Language: UR
احمدی خواتین کی تعلیم و تربیت کے لئے تیار کی گئی اس خوبصورت اور مفید کتاب میں محض وعظ و نصیحت کی بجائے زندہ واقعات سے سجا کر نہایت دلچسپ ، ایمان افروز اور قابل عمل پروگرام کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ وعظ و نصیحت سے انسان کا نیک عمل زیادہ موثر ثابت ہوتاہے، یہ کتاب رفیقات حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام جیسی خوش نصیب اور اللہ کی پیاری بندیوں کی یاد کو تازہ واقعات کی شکل میں پیش کرنےکے لحاظ سے احمدیہ لٹریچر میں بلاشبہ ایک اچھا اضافہ ہے۔ اللہ کی بندیوں کا خدا تعالیٰ اوراس کے رسولؐ کے ساتھ سچا اور روحانی تعلق اوراس کے نتیجہ میں صفات حسنہ کا اعلیٰ ظہور کتاب کا اہم حصہ ہے۔ مثلا زُہد ، تقویٰ، توکل علی اللہ، صبر و رضا اور جرأت وبہادری کی داستانیں نیز 120 سالہ جان ، مال، وقت اور اولاد کی قابل رشک قربانیوں کا تذکرہ یکجا ملتا ہے۔
محسنات احمدی خواتین کی سنهرى خدمات
(احمدی احباب کی تعلیم و تربیت کے لئے ) محسنات احمدی خواتین کی سُنہری خدمات
نام کتاب محسنات احمدی خواتین کی سنہری خدمات
انتساب بے حد پیاری اور عظیم المرتبت ہستی، حضرت سیدہ مریم صدیقہ رحمھا اللہ تعالیٰ کے نام جن کی محبت ، شفقت اور خصوصی توجہ نے ہزارہا احمدی بچیوں اور خواتین کی اس نہج پر تربیت فرمائی کہ وہ آج دینی خدمات کے میدان میں، تمام دنیا میں ممتاز حیثیت کی حامل، مصروف عمل نظر آتی ہیں.اللہ تعالیٰ مرحومہ کو اپنے خاص الخاص سایہ رحمت میں جگہ دے.آمین
مکرمه تعارف نے اپنی کتاب ”محسنات (احمدی خواتین کی سنہری خدمات) کا تعارف لکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تو چند سطور اُن کی خواہش کے احترام میں لکھ رہی ہوں.نے احمدی خواتین کے فائدہ اور تربیت کے لئے خوبصورت اور مفید کتاب تحریر کی ہے.انہوں نے اسے وعظ ونصیحت کی بجائے زندہ واقعات سے سجا کر نہایت دلچسپ ، ایمان افروز اور قابل عمل پروگرام کی صورت میں پیش کیا ہے.یہ ایک حقیقت ہے کہ وعظ ونصیحت سے انسان کا نیک عمل زیادہ مؤثر ہوتا ہے.یہ کتاب رفیقات حضرت مسیح موعود علیہ السلام جیسی خوش نصیب اور اللہ کی پیاری بندیوں کی یاد کو تازہ واقعات کی شکل میں پیش کرنے کے لحاظ سے احمد یہ لٹریچر میں بلاشبہ ایک اچھا اضافہ ہے.اللہ کی بندیوں کا خدائے تعالیٰ اور اُس کے رسول کے ساتھ سچا اور رُوحانی تعلق اور اس کے نتیجہ میں صفات حسنہ کا اعلیٰ ظہور کتاب کا اہم حصہ ہے.مثلاً زہد و تقویٰ، توکل علی اللہ ، صبر ورضا اور جرات و بہادری کی داستانیں نیز 110 ساله جان، مال ، وقت اور اولاد کی قابلِ رشک قربانیوں کا تذکرہ یکجا ملتا ہے.لجنہ اماء الله احمدی خواتین کی عالمگیر تنظیم ہے جو خدائے تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے بیشتر ملکوں میں قائم ہے.لجنہ اماءاللہ“ کے معنی اللہ کی بندیوں کی تنظیم ہے.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) نے اپنی خدا داد فراست سے احمدی خواتین کی تعلیمی ضرورت ، تربیت واصلاح، انفرادی و اجتماعی علمی اور روحانی
5 ترقی کے لئے وقتاً فوقتاً نہایت قیمتی ہدایات سے نوازا جن پر لجنہ اماء اللہ نے گامزن ہو کر ترقی کی منازل کو طے کیا ہے.اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے اور اُن کی کوشش کو قبول فرمائے تا کہ اس کتاب کا مقصد پورا ہو یہ کہ احمدی خواتین اور اُن کی نسلیں ابتدائی عظیم احمدی خواتین اور موجودہ مثالی خواتین کے نقش قدم پر چلیں.تمام احمدی خواتین کو اس کا مطالعہ کرنا چاہئے تا کہ اس کتاب میں جن قابلِ رشک خواتین کے کردار کو پیش کیا گیا ہے.اُس سے روشنی حاصل کریں اور اُس روشنی سے نہ صرف اپنے قلوب منور کریں بلکہ اس کو عام کریں اور نسل در نسل اس کو اکناف عالم میں پھیلاتی چلی جائیں.
پیش لفظ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کے ساتھ لجنہ اماءا لوصد سالہ جشن تشکر کے سلسلے کی اکاسی ویں (81) کتاب پیش کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے.الحمد للہ علی ذالک قرآنی ارشاد ہے:.فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيْماً ( الاحزاب: 30) اللہ تعالیٰ نے تم میں سے حسن عمل کرنے والیوں کے لئے بہت بڑا آجر تیار کیا ہے.نے جس طرح نہایت محنت سے ( دینِ حق ) پر قائم رہنے والیوں ہر قسم کی قربانی پیش کرنے والیوں اور اپنی ذمہ داریوں کو تن دہی سے ادا کرنے والیوں کے ذکر کو یکجا کیا ہے یہ احمدی خواتین کے لئے نمونہ اور مثال ہے اور دعاؤں کے حصول کا ذریعہ بھی ہے.اللہ تعالیٰ عظیم سے نوازے.آمین اللہم آمین ورسب کواجرِ محتر مہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ والدہ ماجدہ حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے تعارف کے بعد مزید لکھنے کی گنجائش نہیں رہتی.آپ نے احسن رنگ میں کتاب کی اہمیت بیان فرمائی ہے.دراصل ہر لحظہ ہر جہت سے تیزی سے نمو پذیر جماعت کے متعلق کوئی مکمل جائزہ پیش کرنا ممکن ہی نہیں ہے اس لئے اس کتاب کے مطالعہ کے دوران شد ان تشنگی کا
احساس رہتا ہے.اس تشنگی کو ہم اس کا حسن بھی کہہ سکتے ہیں.مزید کی طلب صاحبہ کے علاوہ بھی خواتین کو ایسے بے نظیر حقائق جمع کرنے پر آمادہ کرتی رہے گی.بشری صاحبہ نے یہ عرقریزی چند سال قبل کی تھی.جماعت کا دامن بہت وسیع ہے اور اللہ تعالیٰ کی وسیع تر عنایات کے طفیل ہر احمدی عورت کسی نہ کسی رنگ میں اللہ تعالٰی کی عطائے خاص کی مظہر ہے.ہر احمدی عورت کا ذکر کسی بھی حجم کی کتاب میں نہیں ہو سکتا بطور نمونہ جو پیش کیا گیا ہے ہمیں ذمہ داریوں کا احساس دلانے اور ترقی کے راستے بجھانے کو بہت کافی ہے.حضرت خلیفۃ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :- ” ہماری خواتین کی قربانیاں پس پردہ ہیں اس میں دکھاوے کا کوئی بھی دخل نہیں اور خدا کے حضور وہ قربانیاں پیش کرتی چلی جاتی ہیں.یہاں تک کہ کبھی کسی امام وقت کی نظر پڑ جائے تو وہ چند نمونے دانہ دانہ چن کر تاریخ کے صفحات میں محفوظ کر دیتا ہے اس سے زیادہ ان کی قربانیوں کی کوئی نمائش نہیں.اب بھی میں نمائش کی خاطر یہ پیش نہیں کروں گا بلکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آپ کی اگلی نسلوں کی قربانیوں کی روح کی حفاظت کے لئے ضروری ہے کہ ان کے علم میں ہو کہ ان کی مائیں کیا تھیں.انکی بہنیں کیا تھیں.ان کی نانیاں دادیاں کیا چیز تھیں.کس طرح انہوں نے احمدیت کی راہ میں اپنے خون کے قطرے بہائے اور اُس کی کھیتی کو اپنے خون سے سیراب کیا.“ خطاب حضرت خلیفہ مسیح الرابع 1992-8-1 بمقام اسلام آباد UK)
اظہار ممنونیت خاکسارا اپنے پیارے امام سید نا حضرت ماریہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کی دل سے ممنون ہے کہ حضور اقدس نے مورخہ 26/اپریل 1998 ء کو مجھے کتاب بعنوان ( احمدی خواتین کی سنہری خدمات ) لکھنے کی اجازت از راه شفقت عطا فرمائی.کی اجازت کے بعد مکرم و محترم سید عبدالحئی شاہ صاحب خدمت میں مذکورہ بالا کتاب تحریر کرنے کی اجازت کی درخواست کی گئی اور انہیں ذیلی عناوین سے آگاہ کیا گیا.جس پر محترم موصوف نے نہ صرف اجازت دی بلکہ اہم مشوروں سے نوازا.محترم محمد اعظم اکسیر صاحب نے بھی میری راہنمائی فرمائی.محترم نے کتاب کا مسودہ پڑھ کر مفید اصلاحی نکات بتائے.علاوہ ازیں مکرم ومحترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب نے بھی مسودہ بنظرِ غائر دیکھا اور قیمتی مشوروں سے نوازا.مکرمه و محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ میرے خاص الخاص شکریے کی مستحق ہیں جنہوں نے باوجود کمزوری صحت کے نہ صرف میری درخواست کو شرفِ قبولیت بخشا اور کتاب کا تعارف لکھ کر میری عزت افزائی فرمائی بلکہ احمدی خواتین سے بھی محبت کا ثبوت دیا.خاکسار مذکورہ بالا تمام احباب کا شکریہ ادا کرتی ہے.جزاهم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء
10 فهرست مضامين مضمون ابتدائیہ احمدی خواتین کا تعلق باللہ اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم.احمدی خواتین کی قرآن پاک سے محبت احمدی خواتین کا تو کل علی اللہ وصبر ورضا-- احمدی خواتین کی دینی تعلیم وتربیت.احمدی خواتین کی جرات و بہادری احمدی خواتین اور تحریک وقف زندگی احمدی خواتین کی دعوت الی اللہ.احمدی خواتین کی عظیم الشان قربانیاں.احمدی خواتین کی مالی قربانیاں احمدی خواتین کی تربیت اولا د اور تحریک وقف نو احمدی خواتین کی خدمت خلق و اکرام ضیف.سلطان القلم کی مجاہدات نظم و نثر میں خدمات احمدی خواتین کا مستحسن اور مستحکم مقام.صفحہ 11 17 45 55 65 95 113 139 161- 183 225 245 261 277
11 ابتدائیہ تیرھویں صدی ہجری کے اختتام اور چودھویں صدی ہجری کے آغاز پر ملت اسلامیہ کی حالت نا گفتہ بہ تھی.خاص طور پر برصغیر پاک و ہند میں مذہبی ، معاشی اور معاشرتی ، ہر لحاظ سے برسوں کی غلامی کے اثرات نے ان کی ذہنی وعلمی صلاحیتوں کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا.سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد برطانوی تسلط کے دور میں عیسائیت کی یلغار ہوئی تو مسلمان اپنی علمی کم مائگی اور عملی کمزوریوں کی وجہ سے مزید شکست خوردہ ہو گئے.الا ماشاء اللہ علمائے دین بھی حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آسمان کے نیچے بدترین مخلوق بن چکے تھے.دینی و دنیاوی افلاس کے باوجود ( دینِ حق) کے نام لیواؤں کو غفلت کے لحافوں میں پڑے سونے سے کام تھا.احساسِ زیاں تک باقی نہ تھا.بر و بحر میں فساد کے اس دور میں رحمت الہی نے ایک فنافی اللہ اور فنافی الرسول مسیحا کو چنا اور اپنے بندوں کو دعوت الی اللہ دینے پر ما مور فر مایا.یہ ہم اس قدر کٹھن اور دشوار تھی کہ بظاہر کامیابی کی کوئی عملی صورت نظر نہ آتی تھی.مگر تائید الہی سے اس گمنام و بے ہنر کی طرف رجوع جہاں ہوا اور قادیان اک مرجع خواص بستی بن گئی.یہ کیوں نہ ہوتا جبکہ قادر و توانا اور عالم الغیب خدائے تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں ( دین حق ) کی بعثت ثانیہ کے لئے منتخب فرما لیا تھا.آپ نے تزکیہ نفس اور تعلیم کتاب الہی سے اپنے روحانی باپ کے مشن پر عمل فرمایا.” يحيى الدين ويقيم الشریعه “ کے لئے اللہ تبارک تعالیٰ نے آپ کو قوت قدسیہ عطا فرمائی.الہی نصرت سے آپ نے حرماں نصیبوں میں سے سعید فطرت روحوں کو مسیحائی کے اعجاز سے نئی زندگی عطا فرمائی.تاریخ احمد بیت شاہد ہے کہ آپ کے فیضانِ قلبی اور صحبت سے فیض یاب
12 ہونے والے خوش نصیب چلتے پھرتے فرشتوں کا روپ دھار گئے.حضرت حکیم مولانا نور الدین، حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ، حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب، حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمی اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب اللہ آپ سے راضی ہو ) جیسے جگمگاتے ستارے فدائیت و اخلاص میں مثال بن گئے خواتین بھی اس میدان میں شانہ بہ شانہ نظر آتی ہیں بلکہ بعض حالات میں اپنے باپوں، خاوندوں اور بیٹوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اُن سے بھی سبقت لے گئیں.تاریخ احمدیت کا تفصیلی مطالعہ کرنے والے جگہ جگہ ایسے قیمتی موتی اور نایاب ہیرے پوری تابانی سے چمکتے ہوئے پائیں گے.چند ایسے جگمگاتے موتی اس کتاب میں جمع کئے گئے ہیں جو آئندہ آنے والی نسلوں کے از دیا دایمان اور راہنمائی کا سامان بنیں گے.خواتین کی سنہری خدمات کی توفیق بھی دراصل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کا ثمر ہیں آپ فرماتے ہیں.خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ محض اپنے فضل اور کرامت خاص سے اس عاجز کی دعاؤں اور اس ناچیز کی توجہ کو ان کی پاک استعدادوں کے ظہور و بروز کا وسیلہ ٹھہر اوے اور اس قدوس جلیل الذات نے مجھے جوش بخشا ہے تا میں ان طالبوں کی تربیت باطنی میں مصروف ہو جاؤں اور ان کی آلودگیوں کے ازالہ کے لئے دن رات کوشش کرتا رہوں اور ان کے لئے وہ نور مانگوں جس سے انسان نفس اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے اور بالطبع خدا تعالیٰ کی راہوں سے محبت کرنے لگتا ہے.اور انکے لئے وہ رُوحِ قدس طلب کروں جو ربوبیت تامہ اور ربوبیت خالصہ کے کامل جوڑ سے پیدا ہوتی ہے اور اس روح خبیث کی تسخیر سے اُن کی نجات چاہوں کہ جو نفس امار
13 شیطان کے تعلق شدید سے جنم لیتی ہے سو میں بتو فیقہ تعالیٰ کابل اور سست نہیں رہوں گا اور اپنے دوستوں کی اصلاح طلبی سے جنہوں نے اس سلسلہ میں داخل ہونا بصدق قدم اختیار کر لیا ہے.غافل نہیں ہوں گا بلکہ ان کی زندگی کے لئے موت تک دریغ نہیں کروں گا اور ان کے لئے خدا تعالیٰ سے وہ رُوحانی طاقت چاہوں گا جس کا اثر برقی مادہ کی طرح ان کے تمام وجود میں دوڑ جائے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ان کے لئے جو داخل سلسلہ ہو کر صبر سے منتظر رہیں گے ایسا ہی ہوگا.کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس گروہ کو اپنا جلال ظاہر کرنے کے لئے اور اپنی قدرت دکھانے کے لئے پیدا کرنا اور پھر ترقی دینا چاہا ہے.تا دُنیا میں محبت الہی اور تو بہ نصوح اور پاکیزگی اور حقیقی نیکی اور امن اور صلاحیت اور بنی نوع کی ہمدردی کو پھیلا وے سو یہ گروہ اس کا ایک خالص گروہ ہوگا اور وہ انہیں آپ اپنی روح سے قوت دے گا اور انہیں گندی زیست سے صاف کرے گا اور ان کی زندگی میں ایک پاک تبدیلی بخشے گا.وہ جیسا کہ اُس نے اپنی پاک پیشنگوئیوں میں وعدہ فرمایا ہے اس گروہ کو بہت بڑھائے گا.اور اُس چراغ کی طرح جو اُونچی جگہ رکھا جاتا ہے دُنیا کی چاروں طرف اپنی روشنی کو پھیلائیں گے اور (دینی) برکات کے لئے بطور نمونہ ٹھہریں گے.(اشتہار 4 / مارچ 1889ء) آپ کی دعائیں اور کوششیں بدرگاہ الہی مقبول ٹھہر ہیں.آپ کی اتباع میں آپ کے خلفائے کرام نے بھی اسی طریق پر کام کیا.چنانچہ اونچی جگہ پر رکھے ہوئے چراغوں میں بعض خواتین کے حُسنِ عمل کی روشنی بھی جھلک رہی ہے.خدمات کے
14 میدان میں ہر جہت میں خواتین کی مثالیں موجود ہیں.اپنی جان، مال، وقت اور اولاد کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے والی خواتین احمدیت کو ایسی نسلیں عطا کر رہی ہیں جو زندگی کا سامان ہوا کرتی ہیں.میدانِ عمل میں کام کرنے والی احمدی خواتین آج بفضل تعالیٰ اس ارشادِ خداوندی کی مصداق نظر آتی ہیں.اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (الانعام: 163) ترجمہ: میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے.ظہور مہدی علیہ السلام کی تصدیق اور جانثارانہ اطاعت میں خواتین کی سرگرمیاں قابل تحسین ہیں.ان گنت مثالیں ہیں سعید فطرت خواتین نے نورحق کو پہچانا.رویاء وشوف سے رہبری ہوئی.بعض اوقات تو اپنے عزیز مردوں سے سبقت لے گئیں.یہ خواتین ڈور ڈور سے اپنے سر پرستوں کے ساتھ آتیں.حضرت اقدس کے گھر پر ہی قیام ہوتا آپ وعظ ونصیحت فرماتے:.تقوی اختیار کرو.دُنیا سے اور اس کی زینت سے بہت دل مت لگاؤ.قومی فخر مت کرو.کسی عورت سے ٹھٹھا ہنسی مت کرو.خاوندوں سے وہ تقاضے نہ کرو جو اُن کی حیثیت سے باہر ہیں کوشش کرو کہ تا تم معصوم اور پاکدامن ہونے کی حالت میں قبروں میں داخل ہو.خدا کے فرائض نماز زکوۃ وغیرہ میں سستی مت کرو.اپنے خاوندوں کی دل و جان سے مطیع رہو.بہت سا حصہ اُن کی عزت کا تمہارے ہاتھ میں ہے سو تم اپنی اس ذمہ داری کو ایسی ہی عمدگی سے ادا کرو کہ خدا کے نزدیک
15 لگاوے.“ صالحات، قانتات میں گنی جاؤ.اسراف نہ کرو.اور خاوندوں کے مالوں کو بے جا طور پر خرچ نہ کرو.خیانت نہ کرو.چوری نہ کرو.گلہ نہ کرو.ایک عورت دوسری عورت یا مرد پر بہتان نہ (کشتی نوح صفحه 107) اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اُس نے مسیحائے زماں کو حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ عطا فرمائیں.جنہوں نے براہ راست حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تربیت پا کر یہ فیض آگے خواتین میں جاری کیا.ابتدائی دور کی خواتین کا تعلق باللہ، قرآن پاک سے محبت، عبادت میں شغف اور انفاق فی سبیل اللہ قابلِ صد رشک ہے.حضرت مصلح موعود اس پاک تعلیم و تربیت کو نظم وضبط میں لائے.اللہ کی لونڈیوں کی تنظیم قائم فرمائی.لجنہ اماء اللہ کی ابتدائی ممبرات چودہ تھیں.مگر پھر شہر شہر گاؤں گاؤں اور بعد میں ملک ملک میں پھیل گئی اور دینی ودنیاوی تعلیم و تربیت کا عظیم الشان کام کرنے لگی.حضرت مصلح موعود جب خواتین میں بیداری کی لہر دیکھتے تو اظہار خوشنودی فرماتے :- ”مردوں کے مقابلے میں عورتوں نے قربانی کا نہایت اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ جو روح ہماری عورتوں نے دکھائی ہے اگر وہی روح ہمارے مردوں میں کام کرنے لگ جائے تو ہمارا غلبہ سوسال سے پہلے آ جائے.اگر مردوں میں بھی وہی دیوانگی اور جنون پیدا ہو جائے جس کا عورتوں نے اس موقع پر مظاہرہ کیا ہے تو ہماری فتح کا دن بہت قریب آجائے.“ جلسہ جرمنی 1992ء میں خواتین کو خطاب کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ خواتین کی حسن کارکردگی کے متعلق فرماتے ہیں:.
16 میں نے اپنے دور میں جو تحریکیں کی ہیں ان کے نتیجہ میں میں جانتا ہوں کہ اتنی عظیم الشان قربانیاں احمدی خواتین نے کی ہیں اور خاموشی کے ساتھ کی ہیں اور بعض دفعہ ان کے خط پڑھتے ہوئے آنکھوں میں بے اختیار آنسو جاری ہو جایا کرتے تھے.میں دعا کیا کرتا تھا کہ کاش میری اولاد میں سے بھی ایسی بیٹیاں ہوں جو اس شان کے ساتھ اس پیار اور محبت کے ساتھ اللہ کے حضور اپنا سب کچھ پیش کر دینے والی ہوں.“ "❝ ہم بھی اسی غرض سے آئندہ صفحات میں جائزہ لیں گے کہ احمدی عورت نے ( دین حق) کی اس نشاۃ ثانیہ کے دور میں اپنے حقوق و فرائض ادا کرنے میں کس عاجزانہ شان کا مظاہرہ کیا.یہ بات تو ظاہر ہے کہ اس قسم کے کوئی بھی جائزے مکمل اور حتمی نہیں ہوتے کچھ مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جو سب کی ترجمانی کرتی ہیں.اس کتاب میں بابرکت نام بکثرت آئیں گے جن کے ساتھ ہم دعا دینے کے عادی ہیں مگر بوجوہ ہم لکھ نہیں سکتے.قارئین کرام سے درخواست ہے کہ اپنے بزرگوں کے لئے دعائیہ الفاظ ادا کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ سب پر سلامتی نازل فرمائے.اپنی رضا کے عطر سے ممسوح فرمائے ان کے درجات بلند سے بلند تر کرتا چلا جائے.آمین اللہم آمین
17 احمدی خواتین کا تعلق باللہ اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے خدا تعالیٰ باتیں کرتا ہے اور مجھ سے ہی نہیں جو شخص میری اتباع کرے گا اور میرے نقش قدم پر چلے گا اور میری تعلیم کو مانے گا اور میری ہدایت کو قبول کرے گا خدا تعالیٰ اُس سے بھی باتیں کرے گا.احادیث نبویہ میں لکھا ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور کے وقت یہ انتشار نورانیت اس حد تک ہوگا کہ عورتوں کو بھی الہام شروع ہو جائے گا اور نابالغ بچے نبوت کریں گے.اور عوام الناس روح القدس سے بولیں گے اور یہ سب کچھ مسیح موعود کی روحانیت کا پر تو ہ ہوگا.“ ( ضرورة الامام صفحہ 5) احمدی خواتین کے تعلق باللہ اور عشق رسول کے بیان میں سرفہرست حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ ہیں.حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ حرم حضرت مسیح موعود علیہ السلام : اپنی مقدس والدہ کے ذکر میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں:- آپ کی نیکی اور دینداری کا مقدم ترین پہلو نماز اور نوافل میں شغف تھا.پانچ فرض نمازوں کا تو کیا کہنا.حضرت اماں جان تہجد اور نماز اشراق کی بھی بے حد پابند تھیں اور انہیں اس ذوق و شوق سے ادا کرتیں کہ دیکھنے والے دل میں ایک خاص
18 کیفیت محسوس کرتے.بلکہ ان نوافل کے علاوہ بھی جب موقع ملتا نماز میں دل کا سکون حاصل کرتی تھیں.میں پوری بصیرت کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آنحضرت ملالہ پیارا قول کہ ”میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے، یہی کیفیت حضرت سیدہ اماں جان کو اپنے آقا سے ورثے میں ملی تھی.یہاں تک کہ چھٹی کے دنوں میں بھی نماز کا وقت باتوں میں ضائع نہیں فرماتی تھیں بلکہ مقررہ اوقات میں تنہا ٹہل کر دُعا یا ذکر الہی کرتی تھیں.دُعاؤں میں بہت شغف رکھنے والی تھیں.آپ کبھی بھی نماز جلدی جلدی ادا نہیں فرماتی تھیں.نماز کے علاوہ دوسرے اوقات میں بھی بہت دعائیں کرتی تھیں.اپنی اولا داور ساری جماعت کے لئے جسے وہ اپنی اولاد کی طرح ہی سمجھتی تھیں.بڑے درد و سوز کے ساتھ دعا فرماتی تھیں.( دین حق ) اور احمدیت کی ترقی کے لئے آپ کے دل میں غیر معمولی تڑپ تھی.اپنی ذاتی دعاؤں میں جو دعا سب سے زیادہ آپ کی زبان مبارک پر آتی وہ یہ مسنون دعا تھی.”اے میرے زندہ خدا اوراے میرے زندگی بخشنے والے آقا ! میں تیری رحمت کا سہارا ڈھونڈتی ہوں.“ ( ہر اول دستہ صفحہ 24-23) ہر وقت شکر کے کلمات آپ کی زبان سے جاری رہتے.حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کی یہ تمام عبادت و ریاضت ان مصروفیات کے باوجود تھی جو گھر کے اعلیٰ انتظام اور مہمانداری کے سلسلے میں روز و شب جاری رہتی تھیں.ابتداء میں کافی عرصہ تک آپ خود ہی تمام مہمانوں کے لئے جو کبھی کبھار تعداد میں 100 بھی ہو جاتے تھے کھانا پکاتی تھیں.اور کئی مہمانوں کے مزاج کے مطابق الگ کھانا بھی پکوالیتیں.
19 سيرة ( حضرت اماں جان ) میں تحریر ہے کہ طہارت باطنی اور پاکیزگی سے آپ کو محبت ہے.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تطہیر میں اپنا کلام نازل فرمایا..اللہ تعالیٰ آپ کی دعاؤں کو شرف قبولیت بخشتا ہے.دعاؤں کی قبولیت کے بہت سے نمونے موجود ہیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہر قربانی کے لئے آپ کے دل میں تڑپ اور انشراح رہتی ہے.اللہ تعالیٰ سے محبت اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت محض خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ہے.“ (سیرۃ حضرت اماں جان حصہ دوم صفحہ 309) حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ: حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی عبادت کا اپنا انداز تھا.فرماتی ہیں:- میں نے سجدے مخصوص کئے ہوئے ہیں اور اس میں ایک سجدہ تو اُس حصہ جماعت کے لئے بھی مخصوص ہے جس نے کبھی مجھے دعا کے لئے لکھا بھی نہیں تھا.آپ بلاناغہ عشاء کے بعد قرآن مجید کی تلاوت فرماتیں اور رات کو بارہ بجے کے بعد ہی عموماً سوتیں.چار سال کی عمر سے ہی تہجد پڑھ رہی تھیں.ظاہری شان و شوکت تو اللہ تعالیٰ کی ودیعت تھی.لیکن باطنی طہارت و مجاہدات میں آپ کا اپنا عمل دخل تھا.آپ نے اپنے نفس کو کچل دیا تھا.آپ فرمایا
20 کرتی تھیں کہ میری تو یہ حالت ہے کہ بستر پر کروٹ بدلتی ہوں تو ہر کروٹ پر احباب جماعت کے لئے دعا کرتی ہوں.“ مصباح اگست 1989 ، صفحہ 12-11) حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ روحانی بادشاہ کی لخت جگر تھیں اور اللہ تعالیٰ نے ظاہری شان و شوکت کے لحاظ سے بھی نواب کا لقب عطا فر مایا اور دینی اور دنیاوی لحاظ سے اُس زمانے کی ملکہ کا یہ عالم کہ خادمانہ طور پر جماعت کے اور خاندان کے تمام افراد کے لئے شب و روز دُعائیں کیں.نمازوں میں رو رو کر اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی کے ساتھ دُعائیں کرنے والا وجود جماعت احمدیہ کی تمام خواتین کے لئے نمونہ تھا.بلکہ دنیا کی تمام عورتوں کے لئے بھی.آپ چار سال کی تھیں جب حضرت مولوی عبدالکریم صاحب (جن کی رہائش دار مسیح کے ایک حصہ میں تھی ) کی بیوی جن کو والو پانی جی کہتی تھیں ان کو کہا ہوا تھا کہ مجھے تہجد کے لئے اُٹھا دیا کریں.بعض اوقات بچہ ہونے کی وجہ سے نہ اُٹھا جاتا اور مولویانی جی اُٹھاتی جاتیں.حضرت مسیح موعود کبھی دیکھ لیتے تو فرماتے ”چلو نہ اُٹھاؤ لیٹے ہی لیٹے تسبیح وتحمید پڑھ لو.“ (سيرة وسوانح نواب مبار که بیگم صاحبه صفحه 97) حضرت صاحبزادی نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ: حضرت صاحبزادی نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ دختر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق آپ کی صاحبزادی محترمہ فوزیہ شمیم صاحبہ رقم طراز ہیں :- خدا تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بے حد محبت تھی.ایک دفعہ میں نے کہہ دیا کہ آج کل لوگوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو بھی حد سے متجاوز کر دیا ہے.
