرماتے ہیں :- ” میں نے تم کوحکومت کا جو کام سپر دکیا ہے اور جو اختیارات تفویض کیے ہیں ان میں تم کو احتیاط اور خوف خدا کی ہدایت کرتا ہوں تمہاری نظر اپنے اوپر اور اپنے عمل پر رہے اور ان چیزوں کی طرف جو تمہارے رب تک پہنچائیں تم اچھی طرح جانتے ہو کہ حفظ و نجات اس میں منحصر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں منزل مقصود تک پہنچ جاؤ اور اس یوم موعود کیلئے وہی چیز تیار رکھو جو خدا کے ہاں کام آنے والی ہو اور دوسروں کے واقعات میں تم نے ایسی عبرتیں دیکھیں ہیں جن کے برابر ہمارا وعظ ونصیحت موثر نہیں ہو سکتا.۱۳ پابندی نماز نماز میں بڑی بے قاعدگی آگئی تھی خصوصاً حجاج نے نماز کی پابندی بالکل ترک کر دی تھی.نیز خلفائے بنوامیہ عمدا اور رسما تاخیر سے نماز پڑھتے تھے.آپ نے اس رسم کا خاتمہ کیا.اول وقت میں نماز کا اہتمام کرتے اور پابندی کا یہ عالم تھا کہ مؤذن دروازے پر آکر یہ کہتا تھا السلام علیک یا امیر المومنین ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.وہ سلام نہ ختم کر پاتا تھا کہ آپ نماز کیلئے باہر تشریف لے آتے.۱۳ آپ بیت المال سے موذنین کو وظیفہ دیا کرتے تھے.لوگوں کو اس بارہ میں تلقین کرتے رہتے تھے.ایک مرتبہ فرمایا :- جس نے نماز ضائع کی وہ دوسرے فرائض اسلام کا سب سے زیادہ ضائع کرنے والا ہوگا.۱۵ آپ نے عدی بن ارطاۃ کو فرمان لکھا کہ حجاج کے طریق کو ترک کر دو.فلا تسنن بسنته فان كان يصلى لغیر وقتھا.کہ حجاج کا طریق مت اپناؤ وہ نماز کو تاخیر سے ادا کیا کرتا تھا.زكوة آپ نے زکوۃ کا ایسا مؤثر نظام بنایا کہ زکوۃ وصدقہ و قبول کرنے والا کوئی نہ ملتا تھا.بیٹی بن سعید کہتے ہیں :.میں افریقہ میں تحصیل زکوۃ پر مقرر تھا.زکوۃ کی وصولی کے بعد اس کا مصرف ایک بھی نہ ملا حتی کہ میں نے چند غلام آزاد کرا کے ان کے حقوق کی ذمہ داری مسلمانوں کے سپرد کر دی.11

Page 85

44 اسی طرح حجاج نو مسلموں سے بھی جزیہ وصول کیا کرتا تھا.آپ نے اسے بند کر دیا.اس پر مصر میں اتنے مسلمان ہوئے کہ حیان بن شریح نے لکھا کہ آمدنی گھٹ گئی ہے اور مجھے قرض لے کر مسلمانوں کو وظائف دینے پڑتے ہیں.آپ نے اسے لکھا کہ " جزیہ بہر حال موقوف کر د ورسول الله ﷺ ہادی بنا کر بھیجے گئے تھے محصل بنا کر نہیں“.علی شراب پر پابندی ان ایام میں شراب کا رواج عام ہورہا تھا.محلوں اور بازاروں میں ہر جگہ شراب چلتی تھی.غیر مسلم مسلمان باشندوں کے شہروں میں آکر شراب فروخت کرتے تھے.آپ نے حکماً اس پر پابندی لگادی اور شراب نوشی کی دکانوں کو بند کر دیا.اس طرح نبیذ اور طلاء وغیرہ کا استعمال حد سے تجاوز کر رہا تھا.آپ نے ایسا کرنے سے منع کیا.شراب کی مشکوں کو پھاڑنے اور مٹکوں کو توڑنے کا حکم دیا.عمر بن عبدالعزیز نے ایک شخص کو شراب پینے پر اسی کوڑے لگوائے تو وہ شخص تائب ہو گیا اور آپ نے اسے چھوڑ دیا.۱۸ باغ فدک مروان نے باغ فدک ذاتی جاگیر میں شامل کر لیا تھا اور آل رسول کو اس کی آمدنی سے محروم کر دیا تھا.آپ نے رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین کے طرز عمل کے مطابق بنو ہاشم پر خرچ کرنا شروع کر دیا.22 روزه آپ سنت نبوی کے مطابق پیر اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے.۲۰ے خلافت کی اصلاح اموی بادشاہوں میں شخصی خلافت کا رواج تھا اور اس کے علاوہ خلیفہ اور رعایا دو الگ الگ چیز میں نظر آتی تھیں.نماز کے بعد خلفاء پر دور د بھیجا جاتا تھا.لوگ مخصوص طریق سے انہیں سلام کرتے

Page 86

45 تھے.وہ چلتے تھے تو ساتھ نقیب و علمبردار ہوتے ، آپ نے یہ سب رسومات ختم کر دیں.آپ سے پہلے خلیفہ صرف حاکم ہوتا تھا اور روحانی اصلاح فقہاء ومحدثین کے ذمہ تھی.آپ نے اس دوئی کو مٹایا اور صحیح اسلامی خلافت کا روپ اپنایا.آپ نے عمال کو جو احکامات جاری کئے ان میں اکثر و بیشتر اخلاقی نصائح ہوتیں.ان میں حکومت کی روح سے زیادہ مشورہ و نصیحت کی روح ہوتی.امراء کو وقت پر نماز پڑھنے کی تلقین علم کی نشر واشاعت، تقوی و اتباع شریعت کی وصیت اور اپنے علاقے میں تبلیغ دین کی ترغیب دلاتے.امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے اہتمام کی تاکید فرماتے.اسلام کے قوانین تعزیرات کی وضاحت فرماتے.نوحہ گری عورتوں کا جنائز کے ساتھ جانا بند کراتے ، پردہ کی تاکید کرتے.لونڈیوں کیلئے آپ نے لباس مخصوص کر دیا جس میں پردے کا خیال رکھا گیا تھا.قبائلی عصبیت کی مذمت کرتے.11 بیت المال کی اصلاح آپ سے قبل یہ دستور تھا کہ عمال عشاء اور فجر کے وقت نمازوں کو جاتے تو آدمی ساتھ شمع لے کر چلتا اور اس کے مصارف بیت المال سے ادا ہوتے.اسی طرح شاہی خاندان کو وظیفہ خاصہ ملتا تھا جو آپ نے بند کر دیا.شمس کے مصارف میں اہل بیت کو نظر انداز کیا جاتا تھا.آپ نے ان کو ان کے حصص عطا کیے.بیت المال کی ذراسی خیانت بھی برداشت نہ کرتے تھے اور فوراً باز پرس کرتے تھے.ایک مرتبہ یمن کے بیت المال میں سے ایک اشرفی گم ہوگئی ، آپ نے وہاں کے حاکم کو لکھا کہ تمہاری امانت پر بدگمانی نہیں کرتالیکن تمہیں لا پرواہی کا مجرم قرار دیتا ہوں.تم پر فرض ہے کہ اپنی صفائی پر شرعی قسم کھاؤ.معمولی معمولی باتوں میں احتیاط برتتے تھے.آپ کے فرامین ایک بالشت سے زیادہ نہ ہوتے تھے.کاتب کو ہدایت تھی کہ باریک قلم سے لکھا کرو.جب اپنا ذاتی کام کرتے تو بیت المال کا چراغ گل کرا دیتے.۲۲ بہت سے اموال کو شاہی خاندان ، اموی عمال اور دوسرے عمائدین نے اپنی ذاتی جاگیر بنالیا تھا.آپ نے ساری موروثی جاگیر بیت المال کے سپر د کر دی.یہ امر اگر چہ سارے خاندان کی مخالفت مول لینے کے مترادف تھا مگر آپ نے یہ فریضہ سرانجام دیا اور کسی نے اولاد کے متعلق سوال کیا تو فرمایا

Page 87

46 کہ اولاد کو خدا کے سپر د کرتا ہوں.آپ نے ایک خطاب فرمایا اور جاگیرداروں کی اسناد کا خریطہ طلب کیا.ایک شخص ان کو پڑھتا جاتا اور آپ انہیں قینچی سے کاٹ کاٹ کر پھینکتے جاتے.فجر سے لے کر ظہر تک یہ سلسلہ جاری رہا اور اپنے پورے خاندان کی ایک ایک جاگیر واپس کر دی.حتی کہ اپنے پاس ایک نگینہ تک نہ رہنے دیا.۲۳ محاصل کی اصلاح کئی ظالم محصل طرح طرح کے ٹیکس عائد کر کے غریب عوام کو تنگ کرتے تھے.آپ نے اس کام میں نرمی کا حکم دیا.خراج لینے کے متعلق آپ نے عبدالحمید بن عبد الرحمن کولکھا ”زمین کا معائنہ کرو.بنجر زمین کا بار آبادزمین پر اور آباد زمین کا بار بنجر زمین پر نہ ڈالو.بنجر زمینوں کا خود معائنہ کرو.اگر ان میں کچھ صلاحیت ہو تو بقدر گنجائش اس سے خراج لو اور اس کی اصلاح کرو تا کہ آباد ہو جائے.جن آباد زمینوں سے پیداوار نہیں ہوتی اُن سے خراج نہ لو اور اس کی اصلاح کرو تا کہ آباد ہو جائے.جن آباد زمینوں سے پیداوار نہیں ہوتی اُن سے خراج نہ لو.قحط زدہ زمینوں کے مالکوں سے نرمی سے خراج وصول کرو.خراج میں صرف وزن سبعہ لوجس میں سونا نہ ہو.ٹکسال اور چاندی پگھلانے والوں سے ٹیکس نوروز اور مہر جان کے ہدیے، عرائض نویس اور شادی کا ٹیکس ، گھروں کا ٹیکس اور نکا خانہ ( محصول چونگی ) نہ لو.اور جوذ می مسلمان ہو جا ئیں ان پر خراج نہیں“.جیل خانے کی اصلاح آپ سے پہلے قیدیوں سے بہت برا سلوک روا رکھا جاتا تھا.معمولی شبہ پر گرفتار کر کے قتل کر دیے جاتے تھے.جو قیدی جیل میں مرجائے وہ بے گور و کفن رہتے اور دوسرے قیدی تعفن سے بچنے کیلئے خود پیسے جمع کرا کے دفنا دیتے.آپ نے ان کی اصلاح کیلئے فرمان جاری کیا.جس کا خلاصہ یہ تھا.ا.ایسی بیڑی نہ پہناؤ کہ قیدی کھڑا ہو کر نماز نہ پڑھ سکے.بجز قاتل کے ہر ایک کی بیٹری رات کو کھول دی جائے.۲.خوراک کی جگہ انہیں نقدی دی جائے ( کیونکہ خوراک میں سے عمال خیانت کرتے تھے ).

Page 88

47.قیدیوں کو سر ما اور گرما کے مطابق لباس دیا جائے.عورتوں کو برقعہ بھی دیا جائے.۴.یہ رواج ختم کیا جاتا ہے کہ قیدی پابند سلاسل ہو کر بھیک مانگنے نکلیں.۵.جو قیدی مرجائے اور اس کے عزیز نہ ہوں تو اس کی تجہیز وتکفین بیت المال سے ہو.تعزیرات میں حد سے نہ بڑھو بجز شرعی حق کے مسلمان کی پیٹھنگی نہ ہو.۲۵ بدعات و رسومات کا استیصال مجدد کا ایک اہم کام صدی کے دوران پیدا شدہ فتنوں ، بدعات اور نت نئی رسومات کا قلع قمع کرنا ہوتا ہے.آپ اس کام میں خوب مشغول نظر آتے ہیں.آپ کے عہد میں مسلمان لہو ولہب میں مشغول تھے.عورتیں نوحہ خوانی کرتی تھیں اور جنازوں کے ہمراہ جاتی تھیں.آپ نے فرمان جاری کیا کہ: ا.اس نوحہ و ماتم پر قدغن سخت کرد.مسلمانوں کو اس لہو ولعب اور راگ باجے وغیرہ سے روکو اور جو باز نہ آئے اسے اعتدال کے ساتھ سزا دو.۳ ۲.اس زمانے میں بادشاہوں کی اندھی تقلید کا رواج تھا.آپ نے مسجد دمشق میں کھڑے ہو کر بآواز بلند فرمایا اللہ کی نافرمانی میں ہماری اطاعت واجب نہیں“.ہے.حماموں کا رواج عام ہو رہا تھا.مرد عورتیں بے باکانہ غسل کرتے.پردہ اور شرم و حیاء اٹھتی جارہی تھی.آپ نے عورتوں کے حمام پر جانے پر پابندی عائد کر دی اور مردوں کو تہہ بند باندھ کر نہانے کی پابندی کرائی.خلاف ورزی کرنے والے کو سزا دی جاتی.اسی طرح حماموں کی دیواروں پر خلاف شرعی تصاویر ہوتی تھیں.آپ نے ایک مرتبہ جا کر اپنے ہاتھوں سے انہیں مٹایا اور فرمایا اگر مصور کا معلوم ہوتا تو میں اسے سزا دیتا.۴.لوگوں نے رسما لمبے بال رکھنے شروع کر دیے تھے اور پٹیاں جماتے تھے.آپ نے پولیس (Police) کو حکم دیا کہ وہ جمعہ کے دن مسجد کے دروازے پر کھڑی ہو جایا کرے.جو پٹیاں جماتے ہوئے گزرے اس کے سر کے بال کاٹ ڈالیں.۲۸.اموی خلفاء کے عہد میں ایک بری عادت یہ چل پڑی کہ عمال خطبے میں حضرت علی پر لعن

Page 89

48 طعن کیا کرتے تھے اور یہ بات خطبے کا جزو بن گئی تھی.آپ نے اسے بالکل ختم کیا اور اس کی بجائے یہ آیات پڑھنے کا حکم دیا.ان الله يامر بالعدل والاحسان.....لعلكم تذكرون 19 دیا.ان.ایک رسم بادشاہوں کو تحفے تحائف دینے کی تھی.آپ اس کی بھی سختی سے پابندی کرتے تھے اور کوئی چیز وصول نہ کرتے.ایک مرتبہ آپ کے اہل بیت میں سے کسی نے ایک سیب آپ کو تحفہ میں بھجوایا.آپ نے شکریہ کے ساتھ واپس کر دیا اور جب لانے والے نے دلیل دی کہ حضور ﷺ بھی لے لیا کرتے تھے تو آپ نے فرمایا کہ ہدیہ حضور کیلئے ہدیہ ہی تھا اور ہمارے لیے رشوت ہے“.بے ے.پارسیوں کے تہواروں کے دن امیر معاویہ رعایا سے ایک بڑی رقم بطور ہدیہ لیتے تھے جس کی مقدار ایک کروڑ تھی.آپ نے اسے یک لخت موقوف کر دیا.اسے دو ہر بدعت کو ختم کرنے کے بارے میں آپ اتنے کمر بستہ تھے کہ فرماتے ہیں:.ہر وہ بدعت جسے اللہ میرے ہاتھ سے میرے گوشت کے ٹکڑے کے عوض مردہ کر دے اور ہر وہ سنت جسے اللہ میرے ہاتھ پر قائم کر دے یہاں تک کہ اس کا انجام میری جان پہ ہو تو میرے لیے یہ آسان ہے“.۳۲ مذہبی اصلاح لوگ اسلام کی سادہ اور پرکشش ، قابل فہم تعلیم سے دور جارہے تھے.آپ نے اس کا تدارک کیا.اہل اہواء مسئلہ قدر کی غلط تشریحات کرتے تھے.آپ نے ان کے لیڈر غیلان دمشقی.ނ تو یہ کرائی اور اس فاسد عقیدے کی اشاعت روکنے کیلئے ہر ممکن تدبیر کی.امام مکحول سے فرمایا :- ایاک ان تقول في القدر ما يقول هؤلاء يعنی غیلان و اصحابه_۳۳ کہ تو مسئلہ قدر کے بارے میں غیلان اور اس کے ساتھیوں کی بات کہنے سے احتراز کر.اسی طرح آپ اپنے عہد خلافت میں مذہبی تعلیم کی نشر و اشاعت میں کوشاں نظر آتے ہیں.آپ نے اہل علم کو علم پھیلانے کی طرف متوجہ کیا.جو لوگ اس کام کیلئے وقف ہوتے انہیں سودینار وظیفہ دیتے.اسی طرح طلباء کو بھی وظائف دیتے.آپ نے عمال کو لکھا:- اما بعد فامر اهل العلم ان ينشر العلم في مساجدهم فان السنة كانت قد امیتت - ۳۴

Page 90

49 اہل علم کوحکم دو کہ وہ مساجد میں علم پھیلائیں کیونکہ سنت پر موت وارد ہو چکی ہے.معاصرین کی گواہی آپ کی ان مساعی جمیلہ کی بدولت مسلم عوام کے رجحانات ہی تبدیل ہو گئے.قوم کے مذاق اور مزاج میں نمایاں فرق آ گیا.چنانچہ اس زمانے کے علماء کہتے ہیں ”ہم جب ولید کے زمانے میں جمع ہوتے تو عمارتوں اور طرز تعمیر کی بات چیت کرتے سلیمان کو کھانوں اور دعوتوں کا بڑا شوق تھا.اس کے زمانے میں مجلسوں کا موضوع سخن یہی تھا لیکن عمر بن عبد العزیز کے زمانے میں نوافل واطاعت، ذکر الہی گفتگو اور مجلسوں کا موضوع بن گیا.جہاں چار آدمی جمع ہوتے تو ایک دوسرے سے پوچھتے کہ رات کو قرآن پڑھنے کا تمہارا کیا معمول ہے.تم نے کتنا قرآن یاد کیا ہے.تم قرآن کب ختم کرو گے اور کب ختم کیا تھا.مہینے میں تم کتنے روزے رکھتے ہو.۳۵ے مندرجہ بالا چند صفحات میں حضرت عمر بن عبد العزیز کی اندرونی اصلاح اور مسلمانوں کی تربیت کا جائزہ لیا گیا ہے.اب ذرا آپ کی دعوت الی اللہ اور اشاعت اسلام کا تذکرہ ہو جائے.اشاعت اسلام آپ نے روم کی طرف جانے والی افواج کو نصیحت فرمائی.ا لا تقتلن حصنًا من حصون الروم ولا جماعة من جماعاتهم حتى تدعوهم الى الاسلام - ۳۶ دےلو.کہ روم کے کسی قلعے یا جماعت پر اس وقت تک حملہ نہ کرنا جب تک انہیں اسلام کی دعوت نہ ۲.آپ نے ماوراء النہر کے بادشاہوں کو دعوت اسلام دیتے ہوئے خطوط لکھے اور ان میں سے بعض اسلام لے آئے..بلاذری نے فتوح البلدان میں لکھا ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے ہندوستان کے راجاؤں کو سات خطوط لکھے اور انہیں اسلام اور اطاعت کی دعوت دی اور وعدہ کیا کہ اگر انہوں نے ایسا کیا تو ان کو اپنی سلطنتوں پر باقی رکھا جائے گا اور ان کے وہی حقوق و فرائض ہوں گے جو مسلمانوں کے ہیں.

Page 91

50 50 ان کے اخلاق و کردار کی خبریں وہاں پہلے پہنچ چکی تھیں.اس لیے انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور اپنے نام عربوں کے نام پر رکھے.۳۷ ۴.آپ نے علماء کو چار دانگ عالم میں پھیلا دیا.جن میں سے مشہور حضرت نافع ،حضرت یزید بن ابی مالک ، جناب مهران ، جناب جعثل ، جناب یزید بن ابی حبیب ، جناب حارث الاشعری اور عاصم بن عمر ہیں..آپ نے اسمعیل بن عبد اللہ بن ابی المہاجر کو مغرب کا گورنر بنایا.انہوں نے جاکر بر بر اقوام کو اسلام کی دعوت دی.بعد ازاں خود عمر بن عبدالعزیز نے ان کے نام دعوت نامہ جاری کیا.جناب اسمعیل نے یہ دعوت نامہ انہیں پڑھ کر سنایا تو بہت سے لوگ مسلمان ہوئے.یوں مغرب میں اسلام کے غلبہ کی داغ بیل پڑی.۳۸.آپ کی جد و جہد تبلیغ کا نتیجہ تھا کہ جراح بن عبداللہ حکمی جو آپ کے دور میں خراسان کے والی تھے کے ہاتھ پر چار ہزار زمی مسلمان ہوئے.۳۹ے پہلی صدی کے دوسرے معروف مجد دین کے نام یہ ہیں.حضرت سالم حضرت قاسم حضرت مکحول

Page 92

51 لے طبقات ابن سعد 5/322 ملفوظات جلد 1 صفحہ 92 حوالہ جات سے ابوداؤد.کتاب الصلوہ باب الخطبه تلخیص از تاریخ اسلام نصف اول - مؤلفہ مولانا معین الدین ندوی.صفحہ 357-494 ايضا صفحہ 496 تاریخ الخلفاء از مولانا جلال الدین سیوطی.اردو تر جمہ صفحہ 258 عمر بن عبد العزیز از اختر رشید ندوی - صفحه 68 وطبقات ابن سعد جلد 5 صفحہ 330 طبقات الکبری.جلد 5 صفحہ 338 طبقات ابن سعد جلد 5 صفحہ 319 تاریخ اسلام معین الدین ندوی حصہ اوّل صفحہ 523 صحیح بخاری.کتاب الایمان باب قول النبی ﷺ علی مس ۱۲ سیرت عمر بن عبد العزیز.رشید اختر ندوی.صفحہ 81 اله ايضاً صفحه 92 طبقات ابن سعد - جلد 5 صفحہ 337 ۱۵ سیرت عمر بن عبد العزیز.عبدالسلام ندوی.صفحہ 124 سیرت عمر بن عبد العزیز.عبدالسلام ندوی.صفحہ 169 كل كتاب الخراج از امام ابو یوسف - صفحه 75 ابن سعد جلد نمبر 5 صفحہ 269,326,342 تاریخ الاسلام نصف اوّل.صفحہ 500 طبقات الکبری جلد 5 صفحہ 333

Page 93

52 ۲۲ الاد ۲۸ ۳۳ ۲۵ ۳۹ سیرت عمر بن عبدالعزیز.ابن جوزی بحوالہ تاریخ دعوت و عزیمت.جلد 1 صفحہ 51 تاریخ اسلام نصف اوّل صفحہ 504 تاریخ اسلام جلد اوّل صفحہ 499 کتاب الخراج - امام ابو یوسف صفحہ 49.تاریخ طبری واقعات 101ء کتاب الخراج - امام ابو یوسف - صفحہ 162 سیرت عمر بن عبد العزیز از عبدالسلام ندوی.صفحہ 126 طبقات ابن سعد - جلد 5 صفحہ 322 طبقات ابن سعد.جلد پنجم صفحہ 335-360 تاریخ الخلفاء ترجمہ.صفحہ 309 تاریخ الخلفاء اردو ترجمہ - صفحہ 301 ا سيرة عمر بن عبد العزیز.عبدالسلام ندوی.صفحہ 109 طبقات ابن سعد جلد پنجم صفحہ 322 تاریخ الخلفاء.صفحہ 274 سيرة عمر بن عبدالعزیز.عبدالسلام ندوی - صفحہ 132 تاریخ طبری بحوالہ تاریخ دعوت و عزیمت.جلد 1 صفحہ 67 سيرة عمر بن عبدالعزیز.عبدالسلام ندوی.صفحہ 118 فتوح البلدان از بلاذری - صفحہ 446 فتوح البلدان - صفحہ 357 طبقات ابن سعد.جلد پنجم صفحہ 364 عسل مصطفیٰ.جلد 1 صفحہ 162 بحوالہ نجم الثاقب جلد 2 صفحہ 9.قرۃ العیون نمبر 1 صفحہ 4 تعریف الاحیاء لفضائل الاحیاء.

Page 94

53 دوسری صدی کے مجدد حضرت امام شافعی رَحْمَةُ الله عَلَيه ۵۲۰۴ - ۵۱۰۵ میں نے اجماع کے حجت ہونے کی دلیل تلاش کرنے میں تین سو مرتبہ اوّل سے آخر تک قرآن مجید پڑھا“.(امام شافعی)

Page 95

ولا دت نام و نسب 54 الامام ابوعبداللہ محمد بن ادریس بن عباس بن عثمان بن شافع بن سائب بن عبید یزید بن ہاشم بن المطلب بن عبد مناف القريشي الباشم المطلمی ۱۵۰ھ بمطابق 667ء بمقام غزہ ( فلسطین) میں پیدا ہوئے.وہاں سے عسقلان منتقل ہو گئے.چنانچہ خود لکھتے ہیں:.ولدت الغزة و حملتنی امی الی عسقلان“.میں غزہ میں پیدا ہوا اور والدہ مجھے عسقلان لے گئیں.والدہ کا نام فاطمہ بنت عبید اللہ بن الحسن بن الحسین بن علی تھا.گویا آپ نجیب الطرفین تھے.آپ بچپن میں ہی یتیم ہو گئے تھے.مختصر حالات زندگی آپ نے دینی ماحول میں آنکھ کھولی.سات برس کی عمر میں قرآن حفظ کر لیا.دس سال کے ہوئے تو موطا امام مالک یاد کر لی اور جذب علم کا یہ حال تھا کہ پندرہ برس کی عمر میں آپ کو فتوی دینے کی اجازت مل گئی تھی.تیرہ برس کے تھے کہ علم کی پیاس بجھانے مدینہ حاضر ہوئے اور امام مالک کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیے اور امام صاحب کی وفات کے بعد مکہ آئے اور مسلم بن خالد الرنجی ،سفیان بن عینیہ اور دیگر علماء سے تحصیل علم کیا.علم سے فراغت پانے کے بعد بیت اللہ میں درس دیتے رہے.810ء میں بغداد آئے اور 814ء میں مصر میں رونق افروز ہوئے اور لوگوں کو اپنے افادات سے نوازتے رہے.وفات ۳۰ ؍ رجب ۲۰۴ھ کو (بمطابق 20 جنوری 221ء) فسطاط میں آپ کی وفات ہوئی اور المقطم کے دامن میں بنو عبد الحکم کے مستقف حصے میں دفن ہوئے.بشارت نبوی آپ کو بچپن میں ہی خواب میں بتادیا گیا تھا کہ آئندہ آپ تجدید و آپ تجدید و احیائے دین جیسے اہم کام

Page 96

55 پر مامور کیے جائیں گے.خواب میں حضرت نبی کریم ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی.حضور ﷺ نے دریافت فرمایا تو کس خاندان سے ہے.عرض کیا حضور کے خاندان سے ہی ہوں.فرمایا قریب آ اور پھر اپنا لعاب دہن آپ کی زبان پر ، ہونٹوں پر اور منہ میں ڈال دیا اور فرمایا جا خدا تجھے برکت دے.پھر خود بیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کو خانہ کعبہ میں نماز پڑھتے دیکھا.نماز کے بعد میں نے عرض کیا حضور مجھے کچھ سکھائے.آپ نے اپنی آستین سے میزان مجھے عطا کی اور فرمایا تیرے لیے میری طرف سے یہ عطیہ ہے.امام صاحب فرماتے ہیں کہ ایک معبر سے میں نے تعبیر پوچھی تو اس نے بتایا کہ تم دنیا میں حضور علیہ السلام کی سنت مطہرہ کی نشر و اشاعت میں امام بنو گے.سے دوسری صدی کے مجدد آپ کو دوسری صدی کا مجدد تسلیم کیا جاتا ہے.ابوبکر بزاز راوی ہیں کہ انہوں نے عبدالمالک سے سنا وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت امام احمد بن حنبل کے پاس تھا اور امام شافعی کا ذکر چل پڑا.تو میں نے دیکھا کہ امام احمد بن حنبل امام شافعی کی بہت تعریف کرتے تھے اور کہتے تھے کہ حدیث میں آیا ہے کہ خدا تعالی اس امت کیلئے ہر صدی کے سر پر ایسا شخص پیدا کرے گا جو دین کو قائم کرے گا.سو پہلی صدی پر عمر بن عبدالعزیز ہوئے اور مجھے امید ہے کہ دوسری صدی کے مجددامام شافعی ہیں.ہے نواب صدیق حسن خانصاحب امام صاحب کے متعلق لکھتے ہیں :- که دوسری صدی میں فتنہ مامون اٹھا.اس نے خلق قرآن کا عقیدہ اور کئی دوسرے بد عقائد کی تشہیر کی اور سارے ملک میں اپنے زمانے کے علماء کو جو ان عقائد کا اقرار نہ کرتا تھا اسے مار پیٹ، قید و بند اور قتل کی سزاد یتا اور یہ اس صدی کے عظیم فتنوں میں سے تھا.اور اس بادشاہ سے پہلے کسی نے بھی مخلوق خدا کو اس بدعت کی طرف نہیں بلایا تھا.خدا تعالیٰ نے اس فتنہ کے استیصال کیلئے حضرت امام شافعی کو بھیجا اور زمین آپ کے علم سے بھر گئی.۵ اُس زمانے کے حالات اس زمانے میں مناظروں کی کثرت تھی.حقیقی و مفروضہ مسائل پر فتوے مرتب ہوتے.وہ اصول و قواعد وجود میں آئے جن کی روشنی میں احکام فرعیہ کی تفریح ممکن ہوگئی.مناظرات کے باعث

Page 97

56 56 اصول، استنباط واستدلال فقہ کے موازین بن گئے.بحث و مباحثے کے موضوع یہ تھے کہ سنت حجت ہے یا نہیں.کس طرح کی احادیث واجب الاخذ ہیں.کیا حدیث متصل کے ساتھ حدیث مرسل بھی قابل قبول ہے یا نہیں.سنت صرف قرآن کریم کی تبیین کا کام کرتی ہے یا یہ احکام قرآن پر زیادتی بھی کر سکتی ہے.سنت قرآنی حکم کو منسوخ کر سکتی ہے یا نہیں.نسخ پر مناظرہ کا بازارگرم تھا.ایسے حالات میں امام صاحب ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں اپنے افکار اور فقہی مذہب لے کر میدان میں اترے.21 امام شافعی کی یگانہ روزگار شخصیت آپ کی شخصیت کا بیان اس لئے ضروری ہے کہ اس زمانے کے حالات و واقعات کا گہر اثر آپ کی شخصیت میں تھا.حالات و واقعات کے باعث آپ کی شخصیت ایک خاص رنگ میں ڈھل چکی تھی جس میں ایک مجددانہ شان تھی.آپ یگانہ روزگار تھے.بیک وقت مجہتد، مفسر، محدث ، فقیہ ، متکلم، ادیب، ماہر لغت نحو و بلاغت کے امام گویا جامع العلوم تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.ہم تو تفرقہ نہیں ڈالتے بلکہ ہم تفرقہ دور کرنے کے واسطے آئے ہیں.اگر احمدی نام رکھنے میں بہتک ہے تو پھر شافعی، حنبلی کہلانے میں بھی ہتک ہے.مگر یہ نام ان اکابر کے رکھے ہوئے ہیں جن کو آپ بھی صلحاء مانتے ہیں.وہ شخص بد بخت ہوگا جو ایسے لوگوں پر اعتراض کرے اور ان کو برا کہے.صرف امتیاز کیلئے ان لوگوں نے اپنے یہ نام رکھے تھے.ہمارا کاروبار خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ہم پر اعتراض کرنے والا خدا تعالیٰ پر اعتراض کرتا ہے.ہم مسلمان ہیں اور احمدی ایک امتیازی نام ہے.اگر صرف مسلمان نام ہو تو شناخت کا تمغہ کیونکر ظاہر ہو.خدا تعالیٰ ایک جماعت بنانا چاہتا ہے اور اس کا دوسروں سے امتیاز ہونا ضروری ہے.بغیر امتیاز کے اس کے فوائد مرتب نہیں ہوتے اور صرف مسلمان کہلانے سے تمیز نہیں ہو سکتی.امام شافعی اور حنبل کا زمانہ بھی ایسا تھا کہ اس وقت بدعات شروع ہوگئی تھیں.اگر اس وقت یہ نام نہ ہوتے تو اہل حق اور ناحق میں تمیز نہ ہوسکتی، ہزار ہا گندے آدمی ملے جلے رہتے.یہ چار نام اسلام کے واسطے مثل چار دیواری کے تھے.اگر یہ لوگ پیدا نہ ہوتے تو اسلام ایسا مشتبہ مذہب ہو جاتا کہ بدعتی اور غیر بدعتی میں تمیز نہ ہوسکتی ہے

Page 98

57 خداداد صلاحیتوں کے مالک حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے فرمایا:- لکھا ہے کہ امام مالک درس دیا کرتے تھے ان کے درس میں امام شافعی صاحب آگئے.امام مالک مدینہ میں رہتے تھے اور یہ مکہ سے گئے تھے.ان کی عمر بھی چھوٹی تھی یعنی تیرہ سال کی تھی.جب وہ تین دن ان کے درس میں بیٹھے اور انہوں نے دیکھا کہ ان کے پاس کاپی اور قلم دوات نہیں.تو امام مالک نے انہیں کہالڑ کے تو کیوں یہاں بیٹھا کرتا ہے؟ امام مالک کو برا معلوم ہوا کہ جب درس میں آتا ہے تو لکھتا کیوں نہیں؟ امام شافعی کو خدا نے ایسا حافظہ دیا تھا کہ جو بات سنتے یاد ہو جاتی.انہوں نے کہا پڑھنے کیلئے آیا ہوں.امام مالک نے کہا پھر لکھتا کیوں نہیں؟ انہوں نے کہا میں جو کچھ سنتا ہوں یاد ہو جاتا ہے.امام مالک نے کہا اچھا جو کچھ میں نے پڑھایا ہے سناؤ.انہوں نے سنا دیا.امام مالک کے دوسرے شاگرد کہتے ہیں کہ ہماری کاپیوں میں غلطیاں نکلیں مگر انہوں نے صحیح صحیح سنا دیا.عباسی عصر میں آپ کا فاضلانہ مقام آپ عباسی عصر میں پیدا ہوئے ، اسی میں انہوں نے زندگی بسر کی.زندگی کی ساری سرگرمیاں اسی دور میں بسر ہوئیں.یہ زمانہ دولت عباسیہ کے استقرار کا زمانہ تھا.اس کی سطوت و شوکت کا عہد تھا.یہ عصر متعدد اعتبارات سے امتیازات کا حامل تھا.احیاء علوم پر اس کی اثر اندازی سے انکار کی گنجائش نہیں.یہی عہد ہے جب علمائے اسلام فلسفہ یونان، ادب فارس اور علوم ہند سے روشناس ہورہے تھے.اللہ تعالیٰ نے امام صاحب کو وقت کے تقاضوں کے مطابق علوم سے مالا مال کر دیا.آپ کو مواہب کا وہ وافر حصہ ملا تھا جس سے انہیں فکر کا منصب قیادت ملا اور وہ رائے کے کاروان کے سالار ٹھہرے.امام شافعی کی شخصیت قومی المدارک تھی.ان کے قوائے عقلی و پہنی ہر اعتبار سے قوی اور مضبوط تھے.برجستہ کلامی ان کا طرہ امتیاز تھا.جب ضرورت ہوتی تو معانی کا سیلاب امڈ پڑتا.وہ حبسِ فکر کے مریض نہ تھے.معاملات و مسائل کے فہم و ادراک کا دروازہ ان پر کبھی بند نہیں ہوا تھا.حقائق ان کے سامنے ہمہ وقت رہتے تھے.ان کی منطق کو درجہ استقامت حاصل تھا.ان کی فکر عمیق تھی.ان کی تحقیق و تجس کا دور اس وقت تک ختم نہ ہوتا جب تک حق کی چہرہ کشائی پورے طور پر نہ ہو جاتی.امام

Page 99

58 صاحب ان میں سے تھے جن میں نہ خود پسندی تھی نہ برتری کا جذبہ.بحث کے موقعہ پر انہیں کبھی غصہ نہ آتا تھا، نہ ان کی حدت لسانی کسی موقعہ پر دوسروں کی دل شکنی کا باعث بنتی.طلب حق کے سلسلہ میں شافعی کے اخلاص کا یہ عالم تھا کہ وہ چاہتے تھے کہ لوگ ان کے علم سے فیضیاب ہوں.بلا سے یہ انتساب ان کی طرف نہ ہو، اس کی انہیں قطعاً کوئی پرواہ نہیں تھی.وہ اکثر فرمایا کرتے تھے میں چاہتا ہوں کہ لوگ یہ علم حاصل کریں.مجھے نہ مدح کی پرواہ ہے نہ کسی اور طرح کی آرزو.امام شافعی کی ذات گونا گوں ملکات و محاسن کا مجموعہ تھی.انہوں نے اپنے علم بیکراں سے خود بھی فائدہ اٹھایا اور معاصرین کو بھی اخذ و استفادہ کا موقع دیا اور ملت اسلامیہ کا دامن بھی گراں بہاذ خائر علمی سے بھر دیا.امام صاحب کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ باھمہ فضل و کمال زندگی کے آخری سانس تک وہ طالبعلم ہی رہے.علم کے ساتھ جو رشتہ تھا مرور ایام کے ساتھ ساتھ اس میں استحکام پیدا ہوتا تھا.امام صاحب کی ذات گرامی ہر اس کیلئے جو علم کا جویا ہے ایک موعظہ حسنہ ہے.امام صاحب زندگی بھر اس شمع کی مانند فروزاں رہے جو خود جل جاتی ہے مگر دوسروں کو اپنی روشنی سے منور کر جاتی ہے.2 فضائل و مناقب آپ نے جس وقت اپنے فقہ کی بنیا د رکھی اس وقت حفیت و مالکیت کے عروج کا زمانہ تھا.حتی که مامون ، امین ، رشید وغیرہ بادشاہوں کے دلوں تک ان کی رسائی تھی.لیکن امام شافعی نے ایسی شہرت پائی کہ لوگوں کے خیالات بدلنے لگے اور فقہ شافعی ان کے دلوں میں گھر کرتا گیا اور مصر، شام، حجاز، بحرین، جنوبی عرب، ملائشیا، انڈونیشیا میں شافعیوں کو اقتدار حاصل ہو گیا.”الازہر میں شافعی فقہ کا مطالعہ بڑے ذوق سے کیا جاتا ہے.امام احمد بن حنبل امام شافعی کے متعلق فرماتے ہیں: ”فقہ کا قفل بے کلید لوگوں پر جس نے کھولا وہ شافعی ہی تو تھے.اگر شافعی نہ ہوتے تو ہمارے کل قضایا اہل رائے کے ہاتھوں میں آگئے ہوتے.اے امام ابو ثور کہتے ہیں :- اگر خدا امام شافعی کے ذریعے مجھ پر احسان نہ کرتا تو میں دنیا میں گمراہ ہو جاتا“.امام محمد سے ان کے مناظرات ہوتے رہتے تھے اور امام محمد امام شافعی سے اتنے متاثر تھے کہ

Page 100

اپنے اصحاب کو کہا کرتے تھے :.59 ان تابعكم الشافعى فما عليكم من حجازى بعد 5 كلفة“.اگر شافعی تمہاری بات مان لیں تو پھر کسی حجازی کی طرف سے تمہارے لیے کوئی دقت نہ ہوگی.امام صاحب نے قریباً بیس برس کی عمر میں مسجد الحرام میں فتویٰ دینا شروع کر دیا تھا.طریق اجتہاد امام شافعی استنباط مسائل میں سب سے اول قرآن مجید پر نظر ڈالتے.اگر قرآن مجید سے انہیں کوئی مسئلہ مل جاتا تو کسی حدیث یا قیاس کی طرف التفات نہ کرتے.اگر کوئی مسئلہ قرآن میں نہ پاتے تو پھر حدیث اور قیاس کی طرف رجوع کرتے.ان کا طریق استنباط دوسرے مجہتدین سے بالکل انوکھا تھا.وہ کسی مسئلہ کے اخذ کرنے میں صرف قرآن کی ایک آیت پر اکتفا نہیں کرتے تھے.بلکہ ایک آیت کی تفسیر میں دوسری آیات، ترتیب خاص اور دیگر قرائن داخلی و خارجی کو بھی ملحوظ رکھتے تھے.حدیث میں راویوں کی کثرت ، فقاہت اور حفظ وغیرہ کے لحاظ سے ایک حدیث کو دوسری پر ترجیح دیتے.ناسخ و منسوخ کو نہایت دقیق نظر سے دیکھتے.غرضیکہ تا امکان بشری وہ ہر پہلو پر نظر ڈالتے.یہی وجہ ہے کہ ان کے مسائل اکثر قرآن اور عقل کے مطابق ہیں.۱.شافعی مسلک 184 ھ تک آپ مالکی مسلک پر ہی قائم تھے اور ان کا نام ہی ”ناصر الحدیث“ پڑ گیا تھا.پھر جب آپ بغداد گئے تو حنفی مسلک کی چند کتب پڑھیں.آپ کو مالکی فقہ میں چند سقم نظر آگئے اور آپ نے غیر جانبدار نقاد کی حیثیت سے مالکی مسلک پر غور کیا جس سے آپ میں ایک فکر جدید کا آغاز ہوا.بغداد سے نکل کر آپ مکہ آگئے اور مسجد الحرام میں حلقہ قائم کر لیا.یوں مذہب شافعی وجود میں آیا.مکہ کے درس کے دوران آپ نے فروعات کو چھوڑ کر کلیات کو اہمیت دی جس کا نتیجہ یہ تھا کہ امام احمد بن حنبل امام شافعی کے حلقہ میں آکر بیٹھ گئے.جب امام احمد کو اس پر کسی نے ملامت کی تو آپ نے جواب دیا ” خاموش.اگر کوئی حدیث تجھ تک نہ پہنچ سکی تو اس سے تجھے اتنا زیادہ نقصان نہیں پہنچے گا جتنا اس سے کہ تو اس نوجوان کی عقل فکر انگیز سے محروم رہ جائے.تو اسے کھو دینے کے بعد قیامت تک

Page 101

60 نہ پاسکے گا“.امام شافعی نے جوانی میں ہی معانی قرآن پر ایک کتاب لکھ ڈالی.فنون و اخبار جمع کر دیئے اور حجت اجماع پر سیر حاصل بحث کی.قرآن وسنت کے نسخ پر روشنی ڈالی.199ھ میں شافعی مصر آئے.یہاں آپ نے عرف دیکھا ، حضارت دیکھی ، نئے نئے افکار کا مطالعہ کیا.آپ کے خیالات میں بھی کمی بیشی آئی.ہر چیز کو کسوٹی پر پرکھا اور بالآخر یہاں پر ہی فوت ہوئے.انہیں طویل زندگی نہ ملی.چون سال کی عمر ہی کیا ہوتی ہے.اس مختصر زندگی میں انہوں نے تقریر وتحریر سے عربی زبان کا دامن جواہر ریزوں سے بھر دیا.مجلس علم وفکر میں اپنی دھاک بٹھا دی اور بہت جلد مرجع عوام بن گئے.آپ کی مخالفت بھی ہوئی لیکن تائید ہو یا مخالفت ،خوشنودی ہو یا بیزاری کسی حالت میں بھی اپنے مسلک کی تبلیغ سے باز نہیں آئے.آپ کی خدمات کا اعتراف بھی کیا گیا.چنانچہ کر ایسی کہتے ہیں ” ہمیں نہیں معلوم تھا کہ کتاب کیا ہے، نہ سنت اور اجماع سے ہم واقف تھے.یہاں تک کہ شافعی کو ہم نے کہتے ہوئے سنا یہ کتاب ہے، یہ سنت ہے اور یہ اجماع ہے.۵.تجدیدی کارنامے جیسا کہ گزشتہ سطور میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ اس صدی میں قرآن ، سنت، حدیث ، فقہ، قیاس، استحسان وغیرہ کے متعلق عجیب و غریب نظریات موجود تھے.اس لیے ایک مجدد کا فرض یہ تھا کہ ان تمام امور کے بارے میں صائب رائے پیش کرتا جس کو قرآن کی تائید حاصل ہوتی تا اس کا خدا کی طرف سے ہونا پایہ ثبوت کو پہنچتا اور خشک علم والوں پر اس کی برتری ثابت ہوتی.امام صاحب نے بخوبی یہ معرکہ سرانجام دیا جس کا تذکرہ آئندہ صفحات میں کیا جارہا ہے.علوم دینیہ کی اشاعت ربیع بن سلیمان امام شافعی کے پروگرام کے متعلق لکھتے ہیں :- شافعی نماز فجر پڑھ کر اپنے حلقہ میں بیٹھ جاتے اور فوراہی طالبانِ علم قرآن حاضر ہو جاتے.طلوع آفتاب کے وقت یہ لوگ اُٹھ جاتے.پھر طالبان حدیث کا گروہ پہنچ جاتا.یہ لوگ بھی حدیث

Page 102

61 کے معنی اور تفسیر کے سلسلہ میں سوالات کرتے رہتے.جب دھوپ چمک اُٹھتی تو یہ گروہ بھی اُٹھ جاتا.پھر حلقہ مناظرہ و نظر قائم ہو جاتا، دوپہر سے پہلے تک یہ جمگھٹ قائم رہتا.اس کے بعد عربیت، عروض، شعر اور نحو کے تشنہ کام آتے اور دو پہر تک وہ کسب فیض حاصل کرتے رہتے“.1 امام شافعی کے نزدیک علم کی دو اقسام ہیں، علم عامہ اور علم خاصہ.آپ کے نزدیک علم عامہ سے مراد نماز، روزہ، حج ، زکوۃ وغیرہ کا علم ہے.جن میں کوئی تنازعہ و تاویل نہیں جن کی نص قرآن کریم سے ملتی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ اس علم کا جاننا ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے.کلے آپ وعظ و نصیحت کے ذریعے بھی عوام وخاص کو متاثر کیا کرتے تھے.وعظ میں امام صاحب کو خاص قسم کا ملکہ حاصل تھا.لوگوں پر آپ کے وعظ کا بہت اثر پڑتا تھا.ایک مرتبہ امام صاحب نے ہارون الرشید کے دربار میں وعظ کیا.بادشاہ آپ کے وعظ سے اس قدر متاثر ہوا کہ بے اختیار رونے لگا اور وعظ کے ختم ہونے پر اس نے پچاس ہزار درہم امام صاحب کی نذر کیے.11 امام شافعی اور قرآن امام شافعی گویا عاشق قرآن تھے.ہر مسئلہ میں فوراً قرآن کی طرف رجوع کرتے اور قرآن سے استدلال کرتے.آپ فرمایا کرتے تھے ” جس شخص نے کتاب الہی سے نص واستدلال کے ذریعے علم احکام حاصل کر لیا اور اللہ تعالیٰ نے اسے حاصل کردہ علم کے مطابق قول و عمل کی توفیق دی تو وہ دین و دنیا میں بلند مرتبے پر فائز ہو گیا.شک وشبہ کی دنیا سے باہر نکل آیا.حکمت کے نور سے اس کا قلب منور ہو گیا اور دین میں مرتبہ امامت پر فائز ہو گیا.213 امام شافعی کے ایک شاگرد کا بیان ہے شافعی جب قرآن کی تفسیر بیان کرنے لگتے تو ایسا معلوم ہوتا جیسے قرآن کریم کا نزول انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے.علم حدیث میں بھی وہ یکتا تھے.موطا امام مالک انہیں حفظ تھی.انہوں نے ہی سنت کے قواعد منضبط کیے.اس کے اسرار ورموز سمجھے اور ان سے استشہاد کیا.وہ فرمایا کرتے تھے جس نے قرآن کا علم حاصل کیا اس نے اپنی قیمت بڑھائی.۲۰ امام شافعی اور علم حدیث تابعین کے دور میں علم حدیث میں عجیب بگاڑ پیدا ہو چکا تھا.موضوع احادیث اور مسائل

Page 103

62 بنالیے گئے تھے اور یہ طوفان بدتمیزی ایسی شدت اختیار کر گیا کہ بڑے بڑے فقیہ اور ا کا برائمہ بھی اس غلطی میں مبتلا ہو گئے.مثلاً اس طرح کے مسائل اخذ کیے جارہے تھے کہ قہقہہ سے وضو کا ٹوٹ جانا، کھجور کے شیرہ سے وضو جائز ہونا، دارالحرب میں سود مباح ہونا، اگر حبشی چاہ زمزم میں گر جائے تو کنواں ناپاک ہونا اور اس کا سارا پانی نکالنے کا فتویٰ جاری کرنا اور یہ فتویٰ ابن زبیر اور ابن عباس جیسے افراد کی طرف منسوب تھے.اسی طرح کی اور کئی باتیں وجود میں آچکی تھیں.اہل الرائے کا گروہ پیدا ہو چکا تھا.یہ لوگ وہی بات اختیار کرتے جس کی طرف ان کی طبیعت کا میلان ہوتا یا جس سے امراء وسلاطین کی خوشنودی مقصود ہوتی.یہ لوگ فقیہ کہلاتے تھے اور اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے اور اہلحدیث ان کے سامنے بالکل بے بس تھے.ایسے حالات میں امام شافعی جو منصب تجدید پر فائز تھے اُٹھے.انہوں نے گہری اور خداداد فراست سے حدیث پر کام کیا.چنانچہ انہوں نے قلیل واسطوں سے ہر شہر کے مشہور محدثین اور اماموں سے جن کی عظمت و جلالت پر اتفاق تھا احادیث صحیحہ جمع کیں.مختلف فقہاء ومحدثین کے اصول سے عوام کو آگاہ کیا.حدیثوں کی تدوین میں انہوں نے سکے، مدینے کوفے ، بصرے وغیرہ کے سفر اختیار کیے اور بلاد اسلامیہ کا کوئی محدث ایسا نہ رہا جس کے سامنے انہوں نے زانوئے تلمذ طے نہ کیا ہو.امام ضیاء الدین نے امام شافعی کے حدیث کے شیوخ کی تعداد انہیں بتائی ہے.موضوع حدیثوں کا سیلاب جس شدت سے دین میں چلا آرہا تھا اس سے دین دار لوگ گھبرا اُٹھے اور بہت سے خادمان دین کی توجہ اس کے روکنے کی طرف لگ گئی.مگر حدیث کی روایت اور اس سے مسائل اخذ کرنے کے فن کو جو سراسر ایک منقولی فن تھا علوم حکمیہ کے پایہ تک پہنچادینا محمد بن ادریس الشافعی کا ہی کام تھا.اب تک اس فن کی کوئی اصطلاحات قائم نہ ہوئی تھیں اور یہ فخر امام شافعی کیلئے ہی مقدر تھا کہ وہ قرآن وحدیث کے احکام اخذ کرنے کے فن کو ایک مہتم بالشان فن بنا ئیں اور پھر اس پر حیرت انگیز اسلامی عمارات تعمیر کی جائیں.11 حدیث رسول کی آپ کی نظر میں بہت اہمیت تھی.آپ فرمایا کرتے تھے جس نے کتب حدیث کا مطالعہ کر لیا اس کی حجت قوی ہوگئی.ہے آپ فرمایا کرتے تھے ان اصح الحدیث فھو مذھبی اور اگر صحیح حدیث مل جاتی تو اپنا

Page 104

63 مسلک فور ابدل دیتے اور فرمایا کرتے تھے قول وہی ہے جو رسول اللہ ﷺ کا قول ہے اور میرا قول بھی وہی ہے.بار بار یہی الفاظ دہراتے رہے.۲۳ معجم یا قوت میں ربیع بن سلیمان کی روایت ہے ایک شخص شافعی سے ایک مسئلہ دریافت کر رہا تھا اثنائے گفتگو اس نے کہا نبی کریم علیہ سے تو ایسا مروی ہے اور اے ابو عبد اللہ آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں.یہ سنتے ہی شافعی کا پنپنے لگے ان کا رنگ زرد پڑ گیا.حالت متغیر ہوگئی.انہوں نے کہا ”کون سی زمین مجھے پناہ دے گی اور کون سا آسمان مجھے اپنے زیر سایہ رکھے گا.اگر میرے سامنے رسول اللہ کی کوئی حدیث بیان کی جائے اور میں یہ نہ کہوں ہاں، بے شک ، به سر و چشم “.۲۳ اصلاح علوم حدیث ا.امام شافعی کے وقت راوی یوں کہتے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہم یوں کرتے تھے یا اس وقت یہ سنت تھی.تو اس کو بھی حدیث رسول میں شمار کیا جاتا تھا.امام صاحب نے اس کی مخالفت کی کہ ہو سکتا ہے کہ یہ سنت صحابہ ہو یا مکن ہے کہ یہ جاہلیت کا رواج ہو اور اصل سنت رسول اس کے برعکس ہو.اس لیے اس کا مقام قول و فعل رسول کے مترادف نہیں ہوسکتا.ابوبکر میر نی، ابوبکر رازی اور ابن حزم ظاہری نے آپ کی رائے سے اتفاق کیا ہے.۲۵ ۲.مقطوع و موقوف احادیث کے بارے میں آپ نے فرمایا یہ بے اعتبار اور نا قابل عمل ہیں.حنفی صحابی یا تابعی کے قول کے مقابلے میں حدیث رسول کو ترک کر دیتے تھے.امام شافعی نے اس کی مخالفت کی.مرسل کے بارے میں آپ نے جمہور سے ہٹ کر یہ رائے دی کہ ایسی احادیث پر اعتقاد عمل کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی.ہوسکتا ہے کہ وہ صرف تابعی کا ہی قول ہو.آپ کی یہ رائے بہت مقبول ہوئی اور حضرت شاہ ولی اللہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں لکھا ہے ” وكم من مرسل لا اصل له وكم من مرسل يخالف مسندا کتنی ہی مرسل ایسی ہیں جن کی کوئی اصل نہیں اور کتنی ہی مرسلات ہیں جو مسند احادیث کے خلاف ہیں.اور اسی طرح امام بخاری و مسلم بلکہ جملہ محد ثین نے امام شافعی کے اس اصول کو اپنا مقتدا قرار دیا اور اب یہ ایک مسلّم اصول بن گیا ہے کہ حدیث مرسل نا قابل اعتبار ہے.

Page 105

64 ۴.اسی طرح مدلس، مستور الحال اور مجاھیل احادیث کو حنفی ثقہ راوی کی بنیاد پر قبول کر لیتے تھے.مگر امام صاحب کے نزدیک شکوک و شبہات والی احادیث نا قابل اعتبار ہیں اور انہیں قوانین شریعت کا ماخذ قرار دینا غلطی ہے.۵.صحت حدیث کیلئے آپ نے یہ شرط لگائی کہ جو حدیث خلاف عقل ہو وہ نا قابل اعتبار ہے اور اپنے شاگردوں کو کہا کرتے تھے اگر میں تمہیں کوئی ایسی بات کہوں جو تمہاری عقل کے مخالف ہو تو اسے ہرگز قبول نہ کرو کیونکہ صحیح بات وہی ہے جو عقل کے خلاف نہ ہو..حنفی کوفے والوں کی احادیث پر اصرار کیا کرتے تھے مگر امام شافعی صحیح احادیث پر زور دیتے تھے خواہ جس شہر سے بھی ملے.آپ نے امام احمد سے فرمایا فان كان خبر صحيح فاعلموني حتى اذهب اليه كوفيا كان او بصريا او شاميا“.اگر حدیث صحیح ہو تو مجھے اس سے آگاہ کرو تا کہ میں اس کو لے لوں خواہ کوفے کی ہو، بصرہ کی ہو یا شام کی ہو.ے.دو متعارض احادیث میں بھر پور کوشش کرتے کہ تطبیق ہو سکے.اس کیلئے آپ نے ایک رسالہ بھی لکھا جس کا نام اختلاف الحدیث ہے.امام شافعی کو ایسے لوگوں سے واسطہ پڑا جو حجیت سنت کے منکر تھے.بعض لوگ سرے سے سنت کو تسلیم ہی نہیں کرتے تھے.بعض احکام قرآن سے ماوراء سنت کے احکام مثبتہ کا انکار کرتے تھے.ان کے نزدیک سنت مبین قرآن تو ہے اس پر اضافہ نہیں کر سکتی.بعض خبر احاد کی حجیت کے منکر تھے.امام شافعی نے دلائل سے ثابت کیا کہ سنت حجت ہے خواہ خبر احاد ہی کیوں نہ ہو بشر طیکہ اس کے راوی ثقہ ہوں.کتاب الام میں اس کی تفصیلی بحث موجود ہے اور آپ کی اس بارہ میں الگ تصنیف بھی ہے.آپ نے متعدد قرآنی دلائل سے حجیت سنت ثابت کی ہے.مثلاً خدا نے اپنے ساتھ رسول پر ایمان اور اس کی پیروی کو لازمی قرار دیا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے فامنوا بالله و رسوله.....و اتبعوه لعلكم تهتدون.پس رسول اللہ کے اقوال و افعال و تقریرات کی اطاعت واجب ہوئی.اسی طرح رسول اللہ کا ایک کام حکمت کتاب کا بیان ہے اور اس سے مراد سنت نبوی ہے.رسول کی اطاعت در اصل خدا کی اطاعت ہے من يطع الله فقد اطاع اللہ.

Page 106

65 رسول کی مخالفت مومنوں کا شیوہ نہیں.فليحذر الذين يخالفون عن امره ان تصيبهم فتنة أو يصيبهم عذاب الیم.سورہ نور 65.امام شافعی خبر احاد اور مرسل ( جن میں شک وشبہ کی گنجاش ہوتی ہے ) بڑی دقیق شرائط کے ساتھ لیتے ہیں.سے سیہ وہ اصول ہیں جن کی صحت میں کسی منصف مزاج کو کلام نہیں.تمام ائمہ اہلحدیث نے امام صاحب کے فن کو حدیث میں اپنا مقتدا قرار دیا.امام صاحب کے ان اصولوں کی مضبوطی نے اہل رائے کے دلوں پر بھی یہاں تک اثر ڈالا کہ اکثر ذی علم اہل رائے اپنا پرا نامذہب چھوڑ کر ان کی شاگردی میں داخل ہوئے اور حکام وقت پر اتنا اثر پڑا کہ وہ امام صاحب کے ساتھ بے انتہاء تعظیم و تکریم سے پیش آنے لگے.اب وہ علی الاعلان اہل رائے کے مذہب کی قباحتیں بیان کرنے لگے.امام صاحب کی وجہ سے اہلحدیث کے حو صلے بھی بڑھ گئے.علم حدیث کو روز بروز ترقی ہونے لگی.غرض اس طریق پر آپ نے اہل الرائے کے فتنے کو دور کیا اور حدیثوں کی تنقید کی بنیاد ڈالی.۲۸ سلسلة الذهب روایت حدیث میں صحت کے لحاظ سے امام شافعی کا اتنا مقام ہے.مندرجہ ذیل سند کو محدثین نے سلسلۃ الذھب (سونے کی زنجیر ) قرار دیا ہے.شافعی عن مالک عن نافع عن ابن عمر.19 فقہ اور امام شافعی امام شافعی سے پیشتر فقہ کی کیفیت یہ تھی کہ نہ اس وقت اس کے اصول وقواعد ایجاد ہوئے تھے اور نہ غلط و صحیح مسائل کو معلوم کرنے کا کوئی حقیقی معیار تھا.نہ احادیث مختلفہ میں تطبیق دینے اور ان کے تعارض کو دور کرنے کا کوئی قانون تھا.اس زمانے کے فقہاء عموماً مرسل ومنقطع احادیث سے استنباط مسائل کیا کرتے تھے اور تعارض کی صورت میں اپنے اطمینان قلب اور فراست طبع سے کسی ایک حدیث کو دوسری پر ترجیح دیتے تھے اور اس پر عمل کرتے اور دوسری کو متروک خیال کرتے.اکثر ضعیف احادیث کے مقابلے میں صحیح احادیث چھوڑ دیتے رائے مخالف شرع کو قیاس صحیح شرع سے خلط کرتے اور اس کا نام استحسان رکھتے.

Page 107

66 ایسے حالات میں امام شافعی نے خفی و مالکی مذہب کے اصول و فروع کو دیکھ کر اور ان کے تمام کلیات و جزئیات پر نظر کر کے ان باتوں کو جوان مذہبوں میں ناقص تھیں پورا کیا اور نئی طرز سے اصول و قواعد کو تر تیب دیا.سب سے اوّل انہوں نے اصول فقہ کی ایک کتاب ترتیب دی.یوں آپ اصول فقہ کے بانی خیال کیے جاتے ہیں.آپ نے جو قواعد مرتب کیے ان کا ماحصل یہ تھا.ا.حدیث مرسل و منقطع پر استناد نہ کرنا.۲.احادیث مختلفہ میں باہم تطبیق کی کوشش کرنا.۳.احادیث صحیحہ کو ترک کرنے سے پر ہیز کرنا اور اگر کسی مسئلہ میں حدیث مل جائے تو قیاس کو ترک کردینا ( دراصل حنفیوں میں قیاس اس وجہ سے بھی زیادہ ہے کہ امام ابوحنیفہ کے وقت میں احادیث کی تدوین پوری طرح نہ ہوئی تھی اور ان کے پاس احادیث کا ذخیرہ کم تھا).- اگر اقوالِ صحابہ مخالف حدیث ہوں تو ان سے استدلال نہ کرنا.آپ کہا کرتے تھے رجال و نحن رجال.۵.رائے خلاف شرع اور قیاس شرع میں تمیز کرنا.آپ استحسان کے خلاف تھے.فرماتے ت من استحسن فانه اراد ان يكون شارعا.۶.حدیث خواہ کسی درجہ کی بھی ہونا سخ قرآن نہیں ہو سکتی.۷.قرآت شاذ ، جو قرآت متواترہ کے مخالف ہیں قابل عمل نہیں.۸.اگر کوئی حکم وقت یا شرط پر معلق ہو اور وقت یا شرط جاتی رہے تو ایسا حکم موقوف ہوگا.۹.اجماع سکوتی حجت نہیں.ا.حکم مطلق کو مقید پرمحمول نہیں کیا جائے گا..ایسا کوئی عمومی حکم نہیں جس میں کچھ نہ کچھ تخصیص ہو.۳۰ اختلافی مسائل اور امام صاحب کا مسلک خلق قرآن کا مسئلہ بڑی اہمیت اختیار کر گیا تھا.حتی کہ بادشاہوں تک اس کے قائل تھے کہ قرآن مخلوق ہے مگر امام شافعی دوسری صدی کے وہ سرخیل ہیں جو اس کے خلاف ڈٹ گئے اور انہوں

Page 108

67 نے دلائل سے ثابت کیا کہ قرآن غیر مخلوق ہے اور آپ نے دلیل دی کہ خدا فرماتا ہے و کلم الله موسی تکلیمًا.خدا نے کلام کیا خلق نہیں کیا..دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ روز محشر رویت باری نصیب ہوگی یا نہیں.اس بارہ میں آپ کا مسلک مثبت تھا اور دلیل یہ دیتے تھے کہ قرآن میں ہے کلا انهم عن ربهم يومئذ لمحجوبون پس جب ناراضگی میں حجاب ہے تو خوشنودی میں دیدار ہوگا..قضاء وقدر کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ لوگ اپنے اعمال کے خالق نہیں ہیں.بلکہ خدا ہی ہے جس نے ان کے اعمال کی تخلیق کی ہے.۴.ایک مسئلہ یہ تھا کہ ایمان کی تعریف کیا ہے.اس میں کمی بیشی ممکن ہے یا نہیں.آپ فرماتے ہیں ایمان تصدیق و عمل کا نام ہے اور کم اور زیادہ ہوتا ہے.جب تحویل قبلہ ہوئی تو صحابہ نے قبلہ اول کی جانب پڑھی گئی نمازوں کی بابت پوچھا تو آیت نازل ہوئی ما کان الله ليضيع ایمانکم - یہاں خدا نے صلوٰۃ کو ایمان قرار دیا ہے اور صلوٰۃ میں تو کمی بیشی ہوتی رہتی ہے.۵.آپ خلفائے ثلاثہ کی فضیلت کے قائل تھے.اسی طرح آپ کی تحریرات سے حب آل رسول اور حب علی کا اندازہ بھی ہوتا ہے.آپ کا یہ شعر ملاحظہ ہو.ان كان رفضًا حب آل محمد فليشهد الثقلان اني رافض اگر آل محمد سے محبت کرنا رفض ہے تو فرشتوں کو چاہیے کہ گواہی دیں کہ میں رافضی ہوں.اسی طرح حضرت علیؓ کے بارے میں فرمایا ” علی کرم اللہ وجہ علم قرآن اور علم فقہ میں مخصوص امتیاز کے حامل تھے آنحضرت ﷺ نے انہیں حکم دیا تھا کہ لوگوں کے فیصلے پکا یا کریں.اسے امام شافعی نے علم کے پانچ مراتب یوں بیان فرمائے ہیں.(1) کتاب و سنت (سنت ایسی جو ثابت شدہ ہو ).امام صاحب کے نزدیک ان دونوں کا مرتبہ عملاً ایک ہی ہے کیونکہ سنت کتاب ہی کی وضاحت کرتی ہے اور سنت قرآن کی معارض نہیں ہوسکتی.تاہم خبر احادقرآن کے برابر نہیں.(۲) جہاں کتاب وسنت میں واضح حکم نہ ملے تو وہ مسئلہ اجماع کبار فقہاء سے طے کیا جائے گا.

Page 109

68 (۳) اس کے بعد صحابی کی رائے کو اختیار کیا جائے گا اگر وہ دوسرے صحابی کی رائے کے خلاف نہ ہو.(۴) اگر اختلاف ہو تو اس کی رائے مانی جائے گی جو کتاب اللہ کے زیادہ قریب ہو.(۵) قیاس.اگر کوئی مسئلہ کتاب، سنت اور اجماع سے نہ ملے ، نہ اس کے بارہ میں کسی صحابی کا قول ملے تو مندرجہ بالا ماخذ کی روشنی میں قیاس کیا جائے.ہے امام شافعی اور علم کلام اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ امام صاحب علم الکلام سے نالاں اور اس کے خلاف تھے.لیکن درحقیقت اس وقت علم کلام یہ تھا کہ کہ قرآن و نصوص کے خلاف صرف اپنی عقل سے مسائل بنا لیے جائیں.امام صاحب اس من گھڑت علم کلام کے خلاف تھے.اس کا اظہار وہ اپنے اشعار میں یوں کرتے ہیں.لم يبرح الله حتى احد ثوا بدعا في الدين بالرأى لم يبعث به الرسل حتى استخف بـديـن الـلـه اكثرهم في الذين حكموا من حقه شغل ترجمہ: خدا اس وقت تک بندوں کے ساتھ رہا حتی کہ انہوں نے اپنی انکلوں سے دین میں ایسی بدعات ایجاد کیں جن کی تعلیم رسول نہیں لائے تھے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خدا کے دین کو اکثر لوگ خفیف سمجھنے لگے اور ان باتوں میں مشغول ہو گئے جن کو انہوں نے اپنی رائے سے خدا کے حق میں تجویز کیا.اس بیان سے ظاہر ہے کہ امام شافعی نے جس علم کلام کی مذمت کی ہے وہ وہی علم کلام ہے جس سے اہل بدعت اپنے عقائد باطلہ کی ترویج کرتے تھے.ورنہ جو دلائل وحدانیت اور نبوت اور قدر وغیرہ امور کے ثبوت میں امام شافعی سے منقول ہیں، سچ تو یہ ہے کہ ان سے بہتر آج تک کسی متکلم نے بیان نہیں کیے.۳۳ جو کلام قرآن وسنت میں رہتے ہوئے تھا آپ اس کے جید عالم تھے.چنانچہ ہارون الرشید نے ایک مرتبہ خدا کی دلیل پوچھی تو آپ نے متعدد دلائل بیان کیے جن میں سے ایک آوازوں کا اختلاف بھی تھا.اسی طرح آپ نے نبوت محمدی ﷺ کی صداقت کے بھی کئی دلائل بیان کیے ہیں.آپ پہلے شخص ہیں جنہوں نے براہمہ منکرین نبوت کے رد میں کتاب لکھی ہے اور اس میں صداقت نبوت کے

Page 110

69 دلائل قائم کیے.آپ نے صداقت حضرت محمد ﷺ کے دلائل دیتے ہوئے لکھا کہ مندرجہ ذیل چیزیں صداقت پر دال ہیں.القرآن المنزل و اجماع الناس والايات التى لا تليق باحد غيره - ۳۵ که قرآن کریم ، لوگوں کا اجماع اور آپ کی امتیازی نشانیاں جو دوسروں میں نہیں.آپ مناظرہ و بحث مباحثہ میں تکفیر بازی کے خلاف تھے جو اس وقت متکلمین کا مرغوب مشغلہ تھا.چنانچہ آپ نے فرمایا ” جس چیز میں بھی مناظرہ کر واس میں دوسرے کے بارے میں یہ تو کہہ سکتے ہو کہ تم نے غلطی کی نہ یہ کہ تم نے کفر کیا.= آپ قضاء قدر کے بارے میں اس بات کے قائل تھے کہ انسان خدا کی مرضی کا پابند ہے اور اس لیے بہت سے دلائل دیتے.جیسے کہتے کہ کافر ہمیشہ ایمان کا ارادہ کرتا ہے اگر اعمال میں اختیار ہوتا تو وہ کافر کیوں رہتا.اس طرح اپنے دعویٰ کے ثبوت کے طور پر حضرت علی کا یہ قول پیش کرتے ”عرفت ربى بنقص العزائم و فسخ الهم کہ میں نے اپنے رب کو ارادوں کے ٹوٹنے اور ہمتوں کے ناکارہ ہونے سے پہچانا.امام رازی کہتے ہیں کہ قضاء و قدر کے جتنے دلائل امام شافعی نے جمع کیے ہیں بڑے بڑے متکلمین نے بھی اپنی تصانیف میں نہیں لکھے.قیاس ،استحسان اور امام شافعی سب سے اوّل صحت قیاس کے مسئلہ کو بھی امام شافعی ہی نے ظاہر کیا اور اس علم میں کتا بیں لکھیں اور لوگوں کو فائدہ پہنچایا.آپ نے قیاس کی تین اقسام بیان کی ہیں.(۱) قیاس اہمعنی.قیاس الشبہ وغیرہ.امام رازی رقمطراز ہیں:.نہ ابو حنیفہ اور نہ ان کے اصحاب نے ایک ورق بھی اثبات قیاس میں لکھنے کی زحمت گوارا کی.سب سے پہلے اس مسئلہ پر جس نے لب کشائی کی اور دلائل کا انبار جمع کر دیا وہ امام شافعی تھے.۳۸ امام صاحب کے نزدیک استحسان باطل ہے اور اس سے مراد ایسا فتویٰ ہے جو کتاب، سنت، اجماع، قیاس پر مبنی نہ ہو.استحسان کے ابطال کیلئے آپ نے ایک رسالہ ابطال استحسان“ بھی رقم فرمایا

Page 111

70 اور اس میں بہت سے دلائل بیان کیے جیسے ؛ ا.قرآن میں ہے ایحسب الانسان ان یترک سدی.گویا ایسا مسئلہ کوئی نہیں جس میں انسان کو شتر بے مہار کہا گیا ہو..آنحضور ﷺ نے لزوم جماعت کا حکم دیا گویا یہ حکم دیا کہ جماعت کے متفقہ فیصلہ سے نہ ہٹو..استحسان کا ذکر قرآن میں نہیں ہے.حضور نبی کریم یہ استحسان نہیں کرتے تھے بلکہ نئے پیدا شدہ مسئلہ کیلئے وحی کا انتظار کیا کرتے تھے.۳۹ے جس غور و تدبر سے امام شافعی نے اپنے اصول وقواعد ایجاد کیسے ہیں اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے.وہ خود لکھتے ہیں کہ میں نے اجماع کی حجت ہونے کی دلیل تلاش کرنے میں تین سو مرتبہ اول سے آخر تک قرآن مجید پڑھا ہے.بالآخر اس آیت پر میرا اطمینان ہو گیا.و مــــن یــــــاقـــق الرسول من بعد ما تبين له الهدى ويتبع غير سبيل المومنين نوله ما تولى و نصليه جهنم و سأت مصیرا.سورہ النساء 116 ٢٠ متفرق آپ صحابہ کا بہت احترام کرتے تھے.فرماتے تھے علم واجتہاد کی روسے ، ورع و عقل کے اعتبار سے اور رسائی فہم کے لحاظ سے بہر حال صحابہ ہم پر فوقیت رکھتے ہیں.ان کی آراء ہمارے لیے بہترین اور برتر ہیں اور ہماری رائے سے اولیٰ ہے.اسے امام شافعی شریعت کے اصول و فروع اور قضایا کی تفسیر میں ظاہری مسلک سے سرمو تجاوز نہیں کرتے.ان کا خیال ہے کہ ظاہر کو چھوڑ کر دوسرا مسلک اختیار کر نا محض ظن و تو اہم ہے اور ظن و تو ہم میں خطا کا پہلو غالب ہے اور صواب کا کمزور.امام شافعی کے اقوال مختلفہ ان کی کتب میں ان کے مختلف یا متضاد اقوال بھی ملتے ہیں.اس کا حل کئی صورتوں میں ممکن

Page 112

71 ہے.ہوسکتا ہے کہ کسی نے یہ اقوال ان کی طرف منسوب کر دیے ہوں یا امام صاحب نے دو مسلک بیان کر کے بعد میں ایک کی نفی کی ہو یا بعد میں قدیم قول سے رجوع کرلیا ہو.ہر دوا قوال کے نفی واثبات کے دلائل بیان کر کے توقف اختیار کر لیا ہو.ایسا کرنا ان کی غایت درجہ کی دیانت اور ورع کی دلیل ہے.گویا آپ طالب حق تھے اور تلاش حق میں جہاں آپ کو نئی روشنی ملتی اسے اختیار کر لیتے.آپ نے علم اصول فقہ ایجاد کیا.دنیا کے سامنے ایسا قانون گلی رکھ دیا کہ ادلہ شرعیہ کے مراتب کی معرفت آسان تر ہوگئی.پس جس طرح دنیا یہ مانتی ہے کہ استخراج منطق کا اتنا بڑا کارنامہ ہے جس میں ارسطو کا کوئی حریف نہیں اس طرح دنیا کو یہ بھی ماننا چاہیے کہ شافعی رضی اللہ عنہ نے علم اصول فقہ ایجاد کر کے اسے رفعت و جلالت کی انتہاء تک پہنچادیا اور وہ جملہ مجتہدین سے ممتاز ہو گئے.علوم اصول فقہ کیلئے آپ نے ایک کتاب الرسالہ لکھی.تصنیفات آپ نے ایسا شاندار لٹر پر چھوڑا ہے جو آپ کے تجدیدی کارناموں کا سب سے بڑا ثبوت ہے جس کے ذریعے دوسری صدی سے لے کر اب تک مخلوق خدا استفادہ کرتی ہے اور کرتی رہے گی.یقیناً یہ ایک عظیم الشان خدمت ہے.اصول تالیف آپ سب سے پہلے ان مبادی کا تذکرہ کرتے ہیں جو انہوں نے بسلسلہ استنباط وضع کیے ہوتے ہیں پھر مسائل مختلف فیہ کا تذکرہ ہوتا ہے پھر ان مسائل میں سنت رسول اور صحابہ کے اختلاف کو زیر بحث لاتے ہیں اور یہ سب کچھ بیان کرنے کے بعد جس رائے کو صحیح خیال کرتے ہیں اسے مرحج قرار دیتے ہیں.تعصب آپ میں بالکل نہیں تھا.آزادانہ تحقیق کرتے اگر بعد میں کوئی بات پہلے مسلک کے خلاف مل جاتی تو اپنے مسلک سے رجوع کر لیتے.آپ فرماتے تھے ” میری ان کتابوں میں مخالف کتاب وسنت تم کوئی بات نہ پاؤ گے کیونکہ ایسی تمام باتوں سے میں رجوع کر چکا ہوں“.ہے آپ نے اکہتر کتب قیام بغداد کے دوران لکھیں.مصر میں دوبارہ ان کی کانٹ چھانٹ کی اور

Page 113

72 پھر یہ کتب سارے عالم اسلام میں مشتہر ہوگئیں.ربیع کی روایت ہے کہ مصر کے چار سالوں میں آپ نے ڈیڑھ ہزار ورق املا کرائے.تصنیفات میں کتاب الام ، کتاب السنن اور بہت سی کتب ان کے علاوہ ہیں اور یہ سارا کام چار برس میں انجام پایا.ملاعلی قاری نے آپ کی تصنیفات کی تعداد ایک سو تیرہ لکھی ہے.امام ذولاق کا قول ہے کہ امام صاحب نے اصول دین میں چودہ جلدیں اور فروع میں سو سے زائد جلد میں لکھی ہیں.کتاب الام آپ کی مایہ ناز تصنیف ہے.ہر زمانے کے علماء اس سے حوالے اخذ کرتے رہے ہیں.حضرت شاہ ولی اللہ صاحب اس کتاب کے عمدہ ہونے کے معترف ہیں.وہ کہتے ہیں اس کتاب نے مجھے مرتبہ اجتہاد تک پہنچایا ہے.شیخ ابن حجر نے آپ کی مشہور کتب کے نام بتائے ہیں جن میں چند حسب ذیل ہیں.رسالہ قدیمہ.رسالہ جدیدہ.اختلاف الحدیث اختلاف السنن اجماع الامام ابطال استحسان.احکام القرآن.بیان الفرض_صفتہ الامر والنہی.اختلاف مالک والشافعی اختلاف الشافعي ومحمد بن الحسن.کتاب علی و عبداللہ فضائل قریش.کتاب المبسوط سیر الاوزاعی.سیر الواقدی ( مؤخر الذکر دو کتب کتاب الام کا حصہ ہیں ).آپ کے علاوہ مندرجہ ذیل مجد دین دوسری صدی میں مانے جاتے ہیں.یحیی بن معین بن عون عطفا نی.اشہب بن عبد العزیز بن داؤد قیس.ابوعمر و مالکی مصری.خلیفہ مامون رشید بن ہارون.قاضی حسن بن زیاد حنفی.جنید بن محمد بغدادی صوفی.سہل بن ابی سہل بن رمحلہ شافعی.بقول امام شعرانی حارث بن اسعد طالبی ابوعبداللہ صوفی بغدادی.اور بقول علامہ عینی احمد بن خالد الخلال.ابو جعفر حنبلی بغدادی.

Page 114

73 ل سيرة الشافعی.صفحہ 166 حوالہ جات ے تو الی التاسیس الابن حجر بحوالہ سیرۃ ائمہ اربعہ - صفحہ 318 سیرۃ ائمہ اربعہ - صفحہ 319 آثار امام شافعی.صفحہ 76 نج الکرامہ - صفحہ 135 آثار امام شافعی ترجمہ - صفحہ 155 کے ملفوظات.جلد چہارم صفحہ 501 انوار العلوم جلد 5 صفحہ 478 2 آثار امام شافعی ترجمہ - صفحہ 155 الله الله اله اردو دائرہ معارف اسلامیہ.جلد 11 صفحہ 576 مناقب امام شافعی بحوالہ سیرۃ الشافعی.صفحہ 43 ايضاً - صفحہ 76 سيرة الشافعی.صفحہ 76 ايضاً - صفحہ 167 ها آثار امام شافعی - صفحہ 253 ايضاً - صفحہ 78 ايضاً - صفحہ 300 توالی التاسیس بحوالہ سیرۃ الشافعی - صفحہ 75 آثار امام شافعی - صفحہ 320 ايضاً - صفحه 78 ا سیرة الشافعی.صفحہ 128

Page 115

74 ۲۵ Σ ZA ۲۸ سيرة الشافعی.صفحہ 76 ايضاً - صفحه 85 ايضاً - صفحه 85 ايضاً - صفحہ 130- 129 129-130 ايضاً - صفحه 131-131 ماخوذ از سیرة الشافعی - صفحہ 130-135 سیرة الشافعی.صفحہ 133 ابن خلکان بحوالہ سیرۃ الشافعی.صفحہ 141 سيرة الشافعی (ماخوذ) آثار امام شافعی - صفحہ 146-149 ۳۲ ایضاً.صفحہ 301 ۳۳ سیرت الشافعی.صفحہ 199 ۳۵ ۳۸ مناقب الشافعی بحوالہ سیرت الشافعی.صفحہ 205 ايضاً مناقب الشافعی لرزای بحوالہ سیرۃ الشافعی.صفحہ 5-2 آثار امام شافعی.صفحہ 376,137 ايضاً - صفحہ 376 ۳۹ آثار امام شافعی صفحہ 435 سيرة الشافعی.صفحہ 166 ا اعلام الموقعین جلد 2 صفحہ 191 بحوالہ آثار امام شافعی - صفحہ 141 آثار امام شافعی صفحہ 435 آثار امام شافعی صفحہ 267 تا269 ايضاً ۳۵ سیرة الشافعی.صفحہ 93

Page 116

75 تیسری صدی کے مجدد حضرت ابوالحسن اشعری رَحْمَةُ اللهِ عَلَيْهِ س ۵۳۲۴ - ۵۲۰۲ آپ معتزلہ کے پاس جایا کرتے تھے.جب کسی نے اعتراض کیا تو فرمایا: کیا کروں؟ وہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں...وہ اپنے عہدے کی وجاہت کے باعث میرے پاس آنے سے رہے اگر میں بھی ان کے پاس نہ گیا تو حق کیسے ظاہر ہوگا.اے

Page 117

76 ولادت و ابتدائی حالات ابوالحسن علی بن اسمعیل بن اسحق بن اسمعیل بن عبداللہ بن موسیٰ بن بلال بن ابی بردۃ بن ابی موسیٰ الاشعری نام تھا.گویا آپ مشہور صحابی رسول ابو موسیٰ اشعری کی اولاد میں سے تھے.آپ کا لقب امام المتکلمین تھا.آپ کے سن ولادت کے بارے میں اختلاف ہے.بعض جگہ ۲۰۲ اور بعض جگہ ۲۰ھ اور بعض جگہ ۲۷ ھ ہے.آپ بصرہ میں پیدا ہوئے.مجمع البجار میں ہے: هو الامام في المتكلمين على بن اسمعيل من اولاد ابى موسى سنة اثنين و مأتين و مات قبل الثلثين و ثلثمائة“.آپ کا نام علی بن اسماعیل لمتکلمین ہیں.ابو موسیٰ اشعری کی اولاد میں سے ہیں.۲۰۲ ھ میں ولد سنة اثنين ہے.آپ امام ا پیدا ہوئے اور ۳۳۰ ھ سے قبل فوت ہوئے.سے " آپ کو مجد د بھی تسلیم کیا گیا ہے.چنانچہ جلال الدین سیوطی صاحب لکھتے ہیں :- و ابن شريح ثالث الائمه والاشعرى عدة من احد“ اورابن شریح تیسرے امام ہیں اور اشعری بھی ان میں سے ایک ہیں.سے نواب صدیق حسن خانصاحب نے بھی آپ کو مجدد تسلیم کیا ہے.فرماتے ہیں :- ترجمہ: تیسری صدی کے نزدیک قرامطیوں کا فتنہ ظاہر ہوا.اکثر شہروں سے ہوتا ہوا یہ مکہ معظمہ تک جا پہنچا.حاجیوں کو بڑی شدت سے قتل کر کے چاہ زمزم میں پھینک دیا اور حجر اسود کو ہتھوڑوں سے تو ڑا پھوڑا اور اکھاڑ کر اپنے شہروں میں لے گئے.اور میں سال سے زائدان کے پاس رہا اور پھر کسی نے تمھیں دینار میں خرید کر دوبارہ مکے میں لا کر نصب کر دیا اور اس صدی کے مجددین میں ابن شریح اور ابوالحسن اشعری اور اسی طرح کے اور لوگ ہیں.ہے قاضی ابوبکر باقلانی جو خود مجدد تھے انہوں نے فصاحت وحسن تقریر کے باعث انہیں "لسان الامة جو مجدد تھے نے وحسن کا خطاب دیا.کسی نے کہا آپ کا کلام ابوالحسن اشعری کے کلام سے زیادہ بلند اور واضح معلوم ہوتا ہے.انہوں نے کہا ” میری یہی سعادت ہے کہ میں ابوالحسن کے کلام کوسمجھ لوں.ھے ابوالحسن بابلی نے آپ کے بارے میں لکھا: -

Page 118

77 ”میری حیثیت امام ابوالحسن اشعری کے سامنے ایسی تھی جیسے سمندر کے پہلو میں قطرہ - 1 آپ کے ایک خادم احمد بن علی فقیہہ جس نے ہیں برس آپ کی خدمت کی سے مروی ہے کہ میں نے ابوالحسن اشعری سے زیادہ عفیف اور پارسا اور ان سے بڑھ کر امور دنیا میں احتیاط برتنے والا اور امور آخرت میں شاداں و فرحاں اور کسی شخص کو نہیں پایا.وفات ۱۳۲۴ھ میں آپ کا انتقال ہوا اور بغداد میں دفن ہوئے.آپ کی وفات پر کہا گیا کہ آج ناصر سنت کا انتقال ہو گیا“.2 اعتزالی دور آپ کی والدہ نے خاوند کی وفات کے بعد ابو علی جبائی سے نکاح کر لیا جو اپنے وقت کے معتزلہ کے امام تھے.شیخ ابوالحسن جبائی کی آغوش تربیت میں پرورش پائی.ان کے مایہ ناز شاگرد ہوئے اور جلد ہی ان کے معتمد اور دست راست بن گئے.ابوالحسن کو لحن داؤ دی ودیعت ہوا تھا.حاضر جواب بھی تھے اس لیے بہت جلد وہ سر حلقہ اور مجالس بحث کے صدرنشین ہو گئے اور چالیس برس معتزلہ کی ترویج اور اشاعت میں گزار دیے.اعتزال سے علیحدگی خدا کی قدرت دیکھئے وہی شخص جو چالیس برس تک معتزلہ کا سرگرم مبلغ تھا خدا نے اسے ہی سنت کے احیاء کیلئے منتخب کیا.چنانچہ آپ کو بار بار رسول کریم ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی اور آپ نے بار بار یہی تاکید کی کہ اعتزال کی روش کو چھوڑ کر میرے سیدھے سادھے منہاج کی تائید کیلئے اُٹھ کھڑے ہو جو کتاب اللہ سنت اور سلف کی روایات پر مبنی ہے.2 چنانچہ چالیس سال کے بعد آپ کی زندگی کا ایک تاریخی موڑ آیا جب آپ کی طبیعت معتزلہ کی تاویلوں سے متنفر ہونے لگی.انہوں نے محسوس کیا کہ یہ اپنے مذہب کی بیچ ہے.حقیقت وہی ہے جو صحابہ اور سلف صالحین کا مسلک تھا.چنانچہ جب طبیعت میں جولانی بڑھی تو گھر سے بھاگ گئے.پندرہ

Page 119

78 دن غائب رہے سولہویں دن جامعہ مسجد پہنچے تو جمعہ کا دن تھا اور مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھی.آپ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: - ” جو مجھے جانتا ہے وہ جانتا ہے.جو نہیں جانتا اس کو بتلاتا ہوں کہ میں ابوالحسن اشعری، میں معتزلی تھا.فلاں فلاں عقیدہ کا قائل تھا، اب تو بہ کرتا ہوں.اپنے سابقہ خیالات سے باز آتا ہوں.آج سے میرا کام معتزلہ کی تردید اور ان کی کمزوریوں اور غلطیوں کا اظہار ہے.تجدیدی کارنامے معتزلہ کے عقائد آپ کے دور کا عظیم فتنہ تھا اور آپ معتزلہ کی اصلاح کو فرض عین اور جہاد کبیر خیال کرتے تھے.معتزلہ کی مجالس میں جا کر اور ان کے ممتاز لوگوں سے مل کر ان کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے تھے اور جب کسی نے اعتراض کیا کہ آپ خود اہل بدعت سے کیوں ملتے ہیں حالانکہ ان سے مقاطعہ کا حکم ہے.آپ نے فرمایا کیا کروں ؟ وہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں.ان میں سے کوئی حاکم شہر ہے اور کوئی قاضی ہے.وہ اپنے عہدے کی وجاہت کے باعث میرے پاس آنے سے رہے.اگر میں بھی ان کے پاس نہ گیا تو حق کیسے ظاہر ہو گا اور انہیں کیسے معلوم ہوگا کہ اہلسنت کا مددگار اور دلائل سے ان کے مذہب کو ثابت کرنے والا بھی کوئی ہے.لاء آپ معتزلیوں کے سوالات کے جوابات آسانی سے دیتے تھے جیسے کوئی کہنہ مشق استاد طفلانِ مکتب کے سوالات حل کر رہا ہو.عبداللہ بن حنیف بیان کرتے ہیں:.میں شیراز سے بصرہ آیا تو مجھے ابوالحسن کی زیارت کا شوق تھا.لوگوں نے مجھے ان کا پتہ دیا.میں آیا تو وہ ایک مجلس مناظرہ میں تھے.وہاں معتزلہ کی ایک جماعت تھی اور لوگ گفتگو کر رہے تھے.جب یہ لوگ خاموش ہوئے اور انہوں نے اپنی بات پوری کر لی تو آپ نے گفتگو شروع کی.ابوالحسن اشعری نے ایک ایک سے مخاطب ہو کر کہا یہ تم نے یہ کہا تھا اور اس کا جواب یہ ہے اور تم نے یہ اعتراض کیا تھا اس کا یہ جواب ہے.یہاں تک کہ انہوں نے سب کےسوالات کا جواب دے دیا.۱۲

Page 120

79 ابو بکر بن الصیر فی کہتے ہیں :- معتزلہ نے بہت سر اُٹھایا تھا.ان کے مقابلہ کیلئے اللہ تعالیٰ نے امام ابوالحسن اشعری کو پیدا کر دیا.انہوں نے معتزلہ کو اپنی ذہانت و استدلال سے بند کر دیا اور ان کے اس کارنامے کی وجہ سے لوگوں نے انہیں مسجد دین و محافظین سنت میں شمار کیا ہے اور ابوبکر اسماعیلی جیسے بعض اہل نظر نے تجدید دین اور حفاظت شریعت کے سلسلہ میں امام احمد کے بعد ان کا نام لیا ہے.آپ کا ایک بڑا تجدیدی کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے عقلی دلائل سے عقائد و احکام کی حکمتیں بیان کیں اور ان کی برتری ثابت کی.اس بارہ میں سید سلیمان ندوی رقمطراز ہیں :- ان کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے کتاب وسنت کے حقائق اور اہلسنت کے عقائد کو عقلی دلائل سے ثابت کیا اور معتزلہ اور دوسرے فرقوں سے ان کے ایک ایک مسئلہ اور ایک ایک عقیدہ میں ان کی زبان اور اصطلاحات میں بحث کر کے عقائد اہلسنت کی صداقت اور ان کا منقول اور معقول کے مطابق ہونا واضح کیا.۳.امام اشعری احمد بن حنبل کی طرح ” قدامت پسند ہیں یعنی کتاب وسنت پر عامل ہیں.البتہ اس کے ساتھ عقلی دلائل بھی تلاش کرتے ہیں ، جہاں صرف عقلی دلیل بن سکتی ہو وہاں بے دھڑک وہی استعمال کرتے ہیں.آج کل اشاعرہ جو صرف معقولات پر حصر کئے ہوئے ہیں یہ اشعری کی طبع سے کوسوں دور تھا.چنانچہ ان کی تعلیم کیا تھی اس کا اندازہ اس حوالے سے بخوبی ہو جاتا ہے.آپ فرماتے ہیں:- قولنا الذي نقول به و ديانتنا الذى ندين بها التمسك بكتاب ربنا عز وجل وبسنة نبينا عليه السلام وما روى عن الصحابة والتابعين وائمة الحدیث و نحن بذالک معتصمون و بما كان يقول به ابوعبدالله احمد بن حنبل نضر الله وجهه ی.جو بات ہم کہتے ہیں یا جو دین ہم اختیار کرتے ہیں وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اور اقوال صحابہ اور تابعین اور آئمہ الحدیث کو مضبوطی سے پکڑنا ہے ہم اس پر اور جو امام احمد بن حنبل ( خدا آپ کا چہرہ شاداب رکھے ) کہیں اس پر مضبوطی سے قائم ہیں.

Page 121

80 معتزلہ سے اختلاف مندرجہ ذیل مسائل میں آپ نے معتزلہ سے اختلاف کیا.ا.معتزلہ خدا کی ذات اور صفات کو جدا نہیں سمجھتے.مگر آپ نے فرمایا خدا کی صفات علم ، بصارت، کلام ازلی و ابدی ہیں اور ذات حق سے جدا ہیں.اللہ کا ہاتھ ، چہرہ ، عرش حقیقتا اور مادی طور پر نہیں ہیں.ان سے مراد خدا کا فضل اور اس کی ذات وغیرہ ہے.معتزلہ کے نزدیک قرآن مخلوق ہے اور امام اشعری کے نزدیک غیر مخلوق ہے اور یہ خدا کی صفت کا ظہور ہے.معتزلہ کے نزدیک رویت باری حقیقتا ممکن نہیں مگر اشعری کے نزدیک روز محشر میں ایسا ممکن ہوگا گو ہم اس کی تفصیلات سے نا آشنا ہیں..معتزلہ کے نزدیک انسان کو افعال میں اختیار ہے.جبکہ اشعری کہتے ہیں کہ ہر چیز اللہ اور اس کے ارادے کے تحت ہے.ہر خیر و شر خدا کی مشیت پر ہے.عقیدہ کسب اشعری عقائد کا جزو ہے.معتزله المنزلة بين المنزلتين عقیدہ کی بناء پر کہتے ہیں کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب مسلمان نہ مؤمن رہتا ہے اور نہ کافر.مگر اشعری کہتے ہیں کہ وہ مومن تو رہتا ہے لیکن جرم کی پاداش میں عذاب جہنم کا مستحق ہو جاتا ہے.معتز لی حوض کوثر ، پل صراط، میزان، شفاعت وغیرہ امور کے یا تو سرے سے منکر ہیں یا ان کی تاویل کر لیتے ہیں.جبکہ اشعری ان کی اصلیت کے قائل ہیں.۵.تصانیف آپ کی مجددانہ شان آپ کی تصنیفات سے عیاں ہے.اس وقت تو ایسے صاحب قلم مردمیدان کی ضرورت تھی جو اپنے عہد کا ”سلطان اللہ ہوتا ہے اور اسی عقل کو دین کی خدمت کیلئے استعمال کرتا جسے معتزلہ دین سے دور ہٹنے کیلئے استعمال کر رہے تھے.جو کتاب وسنت کی افادیت بیان کرتا ہے.

