Mubarka Ki Kahani

Mubarka Ki Kahani

مبارکہ کی کہانی مبارکہ کی زبانی

Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ اصحاب احمد ؑ

Book Content

Page 1

بسلسلہ خلافت احمدیہ صد سالہ جو ملی جوبلی مبارکہ کی کہانی مبارکه ای در پائی ی کی لجنہ اماء الله

Page 2

مبارک رکہ کی کہانی مبارکہ کی زبانی امته الشکور

Page 3

بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ لو صد سالہ خلافت جوہلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تا کہ بچوں میں بھی ان جیسا بننے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.آمین

Page 4

حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ 1 پیارے بچو! باب اوّل حضرت نواب مبارکه بیگم صاحبہ کی کہانی خودان کی زبانی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ، حضرت مسیح موعو و علیہ السلام کی صاحبزادی تھیں.آپ کا حافظہ بہت تیز تھا.آپ اکثر اپنے بچپن کے واقعات اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام، حضرت اماں جان اور اپنے بھائیوں وغیرہ کی مزے مزے کی باتیں اکثر سنایا کرتیں.آج ہم آپ کو ان کی کہانی خودان کی زبانی سنائیں گے.میرا بچین میری عمر کے گیارہ سال اور 24 دن کل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حیات مبارکہ میں گزرے تھے.اس عمر کے بچوں کو تو کچھ یاد نہیں رہتا.یہ خدا تعالیٰ کا احسان ہے کہ کچھ بچپن کی یادیں جو اکثر ذاتی باتیں ہیں.لوگوں کے لئے معمولی مگر میرے لئے بیش بہا خزانہ ہیں، الحمد اللہ کہ جو بھی یاد ہے.بہت صاف، اور میرے دل پر نقش ہیں ، گویا اس وقت بھی

Page 5

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 2 دیکھ رہی ہوں سن رہی ہوں ، آپ کا بات کرنا ، آپ کا اُٹھنا، آپ کا بیٹھنا، آپ کا سونا ، سوتے میں کروٹ لینا ، ٹہلنا، لکھنا ، غرض سب کچھ دل پر نقش ہے.حالانکہ پڑھنے میں بھی وقت گزرتا ، بڑا حصّہ دن کا ، اور پھر کھیلنا بھی.مگر جب بھی موقعہ ہوتا ، میں ضرور وہ وقت حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے پاس گزارنا پسند کرتی تھی.کاش کہ اور زیادہ موقعہ ملتا ، اکثر چھوٹی باتیں بھی آپ سے پوچھ لیتی.ایک شام آسمان پر ملکے ملکے ابر میں خوبصورت رنگ برنگ کی دھنگ دیکھ کر ہم سب بچے خوش ہورہے تھے.آپ اس وقت صحن میں ٹہل رہے تھے.جو بعد میں اُتم ناصر کا صحن کہلا تا رہا ہے میں نے کہا:.وو یہ جو کمان ہے.اس کو سب لوگ ( پنجابی میں ) مائی بڈھی کی پینگ کہتے ہیں.اس کو عربی میں کیا کہتے ہیں؟" فرمایا ” اس کو عربی میں ' قوس قزح کہتے ہیں مگر تم اس کو قوس اللہ کہو نیز فرمایا کہ قوسِ قزح کے معنی شیطان کی کمان ہیں.“ یہ بات مجھے ہمیشہ یادر ہی ہے.ہمارے بچپن میں ایک کھلونا آتا تھا ” look and laugh دور بین کی صورت کا.اس میں دیکھو تو عجیب مضحکہ خیز صورت دوسرے کی نظر آتی تھی.جب یہ کھلونا لا ہور سے کسی نے لا کر دیا.آپ کو یہ چیز میں

Page 6

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 3 نے دکھائی.آپ نے دیکھا اور تبسم فرمایا کہا:.اب جاؤ دیکھو اور ہنسو کھیلوں،مگر دیکھو یا درکھنا میری جانب ہرگز نہ دیکھنا“ سب والدین بچوں کو تہذیب سکھاتے ہیں مگر یہ ایک خاص بات تھی اللہ تعالی کا فرستادہ نبی مؤدب بن کر بھی آتا ہے اور خود اس کو اپنا ادب بھی اپنی ذاتی شخصیت کے لئے نہیں ، بلکہ اس مقام کی عزت پچس پر اس کو کھڑا کیا گیا، اس ذات پاک و برتر کے احترام کی وجہ سے جس نے اس کو خاص مقام بخشا.جس کی جانب سے وہ بھیجا گیا سکھانا پڑتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان میں معجزانہ اثر تھا آپ نہ بات بات پر ٹوکتے نہ شوخیوں پر جھڑ کنے لگتے بلکہ انتہائی نرمی سے فرماتے کہ یوں نہ کرو.جس بات سے آپ نے منع کیا مجھے یاد نہیں کہ کبھی بھول کر بھی وہ بات پھر کی ہو.وہ پیار بھری زبان معجز بیان کہ ایک بار کہا پھر عمر بھر کو اس بات سے طبیعت بے زار ہوگئی.(1) مجھے اور مبارک احمد کو قینچی سے کھیلتے دیکھ کر تنبیہ فرمائی کیونکہ قینچی کی نوک اس وقت میں نے مبارک احمد کی طرف کر رکھی تھی فرمایا :.کبھی کوئی تیز چیز قیچی ، چھری ، چاقو اس کے تیز رخ سے کسی کی طرف نہ پکڑا ؤ اچانک لگ سکتی ہے، کسی کی آنکھ میں لگ جائے کوئی نقصان

Page 7

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 4 پہنچے تو اپنے دل کو بھی ہمیشہ پچھتاوار ہے گا اور دوسرے کو تکلیف“ یہ عمر بھر کو سبق ملا اور آج تک یاد ہے.اس بات سے بھی آپ نے روکا ہوا تھا کہ کبھی ڈھیلا ، پھر کسی کی جانب نہ پھینکو.کسی کے بے جگہ لگ جائے کسی کی آنکھ ہی پھوٹ جائے ،سر پھٹ جائے.اس کا ہمیشہ خیال رہتا تھا اور ہمیشہ بچوں کو اس امر پر روکاٹو کا ہے.اپنے مبارک احمد نے ایک دفعہ مجھے کہا.آپا آکر میرے ساتھ کھیلو! نہ پڑھو!“ اس وقت میں اور صالحہ بیگم مرحومہ جو بعد میں چھوٹی ممانی جان بنیں ہم 66 پڑھ رہے تھے.میں نے کہا ” بھی نہیں.“ مبارک نے ایک ڈھیلا کھینچ مارا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس وقت حجرہ میں تشریف رکھتے تھے.میں نے مبارک کے ڈرانے کو کہا.بتاتی ہوں ابا کو ! میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کہا:.وو دیکھیں مبارک نے ڈھیلا اٹھا کر ہماری طرف مارا ہے.“ آپ علیہ اسلام نے فرمایا.اسکولا ؤ یہاں میرے پاس‘ میں نے آکر کہا.” چلو مبارک آتا بلا رہے ہیں.اس نے کہا : اچھا مگر آپا تم

Page 8

حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ 5 آگے آگے چلو.میں پیچھے پیچھے چلوں گا جب میں قدم بڑھاؤں پلٹ کر دیکھوں تو مبارک اکڑوں بیٹھ جائیں مجھے ہنسی آگئی ، بات گئی گزری.آپ سے کہہ دیا مبارک اب نہیں کرے گا.اس طرح مبارک کا اور میرا بچپن میں بہت پیار تھا.ہم کبھی نہ لڑے نہ جھگڑے، وہ مجھے آ کر پیار سے لپٹ جاتا تو آپ فرماتے تھے ان دونوں کے ناموں میں صرف 'ہ کا فرق ہے اس لئے بہت پیار ہے ان میں.(2) ایک دفعہ صوفی غلام محمد صاحب مرحوم غالبا علی گڑھ میں پڑھتے تھے کسی امتحان شاید بی.اے میں فیل ہوئے.خبر آئی آپ نے افسوس سے ذکر فر مایا.میں پاس بیٹھی تھی میں سن کر اٹھ کھڑی ہوئی.آپ نے فراست سے میرا ارادہ بھانپ لیا اور فرمایا:.تم عائشہ کو ( بیوہ مولوی عبد الکریم جن سے ان کا نکاح ہو چکا تھا منسوب تھیں بتانے جارہی ہو.یہ بُری خبر ہے تم کیوں بُری خبر بتاؤ، کوئی اور بتا دے گا.“ وہ دن اور آج کا دن ہمیشہ بُری خبر کسی کو پہنچانے سے اجتناب کیا ہے.حضرت اماں جان بہت زیادہ شفقت اور محبت فرمائی تھیں مگر آخر ماں تھیں وہ تربیت اپنا فرض جانتی تھیں کبھی کبھی کہتی تھیں کہ اتنی ناز برداری

Page 9

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ لڑکیوں کی ٹھیک نہیں ہوتی.نہ معلوم کسی کی قسمت کیسی ہو.آپ فرماتے ، تم فکر نہ کر وخداشگر خورے کوشگر دیتا ہے“ یہ الفاظ آپ کے مجھے یاد ہیں.حضرت اماں جان کے اکثر میرے نہلانے کے وقت میں چیخ کر ابا کو پکارتی ( روتے ہوئے ) آپ کہتے نہ تنگ کرو.66 آپ فرماتیں لڑ کی ذات ہے بدن نہیں ملواتی ، کہنیاں کالی رہ جائیں گی.آپ فرماتے نہیں رہیں گی کالی چھوڑ دو." یہ بھی فرماتے " کہ لڑکی ہے آخر ہمارے پاس چند دن کی مہمان ہے، یہ کیا یاد کرے گی.یہی خاص خیال اور ناز برداری کا اثر بھائیوں نے لیا تھا.ایک بات کوئی ذراسی بات بھی ایسی یاد نہیں کہ کسی بھائی نے ستایا ہو.حضرت بڑے بھائی صاحب کو تو میں بچپن سے ہی مسیح موعود علیہ السلام کی جگہ جانتی تھی.جس وقت آپ موجود نہ ہوتے ان کے پاس فریاد کی اور انہوں نے فورا میرا کہتا کیا.(3) میں بچہ تھی بالکل چھوٹی ، جب بھی آپ نے مجھے کہا اور شاید کئی بار کہ " جب تم آنکھ کھلے کروٹ لیتی ہو اس وقت ضرور دعا کر لیا کرو.“ میں اٹھ نہ سکوں ، بیمار ہوں ، کچھ ہو یہ عادت میری اب تک قائم ہے دعا

Page 10

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 7 کرتے کرتے درود پڑھتے نیند آ جاتی ہے، پھر آنکھ کھلے تو وہی سلسلہ.یہ سب آپ کے الفاظ کی برکت ہے.میں چھوٹی سی تھی بھائی پیار کرتے ہر کہنا مانتے.ادھر حضرت اماں جان کا پیار اور سب سے بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ناز برداریاں اور بے حد خیال رکھنا.مزاج خراب تھا ایک ساتھ کھیلنے والی بچی نے کہنا نہ مانا.میں اس سے روٹھ گئی اور چھوٹے بھائی حضرت مرزا شریف احمد صاحب جو ساتھ کھیل رہے تھے میں نے کہا اس سے تم بالکل نہ بولنا.میں اس سے نہیں بولتی چھوٹے بھائی صاحب بھول کر اس سے بول پڑے.میں نے ایک چیخ ماری اور یخنی کھائی اتنا صدمہ ہوا کہ رونے میں اکثر بچوں کو سانس رک جاتے ہیں.سانس رک گیا حضرت اماں جان بھاگ کر آئیں.گود میں اٹھا کر لائیں دکھ سے پوچھا کیا ہوا وغیرہ میں نے روتے ہوئے کہا کہ:.میں ایک لڑکی سے خفا تھی میں نے روکا تھا.ہائے میرا بھائی ہو کر اس سے کیوں بولا.‘ پھر رونے لگی.حضرت اماں جان نے رونا شروع کیا کسی خاص جذبہ کے تحت اور غالباً اس جذبے کے تحت کیونکہ وہ بیچاری خود زخم خوردہ تھیں

Page 11

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 8 مولویانی صاحبہ (اہلیہ حضرت عبدالکریم) نے بھی رونا شروع کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام غالبا عصر کی نماز کے بعد باہر سے تشریف لائے اور یہ نقشہ آہ وزاری کا دیکھ کر گبھرا گئے اور اب تک مجھے یاد ہے.کہ.آپ کہہ رہے تھے :." کیا مبارکہ کو چوٹ لگی اس کو تکلیف ہے، بتاؤ.“ حضرت اماں جان نے اسی طرح مجھے گود میں لئے لئے روتے روتے بتایا کہ چوٹ نہیں لگی.میں اس لئے رورہی ہوں کہ یہ بچی جو بھائیوں کے پیار میں کسی کی شرکت برداشت نہیں کر سکتی.شریف ایک لڑکی سے بول پڑا جس سے بولنے سے اس نے روکا تھا اور اس کی رو رو کر غشی کی سی حالت ہو گئی.ایسی پر اگر سو کن آ جائے تو یہ کس طرح برداشت کرے گی ؟ آپ نے فرمایا اور کافی بلند پر جوش مگر تسلی بخش آواز سے کہ:.اس پر ہرگز سوکن نہیں آئے گی اس بات کا کوئی فکر نہ کرو (1) اپنے بچپن سے مجھ پر بے حد شفقت فرمائی میں چھوٹی تھی تو رات کو اکثر ڈار کر آپ علیہ السلام کے بستر میں جا گھستی.جب ذرا بڑی ہونے لگی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ”جب بچے بڑے ہونے لگتے ہیں(اس وقت میری عمر کوئی پانچ سال کی تھی تو پھر بستر میں اس طرح نہیں آگھا کرتے.میں تو اکثر جاگتا رہتا ہوں، تم چاہے سو دفعہ مجھے آواز دو میں

Page 12

حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ 9 جواب دوں گا اور پھر تم نہیں ڈرو گی.اپنے بستر سے ہی مجھے پکار لیا کرو.“ پھر میں نے بستر پر کو ذکر آپ علیہ اسلام کو تنگ کرنا چھوڑ دیا.جب ڈر لگتا پکار لیتی ، آپ علیہ السلام فوراً جواب دیتے.پھر خوف اور ڈر لگنا ہی ہٹ گیا.میرا پلینگ آپ علیہ السلام کے پلنگ کے پاس ہی ہمیشہ رہا.بجز چند دنوں کے جب مجھے کھانسی ہوئی تو حضرت اماں جان بہلا پھسلا کر ذرا دور بستر بچھوا دیتی تھیں کہ ” تمہارے ابا کو تکلیف ہو گی.مگر آپ علیہ السلام خود اٹھ کر سوتی ہوئی کا میرا سر اُٹھا کر ہمیشہ کھانسی کی دوا مجھے پلاتے تھے.آخری شب بھی جس روز آپ علیہ السلام کا وصال ہوا.میرا بستر آپ کے قریب بالکل قریب ہی تھا کہ بس ایک آدمی ذرا گزر سکے اتنا فاصلہ ضرور ہوتا.(5) ایک بار میرے چھوٹے بھائی صاحب حضرت مرزا شریف احمد صاحب نے ، وہ بھی آخر بچہ ہی تھے، اصرار کیا کہ:.”میرا پلنگ بھی اتبا کے قریب بچھا دیں“ مگر میں نے اپنی جگہ چھوڑ نا نہیں مانا، حضرت اماں جان نے فرمایا کہ ”یہ ہمیشہ پاس لیٹتی ہے کیا ہوگا ، آخر شریف کا بھی دل چاہتا ہے.ایک دو دن یہ اپنی ضد ذرا چھوڑ دے بھائی کو لیٹنے دے تو کیا حرج ہو جائے گا“ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا نہیں یہ لڑکی ہے اس کا دل رکھنا زیادہ ضروری ہے“

Page 13

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 10 حالانکہ حضرت اماں جان چھوٹے بھائی صاحب کو لے کر اس رات ان کی دلداری کے لئے خود بھی بیت الدعا میں زمین پر ان کو ساتھ لے کر سوئیں مگر میرا بستر وہیں رہا.لیکن مجھے یاد ہے کہ اس بات پر پھر میرا دل بھی دکھا تھا اور ندامت محسوس ہوئی.(5) میں پیسے مانگتی تو جو پہلی بار ہاتھ میں آجاتا پکڑا دیتے جو اکثر میری طلب سے زیادہ ہوتا تھا آپ علیہ السلام فرماتے کہ تمہاری قسمت ہے تھوڑا مانگتی ہو بہت ہاتھ میں آجاتا ہے.اب یہی لو میں واپس کیوں رکھوں.“ ایک بار میں نے دو آ نے مانگے روپیہ نکالا اور فرمایا' ماتھے دو آنے نکل آیا روپیہ یہ تو تمہاری قسمت ہے.“ میں بالکل چھوٹی تھی ، گرمیوں کی دوپہر میں ہم سب نیچے کے کمروں میں رہا کرتے تھے.بلکہ سردی کی راتیں بھی مجھے ان کمروں میں سونا یاد ہے پھر پلیگ جب ملک میں پھیلی تو آپ نے نیچے کی رہائش ترک کر دی تھی.میں نے کہا مجھے لیچیاں دیں مگر قادیان میں ہر چیز کہاں ملتی اور نہ ابھی تک کہیں باہر سے آئی تھی.حضرت اماں جان نے فرمایا کہ " اس کی باتیں تو دیکھیں بے وقت لیجیوں کی فرمائش اب کر رہی ہے."

Page 14

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 11 میں خفاسی ہو کر دوسرے کمرے میں جا کر لیٹ رہی اور سو گئی وہ کمرہ تھا جو ہمارے قادیان والے گھر کے صحن میں داخل ہو کر بائیں ہاتھ ایک برآمدہ اور پیچھے کمرہ ہے.اس کے ساتھ ہی گول کمرہ ہے.مگر آپ کو کیا سمجھ میں آئے گا سوتے سوتے میری آنکھ کھلی تو آپ مجھے دونوں ہاتھوں پر اٹھائے لئے جا رہے تھے.جا کر مجھے گود سے اتار کر بھرے ہوئے لیچیوں کے ٹوکرے کے پاس بٹھا کر کہا لوکھا ؤ اور حضرت اماں جان سے فرمایا کہ ”دیکھو چیز یہ مانگتی ہے اللہ تعالیٰ بھیج دیتا ہے.(7) میں بڑی خوشی سے آپ علیہ السلام کود با یا بھی کرتی تھی.ایک بار آپ بہت تھکان محسوس کر رہے تھے فرمایا ”میری سوئی پکڑ کر میری رانوں پر کھڑی ہو کر دیا ؤ." میں کھڑی ہو گئی تو آپ علیہ اسلام نے میرے پاؤں اپنے ہاتھ سے پکڑ کر درست کئے کہ جب کھڑے ہو کر اس طرح دباتے ہیں تو پاؤں ٹیڑھے رکھتے ہیں.یعنی ایک پنجہ ادھر ایک ادھر اس سے ایڑھی کا دباؤ تکلیف نہیں دیتا.دوسروں کی خدمت سے بھی آپ علیہ السلام خوش ہوتے.ایک ضعیفہ مائی تا بی نام ہمارے گھر میں رہا کرتی تھیں.دائمی سردرد کی مریضہ تھیں، آپ علیہ اسلام ان کا بہت خیال رکھتے.دوائیں بھی دیتے اور بادام کا شیرہ ان کو چلواتے.میں مائی نالی کا شیرہ رگڑ کر اکثر اس کو پلاتی تو بہت دعائیں

Page 15

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 12 دیا کرتی تھی اور مجھے احساس تھا کہ آپ علیہ السلام بھی میرے اس کام سے خوش ہوں گے.مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم آپ مایہ اسلام کے محبوب رفیق تھے ان کی وفات کے بعد ان کی بیوی کا جن کو سب مولویانی کہتے تھے آپ علیہ السلام نے بہت خیال رکھا.ان کی بہت دلداری فرماتے وہ مجھے بہت چاہتی تھیں، میں ان سے بہت مانوس تھی.آپ علیہ السلام کبھی فرماتے کہ " تم نے مولویانی کو بھی لتاڑ ا ؟ وہ بھی ٹانگوں پر کھڑا کر کے دبواتی تھیں اور اس کو لتاڑ نا کہا کرتی تھیں آپ علیہ السلام کے کہنے پر بڑی خوشی سے مولویانی کو خوب لتاڑ ا کرتی ، وہ میرا ہاتھ پکڑے رکھتیں کہ گر نہ جائے.(8) ایک بار میں چھوٹی ہی تھی ابھی ) جگا کر نماز تہجد پڑھوادی.ذرا دیر میں پھر جھنجھوڑنے لگیں کہ اٹھو نماز پڑھو.میں نے چلا کر آپ کو پکارا کہ:.میں نماز پڑھ چکی ہوں یہ مجھے جگائی جاتی ہیں.“ دو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ بچوں کو تنگ کر کے نماز نہ پڑھواؤ.انہوں نے کہا ”حضرت وہ تو میں نے تہجد پڑھوائی تھی.‘ فر مایا:.ا بھی سونے دو اس کی نماز ہوگئی ہے." اسی طرح قبل بلوغت کم عمری میں آپ روزہ رکھوانا پسند نہ فرماتے تھے.بس ایک آدھ رکھ لیا کافی ہے.حضرت اماں جان نے میرا پہلا

Page 16

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 13 روزہ رکھوایا تو بہت بڑی دعوت افطاری دی تھی.یعنی جو خواتین جماعت تھیں سب کو بلایا ہوا تھا.اس رمضان کے بعد دوسرے یا تیسرے رمضان میں نے روزہ رکھ لیا اور حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کو بتایا کہ آج میرا روزہ پھر ہے.آپ علیہ اسلام حجرہ میں ( جنہوں نے ہمارا گھر قادیان کا دیکھا ہے وہ سمجھ لیں گی کہ کون سا کمرہ تھا) تشریف رکھتے تھے.پاس سٹول پر دوپان لگے رکھے تھے.غالباً حضرت اماں جان بنا کر رکھ گئی ہوں گی.آپ علیہ اسلام نے ایک پان اٹھا کر مجھے دیا کہ:.لو یہ پان کھا لوتم کمزور ہوا بھی روزہ نہیں رکھنا توڑ ڈالو روزہ“ میں نے پان تو کھا لیا مگر آپ سے کہا کہ " صالحہ (یعنی ممانی جان مرحومہ چھوٹے ماموں جان کی اہلیہ محترمہ ) نے بھی رکھا ہے اُن کا بھی تڑوا دیں.فرمایا.” بلاؤ اُس کو بھی.میں بلا لائی ، وہ آئیں تو اُن کو بھی دوسرا پان اُٹھا کر دیا اور فرمایا " لو یہ کھا لو تمہارا روزہ نہیں ہے.میری عمر اس وقت دس سال کی ہوگی.(9) حضرت اماں جان کی مبارک احمد کی وفات کے بعد باوجود بے نظیر صبر کی کچھ طبیعت خراب رہتی اور زیادہ تر ان پر اثر آپ کی قرب وفات کی پیشگوئیوں کا تھا گھبراہٹ اداسی اکثر رہتی تھی.آپ نے حضرت اقدس علیہ السلام سے کہا چند دن کے لئے لاہور چلیں.