21 یہ سُن کر آبدیدہ ہو گئیں اور کہنے لگیں یہ نہ کہو بعض وقت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بھی خدا کے برابر لگنے لگتی ہے.اس وقت مجھے پتہ چلا کہ مدصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے بھی آپ کتنی سرشار تھیں.خدا تعالی کی ذات پر بے انتہا تو کل تھا.دعاؤں پر بے حد یقین تھا.صحت کی حالت میں گھنٹوں عبادت میں گزارتیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام چار سال کی عمر میں آپ کو اپنے مولیٰ کے سپر د کر گئے اور حقیقتا ساری زندگی اپنے مولا کی گود میں رہیں.بسا اوقات کسی چیز کی خواہش کر لیتیں اور وہ غیب سے آجاتی.پھر تحدیث نعمت کے طور پر بار بار اس کا ذکر کرتیں اور خوش ہوتیں.غیر اللہ پر بھروسہ کرنے سے سخت نفرت تھی.(مصباح جنوری، فروری 1988ء صفحہ 65-64) حضرت سیدہ سعیدة النساء صاحبه: حضرت سیّدہ سعیدۃ النساء صاحبہ والدہ حضرت سیدہ اُم طاہر صاحبہ کے بارے میں حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب تحریر فرماتے ہیں:.” آپ نے بچپن سے آخر عمر تک عبادت الہی میں گذاری.بچپن اور جوانی میں اپنوں اور دوسروں میں پارسا کے لقب سے مشہور تھیں.بیعت کے بعد آپ کی عبادت اور ذکر الہی کی کیفیت پانی کی مچھلی کی سی تھی.آپ دن رات انتھک دعائیں اور ذکر الہی کرنے والی اور تقویٰ اور طہارت کا بہترین اسوہ تھیں.رات کو بارہ ایک بجے کے بعد آپ بیدار ہو جاتیں اور صبح تک عبادت الہی میں مشغول رہتیں.بسا اوقات رقت سے زار زار رو تیں اور ہچکیاں بندھ جاتیں.ساتھ ہی رسول کریم صلی
22 اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دونوں کے آل اور ( رفقاء) اور جماعت احمدیہ کے لئے دعائیں کرتیں.پھر اشراق کی نماز ادا کرتیں.ظہر وعصر، مغرب وعشاء کے درمیان بھی عبادت میں مشغول رہتیں.گویا دن رات کا بڑا حصہ عبادت و ذکر الہی میں بسر ہوتا.جو آپ کی زندگی کا رُوحِ رواں بن گیا تھا.سخت بیماری کی حالت میں بھی آپ ایسا ہی کرتیں.جب گھر میں کوئی حکم الہی کا ذکر کرتا کہ اپنی طاقت سے بڑھ کر اپنی جان کو تکلیف نہ دو تو فرماتیں.میری جان کو تو اس سے راحت ہوتی ہے.آخری مرض تک باجماعت نماز ادا کرتیں.کئی کئی گھنٹے کی عبادت سے بھی آپ کو تھکاوٹ محسوس نہ ہوتی ر ادا کرتی ہیں کی کی تھ آپ دوسروں کو بتاتیں کہ نماز تو وہ ہوتی ہے جب انسان عرش معلمی پر جا کر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ کرے.میں نماز سے سلام نہیں پھیر تی.جب تک میری روح اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ نہیں کرتی.اور یہ حالت ہوتی ہے تو میں اُس وقت ( دینِ حق ) اور ساری جماعت احمدیہ کے لئے دعاؤں میں لگ جاتی ہوں.الفضل 11 دسمبر 1923 ء صفحہ 8-7 ) حضرت ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب نے فرمایا:- ایک دن میری اہلیہ نے بتایا کہ میں نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وسطی اور سبابہ دو انگلیاں کھڑی کر کے فرمایا کہ میں اور مسیح ایک ہی ہیں.“ آپ بیعت سے پہلے بھی صاحب حال تھیں.پیغمبروں ، اولیاء اور فرشتوں کی زیارت کر چکی تھیں.ان کو خواب میں دیکھنے سے حضرت صاحب پر ایمان پیدا ہو گیا تھا.اور مجھ سے انہوں نے کہا کہ آپ کو تین ماہ کی رخصت لیکر قادیان جانا
23 چاہئے.اور سخت بے قراری ظاہر کی کہ ایسے مقبول شخص کی صحبت سے جلدی فائدہ اُٹھانا چاہئے.زندگی کا اعتبار نہیں.ان کے اصرار پر میں تین ماہ کی رخصت لے کر مع اہل و عیال قادیان پہنچا.حضرت صاحب کو کمال خوشی ہوئی اور حضور نے اپنے قریب کے مکان میں جگہ دی.کیا:- (سیرۃ حضرت سیدہ اُمّ طاہر تابعین ( رفقائے ) احمد صفحہ 21) حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب نے اپنی والدہ ماجدہ کے تذکرہ میں تحریر ایک دفعہ حضرت مسیح موعود نے ہماری والدہ صاحبہ سے فرمایا کہ یہ آپ کا گھر ہے.آپ کو جو ضرورت ہو بغیر تکلف مجھے اطلاع دیں.آپ کے ساتھ ہمارے تین تعلق ہیں.ایک تو آپ ہمارے مرید ہیں، دوسرے آپ سادات سے ہیں، تیسرا ایک اور تعلق ہے یہ کہہ کر حضور خاموش ہو گئے.والدہ صاحبہ کو اس آخری فقرہ سے حیرانگی سی ہوئی اور ڈاکٹر صاحب سے اس کا ذکر کیا.اُس وقت ابھی ہمشیرہ مریم بیگم صاحبہ پیدا نہیں ہوئی تھیں.ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کوئی روحانی تعلق ہوگا.لیکن حضور کا یہ قول ظاہری معنوں میں بھی ایک لمبے عرصہ کے بعد پورا ہو گیا.ہمشیرہ سیّدہ مریم بیگم صاحبہ کی ولادت اور پھر اُن کے رشتہ کی وجہ سے.“ (سیرت حضرت سیّدہ ام طاہر صفحہ 23-22) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے تحریر فرمایا: - جیسا کہ دوست جانتے ہیں حضرت شاہ صاحب اور اُن کی زوجہ محترمہ نہایت درجہ نیک اور پاک نفس بزرگ تھے حتی کہ ایک روایت کے مطابق خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُن کے خاندان کے متعلق بہشتی میر“ کے الفاظ استعمال فرمائے تھے اور سیدہ اُمتم طاہر احمد بھی ہمیشہ اپنے مرحوم والدین کو انتہائی رقت اور محبت
24 کے ساتھ یاد کیا کرتی تھیں.اور اُن کی درد بھری دعاؤں سے محروم ہو جانے کا از حد قلق (سیرت حضرت سیدہ اُمّم طاہر صفحہ 251) رکھتی تھیں.حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبه: والدہ ماجدہ حضرت مرزا طاہر احمدخلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ حضرت سیده مریم بیگم صاحبہ گونا گوں صفات حسنہ سے مالا مال تھیں..ہر ایک اعلیٰ خلق ان میں نمایاں طور پر نظر آتا تھا.گویا مجسمہ حسن خلق تھیں.اپنے اور بریگا نے جی جان سے انہیں چاہتے.خوش خلقی، نیکی ، تقویٰ، زہد، مخلوق خدا سے پیار غرض کون سی ایسی خوبی تھی جو ان کی ذات میں اللہ تعالیٰ نے ودیعت نہیں فرمائی تھی.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ تحریر فرماتے ہیں:- زہد وتقویٰ میں بہت بلند مقام پر فائز تھیں.بہت دعا گو، عبادت گزار، قرآن مجید کی عاشق صادق تھیں.ظاہری اور باطنی دونوں احترام ملحوظ رکھتیں.قرآن مجید کو خوبصورت غلافوں میں ملفوف رکھتیں.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانثار ، حضرت اقدس بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی فدائی تھیں.تلاوت اور درود شریف سے خاص شغف تھا.نماز بہت اہتمام سے ادا فرماتیں.تلاوت قرآن کریم اہل زبان کے سے تلفظ سے کرتیں.جب بھی موقعہ ملتا حضرت اقدس کی کتب پڑھتیں.اکثر مغرب کے بعد حضرت اماں جان کی خدمت میں حاضر ہوتیں.آپ کو حضرت اماں جان سے بہت محبت تھی.بچوں کو بھی اُن کی خدمت میں حاضر ہونے کی نصیحت فرماتیں.“ (سیرت حضرت سیدہ ام طاہر، خلاصہ تاثرات صاحبزادہ مرزا طاہر احمد )
25 مکرمہ سردار بیگم صاحبہ والد ومحمد احمد صاحب لاہور چھاؤنی جو حضرت سیدہ در اتم طاہر صاحبہ کی بہن بنی ہوئی تھیں.اپنی چٹھی جون 1982ء میں لکھتی ہیں:- ایک دفعہ میں ہسپتال میں آپ (حضرت سیدہ اُم طاہر ) کے پاس آئی.عزیزم طاہر احمد صاحب میٹرک کا امتحان دے رہے تھے.آپ نے فرمایا میرا ایک ہی بیٹا ہے.آؤ ہم دونوں مل کر دُعا کریں کہ میرا رب اس کو دین و دنیا کا ستارہ بنائے اور اس سے ایسی خدمت لے جو کسی نے نہ کی ہو.“ تابعین ( رفقائے ) احمد جلد سوم صفحہ 192) سو یہ دعا اللہ تعالیٰ نے ایسے رنگ میں یہ تمام و کمال قبول فرمائی کہ شاید و باید اس طرح کسی دُعا کو قبولیت کا شرف حاصل ہوا ہو.مکرمہ کلثوم بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ سابق مبلغ انگلستان وسوئٹزر لینڈ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت سیّدہ ام طاہر صاحبہ نے مجھے بتایا کہ ”میرا بیٹا طاہر احمد خلیفہ ہوگا لیکن آپا جان نے یہ بھی مجھے کہا کہ یہ راز کی بات ہے میں آگے کسی سے ذکر نہ کروں.“ چنانچہ صاحبزادہ صاحب کے خلیفہ منتخب ہونے پر میں نے یہ بات حضرت صاحب کی خدمت میں تحریر کی.“ تابعین ( رفقائے ) احمد صفحہ 198) اللہ تعالیٰ نے اس انتہائی پاک جوڑے کے جگر گوشے کو خلافت کی خلعت سے سرفراز کیا.یہ اُس کا خاص فضل ہی تو ہے تا ہم والدین کی دُعائے نیم شھی بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت خاص کو جذب کرنے کا موجب ہوئی.
26 مکرمہ صاحبزادی امتہ الرشید صاحبہ بیگم محترم میاں عبدالرحیم احمد صاحب رقمطراز ہیں:- " آپا جان بہت عبادت گزار اور تہجد گزار تھیں.آپ کی دعاؤں میں بہت درد تھا.بعد نماز فجر آپ نہایت خوش الحانی سے قرآن مجید کی تلاوت کرتیں.رمضان شریف میں آپ کی عبادت کا رنگ قابل رشک تھا.کئی شب روزہ دار افراد کو اپنے ہاں رکھتیں.موسم گرما کی ایک رات ناقابل فراموش ہے.ہم سب بچوں کی چار پائیاں بچھنے کے بعد بہت کم جگہ بچتی تھی.وہیں پر آپا جان اور عائشہ پٹھانی اہلیہ مولوی غلام رسول صاحب معمولاً تہجد میں درد بھری دُعائیں کر رہی تھیں کہ میں نے دیکھا کہ چندھیا دینے والی روشنی سے ہمارا صحن منور ہو گیا ہے.مجھے بھی خیال آیا کہ یہ لیلتہ القدر کی روشنی ہے.میں نے لیٹے لیٹے شور مچا دیا کہ میرے لئے بھی دُعا کریں.عائشہ پٹھانی نے بعد میں مجھے بتایا کہ یہ روشنی مجھے نظر آئی تھی اور میں اس وقت میاں طاہر احمد صاحب کے لئے دعا کر رہی تھی.آپا جان کہتی تھیں کے رشید کے بولنے نے مجھے سب کچھ بھلا دیا اور میں نے اپنی بیٹی رشید کے لئے دعا کرنی شروع کر دی.میں بھی یہ روشنی دیکھ رہی تھی.جو چند سیکنڈ رہی اور مجھے بنتے ہوئے کہا کہ جب تم نے یہ نظارہ دیکھا تھا تو تم نے خود اُٹھ کر دُعا کیوں نہ کی.ہماری بڑی بچی جان بیگم حضرت میاں بشیر احمد صاحب اور آپا جان دونوں اکٹھے جاکر ( بیت) اقصیٰ میں نماز تراویح پڑھا کرتی تھیں.اگر طبیعت کی خرابی کی وجہ سے ( بیت) اقصیٰ نہ جاسکتیں تو دوسروں کے ساتھ مل کر گھر میں ہی (جو ( بیت) اقصیٰ سے ملحق ہے ) تراویح پڑھ لیتیں.وہاں حافظ محمد رمضان صاحب کی آواز سنائی دیتی تھی.درسِ قرآن مجید میں بھی آپ شامل ہوتی تھیں.جن افراد کو رمضان شریف میں آپ نے اپنے گھر میں رکھا ہوتا ان کے لئے
27 کچھ افطاری اپنے ہاتھ سے تیار کرتیں اور گھر میں کام کرنے والوں کے لئے بھی.تابعین ( رفقائے ) احمد جلد سوم صفحہ 200) آپ اللہ تعالیٰ کی مقرب تھیں اور کیوں نہ ہوتیں.شب و روز اُسی محبوب حقیقی کا خیال تھا.اسی کی رضا کے لئے ہر کام کرتیں اور اسی پر توکل تھا.مکرمہ صاحبزادی امتہ الرشید بیگم صاحبہ اہلیہ میاں عبدالرحیم احمد صاحب مھتی ہیں:- آپا جان کی قبولیت دُعا کے بہت سے واقعات ہیں.مثلاً ایک خاتون دُعا کے لئے کہنے بالعموم روز آتیں.اُس کی شادی پر بارہ سال گزر چکے تھے اور وہ اولاد کی نعمت سے محروم تھی اور وہ اپنے اس یقین کا اظہار کرتیں کہ ” آپ دُعا کریں تو اللہ تعالیٰ اسے قبول کرے گا.آپ دُعا کرنے کا وعدہ کریں.آپ نے وعدہ کر لیا آپ خود بھی دُعا کرتیں اور عموماً روزانہ حضور سے بھی کہتیں.اللہ تعالیٰ نے اُسے بیٹی عطا کی.آپا جان بہت خوش ہوئیں اور بچی کے لئے تحائف لے کر گئیں اور وہاں موجود افراد کو آپ نے مٹھائی کھلائی.“ تابعین ( رفقائے ) احمد جلد سوم صفحہ 207) حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ نے آپ کے زہد و تقویٰ کے سلسلہ میں تحریر فرمایا: آپ بڑی عبادت گزار تھیں.نوافل، تہجد ، تلاوت اور درود شریف سے خاص شغف رکھتی تھیں.نماز بڑے اہتمام سے ادا کرتی تھیں.میں نے بارہا حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے آپ کی تلاوت کی تعریف بہت عمدہ پیرایہ میں سنی.آپ اکثر کہا کرتے تھے کہ اُمّ طاہر قرآن کریم کی تلاوت بہت خوبصورتی سے کیا کرتی تھیں اور تلفظ بالکل ایسا ہوتا تھا جیسا کہ اہلِ زبان کا.خدایا میرا طاہری تیرا پرستار ہو: 66 پھوپھی جان کی نرینہ اولا دصرف عزیزم طاہر سلمہ ہی ہیں.آپ ہر وقت
28 تڑپ کر خود بھی دُعا کرتیں اور پھر دوسروں سے یہ دعا کرواتیں کہ میرا ایک ہی بیٹا ہے.خدا کرے یہ خادم دین ہو.میں نے اسے خدا کے راستے میں وقف کیا ہے.اللہ تعالیٰ اسے حقیقی معنوں میں واقف بنائے اور پھر آنسوؤں کے ساتھ یہ جملے بار بار دہراتیں :.خدایا میرا طاہری تیرا پرستار ہو! یہ عابد و زاہد ہو!! اسے خادم دین بنائیو.اسے اپنے عشق ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عشق سے سرشار كيجيو! حضرت اقدس خلیفہ المسیح الثانی نے کئی مرتبہ بڑی رقت سے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ ”میرا طاہری! مریم مرحومہ کی دلی آرزؤں کا بہترین ثمر ہے.اُن کو اس بات کی تڑپ تھی کہ اُن کا یہ اکلوتا بیٹا صحیح معنوں میں دین کا خادم ہو.“ اب دیکھنے اور غور کرنے کا مقام ہے کہ کوئی ماں، جس کا صرف اور صرف ایک ہی بیٹا ہو اس قسم کی دعا ئیں اور آرزوئیں کم ہی کیا کرتی ہیں وہ اُس کے لئے بس مادی دنیا کے سامان اور جاہ حشم ہی مانگتی ہیں.مگر پھوپھی جان نے طاہری کے لئے جو مانگاوہ اُن کی معصوم فطرت پر شاندار دلیل ہے.“ ( تابعین ( رفقائے ) احمد جلد سوم صفحہ 223-224) خاکسار عرض کرتی ہے کہ صرف معصوم فطرت! یہ ہی نہیں بلکہ نہایت درجہ پاکیزہ فطرت ! یہ وہ خاتونِ مبارکہ تھیں جنہوں نے دین کو دُنیا پر مقدم کرنے کا عملی طور پر ثبوت پیش کیا اور اُن کے پیارے خدا نے بھی اُن کی قربانیوں اور دعاؤں کو ایسا
29 قبولیت عطا فرمایا کہ زندہ معجزہ کی صورت میں سیدنا حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ بھی عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور عشق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس قدر معمور تھے کہ جب اُن کا ذکر آتا آپ پر دورانِ خطاب رقت طاری ہو جاتی.حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ: حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ بنت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب وحرم حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی زندگی زہد و تقویٰ میں بسر ہوئی.آپ کا ہر قدم اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے مطابق اُٹھتا رہا ہے.صوم وصلوٰۃ کی پابندی نہایت اہتمام سے فرماتی رہیں.باقاعدگی سے نماز و نوافل کی ادائیگی کے لئے کوشاں دیکھی گئیں.اپنے والد ماجد کی پاکیزہ سیرت تقوی و زہد سے معمور معمولات زندگی بچپن سے ہی اُن پر اثر انداز تھے.پھر شادی کے بعد حضرت فضل عمر جیسی نابغہ روزگار شخصیت کی قربت نے دینی رنگ کو اور بھی دلر بائی بخشی.رمضان المبارک میں روزوں کی محبت کے ساتھ پابندی اور درس القرآن سننے کا اہتمام اور رمضان کی دیگر برکات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم سب نے دیکھا.قرآن و حدیث کا مفہوم اچھی طرح جانتی تھیں.لہذا ان کی زندگی احکام خداوندی کی عملی تفسیر تھی.اپنی ہر تقریر کو اور ہر تقریب کے خطاب کو اللہ تعالیٰ اور اُس کے پیارے رسول کے ارشادات کی روشنی میں یاد گار بنا دیتیں.آپ کی تقریر اور نصیحت کا رنگ اس قدر مؤثر اور دلنشین ہوتا کہ سیدھا دلوں میں اُتر جاتا.انہوں نے زندگی کا ہر لمحہ خوف خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
30 کی محبت میں گزارا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی وفات کے بعد تو آپ کی زندگی حقیقتا زاہدانہ انداز میں گزری.پارسائی اور اخلاق حمیدہ کا جیتا جاگتا نمونہ تھیں.محترمہ حضرت حسین بی بی صاحبہ: تاریخ احمدیت کا ایک درخشندہ گوہر محترمہ حضرت حسین بی بی صاحبہ کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا وہ احمدیت کے مایہ ناز فرزند حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی عظیم المرتبت والدہ صاحبہ تھیں.انہوں نے عبادات اور زہد و تقویٰ کے باعث اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا اور رویاء و کشوف کی نعمت سے سرفراز ہوئیں.حتی کہ اللہ تعالیٰ نے قبول احمدیت سے قبل آپ کو رویا میں حضرت مسیح موعود کی زیارت کروائی.لکھا ہے:.حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے اپنی تصنیف ”میری والدہ میں انہوں نے (یعنی والدہ حضرت ظفر اللہ خان صاحب نے) ایک رویا میں دیکھا کہ رات کے وقت اپنے مکان کے صحن میں اس طور پر انتظام میں مصروف ہیں کہ گویا بہت سے مہمانوں کی آمد کی توقع ہے اسی دوران میں دالان کے اندر جانے کا اتفاق ہوا تو دیکھا کہ مغرب کی طرف کی کوٹھڑی میں بہت اُجالا ہو رہا ہے حیران ہوئیں کہ وہاں تو کوئی لیمپ وغیرہ نہیں یہ روشنی کیسی ہے چنانچہ آگے بڑھیں تو دیکھا کہ کمرہ روشنی سے دمک رہا ہے اور ایک پلنگ پر ایک نورانی صورت بزرگ تشریف فرما ہیں اور ایک نوٹ بک میں کچھ تحریر فرما رہے ہیں.
31 والدہ صاحبہ کمرہ میں داخل ہو کر اُن کی پیٹھ کی طرف کھڑی ہوگئیں جب اُنہوں نے محسوس کیا کہ کوئی شخص کمرہ کے اندر آیا ہے تو انہوں نے اپنا جوتا پہنے کے لئے پاؤں پلنگ سے نیچے اُتارے.گویا کمرہ سے چلے جانے کی تیاری کرنے لگے ہیں.والدہ صاحبہ نے عرض کی یا حضرت مجھے تمام عمر میں کبھی اس قدر خوشی محسوس نہیں ہوئی جس قدر آج میں محسوس کر رہی ہوں.آپ تھوڑی دیر تو اور تشریف رکھیں.چنانچہ وہ بزرگ تھوڑی دیر اور ٹھہر گئے اور پھر جب تشریف لے جانے لگے تو والدہ صاحبہ نے دریافت کیا.یا حضرت اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ تمہیں کون بزرگ ملے ہیں تو میں کیا بتاؤں؟ انہوں نے دائیں کندھے کے اوپر سے پیچھے دیکھ کر اور دایاں بازو اٹھا کر جواب دیا:- اگر آپ سے کوئی پوچھے کہ کون ملے ہیں تو کہیں احمد ملے ہیں.ہمارے ماموں صاحب بھی اُس دن سیالکوٹ ہی میں تھے والدہ صاحبہ نے اس رویا کا ذکر والد صاحب اور ماموں صاحب سے کیا.ماموں صاحب نے فرمایا یہ تو میرزا صاحب تھے.والدہ صاحبہ نے کہا اُنہوں نے اپنا نام مرزا صاحب تو نہیں بتایا احمد بتایا ہے.ماموں صاحب نے فرمایا میرزا صاحب کا نام ” غلام احمد“ ہے اور والدہ سے کہا کہ آپ دُعا کرتی رہیں اللہ تعالیٰ آپ پر حق کھول دے گا.چند دن کے اندر ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیالکوٹ تشریف آوری کے متعلق اطلاع مل گئی.والدہ صاحبہ نے پھر رویا میں دیکھا کہ :- دد بعض سڑکوں پر سے گزر کر وہ ایک مستقف گلی کے
32 نیچے ہوتی ہوئی ایک مکان پر پہنچی ہیں اور اُس کی پہلی منزل پر پھر اُنہی بزرگ کو دیکھا اور اُنہوں نے والدہ صاحبہ سے دریافت کیا کہ اتنی بار دیکھنے کے بعد بھی آپ کو یقین نہیں آیا؟ تو والدہ صاحبہ نے عرض کی.الحمد للہ میں ایمان لے آئی ہوں.“ آگے لکھتے ہیں :- ( میری والدہ صفحہ 29-30) حضرت مسیح موعود مع اپنے اہل بیت اور افراد خاندان کے حضرت میر حامد شاہ صاحب کے مکان پر فروکش ہوئے.دوسری صبح ہی والدہ صاحبہ نے والد صاحب سے اجازت طلب کی کہ وہ حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہوں والد صاحب نے اجازت دے دی لیکن ساتھ ہی فرمایا آپ دیکھ آئیں لیکن بیعت نہ کریں.میں بھی تحقیقات میں لگا ہوا ہوں.آخری فیصلہ اکٹھے سوچ کر کریں گے.والدہ صاحبہ نے کہا اگر تو یہ وہی بزرگ ہیں جنہیں میں نے خواب میں دیکھا ہے تو پھر تو میں بیعت میں تا خیر نہیں کر سکتی.کیونکہ خواب میں میں اقرار کر چکی ہوں اور تاخیر سے میرا عہد ٹوٹتا ہے..والدہ صاحبہ دو پہر کے کھانے کے بعد بصد شوق حضرت مسیح موعود کی فرودگاہ کی طرف روانہ ہوئیں.رستہ سے مکان کی ہیئت سے والدہ صاحبہ نے پہچان لیا کہ یہ وہی مکان ہے جو انہوں نے خواب میں دیکھا تھا..جب حضور تشریف لائے تو والدہ صاحبہ چند دیگر مستورات کے ساتھ ایک چوبی تخت پوش پر جو اُس پلنگ کے قریب دو گز کے فاصلہ پر بچھا ہوا تھا، بیٹھی تھیں.جب حضور پلنگ پر تشریف فرما ہو گئے تو والدہ صاحبہ نے عرض کیا: - حضور میں بیعت کرنا چاہتی ہوں“.
33 حضور نے فرمایا :- بہت اچھا اور والدہ صاحبہ نے بیعت کر لی.میری والدہ صفحہ 32-33) یہ وہ قابل فخر خاتون ہیں جنہیں تقرب الہی کی وجہ سے احمدیت جیسی نعمت نصیب ہوئی احمدیت کی آغوش میں آنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے دن بدن تقویٰ اور زہد میں نمایاں ترقی کرنے کی توفیق دی.خواب میں قبل از وقت خبریں میری والدہ کے صفحہ 99 پر چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب لکھتے ہیں :- مجھے خوب یاد ہے کہ ہمارے بچپن میں جب بھی طاعون کا دورہ شروع ہوتا تو والدہ صاحب کو قبل از وقت خواب کے ذریعہ اس کی اطلاع دی جاتی اور وہ اسی وقت سے دعاؤں میں لگ جاتیں.اور پھر افاقہ کی صورت ہوتی تو بھی خواب کے ذریعہ انہیں اطلاع دی جاتی.اسی طرح ہمارے متعلقین میں خوشی اور غم کے مواقع پر انہیں قبل از وقت خبر دی جاتی.سلسلہ کے بڑے بڑے واقعات اور بعض اوقات دُنیا کے بڑے بڑے واقعات سے بھی انہیں اطلاع دی جاتی.باوا جھنڈا سنگھ صاحب ریٹائر ڈ سینئر جج نے میرے پاس بیان کیا کہ جب 1936 ء کی گرمیوں میں میں شملہ میں ٹھہرا ہوا تھا تو ایک دن تمہارے مکان پر تمہاری والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ قصور میں ہیضہ کی خبر ملنے پر مجھے بہت تشویش تھی اور میں بہت دُعائیں کر رہی تھی.رات مجھے خواب میں بتایا گیا ہے کہ ایک ہفتہ کے بعد قصور میں ہیضہ کی وارداتیں بند ہو جائیں گی.باوا صاحب فرماتے تھے میں اخباروں میں دیکھتا رہا اور پورے ایک ہفتہ کے بعد قصور میں ہیضہ کی وارداتیں بند ہوگئیں.اللہ تعالیٰ کے ہر شئے پر قادر ہونے اور قبولیت دعا پر انہیں حق الیقین تھا.
34 کیونکہ یہ اُن کے روزانہ مشاہدہ کی بات تھی.." یہ وہ خاتون تھیں جن کی عظمت کا اقرار اپنوں اور غیروں ، چھوٹوں اور بڑوں نے برملا کیا حتی کہ حضرت مسیح پاک کے صاحب عظمت و شکوہ فرزند نے بھی ان تعریفی الفاظ سے نوازہ اس اللہ کی پیاری بندی نے اپنے لخت جگر (حضرت ظفر اللہ خان صاحب) کے لئے جن کو وہ ٹوٹ کر پیار کرتی تھیں نہ جانے کیسی کیسی دلسوزی کے ساتھ دعائیں کی ہوں گی جو اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسا بلند مرتبہ عطا فر مایا اور دینی و دنیاوی سعادتوں سے سرفراز کیا کہ انہوں نے اپنے علم و حکمت کے زور سے سب کا منہ بند کر دیا.“ ( میری والدہ صفحہ 125) اُن کے خواب روزِ روشن کی طرح واضح ہوتے تھے جو من وعن پورے بھی ہو جاتے تھے.چوہدری صاحب کے والد صاحب کی آخری بیماری میں اُن کی وفات کے بارے میں چند خواب ” میری والدہ میں مذکور ہیں جو معین رنگ میں لفظ بلفظ پورے ہوئے.مثلاً اُنہوں نے خواب میں چوہدری نصر اللہ خان صاحب ( والد چوہدری ظفر اللہ خان صاحب) کو فرماتے ہوئے دیکھا کہ ”میاں مجھے تو جمعہ کے دن چھٹی ہوگی مکرمہ حسین بی بی صاحبہ نے فرمایا کہ چھٹی کے لفظ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کا دن شروع ہوتے ہی رُخصت ہو جائیں گے اس لئے ڈاکٹر خواہ کچھ کہیں تم ابھی سے انتظام کرلو ( یہ تاکید اپنے بیٹے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو کی ) اور جمعرات کی شام تک تمام تیاری مکمل کر لو تا کہ اُن کے رخصت ہوتے ہی ہم انہیں قادیان لے چلیں.اپنے بہن بھائیوں کو اطلاع کر دو.والد کے کفن کی چادر میں منگوالو.صندوق بھی جمعرات کی شام تک تیار کرنے کی تاکید کر دو.موٹریں کرایہ پر لے لو اور انہیں ہدایت دے دو کہ نصف شب کے بعد آ جائیں.میں نے اُن کی ہدایت کے مطابق سب انتظام کر دیا.پھر چوہدری صاحب رقم طراز
35 ہیں کہ عین اُسی وقت اور دن کے مطابق میرے والد صاحب نے بڑے سکون اور اطمینان سے جان دے دی اور تین بجے علی اصبح ہم والد صاحب کا جنازہ لے کر روانہ ہوئے.“ ( میری والدہ صفحہ 56) اُن کا اللہ تعالی سے براہِ راست تعلق تھا اور اِنِّی قَریب“ کی آوازیں اُن کے کان میں آتی تھیں جن سے اُن کا ایمان وایقان مضبوط تر ہوتا گیا.اللہ تبارک وتعالیٰ کی اُس پیاری بندی کو طبقہ نسواں میں ایک ایسا مقام حاصل ہوا جسے قارئین حیرت زدہ ہو کر دیکھتے ہیں اور دیکھتے رہیں گے.حضرت مصلح موعود کا خراج تحسین : حضرت فضل عمر نے جو عبارت مرحومہ کے کتبے پر لکھے جانے کا ارشاد فرمایا وہ اعلیٰ درجہ کا تحسین ہے.وہ عبارت یہ ہے:.وو چودہری نصر اللہ خان صاحب مرحوم کی زوجہ عزیزم ظفر اللہ خان صاحب سلمہ اللہ کی والدہ صاحبہ کشف و رویا تھیں.رؤیا ہی کے ذریعہ سے حضرت مسیح پاک کی شناخت نصیب ہوئی اور اپنے مرحوم شوہر سے پہلے بیعت کی.پھر رویا ہی کے ذریعے سے خلافت ثانیہ کی شناخت کی اور مرحوم خاوند سے پہلے بیعت خلافت کی.دین کی غیرت بدرجۂ کمال تھی اور کلامِ حق کے پہنچانے میں نڈر تھیں.غرباء کی خبر گیری کی صفت سے متصف اور غریبانہ زندگی بسر کرنے کی عادی، نیک بیوی اور وَدُود والدہ تھیں.اللہ تعالیٰ انہیں اور اُن کے شوہر کو جو نہایت مؤدب و مخلص خادم سلسلہ تھے اپنے انعامات سے حصہ دے اور
36 اپنے قرب میں جگہ دے.اور اُن کی اولاد کو اپنی حفاظت میں رکھے.آمین ( میری والدہ صفحہ 126) کس قدر قابل رشک ہیں یہ بیش قیمت اور دلکش لعل و جواہر جو مالائے احمدیت میں پروئے گئے ، جن کی چمک دمک سے نگاہیں خیرہ ہوئی جاتی ہیں.نہایت خوش نصیب ہیں یہ احمدی خواتین جنہیں اللہ تعالیٰ کے پیارے مہدی کا دیدار نصیب ہوا اور حضرت اقدس کی صحبت سے مستفید ہونے کی سعادت نصیب ہوئی.یہ وہ سچے موتی ہیں جن کی چمک اور دلکشی تا قیامت نہ صرف قائم رہے گی بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی قدر و قیمت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا.انشاء اللہ احمدی خواتین کا تعلق باللہ: سیدنا حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 12 ستمبر 1992 ء کو اپنے خطاب بر موقع جلسہ سالانہ جرمنی میں احمدی خواتین کے تعلق باللہ کے متعلق ارشاد فرمایا:- احمدی خواتین میں بڑی بڑی اولیاء اللہ پیدا.ہیں.بعض ایسی ہیں جن کو خدا تعالیٰ الہامات سے نوازتا رہا ہے.کشوف عطا فرماتا ہے.بچے رویا دکھاتا ہے.مصیبت کے وقت اُن کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور قبولیت سے متعلق پہلے سے اطلاع دی کہ یہ واقعہ اس طرح ہوگا اور اُسی طرح ہوا یہ وہ آخری منزل ہے جس کی طرف ہر احمدی خاتون کو لیکر ہم نے آگے بڑھنا ہے.تعلق باللہ کے سوا مذ ہب کی اور کوئی جان نہیں ہے.حقیقت یہ ہے کہ عبادت بھی اللہ سے
37 محبت اور تعلق پیدا کرنے کے لئے کی جاتی ہے.میں وہ واقعات آپ کے سامنے رکھوں گا تا کہ آپ کو معلوم ہو کہ ( دین حق ) کا خدا صرف مردوں کا خدانہیں ہے وہ عورتوں کا بھی خدا ہے اور جن عورتوں نے اللہ سے سچی محبت کی ہے اس کے جواب میں وہ اُن پر ظاہر ہوا اور بڑی شان کے ساتھ ظاہر ہوتا رہا ہے.پس اُمید ہے کہ اس کے نتیجہ میں آئندہ آپ کے دل میں بھی تعلق باللہ کی طرف توجہ پیدا ہوگی.“ تعلق باللہ کے خوبصورت مضمون کو حضور اقدس نے 31 جولائی 1993ء کو بر موقع جلسہ سالانہ اسلام آباد تلفورڈ، مستورات کے خطاب کے دوران آگے بڑھایا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم اپنے بندوں پر فرشتوں کا نزول کریں گے اور ابتلاؤں کے زمانے میں استقامت اختیار کرنے کے نتیجے میں یہ پھل زیادہ عطا کیا جائے گا.نزول ملائک کی علامات جماعت احمدیہ میں کثرت سے پائی جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود اور ( رفقاء) کے واقعات کثرت سے جماعت کے لٹریچر میں موجود ہیں.یہ واقعات محض ماضی کا اور تاریخ کا حصہ نہیں ہیں بلکہ آج خواتین کے خطاب میں میں صرف خواتین کے تعلق باللہ کے واقعات سناؤں گا: حضور اقدس نے سب سے پہلے حضرت مسیح موعود کی پاک فطرت صاحبزادی حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کے بعض واقعات سنائے اور ان میں سے کئی تو وہ تھے جن میں آپ نے نہایت کم سنی کی عمر میں تعلق باللہ کا تجربہ حاصل کیا مثلاً حضرت مسیح موعود کے وصال کا وقت قریب ہے اور حضرت مولانا نورالدین جماعت
38 کے پہلے خلیفہ ہوں گئے.اس کے بعد حضور نے بعض بزرگ ( رفیقات) کے رویا بیان فرمائے.اہلیہ قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی نے اُس زمانے میں جب حضرت خلیفتہ المسیح الا ول گھوڑے سے گر گئے تھے اور سخت چوٹیں آئی تھیں اور بظاہر زندگی کی اُمید نہ تھی رویا میں دیکھا کہ وہ سخت گھبراہٹ کے عالم میں بے چین ہیں کہ حضرت مسیح موعود ظا ہر ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تین دن بعد یہ واقعہ ہوگا.اس سے ان کو گھبراہٹ ہوئی کہ شاید حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل کی زندگی تین دن باقی رہ گئی ہے.مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو شفا دی اور تین سال کے بعد آپ کی وفات ہوئی.اس طرح تین دن سے مراد تین سال تھی.“ اسی طرح آپ نے محترمہ زرینہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمد افضل صاحب اورچ شریف کا ایک خواب سنایا کہ وہ بتاتی ہیں کہ جلسہ سالانہ پر ربوہ گئی ہوں.جلسہ پر کافی تعداد میں لوگ جمع ہیں.جلسہ گاہ اتنی بھر گئی ہے کہ لوگ دوکانوں اور چھتوں پر بیٹھے ہیں.انہوں نے سوچا کہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی زیارت کرلوں.وہ حضور کے پاس گئیں اور عرض کیا، حضور جلسہ سے خطاب فرما ئیں تو حضور نے فرمایا :- ”اب میرا حق نہیں ناصر کا حق ہے“ مکرم صو بیدار بدر عالم اعوان صاحب کی بیٹی نے 1974ء میں خواب دیکھا کہ کسی بڑی دعوت کا انتظام ہے.حضرت مرزا ناصر احمد خلیفہ امسح الثالث اور آپ کی حرم محترمہ حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ تشریف لاتے ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث فرماتے ہیں کہ آج تو ہم آپ کے بلانے پر آئے ہیں مگر پھر شاید نہ آ خواب دیکھنے والی کہتی ہیں کہ میں نے پوچھا کہ آپ نہ ہوں گے تو کون ہو
39 گا.آپ نے فرمایا طاہر.سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ نے فرمایا میں پہلے سے ہی اس 66 جہاں میں نہ رہوں گی.“ حضور نے یہ خواب بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس میں صرف ایک بات بیان نہیں کی گئی بلکہ اس کو یقین کے مرتبہ تک پہنچانے کے لئے حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کی وفات کا بھی ذکر ہے.گویا ایک پختہ نشانی بھی ساتھ دے دی گئی ہے.مکرمہ نعیمہ بیگم صاحبہ نے 1982ء میں خط لکھا کہ ” چار سال قبل میں نے خواب میں دیکھا کہ شہر سرگودھا میں احمدیوں کے خلاف جھگڑا ہوا.میں کہتی ہوں (خواب میں) کہ ”میاں طاہر کہاں ہیں؟ کسی دوسرے نے کہا وہ سیالکوٹ میں ہیں.یہاں ہوتے تو جماعت کی خاطر جان لڑا دیتے.انہوں نے حضرت خلیفة أسبح الثالث کے بعد امام بننا ہے.حضور اقدس نے فرمایا یہ امر واقعہ ہے کہ میں اُن دنوں میں ربوہ میں نہیں تھا بلکہ باہر گیا ہوا تھا.“ محترمہ امتہ النصیر صاحبہ کراچی کا ایک خواب حضور نے بیان فرمایا :- وہ بتاتی ہیں کہ عاجزہ نے 17 سال پہلے خواب دیکھا جس کی تعبیر آج ملی ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی وفات سے چند سال قبل حضرت اُمّم ناصر صاحبہ کو دیکھا.بہت بڑا کمرہ خوبصورت اور روشن ہے.حضرت ام ناصر فرماتی ہیں آج ناصر دولہا بنا ہے.پھر حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کی طرف اشارہ کر کے فرماتی ہیں.اس کے بعد ان کی باری ہے.“ کہ: محترمہ امتہ الرشید صاحبہ دار البرکات ربوہ کا ایک خواب حضور نے بیان فرمایا 1940ء - 1941ء میں انہوں نے دیکھا خواب میں ہاتف غیبی انہیں بتاتا ہے کہ خلیفہ حضرت مرزا طاہر احمد ہوں گے محترمہ امتہ الرشید صاحبہ
40 نے بتایا کہ انہوں نے یہ خواب حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی خدمت میں بجھوایا تو حضور کا جواب آیا.”امام جماعت کی موجودگی میں ایسے رویا و کشوف صیغہ راز میں رہنے چاہئیں.“ حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ایسے رویا اب بھی احمدی خواتین اور مردوں اور بچوں تک کو بھی آتے ہیں.یہ خلیفہ وقت کی امانت ہوتے ہیں ان کو بیان نہیں کرنا چاہئے.احباب جماعت کو چاہئے کہ اس ہدایت کو ہمیشہ یاد رکھیں.حضور اقدس نے ایک اور خواب بیان فرمایا کہ - دیکھا :- حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ بن گئے ہیں.اور ایک لڑکا آتا ہے اور پیچھے سے آکر سر پر پگڑی رکھ دیتا ہے.حضور اقدس نے فرمایا.بالکل ایسے ہی ہوا عزیزم میاں لقمان احمد صاحب آئے اور میری ٹوپی اتار کر حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی پگڑی میرے سر پر رکھ دی.“ ایک اور خواب کا ذکر حضور اقدس نے فرمایا کہ شیخ عبدالرحمان صاحب قانون گو کپورتھلہ کی اہلیہ محترمہ نے 1936ء میں تحریر فرمایا کہ ”میں در دشقیقہ سے شدید بیمار رہتی تھی مجھے آپا جان حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ خواب میں دکھائی دیں.اُن سے میں نے اپنی تکلیف بیان کی.آپ نے فرمایا یہ دعا پڑھا کرو : - رَبِّ كُلُّ شَيْ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظُنِيْ وَانْصُرْنِي وَارْحَمْنِي.وہ بتاتی ہیں کہ خواب ہی میں میں نے یہ دُعا پڑھنی شروع کر دی اور صبح تک میری تکلیف کا نام ونشان تک نہ تھا.اس کے بعد حضور اقدس نے مکرمہ بنی صاحبہ اہلیہ سید قمر سلیمان احمد صاحب،
41 مکرمہ امتہ الحفیظ صاحبہ کابل والی، اپنی بیٹی محترمہ صاحبزادی فائزہ صاحبہ اور مکرمہ امة الحئی صاحبہ اہلیہ مکرم شکیل احمد صاحب طاہر قادیان کے خواب سنائے.جن میں حضور اقدس کے سفر انگلستان اور بخیریت وہاں پہنچنے کی اطلاعات بڑی وضاحت سے دی گئی تھیں.نیز اپنی حرم محترمہ سیدہ آصفہ بیگم صاحبہ کا ایک خواب سنایا :- حضور نے انکشاف کیا کہ جب میں شروع میں انگلستان آیا تو لازمی بات ہے کہ مجھے کئی فکر یں تھیں.تاہم میں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ جماعت سے میں نے کوئی گزارہ نہیں لینا.جس روز میں نے اپنے دل میں فیصلہ کیا اس رات میں نے خواب میں دیکھا کہ تم سے نورالدین کا سا سلوک کیا جائے گا“.حضور اقدس نے فرمایا کہ حضرت خلیفہ مسیح الاوّل حضرت مولوی نورالدین صاحب سے اللہ تعالیٰ کا ایک خاص سلوک تھا کہ بغیر مانگے اور طلب کئے عین ضرورت کے وقت اللہ تعالیٰ اُن کی ہر ضرورت پوری فرما دیا کرتا تھا.حضور اقدس نے فرمایا کہ دوسرے یا تیسرے دن آصفہ بیگم صاحبہ نے خواب دیکھا اور بڑا مسکرا کر مجھے اپنا خواب سنایا کہ ( بیت ) اقصیٰ میں حضرت مہر آپا صاحبہ مٹھائی تقسیم کر رہی ہیں اور اُن سے پوچھا جاتا ہے تو وہ بتاتی ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کو بتایا ہے میں تجھے نورالدین بنا رہا ہوں.حضور اقدس نے فرمایا کہ اس کا عملی ثبوت بھی اللہ تعالیٰ نے خود ہی دے دیا وہ اس طرح کہ میں صبح دفتر گیا تو میری میز پر 40 پاؤنڈ کا ایک بل پڑا تھا جو میں نے ادا کرنا تھا.میں نے کہا یہ بل شام کو آکر لے جانا.شام سے پہلے پہلے بعینہ 40 پاؤنڈ کا ایک تحفہ موصول ہو گیا.حضور اقدس نے فرمایا معین طور پر 40 پاؤنڈ مل جانا اللہ تعالیٰ کی محبت کا اظہار تھا تا کہ بتایا جاتا کہ اللہ تعالیٰ نے جو بتایا تھا وہ درست تھا.
