Mufti Mahmood Ki Taqreer Per Tabsra

Mufti Mahmood Ki Taqreer Per Tabsra

دوسری آئینی ترمیم ۔ خصوصی کمیٹی میں مفتی محمود کی تقریر پر تبصرہ

Author: Other Authors

Language: UR

UR
اختلافی مسائل و اعتراضات

یہ کتاب پہلے شائع ہونے والی کتاب ’’دوسری آئینی ترمیم 1974ء خصوصی کمیٹی کی کارروائی پر ریویو‘‘ کا ہی تسلسل ہے۔ دراصل خصوصی کمیٹی کی کارروائی کےدوران جماعت احمدیہ کی طرف سے محضر نامہ پیش کئےجانے کے بعد گیارہ دن تک جماعتی وفد سے سوالات کا سلسلہ جاری رہا، اس قدر طویل جرح کے دوران بھی سوال اٹھانے والے اور سوال کرنے والے اصل موضوع بحث سے گریز ہی کرتے رہے، اس کے بعد بجائے کارروائی کو سمیٹنے کے جماعت احمدیہ کے اشد ترین مخالفین کی نمائندگی کرتے ہوئے جمیعت علمائے اسلام کے قائد مولوی مفتی محمود صاحب نے دو روز تک ایک تقریر کی تھی۔ اس تقریر کو خصوصی کمیٹی کی کارروائی شائع ہونے سے قبل ہی کتابی شکل میں بار بار شائع کیا گیا اور اسے ’’قادیانی فتنہ اور امت مسلمہ کا موقف‘‘ کا عنوان دیا گیا اور دعویٰ کیا گیا کہ یہ امت مسلمہ کا مشترکہ موقف تھاجس کو سننے کے بعد قومی اسمبلی نے احمدیوں کو متفقہ طور پر غیرمسلم قراردے دیا تھا۔ مفتی محمود کی تقریر کی کتابی شکل کے پیش لفظ میں یہ تفصیلات بھی درج کی گئی ہیں کہ اس تقریر کے مواد کی فراہمی اور حتمی شکل دینے میں پروفیسر غفور احمد، احمد شاہ نورانی، مولوی سمیع الحق، محمد حیات وغیرہ نے مدد کی تھی۔ دو سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس زیر نظر کتاب میں مفتی محمود کی اس تقریر یا مخالفین جماعت احمدیہ کے مشترکہ محضر نامہ کا تفصیلی تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔  


Book Content

Page 1

دوسری آئینی ترمیم خصوصی کمیٹی میں مفتی محمود کی تقریر پر تبصرہ

Page 2

نوٹ یہ کتاب پہلے شائع ہونے والی کتاب ” دوسری آئینی ترمیم 1974 ، خصوصی کمیٹی کی کارروائی پر ریویو“ کا تسلسل ہے.اس کتاب میں جہاں گزشتہ کتاب کا حوالہ دیا گیا ہے وہاں اس سے مراد ” دوسری آئینی ترمیم 1974ء خصوصی کمیٹی کی کارروائی پر ریویو" ہے.

Page 3

بسم اللہ الرحمن الرحیم جیسا کہ گزشتہ کتاب میں اس بات کا تفصیلی تجز یہ پیش کیا جا چکا ہے کہ قومی اسمبلی کی اس پیشل کمیٹی میں جماعت احمدیہ کا محضر نامہ پڑھا گیا اور اس پر سوالات کا سلسلہ چلا.پھر ۲۷ اور ۲۸ /اگست کو غیر مبایعین احمدی احباب کے وفد سے سوال و جواب ہوئے.اس کے بعد مزید آٹھ روز تک اس سپیشل کمیٹی کے مزید اجلاسات ہوئے.بند دروازوں کے پیچھے ان اجلاسات میں کیا ہوا یہ اپنی ذات میں تفصیلی تجزیہ کا تقاضہ کرتا ہے.دنیا بھر کی پارلیمنٹوں میں سپیشل کمیٹیاں قائم کی جاتی ہیں لیکن یہ کارروائی اپنی ذات میں بالکل انوکھی طرز کی کارروائی تھی.پہلی وجہ تو بالکل واضح ہے کہ یہ دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہو رہا تھا کہ ایک اسمبلی اپنے زعم میں یہ فیصلہ کر رہی تھی کہ کسی گروہ کے مذہب کا کیا نام ہونا چاہیے یا یہ کہ اسے کس مذہب کی طرف منسوب ہونے کا حق حاصل ہے لیکن اس مرحلہ تک یہ کارروائی عجیب افرا تفری کا شکار ہو چکی تھی.خود پاکستان کی قومی اسمبلی نے پوری قومی اسمبلی پر مشتمل سپیشل کمیٹی قائم کی تھی اور اس کے لیے یہ دائرہ کا رمقررکیا تھا کہ یہ پیشل کمیٹی یہ طے کرنے کی کوشش کرے گی کہ جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی نہیں سمجھتا اس کی اسلام میں حیثیت کیا ہے؟ اور قواعد کی رو سے یہ پیش کمیٹی انہیں حدود میں کام کرنے کی پابند تھی.جماعت احمدیہ کے محضر نامہ کے بعد گیارہ روز تک جماعت احمدیہ کے وفد سے سوالات کیے گئے لیکن اس طویل کا رروائی کے دوران سوال کرنے والے اور سوال اُٹھانے والے اصل موضوع سے گریز ہی کرتے رہے.اب جب کہ یہ مرحلہ ختم ہو گیا تو یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ اب مختصر بحث ہوگی اور یہ پیشل کمیٹی اپنی تجاویز مرتب کر دے گی ، جنہیں مزید کاروائی کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا لیکن عملاً یہ ہوا کہ اس مرحلہ کے بعد کارروائی مزید آٹھ روز تک چلتی رہی.اس کارروائی کا پہلا حصہ وہ طویل تقریر تھی جو کہ جماعت احمدیہ کے اشد ترین مخالفین کی نمائندگی کرتے ہوئے جمیعت العلماء اسلام کے قائد مولوی مفتی محمود صاحب نے ۲۹/ اگست اور ۳۰ را گست کو سپیشل کمیٹی میں کی جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ پہلے جماعت احمدیہ کی طرف سے

Page 4

2 امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے محضر نامہ پڑھا.اس کے بعد جماعت احمدیہ کے وفد سے اور پھر غیر مبایعین احباب کے وفد سے سوال و جواب کا طویل سلسلہ چلا.اس کے بعد اس کا رروائی نے ایک رنگ اختیار کیا اور اب اس خفیہ کارروائی میں جماعت احمدیہ کا وفد موجود نہیں تھا اور صرف ممبران اسمبلی موجود تھے.اب جماعت احمدیہ کے مخالفین کا تحریر کیا ہوا موقف مفتی محمود صاحب پیش کر رہے تھے لیکن اس کی تیاری میں جماعت احمدیہ کے مخالف علماء اور ممبران اسمبلی نے مشترکہ طور پر کوشش کی تھی.قومی اسمبلی کی خفیہ کارروائی شائع ہونے سے قبل بھی اس تقریر کو کتابی صورت میں بار بار ” قادیانی فتنہ اور امت مسلمہ کا موقف کے نام سے شائع کیا گیا اور یہ دعویٰ پیش کیا گیا کہ یہ امت مسلمہ کا مشترکہ موقف تھا جس کو سننے کے بعد قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر غیر مسلم قرار دے دیا.اسی اشاعت کے پیش لفظ میں یہ تفصیلات بھی بیان کی گئیں کہ اس کی تیاری میں پروفیسر غفور احمد صاحب ، شاہ احمد نورانی صاحب مفتی محمود صاحب ، مولوی سمیع الحق صاحب محمد حیات صاحب وغیرہ نے مدد فراہم کی.اس کتاب میں ہم اس تقریر یا مخالفین جماعت کے محضر نامے کا تجزیہ پیش کریں گے لیکن اس تجز یہ کو پیش کرنے سے قبل کچھ اصول درج کرنا ضروری ہیں جن کی بنیاد پر اس کا منصفانہ تجزیہ ہونا ضروری ہے.ا.اس سپیشل کمیٹی کا قیام ایک خاص سوال پر غور کرنے کے لیے ہوا تھا.کیا اس تقریر کا مواد اس سوال پر مرکوز تھایا پہلے کی طرح غیر متعلقہ نکات بیان کر کے وقت گزارا گیا تھا؟ ۲.جماعت احمدیہ کے محضر نامہ میں اور اس کے بعد سوال و جواب کے دوران جماعت احمدیہ کی طرف سے اپنے موقف کے حق میں کئی دلایل پیش کیے گئے تھے.اس بات کا تجزیہ ضروری ہے کہ کیا مفتی محمود صاحب نے اپنی تقریر میں ان کا رد کرنے کی طرف توجہ کی یا پھر اس سے گریز کیا گیا..سوال و جواب کے دوران کئی روز جماعت احمدیہ پر طرح طرح کے اعتراضات کیے گئے تھے اور ان کے رد میں جماعت احمدیہ کی طرف سے دلائل پیش کیے گئے تھے.اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کیا مفتی محمود صاحب نے صرف پرانے اعتراضات کو دہرانے پر ہی اکتفا کی یا پھر جماعت احمدیہ کے پیش کردہ دلائل کا توڑ پیش کیا ؟

Page 5

3 ۴.ہم گزشتہ کتاب میں یہ ثابت کر چکے ہیں کہ سوال و جواب کے دوران مخالفین کی طرف سے بہت سے غلط حوالے پیش کیے گئے تھے.اور امام جماعت احمدیہ نے ان کو غلط ثابت فرمایا تھا ؟ یہ اس کارروائی کا ایک بڑا سقم تھا.کیا مفتی محمود صاحب بھی جعلی حوالوں کا سہارا لیتے رہے یا وہ اس سقم کو دور کرنے میں کامیاب ہوئے.ان نکات کو بنیاد بناتے ہوئے ہم اس تقریر کا منصفانہ تجزیہ پیش کرنے کی کوشش کریں گے.مولوی حضرات کے نئے خدشات ابتدا میں ہی بہت سے ممبران کو ایک نیا خدشہ لاحق ہو گیا.جیسا کہ بعد کی کارروائی پڑھنے سے واضح ہو جاتا ہے اب بہت سے ممبران جماعت احمدیہ کی مخالفت میں تقریر کرنے کے لیے بیتاب تھے.اب ان اجلا سات میں جماعت احمدیہ کا وفد تو شامل نہیں تھا جو کہ پہلے کی طرح ان کی غلطیوں اور جعلی حوالوں کی نشاندہی کرتا لیکن ان کو اب بھی ایک فکر لاحق تھی.ابتدا میں ہی مفتی محمود صاحب نے جو نکتہ اٹھا یا وہ ان کے ہی الفاظ میں درج کیا جاتا ہے.انہوں نے کہا: میں اس میں اتنی پوزیشن واضح کر دوں کہ پوزیشن یہ ہے کہ ہم یہاں پر بحیثیت گواہ کے جیسے کہ وہ دو فریق پیش ہوئے تھے اس طرح ہم پیش نہیں ہوں گے اور ہم اس مسئلے میں ان کے مقابلے میں ایک فریق کی حیثیت اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں.ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا موقف تمام مسلمانوں کا موقف ہے.اس میں ہم فریق بننے کے لیے تیار نہیں ہیں.اس کے علاوہ اس میں یہ صورت حال ہے کہ ہم ایک ممبر کی حیثیت سے ہیں اور ممبران کو حقائق واضح کرنے کے لیے اس پر بحث کرنے کا حق ہے اور ایک ممبر کی حیثیث سے ہم بحث کر سکتے ہیں.“ ان جملوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مفتی محمود صاحب یہ نہیں چاہتے تھے کہ جب وہ اپنا موقف پیش کریں تو اس پر کسی قسم کی جرح ہو یا سوال و جوابات کیے جائیں.اس سے گریز کے لیے انہوں نے یہ عذر پیش کیا کہ وہ جو بھی موقف پیش کر رہے ہیں وہ بقول ان کے امت مسلمہ کا مشترکہ موقف تھا،

Page 6

4 اس بناء پر وہ یہ درخواست کرنا چاہ رہے تھے کہ اس پر سوال و جواب نہ کیے جائیں.سپیکر صاحب نے ان سے اتفاق کیا اور جب اس موضوع پر گفتگو آگے چلی تو انہوں نے کہا مغرب کے بعد مولانا! ہم یہاں بیٹھیں گے.سب سے پہلے طریقہ کار پر بحث کریں گے جو مہران زبانی بیان دینا چاہیں، پڑھنا چاہیں یا بحث میں حصہ لینا چاہیں یہاں آ کر بحیثیت گواہ پیش ہو جائیں جو آپ مناسب سمجھیں آپ کو پورا حق ہے.“ لیکن یہ معلوم ہوتا تھا کہ مولوی حضرات اس بات سے ہر قیمت پر گریز کرنا چاہتے تھے کہ انہیں گواہ کی حیثیت سے پیش ہونا پڑے یا حلف اُٹھا کر اپنے شواہد پیش کرنے پڑیں کیونکہ سپیکر صاحب کے ان جملوں کا یہ ردعمل سامنے آیا کہ مولوی غلام غوث ہزاروی صاحب نے کہا یہی مناسب کہ ہم حج کی حیثیث سے بات کریں اور اپنے بیان سے پہلے حلف نہ اُٹھا ئیں.اس کے جواب میں سپیکر صاحب نے کہا کہ جیسے آپ کی مرضی.پھر مفتی محمود صاحب نے کہا کہ اگر ہم گواہ کی حیثیت سے پیش ہوں گے تو پھر ووٹ نہیں دے سکیں گے اور سپیکر صاحب نے ان سے اتفاق کیا.اس بحث کے علاوہ بہت سے ممبران کے ذہن میں ایک سوال اُٹھ رہا تھا.جیسا کہ گزشتہ کتاب میں اس بات کا تفصیلی جائزہ پیش کیا جا چکا ہے وہ سن چکے تھے کہ اب تک ہونے والی کارروائی میں جماعت احمدیہ پر اُٹھائے جانے والے اعتراضات کے جواب میں جماعت احمدیہ کا موقف سامنے آیا تھا.اور یہ شواہد بھی سامنے آئے تھے کہ کچھ گروہ مذہبی منافرت کی آڑ میں پاکستان اور عالم اسلام کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں.سردار عنایت الرحمن عباسی صاحب کا بیان کردہ اہم نکتہ اور مولوی حضرات کا گریز چنانچہ اس مرحلہ پر ایک ممبر اسمبلی سردار عنایت الرحمن عباسی صاحب نے ایک ایسا نقطہ اٹھایا دیا جو کہ اس سپیشل کمیٹی میں موجود ایک طبقہ کے لیے بہت پریشانی کا باعث بنا.انہوں نے کہا: میں جناب! ایک چھوٹی سی گزارش کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جیسا کہ مولانا صاحب نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب وہ گواہ کی حیثیت میں پیش ہوں گے تو پھر ان کی حجج کی حیثیت مجروح ہو جائے گی لیکن ایک مسئلہ ہے اس میں میں چاہتا ہوں کہ اس کی کسی

Page 7

5 نہ کسی طریقہ سے وضاحت ہو جائے.وہ یہ ہے جناب والا ! انہوں نے ایک فریق کی حیثیث سے بہت سی باتیں ایسی کی ہیں جن میں میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہاؤس کے ان اراکین میں سے میں بھی ایک ہوں جن کا علم اس ضمن میں محدود ہے.مثال کے طور پر انہوں نے ایسے فتوے پیش کیے جن میں ایک خیال کے علماء کی طرف سے دوسرے خیال کے علماء کے خلاف یا مسلمانوں کے خلاف بہت سارے نازیبا اور ناروا الفاظ استعمال کیے گئے ہیں.اس لیے میں آپ کی وساطت سے جناب مولانا صاحب سے گزارش کروں گا کہ آپ حج بیشک رہیں، لیکن ان کے ساتھ ساتھ آپ اگر ایسے دو یا تین علماء صاحبان جو بیٹھے ہوئے ہیں ان کو اگر یہ موقع فراہم کریں کہ کم از کم ان کے اعتراض اور Charges کا وہ جواب دیں.یہ ایک اہم نقطہ تھا جو ایک ممبر کی طرف سے اُٹھایا گیا تھا لیکن کارروائی کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیکر صاحب یہ نہیں چاہتے تھے کہ اس اہم مسئلہ پر قومی اسمبلی کی اس پیشل کمیٹی پر کوئی بحث ہو.سپیکر صاحب اس تجویز کے جواب میں کہا پرائیویٹ طور پر یہ مشورہ دے دیں ان کو یہ بات بالکل نا قابل فہم تھی کیونکہ پیشل کمیٹی کی کارروائی ہو رہی تھی اور اب تک تو جو غیر متعلقہ سوالات اُٹھائے گئے تھے ان کو تو نہیں روکا گیا تھا لیکن اس اہم رائے کو پرائیویٹ کیوں رکھنا چاہتے تھے؟ اس پر سردار عنایت اللہ عباسی صاحب نے کہا د نہیں جی مشورے کی بات تو نہیں ہے.میں تو چاہتا ہوں ، جناب مجھے تو ایسا فریق چاہئے جو اس ضمن میں تردید کرے یا پھر ہمیں خود اجازت دیں ہم پھر جو کچھ اس ضمن میں درست ہے وہ کہہ دیں.“ مفتی محمود صاحب کچھ وضاحت پیش کرنا چاہی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ سپیکر صاحب اس موضوع پر بحث کو ہر قیمت پر روکنا چاہتے تھے انہوں نے کہا: نہیں جی ! یہ ڈسکس کر لیں گے،

Page 8

اور اس کے بعد سپیکر صاحب نے فوری طور پر وقفہ کا اعلان کر دیا.اس مرحلہ پر اس اہم نکتہ پر کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے اُٹھائے گئے نکات کا جواب کون دے گا؟ بحث کو ادھورا چھوڑ کر کارروائی میں وقفہ کیوں کیا گیا؟ اور یہ کیوں کہا گیا کہ یہ بات پرائیویٹ طور پر کریں؟ اس کے متعلق ہر پڑھنے والا اپنی رائے خود قائم کر سکتا ہے.وقفہ کے بعد ایک بار پھر سپیکر صاحب نے کہا: یہ ہاؤس نے decide کیا ہوا ہے.اب آنریبل ممبرز جو چاہیں کریں چاہے بحث میں حصہ لے لیں، چاہیں زبانی کہہ دیں ، چاہیں written بتا دیں.اس oath حلف اُٹھا کر بھی سٹیٹمنٹ دے سکتے ہیں.اگر کے علاوہ وہ اگر کوئی چاہیں تو on کوئی Facts ان کے سپیشل نالج میں ہوں.یہ سب آنریبل ممبران کی صوابدید پر 66 ہے، جیسے وہ مناسب سمجھیں.“ مولوی حضرات حلف اُٹھانے سے گریز کرتے ہیں اس کے بعد عبدالحمید جتوئی صاحب نے یہ نکتہ اٹھایا کہ جو ممبر حلفاً بیان دے گا تو اس پر کیا جرح ہو سکتی ہے؟ اور کیا پھر ایسا نمبر ووٹ دے سکے گا؟ اس پر سپیکر صاحب نے جواب دیا کہ جو حلفاً بیان دے گا اس پر جرح ہو سکتی ہے اور ایسے ممبر کو پھر اخلاقاً ووٹ نہیں دینا چاہیے.اس پر میر دریا خان کھوسوصا حب نے کہا: اور پھر کہا: وو ”میری گذارش یہ ہے کہ ممبر حضرات سے گواہی نہیں لینی چاہیے مبر صاحبان سے اگر آپ گواہی لینا شروع کریں گے اور ممبر صاحبان پر جرح کرنا شروع کریں گے تو یہ کوئی اچھی tradition نہیں ہے.“ اس پر سپیکر صاحب نے یہ کہہ کر انہیں تسلی دلائی کہ یہ آپ کی مرضی ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے ممبران کے لیے یہ خیال بھی پریشان کن تھا کہ انہیں حلف اُٹھانا پڑے گا یا ان کے بیان پر کسی

Page 9

7 قسم کی کوئی ڈسکشن ہوگی.چنانچہ عباس حسین گردیزی صاحب نے کہا کہ وہ کھوسو صاحب سے اتفاق کرتے ہیں کہ کسی ممبر کو بطور گواہ پیش نہیں ہونا چاہیے.سپیکر صاحب نے پھر تسلی دلائی کہ یہ بات ختم ہو چکی ہے.اس مرحلہ کی کارروائی پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ممبران کسی قیمت پر بھی یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان سے حلف لیا جائے یا ان کے بیانات پر کسی قسم کے سوالات اٹھائے جائیں.اس مرحلہ یہ ذکر بھی آیا کہ کل سات ریزولیشن پیش ہوئے ہیں.ان میں وزیر قانون پیرزادہ صاحب کا پیش کردہ رزولیشن ، بائیس ممبران کاریزولیشن، تین ممبران کا ریزولیشن ، سردار شوکت حیات صاحب کا ریزولیشن، محمد جعفر صاحب اور نعمت اللہ شنواری صاحب کے ریزولیشن شامل تھے.اپوزیشن کی پیش کردہ قرار داد اس تمہیدی گفتگو کے بعد مفتی محمود صاحب نے اپنی تقریر شروع کی.یہ تقریر اصل میں مولوی صاحبان کا تیار کردہ ایک قسم کا محضر نامہ تھا جسے مفتی محمود صاحب نے ممبران اسمبلی کے روبرو پڑھا تھا اور اسے بعد میں’ قادیانی فتنہ اور ملت اسلامیہ کا موقف“ کے نام سے شائع بھی کیا گیا تھا.اس تقریر کے شروع میں وہ قرارداد پڑھی گئی جسے اپوزیشن کے ممبران نے پیش کیا تھا.اس قرار داد کا متن درج کیا جاتا ہے.’ہر گاہ کہ یہ ایک مکمل مسلمہ حقیقت ہے کہ قادیان کے مرزا غلام احمد نے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی ہونے کا دعویٰ کیا، نیز ہر گاہ کہ نبی ہونے کا اس کا جھوٹا اعلان بہت سی قرآنی آیات کو جھٹلانے اور جہاد کو ختم کرنے کی اس کی کوششیں اسلام کے بڑے بڑے احکام کے خلاف غداری تھیں.نیز ہرگاہ وہ سامراج کی پیداوار تھا اور اس کا واحد مقصد مسلمانوں کے اتحاد کو تباہ کرنا اوراسلام کو جھٹلا نا تھا.نیز ہر گاہ کہ پوری امت مسلمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ مرزا غلام احمد کے پیروکار چاہے وہ مرزا غلام احمد مذکور کی نبوت کا یقین رکھتے ہوں یا اسے اپنا مصلح یا اپنا مذہبی

Page 10

8 رہنما کسی بھی صورت میں گردانتے ہوں دائرہ اسلام سے خارج ہیں.نیز ہر گاہ ان کے پیروکار چاہے انہیں کوئی بھی نام دیا جائے ،مسلمانوں کے ساتھ گھل مل کر اور اسلام کے ایک فرقہ ہونے کا بہانہ کر کے اندرونی اور بیرونی طور پر تخریبی سرگرمیوں میں مصروف ہیں.نیز ہر گاہ کہ عالمی مسلم تنظیموں کی ایک کا نفرنس جو مکتہ المکرمہ کے مقدس شہر میں رابطہ عالم اسلامی کے زیر انتظام ۶ اور ۱۰ را پریل ۱۹۷۴ء کے درمیان منعقد ہوئی اور جس میں دنیا بھر کے تمام حصوں سے ۱۴۰ مسلمان تنظیموں اور اداروں کے وفود نے شرکت کی.متفقہ طور پر یہ رائے ظاہر کی گئی کہ قادیانیت اسلام اور عالم اسلام کے خلاف ایک تخریبی تحریک ہے جو ایک اسلامی فرقہ ہونے کا دعویٰ کرتی ہے.اب اس اسمبلی کو یہ اعلان کرنے کی کارروائی کرنی چاہئے کہ مرزا غلام احمد کے پیروکار انہیں چاہے کوئی بھی نام دیا جائے مسلمان نہیں اور یہ کہ قومی اسمبلی میں ایک سرکاری بل پیش کیا جائے تا کہ اس اعلان کو مؤثر بنانے کے لئے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پر ان کے جائز حقوق و مفادات کے تحفظ کے لئے 66 احکام وضع کرنے کی خاطر آئین میں مناسب اور ضروری ترامیمات کی جائیں.“ قارئین نے اس قرارداد کا متن تو ملاحظہ فرمالیا.یہ دعویٰ بھی پڑھ لیا کہ اس قرارداد کے محرکین نے بغیر ثبوت کے یہ دعوئی پیش کیا کہ جماعت احمد یہ سامراج کی پیداوار تھی جس دور میں جماعت احمدیہ کا قیام عمل میں آیا اس وقت اسلام اس شدت سے عیسائی پادریوں کے حملوں کی زد میں تھا جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی اور بڑے بڑے سرکاری افسر ان کاوشوں کی اعانت کر رہے تھے.اس پس منظر میں حضرت بانی جماعت احمدیہ نے یہ اعلان کیا کہ ان کی آمد کا اولین مقصد کسر صلیب ہے.کیا عقل اس بات کو قبول کر سکتی ہے کہ سامراج نے اس جماعت کو اس لیے کھڑا کیا تھا تا کہ وہ اس کے مذہب کی بنیاد پر حملہ کریں؟ اس کا فیصلہ ہم پڑھنے والوں پر چھوڑتے ہیں.

Page 11

9 تخریبی کارروائیوں کا ثبوت کیوں نہیں دیا گیا ؟ اس قرارداد میں عقل کا فقدان اور بدتہذیبی کا مظاہرہ تو عیاں ہے.جب ہم مولوی حضرات کے محضر نامہ یا موقف کا جائزہ لیں گے تو اس کے ساتھ اس قرارداد کے مختلف حصوں کا تجزیہ بھی پیش کرتے جائیں گے لیکن اس مرحلہ پر چندا مور کا مختصر تجزیہ پیش کرنا ضروری ہے.اس قرارداد میں جماعت احمدیہ پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ وہ تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہے.یہ ایک سنگین الزام ہے.اس الزام کو صرف اس صورت میں قابل غور سمجھا جاسکتا ہے جب اس کے ثبوت کے طور پر ٹھوس شواہد پیش کئے جائیں.اس تقریر سے قبل کئی روز تک جماعت احمدیہ کے وفد پر سوالات کئے گئے تھے.اگر ان حضرات کے پاس ان فرضی تخریبی کارروائیوں“ کا کوئی بھی ثبوت ہوتا تو ضرور جماعت احمدیہ کے وفد کے سامنے رکھ کر ان سے جواب طلب کرتے یا کم از کم ان کو پیش کر کے جماعت احمدیہ کے وفد کو لا جواب کر دیتے لیکن کیا اس کا کوئی بھی ثبوت پیش کیا گیا؟ تمام کارروائی اس بات کی گواہ ہے اور ہم اس کتاب کی پہلی جلد میں جائزہ پیش کر چکے ہیں کہ ایسا نہیں کیا گیا ؟ کیوں نہیں کیا گیا؟ اس لئے کہ یہ صرف ایک بے بنیاد الزام تھا اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں تھی اور اس کا رروائی کے دوران یہ الزام بار بار لگایا گیا لیکن ٹھوس ثبوت ایک مرتبہ بھی نہیں پیش کیا گیا آخر کیوں؟ اس قرار داد کو پیش کرنے والے تاج برطانیہ کے دیرینہ خادم تھے اس قرار داد کو ۲۲ ممبران اسمبلی کے دستخطوں کے ساتھ پیش کیا گیا تھا.بعد میں ۱۵ مزید ممبران نے اس پر دستخط کیے تھے.اب ہم قرار داد کے اس حصہ کا تجزیہ کرتے ہیں نیز ہر گاہ وہ سامراج کی پیداوار تھا اور اس کا واحد مقصد مسلمانوں کے اتحاد کو تباہ کرنا اور اسلام کو جھٹلانا تھا.“ قرار داد کے اس حصہ میں یہ پرانا الزام دہرایا گیا ہے کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس وقت انگریز حکمرانوں نے اپنے مقاصد کے لیے کھڑا کیا تھا اور اس کا مقصد مسلمانوں کے اتحاد کو

Page 12

10 نقصان پہنچانا تھا.انشاء اللہ اس الزام کا تفصیلی تجزیہ اس کتاب کے مختلف حصوں میں پیش کیا جائے گا لیکن سب سے پہلے اس بات کا تجزیہ کرنا ضروری ہے کہ یہ الزام جن احباب کی طرف سے لگایا جارہا تھا ان کا اپنا پس منظر کیا تھا.اس قرارداد پر دستخط کرنے والے بہت سے احباب برصغیر کے معروف سیاسی خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے.ہم محض چند مثالیں پیش کر کے اس بات کا تجزیہ کریں گے کہ جب انگریز برصغیر پر قبضہ کر رہا تھا یا جب حکمران تھا تو ان احباب کے خاندان کیا اس وقت انگریز حکمرانوں کے خلاف جدو جہد کر رہے تھے اور ان کے خلاف علم بغاوت بلند کر رہے تھے یا پھر اس کے برعکس وہ انگریز حکمرانوں کی خدمت میں کوشاں تھے.اس قرار داد کو پیش کرنے والوں میں ایک نام سردار شیر باز مزاری صاحب کا بھی ہے.آپ مزاری قبیلہ کے سرداروں کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں.آپ کے والد میر مراد بخش خان مزاری صاحب ، مزاری قبیلہ کے سردار خاندان سے تعلق رکھتے تھے.جب سردار شیر باز مزاری صاحب کے داد شیر محمد صاحب نے ۱۸۳۳ء میں وفات پائی تو ان کے خاندان کے بڑے اور شیر محمد صاحب کے چچا نواب امام بخش صاحب جنہیں تاج برطانیہ نے سر کے خطاب سے بھی نوازا تھا ، ان کے دونوں لڑکوں کو اپنی نگرانی میں لے لیا.شیر باز مزاری صاحب کے چا دوست محمد خان صاحب کو سر جیمز لائل (James Lyall) نے ڈیرہ غازی خان کے ایک دربار میں پگڑی پہنائی.شیر باز مزاری صاحب کے والد اور چا سر نواب امام بخش صاحب کے زیر نگرانی ہی رہتے تھے.اس خاندان نے سلطنت برطانیہ کی بہت سی اہم خدمات سرنجام دی تھیں.چنانچہ جب ۱۹۱۱ء میں دہلی میں شہنشاہ جارج پنجم کی تاجپوشی پر دربار منعقد کیا گیا تو اس میں بڑے بھائی کی حیثیت سے سردار شیر باز مزاری صاحب کے چچا کو بھی مدعو کیا گیا اور اس موقع پر انگریز حکومت کی طرف سے جو درباریوں کے حالات زندگی ایک کتاب میں شائع کئے گئے ، اس کتاب میں سردار شیر باز مزاری صاحب کے بزرگ میر دوست علی خان صاحب کے متعلق لکھا ہے تسخیر کو ہستان مری و بلوچستان میں آنریبل سرامام بخش خان مرحوم اور آپ کے ( یعنی میر دوست محمد خان صاحب کے دادا میر دوست علی خان نے گورنمنٹ کی ایسی قابل قدر خدمات انجام

Page 13

11 دیں کہ بلا تلوار چلائے انہیں صاحبوں کی حکمت کی وجہ سے یہ علاقے ہاتھ آئے.“ یادگار در بارتاجپوشی 1911، مولفه منشی دین محمد صاحب، مطبوعہ یادگار پریس لاہورص495) تو یه سردار شیر باز مزاری صاحب کے بزرگوں کی حکمت عملی کا کمال تھا کہ انگریزوں کو جنگ بھی نہیں لڑنی پڑی اور ان کا علاقہ برطانوی حکومت کے زیر نگین بھی آ گیا.مزاری صاحب کے خاندان کی خدمات ایسی نہیں تھیں جنہیں انگریز مورخین نظر انداز کرتے.چنانچہ مشہور کتاب THE PUNJAB CHIEFS میں لکھا ہے کہ سردار شیر باز مزاری صاحب کے پڑدادا دوست علی خان صاحب کو کچھ غلط عادتیں لاحق ہو گئی تھیں جن کی وجہ سے قبیلہ کا سارا انتظام ان کے چھوٹے بھائی امام بخش خان صاحب کو کرنا پڑتا تھا اور ۱۸۵۷ء میں جب برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت ہوئی تو اس موقع پر انگریز حکمرانوں نے امام بخش خان مزاری صاحب کو رسالدار کے عہدے پر فائز کیا اور انہوں اس جنگ کے دوران انگریز حکومتوں کی قابل تعریف خدمات سرنجام دیں.پھر انہیں ”سر“ کا خطاب بھی دیا گیا.اور ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے کو.C.I.E بنایا گیا اور ان کے خاندان کے متعدد افراد کو سرکاری عہدے بھی دیئے گئے.اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ امام بخش مزاری صاحب نے اس علاقے کے لوگوں کو برٹش گورنمنٹ کا وفادار بنانے کے لیے دل و جان سے کام کیا.(THE PUNJAB CHIEFS(REDVISED EDITION BY W.L.CONRAN, (H.D.CRAIK P 338&339 اس قرارداد کے ایک اور محرک پاکستانی سیاست کی ایک نمایاں شخصیت سردار شوکت حیات صاحب بھی تھے.ان کے خاندان کا عروج بھی انگریز حکومت کی عنایات کا مرہون منت ہے.ان کے پڑدادا کرم خان صاحب ۱۸۴۸ء سے انگریز حکمرانوں کی عسکری خدمات سرنجام دے رہے تھے.انہوں نے اس زمانے میں انگریز حکمرانوں کی مدد کے لیے پیادہ اور سوار فوج تیار کی.اس کی پاداش میں ظالم سکھوں نے ان کے گھر کو نذر آتش کر دیا.کرم خان صاحب سکھوں کی یورش سے تو بچ گئے لیکن ان کے بھائی نے انہیں قتل کر دیا.کرم خان صاحب کے قتل کے بعد ان کے بیٹے اور سردار شوکت حیات صاحب کے دادا، محمد حیات خان صاحب چند فوجی لے کر انگریز افسر ایبٹ

Page 14

12 (Abbott) کے پاس آ گئے اور اس جنگ کے اختتام تک ان کے پاس ہی رہے.اس کے بعد ۱۸۵۷ء کے ہنگامے کا آغاز ہوا تو اس وقت نکلسن (Nicholson) پشاور کے ڈپٹی کمشنر تھے.انہیں اس خاندان کی وفاداری پر اعتماد تھا.انہوں نے محمد حیات خان صاحب کو ہدایات دی کہ وہ آفریدیوں پر مشتمل ایک دستہ تیار کریں تا کہ انگریز حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والوں کا مقابلہ کیا جا سکے.چنانچہ سردار شوکت حیات صاحب کے دادا نے انگریز حکمرانوں کی خدمت کے لیے یہ دستہ تیار کیا.اور اس کے بعد محمد حیات خان صاحب نکلسن صاحب کے AIDE DE CAMP کے فرائض ادا کرتے رہے.جس وقت جنرل نکلسن صاحب نے ہوتی مردان اور تریمو گھاٹ پر باغی افواج کو خوفناک سزائیں دیں تو اس وقت محمد حیات خان صاحب ان کے ہمراہ تھے.جب جنرل نکلسن زخمی ہوئے تو اس وقت سردار شوکت حیات صاحب کے دادا اس جنرل کی موت تک اس کی دن رات خدمت کرتے رہے.فتح کے بعد انگریزوں نے ان کی خدمات کی قدر کرتے ہوئے ان کو ملنے والی پنشن کو ۲۵۰ روپے سالانہ سے بڑھا کر ۳۶۰ روپیہ سالانہ کر دیا اور خلعت سے نوازا.جنگ کے بعد انگریز فاتحین نے محمد حیات خان صاحب کو پشاور میں تھانے دار مقرر کیا اور پھر تلہ گنگ کا تحصیلدار بنا دیا.پھر ان کو مزید ترقیات دی گئیں.ان کو COMPANION OF THE ORDER OF THE STAR OF INDIAN کے اعزاز سے نوازا گیا.1899 میں انہیں نواب کا خطاب عطا کیا گیا.(THE PUNJAB CHIEFS (REDVISED EDITION, BY W.L.CONRAN, 276&277 H.D.CRAIK P) سردار شوکت حیات صاحب کے والد سر سکندر حیات صاحب بھی اپنے والد کی وفات کے بعد اپنے والد کی طرح انگریز حکومت کی قابل قدر خدمات سرنجام دیتے رہے.جب پہلی جنگ عظیم کا وقت آیا اور سلطنت برطانیہ ترکی کی سلطنت عثمانیہ سے برسر پیکار ہوئی تو انہوں نے ایک پنجابی بٹالین میں بھرتی آفیسر کے طور پر کام کر کے سلطنت برطانیہ کی خدمت کی.۱۹۱۹ء میں جب انگریزوں اور افغانستان کی تیسری جنگ ہوئی تو انہوں نے انگریز حکومت کی طرف سے جنگ میں شرکت کی اور

Page 15

13 افغان افواج کو شکست دی.اس کے عوض انگریزوں نے انہیں خلعت سے نوازا اور MBE کا اعزاز عطا کیا.وہ سیاست میں آئے اور پنجاب کے وزیر اعظم بنے.بعد میں سلطنت برطانیہ نے انہیں KNIGHT COMMANDER OF THE ORDER OF THE BRITISH EMPIRE کا اعزاز عطا کیا.(سیاست کے فرعون ، مصنفہ وکیل انجم ، مطبوعہ فیروز سنز ۱۹۹۲ ء ص ۳۹۷) یہ تھا سردار شوکت حیات صاحب کے خاندان کا ماضی.یہ خاندان شروع سے انگریزوں کی حکومت کی خدمت سرنجام دیتا رہا اور جب سلطنت برطانیہ کا مقابلہ کسی مسلمان حکومت سے ہوا اس وقت یہ خاندان بڑھ چڑھ کر سلطنت برطانیہ کی خدمت کرتا رہا.اسی طرح اس قرارداد کے ایک محرک احمد رضا قصوری صاحب بھی تھے جن کے دادا شیر باز خان قصوری صاحب کو انگریز حکومت نے خان بہادر کا خطاب دیا تھا.ظاہر ہے کہ یہ خطاب حکومت نے اپنے خلاف بغاوت کرنے پر تو نہیں دیا تھا بلکہ خدمات کے عوض دیا گیا تھا.علماء دیو بند سلطنت برطانیہ کے مخبر کا کردار ادا کرتے رہے یہ تو بر صغیر کے ان پرانے سیاسی خاندانوں کے کچھ حالات تھے جو کہ اس ماضی کے باوجوداب جماعت احمدیہ پر یہ الزام لگا رہے تھے کہ نعوذ باللہ جماعت احمدیہ کو انگریز سامراج نے اپنے مقاصد کے لیے کھڑا کیا تھا.اب ہم مختلف مسلک کے علماء کا جائزہ لیتے ہیں.اس قرار داد کو پیش کرنے میں دیوبندی مسلک کے علماء نے اہم کردار ادا کیا تھا.خود مفتی محمود صاحب جنہوں نے مخالفین کا محضر نامہ قومی اسمبلی میں پڑھا تھا ، دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتے تھے.ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ دیو بند کے علماء نے انگریز حکومت کے خلاف کیا نمایاں خدمات سرنجام دی تھیں.یہ تو سب جانتے ہیں کہ پہلی جنگ عظیم کے دوران سلطنت برطانیہ اس وقت کی سب سے بڑی مسلمان سلطنت یعنی سلطنت عثمانیہ کے ساتھ حالت جنگ میں تھی.یہ ایک قدرتی بات تھی کہ اس وقت ہندوستان کے بہت سے مسلمانوں کی ہمدردیاں سلطنت عثمانیہ کے ساتھ تھیں لیکن اس وقت بھی انگریز حکمران خاص

Page 16

14 طور پر علماء دیوبند کی خدمات پر بہت بھروسہ کر رہے تھے.چنانچہ انہی دنوں میں انہوں نے دارالعلوم دیو بند کے مہتمم مولوی محمد احمد صاحب کو خوش ہو کر شمس العلماء“ کا خطاب عطا کیا.انگریزوں کی اس اظہار خوشنودی پر علماء دیوبند بہت خوش ہوئے اور فیصلہ کیا کہ انگریز گورنر کے حضور پیش ہو کر شکریہ ادا کیا جائے.جب علماء دیو بند نے وائسرائے کی اس عنایت کا شکر یہ ادا کرنے کے لیے ایڈریس پیش کیا تو اس ایڈریس میں اس امر کا بھی شکریہ ادا کیا کہ وائسرائے ہند نے پہلے بھی دارالعلوم دیوبند پر بہت سی special favours کی ہیں.اس ایڈریس کے اختتام پر علماء دیوبند نے انگریز گورنر کو بہت سی دعاؤں سے نوازا.یہ ایڈریس ۲۷ ستمبر ۱۹۱۵ء کو پیش کیا گیا تھا.پانچ مولویوں میں مہتمم دارالعلوم دیو بند مولوی محمد احمد صاحب بھی شامل تھے لیکن گورنر کے پاس آنے کا مقصد صرف شکریہ ادا کرنا نہیں تھا جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ اس وقت پہلی جنگ عظیم جاری تھی.اصل پس منظر یہ تھا کہ اس وقت پہلی جنگ عظیم کے حوالے سے ہندوستان کی انگریز حکومت کو بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑھ رہا تھا.ایک پریشانی تو یہ تھی کہ دارالحکومت دہلی میں کچھ گروہ انگریز حکومت کے خلاف جذبات کو ہوا دے رہے تھے اور دوسری پریشانی یہ تھی کہ ہندوستان کے بہت سے مسلمان حج پر حجاز جاتے تھے.اس وقت یہ علاقہ جہاں پر مقدس مقامات واقع تھے ترکی کی سلطنت عثمانیہ کے تحت تھے اور اس صورت حال میں یہ خطرہ رہتا تھا کہ سلطنت عثمانیہ کے عہدیداران کو اپنے ساتھ ملا کر سلطنت برطانیہ کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں.یہ محض خیال نہیں تھا انگریز حکومت کو ایسے شواہد ملے تھے کہ سلطنت عثمانیہ کے وزیر جنگ انور بیگ اور ہندوستان کے کچھ مسلمان مل کر انگریز حکومت کے خلاف اعلیٰ سطح کی سازش کر رہے ہیں.ظاہر ہے کہ اس صورت حال میں انگریز حکومت کو ایسے قابل اعتماد ساتھیوں کی ضرورت تھی جو کہ انہیں اس قسم کی سازشوں کے متعلق مخبری کر کے اطلاع دیتے رہیں.ان سب حالات کی مخبری کے لیے دارالعلوم دیو بند کے علماء نے سلطنت برطانیہ کی بہت اہم خدمات سرنجام دی تھیں اور انگریز حکومت ان کی اطلاعات پر بہت اعتماد بھی کرتی تھی.خاص طور پر دارالعلوم دیو بند کے مہتمم اور ان کے بانی کے بیٹے مولوی محمد احمد صاحب تو سلطنت برطانیہ کے اتنے وفادار تھے کہ اگر انہیں یہ بھی شک ہو جاتا کہ ان کا کوئی شاگرد یا خودان کے مدرسہ

Page 17

15 کا کوئی استاد کسی طرح بھی سلطنت برطانیہ کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہے تو وہ ضرور انگریز حکومت کو اس کی شکایت کرتے تھے بلکہ اس پر قابو پانے کے لیے اہم مشورے بھی دیتے تھے.پہلے تو یہ حقائق اتنی تفصیلات کے ساتھ لوگوں کے علم میں نہیں تھے لیکن اب تو وہ خفیہ کا غذات سامنے آگئے ہیں جن سے ثابت ہو گیا ہے کہ خود یوپی کے گورنر Meston James صاحب نے حکومت کو یہ رپورٹ تھی کہ پہلے مہتم دیو بند مولوی محمد احمد صاحب نے سہارنپور کے مجسٹریٹ کو یہ مخبری کی تھی کہ ان کے مدرسہ کے ایک استاد محمود الحسن صاحب بمبئی سے حج کے لیے روانہ ہوئے ہیں اور ان کا منصوبہ یہ ہے کہ وہاں پر مدینہ کے شیخ کی وساطت سے سلطنت عثمانیہ کے وزیر جنگ انور بیگ سے ملیں گے اور یہ منصوبہ بنائیں گے کہ کس طرح ہندوستان کے سرحدی علاقوں میں بغاوت کے حالات پیدا کیے جائیں اور جب وہ گورنر کے پاس وفد لے کر شکریہ ادا کرنے آئے تو انہوں نے اپنی باقی رفقاء کو باہر بھجوا کر گورنر Meston کو تخلیہ میں یہی مخبری کی.جیسا کہ ہم بعد میں ذکر کریں گے یہ تو ایک بہت بڑی سازش تھی لیکن اس کے ساتھ مہتم دیو بند نے انگریز گورنر کو یہ بھی مجری کی کہ دہلی میں مسلمانوں کا ایک گروہ ان کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہے دہلی کے مشہور کانگرسی لیڈر ڈاکٹر انصاری صاحب نے محمود الحسن صاحب کو کتنی رقم دی ہے؟ اور یہ بھی بتایا کہ دہلی میں ان کے ایک شاگردمولوی عبید اللہ سندھی صاحب نے ایک تنظیم نظارت المعارف نام کی قائم کی ہے اور مولوی محمد احمد صاحب مہتمم دیو بند نے انگریز گورنر کو مزید بتایا کہ دہلی کی فتح پوری مسجد حکومت کے خلاف سازشوں کا مرکز بنی ہوئی ہے اور گورنر کو یہ ہمدردانہ مشورہ دیا کہ مولوی عبید اللہ سندھی صاحب کو دہلی سے نکال کر سندھ بھجوا دیا جائے.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مہتمم دارالعلوم دیو بند مولوی محمد احمد صاحب جو خفیہ اطلاعات انگریز حکومت کو مہیا کرتے تھے وہ جمع کیسے کرتے تھے؟ اس کے لیے دو طریقے استعمال کیے جاتے تھے.ایک تو یہ کہ یہ صاحب اپنی بعض مرید خواتین سے جن کا تعلق اہم خاندانوں سے تھا یہ معلومات حاصل کرتے تھے کہ ان کے گھروں میں کیا باتیں ہو رہی ہیں.ان میں سے ایک خاتون مشہور سیاسی لیڈر ڈاکٹر انصاری صاحب کی بیگم صاحبہ بھی تھیں اور دوسرا طریقہ یہ استعمال کرتے تھے کہ اپنے آدمی

Page 18

16 بھجواتے تھے تا کہ وہ حجاز جا کر وہاں کی خبریں لا کر انہیں دیں اور وہ یہ خبریں انگریز حکومت کو مہیا کریں.ان میں سے ایک آدمی کا نام عبدالاحد کشمیری تھا.بہر حال ان مخبریوں کا یہ نتیجہ ہوا تھا کہ جب محمود الحسن صاحب حجاز سے واپس آ رہے تھے تو انہیں گرفتار کر کے مالٹا پہنچا دیا گیا تھا.جو خفیہ کا غذات اب منظر عام پر آئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ دیو بند کے مولوی پہلے سے انگریز گورنر سے خفیہ روابط رکھے ہوئے تھے اور انہیں اطلاعات بھجواتے تھے.چنانچہ مارچ ۱۹۱۵ء سے بھی پہلے جب دیو بند کے اساتذہ نے یہ محسوس کیا کہ ان کے بعض اسا تذہ پوری طرح حکومت کے وفادار نہیں ہیں تو انہوں گورنر صاحب کو یہ پیغام بھجوایا کہ مناسب ہوگا کہ آپ خود تشریف لا کر دیو بند کے مدرسہ کا دورہ فرمائیں کچھ تاخیر کے بعد گورنر صاحب نے یہ درخواست قبول کر لی اور دیوبند کا دورہ کیا اور دیو بند کے مولویوں نے انگریز گورنر James Meston صاحب کا پر تپاک خیر مقدم کیا اور ان رپورٹوں میں یو پی کی حکومت کے سیکریٹری کو بہت واضح طور پر یہ لکھا تھا کہ ہمارے دیو بند کے مولویوں سے بہت دوستانہ مراسم ہیں.( یہ سب دستاویزات ملاحظہ کیجیے The Indian Muslims compiled by Shan Muhammad Vol 5 p46-54) جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ حجاز میں ترکی کی سلطنت عثمانیہ کے اعلیٰ عہد یداروں اور ہندوستان سے آئے ہوئے کچھ لوگوں کے درمیان روابط پیدا ہونے کی اطلاعات ہندوستان کی حکومت کو ملی تھیں.یہ اطلاعات برطانوی حکومت کے لیے اس لیے تشویشناک تھیں کہ ان روابط کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا تھا کہ انور پاشا اس وقت سلطنت عثمانیہ کے وزیر جنگ تھے.کسی قسم کے روابط میں ان کا شامل ہونا اور وہ بھی حالت جنگ میں اپنے دارالحکومت کو چھوڑ کر حجاز آ کر شامل ہونا اس بات کا ثبوت تھا کہ ایک اعلیٰ پائے کا منصوبہ تیار کیا جا رہا تھا کہ ہندوستان میں لوگوں کو برطانوی حکومت کے خلاف اٹھنے پر آمادہ کیا جائے.یہ امر قابل ذکر ہے کہ محمود الحسن صاحب کے اس سفر میں مولوی حسین احمد مدنی صاحب بھی ان کے شریک سفر تھے.انہوں نے محمود الحسن صاحب کے اس سفر کے حالات سفر نامہ اسیر مالٹا کے نام سے تحریر کیے تھے.انہوں نے اس بات کا اعتراف

Page 19

17 کیا تھا جب محمود الحسن صاحب مدینہ منورہ میں قیام پذیر تھے تو اس وقت اتفاقاً سلطنت عثمانیہ کے وزراء انور پاشا اور جمال پاشا مدینہ منورہ کی زیارت کے لیے آئے تھے اور یہ بھی لکھا ہے کہ جب سلطنت عثمانیہ کے یہ وزراء مدینہ آئے تو انور پاشا صاحب نے ایک روز یہ فرمائش کی تھی کہ اشراق کے وقت سب علماء مسجد میں جمع ہو کر تقاریر کریں اور اس موقع پر ہندوستان کے علماء میں سے محمود الحسن صاحب بھی شامل تھے لیکن جب تقریر کرنے کا موقع آیا تو حسین احمد مدنی صاحب نے تقریر کی تھی لیکن اس بات سے بالکل انکار کیا کہ ان وزراء سے محمود الحسن صاحب کے کوئی خفیہ روابط ہوئے تھے یا کوئی سازش تیار کی گئی تھی.اس کتاب میں حسین احمد مدنی صاحب نے لکھا ہے کہ حکومت نے بعض بدخواہوں کی شکایتوں پر محض بدظنی سے کام لیتے ہوئے محمود الحسن صاحب کو گرفتار کر کے مالٹا بھجوایا تھا.بیچارے حسین احمد مدنی صاحب کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ شکایتیں کرنے والے خود دار العلوم دیو بند کے مولوی حضرات تھے.( ملاحظہ کیجیے سفرنامہ اسیر مالٹا مصنفہ حسین احمد مدنی صاحب، شائع کردہ دوست اسوسی ایٹ لا ہور ۱۹۹۶ء) بریلوی فرقہ کے قائدین انگریز حکومت کے کامل وفادار تھے یہ الزام تراشی جماعت احمد یہ تک محدود نہیں.آزادی کے بعد مولوی حضرات کے کا یہ پسندیدہ مشغلہ رہا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو انگریزوں کا ایجنٹ اور پر وردہ قرار دیتے رہے ہیں.بریلوی مسلک کے قائدین میں سے شاہ احمد نورانی صاحب بھی اس قرارداد کے محرکین میں سے ایک تھے.خود بریلوی حضرات کے بارے میں بہت سے نامی گرامی مولوی حضرات نے جن کا جماعت احمدیہ سے کوئی تعلق نہیں تھا.بہت سے ثبوت جمع کر کے شائع کیے ہیں کہ بریلوی حضرات دراصل انگریزوں کے پروردہ تھے.چنانچہ ہم بہت سی مثالوں میں سے ایک مثال پیش کرتے ہیں.مولوی الیاس گھمن صاحب نے ایک کتاب فرقہ بریلویت پاک و ہند کا تحقیقی جائزہ تحریر کی ہے.اس کتاب میں انہوں نے ایک منحنیم باب اس موضوع پر تحریر کیا ہے.اور اس باب میں انہوں نے بڑی محنت سے یہ ثبوت جمع کیسے ہیں کہ بریلوی حضرات شروع سے ہندوستان میں انگریز حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے کمر بستہ تھے

Page 20

18 اور انہیں مختلف طریقوں سے فائدہ پہنچاتے تھے.اور اس وفاداری کے بدلے میں انگریز حکومت بھی انہیں ہر طرح نوازتی رہی تھی اور بریلوی حضرات آزادی کی ہر تحریک سے کنارہ کش رہے بلکہ بریلوی مسلک کے بانی احمد رضا خان صاحب نے تو بڑے زور سے فتویٰ دیا تھا کہ اپنے مذہبی مدرسوں کے لیے انگریز حکومت سے مالی مدد لے لینی چاہیے.اس کے علاوہ اس کتاب میں انگریز مصنف Seperatism Among Indian CHCCCK (C) Francis Robinson.Muslims کا حوالہ بھی درج کیا گیا ہے کہ خود انگریز متفقین اس بات کو بہت واضح طور پر لکھتے رہے ہیں کہ بریلوی مسلک سے وابستہ افراد ہمارے مکمل طور پر وفا دار ہیں.( فرقہ بریلویت پاک و ہند کا تحقیقی جائزہ مصنفہ مولوی الیاس گھمن ناشر مکتبہ اہل سنۃ والجماعۃ صفحہ 567 تا656) خلاصہ کلام یہ ہے کہ ۱۹۷۴ء میں قومی اسمبلی کی اس پیشل کمیٹی میں کئی ممبران اور گروہ جماعت احمدیہ پر یہ لغوالزام لگا رہے تھے کہ جماعت احمدیہ کو برطانوی حکمرانوں نے اپنے مقاصد کے لیے کھڑا کیا تھا، حقیقت یہ تھی کہ ان کے خاندانوں نے انگریز حکمرانوں کی بھر پور خدمات کی تھیں اور تاریخی طور پر ان خاندانوں کا عروج انگریز حکمرانوں کی مہربانیوں کا مرہون منت تھا اور جو مذہبی گروہ اس وقت جماعت احمدیہ پر یہ الزام لگا رہے تھے وہ خود انگریز حکومت کے لیے اہم مخبر اور جاسوس کی خدمات ادا کرتے رہے تھے اور اس کے بدلہ میں انگریز حکومت انہیں مختلف طریقوں سے نوازتی رہی تھی.مفتی محمود صاحب کی تقریر کے ابتدائی نکات بہر حال ابتدائی گفتگو کے بعد مولوی مفتی محمود صاحب کی تقریر شروع ہوئی.یہ تقریر دراصل مخالفین جماعت کا تیار کردہ محضر نامہ تھا جو کہ مفتی محمود صاحب نے سپیشل کمیٹی کے روبرو پڑھا تھا.یہ بات قابل ذکر ہے کہ ۱۹۷۴ء کے دوران مفتی محمود صاحب کے کردار کے متعلق خود جماعت احمد یہ کے مخالفین نے بھی بہت کچھ لکھا ہے.چنانچہ جماعت احمدیہ کے جو مخالفین شاہ احمد نورانی صاحب کے گروپ سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے اپنی کتب میں یہ دعویٰ پیش کیا ہے کہ جو قرار داد اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں پیش کی تھی وہ نورانی صاحب نے تیار کی تھی اور جب انہوں نے مفتی محمود صاحب کو

Page 21

19 اس قرار داد پر دستخط کرنے کے لیے کہا تو انہوں نے ”بزدلانہ موقف کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پر دستخط کرنے میں لیل ولعت سے کام لیا اور جب دستخط کیے تو وہ بھی بادل نخواستہ کیے.تحریک تحفظ ختم نبوت سیدنا صدیق اکبر نا علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی ترتیب و تحقیق محمد احمد ترازی ناشرافق پبلیکیشنز ۲۰۰۹ صفحه ۵۰۹،۵۰۸) مولوی مفتی محمود صاحب نے اپنی تقریر کا آغاز اس ایک آیت کریمہ کے اس حصہ سے کیا.وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرى عَلَى اللهِ كذبا او قال اوحى الى ولم يوح اليه شيء (الانعام: ۹۴) اور اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہو گا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے یا کہے کہ 66 مجھ پر وحی آتی ہے حالانکہ اس پر کوئی وحی نہ آئی ہو..یقیناً یہ ارشاد خداوندی برحق ہے کہ اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہوسکتا ہے جو یہ دعوی کرے کہ مجھ سے اللہ تعالیٰ کلام کرتا ہے حالانکہ اللہ نے اس سے کلام نہ کیا ہو لیکن انہی الفاظ سے شروع ہونے والی تنبیہ قرآن کریم میں اور مقامات پر بھی بیان ہوئی ہے.مثلاً سورۃ انعام میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَّبَ بِايْتِ اللَّهِ وَ صَدَفَ عَنْهَا سَنَجْزِي الَّذِينَ يَصْدِفُونَ عَنْ ايْتِنَا سُوءَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوا يَصْدِقُونَ.(الانعام: ۱۵۸) پس اس سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی آیات کو جھٹلائے اور ان سے منہ پھیر لے.ہم ان لوگوں کو جو ہمارے نشانوں سے روگردانی کرتے ہیں ایک سخت عذاب کی صورت میں ) جزا دیں گے بسبب اس کے جو وہ اعراض کیا کرتے تھے.“ پھر اللہ تعالیٰ سورۃ اعراف میں فرماتا ہے: فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِايْته.(الاعراف: ۳۸) پس اُس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ گھڑے یا اس کے نشانات کو جھٹلائے“ ان آیات کریمہ سے واضح ہے کہ اس شخص کے انجام سے ڈرایا گیا ہے جو اللہ تعالی پر جھوٹ

Page 22

20 بولے اور صاحب الہام یا وحی ہونے کا دعویٰ کرے اور ایسے شخص کے بد انجام سے بھی ڈرایا گیا ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ نشانات کی تکذیب کرے یا ان سے اعراض کرے.پس یہ خوف کا مقام ہے کہ کسی نشان کی تکذیب کرنے سے پہلے خوب اچھی طرح سوچ سمجھ لینا چاہئے.اگر یہ نشان اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو تو اس کا انکار کرنے والا خدا کے عذاب کو دعوت دیتا ہے.قرآن کریم گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم نے اللہ تعالیٰ کے سچے رسول کا انکار کیا اور اس کی تکذیب کی اور اس کی مخالفت سے باز نہ آئے تو وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کا نشانہ بنے.اللہ تعالیٰ نے قوم نوح، عاد، نمود، قوم لوط اور قوم فرعون کے قصص عبرت کے لیے بیان کیے ہیں.دوسری طرف جب جھوٹے مدعیان نبوت پیدا ہوئے تو وہ کبھی کامیابی نہ حاصل کر سکے.ان کے سدباب کو اللہ تعالیٰ ہی کافی تھا.آنحضرت ﷺ کے دور میں مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی بڑے کروفر سے اُٹھے اور ایک وقت میں لوگوں کی بڑی تعداد بھی ان کے ساتھ مل گئی لیکن یہ جمیعت ان کے کسی کام نہ آ سکی اور ان کا سلسلہ برباد ہو گیا.خودحضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے عہد میں انگلستان میں پکٹ (PIGOTT) نے مسیح ہونے کا دعوی کیا اور اس کی تو اتنی شدید مخالفت بھی نہیں ہوئی تھی جس کا سامنا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو کرنا پڑا تھا اور بہت سے دولت مند اس کے ہمدرد بھی بنے لیکن ابتدائی دعوئی کے بعد وہ اپنی حویلی سے باہر آ کر اپنا دعوی پیش کرنے سے بھی قاصر رہا اور اس کے بعد پبلک میں اپنا دعویٰ بھی دہرا نہ سکا.اس کا فرقہ اپنی موت آپ ہی مر گیا.اسی طرح امریکہ می جان الیگزینڈر ڈوئی (John Alexander Dowie) نے بڑے جاہ وجلال سے ایلیا ہونے کا دعویٰ دیا.کثیر دولت اس کے پاس جمع ہوگئی.اس نے اپنا شہر آباد کر لیا لیکن پھر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی مباہلہ کی دعا کا شکار ہو گیا.اس کے پیروکار اس کےخلاف ہو گئے اور وہ فالج کا شکار ہو گیا اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی زندگی میں ہی بڑی حسرت سے دنیا سے رخصت ہو گیا.آج نہ پکٹ کا پیغام زندہ ہے اور نہ ڈوئی کی جماعت موجود ہے.ان کو ختم کرنے کے لیے خدا ہی کافی تھا لیکن تمام تر مخالفت کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۱۹۷۴ء سے پہلے بھی جماعت احمد یہ ترقی کر رہی تھی اور اس کے بعد اس سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کر رہی ہے.

Page 23

21 وہ بیسیوں آیات کریمہ جو مفتی محمود صاحب پیش نہ کر سکے مفتی محمود صاحب نے اپنی تقریر کے آغاز میں کہا: اسلام کی بنیا دتو حید اور آخرت کے علاوہ جس اساسی عقیدہ پر ہے، وہ یہ ہے کہ نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفے عیﷺ پر نبوت اور رسالت کے مقدس سلسلے کی تکمیل ہو گئی اور آپ ﷺ کے بعد کوئی بھی شخص کسی قسم کا نبی نہیں بن سکتا اور نہ آپ کے بعد کسی پر وحی آسکتی ہے اور نہ ایسا الہام جو دین میں حجت ہو.اسلام کا یہی عقیدہ ختم نبوت کے نام سے معروف ہے اور سرکار دو عالم عملے کے وقت سے آج تک پوری امت مسلمہ کسی ادنیٰ اختلاف کے بغیر اس عقیدے کو جزو ایمان قرار دیتی آئی ہے.قرآن کریم کی بلا مبالغہ بیسیوں آیات اور آنحضرت ﷺ کی سینکڑوں احادیث اس کی شاہد ہیں..66 اگر یہ کہا جائے کہ یہ چند فقرے خلاصہ ہیں اس موقف کا جو کہ جماعت احمدیہ کے مخالف مولوی صاحبان قومی اسمبلی کے رو برو پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے تو یہ بات غلط نہیں ہوگی لیکن یہ سب کچھ اس احتیاط کے ساتھ کیا جا رہا تھا کہ جماعت احمدیہ کے وفد کو اس کا جواب دینے کا موقع نہ دیا جائے لیکن ایسا کیوں کیا جارہا تھا ؟ اگر جماعت احمدیہ کے مخالفین کو یہ اختیا ر تھا کہ وہ جماعت احمدیہ کا موقف سننے کے بعد اس پر جرح کر سکیں اور سوال اُٹھا سکیں تو یہ حق جماعت احمدیہ کے نمائندگان کو بھی حاصل تھا کہ وہ مولوی صاحبان کا موقف سننے کے بعد اس پر جرح کر سکیں لیکن اب تک مولوی صاحبان کے پیش کردہ سوالات کا جو حشر ہو چکا تھا اس کے بعد یہی مناسب سمجھا گیا کہ جماعت احمدیہ کے یہ مخالفین کو اپنی شرمندگی دور کرنے کا موقع تو مل جائے لیکن کسی کو ان پر جرح نہ کرنے دی جائے اور نہ باہر کسی کو کان و کان خبر ہو کہ ان حضرات نے کیا فرمایا تھا.اب ہم مفتی محمود صاحب کی تقریر کی بنیادی نکات کا مختصر تجزیہ پیش کرتے ہیں.1.مفتی محمود صاحب نے یہ دعویٰ پیش کیا کہ قرآن کریم کی بیسیوں آیات اس بات کی شاہد ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آ سکتا.یہ دعوی اس لیے اہم ہے کہ جماعت احمدیہ کا

Page 24

22 بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی کوئی آیت یا کوئی ایک شعشہ قیامت تک منسوخ نہیں ہوسکتا.قرآن کریم کا ایک ایک حکم اور ایک ایک ارشاد ہر حالت میں واجب العمل ہے.کسی شخص کے قول یا اجتہاد، وحی یا الہام کوحتی کہ کسی حدیث کو بھی قرآنی آیات پر فوقیت نہیں دی جاسکتی.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے جماعت احمدیہ کی تعلیم بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں جو شخص قرآن کے سات سوحکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے.“ (روحانی خزائن جلد ۹ اصفحه ۲۸) اس پس منظر میں اتنے روز غیر متعلقہ سوالات میں وقت ضائع کرنے کی خواہ مخواہ تکلیف کی.اگر مفتی محود صاحب اور ان کے ہم خیال مولوی صاحبان کے علم میں ایسی چالیس پچاس آیات تھیں تو ان کو جماعت احمدیہ کے وفد کے روبرو پیش کر دیتے ، اسی وقت فیصلہ ہو جا تا بلکہ مناسب ہوتا کہ ان کو اکٹھا کسی اخبار میں شائع کرا دیتے.تمام احمدی جس عقیدے کو خلاف قرآن پاتے فوراً اس سے تائب ہو جاتے اور اس طرح مولوی حضرات کو ایک فتح عظیم نصیب ہوتی لیکن جب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے وفد سے جب سوالات کیے گئے تو کیا یہ بیسیوں آیات پیش کی گئیں؟ ہمیں افسوس سے لکھنا پڑتا ہے کہ تمام کارروائی میں اس بات کا کوئی نام ونشان نہیں ملتا کہ کبھی ان حضرات نے یہ بیسیوں آیات تو کیا چند آیات ایسی پیش کی ہوں جو واضح طور پر جماعت احمدیہ کے مخالفین کے موقف کی تائید کرتی ہوں.خیر سوالات کا مرحلہ گزر گیا.اب جب کہ مفتی محمود صاحب مولوی حضرات کا تیار کردہ موقف پڑھ رہے تھے تو کیا اس مرحلہ پر یہ بیسیوں آیات پیش کی گئیں؟ ہمیں ایک بار پھر افسوس سے لکھنا پڑتا ہے کہ اس اہم مرحلہ پر بھی مفتی محمود صاحب ایک قرآنی آیت بھی نہ پیش کر سکے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ آنحضرت ﷺ کے بعد اب کسی قسم کا کوئی نبی مبعوث نہیں ہوسکتا.دوسری طرف جب ہم جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کیے جانے والے محضر نامے کا جائزہ لیتے ہیں ، تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس محضر نامے میں محض یہ خالی دعوی نہیں پیش کیا گیا تھا کہ بیسیوں آیات ہمارے موقف کی تائید کرتی ہیں بلکہ اس محضر نامہ کا ساتواں باب ” آیت خاتم النبین“

Page 25

23 کی صحیح تفسیر اور ان آیات کریمہ پر مشتمل ہے جو کہ جماعت احمدیہ کے موقف کی صداقت کو ظاہر کرتی ہیں اور اس موضوع پر احادیث نبویہ اور سلف صالحین کے اقوال بھی حوالوں سمیت درج کیے گئے ہیں.تمام محضر نامے کی طرح محضر نامہ کا یہ حصہ بھی قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی کے روبرو پڑھا گیا تھا اور تمام ممبران اسمبلی کو تحریری طور پر بھی دیا گیا تھا.ظاہر ہے اس کے جواب میں ضروری تھا کہ مخالفین بھی قرآن کریم سے اپنے مؤقف کے حق میں دلائل پیش کرتے اور جب مفتی محمود صاحب مولویوں کا موقف پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو انہوں نے یہ دعوئی پیش کیا کہ بلا مبالغہ قرآن کریم کی بیسیوں آیات ان کے موقف کی تائید کرتی ہیں لیکن پھر کیا ہوا؟ کیا انہوں نے ایسی چالیس پچاس آیات پیش کیں جو کہ ان کے موقف کی تائید کرتی ہوں ؟ تو اس سوال کا جواب ہے نہیں.وہ ایسی چالیس پچاس آیات نہیں پیش کر سکے جو ان کے موقف کی تائید کرتی ہوں.اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا انہوں نے ایسی دس ہیں آیتیں پیش کیں جو کہ ان کے موقف کی تائید کرتی ہوں؟ تو اس کا جواب ہے کہ نہیں.وہ ایسی دس یا بہیں آیات بھی نہیں پیش کر سکے جو کہ ان کے مؤقف کی تائید کرتی ہوں.اگر ان مولوی حضرات سے ہر قسم کی رعایت کر کے اب یہ پوچھا جائے کہ کیا اس مرحلہ پر مفتی محمود صاحب ایسی ایک بھی آیت پڑھ سکے جو ان کے موقف کی تائید کرتی ہو؟ تو ہمیں ایک بار پھر تاسف سے لکھنا پڑھتا ہے کہ مفتی محمود صاحب اور ان کے ساتھ کام کرنے والے مولوی حضرات ایک بھی ایسی قرآنی آیت نہیں پیش کر سکے جو کہ ان کے مؤقف کی تائید کرتی ہو.جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ جماعت احمدیہ کے محضر نامہ میں لغت ، احادیث نبویہ اور سلف صالحین کی روشنی میں آیت خاتم النبین (سورۃ احزاب آیت (۴) کی تفسیر درج کی گئی تھی اور یہ سب جانتے ہیں کہ مولوی صاحبان اس آیت کریمہ کو اپنے مؤقف کی تائید میں پیش کرتے رہے ہیں لیکن اس محضر نامہ کے پڑھے جانے کے بعد مولوی حضرات یہ ہمت بھی نہیں کر سکے کہ اپنے موقف کے دفاع میں اس آیت کریمہ کو پیش کرسکیں.ایک اور پہلو سے اس مسئلہ کا جائزہ لیتے ہیں.جیسا کہ ابھی ذکر کیا گیا ہے کہ جماعت احمد یہ نے اپنے مؤقف کی تائید میں قرآن کریم کی آیات پیش کی تھیں.سوال یہ ہے کہ کیا مفتی محمود صاحب

Page 26

24 نے قرآن کریم کی آیات کریمہ کے حوالے سے جماعت احمدیہ کے دلائل کا کچھ بھی رد پیش فرمایا.کوئی بھی قومی اسمبلی کی شائع کردہ کا رروائی پڑھ کر دیکھ سکتا ہے کہ مفتی محمود صاحب اس حوالے سے جماعت احمدیہ کے پیش کردہ دلائل کا کوئی رد نہیں پیش کر سکے.کیا آنحضرت ﷺ کے بعداب ہرقسم کی وحی کے دروزے بند ہیں؟ 2.یہ دعویٰ پیش کرنے کے ساتھ ہی مفتی محمود صاحب نے ایک اور عجیب دعوی پیش کیا.ہم دعویٰ ایک بار پھر ان کے ہی الفاظ میں پیش کرتے ہیں.مفتی محمود صاحب نے کہا: وو اور نہ آپ ( یعنی آنحضرت ﷺ کے بعد.ناقل ) کے بعد کسی پر وحی آ سکتی ہے اور نہ ایسا الہام جو دین میں حجت ہو.اسلام کا یہی عقیدہ ختم نبوت“ کے نام سے معروف ہے اور سرکارِ دو عالم ﷺ کے وقت سے لے کر آج تک پوری امت مسلمہ کسی ادنی اختلاف کے بغیر اس عقیدہ کو جزوایمان قرار دیتی آئی ہے.“ الله اس مرحلہ پر مفتی محمود صاحب صریحاً غلط بیانی سے کام لے کر مطلوبہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے.جماعت احمدیہ کے وفد سے سوالات کے دوران بھی یہ مسئلہ ایک اور رنگ میں اٹھا تھا اور حضرت امام جماعت احمدیہ نے قرآن کریم کی آیت سے اس کا جواب دیا تھا.جیسا کہ ہم پہلی کتاب میں ذکر کر چکے ہیں کہ ۸/ اگست کی کارروائی کے دوران بیٹی بختیار صاحب نے ”وحی“ کے بارے میں یہ نظریہ پیش کرنے کی کوشش کی تھی کہ وحی تو صرف انبیاء کو ہی ہوسکتی ہے.اس پر حضرت امام جماعت احمدیہ نے دو آیات پڑھیں تھیں کہ قرآن کریم کے مطابق وہی تو شہد کی مکھی کو بھی ہوتی ہے.اور اسلام سے قبل بنی اسرائیل کی عورتوں کے متعلق بھی قرآن کریم بیان فرماتا ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوئی تھی.(النحل : ۶۹، القصص:۸) اس پر اٹارنی جنرل صاحب لا جواب ہو گئے تھے.(ملاحظہ کیجیے کا رروائی صفحہ ۵۲۱،۵۲۰) اب چونکہ جماعت کا وفد موجود نہیں تھا جو ان حضرات کی غلطیوں کی نشاندہی کر سکے.اس لیے گزشتہ کوشش کی ناکامی کے بعد اب مفتی صاحب ایک اور انوکھا نظریہ پیش کر رہے تھے کہ

Page 27

25 آنحضرت ﷺ کے بعد اب وحی کا دروازہ مکمل طور پر بند ہے.اگر یہی نظریہ قبول کیا جائے کہ اب ہر قسم کی وحی کا دروازہ بند ہے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اب شہد کی مکھی شہد بھی نہیں بناتی کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس پر بھی وحی ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستہ پر چل کر شہد تیار کرے لیکن اس بحث کا ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے اور وہ یہ ہے کہ مفتی محمود صاحب یہ دعویٰ پیش کر رہے تھے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد اب کسی شخص پر کوئی وحی نازل نہیں ہو سکتی جبکہ جب جماعت احمدیہ کے وفد سے سوالات کا آخری دن تھا تو اس دن حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے اس ضمن میں ایسی قطعی دلیل بیان فرمائی تھی کہ یحییٰ بختیار صاحب اور ان کو مواد مہیا کرنے والے مولوی صاحبان اس کا کوئی جواب نہیں دے سکے تھے.آپ نے صحیح مسلم کتاب الفتن باب الذکر الدجال میں حضرت نواس بن سمعان کی وہ حدیث پڑھی تھی جس میں خود آنحضرت ﷺ نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ مستقبل میں مبعوث ہونے والے مسیح پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی اترے گی.اس حدیث سے یہ نظریہ قطعی طور پر غلط ثابت ہو جاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کسی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی وحی نازل نہیں ہو سکتی ( کارروائی صفحہ ۱۴۶۹،۱۴۶۸).اب مفتی محمود صاحب اس دن کی خفت کا ازالہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن ان کے پاس حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کی بیان فرمودہ دلیل کا کوئی جواب نہیں تھا اور یہ امر قابل ذکر ہے کہ آنحضرت ﷺ کی یہ عظیم پیشگوئی صرف صحیح مسلم میں درج نہیں بلکہ جامع ترندی کئے ابواب الـفـتـن باب ما جاء في فتنة الدجال “ میں بھی بیان کی گئی ہے اور مشکوۃ شریف کے باب العلامات بين يدى الساعة و ذكر الدجال میں بھی درج ہے.اس طرح احادیث کی ان تین معتبر کتب میں مذکور یہ پیشگوئی مفتی محمود صاحب اور ان کے حامی مولوی صاحبان کے بیان کردہ نظریہ کو غلط ثابت کر رہی ہے.66 علاوہ ازیں یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ امت مسلمہ کی ایک خاطر خواہ تعداد اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے وصال کے معا بعد بھی جبرائیل کا نزول ہوتا رہا.چنانچہ شیعہ فرقہ کی حدیث کی معروف کتاب اصول کافی میں یہ روایت درج ہے.(اصول کافی جلد ۳، اردو تر جمه باب ۱۲ اذکر مولد جناب فاطمه)

Page 28

26 صلى الله 3.جیسا کہ ہم حوالہ درج کر چکے ہیں کہ مفتی محمود صاحب یہ نظریہ پیش فرما ر ہے تھے کہ ہمیشہ سے بغیر کسی استثناء کے تمام امت مسلمہ کا ختم نبوت کے بارے میں یہ نظریہ رہا ہے کہ آنحضرت مے کے بعد ” کوئی بھی شخص کسی بھی قسم کا نبی نہیں بن سکتا اور نہ آپ کے بعد کسی پر وحی آ سکتی ہے.“ اور مفتی محمود صاحب نے یہ دعوئی پیش کیا تھا کہ اب تک پوری امت مسلمہ کا کسی ادنی اختلاف کے بغیر یہی عقیدہ رہا ہے.جماعت احمدیہ پر سوالات کے دوران جماعت احمدیہ کے مخالفین کو جو بار بار خفت اُٹھانی پڑی تھی.غالباً یہ اس کا نتیجہ تھا کہ یہ گروہ اس بات پر مجبور تھا کہ بند دروازوں کے پیچھے بالکل خلاف واقعہ دعاوی کو پیش کر کے اس شکست کے ازالے کی کوشش کرے اور جن دلائل کو مفتی محمود صاحب پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے ان کا رد پہلے ہی پیش کیا جا چکا تھا.جماعت احمدیہ کے محضر نامہ میں آیت خاتم انبیین کی تفسیر میں جو احادیث نبویہ درج کی گئی تھیں ان میں صحیح مسلم کے باب ذکر الدجال کی ایک حدیث بھی درج کی گئی تھی اور اس ایک حدیث میں آنحضرت علی نے آنے والے نبی کو چار مرتبہ نبی اللہ کے الفاظ سے یاد فر مایا تھا.(محضر نامہ صفحہ ۱۰۹) اور جب جماعت احمدیہ کے وفد پر سوالات کیے جارہے تھے تو اس ضمن میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے فرمایا تھا: ”میں نے ابھی عرض کی کہ امت محمدیہ شروع سے لے کر تیرہ سو سال تک حضرت نبی اکرم ﷺ کو ختم النبین مانتے ہوئے ایک ایسے مسیح کا انتظار کرتی رہی جسے مسلم کی حدیث میں خود آنحضرت ﷺ نے چار بار نبی اللہ کہا اور وہ خاتم النبین پر بھی ایمان لاتے تھے..اس طرح سینکڑوں حوالے ہیں.اگر آپ کو ضرورت ہو تو میں آٹھ دس دن میں وہ سینکڑوں حوالے آپ کو دکھا سکتا ہوں....کہ تیرہ سوسال تک امت محمدیہ ایک نبی کا انتظار بھی کرتی رہی اور تمام سلف صالحین اس بات پر متفق تھے کہ اس نبی کا انتظار ختم نبوت کو توڑنے والا نہیں ہے.“ ( کارروائی صفحہ ۶۸۸) اس موضوع پر دلائل آگے بڑھنے سے مخالفین اتنے خوفزدہ تھے کہ بیٹی بختیار صاحب نے بجائے

Page 29

27 اس بات پر رضامندی ظاہر کرنے کے کہ وہ حوالے سپیشل کمیٹی کے سامنے رکھے جائیں موضوع تبدیل کر کے مولانا ابوالعطاء صاحب کی ایک کتاب کے متعلق سوال پیش کر دیا اور اس تقریر کے دوران ایک بار پھر مفتی محمود صاحب نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی بیان فرمودہ دلیل کا جواب دینے کی بجائے صرف ایک خلاف واقعہ دعویٰ پیش کرنے پر اکتفا کی.بہت سے سلف صالحین جن کی عظمت کا کوئی انکار نہیں کر سکتا اس بات کا واضح اعلان کر چکے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد اس امت کے افراد سے اللہ تعالیٰ کلام کرتا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ سے وحی پاتے رہے ہیں مثلاً حضرت مجددالف ثانی اپنے مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں: حق تعالیٰ کا کلام بندے کے ساتھ کبھی روبرو بواسطہ ہوتا ہے.اس قسم کا کلام انبیاء میں سے بعض افراد کے لیے ثابت ہے اور کبھی انبیاء کے کامل تابعداروں کے لیے بھی ہوتا ہے جو وراثت اور تبعیت کے طور پر ان کمالات سے مشرف ہوتے ہیں.جب اس قسم کا کلام ان میں سے کسی ایک کے ساتھ بکثرت ہو تو ایسے شخص کو محدث کہتے ہیں جیسے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق تھے.“ دفتر دوم مکتوب ۵۵۱) مکتوبات امام ربانی، اردوترجمه از محمدسعیداحمد، ناشر مدینہ پبلیشنگ کمپنی جلد سوئم صفحه ۱۹) ائمہ اہل بیت میں سے بہت سے بزرگان نے اس بات کا اظہار فرمایا ہے کہ انہوں نے براہ راست اللہ تعالیٰ کا کلام سنا ہے.چنانچہ حضرت مجدد الف ثانی اپنے ایک خط میں حضرت امام جعفر صادق کا ایک واقعہ تحریر فرماتے ہیں." حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت منقول ہے کہ ایک دفعہ آپ نماز پڑھ رہے تھے کہ بیہوش ہو کر گر پڑے.آپ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں اس آیت کی برابر تکرار کرتا رہا حتی کہ میں نے اس کے کلام کرنے والے سے اس کو سنا.“ ( دفتر سوم مکتوب ۱۱۸ مکتوبات امام ربانی ، اردو ترجمه از محمد سعید احمد، ناشر مدینہ پبلیشنگ کمپنی جلد سوئم صفحه ۱۳۰) اب پڑھنے والے خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ براہ راست اللہ تعالیٰ کا کلام سننا اگر وحی نہیں ہے تو

Page 30

اور وحی کسے کہتے ہیں؟ 28 حضرت مجد دالف ثانی" تحریر فرماتے ہیں کہ بہت سے بزرگان نے اللہ تعالیٰ سے کلام کیا ہے.یہ بے سروسامان اپنے خیال میں ہر روز خدا کو دیکھتے ہیں حالانکہ محمد رسول اللہ ملے کے ایک دیدار میں بھی علماء کو قیل وقال ہے.“ 66 دفتر اول مکتوب ۲۷۲ مکتوبات امام ربانی ، اردو ترجمه از محمد سعید احمد، ناشر مدینہ پبلیشنگ کمپنی جلد سوم صفحه ۷۲۲ ) مفتی محمود صاحب اور ان کے ہمنوا یہ عقیدہ پیش کر رہے تھے کہ آنحضرت عملے کے بعد اب کسی شخص کو وحی نہیں ہو سکتی اور اللہ تعالیٰ کسی شخص سے کلام نہیں کر سکتا اور یہ دعویٰ پیش کر رہے تھے کہ یہ عقیدہ ختم نبوت کے عقیدہ کا لازمی حصہ ہے اور جو شخص اس کے خلاف عقیدہ رکھے وہ مسلمان نہیں کہلا سکتا اور جیسا کہ ہم حوالے درج کر چکے ہیں قرآنی آیات اور احادیث نبویہ صاف اعلان کر رہی ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد وحی کا دروازہ بند نہیں ہوا.حضرت مجددالف ثانی جیسے بزرگ اللہ تعالیٰ کے کلام سے مشرف ہونے کا اعلان کرتے رہے ہیں اور یہ بھی واضح ہے کہ دوسرے مشائخ بھی اللہ تعالیٰ سے شرف کلام حاصل کرتے رہے ہیں.اس پس منظر میں یہ سوال لا زماً اُٹھتا ہے کہ کیا یہ مولوی حضرات ان عظیم الشان بزرگوں کو بھی مسلمان نہیں سمجھتے.امام غزالی نے تو ایک حدیث کا حوالہ دے کر لکھا ہے اور حضور علیہ السلام نے فرمایا ہے...بے شک ہر ایک امت کے اندر اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے ہیں جن سے وہ ہم کلام ہوتا ہے اور میری امت میں بھی ایسے بندے ہیں جن سے وہ ہم کلام ہوتا ہے اور آپ نے اپنے بعض اصحاب کی طرف اشارہ فرمایا.“ ( مجربات امام غزالی ترجمہ سید حافظ یاسین علی حسنی نظامی شائع کردہ الفیصل ناشران و تاجران کتب ۲۰۰۷ صفحه ۲۹۲٬۲۹۱) اور علماء اسلام میں یہ عقیدہ معروف ہے کہ جب مسیح موعود کا ظہور ہوگا تو ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوگی.اس عقیدہ کا ذکر کرتے ہوئے اہل حدیث کے عالم نورالحسن صاحب لکھتے ہیں : یہ قول اس قائل کا باطل ہے بلکہ کفر ہے حدیث لا وحی بعد موتی بے اصل ہے ہاں لا نبی بعدی آیا ہے اس کے معنی نزدیک اہل علم کے یہ ہیں کہ میرے بعد

Page 31

29 کوئی نبی شرع ناسخ نہ لاوے گا.سبکی نے اپنی تصنیف میں صراحت کی ہے اس بات کی کہ عیسی علیہ السلام ہمارے ہی نبی کی شریعت کا حکم دیں گے.قرآن کریم کی رو سے اس سے یہ امر راج سمجھا جاتا ہے کہ وہ سنت کو جناب نبوت سے بطریق مشافہہ کے بغیر کسی واسطہ کے یا بطریق وحی والہام حاصل کریں گے.“ اقتراب الساعة طبع مفید عام الکائنہ آگره ۱۳۰۱ ہجری صفحه ۱۶۲) اسی طرح مشہور کتاب روح المعانی میں صحیح مسلم میں حضرت نواس بن سمعان کی مروی حدیث کا ذکر کر کے لکھا ہے و تلك الوحى على لسان جبريل عليه السلام اذهو سفير بين الــلــه تـعـالـی و انبيائه و خبر لاوحی بعدی باطل و ما اشتهران ان جبريل صل الله.عليه السلام لا ينزل الى الارض بعد موت النبي علم فهو لا اصل 66 (روح الـمـعـانـي مصنفه ابو الفضل شهاب الدين سيد محمود الالوسى بالمطبعه الكبرى الميريه ٥ الجزو سابع صفحه ۶۵) ترجمہ : اور یہ وحی حضرت جبریل علیہ السلام کی زبان سے ہو گی کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء کے درمیان سفیر ہیں اور یہ امران کے علاوہ کسی اور میں معروف نہیں.یہ خبر ( حدیث ) کہ لا وحــی بـعـدی جھوٹی ہے اور یہ جو مشہور ہو گیا ہے کہ الله حضرت جبریل علیہ السلام آنحضور ﷺ کی موت کے بعد زمین پر نہیں اتر تے تو اس کی کوئی اصل نہیں.“ مفتی محمود صاحب یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ تمام مسلمانوں کا ہمیشہ سے یہ عقیدہ رہا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کسی کو کسی قسم کی وحی نہیں ہو سکتی اور جو اس قسم کی وحی کا قائل ہو وہ ختم نبوت کا منکر اور کافر ہے.ان مثالوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مفتی محمود صاحب بند دروازوں کے پیچھے قومی اسمبلی کے ممبران کے سامنے محض ایک خلاف واقعہ دعوی پیش کر رہے تھے..