Page 17

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 14 حضرت اقدس علیہ اسلام جانا نہیں چاہتے تھے.میں حجرہ میں گئی ایک دن ، تو لاہور کی بابت ذکر تھا.نانا جان حضرت بھائی صاحب سب پہنچے تھے.حضرت اقدس علیہ السلام کے دل میں رکاوٹ تھی جب میں جا کر بیٹھ گئی تو آپ نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا:.دو جاؤ تم سب ذرا پھر آؤ.میری بیٹی میرے پاس رہے گی.“ میرا دل کسی اور بات سے اُس دن کسی سے خفا ہو کر بھرا ہوا تھا.آپ کا سر پر پیار سے ہاتھ پھیرنا تھا کہ میں رو پڑی آپ نے کہا:.تم رونے لگیں ؟ تم میرے پاس نہیں رہو گی ؟“ پھر میں نے بتایا کہ:.اس طرح منجھلی بھا بھی جان نے کہا تھا کہ تم پڑھنے میں دیر لگا 66 دیتی ہو، ہم سے اتنا انتظار کھانے پر نہیں ہوتا میں تو اس لئے روئی تھی." آپ نے پھر پیار سے دلاسا دیا اور کہا کہ:.تم ان کے ساتھ کیوں کھاؤ.تم میرے ساتھ ہی کھایا کرو اور یہ ڈاک ہے او اس کو پڑھو.( خطوط اور اخبار تھے ) اور یہاں ہی میرے پاس بیٹھو.‘‘ میں وہاں بیٹھی پڑھتی رہی.شام کو میری بھا بھی جان جن کا دل بہت صاف تھا خود ہی آئیں اور دروازے کے باہر سے پکار کر کہا:.

Page 18

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 15 ' آج باہر نہیں آنا.اب آجاؤ نا.“ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا:.’اچھا اب جا کر ذرا کھیل لو.‘“ لاہور میں آپ علیہ السلام شام کو ضرور تھوڑی دیر کے لئے لینڈو میں سیر کو تشریف لے جاتے.ایک بار حضرت اماں جان نے کہا لڑکی کو ساتھ لے جاتے ہو وہ دونوں بہوئیں ہیں ان کو کسی دن لے جایا کرو.آپ علیہ السلام نے فرمایا:.نہیں میرے ساتھ مبارکہ ہی جائے گی وہ الگ جا سکتی ہیں.“ میں اور حضرت اماں جان ساتھ ہوتے تھے.سامنے گھوڑوں کی جانب پشت کی طرف حضرت اقدس علیہ السلام اور حضرت اماں جان ہوتی تھیں اور سامنے میں.لاہور اس وقت اتنا بڑا نہ تھا.باہر نکل کر غیر آبا دسڑکوں کے چکر کاٹ کر ہم واپس آتے.آپ علیہ السلام فرماتے تھے ” نقاب اٹھا دو گاڑی چل رہی ہے کوئی نہیں دیکھتا.کھیتوں میں ہوگا کوئی بیچارہ کسان اپنے کام میں مصروف ہوگا.“ ایک دن اسی طرح بیٹھے ہوئے آپ نے فرمایا :.اب ذرا نقاب نیچی کر لینا میاں محمود گھوڑے پر آرہے ہیں اس کو پردہ کا بہت زیادہ خیال ہے.غصہ چڑھے گا.“

Page 19

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 16 یہ الفاظ آپ علیہ السلام کے لبوں سے بہت پیاری مسکراہٹ کے ساتھ نکلے تھے.میں نے گردن نکال کر دیکھا ، سڑک سے انگلی سڑک کے موڑتے کہیں ان کا گھوڑا نظر نہیں آرہا تھا.چند منٹ کے بعد وہی ہوا کہ حضرت بھائی صاحب گھوڑا دوڑاتے پاس سے گزرے اور مجھے جھانکتے دیکھ کر گھورا.(10) میری تعلیم میں نے کسی سکول میں تعلیم نہیں پائی ، نہ کوئی ڈگری ہے ، حضرت پیر محمد منظور صاحب کی اہلیہ محترمہ محمدی بیگم صاحبہ مرحومہ نے حضرت اماں جان سے ذکر کیا کہ پیر جی کہتے ہیں کہ ” میں ایک نئے طریق سے صالحہ کو پڑھانا شروع کروں گا.“ (صالحہ بیگم جن کی شادی میرے چھوٹے ماموں حضرت میر محمد اسحاق صاحب سے ہوئی ) حضرت اماں جان نے فرمایا کہ " کہہ دو مبارکہ کو بھی پڑھا دیا کریں." میری عمر بمشکل شاید تین سال کی ہوگی کہ محمدی بیگم صاحبہ نے آکر حضرت اماں جان سے کہا کہ اب وہ پڑھانا شروع کر دینا چاہتے ہیں.حضرت اماں جان مجھے وہاں لے گئیں اور یہ سلسلہ شروع ہوا.لکڑی کے بلاک تھے ان پر الف ب وغیرہ لکھی ہوئی اسی طرح انگلش سکولوں کی نرسری کے طریق پر انہوں نے

Page 20

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 17 پڑھانا شروع کیا.مختلف ورقوں پر پھیکے حروف سے لکھتے اس پر لکھواتے بھی اور پڑھاتے بھی.اس مجموعہ سے یسر نا القرآن چھاپا گیا تھا.غرض میں نے ساڑھے چار سال کی عمر میں قرآن شریف ختم بھی کیا اور دہرا بھی لیا تھا.چھوٹے بھائی صاحب حضرت مرزا شریف احمد جو سکول یا کسی استاد سے پڑھتے تھے ان کا ابھی ختم نہیں ہوا تھا.اسی لئے آمین چند ماہ دیر سے ہوئی.اردو انہوں نے ساتھ ہی پڑھائی تھی.پھر یہی حساب وغیرہ بھی سکھاتے.مگر مجھے اس میں کوئی دلچسپی نہ ہوئی.فارسی کی بھی ایک دو کتا ہیں پڑھائی تھیں اور ایک دو انگریزی کا قاعدہ اور کتاب.میں نے ایک دن خود ہی کہا کہ مجھے شعر کہنا بھی سکھا دیں.انہوں نے کہا جو اس کے وزن مجھے یاد ہیں.وہ بتا دیتا ہوں ، ایک وزن انہوں نے بتایا فاعلات.فاعلات.فاعلات.میں نے جلدی سے مصرعہ کہہ دیا.ایک لڑکی جس کا زینب نام تھا بہت خوش ہوئے ، غرض ان سے ہی سلسلہ تعلیم جاری رہا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے پاس بھیجا کہ مجھے ترجمہ قرآن شریف پڑھانا شروع کریں.پہلے ان کے پاس جا کر ترجمہ قرآن شریف پڑھتی تھی.پھر پیر جی کے پاس دوسری کتابیں وغیرہ.

Page 21

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 18 حضرت مولوی عبد الکریم نے بہت توجہ سے پڑھایا.اور جب وہ بیمار ہوئے تو ان سے پڑھنا مجبور اچھا.ان کی علالت نے سب گھر کو اور خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سخت پریشان کر رکھا تھا.سخت کرب میں یہ وقت گزرا.اُن سے میں صرف تین سیپارے اور چند ورق چوتھے سیپارے کے پڑھ سکی.اُن کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ مسیح الاوّل کے پاس بھیجا کہ وہ قرآن شریف کا ترجمہ پڑھا ئیں وہ بھی ہم سے بہت پیار کرنے والے تھے.بہت پیار اور توجہ سے پڑھاتے.لفظ لفظ کا ترجمہ وغیرہ سمجھاتے.تجرید بخاری وغیرہ اور چھوٹے مجموعہ احادیث کے میں نے خود ہی شروع کر دیے.جو لفظ خاص سمجھ میں نہ آتے وہ حضرت بڑے بھائی ( حضرت خلیفہ اسیح الثانی) با حضرت مھلے بھائی صاحب سے پوچھ لیا کرتی تھی.پیر صاحب سے پڑھائی کا سلسلہ بھی جاری تھا.مگر جب ان کی اہلیہ بیمار ہوئیں تو ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) نے مجھے کہا ”اب ادھر نہ جانا.ادھر وہ دارالبرکات میں اس وقت تھے.- صحن قریب ہے.صحن میں صالحہ سے مل لیا کرو.کمروں میں بیمار ہے وہاں نہ جاتا.اب اردو تمہاری اچھی ہوگئی ہے.فارسی میں خود پڑھا دیا کروں گا“

Page 22

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 19 غرض یہ شرف بھی مجھے حاصل ہے کہ چند روز ( خود رض یہ شرق حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) نے مجھے فارسی پڑھائی (گلستان سعدی) پھر آپ نے فرمایا ایک دن کہ:.ناغہ " مجھے بہت کام ہوتا ہے نہیں چاہتا کہ تمہاری تعلیم میں نا نہ ہو.مولوی صاحب یعنی حضرت خلیفہ امسیح الاوّل سے کہو کہ فارسی بھی پڑھا دیا کریں.میں نے حکم جا کر سنادیا اور کتابیں لے گئی ، گلستان اور بوستان.کہنے لگے:.د و حکم ہے ضرور پڑا ھاؤں گا مگر میر اول تو صرف 66 ( قرآن شریف ) پڑھانے میں خوش ہے." میں آپ سے برابر لاہور کے آخر تک پڑھتی رہی پھر بعد وصال حضرت مسیح موعود علیہ السلام ، بعد امامت میں بھی برابر پڑھاتے رہے ، وغیرہ.مجھے کہتے تھے ہمیشہ کہ:.وو یہ خاص سلسلہ درس قرآن کا تمہاری وجہ سے شروع ہوا.اس کا ثواب تم کو (یعنی سلسلہ درس خواتین ہمیشہ ملتا رہے گا.“ اور بھی چند لڑکیاں خود میری بھاو جیں بھی دونوں شریک درس ہوگئی تھیں.شادی کے بعد بھی جب قادیان ہوتی تو ضرور جا کر درس قرآن میں شریک ہوتی.اور حضرت اماں جان بھی تشریف لے جاتی تھیں.

Page 23

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 20 20 اب عربی کی سنیئے میں نے چھوٹے بھائی صاحب حضرت مرز اشریف احمد صاحب سے کہا مجھے عربی پڑھا دیا کریں مجھے علم تھا کہ ان کو عربی بہت اچھی آتی ہے اور طریق تعلیم بھی اچھا ہے.وہ روز پڑھاتے رہے صرف ونحو و غیرہ.سب سکھایا.حتی کہ میں خوب عربی کی کتب پڑھنے لگی.جب حضرت خلیفہ ثانی نے ایک لڑکیوں کا سکول گھر میں کھولا اور لڑکیاں علم دین ، عربی ، قرآن شریف وغیرہ پڑھنے لگیں تو مجھے حضرت بڑے بھائی صاحب (خلیفہ ثانی) نے ایک دن کہا کہ :.تم کیوں نہیں شامل ہو جائیں.روز صبح گاڑی میں آجایا کرو اور صرف عربی پڑھ جایا کرو." میں نے کہا ”میں چھوٹے بھائی صاحب سے پڑھتی رہی ہوں اب بھی پڑھا دیتے ہیں.“ کہنے لگے ”اچھا امتحان لوں؟“ میں نے کہا ”لے لیں“ بغیر اعراب کے دو کتب عربی ناول تھے وہ مجھے دیئے کہ پڑھو میں نے پڑھے بھی اور ترجمہ بھی ساتھ ساتھ بتا دیا.تو بہت خوش ہوئے اور حضرت چھوٹے بھائی صاحب کی بہت تعریف کی کہ واقعی عربی میں انہوں نے کمال حاصل کیا ہے.اب انگریزی کی سن لیں ، بیٹھے بٹھائے شوق اٹھا کہ انگریزی بھی

Page 24

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 21 سیکھ لوں.بچوں کے ایک استاد تھے ، پہلے ان سے پڑھا، میرا خیال ہے کہ شاید مبارک احمد ، حافظ روشن علی صاحب کے داماد ہوں، یا کوئی اور ہو گا ، اس وقت یاد نہیں آرہا.ان سے کچھ دنوں پڑھا پھر ماسٹر محمد حسن تاج جود نام یاد نہیں آرہا بزرگ آدمی تھے.کالے پانی والے مشہور تھے ) یہ اُن کے داماد تھے.انگریزوں کو اردو پڑھانے کا کام کرتے تھے ان کو بھی بچوں کے لئے بلوایا گیا تھا.میں نے ان سے پڑھنا شروع کیا اور بہت جلد ترقی کی.ہر زبان کے محاورے ملتے ہیں اکثر آپس میں.جب کوئی مثال یا محاورہ انگریزی کا بتاتے میں ان کو اُردو میں اس کے مقابل کا بتا دیتی.بہت کچھ کا پیوں پر لکھا ہوا تھا.مگر سب قادیان یا مالیر کوٹلہ رہ گیا.میں نے بہت اچھے مصنفوں کی مشہور کتابیں پڑھیں.انگریزی پر کافی عبور ہو گیا تھا.ہر کتاب پڑھ لیتی تھی.ایک شعر اپنا بہت بچپن کا یادرہ گیا.چار پانچ اشعار تھے کاپی میں لکھے.شرم کے مارے حضرت علیہ السلام کو بھی نہ دکھائے کہ بھائی چھڑیں گے.وہ پہلا شعر ارسال ہے.مدح حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں یہ شعر کہے تھے.آج ایسا ہمیں سردار مبارک ہووے خادم احمد مختار مبارک ہو دے

Page 25

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 22 222 ایسے ہی چار پانچ اور تھے.ایک کاپی پرانی جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ کی چھوٹی چھوٹی تحریر میں تھیں.چھوٹی چھوٹی یاداشتیں وغیرہ تھیں.وہ میں نے لے لی تھی ، اُس پر لکھے ، افسوس کہ قادیان میں رہ میں نے باوجود پیر صاحب کی تاکید کے خوش نویسی پر کبھی توجہ نہیں کی ، مگر اتنا خراب بھی خط نہ تھا اس سے بہتر تھا.(11) میرے بزرگ و شفیق والدین مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یاد اتنی صاف اور اتنی واضح رہی ہے کہ گویا آج بھی آپ علیہ السلام کو سامنے دیکھ رہی ہوں.وہ سوتے میں، کروٹ لیتے وقت سبحان الله و بحمده سبحان الله العظیم کی ہلکی ہلکی آواز گویا میرے کانوں میں آ رہی ہے.غرض سب کچھ یاد ہے اور بہت کچھ وضاحت سے یاد ہے.اور ہر یاد میرے دماغ میں ایک روشن نقش کی طرح موجود ہے.اس کی ظاہری وجہ یہ بھی ہے کہ میرے دل نے اسے بھولنے نہ دیا اور آپ کی جدائی کے بعد میرے تصور میں ہمیشہ وہ نقشے آتے رہے.(12) میری یادوں کا زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبتا کمزوری کا

Page 26

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 23 زمانہ تھا ، اکثر چکروں کا دورہ ہوتا.مگر آپ کی انتھک محنت کی مثال نہیں ملتی ، باہر جانا ہے، نمازوں میں جانا ہے ،مگر اس وقعہ میں آپ برابر تحریر کا کام کرتے رہتے اتنی مصروفیت اتنے کام...پھر بھی اس کے مقرر کردہ انسانی حقوق و فرائض ہمیشہ احسن طریق سے بشاشت سے ادا فرمائے.حضرت اماں جان کا انتہائی خیال ہے، ہر طرح بے انتہا قدر تھی حضرت اماں جان کی آپ کے دل میں بچوں پر شفقت ان کی ناز برداری اپنے مہمانوں اپنے پروانوں کا جو گھر بار چھوڑ کر اکثر دنیا کے سارے رشتے توڑ کر اس شمع فروزاں کے گرد جمع تھے.ہر ضرورت کا ہر وقت خیال رکھنا.سوچیں! تو صاف نظر آتا ہے کہ خدا تعالی کی خاص عطا کردہ روح کام کر رہی تھی سبھی کو وقت دیتے تھے.کوئی دوا مانگنے آرہا ہے.آپ کام کرتے کرتے دوا دے رہے ہیں.میٹی کہ ہندو عورتیں بھی اندر آ جاتیں، کوئی دوا مانگتی.کوئی اپنے' کا کے کے سر پر ہاتھ پھیرنے کو کہتی کوئی کچھ ، بہت کچھ یاد ہے.(13) آپ ظاہر و باطن ایک آئینہ شکاف کی مانند تھے جس میں سورج کی چمک سے نور نظر آتا ہوں، مگر آنکھ کے اندھوں کے لئے سو سو حجاب حائل ہوتے ہیں ، آپ کا جسم بھی مصفی تھا ، گرمی اور پسینوں کی مدت میں بھی کبھی بوئے نا خوش آپ میں سے نہیں آتی تھی ، ہمیشہ ایک ملکی ہلکی مہک آتی

Page 27

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 24 رہتی.مشک کی خوشبو آپ کے پسینہ میں معلوم ہوتی تھی ، جب نہا کر نکلتے تو گیلا گیلا بدن ململ کے کرتے میں سے صاف شفاف نظر آتا ،نرم نرم بالوں میں نمی سی اور چند قطرے پانی جو بدن خشک کرنے کے بعد بھی سر میں باقی رہتے بہت ہی پیارے لگتے تھے.آپ علیہ السلام کا قد بالکل راست تھا، ذرا بھی کمزوری اور جھکاؤ نہ آیا تھا نہ پیشانی ، نہ چہرے پر کوئی جھری تھی.صرف آنکھوں کے کوئیوں کے پاس ڈرا ڈرائل سے تھے جو جوانوں کے بھی پڑ جاتے ہیں ، غرض اتنی محنت بے حد کام اور اس پر عارضہ دورانِ سر اور کثرت پیشاب کا جو عارضہ تھا.ان سب کے باوجود کوئی اثر آپ کے چہرہ مبارک پر ہرگز ہرگز نہ تھا.(14) صلى الله ہمیں تو بغیر سکھائے بتائے جہاں سے ہوش کا زمانہ یاد ہے یقین تھا کہ آپ خدا تعالی کے فرستادہ نبی اور خاص بندے ہیں اور آپ خدا تعالیٰ اور رسول کریم ﷺ کے عاشق ہیں اور بہت ہی زیادہ آپ کا دل اپنے رب کے عشق سے اور اپنے آقا نبی کریم اللہ سے عشق سے بھرا ہوا ہے.میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ نبی کریم میلے کا ذکر کر رہے ہوں اور آپ علیہ السلام کی آنکھیں اشک آلود نہ ہو گئی ہوں ، بات کرتے جاتے اور انگلی سے گوشہ ہائے چشم سے ٹپکتے آنسو پو نچھتے جاتے تھے.

Page 28

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 25 ایک بار آپ باغ میں چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے، میں اور مبارک ایک کچھوا آپ کو دکھانے کو لائے پھر آپ نے فرمایا آؤ آج تم کو محترم کی کہانی سنائیں ، ہم دونوں پاس بیٹھ گئے ( یہ ماہ محترم کا پہلا عشرہ تھا) آپ نے شہادت حضرت امام حسین کے واقعات سنانا شروع کئے.صلى الله فرمایا وہ ہمارے نبی کریم ﷺ کے نواسے تھے.ان کو منافقوں نے ، ظالموں نے بھوکا پیاسا کر بلا کے میدان میں شہید کر دیا ، فرمایا:.اس دن آسمان سرخ ہو گیا تھا.چالیس روز کے اندر قاتلوں ظالموں کو خدا تعالی کے غضب نے پکڑ لیا.کوئی کوڑھی ہو کر مرا کسی پر کوئی عذاب آیا اور کسی پر کوئی، یزید کے ذکر پر یزید پلید فرماتے تھے.کافی لمبے واقعات آپ علیہ السلام نے سنائے.حالت یہ تھی کہ آپ پر رقت طاری تھی ، آنسو بہنے لگتے تھے ، جن کو اپنی انگشت شہادت سے پو نچھتے جاتے تھے، وہ کیفیت مجھے ہمیشہ یاد آتی ہے.ایک دفعہ حضرت اماں جان نے کہا ایک شخص نے کہلایا ہے.فلاں سید زادی سے میرے رشتہ کی آپ سفارش کر دیں اور تحریک فرما ئیں میں پاس بیٹھی تھیں ، آپ نے جواب دیا.میں نہیں کہہ سکتا میری زبان کو زیب نہیں دیتا کہ ایک لڑکی جو آل رسول کریم اللہ سے منسوب ہے سید زادی کہلاتی ہے میں اس کا

Page 29

حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ 26 پیغام ایسے شخص کے لئے دوں جس کی قوم ہمارے ملک میں ایک گھٹیا قوم کہلاتی ہے." بے شک اسلام احمدیت کی تعلیم یہی ہے اور آپ علیہ السلام خود فرماتے تھے کہ ذات پات کا خیال نہ کرو اور نیکی تلفی دیکھو مگر وہ شریعت ہے، یہ رنگ عشق و محبت کا تھا، جس نے یہ الفاظ آپ کی زبان سے نکلوائے.نہ معلوم کتنا جذبات عشق و احترام سے معمور اس وقت آپ علیہ السلام کا دل ہو گا کہ آپ اس بات کو کہنا برداشت نہ کر سکے ، آپ علیہ السلام نے یہ کہا کہ:.” میری زبان کو زیب نہیں دیتا“ یہ امر آپ لوگ مد نظر رکھیں.اپنے سب سے بڑھ کر محبوب ذات باری تعالیٰ کا عشق بھی جو آپ کے روح وتن کے ذرہ ذرہ میں موجزن تھا آپ کے ہر ہر قول وفعل سے ہر وقت نمایاں نظر آتا تھا.میں نے بغیر اوقاتِ نماز کے بھی آپ کو اپنے رب کریم کو تڑپ تڑپ کر پکارتے سنا ہے.” میرے پیارے اللہ ! میرے پیارے اللہ !“ کی آواز گویا اس وقت بھی سن رہی ہوں اور آپ کے آنسو بہتے دیکھ رہی ہوں اپنے پیارے ازلی ابدی خدا تعالی کے لئے غیرت کا ایک نمونہ چشم دید پیش کرتی ہوں.آپ علیہ السلام حجرہ میں تھے باہر جانے کو تیار تھے.میں آپ کے

Page 30

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 27 پاس تھی ، حضرت اماں جان سامنے کھپریل میں تھیں ، ہماری تائی صاحبہ کی خادمہ خاص (جو تائی صاحبہ کے قریبا ساتھ ہی احمدی بھی ہو گئی اور بہشتی مقبرہ میں دفن ہے ) حضرت اماں جان کے پاس آئی اور اپنی طرف سے عزیز داری سمجھ کر آپ کے پاس ہمارے چچا مرزا امام الدین کی وفات پر اظہار افسوس کرنے لگی جس وقت اس کے منہ سے یہ لفظ نکل رہے تھے کہ :.وو بڑا ہی چنگا بنده ی وغیرہ " حضرت مسیح موعود علیہ السلام باہر نکلے.آپ علیہ السلام کا چہرہ مبارک سرخ ہو رہا تھا آپ نے اپنا عصا زمین پر مار کر کہا:.وو بد بخت تو میرے گھر میں میرے 66 خدا کے دشمن کی تعریف کرتی ہے.“ ایسا جلال آپ علیہ السلام کی آواز میں تھا کہ وہ سر پٹ بھاگی.مرزا امام الدین دہر یہ تھے آپ کب گوارا کر سکتے تھے کہ آپ علیہ السلام کے گھر میں ایک دہریہ کی اس قدر تعریف ہو.ویسے دوسرے عزیز جو محض ذاتی دشمن اور گمراہ تھے ان کی تکلیف میں آپ ہمدردی فرماتے تھے.حضرت منجھلے بھائی صاحب نے ایک دفعہ نظام الدین کہہ کر بات کی تھی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ”میاں وہ