42 حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے خطاب کے آخر میں فرمایا: - احمدیت کو ابھی بہت لمبا سفر طے کرنا ہے اس کے لئے ہمیں بہت زادِراہ کی ضرورت ہے اور سب سے اچھا زادراہ تقویٰ ہے.اپنے تقویٰ کی حفاظت کریں.اصل زندگی وہ ہے جس میں خدا کی طرف سے ہم کلام ہونے والے فرشتے نازل ہوں اور وہ کہیں کہ کوئی غم اور فکر نہ کرو.یہ خدا کی طرف سے مہمانی ہے.ہم اس دنیا میں بھی ساتھ ہیں اُس دنیا میں بھی ساتھ ہوں گے.ہم نے اتنا متقی بننا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو رویا وکشوف کثرت سے ہوں.ہم اللہ سے ہم کلامی پائیں اور خدا کے قرب کے نظارے دیکھیں.ایک ایسی احمدی نسل اگر آج پیدا ہو جائے تو آنے والے 100 سال کی حفاظت کی ضمانت حاصل ہو جائے گی.حضور اقدس نے فرمایا: - نسلاً بعد نسل تعلق باللہ کی حفاظت کریں.یہ مذہب کی جان ہے.یہ نصیب ہو گیا تو سب کچھ حاصل ہو جائے گا.یہ نہ ہوا تو اللہ کے ہاں مہمانی نہ ملے گی.اُخروی زندگی میں بھی مہمانی کا سلوک اُسی سے ہوگا جن کی اس دُنیا میں خدا کی طرف سے مہمانی کی جائے گی.خدا کرے کہ ہماری اس دُنیا کی جنتیں اُخروی جنتوں کی ضامن بن جائیں.“ (مصباح ستمبر 1993 ، صفحہ 4-9) محترمہ حور جہاں بشری داؤ د صاحبہ لجنہ کراچی کی سرگرم داعیہ الی اللہ
43 اور شعبہ اشاعت کی بانی رکن تھیں.فنافی اللہ اور فنا فی الرسول مخلص فدائی خاتون تھیں.اپنے بچوں کے نام ایک خط کی صورت میں اُن کی ایک تحریر ہے:.”میرے بے حد پیارے بچو ناصر، طاہر اور طوبیٰ ! اللہ تعالیٰ تم کو ہمیشہ ہمیش اپنی حفظ و امان میں پناہ دے اپنی اطاعت وفرمانبرداری سے تم اس کی جناب میں جھکے رہو.اُس کی خاطر جیو اور اُسی کی خاطر موت کو گلے لگاؤ.کبھی بھی میری جان! اُس رب کے در سے جدا نہ ہونا کہ اُس کے سوا کوئی ٹھکانہ نہیں.انتہائی بدنصیب ہیں جو اس کو نہیں پاتے.بد بخت ہیں جو اُس کی محبت کو حاصل نہیں کرتے.میرے پیارے سے خدا! تجھ کو تیری عظمت و کبریائی کی قسم تو ان کو کبھی اپنے دامن سے جدا نہ کرنا انہیں تو فیق نہ دینا کہ یہ بھی تجھ سے، تیرے احکامات سے تیری اطاعت سے انحراف کر سکیں ان کو صرف اور صرف اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت عطا کرنا تا کہ یہ اس دنیا میں بھی جنت حاصل کر سکیں اور تیری رضا کے عطر سے ممسوح ہوں.یہ دنیا کے روشن ستارے ہوں اور بنی نوع انسان کے خادم " طالب دعا بشری داؤد (مصباح دسمبر 1993) مکر مدامتہ الباری ناصر صاحبہ کراچی سے اپنے ایک مضمون ”ایک تھی بشری“ میں تحریر کرتی ہیں :- اُس کی دُعا ئیں بھی عجیب ہوتیں.کہتی دعا کرو اللہ
44 تعالیٰ مجھے اُس وقت اُٹھائے جب اُس کی رضا کی نظریں مجھ پر پڑ رہی ہوں.دعا کرو نسلاً بعد نسل ایمان کی دولت نصیب ہو..خدا تعالیٰ مجھے اُس جماعت میں شامل کرے جسے رسول کریم کا دیدار کرایا جائے گا.کبھی کہتی 'وہ نظر نہیں آتا، ملتا نہیں، ورنہ میں اُس سے ایسا چمٹوں کہ کبھی نہ چھوڑوں.بس ایک دفعہ مل جائے میں اُسے پالوں.میرے نفس میں مجھ میں اتنا بعد ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کو میرا دل پسند آ جائے.“ بشری داؤ د صاحبہ سیرت پاک حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنے، لکھنے اور اسی موضوع پر دلپذیر تقریر کرنے کے ناتے معروف و مقبول تھیں اُن کی تقاریر میں ایسا جذب واثر تھا کہ اپنے پرائے پگھل کر رہ جاتے.جلسہ ہائے سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم اُس کی جان تھے.وفات سے چند ماہ قبل لاہور جا کر چھ جلسہ ہائے سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کیا جن میں 783 غیر از جماعت خواتین شریک ہوئیں اور بہت اچھا اثر لیا.تعلق باللہ کے موضوع پر ان گنت واقعات ہیں جن کو سمیٹنا غیر ممکن ہے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی عورت کا دل عشق الہی اور عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پر رکھے آمین.
45 احمدی خواتین کی قرآن پاک سے محبت قرآں خدا نما ہے خدا کا کلام ہے بے اس کے معرفت کا چمن ناتمام ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تربیت نے خواتین میں زندہ خدا اور زندہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ زندہ کتاب قرآن مجید کی محبت بھی راسخ فرما دی.یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان کی 99% عورتوں کو حروف شناسی بھی میسر نہ تھی احمدی خواتین مسیحائے زماں سے قرآنی اسرار ورموز کی جھولیاں بھر رہی تھیں.خواتین میں حضرت اقدس کے درس قرآن کا سہرا ایک خاتون کے سر : حضرت اُم طاہر کے والد حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب تحریر کرتے ہیں:.ایک مرتبہ میرے گھر والوں ( یعنی اہلیہ صاحبہ ) نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور مرد تو آپ کی تقریر بھی سنتے ہیں.درس بھی مگر ہم مستورات اس فیض سے محروم ہیں.ہم پر کچھ رحمت ہونی چاہئے کیونکہ اس غرض کے لئے آئے ہیں کہ فیض حاصل کریں حضور بہت خوش ہوئے اور فرمایا ” جو بچے طلبگار ہیں ان کی خدمت کیلئے ہم ہمیشہ " ہی تیار ہیں.ہمارا یہی کام ہے کہ ہم اُن کی خدمت کریں.اس سے پہلے حضور نے کبھی عورتوں میں تقریر یا درس نہیں دیا تھا مگر ان کی التجا اور شوق کو پورا کرنے کے لئے عورتوں
46 کو جمع کر کے روزانہ تقریر شروع فرما دی جو بطور درس تھی.پھر چند دن کے بعد حضور نے حکم فرمایا کہ مولوی عبدالکریم صاحب اور مولوی نورالدین صاحب اور دیگر بزرگ بھی عورتوں میں درس دیا کریں.چنانچہ مولوی عبدالکریم صاحب درس کے لئے بیٹھے اور سب عورتیں جمع ہوئیں.(سیرۃ المہدی حصہ سوئم صفحہ 882) حکیم الامت حضرت خلیفہ مسیح الاول کے دور میں بھی درسِ قرآن کا سلسلہ جاری رہا آپ نے ایک خاتون کو فہم قرآن کی سند ان الفاظ میں عطا فرمائی.” میری یہ بچی ایسی ہے کہ مجھے اطمینان ہے کہ قرآن کریم پڑھانے کا میرا کام عورتوں میں جاری رکھے گی.“ یہ تعریفی کلمات آپ نے اپنی نواسی محترمہ ہاجرہ بیگم بنت محترم حکیم فضل الرحمان صاحب کے متعلق ارشاد فرمائے جس نے اپنے نانا جان سے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کر کے خداداد ذہانت سے یہ اعتماد حاصل کیا.خواتین کو قرآن مجید پڑھانا آپ کا شغل تھا.سینکڑوں عورتوں نے آپ سے قرآن پاک سیکھا.آپ کے مضامین علمی رسالہ احمدی خاتون میں شائع ہوتے تھے.خلافت ثانیہ میں بھی درس قرآن کا سہرا ایک خاتون کے سر: حضرت سید ہ امتہ ائی صاحبہ بنت حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب جنہیں حضرت مرزا بشر الدین محمود احمد خلیفتہ اسیح الثانی کی حرم ہونے کا اعزاز حاصل ہوا.تقویٰ ، طہارت اور زہد میں نہایت نمایاں مقام پر کھڑی نظر آتی ہیں.کیوں نہ ہوتیں کس عاشق قرآن باپ کی لخت جگر تھیں.اور کس ماحول کی پروردہ؟ گویا رگ و ریشہ میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور قرآن پاک سے عشق رچا ہوا تھا.آپ کی عمر 13 برس کی
47 ہوئی تو آپ کے والد ماجد کا سایہ سر سے اٹھ گیا.عاشقِ قرآن باپ کی عاشق قرآن بیٹی نے یہ صدمہ حوصلے سے برداشت کیا اور وفات کے تیسرے دن اس کم سن محسنہ نے اپنے جلیل القدر باپ کے جلیل قدر جانشین کو رقعہ لکھا.گزارش ہے کہ میرے والد صاحب نے مرنے سے دو دن پہلے مجھے فرمایا کہ ہم تمہیں چند نصیحتیں کرتے ہیں.میں نے کہا فرما ئیں میں انشاء اللہ عمل کروں گی.تو فرمایا بہت کوشش کرنا کہ قرآن آجائے اور لوگوں کو بھی پہنچے.اور میرے بعد اگر میاں صاحب خلیفہ ہوں تو ان کو میری طرف سے کہہ دینا کہ عورتوں کا درس جاری رہے اور میں امیدوار ہوں آپ قبول فرمائیں گے.میری بھی خواہش ہے اور کئی عورتوں اور لڑکیوں کی بھی خواہش ہے کہ میاں صاحب درس کرائیں.آپ برائے مہربانی درس صبح ہی شروع کر دیں.میں آپ کی نہایت مشکور ہوں گی.“ ( ہر اول دستہ صفحہ 55) حضرت مصلح موعود کا اُس وقت عورتوں میں درس دینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا.لیکن اپنے استاد اور آقا کی وصیت کے مطابق عورتوں میں درسِ قرآن شروع کیا اور اس تڑپ سے تحریک کرنے والی کی دینی تعلیم وتربیت کر کے جماعت کی خواتین کے لئے نمونہ بنانے کے لئے آپ نے محترمہ امتہ احئی صاحبہ سے شادی کا فیصلہ کیا جو آپ کی توقعات پر پوری اُتریں آپ فرماتے ہیں ”میں نے ارادہ کیا کہ فوراً ان کو تعلیم دوں مگر وہ اس شوق میں مجھ سے بھی آگے بڑھی ہوئی تھیں.آپ ہی کی تحریک پر 1922ء میں خواتین کی تنظیم لجنہ اماءاللہ قائم ہوئی.آپ نے اس کے اغراض و مقاصد کو بروئے کار لانے کے لئے جو مساعی کیں اس رپورٹ سے ظاہر وباہر ہیں.عربی کی پہلی کتاب ختم ہوگئی ہے اور دوسری ختم
48 ہونے والی ہے قرآن مجید اسباق القرآن کے طریق پر پڑھایا جاتا ہے حضرت خلیفہ اسیح الاوّل اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے درسوں کے نوٹ بھی پڑھائے جاتے ہیں اور یاد کروائے جاتے ہیں.کتاب الصرف بھی پڑھائی جاتی ہے فقہ احمدیہ کے مسائل یاد کرواتی ہوں.کشتی نوح اور اربعین ختم ہوگئی ہے.نزول مسیح ، عمدۃ الاحکام ختم ہونے والی ہے.قرآن مجید کا تیسرا پارہ شروع ہے.تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ 129) یہ سلسلہ چلتا چلا گیا.درس القرآن خصوصاً رمضان المبارک میں آج تک جاری ہے.اور انشا اللہ ہمیشہ جاری رہے گا.پردے کی رعایت سے خواتین بھی ہمیشہ استفادہ کرتی رہی ہیں اور اب تو MTA کے ذریعے تمام دُنیا قرآنی تعلیم اور اسرار اور رموز سے منور ہو رہی ہے.حضرت ام ناصرسیدہ محمودہ بیگم حم حضرت خلیفہ مسیح الثانی کا گھر بھی ایک درس گاہ تھا.قرآن مجید اور حضرت مسیح موعود کی کتب کا درس دیتیں سینکڑوں لڑکیوں نے آپ سے قرآن مجید پڑھا.آپ احمدی خاتون“ کیلئے مضامین بھی بھتی تھیں.آپ وہ مبارک ہستی تھیں جن کو حضرت مسیح موعود سے فیض تربیت حاصل ہوا.جسے حضرت مصلح موعود نے مزید صیقل کیا.اللہ تبارک تعالیٰ کے فضل سے آپ نے اپنی اولاد کی ایسی تربیت فرمائی کہ ایک سے ایک روشن چاند ستاروں کی طرح چمکے ہیں.حضرت اُم داؤد محترمہ سیدہ صالحہ بیگم اہلیہ حضرت میر محمد الحق صاحب حضرت صوفی احمد جان صاحب کی پوتی اور حضرت پیر منظور محمد صاحب کی بیٹی تھیں قرآن مجید میں حضرت مسیح موعود کی شاگر د تھیں.حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے ساتھ قرآن مجید پڑھا پھر آپ نے حضرت خلیفہ اسیح الاول اور حضرت
49 میر صاحب کے علم قرآن مجید سے بھی فائدہ اٹھایا.آپ ہی کے لئے آپ کے والد صاحب نے قائدہ یسر نا القران ایجاد کیا جو ان گنت بچوں کی تعلیم القران کا ذریعہ بنا.آپ کو عربی زبان صرف ونحو پر دسترس حاصل تھی فارسی بھی جانتی تھیں علم حدیث بھی خوب حاصل کیا تھا.اپنے لئے قرآن مجید اس طرح جلد کروایا تھا کہ درمیان میں سادہ صفحے لگوائے.جس میں ضروری نوٹ لکھ لیتیں آپ نے مولوی کے امتحان میں پنجاب میں پوزیشن لی.ان کے اعزازات میں مجلس مشاورت 1924ء کی رپورٹ میں اس کلاس کا ذکر اس طرح ہے.قادیان میں دارالفضل کی مستورات اور لڑکیوں کو صالحہ بیگم صاحبہ، اہلیہ میر محمد الحق صاحب ، مولوی ،فاضل، قرآن مجید با تفسیر، عربی کی تیسری کتاب ، مشکوۃ، فارسی کی پہلی کتاب پڑھاتی ہیں صرف و نحو عربی کا سبق بھی دیتی ہیں.اربعین پڑھا چکی ہیں ، قرآن کریم کا آٹھواں سیپارہ شروع ہے.“ آپ پڑھانے کے بعد باقاعدہ پرچوں سے امتحان لیتیں.آپ کی ایک طالبہ کی روایت ہے کہ آپ بنفس نفیس تنہا ہی تمام مضامین ایسی محبت اور دلداری سے پڑھا تیں کہ اُسی وقت سارا سبق دل پر نقش ہو جا تا اور طالبات بھی آپ کی محبت اور کشش کی وجہ سے کھنچی چلی آتیں آپ نے بڑی تعداد میں عورتوں اور بچیوں کو ترجمہ قرآن کریم پڑھایا.قادیان کے محلہ دارالانوار اور اردگرد دیہات کے سینکڑوں بچے قرآن مجید کی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے آتے.محترمہ اُستانی مریم بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت حافظ روشن علی صاحب ابتدائی چودہ ممبران میں سے تھیں آپ حضرت مسیح موعود کے زمانے میں قائم ہونے والے مدرسہ البنات کی طالبہ تھیں ابتدائی چار درس گاہوں میں سے ایک آپ کے گھر
50 پر قائم تھی آپ قرآن مجید کی تعلیم میں خاص دلچسپی لیتیں.حضرت سیدہ چھوٹی آپا صاحبہ فرماتی ہیں:- شروع سے لے کر انہوں نے آخری سانس تک قرآن مجید بہت بڑی تعداد میں بچیوں کو پڑھا یا خود میں نے بھی اُن سے پڑھا.“ محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ عاشق قرآن تھیں بہت پُر سوز آواز پائی تھی جلسه سالانہ کے موقع پر خوش الحانی سے تلاوت کرتیں.سینکڑوں لڑکیوں نے آپ سے قرآن پاک پڑھا قادیان اور پھر ربوہ میں نصرت گرلز اسکول میں معلمہ تھیں.لجنہ کے زیرا انتظام تربیتی کلاسوں کو بھی لگن سے پڑھا تیں.محترمه ساره در د صاحبه اہلیہ مولانا عبدالرحیم در دصاحب کا صحن بھی ہر وقت قرآن مجید سیکھنے والے بچوں اور لڑکیوں سے بھرا رہتا.قرآن مجید کے ساتھ ساتھ اردو لکھنا پڑھنا اور تربیتی امور میں رہنمائی کرنا بھی آپ کا شعار تھا.مسر ناصرہ زومان ایک ڈچ خاتون تھیں.خود قرآن مجید کی برکت سے احمدیت میں داخل ہوئیں.1945 میں لندن میں ایک Translation Bureau نے قرآن مجید کے آخری 300 صفحات کے ترجمہ کے لئے آپ کی خدمات حاصل کیں جو کہ آپ کے لئے ایک عیسائی خاتون ہونے کی وجہ سے بہت مشکل بلکہ ناممکن ہی تھا.کیونکہ نظریات کا فرق بہت تھا.لیکن بعد میں آپ کو صرف 300 صفحات ہی نہیں بلکہ پورے قرآن مجید کے ترجمہ کی توفیق مل گئی.کچھ حصہ کا ترجمہ کرنے کے بعد جب آپ دکھانے کے لئے Company کے ڈائر یکٹر کے پاس گئیں تو بقول خود آپ کے :- ہماری قرآن کریم کے بارے میں لمبی گفتگو ہوئی.Director نے
51 اس مقدس کتاب کے لئے نہایت ہی توہین آمیز کلمات استعمال کئے.بعد میں بھی اس کا رویہ یہی رہا اور اُس نے کئی بار متواتر وہاں قرآن مجید کی توہین کو جاری رکھا جس کا میری طبیعت پر بہت بُرا اثر ہوا.لیکن جلد ہی جب میں اُسے ملنے گئی تو میں نے اُسے نہایت ہی تکلیف دہ حالت میں پایا.اُسے Lumbago کا شدید حملہ ہوا...اگلے روز ہی وہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گیا.کچھ روز کے بعد دوسری ڈائریکٹر جس نے اس گفتگو میں حصہ لیا تھا بیمار ہوئی اور اس مقدس کتاب کی توہین کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی گرفت سے نہ بچ سکی اور ہسپتال میں فوت ہو گئی.ان واقعات کے بعد اس دفتر کا Typist جس نے توہین آمیز اور مضحکہ خیز گفتگو میں حصہ لیا تھا جنوبی امریکہ گیا اس کے جانے کے تین ہفتہ کے اندراندر ہی مجھے معلوم ہوا کہ وہ بھی الہی گرفت کا شکار ہو گیا اور اس دار فانی سے کوچ کر گیا ہے.ایک اور سیکریٹری جس نے اس تو ہین میں کچھ بھی حصہ نہ لیا تھا صحیح سلامت رہی.ان واقعات نے میری دنیا ہی بدل ڈالی میری طبیعت پر قرآن کریم کی صداقت اور حقانیت کا سکہ بیٹھنا شروع ہوا.میں اپنے مولا کریم کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اُس نے مجھے اس کام کی سعادت عطا فرمائی.میں نے ترجمہ کے دوران اس مقدس کتاب سے جو روحانی اثرات حاصل کئے وہ الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتے.میں نے قرآن شریف سے لگاؤ اور تعلق بڑھانے کے لئے لنڈن ( بیت) میں گاہے بگا ہے جانا شروع کر دیا.اور احمدیت کا مطالعہ کرنا شروع کیا.ہالینڈ آنے پر تھوڑے عرصہ میں یہاں مشن قائم ہوگیا.اور مجھے احمدیت جیسی نعمت عطا ہوئی.(افضل 16 ستمبر 1948 صفحہ 5 کالم4-1)
52 اسی طرح ایک جرمن احمدی خاتون محترمہ قامتہ خان صاحبہ کا ایک عظیم الشان کارنامہ سویڈش زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ ہے جو رہتی دنیا تک اُن کا نام زندہ رکھے گا اور اُن کے لئے قیامت تک ثواب کا موجب بھی ہوگا.آپ فرماتی ہیں کہ مجھے اس کام کی تحریک سیدنا حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمائی.پہلے تو میں ہچکچائی کیونکہ میں اپنے آپ کو اتنے اہم کام کے قابل نہیں سمجھتی تھی لیکن حضور کو یقین تھا کہ میں یہ کام کر سکتی ہوں.انہوں نے میری حوصلہ افزائی فرمائی اور اُن کی خصوصی دعاؤں کے نتیجہ میں اللہ تعالی کا خاص فضل مجھ پر ہوا اور قرآن کریم کا سویڈش ترجمہ کرنے کی توفیق عطاء ہوئی.چونکہ مجھے اُردو یا عربی نہیں آتی تھی لہذا حضور نے مجھے انگریزی ترجمہ استعمال کرنے کی اجازت دیدی.میں نے یہ کام کوپن ہیگن ڈنمارک میں شروع کیا.اُسوقت میں وہاں لجنہ کی صدر بھی تھی.بعد میں میں فرینکفرٹ جرمنی آگئی جہاں ترجمے کا بیشتر حصہ مکمل کیا.جرمنی میں بھی میں نے صدر لجنہ کے فرائض ادا کئے.لہذا اس کام کی تکمیل میں چھ 6 سال لگے.یکم جولائی 1988ء کو یہ ترجمہ سویڈن میں چھپ کر تیار ہوا.میری بڑی خواہش تھی کہ اس کی پہلی کاپی میں خود حضور کی خدمت میں پیش کروں.اس کی اجازت لینے کے بعد یہ کاپی پیش کرنے کے لئے لندن پہنچی.9 جولائی 1988ء کو یہ تقریب حضور کے آفس میں منعقد ہوئی.آپ فرماتی ہیں یہ میری زندگی کا بہت اہم لمحہ تھا.میری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری اس کوشش کو قبول فرمائے اور مجھے دین حق اور احمدیت کی صحیح معنوں میں خدمت کی توفیق دے.میں عرصہ 22 سال سے بفضل خدا احمدی ہوں.( مصباح اگست دو ستمبر 1989 ء صفحه 57)
53 امریکہ کی احمدی بہنوں کی خدمت قرآن : حضرت خلیفہ امسیح الرابع کے ارشاد پر ہماری احمدی بہن مکرمہ عائشہ شریف صاحبہ کی قیادت میں دیا چہ تفسیر القرآن کا انڈیکس تیار کیا گیا.کمپیوٹر سے مدد لی اور انتھک محنت کی گئی.دعا کی غرض سے ان بہنوں کے نام درج کئے جارہے ہیں.محترمہ نسیم یعقوب صاحبہ محترمہ عائشہ حکیم صاحبہ محترمہ شکور یہ نوریہ صاحبہ، محترمہ سلمی غنی صاحبه، محترمہ خدیجہ الہادی صاحبہ محترمہ رفیقه را ما صاحبه، محترمه خلعت الدین صاحبه، محترمہ طاہرہ صاحبہ محترمہ عظمی سعید صاحبہ محترمہ فرزانه قادر صاحبہ محترمہ فاطمه حنیف صاحبہ پروف ریڈنگ میں مدد دینے والی بہنوں کی خدمت بھی قابل قدر ہے ان میں محترمہ شازیہ صاحبه، محترمه مینا رشید صاحبه محترمہ نبیلہ مجید صاحبه، محتر مدامة الصبور اعجاز صاحبہ محترمہ رعنا ملک صاحبہ محترمہ سیمیں طیب صاحبہ شامل ہیں.پیارے آقا نے احمدی خواتین کے اس کارنامے کو بے حد سراہا اور ان سب کیلئے دعا کی تحریک بھی فرمائی.قرآن کریم کا پُرتگالی زبان میں ترجمہ محترمہ امینہ صاحبہ (برازیل) نے 1989ء میں احمد یہ صد سالہ جشنِ تشکر کے موقع پر اپنی گراں قدر خدمات سے عظیم الشان مثالیں قائم کیں.قرآن کریم کا پرتگالی میں ترجمہ کیا جو شائع ہو چکا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس قابل صد احترام خاتون کو پہلی احمدی مشنری خاتون کے خطاب سے نوازا.خلیفة المسح الرابع حمہ اللہ تعالی احد عورتوں کی خدمات قرآن کے بارے میں فرماتے ہیں :-
54 میں لجنہ غانا کے اس کام سے بہت خوش ہوں.بہت عمدگی سے لبنات خواتین اور بچوں کی خدمت کر رہی ہیں.پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی یہ خدمت جاری ہے خصوصاً غانا میں مشرق سے لیکر مغرب تک یہ کام ہو رہا ہے.اس کے علاوہ پاکستان ، ہندوستان ، بنگلہ دیش ، جرمنی ، انڈونیشیا اور تمام افریقی ممالک میں یہ خدمت انجام دی جارہی ہے.ہندوستان اور بنگلہ دیش وغیرہ میں یہ کام بہت مشکل ہے.ہر وقت نظر رکھنی پڑتی ہے کہ کوئی شریر عورتوں کی بے حرمتی کا سبب نہ بن جائے.“ نیز آپ نے فرمایا ” ایک البانوی خاتون نے جو جرمنی میں رہتی ہیں اب تک قرآن کریم کے سو نسخے خرید کر تقسیم کر چکی کم و بیش ہر احمدی گھرانے میں درس و تدریس قرآن مجید جاری ہے اللہ تبارک تعالیٰ کلام پاک کی روشنی سے ہمارے دلوں کو منور رکھے آمین.