Page 32

30 مفتی محمود صاحب کا دجال کے متعلق پیش کردہ نظریہ اس کے بعد مفتی محمود صاحب نے یہ احادیث پڑھیں : قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک تمہیں کے لگ بھگ دجال اور کذاب پیدا نہ ہوں جن میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے 66 مفتی محمود صاحب نے اس حدیث کا یہ حوالہ پیش کیا کہ یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں موجود ہے.) قریب ہیں میری امت میں تمیں جھوٹے پیدا ہوں گے.ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں حالانکہ میں خاتم النبین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا.“ مفتی محمود صاحب نے اس کا حوالہ یہ پیش کیا کہ یہ حدیث صحیح مسلم میں موجود ہے.یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس مضمون کی حدیث صحیح مسلم میں تو موجود نہیں البتہ جامع ترمذی میں موجود ہے.) یہ درست ہے کہ بعض احادیث میں آنحضرت علی نے انذار فرمایا ہے کہ بعض جھوٹے مدعیان نبوت پیدا ہوں گے اور ان کو ان کے قریب کی وجہ سے دجال کا نام بھی دیا گیا ہے لیکن یہ درست نہیں کہ آنحضرت ﷺ نے صرف جھوٹے مدعیان کی خبر دی ہے.اگر یہ عقیدہ رکھا جائے کہ اب صرف جھوٹے اور دجال ہی آئیں گے اور تو اور اب وحی کا دروازہ بھی مکمل طور پر بند ہے.اب اللہ تعالیٰ سے کوئی شرف مکالمہ بھی نہیں حاصل کر سکتا تو اس میں تو اسلام کی ہتک ہے.گویا کہ اب صرف نحوستوں کے دروازے ہی کھلے ہیں.آنحضرت ﷺ نے بچے مہدی اور مسیح کے آنے کی خوشخبری بھی دی ہے اور یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ مسیح اللہ تعالیٰ کی طرف سے منصب نبوت پر فائز ہوگا.جہاں زہر ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تریاق بھی مہیا کیا گیا ہے.آنحضرت ﷺ نے یہ بھی تو فرمایا ہے کہ دجال کا مقابلہ موعود مسیح کرے گا اور اس موعود وجود کو آنحضرت ﷺ نے نبی کے نام سے یاد فرمایا ہے اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ جس دشمن کا سچا مسیح مقابلہ کرے گاوہ دشمن بھی دجال ہوگا جیسا کہ صحیح مسلم کی کتاب الفتن و اشراط الساعة میں حضرت نواس بن سمعان سے مروی مشہور حدیث

Page 33

31 میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ ظہور کرنے والا مسیح دجال کا خاتمہ کرے گا.اس پس منظر میں ہر مومن کا فرض ہے کہ وہ مسیح ہونے کے مدعی کے دعوی کا قرآن اور احادیث کی روشنی میں بغور جائزہ لے ورنہ اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ وہ بچے مسیح کی مخالفت کرنے والا اور دجال کا ساتھی بن جائے گا.ایک اور لغو الزام.کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ شرعی نبوت کا تھا؟ اس کے بعد کچھ دیر مفتی محمود صاحب نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی تحریرات کے کچھ حوالے دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ آپ نے نبوت کا دعویٰ فرمایا تھا.جہاں تک جماعت احمد یہ مبایعین کا تعلق ہے تو اس تگ و دو کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ جماعت احمدیہ کے محضر نامہ میں حوالوں کے ساتھ اپنا یہ عقیدہ درج کیا گیا تھا کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ آنحضرت مے کی غلامی میں اور آپ کی پیشگوئیوں کے مطابق امتی نبی کا درجہ رکھتے ہیں لیکن اس کے بعد مفتی محمود صاحب نے یہ لغو اور بے بنیاد الزام دہرایا کہ آپ کا دعوی شرعی نبی ہونے کا ہے.مفتی صاحب نے کہا: حقیقت تو یہ ہے کہ مرزا صاحب کے روز افزوں دعاوی کے دور میں ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جب انہوں نے غیر تشریعی نبوت سے بھی آگے قدم بڑھا کر واضح الفاظ میں 66 اپنی وحی اور نبوت کو تشریعی قرار دیا ہے.“ (کارروائی صفحہ ۱۸۳۹) مفتی محمود صاحب کے نام نہاد دلائل کا ذکر کرنے سے قبل اس ضمن میں حضرت بانی جماعت احمدیہ کے ارشادات درج کیے جاتے ہیں اور یہ حوالے جماعت احمدیہ کے محضر نامہ میں بھی درج کیے گئے تھے اور سپیشل کمیٹی کے سامنے بھی پڑھے گئے تھے.اس لیے یہ عذر بھی پیش نہیں کیا جا سکتا کہ مفتی محمود صاحب یا ممبران اسمبلی ان سے بے خبر تھے.حضرت بانی جماعت احمدیہ تحریر فرماتے ہیں: ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے، رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے.اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا.“ ایک غلطی کا ازالہ.روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۲۱۱،۲۱۰)

Page 34

32 ’یاد رہے کہ ہمارا یہ ایمان ہے کہ آخری کتاب اور آخری شریعت قرآن ہے اور بعد اس کے قیامت تک ان معنوں سے کوئی نبی نہیں ہے جو صاحب شریعت ہو یا بلا واسطہ متابعت آنحضرت ﷺ وحی پاسکتا ہو بلکہ قیامت تک یہ دروازہ بند ہے اور متابعت نبوی سے نعمت وحی حاصل کرنے کے لئے قیامت تک دروازے کھلے ہیں.وہ وحی جو اتباع کا نتیجہ ہے کبھی منقطع نہیں ہوگی مگر نبوت شریعت والی یا نبوت مستقلہ منقطع ہو چکی ہے.“ ریویو بر مباحثہ بٹالوی چکڑالوی، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۱۳) یہ واضح ارشادات حضرت مسیح موعود کی زندگی کے آخری سالوں میں تحریر کیے گئے تھے.ان کی موجودگی میں مفتی محمود صاحب محض ایک بے بنیاد دعویٰ پیش کر رہے تھے.اس ضمن میں انہوں نے ایک نہایت بودی دلیل پیش کی.انہوں نے حضرت اقدس مسیح موعود کی تحریروں میں سے اربعین کا حوالہ پیش کیا کہ حضرت مسیح موعود نے تحریر فرمایا ہے کہ ماسوا اس کے یہ بھی تو سمجھو شریعت کیا چیز ہے جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امر اور نہی بیان کئے اور اپنی امت کے لیے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب الشریعت ہو گیا.پس اس تعریف کے رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی.“ (روحانی خزائن جلد۷ اصفحه ۴۳۵) ذرا ملاحظہ کیجئے مفتی محمود صاحب اس حوالے کو پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ نعوذ باللہ حضرت بانی جماعت احمدیہ کا دعوی صاحب شریعت نبی ہونے کا تھا حالانکہ جو حوالہ انہوں نے پڑھا اس میں واضح لکھا تھا کہ " اگر کہو کہ شریعت سے مراد وہ شریعت ہے جس میں نئے احکام ہوں تو یہ باطل ہے.“ اور حقیقت یہ ہے کہ مفتی محمود صاحب نامکمل حوالہ پڑھ کر خلاف واقعہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے کیونکہ اس کے آگے حضرت مسیح موعود تحریر فرماتے ہیں: ”ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت ﷺ خاتم الانبیاء ہیں اور قرآن ربانی کتابوں کا خاتم ہے تا ہم خدا تعالیٰ نے اپنے نفس پر یہ حرام نہیں کیا کہ تجدید کے طور پر کسی اور مامور

Page 35

33 کے ذریعہ سے یہ احکام صادر کرے کہ جھوٹ نہ بولو، جھوٹی گواہی نہ دو، زنا نہ کرو، خون نہ کرو اور ظاہر ہے ایسا بیان کرنا بیان شریعت ہے جو مسیح موعود کا بھی کام ہے.“ (روحانی خزائن جلد ۷ اصفحه ۴۳۶) یہ امر قابل ذکر ہے کہ اربعین کا یہی حوالہ پیش کر کے اٹارنی جنرل صاحب نے یہ دلیل پیش کرنے کی کوشش کی تھی کہ نعوذ باللہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے نئی شریعت کا دعویٰ کیا تھا اور اگست کی کارروائی کے دوران حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے ان کی دلیل کو بالکل بودا ثابت کر دیا تھا اور فرمایا تھا کہ اسی حوالے میں اربعین نمبر کی اشاعت اول کے صفحہ ۶ کے حاشیہ میں حضرت بانی سلسلہ احمد یہ علیہ السلام نے یہ واضح لکھا ہے کہ ان کی وحی میں یہ اوامر و نہی شرعی احکام کی تجدید ہے (صفحہ 329 330 ).ظاہر ہے کہ یہ لفظ ” تجدید ہی نئی شریعت کے الزام کو مکمل طور پر غلط ثابت کر رہا ہے.اس کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے حضرت بانی جماعت احمدیہ کی تصنیف ازالہ اوہام کا یہ حوالہ بھی پڑھا تھا.ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے اور ایک شعشہ یا نقطہ اس کی شرائع اور حدود اور احکام اور اوامر سے زیادہ نہیں ہو سکتا اور نہ کم ہو سکتا ہے اور اب کوئی ایسی وحی یا ایسا الہام منجانب اللہ نہیں ہو سکتا جو احکام فرقانی کی ترمیم یا تنسیخ یا کسی ایک حکم کے تبدیل یا تغیر کر سکتا ہوا گر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ ہمارے نزدیک جماعت مومنین سے خارج اور ملحد اور کافر ہے...(روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۷۰) اس حوالے کے بعد اس الزام کی تردید مکمل طور پر ہو جاتی تھی.اٹارنی جنرل صاحب اس سے اس قدر بوکھلا گئے کہ انہوں اپنی دلیل میں وزن پیدا کرنے کے لیے الفضل ۲۶ جنوری ۱۹۱۵ء کا حوالہ پیش کیا اور بعد میں معلوم ہوا کہ وہ حوالہ بھی جعلی تھا.(کارروائی صفحہ ۳۳۰) یہاں پر قدرتاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مفتی محمود صاحب حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کی دی گئی دلیل کا کوئی جواب دے سکے.اس کا جواب یقناً نفی میں ہے.مفتی محمود صاحب تو اس دلیل

Page 36

34 کا ذکر کرنے سے بھی خائف تھے.مفتی محمود صاحب نے صرف پہلے کی طرح ایک نامکمل حوالہ پڑھنے پر ہی اکتفا کی.اس مکمل حوالہ سے صاف طور پر ظاہر کہ یہ کسی نئی شریعت لانے کا بیان ہو ہی نہیں رہا بلکہ آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق تجدید دین کا بیان ہورہا ہے.قرآنی شریعت کے احکامات کے بیان کا ذکر ہو رہا ہے اور ان حضرات کے نزدیک یہ کس طرح قابل اعتراض ہو گیا.اب تک تو ان کے علماء یہ اعلان کرتے رہے تھے کہ مسیح موعود پر قرآنی احکامات پر مشتمل وحی اترے گی.جیسا کہ ہم پہلے حوالہ درج کر چکے ہیں کہ نورالحسن صاحب اپنی کتاب ”اقتراب الساعۃ میں تحریر کرتے ہیں: سبکی نے اپنی تصنیف میں صراحت کی ہے اس بات کی کہ عیسی علیہ السلام ہمارے ہی نبی کی شریعت کا حکم دیں گے قرآن و حدیث کی رو سے اس سے یہ امر راج سمجھا جاتا ہے وہ سنت کو جناب نبوت سے بطریق مشافہہ کے بغیر کسی واسطہ کے یا بطریق وحی و 66 الہام حاصل کریں گے.“ ( اقتراب الساعة مصنفہ نواب صدیق حسن خان مطبع مفید عام الکائنہ گره ۱۳۰۱ھ صفه ۱۶۲) اس حوالہ سے صاف ظاہر ہے کہ صدیوں پہلے کے علماء بھی اور اس دور کے علماء بھی یہ اعلان کرتے رہے ہیں کہ مسیح موعود پر آنحضرت ﷺ کی شریعت کے احکامات بذریعہ وحی والہام نازل ہوں گے اور وہ ان کا بیان کرے گا.کیا ان علماء کے نزدیک مسیح موعود نے نئی شریعت کو لے کر آنا تھا؟ ہر گز نہیں.اس سے مراد صرف یہ تھی کہ مسیح موعود اپنی وحی کے نتیجہ میں آنحضرت ﷺ کی شریعت کا بیان کرے گا.جب یہی بات حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ نے تحریر فرمائی تو اس پر انہیں اعتراض کا کیا حق ہے؟ بعض انبیاء سے فضیلت کا مسئلہ مفتی محمود صاحب ممبران اسمبلی کے سامنے ہر قیمت پر یہ خلاف واقعہ دعویٰ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود نے نئی شریعت لانے کا دعویٰ کیا تھا اور اس کے لیے ان کے پاس کوئی

Page 37

35 ثبوت نہیں تھا.لاچار ہو کر اس کے لیے وہ یہ دور کی کوڑی لائے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے حضرت عیسی علیہ السلام پر فضیلت کا دعویٰ کیا تھا اور اس سے مفتی محمود صاحب یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ حضرت آپ نے شرعی نبوت کا دعویٰ کیا تھا.مفتی محمود صاحب نے کہا: ظاہر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام تشریعی نبی تھے اور جو شخص آپ سے تمام شان میں یعنی ہر اعتبار سے بڑھ کر ہو تو وہ تشریعی نبی کیوں نہیں ہو گا ؟ اس لیے یہ کہنا کسی طرح درست نہیں کہ مرزا غلام احمد صاحب نے کبھی اپنی تشریعی نبوت کا دعوی نہیں کیا.ان کے علاوہ مرزائی صاحبان عملاً مرزا صاحب کو تشریعی نبی ہی قرار دیتے ہیں یعنی ان کی ہر تعلیم ان کے ہر حکم کو واجب الاتباع مانتے ہیں خواہ وہ شریعت محمدیہ کے خلاف ہو.“ مفتی محمود صاحب نے ایک ہی سانس میں کئی غلط دعاوی پیش کر دیئے تھے.پہلی قابل تصیح بات تو یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام شرعی نبی نہیں تھے جس شخص نے انجیل کو سرسری نظر سے بھی دیکھا ہو وہ اس بات کو بخوبی محسوس کر سکتا ہے کہ اس میں شرعی احکام موجود ہی نہیں ہیں بلکہ اس میں توریت کے احکامات کی پیروی کی ہدایت مذکور ہے جیسا کہ انجیل میں حضرت عیسی علیہ السلام کا ارشاد منقول ہے کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ٹلے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائے.پس جو کوئی ان چھوٹے سے چھوٹے حکموں میں سے کسی کو توڑے گا اور یہی آدمیوں کو سکھائے گا وہ آسمان کی بادشاہی میں سب سے چھوٹا کہلائے گا لیکن جو ان پر عمل کرے گا اور ان کی تعلیم دے گا وہ آسمان کی بادشاہی میں بڑا کہلائے گا.(متنی باب ۵ آیت ۱۹،۱۸) انجیل کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام نے پیروکاروں کو یہ تلقین فرمائی تھی کہ وہ شرعی معاملات میں یہودی فقیہوں اور فریسیوں کے فتاوی کی ہی پیروی کریں جیسا کہ انجیل میں لکھا ہے: فقیہ اور فریسی موسیٰ کی گدی پر بیٹھے ہیں.پس جو کچھ وہ تمہیں بتا ئیں وہ سب کرو اور ما نولیکن ان کے سے کام نہ کرو کیونکہ وہ کہتے ہیں اور کرتے نہیں.“ (متی باب ۲۳ آیت ۳۲)

Page 38

36 مندرجہ بالا حوالوں سے واضح ہے کہ خود انا جیل کے مطابق انا جیل میں کوئی نئی شریعت نہیں پیش کی گئی بلکہ توریت کی پیروی کی سختی سے تلقین کی گئی ہے اور اس حقیقت کی نشاندہی حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے سوال و جواب کے دوران بھی فرمائی تھی لیکن مفتی محمود صاحب کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا.خود قرآن کریم میں یہ ذکر ہے کہ بنی اسرائیل میں تو رات کے تابع انبیاء آتے رہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَةَ فِيهَا هُدًى وَّ نُورٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبْنِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِنْ كِتَبِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْن وَلَا تَشْتَرُوا بِايْنِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَ مَنْ لَّمْ يَحْكُمُ بِمَا اَنْزَلَ اللهُ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْكَفِرُونَ.(المائدة :۴۵) یقیناً ہم نے تو رات اتاری اس میں ہدایت بھی تھی اور نور بھی.اس سے انبیاء جنہوں نے اپنے آپ کو ( کلیتا اللہ کے ) فرمانبردار بنا دیا تھا یہود کے لیے فیصلہ کرتے تھے اور اسی طرح اللہ والے لوگ اور علماء بھی اس وجہ سے کہ ان کو اللہ کی کتاب کی حفاظت کا کام سونپا گیا تھا (فیصلہ کرتے تھے ) اور وہ اس پر گواہ تھے.پس تم لوگوں سے نہ ڈرواور مجھ سے ڈرو اور میری آیات کو معمولی قیمت پر نہ بیچو اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا ہے تو یہی لوگ ہیں جو کافر ہیں.“ پھر اس کے بعد حضرت عیسی کے متعلق ارشاد ہے وَقَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِمْ بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَآتَيْنَاهُ الْإِنْجِيْلَ فِيهِ هُدًى وَّ نُورٌ وَّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَةِ وَ هُدًى و مَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ.(المائدة :۴۷) ” اور ہم نے انہی کے نقوش پر ان کے پیچھے عیسی ابن مریم کو بھیجا اس کے مصدق کے طور پر جو تورات میں سے اس کے سامنے تھا.اور ہم نے اسے انجیل عطا کی جس میں

Page 39

37 ہدایت تھی اور نور تھا اور وہ اس کی تصدیق کرنے والی تھی جو تورات میں سے اس کے سامنے تھا اور متقیوں کے لئے ایک ہدایت اور نصیحت ( کے طور پر ) تھی.“ مفسرین کرام ہمیشہ سے اس آیت کریمہ کی تشریح کرتے ہوئے بیان کرتے رہے ہیں کہ حضرت عیسی تو رات کی شریعت کے تابع تھے.تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے انبیاء بنی اسرائیل کے پیچھے ہم عیسی علیہ السلام نبی کو لائے جو تورات پر ایمان رکھتے تھے، اس کے احکام کے مطابق لوگوں میں فیصلے کرتے تھے.ہم نے انہیں اپنی بھی کتاب انجیل دی جس میں حق کی ہدایت تھی اور شبہات اور مشکلات کی توضیح تھی اور پہلی الہامی کتابوں کی تصدیق تھی.ہاں چند مسائل جن میں یہودی اختلاف کرتے تھے.ان کے صاف فیصلے اس میں موجود تھے.“ (اردو تر جمه تفسیر ابن کثیر ترجمه ازمحمد جونا گڑھی ناشر فقہ الحدیث پبلیکشنز مطبوعه علی آصف پرنٹرز مارچ ۲۰۰۹ صفحه ۴۳۱) پھر تفسیر ابن عباس میں اس آیت کی تفسیر میں درج ہے: اور ہم نے ان کے بعد توریت کے احکام کی ترویج اور توحید کی موافقت اور تصدیق کے لیے حضرت عیسی علیہ السلام کو بھیجا.اور ہم نے ان کو انجیل دی جو توحید اور رجم کے بیان میں توریت کے موافق تھی.(تفسیر ابن عباس اردو ترجمہ ازمحمد سعید احمد عاطف ناشریکی دار الکتب جلد اصفحہ ۳۴۷) یہ حوالے اس بات کو بالکل واضح کر رہے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام تو ریت کی شریعت کے پیروکار تھے اور آپ کی بعثت کا مقصد توریت کے احکام کی ترویج کرنا تھا.حیرت ہے کہ اپنے آپ کو عالم کہلانے کے باوجود مفتی محمود صاحب ان بنیادی حقائق سے بھی بے خبر تھے یا پھر دانستہ طور پر غلط حقائق پیش کر کے وقت گزار رہے تھے.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت عیسی علیہ السلام کی بعثت کا مقصد بنی اسرائیل کو توریت کی تعلیم یاد دلا نا بیان فرماتے ہیں.آپ فرماتے ہیں: پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تا وہ بنی اسرائیل کو تو رات کی اس تعلیم کو یاد دلائیں جسے وہ بھول چکے تھے اور انہیں اخلاق عظیمہ پر قائم

Page 40

38 ہونے کی رغبت دلائیں.“ (اردو ترجمہ خطبہ الہامیہ صفه ۲۴۳) اگر یہی مفروضہ درست تسلیم کیا جائے کہ جو حضرت عیسی علیہ السلام یا کسی شرعی نبی سے فضیلت کا دعوی کرے تو وہ شرعی نبوت کا دعویٰ کر رہا ہے یا اگر یہی سمجھا جائے کہ امت مسلمہ کا وہ فرقہ جو کسی وجود کو انبیاء یا شریعت لانے والے انبیاء سے افضل سمجھے تو اس کا مطلب یہ سمجھا جائے گا کہ وہ فرقہ اس وجود کو شرعی نبی مانتے ہوئے اس بات کو تسلیم کر رہا ہے کہ اب آنحضرت ﷺ کی شریعت منسوخ ہو چکی ہے تو اس کلیہ کے تحت بہت سے فرقوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینا پڑے گا کیونکہ امت محمدیہ کے بہت سے فرقے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس امت کے بہت سے مقدس وجود انبیاء سے افضل تھے مثلاً شیعہ فرقہ کا یہ عقیدہ ہے کہ ائمہ اہل بیت آنحضرت ﷺ کے علاوہ باقی انبیاء سے افضل تھے.شیعہ فرقہ کی معروف کتاب ” چودہ ستارے میں لکھا ہے: وو پیغمبر اسلام کی مشہور حدیث ہے کہ میرے اہل بیت میرے علاوہ تمام انبیاء سے بہتر ہیں ( چودہ ستارے مع اضافہ اصحاب امیر المؤمنین و شہداء کربلا، سید نجم لحسن، ناشر حمایت اہل بیت وقف لا ہور، بارسوئم اپریل ۱۹۷۳ء صفحہ ۲۷) مستقبل میں ظہور کرنے والے امام مہدی کے متعلق بھی شیعہ فرقہ کا یہی عقیدہ ہے کہ وہ انبیاء سے افضل ہیں اسی کتاب چودہ ستارے میں امام محمد مہدی کے بارے میں لکھا ہے آپ اپنے آبا ؤ اجداد کی طرح امام منصوص، معصوم، اعلم زمانہ اور افضل کائنات ہیں.آپ بچپن ہی میں علم و حکمت سے بھر پور تھے (صواعق محرقہ صفحہ ۱۲۴).آپ کو پانچ سال کی عمر میں ویسی ہی حکمت دے دی گئی جیسی حضرت بیٹی کو ملی تھی اور آپ بطن مادر میں اسی طرح امام قرار دیئے گئے تھے جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام نبی قرار پائے تھے ( کشف الغمہ صفحہ ۱۳۰).آپ انبیاء سے بہتر ہیں.( چودہ ستارے مع اضافہ اصحاب امیر المؤمنین و شہداء کربلا سید نجم احسن ، ناشر حمایت اہل بیت وقف لاہور، با رسوئم اپریل ۱۹۷۳ صفحه ۴۵) ان حوالوں سے صاف ظاہر ہے کہ شیعہ حضرات کے نزدیک تمام ائمہ اہل بیت یعنی حضرت علیؓ، حضرت امام حسن ، حضرت امام حسینؓ ، حضرت امام زین العابدین ، حضرت امام محمد باقر ، حضرت امام

Page 41

39 جعفر صادق"، حضرت امام موسیٰ کاظم ، حضرت امام علی رضا ، حضرت امام محمد تقی ، حضرت امام علی نقی ، الله حضرت امام حسن عسکری اور حضرت محمد مہدی یہ تمام بزرگان آنحضرت ﷺ کے علاوہ تمام انبیاء اور صاحب شریعت انبیاء سے بھی افضل تھے.نہ صرف یہ بلکہ ان کی کتب بھی کتب سماویہ کا درجہ رکھتی ہیں مثلاً اسی کتاب میں حضرت امام زین العابدین کی تصنیف ” صحیفہ کاملہ کے متعلق لکھا ہے سے علماء اسلام نے زبور آل محمد اور انجیل اہل بیت کہا ہے اور اس کی فصاحت و بلاغت معانی پر حقیقت کو دیکھ کر اسے کتب سماویہ صحف لوحیہ وعرشیہ کا درجہ دیا.“ ( چودہ ستارے مع اضافہ اصحاب امیر المؤمنین وشہداء کربلا سید نجم لحسن، ناشر حمایت اہل بیت وقف لاہور، با سوئم اپریل ۱۹۷۲ صفحه ۲۱۹) اگر مفتی محمود صاحب کا بیان کردہ مفروضہ درست تسلیم کیا جائے تو اس سے یہ نتیجہ بھی ماننا پڑے گا کہ شیعہ حضرات ان ائمہ کو صاحب شریعت انبیاء تسلیم کرتے ہیں اور اس طرح ختم نبوت کے منکر ہیں.یہاں پر حضرت مجددالف ثانی کا یہ ارشاد درج کرنا مناسب ہوگا.آپ اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی اتباع کے طفیل امتی انبیاء سے افضل بن سکتے ہیں.آپ لکھتے ہیں اگر امتوں میں سے کوئی فرد اپنے پیغمبر کی طفیل و تبعیت کے باعث بعض پیغمبروں 66 سے اوپر چلا جائے تو خادمیت اور تبعیت کے طور پر ہوگا “ (کشف المعارف مرتبه عنایت عارف الفیصل ناشران ، بار دوم فروری ۲۰۰۶ صفحه ۳۵۰) اگر مفتی محمود صاحب کا مفروضہ درست تسلیم کر لیا جائے تو حضرت مجد دالف ثانی جیسی عظیم ہستی پر بھی الزام آئے گا.مسئلہ جہاد اور مفتی محمود صاحب کا لا یعنی دعوئی حقیقت یہ ہے کہ جب ایک شخص خلاف واقعہ الزام لگا بیٹھے تو اس کے ثبوت پیش کرتے ہوئے اسے جھوٹ بھی بولنا پڑتا ہے اور خلاف عقل استدلال سے بھی کام لینا پڑتا ہے.مفتی محمود صاحب اور ان کے ہم خیال گروہ کی بھی یہی کیفیت تھی.اس گروہ نے پہلے جھوٹے الزام لگائے اور اس کے نتیجہ

Page 42

40 میں جماعت کے وفد سے سوالات کرتے ہوئے خفت اُٹھائی.اب ایک بار پھر اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کی ناکام کوشش کی جا رہی تھی جبکہ وہاں پر جماعت کا وفد موجود نہیں تھا جو ان کی غلطیوں کی نشاندہی کر سکے.مفتی محمود صاحب نے یہ جھوٹا الزام تو لگا دیا کہ حضرت مسیح موعود کا دعوی صاحب شریعت نبی ہونے کا تھا لیکن اس کے حق میں دلیل کہاں سے لاتے ؟ اس مرحلہ پر دلیل پیش بھی کی تو کیا کی.انہوں نے حضرت مسیح موعود کی یہ تحریر پڑھی: پھر ہمارے نبی علیہ کے وقت میں بچوں اور بڑھوں اور عورتوں کا قتل کرنا حرام کیا گیا اور پھر بعض قوموں کے لیے بجائے ایمان کے صرف جزیہ دے کر مواخذہ سے نجات پانا قبول کیا گیا اور مسیح موعود کے وقت قطعاً جہاد کا حکم موقوف کر دیا گیا.“ (روحانی خزائن جلد۷ اصفحه ۴۴۳ حاشیه ) اور یہ حوالہ پڑھنے کے بعد مفتی محمود صاحب نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا اور بانی سلسلہ احمدیہ کی یہ تحریر اس بات کا ثبوت ہے کہ احمدی بانی سلسلہ احمدیہ کو شرعی نبی سمجھتے ہیں اور پھر کہا: اس طرح شریعت محمدیہ میں جہاں خمس فئی ، جزیہ اور غنائم کے تمام احکام جو حدیث اور فقہ کی کتابوں میں سینکڑوں کتابوں میں پھیلے ہوئے ہیں ان سب میں مرزا صاحب کے مذکورہ بالا قول کے مطابق تبدیلی کے قائل ہیں اس کے بعد تشریعی نبوت میں کون سی کسر باقی رہ جاتی ہے.“ ( کارروائی صفحه ۱۸۹۴) مفتی محمود صاحب اس بات کو بالکل فراموش کر گئے کہ خود آنحضرت ﷺ نے آنے والے مسیح کا ایک اہم کام یضع الحرب بیان فرمایا ہے یعنی آنے والا مسیح دینی لڑائیوں کا خاتمہ کر دے گا ( صحیح بخاری نا شرمطبع مجتبائی دہلی جلد اول جز ۱۳۰ صفحه ۴۹۰).تو اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام دینی لڑائیوں کو موقوف نہ کرتے تو آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی پوری کس طرح ہوتی ؟ حقیقت یہ کہ ازل سے یہی تقدیر تھی کہ آنحضرت ﷺ کی ہر پیشگوئی روز روشن کی طرح پوری ہو.اسی لیے حضرت مسیح موعود نے دین کے نام پر قتال کے متعلق اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق یہ اعلان فرمایا کہ اب چونکہ مسلمانوں پر

Page 43

41 تبدیلی مذہب کے لیے حملے نہیں کیے جار ہے اور نہ ہی انہیں اپنے مذہب سے مرتد کرنے کے لیے کوئی دباؤ ڈالا جا رہا ہے، اس لئے اب اس قسم کے قتال کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی.اب اسلام دلائل اور روحانی ہتھیاروں سے غالب آئے گا.اور یہ بات قابل غور ہے کہ کیا مفتی محمود صاحب کے نزدیک حضرت رحمتہ العالمین ﷺ کی لائی ہوئی شریعت میں سے صرف خمس ، مال غنیمت فئی اور جزیہ کے احکامات ہی ایسے تھے جن کا ذکر کیا جائے اور پھر احمدیوں پر یہ الزام لگایا جائے کہ وہ نعوذ باللہ آنحضرت ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کو آخری شریعت نہیں سمجھتے.حقیقت یہ ہے کہ اس معین وہم کا جواب حضرت امام جماعت احمدیہ اس سپیشل کمیٹی کے سامنے پہلے ہی بیان فرما چکے تھے.حضور نے بیان فرمایا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جو حوالے پیش کئے جارہے ہیں وہ اس دور کے ہیں جب ہندوستان میں تمام مسالک کے علماء یہ فتاویٰ دے رہے تھے کہ اس وقت ہندوستان میں جہاد کی شرائط پوری نہیں ہور ہیں اور اب انگریز حکومت کے خلاف جہاد کرنا معصیت ہے اور ان کی اطاعت کرنا فرض ہے.حضرت امام جماعت احمدیہ نے اس ضمن میں مشہور شیعہ عالم علی حائری صاحب اور مشہور اہل حدیث عالم مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کے فتاویٰ سنائے.اس وقت اٹارنی جنرل صاحب اتنا پریشان ہو گئے کہ انہوں نے یہ کہہ کر اپنی جان چھڑانے کی کوشش کی کہ مجھے تو یہ خوشامدی معلوم ہوتے ہیں.( کارروائی ۱۱۵۶ تا ۱۱۶۰) یہ دونوں حضرات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں آپ کی شدید مخالفت کرتے رہے تھے لیکن نہ تو اس وقت اٹارنی جنرل صاحب اس بات کی وضاحت پیش کر سکے اور نہ ہی مفتی محمود صاحب اس موضوع کو چھیڑنے کی ہمت کر پائے کہ اگر اس وقت برطانوی حکومت کے خلاف جہاد فرض تھا اور اگر اُس حکومت کے خلاف جہاد کی ضرورت سے انکار کیا جائے تو اس کا یہی مطلب ہوگا کہ ایک نئی شریعت بنائی جا رہی ہے تو باقی مسالک سے وابستہ علماء اور عوام کیا کر رہے تھے.کیا انگریز حکومت کے دور میں دیو بند سے فتویٰ جاری ہوا کہ انگریزوں کے خلاف جہاد کرو.ہر گز نہیں بلکہ علماءِ دیو بند تو انگریز حکومت کے لیے مخبری کا فریضہ سرانجام دیتے رہے.کیا اہل حدیث علماء نے جہاد کا

Page 44

42 فتویٰ دیا ؟ ہرگز نہیں.انہوں نے تو تاج برطانیہ کی اطاعت کو مذہبی فریضہ قرار دیا.شیعہ علماء نے بھی یہی فتویٰ دیا کہ انگریز حکومت پر اللہ کا شکر کرو اور اس کی اطاعت کرو.بریلوی مسلک کے قائد احمد رضا خان بریلوی صاحب نے بھی یہی فتویٰ دیا کہ برطانوی راج میں ہندوستان دارالاسلام ہے.مسلم لیگ نے بھی اپنا اولین مقصد یہی بیان کیا کہ مسلمانوں میں تاج برطانیہ سے وفاداری کے خیالات میں اضافہ کیا جائے.ہم ان کے حوالے پہلے ہی درج کر چکے ہیں.اس پس منظر میں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ کیا یہ سب اسلامی شریعت کے منکر تھے؟ کیا یہ سب کسی نئی شریعت کے پیروکار تھے؟ ہرگز نہیں.اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ان سب کے نزدیک متفقہ طور پر اُس دور میں قتال کے لیے شرعی شرائط پوری نہیں ہوتی تھیں.اس صورت حال میں جماعت احمدیہ پر مفتی محمود صاحب کا یہ اعتراض بالکل بے معنی تھا اور تو اور اگر مفتی محمود صاحب کے نزدیک اسلامی شریعت میں خمس فئی اور مال غنیمت کے قوانین مرکزی حیثیت رکھتے تھے تو پہلے تو انہیں اس بات کا جواب دینا چاہیے کہ ۱۹۷۳ء کا آئین تو ان کی تائید کے ساتھ منظور ہوا تھا بلکہ اس کی منظوری پر دعا بھی مفتی صاحب نے کرائی تھی تو اس میں خمس فئی اور مال غنیمت کے قوانین کا تفصیلی تذکرہ کیوں نہ کر دیا گیا.اس سے گریز کیوں کیا گیا.مفتی محمود صاحب حیات مسیح کے مسئلہ میں الجھتے ہیں با وجود اس حقیقت کے کہ اس مرحلہ پر جماعت احمدیہ کا وفد کا روائی میں شامل نہیں تھا جو کہ مفتی محمود صاحب یا دیگر مخالفین کی غلطیوں کی نشاندہی کر سکتا ایک خدشہ مفتی محمود صاحب کو یقینی طور پر لاحق تھا.سوالات کے دوران حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کی طرف سے ایک ایسا نقطہ اُٹھایا گیا تھا جس سے یہ واضح طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ خود جماعت احمدیہ کے مخالفین اور مولوی حضرات آنحضرت ﷺ کو آخری نبی نہیں سمجھتے.وہ خود بڑی شد ومد سے اس بات کے قائل ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد ایک موعود نبی نے آنا ہے.صرف فرق یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ موعود نبی آنحضرت ﷺ کی امت سے آئے گا ، قرآن کریم کا پیروکار ہوگا اور آنحضرت صلى الله کا روحانی فرزند اور شاگرد ہو گا اور اسے امتی نبوت کا مقام آنحضرت ﷺ کی اطاعت سے ملے گا اور جس وجود کی آمد کی آنحضرت ﷺ نے خبر دی تھی وہ آ بھی چکا.اس کے برعکس جماعت

Page 45

43 احمدیہ کے مخالف مولوی حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ آنحضرت ﷺ ان معنوں میں آخری نبی ہیں لیکن آپ کے بعد ا بھی ایک نبی ضرور آئے گا مگر یہ نبی آنحضرت ﷺ کی امت میں پیدا نہیں ہوگا بلکہ بنی اسرائیل سے آئے گا.گویا جب آنحضرت علﷺ کی امت میں ایک امتی نبی کی ضرورت پڑی تو امت محمدیہ میں تو یہ نبی پیدا نہیں ہوا بلکہ بنی اسرائیل کے پرانے انبیاء میں ایک نبی کو مجبوراً واپس آنا پڑا تا کہ امت محمدیہ کی اصلاح کرے.ان مولوی صاحبان کا یہ عقیدہ ہے کہ ایک اور نبی تو ضرور آئے گا مگر وہ نبی آئے گا جسے مقام نبوت آنحضرت علﷺ کی اطاعت سے نہ ملا ہو بلکہ وہ نبی آئے گا جسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کی پیروی سے مقام نبوت ملا تھا.ہر انصاف پسند محسوس کر سکتا ہے کہ حقیقی طور پر تو احمدی مسلمان ختم نبوت کے قائل ہیں اور یہ مولوی صاحبان آنحضرت ﷺ کے خاتم الانبیاء ہونے کا انکار کر رہے ہیں.حضرت امام جماعت احمدیہ نے اس مسئلہ کے بارے میں جو دلائل بیان فرمائے تھے ان کے جواب میں مفتی محمود صاحب جو کہہ پائے وہ درج کیا جاتا ہے.مفتی محمود صاحب نے کہا یہاں یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات اور نزول ثانی کے عقیدہ کو عقیدہ ختم نبوت سے متضاد قرار دینا اسی غلط بحث کا شاہکار ہے جسے احادیث میں مدعیان نبوت کے دجل سے تعبیر کیا گیا ہے.ختم نبوت کی آیات اور احادیث کو پڑھ کر ایک معمولی سمجھ کا انسان بھی وہی مطلب سمجھے گا جو پوری امت نے اجماعی طور پر سمجھے ہیں یعنی یہ کہ آپ کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوسکتا اس سے یہ نرالا نتیجہ کوئی ذی ہوش نہیں نکال سکتا کہ آپ کے بعد پچھلے انبیاء علیہم السلام سے نبوت چھن گئی ہے یا پچھلے انبیاء میں سے کوئی باقی نہیں رہا.‘ ( کارروائی صفحہ ۱۸۹۷) اب مفتی محمود صاحب ان دلائل کا حوالہ دے رہے تھے جو وہ پیش ہی نہیں کر سکے تھے جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ اپنی تقریر کے آغاز میں مفتی محمود صاحب نے یہ دعویٰ پیش کیا کہ قرآن کریم کی بیسیوں آیات مسئلہ ختم نبوت پر ان کے عقیدہ کی تصدیق کرتی ہیں لیکن وہ ایک بھی آیت پیش نہ کر سکے اور نہ ہی آیت خاتم النبین یعنی سورۃ احزاب آیت ۴۱ کے بارے میں محضر نامہ میں جماعت احمد یہ

Page 46

44 کے پیش کردہ دلائل کا رد پیش کر سکے اور اب ایک اور چھلانگ لگا کر یہ فرما رہے تھے کہ اس مسئلہ پر جو آیات قرآنی ان کے مسلک کی تائید کرتی ہیں ان پر نظر ڈال کر ایک معمولی انسان بھی اسی نتیجہ پر پہنچے گا جو کہ وہ پیش کر رہے ہیں.انسان معمولی ذہن کا ہو یا کوئی عالی دماغ شخص ہو وہ کسی نتیجہ پر تو بعد میں پہنچے گا پہلے مفتی محمود صاحب وہ چالیس پچاس آیات تو بیان فرماتے جو کہ بقول ان کے مسئلہ ختم نبوت پر ان کے عقیدہ کی تائید کر رہی تھیں.اپنی تقریر کے آخر تک وہ ایک بھی ایسی آیت پیش نہ کر سکے آخر کیوں؟ مفتی محمود صاحب قرآنی آیات کے ذکر سے گریز کیوں کر رہے تھے؟ یہاں پر یہ سوال بہر حال اُٹھتا ہے کہ مفتی محمود صاحب محض بیسیوں آیات کا ذکر کر کے خاموش کیوں ہو گئے اور اپنے موقف کی تائید میں ایک بھی آیت کریمہ کیوں پیش نہیں کر سکے؟ اس مرحلہ پر یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا دوسرے فریق یعنی جماعت احمدیہ کی طرف سے اس ضمن میں اپنے موقف کے حق میں قرآن کریم سے کوئی دلائل پیش کیے گئے تھے یا نہیں.حقیقت یہ کہ جماعت احمدیہ کے محضر نامہ میں آیت خاتم النبیین کی تفسیر کے بارے میں پورا ایک علیحدہ باب درج کیا گیا تھا اور اس میں اپنے موقف کی تائید میں مختلف آیات کریمہ پیش کی گئی تھیں اور قرآن کریم سے اس بات کے ثبوت درج کیے گئے تھے کہ قرآن کریم کی رو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امتی نبوت کا دروازہ بند نہیں کیا مثلاً قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: يبَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمُ ايَتِي فَمَنِ اتَّقَى وَ أَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.(الاعراف :٣٦) ”اے ابناء آدم ! اگر تمہارے پاس تم میں سے رسول آئیں جو تم پر میری آیات پڑھتے ہوں تو جو بھی تقوی اختیار کرے اور اصلاح کرے تو ان لوگوں پر کوئی خوف نہیں ہوگا اور وہ غمگین نہیں ہوں گے.“ (الاعراف: ۳۶) اس آیت کریمہ میں آنحضرت ﷺ کے زمانہ کے لوگوں کو اور اس زمانہ کے مسلمانوں کو مخاطب کیا جارہا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر مستقبل میں میری طرف سے تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کے رسول آئیں تو جو بھی تقویٰ سے کام لے گا اور اصلاح کرے گا اس پر کوئی خوف نہیں ہوگا.اگر ایسا

Page 47

45 ہی تھا کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی رسول نہیں آ سکتا تھا تو پھر تو فرمان الہی یہ ہونا چاہیے تھا کہ اب تمہارے پاس میری طرف سے کوئی رسول نہیں آئے گا لیکن اس آیت کریمہ میں تو بالکل برعکس مضمون بیان ہو رہا ہے.اس قسم کے ثبوت جماعت احمدیہ کے محضر نامہ میں شامل تھے اور ممبران قومی اسمبلی کے سامنے پڑھے گئے تھے لیکن مفتی محمود صاحب کے پاس ان دلائل کا کوئی جواب نہیں تھا جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ مفتی محمود صاحب ممبران اسمبلی کو یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہے تھے جب بھی کوئی دعوی نبوت کرے تو مسلمانوں کا ایک ہی کام ہونا چاہیے اور وہ یہ کہ کسی دلیل کو نہ سنے بلکہ فوراً اس پر کفر کا فتویٰ لگا دے.دوسری طرف اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جب تمہارے پاس میری طرف سے رسول آئے تو جو تقویٰ اختیار کرے گا اور اپنی اصلاح کرے گا تو وہ ان لوگوں میں سے ہوگا جن پر کوئی خوف نہیں ہو گا.اب ہر ایک کو اختیار ہے چاہے تو قرآن کریم کے ارشاد کو تسلیم کرے یا چا ہے تو مفتی محمود صاحب کے نظریات کو صحیح سمجھے.یہاں ایک الجھن رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ یہ تو ایک علیحدہ بات ہے کہ مفتی محمود صاحب قرآنی آیات کی رو سے جماعت احمدیہ کے دلائل کا جواب نہیں دے سکے لیکن یہ تو سب جانتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے مخالفین آیت خاتم النبین یعنی سورۃ احزاب آیت ۴۱ کو اپنے خیالات کے حق میں دلیل کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ مفتی محمود صاحب اس آیت کریمہ کے ذکر سے بھی گریز کر رہے تھے.بظاہر اس کی یہ وجہ نظر آتی ہے کہ عموماً جماعت احمدیہ کے مخالفین کی طرف سے یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ سورۃ احزاب میں آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین قرار دیا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا.جماعت احمد یہ کی طرف سے جو محضر نامہ پیش کیا اس میں سورۃ احزاب آیت ۴۱ پر لغوی بحث بھی کی گئی تھی.اس بحث میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ لغوی طور پر بھی جماعت احمدیہ کے مخالفین کا استدلال درست نہیں ہے.بہت سے شعراء کو خاتم الشعراء کہا گیا ہے.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے بعد کوئی شاعر پیدا نہیں ہوگا.بہت سے اولیاء کو خاتم الاولیاء قرار دیا گیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے بعد کوئی

Page 48

46 ولی نہیں ہوسکتا.بہت سے محققین کو خاتم محققین قرار دیا گیا.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے بعد کوئی محقق پیدا نہیں ہوسکتا.(محضر نامہ صفحہ ۹۹ تا ۱۰۴) ہم ان میں سے کچھ مثالیں درج کرتے ہیں.ایک طرف تو جماعت احمدیہ کے مخالف مولوی صاحبان اس بات پر مصر ہیں کہ ”خاتم النبیین کا یہ مطلب ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی امتی نبی بھی نہیں آسکتا اور دوسری طرف یہ ایک دوسرے کو خاتم الاولیاء کے لقب سے بھی نوازتے رہے ہیں مثلاً مولوی رشید احمد گنگوہی صاحب کی وفات پر مولوی محمود حسن صاحب نے جو مرثیہ لکھا تھا اس کے سرورق پر مولوی رشید احمد گنگوہی صاحب کو خاتم الاولیاء قرار دیا گیا تھا.یہ مرثیہ راشد کمپنی دیو بند نے شائع کیا تھا.اس طرح دیوبندی حضرات مولا نا قاسم نانوتوی صاحب کو خاتم الخفقین قرار دیتے رہے ہیں.مولانا قاسم نانوتوی صاحب کی تصنیف ”رسالہ تحہ لحمیہ" جب مطبعہ گزارا براہیم مراد آباد سے مولوی محمد ابراہیم صاحب شاہجہانپوری صاحب نے شائع کرائی تو اس کے سرورق پر ہی مولا نا قاسم نانوتوی صاحب کے نام کے ساتھ ” خاتم امحققین “ کے الفاظ لکھے ہوئے تھے.کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اب ان کے بعد کوئی محقق پیدا نہیں ہوگا.اسی طرح محمد عبد الاحد صاحب نے مولانا قاسم نانوتوتی صاحب کے بعض مکاتیب ”اسرار قرآنی“ کے نام سے شائع کروائے تو اس کے سرورق پر بھی مولا نا قاسم نانوتوی صاحب کے نام کے ساتھ خاتم المفسرین کے الفاظ لکھے ہوئے تھے.کیا ہم سمجھیں کہ نانوتوی صاحب کے بعد کوئی قرآن کریم کی تفسیر بھی نہیں کر سکتا.اس کے علاوہ مولانا الطاف حسین حالی صاحب نے اپنی کتاب حیات سعدی میں لکھا ہے کہ حبیب آنی شیرازی کو ایران کے لوگ خاتم الشعراء سمجھتے ہیں اور شیخ علی حزیں کے متعلق لکھا ہے کہ ان کو ہندوستان میں خاتم الشعراء سمجھتے ہیں.(حیات سعدی مصنفہ مولنا خواجہ الطاف حسین حالی ناشران شیخ جان محمد اله بخش تا جبران کتب علوم مشرقیه کشمیری بازارلا ہور ستمبر ۱۹۴۶ صفحہ ۷۴ اور (۱۰).خواہ لغت کو معیار مانا جائے یا گزشتہ صدیوں کے مصنفین اور بزرگان کی تحریروں کو دیکھا جائے یا اس دور میں جماعت احمدیہ کے مخالفین کی تحریروں کو دیکھا جائے.ان سب سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ” خاتم الانبیاء کے وہی حقیقی معانی ہو سکتے ہیں جن کو جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ ملا علی قاری آنحضرت ﷺ کے اس

Page 49

47 ارشاد کا ذکر کرتے ہوئے کہ اگر آنحضرت ﷺ کے فرزند ابراہیم زندہ رہتے تو نبی ہوتے ، لکھتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے قول خاتم النبیین کے خلاف نہیں کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ایسا نبی نہیں آئے گا جو کہ آپ کی شریعت کو منسوخ کرے.( موضوعات کبیر مصنفہ ملاعلی قاری مطبع المطبائے دہلی صفحہ ۵۹) مفتی محمود صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر کا حوالہ پیش کرتے ہیں : مفتی محمود صاحب خلاف واقعہ عقائد کو جماعت احمدیہ کی طرف منسوب کر رہے تھے اور یہ وہی الزامات تھے جو کہ سوال و جواب کے دوران پیش کیے گئے تھے اور جن کا رڈ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے بیان فرما دیا تھا.اب مفتی محمود صاحب انہی الزامات کو دہرا ر ہے تھے لیکن اپنے دلائل میں جان ڈالنے کے لیے وہ اس بات پر مجبور تھے کہ ایک بار پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر کو پیش کریں.پہلے پیش کردہ حوالے تو غلط نکلے تھے.انہوں نے خطبہ الہامیہ کا یہ حوالہ پڑھا." جس نے اس بات سے انکار کیا کہ نبی علیہ السلام کی بعثت چھٹے ہزار سال سے تعلق رکھتی ہے جیسا کہ پانچویں ہزار سال سے تعلق رکھتی تھی پس اس نے حق کا اور نص قرآن کا انکار کیا بلکہ حق یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی روحانیت چھٹے ہزار کے آخر میں یعنی ان دنوں میں بہ نسبت ان سالوں کے اقوی اور اکمل اور اشد ہے بلکہ چودھویں کی رات کے چاند کی طرح ہے اور اس لئے ہم تلوار اور لڑنے والے گروہ کے محتاج نہیں اسی لیے خدا تعالیٰ نے مسیح موعود کی بعثت کے لیے صدیوں کے شمار کو رسول کریم ﷺ کی ہجرت سے بدر کی راتوں کے شمار کی مانند اختیار فرمایا تا وہ شمار اس مرتبہ پر جو ترقیات کے تمام مرتبوں سے کمال نام رکھتا ہے دلالت کرے.“ (روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۷۱ تا ۲۷۳) یہ حوالہ پیش کر کے مفتی محمود صاحب نے ان الفاظ میں یہ نتیجہ نکالنے کی کوشش کی کہ اس سے معلوم ہوا کہ مرزا صاحب کا بروزی طور پر آنحضرت علی سے بڑھ جانا خود مرزا صاحب کا عقیدہ تھا.“ صلى الله (صفحه کارروائی ۱۹۰۵) پڑھنے والے خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ خطبہ الہامیہ کے مذکورہ حوالے میں تو یہ مضمون بیان

Page 50

48 فرمایا جارہا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے اعلیٰ روحانی مدارج کی ترقی تو ایک جاری امر ہے اور آپ علی کی وفات کے بعد یہ عمل رکا نہیں بلکہ آنحضرت ﷺ کا روحانی مرتبہ مسلسل بڑھ رہا ہے.یہاں تو آنحضرت ﷺ کے بلند مقام کا بیان ہو رہا ہے.خدا جانے مفتی محمود صاحب نے یہ خلاف عقل نتیجہ کس طرح نکال لیا کہ یہاں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مرتبہ آنحضرت ﷺ سے بلند تھا.امر واقعہ ہے کہ مفتی محمود صاحب اور بیشتر مخالفین کا یہ عقیدہ ہے کہ اس دور میں صرف حضرت عیسی علیہ السلام زندہ نبی ہیں اور ان کی دوسری آمد سے اب دنیا کی اصلاح وابستہ ہے.جماعت احمدیہ کا عقیدہ اس سے بالکل مختلف ہے اور وہ عقیدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں درج کیا جاتا ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں: سو ہم اپنے خدائے پاک ذوالجلال کا کیا شکر کریں کہ اس نے نبی محمد مصطفے مت ہے کی محبت اور پیروی کی توفیق دے کر اور پھر اس محبت اور پیروی کے روحانی فیضوں سے جو سچی تقویٰ اور سچے آسمانی نشان ہیں کامل حصہ عطا فرما کر ہم پر ثابت کر دیا کہ وہ ہمارا پیارا برگزیدہ نبی ﷺ فوت نہیں ہوا بلکہ وہ بلند تر آسمان پر اپنے ملیک مقتدر کے دائیں طرف بزرگی اور جلال کے تخت پر بیٹھا ہے.اب ہمیں کوئی جواب دے کہ روئے زمین پر یہ زندگی کسی نبی کے لئے بجز ہمارے نبی ﷺ کے ثابت ہے.کیا حضرت موسی کے لئے ؟ ہر گز نہیں.کیا حضرت داؤد کے لئے ؟ ہر گز نہیں.کیا حضرت مسیح علیہ السلام کے لئے ؟ ہر گز نہیں.کیا راجہ رامچند ریا راجہ کرشن کے لئے ؟ ہر گز نہیں.کیا وید کے ان رشیوں کے لئے جن کی نسبت بیان کیا جاتا ہے کہ ان کے دلوں پر وید کا پر کاش ہوا تھا ؟ ہر گز نہیں.“ 66 تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۳۹،۱۳۸) یہ لطیف مضمون یہیں پر ختم نہیں ہو جا تا بلکہ حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں کہ اب جو فضیلت جو فیض اور جو معرفت ملے گی وہ آنحضرت ﷺ کے ذریعہ ملے گی.آپ آنحضرت علی کے بارے میں فرماتے ہیں:

Page 51

49 وہی ہے جو سر چشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذریت شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اُس کو عطا کیا گیا ہے جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم از لی ہے.ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے.ہم کا فر نعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اسی نبی کے ذریعہ سے پائی.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۱۹) یہ حوالے پڑھ کر کوئی ذی ہوش یہ گمان نہیں کر سکتا کہ نعوذ باللہ حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے آنحضرت علیہ سے فضیلت کا دعویٰ کیا ہے.یہاں تو یہ مضمون بیان ہو رہا ہے کہ کوئی شخص روحانی مدارج تو ایک طرف رہے تو حید بھی آنحضرت ﷺ کے فیض کے بغیر حاصل نہیں کر سکتا.حضرت مصلح موعودؓ کا نامکمل حوالہ مفتی محمود صاحب اور ان کے ساتھیوں کے لئے سوال وجواب کے اجلاسات میں جو خلاف توقع صورت حال نمودار ہوئی تھی غالباً اس وجہ سے مفتی محمود صاحب ذہنی طور پر کافی دباؤ میں تھے لیکن اب وہ پھر اسی طرز پر اپنے دلائل دے رہے تھے جن کے نتیجہ میں ان پر دباؤ میں اضافہ ہور ہا تھا.وہ ایک بالکل خلاف واقعہ الزام لگا بیٹھے تھے مگر اس کے حق میں صحیح دلائل لانا ان کے بس کا روگ نہیں تھا.اب اپنے دعوے کے حق میں انہوں نے یہ دلیل پیش کی : پھر بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ مرزائی صاحبان کا عقیدہ اس سے بھی بڑھ کر یہ ہے کہ صرف مرزا صاحب ہی نہیں بلکہ ہر شخص اپنے روحانی مراتب میں ترقی کرتا ہوا ( معاذ اللہ ) آنحضرت علی سے بڑھ سکتا ہے چنانچہ مرزائیوں کے خلیفہ دوم مرزا بشیر الدین محمود کہتے ہیں: یہ بات بالکل صحیح بات ہے کہ ہر شخص ترقی کر سکتا ہے اور بڑے سے بڑا درجہ

Page 52

50 پاسکتا ہے حتی کہ محمد ﷺ سے بھی بڑھ سکتا ہے“ (افضل قادیان جلد انمبر ۵ مورخہ ۷ ار جولائی ۱۹۲۲ صفحه عنوان خلیفہ المسیح کی ڈائری) یہیں سے یہ حقیقت بھی کھل جاتی ہے کہ مرزائی صاحبان کی طرف سے بعض اوقات مسلمانوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے جو دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین مانتے ہیں اس کی اصلیت کیا ہے؟ ی تھی وہ حتمی دلیل جو اس ضمن میں مفتی صاحب پیش کر رہے تھے اور یہ ثابت کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے کہ احمدی نعوذ باللہ آنحضرت ﷺ کی افضلیت کے قائل نہیں اور وہ اس بات کے قائل ہیں کہ کوئی بھی شخص آنحضرت ﷺ سے آگے بڑھ سکتا ہے.اس لیے وہ ختم نبوت کے منکر اور غیر مسلم ہیں.اب ہم یہی حوالہ مکمل صورت میں پیش کرتے ہیں تا کہ ہر ایک پر یہ واضح ہو جائے کہ مفتی محمد دصاحب تمام اخلاقی حدوں کو پار کر کے اخفائے حق کے مرتکب ہور ہے تھے.مکمل حوالہ یہ ہے.حضرت خلیفتہ امسیح الثانی فرماتے ہیں: ” یہ بالکل صحیح بات ہے کہ ہر شخص ترقی کر سکتا ہے اور بڑے سے بڑا درجہ پا سکتا ہے حتی کہ محمد رسول اللہ علے سے بھی بڑھ سکتا ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ آنحضرت علیہ اس میدان میں سب سے آگے بڑھ گئے اور خدا نے آئندہ کے متعلق بھی یہ گواہی دے دی ہے کہ آپ آئندہ آنے والی نسلوں سے بھی آگے بڑھے ہوئے ہیں.“ (الفضل قادیان جلده انمبر ۵ مورخہ ۷ار جولائی ۱۹۲۲ صفحه عنوان خلیفہ مسیح کی ڈائری) مندرجہ بالا حوالے سے یہ بات واضح ہے حضرت مصلح موعودؓ فرما رہے ہیں کہ روحانی ترقی کا میدان تو ہر ایک کے لئے کھلا تھا لیکن آنحضرت ﷺ اپنے سے پہلے تمام اشخاص سے آگے بڑھ گئے اور مستقبل کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو عالم الغیب ہے گواہی دی ہے کہ آپ آئندہ پیدا ہونے والے تمام انسانوں سے آگے بڑھے ہوئے ہیں.اس مکمل حوالے کو پڑھ کر مفتی محمود صاحب کے الزام کا جال مکڑی کے جالے کی طرح درہم برہم ہو جاتا ہے.مفتی محمود صاحب نامکمل حوالہ پیش کر کے اصل متن سے بالکل بر عکس تاثر پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے.یہی وجہ تھی کہ اس کا رروائی کو

Page 53

51 خفیہ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور پھر کئی دہائیوں تک اس کو بڑے اہتمام سے خفیہ رکھا گیا.سوال و جواب کے اجلاسات میں مولوی صاحبان کو اس اشکال کا سامنا کرنا پڑ گیا تھا کہ وہ خود آنحضرت ﷺ کے بعد ایک نبی کی آمد کے منتظر ہیں جس کو قرآن کریم کے مطابق بنی اسرائیل کی اصلاح کے لیے مبعوث کیا گیا تھا.اس طرح وہ خود اپنے تجویز کردہ معیار کے مطابق بھی ختم نبوت کے منکر ہیں.ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا.غالباً اس خفت کا مداوا کرنے کے لیے مفتی محمود صاحب یہ ثابت کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے کہ نعوذ باللہ احمدی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ سب انبیاء اور سب انسانوں سے افضل نہیں ہیں اور اس وجہ سے احمدی ختم نبوت کے منکر اور کافر ہیں جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ وہ اس کو ثابت کرنے کے لیے ایک نامکمل حوالہ پیش کر کے خلاف واقعہ نتیجہ پیش کر چکے تھے.خدا جانے وہ اس صورت حال میں بالکل بوکھلا چکے تھے یا ان میں کسی عبارت کو سمجھنے کا مادہ ویسے ہی کم تھایا کوئی اور وجہ تھی.اس مرحلہ پر اس بحث کو سمیٹتے ہوئے انہوں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایسا حوالہ پیش کر دیا جس سے ان کے لگائے ہوئے الزام ویسے ہیں غلط ثابت ہو جاتے تھے.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ حوالہ پیش کیا.اللہ جل شانہ نے آنحضرت ﷺ کو صاحب خاتم بنایا یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لئے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہر گز نہیں دی گئی اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبین ٹھہرا یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی.(روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه۱۰۰) ان الفاظ میں آنحضرت ﷺ کی بلند اور ارفع شان بیان ہو رہی ہے اور یہ مضمون بیان ہو رہا ہے کہ انبیاء کے درمیان بھی آپ کا ایسا بلند اور بالکل منفرد مقام ہے کہ باقی انبیاء تو مقام نبوت پر فائز تھے مگر آپ کی پیروی سے کمالات نبوت حاصل ہو جاتے ہیں اور آپ کی روحانی توجہ سے مقام نبوت حاصل ہو سکتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں کہ یہ بلند مقام آپ کے علاوہ کسی اور نبی کو نہیں ملا اور ملاحظہ کریں مفتی محمود صاحب اس حوالہ سے کیا نتیجہ اخذ کر کے پاکستان کے قابل ممبران اسمبلی کے سامنے پیش کرتے ہیں.مفتی صاحب نے کہا:

Page 54

52 دو د ظل اور بروز کے مذکورہ بالا اعتقادات کے ساتھ مرزا صاحب کے نزدیک خاتم النبیین کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے پاس افاضہ کمال کی ایسی مہر تھی جو بالکل اپنے جیسے بلکہ اپنے سے بھی اعلیٰ اور افضل نبی تراشتی تھی.“ (صفحہ کارروائی ۱۹۰۶) 66 مفتی محمود صاحب بالکل ایک خلاف واقعہ استدلال پیش کر کے اپنی تقریر میں جان ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مذکورہ بالا تحریرہ میں یہ کہیں ذکر نہیں کہ آنحضرت ﷺ سے افضل نبی پیدا ہو سکتا ہے بلکہ اس کے الفاظ اس حقیقت کو بالکل واضح کر کے پیش کر رہے ہیں تمام انبیاء میں آنحضرت ﷺ کا مقام سب سے افضل اور اعلیٰ ہے.اس حوالے کے الفاظ مفتی صاحب اور ان کے ہمنو امولوی صاحبان کے الزامات کو واضح طور پر غلط ثابت کر رہے ہیں.دعوی نبوت کا منطقی نتیجہ کیا تھا؟ غالباً جن مولوی صاحبان نے مفتی صاحب کی اس تقریر کولکھا تھا وہ اس مرحلہ پر پہنچ کر خود یہ محسوس کر رہے تھے کہ وہ ختم نبوت کے مسئلہ پر اپنے موقف کی تائید میں کوئی جاندار دلیل پیش نہیں کر سکے.چنانچہ انہوں نے اس تقریر میں ان بیشتر دلائل کا جواب دینے کی کوئی کوشش نہیں کی جو کہ ختم نبوت کے مسئلہ پر جماعت احمدیہ کے محضر نامہ میں بیان کئے گئے تھے.ہر محقق جماعت احمدیہ کے محضر نامہ کے باب نمبرے کا مطالعہ کر کے اور پھر اس کا موازنہ مفتی محمود صاحب کی تقریر سے کر کے دیکھ سکتا ہے کہ مفتی محمود صاحب نے آیت خاتم النبین کی تفسیر کے مسئلہ پر جماعت احمدیہ کے پیش کردہ اکثر دلائل کا کوئی جواب دینے کی کوشش تک نہیں کی.یہ سوال لازماً اُٹھتا ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا؟ آخر مفتی محمود صاحب اور ان کے ہمنوا ان کے ذکر سے بھی خائف کیوں تھے؟ چنانچہ متعلقہ موضوع سے گریز کر کے انہوں نے ایک اور سمت میں دلائل دینے کی کوشش کی.انہوں نے یہ دلیل دینے کی کوشش کی کہ جب کبھی کسی نبی نے دعویٰ نبوت کیا تو اس کے نتیجہ میں ایک نے مذہب کی بنیاد پڑی ہے اور یہ کبھی نہیں ہوا کہ اس کے ماننے والے اور اس کا انکار کرنے والے ایک ہی مذہب کی طرف منسوب کہلائے ہوں اور اپنے دعوے کے حق میں انہوں نے مذاہب عالم کی تاریخ کو دلیل کے طور پر پیش کیا اور اپنی طرف سے یہ مثال بھی پیش کی کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی

Page 55

53 بعثت کے بعد ان کے پیروکار یہود سے خود علیحدہ ہو گئے اور نہ انہوں نے اپنے آپ کو یہود میں شمار کیا اور نہ یہود نے حضرت عیسی علیہ السلام کے متبعین کو یہود میں سے سمجھا.لب لباب یہ تھا کہ چونکہ احمدی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام امتی نبی تھے اس لیے اب انہیں کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ اسلام کی طرف منسوب ہوں.اب انہیں کسی علیحدہ مذہب کی طرف منسوب ہونا چاہیے.حضرت عیسی علیہ السلام کی متبعین کی مثال اپنی ذات میں دلچسپ ہے اور تفصیلی تجزیہ کا تقاضہ کرتی ہے لیکن ہم حقائق پیش کرتے ہیں جن سے واضح ہو جاتا ہے کہ یا تو مفتی محمود صاحب مذاہب عالم کی تاریخ سے بالکل نا واقف تھے یا پھر اس مرحلہ پر وہ مجبور تھے کہ صریحاً غلط حقائق ممبران اسمبلی کے سامنے پیش کر کے اپنے آپ کو اور اپنے ہمنوا مولوی حضرات کو اس بندگلی سے نکالنے کی کوشش کریں.دنیا میں ایک لاکھ سے زیادہ نبی مبعوث ہوئے تھے لیکن ہر ایک نبی نے ایک نئے مذہب کی بنیاد نہیں ڈالی اور نہ اس وقت دنیا میں ایک لاکھ کے قریب مذاہب ہوتے یا کم از کم کچھ ہزار مذاہب کا کوئی نام و نشان تو ملتا.ہو سکتا ہے کہ مفتی محمود صاحب مذاہب کی تاریخ سے زیاہ واقفیت نہ رکھتے ہوں لیکن یہ باور کرنا مشکل ہے کہ مفتی محمود صاحب جو ایک مدرسہ سے بھی وابستہ تھے انہوں نے کبھی قرآن کریم کا مطالعہ بھی نہیں کیا تھا.اللہ تعالیٰ سورۃ المائدہ آیت ۴۵ میں فرماتا ہے: یقیناً ہم نے تو رات اتاری اس میں ہدایت بھی تھی اور نور بھی.اس سے انبیاء جنہوں نے اپنے آپ کو (کلیے اللہ کے ) فرمانبردار بنا دیا تھا یہود کے لئے فیصلے 66 کرتے تھے.یہ آیت کریمہ واضح طور پر اعلان کر رہی ہے کہ حضرت موسقی کے بعد بنی اسرائیل میں جو بہت سے انبیاء مبعوث ہوئے وہ سب تو ریت کی ہی پیروی کرتے تھے اور انہوں نے کسی نئے مذہب کی بنیاد نہیں ڈالی تھی.کیا مفتی صاحب یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد یکے بعد دیگرے جو بہت سے انبیاء مبعوث ہوئے تھے اور قرآن کریم اس بات پر گواہ ہے کہ بنی اسرائیل کی اکثریت

Page 56

54 نے ان میں سے اکثر کا انکار کر دیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ یہود کے متعلق فرماتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نشانات کا انکار کرتے تھے اور انبیاء کو ناحق قتل کیا کرتے تھے.(آل عمران: ۱۱۳) لیکن بنی اسرائیل کے ان سب انبیاء پر ایمان لانے والے اور آپ کا انکار کرنے والے یہودی مذہب سے ہی وابستہ کہلاتے تھے.یہود میں بڑا گر وہ حضرت سلیمان علیہ السلام پر ایمان نہیں لایا تھا بلکہ وہ حضرت سلیمان علیہ السلام پر گھناؤنے الزام لگاتے تھے لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام کے متبعین اور آپ کا انکار کرنے والے دونوں ایک یہودی مذہب سے ہی وابستہ کہلاتے تھے.اسی طرح تمام یہود حضرت یحییٰ علیہ السلام پر ایمان نہیں لائے تھے مگر آپ کے متبعین اور باقی یہود ایک ہی مذہب سے وابستہ تھے.اسی طرح حضرت یسعیاہ اور حضرت حزقیل نے کسی نئے مذہب کی بنیاد نہیں رکھی تھی.مذاہب عالم کی تاریخ ان مثالوں سے بھری پڑی ہے لیکن مندرجہ بالا چند مثالیں اس بات کو واضح کر دیتی ہیں کہ مفتی محمود صاحب کی دلیل بالکل بے بنیاد تھی.اپنے اس مفروضے کی تائید میں مفتی محمود صاحب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر سے کوئی دلیل پیش کرنا چاہتے تھے لیکن دلیل پیش کی بھی تو کیا کی.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ارشاد پڑھا کہ ہر نبی اور مامور کے وقت دو فرقہ ہوتے ہیں.ایک سعید اور دوسرا شقی.ذرا ملاحظہ کیجیے.اس حوالے کو اس دعوے سے کیا تعلق تھا کہ ہر نبی کی آمد کے بعد لازماً ایک نئے مذہب کی بنیاد پڑتی ہے.ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کبھی کوئی نبی یا مامور مبعوث ہو تو اس کا انکار کرنے والے اور اس کو ایذا دینے والے اور اس کی مخالفت کرنے والے اگر شقی نہیں کہلا ئیں گے تو کیا نیک بخت کہلائیں گے؟ اور تو اور ایک ولی اللہ کی مخالفت بھی انسان کو شقی بنا دیتی ہے.غیر احمدی مسلمان خود غور کر کے فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ان کے عقیدہ کے مطابق ایک دن تو مہدی اور مسیح کی بعثت ہوتی ہے.جو ان کی مخالفت کرے گا اور ان کا انکار کرے گا تو کیا یہ حضرات اس کو شقی نہیں سمجھیں گے تو کیا ولی اللہ کا درجہ دیں گے.مفتی صاحب کا دعوئی کہ خود مرزائیوں کا عقیدہ ہے کہ وہ الگ ملت ہیں اس کے بعد مفتی محمود صاحب نے اپنی تقریر کو بالکل الگ پٹڑی پر چڑھا دیا.انہوں نے یہ دعویٰ

Page 57

55 پیش کر دیا کہ اصل میں تو مرزائیوں کا خود یہ دعوی ہے کہ وہ علیحدہ ملت ہیں اور وہ اپنے آپ کو ملت اسلامیہ سے خود ہی علیحدہ رکھنا چاہتے ہیں.اگر کسی کو لاعلمی کی وجہ سے معذور بھی سمجھا جائے تو جماعت احمدیہ کے محضر نامہ کے بعد اور اتنے روز کے سوال و جواب کے بعد یہ ایک لایعنی دعوی تھا.اگر ایسا ہی تھا کہ احمدی خود اپنے آپ کو ملت اسلامیہ کا حصہ نہیں سمجھتے تھے اور وہ خود اپنے آپ کو غیر مسلم قرار دلوانا چاہتے تھے تو ایسا ہونا چاہیے تھا کہ احمدی حکومت کو اور قومی اسمبلی کو یہ درخواست کرتے کہ ہم ملت اسلامیہ کا حصہ نہیں ہیں اس لیے ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ ہمیں سرکاری کاغذات میں غیر مسلم شمار کیا جائے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہم اس پر شدید احتجاج کریں گے اور یہی موقف جماعت کے محضر نامہ میں پیش ہونا چاہیے تھا لیکن ۱۹۷۴ء میں تو عملاً یہ ہو رہا تھا کہ احمدی اس بات کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے تھے اور اس پاداش میں ان کے گھروں کو نذرآتش کیا جارہا تھا کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کیوں کہتے ہیں؟ اور جماعت احمدیہ کے مخالفین اس بات کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے کہ کسی طرح آئین میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے.یہ صورت حال صرف ۱۹۷۴ ء تک محدود نہیں تھی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک زمانہ سے ہی یہی ہورہا تھا.اپنے اس مفروضے کی تائید میں مفتی محمود صاحب نے جو پہلی دلیل پیش کی وہ خود ہی ان کے مفروضے کی تردید کر رہی تھی.انہوں نے خطبہ الہامیہ کا یہ حوالہ پڑھا: وو ” اور خیر الرسل کی روحانیت نے اپنے ظہور کے کمال کے لئے اور اپنے نور کے غلبہ کے لئے ایک مظہر اختیار کیا جیسا کہ خدا تعالیٰ نے کتاب مبین میں وعدہ فرمایا تھا...(روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۶۷) قارئین خود اس بات کو پرکھ سکتے ہیں کہ مفتی محمود صاحب کے دعوے کی تردید ان کی پیش کردہ دلیل خود کر رہی تھی.یہ بالکل درست ہے کہ جماعت احمدیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ آنے والے موعود مصلح نے آنحضرت ﷺ کا غلام آپ کا روحانی شاگرد اور آپ کا مظہر ہونا تھا جیسا کہ مندرجہ بالا حوالے سے بھی ظاہر ہوتا ہے لیکن اس سے یہ نتیجہ کیسے نکل سکتا ہے کہ احمدی نعوذ باللہ اپنے آپ کو امت مسلمہ سے علیحدہ سمجھتے ہیں.اس سے تو بالکل برعکس نتیجہ نکلتا ہے.