Page 31

حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ 28 تمہارا چاہے ان کا مرزا گل محمد سے بڑا لڑکا مرزا دل محمد جب فوت ہوا تو آپ نے اظہار افسوس کیا، مجھے یاد ہے ، آپ علیہ السلام نے فرمایا تھا لڑکا اچھا تھا، اس میں سعادت تھی ، میں نے دیکھا کہ حافظ معنا( حافظ معین الدین نابینا ) کا ایک دن ہاتھ پکڑ کر چلا رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ حضرت صاحب کی مسجد میں جانا ہے تو پہنچا دوں.(15) ایک دفعہ ہمارے گھر میں کچھ احمدی مہمان عورتیں آئی ہوئی تھیں ، انہی میں مل کر ایک عورت چادر میں لپٹی لپٹائی بیٹھی تھی، جب رات ہوئی تو اُس نے کچھ فضول باتیں کرنی شروع کر دیں.ایک دو لڑکیوں اور عورتوں نے مجھے بتلایا کہ یہ عورت کہہ رہی ہے کہ ”نبی کیا ایسے ہوتے ہیں کہ پلاؤ بھی کھا لیں اور انڈے بھی ، مرغی بھی ؟‘ میں نے اُسی وقت جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا ”ابا ! ایک عورت نیچے بیٹھی ہے وہ کہتی ہے کہ کیا نبی ایسے ہوتے ہیں کہ پلاؤ بھی انڈے مرغی بھی کھا لیں ! آپ علیہ السلام اس وقت کسی خاص غور و فکر کی حالت میں بالکل سیدھے لیٹے ہوئے تھے ، آپ بڑے جوش کی حالت میں اُسی طرح سیدھے ہی اُٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا:." کیا یہ بد بخت سمجھتے ہیں کہ تمام پاکیزہ چیزیں اللہ تعالی نے اُن

Page 32

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 29 29 کے لئے ہی پیدا کی ہیں اپنے پیاروں کے لئے نہیں؟ اس وقت آپ کے چہرہ مبارک پر ایک خاص کیفیت کا عالم طاری تھا.اور یہی اثر میرے دل پر پڑا اور رہا، کہ یہ جوش اور غصہ آپ علیہ اسلام کو محض اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ لفظ نبی کے تحت آیا تھا.اور یہ غیرت اسی مقام کے لیے تھی جو آپ کو عطا ہوا اور سب سے بڑھ کر اپنے محبوب آقا محمد اللہ کے لئے.(16) آپ کو یہ خیال بھی آیا ہوگا کہ یہ چیزیں اس زمانہ میں نہ تھیں اگر اس وقت ہم ہوتے اور یہ بعض خاص کھانے وغیرہ بھی ہوتے ، تو ہم اپنے پیارے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں یہ بھی پیش کرتے.آپ علیہ اسلام کے عشق محمد رسول اللہ اللہ کی ایک اور مثال کہ ایک دفعہ حضرت نانا جان حج کی باتیں کرنے لگے اور کہہ رہے تھے کہ اب تو بہت آسانیاں ہو گئی ہیں پیشتر کی نسبت.آپ علیہ السلام بھی تشریف لے چلیں، پہلے مکہ معظمہ جا کر حج بیت اللہ سے فارغ ہو کر پھر وہاں سے مدینہ منورہ جائیں اور روضہ پاک نبی کریم مے کا بھی دیکھیں اور اب آگے کے سفر میں بھی بہت سہولتیں ہیں وغیرہ وغیرہ ،حضرت اقدس سنتے رہے اور فرمایا کہ:.صلى الله یہ تو سب ٹھیک ہے مگر دیکھنا تو یہ ہے کہ میں روضہ نبی کریم اے

Page 33

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 30 50 کا دیکھ سکوں گا ؟ یہ الفاظ آپ علیہ السلام کے منہ سے نکل رہے تھے اور رقت طاری تھی گوشہائے چشم سے آنسو بہہ رہے تھے جن کو آپ علیہ السلام انگلی سے صاف کرتے جاتے تھے.میں آپ علیہ السلام کے سرہانے ایک طرف آپ علیہ السلام کے تکیہ پر ہی بیٹھی تھی آپ علیہ اسلام کا بے حد درد بھرے لہجے سے وہ فقرہ کہنا اور آنسو بہہ نکلنا مجھے کبھی نہیں بھول سکا.(17) آپ علیہ اسلام کی ایک چشم دید الہامی کیفیت کا ذکر کروں گی.ایک دن دو پہر کو کھانے سے قبل یا بعد میں ٹھیک یاد نہیں) آپ علیہ السلام حجرہ میں آرام فرما رہے تھے.حضرت والدہ صاحبہ (حضرت اماں جان) اس وقت باہر احمدی خواتین کے پاس تھیں میں جا کر آپ علیہ السلام کے پلنگ پر بیٹھ گئی.بیوقوفی سمجھ لیں یا خوش قسمتی میں نے آپ علیہ السلام کی پنڈلیوں پر دبانے کی نیت سے ہاتھ رکھ دیا.اس وقت آپ علیہ اسلام سید ھے لیٹے ہوئے تھے.یکا یک ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی جو بیان میں نہیں آسکتی.آپ علیہ السلام کی پنڈلیاں تھر تھر کا نچنے لگیں.چہرہ پر ایک بہت خاص چمک اور سرخی پیشانی پر پسینے کے قطرے کھڑے ہو گئے ہونٹ حرکت کرنے لگے جیسے کوئی غیر مرئی طاقت ان کو جنبش میں لا رہی ہے نہ کوئی تکلیف کی نہ کرب کی علامت تھی معلوم ہو رہا تھا کہ کسی طاقت کا اُس وقت آپ پر تصرف ہے ، جو ایک خاص

Page 34

حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ ,, 31 روحانی سلسلہ ہے، بالکل ایک نوزائیدہ بچے کا چہرہ مبارک معصوم نظر آرہا تھا ، اس کیفیت کے بعد آپ علیہ السلام نے آنکھیں کھولیں اور کاغذ پر لکھا اور مجھے کہا جاؤ اپنے نانا جان کو بُلا لاؤ اور اپنی اماں کو بھی " ( قریب تھے میں بھاگ کر بلا لائی ) آپ علیہ السلام نے خاموشی سے وہ کاغذ نانا جان کی جانب بڑھا دیا ، انہوں نے بلند آواز سے پڑھا وہ یہ الہام تھا.ز بر دست نشانوں کے ساتھ ترقی ہوگی یہ خاص الہام دن کا، میں نے پوری الہامی کیفیت کے ساتھ دیکھا.(18) حضرت اماں جان کی بے حد قدر و قیمت آپ علیہ السلام کی نظر میں تھی اور بہت زیاد و دلداری ، بہت خیال حضرت اماں جان کا رکھتے تھے.اس کا نقش میرے دل پر اب تک ہے.مگر ایک بار میں نے دیکھا کہ جب آپ علیہ السلام نے ضروری سمجھا تو حضرت اماں جان کی بھی تربیت فرمائی.ایک واقعہ عرض ہے بس یہی ایک بات دیکھی اور کبھی نہیں اور خود حضرت اماں جان بھی تو ایک احسن نمونہ تھیں ، ضرورت بھی پیش نہیں آئی کبھی بھی ، صاف نظارہ یاد ہے، نیچے کے کمرے کے سامنے کے سہہ درہ

Page 35

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 32 میں نانی اماں بیٹھی تھیں، کسی خادمہ نے اُن کا کہنا نہ مانا اور کوئی ایسی بات کہہ دی، جس سے غلط فہمی پیدا ہو کر نانی اماں حضرت اماں جان سے ناراض ہو گئی تھیں ، اس وقت مجھے یاد ہے کہ حضرت نانی اماں غصہ میں کہہ رہی تھیں کہ لڑکی ! حضرت اماں جان کو نانی اماں لڑکی کہہ کر مخاطب کرتی تھیں) آخر میری بیٹی ہی تو ہے.ہاں ! میرے حضرت میرے سر کا تاج ہیں بے شک..66 اتنے میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت اماں جان کو اپنے آگے آگے لئے چلے آرہے ہیں اس طرح کہ دونوں شانوں پر آپ کے دست مبارک ہیں اور حضرت اماں جان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں بہہ رہی ہیں.آپ علیہ السلام خاموشی سے اسی طرح حضرت اماں جان کو لے کر آگے بڑھے اسی طرح حضرت اماں جان کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے نانی اماں کے قدموں پر آپ کا سر جھکا دیا.پھر نانی اماں نے حضرت اماں جان کو اپنے ہاتھوں پر سنبھال لیا شاید گلے بھی لگایا تھا اور آپ علیہ السلام واپس تشریف لے گئے.وہ شاہ دین اپنی خدا تعالی کی جانب سے خدیجہ لقب پائے ہوئے بیوی اماں جان کو جس کی ہر وقت خاطر آپ کو مطلوب تھی اور جس کی عزت

Page 36

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 33 بہت زیادہ آپ کے دل میں تھی اس کی والدہ کی معمولی ناراضگی سُن کر برداشت نہ فرما سکا اور خو د لا کر اس کی ماں کے قدموں میں جھکا دیا گویا یہ سمجھایا کہ تمہارا رتبہ بڑا ہے مگر یہ ماں ہے تمہارے لئے بھی اس کے قدموں تلے جنت ہے.(19) اپنی اولاد کی طرح اپنی بہوؤں سے بھی آپ بہت شفقت بھرا سلوک فرماتے.ایک دفعہ حضرت بڑے بھائی حضرت مصلح موعود کی نسبت کسی گھر کے خیالات سن کر عورتوں میں مشہور ہو گیا کہ شاید جو وہ لوگ چاہتے ہیں اور رشتہ اس خاص لڑکی سے ہو ہی جائے.بڑی بھا بھی جان مغموم ہو گئیں کسی سے سن کر اور شاید رو پڑی تھیں کسی نے ذکر کیا تھا.میں نے سنا مغرب کا وقت آپ علیہ السلام وضو کو اُٹھے بھا بھی جان نے لوٹا آپ کے ہاتھ سے پکڑ لیا اور پانی ڈالنے لگیں ، میں پاس کھڑی تھی ، آپ نے کہا:.فکر نہ کر محموده ! میری زندگی میں تم پر سوکن نہیں آسکتی.“ یہ آپ کے الفاظ تھے کیسے پورے ہوئے (الہی منشاء پورا ہونا تھا وہ ہو کر رہا مگر آپ کے بعد منجھلی بھا بھی جان مرحومہ بیاہی آئیں.وہ ذرا شوخ تھیں.مائی تابی ، جس کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت خاطر منظور

Page 37

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 34 == تھی ، بیمار رہتیں.برابر دوا دیتے اور بادام کا شیرہ ملتا تھا وہ نیچے بیٹھی تھی جھلی بھا بھی جان نے سردو کی پھاٹک کھا کر اوپر سے نیچے پھینک دی، اتفاق سے مائی تابی باہر نکل رہی تھیں ان کے سر پر لگی.غصہ والی بہت تھیں.فورا جھلی بھا بھی جان کو سر اٹھا کر گھورا اور کہا ایویں جائیں.یا اچھی جائیں ، تھے ٹھیک یاد نہیں.یہی الفاظ تھے پنجابی کے جو شاید قدرت اللہ جان مرحوم کی بیوی نے آپ کو بتائے.آپ علیہ اسلام کو بہت دکھ پہنچا.مائی تابی کو کچھ نہ کہا بلا کر اسی وقت اتنا کہا ، یہ مائی تابی کو نہیں کہتا چاہیئے تھا اس نے سرور سلطان کو بد دعا نہیں دی یہ بد دعا گویا اس نے میری نسل کو دی.مجھے اس بات سے سخت تکلیف پہنچی ہے.دعا بھی ضرور فرمائی ہو گی.آپ علیہ السلام کے ان الفاظ کا نتیجہ ظاہر ہے کہ بفضلہ تعالیٰ انہیں کے بطن کی اولادوں سے حضرت منجھلے بھائی جان صاحب کی نسل چل رہی ہے.(20) آہ! وہ بے حد پیاری شفیق ہستی مجھے خواب آیا کہ میں نیچے کے صحن میں پھر رہی ہوں.گول کمرہ کے دروازے سے مولوی عبد الکریم صاحب نکلے اور کہا بی بی! ابا سے جا کر کہہ دور سول علیہ تشریف لے آئے ہیں اور تمام صحابہ کرام آپ کے منتظر

Page 38

حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ 35 ہیں آپ کو بلا رہے ہیں آپ آجائیں.میں نے جھلک مجلس کی گول کمرے میں دیکھی ، مگر خاص چہرہ مبارک کو پہچانا نہیں ، او پر جا کر میں نے اس دروازے سے جو اُمم ناصر کے صحن میں حضرت اماں جان کے کمرے کی جانب کھلتا تھا جا کر آپ کو پیغام دیا کہ حضرت رسول کریم میں ہے اور صحابہ تشریف لائے ہیں آپ کو بلوایا ہے ، آپ علیہ السلام تیز تیز قلم سے کچھ مضمون لکھ رہے تھے نظر اٹھائی اور کہا جاؤ کہہ دو کہ بس یہ مضمون ختم ہوا اور میں آیا.لاہور میں جس شب آپ علیہ السلا علیل ہوئے اور صبح وصال ہوا شام کو قریب مغرب اسی طرح آپ علیہ السلام بستر پر بیٹھے ہوئے بہت تیزی سے جلد جلد لکھ رہے تھے.چہرہ مبارک سرخ تھا.قلم رواں تھا میں نے آپ علیہ السلام کا چہرہ اور اسی طرح بستر پر بیٹھے لکھتے دیکھا تو مجھے وہ خواب یاد آیا اور میں نے سوچا یہ تو وہی انداز لکھنے کا اور وہی سب کچھ ہے جو میں نے خواب میں دیکھا تھا.میں سامنے آپ علیہ السلام کے ایک تخت پوش بچھا تھا اس پر بیٹھی تھی.ایسا کچھ دل پر اثر ہوا کہ میں گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی.(21) جب لاہور کا سفر قریب ہوا تو صدقہ وغیرہ بھی دیا گیا تھا.مجھے یاد ہے ہم رات کو بٹالہ مظہرے تھے ایک مکان میں صبح چلنا تھا.کھانا جماعت یا کسی ایک فرد کی جانب سے آنا تھا، بہت دیر ہو گئی.حضرت اماں جان کو

Page 39

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ سخت ضعف بھوک سے معلوم ہوا.36 حضرت اقدس علیہ السلام جب نماز سے فارغ ہو کر باہر آئے تو حضرت اماں جان نے کہا ” مجھے تو بہت سخت بھوک لگی ہے اتنی کہ آدمی مٹی بھی کھالے، کھانا ابھی تک نہیں آیا.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت بڑے بھائی صاحب خلیفہ امسیح الثانی سے کہا کہ ” میاں محمود تم جا کر کسی دکان سے جو ملے لے آؤ تمہاری والدہ کو بہت بھوک لگی ہے.وہ گئے تھے اور کچھ لائے تھے ، ساتھ ہی کھانا آ گیا تھا.اندر بھی سب نے کچھ نہ کچھ کھایا اور سب ساتھ والوں کو با ہر تقسیم کیا گیا.لاہور پہنچے ، حضرت خلیفة المسیح الاوّل مع اہل وعیال همراه تھے اور پیر منظور محمد صاحب بھی تھے.اسی مکان کے ملحقہ حصوں میں ان سب کو ٹھہرایا گیا تھا.نیچے ایک بڑے کمرے میں جماعت ہوتی ، ملاقاتیں ہوتی تھیں، ہر وقت کی مصروفیت تھی.آپ شام کو ضرور تھوڑی دیر کے لئے لینڈ روور میں سیر کو تشریف لے جاتے.(22) ایک روز حضرت اماں جان نیچے خواجہ صاحب کے صحن میں تھیں، میں بھی تھی ، حضرت اماں جان نے کسی کپڑے والے کو بلوایا تھا اور میرے جیز کے لئے کچھ کپڑا خرید رہی تھیں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام میرے نزدیک آئے اور کہا ”تمہاری اماں تمہارے لئے ریشم وغیرہ لے

Page 40

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 37 رہی ہیں.ہمیں تو بنارسی کپڑا پسند ہے یہ تھان بنارسی جو رکھے ہیں جس پر تم ہاتھ رکھ دو وہ اپنے پاس سے خود تم کو لے دوں گا.“ مجھے باتوں سے پتہ تو لگ گیا تھا کہ میری شادی کے لئے حضرت اماں جان کپڑے پسند کر رہی ہیں ، اتنی شرم آئی کہ بول ہی نہ سکی آج تک پچھتاتی ہوں وہ تو خاص تبرک اور تحفہ ہوتا ، آپ علیہ السلام کی پسند دیکھ کر حضرت اماں جان نے بنارسی بھی لیا ہو گا مگر وہ خاص آپ علیہ السلام کا کہنا اور الگ لینا وہ بات کہاں.آپ علیہ اسلام کی وفات سے دو چار ہی دن پہلے کسی صاحب نے موٹر لا کر کھڑی کی کہ اس پر نئی سواری ہے آپ سیر فرما ئیں.آپ علیہ السلام نہیں گئے ہم لوگوں یعنی بچوں کو اور بھا بھی جان وغیرہ کو بھجوا دیا تھا.اس جدائی کی شب آپ علیہ السلام نے عشاء یا غالباً عشاء مغرب جمع تھی گھر میں ہی با جماعت ادا کی تھی ، وہ آخری نماز تھی جو میں نے آپ علیہ السلام کے پیچھے آپ علیہ السلام کے قریب پڑھی میں پہلے بھی بیان کر چکی ہوں کہ میرا پلنگ آپ علیہ السلام کے قریب ہوتا تھا کمرے میں اتنا قریب کہ صرف گزرنے کو جگہ ہوتی ، لاہور میں صحن میں بھی اُسی طرح قریب تھا.میری آنکھ کھلی ، آپ علیہ اسلام کور رفع حاجت کے لئے جاتے دیکھا.آپ آ کر لیٹ گئے پھر آنکھ کھلی تو حضرت اماں جان کی سخت کرب میں

Page 41

حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ 38 دعا ئیں اور یا حی یا قیوم کی آواز سے کھلی.ابھی آپ علیہ السلام باہر ہی تھے پھر تو ایک قیامت کا سماں لگتا تھا.مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کروں.آپ علیہ اسلام کو اندر لے آئے.بستر پر آپ لیٹے تھے ارد گرد ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب وغیرہ سب احمدی ، حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل بھی سر جھکائے کھڑے تھے.اپنی جانب سے تدبیریں ہو رہی تھیں مگر ضعف بڑھتا جا رہا تھا.حضرت اماں جان نے اس گھبراہٹ میں نور محمد ملا زم کو دوڑا کر میرے میاں نواب صاحب مرحوم ( میرا نکاح تو ہو چکا تھا رخصتانہ آپ علیہ السلام کے بعد ہوا) کو بھی بلوالیا تھا.اس وقت کوئی ہوش نہ تھا.میں سر پر چادر لے کر کبھی اندر جاتی ، دیکھتی ، کبھی ماہر آتی.حضرت بڑے بھائی صاحب بھی کسی کو بلانے یا کسی کام کو گئے ہوئے تھے.جلدی ہی پہنچ گئے مگر ضعف بڑھ رہا تھا.اب آپ علیہ اسلام بول بھی نہ سکتے تھے کچھ لکھنا چاہا تھا لہا مگر کھانہ گیا تھا.لکھا گیا حضرت بڑے بھائی صاحب خلیفہ اسیح الثانی رو رو کر دعائیں کر رہے تھے اور حضرت اماں جان بھی.میں نے حضرت بھائی صاحب کو یہ کہتے سنا اس کرب میں کہ:.میں دنیا سے چلا جاؤں مگر یہ مفید وجود رہ جائے.“ آخر لوگوں کی گردنیں جھک گئیں.سب رونے لگے حضرت خلیفہ اول کی تو

Page 42

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 39 گویا کمر ٹوٹ گئی تھی ، باہر آ کر چار پائی پر جھک کر بیٹھ گئے.چہرہ سے ظاہر تھا کہ جیسے اس غمگین شخص کا سب کچھ لٹ گیا ہو.میں بھاگ کر اندر چلی حضرت بڑے بھائی میرے بہت پیارے بھائی نے میری گردن میں ہاتھ ڈال کر میرا سر جھکایا کہ آپ علیہ السلام کو خدا نے بلا لیا.اب پیشانی پر بوسہ دو، میں نے بوسہ دیا ور نہ جھجکتی رہ جاتی.پیارے بھائی کا یہ بھی مجھ پر بڑا احسان ہوا.پھر جس جوش سے انہوں نے آپ علیہ السلام کے بستر کے پاس پائنتی کھڑے ہو کر دعا ئیں اور عہد کئے ہیں وہ ہمیشہ نقش رہیں گے جن کو میں نے نظم کیا ہے چند الفاظ میں صرف.میں کروں گا عمر بھر تکمیل تیرے کام کی میں تیری تبلیغ پھیلا ؤں گا بر روئے زمیں وہ درد میں ڈوبی آواز وہ عزم وشاندار لہجہ یہ معلوم ہوتا تھا کہ یکدم اللہ کی تقدیر وارد ہو جانے کے بعد غم کو ضبط کر رہے تھے اور خدمت دین اور احمدیت کی تبلیغ وغیر ہ سب ذمہ داریاں اپنے ذمہ لینے کا عہد کر لیا.ایسے بھی الفاظ بولے تھے کہ وو کوئی ساتھ نہ دے ، میں اکیلا ہوں ، جب بھی 66 تیرے ہی کام میں زندگی گزار دوں گا.وغیرہ.حضرت اماں جان اسی پلنگ پر بیٹھی رہی تھیں جب تک غسل وغیرہ کی

Page 43

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ تیاری کی وجہ سے اٹھنا نہ پڑا.40 ایک بات حضرت اماں جان کی تو حضرت منجھلے بھائی صاحب لکھ چکے ہیں آپ نے فرمایا تھا اس دعاؤں کے وقت کہ 66 اے خدا! اس نے ہمیں چھوڑ دیا مگر تو کبھی ہم کو نہ چھوڑ.“ اور ایک بات اور جو میں نے سنی اور یاد رہی وہ یہ ہے کہ آپ کے جسدِ مبارک کے پاس بیٹھے ہوئے میں سامنے پٹی کے پاس زمین پر بیٹھی تھی بڑے درد سے بڑے جوش سے آپ نے فرمایا تھا کہ :."میرے بچو یہ نہ سمجھنا بھی کہ ہمارے باپ نے ہمارے لئے کچھ نہیں چھوڑا.وہ تمہارے لئے بہت بڑا خزانہ دعاؤں کا آسمان پر چھوڑ گیا 66 ہے جو ہمیشہ وقتاً فوقتاً تم کو ملتا رہے گا.“ یہ ٹھیک الفاظ حضرت اماں جان کے ہیں جو مجھے یادر ہے بالکل ٹھیک.پھر تیاری ، سامان کا باندھنا، چلنا، قافلہ سالار راہ میں چھوڑ کر اپنے سب سے پیارے کے پاس جا چکا تھا.اس کے یتیم ، اس کی مقدس و مبارک بیوی.اس کی عاشق جماعت سب بے سہارے بے سروسامانوں کی طرح ششدر و حیران تھے.مگر دل کو اس کی باتیں ، اس کی دعا ئیں ، اس کی تسلیاں یاد آکر اس کی اللہ تعالیٰ سے خاص محبت جو دلوں میں بٹھا گیا تھا ، جو ایمان وہ سکھا گیا تھا، تسکین بخشتی تھیں، کہ اس کا بچے وعدوں والا خدا