55 احمدی خواتین کا توکل علی اللہ صبر ورضا جو لوگ اللہ تعالیٰ کی صفات خاصہ پر غور کر کے اُس سے ناتا جوڑتے ہیں وہ حق الیقین کے اُس مرتبہ پر پہنچ جاتے ہیں جہاں پر کوئی ابتلاء، کوئی مصیبت اور بڑی سے بڑی آزمائش بھی اُن کے ایمان کو کمزور نہیں کرتی.وہ ثابت قدم رہتے ہیں اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہتے ہیں.تکلیف اور مصیبت کی گھڑیوں میں اپنے پیارے مولیٰ کا دامن زیادہ مضبوطی سے تھام لیتے ہیں اور اُسی پر تو کل کرتے ہیں.انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کٹھن مرحلہ پر کوئی اُن کی مدد نہیں کر سکتا وہی قادر و توانا خدا جو ہر چیز پر قادر ہے مدد کو آئے گا اور اُن کی مشکلات کا ازالہ فرمائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے اُن کے والد صاحب کی وفات کے اندوہناک سانحے کے موقع پر الَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَہ کے الفاظ سے ڈھارس بندھائی تھی.اُس روز کے بعد سے زندگی کے ہر موڑ پر ہر قدم پر اللہ تعالیٰ نے آپ کی نصرت فرمائی.اُسی کی تائید و نصرت کے سہارے ہر آزمائش اور کٹھن ترین مرحلہ سے عہدہ برآ ہوئے.تو کل علی اللہ کے اس اعلیٰ مرتبہ پر فائز جری اللہ" کی اہلیہ محترمہ بھی قدم بقدم صبر ورضا اور تو کل علی اللہ کے راستے پر چلتی رہیں.آپ کے تو کل علی اللہ کے بے شمار واقعات تاریخ احمدیت کے اوراق میں موجود ہیں.لیکن بے مثال اور عظیم ترین واقعہ حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی المناک وفات کے موقعہ پر پیش آیا.زندگی کے آخری لمحات میں جب آپ پر حالت نزع طاری تھی تو حضرت
56 سیدہ اماں جان نے فرمایا:- ”اے میرے پیارے خدا ! یہ تو ہمیں چھوڑتے ہیں مگر تو ہمیں نہ چھوڑیو ( تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ 548) اُس وقت حضرت اماں جان نے بجائے دُنیا دار عورتوں کی طرح چیخنے چلانے اور بے صبری کے کلمات منہ سے نکالنے کے صرف اللہ تعالیٰ کے حضور گر کر نہایت عجز وانکسار کے ساتھ دعائیں مانگنے کا پاک نمونہ دکھایا.جب آخر میں یسین پڑھی گئی اور حضور کی مقدس رُوح قفس عنصری سے پرواز کر کے اپنے محبوب حقیقی کے حضور حاضر ہوگئی تو حضرت اماں جان نے فرمایا ”ہم خدا کے ہیں اور ہمیں اُسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور خاموش ہوگئیں.اندر بعض مستورات نے رونا شروع کیا آپ نے ان عورتوں کو بڑے زور سے جھڑک دیا اور کہا میرے تو خاوند تھے میں نہیں روتی تو تم رونے والی کون ہو.یہ صبر واستقلال کا نمونہ ایک ایسی پاک عورت سے جو ناز و نعم میں پلی ہو اور جس کا ایسا ناز اُٹھانے والا مقدس خاوند انتقال کر جائے ایک زبردست اعجاز تھا.یہی نہیں.حضرت اماں جان نے حضور کی وفات کے وقت یا اس کے تھوڑی دیر بعد اپنے بچوں کو جمع کیا اور صبر کی تلقین کرتے ہوئے انہیں نصیحت فرمائی کہ:- بچو خالی گھر دیکھ کر یہ نہ سمجھنا کہ تمہارے ابا تمہارے لئے کچھ نہیں چھوڑ گئے.اُنہوں نے آسمان پر تمہارے لئے دعاؤں کا بڑا بھاری خزانہ چھوڑا ہے جو تمہیں وقت پر ملتا رہے گا.( تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ 554، بحوالہ افضل 19 جنوری 1962ء روایت حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ )
57 اس صدمہ جانکاہ کے موقع پر اس طرح کے الفاظ ایک قانتہ ،صالحہ اور متقیہ کے سوا اور کسی کے بس کی بات نہیں.اسی قابل رشک خاتون کے جگر گوشہ نے جس استقامت اور عزم کا اظہار کیا وہ بھی رہتی دنیا تک تاریخ احمدیت میں منفر داور قابل تقلید واحد مثال کے طور پر ہمیشہ یاد رہے گا.لکھا ہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد نے اس موقعہ پر نہ صرف صبر کا عدیم النظیر نمونہ دکھایا بلکہ سب سے پہلا کام یہ کیا کہ حضرت مسیح موعود کے سرہانے کھڑے ہو کر یہ عہد کیا کہ اگر سارے لوگ بھی آپ کو چھوڑ دیں گے اور میں اکیلا رہ جاؤں گا تو میں اکیلا ہی ساری دنیا کا مقابلہ کروں گا اور کسی مخالفت اور دشمنی کی پرواہ نہیں کروں گا.“ ( تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ 554) غرضیکہ حضرت سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کا مقامِ رضا بالقضا بے مثال ہے.مکرم محمود احمد صاحب عرفانی لکھتے ہیں:.حضرت اماں جان کی زندگی میدانِ کربلا کی زندگی ہے.آپ کی زندگی انبیاء کے ابتلاؤں کی زندگی تھی.اور ان ابتلاؤں میں حضرت اماں جان برابر کی شریک تھیں.خدائے تعالی کی بشارتیں تو سہارا اور تسلی کا ذریعہ تھیں مگر جیسے حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالیٰ نے ابتدائی عہد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دلائی ٹھیک اسی طرح پر حضرت اماں جان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے مایہ رحمت و اطمینان ہوتی تھیں.بڑے بڑے معر کے آپ کی آنکھوں کے سامنے پیش آئے.مگر حضرت اماں جان تمام حالات میں ایک قلب مطمئنہ کے ساتھ طوفان میں چٹان کی طرح رہیں.بیرونی حوادث اور زلازل کے علاوہ گھر میں بعض واقعات اموات کے ہوئے وہ معمولی نہ تھے.ہرایسی موت پر مخالفین کی طرف سے وو
58 گندے اور دل آزار اشتہارات نکلتے.مگر آپ کے پہلو میں وہ دل تھا جو خدائے تعالیٰ کی تقدیر سے ہمیشہ ہم آہنگ رہا اور خدائے تعالیٰ کی رضا کو مقدم کیا.آپ کے رضا بالقضاء کے مقام کی بھی خدائے تعالیٰ نے داد دی چنانچہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی وفات پر جو نمونہ صبر اور رضا بالقضا کا آپ نے دکھایا اسے خدائے تعالٰی نے اتنا پسند فرمایا کہ اپنی پسندیدگی کا اظہار اس وحی سے کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اس واقعہ کے بعد نازل ہوئی.یعنی ” خدا خوش ہو گیا اس سے بھی حضرت اماں جان کے مقام کا پتہ لگتا ہے مگر جب آپ نے اپنے مولیٰ کی خوشنودی کا پروانہ سُنا تو فرمایا :- ” مجھے اس الہام سے اس قدر خوشی ہوئی ہے کہ دو ہزار مبارک احمد بھی مرجاتا تو میں پرواہ نہ کرتی.“ (سیرت نصرت جہاں بیگم صفحہ 64 -65 ) تاریخ احمدیت میں ایسی قابل صد رشک مثالیں بے شمار ہیں اور پھر خواتین کا کڑے سے کڑے امتحان میں صبر و رضا کے ساتھ گزرنا اور بھی قابل داد ہے اس لئے کہ عورتوں کو کمزور دل سمجھا جاتا ہے.حضرت شہزادہ عبداللطیف صاحب (قربان راہِ مولا) کی اہلیہ محترمہ شاہجہاں بی بی صاحبہ اور اُن کے بچوں کے بارے میں تاریخ احمد بیت جلد سوم صفحہ 349 پر مختصر ذکر یوں ہے:- حضرت مسیح موعود نے حضرت شہزادہ عبداللطیف صاحب کی (قربانی) کا المناک واقعہ بڑی تفصیل سے بیان فرمایا ہے.پیچھے رہ جانے والوں کی حالت کے متعلق آپ نے فرمایا ” پھر بھی اس کا پاک جسم پتھروں سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا اور اس کی بیوی اور اس کے یتیم بچوں کو خوست سے گرفتار کر کے بڑی ذلت اور عذاب
59 کے ساتھ کسی اور جگہ حراست میں بھیجا گیا.( تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ 340) ایسی دردناک (قربانی) جس کے واقعات سُن کر غیروں کا کلیجہ منہ کو آتا ہے اور آنسو بے اختیار بہنے لگتے ہیں وہاں اس مومنہ نے انتہائی صبر ورضا کا نمونہ دکھایا.اور اپنی صابرہ و شاکرہ ماں کا قابلِ تعریف رویہ دیکھ کر اُن کے بچوں نے بھی انتہائی صبر و استقلال کا نمونہ دکھایا.در بدر دھکے کھائے ، مالی پریشانیاں اُٹھا ئیں اور ذہنی بے سکونی کا شکار ہوئے لیکن پائے ثبات میں لغزش نہ آئی اور احمدیت کے ساتھ پوری وفا اور خلوص کے ساتھ وابستہ رہے.اس استقامت کا سہرا بھی حضرت شاہجہاں بی بی صاحبہ کے سر ہی بندھتا ہے.حضرت شاہ جہاں بی بی صاحبہ کا یکم نومبر 1929ء کو انتقال ہوا.مرحومہ صوم و صلوۃ کی پابند تھیں.اُنہوں نے اپنے ورثہ کی 1/3 حصہ کی وصیت بھی کی تھی.( حاشیہ صفحہ 349 تاریخ احمدیت جلد سوم ) حضرت سیّدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ تو کل علی اللہ کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز تھیں.نامساعد حالات میں بھی بھی اللہ تعالیٰ کے محبت بھرے دامن کو نہ چھوڑا اور کسی انسان سے کچھ طلب کرنا تو در کنارا اپنی ضرورت کو چھپا کر رکھا اور کٹھن سے کٹھن وقت بھی بڑے حوصلہ اور صبر سے گزارا.آپ کی صاحبزادی فوزیہ بیگم صاحبہ نے لکھا ہے:.ایک دفعہ بعض حالات کی وجہ سے بہت پریشان تھیں.اُن کے بڑے بھائی حضرت فضل عمر انہیں الگ لے گئے اور کہا حفیظ مجھے بتاؤ تمہیں کیا تکلیف ہے.امی یہ سن کر رو پڑیں لیکن بولیں کچھ نہیں.بڑے بھائی نے بڑے پیار سے کہا
60 دو حفیظ گھبراؤ نہیں بعض وقت ریس میں پیچھے رہنے والا گھوڑا سب سے آگے نکل جاتا ہے.“ (مصباح جنوری فروری 1988ء صفحہ 64) حضرت سیدہ آصفہ بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ بھی اپنی شخصیت، اخلاق اور اعلیٰ کردار کے لحاظ سے ایک نہایت ممتاز احمدی خاتون تھیں.جیسا کہ سیدنا حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی وفات کے بعد فرمایا : - روز مرہ کے رہن سہن کے معیار کے حساب سے بعض پہنی اور معاشرتی اختلافات کے باوجود اپنے بلند معیار زندگی کو ترک کرتے ہوئے ایک واقف زندگی کے ساتھ بڑے صبر کے ساتھ وقت گزارا.کبھی بوجھ نہیں ڈالا نہ کسی ایسی چیز کی خواہش کی جو میں انہیں دے نہیں سکتا تھا.ہجرت کے وقت اپنا گھر بار سب کچھ چھوڑ کر دیارِ غیر جانا پڑا تو یہ تمام عرصہ نہایت صبر اور راضی برضا ہو کر گزارا.آخری بیماری کے متعلق آپ نے فرمایا: - (مصباح جنوری 1993 ء صفحہ 4) بیماری اتنی شدید تھی اور سخت بے چینی بھی.بار بار مجھ سے پوچھتی تھیں کہ بتائیں کیا بیماری ہے.میں ٹھیک ہو جاؤں گی کہ نہیں لیکن اس کے بعد (یعنی میرے سمجھانے کے بعد اور اللہ تعالیٰ سے دُعا کا طریقہ سکھانے کے بعد ) ایسا اطمینان ہوا کہ بے چینی کا کوئی اظہار نہیں.نہ مجھ سے
61 پوچھا نہ بات کی.مجھے ضرورت ہی نہیں پڑی.تو اللہ کے فضل سے وہ بات سمجھ کر آخری دم تک وفا کے ساتھ اس عہد پر قائم رہیں اور غیر اللہ کی طرف نہیں دیکھا.آخر پر یہ حالت تھی کہ بجائے اس کے کہ ہم اُن کو تسلی دیتے وہ ہمیں تسلی دیتی تھیں.مجھے کہا آپ بس کریں اتناغم اور فکر نہ کریں.اتناغم نہ لگا ئیں.میں نے جواب دیا بی بی میں مجبور ہوں.مجھے تو دُور کے غم بھی تکلیف دیتے ہیں.کوئی کسی کونے میں بیمار ہو میں بے چین ہو جایا کرتا ہوں..ایک دفعہ میں نے کہا بی بی میں آپ کے لئے بہت دُعا کر رہا ہوں.آپ کو تصور نہیں کہ کس طرح کر رہا ہوں تو کہتی ہیں صرف میرے لئے نہ کریں ساری دُنیا کے بیماروں کے لئے کریں.میں نے کہا میں پہلے ہی اُن کے لئے دُعا کر رہا ہوں اور کبھی ہوا ہی نہیں کہ تمہارے لئے کروں اور توجہ پھیل کر ساری دُنیا میں سب بیماروں تک نہ پہنچے.جس جس ملک میں لوگ بیمار ہیں اور تکلیف میں ہیں تمہارے دُکھ کا فیض دعاؤں کی صورت میں سب کو پہنچ رہا ہے.اس پر چہرے پر بڑا ہی اطمینان آیا اور کہا ہاں یہ ٹھیک ہے.اسی طرح دعا کیا کریں.(مصباح جنوری 1993 ءصفحہ 17-19) مندرجہ بالا اقتباس مظہر ہے اس بات کا کہ وہ خاتونِ مبارکہ اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کے دامن کی صرف خود ہی بھکاری نہ تھیں بلکہ سکون اور فضل و کرم کا سایہ تمام دُنیا کے دُکھی انسانوں تک ممتد ہونا انہیں راحت پہنچانے کا موجب تھا.اُن کی
62 ہمشیرہ صاحبہ مکرمہ صبیحہ صاحبہ بیگم مرزا انور صاحب نے لکھا ہے.اُس کی ایک اور خوبی تو کل علی اللہ بھی تھی.آخری بیماری میں مجھ سے جب بھی ملاقات ہوتی کبھی مجھ سے ایسی بات نہ کی جس سے بچیوں یا حضور کے بارے میں کسی بھی فکر مندی یا پریشانی کے جذبات پائے جاتے ہوں.ہاں البتہ ہر دفعہ مجھے یہ ضرور کہتیں میرے لئے دعا کرتی ہو؟.66 (مصباح جنوری 1993 ء صفحہ 65) خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پہلے راہِ مولا میں قربان محترم صاحبزادہ مرزا غلام قادر احمد صاحب کے سانحۂ جانکاہ کے موقع پر اُن کے والدین اور اہلیہ محترمہ نے انتہائی مومنانہ صبر ورضا کا نمونہ پیش کیا.محترمہ صاحبزادی قدسیہ بیگم صاحبہ جو حضرت مسیح موعود کی نواسی ہیں اور دُختِ کرام حضرت سیّدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ مرحومہ کی تربیت یافتہ ہیں نے اپنے ہیرے جیسے لخت جگر کی قربانی کے موقع پر جس صبر و رضا اور تو کل علی اللہ کا نمونہ دکھایا وہ قابل صدر شک و تحسین ہے.آپ نے ان دلخراش لمحوں میں جبکہ گلشن احمد کا حسین ترین پھول نہایت بے دردی سے مسلا گیا.یہ الفاظ ادا کئے.تمہاری جان کا نذرانہ مجھے سرفراز کر گیا.“ (الفضل 7 جون 1999 ء صفحہ 3) جب غم تازہ ہو اور صدمہ نہایت جانکاہ ہوایسے الفاظ کی ادائیگی صرف اُس ہستی کی زبان سے ہوسکتی ہے جو کامل طور پر اللہ تعالیٰ کی رضا کے سامنے اپنا سر جھکا دے.مکرمہ محترمہ صاحبزادی قدسیہ بیگم صاحبہ اپنے مضمون میں لکھتی ہیں :- ہیں:- میں نے اپنے ملٹے کو جزاک اللہ قا در جزاک اللہ
63 کہہ کر رُخصت کیا.شاید وہ بھی مجھے جزاک اللہ کہنا چاہتا تھا.خدا نے اُسے بتایا ہوگا کہ تمہاری ماں نے تمہارے وقف حتی کہ قربانی کے لئے بھی دُعائیں کی تھیں.وہ آج روضرور رہی ہے لیکن آنسوؤں کے پیچھے قبولیت دعا کے نشان ہیں.شکر کے جذبے ہیں.میں بے قرار ہوں مگر اس بے قراری میں ایک قرار ہے.قادر میرے بچے تم آئے بھی صرف اور صرف خدا کی مرضی سے اور گئے بھی خدا کی رضا پر ہو.اور ہم اُس کی رضا پر راضی الفضل 7 جون 1999 ء صفحہ 3 کالم 3-4) قارئین کرام! ایسا بے مثال صبر اور ایسی ناقابل یقین رضا کا مظاہرہ سوائے صبر و ثبات کی چٹان کے اور کہیں نہیں دیکھا جا سکتا.ایسے رُوح فرسا لمحوں میں بڑے بڑے جانباز ہمت ہار دیتے ہیں.لیکن وہ ماں کس قدر قابل رشک اور خوش نصیب ہے جس کا قابل فخر جواں سال عظیم بیٹا اچانک جدا ہو جاتا ہے اور وہ اپنے مولیٰ کی رضا پر راضی کوہ وقاربنی ایک ہجوم کے درمیان زبانِ حال سے یہ کہہ رہی ہو : - ”جب قادر جیسے لوگ اس دُنیا سے جاتے ہیں تو چراغ ہیں.“ بجھا نہیں کرتے بلکہ زیادہ آب و تاب سے جلا کرتے ہیں جس سے تمام راہیں جگمگا اُٹھتی ہیں.“ ایسی ہی قابل فخر ماؤں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے حضرت طلیقہ امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: - دو سچے احمدی کی ماں زندہ باد قادر کی بیگم عزیزہ امۃ الناصر نصرت صاحبہ کے ساتھ تعزیت کرنے کے لئے آنے والے اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ صبر و رضا کا ایک کوہ وقار ہیں اور
64 ثبات قدم کے ساتھ نھے فرشتوں کو ( چاروں بچوں کو ) اپنے پروں کے نیچے لئے خاموشی سے اور سکون کے ساتھ اپنے گھر میں اس لئے بیٹھی ہیں مبادا کسی بے صبری کا مظاہرہ بچوں کے نازک دلوں میں بیقراری اور بے چینی نہ پیدا کر دے اور صبر کا دامن اُن کے ہاتھوں سے نہ چھٹ جائے.اور اللہ تعالیٰ کے حضور بھی کسی ناشکری کا اظہار نہ ہو جائے.جماعت پر ہر دور میں انفرادی اور اجتماعی امتحان ابتلا اور آزمائشیں آتی رہتی ہیں.مگر ہم تو انتہائی صبر سے اس تعلیم پر عمل کرتے ہیں.گالیاں سُن کے دُعا دو پاکے دُکھ آرام دو
65 احمدی خواتین کی دینی تعلیم وتربیت اُنیسویں صدی کے اختتام پر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعوئی مسیحیت فرمایا، برصغیر ہندوستان میں جہالت کا دور دورہ تھا.عورتیں تو در کنار مرد بھی تعلیم کی اہمیت سے واقف نہ تھے.پڑھناوقت ضائع کرنے کے مترادف تھا.گنتی کے لوگ بڑے شہروں میں تعلیم حاصل کرتے تھے.اور ان تعلیم کے شیدائیوں میں مسلمان تو برائے نام ہی تھے اعلیٰ خاندان کے متمول لوگ اپنے لڑکوں کو اُستاد مقرر کر کے گھر میں تعلیم دلوانے کا انتظام کر لیتے تھے.جبکہ عورتوں کی تعلیم کی طرف توجہ نہ ہونے کے برابر تھی.برطانوی سی کے بعد ہندوستان میں جگہ جگہ تعلیمی اداروں کا قیام ہو گیا تھا.لیکن مسلم خواتین کو اسکول میں بھجوانا ناممکن تھا اس لئے کہ عورتوں پر پردے کی سخت پابندی تھی اُس کا گھر سے برقعہ یا چادر اوڑھ کر نکلنا بھی ایک جرم تھا.با العموم گھر کے دروازے پر ڈولی آتی ڈیوڑھی سے ڈولی تک دائیں بائیں چادر میں تان کر عورت کو ڈولی میں داخل ہونے کا موقع فراہم کیا جاتا اور پھر جہاں پر جانا ہوتا وہاں بھی چادر میں تان کر اس کو ڈولی سے باہر نکالا جاتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کے بعد آپ کی بیعت کرنے سے جماعت احمدیہ کے مرد و زن میں قرآن مجید، احادیث اور دینی علوم حاصل کرنے کی طرف رجحان پیدا ہوا جو روز بروز ترقی پذیر ہوتا چلا گیا.گویا قادیان کا ماحول علم و عرفان کی روشنی سے منور ہونا شروع ہو گیا.تعلیم و تربیت کرنے والے ماڈل میسر آگئے.جماعت میں تعلیم و تربیت کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے فرمایا : -
66 ”جب جماعت احمدیہ کا انتظام میرے ہاتھ میں آیا اس وقت قادیان میں عورتوں کا صرف پرائمری اسکول تھا لیکن میں نے بیویوں اور بیٹیوں کو قرآن کریم اور عربی کی تعلیم دی اور انہیں تحریک کی کہ مقامی عورتوں کو قرآن کریم کا ترجمہ اور حدیث پڑھائیں...میں نے یہ انتظام کیا کہ پردے کے پیچھے بیٹھ کر وہ اُستادوں سے تعلیم حاصل کریں.اس پر قادیان میں بھی اور باہر بھی اعتراض ہوئے لیکن میں نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی کیونکہ یہ ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ضرورت کے موقعہ پر مرد و عورت ایک دوسرے سے پڑھتے پڑھاتے رہے ہیں.حضرت عائشہ صحابیوں اور نومسلموں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات طیبات سکھاتی رہی ہیں.پس میں نے اس سلسلہ کو جاری رکھا یہاں تک کہ پچھلے سال عورتوں کی کافی تعداد نے مولوی کا امتحان پاس کیا.....اس کے ساتھ ہی میں نے پرائمری اسکول مڈل تک پہنچادیا.اور اس سال سے یعنی 1921ء میں قادیان میں عورتوں کا کالج بھی جاری ہو چکا ہے.اور میرا منشاء یہ ہے کہ کم از کم پندرہ یا سولہ عورتوں کو بی اے یا ایم اے تک تعلیم دلائی جائے تا کہ عورتیں خود دوسری عورتوں کو تعلیم دے سکیں.اور جب قادیان میں عورتیں ہی تعلیم دینے کے لئے تیار ہو جائیں تو میرا ارادہ ہے کہ وہاں ہوٹل قائم کر کے باہر کی عورتوں کے لئے بھی وہاں رہ کر تعلیم حاصل کرنے کا انتظام کر دیا جائے گا.یہ امر کس قدر افسوسناک ہے کہ سارے پنجاب میں مسلمانوں کا ایک بھی زنانہ کا لج نہیں اور قادیان کا کالج پہلا زنانہ کالج ہے.اور خدا کے فضل سے وہاں عورتوں کی تعلیم اس قدر زیادہ ہے کہ چند ماہ ہوئے میں علی گڑھ گیا تو مجھے بتایا گیا کہ صرف چارلڑکیوں نے انٹرنس کا امتحان دیا ہے لیکن قادیان میں پہلے ہی سال سولہ (16) لڑکیوں نے امتحان دیا اور ہم نے اندازہ کیا کہ قادیان میں سو فیصدی لڑکیاں تعلیم حاصل کرتی ہیں یا ان کی شرح لڑکوں
67 سے بھی زیادہ ہے اور یہ خوشی کی بات ہے کہ ہماری جماعت کی عورتوں میں تعلیم اس سرعت سے پھیل رہی ہے خصوصاً قادیان میں کہ انشاء اللہ بہت جلد ہم عورتوں کی جہالت سے بچ جائیں گے.‘“ (مصباح 15 /اکتوبر 1921 صفحه 4-5) اس اقتباس سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ احمدی عورتوں میں خصوصاً قادیان کی مستورات میں ہندوستان کی دیگر عورتوں کے مقابلے میں بہت پہلے تعلیم کا ذوق و شوق پیدا ہوا.اس طرح پر دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم کی طرف بھی خلیفہ وقت کی نگرانی میں قادیان کی عورتوں نے بھر پور توجہ دی.دینی تعلیم حاصل کرنے اور قرآن وحدیث کی تعلیمات پر عبور حاصل کرنے کے لئے احمدی عورتوں نے عربی زبان سیکھنے کے لئے ذوق وشوق سے قدم آگے بڑھایا.چنانچہ 1921ء میں قادیان کی سات خواتین نے مولوی کا امتحان پاس کیا.یہ جذبہ صرف قادیان کی عورتوں تک ہی محدود نہ رہا بلکہ باہر کی احمدی خواتین میں بھی ذہنی بیداری پیدا ہوگئی.نہ صرف قرب و جوار کی عورتیں قادیان میں آ کر اس علمی ماحول سے مستفید ہونے لگیں بلکہ دور دراز کے علاقوں کی احمدی خواتین نے بھی بہت ہمت کا ثبوت دیا اور قادیان پہنچ کر قرآن وحدیث کی تعلیم کی دولت سے مالا مال ہوئیں.مثلاً امتہ اللہ کنیزہ بیگم صاحبہ حیدر آباد دکن کی لجنہ کی رپورٹ میں اپنی خواہش کا اظہار یوں کرتی ہیں.وه نیز عاجزہ کا مدت سے یہ خیال تھا.کہ مرکز مقدس میں حاضر ہو کر دینی تعلیم کی تعمیل کرے.چنانچہ حضور کے ارشاد کی روشنی میں اپنی اور بہنوں کو بھی راقمہ نے خصوصیت کے ساتھ تحریک کی.جس پر سر دست سات بہنوں نے پختہ وعدہ کر لیا ہے کہ میرے ساتھ چلیں گی.(مصباح 15 جولائی 1920 صفحہ 16) حضرت سیّدہ امتہ الحمی ( بنت حضرت خلیفہ امسیح الاوّل ) حرم حضرت
68 خلیفہ المسیح الثانی جماعت کی خواتین کی تعلیم وتربیت میں منفر د مقام رکھتی ہیں.با قاعدہ سنٹرز مقرر کر کے نصاب تیار کر کے کام کا آغاز کیا.حضرت مصلح موعود نے آپ کی صلاحیتوں کونکھارا اور خوب خراج تحسین پیش کیا.فرماتے ہیں:.عورتوں میں خطبہ لیکچر ز سوسائٹیاں اور ہر ایک خیال جو عورتوں کے متعلق ہو سکتا ہے.اس کی محرک وہی ہیں.بعض دفعہ محبت کے رنگ میں مجھ سے ناراض ہو جاتیں کہ آپ عورتوں کی طرف پوری توجہ نہیں دیتے.آپ کے اندر ایک ایسا ایمان تھا.حضرت اقدس بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ پر ، ایسا یقین تھا ( دین حق ) کی صداقت پر جو ایمان اور یقین بہت کم عورتوں میں پایا جاتا ہے.میں نے ہمیشہ ان کے ایمان کو خلافت کے متعلق ایسا مضبوط پایا کہ بہت کم مردوں میں ایسا ہوتا ہے.( دینِ حق ) سے اس قدر محبت رکھتی تھیں اور سلسلہ کی علمی ترقی کی ان کے دل میں اس قدر تڑپ تھی کہ میرے نزدیک ساری جماعت میں اس قسم کی کوئی عورت موجود نہیں.روز نامہ الفضل نے لکھا: - سیدہ امتہ الحئی صاحبہ کی وفات نے سلسلہ کی خواتین میں ایسی جگہ خالی کی ہے کہ اس کا بدل نظر نہیں آتا.یہ موت ایک عالم کی موت ہے.“ تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ 142) حضرت سیدہ امتہ اختی صاحبہ کی علمی وادبی و دینی علوم کی محبت کی یاد میں لجنہ اماءاللہ نے ایک لائبریری قائم کی جو قادیان میں خواتین کی علمی پیاس کسی حد تک بجھاتی رہی اور ملکی تقسیم کے بعد ربوہ میں اس لائبریری کا قیام دوبارہ عمل میں آیا.اس لائبریری میں بہت سی نایاب کتب اور رسائل موجود ہیں جن سے مسلسل استفادہ کیا جا رہا ہے.علاوہ ازیں دینی علوم میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والی لڑکی کو ہر سال وظیفہ دیا جاتا ہے.
69 قادیان میں 1925ء میں مستورات کے لئے ایک مدرسہ کا قیام ظہور میں آیا جیسا کہ مصباح یکم جون 1928ء کی اشاعت میں مذکور ہے.”مدرستہ الخواتین کا اب تیسر اسال ختم ہوتا ہے.“ بعد ازاں 1925ء میں سیالکوٹ شہر میں ایک اسکول لڑکیوں کے لئے کھولا گیا جس کا مقصد مروجہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی و دینی تعلیم بھی تھا.احمدی خواتین کا 1925ء میں احمدی لڑکیوں کے لئے ایک درسگاہ کا قیام کوئی معمولی بات نہیں سمجھی جاسکتی.یہ اسکول اپنے نظم وضبط اور دینی و دنیاوی تعلیم کے لئے جلد ہی مشہور ہو گیا.اور صرف احمدی لڑکیوں تک محدود نہ رہا بلکہ شہر کی غیر احمدی لڑکیوں کو بھی قرآن مجید و احادیث با ترجمہ سکھانے کا باعث ہوا.علاوہ ازیں جلسہ سیرت النبی کے انعقاد کے موقع پر غیر مسلم خواتین کو بھی مدعو کیا جا تا گویا یہ ایک تبلیغ ( دین حق ) کا ذریعہ بھی بن گیا.مندرجہ ذیل اقتباس سے احمد یہ گرلز اسکول سیالکوٹ کے قیام اور کام کے متعلق اندازہ ہو جاتا ہے.می مدرسه حکم حضرت خلیفہ مسیح الثانی اپریل 1955ء کو جماعت سوئم سے شروع ہوا تھا.احمد یہ گرلز اسکول کا تیسرا سال الحمد اللہ بہت اچھی طرح گزر رہا ہر مہینے کی پہلی اتوار کو ایک عام جلسہ ہوتا ہے جس میں علاوہ احمدی مستورات کے غیر احمدی عورتیں بھی اکثر شریک ہوتی ہیں.تجویز ہے کہ ہر چھ ماہ بعد اصلاح اخلاق پر انعام تقسیم کئے جائیں.“ اسی اسکول کے سلسلہ میں ایک اور رپورٹ سے ظاہر ہے کہ محکمہ تعلیم سے متعلق غیر احمدی اور غیر مسلم اعلیٰ افسران کی خدمت میں تبلیغی لٹریچر پیش کیا جاتا اور مذہبی اُمور پر تبادلہ خیال بھی کیا جاتا.مثلاً مصباح یکم جولائی 1932 ء صفحہ 11 پر لکھا ہے.
70 اسکول کے معائنہ کے موقع پر انسپکٹریس کو تحفہ شہزادہ ویلز ، سواغ مسیح موعود اور فلسفہ اسلام تین کتابیں بطور ہدیہ پیش کیں جن کو انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا.“ حضرت سیده ساره بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفہ اسیح الثانی بھاگلپور کے ایک نہایت معزز اور علمی خاندان میں پیدا ہوئیں.آپ نے علم وادب کے ماحول میں آنکھ کھولی.اس لئے بچپن ہی سے تحصیل علم کا شوق تھا.چودہ پندرہ سال کی عمر تک آپ نے اپنے عالم باعمل والد محترم سے عربی اور فارسی سیکھی صحیح بخاری اور قرآن مجید کا ترجمہ بھی پڑھا ہوا تھا.سلسلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پر بھی کافی عبور حاصل تھا.آپ کا نکاح سید نا حضرت فضل عمر سے 12 اپریل 1925ء کو ہوا.آپ سے نکاح کی غرض حضور کی یہ تھی کہ تعلیم نسواں کی وہ اسکیم جو حضرت سیدہ امتہ الحئی بیگم صاحبہ کی وفات کی وجہ سے تعطل میں پڑ گئی تھی اُس پر عمل کیا جاسکے.حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ بھی اپنا مشن جانتی تھیں چنانچہ چند دن کی دُلہن نے پڑھائی شروع کر دی اور تا دم مرگ حصول علم میں لگی رہیں تا کہ اپنے آپ کو اس اعلیٰ مقصد کے حصول کے لئے تیار کر سکیں.چنانچہ آپ نے پوری محویت سے آرام اور صحت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پڑھنا شروع کر دیا اور جلد ہی ادیب، مولوی اور انٹرنس کے امتحان پاس کر لئے.ایف-اے کا امتحان بھی دیا لیکن نتیجہ آنے سے پہلے ہی فوت ہو گئیں.اچھی خاصی زود نویسں تھیں.تحریر بھی بہت اچھی تھی.حضور کے اکثر مضامین تیزی سے لکھتی تھیں اور خود بھی عورتوں کی فلاح و بہبود کے سلسلہ میں اکثر مضامین رسائل میں لکھا کرتیں.حضرت سیدہ صاحبہ مرحومہ اوصاف حسنہ سے متصف تھیں نہایت نیک، پر ہیز گار، صوم وصلوٰۃ کی پابند تھیں.اپنے اوقات کا اکثر حصہ تعلیم کے حصول کے لئے
71 خرچ کرتیں.نہایت کم گو تھیں.اور بہت علم دوست تھیں ہر ایک سے جو علم میں ترقی کا شائق ہوتا محبت کرتیں اور مزید ترقی کی طرف حوصلہ افزائی فرماتیں.غرض حضرت سیدہ صاحبہ کی زندگی ایک مجاہدہ کی زندگی تھی کیونکہ آپ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ تحصیل علم میں گزارا جبکہ اس کے پیچھے کوئی دنیوی نفع یا ذاتی غرض پوشیدہ نہ تھی محض رضائے الہی اور خدمت بنی نوع انسان مد نظر تھی.سید نا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو شخص علم حاصل کرتا ہوا وفات پا جائے وہ شہید ہے اس طرح حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ نے فنانی اعلم ہو کر شہادت کا درجہ پالیا.آپ نہایت پاک باطن اور نیک خو تھیں.قرآنی حکم کے مطابق مسابقت الی الخیر میں ہمیشہ کوشاں رہتیں.آپ کو زیادہ علمی کام کا موقع نہیں ملا اس لئے کہ نو جوانی میں فوت ہو گئیں.جبکہ ابھی تعلیم کا سلسلہ جاری تھا.اگر چہ آپ کی عمر نے وفا نہ کی تاہم آپ کچھ عرصہ لجنہ کی جنرل سیکریٹری رہیں اور لجنہ کی تنظیم اور اُن کی تعلیمی اسکیم کے لئے کوشاں رہیں.اللہ تعالیٰ آپ پر رحمتوں کی بارش کرے.آمین (ماخوذ از مصباح اگست د ستمبر 1934 ء صفحه 50-51) حضرت سیدہ مریم بیگم (ام طاہر ) کے بارے میں اُن کے جلیل القدر شوہر حضرت مصلح موعود نے ”میری مریم “ کے عنوان سے ایک مضمون رقم فرمایا تھا.جو اُن کی وفات کے بعد الفضل 12 جولائی 1944ء میں شائع ہوا تھا یہ مضمون اُن کی سیرۃ طیبہ پر نہایت خوبصورتی سے روشنی ڈالتا ہے.دین سے آپ کی محبت اور آپ کی علمی وادبی جمالیاتی حس کا ذکر آپ نے ان الفاظ میں فرمایا." مریم کو احمدیت پر سچا ایمان تھا وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر قربان تھیں.ان کو قرآن کریم سے محبت تھی اور اس کی تلاوت نہایت خوش الحانی سے کرتی
72 تھیں.انہوں نے قرآن کریم ایک حافظ سے پڑھا تھا.اس لئے ط، ق خوب بلکہ ضرورت سے زیادہ زور سے ادا کرتی تھیں.علمی باتیں نہ کر سکتیں تھیں مگر علمی باتوں کا مزہ خوب لیتی تھیں جمعہ کے دن اگر کسی خاص مضمون پر خطبہ کا موقع ہوتا تھا تو واپسی میں میں اس یقین کے ساتھ گھر میں گھستا تھا کہ مریم کا چہرہ چمک رہا ہوگا اور وہ جاتے ہی تعریفوں کے پل باندھ دیں گی اور کہیں گی کہ آج بہت مزہ آیا اور میرا قیاس شاذ ہی غلط ہوتا تھا.میں دروازے پر انہیں منتظر پا تا اور خوشی سے ان کے جسم کے اندر ایک تھر تھراہٹ پیدا ہو رہی ہوتی تھی.“ (سیرت سیدہ اُمّم طاہر صفحہ 282) حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ بنت حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل " صاحب آپ کی تمام بیٹیوں میں سے ہونہار ترین اور نہایت درجہ ذہین دختر تھیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو علمی و دینی لحاظ سے انتہائی ممتاز مقام عطا فرمایا تھا.آپ کا تعلیمی ریکارڈ نہایت اعلیٰ رہا.میٹرک کا امتحان نصرت گرلز اسکول قادیان سے دیا اور اول پوزیشن میں یہ امتحان پاس کیا.دینیات کی اعلیٰ ترین سند علیمہ بھی حاصل کی.علاوہ ازیں 1941ء میں نظارت تعلیم و تربیت کی طرف سے منعقدہ امتحان میں 82/100 نمبر لے کر تمام مردوں اور عورتوں میں اول رہیں.30 ستمبر 1935ء میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے عقد میں آئیں.اپنی ذہنی صلاحیت اور سُوجھ بوجھ کی وجہ سے اس عظیم ترین ذمہ داری کو بحسن و خوبی نبھا کر آپ نے حضرت مصلح موعود کے علمی بوجھ کو کسی حد تک ہلکا کر دیا.مثلاً 1957 ء میں جب حضرت مصلح موعود تفسیر صغیر کی تصنیف فرما رہے تھے تو حضور نے سیدہ موصوفہ کو قرآن مجید کے بیشتر حصہ کا ترجمہ لکھوایا اور تفسیر صغیر کا ترجمہ اور حواشی کے مختصر نوٹس تحریر کرنے کی سعادت بھی آپ کے حصہ میں آئی.آپ نے اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی پرائیویٹ طور پر جاری رکھا حتی کہ ایم.اے
73 عربی کا امتحان نمایاں طور پر پاس کر لیا.اپنی تعلیم کے دوران اپنی اکلوتی بیٹی صاحبزادی امتہ المتین صاحبہ کو اپنی والدہ محترمہ کے پاس رکھا.مکر مہ محترمہ امتہ السمیع صاحبہ بیگم مکرم مرزار فیع احمد صاحب نے مجھ سے بیان فرمایا کہ میں اور امتہ المتین نہ صرف ہم عمر ہیں اور ایک ہی جگہ بچپن کے ابتدائی سال گزارے بلکہ ہم دونوں رضاعی بہنیں بھی ہیں.گویا آپ نے تکمیل تعلیم کو بیٹی کی تربیت پر ترجیح دی.علاوہ ازیں آپ کو حضرت فضل عمر کی تمیں سالہ رفاقت میں خصوصی تربیت کے سنہری مواقع بھی حاصل ہوئے.حضور نے آپ کی دینی تربیت کے لئے مختلف اوقات میں قرآن مجید کے مختلف حصوں کے درس گھر میں دیئے اس طرح حضرت مصلح موعود سے بالمشافہ قرآن مجید سیکھنے کا موقعہ آپ کو میسر آیا.حضور اقدس نے اکثر اوقات اپنی تصنیفات تحریر فرماتے وقت حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ سے حوالہ جات کی کتب تلاش کر کے اُن میں سے حوالہ جات نکالنے کا کام آپ کے سپر دفرمایا جسے آپ نے بڑی مہارت اور خوبی سے سرانجام دیا.فن تقریر میں بھی آپ کو ممتاز مقام حاصل رہا ہے.آپ نے 1940ء میں جلسہ سالانہ میں پہلی تقریر فرمائی جو نہایت عمدہ تھی.یہ سلسلہ تقاریر 1940ء سے لے کر 1997 ء تک اپنی صحت مندی کے زمانہ میں جاری رہا.آپ کی تقاریر نہایت ٹھوس پُر معارف اور رواں ہوتیں.ہمیشہ اللہ تعالیٰ اُس کے رسول اور مسیح پاک علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں نہایت دلنشیں نصائح فرماتی تھیں.خلفائے وقت کی تحریکات اور خطبات کی روشنی میں لجنہ کو مفید اور ٹھوس لائحہ عمل مہیا فرما کر اُن کی رہنمائی میں کوشاں رہیں اس طرح احترام خلافت کو دلوں میں جاگزیں کیا.فی البدیہہ تقریر کا بھی نہایت اعلیٰ ملکہ رکھتی تھیں اور موقع کے مطابق بڑے موثر رنگ میں خطاب فرماتی رہیں.آپ کی علمی صلاحیتوں کے پیش نظر حضرت خلیقہ امسیح الثانی نے آپ کو
74 ایک اور عظیم سعادت سے نواز اوہ یہ کہ آپ نے اپنی شہرہ آفاق تقریر مسیر روحانی کو آپ کے نام معنون کیا.آپ نے فرمایا: ” میں اس کتاب کو مریم صدیقہ کے نام معنون کرتا ہوں کیونکہ انہی کو حیدر آباد دکھانے کے لئے سفر اختیار کیا تھا جس میں یہ مضمون اللہ تعالیٰ کے فضل سے کھلا..(ماخوذ از مجله جشن پنجاه ساله صفحه 95) مضمون امتہ الکافی صاحبہ سیکریٹری تربیت لجنہ پاکستان ) گویا حضرت مصلح موعود نے آپ کے لئے اس صدقہ جاریہ کا اہتمام فرما کر آپ کی دینی و دنیاوی سعادتوں میں اضافہ فرما دیا.آپ کا علم پہلے ہی نہایت گہرا اور وسیع تھا بعد ازاں حضرت مصلح موعود کی صحبت اور تربیت نے اس میں مزید وسعت اور گہرائی پیدا فرما دی.اپنے اس عظیم علمی خزانہ سے آپ نے طبقہ نسواں کو خوب ، مالا مال کیا.آپ بھی حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی سچی متابعت میں علوم وفنون کے خزانے تقسیم کرنے والی ثابت ہوئیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اعلیٰ درجات سے نوازے اور اپنی اس وسیع خیرات کے بدلے بہترین جزا سے سرفراز فرمائے.آمین.لجنہ کی ابتدائی مبرات میں محترمہ مریم بیگم صاحب، اہلیہ حضرت حافظ روشن علی صاحب نہایت صاحب علم و قلم خاتون تھیں اُستانی لفظ آپ کے نام کے ساتھ شامل ہو گیا.اسی طرح محتر مہ حمیدہ خاتون ( بنت محترم شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب) اہلیہ محترم صوفی مطیع الرحمن صاحب اور محترمہ رضیہ بیگم ( بنت حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب) اہلیہ محترم گل محمد صاحب بھی صاحب علم خواتین تھیں جن کا شعار لکھنا پڑھنا اور پڑھانا تھا.