Page 58

56 اس کے بعد انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف ” حقیقۃ الوحی“ سے حوالہ دے کر دلیل دینے کی ناکام کوشش کی.اس حوالہ کا لب لباب یہ فقرہ تھا.جو شخص با وجود شناخت کر لینے کے خدا اور رسول کے حکم کو نہیں مانتا وہ بموجب نصوص صریحہ قرآن اور حدیث کے خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا...(روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۸۶) ملاحظہ کیجیے اس میں کون سی قابل اعتراض بات ہے.کیا خدا اور آنحضرت ﷺ کے احکام کو مانا ضروری نہیں ہے.اگر کوئی شخص خدا اور حضرت محمد مدلے کے احکامات کا انکار کرے اور باوجود علم کے نافرمانی کرے تو کیا یہ سمجھا جائے گا کہ وہ حقیقی طور پر خدا اور اس کے رسول کو مانتا ہے.اس سے یہ کس طرح ثابت ہوتا ہے کہ احمدی اپنے آپ کو ملت اسلامیہ سے وابستہ نہیں سمجھتے.مفتی محمود صاحب عالم کہلاتے تھے.وہ کیا یہ نہیں جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُوْدَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيْهَا (النساء: ۱۵) اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی حدود سے تجاوز کرے تو وہ اسے ایک آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ایک لمبے عرصے تک رہنے والا ہوگا اور یہی مضمون حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرمارہے ہیں.جماعت احمدیہ کے مسلک کی بنیاد تو قرآن مجید ہے.مخالفین اگر اس کے برخلاف کوئی عقیدہ رکھنا چاہتے ہیں تو ان کی مرضی.لیکن ایک اور امر کا ذکر ضروری ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف حقیقۃ الوحی کے جس حصہ کے حوالے مفتی محمود صاحب سنا کر اعتراضات اُٹھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ احمدیوں نے خود اپنے آپ کو امت محمدیہ سے علیحدہ کیا ہے آخر وہاں کیا مضمون بیان ہو رہا تھا.وہاں ایک اعتراض کا طویل جواب دیا جار ہا تھا اور وہ اعتراض یہ تھا.جن لوگوں نے نیک نیتی کے ساتھ آنحضرت کا خلاف کیا یا کرتے ہیں یعنی آنجناب کی رسالت کے منکر ہیں اور توحید الہی کے قائل ہیں نیک اعمال بجالاتے ہیں اور

Page 59

57 بد عملوں سے پر ہیز کرتے ہیں ان کی نسبت کیا عقیدہ رکھا جائے“ (روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۷۹) اور اس کا پس منظر یہ تھا کہ بعض فتنہ پردازوں نے یہ خیالات پھیلانے شروع کئے تھے کہ الله نجات کے لئے آنحضرت ﷺ پر ایمان لانا ضروری نہیں اور صرف اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان لانا اور نیک اعمال بجالا نا کافی ہے اور اس اعتراض کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ مضمون بیان فرما رہے ہیں کہ آنحضرت ﷺ پر ایمان لائے بغیر اور آپ کی پیروی کیے بغیر اب کسی انسان کے لئے نجات پانا اور اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنا ممکن نہیں ہے.جماعت احمدیہ کا یہی عقیدہ ہے.کسی مخالف یا کسی اسمبلی کو یہ نا گوار گزرتا ہے یا وہ اس کی بنا پر جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دیتے ہیں تو یہ ان کی مرضی ہے.اس مرحلہ پر اپنے موقف میں جان ڈالنے کے لیے مفتی محمود صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں کے وہ حوالے پیش کر رہے تھے جن کو کسی طرح بھی قابل اعتراض نہیں قرار دیا جا سکتا.مفتی صاحب نے جو کہا وہ من و عن درج کیا جاتا ہے.” اور اپنی کتاب الھدی میں اپنے انکار کوسرکار دو عالم ہے کے انکار کے مساوی قرار دیتے ہوئے رقمطراز ہیں: فی الحقیقت دو شخص بڑے ہی بد بخت ہیں اورانس وجن میں ان سا کوئی بھی بد طالع نہیں.ایک وہ جس نے خاتم الانبیاء کو نہ مانا، دوسرا جو خاتم الخلفاء ( یعنی بزعم خود مرزا صاحب) پر ایمان نہ لایا.(الہدی صفحه؟ دارالامان قادیان ۱۹۰۲ء) اور انجام آتھم میں لکھتے ہیں : اب ظاہر ہے کہ ان الہامات میں میری نسبت بار بار بیان کیا گیا کہ یہ خدا کا فرستادہ، خدا کا مامور ، خدا کا امین اور خدا کی طرف سے آیا ہے، جو کچھ کہتا ہے اس پر ایمان لاؤ اور اس کا دشمن جہنمی ہے.‘ (انجام آتھم صفحہ ۶۲ مطبوعہ قادیان ۱۹۲۲ء) ( کارروائی صفحه ۱۹۱۲)

Page 60

58 اگر ایک گروہ ایک شخص کو مامورمن اللہ مجھتا ہے یا یوں کہنا چاہیے کہ اگر ایک شخص اللہ تعالی کی طرف سے اذن پا کر اس منصب پر فائز کیا گیا ہے اور ایک گروہ یا شخص اس مامور کی تکذیب کرتا ہے اور اس کی دشمنی پر کمر بستہ ہو جاتا ہے اور اس کے خلاف کفر کے فتوے دیتا ہے تو اس پر ایمان لانے والوں کے نزدیک انہیں بدبخت نہیں سمجھا جائے گا تو کیا نیک بخت اور پارسا شمار کیا جائے گا اور کیا اس کا دشمن جنتی اور متقی کہلائے گا.ایک نبی اور مامور من اللہ کا ذکر تو کیا ایک ولی اللہ کی دشمنی بھی انسان کو خدا کا دشمن اور بد بخت بنادیتی ہے.یہ ممکن نہیں کہ مفتی محمود صاحب اس مشہور حدیث سے بھی بے خبر ہوں کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے ولی سے دشمنی رکھی تو وہ خدا تعالیٰ سے جنگ کے لیے تیار ہو جائے.ایسا گروہ یا ایسا شخص جو خدا تعالیٰ سے جنگ کر رہا ہو وہ کیا جنتی اور نیک بخت ہوگا.مفتی محمود صاحب جعلی حوالوں کا سہارا لیتے ہیں اس مرحلہ پر مفتی محمود صاحب نے آئینہ صداقت اور کلمتہ الفصل کے وہ حوالے پیش کیے جو کہ سوالات کے دوران بھی پیش کیے گئے تھے اور جن کا کافی جواب حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے دے دیا تھا.ان حوالوں پر بحث گزشتہ کتاب میں گزر چکی ہے اس لیے یہاں نہیں دہرائی جائے گی لیکن ایک بات قابل غور ہے کہ چونکہ سب جانتے تھے کہ ان حوالوں پر اعتراضات کا جواب پہلے ہی گزر چکا ہے اس لیے اس مرحلہ پر مفتی محمود صاحب نے اس ضمن میں کچھ مزید حوالے دینے کی کوشش کی اور اس کے لیے یہ طریقہ کا راختیار کیا.انہوں نے ایک عبارت پڑھی اور اس کا یہ حوالہ پیش کیا: اخبار بدر ۲۴ رمئی ۱۹۰۸ء منقول از مجموعه فتاوی احمد یه صفحه ۳۰۷ ج اول ( کارروائی صفحہ نمبر ۱۹۱۳) اس حوالے کی حقیقت یہ ہے کہ ۲۴ رمئی ۱۹۰۸ء کے البدر میں وہ عبارت موجود نہیں جس کا حوالہ دیا جا رہا تھا اور مجموعہ فتاوی احمد یہ جلدا کے کل ۱۸۴ صفحات ہیں اور مفتی محمود صاحب اس کے صفحہ نمبر ۳۰۷ کا حوالہ دے رہے تھے.اس کے بعد مفتی محمود صاحب نے ایک عبارت پڑھی اور اس کا یہ حوالہ پیش کیا.

Page 61

59 مجموعہ فتاوی احمدیہ صفحہ ۲۷۵ جلد اول بحوالہ اخبار الحکم جلد ۵ صفحه ۸ مورخہ ۱۷ مارچ ۱۹۱۱ء ( کارروائی صفحه ۱۹۱۳) اس حوالے کی حقیقت یہ ہے کہ مجموعہ فتاوی احمدیہ کی جلد ا جس کے صفحہ ۲۷۵ کا حوالہ دیا گیا ہے.اس جلد کے کل ۱۸۴ صفحات ہیں اور اس کے ساتھ الحکم ۷ار مارچ 1911ء کا حوالہ دیا گیا ہے.دلچسپ بات یہ ہے کہ اس روز الحکم شائع ہی نہیں ہوا تھا.اس دور میں احکم مہینے میں صرف چار مرتبہ شائع ہوتا تھا اور جلد ۱۵ کا نمبر ، شمارہ ۱۴ مارچ ۱۹۱۱ ء کو شائع ہوا تھا اور نمبر ا اشمارہ ۲۱ / مارچ ۱۹۱۱ء کو شائع ہوا تھا اور ہر شمارے کے او پر جلی حروف میں لکھا ہوا ہوتا تھا کہ ہر ماہ کی ۷ ،۲۱،۱۴ اور ۲۸ تاریخ کو شائع ہوتا ہے.پھر مفتی محمود صاحب نے غالباً اپنی تقریر میں کچھ وزن پیدا کرنے کی کوشش میں ہر عبارت کے ساتھ تین حوالوں کے پڑھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور ایک عبارت کے ساتھ یہ حوالہ پیش کیا.مجموعہ فتاوی احمدیہ صفحہ ۳۸۵ جلد اول بحوالہ اخبار الحکم نمبر ۱۹ جلد ۱۹۰۲٬۱۸ء ۲۸ رمئی ۱۹۱۴ء ( کارروائی صفحه ۱۹۱۳) گویا یہ کہہ کر اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کی کوشش کی کہ ۲۸ رمئی ۱۹۱۴ء کے الحکم میں شائع ہونے والی یہ عبارت جماعت کے لٹریچر میں تین مختلف مقامات پر شائع ہوئی ہے.اس کی اصل حقیقت یہ ہے کہ 1).مجموعہ فتاوی احمد یہ مولوی محمد فضل خان صاحب کی مرتب کردہ ہے اور خادم التعلیم سٹیم پریس لاہور سے شائع ہوئی تھی اور اس کی پہلی جلد جس کا حوالہ دیا گیا ہے اس کے کل ۱۸۴ صفحات ہیں.یہ بات قابل حیرت ہے کہ مفتی صاحب نے اس کتاب کی اس جلد کے صفحہ نمبر ۳۸۵ کا حوالہ کس طرح دے دیا.2).اس عبارت کا دوسرا حوالہ الحکم نمبر ۱۹ جلد ۱۸ ۱۹۰۲ء کا دیا گیا ہے.غالباً یہ تاثر پیدا کرنے کے لیے کہ یہ عبارت الحکم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں شائع ہوا تھا.یہ حوالہ بھی اس لیے غلط ہے کہ ۱۹۰۸ ء تک یعنی جس سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہوا تھا الحکم کی

Page 62

60 جلد نمبر ۱۲ چل رہی تھی.۱۹۰۲ء میں الحکم کی جلد نمبر ۱۸ کا کوئی وجود نہیں تھا.مفتی محمود صاحب جعلی حوالوں کے علاوہ اب اپنے مفروضوں کو ثابت کرنے کے لیے ایسے حوالے پیش کرنے پر مجبور ہو رہے تھے جن کا ان مفروضوں سے دور کا تعلق بھی نہیں تھا.مفتی محمود صاحب نے یہ دعوی پیش کیا کہ نعوذ باللہ احمدی مسلمانوں نے خود اپنے آپ کو اسلام سے علیحدہ سمجھا ہے اور اس کے حق میں یہ حوالہ پیش کیا.افسوس ان مسلمانوں پر جو حضرت مرزا صاحب کی مخالفت میں اندھے ہو کر انہی اعتراضات کو دہرا رہے ہیں جو عیسائی آنحضرت ﷺ پر کرتے ہیں.بعینہ اسی طرح جس طرح عیسائی آنحضرت ﷺ کی مخالفت میں اندھے ہو کر ان اعتراضوں کو مضبوط کر رہے ہیں اور دہرارہے ہیں جو یہودی حضرت عیسی پر کرتے تھے.بچے نبی کا یہی ایک بڑا بھاری امتیازی نشان ہے کہ جو اعتراض اس پر کیا جائے گا وہ سارنے نبیوں پر پڑے گا.جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو شخص ایسے مامور من اللہ کو رد کرتا ہے وہ گویا کل سلسلہ نبوت کورد کرتا ہے.“ (منقول از تبدیلی عقائد مولفه محمد اسماعیل صاحب قادیانی صفحه ۴۲) ( کارروائی صفحہ ۱۹۱۶) ہر کوئی اسے پڑھ کر خود جائزہ لے سکتا ہے کہ اس حوالے کا مفتی محمود صاحب کے مفروضے سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے.اس حوالے کے کسی حصہ سے یہ مطلب نکالنا ممکن نہیں کہ احمدیوں نے خود اپنے آپ امت مسلمہ سے علیحدہ رکھا ہے.اس میں تو یہ مضمون بیان ہو رہا ہے کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ پر ان کے مخالفین اسی قسم کے اعتراضات کر رہے ہیں جس طرح کے اعتراضات عیسائی آنحضرت ﷺ پر کرتے رہے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ تمام انبیاء پر ان کے مخالفین ملتے جلتے اعتراضات کرتے رہے ہیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: كَذَالِكَ قَالَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهَمُ مِثْلَ قَوْلِهِمْ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ قَدْ بَيَّنَّا الْآيَتِ لِقَوْمٍ يُوْقِنُونَ (البقرة:119) اسی طرح ان لوگوں نے بھی جو ان سے پہلے تھے ان کی قوم سے مشابہ بات کی

Page 63

61 تھی.ان کے دل آپس میں مشابہ ہو گئے تھے.ہم آیات کو یقین لانے والی قوم کے لیے خوب کھول کر بیان کرتے ہیں.قائد اعظم کی نماز جنازہ اور مفتی محمود صاحب کا مضحکہ خیز جھوٹ اس کے بعد مفتی محمود صاحب نے یہ مسئلہ چھیڑ کر ممبران اسمبلی کے جذبات کو بھڑکانا چاہا کہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے قائد اعظم کی نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی لیکن وہ اس بات کو بخوبی جانتے تھے کہ یہ نماز جنازہ شبیر عثمانی صاحب کی امامت میں ادا کی گئی تھی جو کہ اپنی تحریروں میں احمدیوں کو مرتد بلکہ واجب القتل قرار دے چکے تھے اور جب ۱۹۵۳ء کے فسادات پر عدالتی کمیشن نے حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا بیان قلمبند کیا تو آپ نے اس حقیقت کی نشاندہی بھی کی تھی.ان حقائق کو مد نظر رکھا جائے تو یہ ثابت نہیں ہوتا کہ احمدیوں نے اپنے آپ کو امت مسلمہ سے علیحدہ رکھا تھا بلکہ یہی ثابت ہوتا ہے کہ مخالف علماء حسب عادت جھٹ کفر اور واجب القتل ہونے کے فتوے جاری کر کے تفرقہ پیدا کرتے رہے تھے.اس اعتراض سے بچنے کے لیے مفتی محمود صاحب نے ایک حوالہ گھڑا لیکن جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اس لیے وہ ایسی غلطی کر گئے کہ جھوٹ واضح ہو گیا.ان کا حوالہ من و عن درج کیا جاتا ہے.مفتی محمود صاحب نے حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے بارے میں کہا: لیکن عدالت سے باہر جب ان سے یہ بات پوچھی گئی کہ آپ نے قائد اعظم کی نماز جنازہ کیوں ادا نہیں کی ؟ تو اس کا جواب انہوں نے یہ دیا.آپ مجھے کا فرحکومت کا مسلمان وز یر سمجھ لیں یا مسلمان حکومت کا کا فرنوکر“ زمیندار لا ہور ۸ فروری ۱۹۵۰ء) ( کارروائی صفحہ ۱۹۱۹) مفتی محمود صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ جب حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب تحقیقاتی عدالت میں بیان دے کر باہر نکلے تو انہوں نے اپنے بیان سے انحراف کرتے ہوئے یہ بیان دیا اور یہ بیان جماعت احمدیہ کے اشد ترین مخالف اخبار زمیندار کو دیا گیا تھا اور یہ بیان ۸ فروری ۱۹۵۰ء کے زمیندار میں شائع ہوا تھا.مخالفین کو کچھ تو عقل سے کام لینا چاہیے تھا.یہ تحقیقاتی عدالت ۱۹۵۳ء

Page 64

62 میں ہونے والے فسادات پر قائم کی گئی تھی اور یہ عدالت ۱۹۵۴ء میں قائم ہوئی تھی اور ظاہر ہے کہ اس عدالت کے روبرو حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا بیان بھی ۱۹۵۴ء میں قلمبند ہوا تھا لیکن اس واقعہ سے چار سال قبل اخبار زمیندار نے ۱۹۵۰ء میں ہی وہ بیان کیسے شائع کر دیا جو کہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے تحقیقاتی عدالت میں بیان دینے کے بعد دیا تھا.اس کے بعد مفتی محمود صاحب نے کہا کہ جب احمدیوں سے اس بات کا جواب مانگا گیا کہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے قائد اعظم کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا تو ان کا جواب تھا کہ ابو طالب بھی مسلمانوں کے محسن تھے لیکن نہ مسلمانوں نے ان کا جنازہ پڑھا تھا اور نہ رسول اللہ علی نے.اپنی اس دلیل کے حق میں مفتی صاحب الفضل ۲۸ را کتوبر۱۹۵۲ء کا حوالہ پیش کیا.حقیقت یہ تھی کہ یہ نام نہاد حوالہ اٹارنی جنرل صاحب نے بھی 4 اگست کی کارروائی کے دوران پیش کیا تھا کارروائی صفحہ ۲۶۲) اور اس کارروائی کے دوران یہ غلط بھی ثابت ہو چکا تھا.کیونکہ اس الفضل میں جہاں اس بات کا ذکر تھا کہ مسلمانوں نے ابو طالب کا جنازہ نہیں پڑھا تھا ، وہاں اس بات کا کوئی ذکر ہی نہیں تھا کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے قائد اعظم کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا تھا.وہاں تو یہ ذکر چل رہا تھا کہ کوئی مولوی صاحبان قائد اعظم کو کافر کہا کرتے تھے.مفتی صاحب وہی حوالہ دہرا رہے تھے جو پہلے ہی غلط ثابت ہو چکا تھا اور حیرت ہے کہ تمام ممبران اسمبلی خاموش بیٹھے تھے اور یہ کوئی اُٹھ کر یہ نہیں کہتا تھا کہ کیوں اس جھوٹ کو دہرا رہے ہو جو پہلے ہی غلط ثابت ہو چکا ہے.قومی اسمبلی کی اس پیشل کمیٹی میں انصاف کے تقاضے کس حد تک پورے ہورہے تھے اس کا اندازہ اس مثال سے ہی لگایا جا سکتا ہے.یہاں اس حقیقت کا لکھ دینا بھی ضروری ہے کہ قائد اعظم کی پہلی نماز جنازہ ان کے گھر میں مس فاطمہ جناح کی ہدایت کے مطابق شیعہ امام کی امامت میں ادا کی گئی تھی کیونکہ مسلک کے اعتبار سے قائد اعظم شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے.تو اس وقت جو سنی احباب وہاں پر موجود تھے وہ باہر کھڑے رہے تھے اور اس نماز جنازہ میں شامل نہیں ہوئے تھے.ان میں پاکستان کی کا بینہ کے سنی اراکین بھی شامل تھے اور بعد میں قائد اعظم کا جنازہ تدفین کے لیے حکومت کے حوالے کیا گیا تھا

Page 65

63 تو پھرسنی امام شبیر عثمانی صاحب کی امامت میں دوبارہ نماز جنازہ ادا کی گئی تھی جس میں سنی احباب شامل ہوئے تھے.یہ تو سب جانتے ہیں کہ کسی نے احمدی امام کو اجازت نہیں دینی تھی کہ وہ یہ نماز جنازہ پڑھائے.اس پس منظر میں احمدیوں پر یا چوہدری ظفر اللہ خان صاحب پر یہ اعتراض کوئی وزن نہیں رکھتا.(Sectarian War, by Khaled Ahmaed, published by Oxford 2013 p 8&9) یہ شدت پسند گروہ ہمیشہ سے لوگوں کو جماعت احمدیہ کے خلاف یہ کہہ کر بھڑکاتے رہے کہ احمدی غیر احمدی مسلمانوں کا جنازہ نہیں پڑھتے لیکن خود ان کی کوکھ سے جنم لینے والے دہشت گردوں نے جو فتاویٰ جاری کیے وہ ملاحظہ کریں.سلیم شہزاد صاحب لکھتے ہیں کہ ۲۰۰۴ء میں اسلام آباد کے مولوی عبد العزیز صاحب اور ان کے دارالافتاء نے پاکستان کے فوجیوں کے بارے میں یہ فتویٰ دیا کہ جو پاکستانی فوجی جنوبی وزیرستان میں مارے جا رہے ہیں ان کی نماز جنازہ پڑھنی جائز نہیں اور نہ ہی انہیں مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا چاہیے لیکن اس کے باوجود جماعت احمدیہ کی مخالف جماعتیں ہمیشہ ان مولوی صاحب کا دفاع کرتی رہیں، ان کے خلاف کوئی فتویٰ دینے کی ہمت نہیں کر سکیں.(Inside Al-Qaeda and Taliban, by Syed Saleem Shehzad, published by Plato Press 2011,p160) یہاں نماز جنازہ کا ذکر کیا کریں؟ اگر جماعت احمدیہ کے ساتھ ہونے والا سلوک فراموش بھی کر دیا جائے تو بھی جماعت احمدیہ کے ان مخالف علماء نے جو کہ اکوڑہ خٹک کے دیو بندی مدرسہ سے وابستہ تھے شیعہ فرقہ کے متعلق یہ فتویٰ دیا تھا کہ ان کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا ، ان کوسینیوں کے قبرستان میں دفن کرنا اور ان سے شادی کرنا سب ممنوع ہے اور ۱۹۷۸ء میں انہوں نے یہ الزام بھی لگایا تھا کہ مشرقی پاکستان شیعہ سازش کی وجہ سے علیحدہ ہوا تھا.یادر ہے سوال و جواب کے دوران بھونڈے انداز میں یہ الزام جماعت احمدیہ پر بھی لگانے کی کوشش کی گئی تھی.ابھی چار سال ہی گزرے تھے کہ طوطے کی طرح رٹے ہوئے یہ الزام ایک اور فرقہ پر لگانے کا سلسلہ شروع ہو گیا.(Sectarian War by Khaled Ahmed, Oxford 2013, p136)

Page 66

64 مفتی محمود صاحب ایک بار پھر غلط ثابت ہونے والے حوالوں کو دہراتے ہیں مفتی محمود صاحب اور ان کے ہمنو امولوی صاحبان کو دلائل کی اس قدر کمی کا سامنا تھا کہ وہ اب انہی حوالوں کو دہرانے پر مجبور تھے جن کو انہی صاحبان کی طرف سے سوال و جواب کے اجلاسات کے دوران پیش کیا گیا تھا اور جب مکمل اور درست حوالے وہاں پڑھے گئے تو صاف ثابت ہو گیا کہ ان سے وہ مطلب کسی طرح اخذ نہیں کیا جا سکتا تھا جو کہ وہاں پر پیش کیا گیا تھا.اس وقت تو شرمندگی کی وجہ سے خاموشی اختیار کی گئی تھی لیکن اب خانہ پری اور وقت گزاری کے لیے وہی اعتراض دوبارہ پڑھے جا رہے تھے.اس مرحلہ پر مفتی محمود صاحب نے یہ اچھوتا نظریہ پیش کر کے سابقہ خفت کا ازالہ کرنے کی کوشش کی کہ اصل میں تو احمدیوں نے خود ہی یہ مطالبہ پیش کیا تھا کہ انہیں اقلیت اور غیر مسلم قرار دیا جائے.چنانچہ انہوں نے احمدیوں کے متعلق کہا: چنانچہ انہوں نے غیر منقسم ہندوستان میں اپنے آپ کو سیاسی طور پر بھی مسلمانوں سے الگ ایک مستقل اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا مرزا بشیر الدین محمود کہتے ہیں: میں نے اپنے نمائندے کی معرفت ایک بڑے ذمہ دار انگریز افسر کو کہلا بھیجا کہ پارسیوں اور عیسائیوں کی طرح ہمارے بھی حقوق تسلیم کیے جائیں.جس پر اس افسر نے کہا کہ وہ تو ایک اقلیت ہیں اور تم ایک مذہبی فرقہ ہو.اس پر میں نے کہا کہ پارسی اور عیسائی بھی تو مذہبی فرقہ ہیں جس طرح ان کے حقوق علیحدہ تسلیم لیے گئے ہیں اسی طرح ہمارے بھی کیے جائیں.تم ایک پارسی پیش کر دو، اس کے مقابلہ میں دو ود احمدی پیش کرتا جاؤں گا.(مرزا بشیر الدین محمود کا بیان مندرجہ الفضل ۱۳/ نومبر ۱۹۴۶ء) یہ معین الفاظ تو اس خطبہ جمعہ میں موجود ہی نہیں.مفتی محمود صاحب کا اخلاقی فرض تھا کہ کم از کم معین الفاظ پڑھتے.نہ کہ عبارت کے کچھ الفاظ تبدیل کر کے اور کچھ اپنی طرف سے شامل کر کے حوالہ پیش کرتے اور جو عبارت انہوں نے پڑھی تھی اس میں بھی اپنے آپ کو اقلیت قرار دینے کے کسی مطالبہ کا کوئی ذکر نہیں.

Page 67

65 مفتی محمود صاحب وہی حوالہ پیش کر رہے تھے جو کہ پہلے بھی سوال و جواب کے دوران پیش کیا گیا تھا اور اسی الزام کے ساتھ پیش کیا گیا تھا جسے اب مفتی محمود صاحب پھر دہرا رہے تھے لیکن جب حضرت امام جماعت احمدیہ نے پورا حوالہ پیش کیا تو حقیقت بالکل برعکس نکلی.جب حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے پورا حوالہ پیش کیا تو یہ حقائق سامنے آئے.1.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب یہ بیان فرما رہے تھے کہ انگریز حکومت اور کانگرس کے بعض حصوں کا خیال ہے کہ وہ مسلمانوں کو تقسیم کر کے اپنے مقاصد حاصل کر سکیں گے اور اس غرض کے لیے وہ مسلم لیگ کو نظر انداز کر کے خود مسلمانوں سے رابطہ کر کے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کریں گے.2.حضور نے فرمایا تھا اس موقع پر سب مسلمانوں کو حکومت پر واضح کر دینا چاہیے کہ مسلم لیگ کو ان کی حمایت حاصل ہے تاکہ مسلم لیگ کی آواز کو تقویت حاصل ہوا ور یہ آواز تھی جو کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے اُٹھائی جارہی تھی اور جس کو پیش کرنے کی بات کی جارہی تھی.3).سب سے اہم بات یہ کہ حضور نے حکومت اور کانگرس کو متنبہ کیا تھا کہ اب اگر مسلم لیگ اور حکومت میں جنگ ہوئی تو جماعت احمد یہ مسلم لیگ کی طرف سے اس جنگ میں شامل ہوگی.اور جماعت احمدیہ کی طرف سے اس اعلان کی ضرورت اس لیے بھی زیادہ تھی کیونکہ مفتی محمود صاحب اور ان کے ہم خیال بیشتر دیو بندی مولوی صاحبان اس وقت مسلم لیگ کی مخالفت پر کمر بستہ تھے.بہر حال مندرجہ بالا نکات بالکل واضح ہیں.مکمل عبارت سے تو بالکل برعکس منظر سامنے آ رہا تھا اور جیسا کہ ہم گزشتہ کتاب میں حوالہ درج کر چکے ہیں اور اس کا رروائی کے صفحہ ۶۲۸ اور ۶۲۹ کو پڑھ کر ہر شخص خود جائزہ لے سکتا ہے کہ جب حضور نے تمام حوالہ پڑھ کر سنایا تو اٹارنی جنرل صاحب کوئی جواب نہ دے سکے کہ آخر اس پر کیا اعتراض کیا جارہا تھا.اس وقت یا اس کے بعد مفتی محمود صاحب کو بھی یہ ہمت نہیں ہوئی کہ اُٹھ کر اس اعتراض کے دفاع میں کچھ کہہ سکتے.ان کے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں تھا لیکن اب جب کہ جماعت احمدیہ کا وفد وہاں موجود نہیں تھا تو وہی اعتراض دہرایا جارہا تھا جو پہلے ہی بے بنیاد ثابت ہو چکا تھا.

Page 68

66 اعتراض کہ بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا بروز قرار دیا مفتی محمود صاحب ایک اعتراض پیش کرتے اور اس کے حق میں کوئی ٹھوس دلیل پیش نہ کر سکتے یا پھر جعلی اور نامکمل حوالہ پیش کرتے یا ایسی دلیل پیش کرتے جس کا جواب سوال و جواب کے دوران دیا جا چکا ہوتا.دلائل کا فقدان انہیں اس بات پر مجبور کر دیتا کہ وہ جلد دوسرے اعتراض پر بات شروع کر دیں.اس مرحلہ پر انہوں نے یہ اعتراض پیش کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے بروز ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور اس کے حق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام پیش کیا أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ بِرُوزِى مناسب ہوتا اگر مفتی محمود صاحب یہ اعتراض اٹھانے سے قبل لغت میں بروز کے معنی دیکھ لیتے.اللہ تعالیٰ کا بروز ہونے کا مطلب تو صرف اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہونے کا ہے.تمام اولیاء اور انبیا ء زمین پر اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہوتے ہیں.اور حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ اعتراض مفتی محمود صاحب کی طرف سے کیا جارہا تھا جو اپنے حلقہ میں عالم سمجھے جاتے تھے.وہ یہ بات نہیں جانتے تھے کہ یہ بات تو کئی مرتبہ صوفیاء کے حلقوں میں زیر بحث آئی تھی کہ بروز کا مطلب کیا ہوتا ہے.چنانچہ حضرت خواجہ غلام فرید صاحب کے نام سے تو پاکستان کے اکثر پڑھے لکھے لوگ واقف ہوں گے.ان کی مجلس میں بھی یہ بات زیر بحث آئی کہ بروز کا مطلب کیا ہے؟ چنانچہ آپ کی خدمت میں ایک کتاب فواتح مصنفہ ملاحسین بن معین الدین نیزی پیش کی گئی تھی جس میں بروز کی حقیقت پر بحث کی گئی تھی.اس میں ” بروز “ کی تعریف کے بارے میں لکھا تھا ” بروز یہ ہے کہ ایک روح دوسری اکمل روح سے فیضان حاصل کرتی ہے.جب اس پر تجلیات کا فیضان ہوتا ہے.تو وہ اس کا مظہر بن جاتی ہے.“ ( اشارات فریدی مقابیس المجالس مرتبہ مولانا رکن الدین ترجمه واحد بخش سیال ناشر بزم اتحاد المسلمین لاہور رجب ۱۴۱۰ ۵ صفحه ۴۱۸)

Page 69

67 اور حضرت بایزید بسطامی کا قول ہے: 66 " عارف کا ادنیٰ مقام یہ ہے کہ صفات خداوندی کا مظہر ہو.“ تذکرۃ الاولیاء مصنفہ حضرت شیخ فریدالدین عطار ناشر الحمد پبلیکیشنز ۲۰۰۰ صفحه ۱۵۲) اس سے بڑھ کر حدیث نبوی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے.“ (صحیح مسلم کتاب بر والصلۃ والادب ) ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ تو ظاہری صورت سے بے نیاز ہے.اس سے مراد یہی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہوتا ہے اور یہی معنی بروز کے ہیں.اگر اسلامی لٹریچر کا جائزہ لیا جائے تو اس الہام پر کسی قسم کا کوئی اعتراض اٹھ نہیں سکتا.اگر صرف ظاہری الفاظ کو دیکھا جائے تو بہت سے اولیاء نے اس سے بہت بڑھ کر دعاوی کئے ہیں.ایک مثال پیش ہے.تذکرۃ الاولیاء مرتبہ حضرت شیخ فریدالدین عطار سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کچھ اولیا ء ذات باری تعالیٰ سے محبت اور عشق کی وجہ سے اور فنافی اللہ ہونے کی حالت میں انسی انا الله میں خدا ہوں ) کے الفاظ کہتے تھے اور بہت سے معروف اولیاء کے نزدیک یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں تھی.جیسا کہ تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے: مجھے تو اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ لوگ درخت سے انــی انـا الــلــه میں خود خدا ہوں) کی صدا کو تو جائز قرار دیتے ہیں اور اگر یہی جملہ آپ کی زبان سے نکل گیا تو خلاف شرع بتاتے ہیں.“ (تذکرۃ الاولیاء مصنفہ حضرت شیخ فرید الدین عطار" الحمد پبلیکیشنز لاہور.۲۰۰۰ صفحه ۳۸۳) اور حسین منصور حلاج کے معروف واقعات تو سب کے علم میں ہیں کہ آپ نے بارہا انا الحق کا نعرہ بلند کیا اور اسی وجہ سے بادشاہ کے حکم پر آپ کو سزائے موت دی گئی اور تو اور تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے: آپ قید خانہ کے اندر ایک رات میں ایک ہزار رکعت نماز ادا کیا کرتے تھے،

Page 70

68 پھر جب لوگوں نے پوچھا کہ جب انا الحق خود آپ ہیں تو پھر نماز کس کی پڑھتے ہیں؟ فرمایا کہ اپنا مرتبہ ہم خود سمجھتے ہیں.“ (تذکرۃ الاولیاء مصنفہ حضرت شیخ فریدالدین عطار الحمد پبلیکیشنز لاہور.۲۰۰۰ صفحہ ۳۸۹) اگر ظاہری الفاظ کو دیکھا جائے تو بروز ہونا تو ایک طرف رہا یہ تو صاف خدائی کا دعویٰ ہے لیکن ان سب دعاوی کے باوجود حسین منصور حلاج کا نام تذکرۃ الاولیاء میں ہے کہ نہیں اور ان کو اولیاء میں شمار کیا گیا ہے کہ نہیں اور ان کی طرف سے ایسے معجزات منسوب ہیں کہ جب ان کو قتل کر دیا گیا اور جسم کے ٹکڑے بھی کر دیئے گئے تو ان ٹکڑوں سے بھی انا الحق کی آوازیں آ رہی تھیں جن کو لاکھوں لوگوں نے سنا.اسی رو میں مفتی محمود صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام پر بھی اعتراض کر کے اسے گستاخی قرار دیا.أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزَلَةِ تَوْحِيْدِي وَ تَفْرِيدِيْ حالانکہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے: تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید اور تفرید “ (روحانی خزائن جلد ۷ اصفحه ۴۱۲) ان مطالب کے ساتھ اس الہام پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا.مناسب ہوگا کہ اس مرحلہ پر حضرت بایزید بسطامی کے کچھ اقوال و الہامات اور آپ کے متعلق کچھ اقوال پیش کیے جائیں.حضرت شیخ فریدالدین عطار صاحب آپ کے متعلق تحریر فرماتے ہیں.وو مقام توحید میں تمام بزرگوں کی انتہاء آپ کی ابتدا ہے.“ ( تذکرۃ الاولیاء مصنفہ حضرت شیخ فریدالدین عطار الحمد پبلیکیشنز لاہور ۲۰۰۰ صفحہ ۱۳۰) پھر آپ کے متعلق لکھا ہے: ایک دن نماز فجر کے بعد آپ نے لوگوں سے کہا کہ میں تو خدا ہوں اس کے با وجود بھی لوگ میری پرستش نہیں کرتے یہ سنتے ہی لوگ آپ کو پاگل سمجھ کر کنارہ کش

Page 71

69 66 ہو گئے لیکن درحقیقت آپ نے یہ الفاظ لسان غیب سے فرمائے تھے.“ (تذکرة الاولياء مصنفہ حضرت شیخ فریدالدین عطار الحمد پبلیکیشنز لاہور.۲۰۰۰ صفحہ ۱۳۱) پھر لکھا ہے: ایک مرتبہ حالت وجد میں آپ نے یہ کہہ دیا سبحانی ما اعظم شأنی یعنی میں پاک ہوں اور میری شان بہت بڑی ہے اور جب اختتام وجد کے بعد ارادت مندوں نے سوال کیا کہ یہ جملہ آپ نے کیوں کہا؟ فرمایا کہ مجھے تو علم نہیں کہ میں نے ایسا کوئی جملہ کہا ہو لیکن اگر آئندہ اس قسم کا کوئی جملہ میری زبان سے نکل جائے تو مجھے قتل کر ڈالنا.اس کے بعد دوبارہ حالت وجد میں پھر آپ نے یہی جملہ کہا جس پر آپ کے مریدین قتل کرنے پر آمادہ ہو گئے لیکن پورے مکان میں انہیں ہر طرف بایزید نظر آئے ( تذکرة الاولیاء مصنفہ حضرت شیخ فریدالدین عطار.الحمد پبلیکیشنز لا ہور.۲۰۰۰ صفحہ ۱۳۵) ایک بار کسی نے حضرت بایزید بسطامی سے عرش کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: عرش تو میں خود ہوں.پھر کرسی کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ کرسی بھی میں خود ہوں اور پھر قلم کے متعلق بھی یہی فرمایا اس کے بعد سائل نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے تو اور بھی مقرب بندے ہیں مثلاً حضرت ابراہیم اور حضرت موسی اور رسول اللہ ہے.اس پر بھی آپ نے فرمایا کہ وہ بھی میں ہوں.پھر سائل نے ملائکہ کے بارے میں پوچھا تو جب بھی یہی فرمایا (تذکرة الاولیاء مصنفہ حضرت شیخ فریدالدین عطار.الحمد پبلیکیشنز لا ہور.۲۰۰۰ صفحہ ۱۵۹) جب ان اولیاء کے ان اقوال کا ذکر آتا ہے تو اس سے مراد شرک نہیں لی جاتی بلکہ ان کی توجیہہ کی جاتی ہے.اس پس منظر میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی کسی تحریر پر کوئی اعتراض نہیں اُٹھ سکتا.اس مرحلہ پر ایک بار پھر مفتی محمود صاحب وہ نامکمل حوالے پیش کر کے اعتراض اٹھانے کی کوشش کر رہے تھے جن کا جواب حضرت خلیفہ امسح الثالث" پہلے ہی دے چکے تھے اور جب مکمل

Page 72

70 حوالہ پڑھا جائے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں اُٹھ سکتا تھا.مفتی محمود صاحب نے حوالہ پڑھا کہ حضرت مسیح موعود نے کتاب البریہ میں بیان فرمایا ہے کہ میں نے اپنے ایک کشف میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں اور یقین کیا کہ وہی ہوں.مفتی محمود صاحب نے پورا حوالہ نہیں پڑھا.اس حوالے میں بعینہ وہ مضمون بیان کیا گیا ہے جو کہ ایک حدیث نبوی میں بیان ہوا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کشف کے بیان میں فرماتے ہیں: میں نے دیکھا کہ اللہ کی روح مجھ پر محیط ہو گئی اور میرے جسم پر مستولی ہو کر اپنے وجود میں مجھے پنہاں کر لیا.یہاں تک کہ میرا کوئی ذرہ بھی باقی نہ رہا اور میں نے اپنے جسم کو دیکھا تو میرے اعضاء اس کے اعضاء اور میری آنکھ اس کی آنکھ اور میرے کان اس کے کان اور میری زبان اس کی زبان بن گئی تھی.“ پھر آپ فرماتے ہیں: چنانچہ اس کی گرفت سے میں بالکل معدوم ہو گیا اور میں اس وقت یقین کرتا تھا کہ میرے اعضاء میرے اعضاء نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے اعضاء ہیں.“ (کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۰۵،۱۰۳) اس کشف میں وہی مضمون بیان کیا گیا ہے جو کہ اس حدیث میں بیان ہوا ہے.ایک شخص نوافل کے ذریعہ اللہ کا اتنا قرب حاصل کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے کان بن جاتا ہے جن سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھیں بن جاتا ہے جن سے وہ دیکھتا ہے، اس کے ہاتھ بن جاتا ہے جن سے وہ پکڑتا ہے اور.اس کے پاؤں بن جاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے.(صحیح بخاری کتاب الرقاق باب التواضع).اگر اس کشف کے مضمون پر اعتراض کیا جائے گا تو اس حدیث پر بھی اعتراض اٹھے گا اور جیسا کہ حضرت خلیفۃ اسیح الثالث نے فرمایا تھا کہ یہ کشف ہیں اور کشف تعبیر طلب ہوتے ہیں.آپ نے اس بارے میں جو دلائل بیان فرمائے تھے مفتی محمود صاحب ان کا کوئی جواب نہیں دے سکے.لیکن ہم ایک معروف بزرگ ابوالحسن خرقانی کا حوالہ درج کرتے ہیں جو حقیقی زندگی میں پیش

Page 73

71 آیا اور کشف نہیں ہے.حضرت شیخ فریدالدین عطار لکھتے ہیں.ایک دن کوئی صوفی ہوا میں پرواز کرتا ہوا آپ کے سامنے ( یعنی حضرت ابوالحسن خرقانی کے سامنے ) آ کر اترا اور زمین پر پاؤں مار کر کہنے لگا میں اپنے دور کا جنید اور شبلی ہوں.آپ نے بھی کھڑے ہو کر زمین پر پاؤں مارتے ہوئے فرمایا میں بھی خدائے وقت ہوں.“ ( تذكرة الاولیاء مصنفہ حضرت شیخ فریدالدین عطار.الحمد پبلیکیشنز لا ہور.۲۰۰۰ صفحہ ۴۳۵) اور یہ روایت بھی بیان کی گئی ہے کہ حضرت بایزید بسطامی نے کہا تھا کہ میرے جسے میں اللہ تعالیٰ کے سوا کچھ نہیں.(سیر الاولیاء، تصنیف سید محمد مبارک علوی کرمانی ، شائع کردہ اردو سائنس بورڈ، پانچواں ایڈیشن ۲۰۰۴ صفحہ ۷۴۷ ) صوفیاء کے ان اقوال کی تو جیہہ کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے.یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس قسم کے اقوال فنافی اللہ ہونے کی حالت میں کہے گئے تھے.ان سے شرک مراد نہیں تھی.خود تذکرۃ الاولیاء میں یہ بحث بار بار اٹھائی گئی ہے.کیا صحیح تھا اور کیا غلط؟ کون سی روایت مکمل طور پر پیچ پہنچی اور کس میں کچھ آمیزش کی گئی ، یہاں اس بحث کا ذکر نہیں کیا جارہا لیکن دو امور قابل ذکر ہیں.ایک تو یہ کہ اگر ان اولیاء کے مذکورہ اقوال پر اعتراض نہیں ہوسکتا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الہامات اور ارشادات پر تو کسی قسم کے اعتراض کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.دوسری یہ بات واضح ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جن تحریرات پر مفتی محمود صاحب اعتراض کر رہے تھے.ان جیسی مثالیں تو بیسیوں اولیاء کے ارشادات میں دکھائی جاسکتی ہیں لیکن مولوی مزاج لوگوں نے ان اولیاء پر بھی کفر کے فتوے لگائے تھے کیونکہ خشک مولوی اہل اللہ کے ارشادات کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے اور اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی اسی جنون تکفیر سے مغلوب ہو کر حملے کیے جارہے تھے.لقب میکائیل پر اعتراض: معلوم ہوتا جب مفتی محمود صاحب عجلت میں اعتراض پر اعتراض کر کے اپنے موقف میں جان پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے تو اس وقت کئی حوالے ایسے تھے جو کسی نے نامکمل حالت میں

Page 74

72 انہیں تھا دیے تھے اور انہوں نے شاید کبھی مکمل حوالے دیکھے بھی نہیں تھے اور نہ ہی انہیں ان حوالوں کے علمی پس منظر کا کچھ علم تھا.اس موقع پر انہوں نے یہ حوالہ پڑھ کر یہ اعتراض اُٹھانے کی کوشش کی کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آپ کو خدا قرار دیا ہے.مفتی صاحب مزید کہتے ہیں : اور دائیکل نبی نے اپنی کتاب میں میرا نام میکائیل رکھا ہے اور عبرانی میں لفظی معنی میکائیل کے ہیں خدا کی مانند.یہ گویا اس الہام کے مطابق ہے جو براہین احمدیہ میں ہے أَنْتَ مِنْئُ بِمَنْزَلَةِ تَوْحِيدِي وَ تَفْرِيدِى ( اربعین نمبر ۳ صفحہ ۳۰ کا حاشیہ معبود قادیان ۱۹۰۰ء) اگر پورا حوالہ پڑھا جائے تو کوئی بھی ذی ہوش اسے خدا ہونے کا دعویٰ نہیں قرار دے سکتا بلکہ یہ مضمون بیان ہو رہا ہے کہ مختلف مذہبی کتب میں مختلف قسم کے استعارے بیان ہوئے ہیں اور آخر میں دانیال نبی کی کتاب میں استعمال ہونے والے استعارے کا ذکر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں: اسی وجہ سے صحیح بخاری اور صحیح مسلم اور انجیل اور دانی ایل اور دوسرے نبیوں کی کتابوں میں بھی جہاں میرا ذکر کیا گیا ہے وہاں میری نسبت نبی کا لفظ بولا گیا ہے اور بعض نبیوں کی کتابوں میں میری نسبت بطور استعارہ فرشتہ کا لفظ آ گیا ہے اور دانی ایل نبی نے اپنی کتاب میں میرا نام میکائیل رکھا ہے اور عبرانی میں لفظی معنے میکائیل کے ہیں خدا کی مانند (روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۶۱) یہاں یہ حقیقت بیان کی جارہی ہے کہ مختلف مذہبی کتب میں مختلف استعارے استعمال کیے جاتے ہیں.بائبل کی کتب میں جن میں دانیال نبی کی کتاب بھی شامل ہے یہ استعارے استعمال ہوئے ہیں جو کہ عبرانی زبان کے استعارے ہیں.یہ حقیقت تو ہر پڑھا لکھا شخص جانتا ہے کہ بائبل میں عبرانی زبان کے جو استعارے استعمال ہوئے ہیں ان میں خدا کا بیٹا ہونے کا استعارہ بھی شامل ہے جس سے غلطی کھا کر عیسائیوں نے حضرت عیسی کو حقیقت میں خدا کا بیٹا سمجھ لیا اور عالم اسلام کے

Page 75

73 معروف بزرگوں کی تحریروں میں اس حقیقت کا ذکر ہے.حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں ابن اللہ الفاظ کے استعمال ہونے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : قدیم زمانہ میں لفظ ابن مقرب اور محبوب اور مختار کے ہم معنی تھا.“ ( الفوز الکبیر فی اصول التفسیر.مصنفہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی.اردو ترجمہ رشید احمد صاحب انصاری.ناشر قدیمی کتب خانہ کراچی.صفحہ ۱۸) حضرت مسیح موعود علیہ السلام دانیال نبی کی کتاب کے آخر کا جو حوالہ دے رہے ہیں.وہ عبارت یوں شروع ہوتی ہے: اس وقت میکائیل مقرب فرشتہ جو تیری قوم کے فرزندوں کی حمایت کے لیے کھڑا ہے اُٹھے گا (دانیال باب ۱۲) اس عبارت کا آغاز ہی ظاہر کر رہا ہے کہ میکائیل کا لفظ خدا کے لیے نہیں استعمال ہوا اور نہ پہلے کبھی ہوا تھا.یہ یا تو فرشتہ کا ذکر ہے اور یا کسی مقدس شخصیت کی بعثت کی خبر دی جا رہی ہے اور عبرانی میں میکائیل کا لفظی مطلب ”خدا کی مانند ہے“ (Harpers Bible Dictionary Edited by Paul J.Achtemeier Word Michal) اور عبرانی کے استعارہ میں اس کا مطلب صرف برگزیدہ کے ہیں.جیسا کہ حضرت مسیح موعود لیہ السلام نے مذکورہ حوالہ میں خود واضح بیان فرمایا ہے کہ ان مقدس کتب میں یہ الفاظ بطور استعارہ کے استعمال ہوئے ہیں.مناسب ہوتا کہ مفتی محمود یہ اعتراض اُٹھانے سے قبل لغت دیکھ لیتے.استعارہ اسے کہتے ہیں جب ایک لفظ بغیر حرف تشبیہ کے مجازی معنی میں استعمال ہو ( ملاحظہ کیجئے فیروز اللغات لفظ استعارہ).اگر قدیم صحف میں اور عبرانی زبان میں اس قسم استعارے استعمال ہوئے ہیں تو اس کا الزام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یا جماعت احمدیہ کو بہر حال نہیں دیا جا سکتا.یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بائبل میں جہاں آنحضرت ﷺ کے بارے میں پیشگوئی کی گئی ہے وہاں آنحضرت علیے کے لیے خداوند کا لفظ استعمال ہوا ہے.چنانچہ استثناء باب ۳۳ میں لکھا ہے: ” خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر آشکار ہوا.وہ کوہ فاران سے جلوہ گر ہوا اور دس ہزار

Page 76

74 66 قدوسیوں کے ساتھ آیا.اس کے دہنے ہاتھ پر ان کے لئے آتشی شریعت تھی.“ اور اس جگہ بائبل میں ”یہواہ “ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو کہ عبرانی میں خدا تعالیٰ کا اسم ذاتی ہے.اب اس پیشگوئی میں حضرت محمد مصطفے میلے کے لئے خداوند کا لفظ استعمال ہوا ہے لیکن اس پر کوئی اعتراض نہیں اُٹھ سکتا کیونکہ بائبل میں عبرانی زبان میں اس قسم کے استعارے عام استعمال ہوتے تھے.اگر اس قسم کی پیشگوئی میں ”خداوند کے لفظ پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا تو میکائیل یا خدا کی مانند کے استعارے پر بھی کوئی اعتراض نہیں اُٹھ سکتا.اور عبرانی کا کیا ذکر خود اردو میں ایسے کئی استعاروں کی مثالیں موجود ہیں.خاوند کو مجازی خدا کہا جاتا ہے.کیا یہ شرک یا گستاخی ہے.صاحبان اقتدار کو ارباب اقتدار کہا جاتا ہے.کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ الفاظ استعمال کرنے والا شرک کا مرتکب ہورہا ہے.اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ لفظ میکائیل قرآن کریم میں بھی ایک مقرب فرشتہ کے لیے استعمال ہوا ہے اور عکرمہ کا قول ہے کہ عربی میں جب اس کا لفظی ترجمہ کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب خدا کے عبد کے ہیں.(صحیح بخاری کتاب التفسير باب قوله من كان عدوا الجبريل) مفتی محمود صاحب کا اعتراض کہ حضرت مسیح موعود کو قرآنی آیات الہام ہو ئیں مفتی محمود صاحب کو مسلسل اس مسئلہ کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا کہ ان کے پاس کرنے کو کوئی نیا اعتراض نہیں تھا.وہ وہی اعتراضات پیش کرنے پر مجبور تھے جو کہ سوال و جواب کے دوران کیے گئے تھے اور جن کے جوابات پہلے ہی دیے جاچکے تھے.لیکن مفتی محمود صاحب کے پاس ان نکات کا کوئی جواب نہیں تھا جو کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے بیان فرمائے تھے.اس کی ایک اور مثال پیش کی جاتی ہے.مفتی محمود صاحب نے یہ اعتراض پیش کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ دعوی کیا ہے کہ انہیں کئی قرآنی آیات الہام ہوئیں اور ان میں وہ قرآنی آیات بھی شامل تھیں جن میں آنحضرت ﷺ کو مخاطب کیا گیا تھا اور یہ آیات آپ کی شان میں نازل ہوئی تھیں اور مفتی محمود صاحب نے اسے گستاخی اور قرآن کریم میں تحریف قراردیا.یہ سوال کوئی نیا سوال نہیں تھا.

Page 77

75 جماعت احمدیہ مبایعین سے سوال و جواب کے اجلاسات کے آخری روز تک اٹارنی جنرل صاحب کے پیش کیے گئے سوالات کا وہ انجام ہو چکا تھا کہ یہی مناسب سمجھا گیا کہ اب مولوی ظفر انصاری صاحب میدان میں اتریں اور سوالات کریں.چنانچہ انہوں نے جو اعتراضات پیش کیے ان میں سے ایک اعتراض یہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انہیں کئی قرآنی آیات الہام ہوئیں اور ان میں وہ آیات شامل تھیں جن میں آنحضرت ﷺ کو مخاطب کیا گیا تھا اور مولوی ظفر انصاری صاحب نے یہ الہامات پڑھ کر یہ دعویٰ پیش کیا تھا کہ نعوذ باللہ یہ قرآن کریم میں بہت کھلی تحریف ہے.( کارروائی صفحہ ۷۵۸ تا۷۶۶) اپنی دانست میں تو مولوی صاحب نے بڑا اعتراض پیش کیا تھا.اس کے جواب میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے اس اہم بات کی نشاندہی فرمائی کہ امت مسلمہ کا لٹریچر ان روایات سے بھرا ہوا ہے کہ بہت صلحاء امت کو قرآنی آیات الہام ہوئی ہیں اور حضور نے اس ضمن میں مثالیں پیش کرنی شروع کیں.حضور نے حضرت سید عبدالقادر جیلانی کے الہامات کی مثالیں بیان فرما ئیں اور عبداللہ غزنوی صاحب کے الہامات کی مثالیں بیان فرما ئیں.ابھی یہ سلسلہ شروع ہوا تھا کہ سوال کرنے والوں کو یہ احساس ہوا کہ یہ تو الٹا لینے کے دینے پڑگئے ہیں.اگر یہ قرآن کریم میں تحریف ہے تو اس کا الزام تو بہت سے مسلمہ اولیاء پر بھی آئے گا.چنانچہ پیکر صاحب نے بات کاٹ کر کہا کہ آپ کا مؤقف کیا ہے؟ اس پر اب شائع ہونے والی کا رروائی کے مطابق حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے جو فرمایا و فقل کیا جاتا ہے.”مرزا ناصر احمد : میں یہ بات accept کرتا ہوں کہ امت مسلمہ کے عام اصول کے مطابق accepted ، قرآن کریم کی آیات امت کے اولیاء پر نازل ہوسکتی ہیں اور جو آیات انہوں نے پڑھی ہیں اگر وہ درست ہیں تو وہ حضرت مرزا صاحب پر نازل ہوئیں.( کارروائی صفحہ۱۴۶۵) اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ اس کی اور مثالیں بیان کرنا ضروری ہے اور مزید مثالیں بیان کیں.مولوی ظفر انصاری صاحب کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا.ساری کارروائی پڑھ

Page 78

76 جائیں وہ اس کا کوئی جواب نہ دے سکے کہ اگر یہی قرآن کریم میں تحریف ہے تو اس کا الزام تو پھر حضرت سید عبدالقادر جیلانی پر بھی آئے گا.اگر ظفر انصاری صاحب جواب دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے تو کم از کم مفتی محمود صاحب ہی اپنی اس تقریر میں اس کا جواب دے دیتے.انہیں تو جواب سوچنے کے لیے کافی وقت بھی مل گیا تھا لیکن مفتی صاحب اور ان کے معاونین بھی اس بات کا کوئی جواب نہیں دے سکے اور صرف وہی اعتراض دہرانے پر اکتفا کی جو پہلے ہی غلط ثابت ہو چکا تھا.اب ہم حضرت سید عبد القادر جیلائی کا ارشاد پیش کرتے ہیں جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ امت محمدیہ کے اولیاء کے نزدیک یہ بات ہرگز قرآن کریم میں تحریف نہیں تھی کہ اگر اس امت کے بزرگ افراد پر آیت قرآنی الہام ہوں اور وہ آیات قرآنی الہام ہو ں جن میں آ نحضر ت ع ل ل ل ل : دوسرے انبیاء کو مخاطب کیا گیا ہو یا یہ آیات قرآنی ان کی شان کے بارے میں نازل ہوئی ہوں.حضرت سید عبد القادر جیلائی اللہ تعالیٰ کی راہ میں مجاہدہ کرنے والوں اور اس کی راہ میں ثابت قدم رہنے والوں کو یہ خوشخبری دیتے ہیں.اس وقت تو بڑے بادشاہ کے پاس پہنچایا جائے گا اور ان الفاظ میں مخاطب کیا جائے گا انك اليوم لدينا مكين امين 66 ( فتوح الغیب مقاله ۲۸ ناشران تاجران کتب جامع مسجد دہلی ) یہ عربی عبارت قرآن کریم کی آیت ہے جو کہ حضرت یوسف کے بارے میں ہے جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے مولوی عبد اللہ غزنوی مرحوم کے کئی الہامات پڑھ کر سنائے جو کہ آیات قرآنی پر مشتمل تھے اور ان میں وہ آیات کریمہ بھی شامل تھیں جن میں آنحضرت ﷺ کو مخاطب کیا گیا تھا لیکن یہ بات حیران کن ہے کہ قومی اسمبلی کی طرف سے جو کارروائی اب شائع کی گئی ہے اس میں ان الہامات کی عبارت غائب ہے اور اس کی خالی جگہ چھوڑ کر صرف عربی کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں.اسی طرح جہاں حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے فتوح الغیب کی عبارت پڑھی ہے وہاں اس کارروائی میں عربی کی اصل عبارت غائب ہے اور صرف چند الفاظ درج ہیں حالانکہ قومی اسمبلی کے قواعد انہیں اس بات کے پابند کرتے ہیں کہ گواہ کا

Page 79

77 بیان حرف بحرف ریکارڈ کیا جائے.پھر یہ عبارت غائب کیوں کی گئی ؟ اس کا رروائی کو مولوی ظفر انصاری صاحب نے ترتیب دیا تھا.اگر وہ عربی سمجھنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے تھے تو جماعت احمدیہ کے وفد سے یہ عبارت لکھوا کر درج کر سکتے تھے.بہر حال مولوی عبد اللہ غزنوی صاحب کے کچھ الہامات درج کیے جاتے ہیں جو کہ آیات قرآنی پر مشتمل تھے.یہ مثال اس لیے بھی اہم ہے کہ ان کا زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ ہے اور جس کتاب کا حوالہ دیا جارہا ہے وہ ان کے بیٹوں نے تالیف کرائی تھی جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شدید مخالفین میں سے تھے.چنانچہ مولوی عبد اللہ غزنوی صاحب بیان کرتے ہیں کہ ریاست کابل کا معاشرہ بدعات میں ڈوبا ہوا تھا اور آپ کو کتاب وسنت کی پیروی کے بارے میں الہامات ہوتے تھے اور آپ حیران ہوتے تھے کہ اس ریاست میں تو کتاب وسنت کی پیروی کا نام ونشان بھی موجود نہیں پھر مجھ سے یہ کام کیوں کر ہوگا.اس حالت میں آپ کو یہ آیت الہام ہوتی تھی سنيسرك لليسرى یہ سورۃ اعلیٰ کی آیت نمبر ۹ ہے اور یہ ارشاد آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے ہے اور یہ وعدہ آنحضرت ﷺ سے کیا جا رہا ہے اور مولوی عبد اللہ غزنوی صاحب کا یہ دعویٰ تھا کہ انہی الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے ہی وعدہ ان کے ساتھ بھی کیا ہے.سوانح عمری مولوی عبداللہ غزنوی مرحوم با ہتمام عبدالغفار و عبد الاول، ناشر مکتبہ قرآن والسنته امرتسر صفحه ۵) پھر اسی کتاب میں لکھا ہے کہ ایک اور عالم مولوی عبد الرحمن صاحب ایک بارطویل سفر کرے مولوی عبد اللہ غزنوی صاحب کے پاس جا رہے تھے کہ لوگوں سے آپ کے متعلق کچھ نا مناسب باتیں سنیں.اس پر انہیں الہام ہوا انه عندنا لمن المصطفين الاخیار پہلے لفظ کی تبدیلی کے ساتھ یہ سورۃ ص آیت ۴۸ کے الفاظ ہیں اور المصطفین الا خیار کے الفاظ حضرت ابراہیم ، حضرت الحق اور حضرت اسحق کے مقام کے بارے میں نازل ہوئے تھے اور اس کتاب میں یہ دعویٰ ہے کہ یہ الفاظ مولوی عبداللہ غزنوی صاحب کے بارے میں بھی الہام ہوئے ہیں.اسی طرح لکھا ہے کہ انہیں مولوی عبداللہ غزنوی صاحب کی شان میں الہام ہوا ان هو الا عبد انعمنا عليه يعنى وه تو محض ایک بندہ تھا جس پر ہم نے انعام کیا.یہ سورۃ الزخرف آیت ۶۰ کا ایک حصہ ہے جو کہ حضرت

Page 80

78 عیسی علیہ السلام کے بارے میں ہے اور اس کتاب کے متعلق یہ الفاظ مولوی عبداللہ غزنوی صاحب کے بارے میں الہام ہوئے تھے.(سوانح عمری مولوی عبداللہ غزنوی مرحوم ، باہتمام عبدالغفار و عبدا الاول، ناشر مکتبہ قرآن والسنت امرتسر صفحه ۹) پھر لکھا ہے کہ ایک مرتبہ آپ کو گرفتار کر کے سردار محمدعمر پسر دوست محمد خان امیر افغانستان کے سامنے پیش کیا گیا.اس کا جرنیل یہ کہتا تھا کہ اس شخص کو میرے حوالے کرو میں توپ سے اڑا دوں گا.سردار محمد عمر نے ان سے پوچھا کہ آپ کیوں اس راستہ کو نہیں چھوڑتے ؟ جو کچھ مولوی کرتے ہیں اس میں شریک ہو جاؤ.اس پر مولوی عبداللہ غزنوی صاحب نے جواب دیا.مجھے الہام ہوتا ہے: پر ولئن اتبعت اهواء هم بعد الذى جاء ك من العلم ما لك من الله من ولى ولا نصير یہ سورۃ البقرۃ آیت ۱۲۱ کے الفاظ ہیں اور یہ الفاظ آ نحضرت میلہ کو مخاطب کر کے ہیں.سوانح عمری مولوی عبد اللہ غزنوی مرحوم باہتمام عبدالغفار و عبدالاول ناشر مکتبہ قرآن والسنته امرتسر صفحه ۱۵) اسی طرح اس کتاب کے مطابق مولوی عبد اللہ غزنوی صاحب کو سورۃ انعام آیت ۴۶ اور سورۃ النجم آیت ۳۳ الہام ہوئی تھیں.(سوانح عمری مولوی عبداللہ غزنوی مرحوم باہتمام عبدالغفار وعبدالاول، ناشر مکتبہ قرآن والسنته امرتسر صفحه ۳۹٫۱۴) حضرت محی الدین ابن عربی اپنی کتاب فتوحات مکیہ میں تحریر کرتے ہیں کہ ان پر آیت کریمہ ” قل امنا بالله وما انزل علينا و ما انزل علی ابراهیم و اسمعیل و اسحق و يعقوب والاسباط و ما اوتی موسیٰ و عیسیٰ نازل ہوئی پھر کہتے ہیں کہ اس آیت کو میرے لیے ہر علم کی کنجی بنایا گیا اور میں نے جان لیا کہ میں ان 66 1 تمام انبیاء کا مجموعہ ہوں.( فتوحات مکیہ الجزء الثالث مطبع دارالکتب العربیه الکبری صفحه ۳۵۰) اسی طرح تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مبارک کو آیت اوفوا بالعهد ان العهد كان مسئولا الہام ہوئی تھی.