Page 44

حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ 41 ہمارے ساتھ ہے.غم جدائی کے سوا اور ہمیں کسی قسم کا غم و فکر پاس نہیں آنے دینا چاہیے.واقعی یہی کیفیت تھی اور خصوصاً حضرت اماں جان کی رات بھر تڑپ نے اب صا برانہ دعاؤں کی طرف رخ بدل لیا تھا.اسباب رکھتے وقت حضرت اماں جان نے فرمایا.( میں پاس کھڑی تھی آپ ٹرنک بند کر رہی تھیں) کہتے تھے کہ ” تین امتحان ہوں گے تمہارے.دو تو ہو چکے (مبارک احمد کی وفات اور حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کا وصال) اب تیسرا باقی ہے.یہ لفظ سن کر مجھے ہمیشہ و ہم رہتا کہ اس وقت چھوٹے بھائی صاحب کے کپڑے رکھ رہی تھیں خدا کرے ان کا غم نہ پہنچے.مگر آخر وہ وقت آیا.ہجرت قادیان سے ہونا اور حضرت اماں جان کو یہ صدمہ بہت سخت پہنچنا اور مجھے سب یاد آ گیا اور یقین ہوا کہ وہ تیسرا امتحان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فرمودہ یہی تھا.ہم سب نہ معلوم کس وقت بٹالہ پہنچے، غرض رات اسٹیشن پر گزری تھی، پوری رات یا رات کا بڑا حصہ ، حضرت اماں جان نے مجھے سینہ سے لگا کر لٹایا ہوا تھا، صبح ہوئی اور قافلہ اپنی سب سے قیمتی متاع کو اٹھائے عازمِ قادیان ہوا، اس وقت آپ کو چار پائی پر لٹایا گیا تھا، بکس میں نہیں تھے، جہاں تک میں نے دیکھا مجھے بھی یاد ہے برف کا پانی ٹپکتا جاتا اور عاشق آپ علیہ السلام کے اس پانی کو ہاتھوں پر لے کر اپنے سر آنکھوں سے ملتے

Page 45

حضرت نواب مبارکه بیگم صاحبہ 42 جاتے تھے.باغ میں پہنچے ہم لوگ مکان کے اندر گئے.جنازہ سامنے ایک بڑا چبوتر ا تھا اس پر یا اس کے قریب رکھا گیا تھا.بہر حال وہی جانب تھی بعد میں شاید کہیں پرے لے گئے ہوں گے نماز کے لئے.پھر وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا کہ خواجہ صاحب کا پیغام آیا.حضرت بڑے بھائی صاحب اندر تشریف لائے اور حضرت اماں جان سے کہا کہ دفن سے پہلے خلیفہ منتخب ہونا ضروری ہے.سب کی رائے حضرت مولوی صاحب کے لئے ہے.خواجہ صاحب نے مجھے بھیجا ہے کہ حضرت اماں جان نے فرمایا :.بہت بہتر ہے ان کا ہی خلیفہ ہونا ، یہی مناسب ہے“ غرض خلافت اوّل کا انتخاب ہوا، بیعت سب ہوا، بیعت سب نے کی.حضرت مسیح موعود علی السلام اکثر دعا کو کہتے یہ نہیں کہ میں کوئی بڑی اور بزرگ تھی ، آپ کا مطلب دعا ئیں سکھانا اور دعا کی اہمیت دلوں میں بٹھا دینا تھا، آپ نے مجھے کہا کہ ایک خاص بات ہے دعا کرو، رات کو دو نفل پڑھو، دعا کرو کہ جو معاملہ میرے دل میں ہے اس کے متعلق تم کو کچھ اشارہ ہو جائے.میں نے دعا کی اور اسی شب خواب دیکھا.آپ علیہ السلام کو سنایا پہلے لکھ چکی ہوں کہ حضرت خلیفہ اول مستانہ وار چھت پر بیٹھے ہیں ہاتھ

Page 46

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 43 میں ایک کتاب ہے کہتے ہیں اس میں وہ الہام ہیں جو میرے متعلق ہیں اور سر اٹھا کر مجھے دیکھا اور کہا ”میں ابو بکر ہوں.( خواب چھپ چکا ہے ) آپ علیہ السلام نے مجھے صبح پوچھا.آپ علیہ السلام ٹہل رہے تھے.میں نے کہا میں نے تو مولوی صاحب کو اس طرح دیکھا ہے اُنہوں نے کہا کہ ” میں ابو بکر ہوں آپ نے ایسے الفاظ فرمائے کہ جیسے جو دعا کی تھی اسی کا جواب ہے.آپ مطمئن ہو گئے تھے.(23) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہمراہ چند سفر جو میں نے کئے ان کی یاد کا اکثر حصہ اور تاثرات میرے دماغ میں محفوظ ہیں.(24) میری یاد میں پہلا سفر جو بہت اچھی طرح یاد ہے گورداسپور کا تھا.مقدمہ کرم دین کے سلسلہ میں آپ علیہ السلام بار بار گورداسپور جاتے تھے ،حضرت اماں جان کی زچگی ہونے والی تھی یا شاید ہو چکی تھی.ہمشیر وامتہ الحفیظ بیگم کی پیدائش کا ذکر ہے.آپ علیہ السلام گئے ہوتے تو حضرت اماں جان بہت اُداس ہوتی تھیں.میں نے آپ علیہ السلام کی جدائی میں ان کو اکثر چپکے چپکے آنسو بہاتے اور کوئی شعر پڑھتے سنا ہے.مگر آپ علیہ السلام جب تشریف لاتے تو ہشاش بشاش ہوتے.مقدمہ کا کوئی فکر آپ علیہ اسلام پر نہیں معلوم ہوتا تھا نہ تھا ہی.

Page 47

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 44 پھر آپ علیہ اسلام ہم کو لے گئے گورداسپور میں ایک کافی وسیع مکان لیا گیا تھا دو منزلہ ، اس میں سب کا قیام تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود او پر کی منزل پر ہی رہتے تھے اور لوگوں کو تو مقدمہ لمبا ہونے وغیرہ کا فکر ہوگا ہی مگر مجھے خوب یاد ہے کہ کبھی آپ علیہ السلام کو متفکر نہیں دیکھا.آپ علیہ السلام کا چہرہ اسی طرح پر نور اور شاداب رہتا تھا.ہاں قادیان کو ضرور یاد کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اب جلد قادیان جانے کو دل چاہتا ہے.میں آپ علیہ السلام کے گھر میں ہوتے وقت اکثر آپ کے قریب رہی ہوں.ایک دن آپ علیہ السلام شہل رہے تھے اور ساتھ حضرت اماں جان بھی.میں بھی ساتھ ہی پھرنے لگی.اس روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اودھ کے (معزول ) بادشاہ ( یا کسی اور لکھنوی شاعر ) نے لکھنو کے فراق میں یہ شعر کہا تھا.یا تو ہم پھرتے تھے ان میں یا ہوا یہ انقلاب پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے کو چہ ہائے لکھنو کوچہ مگر ہم تو قادیان کی یاد میں اب اس کو یوں پڑھتے ہیں کہ یا تو ہم پھرتے تھے ان میں یا ہوا یہ انقلاب پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے کو چہ ہائے قادیان مجھے اسی وقت سے یہ شعر یا درہا ہے.اس شعر کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی

Page 48

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 45 نے سفر انگلینڈ میں اپنی نظم ” فراق قادیان میں شامل فرمایا ہے.یادر ہے کہ یہ شعر واجد علی شاہ، شاہ اودھ یا کسی اور لکھنوی شاعر کا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قادیان کی یاد میں اس کو قادیاں لگا کر مگر اس کی اصل بنا کر پڑھا تھا، کوئی اعتراض کر دے بھی ، تو آپ لوگ یہ جواب اور یہ شہادت یا درکھیں.غرض کوئی اداسی کا ماحول گورداسپور میں ہمارے گھر میں نہ تھا، اسی طرح اوقات فرصت میں ہم لوگوں سے بات کرتے ، سیر کو بھجواتے.ایک چھوٹی سی بات لطیفہ ہی سمجھ لیں یا د آ گئی ہے وہ بھی سن لیں.ہمشیرہ امتہ الحفیظ کے لئے ایک کھلائی کا ، آپ علیہ السلام نے کسی احمدی بھائی کو لکھ کر انتظام کروایا تھا، پنڈی سے کسی بھائی نے ایک بہت صاف ستھری ہوشیار عورت کو بھجوادیا تھا، وہ بھی ساتھ تھیں بہت معتبرسی معلوم ہوتی تھیں ، وفا بیگم نام تھا، وعدہ لیا گیا تھا کہ بچی کو چھوڑ کر نہیں جانا ہوگا اور جب تک ہوشیار نہ ہو جائے اس کو پالنا ہوگا ، وفا بیگم نے بڑے وثوق سے عہد کئے تھے کہ ہر گز چھوڑ نہیں جاؤں گی وغیرہ.کام بھی اچھا کرتی تھیں ، مگر ایک روز صبح دیکھا گیا کہ وفا بیگم چپکے سے رات کو لڑکی کو چھوڑ کر غائب ہو گئیں جب یہ خبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اوپر پہنچائی گئی تو آپ نے فی البدیہ فرمایا :.

Page 49

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 46 46 عجب ہے رنگ دنیا کا وفانے بے وفائی کی بہت وعدے کئے اس نے پر آخر میں برائی کی آپ کا یہ شعر کہنا مجھے برابر یا د رہا ہے.(25) حضرت اماں جان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ تک بے شک ہمارے دلوں پر آپ علیہ السلام کی شفقت کا اثر والد و صاحبہ سے زیادہ تھا.مگر آپ علیہ السلام کے بعد آپ کو دنیا کی بہترین شفیق ماں پایا اور آج تک وہ شفقت و محبت روز افزوں ثابت ہورہی ہے.ہمیشہ آپ کی کوشش رہی ہے.خصوصاً لڑکیوں کے لئے کہ ان کے مہربان باپ کی کمی کو پورا فرماتی رہیں.یہ تڑپ اس لئے بھی رہی کہ دراصل آپ کو حضرت اقدس علیہ السلام کی ہم پر مہر و محبت و شفقت کا خوب اندازہ تھا اور آپ خود با وجودسب سے اچھی ماں ہونے کے آج تک ہمارے لئے ایک کمی ہی محسوس کئے جارہی ہیں ، اور مہر بانیوں سے آپ کا دل بھر نہیں چکتا.(26) میں اپنے لئے ہی دیکھتی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد ایک چشمہ ہے بے حد محبت کا ، جو حضرت اماں جان کے دل میں پھوٹ پڑا ہے، اور بار بار فرمایا کرتی تھیں کہ تمہارے ابا تمہاری ہر بات مان لیتے.اور میرے اعتراض کرنے پر فرمایا کرتے تھے کہ:.

Page 50

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 47 لڑکیاں تو چار دن کی مہمان ہیں ، یہ کیا یاد کرے گی ، یہ جو کہتی وہی کرو.غرض یہ محبت بھی دراصل حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی محبت تھی جو آپ کے دل میں موجزن تھی.اس کے بعد میری زندگی میں ایک دوسرا مرحلہ آیا یعنی میرے میاں مرحوم کی وفات.ان کے بعد ایک بار اور میں نے اس چشمہ محبت کو پورے زور سے پھوٹتے دیکھا.جیسے بارش برستے برستے یکدم ایک جھڑا کے سے گرنے لگتی ہے.اس وقت وہی با برکت ہستی تھی ، وہی رحمت و شفقت کا مجسمہ تھا، جو ابلا ہر اس دنیا میں خدا تعالی رفیق اعلی و رحیم و کریم ذات کے بعد میرا رفیق ثابت ہوا.جس کے پیار نے میرے زخم دل پر مرہم رکھا.جس نے مجھے بھلا دیا تھا کہ میں ایک بیوہ ہوں.بلکہ مجھے معلوم ہوتا تھا کہ میں کہیں جا کر پھر آغوش مادر میں واپس آگئی ہوں.اب کوئی ایسا نہیں جو میرے احساس کو سمجھے میرے دکھ کو اپنے دل پر بیتا ہوا محسوس کرے.(27) مجھے آپ کا کشتی کرنا کبھی یاد نہیں ، پھر بھی آپ کا ایک خاص رعب تھا.اور ہم بہ نسبت آپ کے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام سے دنیا کے عام قاعدہ کے خلاف بہت زیادہ بے تکلف تھے.اور مجھے یاد ہے کہ حضور اقدس علیہ السلام کے حضرت والدہ صاحبہ کی بے حد قد ر و محبت کرنے کی

Page 51

حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ 48 وجہ سے آپ کی قدر میرے دل میں بھی بڑھا کرتی تھی.آپ باوجود اس کے کہ انتہائی خاطر داری اور ناز برداری آپ کی حضرت اقدس علیہ السلام کو ملحوظ رہتی کبھی حضور علیہ اسلام کے مرتبہ کو نہ بھولتی تھیں.بے تکلفی میں بھی آپ علیہ السلام پر پختہ ایمان اور اس وجود مبارک کی پہچان آپ کے ہر انداز و کلام سے مترشح تھی جو مجھے آج تک خوب یاد ہے.آخر میں بار بار وفات کے متعلق الہامات ہوئے ، تو ان دنوں بہت ممکن رہتیں.ایک بار مجھے یاد ہے کہ حضرت والدہ صاحبہ نے حضرت اقدس علیہ السلام سے کہا.(ایک دن تنہائی میں الگ نماز پڑھنے سے پہلے نیت باندھنے سے پیشتر کہ " میں ہمیشہ دعا کرتی ہوں کہ خدا مجھے آپ کا غم نہ دکھائے اور مجھے پہلے اٹھالے.‘ یہ سن کر حضرت علیہ السلام نے فرمایا :.اور میں ہمیشہ یہ دعا کرتا ہوں کہ تم میرے بعد زندہ رہو اور میں تم کو سلامت چھوڑ جاؤں.‘(28) اِن الفاظ پر غور کریں اور اُس محبت کا اندازہ کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ سے فرماتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد ایک بہت بڑی تبدیلی آپ میں واقع ہوئی.پھر میں نے آپ کو پر سکون، مطمئن، اور بالکل خاموش نہیں دیکھا.ایک بے قراری اور گھبراہٹ کی آپ کے مزاج میں باوجود انتہائی صبر اور ہم لوگوں کی

Page 52

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 49 دلداری کے خیال کے پیدا ہوگئی جو آج تک نہیں گئی ، یہ معلوم ہوتا ہے ، اس دن سے کہ آپ دنیا میں ہیں بھی ، مگر نہیں بھی ، اور ایک بے چینی سی ہر وقت لاحق ہے جیسے کسی کا کچھ کھو گیا ہو.صرف اس لئے نہیں کہ اماں جان غیر معمولی محبت کرنے والی ماں تھیں اور اس لئے نہیں کہ آج وہ اس دنیا میں نہیں ہیں تو محض ذکر خیر کے طور پر آپ کا تعریفی پہلو لکھا جائے.اور اس لئے بھی نہیں کہ مجھے ان سے بے حد محبت تھی اللہ تعالی بہتر جانتا ہے کہ کس طرح میں ان کی جدائی کو برداشت کر رہی ہوں) بلکہ حق اور محض حق ہے کہ حضرت اماں جان کو خدا تعالی نے بیچ بیچ اس قابل بنایا تھا.کہ وہ ان کو اپنے مامور کے لئے چن لے.اور اس وجود کو اپنی خاص نعمت قرار دے کر اپنے مرسل علیہ السلام کو عطا فرمائے.آپ نہایت درجہ صابرہ اور شاکر تھیں ، آپ کا قلب غیر معمولی طور پر صاف اور وسیع تھا کسی کے لئے خواہ اس سے کتنی تکلیف پہنچی ہو آپ کے دل پر میل نہ آتا تھا.کان میں پڑی ہوئی رنج دو بات کو اس صبر سے پی جاتی تھیں کہ حیرت ہوتی تھی.اور ایسا برتاؤ کرتی تھیں کہ کسی دوسرے کو کبھی کسی بات کے دہرانے کی جرات نہ ہوتی تھی.شکوہ، چغلی ، غیبت ، کسی بھی رنگ میں نہ بھی آپ نے کیا نہ اس کو پسند کیا.اپنے ملازموں پر انتہائی شفقت فرماتی تھیں.آپ نے کئی

Page 53

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 50 50 لڑکیوں اور لڑکوں کی پرورش کی.اور سب سے بہت ہی شفقت و محبت کا برتاؤ تھا، خود اپنے ہاتھ سے ان کا کام کیا کرتی تھیں اور کھلانے پلانے آرام کا خیال رکھنے کا تو کوئی ٹھکانہ نہ تھا.آپ اکثر سفر پر بھی جاتی تھیں اور بظاہر اپنے آپ کو بہت بہلائے رکھتی تھیں باغ وغیرہ یا باہر گاؤں میں پھرنے کو بھی عورتوں کو لے کر جانا یا گھر میں کچھ نہ کچھ کام کرواتے رہنا کھانا پکوانا اور اکثر غرباء میں تقسیم کرنا ( جو آپ کا بہت مرغوب کام تھا، لوگوں کا آنا جانا اپنی اولاد کی دلچسپیاں یہ سب تھا.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد پورا سکون آپ نے کبھی محسوس نہیں کیا.صاف معلوم ہوتا تھا کہ کوئی اپنا وقت کاٹ رہا ہے.ایک سفر بظاہر ایک صبر کی چٹان ہونے کے باوجود ایک قسم کی گھبراہٹ سی بھی تھی ، جو آپ پر طاری رہتی تھی مگر ہم لوگوں کے لئے تو گویا وہ ہر غم اپنے سینہ میں چھپا کر خود سینہ سپر ہوگئی تھیں.دل میں طوفان اس در دجدائی کے اٹھتے اور اس کو دبا لیتیں اور سب کی خوشی کے سامان کرتیں.مجھے ذاتی علم ہے کہ جب کوئی بچہ گھر میں پیدا ہوتا تو خوشی کے ساتھ ایک رنج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جدائی کا آپ کے دل میں تازہ ہو جاتا ، اور وہ آپ کو اس بچہ کی آمد پر یاد کر تیں.(29) بہت خشوع و خصوع سے بہت سنوار کر نمازیں ادا کرنے والی.

Page 54

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 51 بہت دعا ئیں کرنے والی کبھی میں نے آپ کو کسی حالت میں بھی جلدی جلدی نماز پڑھتے نہیں دیکھا.تہجد بلکہ اشراق بھی جب تک طاقت رہی ہمیشہ با قاعدہ ادا فرماتی رہیں.اکثر بلند آواز سے دعا بے اختیار اس طرح آپ کی زبان سے نکلتی ہو یا کسی کا دم گھٹ کر یکدم رکا ہوا سانس آپ کی دعاؤں میں سب آپ کی احمدی اولا د شریک ہوتی ہر چھوٹے بڑے کی خوشی اور تکلیف میں یہ دل شریک ہوتی تھیں، اکثر گھروں میں ملنے جاتیں.مجھے کئی واقعات یاد ہیں کہ کسی کے گھر بچہ پیدا ہوا ہے اور آپ برابر ان کی تکلیف کے وقت میں زچہ کے پاس ر ہیں.خاص چیز جو پکواتیں بہت کھلی اور ضر ورسب میں تقسیم کرتیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں چونکہ لوگ کم تھے تو سب کو گھروں سے بلوا کر اکثر ساتھ ہی کھلوایا کرتی تھیں خیرات کثرت سے فرماتی تھیں، غرباء کو کھانا کھلانا آپ کو بہت پسند تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پسند کی چیز تو ضرور کھلایا کرتی تھیں....ہاتھ کے کام کرنے میں ہرگز کبھی آپ کو عار نہ تھا.قادیان سے آتے وقت بھی برابر خود کوئی کام کرتی تھیں.باورچی خانہ جا کر خود کچھ پکا لینا ، چیز خود ہی جا کر بکسوں میں سے نکالنا کسی کو بہت کم کہتی تھیں.خود

Page 55

حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ ہی کام کرنے لگتی تھیں.(30) 52 62 مجھے جو شادی کے ایام میں چند نصائح کی تھیں وہ بھی تحریر کر دینا میرے خیال میں مفید ہوگا.فرمایا اپنے شوہر سے پوشیدہ ، یا وہ کام ، جس کو ان سے چھپانے کی ضرورت سمجھو، ہرگز کبھی نہ کرنا.شوہر نہ دیکھے مگر خداد یکھتا ہے ، اور بات آخر ظاہر ہوکر عورت کی وقعت کو کھو دیتی ہے.ہیں اگر کوئی کام ان کی مرضی کے خلاف سرزد ہو جائے تو ہرگز کبھی نہ چھپانا.صاف کہہ دینا کیونکہ اس میں عزت ہے اور چھپانے میں آخر بے عزتی اور بے وقری کا سامنا ہے.ہیں کبھی ان کے غصہ کے وقت نہ بولنا تم پر یا کسی نوکر یا بچہ پر خفا ہوں.اور تم کو علم ہو کہ اس وقت یہ حق پر نہیں ہیں، جب بھی اس وقت نہ بولنا.غصہ تم جانے پر پھر آہستگی سے حق بات اور ان کا غلطی پر ہونا ان کو سمجھا دینا ، غصہ میں مرد سے بحث کرنے والی عورت کی عزت باقی نہیں رہتی ، اگر غصہ میں کچھ سخت کہہ دیں تو کتنی ہتک کا موجب ہو.ان کے عزیزوں کی اولا د کو اپنا جاننا، کسی کی برائی تم نہ سوچنا، خواہ تم سے کوئی برائی کرے، تم دل میں بھی سب کا بھلا ہی چاہنا ، اور عمل سے بھی بدی کا بدلہ نہ کرنا ، دیکھنا پھر ہمیشہ خدا تمہارا بھلا ہی کرے گا.