75 مکرمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ حضرت خلیفتہ اسیح الاول کے شاگردمولوی غلام محمد صاحب کی اہلیہ تھیں.مدرستہ الخواتین سے 1930 ء میں مولوی کا امتحان پاس کیا.آپ میں ریر کا ملکہ شروع ہی سے نمایاں تھا.1928ء میں جلسہ سالانہ کے موقع پر پہلی مرتبہ تقریر کی بعد ازاں یہ سلسلہ جاری رہا.1948 ء سے مدرسۃ البنات میں معلمہ رہیں.نظارت کی طرف سے کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے امتحانات کے موقع پر طالبات کو پڑھایا کرتیں.1946ء میں تعلیم بالغاں کی مہم کے سلسلہ میں اُستانی میمونہ صوفیہ صاحبہ نے نمایاں کام کیا.الیکشن کمیٹی کی ایک ممبر تھیں اس کمیٹی کے لئے حضرت مصلح موعود نے نہایت تعریفی الفاظ ارشاد فرمائے ہیں.تحریک جدید میں خواتین کے حصہ لینے کے لئے آپ نے پر جوش تقریر کے ذریعے تحریک کی.احمد یہ گرلز اسکول ساندھن : ساندھن وہ جگہ ہے جسے جماعت احمدیہ نے ملکا نہ قوم کی آبادیوں میں سے چُن کر ( دینِ حق کی تبلیغ کا مرکز بنایا.بہت قلیل عرصہ میں وہاں سینکڑوں فدائی ( دینِ حق ) پیدا ہو گئے جن میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی تھیں.وہاں لڑکوں اور لڑکیوں کا اسکول جاری کیا گیا..جہاں آرا بیگم صاحبہ بنت قریشی افضل احمد صاحب مدرس تھیں.( الفضل 21 مئی 1925 صفحہ 2) حضرت مصلح موعود نے عورت کو عضو معطل کی طرح بے کا رحیثیت سے اُٹھا کر اُسے نہایت کارآمد اور ملک و قوم کے لئے باعث برکت ورحمت بنا دیا.اور اُسے وہ مقام عطا کیا جو حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کے لئے تجویز فرمایا تھا.اور امت مسلمہ نے اُس کو یکسر بھلا رکھا تھا.1922ء میں خواتین کی تنظیم لجنہ اماء اللہ قائم
فرمائی.76 بچوں کی تعلیم وتربیت کو نہایت اہم کام قرار دیا.آپ فرماتے ہیں:.اصل ذمہ داری عورتوں پر بچوں کی تعلیم وتربیت کی ہے اور یہ ذمہ داری جہاد کی ذمہ داری سے کچھ کم نہیں.اگر بچوں کی تربیت اچھی ہو تو قوم کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے اور قوم ترقی کرتی ہے.اگر ان کی تربیت اچھی نہ ہو تو قوم ضرور ایک نہ ایک دن تباہ ہو جاتی ہے.پس کسی قوم کی ترقی اور تباہی کا دارو مدار اُس قوم کی عورتوں پر ہی ہے.اگر آج کل کی مائیں اپنی اولادوں کی تربیت اسی طرح کرتیں جس طرح صحابیات نے کی تو کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ اُن کے بچے بھی ویسے ہی قوم کے جاں نثار سپاہی ہوتے جیسے کہ صحابیات کی اولادیں تھیں.الازھار لذاوات الخمار صفحہ 327) پس عورتوں کی تربیت کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ اُن کو علم دین سکھایا جائے اور انہیں وہ حقوق دیئے جائیں جو خدا نے مقرر کئے ہیں.جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ تمہارے ذمہ عورتوں کے کچھ حقوق ہیں جیسے عورتوں پر مردوں کے کچھ حقوق ہیں پس عورتوں کو اُن کے جائز حقوق دیئے جائیں اور اُن کے دلوں میں یہ احساس پیدا کیا جائے کہ شریعت نے اُن کے جو حقوق مقرر کئے ہیں مردان کے دینے میں کبھی تامل سے کام نہیں کرتے.اگر عورتوں کے ساتھ اس رنگ میں سلوک کیا جائے تو لازماً ان کی تربیت بھی زیادہ عمدہ ہوگی اور اُن کے اندر بیداری بھی پیدا ہو جائے گی.اصل بیداری باہر سے نہیں آتی بلکہ اندر سے پیدا ہوتی ہے.اور اندرونی طور پر قلب میں بیداری کا احساس اُسی وقت پیدا ہوتا ہے جب سوچنے اور غور وفکر سے کام لینے کا مادہ ترقی کرے.جب تک انسان کے اندر سوچنے کا مادہ نہ ہو اور جب تک اس کے اندر اپنی ذمہ داری کو محسوس کرنے کا مادہ نہ
77 ہو وہ ترقی نہیں کر سکتا.یہی باتیں ہیں جو عورتوں کی ترقی اور اُن کی تربیت میں محمد ہو سکتی ہیں.ان کے بغیر ان کی صحیح رنگ میں تربیت نہیں ہوسکتی..فرمایا:- 66 الازهار لذوات الخمار صفحہ 389) 26 اپریل 1944ء کو مجلس عرفان میں بمقام قادیان آپ نے ارشاد بہر حال آج رات مجھے یوں معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ مجھے مخاطب کر کے فرماتا ہے: "اگر تم پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کر لو تو ( دین حق ) کو ترقی حاصل ہو جائے گی.عورتوں کی اصلاح کے یہ معنی ہیں کہ ہم ایسا کر لیں تو پچاس فیصدی مرد خدمت دین کے لئے تیار ہو جائیں گے.کیونکہ بسا اوقات مردوں کی قربانی میں عورتیں ہی روک بن کر کھڑی ہو جاتی ہیں اور اگر جماعت میں.اتنی قربانی پیدا ہو جائے کہ اس میں سے نصف ہی ( دینِ حق ) کی خدمت کے لئے ہر قسم کی قربانیوں کے لئے آمادہ ہو جائیں تو اس الہام کی رُو سے یہ بھی ( دینِ حق ) کی ترقی کے لئے کافی ہوگا.اور اس کے نیک نتائج خدائے تعالیٰ کے فضل سے ظاہر ہونے شروع ہو جائیں گے.الفضل قادیان 29 را پریل 1944ء) حضرت مصلح موعود نے 27 / دسمبر 1944ء کو لجنہ اماءاللہ کو نہایت اہم تفصیلی ہدایات سے نوازا...دورانِ خطاب حضور نے فرمایا: - عورت نہایت قیمتی ہیرا ہے لیکن اگر اس کی تربیت نہ ہو تو اس کی قیمت کچے شیشہ کے برابر بھی نہیں کیونکہ شیشہ تو پھر بھی کسی نہ کسی کام آ سکتا ہے لیکن اُس عورت کی کوئی قیمت نہیں جس کی تعلیم و تربیت اچھی نہ ہو اور وہ دین کے کسی کام نہ آسکے.پس جب تک افراد کی درستی نہ ہو اس وقت تک قوم کبھی درست نہیں ہو سکتی لجنہ اماءاللہ نے بہت بڑا کام کرنا ہے جو یہ ہے کہ جماعت کی
78 تمام عورتوں کو اس قابل بنا دیا جائے کہ وہ دین کی باتوں کو پڑھ کر اُن پر غور کر سکیں.اور ان کو سمجھ سکیں..پس لجنہ اماءاللہ نے ابھی بہت لمبی منزل طے کرنی ہے اور بہت بڑا کام اس کے سامنے ہے جس کیلئے رات اور دن قربانی کی ضرورت ہے اور ایسی عورتوں کی ضرورت ہے جو اپنے آپ کو دین کے لئے وقف کریں.جس طرح مردوں نے اپنے آپ کو وقف کیا ہے.(الازھار لذوات الحمارصفحہ 405-406) حضرت مصلح موعود کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی سے احمدی خواتین کا دینی علوم حاصل کرنے کا شوق روز بروز ترقی کرتا چلا گیا اور انہوں نے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر ممکن ذرائع اختیار کرنے کا عزم کرلیا.چناچہ 1948ء کی مجلس مشاورت کے موقع پر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے یہ تجویز پیش کی کہ جس طرح ہر سال مردوں کے لئے تعلیم القرآن کلاس کا انتظام ہوتا ہے.اسی طرح آئندہ عورتوں کے لئے بھی انتظام کیا جائے.حضرت فضل عمر نے اس تجویز پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ” کہ بہت اچھی بات ہے.کیا قرآن مجید صرف مردوں کے لئے نازل ہوا ہے عورتوں کیلئے نہیں.“ چنانچہ اس دفعہ رمضان المبارک میں رتن باغ میں عورتوں کے لئے بھی تعلیم القرآن کلاس کا انتظام کیا گیا.جس میں بیرونی لجنات سے دس طالبات ، قادیان کی مستوات جو لا ہور میں مقیم تھیں اُن میں سے چودہ اور لاہور سے دس طالبات شامل ہوئیں.یہ کلاس 12 جولائی 1948ء کو شروع ہوئی.کلاس میں چونتیس طالبات شرکت کرتی رہیں.ان میں سے 24 امتحان میں شریک ہوئیں اور سبھی کامیاب ہوئیں.شدید گرمی کے موسم میں تمام طالبات نے بڑی محنت کی اور دلچسپی سے حصہ لیا.نصاب بھی اتنا آسان نہ تھا لہذا اس کلاس نے ثابت کر دیا کہ احمدی خواتین کا علمی معیار اچھا خاصا ترقی پذیر ہے.( تاریخ لجنہ حصہ دوم صفحہ 85 خلاصه )
79 کلاس کا یہ سلسلہ بفضل تعالیٰ اب تک جاری ہے.ہر سال ربوہ اور بیرون ربوہ (پاکستان) سے شامل ہونے والی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے.اس کلاس میں 1982 ء میں 100 طالبات شامل ہوئیں.1986ء یہ تعداد دگنی ہوگئی.1997ء میں 415 طالبات شامل ہوئیں.1999ء میں 838 طالبات اور 2000ء میں 11 9 طالبات نے تعلیم دین حاصل کی.جامعہ نصرت : 1947ء میں جماعت کو اپنا مرکز چھوڑنا پڑا اور 1949ء میں ربوہ آباد ہونا شروع ہوا.1950ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت مصلح موعود نے جامعہ نصرت کے آغاز کا اعلان فرمایا اور اس کی غرض و غایت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا :- یہ کالج میں نے اس لئے کھولا ہے کہ اب دین اور دُنیا کی تعلیم چونکہ مشترک ہو سکتی ہے.اس لئے اسے مشترک کر دیا جائے.اس کا لج میں پڑھنے والی دو قسم کی لڑکیاں ہو سکتی ہیں.کچھ تو وہ ہوں گی جن کا مقصد یہ ہوگا کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دنیوی کام کریں.اور کچھ وہ ہوں گی جن کا مقصد یہ ہوگا کہ وہ تعلیم حاصل کر کے دین کی خدمت کریں.میں دونوں سے کہتا ہوں کہ دینی خدمت بھی دُنیا سے الگ نہیں ہو سکتی اور دنیا کے کام بھی دین سے الگ نہیں ہو سکتے.( دینِ حق ) نام ہے خدا تعالی کی محبت اور بنی نوع انسان کی خدمت کا.اور بنی نوع انسان کی خدمت ایک دنیوی چیز ہے پس جب ( دینِ حق ) دونوں چیزوں کا نام ہے اور جب وہ لڑکی جو اس لئے پڑھتی ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دنیا کا کام کرے اور وہ لڑکی جو اس لئے پڑھتی ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دین کا کام کرے.دونوں اپنے آپ کو ( دین حق) پر کہتی ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ جو لڑ کی اس لئے پڑھتی ہے کہ وہ دنیا کا کام کرے اسے معلوم ہے کہ خدا تعالیٰ سے محبت کرنا بھی دین کا حصہ ہے اور جولڑ کی اس
80 لئے پڑھتی ہے کہ وہ دین کا کام کرے اسے معلوم ہے کہ بنی نوع انسان کی خدمت کرنا بھی دین کا حصہ ہے.پس دونوں کا مقصد مشترک ہو گیا.اور چونکہ دونوں قسم کی لڑکیاں درحقیقت ایک ہی مقصد اپنے سامنے رکھتی ہیں اسلئے جو اختلاف تمہیں اپنے اندر نظر آسکتا تھا.وہ نہ رہا اور تم سب کا ایک ہی مقصد اور ایک ہی مدعا ہو گیا.پس یہ مقصد ہے جو تمہارے سامنے ہوگا اور اس مقصد کے لئے تمہیں دینی رُوح بھی اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے اور بنی نوع انسان کی خدمت کا جذبہ بھی اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے تا کہ وہ مقصد پورا ہو جس کے لئے تم اس کا لج میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آئی ہو.دوسرے کالجوں میں پڑھنے والی لڑکیاں ہو سکتا ہے کہ خدا کو بھلا کر دنیوی کاموں میں ہی منہمک ہو جائیں مگر چونکہ یہ کالج احمد یہ کالج ہے اس لئے تمہارا فرض ہوگا کہ تم دونوں دامنوں کو مضبوطی سے پکڑے رہو.اگر ایک دامن بھی تمہارے ہاتھ سے چھٹ جاتا ہے تو تم اس مقصد کو پورا نہیں کر سکتیں.جو تمہارے سامنے رکھا گیا ہے.اور جس کے پورا کرنے کا تم نے اقرار کیا ہے.میں...امید کرتا ہوں کہ جو اس کالج میں پڑھانے والی ہوں گی وہ بھی اس بات کو مد نظر رکھ کر پڑھائیں گی کہ طالبات کے اندر ایسی آگ پیدا کی جائے جو ان کو پارہ کی طرح ہر وقت بے قرار اور مضطرب رکھے.جس طرح پارہ ایک جگہ پر نہیں ٹکتا بلکہ وہ ہر آن اپنے اندر ایک اضطرابی کیفیت رکھتا ہے اسی طرح تمہارے اندروہ سیماب کی طرح تڑپنے والا دل ہونا چاہئے جو اُس وقت تک تمہیں چین نہ لینے دے جب تک تم احمدیت اور ( دینِ حق ) کی حقیقی روح کو دُنیا میں قائم نہ کر دو.اسی طرح پروفیسروں کے اندر بھی یہ جذ بہ ہونا چاہئے کہ وہ صحیح طور پر تعلیم دیں.اخلاق فاضلہ سکھائیں اور سچائی کی اہمیت تم پر روشن کریں.تاریخ لجنہ حصہ دوم حصہ اقتباس صفحہ 240-242)
81 24 جنوری 1958ء کو جامعہ نصرت کا ثانوی تعلیمی بورڈ لا ہور سے الحاق ہوا.اور 1961 ء میں بی.اے کلاسز کا الحاق پنجاب یونیورسٹی سے ہوا.ایک معائنہ کے بعد محترم ڈاکٹر علی محمد صاحب پر نسپل لاہور کالج نے تاثرات کا اظہار کیا.وو ر بوہ اپنی لڑکیوں کی تعلیم کے لحاظ سے تمام پنجاب میں سبقت لے گیا ہے.عجب سماں ہے پڑھنے والیاں اور پڑھانے والیاں ایک ہی مقصد کے تحت رواں دواں ہیں ان میں سے کسی کی بھی توجہ کسی اور طرف نہیں.اس بے لوث جذ بہ کو دیکھ کر بے اختیار کہنے پر مجبور ہوں کہ صحیح اسلامی تعلیم کی فضار بوہ ہی میں پائی جاتی ہے.“ ( تاریخ لجنہ جلد دوم صفحه 252) اللہ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم سے جامعہ نصرت ابتدائی مراحل سے ہی شاندار نتائج دکھانے لگا.ایف اے اور بی اے کی طالبات کی شرح کا میابی بورڈ اور یو نیورسٹی سے کہیں آگے رہتی رہی.1955ء سے 1967ء تک 9 طالبات نے عربی میں طلائی تمغہ جات حاصل کئے.غیر نصابی سرگرمیوں مثلاً کھیلوں اور مباحثات میں بھی جامعہ نصرت کی طالبات نے متعدد اعزازات حاصل کئے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے 1968ء میں جلسہ تقسیم اسناد کے موقع پر فرمایا:- پہلی بات جس کے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ نتائج کے خوش کن ہونے کے متعلق ہے.بعض میدان مردوں کے ہیں اور بعض میدان عورتوں اور مردوں کے سانجھے ہیں.سا تجھے میدان میں.عورت نے کبھی مرد کے مقابلے میں شکست کا اعتراف نہیں کیا.شکست کھانا یا نہ کھانا اور بات ہے.لیکن عمل کے میدان مختلف ہیں بعض میدان عورتوں کے ہیں اور
82 مسلمان عورت نے کبھی ہتھیار نہیں ڈالے اور ہمیشہ ایسے میدانوں میں عورتیں مردوں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتی رہی ہیں.پس ہمیشہ یہ کوشش کرنی چاہئے کہ آپ مردوں سے بھی اور دوسری مد مقابل لڑکیوں سے بھی آگے بڑھیں.اس جدو جہد کو قائم رکھنا اور اس احساس کو بیدار رکھنا بہت ضروری ہے.پس احمدیت کی تاریخ شاہد ہے کہ احمدی لڑکیوں نے دینی و دنیاوی لحاظ سے مد مقابل لڑکیوں کو مات دیدی ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ احمدی خاتون نے آج ایک مستحکم اور منفرد مقام حاصل کر لیا ہے.جیسا کہ اگلے صفحات میں احمدی خواتین کے تعلیمی اعزازات اور دیگر منفرد حیثیت کا تذکرہ کیا جائے گا.حضرت مصلح موعود کی تعلیم میں دلچسپی کا عالم لجنہ بھارت کی ایک رپورٹ سے نمایاں ہوتا ہے تقسیم برصغیر کے بعد نا مساعد حالات کی وجہ سے تعلیمی نظام بھی درہم برہم ہو گیا تھا.صدر لجنہ بھارت تحریر کرتی ہیں :- ستمبر 1952 ء تک قادیان کی لڑکیوں کی تعلیم کا کوئی انتظام نہ تھا.یہاں کے ایک استاد قریشی فضل حق صاحب کے پاس بچیاں میسر نا القرآن اور اردو پڑھتی تھیں.چنانچہ جب یہ مشکل حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں پیش کی گئی تو حضور انور نے از راہ شفقت بچیوں کی تعلیم کے پیش نظر محترمہ استانی ربیعہ خانم مرحومہ کو قادیان بھجوایا چنانچہ آنمکر مہ نے مکرم مرزا گل محمد صاحب مرحوم کے مکان میں لڑکیوں کو با قاعدہ سرکاری نصاب کے مطابق پڑھانا شروع کیا.آہستہ آہستہ دیگر اُستانیوں کا بھی انتظام ہوتا گیا.1959ء میں چارلڑکیاں پہلی مرتبہ ( تقسیم ملک کے بعد ) مڈل کے امتحان میں شریک ہوئیں میٹرک کی تعلیم کے لئے انہیں دوسرے اسکولوں میں جانا پڑتا بالآخر 1965ء میں نصرت گرلز اسکول میں نویں کا اجراء ہوا اور 1969ء میں پہلی بار دو طالبات نے میٹرک کا امتحان دیا.وقت کے ساتھ ساتھ نصرت گرلز اسکول کا
83 نظام بہتر ہوتا گیا اورلڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا.اس کے بعد بفضل تعالیٰ حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی خاص توجہ سے نصرت گرلز کالج کا اجراء ہوا اور اب بچیاں زیادہ تر بی اے اور ایم اے تک تعلیم حاصل کر رہی ہیں.(مساعی لجنہ بھارت صفحہ 7,6) متقی اور زاہدہ احمدی ماؤں کی اولادوں نے نہ صرف دینی لحاظ سے ممتاز مقام حاصل کیا بلکہ دنیاوی مروجہ علوم میں بھی نہایت عظیم حیثیت کے حامل ہوئے.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب اور مکرم و محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی روشن ترین مثالیں ہمارے سامنے ہیں.ان نامور ہستیوں نے صرف اپنی خداداد ذہنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر یہ عالمگیر شہرت حاصل نہیں کی تھی بلکہ اس میں ان کی منفرد، اخلاق فاضلہ سے مزین اور زہد و تقویٰ کی آئینہ دار شخصیات یعنی ان کی ماؤں کی تربیت اور شب و روز کی دعاؤں کا بھر پور ہاتھ تھا.تاریخ احمدیت میں ایسی ہزار ہا روشن مثالیں موجود ہیں کہ دینی اعلی اقدار کے علاوہ احمدی بچوں یعنی نئی نسل کے لڑکوں اور لڑکیوں میں دُنیاوی لحاظ سے بھی ذہانت اور فراست میں ایک خاص قسم کی جلاء پیدا ہوگئی.اور وہ اپنے ہم عصروں سے بلا شبہ نمایاں ہو گئے.احمدی بچے اعلیٰ تعلیم کے لئے جب تمام دنیا میں پھیل گئے تو پاکستان کی طرح انہوں نے بیرون ملک بھی اپنی محنت، ذہانت اور مضبوط اخلاقی اقدار کی وجہ سے اپنے دائرہ عمل میں دوسروں کو متاثر کیا.آج عالمگیر جماعت احمدیہ کے طبقہ نسواں کا اگر وسیع اور گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو تسلیم کرنا پڑیگا کہ احمدی خواتین ہر میدان میں اپنی صلاحیت کا لوہا منوا چکی ہیں.وہ ڈاکٹر ہیں.انجینئر ہیں ، کاروباری ماہرین ہیں.کمپیوٹر سائنس میں
84 اعلیٰ ڈگریوں کی حامل ہیں.فزکس کے میدان میں ، اٹامک انرجی کے میدان میں.سائنسی اور غیر سائنسی تمام علوم کے میدانوں میں پیش پیش ہیں.ان صفحات میں زیادہ تر پاکستانی احمدی خواتین کی اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں اور ممتاز علمی حیثیت کا تذکرہ ہو سکا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اللہ تعالی نے ایک وعدہ فرمایا جس کو اُس کی ذات والا صفات نے بڑے عظیم الشان رنگ میں پورا فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالی نے بشارت دی :- ” خدائے تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھا لے گا اور میرے سلسلہ کو تمام دنیا میں پھیلا دے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا.لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ وہ سچائی کے نور سے سب کا منہ بند کر دیں گے.(روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 17) جامعہ نصرت کے نتائج اس بات کے شاہد ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہر دور میں پورا ہو رہا ہے.عربی میں طلائی تمغہ جات: 1955ء میں ب صاحبہ بنت حبیب اللہ صاحب صاحب 1957ء میں سیده امته الرفیق صاحبہ بنت حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاح 1959ء میں امۃ الرشید غنی صاحبہ بنت عبد الغنی قریشی صاحب 1959ء میں امتہ الحمید صاحبہ بنت عبد الرحیم صاحب در ولیش 1960ء میں الرشید لطیف بنت عبد اللطیف صاحب
85 1961ء میں ثریا سلطانہ بنت دلاور علی صاحب 1964ء میں قانتہ شاہدہ ( تین طلائی تمغہ جات) بنت قاضی محمد رشید صاحب 1965ء میں فیروزہ فائزہ ( تین طلائی تمغہ جات ) بنت جنید ہاشمی صاحب 1967ء میں امۃ الرفیق قریشی بنت فضل حق صاحب قریشی اس کے علاوہ متفرق مضامین میں مندرجہ ذیل طالبات نے تمغہ جات حاصل کئے.1963ء میں فیروزہ فائزہ بنت جنید ہاشمی صاحب نے ایف اے میں اول، پوزیشن حاصل کر کے طلائی تمغہ لیا.1964ء میں امۃ الواحد بنت مرز اواحد حسین صاحب جغرافیہ میں نقرئی تمغہ 1965ء میں فیروزہ فائزہ بنت جنید ہاشمی صاحب نے انگریزی میں 2 طلائی تمغہ جات حاصل کئے.تاریخ لجنہ جلد دوم صفحہ 254-255) 1964ء میں قانتہ شاہدہ (زوجہ مکرم عطاء المجيب راشد صاحب) بنت قاضی محمد رشید صاحب یو نیورسٹی کے بی اے کے امتحان میں اول آئیں.1965ء میں فیروزه فائزه بنت جنید ہاشمی صاحب بی اے میں یو نیورسٹی بھر میں اول رہیں.مزید برآں تاریخ لجنہ جلد چہارم کے صفحہ 331 پر یہ خوش کن خبر شائع شدہ ہے.شاندار کامیابیاں : بی ایس سی کے امتحان میں امتہ المجیب صاحبہ بنت چوہدری اکرام اللہ
86 صاحب ملتان 700 میں سے 603 نمبر حاصل کر کے نہ صرف اعزاز کے ساتھ پاس ہوئی ہیں.بلکہ لڑکوں اور لڑکیوں میں مجموعی طور پر یونیورسٹی بھر میں اوّل قرار پائی ہیں.مزید برآں وہ حاصل کردہ زیادہ سے زیادہ نمبروں کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑنے میں بھی کامیاب رہیں.امتہ المجیب ہونہار اور دین سے محبت رکھنے والی بچی ہیں.1974 ء سے جب سے غیر ممالک سے خواتین کے وفود آنے شروع ہوئے ہیں ( جلسہ سالانہ کے موقع پر ) آپ زنانہ جلسہ گاہ میں بہت خلوص، توجہ اور محنت کے ساتھ ترجمان کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں.جزاک اللہ احسن الجزاء.لبنی رضیہ اعجاز صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر اعجاز صاحب پی ایچ ڈی نے امریکہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جون 1975ء میں امتیازی طور پر تعلیم کے شعبہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے.امریکہ کے اخبارات میں اس کامیابی کی خبر نمایاں طور پر شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ یہ پہلی پاکستانی خاتون ہیں جنہوں نے نمایاں رنگ میں یہ اعزاز حاصل کیا.مکرمہ بنی اعجاز صاحبہ 1965ء سے 1971 ء تک امریکہ کی لجنہ کی صدر بھی رہ چکی ہیں.22 نومبر 1963 ء کا اخبار Truth جو Lagos Nigeria سے شائع شدہ ہے.جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ایک احمدی لڑکی سعدیہ امنیبہ کو Botany ( باٹنی ) میں PHD کی ڈگری دی گئی.اس کے بعد اعزازات حاصل کرنے کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور تمام دنیا میں احمدی طالبات ہر شعبہ میں امتیازی کارکردگی کا مظاہرہ کر کے اعزازات حاصل کر رہی ہیں اور کرتی رہیں گی.(انشاء اللہ ) 27 / مارچ 1972ء کو جامعہ نصرت ربوہ کے سائنس بلاک کی افتتاحی
87 تقریب منعقد ہوئی.حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی نے اس اہم موقع پر نہایت بصیرت افروز خطاب فرمایا.فرماتے ہیں:.وو پس اے میری عزیز بچیو! بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے آپ پر ! آپ نے پوری کوشش سے دنیوی علوم حاصل کرنے ہیں اور کسی بھی علم میں پیچھے نہیں رہنا مگر آپ کی کوشش کی ہر جہت ایسی ہونی چاہئے جو آپ کو خدا کے قریب کر دے نہ کہ اُس سے دور لے جانے کا موجب ہو.آپ کا زاویہ نگاہ درست ہونا چاہئے.اگر آپ کی نگاہ کے شیشہ میں کوئی نقص نہ ہوگا تو آپ خدا تعالیٰ کی ہر خلق اور ہر چیز میں اُس کے حسن و احسان کے جلوے دیکھ سکتی ہیں کیونکہ كُلُّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَان ہر دن جو چڑھتا ہے اس میں ہم اپنے خدا کے نئے جلوے دیکھ سکتے ہیں.آپ نے صرف خود ہی حقیقی علم و عرفان حاصل نہیں کرنا بلکہ دنیا کے بچوں کو بھی علم سکھانا الفضل 31 / مارچ1972 ء صفحہ 6-1) ہے." چنانچہ اس ارشاد کے مطابق احمدی خواتین اپنے دنیاوی علوم کی مہارت کو دین کی خدمت میں وقف کر کے جماعت کی قابل قدر خدمات انجام دے رہی ہیں.انگلستان، یورپ، امریکہ اور پاکستان کی احمدی خواتین اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کو جماعتی خدمات کے لئے وقف کر کے ریسرچ ٹیموں.علمی وادبی کارناموں اور دیگر ضروری شعبوں میں قابل تعریف کاموں میں مصروف ہیں.حضرت اقدس خلیفہ اسیح الثالث کا ایک اور قابل تعریف انقلابی قدم ملاحظہ فرمائیں.حضرت خلیہ اسیح الثالث نے جوبلی منصوبہ کے تحت اعلان فرمایا کہ جو بھی احمدی طالبعلم (خواہ لڑکی ہو یا لڑکا ) میٹرک ، ایف.اے ، بی اے یا دیگر سائنسی مضامین یعنی ہر مروجہ علوم مثلاً کمپیوٹر سائنس اور ڈاکٹر اور انجینئر نگ میں اوّل یا دوم
88 آئیں گے انہیں جماعت کی طرف سے بالترتیب طلائی اور نقرئی تمغہ جات سے نوازا جائے گا.چنانچہ 1980ء سے تمغہ جات دینے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا.1989ء تک 83 لڑکوں اور لڑکیوں نے نظارت تعلیم کے ریکارڈ کے مطابق طلائی اور نقرئی تمغہ جات حاصل کئے.اگر چہ 1989ء کے بعد تمغہ جات کی تقسیم کی کوئی تقریب منعقد نہ ہوسکی.تاہم احمدی لڑکے اور لڑکیاں بڑی تعداد میں اوّل اور دوم آکر جماعت کا نام روشن کر رہے ہیں.1980 ء سے قبل بھی بے شمار احمدی طالبعلم اپنی نمایاں صلاحیتوں کا ثبوت دیتے رہے ہیں.مثال کے طور پر 1980 ء سے 1989 ء تک طلائی یا نقرئی تمغہ جات حاصل کرنے والی احمدی لڑکیوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں.1980ء میں (1) طیبہ حمید بنت چوہدری حمید اللہ صاحب ربوہ میٹرک میں طالبات میں دوسری پوزیشن حاصل کر کے طلائی تمغہ انعام دوم حاصل کیا.(2) شاہینہ سعادت بنت سعادت احمد مرحوم ربوہ میں میٹرک سرگودھا بورڈ میں طالبات میں تیسری پوزیشن حاصل کر کے نقرئی تمغہ انعام سوم حاصل کیا.(3) سلمی بنت خورشید عالم (چکلالہ) نے پشاور یونیورسٹی ایم ایس سی فزکس میں طلباء و طالبات میں اول پوزیشن حاصل کر کے طلائی تمغہ انعام اوّل حاصل کیا.(4) امتہ الجمیل سمیع بنت ڈاکٹر عبد اسمیع (کوئٹہ) نے بلوچستان یونیورسٹی سے بی ایس سی پری میڈیکل کے امتحان میں طلبا اور طالبات میں اول آکر تمغہ انعام اول حاصل کیا.