Page 81

79 الله یہ حقیقت ہے کہ امت محمدیہ کے بہت سے بزرگوں کو آیات قرآنی الہام ہوئی تھیں اور ان آیات قرآنی میں وہ آیات بھی شامل تھیں جن میں حضرت محمد مصطف عملے کو یا دوسرے انبیاء کو مخاطب کیا گیا تھا یا یہ آیات ان کے بلند مقام کے بارے میں تھیں لیکن اگر اس سے کوئی یہ مطلب لیتا کہ نعوذ باللہ یہ قرآن کریم میں تحریف تھی یا ان اولیاء کے نزدیک یہ آیات آنحضرت ﷺ کے بارے میں نہیں بلکہ صرف ان کے بارے میں تھیں بلکہ صرف یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ ان پر یہ آیات آنحضرت ﷺ کی غلامی میں الہام کی گئی تھیں اور اول مخاطب ان آیات کے آنحضرت عے ہیں تھے اور ان اولیاء کو آپ کی اتباع کی برکت سے اس نعمت سے حصہ دیا گیا تھا.اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الہامات پر کسی قسم کا اعتراض نہیں ہو سکتا.یہ امر قابل ذکر ہے کہ جب براہین احمدیہ شائع ہونی شروع ہوئی اور ابھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہیں فرمایا تھا.اس وقت بھی براہین احمدیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت سے ایسے الہامات شائع ہوئے تھے جو کہ آیات قرآنی پر مشتمل تھے.اس وقت بھی بعض افراد کی طرف سے اس پر سوالات اُٹھائے گئے تھے.یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس پر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے جنہوں نے بعد میں جماعت احمدیہ کی شدید مخالفت شروع کر دی اس کا جواب لکھا.یہ جواب ان کے رسالے اشاعۃ السنہ میں شائع ہوا.یہ تحریر من و عن درج کی جاتی ہے.فریق دوم کے اعتراض کا ماحصل یہ ہے کہ مولف براہین احمدیہ نے اپنے آپ کو بہت سی آیات قرآن کا ( جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ ) وآدم و عیسی وابراہیم علیہم السلام کے خطاب میں وارد ہیں اور از انجملہ گیارہ آیات بذیل وجه انکار فریق دوم قرار بصفحہ منقول ہو چکی ہیں ) مخاطب اور مورد نزول ٹہرایا ہے اور ان کمالات کا جو انبیا سے مخصوص ہیں (جیسے وجوب اتباع.نزول قرآن.وحی رسالت فتح مکہ حوض کوثر.زندہ آسمان کی طرف اُٹھایا جانا وغیرہ) محل قرار دیا ہے.اس سے مفہوم ہوتا ہے کہ مؤلف براہین احمدیہ کو در پردہ نبوت کا دعوی ہے.اس کے جواب دو ہیں.اوّل یہ کہ مولف براہین احمدیہ نے ہرگز یہ دعویٰ نہیں کیا کہ قرآن میں ان آیات کا مورد نزول اور مخاطب میں ہوں اور جو کچھ قرآن یا پہلی کتابوں میں محمد رسول اللہ علی

Page 82

80 و عیسی و ابراهیم و آدم علیہ السلام کے خطاب میں خدا نے فرمایا ہے اس سے میرا خطاب مراد ہے اور نہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ جو خصوصیات و کمالات اُن انبیاء میں پائی جاتی ہیں.وہ مجھ میں پائی جاتی ہیں.كلا والله ثم بالله ثم تالله اس کتاب میں یا خار جامؤلف نے یہ دعاوی نہیں کئے اور ان کو کامل یقین اور صاف اقرار ہے کہ قرآن اور پہلی کتابوں میں اب آیات میں مخاطب ومراد وہی انبیا ہیں جن کی طرف ان میں خطاب ہے اور ان کمالات کے محل وہی حضرات ہیں جن کوخدا تعالیٰ نے ان کمال کا محل ٹھہرایا ہے.اپنے اوپر ان آیات کے الہام یا نزول کے دعوے سے ان کی مراد ( جس کو وہ صریح الفاظ سے خود ظاہر کر چکے ہیں ہم اپنی طرف سے اختراع نہیں کرتے ) یہ ہے کہ جن الفاظ یا آیات سے خدا تعالیٰ نے قرآن یا پہلی کتابوں میں انبیا علیم السلام کو مخاطب فرمایا ہے ان ہی الفاظ یا ( آیات) سے دوبارہ مجھے بھی شرف خطاب بخشا ہے پر میرے خطاب میں ان الفاظ سے اور معانی مرادر کھے ہیں جو معانی مقصودہ قرآن اور پہلی کتابوں میں کچھ مغایرت اور کسی قدر مناسبت رکھتے ہیں اور وہ ان معانی کے اظلال و آثار ہیں.تمثیلات آیه نمبر : ( منجملہ آیات پیش کردہ فریق ثانی ) کے معنی قرآن مین وہ یہی سمجھتے ہیں کہ یہ آیت آنحضرت کے خطاب میں ہے اور اس میں آنحضرت کا اتباع امت پر واجب کیا گیا ہے اور جب انہی الفاظ سے خدا نے ان کو ملہم ومخاطب کیا تو ان الفاظ میں (نہ قرآن میں ) وہ اپنے آپ کو مخاطب سمجھتے ہیں اور اپنے اتباع سے اتباع آنحضرت علی مراد قرار دیتے ہیں کہ اگر تم خدا سے محبت قراردیتے رکھتے ہو تو میری پیروی کرو یعنی اتباع رسول مقبول کرو تا خدا تم سے بھی محبت کرے.اور آیت نمبر ۲ کے قرآن میں تو وہ یہ معنی سمجھتے ہیں کہ اس میں قرآن مجید کی نسبت مشرکین کے قول کی حکایت ہے کہ وہ دو بستیوں (مکہ اور طائف ) میں سے کسی سردار آدمی پر کیوں نہ اترا اور جب ہی ان الفاظ سے خدا نے ان کو ملہم و مخاطب فرمایا تو ان میں ( نہ قرآن میں ) امر منزل سے وہ الہام کو مراد خداوندی سمجھتے ہیں (یہی وجہ ہے کہ ان کے الفاظ میں لفظ نزل کے بعد لفظ قرآن

Page 83

81 واقع نہیں ہوا جیسا کہ قرآن کی آیت میں ہے اور اسی کے مطابق آیات پیش کردہ فریق ثانی کے ضمن میں نقل ہوا اور دو شہرون سے کوئی اور دو شہر (مثلاً لدہانہ اور امرتسر ) اور سردار آدمی سے کوئی مولوی فاضل ( جیسے سرگروہ فریق اول و ثانی) مراد قرار دیتے ہیں چنانچہ بصفحہ ان الفاظ ملہمہ کا ترجمہ ان لفظوں سے کرتے ہیں اور کہیں گے کہ کیوں نہیں یہ (ان کا الہام ) اترا کسی عالم و فاضل پر اور شہروں میں سے الخ.اور آیت نمبر ۵ کے قرآن میں تو وہ یہی معنی سمجھتے ہیں کہ وہ آنحضرت کے خطاب میں نازل ہوئی ہے اور اس میں آپ سے پہلے رسولوں کا حال بیان ہوا ہے اور جس میں آپ کی رسالت کی طرف بھی اشارہ ہے.(براہین احمدیہ پر ریویواز مولوی محمد حسین بٹالوی اشاعۃ السنہ صفحہ ۲۱۸ تا ۲۲۰ نمبر۷ جلدے جون جولائی اگست ۱۸۸۴ء) اس مدلل حوالے سے ظاہر ہے کہ جماعت احمدیہ کے اشد ترین مخالفین کے نزدیک بھی یہ بات کسی پہلو سے قابل اعتراض نہیں تھی کہ کسی ملہم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیات قرآنی الہام ہوں.مفتی محمود صاحب کا اعتراض ایک تو علمی طور پر بھی بے بنیاد تھا لیکن اس کے لیے بھی انہیں اپنے بیان میں مسلسل جھوٹ کی آمیزش کرنی پڑ رہی تھی.اسی ضمن میں انہوں نے دسویں مثال یہ پیش کی: (۱۰) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خصوصی اعزاز یعنی معراج کو بھی مرزا نے اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے لکھا کہ یہ میرے بارے میں کہا گیا ہے کہ سُبْحَنَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى.پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف لے گئی.(دیکھیے حقیقۃ الوحی صفحہ ۷۶ ) ( کارروائی صفحہ ۱۹۴۷) گویا مفتی محمود صاحب یہ الزام لگا رہے ہیں کہ سورۃ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں آنحضرت علی کی جو معراج کا ذکر ہے اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نعوذ باللہ اپنی طرف منسوب کیا ہے یعنی یہ معجزہ آنحضرت ﷺ کا نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تھا.یہ سفید جھوٹ تھا.اس کی تفصیل یہ ہے کہ مفتی محمود صاحب الہام کے غلط الفاظ پڑھ کر سنا رہے تھے اور اپنی طرف سے الہام

Page 84

82 وو کے الفاظ میں اپنے الفاظ شامل کر رہے تھے.یہ الہام حقیقۃ الوحی اور براہین احمدیہ میں درج ہے.اس کے الفاظ یہ ہیں : ” سُبُحْنَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا “ ( تذکرہ صفی ۶۳ ۵۴۳۰) اور اس کا مطلب بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہر گز آنحضرت ﷺ کی معراج کو اپنی طرف منسوب نہیں فرمایا بلکہ اس کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے.وو پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندہ کو رات کے وقت میں سیر کرایا یعنی ضلالت اور گمراہی کے زمانہ میں جو رات سے مشابہ ہے مقامات معرفت اور یقین تک لدنی طور سے پہنچایا." (روحانی خزائن جلد اصفه۲۰۰ حاشیه در حاشیه ۳) ان الفاظ کو پڑھ کر کسی ذی ہوش کے دل میں گمان نہیں پیدا ہوسکتا کہ معراج کو اپنی طرف منسوب کیا گیا ہے.مفتی محمود صاحب کا یہ الزام جھوٹ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا.پھر مفتی محمود صاحب نے کہا: (11) اسی معراج کے ایک واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى پھر قریب ہوا، تو بہت قریب ہو گیا، دو کمانوں یا اس سے بھی قریب تر مرزا غلام احمد نے یہ آیت بھی اپنی طرف منسوب کی ہے.(حقیقۃ الوحی صفحہ ۷۶) پہلی بات تو یہ ہے کہ مفتی محمود صاحب نے آیت اور الہام دونوں کی عبارت غلط پڑھی تھی.اصل عبارت یہ ہے ثمّ دنی فتدلی الہام کی پوری عبارت یہ ہے اور حقیقۃ الوحی میں جہاں یہ الہام درج ہے وہاں پوری عبارت یہ ہے اردت ان استخلف فخلقت آدم دنی فتدلی فکان قاب قوسین او ادنی اور اس کا ترجمہ یہ لکھا ہے:.میں نے ارادہ کیا کہ اپنا خلیفہ بناؤں سو میں نے اس آدم کو پیدا کیا.وہ خدا سے نزدیک ہوا پھر مخلوق کی طرف جھکا اور خدا اور مخلوق کے درمیان ایسا ہو گیا جیسا کہ دو قوسوں کے درمیان کا خط ہوتا ہے.(روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۷۹ )

Page 85

83 اور اس دور کا حقیقی آدم کون ہے اس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں: و ان ادم آخر الزمان حقيقة هو نبينا یعنی اس آخری زمانہ کے آدم ہمارے نبی کے ہیں روحانی خزائن جلد ۶ اصفحہ ۲۵۷، ۲۵۸) پوری عبارت پڑھی جائے تو بالکل ایک علیحدہ مضمون سامنے آتا ہے.اس الہام میں معراج کو اپنی طرف منسوب کرنے کا کوئی ذکر ہی نہیں.بالکل علیحدہ روحانی مضمون بیان ہوا ہے.یہاں اس امر کا ذکر ضروری ہے کہ ان مولوی صاحبان نے جب کسی کے خلاف کفر کا فتویٰ لگانا ہو تو بسا اوقات اس پر قرآن مجید میں تحریف کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے.چنانچہ اسی قسم کا الزام شیعہ فرقہ پر بھی لگایا گیا کہ وہ قرآن کریم کو محفوظ نہیں سمجھتے اور محرف خیال کرتے ہیں اور یہ کہ ان میں سے بعض کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن کریم ابھی مکمل نہیں اور مکمل حالت میں امام مہدی پر نازل ہوگا.(Sectarian War, by Khaled Ahmed, Oxford 2013p 88-89) خمینی اور اثناعشریہ کے بارے میں علماء کرام کا متفقہ فیصلہ ماہنامہ بینات خصوصی اشاعت صفحه ۲ ۵ تا ۶۴) اب صورت حال یہ تھی کہ مفتی محمود صاحب واضح غلط بیانی کر رہے تھے اور ان کو درست کرنے والا کوئی نہیں تھا کیونکہ وہاں پر جماعت احمدیہ کا وفد موجود نہیں تھا جو کہ اس حقیقت کی نشاندہی کرتا.اس طرح پس پردہ کارروائی کے نام پر ڈھونگ کیا جا رہا تھا.اس کے علاوہ مفتی محمود صاحب اپنے دعاوی کے حق میں وہ حوالے پیش کر رہے تھے جن میں ان کے دعاوی کی تصدیق کے بارے میں اشارہ تک نہیں پایا جاتا تھا.اس مرحلہ پر انہوں نے یہ دعویٰ پیش کیا کہ نعو باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ دعوئی فرمایا تھا کہ ان کی وحی قرآن کریم کے برابر ہے.مفتی محمود صاحب نے کہا : پھر یہ جسارت یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ مرزا غلام احمد نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس پر نازل ہونے والی نام نہا دوجی (جس میں انتہائی درجے کی کفریات اور بازاری باتیں بھی موجود ہیں) ٹھیک قرآن کے برابر ہے.چنانچہ اپنے ایک فارسی قصیدے میں وہ

Page 86

کہتا ہے: 84 آنچه من بشنوم از وحی خدا بخدا پاک دانمش ز خطا ہمچو قرآن منزه اش دانم از خطاها ، ہمیں است ایمانم (نزول مسیح صفحه ۹۹ طبع اول قادیان ۱۹۰۹ء) و یعنی خدا کی جو وحی میں سنتا ہوں خدا کی قسم میں اسے ہر غلطی سے پاک سمجھتا ہوں قرآن کی طرح اسے تمام غلطیوں سے پاک یقین کرتا ہوں، یہی میرا ایمان ہے.“ مرزا غلام احمد نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ قرآن کی طرح میری وحی بھی حد اعجاز کو پہنچی ہوئی ہے اور اس کی تائید میں انہوں نے ایک پورا قصیدہ اعجاز یہ تصنیف کیا ہے جو ان کی کتاب اعجاز احمدی میں شائع ہو گیا ہے.( کارروائی صفحہ ۱۹۴۹) نوٹ : اصل مصرعہ یہ ہے: از خطا ہا ہمیں است ایمانم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ان اشعار میں کہیں اس دعوے کا شائبہ بھی نہیں پایا جاتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی وحی کو قرآن کریم کے برابر قرار دے رہے ہیں.ان اشعار میں صرف یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ چونکہ یہ وحی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اس لیے غلطی سے پاک ہے.اس میں کیا شک ہے جو وحی یا الہام خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوگا وہ غلطی سے پاک ہوگا.کیا ان مولوی حضرات کا یہ خیال تھا کہ ایک وحی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو اور اس میں غلطیاں بھی ہوں؟ اگر ایسا تھا تو یہ محض ایک بچگانہ خیال تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تمام علم کلام قرآن کریم کی فضیلت کے ذکر سے بھرا ہوا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب یہ اعلان کر رہی ہیں کہ قرآن کریم تمام الہامی کتب سے افضل ہے اور بے مثل کلام ہے.ہم سینکڑوں میں سے صرف چند مختصر حوالے پیش کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.” سب سے سیدھی راہ اور بڑا ذریعہ جوانوار یقین اور تواتر سے بھرا ہوا اور ہماری روحانی بھلائی اور ترقی علمی کے لئے کامل رہنما ہے قرآن کریم ہے.“ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۸۱)

Page 87

85 قرآن شریف ایسا معجزہ ہے کہ نہ وہ اوّل مثل ہوا اور نہ آخر کبھی ہو گا.اس کے فیوض و برکات کا دور ہمیشہ جاری ہے." ( ملفوظات جلد سوم صفحہ ۵۷) مفتی محمود صاحب اب بڑی حد تک وہی الزام دہرا رہے تھے جن کے تسلی بخش جوابات پہلے ہی دیئے جاچکے تھے.لیکن ان کے پاس جو نکات حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے بیان فرمائے تھے ان کا کوئی جواب نہیں تھا.وہ ان نکات کے ذکر تک سے بھی کترا رہے تھے.مثلا اب انہوں نے پھر یہ الزام دہرایا کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت عیسی علیہ السلام کی توہین کی ہے اگر چہ اس کا جواب پہلے ہی دیا جا چکا تھا لیکن اس کے بعد مفتی محمود صاحب نے یہ الزام لگانے کی کوشش کی کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت ﷺ کی شان میں بھی گستاخی کی ہے اور اس لا یعنی دعوے کے حق میں کیا دلیل لائے.انہوں نے کہا: پھر تمام انبیاء علیہم السلام پر اپنی فضیلت ظاہر کر کے بھی انہیں تسلی نہیں ہوئی بلکہ مرزا غلام احمد کی گستاخیوں نے سرکار دو عالم رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن عظمت پر بھی دست درازی کی کوشش کی ہے، لکھا ہے کہ خوب توجہ کر کے سن لو کہ اب اسم محمد کی تجلی ظاہر کرنے کا وقت نہیں یعنی اب جلالی رنگ کی کوئی خدمت باقی نہیں کیونکہ مناسب حد تک وہ جلال ظاہر ہو چکا سورج کی کرنوں کی اب برداشت نہیں، اب چاند کی ٹھنڈی روشنی کی ضرورت ہے اور وہ احمد کے رنگ میں ہو کر میں ہوں.“ ( اربعین نمبر ۴ صفحہ ۱۷ مطبوعہ ۱۹۰۰ء)‘ ( کارروائی ۱۹۵۳٬۱۹۵۲) ایک بار پھر مولوی مفتی محمود صاحب نامکمل عبارت پڑھ کر اور عبارت کا ایک حصہ پوشیدہ رکھ کر اپنے الزام میں جان پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے حالانکہ اربعین ۴ میں جہاں یہ مضمون شروع ہوتا ہے وہاں یہ واضح لکھا ہے: و تم سن چکے ہو کہ ہمارے نبی ﷺ کے دو نام ہیں (۱) ایک محمد ﷺ اور یہ نام

Page 88

86 توربیت میں لکھا گیا ہے...(۲) دوسرا نام احمد ﷺ ہے اور یہ نام انجیل میں ہے جو ایک جمالی رنگ میں تعلیم الہی ہے جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے و مبشرا برسول ياتي من بعدی اسمه احمد اور ہمارے نبی ہے جلال اور جمال ودنوں کے جامع تھے.مکہ کی زندگی جمالی رنگ میں تھی اور مدینہ کی زندگی جلالی رنگ میں اور پھر یہ دونوں صفتیں امت کے لئے اس طرح پر تقسیم کی گئیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو جلالی رنگ کی زندگی عطا ہوئی اور جمالی رنگ کی زندگی کے لئے مسیح موعود کو آنحضرت ﷺ کا مظہر ٹھرایا وو اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں: (روحانی خزائن جلد اصفحه ۴۴۳) پہلے جلالی زندگی کا نمونہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے قابل تعریف دکھلایا.“ اس کے کچھ بعد وہ عبارت آتی ہے جو کہ مفتی محمود صاحب پیش کر رہے تھے اور اس کا اگلا جملہ نہیں پڑھ رہے تھے کہ مبادا حقیقت ظاہر ہو جائے.اگلا فقرہ یہ تھا اب اسم احمد کا نمونہ ظاہر کرنے کا وقت ہے.“ تو یہ مضمون بیان ہو رہا تھا کہ پہلے صحابہ نے آنحضرت ﷺ کے اسم محمد ﷺ کی تجلی کا نمونہ بن کر دکھایا اور اب آخرین کا فرض ہے کہ آنحضرت عے کی غلامی میں آپ کے اسم احمد کی تجلی کا نمونہ بن کر دکھا ئیں.اس عبارت میں کون سی گستاخی کی گئی ہے.اس میں تو آنحضرت ﷺ کی فضیلت بیان ہو رہی ہے کہ اب ہمیشہ تک جو رستباز اٹھیں گے وہ آپ کی غلامی میں آپ کے مبارک ناموں کی تجلی ہوں گے.حیرت ہے کہ مفتی محمود صاحب اور ان کے ہمنوا عالم کہلانے کے باوجود اس حقیقت سے بھی بے خبر تھے کہ امت مسلمہ کے برگزیدہ اولیاء کی یہ پیشگوئی تھی کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں آنحضرت ﷺ کے اسم احمد کی بجلی ظاہر ہوگی یا پھر وہ تجاہل عارفانہ کے مرتکب ہورہے تھے.ہم ایک مثال درج کرتے ہیں.حضرت مجددالف ثانی تحریر فرماتے ہیں:

Page 89

87 وو جناب سرور کائنات میں اللہ کے کچھ اوپر ہزار سال بعد ایسا زمانہ آتا ہے کہ حقیقت محمدی اپنے مقام سے عروج فرمائے اور حقیقت کعبہ کے مقام سے مل کر ایک ہو جائے.اس وقت حقیقت محمدی کا نام حقیقت احمدی ہو اور وہ ذات احد کی مظہر بنے (کشف المعارف مرتبہ عنایت عارف الفیصل ناشران بار دوم فروری ۲۰۰۶ صفحه ۶۹) اب کیا یہ مولوی حضرات حضرت مجددالف ثانی جیسے عظیم المرتبت بزرگان کے خلاف بھی فتاویٰ صادر کرنے کے لیے مستعد ہوں گے لیکن محض خشک علم اور سطحی سوچ کا یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جہاں کوئی معرفت کی بات سنی جو کہ اپنی سمجھ سے بالا ہوئی تو فوراً مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے.مفتی محمود صاحب یہ طریقہ اپنا رہے تھے کہ ایک نامکمل عبارت پڑھ کر اپنی طرف سے حاشیہ آرائی کر کے ممبران اسمبلی کے جذبات کو بھڑکا یا جائے.اب انہوں نے ” اعجاز احمدی‘ میں درج قصیدہ کا ایک شعر پڑھ کر یہ الزام لگانے کی کوشش کی کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آپ کو آنحضرت ﷺ سے بھی افضل قرار دیا ہے.انہوں نے کہا: نیز اپنے قصیدہ اعجاز یہ میں (جسے قرآن کی طرح معجزہ قرار دیا ہے ) یہ شعر بھی کہا ہے کہ له خسف الـمـنـيــر و ان لي عنسنا القموان المشوقان اتنكر اس یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے چاند کے خسوف کا نشان ظاہر ہوا اور میرے لئے چاند اور سورج دونوں کا.اب کیا تو انکار کرے گا.اعجاز احمدی صفحہ اسے مطبوعہ قادیان ۱۹۰۲ء) اوّل تو شعر کی عبارت ہی غلط بیان کی گئی تھی.اصل شعر یوں ہے.غسا القمران المشرقان اتنكر له خسف القمر المنير و ان لى بہر حال یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ یہ کہا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے لیے تو چاند کے خسوف کا نشان ظاہر ہوا تھا اور میرے لئے چاند اور سورج دونوں کا نشان ظاہر ہوا ہے.اس طرح اپنے آپ کو آنحضرت ﷺ سے افضل قرار دیا ہے.افسوس ہے کہ مولوی مفتی محمود صاحب با وجود علم کے تمام دعاوی کے علم حدیث سے بے بہرہ تھے.یہاں کسی فضیلت کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کیونکہ

Page 90

88 دونوں مصرعوں میں آنحضرت ﷺ کے ہی دو عظیم نشانوں کا ہی ذکر ہے.ایک اول دور میں ظاہر ہوا اور دوسرا آپ ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق آخرین کے دور میں ظاہر ہوا.چنانچہ دار قطنی اور اکمال الدین میں آنحضرت ﷺ کی یہ پیشگوئی ذکر ہے کہ مہدی کے لیے یہ نشان ظاہر ہوگا کہ اس کے لیے رمضان کی پہلی رات میں قمر کا خسوف ہوگا اور بیچ کی رات میں سورج کا خسوف ہوگا اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ یہ نشان قیامت سے لے کر اب تک کسی کے لئے ظاہر نہیں ہوا.حدیث کے الفاظ یہ ہیں: ان لمهدينا آيتين لم تكونا منذ خلق السماوات والارض تنكسف القمر لاول ليلة من رمضان و تنكسف الشمس في النصف منه 66 (سنن الدارقطني الجزء الثالث دار نشر الکتب الاسلامیہ لا ہور باکستان صفحہ؟) ترجمہ: ہمارے مہدی کے لیے دو نشان ہیں جو کہ جب سے زمین و آسمان بنے ہیں کسی کے لیے ظاہر نہیں ہوئے.چاند کو رمضان کی پہلی رات میں گرہن لگے گا اور سورج کو اس کے نصف میں گرہن لگے گا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک زمانہ میں یہ نشان پورا ہو کر تمام دنیا پر ایک حجت بن گیا.اس میں فضیلت کا ذکر کہاں سے آ گیا ؟ حقیقت میں یہ اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نہیں بلکہ آنحضرت ﷺ پر ہے اور آپ کی پیشگوئی پر ہے اور جس قصیدہ کا ایک شعر پڑھ کر مفتی محمود صاحب یہ بودا اعتراض پیش کر رہے تھے.اس شعر سے پہلے اور بعد کے بعض اشعار ملاحظہ ہوں.اس سے پہلے کے تین اشعار یہ ہیں : ا تزعم ان رسولنا سيد الورى فلا والذي خلق السماء لا جله على زعم شانیه توفی ابتر له مثلنا ولد الى يوم يحشر فای ثبوت بعد ذالك يحضر وانا ورثنا مثل ولد متاعه ترجمہ: کیا تو گمان کرتا ہے کہ ہمارے رسول اللہ ﷺ نے بے اولاد ہونے کی حالت میں وفات پائی جیسا کہ دشمن بد گو کا خیال ہے.مجھے اس کی قسم جس نے آسمان بنایا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ

Page 91

89 ہمارے نبی کے لئے میری طرح اور بھی بیٹے ہیں اور قیامت تک ہوں گے اور ہم نے اولاد کی طرح اس کی وراثت پائی پس اس سے بڑھ کر اور کونسا ثبوت ہے جو پیش کیا جائے.(روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۸۳) مفتی محمود صاحب کے ہمنوا احباب کی خدمت میں گزارش ہے کہ ذرا پہلے مصرعہ کی عبارت پڑھ لیں کہ اس میں آنحضرت ﷺ کے بارے میں سید الوریٰ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ تمام انسانوں کے سردار ہیں اور کوئی بھی شخص آپ سے افضل نہیں ہو سکتا اور اب صرف آپ کی روحانی اولاد ہی روحانی مدارج حاصل کر سکتی ہے.پھر اس کے بعد ایک شعر ہے.اذا القوم قالوا يدعى الوحى عامدا عجبت فـانـي ظـل بدر ينور یعنی جب قوم نے کہا کہ یہ تو عمد اوحی کا دعویٰ کرتا ہے.میں نے تعجب کیا کہ میں تو رسول اللہ ی کا فل ہوں.کوئی بھی ہوشمند یہ نظریہ قبول نہیں کر سکتا کہ ان اشعار میں نعوذ باللہ آنحضرت ﷺ سے فضیلت کا دعویٰ کیا ہے.ان میں تو یہ ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے روحانی اولاد ہونے کے ناطے آنحضرت علیہ سے فیض حاصل کیا ہے اور آپ آنحضرت ﷺ کا سایہ ہیں.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ کسی شخص کا سایہ اس شخص سے افضل ہے.عقلاً مفتی محمود صاحب کا الزام اس قابل بھی نہیں ہے کہ اسے زیر غور بھی لایا جائے.صحابہ کی تو ہین کا الزام مفتی محمود صاحب عجلت میں الزامات کی فہرست میں اضافہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور اس مصیبت کا سامنا کر رہے تھے کہ جب وہ ایک الزام کو ثابت کرنے کے لیے کوئی حوالہ پیش کرتے تو ایسا حوالہ پیش ہو جاتا کہ جس سے گزشتہ الزام کی تردید ہو جاتی اور اس کے بعد وہ ایک اور الزام کی طرف رخ کرتے جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ مفتی محمود صاحب یہ بے بنیادالزام لگا رہے تھے کہ نعوذ باللہ آنحضرت ﷺ سے افضل ہونے کا دعوی کیا ہے.اب اس کے بعد انہوں نے یہ ثابت کرنے

Page 92

90 کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نعوذ باللہ آنحضرت عمر کے صحابہ کی بھی توہین کی ہے اور اس کی تائید میں انہوں نے جو پہلا حوالہ پیش کیا وہ یہ تھا.جو شخص میری جماعت میں داخل ہوا در حقیقت سردار خیر المرسلین کے صحابہ میں داخل ہوا.‘ (خطبہ الہامیہ صفحہ ۲۵۸ طبع ربوہ ) ( کارروائی صفحه ۱۹۵۳) اب ملاحظہ کیجیے مفتی محمود صاحب خود اعتراف کر رہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریر میں لکھ رہے ہیں حضرت محمد للہ خیرالمرسلین تھے.اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ تمام انبیاء اور تمام انسانوں سے افضل تھے.یہی ایک تحریر مفتی محمود صاحب کے اس الزام کی تردید کے لیے کافی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آپ کو آنحضرت ﷺ سے افضل قرار دیا ہے.اگر آنحضرت مہ خیر المرسلین تھے تو انبیاء میں بھی کوئی آپ سے آگے نہیں بڑھ سکتا اور اب ہم اس حوالہ کی حقیقت کی طرف آتے ہیں.مفتی محمود صاحب مکمل حوالہ نہیں پڑھ رہے تھے کیونکہ اگر اس حوالہ سے پہلے کی چند سطریں پڑھ دیتے تو یہ الزام ویسے ہی غلط ثابت ہو جاتا.ہم وہ سطریں پیش کرتے ہیں.اور آخر زمانہ کا آدم در حقیقت ہمارے نبی کریم ﷺ اور میری نسبت اس کی جناب کے ساتھ استاد اور شاگرد کی نسبت ہے.اور خدا تعالیٰ کا یہ قول کہ و اخرین منهم لما يلحقوا بهم اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے.پس اخرین کے لفظ میں فکر کرو.اور خدا نے مجھ پر اس رسول کریم کا فیض نازل فرمایا اور اس کو کامل بنایا “ (روحانی خزائن جلد ۶ اصفحہ ۲۵۸،۲۵۷) یہ حوالہ پڑھنے سے سے قبل مفتی محمود صاحب نے یہ کہا تھا کہ یہ حوالے بلا تبصرہ پیش ہیں.وہ ایسا کرنے پر مجبور تھے کیونکہ ان پر کوئی تبصرہ کرنے سے حقیقت سامنے آجاتی جو ان کے الزام کی مکمل طور پر تردید کرتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا تھا کہ یہ قرآن کریم کی آیات ہیں جن کا ترجمہ یہ ہے: وہی ہے جس نے بھیجا امیوں میں رسول انہی میں سے کہ پڑھتا ہے ان پر اس

Page 93

91 کی آیات اور پاک کرتا ہے ان کو اور سکھاتا ہے ان کو کتاب اور حکمت اور یقیناً تھے وہ پہلے اس سے البتہ گمراہی ظاہر میں اور دوسرے لوگوں میں بھی جو ابھی نہیں ملے ان سے اور وہی ہے غالب حکمت والا.“ (الجمعة : ۴۳) جب یہ آیات کریمہ نازل ہوئی تو صحابہ نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ ان آیات میں آخرین سے کیا مراد ہے؟ آنحضرت ﷺ نے حضرت سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اگر ایمان ثریا پر بھی ہوگا تو ان میں سے ایک شخص پالے گا.(صحیح بخاری ، کتاب التفسير باب قوله و اخرين منهم لما يلحقوا بهم ) ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ کے دور میں تو ایمان ثریا پر نہیں جاسکتا تھا.ان حوالوں سے صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ کے مبارک دور کے بعد ایک اور گروہ پیدا ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسا مقام رکھتا ہو گا کہ انہیں صحابہ کے گروہ سے ملا ہوا قرار دیا گیا ہے.مفتی محمود صاحب صرف جماعت احمدیہ کے عقائد پر اعتراض نہیں کر رہے تھے بلکہ آیات قرآنی پر اور احادیث نبویہ پر اعتراض کر رہے تھے اس کے بعد مفتی محمود صاحب نے یہ الزام لگایا کہ ضمیمہ براہین احمدیہ جلد پنجم حقیقۃ الوحی اور خطبہ الہامیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت عمرؓ اور حضرت ابو ہریرہ کو نادان صحابی قرار دیا.( کارروائی ص ۱۹۵۴) حقیقت یہ ہے کہ وہ براہین احمدیہ جلد پنجم کے ضمیمہ کے صفحہ ۱۲۰ کا حوالہ دے رہے تھے.اس صفحہ پر بلکہ پوری عبارت میں حضرت عمر اور حضرت ابو ہریرہ کا نام تک نہیں لکھا ہوا ہے بلکہ یہ ذکر ہے کہ امت پر حضرت ابو بکر کا یہ بڑا احسان ہے کہ آپ نے آنحضرت ﷺ کی وفات پر یہ آیت پڑھی کہ حضرت محمد ﷺ ایک نبی ہیں اور تمام انبیاء گزشتہ ان سے پہلے فوت ہو چکے ہیں اور اس کے بعد تمام صحابہ کا اس بات پر اجماع ہو گیا کہ آنحضرت ﷺ سے قبل تمام انبیاء فوت ہو چکے ہیں اور یہ لکھا ہے بعض نادان صحابہ جنہیں درایت سے کچھ حصہ نہ تھا وہ بھی اس عقیدہ سے بے خبر تھے کہ کل انبیاء فوت ہو چکے ہیں.اسی طرح حقیقۃ الوحی صفحہ ۳۳ ۳۴ اور خطبہ الہامیہ صفحہ ۱۴۹ جن کا حوالہ دیا گیا تھا صلى الله

Page 94

92 ان میں سے کسی میں حضرت عمرؓ یا حضرت ابو ہریرۃ کے بارے میں نادان کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا تھا.البتہ حضرت ابو بکر کے بلند مقام کی تعریف کی گئی ہے.حقیقۃ الوحی کے مذکورہ صفحات پر صرف یہ درج ہے کہ حضرت ابو ہریرہ کی درایت اچھی نہیں تھی.مفتی محمود صاحب کو نامکمل حوالوں کے علاوہ حسب سابق جھوٹ پر بھی انحصار کرنا پڑ رہا تھا.صحابہ کرام بالخصوص خلفاء راشدین کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک کیا بلند مقام تھا، اس کا اندازہ آپ کی تحریروں کے مطالعہ سے بخوبی ہو جاتا ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں: میں اس کا کھلے طور پر اظہار بھی کر چکا ہوں کہ ان سادات سے بغض و کینہ رکھنا برکات ظاہر کرنے والے خدا اللہ سے سب سے زیادہ قطع تعلقی کا باعث ہے اور جس نے بھی ان سے دشمنی کی تو ایسے شخص پر رحمت اور شفقت کی سب راہیں بند کر دی جاتی ہیں اور اس کے لیے علم و عرفان کے دروازے وا نہیں کیے جاتے اور اللہ انہیں دنیا کی لذات و شہوات میں چھوڑ دیتا ہے اور نفسانی خواہشات کے گڑھے میں گرا دیتا ہے اور اسے (اپنے آستانے سے دور رہنے والا اور محروم کر دیتا ہے.ان کی نیکیاں عظیم اور درخشاں تھیں.وہ یقیناً پاکباز تھے.ان کے عیاب اور ان کی لغزشوں کی جستجو کرنے سے بڑھ کر کوئی عیب نہیں اور ان کے نقائص اور برائیوں کی تلاش سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں.“ (سرا الخلافه مع اردوترجمه صفحه ۳۰،۲۹) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریروں میں اور ارشادات میں بار بار اس بات کا اظہار فرمایا ہے کہ دنیا کی تمام تاریخ میں اگر کوئی گروہ سب سے زیادہ پاک اور برگزیدہ گروہ کہلانے کا مستحق ہے تو وہ آنحضرت ﷺ کے صحابہ کا گروہ ہے.آپ فرماتے ہیں: صلى الله جس قدر پاک گروہ آنحضرت ﷺ کو ملا وہ کسی اور نبی کونصیب نہیں ہوا.یوں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی کئی لاکھ آدمیوں کی قوم مل گئی ،مگر وہ ایسے مستقل مزاج یا ایسی پاکباز اور عالی ہمت قوم نہ تھی جیسی صحابہ کی تھی.رضوان اللہ علیہم اجمعین.قوم موسیٰ کا یہ حال تھا کہ رات کو مومن ہیں تو دن کو مرتد ہیں.آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ

Page 95

93 کا حضرت موسیٰ اور اس کی قوم کا مقابلہ کرنے سے گویا کل دنیا کا مقابلہ ہو گیا.رسول اللہ کو جو جماعت ملی وہ ایسی پاکباز اور خدا پرست اور مخلص تھی کہ ان کی نظیر کسی دنیا کی صلى الله قوم اور کسی نبی کی جماعت میں ہرگز نہیں پائی جاتی.“ اہل بیت کی تو ہین کا التزام ( ملفوظات جلد ۲ ص ۶۰،۵۹) مفتی محمود صاحب محض عجلت میں وہی الزام دہرا رہے تھے جو کہ جماعت احمدیہ کے وفد پر سوالات کے دوران پیش کیے جاچکے تھے اور ان کے حوالے غلط ثابت ہو چکے تھے اور اُٹھائے گئے اعتراضات کے جوابات دئیے جاچکے تھے.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف ایک غلطی کا ازالہ کا وہی حوالہ پیش کیا جو کہ ۷ راگست کی کارروائی کے دوران پیش کیا گیا تھا.اور یہ حوالہ مفتی محمود صاحب نے اس طرح پڑھا: (۱) گستاخی اور جسارت کی انتہا ہے کہ لکھتے ہیں: ( کارروائی صفحہ ۳۹۰) حضرت فاطمہ نے کشفی حالت میں اپنی ران پر میرا سر رکھا اور مجھے دکھایا کہ میں اس میں سے ہوں.‘“ (ایک غلطی کا ازالہ حاشیہ صفحہ ۱) مولوی حضرات کی طرف سے شائع ہونے والی اشاعت میں اور حکومت کی طرف سے شائع ہونے والی اشاعت میں بھی یہ عبارت قوسین میں درج کی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تاثر دیا جار ہا تھا کہ یہ معین الفاظ پڑھے جا رہے تھے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں تھا.نہ تو یہ حوالہ پورا پڑھا جا رہا تھا اور نہ ہی معین الفاظ پڑھے جارہے تھے.ایک غلطی کا ازالہ میں جہاں یہ کشف درج ہے ، وہاں ایک کشف کا ذکر کرتے ہوئے اصل الفاظ یہ ہیں پھر اسی وقت پانچ آدمی نہایت وجیہہ اور مقبول اور خوبصورت سامنے آگئے یعنی جناب پیغمبر خدا ع و حضرت علی و حسنین و فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہم اجمعین اور ایک نے ان میں سے اور ایسا یاد پڑتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نہایت محبت و

Page 96

94 شفقت سے مادر مہربان کی طرح اس عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا.(روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۱۳) ہر کوئی موازنہ کر کے دیکھ سکتا ہے کہ عبارت میں تحریف کر کے نامکمل عبارت پڑھ کر دھوکہ دینے کی کوشش کی جارہی تھی.مادر مہربان“ کے الفاظ غائب کر کے غلط تاثر پیش کرنے کی کوشش کی جارہی تھی جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ یہ غلط حوالہ سوال وجواب کے دوران پیش کیا گیا تھا اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے کشف کی پوری عبارت پڑھ کر سنائی تھی جس سے یہ اعتراض ویسے ہی باطل ہو جاتا تھا اور حضور نے ارشاد فرمایا تھا: ”جہاں تک حضرت امام حسین اور دوسرے اہل بیت کی ہتک کے الزام کا تعلق ہے اس دکھ دہ امر کے اظہار کے بغیر چارہ نہیں کہ جماعت احمدیہ کے ساتھ مسلسل نا انصافی کا یہ طریق اختیار کیا جا رہا ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے اقتباس کو ادھورا پیش کیا جاتا ہے حالانکہ جس رنگ میں ان قتباسات کو پیش کیا جاتا ہے خود اس کی تردید میں حضرت بانی سلسلہ کی واضح عبارت موجود ہوتی ہے.“ (صحی ۳۹۳۳۹۲) پھر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے حضرت امام ابو حنیفہ ، حضرت سید عبد القادر جیلائی ، حضرت سید احمد بریلوی اور اشرف علی تھانوی صاحب کی خوابوں کی مثالیں بیان فرمائی کہ اس قسم کے خواب تو امت مسلمہ میں بکثرت دیکھے گئے ہیں، ان کی تعبیر کی جاتی ہے اور ان پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا.(کارروائی صفحہ ۵۱۵ تا ۵۱۹) لیکن مفتی محمود صاحب حضرت خلیفتہ المسح الثالث کے بیان فرمودہ نکات کا کوئی جواب نہیں دے سکے اور اسی تحریف شدہ عبارت کو دہرانے پر مجبور ہو گئے جو پہلے ہی غلط ثابت ہو چکی تھی.اسی طرح مفتی صاحب نے اعجاز احمدی اور نزول امسیح میں درج اشعار پر وہی اعتراضات پیش کیسے جن کا جواب سوال و جواب کے دوران پہلے ہی دیا جا چکا تھا اور وہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث" کے بیان فرمودہ نکات کا کوئی جواب نہیں دے سکے بلکہ انہوں نے ان کے ذکر تک سے اعراض کیا.

Page 97

95 مقدس مقامات کی توہین کا الزام چونکہ مفتی محمود صاحب کے پاس کسی پہلو سے بھی ٹھوس دلائل موجود نہیں تھے ، اس لیے وہ اس بات پر مجبور تھے کہ ایک الزام کی تائید میں کوئی ٹھوس دلیل نہ پیش کر سکتے تو جلد ہی دوسرے الزام کی طرف متوجہ ہو جاتے.دلائل کی کمی کو الزامات کی کثرت سے پورا کرنے کی کوشش کی جارہی تھی.اس مرحلہ پر انہوں نے یہ الزام لگانے کی کوشش شروع کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مقدس مقامات کی بھی توہین کی ہے اور اس کی تائید میں انہوں نے کچھ حوالے پیش کیے.اس بارے میں ایک بار پھر چند اصولی امور پیش خدمت ہیں.جب خاص طور پر اس قسم کی کارروائی میں کوئی حوالہ پیش کیا جارہا ہو تو جو حوالہ پیش کر رہا ہو یہ تمام تر اس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ صحیح طور پر حوالہ پیش کرے.اگر جس کتاب کے جس صفحہ کا حوالہ پیش کیا جا رہا ہو وہاں پر وہ عبارت نہ موجود ہو تو اس کا تمام الزام حوالہ پیش کرنے والے پر آئے گا اور اس کے لگائے گئے الزام کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی اور بعد میں یہ بودا عذر قابل قبول نہیں ہوگا کہ یہ عبارت کسی اور کتاب یا تحریر میں موجود تھی یا اس معنی کی عبارت کسی اور کتاب میں موجود ہے.اس قسم کے عذر مشت بعد از جنگ کے مترادف ہیں.اس اصول کو بیان کرنے کے بعد ہم ان حوالوں کی طرف آتے ہیں جو کہ اس الزام کے ساتھ مفتی محمود صاحب نے پیش کیے تھے.مفتی محمود صاحب نے کہا: مرزا بشیر الدین محمود لکھتے ہیں: ” اس زمانے میں خدا تعالیٰ نے قادیان کو تمام دنیا کی بستیوں کی ام قرار دیا ہے.اس لئے اب وہی بستی پورے طور پر روحانی زندگی پائے گی جو اس کی چھاتیوں سے دودھ پیئے گی.(حقیقۃ الرویا صفحہ ۴۵) اس عبارت میں کون سی قابل اعتراض بات ہے.اللہ تعالیٰ کے مامور جس بستی میں موجود ہوں دنیا ان بستیوں سے روحانی فیض حاصل کرتی ہے.اس عبارت میں کسی پہلو سے کسی مقدس مقام کی کوئی تو ہین نہیں کی گئی.اس کے بعد مفتی محمود صاحب نے یہ حوالہ پڑھا: حضرت مسیح موعود نے اس کے متعلق بڑا زور دیا ہے اور فرمایا ہے کہ جو بار بار

Page 98

96 یہاں نہیں آتے ، مجھے ان کے ایمان کا خطرہ ہے.پس جو قادیان سے تعلق نہیں رکھے گا وہ کاٹا جائے گا تم میں سے نہ کوئی کاٹا جائے.پھر یہ تازہ دودھ کب تک رہے گا.آخر ماؤں کا دودھ سوکھ جایا کرتا ہے.کیا مکہ اور مدینہ کی چھاتیوں سے یہ دودھ سوکھ گیا کہ نہیں.“ (حقیقۃ الرویا صفحه ۴۶،۴۵.مطبوعہ قادیان ۱۳۳۶ھ ) اس عبارت میں بھی صرف یہ بیان کیا گیا ہے کہ روحانی مراکز سے تعلق رکھنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے مامورین اور ان کے جانشین جہاں پر موجود ہوں وہاں بار بار آ کر روحانی فیضان حاصل کرنا چاہیے اور اگر اس میں کوتاہی کی جائے تو دنیا اس روحانی فیضان سے محروم ہو جاتی ہے.اس عبارت پر بھی عقلاً کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا اور اس مقام پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی یہ مضمون بیان فرما رہے ہیں کہ امام وقت سے ذاتی تعلق رکھنا چاہیے اور جلسہ سالانہ کے علاوہ بھی نو جوانوں کو بار بار قادیان آنا چاہیے تا کہ ان کی صحیح راہنمائی کی جاسکے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات پر اعتراض مفتی محمود صاحب نے اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات پر اعتراضات پیش کرنے کی کوشش شروع کی.لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اب بھی وہ صرف کارروائی کے لیے اعتراضات کی گنتی پوری کر رہے تھے.اب وہ یہ بھی بیان کرنے سے قاصر تھے کہ آخر وہ کیا اعتراض پیش کرنا چاہتے ہیں.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر کا یہ حوالہ پڑھا جس میں ایک رؤیا بیان کی گئی ہے اور اس پر ممبران کی طرف سے جو تمسخر کرنے کی بھونڈی کوشش کی گئی وہ درج کی جاتی ہے: (۵) ایک دفعہ ۵/ مارچ ۱۹۰۵ء کے مہینے میں بوقت آمدنی لنگر خانہ کے مصارف میں بہت وقت ہوئی کیونکہ کثرت سے مہمانوں کی آمد تھی اور اس کے مقابل پر روپیہ کی آمدنی کم اس لئے دعا کی گئی ۵/ مارچ ۱۹۰۵ء کو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص جوفرشتہ معلوم ہوتا تھا میرے سامنے آیا اور اس نے بہت سا روپیہ میرے دامن میں ڈال دیا.میں نے اس کا نام پوچھا.اس نے کہا : نام کچھ نہیں.میں نے کہا : آخر کچھ تو نام ہوگا ؟ اس نے کہا میرا نام ہے ٹیچی.(حقیقۃ الوحی صفحہ ۳۳۲)

Page 99

97 ( متعد داراکین نے ٹیچی ٹیچی“ کا مطلب پوچھا ) مولوی مفتی محمود : ” ٹیچی شاید ٹیچنگ سے ہے یعنی پڑھانے والا.ڈاکٹر الیس محمود عباس بخاری : مولانا صاحب ! ” ٹیچی کا مطلب ہے سچ ٹائم تے آن والا ( یعنی عین وقت پر آنے والا ).اس کی تفسیر انہوں نے کی ہے.بیچ ٹائم پر آنے والا.مولوی مفتی محمود : مرزا جی کے فرشتہ نے یا پہلے جھوٹ بولا یا پھر جس نبی کا فرشتہ جھوٹ بولتا ہے وہ نبی کیسے ہوسکتا ہے؟ ( کارروائی صفحہ ۱۹۵۸) تمسخر کی یہ کوشش اگر اس خفت کے ازالہ کے لیے کی جارہی تھی جو کہ سوال وجواب کے دوران قومی اسمبلی کے قابل ممبران کو اُٹھانی پڑی تھی تو اس سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو رہا تھا سوائے اس کے کہ یہ ظاہر ہو جائے کہ مقرر صاحب اور سامعین علم الرؤیا سے مکمل طور پر نا بلد تھے.اور اس کم علمی کے ساتھ اگر خشک مولویت کی رگ بھی پھڑک اُٹھے تو ایسی بچگانہ حرکات سامنے آتی ہیں حالانکہ سوال و جواب کے دوران بھی یہ سمجھایا گیا تھا کہ اسلامی علوم میں ایک علم تعبیر الرؤیا کا علم بھی ہے اور خوابوں کی تعبیر اس علم کے مطابق کی جاتی ہے.مناسب ہوتا ہے کہ اگر مفتی محمود صاحب اس تقریر سے قبل علم الرؤیا کی کوئی کتاب ملاحظہ فرما لیتے تو اس غلطی سے بچ سکتے تھے.اصل میں یہ دیکھنا چاہیے کہ اگر کوئی خواب میں دیکھے کہ فرشتہ اسے کچھ دے رہا ہے تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے.ہم ایک حوالہ درج کر دیتے ہیں جس سے بات واضح ہو جاتی ہے.حضرت جعفر صادق نے فرمایا.اور اگر دیکھے کہ فرشتہ اس کو عطا دیتا ہے تو وہ شخص عطا اور بزرگی پائے گا.‘“ ( خواب نامہ کبیر اردو تر جمه کامل التعبیر تالیف علامہ ابن سیرین مترجمہ مولانا ابوالقاسم دلاوری ناشر مصطفے برا در صفحه ۶۸) اور نام ٹیچی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مدد بر وقت پہنچے گی.مفتی محمود صاحب جو قیاس بیان کر رہے تھے اس سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں کہیں سے اعتراضات کا پلندہ پکڑا دیا گیا تھا جسے

Page 100

98 وہ پڑھ رہے تھے اور اس کے مطلب سے آشنا ہونا تو ایک طرف رہا وہ عبارت کے سیاق و سباق سے بھی واقف نہیں تھے کیونکہ اس عبارت سے اگلا فقرہ یہ تھا پنجابی زبان میں وقت مقررہ کو کہتے ہیں“ (روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۴۲) خدا جانے کہ ٹیچنگ کا اندازہ مفتی محمود صاحب نے کس خیال سے لگایا تھا.تعبیر الرؤیا کی رو سے تو یہاں پر کسی فرشتہ کا یہ نام ہونے یا نہ ہونے کا سوال ہی نہیں اٹھتا.اور کیا مفتی محمود صاحب کے علم میں خدا تعالیٰ کے تمام بے شمار فرشتوں کے نام تھے جو انہیں ایک اسی نام پر اتنی حیرت ہو رہی تھی.ویسے بھی معلوم ہوتا ہے کہ خوابوں کی تعبیر کرنا ان استہزاء کرنے والوں کے بس کا روگ نہیں تھا.حضرت امام جعفر صادق نے ارشاد فرمایا ہے کہ بے دین لوگوں سے ، عورتوں سے، جاہلوں سے اور دشمنوں سے خواب کی تعبیر معلوم نہیں کرنی چاہیے.(خواب نامہ کبیر اردو ترجمه کامل التعبیر تالیف علامہ ابن سیرین متر جمہ مولانا ابوالقاسم دلاوری ناشر مصطفے برادر زصفحه ۳۶، ۳۷) اس کے بعد انہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ کشف پیش کیا جو کہ آپ نے بیماری کی حالت میں دیکھا تھا.اس میں آپ کو ایک شیشی دکھائی گئی تھی جس پر لکھا تھا خاکسار” پیپر منٹ“.جیسا کہ پہلے عرض کی گئی ہے کہ اب مفتی صاحب صرف الہامات اور کشوف کا متن پڑھ رہے تھے.عجز بیان کی انتہا ہے کہ وہ یہ بھی بیان نہ کر سکے کہ ان کے ذہن میں اعتراض آیا کیا تھا ؟ شاید وہ جانتے بھی نہیں تھے کہ انہیں کیا اعتراض کرنا تھا.شاید وہ یہ جانتے نہیں تھے کہ پیپرمنٹ ایک دوائی کا نام ہے.جو کہ اس دور میں استعمال ہوتی تھی اور آج بھی استعمال ہوتی ہے اور اس بیماری میں حالت کشف میں یہ دوائی دکھائی گئی تھی یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بتایا گیا تھا کہ اس دوائی کا استعمال مفید ہوگا.بیچارے مفتی صاحب نہ جانے پیپرمنٹ کو کیا سمجھتے تھے.(Healing Digestive Disorders: Natural Treatments for Gastrointestinal Conditions by Andrew Gaeddert P 64) اس کے بعد انہوں نے اپنی گونگی منطق کو جاری رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام کو پڑھا:

Page 101

99 I shall give you a large party of Islam مفتی صاحب یا ان کے ساتھی تو یہ بیان کرنے سے قاصر رہے کہ آخر انہیں اس الہام پر کیا اعتراض تھا.مگر ہم اس الہام کے بارے ضرور کچھ عرض کریں گے.مفتی محمود صاحب نے خود حوالہ پڑھا کہ یہ الہام براہین احمدیہ کا ہے.یہ الہام براہین احمدیہ جلد چہارم کا ہے اور یہ جلد ۱۸۸۴ء میں شائع ہوئی تھی.کیا اس وقت آپ کے ساتھ کوئی جماعت تھی؟ ہرگز نہیں تھی.کیا اس وقت آپ کی معاونت کرنے کے لئے قادیان میں تین چار پڑھے لکھے آدمی موجود تھے؟ نہیں تھے.اس وقت آپ کے پاس اتنا سرمایہ بھی نہیں تھا کہ ایک کتاب شائع کروا سکتے.اس وقت ابھی کسی ایک شخص سے بھی بیعت نہیں لی گئی تھی.شاید اس وقت قادیان میں آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے دو تین لی آدمی ہی موجود ہوتے تھے.اور قادیان بھی ایک محکوم ملک کا ایک گمنام سا قصبہ تھا جہاں یکوں پر بیٹھ کر جانا پڑتا تھا اور تو اور آپ کا خاندان بھی آپ کا ساتھ دینے کو آمادہ نہیں تھا.ان حالات کو ذہن میں رکھ کر ذرا سوچیں کہ کون یہ پیشگوئی کر سکتا تھا کہ اسے ایک وسیع جماعت عطا کی جائے گی ،سوائے اس کے کہ اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ بشارت دی گئی ہو.یہ پیشگوئی ہندوستان اور افغانستان میں بھی پوری ہوئی.یہ پیشگوئی انڈونیشیا اور ملیشیا میں بھی پوری ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یورپ اور برطانیہ میں بھی جماعت عطا کی گئی اور امریکہ میں بھی جماعت عطا کی گئی.مشرقی افریقہ میں بھی آپ کے خدام پیدا ہوئے اور مغربی افریقہ میں بھی آپ کے خدام پیدا ہوئے.افریقہ کے جنوب میں آپ کے جانثار موجود ہیں اور آج آسٹریلیا میں بھی آپ کی جماعت موجود ہے.اس پیشگوئی کی عظمت کو دیکھ کر تو ان استہزاء کرنے والوں کی بے عقلی پر رونا آتا ہے.دنیا میں سب سے زیادہ نشانات آنحضرت ﷺ کے بابرکت وجود سے ظاہر ہوئے ہیں لیکن آپ کے بعد کی صدیوں کی تاریخ کھنگال جا ئیں.کوئی ایسی مثال ڈھونڈنے کی کوشش کریں.جب کسی نے اتنی گمنامی کی حالت میں ایسی پیشگوئی کی ہو اور اسے اتنی وسیع جماعت عطا کی گئی ہو.کوئی ایک مثال تو پیش کریں.لیکن یقین رکھیں کہ صرف لا جواب ہو کر استہزاء کرنے کو ہی کافی سمجھا جائے گا.اس کی کوئی مثال نہیں پیش کر سکیں گے.

Page 102

100 اس پہلو کے علاوہ معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ مفتی محمود صاحب کو بعض بنیادی امور کا علم نہیں تھا اس لیے انہوں نے بعض الہامات کو اعتراض کے رنگ میں پیش کر دیا مگر اس کے ساتھ یہ بیان نہیں کر سکے کہ آخر انہیں اعتراض کیا ہے؟ مثلاً انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ اعتراض پیش کیا ہے کرشن رو در گوپال تیری مہما گیتا میں لکھی ہے.“ حقیقت یہ ہے کہ تقریباً تمام مذاہب میں آخری زمانہ کے لیے ایک مصلح کی پیشگوئی موجود تھی.یہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ یہ سب وجود علیحدہ علیحدہ ظہور کرتے اور دنیا کو مختلف سمتوں میں لے جانے کے لیے کاوشیں شروع کر دیتے اور بجائے وحدت کے اختلاف پیدا کرتے.ظاہر ہے کہ یہ سب پیشگوئیاں ایک ہی وجود کے بارے میں تھیں جس کے متعلق مختلف انبیاء اور مقربین الہی بشارات دیتے رہیں.اسی طرح حضرت کرشن نے بھی پیشگوئی کی تھی جب بھی دنیا میں راستی کا زوال ہوتا ہے اور بدی پھیل جاتی ہے تو میں ظہور کرتا ہوں اور نیک لوگوں کی حفاظت کرتا ہوں اور بد کا رلوگوں کو ختم کرتا ہوں.(The Bhagavadgita, translated by Vrinda Nabar& Professor Shanta Tumkar, Wordsworth edition 1997, p 20) اور اسی طرح حضرت کرشن نے اپنے مختلف صفاتی نام بھی بیان کیے ہیں جن میں سے ایک رودر بھی ہے.(The Bhagavadgita, translated by Vrinda Nabar& Professor Shanta Tumkar, Wordsworth edition 1997, p48) مذاہب عالم کی تاریخ سے جسے کچھ بھی دلچسپی ہو وہ جانتا ہے کہ حضرت کرشن کے وجود کو ایک ایسے وجود کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو کہ گائے پالنے والا وجود ہے اور گوپال کا مطلب ہے گایوں کی پرورش کرنے والا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان اسماء کی یہ لطیف تشریح بیان فرمائی ہے.اور ہندوؤں کی کتابوں میں ایک پیشگوئی ہے اور وہ یہ کہ آخری زمانہ میں ایک اوتار آئے گا جو کرشن کی صفات پر ہوگا اور اس کا بروز ہوگا اور میرے پر ظاہر کیا گیا ہے کہ وہ میں ہوں.

Page 103

101 کرشن کی دو صفت ہیں ایک رو در یعنی درندوں اور سوروں کو قتل کرنے والا یعنی دلائل اور نشانوں سے.دوسرے گو پال یعنی گائیوں کو پالنے والا یعنی اپنے انفاس سے نیکیوں کا مددگار اور یہ دونوں صفتیں مسیح موعود کی صفتیں ہیں.(روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۳۱۷ حاشیه در حاشیه ) مگر بہت سے معترض طبع مولوی صاحبان کے طبائع اس قسم کے لطیف نکات کا ادراک نہیں رکھتے اس لیے استہزاء کا راستہ اختیار کرتے ہیں.یہاں ایک بار پھر اس بات کا ذکر ضروری ہے اور وہ یہ کہ قومی اسمبلی نے اس سپیشل کمیٹی کے لیے کام کا یہ دائرہ کار مقرر کیا تھا کہ جو شخص آنحضرت ﷺ کو آخری نبی نہیں تسلیم کرتا اس کی اسلام میں کیا حیثیت ہے.لیکن سوال و جواب کے دوران اٹارنی جنرل صاحب اور ان کی اعانت کرنے والے مولوی صاحبان اس موضوع سے گریز کرتے رہے اور غیر متعلقہ سوالات کر کے وقت ضائع کرتے رہے.ان سوالات کا جو حشر ہوا اس کا تفصیلی ذکر ہم گذشتہ کتاب میں کر چکے ہیں.اس خفت در خفت کے ازالہ کے لیے اب اس طرز کارروائی شروع کی گئی تھی کہ جماعت احمدیہ کا وفد وہاں موجود نہیں تھا کہ ان کے پیش کردہ حوالوں اور الزامات کا پول کھول سکے اور مفتی محمود صاحب نے تقریر شروع کی اور یہ دعویٰ پیش کیا کہ ملت اسلامیہ کا موقف پیش کر رہے ہیں اور یہ علی کی کہ وہ اپنے موقف کی تائید میں بیسیوں آیات پیش کر سکتے ہیں لیکن وہ یہ آیات پیش کرنے سے قاصر رہے بلکہ آج تک یہ مولوی صاحبان یہ چالیس ساٹھ آیات پیش نہیں کر سکے.اب اغلباً مفتی صاحب یہ محسوس کر رہے تھے کہ وہ ایک بے جان موقف پیش کر رہے ہیں اور ان کی یہ کوشش تھی کسی طرح اب موضوع سے مکمل طور پر فرار کا راستہ اختیار کریں اور یہ دعویٰ پیش کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں سچی ثابت نہیں ہوئیں اور اس ضمن میں وہی مثالیں پیش کیں جو کہ سوال و جواب کے دوران پیش کی گئی تھیں اور جن کا جواب بھی دیا جا چکا تھا.ہر کوئی دیکھ سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کو اس سپیشل کمیٹی کے کام سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں تھا.یہ ذکر صرف اصل موضوع سے فرار کا ایک ذریعہ تھا.

Page 104

102 سخت بیانی کا الزام اور اصل موضوع سے گریز جاری اس کے بعد مفتی محمود صاحب نے یہ کوششیں شروع کیں کہ کسی طرح ممبران اسمبلی کو یہ یقین دلایا جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریرات میں مسلمانوں کو ان کے علماء کو بہت سخت گالیاں دی ہیں اور بہت دشنام طرازی سے کام لیا ہے.اس کا مقصد بالکل واضح ہے کہ اس طرح ممبران کو اشتعال دلایا جائے اور وہ اصل موضوع پر کارروائی چلانے کا مطالبہ نہ کریں.اس کی تمہید کے طور پر مفتی صاحب نے کہا: انبیاء علیہم السلام کے بارے میں یہ بات طے شدہ ہے کہ وہ دشنام طرازی کبھی نہیں کرتے.انہوں نے کبھی گالیوں کے جواب میں بھی گالیاں نہیں دیں.اس معیار کے مطابق مرزا صاحب کی مندرجہ ذیل عبارتیں ملاحظہ فرمائیں.اس کے بعد انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں کے حوالے پیش کیے جو کہ زیادہ تر انجام آتھم کے تھے.پہلے تو اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ انبیاء علیہ السلام کے کلام میں یا آسمانی صحیفوں میں کبھی سخت الفاظ استعمال ہوتے ہیں کہ نہیں اور اگر ہوتے ہیں تو کس موقع پر اور اس میں حکمت کیا ہے.حقیقت یہ ہے کہ وحی میں اور انبیاء کے کلام میں ایسے الفاظ استعمال ہوتے آئے ہیں جن کو بعض لوگ اپنی کم فہمی کی وجہ سے سخت کلامی کا نام دے دیتے ہیں حالانکہ یہ صرف حقیقت حال کا اظہار ہوتا ہے اور روحانی طبیب ہونے کے ناطے سے انبیاء کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو ان کی خطرناک روحانی بیماریوں سے مطلع کریں ورنہ ان کا علاج ممکن نہیں ہوتا.سب سے پہلے ہم قرآن کریم کی چند آیات کریمہ کی مثال پیش کرتے ہیں کیونکہ الہامی کتب میں بھی ہمیشہ کے لیے قرآن کریم افضل ترین کلام ہے.مفتی محمود صاحب نے اس بات کو بھی ان اعتراضات کے ساتھ پیش کیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریر میں مخالفت اور بد زبانی میں تمام حدود کو پھلانگ جانے والوں کے لیے لعنت کے الفاظ استعمال کیسے ہیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ان لوگوں کے بارے میں جونشان سماوی کا انکار کریں فرماتا ہے کہ ان پر لعنت ہے، اللہ کی لعنت ہے، فرشتوں اور لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے

Page 105

103 (البقرة: ۱۲۲۱۲۰).اسی طرح قرآن کریم میں اہل کتاب اور مشرکین میں سے انکار کرنے والوں کو تمام مخلوقات اور تمام جانوروں سے بدتر یعنی شر البریہ قرار دیتا ہے (البینة: ۷).اسی طرح کفار کے معبودان باطلہ کو جہنم کا ایندھن یعنی ”حصب جہنم قرار دیا.(الانبیاء: ۹۹).مشرکین کو نجس یعنی ناپاک قراردیا (التوبة: ۲۸).اسی طرح ان کفار کو جو عقل سے کام نہیں لے رہے تھے ”شر الدواب ( یعنی سب چوپایوں سے بدتر ) قرار دیا.(الانفال:۲۳).اسی طرح شدید معاند اور مکذب کو عتل یعنی بد لگام اور زنیم، یعنی ولد الحرام کا نام دیا.(القلم ).پھر توریت پر ایمان لانے والوں اور پھر اس پر عمل نہ کرنے والوں کی حالت کو گدھے سے مشابہ قرار دیا (الجمعة:۲).اسی طرح آنحضرت ﷺ کے عظم الشان نشانات دیکھ کر پھر بھی سبق نہ سیکھنے والوں کے لیے اندھے بہرے اور گونگے کے الفاظ استعمال کیے گئے (البقرة : ۱۹).اس قسم کی تحریرات پر اعتراض کیے گئے ہیں لیکن بیچ یہ ہے کہ یہ حقیقت حال ہے نہ کہ دشنام دہی یا گالیاں.ان لوگوں کی روحانی حالت کو بیان کیا گیا ہے.اگر کوئی طبیب کسی مریض کو سرطان کا مریض قراردے یا فاتر العقل یا مجنون قرار دے تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس نے بد زبانی کی ہے بلکہ اس نے تو صرف صحیح تشخیص کی ہے جو کہ صحیح علاج کے لیے ضروری ہے.بعینہ یہ اعتراض مشرکین مکہ نے آنحضرت ﷺ کی ذات اقدس پر بھی کیا تھا.وہ اپنے لیے تو قتل و غارت اور ہر طرح کا ظلم بھی جائز سمجھتے تھے لیکن جب آنحضرت ﷺ نے امر واقعہ کا اظہار فرمایا تو انہوں نے آپ کے چا ابو طالب کے سامنے گلہ کیا کہ آنحضرت ﷺ نے ہم پر طعنہ زنی کی ہے اور ہمارے نوجوانوں کو احمق کہا ہے.(طبقات ابن سعد جلد ادارالاشاعت ۲۰۰۳ صفحه ۱۹۸) اسی طرح روایت ہے کہ جب غزوہ خندق کے دوران بنو قریظہ نے بدعہدی کی اور مشرکین سے مل گئے اور اس غزوہ کے بعد جب آنحضرت ﷺ نے ان کے قلعوں کا محاصرہ کیا تو آپ نے فرمایا: اے بندروں کے بھائیو ! تم نے دیکھا کہ خدا نے تم کو کس طرح ذلیل کیا اور کیسا عذاب تم پر نازل کیا.“ (سیرت النبی ﷺ ابن ہشام جلد۲، ناشر ادارہ اسلامیات لاہور، طباعت سوئم جولائی ۱۹۹۴ء ص ۱۶۹،۱۶۸)

Page 106

104 ہوسکتا ہے کہ کوئی کم فہم جلدی میں اسے گالی یا سخت کلامی قرار دے لیکن ہر منصف مزاج یہ دیکھ سکتا ہے کہ یہ صرف امر واقعہ کا اظہار تھا کیونکہ بنوقریظہ نے دوسرے یہودی قبائل کی بدعہدی کی نقل کی تھی اور ان کے بد انجام سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا تھا.مفتی محمود صاحب کے اس الزام کے آغاز پر یہ سرخی لگائی گئی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے علماء کے متعلق یہ سخت بیانی کی ہے.وہ بھول رہے تھے کہ اس دور فتن کے علماء کے اس حال کو پہنچنے کی پیشگوئی کس کی تھی.یہ پیشگوئی آنحضرت ﷺ کی تھی کہ ایک ایسا دور آئے گا کہ اس امت کے علماء خصلت میں جانوروں کی مماثلت پیدا کر لیں گے.چنانچہ یہ حدیث ملاحظہ ہو ” میری امت پر ایسا خوف کا وقت آئے گا کہ لوگ اپنے علماء کی طرف جائیں گے 66 اور دیکھیں گے کہ ان کی جگہ بند ر اور سو ر بیٹھے ہیں.“ (کنز العمال الجزء الثالث عشر ، ناشر دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان صفحه ۱۲۴) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں میں اس سے زیادہ مضمون بیان نہیں ہوا جو کہ اس حدیث نبوی میں بیان کیا گیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے واضح بیان فرمایا ہے کہ جہاں آپ کی تحریروں میں سخت الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہاں صرف وہ مخالف مخاطب ہیں جنہوں نے گالی گلوچ اور دشنام طرازی کی انتہا کر دی تھی اور شریف طبع علماء مخاطب نہیں ہیں جیسا کہ آپ فرماتے ہیں.”ہمارا یہ کلام شریر علماء کے متعلق ہے، نیک علماء اس سے مستنی ہیں.“ ( ترجمه از عربی.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۳۱۴) واضح رہے کہ دوسرے مذاہب کی مقدس کتب میں بھی مخالفین کی روحانی حالت ظاہر کرنے کے لیے اس قسم کے الفاظ بکثرت استعمال ہوئے ہیں.متی کی انجیل میں ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنے مخالفین کو فر مایا: ”اے سانپ کے بچو تم برے ہو کر کیونکر اچھی بات کہہ سکتے ہو.(متی باب ۱۲ آیت ۳۴) پھر انہیں مخاطب کر کے فرمایا: ”اے سانپو! اے افعی کے بچو ! تم جہنم کی سزا سے کیونکر بچو گے.“ (متی باب ۲۴ آیت ۳۴)

Page 107

105 اسی طرح حضرت داؤد کی زبور میں دشمنوں کو کتا کہا گیا ہے جیسا کہ لکھا ہے: کیونکہ کتوں نے مجھے گھیر لیا ہے.بدکاروں کی گروہ مجھے گھیرے ہوئے ہے.“ (زبور باب ۲۲ آیت ۱۶) یہ فرمودات گالیاں نہیں ہیں اور نہ ہی نا واجب سخت بیانی ہے بلکہ ان مخالفین کی روحانی حالت بیان کی گئی ہے.مولویوں کی شیریں بیانی کے کچھ نمونے سخت بیانی کا الزام لگاتے ہوئے اس کارروائی کی اشاعت میں خاص طور پر یہ سرخی لگائی گئی ہے علماء کو گالیاں تا کہ یہ تاثر دیا جائے کہ بیچارے مولوی صاحبان تو بہت صبر و تحمل کا مظاہرہ کر رہے تھے اور بانی سلسلہ احمدیہ نے ان کے خلاف سخت زبان استعمال کر کے ان کا دل دکھایا.اس کا ایک پہلو سے اصولی جواب تو پہلے ہی دیا جا چکا ہے لیکن مناسب ہوگا کہ ایک مثال دے کر یہ واضح کیا جائے کہ اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف یہ مولوی صاحبان کس قسم کی زبان استعمال کر رہے تھے.ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشہور مخالف مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب کے صرف ایک مضمون کی مثال پیش کرتے ہیں.مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب اس وقت کے مشہور مذہبی رسالے اشاعۃ السنہ کے ایڈیٹر تھے اور اس مضمون جس کا عنوان ”شکست“ ہے کا پس منظر یہ ہے کہ عیسائی مشنریوں نے ایک جھوٹا گواہ عبدالحمید کھڑا کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اقدام قتل کا جھوٹا مقدمہ بنایا.اس وقت کی برٹش گونمنٹ اس مقدمہ میں مدعی بنی.آریوں نے مفت وکیل مہیا کیا اور مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب بھی ایک جوش کے ساتھ عیسائی مشنریوں کے بنائے ہوئے مقدمہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف گواہی دینے کے لیے عدالت میں پیش ہوئے.لیکن اللہ تعالیٰ کی نصرت ظاہر ہوئی اور اس جھوٹے گواہ نے بھری عدالت میں اقرار کر لیا کہ میں نے پہلے جھوٹ بولا تھا اور مجھے عیسائی پادریوں نے جھوٹ سکھایا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دشمنوں کو سخت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا.اس خفت سے جھنجلا کر مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے یہ

Page 108

106 مضمون تحریر کیا اور اس میں کثرت سے گالیاں دینے کے علاوہ ہر گالی کو بار بار دہرا کر اپنا نامہ اعمال بھی مزید سیاہ کیا گیا ہے.پڑھنے والے یہ ذہن میں رکھیں کہ گالیوں کی یہ تکرار صرف ایک مضمون سے لے کر درج کی جارہی ہے.دجال لاثانی مرزا کا دیانی اور اس کی امت جو نئے عیسائی مرزائی کہلاتی ہیں..اور ایک اپنے نائب الدجال کی قلم سے جس کا نام لینا ہمارے لئے موجب ننگ و عار ہے...اتباع کا دیانی تو اس معنے سے عیسائی ہوئے کہ وہ جھوٹے عیسی و خونی مسیح کی امت ہے خود بدولت دجال صاحب.....اور جال صاحب بھی اس پر کچھ انعام عطا کریں گے حضرات دجال کا دیانی اگر چہ در حقیقت کوئی مذہب نہیں رکھتا اور گانٹھ کے پورے مسلمانوں کو پھنسانا اور ان سے ٹکے وصول کر کے عیش اوڑانا اس کا مقصود ہے مگر مجسٹریٹ ضلع نے اس کے مشن کو اس سے چھین لیا اور اس کی نبوت کو ختم کر دیا اور اس کے الہاموں کو مخرج پر اپنی میخ یا فولادی بالٹ کا ڈاٹ لگا کر الہا می گو....کو بند کر دیا.اب وہ بے دست و پا ہو گیا اور اس کو الہامی قبض لاحق ہے.اب الہامی...ز بند ہیں...دجال صاحب کا دیانی ہی میرے طلب کرانے کے محرک ہوئے...اس احمق نائب دجال کو یہ خیال نہ آیا...مگر ہمارے دوست وکیل صاحب نے دجال کا دیانی کو گورنمنٹ کی مخالفت سے بری کرنے کے لیے...اور فرط حمیت دجال کا دیانی نے..یہ زندیق و مرتد اپنے ازالہ کے صفحہ ۶۹ وغیرہ میں یہ کفر بکتا ہے.یہ زندیق ومرتد اپنے ازالہ کے صفحہ ۶۷۳٬۵۳۳ میں نبوت ورسالت کا مدعی ہے...اور یہ زندیق انجام آتھم صفحه...یہ دجال اسلام کو ضرر پہنچانے میں یہودیون اور نصرانیوں سے بڑھ کر ہے......بہتانات و ہذیانات اس دجال کا دیانی کے من گھڑت ڈھکو نسلے ہیں.یہ امر دجال کا دیانی کی پارٹی پر...اس سپاہی نے وہ کرسی کسی مرزائی کی شرارت اور حرامزدگی سے مجھ سے لے لی ہے اور خود دجال کا دیانی کو عدالت ملتان میں نہیں ملی...تو دم دبا کر بھاگ گیا.مرزا جی زبانی جمع خرچ اپنے پیٹ کے لالچ سے ہر وقت کرتے......