Page 56

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 53 فرمایا:.میں نے ہمیشہ تمہارے سوتیلے بھائیوں کے لئے دعائیں کی ہیں اور ان کا بھلا ہی خدا سے چاہا ہے.کبھی اپنے دل میں ان کو غیر نہیں جانا خواہ حالات کے سبب وہ الگ رہے میرا دل ہمیشہ ان کا خیر خواہ رہا.(31) آپ بہترین ماں تھیں آپ کا پُر از محبت سینہ صافی نازک ترین مادرانہ جذبات کا حامل تھا، اتنا پیار اور اتنا خیال آخر ضعیفی کی عمر تک شاید ہی کسی ماں سے اولا د کو ملا ہوگا.اس کے علاوہ آپ کی محبت آپ کا ، ہر تکلیف ہر احساس کا خیال رکھنا، چھوٹی چھوٹی بات پر نظر رکھنا کہ اُن کو کوئی تکلیف تو نہیں ؟ چہرہ دیکھ کر محض افسردگی کو بھی پہچان لینا اور مضطرب ہو جانا.میں تو کبھی بھی نہیں بھولوں گی ، نہ ہی اُس نعمت کی کمی اس دنیا میں پوری ہو سکتی ہے.ایک بار لاہور میں ، میں نے ضروری اشیاء کی خرید سے واپسی پر ویسے ہی ذکر کر دیا کہ ایک قمیض کا ٹکڑا خاص میری پسند کا رنگ تھا ، مگر اس وقت بالکل گنجائش نہ تھی ، چھوڑ آئی ، صبر کر کے خاموش ہو گئیں.پھر 66 پوچھا کیسا تھا؟ کس دکان پر تھا؟ مگر بظاہر گویا بالکل سرسری سا سوال، دو پہر بھر چپ سی رہیں.تیسرے پہر کار منگوائی اور تھوڑی دیر بعد تشریف لائیں اور وہی کپڑا ایک قمیض کا میرے سامنے رکھ دیا اور کہا کہ

Page 57

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 54 لو بنواؤ اور پہنو، ساری دو پہر میرا جی بے چین رہا ، میرے دل میں جیسے کوئی چنکیاں لے رہا تھا کہ میری بچی اس وقت روپیہ کم ہونے کی وجہ سے اپنا دل مار کر آگئی ؟ میری بے بی ( آصفہ بیگم ) جب مجھ سے (میرے میاں مرحوم کے بعد خصوصاًلا ہور میں تازہ پارٹیشن کے زمانہ میں ) کچھ طلب کرتی یا خواہش کرتی تو اکثر اس کو فرماتیں." بے بی تو میری بچی کو نہ ستا یا کر جو تیرا دل چاہے مجھے کہہ، مجھے 66 سے مانگ، میں دوں گی.اُس کو کچھ نہ کہہ.“ ان ایام میں حالات کچھ ایسے ویسے ہی تھے ، میں نے کچھ ظاہر نہیں کیا تھا مگر خاموشی سے میرے پاس کچھ روپیہ رکھ جانا کہ لو تم کو ضروریات کی تکلیف نہ ہو تمہیں آج کل کہیں سے خرچ نہیں آرہا.حضرت سید نا بڑے بھائی صاحب حضرت خلیفتہ المسیح ثانی بچپن سے حضرت اماں جان سے بے حد مانوس تھے اور جوان بچوں والے ہو کر بھی چھوٹی چھوٹی بات جو شکایت ہو یا تکلیف ہوحضرت اماں جان کے پاس ہی ظاہر کرنا ، اور آپ کی محبت ، ہمدردی ، اور مشورہ سے تسکین پانا آپ کا ہمیشہ طریق رہا.ذراسی بات ہے مگر ماں کی محبت ظاہر کرتی ہے کہ ایک میٹھے تاروں کے گولے سے ہوتے ہیں.جن کو ”مائی بڑھی کا

Page 58

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 55 جھانا “ کہہ کر ہمارے پنجاب میں فروخت کرتے اور بچے شوق سے کھاتے ہیں کہیں بچپن میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو بھی پسند ہوگا.میں نے دیکھا کہ بچوں کے پاس دیکھ کر حضرت اماں جان نے فوراً منگوایا کہ میاں کو پسند ہے اُن کو دے کر آؤ.اسی طرح ہر وقت ہر کھانے پر خیال رہتا تھا کہ یہ ”میرے بشری حضرت منجھلے بھائی صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب) کی پسند ہے کوئی دے کر آئے اُن کو ابھی اور اہتمام سے بھی ان کی شوق کی چیز تیار کروا کر بھجواتی رہتی تھیں.(32) ذرا خاموش سا دیکھتیں تو پریشان ہو جاتی تھیں.اپریل 1952 ء میں وفات سے کوئی دو یا تین روز ہی پہلے کی بات ہے ضعف بے حد طاری ہو چکا تھا.ہم لوگ ( عورتیں ) خدمت میں اندر حاضر رہتے اور حضرت منجھلے بھائی صاحب اور دیگر مرد وافراد خاندان بر آمدے میں ہوتے ، حضرت منجھلے بھائی صاحب کو بیحد تڑپ تھی کہ کسی وقت حضرت اماں جان آنکھ کھولیں تو میں مل لوں.ایک دفعہ میں نے ہوشیار دیکھ کر اُن کو جلدی سے اندر یکا لیا، ہاتھ پکڑ کر بیٹھ گئے.طبیعت پوچھی حسب معمول " اچھی ہوں" کہا مگر جب وہ اٹھ کر چلے گئے تو مجھے آہستہ سے کہنے لگیں کہ " شریف کو چائے پلا دو.اُس کے سر میں درد نہ ہو جائے.یا تو اس ضعف کی حالت میں حضرت منجھلے بھائی صاحب کو چھوٹے بھائی

Page 59

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 66 56 صاحب (حضرت مرزا شریف احمد صاحب) سمجھا.یا اُن کے بھی دیکھنے کی خواہش ہوگی اور خیال کیا کہ وہ بھی باہر ہوں گے اور آگئے ہوں گے ، وہ لاہور تھے اور علیل تھے ، اُس وقت تک نہ پہنچ سکے تھے.آپ لوگ اس بے نظیر مادری محبت کا اندازہ کر لیں کہ گویا آخری دم ہیں اور شریف کے سر در داور اُن کی چائے کا فکر ہے.(33) بچوں کی تربیت کے متعلق آپ فرمایا کرتی تھیں کہ بڑے بچے کی تربیت پر بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے.اگر وہ ٹھیک راہ پر چلے گا تو آئندہ زیادہ محنت کی ضرورت نہیں ، چھوٹے خود ہی بڑے کے نقشِ قدم پر چلنے لگتے ہیں.بچوں پر اعتماد کر کے تربیت کرنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی طریق تھا اور حضرت اماں جان کا بھی ، مثلاً اگر کوئی بات ہمارے بچپن میں کسی کی ہوتی تو آپ بڑے وثوق سے کہتیں ” میرے بچے جھوٹ نہیں بولتے اور یہ بات ہمارے دلوں میں اتنی گڑ گئی تھی کہ مجھے بچپن کا اپنا تاثر یاد ہے کہ جھوٹ تو خیر ہم نے بولنا ہی نہ ہوا یہ بات ہمارے کرنے کی ہے ہی نہیں.نیز حضرت اماں جان فرمایا کرتی تھیں بچہ کو یونہی ہر وقت نہ کہو سُنو مگر جب کہو تو ضرور وہ بات کروا کر چھوڑو تا کہ فرمانبرداری کی عادت پڑے.لیکن ہر وقت تنگ نہ کرو.(34)

Page 60

حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ 57 میرے بڑے بھائی صاحب (حضرت خلیفہ السیح الثانی) ’ پھر باپ ہو جہان میں پیدا تو بھائی ہو“ خدا تعالیٰ کے فضل و احسان سے میرے بھائیوں کا ظاہر تو تھا ہی بہترین مگر باطن بھی پاکیزہ رہا.میری نظر نے تمام تعلقات، رشتہ، اور محبت کو الگ رکھتے ہوئے جب بھی غور کیا.ظاہر سے بھی بہتر ان کے دلوں کو پایا ، کوئی نفاق نہیں ، کوئی ریاء نہیں ، کوئی مکاری نہیں ، نہ کسی سے بغض وحسد، نہ دنیا کے معاملات کے لئے غصہ اور انتقام کا جذبہ، ہمیشہ صاف شفاف دل والے رہے.(35) بڑے بھائی کے مشاغل مطالعے پر زور تھا، مگر کوئی خاص وقت پڑھائی کا باہر صرف بھی نہیں کرتے تھے اور اندر بھی پڑھتے ضرور تھے مگر اتنا نہیں کہ دن رات جیسے لڑکے سرکھپاتے ہیں، ان کو تو اللہ تعالیٰ نے خود ہی اپنے فضل وکرم سے پڑھا دیا.اکثر آشوب چشم بھی ہو جاتا، کمزوری سے حرارت بھی ہو جاتی ، قومی بدن نہ تھا ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پڑھائی کے لئے کبھی نہیں کہا کہ محنت کرو وغیرہ، مگر ابتداء سے اپنی دینی کتب قرآن مجید حدیث اور دیگر مذاہب کی کتابیں اور اسکے علاوہ کہانی قضے بھی پڑھ لیتے تھے، چھوٹی چھوٹی

Page 61

حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ 58 انگریزی ابتدائی کتابیں اور الف لیلہ بھی ، مجھے بھی چھوٹی چھوٹی کہانیاں الف لیلہ کی بھی سنا دیتے تھے ، دیوانِ غالب وغیرہ اور آپ کے استاد (جن سے کچھ عرصہ اصلاح لی تھی شاعری کے سلسلہ میں ) جلال لکھنوی کے دیوان بھی آپ کے پاس تھے.میری ہوش میں بہت کم عمری سے میں نے بڑے بھائی کا کمرہ الگ دیکھا.جس میں کتا ہیں رکھی رہتی تھیں، میز پر ، میں بھی وہاں جا پہنچتی تھی.آپ گھر میں کھیلتے تھے ، اکثر وقت پا کر جو صحن خالی ہو اس میں گیند بلا وغیرہ ، اور اس کے علاوہ گھر کے باہر آپ کے مشاغل ہلیل سے نشانہ بازی کشتی چلانا، تیرنا وغیر ہ تھے.مٹی کے غلیلے بنانے میں ہم سب شریک ہو جاتے مگر گھر میں نہیں چلاتے تھے، یہ کام باہر ہوتا تھا، گھر میں تو کبھی نشان لگا کر خلیل چلا کر دیکھ لیا.اور اس سے ذرا بڑے ہوئے تو سواری سیکھی اور گھوڑ سواری کو بہت پسند کرتے تھے.آپ ہم بچوں سے بہت پیار کرنے والے بے حد خیال رکھنے والے تھے.مجھے تو خاص طور پر بہت محبت کی ، بہت ناز اٹھائے.کبھی خفا ہونا یاد میں نہیں.ایک بار لڑکیوں کے ساتھ میں کھیل رہی تھی.لڑکیوں نے کوئی کھیل تالی بجانے والا کھیلا میں بھی بجانے لگی تو مجھے کہا:.کھیلو انگر تم نہ بھی تالی بجانا، یہ لوگ بھجایا کریں.

Page 62

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 59 مبارک سے بھی بہت پیار کا سلوک تھا ایک خط میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے میاں کو لکھا کہ محمود اپنی والدہ سے بہت مانوس ہے اور مبارک سے بھی اب تک کھیلتا ہے ابھی بچہ ہے“ دوسرے بھائیوں سے بھی میں نے تختی کا سلوک یا جھگڑا کرتے نہیں دیکھا.منجھلے بھائی سے تو اکثر لمبی باتیں کرتے مگر ہر وقت اچھے موضوع پر، میرے بھائی اور ماموں مل کر باتیں کرتے تھے، کبھی فضول بات میں نے نہیں سنی ، کئی بار ہنس کر فرماتے تھے:.ے لڑکی وہ جولڑکیوں میں کھیلے نہ کہ لڑکوں میں ڈنڈ پیلے مجھ سے بچپن سے بے تکلف رہے، ہر بات مجھ سے کر لیتے اور میں ہر بات جو کھل کر بات ، یا حضرت مسیح موعود علیہ اسلام سے ہوتی تھی یا بڑے بھائی مصلح موعود سے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی جانتے تھے کہ ہم دونوں کا آپس میں زیادہ پیار اور بے تکلفی ہے.اور آپ نے بھی تین چار بار مجھے کہا کہ محمود کچھ چُپ چُپ ہے یہ کبھی اپنی حاجت نہیں ظاہر کرتا ، نہ مانگتا ہے تم پر چھو تو سہی کہ کیا چاہئیے ؟ میں نے پوچھا اور آپ نے بتا دیا.ایک بار بخاری کی سب جلدیں منگانے (پورا سیٹ) کے لئے کہا.ایک

Page 63

حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ 60 با رسول اخبار جاری کروانے کو، ایک دفعہ بھا بھی جان کو لاھور گئے ہوئے زیادہ دن ہو گئے تھے کہا:.میں ان کا لا ہور زیادہ رہنا پسند نہیں کرتا.بلوالیں (36) میں نے تو بڑے بھائی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مانند محبت کرنے والا پایا.ذرا بڑے ہو کر، یہ محبت ایک دوستی کا رنگ بھی اختیار کر گئی.خاندانی ہر بات مثلاً شادی بیاہ میں ضرور مشورہ لیتے ، دور ہوتی تو رجسٹر ڈ خط جاتے.میری شادی کے بعد اکثر ، قریباً روزانہ دار السلام کا پھیرا ہوتا تھا.ہمارے زیادہ باہر رہنے کے ایام میں کوٹلہ بھی آتے اور شملہ بھی.سفر کو کہیں جا رہے ہوتے تو ضرور سخت تاکید سے مجھے بلاتے کہ تم میرے ساتھ چلو.ایک دفعہ تو اتنی سخت تاکید میں آئیں ، پہ در پہ، مجھے شملہ چھوڑ کر شملہ سے قادیان جانا پڑا اور آپ کے ساتھ منالی وغیرہ کا سفر کیا مجھے یاد نہیں کہ کبھی کہیں جانے کی صلاح ہورہی ہو اور مجھے یہ اصرار نہ کیا ہو کہ چلو مجبوری کے سبب میں نہ جاسکتی یہ اور بات تھی، پھر بھی کئی سفر آپ کے ساتھ کئے.(37) ایک دفعہ میں گاڑی میں حضرت اماں جان اور آپ سے مل کر دار السلام جا رہی تھی اُدھر کا راستہ رکا ہوا تھا میں نے کو چوان سے کہا کہ

Page 64

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 61 دوسری طرف سے ( جدھر جمعداروں کے گھر تھے اور بٹالے سے آتے ہوئے قادیان میں داخلہ ادھر سے ہوتا تھا گاڑی نکال لو.ایک صاحب تھے ان کی دکان تھی انہوں نے کہا یہاں سے گاڑی نہیں گزرنے دوں گا.نا معلوم کیوں غصہ میں بھرے بیٹھے تھے.میں نے گاڑی پھر والی اور اوپر جا کر دیکھا تو ابھی حضرت اماں جان کے پاس آپ بیٹھے ہوئے تھے میں نے کہا کہ میری گاڑی ان صاحب (نام نہیں لکھتی ) نے گزرنے نہیں دی اُسی وقت کھڑے ہو گئے غصے سے آنکھیں سرخ ہو گئیں کہنے لگئے ”کون روکنے والا ہے تمہاری گاڑی.“ مجھے ساتھ لے گئے اور وہاں سے گاڑی گز روادی.(38) حضرت اماں جان سے بچپن سے بہت مانوس تھے اور آپ کی عزت اور محبت ہر وقت آپ کے آرام کا خیال حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے وصال کے بعد بہت بڑھ گیا تھا.ایک بار حضرت اماں جان بیمار ہوئیں تو مجھے الگ لے جا کر کہا کہ میں بھی دعا کرتا ہوں اور تم بھی کرو اور کرتی رہو کہ اب حضرت اماں جان کو ہم میں سے خدا تعالیٰ کسی کا غم نہ دکھائے.(39) حضرت اماں جان کے دہلی والے عزیزوں کا بھی خاص خیال رکھتے اور بہت ان کی خاطر داری فرماتے ، جب دہلی جاتے بُلا بلا کر ملتے

Page 65

حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ 29 62 تھے.حیدر آباد دکن میں حضرت اماں جان کے ننھیالی عزیزوں کی دعوتوں میں ہی صرف ہوا تھا، فرمایا حضرت اماں جان کے عزیز ہیں ان کا حق ہے.اس وقت پھر پارٹیشن کے بعد جو عزیز آتے رہے سب کی ہر طرح امداد کر تے رہے.(40) بہن بھائیوں کی دلداری تو کرتے ہی تھے بہن بھائیوں کی اولاد سے بہت پیار اور محبت کا ہمیشہ سلوک کیا.منجھلے بھائی کی بڑی لڑکی سے (امتہ السلام ) بہت پیار کرتے.بہت ہی ان سے لاڈ پیار کا سلوک رکھا.اب تک سلام کی تکلیف کا سن کر برداشت نہیں کر سکتے تھے.کسی نے افواہ سنائی کہ مرزا رشید احمد اور شادی کرنا چاہتے ہیں سخت غصہ آیا کہنے لگے ” مجھے رات بھر نیند نہیں آسکی رشید سے کہہ دو کہ سلام بے وارث نہیں ہیں ابھی میں زندہ ہوں.اس کے باپ بھائی سب خدا کے فضل سے سلامت ہیں، یہ شادی میں نے اپنے بڑے بھائی ( حضرت مرزا سلطان احمد صاحب) کے اصرار پر ان کی خاطر کی تھی.میاں بشیر کا تو دخل بھی نہ تھا.میں سلام کو تکلیف نہیں پہنچنے دوں گا.“ وغیرہ.(41) منصورہ بیگم میری لڑکی سے بھی بچپن میں بہت محبت کی.بہت شفقت فرماتے تھے ، منصورہ غالباً تیسرے بچے کی پیدائش کے بعد بہت

Page 66

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 63 بیمار ہو گئی تھیں.1941ء 42 ء میں نے ان کو بغرض علاج دہلی بھیجا اور تمام خرچ اٹھایا.علاج تو لمبا چلا منصورہ بیگم کو بہت احساس تھا کہ ماموں جان پر بہت بوجھ میری وجہ سے پڑ رہا ہے انہوں نے لکھا کہ آپ پر اتنا خرچ میری وجہ سے پڑ رہا ہے.مجھے بہت شرم آتی ہے تو ان کو لکھا تھا کہ تمہاری جان سے زیادہ عزیز مجھے روپیہ نہیں ہے، تم ہزاروں کا کھتی ہو، اگر ایک لاکھ بھی علاج پر خرچ ہو جائے ، تمہاری صحت کی خاطر ، تو مجھے پرواہ نہیں.(42) ایک شفیق مگر دور اندیش باپ تھے لڑکوں پر کڑی نظر رکھتے (لڑکیوں پر بظاہر زیاد و نرمی ) قدر تا لڑکوں کے اپنی آرزو کے مطابق خادم دین بننے اور خدمت اسلام کے لئے کمر بستہ سپاہی بنا دینے کی آپ کو دلی خواہش تھی.کسی لڑکے کے کام کی تعریف کسی سے بھی سنتے تو خوش ہو جاتے.جب عزیزی ناصر احمد خلیفہ اسیح الثالث کو 1953ء میں قید کیا گیا ہم رتن باغ میں تھے.میں دیکھ رہی تھی عزیزی ناصر احمد کوٹھی کے رُخ بیٹھے تھے ان کا چہرہ صاف نظر آ رہا تھا.ایک عجیب شان ایک عجیب نور ایک خاص وقار چہرہ پر برس رہا تھا، یہ نہیں معلوم ہوتا تھا کہ یہ ناصر احمد ہی ہیں.اس وقت بجائے قیدی ہونے کے معلوم ہوتا تھا کہ ایک فاتح بادشاہ فتح کے بعد بڑی شان سے رواں ہے.وہ چہرہ وہ نقشہ وہ خاص نور وہ شان دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا تھا کہ یہ محض قلبی اثر نہیں (یعنی خوشی سے ہر

Page 67

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 64 قربانی کے لئے تیار ہونے اور قلب اور صبر و استقلال کا ہی اثر نہیں.یہ صرف اس وقت تو ایک خاص بات ظاہر ہو رہی ہے ) اس میں خدا تعالیٰ کا تصرف شامل ہے.میں نے اس کا ذکر بعد میں کیا ، کہ اس وقت ناصر احمد پر ایک عجیب خاص نور ایک خاص شان تھی.حیرت ہو رہی تھی کہ یہ اتنی دیر میں بدلی ہوئی ہستی نظر آرہی ہے تو آپ اتنا خوش ہوئے کہ بے اختیار کہا اچھا اور خوشی سے آپ کا پُر نور چہرہ چھپکنے لگا تھا.(43) ایک واقعہ یاد آ گیا.عزیزی ناصر احمد کو پہلے قرآن مجید حفظ کرایا گیا تھا.دوسری تعلیم برائے نام ساتھ ساتھ چلتی تھی.ایک دن حضرت اماں جان کے پاس محمد احمد ، منصور احمد اور ناصر احمد متینوں بیٹھے تھے، میں بھی تھی.بچوں نے بات کی شاید حساب یا انگریزی ناصر احمد کو نہیں آتا، ہمیں زیادہ آتا ہے،اتنے میں حضرت بھائی صاحب (حضرت مصلح موعود علیہ السلام ) تشریف لائے.حضرت اماں جان نے فرمایا کہ میاں قرآن شریف تو ضرور حفظ کرواؤ مگر دوسری پڑھائی کا بھی انتظام ساتھ ساتھ ہو جائے کہیں ناصر دوسرے بچوں سے پیچھے نہ رہ جائے ، مجھے یہ فکر ہے.اس پر جس طرح آپ مسکرائے تھے اور جو جواب آپ نے حضرت اماں جان کو دیا تھا.وہ آج تک میرے کانوں میں گونجتا ہے.فرمایا:.وو

Page 68

حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ 65 اماں جان آپ اس کا فکر بالکل نہ کریں.ایک دن یہ سب سے آگے ہوگا.انشاء اللہ تعالیٰ.اب سوچتی ہوں کہ کیسی ان کے منہ کی بات خدا تعالیٰ نے پوری کر دی.علم عام بھی اور علم خاص دینی میں بھی اور اب قبائے خلافت عطا فرما کر سب کے آگے کر دیا.(44) مالیر کوٹلہ میں رہائش کا زمانہ 1923 ء سے لے کر 1943 ء تک میرا بہت لمبا ر ہا.اکثر قادیان آ جاتی تھی چند روز کے لئے حضرت اماں جان کے پاس ہوتی تھی مگر آپ بہت خیال رکھتے تھے.کبھی کوئی خاص کھانا پکواتے کبھی پھل لا کر خود کھلاتے.رات کو گرمی میں کام کرتے کرتے اٹھ کر ذرا آرام کرنے کو اٹھتے ہوں گے.ضرور حضرت اماں جان کے صحن میں آتے مجھے اٹھاتے کوئی پھل ٹھنڈا آلو بخارا، آڑو وغیرہ خود بھی کھاتے اور مجھے بھی دیتے.کبھی اوپر کی باری ہوتی تو چوہارے کی دیوار کے پاس کھڑے ہو کر بھی پکارتے اور اوپر سے پھل پھینکتے.عطر اور خوشبو آپ کو پسند تھی ،اکثر سامان منگا کر خود تیار کرتے ، جب میں آتی خاص نمونے تیار کرتے اور پہلے والے بھی دکھاتے.اتنا عطر مجھے دیا ہے کہ اس وقت منگوانے کی ضرورت نہ پڑتی تھی.مجھے بھی خوشبو پسند اُن کو بھی ، ملتے ہی عطر کا ذکر ضرور فرماتے اور لا کر دیتے تھے.میرے میاں کی وفات کو 5-7 روز گزرے تھے میں لیٹی ہوئی تھی

Page 69

حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ 66 بستر پر ،حضرت اماں جان میرے پاس ہی تشریف رکھتی تھیں.آپ آگئے اور حسب عادت جلدی سے عطر کی شیشی کھول کر مجھے لگا دیا، حضرت اماں جان گھبرا کر بولیں میاں یہ کیا کیا ، عطر لگانا ان دنوں میں ٹھیک نہیں (بوجہ ایام عدت ) جس طرح انہوں نے مجھے دیکھا، اور پشت پھیر کر جلدی سے کمرے سے باہر نکل گئے.وہ درد بھری نگاہیں میں بھول نہیں سکتی پھر کمرے میں نہیں آئے.باہر سے ہی رخصت ہو گئے.(45) میرا پیارا بھائی اپنے رتبہ اور مقام اور قرب الہی کی وجہ سے تو تھا ہی ایک بندہ خاص ، مگر بھائی ہونے کے لحاظ سے بھی وہ ایک بیش بہا ہیرا تھا، جس کا بدل نہیں.کئی بار مجھے کچھ وقت پیش آئی پارٹیشن سے پہلے بھی اور بعد میں بھی جب اظہار کیا فورا شرح صدر سے بلا توقف مالی امداد بھی کی.جب ان کا وقت رخصت قریب آ گیا ، تو میرے حالات بھی بدل گئے ، الحمد للہ کہ اب کوئی ایسی ضرورت ہی پیش نہیں آتی.لطائف بھی سنایا کرتے اور ملنے پر تازہ لطیفے خواہ بچوں کے تماشے ہوں ،ضرور میرے سنانے کو جمع ہوتے ،طبیعت میں مزاح بھی تھا، اور کاموں سے تھک کر یہی دل بہلاوا تھا.عطر وغیرہ کی باتیں، کوئی لطیفہ ، اپنے سفروں کے لطائف مجھے ضرور سناتے.یہ مجھ سے ایک چھیڑ تھی ، مذاق