Page 122

81 چنانچہ وقت کے تقاضا کے مطابق امام ابوالحسن اشعری خدا کی طرف سے مجدد مبعوث ہوئے.آپ نے سینکڑوں کتب تصنیف فرما ئیں جن کے ذریعہ سے معتزلہ کو شکست فاش ہوئی اور فلاسفہ کا غرور خاک میں مل گیا.آپ کی کتب کی تعداد میں بہت اختلاف ہے.قاضی ابوالمعالی بن عبدالمالک نے ان کی تعداد تین سو بتائی ہے.اسی طرح ابن فورک نے بھی تین سو کتب بتائی ہیں.تاہم ابن عسا کر نے ننانوے اور علامہ ابن حزم نے بچپن بتائی ہے اور مقالات اسلامین میں آپ کی ایک سو دو کتب کی فہرست موجود ہے.ذہبی کے نزدیک آپ کی تفسیر القرآن تمہیں اجزاء میں ہے.آپ کی کتب سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے ہاں نہ بے جا فلسفہ ہے نہ عقلی موشگافیاں ، نہ تجرید (Abstraction) کی بے راہ روی اور نہ حکمت و دانش کی وہ بے جان خنکی ہے جو علم کلام کے ساتھ مخصوص ہے.اسی طرح ان کتب میں اعتزال جہمیت تعلق پرستی ہمنویت اور دہریت کے دلائل کا قلع قمع کیا گیا ہے.گویا امام ابوالحسن اشعری اس سلسلہ الذہب کی ایک درخشاں کڑی ہیں جس نے ہر دور میں اسلام اور اہل اسلام کا سر فخر سے بلند رکھا.کتب کی اقسام آپ کی تصنیفات کو مندرجہ ذیل اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے.ا.معتزلی دور کی کتب ۲.وہ کتب جو خارج از اسلام زمروں، فلاسفہ، طبعیوں، دہریوں، براہمہ، یہود اور نصاری کے رد میں لکھیں..وہ کتب جو خارجیہ، جہمیہ ، شیعہ معتزلہ ظاہر یہ جیسے اسلامی فرقوں کے رڈ میں لکھیں.۴.وہ کتب جن میں مسلم و غیر مسلم علماء کے مقالات وغیر نقل کیسے ہیں.۵.ایسے سوالات کے جوابات پر مبنی رسالے جو لوگوں نے پوچھے.جیسے مقالات اسلاميين.الابانة من اصول الديانة.رسالة الايمان قول جمله اصحاب الحديث و اهل السنة في الاعتقاد.رساله استحسان الخوض في علم الكلام

Page 123

82 آپ کی دوسری کتب میں الفصول.المرجز.كتاب في الجسم.اللمع الكبير.اللمع الصغير مقالات غير اسلاميين مقالات المسلمين المنخل الادراك المختزن.كتاب المعارف کشف الاسرار وهتك الاستار.اللمع الموجز.ايضاح البرهان.القبيس عن اصول الدين كتاب القياس.کتاب الاجتهاد.آپ کی مشہور كتاب الفصول“ ہے جو بارہ کتب کا مجموعہ ہے.اس میں آپ نے فلاسفہ، طبائعین ، دہریہ، ہندوؤں، یہودیوں، عیسائیوں اور مجوسیوں کا رڈ کیا ہے.آپ نے اپنی کتاب العمد میں جو وفات سے چار سال قبل کی ہے اس میں خود اپنی اڑسٹھ کتب کی فہرست دی ہے جس میں اکثر ضخیم ہیں.آپ نے ہر طرح کے موضوعات پر قلم اٹھایا.آپ کی ایک کتاب اس موضوع پر ہے کہ اجرام فلکی کی حرکت کی جوتو جیہ ارسطو نے بیان کی ہے وہ بیچ نہیں ہے اور اس حقیقت سے پردہ کشائی کی ہے که گردشِ افلاک سے سعادت و نجوم کا جو مفہوم از راہ جہل و نادانی وابستہ کر لیا گیا ہے اس کی علمی سطح پر تائید نہیں کی جاسکتی.دوسرے ان کی مشہور تفسیر ہے جو المختزن کے نام سے موسوم ہے.افسوس کہ دست و بر دزمانہ سے یہ ثروت علمی ضائع ہوگئی.یہ تفسیر کیا تھی ایک طرح کا موسوعہ تھی جس کے مضامین پانچ سو جلدوں میں پھیلے ہوئے تھے.ابن عربی نے نظامیہ کتب خانہ میں جا کر یہ تفسیر دیکھی اور اس کی تعریف کی ہے.11 پس امام ابوالحسن اشعری نے اپنی تصنیفات کے ذریعہ معتزلہ اور فلاسفہ کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو تھام لیا.شریعت سے اکھڑے ہوئے قدموں کو جما دیا، عقائد اہل سنت اور طریقہ سلف کی پرزور مدل حمایت کرنے کی وجہ سے اہل سنت میں نیا اعتماد اور نئی زندگی پیدا ہوئی اور وہ احساس کمتری ختم ہو گیا جو گھن کی طرح سواد اُمت کو کھا رہا تھا.ان کے علاوہ تیسری صدی کے مجدد درج ذیل ہیں.قاضی احمد بن شریح بغدادی شافعی.ابو جعفر طحاوی از دی حنفی.احمد بن شعیب ابو عبد الرحمن نسائی.خلیفہ مقدر باللہ عباسی (قریشی).حضرت شبلی صوفی.عبید اللہ بن حسین ابوالحسن کرخی صوفی حنفی.امام بھی بن مخلد قرطبی مجد داندلس اہلحدیث.حضرت ابو شریح

Page 124

83 لے کے تاریخ دعوت و عزیمت 1/133 مجمع البحار - صفحہ 548 نج الکرامہ.صفحہ 138 ايضاً - صفحہ 138 حوالہ جات تاریخ دعوت و عزیمت.صفحہ 135 ایضاً.جلد نمبر 1 صفحہ 135 بحوالہ ماہنامہ خالد جنوری 1982ء ابن خلکان.صفحہ 464.بحوالہ تاریخ دعوت و عزیمت جلد 1 صفحہ 143 دیباچہ مقالات اسلامیین.صفحہ 6 نا ابن خلکان بحوالہ تاریخ دعوت و عزیمت.جلد اوّل صفحہ 132 الله الله ایضاً.جلد 1 صفحہ 133 تبيين كذب المفتری صفحه 95 بحوالہ تاریخ دعوت و عزیمت.جلد 1 صفحہ 134 ايضاً - صفحہ 138 ایضاً.صفحہ 137 اردو دائرہ معارف اسلامیہ.جلد 2 صفحہ 799 زیر لفظ اشعری مقالات اسلامین (مقدمہ ) اردو تر جمہ - صفحہ 3

Page 125

84 چوتھی صدی کے مجدد حضرت ابوبکر باقلانی رَحْمَةُ اللهِ عَلَيْهِ ۵۴۰۳ - ۵۳۳۸ فرمایا اسلوب قرآن بھی معجزہ ہے...قرآن کے الفاظ ، جملے، آیات کا آغاز و اختتام ، صوتی زیروبم ، معانی و مطالب، ترتیب نظم و نسق سبھی معجزہ ہیں.1 인

Page 126

85 ولادت و تعارف آپ کا نام محمد بن الطبیب بن جعفر تھا.بصرہ میں پیدا ہوئے.لیکن بغداد میں سکونت اختیار کی.آپ کا سن پیدائش 338ھ ہے.آپ چوتھی صدی کے مجدد ہیں.علمی فضائل کے ساتھ ساتھ زہد و تقویٰ، ریاضت و عبادت میں بھی مشہور ہیں.سفر و حضر میں ہمیشہ رات کے وقت ہمیں رکعت نفل ادا کیا کرتے تھے اور اس کے بعد قوت حافظہ کی مدد سے پینتیس ورق روزانہ لکھا کرتے تھے.آپ نے اساتذہ فن سے حدیث و علم کلام حاصل کیا اور پھر متبحر عالم بنے.بغداد کے ” جامع المصور میں درس دیا کرتے تھے اور آپ کا حلقہ بہت وسیع تھا.امام ابن تیمیہ آپ کے بارے میں فرماتے ہیں:.یہ اشاعرہ میں افضل المتکلمین تھے.ان میں ایسا شخص نہ تو کوئی پہلے ہوا، نہ بعد میں“.آپ نے ابوبکر بن مالک، التقطیعی ، ابومحمد، ابواحمد الحسین بن علی النیشا پوری سے حدیث سنی اور علم النظر ابو عبد اللہ بن مجاہد الطائی سے سیکھا.ہے اکثر احباب انہیں مالکی مانتے ہیں.لیکن امام ابن کثیر نے ایک جگہ انہیں شافعی اور ایک جگہ خود تعجب کرتے ہوئے انہیں حنبلی بھی لکھا ہے.اس سے پتہ لگتا ہے کہ آپ کسی ایک مسلک کی کورانہ تقلید کے قائل نہ تھے بلکہ ایک مجدد اور مجتہد تھے.جو چیز جہاں صحیح لگی اسے اختیار کرنے میں تامل نہیں کرتے تھے.اُس زمانے کے مسائل آپ کے وقت میں مسلمان حکمرانوں کی حالت ناگفتہ بہ تھی.وہ تمام اسلامی روایات کو فراموش کر چکے تھے.قرآنی تعلیمات زینت طاق نسیاں ہو چکی تھیں.طاقت کے نشے میں چور بادشاہ اپنے آپ کو خدا خیال کرنے لگے تھے.چنانچہ حاکم بامر اللہ نے بادشاہ کو سجدۂ تعظیمی کرنے کا حکم دیا.مسجد میں جو ذکر اللہ کیلئے مخصوص ہیں اور خدا کا ارشاد ہے فلا تدعوا مع الله احدًا.وہاں بادشاہوں کی شان میں مبالغہ آمیز قصائد پڑھے جاتے تھے.ان کی شان بیان کی جاتی تھی اور مسلمانوں کی تربیت کی کسی کو کوئی پرواہ نہیں تھی.اسی زمانے کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے نواب صدیق حسن خانصاحب

Page 127

86 لکھتے ہیں :- و نزد مائتہ چہارم حاکم بامر الله بود و وی هر چه فساد و خرابی کرد ظاہر است بلکه در شر بدتر و بیشتر از حجاج بود - مردم را حکم کرد که هرگاه نام او در خطبه ذکر کنند سجده نمایند و پیش از وی احدی بسجده نز و ذکر نام خود نکرده و افاعیل و مفاعیل حاکم مذکور مشهور و معروف است و نیز نزد رأس مائت درسته سبع دار بعمائه رکن یمانی کعبه و جدار قبر مطهر و مرقد بنور نبوی صلحم وقبه کبیر که بر حجرہ بیت المقدس بود دفعته ساقط شده و این را از عجائب و غرائب اتفاقات شمردند و منجمله مجد ڈین ایں مائۃ قاضی ابوبکر باقلانی و شیخ ابواحمد الفرینی انڈ.سے ( ترجمہ ) : چوتھی صدی کے نزدیک حاکم بامر اللہ (بغداد کا ) حکمران تھا اور اس نے ہر طرف فتنہ وفساد بر پا کر رکھا تھا.بلکہ شرارتوں میں حجاج سے بدتر اور پیشتر تھا.رعایا کو حکم دیا کہ جہاں بھی خطبہ میں اس کا نام آئے اسے سجدہ کیا جائے اور اس سے پہلے کسی نے اپنے نام کے ساتھ سجدہ کا حکم نہ دیا تھا اور اس بادشاہ کی اور بھی خر: عبیلات مشہور و معروف ہیں اور صدی کے سر کے نزدیک یعنی 404ھ میں رکن یمانی اور روضہ نبوی کی دیوار اور قبہ کبیر جو کہ بیت المقدس پر تھا اچانک گر گئے اور اسے بڑا عجیب و غریب اتفاق شمار کیا گیا اور اس صدی کے مجد دین میں قاضی ابوبکر باقلانی اور شیخ ابواحد الفرانی ہیں.وفات مورخہ 23 ذیقعد 403ھ میں فوت ہوئے.ہے تجدیدی کام آپ اشاعرہ میں بلند مقام رکھتے ہیں اور آپ نے ابوالحسن اشعری کے کام کو ہی آگے بڑھایا.آپ نے امام اشعری کی بحثوں کو مرتب کیا.توحید کے دلائل عقلیہ بیان کئے.آپ علم کلام کے امام تسلیم کیے جاتے ہیں.روایت حدیث میں ثقہ تسلیم کئے جاتے ہیں.قاضی عیاض نے انہیں سیف السنۃ اور لسان الامۃ کا خطاب دیا.آپ اہل بصرہ کے امام وقت اور مالکیہ کے سرخیل کہلاتے ہیں.آپ نے سنت کی خوب نصرت فرمائی اور معتزلہ کا قلع قمع کیا.ایک دن دارقطنی نے باقلانی کا منہ چوم کر کہا

Page 128

87 یہ اہل الا ہواء کا رڈ کرتا ہے.عضد اللہ کے دربار میں آپ کی علمیت اور مناظروں کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی.اسی بادشاہ نے آپ کو شاہ روم کے پاس سفیر بنا کر بھیجا.چنانچہ قسطنطنیہ میں شاہ باسیلیوس ثانی کے دربار میں پادریوں سے آپ کے متعدد کامیاب مناظرے ہوئے.۵ آپ نے عقائد ایمانیہ کیلئے دلائل عقلیہ کے انبار لگا دیے.اس طریق استدلال کو اوجِ کمال تک پہنچایا.اس کام سے دینی و نظری علوم کو تقویت پہنچی.آپ نے مسئلہ بقا میں الاشعری سے اختلاف کیا.باقلانی کے نزدیک بقاذات باری سے الگ صفت قرار نہیں دی جاسکتی.معتزلہ نے آپ کو پس پشت ڈال دیا تھا اور وہ اعجاز قرآن کے منکر ہورہے تھے.آپ نے اس کے رد میں فرمایا کہ قرآن تو معجزوں سے بھرا پڑا ہے.اسلوب قرآن بھی معجزہ ہے اور کوئی کتاب نہیں جو بلاغت، لطافت معانی فوائد جلیلہ اور حکم کثیرہ میں قرآن کا لگا کھا سکے.قرآن کے الفاظ ، جملے، آیات کا آغاز واختتام ، صوتی زیر و بم ، معانی و مطالب ، ترتیب نظم و نسق سبھی معجزہ ہیں.1 تصنیفی کام آپ نے معتزلہ اور ملحدین کے رد میں یاد گار لٹریچر چھوڑا ہے.آپ کے تصنیفی کام کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ پینتیس ورق روزانہ رقم فرمایا کرتے تھے.آپ نے ملحدین کے خلاف کثرت سے کتب لکھیں.آپ کی پچپن کتب کا ذکر ملتا ہے.جن میں سے چند مشہور کتب کے اسماء درج ذیل ہیں.اعجاز القرآن.تمهيد.مناقب الائمه.وقائع الكلام.كتاب الانصاف.كتاب البيان.كتاب الاصول كتاب الاستشهاد كتاب الابانة.هداية المسترشدين.الانتصار في نقل القرآن كتاب الامامة.الكبيرة.كشف الاسرار.(ابن کثیر کے نزدیک یہ با قلانی کی تصنیف ہے ) دقائق الکلام.خصوصاً اعجاز القرآن عربی میں ایک اہم تصنیف ہے.مختلف نوع سے اس میں اعجاز کا جائزہ لیا گیا ہے اور ان سب کو قرآن میں ثابت کیا گیا ہے.آپ کے نزدیک اعجاز القرآن نبوت محمدیہ کی سب سے

Page 129

88 بڑی دلیل ہے.یہی وجہ ہے کہ باوجود تحدی کے کوئی قرآن کی مثیل لانے کیلئے مقابل پر نہیں آسکا.ہے آپ کے علاوہ چوتھی صدی کے مجد دین کی فہرست یہ ہے.خلیفہ قادر باللہ عباسی ( قریشی).ابوحامد اسفرانی.حافظ ابونعیم.ابوبکر خوارزمی حنفی حضرت ابوطالب ولی اللہ صوفی قوت القلوب.حافظ احمد بن علی بن ثابت بن خطیب بغدادی ابوالحق شیرازی.ابراہیم بن علی بن یوسف فقیہہ و محدث اور شاہ ولی اللہ کے نزدیک امام حاکم نیشاپوری اور ابو عبید اللہ نیشا پوری

Page 130

89 حوالہ جات لے اردو دائرہ معارف اسلامیہ زیر اہتمام دانش گاہ لاہور جلد 3 صفحہ 980 تو ايضا صفحہ 978 حج الکرامہ - صفحہ 136 اردو دائرۃ المعارف.جلد 3 صفحہ 976 ايضاً صفحه 980 ه ايضاً ايضاً صفحه 378

Page 131

06 90 پانچویں صدی کے مجدد حضرت امام غزالی رَحْمَةُ اللهِ عَلَيْهِ ۵۵۰۵ - ۵۴۴۵ امام صاحب کو عقائد.اعمال.اخلاق.تعلیم وغیرہ شعبوں میں جس قدر اصلاح کرنے کا موقع ملا وہ بلاشبہ ایک مجدد کا کام ہے.آپ نے کئی فقہی نزا میں دُور کر کے صحیح اسلامی نظریے پیش کئے.اے

Page 132

91 حالات زندگی (1111-1059ء) مشہور مسلمان مفکر، محمد نام ، لقب مجد دالاسلام عرفیت غزالی 445ھ کو خراسان کے علاقہ طاہران میں پیدا ہوئے.ان کے باپ محمد روئی فروش تھے اس مناسبت سے ان کا خاندان غزالی کہلایا کیونکہ روئی کاتنے والے کو عربی میں غزالی کہتے ہیں.امام صاحب کے والد تعلیم سے محروم تھے جس کا انہیں بہت قلق تھا.مرتے وقت وہ اپنے دونوں بیٹوں کو ایک بزرگ کے سپرد کر گئے کہ ان دونوں بھائیوں کو تعلیم دلانا.چنانچہ ابتدائی تعلیم طاہران ہی میں ہوئی.فقہ کی کتابیں احمد بن محمد وافکانی سے پڑھیں.پھر جرجان امام ابونصر اسماعیلی کی خدمت میں پہنچے اور زانوئے تلمذ طے کیا.علمی نوٹس جنہیں تعلیقات کہا جاتا ہے آپ نے بھی دیگر طلباء کی طرح تیار کر لیے.وطن واپسی پر راستہ میں ڈاکہ پڑا اور سب کچھ لٹ گیا.امام صاحب کو اور تو کسی چیز کا غم نہ تھا البتہ تعلیقات کے ضائع ہو جانے پر بہت صدمہ ہوا.جب آپ ڈاکوؤں کے سردار کے پاس نوٹس مانگنے گئے تو اس نے طنزاً کہا ایسے علم کا کیا فائدہ جو کاغذات کا رہین منت ہو.اس طنز نے امام صاحب پر بڑا اثر کیا اور وطن واپس پہنچ کر ان تمام کا غذات کو حفظ کر لیا.مزید تعلیم کیلئے امام صاحب اس وقت کے سب سے بڑے عالم علامہ ابواسحق شیرازی کے پاس نیشا پور پہنچے اور ان کی وفات تک ان سے پڑھتے رہے.اسی دوران امام صاحب نے کئی تصانیف لکھیں.ان کے انتقال کے بعد نیشا پور سے اس شان سے نکلے کہ تمام مسلمان ممالک میں ان کا کوئی ہمسر نہ تھا.اس وقت ان کی عمر 28 برس تھی.نیشا پور سے آپ نظام الملک کے دربار میں پہنچے علمی شہرت کی بنا پر نظام نے بڑی تعظیم کی اور علمی مناظروں کا اہتمام کیا.مناظروں میں ہمیشہ امام صاحب ہی غالب رہتے.اس کامیابی پر آپ کی شہرت بہت چمکی اور نظام نے انہیں مدرسہ نظامیہ کا افسر اعلیٰ مقرر کر دیا.اس وقت آپ کی عمر 34 برس تھی.اتنی عمر میں یہ منصب امام غزالی سے پہلے کسی کو بھی حاصل نہیں ہوا تھا.مدرسہ نظامیہ کی مسند تدریس جب آپ نے سنبھالی تو تھوڑے ہی عرصہ میں ان کے علم و فضل کی دھاک بیٹھ گئی حتی کہ سلطنت کے اہم امور بھی ان کی شرکت کے بغیر انجام نہیں پاسکتے تھے.487ھ میں خلیفہ مقتدر باللہ کی وفات کے بعد مستنصر خلیفہ بنا تو اس کی بیعت میں دیگر اراکین سلطنت کے ساتھ امام غزالی بھی شریک تھے.

Page 133

92 مستنصر نهایت علم دوست اور قدردان ہونے کی بنا پر امام صاحب کا حد درجہ احترام کرتا تھا.فرقہ باطنیہ نے جب زور پکڑا تو اس نے امام صاحب سے ان کے رڈ میں کتاب لکھنے کی درخواست کی.اس کتاب کا نام بھی انہوں نے ”مستنصر “ رکھا.علمی لحاظ سے آپ کی جلالت کا یہ عالم تھا کہ ان کے درس میں تین سو مدرسین اور امراء، رؤسا بالتزام حاضر ہوتے.علمی وعظ بھی کرتے اور ان وعظوں کو آپ کے ایک شاگرد صاعد نے دو ضخیم جلدوں میں جمع کیا اور اس کا نام ”مجالس غزالی مشہور ہوا.امام صاحب جس ماحول میں رہ رہے تھے اس کا تقاضا تو یہی تھا کہ رائج الوقت مسلک پر کار بند رہا جائے لیکن امام غزالی میں اجتہاد کا جذبہ بہت تھا.چاہتے تھے کہ دوسروں کے مسائل پر بھی نگاہ ڈالی جائے.اس زمانے میں بغداد واحد شہر تھا جو تمام مذاہب کا دنگل سمجھا جاتا تھا.امام صاحب خود بغداد گئے اور بڑے قریب سے سارے مذاہب کو پر کھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تقلید کی بندش ٹوٹ گئی.رفتہ رفتہ یقین کسی مذہب کی تاویلات پر نہ رہا.اس وقت چار فرقے مشہور تھے.متکلمین، باطنیہ، فلاسفہ اور صوفیہ.ان سب فرقوں کے علوم و عقائد کی تحقیقات شروع کیں، قدما کی ساری تصانیف پڑھ ڈالیں لیکن تسلی نہ ہوئی.488ھ میں بغداد میں بڑی صوفیانہ حالت میں نکلے اور دمشق پہنچ کر مجاہدہ و ریاضت شروع کر دی.مراقبہ وغیرہ کے ساتھ ساتھ جامع اموی میں درس بھی دیتے رہے.دو برس بعد بیت المقدس زیارت کیلئے پہنچے.زیارت کے بعد حج کی نیت سے مصر و اسکندریہ سے ہوتے ہوئے مکہ پہنچے.490ھ میں مقام خلیل پہنچے تو عہد کیا کہ کسی بادشاہ کے دربار میں نہ جاؤں گا، نہ ہی عطیہ قبول کروں گا، نہ ہی کسی مناظرے میں حصہ لوں گا.چنانچہ مرتے دم تک اس عہد پر قائم رہے.ابن الا شیر نے لکھا ہے کہ امام صاحب نے احیاء العلوم اسی سفر کے دوران تصنیف کی تھی.جب آپ نے تحقیق کا ذوق پورا کر لیا تو 499ھ میں امام صاحب نے سلجوقی علم دوست بادشاہ کے اصرار پر دوبارہ نیشا پور کے مدر سے نظامیہ میں پڑھانا شروع کر دیا.فخر الملک 500ھ میں فوت ہو گیا تو امام صاحب نے دوبارہ گوشہ نشینی اختیار کر لی.آپ کی اس عظیم شہرت نے کچھ حاسد بھی پیدا کیے.کسی زمانہ میں امام صاحب نے ایک مسئلہ

Page 134

93 میں امام ابوحنیفہ پر تنقید کی تھی.مخالفین نے اسے بنیاد بنا کر سنجر جو خود صاحب علم نہ تھا کے پاس شکایت کر دی اور امام صاحب پر زندیقیت کا فتویٰ لگا دیا گیا.سنجر نے امام صاحب کو طلب کیا.چونکہ امام صاحب عہد کر چکے تھے کہ کسی بادشاہ کے دربار میں نہ جائیں گے.اس وجہ سے ایک خط بادشاہ کے نام لکھا.اس سے بادشاہ بہت متاثر ہوا.اس نے ایک دستہ روانہ کیا.امام صاحب کو زبردستی دربار میں لے آیا.وہاں پہنچنے پر آپ نے ایک زور دار تقریر کی.بادشاہ بہت مرعوب ہوا اور آپ کو دوبارہ مسند تدریس کی پیشکش کر دی اور بھی دعوتیں آئیں لیکن امام صاحب نے معذرت کر دی اور گوشہ عافیت میں جاگزیں ہوئے.آپ کو حدیث کی تکمیل کا چونکہ موقع ابھی تک نہیں مل سکا تھا اس لیے آپ کے دل میں حدیث پڑھنے کا شوق پیدا ہوا.اتفاقاً ان دنوں مشہور محدث حافظ عمر بن ابی الحسن طوس آئے ہوئے تھے.امام صاحب نے انہیں اپنے ہاں مہمان ٹھہر الیا اور صحیح بخاری و مسلم کی سند لی.امام غزالی کی عمر صرف 55 برس تھی.تقریباً دس برس کے تھے کہ تصنیف و تالیف کا شغل اختیار کر لیا.دس گیارہ برس صحرا نوردی اور باد یہ پیمائی میں گزرے.درس و تدریس ہمیشہ جاری رکھی.ان کے تلامذہ کی تعداد کسی وقت بھی ڈیڑھ سو سے کم نہیں رہی.فقر و تصوف کے مشغلے اس سے جدا.دور دور سے فتاوی آتے ان کا جواب الگ لکھتے.اس کے باوجود آپ نے سینکڑوں کتابیں لکھیں.فقہ میں آپ کی مشہور کتا بیں بسیط اور خاصتہ الرسائل.اصول فقہ میں تحصیل الماخذ ، شفاء العليل ، مفصل الخلاف في اصول القیاس.منطق میں معیار العلیم، محکم النظر.میزان العمل.فلسفہ میں مقاصد الفلاسفہ علم کلام میں تہامہ الفلاسفہ.منقذ ، الجام التوام تصوف و اخلاق میں احیاء العلوم، کیمیائے سعادت، مشکوۃ الانوار، منہاج العابدین بہت مشہور ہیں.امام کی کچھ تصانیف صرف یورپ میں موجود ہیں اور کچھ کا ترجمہ عالم اسلام کی زبانوں میں ہو چکا ہے.علامہ نووی نے بستان المحدثین میں ایک شخص کا بیان نقل کیا ہے کہ امام صاحب کی تصنیفات ان کی عمر کے لحاظ سے روزانہ 16 صفحے کے حساب سے لکھی گئی جو اتنے مشغلوں کے باوجود بالتزام حیرت انگیز ہیں.یاقوت التاویل تفسیر آپ کی طرف منسوب ہے جس کی ضخامت 40 جلدیں بیان کی جاتی ہے.لیکن علامہ شبلی کے مطابق فن تفسیر کو آپ نے ہاتھ نہیں لگایا.یاقوت التاویل ایک فرضی نام ہے.امام زین الدین عراقی " امام نووی، شیخ ابو محمد وغیرہ کا اتفاق ہے کہ سب سے زیادہ مشہور اور مفید تصنیف

Page 135

94 احیاء العلوم ہے.بعض صوفیا نے پوری کی پوری حفظ کر لی تھی.بعض صوفیا اسے الہامی تصنیف سمجھتے تھے.شیخ محی الدین اسے خانہ کعبہ کے سامنے بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے.قطب شاہ ولی اپنا خواب بیان کرتے ہیں کہ اسے آنحضرت ﷺ نے بہت پسند فرمایا.امام غزالی کی تصانیف پر بہت سے علماء نے حاشیے لکھے اور یورپ کے علماء نے بالخصوص ان کی قدر کی.علم کلام میں امام صاحب کو وہی مقام حاصل ہے جوارسطو کو منطق میں.تقلید کے سخت دشمن تھے اور عقائد کی اصلاح میں مصروف رہتے.آپ نے بڑے بڑے بادشاہوں کو خط لکھے اور ان کو اصلاح عقائد کی دعوت دی اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ تاریخ اس بارے میں خاموش ہے.آج تقریباً تمام دنیا میں الہیات، نبوات اور معاد کے متعلق مسلمانوں کے جو معتقدات اور مسلمات ہیں یہ در حقیقت امام غزالی کے ہی مقرر کردہ ہیں.حضرت امام غزائی کے متعلق ارشادات حضرت مسیح موعود فقراء ریا کا رہو گئے ہیں فرمایا: ”صوفیوں نے اس قسم کے ملامتی لوگوں کے بہت قصے لکھے ہیں.امام غزائی نے بھی لکھا ہے کہ آج کل کے فقراء ریا کار ہوتے ہیں.تین کی آسانی کو مد نظر رکھ کر موٹے جھوٹے کپڑے تو پہنتے نہیں اس لیے باریک کپڑوں کو گیر و یا سبز رنگ لیتے ہیں اور اس کے جسے پہن کر اپنے کو فقراء مشہور کرتے ہیں.مقصود ان کا یہ ہوتا ہے کہ لوگوں سے متمیز ہوں اور عوام الناس خصوصیت سے ان کی طرف دیکھیں.پھر روزہ داروں کا ذکر لکھا ہے کہ کوئی روزہ دار مولوی کسی کے ہاں جاوے اور اسے مقصود نہ ہو کہ اپنے روزہ کا اظہار کرے تو مالک خانہ کے استفسار پر بجائے اس کے کہ سچ بولے کہ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے اس کی نظروں میں بڑا نفس کش ثابت کرنے کیلئے جواب دیا کرتے ہیں کہ مجھے عذر ہے.غرضیکہ اسی طرح کے بہت سے مخفی گناہ ہوتے ہیں جو اعمال کو تباہ کرتے ہیں“.ہے

Page 136

95 حضرت امام غزالی کے زمانہ کے پیر زادے اور فقراء امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے زمانے کے پیر زادوں اور فقیروں کے عجیب عجیب حالات لکھے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ افسوس ہے بڑی ابتری پھیل گئی ہے کیونکہ یہ فقیر جو اس زمانہ میں پائے جاتے ہیں وہ فقیر اللہ نہیں بلکہ فقیر الخلوق ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ہر حرکت و سکون ، لباس، خوردونوش اور کلام میں حکمت پر عمل کرتے ہیں.مثلاً کپڑوں کیلئے وہ دیکھتے ہیں کہ اگر ہم عام غریبوں کی طرح گزی گاڑھے کے کپڑے پہنیں گے تو وہ عزت نہ ہوگی جو امراء سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ہم کو کم حیثیت اور ادنی درجہ کے لوگ سمجھیں گے.لیکن اگر اعلیٰ درجہ کے کپڑے پہنتے ہیں تو پھر وہ ہم کو کامل دنیا دار سمجھ کر توجہ نہ کریں گے اور دنیا دار ہی قرار دیں گے.اس لیے اس میں یہ حکمت نکال لی کہ کپڑے تو اعلیٰ درجہ کے اور قیمتی اور باریک لے لیے لیکن ان کو رنگ دے لیا جو فقیری کے لباس کا امتیاز ہو گئے.اسی طرح حرکات بھی عجیب ہوتی ہیں.مثلاً جب بیٹھتے ہیں تو آنکھیں بند کر کے بیٹھتے ہیں اور اس حالت میں لب ہل رہے ہیں گویا اس عالم میں نہیں ہیں حالانکہ طبیعت فاسد ہوتی ہے.نمازوں کا یہ حال ہے کہ بڑے آدمیوں سے ملیں تو بہت ہی لمبی لمبی پڑھتے ہیں اور بطور خودسرے سے ہی نہ پڑھیں.ایسا ہی روزوں میں عجیب عجیب حالت پیش آتے ہیں.مثلاً یہ ظاہر کرنے کیلئےکہ نفلی روزے ہم رکھتے ہیں وہ یہ طریق اختیار کرتے ہیں کہ جب کسی امیر کے ہاں گئے اور وہاں کھانے کا وقت آگیا تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ آپ کھائیے مجھے کچھ عذر ہے.اس کے معنے دوسرے الفاظ میں یہ ہوئے کہ مجھے روزہ ہے.اس طرح پر وہ گویا اپنے روزوں کو چھپاتے ہیں اور دراصل اس طرح پر ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ ظاہر کریں کہ ہم نفلی روزہ رکھتے ہیں.غرض انہوں نے اپنے زمانہ کے فقراء کے اس قسم کے بہت گند لکھے ہیں اور صاف طور پر لکھا ہے کہ ان میں تکلفات بہت ہی زیادہ ہیں.ایسی حالت میں اس زمانہ میں بھی قریب قریب واقع ہوگئی ہے.جولوگ ان پیروں اور پیرزادوں کے حالات سے واقف ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ قسم قسم کے تکلفات اور ریا کاریوں سے کام لیتے ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور اسی سے امید رکھتا ہے وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کیلئے درست کرتا ہے اور اس طرح پر درست کرتا ہے جس

Page 137

96 طرح پر اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اور ہدایت کرتا ہے.لیکن جو مخلوق سے ڈرتا اور مخلوق سے امید رکھتا ہے وہ اپنے آپ کو مخلوق کیلئے درست کرتا ہے.خدا والوں کو مخلوق کی پرواہ نہیں ہوتی بلکہ وہ اسے مرے ہوئے کیڑے سے بھی کمتر سمجھتے ہیں.اس لیے وہ ان بلاؤں میں نہیں پھنستے اور دراصل وہ ان کو کیا کرے اللہ تعالیٰ خود اس کے ساتھ ہوتا ہے اور وہی اس کی تائید اور نصرت فرماتا ہے.وہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے اور جانتا ہے کہ وہ خدا اپنی مخلوق کو خود اس کے ساتھ کر دے گا.یہی بستر ہے کہ انبیاء علیہم السلام خلوت کو پسند کرتے ہیں اور میں یقیناً اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ وہ ہرگز ہرگز پسند نہیں کرتے کہ باہر نکلیں، لیکن اللہ تعالیٰ ان کو مجبور کرتا ہے اور پکڑ کر باہر نکالتا ہے.وفات 14 جمادی الثانی 505 ء میں بمقام طاہر ان انتقال ہوا اور وہیں دفن ہوئے.امام صاحب کی وفات پر عالم اسلام کو بہت صدمہ پہنچا اور اکثر شعراء نے مریے لکھے.ہے امام صاحب کو عقائد، اعمال، اخلاق، تعلیم وغیرہ شعبوں میں جس قدر کام کرنے کا موقع ملا وہ بلا شبہ ایک مجدد کا کام ہے.آپ نے کئی فقہی نزاعیں دور کر کے صحیح اسلامی نظریے پیش کیے.ھے آپ کے علاوہ پانچویں صدی کے مجد وحسب ذیل مانے جاتے ہیں.احمد بن حنبل اور علامہ عینی اور کرمانی کے نزدیک حضرت راعونی حنفی، خلیفہ مستظهر بالدین مقتدی باللہ عباسی ( قریشی ) عبد اللہ بن محمد انصاری، ابو اسماعیل ہروی ، ابوطاہر سلفی محمد بن احمد ابو بکر شمس الدین سرخسی فقیہہ حنفی.

Page 138

97 حوالہ جات قاموس المشاہیر جلد دوم صفحہ 110.نیز دیکھیں الغزالی از علامہ شبلی وامام غزالی سیدحسن نورانی.اسلامیہ کالج لکھنؤ ملفوظات.جلد چہارم صفحہ 88 ملفوظات.جلد چہارم صفحہ 419-418 ے شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا از سید محمود قاسم صفحہ 88-1187 قاموس المشاہیر جلد دوم صفحہ 110 نیز دیکھیں الغزالی از علامہ شبلی وامام غزالی سید حسن نورانی.اسلامیہ کالج لکھنو

Page 139

98 چھٹی صدی کے مجدد حضرت سید عبدالقادر جیلانی رَحْمَةُ الله عَلَيْهِ فرمایا: ۵۵۲۱ - ۵۴۸۰ ” جناب رسول اللہ کے دین کی دیوار میں پے در پے گر رہی ہیں اور اس کی بنیاد بکھری جاتی ہے.باشندگانِ زمین آؤ جو گر گیا ہے اسے مضبوط کر دیں اور جو ڈھے گیا ہے اسے درست کر دیں.یہ چیز ایک سے پوری نہیں ہوتی.سب ہی کو مل کر کام کرنا چاہیے.اے سورج ، اے چاند اور اے دن تم سب آؤ.اے

Page 140

99 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی بہت ساری کتب میں اس عظیم بزرگ کا ذکر فرمایا ہے.اسی طرح حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے بھی مختلف اوقات میں ذکر فرمایا ہے.ان ہر دو بزرگ ہستیوں کے انمول موتی حضرت سید عبدالقادر جیلانی کی نظر کرتے ہیں.ولادت و نام و نسب آپ کا اسم گرامی عبد القادر تھا.آپ 470ھ بمطابق 1077ء کو بمقام جیل جو واسط اور بغداد کے درمیان ایک گاؤں ہے، میں پیدا ہوئے.بعض ماخذوں میں آپ کو بحیرہ خزر کے جنوبی صوبے جیلان کے ایک مقام نیف“ کا رہنے والا بتایا گیا ہے.والد کا نام ابو صالح اور والدہ کا نام ام الخیر امۃ الجبار فاطمہ تھا.آپ کی کنیت ابو محمد اور القاب محی الدین، محبوب سبحانی، غوث اعظم ، سلطان الاولیاء وغیرہ ہیں.نسب نامہ یوں ہے.محمد الدین ابو محمد عبد القادر بن ابو صالح بن جنگ دوست موسیٰ بن ابی عبداللہ بن یحیی الزائد بن محمد بن واحد بن موسیٰ بن عبد اللہ بن موسیٰ الجون بن عبد اللہ بن حسن المثنے بن امیر المومنین ابو محمد الحسن بن امیر المومنین علی المرتضی رضوان اللہ علیہم اجمعین.اسی طرح آپ والدہ کی طرف سے بھی حسینی ہیں.ہے حالات زمانہ پانچویں صدی ہجری تک عالم اسلام میں سیاسی و فکری اضمحلال اپنے عروج کو پہنچ چکا تھا.عہد اموی میں جہالت کی رجعت قبقری کے ادوار میں خلق قرآن ، اعتزال میں اسلام کے ملحدانہ فلسفہ اور باطنیت کے فتنوں نے اہل اسلام کے خواص میں تشکیک والحاد اور عوام میں بے راہ روی کے بیج بو دیے تھے.یہ نزاع انتہائی مشکل اختیار کر گیا تھا کہ آیا انسانوں کو ایسا مسلک لادینی اختیار کر لینا چاہیے کہ وہ رسماً ورواجاً مسلمان رہے اور بس.یا ایسا دین عقل پرست اختیار کرے جو اہل دین کے مسلمہ عقائد سے متصادم ہو اور علم کی نسبت یہ گمان تھا کہ وہ مردہ علم ہے جو مردہ لوگوں نے اور وں تک پہنچایا ہے.ایک تیسرا طبقہ ان صوفیا کا تھا جنہوں نے اپنی شریعت بنا رکھی تھی.اور وہ نماز ، روزہ سے برگشتہ ہور ہے تھے.اور ایک مجدد کے سامنے سوال یہ تھا کہ اس تصوف کو شریعت اسلامیہ کا ہم آہنگ کیسے کیا جائے.

Page 141

100 اور یہاں یہ حال تھا کہ ایک طرف یہ نام نہاد تصوف عروج پر تھی تو دوسری طرف تصوف کی شدید مخالفت میں کتب تصانیف ہورہی تھیں.گویا ایک حصہ افراط کا شکار تھا اور دوسرے حصہ پر تفریط غالب تھی اور اسلام جومیانہ رو ہے اس کا نشان نہ ملتا تھا.ایسے پر آشوب حالات میں مصلحین اُمت نے عظیم تجدیدی کام کیا اور پانچویں صدی کے آخر اور چھٹی صدی کے نصف اول میں دو جرنیل بالخصوص ابھر کر سامنے آئے.یہ امام غزالی اور سید عبد القادر جیلانی تھے.امام غزالی کی فکری تحریک سے شکوک والحاد کے فتنے کا سد باب ہو گیا لیکن جمہور امت میں بے یقینی اور بے عملی کے روگ کا مداوا ابھی باقی تھا.یہ کام عظیم صوفی مبلغ شیخ عبد القادر جیلانی نے انجام دیا.جنہوں نے اپنے علم روحانی ، تصنیف و تالیف اور خطابت سے مردہ مسلمانوں میں حیات نو پیدا کر دی.آپ نے بے عمل صوفیا کو بھی متنبہ کیا.عوام و خواص کو بھی پکارا اور اس کے علاوہ غیر مسلموں میں بھی تبلیغ و دعوت الی اللہ کا فریضہ سرانجام دیا.آئندہ صفحات میں انشاء اللہ آپ کے تجدیدی وتبلیغی کام کا جائزہ پیش کیا جائے گا.لیکن ضروری ہے کہ اس سے قبل آپ کے عظیم روحانی مقام اور عظمت کردار کا ذکر بھی مختصر ا کر دیا جائے.عظیم روحانی مقام آپ کے روحانی مقام کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مجد داعظم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور ملفوظات میں متعدد بار آپ کا ذکر ملتا ہے.آپ کی کتب کے حوالے حضور نے درج کیے ہیں.حضور پر نور کے الہامات، رویا و کشوف میں بھی آپ کا ذکر ہے.آپ نے ان کتب کا مطالعہ بھی فرمایا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:- ا.سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب فتوح الغیب بڑی عمدہ کتاب ہے.میں نے اس کو کئی مرتبہ پڑھا ہے.بدعات سے پاک ہے.ہے ۲.حضرت اقدس نے آپ کو مجدد تسلیم کیا.اس کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :.فانظر ايها العزيز كان الله معك ان هذ القائل بتأثير النجوم عالم ربانى من علماء الهند و كان هوا مجدد زمانه و فضائله متبينة في هذه الديار و هو امام فى عين الكبار ولا يختلف في علو شانه احد من

Page 142

المومنين“.2 101 (ترجمہ)اے عزیز دیکھو.دیکھو خدا تمہارے ساتھ ہو.تاثیر نجوم کے متعلق یہ بات کہنے والا شخص ایک عالم ربانی از علماء ہند ہے اور وہ اپنے زمانے کا مجدد تھا.اس کے فضائل ان علاقوں میں واضح اور مسلمہ ہیں.وہ ہر چھوٹے اور بڑے کی نظروں میں امام ہیں اور مومنوں میں سے کوئی ایک بھی ان کے علو مرتبت میں اختلاف نہیں کرتا.آپ کے مقام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :- " حضرت سیّد عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ جو بڑے اکابر میں سے ہوئے ہیں ان کا نفس بڑا مظہر تھا.ھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں حضور کوعبدالقادر بھی کہا گیا ہے.اس سے عبدالقادر جیلانی " کے مقام کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے.چنانچہ حضور کو الہام ہوا یا عبدالقادر انی معک و انک الیوم لدينا مكين امين“.1 پھر الہام ہوا’یا عبدالقادر انی معک اسمع و اری غرست لک بیدی رحمتی و قدرتی“.کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.فطرتا بعض طبائع کو بعض طبائع سے مناسبت ہوتی ہے.اسی طرح میری روح اور سید عبدالقادر کی روح کو خمیر فطرت سے باہم ایک مناسبت ہے جس پر کشوف صحیحہ صریحہ سے مجھ کو اطلاع ملی ہے.اس بات پر تمیں برس کے قریب زمانہ گزر گیا ہے کہ جب ایک رات مجھے خدا تعالیٰ نے اطلاع دی کہ اس نے مجھے اپنے لیے اختیار کر لیا ہے.تب یہ عجیب اتفاق ہوا کہ اسی رات ایک بڑھیا کو خواب آئی جس کی عمر قریباً اسی برس کی تھی اور اس نے صبح مجھ کو آ کر کہا میں نے رات سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کو خواب میں دیکھا ہے اور ساتھ ان کے ایک اور بزرگ تھے اور دونوں سبز پوش تھے اور رات کے پچھلے حصے کا وقت تھا.دوسرا بزرگ عمر میں ان سے کچھ چھوٹا تھا.پہلے انہوں نے ہماری جامع مسجد میں نماز پڑھی اور پھر مسجد کے باہر کے صحن میں نکل آئے اور میں ان کے پاس کھڑی تھی.اتنے میں مشرق کی

Page 143

102 طرف سے ایک چمکتا ہوا ستارہ نکلا.تب اس ستارہ کو دیکھ کر سید عبد القادر بہت خوش ہوئے اور ستارہ کی طرف مخاطب ہو کر کہا السلام علیکم اور ایسا ہی ان کے رفیق نے السلام علیکم کہا اور وہ ستارہ میں تھا.المومن يُرى و يرى له“.2 حافظ محمد ابراہیم صاحب بیان کرتے ہیں کہ 1883ء میں جب شہب گرے تو حضور اقدس نے فرمایا ” اس وقت میں دیکھ رہا تھا کہ میں اور سید عبدالقادر برابر کھڑے ہیں.پھر میں نے دیکھا کہ شیخ سعدی اور سید عبدالقادر ایک باغ میں سیر کر رہے ہیں.2 حافظ نورمحمد صاحب سکنہ فیض اللہ چک ضلع گورداسپور نے بیان کیا:- ایک دفعہ حضور نے فرمایا کہ میں نے خواب میں ایک مرتبہ دیکھا کہ سید عبدالقادر صاحب جیلانی آئے ہیں اور آپ نے پانی گرم کرا کر مجھے غسل دیا ہے اور نئی پوشاک پہنائی ہے اور گول کمرہ کی سیٹرھیوں کے پاس کھڑے ہوکر فرمانے لگے کہ آؤ ہم اور تم برابر کھڑے ہوکر قد نا ہیں.پھر انہوں نے میرے بائیں طرف (دائیں طرف.الحکم ) کھڑے ہوکر " کندھے سے کندھا ملایا تو اس وقت دونوں برابر رہے.طے اسی طرح حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں:- ”اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جس طرح رسول کریم ع کے ذریعے ایک زندہ خدا لوگوں کو نظر آیا.اسی طرح ابو بکر اور عمر اور عثمان اور علی کے ذریعے بھی لوگوں کو ایک زندہ خدا نظر آیا تھا اور پھر ویسا ہی زندہ خدا حضرت حسن بصری، حضرت عمر بن عبدالعزیز ، حضرت شہاب الدین سہروردی، حضرت معین الدین چشتی اور سید عبد القادر جیلانی وغیرہ کے ذریعے بھی نظر آتا تھا.یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اسلام کے زندگی بخش اثرات کو برابر قائم رکھا.اے اسی طرح دوسرے بزرگوں نے بھی آپ کا مقام بیان کیا ہے.چنانچہ ابن خلکان کہتے ہیں :- لم يكن في اخر عمره في عصره مثله..و كان شيخ الشيوخ ببغداد......و كـان لـه مـجـلـس وعظ وعلى وعظه قبول كثير و له نفس مبارک“.( ترجمہ ) آخری عمر میں آپ کے زمانے میں کوئی آپ کا مثیل نہیں تھا اور آپ بغداد

Page 144

103 ہیں:.کے شیخ الشیوخ تھے.آپ مجلس وعظ منعقد کیا کرتے تھے اور آپ کے وعظ میں بڑی مقبولیت تھی اور آپ با برکت وجود تھے.عبد الحق محدث دہلوی نے شیخ کا مقام روحانی ان الفاظ میں بیان کیا ہے مرتبہ قطبیت کبری و ولایت عظمی.۱۳ وو -.معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی تحریر سے بھی آپ کا مقام واضح کیا جائے.آپ فرماتے دوسشمس طلوع نہیں ہوتا مگر یہ کہ وہ مجھے سلام کرتا ہوا نکلتا ہے.اور اسی طرح سے سال اور مہینے مجھے سلام کرتے ہیں اور تمام واقعات کی مجھے اطلاع دیتے ہیں.نیک بخت اور بد بخت بھی میرے سامنے پیش کیے جاتے ہیں.میری نظر لوح محفوظ پر ہے اور میں اس کے علوم و مشاہدات کے سمندروں میں غوطے لگا رہا ہوں.میں نائب رسول اور آپ کا وارث اور تم پر حجت ہوں.تمام اولیاء، انبیاء علیہم السلام کے قدم بقدم ہوں.آپ (ﷺ) نے اپنا کوئی قدم نہیں اُٹھایا مگر یہ کہ وہاں بجز اقدام نبوت کے میں نے اپنا قدم رکھا.میں ملائکہ وانس وجن کل کا ہوں“.ان کا مشہور فقرہ ہے "قـدمـى هـذه على رقبة كل ولی اللہ“ کہ میرا یہ قدم ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے.عظمت کردار تجدیدی کارناموں میں مجدد کے کردار کا بیان بھی ضروری ہے کیونکہ سیرت وکردار سب سے بڑی تبلیغ ہوا کرتا ہے اور بہت سی روحیں اسوہ دیکھ کر ہی راہ حق پر آ جاتی ہیں.چنانچہ مفتی عراق محی الدین ابو عبد اللہ محمد بن حامد بغدادی نے آپ کے اخلاق کا نقشہ یوں بیان کیا ہے :- وو تو فیق وتائید الہی آپ کے ساتھ تھی.علم آپ کا مربی و مہذب اور قرب الہی آپ کا اتالیق اور حضور آپ کا خزانہ اور معرفت آپ کا تعویذ اور کلام آپ کا مشیر اور نظیر آپ کا سفیر اور انس آپ کا مصاحب اور بسط آپ کی جان اور راستی آپ کا علم اور فتوحات روحانی

Page 145

104 آپ کی پونجی اور حلم آپ کا پیشہ اور ذکر آپ کا وزیر اور فکر آپ کا فسانہ گو اور مکاشفہ آپ کی غذا اور مشاہدہ آپ کی شفاء اور آداب شریعت آپ کا ظاہر اور اوصاف و اسرار حقیقت آپ کا باطن تھا.۵.شیخ معمر رقمطراز ہیں:.آپ باوجود عظمت و بزرگی و افضلیت علمی کے چھوٹوں کے ساتھ کھڑے ہو جاتے اور بڑوں کی تعظیم کرتے اور انہیں سلام کیا کرتے.غرباء وفقراء کو اپنے پاس بٹھاتے اور ان سے عاجزی سے پیش آتے.امراء ورؤساء کی تعظیم کیلئے آپ کبھی کھڑے نہیں ہوئے اور نہ کبھی وزراء وسلاطین کے دروازہ پر گئے.11 امراء سے اس سلوک کا باعث یہ تھا کہ وہ متکبر ہو چکے تھے اور دوسروں سے خدمت کرانے کے خواہشمند ہوتے تھے اور یہ بڑی بری بات ہے.اس لیے ایک مجدد کی حیثیت سے آپ نے انہیں احساس دلایا کہ اسلام ان بری عادات سے منع کرتا ہے.اسی وجہ سے آپ امراء سے ذراسختی سے بھی پیش آتے تھے.ان کی برائیوں کی طرف انہیں توجہ دلاتے تو لکھتے کہ عبدالقادر تمہیں حکم دیتا ہے.تم پر اس کا حکم نافذ اور اس کی اطاعت واجب ہے.وہ تمہارا پیشوا اور تم پر حجت ہے“.آپ کی مجلس میں بیٹھنے والا ہر شخص یہ گمان کرتا تھا کہ آپ سب سے زیادہ اسے پیار کرتے ہیں.آپ اپنے مریدوں کو یا د رکھتے اور ان کا حال پوچھتے.ان کے قصور کو معاف کر دیتے.اگر کوئی شخص آپ کے سامنے قسم کھا لیتا تو اس کی تصدیق کرتے اور اس کے متعلق اپنا حال مخفی رکھتے.آپ کی راست گوئی کا مشہور واقعہ آپ کے بچپن کا ہے.جب چوروں کے ایک قافلے کو آپ کی راست گوئی کے سبب ہدایت نصیب ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ”چوروں قطب بنایا ائی میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے.شیخ محمد قائد روانی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمۃ کے پاس تھا.میں نے آپ سے یہ پوچھا کہ آپ کی عظمت و بزرگی کا دار ومدارکس بات پر ہے.آپ نے فرمایا راست گوئی پر.میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولاحتی کہ جب میں مکتب میں پڑھتا تھا جب بھی کبھی جھوٹ نہیں بولا.کلے

Page 146

105 دیدار رسول اور علم لدنی آپ خود فرماتے ہیں :- ایک دن میں نے ظہر کے وقت سے پہلے رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا.آپ نے مجھ سے فرمایا میرے فرزند تم وعظ ونصیحت کیوں نہیں کرتے.میں نے عرض کیا میرے بزرگوار والد ماجد میں ایک عجمی شخص ہوں.فصحائے بغداد کے سامنے کس طرح زبان کھولوں.آپ نے فرمایا اپنا منہ کھولو.میں نے منہ کھولا.آپ نے سات دفعہ تھکا را.پھر آپ نے فرمایا جاؤ تم وعظ و نصیحت کرو اور حکمت عملی سے لوگوں کو نیک بات کی طرف بلاؤ.پھر میں نماز ظہر پڑھ کر بیٹھا تو خلقت میرے پاس جمع ہوگئی اور میں کچھ مرعوب ہو گیا.اس کے بعد میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو دیکھا.آپ نے فرمایا اپنا منہ کھولو میں نے منہ کھولا تو آپ نے چھ دفعہ اس میں تھی کا را.میں نے عرض کیا آپ پوری سات دفعہ کیوں نہیں تھتکارتے.آپ نے فرمایا میں رسول اللہ ﷺ کا ادب کرتا ہوں.پھر آپ مجھ سے پوشیدہ ہو گئے.پھر میں نے دیکھا کہ غواص فکر دل کے دریا میں غوطے لگا لگا کر حقائق ومعارف کے موتی نکالنے اور ساحل سینہ پر ڈال ڈال کر زمان مترحم اور فسانہ گو کو پکارنے لگا.لوگ آکر اطاعت وعبادت کے بے بہا اور گرانمایہ قیمتیں گذران کر انہیں خریدتے اور خدا کے گھروں کو ذکر الہی سے آباد کرتے اور یہ شعر پڑھتے على مثل ليلي يقتل المرء نفسه لیلی کی طرح آدمی اپنے نفس کو قتل کر دیتا ہے اور پھر ويحلـولـه مرّ المنايا والعذاب ۱۵ اسے عذاب اور موتیں شیریں محسوس ہوتی ہیں.آپ کا یہ کشف سچا ثابت ہوا.آپ نے واقعی علوم و معارف کے دریا بہا دیے اور ہدایت کے پیاسوں کو جام مئے عرفان بھر بھر کر دیتے رہے.شرک کا قلع قمع کرتے رہے اور توحید الہی کا درس دیتے رہے.تجدیدی کارنامے آپ کے دور میں رسوم و بدعات، قبر پرستی، پیر پرستی زوروں پر تھی.آپ نے اس کے خلاف جہاد کیا.شرک سے بچنے کی ہدایت کی.لیکن وائے حسرت یہ عالی مرتبت بزرگ جو ساری عمر شرک کے

Page 147

106 خلاف نبرد آزما رہے آج لوگ ان کی قبر پر جا کر مشرکانہ افعال کرتے ہیں اور مستزاد یہ ہے کہ ان کی طرف مشرکانہ عقائد منسوب کر رکھے ہیں.جیسے آپ کا عزرائیل سے روحوں کا تھیلا چھین کر روحیں آزاد کر دینا اور کئی سال کی ڈوبی ہوئی کشتی کو مع مسافروں سمیت دوبارہ نکال دینا اور تمام مسافروں کا زندہ سلامت نکلنا.یہ سراسر ان کی تعلیمات کے خلاف ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ہم ایسی خرافات کو بالکل تسلیم نہیں کرتے اور یہ ان ہستیوں پر ظلم کرنے کے مترادف ہے.اس لیے ایسے واقعات کو ظاہری رنگ میں ہرگز تسلیم نہیں کیا جاسکتا.کیونکہ ایسا کرنا نصوص کے خلاف ہے.تاہم اگر ان کو کشف وغیرہ تسلیم کیا جائے تو اندریں صورت ان کو قبول کیا جاسکتا ہے.آپ نے معمولی باتوں کو بھی شرک کا حصہ سمجھا ہے اور توحید کی گہرائی میں جاتے ہوئے فرماتے ہیں:.آج تو اعتماد کر رہا ہے اپنے نفسوں پر مخلوق پر، اپنے دیناروں پر ، اپنے درہموں پر، اپنی خرید و فروخت پر ، اپنے شہر کے حاکم پر، ہر چیز کہ جس پر تو اعتماد کرے وہ تیرا معبود ہے اور ہر وہ شخص جس سے تو خوف کرے یا توقع رکھے وہ تیرا معبود ہے اور ہر شخص جس پر نفع و نقصان کے متعلق تیری نظر ہو اور تو یوں سمجھے کہ حق تعالیٰ ہی اس کے ہاتھوں اس کا جاری " کرنے والا ہے تو وہ تیرا معبود ہے.19 آپ کی ساری زندگی شرک کے خلاف جہاد میں گزری.حتیٰ کہ مرض الموت میں اپنے صاحبزادے عبدالوہاب کو یوں وصیت کی :- ہمیشہ خدا سے ڈرتے رہو اور خدا کے سوا کسی سے نہ ڈرو اور نہ اس کے سوا کسی سے امید رکھو اور اپنی تمام ضروریات اللہ کے سپرد کر دو صرف اسی پر بھروسہ رکھو اور سب کچھ اُسی سے مانگو توحید اختیار کرو.ع شکستہ دلوں کیلئے موجب راحت آپ نے مردہ دلوں میں حیات نو بخشی.آپ کی زبان جادو اور قلم سحر تھا.آپ کے دل میں دوسروں کیلئے تڑپ تھی.آپ کس در دول کے ساتھ بھٹکے ہوؤں کو صنم سے ملنے کی دعوت دیتے ہیں.

Page 148

107 ”اے خالی ہاتھ فقیر ! اے وہ جس سے تمام دنیا برگشتہ ہے.اے گمنام، اے بھوکے پیاسے ننگے، جگر جھلسے ہوئے ، اے ہر مسجد و خرابات سے نکالے ہوئے، اے ہر درد سے پھٹکارے ہوئے ، اے وہ کہ ہر مراد سے محروم خاک پر پڑا ہے، اے وہ جس کے دل میں آرزوؤں اور ارمانوں کے پشتے لگے ہوئے ہیں مت کہہ کہ خدا نے مجھے محتاج کر دیا، دنیا کو مجھ سے پھیر دیا، مجھے پامال کر دیا، چھوڑ دیا، مجھ سے دشمنی کی، مجھے پریشان کیا اور جمعیت نہ بخشی اور مجھے ذلیل کیا اور دنیا سے میری کفایت نہ کی...اے فقیر خدا نے تیرے ساتھ یہ برتاؤ اس لیے کیا کہ تیری سرشت میارز میں (کے مثیل ) بے ریت ہے اور رحمت حق کی بارشیں تجھ پر برابر ہورہی ہیں.از قسم صبر ورضا و یقین و موافقت وعلم اور ایمان و توحید کے انوار تیرے گردا گرد ہیں.اس نے آخرت میں تجھ کو مقام بخشا ہے اور اس میں تجھ کو مالک بنایا ہے.اور عقبی میں تیرے لیے اتنی کثرت سے برکتیں رکھی ہیں کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھیں ، نہ کان نے سنی اور نہ کسی انسان کے دل میں گزریں.اے تعلیمات نفس انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے اور یہ چھپ کر وار کرتا ہے.آپ نے نفس کشی کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا:- یا درکھو کہ دل کی کدورت نہیں جاسکتی تا وقتیکہ نفس کی کدورت دور نہ کی جائے.جب تک کہ نفس اصحاب کہف کے کتے کی طرح رضا کے دروازے پر نہ بیٹھ جائے اس وقت تک دل میں صفائی پیدا نہیں ہوسکتی.اس وقت یہ خطاب بھی ملے گايأيتها النفس المطمئنه الخ یعنی اے نفس مطمئنہ نہایت خوش و خرم ہو کر اپنے پروردگار کی طرف چلا جا.اس وقت وہ حضرت القدس میں بھی باریابی حاصل کر سکے گا اور تو جہات و نظر رحمت کا کعبہ بنے گا.اس کی عظمت، اس کا جلال اس پر منکشف ہوگا اور مقام رفیع اعلیٰ سے اس کو سنائی دینے لگے گا یا عبدی و كل عبدى انت لي و انا لک“.بروز کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا "هذا وجود جدى محمد ال لا وجود عبدالقادر “.۲۳ صلى الله

Page 149

108 آپ ذکر الہی اور دعاؤں میں خود بھی مشغول رہتے اور دوسروں کو بھی تلقین کرتے.آپ یہ دعا پڑھا کرتے تھے.اللهم انا نعوذ بوصلك من صدک و بقربک من طردک و بقبولک من رڈک واجعلنا من اهل طاعتک و وڈک و اهلنا لشکرک و حمدک یا ارحم الراحمین“.۲۴ ( ترجمہ ) اے اللہ ہم تیرے رڈ کرنے سے تیرے وصل کی اور تیرے دھتکارنے سے تیرے قرب کی اور تیرے رڈ کرنے سے تیرے قبول کرنے کی پناہ چاہتے ہیں.اے اللہ ہمیں اپنی عبادت اور کامل محبت کا اہل بنا اور ہمیں اپنے شکر اور حمد کے مقام پر نازل کر.یا ارحم الراحمین.قبولیت دعا اور مقبولان الہی کی پہلی علامت استجابت دعا ہے.چنانچہ صرف ایک واقعہ آپ کی قبولیت دعا کا درج کیا جاتا ہے.ایک مجذوم کے پاس سے گزرے اس کے جسم سے کیڑے ٹپکتے تھے اور خون اور پیپ اس کے جسم سے بہتا تھا اور اطباء اس کے علاج سے عاجز ہو گئے تھے.آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے پروردگار تو اسے عذاب دینے سے بے پرواہ ہے تو اس کو صحت عطا فرما.چنانچہ وہ تندرست ہو گیا“.ہے راست گوئی جیسا کہ ذکر گزر چکا ہے کہ راستبازی آپ کی فطرت ثانی تھی.اس بارہ میں آپ فرماتے ہیں: تم ہر حال میں سچائی اور نیک نیتی اختیار کرو اور یاد رکھو کہ اگر یہ دونوں باتیں نہ ہوتیں تو کسی شخص کو تقرب الی اللہ حاصل نہ ہوتا.دیکھو اللہ تعالیٰ کیا فرماتا ہے اذا قلتم فاعدلوا جب تم بات کہو تو انصاف کی کہو اور سچ بولا کرو.۲۶

Page 150

تصنیفات 109 آپ نے بھی دیگر مجددین کی طرح شاندار لٹریچر بطور یادگار چھوڑا.آپ کی تصنیفات میں گہرے معارف اور علوم ہیں.ان کی اہمیت اس بات سے واضح ہوتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کا مطالعہ فرمایا کرتے تھے اور فتوح الغیب کو آپ نے کئی مرتبہ پڑھا، اسے عمدہ اور بدعات سے پاک کتاب قرار دیا ہے.آپ کی چند کتب درج ذیل ہیں.- ا الغنية الطالبين طريق الحق.اس میں آپ کی حیثیت ایک معلم دینیات کی ہے.اس میں ایک مسلمان کے اخلاقی و معاشرتی فرائض کی وضاحت ہے اور وہ معلومات ہیں جن کا حاصل کرنا ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے.- الفتح الربانی.یہ آپ کے خطبات کا مجموعہ ہے.اس میں نہایت سادہ زبان میں عوام الناس کو ولی کامل کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.آپ نے اس میں نفس کے خلاف جہاد کرنے کی تلقین فرمائی ہے.اس کے علاوہ آپ کی تصنیفات یہ ہیں.الفيوضات الربانية فى الاوراد القادرية.فتوح الغيب بشائر الخيرات.تحفة المتقين وسبيل العارفين حزب الرجاء والانتهاء الرسالة الغوثيه.الكبريت صلى الله الاحمر في الصلواة على النبي عله مراتب الوجود.يواقيت الحكم.معراج لطيف المعاني.جلاء الخاطر فى الباطن والظاهر.سر الاسرار و مظهر الانوار فيما يحتاج اليه الابرار.اداب السلوك التوصل الى منازل ملک المملوک.علاوہ ازیں مفتی طرابلس کے کتب خانے میں تفسیر کا ایک قلمی نسخہ ہے جو ان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے.ہوئی.وفات آپ کی وفات 90 برس کی عمر میں 10 ربیع الاول 561ھ بمطابق 11 اپریل 1166ء میں

Page 151

110 آپ کی سیرت بزبان حضرت مسیح پاک آپ کا نفس بڑا مطہر تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:- میں نے ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ حضرت سید عبدالقادر جیلانی ” جو بڑے اکابر میں سے ہوئے ہیں ان کا نفس بڑا مطہر تھا.ایک بار انہوں نے اپنی والدہ سے کہا کہ میرا دل دنیا سے برداشتہ ہے میں چاہتا ہوں کہ کوئی پیشوا تلاش کروں جو مجھے سکینت اور اطمینان کی را ہیں دکھلائے.والدہ نے جب دیکھا کہ یہ اب ہمارے کام کا نہیں رہا تو اس کی بات کو مان لیا اور کہا کہ اچھا میں تجھے رخصت کرتی ہوں.یہ کہہ کر اندر گئی اور اتنی اشرفیاں جو اس نے جمع کی ہوئی تھیں اُٹھا لائی اور کہا کہ ان اشرفیوں مہروں) سے حصہ شرعی کے موافق چالیس اشرفیاں تیری ہیں اور چالیس تیرے بڑے بھائی کی.اس لیے چالیس مہریں تجھے بحصہ رسدی دیتی ہوں.یہ کہہ کر وہ چالیس مہریں ان کی بغل کے نیچے پیرا ہن میں سی دیں اور کہا کہ امن کی جگہ پہنچ کر نکال لینا اور عند الضرورت اپنے صرف میں لانا.سید عبدالقادر صاحب نے والدہ سے عرض کی کہ مجھے کوئی نصیحت فرماویں.انہوں نے کہا بیٹا جھوٹ کبھی نہ بولنا اس سے بڑی برکت ہوگی.اتنا سن کر آپ رخصت ہوئے.اتفاق ایسا ہوا کہ جس جنگل سے ہو کر آپ گزرے اس میں چند راہزن قزاق رہتے تھے جو مسافروں کولوٹ لیا کرتے تھے.دور سے سید عبدالقادر صاحب پر بھی ان کی نظر پڑی.قریب آئے تو انہوں نے کمبل پوش فقیر دیکھا.ایک نے ہنسی سے دریافت کیا کہ تیرے پاس کچھ ہے؟ آپ ابھی اپنی والدہ کی تازہ نصیحت سن کر آئے تھے کہ جھوٹ نہ بولنا.فی الفور جواب دیا کہ ہاں چالیس اشرفیاں (مہریں ) میری بغل کے نیچے ہیں جو میری والدہ صاحبہ نے کیسہ کی طرح سی دی ہیں.اس قزاق نے سمجھا کہ یہ ٹھٹھا کرتا ہے.دوسرے قزاق نے جب پوچھا تو اس کو بھی یہی جواب دیا.الغرض ہر ایک چور کو یہی جواب دیا.وہ ان کو اپنے امیر قزاقان کے پاس لے گئے کہ

Page 152

111 بار بار یہی کہتا ہے.امیر نے کہا اچھا اس کا کپڑا دیکھو تو سہی.جب تلاشی لی گئی تو واقعی چالیس اشرفیاں (مہریں ) برآمد ہوئیں.وہ حیران ہوئے کہ یہ عجیب آدمی ہے، ہم نے ایسا آدمی کبھی نہیں دیکھا.امیر نے آپ سے دریافت کیا کہ کیا وجہ ہے کہ تو نے اس طرح پر اپنے مال کا پتہ بتا دیا؟ آپ نے فرمایا کہ میں خدا کے دین کی تلاش میں جاتا ہوں، روانگی پر والدہ صاحبہ نے نصیحت فرمائی تھی کہ جھوٹ کبھی نہ بولنا.یہ پہلا امتحان تھا میں جھوٹ کیوں بولتا.یہ سن کر امیر قزاقان روپڑا اور کہا کہ آہ میں نے ایک بار بھی خدا تعالیٰ کا حکم نہ مانا.چوروں سے مخاطب ہو کر کہا اس کلمہ اور اس شخص کی استقامت نے میرا تو کام تمام کر دیا ہے.اب میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتا اور تو بہ کرتا ہوں.اس کے کہنے کے ساتھ ہی باقی چوروں نے بھی تو بہ کر لی میں ”چوروں قطب بنایا ای اس واقعہ کو سمجھتا ہوں.الغرض سید عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں کہ پہلے بیعت کرنے والے چور ہی تھے.وہ خدا کے مقرب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا :- ”دیکھو ابوالحسن خرقانی، بایزید بسطامی یا شیخ عبدالقادر جیلانی وغیرہ یہ سب خدا تعالیٰ کے مقرب تھے اور انہوں نے بھی شریعت ہی کی پابندی سے یہ درجہ پایا تھا نہ کہ کوئی نئی شریعت بنا کر.جیسا کہ آج کل کے گدی نشین کرتے ہیں.یہی نماز تھی ، یہی روزے تھے مگر انہوں نے اس کی حقیقت اور اصل غرض کو سمجھا ہوا تھا.بات یہ تھی کہ انہوں نے اعمال کو بیگار کے طور پر پورا نہ کیا بلکہ صدق اور وفا کے رنگ میں ادا کرتے تھے.سوخدا نے ان کے صدق وصفا کو ضائع نہ کیا.خدا کسی کا احسان اپنے اوپر نہیں رکھتا.وہ ایک پیسہ کے بدلے میں جب تک ہزار نہ دے تب تک نہیں چھوڑتا.پس جس کسی انسان میں وہ برکات اور نشانات نہیں ہیں ( البدر میں ہے ” جب انسان نیکی کرنے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس سے کوئی فائدہ نظر نہیں آتا اور اس کو اس کے پھل عطا نہیں ہوتے تو وہ جھوٹا ہے‘) (البدر جلد 2 صفحہ 20،9 مارچ 1903ء) اور وہ خدا کی محبت کا دعوی کرتا ہے تو وہ جھوٹا ہے.خدا پر الزام نہیں لگا تا بلکہ اپنا گند ظاہر کرتا ہے.خدا کی جناب میں بخل ہر گز نہیں.پس کوشش کرو کہ اس کی رضا کے موافق

Page 153

عملدرآمد کر سکو.۳۰ 112 فتوح الغیب سوانح شیخ عبد القادر جیلانی کا ذکر کرتے ہوئے حضور علیہ السلام نے فرمایا : - فتوح الغیب کو اگر دیکھا جاوے تو بہت سیدھے سادے رنگ میں سلوک اور توحید کی راہ بتلاتی ہے.شیخ عبدالقادر جیلانی قائل ہیں کہ جو شخص ایک خاص تعلق اور پیوند خدا تعالیٰ سے کرتا ہے اس سے ضرور مکالمہ الہی ہوتا ہے.یہ کتاب ایک اور رنگ میں ان کے سوانح معلوم ہوتے ہیں.جیسے جیسے اللہ تعالیٰ کا فضل ان پر ہوتارہا وہ ترقی مراتب کرتے رہے ویسے ویسے بیان کرتے رہے.اس فتوح الغیب کی تعریف حضرت عبد القادر جیلانی کی تصنیف فتوح الغیب کی تعریف کرتے ہوئے حضور نے فرمایا :- ”صوفی تو ایسے ہیں جیسے ہر وقت کوئی مرنے کو تیار رہتا ہے.ان کی کتابوں کو پڑھ کر طبیعت خوش ہو جاتی ہے.ان سے خوشبو آتی ہے کہ وہ صاحب حال ہیں صاحب قال نہیں.اگر فر است صحیحہ ہو تو انسان ان باتوں کو سمجھ لیتا ہے.سید عبدالقادر جیلانی کی کتاب فتوح الغیب بڑی عمدہ کتاب ہے.میں نے اسے کئی مرتبہ پڑھا ہے.بدعات سے پاک ہے.بعض کتا ہیں صوفیوں کی اس قسم کی بھی ہیں کہ ان میں بدعات داخل ہوگئی ہیں لیکن یہ کتاب بہت عمدہ ہے.۳۲ سید عبد القادر جیلانی نہایت درجہ حسین تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: - "روحانی حسن کی بنا پر بعض نے سید عبد القادر جیلانی کی نعت میں یہ شعر کہے ہیں اور ان کو ایک نہایت درجہ حسین اور خوبصورت قرار دیا ہے.اور وہ اشعار یہ ہیں

Page 154

113 آن ترک چوں زمئے عشق طرب کرد غارت گرمتے کوفہ و بغداد و حلب کرد صد لالہ رُخ بود بصد حسن شگفته نازاں ہمہ راز ہر قدم کرد عجب کرد ۳۳ عشق الہی کا خاصہ فرمایا:- اولیاء اللہ اور اہل اللہ کا یہی مسلک اور عقیدہ ہوتا ہے.سیّد عبدالقادر جیلانی لکھتے ہیں کہ عشق کا خاصہ ہے کہ مصائب آتے ہیں.انہوں نے لکھا ہے: عشقا برا تو مغز گرداں خوردی باشیر دلاں اسمی با کردی اکنوں کہ بما روئے نبرد آوردی ہر حینہ که داری نکنی نامردی مصائب اور تکالیف پر اگر صبر کیا جائے اور خدا تعالیٰ کی رضا کے ساتھ رضامندی ظاہر کی جاوے تو وہ مشکل کشائی کا مقدمہ ہوتی ہے.ہر ہلاکیں قوم را او داده است زیر آن یک گنج با بنهاده است ۳۴ سید عبدالقادر جیلانی کی فضیلت فرمایا: ”حضرت سید عبدالقادر جیلانی بڑے مخلص اور شان کے لائق تھے.کیا ان کے عہد میں لوگ نماز روزہ نہ رکھا کرتے تھے؟ پھر ان کو سب پر سبقت اور فضیلت کیوں ہے؟ اس لیے کہ دوسروں میں وہ بات نہ تھی جو ان میں تھی.یہ ایک روح ہوتی ہے، جب پیدا ہو جاتی ہے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدوں میں شامل کر لیتا ہے.۳۵

Page 155

114 حضرت شیخ عبد القادر جیلانی" کا مقام مقام انعام تھا مقام ابتلا نہیں تھا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے فرمایا: - ابتلاء اور ہوتے ہیں اور جزاء اور ہوتی ہے.اور بعض جزا ئیں تو ایسی ہوتی ہیں جو اعلیٰ درجہ کے روحانی مقامات حاصل کرنے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام کے طور پر ملتی ہے.جیسے حضرت سید عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں کہ میں اس وقت تک کھانا نہیں کھاتا جب تک خدا مجھے نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر تجھے میری ذات ہی کی قسم کہ یہ کھانا کھا اور میں کپڑ انہیں پہنتا جب تک مجھے خدا نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر تجھے میری ذات ہی کی قسم کہ یہ کپڑا پہن.یہ ابتلاء والا مقام نہیں بلکہ ایک روحانی عہدہ حاصل کرنے کا انعام ہے.ان لوگوں کو سراء اور ضَرَّاء میں گزر کر اللہ تعالیٰ ان کے اخلاق اور ان کے اندرونہ کو دنیا پر اچھی طرح ظاہر کر دیتا ہے.اس لیے یہ ضرورت نہیں رہتی کہ ان پر ابتلاء وارد کیے جائیں.لیکن تمام لوگوں کی یہ حالت نہیں ہوتی.ان کے دل پر کبھی گناہوں کی وجہ سے اتنا زنگ لگ جاتا ہے کہ نہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والی فراخی کا ان پر کوئی اثر ہوتا ہے اور نہ اس کی طرف سے آنے والی مشکلات ان میں تغیر پیدا کرتی ہیں وہ اندھے پیدا ہوتے ہیں اور اندھے ہونے کی حالت میں ہی اس جہاں سے گزر جاتے ہیں.ہے حضرت سید عبدالقادر جیلانی کی کتب توحید سے بھری ہوئی ہیں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے فرمایا:- سید عبدالقار جیلانی ہیں ان کی کتابوں میں توحید ہی تو حید بھری ہوئی ہے.اب اگر ان کے معتقد شرک کرنے لگ جائیں تو کوئی دھوکا نہیں لگ سکتا.اگر کوئی کہے کہ میں جیلانی صاحب کا معتقد ہوں تو ہم آپ کی کتابیں نکال کر اس کے سامنے رکھ دیں گے کہ دیکھو آپ تو بڑے موحد تھے.تمہیں بھی ان کی پیروی کرنی چاہیے.گویا مسلمانوں کی غلطیوں کو ظاہر کرنے کے مواقع موجود ہیں“.۳۷

Page 156

115 میری روح سیّد عبدالقار جیلانی کی روح سے مناسبت رکھتی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: - فطرتاً بعض طبائع کو بعض طبائع سے مناسبت ہوتی ہے.اسی طرح میری روح اور سید عبدالقادر جیلانی کی روح کو خمیر فطرت سے باہم ایک مناسبت ہے جس پر کشوف صحیحہ صریحہ سے مجھ کو اطلاع ملی ہے.۳۸ اندرونی تبلیغ اور اصلاح آپ کے عہد میں جیسا کہ ضرورت تھی کہ اپنے مسلمانوں کی پہلے اصلاح کی جائے اور مسلمان را مسلمان باز کردند‘ کا مظاہرہ کیا جائے.چنانچہ سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے امراء، حاکموں اور ہر خواص و عام کو تقریر وتحریر اور اپنے عمل سے صحیح اسلام سے روشناس کرایا.ابن نجار کہتے ہیں:.انتهت اليه الرئاسة فى تربية المريدين و دعاء الخلق الى الله - 9 مریدوں کی تربیت اور مخلوق کو دعوت الی اللہ میں آپ پر ریاست ختم ہے.آپ نے تدریس و افتاء، خانقاہی تربیت اور تصنیف و تالیف کے ساتھ عامۃ الناس کی اصلاح کیلئے تبلیغ وموعظت کا سلسلہ جاری کیا.521ھ میں بغداد میں ابوالفتوح الاسفراینی نے خطبات کا سلسلہ جاری کیا جس میں ناز یبا روایات کی بھر مار ہوتی.جس سے عوام میں بے چینی پیدا ہوئی.چنانچہ آپ نے موقعہ کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے مواعظ کا سلسلہ جاری کیا تو لوگ ذوق وشوق سے شیخ کی مجالس میں آنے لگے.اس طرح ان کا اضطراب تسلی میں تبدیل ہوتا گیا.اور رجوع خلق کا یہ عالم تھا کہ مدرسہ میں توسیع کرنا پڑی.ایسے لگتا تھا جیسے سارا بغداد ائڈ آتا ہو حتیٰ کہ جگہ کی کمی کے باعث یہ وعظ عیدگاہ میں ہونے لگا.آپ کی تقریروں میں اسلام کی زبوں حالی کے خلاف جدو جہد اور دلی تڑپ کا اظہار ہے اور عوام الناس کے علاوہ چار سو علماء آپ کے وعظ میں اس لیے شریک ہوتے کہ آپ کے ارشادات قلمبند کریں.اسی طرح تمام اراکین حکومت بھی آپ کے وعظ میں شریک ہوتے.آپ کی تنقید حکومت پر بہت سخت ہوتی لیکن کسی کی مجال نہیں تھی جو آپ کے بیان میں ذرا گرفت کر سکے.اکثر دس دس اور بیس بیس ہزار کا مجمع ہوتا.ہے

Page 157

116 آپ کے ہمسائے میں ایک جو باز رہتا تھا.ایک دن کھیلتے ہوئے وہ سارا مال ہار گیا.یہاں تک کہ اس نے ہاتھ کٹا دینے پر بازی کھیلی اور وہ بھی ہار گیا.اب شرکاء مصر تھے کہ یا تو ہاتھ کٹاؤ یا ہار مانو اور یہ تیار نہ ہوتا تھا.اتنے میں شیخ اپنی چھت پر آئے اور اسے کہا کہ یہ سجادہ لے لو اور بازی کھیلو.وہ کھیلا اور اس نے سارا مال واپس جیت لیا اور یہ کرامت دیکھ کر آپ کے ہاتھ پر تائب ہو گیا اور سارا مال خدا کی راہ میں خرچ کر دیا.اس کی روزانہ کی آمدنی دوسود بنا تھی.اسے اگر اس واقعہ میں کچھ مبالغہ بھی ہو تو تب بھی اتنا اندازہ تو ہوتا ہے کہ آپ ہر قسم کے لوگوں کو ہدایت دیا کرتے تھے.اظہار علی الحق آپ خدا کی طرف سے تجدید کے منصب پر فائز تھے.اس لیے آپ جہاں غلطی پاتے اس کی اصلاح کیلئے کوشش کرتے اور کس کی پرواہ نہ کر تے کہ آپ کے اس فعل سے حکمران ناراض ہو جائیں یا آپ کو نقصان پہنچائیں.آپ حکمرانوں پر کڑی تنقید کیا کرتے تھے.چنانچہ خلیفہ المعتقفی لامر اللہ نے ابوالوفاء یحیی جو ابن المرحم الظالم کہلاتا تھا کو قاضی نامزد کر دیا.شیخ نے بھری مجلس کے سامنے اس منبر پر اس کی مذمت کی اور فرمایا " وليت على المسلمين اظلم الظالمین ماجوابک غدا عند رب العالمين ارحم الراحمین.تم نے مسلمانوں پر ایسے شخص کو حاکم بنایا ہے جوسب سے بڑا ظالم ہے.کل قیامت کے روز رب العالمین کو کیا جواب دو گے جوارحم الراحمین ہے.عمادالدین ابن کثیر اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں :- كان يامر المعروف وينهى عن المنكر للخلفاء والوزراء والسلاطين والقضاء والخاصة والعامة يصدعهم بذالك على رؤس الاشهاد و رؤس المنابر و في المحافل و ينكر على من يولى الظلمة ولا تأخذ في الله لومة لائم“.( ترجمہ ) آپ معروف باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے تمام خلفاء اور وزراء اور سلاطین اور قضاۃ ہر خاص و عام کو منع کرتے تھے.اور آپ علی الاعلان یہ باتیں منبروں پر

Page 158

117 اور محفلوں میں کہا کرتے تھے.جو کسی ظالم کو حاکم بناتا اس پر اعتراض کرتے اور خدا کے معاملہ میں آپ کو کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہ ہوتی تھی.ایک اور جگہ امراء اور علماء سے جو راہ راست سے ہٹ چکے تھے انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:- ”اے علم و عمل میں خیانت کرنے والے تم کو ان سے کیا نسبت.اے اللہ اور اس کے رسول کے دشمنو، اے بندگان خدا کے ڈاکوو! تم کھلے ظلم اور کھلے نفاق میں ہو.یہ نفاق کب تک رہے گا.اے عالمو ! اے زاہدو! شاہان اور سلاطین کیلئے کب تک منافق بنے رہو گے کہ ان سے دنیا کا زر و مال اور اس کی شہوات ولذات لیتے رہو.تم اور اکثر بادشاہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کے مال اور اس کے بندوں کے متعلق ظالم اور خائن بنے ہوئے ہیں.بارالہ ، منافقوں کی شوکت توڑ دے اور ان کو ذلیل فرما، ان کو تو بہ کی توفیق دے اور ظالموں کا قلع قمع فرما اور زمین کو ان سے پاک کر دے یا ان کی اصلاح فرما دے.ہے آپ کے دل میں عشق اسلام اور عشق رسول کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.چنانچہ آپ اسلام کی خستہ حالی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.” جناب رسول اللہ کے دین کی دیوار میں پے در پے گر رہی ہیں اور اس کی بنیاد بکھری جاتی ہے.اے باشندگانِ زمین آؤ جو گر گیا ہے اس کو مضبوط کر دیں اور جوڑھے ( گر ) گیا ہے اس کو درست کر دیں.یہ چیز ایک سے پوری نہیں ہوتی.سب ہی کو مل کر کام کرنا چاہیے.اے سورج ، اے چاند اور اے دن تم سب آؤ.ہے پس آپ نے خشک ملائیت کے خلاف جہاد کیا.آپ نرے صوفی ہی نہیں تھے بلکہ بالعمل ولی اللہ تھے.شیخ نے صوفی مبلغ کی حیثیت سے چالیس سال تک کام کیا اور عملاً ثابت کر دیا کہ تصوف و طریقت پر محض اہل خلوت کا ہی قبضہ اور اجارہ داری نہیں.آپ پُر اسرار رمزیت کے خلاف تھے.آپ تصوف کو شریعت کے ہم آہنگ اور کھلی شاہراہ کی طرح دیکھنا چاہتے تھے اور شریعت کے خلاف تصوف کے رڈ میں فرماتے ہیں:- اگر حدود الہی میں سے (احکام شرعی ) کوئی حد ٹوٹتی ہو تو سمجھ لو کہ تم فتنہ میں پڑ گئے ہو

Page 159

118 اور شیطان تم سے کھیل رہا ہے.فوراً شریعت کی طرف رجوع کرو اور اس کو مضبوط تھام لو.نفس کی خواہشات کو جواب دو اس لیے کہ ہر وہ حقیقت جس کی شریعت تائید نہیں کرتی باطل ہے.بیرونی تبلیغ آپ نے اندرونی اصلاح کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کو دعوت الی اللہ کا فریضہ بھی سرانجام دیا.چنانچہ شیخ عمر کیسانی کہتے ہیں کہ کوئی مجلس آپ کی ایسی نہ ہوتی تھی جس میں یہود اور عیسائی اسلام نہ قبول کرتے ہوں اور رہزن خونی اور جرائم پیشہ تو بہ سے مشرف نہ ہوتے ہوں.فاسد الاعتقاد اپنے غلط اعتقاد سے تو بہ نہ کرتے ہوں.آپ کے درس کا ذکر گزر چکا ہے اس میں مسلمانوں کے علاوہ کثیر تعداد میں یہودی اور عیسائی بھی شریک ہوتے اور آپ کی زبان ترجمان قرآن سے وعظ سن کر مسلمان ہو جاتے.لکھا ہے کہ آپ کے دست حق پرست پر پانچ سو سے زائد یہودیوں اور عیسائیوں نے اسلام قبول کیا.ایک مرتبہ آپ کی مجلس میں ایک راہب سنان نامی آیا اور اس نے اسلام قبول کیا.مجمع عام میں کھڑے ہو کر اس نے بیان کیا کہ میں یمنی ہوں اور میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی ہے میں اسلام قبول کروں.میں نے ارادہ کیا کہ میں یمن میں جو شخص سب سے بڑا ہوگا اس کے ہاتھ پر اسلام قبول کروں گا.پھر مجھے نیند آ گئی تو میں نے حضرت عیسی کو دیکھا.انہوں نے فرمایاسنان تم بغداد میں جاؤ اور شیخ عبدالقادر جیلانی کے ہاتھ پر اسلام قبول کرو کیونکہ وہ اس وقت روئے زمین کے تمام لوگوں سے افضل ہیں.اسی طرح شیخ صاحب خود فرماتے ہیں کہ میرے پاس تیرہ نصاری آئے اور کہا کہ ہمیں ہاتف غیبی نے پکارا کہ عبد القادر کے ہاتھ پر اسلام لاؤ تا کہ تمہارے دل ایمان سے بھر جائیں.شیخ عبداللہ بن جبائی بیان کرتے ہیں کہ شیخ صاحب نے مجھے فرمایا کہ میرے ہاتھ پر پانچ ہزار یہود ونصاری نے اسلام قبول کیا اور ایک لاکھ سے زیادہ قطاع الطریق اور مفسد لوگوں نے توبہ کی.۲۸ اسی طرح آپ زندگی بھر تبلیغ اسلام و تجدید دین میں مصروف رہے.آپ نے مریدوں کی

Page 160

119 اصلاح کیلئے طریقہ قادریہ بھی جاری کیا.آپ کی زندگی میں ہی لاکھوں انسان اس طریقہ سے فائدہ اٹھا کر ایمان کی حلاوت سے آشنا اور اسلامی زندگی اور اخلاق سے آراستہ ہوئے اور آپ کے بعد آپ کے مخلص خلفاء اور باعظمت اہل سلسلہ نے تمام ممالک اسلامیہ میں دعوت الی اللہ اور تجدید ایمان کا یہ سلسلہ جاری رکھا جن سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بیان نہیں کر سکتا.یمن، حضرموت اور ہندوستان میں پھر حضر می مشائخ کے ذریعہ جاوا اور سماٹرا میں اور دوسری طرف افریقہ کے براعظموں میں لاکھوں آدمیوں کی تکمیل ایمان اور لاکھوں غیر مسلموں کے قبول اسلام کا ذریعہ بنا.رضی الله عنه وارضاه و جزاء عن الاسلام خير الجزاء.29 چھٹی صدی کے آخر میں دوسرے مشہور اور عظیم الشان مجدد امام محمد بن عمر ابو عبد اللہ فخر الدین رازی قریشی ہیں.آپ 543ھ میں پیدا ہوئے اور 606ھ میں وفات پائی.بہت بڑے فلسفی اور متکلم تھے.آپ حضرت عمر کی اولاد میں سے تھے.آپ کی کتابیں اتنی سے زائد ہیں.سب سے مشہور تفسیر کبیر ہے.جس کا حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے بھی ذکر فرمایا ہے اور آپ کے بعض حوالوں کو بہت عمدہ کہہ کر بیان فرمایا.۵۰ چھٹی صدی کے دوسرے مجددین میں مندرجہ ذیل ہیں.علی بن محمد عز الدین ابن کثیر.امام رافعی شافعی صاحب زبدۃ شرح شفاء یحیی بن جبش بن فیرک حضرت شہاب الدین سہروردی شہید امام طریقت یحیی بن اشرف بن حسن محی الدین ولی.حافظ عبدالرحمن بن جوزی.

Page 161

120 حوالہ جات ل تاریخ دعوت و عزیمت جلد 1 صفحہ 280 سے اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 2 صفحہ 924 ملفوظات.جلد 8 صفحہ 52 스 حمامة البشری - صفحہ 76 ایڈیشن اوّل ملفوظات.جلد 1 صفحہ 79 اربعین نمبر 2 صفحہ 6 براہین احمدیہ.چہارم حصص صفحہ 514 ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 65 حاشیہ 2 الحكم 21 مارچ 1936ء صفحہ 5 الله سیرۃ المہدی جلد 1 صفحہ 760 تفسیر کبیر.جلد 7 صفحہ 198 تاریخ دعوت و عزیمت.جلد 1 صفحہ 290 اخبار الاخیار - صفحہ 11 حیات جاودانی.صفحہ 49 ا ایضاً.صفحہ 50 الطبقات الكبرى للشعرانی بحوالہ حیات جاودانی - صفحہ 48 كل ايضا - صفحه 20 ايضاً - صفحه 33 فیوض یزدانی مجلس نمبر 20 بحوالہ تاریخ دعوت و عزیمت.جلد اوّل صفحہ 271 ايضا صفحہ 286

Page 162

Σ 121 اسکے رموز الغیب مقالہ نمبر 25 بحوالہ تاریخ دعوت و عزیمت.جلد اوّل صفحہ 276 ایضاً صفحہ 144 گلدسته کرامات - صفحه 10 حیات جاودانی - صفحہ 106 ايضاً - صفحہ 254 ايضا - صفحہ 66 اردو دائرہ معارف اسلامیہ.جلد نمبر 12 صفحہ 932 اردو دائرہ معارف اسلامیہ.جلد نمبر 12 صفحہ 924 ملفوظات.جلد 1 صفحہ 50-49، صفحہ 245 ے ملفوظات.جلد سوئم صفحہ 154 ايضاً - صفحہ 565 Ej Ej Ej fj ۳۴ ملفوظات.جلد 4 صفحہ 396 روحانی خزائن.جلد 21 صفحہ 221 ملفوظات.جلد دوم صفحہ 298 ملفوظات.جلد چہارم صفحہ 662 تفسیر کبیر.جلد ششم صفحہ 563 تفسیر کبیر.جلد دہم صفحہ 340 روحانی خزائن.جلد 1 صفحہ 224 حاشیہ 9 مرأة الجنان ملیافعی جلد نمبر 4 صفحہ 81 بحوالہ تاریخ دعوت و عزیمت جلد اوّل صفحہ 290 دس ولی - صفحہ 94 ات حیات جاودانی.صفحہ 135 قلائد الجواہر - صفحہ 6 قلائد الجواہر - صفحہ 8

Page 163

122 ۴۴ ۴۵ ۵۰ تاریخ دعوت و عزیمت.جلد اوّل صفحہ 280 فیوض یزدانی بحوالہ تاریخ دعوت و عزیمت.جلد 1 صفحہ 280 حیات جاودانی.صفحہ 40 ے دس ولی - صفحہ 92 حیات جاودانی.صفحہ 47 تاریخ دعوت و عزیمت.جلد اوّل صفحہ 285 امام رازی.عبدالسلام ندوی ، معارف پریس اعظم گڑھ 1950ء و آئینہ کمالات اسلام صفحہ 119

Page 164

123 ساتویں صدی کے مجدد حضرت خواجہ معین الدین چشتی رَحْمَةُ الله عَلَيه ۵۶۳۳ - ۵۵۳۶ نبی کریم ﷺ نے خواب میں فرمایا : - و معین الدین آمیں تجھے حج اور زیارت سے بھی زیادہ ضروری کام بتاؤں.واپس لوٹ جا اور صحیح معنوں میں معین الدین بن جا اور تبلیغ اسلام کیلئے ہندوستان کا رُخ کر لے

Page 165

124 ولادت ، نام و نسب خواجہ معین الدین چشتی حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری 14 / رجب المرجب 536ھ بمطابق 1341ء بمقام سخر“ (سیستان) میں پیدا ہوئے.آپ کے والد کا نام سید غیاث الدین تھا جو کہ ایک خدا رسیدہ اور صاحب اثر و دولت انسان تھے.آپ کی والدہ کا نام بی بی مہ نور تھا جو اپنی پارسائی کے باعث ام الورع “ کہلاتی تھیں.آپ کا سلسلہ نسب تیرھویں پشت میں حضرت امام حسین سے اور دسویں پشت پر حضرت امام حسن سے ملتا ہے.اس اعتبار سے آپ حسنی الحسینی سید ہیں.ابتدائی حالات آپ کے والدین اس وقت سیستان سے ہجرت کر کے خراسان آگئے جب کہ آپ کی عمر بہت چھوٹی تھی.15 برس کی عمر میں آپ کے والد نے رحلت فرمائی اور اسی سال والدہ بھی راہ عدم کو کوچ کر گئیں.ایسے کڑے حالات میں جہاں نہ ماں کی آغوش محبت اور نہ باپ کا سایہ عاطفت تھا آپ کی پرورش ہوئی.اسی لیے آپ کے اساتذہ کا خاص علم نہیں ہوتا.تاہم مولانا محمد حسام بخاری سے چند کتب پڑھیں اور بعد ازاں موضع ہارون میں آکر حضرت خواجہ عثمان ہارونی کے حلقہ ارادت میں بیعت کر کے شامل ہوئے.دراصل آپ میں علمی بیداری اس طرح ہوئی کہ آپ پہلے ایک قلندرانہ زندگی گزارتے تھے.اپنا ایک باغ تھا اسی پر گزارہ تھا اور وہیں روز و شب گزرتے تھے کہ ایک دن ایک ولی اللہ کا وہاں سے گزر ہوا.قلندر کی ایک نظر میں آپ کے دل کی کایا پلٹ گئی اور آپ ہر چہ بادا باد کہہ کر حصول علم کی راہوں میں چل نکلے اور اتنے بڑھے کہ مجدد زمانہ ٹھہرے.و ذالک فضل الله يوتيه من يشاء وفات آپ کی وفات حسرت آیات 97 برس کی عمر میں 6 / رجب 633 ھ کو ہوئی.آپ کی تاریخ وفات کو حضرت سرمد نے اشعار میں یوں بیان کیا ہے.