89 (5) امتہ الرزاق سمیع بنت ڈاکٹر عبدالسمیع صاحب نے بلوچستان یونیورسٹی سے ایف ایس سی پری میڈیکل کے امتحان میں طلباء و طالبات میں اوّل پوزیشن حاصل کر کے طلائی تمغہ انعام اول حاصل کیا.1981ء میں (6) روبینہ باجوہ بنت چوہدری مقصود احمد صاحب میر پور خاص نے سندھ یونیورسٹی سے ایم اے سوشیالوجی میں اول پوزیشن حاصل کر کے طلائی تمغہ انعام اول حاصل کیا.(7) فرحانہ بشیر بنت بشیر احمد نے پنجاب یونیورسٹی سے بی ایس سی کے امتحان میں دوسری پوزیشن حاصل کر کے طلائی تمغہ انعام دوم حاصل کیا.وہ لاہور بورڈ میں ایف ایس سی کے امتحانات میں بھی 1979 ء میں اول آئی تھیں.(8) شہلا شفیق احمد نے بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ سے بی ایس سی کے امتحان میں تیسری پوزیشن حاصل کر کے نقرئی تمغہ انعام سوم حاصل کیا.(9) فوزیہ رشید بنت عبدالرشید صاحب نے بلوچستان بورڈ کوئٹہ سے ایف ایس سی میں لڑکیوں میں اول رہ کر طلائی تمغہ اوّل حاصل کیا.(10) مبارک شفیق بنت شفیق الحسن صاحب نے سندھ یونیورسٹی سے فزیالوجی ایم ایس سی میں اول پوزیشن حاصل کر کے طلائی تمغہ اول حاصل کیا.(11) حمامتہ البشرکی صاحبہ نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کے امتحان میں طالبات میں اول رہ کر طلائی تمغہ اول حاصل کیا.(12) ناصره وجیہہ بنت شیخ عبدالرشید صاحب نے پنجاب یونیورسٹی سے اپلائیڈ سائیکالوجی میں دوم پوزیشن حاصل کر کے طلائی تمغہ دوم حاصل کیا.(13) امتہ المتین بنت چراغ دین صاحب مربی نے پشاور یونیورسٹی.ނ
90 ایم ایس سی حساب میں اول پوزیشن حاصل کر کے طلائی تمغہ اوّل حاصل کیا.ހނ (14) ناصرہ مبارک بنت مبارک احمد صاحب نے کراچی یونیورسٹی ایم ایس سی جینیٹکس میں لڑکیوں میں اول رہ کر طلائی تمغہ اول حاصل کیا.(15) مہر مقیت تالپور بنت میر مبارک احمد صاحب تالپور نے کراچی یونیورسٹی سے ایم ایس سی فزیالوجی میں لڑکیوں میں دوم پوزیشن حاصل کر کے 1982ء میں طلائی تمغہ دوم حاصل کیا.(16) مبارکہ بیگم بنت چوہدری غلام احمد صاحب نے بہاولپور یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات میں اول آکر طلائی تمغہ اوّل حاصل کیا.(17) رمیہ میر بنت خوشنود حسن صاحب میر نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایس سی باٹنی میں اول آکر طلائی تمغہ اوّل حاصل کیا.(18) سمیرا احمد بنت ناصر احمد صاحب مرزا نے لاہور بورڈ سے ایف ایس سی دوسری پوزیشن حاصل کر کے طلائی تمغہ دوم حاصل کیا.(19) فائزه قادر بنت ڈاکٹر عبدالقادر صاحب شہید نے سرگودھا بورڈ سے ایف ایس سی میں دوسری پوزیشن حاصل کر کے طلائی تمغہ دوم حاصل کیا.(20) نصیرہ بیگم صاحبہ بنت مرزا حبیب احمد صاحب نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو میں دوم پوزیشن حاصل کر کے طلائی تمغہ دوم حاصل کیا.(21) ذکیہ طاہر بنت میاں طاہر احمد صاحب نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایس سی باٹنی میں سوم آکر نفر کی تمغہ سوم حاصل کیا.(22) امتہ المجیب صاحبہ بنت چوہدری اکرام اللہ صاحب نے آکسفورڈ یونیورسٹی (انگلستان) سے Ph.D فزکس میں اول آکر طلائی تمغہ اول حاصل کیا.
1983ء میں 91 (23) روبینہ تنویر بنت چوہدری انعام اللہ صاحب نے ملتان یونیوسٹی سے ایم اے اُردو میں دوم آکر طلائی تمغہ دوم حاصل کیا.(24) حامدہ زریں بنت محمد اشرف ناصر صاحب مربی نے سندھ یونیورسٹی سے ایم اے سیاسیات میں دوم پوزیشن حاصل کر کے دوم طلائی تمغہ حاصل کیا.(25) امتۃ الواسع بنت ملک محبوب احمد صاحب نے پشاور یونیورسٹی ایم ایس سی زولوجی میں سوم آکر نقرئی تمغہ سوم حاصل کیا.(26) خالدہ سولنگی بنت نذیر احمد صاحب سولنگی نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایس سی زولوجی میں اول آکر طلائی تمغہ اوّل حاصل کیا.(27) کوکب منیرہ صاحب بنت علی حیدر صاحب نے بلوچستان یونیورسٹی سے ایم اے اکنامکس میں اول رہ کر طلائی تمغہ اول حاصل کیا.(ماخوذ از ریکارڈ نظارت تعلیم ربوہ ) نمایاں کامیابیوں کا یہ سلسلہ بفضل تعالیٰ چلتا رہا.اور ہر دن جماعت احمدیہ کی خواتین کے لئے مبارک اور خوشکن ثابت ہوا.مصباح دسمبر 1994 ء کے صفحہ 29 پر یہ خبر شائع ہوئی:- (1) محترمہ فوزیہ رشید صاحبہ نے امسال انجینئر نگ یونیورسٹی لاہور کے شعبہ سٹی اینڈ ریجنل پلاننگ ڈیپارٹمنٹ میں اول پوزیشن حاصل کر کے آنرز کی ڈگری اور گولڈ میڈل حاصل کیا.اس سے قبل بھی اس ہونہار بچی نے تینوں سالوں میں اوّل پوزیشن حاصل کی ہے یہ بچی مکرم چوہدری محمد شریف صاحب سابق مربی بلا دعر بیہ کی پوتی ہیں.(2) آمنہ ظفر صاحبہ نے امسال بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن
92 لاہور کے ایف ایس سی (پری میڈیکل ) میں طلباء و طالبات میں اوّل پوزیشن حاصل کی ہے.(3) مکرمہ صالحہ رضوان صاحبہ اہلیہ سکواڈرن لیڈر ڈاکٹر عامر رضوان صاحب، 1987-88ء میں بی فارمیسی میں اول پوزیشن حاصل کر کے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کی کانووکیشن کے موقع پر طلائی تمغہ حاصل کیا.صرف مندرجہ بالا نام ہی احمدی خواتین کی اعلیٰ صلاحیتوں کا مکمل ریکارڈ نہیں بلکہ ایسی سینکڑوں مثالیں ہیں جو پاکستان اور بیرون پاکستان دُنیا کے تمام ممالک میں بفضل تعالی موجود ہیں.ان چند مثالوں کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کئے ہوئے وعدوں ، جو اُس نے پیارے مسیح کے ساتھ کئے تھے کو کس شان کے ساتھ پورا کیا ہے؟ اور کوئی دن ایسا نہیں چڑھتا کہ تاریخ احمدیت کو ایسی نعمتوں سے مالا مال نہ کرے.ایک عہد آفریں معلّمہ : مکرمه محترمه فرخنده اختر شاه صاحبہ بنت حضرت شیخ نیاز محمد صاحب و اہلیہ حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب نہایت علم دوست، با صلاحیت اور پُر وقار شخصیت کی حامل ہیں.1945 ء سے لے کر 1974 ء تک جامعہ نصرت برائے خواتین کی پرنسپل رہیں.1951ء میں جب حضرت فضل عمر نے اس کالج کی بنیاد رکھی تو 1952 ء تا 1954 ء تک آپ کو حضرت فضل عمر نے ایم اے انگریزی کرنے کے لئے لاہور بھجوایا.واپس آکر آپ نے تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور مسلسل اس کام کو باحسن سرانجام دیا.حضرت سیدہ چھوٹی آپا صاحبہ کی سرپرستی اور مسز شاہ صاحبہ کی نگرانی اور محنت
93 نے جامعہ نصرت کے بورڈ اور یونیورسٹی کے نتائج کو نمایاں حد تک شاندار بنائے رکھا.100 فیصد ، 98 فیصد ، 96 فیصد یا 90 فیصد نتائج کا حاصل کر لینا ایک نئے ادارے کا جہاں تمام سہولتیں بھی میسر نہ ہوں کوئی معمولی بات نہیں.آپ جامعہ نصرت کی تقسیم اسناد کے مواقع پر عظیم ترین شخصیات کو کالج میں مدعو کرتیں.مثلا حضرت طریقہ اسیح الثانی، حضرت خلیفہ مسیح الالف، حضرت سیدہ خلیفة چھوٹی آپا صاحبہ، حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ محرم حضرت خلیفہ اسیح الثالث ، وزیر تعلیم بیگم محمودہ سلیم ، بیگم وقار النساء نون صاحبہ، ڈاکٹر علی محمد صاحب،مسنز لال صاحبہ، مسز منگت رائے صاحبہ وغیرہ.غیر احمدی خواتین کالج کا بے حد اچھا تاثر لے کر جاتیں.آپ دینی اقدار کو فوقیت دیتیں اور ہوٹل میں نماز باجماعت کا انتظام فرمایا.اور بعد میں ایک الگ جگہ ہی مختص کر دی.ایسی کوئی بات ان کو برداشت نہ تھی جو اخلاقی اور دینی اقدار کے خلاف تھی.خاکسار خود اس بات کی شاہد ہے کیونکہ دوسال.تیرھو ہیں اور چودھویں کلاس میں محترمہ فرخندہ اختر شاہ صاحبہ کی شاگردی کا اعزاز حاصل کیا اور بعد میں 1961 ء سے لے کر 1974 ء تک ان کے ساتھ ایک رفیق کار کے طور پر کام کیا ہے.آپ نے ہزار ہا طالبات اور اسٹاف ممبرز کو ( دینِ حق ) کی اعلیٰ روایات کا درس دیا.اخلاق حسنہ کی طرف متوجہ کرنا اور سخت محنت سے ہر میدان میں آگے نکلنا آپ کی ایسی خدمت ہے جسے جماعت کی خواتین کبھی فراموش نہیں کر سکتی.مکرمہ مسز شاہ صاحبہ اپنے مضمون ( غیر مطبوعہ ) میں بیان کرتی ہیں کہ :- ”ہمارا بچپن تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ دینی ماحول میں گزرا
94 جب ہمارے والد کراچی کے امیر جماعت تھے تو وہاں پر جماعت کے جید علماء کا تشریف لانا اور جماعت کے لوگوں کو اپنی تقاریر سے مستفید کرنا مجھے اچھی طرح یاد ہے.پھر 1940ء میں میری شادی حضرت محمود اللہ شاہ صاحب ( برادرم حضرت سیدہ اُم طاہر صاحبہ ) کے ساتھ ہوگئی.اُن کے معیت میں نیروبی میں رہے اور وہاں بطور جنرل سیکر یٹری لجنہ کی خدمات کا موقع م...نیروبی سے واپس آکر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے حضرت شاہ صاحب کو چینوٹ میں تعلیم الاسلام اسکول کا ہیڈ ماسٹر مقررفرما دیا.چینیوٹ میں اُس وقت تک لجنہ قائم نہ تھی.حضرت شاہ صاحب کی توجہ اور میرے شوق کی وجہ سے وہاں لجنہ کا قیام کر کے خواتین کو منظم طور پر کام کرنے کا موقع فراہم کیا گیا.“ آپ نے لجنہ اماءاللہ مرکز یہ میں بھی نمایاں خدمات انجام دی ہیں.جلسہ سالانہ اور بڑی تقاریب پر فرائض ادا کرتیں.اس کے علاوہ تمام دنیا سے آمدہ انگریزی رپورٹوں کا ہر سال ترجمہ کرنے کا پر مشقت کام بھی بڑی محنت اور عرقریزی سے سرانجام دیتیں.گویا حضرت مصلح موعود کی نظر انتخاب ایک نہایت موزوں شخصیت پر پڑی اور آپ نے بھی اُس کا بھرم قائم رکھا اور بڑی محنت اور خلوص سے جامعہ نصرت کی بھلائی اور استحکام کے کام کئے.اس کے علاوہ اپنی مدد آپ کے تحت آپ نے کئی کام کئے مثلاً ٹیوب ویل، بارہ دری وغیرہ.اللہ تعالیٰ آپ کو اجر عظیم سے نوازے ( آمین ) (ماخوز از مضمون تحریر کرده مسز فرخنده اختر شاه غیر مطبوعہ مورخہ 16 جون 1998ء)
95 احمدی خواتین کی جرات و بہادری اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق اور اُس پر کامل تو کل سے انسان میں اولوالعزمی اور بہادری کی صفات پیدا ہو جاتی ہیں.اُسے دنیا اور دنیا والوں کا کوئی خوف نہیں ہوتا اور نہ اس بات کی پروا ہوتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے اُسے تو صرف رضائے باری تعالیٰ کا خیال ہوتا ہے وہ ہر ایک کام میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو مدنظر رکھتا ہے.اللہ تعالیٰ کے مقربین کی علامات کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.خدا سے وہی لوگ کرتے ہیں پیار جو سب کچھ ہی کرتے ہیں اُس پر شار اسی فکر میں رہتے ہیں روز و شب که راضی وہ دلدار ہوتا ہے کب ؟ خدائے تعالیٰ کی سچی محبت اور خوشنودی اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک اُس کے پیارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق سے دل گداز نہ ہو.صحابہ اور صحابیات کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور اُس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی محبت جاگزیں تھی اس لئے تو وہ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد پر اپنا سب کچھ راہ خدا میں قربان کرنے کو تیار ہو جاتے تھے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلیل القدر ( رفقاء) نے بھی اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں دیں.سچائی کو قبول کر لیا تو استقامت سے ڈٹے رہے.اس میدان میں بھی عورتوں نے جرات و
96 حوصلہ مندی کی مثالیں قائم کیں.ایک خاتون جس کا شوہر بیٹا باپ یا بھائی بہادری دکھاتا ہے.وہ بھی اس کی حوصلہ مندی میں شریک ہوتی ہے اور کبھی خود بھی میدان عمل میں کود پڑتی ہے.حضرت مصلح موعود نے اپنی پیاری رفیقہ حیات حضرت سیدہ مریم بیگم کے بارے میں فرمایا :- مریم ایک بہادر دل کی عورت تھیں.جب کوئی نازک موقعہ آتا.میں یقین کے ساتھ اُن پر اعتبار کر سکتا تھا.اُن کی نسوانی کمزوری اُس وقت دب جاتی.چہرہ پر استقلال اور عزم کے آثار پائے جاتے اور دیکھنے والا کہہ سکتا تھا کہ اب موت یا کامیابی کے سوا اس عورت کے سامنے کوئی تیسری چیز نہیں ہے.یہ مر جائے گی مگر کام سے پیچھے نہ ہٹے گی.ضرورت کے وقت راتوں کو اس میری محبوبہ نے میرے ساتھ کام کیا ہے.اور تھکان کی شکایت نہیں کی.انہیں صرف اتنا کہنا کافی ہوتا تھا کہ یہ سلسلہ کا کام ہے یا سلسلہ کے لئے کوئی خطرہ یا بدنامی ہے اور وہ شیرنی کی طرح لپک کر کھڑی ہو جاتیں اور بھول جاتیں اپنے آپ کو ، بھول جاتیں کھانے پینے کو، بھول جاتیں اپنے بچوں کو.بلکہ بھول جاتی تھیں مجھ کو بھی.اور صرف انہیں وہ کام ہی یا درہ جاتا تھا اور اس کے بعد جب کام ختم ہو جا تا تو وہ ہوتیں یا گرم پانی کی بوتلیں.“ (سيرة سیّدہ اُمم طاہر صاحبہ صفحہ 282) مشاورت پا دیگر اہم مواقع پر جن خواتین نے جرات مندانہ اظہار رائے کیا ان میں مکرمہ اُستانی میمونہ صوفیہ صاحبہ اہلیہ مولوی غلام محمد صاحبہ بھی تھیں وہ اظہار رائے کا ایک خاص ملکہ رکھتی تھیں.مجلس مشاورت 1938ء میں قادیان میں زنانہ ہوٹل کھولنے کا معاملہ زیر بحث لایا گیا اور حضرت مصلح موعود نے عورتوں کو اظہار رائے کی دعوت دی.حضور کی اجازت ملنے پر باہمی مشورہ کے بعد مکرمہ موصوفہ نے
97 عورتوں کی طرف سے اظہار رائے کیا.دوسری بار 1929 ء میں حضرت مصلح موعود نے عورتوں کو پھر مشاورت کے موقع پر بولنے کی دعوت دی تو پھر آپ نے جرات سے یوں مؤدبانہ اظہار رائے کیا.میں صرف اتنا پوچھنا چاہتی ہوں جب ہمارے لئے درسگا ہیں اس لئے کھولی جارہی ہیں کہ ہم علم حاصل کر کے ( دین حق ) کو پھیلائیں.تو کیا یہ بات ہمارے لئے سدِ راہ نہ ہوگی کہ قوم ہمارے لئے فیصلہ کر دے کہ عورتوں کو مجلس مشاورت کی نمائندگی کا حق حاصل نہیں.جب ہم ( دیگر ) عورتوں کے سامنے اپنے خیالات پیش کریں گی تو وہ یہ جواب دیں گی کہ تمہارے مذہب نے تو تمہارے لئے مشورہ کا حق بھی نہیں رکھا اس لئے تمہاری بات ہم نہیں سنتیں.“ تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ 239) حضرت مصلح موعود کی طرف سے حضرت حسین بی بی صاحبہ والدہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی وفات پر ایک تعزیتی نوٹ شائع ہوا تھا جس میں اُن کی جرات مندی کو حضور اقدس نے بایں الفاظ بیان فرمایا.مجھے اُن کا یہ واقعہ نہیں بھول سکتا.جو بہت سے مردوں کے لئے بھی نصیحت کا موجب بن سکتا ہے کہ گزشتہ ایام میں جب احراری فتنہ قادیان میں زوروں پر تھا اور ایک احراری ایجنٹ نے عزیزم میاں شریف صاحب پر راستہ میں لاٹھی سے حملہ کیا تھا.جب انہیں ان حالات کا علم ہوا.تو انہیں سخت تکلیف ہوئی بار بار چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سے کہتی تھیں ” ظفر اللہ خان میرے دل کو کچھ ہوتا ہے اماں جان کا دل تو بہت کمزور ہے.اُن کا کیا حال ہو گا.کچھ دنوں بعد چوہدری صاحب گھر میں داخل ہوئے تو انہیں معلوم ہوا جیسے مرحومہ اپنے آپ سے کچھ باتیں کر رہی ہیں اُنہوں نے پوچھا کہ بے بے جی کیا بات ہے؟ تو مرحومہ نے جواب دیا کہ میں
98 وائسرائے سے باتیں کر رہی تھی.چوہدری صاحب نے کہا کہ آپ سچ مچ ہی کیوں باتیں نہیں کر لیتیں.انہوں نے کہا کیا اس کا انتظام ہو سکتا ہے.؟ چوہدری صاحب نے کہا کہ ہاں ہوسکتا ہے.اس پر انہوں نے کہا بہت اچھا پھر انتظام کر دو.وائسرے سے ملیں اور چوہدری صاحب تر جمان بنے.لیڈی ولنگڈن بھی پاس تھیں.وہ چوہدری صاحب نے صاف کہہ دیا کہ میں نہیں کہوں گا جو کچھ کہنا ہو خود کہنا چنانچہ مرحومہ نے لارڈ ولنگڈن سے نہایت جوش سے کہا کہ ”میں گاؤں کی رہنے والی عورت ہوں میں نہ انگریزوں کو جانوں اور نہ ہی ان کی حکومت کے اسرار کو.ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا تھا کہ انگریز قوم اچھی قوم ہے اور ہمیشہ تمہاری قوم کے متعلق دل سے دعائیں نکلتی تھیں.جب کبھی تمہاری قوم پر مصیبت کا وقت آتا تھا رورو کر دعائیں کرتی تھی کہ اے اللہ تو ان کا حافظ و ناصر ہوتو اُن کو تکلیف سے بچائیولیکن اب جو کچھ جماعت سے خصوصاً قادیان میں سلوک ہو رہا ہے.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دعا تو میں اب بھی کرتی ہوں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حکم ہے لیکن اب دُعا دل سے نہیں نکلتی کیونکہ اب میرا دل خوش نہیں ہے.آخر ہم لوگوں نے کیا کیا ہے کہ اس رنگ میں ہمیں تکلیف دی جاتی ہے.چوہدری صاحب نے لارڈ ولنگڈن سے کہا کہ میں صرف تر جمان ہوں.میں وہی بات کہہ دوں گا جو میری والدہ کہتی ہیں.آگے آپ خود انہیں جواب دیں..اس سیدھے سادے اور باغیرت کلام کا اثر لیڈی ولنگڈن پر تو اس قدر ہوا کہ اُٹھ کر مرحومہ کے پاس آ بیٹھیں اور تسلی دینی شروع کی.اور اپنے خاوند سے کہا کہ یہ معاملہ ایسا ہے جس کی طرف تم کو خاص توجہ دینی چاہئے.“ چنانچہ حضرت مصلح موعود اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.کتنے مرد ہیں جو اس دلیری سے سلسلہ کے لئے اپنی غیرت کا اظہار کر سکتے
99 ہیں اور کرتے ہیں؟“ میری والدہ صفحہ 123 تا 125) ایک موقع پر حضرت فضل عمر نے احمدی عورتوں کی بہادری کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :- و گزشتہ دنوں جب دلی میں جلسہ کے موقع پر مخالفین نے شور مچایا اور پتھر پھینکے تو اس وقت سب عورتوں نے شہادت دی کہ جس قدر غیر عورتیں جلسہ میں شامل تھیں.گھبرا کر بولنے لگ گئیں.مگر قادیان کی عورتوں نے کسی قسم کی گھبراہٹ کا اظہار نہیں کیا اور وہ خاموش بیٹھی رہیں بلکہ جب غیر احمدی عورتوں میں گھبراہٹ زیادہ پیدا ہوگئی تو قادیان کی احمدی عورتوں نے ان کے گرد حلقہ باندھ لیا اور اپنی بہادری کا ثبوت پیش کیا.یہ روح جس کا مظاہرہ احمدی عورتوں نے وہاں کیا باہر کی عورتوں میں نہیں تھی.جس کی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں کی عورتیں دین کی باتیں سنتی رہتی ہیں.لجنہ کے ذریعہ انہیں مختلف مواقع پر دینی کام کرنے کا موقع ملتا رہتا ہے.اور وہ مجھتی ہیں کہ شور یا گھبراہٹ سے کام نہیں بنتا بلکہ تنظیم سے کامیابی حاصل ہوا کرتی ہے چنانچہ انہوں نے تنظیم سے کام لیا اور کسی قسم کی گھبراہٹ کا اظہار نہ کیا.سیالکوٹ سے ربوہ تک کا پیدل سفر : حضرت فضل عمر نے اپنے خطاب میں فرمایا : - (مصباح فروری 1945ء) مجھے یاد ہے 1953 ء کے فسادات کے دوران ضلع سیالکوٹ کی ایک عورت پیدل ربوہ پہنچی اور اس نے ہمیں بتایا کہ ہمارا گاؤں دوسرے علاقہ سے کٹ چکا ہے اور مخالفوں نے ہمارا پانی بند کر دیا ہے.اگر ہم پانی لینے جاتے ہیں تو وہ ہمیں مارتے ہیں.اب دیکھو یہ کتنی ہمت کی بات ہے کہ جہاں مرد قدم نہ رکھ سکے وہاں ایک عورت نے اپنے آپ کو پیش کر دیا.اُس وقت مرد اپنے گھروں سے باہر نکلتے
100 ہوئے ڈرتے تھے.مگر وہ عورت پیدل سمبڑیال کی طرف گئی.وہاں سے گوجرانوالہ کی طرف آگئی اور پھر گوجرانوالہ سے کسی نہ کسی طرح یہاں پہنچی اور ہمیں جماعت کے حالات سے آگاہ کیا اب ہم نے یہاں سے ان کو امداد کے لئے آدمی بھجوائے.تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری عورتیں مردوں سے زیادہ دلیر ہیں.دلیر اور مخلص عورتیں: مجھے یاد ہے ایک دفعہ قادیان میں غیر احمدی علماء نے جلسہ کیا.پولیس اور گورنمنٹ اُن کی تائید میں تھی.مولوی ثناء اللہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور احمد یوں کو بُرا بھلا کہا اور پولیس نے بھی عوام کے ساتھ مل کر جماعت کے خلاف نعرے لگائے.جس کی وجہ سے مولوی ثنا اللہ صاحب اور بھی دلیر ہو گئے.قادیان کے قریب ہی ایک گاؤں بھینی بانگر ہے.اُس جگہ کی ایک عورت وہاں سے گزری اُس نے گالیاں سنیں تو کھڑی ہوگئی اور پنجابی میں بلند آواز سے کہنے لگی.تیرے دادے دی داڑھی بگیا توں مرزا صاحب نوں گالیاں کیوں دینا ایں.کیونکہ اس وقت جماعت کو صبر وتحمل کی بار بار تلقین کی گئی تھی اسلئے جماعت کے جو دوست وہاں کھڑے تھے وہ اُس کے پیچھے پڑ گئے اور اسے کہنے لگے بی بی توں نہ بول.تو خدا کے فضل سے پرانے زمانے سے ہی جماعت میں ایسی دلیر اور مخلص عورتیں موجود رہی ہیں.کسی زمانہ میں یہ نمونہ ابتدائی مسلمانوں میں پایا جاتا تھا لیکن اب اس کا نمونہ احمدیت جو حقیقی.ہے، پیش کر رہی ہے.“ بھیرہ کی رہنے والی بہادر عورت : (الفضل 8 جنوری1958 ءصفحہ4) سید نا حضرت مصلح موعود نے ایک احمدی خاتون کی مثال دیتے ہوئے فرمایا:-
101 ” جب قادیان میں ہندوؤں اور سکھوں نے حملہ کیا تو شہر کے باہر ایک محلہ میں ایک جگہ پر عورتوں کو اکھٹا کیا گیا اور ان کی سردار بھی ایک عورت ہی بنائی گئی جو بھیرہ کی رہنے والی تھی.( جن کا نام محتر مہ خدیجہ بیگم صاحبہ اہلیہ خان بہادر غلام محمد صاحب آف گلگت تھا ) اس عورت نے مردوں سے بھی زیادہ بہادری کا نمونہ دکھایا.ان عورتوں کے متعلق یہ خبریں آئی تھیں کہ جب سکھ اور ہند وحملہ کرتے تو وہ عورتیں اُن دیواروں پر چڑھ جاتی جو حفاظت کی غرض سے بنائی گئی تھیں.اور ان سکھوں اور ہندوؤں کو جو تلواروں اور بندوقوں سے اُن پر حملہ آور ہوتے تھے بھگا دیتی تھیں.اور سب سے آگے وہ عورت ہوتی تھی جو بھیرہ کی رہنے والی تھی.اور اُن کی سردار بنائی گئی تھی.“ (الازھار لذوات الخمار صفحہ 171) پھر حضرت فضل عمر نے فرمایا :- ہم نے قادیان میں عورتوں کو بندوق چلانا سکھایا اور موجودہ فتنہ میں جب کئی گھروں میں سکھ داخل ہو گئے تو عورتیں اُن کا مقابلہ کرنے کے لئے اُٹھ کھڑی ہوئیں تو وہ بھاگ گئے.حق میں ایک طاقت ہوتی ہے اس وجہ سے ایک عورت نے دس دس پندرہ پندرہ سکھوں کو بھگا دیا اور ہماری قادیان کی عورتیں سو فیصد محفوظ رہیں.(الازھار لذوات الخما رصفحہ 75) 16 اپریل 1949 ء کو حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے مستورات کے جلسہ میں خطاب فرمایا.آپ نے قرون اولیٰ کی خواتین کی قربانیوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا.وو لیکن میں بتاتا ہوں کہ تم میں سے بعض عورتیں ایسی ہیں جنہوں نے نہایت ہی اعلیٰ درجے کا نمونہ دکھایا ہے.اگر وہ ان پڑھ جاہل اور غریب عورتیں
102 ایسا اچھا نمونہ دکھاسکتی ہیں تو آسودہ حال اور پڑھی لکھی عورتیں کیوں ایسا نمونہ نہیں دکھا سکتیں؟ ایک جگہ رنگروٹ بھرتی کرنے کے لئے ہمارے آدمی گئے اُنہوں نے جلسہ کیا اور تحریک کی کہ پاکستانی فوج میں شامل ہونے کے لئے لوگ نام لکھوائیں.مگر چاروں طرف خاموشی طاری رہی اور کوئی شخص اپنا نام لکھوانے کے لئے نہ اُٹھا تب ایک بیوہ عورت جس کا ایک ہی بیٹا تھا اور جو پڑھی ہوئی بھی نہیں تھی اُس نے جب دیکھا کہ بار بار احمدی مبلغ نے کھڑے ہو کر تحریک کی ہے کہ لوگ اپنے نام لکھوا ئیں مگر آگے نہیں بڑھتے تو وہ عورتوں کی جگہ سے کھڑی ہوئی اور اُس نے اپنے.09 لڑکے کو آواز دے کر کہا.او فلا نے تو بولتا کیوں نہیں؟ تو نے سنا نہیں کہ خلیفہ وقت کی طرف سے تمہیں جنگ کے لئے بلایا جارہا ہے.“ اس پر وہ فوراً اُٹھا اور اُس نے اپنا نام جنگ پر جانے کے لئے پیش کر دیا.تب اس کو دیکھ کر اور لوگوں کے دلوں میں بھی جوش پیدا ہوا اور انہوں نے بھی اپنے نام لکھوانے شروع کر دیئے.اور جب یہ اطلاع میرے پاس پہنچی اور خط میں میں نے یہ واقعہ پڑھا تو پیشتر اس کے کہ میں اس خط کو بند کرتا.میں نے خدائے تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے کہا.”اے میرے ربّ! یہ بیوہ عورت اپنے اکلوتے بیٹے کو تیرے دین کی خدمت کے لئے یا مسلمانوں کے ملک کی حفاظت کے لئے پیش کر رہی ہے.اے میرے رب اس بیوہ عورت سے زیادہ قربانی کرنا میرا فرض ہے.میں بھی تجھ کو تیرے جلال کا واسطہ دیکر تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ اگر انسانی قربانی کی ہی ضرورت ہو تو اے میرے ربّ اُس کا بیٹا نہیں بلکہ میرا بیٹا مارا جائے.“ تاریخ لجنہ جلد دوم صفحہ 113 تا114)
103 قارئین کرام کس قدر عظیم قربانی تھی جو اس خاتون نے اپنے خلیفہ کے حکم سے پیش کی یعنی اپنے اکلوتے بیٹے کو میدان جنگ میں بھجوانے کے لئے تیار ہوگئی اور کس قدر نرم دل اور عظیم الشان تھا وہ خلیفہ جس نے اپنے خدا کے حضور یہ دُعا مانگی.کیوں نہ ہوتا وہ دل کا حلیم تھا.اس لئے اس نے اپنے درد بھرے جذبات کا اظہار اپنی جماعت کی ایک غریب بیوہ عورت کے لئے فرمایا.حضور نے اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: اسی طرح ایک جگہ ہمارے آدمی گئے تو ایک اور عورت جو زمیندار طبقہ میں سے نہیں تھی بلکہ اُن لوگوں میں سے تھی جنہیں زمیندار حقارت کے ساتھ کمیں کہا کرتے ہیں.اس نے بھی اپنی قربانی کا نہایت شاندار نمونہ دکھایا اُس کے دو بیٹے اور دو پوتے تھے.جب ہمارے آدمی گئے اور انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی حفاظت کے لئے فوج میں بھرتی ہونا چاہئے تم بھی اپنے اولاد میں سے کسی کو پیش کرو تا کہ اُسے فوج میں بھجوایا جائے.تو وہ اُس وقت باہر کھڑی کام کر رہی تھی اُس نے وہیں سے کھڑے کھڑے اپنے چاروں لڑکوں اور پوتوں کو آواز دی اور ہمارے مبلغ سے کہا یہ میرے دولڑ کے اور دو پوتے ہیں ان چاروں کو اپنے ساتھ لے جاؤ اور پھر اس نے اپنے لڑکوں اور پوتوں سے کہا.”دیکھو میں گھر میں نہیں گھسوں گی جب تک تم یہاں سے چلے نہ جاؤ“...پی وہ روح تھی جو حقیقی روح ہوتی ہے.اور جس کے ذریعے سے دُنیا میں قو میں بڑھا کرتی ہیں.جواں مردی سے صحافتی خدمات : ( تاریخ لجنہ جلد دوم صفحہ 114) تحریک پاکستان کی پہلی احمدی صحافی خاتون مکرمه محترمه قریشہ سلطانہ بیگم المعروف بیگم شفیع حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفیق ڈاکٹرسید شفیع احمد دہلوی کی
104 بیوی تھیں.شادی کے چارسال بعد 1922ء میں خود تحقیق کر کے احمدی ہوئیں اور پھر آخری سانس تک عہد بیعت بڑی وفا کے ساتھ بنھایا.لجنہ اماءاللہ دہلی اور پھر لجنہ اماء اللہ لاہور کی نہایت مخلص اور فعال عہدیدار تھیں.ڈاکٹر سید شفیع احمد محقق دہلوی جو حضرت خواجہ میر درد کے خاندان سے تھے غیر منقسم ہندوستان کے ایک بلند پایہ صحافی تھے.صحافت کے میدان میں انہوں نے تقریباً 28 سال تک مسلمانوں کے مشترکہ مقصد کی بہترین خدمت کی.ہندو پریس اُن کے سامنے مہر بلب تھا آپ نے تقریباً چالیس کتب ( دینِ حق ) کی سر بلندی کے لئے تصنیف کیں.کم و بیش 18 اخبارات کے ایڈیٹر اور ناشر ر ہے.ہندوستان کے بڑے صحافیوں میں آپ کا شمار ہوتا تھا.آپ نہایت اعلیٰ درجہ کے مناظر اور داعی الی اللہ تھے.ڈاکٹر شفیع احمد صاحب کی وفات کے بعد 1942ء میں بیگم شفیع صاحبہ میدانِ صحافت میں اُتریں اور اپنے نہایت قابل شوہر کے کام کو بڑی جرأت، ہمت اور جوانمردی سے سنبھالا.چھ ماہ سے 21 سال تک کی عمر کے سات بچے تھے.اس اولوالعزم خاتون نے ایک آہنی عزم کے ساتھ میدان عمل میں آکر ہر چینج قبول کیا.1913ء سے اُن کے شوہر ایک رسالہ ” دستکاری ماہوار نکالتے تھے.اس اخبار کو ہفت روزہ کر دیا اور عورتوں میں ذہنی و سیاسی شعور بیدار کرنے کے لئے اس اخبار کو خواتین کا سیاسی ترجمان بنادیا.گویا لجنہ کے ایک اہم مقصد یعنی عورتوں کی تعلیم و تربیت کو آپ نے اخبار کے ذریعے غیر از جماعت خواتین میں بھی وسیع کرنے کی ٹھانی اور اُن کی علمی و ذہنی بیداری کو اپنے اخبار کا نصب العین بنایا.یہ وقت سیاسی لحاظ سے بڑا اہم تھا.مسلم لیگ قرارداد پاکستان منظور کر چکی تھی.ہندوستان کے مسلم علماء اورمسلم سیاسی رہنماؤں کی اکثریت کانگریس میں شامل تھی.صرف حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی کوششیں اور دعائیں قائد اعظم کے ساتھ تھیں.چنانچہ جماعت احمد یہ اپنے امام
105 کے ارشاد پر قائد اعظم اور مسلم لیگ کا بھر پورساتھ دے رہی تھی.مکرمہ محترمہ بیگم شفیع صاحبہ نے بھی اپنے مقدس امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی اور اپنے اخبار کی تمام تر خدمات مسلم لیگ کے لئے وقف کر دیں.آپ کی تحریر اور تقریر اس قدر موثر تھی کہ انگریزی حکومت نے خواتین کے لئے قائم کردہ کئی مختلف ایڈوائزری کمیٹیوں کا آپ کو ممبر بنایا.آپ ایک موثر صحافی کی حیثیت سے آزادی برصغیر کے سلسلہ میں ہونے والی ہر پریس کا نفرنس میں بلائی جاتیں خواہ یہ پریس کا نفرنس انگریز سرکار کی شملہ کا نفرنس ہوتی یا مسلم لیگ اور کانگریس کی طلب کردہ ہوتی.آپ ان کا نفرنسوں میں پاکستان کے موقف اور عورتوں کے حقوق کے بارے میں اہم سوالات اٹھا تیں.چنانچہ سر اسٹینفورڈ کرپس نے جب شملہ میں کانفرنس بلائی تو بیگم شفیع صاحبہ نے کچھ ایسے اہم سوالات کئے جن کے تفصیلی جواب سر اسٹیفورڈ کرپس نے خود دیئے جو ڈان‘ دہلی میں شائع ہوئے.1945ء اور 1946 ء میں آپ کے اخبار نے مسلم لیگ کا بھر پور ساتھ دیا.قائد اعظم یہ جانتے تھے کہ آپ احمدی خاتون ہیں لہذا عزت سے ہر کانفرنس میں آپ کو قریب بٹھاتے اور آپ کے کام کی تعریف کرتے.( بحوالہ مصباح اگست د ستمبر 1989 ء صفحه 77-78) مکرمہ سیده نیم سعید صاحبہ جو محترمہ بیگم شفیع صاحبہ کی صاحبزادی ہیں سوانح بیگم شفیع میں تحریر کرتی ہیں :- ستمبر 1946ء میں پہلی عارضی حکومت کا اعلان ہوا جس میں پنڈت جواہر لال نہرو کو ہندوستان کا وزیر اعظم مقرر کیا گیا اور مسلم لیگ کی طرف سے لیاقت علی خان صاحب کو وزیرخزانہ کا عہدہ دیا گیا.اس کی پہلی افتتاحی تقریب وائسریگل لاج یعنی اسمبلی ہاؤس میں منعقد ہوئی.بیگم شفیع بھی اخباری نمائندہ اور نامہ نگار کے طور پر مدعو کی چه حسب معمول ا مبشرات احمد عمر سولہ 16 سال کو ساتھ لے کر
106 گئیں.سیکیورٹی والوں نے سید مبشرات کو روک لیا اور بیگم شفیع کو جانے کا اشارہ کیا.بیگم شفیع نے جانے سے انکار کر دیا.اماں نے انفارمیشن آفیسر کو جاتے ہوئے دیکھا تو انہیں روک کر کہا آپ کو معلوم ہے کہ مجھے انگریزی نہیں آتی میرا بیٹا میرے ساتھ ترجمانی کے لئے ہوتا ہے.اگر اس کو اندر جانے کی اجازت نہیں ملے گی تو میں بھی نہیں جاتی.مسٹر ڈگلس انفارمیشن آفیسر نے اماں کے دعوت نامے پر لکھ دیا.Permitted with her Translator اور اپنے دستخط کر دیئے.اس تاریخی تقریب میں ہندوستان کی پہلی عبوری حکومت کے موقع پر منعقد ہونے والی پر یس کا نفرنس میں شریک ہونے والے سب سے چھوٹی عمر کے فرد یعنی 16 سال کے سید مبشرات احمد بیگم شفیع کی شکایت: حضرت مصلح موعود اُس زمانہ قیام دہلی میں مغرب اور عشاء کی نماز کے بعد مجلس عرفان منعقد فرماتے تھے.احباب جماعت کثیر تعداد میں اپنے ساتھ غیر از جماعت دوستوں کو بھی لاتے.ہر قسم کے سوالات کے جوابات نہایت مدلل اور معلومات افزاء دیتے.جماعت دہلی کے بعض عہد یدار والدہ کے ان مردانہ وار کاموں، پریس کانفرنسوں میں جانے، تصاویر اور خبریں چھپنے پر اعتراض کرتے.چنانچہ ایک دن کسی احمدی نے اماں کی شکایت کر دی کہ بیگم شفیع مردوں کی کانفرنسوں اور میٹنگوں میں جاتی ہیں.(حضور کو پہلے ہی علم تھا پھر بھی ) حضور نے دریافت فرمایا کہ کیا پردہ کر کے جاتی ہیں؟ جواب ملا جی.کیا چہرے پر نقاب ہوتا ہے؟ جواب ملا جی.اتفاق سے وہاں دوسرے غیر احمدی مہمانوں میں ایک ہندو اخبار نویس لالہ تا را چند (جو ابا جی مرحوم کے دوست تھے ) بھی بیٹھے تھے اُنہوں نے فوراً کہا حضور نہ صرف چہرے پر نقاب ہوتا ہے بلکہ ہاتھوں میں دستانے اور پاؤں میں موزے بھی
107 ہوتے ہیں.اور بات ہمیشہ پر رعب اور باوقار انداز میں کرتی ہیں.مجال ہے کوئی اُن سے فالتو بات کر جائے.میں بھی اخبار نویس ہوں اور میٹنگز میں ان کے ساتھ ہی ہوتا ہوں.حضور نے یہ بات سن کر معترض صاحب کو ذراسخت لہجے میں مخاطب کر کے فرمایا اگر وہ اس طرح باپردہ، باوقار اپنے مرحوم شوہر کے پیشے کو اپنائے ہوئے ہیں تو آپ کو کیا اعتراض ہے.حضور کولتاں کی مصروفیات کا پہلے ہی علم تھا کیونکہ اماں ہمیشہ حضور کو خط لکھ کر اور ملاقات میں بھی تمام صورتحال سے مطلع کرتی رہتی تھیں.(سوانح بیگم شفیع صفحه 74,71) قیام پاکستان کے بعد آپ نے لاہور سے اپنا اخبار نئے سرے سے جاری کیا اور اپنا دستکاری پر لیس قائم کیا.1950ء میں ہندو پاکستان میں خیر سگالی کی فضا یدا کرنے کے لئے دونوں طرف کے صحافیوں نے دورے کئے تو بیگم شفیع بھی (اپنے بیٹے کے ساتھ ) اخبار والوں کے اس وفد میں شامل کی گئیں.جنہوں نے ہندوستان کا دورہ کیا.پھر 1951 ء تا 1953 ء آپ گورنمنٹ کی طرف سے مغویہ خواتین کی بازیابی کی کمیٹی میں بھی شامل کی گئیں اور ہندوستان کی مس مرد ولا سادہ بائی کے ساتھ آپ کی میٹنگز ہوتیں آپ نے سینکڑوں مغویہ خواتین کو بازیاب کرا کے انہیں بحال کیا.لجنہ کا ایک مقصد خدمت خلق کے دائرے کو وسیع کرنا ہے اور آپ نے یہ کام نہایت عمدہ طریق پر کیا.آپ کے سماجی کاموں کو دیکھ کر گورنر پنجاب سردار عبدالربّ نشتر نے قیدی خواتین کی بحالی کمیٹی کا آپ کو ممبر بنایا.بیگم شفیع نے حصہ لیتے ہوئے قیدی خواتین کے حقوق کی بحالی کے کام میں حکومت کا ہاتھ بٹایا.1953ء میں پنجاب میں زبر دست سیلاب آیا آپ نے اور آپ کے اخبار نے اس وقت بھی سیلاب سے متاثرہ خاندانوں اور خواتین کے مسائل کو حکومت تک پہنچا کر ان کی امدا د اور بحالی کے
108 کاموں میں بہت مدد کی.آپ کی سماجی خدمات کو سراہتے ہوئے کئی مرتبہ حکومت پنجاب نے آپ کو خوشنودی کی اسناد دیں.مہاجر خواتین کی بحالی کے لئے آپ نے کل پاکستان انجمن مہاجر خواتین بنائی.ہر دور کے وزرائے اعظم کی بیگمات اس انجمن کی سر پرست ہوتیں.ہزاروں خواتین کی بحالی کا کام آپ ہی کی مساعی اور اخبار کے اداریوں کی وجہ سے ہوا.1961ء میں کامن ویلتھ کا نفرنس کا انعقاد ہوا تو بیگم شفیع بھی اس کا نفرنس کی ممبر بنائی گئیں.(مصباح ستمبر 1989ء صفحہ 77) بہر کیف مکرمہ محترمہ بیگم شفیع کے مذکورہ بالا کارنامے نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں کے لئے بھی قابل رشک ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میری آمد کے دو مقاصد ہیں.حقوق اللہ اور حقوق العباد کا قیام.اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو مکرمہ بیگم شفیع صاحبہ نے احمدیت کی نعمت کے طفیل ان دونوں مقاصد کو بھر پور طریقے سے ادا کیا.اسی طرح حضرت مصلح موعود کے الہام کے مطابق اسیروں کی رستنگاری کا کام بھی قدرت نے آپ سے لیا.حقوق اللہ تو اس طرح کہ ” آپ بے حد دعا گو تھیں اور دُعا پر کامل یقین تھا.کسی بھی میٹنگ پر جانا ہوتا تو دونفل نماز ضرور پڑھتیں.علاوہ ازیں فرض نماز میں نفلی نمازیں چاشت اور تہجد وغیرہ بھی ( جو قبول احمدیت کے بعد شروع کی ) آخری سانس تک جانکنی کی رات بے ہوشی کی حالت میں اُنہوں نے وقت پوچھ کر بیٹھ کر نماز پڑھی اور پھر بے ہوش ہوگئیں.صاحب رویاء کشوف اور مستجاب الدعوات تھیں“.(مصباح اگست ستمبر 1989 صفحہ 79) اور حقوق العباد جس شان کے ساتھ پورے کئے اس کی تو مثال نہیں ملتی.