Page 70

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 67 بھی کہ آدھا لطیفہ یا ایک مصرعہ شعر کا سنا کر فرماتے ” آگے میں بھول گیا مجھے آدھی بات سے گھبراہٹ ہوتی ہے، مذاق میرے ساتھ ہمیشہ رہا پھر ذرا چڑا کر سنا دیتے تھے.ایک دو بار بے تکلفی میں گستاخی مطلب نہ تھا میں نے آپ کے اشعار میں سے ایک دو مصرعوں کا رد و بدل کر دیا یوں ہوتا تو اچھا ہوتا ، ذرا بُرا نہیں مانا ، فرمانے لگے اب تو چھپ گیا ہے! بہت شوق سے مجھے نئے اشعار سناتے.ایک دفعہ مجھے پوچھا تم کو کلام محمود میں سے کون سا شعر زیادہ پسند ہے؟ (ایڈیشن اول تھا) میں نے کہا حقیقی عشق گر ہوتا تو کمی جستجو ہوتی تلاشِ یار ہر ہر دہ میں ہوتی کو بکو ہوتی اس پر خوشی کا اظہار فر مایا.(48) ایک لطیفہ یاد آ گیا ایک دن میں نے بتا دیا کہ منصورہ کہتی ہے کہ یہ ماموں جان نے (چھوٹے ماموں جان) حضرت میر محمد اسحاق کی شادی پر کیسا شعر کہہ دیا ہے.”میاں اسحاق کی شادی ہوئی ہے آج اے لوگو معلوم ہوتا ہے دہائی میل رہی ہے لوگو آؤ دوڑو.آپ بے اختیار ہنس دیئے.فرمایا ”خبر لوں گا بڑی شریر ہے ایک دفعہ میں نے کہا کہ آپ کے

Page 71

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 68 اشعار میں نے الفضل میں پڑھے یہ شعر جو ہے.ہم انہیں دیکھ کے حیران ہوئے جاتے ہیں خود بخود چاک گریبان ہوئے جاتے ہیں اگر مطلع کے بجائے دوسرا تیسرا نمبر بنا دیں اور اس کو یوں کر دیں تو اچھا معلوم ہوگا.جذبہ عشق نہیں دست جنوں کا محتاج خود بخود چاک گر یہاں ہوئے جاتے ہیں اس پر فرمایا تھا کہ اب تو چھپ چکا ہے، میں نے کہا میں تو اس طرح ہی پڑھوں گی، ہے تو آپ کا ہی شعر، آپ نے اس تبدیلی کو پسند کیا تھا، اسی طرح ایک دو دفعہ اور بھی ہوا.(47) میرے منجھلے بھائی صاحب:.(حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد (جہاں ) حضرت خلیفہ المسیح ثانی جماعت کے لئے ایک شفیق باپ بنے ، مگر باپ آخر از راہ تربیت کڑی نظر بھی رکھتا ہے مگر ماں بچے کی غلطیوں پر پردے بھی ڈالتی ہے.چھپ چھپ کر سمجھاتی ہے مارتی ہے تو فورا سینے سے لگا کر پیار بھی کرتی ہے.غرض یہ ماں کا پیار سارے خاندان ، ساری

Page 72

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 69 جماعت کے لئے ایک قدرتی سمجھوتے کے طور پر منجھلے بھائی جان کے سپر د رہا.اور ہمیشہ نبھایا اور خوب نبھایا ، وہ نیک نیت ،خوش خلق ، اور منکسر المزاج تھے ، خود بہت حساس مگر دوسرے کے احساسات کا بھی بہت خیال رکھنے والے ، خدا تعالیٰ اور رسول کے عشق میں سرشار مگر ہر وقت ڈرنے والے.(48) وہ بھی بہت اچھے بھائی بہت اچھے بیٹے ، اچھے شوہر ، اچھے آقا ، اچھے عزیز اچھے ہمسایہ ، اچھے دوست ، اچھے رفیق تھے، اچھے صلاح کار، نیک مشورہ دینے والے اور ہر ایک کا بھلا چاہنے والے تھے.(49) مجھے کبھی یاد نہیں کہ بہت چھوٹی عمر میں بھی کبھی کسی بھائی نے مجھے کڑوی نظر سے بھی دیکھا ہو یا لڑے جھگڑے ہوں.بڑے بھائی (حضرت خلیفہ اسیح الثانی ) تو خیر بڑے تھے اُن کا پیار تو ہمیشہ مجھے سب سے بڑھ کر ملا مگر میرے منجھلے بھائی بھی اُس عمر سے اب تک ہمیشہ شفیق اور چاہنے والے ہمدردر ہے.میری ہوش میں پہلا نظارہ منجھلے بھائی کے بچپن کا جو مجھے بہت صاف یاد ہے وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کہیں با ہر سے تشریف لائے تھے.گھر میں خوشی کی لہر دوڑی گئی ، آپ آکر بیٹھے ، میں پاس بیٹھ گئی اور سب مع حضرت اماں جان بھی بیٹھے تھے ، کہ ایک فراخ سینہ ، چوڑے

Page 73

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 70 10 منہ والا ہنس مکھ لڑ کا سرخ چوگوشیہ مخملی ٹوپی پہنے بے حد خوشی کے اظہار کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے کھڑا ہو کر اچھلنے کودنے لگا یہ میرے پیارے منجھلے بھائی تھے، حضرت اقدس علیہ السلام مسکرا رہے ہیں دیکھ کر 66 خوش ہورہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ ” جاٹ ہے جاٹ.“ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بچپن میں ٹو" کہہ کر مخاطب کرتے تھے.حضرت اماں جان روکتی تھیں کہ آب تم ہو نہ کہا کرو تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے.66 ستم رو کو نہیں اس کے منہ سے مجھے تو کہنا پیارا لگتا ہے.“ پھر ذرا بڑے ہوئے تو خود ہی تو کہنا تو چھوڑ دیا مگر ایسا حجاب رہا کہ تم یا آپ بھی نہ کہا یونہی بات کر لیتے مگر ٹو کی جگہ کچھ نہ کہتے.طبیعت میں سنجیدگی اور حجاب بہت جلدی پیدا ہو گیا تھا.بہت کم بولتے اور ا کم ہی بے تکلف ہو کر سامنے آتے تھے ویسے طبیعت میں لطیف مزاح بچپن سے اب تک تھا.ایسی بات کرتے چپکے سے کہ سب ہنس پڑتے اور خود وہی سامنہ بنائے ہوتے.حضرت اماں جان فرماتی تھیں کہ :.اول تو بچوں کو کبھی میں نے مارا نہیں ویسے ہی کسی شوخی پر اگر دھمکایا بھی تو میرا بشری ایسی بات کرتا کہ مجھے ہنسی آجاتی اور غصہ دکھانے کی نوبت بھی نہ آنے پاتی.“

Page 74

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 71 ایک دفعہ شاید کپڑے بھگو لینے پر ہاتھ اٹھا کر دھمکی دی تو بہت گھبرا کر کہنے لگے:.نہ انتہاں کہیں چوڑیاں نہ ٹوٹ جائیں“.اور حضرت اماں جان نے مسکرا کر ہاتھ نیچے کر لیا.حضرت اماں جان سے محبت بھی بے حد کرتے تھے اور ادب و احترام بھی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا.روز آ کر بیٹھنے کے علاوہ مسجد میں جاتے آتے وقت بھی ضرور خیریت پوچھ کر اور باتیں کر کے جاتے.اپنے دل کا ہر درد دکھ حضرت اماں جان سے بیان کرتے اور حضرت اماں جان کی دُعا، پیارو محبت کی تسلی سے تسکین پاتے.حضرت اماں جان کی ملازمہ تک کو ادب سے پکارتے اور اُن کا ہر طرح خیال رکھتے تھے جب کسی بڑھیا یا بے تکلف خادمہ سے مذاق بھی کرتے تو بڑے ہی انکسار سے کہ سب ہنس دیتے اور وہ نادم سی ہو جاتی.ابتداء سے ہی جب آمدنی کم اور گزارا اپنا بھی مشکل ہوتا تھا ضرور ہر ماہ چپکے سے کچھ رقم حضرت اماں جان کے ہاتھ میں ادب اور خاموشی سے دے جاتے.آپ کو کوئی حاجت نہ تھی مگر اُن کی دلداری کے خیال سے واپس نہیں کرتی تھیں، ہر وقت لتاں جان کے آرام کا خیال اور خدمت کی تڑپ اس معاملہ میں وہ بالکل بڑے بھائی کے نقش قدم پر چلے.

Page 75

حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ 72 منجھلی بھا بھی جان بیاہ کر آئیں تو نہ معاشرت نہ طور طریق نہ وضع لباس وغیرہ نہ زبان کچھ بھی مشترک نہ تھا اور آخر نادان کم عمر تھیں وہ بے چاری بھی ، کئی بار اگر وہ تعلقات بگاڑنے والے ہوتے تو بگڑ سکتے تھے مگر ایسی خوش اسلوبی سے نبھایا کہ ایسے نمونے ملتے مشکل سے ہی ہیں.ادھر سالہا سال سے وہ بیمار بھی چلی آرہی ہیں.اتنے دراز عرصہ میں انسان اور اتنے کاموں والا ، جس کے کندھوں پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ ہوں اور خود بیمار ہو، اس سے غفلت بھی ہوسکتی ہے، کسی وقت بے دھیان بھی ہو سکتا ہے مگر کبھی ان کی خدمت اور دیکھ بھال سے غافل نہ ہوئے.ذرا ذرا دیر کے بعد اس حال میں کہ ٹانگیں لڑ کھڑا رہی ہیں طبیعت خراب ہے ، ان کی خبر پوچھنے ان کے کمرے میں جا رہے ہیں.اُن کی خادمات کی خاطریں ہو رہی ہیں، کہ اس بے کس ، بیمار و لا چار کو چھوڑ کر نہ چل دیں، غرض بچپن کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لگا ئی خوب نبھائی.اولاد کے لئے بہترین شفیق باپ تھے، کسی بات پر سمجھاتے بھی تو نرمی سے کسی امر کی اصلاح مد نظر ہوتی تو دوسرے عزیز کو قریب سے کہتے کہ ذرا میرے فلاں بچے کو تم اس معاملہ میں سمجھانا مجھ سے بھی یہ خدمت لی ہے ، غرض آپ کی گھر یلوزندگی کا بھی ہر پہلو ایک نمونہ تھا.سوچ کر ہلکی ہلکی بوند میں پڑنے کا ایک سماں تصور میں آتا ہے کہ ٹھنڈی خوشگوار ہوا چل

Page 76

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 73 رہی ہے اور ابر رحمت سے قطرے گر رہے ہیں.(50) میرے چھوٹے بھائی صاحب ( حضرت مرزا شریف احمد صاحب) وہ عالی دماغ ، وہ جو ہر قابل ، وہ تیر تاباں ، افسوس کہ بیماریوں کے بادلوں میں اکثر چھپارہا اور اس کی پوری روشنی ، سے اس کی قابلیت خدا داد سے، دنیا فائدہ نہیں اُٹھا سکی.انہوں نے ظاہری تعلیم بہت التزام سے یا کالجوں وغیرہ میں حاصل نہیں کی تھی مگر حضرت سیدنا بڑے بھائی صاحب (حضرت خلیفہ اسیح الثانی) کی طرح ان پر بھی خدا تعالیٰ کا خاص فضل اس صورت میں نازل ہوا تھا کہ ان کا علم وسیع تھا ، بہت ٹھوس تھا، جو سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کس وقت پڑھا اور کہاں پڑھا؟ مگر علم دین کے ہر پہلو پر عبور تھا.عربی ایسی اعلیٰ پڑھاتے تھے کہ چند دن میں پڑھنے والے کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتے.رائے صائب ہوتی ، مشورہ ہمیشہ دیانتدار نہ ہوتا علم تعبیر اللہ تعالیٰ نے ان کو خاص ودیعت فرمایا تھا.ایسی اعلیٰ تعبیر دیتے اور اتنی تفصیل سے خوابوں کے متعلق نکات بیان کرتے کہ طبیعت سیر ہو جاتی تھی.میں اپنے خواب ان کی یہ خصوصیت دیکھ کر ان کو ہی سنایا کرتی تھی.ایک بار خیال ظاہر کیا کہ میرا دل چاہتا ہے ایک نیا تعبیر نامہ مرتب کروں جس میں نئی چیزوں اور خاص ہماری ملکی اشیاء کی بھی تعبیر میں

Page 77

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 74 لکھی جائیں.مگر بیماریوں نے مہلت نہ دی افسوس.مجھ سے صرف کچھ کم دو سال ہی بڑے تھے ہم دونوں اور مبارک احمد زیادہ ساتھ کھیلے اور وہ تو ساتھ پڑھے بھی.مگر باوجود اُن کے ہمیشہ محبتانہ سلوک کے اور اُن کے سادہ سادہ بے تکلف طریق کے ان کے علم و فضل ، ان کی انتہائی شرافت کی وجہ سے میرے دل میں ان کی عزت اور ادب بڑھتے ہی گئے.علمی پہلو کے علاوہ وہ ایک نہایت شریف اسم بامسمی ، نہایت صاف دل، غریب طبیعت ، دل کے بادشاہ ، عالی حوصلہ ، صابر ، متحمل مزاج وجود تھے.اس لئے نہیں کہ وہ میرے بھائی تھے.بلکہ اس کو الگ رکھ کر کوئی بطور کچی شہادت کے مجھ سے ان کی بابت سوال کرے، تو میں یہی کہوں گی اور وثوق سے کہوں گی ، کہ وہ ایک ہیرا تھا نایاب، وہ سراپا شرافت تھا ، ایک چاند تھا جو چھپا رہا اکثر اور چھے چھے چپکے چپکے رخصت ہو گیا.میری ان کی عمر میں بہت کم فرق تھا.ہر وقت کا ساتھ اکٹھے کھیلنا کو دنا اور چھوٹے بھائی بہت شوخ و شنگ بھی تھے بچپن میں مگر ہم کبھی نہیں لڑے.مجھے ایک بار بھی کبھی انہوں نے نہیں سنایا بلکہ ہمیشہ کہنا مان لیتے میرا ہی.شادی ہوئی تو دوہرا رشتہ ہوا میرے میاں کے داماد بنے اور کئی سال بھر بوزینب بیگم ( بیگم حضرت مرزا شریف احمد ) کی علالت کے

Page 78

حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ 75 15 سلسلہ میں ہمارے ہاں ٹھہرے اور اکٹھے ایک گھر میں رہے.دنیا میں جیسا کہ ہو ہی جاتا ہے ہو سکتا ہے کہ ان سیکھائی کے ایام میں کسی وقت کوئی بدمزگی ہو جاتی یا کوئی فرق برادرانہ تعلق میں آجاتا مگر نہیں ہرگز نہیں " میرا بھائی“ ”میرا بھائی ہی بنا رہا.(51) بچپن میں بھی ہم لوگ لڑتے نہیں تھے کم از کم بہنوں سے لڑنے کی تو قسم ہی ہمارے ہاں تھی.مبارک احمد اور میں چھوٹے تھے.تینوں بھائیوں نے کبھی کچھ نہیں کہا.آپس میں منجھلے بھائی صاحب چھوٹے بھائی کبھی تکیوں سے لڑائی گویا جنگ مصنوعی کیا کرتے تھے یا چھوٹے بھائی صاحب کو منجھلے بھائی صاحب چڑاتے تھے وہ چڑتے مگر اس سے زیادہ ہرگز نہیں ، نہ مارنہ کٹائی ، ایک بار کوڑا چھپائی کھیلتے ہوئے مبارک کی پیٹھ پر کوڑا زور سے مار دیا وہ نازک سا بچہ تھا رونے لگا.مجھے آج تک افسوس ہے اپنی اس حرکت کا کہ میں نے پکار کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کہا کہ مبارک کو چھوٹے بھائی نے زور سے کوڑا مار دیا ہے.تو آپ علیہ السلام ,, چھوٹے بھائی پر بہت خفا ہوئے تھے.(52)

Page 79

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 76 میرے میاں (حضرت نواب محمد علی خان صاحب) انتہا کے سیر چشم ، وسیع اخلاق کے مالک کسی کی برائی نہ کرنے والے نہ سننے والے، ہر ایک کی خوشی میں دل سے خوش ہونے والے، بے حد دل کے غنی ، صدق وغناء و سیر چشمی ، عالی حوصلگی اور رفعت و وسعت اخلاق ، خصوصیتیں تھیں اُن کی سیرت کی اور یہ صفات اُن میں پورے طور پر جلوہ گر تھیں.مجھے اپنی ساری زندگی میں جو ان کے ساتھ گزاری کبھی اُن میں ستم ذرا بھی نظر نہیں آیا بلکہ زیاد و ہی زیادہ یہ خو بیاں چپکتی نظر آتی رہی ہیں.مگر ان کی بڑی خوبی ان کا ایمان تھا جس کے ظہور کو میں ہر امر میں دیکھتی رہی ہوں.جہاں تک خدا نے مجھے دکھایا میں خدا کو شاہد کر کے کہہ سکتی ہوں کہ وہ شخص ایک اعلیٰ درجہ کے ایمان کا مالک تھا.یہ بھی خدا تعالی کا اُن پر ایک خاص احسان تھا ورنہ آدمی خود تو یہ بات پیدا نہیں کر سکتا.مجھے خود حضرت والدہ صاحبہ ساتھ لے جا کر نواب صاحب کے گھر چھوڑ آئی تھیں اور اُن کے سپر د کیا تھا اور خدا کی ہزار ہا رحمتیں روز بروز لمحہ لمحہ بڑھتی ہوئی اُن کی روح پر نازل ہوں اُس ہاتھ پکڑنے کی لاج ، جب تک میرے ہاتھ خدا کے ہاتھ میں دے کر رخصت نہیں ہو گئے ، ایسی رکھی کہ مجھے تو کہیں نظیر نہیں ملتی ، ایسا نبھایا جو نبھانے کا حق ہے.عمر بھر میں اُن کی

Page 80

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 77 جانب سے محبت ہی محبت ، مہر بانی ہی مہربانی دیکھی.میری ہر کمزوری اور کو تا ہی سے اس صورت سے چشم پوشی کی کہ مجھے نادم تک نہ ہونے دیا.مجھ پر احسان ہی احسان کئے اور جب میری خدمت کا وقت آیا تو افسوس وہ وقت اتنی جلدی ختم ہو گیا کہ میں ہاتھ ملتی رہ گئی.(52) انہوں نے عمر بھر ہر موقع پر عزیزوں میں تبلیغ کی حتی کہ مرض الموت میں بھی آخری بارسب رشتہ داروں کو تبلیغی خطوط لکھے اور لکھا کہ میں یہ آخری حجت تمام کرتا ہوں کیونکہ اب میری زندگی کے دن تھوڑے رہ گئے ہیں.“ صبر و استقلال خدا نے خاص طور پر اُن کو عطا کیا تھا.بے حد عالی حوصلہ تھے.عجیب دل پایا تھا حالات کے چکر میں پڑ کر تمام عمر ایک طرح قرض وغیرہ کے پھیر میں ، تفکرات میں گزری ، مگر کیا مجال جو کبھی دل چھوڑا ہو یا مزاج خراب ہوا ہو.اس طرح ہشاش بشاش رہتے گویا اُن سے زیادہ کوئی خوش ہی نہیں.حضرت خلیقہ مسیح فرمایا کرتے تھے کہ اُن کے دل پر تو مجھے رشک آتا ہے بڑا حوصلہ پایا ہے.کبھی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو دردناک الفاظ میں دعا کو لکھتے اور پھر نہایت بشاش باتیں کرنے لگتے تو میں اُن سے کہتی تھی کہ آپ میں جب خود اتنا حوصلہ ہے کہ اپنے تئیں اتنا خوش رکھتے

Page 81

حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ 78 ہیں.اور اب اچھے بھلے ہنس بول رہے ہیں تو اُن کو تکلیف دینے کو ایسے خط کیوں لکھتے ہیں کیونکہ آخر ان کو دکھ ہوگا.وہ گھبرائیں گے؟" تو فرماتے:.و و تو روحانی باپ ہیں میرے ، اُن کے دل میں درد پیدا نہ کروں تو اور کس کے کروں؟“ فرمایا کرتے تھے کہ:.” میری طبیعت ہے کہ میں حتی المقدور غم کو اپنے پر بالکل حاوی نہیں ہونے دیتا.تھوڑی دیر کے لئے خیال آیا اور نکل گیا.“ میں جب سوچتی ہوں کہ ان حالات میں جن میں سے ہم گزر رہے تھے ہماری زندگی کتنی خوشگوار تھی تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ وہ آخر کیا دل لے کر پیدا ہوئے تھے.اتنی زندہ دلی اور بشاشت کسی لڑکے میں بھی نظر نہیں آتی، جس کے حصہ میں اُن سے دسواں حصہ افکار نہیں آئے.‘ (54) صفائی کا بہت خیال عمر بھر رہا، تقریباً ہر وقت باوضو ر ہتے تھے.گندگی سے سخت متنفر تھے ، تو آخری علالت میں ایک کشفی حالت پیدا کر کے خدا نے ان کی تسکین کا سامان یوں پیدا کیا کہ جیسا انہوں نے خود بتلایا کہ :.