Page 166

125 ہے.شدز دنیا چو در بهشت مریں وہ معین الدین جو مرشد و متقی تھا دنیا سے مرشد و متقی معین الدین بہشت میں چلا گیا.ان کی رحلت کی تاریخ گفت تاریخ رحلتش سرمد سرمد بیان کرتا ہے.جو محرم دل تھے اور ولی محرم دل ولی معین الدین اللہ تھے.آپ کا نام معین الدین تھا.ہم افسانه یاران کهن خواندم و رفتیم پرانے دوستوں کا فسانہ پڑھا اور چلے گئے.در باب که لعل و گہر افشاندم و رفتیم سے اس بارہ میں لعل و گوہر بکھیرے اور چلے گئے.با خدا انسان - روحانی مقام ا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بزرگان امت کے باخدا لوگوں میں آپ کا ذکر بھی فرمایا -۲- اسی طرح حضرت مصلح موعودہؓ آپ کے متعلق فرماتے ہیں :- " جس طرح فقہ کے چار امام ہیں.اسی طرح روحانی علوم کے بھی چار امام ہیں اور ان میں سے ایک حضرت خواجہ معین الدین چشتی کا نام نامی ہے.ہے حالات زمانہ جب آپ نے ہوش سنبھالا تو خراسان گہوراہ رنج والم تھا.تاتاریوں نے مسلم دنیا میں کشت و خون پھیلایا ہوا تھا.اہل اللہ مظالم کا شکار تھے.اسلام کی بے حرمتی ہو رہی تھی.549ھ میں جب آپ کی عمر تیرہ برس کی تھی کہ سلطان سحر کو تاتاریوں کے ہاتھوں شکست ہوئی اور وسط ایشیا کے لٹیرے خراسان، نیشا پور، طوس، مشہد مقدس میں داخل ہو گئے.جہاں بے گناہ بندگان خدا کے لہووؤں کی ندیاں بہادی گئیں، کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کیے گئے ،عورتوں کی آبروریزی کی گئی، مکانات منہدم کر دیے گئے، مسلمانوں کو غلام بنالیا گیا، مساجد نذر آتش کردی گئیں، یگانہ روز علماء مثلا محمد بن یحیی، عبدالرحمن بن عبد الصمد نیشاپوری، حسن بن عبدالمجید رازی وغیرہ کو شہید کر دیا گیا.یہ تو بیرونی آفات تھیں اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی اندرونی حالت بھی انتہائی نا گفتہ بہ تھی اور دراصل تاتاریوں کے یہ حملے بھی حضور ﷺ کی پیشگوئی کو پورا کر رہے تھے کہ یا ایها الـكـفـار أقتل الفجار اس وقت

Page 167

126 مسلمانوں کی اکثریت فسق و فجور میں مبتلا تھی.اس لیے خدا نے ان کو عبرت سکھانے کیلئے کفاران پر مسلط کر دیے جنہوں نے ان کی آبادیوں کو ویرانوں میں بدل دیا.آپ کے عہد میں مسلمانوں کا اکثر حصہ کفر و بت پرستی کا دلدادہ تھا.برصغیر میں ہر طرف ہندو چھائے ہوئے تھے اور معاشرہ ان کی بد رسومات کا اسیر ہو رہا تھا.چھوت چھات کا رواج تھا اور ہندوؤں کی دیدہ دلیری کہ وہ مسلمانوں کے ہندوستان میں قدم رکھنے کو نا پاک خیال کرتے تھے.یہ وہ حالات تھے جن میں خدا کی طرف سے خواجہ صاحب تجدید دین کیلئے کھڑے کیے گئے.آپ نے ظلمت کدوں میں کس طرح نور ہدایت پہنچایا اس کا تذکرہ آئندہ چند صفحات میں کیا جائے گا.لیکن گزشتہ طریق کے مطابق تجدیدی کارناموں سے قبل آپ کی عظمت، کردار اور تعلیم کا اجمالی ذکر بھی ضروری ہے.کیونکہ انسان کا عملی نمونہ سب سے بڑی تبلیغ ہے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کون سی تعلیم تھی جسے آپ دنیا کے سامنے پیش کرتے تھے کہ لوگ جوق در جوق آپ کے حلقہ ارادت میں آتے جاتے اور قرب الہی کے مقامات طے کرتے جاتے.دیدار رسول اور بعثت آپ باون سال تک فقیرانہ زندگی بسر کرتے رہے.اسی دوران آپ نے سفر حج اور زیارت روضتہ النبی کا ارادہ کیا اور عازم سفر ہوئے.راستے میں ہی تھے کہ خواب میں حضرت نبی کریم ہے کے دیدار سے مشرف ہوئے.حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا معین الدین آمیں تجھے حج اور زیارت سے بھی زیادہ ایک ضروری کام بتاؤں.واپس لوٹ جا اور صحیح معنوں میں معین الدین بن جا اور تبلیغ اسلام کیلئے ہندوستان کا رُخ کر.جب آنکھ کھلی تو تعمیل حکم میں یہ بے نوا فقیر فورا اپنی گڈری سنبھال، پا پیادہ ہندوستان کی طرف روانہ ہو گیا.ہندوستان ایک ایسا ملک جو آپ کیلئے اجنبی مطلق تھا اور مستزاد یہ کہ بت پرستی سے گھرا ہوا.مگر یہ فقیر حق آشنا تن تنہا ہندوستان کو فتح کرنے چلا.عشق سرمدی کا یہ دیوانہ ہر مشکل کو طے کر کے پہلے لاہور پھر دہلی اور بالآخر اجمیر پہنچا.ھے شخصیت و عظمت کردار آپ کے مرشد حضرت عثمان ہارونی نے آپ کے متعلق فرمایا: -

Page 168

127 معین الدین محبوب خدا است و مرافخر است بر مریدی او معین الدین خدا کے محبوب ہیں اور مجھے ان کی مریدی پر فخر ہے.لارڈ کرزن نے لکھا: - میں نے اپنی زندگی میں دو ایسے بزرگ دیکھے ہیں جو اپنی وفات کے بعد بھی لوگوں کے دلوں پر اس طرح حکمرانی کر رہے ہیں کہ جیسے بنفس نفیس ان کے درمیان موجود ہوں.ان میں سے ایک تو مغلیہ حکمران اور نگ زیب عالمگیر ہے اور دوسرے خواجہ معین الدین اجمیری ریاضت بابا فرید آپ کی ریاضت کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں :- خواجہ ہند نے اپنی ریاضت کے ابتدائی زمانہ میں کچھ ایسے طریقے سے جہاد نفس کیا کہ لوگوں کو محو حیرت کر دیا اور ریاضت کا وہ طریقہ اختیار کیا کہ اس کی نظیر عارفان حقیقت کے زمرہ میں مشکل سے ملے گی.آپ لگا تار سات سات دن تک روزہ رکھتے اور صرف پانچ مثقال کی ٹکیہ سے روزہ افطار کرتے“.ے اخلاق حسنه آپ کے عہد میں حکمران طاقت کے نشے میں چور تھے.اس لیے رعایا کا خیال نہ رکھتے اور مظلومین کی دادرسی نہ ہو سکتی.مگر آپ اس امر کا اہتمام کرتے کہ جب بھی کوئی حاجتمند آپ کے پاس آکر اپنی بپتا بیان کرتا تو آپ حتی المقدور اس کی داد رسی فرماتے.چنانچہ ایک کاشتکار نے آپ سے شکایت کی کہ فلاں حاکم نے میری زمین ضبط کر لی ہے.اگر آپ شاہ التمش سے سفارش کر دیں تو میری زمین واپس مل سکتی ہے.آپ اس کے ہمراہ اجمیر سے دہلی تشریف لائے اور التمش کو فرمایا اس کی زمین واپس دلائی جائے.شاہ نے آپ کی بڑی عزت افزائی کی اور آپ کی سفارش منظور کر لی.اس واقعہ سے اندازہ کریں کہ مخلوق خدا کی ہمدردی کا جذبہ کس حد تک آپ کے دل میں موجزن تھا.

Page 169

تعلیمات 128 حقیقی نیکی اور حقیقی تصوف کی تعلیم دیتے ہوئے بیان فرماتے ہیں:.فقیر کون ہے.بندہ پر فقیر کا لفظ اس وقت صادق آتا ہے کہ جب تک آٹھ سال تک بائیں ہاتھ کا فرشتہ جو بدی تحریر کرنے پر مامور ہے اس کے نامہ اعمال میں ایک بدی بھی تحریر نہ کرے.پھر فرمایا: "عارف کے تین ارکان ہیبت تعظیم اور حیا ہیں.ہیبت یہ ہے کہ اپنے معاصی پر شرمندہ ہو.تعظیم سے مراد ہمیشہ اطاعت میں کوشاں رہے اور حیا یہ ہے کہ سوائے خدا کے کسی پر نظر نہ ڈالے.اسی طرح مزید فرمایا :- ندی نالہ اور دریا کے پانی بہنے میں شور غل ہوتا ہے لیکن جب سمندر میں جا کر مل جاتے ہیں تو وہ آواز جاتی رہتی ہے.اس پر سلوک کی منزلوں کا قیاس کر لینا چاہیے.تجدیدی کارنامے آپ نے اشاعت دین کے سلسلے میں کئی سفر کیے.آپ لاہور ، دہلی اور اجمیر تشریف لائے اور اجمیر میں آپ نے قیام فرمایا اور دعوت اسلام کا کام جاری رکھا.لوگ جوق در جوق آپ کے ہاتھ پر جمع ہوتے گئے.یہاں کے حاکم جس کا نام رائے پتھور تھا، نے آپ کی مخالفت پر کمر باندھی مگر جلد ہی شہاب الدین غوری نے ہند پر حملہ کیا اور فاتح نصیب جرنیل ہو کر ابھرا.اس حملے میں رائے پتھو قتل ہوا.یوں آپ کے راستے کی رکاوٹ اللہ تعالیٰ نے دور کر دی اور آپ کے راستوں میں موانعات اور مزاحمتوں کا خطرہ ٹل گیا.2 آپ کے سفروں کے درمیان ایمان افروز واقعات رونما ہوتے تھے.ہرات سے روانہ ہوکر جب آپ سبزوار آئے تو یہاں کا حاکم یاد گار علی تھا.یہ بڑا ظالم، فاسق و فاجر تھا.آپ ایک دن ایک باغ میں تلاوت فرمارہے تھے اتنے میں بادشاہ آیا، آپ محو تلاوت رہے.اسے یہ دیکھ کر بہت غصہ آیا کہ اس

Page 170

129 نے میری طرف ذرہ بھر توجہ نہیں کی ، اُٹھ کر استقبال نہیں کیا.چنانچہ اس نے کہا کہ اس فقیر کو نکال دو.آپ نے ایک نظر اٹھا کر اسے دیکھا.نجانے اس نظر میں کیا جادو تھا کہ وہ اپنی جگہ پر تھر تھر کانپنے لگا اور آپ کے ہاتھ پر تائب ہو گیا.جادو نگہے از اثر چشم سیه مهر پیمانہ مئے و مئے پیماند فروشد تے اسی طرح آپ ایک مرتبہ بغداد میں تھے.یہاں سات آتش پرست مشہور تھے.وہ آپ کی مجلس میں حاضر ہوئے.جب آپ کی نظر کیمیا ان پر پڑی تو وہ ہیبت سے کانپنے لگے.آپ نے انہیں ارشاد فرمایا گمراہو! آگ چھوڑ کر خدا کو اختیار کرو.انہوں نے عرض کیا ہم آگ کے جلنے ، جلانے سے ڈرتے ہیں.آپ نے فرمایا جب تک خدا کو نہیں مانتے نجات ممکن نہیں.انہوں نے پوچھا آپ خدا کو مانتے ہیں.کیا آگ آپ کو نہیں جلاتی.آپ نے بڑے جوش سے فرمایا ” میں تو خدا کا بندہ ہوں.آگ اس بندے کے جوتے کو بھی نہیں جلا سکتی.انہوں نے عملی مظاہرہ چاہا.آپ نے اپنا جوتا آگ میں پھینکا تو وہ سرد ہوگئی.تب یہ ساتوں آتش پرست کلمہ شہادت پڑھ کر مسلمان ہو گئے.ااے آپ نے ہندوستان میں محسوس کیا کہ یہاں موسیقی کو بہت دخل ہے اور لوگ اس میں بڑی رغبت رکھتے ہیں.چنانچہ آپ نے ایسے حلقوں میں تبلیغ کرنے کیلئے محفل سماع کی بنیاد ڈالی اور ہنود کے دلپسند طریقے سے انہیں اسلام کا پیغام پہنچایا اور یہی محفل سماع آہستہ آہستہ قوالی کی شکل اختیار کر گئی.۱۲ لیکن آپ کے بعد قوالی کا استعمال غیر ضروری طور پر بڑھ گیا اور اب تو با قاعدہ فلمی گانوں کی صف میں آتی جارہی ہے.جو خواجہ صاحب کے مقصد کے صریحاً خلاف ہے.رجوع الى الحق کی یہ کیفیت تھی کہ ایک مرتبہ آپ اجمیر سے دہلی تشریف لائے تو راستہ میں سات سو ہنود مسلمان ہوئے.۱۳ آپ کو جہاں موقع ملتا آپ تبلیغ میں مصروف ہو جاتے.راجہ اجمیر کا گورو ایک بڑا وڈان یوگی تھا.خواجہ صاحب کی تبلیغی تلوار اس گورو پر پڑی اور اپنا کام کرگئی.تب لوگوں نے سوچا کہ اتنا بڑا وڈان یوگی مسلمان ہو گیا ہے تو ضرور اس میں صداقت ہے.چنانچہ لوگ گروہ در گروہ حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے.تمام راجپوتانہ میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک اسلام پھیل گیا.۱۱۴

Page 171

130 تصانیف آپ نے علوم و معارف سے بھر پور چند کتب اپنی یا گار چھوڑی ہیں.ا.انیس الارواح.یہ آپ کے پیر و مرشد حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمۃ کے ملفوظات کا مجموعہ ہے جو آپ نے ترتیب دیا ہے.۲.دیوانِ معین ۱۳۱ غزلوں پر مشتمل یہ دیوان جو آپ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے.ان.کی مشہور رباعی ہے.شاہ ہست حسین و بادشاه هست حسین حسین شاہ اور بادشاہ ہیں.آپ دین اور دین است حسین و دین پناہ ہست حسین دین کی پناہ ہیں.آپ نے سر دے دیا سردادنه داد دست در دست یزید لیکن یزید کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہ دیا.حق حق کہ بنائے لا الہ است حسین یہ ہے کہ توحید باری کی بنیاد حسین ہیں.- گنج الاسرار - یہ کتاب آپ نے خواجہ عثمانی ہارونی ” کے ارشاد پر اتش بادشاہ کی تربیت کیے ہیں.۴.احادیث المعارف ۵.رسالہ وجودیہ دلیل العارفین - اس میں خواجہ صاحب کے ملفوظات ہیں جو حضرت بختیار کاکی نے جمع فنافی الرسول آپ رسول کریم ﷺ کے عاشق صادق تھے.بلکہ فنافی الرسول تھے اور بروز محمد ہے تھے.چنانچہ حسنات العارفین میں لکھا ہے ایک شخص نے خواجہ صاحب سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ مرید ہو جاؤں.کہ لا الہ الا اللہ چشتی رسول اللہ کہو.اس نے ایسا ہی کہا.خواجہ صاحب نے اسے مرید ۱۵ کر لیا.شام اس سے آپ کے مقام روحانیت کا اندازہ ہوتا ہے.اس میں آپ نے بروز کا مسئلہ حل کر دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ کو پانا چاہتے ہو تو پوری طرح میری متابعت کرو.آج احمد یوں رسول

Page 172

131 کے خلاف زبان طعن دراز کرنے والوں کو یہ حوالہ غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے جو احمد یوں پر نئے کلمے کا بہتان لگاتے ہیں اور یہ کہ احمدی جب کلمہ پڑھتے ہیں تو محمد سے مراد ان کی مرزا غلام احمد قادیانی ہے.جو سراسر بے بنیاد الزام ہے مگر اس حوالہ کے متعلق ان کا کیا خیال ہے جہاں واضح چشتی رسول اللہ لکھا ہوا ہے.اس قسم کی مثالیں اور بزرگوں کی بھی ہیں لیکن یہاں ان کا موقع نہیں.الغرض یہی وہ غریب اور فقیر انسان ہے جو آج ”سلطان الہند کے نام سے مشہور اور جس کی آرامگاہ لاکھوں عقیدت مندوں کا مرجع بنی ہوئی ہے.آپ نے اپنی عمر کے پورے چوالیس سال ہندوستان میں پھر کر تبلیغ اسلام میں بسر کیے.ان کا اوڑھنا اور بچھونا تبلیغ تھا.سوتے جاگتے ، اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے سوائے تبلیغ کے کچھ اور کام نہ تھا.در حقیقت آپ اور آپ جیسے دوسرے باخدا لوگوں ہی کی انتھک کوششوں کا نتیجہ ہے کہ ہندوستان میں مشرق سے لے کر مغرب تک اور شمال سے لے کر جنوب تک مسلمان پھیلے ہوئے ہیں.بلاشبہ ہندوستان میں مسلمانوں کی جڑیں حضرت معین الدین چشتی نے خوب مضبوط کیں.قیامت تک ہندوستان میں جو بھی مسلمان ہو گا اس کا ثواب خدا کے اس اولوالعزم جرنیل کے نامہ اعمال میں ضرور لکھا جائے گا.سلطان الہند معین الدین اجمیری کا یہ حملہ ہندوستان کے ان ہزار ہا مسلح نو جوانوں اور بیسیوں زبر دست بادشاہوں کے حملوں سے بہت زیادہ کامیاب اور بہت زیادہ عظیم الشان تھا.جنہوں نے بڑی بڑی فوجوں اور ساز وسامان کی موجودگی میں ہند وستان پر حملے کیے.

Page 173

132 حوالہ جات سوانح عمری معین الدین چشتی از عبدالرحمن شوق - صفحه 12 // " را مؤلفہ الیاس رضوی.صفحہ 42 تو کتاب البریہ صفحہ 71 - روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 92 تحفۃ الملوک صفحہ 59-58،ایڈیشن اوّل سوانح عمری.عبدالرحمن شوق.صفحہ 12 سیارہ ڈائجسٹ اولیاء اللہ نمبر 57 سوانح عمری خواجہ معین الدین چشتی.صفحہ 19 // // ا مؤلفہ عبدالرحمن شوق - صفحہ 66 سوانح عمری الیاس رضوی.صفحہ 40 ت ايضاً صفحه 26 سوانح عمری.مؤلفہ عبد الرحمن شوق.صفحہ 64 سیارہ ڈائجسٹ اولیاء اللہ نمبر.صفحہ 61 دعوت اسلام از آرنلڈ.صفحہ 278 ریویو آف ریلیجنز صفحه 51 فروری 1947ء اء حسنات العارفین - صفحہ 34

Page 174

133 ساتویں صدی کے ایک اور مجدد حضرت امام ابن تیمیہ رَحْمَةُ الله عَلَيْهِ سا ۵۶۶ - ۵۷۲۸ سراج الدین البراز کہتے ہیں: - ”خدا کی قسم ! میں نے آپ سے بڑھ کر رسول کریم کی تعظیم کرنے والا.رسول اللہ کی پیروی کرنے والا اور آپ کے دین کی نصرت کی حرص رکھنے والا کوئی فرد نہیں دیکھا“.اے

Page 175

134 ولادت نام ونسب مختصر حالاتِ زندگی تقی الدین ابوالعباس احمد بن شہاب الدین عبدالحلیم بن مجد الدین عبد السلام ابن عبد الله بن محمد بن الخضر ابن علی بن عبد الله بن تیمیہ الحرانی الحنبلی بروز دوشنبہ بتاریخ 10 / ربیع الاول 661ھ میں دمشق کے قریب موضع حران میں پیدا ہوئے.آپ کا خاندان کئی پشتوں سے علم وفضل میں مشغول تھا.ذہبی لکھتے ہیں کہ ابن تیمیہ نے قرآن ، فقہ، مناظرہ و استدلال میں سن بلوغ سے پہلے مہارت حاصل کر لی تھی اور علمائے کبار میں شامل ہونے لگے تھے.17 برس کی عمر میں افتاء وتصنیف کا سلسلہ شروع کر دیا تھا.آپ بڑے متقی ، عابد، صائم ، ذاکر ، حدود اللہ کے پابند اور سادہ لباس تھے.مشق میں وہ اپنے باپ اور زین الدین محمد بن عبد الدائم المقدس ، نجم الدین عساکر، زینب بنت مکی کے درس میں شامل ہوکر زیور تعلیم سے آراستہ ہوتے رہے.81ھ میں اپنے باپ کی جگہ پر جنبلی فقہ کے استاد مقرر ہوئے.ہر جمعہ کو آپ تفسیر القرآن کا درس دیا کرتے تھے.آپ کو پہلی مرتبہ تمہیں برس کی عمر میں قاضی القضاۃ کا عہدہ پیش کیا گیا مگر آپ نے قبول نہ کیا.9ھ میں آپ نے حج کیا.698ھ میں آپ نے صفات باری تعالیٰ کے متعلق سوالات کا ایسا جواب دیا جس سے شافعی علماء ناراض ہو گئے اور رائے عامہ آپ کے خلاف ہوگئی.آپ کو مدرس کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا اور قاہرہ جا کر جہاد کی تلقین کا کام سونپا گیا.705ھ میں آپ قاہرہ آئے.اگلے روز قاضیوں کی مجلس میں دربار میں بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا.یہاں آپ کی پانچ مجالس ہوئیں اور بالآخر آپ کو اپنے دو بھائیوں کے ہمراہ پہاڑی قلعے کے قید خانے میں ڈال دیا گیا جہاں آپ ڈیڑھ سال تک قید رہے.707ھ میں انہوں نے فرقہ اتحادیہ کے خلاف کتاب لکھی.جب مخالفین کی طرف سے جواب طلبی ہوئی تو آپ نے سب کو مسکت جواب دیئے.لہذا آپ کو رہا کر کے دمشق بھیجا گیا.لیکن ابھی پہلی نزل پر تھے کہ دوبارہ بلا کر قاضی کے قید خانے میں ڈیڑھ سال کیلئے بند کر دیا گیا.آپ نے راہ حق میں آنے والی تکالیف کو برداشت کیا اور قید خانے میں بھی قیدیوں کو اصول اسلام سکھاتے رہے.آزادی کے چند دن بعد اسکندریہ کے قلعے میں دوبارہ آٹھ ماہ کیلئے قید کر دیا گیا.اس کے بعد قاہرہ آئے اور

Page 176

135 سلطان الناصر نے انہیں مدرس کے طور پر بحال کر دیا.رجب 720ھ میں طلاق بالیمین کے مسئلہ میں حکومتی مسلک کے خلاف عقیدہ پر دمشق کے قلعے میں پابند سلاسل کیا گیا اور پانچ ماہ اٹھارہ دن بعد رہائی ملی.710ھ میں بھی آپ کو انبیاء و اولیاء کے مزارات پر جانے کے متعلق فتوی دینے پر دمشق کے قلعے میں قید کر دیا گیا.لیکن چونکہ آپ ایک مجدد تھے اس لیے در پس دیوار زنداں بھی آپ قرآن کی تفسیر کرنے ، اپنے مخالفین کے باطل عقائد کے رد میں کتب لکھنے اور اسی طرح اختلافی مسائل کے بارہ میں مستقل کتب لکھنے میں مشغول رہے.جب دشمنوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے کاغذ، قلم اور روشنائی چھین لی.اس واقعہ سے انہیں زبردست دھچکا لگا اور قید خانہ میں صرف نماز اور تلات قرآن میں مشغول رہنے لگے.وفات و نماز جنازه اسی حالت میں مزید بیس روز زندہ رہے اور 20 ذیقعدہ 728ھ کو انتقال کر گئے.ائمۃ الحدیث شیخ یوسف المزی وغیرہ نے غسل دیا اور مقابل صوفیہ میں دفن ہوئے.آپ کے جنازے میں دولاکھ مرد اور پندرہ ہزار عورتیں شریک ہوئیں.چار مختلف مقامات پر آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی.بزاز کہتے ہیں کہ کوئی شہر ایسا نہیں جہاں ابن تیمیہ کی وفات کی خبر پہنچی ہو اور جنازہ غائب ادا نہ کیا گیا ہو.ہے اسی طرح ابن رجب کہتے ہیں :- ( ترجمہ ) ان کی نماز جنازہ غائب اکثر اسلامی ملکوں میں ادا کی گئی.خواہ قریبی ہوں یا بعیدی یہاں تک کہ یمن اور چین میں بھی ادا کی گئی.اور مسافروں نے ہمیں بتایا کہ چین کے نواح میں بھی بروز جمعہ ان کی نماز جنازہ کا اعلان ترجمان القرآن کی نماز جنازہ کہہ کر کیا گیا.سے مناقب علامہ کمال الدین زملکانی نے کہا هو حجة الله القاهرة هو بيننا اعجوبة الدهر.ابو حیان نے لکھا ” آپ علم کا وہ سمندر ہیں جس کی لہریں موتی اچھالتی رہتی ہیں.ہے ابن بطوطہ بیان کرتے ہیں :-

Page 177

136 ابن تیمیہ شام کے بلند مرتبہ فرد تھے.آپ علوم وفنون میں گفتگو کیا کرتے تھے اور اہل دمشق آپ کی بہت تعظیم کرتے تھے.ہے اس دور کی حالت زار اس وقت عربی خلافت پارہ پارہ ہو چکی تھی.تاتاریوں کے مظالم سے زمین کا نپتی تھی.انسانی فریادوں سے گنبد خضراء گونج رہا تھا.مسلمانوں کے فرقے رسول کریم ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق ستر سے زائد ہو چکے تھے.تکفیر وتفسیق کا وہ غلغلہ تھا کہ شیطان بھی پناہ مانگے.پیر پرستی، قبر پرستی ،علماء پرستی، امام پرستی غرض خدا کے سوا ہر شے کی پرستش ہورہی تھی.قرآن کو مہجور کی طرح چھوڑ کر موضوع احادیث اور اقوال صوفیاء کو بنائے دین بنایا جارہا تھا.بدعات کا نام ایمان تھا.کورانہ تقلید نے امت کو خوض و تفکر سے بیگانہ کر دیا تھا.علمی عملی تنزل اور تنگ ظرفی پیدا ہو چکی تھی.اہل کتاب اور عجمی اقوام کے اختلاط سے اسلام میں اوہام واباطیل داخل ہو چکے تھے.عین اس وقت جب اسلام کو ایک مجدد اور ایک مجاہد کی شدید ضرورت تھی.عین اس وقت علم و ہدی کا روشن ستارہ آسمان دمشق پر نمودار ہوا جس کی ضیاء پاشیوں سے مشرق و مغرب جگمگا اُٹھے.یہ شاعرانہ اطراء نہیں بلکہ امر واقعہ ہے.آپ کی کتب ایک طرف مصر، ہند، حجاز اور ایران کی لائبریریوں کی زینت ہیں تو دوسری طرف برلن لنڈن، فرانس اور روم کے دارالکتب بھی ان سے آراستہ ہیں.حضرت امام ابن تیمیہ نے موجود الوقت مشرکانہ رسومات کا حال یوں بیان کیا ہے:.ان میں سے بعض یوں دعا کرتے ہیں کہ اے پیر میری مغفرت فرما دیجئے.مجھ پر رحم کھائیے.بعض پیر کی قبر کو سامنے اور کعبہ کو پیٹھ کر کے نماز پڑھتے ہیں اور کہتے ہیں قبر تو خواص کا قبلہ ہے اور کعبہ عوام کا.خدا کا مذاق اُڑایا جاتا ہے.وہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ائمہ وشیوخ کی زیارت حج بیت اللہ سے افضل ہے.بعض نماز سے افضل شیخ کی دعا کو قرار دیتے ہیں.شیعوں کے ایک فرقے کا گانا یوں ہے تعالو نخرب الجامع ونكسر المنبر ونخرق المصحف و ننتف لحية القاضي ونجعل فيه خماره و نـجـعـل مـنــه طنباره ونجعل منه زمارة و نـجـعـل مـنـه اوتاره

Page 178

137 آؤ ہم لوگ مسجد کو ویران کر دیں اور اس میں شراب کی دکان قائم کر دیں.اور منبر کو توڑ کر اس سے ساز و مزامیر بنالیں اور قرآن کو پھاڑ کر اس کی بانسری بنا ئیں اور قاضی کی داڑھی کو اکھاڑ کر اس کے تانت بنا ئیں.پیروں کے نام کے چڑھاوے چڑھاتے ہیں، قسمیں کھاتے ہیں.بعض شیخ کوالہ کا درجہ دیتے ہیں.قبروں کا باقاعدہ حج کرتے ہیں اور ان کے احکام کے متعلق تصانیف لکھی ہیں جن کا نام ” مناسک حج المشاہدہ ہے.مسجدیں ویران ہیں اور مشاہد پر رونق ہیں اور وہ سونے چاندی سے مرصع ہیں.یہ وہ اسلام تھا جس پر ساتویں آٹھویں صدی میں عملدرآمد ہورہا تھا اور امام ابن تیمیہ خدا سے تائید پا کر اٹھے اور اس کے خلاف علم جہاد بلند کیا.تجدیدی کارنامے جو حالات بیان کیے گئے ہیں ایسے حالات میں یوں تو کئی دلوں میں اسلام کیلئے ہمدردی کا جذبہ بیدار ہوا ہوگا لیکن امام ابن تیمیہ کی روح جس طرح بیقرار ہوئی اس کی مثال کم ہی ملے گی.والدین سے جدائی اور اسیری کی صعوبتیں برداشت کیں.معاندین کی لعن طعن بھی سنی لیکن اپنے فرائض میں کوتاہی نہ کی اور یہی ایک مجددکو زیبا ہے.چنانچہ آپ میں جذ بہ تجدید کس حد تک تھا اس کا اندازہ آپ کے اس اقتباس سے ہوتا ہے جو اس خط سے لیا گیا ہے جو آپ نے اپنی والدہ کولکھا.آپ لکھتے ہیں :- ( ترجمہ ) ان علاقوں میں ہمارا آج کل قیام ضروری امور کیلئے ہے.جب بھی ہم ان میں غفلت کریں گے تو ہمارا دین و دنیا کا معاملہ خراب ہو جائے گا.خدا کی قسم ہم نے آپ سے دوری کو جان بوجھ کر اختیار نہیں کیا اور اگر پرندے ہمیں اٹھا کر لے جائیں تو ضرور ہم آپ تک جا پہنچیں.2 آپ کی تجدید دین چار حصوں پر مشتمل ہے.۱.عقیدہ توحید کی تجدید اور مشرکانہ رسومات کا ابطال.-۲.فلسفہ، منطق اور کلام پر تنقید.کتاب وسنت کی افضلیت کا بیان..غیر اسلامی فرق اور ملل کے عقائد سے اسلامی عقائد کا موازنہ.- علوم شریعت کی تجدید اور فکر اسلامی کا احیاء.

Page 179

138 رسومات اور بدعقائد کے خلاف جہاد اس دور میں مسئلہ وحدت الوجود انتہائی صورت اختیار کر گیا تھا.اس کا تذکرہ خود ابن تیمیہ یوں فرماتے ہیں:.ایک آدمی نے ” تلمسانی“ سے کہا کہ ” فصوص الحکم تو قرآن کے خلاف ہے.اس نے جواب دیا قرآن تو سارا شرک سے بھرا ہوا ہے.وہ رب وعبد کے درمیان فرق کرتا ہے.تو حید تو ہمارے کلام میں ہے.2 گمراہی کی انتہاء اس حد تک تھی کہ تلمسانی کے کسی رفیق نے خارش زدہ کتے کے پاس سے گزرتے ہوئے تلمسانی سے پوچھا کیا یہ بھی ذات خداوندی ہے.اس نے جواب دیا ہاں سب اس کی ذات کے اندر ہے.ایک مرتبہ اس سے کسی نے پوچھا کہ جب وجود ایک ہے تو بیوی حلال اور ماں حرام کیوں ہے.اس نے کہا کہ ہمارے نزدیک سب ایک (طرح ہی) ہے.نا چنانچہ آپ نے اس کے رڈ میں رسالے تحریر کیسے اور ان میں دلائل قاطعہ سے ذات حق اور صفات حق کا فرق واضح کر دیا.اس طرح اس فتنے کا قلع قمع کر دیا.مردہ پرستی کے خلاف دوسرا بڑا مرض مردہ پرستی اور پیر پرستی کا تھا.آپ نے اس کے رد میں فرمایا: - " آپ ﷺ نے اپنی امت کو کسی مردے، پیغمبر یا صالح آدمی سے دعا کرانے کی اجازت نہیں دی، نہ استغاثہ کے طور پر نہ استعاذہ کے طور پر.اسی طرح آپ کی امت کیلئے کسی مردہ یا زندہ کو سجدہ کرنا جائز نہیں.لا اسی طرح مزید فرمایا :- ملائکہ یا انبیاء سے دعا کرنا (ان کے انتقال کے بعد یا ان کی غیر موجودگی میں ) ان سے مانگنا، ان کی دہائی دینا اور ان سے یا ان کے مجسموں سے سفارش چاہنا ایک نیا دین ہے.جس کو اللہ تعالیٰ نے مشروع نہیں کیا اور نہ کسی نبی کو اس کے ساتھ مبعوث فرمایا اور نہ کوئی آسمانی کتاب اس کی تائید میں نازل فرمائی.۱۳ الله

Page 180

139 قبر پرستی کے خلاف اسی طرح آپ قبر پرستی اور قبور پر مساجد بنانے کو بھی غلط خیال کرتے تھے.آپ نے سختی سے منع فرمایا اور واضح کیا کہ یہ خیر القرون کے بعد کی پیداوار ہے اور حضور ﷺ نے تو وفات سے چندر روز قبل فرمایا تھا ان كان من قبلكم كانوا يتخذون القبور مساجدًا الا فلا تتخذو القبور مساجدًا فانى انهاكم عن ذالک.صحابہ کا طرز عمل یہ تھا کہ جب مسلمانوں نے ارض مقدسہ وغیرہ کے علاقے کو فتح کیا تو دانیال نبی کی قبر پر لوگ بارش مانگنے جاتے تھے.حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ دن کو تیرہ قبریں کھود کر رات کو ان میں سے کسی ایک میں انہیں دفن کر دو تا کہ لوگ فتنہ سے بچیں.سے اسی طرح آپ نے اولیاء کے مزارات کی زیارت کی شدید مذمت کی ہے کیونکہ اس وقت زیارت میں شرک داخل ہو چکا تھا اور جب کسی بری شے کا خاتمہ کرنا ہو تو بہت سختی کی ضرورت ہوتی ہے.وہ کہا کرتے تھے کیا آنحضرت ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ صرف تین مسجدوں کا سفر اختیار کرو.مسجد الحرام، بیت المقدس اور میری مسجد (مسجد نبوی ) کا کوئی شخص اگر محض نبی کریم ﷺ کے روضہ کیلئے سفر کرے تو یہ بھی نا جائز ہوگا.شراب نوشی کے خلاف جہاد تا تاری افواج جب دمشق سے روانہ ہو گئیں اور مسلمان افواج کی آمد آمد ہوئی تو حافظ ابن تیمیہ جیسے مصلحین نے قوم کی خرابیوں کی اصلاح کی طرف توجہ دینا شروع کی.دمشق میں کوئی ذمہ دار افسر نہ تھا.حافظ صاحب نے یہ کام اپنے ہاتھ میں لیا، اپنے تلامذہ کے ساتھ سارے شہر کا دورہ کیا.جہاں شراب خانہ نظر آیا اس کے مشکے اور جام و سبوح توڑ ڈالے اور شراب انڈیل دی.میخانوں کے مالکوں، اوباشوں، رندوں اور افعال شنیعہ کے مرتکب افراد کی تعذیر کی اور شہر میں عام طور پر اس کارروائی پر اظہار مسرت کیا گیا.۵.بدعات و منکرات کا ازالہ دمشق کے گردونواح میں نہر فلوط کے کنارے پر ایک چٹان تھی جس کے متعلق مختلف روایات

Page 181

140 مشہور تھیں.جاہل و تو ہم پرست مسلمان وہاں جا کر منتیں مانگتے تھے.704ھ میں ابن تیمیہ وہاں تھے.ایک دن آپ مزدوروں اور سنگ تراشوں کے ساتھ خود وہاں گئے اور چٹان کو کاٹ کر رکھ دیا.اس طرح شرک کا ایک دروازہ بند کر دیا.جیل خانے میں اصلاحی قدم آپ کو زندگی کے کئی سال قید خانے میں گزارنے پڑے.آپ نے عسر و یسر میں فریضہ تجدید و تبلیغ سر انجام دیا اور حضرت مصلح موعودؓ کے اس شعر کے مصداق ہوئے عر ہو یسر ہو تنگی ہو کہ آسائش ہو کچھ بھی ہو بند مگر دعوتِ اسلام نہ ہو شیخ علم الدین البرزالی لکھتے ہیں:- شیخ جب مجلس میں پہنچے تو دیکھا قیدی لہو ولعب اور تفریحات میں مشغول ہیں اور اسی طرح اپنا دل بہلاتے ہیں اور وقت کاٹتے ہیں.شطرنج اور چوسر وغیرہ کا زور ہے.نمازیں بے تکلف قضا ہوتی ہیں.شیخ نے قیدیوں کو نماز کی پابندی اور اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ دلائی، اعمال صالحہ تسبیح و استغفار اور دعا کی طرف متوجہ کیا اور سنت کی تعلیم اور اعمال خیر کی ترغیب شروع کی.یہاں تک کہ جیل خانہ بہت سی خانقاہوں اور مدارس سے زیادہ بارونق اور بابرکت نظر آنے لگا.لوگوں کو ان کی ذات سے ایسا تعلق اور جیل کی اس دینی و علمی زندگی سے ایسے دلچسپی ہوگئی کہ بہت سے قیدی رہائی پانے کے بعد بھی ان کو چھوڑنے کیلئے تیار نہیں تھے اور انہیں کی خدمت میں رہنا پسند کرتے تھے.کلے رد فلسفه فلسفہ، منطق اور کلام اس وقت قرآن وسنت میں متصادم تھے لہذا آپ نے ان کارڈ کیا اور ان کے مقابل پر قرآن وسنت کی ترویج و اشاعت میں حصہ لیا.آپ کا اصول استدلال یہ تھا کہ پہلے قرآن سے استدلال کرتے اور زیر نظر مضمون پر تمام آیات یکجا کرتے.پھر سنت و حدیث سے استنباط کرتے اور درایت وروایت کے لحاظ سے پر کھتے.پھر صحابہ کے طریق اور فقہائے اربعہ اور مشہور آئمہ کے اقوال زیر بحث لاتے.

Page 182

141 فلسفہ کے رڈ کیلئے آپ سے پہلے ابوبکر باقلانی اور امام غزالی جیسی ہستیاں ہو کر گزری تھیں.آپ نے بھی اس فلسفے کو ر ڈ کیا جو الہیات کے متعلق ہے.فرماتے ہیں:.(ترجمہ) فلسفہ سے اشتغال کرنے والے فنِ طبیعات میں غور وفکر اور تفصیل سے کام لیتے ہیں اور ان کا امتیاز نظر آتا ہے لیکن الہیات میں وہ جاہل محض اور حق سے بالکل نا آشنا معلوم ہوتے ہیں.اس سلسلہ میں ارسطو سے جو منقول ہے وہ بہت تھوڑا ہے اور غلطیاں اس میں بہت زیادہ ہیں.۱۸ لوگ ارسطو کی اندھی تقلید کر رہے تھے.آپ نے فرمایا: - "ارسطو کو کبھی اس سرزمین کی طرف سفر کرنے کا اتفاق نہیں ہوا جو انبیاء کی بعثت سے مشرف ہوئی نہ اس کے پاس انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کا کوئی حصہ تھا.اس کے پاس ستارہ پرستی کے مذہب کا کچھ حصہ تھا اور اس نے ان قیاسی تعلیمات کی بنیاد ڈالی اور وہ ایک ایسا قانون بن گیا جس پر اس کے پیرو آنکھ بند کر کے چلتے ہیں.19 اسی طرح منطق اور انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات میں موازنہ کرتے ہوئے فرمایا : - اتنی بات مسلّم ہے کہ لکڑی اور سیسہ اور پتھر کو تولنے کیلئے جو تر از و بنائے گئے ہیں ان پر سونے چاندی کو نہیں تولا جاسکتا.ثبوت کا معاملہ اور انبیاء علیہم السلام جن حقائق کو لے کر آئے ہیں وہ علوم میں اس سے کہیں زیادہ نازک اور رفیع ہیں جتنا کہ سونا مالیات میں.تمہاری منطق اس کیلئے کوئی میزان نہیں بن سکتی.اس فلسفہ اور منطق کے مقابل پر قرآن کی فضیلت یوں بیان کرتے ہیں :- اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اتنے عقلی دلائل بیان فرمائے ہیں جن کی اس علم میں ضرورت ہے اور یہ فلاسفہ اور متکلمین ان کا پورا اندازہ بھی نہیں کر سکتے.یہ جن دلائل و نتائج کو پیش کرتے ہیں قرآن مجید نے ان کا خلاصہ بہترین طریقہ پر پیش کر دیا ہے.۲۱ علوم شریعہ کا احیاء لوگ قرآن وسنت وغیرہ اسلامی اصول سے برگشتہ ہورہے تھے اور یونانی فلسفے کی طرف بھاگے جارہے تھے.چنانچہ ایک مجدد کا فرض تھا کہ ان کو واپس انہی علوم کی طرف لائے.ابن تیمیہ نے یہ کام سرانجام دیا.

Page 183

142 علم تفسیر علم تفسیر سے آپ کو خاص شغف تھا.ان کے شاگرد کہتے ہیں کہ ان کی تفسیر میں جلدوں میں ہے جو آجکل نایاب ہے.ان میں سے چند پاروں کی تفسیر مثلاً سورۃ اخلاص، معوذتین، نور وغیرہ تو مصر سے چھپی ہیں.آپ نے اصول تفسیر پر پہلا مستقل رسالہ لکھا جس کا نام الصلوۃ علی ترجمان القرآن ہے.سنت و حدیث کی ترویج آپ سنت رسول کی خاص پیروی کیا کرتے تھے اور لوگوں کو بھی اس کی تلقین کرتے.آپ کے سنت پر عمل پیرا ہونے کی گواہی حافظ سراج الدین البراز قسم کھا کر یوں دیتے ہیں :- (ترجمہ) خدا کی قسم میں نے آپ سے بڑھ کر رسو کر یم ﷺ کی تعظیم کرنے والا کوئی شخص نہ دیکھا.نہ آپ سے زیادہ حضور ﷺ کی پیروی کرنے پر حریص شخص دیکھا ہے اور نہ آپ سے زیادہ دین محمد کی نصرت کرنے والا کوئی شخص دیکھا ہے.۲۲ علم حدیث کے بارہ میں اگر چہ آپ کی الگ تصنیف تو نہیں ہے تاہم جابجا ان کی دیگر تصانیف میں اصول حدیث، اسماء الرجال، جرح و تعدیل، نقد حدیث وفقہ حدیث کا بیش بہا مواد ہے.اپنی کتاب منہاج النبوۃ میں مشہور احادیث پر جو کلام انہوں نے کیا ہے وہ نادر ذخیرہ ہے.علم فقہ اور امام صاحب آپ نے اس فن کو تقلید سے رہائی دلائی اور اجتہاد سے کام لیا.فقہ اور حدیث میں تطبیق کی کوشش کی اور نئے پیدا شدہ مسائل پر اجتہادی فتوے دیئے.یہ ذخیرہ فتاوی ابن تیمیہ کی چار ضخیم جلدوں میں محفوظ ہے.سعودی حکومت کی طرف سے جو مجموعہ فتاوی ابن تیمیہ کے نام سے شائع ہوا ہے وہ تمیں جلدوں پر مشتمل ہے.اس کی حیثیت ایک کتب خانہ اور دائرۃ المعارف کی سی ہے.دیگر فقہاء سے اختلاف چونکہ آپ مجدد زمانہ تھے اس لیے آپ کسی ایک مسلک کے قائل نہ تھے.آپ نے کئی مسئلوں

Page 184

143 میں فقہاء سے اختلاف کیا.ا.آپ حلالہ کے قائل نہ تھے.۲.ایام حیض کی طلاق آپ کے نزدیک باطل تھی.۳.آپ کے نزدیک اگر کوئی شخص ایسے لگان ادا کرے جو احکام الہی سے فرض نہیں ہیں تو بھی اس کی زکوۃ ختم ہو جائے گی.۴.اجماع کے خلاف رائے رکھنا کفر ہے نہ معصیت..صفات باری تعالیٰ سے متعلقہ آیات کی لفظی تفسیر کیا کرتے تھے.ایک مرتبہ کہنے لگے خدا آسمان سے زمین پر اس طرح اترتا ہے جس طرح میں اب اتر رہا ہوں“.اور منبر پر سے ایک سیڑھی نیچے اتر آئے..آپ کے متعلق اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپ نے حضرت علی کی شان میں گستاخی کی اور کہا کہ حضرت علی نے تین سو غلطیاں کی ہیں.دراصل بات یہ ہے کہ جبل کسروان کے ایک غالی شیعہ نے عصمت علی پر آپ سے بحث کی اور آپ نے تاریخی لحاظ سے یہ ثابت کیا کہ حضرت علی سے غلطیاں ہوئیں.دراصل آپ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ معصوم عن الخطاء صرف انبیاء ہوتے ہیں.ویسے آپ صحابہ کا بہت زیادہ ادب و احترام کرتے تھے.چنانچہ اپنی کتاب العقیدہ والحمد یہ میں فرماتے ہیں وہ لوگ ظن و شک کی ظلمتوں سے نکل کر ایقان و ایمان کی روشن دنیاؤں میں پہنچے ہوئے تھے.ان کی راہ میں شبہات کے کانٹے نہ تھے تخمین وطن کی جھاڑیاں نہ تھیں ،منطق و فلسفہ کی الجھنیں نہ تھیں.۲۳ انہوں نے کتاب اللہ کو ہاتھ میں لے کر مشرق و مغرب میں بہترین عملی نمونہ ظاہر کیا.ان سے 66 کتاب الہی بولتی تھی اور ان کا علم بنی اسرائیل کے انبیاء سے کم نہ تھا.ان کی وسعتِ نگاہ، پرواز فکر اور محیر العقول قوت ادراک کو ناپنے کیلئے کوئی مقیاس موجود نہ تھی.سے علم اصول فقہ یہ آپ کا پسندیدہ اور ذوقی موضوع تھا.اس میں آپ مجتہدانہ شان رکھتے تھے.ان کی کوئی تصنیف اصولی مباحث سے خالی نہیں.اقتضاء الصراط المستقیم اور ان کے فتاویٰ میں اس علم کا وافر

Page 185

144 حصہ ہے اور بعض مستقل رسالے بھی ہیں جیسے رسالۃ القیاس ، منہاج الوصول على علم الاصول وغیرہ.علم کلام ابن تیمیہ کی نصف تحریر علم کلام پر بنی ہے.آپ بگڑے ہوئے اشاعرہ کے متعلق کہا کرتے تھے کہ ان کے متکلمی عقائد محض جہمیہ، نجاریہ اور ضرار یہ وغیرہ کی آراء کا مجموعہ ہیں.کلام کے متعلق آپ کی کتب میں شرح اصبہانیہ، رسالہ حمدیہ، تذمریہ، واسطیہ ، کیلانیہ، بغداد یہ، از ہر یہ زیادہ مشہور ہیں.آپ کے خیالات واستدلال حمیت دینی اور آپ کی ذہانت کے مظہر ہیں.اس طرح آپ نے فکر اسلامی کا احیاء کیا اور یہ آپ کا بہت بڑا تجدیدی کارنامہ ہے.آپ نے ہر مسئلے کو قرآن وسنت کی روشنی میں سمجھنے کا اصول اپنایا اور بتایا کہ اسلام کی بنیاد قرآن اور نبوت محمدی پر ہے.اس طرح فکر اسلامی پر جو جمود و اضمحلال طاری ہونے لگا تھا.آپ نے اس کو دور کر دیا.نئی عملی را ہیں ، نئے فکری زاویے تلاش کیے.ایسا لٹریچر چھوڑا جسے پڑھ کر فکر میں جولانی اور تحریک و نشاط پیدا ہوتا ہے.اس کے اثر سے بعد کے ہر دور میں اچھے مصنف اور مصلح پیدا ہوتے رہے.آپ علوم و افکار اسلامیہ کے مجدد کبیر تھے.بارھویں صدی میں عالم اسلام کے مختلف گوشوں سے جو اسلامی تحریکیں اُبھری ہیں ان کے ماخذوں میں سے بڑا ماخذ اور محرک امام ابن تیمیہ کی تصانیف ہیں.تصانیف گمگشتگان آپ نے صدہا کتب لکھ کر شریعت غرا کے مدہم اور کھردرے نقوش کو صیقل کیا گے وادی ضلال کو پکار پکار کر صراط مستقیم کی طرف بلایا اور علم کے میدان میں تلوار سونت کر چو کبھی لڑائی لڑی.شجاعت وجلاوت کے جوہر دکھائے.بسا اوقات ان کی شعلہ ریز تقاریر سے اور علمی تحریروں سے مسلمانوں میں زندگی کی ایسی لہر دوڑ گئی کہ تا تاری درندوں کے چھکے چھوٹ گئے.آپ کی پر جوش تصانیف کے نتیجے میں محمد بن عبد الوہاب نجدی کی تحریک ابھری.آپ نے قریباً پانچ صد تصانیف تحریر کی ہیں.نواب صدیق حسن خان اور غلام جیلانی برق نے آپ کی چار سواسی کتب کے نام لکھے ہیں.ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں.

Page 186

145 ا.تلخيص كتاب الاستغاثه المعروف بالرد على البكرى ۲.کتاب الردّ على الاخنائی و استحباب زيارة البرية والزيارة الشرعية ۳.رسالۃ الفرقان ۴.معارج الوصول ۵.التبیان العقیدہ الحموية الكبرى - رساله العقود الوصیۃ الکبری - المحرمة ۹- الرد على الفلاسفة 2 جذبہ جہاد آپ نے اپنی درد بھری، پر جوش تقاریر کے ذریعے مسلمانوں میں جذبہ بیداری پیدا کیا.اس وقت تا تاری درندے مسلمانوں کیلئے بلائے عظمیٰ بنے ہوئے تھے.آپ کی تقاریر سے مسلمانوں میں جذ بہ جہاد عود کر آتا اور وہ شیر بن کر میدان میں اترتے.جب یہ بات پھیلی کہ تاتاریوں کے ساتھ جنگ کرنا جائز ہے یا نہیں تو آپ نے فتویٰ دیا کہ یہ خوارج کے حکم میں ہیں اس لیے جنگ جائز ہے.آپ نے مسلمانوں میں یقین پیدا کرنے کیلئے کہ فتح انہیں کی ہوگی فرمایا کہ صرف انشاء اللہ نہ کہا کرو بلکہ انشاء اللہ تحقیقاً لا تعلیقاً کہا کرو.جب آپ کی تقاریر سے متاثر ہوکر مسلمانوں کے لشکر بننے لگے اور با قاعدہ خروج کیلئے تیار ہو گئے ، آپ خود بحیثیت مجاہدان میں شامل تھے.آپ نے فتویٰ دیا کہ مجاہدین روزہ کھول دیں.ہر علم کے پاس جاتے اور کھانے کی چیزیں انہیں دکھا کر کھاتے اور ساتھ یہ حدیث سناتے انکم ملاقوا العدو والفطرا قوى لكم.چنانچہ مسلمانوں کا لشکر جنگ کیلئے روانہ ہوا اور خدا کے فضل سے مسلمانوں کے لشکر کو فتح نصیب ہوئی.اسی طرح آپ نے جہاد پر آمادہ کرنے کیلئے سلطان الناصر “ کو کئی خطوط بھی تحریر کیے.۲۲ ذہن میں ابھرنے والے ایک اہم سوال کہ ข امام ابن تیمیہ نے تاتاریوں کے خلاف تلوار کیوں اٹھائی کا جواب حاضر ہے.اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے.اس میں جارحانہ تلوارکشی کی کوئی گنجائش نہیں.اس کتاب میں جملہ مجددین کے حالات و تجدیدی کارنامے بیان ہوئے ہیں.قارئین بخوبی یہ امر نوٹ کر سکتے ہیں

Page 187

146 کہ تمام مجددین نے رشد و اصلاح کیلئے وعظ و تلقین اور اپنے عملی نمونہ کو طریق عمل بنایا.امام ابن تیمیہ کی تقاریر بھی ایسی جانفزا ہوتی تھیں کہ مردہ دلوں میں روح پھونک دیا کرتی تھیں.اور یہی آپ کی پیدا کردہ اصلاح کی روح رواں تھیں.لیکن آپ نے اپنے عین حیات مصر میں تا تاریوں کے خلاف جہاد بالسیف بھی کیا.یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ آخر آپ نے تلوار کیوں اُٹھائی.اس سوال کا حل زیادہ مشکل نہیں.کیونکہ امام ابن تیمیہ نے اپنے ملک کی حفاظت کی خاطر اور جارحانہ حملہ آوروں کے مقابل اپنے دفاع کیلئے مجبورا تلوار اُٹھائی.ساتویں صدی ہجری میں وسط ایشیا کی اسلامی سلطنتوں کی حالت دگرگوں تھیں.شیعہ سنی اختلاف کی وجہ سے ان کی اجتماعی طاقت کھوئی گئی جس سے تاتاریوں نے بھر پور فائدہ اُٹھایا اور ان کی افواج مسلم علاقوں پر قابض ہو گئیں.چنانچہ درج ذیل حوالے میں ان کے حالات کی منظر کشی کی گئی ہے.ساتویں صدی ہجری کا زمانہ وسطی ایشیا کی اسلامی سلطنتوں کیلئے بہت ہی ہولناک زمانہ تھا.اسی زمانے میں قراقرم کی پہاڑیوں سے تاتاریوں کا ایک زبر دست طوفان اٹھا جس کی وجہ سے اسلامی سلطنتوں کی بنیادیں ہل گئیں.بے شمار مسلمان تہ تیغ ہو گئے اور بہت سے آباد شہر ویران ہو گئے.ان تاتاریوں کو سب سے پہلے چنگیز خان نے ایک مرکز پر جمع کیا.اس نے 599ھ سے لے کر 24ھ تک بڑے کروفر اور شان و شوکت کے ساتھ حکومت کی.اس نے خوارزم شاہی جیسی عظیم الشان سلطنت کے پرخچے اڑا دئیے اور تمام لوگوں کے دلوں پر اپنی دھاک بٹھا دی.چنگیز خان کے بعد اس کا لڑکا اوکتائی خان (0624 تا 643ھ ) اور پوتا کیوک خان بن اوکتائی خاں (643ھ تا 647ھ ) تخت نشین ہوا.کیوک خان کے مرنے کے بعد تا تاری امیروں نے منگوخان بن تولی بن چنگیز خان کے ہاتھ پر بیعت کر لی.جس نے اپنے بھائی ہلا کو بن تولی کو ایران کا مستقل حاکم بنا دیا تھا.اس زمانے میں بغداد پر عباسی فرمانروا مستعصم باللہ کی حکومت تھی.بغداد میں سنی شیعہ کشکش زوروں پر تھی.ان دونوں فرقوں کے درمیان آئے دن جھگڑے اور فسادات ہوتے رہتے تھے.جب 655ھ میں مستعصم باللہ نے سنیوں کی حمایت میں بغداد کے محلہ کرخ کو، جہاں زیادہ تر شیعہ آباد تھے لٹوا دیا تو اس کے شیعہ وزیر مویدالدین ابو طالب محمد بن احمد بن علی بن محمد العلقمی نے ہلا ک کو بغداد آنے کی دعوت دی.

Page 188

147 بغداد کی شاندار حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد تا تاری طوفان مصر و شام کے علاقوں کی طرف رح پھرا.چنانچہ محمد یوسف کو کن عمر ایم.اے اپنی کتاب ”امام ابن تیمیہ میں رقمطراز ہیں :- ہلاکو نے بغداد پر اپنا نائب مقرر کیا اور اس کے بعد ملک شام اور ملک مصر کے لینے کی تیاریاں شروع کر دیں.اس زمانے میں دمشق اور حلب پر ایوبی خاندان کے فرمانروا الملک الناصر بن العزیز اور الملک الظفر سلطان سیف الدین قطر کی حکومت تھی.جب ان دونوں نے ہلاکو کی اطاعت قبول نہیں کی تو اس نے تاتاری سپہ سالار کتبغا نویں کی سرکردگی میں ایک زبردست فوج روانہ کی.جس نے صفر 58ھ کے آخر میں بہت ہی آسانی کے ساتھ دمشق پر قبضہ کر لیا اور اس کو خوب لوٹا.تا تاری فوجیں لوٹ مار کرتی اور بے شمار مسلمانوں کو تہ تیغ کرتی ہوئی آگے بڑھتی چلی گئیں اور ملک شام کی جنوبی سرحد تک پہنچ گئیں.یہ وہ حالات تھے جن میں امام ابن تیمیہ نے مصر کے لوگوں کو اپنے ملک کی حفاظت کیلئے تا تاریوں کے طوفان کے آگے بند باندھنے کیلئے تلوار اٹھائی اور لڑائی کرنے کی طرف راغب کیا اور پھر آپ کی کوششوں میں خدا نے برکت ڈالی.آپ کی دعاؤں کو سنا اور مسلمانانِ مصر نے تاتاریوں کو شکست سے دو چار کر دیا تفصیل اس کی یہ ہے کہ :- اس لوٹ مار میں اطراف و اکناف کے شیعہ اور عیسائی بھی تاتاریوں کے ساتھ شریک ہو گئے.پے در پے مسلمانوں کی شکست و ریخت کی اندوہناک خبریں پہنچنے کے باوجود سلطان مصر سیف الدین قطر نے ہمت نہیں ہاری.وہ ایک زبر دست لشکر لے کر مصر سے روانہ ہوا اور ملک شام کی جنوبی سرحد کے مقام عین جالوت پر تاتاریوں سے ملاقات کی.25 ررمضان المبارک 658 ھ کو بڑا ز بر دست معرکہ ہوا.سلطان سیف الدین قطر کے دوش بدوش امیر رکن الدین بیبرس بندقداری اور دوسرے امیروں نے بڑی جانبازی دکھائی.امیر جمال الدین آقوش الشمسی نے آگے بڑھ کر تاتاریوں کے سپہ سالار کتبغا نویں ہی کو قتل کر ڈالا.جس کی وجہ سے تاتاریوں کے پیر میدان جنگ سے اکھڑ گئے اور انہوں نے بہت بری طرح شکست کھائی.(امام ابن تیمیہ از افضل العلماء محمد یوسف کو کن عمری ایم.اے، ناشر اسلامی پبلشنگ کمپنی، لاہور 1960ء) پس خلاصه کلام امام ابن تیمیہ جو مجدد وقت تھے ان کو مجبوراً اپنے وطن کی حفاظت کی خاطر شریک جنگ ہونا پڑا اور خدا نے انہیں فتح سے بھی ہمکنار کیا.

Page 189

148 کو ہستانیوں کو تادیب و تبلیغ 699ھ میں جب تاتاری لشکر دمشق آیا تو کو ہستانیوں نے ان کی مدد کی.مسلمانوں کو شہید کر دیا اور مال و متاع چھین لیا.شام کا مطلع صاف ہونے پر امام ابن تیمیہ نے اپنے رضا کاروں اور مجاہدوں کے ہمراہ اور حوران کے باشندوں کو لیے نائب السلطنت جمال الدین آقوش کی رفاقت میں کو ہستانیوں پر حملہ کیا.حملے کی خبر سن کر قبائلی سردار ابن تیمیہ کے پاس حاضر ہوئے.شیخ نے ان سے توبہ کرائی اور تبلیغ اسلام کی.اس طرح انہوں نے مسلمانوں سے بدعہدی نہ کرنے کا اقرار کیا اور مسلمانوں سے چھینا ہوا مال انہیں واپس کر دیا.۲۷ رو عیسائیت آپ نے مسلمانوں کی اندرونی اصلاح کے ساتھ ساتھ بیرونی دنیا میں بھی اسلام کا پیغام پہنچایا.یوں تو اس دور میں مسیحی علماء و پادری مسلمانوں سے سوال وجواب کرتے ہی رہتے تھے لیکن امام ابن تیمیہ کی زندگی میں قبرص سے عیسائیوں کی ایک نئی شاطرانہ تصنیف پہنچی جس نے کافی سند قبولیت حاصل کی.اس کتاب میں الوہیت مسیح نیز حضور ﷺ کوصرف عرب کا نبی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی.آپ نے اس کے رد میں ایک رسالہ الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح“ اس کا ذکر کرتے ہوئے شیخ محمد ابوزہرہ لکھتے ہیں :- “ لکھا.وان هذا الكتاب أهدأ ما كتبه ابن تيميه في الجدال وهو وحده جدير بان يكتب ابن تيمه في سجل العلماء العاملين والائمة المجاهدين والمفكرين الخالدين“.( ترجمہ ) امام ابن تیمیہ کی مناظرانہ تصنیفات میں سے یہ کتاب سب سے زیادہ عمدہ ہے اور یہ کتاب تنہا ان کو با عمل علماء مجاہد ائمہ اور غیر فانی مفکرین کا مرتبہ دلانے کیلئے کافی ہے.تجدید بذریعہ خطابت آپ فنِ خطابت کے شاہ سوار تھے.آپ اپنی مواعظ اور پر اثر تقاریر سے کا شانہ باطل پر آگ

Page 190

149 برساتے تھے اور آپ کے مواعظ میں جم غفیر شامل ہوا کرتا تھا.طوفی کہتا ہے :- منبر پر مفسرین کی طرح بولتے تھے.فقہ وحدیث میں آپ کو کمال حاصل تھا.ایک وقت میں کتاب وسنت اور فقہ و علوم نظریہ کے وہ دقائق حل کر جاتے کہ بڑے سے بڑا عالم دنوں میں نہ بیان کر سکے.گویا تمام علوم آپ کے سامنے بکھرے پڑے تھے جو چاہتے اٹھا لیتے اور جسے چاہتے چھوڑ دیتے.علامہ اقشہری کہتا ہے ”قلمه و لسانه متقاربانه ۳۰ آپ کی زبان اور قلم تقریباً ایک ہی رفتار سے چلتے تھے.امام برزالی معجم میں فرماتے ہیں:.آپ ہر جمعہ کو لوگوں کے سامنے قرآن حکیم پر مبسوط تقریر کیا کرتے تھے.آپ کی وہ انقلاب انگیز تقاریر دنیا کے کانوں میں اب تک گونج رہی ہیں جو آپ نے تاتاریوں کے خلاف کیں تھیں....700 ھ میں عوام ، امراء مصر کے سامنے وہ خطبے دیئے کہ ان کے بجھے ہوئے دل لذت ایثار سے بھر گئے اور وہ ہر ممکن قربانی کیلئے تیار ہو گئے.اُسی سال آپ نے اہل دمشق کو دشمن کے خلاف اس قدرا کسایا کہ تمام ملک سر بکف ہو کر میدان میں نکل آیا اور دشمن پر اس قدر رعب چھا گیا کہ وہ تاخت و تاراج کے ارادے ترک کر کے واپس چلے گئے.پھر 720ھ میں مقام شخحب پر آپ نے بادشاہ ، حکام فوج اور دل شکستہ لشکر کے سامنے وہ اثر میں ڈوبی ہوئی تقاریر کیں کہ شکست فتح سے، ذلت عزت سے اور ناکامیاں کامرانیوں میں تبدیل ہوگئیں.705ھ میں دو مجالس مناظرہ کا انعقاد ہوا.ایک نائب السلطنت افرم کے ہاں اور دوسری مصر میں قضاۃ کے سامنے.ہر دو میں آپ کی زبان نے وہ جو ہر دکھائے کہ دنیا آپ کی فصاحت کا لوہا مان گئی اور مخالفین کے ہاتھ بغیر ندامت اور ذلت کے اور کچھ نہ آیا.اس طرح 706 ھ اور 707ھ میں دو اور مجالس مناظرہ منعقد ہوئیں جن میں آپ کو زبردست کامیابی نصیب ہوئی.اسے ذہبی کہتے ہیں :- میں نے آپ کے ایام جوانی کی بعض تقاریر سنیں.آپ کے کلام سے مجلس پر ہیبت چھا جاتی تھی اور دلوں پر وجد سا طاری ہو جاتا تھا.۳۲

Page 191

150 تجدید بذریعہ تدریس وافتاء آپ نے 17 برس کی عمر میں افتاء و تصنیف اور 21 برس کی عمر میں سلسلہ تدریس شروع کیا.ابن قدامہ کہتے ہیں کہ آپ کرسی پر بیٹھ کر قرآن حکیم کا درس حافظہ سے دیا کرتے تھے.آواز بلند اور رسیلی تھی اور آپ بہتی ہوئی ندی کی طرح چلتے تھے.ابن کثیر فرماتے ہیں کہ آپ کی تقاریر کو سن کر بڑے بڑے گناہگار تائب ہوئے.ابن تیمیہ خود فرماتے ہیں:- بعض اوقات مجھے ایک ایک آیت کی سوسو تفاسیر سوجھتی تھیں.پھر میں اللہ سے دعا کرتا تھایا معلم ابراهیم فهمنی شیخ صالح تاج الدین محمد معروف بابن الدردی کہتے ہیں :- میں آپ کی مجلس درس میں شامل ہوتا رہا.آپ سیلاب کی طرح چلتے اور دریا کی طرح بہتے.حاضرین آنکھیں بند کر کے سہمے بیٹھے رہتے.آپ رسول اللہ ﷺ کی بہت زیادہ تعظیم کرتے.بعض علماء احادیث میں اقوال ائمہ کے مطابق معنے ڈالتے ہیں لیکن آپ قول پیغمبر پر تمام ائمہ کے اقوال کو قربان کر دیتے.درس کے بعد آپ اپنی آنکھیں کھولتے اور سامعین کے ساتھ نہایت بشاشت سے گفتگو فرماتے.بسا اوقات آپ کے اطوار سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ دورانِ درس میں آپ کہیں غائب تھے اور اختتام پر واپس آئے ہیں.۳۳ آپ کے ایک شاگردا بو حفص آپ کے درس و تدریس کی تعریف میں کہتے ہیں:- (ترجمہ) ابن تیمیہ جب درس شروع کرتے تو اللہ تعالیٰ ان پر علم کے اسرار، باریکیاں، لطائف، دقیق مسائل فنون ، علماء کے اقوال ونقول اور کلام عرب کے شواہد و امثال کا دہانہ کھول دیتا اور ایسا معلوم ہونے لگتا کہ ایک سیلاب یا ایک دریا امڈ رہا ہے.۳۴ اس کے علاوہ اس صدی کے مجددین کے اسماء یہ ہیں.ابن دقیق العید.شاہ شرف الدین مخدوم بھائی سندھی عبد اللہ بن اسعد یافعی شافعی.محمد بن عبد الله الشبلی حنفی و مشقی

Page 192

151 حوالہ جات ل تاریخ دعوت و عزیمت.جلد 2 صفحہ 194 ماخوذ از دائرہ معارف اسلامیہ جلد 1 صفحہ 450 طبقات الحنابلہ.جلد دوم صفحہ 139 بحوالہ اُردو دائرہ معارف اسلامیہ.جلد 1 صفحہ 453 هي ايضاً ايضاً جلد 1 صفحہ 453 تاریخ دعوت و عزیمت.جلد 2 صفحہ 212 تاریخ دعوت و عزیمت.جلد 2 صفحہ 102 الفرق بين الحق والباطل - صفحہ 145 له تاریخ دعوت و عزیمت.جلد 2 صفحہ 76 الا B ايضاً - صفحہ 219 قاعدہ جلیلہ بحوالہ تاریخ دعوت و عزیمت.جلد 2 صفحہ 261 الرد علی البکر کی بحوالہ تاریخ دعوت و عزیمت.جلد 2 صفحہ 50 اُردو دائرہ معارف اسلامیہ.جلد اوّل صفحہ 451 البدایہ والنہایہ بحوالہ تاریخ دعوت و عزیمت.جلد 2 صفحہ 58 ايضاً - صفحہ 34 // // صفحه 44 الكواكب الدرية - صفحہ 81 بحوالہ تاریخ دعوت و عزیمت.جلد 2 صفحہ 97 ايضاً جلد 2 صفحہ 246 نقض المنطق - صفحہ 113 ایضاً صفحہ 114

Page 193

152 منہاج السنۃ.جلد اوّل صفحہ 14 الکواکب.صفحہ 149 بحوالہ تاریخ دعوت و عزیمت.جلد 2 صفحہ 194 ۲۳ رسائل الكبرى بحوالہ تاریخ دعوت و عزیمت.جلد 2 صفحہ 450 دم 51 الاد اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 1 صفحہ 452 ایضاً صفحہ 449-448 تاریخ دعوت و عزیمت.جلد 2 صفحہ 65 ايضاً صفحه 57 ابن تیمیه از ابوزہرہ - صفحہ 519 ابن تیمیه از غلام جیلانی برق - صفحه 128-129 سفرنامه اقشیری بحوالہ ابن تیمیه از برق - صفحه 129 اسے ابن تیمیه از برق - صفحه 130 ايضاً صفحه 131 ر ty tyلة ۳۴ ايضاً صفحه 134 ايضاً صفحه 155

Page 194

153 آٹھویں صدی کے مجدد حضرت علامہ ابن حجر عسقلانی رَحْمَةُ الله عَلَيْهِ ۵۹۵۲ - ۵۷۷۳ حافظ تقی الدین کہتے ہیں :- امام علامه حافظ متين الديانة، حسن الاخلاق، لطيف المحاضرة حسن التعبير عديم النظير لم تر العيون مثله ولا رأى هو مثل نفسه - لو (ترجمہ) آپ ،امام، علامہ حافظ، محقق ، مضبوط دین والے، اعلیٰ اخلاق والے عمدہ گفتگو والے، بہترین استدلال کرنے والے اور بے نظیر تھے.نہ دوسری آنکھوں نے ان کی نظیر دیکھی اور نہ خود آپ نے اپنا مثیل دیکھا.

Page 195

154 ولادت.نام ونسب آپ کا نسب نامہ یوں ہے.ابوالفضل شہاب الدین احمد بن علی بن محمد بن محمد بن علی بن احمد الكياني العسقلانی المصری القاہری الشافعی.آپ 12 شعبان 773ھ کو مصر میں پیدا ہوئے.آپ کے والدین کے ہاں نرینہ اولاد نہ تھی.ایک دن آپ کے والد کی ملاقات شیخ ضافیری سے ہوئی.آپ نے ان سے اپنا مسئلہ بیان کیا تو انہوں نے فرمایا خدا تجھے لڑ کا عنایت کرے گا جس کے علم سے دنیا مستفید ہوگی.حالات زندگی آپ کے والد نے جو کہ خود بھی ایک عالم دین تھے آپ کی تربیت اعلیٰ رنگ میں کی اور پانچ سال کی عمر کے بعد مدرسہ میں داخل کرادیا.آپ نے نو سال کی عمر میں قرآن حفظ کر لیا اور کئی عربی کتب بھی حفظ کر لیں.اس کے بعد متعدد اساتذہ سے مختلف علوم میں دسترس حاصل کی 796ء میں آپ کو علم حدیث میں خوب رغبت پیدا ہو چکی تھی.ایک عالم الزین العراقی کے پاس دس سال تک ملازم رہے اور زانوئے تلمذ طے کرتے رہے اور بالآخر آپ کے اساتذہ نے آپ کو درس اور فتویٰ دینے کی اجازت عنایت فرمائی.آپ کو کئی بار قاضی کا عہدہ پیش کیا گیا مگر آپ انکار کرتے تھے.لیکن بالآخر لوگوں کے اصرار پر پہلے نائب اور پھر 12 محرم 828 ھ کو القاضی الاکبر بنے.لیکن اس زمانے میں انصاف کا خون ہوتا تھا اور بعض اوقات بادشاہ اپنی من مانی کرواتے تھے.اس لیے آپ کے دل میں عہدہ قضاء کی بے رغبتی اور بڑھ گئی اور ایک سال مکمل کرنے کے بعد آپ نے یہ عہدہ چھوڑ دیا لیکن لوگوں کے اصرار پر دوبارہ اختیار کر لیا.اس دن لوگ بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ لوگوں کے دلوں میں گھر کر چکے تھے.لیکن 852 ھ تک آپ کو پانچ مرتبہ اس عہدے سے ہٹایا گیا اور دوبارہ واپس بلایا گیا.زمانے کی ان ستم ظریفیوں کے باعث آپ کی طبیعت میں پوری طرح زہد چھا چکا تھا.آپ کی علم حدیث کی کل مدت اکیس سال بنتی ہے.اس دوران آپ نے قاہرہ کے ہر مکتب میں درس دیا.آپ ان ایام میں علوم کی چوٹیاں سر کر چکے تھے.مختلف یونیورسٹیوں میں مختلف علوم

Page 196

155 پڑھاتے تھے اور آپ کے تلامذہ بڑے بڑے عالم بنے.آپ کے اساتذہ نے آپ کی ذہانت، معرفت، امانت ، حفظ اور ذوق سلیم کی خوب تعریف کی ہے.عراقی نے آپ کے بارے میں کہا :- انه اعـلـم اصحـابـه بالحدیث“ سے.آپ اپنے ہمعصروں میں سب سے زیادہ عالم حدیث تھے.آپ کے شاگردوں نے آپ کی کئی کتب کے تراجم مختلف زبانوں میں کیے ہیں.کتاب الجواہر وادر رفی ترجمتہ الحافظ ابن حجر ہے جو علامہ السخاوی نے کیا ہے.وفات آپ 28 ذی الحجہ 852ھ کو قاہرہ میں فوت ہوئے اور مصر کے بادشاہ نے سب سے پہلے آپ کے جنازہ کو کندھا دیا.آپ کی وفات پر شہاب منصوری نے یوں مرثیہ لکھا:.قد بكت السحب على قاضي القضاة بالمطر وانهدم الركن الذى كان مشيدًا من حجر آسمان قاضی القضاۃ کی وفات پر بارش کے ذریعہ رو پڑا اور وہ ستون جو ( حجر ) پتھروں سے مضبوط کیا گیا تھا آپ کی وفات کے ساتھ گر گیا.آپ کا نام ابن حجر تھا.شخصیت و کردار آپ شیخ الاسلام، سنت کے علمبردار اور خادم قرآن وحدیث تھے.حافظ تقی الدین آپ کے بارے میں لکھتے ہیں :- امام علامه حافظ متين الديانة، حسن الاخلاق، لطيف المحاضرة حسن التعبير عديم النظير لم تر العيون مثله ولا رأى هو مثل نفسه“ ـ ه و (ترجمہ) آپ امام، علامہ، حافظ، محقق، مضبوط دین والے، اعلیٰ اخلاق والے، عمدہ گفتگو والے، بہترین استدلال کرنے والے اور بے نظیر تھے.نہ دوسری آنکھوں نے ان کی

Page 197

156 نظیر دیکھی اور نہ خود آپ نے اپنا مثیل دیکھا.آپ سنت رسول پر سختی سے کاربند تھے.حضور ﷺ نے فرمایا کہ عہدہ کی خواہش نہ کر ولیکن جب ملے تو پھر اس کا حق ادا کرو.چنانچہ بارہا آپ کو قاضی کا عہدہ پیش کیا گیا مگر آپ نے قبول نہ کیا.لیکن جب اصرار حد سے بڑھ گیا تو قبول کر لیا اور جب تک رہے لوگوں کو انصاف مہیا کرتے رہے.یہی وجہ ہے کہ آپ حکمرانوں کی آنکھ میں کھٹکتے تھے.آپ کو حکام نے پانچ مرتبہ اس عہدہ سے ہٹایا لیکن جب دوبارہ عوام کا اصرار بڑھ جاتا تو پھر مجبور عہدے پر واپس لایا جا تا.آپ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی.آپ صرف انصاف کے تقاضے پورے کرنا چاہتے تھے.ہیں:.آپ کے متعلق لکھا ہے :- ( ترجمہ ) آپ کے قاضی رہنے کا کل عرصہ اکیس سال ہے.آپ میں اس عہدے کے دوران بہت زہد آ گیا تھا.اور آپ پر اکثر مصائب اسی کے باعث آئے ہیں.آپ حدیث کے زبر دست عالم تھے.علامہ جلال الدین سیوطی آپ کے متعلق کہتے ہیں :- انتهت اليه الرحلة والرئاسية فى الحديث في الدنيا بامر ها فلم يكن في عصره حافظ سواہ..( ترجمہ ) حدیث کیلئے سفر کرنا اور حدیث کی ریاست آپ پر ختم ہے.آپ کے عہد میں آپ کے سوا کوئی حافظ حدیث نہ تھا.آپ ایک اصلاحی شاعر بھی تھے اور آپ کے اشعار میں عشق رسول کا پہلو نمایاں ہے.فرماتے ولو ان غدا لی لوجهك اسلموا اگر تیرے چہرے کی خاطر ایمان لانا ہوتا تو مجھے لوجدت اني في المحبة اسلم اُمید ہے کہ میں تیری محبت میں فرمانبردار ہوتا.محبت كيف السبيل لكتم اسرار الهوى کے رازوں کو چھپانے کا کیا طریق ہو کہ میرے ولسان دمعي بالزام يترجم ع آنسوؤں کی زبان میری محبت کی ترجمان ہے.اسی طرح فرماتے ہیں :- ثم الصلوة و على النبي فانه پھر نبی ﷺ پر درود ہو کہ آپ سے ہی ذکر جمیل يبدى به الذكر الجميل يختم 스 کا آغاز ہوتا ہے اور آپ پر ہی اختتام ہوتا ہے.

Page 198

157 مسلمانوں کی حالت مجد داسی وقت آتا ہے جب اُمت میں بگاڑ پیدا ہو جائے اور مجد د کا کام اس بگاڑ کی اصلاح کرنا ہوتا ہے.حافظ ابن حجر کے وقت میں مسلمانوں پر روحانی زوال کا دور تھا.بغداد ہو کہ اندلس ، ایران ہو کہ فلسطین یا مصر ہر طرف مذہبی اور اخلاقی پستی کا دور دورہ تھا.مسلمان بادشاہوں کی حالت قابل رحم تھی.اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کا جانشین او رخلیفتہ المسلمین کہلانے والے خلافت حقہ اسلامیہ کے جادہ مستقیم سے منحرف تھے.ان کی حالت خلافت راشدہ سے یکسر متضاد و متبایں تھی.جوان کے نزدیک بُرے کام تھے وہ یہاں محاسن میں شمار ہوتے تھے اور جن لوگوں کی وہاں تذلیل تھی اس قسم کا طبقہ یہاں محلات پر قابض تھا.بادشاہوں کے درباروں میں زینت کا سامان، جادو بھری آواز والے گوئیے اور طلسماتی حسن رکھنے والی طوائفیں تھیں.رقص وسرور اور ناچ گانے میں باشاہ سلامت اور ارباب حل عقد سارا دن مصروف رہتے.ان کے خوشامدی انہیں غلط رپورٹیں دے کر خوش کرتے رہتے اور انہیں بیرونی حالت کا بالکل اندازہ نہیں ہوتا تھا.یہ تو مسلمانوں کی اندرونی حالت تھی اور اس کے علاوہ باہر سے تا تاری فتنے برپا کر رہے تھے.عیسائی پادری مسلمانوں پر چھا رہے تھے.اسلام کے خلاف لٹریچر کی اشاعت زوروں پر تھی.ایسی کتب تصنیف ہورہی تھیں جن میں اسلام اور بانی اسلام کے خلاف دیدہ دلیری سے اتہامات لگائے جاتے تھے...اور مسلمانوں کو ایک ایسے قلب کی ضرورت تھی جو اسلام کی خاطر تڑپے اور نہ صرف تڑپے بلکہ اس کی یہ تڑپ عمل میں ڈھل سکے.جو ایک طرف مسلمانوں کی لگا میں اصل اسلام کی طرف موڑے دوسری طرف کامیابی سے اسلام کا دفاع کرے.غرض ایک صاحب قلم مجدد کی ضرورت تھی.چنانچہ وقت کے تقاضوں کے مطابق حافظ ابن حجر عسقلانی مجدد ہوکر تشریف لائے اور عظیم تصنیفی کام سرانجام دیئے.تجدیدی کارنامے جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے اس دور میں مسلمانوں کو علمی پستی سے نکالنے کی شدید ضرورت تھی.اس لیے حافظ صاحب کا تجدیدی کام علمی نوعیت کا ہے اور زیادہ تر تدریس و تصانیف سے تعلق رکھتا

Page 199

158 ہے.آپ خواہ زمانہ طالبعلمی میں ہوں یا قاضی القضاۃ کے عہدے پر یا بستر علالت پر ، ہر حال میں خدمت اسلام کا عظیم مقصد اپنے سامنے رکھتے تھے اور زبان اور قلم سے دوسروں کو منور کرنے کا اہم فریضہ سرانجام دیتے رہے.آپ کی کتب کی تعداد پانچ صد کے قریب بیان کی جاتی ہے (لیکن مرورِ زمانہ، قلت وسائل کے باعث ان میں سے کئی کتب اب منظر عام پر نہیں ).اس سلسلہ میں پہلا نام فتح الباری“ کا ہے جو ”صحیح بخاری کی شرح ہے.سنت و حدیث کے احیاء کے سلسلہ میں آپ کا یہ قدم نہایت بر وقت اور مفید تھا.آپ نے ایسی بسیط شرح لکھی کہ اس سے قبل ایسی شرح موجود نہ تھی.اس کے ذریعہ عوام الناس کو حدیث کے گہرے مطالب سمجھنے میں آسانی پیدا ہوئی.اس کتاب کے شروع میں آپ نے پہلے مقدمہ بھی لکھا جس میں آپ نے حدیث کو حل کرنے کے اصول وقواعد بتائے.اس لحاظ سے ہر خاص و عام کیلئے یہ کتاب مفید بن گئی.اس کتاب میں آپ نے جو تر تیب قائم کی ہے وہ بے نظیر ہے.آپ کی دوسری بڑی تصنیفی خدمت ” بلوغ المرام ہے.اس میں آپ نے فقہی مسائل کے ماخذ احادیث کی روشنی میں بیان کیے ہیں اور چاروں مسالک میں بلا تمیز اور بغیر تعصب کے جس مسئلہ میں جو حدیث موزوں نظر آئی بیان کر دی اور کسی مسلک کی طرفداری یا مخالفت کی پرواہ نہیں کی اور یہی مجدد کی شان تھی.لوگوں نے آپ کو شہاب الدین کا لقب دیا.آپ نے واقعی شہاب کی طرح روشنی مخلوق خدا کو عطا کی.تصانیف آپ کی کتب کی تعداد تو پانچ صد کے لگ بھگ ہے.چند مشہور کا تذکرہ کیا جاچکا ہے.چند مزید کتب کے اسماء درج ذیل ہیں.2 اتباع الاثر في رحلة ابن حجر 1 احاديث الأحكام 3 الاتقان فی فضائل القرآن 4 اسباب النزول 5اربعين ابن حجر 6 بذل المامون 7 منبهات ابن حجر 8 تهذيب التهذيب.تقريب التهذيب وغيره اس کے علاوہ علم الہیات، علم حدیث ، فقہ، اصول فقہ، لغت، قرآت، تاریخ وغیرہ علوم پر آپ کی کتب ملتی ہیں.2

Page 200

159 آپ کی کتب کا چرچا آپ کی زندگی میں ہی ہو چکا تھا علامہ شوکانی لکھتے ہیں :- (ترجمہ) یہاں تک کہ لفظ حافظ کا اطلاق آپ پر ہونے لگا اور اجماعی کلمہ بن گیا.دور دراز سے طلباء آپ کے پاس سفر کر کے آتے آپ کی مؤلفات آپ کی زندگی میں مختلف بلاد میں پھیل گئیں اور بادشاہوں نے ایک علاقے سے دوسرے علاقوں میں آپ کی کتب کے متعلق خط و کتابت کی.قلع پھر کہتے ہیں:.(ترجمہ) آپ کی تصانیف بادشاہوں نے اپنے علماء کے طلب کرنے پر انہیں تحفہ دیں یہاں تک کہ ایک کتاب 833ھ میں شاہ رُخ بن تیمور جو مشرقی بادشاہ تھا تک پہنچی جو اُس نے سلطان الاشرف سے ہدیہ کے طور پر پائی.ان میں سے ایک فتح الباری ہے.11 آپ کی گرانمایہ تصانیف کا ذکر شاہ عبدالعزیز یوں کرتے ہیں :- ابن حجر کی تصانیف ڈیڑھ سو سے زائد ہیں اور جلال الدین سیوطی کی تصانیف سے بہتر اور محکم تر ہیں کیونکہ جلال الدین سیوطی کی تصانیف اگر چہ تعداد میں زیادہ ہیں لیکن ابن حجر کی تصانیف اکثر بڑی ضخیم ہیں اور ان میں نئے نئے مضامین اور معلومات آفریں فوائد موجود ہیں.اس کے برعکس جلال الدین سیوطی کی تصنیفات میں یہ بات نہیں ہے.چنانچہ تبحر عالم پر یہ بات بخوبی روشن ہے نیز حافظ ابن حجر کا اتقان و انضباط علوم بھی جلال الدین سیوطی کے علم سے بڑھا ہوا ہے.گو جلال الدین عبور و اطلاع میں ان سے فی الجملہ زیادہ ہیں.۱۲ آٹھوی صدی کے دوسرے مجددین میں حافظ زین الدین عراقی ، صالح بن عمر ارسلان قاضی بلقینی اور علامہ ناصرالدین شاذلی اور ابن قیم شامل ہیں.

Page 201

160 لے فوائد جامعہ - صفحہ 439 المحدثين المتقين - صفحه 193 سے فوائد جامعہ - صفحہ 439 المحدثين المتقين - صفحه 196 فوائد جامعہ - صفحہ 439 1 فوائد جامعہ - صفحہ 439 حوالہ جات اتحاف النبلاء - صفحه 195 المعروف المحد ثين المتقين ایضاً صفحہ 195 کشف الظنون.جلد اوّل ت البدر الطالع - صفحہ 88 لله ايضاً فوائد جامعہ - صفحہ 163

Page 202

161 نویں صدی کے مجدد حضرت امام جلال الدین سیوطی رَحْمَةُ الله عَلَيْه - ۵۸۴ ” مجھے دولاکھ احادیث زبانی یاد ہیں اگر کچھ اور حدیثیں ملتیں تو میں انہیں بھی یاد کر لیتا“.( علامہ جلال الدین سیوطی)

Page 203

162 تعارف ابوالفضل عبدالرحمن بن ابی بکر محمد جلال الدين الطوسوئی الخفیری الشافعی یکم رجب 0849 بمطابق 13 اکتوبر 1445 ء کو قاہرہ میں پیدا ہوئے.آپ ایرانی الاصل ہیں.ان کا خاندان نو پشت قبل بغداد سے مصر کے شہر سیوط میں مقیم ہو گیا تھا اسی نسبت سے السیوطی کہلائے.آپ کے والد مدرسہ شیخونیہ میں فقہ کے مدرس تھے لیکن بچپن میں ہی باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور آپ کو ایک بزرگ کمال بن حمام“ نے پرورش کیا.آپ نے آٹھ برس کی عمر میں قرآن حفظ کر لیا.اس کے بعد فقہ اور دوسرے علوم حاصل کیے اور اپنے مرحوم باپ کی جگہ مدرس مقرر ہو گئے.آپ کے شیوخ کی تعداد 51 تک بیان ہوئی ہے.وفات آپ نے 18 جمادی الاولی 911ھ میں بمطابق 17 /اکتوبر 1505ء کو وفات پائی اور مصر میں دفن ہوئے.تجدید دین آپ نویں صدی کے مجدد ہوئے ہیں.صاحب بیج الکرامہ نے آپ کے الفاظ قدر جـوتُ فی المجدد سے بیان کیے ہیں.گویا ایک رنگ میں یہ آپ کا دعویٰ مجددیت ہے.تصنیفی تجدیدی کارنامے آپ کے دور میں بھی جہاد بالقلم کا زمانہ تھا.اسی وجہ سے ان صدیوں کے مجددین کے تجدیدی کارنامے تصنیفی نوعیت کے ہیں کیونکہ علاج مرض کے مطابق ہوتا ہے.اس وقت اسلام کے خلاف کتب تیار ہورہی تھیں اور ان کے جواب دینے کی ضرورت تھی.چنانچہ نویں صدی میں جلال الدین سیوطی میدان میں آئے سینکڑوں کتب کی صورت میں ہزاروں صفحات پر مشتمل لٹریچر تیار کر وایا.آپ کے متعلق لکھا ہے کہ آپ نے حج کے دوران آب زمزم پی کر یہ دعا کہ "بارالہی فقہ میں مجھے سراج الدین

Page 204

163 بلقینی اور حدیث میں ابن حجر کا رتبہ عطا فرما.اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ دعا سن لی اور موصوف کو بالا تفاق حافظ حدیث میں شمار کیا گیا ہے.آپ نے سات علوم میں تبحر حاصل کیا.خود کہتے ہیں :- علوم تفسیر، حدیث، فقہ، نحو، معانی اور بدیع میں مجھے عرب بلیغوں کے طریقہ پر نہ کہ حجم فلسفیوں کے طریقہ پر تبحر نصیب ہے.سے علم تفسیر آپ نے تفسیر در منثور اور تفسیر جلالین کا نصف تحریر فرمایا.یہ دونوں اعلیٰ پائے کی کتب ہیں.امام صاحب اپنی تفسیر کے متعلق فرماتے ہیں :- میں نے ایک ایسی ہمہ گیر تفسیر تحریر کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے جو تفسیر کے متعلق ہر قسم کے ضروری مواد کی جامع ہوگی.اس میں عقلی اقوال ، بلاغی نکات، صنائع بدائع ، اعراب و لغات، استنباطات و اشارات سبھی امور ہوں گے.وہ تفسیر ایسی جامع ہوگی کہ دیگر تفاسیر سے بالکل بے نیاز کر دے گی.اس کا نام میں نے مجمع البحرین و مطلع البدرین تجویز کیا ہے.میری کتاب الاتفاق اسی تفسیر کا مقدمہ ہے“.ہے آپ کی تفسیر در منثور ایک جامع کتاب ہے.امام صاحب نے بخاری، مسلم، نسائی ، ترمذی، ابوداؤد، مسند احمد ، ابن جریر، ابن ابی حاتم عبد بن حمید، ابنابی الدنیا سے اخذ کر کے اس تفسیر میں روایات کا خاصہ ذخیرہ جمع کر دیا ہے اور یہ واحد تفسیر ہے جس میں صرف آثار و اقوال ہیں اور مؤلف کی ذاتی رائے بالکل نہیں ہے.اسی طرح تفسیر جلالین آپ نے چالیس روز میں نصف اول کی تفسیر مکمل کر دی.بقیہ نصف جلال الدین محلی نے لکھا.علم حدیث آپ نے علم حدیث کی بھی بہت خدمت کی ہے اور رسول اللہ ﷺ کی زیارت سے مشرف ہو کر احادیث کی اصلاح کیا کرتے تھے.چنانچہ ان کے بارے میں امام شعرانی کہتے ہیں:.میں نے ایک ورق جلال الدین سیوطی کا دستخطی اُن کے ایک صحبتی عبدالقادر شاذلی

Page 205

164 کے پاس پایا جو کسی شخص کے نام ان کا خط تھا جس میں اس شخص نے ان سے بادشاہ وقت سے سفارش کی درخواست کی تھی اور امام صاحب نے اس کے جواب میں لکھا تھا کہ ”میں نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں تصحیح احادیث کیلئے جن کو محد ثین ضعیف کہتے ہیں حاضر ہونا ہوتا ہے.چنانچہ اس وقت تک پچھتر (75) دفعہ حالت بیداری میں حاضر خدمت ہو چکا ہوں.اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ میں بادشاہ وقت کے پاس جانے کے سبب اس حضوری سے رُک جاؤں گا تو ضرور قلعہ میں جاتا اور تمہاری سفارش کرتا“.آپ خود فرماتے ہیں کہ ” مجھے دولاکھ احادیث یاد ہیں اگر کچھ اور حدیثیں ملتی تو میں انہیں بھی یاد کرلیتا ہے آپ کی کتاب توشیح شرح الجامع الصحیح کے بارہ میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے ہیں :- (ترجمہ) یہ حافظ ابوالعصر ابوالفضل بن ابی بکر السیوطی کی تصنیف ہے.اس کے دیباچہ کے آغاز میں وہ کہتے ہیں تمام تر تعریف اس ذات کی ہے جس نے اپنا احسان ہم پر کیا کہ ہم کو حاملین سنت میں بنایا.یہ تعلیق صحیح الاسناد شیخ الاسلام امیر المومنین ابوعبداللہ البخاری کے بارے میں ہے جو کہ شیخ کے نام سے موسوم ہے اور امام بدرالدین زرکشی کی تعلیق مسمی بالتنقیح کی طرز پر ہے اور زوائد میں کئی باتوں میں اس پر فوقیت رکھتی ہے اور ان تمام باتوں پر مشتمل ہے جو قاری اور سننے والے کیلئے ضروری ہیں.مثلا صحت الفاظ، غریب باتوں کی تفسیر، اختلاف روایات کا بیان، ان اخبار میں زیادتی جو بخاری کے طریق میں بیان نہیں.نیز اس ترجمہ کا بیان کرنا جس کے الفاظ میں کوئی حدیث مرفوع بیان ہوئی ہے.ان معلقات کا وصل جن کو صحیحین میں موصلاً بیان نہ کیا گیا ہو.مہم کا اظہار اور مشکل کا ایضاح اور مختلف احادیث کا جمع کرنا گویا استنباط کے علاوہ شرح میں سے کوئی چیز نہ رہے.میں نے اس کا بھی ارادہ کیا ہے کہ تمام صحاح ستہ پر اس قسم کے حواشی لکھوں تا کہ اس سے نفع اندازی آسان ہو جائے اور بغیر دقت کے مطلب براری ہو سکے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اسے تکمیل تک پہنچائے.1

Page 206

تصانیف 165 آپ سترہ برس کی عمر میں ہی ادبی مشاغل میں مصروف ہو گئے تھے اور پھر زندگی میں بے شمار موضوعات پر تصانیف رقم فرما ئیں جن کی تعداد 561 ہے اور عقد الجواہر میں یہ تعداد 576 بیان ہوئی ہے.آپ کی چند کتب کے اسماء درج ذیل ہیں.ا.ترجمان القرآن في التفسير المسند اور اس کا خلاصہ الدر المنثور فی التفسير الماثور ہے جو چھ جلدوں میں ہے.ہے.-۲ مشكلات القرآن کے متعلق ایک کتاب مفحمات القرآن في مبهات القرآن.آیات کے شان نزول کے متعلق لباب النقول فی اسباب النزول ہے.۴.تفسیر جلالین.۵.تفسیر مجمع البحرین.اس کا مقدمہ الاتقاق کے نام سے ایک الگ کتاب ہے.۶.محترک القرآن فی اعجاز القرآن..جامع المسانيد المعروف به الجامع الكبير اس کا خلاصہ الجامع الصغير من حدیث البشير والنذیر ہے..المنهج.الاکمال.۱۰.کنز العمال ا.الخصائص الکبری، جوابن جوزی کی کتاب الموضاعات پر حواشی ہیں.۱۲.شرح موطا امام مالک.١٣- شرح الصدور في شرح حال الموتى فى القول المعروف بكتاب البرزخ ١٤- المزهر في علوم اللغة ۱۵الافتراح فی علوم اصول النحو و جدله ١٦.الاشباه والنظائر النحويه ا.وقائع الزهور في وقائع الدهور ۱۸- تاریخ الخلفاء ۱۹.تاریخ مصر

Page 207

166 احمدیت اور جلال الدین سیوطی مجدد کا اصل کام تو پیدا شدہ فتنوں کا استیصال ہوتا ہے لیکن بعض اوقات خدا تعالیٰ ان کے منہ سے ایسے اقوال یا تحریرات بہم پہنچا دیتا ہے جو آئندہ فتنوں کوحل کرنے میں مددگار ہوتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ختم نبوت کی جو تشریح کی اس پر مخالفین کی طرف سے طوفان بدتمیزی اُٹھا.لیکن حضرت جلال الدین سیوطی صاحب نے اپنی تفسیر در منثور میں حضرت عائشہ کا قول اس وقت ہی درج کر دیا جب کہ ابھی احمدیت کا وجود بھی نہ تھا تا کہ بچوں کے حق میں یہ دلیل ٹھہرے.خدا انہیں اس کار خیر کی جزاء عطا کرے.وہ قول یہ ہے:.وأخرج ابن ابى شيبة عن عائشة رضى الله عنها قالت قولو خاتم النبين ولاتقولوا لانبی بعدہ“.فرمایا تم خاتم النبین تو کہا کر ولیکن یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں.دوسرا بڑا اختلافی مسئلہ مثیل مسیح کے دعوے کے بارے میں ہے.امام صاحب نے اپنی کتب میں اس کا حل بھی کر دیا ہے اور اس کا تذکرہ خود مسیح موعود علیہ السلام نے یوں کیا ہے:.امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ بعض مقامات منازل سلوک ایسے ہیں کہ وہاں اکثر بندگان خدا پہنچ کر مسیح و مہدی بن جاتے ہیں بعض ان کے ہمرنگ ہو جاتے ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بروز محمد یا مثیل مسیح کا جو دعوی کیا ہے تو یہ کوئی اچنبہ نہیں ہے.گزشتہ صدیوں کے اہل علم حضرات اس بارہ میں لب کشائی فرما چکے ہیں.اس صدی کے دوسرے مجددین میں محمد بن عبد الرحمن سخاوی ، سید محمد جون پوری مہدی قریشی ہیں اور بعض نے امیر تیمور کو بھی مجد دلکھا ہے.

Page 208

167 لے حوالہ جات تاریخ تفسیر ومفسرین.صفحہ 229 نج الکرامہ - صفحہ 138 سے فوائد جامعہ - صفحہ 356 م دم 스 تاریخ و تفسیر و مفسرین از حریری - صفحه 230 ايضاً - صفحہ 229 بستان المحد ثین - صفحہ 121-122 در منشور.جلد 5 صفحہ 204 الحام 24 جون 1904 ء صفحہ 5 کالم 2-3

Page 209

168 دسویں صدی کے مجدد علامہ شیخ محمد بن طاہر چٹنی رَحْمَةُ الله عَلَيه ۵۹۸۶ - ۵۹۱۴ دیار ہند کے بہت بڑے عالم، محدث لغوی، شیخ، مبلغ اور مصنف تھے.