109 مغویہ خواتین اور مہاجرین خواتین جنگی بازیابی کے لئے ان مکرمہ نے خود جا جا کر کوشش کی ایسا خدمت خلق کا کام ہے جو ان کی بلندی درجات کا باعث بن جائے گا.ہم اُن مصیبت زدہ دکھی اور اپنے خاندانوں سے بچھڑ جانے والی خواتین کی مشکلات کا اندازہ نہیں کر سکتے.لہذا ایسے پر آشوب دور میں خواتین کی بازیابی بلاشبہ ایک قابل تعریف کارنامہ ہے.14 راگست 1947ء کو پاکستان کی آزادی اور 15 راگست کو ہندوستان کی آزادی کا اعلان ہوا تو بھارت میں مسلمانوں کے قتل وخون کا بازار گرم ہوا.پنڈت نہرو اخبار والوں کو یقین دلاتے کہ امن کی صورتحال بہتر ہے اور ہم نے فوج کو حفاظت کے لئے جگہ جگہ بھیج دیا ہے.قادیان سے بھی خطرے کی اطلاعات مل رہی تھیں..سیدہ نیم سعید صاحبہ نے اپنی کتاب میں اپنی والدہ بیگم محمد شفیع صاحبہ کے بارے میں لکھا ہے :- پریس کانفرنس میں اماں نے پنڈت نہرو سے سوال کیا کہ آپ مسلمانوں کے مقدس مقامات کی حفاظت کا کیا انتظام کر رہے ہیں؟ پنڈت نہرو نے جواب دیا ان کی حفاظت کے احکام میں پہلے ہی صادر کر چکا ہوں.اماں نے کہا کہ قادیان میں تو بہت خطرہ ہے.نہرو نے جواب دیا نہیں وہاں پوری طرح امن وامان ہے.اماں نے قادیان فون پر بات کی.حضرت مصلح موعود نے فرمایا نہرو سے کہو جیسا امن قادیان میں ہے ایسا ہی امن تمہارے گھر میں ہو“.والدہ بڑے جوش ایمانی سے نہرو سے لڑنے چلیں کہ کیوں جھوٹ بولا اور فوراً قادیان کی حفاظت کا انتظام کرے.اماں لجنہ دہلی کی نائب صدر ہونے کے ساتھ شعبہ خواتین کے مسلم لیگ دہلی کے ایک بڑے حصے کی نائب صدر بھی تھیں اور مسلم لیگ کے نشان کے طور پر کالے لمبے کوٹ کے اوپر سبز نقاب لیتی تھیں.48 گھنٹے کے کرفیو کے بعد دو گھنٹے کے لئے کرفیو کھلا.
110 قیامت خیز حالات کے باوجود اماں کا جوش ایمانی اور غیرت دینی مجبور کرتی رہی کہ قادیان کے حفاظتی اقدامات کے لئے نہرو کو کہیں.گھر میں سب نے منع کیا لیکن اماں نے کہا میرا اثر ورسوخ اور اخبار کس کام کا اگر میں قادیان کے لئے کچھ نہ کر سکوں موت نے ایک ہی دفعہ آنا ہے.اچھا ہے اگر دین کی خدمت کرتے ہوئے مروں.اماں نتائج کی پروا کئے بغیر بھائی سید مبشرات کو لیکر سبز نقاب میں گھر سے نکل پڑیں.بمشکل ایک تانگہ ملا.پہلے تو وہ سبز نقاب کے ساتھ بٹھانے کو تیار نہ تھا.بہت کہنے سننے پر 50 روپے میں بٹھایا لیکن برابر کہتا رہاما تاجی برقع اُتار دو ور نہ چن سنکھی غنڈے آپ کو بھی ماردیں گے اور مجھے بھی مار دیں گے.اماں نے کہا تم ایشور کو مانتے ہو پرارتھنا کرتے رہو.میں اپنے ایشور سے پرارتھنا ( دُعا) کرتی جاؤں گی.دیکھ لینا نہ تم کو کچھ ہوگا نہ ہم کو.اماں کہتی ہیں سورۃ فاتحہ، تینوں قل، آیت الکرسی، دَرُود شریف اور رَبِّ كُلُّ شَيْ خَادِمُكَ پڑھتی ، گریہ سے دعا ئیں کرتی مردانہ وار چلی گئی اور مجھے ذرا بھی ڈر نہیں لگا.خدا تعالیٰ نے نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ کا وعدہ اپنے پیارے مسیح موعود علیہ السلام سے کیا تھا.میں بھی اُسی مسیح کی ایک ادنی گنیز تھی.مجھے بھی اس سے حصہ دیا گیا.حالانکہ جگہ جگہ خون پھیلا ہوا تھا.انسانی اعضاء بکھرے پڑے تھے.بنگی تلواریں لہرا رہی تھیں آگے چلے تو چاروں طرف آگیں بھڑکتی نظر آئیں اور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام ” آگ تمہاری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.کی برکت سے حصہ لینے کی دعائیں کرتی چلی جارہی تھی.حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جگہ جگہ غنڈے تانگہ روکتے ، مارنے کے لئے نہیں بلکہ کہتے ما تاجی برقع اتار دو، ماری جاؤ گی اور معجزانہ بات یہ کہ تانگے والا اور اُس کا گھوڑا تک جیسے مذکورہ بالا الہامات کے حصار میں آگئے ہوں آخر میں پنڈت نہرو کی کوٹھی پر پہنچی، پیغام بھیجا کہ بیگم شفیع آئی ہیں ملنا ہے.ڈیوٹی آفیسر نے پس و پیش کی جب ذرا دیر لگائی
111 تو میں نے گرجدار آواز میں کہا.اطلاع کرتے ہو، کہ میں خود دروازہ کھول کر اندر جاؤں.پنڈت نہرو نے جو اتفاق سے وہاں سے گزر کر دوسرے کمرے میں جار ہے تھے سن لیا اور کہا بیگم صاحبہ کو آنے دو.میں نے چھوٹتے ہی پنڈت نہرو سے کہا ”آگ اور خون کا دریا چاروں طرف سے مسلمانوں کو ختم کر رہا ہے.قادیان خطرات میں گھرا ہوا ہے.فسادی بلوائی قادیان میں گھومتے پھر رہے ہیں اور آپ کہتے ہیں قادیان میں بالکل امن ہے.ہمارے خلیفہ نے آپ کے لئے پیغام بھیجا ہے.جیسا امن آپ کو قادیان میں نظر آتا ہے.ایسا امن آپ کے یہاں بھی ہو.پنڈت نہرو نے کہا میں وعدہ کرتا ہوں کہ فوراً حفاظت کے لئے فوج بھیجتا ہوں اور بات کو ٹالنے کے لئے کہا کہ اگر آپ کے گھر اور عزیزوں کو خطرہ ہے تو آپ لوگوں کے لئے نئی دہلی میں انتظام کرا دیتا ہوں.میں نے کہا ” میرے عزیز تمام مسلمان ہیں اور میں یہ کہتی با ہر نکل آئی کہ آپ کی فوج قادیان کی کیا حفاظت کرے گی.خدا تعالیٰ خود اس کی حفاظت کرے...اماں مرحومہ واپس بھائی کے ساتھ ان ہی بربریت کے نظاروں کو دیکھتیں بخیریت تانگے میں گھر واپس پہنچ گئیں وہ اس واقعہ کو ہمیشہ ایک عجیب ایمانی جرات وکیفیت اور روحانی سرور کے ساتھ بیان کرتی تھیں کہ میں جب بھی اس آگ اور خون کے دریا کا تصور کرتی ہوں تو مولیٰ کریم کے قربان جاتی ہوں اور حیران ہوتی ہوں کہ ہم کیسے بیچ کر گئے اور کیسے واپس آئے؟ یہ سراسر خدا تعالیٰ کا فضل اور احمدیت کا ایک زبر دست نشان ہے.“ گا.- ( سواخ بیگم شفیع صفحه 77 تا 80 ) آگے چل کر مکر مہ بیگم شفیع کی بیٹی محترمہ نسیم سعید صاحبہ کہتی ہیں:- 1953ء میں جماعت کے خلاف پورے پاکستان میں ایک عوامی تحریک مولویوں نے چلائی ، جس کے نتیجے میں حکومت کی طرف سے ”الفضل‘‘اخبار کو بند
112 کر دیا گیا.مارچ 1954ء میں الفضل پر سے جب پابندی ہٹی تو کوئی پریس الفضل کو چھاپنے کے لئے تیار نہیں ہوتا تھا.کیونکہ مخالفین نے کہا تھا کہ جو بھی پریس الفضل کو چھاپے گا اس کا پر یس جلا دیا جائے گا.اس موقع پر والدہ صاحبہ نے نہایت جرات ایمانی کا مظاہرہ کیا.اور اپنے پریس میں الفضل شائع کر نیکی پیش کش کی.تاریخ احمدیت جلد 17 صفحہ 277 پر یہ واقعہ اس طرح درج ہے." کتاب کا مسئلہ تو کسی نہ کسی طرح حل کر لیا گیا.مگر جلد ہی اخبار کو شدید مشکلات سے دوچار ہونا پڑا کیونکہ بوجہ مخالفت کوئی پریس الفضل کو چھاپنے کے لئے تیار نہ تھا.حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب نے محترمہ بیگم شفیع کو تمام حالات سے آگاہ کیا کہ کوئی پریس اخبار الفضل چھاپنے کو تیار نہیں ہے.آپ کے پریس کے علاوہ ہماری نظر میں کوئی پریس نہیں جو الفضل کو چھاپ سکے.بیگم شفیع نے بلا توقف ایمانی جرات سے جواب دیا کہ احمدیت کے لئے میرا پر لیس کیا میری جان بھی حاضر ہے میں ضرور ہر قیمت پر الفضل کو چھاپوں گی اور اس خدمت کو عین سعادت سمجھوں گی.چنانچہ الفضل 30 / مارچ 1954 ء سے 15 اپریل 1954 ء تک دست کاری پریس میں چھپتا رہا.ہوتا یہ تھا کہ سید مبشرات احمد صاحب جو پریس کے منیجر تھے اپنی نگرانی میں رات بھر اخبار چھپواتے اور بیگم شفیع اس عرصہ میں الفضل کے خیریت سے چھپنے کے لئے نوافل پڑھتیں اور دعائیں کرتیں.(سوانح بیگم شفیع صفحه 101-102)
113 احمدی خواتین اور تحریک وقف زندگی دین کو دنیا پر مقدم کرنے اور جان مال وقت اور اولا دکو جماعت کے لئے وقف کرنے کا جذبہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ( رفقاء) میں راسخ فرما دیا تھا.بہت سے ( رفقاء) اپناسب کچھ لے کر آپ کے قدموں میں آ کر بیٹھ گئے اور حضرت اقدس نے ان کو تبلیغ دین کے کاموں میں لگا دیا.حضرت خلیفہ اسیح الاول نے ایسے تن من دھن نثار کرنے والوں کو تبلیغ دین کے لئے امریکہ اور یورپین ممالک بھجوانے کی اہمیت کا اندازہ کر لیا تھا.مگر حضرت مصلح موعود نے عزم و استقلال کے ساتھ احمدیت کی ترقی و استحکام کے لئے منصوبہ سازی فرمائی اور تحریک وقف زندگی کے نام سے مربیان تیار فرمائے آپ نے 28 دسمبر 1960ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر ارشاد فرمایا.”ہماری جماعت کے ہر بچے ، ہر نوجوان ، ہر عورت اور ہر مرد کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارے سپرد اللہ تعالیٰ نے اپنی بادشاہت کو دنیا میں قائم کرنے کا جو اہم کام کیا ہے اس سے بڑھ کر دنیا کی اور کوئی امانت نہیں ہوسکتی.اس کے مقابلے..میں دنیا کی بادشاہتیں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں بلکہ ان کو اس سے اتنی بھی نسبت نہیں جتنی ایک معمولی کنکر کو ایک ہیرے سے ہوسکتی ہے.پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے..احمدیت کی اشاعت میں سرگرمی سے حصہ لو اور اس غرض کے لئے زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو خدمت دین کے لئے وقف کرو تا کہ ایک نسل کے بعد دوسری نسل اور دوسری کے بعد تیسری نسل اس بوجھ کو اٹھاتی چلی جائے اور قیامت تک ہوئے.( دین حق ) کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اُونچا لہراتا رہے.
114 پس خدمت دین کے لئے اس اہم موقعہ کو جو تم کو صدیوں کے بعد نصیب ہوا ہے.ضائع مت کرو اور اپنے گھروں کو خدا کی برکتوں سے بھر لو.“ (از اخبار الفضل 6 جنوری 1961ء) اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو خدمت دین کے لئے وہی نوجوان آگے آسکتا ہے جس نے اپنے گھر میں دین کو دُنیا پر مقدم ہوتے ہوئے دیکھا ہو.جس نے ایسی ماں کی گود میں پرورش پائی ہو جو دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شیدائی ہو اور احمدیت یعنی حقیقی (دین) کو اکناف عالم میں پھیلا دینے کی ایک بے تاب تمنا اپنے دل میں رکھتی ہو.جس نے ایسی ماں کا دودھ پیا ہو جو عشق خدا اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے سرشار ہو.اور جو دین کی سر بلندی کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہو.حضرت فضل عمر نے اپنے 13 فروری 1947 ء کے خطاب میں اس عظیم قربانی کی بڑی اچھی مثال دی ہے.آپ فرماتے ہیں:." جس طرح بھڑ بھونجا اپنی بھٹی میں پتے ڈالتا ہے.اسی طرح ہمیں بھی اپنے آدمی دین کی بھٹی میں ڈالنے ہوں گے.تب کہیں ( دینِ حق ) کامیاب ہوگا.“ (الفضل 30 جون 1961ء) چنانچہ ہر وہ عورت جو صیح معنوں میں احمدی ہے بانی احمدیت کی تعلیم پر عمل پیرا ہے وہ مبلغہ ہے اور تمام زندگی اپنے قول، فعل اور عمل سے تبلیغی جہاد میں مصروف رہتی ہے.ایسی ہی صالح خواتین اپنے گھر میں بھی اعلیٰ نمونہ کی حامل ہوتی ہیں.احمدیت کی تاریخ شاہد ہے کہ بہت سی نیک اور متقی ماؤں نے ایسے رنگ میں بچوں کی تربیت کی کہ سن شعور کو پہنچ کر خود بخود وہ اپنی زندگی دین کے لئے وقف کرنے کو تیار ہو گئے.جہاں اس مادہ پرست معاشرہ میں آج کی نئی نسل عیش و
115 عشرت کی دلدادہ ہے وہاں احمدی ماؤں کی گود میں پلنے والے اور احمدی ماؤں کے تربیت یافتہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے تن من دھن کی قربانی دینے کے لئے ہمہ تن تیار نظر آتے ہیں.ایک بیوی کی حیثیت سے بھی مبلغین ( دین حق ) کی بیویاں مسلسل قربانیاں دیتی چلی آرہی ہیں.جو خواتین اپنے خاوندوں کے ہمراہ غیر ممالک میں جاتی ہیں وہ ہر کام میں ہر قدم پر ان کا ساتھ دیتی ہیں احمد یہ مشن میں رہتے ہوئے مہمانوں کی آمد پر ان کے قیام و طعام کا انتظام کرنا.بچوں کی تعلیم و تربیت اور احمدی خواتین کی تعلیم و تریبت کی وہی ذمہ دار ہوتی ہیں.گویا اپنے خاوندوں کے ساتھ غیر ممالک میں قدم بقدم جہاد اور قربانی میں برابر کی شریک ہوتی ہیں.اور وہ خواتین جو اپنے خاوندوں کے ہمراہ باہر نہیں بھجوائی گئیں یا جاتیں وہ بھی نہایت نا مساعد حالات کا مقابلہ بڑی ہمت اور صبر سے کر کے اپنے خاوندوں کو ہر قسم کی پریشانی سے محفوظ رکھتی ہیں.اس موضوع پر سید نا حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحم اللہ علی نے بجنہ اماءاللہ کے اجلاس بر موقع جلسہ سالانہ یو کے 1992ء کے خطاب میں جن عظیم الشان الفاظ میں احمدی خواتین کو خراج تحسین سے نوازا اس کی مثال ملنا محال ہے.فرماتے ہیں:- احمدی عورتوں نے سنہری حروف میں احمدیت کی تاریخ سجارکھی ہے.یہ وہ زیور ہے جس سے بڑھ کر حسین زیور اور کوئی نہیں.احمدی خواتین کی قربانیوں کی ایک عظیم طویل داستان ہے جو حقیقت میں نہ ختم ہونی والی ہے.آپ اپنی قربانیوں سے جو داستانیں لکھ رہی ہیں وہ بھی زندہ رہیں گی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عزت واحترام کے ساتھ پڑھی جائیں گی اور سنی جائیں گی.بہت سی ایسی خواتین ہیں جن کی خاموش قربانیاں گویا تاریخ میں دفن ہو گئیں
116 لیکن وہ زندہ و جاوید ہیں.ان کی ایک ایک دن کی دردناک داستان اس قابل ہے کہ اسے ہمیشہ زندہ رکھا جائے اور ہمیشہ آنے والی نسلوں کو سنایا جائے.کیونکہ کوئی قوم دنیا میں عظیم قربانیاں پیش نہیں کر سکتی جب تک اس قوم کی خواتین اپنے مردوں کے ساتھ نہ ہوں.جب تک مردوں کو یہ یقین نہ ہو کہ ہماری خواتین اپنے دل اور اپنی جان اور اپنی عزت اور اپنے احترام کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنا سب کچھ اس خدمت میں جھونک دینے کے لئے تیار بیٹھی ہیں.جس خدمت پر ہم مامور دکھائی دیتے ہیں وہ دکھائی نہیں دیتیں تب تک مرد پورے حوصلے اور عزم اور صبر اور استقلال کے ساتھ وہ قربانیاں پیش نہیں کر سکتے.یہ بھی بہت وسیع اور لمباذکر ہے.گزشتہ ایک سو (100) سال میں جماعت احمدیہ کی خواتین نے کس عظمت کے ساتھ کس ثبات قدم کے ساتھ احیائے کلمتہ اللہ کے لئے قربانیاں پیش کی ہیں ان کا ذکر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بہت لمبی داستان ہے اور آج میں نے بہت ہی محنت کے بعد کچھ چیزیں چن کر الگ کی ہیں تا کہ یہ نمونے آپ کے سامنے رکھ سکوں اور آپ کی وساطت سے ساری دنیا کے مردوں کو بھی پتہ چلے کہ احمدی خواتین ہیں کیا.؟ اور کتنی عظیم قربانی کر نیوالی عورت آج اس زمانے میں پیدا ہوئی ہے.میں جن قربانیوں کا ذکر کرنے والا ہوں وہ ابدی قربانیاں ہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ، ان قربانیوں میں اور عیسائی دنیا کی اُن قربانیوں میں ایک فرق ہے جو عیسائی خواتین نے عیسائیت کی خاطر پیش کی تھیں.وہ فرق یہ ہے کہ عیسائی خواتین کا ایک بہت ہی معمولی حصہ تھا جو سو (100) میں سے ایک بھی نہیں بلکہ ہزار (1000) میں سے ایک بھی نہیں تھا اس سے بھی کم جنہوں نے عیسائیت کے لیے عظیم الشان قربانیاں کی ہیں لیکن دُنیا میں ایک ہی جماعت ہے جس کی تمام خواتین خدا کے فضل کے ساتھ اپنے دل و جان کے ساتھ اس عظیم خدمت پر مامور ہیں.لیکن ایک اور فرق بھی تو ہے
117 کہ ان کی قربانیاں لوگوں کے سامنے چلتی پھرتی ہیں اور دکھائی دیتی ہیں ہماری خواتین کی قربانیاں پس پردہ ہیں اس میں دکھاوے کا کوئی بھی دخل نہیں اور خدا کے حضور وہ قربانیاں پیش کرتی چلی جاتی ہیں آپ کی اگلی نسلوں کی قربانیوں کی روح کی حفاظت کے لئے ضروری ہے کہ ان کے علم میں ہو کہ ان کی مائیں کیا تھیں.ان کی بہنیں کیا تھیں.ان کی نانیاں دادیاں کیا چیز تھیں.کس طرح اُنہوں نے احمدیت کی راہ میں اپنے خون کے قطرے بہائے اور اس کی کھیتی کو اپنے خون سے سیراب کیا.اس لئے میں اُمید رکھتا ہوں کہ یہ مضمون اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ( دینِ حق ) میں عورت کا مقام سمجھنے میں بھی دنیا کو مدد دے گا اور احمدی خواتین میں بھی ایک نئی خود اعتمادی پیدا ہوگی.ہماری موجودہ نسلیں بھی پرانی نسلوں کی عظمتوں سے حصہ پائیں گی یا حصہ پانے کے لیے نیا ولولہ پیش کریں گی اور آپ کی قربانیوں سے حصہ پانے کے لئے اور آپ کی تقلید کے لئے اگلی نسلوں میں ولولہ پیدا ہوگا.جہاں تک وقف اور وقف کی رُوح کا تعلق ہے کس طرح احمدی مائیں اپنے بچوں کو وقف کرتی ہیں یا اپنے خاوندوں کو خدا کے حضور پیش کرتی ہیں یا اپنے بیٹوں کو پیش کرتی ہیں اس سلسلہ میں سب سے پہلے تو حضرت اماں جان سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کا ذکر کرتا ہوں.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے جس رنگ میں آپ کی تربیت فرمائی اور وہ تربیت جس طرح زندگی کا ایک دائمی نقش بن گئی اس کا نمونہ ایک خط کے جواب کے طور پر ہمارے سامنے ہے.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد جو اس وقت صاحبزادہ محمود احمد کہلاتے تھے اُنہوں نے حضرت خلیفتہ اسیح الاول کے ایک مشورہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اماں جان کو لکھا کہ بتائیے آپ کا کیا منشاء ہے.حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل نے ایک مشورہ
118 دیا ہے کہ یوں کرو اور حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کے دل میں اپنی والدہ کا جو ایک خاص مقام تھا اس کے پیش نظر انہوں نے مناسب سمجھا کہ میں ان سے بھی مشورہ کر لوں اس کے جواب میں حضرت اماں جان نے لکھا: - خط تمہارا پہنچا.سب حال معلوم ہوا.مولوی صاحب ( یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الاول ) کا مشورہ ہے کہ پہلے حج کو جاؤ اور میرا جواب یہ ہے کہ میں تو دین کی خدمت کے واسطے تم کو اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دے چکی ہوں اب میرا کوئی دعوی نہیں وہ جو دینی خدمت کو نہیں گئے بلکہ سیر کو گئے ان کو خطرہ تھا اور تم کو کوئی خطرہ نہیں.خداوند کریم اپنے خدمت گاروں کی آپ حفاظت کریگا.میں نے خدا کے سپر د کر دیا.“ یہ وہ روح تھی جس روح نے آگے احمدی خواتین میں پرورش پائی ہے اور نشو ونما کے نتیجے میں خوب پروان چڑھی ہے.اب بعض دوسری خواتین کے تعلق باللہ اور دین کی خاطر ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کے چند واقعات آپ کے سامنے رکھتا ہوں.سب سے پہلے حضرت سید عبداللطیف (قربان راہِ مولا ) کے بارے میں تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ 349 میں درج ہے کہ جب حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کو قربان کر دیا گیا تو حکومت افغانستان کی طرف سے آپ کی اہلیہ اور بچوں پر بہت مظالم ڈھائے گئے اُن کو ایک جگہ نظر بند کر دیا گیا وہ ایسے مظالم ہیں کہ ان کے ذکر سے کلیجہ منہ کو آتا ہے.مگر انہوں نے قابلِ رشک صبر واستقلال کا نمونہ دکھایا.آپ کی اہلیہ ہر موقع پر ہی فرماتی رہیں.اگر احمدیت کی وجہ سے میں اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے قربان کر دیئے جائیں تو اس پر خدا تعالیٰ کی بے حد شکر گزار ہوں گی اور بال بھر بھی اپنے عقائد میں تبدیلی نہ کروں گی.پس جیسا وہ عظیم خاوند تھا ویسی ہی عظیم اُن کی بیگم تھیں اور ماں کا اپنے بچوں
119 کو اس طرح بکریوں کی طرح خدا کے حضور پیش کر دینا اور پھر اس خوشی اور یقین کے ساتھ اور اس صداقت کے ساتھ اُن کا یہ اظہار کہ بال بھر بھی اپنے عقائد میں تبدیلی نہیں کروں گی.ان کا جو یہ فقرہ ہے سادہ سا ہے لیکن اس میں گہری صداقت ہے..پھر آپ کی بہوؤں کے متعلق قربانیوں کے ذکر بڑی تفصیل کے ساتھ ملتے ہیں کہ انہوں نے نظر بندی کے وقت بہت خطرناک تکلیفوں اور بھوک اور پیاس کے دکھ برداشت کرتے ہوئے کس طرح احمدیت پر ثبات قدم دکھایا اور اپنے بچوں کی بھی نہایت اعلیٰ درجہ کی تربیت کی جو اب خدا کے فضل سے ایک جاری وساری کہانی بن گئی ہے اور صاحبزادہ صاحب کی اولاد میں نسلاً بعد نسل اسی خلوص کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں جو اُس عظیم شہید کے خون میں دکھائی دیا کرتی تھیں.اُن کا ورثہ آگے نسلوں میں جاری کرنے میں ماؤں نے دخل دیا ہے.یہ میں آپ کو سکھانا چاہتا ہوں.یہ بات یا درکھیے کہ ایک انسان خواہ کتنی ہی بڑی عظیم قربانی کیوں نہ پیش کرے اگر اس کی بیوی اس کا ساتھ نہ دے تو اولا دضائع ہو جایا کرتی ہے.اولاد میں یہ نیکیاں نہیں چلا کرتیں.اس (قربانی) کی صداقت اُس کی بیوی کی وساطت سے اُس کی اولاد میں پہنچی.پس آج ساری دنیا میں پھیلی ہوئی حضرت صاحبزادہ صاحب کی اولا دان ماؤں کو بھی خراج تحسین پیش کر رہی ہے جن ماؤں نے اُن کی عظمت کردار کو مستقل بنانے میں یہ عظیم حصہ لیا.بعد کے دور میں آپ تاریخ میں یہ واقعات تو کثرت سے پڑھتی ہوں گی کہ کس طرح افریقہ میں جماعت پھیلی ، کس طرح امریکہ میں جماعت پھیلی.کس طرح یورپ میں قربانیاں پیش کی گئیں کس طرح مشرق میں اور کس طرح مغرب میں لیکن بہت کم لوگوں کے سامنے ان خواتین کی قربانیاں آتی ہیں جنہوں نے محض اپنے
120 خاوندوں کو خدمت دین کی بھٹی میں نہیں جھونکا بلکہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ خود کس کس دکھ میں مبتلا ہو کر صبر کے ساتھ انہوں نے وہ دن کاٹے ہیں.میرا تجربہ یہی ہے کہ جانے والا اتنی تکلیف محسوس نہیں کرتا.جتنا پیچھے رہ جانے والے تکلیف محسوس کیا کرتے ہیں.اس لئے کوئی نہیں کہہ سکتا.کہ ہمارے داعیان الی اللہ نے جو قربانیاں دعوت الی اللہ کے میدان میں پیش کی ہیں.وہ پیچھے چھوڑی جانے والی بیویوں اور بچیوں کی نسبت سخت قربانیاں تھیں.بلکہ میرا دل یہی گواہی دیتا ہے کہ معاملہ اس کے برعکس تھا.مرد تو کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں ان کے دل بہلانے کے لئے اللہ تعالیٰ اور رنگ میں سامان کرتا چلا جاتا ہے مگر جو بیویاں خاوندوں کی زندگی میں بیواؤں کی طرح زندگی بسر کر رہی ہوں وہ بچے جو اپنے باپوں کی زندگی میں یتیموں کی سی حالت میں دن گزار رہے ہوں ان کی کیفیت تو پھر وہی جان سکتے ہیں جنہوں نے وہ کچھ دیکھا جذبات کی قربانی : گزری.حکیم فضل الرحمان صاحب مبلغ افریقہ کی زندگی بھی بہت لمبا عرصہ باہر حضرت خلیفہ مسیح الثانی حکیم فضل الرحمان صاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:- دو وہ شادی کے تھوڑا عرصہ بعد ہی مغربی افریقہ میں تبلیغ کے لئے چلے گئے تھے اور 13، 14 سال تک باہر رہے جب وہ واپس آئے تو ان کی بیوی کے بال سفید ہو چکے تھے اور اُن کے بچے جوان ہو چکے تھے.شیخ محمود احمد صاحب عرفانی ایڈیٹر الحکم قادیان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ میری دوسری ہمشیرہ حمیدہ خاتون عرفانی اہلیہ مولوی مطیع الرحمان صاحب بنگالی مبلغ