Page 82

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 79 ” جب مجھے تم کرایا جاتا ہے گویا ایک طلسم کا سا کارخانہ ہے کہ تیم کر چکتا ہوں اور اُس بستر سے مجھے اٹھا کر لے جاتے ہیں اور ایک صاف لیے بیچے ہوئے کسان کے گھر میں نماز پڑھتا ہوں جہاں میں نے سلام 66 پھیرا اور پھر دیکھتا ہوں کہ اپنے بستر پر ہوں اور تم سب گرد موجود ہو.“ یہ بات پورے ہوش میں مجھے انہوں نے بتلائی.پہلے ایک دو بار میں نے اُس کے ویسے ہی سمجھا کہ بیماری میں دماغ پر اثر مگر ایک دن پورے ہوش میں پھر سب سنایا.اور یہ بھی کہا:.میں نے پہلے دو بار تم کو بتانا چاہا مگر تم نے ٹھیک سُنا نہیں ، تم شاید ہذیانی بجھتی تھیں ،مگر حقیقت یہ ہے، میرے ساتھ یہی عجیب معاملہ ہورہا ہے کہ جہاں تمیم کی تھیلی پر ہاتھ مارا اور میں یہاں سے غائب ہوتا ہوں اور جہاں سلام پھیرا اور پھر یہاں بستر پر آن موجود ہوتا ہوں.واللہ اعلم یہ کیا معاملہ تھا.66 وفات سے دو تین روز پہلے کی بات ہے کہ ہم آپ کے پاس بیٹھے وو تھے آپ کی طبیعت بہت خراب تھی ، آپ نے فرمایا کہ " مودود کو کیوں مارا ہے؟ کہا کہ اسے کسی نے نہیں مارا.“ کہا." اس کو میرے پاس لاؤ.“ آپ کے فرمانے پر عزیز کو بلایا گیا، اب معلوم ہوا کہ واقعی اُس کی والدہ

Page 83

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 80 نے اُس کو اُس وقت مارا تھا ، تو آپ نے اُسے پیار کیا.مسعود احمد سے کہا ا سے مارا نہ کریں.“ ایک دن میاں محمد احمد صاحب کو زکام تھا اور وہ دوسری طرف چلے گئے اور آپ کے پاس تمام دن نہیں آئے کہ تکلیف ہوگی.آپ نے پوچھا کہ ”میاں محمد احمد نہیں آئے اور پھر خود ہی فرمایا کہ اُن کی تو خود کمر میں بہت درد ہے.اتنے میں امتہ الحمید بیگم آئیں اور انہوں نے کہا کہ اُن کی ( محمد احمد ) کمر میں بہت درد ہے حالانکہ اس بات کا مجھے بھی علم نہیں تھا 66 اور وہ یہی کہہ کر گئے تھے کہ زکام ہے.وفات سے چھ سات روز پہلے کی بات ہے بار بار فرماتے تھے کہ فتنہ کا بہت ڈر ہے کئی سازشیں ہو رہی ہیں ، بڑا فتنہ ہے.حضرت صاحب کو اور (صاحبزادہ مرزا) ناصر احمد کو کہنا چاہیئے کہ انتظام کر لیں“ اور پھر جب آنکھ کھلتی اور پھر بیدار ہوتے تو بار بار ہو چھتے تھے کہ " کیا انہیں اطلاع کر دی ہے.میاں ناصر احمد اور حضرت صاحب کو.“ ویسے بھی کئی بار بہت زور سے یہی ذکر کرتے تھے گھبرا کر ، آخر پارٹیشن کے وقت یہ فتنہ ظاہر ہو گیا.(55) چند خوا ہیں رویا و کشوف بڑی بات ہے.خواہ مخواہ اپنی خوابوں کو اہمیت دے کر

Page 84

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 81 تشہیر کرنا میں نے کبھی پسند نہیں کیا تذکرۂ عزیزی ناصر احمد سلمہ اللہ تعالیٰ کے سامنے چند خواہیں بیان کی تھیں.وہ لکھوانے پر تل گئے.میں نے کہا تھا کہ مجھے دو چار خواب سوال و جواب کی صورت میں آئے تھے.اس وقت جو یاد آئے لکھ رہی ہوں.بھی اپنے خواب لکھے تک نہیں اب تک 1 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد کوئی تیسری شب ہوگی میں نے دیکھا کہ آپ صحن میں تخت پر لکڑی کی بڑی چو کی جو بچھی ہوئی تھی وہاں کھڑے ہیں چہرہ مبارک بہت پر نور اور سرخ ہے مگر تخت لرز رہا ہے آپ علیہ السلام فرماتے ہیں بڑے جوش سے کہ میری جماعت سے کہہ دو کہ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ 66 لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنّكَ أَنْتَ الْوَهّابُ ، بہت پڑھا کریں.میں نے یہ خواب صبح حضرت خلیفہ اول کو سنایا آپ نے بے حد متاثر ہو کر فرمایا میں تو آج سے خاص طور پر یہ دعا زیادہ کیا کروں گا.غالبا 12 ء یا 13 ء میں خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا کہ صحن میں کرسی پر تشریف فرما ہیں.ایک شخص سامنے آکر سوال کرتا ہے کہ حضور ! لڑکیوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپ بڑے جوش سے فرماتے ہیں کہ:.

Page 85

3 حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 82 جب تک تم اپنی پیٹیاں بنیادوں میں نہیں دو 66 گے احمدیت کی عمارت کھڑی نہیں ہو سکتی.“ آپ کو حجرہ ( وہ کمرہ جس میں آخری سالوں میں دن میں اکثر آپ کا قیام زیادہ تر رہتا تھا) کے دروازے میں کھڑا دیکھا.میں بھی ساتھ ہوں.ایک شخص باہر کی طرف سے دائیں جانب آکر کھڑا ہو گیا اور سوال کیا کہ حضور بروزی اور ظلی نبی سے مراد کیا ہے؟“ آپ نے انگشت شہادت سے زمین کی جانب اشارہ کیا کہ ” یہ دیکھو اب میں نے بھی دیکھا کہ بجائے سامنے کھپریل کے فرش کے سامنے ایک نہایت شفاف پانی سے لبریز ہفتہ تالاب ہے جس میں پورا چاند پوری چمک دمک کے ساتھ نظر آ رہا ہے اور اوپر آسمان پر چاند چمک رہا ہے.عین تالاب کے اوپر جس کا یہ عکس ہے.آپ نے اشارہ کرنے کے بعد فرمایا ”بس یہ وہی چیز ہے“ ایک خواب میں دیکھا کہ غالباً حجرہ ہی ہے جھاڑو ر کھی ہے کونے میں.ایک شخص کہتا ہے کہ ”جماعت میں اتحاد ہو تو کافی ہے.“ گویا مطلب ہے کہ خلافت کی ضرورت نہیں.اُس وقت کمرے کے ایک جانب سے آواز آئی ہے کہ یہ بندھی ہوئی جھاڑو بھی کام نہیں دے سکتی اگر ایک ہاتھ اُس کو چلانے والا نہ ہو.اُس وقت میں نے آپ کا چہرہ صاف نہیں

Page 86

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 83 دیکھا اور دل پر اثر ہے کہ آپ کی آواز ہے.بچپن کا سب سے پہلا خواب جو مجھے یاد ہے وہ یہ تھا کہ ایک چاند چکر لگارہا ہے اور مجھ سے باتیں کرتا ہے.چاند نے کہا اللہ پر توکل کرو.دن کے وقت میں نے مبارک احمد کو بتایا کہ چاند نے مجھ سے باتیں کیں.ایک دن مبارک کھلونوں سے کھیل رہا تھا اور اُن سے باتیں بھی کر رہا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے فرمایا:.و ان سے کیا با تیں کرتے ہو یہ تو سنتے ہی نہیں“ مبارک نے اس پر کہا:." آپا سے تو چاند باتیں کرتا ہے“.اُس پر حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے استفسار فرمایا تو پھر میں نے اپنا خواب سنایا آپ علیہ السلام نے اُسی وقت اپنی ایک چھوٹے سائز کی الہامات اور رویا کی کاپی میں لکھ لیا تھا.میں نے خواب میں دیکھا میں خواب میں اوپر کے صحن میں کھڑی تھی) کہ ہمارے صحن کا کنواں لبالب پانی سے بھرا ہے اور ایک جوان نوعمر (جس کی پشت سے بڑے بھائی ہی معلوم ہوتے تھے ) تیز تیز اس کنویں کے گرد گھوم رہا ہے اور اُس کی زبان پر اونچی آواز سے یہ الفاظ جاری ہیں

Page 87

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 84 وہ آواز گونجتی ہے اور درو دیوار سے یہ آواز آرہی ہے.اني جاعل الدين اتبعوك فوق الدين كفروالى يوم القيامة.آنکھ کھلی تو میرے بڑے بھائی صاحب کا سرصرف شانوں تک میرے لیے پر تھا پہلے تو میں دیکھتی رہی دیکھتی رہی.مگر جب وہ کیفیت دور ہوگئی تو ڈر کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پکارا اور کہا میں نے اس طرح دیکھا ہے.آپ علیہ اسلام نے فرمایا یہ کشف تھا ڈرو نہیں بہت مبارک خواب اور

Page 88

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 85 باب دوم آپ نے نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی کہانی ان کی زبانی پڑھی.آپ کی کہانی سے آپ کی اپنی سیرت کا بھی بہت اندازہ ہوجاتا ہے.اور یہ بھی کہ آپ کا حافظہ کس بلا کا تیز تھا.کس طرح آپ نے اپنی بہت چھوٹی عمر کے بھی واقعات کو یا درکھا.اور ہمیں سنایا اب ہم ان کے بارہ میں آپ کو کچھ مزید معلومات دیں گے.جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی مبشر اولاد میں سے تھیں.آپ 3 بھائیوں سے چھوٹی تھیں اور آپ کے بعد صاحبزادہ مراز مبارک احمد تھے جو چھوٹی عمر میں وفات پاگئے تھے.ان کا نمبر آپ کے بعد آتا تھا اور سب سے آخر میں آپ کی چھوٹی بہن صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحب تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ بتایا تھا.تیرا گھر برکتوں سے بھرے گا.اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا.اور خواتین مبارکہ میں سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد 66 پائے گا ، تیری نسل بہت ہوگی.“ اس الہام کے بموجب 2 مارچ 1897ء اور قمری لحاظ سے رمضان

Page 89

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 86 المبارک کی 27 ویں کو رات کے پہلے پہر آپ پیدا ہو ئیں.آپ خود فرماتی ہیں حضرت اماں جان نے کئی بار مجھے بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام فرماتے تھے رات بھر میں نے بہت دعائیں کیں تھیں.بوندیں پڑیں تو میں نے خیال کیا لیلۃ القدر کی خاص قبولیت دعا کا وقت ہے اور بہت دعا کی.آپ کی پیدائش سے پہلے حساب کی کوئی غلطی ہو گئی چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام فرماتے ہیں:.” جب میری لڑکی مبارکہ والدہ کے پیٹ میں تھی.تو حساب کی غلطی سے فکر دامن گیر ہوا اور اس کا غم حد سے بڑھ گیا شاید کوئی اور مرض 66 ہو.تب میں نے جناب الہی میں دعا کی تو (بشارت ہوئی) کہ آید آن روزے کہ مستخلص شود اور مجھے تفہیم ہوئی کہ لڑکی پیدا ہو گی چنانچہ اس کے مطابق 27 رمضان 1314 ھ لڑکی پیدا ہوئی، جس کا نام مبارکہ رکھا گیا.آپ کے بارے میں ایک اور الہام تنشاء في الحلية “ یعنی زیور میں نشو و نما پائے گی.پھر 1901ء میں ایک اور الہام ہوا نواب مبارکہ بیگم نیز حضور نے خواب میں دیکھا مبارکہ پنجانی میں بول رہی ہے کہ

Page 90

حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ 87 مینوں کوئی نہیں کہہ سکدا کہ ایسی آئی جس نے ایہ مصیبت پائی“ یعنی آپ کا وجود بہت برکتوں والا ہوگا.حضور علیہ السلام نے اپنی نظم آمین میں آپ کے بارہ میں لکھا:.ہوا اک خواب میں مجھ پر یہ اظہر لقب عزت کا پاوے وہ مقرر کہ اس کو بھی ملے گا بخت برتر یہی روزِ ازل سے ہے مقرر خدا نے چارلڑ کے اور یہ دختر عطا کی پس یہ احساں ہے سراسر آپ نے ساڑھے چار سال کی عمر میں قرآن شریف ختم کر لیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے چاروں بچوں کی آمین کی تقریب منعقد فرمائی.اس کے بارہ میں ذکر کرتے ہوئے حضرت بیگم صاحبہ نے بتایا:.اپنی آمین مجھے اچھی طرح یاد ہے، میں نے گوٹے والے کپڑے پہنے ہوئے تھے ، میرے ایک طرف منجھلے بھائی ( حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) اور دوسری طرف چھوٹے بھائی (حضرت مرزا شریف احمد صاحب ) بیٹھے تھے.سامنے آلتی پالتی مار کر میاں عبدالرحمن خان بھی آکر بیٹھ گئے.“ جب میری شادی ہو گئی تو میاں (حضرت نواب محمد علی خان صاحب) مزاقاً کہا کرتے تھے تمہارا پہلا تعارف میاں عبدالرحمن خان صاحب نے

Page 91

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 88 کروایا تھا.تعلیم کے بارہ میں تو آپ پڑھ ہی چکے ہیں.اب دیگر کام جو عام طور پرلڑکیوں کو سکھائے جاتے ہیں.ان کا بھی سن لیں سینا پرونا آپ نے کچھ حضرت اماں جان سے اور کچھ صالحہ بیگم صاحبہ (حضرت سیّدہ ام داؤد صاحبه ) سے سیکھا.آپ فرماتی ہیں کہ ایڈیٹر البدر کی اہلیہ کو حضرت اماں جان نے کہا کہ مبارکہ کو بنا سکھا دو، چنانچہ ان سے کچھ بننا سیکھا نیز فرماتی ہیں:." کہ میرا صرف پڑھائی میں دل لگتا تھا 66 سینے پرونے کے کام سے گھبراتی تھی." کھانا پکانا اپنے گھر میں پکتے ہوئے دیکھ کر سیکھ لیا.آپ ایک واقعہ سناتی ہیں کہ اخبار تہذیب نسواں کی طرف سے ایک کتاب کھانا پکانے کی چھپی ، ان دنوں اس میں سے ترکیب دیکھ کر ، ایک دن آلو کی کھیر پکائی پر دیچی ایلومنیم کی تھی ، کالی ہوگئی، بھائی دیر تک چھیڑتے رہے کہ " کالی کھیر پکائی ہے!" شادی کے بعد تو بہت سے کھانوں کی ترکیبیں آگئی تھیں کھانا پکانے کی کتابیں بھی رکھی ہوئی تھیں.اس وقت خادمائیں ہوتی تھیں.اندرا اپنے صحن ہی میں کوئلوں کی انگیٹھی رکھ کر ، بنا بنا کر کھانے تیار کرواتی تھیں.پھر ایک بار حلوائی کو بلوا کر ، پردے کے پیچھے سے مختلف مٹھائیاں

Page 92

حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ 89 بنانی بھی سیکھیں.پھر رنگوں کا بھی شوق تھا، ایک کتاب بھی آپ کے پاس ہوتی تھی، جس میں مختلف رنگ بنانے کی ترکیبیں تھیں ،خو د رنگ بنا کر دوپٹے وغیرہ رنگواتی تھیں ، اس زمانہ میں گرمیوں میں عمل کے دوپٹے کرتے اور لٹھے کے پاجامے ہوتے تھے.جن کو گھر میں ہی رنگا جاتا ، دھنک اور گوٹے کے کام سے سجایا جاتا ، گھر کے سب انتظامی امور میں تاک تھیں ، خاص طور پر اپنے میاں کی وفات کے بعد تو سب کاموں کا بوجھ آپ پر آن پڑا، لیکن آپ نے ہر اچھے برے حالات میں انتہائی خوش اسلوبی سے گھر چلایا.آپ کا نکاح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہوا.آپ علیہ السلام نے یہ رشتہ خود منظور کیا تھا.بروز پیر 17 فروری 1908ء کو مسجد اقصیٰ میں نواب محمد علی خان صاحب (رئیس مالیر کوٹلہ ) سے 56 ہزار روپے مہر پر حضرت حافظ حکیم نور الدین صاحب نے آپ کا نکاح پڑھایا.حضور علیہ السلام بھی وہاں موجود تھے.پھر آپ کے وصال کے بعد 1909 میں آپ کا رخصتا نہ ہوا.اس بارہ میں نواب مبار کہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں.”میرا رخصتانہ 14 مارچ 1909ء کو حضرت والدہ صاحبہ مکرمہ کے ہاتھوں اور حضرت خلیفہ اول کی دعا کے ساتھ نہایت سادگی سے عمل میں آیا.اب میاں (یعنی نواب صاحب) کا اندرون شہر والا مکان بن چکا

Page 93

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 90 تھا.اور کافی عرصے سے آپ اس میں مقیم تھے.اور وہ تقریب دار لمسیح کا ہی حصہ ہے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی ڈیوڑھی کی ہی زمین پر ہے، اور بیچ میں ہی راستہ بھی ہے، مجھے خود حضرت والدہ صاحبہ ساتھ لے جا کر ان ن کے گھر چھوڑ آئی تھیں اور دروازے تک حضرت خلیفہ اول بھی آئے تھے.اس بارہ میں نواب محمد علی خان صاحب اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں.رخصتانه نهایت سیدھی سادھی طرز سے ہوا مبارکہ بیگم صاحبہ کے آنے سے پہلے مجھ کو حضرت اماں جان نے فہرست جہیز بھیج دی اور دو بجے حضرت اماں جان خود لے کر مبارکہ بیگم صاحبہ کو میرے مکان پر ان سیٹرھیوں کے راستے جو میرے مکان اور حضرت اقدس کے مکان کو ملحق کرتی تھیں تشریف لائیں.میں چونکہ مسجد میں تھا اس لئے ان کو بہت انتظار کرنا پڑا.اور جب بعد نماز آیا تو مجھ کو بلا کر مبارکہ بیگم صاحبہ کو بایں الفاظ نہایت بھرائی آواز سے کہا کہ:.میں اپنی یتیم بیٹی کو تمہارے سپرد کرتی ہوں.“ اس کے بعد ان کا دل بھر آیا اور فور اسلام علیک کر کے تشریف لے گئیں.نواب صاحب خدا تعالی کی اس نعمت کے ملنے پر اللہ تعالی کے بہت شکر گزار ہوتے.اپنی ڈائری میں ان کی تعریف میں لکھا.” میں نے

Page 94

4 5 حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 91 ان میں حسن صورت و حسن سیرت دونوں کو پایا ، لیاقت علمی بھی خاص ہے“ آپ دونوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اولاد سے بھی نوازا.آپ کے پانچ بچے پیدا ہوئے 2 بیٹے اور 3 بیٹیاں ، جن کے نام یہ ہیں.1 نواب محمد احمد خان صاحب اہلیہ امتہ الحمید بیگم بنت حضرت مرزا بشیر احمد) حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ ( حرم حضرت خلیفة المسیح الثالث ) 3 نواب مسعود احمد خان صاحب المیہ طیبہ بیگم بنت حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب) محمود و بیگم صاحبه بیگم ڈاکٹر مرز امنوراحمد صاحب ابن حضرت مصلح موعود) آصفه مسعودہ بیگم صاحبه بیگم ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب بن حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) آپ نے اپنی دور کی نسل بھی دیکھی یعنی اپنے پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں اور آگے ان کی اولادیں بھی ، اکثر کے نام بھی آپ نے خود رکھے.آپ ایک اعلیٰ پائے کی بزرگی ہستی تھیں ، بے حد دعا گو بے حد

Page 95

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 92 42 خوف خدا ر کھنے والی ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اماں جان سے بے پایاں محبت کرنے والی اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے عشق اور قرآن سے محبت تو آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ورثہ میں پائی تھی.آپ نے جو خوبیاں اپنے بھائیوں کی اپنی خود نوشت میں لکھیں وہ سب کی سب آپ میں اتم درجہ موجود تھیں.یعنی ظاہر تو تھا ہی بہترین مگر باطن بھی پا کیز و رہا ، کوئی نفاق نہیں، کوئی ریا نہیں، کوئی مکاری نہیں ، نہ کسی سے بغض وحسد ، نہ دنیا کے معاملات کے لئے غصہ اور نہ انتقام کا جذبہ ہمیشہ صاف شفاف دل رکھا ، نہ کسی کی چغلی نہ غیبت.ایک کچی اور انصاف پسند طبیعت کی حامل اور اپنے بھائیوں کی طرح بہت اچھی بہن ، بہت اچھی بیٹی ، بہت اچھی بیوی، خادموں سے نیک سلوک کرنے والی اور اچھی ہمسائی ، اچھی عزیز ، اچھی دوست، اچھی رفیق ، اچھی صلاح کار اور نیک مشورہ دینے والی ، ہر ایک کا بھلا چاہنے والی اور بہت پیاری دوست نما نانی اور دادی.اتنے بڑے ظرف والی تھیں کہ ہر بندہ اپنا دکھ درد آپ سے آرام سے کہہ دیتا، مجال ہے جو کسی کے سامنے بھاپ بھی نکالتی ہوں ، بہت اچھی راز داں تھیں.رشتہ داروں ، عزیز وں سے محبت کا ایک سیل رواں تھیں آپ ہر

Page 96

حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ 93 33 عزیز سے یکساں محبت کرتیں، کبھی سگے سوتیلے کا فرق نہ کیا، جب بیاہی گئی ہیں تو چھوٹی سی عمر ہی تھی ، صرف 12 سال سے کچھ اوپر اور سسرال میں بری کے طور پر تین اپنے سے بڑے بچے ملے، لیکن آپ نے ہمیشہ ان کو پہلے دن سے شفقت و محبت دی،ان سے دوستی رکھی، اس کی گواہی نواب صاحب کی بڑی بیٹی بو زینب ( جو آپ کی بھا بھی بھی بنیں) نے دی.اپنی والدہ کو بیگم صاحبہ کہتی تھیں ، کہا کرتی تھیں کہ :.بیگم صاحبہ بہت محبت کرنے والی تھیں ، میں کافی عرصہ بیماری کی وجہ سے ان کے پاس رہی اور مجھے آج تک یاد نہیں کہ کوئی ایسی بات کی ہو جس سے دل دُکھے بلکہ ہمیشہ ماں کی طرح خیال رکھا.“ اسی طرح اپنے تمام سسرالی عزیزوں سے محبت کا سلوک رکھا.آپ کے دیور نواب ذولفقار علی خان کی اولاد ہمیشہ بے حد احترام اور پیار سے آپ کو یاد کرتی ہے بلکہ ان کی دونوں بیٹیاں تو اپنی تائی جی کو اپنا دوست مانتیں، یکی سہیلیاں تھیں، اپنا ہر دکھ سکھ ، راز داری ، تائی جی سے ہوتی ، دیگر سسرالی عزیز بھی آپ کی صفات کی وجہ سے آپ کا احترام کرتے اور ذاتی مسائل میں آپ سے ہی مشورے کرتے ، حالانکہ عقیدے کی وجہ سے ایک دوری بھی تھی.آپ کا نصیحت کا انداز بھی سب سے انوکھا سب سے پیارا تھا.