Page 109

107 رہتے ہیں....لا ہور میں اس دجال کے پیچھے تالیاں بجیں..66 (اشاعۃ السنہ نمبر ۹ جلد ۱۸صفحه ۲۵۳ تا ۲۸۳) یہ تمام بدزبانی اور گالیاں صرف ایک مضمون سے لی گئی ہیں.ان جیسے علماء اپنا یہ حق سمجھتے ہیں کہ وہ جس کو چاہیں جس طرح چاہیں سخت الفاظ سے یاد کریں اور گالیوں سے نواز میں لیکن اگر ان کے متعلق اگر کوئی مناسب سخت الفاظ بھی استعمال کیا جائے تو اس پر واویلا سو برس سے بھی زیادہ چلتا ہے کہ دیکھو کیسا ظلم ہو گیا.مفتی محمود صاحب سابقہ فتاویٰ اور عدالتی فیصلوں کا سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں.غلط بیانیوں کی فہرست میں مزید اضافہ اب مفتی محمود صاحب نے دلائل کی کمی کا ازالہ کرنے کے لیے ایک اور طریقہ اختیار کیا اور وہ طریقہ یہ تھا کہ ماضی میں جماعت احمدیہ کے خلاف پیش کیے جانے والے فتاویٰ پیش کرنے شروع کیے اور سابقہ عدالتی فیصلے پڑھنے شروع کیے جن میں ان کے مطابق جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا اور اس بیان سے قبل یہ حدیث پیش کی : لَنْ تَجْتَمِعَ أُمَّتِي عَلَى الضَّلَالَةِ یعنی میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوگی.یہ حدیث تو یقناً سچ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی امت کو اللہ تعالی گمراہی پر جمع نہیں ہونے دے گا اور ایک نہ ایک حصہ حق پر ثابت قدم رہے گا لیکن مفتی محمود صاحب ایک اور اہم حدیث بیان کرنا بھول گئے تھے اور حدیث نبوی یہ ہے.حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ میری امت کو یا یہ فرمایا محمد ﷺ کی امت کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا 66 اور اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت کے ساتھ ہوگا.جو ان سے علیحدہ ہوا وہ آگ میں ڈالا گیا.“ ترندی کتاب الفتن باب ماء جاء فی لزوم الجماعة ) ظاہر ہے کہ اس تاریخی موڑ پر یہ تمام فرقوں سے وابستہ افراد جماعت کی کسی کی تعریف کی رو سے جماعت نہیں کہلا سکتے تھے.خاص طور پر جبکہ ان کے آپس میں ایک دوسرے کے خلاف کفر کے

Page 110

108 فتوے موجود ہوں.ان میں سے صرف جماعت احمدیہ تھی جس کا امام بھی موجود تھا اور وہ جماعت کہلانے کی مستحق تھی.اس کے بعد مفتی محمود صاحب نے اپنے موقف کے حق میں مثالیں پیش کرنی شروع کیں لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ نامکمل حقائق پیش کر رہے تھے یا پھر حقائق کو مسخ کر کے پیش کر رہے تھے مگر یہ مثالیں پیش کرتے ہوئے وہ اپنے بنائے ہوئے ریت کے قلعہ کو خود ہی مسمار کر رہے تھے.اب تک وہ یہ واویلا کرتے رہے تھے کہ قادیانیوں نے غیر احمدی مسلمانوں کو کا فرقرار دیا ہے اور اب وہ یہ دلائل پیش کر رہے تھے کہ ہمیشہ غیر احمدی مولوی صاحبان احمدیوں پر کفر کے فتوے لگاتے چلے آئے تھے.اگر ایسا ہی تھا اور یقناً ایسا ہی تھا تو پھر احمدیوں سے کس بات کا شکوہ تھا؟ شکایت کا حق تو احمدیوں کو پہنچتا تھا.مثلاً انہوں نے کہا کہ ۱۹۵۳ء میں بھی میں نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا مطالبہ پیش کیا تھا.اس مرحلہ پر مفتی محمود صاحب مجبور تھے کہ نامکمل حقائق پیش کرتے.اگر اس وقت ممبران اسمبلی کے سامنے مکمل حقائق آ جاتے تو مولوی صاحبان کو لینے کے دینے پڑ جاتے.حقیقت یہ تھی کہ ۱۹۵۳ء میں مولوی صاحبان نے اتنے پاپڑ بیل کر فسادات کی آگ بھڑکائی تا کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے.آخر جب مارشل لاء لگ گیا اور تحقیقاتی عدالت نے کام شروع کیا.اس عدالت نے بجا طور پر یہ سوال اُٹھایا کہ اگر کسی فرقہ کو غیر مسلم قرار دینا ہے تو پہلے یہ تو طے ہونا چاہیے کہ مسلمان کی تعریف کیا ہے؟ مسلمان کسے کہتے ہیں؟ جج صاحبان نے یہ سوال پاکستان کے جید ترین مولوی صاحبان کے سامنے رکھا.اتنا سوال سامنے رکھنا تھا کہ سب علماء سٹپٹا کے رہ گئے.ان کی تمام تر مشقیں اسی سمت میں تھیں کہ کفر کا فتوی کس طرح دینا ہے؟ اتنی صدیوں میں انہیں یہ خیال آیا ہی نہیں کہ مسلمان کی تعریف کیا ہے.اب جو مولوی صاحبان نے یہ تعریف بیان کرنی شروع کی تو ہر ایک کی بیان کردہ تعریف دوسروں کی بیان کردہ تعریف سے مختلف تھی.کوئی دو مولوی صاحبان بھی ایک تعریف پر متفق دکھائی نہیں دیتے تھے.چنانچہ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں اس سوال کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے : اند

Page 111

109 اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے اکثر ممتاز علماء سے یہ سوال کیا ہے کہ وہ مسلم کی تعریف کریں.اس میں نکتہ یہ ہے کہ اگر مختلف فرقوں کے علماء احمدیوں کو کافر سمجھتے ہیں تو ان کے ذہن میں نہ صرف اس فیصلہ کی وجوہ بالکل روشن ہوں گی بلکہ وہ مسلم کی تعریف بھی قطعی طور پر کرسکیں گے کیونکہ اگر کوئی شخص یہ دعوی کرتا ہے کہ فلاں شخص یا جماعت دائرہ اسلام سے خارج ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ دعویٰ کرنے والے کے ذہن میں اس امر کا واضح تصور موجود ہو کہ مسلم کس کو کہتے ہیں.تحقیقات کے اس حصے کا نتیجہ بالکل اطمینان بخش نہیں نکلا اور اگر ایسے سادہ معاملے کے متعلق بھی ہمارے علماء کے دماغوں میں اس قدر ژولیدگی موجود ہے تو آسانی سے تصور کیا جاسکتا ہے کہ زیادہ پیچیدہ معاملات کے متعلق ان کے اختلافات کا کیا حال ہوگا.ذیل میں ہم مسلم کی تعریف ہر عالم کے اپنے الفاظ میں درج کرتے ہیں.اس تعریف کا مطالبہ کرنے سے پہلے ہر گواہ کو سمجھا دیا گیا تھا کہ آپ وہ قلیل سے قلیل شرائط بیان کیجیے جن کی تعمیل سے کسی شخص کو مسلم کہلانے کا حق حاصل ہو جاتا ہے اور یہ تعریف اس اصول پر مبنی ہونی چاہئے جس کے مطابق گرایمر میں کسی اصطلاح کی تعریف کی جاتی ہے.“ ( رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء باراول اردو صفحه ۲۳۲٬۲۳۱) پھر اس رپورٹ میں کچھ علماء کی بیان کردہ وہ تعریفیں درج کی گئیں اور یہ تعریفیں ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھیں.ان کی مثالیں درج کی جاتی ہیں: صدر جمیعت العلماء پاکستان ابوالحسنات محمد احمد قادری صاحب نے مسلم کی یہ تعریف بیان کی اول.وہ تو حید الہی پر ایمان رکھتا ہو.صلى الله دوم.وہ پیغمبر اسلام ﷺ اور تمام انبیاء سابقین کو خدا کا سچا نبی مانتا ہو.سوم.اس کا ایمان ہو کہ پیغمبر اسلام علی انبیاء میں آخری نبی ہیں.( خاتم النبیین ) الله چہارم.اس کا ایمان ہو کہ قرآن کو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ الہام پیغمبر اسلام ﷺ پر نازل کیا.پنجم.وہ پیغمبر اسلام ﷺ کی ہدایت کے واجب الا طاعت ہونے پر ایمان رکھتا ہو.ششم.وہ قیامت پر ایمان رکھتا ہو.“ جب اسی جماعت کے ایک اور عالم عبد الحامد بدایونی صاحب سے یہ سوال کیا تو ان کی بیان کردہ

Page 112

110 یہ تعریف مندرجہ بالا تعریف سے بالکل مختلف تھی.وہ تعریف یہ تھی جو شخص ضروریات دین پر ایمان رکھتا ہو وہ مومن ہے اور ہر مومن مسلمان کہلانے کا حق دار ہے.“ جب بدایونی صاحب سے سوال ہوا کہ ضروریات دین کون کون سی ہیں؟ تو انہوں نے کہا: ” جو شخص پنج ارکان اسلام پر اور ہمارے رسول پاک ﷺ پر ایمان رکھتا ہے.وہ ضروریات دین کو پورا کرتا ہے.“ بدایونی صاحب ایک طویل عرصہ اپنے زعم میں جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دینے کی مہم کے ایک اہم لیڈر رہے تھے.اور انہوں نے کبھی اس بات پر غور ہی نہیں کیا تھا کہ اگر کوئی شخص ان کے خیال میں آنحضرت ﷺ کو آخری نبی نہیں مانتا تو خود ان کی تعریف کی روشنی میں اسے غیر مسلم قرار نہیں دیا جا سکتا تھا.جب یہ سوال جماعت اسلامی کے قائد مودودی صاحب سے کیا گیا تو ان کی طرف سے مسلم کی یہ تعریف دی گئی وہ شخص مسلم ہے جو (۱) تو حید پر (۲) تمام انبیاء پر (۳) تمام الہامی کتابوں پر (۴) ملائکہ پر (۵) یوم الآخرۃ پر ایمان رکھتا ہو جب ان سے دریافت کیا گیا کہ کیا محض ان چیزوں کے زبانی اقرار سے کسی شخص کو مسلم مملکت میں مسلمان کہلانے کا حق حاصل ہو جائے گا تو ان کا جواب تھا ” جی ہاں“.یہ بات قابل غور ہے کہ خود جماعت اسلامی اور ان کے بانی کے نزدیک مسلمان کہلانے کے لیے آنحضرت ﷺ کو آخری نبی ماننا ضروری نہیں تھا اور اگر کوئی شخص محض ان پانچ شرائط کا زبانی اقرار بھی کرے تو ایک مسلم مملکت میں اسے مسلمان کہلانے کا حق حاصل ہو جاتا ہے.اس طرح انہوں نے ۱۹۵۳ء میں جو تحریک چلائی اور ۱۹۷۴ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف جو قرار داد پیش کی وہ خود ان کو اصولوں کے تحت غاط تھی.اسی طرح جب صدر جمیعت العلماء اسلام مغربی پاکستان احمد علی صاحب سے یہ سوال کیا گیا تو

Page 113

111 انہوں نے مسلم کی یہ تعریف بیان کی وہ شخص مسلم ہے جو (۱) قرآن پر ایمان رکھتا ہو (۲) رسول اللہ ﷺ کے ارشادات پر ایمان رکھتا ہو.ہر شخص جوان دوشرطوں کو پورا کرتا ہے مسلم کہلانے کا حق دار ہے اور اس کے لئے اس سے زیادہ عقیدے اور عمل کی ضرورت نہیں.“ رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء بار اول اردوصفحه ۲۳۱ تا ۲۳۶) اس وقت مختلف علماء نے ” مسلمان کی جو تعریفیں پیش کیں ان کی چند مثالیں درج کی گئی ہیں.باقی تفصیلات تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں.اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں لکھا ہے.ان متعدد تعریفوں کی جو علماء نے پیش کی ہیں.پیش نظر رکھ کر کیا ہماری طرف سے کسی تبصرہ کی ضرورت ہے؟ بجز اس کے کہ دین کے کوئی دو عالم بھی اس بنیادی امر پر متفق نہیں ہیں.اگر ہم اپنی طرف سے مسلم کی کوئی تعریف کر دیں جیسے ہر عالم دین نے کی ہے اور وہ تعریف ان تعریفوں سے مختلف ہو جو دوسروں نے پیش کی ہیں تو ہم کو متفقہ طور پر دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جائے گا اور اگر ہم علماء میں سے کسی ایک کی تعریف کو اختیار کر لیں تو ہم اس عالم کے نزدیک تو مسلمان رہیں گے لیکن دوسرے تمام علماء کی تعریف کی رو سے کافر ہو جائیں گے.“ ( رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء باراول اردوصفحه ۲۳۲ تا ۲۳۶) اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے مخالفین سلسلہ میں سے ایک نے یہ عذر پیش کیا اگر وہ علماء دین جن سے یہ سوال کیا گیا.عدالت کے سامنے مسلم کی جامع و مانع تعریف پیش کرنے سے قاصر رہ گئے تھے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں اچانک اس سوال کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں معلوم نہ ہو سکا کہ عدالت میں ان سے مسلم کی جامع و مانع تعریف حاصل کرنا چاہتی ہے جسے اسلامی مملکت کے دستور اساسی میں شامل کیا جا سکے.“ ( محاسبه یعنی عدالت تحقیقات فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء کی رپورٹ پر ایک جامع اور بلیغ تبصرہ صفحہ ۳۸)

Page 114

112 یہ ایک دلچسپ تبصرہ ہے.کئی سالوں سے یہ احباب مہم چلا رہے تھے کہ فلاں فلاں گروہ کو غیر مسلم قرار دینا چاہیے.جماعت احمدیہ کے خلاف تو مولوی صاحبان کے بہت سے گروہ مل کر یہ ہم چلا رہے تھے اور اب تک انہیں یہ بھی خیال نہیں آیا تھا کہ مسلمان کی جامع و مانع تعریف ہی طے کر لیں.اس کے بغیر ہی وہ طویل عرصہ سے مسلمانوں کو غیر مسلم قرار دینے کے لیے کمر بستہ تھے.جہاں تک قانونی اغراض کے لیے مثلاً مردم شماری کے لیے کسی کو بھی مسلمان تسلیم کرنے کا تعلق ہے تو رسول اللہ ﷺ کا یہ اسوہ ہماری راہنمائی کرتا ہے.صحیح بخاری کی کتاب الجهاد والسیر کے باب صلى الله كتابة الامام الناس میں حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تمام مسلمانوں کے نام لکھے جائیں اور اس غرض کے لئے یہ معیار مقرر فرمایا: مــن تـلـفـظ الاسلام من الناس یعنی جو اسلام کا اقرار کرتا ہے اس کا نام مسلمانوں کی فہرست میں داخل کر کے آنحضرت علی کی خدمت میں پیش کئے جائیں.۱۹۵۳ء میں تو یہ سب کچھ ہوا.پھر جب ۱۹۸۵ء میں آئین میں مسلمان کی تعریف پیش کی گئی تو وہ ان تعریفوں سے بالکل مختلف تھی جو کہ مختلف علماء کی طرف سے ۱۹۵۳ء میں پیش کی گئی تھیں.آئین کے آرٹیکل ۲۶۰ میں شامل یہ تعریف درج ذیل ہے.means a person who believes in the unity and Muslim oneness of Almighty Allah, in the absolute and unqualified finality of the Prophethood of Muhammad (peace be upon him), the last of the Prophets and does not believe in, or recognize as a prophet or religious reformer, any person who claimed or claims to be a prophet, in any sense of the word or of any description whatsoever, after Muhammad (peace be upon him); اور اس تعریف پر مہر تصدیق ثبت کرنے والوں میں وہ ممبران بھی تھے جو کہ ان سیاسی

Page 115

113 جماعتوں سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے مسلم کی مذکورہ بالا تعریفیں عدالت میں پیش کی تھیں.گویا ۱۹۵۳ء میں مسلمان کی تعریف اور تھی اور ۱۹۸۵ء میں اور ہوگئی.اس کے بعد مفتی صاحب نے ۱۹۷۴ء میں رابطہ عالم اسلامی کی ایک سب کمیٹی میں جماعت احمدیہ کے خلاف منظور کی جانے والی قرارداد کا حوالہ دیا.ہم اس قرارداد کا گزشتہ کتاب میں تفصیلی تجزیہ پیش کر چکے ہیں اس لیے اس مرحلہ پر ان حقائق کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے.اس کے بعد مفتی محمود صاحب نے ان عدالتی فیصلوں کا ذکر شروع کیا جن میں بقول ان کے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا.اگر چہ مذہبی دنیا میں یہ حقیقت کوئی اہمیت نہیں رکھتی کہ کتنی دنیاوی عدالتوں نے ایک جماعت کے خلاف فیصلے دیئے یا کتنی دنیاوی حکومتوں اور اسمبلیوں نے ان کے بارے میں کیا فتوے دیئے؟ تمام انبیاء اور ان کے پیروکاروں کو ابتدا میں اور صدیوں بعد بھی عوام اور دنیاوی اداروں نے گردن زدنی اور گمراہ ہی قرار دیا تھا لیکن اس مرحلہ پر بھی مفتی محمود صاحب کو جھوٹ کی بیساکھیوں کے سہارے کی ضرورت پڑ رہی تھی.وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ احمدیوں کو برصغیر سے باہر بھی ہمیشہ غیر مسلم قرار دیا گیا تھا.غالباً وہ اس طرح اسمبلی کے اس عجیب فیصلہ کا جواز پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے کیونکہ تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ تھا کہ ایک سیاسی اسمبلی یہ فیصلہ کرنے بیٹھی تھی کہ ایک گروہ کے مذہب کا کیا نام ہونا چاہیے.انہوں نے بڑے فخر سے اعلان کیا کہ وہ ماریشس کی سپریم کورٹ کی تاریخ کے سب سے بڑے مقدمہ کا حوالہ دے رہے ہیں.اس طرح ڈرامائی انداز میں انہوں نے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کی کوشش کی.انہوں نے کہا پھر انہوں نے جماعت احمدیہ پر مقدمہ کرنے والوں کا موقف ان الفاظ میں بیان کیا: مسجد روز ہل کے مقدمہ کو تاریخ ماریشس کا سب سے بڑا مقدمہ کہا جاتا ہے کیوں کہ پورے دو سال تک سپریم کورٹ نے بیانات لئے ، شہادتیں سنیں اور پہلی مرتبہ یہ فیصلہ دیا کہ دو مسلمان الگ امت ہیں اور قادیانی الگ

Page 116

114 پھر انہوں نے جماعت احمدیہ پر مقدمہ کرنے والوں کا موقف ان الفاظ میں بیان کیا : روزبل کی مسجد جہاں مسلمانوں کے حنفی (سنی ) فرقہ کے لوگ نماز پڑھتے تھے یہ مسجد انہوں نے تعمیر کروائی تھی اور مسلسل قابض چلے آرہے تھے.اس پر قادیانیوں نے قبضہ کر لیا ہے جن کا تعلق امت اسلامیہ سے نہیں ہے.قادیانی ہم مسلمانوں کو مسلمان نہیں سمجھتے ، ہمارے پیچھے ان کی نماز نہیں ہوتی.ایسی صورت میں ان کو مسجد سے باہر نکالا جائے.( کارروائی صفحه ۱۹۸۲ ۱۹۸۳) مفتی محمود صاحب اور ان کے ساتھیوں کے موقف کا بجز اس بات ہی سے ظاہر ہے کہ وہ اب صریحاً خلاف واقعہ باتیں ممبران اسمبلی کے سامنے پیش کر رہے تھے.اصل حقائق یہ ہیں : (1) ماریشس کے احمدیوں پر مقدمہ کرنے والوں نے مقدمہ اس بنیاد پر کیا ہی نہیں تھا کہ احمدی غیر مسلم ہیں، اس لیے انہیں روز بل کی مسجد میں نماز پڑھنے سے روکا جائے بلکہ مدعاعلیہ نے جو حنفی عقیدہ کے تھے اپنی درخواست میں اقرار کیا تھا کہ نہ صرف احمدی مسلمان ہیں بلکہ یہ بھی لکھا تھا کہ احمدی سنیوں کا ایک فرقہ ہے.ان کی درخواست کا مندرجہ ذیل حصہ اس بات کو واضح کر دیتا ہے.وہ عدالت کو اپنی درخواست میں لکھتے ہیں.Defendants are the followers of a new sect of Sunnis which was founded by Mirza Ghulam Ahmad of Kadian a village in the Punjab about thirty five or 36 years ago..(The Mauritius Reports page 17, 1920 Nov.19 Mamode Issackjee& Ors.V.A.I.Atcia & Ors, Rose Hill Mosque Case) یعنی مدعا علیہ سنیوں کے ایک نئے فرقہ کے پیروکار ہیں جس کو قادیان مرزا غلام احمد نے ۳۵ یا ۳۶ سال قبل شروع کیا تھا.مخالفین نے تو اپنی درخواست میں اس بات کا اقرار کیا تھا کہ احمدی مسلمانوں کا ایک فرقہ ہیں.تفصیلات سے قطع نظر ان کا موقف تو صرف یہ تھا کہ یہ مسجد ۱۸۶۳ء میں بنی تھی اور حنفی عقائد یا ان سے

Page 117

115 ملتے جلتے عقائد کے مسلمانوں کے لیے بنائی گئی تھی اور اس وقت احمدی فرقہ کا وجود ہی نہیں تھا جیسا کہ درخواست میں لکھا گیا تھا: The Mosque has been dedicated to the Hanafi sect and to such other sects of the Mahomoden religion I which had the same tenets but not to such sects as Ahmadis which was not even in existence at that time.ترجمہ یہ مسجد حفی فرقہ کے لوگوں اور ان مسلمان فرقوں کے لوگوں کے لیے بنائی گئی تھی جو کہ ان جیسے عقائد رکھتے ہیں لیکن یہ جماعت احمد یہ جیسے فرقہ کے لوگوں کے لیے تعمیر نہیں کی گئی تھی کیونکہ اس فرقہ کا مسجد کی تعمیر کے وقت کوئی وجود ہی نہیں تھا.اس بنیاد پر مدعا علیہ کا موقف تھا کہ اس مسجد میں احمدیوں کو اپنے امام کے پیچھے علیحدہ جماعت کرنے سے روکا جائے.صاف ظاہر ہے کہ مفتی محمود صاحب نے مدعا علیہ کا موقف بیان کرتے ہوئے غلط بیانی کی تھی.نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے بھی غلط بیانی سے کام لیا تھا.عدالت کے فیصلے کا احمدیوں کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں تھا.عدالت کا فیصلہ یہ تھا کہ یہ حنفیوں کی مسجد ہے اور شروع ہی سے حنفی مسلک کے لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز ادا کرتے رہے ہیں.اگر چہ اس مسجد کے امام اور اس کے متولی بورڈ کے صدراحمدی ہو گئے تھے لیکن پھر بھی یہ مسجد حنفی فرقہ ہی کی ہے اور اس لیے احمدی اپنے امام کے پیچھے یہاں پر نماز نہیں ادا کر سکتے.عدالتی فیصلہ کا یہ حصہ اس بات کو واضح کر دیتا ہے.عدالتی فیصلہ میں لکھا ہے: The followers of Ahmad are admittedly Mahommadens within the short and decisive creed which sums up the faith of Islam احمد کے پیروکار اسلامی عقیدہ کی مختصر اور فیصلہ کن تعریف کی رو سے مسلمہ طور پر مسلمان ہیں.مندرجہ بالا حوالے سے ثابت ہو جاتا ہے کہ عدالتی فیصلہ کے بارے میں بھی مفتی محمود صاحب

Page 118

116 نے جو دعویٰ پیش کیا تھا وہ جھوٹ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا.یہ عدالتی فیصلہ Decisions 1921 of the Supreme Court of Mauritius میں بھی شائع ہو چکا ہے جو کہ Google Books اور Internet Archives پر بھی موجود ہے.ہر کوئی دیکھ کر اپنی تسلی کرسکتا ہے.غالباً سوال و جواب کے دوران جس ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا اس کے ازالہ کے لیے مفتی محمود صاحب نے اب یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ یہ ثابت کریں کہ پاکستان کی عدالتیں تو پہلے ہی احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے چکی ہیں.لیکن اس کے لیے بیچارے مؤثر دلائل کہاں سے لاتے ؟ اس کے لیے انہوں نے ایک بار پھر اخفائے حق کا راستہ اختیار کیا.انہوں نے ریاست بہاولپور کی عدالت کے ایک فیصلہ، راولپنڈی کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ حج کے فیصلہ اور جیمس آباد کے ایک فیملی کورٹ کے فیصلہ جات کے حوالے پیش کیے لیکن حقیقت یہ تھی کہ یہ فیصلہ جات پاکستان کی اسمبلی میں کوئی قانونی حیثیت نہیں رکھتے تھے.اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ سیشن عدالت کے فیصلوں کی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی.دوسری وجہ یہ ہے کہ خود پاکستان کی ایک ہائی کورٹ ان فیصلوں پر خط تنسیخ پھیر چکی تھی.اس کا پس منظر یہ ہے کہ رسالہ چٹان کے ایڈیٹر اور جماعت احمدیہ کے مشہور مخالف شورش کا شمیری صاحب نے ۱۹۶۸ء میں ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ دائر کیا.اس مقدمہ کی وجہ یہ تھی کہ حکومت مغربی پاکستان نے انہیں نوٹس بھجوایا تھا کہ ان کا رسالہ ایسا مواد شائع کر رہا ہے جس سے مسلمانوں کے فرقوں میں باہمی منافرت پھیل رہی ہے اور اس رسالہ کا ڈیکلریشن منسوخ کر دیا گیا.اس وقت یہ رسالہ حسب معمول احمدیوں کے خلاف پراپیگینڈا کرنے میں مشغول تھا.اس مقدمہ میں مغربی پاکستان کی حکومت مدعا علیہ تھی.مدعی نے اپنی درخواست میں دیگر امور کے علاوہ یہ موقف بھی پیش کیا کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں اور اس کو ثابت کرنے کے لیے انہوں نے یہ فیصلے ہائی کورٹ کے سامنے رکھے.ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: We are obliged to consider this aspect of the matter, because the petitioners learned counsel in the course of

Page 119

117 his argument referred to certain parts of Munirs Enquiry Report..Two judgements one of a subordinate Court in the former Punjab and the other from a District Court in what was once Bahwalpur State wherein it was held that Ahmadis ar not a sect of Islam were also placed within record.We wonder how these instances are relevant.The judgements are of subordinate courts and they are not releveant even under section 13 of the Evidence act 1872.As to the instances of Ahmadis being dubbed as Murtads and done to death, all we need to say is that these are sad insatnces of religious persecution against which human conscience must revolt, if any decency is left in human affairs.How far these instances are opposed to the true Islamic percepts and injuctions would be manifest from Chapter 2:256 of The Holy Quran which guarentees freedom of conscience in clear mandatory terms which are translated Let there be no compulsion in religion thus: - (All Pakistan Legal Decisions Vol.XXI p 308) ' ہمارے لئے اس پہلو کا جائزہ لینا ضروری ہے کیونکہ درخواست گزار کے وکیل نے جسٹس منیر کی تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ کا حوالہ دیا ہے.دو عدالتی فیصلے پیش کیے گئے ہیں جن میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے.ایک فیصلہ سابقہ پنجاب کی ماتحت عدالت کا فیصلہ ہے اور دوسرا بہاولپور کی

Page 120

118 سابق ریاست کا فیصلہ ہے.ہمارے لئے یہ بات قابل تعجب ہے کیونکہ یہ غیر متعلقہ ہیں کیونکہ یہ ماتحت عدالتوں کے فیصلے ہیں اور قانون شہادت ۱۸۷۲ء کے سیکشن ۱۳ کے مطابق متعلقہ نہیں ہیں.جہاں تک اس دعوے کا تعلق ہے کہ احمدی مرتد ہیں اور انہیں موت کی گھاٹ اتار دینا چاہیے.اس کے متعلق ہمیں صرف یہ کہنا ہے کہ یہ مذہبی تشدد کی افسوسناک مثالیں ہیں.اگر انسانی سوچ میں کچھ بھی شرافت باقی ہے تو اس کے خلاف انسانی ضمیر کو بغاوت کرنی چاہیے.یہ سوچ قرآنی تعلیمات کے کس قدر خلاف ہے اس کا اندازہ قرآن کریم کی دوسری سورۃ کی آیت ۲۵۶ سے بخوبی ہو جاتا ہے.قرآن کریم واضح الفاظ میں آزادی ضمیر کی ضمانت دیتا ہے.اس آیت کا ترجمہ ہے: دین کے معاملہ میں کوئی جبر نہیں.“ مندرجہ بالا حوالہ سے صاف ظاہر ہے کہ خود پاکستان کی ہائی کورٹ نے احمدیوں کو مرتد قرار دینے کو قرآنی تعلیمات کے خلاف قرار دیا تھا اور آغا شورش کاشمیری صاحب کی طرف سے جو فیصلے جن میں بہاولپور کی عدالت کا مذکورہ فیصلہ بھی شامل تھا، کو غیر متعلقہ قرار دیا تھا.پھر عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا The whole burden of argument of petitioners learned counsel was that Ahmadis are not a sect of Islam and the petitioners right to say so is guaranteed by the constitution.But learned counsel overlooks the fact that Ahmadis as citizens of Pakistan are also guaranteed by the Constitution the same freedom to profess and proclaim that they are within the fold of Islam.The question at the root is how far the petitioners and others can in law prevent the Ahmadis from likeminded professing that notwithstanding any doctrinal differences

Page 121

119 with the other sects of Islam they are as good followers of Islam as anybody else who calls himself a Muslim.(All Pakistan Legal Decisions Vol.XXI p 307) ترجمه: درخواست گزار کے فاضل وکیل کے تمام دلائل کا لب لباب یہ تھا کہ احمدی مسلمانوں کا ایک فرقہ نہیں ہیں اور آئین انہیں اس بات کا اعلان کرنے کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے مگر فاضل وکیل یہ حقیقت نظر انداز کر رہے ہیں کہ احمدی پاکستان کے شہری بھی ہیں اور آئین انہیں بھی اس بات کا اقرار اور اعلان کرنے کی آزادی دیتا ہے کہ وہ مسلمان ہیں.بنیادی سوال یہ ہے کہ درخواست گزار اور ان کا ہم خیال گروہ اس بات کا کس حد تک مجاز ہوسکتا ہے کہ وہ دور سے فرقوں سے اختلاف ہوتے ہوئے احمدیوں کو یہ اعلان کرنے سے روک سکیں.“ 66 جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں کہ مفتی محمود صاحب یہ دلیل پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ عدالتوں نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا ہے.اور یہ دلیل اتنی کمزور تھی کہ وہ سیشن عدالت سے اوپر کسی پاکستانی عدالت کا فیصلہ پیش نہیں کر سکے جبکہ حقیقت یہ تھی کہ ہائی کورٹ نے تو یہ فیصلہ دیا تھا کہ احمدیوں کو ہر طرح اپنے آپ کو مسلمان کہنے کا پورا حق حاصل ہے اور فیصلے میں یہ لکھا تھا کہ اس ضمن میں ماتحت عدالت کے فیصلے جو پیش کیے گئے تھے وہ غیر متعلقہ ہیں اور اس ضمن میں دلیل کے طور پر پیش نہیں کیے جا سکتے.مفتی محمود صاحب نے غیر ملکی عدالت کا فیصلہ پیش کرنے کی کوشش کی تو انہیں جھوٹ بولنا پڑا.علامہ اقبال کی تحریروں کے حوالے اس کے بعد مفتی محمود صاحب نے اپنے موقف کی تائید میں علامہ اقبال کی تحریروں کے حوالے پیش کیے.انہوں نے کہا: (علامہ اقبال کے پیش کیے جانے والے حوالوں کے تجزیہ سے قبل اس بات کا جائزہ ضروری ہے کہ مختلف مواقع پر علامہ اقبال نے جماعت احمدیہ کے بارے میں کن آراء کا اظہار کیا تھا ؟.مصنف)

Page 122

120 ۱۹۳۵ء سے پہلے کا دور اس حوالے سے علامہ اقبال کی زندگی کو دو ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے.ایک دور تو ۱۹۳۵ء تک کا ہے.اس دور کے دوران علامہ اقبال کی طرف سے جماعت احمدیہ کے متعلق کن خیالات کا اظہار کیا گیا اس کا اندازہ ان مثالوں سے لگایا جا سکتا ہے.علامہ اقبال کے صاحبزادے جاویدا قبال صاحب نے اقبال کی سوانح حیات زندہ رود میں یہ مثالیں تحریر کی ہیں.جاوید ا قبال نے ان میں سے کچھ مثالیں ان کے چچازاد بھائی شیخ اعجاز احمد صاحب کے مہیا کیے نوٹ سے بھی لی ہیں جن کی تردید جاوید ا قبال صاحب نے نہیں کی بلکہ ان کی توجیہہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے.1.1900ء میں علامہ اقبال نے بانی سلسلہ احمدیہ کے متعلق فرمایا کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں میں موجودہ دور کے غالباً سب سے عظیم دینی مفکر ہیں.2.1910ء میں انہوں نے علیگڑھ کالج میں ایک لیکچر دیا اور اس میں فرمایا کہ اس دور میں فرقہ قادیانی اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ ہے.3.۱۹۳۶ء میں تحریر کیا کہ اشاعت اسلام م کا جوش جو جماعت احمدیہ کے افراد میں پایا جاتا ہے قابل قدر ہے.زنده رود مصنفہ جاوید اقبال صاحب ناشر سنگ میل پبلیکیشنز لاہور ۲۰۰۸ صفحه ۲۰۸،۶۳۸) 4 ۱۹۱۳ء میں علامہ اقبال کو شبہ ہوا کہ ان کی منکوحہ سردار بیگم صاحبہ سے ان کا نکاح قائم ہے کہ نہیں تو انہوں نے اپنے دوست مرزا جلال الدین صاحب کو فتوی دریافت کرنے کے لیے قادیان بھیجوایا جنہوں نے اس بابت بانی سلسلہ احمدیہ کے پہلے خلیفہ حضرت مولانا نورالدین صاحب سے اس بابت فتوی دریافت کیا اور علامہ اقبال نے اس فتویٰ پر عمل بھی کیا.5.علامہ اقبال نے پہلی شادی سے اپنے بڑے بیٹے آفتاب اقبال صاحب کو پڑھنے کے لیے قادیان کے سکول میں بھجوایا.( زنده رود مصنفہ جاوید اقبال صاحب ناشر سنگ میل پبلیکیشنز لاہور ۲۰۰۸ صفحہ ۶۳۱،۶۳۰) ان جیسی باتوں کو درج کر کے مکرم ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب نے یہ جواز پیش کیا ہے کہ اقبال کو

Page 123

121 ۱۹۳۵ء سے قبل اس جماعت سے اچھے نتائج کی امید تھی لیکن ایک زندہ شخص ہونے کی حیثیت سے انہیں اپنی رائے بدلنے کا حق تھا اور وہ ہمیشہ سے جماعت احمدیہ سے عقائد کا اختلاف رکھتے تھے.ہمیں ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کی اس بات سے اتفاق ہے کہ ہر شخص کو اپنی رائے بدلنے کا حق حاصل ہے لیکن اس رائے کی تبدیلی کی کوئی بھی وجہ ہو اس کی وجہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے دعاوی اور جماعت احمدیہ کے بنیادی عقائد نہیں ہو سکتے کیونکہ ۱۹۰۸ء میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی وفات ہو چکی تھی اور آپ کے دعاوی مکمل طور پر دنیا کے سامنے آچکے تھے.اس دور میں یعنی ۱۹۳۵ء تک علامہ اقبال کی جانب سے جماعت احمدیہ کے بارے میں ان خیالات کا اظہار ہوتا رہا.وہ جماعت احمدیہ کے خیالات سے کس قدر متفق تھے اور کس قدر اختلاف رکھتے تھے یا شدید اختلاف رکھتے تھے اس بارے میں ان کے بیٹے مکرم جاوید اقبال صاحب اور بھتیجے شیخ اعجاز احمد صاحب نے مختلف نظریات کا اظہار کیا ہے لیکن اس بحث سے قطع نظر مندرجہ بالا حقائق سے مکرم ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب نے بھی انکار نہیں کیا اور انہیں اپنی تصنیف میں درج فرمایا ہے.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام اس پس منظر میں کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لئے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں آیا.اس تاریخی واقعات پر بہت سی مختلف آراء سامنے آتی رہی ہیں اس لیے ہم اس مصنف کی کتاب کا حوالہ دیں گے جس کا جماعت احمدیہ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کتاب میں جگہ جگہ جماعت احمدیہ کی مخالفت میں بہت کچھ لکھا گیا ہے تا کہ کوئی اشتباہ نہ رہے کہ ان بنیادی حقائق کو جماعت احمدیہ کے شدید مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں.اس کتاب کا نام Iqbal and the 1938 - 1926 politics of Punjab ہے اور اس کے مصنف خرم محمود صاحب ہیں.مصنف نے تحقیق کر کے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ جب ۲۶/ جولائی ۱۹۳۱ء کو شملہ میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا پہلا اجلاس ہوا تو اس میں دوسرے احباب کے علاوہ علامہ اقبال اور امام جماعت احمد یہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب بھی شامل تھے.اس میں حضرت امام جماعت

Page 124

122 احمدیہ کو صدر اور ایک اور احمدی عبدالرحیم در دصاحب کو سیکر یٹری منتخب کیا گیا.خرم محمود صاحب لکھتے ہیں کہ علامہ اقبال کی تجویز پر ہی حضرت امام جماعت احمدیہ کو اس کمیٹی کا صدر بنایا گیا تھا.(صفحہ ۹۱) پھر اس کتاب میں لکھا ہے کہ جب اس کمیٹی نے کام شروع کیا اور ہندوستان بھر میں کشمیر کے ڈوگرہ راجہ کے خلاف جلسے شروع ہوئے تو ہندو پریس بالخصوص پرتاپ اور ملاپ نے اسے ہندوراج کے لیے خطرہ قرار دیا.(صفحہ ۹۱) اور مجلس احرار جو کہ جماعت احمدیہ کے خلاف سرگرم تھی اس نے کانگرس کی لیڈرشپ سے رابطہ کیا.اس پر مولانا ابوالکلام آزاد جو کہ نمایاں کانگرسی لیڈر تھے نے انہیں ہدایت دی کہ وہ کشمیر میں کام شروع کریں.(صفحہ ۹۴ ).جب مجلس احرار کے کرتا دھرتا کشمیر پہنچے تو انہیں ڈوگرہ راجہ نے اپنے سرکاری مہمان کی حیثیت سے ٹھرایا اور کشمیر میں افواہیں گردش کرنے لگیں کہ انہوں راجہ کے خلاف مہم کو ناکام بنانے کے لیے راجہ سے رشوت لی ہے.(صفحہ ۹۵ ۹۶ ).اس مہم کے ساتھ ہی احرار نے علامہ اقبال سے رابطہ کیا کہ وہ احمدیوں کی قیادت میں کام کر رہے ہیں جس کا مسلمانوں پر برا اثر پڑ رہا ہے.اور انجام یہ ہوا کہ مئی ۱۹۳۳ء میں حضرت امام جماعت احمدیہ نے اس کمیٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا اور علامہ اقبال کو اس کا صدر منتخب کیا گیا اور ۴۳ دن بعد علامہ اقبال نے بھی اس کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا اور کمیٹی کو ختم کر دیا گیا.(صفحہ ۱۰۸،۱۰۴) علامہ اقبال نے اپنے استعفیٰ کے خط میں احمدی ممبران کمیٹی پر ان سے عدم تعاون کا الزام لگایا اور یہ کہا کہ وہ ان کی بجائے اپنی قیادت کی زیادہ پیروی کر رہے ہیں لیکن یہاں ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ احمدی وکلاء کی تعداد تو باقی وکلاء کے مقابلہ میں آٹے میں نمک سے زیادہ نہیں تھی.اگر احمدی و کلاء عدم تعاون کا مظاہرہ کر رہے تھے تو صدر کمیٹی کو مکمل اختیار تھا کہ وہ ان کو برطرف کر دیتے اور ہندوستان بھر میں مسلمان وکلاء کی تو کسی طرح بھی کوئی کمی نہیں تھی ان سے استفادہ کیا جاسکتا تھا.صرف جذ بہ خدمت ہی کافی تھا.اگر جماعت احمد یہ غداروں کی جماعت تھی اور غیر مسلم جماعت تھی اور اسلام اور ملک کے لیے خطرہ تھی تو اس اہم موقع پر جب کہ لاکھوں مسلمانوں کے حقوق کا سوال تھا تو امام جماعت احمدیہ کو

Page 125

123 اصرار کر کے اس اہم کمیٹی کا صدر کیوں مقرر کیا گیا؟ ان کی قیادت میں کام کیوں شروع کیا گیا.احمدی وکلاء کی خدمات سے استفادہ کیوں کیا گیا ؟ اگر ایسا تھا تو ان کو تو روز اول سے ہی اس کمیٹی میں شامل کرنے سے انکار کر دینا چاہیے تھا.۱۹۳۵ء میں رونما ہونے والے واقعات ۱۹۳۵ء میں علامہ اقبال و نے حکمران انگریز قوم کو اور پنجاب کی برٹش حکومت بالخصوص گورنرسر ہر برٹ ایمرسن کو مخاطب کر کے جماعت احمدیہ کے خلاف انگریزی میں ایک مضمون لکھا.اس مضمون میں جماعت احمدیہ کو مسلمانوں اور ملک کے لیے خطرہ قرار دیا گیا تھا.علامہ اقبال نے اس کے علاوہ بھی جماعت احمدیہ کی مخالفت میں چند مضامین لکھے اور ایک اخبار Statesman میں برٹش حکومت کو توجہ دلائی کہ وہ احمدیوں کو مسلمانوں سے علیحدہ کر دے.تفصیلات اور ان مضامین اور خطوط کے متن کے لئے ملاحظہ کیجئے Traitors of Islam, An analysis of the Qadiani religion, by Allama Iqbal, published by Agha Shorish Kashmiri 1973) مولوی حضرات کے اس محضر نامہ کو جسے مفتی محمود صاحب نے تقریر کی صورت میں ممبران اسمبلی کے سامنے پڑھا تھا، جب شائع کیا گیا تھا علامہ اقبال کی اس تحریر کو ” مصور پاکستان کی فریاد کی سرخی کے تحت شائع کیا گیا تھا.یہاں یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ یہ فریاد کس کے روبرو کی گئی تھی اور کس کے سامنے یہ التجا کی جا رہی تھی کہ احمدی مسلمانوں کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیا جائے.خود علامہ اقبال کی تحریر میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ فریا د انگریزوں کے سامنے یعنی حکمران قوم کے سامنے کی جا رہی تھی کہ اس جماعت کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جائے.جیسا کہ علامہ اقبال لکھتے ہیں.I intended to adress an open letter to the British people explaining the social and political implications of the issue.ترجمہ: میرا ارادہ تھا کہ برطانوی لوگوں کو مخاطب کر کے ایک کھلا خط لکھوں تا کہ اس مسئلہ

Page 126

124 کے معاشرتی اور سیاسی مضمرات کی وضاحت کی جاسکے.اور کیا ان تحریروں میں کوئی مذہبی دلیل پیش کی گئی تھی کہ احمدیوں کو کیوں دائرہ اسلام سے خارج قراد دیا جائے تو اس تحریر سے ہی ظاہر ہے کہ ایسا نہیں کیا گیا تھا.کوئی خاطر خواہ مذہبی دلیل نہیں دی گئی تھی.اس سے احتراز کیا گیا تھا جیسا کہ علامہ اقبال لکھتے ہیں.It must, however be pointed out at the outset that I have no intention to enter into any theological argument.ترجمہ: شروع میں ہی اس امر کا ذکر ضروری ہے کہ میرا دینی دلائل دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے.(Traitors of Islam an analysis of Qadiani issue by Allama Muhammad Iqbal, compiled by Agha Shorish Kashmiri, 1973p 31-32) بہت خوب گویا احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا مطالبہ برطانوی حکمران قوم سے کیا جا رہا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس سلسلہ میں کوئی مذہبی دلیل نہیں دی جائے گی.یہاں ایک اور بات قابل غور ہے کہ اس تحریر میں ایک ایسی عبارت بھی موجود ہے جس سے جماعت احمدیہ کے متعلق مولوی صاحبان کے وہ تمام بے سر و پاد عاوی غلط ثابت ہو جاتے ہیں جنہیں وہ اب تک پیش کرتے رہے تھے.علامہ اقبال تحریر کرتے ہیں.Western prople who cannot but adapt a policy of non-interference in religion.This liberal and indispensable policy in a country like India has led to the most unfortunate results.(Traitors of Islam an analysis of Qadiani issue by Allama Muhammad Iqbal, compiled by Agha Shorish Kashmiri, 1973 p37) یعنی اہل مغرب کے لئے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ مذہب کے معاملے میں عدم مداخلت کی پالیسی اپنائیں.اگر چہ اس آزادانہ پالیسی کے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا لیکن ہندوستان

Page 127

125 جیسے ملک میں اس کے نہایت ہی برے نتائج برآمد ہوئے.ان الفاظ سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ علامہ اقبال اس خیال کا اظہار کر رہے ہیں کہ سلطنت برطانیہ کو احمدیت کی ترقی کو روکنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے.۱۹۴۷ء کے بعد تو احمدیت کے مخالفین اس بات کا پر پگنڈا کر رہے ہیں کہ نعوذ باللہ جماعت احمدیہ کو برطانوی حکومت نے اپنے مقاصد کے لئے کھڑا کیا تھا جبکہ انگریز جب یہاں حکمران تھے تو اس بات پر ان سے شکوہ کیا جا رہا تھا کہ ان کی حکومت نے احمدیت کی ترقی کو روکنے کے لئے کوششیں کیوں نہیں کیں؟ اس تحریر میں صرف احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا مطالبہ نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس تصور کو جس کی بنیا د رسول اللہ ﷺ کی احادیث اور بیان فرمودہ پیشگوئیوں پر ہے سخت ترین الفاظ میں تنقید کی گئی تھی.علامہ اقبال لکھتے ہیں Even the phrase Promised Messiah is not a product of Muslim religious consciousness.It is a bastard expression and has its origin in pre-Islamic Magian outlook.(Traitors of Islam an analysis of Qadiani issue by Allama Muhammad Iqbal, compiled by Agha Shorish Kashmiri, 1973 p 35) ترجمه: مسیح موعود کی اصطلاح بھی اسلامی فکر کا نتیجہ نہیں ہے.یہ ایسی ناجائز اصطلاح ہے جس کی بنیاد قبل از اسلام مجوسی تصورات پر ہے.انا للہ وانا الیہ راجعون.مسیح موعود کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ صحیح جس کا وعدہ کیا گیا ہے.“ آنے والے مسیح کے بارے میں کسی کے کوئی بھی عقائد ہوں کیا یہ حقیقت نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صلى الله بار بار آنے والے مسیح کے بارے میں یہ پیشگوئی فرمائی تھی.احادیث کی معتبر ترین کتب میں یہ احادیث تواتر سے موجود ہیں اور یہ دیکھنا چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ نے کس تاکید اور زور سے یہ پیشگوئی فرمائی تھی.صرف ایک مثال درج کی جاتی ہے.”حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس پروردگار کی جس

Page 128

126 کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ نازل ہو گا تم میں ابن مریم حاکم عادل اور توڑنے والا صلیب کا اور مارے گا خنزیروں کو اور موقوف کر دے گا جزیہ کو اور لوگوں کو کثرت سے مال دے گا یہاں تک کہ کوئی اسے قبول نہ کرے گا.“ ( صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسی ابن مریم ، جامع ترندی ابواب الفتن ماء جاء فی نزول عیسی ابن مریم ) ملاحظہ کیجیے کہ رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کی قسم کے ساتھ بیان فرمارہے ہیں کہ ضرور وہ موعود مسیح آئے گا اور احمدیت کی دشمنی میں مسیح کی آمد کو ایک مجوسی تصور قرار دیا جا رہا ہے اور اگر کوئی کج بحثی سے یہ اصرار کرے کہ اردو میں ” مسیح موعود کی اصطلاح کہاں استعمال ہوتی تھی تو عرض یہ ہے کہ ان الفاظ میں بھی مسلمانوں کی تحریروں میں یہ اصطلاح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد سے قبل بکثرت استعمال ہوتی تھی.ہم سلسلہ احمدیہ کے مشہور مخالف مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کی تحریر سے ہی ایک مثال پیش کر دیتے ہیں.مولوی صاحب اشاعۃ السنہ میں براہین احمدیہ پر ریویو کرتے ہوئے لکھتے ہیں اور اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہیں کیا تھا.یہ الفاظ ہمارے اس بیان کے مصدق ہیں کہ مولف کو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہیں بلکہ حضرت مسیح سے مشابہت کا ادعا ہے سو بھی نہ ظاہری وجسمانی اوصاف میں بلکہ روحانی اور تعلیمی وصف میں.“ (اشاعۃ السنہ صفحہ 9 نمبرے جلدے) اس سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے سے معا قبل بھی یہ اصطلاح عام تھی جسے احمدیت کی مخالفت میں مجوسی اصطلاح قرار دیا گیا.مفتی محمود صاحب علامہ اقبال کی جس تحریر کا حوالہ پیش کر رہے تھے اس کے بعض حصے مفتی صاحب اور ان کے ہمنوا احباب کے لئے بھی قابل توجہ تھے.اسی تحریر میں علامہ اقبال نے تحریر کیا ہے مولوی اور صوفی عمداً ایسا پر اسرار ماحول پیدا کرتے ہیں تاکہ عوام کی جہالت اور تقلید کا نا جائز فائد ا ٹھا یا جا سکے اور اگر انہیں اختیار ہوتا تو وہ ہندوستان میں ہر مولوی کے لئے لائٹس حاصل کرنا ضروری قرار دیتے اور ا تا ترک نے جو معاشرے سے مولوی کو نکال باہر کیا ہے اگر ابن تیمیہ اور شاہ ولی اللہ ا سے دیکھ لیتے تو بہت خوش ہوتے اور علامہ اقبال نے مشکوۃ کی ایک حدیث کا حوالہ دے کر اس خیال کا

Page 129

127 اظہار کیا کہ صرف ملک کے امیر یا اس کے مقرر کردہ لوگوں کا حق ہے کہ وہ عوام کو وعظ کریں.(Traitors of Islam an analysis of Qadiani issue by Allama Muhammad Iqbal, compiled by Agha Shorish Kashmiri, 1973 p22,23) مولوی صاحبان علامہ اقبال کی اس تحریر کا ذکر کبھی نہیں کرتے کیونکہ اس سے ان کی مولویت کی صف لپٹ جاتی ہے.اس لئے انہیں مجبوراً صرف جزوی حوالے پیش کرنے پڑتے ہیں.کلمہ گو کی تکفیر پر اصرار اس مرحلہ پر مولوی مفتی محمود صاحب نے ایک اور موضوع شروع کیا اور ان کے طویل دلائل کا خلاصہ یہ تھا کہ انہیں یا دیگر مولوی صاحبان یا کسی اسمبلی کو یہ اختیار ضرور ہونا چاہئے کہ وہ کسی کلمہ گو کی تکفیر کر سکیں.اس سلسلہ میں انہوں نے جماعت احمدیہ کے پیش کردہ موقف کو ”مرزائی مغالطے“ قرار دیا.یہ ایک بنیادی اہمیت کا موضوع ہے.مفتی محمود صاحب کے دلائل کے تجزیہ سے قبل یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آخر اس ضمن میں جماعت احمدیہ نے کیا موقف پیش کیا تھا اور کس بنیاد پر پیش کیا تھا ؟ ہم جماعت احمدیہ کے محضر نامہ کا متعلقہ حصہ من و عن پیش کر دیتے ہیں اس محضر نامہ میں صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی احادیث پیش کی گئیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ تو گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ہے اس کے رسول ہیں نیز یہ کہ تم نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو اور اگر راستہ کی توفیق ہو تو بیت اللہ کا حج کرو اور رسول اللہ علی نے ارشاد فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ اللہ پر ایمان لاؤ.اس کے فرشتوں پر اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ.پھر صحیح بخاری کی یہ حدیث درج کی گئی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے وہ نماز ادا کی جو ہم کرتے ہیں.اس قبلہ کی طرف رخ کیا جس کی طرف ہم رخ کرتے ہیں اور ہمارا ذبیحہ کھایا وہ مسلمان ہے جس کے لئے اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ ہے.پس تم اللہ کے دئے ہوئے ذمہ میں اس کے ساتھ دغا بازی نہ کرو.یہ احادیث مبارکہ کو درج کر کے جماعت احمدیہ کے محضر نامہ پر ان کی روشنی میں یہ موقف بیان کیا گیا تھا کہ ہمارے مقدس آقا ﷺ کا یہ احسان عظیم ہے کہ اس تعریف کے ذریعہ سے

Page 130

128 آنحضور ﷺ نے نہایت جامع اور مانع الفاظ میں عالم اسلامی کے اتحاد کی بین الاقوامی بنیاد رکھ دی ہے اور ہر مسلمان حکومت کا فرض ہے کہ اس بنیاد کو اپنے آئین میں نہایت واضح حیثیت سے تسلیم کرے ورنہ امت مسلمہ کا شیرازہ ہمیشہ بکھرا رہے گا اور فتنوں کا دروازہ کبھی بند نہیں ہو سکے گا.(محضر نامہ صفحہ ۱۹،۱۸) جماعت احمدیہ کا موقف بہت واضح ہے کہ مسلمان کی تعریف وہی قابل قبول ہے جو کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمائی ہے اور یقیناً رسول اللہ ﷺ کی بیان کردہ تعریف ہی جامع تعریف ہے اور سب مسلمان اسی تعریف پر متفق ہو سکتے ہیں جو کہ آپ ﷺ نے بیان فرمائی تھی.اس موقف کے جواب میں مفتی محمود صاحب نے یہ جراءت کی اور یہاں تک کہہ دیا کہ رسول الله عل اللہ کی بیان فرمودہ تعریف جامع تعریف نہیں.انہوں نے کہا: ” اس سلسلے میں بعض ان احادیث سے استدلال کی کوشش کی جاتی ہے جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کی علامتیں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ جو ہماری طرح نماز پڑھے، ہمارے قبلے کی طرف رخ کرے اور ہمارا ذبح کیا ہوا جانور کھائے وہ مسلمان ہے“ لیکن جس شخص کو بھی بات سمجھنے کا سلیقہ ہو وہ حدیث کے اسلوب وانداز سے یہ سمجھ سکتا ہے کہ یہاں مسلمان کی کوئی قانونی اور جامع و مانع تعریف نہیں کی جارہی بلکہ مسلمانوں کی وہ معاشرتی علامتیں بیان کی جارہی ہیں جن کے ذریعہ مسلم معاشرہ دوسرے مذاہب اور معاشروں سے ممتاز ہوتا ہے اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ جس شخص کی ظاہری علامتیں اس کے مسلمان ہونے کی گواہی دیتی ہوں اس پر خواہ مخواہ بدگمانی کرنا یا بلا وجہ اس کی عیب جوئی کرنا درست نہیں.( کارروائی صفحہ ۱۹۹۲) یہاں پر مفتی محمود صاحب نے ان تمام احادیث کے ذکر سے گریز کیا ہے جن کا حوالہ جماعت احمدیہ کے محضر نامہ میں دیا گیا تھا جن کی بنیاد پر مسلمان کی قانونی تعریف کرنا ضروری تھا اور انہوں نے ان میں سے صرف ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے لیکن ظاہر ہے کہ جماعت احمدیہ کا محضر نامہ پیشل

Page 131

129 کمیٹی میں پڑھا بھی گیا تھا اور تحریری طور پر بھی سب ممبران کو دیا گیا تھا اس لئے یہ بات یقینی ہے کہ وہ اس بات سے آگاہ تھے کہ جماعت احمدیہ نے یہ موقف بیان کیا تھا کہ مسلمان کی جامع تعریف وہی یہ جو کہ رسول اللہ اللہ نے بیان فرمائی ہے.اس کے باوجود انہوں نے موقف بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی معتبر ترین احادیث میں جو کہ صحیح مسلم اور صحیح بخاری اور دیگر معتبر کتب احادیث میں درج ہیں بیان کردہ تعریف جامع نہیں ہے اور رسول اللہ ﷺ کے جوامع الکلم سے استہزاء کی بھی کوشش کی.یہ گستاخی نہیں تو اور کیا ہے؟ اپنی بات میں جواز پیدا کرنے کے لئے مفتی محمود صاحب نے ایک اور حدیث پیش کی.در حقیقت اس حدیث میں مسلمان کی تعریف نہیں کی بلکہ اس کی ظاہری علامتیں بیان کی گئی ہیں.مسلمان کی پوری تعریف در حقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں بیان کی گئی ہے : امرت ان اقاتل الناس حتى يشهدوا ان لا اله الا الله و يومنوا بي بما جنت به رواه مسلم عن ابی ہریرۃ صفحہ ۳۷ جلد۱) مجھے جو حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جہاد کروں، یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور مجھ پر ایمان لائیں اور ہر اس بات پر جو میں لے کر آیا ہوں.( کارروائی ۱۹۹۳) یہاں مفتی محمود صاحب نے اس بات کی وضاحت پیش نہیں کی کہ ان الفاظ کی وضاحت کون کرے گا کہ بما جئت بہ سے کیا مراد ہے؟ ظاہر ہے اس کا حق بھی رسول اللہ ﷺ کو ہے اور جیسا کہ پہلے حدیث کا حوالہ پیش کیا جا چکا ہے کہ رسول اللہ علیہ فیصلہ فرما چکے ہیں کہ اسلام یہ ہے کہ تو گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اس کے رسول ہیں نیز یہ کہ تم نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو اور اگر راستہ کی توفیق ہو تو بیت اللہ کا حج کرو اور رسول اللہ علی نے ارشاد فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ اللہ پر ایمان لاؤ.اس کے فرشتوں پر اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور ان احادیث کا مقام یہ ہے کہ ان میں بیان کیا گیا ہے کہ اس بابت سوال

Page 132

130 صل الله پوچھنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبرائیل آئے تھے تا کہ دنیا کو دین سکھایا جائے تب آنحضرت ﷺ نے یہ جوابات ارشاد فرمائے جو کہ جماعت احمدیہ کے نزدیک جامع تعریف پر مشتمل ہیں اور اس سے بہتر بنیادی تعریف نہیں ہو سکتی لیکن مفتی محمود صاحب اس موقف پر مصر تھے کہ رسول اللہ ﷺ کی بیان فرمودہ تعریف جامع نہیں ہے.ایمان میں ترقی اور اس کی تکمیل کے دروازے تو کھلے ہیں لیکن بنیادی تعریف وہی ہے جو کہ رسول اللہ علیہ نے بیان فرمائی ہے.ورنہ اگر یہ اصرار کیا جائے کہ جو کسی مولوی صاحب کے فیصلہ کی رو سے کسی ایک حکم پر بھی پورا عمل نہیں کرے گا وہ غیر مسلم ہو جائے گا تو پھر دنیا میں مسلمان کو ڈھونڈ نا مشکل ہو جائے گا.اس مرحلہ پر مفتی صاحب سے ایک مرتبہ پھر دعویٰ کیا کہ ختم نبوت پر ان کے موقف کی تائید میں بیسیوں آیات پیش کی جاسکتی ہیں لیکن اس مرتبہ پھر انہوں نے یہ آیات پیش نہیں کیں اور محض دعویٰ پیش کر کے گریز کا راستہ اختیار کیا جیسا کہ گزشتہ کتاب میں بھی مثالیں دی جا چکی ہیں بہت سے امور ایسے ہیں جو کہ ایک فرقہ کی رو سے ضروری احکام دین میں سے شمار ہوتے ہیں جیسا کہ شیعہ احباب حضرت علی کے وصی ہونے اور بلا فصل خلیفہ ہونے کے بارے میں عقائد کوضروری اور من جانب اللہ اور احکام رسول ﷺ کے مطابق سمجھتے ہیں لیکن دوسرے مسلمان فرقے ان پر یقین نہیں رکھتے.پھر مفتی صاحب کی تعریف کی رو سے شیعہ احباب کے نزدیک دیگر فرقے کا فر ہو جائیں گے اور اسی طرح کی صورت حال دوسرے فرقوں کے نزدیک ہو جائے گی اور پھر کا فرگری کا یہ سلسلہ کبھی نہیں رکے گا.مفتی صاحب مختلف فرقوں کے باہمی فتاویٰ تکفیر کی وضاحت کی کوشش کرتے ہوئے ایک بار پھر غلط بیانی کا سہارا لینے پر مجبور ایک سوال مولوی مفتی محمود صاحب کا کسی آسیب کی طرح پیچھا کر رہا تھا اور وہ یہ سوال تھا کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے محضر نامہ میں، خاص طور پر محضر نامہ کے ضمیمہ نمبر۴ میں اور پھر سوال وجواب کے دوران بھی بار بار مولوی حضرات کے وہ فتوے پیش کئے گئے تھے جس میں دوسرے فرقوں کو قطعی طور پر کا فر، اسلام کا دشمن وغیرہ قرار دیا گیا تھا.جب یہ فتوے پیش کیے گئے تو ممبران اسمبلی میں

Page 133

131 کم از کم وقتی طور پر سراسیمگی پھیل گئی.مولوی صاحبان کے پاس ان کا کوئی جواب نہیں تھا.جب سوال و جواب کا مرحلہ ختم ہوا اور وہ خفیہ کارروائی شروع ہوئی جس میں جماعت احمدیہ کا وفد موجود نہیں تھا تو بھی یہ سوال معین اُٹھایا گیا اور ایک ممبر عنایت عباسی صاحب نے کہا تھا: میں جناب! ایک چھوٹی سی گزارش کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جیسا کہ مولانا صاحب نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب وہ گواہ کی حیثیت میں پیش ہوں گے تو پھر ان کی حج کی حیثیت مجروح ہو جائے گی لیکن ایک مسئلہ ہے اس میں میں چاہتا ہوں کہ اس کی کسی نہ کسی طریقہ سے وضاحت ہو جائے.وہ یہ ہے جناب والا! کہ انہوں نے ایک فریق کی حیثیت سے بہت سی باتیں ایسی کی ہیں جن میں میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہاؤس کے ان اراکین میں سے میں بھی ایک ہوں جن کا علم اس ضمن میں محدود ہے.مثال کے طور پر انہوں نے ایسے فتوے پیش کیے جن میں ایک خیال کے علماء کی طرف سے دوسرے خیال کے علماء کے خلاف یا مسلمانوں کے خلاف بہت سارے نازیبا اور نا روا الفاظ استعمال کیے گئے ہیں.اس لیے میں آپ کی وساطت سے جناب مولانا صاحب سے گزارش کروں گا کہ آپ حج بیشک رہیں لیکن ان کے ساتھ ساتھ آپ اگر ایسے دو یا تین علماء صاحبان جو بیٹھے ہوئے ہیں ان کو اگر یہ موقع فراہم کریں کہ کم از کم ان کے اعتراض اور CHARGES کا وہ جواب دیں.پھر انہوں نے کہا: د نہیں جی مشورے کی بات تو نہیں ہے.میں تو چاہتا ہوں جناب مجھے تو ایسا فریق چاہئے جو اس ضمن میں تردید کرے یا پھر ہمیں خود اجازت دیں ہم پھر جو کچھ اس ضمن میں درست ہے وہ کہہ دیں.“ اب یہ بات واضح ہے.عباسی صاحب کا بیان کردہ نکتہ یہ تھا کہ جماعت احمدیہ کے محضر نامے میں اس کے ضمیمہ میں اور پھر سوال وجواب کے دوران بہت سے ایسے فتوے پیش کیے گئے تھے اور بجا طور پر ان کا خیال تھا کہ ان کا جواب دینا ضروری ہے کیونکہ اگر اسی سوچ کو لے کر آگے بڑھا گیا تو

Page 134

132 صرف جماعت احمدیہ کا سوال نہیں پاکستان یا دنیا میں کوئی بھی مسلمان نہیں کہلا سکے گا کیونکہ ہر فرقہ کے خلاف دوسرے فرقوں کے کفر کے فتوے موجود ہیں.اب مفتی محمود صاحب یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ اس نکتہ کا جواب دے رہے ہیں چنانچہ انہوں نے کہا : اصل مسئلہ سے توجہ ہٹانے کے لئے دوسرا مغالطہ مرزائیوں کی طرف سے یہ دیا جاتا ہے کہ جو علماء ہم پر کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں وہ خود آپس میں ایک دوسرے کو کافر قرار دیتے آئے ہیں.لہذا ان کے فتووں کا اعتبار اٹھ گیا ہے.لیکن اس ”دلیل“ کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی شخص یہ کہنے لگے کہ چونکہ بعض عطائیوں اور ڈاکٹروں نے کچھ لوگوں کا غلط علاج کیا ہے اس لئے اب کوئی ڈاکٹر مستند نہیں رہا اور اب پوری میڈیکل سائنس ہی ناکارہ ہوگئی ہے اور وہ طبی مسئلے بھی قابل قدر نہیں رہے جن پر تمام دنیا کے ڈاکٹر متفق ہیں.“ ( کارروائی صفحه ۱۹۹۴) اس کے بعد توقع کی جاسکتی تھی کہ مفتی محمود صاحب جماعت احمدیہ کے محضر نامہ میں اور سوال و جواب کے دوران اور محضر نامہ کے ضمیمہ نمبر چار ” مسلمانان پاک و ہند کی تمام مشہور مذہبی و سیاسی جماعتوں کے باہمی فتاویٰ کفر کا مستند مجموعہ میں پیش کردہ حوالوں کا کوئی جواب دیں گے یا وضاحت پیش کریں گے لیکن اس کی بجائے مفتی محمود صاحب نے کہا تو کیا کہا.وہ کہنے لگے: حال ہی میں مرزائی جماعت کی طرف سے ایک کتابچہ شائع ہوا ہے جس کا عنوان ہے ” ہم غیر احمدیوں کے پیچھے کیوں نماز نہیں پڑھتے “ اور اس میں مسلمان مکاتب فکر کے باہمی اختلافات اور ان فتاوی کو انتہائی مبالغہ آمیز انداز میں پیش کیا گیا ہے جن میں ایک دوسرے کی تکفیر کی گئی ہے.لیکن اول تو اس کتابچے میں بعض ایسے فتووں کا حوالہ ہے جن کے بارے میں پوری ذمہ داری سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے کہنے والوں کی طرف بالکل غلط منسوب کئے گئے ہیں.

Page 135

133 دوسرے اس کتابچے میں اگر چہ کافی محنت سے وہ تمام تشدد آمیز مواد اکٹھا کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو باہمی اختلافات کے دوران منظر عام پر آیا ہے لیکن ان بیسیوں اقتباسات میں مسلمان مکاتب فکر کے ایک دوسرے پر کفر کے فتوے کل پانچ ہیں.باقی فتوے نہیں بلکہ وہ عبارتیں ہیں جو ان کے افسوس ناک باہمی جھگڑوں کے درمیان ان کے قلم یا زبان سے نکلیں.ان میں ایک دوسرے کے خلاف سخت زبان تو بے شک استعمال کی گئی ہے لیکن انہیں کفر کے فتوے قرار دینا کسی طرح درست نہیں.یہ کتابچہ جماعت احمدیہ کے محضر نامہ کا حصہ بھی بنا تھا.اور اس میں اس اعتراض کا جائزہ لیا گیا تھا کہ احمدی مسلمان غیر احمدی مسلمانوں کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے.مفتی محمود صاحب نے اس کتا بچہ میں درج دلائل کا رد نہیں پیش کیا.اور مفتی محمود صاحب نے ایک بھی مثال نہیں پیش کی کہ وہ فتوے کون سے تھے جو کہ غلط منسوب کیے گئے تھے.جہاں تک کفر کے فتاویٰ کی مثالوں کا تعلق ہے تو وہ تو جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کیے جانے والے ضمیمہ نمبر ۴ میں پیش کی گئی تھیں.اس ضمیمہ کا نام تھا باہمی فتاویٰ کفر کا مستند مجموعہ.اس کتاب میں بیسیوں مثالوں سے یہ واضح کیا گیا تھا کہ ابتدائی صدیوں سے لے کر اب تک علماء کے ایک طبقہ کا محبوب مشغلہ رہا ہے.یہ بیسیوں فتاوی کئی ابواب میں جمع کیے گئے تھے.اس ضمیمہ میں پہلے باب کا نام تھا بریلوی علماء کے نزدیک سب دیوبندی کا فر ہیں.اس میں پہلا فتوی احمد رضا خان صاحب کا تھا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ دیو بندی ( جن سے خود مولوی مفتی محمود صاحب کا بھی تعلق تھا ) سب کے سب مرتد اور باجماع امت اسلام سے خارج ہیں (صفحہ ۷ ).کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ احمد رضا خان صاحب بریلویوں کے مسلمہ قائد نہیں ہیں اور محض عطائی قسم کے عالم تھے.پھر اس کے بعد مکہ اور مدینہ کے علماء کے فتاوی درج کئے گئے تھے.کیا اب بھی کوئی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ یہ سب کے سب عطائی قسم کے علماء تھے.پھر تین سو علماء کا مشترکہ فتویٰ درج کیا گیا تھا.کیا یہ علماء کی قلیل تعداد کا فتویٰ تھا ؟ سیال شریف کا فتویٰ درج کیا گیا تھا.کیا مفتی محمود صاحب سیال شریف کے نام سے بھی واقف نہیں تھے ؟ پھر دوسرا باب ملاحظہ کریں ؟ اس باب کا عنوان تھا دیو وو

Page 136

134 بندیوں کے نزدیک دوسرے مسلمان کا فر ہیں.اس میں پہلا فتویٰ کفر مولوی رشید گنگوہی صاحب اور مولوی محمود الحسن صاحب کا تھا.کیا مفتی محمود صاحب اس بات سے بھی واقف نہیں تھے کہ رشید گنگوہی صاحب اور محمود الحسن صاحب علماء دیو بند میں نمایاں ترین عالم سمجھے جاتے تھے اور اسی ضمیمہ کے صفحہ نمبر ۲۲ پر حوالہ درج کیا گیا تھا جس میں گنگوہی صاحب کو نعوذ باللہ رسول اللہ کا ثانی اور ان کی قبر کو طور قرار دیا گیا ہے.محمود الحسن صاحب بھی تو دیو بند کے نمایاں عالم تھے اور اس کے بعد دیو بندیوں کے مزید فتاویٰ کفر درج کیے گئے ہیں.پھر اس ضمیمہ کے تیسرا باب صفحہ نمبر ۴۱ سے شروع ہوتا ہے اس کا عنوان شیعوں کے کفر پر علماء کا اتفاق ہے.اس باب میں پہلا فتویٰ حضرت سید عبد القادر جیلانی کا ہے.اس میں آپ نے شیعہ احباب کے دیگر عقائد کا ذکر کر کے لکھا ہے کہ ان میں سے کئی نے یہ کہا ہے کہ حضرت علی نبی ہیں اور حضرت علیؓ ان کے معبود ہیں.پھر ان کے بارے میں حضرت سید عبد القادر جیلانی نے لکھا ہے کہ ” انہوں نے اسلام کو چھوڑ دیا اور ایمان سے الگ ہو گئے.اب یہ کفر کا فتویٰ نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ کیا مفتی محمود صاحب کے نزدیک حضرت سید عبد القادر جیلانی کا نام کوئی معمولی نام تھا ؟ پھر اس کے بعد حضرت مجد دالف ثانی کے کچھ فتاوی درج کیے گئے تھے.مولوی مفتی محمود صا حب فتاوی عالمگیری کے نام سے تو نا واقف نہیں ہوں گے.یہ فقہ کی ایک معتبر کتاب ہے.اس ضمیمہ کے صفحہ نمبر ۵۰ میں اس کتاب کا ایک فتویٰ درج کیا گیا ہے جس میں لکھا ہے کہ جو حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کی خلافت کا انکار کرے وہ کافر ہے اور یہ سب جانتے ہیں کہ شیعہ حضرات حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی خلافت سے انکار کرتے ہیں.پھر اس کے بعد جماعت احمدیہ کے اشد ترین مخالف مولوی نذیر حسین دہلوی صاحب کا فتویٰ درج ہے جس میں شیعہ حضرات کو کا فرقرار دیا گیا ہے.پھر صفحہ ۵۵ پر مفتی دیو بند کا فتویٰ درج کیا گیا ہے جس میں شیعہ حضرات کو کافر قرار دیا گیا ہے اور پھر دوسرے علماء دیو بند کے اسی طرح کے فتاویٰ کفر کے حوالے درج کئے گئے تھے مگر مفتی محمود صاحب کسی ایک فتویٰ کے متعلق یہ ثابت نہیں کر سکے کہ وہ جعلی ہے یا وہ کسی معمولی عالم کا ہے اور اپنے مسلک کی نمائندگی نہیں کرتا.اسی طرح احمد رضا خان بریلوی صاحب کا فتویٰ درج کیا گیا

Page 137

135 ہے کہ شیعہ کا فر ہیں اور اس کے بعد بھی ضمیمہ نمبر ۴ میں با ہمی فتاویٰ کفر کا سلسلہ جاری رہتا ہے.اس کے بعد کے ابواب میں بھی جماعت احمدیہ کی طرف سے واضح ثبوت مہیا کئے گئے تھے کہ تاریخ میں مختلف فرقے دوسرے فرقوں کو کا فرقرار دیتے رہے ہیں اگر اس کی بنیاد پر قانون سازی کی گئی تو پھر پاکستان میں قانون کی رو سے کوئی مسلمان نظر نہیں آئے گا.یہ ضمیمہ انٹر نیٹ پر موجود ہے ہر کوئی پڑھ کر حقیقت جان سکتا ہے لیکن مفتی محمود صاحب کے پاس ان ٹھوس ثبوتوں کا کوئی جواب نہیں تھا.انہوں نے جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کردہ مواد کا کوئی جواب نہیں دیا.حقیقت یہ تھی کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے اس جیسے صرف پانچ نہیں بلکہ بیسیوں فتاویٰ پیش کیے گئے تھے جن کو اگر مجموعی طور پر تسلیم کر لیا جا تا تو دنیا میں کو ئی مسلمان ڈھونڈ نا مشکل ہو جاتا.احادیث کا ذکر : مفتی محمود صاحب ایک بار پھر جماعت احمدیہ کے محضر نامہ کا جواب دینے سے گریز کرتے ہیں جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ مفتی محمود صاحب نے پہلے یہ دعویٰ پیش کیا کہ ختم نبوت کے مسئلہ پر ان کے موقف کی تائید میں بیسیوں آیات پیش کی جاسکتی ہیں لیکن وہ یہ آیات پیش کرنے سے قاصر رہے.اب اس کے ازالہ کے لیے انہوں نے یہ طریق اختیار کیا کہ ان حادیث کو نشانہ بنایا جائے جو کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے اپنے موقف کی تائید میں پیش کی گئی تھیں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس موضوع پر بھی مفتی محمود صاحب اپنے آپ کو بے بس محسوس کر رہے تھے.انہوں نے کہا : ”مرزائی صاحبان نے لاکھوں احادیث کے ذخیرے میں سے دو ضعیف وستقیم روایتیں نکال کر اور انہیں من مانا مفہوم پہنا کر ان سے اپنی خود ساختہ نبوت کے لئے سہارا لینے کی کوشش کی ہے اس لئے یہاں ان پر بھی ایک نظر ڈال لینا مناسب ہوگا.“ کارروائی صفحہ ۱۹۹۷، ۱۹۹۸ ) مندرجہ بالا حوالے کا مطلب بالکل واضح ہے.مفتی محمود صاحب یہ واویلہ کر رہے تھے

Page 138

136 کہ احمدیوں نے کل دو احادیث اپنے موقف کی تائید میں پیش کی ہیں اور میں یہ ثابت کروں گا یہ دونوں احادیث نبوی ضعیف ہیں اور ان میں سقم ہے اور پھر انہوں نے کہا کہ ان میں سے ایک تو درمنثور سے ہے جو کہ حدیث کی کوئی معتبر کتاب نہیں ہے اور دوسری حدیث ابن ماجہ کی ہے.ابن ماجہ کی حدیث کے متعلق مفتی محمود صاحب نے یہ دعویٰ پیش کیا کہ یہ ضعیف ہے اور قابل اعتبار نہیں ہے.افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ مفتی محمود صاحب ایک بار پھر جھوٹ کا سہارا لے رہے تھے.یہ غلط ہے کہ اس موضوع پر جماعت احمدیہ کے محضر نامہ میں صرف دو احادیث درج کی گئی تھیں.یہ احادیث محضر نامہ کے صفحہ نمبر ۱۰۸ سے ۱۱۰ پر درج کی گئی ہیں.ان احادیث میں صحیح مسلم کی وہ معتبر حدیث بھی ہے جس میں رسول اللہ آنے والے موعود مسیح کو چار مرتبہ نبی کے نام سے یاد فرمایا ہے.اس طرح مفتی محمود صاحب کا یہ دعویٰ بالکل غلط ثابت ہو جاتا ہے کہ جماعت احمدیہ نے اپنے موقف کے حق میں صرف دو ضعیف احادیث پیش کی ہیں.ایک حدیث ابن ماجہ کی اور دوسری در منثور کی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ محضر نامہ میں صحیح مسلم کی حدیث بھی درج کی گئی تھی اور سوال و جواب کے دوران حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس حدیث کا حوالہ بھی دیا تھا.اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے آنے والے موعود مسیح کو چار مرتبہ نبی اللہ کے نام سے یاد فرمایا تھا اور اس کی تصدیق سنن ابو داؤد کی ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے.اس میں رسول اللہ ﷺ نے آنے والے موعود مسیح کے بارے میں فرمایا تھا لیس بینی و بینه یعنی عیسی علیه السلام نبی و انه نازل (سنن ابوداؤ د باب خروج الدجال) یعنی میرے اور ان کے یعنی عیسی علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں اور وہ یقین نازل ہوں گے.اگر لانبی بعدی کا یہی مطلب تھا کہ اب مطلقاً کوئی نبی نہیں آسکتا تو پھر نیا پرانا کوئی نبی نہیں آ سکتا کیونکہ اس قول میں نئے یا پرانے نبی کی کوئی تخصیص نہیں ہے لیکن مندرجہ بالا حدیث اس بات کو واضح کر رہی ہے کہ اصل میں یہ مقدر تھا کہ رسول اللہ ﷺ اور موعود مسیح کے درمیان کوئی نبی مبعوث نہ ہو لیکن آنے والے موعود نے بہر حال مقام نبوت پر سرفراز ہونا تھا.