Page 210

حالات زندگی 169 شیخ محمد بن طاہر علی پٹنی ، دسویں صدی ہجری کے دیارِ ہند کے بہت بڑے عالم، محدث لغوی، شیخ مبلغ اور مصنف تھے.گجرات ( کاٹھیاواڑ) کے شہر نہر والا کے باشندے تھے، جو بعد کو پٹن کے نام سے موسوم ہوا اور اسی مناسبت سے یہ شیخ محمد بن طاہر پٹی کہلائے.ان کا لقب جمال الدین بھی تھا اور مجد الدین بھی.پیدائش شیخ مدوح 914ھ کو شہر پٹن میں پیدا ہوئے اور وہیں نشو ونما پائی.ابتداء عمر ہی سے حصول علم میں مصروف ہو گئے اور سب سے پہلے قرآن مجید حفظ کیا.ابھی سن بلوغ کو نہیں پہنچے تھے کہ اپنے علاقہ کے مختلف اساتذہ سے علم حاصل کرنے لگے، جن میں مثلا ہنہ، شیخ ناگوری، شیخ برہان الدین سمہوی اور مولا نا ید اللہ سوہی وغیرہ شامل ہیں.کم و بیش پندرہ سال حصول علم میں مصروف رہے اور مختلف علوم و فنون میں اپنے اقران و معاصرین میں سبقت لے گئے.تمیں سال کی عمر کو پہنچے تو 944ھ میں حرمین شریفین کا قصد کیا.حج و زیارت سے بہرہ مند ہوئے اور ایک مدت تک وہاں مقیم رہے.اس دوران انہوں نے حرمین شریفین کے مشاہیر اساتذہ سے بھی اخذ علم کیا.جن میں شیخ ابوالحسن بکری شافعی، صاحب الصواعق الحرة شیخ شہاب الدین احمد بن حجر مصری ثم کی شیخ علی مدنی ، شیخ جارالله بن فہد کی بیخ عبداللہ عید روس، شیخ عبداللہ زبیدی، سید عبدالله عدنی، شیخ عبداللہ حضری اور شیخ برخودار سندھی شامل ہیں.ان دنوں شیخ علی متقی بھی وہاں اقامت گزیں تھے.شیخ محمد بن طاہر نے ان سے بھی اخذ علم کیا اور ان سے منسلک و ملازم رہ کر مستفید ومستفیض ہوئے.اب انہوں نے فضل و علم میں کامل ومکمل ہو کر وہاں سے ہندوستان کو مراجعت فرمائی اور اپنے وطن پٹن کو اپنا مستقر ٹھہرایا جو اس زمانے میں علاقہ گجرات کا ایک نہایت اہم مقام تھا.شیخ محمد بن طاہر علاقہ گجرات کی بوہرہ برادری سے تعلق رکھتے تھے جو برصغیر کی مال دار اور تجارت پیشه برادری تھی.بوہرے دو جماعتوں میں منقسم تھے.کچھ لوگ شیعہ اور اسماعیلیہ تھے جو مہدویہ کہلاتے تھے.یہ لوگ اپنے آپ کو محمد المہدی بن عبد اللہ بن احمد بن محمد بن اسماعیل بن جعفر صادق کے

Page 211

170 پیرو بتاتے ہیں اور محمد بن عبد اللہ کو مہدی آخر الزمان مانتے ہیں.کچھ لوگ جماعت اہل سنت سے تعلق رکھتے تھے.شیخ محمد بن طاہر نے بوہروں کی اصلاح کا عزم کیا اور ان میں جو بدعات و رسوم پیدا ہوگئی تھیں ان کو ختم کرنے کی ٹھانی.نیز اپنے علاقے میں تعلیم عام کرنے اور لوگوں کو جہالت کی تاریکی سے نکالنے کا تہیہ کیا.انہوں نے ایک ایسی اصلاحی تحریک شروع کی جس کا بنیادی مقصد سنت رسول اللہ کی ترویج، احکام شریعت کی تنفیذ اور منکرات کا انسداد تھا.النور السافر میں عبدالقادر حضرمی رقمطراز ہیں کہ شیخ محمد بن طاہر اپنے باپ کی طرف سے بہت سے مال و دولت کے وارث ہوئے تھے، وہ خود روشنائی بنانے کا کام کرتے تھے.اس طرح علم وفضل کی فراوانی کے ساتھ ساتھ انہیں گجرات کی ایک مال دار شخصیت سمجھا جاتا تھا.اپنا مال تعلیم و تبلیغ پر خرچ کرتے تھے.ان کا معمول تھا کہ لڑکوں کے مدرسے کے معلم کے ذریعہ ذکی اور فہیم لڑکوں کو اپنے ہاں طلب کرتے.اگر لڑ کا مالدار ہوتا تو اسے علم حاصل کرنے کی تاکید فرماتے.اگر تنگدست ہوتا تو اس کے اور اس کے گھر والوں کے مصارف کا بوجھ خود برداشت کرتے اور اس کو تعلیم میں مشغول رہنے کی ترغیب دیتے.اسی طرح غرباء و مساکین اور محققین میں بھی مال و دولت تقسیم کرتے اور ہر ایک کو ضرورت کے مطابق با قاعدہ وظیفہ دیتے.اس طرح وہ کوشاں ہوتے کہ لوگ فکر معاش سے بے نیاز ہوکر اللہ کے دین کی خدمت کو اپنا مقصد حیات ٹھہرالیں.شیخ محمد بن طاہر نے دل میں فیصلہ کر لیا تھا کہ جب تک ان کی قوم بدعات و منکرات کو ترک نہیں کر دیتی اور سنت پر عامل نہیں ہو جاتی وہ سر پر عمامہ نہیں باندھیں گے.قریب تھا کہ ان تمام بدعات کا قطعی طور پر خاتمہ ہو جاتا جو بلاد گجرات میں مروج تھیں کہ مغل حکمران جلال الدین اکبر نے 980 ھ میں گجرات فتح کیا.اکبر سے شیخ کی ملاقات ہوئی تو اس نے عمامہ نہ باندھنے کی وجہ دریافت کی.انہوں نے وجہ بتائی تو اکبر نے کہا بدعات کا قلع قمع کرنا ، دین کی نصرت اور سنت کا نفاذ عمل میں لانا میرے فرائض میں ہے، اس کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے.آپ ان امور کی پرواہ نہ کریں.چنانچہ اکبر نے اپنے ہاتھوں سے ان کے سر پر عمامہ باندھا اور ساتھ ہی والی گجرات مرزا عزیز الدین کو جو اکبر کا رضاعی بھائی تھا، شیخ کے مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کا حکم دیا.منقول ہے کہ اس نے اس سلسلہ میں شیخ کی پوری اعانت کی اور ممکن حد تک رسوم بدعات کے ازالے کی سعی کی.لیکن جب مرزا عزیز الدین کو

Page 212

171 معزول کر کے اس کی جگہ عبدالرحیم خان خاناں کو مقرر کیا گیا تو اس نے بوہروں کے عقیدہ مہدویت کی حمایت کرنا شروع کر دی جس کے نتیجے میں وہ تمام مہدوی جو گوشہ عزلت میں چلے گئے تھے دوبارہ باہر نکل آئے اور شیخ کی تحریک اصلاح بڑی حد تک دب گئی.شیخ کو اس کا بڑا قلق ہوا.انہوں نے دوبارہ عمامہ سر سے اتار دیا اور اکبر سے ملنے کی غرض سے آگرہ کا قصد کیا.دراصل ان کا مقصد اکبر کو اس کا وعدہ یاد دلانا اور اس ضمن میں جو کام ہو چکا تھا اس کی اطلاع دینا تھا، نیز عزیز الدین کی معزولی اور عبدالرحیم خان خاناں کے تقرر کے نتیجے میں جو تغیر رونما ہو گیا تھا اس کی تفصیلات سے اکبر کو آگاہ کرنا تھا.مگر اس کا انہیں موقع نہ ملا.وہ گجرات سے چلے تو کچھ لوگ جو فرقہ مہدویہ سے تعلق رکھتے تھے ان کے تعاقب میں نکلے.جب شیخ اجین کے نواح میں پہنچے تو انہوں نے موقع پا کر ان کو قتل کر ڈالا.یہ حادثہ 986ھ کو پیش آیا.شیخ کے رفقائے سفر ان کے جسد خاکی کو وہاں سے پیٹن لے آئے اور انہیں ان کے آبائی قبرستان میں دفن کر دیا گیا.شیخ محمد بن طاہر پینی متعدد علمی کتابوں کے مصنف تھے.جن میں بہت اہم اور اہل علم میں زیادہ مقبول و معروف کتابیں یہ ہیں.مشتمل ؟ ا.مجمع بحار الانوار في غرائب التنزيل ولطائف الاخبار : یہ حدیث کی ایک لغت ہے جو نہایت اہمیت اور جامعیت کی حامل ہے اور دو نخیم جلدوں پر مشتمل ہے.شیخ نے یہ منجم اپنے مرشد و استاذ شیخ علی متقی کے نام معنون کی ہے.یہ بڑی ضخیم کتاب ہے جو 1668 صفحات پر اور اس کی کتابت بہت گنجان ہے.اس کو حروف مصادر کی ترتیب سے مرتب کیا گیا ہے.جو الفاظ احادیث میں استعمال ہوئے ہیں ان کے مصادر اور مشتقات اس لغت میں موجود ہیں اور احادیث کا متن بھی اس میں درج کیا گیا ہے.اس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں صرف الفاظ کے معنے لکھنے پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ متعلقہ حدیث کے بارے میں وضاحت طلب نکات کی تشریح بھی کی گئی ہے.اس لغت سے پہلے اس قسم کے جتنے بھی لغت مرتب کیے گئے ہیں وہ اس کے سامنے کم اہمیت کے حامل نظر آتے ہیں.اہل علم میں یہ کتاب بڑی مقبول ہے.۲.تذکرۃ الموضوعات : یہ موضوع احادیث سے متعلق ایک ضخیم کتاب ہے.اس کے مقدمہ میں مصنف رحمہ اللہ نے یہ وضاحت کی ہے کہ کسی حدیث کو محض اس لیے موضوع نہیں قرار دے

Page 213

172 دینا چاہیے کہ کسی نے اسے موضوع کہا ہے.اس کا فیصلہ اس سلسلے کی مستند کتب سے رجوع کے بعد کیا جائے.اس کی مثال دیتے ہوئے شیخ نے لکھا ہے کہ امام ابن جوزی نے اپنی کتاب الموضوعات میں بعض ان احادیث کو بھی موضوع قرار دیا ہے جو دراصل حسن کا درجہ رکھتی ہیں.علاوہ ازیں بعض ضعیف احادیث کو بھی انہوں نے موضوع ٹھہرایا ہے.اس کے بعد شیخ نے ان احادیث پر عالمانہ و ناقدانہ بحث کی ہے جنہیں کسی نہ کسی عالم نے موضوع سے تعبیر کیا ہے.اس مسئلہ سے متعلق یہ ایک مفید کتاب ہے.یہ کتاب مصر میں چھپ چکی ہے اور مشہور اہلحدیث عالم مولانا عبدالجلیل سامر دوی نے بڑی محنت سے اس کی تصحیح کی ہے.۳.علاوہ ازیں المغنی فی ضبط اسماء الرجال.قانون الموضوعات في ذكر الضعفاء الوضاعین: یہ کتاب مصر میں طبع ہو گئی ہے.اس کے مقدمہ میں مرقوم ہے کہ مصنف علام نے اس کو تذکرۃ الموضوعات کے بعد تصنیف کیا.اس کتاب میں مصنف نے ان راویوں کو حروف تہجی کے اعتبار سے جمع کر دیا ہے جو موضوع حدیثیں وضع کرتے یا بیان کرتے تھے.آخری دو فصلوں میں ان کی کنیتیں اور نسب بیان کیے گئے ہیں.کتاب کے بالکل آخر میں مولانا عبدالجلیل سامر دوی مرحوم نے ترجمة المؤلف کے عنوان سے شیخ محمد بن طاہر کے حالات و سوانح تحریر کیسے ہیں.فاضل مصنف نے وضاع راویوں کے نام اور اوصاف با قاعدہ حوالوں کے ساتھ درج کیے ہیں اور ان کا ساقط الاعتبار یا غیر مستند ہونا متقدمین کی کتابوں سے ثابت کیا ہے.اس کا انداز اس قسم کا ہے مثلاً : غالب بن عبید اللہ الجزری لیس بشی غریب بن عبدالواحد القرشی مجهول غسان بن ابان الحنفی میروی عجائب غیاث بن ابراہیم کذاب خلیل بن مجد وضاع الفرح بن فضالة ضعیف

Page 214

173 الفرات بن السائب الفضل بن حرب البجلی متروک غیر محفوظ الفضل بن عبد اللہ بن مسعود یشکری لا یجرز احتجاج وغیرہ وغیرہ ۵- كفاية المفرطین: یہ شافیہ کی شرح ہے.اس کا ایک نسخہ احمد آباد میں پیر محمد شاہ کے کتب خانہ میں موجود ہے.دسویں صدی ہجری کے اس عظیم المرتب عالم اور محدث وفقیہ نے 986ھ میں اُجین اور سارنگ پور کے درمیان جام شہادت نوش کیا اور ان کے ساتھیوں اور خواہر زادہ شیخ نور محمد نے میت کو پٹن لاکران کے آبائی قبرستان میں سپردخاک کیا.اے علاوه از بین صدیق حسن خان قنوجی نے انتخاف النبلاء میں بعض علماء کی روایت سے لکھا ہے کہ محمد بن طاہر صدیقی الاصل تھے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ شیخ عبدالقادر بن ابوبکر (1138ھ ) مفتی مکہ جو علامہ محمد بن طاہر کی اولاد میں سے تھے ان کے ایک شاگرد نے ان کی شان میں ایک قصیدہ کہا جس کے ایک شعر کا ترجمہ یہ ہے:.تیرے اجداد کی لحد کو خدا ٹھنڈک دے وہ علم و فضیلت میں یکتا تھے یعنی محمد بن طاہر کہ بلا شبہ حضرت صدیق کے نسل سے تھے“.ایک روایت کے مطابق آپ نے اپنے بارہ میں ہندی الاصل بھی لکھا ہے.مجدد کو جو تائیدی نشان عطا ہوتے ہیں آپ نے اس سے بھی حصہ پایا.چنانچہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ آپ کے ذکر میں فرماتے ہیں :- حضرت محمد طاہر گجراتی کا مباہلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غلام دستگیر قصوری کے ذکر پر فرمایا :- ”اس نے ایک ایسا ہی مباہلہ کیا تھا جس کی نظیر پہلے بھی اسلامی دنیا میں موجود ہے جس کا نے خود ہی اپنے رسالہ میں ذکر کیا ہے کہ ایک بزرگ محمد طاہر نام تھے کے زمانہ میں دو شخص پیدا ہوئے ایک نے مسیح کا دعویٰ کیا تھا اور ایک نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تھا.جس پر مولوی محمد طاہر صاحب نے

Page 215

174 خدا تعالیٰ کے حضور میں دُعا کی کہ یا الہی گر یہ مدعی جھوٹے ہیں تو ان کو ہلاک کر دے اور اگر ان کو نہ ماننے میں میں جھوٹا ہوں تو مجھے ہلاک کر.چونکہ وہ دونوں کا ذب تھے اس واسطے ہر دو ہلاک ہو گئے.غلام دستگیر نے بھی اسی طرح مباہلہ کیا تھا اور لکھا تھا کہ میں وہی دُعا کرتا ہوں جو کہ محمد طاہر نے کی تھی.چونکہ اس کے مقابل میں جو شخص تھاوہ سچا ہے اس واسطے غلام دستگیر خود ہلاک ہو گیا“.محمد طاہر نے ایک جھوٹے مسیح اور مہدی پر بددعا کی تھی اور وہ (مہدی.ناقل ) ہلاک ہو گیا تھا.سے اس صدی کے آخر میں دوسرے بڑے مشہور مجد دعرب میں ملا علی بن سلطان محمد القادری متوفی 1014ھ ہوئے.آپ نے ہرات سے مکہ معظمہ ہجرت کی تھی اور تمام بڑے بڑے اساتذہ سے وافر علوم وفنون سیکھے.سواسو سے زائد کتابیں لکھیں.ان میں سے اٹھارہ چھپی ہوئی موجود ہیں جن میں المرقاۃ شرح مشکوۃ کئی ضخیم جلدوں میں سب سے زیادہ مشہور ہے.علامہ عبدالحی لکھنوی نے آپ کی خدمت دینیہ درازالہ بدعت و خدمات علمیہ کے باعث مجددصدی قرار دیا ہے.علامہ جلال الدین سیوطی بھی اس صدی کے مشہور مجدد ہیں.دسویں صدی کے چوتھے مجدد حضرت علی بن حسام الدین معروف بعلی متقی ہندی ملتی ہیں (جو کنز العمال کے مرتب بھی ہیں).

Page 216

175 النور السافر - صفحہ 362-361 حوالہ جات اخبار الاخیار - صفحہ 272 ، شذرات الذہب جلد 8 صفحہ 410 بحوالہ فقہائے ہند جلد سوم مصنف محمد اسحق بھٹی صفحہ 331-326 ملفوظات جلد پنجم صفحہ 62-61 ایضاً صفحہ 200 سے حقیقۃ الوحی - صفحہ 335

Page 217

176 گیارھویں صدی کے مجدد حضرت شیخ احمد سر ہندی مجددالف ثانی رَحْمَةُ الله عَلَيْهِ ا ۵۹۸ - ۵۱۰۳۲ جہانگیر کے دربار میں جب آپ کو سجدہ تعظیمی کیلئے کہا گیا تو فرمایا : - یہ سر قدوس کے سوا کسی کے سامنے نہیں جھکتا اور یہ جنہیں خالق ارض و سما کے علاوہ کسی کے آگے نیاز نہیں ہوتی.اے

Page 218

177 ولادت مختصر حالات زندگی جمعۃ المبارک 14 شوال 971ھ کی شب مسعود تھی کہ حضرت شیخ عبدالاحد کے ہاں وہ بچہ تولد ہوا جس کی بشارت پہلے سے دی جا چکی تھی.شیخ اپنے کمرے میں محو استراحت تھے.نماز تہجد کے قریب خواب دیکھا کہ کائنات ظلمتوں کی لپیٹ میں آگئی.خنزیر، بندر اور ریچھ مخلوق خدا کو ہلاک کر رہے تھے.معاً آپ کے سینہ سے نور کا ظہور ہوا اس میں ایک تخت ہویدا ہوا جس پر ایک شخص جس کے چہرے پر نور وجلال متمکن تھا، اس کے سامنے ظالموں، زندیقوں اور ملحدوں کو لا کر بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیا جار ہا تھا اور ایسا لگتا تھا جیسے کوئی بآواز بلند کہہ رہا ہو قل جاء الحق وزهق الباطل ان الباطل کان زھوقا.آپ اُٹھ کر بارگاہ حمدیت میں سجدہ ریز ہو گئے.صبح اُٹھ کر شاہ کمال کتھیلی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور خواب بیان کیا.انہوں نے بشارت دی کہ ایک بچہ پیدا ہوگا جس کے دم قدم سے الحاد و بدعت کی سیاہیاں اور زندیقیت کی ظلمتیں کافور ہوں گی.کے اسی طرح ایک مرتبہ فرمایا میٹر کا بڑی عمرکا ہوگا اور عالم عامل اور عارف کامل ہوگا اور ہم جیسے کئی اس سے پیدا ہوں گئے.سے آپ کے والد ماجد نے آپ کا نام شیخ احمد فاروقی رکھا.آپ کا شجرہ نسب ستائیسویں پشت میں فاروق اعظم سے جاملتا ہے.آپ نے سات برس کی عمر میں قرآن حفظ کر لیا اور دینی تعلیم کی خاطر سیالکوٹ آگئے اور مولانا کمال کشمیری سے اکتساب فیض کیا.1008ھ میں حج کے ارادے سے نکلے لیکن راستے میں حضرت خواجہ باقی باللہ سے ملنے کی خواہش پیدا ہوگئی.ادھر خواجہ صاحب کو بھی ایسا مبشر خواب دکھایا گیا جس میں آپ کے دامنِ برکت سے ایک بزرگ کے ظہور کی خبر تھی.چنانچہ ان دونوں بزرگوں کی ملاقات دہلی میں ہوگئی اور شیخ خواجہ صاحب کی زیر تربیت نقشبندی فرقے کے مایہ ناز پیر طریقت ہو گئے.یہاں سے دوبارہ سر ہند آگئے اور فیوض برکات کے انتشار کا کام شروع کر دیا.

Page 219

178 بلند روحانی مقام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریرات میں آپ کا تذکرہ کیا ہے.آپ کی کتب خصوصاً مکتوبات کے حوالے دیئے ہیں.آپ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.ولی دو قسم کے ہوتے ہیں ایک مجاہدہ کش جیسے حضرت بابا فرید شکر گنج اور دوسرے محدث جیسے ابوالحسن خرقانی محمد اکرم ملتانی مجدد الف ثانی وغیرہ یہ دوسرے قسم کے ولی بڑے مرتبے کے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سے بکثرت کلام کرتا ہے میں بھی ان میں سے ہوں“.ہے آپ صاحب کشف والہام بزرگ تھے اور زیارت رسول سے مشرف ہو چکے تھے.چنانچہ 27 رمضان المبارک 1010ھ بروز سوموار ظہر کے بعد مراقبے میں تھے معاً آپ نے خود کو ایک خلعتِ نورانی میں لیٹے ہوئے پایا.اسی اثناء میں صاحب لولاک سید المرسلین ﷺ تشریف لائے اور اپنے دست مبارک سے مجددالف ثانی کے سر پر دستار باندھی اور منصب قیومیت کی مبارکباد دی....اسی طرح ایک مرتبہ آپ قبرستان گئے اور فاتحہ کے بعد امام رفیع الدین کے مزار پر کھڑے ہو کر قبرستان کی مغفرت کیلئے دعا مانگی.تب الہام ہوا کہ ایک ہفتہ کیلئے ہم نے قبرستان سے عذاب اُٹھالیا ہے.آپ اپنے رب کی لامتناہی رحمتوں کا ذکر کرتے رہے یہاں تک کہ القاء ہوا کہ ہم نے تیری خاطر اس قبرستان سے قیامت تک عذاب اُٹھالیا.ھے یہ واقعہ اگر چہ بلاتر و قبول نہیں کیا جاسکتایا تو یہ شفی نظارہ تھا اور آپ کو بتایا گیا ہو کہ جس طرح ان مردوں کو آپ کے ذریعہ جنت ملی ویسے ہی آپ کی عملی زندگی میں روحانی مُردے آپ کی تعلیمات اور تجدید سے بیدار ہوں گے اور جہالت کی ظلمتوں سے نکل کر ہدایت کی روشنی میں آجائیں گے.اگر اس کو ظاہری ہی مانا جائے تو پھر اُن معترضین کا جواب یہ واقعہ بن سکتا ہے جو بہشتی مقبرہ پر اعتراض کرتے ہیں کہ مرزا صاحب نے دنیا میں ہی پیسے والوں کو جنت عطا کی ہے.یہاں تو رقم خرچ کرنی پڑتی ہیں اس کے علاوہ وصیت کی کڑی شرائط ہیں.لیکن اس واقعہ کے بارے میں کیا خیال ہے کہ ایک بار دُعا کے نتیجے میں ہی سارے قبرستان سے قیامت تک عذاب ٹال دیا گیا.

Page 220

وفات 179 ہیں:.آپ 28 صفر 1034 ھ کوسر ہند میں فوت ہوئے.21 مسلمانوں کی حالت زار حضرت مجددالف ثانی خود اس وقت مسلمانوں کی حالت کا بیان ایک مکتوب میں یوں کرتے کفار بے تحاشہ مسجدوں کو شہید کر کے وہاں مندر بنا رہے ہیں.تھانیسر میں ایک مسجد اور ایک بزرگ کا مقبرہ تھا اسے گرا کر اس کی جگہ بڑا بھاری مندر تعمیر کرایا ہے.اس کے علاوہ کفار اپنی رسموں کو کھلم کھلا ادا کر رہے ہیں اور مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ وہ ان شرارتوں اور مخالفتوں کے سبب اکثر احکام اسلامی کے بجالانے سے قاصر ہیں.ایکارشی کے دن ہندو کھانا ترک کر دیتے ہیں اور یہ کہ اس دن اسلامی شہروں میں بھی کوئی مسلمان روٹی نہ پکائے اور نہ بیچے اور ماہِ رمضان میں ہندو برملا نان و طعام پکاتے اور بیچتے ہیں.مگر اسلام کے مغلوب ہونے کے باعث انہیں کوئی نہیں روک سکتا.ہائے افسوس بادشاہ وقت ہم میں سے ہو اور پھر ہم فقیروں کا اس طرح خستہ اور خراب حال ہو.ہے دیگر حالات زمانه آپ کے دور کا بڑا فتنہ دین الہی تھا.مغلیہ سلطنت کا بادشاہ اکبر تھا تو پیدائشی مسلمان لیکن حکمران بننے کے بعد اس کے طور اطوار بدل گئے.مذہبی پستی تو عام تھی ، بادشاہ نے تو حد کر دی.اس کے سامنے ایک ہی مقصد تھا کہ اپنی ہندو مسلم رعایا کو متحد کیا جائے اور ان میں بنیادی اختلاف مذہبی تھا.چنانچہ اُس نے ان کے اشتراک سے دین الہی بنایا جس میں اسلامی عقائد کی دھجیاں اُڑادی گئی تھیں.وہ تمام رسومات جن کو اسلام سختی سے منع کرتا ہے اس دین کا حصہ بن گئیں.چنانچہ لکھا ہے کہ اس مذہب کے نتیجے میں سورج کی پرستش چار وقت لازمی قرار دی گئی.اب پانی، درخت، گائے کا پوجنا جائز ، قشقہ لگانا، گلے میں زنار پہننامذہب کی علامت بن گیا.داڑھی منڈانا غسل جنابت نہ کرنا، ختنہ نہ کرنا،

Page 221

180 اس دین کی شناخت قرار پائی اور تمام اسلام کی رسومات کو ہزار سال پرانی رسومات کہہ کر ترک کر دیا گیا.بادشاہ کو خدا کا او تا سمجھ کرسجدہ تعظیمی لازمی قرار دیا گیا.روافض اسلام دشمنی کا کھلم کھلا اظہار کرتے تھے.خود بادشاہ وقت بزرگان دین سے عداوت رکھتا تھا.ایسے حالات میں ایک مجدد کب خاموش رہ سکتا تھا.ناممکن تھا کہ آپ (مجدد الف ثانی ) اسلام اور صحابہ کرام کی تضحیک پر بھی مہر بلب رہتے.آپ نے رڈ روافض میں ایک رسالہ لکھا اور ان کے عقائد باطلہ کی تردید فرمائی.اکبر کے بعد جہانگیر بادشاہ بنا.اس کا وزیر السلطنت آصف جاہ رافضی تھا.اس نے حضرت مجددالف ثانی کے خلاف بادشاہ کے کان بھرے تو اس نے سرکاری کارندہ بھیج کر انہیں دربار میں بلایا.چنانچہ 1028ھ میں آپ آگرے تشریف لائے آپ نے بادشاہ کو سجدہ تعظیمی نہ کیا.آصف جاہ کے بے سروپا سوالات کے آپ نے شافی و مسکت جواب دیئے.جب اس سے کچھ بن نہ پڑا تو سجدۂ تعظیمی نہ کرنے کی بابت پوچھا.تو فرمایا: - یہ سر قدوس کے سوا کسی کے آگے نہیں جھکتا اور یہ جبیں خالق ارض و سما کے علاوہ کسی کے آگے نیاز نہیں ہوتی.2 چنانچہ وزیر کے اکسانے پر جہانگیر نے آپ کو گوالیار کے قلعے میں باغیوں کے ساتھ قید کرادیا.حضرت مجددالف ثانی نے اپنے مکتوبات میں اس زمانے کی بدر سوم کا نقشہ یوں کھینچا ہے.اکثر عور تیں کمال جہالت کے باعث اس قسم کی ممنوع استمداد میں مبتلا ہیں...وو خاص کر مرض چیچک کے وقت نیک اور بد عورتوں سے یہ بات مشہور و محسوس ہوتی ہے شاید ہی کوئی عورت ہو جو اس شرک سے خالی ہو اور شرک کی کسی رسم میں مبتلا نہ ہو.ہندوؤں کے بڑے دن کی تعظیم کرتی اور ان کی مشہور رسموں کو بجالاتی ہیں ، اور اپنی عید مناتی ہیں اور کافروں اور مشرکوں کی طرح ہر یسے اور تحفے اپنی بیٹیوں، بہنوں کو بھیجتی ہیں اور اس موسم میں اپنے برتنوں کو رنگ کر کے ان کو سرخ چاولوں سے بھر کر بھیجتی ہیں.اور اس موسم کا بڑا شان اور اظہار بناتی ہیں.یہ سب شرک اور دین اسلام کا کفر ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وما یومن اکثرهم بالله الا وهم مشركون (يوسف: 107).حیوانات کو مشائخ کی نذر کرتے

Page 222

181 ہیں، ان کی قبروں پر جا کر ذبح کرتے ہیں.اسی طرح وہ روزے جو عورتیں پیروں اور بیبیوں کی نیت پر رکھتی ہیں...اور اپنے مطلبوں اور مقصودوں کو ان روزوں پر موقوف کرتی ہیں اور ان روزوں کے ذریعے ان سے حاجتیں طلب کرتی ہیں.یہ سب عبادت میں شرک ہے.اے وفات آپ نے 28 صفر المظفر 1034ھ کی شب دوران علالت اپنے خدام سے فرمایا ”اج ملا وا کنت سوں سکھی سب جگ دینواں وائے.آج وصال یار ہے اس لیے میں سارا جہاں بخوشی شمار کرتا ہوں.پھر آپ نے صحیحین کی ادعیہ پڑھیں اور تہجد ادا کی.نماز فجر با جماعت پڑھی اور حکم دیا کہ مجھے فرش پر لٹا دو اور سنت کے مطابق سر مبارک بطرف شمال اور چہرہ بسوئے کعبہ، دایاں ہاتھ زیر خسارتھا.ذکر الہی میں مشغول تھے اور ایسی حالت میں جان جان آفرین کے سپر د کر دی.اناللہ وانا الیہ راجعون.اے تجدیدی کارنامے دین الہی ، مشرکانہ رسومات اور روافض وغیرہ آپ کے دور کے فتنے تھے اور آپ نے ان کو ختم کرنے کیلئے اپنی زندگی وقف کر دی.دعوی مجددیت آپ کے مکتوبات میں آپ کے مجدد ہونے کا دعوی بھی ملتا ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں:- اگر گوید که فهم کند و که در یا بد این معارف از حیطه ولایت ارباب ولایت در رنگ علماء ظواهر در ادراک آن عاجزاند و در درک آن قاصر این علوم متقیس از مشکوۃ انوار نبوت اند علی اربا بہا.الصلوٰۃ والسلام والتحیة که بعد از تجدید الف ثانی به تبعیت و وراثت تازه گذشته اند و بطراوت ظهور یافتہ صاحب این علوم و معارف مجدد ایں الف است کمالا يخفى على الناظرين في علومه و معرفته التي تتعلق بالذات والصفات والافعال و تتلبس بالاحوال والمواجيد والتجليات والظهورات فيعلمون ان مولاء العارف لب ذلك القشر والله سبحانه الهادی و

Page 223

182 بدانند بر سرمان مجد دے گزشته است اما مجدد مائکه دیگر است و مجددالف دیگر - چنانچه در میان مائة و الف فرق است در مجددی اینها نیز هما قد ر فرق است بلکه زیاده از اں و مجدد آن است که هر چند در آن مدت از فیوض بامتان برسد بتوسط او برسد اگر چه اقطاب واو تار وقت بونده بدلا ونجا باشند ۱۲ ( ترجمہ ) اگر کوئی کہے کہ ان معارف کو جو ولیوں کی ولایت کے محل سے چہرہ نمائی کرتے ہیں کون سمجھ سکتا ہے یا کون ان کی گنہ کو پاسکتا ہے.سو یا در ہے کہ ظاہر پرست علماء ان معارف کے ادراک سے عاجز ہیں اور ان کی حقیقت کے پانے سے قاصر ہیں.یہ علوم بھی حاصل نہیں ہوتے بلکہ نبوت کے مشکوۃ سے حاصل ہوتے ہیں.جو انبیاء کی کامل پیروی کرنے کے بعد بطور وراثت عطا ہوکر دوسرے ہزار کی تجدید کیلئے تر و تازہ ہو گئے ہیں.جس شخص کو یہ علوم و معارف ملے ہیں وہ اس صدی کا مجدد ہے.چنانچہ یہ بات ان لوگوں پر مخفی نہیں جنہوں نے اس کے علوم پر نظر کی ہے اور ان معارف کو ملاحظہ کیا ہے جو اس شخص کی ذات اور صفات اور افعال کے متعلق ہیں اور نیز اس کے حالات اور مواجید اور تجلیات اور ظہورات کو دیکھا ہے اور یہ بات بھی یادر کھنے کے لائق ہے کہ یہ تمام صفات اس پوست کا ایک ذرہ ہیں جو اس شخص کو دیئے گئے ہیں یعنی جو کچھ اب تک لوگوں نے دیکھا ہے یہ بہت قلیل ہے.اس کی شان اس سے بڑھ کر ہے اور یہ خاص اسی پاک ذات کا فضل ہے جس نے لوگوں کو ہدایت کیلئے ایک ہادی بھیجا ہے.لہذا فی الحقیقت وہ اس ذات کا فضل ہے جس نے لوگوں کی ہدایت کیلئے ایک ہادی بھیجا ہے.لہذا فی الحقیقت وہ ذات ہی ہادی کہلانے کے لائق ہے.لیکن صدی کا مجد داور الف کا مجد د مختلف ہے یعنی جس طرح سو اور ہزار میں فرق ، اس طرح ان کے مجددوں میں بہت فرق ہے.اور مجد دوہ شخص ہوتا ہے کہ اس زمانے میں جس قدر فیض اُمتوں کو پہنچتا ہے وہ صرف اُسی مجدد کے توسط اور وسیلہ سے پہنچتا ہے.خواہ اس زمانے کے قطب اور اوتار اور ابدال اور انجباء بھی موجود ہوں.آپ کی تجدید کا خلاصہ یہ ہے.ا.آپ نے غرباء کی ایک جماعت تیار کی جو اسلامی روایات کی حامل تھی.۲.اہم علم سنجیدہ طبقہ میں اپنی تحریرات و تقاریر کے ذریعہ ایک ذہنی انقلاب پیدا کیا اور علمی استدلال سے خوب کام لیا.۳.امراء و حکمرانوں کو خطوط لکھ کر انہیں ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.

Page 224

183.بادشاہ وقت جو ملحد ہو رہا تھا اسے بھی خطوط لکھے.اور اس کی خاطر آپ کو قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں.تعلیمات آپ ایک ایسے ملک میں تھے جہاں ہندوؤں کی کثرت تھی.اس لیے آپ کی تعلیمات میں ہندو عقائد کارڈ بھی ملتا ہے اور دوسرے ہنود کے اثر سے مسلمانوں میں جو برائیاں آگئی تھیں ان کے رڈ میں بھی آپ کے ارشادات ملتے ہیں.اس کے علاوہ وحدت الشہود اور فلاسفہ کے رد میں بھی آپ کی تعلیمات موجود ہیں.چنانچہ آپ تو حید کے متعلق فرماتے ہیں :- پس یہ کہنا کہ رام اور رحمن ایک ہی ہستی کے دو نام ہیں کسی طرح بھی ٹھیک نہیں.ایک شے خود ہی خالق اور خود ہی مخلوق ہے جو جسمی مشابہت سے واحد نہ ہو پھر وہ بے شبہ اور بے مثال کس طرح ہو سکتی ہے.رام اور کرشن کی پیدائش تک خدائے قدوس کو کسی نے رام و کرشن نہ کہا.ان کے پیدا ہونے کے بعد ذات احدیت پر رام و کرشن کا اطلاق کیا.اس دعوی کی روشن دلیل نہیں کہ ان ناموں کے پردے میں خدا تعالیٰ کے عوض رام و کرشن کی پرستش کی جاتی ہے.ما تعبدون من دون اللہ الخ اللہ کے سوا جس کی پرستش کرتے ہو یہ تو ایسے نام ہیں جو تم اور تمہارے باپ دادا نے از خود رکھ لیے ہیں اللہ نے ان کی کوئی سند نازل نہ فرمائی.۱۳ انتباع سنت پیروں اور نام نہا دصوفیاء نے سنت کی روش کو چھوڑ کر اپنی الگ شریعت بنالی تھی مگر آپ نے سنت کی پیروی کی دعوت یوں دی "وظائف بندگی کو ادا کرنا اور حضرت جل مجدہ کی جانب ہمیشہ اور ہر وقت متوجہ رہنا پیدائش کا مقصود ہے.یہ بات صرف اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے کہ سنت سید الاولین والآخرین عملہ کی ظاہر و باطناً ہر طرح سے پوری پوری اتباع کی جائے.۱۳ اسی طرح یہ نام نہا د صوفیاء ان فرائض کی پرواہ نہیں کرتے تھے جو خدا نے فرض کیے ہیں اور اپنے آپ کو اس سے بالا خیال کرتے ہیں.آپ نے فرض کی اہمیت کے بارے میں فرمایا :-

Page 225

184 ایک فرض کا ایک وقت میں ادا کرنا ہزار سال کے نوافل ادا کرنے سے بہتر ہے اگر چہ خالص نیت سے ادا ہوں“.اسی طرح فرمایا: ” کار دین اور نجات اخروی کا مدار عشق رسول اور اپنے شیخ کے ساتھ اخلاص میں ہے.ھے حقوق العباد آپ نے حقوق العباد اور اخلاق حسنہ کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا ”بعض علماء ربانی فرماتے ہیں کہ جب تک انسان ان دس چیزوں کو اپنے اوپر فرض نہ کرلے کامل ورع حاصل نہیں ہوتی.ا.زبان کو غیبت سے بچائے.۲.بدظنی سے بچے.- مسخرہ پن یعنی ہنسی ٹھٹھے سے پر ہیز کرے.۴.حرام سے آنکھ بند کرے.۵.سچ بولے -۶.ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا احسان جانے تا کہ اس کا نفس مغرور نہ ہو.اپنا مال راہ حق میں خرچ کرے اور راہ باطل میں خرچ کرنے سے بچے.اپنے نفس کیلئے بلندی اور بڑائی طلب نہ کرے.۹.نماز کی محافظت کرے.۱۰.اہل سنت و جماعت پر استقامت اختیار کرے.۱۶ء وحدت الشہود شروع میں آپ وحدۃ الوجود کے قائل تھے لیکن رفتہ رفتہ آپ سلوک کی منازل طے کرتے رہے تو یہ حقیقت منکشف ہوتی گئی کہ ذات حق صفات سے جدا ہے.چنانچہ پھر آپ نے اسی عقیدے کا اظہار فرمایا.صفات عین ذات نہیں بلکہ زائد علی الذات ہیں.اللہ تعالیٰ کا وجود فی ذاتہ کامل ہے اس لیے اپنی تکمیل کیلئے صفات کی احتیاج نہیں.صفات اس کے وجود کی معین اور مددگار ہیں.وہ موجود ہے لیکن اس کا وجود خود اس کی ذات سے ہے.وہ سمیع ہے اپنی ذات سے، وہ علیم ہے اپنی ذات سے.غرض اللہ تعالیٰ کی صفات عین ذات نہیں بلکہ اس کی ذات کے

Page 226

185 اظلال ہیں.کے رد فلسفه ایک دن ابوالفضل نے فلاسفہ کی بے جا تعریف کی تو امام ربانی نے جوش میں فرمایا :- امام غزائی نے فرمایا ہے کہ جن علوم کے فلاسفہ اپنے تئیں واضح بتلاتے ہیں وہ دراصل علوم انبیاء سے مسروقہ ہیں اور جو علوم انہوں نے مثل ریاضی وغیرہ ایجاد کیسے ہیں وہ دین میں مفید نہیں..بادشاہ وقت کو تبلیغ اکبر بادشاہ اسلام سے منحرف ہو چکا تھا اور دین الہی کی ترویج کرتا تھا.دین الہی کی بیعت میں یہ عہد شامل تھا کہ میں اسلام کو جو قابل تقلید نہیں رہا چھوڑتا ہوں.حضرت مجدد نے بادشاہ کو سر بازار بُرا کہا اور اس کی خاطر پابند سلاسل کیے گئے لیکن افضل جهاد كلمة حق عند سلطان جابر پرعمل کرتے رہے اور اپنے عقائد سے سرمو انحراف نہ کیا.آپ نے ایک بار فرمایا:- ”بادشاہ اللہ اور اس کے رسول کا باغی ہو گیا ہے.جاؤ میری طرف سے اسے کہہ دو کہ اس کی بادشاہی، اس کی طاقت ، اس کی فوج سب کچھ ایک دن مٹ جانے والی ہے.وہ تو بہ کر کے خدا اور اس کے رسول کا تابعدار بنے ورنہ اللہ کے غضب کا انتظار کرے.واہ اسی طرح فرمایا : - ”بادشاہ اہل اسلام کی توجہ اہل کفر کی جانب نہیں رہی ہے.مسلمانوں پر لازم ہے کہ رسومات کفر کی قباحت پوری طرح بادشاہ کے ذہن نشین کرا دیں.ضرورت سمجھیں تو کسی عالم کو بلا لیں.احکام شرعی کی تبلیغ کیلئے کرامتوں کا اظہار ضروری نہیں“.اکبر بادشاہ نے دین الہی کی برتری ثابت کرنے کیلئے آپ کو دعوت پر بلایا.ایک طرف دربار اکبری سجایا اور پر تکلف کھانے تیار کیے گئے.دوسری طرف حضرت مجدد کا دربار تھا جو ان تکلفات سے بری تھا.اکبر کا خیال تھا کہ آج پرانے اسلام پر میری دھاک بیٹھے گی.لیکن حضرت مجددالف ثانی چند دوستوں کے ساتھ وہاں گئے.خدا کا کرنا کیا ہوا کہ تھوڑی دیر بعد ہی سخت طوفان آیا اور در بارا کبری

Page 227

186 تہہ و بالا ہو گیا.خیموں کی چو میں اکھڑ گئیں ، اکبر خود زخمی ہو گیا.لیکن حضرت مجددالف ثانی کی قیامگاہ بالکل محفوظ رہی.بعض لوگوں کا خیال ہے کہ انہیں زخموں کے باعث اکبر کی موت واقع ہوئی اور موت کے وقت اس نے تو حید ورسالت محمدی کی تصدیق کی اور سورۃ یسین بھی سنی.یہ مجد دالف ثانی کی تبلیغ کا نتیجہ تھا.اسے ایام اسیری میں تبلیغ دوران تجدید و تبلیغ آپ کو کئی سال تک محبوس کیا گیا مگر آپ نے سنت یوسفی کے مطابق بخوشی یہ راہ حق کی تکلیفیں گوارا کیں اور قید میں بھی رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری رکھا.چنانچہ آپ کی تبلیغ سے بیشمار گناہوں سے آلودہ تائب ہوئے اور کئی لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے.آپ فرمایا کرتے تھے:.میں اس (بادشاہ یا خدا.ناقل ) کا مشکور ہوں کہ اس نے مجھے قید کر دیا اگر وہ ایسانہ کرتا تو اتنے لوگ جو فوائد دینی سے مالا مال ہوئے ہیں محروم رہ جاتے.آپ دو سال تک قید رہے ( بعض جگہ ایک سال بھی لکھا ہے ) اور اس کے بعد بادشاہ کی بیٹی کو بذریعہ خواب متنبہ کیا گیا چنانچہ اس وقت کے بادشاہ جہانگیر نے پروانہ رہائی جاری کیا لیکن جس طرح حضرت یوسف نے برات تک قید میں رہنے کو ترجیح دی تھی اسی طرح آپ نے بھی رہائی کیلئے چند شرائط پیش کر دیں اور ان شرائط سے آپ کے دل کی کیفیت اور جذبہ تجدید کا اظہار ہوتا ہے.وہ شرائط یہ تھیں.ا.تمام مسمار شدہ مساجدا از سر نو تعمیر کی جائیں.۲.کفار سے شریعت محمدیہ کے مطابق جزیہ لیا جائے.۳.مسلمانوں سے گائے ذبح کرنے کی پابندی ختم کی جائے.۴.سجدہ تعظیمی فوراختم کیا جائے.بادشاہ نے ان شرائط کو فورا تسلیم کر لیا اور آپ رہا ہو گئے.اس کے دوشہزادے شاہجہاں اور اور نگ زیب آپ کے مرید بن گئے.قید سے رہائی پر آپ نے جو شرائط پیش کیں نیز آپ کے پند و نصائح نے جہانگیر کو بدل دیا اس طرح فتنہ اکبری کا خاتمہ ہوا اور آخری عمر میں جہانگیر کہا کرتا تھا مجھے نجات کیلئے صرف یہی دستاویز حاصل ہے کہ شیخ احمد سر ہندی نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں جنت

Page 228

187 میں لے جائے گا تو تیرے بغیر نہ جائیں گے“.۲؎ استقا جہانگیر نے جب سجدہ تعظیمی نہ کرنے پر آپ کو قید کر دیا تو شاہجہاں نے قاصد بھجوایا کہ فقہ کی کتب میں سجدہ تعظیمی کی اباحت ہے.آپ نے فرمایا:- وو جان بچانے کیلئے یہ بھی جائز ہے مگر عزیمت اسی میں ہے کہ غیر اللہ کو سجدہ نہ کیا جائے“.آپ کی تبلیغ کا اثر قلیح خان جو اکبری دور کا جرنیل تھا ایک خط میں حضرت مجد دکولکھتا ہے :- " آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ لا ہورا ایسے بڑے شہر میں آپ کے وجود سے بہت سے احکام شرعیہ نے رواج پیدا کر لیا ہے، دین کو تقویت اور ملت بیضائی کی تائید ہوتی ہے...اگر اس شہر میں دین کو رواج حاصل ہوا تو سب جگہ ایک قسم کا رواج پیدا ہو جائے گا حق سبحانہ آپ کی مدد فرمائیں.۲۴ آپ کی ہدایت پر آپ کے مرید شیخ بدیع الدین نے لشکر جہانگیر میں دعوت دی تو ایک تعداد کثیر حضرت مجدد کے حلقہ ارادت میں شامل ہو گئی.تصانیف آپ کی تصانیف میں شہرہ آفاق آپ کے مکتوبات ہیں.اس کے علاوہ مبداً معاد.معارف لدنیہ.مکاشفات غیبیہ.شرح رباعیات حضرت خواجہ باقی باللہ رسالہ تہلیلیہ.رسالہ فی اثبات النبوۃ.ساله بسلسلہ احادیث شامل ہیں.آپ کا جاری کردہ طریقہ مجددیہ اس عہد میں صوفیاء میں طریقہ جاری کرنے کا رواج تھا.جسے ہم عام زبان میں سلسلہ کہتے ہیں.آپ نے بھی قرآن وسنت کی ترویج کیلئے اور رسومات سے بچانے کیلئے ایک نیا سلسلہ طریقہ

Page 229

188 مجددیہ کے نام سے شروع کیا.اس کے متعلق شیخ محمد اکرم رود کوثر میں لکھتے ہیں :- ” اس طریقے کے تمام اصول و فروع میں اتباع سنت اور اجتناب بدعت نامرضیہ بدرجہ کمال ہے.کمال ولایت کے علاوہ کمالات نبوت کی بھی تعلیم ہے.اس میں نہ چلہ کشی کی ضرورت اور نہ ذکر بالجبر کی اجازت ہے، نہ سماع بالمزامیر ہے، نہ قبور پر روشنی ، نہ غلاف و چا در اندازی، نه هجوم عورات، نه سجدۂ تعظیمی، نہ سر جھکانا، نہ بوسہ دینا، نہ توحید وجودی و دعوی انا الحق و ہمہ او است، نہ مریدوں کو پیروں کی قدم بوسی کا حکم ، نہ مرید عورتوں کو ان کے پیروں سے بے پردگی ہے پس آپ کا طریقہ رائج الوقت طریقوں کی اتباع میں رسماً نہ تھا بلکہ خالص مذہبی جماعت کا قیام مدنظر تھا.جس میں اسلام کے حکموں پر عملدرآمد ہو.مولانا غلام علی آزاد بلگرامی آپ کے سلسلہ ولٹریچر کے ذکر میں کہتے ہیں :- سلسلہ ان کا ہند سے ماوراء النہر اور روم، شام و عرب تک پہنچا.تصانیف میں ان کی مکتوبات تین جلدوں میں ہیں.میں نے سنا ہے کہ بعض علماء نے ان کے مکتوبات کا عربی میں ترجمہ کیا ہے.اگر چہ میں نے یہ عربی ترجمہ نہیں دیکھا“.۲۸ آپ کا سلسلہ آپ کے بعد بھی جاری رہا.آپ کے فرزند سوم خواجہ محمد معصوم قدس سرہ جو آپ کے خلیفہ ہوئے ، پہلے دن ہی پچاس ہزار افراد نے ان کی بیعت کی.بادشاہوں نے بھی تحائف بھجوائے اور بیعت کی.کاشغر کا بادشاہ مرید ہوا ، یمن کا بادشاہ خا آن مسلمان ہوا.تاریخ مراۃ عالم و جہاں نما میں لکھا ہے کہ ہندوستان، توران، ترکستان، بدخشاں ، کاشغر، روم، سام، یمن کے بادشاہ آپ کے مرید ہوئے اور 9 لاکھ آدمی براہِ راست آپ کے مرید ہوئے.آپ کے خلفاء کی تعداد 7 ہزارتھی.ہے احمدیت اور حضرت مجددالف ثانی ہر چند کہ حضرت مجد د احمدیت سے کئی صدیاں پہلے ہوئے لیکن وہ اختلافی مسائل جو احمد یوں اور دیگر لوگوں کے مابین محل نزاع ہیں ان کے بارے میں آپ کے مکتوبات میں ایسے اشارات ہیں جن سے ہمارے مسلک کی تائید ہوتی ہے.دراصل یہ در پردہ تیاری تھی اور احمدیت کیلئے زمین ہموار ہورہی تھی.

Page 230

189 -1 پہلا مسئلہ نبوت کا جو کہ بہت اہم ہے.نبی کون ہوتا ہے اور اس اُمت میں نبوت ہوسکتی ہے یا نہیں.حضرت مجدد کا مسلک کیا تھا اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- "جیسا کہ مجدد صاحب سرہندی نے اپنے مکتوبات میں لکھا کہ اگر چہ اس امت کے بعض افراد مکالمہ و مخاطبہ الہیہ سے مخصوص ہیں اور قیامت تک مخصوص رہیں گے لیکن جس شخص کو بکثرت اس مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ سے مشرف کیا جائے اور بکثرت امور غیبیہ اس پر ظاہر کیے جائیں وہ نبی کہلاتا ہے“.۳۰.دوسرا مسئلہ وفات مسیح اور ہجرت مسیح الی کشمیر کا ہے.اس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:- مجد والف سرہندی صاحب فرماتے ہیں کہ ہندوستان میں بعض قبریں ایسی ہیں جن کو میں پہچانتا ہوں کہ نبیوں کی قبریں ہیں.اسے پتا چلا کہ وہ بھی احمدیوں کی طرح رام ، کرشن وغیرہ کو نبی تسلیم کرتے تھے نیز گمان کیا جاسکتا ہے کہ مسیح کی قبر بھی ان پر منکشف ہو چکی تھی.-۳.تیسرا مسئلہ مہدی کی آمد کا ہے کہ اس کے آنے کا وقت کیا ہے.کیا وہ علامات پوری ہوئی ہیں یا نہیں.اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- اسی طرح نواب صدیق حسن خانصاحب حج الکرامہ میں اور حضرت مجددالف ثانی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ احادیث صحیحہ میں لکھا ہے کہ ستارہ دنباله دار یعنی ذوالسنین مہدی معہود کے ظہور کے وقت میں نمودار ہو گا.چنانچہ وہ ستارہ 1882ء میں نکلا.۳۲ - چنانچہ آپ اپنے ایک مکتوب میں یہ ذکر کرتے ہوئے کہ قیامت کا زمانہ قریب ہے اور مہدی کے ظہور کا وقت نزدیک ہے.فرمایا:- ” قیامت قریب ہے اور ظلمتوں کی گھٹائیں چھارہی ہیں.کہاں خیریت و کہاں نورانیت شاید حضرت مہدی علیہ الرضوان خلافت ظاہری کی تائید پاکر اس کو رواج دیں گئے.اس حوالہ سے یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ فتنے رفتہ رفتہ بڑھ رہے تھے اور عام مجدد کے بس کا روگ نہ رہے تھے بلکہ ایک مجدد کامل اور امتی نبی کی ضرورت تھی جو ان بڑھتے ہوئے فتنوں کی اصلاح

Page 231

190 کر سکے.۴.بروز کے مسئلہ پر اعتراض ہوتا ہے کہ مرزا صاحب نے ظلی نبی ہونے کا دعویٰ کیا.یہ نئی اصطلاح بنالی ہے اور کفر ہے.لیکن حضرت مجد دالف ثانی کو ماننے والے انہیں کیا کہتے ہیں ملاحظہ ہو.لہذا ضروری ہوا کہ حسب عادت ربانی اور منتقصائے صنعت رحمانی کوئی شخص ایسا پیدا ہوتا جو ظلمی طور پر رسول کے کمالات کا نمونہ مخلوقات میں دکھا تا اور جو قائم مقام اولوالعزم ہو کر تجدید دین متین کرتا.لہذا اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے وہ کمالات حضرت امام ربانی شیخ احمد سر ہندی رحمۃ اللہ علیہ کو عطا فرما کر مجددالف ثانی کیا ہے پس آپ کی تحریک احیائے دین دوگانہ تھی.ایک طرف سیاسی بے راہ روی تھی اور حکومت خلاف شریعت سرگرمیوں میں مصروف تھی اور دوسری طرف اخلاق کریمانہ معدوم ہورہے تھے.ہندومت کی آمیزش کے بداثرات آپ کی مساعی سے رُکے.شیعوں کا غلبہ جو بدامنی پیدا کر رہا تھا آپ کی تعلیمات سے ختم ہوا.رافضی آپ کے رسالہ رڈ روافض کے سامنے دم سادھ گئے.آپ کے تین جلدوں پر مشتمل مکتوبات علم و معرفت کا خزانہ ہیں جن سے الحاد و زندقہ ، بدعت وضلالت کا قلع قمع ہوتا ہے.ارشادات حضرت مسیح موعود درباره حضرت مجددالف ثانی سرہندی حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:- اصل میں ان کی اور ہماری نزاع لفظی ہے.مکالمہ مخاطبہ کا تو یہ لوگ خود بھی اقرار کرتے ہیں.مجدد صاحب ( سرہندی) اس کے قائل ہیں.وہ لکھتے ہیں کہ جن اولیاء اللہ کو کثرت سے خدا تعالیٰ کا مکالمہ مخاطبہ ہوتا ہے وہ محدث اور نبی کہلاتے ہیں جسے اخبار البدر میں یوں درج ہے:.حضرت مجد دسر ہندی بھی ایسے مکالمہ کے قائل ہیں.میں کہتا ہوں کہ اگر کوئی خدا سے خبر پا کر پیشگوئی کرتا ہے تو اسے عربی میں نبوت کے سوا کیا کہیں گے “ سے نبوت کی حقیقت ایک شخص سرحدی آیا اور بہت شوخی سے کلام کرنے لگا.فرمایا:-

Page 232

191 میں نے اپنی طرف سے کوئی اپنا کلمہ نہیں بنایا نہ نما ز علیحدہ بنائی ہے بلکہ آنحضرت ﷺ کی پیروی کو دین و ایمان سمجھتا ہوں.یہ نبوت کا لفظ جو اختیار کیا گیا ہے صرف خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے جس شخص پر پیشگوئی کے طور پر خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی بات کا اظہار بکثرت ہوا سے نبی کہا جاتا ہے.خدا کا وجود خدا تعالیٰ کے نشان کے ساتھ پہچانا جاتا ہے.اس لیے اولیاء اللہ بھیجے جاتے ہیں.مثنوی میں لکھا ہے آں نبی باشد اے مرید محی الدین ابن عربی نے بھی ایسا ہی لکھا ہے.حضرت مجدد نے بھی یہی عقیدہ ظاہر کیا ہے.پس کیا سب کو کافر کہو گے؟ یا درکھو سلسلہ نبوت قیامت تک قائم رہے گا.۳۷ محدث کی تعریف فرمایا: ” مجد دصاحب لکھتے ہیں کہ یہی خوا ہیں اور الہامات جو گاہ گاہ انسان کو ہوتے ہیں اگر کثرت سے کسی کو ہوں تو وہ محدث کہلاتا ہے.غرض یہ سب کچھ ہم نے اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں مفصل لکھ دیا ہے اس کا مطالعہ کر کے تسلی کریں“.۳۸ ہر نبی کے وقت ابتلاء آئے فرمایا: ”اگر دنیا میں یہ باتیں انسان اپنی طاقت سے بنا سکتا ہے تو اس کی نظیر کہاں ہے؟ اگر یہ ہوسکتا اور انسان کر سکتا تو تمام انبیاء کی پیشگوئیاں اور خوارق عادت ایک شبہ میں پڑ جاتے ہیں مگر بات یہ ہے کہ ابتلاؤں کا آنا ضروری ہے.ہر نبی کے وقت میں ابتلاء آتے اور اب بھی وہی سنت اللہ جاری ہے.مجد دصاحب نے بھی ایک مکتوب میں لکھا ہے کہ جب مسیح آئے گا تو علماء اس کا مقابلہ کریں گے اور اس کی تکذیب کریں گئے.بہے سید احمد سرہندی کی پیشگوئی آخری احمد کے متعلق فرمایا : - "سید احمد سرہندی صاحب کا ایک خط جس میں انہوں نے بتلایا ہے کہ اس قدر احمد مجھ سے پیشتر گزرچکے ہیں اور ایک آخری احمد ہے.پھر آپ نے اس کی

Page 233

192 ملاقات کی خواہش ظاہر کی ہے اور خود اس کے زمانہ سے پیشتر ہونے پر افسوس کیا ہے اور لکھا ہے یا اسفا على لقائه.اتہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- حضرت مجددالف ثانی صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ احادیث صحیحہ میں لکھا ہے کہ ستارہ دنباله یعنی ذوالسنین مہدی معہود کے ظہور کے وقت میں نمودار ہوگا.چنانچہ وہ ستارہ 1882ء میں نکلا اور انگریزی اخباروں نے اس کی نسبت یہ بھی بیان کیا ہے کہ یہی وہ ستارہ ہے جو حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت میں نکلا تھا.۴۲ ایک اور پیشگوئی فرمایا: ”مجددالف ثانی صاحب بھی یہی لکھتے ہیں کہ مہدی معہود جب ظاہر ہوگا تو اس کو لوگ کافر کہیں گے اور اس کو ترک کر دیں گے اور قریب ہوگا کہ علماء اسلام اس کو قتل کردیں.ایک پیشگوئی جو حرف بحرف پوری ہوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- حضرت مجددالف صاحب سرہندی نے بھی اپنی کتاب مکتوبات کے صفحہ 107 میں لکھا ہے کہ مسیح موعود جب آئے گا تو علماء وقت بھی اس کو اہل الرائے کہیں گے.یعنی یہ خیال کریں گے کہ یہ حدیثوں کو چھوڑتا ہے اور صرف قرآن پر کار بند ہے اور اس کی مخالفت پر آمادہ ہو جائیں گے“.اس صدی کے ایک اور مجد داور نگ زیب عالمگیر بھی تھے.اور نگ زیب عالمگیر کا تذکرہ محی الدین حضرت اور نگ زیب عالمگیر 4 نومبر 1618ء کو پیدا ہوئے اور 21 فروری 1707ء کو انتقال کیا.آپ سلاطین ہند میں ایک باخدا بزرگ تھے.جنہوں نے قرآن مجید لکھ کر اورٹو پیاں سی سی

Page 234

193 کر گزارہ کیا اور عمر بھر ذاتی خرچہ کیلئے خزانہ سے ایک پائی تک لینا گوارا نہ کیا.0 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 10 دسمبر 1899ء کو صبح نو بجے سیر پر جانے سے قبل فرمایا:- ”عالمگیر کے زمانہ میں مسجد شاہی کو آگ لگ گئی تو لوگ دوڑے دوڑے بادشاہ سلامت کے پاس پہنچے اور عرض کی کہ مسجد کو تو آگ لگ گئی ہے.اس خبر کوسن کر وہ فورا سجدہ میں گرا اور شکر کیا.حاشیہ نشینوں نے تعجب سے پوچھا کہ حضور سلامت یہ کون سا وقت شکر گزاری کا ہے کہ خانہ خدا کو آگ لگ گئی اور مسلمانوں کے دلوں کو سخت صدمہ پہنچا ہے.تو بادشاہ نے کہا کہ میں مدت سے سوچتا تھا اور آہ سرد بھرتا تھا کہ اتنی عظیم الشان مسجد جو بنی ہے اور اس عمارت کے ذریعہ ہزار ہا مخلوقات کو فائدہ پہنچتا ہے کاش کوئی ایسی تجویز ہوتی کہ اس کارخیر میں کوئی میرا بھی حصہ ہوتا لیکن چاروں طرف سے میں اس کو ایسا مکمل اور بے نقص دیکھتا تھا کہ مجھے کچھ نہ سوجھتا تھا کہ اس میں میرا ثواب کسی طرح ہو جائے؟ سو آج خدا تعالیٰ نے میرے واسطے حصول ثواب کی راہ نکال دی.ہے

Page 235

194 م دم هم حوالہ جات سیارہ ڈائجسٹ اپریل صفحہ 86 ،صفحہ 68-767 ايضاً - صفحہ 464 ایضاً.صفحہ 464 اولیاء کرام نمبر سیرۃ المہدی جلد سوم صفحه 214 روایت نمبر 789 سیارہ ڈائجسٹ اولیاء کرام نمبر.17 اپریل 1986 ء صفحہ 467 انوار اصفیا.صفحہ 479 دس ولی.صفحہ 202 ایضاً.صفحہ 164 سیارہ ڈائجسٹ صفحہ 69-468.اپریل 1986، تاریخ دعوت و عزیمت حصہ چہارم صفحہ 163 ٹا مکتوبات.جلد 3 مکتوب نمبر 41 الد اله ۱۵ ١٦.سیارہ ڈائجسٹ اپریل 1986ء.صفحہ 464-470 مکتوبات امام ربانی جلد 2 صفحہ 15-14 مکتوب نمبر 4 مکتوب امام ربانی.جلد اول صفحہ 171 مکتوب نمبر 171 مکتوبات.جلد 3 صفحہ 41 سیارہ ڈائجسٹ اپریل 1986 ء صفحہ 470 مکتوبات جلد 3 مکتوب نمبر 66 کلے دس ولی - صفحہ 176 مجددالف ثانی صفحہ 87 ایضاً.صفحہ 19 ايضا صفحہ 35 ال ايضاً - صفحہ 21-19 مجددالف ثانی - صفحہ 48

Page 236

ايضا صفحہ 27 195 ۲۴ ۲۸ ايضاً - صفحہ 41 اُردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 2 صفحہ 127 دس ولی.صفحہ 173 رود کوثر از شیخ محمد اکرم - صفحه 285 ايضاً - صفحہ 291 مجددالف ثانی.صفحہ 124 تا 129 حقیقۃ الوحی.صفحہ 38 ملفوظات.جلد 10 صفحہ 143 چشمه معرفت - صفحہ 315 حاشیہ ایڈیشن اوّل مکتوبات.جلد اوّل صفحہ 300 مکتوب نمبر 260 ۳۳ حضرت مجددالف ثانی.صفحہ 45 ملفوظات.جلد پنجم صفحہ 667 E لن لے رکے رلال رکے ty ty ey ey البدر جلد 7 نمبر 25 صفحہ 8 مورخہ 25 جون 1908ء ملفوظات.جلد پنجم صفحہ 689 ملفوظات.جلد پنجم صفحہ 468 19 ایضاً.صفحہ 459 ۴۴ ملفوظات.جلد چہارم صفحہ 517 ملفوظات.جلد سوم صفحہ 465 چشمہ معرفت صفحه 330 حاشیہ صفحہ 315 ، روحانی خزائن جلد 23 ايضاً - صفحہ 334 الحق - صفحہ 334 فیروز انسائیکلو پیڈیا طبع سوم لاہور جنوری 1981 ء ملفوظات.جلد اوّل صفحہ 257-256

Page 237

196 بارھویں صدی کے مجدد حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رَحمَةُ اللهِ عَلَيْه ( 1129-1110) " سلکنی رسول الله له و ربّانی بیده فانا اویسیه و تلمیذه بلا واسطه بینی و بینه ترجمہ: مجھے چلایا ہے رسول الله علیل ہو نے اور اپنے ہاتھوں سے میری تربیت کی ہے.میں اولیس ہوں اور میں براہِ راست آپ کا شاگرد ہوں.(شاہ ولی اللہ )

Page 238

197 حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ولادت و حالات زندگی مکرم شاہ عبدالرحیم صاحب کے ہاں ساٹھ سال کی عمر تک کوئی اولاد نہ تھی.اس کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کے ہاں تین بچے پیدا ہوئے.ان میں سے سب سے بڑے بیٹے کا نام عظیم الدین شاہ تھا جو شاہ ولی اللہ کے نام سے مشہور ہوئے.آپ کی ولادت 4 شوال 1114ھ بمطابق 1703ء کو ہوئی.شاہ صاحب کا نسبی سلسلہ حضرت فاروق اعظم تک پہنچتا ہے.آپ کا خاندان کئی نسلوں سے خدمت دین پر مامور تھا.علاوہ ازیں ان میں جہاد اور فن حرب کی قابلیت بھی تھی اور آپ کے اجداد عالمگیر کی فوج میں کار ہائے نمایاں سرانجام دے چکے تھے.شاہ صاحب نے سات برس کی عمر میں قرآن حفظ کر لیا.اس کے بعد فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی.دس سال کی عمر میں شرح جامی تک پڑھ چکے تھے.اور بعد ازاں تفسیر ، حدیث ، فقہ، منطق، فلسفہ تمام علوم کی تحصیل کی.1142ھ میں مدینہ منورہ میں جا کر شیخ ابوطاہر مدنی سے جو اس زمانے کے تبحر عالم دین تھے، حدیث کا درس لیا اور سند حاصل کی.شخصیت حضرت شاہ ولی اللہ جامع الکمالات بزرگ تھے.علوم قرآن کے محقق ، محدث ، اسرار شریعت کے رمز شناس، فن اجتہاد کے ماہر، دقیق النظر فلسفی، ماہر عمرانیات وسیاسیات.ان کے ساتھ ساتھ نقشبندیہ طریقہ کے پاک باطن صوفی ، معارف سے بہرہ ور ان کی خصوصیات کے باعث ابوالعلاء معری کا یہ شعر ان پر پوری طرح صادق آتا ہے.انى و ان كنت اخیر زمانه لات بمالم تستطعه الاوائل ( ترجمہ ) اگر چہ میں زمانے کے آخری حصہ میں آیا ہوں مگر میں وہ کچھ لانے والا ہوں جن کی

Page 239

198 استطاعت پہلوں کو نہ تھی.ان کی علمی فضیلت، مومنانہ فراست، صفائی ذہن، وسعت نظری، قوت بیان ، طرز استدلال، حقیقت افروز تصانیف دلنشین تحقیق و تنقیح وہ خصوصیات ہیں جو بہت کم مصلحین کے حصہ میں آئی ہیں.اپنے بلند مقام کا اظہار خود یوں فرماتے ہیں فهمني ربي انا جعلناک امام هذه الطريقة ترجمہ: میرے رب نے مجھے سمجھایا ہے کہ ہم نے تجھے اس طریقہ کا امام بنایا ہے.سے حالات زمانه بارھویں صدی ہجری مسلمانوں کے سیاسی زوال اور ذہنی انحطاط کا زمانہ تھا.محی الدین عالمگیر کی وفات کے بعد سلطنت مغلیہ کا شیرازہ منتشر ہو رہا تھا.فرخ سیر، محمد شاہ رنگیلا اور شاہ عالم وغیرہ برائے نام ہندوستان کے بادشاہ رہ گئے تھے.درباری امراء ، وزراء اور والیان ریاست دشمنوں سے ساز باز میں مصروف اور ہوس اقتدار کا شکار تھے.مرہٹوں نے ہر طرف شورش اور بدامنی پھیلا رکھی تھی.دارالسلطنت دہلی اور اس کے نواح میں ان کا تسلط تھا اور یہاں مسلمانوں کے قتل عام کا بازار گرم تھا.یہ لوگ مسلمانوں کو برصغیر سے نیست و نابود کرنے کا عزم کر چکے تھے.ادھر انگریز جو تجارت کی غرض سے ہندوستان آئے اور اب حکومت کے خواب دیکھ رہے تھے وہ کلکتہ سے خروج کر کے شمالی اور مغربی اضلاع کی طرف بڑھ رہے تھے.علماء سوء سے قطع نظر علماء صالحین اس طوفان میں یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ مسلمان کی فلاح و نجات کیلئے کون سی راہ اختیار کرنی چاہیے اور کسے ترک کرنا چاہیے اور وہ بے بس تھے یہ سمجھنے سے کہ اسلام کے وقار اور اقتدار کو از سرنو قائم کرنے کیلئے کون سی تدبیر کارگر ہوسکتی ہے.قوم کی تباہی میں فرقہ بندی اہم کردار ادا کرتی ہے.مسلمانوں میں بھی فروعی اختلافات کا یہ حال تھا کہ ایک افغانی نے ایک آدمی کو نماز میں تشہد کی انگلی کھڑی کرتے دیکھا تو اس کی انگلی توڑ دی.اسی طرح مذاہب اربعہ میں شدید اختلافات تھے اور معمولی معمولی باتوں پر مباحثے اور مناظرے ہوتے تھے جن کا نتیجہ سوائے فساد اور اختلاف بڑھنے کے کچھ نہ نکلتا تھا.

Page 240

199 ایسے نازک وقت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کو مسلمانان ہند کی فلاح اور حیات نو کیلئے مبعوث کیا اور انہیں اس پر آشوب فتنے کے خلاف جہاد کرنے ، اسلام کو سر بلند کرنے اور مسلمانوں میں نشاۃ ثانیہ کی روح پھونکنے کی توفیق بخشی.

Page 241

200 دعوی مجددیت آپ کی کتب میں آپ کا دعوئی مجددیت بڑے واضح الفاظ میں ملتا ہے.چنانچہ تمہیمات الہیہ میں آپ فرماتے ہیں:- يمر كنت البسني الله سبي النه خلف المجلدية حير المجلدية حين انتهت بي دورة التحكم الحقلية وسلب عنى كل على نظري فكري بقيت متحير كيف يتأني لي المجددية ثمار مهر ربی جل جلا المطري الفاصل جمع به بين الامية والمصلحية بلا نظر فكري والى الى الآن العام تفصيل المجددية ومنحت بجمالها وعنمت على الجمع بين المختلفات وعلت ان الواى في الشريعة تحريف وفي القضاء فكرة اس ( ترجمہ ) جب مجھ پر حکمت کا دائرہ مکمل ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے مجددیت کی پوشاک پہنا دی.پھر جب مجھے حقانی خلعت پہنائی گئی تو مجھ سے تمام فکری و نظری علوم چھین لیے گئے تو میں حیران رہ گیا کہ مجھے مجددیت کیسے نصیب ہوگی.پھر خدا نے مجھ پر ایک ایسا نرالہ طریقہ واضح کیا کہ جس میں بغیر نظری و فکری علوم کے امیت اور مجددیت جمع ہو گئے اور ابھی تک مجھے مجددیت کی تفصیل عطا نہیں ہوئی صرف مجددیت کے اجمالی مقامات مجھے دیئے گئے ہیں اور مجھے اختلافی امور کی تطبیق کا علم دیا گیا ہے نیز مجھے یہ علم بخشا گیا ہے کہ شریعت کے معاملات میں قرآن و حدیث کی رہنمائی کے بغیر اپنی رائے کا اظہار کرنا تحریف ہے اور قضائی مقدمات میں اپنی رائے کے مطابق فیصلہ کرنا انسان کی عظمت کا آئینہ دار ہے.اسی طرح فیوض الحرمین میں فرمایا :- رأيتني في المنام قائم الزمان اعنى بذلك ان الله اذا اراد شيئًا من نظام الخير جعلني كالجارحة لا تمام مواده ( ترجمہ ) میں نے خواب میں اپنے آپ کو دیکھا کہ میں قائم الزماں ہو چکا ہوں جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب بھلائی کے کسی نظام کو قائم فرمانا چاہا تو مجھے اس مقصد کی تکمیل کیلئے واسطہ بنایا.مدینہ منورہ کے قیام کے دوران بے شمار لوگوں نے آپ کو بلند مرتبہ خیال کیا.اس قیام کے

Page 242

201 دوران حضرت رسالت مآب ﷺ نے خواب میں آپ کو بشارت دی.ان مراد الحق فيك ان يجمع شملا من شمل الامة المرحومة بک“.ھے تمہارے متعلق خدا کا ارادہ پختہ ہو چکا ہے کہ امت مرحومہ کے جتھوں میں سے کسی جتھے کی تنظیم تمہارے ذریعہ سے کی جائے.تجدیدی کارنامے چونکہ آپ کے عہد میں مسلمان روبہ زوال تھے اس لیے آپ نے مسلمانوں کی اندرونی اصلاح کی طرف خصوصیت سے توجہ کی.آپ نے مسلمانوں کو قرآن وسنت پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کی اور فلسفہ ومنطق کارڈ کیا.صوفیاء اور امراء کو متنبہ کیا اور اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو جہاد کی تلقین کی.آپ کا سب سے بڑا کارنامہ آپ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے قرآن مجید کا سب سے پہلا فارسی ترجمہ کیا.آپ کی دور بین نگاہ نے مسلمانوں کے زوال کا راز بھانپ لیا تھا.آپ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کی بد بختی کا سبب قرآنی تعلیمات سے انحراف ہے.اور ہندوستان میں اس وقت عام بولی جانے والی زبان فارسی تھی.آپ نے محسوس کیا کہ جب تک اپنی زبان میں عوام الناس قرآن سمجھ نہ لیں اس وقت تک پر حقیقی رنگ میں عمل پیرا نہیں ہو سکتے.لہذا آپ نے فارسی میں قرآن کا ترجمہ کر کے علماء ہند اور عوام کو قرآن حکیم کے سرچشمہ سے براہ راست فیوض و برکات حاصل کرنے کی دعوت دی.آپ کا یہ کارنامہ ایک سنگ میل ثابت ہوا اور اس کی پیروی حضرت شاہ رفیع الدین صاحب نے لفظی اور شاہ عبد القادر صاحب نے بامحاورہ اُردو تر جمہ کیا.یوں ہندوستان میں قرآنی علوم و معارف کو ہر خاص و عام سے متعارف کروانے کا سہراشاہ صاحب کے سر ہے.اس پر لیکن زمانے کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ آپ کو اس شاندار کام ( جوا کیلا ہی آپ کو امام وقت اور مجد دزمانہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے) کی وجہ سے آپ پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا.اناللہ وانا الیہ راجعون.قرآن کریم کی خدمت کا دوسرا اظہار آپ نے اپنا رسالہ ” الفوز الکبیر “ لکھ کر کیا جس میں اصول

Page 243

202 تفسیر ، قرآن کو سمجھنے کے اصول و قواعد پر بڑی سلیس زبان میں بحث ہے.یہ آپ نے فارسی زبان میں لکھا.اس کا اردو ترجمہ دستیاب ہے.ناسخ و منسوخ قرآن کریم میں مسئلہ نخ بہت پرانا چلا آرہا ہے اور وہ کتاب جسے شروع میں ہی خدا نے لاریب فرمایا تھا اس کے متعلق یہاں تک لکھا گیا کہ اس کی پانچ سو آیات منسوخ ہیں.جوں جوں حضرت مسیح موعود کا زمانہ قریب آتا جا رہا تھا عقائد میں بھی تدریجا درستگی آتی جارہی تھی.چنانچہ امام جلال الدین سیوطی کے وقت منسوخ آیات کی تعداد کم ہوکر ہیں تک آ پہنچی اور حضرت شاہ ولی اللہ نے اپنے رسالہ الفوز الکبیر میں صرف پانچ آیات کو منسوخ قرار دیا اور باقی سب کو حل کر دیا.یہ دراصل اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ جب قرآن اپنی اصلی حالت میں لوٹ آئے گا.یعنی اس کی غلط تفاسیر اور اس قسم کے خود تراشیدہ مسائل سے اسے پاک کر دیا جائے گا.اور پانچ آیات جو بچ گئیں تو ان میں یہ اشارہ بھی تھا کہ آئندہ کسی ایسے وجود کی ضرورت ہوگی جو تجدید سے بڑے منصب پر فائز ہو.سنت و حدیث کی ترویج خدا نے انہیں اس بات کی توفیق دی کہ کتاب وسنت و آثار صحابہ سے اسلام کی بنیادوں کو مضبوط کریں نیز وہ علم دیں جو آنحضرت ﷺ سے منقول ہے اور جو چیزیں دین میں باہر سے داخل ہوگئی ہیں ان میں تمیز کر کے دکھا ئیں اور مختلف فرقوں کی طرف سے جو بدعتیں دین میں پیدا ہوگئی ہیں ان کا تدارک کریں.علم حدیث سے آپ کو کتنا عشق تھا اس کا اندازہ آپ کے اس قول سے ہوتا ہے.فرمایا:- هر چه خوانده بودم فراموش کردم الاعلم دیں (یعنی حدیث ) - 21 کہ ہم نے تمام سیکھے ہوئے علوم میں سے حدیث کے سوا سب کو فراموش کر دیا.علامہ رشید رضا ایڈیٹر رسالہ المنار مصر لکھتے ہیں :- ولولا عناية اخواننا علماء الهند بعلوم الحديث في هذا العصر لقضى

Page 244

عليها بالزوال“.203 اس زمانہ میں اگر ہمارے بھائیوں علماء ہند کی توجہ علوم حدیث کی طرف نہ ہوتی تو اس پر زوال کی موت آجاتی.مدینہ سے واپسی پر آپ نے درس حدیث شروع کیا تو پرانی دہلی میں مدرسہ رحیمیہ میں اپنے والد صاحب کی جگہ پڑھانے لگے.لیکن جب چند ہی دنوں میں اطراف و جوانب سے طالبانِ علم پہنچنے لگے تو یہ درسگاہ چھوٹی ہوگئی.چنانچہ محمد شاہ نے ایک عالیشان مکان مدرسہ کیلئے دے دیا.آپ نے لوگوں کو عجمی رسومات سے بچنے اور رسول اللہ ﷺ کے طریق کو اختیار کرنے کی تلقین فرمائی.شکر نعمت او است که بقدر امکان عادات و رسوم عرب اول که منشاء آنحضرت مو هست را از دست ندهیم اس سب سے بڑی نعمت کا شکر یہی ہے کہ حتی الوسع عرب اوّل کی عادات و رسوم جو آنحضرت ﷺ کا منشاء ہے اس کو ہم اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑیں.پھر فرمایا:- رسوم عجم و عادات ہند و را در میان خود نگذاریم - 2 ہمیں چاہیے کہ عجم کی رسمیں اور ہندوؤں کی عادتیں اپنے اندر کسی طرح باقی نہ رکھیں.آپ کا معمول تھا کہ درس حدیث سے پہلے درس قرآن دیتے اور صرف متن قرآن کا درس آپ کی ایجاد ہے.اس زمانے میں علماء اپنی من گھڑت تفاسیر کو بیان کرتے تھے لیکن آپ نے متن قرآن کو لوگوں میں پھیلایا.اپنے رسالے وصیت نامہ میں فرمایا : - قرآن عظیم کا درس دینا چاہیے.اس طریقہ سے کہ صرف قرآن کریم پڑھا جائے یعنی تفسیر کے بغیر صرف متن قرآن اور ترجمہ پڑھا جائے.1 اس زمانے میں ہند میں باطل تصوف غالب آرہا تھا.تعویذ گنڈے اور پیر پرستی کا رواج بڑھ رہا تھا.آپ نے اپنی کتاب الطاف القدس اور السطحات میں تصوف کی صحیح تصویر پیش کی اور تعویذ گنڈے کے متعلق "القول الجمیل تحریر کی.اگر توجہ اور انصاف سے ان کتب کا مطالعہ کریں اور ان پر عمل کرنے

Page 245

204 کی کوشش کی جائے تو ملا اور صوفی کے اختلافات ختم ہو جائیں.مختلف فقہی مسالک میں شدید اختلاف تھا.آپ نے فقہ اور اصول فقہ سے روشنا کرایا.ائمہ مجتہدین کا صحیح مقام بتایا.آپ کی مندرجہ ذیل تصانیف نے حدیث نہی کا معیار پیش کیا.انصاف عقد الجيد - حجۃ اللہ البالغہ تقسیمات الہیہ کی بعض تفہیمات.ازالۃ الخلفاء اور سب سے بڑھ کر موطا امام مالک کی شرح “.اس طرح فقہ اور حدیث سے استدلال کرنے کی راہیں امام صاحب نے اہل فہم کیلئے روشن کر دیں.اندھی تقلید سے آپ کی فطرت کو بھی نفرت تھی.فرمایا:- میری جبلت میں تقلید سے انکار ہے اور کلیتہ اس سے بھڑکتی ہے.10 مولانامحسن اس بارہ میں لکھتے ہیں :- (ترجمہ) ان لوگوں کی مخالفتیں شاہ صاحب کو اس طرز عمل سے نہ روک سکیں جو ظاہر سنن و آثار کے مطابق فقہاء کے اقوال کو ترجیح دینے کا تھا.اس سلسلہ میں جو مسلک صاف ستھرا تھا اس کو مکدر طریقوں سے وہ جدا کرتے تھے.شاہ صاحب ان متعصب سخت پٹھانوں کے درمیان علانیہ اس مسلک کا اظہار فرماتے تھے.مقصد امت کی بہی خواہی تھی اور خدا کے اس عہد کو پورا کرنا تھا جس کا علماء سے وعدہ لیا گیا ہے.اے سنت وحدیث سے عشق کا ہی نتیجہ تھا کہ خدا آپ کو علم لدنی عطا کرتا تھا اور زیارت رسول سے آپ مشرف ہوئے اور حضور نے آپ کو بشارات دیں.چنانچہ حجۃ اللہ میں لکھتے ہیں :- ایک دن میں نماز عصر کے بعد بیٹھا ہوا تھا اور خدا کی طرف متوجہ تھا.تو رسول اللہ یا اللہ کی روح ظاہر ہوئی اور کسی چیز سے جو میرے خیال میں کپڑا تھا مجھے ڈھانپ دیا اور اسی حالت میں میرے من میں پھونکا گیا کہ دین کی تشریح کیلئے ایک خاص طریقہ کی طرف مجھے اشارہ کیا جارہا ہے.میں نے اپنے اندر اس حال میں ایک روشنی پائی جولحہ محہ پھیلتی جاتی تھی.الله اسی طرح لکھا ہے کہ حضرت امام حسن اور حسین نے رویا میں آپ کو رسول اللہ ﷺ کا قلم عنایت فرمایا اور رسول اللہ ﷺ کی چادر آپ کو اوڑھائی جو آپ نے تعظیماً سر پر رکھ لی اور حق تعالیٰ کا شکر ادا کیا.آپ فرماتے ہیں :-

Page 246

205 "فمن يومئذ انشرح صدرى التصنيف فى العلوم الشرعية“.کہ اُس دن سے علوم شرعیہ کی تصنیف کیلئے میرا سینہ کھل گیا.آپ فرماتے ہیں:.صلى الله سلکنی رسول الله و ربانی بیده فانا اویسیه و تلميذه بلا واسطه بینی و بینه - ۱۴ مجھے رسول اللہ ﷺ نے سلوک کی راہوں پر چلایا ہے اور اپنے ہاتھ سے میری پرورش کی ہے.پس میں آپ کا شاگرد اور بمنزلہ اولیں ہوں.میرے اور آپ کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہے.آپ کی فراست کا یہ حال تھا کہ آپ عرب کے استاد علامہ طاہر بن ابراہیم کردی کا بیان ہے: يسند عنى اللفظ و كنت اصحح المعنى منه“.۱۵ وہ مجھ سے الفاظ کی سند لیتے ہیں اور میں ان سے حدیث کے مطالب کی تصحیح کرتا ہوں.پس آپ ایسے شاگرد تھے جو استاد کو محقق اور محقق کو محقق تر بنا دیتے ہیں.آپ کی تجدیدی مساعی کا تذکرہ نواب صدیق حسن خانصاحب یوں کرتے ہیں.علم حدیث ان کیلئے تر و تازہ ہو گیا بعد اس کے کہ وہ ایک حیران شے تھا.اور اللہ نے ان کے وجود اور ان کے علوم سے بہت سے بندوں کو نفع پہنچایا اور ان کی سعی مشکور سے شرک و بدعت کے فتنوں سے بچایا اور دین کی نئی پیدا شدہ باتوں سے بچایا جس میں کسی عالم کو کوئی اختلاف نہیں.اور یہ وہ معزز افراد ہیں جنہوں نے سنت کے علم کو دوسرے علوم پر فوقیت دی اور فقہ کو سنت کے تابع اور محکوم بنایا اور اس طرح سے حدیث کا درس دیا کہ اہل روایت کو خوش کر دیا اور اہل درایت کو بھی اس کا مشتاق بنا دیا.پس ہندوستان اور اہل ہند پر جب تک وہ قائم رہیں ان کا شکریہ ادا کرنا واجب.17 فقہ ان دنوں بہت بگڑ چکا تھا اور فقیہ حضرات فرضی مباحثات میں وقت ضائع کرتے تھے.اس لیے آپ نے ان کی مذمت کی اور فرمایا :- اس زمانہ میں فقیہہ اس شخص کا نام ہے جو باتونی ہو اور زورزور سے جبڑے کو

Page 247

206 دوسرے پر پٹختا ہو.فقہاء کے اقوال قوی ہوں یا ضعیف انہیں یاد کرے بغیر اس امتیاز کے کہ ان میں سے کس میں قوت ہے اور کس میں نہیں اپنے جبڑوں کے زور سے چلاتا رہے.کلے پھر آپ خود اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ آپ نے سنت کو عقلیات سے ومنطق سے پاک کیا.قدماء اہل سنت کے عقائد کو دلائل و براہین کی روشنی میں جس طریقہ سے ثابت کیا گیا ہے اور معقولیوں کے خس و خاشاک سے جیسا ان کو پاک کیا گیا ہے اور ایسے طریقہ سے ان کی بنیاد قائم کی گئی ہے کہ اب ان میں بحث کی گنجائش نہیں رہی.۱۸ بدعات کے خلاف جہاد ان دنوں ایک بری رسم یہ تھی کہ بیوہ کے دوبارہ نکاح کرنے کو برا سمجھا جاتا تھا.اس کے علاوہ اور بھی رسومات تھیں جن کا ذکر آپ نے خود تقسیمات الہیہ میں یوں کیا ہے.ہنود کی بری عادات میں سے ایک یہ تھی کہ جب کسی عورت کا خاوند مرجاتا تو وہ اسے دوسرا شوہر کرنے کی اجازت نہ دیتے اور یہ عادت شروع میں عرب میں نہ تھی.خدا اس شخص پر رحمت کرے جو اس بری عادت کو ہٹائے.دیگر عادات شنیعہ میں سے ماتم، چہلم، ششماہی، سال کے بعد فاتحہ خوانی وغیرہ رسومات پر اسراف کرنا ہے.ان تمام رسومات کا آغاز اسلام میں عرب میں وجود بھی نہ تھا.19 آج کل کے مسلمانوں کیلئے یہ حوالہ ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے.احمدیوں پر اعتراضات کا جو طویل سلسلہ ہے کہ چہلم نہیں کرتے ، قل نہیں کرتے.بارہویں صدی کے مجدد فرماتے ہیں کہ اوائل اسلام میں عرب میں ان بدعات کا وجود نہیں تھا اور یہ بعد کی پیداور ہیں.کرامتوں کے بیچنے والے اس زمانہ میں سب کے سب الا ماشاء اللہ اپنی طلسماتی کارروائیوں اور علم نیر نج کے نتائج کو کرامات سمجھے بیٹھے ہیں.میں نے بہت سے سادہ لوحوں کو دیکھا ہے کہ کسی شیخ سے جب اس قسم کے عمل وغیرہ سیکھ چکتے ہیں تو ان باتوں کو ٹھیک کرامت قرار دیتے ہیں.۲۰

Page 248

رو فلسفه 207 آپ کے دور میں یونانی فلسفہ کو عروج حاصل ہور ہا تھا.آپ نے بجائے اوہام وخرافات سے کام لینے کے خود قرآن وحدیث کے کلیات سے ایک فلسفہ تیار کیا اور وہی فلسفہ جسے لوگ دین کے خلاف استعمال کرتے تھے آپ نے مذہب کے حق میں استعمال کر دیا.اس سلسلہ میں آپ کی کتاب الخیر الکثیر پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے.نیز حجۃ اللہ البالغہ اور البدور البازغہ کے اکثر مباحثات کا رخ بھی ادھر ہی ہے.تصانیف آپ کی قریباً چھپیں کتب کا پتہ ملتا ہے.جو درج ذیل ہیں.تفہیمات الہبيد، فتح الرحمن، الفوز الكبير، الفح المير ، تاويل الاحاديث المصفى في احادیث موطا المستوى من المؤطا، شرح تراجم ابواب صحیح البخاری، حمة اللہ البالغہ، الخير الكثير ، البدورالبازغہ الزاهراوین، الاربعین، الدر الثمین ، الارشاد، انسان العین فی مشائخ الحرمین، ازالۃ الخفا عن خلافة الخلفاء، قرة العينين ، حسن العقيده الانصاف، المقدمه السنيه ، الطاف القدس، القول الجميل الهميات اللمحات، السطعات، الهوامع ، شفاء القلوب، فیوض الحرمين، انفاس العارفین ۲۱ تلقین جہاد چونکہ آپ کے زمانے میں جہاد کی شرائط پوری ہو چکی تھیں اس لیے آپ نے مسلمانوں میں جذبہ جہاد بیدار کرنے کیلئے اپنی تقریر وتحریر میں ارشادات فرمائے.چنانچہ ملوک اسلام اور عسا کر اُمت کو مخاطب کر کے فرمایا:- اے بادشا ہو! اس زمانہ میں مشیت ایزدی یہ ہے کہ تم تلوار میں سونت لو اور اس وقت تک نیام میں نہ ڈالو جب تک اللہ مسلمانوں اور مشرکوں کے درمیان فرق نہ کر دے اور یہی اس کا ارشاد ہے کہ ان سے اس وقت تک لڑو جب تک فتنہ نہ رہے اور دین خالص اللہ کیلئے

Page 249

ہو جائے.۲۲ 208 اور جب فتح ہو جائے تو پھر کیا طریق اختیار کرنا چاہیے.فرمایا :- اور جب فتح ہو جائے تو ملاء اعلیٰ کی رضا اس بات میں ہے کہ ہر طرف تین چار دن کی مسافت پر ایک عادل امیر ہو جو ظالم سے مظلوم کا حق وصول کرے اور حدود کو قائم کرے اور کوشش کرے کہ ان میں بغاوت، جنگ و جدال یا زیادہ ارتداد نہ پیدا ہو اور اسلام پھیلائے.اس کے شعائر ظاہر ہوں اور ہر بڑے صوبے میں ایک امیر ہو جس کے ذمہ صرف جنگ کی ذمہ داری ہو.جس کی جمعیت بارہ ہزار مجاہدین پر مشتمل ہو جو اللہ کی راہ میں کسی کی ملامت کی پرواہ نہ کریں اور ہر باغی اور فساد و زیادتی کرنے والے سے لڑیں.اور جب یہ حاصل ہو جائے تو خدا تعالیٰ کی رضا اس میں ہے کہ گھریلو معاملات ،عقو دومعاملات اور اس قسم کی دوسری باتوں کی جانچ پڑتال کی جائے ، یہاں تک کہ کوئی چیز خلاف شرع نہ رہے اور لوگ ہر لحاظ سے امن میں آجائیں.۲۳ دعوت الی اللہ آپ کے دل میں شدید تڑپ مسلمانوں کیلئے تھی کیونکہ اس وقت ہر طبقہ کے مسلمانوں میں بگاڑ پیدا ہو چکا تھا.چنانچہ آپ نے ہر شعبہ ہائے زندگی سے متعلقہ افراد کو الگ الگ تبلیغ کی جس میں انہیں صحیح اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کی تلقین کی.آپ نے ببانگ دہل فرمایا.مصطفوی شریعت کیلئے وقت آگیا ہے کہ برہان اور دلیل کے پیر ہنوں میں ملبوس کر کے اسے میدان میں لایا جائے.۲۴ اور آپ نے جو عظیم الشان تحریک شروع کی تو مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا.چنانچہ امیر الروایات میں لکھا ہے کہ: ”دہلی میں نجف علی خان کا تسلط تھا جس نے شاہ ولی اللہ صاحب کے پہنچے اتروا کر ہاتھ بریکار کر دیے تا کہ وہ کوئی کتاب یا مضمون نہ تحریر کرسکیں“.۲۵ اب آپ کے ارشادات کا ایک خلاصہ طبقہ وار پیش کیا جاتا ہے.تو آپ نے ارشاد فرمایا.

Page 250

امراء سے خطاب 209 آپ نے انہیں ان کی غلطیوں سے یوں متنبہ کیا: - ا.تمہاری حالت یہ ہے کہ تم فانی لذات میں ڈوبے جارہے ہو.۲.تم علانیہ شراب پیتے اور زنا کاری کرتے ہو.۳.کمزوروں پر ظلم ڈھاتے ہو..اللہ کے سامنے تمہارا سر کبھی نہیں جھکتا.فوجیوں سے خطاب ا.تمہارا کام جہاد فی سبیل اللہ اور اعلاء کلمتہ الحق اور شرک کی بیخ کنی تھا مگر اب تم گھوڑے پالتے ہو.صرف دولت کی نمائش کیلئے ہتھیار جمع کرتے ہو.۲.تم نے عنقریب خدا کو جان دینی ہے جہاں تمہارا حساب ہوگا.لہذا خدا خوفی کرو..داڑھیاں بڑھاؤ ، مونچھیں کٹاؤ نماز ادا کیا کرو اور نمازیوں کی سی وضع قطع اختیار کرو.خدا کی رخصتوں سے بھی ضرور فائدہ اُٹھاؤ.لیکن نماز پر کار بند رہو.اہل صنعت و حرفت سے خطاب ا.تم میں امانت کا جذبہ مفقود ہے.۲.تم جھوٹے معبودوں کی پرستش کرتے ہو اور تعویذ گنڈے میں مبتلا ہو.۳.تم میں سے بعض نے شراب کو پیشے کے طور پر اپنایا ہوا ہے جو غلط ہے.بعض بد بخت عورتوں کو کرائے پر چلا کر روٹی کماتے ہیں.۵.یہ سب چھوڑ دو، میانہ روی اختیار کرو.صبح و شام خدا کی یاد میں بسر کرو.پیرزادوں سے خطاب ا.تم میں سے ہر کوئی اپنے راگ الگ اپنی منڈلی میں آلاپ رہا ہے.۲.رسول ﷺ کو چھوڑ کر پیر پرستی غلط ہے.یہ تم نے رقم بٹورنے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے.