Page 97

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 94 نصیحت کرتے وقت حضرت مسیح علیہ السلام یا حضرت اماں جان کا حوالہ ضرور دیتیں.ایک دن فرمانے لگیں تم لوگ ماں باپ سے روٹھتے ہو تو منائے ” سے نہیں ملتے ، میں بھی روٹھا کرتی تھی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک بار منانے سے مان جاتی“ فرمانے لگیں.’ایک بار ( بچپن میں) حضرت ائتماں جان سے ناراض ہو گئی.کیونکہ میں ان سے بار بار کہتی تھی مجھے پر اٹھا پکوا دیں اور اس کے او پر ملائی اور بورا ( پسی ہوئی چینی ڈال کے مجھے دیں.حضرت اماں جان اس وقت انگیٹھی پر حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کا کھانا اپنے سامنے خادمہ سے پکوا رہی تھیں کہنے لگیں:.”صبر کرو، اس وقت نہ چولہا فارغ ہے نہ مائی، تمہارے ابا کا کھانا پک جائے.تو پھر تمہارے لئے پر اٹھا ہوا دوں گی.“ میں ناراض ہو کر اندر جا کر منہ سر لپیٹ کر لیٹ گئی ، تھوڑی ہی دیر بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے اور مجھے اس طرح بے وقت لیٹا دیکھ کر حضرت اماں جان سے پوچھا کہ مبارکہ کو کیا ہوا ہے.حضرت اماں جان نے وجہ بتائی تو فوراً ہانڈی اُتر وائی اپنے سامنے پراٹھا پکوایا ، او پر ملائی اور بورا ڈالے اور ٹرے میں رکھ کر میرے پاس لائے اور فرمایا ”مبارکہ ! اٹھو دیکھو تمہارے لئے کھانا لے آیا ہوں میں فوراً اُٹھ

Page 98

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 95 کے بیٹھ گئی کہ اتنی بڑی ہستی ، میرے معز ز باپ میرے لئے کھانا لائے ہیں ، میں نے فوراٹرے سامنے رکھ کر کھانا شروع کر دیا، میں جب تک کھاتی رہی آپ وہیں بیٹھے مجھے دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے رہے.“ اسی ضمن میں ایک اور اسی قسم کا واقعہ یاد آیا جو آپ نے حضرت چھوٹی آپا صاحبہ کو بتایا تھا:."قادیان میں اُس زمانہ میں ڈبل روٹی کہاں تھی؟ دودھ اور ساتھ مٹھائی یا پر اٹھا ہم لوگوں کو ناشتہ ملتا تھا، چائے کا بھی باقاعدگی سے کوئی رواج نہ تھا ، ڈبل روٹی کبھی تحفتا لاھور سے آجاتی تھی ، ایک روز کا واقعہ ہے ، صبح کا وقت تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام با ہر مردوں کے ہمراہ سیر کو تشریف لے گئے تھے، اصغری کی اماں ، جنہوں نے گیارہ سال حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کا کھانا پکانے کی خدمت بڑے اخلاص سے کی.کھانے کی تیاری میں مصروف تھیں اور حضرت اماں جان بھی ان کے پاس باورچی خانہ میں جو اُس وقت ہمارے صحن کا ایک کو نہ تھا، کوئی خاص چیز پکانا یا پکوانا چاہتی تھیں ، اصغری کی انتہاں دو تو س اور دودھ کا پیالہ کشتی میں لگا کر دیئے کہ ”لو بیوی ناشتہ کر لو میں نے کہا ” مجھے تو س تل کر 66 دو‘ مجھے تلے ہوئے تو س پسند تھے.انہوں نے اپنے خاص منت درآمد والے لہجے میں کام کا عذر کیا

Page 99

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 96 اور حضرت اماں جان نے بھی فرمایا.اس وقت اور بہت کام ہیں اس وقت اسی طرح کھا لو، تل کر پھر سہی".میں سن کر چپکی چلی آئی اور اس کمرہ میں جو اب حضرت اماں جان کا کمرہ کہلاتا ہے کھڑکی کے رخ (اب وہ کھڑکی بند ہو چکی ہے اور وہاں غسل خانہ بن گیا ہے ) ایک پلنگ بچھا تھا، اسی پر پاؤں لٹکا کر بیٹھ گئی ، دل میں یقین تھا کہ دیکھو میرے ابا آتے ہیں اور ابھی سب ٹھیک ہو جائے گا ، دیکھوں کیسے نہیں تلے جاتے میرے توس ! جلد ہی حضرت صاحب سیر سے تشریف لے آئے ، کمرہ میں داخل ہوئے صرف میری پیٹھ دیکھ کر روٹھنے کا اندازہ کر لیا اور اسی طرح خاموش واپس صحن میں تشریف لے گئے.باہر جا کر پو چھا ہوگا اور جواب سے تفصیل معلوم ہوئی ہوگی ، میں تھوڑی دیر میں ہی کیا دیکھتی ہوں ، پیارے مقدس ہاتھوں میں سٹول اٹھائے ہوئے آئے اور میرے سامنے لاکر رکھ دیا، پھر باہر گئے اور خود ہی دونوں ہاتھوں میں کشتی اٹھا کر لائے اور سٹول پر میرے آگے رکھ دی.جس میں میرے حسب منشاء تلے ہوئے تو س اور دودھ کا ایک کپ رکھا تھا اور فرمایا:.لواب کھاؤ میں ایسی بدتمیز نہ تھی کہ اس کے بعد بھی ” منہ پھولا رہتا، میں نے فوراً کھانا شروع کر دیا.آج تک جب بھی یہ واقعہ وہ خاموشی سے سٹول سامنے رکھ کر

Page 100

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 97 اس پر کشتی لا کر رکھنا یاد آتا ہے اور اپنی حیثیت پر نظر جاتی ہے تو آنسو بہہ نکلتے ہیں، بڑے ہو کر taste بدل جاتے ہیں مگر اس یاد میں اب تک میں بہت چاہت سے ملے ہوئے تو س کبھی کبھی ضرور کھاتی ہوں.“ اسی طرح حضرت اماں جان سے بے حد محبت بھی ہر وقت کے ذکر سے ظاہر ہوتی تھی کبھی نصیحت کرتے ہوئے مثال دے دی، کبھی اپنا کوئی واقعہ سنا دیا ، ایک دفعہ گھر کی کسی لڑکی نے اپنے بیٹے کو مٹی میں کھیلنے سے روکا تو فرمانے لگیں کھیلنے دو! حضرت اماں جان فرمایا کرتی تھیں.پچھکےگھٹا ہووے کٹا‘، ایک بار اپنی نواسی کو گھریلوٹوٹکے بتاتے ہوئے فرمایا.گھر کا بجٹ نہ بنایا کرو، یعنی خرچ کی جو رقم ہے اسے ہر وقت گنا نہ کرو ،حضرت اماں جان فرمایا کرتی تھیں کہ ” پیسے گنے سے برکت نہیں پڑتی ، وہ خدا تو ہے 66 حساب دینے والا ہے، ہم بجٹ بنا کر اس کو محدود کیوں کرتی ہو.“ اپنے بھائیوں سے بے حد محبت تھی، اتنی زیادہ کہ شاید ہی کسی بہن نے اپنے بھائی سے کی ہو، جب ایک ایک کر کے تینوں بھائی اللہ کو پیارے ہو گئے تو آپ بہت ہی افسردہ رہنے لگیں ، اپنی اس کیفیت کے بارے میں آپ لکھتی ہیں:.ایک بہت پرانی دوست جو قریبی عزیز ، میرے میاں کی بھتیجی

Page 101

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 98 ہیں ، اُن کے خط کے جواب میں ایک مصرع آخری لکھا تھا پھر چار شعر ہو گئے.جو مجھے چاہتے تھے چاہ کو پہچانتے تھے ان کی فرقت میں وہ تنویر کہاں سے لاؤں کاغذی عکس بھی ہیں دل پر میرے نقش بھی ہیں بولتی ہستی وہ تصویر کہاں سے لاؤں وہ کہاں پیار وہ آپس میں دلوں کی باتیں آہ اس خواب کی تعبیر کہاں سے لاؤں دل پر مردہ میں باقی نہ رہی زندہ دلی اب میں وہ شوخی تحریر کہاں سے لاؤں اُنہوں نے لکھا تھا عرصہ سے آپ کے خطوط میں وہ بات نہیں رہی ، نہ وہ مزاح کا رنگ نہ چمک نہ شوخی ، نہ وہ مزے کی باتیں ، کیا ہوا؟ کیا بات ہے؟ ان کی تحریمیہ نے اس تبدیلی کی یاد دلا دی اور اس وقت بھائیوں کی یاد میں ، خصوصاً سب سے زیادہ محبت کرنے والے، بہت خیال رکھنے والے حضرت بڑے بھائی صاحب (حضرت مصلح موعود ) کی یاد آئی ، ان کا ہر بات دل کی کرنا، پرانی باتیں سننا اور سنانا یاد آگیا، گومتینوں بھائیوں کی یہی کیفیت تھی ، بہت محبت کی بہت قدر کی ، بہت ہمدردی پیار

Page 102

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 99 سب سے ہی پایا ، سب کی یاد نے افسردہ کر دیا، خصوصاً اس خاص وجود کا خاص پیار، بچپن سے اب تک ، جن کا گود میں اٹھانا بھی یاد آتا ہے آج تک ، باہر لاھور وغیرہ گاہے میرے بچپن میں بھی جاتے تو کبھی کھلونے کبھی اچھے اچھے crackers، جن میں سے پیاری پیاری چیزیں نکلتی تھیں لاتے ، ہر شکایت ، ہر بات، میں ان کے پاس یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس کرتی تھی، گویا یہ بھی باپ اور بھائی کی محبت کا مجموعہ تھے اور بڑی ہوئی ! تو خاص دوست کی بھی صورت شامل ہوئی.“ جہاں آپ ایک اچھی بیٹی ، اچھی بہن تھیں ، ایک بے مثال محبت اور خدمت کرنے والی بیوی بھی تھیں ، حضرت نواب صاحب آپ کی بے حد عزت قدر کرتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیٹی ہونے کے ناطے آپ کو ایک تبرک سمجھتے.آپ نے اپنی ڈائری میں لکھا:.پھر صورت کے لحاظ سے...اور روحانی لحاظ سے بھی حالت معزز ہے اور سیرت کے لحاظ سے کس باپ کی بیٹی ہیں.بس نہایت پیارا انداز اور عجیب دلکش طبیعت ہے.محبت کرنے والی بیوی ہیں، پھر مجھ کو کیوں نہ محبوب ہوں ! “ اس لئے آپ کی بہت ناز برداری کرتے ، مگر با وجود ان ساری ناز برداریوں اور محبت اور عزت کے اور باوجود اس کے کہ آپ چھوٹی عمر یعنی بارہ سال میں ہی بیا ہی آئی تھیں اس سلوک سے

Page 103

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 100 ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا ، بلکہ ہمیشہ اپنے میاں کو بہت عزت دی، ان کا بے حدادب کیا ، جن باتوں کو وہ پسند نہ کرتے ہمیشہ ان کا خیال رکھا ، ہمیشہ سامنے بھی اور غیر حاضری میں بھی ان پر عمل کیا.اپنے بچوں کو بھی یہی کہتیں کہ دیکھو! تمہارے ابا میاں کو یہ بات پسند نہیں اس کا خیال رکھو، ان کے ہر حکم اور ہر خواہش پر شرح صد سے عمل کرتی تھیں.کہا کرتی تھیں بہت سی باتیں میں نے میاں سے سیکھی ہیں، کبھی کسی بات کا نقص نہ نکالتے بلکہ بڑی نرمی سے بہت اچھے طریقے سے بات سمجھا دیتے.آپ ایک وفاشعار اور خدمت گزار بیوی تھیں اور خاص طور پر نواب صاحب کی آخری بیماری میں تو اس قدرخدمت کی جس کی مثال دینا مشکل ہے، دن رات ایک کر دیئے ، ایک پل بھی آرام نہ کرتیں.اللہ تعالیٰ کی ہستی پر کامل ایمان و یقین تھا ، بڑی محبت اور جانثاری کے جذبے سے اس کے احسانوں کا ذکر کرتیں کہا کرتیں :.ے کوئی اس کو نہ جب تک چھوڑے کسی کو خو دنہیں و ہ چھوڑتا ہے نہ کیوں سو جان سے دل اس پر فدا ہو کہ وہ محبوب ہی جان و فا ہے جب تک بھی دعا کے لئے ہاتھ اٹھے اپنے محبوب خدا کی حمد سے دل بھر آیا

Page 104

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 101 اور تڑپ کر دردمندانہ انداز میں پکارا:.اے محسن و محبوب خدا اے میرے پیارے اے قوت جاں اے دل محزوں کے سہارے اے شاہ جہاں نورِ زماں خالق باری ہر نعمت کو نین تیرے نام پہ واری صلى الله آنحضور علی سے بے حد محبت کرنے والی ، آپ کے اسوہ پر پورا پورا عمل کرنے کی کوششیں کرنے والی ، فرماتی ہیں:.تیری تعریف اور میں نا چیز گنگ ہوتی ہے یاں زبان حکیم کیا کہیں ہم کہ کیا دیا تو نے ہر بلا سے چھڑا دیا تو نے پھر اپنے آقا ، پیارے رحمۃ اللعالمین کے احسان یاد کر نے اور یاد دلانے کے لئے فرماتی ہیں:.هیچ درود اس محسن پر تو دن میں سوسو بار پاک محمد مصطفیٰ نبیوں کا سردار کیا التجا کروں کہ مجسم دعا ہوں میں سرتا به پاسوال ہوں سائل نہیں ہوں میں

Page 105

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 102 آپ بہت دعا گو تھیں ، بہت عبادت گزار ، بڑے اہتمام سے بڑے خشوع و خضوع سے لمبی لمبی نمازیں پڑھتیں مغرب کی نماز اتنی لمبی ہوتی کہ عشاء کا وقت ہو جاتا ، پھر عشاء کی نماز شروع کر دیتیں اور دیر تک نماز اور نوافل پڑھتی رہتیں ، سارے خاندان مسیح موعود علیہ اسلام اور ساری جماعت کے لئے دعائیں کرتیں، اپنا ایک سجدہ تو ان لوگوں کے لئے بھی وقف کر چھوڑا تھا، جو آپ کو دعا کا خط نہ لکھ سکتے تھے، ان کی پریشانیاں دور ہونے کی بھی دعا کرتیں.آپ کو مقام خلافت کا بے حد احترام تھا.اور نظام خلافت سے وابستگی اور اطاعت گزاری ہمیشہ آپ کا چلن رہا آپ نے اپنی زندگی میں تین خلفاء کا زمانہ دیکھا اور تینوں ہی سے آپ کو بے حد محبت اور عقیدت تھی اور تینوں کی ہی آپ ہمیشہ فرمانبردار اور اطاعت گزار رہیں.حضرت خلیفہ اول سے آپ کو بہت عقیدت تھی.بچپن سے لے کر سب زمانے کی باتیں اور ذکر اس پیار بھرے لہجے میں کرتیں کہ سننے والے کا دل بھی اس محبت سے سرشار ہو جاتا پھر حضرت خلیفہ ثانی تو بھائی تھے.مگر بطور خلیفہ بھی آپ کا اس قدر احترام تھا، اس قدر عقیدت تھی کہ جس کی مثال نہیں اور جب آپ کا یہ پیارا بھائی اور خلیفہ آپ سے جدا ہوا تو غم سے

Page 106

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 103 نڈھال ہو گئیں.لیکن اس وقت بھی کمال صبر اور حوصلے کا نمونہ پیش کیا ، سب بچے ، عزیز ، حضرت مصلح موعود کے گرد جمع تھے ، آپ کی وفات پر سب ہی تڑپ اٹھے ، رونے لگے ، ان آہوں اور سسکیوں میں ایک شاندار آواز بلند ہوئی کڑا کے دار :.سنو ! خاموش ہو جاؤ! میری بات سنو، مجھے وہ وقت یاد ہے، یہ وہ ہیں ، جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جنازے پر کھڑے ہو کر یہ عہد کیا تھا کہ:.”اگر سب میرا ساتھ چھوڑ دیں ، میں اکیلا رہ جاؤں تو بھی میں عہد کرتا ہوں کہ اس مشن کو میں پورا کروں گا ، جس کے لئے آپ بھیجے گئے تھے.“ دیکھو! میری آنکھوں نے دیکھا انہوں نے ہر لحاظ سے اس عہد کو پورا کیا، آخر دم تک اُس عہد پر قائم رہے، دین کی خدمت میں ہی جان دی، اب رونے کا وقت نہیں ، دعائیں کرو اور خدا کے سامنے عہد کرو کہ تم 66 بھی ان کے نقش قدم پر چلو گے ، اب تم پر یہ ذمہ داری ہے.“ پھر اسی غم سے نڈھال وجود نے اپنے داماد ، بھتیجے ، حضرت خلیفۃ امسیح الثالث کی کھلے دل کے ساتھ بہ رضا ورغبت بیعت کی اور تمام عمر آپ کی کامل اطاعت میں گزاری.ہر کام میں ان سے مشورہ

Page 107

حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ 104 لیتیں کہیں آنا جانا ہوتا کسی اور شہر میں ، تو ہمیشہ اجازت لے کر جاتیں، آپ کا بے حد احترام کرتیں اور آپ کا ادب و لحاظ اس قدر ملحوظ خاطر تھا کہ ایک بار حضور کے ساتھ بھوربن سیر کے لئے تشریف لے گئیں.ایک دن حضور کی باہر ملاقاتیں لمبی ہو گئیں ، اندر سب کھانے پر انتظار کر رہے تھے، یہ بھی بھو کی بیٹھی تھیں ، آخر باہر سے پیغام آیا کہ کھانا لگوادیں میں بس آنے والا ہوں، مرزا فرید احمد (حضور کے بیٹے ) جا کر بیگم صاحبہ کو کھانے کیلئے میز پر لے آئے ، کافی وقت گزر گیا حضور کو آنے میں دیر ہوگئی ، کہنے لگیں مجھے تو بھوک سے ضعف ہونا شروع ہو گیا ہے.سب نے کہا آپ کھا لیں انتظار نہ کریں کہنے لگیں :.نہیں ! یہ بے ادبی ہے، میں اس طرح کرتی ہوں ، اپنے کمرے میں جاتی ہوں ، وہیں میرا کھانا بھیج دو.“ یعنی یہ گوارہ نہ کیا کہ میز پر بیٹھ کر حضور کی آمد سے پہلے کھانا شروع کر دیں، ہے تو یہ چھوٹی سی بات لیکن آپ کے خلیفہ وقت سے بے حد ادب و احترام کو ظاہر کرتی ہے.آپ کی کیا کیا تعریف کی جائے ، آپ تو خوبیوں کا مجسمہ تھیں.آپ کے حسن سیرت کا الفاظ احاطہ نہیں کر سکتے ، سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ سراپا محبت تھیں ، ایک ایسا وجود جس نے تمام عمر سب سے اپنے تمام

Page 108

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 105 رشتوں سے محبتیں پائی ہوں ، محبت لینے کا عادی ہو جاتا ہے ، دینے کا نہیں، لیکن آپ تو خود سرا پا محبت بن گئیں.سب جماعت کے لوگ، کیا اولاد، کیا خادم، کیا عزیز رشتہ دار سب نے آپ کی محبت سے فیض پایا.اپنے بہن بھائیوں کی اولا د پھر اولاد در اولاد سے بھی بے حد محبت کی اور سب کے لئے دعاؤں کا ایک چشمہ رواں تھیں ، جس سے سب اپنے پرائے فیض پاتے.ذراسی بھی کسی کی تکلیف یا بیماری دیکھتیں تو تڑپ کر اس کے لئے دعا کرتیں ، نہ صرف خود کرتیں، بلکہ جماعت کو بھی شریک کرلیتیں ، فوراً الفضل، میں دعا کی تحریک لکھ بھیجتیں کہ فلاں کو فلاں تکلیف ہے احباب دعا کریں.آپ نے حضرت اماں جان کے طریق پر بہت سی یتیم لڑکیوں کی اور جو سفید پوش گھرانے ، اپنی بچیاں آپ کے پاس تربیت کے لئے چھوڑ جاتے ، ان سب کی بہترین تربیت کی ، پکانا، ریندھنا سب سکھایا، پھر ا چھے گھروں میں اُن کی شادیاں کیں ، سب اپنے اپنے گھروں میں بہت سکھی رہیں.آپ ایک بلند پایہ شاعرہ اور ادیب بھی تھیں ، آپ کی شاعری میں بہت بے ساختگی تھی ، بہتے جھرنوں کی سی روانی تھی ، آپ کی شاعری

Page 109

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 106 پڑھ کر یہ احساس ہوتا گویا انسان سمندر کے پانی کی لہروں کے ساتھ بہتا جارہا ہو، ایک بار موسم ابر آلود تھا، ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی ،نرم نرم ہوائیں دل کو چھو رہی تھیں ، اس موسم میں آپ کو ، اپنے بچھڑے ہوئے پیاروں کی یاد میں تڑپا کر رکھ دیا اور بے ساختہ آپ کے منہ سے یہ اشعار درد کہتا ہے بہا دو خون دل آنکھوں سے تم ضبط کہتا ہے نہیں آہ و فغاں بے سود ہے خوف ہے مجھ کو کہ لگ جائے نہ اشکوں کی جھڑی آج میر ا مطلع دل پھر غبارآلو د ہے اور ادیب بھی آپ با کمال تھیں ، آپ کی تحریریں بہت سادہ ، بے ساختہ اور دل چسپ ہو تیں اور خطوط لکھنے میں بھی آپ کو کمال حاصل تھا ، بہت مزیدار محط لکھتیں ان خطوط سے بھی آپ کے ادبی ذوق کا پتہ لگتا ہے.آپ نے ایک بار خواب دیکھا ” حضرت مسیح موعود علیہ السلام زمین پر فرش پہ تشریف رکھتے ہیں ، اور آپ کے پاس آپ کا لکڑی کا قلم دان رکھا ہے....آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جس کے پاس میرے قلم دان کا ایک ٹکڑا بھی ہوگا خدا تعالی اس کے علم میں برکت دے

Page 110

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 107 گا.آپ کے پاس ہی میں کھڑی تھی میں نے اُس بچپن کے طریق سے آپ کو مخاطب کیا اور کہا ابا مجھے بھی دیں ! آپ علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے قلم دان کا ٹکڑا مجھے پکڑا دیا اور کہا لو ! میں نے پکڑا تو وہ نہایت سفید دودھ کی مانند ناریل کے ٹکڑوں کی مانند کئی ٹکڑے تھے ، جو مجھ سے سنبھل نہیں رہے تھے ، مگر میں نے گرنے نہ دیا اور گود میں سنبھال لیا، میں بہت خوش تھی اور آنکھ کھل گئی.آپ کو مطالعہ کا بہت شوق تھا ، اُردو اور انگریزی ادب بہت شوق سے پڑھیں دینی کتب کا مطالعہ با قاعدہ کرتیں، کوئی نہ کوئی سلسلہ کی کتاب ہمیشہ آپ کے سرہانے بڑی رہتی.کچھ صفحات غور سے پڑھ کر پھر بعد میں کوئی نہ کوئی ہلکی پھلکی کتاب شروع کر دیتیں.قرآن شریف با قاعدگی سے سمجھ سمجھ کر پڑھتیں ، جہاں کوئی مطلب سمجھ نہ آتا ، اُسے بار بار پڑھے جاتیں جب تک اُس کے معنی کھل کر سامنے نہ آجاتے ، غرض حسن و خوبی کے رنگ برنگے خوشبو دار پھولوں سے آراستہ ایک گلدستہ کی مانند تھیں.لیکن طبیعت میں بے حد عاجزی تھی ، کبھی خود کو کچھ نہیں سمجھا ، ہمیشہ اپنی کم مائیگی کا ہی ذکر کیا.اپنی اسی عاجزانہ کیفیت میں اپنے خدا کو تڑپ کر پکار.:

Page 111

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ 108 ند روک راہ میں مولی شتاب جانے دے کھلا تو ہے تیری جنت کا باب جانے دے مجھے تو دامن رحمت میں ڈھانپ لے یونہی حساب مجھ سے نہ لے، بے حساب جانے دے آخر 22 اور 23 مئی 1977ء کی درمیانی شب بارہ بج کر پانچ منٹ پر یہ پیارا پیارا وجود ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گیا.اللہ تعالیٰ آپ کے بے حد بے حساب درجات بلند فرمائے.اور اپنے قرب خاص میں جگہ عطا فرمائے.آمین

Page 112

109 حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ حوالہ جات از کتاب تحرات مبارکه 1 صفحه (264) (215-214) 19 (271) 20 (252-251)21 (253)22 (259-254) 23 (245) 24 (249-247) 25 (6)26 (266265)2 (267) 3 4 صفحہ (272 تا273) (202-201)5 6 صفحه (201) (204-203) 7 (202)8 و صفحه (212-213) 27 صفحه (17) (6-7)28 (1714) 29 (2119) 30 (1110)31 (254252) 10 (297294) 11 12 صفحه (58) 13 صفحه (267-268) 14 صفحه (206) 32 صفحه (35 تا 37) (38)33 (60-59)34 (123)35 (210-207)15 (110-109) 16 (148-147) 17 (225223) 36 18 صفحه (269)

Page 113

110 حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ (226)37 (227)38 39 صفحه (232) (235-234) 40 41 صفحه (233) (239-238)42 (239)43 44 صفحه (240) (241) 45 (242) 46 47 صفحہ (243) (119) 48 (123) 49 (128123) 50 (63-61)51 (225)52 (103-102) 53 (94-93)54 (98-96)55

Page 114

(mubaraka ki kahani mubaraka ki zunbani) Urdu Published in UK in 2008 O Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom.Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.

Page 114