Page 139

137 اس مرحلہ پر مفتی صاحب کی ذہنی بوکھلاہٹ اس درجہ پر پہنچ چکی تھی کہ انہوں نے یہ دلائل دینے شروع کر دئے کہ علم حدیث کے اعتبار سے 'در منثور بالکل نا قابل اعتبار کتاب ہے.حقیقت یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے محضر نامہ میں صفحہ ۱۰۸ سے لے کر صفحہ اتک جہاں متعلقہ احادیث درج کی گئی ہیں وہاں پر درمنثور کی کوئی روایت درج نہیں ہے.اس لیے مفتی محمود صاحب کی یہ بحث بالکل غیر متعلقہ تھی.اس موقع پر حضرت عائشہ کی جس روایت پر مفتی صاحب اتنا غصہ نکال رہے تھے وہ محضر نامہ میں تکملہ مجمع الہار کے حوالے سے درج کی گئی تھی اور وہ حدیث یہ ہے قولوا انه خاتم الانبياء و لا تقولو لا نبي بعده یعنی حضور ﷺ کو خاتم النبین تو کہو لیکن یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا.چونکہ یہ حدیث واضح طور پر جماعت احمدیہ کے موقف کی تصدیق کر رہی ہے اس لیے مفتی محمود صاحب اسے ہر قیمت پر غلط ثابت کرنا چاہتے تھے لیکن محبت اور گھبراہٹ میں غلط کتاب کا نام لے کر بحث شروع کر بیٹھے.اس لیے مناسب تو یہی تھا کہ مفتی محمود صاحب متعلقہ حوالے پر کوئی بحث اُٹھاتے لیکن وہ اس سے احتراز ہی کرتے رہے.جماعت احمدیہ کے محضر نامہ میں پیش کردہ احادیث کا جواب دینے کے لئے اب انہوں نے ایک اور طریقہ اختیار کیا کہ صحاح میں درج احادیث نبوی عملے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی جائے.محضر نامہ میں ابن ماجہ کی یہ حدیث پیش کی گئی تھی کہ جب رسول اللہ ﷺ کے صاحبزادے ابراہیم کا انتقال ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ زندہ رہتا تو نبی ہوتا.مفتی محمود صاحب نے اس کے جواب میں یہ دلیل پیش کی کہ ” موضاعات کبیر میں امام نووی کی یہ رائے لکھی ہے کہ یہ حدیث باطل ہے.افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مفتی محمود صاحب نامکمل حوالہ پیش کر رہے تھے.اس کتاب میں ان الفاظ کے بعد یہ لکھا ہے کہ ” جب نبی کریم ﷺ نے یہ خبر بیان فرمائی اور نقلاً یہ خبر آپ سے ثبوت کو پہنچ گئی تو اس میں کوئی کلام ہی باقی نہ رہا.“ ( موضوعات کبیر اردو تر جمه ناشر نعمانی کتب خانه نومبر ۲۰۰۸ صفحه ۲۶۲) اور اس سے اگلے صفحہ پر ساری بحث کا نتیجہ نکالتے ہوئے اور اس حدیث کو صحیح قرار دے کر

Page 140

138 اس کی تشریح میں کیا لکھا ہے ملاحظہ کیجیے ملا علی قاری کہتے ہیں کہ اگر ابراہیم زندہ ہوتے اور نبی ہوتے اور عمر بھی نبی ہوتے تو ہر دو آپ کے متعین سے ہوتے جیسا کہ عیسی اور خضر اور الیاس.تو یہ اللہ تعالیٰ کے قول ختم نبوت کے منافی نہیں کیونکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ کے بعد کوئی ایسا نبی 66 نہ آئے گا جو کہ آپ کی ملت کو منسوخ کر دے گا اور آپ کی امت سے نہ ہو.“ ( موضوعات کبیر اردو تر جمه ناشر نعمانی کتب خانه نومبر ۲۰۰۸ صفحه ۲۶۳) صاف ظاہر ہے کہ مفتی محمود صاحب جس کتاب کو جماعت احمدیہ کے موقف کے خلاف دلیل کے طور پر پیش کر رہے تھے اس میں تو واضح طور پر جماعت احمدیہ کے موقف کی تائید کی گئی ہے اور جماعت احمدیہ کے مخالفین کو مکمل طور پر رد کیا گیا ہے اور ایسا بھی نہیں تھا کہ مفتی محمود صاحب اس حوالے سے بے خبر تھے.مندرجہ بالا حوالہ جماعت احمدیہ کے محضر نامہ میں شامل تھا.اسی حدیث نبوی کو رد کرنے کے لیے مفتی محمود صاحب نے اس کی سند پر یعنی اس کے راویوں پر اعتراض اُٹھانے شروع کیے لیکن ساتھ کے ساتھ وہ یہ بھی اعتراف کر رہے تھے کہ یہی روایت صحیح بخاری میں بھی ایک صحابی کی روایت کے طور پر موجود ہے.لیکن ایک مرتبہ پھر وہ نامکمل حقائق پیش کر کے اپنے مفروضے میں وزن پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے.جس کتاب کا انہوں نے حوالہ دیا تھا اسی میں مذکورہ بالا حدیث کی سند کے بارے میں ایک ضعیف راوی کے ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے لیکن اس کی تین سندیں ہیں جو ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتی ہیں اور اس کی جانب اللہ تعالیٰ کا قول بھی اشارہ کرتا ہے.“ موضوعات کبیر اردو تر جمه ناشر نعمانی کتب خانہ نومبر ۲۰۰۸ صفحه ۲۶۲) اس مسئلہ پر احادیث صرف جماعت احمدیہ کے محضر نامہ میں درج نہیں کی گئی تھیں بلکہ ایک ضمیمہ میں بھی جس کا نام ” القول المبین فی تفسیر خاتم النبین تھا درج کی گئی تھیں.اس ضمیمہ پر ان احادیث کی تشریح بھی درج تھی جس کو عموماً مولوی صاحبان کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے.مفتی محمود صاحب نے ان میں سے کچھ احادیث کو بیان تو کیا لیکن جماعت احمدیہ کی طرف سے اُٹھائے گئے نکات کا

Page 141

139 کوئی جواب نہیں دے سکے مثلا انہوں نے ترندی کی حدیث کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر نبی ہوتے تو بیان کی لیکن جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کئے جانے والے ضمیمے میں اس اُٹھائے گئے اس نکتہ کا جواب نہیں دے سکے کہ خود امام ترمذی نے ہی جامع ترمذی میں اس حدیث کو غریب قرار دیا ہے جوا کیلے راوی کے باعث حجت نہیں ہو سکتی.اور حدیث کی دوسری کتب میں اس حدیث کے الفاظ یوں بیان ہوئے ہیں کہ اگر میں تم میں مبعوث نہ ہوتا تو عمر تم میں مبعوث ہوتے اور یہاں لفظ بعدی سے معاً بعد بھی مراد ہوسکتی ہے.یہ لغوی طور پر بھی صحیح ہے اور اس طرح اس حدیث اور دوسری احادیث میں تطبیق بھی ہو جاتی ہے اور اسی طرح مفتی محمود صاحب نے یہ حدیث تو بیان کی کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت علی کو فرمایا کہ کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تم میرے ساتھ اس طرح ہو جس طرح موسی کے ساتھ ہارون تھے لیکن میرے بعد نبوت نہیں لیکن مفتی محمود صاحب جماعت احمدیہ کی طرف سے اُٹھائے گئے اس نکتہ کا جواب دینا تو ایک طرف رہا، اس کا ذکر تک نہ کر سکے کہ یہاں یہ موضوع زیر بحث نہیں کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد کوئی نبی ہو سکتا ہے کہ نہیں.علم حدیث کے ائمہ جن میں الطبقات الکبریٰ کے مصنف محمد بن سعد بھی شامل ہیں اس کا یہی مطلب کرتے آئے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے ارشاد کا یہی مطلب تھا کہ آنحضرت ﷺ کے غزوہ تبوک کے جانے کے بعد حضرت علی کا مقام مدینہ میں اسی طرح ہوگا جس طرح حضرت موسی کے کوہ طور پر جانے کے بعد حضرت ہارون کا تھا لیکن اس فرق کے ساتھ حضرت علی مقام نبوت پر فائز نہیں ہوں گے.( تفصیلات کے لیے ملاحظہ کیجے " القول المبین فی تفسیر خاتم النبین صفحہ ۶۱ ۲۶۲).مفتی محمود صاحب اگر کوئی علمی بحث اُٹھانا چاہتے تو جماعت احمدیہ کی طرف سے اُٹھائے گئے ان نکات کا کوئی جواب دیتے لیکن انہوں نے اس سے گریز ہی کیا.جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کردہ قرآنی آیات کے رد کی کوشش جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ مفتی محمود صاحب بار بار ذ کر تو کرتے رہے کہ وہ اپنے موقف کی تائید میں بیسیوں قرآنی آیات پیش کر سکتے ہیں لیکن وہ شروع سے لے کر آخر تک ایسا نہ کر سکے

Page 142

140 اور محض خالی دعوی دہراتے رہے لیکن جماعت احمدیہ کی طرف سے جو محضر نامہ پیش کیا گیا تھا اس کے صفحہ ۹۴ تا صفحہ ۹۹ پر قرآن کریم کی آیات سے وہ دلائل پیش کئے گئے تھے جن سے جماعت احمدیہ کا موقف ثابت ہوتا تھا.اس مرحلہ پر مفتی محمود صاحب اس خفت سے بچنے کی کوشش کرنا چاہتے تھے کہ وہ مذکورہ دلائل کا جواب نہیں دے سکے.چنانچہ انہوں نے کہا: مسلمانوں کو متاثر کرنے کے لئے یہ بھی ضروری تھا کہ مرزا صاحب کی نبوت“ کے لئے قرآن کریم سے بھی کوئی تائید تلاش کی جاتی تاکہ کم از کم کہنے کو یہ کہا جاسکے کہ قرآن سے بھی استدلال کیا گیا ہے.اس مقصد کے لئے قرآن کریم کی جو آیت مرزائی صاحبان ن کی طرف سے تلاش کر کے لائی گئی ہے وہ یہ ہے.وَ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيِّنَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِيْنَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا اور جو شخص اللہ اور رسول کی اطاعت کرے تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ 66 نے انعام کیا ہے یعنی نبیوں کے ساتھ اور صدیقوں کے ساتھ اور شہداء کے ساتھ اور صالحین کے ساتھ اور یہ لوگ بہترین ساتھی ہیں.“ ( کاروائی صفحہ ۲۰۰۴) اس کے بعد مفتی محمود صاحب نے یہ تنقید شروع کی کہ یہ آیت اس موضوع کے لحاظ سے غیر متعلقہ ہے کیونکہ اس آیت میں ” مع “ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور اس کے بعد یہ ذکر ہے کہ حسن اولئك رفيقا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں پر یہ ذکر ہے کہ جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کریں گے انہیں اللہ کے رسولوں کی معیت حاصل ہو گی اور یہ مراد ہو ہی نہیں سکتی کہ انہیں مقام نبوت مل سکتا ہے کہ نہیں.ہم یہاں پر مفتی محمود صاحب کے اعتراضات کا تجزیہ پیش کریں گے.سب سے پہلے تو لغوی پہلو کا جائزہ لیتے ہیں.قرآن کریم کی لغت مفردات امام راغب میں ” مع “ کے مطالب بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کبھی مع اجتماع کے معنی کو چاہتا ہے خواہ وہ اجتماع مکانی ہو یا زمانی ہو یا پھر یہ اجتماع معنوی طور پر ہو.پھر لکھا ہے:

Page 143

141 کبھی وہ اجتماع رتبہ اور شرف کے لحاظ سے ہوتا ہے جیسے ھما معاً في العلو وہ دونوں بلند رتبہ ہونے میں برابر ہیں.“ اس حوالے سے لغوی اعتبار سے مفتی محمود صاحب کا اعتراض مکمل طور پر ختم ہو جاتا ہے کہ اس کا مطلب صرف یہ ہی ہو سکتا ہے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرنے والوں کو نبیوں کی معیت نصیب ہو گی لیکن لغوی پہلو کو نظر انداز بھی کر دیا جائے اور اگر مفتی صاحب کا فلسفہ تسلیم کر لیا جائے کہ اس امت میں نبی نہیں ہوں گے لیکن انہیں نبیوں کی رفاقت نصیب ہوگی تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا اس امت میں صالح ، صدیق اور شہداء بھی نہیں ہوں گے انہیں صرف صالحین کی اور صد یقوں کی اور شہداء کی رفاقت نصیب ہوگی کیونکہ اس آیت میں مع کا لفظ استعمال ہوا ہے.اس سوچ کی رو سے نعوذ باللہ امت محمدیہ کو تمام روحانی انعامات سے محروم تسلیم کرنا پڑے گا.اس کے علاوہ محضر نامہ میں سورة آل عمران ،سورۃ النساء اور سورۃ الحجر کی آیات کا حوالہ دے کر ثابت کیا گیا تھا کہ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر جب مع“ کا لفظ استعمال ہوا ہے اس سے مراد کسی گروہ کی رفاقت یا معیت کے نہیں بلکہ اس گروہ میں شامل ہونے کے ہوتے ہیں.اور حیرت ہے کہ مفتی محمود صاحب عالم کہلانے کے باوجود اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ یہ لفظ تواتر کے ساتھ ان معانی میں بھی استعمال ہوا ہے.مفتی صاحب کے وسوسوں کا جواب محضر نامہ میں دیا جا چکا تھا لیکن مفتی محمود صاحب جماعت احمدیہ کی طرف سے اُٹھائے گئے نکات کا جواب دینے سے نہ صرف مسلسل گریز کر رہے تھے بلکہ ان دلائل اور حوالوں سے پہلو تہی کر رہے تھے جو جماعت احمدیہ کے محضر نامہ میں پیش کیے گئے تھے.وہ اس پہلو کا ذکر بھی نہیں کر سکے کہ جیسا کہ جماعت احمدیہ کی محضر نامہ میں حوالہ درج کیا گیا تھا کہ امام راغب نے تفسیر بحر محیط میں اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ قال الراغب ممن انعم الله عليهم من الفرق الاربع في المنزلة والثواب النبي بالنبي والصديق بالصديق والشهيد بالشهيد والصالح بالصالح ( تفسیر بحر محیط تفسیر سورۃ النساء آیت ۶۹) یعنی اس آیت کا مطلب ہے کہ آنحضرت ﷺ کی اطاعت کرنے والے مقام اور مرتبہ کے

Page 144

142 لحاظ سے نبیوں ،صدیقوں ، شہیدوں اور صالحین میں شامل کیے جائیں گے یعنی اس امت کا نبی ، نبی کے ساتھ.صدیق ، صدیق کے ساتھ.شہید، شہید کے ساتھ.صالح صالح کے ساتھ علمی دنیا کے اتنے بڑے امام کی یہ تفسیر جماعت احمدیہ کے مخالفین کے مفروضوں کو مکمل طور پر رد کر رہی تھی.علاوہ ازیں مفتی صاحب یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے تھے جیسا کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے اس موضوع پر صرف یہی آیت کریمہ پیش کی گئی تھی جس کی تشریح کے لئے مفتی محمود صاحب کوششیں کر رہے تھے.حقیقت یہ تھی کہ آیت خاتم النبین ﷺ کے حقیقی معنی کے بارے میں جماعت احمدیہ کے موقف کی تائید میں دیگر آیات قرآنی پیش کی گئی تھیں اور یہ دلائل سپیشل کمیٹی کے سامنے پڑھے گئے تھے.نہ سوال و جواب کے دوران ان کے بارے میں کوئی تنقید کی گئی اور نہ ہی مفتی محمود صاحب اپنے طولانی تقریر میں ان کا کوئی جواب دے سکے.مثلاً محضر نامی میں یہ آیت درج ہے.اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے : يبَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمُ ايَتِيُّ فَمَنِ اتَّقَى وَ أَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.(الاعراف : ٣٦) ”اے ابنائے آدم ! اگر تمہارے پاس تم میں سے رسول آئیں جو تم پر میری آیات پڑھتے ہوں تو جو بھی تقوی اختیار کرے اور اصلاح کرے تو ان لوگوں پر کوئی خوف نہیں ہوگا اور وہ ننگین نہیں ہوں گے.“ اگر ایسا ہی تھا کہ آنحضرت ﷺ کے بعد آپ کی غلامی میں اور آپ کے لائے ہوئے پیغام کے لئے کوئی امتی نبی بھی نہیں آسکتا تھا تو پھر اللہ تعالیٰ یقینا مسلمانوں کو مخاطب کر کے یہ نہ فرما تا کہ اگر تمہارے پاس ایسے رسول آئیں جو کہ میری آیات پڑھتے ہوں لیکن مفتی محمود صاحب اس دلیل کا کوئی جواب نہ دے سکے.سلف صالحین کے حوالوں کی وضاحت کی کوشش مفتی محمود صاحب نے کہنے کو تو اپنی تقریر کے آغاز میں کہ دیا تھا کہ کہ مسئلہ ختم نبوت پر ہمیشہ تمام امت مسلمه اسی موقف کی قائل رہی ہے جو کہ وہ بیان کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن وہ جانتے

Page 145

143 تھے کہ جماعت احمدیہ نے اپنے محضر نامہ میں اور اس کے ضمیمہ میں بہت سےحوالے درج کئے ہیں جن سے یہ ثابت ہو جاتا تھا کہ یہ سب بزرگان ، اولیاء اور سلف صالحین اس بات کے قائل تھے کہ آنحضرت ﷺ کی اتباع میں امتی نبی آ سکتا ہے.اگر اس بنیاد پر جماعت احمدیہ پر کفر کا فتویٰ لگایا جاتا ہے تو یہی فتویٰ ان بزرگان پر بھی صادق آئے گا.اس صورت حال کے ازالے کے لئے مفتی محمود صاحب نے یہ کوششیں شروع کیں کہ یہ ثابت کیا جائے کہ جماعت احمدیہ نے غلط حوالے پیش کئے ہیں.انہوں نے اس ضمن میں پہلی مثال یہ پیش کی : اس سلسلے میں سب سے پہلے مرزا غلام احمد صاحب کی یہ ڈھٹائی اور دیدہ دلیری ملاحظہ فرمائیے کہ انہوں نے اپنی نبوت ثابت کرنے کے لئے مجددالف ثانی کی ایک عبارت نقل کی ہے اور اس میں ایک لفظ خوداپنی طرف سے بڑھا دیا ہے.لکھتے ہیں : یہ بات ہے کہ جیسا مجدد صاحب سرہندی نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ اگر چہ اس امت کے بعض افراد مکالمہ و مخاطبہ الہیہ سے مخصوص ہیں اور قیامت تک مخصوص رہیں گے لیکن جس شخص کو بکثرت اس مکالمہ ومخاطبہ سے مشرف کیا جائے اور بکثرت امور غیبی اس پر ظاہر کئے جائیں وہ نبی کہلا تا ہے.“ 66 (حقیقۃ الوحی صفحہ ۳۹۰ مطبوعہ ۱۹۰۷ء) حالانکہ حضرت مجد دصاحب کی جس عبارت کا حوالہ مرزا صاحب نے دیا ہے وہ یہ ہے: واذا كثر هذا القسم من الكلام مع واحد منهم يسمى محدثاً اور جب اللہ کی طرف سے اس قسم کا کلام کسی کے ساتھ بکثرت ہونے لگے تو 66 اسے محدث کہا جاتا ہے.(مکتوبات جلد ۲ صفحہ ۹۹) ( کارروائی صفحہ ۲۰۱۱) مفتی صاحب نے جو کچھ کہا تھا وہ من وعن درج کر دیا گیا ہے اور ہر کوئی پڑھ کر خود جائزہ لے سکتا ہے.پہلی یہ بات قابل توجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی معین مکتوب کا حوالہ درج

Page 146

144 نہیں فرمایا کہ یہ عبارت حضرت مجددالف ثانی کے کس مکتوب میں پائی جاتی ہے اور نہ ہی اس عبارت سے کسی طرح یہ تاثر مل سکتا ہے کہ یہ معین عبارت لفظ بلفظ درج کی جا رہی ہے اور مفتی محمود صاحب نے حضرت مجددالف ثانی کے جس مکتوب کا حوالہ درج کیا ہے اس میں ”نبی“ کے لفظ سے قبل کی چند سطریں اس طرح من و عن پائی بھی نہیں جاتیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر میں درج ہیں کہ کوئی یہ تاثر دے سکے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر میں اسی مکتوب کی معین عبارت درج کی جارہی تھی اور یہاں پر نعوذ باللہ محدث کا لفظ تبدیل کر کے نبی کر دیا گیا ہے تا کہ لوگوں کو دھوکہ دیا جا سکے.تمام پڑھنے والوں سے گذارش ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر کی ابتدا پر ایک نظر ڈالیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرما رہے ہیں کہ حضرت مجددالف ثانی نے اپنے مکتوبات میں یہ تحریر فرمایا ہے.صاف ظاہر ہے کہ یہ لکھا جا رہا ہے کہ مندرجہ ذیل مضامین حضرت مجددالف ثانی کے ایک سے زیادہ خطوط میں بیان ہوئے ہیں جس کا خلاصہ معنوی طور پر بیان کیا جا رہا ہے.البتہ یہ سوال ضرور اُٹھایا جا سکتا ہے کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے کیا یہ دو مضامین ان مکتوبات میں پائے جاتے ہیں کہ نہیں 1.آنحضرت ﷺ کی امت میں چنیدہ لوگ شرف مکالمہ ومخاطبہ حاصل کرتے رہتے ہیں.2 کیا چنیدہ لوگوں میں سے آنحضرت ﷺ کی امت میں کمالات نبوت کا حاصل کرنا ممکن ہے اور کیا اللہ تعالیٰ ان چنیدہ اشخاص کو جن کو کمالات نبوت عطا ہوتے ہیں اپنے وحی والہام سے غیب کا علم عطا کرتا ہے کہ نہیں؟ جہاں تک پہلے نکتہ کا تعلق ہے تو یہ مضمون حضرت مجددالف ثانی کے ایک سے زیادہ مکتوب میں موجود ہے اور اس میں سے ایک کا حوالہ خود مفتی محمود صاحب نے بھی دیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی امت میں شرف مکالمہ ومخاطبہ پانے والے لوگ ہمیشہ پیدا ہوتے رہے ہیں.(کشف المعارف مرتبه عنایت عارف ، الفیصل ناشران فروری ۲۰۰۶ صفحه ۳۹۱) دوسرا نکتہ کہ اس امت میں چنیدہ افراد ولایت کے مرتبہ سے بڑھ کر نبوت کے کمالات اور مرتبہ حاصل کر سکتے ہیں کہ نہیں اس کے بارے میں حضرت مجددالف ثانی تحریر فرماتے ہیں

Page 147

145 تو خاتم المرسلين عليه و آله و على جميع الانبياء والرسل الصلوات و تسلیمات کی بعثت کے بعد بطریق وراثت و تبعیت آپ کے پیروکاروں کو کمالات نبوت کا حصول آپ کی خاتمیت کے منافی نہیں علیه و آله الصلوة والسلام اور پھر آپ تحریر فرماتے ہیں اور دوسرا راستہ وہ ہے ان کمالات ولایت کے حصول کے بغیر ہی کمالات نبوت تک وصول میسر آجاتا ہے اور یہ دوسرا راستہ فراخ اور کشادہ ہے اور وصول کے زیادہ نزدیک ہے.“ ( مکتوبات حضرت مجددالف ثانی مکتوب نمبر ۳۰۱) پھر آپ ایک مکتوب میں قرآن کریم کی متشابہات آیات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان کا علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے علماء راسخین کو عطا فرمایا جاتا ہے لیکن خاص غیب کا علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسولوں کو عطا فرمایا جاتا ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ علماء راسخین کو بھی اس تاویل کا علم عطا فرماتا ہے.جس طرح کہ اس علم غیب پر جو اسی کے ساتھ مخصوص ہے.اپنے خاص رسولوں کو اطلاع بخشتا ہے.“ (مکتوب نمبر ۳۱۰) مندرجہ بالا حوالوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مجددالف ثانی کے مکتوبات کا حوالہ دے کر جو نکات بیان فرمائے تھے وہ مختلف مکتوبات میں موجود ہیں.مفتی محمود صاحب از خود صرف ایک مکتوب کی نشاندہی کر کے ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ عبارت میں تحریف کی گئی ہے حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو اس مکتوب کا حوالہ دیا ہی نہیں تھا بلکہ یہ تحریر فرمایا تھا کہ یہ نکات حضرت مجددالف ثانی کے ” مکتوبات میں بیان ہوئے ہیں اور مفتی محمود صاحب یہ تو جانتے ہی ہوں گے کہ لفظ ” مکتوبات“ مکتوب کی جمع ہے ، واحد نہیں ہے.سب سے اہم بات یہ ہے کہ حضرت مجددالف ثانی کا واضح ارشاد ہے کہ آنحضرت کی کامل اتباع کرنے والوں کو کمالات نبوت حاصل ہونا ختم نبوت کے منافی نہیں ہے.یہ ایک جملہ ہی

Page 148

146 جماعت احمدیہ کے موقف کو درست اور مفتی محمود صاحب اور ان کے ہمنوا احباب کے موقف کو غلط ثابت کر رہا ہے.حضرت مجدد الف ثانی کا ایک اور ارشاد درج کر کے اس ذکر کو ختم کرتے ہیں.آپ صدر جہاں کے نام شرعی احکام کے نفاذ کے کام کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں آپ کو معلوم ہے کہ زمانہ سابق میں جو فساد پیدا ہوا تھا.وہ علماء ہی کی کمبختی سے ظہور میں آیا تھا.(مکتوب نمبر ۳۲۲) اللہ تعالیٰ سب کو اپنے فضل سے علماء سوء کے شر سے محفوظ رکھے.کہنے کو تو مفتی محمود صاحب یہ دعوی ممبران قومی اسمبلی کے سامنے پیش کر چکے تھے کہ ختم نبوت کے مسئلہ پر ہمیشہ سے تمام امت کا موقف ان کے بیان کردہ موقف کے مطابق رہا ہے لیکن اس مسئلہ کا کیا کرتے کہ جماعت احمدیہ کے محضر نامہ اور اس کے ضمیمہ جات میں امت کے مجددین، نامور ترین علماء اور سلف صالحین کے بیسیوں ایسے حوالے پیش کئے گئے تھے جن سے واضح طور پر ثابت ہوتا تھا کہ یہ تمام بزرگان اس بات کے قائل تھے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد آپ کی غلامی میں کسی شخص کا امتی نبی کے منصب پر سرفراز ہونا آپ کے خاتم النبین ہونے کے مخالف نہیں ہے.صرف ضمیمہ نمبرے میں جس کا نام ”رسالہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی ﷺ اور صوفیاء اور اولیاء امت کے ایمان افروز ارشادات“ تھا چالیس سے زائد ایسے حوالے درج کیے گئے تھے جن سے واضح طور پر جماعت احمدیہ کے موقف کی تائید ہوتی تھی.یہ ضمیمہ شائع بھی ہوا اور انٹرنیٹ پر بھی موجود ہے جو چاہے اپنی تسلی کر سکتا ہے.مفتی محمود صاحب کے پاس ان دلائل کا جواب نہیں تھا.انہوں نے اس مسئلہ سے اپنی جان چھڑانے کے لیے کہا: یہی وجہ ہے کہ جہاں تک دین کے بنیادی مسائل، عقائد اور عملی احکام کا تعلق ہے وہ نہ علم تصوف کا موضوع ہیں اور نہ علمائے امت نے تصوف کی کتابوں کو ان معاملات میں کوئی ماخذ حجت قرار دیا ہے.اس کے بجائے عقائد کی بحثیں علم کلام میں اور عملی احکام و قوانین کے مسائل علم فقہ میں بیان ہوتے ہیں اور انہی علوم کی کتا بیں اس معاملے میں معتبر سبھی جاتی ہیں.خود صوفیائے کرام ان معاملات میں انہی علوم کی کتابوں

Page 149

147 کی طرف رجوع کرتے ہیں اور یہ تصریح کرتے ہیں کہ جو شخص تصوف کے ان باطنی اور نفسیاتی تجربات سے نہ گزرا ہو اس کے لئے ان کتابوں کا دیکھنا بھی جائز نہیں.بسا اوقات ان کتابوں میں ایسی باتیں نظر آتی ہیں جن کا بظاہر کوئی مفہوم سمجھ میں نہیں آتا.بعض اوقات جو مفہوم بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے وہ بالکل عقل کے خلاف ہوتا ہے لیکن لکھنے والے کی مراد کچھ اور ہوتی ہے.اس قسم کی عبارتوں کو شطحیات “ کہا جاتا ہے.اس لئے کسی بنیادی عقیدے کے مسئلہ میں تصوف کی کتابوں سے استدلال ایک ایسی اصولی غلطی ہے جس کا نتیجہ گمراہی کے سوا کچھ نہیں.“ ( کارروائی صفحہ ۲۰۰۷) ذرا ملاحظہ کیجیے مفتی محمود صاحب نے پہلے یہ دعویٰ کیا کہ وہ اپنے موقف کی تائید میں بیسیوں آیات پیش کر سکتے ہیں لیکن وہ ایسا نہ کر سکے.پھر حضرت محمد مصطفی علیہ کی ایک معروف حدیث کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا کہ اس میں مسلمان کی جو تعریف بیان فرمائی گئی ہے وہ جامع نہیں.اب امت کے مجددین ، اولیاء اور سلف صالحین کے ارشادات رہ گئے تھے، ان کے بارے میں یہ دعویٰ پیش کر دیا گیا کہ عام آدمی کے لیے ان کا دیکھنا بھی جائز نہیں اور بسا اوقات بادی النظر میں ان کا جو مطلب ہے وہ بالکل خلاف عقل ہوتا ہے.اور ایسی تحریرات کا نتیجہ سوائے گمراہی کے کچھ بھی نہیں.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.احمدیت کی دشمنی میں یہ مولوی صاحبان اتنے بغض وعناد اور غیض وغضب کا شکار ہو چکے تھے کہ اس سے مغلوب ہوکر وہ اسلام کی ہر چیز کے خلاف کمر بستہ نظر آتے تھے.آخر کن ہستیوں کے بارے میں یہ گستاخانہ رویہ اختیار کیا جا رہا تھا.یہ بالکل غلط ہے کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے صرف تصوف کی کتب کے حوالے پیش کیے گئے تھے.یہ حوالے قرآن شریف کے علاوہ حدیث کی کتب کے بھی تھے تفسیر کی کتب کے بھی تھے.ان میں حضرت علیؓ، حضرت عائشہ کے فرمودات بھی تھے.حضرت امام باقر اور حضرت امام جعفر کے اقوال بھی شامل تھے.ان حوالوں میں حضرت غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی کا حوالہ بھی شامل تھا.کیا مفتی محمود صاحب کے نزدیک ان سب علمی خزائن کا حاصل سوائے گمراہی کے کچھ بھی نہیں تھا.آخر مفتی محمود صاحب اور ان کے ہمنو اگر وہ کو واضح تو کرنا چاہیے کہ ان کا اشارہ ان ہستیوں میں سے

Page 150

148 کن کی طرف تھا ؟ اس کے بعد مفتی محمود صاحب جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کردہ حوالوں کا جواب تو نہیں دے سکے البتہ انہوں نے ملاعلی قاری اور ابن عربی کی فتوحات مکیہ کے حوالے پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ان حوالوں سے ملا علی قاری اور ابن عربی نے مفتی محمود صاحب کے موقف کی تائید ہوتی ہے.جہاں تک ابن عربی کے حوالے کا تعلق ہے تو وہ بالکل غیر متعلقہ تھا کیونکہ اس میں شرعی نبوت کا ذکر تھا، امتی نبوت کا ذکر نہیں تھا اور جہاں تک ملاعلی قاری کا تعلق ہے تو مفتی محمود صاحب اس بات کی کوئی وضاحت نہیں پیش کر سکے انہوں نے اپنی مشہور تصنیف موضاعات کبیر میں واضح طور پر یہ لکھا ہے کہ خاتم النبیین کے تو یہ معنی ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں ہوسکتا جو آپ کے دین کو منسوخ کرے اور آپ کا امتی نہ ہو.“ اس تحریر کے بعد کسی نے اس کی وجہ سے ان پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا تھا.مفتی محمود صاحب کے پیش کردہ حوالے کو پیش نظر رکھ کر زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی دو تحریروں میں تضاد ہے اور اس کی ذمہ داری جماعت احمد یہ پر نہیں ڈالی جاسکتی.جماعت احمدیہ پر عالم اسلام کی دشمنی کے الزامات جماعت احمدیہ کے عقائد پر بحث اُٹھانے کی کوشش کے بعد اب مفتی محمود صاحب نے اپنی قرارداد کی ایک اور بنیاد بیان کرنی شروع کی.اب وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ جماعت احمد یہ نعوذ باللہ ہمیشہ غیروں کے ہاتھ میں آلہ کار بن کر عالم اسلام کے مفادات کو نقصان پہنچاتی رہی ہے.اس حصہ کا آغاز انہوں نے کس طرح کیا.یہ ہم انہی کے الفاظ میں درج کر دیتے ہیں.مفتی محمود صاحب نے کہا: ۳۰ / جون کو قومی اسمبلی میں پیش کی گئی ہماری قرار داد میں مرزا غلام احمد کے جہاد کو ختم کرنے کی کوششوں کا بھی ذکر ہے اور یہ کہ وہ سامراج کی پیداوار تھا اور اس کا واحد مقصد مسلمانوں کے اتحاد کو تباہ کرنا تھا اور یہ کہ مرزائی خواہ انہیں کوئی بھی نام دیا جائے

Page 151

149 اسلام کے فرقہ ہونے کا بہانہ کر کے اندرونی و بیرونی طور پر تخریبی سرگرمیوں میں مصروف ہیں.ہم ان حسب ذیل چار باتوں کا جائزہ مرزائی تحریرات اور ان کی سرگرمیوں اور عزائم کی روشنی میں لیتے ہیں.(۱) مرزائیت سامراجی اور استعماری مقاصد اور ارادوں کی پیداوار ہے.(ب) ان مقاصد کے حصول کے لئے جہاد کو نہ صرف ہندوستان بلکہ پورے عالم اسلام میں قطعی حرام ، نا جائز اور منسوخ کرانا.(ج) ملت مسلمہ کے شیرازہ اتحاد اور وحدت ملت کو منتشر اور تباہ کرنا.(1) پورے عالم اسلام اور پاکستان میں تخریبی اور جاسوسی سرگرمیاں.( کارروائی صفحہ ۲۰۱۷) شاید وہ یہ بیان کرنا چاہتے تھے کہ برطانیہ کا تسلط بر صغیر پر کس طرح ہوا؟ اور وہ یہ بیان کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اس سے قبل دنیا بھر میں یوروپی طاقتوں کی نو آبادیاں کس طرح قائم ہورہی تھیں لیکن وہ کسی نا معلوم وجہ سے براعظم افریقہ کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کی تاریخ بیان کرنی شروع کر دی وہ یہ بیان کر رہے تھے کہ کس طرح ہندوستان پر قابض ہونے سے پہلے یوروپی طاقتیں افریقہ پر قابض ہوئیں اور افریقہ کو آپس میں تقسیم کیا جس کے بعد انہوں نے ہندوستان پر قابض ہونے کا منصوبہ بنایا.افریقہ کے سلسلہ میں انہوں نے جو دلچسپ حقائق بیان فرمائے وہ یہ تھے کہ اٹھارہویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں (یعنی ۱۷۵۰ اور ۱۸۰۰ کے درمیان ) یوروپی طاقتوں نے افریقہ کو جو تقسیم کیا تو یہ نقشہ سامنے آیا.اٹلی صومالی لینڈ ( صومالیہ ) کے ایک حصہ پر قابض ہو گیا.(حقیقت یہ ہے کہ اٹھارہویں صدی کے آخر میں اٹلی کا سومالی لینڈ پر کوئی قبضہ نہیں تھا.انیسویں صدی کے آخر میں بعض معاہدوں کے نتیجہ میں برطانیہ اور اٹلی نے صومالیہ کے کچھ ساحلی علاقوں پر تسلط حاصل کیا تھا اور صومالیہ کے اندر درویش سلطنت قائم تھی.اٹلی کا صومالیہ پر قبضہ ۱۹۴۰ء میں ہوا تھا اور اس وقت تک ہندوستان کو محکوم

Page 152

150 بنے ایک طویل عرصہ گذر چکا تھا بلکہ اب آزادی کے دن قریب آ رہے تھے.) مفتی محمود صاحب کے بیان سے لگتا تھا کہ وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ احمدیت کے قیام کے وقت صومالی لینڈ پر فرانسیسی تسلط موجود تھا.( اور حقیقت یہ ہے کہ اٹھارہویں صدی کے نصف آخر میں صومالی لینڈ میں فرانسیسی تسلط بھی موجود نہیں تھا.فرانسیسی صومالی لینڈ میں یہ تسلط ایک صدی کے بعد انیسویں صدی کے بالکل آخر میں قائم ہوا تھا اور جبوتی میں فرانسیسی ہیڈ کوارٹر قائم ہوا اور اس واقعہ سے قبل ہندوستان برطانوی سلطنت کا حصہ بن چکا تھا.) پھر مفتی محمود صاحب نے جرمن ایسٹ افریقہ کا بھی ذکر کیا کہ اٹھارہویں صدی کے آخر میں قائم ہو چکا تھا.یہ تاریخی حقائق بھی غلط تھے کیونکہ جرمن ایسٹ افریقہ اس کے ایک صدی کے بعد انیسویں صدی کے آخر میں روانڈا، برونڈی اور ٹانگانیکا کے علاقوں میں قائم کیا گیا تھا اور اس کا با قاعده اعلان ۱۸۸۵ء میں کیا گیا تھا.مفتی محمود صاحب کے اس بیان نے ان کے تاریخی علم کا بھی بھانڈا پھوڑ دیا.غالباً مفتی صاحب کے یا جس نے بھی انہیں تقریر کا یہ حصہ لکھ کر دیا تھا اس کے ذہن میں ۱۸۸۴ء میں ہونے والی برلن کانفرنس کے جزوی خدو خال تھے.اس کانفرنس میں یوروپی قوتوں نے افریقہ کی بندر بانٹ کی تھی لیکن حقائق ہرگز اس طرح نہیں تھے جس طرح مفتی صاحب بیان کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ پہلے افریقہ پر قبضہ کیا پھر ہندوستان پر قبضہ کرنے کی فکر پیدا ہوئی کیونکہ ۱۸۸۴ء سے قبل ہی کلکتہ سے خیبر تک برطانوی حکومت قائم ہو چکی تھی.بہر حال مفتی صاحب نے افریقہ کی تاریخ بیان نہیں کی تھی بلکہ اسے ملیا میٹ کیا تھا.سب سے بڑی بات یہ کہ اس کا اس موضوع سے کیا تعلق تھا جس پر کارروائی کے لیے یہ پیشل کمیٹی بنائی گئی تھی.بہر کیف مفتی محمود صاحب افریقہ سے نکلے تو نہر سویز سے جا الجھے اور یہ دعویٰ پیش کیا کہ جب ۱۷۶۹ء میں نہر سویز مکمل ہوئی تو مغربی طاقتوں کا عالمی تسلط اتنا بڑھ گیا کہ اس کے بعد صرف جنوب مغربی ایشیا پر قبضہ کرنا باقی رہ گیا.یہ حصہ پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ مفتی صاحب اگر بنیادی علم سے بے خبر ہونے کے باوجود عالمی تاریخ کا یہ سیر حاصل تجزیہ پیش کرنے پر ہی مصر تھے تو کیا اس قابل قومی اسمبلی میں ایک بھی شخص ایسا موجود نہیں تھا جو کہ اس بات کی

Page 153

151 نشاندہی کر سکتا کہ قبلہ کہاں بہک گئے ہیں؟ آپ کے تو بیان کردہ نکات کا کوئی سر پیر ہی نہیں.حقیقت تو یہ ہے کہ نہر سویز ۱۷۶۹ء میں نہیں بلکہ اس کے پورے سوسال بعد ۱۸۶۹ء میں مکمل ہوئی تھی اور اس دس سال سے بھی زیادہ عرصہ قبل ہی برصغیر پر برطانوی حکومت قائم ہو چکی تھی.مفتی صاحب تاریخی حقائق نہیں بلکہ افسانے بیان کر رہے تھے.بہر حال افریقہ کے جنگلات اور نہر سویز کی تعمیر سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے یہ بتانا شروع کیا کہ جب انگریزوں نے برصغیر پر قبضہ کرنا شروع کیا تو اس کی راہ میں کون سے دو عوامل حائل تھے.انہوں نے کہا: انگریز نے جب برصغیر اور عالم اسلام میں اپنا پنجہ استبداد جمانا شروع کیا تو اس کی راہ میں دو باتیں رکاوٹ بننے لگیں.ایک تو مسلمانوں کی نظریاتی وحدت دینی متعقدات سے غیر متزلزل وابستگی اور مسلمانوں کا وہ تصور اخوت جس نے مغرب و مشرق کو جسد واحد بنا کے رکھ دیا تھا.دوسری بات مسلمانوں کا لا فانی جذ بہ جہاد جو بالخصوص عیسائی یورپ کے لئے صلیبی جنگوں کے بعد وبال جان بنا ہوا تھا اور آج ان کے سامراجی منصوبوں کے لئے قدم قدم پر سد راہ ثابت ہورہا تھا.“ (صفحہ نمبر ۲۰۱۹) جیسا کہ بعد کے حصہ سے ظاہر ہو جائے گا کہ مفتی محمود صاحب اب یہ الزام لگانے کے لیے پر تول رہے تھے کہ انگریز برصغیر پر قبضہ کرنا چاہتے تھے لیکن کیا کرتے اس کی راہ میں دو چیزیں حائل تھیں.ایک تو ہندوستان کے مسلمانوں میں اتحاد بہت تھا اور دوسرے ہندوستان کے مسلمانوں کا جذ بہ جہا د انگریزوں کے عزائم میں حائل ہور ہا تھا، اس لیے انہوں نے ان دو مسائل کے حل کے لیے نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کھڑا کیا تا کہ مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کیا جا سکے اور ان کا جذ بہ جہا دکو سرد کیا جاسکے.پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ عجیب الخلقت الزام لگانے سے پہلے مناسب ہوتا کہ مفتی صاحب یا جس نے بھی انہیں یہ تقریر لکھ کر دی تھی کم از کم بنیادی تاریخ کے حقائق کا جائزہ لے لیتے.جماعت احمدیہ کی بنیاد ۱۸۸۹ء میں رکھی گئی تھی اور اس سے تہیں سال سے بھی زیادہ عرصہ قبل بنگال سے لے کر

Page 154

152 خیبر تک برصغیر پر انگریزوں کی حکومت قائم ہو چکی تھی.اب انہیں اپنی عملداری میں کسی جہاد کا سامنا نہیں تھا.اس لیے یہی بات مفتی محمود صاحب کے دعوے کو غلط ثابت کر دیتی ہے.مفتی محمود صاحب اب یہ دلائل دے رہے تھے کہ جماعت احمدیہ کے قیام سے قبل نہ صرف برصغیر بلکہ پوری دنیا میں انگریزوں کو اس مسئلہ کا سامنا تھا کہ دنیا بھر میں مسلمان جذ بہ جہاد سے سرشار ہوکر ان سے برسر پیکار تھے.یہ تو سب جانتے تھے کہ جماعت احمدیہ کا قیام ۱۸۸۹ء میں عمل میں آیا.ہم مختصر آ چند مثالیں پیش کرتے ہیں جن سے صورت حال بالکل واضح ہو جائے گی کہ جماعت کے قیام سے قبل عالم اسلام میں انگریزوں کی حکومت کے بارے میں کیا فتاویٰ دیئے جا رہے تھے.ڈبلیو.ڈبلیو.ہنٹر کی کتاب The Indian Mussalmans کے آخر میں اس بارے میں کئی فتاوی درج کیے گئے ہیں.یہ کتاب ۱۸۷۱ء میں لکھی گئی تھی.دیکھتے ہیں ان فتاوی میں پہلا فتویٰ کیا تھا؟ اور کس نے دیا تھا ؟ یہ تو سب جانتے ہیں کہ اگر ایک فتویٰ میں ایک ملک کو یا حکومت کو دارالاسلام قرار دیا جائے تو اس ملک میں اور اس حکومت کے خلاف جہاد جائز نہیں اور جس ملک کو دارالحرب قرار دیا جائے اس کے خلاف جہاد جائز ہوتا ہے.اس کتاب کے Appendix میں جو پہلا فتویٰ درج ہے وہ مفتی مکہ جمال ابن عبد اللہ شیخ عمر الحنفی کا تھا.اور وہ فتویٰ یہ تھا کہ انگریزوں کی حکومت میں ہندوستان دارالاسلام ہے.اور پھر مکہ میں شافعی اور مالکی مسلک کے علماء کے فتاویٰ درج ہیں کہ انگریزوں کے تحت ہندوستان دارالاسلام ہے.اس کے آگے بھی ایک فتویٰ درج ہے جو کہ شمالی ہندوستان کے علماء نے دیا تھا جن سے سوال پوچھا گیا تھا کہ پہلے ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت تھی اور اب عیسائیوں کی حکومت قائم ہوگئی لیکن ان کے تحت نماز روزہ حج وغیرہ کی اجازت ہے.اب کیا ان کے خلاف جہاد جائز ہے.اس کے جواب میں مختلف شہروں کے علماء کا مشتر کہ فتویٰ تھا کہ عیسائی مسلمانوں کی حفاظت کر رہے ہیں اس لیے ان کے خلاف جہاد جائز نہیں ہے یہ فتویٰ ۱۸۷۰ء کا ہے.پھر اس کے بعد کلکتہ محمدن سوسائٹی کا اعلان درج ہے جس میں کہا گیا تھا کہ

Page 155

153 ہندوستان کے انگریز حکمرانوں کے خلاف جہاد جائز نہیں ہے اور جو ایسا کرے گا ہندوستان کے مسلمان اس کے خلاف اپنے حکمرانوں کے ساتھ مل کر لڑیں گے.(The Indian Mussalmans, by W.W.Hunter, published by Sange-Meel 1999, p216-219) اس ایک مثال سے ہی ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی سے قبل ہی انگریز مسلمان علماء سے اپنے مقاصد حاصل کر چکے تھے اور صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ مکہ مکرمہ کے علماء بھی یہ فتوی دے چکے تھے کہ ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف جہاد جائز نہیں.مختلف مسالک سے وابستہ مولوی صاحبان ہندوستان بلکہ پورے عالم اسلام پر عیسائی پادریوں کی یلغار کوروکنے کے لیے تو کچھ نہیں کر رہے تھے البتہ برطانوی راج کے حق میں فتاوی صادر کرنے میں بہت مستعدی کا مظاہرہ کر رہے تھے.مفتی محمود صاحب نے تاریخی حقائق پر پردہ ڈالنے کے لیے ایک اور طریقہ اختیات کیا.انہوں نے یہ دعویٰ پیش کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ سے قبل برطانوی راج کو دراصل یہ مسئلہ در پیش تھا کہ ان کے خلاف عالم اسلام میں جگہ جگہ جہاد کے علم بلند ہورہے تھے اور عالم اسلام جہاد کی آماجگاہ بنا ہوا تھا.برطانوی حکمرانوں کے خلاف کامیاب جہاد کی دو مثالیں پیش کی گئیں.ذرا ملاحظہ کریں مفتی صاحب فرماتے ہیں: انیسویں صدی کا نصف آخر جو مرزا صاحب کے نشو ونما کا دور ہے اکثر ممالک اسلامیہ جہاد اسلامی اور جذبہ آزادی کی آماجگاہ بنے ہوئے تھے.برصغیر کے حالات تو مختصراً معلوم ہو چکے.ہم دیکھتے ہیں کہ یہی زمانہ ہے جب برصغیر کے باہر پڑوسی ممالک افغانستان میں ۷۹.۱۸۷۸ء میں برطانوی افواج کو افغانوں کے جذبہ جہاد وسروشی سے دو چار ہونا پڑتا ہے جو بالآ خر انگریزوں کی شکست اور پسپائی پر ختم ہو جاتا ہے.“ کارروائی صفحہ ۲۰۲۰)

Page 156

154 خدا جانے مفتی محمود صاحب بلکہ جملہ قابل ممبران اسمبلی نے تاریخ کا یہ علم کہاں سے کشید کیا تھا ؟ وہ ہر حقیقت کو الٹا بیان کر رہے تھے.حقیقت یہ تھی کہ مذکورہ جنگ میں جو کہ ۱۸۷۹ء میں لڑی گئی افغان حکمرانوں کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور انہوں نے برطانوی حملہ آوروں (جن کی فوج میں بہت سے مسلمان شامل تھے ) کے آگے ہتھیار ڈال کر ان کی تمام شرائط مان لی تھیں.مقامی حکمرانوں نے تخت سے دستبرداری کا اعلان کر دیا تھا.پھر اس جنگ کے بعد انگریزوں نے امیر عبد الرحمن کو تخت پر بٹھایا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے کے وقت امیر عبدالرحمن افغانستان کے تخت پر موجود تھے.انہوں نے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت مولوی عبد الرحمٰن کو شہید کرایا تھا.امیر عبدالرحمن برطانوی حکمرانوں سے بارہ لاکھ سالانہ کا وظیفہ پاتے تھے جس سے وہ اپنی فوجوں کو تنخواہ دیتے تھے اور انہوں نے اپنے ملک کی خارجہ پالیسی کا مختار برطانوی حکومت کو بنایا ہوا تھا.ظاہر ہے کہ انگریز انہیں یہ وظیفہ اپنے خلاف جہاد کرنے کے لیے تو نہیں دیتے تھے اپنی وفاداری دکھانے کے لیے دیتے تھے.(A history of Afghanistan, by Sir Frederick Pollock, internet archives p 159) انگریزوں سے جہاد کرنا تو ایک طرف رہا امیر عبد الرحمن انگریزوں کو اپنی وفاداری کا کس کس طرح یقین دلایا کرتے تھے اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے.جماعت احمدیہ کے اشد مخالف مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب تحریر کرتے ہیں کہ جب وائسرائے ہند نے راولپنڈی میں دربار کیا تو افغانستان کے امیر عبدالرحمن بھی اظہار وفاداری کے لیے اس دربار میں حاضر ہوئے.طرفین نے ایک دوسرے کو تحائف پیش کیے.وائسرائے ہند نے جب امیر افغانستان کو تلوار کا تحفہ پیش کیا تو امیر عبدالرحمن جذ بہ وفاداری سے اتنے جوش میں آئے کہ کہنے لگے : میں اور میری اُلس ( قوم و اتباع ) اس تلوار کے ساتھ مخالفین گورنمنٹ کا سرکا ئیں گے.انشاء اللہ تعالی (اشاعۃ السنہ نمبر ۱۲ جلد ۷ صفحه ۳۵) تو یہ تھا کامیاب جہاد جس کا ذکر مفتی محمود صاحب اس قدر جوش سے فرما رہے تھے.امیر

Page 157

155 افغانستان تو انگریزوں سے وظیفہ لیتے تھے اور یہ عہد کرتے تھے کہ وہ برطانوی حکومت کے دشمنوں کے سرکاٹ کر رکھ دیں گے.ظاہر ہے کہ ان کی ریاست میں ہندو سکھ اور عیسائی تو خاطر خواہ تعداد میں تو موجود نہیں تھے.وہ مسلمانوں کا سر قلم کرنے کی ہی بات کر رہے ہوں گے.ہم نے تاریخی حوالے درج کر دیئے ہیں.ہر صاحب بصیرت اس حقیقت کو پر کھ سکتا ہے.اس دور میں اور کہاں پر مسلمان برطانوی راج سے جہاد کر رہے تھے اس کی ایک اور مثال جو کہ مفتی محمود صاحب نے پیش کی وہ گزشتہ مثال سے بھی زیادہ دلچسپ تھی.یہ مثال محمد احمد کی تھی جس نے ۱۸۸۱ء میں سوڈان میں مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور ۱۸۸۵ء میں اس کا ٹائفس بیماری سے انتقال ہو گیا تھا.مفتی محمود صاحب نے کہا: ”سوڈان میں انگریز قوم قدم جمانا چاہتی ہے تو ا۱۸۸ء میں مہدی سوڈانی اور ان کے درویش جہاد کا پھر یر ا بلند کر کے بالآخر انگریز جنرل گارڈن اور اس کی فوج کا خاتمہ کرتے ہیں.“ (کارروائی صفحہ ۲۰۲۰) الله پہلی بات تو یہ ہے کہ محمد احمد نے ۱۸۸۱ء کے لگ بھگ سوڈان میں موعود مہدی ہونے کا اور رسول اللہ علہ کے خلیفہ ہونے کا دعویٰ کیا تھا.اس نے ایسی وحی پانے کا دعوی بھی کیا تھا جو رسول اللہ ﷺ کی وساطت سے آتی تھی.اگر مفتی محمود صاحب کے نزدیک اس کی جنگیں اسلامی جہاد تھیں تو اس کا لازمی مطلب یہ تھا کہ مفتی محمود صاحب کے نزدیک سوڈانی مہدی کے دعاوی درست تھے.اگر ایسا تھا تو پھر وہ خود اپنی تقریر کے اکثر حصہ کی تردید کر رہے تھے کہ آنحضرت علی کے بعد کسی پر کسی قسم کی وحی نہیں اتر سکتی.اگر مفتی محمود صاحب اور ان کے ہمنوا احباب کے نزدیک سوڈانی مہدی کے دعاوی درست نہیں تھے تو پھر وہ ایک مفتری تھا جس نے مہدی موعود ہونے کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا اور پھر دعوے کے چند سال کے اندراندر خدا تعالیٰ کی گرفت میں آ گیا اور وَلَوْ تَقَوَّلَ کی سزا اسے ملی اور ٹائفس بیماری نے اس کا کام تمام کر دیا اور اگر اس نے وحی پانے کا جھوٹا دعوی کیا تھا تو پھر اس کی جنگوں کو جہاد کیسے قرار دیا جا سکتا ہے.اور اس تقریر میں اس کی مثال دینے کا مقصد کیا تھا؟

Page 158

156 ویسے مفتی محمود صاحب چند تاریخی حقائق کو بالکل نظر انداز کر رہے تھے یا عمداً بیان نہیں کرنا چاہتے تھے.سوڈانی مدعی مہدویت کی زیادہ جنگیں انگریزوں کے خلاف تھیں ہی نہیں.اس کی زیادہ ترمہم جوئی اور نفرت کا نشانہ مسلمان تھے.اس نے خدیو مصر اور خلافت عثمانیہ کے خلاف مہم چلائی اور ان کے خلاف جنگیں کیں اور ہزاروں مسلمانوں کو قتل کر دیا.یہ ٹھیک ہے کہ اس نے خرطوم پر حملہ کیا جہاں پر اس وقت برطانیہ کا تسلط تھا اور Gordon کو قتل کیا لیکن اس وقت زیادہ تر سوڈان اور خود مدعی مہدویت محمد احمد کا جزیرہ مسلمان حکمران خدیو مصر کی حکومت میں شامل تھا اور اس حکومت کے خلاف محمد احمد نے بغاوت کی تھی.اس وقت جب یہ Gordon کا قتل کر چکا تھا تو بھی مغربی مصنفین یہی لکھ رہے تھے کہ بنیادی طور پر سوڈانی مہدی کی بغاوت سلطنت عثمانیہ اور خدیو مصر کے خلاف ہے عیسائیوں کے خلاف نہیں ہے.سوڈانی مدعی مہدویت کی زندگی میں تو جماعت احمدیہ کا قیام عمل میں بھی نہیں آیا تھا.اس کی مخالفت تو خود مسلمان ہی کر رہے تھے اور جامعہ ازہر کے علماء نے تو اس کے خلاف فتوی بھی دیا تھا.(THE MAHDI PAST AND PRESENT, BY JAMES DARMESTER, GOOGLE BOOKS P64-82) اور تو اور وہ ہندوستان کے مسلمان علماء جو بعد میں جماعت احمدیہ کی مخالفت میں پیش پیش رہے تھے وہ بھی اس وقت سوڈانی مہدی کے خلاف لکھ رہے تھے.چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کی تحریر جو ان کے رسالے ” اشاعۃ السنہ کی جلدے کے شمارہ نمبر ۱۲ میں شائع ہوئی تھی وہ محمد احمد سوڈانی اور اس کی جنگوں کے بارے میں لکھتے ہیں.وو یہ جنگ و فتوحات مسلمانان ہند کے اعتقاد و خیال میں بوجوہ چند اسلامی اصول و قوانین پر مبنی نہیں ہیں.“ ( کارروائی صفحہ ۳۵۸) مہدی کا مقابلہ در حقیقت سلطان روم سے ہے.“ ( کارروائی صفحہ ۳۵۹) اور پھر انہوں نے یہ لکھا کہ یہ سوڈانی مدعی در حقیقت کعبہ کو فتح کرنے کا قصد کر رہا ہے.( کارروائی صفحه ۳۵۹)

Page 159

157 وو مهدی سودانی مسلمانان ہند ( جن کے یہ مسلمات تسلیم کیے جاتے ہیں) کے نزدیک باغی ہے.“ ( کارروائی صفحہ ۳۶۰) مفتی محمود صاحب سنسنی خیز نتیجہ بیان کرتے ہیں یہ تاریخی حقائق تو غلط تھے.اس کے بعد مفتی محمود صاحب نے اپنے سنسنی خیز نتیجہ کی طرف رخ کیا.انہوں نے کہا: ایک حواری نبی کی ضرورت ایک برطانوی دستاویز دی ارائیول آف برٹش ایمپائر ان انڈیا میں ہے اور بیرونی تمام شواہد بھی اس کی تائید کرتے ہیں کہ ۱۸۶۹ء میں انگلینڈ سے برطانوی مدبروں اور مسیحی رہنماؤں کا ایک وفد اس بات کا جائزہ لینے برصغیر آیا کہ مسلمانوں کو رام کرنے کی ترکیب اور برطانوی سلطنت سے وفاداری کے راستے نکالنے پر غور کیا جائے.اس وفد نے ۱۸۷۰ء میں دور پورٹیں پیش کیں جن میں کہا گیا تھا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے روحانی رہنماؤں کی اندھا دھند پیرو کار ہے.اگر اس وقت ہمیں کوئی ایسا آدمی مل جائے جو اپاسٹالک (Apostolic Prophit حواری نبی ) ہونے کا دعوی کرے تو بہت سے لوگ اس کے گردا کٹھے ہو جائیں گے لیکن مسلمانوں میں ایسے کسی شخص کو ترغیب دینا مشکل نظر آتا ہے.یہ مسئلہ حل ہو جائے تو پھر ایسے شخص کی نبوت کو حکومت کی سرپرستی میں بطریق احسن پروان چڑھایا جا سکتا ہے.اب کہ ہم پورے ہندوستان پر قابض ہیں تو ہمیں ہندوستانی عوام اور مسلمان جمہور کی داخلی بے چینی اور باہمی انتشار کو ہوا دینے کے لئے اس قسم کے عمل کی ضرورت ہے.“ ( بحوالہ عجمی اسرائیل صفحه ۱۹ The arrival of British empire in India) ( کارروائی ۲۰۲۱) مفتی محمود صاحب برطانوی حکومت کی تیار کی گئی ایک دستاویز کا ذکر کر رہے ہیں اور حوالہ کیا

Page 160

158 دے رہے ہیں؟ اس کتاب کا نام ” عجمی اسرائیل“ ہے جو کہ سلسلہ احمدیہ کے اشد مخالف شورش کاشمیری صاحب نے لکھی ہوئی ہے.اس کتاب میں بغیر کسی ثبوت کے جماعت احمدیہ کے متعلق جھوٹ پر جھوٹ بولا گیا ہے.ہم اس کا ثبوت پیش کرتے ہیں.یہ الزام جس کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ اس کتاب کے صفحہ نمبر ۱۸ سے شروع ہوتا ہے اور اس ذکر سے شروع ہوتا ہے کہ خود کیمبرج سے شائع ہونے والی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ پادریوں کو اس بات کی شکایت ہے کہ افریقہ میں جماعت احمد یہ برطانیہ کی وزارت خارجہ کے سایہ تلے کام کرتی ہے اور اس کا ثبوت شورش کاشمیری صاحب کیا پیش کرتے ہیں؟ ملاحظہ کیجیے کس کتاب کا حوالہ دیا جارہا ہے.وہ لکھتے ہیں ” اس وقت میرے سامنے وہ کتاب نہیں مصنف اور کتاب کا نام بھی یاد نہیں آ رہا.پاکستان کے ایک بڑے افسر عاریتاً لے گئے.پھر اپنی نظر بندی کے باعث میں ان سے یہ کتاب واپس نہیں لے سکا.( مجھی اسرائیل بار دوئم صفحہ ۱۸) بہت خوب کیا ثبوت پیش کیا جا رہا ہے؟ کتاب کا نام کیا ہے؟ یہ تو معلوم نہیں.کس نے لکھی؟ یاد نہیں رہا.کتاب کہاں ہے؟ وہ تو اب میرے پاس نہیں.شورش صاحب کی کتاب کے کئی ایڈیشن چھپ گئے لیکن یہ کتاب دستیاب نہ ہوئی نہ اس کا نام سامنے آیا.ی تھی وہ معتبر کتاب جس کا حوالہ مفتی صاحب پیش کر رہے تھے.بہر حال اس سے اگلے صفحہ پر جس کا حوالہ مفتی صاحب نے پڑھا تھا ، یہ الزام ایک دستاویز ” Arrival of Brirtish 66 Empire “ کے حوالہ سے سامنے آتا ہے اور شورش صاحب لکھتے ہیں کہ اس نا معلوم کتاب میں بیان کردہ راز کی گرہ اس دستاویز سے کھلتی ہے.لیکن اس دستاویز کا حوالہ یا ثبوت کیا ہے؟ کیا یہ کہیں شائع ہوئی تھی ؟ یا اس کے مندرجات کسی کتاب یا جریدہ میں شائع ہوئے تھے؟ یایہ کسی لائبیر میری یا Achives میں موجود ہے.نہ تو شورش صاحب نے بیان کیا اور نہ مفتی محمود صاحب نے اس راز سے پردہ اُٹھایا.پھر جب سالہا سال کے بعد جماعت احمدیہ کے مخالفین پر دباؤ بڑھا کہ اس سنسنی خیز دستاویز کا انہیں کہاں سے علم ہوا تو پھر اپنی خفت مٹانے کے لیے روزنامہ نوائے وقت مورخہ ۷ ستمبر ۲۰۱۱ء میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں یہ انکشاف کیا گیا کہ یہ دستاویز

Page 161

159 انڈیا آفس لائیبریری میں آج تک موجود ہے.اس انکشاف سے سب محققین کو خوشی ہوئی کہ اس لائیبریری میں موجود ریکارڈ تک تو پبلک کو رسائی ہے اب یہ دستاویز شائع ہو جائے گی لیکن اس ضمن میں دو اہم پہلو جان کر سب کو حیرت ہوگی.1.قارئین کو یہ جان کے حیرت ہوگی کہ ۱۹۸۲ء میں انڈیا آفس لائیبر میری کوختم کر کے.اس کا سارا مواد برٹش لائیبریری منتقل کر کے اس کے Oriental and India office کا حصہ بنا دیا گیا تھا.گویا جب ۲۰۱۱ء میں یہ دعوی کیا جا رہا تھا کہ یہ دستاویز آج بھی انڈیا آفس لائبریری میں موجود ہے.اس وقت انڈیا آفس لائیبریری ہی موجود نہیں تھی.2.بہر حال انڈیا آفس لائیبریری کا ریکارڈ تو موجود تھا.اس لیے ہم نے متعلقہ حصہ سے رابطہ کر کے سوال کیا کہ کیا اس ریکارڈ میں The Arrival of British in India نام کی کوئی دستاویز موجود ہے؟ چونکہ اس شعبہ میں کیے جانے والے ہر استفسار یا درخواست کو ایک نمبر دیا جاتا ہے.یہ بیان کر دینا ضروری ہے کہ ہمارے سوال کا نمبر ۷۰۰۷۴۷۵ تھا.جس اہلکار نے اس کا جواب دیا ان کا نام Dorota Walker تھا.ان کا جواب موصول ہوا کہ اس نام کی کوئی دستاویز ریکارڈ میں موجود نہیں ہے.ہر کوئی متعلقہ شعبہ سے رابطہ کر کے ان حقائق کی تصدیق کر سکتا ہے.ان حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ساری کہانی جھوٹ پر مشتمل تھی.اس نام کی کسی دستاویز کا کوئی وجود ہی نہیں تھا.اگر اب بھی کسی کا خیال ہے کہ اس کا وجود تھا ؟ تو اس کا فرض ہے کہ وہ اس کا ثبوت مہیا کرے.حقیقت یہ ہے کہ جس دور میں مفتی محمود صاحب اور ان کے ہمنوا جماعت احمدیہ پر یہ بے سروپا الزام لگا رہے تھے کہ خدانخواستہ جماعت احمد یہ بڑی طاقتوں کی آلہ کار ہے اسی دور میں وہ خود بڑی طاقتوں سے رابطہ میں تھے.بعد میں ایسی خفیہ کیبل منظر عام میں آئی کہ ۱۹۷۹ء میں مفتی محمود صاحب نے امریکی سفارتکار سے یہ سوال پوچھا کہ سعودی عرب اپنی دولت سے وسیع پیمانے پر افغانستان میں لڑنے والوں کی مدد کیوں نہیں کر سکتا.(Sectarian War, by Khaled Ahmed, Oxford 2013, p98)

Page 162

160 حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے جہاد کی تنسیخ کا اعلان کیا اس تمہید کی تو کوئی بنیاد نہیں تھی.جھوٹ کا سہارا لیا گیا تھا.تاریخی حقائق کی بجائے خودساختہ سنسنی خیز کہانیاں بیان کی گئی تھیں.اب مفتی محمود صاحب اس فرسودہ الزام کی طرف آ رہے تھے جس کولگانے کے لیے یہ سب کچھ کرنا پڑا تھا یعنی بانی سلسلہ احمدیہ نے جہاد کے منسوخ ہونے کا اعلان کیا جب کہ یہ اسلام کا ایک اہم رکن ہے.جیسا کہ ان کی تقریر کے مندرجات سے ظاہر تھا ان کا خیال تھا کہ اسلامی جہاد کا تصور جنگوں اور قتال تک محدود ہے.انہوں نے کہا: انگریز کی ان وفا شعاریوں کا نتیجہ تھا کہ مرزا قادیانی نے کھلم کھلا جہاد کے منسوخ ہونے کا اعلان کر دیا.جہاد اسلام کا ایک مقدس دینی فریضہ ہے.اسلام اور مسلمانوں کی بقا کا دارو مدار اسی پر ہے.شریعت محمدی نے اسے قیامت تک اسلام اور عالم اسلام کی حفاظت اور اعلاء کلمۃ اللہ کا ذریعہ بنایا ہے.قرآن کریم کی بیشمار آیات اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے بیشمار احادیث اور خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی عملی زندگی ان کا جذبہ جہاد و شہادت یہ سب باتیں جہاد کو ہر دور میں مسلمانوں کے لئے ایک ولولہ انگیز عبادت بناتی رہیں.آنحضرت کا واضح ارشاد ہے.“ ( کارروائی صفحہ نمبر ۲۰۲۵) جہاں تک جہاد کے بارے میں جماعت احمدیہ کے نظریات کا تعلق ہے تو وہ جماعت احمدیہ کے پیش کردہ محضر نامہ میں بیان ہو چکا ہے.محضر نامہ کا آٹھواں باب ”انکار جہاد کے الزام کی حقیقت اسی الزام کے بارے میں تھا.اس باب میں بانی سلسلہ احمدیہ کے ارشادات کی روشنی میں جماعت احمدیہ کا اصولی موقف بیان کیا گیا تھا اور معتبر حوالے درج کیے گئے تھے جن سے ثابت ہوتا تھا کہ اس وقت کے اکثر علماء نے ہی فتویٰ دیا تھا اور مسلمانوں کے لیڈروں نے یہی راہنمائی کی تھی کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے انگریز حکومت کے خلاف جہاد جائز نہیں ہے.اس پس منظر میں یہ بات بالکل خلاف عقل ہے کہ ان سب کو چھوڑ کر جماعت احمدیہ پر یہ الزام لگایا جائے کہ جہاد کے مسئلہ پر

Page 163

161 جماعت احمدیہ کا یہ موقف کیوں ہے؟ اس پہلو پر مفتی محمود صاحب نے روشنی نہیں ڈالی.اب ہم اس ضمن میں کچھ تاریخی حقائق کا جائزہ پیش کریں گے.۱۸۵۷ء کی جنگ کے بعد ہندوستان میں برطانوی راج کو اپنی عملداری میں جہاد کے کسی خاطر خواہ مسئلہ کا سامنا نہیں تھا.اب اتنا عرصہ بعد اس دور کے خفیہ کا غذات سامنے آچکے ہیں اور متعدد کتب میں یہ دستاویزات من وعن بھی شائع ہو چکی ہیں.ان میں برطانوی حکمرانوں کی آپس میں خط و کتابت بھی شامل ہے.مثلاً Indian Muslims کے نام سے شان محمد صاحب نے اس قسم کی تاریخی دستاویزات شائع کی ہیں.ان کے مطالعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ برطانوی حکومت کو اس قسم کے کوئی خدشات لاحق نہیں تھے.اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے قیام سے بہت قبل ہی برطانوی حکمرانوں نے مستقبل میں اس قسم کے خدشات کے ازالہ کا کافی انتظام کر لیا تھا.اور وہ انتظام یہ تھا کہ انہوں نے مختلف مسالک کے علماء سے اس قسم کے فتاویٰ حاصل کر لیے تھے اور ان علماء نے برطانوی حکومت کی مدد کے لیے کثرت سے اس قسم کی تحریرات شائع کی تھیں کہ انگریزوں کے خلاف جہاد یا جنگ کرنا قطعاً غیر اسلامی ہے.دلچسپ بات یہ ہے کہ جو مولوی صاحبان بعد میں جماعت احمدیہ کی مخالفت میں پیش پیش رہے، برطانوی حکومت کی مدد اور تعریف میں سب سے پیش پیش تھے.ہم ایک نمایاں مثال پیش کرتے ہیں.یہ تو سب جانتے ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کے بعد مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب آپ کی مخالفت میں سب سے پیش پیش تھے.اور یہی مولوی صاحب تھے جنہوں نے ۱۸۸۶ء میں رسالہ "الاقتصاد فی الجہاد تحریر فرمایا اور اس کے سرورق پر یہ لکھا ہوا تھا کہ پنجاب کے ہر دلعزیز گورنر چارلس انھین صاحب نے اس رسالہ کو اپنے نام سے Dedicate ہونا منظور فرمایا ہے.اس رسالہ میں مولوی صاحب نے بڑی شد و مد سے یہ دلائل جمع کیے تھے کہ برطانوی حکومت کے خلاف جہاد کسی طرح جائز نہیں.(رسالہ اشاعۃ السنہ نمبر ۹ جلد ۹ صفحه ۷ ۲۵ تا ۳۴۳) اس رسالہ میں مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب یہ تحریر فرماتے ہیں: در جس شہر یا ملک میں مسلمانوں کو مذہبی فرائض ادا کرنے کی آزادی حاصل ہو وہ شہر یا ملک

Page 164

162 دار الحرب نہیں کہلاتا.پھر اگر وہ دراصل مسلمانوں کا ملک یا شہر ہوا قوام غیر نے اس تغلب سے تسلط پالیا ہو ( جیسا کہ ملک ہندوستان ہے ) تو جب تک اس میں ادائے شعائر اسلام کی آزادی رہے وہ بحکم حالت قدیم دار الا سلام کہلاتا ہے..اس شہر یا ملک پر مسلمانوں کو چڑھائی کرنا اور اس کو جہاد مذہبی سمجھنا جائز نہیں ہے اور جو مسلمان اس ملک میں با امن رہتے ہوں ان کو اس ملک یا شہر سے ہجرت کرنا واجب نہیں..(اشاعۃ السنہ نمبر ۹ جلد ۹ صفحه ۲۷۵) اس رسالہ میں بار بار برطانوی حکومت کی وفاداری کی تلقین نظر آتی ہے البتہ کہیں بھی عیسائی پادریوں کے اسلام پر حملوں کا جواب نہیں آتا.خود مفتی محمود صاحب دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتے تھے.اب دیوبند کے فتاوی کا مجموعہ شائع ہو چکا ہے.کہیں بھی انگریزوں کے خلاف جہاد کا کوئی فتوی نظر نہیں آتا.اگر انگریزوں کے خلاف قتال دین کا اتنا ہی اہم جزو تھا تو جب انگریز یہاں پر قابض تھے تو اس وقت ان دیو بندی علماء نے ان کے خلاف جہاد کا فتویٰ کیوں نہیں دیا بلکہ جیسا کہ ہم گزشتہ کتاب میں ثبوت درج کر چکے ہیں دیو بند کے مہتم تو برطانوی حکومت کے لیے مخبری کا کام کیا کرتے تھے.بغداد پر قبضہ اور لارڈ ہارڈنگ کا قصہ اس کے بعد مفتی محمود صاحب نے کچھ حوالے پیش کر کے پہلی جنگ عظیم کے حوالے سے یہ الزام لگایا کہ جب پہلی جنگ عظیم کے دوران اتحادی افواج نے عراق پر قبضہ کیا اور سلطنت عثمانیہ کی افواج کو شکست ہوئی تو اس کے پیچھے بھی احمدیوں کی سازش ہی کا فر ماتھی.ملاحظہ کیجیے کہ وہ اس کا ثبوت کیا پیش کرتے ہیں: جب انگریزوں نے عراق پر قبضہ کرنا چاہا اور اس غرض کے لئے لارڈ ہارڈنگ نے عراق کا دورہ کیا تو مشہور قادیانی اخبار الفضل نے لکھا یقیناً اس نیک دل افسر (لارڈ ہارڈ نگ ) کا عراق میں جانا عمدہ نتائج پیدا کرے گا.ہم ان نتائج پر خوش ہیں کیونکہ خدا ملک گیری اور جہان بانی اسی کے سپرد کرتا ہے جو اس کی مخلوق کی بہتری چاہتا ہے اور اسی

Page 165

163 کو زمین پر حکمران بناتا ہے جو اس کا اہل ہوتا ہے.پس ہم پھر کہتے ہیں کہ ہم خوش ہیں کیونکہ ہمارے خدا کی بات پوری ہوتی ہے اور ہمیں امید ہے کہ برٹش حکومت کی توسیع کے ساتھ ہمارے لئے اشاعت اسلام کا میدان بھی وسیع ہو جائے گا اور غیر مسلم کو مسلم بنانے کے ساتھ ہم مسلمان کو پھر مسلمان کریں گے.“ 66 اخبار الفضل جلد ۲ نمبر ۱۰۳ مورخه ۱۱ فروری ۱۹۱۵ء) ( کارروائی صفحه ۲۰۴۲) مفتی محمود صاحب نامکمل حوالہ پیش کر رہے تھے.ان واقعات کا پس منظر یہ تھا کہ پہلی جنگ عظیم سے قبل بیشتر عرب ممالک سلطنت عثمانیہ کے ماتحت تھے اور پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانیہ نے عرب امراء اور ان کے عوام کے ساتھ مل کر ایک منصوبہ تیار کیا جس کے تحت اس جنگ کے دوران عرب ممالک نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کر دی اور الفضل کے اس مضمون میں بھی لارڈ ہارڈنگ کے عرب ممالک کے دورہ کا ذکر تھا.لارڈ ہارڈنگ ہندوستان کے وائسرائے تھے اور یہ ذکر تھا کہ انہوں نے وہاں کن کن شخصیات سے ملاقات کی.چنانچہ لکھا ہے کہ وہاں لارڈ ہارڈنگ نے فرمانروائے کویت، شیخ بحرین اور نقیب بصرہ سے ملاقاتیں کیں اور ان میں سے کچھ کو سلطنت برطانیہ کی طرف سے تمغوں سے نوازا.اب اگر مفتی محمود صاحب کا یہ دعویٰ درست تھا کہ لارڈ ہارڈنگ نے اس دورہ میں سلطنت عثمانیہ کے خلاف سازش تیار کی تھی تو بجائے جماعت احمد یہ پر اس کا غصہ نکالنے کے ان مسلمان لیڈروں پر اس کا غصہ نکالنا چاہیے تھا.یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ وہ اس معاملہ میں سلطنت برطانیہ سے مکمل تعاون کر رہے تھے اور ان کے آلہ کار بنے ہوئے تھے اور سلطنت برطانیہ انہیں تمغوں سے بھی نواز رہی تھی.ان میں کویت کے اس وقت کے فرمانروا شیخ مبارک بن صباح اور بعد میں بننے والے فرمانروا شیخ بن جابر الصباح بھی شامل تھے.اگر مفتی محمود صاحب اور ان کے ہمنوا مولوی صاحبان نے کسی کو اس سازش کا ذمہ دار قرار دینا تھا تو ان کو قرار دینا چاہیے تھا اور یقیناً یہ دونوں اصحاب احمدی نہیں تھے بلکہ سنی مسلک سے تعلق رکھتے تھے اور بہت سے مولوی صاحبان کو میت سے مدد لے کر جماعت احمدیہ کے خلاف مہم بھی چلاتے رہے ہیں.

Page 166

164 یہاں ایک اور دلچسپ زاویہ سے اس معاملہ کا جائزہ لینا ضروری ہے.مفتی محمود صاحب یہ منطق پیش کر رہے تھے کہ لارڈ ہارڈنگ وہ شخصیت تھے جن کی بنائی ہوئی سازش کے نتیجہ میں برطانیہ نے بغداد پر قبضہ کیا تھا اور چونکہ الفضل میں ان کی تعریف کی گئی تھی اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ احمدی بھی اس سازش میں شریک تھے.یہاں یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ اور کس کس نے لارڈ ہارڈنگ کی تعریف کی تھی.ہم قائد اعظم کی ایک تقریر کا حوالہ پیش کرتے ہیں.Indeed the great and sympathetic Viceroy, Lord Hardinge whose memory will always be cherished by with affection by the people of this country for the first time recognized the legitimacy of this vital Indian aspiration.(The Works of Quaide Azam Muhammad Ali Jinnah by Riaz Ahmad, Vol.3, published by Quaide.Azam University 1998,p 471) ترجمہ: یقینا عظیم اور ہمدرد وائسرائے لارڈ ہارڈنگ نے جن کو اس ملک کے لوگ ہمیشہ محبت سے یا درکھیں گے سب سے پہلے ہندوستانیوں کی اس خواہش کو تسلیم کیا.الفضل میں لارڈ ہارڈنگ کی اس سے زیادہ تعریف نہیں کی گئی.اگر یہ قابل اعتراض ہے تو معترض کا یہ اعتراض قائداعظم پر بھی ہوگا.اس کا پس منظر یہ ہے کہ مارچ ۱۹۱۷ء میں برطانوی افواج نے بغداد پر قبضہ کیا.اس سے قبل ترکی کی سلطنت عثمانیہ کے قبضہ میں تھا.جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ الزام یہ لگایا جا رہا تھا کہ یہ قبضہ عالم اسلام کے لیے اتنا بڑا سانحہ تھا لیکن احمدیوں نے اس پر خوشیاں منا کر مسلمانوں کے جذبات مجروح کیے.مفتی محمود صاحب نے یہ الزام لگایا کہ اس موقع پر قادیان میں چراغاں کیا گیا تھا.یہ الزام بے بنیاد ہے.اس موقع پر قادیان میں چراغاں نہیں ہوا تھا.دلچسپ بات یہ ہے کہ سارے قصے میں احمدیوں پر کیوں غصہ نکالا جارہا تھا.پہلی جنگ عظیم میں جب برطانیہ اور اتحادی افواج سلطنت عثمانیہ کے خلاف برسر پرکار تھیں تو یہ سب کچھ عرب مسلمانوں کے تعاون

Page 167

165 سے ہو رہا تھا.سعودی عرب کا موجودہ شاہی خاندان اور شریف مکہ اور دوسرے عرب ممالک کے عوام اور خواص نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف جدو جہد کی تھی اور اتحادی طاقتوں کا ساتھ دیا تھا اور یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ جب بغداد پر برطانوی افواج کا قبضہ ہو گیا تو ہندوستان کے مسلمانوں کا کیا ردعمل تھا کیا وہ برطانوی حکمرانوں کے خلاف جذبات کا اظہار کر رہے تھے یا ان سے اظہار وفاداری کر رہے تھے.اس کی بہت سی مثالیں ہو سکتی تھیں لیکن ہم ان میں سے دو مثالوں کا انتخاب کرتے ہیں.ایک مثال مسلمانوں کی نمائندہ سیاسی تنظیم آل انڈیا مسلم لیگ کی ہے اور دوسری مثال ہندوستان کے علماء کی ہے.بغداد پر قبضہ کے بعد جب آل انڈیا مسلم لیگ کا پہلا سالانہ اجلاس ہوا تو اس میں منظور ہونے والی پہلی قرار داد یہ تھی.The All India Muslim League notes with deep satisfaction the steadfast loyalty of the Mussalmans community to the British Crown during the present crisis through which the Empire is passing, and it assures the Government that it may continue to rely on the loyal support of the Mussalmans and prays that this assurance may be conveyed to H.M.the King Emperor.(The Indian Muslims, A documentary record 1900-1947, compiled by Shan Muhammad, published by Meenakshi Prakashan, Vol.5 p 145) ترجمہ: آل انڈیا مسلم لیگ اس بحران میں مسلمانوں کی تاج برطانیہ سے مستقل وفاداری پر گہرے اطمینان کا اظہار کرتی ہے اور گورنمنٹ کو یہ یقین دلاتی ہے کہ وہ پہلے کی طرح مسلمانوں کی وفاداری اور حمایت پر انحصار کر سکتے ہیں اور یہ درخواست کرتی ہے کہ ان کے یہ جذبات شہنشاہ معظم

Page 168

166 تک پہنچا دئیے جائیں.اور بغداد پر قبضہ ہونے کے بعد جب ہندوستان کے علماء جمع ہوئے کہ وہ برطانیہ سے آئے ہوئے وفد کو اپنی گزارشات پیش کریں تو ان کا میمورنڈم ان الفاظ سے شروع ہوا.ہم یہ حوالہ بھی جماعت احمدیہ کے اشد مخالف جریدے اہلحدیث سے پیش کر رہے ہیں.”جناب عالی ! ہم لوگ جنہیں علماء ہند نے اپنا نمائندہ منتخب کیا ہے.اس غرض سے حاضر ہوئے ہیں کہ جناب عالی کی سرزمین ہند پر بغرض صلاح و فلاح جملہ رعایا تشریف فرما ہونے پر صمیم قلب سے خیر مقدم کریں اور چند معروضات جن کا تعلق خاص کر فرقہ اہل اسلام سے ہے.سمع اعلیٰ تک پہونچانے کے اجازت خواہ ہیں.جناب عالی! کا ایسے وقت میں جب کہ سلطنت برطانیہ ایک عظیم و مہیب جنگ میں شریک ہے اور بریٹن حکومت کی توجہ تمام تر اس جانب منعطف ہے تشریف لا نا اراکین حکومت برطانیہ کی معدلت پروری اور عدل گستری کے محسوسات سے مسلمانان ہند پر عموماً اور ہم طبقہ علماء پر خصوصاً منکشف ہے جس کے لیے دولت برطانیہ و دل عالم میں مشہور رہی ہے.ہم کو جب یہ اطلاع ہوئی کہ جناب والا کو اپنی دور افتادہ ہندی رعایا کی ترقی و عطائے حقوق کا اس درجہ خیال و پاس ہے کہ اس تشویشناک زمانے میں خاص اس مقصد کے لیے بہ نفس نفیس زحمت تشریف آوری گوارا فرمائی ہے.66 اہلحدیث ۳۰ / نومبر ۱۹۱۷ ، صفحه ۲) تو بغداد پر قبضہ کے بعد مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر سے اور علماء کی طرف سے حکومت کو اس طرح کے پیغامات بھجوائے جا رہے تھے اور اظہار وفاداری کیا جا رہا تھا.اس پس منظر میں جماعت احمدیہ پر کسی قسم کا الزام لگانا ایک بے معنی بات ہے.بغداد کا فرضی گورنر مفتی محمود صاحب نے بغداد کی کہانی کا انجام ایک عجیب وغریب غلط بیانی پر کیا.انہوں نے جوش سے یہ الزام لگایا کہ سلطنت برطانیہ نے عراق پر قبضہ کرنے کے بعد احمدیوں کو نواز نے کے لیے ایک احمدی عبدالرزاق صاحب کو جو اس وقت فوج میں میجر کے عہدہ پر کام کر رہے تھے عراق کا گورنر مقرر کیا.