Page 251

210 ایسے پیر دجال، کذاب اور فاتن ہیں..صرف خدا کا راستہ اختیار کرو.عالمان دین سے خطاب ا.تم نے یونانی فلسفے یا صرف و نح کا نام علم رکھا ہوا ہے.حالانکہ علم قرآن کریم کی کسی آیت محکم کا نام ہے یاسنت ثابتہ کا.۲.قرآن کو حل کرو.حدیثوں پر عمل کرو.۳.سیرت سلف صالحین کا مطالعہ کرو.خشک زاہدوں اور کسنج نشینوں سے خطاب تم رطب و یابس کو اختیار کرتے ہو اور جعلی حدیثیں بناتے ہو.۲.دیں تو آسانی کا نام ہے تم اسے مشکل بناتے ہو.۳.اہل عشق کی راہیں اور ہوتی ہیں.عام لوگوں کی زندگی میں انہیں رائج کرنا بیوقوفی ہے.۴.تم لوگ سنت نبوی سے روگردان ہو.اُمت مسلمہ سے خطاب ا.تمہارے اخلاق مردہ ہو چکے ہیں.شیطان تم پر مستولی ہو چکا ہے.-۲ تم نکاح کے ذریعہ اپنی خواہشات پوری کرو خواہ ایک سے زائد نکاح کرو.۳.بھیک مانگنے سے پر ہیز کرو..اگر تمہیں روٹی، کپڑا اور مکان اور نیک بیوی میسر آجائے تو سمجھو کہ دنیا تم پر کامل کر دی گئی.اس عطا کرنے والے کا شکر کرو.۵ تلاوت قرآن کریم اور تسبیح و تہلیل میں وقت گزارا کرو.بیوہ عورتوں کا نکاح کرنے کا رواج دو.۳۶ ان ارشادات سے ظاہر ہے کہ آپ نے مجدد ہونے کا حق ادا کر دیا اور کس طرح باریک بینی

Page 252

211 سے معاشرہ کا مطالعہ کیا اور پھر جس جگہ کمی محسوس ہوئی اس کی نشاندہی کر دی.احمدیت اور شاہ ولی اللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو بارھویں صدی کا مجدد تسلیم کیا ہے.فرمایا: - وہ مجدد تھے، عالم ربانی تھے.آپ چھوٹے بڑے سب کی نظروں میں مانے ہوئے " امام ہیں.جن کی بلندشان میں کسی مومن کو اختلاف نہیں ہے“.سے آپ چونکہ مہدی موعود کے قریبی زمانے میں تھے اس لیے آپ نے وقت کی علامات کو بھانپتے ہوئے اور خدا سے فہم پا کر یہ بات سمجھ لی تھی کہ یہ زمانہ ایسا ہے کہ عنقریب مہدی کے ظہور کا وقت ہوگا.چنا نچہ تقسیمات الہیہ میں فرماتے ہیں:.يمي كنت البسني الله سبحلنده ية حين انتهت بي دورة المحكمة دورة المحل حمام الميس الحلقة الختامية وسلب عنى كل على نظري فكري بـ وراكيف يتأنى فى المجلدية ثمار ضع جلا جلا الطريق الخاص تجمع بها بين الأمية والمجددية بلا نظر فكري والى الى الآن هرامنح تفصيل المجددية ومنحت اجمالها وعلمت علم الجمع بين المختلفات وعلمت ان الراى في الشريعة تحريف وفي القضاء فكرة اس ۲۸ (ترجمہ) مجھے میرے رب نے بتایا ہے کہ قیامت قریب آگئی اور مہدی ظاہر ہونے ہی والا ہے.متاخرین کا طریقہ اختیار کرنے کے بعد اب کمال کی نشو و نمارک گئی ہے اور عین ممکن ہے کہ مہدی لمبے زمانے کے انتظار کی پرواہ نہ کرے.سبحان اللہ! یہ زمانہ فتنوں کی آماجگاہ بن گیا ہے.کسی انسان کے باکمال ہونے کی یہی دلیل کافی ہے کہ اس میں حامل وحی کے انوار منعکس ہوں.انا للہ وانا الیہ راجعون.اس حوالے سے ظاہر ہے کہ ان کے نزدیک مہدی کی علامات کافی حد تک پوری ہو چکی تھیں.دوسرے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح ان صدیوں میں مہدی کا انتظار شدت سے ہوا کرتا تھا.تیسرے مہدی موعود کے مقام کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مسجد دوقت بھی ان کے منتظر ہیں.مسئلہ بروز کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا : - کا تب الحروف نے حضرت والد ماجد کی روح کو آنحضرت ﷺ کی روح مبارک

Page 253

212 کے سائے میں لینے کی کیفیت کے بارے میں دریافت کیا تو فرمانے لگے یوں محسوس ہوتا تھا گویا میرا وجود آنحضرت ﷺ کے وجود سے مل کر ایک ہو گیا ہے.خارج میں میرے وجود کی الگ حیثیت نہ تھی.19 ختم نبوت ختم نبوت کے حقیقی معنی کیا ہیں.ملاحظہ ہوں.ختم به النبيون اى لا يوجد بعده من يامره الله بالتشريع على الناس“.کہ ختم نبوت کے معنے ہیں کہ حضور کے بعد ایسا شخص نہیں آئے گا جسے اللہ شریعت کے احکام دے کر بھیجے.یہی جماعت احمدیہ کا مسلک ہے.حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی نے چودھویں صدی کو مسیح موعود کی بعثت کا زمانہ قرار دیا ہے.حضرت مسیح موعود و مسیح کو اس زمانہ سے کیا خصوصیت ہے؟ کی تفصیل بیان فرماتے ہیں :- " ( آیت النور (56) کی تشریح میں فرمایا اسرائیلی سلسلہ کا آخری خلیفہ جو چودھویں صدی پر بعد حضرت موسیٰ آیا وہ مسیح ناصری تھا.مقابل میں ضرور تھا کہ اس امت کا مسیح بھی چودھویں صدی کے سر پر آوے.علاوہ ازیں اہل کشف نے اسی صدی کو بعثت مسیح کا زمانہ قرار دیا ہے.جیسے شاہ ولی اللہ صاحب وغیرہ اہلحدیث کا اتفاق ہو چکا ہے کہ علامات صغریٰ کل اور علامات کبری ایک حد تک پوری ہو چکی ہیں.اس میں کسی قدران کی غلطی ہے.....علامات کل پوری ہو چکی ہیں.بڑی علامت یا نشان جو آنے والے کا ہے وہ بخاری شریف میں یکسر الصليب و يقتل الخنزير الخ لکھا.یعنی نزول مسیح کا وقت غلبہ نصاری اور صلیبی پرستش کا زور ہے.سو کیا یہ وہ وقت نہیں ؟“.! اس صدی کے دوسرے علاقوں میں اور بہت مشہور مجدد ہوئے.مثلا محمد بن عبدالوہاب بن سلیمان نجدی ، مرزا مظہر جان جاناں دہلوی ، سیّد عبد القادر بن احمد بن عبد القادر حسنی کو کیانی، امام شوکانی، علامہ سید محمد بن اسمعیل امیر یمن، محمد حیات ابن ملا ملاز یہ سندھی مدنی.

Page 254

213 فیوض الحرمین - صفحہ 44 الزجاجہ - صفحہ 32 فیوض الحرمین صفحہ 89 تفہیمات الہیہ.جلد 2 صفحہ 133 فیوض الحرمین - صفحہ 62 حوالہ جات ملفوظات عزیزیہ بحوالہ تذکرہ شاہ ولی اللہ - صفحہ 161 مقدمہ مفتاح کنوز السنة - صفحہ ق تذکرہ حضرت شاہ ولی اللہ.صفحہ 120 ايضاً - صفحہ 295 ايضاً - صفحہ 216 ايضاً - صفحہ 276 ے حجۃ اللہ البالغہ - صفحہ 665 الدرثمین فی مبشرات النبی الامین - صفحہ 3 فیوض الحرمین - صفحہ 44 تذکرہ شاہ ولی اللہ صفحہ 270 فوائد جامع - صفحہ 282 تذکرہ شاہ ولی اللہ صفحہ 130 ايضاً - صفحہ 261 بحوالہ رود کوثر - صفحہ 572 تذکرہ شاہ ولی اللہ.صفحہ 133 ا دیباچہ حجۃ اللہ البالغہ

Page 255

214 EJ M تفہیمات الہیہ.صفحہ 216 ايضاً - صفحہ 216 دیباچہ حجۃ اللہ البالغہ - صفحہ 6 امیرالروایات صفحہ 44 تفہیمات الہیہ.جلد 2 صفحہ 216-214 حمامة البشری - صفحہ 76 تفہیمات الہیہ.جلد 2 صفحہ 133 19 انفاس العارفین - صفحہ 103 تفہیمات الہیہ.صفحہ 85 تفہیم نمبر 55 ملفوظات جلد 1 صفحہ 30

Page 256

215 تیرھویں صدی کے مجدد حضرت سیّد احمد بریلوی شہید رَحْمَةُ اللهِ عَلَيْهِ ۵۱۲۴۶ - ۵۱۲۰ لوگ کہیں گے کہ سید احمد کا انتقال ہو گیا یا شہادت ہو گئی لیکن جب تک ہندوستان کا شرک ، ایران کا رفض ، اور سرحد کا غدر نہیں جائے گا میرا کام ختم نہیں ہوگا.اے

Page 257

216 ولادت و عہد طفولیت سیّد احمد شہید 6 صفر 1201ھ بمطابق 29 نومبر 1786ء کو پیر کے دن رائے بریلی میں پیدا ہوئے.والد کا نام محمد عرفان تھا.آپ کا سلسلہ نسب چھتیسویں پشت پر حضرت علی سے جاملتا ہے.آپ حسنی الحسینی سید ہیں.بچپن میں ہی آپ کی دلیری اور شجاعت درجہ کمال کو پہنچی ہوئی تھی.اپنے ہم عمر لڑکوں کا لشکر بناتے اور بطور جہاد بآواز بلند تکبیریں کہتے ہوئے ایک فرضی لشکر پر حملے کرتے اور خوب ورزش کیا کرتے تھے.خلق اللہ کی خدمت میں مشغول رہتے.ان کو جنگل سے پانی، ایندھن وغیرہ لا دیتے، اطاعت و عبادات شروع سے ہی بکثرت کرتے تھے.ہے مقصد حیات آپ چونکہ مجد دوقت تھے اس لیے زندگی کا مقصد لوگوں کو بدعت و ضلالت سے نکال کر ہدایت کے راستوں پر چلانا تھا.چنانچہ اس کا اظہار ان کے مکاتیب میں ملتا ہے.ایک موقعہ پر فرماتے ہیں:." تاج فریدوں اور تخت سکندر میری نظروں میں جو کے برابر بھی نہیں ہیں...صرف یہ آرزو ہے کہ اکثر افراد بنی آدم بلکہ دنیا کے تمام خطوں میں رب العالمین کے احکام جاری ہوجائیں“.سے عظمت کردار آپ کا مقام بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں :- ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام میں یہ سلسلہ فیوض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے طور پر جاری ہے کہ اس میں کبھی انقطاع نہیں ہوا.یہ سلسلہ ابتدائے اسلام سے جاری ہے اور سیّد احمد شہید بریلوی کے زمانے تک برابر جاری رہا.اُن پر الہامات کا نزول ہوتا تھا.وہ ان الہامات کو بیان کرتے تھے.لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی ہستی پر یقین پیدا ہوتا تھا“ ہے

Page 258

217 فطرتی سعادت آپ اسلام پر مجبول تھے.انہیں فطرت اتنی سعید، پاکیزہ اور مز کی ملی تھی کہ مرضیات الہی سے خفیف سا اختلاف بھی گوارا نہ تھا اور اتباع سنت کا ذوق طبیعت پر اس قدر غالب تھا گویا ان کی تمام حرکات وسکنات کی عنان شرعیت حقہ کے قبضہ میں تھی.زمانہ طفلی کا بھی کوئی واقعہ ایسا پیش نہیں کیا جاسکتا کہ ان کا قدم کبھی جادۂ حق سے ادھر اُدھر جا پڑا ہو کہ انہوں نے عزیمت عملی کے مقابلے میں رخصت کو ترجیح دی ہو.اعلیٰ اخلاق ایک مجدد کو اخلاق عالیہ پر فائز ہونا ضروری ہے تا کہ وہ دوسروں کیلئے نمونہ بن سکے.حضرت سید صاحب اخلاق عالیہ سے متصف تھے.سفرلکھنو کے دوران ایک مرتبہ سب احباب اور اقرباء تھک گئے اور مزدور کی تلاش سے بھی عاجز آگئے اور آگے چلنے سے انکار کر دیا تو آپ نے عہد لیا کہ میری ایک گذارش قبول کرو گے.جب سب نے عہد کر لیا تو آپ نے اپنی چادر بچھا دی اور فرمایا کہ سب سامان اس میں ڈال دو اور مزدور کی تلاش ترک کر دو.چنانچہ ھے نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن.انہوں نے ایسا ہی کیا.آپ نے سارا سامان خود اُٹھالیا اور خوشی سے یہ کہتے جاتے تھے کہ دوستوں اور بھائیوں نے آج جو احسان مجھ پر کیا ہے اس کی شکر گزاری کا حق عمر بھر ادانہ کر سکوں گا.ھے ایک مرتبہ ایک مفلوک الحال مزدور بھوک سے تنگ آکر ایک سپاہی کا مٹکا اجرت پر اُٹھانے پر مجبور ہوکر چلا جارہا تھا کہ اجرت ملے تو پیٹ بھروں.مگر کمزوری اتنی تھی کہ جلد ہانپنے لگا.سید صاحب نے اسے دیکھ لیا.آپ نے فرمایا :- و تم اس کی مزدوری اسے ابھی دے دو میں تمہارا بوجھ اُٹھاتا ہوں“.چنانچہ ایسا ہی کیا گیا.تے

Page 259

218 توحید الہی سے محبت آپ کو شرک سے نفرت تھی اور توحید سے دلی رغبت تھی.چنانچہ آپ نے شاہ عبدالعزیز کے ہاتھ پر بیعت کی اور تصوف کے درس لینے لگے اور ایک مرتبہ جب تصور شیخ کا ذکر آیا تو آپ فرمانے لگے کہ حضرت اس میں اور بت پرستی میں کیا فرق ہے.آپ نے جوابا حافظ کا یہ شعر پڑھا.مئے سجادہ رنگین کن گرت پرمغاں گوید بہ کہ سالک بے خبر نبود ز راه و رسم منزلها اگر تیرا پیر حکم دے تو مصلے کو بھی مے سے بھگو لے کہ سالک اپنی منزل کے راہ و رسم سے بے خبر نہیں ہوتا.لیکن آپ نے عرض کیا کہ حضرت کوئی قرآنی آیت یا حدیث بیان فرما ئیں ورنہ مجھے اس سے باز رکھیں.اس پر شاہ صاحب نے سید صاحب کو سینہ سے لگالیا.رخساروں اور پیشانی کو بوسہ دیتے ہوئے فرمایا اے فرزندار جمند خدائے برتر نے اپنے فضل و رحمت سے تجھے ولایت انبیاء عطا فرمائی ہے.آپ کو شب قدر نصیب ہوئی آپ فرماتے ہیں:.1222 ھ رمضان کو اچانک نیند آئی اور پھر کسی نے جگایا.بیدار ہوکر دیکھا کہ دائیں بائیں حضور سرور دو عالم ﷺ اور حضرت صدیق اکبر تشریف فرما ہیں اور زبان پر یہ کلمات جاری ہوئے احمد اُٹھ اور فسل کر ، آج شب قدر ہے.خدا کی یاد میں مشغول ہو اور قاضی الحاجات کے دربار میں دعا اور مناجات کرے.علم حقیقی سے مراد علم حقیقی کے بارہ میں آپ فرماتے ہیں :- عالم سے یہ مراد نہیں کہ وہ صدور اور شمس بازغہ پڑھ چکا ہو.یہاں علم سے مراد یہ ہے کہ وہ جانتا ہو کہ اونچی شان والا پروردگار کن باتوں سے راضی ہوتا ہے اور کن سے ناراضی

Page 260

219 یعنی اوامر و نواہی کا اسے علم ہو ).حضرت صدیق اکبر اور حضرت عمر فاروق نے ہدایہ یا شرح وقایہ نہیں پڑھی تھیں.لیکن وہ ان کتب کے مصنفوں کے پیشوا تھے اور مجتہدین بھی انہیں ہادیان دین کے کلام پاک سے سندیں لاتے ہیں اور اسے کسوٹی قرار دے کر کھرے کھوٹے سے الگ کرتے ہیں.2 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کے متعلق فرمایا : - سید احمد بریلوی سلسلہ خلافت محمدیہ کے بارھویں خلیفہ ہیں جو حضرت بیٹی کے مثیل ہیں اور سید ہیں.10 تصانیف آپ نے زیادہ تجدیدی کام دورہ جات کر کے خطابات اور عملی اقدامات کے ذریعہ کیا.تاہم آپ کی چند کتب کا پتہ بھی ملتا ہے.ا.تنبیہ الغافلین ۲.رسالہ نماز ۳- صراط مستقیم ۴.ملہمات احمد يد في الطريق المحمدية تجدیدی کارنامے ہندوستان میں اسلامی حکومت کی بحالی اور شرعی نظام کا اجراء آپ کا نصب العین تھا.وقت کے صاحبان جاہ و حشمت اور سالاران عساکر میں سے نواب امیر خان ہی آپ کا رفیق کار بنالیکن اس نے بھی آخر تک مساعدت نہ کی اور آپ تن تنہا تجدید دین میں ڈٹے رہے اور مسلمانوں میں جذبہ جہاد بیدار کرتے رہے.دعوی مجددیت اگر چہ آپ نے اپنے لیے لفظ مجدد تو استعمال نہیں کیا لیکن آپ کی تحریرات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپ اپنے وقت کے امام تھے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں:-

Page 261

220 " آج اللہ نے مجھے بیحد احسانات سے نوازا، مجھے تمام میرے معاصرین واسلاف میں سرفراز اورممتاز فرمایا اور فرمایا کہ جو تم سے بیعت کرے گا اس کو دنیا وآخرت کے مکروہات سے محفوظ اور اپنی رضامندی اور انعام سے محظوظ کروں گا ۱۲ دعوت اصلاح شاہ عبدالعزیز صاحب نے سید صاحب کے دہلی پہنچنے سے ایک ہفتہ قبل ایک خواب دیکھا کہ رسول الله له جامع مسجد دہلی میں تشریف فرما ہیں.خلقت حضور کے دیدار کیلئے امڈ تی آرہی ہے.حضور نے شاہ صاحب کو دست بوسی کی سعادت کا شرف بخشا اور پھر عصا مرحمت فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ تو مسجد کے دروازے پر بیٹھ جا.ہر کسی کا حال ہمیں سنا جس کیلئے ہمارے ہاں سے حاضری کی اجازت ملے اسے اندر آنے دے.آپ نے شاہ غلام علی صاحب سے اس کی تفسیر پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ آپ کا کوئی مرید رسول کی فیض ہدایت کا موجب ٹھہرے گا.جب سید صاحب دہلی پہنچے تو شاہ صاحب کو یقین ہو گیا کہ سید صاحب کے ذریعہ سے ہی یہ سلسلہ جاری ہوگا.چنانچہ آپ نے لوگوں کو ہدایت کی دعوت دی.انہیں بُرے طور اطوار ترک کر دینے کی تلقین کی.آپ کو کس طرح خدا کی تائید حاصل تھی اس کا اندازہ اس معمولی واقعہ سے ہوسکتا ہے.ایک صوفی آپ کی مخالفت کرتا تھا.اس نے جب رواج کے مطابق حافظ کے شعر سے فال نکالی تو یہ شعر نکلا سجاست صوفی دجال چشم و ملحد شکل بگو بسوز که مهدی دین پناه رسید اے صوفی جو دجال کی آنکھ اور محمد کی شکل کا ہے اپنی آگ میں جلتا رہ کہ مہدی دین پناہ آگیا ہے.اس پر صوفی نادم ہوا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر تائب ہو گیا.۱۳ ایک شخص ملاں بخاری تھا جو شاہ عبدالعزیز صاحب کے پاس کسب فیض کیلئے آیا.آپ نے اُسے سید صاحب کی طرف بھیجا.اس نے آپ کی سپاہیانہ وضع قطع دیکھ کر انقباض کیا تو شاہ صاحب نے

Page 262

221 فرمایا جو یہاں آپ کو بارہ برس میں ملے گا وہاں بارہ دن میں پالو گے اور ایسا ہی ہوا.۱۴ متعد د دوره جات آپ نے مندرجہ ذیل مقامات کا وقتا فوقتا تبلیغی واصلاحی دورہ فرمایا.غازی آباد، مراد گھر، میرٹھ ، کانولہ، لدھیانہ، پھلت ،مظفرنگر، دیوبند گنگوہ، نانو نہ ، تھانہ بھون، رام پور لیاری ، سہارن پور، شکار پور، ایوبی، دانتل ، پائل، بسوالی، شیخ پورہ ، سمری ، جلکانہ، نگینہ، شہر کوٹ وغیرہ.۵ ان دوروں کے دوران مختلف مذاہب کے سینکڑوں لوگوں نے اسلام قبول کیا اور بہت سے مسلمان بری عادات سے تائب ہوئے اور انہوں نے بچے مسلمان کا روپ دھارا.طریقہ محمدیہ کا قیام آپ نے اپنے مریدوں کی اصلاح کیلئے طریقہ محمد یہ اختیار کیا اور اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:- طریقہ محمد یہ یہ ہے کہ زندگی کا ہر کام صرف رضائے رب العالمین کیلئے کیا جائے.نکاح کی غرض یہ ہو کہ انسان فسق و فجور سے محفوظ رہے.تجارت اور ملازمت اس نیت سے کی جائے کہ انسان حلال روزی کما کر خود بھی کھائے اور اہل وعیال کو بھی کھلائے.استراحت شب کا مدعا یہ ہو کہ انسان جوف لیل میں اُٹھ کر نماز تہجد ادا کرے اور نماز فجر اول وقت میں ادا کرے.کھانا اس لیے کھایا جائے کہ جسم میں بقدر ضرورت طاقت بحال رہے تا که انسان خدا کے احکام مستعدی سے بجالائے.نماز پڑھے، روزے رکھے، حج کیلئے جائے.ضرورت پڑے تو جہاد کیلئے بھی تیار ہو.غرض چلتے پھرتے ، اٹھتے بیٹھتے ، سوتے جاگتے اور کھاتے پیتے ہر حال میں مقصود احکام خداوندی کی بجا آوری اور مرضیات باری تعالیٰ کی پابندی کے سوا کچھ نہ ہو.بالفاظ دیگر ہر فرد آیہ مبارک ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتي لله رب العالمین کا عملی نمونہ بن جائے“.14.

Page 263

222 اس کے بعد مزید فرماتے ہیں:- ”اس کے بعد بالا تر مرتبے کیلئے ہم پر وعظ ونصیحت کے دروازے کھل گئے.سلسلہ تبلیغ کے اعلیٰ مراتب کو پہنچا اور یہ حقیقت مخالف و موافق پر روشن ہے.اب ہمیں کفار کے ساتھ جہاد کا حکم دیا گیا ہے جو باطنی ترقی کا سب سے اونچا پایا ہے.یہ انبیاء اولوالعزم کا طریقہ اور اسوہ ہے.کلے حاجی عبدالرحیم صاحب جو خود پیر طریقت ہیں، ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ تو خود صاحب کمال ہیں آپ کیوں سید صاحب کے مرید ہوئے ہیں.کہنے لگے :- ہم کو نماز پڑھنی اور روزہ رکھنا نہ آتا تھا.سید صاحب کی برکت سے نماز پڑھنی بھی آگئی اور روزہ رکھنا بھی آگیا“..بدعات کے خلاف جہاد جب سید صاحب شاہ عبدالعزیز کے پاس دہلی پہنچے تو شاہ صاحب کے خاندان میں بھی ملکی رواج کے تحت تسلیمات و آداب کہنے کا رواج تھا.مگر آپ نے جا کر السلام علیکم کہا تو شاہ صاحب بہت خوش ہوئے اور حکم دیا کہ آئندہ سب لوگ اسی طریقہ پر سلام کیا کریں.بیوہ سے نکاح ثانی کرنا آپ کے عہد کی سب سے بری رسم یہ تھی کہ بیوہ کے دوسرے نکاح کرنے کو برا سمجھا جاتا تھا اور اس پر قتل و غارت اور کشت و خون بہایا جاتا تھا.آپ نے ایک مجدد کی حیثیت سے اس بد رسم کا خاتمہ کیا اور سب سے پہلے خود عملی نمونہ پیش کرتے ہوئے اپنی بیوہ بھاوج سے خود اپنا نکاح کیا.اس کیلئے آپ نے ایک رسالہ بھی تصنیف فرمایا.اپنے رشتہ داروں کو اس سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا :- ”میرے تمام رشتہ دار صاف سن لیں کہ جو اللہ اور رسول کی فرمانبرداری میں میرے شریک حال ہو کر حکموں کو پورا کرنے اور منع کی ہوئی باتوں سے دور رہنے میں کسی طعن و ملامت کا خیال تک دل میں نہ لائیں جو اس کیلئے تیار نہ ہوں میری طرف سے ان کو جواب ہے اور میرا اُن سے کوئی تعلق نہیں“.

Page 264

223 ان اقدام کا خاطر خواہ اثر ہوا اور کئی شریف بیبیاں بیاہی گئیں.چنانچہ شاہ اسمعیل صاحب نے اپنی پچاس سالہ بیوہ بہن کا نکاح مولانا عبدالحئی سے کیا.آپ نے تمام مسلمانوں کو اس رسم کی قباحتوں سے یوں آگاہ کیا :- ”انہیں چیزوں میں سے بیواؤں سے دوسرا نکاح نہ کرنا ہے.خصوصاً وہ بیوہ جو جوان ہو اس کا نکاح ثانی کرنے کو ایسا برا سمجھنا جیسا خدا کے یہاں کفر و شرک ہے اور جو بیوہ اپنا نکاح کرلے اسے بازاری عورت اور بے حیا سمجھنا اور مجتبہ قرار دینا اس کو مطعون و بدنام کرنا اور ساری عمر اس کو زندہ در گور کر دینا اس قبیل سے ہے.یہ نہیں سمجھتے کہ بات کہاں تک پہنچتی ہے.ان کو معلوم نہیں کہ تمام امہات المومنین سوائے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بیوہ تھیں.۲ آپ کی تبلیغ سے پہلے کیا حالت تھی اور بعد میں کیا انقلاب ہوا اس کا اندازہ مندرجہ ذیل حوالہ سے ہو جاتا ہے.اس سے قبل حالت یہ تھی کہ یہ سن کر کہ آپ بیوہ کے نکاح کے قائل ہیں.ایک شخص قتل کے ارادہ سے آپ کے پاس آیا مگر آپ کی گفتار و واعظ کے تیر سے ایسا گھائل ہوا کہ آپ کا ارادتمند بن گیا.اے نصیر آباد میں شیعہ سنی چپقلش تھی.شیعہ حضرات علی الاعلان تبرا کرتے تھے.سید صاحب سینیوں کی دعوت پر وہاں گئے اور دونوں گروہوں میں مصالحت کرادی.سلون میں ایک سجادہ نشین تھا جس کا نام شاہ کریم عطا تھا.وہاں خلاف شرع حرکات ہوتی تھیں.ناچ گانا اور رقص وسرود ہوتا تھا.مولانا نے انہیں سمجھایا کہ ان باتوں کی دلیل سنت نبوی میں کہاں ہے؟ وہ لوگ آپ کے پُر اثر وعظ کے بعد سمجھ گئے اور ایسی باتوں کو ختم کر دیا.ہے قبر پرستی کے خلاف ایک بری رسم قبر پرستی تھی.آپ اسے برا خیال کرتے اور اس سے منع کیا کرتے تھے.کسی نے کہا کہ آپ کے بعد آپ کے مرید بھی یہی کام کریں گے.تو آپ نے فرمایا ”میں درگاہ الہی میں بصد آه و زاری درخواست کروں گا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ میری قبر معدوم اور میرے مدفن کو نامعلوم

Page 265

224 کر دے.نہ قبر ر ہے گی اور نہ اس پر شرک و بدعت ہوگا“.سے شرک و بدعت اور رسومات سے بچاؤ کیلئے ارشاد فرمایا : - بھائیو! حاصل بیعت یہ ہے کہ تم لوگ جو شرک و بدعت کرتے ہو، تعزیے بناتے ہو، نشان کھڑا کرتے ہو، پیروں کی قبروں کو پوجتے ہو، ان کی نذر نیاز مانتے ہو، ان سب کاموں کو چھوڑ دو اور سوائے خدا کے کسی کو اپنے نفع و ضرر کا مالک نہ جانو اور اپنا حاجت روا نہ پہچانو.اگر یہ نہ کرو گے تو فقط بیعت کرنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا“.۲۴ دعوت ارشاد بنارس میں قیام کے دوران آپ نے اپنی بگڑی ہوئی قوم کو راہ راست پر لانے کیلئے فرمایا :- خوب ذکر کرو.یہ شہر کفر و شرک کے ظلمات سے لبریز ہے.اسے ذکر الہی کے انوار سے منور کر دو.جب آپ لکھنو تشریف لے گئے تو اکثر جمعہ سے عصر تک آپ کے ارشاد پر مولانا عبدالحئی سورہ انبیاء کی تفسیر کیا کرتے تھے.اپنے قیام کے دوران آپ نے تعزیہ داری ، عرس، راگ رنگ، گور پرستی، پیر پرستی ، داڑھیاں منڈانا، پٹے رکھنا ( فیشن ایبل بال مراد ہیں ) مسی لگانا، کبوتر اڑانا، مرغ لڑانا، سیٹی بجانا، پتنگ اُڑانا اور اس قسم کی تمام رسومات سے سختی سے روکا.۲۵ بنارس میں آپ نے ایک ماہ قیام کیا.یہاں دس پندرہ ہزار مردوزن نے بیعت کی اور بنارس جو گمراہی کا گڑھ تھا مولانا کی برکت سے مسلمانوں میں بدعملیاں ختم ہوئیں.یہاں کے رؤساء نے بھی سید صاحب کی بیعت کی.۳ تنبت میں تبلیغ عظیم آباد میں سید صاحب کو تبتیوں کا ایک قافلہ ملا.آپ نے انہیں اپنے حلقہ ارادت میں شامل کرنے کے بعد تبت میں تبلیغ کا کام سونپا.تو حید وسنت کے اثبات اور شرک کے رد میں چند آیات و احادیث لکھ کر دیں اور فرمایا صبر و استقامت کے ساتھ دین حق عام لوگوں تک پہنچاتے رہنا اور اس راہ کی تکالیف کو برداشت کرنا ان کے اہتمام سے تبت میں مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت پیدا

Page 266

225 ہو گئی.ہزاروں آدمی حلقہ بگوش اسلام ہوئے ، یہاں تک کہ انہوں نے اپنے چند آدمی تبلیغ کیلئے چین بھیجے.اسی طرح جاوا ، بلغاریہ، مراکش وغیرہ میں بھی آپ کے خلفاء پہنچے.ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں تبلیغ آپ نے اسلام کے عقائد صحیحہ کی تبلیغ اور توحید وسنت کی عالمگیر اشاعت فرمائی.ہندوستان کا کوئی گوشہ نہیں چھوڑا.دہلی اور کلکتے کے درمیان سینکڑوں مقامات پر آپ نے خود دورہ فرمایا.مولانا عبدالحئی صاحب اور شاہ اسماعیل صاحب آپ کے مواعظ ہوئے.سندھ اور سرحد میں خود قیام فرمایا.حیدر آباد دکن، بمبئے ، مدراس میں مولانا سید محمد علی رامپوری و مولانا ولایت علی صاحب عظیم آبادی کو بھیجا.جنہوں نے وہاں قیام فرما کر اصلاح عقائد و اعمال و رسوم کا عظیم الشان کام سرانجام دیا.ہزاروں بندگان خدا اور سینکڑوں امراء ورؤسا و اہل علم وفضل مستفید ہوئے اور توحید وسنت کا عام چرچا ہو گیا.یورپ میں آپ کے خلفاء مولانا کرامت علی صاحب و مولا ناسخاوت علی صاحب جونپوری نے تبلیغ و ہدایت کے فرائض انجام دیئے اور بڑی کامیابی حاصل کی.نیپال کی ترائی میں مولانا جعفر علی صاحب نے روشنی پھیلائی.افغانستان میں بھی آپ کے خلیفہ مولوی حبیب اللہ قندھاری سے اصلاح ہوئی.ان حضرات نے جہاد اور شہادت کے بارے میں اس رنگ میں وعظ کیسے کہ لوگ از خود جان و مال راہِ خدا میں قربان کرنے کیلئے تیار ہو گئے اور خدمت دین کو عین سعادت خیال کرنے لگے..کلکتہ میں تبلیغ وو یہاں انگریزی طرز معاشرہ تھی.شراب اور بے پردگی عام تھی اور دوسری بدرسومات بھی تھیں.آپ کی آمد سے شراب کی دکانیں بے رونق ہو گئیں عورتیں باپردہ ہو گئیں سینکڑوں بیوگان کے نکاح ہوئے اور سینکڑوں غیر مختونوں کے ختنے کرائے گئے.سید محمد علی نے اس بارہ میں لکھا ” ہر خطے اور ہر کشور سے ہزاروں بلکہ بیشمار مسلمان آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے.اہل شرک و بدعت اور سرکش اور گناہگار اپنے برے اعمال سے تائب ہو کر مخلص مومنوں کے زمرے میں شامل ہو گئے.پرنسپ کی کتاب رنجیب سنگھ کے صفحہ 146 میں یہ لکھا ہے :-

Page 267

226 "1822ء میں سید صاحب کلکتہ آئے.مسلم آبادی بہت بڑھی اور ایک کثیر تعداد ان کی پیرو بن گئی.برما میں تبلیغ برما کے علاقے سے ایک صاحب سید حمزہ آئے اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی.اس طرح آپ کی تحریک برما پہنچی.آپ نے رؤساء، امراء اور عوام الناس کو الگ الگ خطوط لکھ کر جہاد پر آمادہ کیا اور اس جہاد سے آپ کا مقصد سراسر اعلائے کلمہ حق تھا.آپ نے ملک کے مختلف حصوں میں داعیانِ حق کا تقرر کیا.آپ کی تجدید دین کا اثر مولانا عبدالحئی صاحب اپنے سفر نامہ ارمغان احباب میں رقمطراز ہیں :- اس وقت تک سہارنپور کے جس قدر قصبوں میں جانے کا اتفاق ہوا ہے وہاں ہر فردِ بشر کو سید صاحب کا دم بھرتے پایا.جو ہے ان کی محبت میں چور ہے اور سب بالاتفاق کہتے ہیں کہ ہم کو اسلام اور ایمان کی سیدھی راہ اُن سے ملی ہے.برائے نام مسلمان تھے.جتنے مشائخ ہیں وہ سب اس سلسلہ کو مقدم جانتے ہیں.میں نے فی عمری میں جتنا چرچا ا سید صاحب کا دیکھا اتنا چر چا کہیں نہیں دیکھا.اس طرف کی مساجد عموماً آباد ہیں.ہر مسجد میں حمام گرم ہورہے ہیں.ہر مسلمان کم سے کم نماز و تلاوت کا ضرور شائق ہے.میرے گمان میں ضلع سہارنپور کے اشرار ہماری طرف کے اخیار سے اچھے ہیں اور اخیار کا کیا پوچھنا ہے ان کی تو نظیر اس طرف نہیں ملتی.یہ بے تکلف اور سچے دیندار مسلمان ہیں.مجلس وعظ معمور رہتی ہے.وہ مولوی عبدالاحد صاحب لکھتے ہیں :- حضرت سید احمد صاحب قدس سرہ کے ہاتھ پر چالیس ہزار سے زیادہ ہندو وغیرہ، کفار مسلمان ہوئے اور تمیں لاکھ مسلمانوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی.اسی طرح آپ کے خلیفہ مولانا کرامت علی کی کوششوں سے بنگال میں لاکھوں آدمی مشرف با اسلام ہوئے.جسے

Page 268

227 مندرجہ بالا حوالہ جات سے آپ کی تجدید دین کی مساعی جمیلہ کا اندازہ ہو جاتا ہے.آپ کا وجود اسلام کے حق میں بارانِ رحمت اور بادِ بہاری ثابت ہوا.دینداری اور تشرع کی ایک ہوا چل پڑی.آپ کے ہاتھوں پر لاکھوں انسانوں نے توبہ کی.فساق و فجارا ابرار واخیار ہو گئے.آپ جدھر سے گزرے اُدھر ہی عمل کا شوق.عبادت الہی کا ذوق، اتباع سنت کا ولولہ پیدا ہوتا گیا.شراب کے کاروبار ٹھپ ہو گئے ، میخانوں میں خاک اُڑنے لگی اور مساجد آباد اور بارونق ہو گئیں.الغرض آپ نے گرد سے اٹے ہوئے اسلام کو صیقل کیا.مستور ایمان کو منکشف کیا.دلوں کے تالے کھولے.ایمان وایقان کی شمع فروزاں کی ، اس طرح تجدید دین کا حق ادا کر دیا.سفر حج اور احیائے اسلام سید صاحب کے وقت میں فرنگیوں نے سمندر پر قبضہ کر رکھا تھا اور حج کے خطرات بڑھ رہے تھے.چنانچہ لکھنو کے علماء نے فرضیت حج کے سقوط کا فتویٰ دے دیا اور بعض علماء نے لا تلقوا باید کم الى التهلكة سے استدلال کر کے حرمت جہاد کا فتویٰ بھی دے دیا.لیکن سید صاحب کا سفر حج دراصل سارے ہندوستان کا تبلیغی دورہ بھی تھا اور آپ لوگوں کو ساتھ رکھ کر ان کی تربیت کرنا چاہتے تھے.اور آپ کے نزدیک ابھی سقوط حج یا حرمت جہاد کا وقت نہیں تھا.بلکہ جہاد کا وقت تھا.اس لیے سید صاحب اور آپ کے رفقاء نے بذریعہ دلائل قاطعہ اس کا رڈ کیا اور حج پر جانے کا عزم صمیم کیا اور فرمایا جو مسلمان چاہے تیار ہو جائے خواہ اس کے پاس پیسے ہوں یا نہ ہوں میرے ہمراہ حج کرے.جیسا کہ بتایا جا چکا ہے کہ سید صاحب کی اس سفر سے غرض تبلیغ دین و تجدید اسلام تھی.جیسا کہ انہوں نے خود فرمایا:- مجھ کو عنایت الہی سے امید قوی ہے کہ اس سفر میں اللہ تعالیٰ میرے ہاتھ سے لاکھوں آدمیوں کو ہدایت نصیب کرے گا اور ہزاروں ایسے لوگ کہ دریائے شرک و بدعت میں ڈوبے ہوئے ہیں اور شعار اسلام سے مطلق ناواقف ہیں وہ پکے موحد اور متقی ہوں گئے“.اسے چنانچہ شوال 1336 ھ کی آخری تاریخ بمطابق 30 جولائی 1821 ء کو آپ چارسور فیقوں کے ہمراہ حج کو روانہ ہوئے اور تین ماہ کلکتہ میں قیام فرمایا.اصلاح واحیائے دین کا کام جاری رکھا.لاکھوں

Page 269

228 مسلمانوں نے ہدایت پائی اور بہت سے غیر مسلم اسلام لائے.۳۲ے حجاز کو روانہ ہونے تک مختلف شہروں کے سات سو ترین آدمی آپ کے ہمراہ تھے.تیرہ ہزار آٹھ سو ساٹھ روپیہ کرایہ دے کر سب کو دس جہازوں میں سوار کرایا.تینتیس ہزار روپیہ کا سامان خوراک خریدا، حجاز میں قیام اور واپسی کا خرچ بھی سید صاحب نے برداشت کیا اور لطیفہ یہ کہ جب گھر سے چلے تو پاس دھیلہ تک نہ تھا.۳۳ کس طرح خدا اپنے بندوں کی مددکرتا ہے اور مشکل وقت میں وفاداری دکھاتا ہے.آپ 29 شعبان 1239ھ بمطابق 29 اپریل 1824ء کو وطن واپس پہنچے.گویا اس سفر میں دو سال اور دس ماہ صرف ہوئے.قریباً لاکھ روپیہ خرچ ہوا اور ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد نے نور ہدایت سے حصہ پایا.سید صاحب کی مراجعت پر مولانا ابوالحسن صاحب نے ایک قصیدہ لکھا جس کے چند اشعار لکھنا فائدہ سے خالی نہ ہوگا.مولانا سید صاحب کی کامیاب مراجعت پر کہتے ہیں آتی ہے ہر سمت سے بانگ مؤذن کی صدا جس کو سنئے یہی کہتا ہے اللہ اکبر اس قدر عصر میں تیرے ہوئی افرط نماز لاکھوں تیار ہوئے ملک میں پھوٹے منبر قطع بدعات ہوئی فیض سے تیرے ایسی ہند سے رسمیں بری اُٹھ گئیں ساری یکسر دیکھئے جس کو سو کرتا ہے کلام اللہ کو یا د باندھی ہے ہر شخص نے تہذیب و ہدایت پر کمر ۳۲ جہاد سیّد صاحب کے زمانے میں سکھوں نے مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا.مسلمانوں کو مساجد بنانے پر پابندی تھی.اذان کی آواز اونچی سنائی دیتی تو سزائیں دی جاتی تھیں.مسلمان عورتوں کی عزتیں غیر محفوظ تھیں.سکھوں کی منظم غارت گری کا آغا ز بندہ بیراگی“ سے ہوا.اس شخص کی تباہ کاریوں کے متعلق جان میلکم لکھتا ہے :- ” ہمیشہ یادر کھنے والی اس یورش کی تفصیلات بیان کرنا غیر ضروری ہے.تمام روایتوں کے مطابق یہ بدترین لعنت تھی جو کبھی کسی ملک کیلئے سرچشمہ آزار بنی.نہایت درجہ وحشیانہ بربریت جن تعدیوں کی مرتکب ہو سکتی تھی اور انتقام کی بھڑکتی ہوئی آگ جن بے دردیوں کی

Page 270

229 جانب رہنمائی کر سکتی تھی وہ سب اس صوبے ( پنجاب ) کے ان تمام باشندوں پر پوری شدت سے نازل ہوئیں.جہاں جہاں ان یورشیوں کے قدم پہنچے صرف ان لوگوں کو زندہ چھوڑا گیا جنہوں نے سکھ دھرم قبول کر لیا اور سکھوں کی سی وضع قطع کے پابند ہو گئے“.۳۵ رنجیت سنگھ پنجاب اور کشمیر پر قابض تھا اور اب سرحد کی طرف بھی پیش قدمی کرتے ہوئے تباہی مچار ہا تھا.اور سکھ راج کی کیفیت کا اظہار کرتے ہوئے آریچ اپنے سفر ہند میں لکھتا ہے :- و سکھوں کے مذہبی پیشواؤں یا اکالیوں میں رواداری اور اعتدال بالکل ناپید ہے اور مسلمان مجبور ہیں کہ اپنے مذہبی فرائض چھپ کر ادا کریں“.اسے ایسے حالات میں سید صاحب نے اپنے ساتھیوں کو جہاد کی دعوت دی.یہ دعوت سراسر سکھوں کے خلاف تھی کیونکہ وہ دین میں مزاحم ہو رہے تھے.انگریز آپ کے مدمقابل نہیں تھے.انگریزوں سے جہاد کے بارہ میں جماعت احمدیہ اور سید صاحب ہم مسلک ہیں بعض معترضین ہم پر اعتراض کرتے ہیں کہ مرزا صاحب نے انگریزوں کی تعریف کی اور ان کے خلاف جہاد کو خانہ جنگی اور بغاوت سے تعبیر کیا ہے.اس بارہ میں مرزا صاحب کے ارہاص سید احمد شہید جو تیرھویں صدی کے مجدد ہیں کا کیا عقیدہ تھا.اس کا اندازہ اس حوالہ سے آپ خود لگا سکتے ہیں.مولا نا جعفر تھانیسری جو سید صاحب کے معتمد اور رفیق تھے لکھتے ہیں کہ سفر حج کے دوران کسی نے سید صاحب سے انگریزوں کے خلاف جہاد کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا :- ایسی بے ریا اور غیر متعصب سرکار سے کسی طرح بھی جہاد کرنا درست نہیں ہے.اس وقت پنجاب میں سکھوں کا ظلم اس حد کو پہنچ گیا ہے کہ ان پر جہاد کیا جائے“.جب آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ اتنی دور جا کر سکھوں سے جہاد کرتے ہیں ، یہاں رہ کر انگریزوں کے خلاف کیوں نہیں کرتے.تو آپ نے فرمایا :- سکھوں سے جہاد کرنے کی صرف یہی وجہ ہے کہ وہ ہمارے برادران اسلام پر ظلم کرتے ہیں اور اذان وغیرہ فرائض مذہبی کے ادا کرنے کے مزاحم ہوتے ہیں.اگر سکھ اب یا

Page 271

230 ہمارے غلبے کے بعد ان حرکات مستوجب جہاد سے باز آجائیں تو ہم کو ان سے بھی لڑنے کی ضرورت نہیں رہے گی.سرکار انگریز خواہ منکر اسلام ہے مگر مسلمانوں پر کچھ ظلم وتعدی نہیں کرتی اور نہ ان کو عبادت لازمی سے روکتی ہے.ہم ان کے ملک میں علانیہ وعظ کہتے اور ترویج مذہب کرتے ہیں وہ کبھی مانع اور مزاحم نہیں ہوتی.بلکہ ہم پر کوئی زیادتی کرتا ہے تو اس کو سزا دینے کو تیار ہے.ہمارا اصل کام اشاعت توحید الہی اور احیائے سنن المرسلین ہے.سو ہم بلا روک ٹوک اس ملک میں کرتے ہیں.پھر ہم سرکار انگریزی پر کس سبب سے جہاد کریں؟“ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی آپ کا ذکر کرتے ہوئے یہی بات بیان فرمائی ہے.آپ فرماتے ہیں:- ان لوگوں کی نیتیں نیک تھیں.وہ چاہتے تھے کہ ملک میں نماز اور اذان اور قربانی کی جو رکاوٹ سکھوں نے کر رکھی ہے دور ہو جائے.خدا نے ان کی دعا کو قبول کیا اور قبولیت کو سکھوں کے دفعیہ اور انگریزوں کو اس ملک میں لانے سے کیا.یہ ان کی دانائی تھی کہ انہوں نے انگریزوں کے ساتھ لڑائی نہیں کی بلکہ سکھوں کو اس قابل سمجھا کہ ان کے ساتھ جہاد کیا جائے.مگر چونکہ وہ زمانہ قریب تھا کہ مہدی موعود کے آنے سے جہاد بالکل بند ہو جائے.اس واسطے جہاد میں ان کو کامیابی نہ ہوئی.ہاں بسبب نیک ہونے کے ان کی خواہش اذانوں اور نمازوں کے متعلق اس طرح پوری ہو گئی کہ اس ملک میں انگریز آگئے.28 بالکل یہی دلائل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیئے ہیں کہ یہاں ہمیں مکمل مذہبی آزادی ہے کوئی قدغن نہیں.اس لیے انگریزوں سے جہاد خلاف احکام اسلام ہوگا.فتدبروا بات چل رہی تھی سید صاحب کے جہاد پر جانے کی.چنانچہ 11 جنوری 1828ء کو جمعرات کے دن سادات کرام ، علماء عظام، مشائخ ذوی الاحترام ، امراء عالی مقام وسائر خواص و عام نے سید صاحب کے ہاتھ پر امامت جہاد کی بیعت کی.ہندوستانی غازی آپ کو امیر المومنین ، اہل سرحد سید بادشاہ اور سکھ آپ کو خلیفہ صاحب کہا کرتے تھے.آپ کا جہاد صرف شریعت اسلامیہ کے احیاء کیلئے تھا.چنانچہ آپ نے جہاد کی کامیابی کی دعا بارگاہ ایزدی میں یوں کی :-

Page 272

231 ”اے ہمارے پروردگار تو خوب جانتا ہے کہ یہ سب لوگ محض تیری خوشنودی اور رضاء جوئی کیلئے اپنے گھر بار، اہل و عیال اور مال و منال چھوڑ کر یہاں آئے ہیں...ہم جو چند ضعفاء اور غرباء تیرے عاجز بندے باقی ہیں ان کو بھی (دوسرے شہداء کی طرح) اپنی رضامندی اور خوشنودی کی راہ میں جان و مال قربان کرنے کی توفیق عطا فرما.ہمارے سینوں میں جو شیطانی خطرات اور نفسانی وساوس فتور کرتے ہیں ان کو دور کر دے.دلوں کو اپنے اخلاص اور محبت سے معمور رکھ اور اپنے دین کو قوت اور ترقی بخش.جولوگ اس دین کے دشمن اور بدخواہ ہیں انہیں ذلیل ورسوا کر.جو مسلمان شریعت کے راہ راست سے ہٹ کر باد یہ ضلات میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں انہیں ہدایت دے اور پکے مسلمان بنادے تا کہ اس کار خیر میں جان و مال اور اہل وعیال سے شریک ہوں.19 آپ کو جاہ و حشمت سے قطعا لگاؤ نہ تھا.آپ نے صرف اعلائے کلمتہ اللہ اور احیائے دین کی خاطر تیر و تفنگ و حرب وسنان کا بازار گرم کیا تھا.استقا جہاد کے سلسلہ میں آپ کو اللہ نے استقامت سے بھی نوازا تھا.معتمد الدولہ آغا جو نائب السلطنت اودھ تھا اس نے آپ سے بدعہدی کی اور جبراً آپ سے کہا کہ شیعہ حضرات کو حلقہ ارادت میں شامل نہ کریں اور نہ لشکر کشی کی دھمکی دی.آپ چونکہ فرقہ پرستی کی لعنتوں سے پاک تھے.اس لیے آپ نے اس کو سختی سے جواب دیا.آپ میرے قدیمی آشنا ہیں اور میرا حال جانتے ہیں.یہ بات مجھ سے نہ ہوگی کہ کلمہ حق سے رک جاؤں.دو چار تو ہیں کیا چیز ہیں میں تو سوتو پوں سے بھی نہیں ڈرتا.اگر مالک حقیقی میرا مددگار ہے تو مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا“.بے 7 جمادی الآخر 1244 ھ کو آپ رائے بریلی روانہ ہوئے.مختلف بلاد سے گزرتے ہوئے آپ پشاور پہنچے.اکوڑہ کے مقام پر سکھوں پر حملہ کیا اور انہیں شکست دی.اس فتح سے مسلمانوں کے حوصلے جوان ہو گئے اور نوجوان سید صاحب کے لشکر میں شامل ہونے لگے.رفتہ رفتہ یہ تعداد لاکھوں تک جا پہنچی.آپ کو پے در پے فتوحات حاصل ہوتی رہیں اور سرحد میں اسلامی حکومت کے قدم مضبوط

Page 273

232 ہوتے گئے.سید صاحب چونکہ مجد دوقت تھے اور آپ کا جہاد بھی شریعت اسلامیہ کے نفاذ کیلئے تھا اس لیے آپ جنگ و جدال کے ساتھ ساتھ جہاد بالنفس کی تلقین بھی کرتے تھے.بد رسوم کا خاتمہ کرتے اور بدعات کا استیصال کرتے.سرحد کے خوانین جولڑنے مرنے پر تو آپ کے ساتھ فورا ہو گئے تھے جب انہوں نے اس معاشرہ کے انقلاب کو دیکھا جس سے ان کی جھوٹی ساکھ اور انانیت پر ضرب کاری لگتی تھی تو یہ بات انہیں ناگوار گزری.بعض خواتین نے آپ سے غداری کی.یار محمد خان سکھوں سے جا ملا.عین میدان جنگ میں ان کی غداری رنگ لائی اور مسلمانوں کی فتح شکست میں بدل گئی.اسلامی تاریخ کا یہ باب کتنا المناک ہے.بغداد واندلس ہو کہ شتیلہ وصابرہ یا ہندوستان ہو ہر جگہ پر ہوس پرستی ، اپنوں کی بد عہدی و غداری یہی مشترکہ عناصر ہیں جو مسلمانوں کی شکست کے اسباب بنے.شہادت اسی طرح درانی قبائل نے بھی غداری کی.ان بد عہد خوانین سے تنگ آکر آپ نے مرکز بدلنے کا ارادہ کیا اور کشمیر کی تنگ و تاریک گھاٹیوں سے گزرتے ہوئے بالا کوٹ پہنچے اور یہاں مرکز قائم کر لیا.سکھوں کی طرف سے رنجیت سنگھ کا بیٹا شیر سنگھ ایک بڑی جمعیت لے کر مقابلہ کیلئے پہنچا اور 6 مئی 1931ء کو بمطابق 13 ذیقعدہ 1246ھ خون ریز لڑائی ہوئی جس میں شاہ اسماعیل صاحب اور سیّد احمد صاحب نے جام شہادت نوش کیا.انا لله و انا اليه راجعون بنا کردند خوش رسمی به خاک و خون غلطیدن خدا رحمت کند این عاشقان پاک طینت را یوں وہ پیکر عزم و ہمت ہزارہ کے شمال مشرقی گوشے میں ابدی نیند سو گیا.وہ چراغ گل ہو گیا لیکن جاتے جاتے ہزار ہادلوں میں نور ایمان کی قندیلیں روشن کر گیا.سکھوں نے لاش تلاش کرائی تو سرتن سے جد ا ملا.دونوں کو ملا کر انہوں نے باعزاز دفن کیا.لیکن دوسرے یا تیسرے روز نہنگ کے سکھوں نے دوبارہ لاش نکال کر دریا میں بہادی.اس طرح سر پھر جسم مبارک سے الگ ہو گیا.لاش گڑھی حبیب اللہ خان کے قریب پہنچی تو کسانوں نے نکال کر دفنایا اور سر تھوڑ اسا دور گڑھی کے اندر ملا چنانچہ اُسے الگ وہاں دفن کر دیا گیا.آپ کی شہادت بروز جمعہ 11 بجے

Page 274

233 24 ذیقعدہ 1246ھ بمطابق 17 مئی 1831 ء کو ہوئی.اسے اگر چہ آپ نے زندگی کی 45 بہاریں دیکھیں لیکن آپ کا مقصد پورا ہوا کہ حق کا بول بالا رہے اور کفار کا سفلی رہے.ہمیشہ نور مصطفوی بالآخر فتحیاب ہو اور نار بولی کے حصے میں خسران آئے.یہی غلبہ اسلام کا مشن آپ کے بعد زیادہ وسیع پیمانے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے آگے پہنچا اور ان کی خواہش بھی یہی تھی کہ میرا کام اس وقت مکمل ہو گا جب سارا ہندوستان اسلام لے آئے.چنانچہ انہوں نے اپنی ہمشیرہ سے فرمایا تھا:.لوگ کہیں گے کہ سید احمد کا انتقال ہو گیا یا شہادت ہوگئی لیکن جب تک ہندوستان کا شرک ، ایران کا رفض اور سرحد کا غدر نہیں جائے گا میرا کام ختم نہیں ہوگا“..پس سید صاحب کا مشن جو غلبہ اسلام کا مشن تھا آج بھی جماعت احمدیہ کے ذریعے ایک نئی شان سے جاری ہے.حضرت اقدس نے آپ کو اپنا ارہاص قرار دیا اور فرمایا : - سید احمد بریلوی سلسلہ خلافت محمدیہ کے بارھویں خلیفہ ہیں جو حضرت یحیی کے مثیل ہیں اور سید ہیں.۲۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:- " جس طرح کہ حضرت عیسی سے پہلے یوحنا نبی خدا تعالیٰ کی تبلیغ کرتے ہوئے شہید ہوئے تھے اسی طرح ہم سے پہلے اس ملک پنجاب میں سید احمد صاحب توحید کا وعظ کرتے ہوئے شہید ہو گئے.یہ بھی مماثلت تھی جو خدا تعالیٰ نے پوری کر دی.سیّد احمد شہید کے شروع کردہ کام کا اتمام ایک مقام پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ:- ہند میں دو واقعہ ہوئے ایک سید احمد صاحب کا اور دوسرا ہمارا.ان کا کام لڑائی کرنا تھا انہوں نے شروع کر دی مگر اس کا انجام ہمارے ہاتھوں مقدر تھا.جو کہ اب اس زمانہ میں بذریعہ قلم ہورہا ہے.اسی طرح عیسی علیہ السلام کے وقت جو نامرادی تھی وہ چھ سو سال بعد آنحضرت

Page 275

234 کے ہاتھوں سے رفع ہوئی.خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے کہ وہ کامیابی اب ہوئی.20 اپنا بھائی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب فر ماتے ہیں :- ایک دفعہ ہمارے بڑے بھائی حضرت مرزا بشیر الدین محمود حمد صاحب خلیفہ اسی الثانی نے اپنے بچپن کے زمانہ میں جہانگیر کا مقبرہ دیکھنے کا شوق ظاہر کیا اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نصیحت کے رنگ میں فرمایا :- ”میاں تم جہانگیر کا مقبرہ دیکھنے کیلئے بیشک جاؤ لیکن اُس کی قبر پر نہ کھڑے ہونا کیونکہ اُس نے ہمارے ایک بھائی حضرت مجددالف ثانی کی ہتک کی تھی.ایک لمبا زمانہ گزرنے پر بھی ایک مسلمان بادشاہ کے ایسے فعل پر جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے اسلامی تاریخ میں گویا ایک عام واقعہ ہے کیونکہ مسلمان بادشاہوں کے زمانہ میں ایسے کئی واقعات گزر چکے ہیں ، حضرت اقدس علیہ السلام کا اس قدر غیرت ظاہر کرنا اور حضرت مجددالف ثانی " کیلئے بھائی جیسا پیارا لفظ استعمال کرنا اس بیگانگت اور محبت اور عقیدت کی ایک بہت روشن مثال ہے جو آپ کے دل میں امت محمدیہ کے صلحاء کیلئے موجزن تھی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس ارشاد میں خود وضاحت فرما دی ہے.حضور کی اس ہدایت کا یہ مطلب نہیں تھا کہ کسی مسلمان کو جہانگیر کا مقبرہ نہیں دیکھنا چاہیے.وہ ایک جاہ وجلال والا بادشاہ تھا اور ہمیں اپنے قومی اکابر اور بزرگوں بلکہ غیر قوموں کے بزرگوں کی بھی عزت کرنے کا حکم ہے.مگر چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے بچوں کے دل میں غیر معمولی اسلامی غیرت اور صلحاء امت کا غیر معمولی ادب پیدا کرنا چاہتے تھے.اس لئے آپ نے اس موقعہ پر اپنی اولا د کو ایک خاص نوعیت کی نصیحت کرنی مناسب خیال فرمائی.ہے حضرت سید احمد بریلوی صرف ہندوستان کے مجدد تھے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے فرمایا:- حضرت سید احمد صاحب بریلوی بھی بیشک مجدد تھے مگر ساری دنیا کیلئے نہیں تھے.بلکہ صرف ہندوستان کے مجدد تھے.اگر کہا جائے کہ وہ ساری دنیا کے مجدد تھے تو سوال

Page 276

235 پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے عرب کو کیا ہدایت دی.انہوں نے مصر کو کیا ہدایت دی.انہوں نے ایران کو کیا ہدایت دی.ان ملکوں کی ہدایت کیلئے انہوں نے کوئی کام نہیں کیا ہے سید احمد صاحب بریلوی بطورار ہاص کے حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے فرمایا:- ”اب ہم دیکھتے ہیں کہ بیٹی کس بات میں بے مثل تھے.اس نقطہ نگاہ سے جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہی وہ پہلے نبی ہیں جن کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ الیاس کا نام پا کر آئے ہیں.گویا ارہاص والے نبیوں میں سے یہ پہلے نبی تھے جو الیاس کا نام پا کر اسی کی خوبو پر آئے.اس سے پہلے پرانے نبیوں میں کوئی ایسا نبی نہیں مل سکتا جو کسی دوسرے نبی کیلئے بطور ارہاص کے طور پر آیا ہو.لیکن بیٹی کے بعد حضرت مسیح آگئے جو محمد رسول اللہ علیہ کے ارہاص تھے.اور پھر حضرت سید احمد صاحب بریلوی آگئے جو حضرت مسیح موعود کیلئے ارہاص تھے.پس لم نجعل له من قبل سمیا میں یہی خبر دی گئی تھی.۲۸ سید احمد بریلوی کا ساتھی مسیح موعود کے چرنوں میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب فر ماتے ہیں:.سید احمد صاحب بریلوی کا ایک مرید جو بہت بوڑھا اور ایک سوسال کی عمر اپنی بتلاتا تھا اور سید صاحب کے زمانہ جہاد وغیرہ کی باتیں کرتا تھا.ایک دفعہ قادیان آیا اور حضرت صاحب کی بیعت میں داخل ہوا اور غالباً ایک سال بعد دوبارہ بھی آیا اس کے بعد جلد اس کی وفات کی خبر آگئی.اس کے بال مہندی سے رنگے ہوئے سرخ تھے.29 حضرت سید احمد بریلوی غافلوں پر حجت تھے حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں:.حضرت مسیح موعود سے پہلے حضرت مجدد صاحب بریلوی یا حضرت مولوی محمد اسمعیل

Page 277

236 صاحب شہید اور اسی طرح بعض اور بزرگ گزرے ہیں مگر یہ چالیس کروڑ مسلمانوں میں سے چند نفوس تھے جو خدا تعالیٰ سے ملے.ان لوگوں کو خدا تعالیٰ نے یہ دکھانے کیلئے بھیجا تھا کہ اسلام اب بھی اپنے اندر طاقت رکھتا ہے اور اب بھی وہ لوگوں کو زندہ کر سکتا ہے.اب بھی وہ انہیں خدا تعالیٰ کے دربار تک پہنچا سکتا ہے.قومی طور پر ان کے وجود سے کوئی فائدہ نہیں ہوا.پس حضرت سید احمد صاحب بریلوی کہا کرتے تھے کہ وہ درحقیقت حجت تھے شستوں پر، وہ حجت تھے غافلوں پر اور وہ یہ بتانے کیلئے بھیجے گئے تھے کہ اسلام اب بھی اپنے اندر زندگی بخش اثرات رکھتا ہے.۰ھے 28 سَلامٌ عَلَى الْيَاسِينَ حضرت سید احمد صاحب بریلوی الیاس کے رُوپ میں حضرت مصلح موعود نوراللہ مرقد کا فرماتے ہیں :- ”ہماری جماعت کا اعتقاد ہے الیاس کی بجائے الیاسین کا لفظ اللہ تعالیٰ نے اس لیے استعمال کیا کہ یہاں ایک سے زیادہ الیاس مراد ہیں.ایک تو وہ الیاس ہیں جو اسرائیلی انبیاء کے وسط میں گزر چکے ہیں.دوسرے الیاس یوحنا ہیں جو حضرت عیسی سے معا پہلے آئے اور تیسرے الیاس حضرت سید احمد صاحب بریلوی ہیں جو حضرت مسیح موعود سے پہلے آئے.چونکہ نزول قرآن سے پہلے دو الیاس دنیا میں آچکے تھے اور ایک الیاس نے ابھی آنا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے سلام علی الیاس کی بجائے سلام علی الیاسین کہہ کر اس صدی کی طرف اشارہ کر دیا.اھے اس صدی کے دوسرے مجددین کے نام یہ ہیں.شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، مولوی محمد اسمعیل شہید دہلوی ، شاہ رفیع الدین دہلوی اور بعض نے شاہ عبد القادر کو بھی مجد د تسلیم کیا ہے.

Page 278

237 له سید احمد شہید - صفحہ 445 حوالہ جات اُردو دائرہ معارف اسلامیہ.جلد دوم صفحہ 137 سے مکاتیب شاہ اسمعیل.صفحہ 50 بحوالہ سیّد احمد شہید.صفحہ 266 تفسیر کبیر.جلد 8 صفحہ 198 سید احمد شہید از غلام رسول مہر - صفحہ 65 ايضاً - صفحہ 67 ايضاً - صفحہ 76 ايضاً - صفحه 71 منظورہ - صفحہ 54 ن تحفہ گولڑویہ.صفحہ 45 اردو دائرہ معارف اسلامیہ.جلد 2 صفحہ 139 ۱۲ مخزن احمدی بحوالہ سیرت سیّد احمد شہید.صفحہ 254 الله ايضاً - صفحه 111 ايضاً - صفحہ 120 ايضاً - صفحہ 124 ايضاً - صفحہ 130 کے منظوره بحوالہ سید احمد شہید - صفحہ 143 امیرالروایات بحوالہ سیرت سیّد احمد شہید - صفحہ 258 ارواح ثلاثہ صفحہ 96 بحوالہ سید احمد شہید از غلام رسول مہر - صفحہ 72 ايضاً - صفحہ 75 ا سیارہ ڈائجسٹ اولیاء کرام نمبر 2.صفحہ 466

Page 279

17 238 سیرت سید احمد شہید.صفحہ 155-153 وصایا انوری بحوالہ سیرت سید احمد شہید.صفحہ 269 ايضاً - صفحہ 194 ايضا - صفحه 171 ۳۵ ۳۸ ۳۹ 51 سید احمد شہید.صفحہ 157 سے ماخوذ اردو دائرہ معارف اسلامیہ.جلد 2 صفحہ 138 بحوالہ سیرت سید احمد شہید از غلام رسول مہر.صفحہ 216 ۲۹ سیرت سید احمد شہید از سید سلیمان ندوی.صفحہ 69-70 امیرالروایات بحوالہ سیرت سید احمد شہید - صفحہ 236 ایضا - صفحہ 236 اُردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 2 صفحہ 139 ايضاً سید احمد شہید از غلام رسول مہر.صفحہ 343 سید احمد شہید.صفحہ 231 164-Travels in India vol I, P بحوالہ سیرت سید احمد شہید - صفحہ 338 تواریخ مجیبیہ - صفحہ 91 ملفوظات.جلد 2 صفحہ 207 سیرت سید احمد شہید - صفحہ 248 ايضاً - صفحہ 172 ات ایضاً.صفحہ 406 ۴۳ ۴۴ سیرت سید احمد شہید - صفحہ 465 تحفہ گولڑویہ.صفحہ 45 ملفوظات.جلد پنجم صفحہ 356 ملفوظات.جلد دوم صفحہ 506

Page 280

239 سیرۃ طیبہ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد - صفحہ 104 تفسیر کبیر.جلد ہفتم صفحہ 0 199-2003 تفسیر کبیر.جلد پنجم صفحہ 131-130 ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق - صفحه 175 تفسیر کبیر.جلد ششم صفحہ 337 تفسیر کبیر.جلد نہم صفحہ 170

Page 281

240 ایک نئی تحقیق خاکسار مکرم و محترم ناظر صاحب اشاعت مکرم محترم عبدالحئی شاہ صاحب کے دفتر میں ایک کام کے سلسلہ میں حاضر ہوا تو آپ نے از راہ شفقت پوچھا کہ اب کیا کام ہورہا ہے.خاکسار نے بتایا کہ مسجد دین اُمت محمدیہ اور ان کے تجدیدی کارنامے تحریر کر رہے ہیں.آپ نے فرمایا کہ انڈونیشیا ملائشیا کی طرف جو بزرگ تجدید دین کیلئے آئے ہیں ان کا بھی پستہ کرنا چاہیے.یہ بات ہمارے لیے بالکل نئی تھی.چنانچہ خاکسار نے مکرم و محترم مولانا محمود احمد چیمہ صاحب سابق مبلغ انڈونیشیا جو تمیں سال سے زائد عرصہ خدمت دین کرنے کے بعد لوٹے تھے ، سے ملا اور اپنا مدعا بیان کیا.آپ نے فرمایا کہ مکرم مولا نا عبدالباسط صاحب امیر جماعتہائے احمد یہ انڈونیشیا کولکھیں کہ وہ تحقیق کر کے بھیجیں.چنانچہ مکرم مولانا عبدالباسط صاحب کو لکھا گیا.آپ نے از راہ شفقت جو تحقیق بھیجی وہ حاضر خدمت ہے.اس کا ترجمہ مکرم ومحترم مولانامحمود احمد چیمہ صاحب طال اللہ عمر ھم نے کیا ہے.ان کی طرف سے ایک اضافی نوٹ بھی شروع میں دے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر عطا فرمائے.آمین.صفدر نذیر گولیکی

Page 282

241 بسم اللہ الرحمن الرحیم مکرم و محترم جناب صفدر نذ یر گولیکی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ اُمید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے.آپ کے مسودہ بنام ولی سونگو کا ترجمہ خاکسار نے کر دیا ہے جولف ہذا ہے.ولی سونگو کے معنے ہیں کہ دیوان مبلغ جونو (9) افراد پر مشتمل ہوتا ہے.جوتر کی ، ایران اور فلسطین سے آئے.جب ان میں سے کوئی وفات پا جاتا یا چلا جاتا تو اس کی جگہ پر لوکل ولی علماء کا انتخاب کر لیا جاتا.اس لیے اکثر اوقات ایک وقت میں نو (9) ولی ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام مجدد کی طرح ان ولی یا اولیاء یا علماء بزرگوں کے ساتھ مجدد کا لفظ اس مسودہ میں نہیں ہے اور مسجد دین کے بارہ میں جو حدیث ہے:- ان الله يبعث لهذه الامة على رأس كل مائة سنة من يجدد لها دينها (ابوداؤد مشکوق) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مجددین کو اللہ تعالیٰ مبعوث کرے گا.یعنی ان کو مجدد ہونے کا الہام ہوگا.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوا.اور الفاظ ھذہ الامۃ بتاتے ہیں کہ مجددین مسلمانوں کی اصلاح کیلئے آئیں گے.لیکن مندرجہ ذیل مسودہ میں انڈونیشیا میں پہلے ہندو اور بدھ مذہب پھیلا تو سلمان اولیاء،علماء اور بزرگوں نے دوسرے ملکوں سے آکر اسلام کو پھیلایا.البتہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے فرمان کے مطابق تمام احمدی مبلغین بھی مجدد ہیں.اس لیے مندرجہ ذیل اولیاء، علماء اور بزرگوں کو بھی مسجد دکہا جا سکتا ہے.مجدد کو انگریزی میں Reformer کہتے ہیں اور انڈونیشن زبان میں Pembaharu یعنی اصلاح کرنے والا.چونکہ ان اولیاء اور علماء نے ہندوؤں اور بدھوں کی عادات، روایات کی جگہ پر اسلام کی اعلیٰ تعلیمات داخل کیں اس لحاظ سے وہ مجددیا مصلح کہلا سکتے ہیں.طالب دُعا.خاکسار محمود احمد چیمہ

Page 283

242 WALI SONGO Para Penyebar Agama Islam di Tanah Jawa A.Pendahulazn Seguhnya jauh sebelum pura wali (waliscagn) menyebarkan blam di tanaž Jawk Sebenaraya sudah ada masyarakız hez di dacrab-dah pantas utan.Hal ini bisa dibatkan dengan adanya makan seorang was bernama Falmak bu Mamu yang meninggi pada ahun 475 of mas 1087 M Namun jumlah sange si nga denga jumlah masyarakat yang beragama Budha dan Hindu Schinga pada tahan 1404 M Sultan Muhammad I yang sat itu memerintah Turki zorluk pertama kahnya mengutus seorang ulama Turki yang bernama Manluca Mulih Ibrahim untuk membina das merrycharkan Islam di tarah Jawa tersets Kemudun setelah in diatasnya pada beberapa siamo la naya membantu beliau mereka adalah 1 3.4 S Maciama Ishak, bensal dari Saranyard (dekst Bukhara-Rigia Selatan) aab peagobates walk: di Pesa:- Aah Mariana Ahmed Jumadil Kebra, berasal dari Mesi wala da Mojokeno Ja Timu Maulana Muhammad Al-Magreta, berasal dari Maghrib Maroko wafat ubun 1465 M Jom Klaten lawn Tengah Maulana Malik Maroli, berasal dan Tub, ith monatın Negara wafat tahun 1435 M.& makakasarung Sanon Meu on Mohammad Al Akbar, berasal dari Persia.Ima, sill pengobatan walat tahun 1435 M.Macamnya di Gunung Santri.Mariana Banzaidin, beras du Palestina wafat tahun 1462 M 4 Bazion Maulana Alayeddia, berasal dan Palestina, wata tahun 1462 M 4 banten Syekh Sabahir, bensal dari Persia- iran.Pada mehe 1462 M Lezbite Perus dan wafat disanak Den kena mereka ini lebih dikenal design scrutan walisongu.Walisongo adalah nama sata dewan Mabaligh yang terdiri dari sembilas ulama yang apabila salah seorang dari mereka meninggal isu kembali ke begaranya maka akan digura dengan yang lamayı Di dalam ki Ulal Dooul Bathuthah yang penulisannya dilanjutkan oleh Sych Maulana Al-Matzohi Walisongo telah melakukan sidang sebanyak ng lai, jot peda tahun 1404 M, 1436 M dan tahs 1461 M.Des juga menurut KH Dakhla Abdul Qchar pada uhim 1466 M telah disdaian juga siding untuk mengangkat dua (eg vali pragarrian dua orang wali yang meninggal youts Maulana Naharunad Al-Maghash das Maulana Ahmed J Kubro Para walisongo away berasal dan Afria Uma Timur Teapah dan Bukhara.Mereka diutus ke saran Jews pada tahun 1404 M atau 108 R.atas perustab Sulta Mahanuradyang saat itu memeritat Tul Na het schegian dan antara faketball ke gana Maa De Malware in bak yang date prob tape put us wall is wal y m

Page 284

243 1.: 1.༣ Rades Ahmad All Rahmatullah yang terkenal dengen schutan Radeo Ralent stau innan Ampel, berasal dari Cerare- Muanghai Sextan, drtua pad un 1421 M untuk incogentikan Maulana Mutik Insabim yang wafat tahan 14 19 L.Sayyid Ja'far Shaddiq berasal dan Palestina, diutus pada sam 1436 M untuk menggantikan Maulaa Malik Troyang walat tahun 1435 M.Syarif Hidayatallab yang terkenal dengan sebutan Susan Guzang Jasť, berasal dan Palestina diutus pada tahun 1436 M menggantikan Maulana Ali Akbar yang wefiet taham 1435 M.Raden paka yang terkenal dengan narna Sunan Girt, Maclann Ishak yang mah dengan R.Dew: Sekastada puci Keman Blambangan Schaa menggenstag kedečakan ayakaya yang selah pindah ke oegr F- Arch 5.Raden Makdum Ibrahim yang terkenal dengan sutan Sunan Bonang.putra Susan Ampel, yung menggantikan Matane Hasanuddin yang wafu tahun 1467 M K 1.9 10 11.12 13.Raden Sand yang terkenal dengan nama Sunan Kufjes, outro Adiperi Wilankts yang berkedudukan di Titan-Jawa Timur, menggantikan Syekh Subakir yang kembali ke Persia pada tahun 1462 M.Rada Jufor Shaddiq yang terkenal dengan nama Sunan Kudur, para Suzan Nyudung mau Raden Usman haji dari lipung Jawa Tengah Menggantikan Maulana Alayndalia yung walat tahun 1462 M.Baden Fattah padi Raja mwijaya Majapahit yang menggantikus Maulana Abmad Jamadil Kubra yang wat di Majokat Jasa Tengah Dan kemudian dinobatkan menjadi Sultan atau Raja Donji tahun 1469 M.Radeo Vodim yang dikenal dengan sebutan Sanca Drajed, pusa Su Ampel yang menggandan Mulai Mutammad Al-Maghrebi yang wafa Lafran 1465 M Raden Umar Said yang dikenal dengan Sura Murk, puts Sunsa Kalijaga Fethullah Khan, purra Suman Chungati, beliau dipulih sehayu ana£.2004 Walisongo menggantikan ayahnıya yang telah berusia larjat Sunan Bayi abu Ki Panchanang mactan bupati Semarang Jowa Tengah Syekh Siti Jemar 10 Syekh Lanah Abang Wal-wall tersebut terbagi menjach beberapa periode, dan tiap-tiap periode jumlah mereka harus temp ambilan dan apabila ada diantara mereka meringzal zdan korakali ke negeri asalnya, umka moraka akan tuengangkat yang lainnya agar jumlahnya tomap genap sembilan Dan setia waliogo but yang ay ang degrade dan formasyur di maavarakui adalah Maulane Mallk Ibrahim, 2.Hair Akmad Ali Rahmatnilah yang terkenal dengan sebutan Suzan Ampel 3.Syarif Hidayatulish yung talenal dengan sebutan Suman Gunung Jati, 4.Raden poka yong urteral dengan nama Sunan Cari 1 Raden Said yang terkenal dengan nama Sunan Kalijaga, Raden Maklara Ibrahim yang terkenal dengan sobutan Sumen Bonang, 7.Redca Jafar Shadde vantei de Sunan Kudas, Radea Qasim yang dikenal dengus schiuma Sunas frejad car Rades Dear Said yang dikenal dengan Muz

Page 285

244 B.Khat Para Walisongo yang Melegentia di Masyarakat 1.Maulana Malik İbrahim Ulance Turks yang diumus pertina alike anabawa oleh Sultaz Turks.Muhammed pada tahun 1404 Merupakan seorang ahi: lata pegara dan juga ahli pertanian dan pengobatan Bekau wafat pada tahım 1419 M di Gersik-Jawa timer Pada masa itu kerajaan yang berkuasa di live Tubur odalah Majapahit yasıg rakyatnya kebanyakan beragama Hinds dan Badha.Namun karena beltas pernah bertugas di wilayah Gujarat Hindia yang merupakan basic apima iliadu muka belia tidak terlalu kesaldian dalam menghadapi toereka.Masyarakat sempat menjuluki beliau dengan sehran Kaich Bantal kanna kedekatan belizu pada take mukin, dan kepribadia, beliau yang menyerangan schunga beliau juga sangat dihormati dan diszgard baik dich manyaniket un, mara Selan, pars Pangeran maupun pers Mentri.Halu dapat ditemukan di dalam zuliran yang tertera di tali nisugunya yang ikunyt "Tatah makam Almarhum thungfur, yang berharap ruhu Than kebanggaan para l'angyram, send: para Mulan dan penu Menez, pedung fait miskin tam berbahazio ingi syahid, cerncangnya symbol negara dan agama, Atalık İhrahim yang terkenal dengan Kakek Bama! Allah melipanov dengan Nuhanol-Nya dan kurithan-hy, dan dimanakun ke dalam sưga Telah wafa jaada kariweni 12 Robles Aww.thor &22 FL* *64 Pelias mendirikan pesantren soba zadəgan mal Hindu yang mendirikan mandala-candals untuk mencetak tender pemirsan ages mercka.Habangan beliau dengan pemimpin-pemain kerajaan Majapahit sangat tak hal in tabuli dengan diberkaya darah Gersik untuk dikelolah dibawzh pimpinan ang wall.2.Sunna Ampel Beliau terlahir dengan nama Sayyad Ali Rabat, pota Syekh Ibrahim Sumanquai dan Bukhara yang mendengar (kowi Candrawulan, patri naja Lenga dari Muangtrai Ibanya, Dewi Cendrawulan mempunyai adik yang beruama Dewi Dwari yang diperistri Prabu Brawijaya, Raja Majapahit der: Jawa Oleh karena itu belas merupakan keponakan dari raja Jawa tersebuź Ketika diutus ke Jawa, boia: dijodohkan dengan salah satu puin Majapahit yang bernama Dewi Candrawan.Karena beliau comtu raja miaka belzupun diberi gelar Rado-gelar penghormatan yang diberikan untuk pangun pangeran Kamjan danch Jawn Yang kemudian beliau lebih akrab dipungal dengan sobutor Raden Rahmat.Belian diberikan tanah di daerah Angeldents wilayah Surabaya-Jawa Timur dan mengembangkan pertabligvery Beliau pada *ing wali yang memerahankan der mengejaskan kemursien synnal illam senzu ajanto Rasulalabins a modasi dan kebiawan mau aday adat setempat.Karena belea tinggal di dermal Ampeidanus den bendakwah disench maka bekau lebih di depasta Senan Ampel--Sunan sendin berasal den Lets Sakon yn y Yang Sijunjung atau pes | sexempal Ada yg you monahan Susan berat di ka Sabu Nam yang artins (ara besar is nagyong her at ang

Page 286

245 Bela menekan orang yang pertama kali yang menciptakes buſuf Przem ama Arab yang berbahasa Jawa Sezib Syekh Maulana Malik pain wat behan menggantikannya dan dungat menjad mufti se-tarah laws scrus sebagai penasciai Raja Decak Button-Lean Islam pertama di tanah Jawa.Hic au wafat zada tahun 1478 M 1.Som Cin Sunken Gin yang muna kionya Joko Samudra Rader Paica adalah putra dan Syekh Maulana Ishak, seorang anggota walisongo yang pundaði ke negri Paszİ- Aceh, dan menikah dengan putri Raja Himmbangan, Dewi Sekardadu Elebac lažuz poda tabuc 1442 M.Giri sende dalam bahasa mosekerta urticja Cung Jf belimi menpakan Suno yung mengembangkan istatys dan salah sau de caran ungy di Gersik-Jawa Timur yang kemudian disulap menjadi schaat pesantren terbesar dan terpengaruh yang bersama pesants (n, das lambai-lam pesantren tersebut berubah mayadi schua Kedaton smu Kerajaan yang kekuasaannya berlengang tampe: 700 hun lamanya Susan Giri merupakan murid Swan Ampel schung dalam caycburkan harpun sama seperti Sunan Ampel y maryebarkan menuna apa yanŲ diajarkan Rasulullah saw, tanpa dibumbuh atau dicampur dengan adat istiadat Joma Namun walaupus begi beliau sangat senang kepada kesenian.Schungga.banyak sekali jau beliau dalam bidang kesenian sepern sethbang Armerodaná, Pucung, Jamuran, Cubacubiak Sweng Jitbungas dan Defe yang say makan sebat agar tetap berpegang teguh kepada Tasha Dan beliau wafat pada tahun 1506 M 4.Suman BossDE Bobang adalah alat musik sejenis kuningan yang diolan öbagian tengahnya.Bila benjabes ira dipukul dengan kayu kask maka akan menimbulkan suara yang mendu Sunan Bonang sendiri merupakan putra Sunan Ampel yang nama malinya Raden Maktur Ibrahim.Belee adalah seorang wali yang memilki viņņa rasz kesenian yang tinggi Oleh kan itu banyak menciptakan tembang yang iwaya menggambarkan keagamaan Islam.Beliau juga menciptakan satu karya sastra yang dischut Suluk yang sampai sekarang nach disumpen mpi di Perpustakňan Universitas Leiden, Belanda Dalam benabligh Raden Makdum Ibrahim sering mempergunakm Bonang sebagai sarana tablighnya.Sehingga bunyai menarik perhuman rakyat dac sejak itu pun beliau lebih dikenal dengan rasa Susan Bonang Daerah permablighannya mxdipuu Lazem, Recibeng Sempadan dan Tubes-Jawa Timur Scha wafat pada tahun 1520 M.5.Susso Kalijaga Suman Kalijaga dalah keruan dari Ranggalase farglima Majapahit Beau putre Tumenggung Waletta Raden Sahur.Achpala Tuban yang berkas sentits Beliau bernama zals Raden Sand Sunan Kahjaga flat scorang wali yang memasukan uw blam kedaism ades da tradit Jaws.Beliau tidak pernah menghinis kohas, at

Page 287

246 wladat dan budaya Jawe yang menang pengwuh ajaran Hindha dan Buka sudah krzał didalamnya.Namus beliau berusaha mengganti pengaruh pengaruh ayarın icebut dengan gran slam Sabega corch Ichita su dalam bahasa Jaws disebut Selman sabu specara (rimal) yang dihadiri besyak orang das dipumina oleh seorang ahli agama yang membacakas maston-manter untuk mengusir roh jahu, didalamnya banyak sekali disajikan makanan can cHELIMES yang senga diberikan untuk moh-roh tersebut dan setiap orang yang zzzagħadınınya dilarang memakannya.Sunan Kalijaga memrevisi ritual tenebas dengan mengguzi master-cument tersebut deng 1-ayat Al-Qa pylen-pujan urhadap Rasulullah saw dan menyurub orang yang mengradinkys untuk masakan hidangan terbM.Kanka prezzi Marid Demak, beliau mengusulkan apar dibuka dengan pemajukan wayang yang pada waktu itu boztakıya menyakan gambar manusia yang diňáis i sobah kulit bualang Nemo usul beliau ditolak ofch Sunan Cani Larcza wayang tradhat merupakan gambar orang yang bdak dibenarkan oleh ryanal Tep Sunan Kalijepa telah merubah kabisan tersebut menjadi sebuah gambar yang sama sekali udak ming dengan manis maupun dengan makhluk tunaya.Schingen para walijaa congjizkan peresmann Meand Demak tersebut dengan pagelaran wayang yang didalangi langung oleh beliau, do Juhata sebagai fica masuk untuk masyarakat yang iopia Delčal pertunjukan tersebut.Sikupnya yang krak tertiadap adat istiadat dan tradisi lama pernah disentang oleh Sumac Ampel, Soman Giri, dan Sunan Dryad Kareza diawstrin di \ hari adat istiadas dan tredia, serta upacara lazım itu akan dianges; sebagai ajaran yang berasal dari agrozsa itžam.Jika hal ini dibieskaɔ nantinya akas menjadi biďah.Namun Sunan Kudus talað sourana wali yang mendukung pikinm dan pandangan Suman Kalijaga memastikan belea paso dibelakang bazı akan ada wang yang menyemak dan menghilangkan sents mezakis undisi-tradisi Belisa wafat di Kadılanga.Demak, Jawa Tengah.4.Sunan Kader Nama asli beliau adalah Raden Jafar Sodiq, puzna čari Raden Usman Haji atau Sunan Ngandung seorang senget.Kanjaan Demak dan keaks Raden Usmen Baji wafat make belisulah yang menggantikannya menjadi senopati Kudus merupakan name sustu doarsh tomper Raden Jafe Sodiq Dongbangkan dan menyebarkan Islam Sehingga beliau lebih dikenal dengan mana Sunas Kuda.Dalam bertabigh belas termasuk soorang wali yang mendukung gayİMİ Sunan Kalijaga yaitu membukan dabuulu adat istiadat dan kepercayaan lama yang sukar diubah pena harus mendra égardshow call onlyte cara yang Wa Melainkan tetap menghader das kehasan tersebut deegur bewals sodki dom: sedikit mempengaruhi dan memasakan sa m kedalamnya.Namun untuk ada istiadat yang mudah dinkah mais soepen dhilangkan Salah sata hasil treating adalah barguran Mard yang dibentui mimp dengan sebas candids des poti stau tempat no Desprobala ar sum bentuk amp deg om Dudha Hal in bean artık a presan kadha mew ampaikan keunstan ajaran sam repeda recla k

Page 288

247 Belian juga wali yang menjaga tradisi mitun-upacara yeng dilakukan unluk menysæbut soodang bayi yang masih dalam kandungan tiga bulan dengan ZIEDÍORCA TORNIZr-maniera agar muky scanpan Aŋuas dan secantik Dowi Ratib ge memanjatkan doe'dọa kepada para Dewa dan memberikan senyen – -sebuah saja yang hidangkan kepada sesuatu yang dianggap mempunya kekuatan yang besar, hasa mereka adalah para Down, rob-toh leluhur, zub jukat, setan dsc Sunan Kadus mengganti bacam-bacaan mazácia-manten teretni dengan membaca surah Yusef agar anaknya dapat setampan Nabi Yusuf dan narah Maryam agar anaknya secantik Siti Maryum, despan memanjatkan doa`do'a kepada Allah Ta'ala dan mengbaklangkan makanan baik untuk yang hadir maujun umuk Bhar miskin.Ilehza wafu dan dirakamkan di Kudus.7.Suma Dvajad Sunan Driginal merupakan adik kandang dan Stanza Bosung, putra dan Senan Ampel.Nama usli beliau adalah Raden Qosim Dalam menyebarkan Islara beliau lebih cenderung kepada cari-cATD EVAŽNYÍ yaitu menyebarkan İslam sesuai yang diajarkan Ratubillah www., dan berkati-hati terhadap adat istiadat larus yang dapat monirabulkan bid's didalan aganna Istam.Beliau bertabligh didaerah Lamongan yang lepatnya disebuah bukit yang dischuk Dalam Dusnar dan mendirikan pesanterer disanah Beliau wafat dan dimakamkan disznak.8.Sunaa Muria Nama ash beliau adalah Radon Uinar Said, putra dan Raden Said atau Sunan Kalijaga Beliau mendapatkan tugas bertabligh dan menyiarkan bilar disekitar Gunung Maria sehingga masyarakat sztempat lebih mengenal beliau dengan rams Sunan Munia.Dalam bertabligh Raden Umar Said lebih cenderung mengikuti cara dan peraburmas ayahnya yaitu mewarnai adat istiadat dan tradisi jawa dengan ajaran Islam tanpa harus menghilangkan adat atau pradis itu sendiri.Behau juga wali yang tetap mempertahankan kesenian gamelan dan wayang sebagai alat dakwah untuk menyampaikan Islam te masyarakai-masyarakat tingkat bawah Tembang Sinom dan Kiranti merupakan karya-karya, peninggalan behar dalam bidang kesenian D, Soman Canang Jati Suman Remung Jati, bersaal Palestina Gumus pada tahun 1436 M menggantikan Maulic All Akbar yang wafai tahun 1435 M.Nama asli beliau sendiri adalah Svarfdayatullah Behau mendapat tugas menyebarkan Islam di daerah Cirebon-perbatasan lawe Tengah dan Jawa Barat, tepatnya disekitar Cutung Jati.Oleh karena nu belau scarguys (pbih dikenal dengan nama Sunan Gurung Jan.Pub tam 1479 M beliau pernal mengunjungi dan Cina dan meny skan Islam disanah Kemudian pada tahun 1481 M.Kanwar Hong Gri

Page 289

248 vang saat itu merupa pesquzja Duaso Vong magambil tekau meajadi mazÍV kakan denganya Cog Then Peta nbun to gistry ga k1485M kabeno Gianteakhaway in sc babwa nga orang pembesar Diasse Ming Jental Cong Hong dan Sekretara Neous Ma Ilusa serta Scamaris Negan Feis Hem mojali prosím eLAAD YUÆ hot Naby Desar Muhammad SAW Guzman Curry Twist Canon FanCamo, dan puranoa Fat *b* * #chango walisongo) me kodudukan neling

Page 290

249 WALI SONGO (الف) انڈونیشیا کے جزیرہ جاوا میں اسلام پھیلانے والے پیش لفظ تمام ولی سونگو (Wali Songo ) کے جاوا میں اسلام پھیلانے سے قبل مشارکت اسلام موجود تھے.مشرقی ساحل میں جاوا کے، کیونکہ وہاں پر ایک مسلمان عورت فاطمہ بنت میمون کی قبر ہے جو 475 ہجری یا 1082ء میں فوت ہوئیں.لیکن بدھوں اور ہندوؤں کے مقابل پر ان کی تعداد بہت تھوڑی تھی.1404 ء میں سلطان محمد اول جو اس وقت ترکی میں حاکم تھا اُس نے پہلی دفعہ ایک عالم تر کی جس کا نام مولانا ملک ابراہیم تھا کو جاوا میں اسلام پھیلانے کیلئے بھیجا.اس کے بعد انہوں نے کچھ اور علماء کو بھیجا جو ان کے مددگار تھے جن کے نام درج ذیل ہیں.(۱) مولانا اسحق جو کہ اصل سمرقند ( بخارا.رشیا جنوبی) کے تھے.جو کہ طبیب تھے.جنہوں نے Aceh میں وفات پائی.(۲) مولانا احمد جمادل کبری: جو کہ اصل مصر Mesir سے تھے.جنہوں نے Mjokerto مشرقی جاوا میں وفات پائی.(۳) مولانا محمد المغربی اصل مغرب Maroko کے تھے.جنہوں نے 1465ء میں بمقام Jatinom Klaten مدل جاوا میں وفات پائی.(۴) مولانا ملک اسرائیل: جو کہ اصل ترکی سے تھے.جو کہ ملکی انتظام کے اہل یا ماہر تھے.جنہوں نے 1435 مسیحی میں وفات پائی.تو پہاڑ Santri کے قریب ان کی قبر ہے.(۵) مولانا محمد علی اکبر جو کہ اصل ایران سے تھے اور طبیب تھے.انہوں نے 1435 مسیحی میں وفات پائی اور پہاڑ Santri کے قریب ان کی قبر ہے.(۶) مولانا حسن الدین جو کہ اصل فلسطین سے تھے.1462 مسیحی میں وفات پائی.موضع

Page 291

250 Banten میں مغربی جاوا میں ان کی قبر ہے.(۷) مولانا علاؤالدین : جو کہ اصل فلسطین سے تھے اور موضع Banten مغربی جاوا میں وفات پائی.(۸) شیخ سوبا کر جو کہ اصل ایران سے تھے اور 1462 مسیحی میں واپس ایران گئے اور وہاں وفات پائی.مبلغین ہے.ان سب علماء کو Wali Songo کہتے ہیں.گویا Wali Song o ایک دیوان میں جو کہ نو (9) علماء پر مشتمل ہے.اگر ان میں سے کوئی وفات پا تا یا اپنے ملک کو واپس چلا جاتا تو اس کی جگہ پر ایک اور عالم کو تبدیل کیا جاتا تھا.کتاب Ulul Bin Bathatha جس کا لکھنا مولانا محمد المغر بی نے جاری رکھا.Wali Songo نے تین دفعہ مجلس یا اجلاس منعقد کیا.یعنی 1404 مسیحی میں 1436 مسیحی میں اور 1465 مسیحی میں.مکرم عالم حاجی دھلان صاحب کے بیان کے مطابق مکرم عبدالقہار صاحب نے 1466 مسیحی میں ایک مجلس قائم کی تاکہ دو Wali کی جگہ پر دو اور Wali تبدیل کئے جائیں جو کہ وفات پاگئے.یعنی مولانا المغر بی اور مولانا احمد جمادل کیر وصاحب.تمام Wali Songo پہلے اصل شمالی افریقہ ، مشرقی وسطی اور بخارا کے تھے.ان کو 1404 مسیحی تا 808 ہجری میں سلطان محمد اول جو کہ ترکی کے حاکم تھے نے جاوا میں بھجوایا.جب ان میں سے کوئی وفات پا جا تا یاوہ اپنے ملک واپس چلا جاتا تو ان کی جگہ پر دیوان مبلغین اور علماء تبدیل کرتے خواہ وہ سلطان ترکی کی طرف بھجوائے جاتے یا کہ لوکل علماء جو کہ سارے ولیوں کی اولاد سے تھے جیسے: (۱) راڈین احمد رحمت اللہ جو کہ راڈین رحمت یاسنتن ( بزرگ ) امپل کے نام سے مشہور تھے.جو کہ جنوبی Cempa-Maungthei کے تھے.1421 مسیحی میں وہ بھجوائے گئے تا کہ مولانا ملک ابراہیم کی جگہ کام کریں جو کہ 1419 مسیحی میں وفات پاگئے.(۲) سید جعفر صادق جو کہ اصل فلسطین میں سے تھے.ان کو 1436 مسیحی میں بھجوایا گیا.جو کہ مولانا ملک اسرائیل کی جگہ پر آئے جو 1435 مسیحی میں وفات پاگئے.(۳) شریف ہدایت اللہ: جو کہ سنتن (بزرگ) پہاڑ جاتی کے نام سے مشہور تھے.اصل فلسطین

Page 292

251 سے تھے.1436 مسیحی میں بھجوائے گئے جو کہ مولانا علی اکبر کی جگہ پر آئے.جنہوں نے 1435 سیچی میں وفات پائی.(۴) راڈین پاکو : جو کہ ستن گیری کے نام سے مشہور تھے اور مولانا الحق کے بیٹے تھے.جنہوں نے آر دیوی بسکا ر ڈاڈر سے نکاح کیا.جو کہ راجہ بالمبانگن کی بیٹی تھی.انہوں نے اپنے باپ کی جگہ لی جو کہ Aceh سماٹر اواپس چلے گئے.(۵) را دین مکدوم ابراہیم : جو کہ سنتن بانگ کے نام سے مشہور تھے اور سنتن آمپل کے بیٹے تھے جنہوں نے مولانا حسن الدین کی جگہ لی جو کہ 1462 مسیحی میں وفات پاگئے.(1) راڈین سعید : جو کہ سنتن کالی جاگہ کے نام سے مشہور تھے.جو کہ آڈی پاتی ولاتیکا کے بیٹے تھے جو کہ تو بان مشرقی جاوا کے رہنے والے تھے.اور شیخ سوبا کر کی جگہ پر آئے.جو کہ 1462 مسیحی میں ایران واپس چلے گئے تھے.(۷) راڈین جعفر صادق : جو کہ سنتن کدس کے نام سے مشہور تھے.جو کہ سنتن آنگوڈ نگ یارا ڈین عثمان حاجی کے بیٹے تھے جو کہ جیسپانگ مڈل جاوا کے رہنے والے تھے.یعنی مولا نا علاء الدین کی جگہ پر جو کہ 1462 مسیحی میں وفات پاگئے.(۸) راڈین فتح: جو کہ راجہ براد بیجایا ما جا چاھت کے بیٹے تھے.یعنی مولانا احمد جمادل کبرٹی کی جگہ پر جو کہ موجو کر تو مدل جاوا میں وفات پاگئے.پھر 1468 مسیحی میں ان کو سلطان یا راجہ ڈیماک کا تاج پہنایا گیا.(۹) راڈین قاسم: جو کہ سنتن دراجات کے نام سے مشہور تھے.اور سنتن آمپل کے بیٹے تھے.یعنی مولانا محمد المغربی کی جگہ پر جنہوں نے 1465 مسیحی میں وفات پائی.(۱۰) راڈین عمر سعید : جو کہ سشمتن موریہ کے نام سے مشہور تھے اور سنتن کالی جاگہ کے بیٹے تھے.(۱۱) فاتھولا خاں جو کہ سنتن پہاڑ جاتی کے بیٹے تھے.ان کو ولی Songo کا ممبر بنایا گیا.یعنی ان کے باپ کی جگہ پر جو کہ بوڑھے ہو گئے تھے.(۱۲) سنتن بایت یا عالم پاڈ انا رنگ : جو کہ سارنگ مڈل جاوا کے سابق ڈپٹی کمشنر تھے.(۱۳) شیخ سی تی جنار یا شیخ لماه آهنگ :

Page 293

252 مندرجہ بالا اولیاء مختلف اوقات میں تھے لیکن ہر وقت ہی ان کی تعداد نو (9) تھی.جب ان میں سے کوئی وفات پا جاتا یا اپنے ملک کو واپس چلا جاتا تو ان کی جگہ پر کسی اور کا انتخاب ہوتا تا کہ نو (9) تعداد پوری رہے.مذکورہ ولی سونگو میں سے جو پبلک میں مشہور تھے ان کے نام درج ذیل ہیں.(۱) مولانا ملک ابراہیم : (۲) رادین احمد علی رحمت اللہ : جو کہ سنن آمیل کے نام سے مشہور تھے.(۳) شریف ہدایت : جو کہ سنن گنگ جاتی کے نام سے مشہور تھے.(۴) راڈین پاکو : جو کہ سنن گیری کے نام سے مشہور تھے.(۵) راڈین سعید : جو کہ سنن کالی جاگہ کے نام سے مشہور تھے.(۶) راڈین مکدوم ابراہیم : جو کہ سنن بانگ کے نام سے مشہور تھے.(۷) راڈین جعفر صادق : جو کہ سنن کدس کے نام سے مشہور تھے.(۸) راڈین قاسم: جو کہ سنن دراجات کے نام سے مشہور تھے.(۹) رادین عمر سعید: جو کہ سنن موریہ کے نام سے مشہور تھے.(ب) تمام ولی سونگو جو کہ مشارکت میں مشہور تھے کی حکایت (1) مولانا ملک ابراہیم : سلطان محمد اول ترکی کی طرف سے پہلا عالم جو انڈونیشیا بھجوایا گیا یعنی 1404 مسیحی میں جو کہ حکومتی نظام کا ماہر اور زراعت اور طباعت کے علم میں ماہر تھے.انہوں نے 1419 مسیحی میں گر سیک مشرقی جاوا میں وفات پائی.اس وقت جو حکومت اقتدار میں تھی یعنی مشرقی جاوا میں وہ ما جاپاہت کی حکومت تھی.جس کی رعیت زیادہ تر بدھ اور ہندو تھے.چونکہ پہلے آپ کو گجرات انڈیا میں کام کرنے کا موقع مل چکا تھا جہاں کے رہنے والے ہندو تھے.اس لیے آپ کو دوبارہ ہندوؤں میں کام کرنے کی کوئی مشکل پیش نہ آئی.لوکل مشارکت آپ کو بزرگ دادا کے نام سے یاد کرتی.کیونکہ آپ ہر فقیر مسکین کی عزت کرتے تھے.آپ کی ذاتی وجاہت کی وجہ سے بھی لوگ آپ کی بہت عزت کرتے تھے.یعنی سب

Page 294

253 سلطان،سب شاہزادے اور سب وزراء آپ کی عزت کرتے تھے.یہ حالات آپ کی قبر کے کتبہ سے معلوم ہوتے ہیں جہاں لکھا ہے:- یہ مرحوم و مغفور کی قبر ہے.جن پر خدا کی رحمت ہو.تمام شاہزادے،سارے سلطان اور سارے وزراء فقیر ملک ابراہیم کی مدد کرتے تھے.جو کہ بزرگ دادا کے نام سے مشہور تھے.اللہ تعالیٰ اس پر بہت رحمت نازل کرے.اور اپنی خوشنودی عطا کرے اور جنت میں داخل کرے.بروز سوموار 822 ہجری 12 ربیع الاول میں وفات پاگئے“.آپ نے ایک بڑا ند ہی مدرسہ قائم کیا.ہندؤں کے مقابل پر جنہوں نے اپنے مذہب کے علماء بنانے کیلئے مذہبی سکول قائم کئے تھے.حکومت ما جاپاہت کے ساتھ آپ کے تعلقات بہت اچھے تھے.اسی وجہ سے آپ کو گر سیک کا علاقہ دیا گیا جہاں پر آپ رہنمائی اور کنٹرول کرتے تھے.سنتن آمیل: جن کا اصلی نام سید علی رحمت اللہ تھا.اور شیخ ابراہیم سمرقندی جو کہ بخارا سے تھے کے بیٹے تھے.جنہوں نے دیوی چندر اوالن سے نکاح کیا.جو کہ ما جاپاہت کے راجہ Cempa کی لڑکی تھی.اس کی والدہ دیوی چندر والن کی ایک چھوٹی بہن تھی جس کا نام دیوی دادر تی تھا.جس کی شادی پرابو براوی جابا سے ہوئی جو کہ جاوا کا راجہ ما جاپاہت تھا.اس لئے آپ جاوا کے راجہ کے بھتیجے تھے.جب آپ کو جاوا بھجوایا گیا تو ما جاپاہت کی لڑکی سے آپ کی شادی ہوئی.جس کا نام چندر اواتی تھا.چونکہ آپ راجہ کے داماد تھے اس لئے آپ کو راڈین کا خطاب دیا گیا.عزت کا خطاب جو کہ جاوا کے شہزادوں کو دیا جاتا تھا.پھر آپ کو راڈین رحمت سے پکارا جانے لگا.آپ کو سورابایا مشرقی جاوا میں آمپل ڈنڈا کا علاقہ دیا گیا.جہاں آپ نے تبلیغ کو پھیلایا.آپ ایک اچھے منتظم تھے اور اپنے علاقہ میں اسلام کی اعلیٰ تعلیم کو پھیلایا جو کہ نبی کریم سے لے کر آئے تھے.لوکل عادات میں دخل دیئے بغیر آپ کام کرتے تھے.چونکہ آپ علاقہ آمپل ڈنٹا میں رہتے تھے اور وہاں تبلیغ کرتے تھے اس لیے آپ کو سنتن آمپل کے نام سے پکارا جاتا ہے.سنتن کا لفظ دراصل سوسوھن سے ہے جس کے معنے ہیں جس کی بہت عزت کی جائے یا کہ جو لوکل مشارکت کا لیڈر ہو اور رہنما ہو.بعض یہ کہتے ہیں کہ سنتن کا لفظ اصل ساھون ہے جس کے معنے ہیں بڑا اُستاد یا جس کا علم بڑا ہو.