Page 169

167 یہ ایک مضحکہ خیز دعویٰ تھا جب برطانوی افواج نے عراق پر قبضہ کیا اور سلطنت عثمانیہ کی افواج کو وہاں سے پسپا ہونا پڑا تو اس وقت General Maude ان افواج کی قیادت کر رہے تھے اور عراق کا علاقہ انہی کے ماتحت رہا جب ان کا انتقال ہو گیا تو جنرل ولیم مارشل (William Marshal) نے ان کی جگہ کام شروع کر دیا.ویسے بھی عقل یہ بات قبول نہیں کر سکتی کہ ایک جنرل کے ہوتے ہوئے ایک میجر کو حکمران بنا دیا جائے.سب سے بڑی بات یہ کہ یہ الزام تاریخی طور پر بالکل غلط تھا.گورنر کا عہدہ کسی کو خفیہ طور پر تو نہیں دیا جا سکتا.آخر مفتی محمود صاحب اور ان کے ہمنو اگروپ نے کہاں پڑھ کر یہ انکشاف کیا تھا اور یہ بات حیران کن ہے کہ قومی اسمبلی میں کسی نے کھڑے ہو کر یہ بھی نہیں کہا کہ واضح طور پر غلط حقائق بیان کیے جارہے ہیں.مسئلہ فلسطین پر مفتی صاحب کے تبصرے عراق کی تاریخ کے بخیے ادھیڑنے کے بعد مفتی محمود صاحب فلسطین اور قیام اسرائیل کی طرف متوجہ ہوئے.ظاہر ہے کہ وہ اسرائیل کے قیام اور اہل فلسطین کے حقوق کے سلب ہونے کا الزام جماعت احمدیہ پر لگانے کی کوششیں کر رہے تھے.اس مسئلہ پر اپنے تبصرہ کا آغاز انہوں نے ایک نامکمل اور مسخ شدہ حوالہ پیش کرنے سے کیا.وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ یہودی احمدیوں کی مدد سے فلسطین میں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تھے لیکن انہوں نے ایسا حوالہ پیش کیا جو خود ان کے اس الزام کی تردید کر رہا تھا.پیسہ اخبار نے لکھا تھا کہ عیسائیوں اور یہودیوں کی نسبت مسلمان بیت المقدس کی تولیت کے حقدار ہیں کیونکہ وہ سب نبیوں پر ایمان لاتے ہیں.اس پر الفضل شمارہ ۳۶ جلد 9 میں اس پر تبصرہ کیا تھا کہ اس کلیہ کی رو سے تو مسلمانوں میں احمدی فرقہ کے لوگ اس کی تولیت کے سب سے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ باقی انبیاء اور آنحضرت ﷺ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی ایمان لائے ہیں.اگر یہ تھی وہ سازش جس کا مفتی محمود صاحب ذکر کر رہے تھے تو اس کی رو سے تو فلسطین میں احمدیوں کی حکومت ہونی چاہیے تھی اور یہودیوں کا تسلط نہیں ہونا چاہیے تھا.پھر یہ بے سروپا الزام کس بنیاد پر لگایا گیا کہ

Page 170

168 اسرائیل جماعت احمدیہ کی کوششوں سے بنا تھا اور مفتی محمود صاحب نامکمل عبارت پیش کر رہے تھے کیونکہ اس کے آگے لکھا ہے.باقی رہی تولیت.اس سے ہماری مراد کسی جائداد پر قبضہ کرنا یا اوقات یا نذرو نیاز کی مدد لینا نہیں بلکہ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں وہاں کے لوگوں کو حقیقی اسلام سکھانے کا موقع اور آسانیاں حاصل ہوں.“ (روز نامہ الفضل ۷ نومبر ۱۹۲۱ صفحی۴ ) مکمل عبارت پوری طرح مفتی صاحب کے الزام کی تردید کرتی ہے.اس کے بعد اپنے الزامات میں کچھ جان پیدا کرنے کے لیے مفتی محمود صاحب نے الفضل کا یہ حوالہ پڑھا: ” میں نے یہاں کے ایک اخبار میں ایک آرٹیکل دیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ وعدہ کی زمین ہے جو یہودیوں کو عطا کی گئی تھی مگر نبیوں کے انکار اور بالآخر مسیح کی عداوت نے یہود کو ہمیشہ کے واسطے وہاں کی حکومت سے محروم کر دیا اور یہودیوں کو سزا کے طور پر حکومت رومیوں کو دے دی گئی اور بعد میں عیسائیوں کو ملی پھر مسلمانوں کو.اب اگر مسلمانوں کے ہاتھ سے وہ زمین نکلی ہے تو پھر اس کا سبب تلاش کرنا چاہیے.کیا مسلمانوں نے کسی نبی کا انکار تو نہیں کیا ؟ سلطنت برطانیہ کے انصاف اور امن اور آزادی مذہب کو ہم دیکھ چکے ہیں.آزما چکے ہیں اور آرام پارہے ہیں.اس سے بہتر کوئی حکومت مسلمانوں کے لئے نہیں.بیت المقدس کے متعلق جو میرا مضمون یہاں (انگلستان) کے اخبار میں شائع ہوا ہے اس کا ذکر میں اوپر کر چکا ہوں.اس کے متعلق وزیر اعظم برطانیہ کی طرف سے ان کے سیکرٹری نے شکریہ کا خط لکھا ہے.فرماتے ہیں کہ مسٹر لائڈ جارج اس مضمون کی بہت قدر کرتے ہیں.“ الفضل قادیان جلد ۵ نمبر ۷۵ مورخه ۱۹ / مارچ ۱۹۱۸ء) ( کارروائی صفحه ۲۰۴۵) مفتی محمود صاحب کی تقریر کا یہ حصہ ہم نے من و عن پیش کر دیا ہے.صاف ظاہر ہے کہ مفتی محمود

Page 171

169 صاحب دعوی کر رہے تھے کہ وہ الفضل کے اس شمارے سے ایک مسلسل عبارت پیش کر رہے ہیں.حکومت کی طرف سے شائع کردہ کارروائی میں کہیں علامات حذف (...) درج نہیں ہیں کہ وہ بیچ میں سے عبارت حذف کر کے یہ جملے پیش کر رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس روز کے الفضل کے اس شمارے میں یہ عبارت اس طرح درج ہی نہیں.یہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی تبلیغی رپورٹ سے لیے گئے جملے ہیں جو کہ اخبار کے دو صفحات پر شائع ہوئی تھی.مفتی محمود صاحب نے بیچ میں سے عبارات غائب کر کے حوالے کو مسخ کر کے پیش کیا ہے مگر کیوں ؟ کون سے فقرے حذف کیے گئے؟ ملاحظہ کیجیے.ابتدائی فقروں کے بعد حضرت مفتی محمد صادق صاحب لکھتے ہیں.ہاں ہم اپنے نیک نمونے اور روحانی کشش سے یورپ کو مسلمان بنالیں تو پھر ساری حکومتیں ہماری ہی ہیں اور اس میں اسلام کی آئیندہ بہتری کی امیدیں ہیں.“ الفضل ۱۹ مارچ ۱۹۱۸ صفحه ۸) بہت خوب ! یہ تھا قادیانیوں کا یہودی غلبہ کا منصوبہ یعنی یہ اعلان کیا جا رہا ہے کہ سارے یورپ کو مسلمان کر لیا جائے اور محمد ﷺ کا تابع بنا دیا جائے تو پھر فلسطین کیا ساری دنیا میں اسلام کا غلبہ شروع ہو جائے گا.ان عزائم کے بارے میں مفتی محمود صاحب اور مولوی صاحبان یہ واویلا کر رہے ہیں کہ دیکھو کتنا بڑا ظلم ہو گیا کہ یہودیوں کے غلبہ کا منصوبہ بنایا جا رہا تھا.پھر عبارت کے آخری حصہ جس میں وزیر اعظم برطانیہ کو خط لکھنے کا ذکر ہے اس سے پہلے جس عبارت کو حذف کیا گیا ہے اس میں یہ ذکر چل رہا ہے کہ امریکہ کے لوگوں میں قرآن کریم کی اشاعت کس طرح کی جارہی ہے اور کس طرح امریکی اخبارات میں قرآن کریم کے ترجمہ کے بارے مثبت ریویو شائع ہورہے ہیں اور یہ امید کی جارہی ہے کہ کچھ امریکی اسلام قبول کر لیں گے.(الفضل ۱۹ مارچ ۱۹۱۸ صفحہ ۹) تو یہ تھی وہ خوفناک سازش جس کا انکشاف پاکستان کے قابل ممبران قومی اسمبلی کے سامنے کیا جار ہا تھا کہ یورپ مسلمان ہو جائے اور امریکی لوگ اسلام میں شامل ہو جائیں اور مفتی محمود صاحب تو جو کہہ رہے تھے سو کہہ رہے تھے ان ممبران اسمبلی میں کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ وہ اصل حوالہ پڑھنے کا مطالبہ کرتا اور حقیقت جان لیتا.رہا فلسطین کے متعلق کیا موقف لکھا گیا تو گزشتہ کتاب میں

Page 172

170 حوالے درج کر دیئے گئے ہیں کہ جماعت احمدیہ کا ہمیشہ یہی موقف رہا ہے کہ فلسطین کے ملک کے اصل مالک فلسطینی ہیں یہودی نہیں ہیں اور ہر سطح پر ہمیشہ اسی موقف کو پیش کیا گیا ہے.مولوی صاحبان کی عادت ہے کہ جس کسی کے خلاف جذبات کو بھڑ کا نا ہو اس کے متعلق جھٹ یہ دعویٰ پیش کر دیتے ہیں کہ یہ تو یہودیوں کا پیدا کیا ہوا گر وہ ہے.یہی الزام بعد میں شیعہ احباب کے بارے میں لگایا گیا.چنانچہ ماہنامہ بینات کے خصوصی ایڈیشن میں یہ دعویٰ شائع کیا گیا:.دوسرے یہ کہ جس طرح مسلمانوں کے بہت سے گمراہ فرقے خوارج ، مرجئہ، مجسمه و غیرہ غلط فہمی سے پیدا ہوئے شیعہ مذہب اس طرح پیدا نہیں ہوا بلکہ عبداللہ بن سبا یہودی اور اس کے خاص رفقاء نے اپنے سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق اسلام کی تخریب و تحریف اور مسلمانوں میں افتراق و تفریق اور خانہ جنگی بر پا کرانے کے لئے اس کو وضع کیا تھا.“ (خمینی اور اثنا عشریہ کے بارے میں علماء کرام کا متفقہ فیصلہ ماہنامہ بینات خصوصی اشاعت صفحہ ۶.یہ اشاعت انٹر نیٹ پر دستیاب ہے.) اسرائیل بننے کے بعد کے حالات قیام اسرائیل بننے تک کی تاریخ پر یہ انکشافات کرنے کے بعد مفتی محمود صاحب کے تجزیہ نے اسرائیل بننے کے بعد کے حالات کی طرف رخ کیا.انہوں نے اس حوالے سے جماعت احمد یہ پر جو الزامات لگائے ہم ان کا مختصر سا تجزیہ پیش کرتے ہیں.انہوں نے فرمایا: ނ مسٹر بالفور کے ۱۹۱۷ء کے اعلان کے مطابق ۱۹۴۸ء میں بڑی ہوشیاری.اسرائیل کا قیام عمل میں آیا تو چن چن کر فلسطین کے اصل باشندوں کو نکال دیا گیا مگر یہ سعادت صرف قادیانیوں کو نصیب ہوئی کہ وہ بلا خوف و جھجک وہاں رہیں اور انہیں کوئی تعرض نہ کیا جائے.“ ( کارروائی صفحہ نمبر ۲۰۴۴) مندرہ بالا حوالے کا مطلب واضح ہے کہ اسرائیل کے قیام کے بعد تمام مسلمانوں کو تو

Page 173

171 وہاں سے چن چن کر نکال دیا گیا لیکن صرف قادیانیوں کو وہاں رہنے کی اجازت دی گئی.الزام کا لب لباب یہ تھا کہ اگر قادیانی یہودیوں کے ساتھ سازش میں ملوث نہیں تھے تو ایسا کیوں کیا گیا ؟ اب ہم حقائق پیش کرتے ہیں.نہ معلوم مفتی صاحب کس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہے تھے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت اسرائیل میں مسلمانوں کی تعداد اسرائیل کی کل آبادی کا بیس فیصد ہے اور ان مسلمانوں میں احمدیوں کی تعداد تو صرف دو تین فیصد ہوگی.اسرائیل کے ساٹھ سال مکمل ہونے پر اسرائیل کی وزارت سیاحت نے ایک رپورٹ جاری کی.یہ رپورٹ Religious Freedom in Israel: A fundamental Guarantee کے نام سے انٹرنیٹ پر موجود ہے.ہر کوئی پڑھ سکتا ہے.Muslims in Israel Israels Muslim population consists primarily of about 1.4 million Sunni Arabs, who mostly live in northern Israel.Circassians and Bedouins are members of Israels Muslim sector.The Temple Mount in Jerusalem, which contains the Dome of the Rock and the Al-Aqsa Mosque, is Islams third-holiest site.Another notable site is the El-Jazzar mosque in Acre.Israel funds more than 100 mosques and pays the salaries of their imams (religious leaders).In addition, Israel purchases the Korans used in mosques.The Israeli government also funds Arab schools as well

Page 174

172 as numerous Islamic schools and colleges.Arab-operated schools teach Islamic studies and Arabic, in addition to the Israel Ministry of Educations general curriculum http://mfa.gov.il/MFA_Graphics/MFA%20Gallery/Israel 60/ch6.pdf (on 30.10.2015) ترجمہ: اسرائیل کی مسلمان آبادی بنیادی طور پر ۱۴ لاکھ سنی عربوں پر مشتمل ہے.یہ زیادہ تر اسرائیل کے شمال میں بستے ہیں.مسلمانوں میں Circassians اور بدو شامل ہیں.معبد کے پہاڑ پر قبۃ الصغر کی اور مسجد اقصیٰ موجود ہیں.مسجد اقصیٰ اسلام کی تیسری مقدس ترین جگہ ہے.ایک اور اہم جگہ عکا میں مسجد الجزر ہے.اسرائیل سو سے زائد مساجد کی اعانت کر رہا ہے اور ان کے اماموں کو تنخواہ دے رہا ہے.اس کے علاوہ اسرائیل ان مساجد میں استعمال ہونے کے لیے قرآن خرید کر دیتا ہے.اسرائیلی حکومت بہت سے عرب سکولوں، اسلامی مذہبی مدرسوں اور کالجوں کی مالی اعانت کر رہا ہے.عربوں کے چلائے جانے والے سکول اسرائیلی وزارت تعلیم کے نصاب کے علاوہ اسلامیات اور عربی پڑھاتے ہیں.اسرائیل کی حکومت یہ انکشاف کر رہی ہے کہ اسرائیل میں جو مسلمان آباد ہیں ان میں اکثریت سنیوں کی ہے جن کی تعداد م الا کھ ہے.یہ کوئی خفیہ معلومات تو نہیں ساری دنیا ان کو جانتی ہے لیکن اس کے باوجود مفتی محمود صاحب کس دیدہ دلیری سے یہ دعوی پیش فرما ر ہے تھے کہ قیام اسرائیل کے بعد تمام مسلمانوں کو وہاں سے چن چن کر نکال دیا گیا تھا اور اگر کسی کو رہنے دیا گیا تو احمدیوں کو وہاں رہنے دیا گیا اور تمام ممبران اسمبلی یہ لغو دعوئی خاموشی سے سن بھی رہے تھے.اور اس رپورٹ کا اگلا حصہ تو ملا حظہ کریں.ان لوگوں کی سو مساجد ہیں جن کے اخراجات اور ائمہ کی تنخواہیں بھی اسرائیل کی حکومت اُٹھا رہی ہے.آخر کیوں؟ اب تک تو یہ مولوی حضرات یہ الزام لگاتے رہے کہ اسرائیل کی حکومت جماعت احمدیہ کی سر پرستی کر رہی ہے لیکن آخر بھانڈا یہ پھوٹا کہ خود ان لوگوں کی سر پرستی

Page 175

173 اسرائیل کی حکومت کر رہی تھی.اسرائیل میں مسلمانوں کے مذہبی مدارس اسرائیل سے مالی مدد لے رہے ہیں.یہ احمدی مدر سے تو نہیں ہیں.آخر کیوں لے رہے ہیں؟ حکومت پاکستان کی طرف سے جو کارروائی شائع ہوئی ہے اس میں جماعت احمدیہ حیفا کا ذکر ہے اور ان کے بجٹ کی کاپی دکھائی گئی ہے.ذرا ملا حظہ کریں کہ حکومت پاکستان کی حکومت کی اشاعت کے مطابق اس جماعت کی آمد کہاں سے ہو رہی ہے؟ اس اشاعت کے مطابق اس کی آمد چندوں سے اور زکوۃ سے ہو رہی ہے اور یہ بھی جائزہ لیں کہ اس اشاعت کے مطابق بھی یہ غریبانہ آمد خرچ کہاں پر ہو رہی ہے؟ یہ آمد تبلیغ پر، تبلیغی مجالس پر تبلیغی سفروں پر اور اشاعت لٹریچر پر ہو رہی ہے.یہ ہے جماعت احمدیہ کی شان کہ اپنی جیب سے چندے دیتے ہیں جو کہ اس ملک میں بھی تبلیغ اسلام پر صرف ہوتے ہیں اور جماعت احمدیہ کے مخالفین کو تنخواہیں اسرائیل کی حکومت دے رہی ہے اور یہ آمد کہاں خرچ ہو رہی ہے؟ اس کا جواب تو جماعت احمدیہ کے مخالفین ہی بہتر طور پر دے سکتے ہیں.جماعت احمد یہ حیفا کے بجٹ کا عکس جو قو می اسمبلی کی کارروائی میں شائع کیا گیا ہے وہ درج کیا جارہا ہے تا کہ ہر کوئی خود جائزہ لے سکے کہ حقیقت کیا ہے.ہر صاحب شعور اس بات کو محسوس کر سکتا ہے کہ جس گروہ کو نا جائز ذرائع سے آمد ہورہی ہو اور جن کے مذموم مقاصد ہوں ان کے بجٹ اس طرح کے نہیں ہوتے.مفتی محمود صاحب کا مزید انکشاف ’ اور جب عربوں کے قلب کا یہ رستا ہوا ناسور اسرائیل قائم ہوا تمام مسلمان ریاستوں نے اس وقت سے اب تک اس کا مقاطعہ کیا.( کارروائی صفحہ ۲۰۴۶) مفتی محمود صاحب کا یہ دعویٰ بھی غلط تھا.۱۹۷۴ء تک مسلمان ممالک میں سے پاکستان کے سب سے قریبی تعلقات ترکی اور ایران سے تھے.یہ تینوں ممالک آرسی.ڈی کے معاہدہ میں بھی شامل تھے.حقیقت یہ ہے کہ ۲۸ / مارچ ۱۹۴۹ء کو ترکی نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا اور اس کے بعد ایران نے بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیا.دونوں ممالک کے اسرائیل سے قریبی تعلقات بھی رہے.حیرت ہے کہ ان معروف حقائق کے باوجود مفتی محمود صاحب یہ خلاف واقعہ افسانے کس کو

Page 176

174 اکسانے کے لیے پیش کر رہے تھے اور اس قابل قومی اسمبلی میں کسی کو عالمی منظر کے متعلق یہ بنیادی معلومات بھی حاصل نہیں تھیں.یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ مفتی محمود صاحب نے یہ دعویٰ پیش کیا تھا کہ اگر قادیانیت صیہونیت کی آلہ کار نہیں ہے تو صرف ان پر اسرائیل کے دروازے کیوں کھلے ہیں.یہ بھی بے بنیاد دعوی تھا.اس وقت یعنی ۲۰۱۴ء میں اسرائیل کی پارلیمنٹ Knesset میں مسلمان ممبران میں سنی ممبران تو موجود ہیں لیکن ایک بھی احمدی ممبر موجود نہیں ہے.Barakeh Muhammad نام کے ایک مسلمان ممبر اسرائیلی پارلیمنٹ کے ڈپٹی سپیکر بھی رہ چکے ہیں.ایک اور مسلمان Raleb Majadale کو ۲۰۰۷ء میں اسرائیل کا وزیر بھی مقرر کیا گیا تھا.یہ صاحب بھی احمدی نہیں ہیں.اس پس منظر کو دیکھا جائے تو یہ الزام مفتی محمود صاحب کو جماعت احمد یہ پر نہیں لگانا چاہیے تھا بلکہ اگر یہ فلسفہ درست ہے تو یہ حق جماعت احمدیہ کو حاصل تھا کہ وہ یہی اعتراض مفتی محمود صاحب اور ان کے ہمنو احضرات پر کرے.سلطنت عثمانیہ کے خلاف سازش کا الزام اس کے بعد مفتی محمود صاحب نے سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ کے حوالے سے جماعت احمدیہ پر بے تکان الزامات لگانا شروع کیے.مفتی محمود صاحب کے الزامات کا خلاصہ یہ تھا کہ احمدیوں نے ہی ترکوں اور عربوں کو آپس میں لڑایا تھا اور یہ بھی الزام لگایا کہ جماعت احمدیہ نے یہ اعلان کیا تھا کہ ہم مذہباً ترکی کے بادشاہ کو خلیفہ نہیں سمجھتے.جہاں تک ترکی کے بادشاہ کو خلیفہ نہ سمجھنے کا تعلق ہے تو یہ بات نا قابل فہم ہے کہ اس کا الزام صرف جماعت احمدیہ پر کیوں رکھا جا رہا تھا.یہ درست ہے کہ جماعت احمدیہ ترکی کے بادشاہ کو خلیفہ راشد نہیں سمجھتی اور بالکل نہیں سمجھتی لیکن باقی فرقے کیا ترکی کے بادشاہوں کو خلفاء راشدین سمجھتے ہیں؟ ہر گز نہیں سمجھتے.شیعہ فرقہ سے تعلق رکھنے والے ترکی کے بادشاہ کو خلیفہ نہیں سمجھتے.اہل حدیث بھی ترکی کے بادشاہ کو خلیفہ نہیں سمجھتے.جہاں تک پہلے الزام کا تعلق ہے تو یہ اتنا مضحکہ خیز ہے کہ اس کی لمبی چوڑی تردید کرنے کی بھی ضرورت نہیں.سیدھی سادھی

Page 177

175 بات ہے کہ اس وقت بیشتر عرب ممالک سلطنت عثمانیہ کے تحت تھے لیکن وہ سلطنت عثمانیہ سے علیحدہ ہونا چاہتے تھے.اس لیے انہوں نے انگریزوں سے ساز باز کی اور ترکی کی سلطنت کے خلاف بغاوت کھڑی کر دی.ان میں سے اکثر مفتی محمود صاحب کے فرقہ سے تعلق رکھتے تھے.یہ الزام جماعت احمدیہ پر نہیں بلکہ مفتی صاحب اور ان کے ہمنو ا حضرات پر لگنا چاہیے.سلطنت عثمانیہ کے خلاف یہ بغاوت کرنے والے کون تھے ؟ یہ زیادہ تر سنی مسلک سے تعلق رکھتے تھے.اس پس منظر میں جماعت احمد یہ پر اس کا الزام لگا نا محض ایک بچگانہ حرکت تھی.اس بارے میں چند معروف اور بنیادی اہمیت کے حقائق درج کیے جاتے ہیں.1.جون ۱۹۱۶ء میں شریف مکہ حسین ابن علی نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف عرب بغاوت کا آغاز کیا.سب یہ جانتے ہیں کہ شریف مکہ سنی مسلک کے تھے اور اس سے پہلے شریف مکہ کو اس بغاوت پر آمادہ کرنے کے لیے ، مصر میں موجود برطانوی ہائی کمیشنر Sir Henry Mcmahon اور شریف مکہ میں طویل خط و کتابت ہوئی.اس کے نتیجہ میں بغاوت شروع ہوئی اور بعد میں لارنس کی مدد سے یہ بغاوت پروان چڑھی.یہ بات دلچسپ ہے کہ ۱۹۰۷ء میں ہنری میکموہن ہندوستان میں موجود تھے.جب حضرت عبدالطیف شہید کو سنگسار کروانے کے کچھ سال بعد امیر حبیب اللہ ہندوستان آئے تو وہاں پر ہنری میکموہن نے ان کا استقبال کیا اور اس سفر میں ان کے ساتھ رہے اور ان دونوں میں دوستی ہوگئی.میکموہن فری میسن تھے اور امیر حبیب اللہ کی درخواست پر وہی امیر حبیب اللہ کو فری میسن بنانے کا باعث بنے.یہ حقیقت بہت سے تاریخی کتب کے علاوہ انٹرنیٹ پر فری میسن تنظیم کی بہت سی Sites پر بھی موجود ہے.(The Kingdom by Robert Lacey, published by Hutchison London, 1981, p 119-121) (http://nationalheritagemuseum.typepadcom/library_and_archives/.2008/10/amir-habibullah.html)

Page 178

176 2 اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ اس وقت نجد میں موجود حکمرانوں نے برطانیہ کا ساتھ دینا کس طرح شروع کیا.۱۹۱۵ء میں پہلی مرتبہ نجد کے سعودی حکمران امیر عبد العزیز اور برطانوی عہدیدار Percy Cox میں ملاقات ہوئی اور پھر برطانیہ اور سعودی خاندان کے درمیان معاہدہ ہو گیا.برطانیہ نے اسلحہ اور بھاری رقموں کے ساتھ سعودی خاندان کی مدد کی.اس وقت بصری کے قریب برطانوی افواج اور سلطنت عثمانیہ میں جنگ ہو رہی تھی.رشید خاندان کی فوج برطانوی فوج پر حملے کر کے اس علاقہ میں انہیں ہراساں کر رہی تھی.سعودی خاندان سے پہلی مدد یہ لی گئی کہ ان کو کہا گیا کہ وہ رشید خاندان پر حملہ کر دیں چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور اس سے برطانوی فوج کو بہت تقویت ملی اور یہ سب جانتے ہیں کہ ماضی میں سعودی خاندان جماعت احمدیہ کے مخالفین کی سر پرستی کرتا رہا ہے.(The Kingdom by Robert Lacey, published by Hutchison London, 1981,p 124) 3.اب بہت سی دستاویزات جو کہ پہلے خفیہ تھیں منظر عام پر آچکی ہیں اور شائع بھی ہو چکی ہیں.چنانچہ ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے دوران ہندوستان کے بہت سے مسلمانوں کی ہمدردیاں ترک سلطنت عثمانیہ کے ساتھ تھیں اور حج کے دوران ان کے عمائدین اور ترک اعلیٰ عہدیداروں کی اہم ملاقاتیں بھی ہوتی تھیں.برطانوی حکومت کو ایسے قابل اعتماد مخبر کی ضرورت تھی جو کہ ان کے بارے میں برطانوی حکومت کو باخبر رکھے.اب جو دستاویزات سامنے آئی ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ مخبری دارالعلوم دیو بند کے مہتم اور ان کے بانی کے فرزند مولوی محمد احمد صاحب کیا کرتے تھے اور اس راہ میں دیو بند کے اساتذہ کو گرفتار کرانے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے.چنانچہ اس وقت اعلیٰ برطانوی عہدیداروں کی خط و کتابت میں اس بات کا تفصیلی ذکر موجود ہے کہ مہتمم دارالعلوم دیو بند کس طرح ان کے لیے مخبری کر رہے ہیں.حکومت نے انہیں شمس العلماء کا خطاب بھی دیا تھا.اس کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے.(The Indian Muslims, A Documentory Record 1900-1947, compiled by Shan

Page 179

177 Muhammad, published by Meenakshi Prakashan, Vol.5.P 46-52) اس ضمن میں مفتی محمود صاحب تو صرف جماعت احمدیہ کے اشد ترین مخالف شورش کاشمیری صاحب کی کتاب عجمی اسرائیل کا حوالہ پیش کر سکے تھے.یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ اس کتاب میں دیدہ دلیری سے جھوٹ بولا گیا ہے اور اس کی کوئی وقعت نہیں لیکن ہم نے معتبر کتب کے حوالے درج کر دیئے ہیں.ہر کوئی یہ جائزہ لے سکتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے دوران جو گر وہ سلطنت عثمانیہ اور عربوں میں پھوٹ ڈال رہے تھے وہ وہی تھے جو کہ ماضی میں جماعت احمدیہ کی مخالفت میں پیش پیش رہے ہیں یا پھر ان کے قریبی دوست تھے.سلطنت عثمانیہ اور عرب ممالک کے بعد مفتی محمود صاحب نے ایک مرتبہ پھر افغانستان کا رخ کیا اور اس مرتبہ اعتراض یہ کیا کہ جب ۱۹۱۹ء میں افغانستان کے بادشاہ امیر امان اللہ نے ہندوستان میں انگریز حکومت کے خلاف جہاد کا اعلان کیا تو اس وقت امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد نے یہ اعلان کیا ہے کہ امیر امان اللہ نے یہ نادانی کی ہے اور یہ بھی فرمایا کہ امیر امان اللہ نے عقائد کی وجہ سے احمدیوں کو شہید کرایا تھا.پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ امیر امان اللہ نے عقائد کی وجہ سے احمدیوں کو شہید کرایا تھا ان میں مولوی نعمت اللہ صاحب بھی شامل تھے.اب احمدی ایسے بادشاہ کی مذمت ہی کریں گے بلکہ ہر شریف آدمی کو کرنی چاہیے.احمدیوں سے یہ توقع تو بالکل نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ ایسے بادشاہ کی تعریف کرنے پر کمر بستہ رہیں.شاید ۱۹۱۹ء میں تو یہ بات بحث کے قابل ہو کہ امیر امان اللہ نے نادانی سے کام لیا کہ نہیں لیکن اب جبکہ تمام واقعات گذر چکے ہیں یہ بحث کوئی جواز نہیں رکھتی.ہم اس دور میں گذرنے والے حالات کا خلاصہ پیش کریں گے اور حوالے بھی صرف مسلمانوں کی لکھی ہوئی کتب کے پیش کریں گے تا کہ کوئی اشتباہ نہ رہے.مئی ۱۹۱۹ء میں امیر امان اللہ نے ہندوستان پر حملہ کر دیا.امیر امان اللہ کی افواج اتنی منتظم اور تربیت یافتہ نہیں تھیں کہ زیادہ دیر پا کارگردگی کا مظاہرہ کرسکتیں اور برطانوی حکومت کے لیے یہ حملہ غیر متوقع تھا اور پہلی جنگ عظیم کے بعد انگریز حکمران کسی لمبی جنگ کے لیے آمادہ نہیں تھے کہ

Page 180

178 افغانستان کی سرزمین کے اندر جا کر کارروائی کرتے.ابتدا میں افغانستان کو کچھ کامیابیاں حاصل ہوئیں لیکن جلد ہی ان کا راستہ روک لیا گیا.دونوں طرف کا بھاری جنگی نقصان ہوا اور مذاکرات شروع ہوئے اور راولپنڈی میں معاہدہ طے پا گیا.افغانستان کو سرحدی علاقوں پر دعوی تھا لیکن وہ ان میں سے کسی علاقے پر قبضہ نہ کر سکا.البتہ معاہدہ کے وقت اسے اپنی علیحدہ خارجہ پالیسی کا اختیار حاصل ہو گیا.یہ اختیار وہ محض ایک اعلان کے ذریعہ بھی حاصل کر سکتا تھا اس کے لیے اتنا جانی نقصان برداشت کرنے کی ضرورت نہیں تھی.اس کے بعد جو حالات رونما ہوئے وہ آخر میں ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوئے.اس بارے میں مکرم نعیم قریشی صاحب کی ایک کتاب Pan-Islam in British India کے ایک باب میں اس بابت سیر حاصل تحقیق پیش کی گئی ہے.ہم اس کے چند نکات پیش کرتے ہیں.۱۹۲۰ء میں امیر امان اللہ نے ایک بار پھر ہندوستان میں وہاں کے مسلمانوں کو اپنے مقاصد کے لیے ایک کھلونے کی طرح استعمال کیا.اس کتاب کے صفحہ ۱۳۰، ۱۳۱ پر وہ لکھتے ہیں کہ فروری ۱۹۲۰ء میں امیر امان اللہ نے اعلان کیا کہ ہندوستان کے جو مسلمان اور ہندو ہندوستان سے افغانستان آنا چاہیں وہ ان کو خوش آمدید کہیں گے.اسی طرح افغانستان کے وزیر خارجہ نے ہندوستان میں آکر بیان دیا جو لوگ ہندوستان کو چھوڑنے پر مجبور ہوں گے ، افغانستان انہیں خوش آمدید کہے گا.مصنف تجزیہ کرتے ہیں کہ افغانستان کی طرف سے یہ اعلان صرف اس لیے کیا گیا تھا کہ اس سے برطانوی حکومت پر دباؤ پڑے گا اور اس سے افغانستان کو ان مذاکرات میں فایدہ ہوگا جو کہ وہ برطانوی حکومت سے کر رہے تھے لیکن ہندوستان کے مسلمانوں کا ایک جوشیلا طبقہ اچانک بھڑک اُٹھا اور یہ منصوبے بننے لگ گئے کہ ہندوستان کے مسلمان ہندوستان سے ہجرت کر کے افغانستان چلے جائیں گے اور وہاں سے جہاد کر کے ہندوستان کو آزاد کرائیں گے اور ہجرت کی کمیٹیاں بن گئیں اور ہجرت کا عمل شروع ہو گیا.پھر افغانستان کے امیر کا ایک فرمان موصول ہوا کہ ہجرت کرنے والوں کو زمین دی جائے گی اور تین سال کے لیے قرضہ دیا جائے گا (صفحہ ۱۳۸).بعض مولوی صاحبان نے فتاوی دیئے کہ اب پہلے ہجرت اور پھر وہاں سے جہاد کرنا فرض ہو چکا ہے

Page 181

179 اور جو نہیں کرے گا اس کی بیوی کو طلاق ہو جائے گی.بعض ہوشمند لیڈ ر مثلاً قائد اعظم محمد علی جناح اور حسرت موہانی اس مہم جوئی کی مخالفت کر رہے تھے (صفحہ ۱۴۳).اب ہزاروں مہاجرین کابل میں جمع ہو رہے تھے اور افغانستان حکومت سے مطالبہ کر رہے تھے کہ جہاد شروع کیا جائے اور ہندوستان پر حملہ کیا جائے یا پھر اناطولیہ جا کر ترکی کی طرف سے جہاد شروع کیا جائے.امیر امان اللہ اس وقت تک یہ کہہ رہے تھے کہ ابھی یہ مناسب نہیں بہتر ہوگا کہ کچھ ٹریننگ حاصل کر لی جائے.پر ہندوستان سے آئے ہوئے لوگوں نے واضح کیا کہ وہ جہاد سے کم کسی چیز پر راضی نہیں ہوں گے.احتجاج کیا گیا اور بعض مہاجرین کو گرفتار کر لیا گیا.(صفحہ ۱۵۶) پہلے امیر امان اللہ نے یہ اعلان کیا کہ جب تک پہلے سے آئے مہاجرین کا انتظام نہیں ہو جاتا اس وقت تک مزید لوگ ہجرت کر کے نہ آئیں.پھر مہاجرین میں سے بااثر قائدین کے سامنے اس بات کا اظہار کر دیا کہ اب ان کی برطانوی حکومت سے صلح ہوگئی ہے اس لیے افغانستان کو مرکز بنا کر برطانیہ کے خلاف جہاد کا ارادہ ترک کر دیں.(صفحہ ۱۷۰) ہندوستان سے افغانستان جانے والے مسلمانوں کو جن کی تعداد ۶۰ ہزار کے قریب بیان کی جاتی ہے طرح طرح کے مصائب کا سامنا کرنا پڑا.آخر یہ مہم ناکام ہوئی اور تمام ہجرت کرنے والے واپس ہندوستان آگئے اور افغانستان سے ہندوستان فتح کرنے کا خواب پورا ہونا تو درکار یہ جنگ شروع بھی نہ کی جاسکی.سرحد سے کابل تک کی سڑک پر کئی بدنصیب مہاجرین کی قبریں بنی نظر آ رہی تھیں.امیر امان اللہ نے تو برطانیہ سے اپنے مقاصد شاید حاصل کر لیے ہوں لیکن یہ تحریک جو ان کی دلائی ہوئی امیدوں پر شروع کی گئی تھی ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک تکلیف دہ المیہ کی حیثیت رکھتی ہے.ہزاروں مسلمان تباہ ہوئے ان کا مستقبل ختم ہو گیا.ان میں سے کئی مر گئے.بہت سے مسلمان جو سبز باغ دیکھتے گئے تھے ان گنت مصائب کا شکار ہو گئے.(Pan Islam in India, by M.Naeem Qureshi, published by Oxford 2009, p126-177)

Page 182

180 اس طرز عمل کو نادانی نہیں کہا جائے گا تو اور کیا کہا جائے گا.حقیقت یہ ہے کہ اس کے لیے نادانی سے زیادہ نرم لفظ کا استعمال کرنا ممکن نہیں ہے.افریقہ میں جماعت احمدیہ کی سرگرمیوں کا ذکر اس کے بعد مفتی صاحب نے ایک مرتبہ پھر براعظم افریقہ کا رخ کیا.انہوں نے کہا: افریقی ممالک میں استعماری اور صیہونی سرگرمیاں افریقہ دنیا کا واحد براعظم ہے جہاں سے برٹش ایمپائر نے اپنا پنجہ استبداد سب سے آخر میں اٹھایا اور آج تک کچھ علاقے برطانوی سامراجی اثرات کے تابع ہیں.مغربی افریقہ میں قادیانیوں نے ابتدا ہی سے برطانوی سامراج کے لئے اڈے قائم کئے اور ان کے لئے جاسوسی کی.”دی کیمرج ہسٹری آف اسلام مطبوعہ ۱۹۷۰ء میں مذکور ہے.The Ahmadiyya first appeared on the west African coast during the first word war, when several young men in Lagus and Free Town joined by mail.In 1921 The first Indian Missionarry arrived.Too unorthoodou to gain a footing in the Muslim interior, The Ahmadiyya remain confined principally to Sierraleone.It strengthened the ranks of those Muslims actively loyal to the British and it contributed to the modernization of Islamic Organization in the area.(The Cambridge History of Islam vol.11 edited by Holt, Lambton and Lewis, Cambridge University Press 1970 P-400)

Page 183

181 ترجمہ: پہلی جنگ عظیم کے دوران احمدی فرقہ کے لوگ مغربی افریقہ کے ساحل تک پہنچے.جہاں لاگوس اور فری ٹاؤن کے چند نوجوان ان تک پہنچے.۱۹۲۱ء میں پہلی ہندوستانی مشنری وہاں آئی.اگر چہ یہ لوگ کسی عقیدہ کا پر چار نہیں کر سکے لیکن ان کا ارادہ مسلم آبادی کے اندرونی علاقوں میں قدم جمانا تھا.یہ لوگ زیادہ تر جنوبی نائیجریا، جنوبی گولڈ کوسٹ اور سیرالیون میں سرگرم عمل رہے.ان لوگوں نے ان مسلمان دستوں کو مضبوط کیا جو مملکت برطانیہ کے حد درجہ وفادار تھے اور ان علاقوں میں اسلام کو جدید تقاضوں سے ہمکنار کرتے رہے.“ (کارروائی ۲۰۶۱،۲۰۶۰) اگر اس غیر معیاری ترجمہ کو نظر انداز بھی کر دیا جائے جسے مفتی محمود صاحب پیش کر رہے تھے تو یہ بات واضح ہے کہ مفتی صاحب جو الزامات لگا رہے تھے اور اس کی تائید میں جو حوالہ پیش کر رہے تھے ان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے.مفتی محمود صاحب یہ افسانہ پیش فرما رہے تھے کہ براعظم افریقہ میں مغربی طاقتوں کا قبضہ سب سے زیادہ دیر تک قبضہ رہا اور اس کا تعلق وہ اس سے جوڑ رہے تھے کہ وہاں پر جماعت احمدیہ نے برطانوی سامراج کے لیے اڈے قائم کیے تھے اور وہ کیمبرج ہسٹری آف اسلام کا حوالہ پیش کر رہے تھے تا کہ سننے اور پڑھنے والوں کے ذہن پر یہ تاثر جمایا جا سکے کہ یہ الزام صرف ہم نہیں لگاتے بلکہ کیمبرج سے شائع ہونے والی کتاب میں بھی تو یہی لکھا ہے.حقیقت یہ ہے کہ اس حوالہ میں ایسی کوئی بات نہیں لکھی.اس حوالہ میں تو صرف یہ لکھا ہے کہ جماعت احمدیہ کے افراد ۱۹۲۱ء میں افریقہ کے مغربی ساحل پر جنوبی نائیجیریا ، سیرالیون اور جنوبی گولڈ کوسٹ پر پہنچے اور انہیں وہاں پر ابتدا میں کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی اور وہاں پر پہلے سے ایسے مسلمان موجود تھے جو کہ گورنمنٹ کے وفادار تھے.احمدیوں کے وہاں آنے سے ان کی تعداد میں اضافہ ہو گیا اور برطانوی اڈے قائم کرنے کا سنسنی خیز الزام بالکل مضحکہ خیز تھا کیونکہ یہ سب علاقے اس وقت مکمل طور پر برطانوی سلطنت کے تحت آچکے تھے جن علاقوں پر پہلے ہی ان کا مکمل قبضہ ہو چکا تھا وہاں پر احمدیوں کے ذریعہ اڈے قائم کرنے کا افسانہ محض ایک بے معنی بات ہے.ہاں یہ سوال ہر ذہن میں آ سکتا ہے کہ آخر مغربی افریقہ میں جماعت احمدیہ کی کیا سرگرمیاں

Page 184

182 تھیں؟ ہم اس سوال کے جواب کے لیے اسی کتاب کے حوالے پیش کرتے ہیں جس کا حوالہ مفتی محمود صاحب پیش کر رہے تھے.اس کتاب کے صفحہ ۸۸ پر جماعت احمدیہ کی سرگرمیوں کے بارے میں لکھا ہے.They are keen missionaries, and actively propagate Islam in Europe, Africa and America ترجمہ : یہ لوگ (یعنی جماعت احمدیہ) سرگرم مبلغ ہیں اور مستعدی سے یورپ ، افریقہ اور امریکہ میں اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں.اسی کتاب یعنی Cambridge History of Islam کے صفحہ 401 پر جماعت احمدیہ کی تنظیم ، مدارس اور اشاعت کے اداروں کا ذکر کر کے لکھا ہے.These are to be employed in the struggle against Christianity, for the Ahmadiyya is more anti-Christian than syncretist.ترجمہ : ان کو عیسائیت کے خلاف جد و جہد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ احمدی Syncretist سے بھی زیادہ عیسائیت کے خلاف ہیں.یہ تھیں جماعت احمدیہ کی سرگرمیاں جن پر مفتی صاحب اتنے غم وغصہ کا اظہار کر رہے تھے.کیا عقل اس بات کو قبول کر سکتی ہے کہ عیسائی طاقتوں نے جماعت احمدیہ کو استعمال کر کے جماعت کے اڈے افریقہ میں اس غرض کے لیے قائم کیے تھے تا کہ عیسائیت کے مقابل پر تبلیغ کا مؤ ثر کام شروع ہو سکے.سب جانتے ہیں کہ اس دور میں باقی دنیا کی طرح عیسائی پادریوں نے افریقہ پر ایک یلغار کی ہوئی تھی اور ان ممالک میں مسلمانوں کو مرتذ کر کے عیسائی بنانے کا کام پوری سرگرمی سے جاری تھا.جس کتاب کا حوالہ مفتی محمود صاحب نے پیش کیا ہے ، اس کے مطابق بھی عیسائیت کا خاطر خواہ مقابلہ اگر کوئی کر رہا تھا تو جماعت احمدیہ کر رہی تھی اور حقیقت بھی یہی ہے.آخر اسلام کی یہ خدمت وہ گروہ کیوں نہیں کر رہے تھے جو آج مل کر بزعم خود احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے لیے

Page 185

183 ہاتھ پاؤں ماررہے تھے.اس کے بعد مفتی محمود صاحب نے یہ نتیجہ پیش کیا کہ اصل میں احمدی ان ممالک میں جذبہ جہاد کے ختم کرنے کے لیے کوششیں کر رہے تھے.یہاں پر یہ سوال لازماً پیدا ہوتا ہے کہ ۱۹۲۰ء کی دہائی میں جماعت احمدیہ کے مبلغین مغربی افریقہ میں پہنچے.اس دور میں غانا، نائیجیر یا اور سیرالیون میں کون سا جہاد ہو رہا تھا جس کو ختم کرنے کے لیے یہ سازش ہو رہی تھی.یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس وقت ان ممالک میں کوئی جہاد نہیں ہو رہا تھا.صرف ایک بے بنیا د افسانہ ممبران اسمبلی کے سامنے ہے.پیش کیا جارہا تھا.اس کے بعد مفتی محمود صاحب نے اپنے ہمنوا جماعت احمدیہ کے مخالفین کی تحریرات سے یہ ثابت کرنے کے لیے کوششیں کہ افریقہ میں جماعت احمد یہ استعماری طاقتوں اور صیہونی طاقتوں کے آلہ کار کے طور پر کام کر رہی ہے لیکن جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ ان کا جھوٹ بولنا کئی مرتبہ ثابت کیا جا چکا ہے اور ان کی کوئی حیثیت نہیں اس لیے ان کی تفصیلی تردید کرنے کی ضرورت نہیں سنسنی پیدا کرنے کے لیے مفتی صاحب نے جماعت احمدیہ کے مخالف محمود الصواف کی تحریر کا حوالہ پیش کیا کہ ادیس ابابا میں جماعت احمدیہ کے مشن کا ۳۵ ملین ڈالر کا بجٹ ہے اور یہ مسلمانوں کے خلاف استعمال ہورہا ہے.یہ بالکل مضحکہ خیز دعویٰ تھا کیونکہ اس وقت جماعت احمدیہ کا ادیس ابابا میں مشن ہاؤس تھا ہی نہیں اور اس وقت تمام مشنز کا کل بجٹ ۳۵ ملین ڈالر نہیں تھا.ایک بار پھر مفتی صاحب نے ماریشس کی سپریم کورٹ کے فیصلہ کا ذکر کیا لیکن ہم اس بارے میں پہلے ہی ثابت کر چکے ہیں کہ یہ غلط بیانی تھی اس لیے اس کا جواب دہرانے کی ضرورت نہیں ہے.اس کارروائی کے چند سال قبل ہی حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے مغربی افریقہ کے ممالک کے لیے نصرت جہاں آگے بڑھ سکیم کا اجراء فرمایا تھا.اس سکیم کے تحت مغربی افریقہ میں ہسپتالوں اور سکولوں کے ذریعہ خدمت کا کام پہلے سے زیادہ تیزی سے آگے بڑھانا تھا.اس تقریر میں مفتی محمود صاحب نے اس حوالے سے بھی سنسنی خیز الزامات لگانے کی کوشش کی اور اس کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ الفضل کے حوالے پیش کیے تاکہ سامعین پر یہ تاثر جمایا جا سکے کہ ہم جو الزام لگا 66

Page 186

184 رہے ہیں وہ تو خود قادیانیوں کے روز نامہ میں شائع ہوئے تھے.اس ضمن میں پہلے انہوں نے یہ حوالہ پیش کیا : دو سال قبل افریقہ میں تبلیغ کے نام پر جو دوسکیمیں نصرت جہاں ریز رو فنڈ اور آگے بڑھو سکیم جاری کی گئیں.اس کی داغ بیل لندن ہی میں رکھی گئی اور مرزا ناصر احمد نے اکاؤنٹ کھلوایا.( کارروائی صفحہ ۲۰۶۲) شائع شدہ کا رروائی میں یہ حوالہ قوسین میں درج ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ حوالے کے معین الفاظ پڑھے جا رہے ہیں.اس مرحلہ پر ایک مرتبہ پھر یہ صورت حال سامنے آتی ہے کہ یہ تقریر جو کہ کہیں سے لکھ کر دی گئی تھی اس کے مندرجات کے بارے میں مفتی صاحب یا اس تقریر کے لکھنے والوں کو کچھ زیادہ علم نہیں تھا.حقیقت یہ ہے کہ اس سکیم کا نام ”نصرت جہاں آگے بڑھ سکیم تھا اور یہ دو علیحدہ سکیمیں نہیں تھیں جیسا کہ مفتی محمود صاحب بیان فرمارہے تھے اور اس کے لیے جو احمدیوں نے عظیم قربانیاں دے کر فنڈ جمع کیا تھا اس کا نام ” نصرت جہاں ریزرو فنڈ“ تھا.الفضل کے جس شمارے کا حوالہ دیا گیا تھا اس شمارے میں یہ الفاظ تو اس طرح نہیں شائع ہوئے لیکن اس سکیم کے اجراء کے بارے میں ایڈیٹوریل ضرور موجود ہے اور اس ایڈیٹوریل کے شروع میں اس سکیم کی ابتدائی کامیابیوں کا ذکر کر کے لکھا ہے:.اس سے افریقہ کے عیسائی مشن گھبرا اُٹھے ہیں اور انہوں نے عیسائیت کی ناکامی اور اسلام کی روز افزوں ترقی پر واویلا شروع کر دیا ہے.چنانچہ اس ضمن میں ہم روزنامہ ”جنگ“ کراچی میں اس کے نامہ نگار مقیم لندن کی مرسلہ خبر ہدیہ قارئین کر چکے ہیں.“ پھر اس ایڈیٹوریل کے آخر میں لکھا ہے: اللہ تعالیٰ ہماری حقیر قربانیوں اور کوششوں کو قبول فرما کر اسلام کی موعودہ فتح اور غلبہ کے حق میں ان کے اعلیٰ سے اعلیٰ نتائج ظاہر فرماتا چلا جائے اور اسلام بالآ خر دنیا میں پورے طور پر غالب آ جائے.آمین تو یہ تھی اسلام کے خلاف یہود اور عیسائیوں کی وہ سازش جس کا ذکر مفتی محمود صاحب فرما

Page 187

185 رہے تھے کہ غلبہ اسلام کے لیے ایسی مہم چلائی جائے کہ جس سے عیسائی مشن بھی گھبرا اٹھیں لیکن جب ایسی مہم چلائی جائے تو مفتی محمود صاحب اور ان کے ہمنوا مولوی صاحبان کیوں پریشان ہو جاتے ہیں؟ بہر حال مفتی محمود صاحب اب ایسی حالت میں تقریر کے گھوڑے پر سوار تھے کہ نہ اُن کے ہاتھ باگ پر تھے اور نہ اُن کے پاؤں رکاب میں تھے.اس مرحلہ پر انہوں نے ایسی بچگا نہ غلط بیانی کی کہ انسان کو یقین نہیں آتا کہ کسی ملک کے قانون ساز ادارے میں کوئی اس قسم کی خلاف عقل غلط بیانی کرسکتا ہے.انہوں نے فرمایا: اور جب کچھ لوگ برطانوی وزارت خارجہ سے اس تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ براعظم افریقہ میں قادیانیوں کے اکثر مشن برطانوی مقبوضات ہی میں کیوں ہیں اور برطانیہ ان کی حفاظت کرتی ہے اور وہ دیگر مشنریوں سے زیادہ قادیانیوں پر مہربان ہے تو وزارت خارجہ نے جواب دیا کہ سلطنت کے مقاصد تبلیغ کے مقاصد سے مختلف ہیں.جواب واضح تھا کہ سامراجی طاقتیں اپنی نو آبادیات میں اپنے سیاسی مفادات اور مقاصد کو تبلیغی مقاصد پر ترجیح دیتی ہیں اور وہ کام عیسائی مبلغین سے نہیں مرزائی مشنوں ہی سے ہوسکتا ہے.“ ( کارروائی صفہ ۲۰۶۲) کاش مفتی محمود صاحب یہی غور فرما لیتے کہ وہ یہ معرکۃ الآراء تقریر کس سال میں فرما رہے ہیں.یہ تقریر ۱۹۷۴ء میں کی گئی تھی اور اس وقت Sychelles Islands کے سوا افریقہ کے تمام ممالک سے برطانیہ کا راج ختم ہو چکا تھا.Sychelles Islands بہت سے جزیروں پر مشتمل ایک ننھا سا ملک ہے جس میں اُس وقت جماعت احمدیہ کا کوئی وجود نہیں تھا.باقی افریقہ کے وہ ممالک جہاں پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے مضبوط جماعتیں قائم تھیں کب کی آزاد ہو چکی تھیں.حیرت تو اس بات پر ہے کہ اُس وقت کی قابل قومی اسمبلی میں ایک بھی ایسا شخص موجود نہیں تھا جسے یہ اطلاع مل چکی ہو کہ اب ان افریقی ممالک سے برطانیہ کا راج ختم ہو چکا ہے.کم از کم وہی صاحب کھڑے ہو کر اس عجیب الخلقت نقطے کی اصلاح فرما دیتے.مفتی محمود صاحب نے اس حصہ کے آخر میں کارروائی کے صفحہ نمبر ۲۰۶۶ پر یہ نتیجہ نکالا کہ

Page 188

186 افریقہ اب تک فرنگی شاطروں کے پنجہ استبداد سے نہیں نکل سکا تو اس کی ایک وجہ جماعت احمدیہ کی سرگرمیاں ہیں.اس کا جواب ہم پہلے ہی دے چکے ہیں.مفتی صاحب ماضی کی دہائیوں میں بیٹھ کر تقریر فرما رہے تھے.اس وقت افریقہ سے برطانیہ کا تسلط ختم ہو چکا تھا.اس دعوئی کو صرف ایک خلاف عقل لاف و گزاف ہی قرار دیا جا سکتا ہے.علاوہ ازیں اس دعوی کو پر کھنے کا طریقہ تو بہت سادہ ہے.مخالفین کو اب تو یہ اطلاع مل چکی ہوگی کہ اب تو افریقہ مکمل طور پر آزاد ہو چکا ہے.۱۹۷۴ء کے مقابلہ پر اب یعنی ۲۰۱۴ء میں کیا افریقہ میں جماعت احمدیہ کی سرگرمیاں زیادہ ہو گئی ہیں یا کم ہوگئی ہیں.حقیقت یہ ہے افریقہ کا جو جو ملک آزاد ہوتا گیا وہاں جماعت احمدیہ کی ترقی پہلے سے کئی گنا زیادہ ہوتی گئی اور اس حقیقت کو مخالفین بھی بخوبی جانتے ہیں.خواہ ان ممالک کی تعداد کو دیکھا جائے جہاں جماعت احمد یہ موجود تھی ، خواہ احمدیوں کی تعداد کو دیکھا جائے ، خواہ جماعت کی طرف سے اشاعت لٹریچر کو دیکھا جائے خواہ تبلیغ پر خرچ ہونے والے بجٹ کو دیکھا جائے.الغرض کسی بھی حوالے سے دیکھیں یہی صورت سامنے آئے گی کہ ہر ملک میں آزادی کے بعد جماعت احمدیہ کی ترقی کئی گنا زیادہ ہوئی ہے اور کسی ایک جگہ پر بھی کم نہیں ہوئی.تحریک آزادی اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کی تحریکوں میں جماعت احمدیہ کا کردار افریقہ سے نکل کر اب مفتی محمود صاحب نے برصغیر کا رخ کیا.ان کے تمام دلائل کا خلاصہ یہ تھا کہ جماعت احمدیہ نے اپنے آپ کو ہندوستان کی آزادی کی تحریک ، تحریک پاکستان اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کی تحریکوں سے علیحدہ رکھا ہے.پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کا اس موضوع سے کوئی تعلق نہیں تھا جس پر غور کرنے کے لیے یہ کمیٹی بنائی گئی تھی.دوسرے کسی گروہ کو اس بناء پر غیر مسلم نہیں قرار دیا جا سکتا کہ اس نے کچھ دہائیاں قبل تحریک پاکستان میں حصہ نہیں لیا تھا.سب سے اہم تیسرا نقطہ یہ ہے کہ حسب سابق مفتی محمود صاحب کے دلائل سچائی سے عاری تھے.سب سے پہلے تو انہوں نے یہ دلیل پیش کی کہ جب انگریز ہندوستان پر حکمران تھے تو علماء حق نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہ صرف اس کی مخالفت کی

Page 189

187 بلکہ یہ بھی اعلان کیا کہ وہ ان علماء کے نام حکومت کو بھجوائیں گے.واضح رہے کہ فقہ کی اصطلاح میں جو ملک دارالامان ہو یا دارالاسلام ہو اس کی حکومت کے خلاف جہاد نہیں ہوسکتا اور جو ملک دارالحرب ہو تو یا تو اس کی حکومت کے خلاف جہاد کیا جاتا ہے یا وہاں سے ہجرت کرنا مناسب ہوتا ہے.یہ بات سمجھ سے بالا ہے کہ اگر انگریزوں کے تحت ہندوستان دارالحرب تھا تو یہ سب علماء وہاں پر کیا کر رہے تھے اور مفتی محمود صاحب کے مادر علمی دیو بند سمیت وہاں ان کے مدر سے کیوں قائم تھے یا تو انہیں برطانوی حکمرانوں کے خلاف جہاد شروع کرنا چاہیے تھا اور یا پھر وہاں سے ہجرت کر جانا چاہیے تھا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا.دیو بند یا کسی اور مدرسہ سے جہاد کا علم بلند نہیں ہوا.خود مفتی محمود صاحب نے ۱۹۴۷ء سے قبل انگریز حکمرانوں سے کوئی جہاد نہیں کیا.یہ سب خیالات ۱۹۴۷ء کے بعد آئے تھے.مفتی محمود صاحب نے تو کوئی حوالہ پیش نہیں کیا لیکن ہم اس بابت بہت سے حوالوں کے ساتھ حقائق پیش کریں گے.1.جیسا کہ ہم پہلے ذکر چکے ہیں کہ اس ضمن میں Hunter نے اپنی کتاب Indian Mussalmans میں اس بابت بہت سے علماء کے فتوے درج کیے گئے ہیں.ان کے مطابق مکہ مکرمہ کے حنفی، مالکی اور شافعی مفتیوں نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ برطانیہ کے تحت ہندوستان دارالاسلام ہے.ہندوستان کے مختلف مقامات کے بہت سے علماء کا مشترکہ فتویٰ درج ہے کہ انگریزوں کے تحت ہندوستان دارالاسلام ہے.کلکتہ کی محمدن سوسائٹی کا اعلامیہ درج ہے کہ ہندوستان عین دار الاسلام ہے.(The Indian Mussalmans, by W.W.Hunter, published by Sang-e-meel 1999, p 216-219) اس کے علاوہ اسی کتاب کے صفحہ ۱۷ا پر درج ہے کہ شیعہ حضرات کا یہ عقیدہ ہے کہ جب تک موعود امام کاظہور نہیں ہوتا کسی جہاد کا کوئی مقصد اور فائدہ نہیں ہے.2.ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندہ سیاسی تنظیم آل انڈیا مسلم لیگ تھی.۱۸۱۸ء کے آخر

Page 190

188 میں اس کا ایک اجلاس ہوا جس میں علماء کو خاص طور پر مدعو کیا گیا کہ وہ اسلامی نقطہ نگاہ سے راہنمائی کریں کہ اب مسلم لیگ بلکہ ہندوستان کے مسلمانوں کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے.چنانچہ بہت سے علماء اس اجلاس میں شامل ہوئے.شاید برطانوی حکومت کو بھی کچھ وہم اُٹھا ہو کہ کہیں اس موقع پر یہ علماء ہندوستان کو دارالحرب نہ قرار دے دیں.تحریک خلافت اپنے عروج پر تھی اور مسلمانوں کے جذبات بھڑ کے ہوئے تھے.چنانچہ خاص طور پر سی.آئی.ڈی بھی بھجوائی گئی کہ وہ رپورٹ دے کہ اس اجلاس میں کیا بیتی.سی.آئی.ڈی نے اس موقع پر جور پورٹ بھجوائی تھی وہ اب شائع ہو چکی ہے.اس کے مطابق بہت سے علماء اس اجلاس میں شامل ہوئے اور ان کے نمایندہ کے طور پر مولانا عبدالحي صاحب نے خطاب کیا اور ہندوستان کی شرعی حیثیت کے مطابق یہ اعلان کیا کہ ہندوستان کے متعلق دو نظریات پیش کیے جا رہے ہیں.ایک تو یہ کہ ہندوستان اس وقت دارالاسلام ہے اور دوسرا یہ کہ ہندوستان دارالامان ہے.(Indian Muslims, A Documentary Record 1900-1947, Vol.5, compiled by Shan Muhammad p 240-245) 3.یہ ایک ایسا موضوع تھا جس کا ذکر اس وقت لیجسلیٹو اسمبلی میں بھی آیا اور اس موقع پر قائد اعظم محمد علی جناح بھی اسمبلی میں موجود تھے.ایک مسلمان ممبر اسمبلی غزنوی صاحب نے اسمبلی میں کہا: "India has since the very beginning of British rule been a land Darul Islam for British Indian Mussalmans.(The works of Quaid-i-Azam Mohammad Ali Jinnah, Vol.2, compiled by Dr.Riaz Ahmad,p 74) ترجمہ : ہندوستان برطانوی حکومت کے آغاز سے ہی ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ”دار الاسلام“ ہے.4.جماعت احمدیہ کے اشد ترین مخالف مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب اس بارے میں لکھتے ہیں.

Page 191

189 ” (جیسا کہ ملک ہندوستان ہے ) تو جب تک اس میں ادائے شعائر اسلام کی آزادی رہے وہ بحکم حالت قدیم دار الا سلام کہلاتا ہے.“ (اشاعۃ السنہ نمبر ۹ جلد ۹ صفحه ۲۷۵) 5 مندرجہ بالا فتاویٰ تو واضح ہیں لیکن بعض علماء ایک اور طریقہ اختیات کر رہے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں دیو بند سے اس بارے میں جو فتویٰ جاری ہوا وہ مولوی رشید احمد گنگوہی کا تھا اور وہ یہ تھا: ”ہند کے دارالحرب ہونے میں اختلاف علماء کا ہے بظاہر تحقیق حال بندہ کی خوب نہیں ہوئی حسب اپنی تحقیق کے سب نے فرمایا ہے اور اصل مسئلہ میں کسی کو خلاف نہیں اور بندہ کو بھی خوب تحقیق نہیں کہ کیا کیفیت ہند کی ہے.فقط (فتاوی رشید یه کامل مبوب، رشید احمد گنگوہی، ناشر محمد سعید اینڈ سنز کراچی صفحه ۴۳۰) یہ کس طرح ممکن ہیں کہ یہ صاحب اسی بات سے بے خبر ہوں کہ اس وقت ہندوستان کی کیا کیفیت ہے؟ صرف مہم جواب دے کر جان چھڑائی جا رہی ہے تا کہ دونوں گروہ خوش رہ سکیں.حقیقت یہ ہے کہ جیسا کہ ہم حوالہ درج کر چکے ہیں مہتمم دیو بند اور بانی کے فرزند خود انگریزوں کو مسلمانوں کی مخبری کرتے رہے تھے.6.خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی زندگی میں علماء کے زیادہ تر فتاویٰ یہی تھے کہ ہندوستان دار الاسلام ہے یا پھر رشید احمد گنگوہی صاحب کی طرح گول مول بات کی جارہی تھی.لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ جو قلیل علماء بالعموم نجی مجالس میں ہندوستان کو دارالحرب قرار دے رہے تھے ، وہ کس لیے ایسا کر رہے تھے؟ کیا وہ اس لیے کر ہے تھے تا کہ انگریزوں کے خلاف جہاد شروع کر کے انہیں ہندوستان سے نکالا جا سکے؟ ہر گز نہیں ! ۱۹۰۸ء تک کوئی ایسی مثال نہیں کہ کسی مدرسہ سے فتویٰ جاری ہوا ہو کہ ہندوستان دارالحرب ہے اور پھر وہاں سے حکومت کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا گیا ہو یا پھر وہ مدرسے کا سامان سمیٹ کر وہاں سے ہجرت کر گئے ہوں.تو پھر یہ چند علماء ہندوستان کو دارالحرب کیوں قرار دیتے تھے ؟ یہ اس لیے کیا جاتا تھا تا کہ مسلمانوں کو حرام کاموں کی

Page 192

190 طرف ترغیب دی جائے یا پھر اہم دینی فرائض سے منع کر دیا جائے.ہم اس کی مثال پیش کرتے ہیں اور سلسلہ احمدیہ کے اشد ترین مخالف مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کی تحریر سے پیش کرتے ہیں.انہوں نے ۱۸۹۵ء میں اپنے رسالہ ” اشاعۃ السنہ میں ایک بہت طویل مضمون تحریر کیا جس کا عنوان تھا ” کیا ہندوستان دارالحرب ہے؟“ اس میں مولوی صاحب نے اس بات کا رونا رویا ہے کہ کچھ مولوی صاحبان یہ فتنہ اٹھا رہے ہیں کہ چونکہ ہندوستان دارالحرب ہے ، اس لیے ہم سود لیں گے اور سود کا کاروبار کریں گے اور اس غرض سے انہوں نے ملکہ وکٹوریہ کی جو بلی کی نسبت سے ایک" ڈائمنڈ جوبلی بینک کا قیام بھی تجویز کیا ہے.گو کہ یہ بینک سود کا کاروبار کرے گالیکن اسلامی بینک کہلائے گا کیونکہ ہندوستان دارالحرب ہے اور مولوی صاحب لکھتے ہیں کہ سودی کاروبار کی حلت کو ثابت کرنے کے لیے علماء کا لاہور میں ایک جلسہ بھی ہو چکا ہے.مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے ان مولوی صاحبین کو شائقین حلت سود کا نام بھی دیا تھا.(اشاعۃ السنہ نمبر ۹ ۱۰ جلد ۱۸صفحه ۲۸۵ تا ۳۸۴) ایک اور فتنہ یہ اُٹھایا جا رہا تھا کہ چونکہ ہندوستان دارالحرب ہے اس لیے اب جمعہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے.اس طرح مسلمانوں کو تمام دینی فرائض سے غافل کیا جا رہا تھا اور اشاعۃ السنہ کے اس شمارے کے صفحہ ۳۶۴ پر مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے اس فتنہ کا ذکر بھی کیا ہے اور ان کا رد کیا ہے.ظاہر ہے کہ انگریز حکمرانوں کو ایسے فتاوی کی کیا پر وا ہوسکتی تھی جن کے نتیجہ میں ان کے خلاف تو کوئی بغاوت نہ ہو لیکن مسلمان ممنوعہ کاموں میں مبتلاء ہوں اور اپنے فرائض سے غافل ہو جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جن اشتہارات کا حوالہ مفتی صاب نے دیا تھا ان میں حکومت سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ مسلمانوں کو جمعہ پڑھنے کے لیے رخصت دی جائے اور ان علماء کا پردہ چاک کیا گیا تھا جو کہ ان عجیب فتاوی کی آڑ میں مسلمانوں کو ان کے دین سے دور لے کر جا رہے تھے اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ان میں سے کسی نے کبھی انگریز حکومت کے خلاف انگلی بھی نہیں اُٹھائی تھی.یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس قسم کے الزامات جماعت احمد یہ تک محدود نہیں

Page 193

191 ہیں.مولوی صاحبان نے جب کسی پر کفر کا فتویٰ لگانا ہو تو اس پر یہ الزام ضرور ہیں کہ یہ عیسائیوں، یہودیوں اور اسلام کے دشمنوں کے ایجنٹ ہیں.چنانچہ یہ الزام شیعہ احباب پر بھی لگایا گیا جیسا کہ کتابچہ خمینی اور اثناء عشریہ کے بارے میں علماء کرام کا متفقہ فیصلہ میں لکھا ہے منہاج السنتہ میں مطاعن صحابہ کے جواب خلفاء ثلثہ کی خلافت کے دلائل اور شعی عقیدہ امامت کی تردید کے علاوہ شیخ الاسلام ابن تیمہ نے جابجا اس اہم تاریخی حقیقت کو بھی پوری صراحت اور وضاحت سے لکھا ہے کہ تاریخ ہر دور میں شیعوں نے اسلام کے دشمنوں یہود ونصاریٰ اور کفار و منافقین کا ساتھ دیا ہے.اس سلسلہ میں انہوں نے ایک مقام پر کافی تفصیل کے ساتھ گزشتہ تاریخ میں شیعوں کے اسلام دشمنوں کی حمایت کے اس مسلسل رویہ کو بیان کرنے کے بعد لکھا کہ ” جب تا تاری مشرق کی طرف سے آئے اور انہوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا اور خراسان ، عراق ، شام اور جزیرہ میں ان کے خون کے دریا بہائے تو شیعوں نے مسلمانوں کے خلاف ان حملہ آور تاتاریوں کا ساتھ دیا.اسی طرح شام میں جب عیسائیوں نے مسلمانوں سے جنگ کی تب بھی روافض ان کی کمک پر تھے.“ یہ سب لکھنے کے بعد امت کو ان کے مستقبل کے عزائم سے ان الہامی الفاظ میں باخبر کیا ہے کہ اگر یہودیوں کی عراق میں یا کہیں اور حکومت قائم ہو جائے تو یہ روافض ان کے 66 سب سے بڑے مددگار ہوں گے.“ کشمیر کمیٹی کا تذکرہ (خمینی اور اثناء عشری کے متعلق علماء کرام کا متفقہ فیصلہ.بینات خصوصی اشاعت صفحہ ۱۱) اب مفتی محمود صاحب نے یہ واویلا شروع کیا کہ جب مظلوم کشمیریوں کی مدد کے لیے کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں آیا تو احمدیوں نے اس موقع پر پھر غداری کی اور اس کمیٹی کی اندر کی خبریں انگریز حکمرانوں تک پہنچارہے تھے.انہوں نے کہا:

Page 194

192 یہی وطیرہ ان کے بعد ان کے جانشینوں کا رہا.۱۹۳۱ء میں کشمیر کمیٹی کا قیام اور بالآ خر مرزا بشیر الدین محمود کی خفیہ سرگرمیوں سے اس کے شکست وریخت اور علامہ اقبال کا اس کمیٹی سے علیحدہ ہونا اور کمیٹی کو توڑ دینا جس کا ذکر آگے آ رہا ہے یہ سب باتیں تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں.علامہ اقبال کو وثوق سے یہاں تک معلوم ہوا کہ کشمیر کمیٹی کے صدر (مرزا بشیر الدین محمود ) اور سکرٹری (عبدالرحیم ) دونوں وائسرائے اور اعلیٰ برطانوی حکام کو خفیہ اطلاعات بہم پہنچانے کا نیک کام بھی کرتے ہیں.“ پنجاب کی سیاسی تحریکیں صفحہ ۲۱۰ عبد اللہ ملک ) ( کارروائی صفحہ ۲۰۶۸) جس کتاب کا حوالہ دیا گیا ہے اس کا سرسری مطالعہ ہی بتا دیتا ہے کہ اس میں جماعت احمدیہ کے خلاف بے بنیاد الزامات کا ایک طومار درج کیا گیا ہے اور کسی ثبوت کو پیش کرنے کی زحمت نہیں کی گئی اور اس حوالہ کے یہ معین الفاظ تو وہاں درج بھی نہیں ہیں.البتہ صفحہ ۲۰۶ پر مختلف الفاظ میں یہ الزام درج ہے اور اس کے آگے الفضل کے کئی حوالے درج کیے گئے ہیں جن میں کیا لکھا ہے؟ ہم خلاصہ پیش کرتے ہیں.ایک انگریز افسر نے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو کہا کہ اگر لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ حکومت احمدیوں کے ساتھ نہیں تو انہیں کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے.اب مخالفت کی تنظیم سے گورنمنٹ بھی دب گئی ہے.گورنمنٹ نے ایک سرکلر جاری کیا جو تمام ڈپٹی کمشنروں کو بھجوایا گیا کہ گورنمنٹ کی نظر میں جماعت احمدیہ کی حیثیت مشتبہ ہے.اب ملازمتوں اور ٹھیکوں کے سلسلہ میں احمدیوں کے حقوق کو پامال کیا جائے گا.ایک احمدی اپنے ایک انگریز دوست سے جو کہ اعلیٰ افسر ہیں ملے.اس انگریز افسر نے کہا کہ میں آپ کا دوست تھا لیکن معلوم نہیں اب میں آپ کا دوست رہ سکوں گا کہ نہیں.حضرت امام جماعت احمدیہ نے فرمایا کہ رومی سلطنت نے حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب دے دی.اسی طرح انگریز مجھے سولی پر لٹکا سکتے ہیں تم میں سے ہر ایک کو پھانسی دے سکتے ہیں.قید کر سکتے ہیں لیکن دنیا کی ساری حکومتیں بھی مل جائیں تو بھی احمدیت کو نہیں مٹا سکتے.( پنجاب کی سیاسی تحریکیں از عبداللہ ملک، ناشر تخلیقات لا ہور صفحہ ۲۱۱ ۲۱۲)

Page 195

193 اور یہ سب حوالے اور یہ سب صورت حال ۱۹۳۵ء کے ہیں جب کشمیر کمیٹی کے معاملات عروج پر تھے.بہت خوب یہ کس الزام کے ثبوت درج کیے گئے.الزام یہ تھا کہ احمدی انگریزوں کے ایجنٹ تھے اور ان کو خبریں پہنچایا کرتے تھے اور ثبوت میں یہ حوالے درج کیے گئے ہیں کہ انگریز حکومت احمدیوں کو شک و شبہ کی سے نگاہ دیکھتی تھی اور ان سے تعلقات کو سرکاری حلقوں میں ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا.اگر کوئی انگریز کسی احمدی کا دوست تھا بھی تو وہ اظہار کر رہا تھا کہ اب شاید وہ دوست نہ رہ سکے.امام جماعت احمد یہ بر ملا اس بات کا اظہار کر رہے تھے کہ برطانوی حکومت تو ایک طرف رہی اگر دنیا کی تمام حکومتیں بھی مل جائیں تو بھی احمدیت کو نہیں مٹاسکتیں.یہ سب حوالے تو یہی ظاہر کرتے ہیں کہ اس وقت انگریز حکومت نے جماعت احمدیہ کے مخالفین پر دست شفقت رکھا ہوا تھا.ہم اس کے مزید ثبوت پیش کرتے ہیں اور اس کتاب سے پیش کرتے ہیں جس میں جماعت احمدیہ کی مخالفت میں بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن واقعات کا تسلسل ہی اس بات کو ظاہر کر دیتا ہے کہ مظلوم کشمیریوں کے مفادات پر سودا بازی کون کر رہا تھا.اس کتاب کا نام (1926-1938 lqbal and Politics of the Punjab) ہے اور اس کے مصنف ڈاکٹر خرم محمود صاحب ہیں.1 جولائی ۱۹۳۱ء میں خواجہ حسن نظامی صاحب کی تجویز پر شملہ میں مسلمانوں کے لیڈروں کا اجلاس ہوا.اس میں مظلوم کشمیری مسلمانوں کی مدد کے لیے کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں آیا.اس اجلاس میں علامہ اقبال بھی شامل تھے.علامہ اقبال کی تجویز پر اس کمیٹی کا صدر امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد اور ایک اور احمدی عبدالرحیم در دصاحب کو اس کا سیکریٹری منتخب کیا گیا.( کارروائی صفحہ ۹۰، ۹۱ ) 2 کشمیر کمیٹی نے مہاراجہ کو لکھا کہ کشمیر کمیٹی کے وفد کو کشمیر آ کر حالات کا جائزہ لینے کی اجازت دی جائے.مہاراجہ نے اجازت دینے سے انکار کیا اور حکم دیا کہ اگر یہ کشمیر میں داخل ہوں تو ان کو گرفتار کر لیا جائے.3 کشمیر کمیٹی نے کام شروع کیا اور ۱۴ را گست ۱۹۳۱ء کو ہندوستان بھر کے چھوٹے بڑے شہروں

Page 196

194 میں جلسے منعقد ہوئے.علامہ اقبال نے لاہور کے جلسہ سے خطاب کیا.4.ان جلسوں پر ہندو پریس نے شدید رد عمل دکھایا.ملاپ جیسے اخباروں نے لکھا کہ کشمیر میں ہندوراج کے لیے اور ڈوگرہ راجہ کے لیے خطرہ پیدا ہورہا ہے اور کشمیر میں مسلم راج کے قیام کی سازش ہو رہی ہے.5 کشمیر کمیٹی نے کشمیر کے مسلمانوں کو قانونی اور مالی مدد مہیا کرنی شروع کی.کشمیر کمیٹی کے صدر کی طرف سے احراری لیڈروں کو کمیٹی کے ساتھ شامل ہونے کا کہا گیا مگر انہوں نے انکار کر دیا.6.آل انڈیا کانگرس کشمیر کمیٹی کو اور اس میں احمدیوں کی شمولیت کو پسند نہیں کر رہی تھی.انہوں نے کانگرس کے لیڈر آزاد کی وساطت سے احراریوں کو اس کمیٹی کے خلاف اکسایا.7.مجلس احرار نے اس بات کی مخالفت شروع کی کہ احمدی کشمیر کمیٹی میں کام کیوں کر رہے ہیں اور ان کا وفد سری نگر حالات کا جائزہ لینے کے لیے گیا اور انہیں کشمیر کے راجہ نے اپنے مہمان کی حیثیت سے اپنے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرایا اور یہ خبریں مشہور ہونے لگیں کہ انہوں نے یہ مہم ناکام بنانے کے لیے راجہ کو رشوت دی ہے.احرار نے جلسوں کا آغا ز شروع کیا.8.احراریوں نے علامہ اقبال کو احمدیوں کے خلاف اکسانا شروع کیا اور اس کے نتیجہ میں امام جماعت احمدیہ نے اس کمیٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا.علامہ اقبال نے صدارت سنبھالی اور جلد انہوں نے بھی استعفیٰ دے دیا.ایک اور پلیٹ فارم پر کام شروع کیا گیا لیکن یہ بھی نہ پنپ سکا اور ساری مہم ختم ہوگئی.(Iqbal and Politics of the Punjab (1926-1938), BY Dr.Khurram Mahmood, published by National Book Foudation 2010, p 93-100) ی تھی سازش ! جب کشمیر کمیٹی کی کاوشیں اثر پیدا کرنے لگیں تو فوراً جماعت احمدیہ مخالف احرار کسی تابعدار ملازم کی طرح حاضر ہوئے اور کشمیر کمیٹی میں اختلاف پیدا کیا.پھر اب تک یہ رونا رویا جاتا ہے کہ اصل میں قادیانی وکلاء علامہ اقبال کی بجائے اپنی قیادت کی راہنمائی زیادہ قبول کرتے تھے.نہایت ہی لغو اعتراض ہے.اگر آپ کا یہی خیال ہے کہ احمدی ایجنٹ تھے اور دشمنوں کو خبریں

Page 197

195 بھجواتے تھے تو پھر آپ احمدی وکلاء سے خدمات لینے پر مصر کیوں تھے.آپ کو تو فوراً انہیں برطرف کر کے دوسرے فرقوں سے وابستہ مسلمان وکلاء کی خدمات لینی چاہیے تھیں اور اگر احمدی وکلاء نے کام بند کر دیا تھا تو اس پر اللہ کا شکر کرنا چاہیے تھا.دوسرے مسلمان وکلاء کی تعداد احمدی وکلاء کی نسبت کئی گنا زیادہ تھی.اگر خدمت کی نیت ہوتی تو پھر احمدی وکلاء کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی اور اب تک تو مفتی محمود صاحب یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ جماعت احمدیہ کو برطانوی حکومت نے اپنے مقاصد کے لیے قائم کیا تھا اور شروع سے جماعت احمد یہ اسی حکومت کے لیے کام کر رہی تھی اور یہ سب کچھ کھلم کھلا ہو رہا تھا.اگر ایسا تھا تو پھر علامہ اقبال اور دوسرے مسلمان قائدین نے اس قسم کے اہم کام کی قیادت کے لیے حضرت امام جماعت احمدیہ کا انتخاب کیوں کیا ؟ ان کی قیادت میں کام کیوں شروع کیا؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ افسانے بعد میں گھڑے گئے تھے.جب قربانیاں دینے کا وقت تھا اور عملی خدمت کا وقت تھا تو سب سے آگے جماعت احمدیہ کو کیا گیا.اکھنڈ بھارت اس کے بعد مفتی محمود صاحب نے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ جماعت احمد یہ اکھنڈ بھارت بنانے کے لیے کوشاں تھی.پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر کوئی گروہ آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت کر کے ہندوستان کی تقسیم کی کوشش کر رہا تھا یا پھر کانگرس کے ساتھ مل کر متحدہ ہندوستان کی آزادی کے لیے کام کر رہا تھا یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے.اس کا زیر بحث موضوع سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن اس مرحلہ پر مفتی محمود صاحب کے بیان کردہ نکات ایک دوسرے کی تردید کر رہے تھے.ایک طرف تو وہ یہ دعویٰ پیش کر رہے تھے کہ قادیانی اور ہندو ایک دوسرے کی ضرورت تھے اور کانگرس قادیانیوں کو مسلمانوں میں ایک ففتھ کالمنسٹ کی حیثیت سے استعمال کر رہی تھی.دوسری طرف وہ یہ کہہ رہے تھے کہ جب پنڈت جواہر لال نہرو کانگرس کے لیڈر کی حیثیت سے انگلستان کا دورہ کر کے واپس آئے تو انہوں نے کہا کہ جب تک قادیانی ہندوستان میں سرگرم عمل ہیں ہندوستان کا آزاد ہونا مشکل ہے اور جب تک ان پر یہ حقیقت نہ کھلی ہند و قادیانیوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے.واضح رہے کہ اپوزیشن کی طرف سے ایک قرار داد اسمبلی میں پیش کی گئی تھی اور مفتی محمود صاحب

Page 198

196 اس قرارداد کے محرکین کی طرف سے یہ الزامات کا طومار پیش کر رہے تھے.اس قرار داد کے محرکین میں سے ایک سردار شوکت حیات صاحب بھی تھے اور اس وقت وہ بھی مفتی محمود صاحب اور جماعت اسلامی کے ہمنوا بن کر جماعت احمدیہ کے خلاف یہ قرارداد پیش کر رہے تھے.اس قرار داد میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ جماعت احمد یہ سامراج کی پیداوار تھی.پاکستان کے قیام کی مخالف اور دشمن تھی وغیرہ وغیرہ لیکن حقیقت کیا تھی؟ یہ اس قرارداد کے محرکین بھی بخوبی جانتے تھے.اس قرارداد کے ایک محرک سردار شوکت حیات صاحب تحریک پاکستان کے کارکن بھی رہے تھے.انہوں نے ۱۹۹۵ء میں ایک کتاب The Nation that lost its soul تحریر فرمائی.اس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ تحریک پاکستان کے وقت دیوبندی علماء کی بھاری اکثریت کانگرس کے ساتھ تھی.سردار شوکت حیات صاحب پٹھانکوٹ میں ایک جلسہ سے خطاب کرنے گئے تھے.اس دوران انہیں قائد اعظم نے پیغام بھجوایا کہ وہ مودودی صاحب سے ملیں اور قادیان جا کر امام جماعت احمدیہ سے بھی ملیں اور ان دونوں سے درخواست کریں کہ وہ پاکستان کے قیام کے لیے دعا بھی کریں اور اس کی حمایت بھی کریں.پہلے وہ حضرت امام جماعت احمدیہ سے ملنے قادیان گئے.وہ لکھتے ہیں کہ میں آدھی رات کو وہاں پہنچا.اس وقت امام جماعت احمد یہ آرام کے لیے تشریف لیجا چکے تھے لیکن یہ سن کر کہ سردار صاحب قائد اعظم کا پیغام لے کر آئے ہیں وہ فوراً آگئے.پیغام سن کر انہوں نے کہا کہ وہ شروع ہی سے اس کے لیے دعا کر رہے ہیں اور جہاں تک حمایت کا تعلق ہے تو اگر کوئی ایک احمدی بھی مسلم لیگ کے خلاف کھڑا ہوا تو وہ احمدیوں کی حمایت سے محروم ہو جائے گا.پھر سردار شوکت حیات صاحب ، مودودی صاحب سے ملے اور یہ پیغام پہنچایا.اس پر مودودی صاحب نے جواب دیا کہ وہ نا پاکستان کے لیے کس طرح دعا کر سکتے ہیں.پھر سردار شوکت حیات صاحب لکھتے ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد مودودی صاحب نے یہ فتویٰ دیا کہ جو کشمیر جا کر لڑتا ہوا مارا جائے گا وہ کتے کی موت مارا جائے گا.(The Nation that lost its soul, by Sardar Shaukat Hayat Khan, published by Jang Publishers, April 1995, p 147-148)

Page 199

197 اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ اس قرارداد کے محرکین بھی بخوبی علم رکھتے تھے کہ وہ جماعت احمدیہ پر جھوٹے الزامات لگا رہے تھے.مفتی محمود صاحب جماعت احمدیہ کے خلاف ممبران اسمبلی کو اکسانے کے لیے کہ رہے تھے کہ جماعت احمد یہ تو کانگرس کے ساتھ ملی ہوئی تھی تاکہ مسلمانوں میں ففتھ کالم کی حیثیت سے کام کرے.جب کہ اس قرارداد کے محرکین کی تحریر ہی اس بات کا ثبوت دے رہی ہے کہ یہ جھوٹ تھا.خود دیوبندی علماء کانگرس کے ساتھ ملے ہوئے تھے اور مفتی صاحب دیو بندی گروہ سے تعلق رکھتے تھے.مفتی صاحب نے یہ الزام لگایا کہ جماعت احمدیہ نے قیام پاکستان کی مخالفت کی جبکہ خود سردار صاحب کی تحریر اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ یہ مخالفت تو جماعت اسلامی نے کی تھی.اس کے بعد مفتی محمود صاحب نے یہ لا یعنی دعوئی پیش کیا کہ جب پاکستان بن گیا تو احمدی اس بات کے لیے کوشاں تھے کہ دوبارہ اکھنڈ بھارت وجود میں آجائے.اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کے لیے وہ الفضل کے جو حوالے پیش کر رہے تھے وہ تقسیم برصغیر سے پہلے کے تھے.اس میں ایک خواب کی تعبیر کے سلسلہ میں حضور کا یہ ارشاد درج تھا کہ اب یہ سمجھا جا رہا ہے کہ شاید اختلاف اتنا شدید ہو چکا ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں صلح ناممکن ہے لیکن اس خواب سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید ابھی بھی یہ صورت حال ممکن ہو اور ہندوستان میں ہندو مسلمان اور عیسائی اور سب مذاہب کے لوگ شیر وشکر ہو کر رہیں اور یہ بھی ذکر تھا کہ اگر تمام ہندوستان احمدی ہو جائے تو دنیا میں تبلیغ کے لیے ایک مضبوط ہیں مہیا ہوسکتی ہے.مفتی محمود صاحب کا یہ الزام بالکل نا قابل فہم تھا.ہر ملک میں مختلف مذاہب کے لوگوں کو شیر و شکر ہو کر رہنا چاہیے.آج بھی پاکستان میں تمام مذاہب کے لوگوں کو شیر و شکر ہو کر رہنا چاہیے اور ہندوستان میں بھی تمام مذاہب کے لوگوں کو شیر وشکر ہو کر رہنا چاہیے اور یاد رہے کہ اس سے قبل خود مسلم لیگ نے کیبنٹ مشن پلان منظور کرنے کا اعلان کیا تھا جس کی رو سے ہندوستان نے تین یونٹوں کے کنفیڈریشن کی صورت میں قائم رہنا تھا اور اس وقت اس قسم کی مختلف تجاویز زیر غور تھیں کہ مسلم لیگ اور کانگرس میں کوئی سمجھوتا ہو جائے اور الفضل کے جس شمارے کا حوالہ پیش کیا جا رہا تھا وہ بھی جزوی تھا.سارے تجزیہ کے بعد حضور نے اس بات کا تجزیہ کرتے

Page 200

198 ہوئے کہ اگر ہندوؤں اور مسلمانوں میں کوئی سمجھوتا نہ ہوا تو جماعت احمدیہ کا لائحہ عمل کیا ہوگا فرمایا اگر خدانخواستہ ایسی صورت پیدا ہو گئی تو ہم مسلمانوں کے ساتھ ہوں گے.جو حال ان کا وہی ہمارا.بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے ہم پر بہت مظالم ڈھائے ہیں، ہمیں ان سے نہیں ملنا چاہیے حقیقت میں ہمیں جس قدر ترقی حاصل ہوئی ہے وہ مسلمانوں میں ہی ہوئی ہے.میں نے بسا اوقات دیکھا ہے جب کبھی بھی مسلمانوں پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ ہمارے ساتھ مل جاتے ہیں اور ان کی عداوت بالکل کا لعدم ہو جاتی ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ انہیں ضرور ہم سے کوئی حقیقی تعلق ہے اور عداوت عارضی اور ظاہری طور پر ہوتی ہے.اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ اگر تمام قو میں شیر وشکر ہو کر نہ رہ سکیں تو ہم مسلمانوں کا ساتھ دیں گے.اگر وہ ہلاکت کے گڑھے میں گریں گے تو ہم بھی ان کے ساتھ ہوں گے.(الفضل ۱٫۵ پریل ۱۹۴۷، صفحه۳) یہ تھا وہ پورا حوالہ جسے مفتی محمود صاحب ایک خوفناک سازش قرار دے رہے تھے.باؤنڈری کمیشن کے حوالے سے الزامات اور جماعت احمد یہ پر غداری کا بے بنیادالزام اب مفتی محمود صاحب اپنی تقریر کے اختتام پر پہنچ رہے تھے.چونکہ اب تک مفتی محمود صاحب زیر بحث موضوع پر کوئی ٹھوس گفتگو نہیں کر سکے تھے.اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ اب ان کی یہی کوشش تھی کہ کسی طرح جماعت احمدیہ کے خلاف مزید الزامات لگا کر ان کے خلاف نفرت کے جذبات بھڑ کائے جائیں اور یہ انسانی فطرت ہے کہ جب کسی شخص یا گروہ کے خلاف نفرت کے جذبات بھڑک اُٹھیں تو پھر ہوش کے ناخن کوئی نہیں لیتا اور با آسانی انصاف کا خون کیا جا سکتا ہے.اس کام کو سرانجام دینے کے لیے ایک بار پھر مفتی محمود صاحب کو جھوٹ کا سہارا لینا پڑا.یہ تو سب جانتے ہیں کہ آزادی کے وقت یہ فیصلہ ہوا تھا کہ پنجاب اور بنگال کے صوبوں کو پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تقسیم کیا جائے گا اور یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ پنجاب کے جو مسلمان اکثریت کے علاقے ہوں گے

Page 201

199 وہ مغربی پنجاب یعنی پاکستان میں شامل کیے جائیں گے اور دوسرے علاقے مشرقی پنجاب یعنی ہندوستان میں شامل کیے جائیں گے اور اس کے علاوہ دیگر عوامل کو بھی پیش نظر رکھا جائے گا.اس بارے میں مفتی محمود صاحب نے کہا: " جماعت احمد یہ تقسیم کی مخالف تھی لیکن جب مخالفت کے باوجود تقسیم کا اعلان ہو گیا تو احمدیوں نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی ایک اور زبردست کوشش کی جس کی وجہ سے گورداسپور کا ضلع جس میں قادیان کا قصبہ واقع تھا پاکستان سے کاٹ کر بھارت میں شامل کر دیا گیا.اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ حد بندی کمیشن جن دنوں بھارت اور پاکستان کی حد بندی کی تفصیلات طے کر رہا تھا کانگریس اور مسلم لیگ کے نمائندے دونوں اپنے اپنے دعاوی اور دلائل پیش کر رہے تھے.اس موقع پر جماعت احمد یہ نے باؤنڈری کمیشن کے سامنے اپنا الگ ایک محضر نامہ پیش کیا اور اپنے لئے کانگریس اور مسلم لیگ دونوں سے الگ موقف اختیار کرتے ہوئے قادیان کو ویٹیکن سٹی قرار دینے کا مطالبہ کیا.( کارروائی صفحہ ۲۰۷۶) اس کے بعد انہوں نے کہا کہ قادیان کو ویٹیکن سٹی نہیں قرار دیا گیا البتہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گورداسپور کا ضلع جس میں قادیان بھی شامل تھا پاکستان کے ہاتھ سے نکل گیا اور اس کے نتیجہ میں ہندوستان کو کشمیر تک راستہ مل گیا اور کشمیر بھی پاکستان کے ہاتھ سے نکل گیا.اس وقت مفتی محمود صاحب نے یہ الزام تو لگا دیا تھا لیکن انہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ ایک دن باؤنڈری کمیشن کی کارروائی ، جماعت احمدیہ کے میمورنڈم سمیت شائع ہو جائے گی اور اس جھوٹ کا بھانڈا عین چورا ہے میں پھوٹے گا.بہر حال ۱۹۸۳ء میں National Documentation Centre کی طرف سے باؤنڈری کمیشن اور جماعت احمدیہ کا میمورنڈم بھی شائع ہو گیا.اس میمورنڈم کے پہلے صفحہ سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ مفتی محمود صاحب نے قومی اسمبلی میں ایک من گھڑت الزام پیش کیا تھا جیسا کہ گزشتہ کتاب میں بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ جماعت احمدیہ کے میمورنڈم کی پہلی سطروں میں ہی یہ مطالبہ درج ہے کہ قادیان کو مغربی پنجاب یعنی پاکستان میں شامل کرنا چاہیے اور تو اور صدر مسلم لیگ

Page 202

200 تحصیل بٹالہ نے بھی تحصیل بٹالہ کے مسلمانوں کی طرف سے ایک میمورنڈم پیش کیا تھا جس میں یہ لکھا گیا تھا کہ مسلمانوں میں سے احمدی ( حضرت ) مرزا غلام احمد کو نبی مانتے ہیں اور قادیانی واشگاف الفاظ میں پاکستان کی حمایت کا اعلان کر چکے ہیں.قادیان تحصیل بٹالہ (جو کہ ضلع گورداسپور میں ہے ) میں ہے اس لیے ہماری تحصیل کو پاکستان میں شامل کرنا چاہیے.(The Partition of the Punjab, published by Sang-e-Meel Publications Vol.11993, p 428&472) حقیقت یہ ہے کہ جب کسی نے جماعت احمدیہ پر خلاف واقعہ الزام لگانا ہوتو وہ بغیر حوالے کے احمد جو جی میں آئے الزام لگا دیتا ہے.اور پھر بعد میں دوسرے مخالفین اس کو حوالہ بنا کر پیش کرتے ہیں اور جماعت احمدیہ پر الزامات دہراتے جاتے ہیں.جب کہ اس قسم کے الزامات کا سچائی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.یہی کیفیت ان الزامات کی ہے جو کہ پنجاب کے باؤنڈری کمیشن کے حوالے سے جماعت احمدیہ پر لگائے جاتے ہیں.اس مرحلہ پر مفتی محمود صاحب نے روزنامہ مشرق ۳ فروری ۱۹۶۴ء میں شائع ہونے والے ایک مضمون کا حوالہ پیش کیا جو میر نوراحمد صاحب نے تحریر کیا تھا.اس میں بنیادی طور پر تین دعاوی پیش کیے گئے تھے.پہلا دعویٰ یہ تھا کہ باؤنڈری کمیشن کے اعلان سے پہلا مسلمان ممبران پر یہی تاثر تھا کہ ضلع گورداسپور کو پاکستان میں شامل کیا جائے گا کیونکہ اس ضلع میں مسلمانوں کی اکثریت تھی.یہ بات بالکل غلط ہے کیونکہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم چوہدری محمد علی صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ انہیں لیاقت علی خان صاحب نے کہا کہ قائد اعظم کو بہت تشویشناک اطلاعات مل رہی ہیں کہ باؤنڈری کمیشن غیر منصفانہ فیصلہ کرے گا اور خاص طور پر گورداسپور کے ضلع کو بھارت کے حوالے کرنے کے بارے میں یہ اطلاعات مل رہی ہیں.اس کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے خود Lord Ismay کے دفتر میں نقشہ پر لائن لگی دیکھی جس کی رو سے گورداسپور کے ضلع کو بھارت میں شامل دکھایا گیا تھا.(The Emergence of Pakistan, by Chaudry Muhammad Ali,

Page 203

201 published by Research Socirty of Paksitan p218) پھر انہوں نے یہ دعویٰ پیش کیا کہ کمیشن کے سامنے وکلاء نے جو بحث کی تھی اس کا ریکارڈ موجود نہیں ہے جس سے پتہ چل سکے کہ کیا یہ دلائل پیش کیے گئے تھے کہ گورداسپور کا ضلع پاکستان میں شامل ہونا چاہیے کہ نہیں.یہ بھی خلاف واقعہ دعوی ہے کیونکہ جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ یہ ریکارڈ حکومت پاکستان کی تحویل میں تھا اور اب کئی مرتبہ شائع بھی ہو چکا ہے.صرف مسئلہ یہ تھا کہ اس ریکارڈ سے ان الزامات کی مکمل تردید ہوتی تھی جو کہ میر نوراحمد صاحب یا مفتی محمود صاحب لگا رہے تھے.تیسرا دعوی یہ پیش کیا گیا کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے مسلم لیگ کا کیس پیش کرنے کے علاوہ احمدیوں کا علیحدہ میمورنڈم بھی پیش کیا.میر نور احمد صاحب لکھتے ہیں کہ بے شک جماعت احمدیہ کا موقف یہی تھا کہ وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں لیکن اس طرح علیحدہ میمورنڈم پیش کرنے سے مسلمانوں کی عددی اکثریت کم ہوگئی.یہ بھی بالکل خلاف واقعہ دعوئی ہے کیونکہ اب یہ میمورنڈم شائع ہو چکا ہے اور ہر کوئی دیکھ سکتا ہے کہ جماعت احمدیہ کا میمورنڈم حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے نہیں بلکہ شیخ بشیر احمد صاحب نے پیش کیا تھا اور اس کا رروائی میں جماعت احمدیہ کی طرف سے بھی اور مسلم لیگ کی طرف سے بھی جماعت احمدیہ کو مسلمانوں کی ایک جماعت کے طور پر پیش کیا گیا تھا.یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ چند لمحے قبل تو مفتی محمود صاحب یہ دعوئی پیش کر رہے تھے کہ جماعت احمدیہ نے یہ مطالبہ پیش کیا تھا کہ قادیان کو ویٹیکن کا درجہ دیا جائے اور اب وہ خود ہی اپنی تردید کر کے یہ حوالہ پیش کر رہے تھے کہ جماعت احمد یہ قادیان کو پاکستان میں شامل کرنا چاہتی تھی.اس کے علاوہ مفتی محمود صاحب نے جسٹس منیر صاحب کا ایک حوالہ پیش کیا کہ یہ بات ان کے لیے نا قابل فہم ہے کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے میمورنڈم کیوں پیش کیا گیا.اگر جماعت احمدیہ کو مسلم لیگ کے موقف سے اتفاق نہ ہوتا تو یہ بات سمجھ آسکتی تھی لیکن اس میمورنڈم کی وجہ سے مسلمان جج صاحبان مخمصے میں پڑ گئے.واضح رہے کہ جسٹس منیر صاحب مسلم لیگ کی طرف سے اس کمیشن کے رکن نامزد کیے گئے تھے.پہلی بات یہ ہے کہ اس میمورنڈم کا مقصد کیا تھا؟ اب جبکہ باقی کا روائی کی

Page 204

202 طرح یہ میمورنڈم بھی شائع ہو چکا ہے ہر صاحب بصیرت پڑھ کر خود جائزہ لے سکتا ہے کہ اس میمورنڈم میں مسلم لیگ کے موقف کی بھر پور حمایت کی گئی تھی.Partition of The PUunjab کی پہلی جلد کے صفحہ ۴۲۸ سے ۴۷۲ پر یہ میمورنڈم شائع ہو چکا ہے.ہر کوئی پڑھ کر اپنی تسلی کر سکتا ہے کہ مفتی محمود صاحب کے الزامات بے بنیاد تھے.حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی.دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ جسٹس منیر صاحب کی تحریر میں جماعت احمدیہ کے میمورنڈم پر حیرت کا اظہار بالکل نا قابل فہم ہے کیونکہ باؤنڈری کمیشن کی کارروائی کی اشاعت کے سرسری جائزہ سے ہی یہ بات سامنے آ جاتی ہے کہ اس وقت کانگرس کی طرف سے بہت سی شخصیتوں گروہوں اور تنظیموں کے میمورنڈم پیش کرائے گئے تھے تا کہ ان کا کیس مضبوط ہو اور اسی طرح مسلم لیگ کی طرف سے بھی اپنے موقف کی تائید میں بہت گروہوں، جماعتوں اور تنظیموں کے میمورنڈم پیش کرائے گئے تھے تا کہ ان کا موقف مضبوط ہو.اب ان کی ایک طویل فہرست شائع ہو چکی ہے.چنانچہ آل انڈیا مسلم لیگ نے جماعت احمدیہ کے علاوہ مسلم لیگ بٹالہ، پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈ ریشن ہٹی مسلم لیگ منٹگمری ، ڈسٹرکٹ مسلم لیگ لدھیانہ ، ینگ منفس مسلم ایسوسی ایشن ،امیر جماعت احمدیہ لدھیانہ، انجمن مغلیہ ہٹی اور ڈسٹرکٹ مسلم لیگ جالندھر وغیرہ کی طرف سے میمورنڈم پیش کرائے تھے جن میں مسلم لیگ کے موقف کی تائید کی گئی تھی اور دوسری طرف کانگرس کی طرف سے پنجاب ہندوسھا، سکھ اسمبلی ، گوردوارا کمیٹی ، رام داسی سکھوں ، آریہ سکھوں.صدر گوردوا را کمیٹی مغلپورہ لاہور، ڈوگرہ ہند وسمجھا امرتسر ،سکھ زمیندار ایسوسی ایشن پنجاب، ہندو لیگ بٹالہ وغیرہ کے میمورنڈم پیش کرائے گئے تھے.یہ حقائق صاف ظاہر کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کا میمورنڈم خود مسلم لیگ نے پیش کرایا تھا تا کہ ان کا موقف مضبوط ہو.اس پس منظر میں یہ اعتراضات لا یعنی نظر آتے ہیں.(The Partition of The Punjab 1947, Vol.1, published by Sang-e-Meel, p474-477) پاکستان میں ریاست کے اندر ریاست بنانے کے منصوبے کا الزام

Page 205

203 اب مفتی محمود صاحب اپنی تقریر کے بالکل اختتام پر پہنچ رہے تھے.انہوں نے نفرت انگیزی کے کام کو مکمل کرنے کے لیے یہ الزامات لگائے.1.جماعت احمدیہ پاکستان کے اندر ریاست کے اندر ریاست بنانے کے منصوبے بنا رہی ہے اور اس غرض کے لیے اہم محکموں میں اہم منصبوں پر قبضہ کیا جا رہا ہے.2.جماعت احمدیہ پاکستان کے اندر متوزی نظام حکومت بنانے کے لیے کوشاں ہے.3.جماعت احمدیہ نے پاکستان کے اندر متوازی فوج بھی قائم کر رکھی ہے.( کارروائی صفحه ۴ ۲۰۸ تا ۲۰۹۴) پہلا سوال یہ ہے کہ اگر یہ لغو الزامات درست تھے تو ان کا حل یہ تو بہر حال نہیں تھا کہ جماعت احمدیہ کو قومی اسمبلی غیر مسلم قرار دینے کی کارروائی شروع کر دے.اس کی بجائے پہلا کام حکومت کا یہ ہونا چاہیے تھا کہ قانون کو حرکت میں لائے اور عدالتوں میں جماعت احمدیہ کے ملزم افراد کے خلاف مقدمہ قائم کر کے انہیں سزا دی جائے لیکن نہ اس سے قبل ایسا کیا گیا اور نہ اس کے بعد ایسا کیا گیا کیونکہ ان الزامات کے کوئی ثبوت موجود ہی نہیں تھے اور ان کی کوئی حقیقت نہیں تھی اور ایک محب وطن جماعت کے خلاف یہ الزامات ثابت کرنا ایک ناممکن بات تھی.اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ مولوی مفتی محمود صاحب نے ان سنسنی خیز الزامات کے کیا ثبوت پیش کیے.سب سے پہلے تو موصوف نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا یہ حوالہ پیش کیا: د نہیں معلوم ہمیں کب خدا کی طرف سے دنیا کا چارج سپرد کیا جاتا ہے.ہمیں اپنی 66 طرف سے تیار رہنا چاہیے کہ دنیا کو سنبھال سکیں.“ (الفضل ۲۷ فروری، ۲۹/ مارچ ۲۲ء) ملاحظہ کیجیے کہ الزام یہ لگایا جارہا ہے کہ قادیانی انگریزوں کے ایجنٹ تھے اور ان کے لیے کام کرتے تھے اور ان کے اقتدار کو ہمیشہ قائم رکھنے کے لیے کوشاں تھے اور جب پاکستان بن گیا تو انہوں نے پاکستان کے اندر اپنی سٹیٹ قائم کرنے کا منصوبہ بنالیا اور اس الزام کی تائید میں حوالہ ۱۹۲۲ء کا پیش کیا جا رہا ہے.۱۹۲۲ء میں تو پاکستان کا ابھی تصور بھی پیش نہیں ہوا تھا ، پاکستان کے خلاف سازش کہاں سے تیار ہوگئی؟ اور ظاہر ہے کہ برطانوی حکومت کے دور میں مذکورہ عبارت.

Page 206

204 سے تو برطانوی حکومت اگر کوئی نتیجہ نکال سکتی تھی تو یہی نکال سکتی تھی کہ ان کے خلاف کوئی سازش تیار کی جارہی ہے.یہ عبارت حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ایک خطبہ جمعہ سے لی گئی تھی جو کہ اس وقت دیا گیا تھا جب کہ برطانیہ کے ولی عہد شہزادہ ویلز ہندوستان کے دورہ پر آئے تھے اور جماعت احمدیہ کی طرف سے تبلیغ کے لیے ایک کتاب ” تحفہ شہزادہ ویلز بھی پیش کی گئی تھی.اس خطبہ میں حضور نے فرمایا : اسی طرح جو تغیرات اسلام اور سلسلہ کے لیے مضر نظر آتے ہیں.یہ اس لئے ہیں کہ دنیا کو تمام طرفوں سے تھکا کر خدا تعالیٰ اسلام کی طرف لے آئے اور دنیا دیکھ لے کہ اس نے جو راستے اپنی نجات کے لیے بنائے تھے وہ دراصل ہلاکت کی طرف جاتے تھے...پس دنیا آئے گی اور یقینا سب طرف سے تھک کر ادھر آئے گی.“ الفضل ۲۷ فروری و ۲ / مارچ ۱۹۲۲ء) اس کے بعد یہ ذکر کر کے کہ دنیا اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ تغیرات کے نتیجہ میں بہر حال اسلام کی طرف آئے گی اور اس لیے ہمیں دینی علم حاصل کرنا چاہیے کہ جب بھی دنیا کی طرف اسلام کا رجوع ہو ہم اسے اسلام سکھاسکیں حضور نے فرمایا تھا: تم نے دنیا کو ادھر نہیں لانا بلکہ لانے والا خدا ہے.اس لئے تمہیں آنے والوں کا معلم بننے کے لیے ابھی سے کوشش کرنی چاہیے.“ اس ساری عبارت میں کہیں دنیا وی حکومتوں پر قبضہ کرنے کی بات نہیں ہو رہی بلکہ دنیا کے اسلام قبول کرنے اور ان کو اسلام سکھانے کی بات ہو رہی تھی اور وہ بھی اس وقت جب دنیا پر پادریوں کی یلغار تھی اور اس وقت برطانیہ کا ولی عہد ہندوستان کا دورہ کر رہا تھا.یہ آواز دیو بند یا کسی اور مدرسہ سے بلند نہیں ہو رہی تھی بلکہ قادیان سے بلند ہورہی تھی اور اس میں دیئے گئے اس بیان سے اگر کسی کو تشویش ہونی چاہیے تھی تو سب سے زیادہ سلطنت برطانیہ کو ہونی چاہیے تھی کیونکہ اس وقت نہ صرف ہندوستان میں بلکہ آدھی دنیا پر ان کی حکومت تھی.مفتی صاحب نے یہ عجیب سلسلہ اسی حوالہ پر ختم نہیں کیا بلکہ پھر یہ حوالہ پیش کیا:

Page 207

205 اس سے پہلے ۱۴ فروری ۱۹۲۲ء کو الفضل میں خلیفہ محمود احمد کی یہ تقریر شائع ہوئی.ہم احمدی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں.“ پہلی بات تو یہ ہے کہ جیسا کہ ابھی ہم ذکر کر چکے ہیں ،۱۹۲۲ء میں ہندوستان پر اور آدھی دنیا پر برطانیہ کا قبضہ تھا اور باقی دنیا کا اکثر حصہ بھی یوروپی طاقتوں کے قبضہ میں تھا.اگر ایسا اعلان کیا جارہا تھا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ برطانیہ اور دوسری یوروپی طاقتوں کے خلاف اعلان جنگ کیا جا رہا تھا.اس میں پاکستان کے خلاف سازش کا ثبوت کہاں سے نکل آیا اور دوسری دلچسپ بات یہ کہ جس روز کے الفضل کا حوالہ دیا گیا اس روز الفضل شائع نہیں ہوا تھا.یہ ایک جعلی حوالہ پیش کیا جارہا تھا.پھر انہوں نے جسٹس منیر صاحب کی رپورٹ کا ایک حوالہ پیش کیا کہ ۱۹۴۵ء سے ۱۹۴۷ء تک جماعت احمدیہ کی بعض تحریروں سے تاثر ملتا ہے کہ جماعت احمد یہ سلطنت برطانیہ کا جانشین بنے کا خواب دیکھ رہی تھی.حقیقت یہ ہے کہ اس دور میں کسی ایک تحصیل میں بھی جماعت احمدیہ کی تعداد کل تعداد کا ایک چوتھائی بھی نہیں تھی.کانگرس اور مسلم لیگ کی طرف سے آزادی کے بعد کے دور کی تجاویز سامنے آچکی تھیں.اور ہندوستان کی آزادی اب فیصلہ شدہ امر سمجھا جارہا تھا.اس دور میں کون ذی ہوش یہ سوچ سکتا تھا کہ انگریز حکومت کے رخصت ہونے کے بعد جماعت احمد یہ ہندوستان پر حکومت کرے گی.آخر وہ کون سی پر اسرار تحریر ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا.اس کا حوالہ تو پیش کرنا چاہیے.مفتی محمود یہ الزام تو لگا رہے تھے کہ جماعت احمدیہ پاکستان کے اندر اپنی سٹیٹ بنا رہے ہیں لیکن اتنی بڑی سازش کو عملی جامہ کیسے پہنایا جا رہا تھا ؟ آخر خالی زبانی باتوں سے یا الفضل میں یہ منصوبہ شائع کرنے سے تو ریاست کے اندر ریاست وجود میں نہیں آ سکتی تھی؟ اس کے لیے کیا تیاری کی جا رہی تھی؟ اس کے بارے میں مفتی محمود صاحب نے پاکستان کے ممبران اسمبلی کے سامنے یہ انکشاف فرمایا کہ مرزا ناصر احمد دس ہزار گھوڑے تیار کر رہے ہیں.( کارروائی صفحہ ۲۰۸۳) ہم یہ یاد دلاتے جائیں کہ یہ کارروائی بارہ سویا تیرہ سوعیسوی میں نہیں بلکہ ۱۹۷۴ء میں ہورہی تھی.اس دور میں جب بندوقیں ٹینک ہوائی جہاز اور میزائل موجود ہوں، اگر کوئی دس ہزار گھوڑے یا اس سے بھی کئی گنا زیادہ گھوڑے تیار بھی کر لے گا تو وہ کسی ملک یا شہر پر قبضہ نہیں کر سکتا زیادہ سے

Page 208

206 زیادہ گھڑ دوڑ کے ٹورنامنٹ منعقد کرائے جا سکتے ہیں یا پولو اور نیزہ بازی کی ٹیمیں تیار کی جاسکتی ہیں لیکن حیرت ہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں ایک بھی ایسا رجل رشید موجود نہیں تھا جو اس بات کی نشاندہی کر سکتا.ذرا ملاحظہ کریں کہ مفتی صاحب اور ان کے ہمنوا یہ الزام لگا رہے ہیں کہ احمدی پاکستان میں بغاوت کر کے اپنی علیحدہ ریاست بنانے کی سازش کر رہے ہیں اور اس کا ثبوت کیا پیش کیا کہ احمدی دس ہزار گھوڑے پال رہے ہیں.صحیح یا غلط ہونے کا سوال نہیں اس قسم کی کارروائی کو سنجیدہ کا رروائی بھی نہیں قرار دیا جا سکتا.جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ جماعت احمدیہ سے سوال و جواب کے دوران مفتی محمود صاحب اور ان کے ہمنو اگر وہ کو جس خفت کا سامنا کرنا پڑا تھا، اس کے بعد انہوں نے یہی فیصلہ کیا کہ اُس وقت اپنے دلائل پیش کیے جائیں جب جماعت احمدیہ کا وفد موجود نہ ہو اور اس طرح کوئی اس بات کی نشاندہی نہیں کر سکے گا کہ جعلی اور خود ساختہ حوالے پیش کیے جارہے ہیں.اس مرحلہ پر مفتی محمود صاحب نے رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب کا یہ حوالہ پڑھا: ۵۳ ء کے فسادات پنجاب کی افسوس ناک صورت ایسے مطالبات ہی کے نتیجہ میں پیدا ہوئی جس میں سواد اعظم نے دیگر مطالبوں کے علاوہ سر ظفر اللہ اور دیگر مرزائیوں کا کلیدی مناصب سے علیحدگی پر زور دیا گیا تھا مگر ہم ان کے بیرونی آقاؤں مغربی سامراج کے ہاتھوں اتنے بے بس ہو چکے تھے کہ سینکڑوں مسلمانوں کی شہادت کے بعد بھی اس وقت کے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین نے سر ظفر اللہ کی علیحدگی کے بارہ میں یہ قطعی رائے ظاہر کی کہ وہ اس اہم معاملہ میں کوئی کارروائی نہیں کر سکتے.“ (منیر انکوائری رپورٹ صفحہ ۳۱۹) حقیقت یہ ہے کہ یہ معین الفاظ اس رپورٹ کے صفحہ ۳۱۹ پر موجود نہیں ہیں.وہاں صرف یہ لکھا ہے مولوی مرتضی احمد میکش نے کچھ اور مولوی صاحبان کے ہمراہ وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین صاحب سے ملاقات کی.جب اس مطالبہ کا ذکر آیا کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو وزارت خارجہ سے بر طرف کیا جائے تو اس کے جواب میں خواجہ ناظم الدین صاحب جو کہ ملک کے وزیر اعظم تھے اور

Page 209

207 قانون کی رو سے ان کا اختیار تھا کہ وہ کسی وزیر کو برطرف کریں یا نہ کریں یہ جواب دیا کہ وہ اس بارے میں کوئی کاروائی نہیں کریں گے.اس رپورٹ میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ یہ سب کچھ بیرونی آقاؤں یا مغربی سامراج کے کہنے پر ہو رہا تھا.یہ الزام بھی جھوٹ پر مبنی تھا اور اصل میں یہ الزام احمدیوں پر یا چوہدری ظفر اللہ خان صاحب پر نہیں بلکہ پاکستان پر اور پاکستان کے منتخب وزیر اعظم پر لگایا جا رہا تھا کہ وہ اہم فیصلے ملک کے مفاد کو پیش نظر رکھ کر نہیں بلکہ بیرونی طاقتوں کے اشاروں پر کرتے تھے.اس کے بعد مفتی محمود صاحب نے ثبوت کے طور پر الفضل ۱۱ جنوری ۱۹۵۲ء کے دو حوالے پیش کیے.ان میں سے پہلا حوالہ جو کہ ایک خطبہ جمعہ کا ہے، اس خطبہ میں حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے فرمایا تھا کہ احمدی نوجوان بے تحا شا فوج میں ملازمت اختیار کر رہے ہیں.انہیں دوسرے پیشوں کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے اور اس ضمن میں حضور نے فرمایا تھا کہ فائنانس کا شعبہ ہے، مختلف قسم کی ٹھیکیداریاں ہیں جن کی بیسیوں اقسام ہیں اور ڈاکٹری ہے اور وکالت ہے.کچھ سمجھ میں نہیں آتی کہ مفتی محمود صاحب کو اس خطبہ جمعہ میں سازش کہاں سے نظر آ گئی بلکہ اس کو مکمل طور پر پڑھ کر تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ کسی قسم کی سازش نہیں ہو رہی تھی ورنہ سب کو یہی تلقین کی جاتی کہ تم فوج میں ہی شامل ہو.حقیقت یہ ہے کہ ہر معاشرے میں نو جوانوں کو قومی ضرورت اور اپنے رحجان کے تحت مختلف شعبوں میں جانا چاہیے.اگر ایک معاشرے میں نوجوان اپنا طمح نظر ایک ہی شعبہ کو بنائے بیٹھے ہوں تو اس سے ترقی نہیں ہو سکتی بلکہ مسائل ہی پیدا ہوں گے.پھر مفتی محمود صاحب نے اسی شمارے کا ایک اور جعلی حوالہ پیش کیا.”مرزائی ملازمین منظم صورت میں اپنے محکموں میں مرزائیت کی تبلیغ کریں.“ ( کارروائی صفحہ ۷ ۲۰۸) حقیقت یہ ہے کہ اس شمارے میں یہ جملہ کہیں نہیں شائع ہوا تھا جبکہ کاروائی کی اشاعت میں یہ الفاظ قوسین میں درج ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُس وقت یہ الفاظ اس طرح پیش کیے گئے تھے کہ یہ معین الفاظ الفضل میں شائع ہوئے تھے.

Page 210

208 مفتی محمود صاحب ایک بے بنیاد الزام لگا بیٹھے تھے اب یہ تعین کرنا ضروری تھا کہ قادیانیوں نے جو ریاست کے اندر ریاست بنانی تھی و آخر کہاں بنی تھی.آخر اس سازش کا مرکز کہاں ہونا تھا.پہلے تو اس سلسلہ میں انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ یہ فرضی اور خیالی ریاست بلوچستان میں بنی تھی.اس سلسلہ میں انہوں نے حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کے ایک خطبہ جمعہ کا حوالہ پیش کیا.یہ خطبہ جمعه ۱۳ را گست ۱۹۴۸ء کو کوئٹہ میں دیا گیا تھا.اس میں کسی ریاست بنانے کا ذکر نہیں تھا نہ کسی جگہ پر حکومت بنانے کا کوئی ذکر تھا.یہ خطبہ جمعہ تبلیغ کے موضوع پر تھا اور صرف پاکستان میں نہیں بلکہ مشرقی اور مغربی افریقہ میں بھی تبلیغ کے بارے مختلف ہدایات دی گئی تھیں.اس میں حضور نے یہ فرمایا تھا کہ تبلیغ کا کام بھی کسی جگہ کو Base بنا کر کیا جاتا ہے.اس سلسلہ میں حضور نے بلوچستان کی مثال بھی دی تھی کیونکہ یہ خطبہ بلوچستان میں دیا جا رہا تھا.حضور نے صرف بلوچستان کی تخصیص نہیں فرمائی تھی بلکہ یہ بھی فرمایا تھا کسی ملک کو Base بنا لو یا کسی چھوٹے جزیرہ کو Base بنا کر تبلیغ کا کام منظم انداز میں کرو.یہ الزام اس لیے بھی خلاف عقل تھا کیونکہ جب کوئی گروہ سازش تیار کرتا ہے تو اسے اخبارات میں شائع نہیں کروا تا کہ حکومت کو اس کی خبر نہ ہو جائے.البتہ یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا بلوچستان کے بارے میں کسی گروہ کے اس قسم کے خیالات تھے کہ اس صوبہ کو اپنے قبضہ میں لیا جائے.بعد کے حالات نے یہ ظاہر کیا کہ بلوچستان کے بارے میں اس قسم کے منصوبے شدت پسند گروہوں نے بنائے تھے جیسا کہ سلیم شہزاد صاحب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں Al-Qaedas dialectical process aimed to create a situation where Pakistan would remain un-governable until Al-Qaedas ideologues and fighters successfully seize control of two provinces, Khyber Pakhtoonkhwa and Baluchistan.(Inside Al-Qaeda and Taliban, by Syed Saleem Shehzad,

Page 211

209 published by Plato Press 2011,p175) ترجمہ القاعدہ کا طمح نظر یہ تھا کہ پاکستان میں ایسی صورت پیدا کی جائے کہ کوئی حکومت مستحکم نہ رہ سکے یہاں تک کہ القاعدہ کے نظریاتی قاعدین اور لڑنے والے دوصو بوں یعنی خیبر پختو نخواہ اور بلوچستان کا کنٹرول حاصل نہ کر لیں.بلوچستان کا ذکر ختم ہوتے ہی مفتی محمود صاحب نے خود اپنے الزام کی تردید کر دی اور ایک اور دعویٰ پیش کر دیا کہ قادیانی یہ فرضی ریاست کشمیر میں بنانا چاہتے تھے اور اس کے ثبوت کے طور پر یہ حوالہ پیش کیا : (الف) قادیان ریاست جموں و کشمیر کا ہم آغوش ہے جو ان کے پیغمبر“ کا مولد 66 دار الامان اور مکہ و مدینہ کا ہم پلہ بلکہ ان سے بھی افضل قرار دیتے ہیں.“ الفضل ۱۱ دسمبر ۳۲ - تقریر مرزا محمود احمد صاحب و حقیقۃ الرؤیا صفحه ۱۴۶ از مرزا محمود) اوّل تو اس حوالے میں کہیں پر ریاست کشمیر کے اندر کوئی ریاست بنانے کا ذکر تک نہیں ہے.دوسرے الفضل کی مذکورہ اشاعت میں یہ جملہ شائع بھی نہیں ہوا اور نہ ہی حقیقتہ الرؤیا میں صفحہ ۴۶ پر یہ عبارت موجود ہے.یہ ایک اور جعلی حوالہ پیش کیا گیا تھا.اس کے بعد مفتی محمود صاحب نے یہ الزام لگایا کہ قادیانیوں نے اپنی متوازی فوجی تنظیم فرقان بٹالین، قائم کی تھی.یہ بھی ایک لغو الزام تھا.پاکستان بننے کو فوراً بعد پاکستان کو اپنی حفاظت کے لیے رضا کاروں کی ضرورت تھی کیونکہ وسائل کی شدید کمی تھی اور اس غرض کے لیے پاکستانی احمدیوں نے بھی اپنے آپ کو پیش کیا تھا اور یہ حکومت پاکستان کی تحریک پر ہوا تھا اور یہ بٹالین افواج پاکستان کے ماتحت ان کی ہدایات پر کام کر رہی تھی جماعت احمدیہ کے نظام کے تحت کام بھی نہیں کر رہی تھی اور اس بٹالین نے اس پر آشوب دور میں اپنے وطن کی حفاظت میں اپنا کردار ادا کیا تھا اور حکومت پاکستان نے جن رضا کار دستوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا یہ بٹالین بھی اعزاز کے ساتھ ختم کر دی گئی اور اس مرحلہ پر پاکستان آرمی کے کمانڈرانچیف نے شکر یہ ادا کیا تھا.انہوں نے لکھا: کشمیر میں محاذ کا ایک اہم حصہ آپ کے سپرد کیا گیا.اور آپ نے ان تمام

Page 212

210 تو قعات کو پورا کر دکھایا جو اس ضمن میں آپ سے کی گئی تھیں.دشمن نے ہوا سے اور زمین سے آپ پر شدید حملے کئے لیکن آپ نے ثابت قدمی سے اور اولوالعزمی سےاس کا مقابلہ کیا اور ایک انچ زمین بھی اپنے قبضہ سے نہ جانے دی.“ (الفضل ۲۳ جون ۱۹۵۰ء صفحه ۸) ویسے تو جماعت احمدیہ کے مخالفین جہاد یا قتال کی فرضیت پر زور دے کر جماعت احمدیہ کو اس کا منکر قرار دیتے ہیں لیکن جب پاکستان کو ضرورت پڑی تو ان مخالفین میں سے کوئی بھی آگے نہ آیا کہ ملک کے دفاع کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا.اُس وقت نہ مفتی محمود صاحب کی جماعت یعنی جمیعت العلماء اسلام سامنے آئی، نہ جماعت اسلامی سامنے آئی اور نہ مجلس احرار سامنے آئی اور جب یہ دور گذر گیا تو ان کو اعتراض کرنا ضرور یا درہ گیا.البتہ یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ بعد میں ظاہر ہونے والے حالات نے ثابت کیا کہ اس قسم کی سازشیں جماعت احمد یہ نہیں بلکہ جماعت احمدیہ کے اشد مخالفین تیار کر رہے تھے جو مدارس جماعت احمدیہ کی مخالفت میں شہرت رکھتے تھے ، ان کے فارغ التحصیل اشخاص حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں ملوث تھے اور پاکستان کی حکومت پر قبضہ کرنے کی سازش کر رہے تھے.(Sectarian War, by Khaled Ahmad, Oxford 2013, p134) ریاست کے اندر ریاست بنانے کا منصوبہ کس کا تھا یہ تو حوالوں کا تجزیہ تھا کہ کس طرح جعلی اور نامکمل حوالے پیش کر کے ایک افسانہ ممبران اسمبلی کے سامنے پیش کیا گیا کہ احمدی پاکستان میں اپنی علیحدہ ریاست بنانے کی سازش تیار کر رہے ہیں.اس ضمن میں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ یہ الزام صرف احمدیوں پر نہیں لگایا گیا بلکہ مولوی حضرات جب بھی کسی کے خلاف نفرت انگیزی کی مہم چلاتے ہیں تو اس قسم کا الزام اس فرقہ یا گروہ پر لگایا جاتا ہے مثلاً انہی شدت پسند گروہوں نے جب اسماعیلی فرقہ کے خلاف مہم چلانی شروع کی تو ان پر بھی یہ الزام لگایا گیا کہ وہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں اور کشمیر میں اپنی علیحدہ ریاست

Page 213

211 بنانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں اور اس غرض کے لیے وہ ایک بڑی طاقت کو اپنا ہمنوا بھی بنا چکے ہیں اور اپنی فوج بھی تیار کر رہے ہیں.گویا بعینہ وہی الزام جو کہ جماعت احمدیہ پر لگایا گیا تھا وہ بعد میں اسماعیلی فرقہ پر لگایا گیا (Sectarian War, by Khaled Ahmad, published by Oxford University Press Pakistan 2012,p197,201,211) لیکن ان الزامات کا ایک اور زاویہ سے بھی جائزہ لینا ضروری ہے.اب اس کا رروائی اور قومی اسمبلی کے فیصلہ کو چالیس برس گزر چکے ہیں.اگر خدانخواستہ احمدیوں نے کوئی سازش کی تھی کہ پاکستان میں ریاست کے اندر ریاست بنائی جائے یا متوازی فوج کھڑی جائے تو اتنی دہائیوں میں اس کے کوئی آثار تو نظر آتے.کہاں ہے وہ جماعت احمدیہ کی بنائی ہوئی متوازی فوج یا وہ خیالی ریاست جس سے ڈرانے کے لیے جماعت احمدیہ کے مخالفین اتنے برس کتنے ہی پاپڑ بیلیتے رہے.یقینا اب تک ایسی کسی چیز کا کوئی وجود نظر نہیں آیا.لیکن کیا پاکستان میں کہیں پر ریاست کے اندر ریاست کا یا کسی متوازی فوج کا کوئی وجود نظر آیا؟ اگر ایسا ہوا تو اس کا مجرم کون تھا ؟ ملک کی بدقسمتی ہے کہ کبھی سوات اور کبھی وزیرستان میں اور کبھی اور مقامات پر ایسے علاقے وجود میں آتے رہے جہاں پر پاکستان کی حکومت کا تسلط قائم نہ رہ سکا اور اس سے پاکستان کو بہت زیادہ نقصان پہنچا.ایسا کرنے والے ان گروہوں سے تعلق رکھتے تھے جو جماعت احمدیہ کے اشد ترین مخالف کہلاتے تھے.یہ عمل اتنا معروف ہے کہ کسی حوالے کی ضرورت نہیں لیکن ہم پھر بھی کچھ حوالے درج کر دیتے ہیں.مجاہد حسین صاحب اپنی کتاب ” پنجابی طالبان“ میں لکھتے ہیں ” پنجاب کی موجودہ صورت حال کے تمام زاویے پاکستان کے ایسے شورش زدہ علاقوں سے مشابہت اختیار کر رہے ہیں جہاں آج عملی طور پر پاکستان کی رٹ قائم نہیں اور پاکستان کی افواج کو ایک پُر خطر جنگ کا سامنا ہے...ایک محتاط اندازے کے مطابق پنجاب میں ایسے جہادیوں اور فرقہ پرستوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ

Page 214

212 کے قریب ہے جنہیں مختلف ادوار میں نہ صرف مسلح تربیت فراہم کی گئی بلکہ انہیں مالی معاونت اور مرا کز بھی مہیا کیے گئے ہیں.لہذا پاکستانی ریاست کو اب ایک ایسے دشمن کا سامنا ہے جو قبائلی علاقوں کے جنگجو مزاج تشدد پسندوں سے زیادہ قریب ہے.“ پنجابی طالبان، مصنفہ مجاہد حسین ، ناشر سانجھ لاہور مارچ ۲۰۱۱ ، صفحہ ۹) آج پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں لاتعداد ایسی مساجد اور مدارس ہیں جو مقامی آبادیوں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے زیادہ موثر کنٹرول رکھتے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کی حدود میں داخل ہونے کا رسک نہیں لے سکتے.ان مساجد کے ائما اور مدارس کے مہتم نہ صرف مقامی سرکاری اداروں پر اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ مقامیوں کے جھگڑوں اور حتیٰ کہ زمینوں کے تنازعے خود حل کرتے ہیں.مقامی افراد محض اس لیے ان مساجد اور مدارس میں اپنی شنوائی کے لیے نہیں جاتے کہ وہاں انہیں انصاف حاصل ہوگا اور تمام فیصلے جانبدارانہ اور مبنی برحق ہوں گے بلکہ وہ اس لیے وہاں کا رخ کرتے ہیں کہ مخالف فریق کو زیادہ سے زیادہ پریشان کیا جا سکے.“ پنجابی طالبان ، مصنفہ مجاہد حسین ، ناشر سانجھ لاہور مارچ ۲۰۱۱ صفحہ ۴۷) لیکن یہ سب کچھ کس طرح شروع ہوا ؟ اس کو شروع کرنے والے کون تھے ؟ ان دہشت گردوں کے سرپرست کون تھے؟ مجاہد حسین صاحب کی تحقیق کے مطابق یہ آگ جس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جماعت احمدیہ کی مخالفت کے نام پر شروع کی گئی تھی.یہ آگ لگانے والے جماعت احمدیہ کے اشد ترین مخالف تھے اور ان کے سر پرستوں میں ایک اہم نام خود مفتی محمود صاحب کا بھی تھا جو کہ ۱۹۷۴ء میں جماعت احمدیہ پر بغاوت اور ریاست کے اندر ریاست بنانے کا الزام لگا رہے تھے.مجاہد حسین صاحب لکھتے ہیں ملتان کے رہائشی علامہ مسعود علوی کو پاکستان میں جہاد کا بانی کہا جاتا ہے.پاکستان میں سب سے پہلی جہادی تنظیم جمیعت المجاہدین کی تشکیل انہی کے ہاتھوں ملتان کے مدرسہ خیر المدارس میں ہوگئی...اس تنظیم کا سب سے پہلا نشانہ احمدی فرقہ بنا.خیر المدارس اور دیگر مدرسوں کے طلباء کو عسکری

Page 215

213 تربیت دینے کے لئے علی پور جتوئی کے قریب جنگل میں ایک تربیتی مرکز قائم کیا گیا.جب تحریک ختم نبوت ختم ہو گئی تو جمیعت المجاہدین کے کارکن بھی منتشر ہو گئے اس کے بعد مولانا مسعود علوی مختلف مدارس میں گئے مگر کسی نے حکومتی دباؤ کے پیش نظر اپنے مدرسے میں عسکری تربیت کی اجازت نہ دی.بالآ خر خواجہ خان محمد آف کندیاں شریف نے مولانا مسعود علوی کو اپنے مدرسے میں طلبہ کو فنون حرب سکھانے کی اجازت دے دی.اس مدرسے میں مولانا نے درس و تدریس کے ساتھ طلباء کو فنون حرب سکھانا شروع کر دیئے.یہاں پر اسلحہ مہیا کیا گیا اور نشانہ بازی کی مشق روزانہ کا معمول بن گیا.جب مولا نا مفتی محمود صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ بنے تو وہ تحریک ختم نبوت کے اہم راہنما خواجہ خان محمد کو کندیاں شریف ان کے مدرسے میں ملنے کے لئے آئے.ان کو مسعود علوی نے اپنے تربیت یافتہ مجاہدین 66 کے ساتھ سلامی پیش کی.پنجابی طالبان، مصنفہ مجاہد حسین ، ناشر سانجھ لاہور مارچ ۲۰۱۱ ، صفحہ ۹۹٬۹۸) اس کے علاوہ یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ ۱۹۷۴ء سے اب تک پاکستان میں کن گروہوں نے متوازی افواج اور لشکر بنائے جنہوں نے ہزاروں پاکستانیوں کا خون کیا؟ یہ متوازی افواج بنانے والے جماعت احمدیہ کے اشد ترین دشمن تھے.جماعت احمدیہ پر یہ الزام تو جعلی افسانوں سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا لیکن یہ لشکر تو ایک حقیقت ہیں جو کہ ہزاروں پاکستانیوں کا خون کر چکے ہیں.فوج کے جی ایچ کیو پر اور نیوی کے حساس مراکز پر حملہ کر چکے ہیں.اس وقت بھی افواج پاکستان وزیرستان میں ان کے خلاف جنگ لڑنے میں مصروف ہے.خالد احمد اپنی کتاب میں جو کہ Sectarian War کے نام سے شائع ہوئی ہے، یہ لکھتے ہیں کہ ۱۹۸۵ء میں حق نواز جھنگوی صاحب نے سپاہ صحابہ کی بنیاد رکھی.خاص طور پر شیعہ فرقہ کے خلاف اس تنظیم کی دہشت گردی معروف ہے.اس کے بانی حق نواز جھنگوی صاحب بھی پہلے جمعیت العلماء اسلام کے ممبر تھے اور ۱۹۷۴ء میں جمیعت العلماء کے قائد مفتی محمود صاحب تھے.اس طرح اس دہشت گرد تنظیم نے بھی انہی کی جماعت کی کوکھ سے جنم لیا تھا.(Sectarian War, by Khaled Ahmed, published by Oxford University Press 2013,p116-117)

Page 216

214 تو یہ تھی حقیقت.۱۹۷۰ء کی دہائی میں کچھ گروہ اس بات کی سازش کر رہے تھے کہ موقع ملے تو پاکستان میں فساد برپا کریں.پاکستان کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کر کے ان پر اپنی حکومت قائم کر لیں.متوازی افواج قائم کر کے پاکستان میں خون خرابہ کریں اور سب کو غافل کرنے کے لئے اس کا الزام معصوم احمدیوں پر لگایا جارہا تھا تا کہ سب کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنی سازش کو عملی جامہ پہنا سکیں.یہ تو سب جانتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں مختلف دہشت گرد تنظیمیں سرگرم ہیں جو کہ اب تک نہ صرف مختلف مسلمان فرقوں پر کفر کے فتوے لگانے میں سرگرم عمل ہیں بلکہ عقائد کی بناء پر ہر سال ہزاروں مسلمانوں کا خون بھی کر رہی ہیں اور یہی تنظیمیں پاکستان کے مختلف مقامات پر اپنی ”ریاست“ بنانے کے لیے کوشاں ہیں.ایسی جگہیں جہاں پر عملاً ان کا راج ہو اور وہاں پر پاکستان کی حکومت کی عملداری ختم کر دی جاتی ہے.آخران تنظیموں نے کس کو کھ سے جنم لیا تھا ؟ اس موضوع پر بہت سی تحقیقات سامنے آچکی ہیں ہم نے صرف چند مثالیں پیش کی ہیں.ان تنظیموں کو جماعت احمدیہ کے مخالفین نے جنم دیا تھا.کا فرگری کا عمل کیا رنگ لایا ؟ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ ۱۹۷۴ء میں جماعت احمدیہ کی طرف سے محضر نامہ پیش کیا گیا تھا.اس محضر نامہ میں واضح انتباہ کیا گیا تھا کہ ابھی بظاہر صرف جماعت احمدیہ کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ بہت وسیع سازش تیار ہو چکی ہے.اور گاہے بگا ہے اس کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے.اصل منصوبہ یہ ہے کہ اس مرحلہ کے بعد بہت سے دوسرے فرقوں پر کفر کے فتوے لگائے جائیں گے.کچھ کو کافر اور مرتد اور کچھ کو واجب التعزیر اور واجب القتل قرار دیا جائے گا اور اس طرح عالم اسلام کا اتحاد پارہ پارہ کر دیا جائے گا اور نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں ان گنت فسادات کا راستہ کھل جائے گا.امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے اس کے معین ثبوت قومی اسمبلی میں پیش کیے تھے ( محضر نامہ ص ۱۶۷ تا ۱۷۲).اس کے جواب میں مفتی محمود صاحب نے ان کا جواب دیتے ہوئے علامہ اقبال کی تحریروں کے حوالے پیش کیے تھے کہ عالم اسلام

Page 217

215 کے اتحاد کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے اور پھر تفصیلی موقف پیش کیا کہ عالم اسلام میں باہمی فتاویٰ کفر غیر اہم علماء کی طرف سے پیش کیے گئے تھے.ورنہ ہرا ہم ملی معاملہ میں تمام فرقہ اور ان کے علماء متحد ہیں.مختصراً یہ کہ اس فیصلہ سے عالم اسلام میں اتحاد پیدا ہوگا اور کوئی فتنہ وفساد پیدا نہیں ہو گا.اب اس فیصلہ کو چالیس سال سے زاید کا عرصہ گزر چکا ہے.اب یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا ۱۹۷۴ء میں اس فیصلہ کے بعد عالم اسلام میں اتحاد میں اضافہ ہوا یا ان گنت فسادات کا رستہ کھل گیا اور یہ اتحاد پارہ پارہ کر دیا گیا.کیا جماعت احمدیہ کے خدشات درست ثابت ہوئے یا جماعت احمدیہ کے مخالفین کے دعاوی صحیح نکلے.اس موضوع پر بہت سی کتب شائع ہو چکی ہیں.ہم اپنی رائے لکھنے کی بجائے ان میں سے چند معروف کتب کے حوالے درج کریں گے جن سے حقیقت روز روشن کی طرح سامنے آجاتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ جس ضلع سے ۱۹۷۴ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف فسادات کا آغاز کیا گیا تھا اسی ضلع سے تکفیر کے عمل کو نئے سرے سے وسیع کرنے کے منحوس عمل کا آغاز بھی کیا گیا.مجاہد حسین صاحب لکھتے ہیں اور پنجاب کے وسطی شہر جھنگ میں با اثر شیعہ جاگیرداروں کے خلاف ایک مقامی خطیب مولانا حق نواز جھنگوی نے بعض عقائد کی وجہ سے شیعہ فرقہ کی تکفیر کا نعرہ بلند کر دیا.اگر چہ برصغیر میں دیو بندی اور اہل حدیث مکاتب فکر کی طرف سے اہل تشیع پر کفر کے فتاوی ملتے ہیں جبکہ دیگر مکاتب فکر بھی ایک دوسرے کے بارے میں تکفیر کے فتاوی جاری کرتے رہے ہیں لیکن ان فتاوی کی روشنی میں قتل و غارت گری کا بازار کہیں گرم نہیں ہوا تھا.جھنگ میں فرقہ وارانہ فسادات نے زور پکڑا اور اطراف کے لوگ قتل ہونے لگے.“ ( پنجابی طالبان ،مصنفہ مجاہد حسین ، ناشر سانجھ لاہور مارچ ۲۰۱۱ صفحہ۲۹) محققین یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ جو شدت پسند علماء شیعہ احباب کے خلاف کفر کے فتوے دیتے ہیں ان کے نزدیک بھی دوسری آئینی ترمیم ان کے فتاوی کی تصدیق کرتی ہے.66

Page 218

216 (Sectarian War, by Khaled Ahmaed, published by Oxford 2013 p20) چنانچہ بعد میں برملا یہ فتاویٰ جاری ہوئے کہ قادیانیوں کی طرح شیعہ بھی ختم نبوت کے منکر ہیں.چنانچہ خمینی اور اثناء عشریہ کے بارے میں علماء کرام کا متفقہ فیصلہ میں لکھا ہے استفتاء میں تیسرا مسئلہ یہ پیش کیا گیا ہے کہ شیعہ اثنا عشریہ اپنے عقیدہ امامت کی وجہ سے ختم نبوت کے منکر ہیں.اس بارے میں جو کچھ بھی استفتاء میں لکھا گیا ہے امید ہے کہ اسی کے مطالعہ سے ناظرین کو اس بارے میں اطمینان و یقین حاصل ہو جائے گا.اور عقیدہ ختم نبوت کا قطعیات اور ضروریات دین میں سے ہونا کسی وضاحت کا محتاج نہیں ، قادیانیوں کو خاص کر عقیدہ ختم نبوت کے انکار ہی کی وجہ سے کافراور خارج از اسلام قرار دیا گیا ہے.اگر چہ وہ اپنے اس انکار کی تاویل کرتے ہیں اور اپنے تراشے ہوئے معنی کے لحاظ سے حضور کو خاتم النبین بھی کہتے ہیں بالکل یہی حال اثنا عشریہ کا ہے.جیسا کہ استفتاء میں وضاحت سے لکھ دیا گیا ہے.“ ثمینی اور اثناء عشریہ کے متعلق علماء کرام کا متفقہ فیصلہ.ماہنامہ بینات خصوصی اشاعت صفحہ ۲۱) 66 اس طرح جلد ہی دوسری آئینی ترمیم کا یہ نتیجہ برآمد ہوا.نہ صرف کفر کے باہمی فتاویٰ میں تیزی آگئی بلکہ قتل و غارت کا بازار بھی گرم ہو گیا.یہ آگ صرف ایک ضلع تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے کر ایک خون ریز جنگ کا روپ دھار لیا.جیسا کہ مجاہد حسین صاحب لکھتے ہیں فرقہ وارانہ جنگ پاکستان میں اپنا رنگ دکھانے لگی اور ایک دوسرے کو قتل کرنے کا سلسلہ طویل ہوتا گیا.جنگ میں سپاہ صحابہ کے سربراہ مولانا حق نواز جھنگوی کے قتل کے بعد فرقہ وارانہ فسادات شدت اختیار کر گئے.جھنگ کے اہل تشیع جاگیرداروں اور آباد کا رسنیوں کے درمیان قتل و غارت کا سلسلہ آہستہ آہستہ پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لینے لگا.“ پنجابی طالبان ، مصنفہ مجاہد حسین ، ناشر سانجھ لاہور مارچ ۲۰۱۱ ، صفحہ ۳۱)

Page 219

217 بالآخر شیعہ احباب کی تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کو ایک میٹنگ میں جو ان مسائل کا حل نکالنے کے لیے بلائی گئی تھی یہ کہ کر مذاکرات کو ختم کرنا پڑا کہ کسی اسمبلی کسی عدالت یا کسی اور فورم کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی مسلمان کے ایمان کا فیصلہ کرے.یادر ہے یہی موقف جماعت احمدیہ نے اپنے محضر نامہ میں پیش کیا تھا.(Sectarian War, by Khaled Ahmaed, published by Oxford 2013 p22) مفتی محمود صاحب اور ان کی جماعت ۱۹۷۴ء میں جماعت احمدیہ کی مخالفت میں پیش پیش تھی اور حقیقت یہ ہے کہ مفتی محمود صاحب کی جماعت کے اراکین نہ صرف ملک بھر میں فرقہ وارانہ فسادات بھڑ کانے کا باعث بنے بلکہ ایسا ماحول پیدا ہوا جس سے برادر مسلم ممالک میں کشیدگی پیدا ہوئی.اسی کتاب کا ایک اور حوالہ پیش ہے.”سپاہ صحابہ نے شیعہ اقلیت کے متعدد افراد کوقتل کیا اور انھیں پاکستان میں اپنے عقائد کی وجہ سے غیر مسلم قرار دینے کا مطالبہ کرتی رہی ہے.پاکستان کو ایک سنی ریاست بنانے اور یہاں خلافت قائم کرنے کی خواہشمند اس تنظیم کی نظریاتی وابستگی تحریک طالبان پاکستان سے ہے.پاکستان میں شیعہ اور ایرانی مفادات کو نشانہ بنانا اس کے اہم مقاصد میں شامل رہا ہے.یہ تنظیم ملک بھر میں فرقہ وارانہ تشدد کو فروغ دینے میں بھی ملوث رہی ہے سپاہ صحابہ دراصل جمیعت علماء اسلام کی ایک ذیلی شاخ کی طرح ہے.“ پنجابی طالبان ، مصنفہ مجاہد حسین ، ناشر سانجھ لاہور مارچ ۲۰۱۱ صفحہ ۱۸۰) یہ شدت پسندی صرف زبانی کفر کے فتاوی تک محدود نہیں رہی بلکہ پھوٹ ڈالنے کی اس مہم نے ایسا خوفناک رنگ اختیار کیا کہ جسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.مجاہد حسین صاحب نے اپنی کتاب میں ایک اشتہار کی نقل شائع کی ہے جس میں ایک شدت پسند تنظیم نے مسلمانوں کے ایک فرقہ کو یہ دھمکی دی ہے کہ وہ اسلام کی آڑ میں دین اسلام کو نقصان پہنچارہے ہیں.اب انہیں ان میں سے ایک راستہ اختیار کرنا ہوگا یا تو وہ اسلام قبول کر لیں یا جزیہ دیں یا یہاں سے ہجرت کر جائیں.ور نہ ان کی جائیدادوں اور عبادت گاہوں پر قبضہ کر لیا جائے گا اور ان کی عورتوں کو کنیزیں بنالیا جائے

Page 220

218 گا اور ان کے بچوں کو غلام بنا کر یا تو مسلمان کر لیا جائے گا یا پھر ان سے بیگا رلیا جائے گا.( پنجابی طالبان، مصنفہ مجاہد حسین ، ناشر سانجھ لاہور مارچ ۲۰۱۱ ، صفحہ ۱۰۱) اس دیدہ دلیری سے خوف و ہراس کی فضا قائم کی جارہی ہے کہ پنجاب کے بعض علاقوں میں مسلمانوں کے ایک فرقہ سے منسلک افراد کے گھروں میں ایسے خطوط بھی بھیجے گئے جن میں یہ لکھا گیا تھا کہ وہ کا فر ہیں یا تو وہ اسلام کی طرف لوٹ آئیں.ورنہ ان کے مردوں کو قتل کر کے ان کی لاشوں کو جلایا جائے گا.ان کی عورتوں کو کنیزیں اور ان کے بچوں کو غلام بنایا جائے گا اور ان کی جائیدادوں کو مجاہدین میں تقسیم کر دیا جائے گا.پنجابی طالبان، مصنفہ مجاہد حسین ، ناشر سانجھ لاہور مارچ ۲۰۱۱ صفحہ ۱۰۳) اور یہ فرقہ وارانہ تصادم صرف زبانی فتاوی یا فسادات کی صورت تک محدود نہ رہا بلکہ جنرل ضیاء صاحب کی آشیر باد سے اس نے پارا چنار جیسے علاقوں میں کھلم کھلا جنگ کی صورت اختیار کرلی.(Sectarian War, by Khaled Ahmaed, published by Oxford 2013 p35) دہشت گردوں کی دیدہ دلیری اتنی بڑھ چکی ہے کہ وہ ملک کے سربراہ حکومت کو بھی دھمکیاں بھجواتے ہیں کہ اگر انہوں نے ان کی تنظیموں کے خلاف اقدامات بند نہ کیے تو انہیں بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے.( پنجابی طالبان ، مصنفہ مجاہد حسین ، ناشر سانجھ لاہور مارچ ۲۰۱۱ صفحہ ۱۱۳) شدت پسندی کا یہ سرسام کبھی بھی ایک یا دو فرقوں تک محدود نہیں رہتا بلکہ ایک بعد دوسرا فرقہ اس کی زد میں آتا رہتا ہے.۱۹۷۴ء میں جماعت احمدیہ نے اپنے محضر نامہ میں اس حقیقت کی نشاندہی کر دی تھی اور بعد میں ظاہر ہونے والے حالات نے اس بات کو ثابت کر دیا کہ جماعت احمدیہ کے وو خدشات سو فیصد صحیح ثابت ہوئے.مجاہد حسین اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں: قومی اسمبلی اور سینٹ میں یہ بحث ہونے لگی کہ کون سا فرقہ کا فر ہے اور ایک مذہبی جماعت نے اپنے مخالف فرقہ کی تکفیر کے لیے ایوان میں با قاعدہ بل پیش کر دیا.جواب میں دوسرے مسلک کی طرف سے بھی ایسا ہی ایک بل سامنے آ گیا اور یوں ۱۹۷۴ء کے بعد ایک بار پھر یہ محسوس کیا جانے لگا کہ سیاسی فوائد کے حصول کے لیے

Page 221

219 حکمران سیاسی جماعت ایک مکتبہ فکر کے افراد کی ” قانونی تکفیر پر آمادہ ہو چکی ہے.“ پنجابی طالبان، مصنفہ مجاہد حسین ، ناشر سانجھ لاہور مارچ ۲۰۱۱ صفحہ ۱۹۰) ، صفحه۱۹۰) پاکستان میں اہل تشیع اپنے مخالفین سے بہت کمزور ہیں اور تعداد سے لے کر عسکری طاقت اور جنگی تربیت تک کے معاملات میں ان کی پسماندگی بہت واضح ہے.۱۹۷۷۰۰ء میں جیسے احمدیوں کو کافر قرار دیا گیا تھا تقریباً اسی طرح ۱۹۹۷ء میں انہیں بھی کا فرقرار دلوانے کی تحریک زور پکڑ گئی تھی لیکن ایران کی بروقت مداخلت اور وزیراع میاں نواز شریف کی بزدلی کے باعث ایسا نہ ہو سکا.سپاہ صحابہ نے جس طرح چابکدستی کے ساتھ ناموس صحابہ بل تیار کیا تھا اگر پارلیمنٹ کے دونوں ایوان اس پر بحث کی اجازت دے دیتے تو اکثریتی فیصلہ شیعوں کو اقلیت قرار دینے پر منتج ہوتا.یہ ایک بات ہے کہ مخالف علماء نے جہاں تک ان کی رسائی ہے اہل تشیع کے ساتھ کفر کے فتوے کو چسپاں کرنے میں بہت حد تک کامیابی حاصل کی ہے.“ پنجابی طالبان ، مصنفہ مجاہد حسین ، ناشر سانجھ لاہور مارچ ۲۰۱۱ صفحه ۳۰۶،۳۰۵) پنجاب میں تحریک طالبان کے ورثاء جو تتر بتر شیعہ تنظیموں کو تقریباً شکست فاش دے چکے ہیں اب ان کے اگلے اہداف بریلوی مسالک کی تنظیمیں ہیں جبکہ پنجاب میں دیو بندیوں کے درمیان بھی واضح تقسیم دیکھی جاسکتی ہے جو تیزی کے ساتھ حیاتی اور مماتی کی عقیدہ جاتی شناختوں کو واضح کر رہے ہیں.“ پنجابی طالبان ، مصنفہ مجاہد حسین، ناشر سانجھ لاہور مارچ ۲۰۱۱ صفحه ۲۷۵) اگران سخت گیر اسلام کے نفاذ کے داعیوں کے خصوصی اجتماعات یا خطبات کو سنا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شدت جذبات کا کیا حال ہے.ان خطبات میں صوفیاء کے مزاروں اور خانقاہوں پر زائرین کے جانے کو شرک سے تعبیر کیا جاتا ہے اور مشرک کو بد 66 ترین شخص قرار دیا جاتا ہے جس کی سزا موت سے کہیں زیادہ ہے.“ پنجابی طالبان ، مصنفہ مجاہد حسین ، ناشر سانجھ لاہور مارچ ۲۰۱۱ صفحه ۲۹۶)

Page 222

220 اختتام: اس کتاب کے آغاز میں ہم نے چار سوال اُٹھائے تھے اور یہ لکھا تھا کہ یہ بنیادی نکات ہیں جن کو بنیاد بنا کر مفتی محمود صاحب کی تقریر کا منصفانہ تجزیہ کیا جا سکتا ہے.اب جبکہ مفتی محمود صاحب کی تقریر کی تفصیلات بیان کی جا چکی ہیں اور ان کی حقیقت بھی سامنے آ چکی ہے ان سوالات کے جوات درج کیے جاتے ہیں مفتی محمود صاحب زیادہ تر تقریر میں اس بات سے گریز کرتے رہے کہ وہ متعلقہ موضوع پر اپنے موقف کے حق میں ٹھوس دلائل پیش کریں.اس پیشل کمیٹی کے سامنے زیر بحث موضوع یہ تھا کہ جو شخص آنحضرت ﷺ کو آخری نبی نہیں تسلیم کرتا اس کی اسلام میں کیا حیثیت ہے؟ مفتی محمود صاحب نے زیادہ تر وقت غیر متعلقہ موضوعات پر گفتگو کرنے میں ضائع کیا..مفتی محمود صاحب جماعت احمدیہ کے محضر نامہ اور اس کی ضمیمہ جات میں درج دلائل کا کوئی جواب نہ دے سکے..سوال و جواب کے دوران حضرت امام جماعت احمدیہ نے اپنے موقف کے حق میں جو دلائل بیان فرمائے تھے ، ان کا جواب دینا تو درکار مفتی محمود صاحب ان کا ذکر کرنے سے بھی گریز کرتے رہے.مفتی محمود صاحب کا زیادہ تر زور اس بات پر ہی رہا کہ وہ کسی طرح جماعت احمد یہ پر زیادہ سے زیادہ الزامات لگا کر ممبران اسمبلی کو بھڑ کا سکیں.اس غرض کے لیے انہوں نے بار بار جعلی حوالے اور جماعت احمدیہ کے لٹریچر سے تحریف شدہ اقتباسات پیش کیے.انہوں نے تاریخی حقائق پیش کرنے کی بجائے ایسے من گھڑت افسانے پیش کیے جو کہ نہ صرف غلط بلکہ مضحکہ خیز بھی تھے.

Page 222