Page 295

254 یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے حروف پیکن یا عربی تحریر جو کہ جاوا کی زبان تھی جاری کی.جب ملک ابراہیم وفات پاگئے تو انہوں نے ان کی جگہ لی اور جاوا کی زمین کے مفتی قرار دیئے گئے نیز موضع ڈیمک کے راجہ بن تور کے مشیر بنے.جو کہ جاوا میں پہلی اسلامک حکومت تھی.آپ کی وفات 1478 مسیحی میں ہوئی.(۳) سنن گیری: آپ کا دوسرا نام جو کو سمند را یار اڈین پا کو ہے اور یہ مولانا الحق کے بیٹے تھے.اور یہ ولی سونگو میں سے ہیں جو کہ Aceh سماٹرا سے آئے اور راجہ بالا میانکن کی لڑکی دیوی سکار ڈاڈو سے شادی کی.آپ 1442 مسیحی میں پیدا ہوئے.سنسکرت زبان میں گیری کے معنے پہاڑ کے ہیں یعنی آپ ایسے بزرگ تھے جنہوں نے گرسیک مشرقی جاوا کے علاقہ میں اسلام کو پھلایا.جہاں پر ایک بڑا مدرسہ قائم کیا جو مدرسہ گیری کے نام سے مشہور ہوا.یہ مدرسہ آہستہ آہستہ ایک بادشاہت بن گیا.جس کی حکومت دوسوسال تک رہی.یہ سنن آمپل کے مرید تھے.انہوں نے سنتن آمپل کی طرح رسول کریم ﷺ کے مذہب اسلام کو پھیلایا اور لوکل عادات میں دخل نہ دیا.آپ لوکل نقش و نگار کو بہت پسند کرتے تھے.جیسے مذہبی عشق، گرم مصالحے کے درخت، کھانے پینے کی چیزیں، لیمپ کا تیل، بانسری سے علاج، چھپانا اور تلاش کرنے کی کھیل.ان امور میں ان کا مقصد نصیحت کرنا تھا تا کہ لوگ توحید پر قائم رہیں.آپ کی وفات 1506 مسیحی میں ہوئی.(۴) سنن بوننگ: بوننگ میوزک کا ایک آلہ ہے جس کا رنگ پیلا ہے اور ایک نرم لکڑی سے بجایا جاتا ہے اور دلکش آواز پیدا ہوتی ہے.یستن آمپل کے لڑکے تھے.جن کا اصلی نام را دین مکدوم ابراہیم ہے.یہ ایک ایسے بزرگ تھے جو نقش و نگار کو بہت پسند کرتے تھے.جن کے ذریعہ یہ اسلام کی اعلیٰ خوبیوں کو بیان کرتے تھے.آپ نے ایسا لٹریچر پیدا کیا جس کو سولوک کہتے ہیں جو کہ اب تک ہالینڈ کی لائبریری لائیڈن میں محفوظ ہے.مکرم را ڈین مکدوم ابراہیم اپنی تبلیغ میں اکثر بونگ کا طریق استعمال کرتے تھے.جس کو رعیت

Page 296

255 بہت پسند کرتی تھی.اور اس وقت سے آپ سنتن بوننگ کے نام سے مشہور ہوئے.ان کا تبلیغ کا علاقہ لاسم، رممبانگ، سیمپاڈن ، تو بان مشرقی جاوا تھے اور 1525 مسیحی میں وفات پائی.(۵) سنن کالی جاگہ: یہ رنگا ولو کمانڈر ما جاپاہت کی نسل سے ہیں.جو کہ تیمی گنگ والا تکتاک یا راڈین سھور کے لڑکے تھے.آڈی پاتی تو بان اس وقت حاکم تھا.آپ کا اصلی نام راڈین سعید ہے.یہ ایک ایسے بزرگ ہیں جنہوں نے اسلام کی خوبیوں کو لوکل عادات اور روایات میں داخل کیا.جنہوں نے لوکل عادات کو تبدیل نہ کیا اور نہ ہی جاوا کی تہذیب کو تبدیل کیا جن پر ہندو اور بدھ مذہب کی تعلیمات کا اثر تھا.لیکن انہوں نے اس اثر کو آہستہ آہستہ اسلام کی تعلیمات سے تبدیل کیا.جیسے تہلیلن یا جس کو جاوا کی زبان میں سلامتن کہتے ہیں.یہ ایک ایسا پروگرام تھا جس میں بہت سے لوگ حاضر ہوتے.یہ پروگرام ایک مذہبی عالم کی رہنمائی میں ہوتا جو کہ ایسے تعویذ ، جادو وغیرہ پڑھتا کہ بری روح کو نکالا جائے اور اس پروگرام میں قسم قسم کے کھانے اور پینے کی چیزیں دی جاتیں ان بری روحوں کیلئے.اور جو لوگ حاضر ہوتے تھے ان کو کھانے کی اجازت نہ ہوتی.سنتن کالی جاگہ مندرجہ بالا پروگرام کے تعویذ و جادو کی جگہ قرآن کریم کی آیات پڑھتے اور آنحضرت ﷺ کے متعلق نعتیہ اشعار پڑھتے اور جو لوگ حاضر ہوتے ان کو حکم دیتے کہ مذکورہ کھانے پینے کی چیزیں کھاؤ اور پیو.جب ڈیمک مسجد کا افتتاح ہوا تو آپ نے یہ تجویز پیش کی کہ افتتاح میں ایک ڈرامہ منعقد کیا جائے.جس کی بناوٹ ایک انسانی شکل میں ہو جو کہ ایک حیوان کے چمڑے پر بنائی جائے.مگرستن گیری نے آپ کی تجویز کا انکار کر دیا.کیونکہ اس قسم کے ڈرامہ کی شریعت سے تائید نہ ہوتی تھی.لیکن ستن کالی جاگہ نے اس نقش کو تبدیل کر دیا اور ایک ایسی تصویر میں تبدیل کیا جو انسانی شکل میں نہ تھی یا کسی اور مخلوق کے مشابہ نہ تھی.اس لیے تمام اولیاء نے مسجد ڈیمک کے افتتاح کی اجازت دے دی.ایک ایسے ڈرامہ کے ساتھ جس میں روایتی کھیل کو ظاہر کیا گیا اور کلمہ شہادت کا ٹکٹ بطور داخلہ کے قرار دیا گیا جو اُس افتتاح کو دیکھنا چاہتے تھے.سنن آمپل بستن گیری اور سنتن دراجات نے پرانی عادات اور روایات کی نرمی سے مخالفت کی.کیونکہ یہ خطرہ محسوس کیا گیا کہ اگر آہستہ آہستہ یہ عادات اور روایات کے متعلق خیال کیا جائے گا کہ یہ اسلام کی اصل تعلیمات ہیں اور اگر مندرجہ امور کو برداشت کیا گیا تو وہ آئندہ بدعت میں شمار ہوں گی.

Page 297

256 سنتن قدس ایک ایسا ولی ہے جس نے سنتن کالی جاگہ کے خیال اور نظریہ کی تائید کی.یعنی بعد میں ایک آدمی ایسا آئے گا جو مذکورہ پرانی روایات کو غائب کر دے یا مٹادے گا.آپ نے کا ڈی لانکو.ڈیمک جاوا میں وفات پائی.(1) سنن قدس: آپ کا اصلی نام را ڈین جعفر صادق ہے.راڈین عثمان حاجی کے بیٹے تھے یاسنتن نا گند نگ کے جو کہ ڈیمک کی سلطنت میں کمانڈر تھے.جب راڈین عثمان حاجی وفات پاگئے تو ان کی جگہ پر آپ بطور چیف کمانڈ رمنتخب ہوئے.را ڈین جعفر صادق کے ایک علاقہ کا نام قدس ہے.جہاں انہوں نے اسلام کو پھیلایا اور ترقی دی.اس لئے آپ ستن قدس کے نام سے مشہور ہوئے.آپ اپنی تبلیغ میں سنن کالی جاگہ کے خیال اور تصور کی تائید کرتے یعنی پرانی عادات کو چھوڑا جائے اور پرانے ایمان کو چھوڑ ا جائے.جس کیلئے رعیت کو مجبور کیا جائے جو سب پرانی عادات کی پیروی کرتے.مگر آہستہ آہستہ ان پر اسلامی تعلیمات کا اثر ڈالتے.اور جو عادات آسانی سے تبدیل ہو سکتی تھیں ان کو جلد تر تبدیل کرتے تھے.پہلی تبدیلی آپ نے یہ کی کہ مسجد کو ہندوؤں کے مندر کی طرح نہ بنایا جائے اور وضو کرنے کا طریق بدھوں کی طرح نہ کیا جائے.یہ طریق آپ نے اس لیے اختیار کیا تا کہ ہندوؤں اور بدھوں پر اسلام کی عمدہ تعلیمات کا اثر ہو.آپ ایک ایسے ولی تھے جو کہ پرانی روایات کا خیال رکھتے تھے اور ایک تین ماہ کے بچے تمپان اور خوبصورت دیوی را تیج کیلئے جو تعویذات پڑھے جاتے تھے ان کی جگہ پر آپ نے دیوتاؤں کی طرف دعائیں کرنی شروع کیں اور اشعار پڑھنے شروع کیے.آپ نے تعویذات کی جگہ پر بچہ کیلئے سورہ یوسف پڑھنی شروع کی تاکہ بچہ نبی یوسف علیہ السلام کی طرح ہو جائے.اور بچی کیلئے سورہ مریم پڑھنی شروع کی تاکہ بچی Siti سیتی مریم کی طرح ہو جائے.اور دعائیں بھی پڑھتے اور حاضرین اور فقیر مسکین کو کھانے بھی دیئے جاتے.آپ نے قدس کے مقام پر وفات پائی.(۷) سنن در اجاد : یہ تن بونانگ کے چھوٹے بھائی تھے اور ستن آمپل کے لڑکے تھے.آپ کا اصلی نام راڈین قاسم ہے.اسلام کو پھیلانے میں آپ اپنے باپ کا طریق استعمال کیا کرتے تھے.جیسے نبی کریم ﷺ نے اسلام کو پھیلایا اور سکھلایا.اور عام عادات سے پر ہیز کرتے تا کہ بدعات نہ

Page 298

257 شروع ہو جائیں.آپ لامنگن کے علاقہ میں تبلیغ کرتے تھے جہاں ایک پہاڑی کا نام دائم دو وز تھا.اور وہاں پر مدرسہ قائم کیا اور وہاں پر آپ کی وفات ہوئی.(۸) سنن موریہ: آپ کا اصلی نام راڈین عمر سعید تھا.جوراڈین سعید کے لڑکے تھے یا کالی جاگہ کے.آپ کو تبلیغ کا کام دیا گیا اور اسلام کو پھیلانے کا.پہاڑ موریہ کے اردگرد اس لیے مشارکت اکثر آپ کو سنن موریہ کے نام سے یاد کرتی ہے.تبلیغ کے کام میں آپ اپنے باپ کا طریق استعمال کرتے تھے.یعنی عادات کو بدلنے کی بجائے اُن پر اسلام کی تعلیمات کا اثر ڈالتے تھے.آپ ایک ایسے ولی تھے جو نقش و نگار اور ڈرامہ کے طریق کو اپنے دعوئی کے اور تبلیغ اسلام میں استعمال کیا اور نقش و نگار کے سلسلہ میں میں آپ کے دو کام ٹیمبنگ سی نم اور کی نانتی مشہور ہیں.(۹) سنن گونگ جاتی : یہ اصل فلسطین سے تھے اور 1436 مسیحی میں آپ کو بھجوایا گیا جو کہ مولانا علی اکبر کی جگہ پر آئے.جنہوں نے 1435 مسیحی میں وفات پائی.آپ کا اصلی نام شریف ہدایت اللہ ہے.آپ کو تبلیغ اسلام کا کام چر بون مڈل جاوا اور مغربی جاوا میں دیا گیا یعنی پہاڑ جاتی کے ارد گرد کا علاقہ.اس لیے آہستہ آہستہ آپ سنن جاتی کے نام سے مشہور ہوئے.1479 مسیحی میں آپ نے چین کا دورہ کیا اور وہاں پر اسلام کو پھیلایا.پھر 1481 مسیحی میں جبکہ قیصر ہانگ گئی وہاں پر حاکم تھا، دی ناستی مینگ نے آپ کو اپنا داماد بنایا اور اپنی لڑکی ارنگ تین کے ساتھ ان کا نکاح کیا.اور اسی سال یہ جاوا میں واپس آئے یعنی اپنی بیوی کے ساتھ اور پھر چار سال کے بعد وفات پائی یعنی 1485 مسیحی میں.آپ ایک ایسے ولی تھے جو طبیب تھے.اس لیے جب آپ چین میں تھے اور طبابت کو تبلیغ میں استعمال کیا اور وہاں پر اسلام کو پھیلایا.اور تاریخ میں درج ہے کہ تین بڑے آدمی یعنی دی ناستی مینگ، جنرل سینگ ہانگ اور ملک کے سیکرٹری ماھو ان اور ملک کے سیکرٹری فیس حین نبی ﷺ کی تعلیم کے پیرو ہو گئے.سنتن گوننگ جاتی نے گونگ جاتی چر بون میں وفات پائی اور آپ کے بیٹے فتوح اللہ کو ولی سونگو کا ممبر منتخب کیا گیا یعنی اپنے باپ کی جگہ پر.

Page 299

258 بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو النـ مکرم نصیر احمد انجم اور مکرم صفدر نذیر گولیکی صاحبان مربیان کرام نے مل کر مسجد دین امت محمدیہ اور ان کے تجدیدی کارنامے لکھ کر بہت ہی عمدہ کام کیا ہے.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے اور میں اس لحاظ سے بھی ان کا مشکور ہوں کہ انہوں نے میرے مقالہ حضرت عثمان ڈان فود یو کا خلاصہ بھی اپنی کتاب میں شامل کر لیا ہے.فجر اھم اللہ احسن الجزاء.اللہ تعالیٰ ان کی کاوش کو مقبولیت عامہ عطا فرمائے.آمین میری طرف سے انہیں اس مقالہ کا خلاصہ اپنی کتاب میں شائع کرنے کی اجازت ہے.والسلام خاکسار محمد عثمان شاہد مربی سلسلہ احمدیہ.نواب شاہ

Page 300

259 حضرت عثمان ڈان فودیو حضرت خلیفہ اصبح الثالث نے فرمایا.” ہر صدی کے سر پر آنے والا مجد د ساری دنیا کیلئے نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے علاقہ اور زمانہ کیلئے ہوتا ہے.پھر عثمان ڈان فود یو کو لے لو وہ مجدد تھے.ان کے پیدا ہونے سے پہلے ملک میں اختیار کو ان کی پیدائش کی بشارت دی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ عنقریب مجدد پیدا ہوگا اور آپ ان بشارتوں کے مطابق پیدا ہوئے.اے حضرت عثمان ڈان فودیو کے متعلق ایک اور ارشاد حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے فرمایا:- ” سارے نائیجیریا میں تو بہت سے صوبے ہیں اور بہت سا علاقہ ایسا ہے جہاں عثمان فودی حضرت بانی سلسلہ احمدیہ سے ایک صدی پہلے اس علاقہ میں مجدد ہو کر آئے.دنیوی سیاست میں تو نہیں لیکن ویسے دو حصوں میں ان کے دو بیٹوں کی اولاد کا اتنا اثر ہے کہ وہاں صوبہ کے گورنر بھی ان کے مشورہ کے بغیر کوئی کام نہیں کرتا.ان کے چھوٹے بیٹے کی جو اولاد ہے ان میں تو تعصب نہیں.انہیں Royal Blood شاہی خون کے نام سے پکارا جاتا ہے.ان کی زبان میں.ان میں بعض احمدی بڑے دلیر قسم کے ہو چکے ہیں.عثمان فودی کی اولا دمیں سے اور دوسرے صوبے میں یہ لوگ پڑھے لکھے ہیں.اتفاق یہ ہے کہ عثمان فودی کے وہ صاحبزادے جن کا نام عبد الرحمن تھا وہ بڑے عالم اور تفقہ فی الدین رکھنے والے تھے.بہت سی عربی میں کتابیں لکھیں ہیں.میں نے بھی ان میں سے بعض پڑھی ہیں.ان کی اولاد میں سے جو اس وقت ہیں وہ زیادہ پڑھے لکھے ہیں لیکن متعصب بڑے ہیں.حضرت عثمان ڈان فودیو کے قبیلے کا نام فولانی قبیلہ کے لوگ خود اپنے آپ کو قلب Fulbe یا لبہ (Fulba) کہتے ہیں جو کہ پلو Pulo

Page 301

260 کی جمع ہے.فرانسیسی میں انہیں (Peuel) لکھا جاتا ہے.ان کی زبان فلفدہ یا فلفڈ (Fulfulde) ہے.انسائیکلو پیڈیا آف اسلام میں لکھا ہے :- "The Fulani have no firm national tradition about their origin....." یعنی فولانیوں کے پاس ان کی اصلیت کے متعلق کوئی قومی روایت نہیں ملتی.کبھی یہ لوگ اپنے آپ کو عرب اور بنی اسرائیل کی مخلوط نسل قرار دیتے ہیں اور کبھی اپنے آپ کو عربوں اور نیگروؤں کی نسل قرار دیتے ہیں...سے بہر حال سب سے زیادہ قابل قبول نظریہ یہ ہے کہ دراصل فولانی لوگ مشرق وسطی یا شمالی افریقہ سے آئے تھے اور آہستہ آہستہ سارے براعظموں سے ہوتے ہوئے سنی گیمبیا کے علاقہ میں آکر آباد ہو گئے.سے پیدائش حضرت عثمان ڈان فود یو 29 نومبر 1168 ہجری بمطابق 15 دسمبر 1754ء 2 بروز اتوار علاقہ ہاؤ سا کی ایک ریاست گوہیر Gohir کی بستی مرالہ Marata میں پیدا ہوئے.1 نسب نامہ آپ کا اصل نام عثمان تھا اور والد کا نام محمد فودیو تھا.تاریخ میں آپ شیخ عثمان ڈان فود یو.شیخ ڈان فودیو یا شیو (Shehu) کے نام سے مشہور ہیں.آپ کی والدہ کا نام تو ا اور دادی کا نام رقیہ تھا.آپ کی والدہ حوا کا نسب نامہ حضرت فاطمہ سے جا کر ملتا ہے.ابتدائی علم آپ نے تمام مروجہ علوم سیکھے.فقہ تفسیر ، اخلاقیات، حدیث وغیرہ اور پھر ایک بہت بڑے عالم کے طور پر ظاہر ہوئے.

Page 302

261 مذہب و مسلک مذہب خالص اسلامی اور مسلک رائج الوقت مالکی اختیار کیا.لیکن اعتقادی لحاظ سے اشعری طریق کے پیروکار تھے.اپنی کتاب مواج العلوم کے صفحہ 2 پر لکھتے ہیں :- عثمان بن محمد بن عثمان الفلاني نسبًا المالكي مذهبًا الاشعرى اعتقادًا“.فرقہ قادریہ (حضرت عبدالقادر جیلانی ) تھا.لکھا ہے:- "The Eighteenth century Jihads waged in Fula Toro and Futa Jallon were organised by Fulla Teahers, most of whom belonged to the ancient brotherhood called the Qadiriyya...." اخلاق فاضلہ آپ نہایت عمدہ اخلاق کے مالک اور عمدہ اوصاف کا مرقع تھے.یہی وجہ تھی کہ آپ کی باتوں کا اثر دوسروں کے دلوں پر بہت جلد ہوتا تھا.تے حج بیت اللہ کا شرف اور وہابی اصولوں کا اثر دعوت اسلام صفحہ 316 اور History of Nigeria صفحہ 41 پر لکھا ہے کہ حج کے موقع پر وہاں وہابی تحریک کے اصولوں کا اثر آپ پر بہت ہوا.جس کی وجہ سے ان کے دل میں اپنے ملک کے معاشرہ کی اصلاح اور ھاؤ سا میں مروجہ بدعات و خرافات کے خلاف جنگ کرنے کی شدید خواہش پیدا ہوئی اور پھر واپس آکر تجدید دین و اصلاح دین کا عظیم فریضہ سرانجام دیا.

Page 303

262 دعویٰ مجددیت حضرت عثمان بن فودی کے زمانہ میں جنوبی افریقہ میں مسلمانوں کی حالت ناگفتہ بہ تھی.ان کی اکثریت ارکانِ اسلام سے ناواقف تھی.طرح طرح کی بدعات ان میں پھیل چکی تھیں.ایسے حالات میں عثمان بن فودی کا دل تھا جو مسلمانوں کیلئے بے قرار ہوا اور اسی کی رُوح تھی جو اسلام کیلئے تڑپ اُٹھی اور خدا تعالیٰ نے اسے تیرھویں صدی کے سر پر اپنی امت کی اصلاح کی خاطر مجدد بنا کر مبعوث فرمایا.چنانچہ عثمان بن فودی نے پہلی مرتبہ اپنی کتاب "حصن الافہام میں مصلح اور مجدد ہونے کا دعویٰ کیا اور اپنے مخالفین ک بتایا کہ مسیح اسلامی علم ان کے پاس ہے.اے نوٹ : یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آپ کی اکثر تالیفات کے ٹائٹل پیج پر آپ کے نام کے ساتھ الشيخ المجدد نورالزمان“ کے القابات بھی درج ہیں.احیائے سنت و تجدید دین احیائے سنت اور تجدید دین کے سلسلہ میں حضرت شیخ ڈان فود یو نے وہ عظیم الشان کام کیا ہے جسے تاریخ ہمیشہ سنہری حروف میں یادر کھے گی.آپ کی 63 سالہ زندگی اسی مقدس فریضہ کی انجام دہی کیلئے وقف رہی.مٹ جاؤں میں تو اس کی پرواہ نہیں ہے کچھ بھی میری فنا سے حاصل گر دین کو بقا ہو آپ کی بیانوے (92) سے زائد تصانیف احیائے سنت کے فریضہ کی انجام دہی کی ہی ایک کڑی ہیں.احیائے سنت کی یہی تحریک ہی تھی جس کی وجہ سے بالآخر حضرت عثمان بن فودی گو اور آپ کے متبعین کو ھاؤس میں 12 سال تک جہاد بالسیف سے بھی کام لینا پڑا اور ایک آزاد اسلامی ریاست کے قیام میں کامیابی حاصل ہوئی.آپ کے اس عظیم کارنامہ کا ذکر کرتے ہوئے جرنل آف دی افریقین سوسائٹی میں لکھا ہے: "Shehu lived to see the conclusion of his life's works.He had found Muhammadanism under a han he left it

Page 304

263 supreme.The Filani from a tribe of nomade herdsmen had become the ruling race through out the Hausa States.A man of sinere faith and deep religious conviction, he had implicit confidence in his divine call and his personality inspired his followers with a confidence similar to his own.His simple habits and austere life made a profound contrast to the barbaric pomp affected by the Pagan rulers".( ترجمہ ) شیو اپنی کاوشوں کے ثمرات حسنہ کو دیکھنے تک زندہ رہے.آپ نے دین اسلام کی تبلیغ کو علاقہ ہاؤ سا میں ممنوع پایا لیکن آخر کار اسلام کو بلندی و رفعت تک پہنچادیا.فولانی جو معمولی چرواہوں کی حیثیت رکھتے تھے بالآخر وہ ہاؤ سائی ریاستوں پر مکمل اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے.حضرت شیخ راسخ العقیدہ اور مذہب میں گہری دلچسپی رکھنے والے تھے اور دین کی تبلیغ میں پورا یقین اور اعتماد آپ کو حاصل تھا اور آپ کی پُر تاثیر شخصیت نے ایسا ہی اعتماد اپنے متبعین کو بھی عطا کر دیا تھا.آپ کی سادہ زندگی بر بری اور ظالم ہاؤ سا حکمرانوں کے بالکل برعکس تھی.۲ ہجر آپ کو قتل کرنے کی کئی بار سازش کی گئی مگر اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا.آپ کو ہجرت کرنے کیلئے بھی مجبور کیا گیا.جب گمبانا پر حملہ کے بعد یونفا نے طغل پر حملہ کا ارادہ کیا لیکن یہ سوچ کر کہ طغل میں شیخ کی موجودگی میں حملہ کرنا مشکل ہے اس نے شیخ کو پیغام بھیجا کہ آپ اپنے خاندان سمیت طغل سے چلے جائیں کیونکہ وہ طغل پر حملہ کا ارادہ رکھتا ہے ۱۳.جب یہ پیغام پہنچا تو آپ نے مشہور زمانہ فقرہ کہا جو آج بھی زبان زدخلائق ہے."I will not leave my community, but I will leave your country." میں اپنی جماعت کو نہیں چھوڑ سکتا البتہ تمہارے ملک کو الوداع کہہ دوں گا.

Page 305

264 امیر المومنین کا خطاب جب جہاد بالسیف کی ضرورت آن پہنچی تو امیر المومنین کا انتخاب عمل میں لایا گیا.جو نام پیش ہوئے عبد اللہ بن فودی عمر الکامبو امام محمد تنبو ان پر کسی کا اتفاق نہ ہوا اور آخر سب نے مل کر حضرت عثمان بن فودی کو اپنا امیر المومنین منتخب کر لیا اور آپ کو امیر المومنین یا سارکن مسلمی (Sarkin Muslimi) کا خطاب ملا.ھے انتخاب کے بعد سب نے آپ کی بیعت کی.111 آپ نے بہت سے علاقے فتح کئے.تا بکن کو اتو Tabkin Kwatto ، ما تنکاری کو فتح کیا.گینیگا (Giniga) برن کونی کو فتح کیا...بعد ازاں مخالفین سے صلح کی بھی طرح ڈالی مگر اس میں ناکامی رہی.ریاست کیبی پر حملہ کیا اور فتح کیا.گوانڈ و Gwandu میں نئے مرکز کا قیام کیا.یہ 1805ء میں قائم ہوا.7-1806ء میں مجاہدین اور کا نو کی فوج کے درمیان سخت جنگ ہوئی.مجاہدین نے کا نو کو فتح کر لیا.اسی طرح ریاست زازاڈ، الکارہ کو بھی فتح کیا.مفتوحہ علاقوں میں دارالحکومتوں اور نوابوں کا تقرر کیا.آپ کا جہاد خالصہ مذہبی جہاد تھا.شیخ عثمان ڈان خود یو مجد دزمانہ تھے حضرت شیخ مجدد تھے.مہدی منتظر نہ تھے.جس کی حقیقت آپ نے خود بیان فرمائی.چنانچہ "Islam in Tropical Africa" میں آپ کی کتاب "تخذ مر الاخوان کے حوالہ سے لکھا ہے :- ترجمہ: اے میرے بھائیو! خوب جان لو کہ میں امام مہدی نہیں ہوں اور نہ کبھی میں نے مہدویت کا دعویٰ کیا ہے.اگر چہ یہ بات دوسرے لوگوں کی زبان سے سنی گئی ہے.تاہم میں نے اس بات سے سختی سے منع کر دیا ہے.اور اپنی عربی اور عجمی تحریرات میں بھی اس کی تردید کر دی ہے.اسی طرح آپ کے بیٹے محمد بلو نے بھی لکھا ہے کہ آپ کا دعویٰ ہرگز مہدویت کا نہ تھا بلکہ آپ مجد والوقت قطب الزمان اور غوث اعظم تھے.چنانچہ لکھا ہے:-

Page 306

265 لاجرم انه من الخلفاء الراشدين والائمة الهادين المهتدين وهو القائم المبعوث المجدد فى هذا لاوان.......فهو قطب الوقت الافخم والغوث الاعظم والعلمء نجوم فهو القمر جيد انه لا تدع انه المهدى المنتظر “.( ترجمہ ) اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ) عثمان بن فودی ) خلفاء راشدین میں سے تھے اور ان ائمہ میں سے جو ہدایت یافتہ ہو کر لوگوں کو بھی ہدایت کی طرف بلاتے ہیں اور آپ اس زمانہ میں بطور مجدد مبعوث کئے گئے ہیں.وہ یقیناً اپنے وقت کے بہت بڑے قطب اور عظیم غوث تھے اور علماء تو ستاروں کی مانند ہیں.جبکہ آپ ”چاند کی حیثیت رکھتے ہیں.البتہ انہوں نے اپنے مہدی منتظر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا.ظہور امام مہدی کے متعلق پیشگوئی حضرت عثمان ڈان فودیو کے بیٹے محمد بلو نے اپنی کتاب انفاق المیسور کے صفحہ 5-604 پر علامہ امین الکاظمی کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ہمارا ہر گز یہ دعوی نہیں کہ عثمان بن فودی مہدی منتظر ہیں اور نہ ہی علامات مہدی ان میں پوری ہوتی ہیں بلکہ مہدی انشاء اللہ عنقریب ظاہر ہوگا.اسی طرح جب عثمان بن فودی نے محمد بلو کو اپنے نمائندہ کی حیثیت سے اہل کانو کی طرف بھیجا تو ساتھ یہ پیغام بھی دیا کہ ان کو بتادینا کہ مہدی کا ظہور بہت قریب ہے.چنانچہ محمد بلو اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- اخبرتهم بما بشرهم به من قرب ظهور المهدی“.اس ( ترجمہ ) اور ظہور مہدی کے قرب کے متعلق جو خوشخبری ان لوگوں کو حضرت عثمان بن فودی نے بھیجی تھی وہ میں نے ان لوگوں کو پہنچائی.اسی طرح ”دی کیمبرج ہسٹری آف افریقہ 134:Vol:5, P “ میں لکھا ہے :- "The Shehu and his followers believed that he was the last of the Mujaddids and that the coming of the Mahdi was therefore very near indeed." شیخ اور آپ کے متبعین کا یہ خیال تھا کہ شیخ ابن فودی آخری مجدد ہیں اس لیے مہدی کی آمداب

Page 307

266 بہت نزدیک ہے.مہدی کی سچائی کی علامت سورج اور چاند گرہن دار قطنی کی حدیث متعلقہ امام مہدی کے متعلق حضرت عثمان بن فودی نے اپنی کتاب تنبيه الامة على قرب هجوم اشراط الساعة صفحہ 38 میں علامات مہدی کا ذکر کرتے ہوئے اس کی ایک علامت سورج اور چاند گرھن بتائی ہے.تصنیفات آپ نے 92 سے زائد تصانیف فرما ئیں اور اپنے زمانہ کے لوگوں کی روحانی تشنگی دور فرمائی.حضرت عثمان بن فودی کی تقاریر و تصانیف کے موضوعات عموما پانچ قسم کے ہوتے تھے.انہی پانچ اقسام کی طرف مسلمانوں کو توجہ دلاتے رہے.۱) احکام شریعت کی اتباع اور شریعت کے اصول و فروع کا بیان.آنحضور ﷺ کی سنت کی اتباع کی تلقین.ان اوہام باطلہ اور شکوک و شبہات کی تردید جو تو حید یا دوسرے عقائد کے بارہ میں پیدا ہو گئے تھے.(۴) بدعات شیطانیہ کا خاتمہ اور غلط عقائد کا بطلان.(۵) علوم شرعیہ کی اشاعت کی طرف توجہ دلانا.وفات حضرت عثمان ڈان فود یو تقریباً تریسٹھ سال تک اپنے انفاس قدسیہ اور برکات روحانیہ سے لوگوں کو فائدہ پہنچا کر نیز اصلاح امت اور تجدید دین کا عظیم فریضہ سرانجام دینے کے بعد ایک سال بیمار رہ کر اپریل 1817ء کو اپنے دار الخلافہ سکوٹو ( Sokoto) میں وفات پاگئے.اناللہ وانا الیہ راجعون

Page 308

267 علمی کارنامے حضرت عثمان ڈان فو د یو نے کل 92 کتب لکھیں.جن میں سے چند ایک یہ ہیں ا) احيا السنة و اخمار البدعة ٢) الاجوبة المحررة كتاب الامر بالمعروف و النهي عن المنكر (۴) بیان البدعة الشيطانية (۵) معراج العوام ۶) نجم الاخوان بيان وجوب الهجرة على العباد الفرق بين العلم اصول الدين و بين علم الكلام ٩) هداية الطالبين ١٠) ارشاد الاخوان في احكام خروج النسوان ۱۱) اسانيد الفقير المتعارف بالحجر والتقصير ١٢) الامر بالموالات المومنين والنهي عن موالات الكافرين ۱۳) تنبیه الامت علی قرب هجوم اشراط الساعة (۱۴) كتاب الفرق بين العلم اصول الدين و بين علم الكلام ۱۵) كتاب مدة الدنيا ١٦) كفاية المهتدين 1) كفاية المسلمين ۱۸) اتباع السنة و ترك البدعة ۱۹) ارشاد السالك الربانى الى احوال عبدالقادر جیلانی (۲۰ ارشاد اهل التفريط والافراط (۲۱) افادة الاخوان ۲۲

Page 309

268 چودھویں صدی کے مجدد جیسا کہ علماء کا عقیدہ بیان ہوچکا ہے کہ مجددین کا خاتم امام مہدی ومسیح موعود ہی ہوگا اور وہی چودھویں صدی کے مجدد ہوں گے.چنانچہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے اس صدی کے مجدد ہونے کا دعویٰ فرمایا.آپ کے بعد آپ کی خلافت خدائی نوشتوں کے مطابق ” دوسری قدرت کی صورت میں ظاہر ہوئی جو جاری وساری ہے اور انشاء اللہ ہمیشہ جاری رہے گی.خلافت آب کا حکم رکھتی ہے اور مجددیت تیم کا.پانی کے ہوتے ہوئے تیمیم کی ضرورت نہیں رہتی.اسی طرح خلافت کی موجودگی میں کسی ایک مجدد کی کوئی گنجائش اور ضرورت نہیں رہتی.خلیفہ وقت ہی تجدید دین کا کام باحسن طریق پر انجام دیتا ہے.یہی سوال ایک مرتبہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع سے کیا گیا تو آپ نے اس کا تفصیلی جواب عطا فرمایا جو یہاں درج کیا جاتا ہے.حضرت خلیفۃ اسیح الرابع سے ایک سوال ایک سوال یہ بھی کیا گیا کہ مجدد ہر صدی پر آتے رہے کیا یہ سلسلہ جاری رہے گا ؟ حضور نے اس گا؟ سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:- مجددیت خلافت کی قائمقام ہے سوال یہ ہے کہ دین کے متعلق پیشگوئیاں ہیں ان میں کیا خوشخبری تھی اور کیا انذار کا پہلو تھا اور تاریخ اسلام سے ثابت ہوا کہ دونوں پہلو سچے ثابت ہوئے.خلافت کے ہوتے ہوئے جب مجددیت کی خبر دی گئی کہ ایک سو سال بعد مجدد آئے گا تو یہ بھی پیشگوئی تھی کہ سو سال سے پہلے خلافت ہاتھ سے نکل جائے گی.ورنہ قرآن کریم نے خلافت کی پیشگوئی کی ہو اور رسول کریم ﷺ اس پیشگوئی کو نظر انداز کر کے کوئی اور پیشگوئی کر دیں، یہ بات درست نہیں ہے.تو مجددیت خلافت کے قائمقام ایک انسٹیٹیوشن ہے اور واقعہ یہی ہوا کہ اسلام کی پہلی صدی کے ختم سے بہت پہلے خلافت کا نظام ٹوٹ گیا اور خلافت کا نظام ٹوٹنے کے نتیجے میں روحانی نظام حکومت سے الگ ہو گیا.اور مرکزی نظام دوحصوں میں

Page 310

269 بٹ گیا، ایک صلحاء اور اولیاء پیدا ہونے شروع ہوئے جنہوں نے اپنے طور پر اسلام کو زندہ رکھنے کی کوشش کی اور اس دوران میں جب بگاڑ پیدا ہوا تو ایک سو سال کے بعد، تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو مجدد بنایا جو بظاہر خلیفہ بھی تھے.لیکن ان کا اصل مقام مجددیت کا تھا کیونکہ خلافت راشدہ تو ختم ہو چکی تھی اور انہوں نے اسلام کی عظیم الشان خدمت کی اور بدرسوم کو نکالا اور بہت سی نئی باتیں جاری کیں.پھر ایک عرصہ گزرا اور عالم اسلام زیادہ پھیل گیا.پھر ایک وقت میں ایک سے زیادہ مجدد بھی آتے رہے.کوئی ایران میں پیدا ہو رہا ہے، کوئی مڈل ایسٹ میں پیدا ہو رہا ہے، کوئی افریقہ میں پیدا ہو رہا ہے.سارے عالم اسلام کیلئے ایک مجدد آ ہی نہیں سکتا.کیونکہ وسائل کی کمی تقاضا کرتی تھی کہ الگ الگ جگہوں کیلئے الگ الگ مجدد آئیں اور پھر ایک اور بات ہم نے عالم اسلام میں دیکھی کہ مجددین میں سے اکثریت نے دعویٰ نہیں کیا.اور بہت سے ایسے تھے جن کو بعضوں نے مجدد کہا اور بعض ایسے تھے جن کو بعض دوسروں نے مجدد کہا اور کسی کو بعض تیروں نے مجدد کہا اور اب کئی لسٹیں مجددین کی بن گئیں.تو من کے اندر جمع کا پہلو بھی موجود تھا.اس لیے مجددیت کے پیغام میں نہ تو کوئی دعوی شرط تھا نہ اس مجدد کو ماننا.ان الله يبعث لهذه الامة على رأس كل مائة سنة من يجدد لها دينها كى حدیث میں لفظ من کی طرف اشارہ ہے ، ضروری قرار دیا گیا.کہیں بھی تمام احادیث میں جن کی تشریح عالم اسلام کی تاریخ نے کی ہے یہ بات کہیں نہیں آتی کہ مجدد مامور ہو اور اس کی بات مانی جائے.ایک بزرگ ہے جس نے خدمت کی ہے اور خدا نے اس کو عظیم خدمت کی توفیق عطا فرمائی ہے اور گرتے ہوئے حالات کو سنبھالنے کی توفیق بخشی ہے.یہ ہے مجددیت کا تصور.لیکن خلافت کے مقابل پر جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے کسی مجددیت کا کوئی ذکر نہیں ملتا.اگر خلافت راشدہ جاری رہتی اور پھر مجدد الگ الگ کھڑے ہوتے اور دعویٰ بھی کرتے ، اپنی طرف بھی بلاتے تو وحدت کو پارہ پار کر دیتے بجائے فائدہ پہنچانے کے.اسی لیے رسول کریم ﷺ نے جہاں مجدد کی پیشگوئی فرمائی وہاں ساتھ یہ بھی خبر دی کہ جب مسیح آئے گا فرمایا: ثم تكون خلافة على منهاج النبوة (مسنداحمد بحوالہ مشکوۃ باب الانذار والتحذير) پھر مجددیت نہیں آئے گی بلکہ منہاج نبوت پر خلافت جاری ہو جائے گی.اگر آنحضرت مے نے صرف مجددیت کی پیشگوئی فرمائی تو ٹھیک ہے.ہم سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے مجدد آئیں گے لیکن آپ

Page 311

270 نے خود وضاحت فرما دی کہ مسیح موعود کے آنے کے بعد مجددیت نہیں جاری ہوگی بلکہ خلافت دوبارہ جاری ہو جائے گی.یہ ایک ایسی صورت نظر آتی ہے جو معقول ہے اور جس کا ظاہر ہونا بعید از عقل نہیں ہے.وہ یہ ہے کہ جب خلافت راشدہ جاری رہے گی جب ضرورت ہوگی انہی خلفاء میں سے اللہ تعالیٰ مجدد بنا سکتا ہے.یعنی پیشل تو فیق کسی خلیفہ کو دے سکتا ہے بعض کاموں کی.اس لیے Clash ٹکراؤ بھی نہیں ہوسکتا.جب ضرورت ہوگی تو اگر خلافت سچی ہے تو پھر اس کے مقابل پر خدا مجدد کو کھڑا نہیں کرے گا.لیکن خدا کیلئے یہ کون سی روک ہے کہ ایک خلیفہ کو غیر معمولی تجدید دین کی توفیق بخش دے.لیکن منصب خلافت منصب مجددیت سے بالا بھی ہے اور ماموریت کا پہلوان معنوں میں رکھتا ہے کہ خلفاء چونکہ مامور کے جانشین تھے اس لیے ان کی اطاعت فرض قرار دے دی گئی.یہ ایک منصب ہے اور ایک مجددیت کا ہے جس کی بیعت فرض ہی نہیں ، جس کا دعویٰ بھی فرض نہیں، تو ظاہر و باہر فرق ہے.اس لیے مجددیت کو خلافت سے فضیلت نہیں دی جاسکتی.کہاں یہ کہ ایک کے متعلق اُمت کو پابند کر دیا جائے کہ اس کی بیعت کرنی ہے اور اس کی اطاعت کرنی ہے اور کہاں یہ آزاد چھوڑا ہے بلکہ یہ بھی نہیں پتہ کہ کوئی مجدد ہے بھی یا نہیں.پس مجدد کا مفہوم آپ سمجھ لیں تو پھر آپ کے ذہن میں کوئی Clash پیدا نہیں ہوگا.احمدیت کی تعلیم اور ان کی مجددیت کی احادیث میں بلکہ تمام اسلامی تعلیم کو مد نظر رکھ کر بات کریں گے تو ایک نہایت خوبصورت سلجھی ہوئی ایک جاری شکل نظر آئے گی جس میں کوئی ذہنی Clash نہیں ہے.۲۳ چودھویں صدی کے مجدد کے متعلق ہماری طرف سے ایک مثبت جواب پس جب مجددین کا آنا قرآن شریف کی ایک زبردست صداقت کا ثبوت بھی ہے تو ایک جستجو کرنے والا اور محقق انسان اس ثبوت کی تفصیل سے متعلق سوال کر سکتا ہے.چنانچہ حضرت مصلح موعود چودھویں صدی کے مجدد کے بارہ میں فرماتے ہیں :- دشمنانِ اسلام کا حق ہے کہ وہ ہم سے مطالبہ کریں کہ اس صدی کا مجددکونسا ہے، اسے ہمارے سامنے پیش کرو کیونکہ تمہارے ساتھ وعدہ ہے کہ ہر صدی کے سر پر مجدد آئیں گے...احمدی جماعت اس اعتراض کو فور آرڈ کر سکتی ہے اور کہ سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل

Page 312

271 سے یہ صدی بھی مجدد سے خالی نہیں گئی اور اس زمانہ میں معمولی مجدد نہیں بلکہ مسیح موعود کو بھیج کر اللہ تعالیٰ نے اسلام کو مضبوط کیا ہے.۲۴ ساری دُنیا کیلئے مجدد حضرت خلیفتہ امسیح الرابع نے فرمایا: - سوال: آپ نے رمضان المبارک کے درس میں ذکر کیا کہ حضرت مسیح موعود سے پہلے بارہ مجدد آئے ہیں.میرا سوال یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود یا کسی اور خلیفہ نے اس بارے میں کوئی روشنی ڈالی ہے؟ جواب : ساری بات جو ہے وہ بارہ کی تعیین پر ہے.یہ جو بارہ ہے او پر سب لوگوں کا اتفاق ہے یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ ان سے پوچھو کہ آگے مجدد بند کیوں ہو گئے.مجد دتو بند ہونے چاہیے تھے مہدی کے ظاہر ہونے پر.تو وہ اس کا کوئی جواب نہیں دے سکتے.بعض لوگ مصنوعی طور پر مجدد بنانے کی کوشش کرتے ہیں.چنانچہ بعضوں نے لکھا ہے کہ فلاں مجدد تھا.مگر اس کو سارے فرقے رڈ کرتے ہیں کوئی بھی اس کو مانتا نہیں.مگر حضرت مسیح موعود کو مجدد کہنے والے اب ساری دنیا میں پھیل گئے ہیں.کوئی فرقہ نہیں جس کی نمائندگی ان کو عطا نہ ہوئی ہو.تو مجدد 12 ہی ہیں ان کے ناموں میں اختلاف ہے اور یہ بھی ایک فرق یا د رکھنا چاہیے کہ مجدد مقامی ہوتا ہے.صرف حضرت مسیح موعود پہلے مجدد ہیں جو آفاقی ہیں.ساری دنیا کے ورنہ مجد دتو کوئی افریقہ میں ہوا، کوئی تاشقند میں ہوا، کوئی نائیجیریا میں اور مختلف ملکوں میں ہندوستان میں ہر جگہ مجدد اپنے اپنے دائروں میں پھیلے ہوئے تھے.ان کا دائرہ ہمیشہ چھوٹا ہوتا ہے.اس وقت لوگوں نے بات مان لی اور ان کو مجد دسمجھ لیا.لیکن پہلا مجدد جو ساری دنیا کا مجدد ہے وہ حضرت مسیح موعود ہیں اسی لیے آپ کے حق میں چاند سورج کا گرہن ان تاریخوں میں ہوا جن تاریخوں میں رسول اللہ ﷺ نے پیشگوئی فرمائی تھی.10 فکر انگیز تحریر و بر سر مائیے چہار دہم کہ وہ سال کامل آنرا باقی است.اگر ظهور مهدی علیه السلام و

Page 313

272 نزول عیسی صورت گرفت.پس ایشاں مجد دو مجتہد باشند.ہے کہ چودھویں صدی کے سر پر جس کو ابھی پورے دس سال باقی رہتے ہیں اگر مہدی اور مسیح موعود ظاہر ہو گئے تو وہی چودھویں صدی کے مجدد ہوں گے.ب.پس تو اں گفت که در میں ده سال که از مِائَةِ ثالث عشر باقی است.ظہور کند یا برسر چہار دہم..چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام عین وقت (چودھویں صدی کے سر) پر ظاہر ہوئے.پس اگر آپ مجدد نہیں ہیں تو کوئی اور مجدد بتاؤ جو چودھویں صدی کے سر پر آیا ہو.اگر کوئی غیر آپ سے پوچھے کہ آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق چودھویں صدی کا مجدد کہاں ہے تو اسے کیا جواب دو گے؟ اب تو پندرھویں صدی میں سے بھی 25 برس گزر گئے.سچ تو یہی ہے کہ وقت تھا وقت مسیحا نہ کسی اور کا وقت میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا ( کلام حضرت مسیح موعود )

Page 314

273 حوالہ جات ے ماہنامہ تحریک جدید.جنوری 1970ء الفضل جلسہ سالانہ نمبر 1980ء انسائیکلو پیڈیا آف اسلام.صفحہ 940،Vol: II The Fulani Empire of Sokoto P:18 The Nigeria Hand Book P-27 اب اس بستی کا کوئی نشان نہیں ملتا.الاختفاء از عبدالقادر بن گداد و بحوالہ 4-The Sokoto Caliphate P رح The Fulani Empire of Skoto by H.A.S.Johnson London 1970 Page 28-29 African Since 1800 by Oliver and Anthony P:29-30 스 انفاق الميسور صفحہ 114-113 ا بحوالہ مضمون نائیجیریا کے بزرگ حضرت عثمان ڈان خود یواز منیر بسمل سابق مبلغ نائیجیریا ( غیر مطبوعہ ) F.De.F.Danial Journal of the African Soceity XXV 278-83:1925-26P بحوالہ The Empire of Northern Nigeria by Hogben and Kirk Green P-122 انفاق الميسور - صفحہ 219 The Fulani Empire of Sokoto P-14 انفاق الميسور - صفحہ 229 ايضاً The Sokoto Caliphate Page 40-68 The Golden Trade of Morrs, Page 226 تحذیر الاخوان بحوالہ 228:Islam in Tropical Africa, p اله ܩܙ܂ ۱۸ كالا

Page 315

274 انفاق الميسور - صفحہ 701-700 ايضا - صفحہ 396 The Sokoto Caliphate by Murrog Last London 1967, P:237-40, The Life and works of Uthman Dan Fodio by Ismail A.B.Balogon Lagos, Nigeria P:34-48 ۲۲ ۲۳ مجالس عرفان شائع کردہ لجنہ اماءاللہ کراچی.صفحہ 125-122 لا تحفۃ الملوک - صفحہ 75 الفضل 8 مئی 2000ء صفحہ 5 نج الکرامہ صفحہ 139 ايضاً - صفحه 41 تفسیر کبیر.جلد 7 صفحہ 198

Page 316

275 چودھویں صدی کے مجدد اور امام مہدی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی عليه السلام ۵۱۸۳۵ ۵۱۹۰۸ اس وقت محض اللہ اس ضروری امر سے اطلاع دیتا ہوں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس چودھویں صدی کے سر پر اپنی طرف سے مامور کر کے دین متین اسلام کی تجدید اور تائید کیلئے بھیجا ہے تا کہ میں اس پر آشوب زمانہ میں قرآن کی خوبیاں اور حضرت رسول اللہ ﷺ کی عظمتیں ظاہر کروں اور ان تمام دشمنوں کو جو اسلام پر حملہ کر رہے ہیں ان نوروں اور برکات اور خوارق اور علوم لدنیہ کی مدد سے جواب دوں جو مجھ کو عطا کیے گئے ہیں“.بركات الدعا.روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 34)

Page 317

276 تعارف بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام (۱۸۳۵ء تا ۱۹۰۸ء) نے خدا تعالیٰ سے الہام پا کر مشرقی پنجاب انڈیا کی ایک گمنام بستی قادیان میں یہ دعوئی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس زمانہ کی اصلاح کیلئے مامور فرمایا ہے اور آپ وہی مہدی اور مسیح ہیں جس کے ظہور کی خبر حضرت محمد مصطفی ﷺ نے دی تھی اور جس کے ذریعہ اسلام کا تمام ادیان پر غلبہ مقدر ہے.آپ نے ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء کو ہندوستان کے شہر لدھیانہ میں چالیس مخلصین سے بیعت لی اور آنحضرت ﷺ کے احمد نام کی مناسبت سے اس جماعت کا نام جماعت احمد یہ رکھا.آپ نے ۸۰ سے زائد کتب تصنیف فرما ئیں اور زندگی بھر عیسائیوں، آریوں اور دیگر مذاہب کی طرف سے اسلام پر ہونے والے حملوں کا بے مثال دفاع کیا.1990ء میں آپ کی وفات کے بعد جماعت احمدیہ میں خلافت کا نظام قائم ہوا اور اب جماعت کے پانچویں خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ ہیں جو آج کل لندن میں مقیم ہیں.نظام خلافت کی برکت سے یہ جماعت آج دنیا کے کونے کونے میں پہنچ چکی ہے اور کروڑوں افراد اس الہی جماعت میں شامل ہو چکے ہیں.حضرت بانی جماعت احمدیہ کا دعویٰ آپ کے اپنے الفاظ میں پیش ہے.مسیح اور مہدی ” جو خدا کی طرف سے تجدید دین کیلئے آنے والا تھا وہ میں ہی ہوں تا وہ جو زمین پر سے اُٹھ گیا ہے اس کو دوبارہ قائم کروں اور خدا سے قوت پا کر اسی کے ہاتھ کی کشش سے دنیا کو اصلاح اور تقویٰ اور راستبازی کی طرف کھینچوں اور ان کی اعتقادی اور عملی غلطیوں کو دور کروں اور پھر جب چند سال اس پر گزرے تو بذریعہ وحی الہی میرے پر بتصریح کھولا گیا کہ وہ مسیح جو اس امت کیلئے ابتداء سے موعود تھا اور وہ آخری مہدی جو تنزل اسلام کے وقت اور گمراہی کے پھیلنے کے زمانہ میں براہ راست خدا سے ہدایت پانے والا اور اس آسمانی مائدہ کو نئے سرے انسانوں کے آگے پیش کرنے والا تقدیر الہی میں مقرر کیا تھا جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسول کریم ﷺ نے دی تھی وہ میں ہی ہوں“.( تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 3-4)

Page 318

277 حکم کا سر صلیب ”اے بھائیو! میں اللہ جل شانہ سے الہام دیا گیا ہوں اور علوم ولایت میں سے مجھے علم عطا ہوا ہے پھر میں صدی کے سر پر مبعوث کیا گیا تا اس امت کے دین کی تجدید کروں اور ایک حکم بن کر ان کے اختلافات کو درمیان سے اُٹھاؤں اور صلیب کو آسمانی نشانوں کے ساتھ توڑوں اور قوت الہی سے زمین میں تبدیلی پیدا کروں اور اللہ تعالیٰ نے الہام صریح اور وحی صحیح سے مجھے مسیح موعود اور مہدی موعود کے نام سے پکارا اور میں فریبیوں میں سے نہیں اور نہ میں ایسا ہوں کہ میری زبان پر جھوٹ جاری ہوتا اور میں لوگوں کو بدی میں ڈالتا.مؤید اسلام نجم الہدی.روحانی خزائن.جلد 14 صفحہ 50) اس وقت محض اللہ اس ضروری امر سے اطلاع دیتا ہوں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس چودھویں صدی کے سر پر اپنی طرف سے مامور کر کے دین متین اسلام کی تجدید اور تائید کیلئے بھیجا ہے تا کہ میں اس پُر آشوب زمانہ میں قرآن کی خوبیاں اور حضرت رسول اللہ ﷺ کی عظمتیں ظاہر کروں اور ان تمام دشمنوں کو جو اسلام پر حملہ کر رہے ہیں ان نوروں اور برکات اور خوارق اور علوم لدنیہ کی مدد سے جواب دوں جو مجھ کو عطا کیے گئے ہیں“.معلم قرآن برکات الدعا.روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 34) میں ہر ایک مسلمان کی خدمت میں نصیحتاً کہتا ہوں کہ اسلام کیلئے جاگو کہ اسلام سخت فتنہ میں پڑا ہے.اس کی مدد کرو کہ اب یہ غریب ہے اور میں اسی لیے آیا ہوں اور مجھے خدا تعالیٰ نے علم قرآن بخشا ہے اور حقائق و معارف اپنی کتاب کے میرے پر کھولے ہیں اور خوارق مجھے عطا کئے ہیں.سو میری طرف آؤ تا اس نعمت سے تم بھی حصہ پاؤ.مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں...سو عنقریب میرے کاموں کے ساتھ تم مجھے شناخت

Page 319

278 کرو گے.ہر ایک جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ، اس وقت کے علماء کی نا سمجھی اس کی سد راہ ہوئی.آخر جب وہ پہچانا گیا تو اپنے کاموں سے پہچانا گیا کہ تلخ درخت شیریں پھل نہیں لاسکتا اور خدا غیر کو وہ برکتیں نہیں دیتا جو خاصوں کو دی جاتی ہیں.( برکات الدعا.روحانی خزائن.جلد 6 صفحہ 36) مسیح موعود نام میں مصلحت اس زمانہ کے مجددکا نام مسیح موعود رکھنا اس مصلحت پر مبنی معلوم ہوتا ہے کہ اس مجد کا عظیم الشان کام عیسائیت کا غلبہ توڑنا اور ان کے حملوں کو دفع کرنا اور ان کے فلسفہ کو جو مخالف قرآن ہے دلائل قویہ کے ساتھ توڑنا اور ان پر اسلام کی حجت پوری کرنا ہے.کیونکہ سب سے بڑی آفت اس زمانہ میں اسلام کیلئے جو بغیر تائید الہی دُور نہیں ہو سکتی عیسائیوں کے فلسفیانہ حملے اور مذہبی نکتہ چینیاں ہیں جن کے دُور کرنے کیلئے ضروری تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی آوے.مسیح موعود - اس زمانہ میں خدا کا مامور آئینہ کمالات اسلام - صفحہ 341) اس زمانہ میں گندی تحریروں کے ذریعہ سے اس قدر آنحضرت ﷺ اور اسلام کی توہین کی گئی ہے کہ کبھی کسی زمانے میں کسی نبی کی تو ہین نہیں ہوئی اور درحقیقت یہ ایسا زمانہ آگیا ہے کہ شیطان اپنے تمام تر ذریات کے ساتھ ناخنوں تک زور لگارہا ہے تا کہ اسلام کو نابود کر دیا جائے اور چونکہ بلا شبہ سچائی کا جھوٹ کے ساتھ یہ آخری جنگ ہے.اس لیے یہ زمانہ بھی اس بات کا حق رکھتا تھا کہ اس کی اصلاح کیلئے کوئی خدا کا مامور آوے.پس وہ مسیح موعود ہے جو موجود ہے اور زمانہ حق رکھتا تھا کہ اس نازک وقت میں آسمانی نشانوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی دنیا پر حجت پوری ہو.سو آسمانی نشان ظاہر ہورہے ہیں اور آسمان جوش میں ہے کہ اس قدر آسمانی نشان ظاہر کرے کہ اسلام کی فتح کا نقارہ ہر ایک ملک میں اور ہر ایک حصہ میں دنیا میں بچ جائے.اے قادر خدا! تو جلد وہ دن لا کہ جس فیصلہ کا تو نے ارادہ کیا ہے وہ ظاہر ہو جائے اور دنیا میں تیرا جلال چمکے اور تیرے دین اور تیرے رسول کی فتح ہو.آمین ثم آمین چشمہ معرفت - صفحہ 86-87)

Page 320

مثیل مسیح 279 میں ان تمام امور پر ایمان رکھتا ہوں جو قرآن کریم اور احادیث صحیحہ میں درج ہیں اور مجھے مسیح ابن مریم ہونے کا دعویٰ نہیں اور نہ میں تناسخ کا قائل ہوں بلکہ مجھے تو فقط مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ ہے.جس طرح محد ثیت نبوت سے مشابہ ہے ایسا ہی میری روحانی حالت مسیح ابن مریم کی روحانی حالت سے اشد درجہ کی مشابہت رکھتی ہے.غرض میں ایک مسلمان ہوں.ايها المسلمون انا منكم و امامکم منکم بامر اللہ تعالیٰ.خلاصہ کلام یہ کہ میں محدث اللہ ہوں اور مامور من اللہ ہوں.اور با ایں ہمہ مسلمانوں میں سے ایک مسلمان ہوں.جو صدی چہار دہم کیلئے مسیح ابن مریم کی خصلت اور رنگ میں مجدد دین ہو کر رب السموات والارض کی طرف سے آیا ہوں.میں مفتری نہیں ہوں وقد خاب من افتری خدا تعالیٰ نے دنیا پر نظر کی اور اس کو ظلمت میں پایا اور مصلحت عباد کیلئے اپنے عاجز بندہ کو خاص کر دیا.کیا تمہیں اس سے کچھ تعجب ہے کہ وعدہ کے موافق صدی کے سر پر ایک مجدد بھیجا گیا اور جس نبی کے رنگ میں خدا نے چاہا خدا تعالیٰ نے اس کو پیدا کیا.کیا ضرور نہ تھا کہ مخبر صادق علی کی پیشگوئی پوری ہوتی.بھائیو! میں مصلح ہوں، بدعتی نہیں اور معاذ اللہ میں کسی بدعت کو پھیلانے کیلئے نہیں آیا.حق کے اظہار کیلئے آیا ہوں اور ہر ایک بات جس کا اثر اور نشان قرآن اور حدیث میں نہ پایا جائے اس کے برخلاف ہو وہ میرے نزدیک الحاد اور بے ایمانی ہے.مگر ایسے لوگ تھوڑے ہیں جو کلام الہی کی تہہ تک پہنچتے اور ربانی پیشگوئیوں کے باریک بھیدوں کو سمجھتے ہیں.میں نے دین میں کوئی کمی یا زیادتی نہیں کی.بھائیو! میرا وہی دین ہے جو تمہارا دین ہے اور وہی رسول کریم میر امقتدا ہے جو تمہارا مقتدا ہے اور وہی قرآن شریف میر ہادی ہے اور میرا پیارا اور میری دستاویز ہے جس کا ماننا تم پر بھی فرض ہے.ہاں یہ بیچ اور بالکل سچ ہے کہ میں حضرت مسیح ابن مریم کو فوت شدہ اور داخل موتی یقین رکھتا ہوں اور جو آنے والے مسیح کے بارے میں پیشگوئی ہے وہ اپنے حق میں یقینی اور قطعی طور پر اعتقا در کھتا ہوں.لیکن اے بھائیو! یہ اعتقاد میں اپنی طرف سے اور اپنے خیال سے نہیں رکھتا بلکہ خداوند کریم جل شانہ نے اپنے الہام و کلام کے ذریعہ سے مجھے اطلاع دے دی ہے کہ مسیح ابن مریم کے نام پر آنے والا تو ہی ہے اور مجھے

Page 321

280 پر قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کے وہ دلائل یقینی کھول دیئے ہیں جن سے تمام و یقین وقطع حضرت عیسی ابن مریم رسول اللہ کا فوت ہو جانا ثابت ہوتا ہے.اور مجھے اس قادر مطلق نے بار بار اپنے کلام خاص سے شرف اور مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ آخری زمانہ کی یہودیت دُور کرنے کیلئے تجھے عیسی ابن مریم کے رنگ اور کمال میں بھیجا گیا ہے.سو میں استعارہ کے طور پر ابن مریم ہوں جس کا یہودیت کے زمانہ اور تنصر کے غلبہ میں آنے کا وعدہ تھا جو غربت اور روحانی قوت اور روحانی اسلحہ کے ساتھ ظاہر ہوا.مجد دوقت ( تبلیغ رسالت.جلد دوم صفحہ 21) اس وقت محض اللہ اس ضروری امر سے اطلاع دیتا ہوں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس چودھویں صدی کے سر پر اپنی طرف سے مامور کر کے دین متین اسلام کی تجدید اور تائید کیلئے بھیجا ہے تا کہ میں اس پر آشوب زمانہ میں قرآن کی خوبیاں اور حضرت رسول اللہ ﷺ کی عظمتیں ظاہر کروں اور ان تمام دشمنوں کو جو اسلام پر حملہ کر رہے ہیں ان نوروں اور برکات اور خوارق اور علوم لدنیہ کی مدد سے جواب دوں جو مجھ کو عطا کیے گئے ہیں.بركات الدعا.روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 34) اور مصنف کو بھی اس بات کا علم دیا گیا ہے کہ وہ مجدد وقت ہے اور روحانی طور پر اُس کے کمالات مسیح ابن مریم سے مشابہ ہیں اور ایک کو دوسرے سے بشدت مناسبت ومشابہت ہے.اشتہار منسلکہ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن.جلد 5 صفحہ 657) جری اللہ فی حلل الانبياء میں وہی ہوں جس کا خدا نے وعدہ کیا تھا.ہاں! میں وہی ہوں جس کا سارے نبیوں کی زبان پر وعدہ ہوا ( ملفوظات.جلد سوم صفحہ 65) خدا تعالیٰ نے میرا نام عیسی ہی نہیں رکھا بلکہ ابتداء سے انتہاء تک جس قدر انبیاء علیہم السلام کے نام تھے وہ سب میرے نام رکھ دیئے ہیں.چنانچہ براہین احمدیہ ص سابقہ میں میرا نام آدم رکھا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اردت ان استخلف فخلقت ادم

Page 322

281 اسی طرح براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں میرا نام نوح بھی رکھا اور میری نسبت فرمایا ولا تخاطبني في الذين ظلموا انهم مغرقون....اور مجھے خدا تعالیٰ نے فرمایا اصنع الفلک باعيننا ووحينا ان الذين يبايعونك انما يبايعون الله يدالله فوق ايديهم.اسی طرح براہین احمدیہ کے خصص سابقہ میں میرا نام ابراہیم بھی رکھا گیا.جیسا کہ فرمایا سلام علیک یا ابراهیم یعنی اے ابراہیم تجھ پر سلام.ابراہیم علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے بہت برکتیں دی تھیں اور وہ ہمیشہ دشمنوں کے ہاتھ سے سلامت رہا.پس میرا نام ابراہیم رکھ کر خدا تعالیٰ یہ اشارہ کرتا ہے کہ ایسا ہی اس ابراہیم کو برکتیں دی جائیں گی اور مخالف اس کو کچھ ضر ر نہیں پہنچ سکیں گے.اسی طرح براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں میرا نام یوسف بھی رکھا گیا.اور ایسا ہی براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں میرا نام موسیٰ رکھا گیا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تلطف بالناس و ترحم عليهم و انت فيهم بمنزلة موسى واصبر على ما يقولون اسی طرح خدا نے براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں میرا نام داؤد بھی رکھا.جس کی تفصیل عنقریب اپنے موقعہ پر آئے گی.ایسا ہی براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں خدا تعالیٰ نے میرا نام سلیمان بھی رکھا اور اس کی تفصیل بھی عنقریب آئے گی.ایسا ہی براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں خدا تعالیٰ نے میرا نام احمد اور محمد بھی رکھا اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جیسا کہ آنحضرت مو خاتم نبوۃ ہیں ویسا ہی یہ عاجز خاتم ولایت ہے.اور بعد اس کے میری نسبت براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں یہ بھی فرما یا جرى الله في حلل الانبياء - یعنی رسول خدا تمام نبیوں کے پیرائیوں میں.اس وحی الہی کا مطلب یہ ہے کہ آدم سے لے کر آخیر تک جس قدر انبیاء علیہم السلام خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں آئے ہیں خواہ وہ اسرائیلی ہیں یا غیر اسرائیلی ، ان سب کے خاص واقعات یا خاص صفات میں سے اس عاجز کو کچھ حصہ دیا گیا ہے اور ایک بھی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے خواص یا واقعات میں سے اس عاجز کو کچھ حصہ نہیں دیا گیا.ہر ایک نبی کی فطرت کا نقش میری فطرت میں ہے.اسی پر خدا نے مجھے اطلاع دی.اس زمانہ میں خدا نے چاہا کہ جس قدر نیک اور راستباز مقدس نبی گزرچکے ہیں ایک ہی شخص کے وجود میں ان کے نمونے ظاہر کئے جاویں.سو وہ میں ہوں...اسی طرح خدا تعالیٰ نے میرا نام

Page 323

282 ذوالقرنین بھی رکھا.کیونکہ خدا تعالیٰ کی میری نسبت یہ وحی مقدس ہے کہ جرى الله في حلل الانبیاء جس کے یہ معنے ہیں کہ خدا کا رسول تمام نبیوں کے پیرائیوں میں.یہ چاہتی ہے کہ مجھ میں ذوالقرنین کی صفات بھی ہوں.کیونکہ سورہ کہف سے ثابت ہے کہ ذوالقر نین بھی صاحب وحی تھا.امام الزمان ( براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن.جلد 21 صفحہ 112 تا 118) میں اس وقت بے دھڑک کہتا ہوں کہ خدا کے فضل اور عنایت سے وہ امام الزمان میں ہوں اور مجھ میں خدا تعالیٰ نے وہ تمام علامتیں اور شرطیں جمع کی ہیں اور اس صدی کے سر پر مجھے مبعوث فرمایا یادر ہے کہ امام الزمان کے لفظ میں نبی، رسول محدث ، مجد دسب داخل ہیں.مگر جولوگ ہے.ارشاد اور ہدایت خلق اللہ کیلئے مامور نہیں ہوئے اور نہ وہ کمالات اُن کو دیئے گئے گووہ ولی ہوں یا ابدال ہوں ، امام الزمان نہیں کہلا سکتے.( ضرورة الامام.روحانی خزائن.جلد 13 صفحہ 495) اب ایک ضروری سوال یہ ہے کہ امام الزمان کس کو کہتے ہیں اور اس کی علامات کیا ہیں اور اس کو دوسرے ملہموں اور خواب بینوں اور اہل کشف پر ترجیح کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ امام الزمان اس شخص کا نام ہے کہ جس کی روحانی تربیت کا خدا تعالیٰ متولی ہوکر اُس کی فطرت میں ایک ایسی امامت کی روشنی رکھ دیتا ہے کہ وہ سارے جہاں کے معقولیوں اور فلسفیوں سے ہر ایک رنگ میں مباحثہ کر کے ان کو مغلوب کر لیتا ہے.وہ ہر ایک قسم کے دقیق در دقیق اعتراضات کا خدا سے قوت پا کر ایسی عمدگی سے جواب دیتا ہے کہ آخر ماننا پڑتا ہے کہ اس کی فطرت دنیا کی اصلاح کا پورا سامان لے کر اس مسافر خانہ میں آئی ہے.اس لیے اس کو کسی دشمن کے سامنے شرمندہ ہونا نہیں پڑتا.وہ روحانی طور پر محمدی فوجوں کا سپہ سالار ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کا ارادہ ہوتا ہے کہ اس کے ہاتھ پر دین کی دوبارہ فتح کرے اور وہ تمام لوگ جو اس کے جھنڈے کے نیچے آتے ہیں ان کو بھی اعلیٰ درجہ کے قویٰ بخشے جاتے ہیں اور وہ تمام شرائط جو اصلاح کیلئے ضروری ہوتے ہیں اور وہ تمام علوم جو اعتراضات کے اٹھانے اور اسلامی خوبیوں کے بیان کرنے کیلئے ضروری ہیں اس کو عطا کئے جاتے ہیں.( ضرورت الامام.روحانی خزائن.جلد 13 صفحہ 476)

Page 324

خلیفۃ اللہ 283 میں بیت اللہ میں کھڑے ہو کر یہ قسم کھا سکتا ہوں کہ وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے وہ اسی خدا کا کلام ہے جس نے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد مصطفی ﷺ پر اپنا کلام نازل کیا تھا.میرے لیے زمین نے بھی گواہی دی اور آسمان نے بھی.اس طرح میرے لئے آسمان بھی بولا اور زمین بھی کہ میں خلیفہ اللہ ہوں.ایک غلطی کا ازالہ.روحانی خزائن.جلد 18 صفحہ 210) فرشتوں کا نزول اور کامیابی کی بشارت چونکہ یہ عاجز راستی اور سچائی کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے اس لیے تم صداقت کے نشان ہر ایک طرف سے پاؤ گے.وہ وقت دور نہیں بلکہ بہت قریب ہے کہ جب تم فرشتوں کی فوجیں آسمان سے اترتی اور ایشیا اور یورپ اور امریکہ کے دلوں پر نازل ہوتی دیکھو گے.یہ تم قرآن شریف سے معلوم کر چکے ہو کہ خلیفہ اللہ کے نزول کے ساتھ فرشتوں کا نازل ہونا ضروری ہے تا دلوں کو حق کی طرف پھیریں.سواس نشان کے منتظر رہو.اگر فرشتوں کا نزول نہ ہوا اور ان کے اترنے کی نمایاں تاثیریں تم نے دنیا میں نہ دیکھیں اور حق کی طرف دلوں کی جنبش کو معمول سے زیادہ نہ پایا تو تم نے یہ سمجھنا کہ آسمان سے کوئی نازل نہیں ہوا.لیکن اگر یہ سب باتیں ظہور میں آگئیں تو تم انکار سے باز آؤ.تا تم خدا تعالیٰ کے نزدیک ایک سرکش قوم نہ ٹھہرو.آخری نور (فتح اسلام.روحانی خزائن.جلد 3 صفحہ 13) مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا.میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں اور میں اس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں.بدقسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیونکہ میرے بغیر سب تاریک ہے.(کشتی نوح.روحانی خزائن.جلد 19 صفحہ 61)

Page 325

عنایات الہی فرمایا:- 284 (۱) خدا نے مجھے قرآنی معارف بخشتے ہیں.(۲) خدا نے مجھے قرآن کی زبان میں اعجاز عطا فرمایا ہے.(۳) خدا نے میری دعاؤں میں سب سے بڑھ کر قبولیت رکھی ہے.(۴) خدا نے مجھے آسمانی نشان دیئے ہیں.(۵) خدا نے مجھے زمین سے نشان دیئے ہیں.(1) خدا نے مجھے وعدہ دے رکھا ہے کہ تجھ سے ہر ایک مقابلہ کرنے والا مغلوب ہوگا.(۷) خدا نے مجھے بشارت دی ہے کہ تیرے پیر و ہمیشہ اپنے دلائل صدق میں غالب رہیں گے اور دنیا میں اکثر وہ اور ان کی نسل بڑی بڑی عزتیں پائیں گے.تاان پر ثابت ہو کہ جو خدا کی طرف سے آتا ہے وہ کچھ نقصان نہیں اٹھاتا.(۸) خدا نے مجھے وعدہ دے رکھا ہے کہ قیامت تک اور جب تک کہ دنیا کا سلسلہ منقطع ہو جائے میں تیری برکات ظاہر کرتا رہوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.(۹) خدا نے آج سے بیس برس پہلے مجھے بشارت دی ہے کہ تیرا انکار کیا جائے گا اور لوگ تجھے قبول نہیں کریں گے.پر میں تجھے قبول کروں گا اور بڑے زور آور حملوں سے تیری سچائی ظاہر کروں گا.(۱۰) اور خدا نے مجھے وعدہ دیا ہے کہ تیری برکات کا دوبارہ نور ظاہر کرنے کیلئے تجھ سے ہی اور تیری نسل میں سے ایک شخص کھڑا کیا جائے گا.جس میں میں رُوح القدس کی برکات پھونکوں گا.وہ پاک باطن اور خدا سے نہایت پاک تعلق رکھنے والا ہوگا اور مظہر الحق والعلاء ہوگا.گویا خدا آسمان سے نازل ہوا.و تلک عشرة کاملتہ.د.دیکھو وہ زمانہ چلا آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا اس سلسلہ کی دنیا میں بڑی قبولیت پھیلائے گا

Page 326

285 اور یہ سلسلہ مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب میں پھیلے گا اور دنیا میں اسلام سے مراد یہی سلسلہ ہوگا.یہ باتیں انسان کی نہیں.یہ اس خدا کی وحی ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں.تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن.جلد 17 صفحہ 181) کیوں عجب کرتے ہو گر میں آگیا ہو کر مسیح خود مسیحائی کادم بھرتی ہے یہ بادِ بہار آسماں پہ دعوتِ حق کیلئے اک جوش ہے ہو رہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اُتار آرہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج نبض پھر چلنے لگی مُردوں کی ناگہ زندہ وار کہتے ہیں تثلیث کو اب اہل دانش الوداع پھر ہوئے ہیں چشمہ توحید پر از جاں شار باغ میں ملت کے ہے کوئی گل رعنا کھلا آئی ہے بادِ صبا گلزار سے مستانہ وار آ رہی ہے اب تو خوشبو میرے یوسف کی مجھے گو کہو دیوانہ میں کرتا ہوں اُس کا انتظار اسمعوا صوت السماء جاء ایچ جاء ایچ ، جاء أصبح جاء صبیح نیز بشنو از زمین آمد امام کامگار آسماں بارد نشاں الوقت مے گوید زمیں این دو شاہد از پئے من نعرہ زن چوں بیقرار اب اسی گلشن میں لوگوں راحت و آرام ہے وقت ہے جلد آؤ اے آوارگان دشت خار اک زماں کے بعد اب آئی ہے یہ ٹھنڈی ہوا پھر خدا جانے کہ کب آویں یہ دن اور یہ بہار غیر کیا جانے کہ دلبر سے ہمیں کیا جوڑ ہے وہ ہمارا ہوگیا اس کے ہوئے ہم جاں نثار میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار اک شجر ہوں جس کو داؤدی صفت کے پھل لگے میں ہوا داوؤد اور جالوت ہے میرا شکار پر مسیحا بن کے میں بھی دیکھتا روئے صلیب گر نہ ہوتا نام احمد جس پہ میرا سب مدار ( براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 101-103) مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوان یار ہم تو بستے ہیں فلک پر اس زمیں کو کیا کریں آسماں کے رہنے والوں کو زمین سے کیا نقار

Page 327

286 روضہ آدم کہ تھا وہ نامکمل اب تلک میرے آنے سے ہوا کامل بجملہ برگ وبار وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امیدوار (براہین احمدیہ حصہ پنجم ) کیا شک ہے ماننے میں تمہیں اس مسیح کے جس کی مماثلت کو خدا نے بتادیا حاذق طبیب پاتے ہیں تم سے یہی خطاب خوبوں کو بھی تو تم نے مسیحا بنادیا (در متین) یہ سراسر فضل و احساں ہے کہ میں آیا پسند ور نہ درگاہ میں تری کچھ کم نہ تھے خدمت گزار دوستی کا دم جو بھرتے تھے وہ سب دشمن ہوئے پر نہ چھوڑا ساتھ تو نے اے مرے حاجت برار اے مرے یار لگا نہ اے میری جاں کی پسند بس ہے تو میرے لئے مجھ کو نہیں تجھ بن بکار میں تو مر کر خاک ہوتا گر نہ ہوتا تیرا لطف پھر خدا جانے کہاں یہ پھینک دی جاتی غبار اے فدا ہو تیری رہ میں میرا جسم و جان و دل میں نہیں پاتا کہ تجھ سا کوئی کرتا ہو پیار ابتداء سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے گود میں تیری رہا میں مثل طفل شیر خوار نسل انساں میں نہیں دیکھی وفا جو تجھ میں ہے تیرے بن دیکھا نہیں کوئی بھی یاری ر غمگسار لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول میں تو نالائق بھی ہوکر پا گیا درگہ میں بار اس قدر مجھ پر ہوئی تیری عنایات و کرم جن کا مشکل ہے کہ تا روز قیامت ہو شمار اس میں میر اجرم کیا جب مجھ کو یہ فرماں ملا کون ہوں تا رڈ کروں حکم شہ ذی الاقتدار اب تو جو فرماں ملا اس کا ادا کرنا ہے کام گرچہ میں ہوں بس ضعیف و ناتواں و دلفگار (براہین احمدیہ حصہ پنجم ) دار النجات کا دروازہ یہ عاجز تو محض اس غرض کیلئے بھیجا گیا ہے کہ تا یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچائے کہ دنیا کے مذاہب موجود میں سے وہ مذہب حق پر اور خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآن کریم لایا ہے اور دار النجات

Page 328

287 66 میں داخل ہونے کیلئے درواز ہ لا الہ الاالله محمد رسول الله ہے.سچا مذہب (حجۃ الاسلام.روحانی خزائن.جلد 6 صفحہ 12-13) ”اے تمام وہ لوگو جو زمین پر رہتے ہو اور اے تمام وہ انسانی روحو جو مشرق اور مغرب میں آباد ہوئیں پورے زور کے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتا ہوں کہ اب زمین پر سچا مذ ہب صرف اسلام ہے اور سچا خدا بھی وہی خدا ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے اور ہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اور جلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفی سے ہے.( تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 140) قرآن کی خوبیاں مجھے خدا تعالیٰ نے اس چودھویں صدی کے سر پر اپنی طرف سے مامور کر کے دین متین اسلام کی تجدید اور تائید کیلئے بھیجا ہے تاکہ میں اس پر آشوب زمانہ میں قرآن کی خوبیاں اور حضرت رسول اللہ اللہ کی عظمتیں ظاہر کروں اور ان تمام دشمنوں کو جو اسلام پر حملہ کر رہے ہیں ان نوروں اور برکات اور خوارق اور علوم لدنیہ کی مدد سے جواب دوں جو مجھ کو عطا کئے گئے ہیں“.( برکات الدعا.روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 34) غلبه دین اس نے مجھے بھیجا کہ میں اسلام کو براہین اور حج ساطعہ کے ساتھ تمام ملتوں اور مذہبوں پر غالب کر کے دکھاؤں.اللہ تعالیٰ نے اس مبارک زمانہ میں چاہا کہ اس کا جلال ظاہر ہواب کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.( ملفوظات.جلد اوّل صفحہ 432، نیا ایڈیشن) تعلیمات حقہ کی اشاعت ” خداوند تعالیٰ نے اس احقر عباد کو اس زمانہ میں پیدا کر کے اور صد ہانشان آسمانی اور خوارق غیبی اور معارف و حقائق مرحمت فرما کر اور صدہا دلائل عقلیہ قطعیہ پر علم بخش کر یہ ارادہ فرمایا کہ تا تعلیمات حقہ قرآنی کو ہر قوم ہر ملک میں شائع اور رائج فرمادے اور اپنی حجت ان پر پوری کرئے“.( براہین احمدیہ.روحانی خزائن.جلد اوّل صفحہ 596)

Page 329

خوشخبری 288 زندہ مذہب وہ ہے جس کے ذریعہ سے زندہ خدا ملے.زندہ خدا وہ ہے جو ہمیں بلا واسطہ ملہم کر سکے اور کم سے کم یہ کہ ہم بلا واسطہ ملہم کو دیکھ سکیں.سو میں تمام دنیا کو خوشخبری دیتا ہوں کہ یہ زندہ خدا ( مجموعہ اشتہارات.جلد 2 صفحہ 311) اسلام کا خدا ہے.موسیٰ کا طور میں دیکھ رہا ہوں کہ بجز اسلام کے تمام مذاہب مُردے، ان کے خدامر دے اور وہ خود تمام پیرومر دے ہیں.اور خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق ہو جانا بجز اسلام قبول کرنے کے ہرگز ممکن نہیں.ہرگز ممکن نہیں.اے نادانوں تمہیں مُردہ پرستی میں کیا مزا ہے اور مردار کھانے میں کیا لذت.آؤ میں تمہیں بتلاؤں کہ زندہ خدا کہاں ہے اور کس قوم کے ساتھ ہے.وہ اسلام کے ساتھ ہے.اسلام اس وقت موسیٰ کا طور ہے جہاں خدا بول رہا ہے.وہ خدا جو نبیوں کے ساتھ کلام کرتا تھا اور پھر چپ ہو گیا.آج وہ ایک مسلمان کے دل میں کلام کر رہا ہے.(ضمیمہ انجام آتھم.روحانی خزائن.جلد 11 صفحہ 346-345) نور کے چشم میں صرف اسلام کو سچا مذہب سمجھتا ہوں اور دوسرے مذاہب کو باطل اور سراسر دورغ کا پتلا خیال کرتا ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ اسلام کے ماننے سے نور کے چشمے میرے اندر بہہ رہے ہیں اور محض محبت رسول اللہ ﷺ کی وجہ سے وہ اعلیٰ مرتبہ مکالمہ الہیہ اور اجابت دعاؤں کا مجھے حاصل ہوا ہے جو کہ بجز سچے نبی کے پیرو کے اور کسی کو حاصل نہیں ہو سکے گا اور مجھے دکھلایا اور بتایا گیا اور سمجھایا گیا ہے کہ دنیا میں فقط اسلام ہی حق ہے اور میرے پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ سب کچھ بہ برکت پیروی حضرت خاتم آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن.جلد 5 صفحہ 276-275) 66 الانبیا کہ تجھ کو ملا ہے.صرا یا مستقیم ”صراط مستقیم فقط دین اسلام ہے اور اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب

Page 330

289 ہے.یعنی حضرت محمد مصطفی ﷺ جو اعلیٰ و افضل سب نبیوں سے اور اتم و اکمل سب رسولوں سے خاتم الانبیاء اور خیر الناس ہیں.جن کی پیروی سے خدائے تعالیٰ ملتا ہے اور ظلماتی پر دے اُٹھتے ہیں اور اسی جہان میں سچی نجات کے آثار نمایاں ہوتے ہیں اور قرآن شریف سچی اور کامل ہدایتوں اور تا شیروں پر مشتمل ہے.(براہین احمدیہ.روحانی خزائن.جلد اوّل صفحہ 557) بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی اس بات کے مدعی ہیں کہ آپ وہی مسیح اور مہدی ہیں جن کے ظہور کے متعلق قرآن کریم ، احادیث نبویہ اور اقوال بزرگان اُمت میں پیشگوئیاں موجود ہیں اور آپ نے وہی مقام بیان فرمایا ہے جو ان پیش خبریوں میں آنے والے مسیح اور مہدی کا بیان کیا گیا ہے اور جماعت احمد یہ آپ کو آپ کے جملہ دعاوی میں سچا جانتی ہے.اس لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم، احادیث نبویہ اور اقوال بزرگان و علماء امت کی روشنی میں آنے والے مہدی اور مسیح کے مقام کی وضاحت کر دی جائے.

Page 331

290 مسیح و مہدی کا مقام اور قرآن شریف قرآن کریم کی سورۃ الجمعہ آیت 4,3 میں آنحضرت ﷺ کی دو بعثوں کا ذکر کیا گیا ہے.آپ کی پہلی بعثت عرب کے امتیوں میں ہوئی اور دوسری بعثت و اخـريـن مـنـهـم لـما يلحقوا بهم كے مطابق آخرین میں مقدر تھی.جب یہ آیات نازل ہوئیں تو صحابہ کرام نے آنحضرت ﷺ سے دریافت فرمایا کہ یہ آخرین کون لوگ ہیں جن میں حضور ﷺ کی دوسری بعثت ہوگی.اس پر آنحضرت ﷺ نے مجلس میں موجود حضرت سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمايالــو كـان الايمان معلقا بالثريا لنا له رجل او رجال من هؤلاء ( بخارى كتاب التفسير سورۃ الجمعہ).اگر ایمان ثریاستارے پر بھی چلا گیا تو ایک فارسی الاصل شخص یا اشخاص اس ایمان کو دوبارہ دنیا میں قائم کریں گے.پس اس آیت میں آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والے فارسی الاصل شخص کی بعثت کو آنحضرت ﷺ کی بعثت قرار دیا گیا ہے.گویا آنے والا موعود آنحضرت ﷺ کا حل کامل ہوگا.هو الذي ارسل رسوله بالهدى و دين الحق ليظهره على الدين.(الصف: 10) وہی خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر مبعوث فرمایا تا کہ وہ اسے تمام ادیان باطلہ پر غالب کر دے.اس آیت کی تفسیر میں مفسرین لکھتے ہیں کہ اسلام کا ادیان باطلہ پر غلبہ مسیح موعود کے زمانہ میں ظاہر ہوگا.اس آیت کے اصل مصداق آنحضرت ﷺ ہی ہیں.لیکن وہ موعود غلبہ مسیح اور مہدی کے زمانہ میں ظاہر ہونا تھا.اس لیے مسیح اور مہدی کو آنحضرت ﷺ سے جدا نہیں سمجھا گیا بلکہ اس کا آنا آنحضرت ﷺ کا آنا قرار دیا گیا.اس مفہوم کی وضاحت آنحضرت ﷺ کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے.جیسا کہ آپ نے فرمایایهلک الله فی زمانه الملل كلها الا الاسلام (ابوداود کتاب الملاحم باب خروج الدجال).امام مہدی کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ اسلام کے سوا باقی تمام ادیان کو مٹادے گا.پس اس آیت سے بھی پتہ چلتا ہے کہ امت میں ظاہر ہونے والے مسیح اور مہدی آنحضرت کے روحانی فرزند اور نل کامل ہوں گے.اس لیے اس کے زمانہ میں ظاہر ہونے والے غلبہ کو آنحضرت ﷺ کا غلبہ قراردیا گیا ہے.

Page 332

291 سیح اور مہدی کا مقام اور احادیث نبویہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں: مثل امتی مثل المطر لا يدرى اوله خير ام اخره (مشكوة كتاب الرقاق باب ثواب هذه الامته ) - کہ میری امت کی مثال اس بارش کی سی ہے کہ جس کے متعلق معلوم نہیں کہ اس کا اول حصہ بہتر ہے یا آخری حصہ.آنحضرت ﷺ نے اس حدیث میں امت کی مثال بارش سے دی ہے اور بتایا ہے کہ معلوم نہیں کہ اس کا اول زیادہ بہتر ہے یا آخر.آپ نے امت کی ابتداء کو بہتر تو اس بنا پر قرار دیا کہ آپ امت میں موجود تھے اور امت کے آخر کو بہتر قرار دینا اس بنا پر ہوسکتا ہے کہ آخری زمانہ میں امت میں آپ کے مظہر کامل مسیح اور مہدی نے ظاہر ہونا تھا.۲.آپ نے آخری زمانہ میں آنے والے مسیح موعود کو نبی اللہ کے خطاب سے نوازا.چنانچہ مسلم کی حدیث میں آپ کیلئے چار دفعہ نبی اللہ کا لفظ استعمال ہوا ہے.مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال وصفته ) ۳.آپ نے آنے والے موعود کی اطاعت کو اپنی اطاعت اور اس کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی قرار دیا.( بحارالانوار جلد 13 صفحہ 71) آپ نے آنے والے موعود کو قبول کرنے کی امت کو یہاں تک تاکید فرمائی کہ اگر برف کے پہاڑوں پر سے گھسٹ کر بھی جانا پڑے تو پھر بھی اسے قبول کرنا اور اس کی خدمت میں حاضر ہو کر میر اسلام پیش کرنا.(ابن ماجہ کتاب الفتن باب خروج المهدی) ۵.پھر آپ نے فرمایا کہ جس نے مہدی کو جھٹلایا اس نے گویا کفر کیا.حج الكرامه صفحه 351 از نواب محمد صدیق حسن خان - مطبع شاہجہانی بھوپال)

Page 333

292 سیح اور مہدی کا مقام اور علماء و بزرگان امت حضرت محمد بن سیرین : (33ھ تا 110ھ ) آپ امام مہدی کے بارہ میں فرماتے ہیں:.اس امت میں ایک خلیفہ ہو گا جو حضرت ابو بکر اور عمر سے بہتر ہوگا.کہا گیا کیا ان دونوں سے بہتر ہوگا.انہوں نے فرمایا کہ قریب ہے کہ وہ بعض انبیاء سے بھی افضل ہو“.بیج الکرامہ صفحہ 386 از نواب محمد صدیق حسن خان - مطبع شاہجہانی بھوپال) حضرت امام باقر علیہ السلام: (51ھ تا 114ھ) ”جب امام مہدی آئے گا تو یہ اعلان کرے گا کہ اے لوگو! اگر تم میں سے کوئی ابراہیم اور اسمعیل کو دیکھنا چاہتا ہے تو سن لے کہ میں ہی ابراہیم اور اسماعیل ہوں اور اگر تم میں سے کوئی موسیٰ اور یوشع کو دیکھنا چاہتا ہے تو سن لے کہ میں ہی موسیٰ اور یوشع ہوں.اور اگر تم میں سے کوئی عیسیٰ اور شمعون کو دیکھنا چاہتا ہے تو سن لے کہ عیسیٰ اور شمعون میں ہی ہوں اور اگر تم میں سے کوئی محمد مصطفی ﷺ اور امیر المومنین (علی) کو دیکھنا چاہتا ہے تو سن لے کہ محمد مصطفی ﷺ اور امیر المومنین میں ہی ہوں“.(بحارالانوار جلد نمبر 13 صفحه 202) حضرت امام عبدالرزاق کا شائی: (وفات 730ھ) آخری زمانہ میں جو امام مہدی آئیں گے وہ احکام شریعت میں آنحضرت ﷺ کے تابع ہوں گے اور معارف و علوم اور حقیقت میں آپ کے سوا تمام انبیاء اور اولیاء ان کے تابع ہوں گے.اور یہ بات ہمارے مذکورہ بیان کے خلاف نہیں ہے.کیونکہ امام مہدی کا باطن حضرت محمد مصطفی امیہ کا باطن ہوگا“.( شرح فصوص الحکم مطبع البابی الحلبی - صفحہ 42-43) عارف ربانی محبوب سبحانی سید عبدالکریم جیلانی: (767ھ تا 837ھ) اس (امام مہدی...ناقل) سے مراد وہ شخص ہے جو صاحب مقام محمدی ہے اور ہر کمال کی بلندی میں کامل اعتدال رکھتا ہے.(انسان کامل (اُردو) باب نمبر 61 مہدی کا ذکر صفحہ 375 نفیس اکیڈمی کراچی )

Page 334

293 حضرت ملا عبدالرحمن جامی: (817ھ تا 898ھ) حضرت نبی کریم ﷺ کا مشکوۃ باطن ہی محمدی ولایت خاصہ ہے اور وہی بجنسہ خاتم الاولیاء الله حضرت امام مہدی علیہ السلام کا مشکوۃ باطن ہے.کیونکہ امام موصوف آنحضرت ﷺ کے ہی مظہر کامل شرح فصوص الحکم ہندی از حضرت ملاعبدالرحمن جامی صفحہ 69) ہیں.حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی: (1114ھتا1175ھ ) امت محمدیہ میں آنے والے مسیح موعود کا یہ حق ہے کہ اس میں سید المرسلین ﷺ کے انوار کا انعکاس ہو.عامۃ الناس یہ گمان کرتے ہیں کہ جب وہ موعود دنیا میں آئے گا تو اس کی حیثیت محض ایک امتی کی ہوگی.ایسا ہر گز نہیں بلکہ وہ تو اسم جامع محمدی کی پوری تشریح ہو گا.اور اسی کا دوسرا نسخہ (TRUE COPY.ناقل ) ہوگا.پس اس کے اور ایک عام امتی کے درمیان بہت بڑا فرق ہے.الخیر الکثیر از حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی.صفحہ 72.مدینہ پر لیس بجنور ) شیخ محمد اکرم صابری صاحب نے 1310ھ میں لکھا: یعنی وہ محمد نے ہی تھے جنہوں نے آدم کی صورت میں دنیا کی ابتداء میں ظہور فرمایا.یعنی صلى الله ابتدائے عالم میں محمد مصطفی ﷺ کی روحانیت بروز کے طور پر حضرت آدم میں ظاہر ہوئی اور محمد ﷺہے ہی ہوں گے جو آخری زمانہ میں خاتم الولایت امام مہدی کی شکل میں ظاہر ہوں گے.یعنی محمد مصطفی امی یہ کی روحانیت مہدی میں ظہور اور بروز کرے گی“.(اقتباس الانوار از شیخ محمد اکرم صابری - صفحه 52) اُردو کے مشہور شاعر جناب امام بخش ناسخ : ( 1188ھ تا 1253ھ) اول و آخر کی نسبت ہوگی صادق یہاں صورت معنی شبیه مصطفی پیدا ہوا دیکھ کر اس کو کریں گے لوگ رجعت کا گماں یوں کہیں گے معجزے سے مصطفیٰ پیدا ہوا ( دیوان ناسخ - جلد دوم صفحہ 54 مطبع منشی نول کشور لکھنؤ 1923ء)

Page 335

294 بزرگ صوفی حضرت خواجہ غلام فرید : آف چاچڑاں شریف (1287ھ تا1319ھ) حضرت آدم صفی اللہ سے لے کر خاتم الولایت امام مہدی تک حضور حضرت محمد مصطفی امی بارز ہیں.پہلی بار آپ نے حضرت آدم علیہ السلام میں بروز کیا ہے...اس کے بعد دوسرے مشائخ عظام میں نوبت بہ نوبت بروز کیا ہے اور کرتے رہیں گے.حتی کہ امام مہدی میں بروز فرمائیں گے.پس حضرت آدم سے امام مہدی تک جتنے انبیاء اور اولیا، قطب مدار ہوئے ہیں تمام روح محمدی ہے کے مظاہر ہیں.( مقابیس المجالس صفحہ 419 - مقبوس نمبر 63.از مولا نارکن الدین.ترجمہ پاکستان واحد بخش سیال اسلامک بک فاؤنڈیشن لاہور صوفی فاؤنڈیشن بہاولپور) شیعہ مجتہد علی الحائری: ( 1288ھ تا1360ھ) حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حضرت مسیح پر افضلیت واضح اور ثابت ہے“.(غایۃ المقصود.جلد نمبر 2 صفحہ 38- از مولوی سید علی الحائری مطبع مشمس الہند لا ہور ) شیعہ مجتہد مولانا سید محمد سبطین صاحب نے 1335ھ میں لکھا:.صلى الله ” مہدی نفس رسول الله ﷺ و مظہر اوصاف رسول اللہ ﷺ ونائب خاص رسول اور آئینہ کمالات رسول مہ ہے اور ظہور انوار محمد و اوصاف و کمالات محمدی اس جناب پر موقوف ہے.پس چاہیے کہ وہ ہم شکل و ہم نام و هم کنیت و جز و نور محمدی خلق اور سیرت میں بھی مثل محمد ہوں بلکہ ایسا ہونا ضروری ولازمی ہے.الصراط السوی فی احوال المهدی صفحہ 409-از مولانا سید محمد سبطین ناشر مینجر البرہان بک ڈپو A-33 عمر روڈ اسلام پورہ لاہور ) قاری محمد طیب سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند : (1320ھ تا1403ھ) (i) چونکہ حضرت عیسوی کے وجود میں آنے کا باعث صورت محمد ی میں تمثل ہوا.ہوا ہے اور آپ حضور کے ابن تمثالی ثابت ہوتے ہیں.اس لیے الولد سر لابیہ کے اصول پر ذات عیسوی کو حضور کی ذات اقدس سے وہ خاص خصوصیات پیدا ہو گئیں جو قدرتی طور پر اور انبیاء علیہم السلام کو نہیں

Page 336

295 ہو سکتی تھیں.چنانچہ منصب خاتمیت ، طور مقبولیت، مقام عبدیت ، غلبه رحمت ،شان معصومیت، وضع علم و معرفت، نوعیت ہجرت و جہاد، حریت و مرتبه، مرتبه تکمیل عبادت ، درجه بشارت، مکامله قیامت وغیره جیسے اہم اور عظیم امور ہیں.اگر حضور کی ذات اقدس سے کسی کو کمال اشتراک و تناسب ثابت ہوتا ہے تو حضرت عیسیٰ کی ذات مقدس کو.تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام از قاری محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند.صفحہ 144 نفیس اکیڈمی) (ii) بہر حال اگر خاتمیت میں حضرت مسیح علیہ السلام کو حضور سے کامل مناسبت دی گئی تھی تو اخلاق خاتمیت اور مقام خاتمیت میں بھی مخصوص مشابہت و مناسبت دی گئی.جس سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت عیسوی کو بارگاہ محمدی سے خلقاً وطبعا و مقاماً ایسی ہی مناسبت ہے جیسی کہ ایک چیز کے دوشریکوں میں یا باپ بیٹوں میں ہونی چاہیے.( تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام از قاری محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند.صفحہ 129 نفیس اکیڈمی)

Page 337

296 حضرت مسیح موعود کے کارنامے زندہ خدا عطا کیا اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایمان اور یقین در حقیقت مذہب کی بنیاد اور روحانیت کا مرکزی نقطہ ہے.اس کے بغیر مذہب کا تصور ہی کالعدم ہو جاتا ہے.اسلام نے خدا تعالیٰ کی ہستی کو ایک زندہ حقیقت کے طور پر پیش کیا ہے جو اس ساری کائنات کا خالق و مالک اور رب العالمین ہے.اس خدا کا دیدار اس دنیا میں ممکن ہے.اسلام کا پیش کردہ خدا ایک زندہ اور حی و قیوم خدا ہے.اس کی ہستی کا ایک ثبوت یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کی دعائیں سنتا اور ان کا جواب دیتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہےادعونی استجب لكم (مؤمن : 61) کہ اے میرے بندو! مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں سنوں گا اور اسی خدا کا یہ وعدہ بھی ہے کہ اگر تمہارا ایمان سچا ہوگا اور تم استقامت کی چٹان پر پختگی سے قائم ہو گے تو تمہیں وحی والہام کی دولت عطا ہوگی اور تم فرشتوں سے ہمکلام ہو سکو گے.اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی.لیکن افسوس کہ جب اس دور آخرین میں مسلمانوں پر عقائد و اعمال میں کمزوری کا دور آیا تو انہوں نے ان پیاری تعلیمات کو یکسر فراموش کر دیا.مجیب الدعوات زندہ خدا پر ان کا ایمان اٹھ گیا.اللہ تعالیٰ کی لقاء اور وحی والہام کے منکر ہو گئے.یہ ساری باتیں جو قرآن مجید میں بڑی شوکت اور تحدی کے ساتھ بیان ہوئی ہیں اور جو دراصل اسلام کو سب مذاہب سے ممتاز کرتی ہیں.افسوس کہ اس دور کے مسلمان ان سب باتوں سے کلیہ نا آشنا ہو گئے.خدا تعالیٰ کی پیاری ہستی کا دار با تذکرہ ان کی مجالس سے مفقود ہونے لگا.کوئی نہ تھا جو خدا کے زندہ کلام کی بات کرتا ہو.قبولیت دعا کا ذکر بھی ایک قصہ پارینہ بن گیا.اس انتہائی تاریکی اور مایوسی کے عالم میں قادیان کی گمنام بستی سے یہ نعرہ تو حید بڑے جلال سے بلند ہوا.وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم اب بھی اس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار

Page 338

297 یہ پُرشوکت اعلان حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام کا تھا.آپ نے دل شکستہ مسلمانوں کو یہ نوید سنائی کہ ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے.جس کی پیاری صفات حسنہ میں سے کوئی صفت بھی مرور زمانہ سے معطل نہیں ہوئی.وہ آج بھی سنتا ہے جیسے پہلے سنتا تھا ، وہ آج بھی بولتا ہے جیسے پہلے بولتا تھا.فرمایا :- زندہ مذہب وہ ہے جس کے ذریعہ سے زندہ خدا ملے.زندہ خدا وہ ہے جو ہمیں بلا واسطہ اہم کر سکے اور کم سے کم یہ کہ ہم بلا واسطہ لہم کو دیکھ سکیں.سو میں تمام دنیا کو خوشخبری دیتا ہوں کہ یہ زندہ خدا اسلام کا خدا ہے.( مجموعہ اشتہارات مطبوعہ لندن 1984ء جلد 2 صفحہ 311) آپ نے اپنی ذات اور ذاتی تجربہ کو بطور ثبوت پیش کرتے ہوئے دنیا کو یہ خوشخبری عطا کی کہ دیکھو خدا نے مجھے اس نعمت سے سرفراز فرمایا ہے.آپ نے فرمایا : - ” خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق ہو جانا بجز اسلام قبول کرنے کے ہرگز ممکن نہیں.ہرگز ممکن نہیں آؤ میں تمہیں بتلاؤں کہ زندہ خدا کہاں ہے اور کس قوم کے ساتھ ہے.وہ اسلام کے ساتھ ہے.اسلام اس وقت موسیٰ کا طور ہے جہاں خدا بول رہا ہے.وہ خدا جو 66 نبیوں سے کلام کرتا تھا اور پھر چپ ہو گیا آج وہ ایک مسلمان کے دل میں کلام کر رہا ہے.(روحانی خزائن مطبوعہ لندن 1984 ء جلد 11 ضمیمہ انجام آتھم صفحہ 62) آپ کا یہ اعلان ایک انقلاب آفریں اعلان تھا جس نے مذہب کی دنیا میں ایک تہلکہ مچادیا.اللہ تعالیٰ کی ہستی کا یہ نقیب اور شاہد ایک مقناطیسی وجود ثابت ہوا جس کی طرف سعید فطرت لوگ قافلہ در قافلہ آنے لگے اور اس وجود کے فیضان سے سیراب ہو کر باخدا انسان بن گئے.یہ وہ گروہ قدوسیاں تھا جو ایک عالم کیلئے خدا نمائی کا وسیلہ بن گیا.احمدیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے دنیا پر احسان عظیم فرمایا کہ دنیا کو وہ برگزیده مسیح موعود اور امام مہدی عطا کیا جس نے دنیا کو زندہ خدا کی خوشخبری دی ، زندہ خدا کی زندہ تجلیات پر ایک زندہ ایمان اور محکم یقین بخشا.اپنی ذات کو ہستی باری تعالیٰ کے ایک زندہ گواہ کے طور پر پیش کیا اور اپنے ماننے والوں میں اپنی عظیم قوت قدسیہ کے ذریعہ ایسا پاکیزہ انقلاب پیدا کیا کہ وہ خدا نما وجود بن گئے.احمدیت نے

Page 339

298 ایسے خدا نما قدوسیوں کا ایک گروہ کثیر دنیا کو عطا فرمایا.جس کے زندگی بخش تجربات ہمیشہ نسل انسانی کیلئے خدا نمائی کے راستوں کو منور کرتے رہیں گے.ہزاروں مثالوں میں سے ایک مثال عرض کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی حضرت مولوی محمد الیاس خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ ریاست قلات کے قاضی القضاة عبدالعلی اخوند زادہ نے مستونگ کے ایک بڑے مجمع میں علی الاعلان آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا سارے صوبہ سرحد میں آپ کو کوئی روحانی پیر نہیں ملا جو آپ نے پنجاب جا کر ایک پنجابی مرزا غلام احمد قادیانی کی بیعت کر لی؟ حضرت مولوی صاحب نے جو برجستہ اور ایمان افروز جواب دیا وہ سننے سے تعلق رکھتا ہے.آپ نے فرمایا:- صلى الله دراصل بات یہ ہے کہ اخوند زادہ صاحب! مجھ سے میرا خدا گم ہو گیا تھا.میں ہر مذہب میں اس کو ڈھونڈتا رہا.ہر مذہب مجھے پرانے قصوں کی طرف لے جاتا.میں نے ہر ایک سے پوچھا کیا وہ خدا اب بھی بولتا ہے؟ تو وہ کہتے اب نہیں بولتا.مسلمانوں کے بہتر فرقوں میں سے ہر ایک کے پاس گیا تو انہوں نے بھی مجھے یہی جواب دیا کہ حضرت محمد مصطفیٰ ے کے بعد اب خدا نہیں بولتا.وحی کا دروازہ مطلق بند ہے.تب میں اس نتیجے پر پہنچا کہ خدا حقیقت نہیں ہے.بلکہ ایک فلسفہ ہے جو پرانے قصوں پر منحصر ہے.ورنہ اللہ تو وہ ہونا چاہیے جس کی تمام صفات حسنہ کی کان ہو، کوئی صفت بھی معطل نہ ہو.یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پہلے بولتا تھا اور اب اس کی صفت تکلم پر مہر لگ جائے.میں عنقریب دہر یہ ہونے والا تھا.پیچھے سے ایک نرم ہاتھ نے میرے کندھے کو پکڑا اور کہا کیوں محمد الیاس کیا بات ہے؟ کیوں پریشان ہے؟ میں نے کہا کہ خدا کی حقیقت معدوم ہوگئی ، وہ ایک فلسفہ ہے.حقیقت میں نہیں ہے.کیونکہ جس سے پوچھتا ہوں وہ یہی کہتا ہے کہ خدا پہلے بولا کرتا تھا اب نہیں بولتا.اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور یہ شخص حضرت مرزا غلام احمد قادیانی تھے اور کہا کہ آؤ میں تمہیں بتلاتا ہوں ، وہ خدا اب بھی بولتا ہے.شرط یہ ہے کہ تم میرے ہاتھ پر بیعت کرو.کیونکہ میں خدا کی طرف سے مسیح اور مہدی ہوں.وہ خدا تم پر بھی نازل ہو جائے گا.اگر چاہے تو تم سے

Page 340

299 بھی کلام کرے گا.اب عبد العلی اخوند زادہ صاحب ! میں خدا کی ذات کی قسم کھاتا ہوں ، جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا خدا مجھ سے بھی کلام کرتا ہے.میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کوئی ہے جو دعویٰ سے کہے کہ خدا اس سے بولتا ہے؟ تمام مجمع پر سناٹا چھا گیا اور کچھ دیر خاموشی رہی اور کسی طرف سے کوئی جواب نہ آیا تو مولوی صاحب نے فرمایا میں ایسے مسلک اور ایسے فرسودہ اسلام کو جو صرف رسومات و بدعات کا اسلام رہ گیا ہے کیا کروں؟ جس میں خدا کلام نہیں کرتا اور کیوں نہ مرزا غلام احمد قادیانی کے اسلام کو قبول کروں جو حقیقی اسلام ہے جس سے خدا ملتا ہے اور پیار اور محبت کے کلام سے نوازتا ہے.(حیات الیاس مصنفہ عبدالسلام خان - صفحہ 118) یہ ہے وہ زندہ خدا اور اس کی زندگی کا ایمان افروز تجر بہ جو حضرت مسیح موعود نے دنیا کو عطا کیا! قرآن مجید کا ارفع مقام قرآن کریم کی عظیم الشان نعمت امت مسلمہ کو عطا کی گئی.لیکن افسوس کہ حضرت مسیح موعود کے ظہور کے وقت علم و معرفت اور ہدایت کی سرچشمہ یہ کتاب محض ایک سر بستہ کتاب بن کر رہ گئی.اسے پرانے قصوں کی کتاب کہا جانے لگا.بعضوں نے حدیث رسول کو قول خدا پر ترجیح دینی شروع کر دی.کتنی بدنصیبی کہ جو کتاب معارف کا خزانہ اور هدى للناس بنائی گئی تھی ناقدرشناس مسلمان اس کی عظمت اور برکتوں سے کلیہ بے بہرہ ہو گئے.ایسے وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ظہور ہوا اور آپ نے قرآن مجید کے حقیقی حسن و جمال سے دنیا کو آگاہ کیا.آپ نے قرآن مجید کو ایک زندہ کتاب کے طور پر پیش کیا.آپ نے نسخ قرآن کے عقیدہ کا بطلان قوی دلائل سے کیا اور ثابت کیا کہ اس عظیم کتاب کا ایک ایک لفظ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس کا ایک شعشہ بھی قیامت تک منسوخ یا تبدیل نہیں ہو سکتا.یہ کتاب علوم و معارف کا خزانہ اور کل دنیا کی نجات کا سر چشمہ ہے.آپ نے فرمایا:- یقیناً یہ سمجھو کہ جس طرح یہ ممکن نہیں کہ ہم بغیر آنکھوں کے دیکھ سکیں یا بغیر کانوں کے سن سکیں یا بغیر زبان کے بول سکیں اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ بغیر قرآن کے اس پیارے

Page 341

300 محبوب کا منہ دیکھ سکیں.(روحانی خزائن مطبوعہ لندن 1984 ء جلد 10 ، اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ 128-129) آپ نے اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:.تمہارے لیے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے.جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے.جولوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا.نوع انسان کیلئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن.اور تمام آدم زادوں کیلئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی صلی اللہ ہے.(روحانی خزائن مطبوعہ لندن 1984ء، جلد 19ء، کشتی نوح صفحہ 15) قرآن مجید سے سچی محبت کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: - ر حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظلن تھے.سو تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو.ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو.(روحانی خزائن مطبوعہ لندن 1984ء جلد 19، کشتی نوح صفحہ 28) حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفائے کرام نے قرآن مجید کی ایسی عظیم الشان خدمت کی ، گراں قدر رموز معرفت بیان فرمائے اور اپنی جماعت میں خدمت قرآن اور عشق قرآن کا ایسا جذبہ پیدا کیا کہ غیروں نے بھی بر ملا اس کا اعتراف کیا.ایک معزز غیر احمدی صحافی میاں محمد اسلام نے مرکز احمدیت قادیان جا کر جو کچھ دیکھا اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- قرآن مجید کے متعلق جس قدر صادقانہ محبت اس جماعت میں میں نے قادیان میں دیکھی، کہیں نہیں دیکھی احمدی قادیان میں مجھے قرآن ہی قرآن نظر آیا....جس طرف نظر اٹھتی تھی قرآن ہی قرآن نظر آتا تھا.غرض قادیان کی احمدی جماعت...ایسی جماعت ہے جو دنیا میں عملاً قرآن مجید کی خالصہ اللہ پیرو اور اسلام کی فدائی ہے“.( بحوالہ البدر قادیان 13 مارچ 1913ء،جلد 13 نمبر 2 صفحہ 6 تا 9) احمدی سینوں میں قرآن مجید کی اس سچی محبت کا ایک ایمان افروز نمونہ پیش خدمت ہے کہ

Page 342

301 ہمارے ایک انگریز مخلص احمدی داؤ د سمر ز مرحوم نے ستر سال کی عمر میں بچی محبت اور عقیدہ سے قرآن مجید پڑھنا شروع کیا اور دس سپاروں سے اپنے دل کو منور کر چکے تھے کہ ان کو آخری بلا وا آ گیا! الغرض احمدیت نے غلط عقائد کی بیخ کنی کرتے ہوئے دنیا کو ان سچے عقائد ونظریات سے روشناس کرایا جو خدا تعالیٰ کی عظمت، اسلام کی شوکت اور رسول خداﷺ کی بلندشان کو ثابت کرنے والے تھے.اس طرح زمانہ کے حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کے چہرہ کو سب داغوں سے پاک وصاف کر دیا اور آپ کا مقصد بتمام و کمال پورا ہوا.آپ نے فرمایا :- ”خدا نے مجھے بھیجا ہے کہ تا میں اس بات کا ثبوت دوں کہ زندہ کتاب قرآن ہے اور زندہ دین اسلام ہے اور زندہ رسول محمد مصطفی یہ ہے.( مجموعہ اشتہارات مطبوعہ لندن 1984ء جلد سوم صفحہ 267،اشتہار 25 مئی 1900ء) ان تین بنیادی امور کے علاوہ حضرت مسیح موعود نے مسلمانوں میں مروجہ جن غلط عقائد کی اصلاح کی اور مسلمانوں کو صراط مستقیم کی راہ دکھائی ان میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کی آمد، دجال کی حقیقت، جہاد کا صحیح اسلامی تصور، توحید حقیقی ، قرآن و حدیث کا مقام ومرتبہ وغیرہ بے شمار امور ہیں جن کا تفصیلی ذکر جماعتی لٹریچر میں موجود ہے.قرآن کریم کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی فرماتے ہیں:- کلام الہی میں سے خاص طور پر قرآن کریم کے متعلق بہت سی غلطیاں لوگوں میں پھیلی ہوئی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو بھی دور کیا.مثلاً ( 1 ) ایک غلطی بعض مسلمانوں کو یہ لگی ہوئی تھی کہ وہ قرآن کریم کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اس میں تبدیلی ہوگئی ہے اور بعض حصے اس کے چھپنے سے رہ گئے ہیں.اس خیال کی بھی آپ نے تردید فرمائی اور بتایا کہ قرآن کریم مکمل کتاب ہے.انسان کی جتنی ضرورتیں مذہب سے تعلق رکھنے والی ہیں وہ سب اس میں بیان کر دی گئی ہیں.اگر اس کے بعض پارے یا حصے غائب ہو گئے ہوتے تو اس کی تعلیم میں ضرور کوئی کمی ہونی چاہیے تھی.اور ترتیب مضمون خراب ہو جانی چاہیے تھی.مگر نہ اس کی تعلیم میں کوئی نقص ہے اور نہ ترتیب میں خرابی.جس سے

Page 343

302 معلوم ہوا کہ قرآن کریم کا کوئی حصہ غائب نہیں ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.قرآن نے دعوی کیا اور چیلنج دیا ہے کہ اس میں ساری اخلاقی اور روحانی ضروریات موجود ہیں.لیکن اگر اس کا کوئی حصہ غائب ہوا ہوتا تو ضرور تھا کہ بعض ضروری اخلاقی یا روحانی امور کے متعلق اس میں کوئی ارشاد نہ ملتا.لیکن ایسا نہیں ہے.اس میں ہر ضرورت روحانی کا علاج موجود ہے اور اگر یہ سمجھا جائے کہ قرآن کریم کے ایک حصہ کے غائب ہو جانے کے باوجود اس کے مطالب میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی تو پھر تو جن لوگوں نے اس میں کمی کی ہے وہ حق بجانب تھے کہ انہوں نے ایسے لغو حصہ کو نکال دیا جس کی موجودگی نعوذ باللہ من ذالک قرآن کریم کے حسن میں کمی کر رہی تھی.اگر وہ موجود رہتا تو لوگ اعتراض کرتے کہ اس حصہ کا کیا فائدہ ہے اور اسے قرآن کریم میں کیوں رکھا گیا ہے.مجھے اس عقیدہ پر ایک واقعہ یاد آ گیا.میں چھوٹا سا تھا کہ ایک دن آدھی رات کے وقت کچھ شور ہوا اور لوگ جاگ پڑے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک آدمی کو بھیجا کہ جا کر دیکھو کیا بات ہے.وہ ہنستا ہوا واپس آیا اور بتایا کہ ایک دائی بچہ جنا کر واپس آرہی تھی کہ نانک فقیر اسے مل گیا اور اس نے اس کو مارنا شروع کر دیا.اس نے چیخنا چلانا شروع کیا اور لوگ جمع ہو گئے.جب انہوں نے نانک سے پوچھا کہ تو اسے کیوں ماررہا ہے؟ تو اس نے کہا کہ یہ میرے سرین کاٹ کر لے آئی ہے اس لیے اسے مار رہا ہوں.لوگوں نے اسے کہا کہ تیرے سرین تو سلامت ہیں انہیں تو کسی نے نہیں کاٹا.تو حیران ہو کر کہنے لگا اچھا.اور دائی کو چھوڑ کر چلا گیا.یہی حال ان لوگوں کا ہے جو قرآن کریم میں تغیر کے قائل ہیں.وہ غور نہیں کرتے کہ قرآن کریم آج بھی ایک مکمل کتاب ہے اگر اس کا کوئی حصہ غائب ہو گیا ہوتا تو اس کے کمال میں نقص آ جاتا.غرض قرآن کریم کے مکمل ہونے کا ثبوت خود قرآن کریم ہے.اگر حضرت عثمان یا اور کوئی صحابی اس کی ایک آیت بھی نکال دیتے تو اس میں کمی واقع ہو جاتی.لیکن تعجب ہے کہ باوجود اس بیان کے کہ اس سے دس پارے کم کر دیئے گئے اس میں کوئی نقص نظر نہیں آتا.اس صورت میں تو بڑے بڑے اہم مسائل ایسے ہونے چاہئیں تھے جن کے متعلق قرآن کریم میں کچھ ذکر نہ ہوتا.مگر قرآن کریم میں دین اور روحانیت سے تعلق رکھنے والی سب باتیں موجود ہیں (2) دوسرا خیال مسلمانوں میں یہ پیدا ہو گیا تھا کہ قرآن کا ایک حصہ منسوخ ہے.

Page 344

303 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا جواب نہایت لطیف پیرایہ میں دیا اور وہ اس طرح کہ جن آیات کو لوگ منسوخ قرار دیتے تھے ان میں ایسے ایسے معارف بیان فرمائے جن کو سن کر دشمن بھی حیران ہو گئے اور آپ کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق ایک آیت بھی قرآن کریم کی ایسی نہیں جس کی ضرورت ثابت نہ کی جاسکے اور اب وہی غیر احمدی جو بعض آیات کو منسوخ کہتے تھے دشمنان اسلام کے سامنے انہی آیات کو پیش کر کے اسلام کی برتری ثابت کرتے ہیں.مثلالـکـم ديـنـکـم ولــی دین (الکافرون :7) کی آیت جسے منسوخ کہا جاتا تھا اب اسی کو مخالفین کے سامنے پیش کیا جاتا ہے.(3) تیسری غلطی قرآن کریم کے متعلق لوگوں کو یہ لگ رہی تھی کہ اکثر حصہ مسلمانوں کا یہ خیال کرتا تھا کہ اس کے معارف کا سلسلہ پچھلے زمانہ میں ختم ہو گیا ہے.اس وہم کا ازالہ بھی آپ نے کیا اور اس کے خلاف بڑے زور سے آواز اٹھائی اور ثابت کیا کہ نہ صرف یہ کہ پچھلے زمانہ میں اس کے معارف ختم نہیں ہوئے بلکہ آج بھی ختم نہیں ہوئے اور آئندہ بھی ختم نہ ہوں گے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:- جس طرح صحیفۂ فطرت کے عجائب وغرائب خواص کسی پہلے زمانہ تک ختم نہیں ہو چکے بلکہ جدید در جدید پیدا ہوتے جاتے ہیں.یہی حال ان صحفِ مطہرہ کا ہے تا خدائے تعالیٰ کے قول اور فعل میں مطابقت ثابت ہو.(ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 158 روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 258) چنانچہ بہت سی پیشگوئیاں جو اس زمانہ کے متعلق تھیں اور جنہیں پہلے زمانہ کے لوگ نہیں سمجھتے تھے آپ نے قرآن کریم سے نکال کر سمجھا ئیں.مثلاً اذا العشار عطلت (التکویر: 5) کی پیشگوئی تھی.اس کے معنے پہلے لوگ یہی کرتے تھے کہ قیامت کے دن لوگ اونٹوں پر سوار نہ ہوں گے.مگر قیامت کو اونٹنی کیا کوئی چیز بھی کام نہ آئے گی.بات یہ ہے کہ چونکہ یہ کلام پیشگوئی پرمشتمل تھا اور اس زمانہ کے لوگوں کے سامنے وہ حالات نہ تھے جو اس کے صحیح معنے کرنے میں ممد ہوتے ہیں اس لئے انہوں نے اسے قیامت پر چسپاں کر دیا.اصل میں یہ آخری زمانہ کے متعلق خبر تھی کہ اس وقت ایسی سواریاں نکل آئیں گی کہ اونٹ بریکار ہو جائیں گے.وہ مولوی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہر ایک بات کی مخالفت کرتے ہیں ان کو بھی اگر موٹر کے مقابلہ میں اونٹ کی سواری ملے تو کبھی اس پر سوار نہ ہوں.اسی طرح مثلاً واذالوحوش حشرت (التکویر: 6) کی پیشگوئی ہے.یعنی وحوش جمع کر دیئے جائیں گے

Page 345

304 یعنی چڑیا گھر بنائے جائیں گے.چنانچہ اس زمانہ میں یہ پیشگوئی پوری ہوگئی.اسی طرح اس کا یہ بھی مطلب تھا کہ پہلے زمانہ میں قوموں کو ایک دوسرے سے وحشت تھی.آپس میں تنظر تھا.اب ایسا وقت آیا کہ ایک دوسرے سے تار اور ریل اور جہازوں کے ذریعہ ملنے لگ گئے ہیں.اسی طرح یہ پیشگوئی تھی کہ واذا البحار سجرت (التکویر: 8) کہ دریا خشک ہو جائیں گے.اس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ قیامت کے دن زلزلے آئیں گے اس وجہ سے دریا سوکھ جائیں گے.حالانکہ قیامت کے دن تو دنیا نے ہی تباہ ہو جانا تھا، دریاؤں کے سوکھنے کا کیا ذکر تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا مطلب یہ بتایا کہ دریاؤں کے سوکھنے سے مراد یہ تھی کہ ان میں سے نہریں نکالی جائیں گی.اسی طرح یہ پیشگوئی تھی کہ واذ النفوس زوجت (التکویر:8 ) مختلف لوگوں کو آپس میں ملا دیا جائے گا اس کے یہ معنے کئے جاتے تھے کہ قیامت کے دن سب لوگوں کو جمع کر دیا جائے گا.مرد و عورت اکٹھے ہو جائیں گے.حالانکہ قیامت کے دن تو اس زمین نے تباہ ہو جانا تھا.اس میں لوگوں کے اکٹھے ہونے کی کیا صورت ہو سکتی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی تشریح یہ فرمائی کہ ایسے سامان اور ذرائع نکلنے کی اس آیت میں پیشگوئی کی گئی تھی جن کے ذریعہ سے یہاں سے بیٹھا ہوا شخص دور دراز کے لوگوں سے باتیں کر سکے گا.اب دیکھ لو ایسا ہی ہو رہا ہے یا نہیں.اسی طرح آپ نے قرآن کریم کی مختلف آیات سے ثابت کیا کہ ان میں صحیح علوم طبعیہ کا ذکر موجود ہے.مثلاً والشمس وضحها والقمر اذا تلها (الشمس: 3-2) کی آیت میں اس طرح اشارہ کیا گیا ہے کہ چاند اپنی ذات میں روشن نہیں بلکہ سورج سے روشنی لیتا ہے.غرض آپ نے بیسیوں آیات سے بتایا کہ قرآن کریم میں مختلف علوم کی طرف اشارہ ہے.جنہیں ایک زمانہ کے ہی لوگ نہیں سمجھ سکتے.بلکہ اپنے اپنے وقت پر ان کی پوری سمجھ آ سکتی ہے.اسی طرح زمانہ جوں جوں ترقی کرتا جائے گا قرآن کریم میں سے نئے علوم نکلتے چلے جائیں گے.چنانچہ آج آپ کے بتائے ہوئے ان اصولوں کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم کا ایسا علم دیا ہے کہ کوئی اس کے مقابلے میں ٹھہر نہیں سکتا.دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کتنا بڑا تغیر کر دیا.آپ سے پہلے مولوی یہی کہا کرتے

Page 346

305 تھے کہ فلاں بات فلاں تفسیر میں لکھی ہے اور اگر کوئی نئی بات پیش کرتا تو کہتے بتاؤ یہ کس تفسیر میں لکھی ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتایا کہ جو خدا ان تفسیروں کے مصنفوں کو قرآن سکھا سکتا ہے وہ ہمیں کیوں نہیں سکھا سکتا.اور اس طرح ایک کنویں کے مینڈک کی حیثیت سے نکال کر آپ نے ہمیں سمندر کا تیراک بنا دیا.(4) چوتھی غلطی لوگوں کو یہ لگ رہی تھی کہ قرآن کریم کے مضامین میں کوئی خاص ترتیب نہیں ہے.وہ یہ نہ مانتے تھے کہ آیت کے ساتھ آیت اور لفظ کے ساتھ لفظ کا جوڑ ہے.بلکہ وہ بسا اوقات تقدیم و تاخیر کے نام سے قرآن کریم کی ترتیب کو بدل دیتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس خطر ناک نقص کا بھی ازالہ کیا اور بتایا کہ تقدیم وتاخیر بے شک جائز ہوتی ہے مگر کوئی یہ بتائے کہ کیا صحیح ترتیب سے وہ افضل ہوسکتی ہے.اگر ترتیب تقدیم و تاخیر سے اعلیٰ ہوتی تو قرآن کی طرف ادنی بات کیوں منسوب کرتے ہو؟ آپ نے آریوں کے مقابلہ میں دعویٰ کیا ہے کہ قرآن کریم میں نہ صرف معنوی بلکہ ظاہری ترتیب کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے.حتی کہ ناموں کو بھی زمانہ کے لحاظ سے ترتیب وار بیان کیا گیا ہے.سوائے اس کے کہ مضمون کی ترتیب کی وجہ سے انہیں آگے پیچھے کرنا پڑا ہو اور اس میں کیا شک ہے کہ معنوی ترتیب زبانی ترتیب پر مقدم ہوتی ہے.(5) پانچویں غلطی مسلمانوں میں بھی اور غیر مسلموں میں بھی مطالب قرآن کریم کے متعلق یہ پیدا ہو گئی تھی کہ قرآن کریم میں تکرار مضامین ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ ثابت کیا کہ قرآن کریم میں ہرگز تکرار مضامین نہیں بلکہ ہر لفظ جو آتا ہے وہ نیا مضمون اور نئی خوبی لے کر آتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کی آیتوں کو پھول سے تشبیہہ دی ہے.اب دیکھو کہ پھول میں بظاہر ہر نیا دائرہ پتیوں کا تکرار معلوم ہوتا ہے لیکن در حقیقت ہر دائرہ پھول کے حسن کی زنجیر کو کامل کر رہا ہوتا ہے.کیا پھول کی پتیوں کے ایک دائرہ کو اگر توڑ دیا جائے تو پھول کامل پھول رہے گا؟ نہیں.یہی بات قرآن کریم میں ہے.جس طرح پھول میں ہر پتی نئی خوبصورتی پیدا کرتی ہے اور خدا تعالیٰ پتیوں کی ایک زنجیر کے بعد دوسری بناتا ہے اور تب ہی ختم کرتا ہے جب حسن پورا ہو جاتا ہے.اسی طرح قرآن کریم میں ہر دفعہ کا مضمون ایک نئے مطلب اور نئی غرض کیلئے آتا ہے اور سارا

Page 347

306 قرآن کریم مل کر ایک کامل وجود بنتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: یہ خیال کرنا کہ قرآن کریم کی آیتیں ایک دوسری سے الگ الگ ہیں یہ غلط ہے.قرآن کریم کی آیتوں کی مثال ایسی ہی ہے جیسے جسم کے ذرات.اور سورتوں کی مثال ایسی ہے جیسے جسم کے اجزاء.مثلاً انسان کے 32 دانت ہوتے ہیں کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ دانتوں کو 32 دفعہ دہرایا گیا ہے.اس لیے 31 دانت توڑ ڈالنے چاہئیں اور صرف ایک رہنے دینا چاہیے.یا انسان کے دوکان ہیں.کیا کوئی ایک کان اس لیے کاٹ دے گا کہ دوسرا کان کیوں بنایا گیا ہے یا کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ انسان کی بارہ پسلیاں نہیں ہونی چاہئیں.گیارہ تو ڑ دینی چاہئیں.اگر کسی کی ایک پہلی بھی تو ڑ دے گا تو وہ ضرب شدید کا دعویٰ کر دے گا.اسی طرح انسان کے جسم پر لاکھوں بال ہیں.کیا کوئی سارے بال منڈوا کر ایک رکھ لے گا کہ تکرار نہ ہو.ذرا جسم سے تکرار دور کر دو اور پھر دیکھو کیا باقی رہ جاتا ہے؟ غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے مطالب بیان کر کے تکرار کا اعتراض کرنے والوں کو ایسا جواب دیا ہے کہ گویا ان کے دانت توڑ دیے ہیں.(6) چھٹی غلطی قرآن کریم کے متعلق مسلمانوں کو یہ لگ رہی تھی کہ قرآن کریم میں عبرت کیلئے پرانے قصے بیان کئے گئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس شبہ کا بھی ازالہ کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ قرآن کریم میں عبرت کیلئے قصے نہیں بیان کئے گئے.گو قصص قرآنیہ سے عبرت بھی حاصل ہوتی ہے.لیکن اصل میں وہ امت محمدیہ کیلئے پیشگوئیاں ہیں اور جو کچھ ان واقعات میں بیان کیا گیا ہے، وہ بعینہ آئندہ ہونے والا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم مسلسل قصہ نہیں بیان کرتا بلکہ منتخب ٹکڑا کا ذکر کرتا ہے.یہ امر ایسا بد یہی ہے کہ قرآن کریم کے نقص کی جزئیات تک پوری ہوتی رہی ہیں اور آئندہ پوری ہوں گی.حتی کہ نملہ کا ایک واقعہ قرآن کریم میں آتا ہے.اس کے متعلق تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہارون الرشید کے وقت ایسا ہی واقعہ پیش آیا.اس وقت بھی نملہ قوم کی حکمران ایک عورت تھی جیسے کہ حضرت سلیمان کے وقت میں تھی.اس نے ہارون الرشید کے آگے ایک سونے کی تھیلی پیش کی اور کہا کہ ہمیں اس بات کا فخر ہے کہ حضرت سلیمان کے وقت میں بھی ایک عورت نے ہی تحائف پیش کئے

Page 348

307 تھے.اب میں بھی عورت ہوں جو یہ پیش کر رہی ہوں اور اس طرح آپ کو سلیمان سے مشابہت حاصل ہوگئی ہے.ہارون الرشید نے بھی اس پر فخر کیا کہ اسے حضرت سلیمان سے تشبیہہ دی گئی.(7) ساتواں شبہ یہ پیدا ہو گیا تھا کہ قرآن کریم میں تاریخ کے خلاف باتیں ہیں.یہ محبہ مسلمانوں میں بھی پیدا ہو گیا تھا اور غیر مسلموں میں بھی.سرسید احمد جیسے لائق شخص نے بھی اس اعتراض سے گھبرا کر یہ جواب پیش کیا کہ قرآن کریم میں خطا بیات سے کام لیا گیا ہے.یعنی ایسے واقعات کو یا عقائد کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے جو گو صیح نہیں مگر مخاطب ان کی صحت کا قائل ہے.اس لیے اس کے سمجھانے کیلئے انہیں صحیح فرض کر کے پیش کر دیا گیا.لیکن یہ جواب در حقیقت حالات کو اور بھی خطرناک کر دیتا ہے.کیونکہ سوال ہوسکتا ہے کہ کس ذریعہ سے ہمیں معلوم ہوا کہ قرآن کریم میں کون سی بات خطابی طور پر پیش کی گئی ہے اور کون سی سچائی کے طور پر.اس دلیل کے ماتحت تو کوئی شخص سارے قرآن کو ہی خطابیات کی قسم کا قرار دے دے تو اس کی بات کا انکار نہیں کیا جاسکتا اور دنیا کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا.خطابی دلیل کیلئے ضروری ہے کہ خود مصنف ہی بتائے کہ وہ خطابی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مذکورہ بالا اعتراض کے جواب میں خطابیات کے اصول کو اختیار نہیں کیا بلکہ اسے رڈ کیا ہے.اور یہ اصل پیش کیا ہے کہ قرآن خدا تعالیٰ کا کلام ہے.اس عالم الغیب کی طرف سے جو کچھ بیان ہوا ہے وہ یقیناً درست ہے اور اس کے مقابلہ میں دوسری تاریخوں کا جو اپنی کمزوری پر آپ شاہد ہیں پیش کرنا بالکل خلاف عقل ہے.ہاں یہ ضروری ہے کہ قرآن کریم جو کچھ بیان کرتا ہے اس کے معنے خود قرآن کریم کے اصول کے مطابق کئے جائیں.اسے ایک قصوں کی کتاب نہ بنایا جائے اور اس کی پر حکمت تعلیم کو سطحی بیانات کا مجموعہ نہ سمجھ لیا جائے.(8) آٹھویں غلطی جس میں لوگ مبتلا ہورہے تھے یہ تھی کہ قرآن کریم بعض ایسے چھوٹے چھوٹے امور کو بیان کر دیتا ہے جن کا بیان کرنا علم وعرفان اور ارتقائے ذہن انسانی کیلئے مفید نہیں ہوسکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے بھی غلط ثابت کیا اور بتایا کہ قرآن کریم میں کوئی فضول امر بیان نہیں ہوا.بلکہ جس قدر مطالب یا واقعات بیان کئے گئے ہیں نہایت اہم ہیں.میں مثال کے

Page 349

308 طور پر حضرت سلیمان کے ایک واقعہ کو لیتا ہوں.قرآن کریم میں آتا ہے کہ انہوں نے ایک محل ایسا تیار کر ایا جس کا فرش شیشے کا تھا اور اس کے نیچے پانی بہتا تھا.ملکہ سبا جب ان کے پاس آئی تو انہوں نے اسے اس میں داخل ہونے کو کہا لیکن ملکہ نے سمجھا کہ اس میں پانی ہے اور وہ ڈری.مگر حضرت سلیمان نے بتایا کہ ڈرو نہیں یہ پانی نہیں بلکہ شیشہ کے نیچے پانی ہے.قرآن کریم کے الفاظ یہ ہیں.قيل لها ادخلي الصرح فلما راته حسبته لجة و كشفت عن ساقيها قال انه صرح ممرد من قوارير قالت رب انی ظلمت نفسی و اسلمت مع سليمن لله رب الـعـالـمـين (النمل: 45) یعنی سبا کی ملکہ کو حضرت سلیمان کی طرف سے کہا گیا کہ اس محل میں داخل ہو جا.جب وہ داخل ہوئی تو اسے معلوم ہوا کہ فرش کی بجائے گہرا پانی ہے اس پر اس نے اپنی پنڈلیوں کو نگا کر لیا یا یہ کہ وہ گھبرا گئی.تب حضرت سلیمان نے اسے کہا کہ تمہیں غلطی لگی ہے.یہ پانی نہیں.پانی نیچے ہے اور او پر شیشہ کا فرش ہے.تب اس نے کہا اے میرے رب ! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور اب میں سلیمان کے ساتھ سب جہانوں کے رب اللہ پر ایمان لاتی ہوں.مفسرین ان آیات کے عجیب و غریب معنی کرتے ہیں.بعض کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان اس سے شادی کرنا چاہتے تھے.مگر جنوں نے انہیں خبر کر دی تھی کہ اس کی پنڈلیوں پر بال ہیں.حضرت سلیمان نے اس کی پنڈلیاں دیکھنے کیلئے اس طرح کا محل بنوایا.مگر جب اس نے پاجامہ اٹھایا تو معلوم ہوا کہ اس کی پنڈلیوں پر بال نہیں ہیں.بعض کہتے ہیں کہ پنڈلیوں کے بال دیکھنے کیلئے حضرت سلیمان نے اس قدرا نتظام کیا کرنا تھا.اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے اس ملکہ کا تخت منگایا تھا.اس پر انہوں نے خیال کیا کہ میری ہتک ہوئی ہے کہ میں نے اس سے تخت مانگا.اس ہتک کو دور کرنے کیلئے آپ نے ایسا قلعہ بنوایا تا کہ وہ اپنی وقعت قائم کر سکیں.مگر کیا کوئی سمجھدار کہہ سکتا ہے کہ یہ باتیں ایسی اہم ہیں کہ خدا کے کلام اور خصوصاً آخری شریعت کے کامل کلام میں ان باتوں کا ذکر کیا جائے جن کا نہ دین سے تعلق ہے نہ عرفان سے.اور کیا یہ سمجھ میں آسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے نبی ایسے امور میں جن کو یہاں بیان کیا گیا ہے مشغول ہو سکتے ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس آیت کی تشریح فرمائی ہے کہ اس نے حقیقت کو ظاہر کر دیا

Page 350

309 ہے اور صاف طور پر ثابت ہو گیا ہے کہ قرآن کریم میں جو کچھ بیان ہوا ہے ایمان و عرفان کی ترقی کیلئے ہے.آپ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ملکہ سبا ایک مشرکہ عورت تھی اور سورج پرست تھی.حضرت سلیمان اسے سبق دینا چاہتے تھے اور شرک چھڑانا چاہتے تھے.پس آپ نے لفظوں میں دلیل دینے کے ساتھ یہ طریق بھی پسند کیا کہ عملاً اس کے عقیدہ کی غلطی اس پر ظاہر کریں اور اس کی ملاقات کیلئے ایک ایسا قلعہ کو تجویز کیا جس میں شیشہ کا فرش تھا اور نیچے پانی بہتا تھا.جب ملکہ اس فرش پر چلنے لگی تو اسے پانی کی ایک جھلک نظر آئی.جسے دیکھ کر اس نے اپنا لباس اونچا کرلیا.یا یہ کہ وہ گھبرا گئی ( کشف ساق کے دونوں ہی معنی ہیں).اس پر حضرت سلیمان نے اسے تسلی دی اور کہا کہ جسے تم پانی سمجھتی ہو یہ تو اصل میں شیشہ کا فرش ہے جس کے نیچے پانی ہے.چونکہ پہلے دلائل سے شرک کی غلطی اس پر ثابت کر چکے تھے اور اس نے فوراً سمجھ لیا کہ انہوں نے ایک عملی مثال دے کر مجھ پر شرک کی حقیقت کھول دی ہے اور وہ اس طرح کہ جس طرح پانی کی جھلک شیشہ میں سے تجھے نظر آئی ہے اور تو نے اسے پانی سمجھ لیا ہے ایسا ہی خدا تعالیٰ کا نورا جرام فلکی میں سے جھلکا ہے اور لوگ انہیں خدا ہی سمجھ لیتے ہیں.حالانکہ وہ خدا تعالیٰ کے نور سے نور حاصل کر رہے ہوتے ہیں.چنانچہ اس دلیل سے وہ فوراً متاثر ہوئی اور بے تحاشہ کہ اٹھی کہ اسلمت مع سليمان لله رب العالمین.میں اس خدا پر ایمان لاتی ہوں جو سب جہان کا رب ہے.یعنی سورج وغیرہ بھی اسی سے فیض حاصل کر رہے ہیں اور اصل فیض رساں وہی ایک ہے.اب دیکھو یہ کیسا اہم اور فلسفیانہ مضمون ہے اور اس پر ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے.مگر پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ بالوں والی پنڈلیاں دیکھنے کیلئے محل بنایا گیا تھا.کیا جن عورتوں کی پنڈلیوں پر بال ہوں ان کی شادی نہیں ہوتی ؟ اور نبی ایسے حالات میں مبتلا ہو سکتا ہے؟ غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے مضامین کی اہمیت کو قائم کیا اور اس کی طرف جو بے حقیقت امور منسوب کئے جاتے تھے ان سے اسے پاک قرار دیا.(9) نویں غلطی یہ لگ رہی تھی کہ بعض لوگ سمجھتے تھے کہ قرآن کریم کے بہت سے دعوے بے دلیل ہیں، انہیں دلائل سے ثابت نہیں کیا جاسکتا.مسلمان کہتے قرآن چونکہ اللہ کا کلام ہے اس لیے اس میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اسے ہم مانتے ہیں.اور دوسرے لوگ کہتے یہ بیہودہ باتیں ہیں، انہیں ہم

Page 351

310 - کس طرح مان سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتایا کہ قرآن کریم کا ہر ایک دعویٰ دلائل قاطع اپنے ساتھ رکھتا ہے اور قرآن اپنے ہر دعویٰ کی دلیل خود دیتا ہے اور فرمایا یہی بات قرآن کریم کو دوسری الہامی کتب سے ممتاز کرتی ہے.تم کہتے ہو قرآن کی باتیں بے دلیل ہیں.مگر قرآن میں یہی خصوصیت نہیں کہ اس کی باتیں دلائل سے ثابت ہو سکتی ہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی باتوں کے دلائل خود دیتا ہے.وہ کتاب کامل ہی کیا ہوگی جو ہمارے دلائل کی محتاج ہو.بات خدا بیان کرے اور دلائل ہم ڈھونڈیں.یہ تو ایسی ہی مثال ہوئی جیسے راجوں مہاراجوں کے درباروں میں ہوتا ہے کہ جب راجہ صاحب کوئی بات کرتے ہیں تو ان کے مصاحب ہاں جی ہاں جی کہہ کر اس کی تائید و تصدیق کرنے لگ جاتے ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعوی کیا کہ قرآن کریم کا کوئی دعوی ایسا نہیں جن کی دلیل بلکہ دلائل خود اس نے نہ دیئے ہوں اور اس مضمون کو آپ نے اس وسعت سے بیان کیا کہ دشمنوں پر اس کی وجہ سے ایک موت آ گئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا امرتسر میں عیسائیوں سے جو مباحثہ ہوا اور جنگ مقدس“ کے نام سے شائع ہوا، اس میں آپ نے عیسائیوں کے سامنے یہی بات پیش کی کہ فریقین جو دعویٰ کریں اس کا ثبوت اپنی الہامی کتاب سے دیں.اور پھر اس کے دلائل بھی الہامی کتاب سے ہی پیش کریں.عیسائی دلائل کیا پیش کرتے.وہ یہ دعوی بھی انجیل سے نہ نکل سکے کہ میں خدا کا بین ہے.حضرت خلیفتہ اسیح الاول فرماتے ہیں: ایک دفعہ میں گاڑی میں بیٹھا کہیں جارہا تھا کہ ایک عیسائی نے مجھ سے کہا.میں نے مرزا صاحب کا امرتسر والا مباحثہ دیکھا ہے مگر مجھے تو کوئی فائدہ نہ ہوا.آپ کے پاس ان کی صداقت کی کیا دلیل ہے؟ آپ نے فرمایا: یہی مباحثہ حضرت مرزا صاحب کی صداقت کی اور آپ کی سچائی کی دلیل ہے.عیسائی نے کہا وہ کس طرح؟ آپ نے فرمایا اس طرح کہ حضرت مرزا صاحب نے عیسائیوں کو کہا تھا کہ اپنا دعویٰ اور اس کے دلائل اپنی الہامی کتاب سے پیش کرو.مگر عیسائی اس کا کوئی جواب نہ دے سکے.اگر میں ہوتا تو اُٹھ کر چلا آتا.مگر میرا مرزا پندرہ دن تک عیسائیوں کی بیوقوفی کی باتیں سنتا رہا اور ان کو سمجھاتا رہا.یہ حضرت مرزا صاحب کا ہی حوصلہ تھا.(10) دسویں غلطی بعض لوگوں کو یہ لگی ہوئی تھی کہ قرآن کریم علوم یقینیہ کو رڈ کرتا اور ان کے خلاف باتیں بیان کرتا ہے.اس غلطی کو بھی آپ نے دور فر مایا اور بتایا کہ قرآن کریم ہی تو ایک

Page 352

311 کتاب ہے جو نیچر یا خدا کے فعل کو زور کے ساتھ پیش کرتی ہے اور اس کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے اور ظاہری سلسلہ یعنی نیچر کو باطنی سلسلہ کلام الہی کے مماثل قرار دیتی ہے.پس یہ کہنا غلط ہے کہ قرآن کریم علوم طبیعیہ کے خلاف باتیں کرتا ہے.خدا تعالیٰ کا کلام اور اس کا فعل ایک دوسرے کے کبھی خلاف نہیں ہو سکتے.جو امور قرآن کریم میں خلاف قانون قدرت قرار دیئے جاتے ہیں آپ نے ان کے متعلق فرمایا وہ دو حالتوں سے خالی نہیں ہیں.یا تو یہ کہ جس بات کو لوگوں نے قانون قدرت سمجھ لیا ہے وہ قانون قدرت نہیں.یا پھر قرآن کریم کے جو معنے سمجھے گئے ہیں وہ درست نہیں.چنانچہ آپ نے یہی مثال دی ہے کہ والسماء ذات الرجع والارض ذات الصدع (الطارق: 13-12) کے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ آسمان چکر کھا تا ہے اور زمین پھٹتی ہے اور اس پر طبیعی لوگوں نے یہ اعتراض کیا کہ آسمان کوئی مادی شے ہی نہیں، پھر وہ کیونکر چکر لگاتا ہے اور اگر مادی وجود ہو بھی تو بھی زمین چکر کھاتی ہے نہ کہ آسمان.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کے متعلق فرماتے ہیں.سماء کے معنی بادل کے بھی ہیں اور رجع کے معنے بار بار آنے کے.پس اس آیت کے یہ معنے نہیں کہ آسمان چکر کھاتا ہے بلکہ یہ ہیں ہم شہادت کے طور پر بادلوں کو پیش کرتے ہیں.جو بار یک خشک زمین کو سیراب کرنے کیلئے آتے ہیں.پھر زمین کو پیش کرتے ہیں جو بارش ہونے پر پھٹتی ہے یعنی اس سے کھیتی نکلتی ہے.شہادت کے طور پر ان چیزوں کو پیش کر کے بتایا گیا ہے کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے بادلوں کا سلسلہ پیدا کیا ہے کہ وہ بار بار آتے ہیں اور زمین کی شادابی کا موجب ہوتے ہیں اور ان کے بغیر سرسبزی اور شادابی ناممکن ہے.اسی طرح روحانی سلسلہ کا حال ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے بادل نہیں بھیجتا اور اپنے کلام کا پانی نہیں برسا تازمین کی پھوٹنے کی قابلیت ظاہر نہیں ہوتی.لیکن جب آسمان سے پانی نازل ہوتا ہے تب جا کر انسانی ذہن بھی اپنی قابلیت کو ظاہر کرتا ہے اور آسمانی کلام کی مدد سے بار یک در بار یک مطالب روحانیہ کو پیدا کرنے لگتا ہے.چنانچہ ان آیات کا سیاق بھی انہی معنوں پر دلالت کرتا ہے.کیونکہ آگے فرمایا ہے کہ انہ لقول فصل وما هو بالهزل (الطارق : 15-14) یعنی پہلی بات سے یہ امر ثابت ہے کہ قرآن کریم کوئی لغو بات نہیں بلکہ حقیقت کو ثابت کرنے والا کلام ہے.کیونکہ اس زمانہ میں بھی زمین خشک ہورہی تھی اور دینی علوم سے لوگ بہرہ ور تھے.پس ضرورت تھی کہ خدا کی رحمت کا بادل کلام الہی کی صورت میں برستا اور لوگوں کی روحانی خشکی کو دور کرتا.

Page 353

312 اسی طرح آپ نے بتایا کہ دیکھو قرآن کریم کے زمانہ کے لوگوں کا خیال تھا کہ آسمان ایک ٹھوس چیز ہے اور ستارے اس میں جڑے ہوئے ہیں.مگر یہ تحقیق واقعہ کے خلاف تھی.قرآن کریم نے اس زمانہ میں ہی اس کو رڈ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ کل فی فلک یسبحون (یس : 41).سیارے ایک آسمان میں جو ٹھوس نہیں ہیں بلکہ ایک لطیف مادہ ہے جسے سیال سے نسبت دی جاسکتی ہے اور سیارے اس میں اس طرح گردش کرتے ہیں جیسے کہ تیراک پانی میں تیرتا ہے.موجودہ تحقیق میں ایتھر کا بیان بالکل اس بیان کے مشابہ ہے.اسی طرح آپ نے فرمایا کہ خلق منها زوجها (النساء: 60 ) کے یہ معنے کئے جاتے ہیں کہ آدم کی پہلی سے خدا تعالیٰ نے حوا کو پیدا کیا اور اس پر اعتراض کیا جاتا ہے.حالانکہ یہ معنی ہی غلط ہیں.قرآن کریم میں یہ نہیں کہا گیا کہ حوا آدم کی پسلی سے پیدا ہوئی بلکہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ حوا آدم ہی کی جنس سے پیدا کی گئی.یعنی جن طاقتوں اور جذبات کو لے کر مرد پیدا ہوا، انہی طاقتوں اور جذبات کو لے کر عورت پیدا ہوئی.کیونکہ اگر مرد اور عورت کے جذبات ایک نہ ہوتے تو ان میں حقیقی انس پیدا نہ ہوسکتا تھا.بلکہ اگر مرد میں شہوت رکھی جاتی اور عورت میں نہ ہوتی تو کبھی ان میں اتحاد پیدا نہ ہوتا اور ایک دوسرے سے سر پھٹول ہوتا رہتا.پس جیسے جذبات مرد میں رکھے گئے ہیں ایسے ہی عورت میں بھی رکھے گئے ہیں تا کہ وہ آپس میں محبت سے رہ سکیں.اب دیکھو یہ مسئلہ مردو عورت میں کیسا صلح اور محبت کر نیوالا ہے.جب کوئی مرد عورت سے بلا وجہ ناراض ہو تو اسے کہیں گے جیسے تمہارے جذبات ہیں ایسے ہی عورت کے جذبات بھی ہیں.جس طرح تم نہیں چاہتے کہ تمہارے جذبات کو ٹھیس لگے، اسی طرح وہ بھی نہیں چاہتی ہے کہ اس کے جذبات کو پامال نہ کیا جائے.پس تمہیں بھی اس کا خیال رکھنا چاہیے.اسی طرح آپ نے فرمایا بعض لوگ کہتے ہیں کہ الذی خلق السموت والارض وما بينهما في ستة ايام ثم استوى على العرش الرحمن فسئل به خبيرا (الفرقان: 60) سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان اور زمین چھ دن میں پیدا کئے گئے اور پھر خدا عرش پر قائم ہو گیا.مگر یہ غلط ہے کیونکہ زمین و آسمان لاکھوں سال میں پیدا ہوئے ہیں.یہ جیالوجی سے ثابت ہے لیکن حق یہ ہے کہ لوگ

Page 354

313 خود آیت قرآنیہ کو نہیں سمجھتے.ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ زمین و آسمان کتنے سالوں میں بنے مگر یہ جانتے ہیں کہ چھ دنوں میں نہیں بنے.کیونکہ یوم تو سورج سے بنتے ہیں.مگر جب سورج ہی نہ تھا تو یہ دن کہاں سے آگئے؟ یوم کے معنے ایک اندازہ وقت کے ہیں.قرآن کریم میں یوم ایک ہزار سال کا بھی اور پچاس ہزار سال کا بھی آیا ہے.پس اس آیت میں چھ لمبے زمانوں میں زمین و آسمان کی پیدائش مراد ہے.(11) گیارہویں لوگ قرآن کریم کی تفسیر کرنے میں غلطی کیا کرتے تھے.آپ نے ایسے اصول پر تفسیر قرآن کریم کی بناء رکھی کہ غلطی کا امکان بہت ہی کم ہو گیا ہے.ان اصول کے ذریعہ سے ہی خدا تعالیٰ نے آپ کے اتباع پر قرآن کریم کے ایسے معارف کھولے ہیں جو اور لوگوں پر نہیں کھلے.چنانچہ میں نے بھی کئی مرتبہ اعلان کیا ہے کہ قرآن کریم کا کوئی مقام کسی بچہ سے کھلوایا جائے یا قرعہ ڈال لیا جائے پھر اس جگہ کے معارف میں بھی لکھوں گا، دوسری کسی جماعت کا نمائندہ بھی لکھے.پھر معلوم ہو جائے گا کہ خدا تعالیٰ کس کے ذریعہ قرآن کریم کے معارف ظاہر کراتا ہے مگر کسی نے یہ بات منظور نہ کی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو اصول تفسیر بیان کئے ہیں وہ یہ ہیں :- (1) آپ نے بتایا کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کا راز ہے اور راز ان پر کھولے جاتے ہیں جو خاص تعلق رکھتے ہیں.اس لیے قرآن کریم سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ انسان خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرے.مگر یہ عجیب بات ہے کہ قرآن کریم کی تفسیریں جن لوگوں نے لکھی ہیں وہ نہ صوفی تھے نہ ولی بلکہ عام مولوی تھے، جو عربی جاننے والے تھے.ہاں انہوں نے بعض آیتوں کی تفسیر میں لکھی ہیں اور نہایت لطیف تفسیر میں لکھی ہیں.جیسا کہ حضرت محی الدین صاحب ابن عربی کی کتب میں آیات قرآنیہ کی تفسیر آتی ہے.تو ایسی لطیف ہوتی ہے کہ دل اس کی صداقت کا قائل ہو جاتا ہے.غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتایا ہے کہ قرآن کریم سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ تعلق باللہ حاصل ہو.(۲) دوسرا اصل آپ نے بتایا ہے کہ قرآن کریم کا ہر ایک لفظ ترتیب سے رکھا گیا ہے.اس نکتہ سے قرآن کریم کی تفسیر آسان بھی ہوگئی ہے اور اس کے لطیف معارف بھی کھلتے ہیں.پس چاہیے کہ جب کوئی قرآن کریم پر غور کرے تو اس بات کو مد نظر رکھے کہ خدا تعالیٰ نے ایک لفظ کو پہلے کیوں رکھا ہے اور دوسرے کو بعد میں کیوں.جب وہ اس پر غور کرے گا تو اسے حکمت سمجھ میں آجائے گی.

Page 355

314 (۳) قرآن کریم کا کوئی لفظ بے مقصد نہیں ہوتا اور کوئی لفظ زائد نہیں ہوتا.ہر لفظ کسی خاص مفہوم میں اور مطلب ادا کرنے کیلئے آتا ہے.پس کسی لفظ کو یونہی نہ چھوڑو.(۴) جس طرح قرآن کریم کا کوئی لفظ بے معنی نہیں ہوتا.اسی طرح وہ جس سیاق و سباق میں آتا ہے وہیں اس کا آنا ضروری ہوتا ہے.پس معنے کرتے وقت پہلے اور پچھلے مضمون کے ساتھ تعلق سمجھنے کی ضرور کوشش کرنی چاہیے.اگر سیاق و سباق کا لحاظ نہ رکھا جائے تو معنے کرنے میں غلطی ہوتی ہے.(۵) قرآن کریم اپنے ہر دعویٰ کی دلیل خود بیان کرتا ہے.اس کے متعلق مفصل پہلے بیان کر آیا ہوں.آپ نے فرمایا جہان قرآن کریم میں کوئی دعوی ہو وہاں اس کی دلیل بھی تلاش کرو ضر ورمل جائے گی.(۲) قرآن اپنی تفسیر آپ کرتا ہے.جہاں کہیں کوئی بات نامکمل نظر آئے اس کے متعلق دوسرا ٹکڑا دوسری جگہ تلاش کرو جو ضر ورمل جائے گا اور اس طرح وہ بات مکمل ہو جائے گی.(2) قرآن کریم میں تکرار نہیں.اس کے متعلق میں تفصیلاً پہلے بیان کر آیا ہوں.(۸) قرآن کریم میں محض قصے نہیں ہیں.بلکہ ہر گزشتہ واقعہ پیشگوئی کے طور پر بیان ہوا ہے.یہ بھی پہلے بیان کر چکا ہوں.(۹) قرآن کریم کا کوئی حصہ منسوخ نہیں.پہلے لوگوں کو جو آیت سمجھ نہ آتی تھی اس کے متعلق کہہ دیتے تھے کہ وہ منسوخ ہے اور اس طرح انہوں نے قرآن کریم کا بہت بڑا حصہ منسوخ قرار دے دیا.ان کی مثال ایسی ہی تھی جیسے کہتے ہیں کسی شخص کو خیال تھا کہ وہ بڑا بہادر ہے.اس زمانہ میں بہادر لوگ اپنا کوئی نشان قرار دے کر اپنے جسم پر گدواتے تھے.اس نے اپنا نشان شیر قرار دیا اور اسے باز و پر گدوانا چاہا.وہ گودنے والے کے پاس گیا اور اسے کہا کہ میرے باز و پر شیر کا نشان گوددو.جب وہ گود نے لگا اور سوئی چھوٹی تو اسے درد ہوئی اور اس نے پوچھا کیا چیز گودنے لگے ہو.گودنے والے نے کہا شیر کا کان بنانے لگا ہوں.اس نے کہا اگر کان نہ ہو تو کیا اس کے بغیر شیر شیر نہیں رہتا؟ گودنے والے نے کہا کہ نہیں.پھر بھی شیر ہی رہتا ہے.اس نے کہا اچھا تب کان کو چھوڑ دو.اسے بھی پہلے بہانہ

Page 356

315 سے چھڑا دیا.اسی طرح جو حصہ وہ گود نے لگتا وہی چھڑا دیتا.آخر گودنے والے نے کہا کہ اب تم گھر جاؤ.ایک ایک کر کے سب حصے ہی ختم ہو گئے ہیں.یہی حال قرآن کریم میں ناسخ و منسوخ مانے والوں کا تھا.گیارہ سو آیات انہوں نے منسوخ قرار دے دیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتایا کہ قرآن کریم کا ایک لفظ بھی منسوخ نہیں ہے اور جن آیات کو منسوخ کہا جاتا تھا ان کے نہایت لطیف معافی اور مطالب بیان فرمائے.(۱۰) ایک گر آپ نے قرآن کریم کے متعلق یہ بیان فرمایا کہ خدا تعالیٰ کا کلام اور اس کی سنت آپس میں مخالف نہیں ہو سکتے.آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے کلام کی سائنس مخالف نہیں ہوتی.کیونکہ سائنس بعض اوقات خود غلط بات پیش کرتی ہے اور اس کی غلطی ثابت ہو جاتی ہے.بلکہ فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی سنت اس کے کلام کے خلاف نہیں ہوتی.ہاں یہ ممکن ہے کہ جس طرح کلام الہی کے سمجھنے میں لوگ غلطی کر جاتے ہیں اسی طرح فعل الہی کے سمجھنے میں بھی غلطی کر جائیں.(11) آپ نے یہ بھی بتایا کہ عربی زبان کے الفاظ مترادف نہیں ہوتے.بلکہ اس کے حروف بھی اپنے اندر مطالب رکھتے ہیں.پس ہمیشہ معانی پر غور کرتے ہوئے اس فرق کو ملحوظ رکھنا چاہیے جو اس قسم کے دوسرے الفاظ میں پائے جاتے ہیں تا کہ وہ زائد بات ذہن سے غائب نہ ہو جائے جو ایک خاص لفظ کے چنے میں اللہ تعالیٰ نے مد نظر رکھی تھی.(۱۲) قرآن کریم کی سورتیں بمنزلہ اعضاء انسانی کے ہیں.جو ایک دوسرے سے مل کر اور ایک دوسرے کے مقابل پر اپنے کمال ظاہر کرتی ہیں.آپ نے فرمایا: کسی بات کو سمجھنا ہو تو سارے قرآن پر نظر ڈالنی چاہیے.ایک ایک حصہ کو الگ الگ نہیں لینا چاہیے.(13) تیرھویں غلطی لوگوں کو یہ لگی ہوئی تھی کہ وہ سمجھتے تھے قرآن کریم احادیث کے تابع ہے.حتی کہ یہاں تک کہتے تھے کہ احادیث قرآن کی آیات منسوخ کر سکتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس غلطی کو اس طرح دور کیا کہ آپ نے فرمایا قرآن کریم حاکم ہے اور احادیث اس کے تابع ہیں.ہم صرف وہی حدیث مانیں گے جو قرآن کریم کے مطابق ہوں گی ، ورنہ رد کر دیں گے.اسی طرح وہ حدیث جو قانون قدرت کے مطابق ہو وہ قابل تسلیم ہوگی.کیونکہ خدا تعالیٰ کا کلام اور اس کا فعل مخالف نہیں ہو سکتے.

Page 357

316 (14) چودھواں نقص لوگوں میں یہ پیدا ہوگیا تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ قرآن کریم ایک مجمل کتاب ہے.جس میں موٹی موٹی باتیں بیان کی گئی ہیں.اخلاقی ، تمدنی ، معاشرتی باتوں کی تفصیل اس میں نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے متعلق یہ دعوی کیا کہ قرآن کریم ایک مکمل کتاب ہے جس نے روحانیت، معادیات، تمدنیات، سیاسیات اور اخلاقیات کے متعلق جتنے امور روحانی ترقی کیلئے ضروری ہیں، وہ سارے کے سارے بیان کر دیئے ہیں اور فرمایا میں یہ سب باتیں نکال کر دکھانے کیلئے تیار ہوں.(15) پندرھویں غلطی یہ لوگوں کوگی ہوئی تھی کہ قرآن کریم کی بعض تعلیمیں وقتی اور عرب کی حالت اور اس زمانہ کے مطابق تھیں.اب ان میں تبدیلی کی جاسکتی ہے.چنانچہ سید امیر علی جیسے لوگوں نے لکھ دیا کہ فرشتوں کا اعتقاد اور کثرت ازدواج کی اجازت ایسی ہی باتیں ہیں.دراصل یہ لوگ عیسائیوں کے اعتراضوں سے ڈرتے تھے اور اس ڈر کی وجہ سے لکھ دیا کہ یہ باتیں عربوں کیلئے تھیں ہمارے لئے نہیں ہیں.اب ان کو چھوڑ ا جا سکتا ہے..حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: یہ بات غلط ہے.قرآن کریم کے سارے احکام صحیح اور کوئی حکم وقتی نہیں.سوا اس کے جس کے متعلق قرآن کریم نے خود بتا دیا ہو کہ یہ فلاں وقت اور فلاں موقع کیلئے حکم ہے.آپ نے بتایا کہ رسول کریم ﷺ آخری شریعت لانے والے تھے.اس لئے سب تعلہ قرآن کریم میں موجود ہیں اور ہر زمانہ کیلئے ہیں.ہاں ان تعلیموں پر عمل کرنے کے اوقات خود اس نے بتا دیئے ہیں اور قرآن کریم کی کوئی ایسی تعلیم نہیں ہے جس پر عمل ہمیشہ کیلئے بند ہو یا ایسی کوئی تعلیم نہیں ہے جس پر کوئی عمل نہ کر سکے اور تفصیلاً آپ نے ان اعتراضوں کو دور کیا جو ملائکہ اور کثرت ازدواج اور ایسے ہی دوسرے مسائل پر پڑتے تھے.(16) سولہویں غلطی لوگوں کو یہ لگ رہی تھی کہ وہ قرآن کریم کو ایک متبرک کتاب قرار دیتے تھے اور روز مرہ کام آنے والی کتاب نہیں سمجھتے تھے.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی تلاوت اور اس کے مطالب پر غور کرنے کی طرف سے وہ بالکل بے پرواہ ہو گئے تھے.خوبصورت جُز دانوں میں لپیٹ کر قرآن کریم کو رکھ دینا یا خالی لفظ پڑھ لینا کافی سمجھتے تھے.کہیں قرآن کریم کا درس نہ ہوتا تھا حتی کہ اس

Page 358

317 کا ترجمہ تک نہیں پڑھایا جا تا تھا.ترجمہ کیلئے سارا دارومدار تفسیروں پر تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی اس زمانہ میں وہ شخص ہوئے ہیں جنہوں نے قرآن کو قرآن کر کے پیش کیا اور توجہ دلائی کہ قرآن کا ترجمہ پڑھنا چاہیے.آپ سے پہلے قرآن کا کام صرف یہ سمجھا جاتا تھا کہ جھوٹی قسمیں کھانے کیلئے استعمال کیا جائے یا مر دوں پر پڑھا جائے.یا اچھا خوبصورت غلاف چڑھا کر طاق میں رکھ دیا جائے.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ شاعروں نے خدا تعالیٰ کی حمد اور رسول کریم ﷺ کی نعت میں تو بے شمار نظمیں لکھیں ہیں مگر قرآن کریم کی تعریف میں کسی نے بھی کوئی نظم نہیں لکھی.پہلے انسان حضرت مرزا صاحب ہی تھے جنہوں نے قرآن کی تعریف میں نظم لکھی اور فرمایا جمال و حسن قرآن نور جان ہر مسلماں ہے قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے لوگوں نے رسول کریم ﷺ کی نعت پڑھنی ہوتی ہے تو وہ انہیں مل جاتی ہے.خدا تعالیٰ کی حمد کے شعر پڑھنے ہوتے ہیں تو وہ انہیں مل جاتے ہیں مگر قرآن کریم کی تعریف میں انہیں نظم نہیں ملتی اور دشمن سے دشمن بھی حضرت مسیح موعود کے اشعار پڑھنے پر مجبور ہوتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے کہ مرزا صاحب خود تو بُرے تھے مگر یہ شعر انہوں نے اچھے کہے ہیں.آپ کے کلام کو پڑھنے لگ جاتے ہیں اور اس طرح ثابت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صحیح معنوں میں قرآن کریم کو ثریا سے لائے ہیں.(انوار العلوم جلد 10 صفحہ 145 تا 161) ہیں:.ملائکہ سے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ ملائکہ کے متعلق جو غلط نہیں تھیں نہیں آپ نے دور کیا ہے.حضرت خلیفہ لمسیح الثانی فرماتے (1) بعض لوگ کہتے تھے کہ قوائے انسانی کا نام ملائکہ رکھا گیا ہے.ورنہ خدا تعالیٰ کو ملائکہ کی کیا ضرورت ہے.آپ نے اس شبہ کا بہ زور رڈ کیا اور بتایا کہ ملائکہ کا وجود وہی نہیں ہے بلکہ وہ کارخانہ عالم میں ایک مفید اور کار آمد وجود ہیں.آپ نے فرمایا کہ:

Page 359

318 (الف) ملائکہ کی ضرورت اللہ تعالیٰ کو نہیں ہے مگر ان کا وجود انسانوں کیلئے ضروری ہے.جس طرح خدا تعالیٰ بغیر کھانے کے انسان کا پیٹ بھر سکتا ہے ،لیکن اس نے کھانا بنایا.بغیر سانس کے زندہ رکھ سکتا تھا مگر اس نے ہوا بنائی.بغیر پانی کے سیر کر سکتا تھا مگر اس نے پانی کو بنایا.بغیر روشنی کے دکھا سکتا تھا مگر اس نے روشنی بنائی.بغیر ہوا کے سنا سکتا تھا مگر آواز کو پہنچانے کیلئے اس نے ہوا بنائی اور اس کے اس کام پر کوئی اعتراض نہیں.اسی طرح اس نے اگر اپنا کلام پہنچانے کیلئے ملائکہ کا وجود بنایا تو حاجت اور ضرورت کا سوال کیوں پیدا ہو گیا؟ باقی ذرائع کے پیدا کرنے سے اگر خدا تعالیٰ کی احتیاج نہیں بلکہ بندہ کی احتیاج ثابت ہوتی ہے تو ملائکہ کے پیدا کرنے سے خدا تعالیٰ کی احتیاج کیونکر ثابت ہوئی ؟ ان کی پیدائش بھی مخلوق کی ضرورت کیلئے ہے نہ کہ خدا تعالیٰ کی احتیاج کی وجہ سے.(ب) دوسرا جواب آپ نے یہ دیا کہ انسان کی عملی اور دینی ترقی کیلئے ملائکہ کا وجود ضروری ہے.علمی ترقی اس طرح ہوتی ہے کہ جو باتیں مخفی د مخفی رکھی گئی ہیں ان کو انسان دریافت کرتے جاتے ہیں اور ترقی کرتے جاتے ہیں.پس ضروری تھا کہ کارخانہ عالم اس طرح چلایا جاتا کہ نتائج یکدم نہ نکلتے بلکہ مخفی در مخفی اسباب کا نتیجہ ہوتے تا کہ انسان ان کو دریافت کر کے علوم میں ترقی کرتا جاتا اور دنیا اس کیلئے ایک طے شدہ سفر نہ ہوتی بلکہ ہمیشہ اس کیلئے کام موجودرہتا.اس سلسلہ کی آخری کڑی ملائک ہیں.جن کا کام یہ ہے کہ وہ ان قوانین کو صحیح طور پر چلا ئیں جن کو خدا تعالیٰ نے سنت اللہ کے نام سے دنیا میں جاری کیا ہے.ان کے وجود کے بغیر بے جان مادہ کا سلسلہ عمل اس خوبی سے چل ہی نہیں سکتا تھا جس طرح کہ وہ ان کی موجودگی میں چل رہا ہے.(2) دوسری غلطی ملائکہ کے متعلق یہ لگی ہوئی تھی کہ وہ بھی انسانوں کی طرح چل پھر کر اپنے فرائض ادا کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے متعلق بتایا کہ وہ تصرف کے ذریعہ سے کام کرتے ہیں نہ کہ خود ہر جگہ جا کر.اگر انہیں ہر جگہ جا کر کام کرنا پڑتا تو عزرائیل کیلئے اس قدر آدمیوں کی جان یکدم نکالنی مشکل ہوتی.ہاں جب انہیں کسی مقام پر ظاہر ہونے کا حکم ہوتا ہے تو وہ اس جگہ متمثل ہو جاتے ہیں بغیر اس کے کہ اپنی جگہ سے ہلیں.(3) تیسری غلطی ملائکہ کے متعلق یہ لگ رہی تھی کہ گویا وہ بھی گناہ کر سکتے ہیں.چنانچہ

Page 360

319 آدم کے واقعہ کے متعلق کہا جاتا تھا کہ ملائکہ نے خدا تعالیٰ پر اعتراض کیا کہ اسے کیوں پیدا کیا گیا ہے.اسی طرح خیال کیا جاتا تھا کہ بعض ملائکہ دنیا میں آئے اور ایک کنچنی پر عاشق ہو گئے.آخر اللہ تعالیٰ نے انہیں سزادی اور وہ چاہ بابل میں اب تک قید ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان اتہامات سے ملائکہ کو پاک کیا اور بتایا کہ ملائکہ تو قانون قدرت کی پہلی زنجیر ہیں.ان میں خیر وشر کے اختیار کرنے کی قدرت ہی حاصل نہیں.انہیں تو جو کچھ خدا تعالیٰ کہتا ہے کرتے ہیں.نہ اس کے خلاف ایک بالشت ادھر ہو سکتے ہیں نہ ادھر.(4) چوتھی غلطی یہ لگ رہی تھی کہ ملائکہ کو ایک فضول سا وجود سمجھا جاتا تھا.جیسے کہ بڑے بڑے بادشاہ اپنے گرد ایک حلقہ آدمیوں کا رکھتے ہیں.گویا خدا تعالیٰ نے بھی اسی طرح انہیں رکھا ہوا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتایا کہ ایسا نہیں بلکہ سب کا رخانہ عالم انہیں پر چل رہا ہے.پھر ان کا کام انسانوں کے دلوں میں نیک تحریکات کرنا بھی ہے اور انسان ان سے تعلقات پیدا کر کے روحانی علوم میں ترقی کرسکتا ہے.(انوار العلوم جلد 10 صفحہ 163-161) انبیاء کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انبیاء کے متعلق جو غلطیاں پھیلی ہوئی تھیں ان کو دور کیا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں :- (1) پہلی غلط فہمی انبیاء کے متعلق یہ تھی کہ مسلمانوں میں سے سنی سوائے اولیاء اللہ اور صوفیاء کے گروہ اور ان کے متعلقین کی عصمت انبیاء کے مخالف تھے.بعض تو امکانات کی حد تک ہی رہتے.لیکن بہت سے عملاً انبیاء کی طرف گناہ منسوب کرتے اور اس میں عیب محسوس نہ کرتے تھے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق کہتے تھے کہ انہوں نے تین جھوٹ بولے تھے.حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق کہتے تھے کہ انہوں نے چوری کی تھی.حضرت الیاس علیہ السلام کی نسبت کہتے تھے کہ وہ خدا سے ناراض ہو گئے تھے.داؤد علیہ السلام کی نسبت کہتے تھے کہ وہ کسی غیر کی بیوی پر عاشق ہوگئے تھے اور اس کے حصول کیلئے انہوں نے خاوند کو جنگ پر بھجوا کر مروادیا.یہ مرض یہاں تک ترقی

Page 361

320 کر گیا کہ سید ولد آدم ﷺ کی ذات بھی محفوظ نہ رہی تھی.(الف) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتایا کہ یہ خیالات بالکل غلط ہیں اور جو باتیں بیان کی جاتی ہیں بالکل جھوٹ ہیں.آپ نے ان باتوں کا غلط ہونا دوطرح سے ثابت کیا.ایک اس طرح که فر مایا یہ قانونِ قدرت ہے کہ معرفت کامل گناہ سوز ہوتی ہے.مثلاً جسے یقین کامل ہو کہ فلاں چیز زہر ہے، وہ کبھی اسے نہیں کھائے گا.پس جب یہ مانتے ہو کہ نبی کومعرفت کامل حاصل ہوتی ہے تو پھر یہ کہنا کہ نبی گناہ کا مرتکب ہو سکتا ہے، یہ دونوں باتیں متضاد ہیں.پس یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ نبی سے کوئی گناہ سرزد ہو.(ب) یہ کہ نبی کے بھیجنے کی ضرورت ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کیلئے نمونہ ہو، ورنہ نبی کے آنے کی ضرورت ہی کیا ہے.کیا خدا تعالیٰ لکھی لکھائی کتاب نہیں بھیج سکتا تھا.پس نبی آتا ہی اس لیے ہے کہ خدا کے کلام پر عمل کر کے لوگوں کو دکھائے اور ان کیلئے کامل نمونہ بنے.پس اگر نبی بھی گناہ کر سکتا ہے تو پھر وہ نمونہ کیا ہوگا.نبی کی تو غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ جو لفظوں میں خدا تعالیٰ کی طرف سے حکم ہو وہ اپنے عمل سے لوگوں کو سکھائے.(2) دوسری غلطی جس میں لوگ مبتلا تھے یہ تھی کہ وہ خیال کرتے تھے کہ نبی سے اجتہادی غلطی نہیں ہوسکتی.عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو لوگ کہتے ہیں کہ نبی گناہگار ہوسکتا ہے اور دوسری طرف یہ کہتے ہیں کہ نبی سے اجتہادی غلطی نہیں ہوسکتی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مسئلہ کو علمی بنا دیا اور بتایا کہ:- (الف) نبی سے اجتہادی غلطی نہ صرف ممکن ہے بلکہ ضروری ہے تا کہ معلوم ہو کہ نبی پر جو کلام نازل ہوا وہ اس کا نہیں بلکہ اور ہستی نے نازل کیا ہے.کیونکہ اپنی ذات کے سمجھنے میں کسی کو غلطی نہیں لگتی.کوئی یہ نہیں کہتا کہ فلاں بات جب میں نے کہی تھی تو اس کا میں نے اور مطلب سمجھا تھا اور اب اور سمجھتا ہوں.اس غلطی کا لگنا ثبوت ہوتا ہے اس امر کا کہ وہ بات اس کی بنائی ہوئی نہیں.پس آپ نے فرمایا کہ نبی سے اجتہادی غلطی سرزد ہوناضروری ہے تا کہ اس کی سچائی کا ایک ثبوت بنے.(ب) دوسرے نہ صرف نبی کو اجتہادی غلطی لگتی ہے بلکہ خدا تعالیٰ نبی سے اجتہادی غلطی

Page 362

321 بعض دفعہ خود کراتا ہے.تا کہ اول نبی کا اصطفاء کرے یعنی اس کا درجہ اور بلند کرے.اس کی مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خواب ہے جب ان کو خواب میں دکھایا گیا کہ وہ بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہ تھا کہ وہ بیٹے کو قتل کر دیں.کیونکہ اگر یہ مطلب ہوتا تو جب وہ قتل کرنے لگے تھے تو انہیں منع نہ کیا جاتا.لیکن حضرت ابراہیم کو خواب ایسے رنگ میں دکھائی گئی کہ ابراہیم کا ایمان لوگوں پر ظاہر ہو جائے اور جب وہ اس کے ظاہری معنوں کی طرف مائل ہوئے تو ان کی حقیقت ان پر کھولی گئی.حتی کہ وہ عملاً بیٹے کو قتل کرنے لگے تھے.تب بتادیا کہ ہمارا یہ مطلب نہ تھا اور یہ خدا تعالیٰ نے اسی لئے کیا تا دنیا کو بتا دے کہ خدا کیلئے ابراہیم اپنا اکلوتا اور بڑھاپے کا بیٹا بھی قربان کرنے کیلئے تیار ہے.دوسری قسم کی اجتہادی غلطیاں ابتلائی ہوتی ہیں.یعنی بعض لوگوں کا امتحان لینے کیلئے.جیسے صلح حدیبیہ کے وقت ہوا کہ آپ کو خواب میں طواف کا نظارہ دکھایا گیا.مگر اس سے مراد یہ تھی کہ آئندہ سال طواف ہوگا.آپ نے سمجھا کہ ابھی عمرہ کر آئیں.اور ایک جماعت کثیر کو لے کر چل پڑے.مگر اللہ تعالیٰ نے حقیقت کا پھر بھی اظہار نہ کیا.جب روک پیدا ہوئی تو کئی صحابہ کو حیرت ہوئی اور کمزور طبائع کے لوگ تو تمسخر کرنے لگے اور اس طرح مومن اور منافق کے ایمان کی آزمائش ہو گئی.یا درکھنا چاہیے کہ الہام کے سمجھنے میں تب ہی اجتہادی غلطی لگ سکتی ہے جب الہام کے الفاظ تعبیر طلب ہوں یا جو نظارہ دکھایا جائے وہ تعبیر رکھتا ہو.اگر الہام دماغی اختراع ہوتا تو پھر دماغ سے ایسے الفاظ نکلتے جو واضح ہوتے نہ کہ تعبیر طلب نظارے یا الفاظ.تعبیر طلب نظارے تو ارادے کے ساتھ نہیں بنائے جاسکتے.مثلاً دماغ کو اس سے کیا نسبت ہے کہ وہ قحط کو دہلی گائیوں کی شکل میں دکھائے.پس اجتہادی غلطی کا سرزد ہونا الہام کے دماغی اختراع ہونے کے منافی ہے اور اس کی تشریح کی وجہ سے یورپ کی ان نئی تحقیقاتوں پر جو الہام کے متعلق ہورہی ہیں، پانی پھر جاتا ہے.کیونکہ اجتہادی غلطی کی موجودگی میں جو بار یک تعبیر کا دروازہ کھلا رکھتی ہے الہام کو انسانی دماغ کا اختراع کسی صورت میں قرار نہیں دیا جا سکتا.اگر دینی قابلیت کا نتیجہ ہو تو صاف الفاظ میں ہوگا، تعبیر طلب نہ ہوگا.(3) تیسری غلطی لوگوں کو شفاعت انبیاء کے متعلق لگی ہوئی تھی اور اس کی دو شقیں تھیں.(الف) یہ کہ بعض لوگ خیال کرتے تھے کہ جو مرضی آئے کرو، شفاعت کے ذریعہ سب کچھ بخشا جائے گا.چنانچہ ایک شاعر کا قول ہے

Page 363

322 مستحق شفاعت گناہگاراں اند یعنی شفاعت کے مستحق گناہگارہی ہیں.(ب) بعض لوگ اس کے الٹ خیال کرتے تھے کہ شفاعت شرک ہے اور صفات باری تعالیٰ کے خلاف ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان دونوں غلطیوں کو دور کیا.آپ نے مسئلہ شفاعت کی یہ تشریح کی کہ شفاعت خاص حالتوں میں ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہوتی ہے.پس شفاعت پر تو کل کرنا درست نہیں.شفاعت اسی وقت ہوسکتی ہے جب کہ باوجود پوری کوشش کرنے کے پھر بھی انسان میں کچھ خامی رہ گئی ہو اور جب تک کوئی رسول کا جوڑا نہ بن جائے شفاعت سے بخشا نہیں جاسکتا.پھر وہ جو کہتے ہیں شفاعت شرک ہے انہیں حضرت مسیح موود علیہ السلام نے کہا کہ اگر شفاعت صلى الله حکومت کے ذریعہ کرائی جاتی یعنی رسول کریم ہے خدا تعالیٰ سے حکما کہتے کہ فلاں کو بخش دے تو یہ شرک ہوتا.مگر خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ شفاعت ہمارے اذن سے ہوتی یعنی ہم حکم دے کر رسول سے یہ کام کروائیں گے.جب ہم کہیں گے کہ شفاعت کرو تب نبی شفاعت کرے گا اور یہ امر شرک ہرگز نہیں ہوسکتا.اس میں نہ خدا تعالیٰ کی ہمسری ہے اور نہ اس کی کسی صفت پر پردہ پڑتا ہے.آپ نے ثابت کیا کہ نہ صرف شفاعت جائز ہے بلکہ دنیا کی روحانی ترقی کیلئے ضروری ہے اور اس کے بغیر دنیا کی نجات ناممکن ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کا قانون ہے کہ ورثہ سے کمالات ملتے ہیں.اگر کوئی کہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کا باپ نماز نہیں پڑھتا مگر بیٹا پکا نمازی ہوتا ہے.پھر اس بیٹے کو یہ بات ورثہ میں کس طرح ملی؟ اس کے متعلق یہ یاد رکھنا چاہیے کہ باپ میں نماز پڑھنے کی قابلیت تھی تبھی بیٹے میں آئی ورنہ کبھی نہ آتی.بھینس میں یہ قابلیت نہیں ہوتی.اس لیے کسی بھینس کا بچہ ایسا نہیں ہوتا جو نماز پڑھ سکے.پس حق یہی ہے کہ کمالات ورثہ میں ملتے ہیں اور جب جسمانی کمالات ورثہ میں ملتے ہیں تو روحانی کمالات بھی ان اشخاص کو جو آدم کے مقام پر نہیں ہوتے بغیر ورثہ کے نہیں مل سکتے.پس انسانوں کیلئے جو اپنی ذات میں کمال حاصل نہیں کر سکتے، نبی بھیجے جاتے ہیں.یعنی خدا تعالیٰ ایسے انسان پیدا کرتا ہے جن پر آسمان سے روحانیت کے فیوض ڈالے جاتے ہیں اور ان کو خدا تعالیٰ آدم قرار دیتا ہے.پھر ان کی روحانی اولاد بن کر دوسروں کو روحانی فیوض ملتے ہیں اور اس طرح وہ نجات حاصل

Page 364

323 کرتے ہیں.پس شفاعت تو قانون قدرت سے کامل مطابقت رکھنے والا مسئلہ ہے نہ کہ اس کے خلاف ہے.(4) انبیاء کے متعلق جن غلطیوں میں مسلمان مبتلا تھے ان میں چوتھے نمبر پر وہ غلطیاں جو خصوصیت سے حضرت مسیح ناصری کے متعلق پیدا ہو رہی تھیں.مسیح کی ذات ایک نہیں متعد د غلطیوں کی آماجگاہ بنادی گئی تھی اور پھر تعجب یہ کہ ان کے متعلق مختلف اقوام غلط خیالات میں پڑی ہوئی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان سب غلطیوں کو دور کیا.سب سے پہلی غلطی حضرت مسیح ناصری کی پیدائش کے متعلق تھی.مسلمان بھی اور دوسرے لوگ بھی اس غلطی میں مبتلا تھے کہ حضرت مسیح کی پیدائش انسانی پیدائش سے بالا قسم کی پیدائش تھی اور ان کا روح اللہ اور کلمۃ اللہ سے پیدا ہونا اپنی مثال آپ ہی تھا.اس خیال سے بڑا شرک پیدا ہو گیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے متعلق فرمایا کہ سب انبیاء میں روح اللہ تھی اور سب کلمتہ اللہ تھے.حضرت مسیح پر چونکہ اعتراض کیا جاتا تھا اور انہیں نعوذ باللہ ولد الزنا کہا جاتا تھا اس لیے ان کی بریت کیلئے ان کے متعلق یہ الفاظ استعمال کئے گئے.ورنہ سارے نبی روح اللہ اور کلمۃ اللہ تھے.قرآن کریم میں حضرت سلیمان کے کفر کا انکار کیا گیا ہے جیسا کہ فرمایاما کفر سلیمن (البقرہ:103).اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ صرف حضرت سلیمان علیہ السلام نے کفر نہیں کیا باقی سب انبیاء نے کیا تھا.ان کے کفر کے انکار کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان پر کفر کا الزام لگایا گیا تھا.اس لئے ان کے متعلق الزام کو ر ڈ کیا گیا.دوسرے انبیاء کی متعلق چونکہ اس قسم کا الزام نہیں لگا تھا اس لیے ان کے متعلق کفر کی نفی کرنے کی ضرورت نہ تھی.یہی حال حضرت مسیح علیہ السلام کا تھا.جن کے متعلق یہود کا الزام تو لگ رہا تھا، بڑے بڑے عیسائی بھی کہتے تھے کہ وہ (نعوذ باللہ ) ولد الزنا تھے.مگر اس میں ان کا کیا قصور.چنانچہ ٹالسٹائے جو ایک بہت مشہور عیسائی ہوا ہے.اس نے مفتی محمد صادق صاحب کو لکھا کہ اور تو مرزا صاحب کی باتیں معقول ہیں لیکن مسیح کو بن باپ قرار دینا میری سمجھ میں نہیں آتا.اگر اس کی وجہ مسیح کو پیدائش کے داغ سے بچانا ہے تو اس کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اس قسم کی پیدائش میں خداوند کا کیا قصور تھا.غرض یہودی چونکہ آپ کی پیدائش پر الزام لگاتے تھے کہ وہ شیطانی تھی اور خود مسیحیوں میں سے بعض نے آئندہ ایسا

Page 365

324 کرنا تھا، اس لیے خدا تعالیٰ نے ان کی برکت کیلئے فرمایا کہ ان کی پیدائش روح اللہ سے تھی، کسی گناہ کا نتیجہ نہ تھی.اور کسی ایسے فعل کا نتیجہ نہ تھی جو خدا کی شریعت کے خلاف ہو بلکہ کلمۃ اللہ کے مطابق تھی.پس روح اللہ اور کلمتہ اللہ کے الفاظ سے مسیح کی پیدائش کا ذکر کر نا عظیما نہیں بلکہ اس کی برأت کیلئے ہے.آپ نے یہ بھی بتایا کہ کوئی وجہ نہیں ہم مسیح کی پیدائش کو قانون قدرت سے بالا سمجھیں.ایسی پیدائش اور انسانوں میں بھی ہو سکتی ہے اور حیوانوں میں تو یقیناً ہوتی ہے.باقی رہا یہ سوال کہ کیوں خدا تعالیٰ نے انہیں بن باپ پیدا کیا؟ باپ سے ہی کیوں نہ پیدا کیا.تو اس کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ دیا کہ ابراہیم علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے مطابق بنی اسرائیل میں سے متواتر انبیاء آرہے تھے.جب ان کی شرارت حد سے بڑھ گئی تو اللہ تعالیٰ نے مسیح کی پیدائش کے ذریعہ سے انہیں آخری بار تنبیہ کی اور بتایا کہ اب تک ہم معاف کر کے تمہارے اندر سے نبی بھیجتے رہے ہیں مگر اب ہم ایک ایسے انسان کو بھیجتے ہیں جو ماں کی طرف سے بنی اسرائیل ہے اور باپ کی طرف سے نہیں.اگر آئندہ بھی باز نہ آؤ گے تو ایسا ہی آئے گا جو ماں اور باپ دونوں کی طرف سے غیر اسرائیلی ہوگا.چنانچہ جب بنی اسرائیل نے اس تنبیہہ سے فائدہ نہ اٹھایا اور شرارت میں بڑھتے گئے تو اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو مبعوث فرمایا جو کلی طور پر بنی اسرائیل سے جدا تھے.پس حضرت مسیح کی بن باپ پیدائش بطور رحمت کے نہیں بلکہ بنی اسرائیل کیلئے بطور انذار تھی.چنانچہ اس کا انجام یہی ہوا.دوسری غلطی مسیح ناصری علیہ السلام کے متعلق یہ گی ہوئی تھی کہ مسلمان خیال کرتے تھے کہ صرف حضرت مسیح اور ان کی ماں میں شیطان سے پاک تھیں اور کوئی انسان ایسا نہیں ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے متعلق بتایا کہ کل انبیاء بلکہ مؤمن بھی مس شیطان سے پاک ہوتے ہیں.چنانچہ مؤمنوں کو حکم ہے کہ جب وہ بیوی کے پاس جائیں تو یہ دعا پڑھا کریں.اللهم جنب الشيطان و جنب الشيطن ما رزقتنا ( بخاری کتاب الوضوء باب التسمیه علی کل حال وعند الوقاع ).اے اللہ ! مجھے بھی شیطان سے بچا اور میری اولاد کو بھی بچا.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جو بچہ پیدا ہوگا اسے شیطان میں نہ کرے گا.یہ گر رسول کریم ﷺ نے مسن شیطان سے اولاد کو محفوظ رکھنے کا بتایا ہے.پس جب امت

Page 366

325 محمدیہ کے افراد بھی مست شیطان سے پاک ہو سکتے ہیں تو انبیاء اور خصوصاً سید ولد آدم کیوں محفوظ نہ ہوں.آپ نے بتایا کہ حدیثوں میں جو یہ آیا ہے کہ حضرت مسیح اور ان کی والدہ مس شیطان سے پاک تھیں تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ حضرت مسیح پر ولد الزنا کا الزام لگایا جاتا تھا.رسول کریم ﷺ نے اس کی تردید فرمائی اور بتایا ہے کہ وہ مس شیطان سے پاک تھے یعنی ان کی پیدائش شیطانی نہ تھی.پس حدیث میں جو ان کے پاک ہونے کا ذکر آتا ہے اور اس سے مراد مسیح اور ابن مریم کی طرح کے لوگ ہیں نہ کہ صرف حضرت مسیح اور حضرت مریم.چنانچہ ان دونوں ناموں کو سورۃ تحریم میں بطور مثال بیان بھی کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی یہ اصطلاح ہے کہ وہ مومنوں کے ایک گروہ کا نام مسیح اور دوسرے کا نام مریم رکھتا ہے.(۳) تیسری غلطی حضرت مسیح علیہ السلام کے معجزات کے متعلق لگی ہوئی تھی.مثلاً لوگ کہتے تھے کہ حضرت مسیح نے مردے زندہ کیے، وہ پرندے پیدا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان غلطیوں کو بھی دور فرمایا اور بتایا کہ خدا تعالیٰ اپنی صفات کسی کو نہیں دیتا.قرآن کریم میں صاف الفاظ میں بیان ہے کہ مردے زندہ کرنا اور پیدا کرنا صرف اسی کا کام ہے اور مردے زندہ کرنے کے متعلق تو وہ یہ بھی فرماتا ہے کہ اس دنیا میں وہ مردے زندہ کرتا ہی نہیں.پس یہ خیال کرنا کہ حضرت مسیح ناصری نے فی الواقع مردے زندہ کئے یا جانور پیدا کئے شرک ہے اور ہرگز درست نہیں.ہاں انہوں نے روحانی طور پر ایسی باتیں کیں یا علم الترب کے ذریعہ سے بعض نشانات دکھائے یا یہ کہ ایسے لوگ ان کی دعا سے اچھے ہوئے جو قریب المرگ تھے.(۴) چوتھی غلطی لوگوں کو حضرت مسیح کی تعلیم کے متعلق یہ گی ہوئی تھی کہ سمجھا جاتا تھا کہ ان کی تعلیم سب سے اعلیٰ اور بہت اکمل ہے.حضرت مسیح نے جو یہ فرمایا ہے کہ اگر کوئی تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تو دوسرا بھی پھیر دے، یہ کمال حلم کی تعلیم ہے اور اس سے بڑھ کر اخلاقی تعلیم ہوہی نہیں سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ تعلیم ایک وقت اور ایک قوم کیلئے تو اچھی ہو سکتی تھی لیکن ہر وقت اور ہر قوم کیلئے یہ تعلیم ہرگز اچھی نہیں.اس لئے سب سے کامل تعلیم نہیں کہلا سکتی.اس تعلیم کی اصل وجہ یہ تھی کہ یہود میں بہت سختی پیدا ہو گئی تھی اور وہ بڑے ظلم کیا کرتے تھے.اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح کے ذریعہ سے ان کو انتہائی درجہ کی نرمی کی تعلیم دی تاکہ ان کی خشونت کم ہو، ورنہ اس تعلیم

Page 367

326 پر ہر موقع پر ہرگز عمل نہیں ہوسکتا.اس موقع پر مجھے مصر کا ایک واقعہ یاد آ گیا ہے.کہتے ہیں ایک پادری صاحب وعظ کیا کرتے تھے.دیکھو مسیح نے کیسی اعلیٰ تعلیم دی ہے.وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی تمہارے ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دو.ایک دن مجمع میں سے ایک مصری نے نکل کر پادری صاحب کے منہ پر ایک طمانچہ رسید کر دیا.پادری صاحب اس پر بہت غصے ہوئے اور اسے مارنے کیلئے آگے بڑھے.اس مصری مسلمان نے کہا کہ مسیح کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے تو تمہیں دوسرا گال بھی میری طرف پھیرنا چاہیے تھا تا کہ میں اس پر بھی طمانچہ ماروں.پادری صاحب نے جواب دیا کہ نہیں اس وقت تو میں مسیح کی تعلیم پر عمل نہیں بلکہ اسلام کی تعلیم پر عمل کروں گا ورنہ تم لوگ بہت دلیر ہو جاؤ گے.پس جیسا کہ عقل بتاتی ہے اور جیسا کہ مسیحی لوگوں کا طریق عمل بتاتا ہے اس تعلیم پر ہمیشہ عمل نہیں ہوسکتا.غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ثابت کیا کہ حضرت مسیح کی تعلیم نامکمل ہے اور اس پر ہر وقت اور ہر زمانہ میں عمل نہیں کیا جاسکتا.اس کے مقابلہ میں آپ نے بتایا کہ قرآن کی تعلیم کامل ہے اور ہر زمانہ اور ہر وقت کیلئے ہے.(5) پانچویں غلطی حضرت مسیح علیہ السلام کے واقعہ صلیب کے متعلق تھی.جس میں مسلمان اور یہود اور عیسائی سب مبتلا تھے.مسلمان کہتے تھے کہ یہود نے حضرت مسیح کی بجائے کسی ور کو صلیب پر لٹکا دیا تھا اور انہیں خدا نے آسمان پر اٹھالیا تھا.یہود اور عیسائی کہتے تھے کہ حضرت مسیح کو صلیب پر لٹکا کر مار دیا گیا تھا.مسلمانوں کے خیال کو تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس طرح رڈ کیا که فرمایا :- حضرت مسیح کی بجائے کسی اور کو صلیب پر لٹکا ناصریح ظلم تھا اور اگر اس شخص کی مرضی سے لٹکایا گیا تھا تو اس کا ثبوت تاریخ میں ہونا چاہیے.پھر اگر مسیح کو خدا نے آسمان پر اٹھالینا تھا تو کسی اور غریب کو صلیب پر چڑھانے کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ پس یہ غلط ہے کہ مسیح کی جگہ کسی اور کو صلیب پر لٹکایا گیا اور یہ بھی کہ انہیں آسمان پر اٹھالیا گیا.دوسری طرف آپ نے یہود اور مسیحیوں کی بھی تردید کی کہ مسیح صلیب پر مر گیا اور ثابت کیا کہ حضرت مسیح کو صلیب سے زندہ اتار لیا گیا تھا اور اس طرح خدا نے ان کو لعنتی موت

Page 368

327 اب دیکھوا نہیں سوسال کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اس واقعہ کی اصل حقیقت کا پتہ لگانا کتنا بڑا کام ہے.خصوصاً جب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح کے صلیب پر سے زندہ اترنے کے ثبوت آپ کے خود انجیل سے ہی دیئے ہیں.مثلاً یہ کہ حضرت مسیح سے ایک دفعہ علماء زمانہ نے نشان طلب کیا.تو اس نے انہیں جواب میں کہا:- اس زمانہ کے برے اور زنا کارلوگ نشان طلب کرتے ہیں.مگر یوناہ نبی کے نشان کے سوا کوئی اور نشان ان کو نہ دیا جائے گا.کیونکہ جیسے یوناہ تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسے ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا“.(متی باب 12 آیت 40) تو رات سے ثابت ہے کہ حضرت یونس تین دن تک مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہے تھے اور پھر زندہ ہی نکلے تھے.پس ضروری تھا کہ حضرت مسیح ناصری بھی صلیب کے واقعہ کے موقع پر زندہ ہی قبر میں داخل کئے جاتے اور زندہ ہی نکلتے.پس یہ خیال کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر مر گئے تھے انجیل کے صریح خلاف ہے اور خود مسیح کی تکذیب اس سے لازم آتی ہے.عیسائیت کے مقابلہ میں حضرت مسیح موعود کا یہ اتنا بڑا حربہ ہے کہ آپ کے کام کی عظمت ثابت کرنے کیلئے اکیلا ہی کافی ہے.مگر آپ نے اس پر بھی بس نہیں کی بلکہ آپ نے تاریخ سے ثابت کر دیا کہ حضرت مسیح ناصری واقعہ صلیب کے بعد کشمیر آئے اور وہاں آکر فوت ہو گئے.گویا ان کی ساری زندگی کو پردہ اخفاء سے نکال کر ظاہر کر دیا.(1) چھٹی غلطی حضرت مسیح کی زندگی اور دوبارہ آنے کے متعلق تھی.اس غلطی کو بھی آپ نے ظاہر کیا اور بتایا کہ اس میں خدا تعالیٰ کی بہتک ہے کہ وہ اپنے کام کیلئے ایک پرانا آدمی سنبھال کر رکھ چھوڑے اور نیا آدمی نہ بنا سکے.کیا جو صبح کی باسی روٹی رکھ کر شام کو کھائے گا اسے امیر کہا جائے گا ؟ یہ باسی روٹی رکھنے والے کی امارت نہیں بلکہ غربت کا ثبوت ہوگا.وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح کو زندہ رکھا ہوا ہے تا کہ ان کے ذریعہ امت محمدیہ کی اصلاح کرے.ان کے کہنے کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ سے حضرت عیسیٰ جیسا انسان اتفاقاً بن گیا تھا جسے اس نے

Page 369

328 سنبھال کر رکھا ہوا ہے کہ جب دنیا میں فتنہ ہوگا تو اسے نازل کرے گا.مگر یہ غلط ہے جس طرح امیروں کا یہ کام ہوتا ہے کہ جو روٹی بچ رہے اسے غریبوں میں بانٹ دیتے ہیں اور دوسرے وقت نیا کھانا تیار کرتے ہیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی ہر زمانہ کے مطابق نئے بندے پیدا کرتا ہے.پراگر اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو سنبھال کر رکھنا ہوتا تو محمد ﷺ جیسے انسان کو زندہ رکھتا مگر آپ فوت ہو گئے.کیا دنیا میں کوئی انسان ایسا ہے جو عمدہ دوا ک تو پھینک دے اور ادنی دوا کو سنبھال کر رکھ چھوڑے اور پھر خدا تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو چھوڑ کر حضرت عیسی کو کیوں زندہ رکھا.الله آپ نے یہ بھی بتایا کہ حضرت عیسی کو زندہ رکھنے اور امت محمدیہ کی اصلاح کیلئے بھیجنے میں رسول کریم ﷺ کی بہتک ہے.رسول کریم و تو اس سے بڑے معلم تھے اور آپ کا کام اعلیٰ درجہ کے شاگرد پیدا کرنا تھا.مگر کہا یہ جاتا ہے کہ اس زمانہ میں جب کہ امت محمدیہ میں فتنہ پیدا ہوگا اس وقت محمد تو کوئی ایسا شاگرد پیدانہ کرسکیں گے جو اس فتنہ کو دور کر سکے.مگر حضرت عیسیٰ جو حضرت موسی کی امت میں سے تھے، اس کام کیلئے لائے جائیں گے.نیز اس عقیدہ میں امت محمدیہ کی بھی ہتک ہے.کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب سے نازک موقع پر خطر ناک طور پر نا قابل ثابت ہوگی.حتی کہ دجال تو اس میں پیدا ہوں گے مگر مسیح دوسری امت سے آئے گا.آپ نے یہ بھی بتایا کہ حضرت مسیح جن کی عزت کیلئے یہ عقیدہ بنایا گیا ہے اس میں ان کی بھی در حقیقت ہتک ہے کیونکہ وہ مستقل نبی تھے.اگر وہ دوبارہ آئیں گے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ وہ اس نبوت سے علیحدہ کر دئیے جائیں گے اور انہیں امتی بننا پڑے گا.زندہ رسول انوار العلوم جلد 10 صفحہ 163 تا 172) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک عظیم الشان کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے حضرت محمد ﷺ کو زندہ رسول کے طور پر پیش کیا.چنانچہ اس بارے میں آپ کی چند تحریرات پیش خدمت ہیں.

Page 370

329 تمام آدم زادوں کیلئے ایک ہی رسول اور ایک ہی شفیع نوع انسان کیلئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن اور تمام آدم زادوں کیلئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محم مصطفی سوتم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ وجلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ اور یا درکھو نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی.بلکہ حقیقی نجات وہ ہے جو کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھاتی ہے.الله نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے کہ خدا سچ ہے اور محمد ﷺ اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم مرتبہ کوئی اور کتاب ہے اور کسی کیلئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کیلئے زندہ ہے“.کشتی نوح - روحانی خزائن.جلد 19 صفحہ 14-13) شہ کیلئے جلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا نبی ”اے تمام وہ لوگو جو زمین پر رہتے ہو اور اے تمام وہ انسانی روحو! جو مشرق اور مغرب میں آباد ہو! میں پورے زور کے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتا ہوں کہ اب زمین پر سچاند ہب صرف اسلام ہے اور سچا خدا بھی وہی خدا ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے اور ہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اور جلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفی امیہ ہے.( تریاق القلوب.روحانی خزائن.جلد 15 صفحہ 141) بنی نوع انسان کا بے نظیر ہمدرد صلى الله اگر کسی نبی کی فضلیت اس کے کاموں سے ثابت ہو سکتی ہے جن سے بنی نوع انسان کی سچی ہمدردی سب نبیوں سے بڑھ کر ظاہر ہو تو اے سب لوگو! اٹھو اور گواہی دو کہ اس صفت میں محمد ﷺ کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں اندھے مخلوق پرستوں نے اس بزرگ رسول کو شناخت نہیں کیا جس نے ہزاروں نمونے سچی ہمدردی کے دکھلائے.لیکن اب میں دیکھتا ہوں کہ وہ وقت پہنچ گیا ہے کہ یہ پاک رسول شناخت کیا جائے چاہو تو میری بات لکھ رکھو اے سننے والو! سنو! اور سوچنے والو! سوچو! اور یاد رکھو کہ حق ظاہر ہوگا اور وہ جو سچا نور ہے چمکے گا“.( مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 307-306)

Page 371

330 نبی کریم کی فضیلت کل انبیاء پر میرے ایمان کا جزو اعظم ”میرا امذ ہب یہ ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ کو الگ کیا جا تا اور کل نبی جو اس وقت تک گزر چکے تھے سب کے سب اکٹھے ہو کر وہ کام اور وہ اصلاح کرنا چاہتے جو رسول اللہ ہو نے کی ، ہرگز نہ کر سکتے.ان میں وہ دل وہ قوت نہ تھی جو ہمارے نبی کو ملی.اگر کوئی کہے کہ یہ نبیوں کی معاذ اللہ سوء ادبی ہے تو وہ نادان مجھ پر افتراء کرے گا.میں نبیوں کی عزت و حرمت کرنا اپنے ایمان کا جزو اعظم سمجھتا ہوں.لیکن نبی کریم کی فضیلت کل انبیاء پر میرے ایمان کا جزو اعظم ہے اور میرے رگ وریشہ میں ملی ہوئی بات ہے.یہ میرے اختیار میں نہیں کہ اس کو نکال دوں بدنصیب اور آنکھ نہ رکھنے والا مخالف جو چاہے سو کہے.ہمارے نبی کریم ﷺ نے وہ کام کیا ہے جو نہ الگ الگ اور نہ مل مل کر کسی سے ہو سکتا تھا اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.ذلک فضل الله يوتيه من يشاء“.( ملفوظات جلد 1 صفحہ 420 (نیا ایڈیشن) اعلیٰ درجہ کا جوانمرد نبی ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوانمر دنبی اور زندہ نبی اور خدا تعالیٰ کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نہی صرف ایک مرد کو جانتے ہیں.یعنی وہی نبیوں کا سردار.رسولوں کا فخر.تمام مرسلوں کا تاج.جس کا نام محمد مصطفی واحمد مجتبی م وہ ہے.جس کے زیر سایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزار برس تک نہیں مل سکتی تھی“.(سراج منیر صفحہ 72) اعلیٰ درجہ کا نور وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا.یعنی انسان کامل کو.وہ ملائک میں نہیں تھا، نجوم میں نہیں تھا، قمر میں نہیں تھا، آفتاب میں نہیں تھا ، وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا ، وہ لعل اور یا قوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا.غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا.صرف انسان میں تھا یعنی کامل انسان میں.جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولی سید الانبیاء وسید الا حیاء محمد مصطفی ﷺ ہیں.( آئینہ کمالات اسلام صفحہ 160)

Page 372

331 جس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو سکتا میں ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ( ہزاروں ہزار درود اور سلام اس پر ) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہوسکتا اور اُس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں.افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا.وہ تو حید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا.اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اُس کی جان گداز ہوئی.اس لئے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام اولین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اس کی مرادیں اس کی زندگی میں اُس کو دیں“.(حقیقۃ الوحی.صفحہ 115) خدا نما ”ہم نے ایسے نبی کا دامن پکڑا ہے جوخدانما ہے.کسی نے یہ شعر بہت ہی اچھا کہا ہے.محمد عربی بادشاہ ہر رو سرا کرے ہے روح قدس جس کے در کی دربانی اسے خدا تو نہیں کہہ سکوں یہ کہتا ہوں کہ اُس کی مرتبہ دانی میں خدادانی ہم کس زبان سے خدا کا شکر کریں جس نے ایسے نبی کی پیروی ہمیں نصیب کی.جو سعیدوں کی ارواح کیلئے آفتاب ہے.جیسے اجسام کیلئے سورج وہ اندھیرے کے وقت میں ظاہر ہوا اور دنیا کو اپنی روشنی سے روشن کر دیا.وہ نہ تھکا نہ ماندہ ہوا.جب تک کہ عرب کے تمام حصہ کو شرک سے پاک نہ کر دیا.وہ اپنی سچائی کی آپ دلیل ہے کیونکہ اس کا نور ہر ایک زمانہ میں موجود ہے اور اس کی کچی پیروی انسان کو یوں پاک کرتی ہے جیسا ایک صاف اور شفاف دریا کا پانی میلے کپڑے کو.چشمہ معرفت حصہ دوم.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 303-302) سب سے افضل واعلیٰ واکمل وارفع واجلی واصفی نبی چونکہ آنحضرت ﷺ اپنی پاک باطنی وانشراح صدری و عصمت و حیا وصدق وصفا و توکل و

Page 373

332 وفا اور عشق الہی کے تمام لوازم میں سب انبیاء سے بڑھ کر اور سب سے افضل واعلیٰ وارفع واجلی واصفی تھے اس لئے خدائے جل شانہ نے ان کو عطر کمالات خاصہ سے سب سے زیادہ معطر کیا اور وہ سینہ و دل جو تمام اولین و آخرین کے سینہ و دل سے فراخ تر و پاک تر و معصوم تر و روشن تر و عاشق تر تھاوہ اسی لائق ٹھہرا کہ اس پر ایسی وحی نازل ہو کہ جو تمام اولین و آخرین کی وحیوں سے اقومی و اکمل وارفع واتم ہوکر صفات الہیہ کے دکھلانے کیلئے ایک نہایت صاف اور کشادہ اور وسیع آئینہ ہو.سرمه چشم آریہ حاشیہ.روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 71) مجد داعظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ”ہمارے نبی ﷺ اظہار سچائی کیلئے ایک مجدد اعظم تھے جو گم گشتہ سچائی کو دوبارہ دنیا میں لائے.اس فخر میں ہمارے نبی ﷺ کے ساتھ کوئی بھی نبی شریک نہیں کہ آپ نے تمام دنیا کو ایک تاریکی میں پایا اور پھر آپ کے ظہور سے وہ تاریکی نور سے بدل گئی.جس قوم میں آپ ظاہر ہوئے آپ فوت نہ ہوئے جب تک کہ اس تمام قوم نے شرک کا چولہ اُتار کر تو حید کا جامہ نہ پہن لیا اور نہ صرف اس قدر بلکہ وہ لوگ اعلیٰ مراتب ایمان کو پہنچ گئے اور وہ کام صدق اور وفا اور یقین کے ان سے ظاہر ہوئے کہ جس کی نظیر دنیا کے کسی حصہ میں پائی نہیں جاتی.یہ کامیابی اور اس قدر کامیابی کسی نبی کو بجز آنحضرت ہ کے نصیب نہیں ہوئی.(لیکچر سیالکوٹ.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 206) وو ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دُعائیں وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گز را کہ لاکھوں مُردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہوئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہو گئے اور گونگوں کی زبان پر الہی معارف جاری ہوئے اور دنیا میں ایک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا.کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچا دیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اس امی بیکس

Page 374

333 سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں.اللهم صل و سلم و بارک علیه واله بعد و همه و غمه و حزنه لهذالامة و انزل عليه انوار رحمتک الی الابد انسان کامل اور کامل نبی برکات الدعا.روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 11-10) وہ انسان جس نے اپنی ذات سے اپنی صفات سے، اپنے افعال سے، اپنے اعمال سے اور اپنے روحانی اور پاک قومی کے پر زور دریا سے کمال تام نمونہ علماً وعملاً وصدقا وشبا تا دکھلایا اور انسان کامل کہلایا..وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا.جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا.وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء امام الاصفیاء ختم المرسلين فخر النبين جناب محمد مصطفی ﷺ ہیں.اے پیارے خدا! اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداء زمانہ سے تو نے کسی پر نہ بھیجا ہو.(اتمام الحجۃ.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 308) جس کے ساتھ ہم.اس عالم گزران سے کوچ کریں گے ”ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ لا الہ الا الله محمد رسول الله ہمارا اعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالیٰ اس عالم گزران سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سیدنا ومولانا محمد مصطفی یہ خاتم النبین و خیر المرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا ہے اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے“.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 170-169) حقیقی دین حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا کو حقیقی دین عطا کیا.وہ دین جو ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کا مقدس دین ہے.وہ سچا اور حقیقی پیغام ہدایت جو قرآن مجید پر مبنی ہے جس کی بہترین

Page 375

334 تفسیر سنت رسول اور جس کی بہترین تفصیل احادیث رسول میں نظر آتی ہے.حق یہ ہے کہ انسانیت کے دکھوں کا مداوا اور کل عالم کی خرابیوں کا اگر کوئی تریاق دنیا میں ہے تو وہ یہی اسلام ہے جس کی تعلیمات نے عرب کے وحشی ، مشرک اور بے دین معاشرہ میں یکدفعہ ایسا انقلاب پیدا کر دیا کہ نہ پہلے کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا.ہاں وہی انقلاب جو ہمارے ہادی و مولیٰ حضرت محمد مصطفی امیہ کی اندھیری راتوں کی دعاؤں کا نتیجہ تھا.جس نے ضلالت و گمراہی کے سب گند دھو ڈالے اور گناہوں کی تاریکیوں کو کاٹ کر نیکی، ہدایت اور روحانیت کا آفتاب عالمتاب دنیا پر چڑھا دیا.یہی سچا دین ہے اور یہی اسلام ہے.جو آج بھی دنیا کی سب خرابیوں کا علاج ہے.یہی حقیقی اسلام ہے جو اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا کو دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا کو کوئی نیا دین نہیں دیا بلکہ احمدیت تو نام ہے ہر نئے اور خود ساختہ اسلام کو ختم کرنے کا اور محمد مصطفی ملنے کے لائے ہوئے حقیقی اسلام کو دوبارہ قائم کرنے کا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس حقیقی دین کی زندہ مثالیں دنیا کو عطا کیں اور دین کے اس زندہ اور زندگی بخش پیغام کے عملی نمونے دنیا کو دکھائے.یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اعتراف غیروں نے بھی برملا کیا.عالم اسلام کے مشہور مفکر اور شاعر علامہ اقبال کہتے ہیں:- "In the Punjab the essentially Muslim type of character has found a powerful expression in the so-called Qadiani-sect: (The Muslim community - A sociological study by Iqbal) کہتے ہیں“.پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جسے فرقہ قادیانی (اردو تر جمه از مولانا ظفر علی خان بحوالہ ملت بیضاء پر ایک عمرانی نظر - طبع اوّل 1970 ء باہتمام.ع اسلام آئینہ ادب چوک مینار انار کلی لاہور.نیز ہفت روزہ رفتار زمانہ لاہور بابت 20 ستمبر 1949 ، صفحہ 18) مشہور صائب الرائے اسلامی مصنف اور صحافی علامہ فتح نیاز پوری نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق لکھا: -

Page 376

335 ”اس میں کلام نہیں کہ انہوں نے یقیناً اخلاق اسلامی کو دوبارہ زندہ کیا اور ایک ایسی جماعت پیدا کر کے دکھادی جس کی زندگی کو ہم یقینا اسوہ نبی کا پر تو کہہ سکتے ہیں.( ملاحظات نیاز فتح پوری، مرتبہ محمد اجمل شاہد ناشر جماعت احمدیہ کراچی.صفحہ 29 بحوالہ رسالہ نگارلکھنو نومبر 1959ء) پاکیزہ اسلامی معاشرہ آج عالم اسلام انتشارکا شکار ہو چکا ہے.محبت واخوت نام کی چیز من حیث المجموع مسلمانوں کے دلوں سے عنقا ہو چکی ہے.مسلم ممالک کی بستیاں اور گلی کوچے اسلامی اخلاق سے عاری نظر آتے ہیں.اسلامی ملکوں کے اخبارات دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ ساری دنیا کے جرائم نے ان ممالک میں ڈیرہ ڈال رکھا ہے.اسلامی تعلیمات اور اخلاقی اقدار کا اس حد تک دیوالیہ نکل چکا ہے کہ اس بد کردار معاشرہ کو اسلام سے منسوب کرنا دین اسلام کی سخت تو ہین ہے.اس حالت کو دیکھ کر یہ شعر زبان پر آتا ہے کہ وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا جب اس معاشرہ کے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے دنیا کو کیا دیا؟ تو ان کیلئے ہمارا ایک جواب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہلاکت کے گڑھے پر کھڑی دنیا کو حق اور سلامتی کا راستہ دکھایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا کو ایک سچا اور پاکیزہ اسلامی معاشرہ عطا کیا ہے جو صحیح اسلامی تعلیمات اور اقدار پر مبنی ہے.اگر کسی کو چشم بصیرت عطا ہو تو اسے یہ معاشرہ ہر ملک میں اور ہر بستی میں احمدیہ جماعت کے اندر نظر آسکتا ہے جہاں اللہ اور رسول کی محبت کے تذکرے جاری ہیں.جہاں نیکیوں سے محبت اور بدیوں سے نفرت کی جاتی ہے.جہاں مسابقت بالخیرات کے روح پرور نظارے دکھائی دیتے ہیں.جہاں قرون اولیٰ کے صحابہ کے رنگ میں رنگین ہو کر جان و مال کے نذرانے پیش کئے جاتے ہیں.کس کس بات کا ذکر کریں.یہ وہ زندہ اور زندگی بخش معاشرہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت سے دنیا میں قائم ہو چکا ہے اور جس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس دور آخرین میں دنیا کو جو پاکیزہ اسلامی معاشرہ عطا کیا

Page 377

336 ہے یہ دراصل ابتداء ہے اس عالمگیر روحانی انقلاب کی جس کی برکت سے دنیا اس صدی میں انشاء اللہ ایک روح پرور نظارہ دیکھے گی.نئی زمین ہوگی اور نیا آسمان اور ساری دنیا اسلام کے آفتاب عالمتاب کے نور سے منور ہو جائے گی.آج احمدیت کا عالم اسلام بلکہ کل دنیا کیلئے پیغام یہ ہے: آؤ لوگو کہ یہیں نور خدا پاؤ گے لو تمہیں طور تسلی کا بتایا ہم نے پاکیزہ تبدیلیاں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وجود پارس پتھر کی طرح ایک فیض رساں بابرکت وجود تھا.جو بھی اس سے سچا تعلق پیدا کرتا اس کی دنیا بدل جاتی.خاک کے ذرے ثریا سے ہمکنار ہو جاتے.ان کی پرانی زندگیوں پر ایک موت وارد ہو جاتی.ایک نئی روحانی زندگی ان کو نصیب ہوتی.گناہوں کی آلائش سے پاک صاف ہوکر نیکیوں کے مجسمے بن جاتے اور جو نیکیوں کے ابتدائی مراحل میں ہوتے وہ کچھ اس طرح راہ سلوک پر دوڑ نے لگتے کہ دیکھتے ہی دیکھتے اعلیٰ روحانی مدارج پر جا پہنچتے.روحانی اور پاکیزہ انقلاب کی یہ عظیم دولت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا کو عطا کی اور اس کا سلسلہ آج بھی جاری وساری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:- میں دیکھتا ہوں کہ میرے ہاتھ پر ہزار ہا لوگ بیعت کرنے والے ایسے ہیں کہ پہلے ان کی عملی حالتیں خراب تھیں اور پھر بیعت کرنے کے بعد ان کے عملی حالات درست ہو گئے اور طرح طرح کے معاصی سے انہوں نے توبہ کی اور نماز کی پابندی اختیار کی اور میں صد ہا ایسے لوگ اپنی جماعت میں پاتا ہوں کہ جن کے دلوں میں یہ سوزش اور تپش پیدا ہوگئی ہے کہ کس طرح وہ جذبات نفسانیہ سے پاک ہوں“.(روحانی خزائن مطبوعہ لندن 1984 ء جلد 22، حقیقۃ الوحی صفحہ 86 حاشیہ) ہندوستان کے ایک مشہور عالم دین مولوی حسن علی صاحب 1894ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دامن سے وابستہ ہوئے.دینی خدمات کی وجہ سے ہندوستان میں ان کا بڑا شہرہ تھا.کسی

Page 378

337 نے ان سے پوچھا کہ آپ کو بیعت کر کے کیا ملا.جواب دیا : - مردہ تھا، زندہ ہو چلا ہوں.گناہوں کا علانیہ ذکر کرنا اچھا نہیں...قرآن کریم کی جو عظمت اب میرے دل میں ہے ، حضرت پیغمبر خدا کی عظمت جو میرے دل میں اب ہے، پہلے نہ تھی.یہ سب حضرت مرزا صاحب کی بدولت ہے.تائید حق مولفہ مولوی حسن علی صاحب.بار سوم 23 دسمبر 1932 ء اللہ بخش سٹیم پر لیس قادیان صفحہ 79) حضرت مولانا غلام رسول را جیکی بیان کرتے ہیں کہ نواب خان صاحب تحصیلدار نے ایک بار حضرت مولانا نورالدین سے پوچھا کہ مولانا! آپ تو پہلے ہی باکمال بزرگ تھے.آپ کو حضرت مرزا صاحب کی بیعت سے زیادہ کیا فائدہ حاصل ہوا.اس پر حضرت مولانا صاحب نے فرمایا :- نواب خان ! مجھے حضرت مرزا صاحب کی بیعت سے فوائد تو بہت حاصل ہوئے ہیں لیکن ایک فائدہ ان میں سے یہ ہوا ہے کہ پہلے مجھے حضرت نبی کریم ﷺ کی زیارت بذریعہ خواب ہوا کرتی تھی ، اب بیداری میں بھی ہوتی ہے.حیات نور مصنفہ شیخ عبد القادر صاحب سابق سوداگر مل صفحہ 194) تاریخ احمدیت ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ احمدیت میں نئے شامل ہونے والوں کی زندگیوں میں ایک عظیم روحانی انقلاب پیدا کر دیا.ان کو گناہوں کی آلائش سے پاک کر کے اسلامی تعلیمات پر سچا عامل بنا دیا.ان میں ایسے بھی تھے جو احمدی ہونے سے قبل علاقہ کے خطرناک ڈاکو تھے.احمدیت نے ان کو ایسا بدلا کہ خدا نما وجود بن گئے.ایسے بھی تھے کہ رشوت لینا ان کا روزانہ کا معمول تھا.احمدی ہوئے تو نوٹوں کی بوری کمر پر اٹھا کر گاؤں گاؤں پھر کر یہ اعلان کرتے کہ جس کسی نے مجھے رشوت دی تھی وہ اپنی رقم مجھ سے وصول کر لے.ایسے عیسائی بھی تھے کہ جو ہر شام سونے سے قبل رسول خدا کو گالیاں دے کر سوتے تھے.احمدی ہوئے تو عرق گلاب سے منہ صاف کر کے درود و سلام پڑھنے کے بعد بستر پر دراز ہوتے ! انگلستان کے بشیر آرچرڈ صاحب عیسائیت سے تو بہ کر کے 1944ء میں احمدی مسلمان ہوئے.جوئے اور شراب نوشی سے توبہ کی.اسلامی تعلیم کے ایسے پابند ہوئے کہ دعا گو بزرگ بن گئے.نظام وصیت میں شامل ہوئے ، 1/3 حصہ کی وصیت کی.زندگی وقف کی اور پہلے انگریز مبلغ کے

Page 379

338 طور پر لمبا عرصہ بھر پور خدمت کی توفیق پائی.سیرالیون کے علی Rogers نے عالم جوانی میں احمدیت قبول کی جبکہ ان کی بارہ بیویاں تھیں.اسلامی تعلیم کی اجازت کے مطابق صرف چار بیویاں اپنے پاس رکھیں اور باقیوں کو رخصت کر دیا.(بحوالہ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ.مارچ 1984 ء صفحہ 30-31) امریکہ کے ایک مشہور موسیقار نے احمدیت قبول کی تو موسیقی کی رغبت بالکل ٹھنڈی پڑ گئی.اپنی ساری مصروفیات اور ان سے ملنے والی کثیر آمدن کو نظر انداز کر کے درویشانہ زندگی اختیار کر لی.تہجد کے ایسے پابند ہو گئے ، ایسے عاشق رسول بن گئے کہ آنحضرت ﷺ کا نام لیتے ہی آنکھوں سے آنسو رواں صلى الله ہو جاتے ! (بحوالہ ماہنامہ خالد بود.جنوری 1988 صفحہ 40- خطبہ جمعہ حضرت خلیفہ مسیح الرابع فرموده 16 اکتوبر 1987ء) نیک اور پاکیزہ تبدیلیوں کے یہ واقعات کوئی افسانے نہیں ہیں.یہ حقیقتیں ہیں اور ایسی معجزانہ اور ایمان افروز حقیقتیں ہیں جن سے احمدیت کا دامن بھرا ہوا ہے.یہ کرشمے جگہ جگہ نظر آتے ہیں اور دنیا کا ہر خطہ ان پر شاہد ناطق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود فرماتے ہیں :- " ہے.”میری جماعت نے جس قدر نیکی اور صلاحیت میں ترقی کی ہے یہ بھی ایک معجزہ (سیرت المہدی مطبوعہ قادیان 1935 ء جلد اوّل صفحہ 165) ہندوستان کے ایک اخبار نے اس حقیقت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا :- قادیان کے مقدس شہر میں ایک ہندوستانی پیغمبر پیدا ہوا جس نے اپنے گردو پیش کو نیکی اور بلند اخلاق سے بھر دیا.یہ اچھی صفات اس کے لاکھوں ماننے والوں کی زندگی میں بھی منعکس ہیں.سٹیٹسمین دہلی 12 فروری 1949ء بحوالہ تحریک احمدیت از برکات احمد صاحب را جیکی مطبوعہ قادیان 1958 صفحہ 13) کہ لاکھوں کا زمانہ تو کب کا گزر چکا.اب تو کروڑوں کا زمانہ آ گیا ہے اور اربوں کا زمانہ بھی کچھ دور نہیں.یہ عالمگیر روحانی انقلاب زندگی اور امید کا وہ پیغام ہے جو احمدیت نے دنیا کو دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا ہی برحق فرمایا تھا: - ” اس درخت کو اس کے پھلوں اور اس نیر کو اس کی روشنی سے شناخت کرو گے“.(روحانی خزائن مطبوعہ لندن 1984 ء جلد سوم، فتح اسلام صفحہ 44)

Page 380

339 اختلافی مسائل میں صحیح فیصلہ حدیث نبوی میں مذکور الفاظ حكمًا عدلاً کے مطابق سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسلمانوں کے مابین اختلافی مسائل میں اللہ تعالیٰ سے علم پا کر صحیح فیصلہ فرمایا.آپ نے مسلمانوں کو صحیح اسلامی عقائد کا عرفان عطا کیا.غلطیوں سے آگاہ کیا اور مختلف امور کے بارہ میں ان کی غلطیوں کی اصلاح کی نیز عقلی دلائل سے ثابت کیا کہ دراصل یہی سچے اسلامی عقائد ہیں.عقائد کی اصلاح کے میدان میں جماعت نے دنیا کو جو فیضان عطا کیا اس کی تفصیل بہت لمبی ہے.چند امور کی طرف اشارہ کرتے ہیں.وفات حضرت عیسی علیہ السلام مسلمانوں میں ایک بہت ہی خوفناک اور بے بنیاد یہ عقیدہ راہ پا گیا تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت نہیں ہوئے بلکہ آج بھی آسمان پر زندہ موجود ہیں اور وہی آخری زمانہ میں آسمان سے نازل ہو کر امت محمدیہ کو ہولناک خطرات سے بچائیں گے اور ان کے نجات دہندہ ہوں گے.ظاہر ہے کہ یہ عقیدہ آنحضرت ﷺ کی ارفع شان سے متصادم اور سخت گستاخی کا موجب ہے.کیونکہ اس سے لازم آتا ہے کہ رسول پاک ﷺ تو مشکلات کی چکی میں پستے رہے، شعب ابی طالب کا واقعہ ہو یا ہجرت مدینہ کا، طائف کا سفر ہو یا غزوہ احد اور حنین کا موقع.ان سب مواقع پر اللہ تعالیٰ نے نعوذ باللہ آپ کی تو مد داور دستگیری نہ کی اور جب حضرت عیسی علیہ السلام پر مشکل گھڑی آئی تو خدا تعالیٰ کی محبت اور قدرت جوش میں آگئی اور حضرت مسیح علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا گیا.وہ اب تک زندہ ہیں اور جب آخری زمانہ میں امت مسلمہ ہر طرف سے حملوں کی زد میں ہوگی، جب دجالی طاقتیں ہر طرف سے اس پر چڑھ دوڑیں گی تو اس وقت یہی اسرائیلی نبی ان کیلئے نجات دہندہ کے طور پر آئے گا.یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جس کو لے کر عیسائی آنحضرت ﷺ کے مقابل پر حضرت مسیح ناصرٹی کی فضیلت ثابت کرتے ہیں اور مسلمان اس خود ساختہ غلط عقیدہ کی بنا پر کچھ جواب دینے کے قابل نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس غلط عقیدہ سے عالم اسلام کو نجات بخشی.حضرت مسیح موعود

Page 381

340 علیہ السلام نے دنیا پر واضح کیا کہ حیات مسیح کے عقیدہ کا قرآن مجید اور مستند احادیث میں کہیں کوئی ذکر نہیں بلکہ قرآن مجید کی 30 آیات اور بے شمار احادیث سے ان کی طبعی موت ثابت ہوتی ہے.عقلی طور پر بھی حیات مسیح کا عقیدہ صفات باری سے متصادم ، شرک پیدا کرنے والا اور رسول اکرم ﷺ کی شان اقدس کو گرانے والا عقیدہ ہے.تاریخی شواہد اور زمانہ حال کے انکشافات سے بھی وفات عیسی کی تائید ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا کو یہ نوید سنائی کہ آج امت مسلمہ اپنی اصلاح اور راہنمائی کیلئے کسی غیر قوم کے نبی کی محتاج نہیں.بلکہ سچ تو یہ ہے کہ آج ہر امت اور ساری انسانیت اپنی اصلاح کیلئے امت محمدیہ کی محتاج ہے.پس خوشی سے اچھلو اور سجدات شکر بجالاؤ کہ آج غلامان محمد میں سے ایک جلیل القدر روحانی فرزند کو اللہ تعالیٰ نے غلام احمد کے طور پر بھیجا ہے جو اپنے آقا و مولی محمد مصطفی یا اللہ کے نقوش پا کی برکت سے امام الزمان بنایا گیا.دیکھو اور سنو اور دنیا کو بتا دو کہ برتر گمان و ہم احمد کی شان ہے جس کا غلام دیکھو مسیح الزمان ہے روحانی خزائن سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک عظیم الشان کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے روحانی خزائن لٹائے.کیونکہ ہمو جب آیت کریمه هو الذی ارسل رسوله بالهدى و دين الحق ليظهره على الدين كله ولو كره المشركون (الصف: 10) کے مطابق یہ مقدر تھا کہ آنے والا موعود اسلام کو دیگر ادیان پر غلبہ عطا کرنے کا ذریعہ بنے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ یہ پیشگوئی بڑی عظمت اور شان کے ساتھ پوری ہوئی.اس کا ایک شاندار نمونہ جلسہ اعظم مذاہب تھا جو لا ہو میں 1896ء میں منعقد ہوا.اس میں حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے مقررہ پانچ سوالوں کے جواب میں اسلامی اصول کی فلاسفی اس خوبصورتی سے بیان فرمائی کہ سب نے اس بات کا برملا اقرار کیا کہ یہ مضمون سب پر بالا رہا.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی جناب سے علوم ومعارف عطا فرمائے اور ان کے بیان کرنے کا انتہائی دلکش اور مؤثر انداز بھی سکھایا.آپ کے الفاظ میں ایسی غیر معمولی تاثیر ہے کہ دلوں کو تسخیر کرتی چلی جاتی ہے.اس بات کا اعتراف مخالفین نے بھی کیا اور آپ کی وفات پر

Page 382

341 امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے تو آپ کو ایک فتح نصیب جرنیل قرار دیا.آپ کو عطا ہونے والا یہ علم دراصل وہ آسمانی حربہ ہے جو باطل کے سب قلعوں کو مسمار کرتا چلا جاتا ہے.اس کی لاثانی تاثیرات کا یہ عالم ہے کہ آپ کے وصال کے بعد بھی یہ لازوال علم کلام غلبہ اسلام کا ایک کامیاب ذریعہ ثابت ہو رہا ہے.معارف کے اس سمندر سے احمدی مبلغین تو فائدہ اٹھاتے ہی ہیں غیر احمدی علماء بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کو اپنے بیانات اور تحریرات میں بکثرت استعمال کرتے ہیں مگر حوالہ دینے کی جرأت نہیں رکھتے.یہ ہے وہ زبردست علم کلام جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا کو دیا.جو ہر میدان مقابلہ میں فتح کی ضمانت ہے.بالخصوص عیسائیت کے مقابل پر حضرت مسیح موعود کے دلائل تو گویا ایسے پتھر ہیں جن کا جواب وہ ہر گز نہیں دے سکتے.رسول پاک می نے آنے والے موعود کا ایک کام کسر صلیب بیان فرمایا تھا.اس کا شاندار ظہور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی اور بعد میں ہر زمانہ میں بڑی شان سے نظر آتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے باطن شکن دلائل سے پادری لیفر ائے کو ایسا لا جواب کیا کہ مولوی نور محمد صاحب نے تسلیم کیا کہ آپ نے تو ” ہندوستان سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دے دی.(دیباچہ معجز نما کلام قرآن شریف مترجم مطبوعہ 1934 ء صفحہ 30) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا کو جو روحانی خزائن عطا فرمائے وہ 90 سے زائد کتب کی صورت میں شائع شدہ ہیں.آپ کے بعد آپ کے خلفائے کرام نے اس سلسلہ کو جاری رکھا اور پر معارف کتب کی صورت میں نئے سے نئے علوم دنیا کو عطا کرتے رہے.علمائے سلسلہ نے بھی اس شیریں چشمہ سے اکتساب فیض کرتے ہوئے عظیم الشان تصانیف کا تحفہ دنیا کو دیا.57 زبانوں میں تراجم قرآن کی اشاعت، تفاسیر القرآن، احادیث کی تشریحات، مختلف اسلامی موضوعات پر تصانیف اور مسائل حاضرہ کے موضوعات پر کتابوں کی اشاعت، دنیا بھر کی زبانوں میں ان کتب کے تراجم ، مرکز سلسلہ کے علاوہ مختلف ممالک سے شائع ہونے والے اخبارات ورسائل.یہ سب احمدیت کے علمی و روحانی فیضان کے دھارے ہیں جو ہر سمت تیزی سے بہتے چلے جارہے ہیں.علوم و معارف کی یہ عظیم دولت ہے جو احمدیت نے دنیا کو عطا کی اور یہ کتاب جو آپ پڑھ رہے ہیں اسی کام کی ایک کڑی ہے.اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے:.

Page 383

342 ”جو مجھے دیا گیا ہے وہ محبت کے ملک کی بادشاہت اور معارف الہی کے خزائن ہیں جن کو بفضلہ تعالیٰ اس قدر دوں گا کہ لوگ لیتے لیتے تھک جائیں گے.(روحانی خزائن مطبوعہ لندن 1984ء جلد سوم صفحہ 566 ءازالہ اوہام ) یہ ارشاد پڑھتے ہوئے ذہن فوراً اس حدیث نبوی کی طرف چلا جاتا ہے جس میں یہ پیشگوئی مذکور ہے کہ یفیض المال حتى لا يقبله احد بخاری کتاب بدء الخلق.باب نزول عیسیٰ بن مریم علیهما السلام) کہ آنے والا یح اس قدر مال تقسیم کرے گا کہ کوئی لینے والا نہیں ملے گا.آج یہ پیشگوئی کس شان سے پوری ہو چکی ہے.مسیح محمدی نے علوم و عرفان کے خزانے پانی کی طرف بہا دیئے اور دنیا کو سیراب و شاداب کر دیا.آپ نے کیا خوب فرمایا: خدمت خلق وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امیدوار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عظیم الشان کارناموں میں سے ایک عظیم کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے بنی نوع انسان کی خدمت کرنے والی جماعت تیار کی اور تاریخ احمدیت اس بات پر گواہ ہے کہ جب بھی خدمت کا کوئی میدان نظر آیا جماعت احمدیہ کے سرفروش ہمیشہ بے لوث خدمت کے جذبہ سے، بلا امتیاز مذہب وملت ، اس میدان میں کود پڑے.جماعت کی تعداد کم اور وسائل محدود، مالی لحاظ سے جماعت کسی حکومت سے نہ کبھی کوئی مدد لیتی ہے نہ اس کی طالب.اس کی ساری پونچی تو وہ چندے ہیں جو اس جماعت کے جانثار بڑی محنت سے کمائی ہوئی آمد میں سے اپنا پیٹ کاٹ کر ، اپنی ضروریات کو پس پشت ڈالتے ہوئے جماعت کی جھولی میں ڈالتے ہیں.اس کم مائیگی کے باوجود خدمت خلق کے میدان میں ہر جگہ یہی جماعت دن رات سرگرم عمل نظر آتی ہے.افریقہ کے کسی ملک میں فاقے اور قحط سالی کا امتحان ہو، گجرات میں زلزلہ کے متاثرین کو ضرورت ہو ، پاکستان میں سیلاب زدگان کی امداد کا سوال ہو یا جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک میں زلزلہ سے بے گھر ہونے والوں کو کھانا مہیا کرنے کا موقع ہو، جماعت احمدیہ کی عالمگیر رفاہی تنظیم Humanity First کسی جگہ پیا سے لوگوں کو پینے کا صاف پانی مہیا کرتی

Page 384

343 ہے تو کسی جگہ آنکھوں سے معذور لوگوں کو نور بصارت کا تحفہ دیتی ہے.جن کے اعضاء کاٹ دیے گئے ان کو مصنوعی اعضاء مہیا کرتی ہے.بے خانماں لوگوں کے گھر بناتی ہے اور گھر گھر جا کر بھو کے افراد کو کھانا اور بچوں کو دودھ مہیا کرتی ہے.یہ ساری خدمت کسی شہرت کیلئے نہیں کرتی ، نہ ہی کسی دنیوی جزا کیلئے محض رضاء باری کی خاطر کہ یہی اسلام کی تعلیم اور یہی احمدیت کا شعار ہے.جماعت احمد یہ ایک دینی اور روحانی جماعت ہے.اس کا مقصد ساری دنیا والوں کو خدا تعالیٰ کی طرف بلانا، اسلام کی دعوت کو اکناف عالم تک پہنچانا اور بنی نوع انسان میں ایک پاکیزہ انقلاب برپا کرنا ہے.ان مقاصد عالیہ کے ساتھ ساتھ جماعت اپنے محدود وسائل کے ذریعہ حتی الامکان بنی نوع انسان کی علمی ، سماجی اور جسمانی فلاح و بہبود کیلئے دن رات سرگرم عمل رہتی ہے کہ یہ بھی دین اسلام کا حصہ ہے اور خدا کی نظر میں پسندیدہ.دنیا کے وہ ممالک جن میں تعلیمی یا بی سہولتوں کا فقدان یا کمی ہے ان ممالک میں جماعت احمدیہ نے اس خدمت کا علم سالہاسال سے بلند کر رکھا ہے اور بلا امتیاز مذہب و ملت، بنی نوع انسان کی سچی اور بے لوث خدمت کے جذبہ سے سرشار، ہر میدان میں مصروف عمل ہے.جہاں تک اعداد و شمار کا تعلق ہے اس وقت دنیا کے 176 ممالک میں جماعت احمدیہ مستحکم طور پر قائم ہو چکی ہے.13291 مساجد تعمیر ہو چکی ہیں.اس روحانی فیض رسانی کے ساتھ ساتھ اس وقت جماعت کی طرف سے ترقی پذیر ممالک میں 373 سکول اور 5 کالج جاری ہیں جو لاعلمی کی تاریکیوں میں علم کی روشنی پھیلا رہے ہیں.اسی طرح 36 ہسپتال جاری ہیں جہاں غرباء کو بلا معاوضہ طبی سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں.خدمت خلق کے میدان میں ایک اور عظیم خدمت جو جماعت احمدیہ نے بالخصوص خلافت رابعہ کے دور میں سرانجام دی، وہ ہومیو پیتھی کے ذریعہ ساری دنیا میں اس مفید اور مؤثر ذریعہ علاج کے علم کا عام کرنا ہے.اس کا سہرا حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے سر ہے.جنہوں نے رات دن ایک کر کے اس بارہ میں لیکچر بھی دیئے اور کتب بھی لکھیں اور عملی طور پر ساری دنیا اور بالخصوص غریب ممالک میں ہومیو پیتھی ڈسپنسریوں کا جال بچھا دیا.اس وقت 55 ممالک میں 632 ہو میو پیتھک شفاخانے قائم ہو چکے ہیں.غریب اور مفلوک الحال لوگوں کیلئے یہ غیر معمولی طور پر مؤثر ذریعہ علاج اتنی وسعت اور سہولت سے مہیا ہو گیا ہے کہ عملاً ہر احمدی گھرانہ ایک مرکز شفاء بن گیا ہے.جس کا فیضان صرف احمد یوں تک محدود نہیں بلکہ کل دنیا تک پہنچ رہا ہے.

Page 385

344 یہ عظیم کارنامہ، بے لوث خدمت انسانیت کی یہ سنہری مثال لا نــريـد مـنـكــم جـزاء ولا شكورا (الدھر: 10) کی زندہ تفسیر ہے.اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کے سامان حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں:- ایک عظیم الشان کام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کیا کہ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کے سامان پیدا کئے جو یہ ہیں.(1) دعوت الی اللہ - حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس کام کو جو مدتوں سے بند ہو چکا تھا جاری کیا.آپ کی بعثت سے پہلے مسلمان تبلیغ اسلام کے کام سے بالکل غافل ہو چکے تھے.اپنے اردگرد کے لوگوں میں کبھی کوئی مسلمان تبلیغ کر لیتا تو کر لیتا لیکن تبلیغ کو با قاعدہ کام کے طور پر کرنا مسلمانوں کے ذہن میں ہی نہ تھا اور مسیحی ممالک میں تبلیغ کو تو بالکل ناممکن خیال کیا جاتا تھا.آپ نے 1870 ء کے قریب اس کام کی طرف توجہ کی اور سب سے پہلے خطوط کے ذریعہ سے اور پھر اشتہار کے ذریعہ سے یورپ کے لوگوں کو اسلام کے مقابلہ کی دعوت دی اور بتایا کہ اسلام اپنے محاسن میں تمام مذاہب سے بڑھ کر ہے.اگر کسی مذہب میں ہمت ہے تو اس کا مقابلہ کرے.مسٹر الیگزینڈروب مشہور امریکن مسلم مشنری آپ ہی کی تحریرات سے مسلمان ہوئے اور ہندوستان آپ ہی کی ملاقات کو آئے تھے کہ دوسرے مسلمانوں نے انہیں ورغلایا کہ مرزا صاحب سے ملنے سے باقی مسلمان ناراض ہو جائیں گے اور آپ کے کام میں مددنہ دیں گے.امریکہ واپس جا کر انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور مرتے دم تک اپنے اس فعل پر مختلف خطوط کے ذریعہ ندامت کا اظہار کرتے رہے.اور آج دنیا کے مختلف ملکوں میں اسلام کی تبلیغ کیلئے آپ کی جماعت کی طرف سے مشن کام کر رہے ہیں.آپ نے جہاد کی صحیح تعلیم دی.لوگوں کو یہ دھوکا لگا ہوا ہے کہ آپ نے جہاد سے روکا ہے.حالانکہ آپ نے جہاد سے کبھی بھی نہیں روکا بلکہ اس پر زور دیا ہے کہ مسلمانوں نے حقیقت جہاد کو بھلا دیا ہے اور وہ صرف تلوار چلانے کا نام جہاد سمجھتے رہے ہیں.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب مسلمانوں کو غلبہ

Page 386

345 حاصل ہو گیا تو وہ مطمئن ہو کر بیٹھ گئے اور کفر دنیا میں موجود رہا.گو دنیا میں اسلام کی حکومت ہوگئی مگر دلوں میں کفر باقی رہا اور ان ملکوں کی طرف بھی توجہ نہ کی گئی جن کو اسلامی حکومتوں سے جنگ کا موقع نہ پیش آیا.اور اس وجہ سے وہاں کفار کی حکومت رہی.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کفر اپنی جگہ پر پھر طاقت پکڑتا گیا اور بعض قوموں کی سیاسی برتری کے ساتھ ہی اسلام کو نقصان پہنچنے لگا.اگر مسلمان جہاد کی یہ تعریف جانتے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کی ہے کہ جہاد ہر اس فعل کا نام ہے جسے انسان نیکی اور تقویٰ کیلئے قائم کرتا ہے اور وہ جس تلوار سے ہوتا ہے اسی طرح اصلاح نفس سے بھی ہوتا ہے اور اسی طرح تبلیغ سے بھی ہوتا ہے اور مال سے بھی ہوتا ہے اور ہر ایک قسم کا جہاد کا الگ الگ موقع ہے.تو آج روز بدنہ دیکھنا پڑتا.اگر اس تعریف کو سمجھتے تو اسلام کے ظاہری غلبہ کے موقع پر جہاد کے حکم کو ختم نہ سمجھتے.بلکہ انہیں خیال رہتا کہ صرف ایک قسم کا جہاد ختم ہوا.دوسری اقسام کے جہاد ابھی باقی ہیں اور تبلیغ کا جہاد شروع کرنے کا زیادہ موقع ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ نہ صرف اسلام اسلامی ممالک میں پھیل جا تا بلکہ یورپ بھی آج مسلمان ہوتا اور اس کی ترقی کے ساتھ اسلام کو زوال نہ آتا.غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاد کے مواقع بتائے ہیں اور فرمایا ہے کہ اس زمانہ میں شریعت کے مطابق کس جہاد کا موقع ہے اور خود بڑے زور سے اس جہاد کو شروع کر دیا اور تمام دنیا میں تبلیغ جاری کر دی ہے.اب بھی اگر مسلمان اس جہاد کو شروع کریں تو کامیاب ہوجائیں گے.اگر مسلمان سمجھیں تو آپ کا یہ فعل ایک زبر دست خدمت اسلامی ہے اور اس کے ذریعہ سے آپ نے نہ صرف آئندہ کیلئے مسلمانوں کو بیدار کر دیا ہے اور ان کیلئے ترقی کا راستہ کھول دیا ہے بلکہ مسلمانوں کو ایک بہت بڑے گناہ سے بھی بچالیا ہے.کیونکہ گو مسلمان یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ یہ زمانہ تلوار کے جہاد کا ہے لیکن اسے فرض سمجھ کر بھی اس پر عمل نہیں کرتے تھے اور اس طرح اس احساس گناہ کی وجہ سے گناہگار بن رہے تھے.اب آپ کی تشریح کو جوں جوں مسلمان تسلیم کرتے جائیں گے اُن کے دلوں پر سے احساس گناہ کا زنگ اترتا جائے گا اور وہ محسوس کریں گے کہ وہ خدا اور اس کے رسول سے غداری نہیں کر رہے تھے.صرف نقص یہ تھا کہ صحیح جہاد کا انہیں علم نہ تھا.(3) تیسرا کام اسلام کی ترقی کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کیا ہے کہ آپ نے جدید علم کلام پیدا کیا ہے.آپ کی بعثت سے پہلے مذاہب کی جنگ گوریلا وار سے مشابہ تھی.ہر ایک

Page 387

346 شخص اٹھ کر کسی ایک بات کو لے کر اعتراض شروع کر دیتا اور اپنے خصم کو شرمندہ کرنے کی کوشش کرنے لگتا تھا.آپ نے اس نقص کو دور کیا اور اعلان کیا کہ مذاہب کی شان کے خلاف ہے کہ اس قسم کے ہتھیاروں سے کام لیں.نہ کسی کا نقص نکالنے سے مذہب کی سچائی ثابت ہوسکتی ہے اور نہ صرف ایک مسئلہ پر بحث کر کے کسی مذہب کی حقیقت ظاہر ہوسکتی ہے.مذاہب کی پر کھ مندرجہ ذیل اصول پر ہونی چاہیے.(الف) مشاہدہ پر.یعنی ہر مذہب جس غرض کیلئے کھڑا ہے اس کا ثبوت دے.یعنی یہ ثابت کرے کہ اس پر چل کر وہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے جس مقصد کو پورا کرنا اس مذہب کا کام ہے.مثلاً اگر خدا کا قرب اس مذہب کی غرض ہے اور ہر مذہب کی یہی غرض ہوتی ہے تو اسے چاہیے کہ ثابت کرے کہ اس مذہب پر چلنے والوں کو خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے.کیونکہ اگر وہ یہ ثابت نہیں کرسکتا تو اس کے قیام کی غرض ہی مفقود ہو جاتی ہے اور وہ ایک جسم بے روح ہو جاتا ہے.چند اخلاقی یا تمدنی تعلیمیں یا فلسفیانہ اصول کسی مذہب کو سچا ثابت کرنے کیلئے کافی نہیں ہیں کیونکہ ان باتوں کو انسان دوسرے مذاہب سے چرا کر یا خود غور و فکر کر کے بغیر اس کے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہو پیش کر سکتا ہے.مذہب کا اصل ثبوت تو صرف یہی ہو سکتا ہے کہ جس مقصد کیلئے مذہب کی ضرورت ہوتی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کا قرب ، وہ انسان کو حاصل ہو جائے اور اسی دنیا میں حاصل ہو جائے.کیونکہ اگر کوئی مذہب یہ کہے کہ وہ مرنے کے بعد نجات دلائے گا تو اس دعویٰ پر یقین نہیں کیا جاسکتا اور اس کی صداقت کو پرکھا نہیں جاسکتا.اور علاوہ ازیں اس دعوئی میں سب مذاہب شریک ہیں.کوئی مذہب نہیں جو کہتا ہو کہ میرے ذریعہ نجات مل سکتی ہے.گو نجات کے مفہوم میں ان کو اختلاف ہو.پس بعد مرنے کے نجات دلانے کا دعوئی نا قابل قبول ہے اور نہ مذہب کی غرض کو پورا کرتا ہے.جو چیز قابل قبول ہوسکتی ہے وہ یہی ہے کہ مذہب مشاہدہ کے ذریعہ ثابت کر دے کہ اس نے انسانوں کی ایک جماعت کو جو اس پر چلتی تھی خدا سے ملا دیا اور اس کا قرب حاصل کرا دیا.یہ دلیل ایسی زبردست ہے کہ کوئی شخص اس کی صداقت کا انکار نہیں کر سکتا اور پھر ساتھ ہی یہ بھی بات ہے کہ اس دلیل کے ساتھ تمام فضول مذہبی بحثوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور نیز سوائے اسلام کے کوئی مذہب میدان میں باقی نہیں رہتا.کیونکہ یہ دعویٰ صرف اسلام کا ہے کہ وہ آج بھی اسی طرح فیوض ظاہر کرتا ہے جس طرح کہ پہلے زمانوں میں فیوض

Page 388

347 ظاہر ہوتے تھے اور لوگوں کو خدا سے ملا دیتا ہے اور خدا تعالیٰ کے قرب کے آثار کا مشاہدہ کر دیتا ہے.چنانچہ آپ کے اس اعلان کا یہ نتیجہ ہوا کہ غیر مذاہب کے پیروؤں کو آپ کا اور آپ کی جماعت کا مقابلہ کرنا مشکل ہو گیا اور وہ ہر میدان میں شکست کھا کر بھاگنے لگے.(ب) دوسرا اصل مذہبی مباحثات کے متعلق آپ نے یہ پیش کیا کہ دعویٰ اور دلیل دونوں الہامی کتاب میں موجود ہیں.آپ نے مذہبی دنیا کی توجہ اس طرف پھیری کہ اس زمانہ میں یہ ایک عجیب رواج ہو رہا ہے کہ ہر شخص اپنے خیالات کو اپنے مذہب کی طرف منسوب کر کے اس پر بحث کرنے لگ جاتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ اس کی فتح اس کے مذہب کی فتح ہوتی ہے اور نہ اس کی شکست اس کے مذہب کی شکست ہوتی ہے اور اس طرح لوگ فضول وقت مذہبی بحثوں میں ضائع کرتے رہتے ہیں، فائدہ کچھ بھی نہیں ہوتا.پس چاہیے کہ مذہبی بحثوں کے وقت اس امر کا التزام رکھا جائے کہ جس دعوئی کو پیش کیا جائے اور اس کے متعلق پہلے یہ ثابت کیا جائے کہ وہ اس مذہب کی آسمانی کتاب میں موجود ہے اور پھر دلیل بھی اسی کتاب میں سے دی جائے.کیونکہ خدا کا کلام بے دلیل نہیں ہوسکتا.ہاں مزید وضاحت کیلئے تائیدی دلائل دیئے جا سکتے ہیں.آپ کے اس اصل نے مذہبی دنیا میں ایک تہلکہ مچادیا اور وہ کندہ ناتراش واعظ جو یو نہی اٹھ کر کھڑے ہو جاتے تھے اور وہ علوم جدیدہ کے فریفتہ جو اپنی قوم کو اپنا ہم خیال بنانے کیلئے جدید علوم کو اپنا مذہبی مسئلہ بنا کر پیش کرنے کے عادی تھے ، دونوں سخت گھبرا گئے.آریہ جو روح و مادہ کے انادی ہونے کے متعلق خاص فخر کیا کرتا تھا اس سوال پر آکر بالکل ساکت ہوگیا.کیونکہ وید میں دلیل تو الگ رہی اس مسئلہ کا بھی کہیں ذکر نہیں.آج تک آریہ سماج کے علماء مشغول ہیں مگر وید کوئی شرقی نہیں نکال سکے جس سے ان کا یہ مطلب حل ہو.یہی حال دوسرے مذاہب کا ہوا.وہ اس اصل پر اپنے مذاہب کو سچا ثابت نہ کر سکے.لیکن اسلام کا ہر ایک دعویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم سے نکال کر دکھایا اور ہر دعوی کے دلائل بھی اس میں سے نکال کر بتا دیے.اس حربہ کو آج تک احمدی جماعت کے مبلغ کامیابی کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں اور ہر میدان سے کامیاب آتے ہیں.(ج) تیسرا اصل آپ نے یہ پیش کیا کہ ہر مذہب جو عالمگیر ہونے کا دعویٰ رکھتا ہے اس کیلئے صرف یہ ضروری نہیں کہ وہ یہ ثابت کر دے کہ اس کے اندر اچھی تعلیم ہے بلکہ عالمگیر مذہب کیلئے

Page 389

348 ضروری ہے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ اس کی تعلیم ہر فطرت کو تسلی دینے والی اور ضرورت حقہ کو پوری کرنے والی ہے.اگر خالی اچھی تعلیم کسی مذہب کی صداقت کا ثبوت سمجھی جائے تو بالکل ممکن ہے کہ ایک شخص کہہ دے کہ میں ایک جدید مذہب لایا ہوں اور میری تعلیم یہ ہے کہ جھوٹ نہ بولو ظلم نہ کرو، غداری نہ کرو.اب یہ تعلیم تو یقیناً اچھی ہے لیکن ہر ضرورت کو پورا کرنے والی نہیں اور اس وجہ سے باوجود اچھی ہونے کے مذہب کی صداقت کا ثبوت نہیں ہو سکتی.مذاہب موجودہ میں سے مسیحیت کی مثال لی جاسکتی ہے.مسیحیوں کے نزدیک مسیح کا سب سے بڑا کارنامہ اس کی وہ تعلیم ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ اگر تیرے ایک گال پر کوئی تھپڑ مارے تو دوسرا بھی اس کے آگے پھیر دے.اب بظاہر یہ تعلیم بڑی خوبصورت نظر آتی ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو فطرت صحیحہ کے مخالف ہے.کیونکہ فطرت نیکی کا قیام چاہتی ہے اور اس تعلیم سے بدی بڑھتی ہے.اسی طرح ہر ضرورت کو بھی یہ نہیں پورا کرتی.کیونکہ انسان کو دشمن کا مقابلہ کرنے کی بھی ضرورت پیش آتی ہے اور اس ضرورت کا اس میں کوئی علاج نہیں.اس اصل کے ماتحت بھی دشمنان اسلام کو ایک بہت بڑی شکست نصیب ہوئی اور اسلام کو بہت سے میدانوں میں غلبہ حاصل ہوا.(4) چوتھا کام اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کیلئے آپ نے یہ کیا کہ سکھ جو ہندوستان کی پر جوش اور کام کرنے والی قوم ہے اسے اسلام کے قریب کر دیا.آپ نے تاریخ سے اور سکھوں کی مذہبی کتب سے ثابت کر کے دکھا دیا کہ باوانا نک علیہ الرحمۃ سکھ مذہب کے بانی در حقیقت مسلمان تھے اور قرآن کریم پر ایمان رکھتے تھے اور نمازیں پڑھتے تھے اور حج کو بھی گئے تھے اور مسلمان پیروں سے عموماً اور با وافرید علیہ الرحمۃ سے خصوصاً بہت عقیدت اور محبت رکھتے تھے.یہ تحقیق ایسی زبر دست اور یقینی ہے کہ مذہبی طور پر اس نے سکھوں کے دلوں میں بہت ہیجان پیدا کر دیا اور اگر مسلمان اس تحقیق کی عظمت کو سمجھ کر آپ کا ہاتھ بٹاتے تو لاکھوں سکھ اس وقت تک مسلمان ہو جاتے.مگر افسوس کہ مسلمانوں نے الٹی مخالفت کی اور اس کے عظیم الشان اثرات کے راستہ میں روکیں ڈالیں.مگر پھر بھی تسلی سے کہا جاسکتا ہے کہ ایک طبقہ کے اندر اس تحقیق کا گہرا اثر نمایاں ہے اور جلد یابدیر یہ تحریک عظیم الشان نتائج پیدا کرنے کا موجب ہوگی.(5) پانچواں کام آپ نے اسلام کی ترقی کیلئے یہ کیا کہ عربی زبان کا ام الالسنہ ہونا ثابت

Page 390

349 کیا اور اس بات پر زور دیا کہ مسلمانوں کو عربی زبان سیکھنی چاہیے.مسلمانوں نے ابھی تک اس بات کی عظمت کو سمجھا نہیں.بلکہ ابھی تک وہ اس کے برخلاف عربی کو مٹانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تجویز میں مسلمانوں کے اتحاد کامل کی بنیاد رکھی گئی ہے.امید ہے کہ کچھ عرصہ تک خود بخود اس کی طرف متوجہ ہوں گے اور اس کی مذہبی اہمیت کے ساتھ اس کی سیاسی اور تمدنی عظمت کو بھی محسوس کریں گے.(6) چھٹا کام اسلام کی ترقی کیلئے آپ نے یہ کیا کہ ایک عظیم الشان ذخیرہ اسلام کے تائیدی دلائل کا جمع کر دیا اور آپ کی کتب کی مدد سے اب ہر مذہب اور ہر ملت کے لوگوں کا اور علوم جدیدہ کے غلط استعمال سے جو مفاسد پیدا ہوتے ہیں ان کا مقابلہ کرنے کیلئے ہر طرح کی آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں.(7) ساتواں کام آپ نے یہ کیا کہ امید جو مسلمانوں کے دلوں سے بالکل مفقود ہوگئی تھی اسے پھر پیدا کر دیا.آپ کے ظہور سے پہلے مسلمان بالکل ناامید ہو چکے تھے اور سمجھے بیٹھے تھے کہ اسلام دب گیا.آپ نے آکر بہ زور اعلان کیا کہ اسلام کو میرے ذریعہ ترقی ہوگی اور اسلام پہلے دلائل کے ذریعہ دنیا پر غالب ہوگا اور آخر تبلیغ کے ذریعہ سے طاقتور قومیں اس میں شامل ہو کر اس کی سیاسی طاقت کو بڑھا دیں گی.اس طرح آپ نے ٹوٹے ہوئے دلوں کو باندھا.جھکی کمر کو سہارا دیا.بیٹھے ہوئے حوصلوں کو کھڑا کیا اور مردہ امنگوں کو زندہ کیا اور اس میں کیا شک ہے کہ جب امید اور زبر دست امید پیدا ہو جائے تو سب کچھ کر لیتی ہے.امید ہی سے قربانی وایثار پیدا ہوتے ہیں اور چونکہ مسلمانوں میں امید نہ تھی ، قربانی بھی نہ رہی تھی.احمدیوں میں امید ہے، اس لیے قربانی بھی ہے.پھر قربانی بھی مرنے مارنے کی قربانی نہیں بلکہ سامان بقا کو پورا کرنے والی قربانی.جس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ہر ذرہ کو اس طرح ملایا جائے کہ اس سے ترقی کے سامان پیدا ہوں.امن عامہ کا قیام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک کام یہ کیا کہ آپ نے امن عامہ کو قائم کیا ہے.اس غرض

Page 391

350 کیلئے آپ نے چند تدبیریں کی ہیں جن پر عمل کرنے سے دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے اور ہوگا.(1) دنیا میں سب سے بڑی وجہ فساد کی یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے بزرگوں کو برا بھلا کہتے ہیں اور دوسرے مذاہب کی خوبیوں سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں.حالانکہ عقل سلیم اسے تسلیم نہیں کر سکتی کہ خدا تعالیٰ جو رب العالمین ہے وہ کسی ایک قوم کو ہدایت کیلئے چن لے گا اور باقی سب کو چھوڑ دے گا.مگر عقل سلیم خواہ کچھ کہے دنیا میں یہ خیال پھیلا ہوا تھا اور اس کی وجہ سے سخت فسادات پیدا ہور ہے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس صداقت کو دنیا کے سامنے پیش کیا اور بڑے زور سے دعوی کیا کہ ہر قوم میں نبی گزرے ہیں اور اس طرح ایک عظیم الشان وجہ فساد کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا.اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ سے پہلے بھی بعض بزرگوں نے بعض قوموں کے بزرگوں کو یا بعض قوموں نے بعض غیر قومی بزرگوں کو خدا رسیدہ تسلیم کیا ہوا تھا.جیسے مثلاً ایک دہلوی بزرگ نے فرمایا کہ کرشن نبی تھے.اسی طرح تو ریت میں ایوب علیہ السلام کو نبی کر کے پیش کیا گیا ہے.حالانکہ وہ بنی اسرائیل میں سے نہ تھے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مسئلہ کو اور رنگ میں پیش کیا ہے.آپ کے دعوی سے پہلے مختلف اقوام کے ہدایت کے متعلق مختلف خیالات تھے.(1) بعض کا خیال تھا کہ باقی سب لوگ جہنمی ہیں صرف ان کی قوم نجات یافتہ ہے.یہود اور زرتشتی اس خیال کے تھے.(2) بعض کا خیال تھا کہ ان کے بانی کی آمد سے پہلے تو دنیا کی ہدایت کا دروازہ بند تھا.مگر اس کے آنے کے بعد کھلا ہے.مسیحی لوگ اس خیال کے پابند ہیں.ان کے نزدیک ہدایت عام حضرت مسیح ناصری کے ذریعہ سے ہوئی ہے.(3) بعض کا خیال تھا کہ ہدایت قومی تو ان کی قوم سے ہی مخصوص ہے لیکن خاص خاص افراد دوسری اقوام کے بھی نجات حاصل کر سکتے ہیں.مگر ان کا یہ عقیدہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی اور مذہب کا خدا تعالیٰ کی محبت کو دل میں پیدا کر کے مجاہدہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر بھی رحم کرتا ہے.گویا اسے ایک ایسا راستہ مل جاتا ہے جو گوسیدھا منزل مقصود تک نہیں پہنچتا لیکن چکر کھا کر پہنچ جاتا ہے.مسلمانوں کے خیالات بھی باوجود اس کے کہ قرآن کریم نے اس مسئلہ کو حل کر دیا تھا، غیر معین تھے.وہ یہ خیال کرتے تھے کہ بنی اسرائیل کے نبیوں کے ذریعہ دنیا کی ہدایت ہوتی رہی ہے.حالانکہ

Page 392

351 بنی اسرائیل کے نبی صرف اپنی قوم کی طرف تھے.نیز وہ ایک طرف تو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہر قوم میں نبی آئے ہیں.دوسری طرف بنی اسرائیل کے سوا باقی اقوام کو غیر کتابی سمجھتے تھے اور ان کے نبیوں کو جھوٹا قرار دیتے تھے.اس قسم کے خیالات کا نتیجہ یہ تھا کہ مختلف اقوام میں صلح ناممکن ہورہی تھی.اور ضد میں آکر سب لوگ کہنے لگ گئے تھے کہ صرف ہم ہی نجات پائیں گے، ہمارے سوا اور کوئی نہیں نجات پاسکتا، ہمارا ہی مذہب اصل مذہب ہے.گویا ہر قوم خدا تعالیٰ کی اکلوتی بیٹی بنا اور اسی حیثیت میں رہنا چاہتی تھی.اور دوسری قوموں سے اگر کسی رعایت کیلئے تیار تھی تو صرف اس قدر کہ تم بھی ہمارے مذہب میں داخل ہو کر کچھ حصہ خدا کے فضل کا پاسکتے ہو اور دوسری اقوام کی قدیم قومی روایات اور احساسات کو مٹا کر ایک نئی راہ پر لانا چاہتی تھی.یعنی یہ امید رکھتی تھی کہ وہ اپنے بزرگوں کو جھوٹا اور فریبی قرار دیتے ہوئے اور اپنی ساری پرانی تاریخ کا ورق پھاڑتے ہوئے ان سے آکر مل جائے اور نئے سرے سے ایک پنیری کی طرح جو نئی زمین میں لگائی جاتی ہے بڑھنا شروع کر دے.چونکہ یہ ایک ایسی بات تھی جس کے کرنے کیلئے بہت ہی کم انسان تیار ہو سکتا ہے.خصوصاً ایسا انسان جن کے آباء شاندار کام کر چکے ہوں اور علوم کے حامل رہ چکے ہوں.اس لیے قومی جنگ جاری تھی اور صلح کی کوئی صورت نہ نکلتی تھی.بعض لوگ دوسرے کے بزرگوں کو بھی تسلیم کر لیتے تھے.لیکن ایک مصلح یا معلم کی صورت میں نہیں بلکہ ایک بزرگ یا پہلوان کی صورت میں جس نے اپنے زور سے ترقی کی اور وہ اسی کی ذات تک محدود رہی.آگے اس کے ذریعہ سے دنیا پر ہدایت قائم نہیں ہوئی اور اس کا نور دنیا میں نہیں پھیلا.لوگوں نے اس کی دعاؤں سے یا اس کے معجزات و کرامات سے فائدہ اٹھایا لیکن وہ کوئی تعلیم اور اصلاحی سکیم لے کر نہیں آیا.جیسے ایوب اور کرشن کی نسبت یہود اور بعض مسلمانوں کا خیال تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آکر اس نقطہ نگاہ کو ہی بالکل بدل دیا.آپ نے بعض شخصیت کو دیکھ کر بزرگ تسلیم نہیں کیا اور حضرت مظہر جان جاناں کی طرح یہ نہیں کہا کہ کرشن جھوٹا نہیں معلوم ہوتا وہ ضرور خدا کا بزرگ ہوگا.یا جیسے سناتنی کہتے ہیں کہ محمد (ع) ایک بزرگ تھے مگر ہمارا ہی مذہب سچا ہے.بلکہ آپ نے اس مسئلہ پر اصولی طور پر نگاہ ڈالی.(۱) آپ نے سورج اور اس کی شعاعوں کو پانیوں اور ان کے اثرات ، ہوا اور اس کی تاثیرات کو دیکھا اور کہا جس خدا نے سب انسانوں کو ان

Page 393

352 چیزوں میں مشترک کیا ہے وہ ہدایت میں فرق نہیں کر سکتا اور اصولاً سب قوموں میں انبیاء کا ہونا لازمی قرار دیا.پس آپ نے مثلاً حضرت کرشن کو اس لئے نبی تسلیم نہ کیا کہ وہ ایک بزرگ ہستی تھے جنہوں نے ایک تاریکی میں پڑے ہوئے ملک میں استثنائی طور پر افرادی جد و جہد کے ساتھ خدا کا قرب حاصل کر لیا، بلکہ اس لیے کہ آپ نے خدا تعالیٰ کی صفات پر غور کر کے یہ نتیجہ نکالا کہ ایسا خدا ممکن نہ تھا کہ ہندو قوم کو بھلا دے اور اس کی ہدایت کا کوئی سامان نہ کرے.(۲) دوسرے آپ نے انسانی فطرت اور اس کی قوتوں کو دیکھا اور بے اختیار بول اٹھے کہ یہ جو ہر ضائع ہونے والا نہیں ، خدا نے اسے ضرور قبول کیا ہوگا.اور اس کو روشن کرنے کے اسباب پیدا کئے ہوں گے.غرض آپ کا نقطہ نگاہ بالکل جدا گانہ تھا اور آپ کا فیصلہ چند شاندار ہستیوں سے مرعوب ہونے کا نتیجہ نہ تھا.بلکہ خدا تعالیٰ کی عظمت اور انسانی قابلیت اور پاکیزگی کی بناپر تھا.اس سے صلح کا رستہ کھل گیا.کوئی ہندو یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر میں اسلام قبول کروں تو مجھے اپنے بزرگوں کو برا سمجھنا پڑے گا.کیونکہ اسلام ان کو بھی بزرگ قرار دیتا ہے اور اسلام قبول کرنے میں وہ انہی کی تقلید کرے گا.یہی حال زرتشتیوں کنفیوشس کے تابعین اور یہودیوں اور مسیحیوں کا ہوگا.پس ہر مذہب کا انسان اپنے آبائی فخر کو سلامت رکھتے ہوئے اسلام میں داخل ہوسکتا ہے اور اگر داخل نہ ہو تو صلح میں ضرور شامل ہو سکتا ہے.اس اصل کے ذریعہ سے آپ نے بندہ کی خدا تعالیٰ سے بھی صلح کرادی.کیونکہ پہلے مختلف اقوام کے لوگوں کے دل اس حیرت میں تھے کہ یہ کس طرح ہوا کہ خدا تعالیٰ میرا خدا نہیں ہے اور اس نے مجھے چھوڑ دیا اور اللہ تعالیٰ کی نسبت ان جذبات محبت کو پیدا نہیں کر سکتے تھے جو ان کے دل میں پیدا ہونے چاہئیں تھے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس زنگ کو بھی دور کر دیا.اور جہاں اپنی تعلیم کے ذریعہ سے بنی نوع انسان کے درمیان صلح کا راستہ کھولا وہاں خدا اور بندہ کے درمیان صلح کا بھی راستہ کھولا.(۲) دوسرا ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے امن عامہ کے قیام کیلئے یہ اختیار کیا کہ آپ نے تجویز پیش کی کہ ہر مذہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کریں.دوسرے مذاہب پر

Page 394

353 اعتراض نہ کریں.کیونکہ دوسرے مذاہب کے عیب بیان کرنے سے اپنے مذہب کی سچائی ثابت نہیں ہوتی بلکہ دوسرے مذہب کے لوگوں میں بغض و کینہ پیدا ہوتا ہے.(۳) تیسرا اصل امن عامہ کے قیام کیلئے آپ نے تجویز کیا کہ ملک کی ترقی فساد اور بغاوت کے ذریعہ سے نہ چاہی جائے بلکہ امن اور صلح کے ساتھ گورنمنٹ سے تعاون کر کے اس کیلئے کوشش کی جائے.اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت جب کہ عدم تعاون کا زور ہے لوگ اس اصل کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے.لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ تعاون سے جس سہولت سے حقوق مل سکتے ہیں عدم تعاون سے نہیں مل سکتے.مگر تعاون سے مراد خوشامد نہیں.خوشامد اور شے ہے اور تعاون اور شے ہے.جسے ہر شخص جوغور و فکر کا مادہ رکھتا ہو آسانی سے سمجھ سکتا ہے.خوشامد اور عہدوں کی لالچ ملک کو تباہ کرتی ہے اور غلامی کو دائمی بناتی ہے مگر تعاون آزادی کی طرف لے جاتا ہے.میں اُس ( اللہ ) کی طرف سے ہوں انوار العلوم - جلد 10 صفحہ 190 تا 199) ”میرا خدا جو آسمان اور زمین کا مالک ہے میں اس کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ میں اُس کی طرف سے ہوں.اور وہ اپنے نشانوں سے میری گواہی دیتا ہے.اگر آسمانی نشانوں میں میرا کوئی مقابلہ کر سکے تو میں جھوٹا ہوں.اگر دعاؤں کے قبول ہونے میں کوئی میرے برابر اُتر سکے تو میں جھوٹا ہوں.اگر قرآن کے نکات اور معارف بیان کرنے میں کوئی میرا ہم پلہ ٹھہر سکے تو میں جھوٹا ہوں.اگر غیب کی پوشیدہ باتیں اور اسرار جو خدا کی اقتداری قوت کے ساتھ پیش از وقت مجھ سے ظاہر ہوتے ہیں ان میں کوئی میری برابری کر سکے تو میں خدا کی طرف سے نہیں ہوں“.( اربعین نمبر 1.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 346-345)

Page 395

354 علمی کارنامے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے علمی میدان میں قرآن کریم کی تفسیر اور تربیتی واخلاقی کتب جو دلوں کو منور کرنے والی تھیں تحریر فرمائیں.جس کی فہرست ذیل میں درج ہے.علاوہ ان کتب کے سینکڑوں مضامین، اشتہارات تحریر فرمائے جو دنیا کے کونے کونے میں پہنچے.جنہوں نے دل کی کیفیات کو بدل دیا اور حضرت محمد ﷺ کے جھنڈے کے نیچے جمع کر دیا اور آج بھی یہ عمل جاری وساری ہے.الحمد للہ علی ذالک ایں چشمہ رواں کہ خلق خدا دہم یک قطره زبحره کمال محمد است ملفوظات کے نام سے پانچ جلدوں میں روزانہ کی ڈائری شائع کی گئی ہے.روحانی خزائن حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد نمبر نام کتب براہین احمدیہ ہر چہار خصص پرانی تحریریں.سرمہ چشم آریہ محنہ حق.سبز اشتہار فتح اسلام - توضیح مرام - ازالہ اوہام الحق مباحثہ لدھیانہ.الحق مباحثہ دہلی.آسمانی فیصلہ.نشان آسمانی آئینہ کمالات اسلام برکات الدعا.سچائی کا اظہار.حجتہ الاسلام.جنگ مقدس.شہادت القرآن تحفہ بغداد - کرامات الصادقین - حمامۃ البشریٰ نور الحق ہر دو حصص.اتمام الحجہ.سرالخلافہ انوار الاسلام من الرحمن ضیاء الحق.نور القرآن.معیار المذاہب -1 -2 -3 -4 -5 -6 -7 -8 -9

Page 396

355 -10 آریہ دھرم.ست بچن.اسلامی اصول کی فلاسفی 11- انجام آتھم -12 سراج منیر.استفتاء.حجتہ اللہ تحفہ قیصریہ محمود کی آمین.سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب.جلسہ احباب 13 کتاب البریہ.البلاغ.ضرورۃ الامام -14 - نجم البدی- راز حقیقت.کشف الغطاء - ایام اصلح حقیقت المهدی -15 مسیح ہندوستان میں.ستارہ قیصریہ.تریاق القلوب - تحفہ غزنویہ.روئیداد جلسہ دعا 16 - خطبہ الہامیہ لجتہ النور -17 گورنمنٹ انگریزی اور جہاد تحفہ گولڑویہ.اربعین 18 - اعجاز صیح.ایک غلطی کا ازالہ.دافع البلاء.الہدی نزول المسح -19 کشتی نوح - تحفتہ الندوہ.اعجاز احمدی.ریویو بر مباحثہ چکڑالوی بٹالوی.مواہب الرحمہ نسیم دعوت.سناتن دھرم 20 تذکرۃ الشہادتین.سیرۃ الابدال.لیکچر سیالکوٹ لیکچر لاہور.لیکچر لدھیانہ.رسالہ الوصیت چشمہ مسیحی تجلیات الہیہ.قادیان کے آریہ اور ہم 21 - براہین احمدیہ حصہ پنجم 22 حقیقۃ الوحی 23- چشمہ معرفت.پیغام صلح

Page 397

356 حرف آخر حضرت محمد مصطفی میں یہ سچائی کے اظہار کیلئے مسجد داعظم تھے.ان کے چند غلاموں ( جو آپ کے رنگ میں اپنی اپنی بساط کے مطابق رنگین تھے کے تجدیدی کارناموں) کا ایک اجمالی جائزہ گزشتہ صفحات میں پیش کیا گیا ہے.کس طرح انہوں نے ظلمات کفر کی تیرہ و تاریک وادیوں میں نور ایمان کے مصابیح فروزاں کیے جس سے کفر و بدعت کی تیرگی فرو ہوئی.اس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ یقینا یہ جو خدا کے فرستادہ تھے اور خدا کی ہستی ، حضرت محمد ﷺ ، اسلام اور قرآن کی صداقت کے زندہ ثبوت تھے.حضرت اصلح الموعود فرماتے ہیں:- اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جس طرح رسول کریم ہے کے ذریعہ ایک زندہ خدا لوگوں کو نظر آیا...ویسا ہی زندہ خدا حضرت حسن بصری، حضرت عمر بن عبد العزیز ، حضرت شہاب الدین سہروردی، حضرت معین الدین چشتی اور سید عبدالقادر جیلانی وغیرہ کے ذریعے بھی نظر آتا تھا.یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اسلام کے زندگی بخش اثرات کو برابر قائم رکھا.۲۸ خدا اُن کی روحوں پر بے شمار رحمتیں نازل کرے اور فردوس بریں میں جگہ دے.آمین.اور ہمیں ان سب کے نیک اقوال اور اعمال کا وارث بنائے اور آنحضرت مے کی پیروی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی محبت نصیب ہو.آمین ثم آمین.اللهم صل علی محمد و علی آل محمد.

Page 398

357 المراجع والمصادر نمبر شمار نام کتاب مؤلف ناشر مطبع من اشاعت 1 القرآن الحکیم صحیح بخاری محمد بن اسمعیل بخاری قدیمی کتب خانه آرام اصبح المطابع - کراچی - 1961ء جامع ترندی باغ کراچی ابو عیسی محمد بن عیسی قرآن محل - کراچی سنن ابی داؤد سلیمان بن اشعث عبد الواحد محمد التازی مکتبہ الناز یہ مصر مستدرک للحاکم امام ابو عبد اللہ نیشاپوری مکتبہ النصر الحديث ریاض براہین احمدیہ مرزا غلام احمد قادیانی الشرکۃ اسلامیہ لمیٹڈ ربوہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ // // "/ // // // // "/ // // // // // // " // // // // "1 "1 "1 "1 // // // " "1 ۴ ۵ ۶ حقیقۃ الوحی چشمه معرفت و حمامة البشرى ۱۰ تحفہ گولڑویہ شہادت القرآن ۱۲ آئینہ کمالات اسلام ۱۳ آثار القيامة في حج الكرامة نواب صدیق حسن خان مطبع شاہجہاں بھوپال 1923 ۱۴ تاریخ اسلام شاہ معین الدین ندوی ناشران قرآن لمیٹڈ لاہور حفیظ پریس لاہور 1948ء ۱۵ سیرت عمر بن عبد العزيز عبد السلام ندوی معارف اعظم گڑھ ۱۶ مذاہب اسلام مولوی نجم الغنی رامپوری رضا پبلیکشنز لاہور مولا داد پر نٹر ز لا ہور 1978ء ۱۷ طبقات ابن سعد علامہ عبداللہ العمادی نفیس اکیڈمی کراچی ایجوکیشنل پریس (اُردو ترجمه ) مترجم: محمد بن سعد کراچی اردو دائرہ معارف اسلامیہ محمد شفیع ( رئیس اداره دانش گاہ پنجاب لاہور پنجاب یونیورٹی پریس لاہور 1962ء مولانا جلال الدین سیوطی ۱۹ تاریخ الخلفاء ترجمہ اردو بیان الامراء مولانا حکیم سعید احمد انصاری مکہ پبلشنگ کمپنی لاہور المطبعة العربیہ لاہور ۲۰ سیارہ ڈائجسٹ ایڈیٹر علی سفیان آفاقی ریواز گارڈن لاہور اللہ والا پرنٹرز لاہور اپریل $1988 اولیاء کرام نمبر

Page 399

نمبر شمار نام کتاب مؤلف 358 ناشر مطبع سن اشاعت ۲۱ کشف الظنون اسمعیل پاشا بن محمد بعد اودی دار الفکر ۲۲ تجدید و احیائے دین سیدابوالاعلیٰ مودودی اسلامیہ پبلیکیشنز لمیٹڈ ۲۳ لاہور تبلیغ ہدایت مرزا بشیر احمد صاحب نظارت اشاعت لٹریچر و ضیاء الاسلام پریس تصنیف ربوه ربوه 1982 مارچ 1961 +1915 ۲۴ بستان المحد ثین شاہ عبد العزیز صاحب محمد عبد الاحمد پروپرائیٹرز مطبع مجتبائی دہلی مطبع وزیر ہند.امرتسر 1913ء مرز اخدا بخش قادیانی ۲۵ | عسل مصفى ۲۶ سیرت ائمہ اربعہ رئیس احمد جعفری شیخ غلام علی اینڈ سنز لمیٹڈ غلام علی پرنٹرز لاہور 1968 ء ۲۷ آثار امام شافعی ابوزہرہ اردو ترجمہ رئیس احمد جعفری لاہور // علمی پرنٹنگ پریس 1968 ء لاہور ۲۸ سیرة الشافعی نجم الدین سیو ہاروی دار الاشاعت پنجاب مطبع خان رفاہ عامہ 1899 ء لاہور ۲۹ تاریخ دعوت و عزیمت سید سلیمان ندوی مجلس نشریات اسلام کراچی عظیمی پرنٹرز کراچی 1983ء ۳۰ مقالات اسلامیبین علامہ ابوالحسن اشعری ادارہ ثقافت اسلامیہ اشرف پریس لاہور اُردو ترجمہ مولانا محمد حنیف ندوی لاہور ۳۱ حیات جاودانی مولوی عبد الستار گلے زئی تاجران کتب گوگل چند پرنٹر ز لا ہور ۳۲ دس ولی ۳۳ رود کوثر ۳۴ البد الطالع لاہور بشیر احمد سعدی لطیف پبلشرز لاہور الجدہ پرنٹر ز لاہور شیخ محمد اکرم فیروز سنز لمیٹڈ لاہور عبد الحمید خان پرنٹرز پبلشرز علامہ شوکانی قاہرہ ۳۵ الاتفاق فی علوم القرآن جلال الدین سیوطی المكتبه التجاريه الكبرى مصر مطبع حجازی قاہرہ ٣٦ الدر المخور دار المعرفة الطباعة والنشر بیروت 1348 استقلال پریس لاہور 1978ء ۳۷ تاریخ تفسیر و مفسرین غلام احمد حریری ملک سنز پبلشر فیصل آباد مشہور آفسٹ پریس 1970ء ۳۸ مکتوبات مجددالف ثانی مولانا محمد سعید احمد نقشبندی مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی کراچی

Page 400

نمبر شمار نام کتاب مؤلف 359 ناشر مطبع سن اشاعت ۳۹ مجددالف ثانی ترجمہ: نظام الدین مجددی سنگ میل پبلیکیشنز لاہور چاندرت پرنٹرز ۳۰ ۴۱ 3 توکل سوانح عمری معین الدین چشتی سید الیاس رضوی شیخ برکت علی اینڈ سنزار اتحاد پر لیں.لاہور 11 عبد الرحمن شوق ملک دین محمد اینڈ سنز در دین محمدی پریس لاہور $1958 محمد ابوزہرہ دار الفكر العربي مطبعہ احمد نخیمر غلام جیلانی برق مکتبہ اُردو لا ہور مرکنٹائل پریس لاہور 1938ء ۴۲ ابن تیمیه ۴۳ ابن تیمیه ۴۴ عجاله نافعه شاہ عبد العزیز محدث دہلوی مطبع مجتبائی دہلی 1348 ۴۵ فوائد جامعه مولانا محمد عبد الحلیم چشتی نورمحمد کارخانه تجارت مشہور آفسٹ پریس 1964 ء کتب.کراچی کراچی ۴۶ تفہیمات الہیہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی امجلس العالمی داھبیل مدینہ برقی پریس 1936ء (ہند) کراچی ۴۷ تذکرہ شاہ ولی اللہ مولانا مناظر احسن گیلانی تفیس اکیڈمی کراچی انٹر نیشنل پریس کراچی 1959ء ۴۸ حجۃ اللہ البالغہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی دارالکتب الحدیث.قاہرہ | مطبعہ الاستقلال الکبری غلام رسول مہر کتاب منزل - کشمیری منصور پرنٹنگ پریس 1952ء ۴۹ سید احمد شہید بازار لاہور لاہور ۵۰ سیرت سید احمد شہید سیدابوالحسن ندوی یونائیٹڈ انڈیا پریس لکھنو باہتمام سید توسل حسین 1941 ء ۵۱ تواریخ مجیبیہ (سوانح احمد ) مفتی محمد جعفر تھانیسری محمد معظم طبع شد مطبع فاروق دہلی 1309 ۵۲ عمر بن عبد العزیز رشید اختر ندوی شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور ۵۳ انوار اصفیا مرتبه اداره تصنیف و تالیف علمی پرنٹنگ پریس لاہور $1957 ۵۴ | فتوح البلدان احمد بن یحیی البغدادی دار صادر بیروت مطبع المؤسسات مصر 1319 ۵۵ طبقات الکبری ابن سعد 02 المكتبه التجارية مصر مطبعہ الاستقامة قاہرہ 1939ء محمد بن جریر الطبری محکمہ اوقات حکومت مکتبہ جدید پریس 1972ء لاہور ۵۶ تاریخ طبری ۵۷ دعوت اسلام (ترجمہ) ٹی ڈبلیو آرنلڈ پنجاب لاہور ۵۸ انفاس العارفين شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اسلامک بک فاؤنڈیشن بختیار پرنٹنگ پریس 1978ء اُردو ترجمہ سید محمد فاروق القادری لاہور لاہور ۵۹ فیوض الحرمین، اردو ترجمہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی المطبع الاحمدی دیلی مدرسه عزیزی ۶۰ رواح ثلاثہ (امیر الروایات) محمد اشرف علی مطبع امدادالغرباء مطبع امداد الغرباء 1307هـ سہارنپور

Page 401

360 نمبر شمار نام کتاب حیات ولی ۶۲ الدر الثين ۶۳ ضرورة الامام مؤلف ناشر مطبع سن اشاعت حافظ محمد ابراہیم بخش دہلوی المکتبہ السلفیہ لاہور دین محمد پریس لاہور 1352ھ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی | ظہیر الدین مطبع احمد می دیلی مرزا غلام احمد قادیانی الشرکة الاسلامیہ لمیٹڈ ضیاء الاسلام پریس ربوہ 1955ء ۶۴ کتاب البریه "/ "1 // // ۶۵ | سیرة المهدی مرزا بشیر احمد ایم.اے ۶۶ تحفۃ الملوک مرزا بشیر الدین محمود احمد الحكم احمدی ۶۸ ماہنامہ خالد ایڈیٹر خالد مسعود $1899 // "/ // "1 شیخ یعقوب علی تراب شیخ یعقوب علی اینڈ سنز انوار احمدیہ پریس ۶۹ کتاب الخراج امام ابو یوسف ۷۰ تفسیر کبیر قادیان قادیان مبارک احمد خالد ضیاء الاسلام پریس ربوہ فروری طبعه بولاق 1904 مرزا بشیر الدین محمو د احمد انظار اشاعت ربوہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ 1982ء مطبعہ کبری.مصری 1032ھ المنهاج السنة النبوية ابن تیمیه ۷۲ | مجموعی رسائل الکبری ابن تیمیه شركة الطبع الكتب العلمية الطبعہ العامره الشافيه المنجد لوئیس مولوف ۷۴ ملفوظات ( حضرت مسیح موعود ) بیروت لبنان تألیف واشاعت قادیان اللہ بخش سٹیم پر لیس قادیان DO 1321 D 1323 ۷۵ انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا انشورنس $1936 ۷۶ شاہکار اسلامی سید قاسم محمود شاہکار بک فاؤنڈیشن بشیر سنز پرنٹر کراچی 1972 ء انسائیکلو پیڈیا کراچی ۷۸ مفتاح المكنوز السنتة (عربی) محمد فواد عبدالباقی شركة مساهمة مصريه مطبعہ مصر ۷۹ نقض المنطق ۸۰ امام ابن تیمیه المحدثين المتقين نواب صدیق حسن خان مطبع نظامی ، کانپور 1934ء نزهة النظر فی نخبته الفکر علامہ ابن حجر عسقلانی فاروقی کتب خانہ ملتان صابر پریس لاہور المطبع العلمی دبلی ۸۲| گلدسته کرامات مفتی غلام سرور سید محمد عبد الحلیم 1946

Page 401