121 امریکہ سخت بیمار تھیں اور مرض کے شدید دورے ہوتے تھے جن کی وجہ سے وہ ہر وقت موت کے قریب ہو جاتی تھیں.درد اس شدت سے اٹھتی تھی کہ چیچنیں دور دور تک سنائی دیتی تھیں اس حالت میں مولوی صاحب موصوف کو امریکہ جانے کا حکم ہوا.مولوی صاحب نے اپنی اہلیہ کی شدید تکلیف کی حالت کو دیکھ کر کہا حمیدہ! اگر تم کہو تو میں حضرت صاحب کو کہہ کر اپنا سفر منسوخ کرالوں.مگر بستر مرگ پر لیٹی ہوئی حمیدہ خاتون نے کہا نہیں نہیں آپ جائیں اور مجھے خدا کے حوالے کر دیں.خدمت سلسلہ کے اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیں.چنانچہ مولوی صاحب موصوف امریکہ کے سفر میں ابھی لندن ہی پہنچے تھے کہ حمیدہ خاتون اپنی جان جان آفریں کے سپر د کر کے جنت کو سدھاریں.مولوی نذیر احمد صاحب مبشر سیالکوٹی کے بارے میں اسی کتاب میں لکھا ہے کہ مولوی نذیر احمد صاحب مبشر نکاح کے بعد رخصتانہ سے قبل ہی افریقہ چلے گئے تھے.اُس زمانے میں مبلغین کی بھی اتنی کمی تھی اور دنیا میں مختلف جگہوں پر ایسے تقاضے پیدا ہورہے تھے کہ حضرت فضل عمر اتنا بھی انتظار نہیں کر سکتے تھے کہ جس کا نکاح ہو چکا ہے اُس کو شادی کی ہی اجازت دیدیں.رخصتی کا ہی انتظار کر لیں چنانچہ ادھر نکاح ہوا اور ادھر افریقہ میں ضرورت پڑی تو آپ کو افریقہ بھجوادیا گیا.پھر جنگ کی وجہ سے واپس نہ ہو سکے.وہ لکھتے ہیں کہ اب ان کو 8 ، 9 سال کے قریب ہو گئے ہیں.اور ابھی عزیزہ موصوفہ کا رخصتانہ نہیں ہوا.مجھے یاد نہیں کہ کتنی مدت کے بعد آئے تھے تو وہ کنواری دلہن بوڑھی ہو چکی تھی اور اس عمر میں داخل ہوگئی تھی جس کے بعد پھر پڑھاپے کے انتظار کے چند سال ہی رہ جایا کرتے ہیں.انہوں نے اکثر وقت تنہائی اور جدائی میں کاٹا.حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد کی بیوی نے جو قربانیاں پیش
122 کی ہیں ان کا ذکر خود فضل عمر ان الفاظ میں فرماتے ہیں ” مجھے یاد ہے جب ہم نے درد صاحب کو ولایت بھیجا ہے تو ان کی تنخواہ (100) ایک سو روپیہ ماہوار تھی.چندہ اور دوسری کٹوتیوں کے بعد انہیں ساٹھ روپے ماہوار ملتے تھے.(اس سے بھی اندازہ کریں کہ اُس زمانہ کے واقفین چندہ میں کتنا حوصلہ دکھایا کرتے تھے.وسیع قلہ کے ساتھ چندہ دیا کرتے تھے) جس میں سے بڑا حصہ وہ اپنی والدہ کو بھیج دیتے تھے.ان کی دو بیویاں تھیں اور ان میں سے ہر ایک کے چار چار پانچ پانچ بچے تھے وہ ہمارے مکان کے ایک حصہ میں جو کچا تھا جس میں آج کل کے کلرک بھی رہنا پسند نہیں کرتے ، رہتی تھیں.مجھے یاد ہے اور مجھے معلوم کر کے سخت صدمہ ہوا کہ ان کی بیویوں کے حصہ میں چار چار ، پانچ پانچ بچوں سمیت صرف 14،14 روپے ماہوار آتے تھے.ان کی بیوی کا ایک بھائی جلد ساز تھا جس کے پاس فرمہ شکنی کے لئے جب کوئی کتاب آتی تو وہ خود اور دوسری بیوی فرمے تو ڑ تو ڑ کر کچھ رقم پیدا کرلیا کرتی تھیں.جس سے ان کا گزارہ ہوتا تھا.حضرت فضل عمر نے 1956ء میں لجنہ کے سالانہ اجتماع میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:- ہمارے کئی مربی ایسے ہیں جو دس دس پندرہ پندرہ سال تک بیرونی ممالک میں فریضہ تبلیغ ادا کرتے رہے اور وہ اپنی نئی بیاہی ہوئی بیویوں کو پیچھے چھوڑ گئے.ان عورتوں کے بال اب سفید ہو چکے ہیں لیکن انہوں نے اپنے خاوندوں کو کبھی یہ طعنہ نہیں دیا کہ وہ انہیں شادی کے بعد چھوڑ کر لمبے عرصہ کے لئے باہر چلے گئے تھے ہمارے ایک مبلغ مولوی جلال الدین صاحب شمس ہیں وہ شادی کے تھوڑا عرصہ بعد ہی یورپ چلے گئے تھے ان کے واقعات سن کر بھی انسان کو رقت آجاتی ہے.ایک دن اُن کا بیٹا گھر آیا اور اپنی والدہ سے کہا کہ امی ابا کسے کہتے ہیں.ہمیں پتہ نہیں ہمارا ابا کہاں
123 گیا ہے.کیونکہ وہ بچے ابھی تین تین چار چار سال کے تھے کہ شمس صاحب یورپ تبلیغ کے لئے چلے گئے اور جب واپس آئے تو وہ بچے 18،18،17،17 سال کے ہو چکے تھے.اب دیکھو یہ اُن کی بیوی کی ہمت اور اس بیوی کی ہمت ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ ایک لمبے عرصہ تک تبلیغ کا کام کرتے رہے.اگر وہ انہیں اپنی در دبھری کہانیاں لکھتی رہتیں تو وہ یا تو خود بھاگ آتے یا سلسلے کو مجبور کرتے کہ انہیں بلا لیا جائے.یہ بالکل درست تجزیہ ہے.وہ عورتیں جو اپنے خاوندوں کو درد بھری کہانیاں لکھتی رہتی ہیں اگر ان کے خاوندوں میں انسانیت ہو تو اتنا زبردست دباؤ اُن پر پڑ جاتا ہے.کہ پھر وہ اس کام کو جاری نہیں رکھ سکتے.تو وہ تمام مبلغین جنہوں نے سابقہ ایک سو (100) سال میں عظیم خدمتیں سرانجام دیں ہیں ان کے پیچھے بے شمار ان لکھی داستانیں ہیں جو ان کی بیویوں کی قربانیوں کی صورت میں لکھی گئیں.چند ایک کے تذکرے آپ کے سامنے آئیں گے لیکن اندازہ کریں کہ اُن میں سے ہر ایک نے اتنی قربانیاں دی ہیں اور ہر روز قربانیاں دے رہی ہیں کہ اگر ان کی داستان لکھی جائے تو شاید سالہا سال تک پڑھی جائے تب بھی ختم نہ ہولیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ داستانیں لکھی گئی ہیں اور لکھی جارہی ہیں.......وہ آسمان کے نوشتوں پر لکھی گئی ہیں اُس خدا کے فرشتوں نے لکھی ہیں جو فرماتا ہے کہ ایک ایسی کتاب ہے جو نہ چھوٹے کو چھوڑتی ہے اور نہ بڑے کو اور ہر چیز اس میں تحریر کی جارہی ہے.پس آسمان پر وہ قربانیاں لکھی گئیں اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان کے اجر لکھے گئے ہیں.ان میں سے ایک ذرہ بھی ضائع نہیں گیا.انسان تو انسان کی قربانیوں اور خدمتوں کو بھول جایا کرتے ہیں مگر اللہ کبھی نہیں بھولتا.اس لئے ہم جو انسانوں کو سناتے ہیں تو محض اس لئے کہ ان کے اندر بھی قربانیوں کے ولولے پیدا ہوں ورنہ یہ سنانا ان عظیم عورتوں کی قربانیوں کی جزا نہیں.
124 جزا تو خود خدا کے پاس ہے اور وہی ہے جو ہمیشہ ان کو جزاء دیتا چلا جائے گا.مبلغین کرام کی بیویاں جن کے خاوند تبلیغ کے لئے ایک لمبا عرصہ ملک سے باہر رہے اور انہوں نے یہ وقت بغیر خاوندوں کے گزارا ہے ان میں سرفہرست حکیم فضل الرحمان صاحب کی اہلیہ ہیں.23 سال نائیجریا میں رہے.پہلے سات سال مسلسل اور پھر 16 سال مسلسل.دونوں مرتبہ ان کی بیوی نے اکیلے وقت گزارا ہے.آپ جانتی ہیں کہ شادی کے بعد عورت کی شادی کی خوشیوں کی جو زندگی ہے وہ بمشکل 23 سال تک چلتی ہے.اس کے ساتھ بچوں کے بوجھ بڑھتے چلے جاتے ہیں.کئی قسم کی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں اور غربت اگر ہو تو پھر اور بھی مصیبت بنتی ہے اور بعد میں تو زندگی گھسیٹنے والی بات ہے تو خاوند کی 23 سال کی جدائی کے بعد اس کا کیا باقی رہا ہوگا اور کونسی خوشیاں اُس نے زندگی میں دیکھی ہوں گی یا اپنے بچوں کو خوشیاں دکھائی ہوں گی.پھر مکر مہ امۃ الرفیق صاحبہ اہلیہ غلام حسین صاحب ایاز ہیں.ایاز صاحب مسلسل ساڑھے پندرہ سال سنگا پور میں رہے.اب تو سنگا پور یوں لگتا ہے کہ چھلانگ لگاؤ تو سنگا پور چلے جاؤ.اُس زمانے میں جبکہ قادیان سے سنگا پور نسبتاً بہت نزدیک ہے اتنی دور کھائی دیتا تھا اور جماعت اتنی غریب تھی کہ سنگا پور بھیج کر جماعت نے گویا کالے پانی بھجوا دیا.یہ عرصہ سنگا پور بھیج کر وہاں سے بلانے کی توفیق نہ تھی.ٹکٹ بھیجنے کی توفیق نہیں تھی.آج آپ جماعت کو جس حال میں دیکھ رہے ہیں اب تو 126 ممالک سے بھی بڑھ گئے ہیں.جہاں حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کا پیغام تمام دنیا میں زمین کے کناروں تک پہنچا ہوا دکھائی دیتا ہے.ان کے پیچھے جن عظیم خواتین نے قربانیاں پیش کی ہیں اور اس فصل کی آبیاری کی ہے ان کا بھی کبھی کبھی ذکر چلتے رہنا چاہیے تا کہ آئندہ نسلیں ہمیشہ ان پر درود اور
125 سلام بھیجتی رہیں.مکرم مولوی رحمت علی صاحب جو متفرق اوقات میں 26 سال باہر رہے اور ان کی بیوی نے عملاً یہ دن بیوگی کی حالت میں کالے زیادہ تر عرصہ جاوا سماٹرا.وغیرہ میں گزارا.ان کے ایک بچے کے متعلق حضرت فضل عمر بتایا کرتے تھے کہ اپنی ماں سے پوچھتے تھے کہ لوگوں کے ابا آتے ہیں اور چیزیں لیکر آتے ہیں.ہمارے ابا کہاں ہیں کہاں چلے گئے تو بیوی آبدیدہ ہو جایا کرتی تھیں منہ سے بول نہیں سکتی تھیں.جس طرف وہ سمجھتی تھیں کہ انڈونیشیا ہے اُس طرف انگلی اٹھا دیا کرتی تھیں کہ تمہارے ابا دین کی خدمت کے لئے وہاں گئے ہیں اور قربانی کے لحاظ سے ایسی عظیم خاتون تھیں کہ بالآخر جب حضرت فضل عمر نے یہ فیصلہ کیا کہ اب ان کو بلا لیا جائے.کم سے کم دونوں کا بڑھا پا تو اکٹھا گزرے تو یہ احتجاج کرتی ہوئی حضرت فضل عمر کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا کہ آپ میری قربانیوں کو ضائع نہ کریں.جو عمر ہماری اکٹھے رہنے کی تھی وہ تو ہم نے علیحدگی میں گزار دی اور اب اُس پر موت ایسی حالت میں آئے کہ وہ مجھ سے علیحدہ ہو اور خدا کے حضور میری یہ قربانی قبول ہو.آمنہ خاتون اہلیہ نذیر احمد مبشر کا ذکر گزر چکا ہے.نصرت جہاں اہلیہ مولوی امام دین صاحب ابھی زندہ ہیں اور کافی بیمار ہیں.کمزور ہو چکی ہیں اں کو بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.انہوں نے بھی متفرق اوقات میں 20 سال اپنے خاوند سے علیحدہ گزارے ہیں اور ان کی اولا د بھی اپنے والد کو بہت کم جانتی تھی.زیادہ تر وہ انڈونیشیا میں رہے ہیں.مکرمہ بیگم صاحبه قریشی محمد افضل صاحب خدا کے فضل سے ایسی صابرہ خاتون ہیں کہ 27 سال سے زائد عرصہ اپنے خاوند سے جدا رہیں اور کبھی ایک لفظ بھی زبان پر نہیں لائیں.میں جب اس تاریخ کا مطالعہ کر رہا تھا.احمدی علماء مقرر
126 کئے ہوئے تھے تا کہ میری مدد کریں تو مجھے بھی حیرت ہوئی کہ یہ اتنی خاموشی سے وقت گزار گئی ہیں اور ہماری تاریخ کی کتابوں میں کہیں بھی اُن کا ذکر نہیں ملتا.محمودہ بیگم اہلیہ مکرم محمد سعید صاحب انصاری نے ساڑھے سترہ سال انصاری صاحب سے علیحدگی میں وقت گزارا.امتہ المجید اہلیہ محمد صدیق صاحب گورداسپوری بھی 20 سال اپنے خاوند سے جدا رہی ہیں.امۃ العزیز اور لیس صاحبہ ، وہ بھی اپنی زندگی کا بہترین حصہ اپنے خاوند سے علیحدہ گزار چکی ہیں.یعنی مسلسل یا وقفے وقفے سے 20 سال تک انہوں نے اپنے خاوند کی جدائی میں دن کاٹے.پھر حمیدہ خاتون صاحبہ اہلیہ عبدالرشید صاحب رازی ہیں.14 سال تک یہ اپنے خاوند سے جدا رہیں.مکرمہ نسیم صاحبہ اہلیہ عطا اللہ صاحب کلیم 12 سال تک علیحدہ رہیں.مکرمہ مجیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ جلال الدین صاحب قمر 11 سال تک علیحدہ رہیں.مکرمہ امتہ الحمید بیگم صاحبہ اہلیہ عبد الشکور صاحب ساڑھے سات سال، مکرمہ حمیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ اقبال احمد صاحب غضنفر 11 سال تک مکرمہ نصیرہ نزہت صاحبہ اہلیہ حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب 10 سال مکرمہ امتہ الحفیظ صاحبہ اہلیہ بشیر احمد صاحب قمر یہ بھی ساڑھے 10 سال تک اپنے خاوند سے الگ رہیں.مبارکہ نسرین صاحبہ اہلیہ محمد اسمعیل صاحب منیر 10 سال تک.امۃ المنان صاحبہ اہلیہ میر غلام احمد صاحب قسیم 11 سال تک اور آمنہ صاحبہ اہلیہ مقبول احمد صاحب ذبیح 16 سال تک.بشارت بیگم صاحبہ اہلیہ ملک غلام نبی صاحب پونے تیرہ سال اور شاہدہ
127 صاحبہ اہلیہ منصور بشیر صاحب ساڑھے گیارہ سال.باقی چونکہ سینکڑوں مربی ہیں.سینکڑوں بیویاں ہیں جنہوں نے جدائی میں مختلف وقت کاٹے ہیں اُن کی ساری قربانیوں کا تذکرہ تو ممکن ہی نہیں یہ چند نمونے آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کس جذبے کے ساتھ ، کس ولولے کے ساتھ ماؤں نے اپنے بچے پیش کئے تھے اور اُن کی جدائیاں برداشت کیں.اُن کا ذکر بھی بڑا طویل ہے.ابھی تو آپ نے بیویوں کی قربانیاں سنی تھیں.ماؤں کا بھی یہی حال تھا.ایک تازہ نمونہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں.مقبول احمد صاحب ذبیح ایک لمبے عرصے سے باہر تھے ، ان کی والدہ جنہوں نے 1983ء میں وفات پائی ہے وہ بستر مرگ پر تھیں اپنی بیماری کے دنوں میں وہ اپنے بیٹے مقبول احمد صاحب ذبیح کو بہت یاد کرتی تھیں.اس سے متاثر ہوکر ان کے دوسرے عزیزوں نے ایک دن عرض کیا کہ ہم حضور اقدس کی خدمت میں درخواست کریں کہ ابا جان کو بلا لیا جائے تو فرمایا نہیں ! میں نے اپنے بیٹے کو وقف کیا ہے.میں یہ مطالبہ کر کے وقف کی رُوح کے خلاف نہیں کرنا چاہتی.جب حضور خود چاہیں گے بلالیں گے.بلکہ اپنی بیماری کی بھی مجھے اطلاع نہیں دی تا کہ ان کی وجہ سے میری پریشانی سلسلہ کے کاموں میں روک نہ بن سکے.یہ درست ہے کہ جب بھی کسی بیمار ماں یا بیمار بیوی کے متعلق مجھے اطلاع ملتی ہے تو بلا تاخیر میں ان کے بچوں یا خاوندوں کو واپس جانے کا حکم دیتا ہوں ، چاہے وہ پسند کریں یا نہ کریں ان کو جبر اواپس بھجوایا جاتا ہے.ورنہ اس سے میرے دل کو بڑی گہری تکلیف پہنچتی ہے اور اب جماعت اللہ کے فضل سے بہت توفیق پاچکی ہے اب کوئی وجہ نہیں کہ بے وجہ قربانیاں کھیسٹی جائیں.قربانیاں دینے کا وہ جو عظیم دور تھا وہ اور رنگ کی قربانیاں تھیں.اب جماعت اور رنگ کی قربانیوں میں داخل ہوگئی ہے.
128 لیکن انہوں نے مجھے پتہ ہی نہیں لگنے دیا اور ایسی حالت میں وفات پاگئیں.مجھے بعد میں پتہ چلا کہ کیا کیفیت تھی.کس طرح انہوں نے اپنے بچوں کو روک رکھا تھا کہ مجھے اطلاع نہ دیں.ایک واقعہ ایک ماں اور بچے کا بہت ہی دلچسپ ہے.جو ماں اور بچے کے آپس میں معاملے کا ہے.مکرمہ نذیر بیگم صاحبہ جو مولوی عبدالرحمان صاحب انور کی بیگم ہیں ان کا واقعہ ہے وہ لکھتی ہیں ایک دن میں اپنی ساس امتہ العزیز صاحبہ کے ساتھ حضرت مولوی حافظ روشن علی صاحب سے ملنے گئی تو انہوں نے پوچھا عبدالرحمان کہاں ہے یعنی عبد الرحمان صاحب انور کی والدہ سے پوچھا کہ عبدالرحمان بہت..کہاں ہے؟ تو اُن کی والدہ نے کہا وہ گورنمنٹ میں ملازم ہو گیا ہے.اب اس خبر پر انسان عام طور پر کہتا ہے کہ انہوں نے کہا ہوگا اچھا اچھا.......مبارک بہت...لیکن حافظ روشن علی صاحب کا جواب سنئے.حافظ صاحب جو لیٹے ہوئے تھے اُٹھ کر بیٹھ گئے.اور اپنے زانوؤں پر ہاتھ مار کر کہا.جب ناک پونچھنانہ آتا تھا تو ہمارے حوالے کر دیا اور جب کسی قابل ہوا تو گورنمنٹ کو دے دیا.یہ کون سا انصاف ہے؟ ان کی والدہ کہتی تھیں کہ میں حضرت حافظ صاحب کی گرجدار آواز سن کر تھر تھر کانپنے لگی.میں نے گھر آکر انور کو خط بھجوایا کہ استعفیٰ دیکر فوراً آ جاؤ.ان کا جواب آیا وہ 15، 16 کڑی شرائط پر مشتمل تھا.اب آپ سوچیں گی کہ وہ شرائط کیا ہیں.بڑی سخت شرائط تھیں کہ میں آؤں گا لیکن میری یہ شرطیں ہیں.اگر آپ کو منظور ہیں تو آؤں گا ورنہ نہیں آؤں گا.وہ شرطیں سن لیجئے.وہ ساری شرطیں تو کہتی ہیں مجھے یاد نہیں.لیکن کہتی ہیں کہ تین شرطیں جو نمایاں طور پر یاد رہیں وہ یہ تھیں کہ جب اور جہاں جتنی دیر کے لئے بھیجیں گے چلا جاؤں گا.اگر تنخواہ نہیں دیں گے تو مطالبہ نہیں
129 کروں گا.اگر مجھے کہیں گے کہ کنویں میں چھلانگ لگا دو تو لگا دونگا.بعد میں رونا نہیں ان کی والدہ نے لکھا مجھے شرطیں منظور ہیں.چلے آؤ اور اس کے بعد کامل وفا کے ساتھ وہ سلسلہ سے وابستہ رہے.اور وقف کے تمام تقاضے پورے کئے وقف کی روح کو جیسا کہ انہوں نے کڑی شرطیں خود پیش کی تھیں ان شرطوں کے مطابق تا زندگی نباہتے رہے.اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے.اور اُس ماں کو بھی جس ماں نے اس بچے کو دنیا سے ہٹا کر دین کی خدمت میں پیش کر دیا عجیب تھیں وہ مائیں وہ جن کے ہاتھوں میں احمدیت پل کر جوان ہوئی.میں نے مولوی عطا اللہ صاحب کلیم کی بیگم کا ذکر کیا ہے.ان کو جب سالٹ پانڈ بھجوایا گیا تو بالکل ان پڑھ تھیں اور کوئی زبان نہ آتی تھی.ابھی بھی اردو نہیں آتی صرف پنجابی بولتی ہیں تو یہ کہتی ہیں کہ میں جب گئی تو بڑی پریشانی ہوئی کہ میں کیا کروں گی؟ میری کوئی عمر ہے سیکھنے والی تو انہوں نے کہا کہ اچھا میں یہ کرتی ہوں کہ مقامی زبان سیکھتی ہوں عام عورتوں سے ، اس میں تو کوئی لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے.چنانچہ اللہ تعالی کے فضل سے ایسی عمدہ زبان سیکھی کہ غالبا اپنے خاوند سے بھی اُس زبان میں آگے بڑھ گئیں اور پھر عورتوں کی بہت تربیت کی.ان کو قرآن سکھایا.نماز سکھائی اور ہر رنگ میں دینی تربیت دی.یہ بھی الگ الگ رہنے والی ہیں.جماعت کے کاموں میں ان کا کوئی خاص ذکر نہیں ملتا لیکن غانا کی تاریخ میں ان کا نام انشاء اللہ ہمیشہ زندہ رہے گا.پارٹیشن کے دنوں میں جب قادیان پر اردگرد سے بڑے سخت حملے ہورہے تھے جتے آرہے تھے اور بہت ہی خطرناک حالات تھے تو ان دنوں میں کچھ لوگ در ولیش بن کر قادیان میں رہ گئے اور ان کی تعداد عمداً 313 مقرر کی گئی تبرک کے طور پر کیونکہ حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے جنگ بدر میں 313 ساتھی تھے تو
130 ایک نیک فال کے طور پر حضرت فضل عمر نے بھی 313 مجاہدین پیچھے چھوڑے.اُن میں سے بہت سے فوت ہو چکے ہیں.بہت سے زندہ ہیں لیکن اُن کے نام تو ملتے ہیں مگر ان ماؤں اور بیویوں اور بہنوں کے نام نہیں ملتے جنہوں نے ان قربانیوں پر اُن کو اکسایا اور اُن کو قائم رکھا.اُن کی قربانیوں کی حفاظت کی.اور خاموشی سے اپنے جذبات کی قربانیاں پیش کرتی رہیں ان میں سے ایک خاتون اہلیہ مستری نور محمد صاحب گنج مغل پورہ تھیں.اپنے بیٹے محمد طیف امرتسری کو انہوں نے خط لکھا کہ آج قادیان میں رہنا بہت مجاہدہ ہے.تم نہایت جواں مردی اور استقلال سے حفاظت مرکز کی ڈیوٹی دیتے رہو اور اگر اس راہ میں جان بھی دینی پڑے تو دریغ نہ کرو.یا درکھو تم پر ہم کبھی خوش ہوں گے جب تم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مقدس بستی قادیان کی حفاظت میں قربانی کا وہ اعلیٰ درجے کا نمونہ دکھاؤ جو ایک احمدی نوجوان کے شایان شان ہے.گھبراؤ نہیں.خدائے تعالیٰ تمہاری مدد کریگا.ہم تمہارے ماں باپ تمہارے لئے دعائیں کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ تمہیں استقامت بخشے.پھر خواجہ محد اسمعیل صاحب بمبئی کی بیگم صاحبہ محترمہ حبیبہ نے لکھا کل حضرت خلیفہ اسیح کا ایک مضمون ” جماعت احمدیہ کے امتحان کا وقت الفضل 14 اکتوبر 1947ء میں شائع ہوا ہے.اپنے خاوند کولکھ رہی ہیں وہ مضمون آپ کو بھیج رہی ہوں گو پہلے بھی میں نے آپ کو قادیان رہنے سے روکا نہیں تھا.لیکن کل حضور کا مضمون پڑھ کر میں نے سجدے میں گر کر اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی اے اللہ میں اپنا سارا سرمایہ شرح صدر سے تیرے رسول کی تخت گاہ کی حفاظت کے لئے پیش کرتی ہوں.محترمہ امۃ اللطیف صاحبہ نے لاہور سے اپنے خاوند مکرم ڈاکٹر محمد احمد صاحب کو ایک خط میں لکھا.اب میری بھی یہی نصیحت ہے کہ وہاں پر خدا کے بھرو سے
131 پر بیٹھے رہیں.اللہ تعالیٰ وہاں پر بھی حفاظت کرے گا.اور ایمان رکھنے والوں کو ضائع نہیں کرے گا.آپ اجازت لینے کی بھی کوشش نہ کریں ہم سب کو خدا کے حوالے کر دیں.میری طرف سے آپ اطمینان رکھیں ، میں اتنی بزدل نہیں ہوں.میرا ایمان اللہ تعالیٰ پر مضبوط ہے.اگر اس کی طرف سے ابتلاء آنا ہے تو ہر طرح آنا ہے.بس یہی دُعا ہے کہ ہر طرح ثابت قدم رکھے.اور ہمارا ایمان کسی طرح متزلزل نہ ہو جائے.ہمارے ایک واقف زندگی مقصود احمد صاحب کے ساتھ میرا پرانا تعلق رہا ہے.کنری فیکٹری میں ہوا کرتے تھے.ان کی بیگم صابحہ ریحانہ بہت ہی مخلص اور فدائی ہیں.انہوں نے اپنے خاوند کو جب وہ قادیان میں ہوا کرتے تھے لکھا.آپ سوچتے ہوں گے میری بیوی بھی کیسی دُنیادار ہے کہ ایک دفعہ بھی اس بات کا اظہار نہیں کیا کہ خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ قربانی کی گئی ہے جس کا دل پر ہرگز ملال نہیں ہونا چاہئے مگر سچ پوچھئے اور یقین جانئے میں یہ باتیں پوشیدہ ہی رکھنا چاہتی تھی.میں سوچتی تھی کہ اپنے جذبات ظاہر کر کے خواہ مخواہ ریا کار بنوں مگر پھر دل نے کہا کہ خاوند سے بھی کوئی بات پوشیدہ رکھی جاتی ہے.اس لئے اب میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ میں بالکل مطمئن ہوں اور اپنے آپ میں بہت خوشی محسوس کرتی ہوں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے شاندار قربانی کا موقعہ عطاء فرمایا.اللہ تعالیٰ قبول فرمائے.ایسی کتنی ہوں گی جن کی قربانیوں کو زبان نہیں ملی.وہ اس وہم میں مبتلا خاموشی اور صبر کے ساتھ وقت گزار گئیں کہ کہیں خدانخواستہ ہمارا یہ اظہار ریا کاری میں شامل نہ ہو جائے.بہر حال احمدی خواتین کی قربانیوں کی ایک عظیم داستان ہے جو حقیقت میں نہ ختم ہونے والی ہے اور قیامت تک جاری رہنے والی ہے.آپ اپنی قربانیوں سے آج جو داستانیں لکھ رہی ہیں وہ بھی زندہ رہیں گی اور ہمیشہ ہمیش کے
132 لئے عزت اور احترام سے پڑھی جائیں گی اور سنی جائیں گی.اور آپ کی کوکھ سے پیدا ہونے والے بچے کل جو قربانیاں پیش کریں گے اُن کی قربانیاں بھی تا ابد زندہ رہیں گی.اور زندہ جاوید رہیں گی.خواتین کا قوموں کو بنانے اور بگاڑنے میں سب سے بڑا ہاتھ ہوا کرتا ہے.یہی احمدی خواتین اگر سنگھار پٹار کی عادی ہوتیں یعنی اس شوق میں مبتلا ہو چکی ہوتیں.ویسے تو ہر عورت کا حق بھی ہے.شوق بھی ہے.ایک طبعی بات ہے سجنا اُس کی فطرت میں داخل ہے لیکن ایک سجا سطحی نظر کے ساتھ ہوتا ہے جب توفیق ملے، وقت ملے تو ٹھیک ہے، ایک ہوتا ہے عورت سجنے کی غلام ہو جایا کرتی ہے وہ قوم کے لئے کبھی کچھ نہیں کر سکتیں.مقاصد کے لئے قربانی پیش کرنا دراصل یہ وہ چیز ہے جو کسی انسان کو جاودانی بنا دیا کرتی ہے.احمدی خواتین میں خدا کے فضل کے ساتھ مقاصد کے لئے قربانی پیش کرنے کا جذبہ اتنا زیادہ ہے اور اس کثرت سے ملتا ہے کہ اس کا شمار ممکن نہیں ہے.سیدہ رشیدہ بیگم صاحبہ نے اپنے بیٹے سید سعید احمد صاحب قادیانی متـعـلـم جامعہ احمدیہ قادیان کولکھا.عزیزم قادیان میں رہو! آج آپ لوگوں کے امتحان کا وقت ہے.دعا ہے کہ خدا تم کو امتحان میں کامیاب کرے.دوبارہ تاکید ہے کہ بلا اجازت حضرت خلیفتہ اسیح کے کسی صورت میں قادیان سے نہ آئیں کیونکہ اب ایمان کی آزمائش کا وقت ہے.خدا سے دعا ہے کہ تم اپنے ایمان کا بہترین نمونہ دکھاؤ اور دین کے ستارے بن کر چمکو اور دنیا کے لئے راہ نما بنو.نصیرہ نزہت صاحبہ نے گجرات سے اپنے شوہر محترم بشیر الدین صاحب عبید اللہ کے نام خط میں لکھا.خوش رہیں کامیابی اور کامرانی کی مرادیں دیکھیں.قادیان کے جھنڈے کو بلند کرنے والوں میں سے ہوں اور دُعا بھی کریں کہ
133 خدا کا نام پھیلانے والوں میں ہمارا نام بھی ہو.میں جب سے یہاں آئی ہوں کس طرح دن گزرتے ہیں اور کس طرح ستارے گنتے گنتے راتیں کٹتی ہونگی لیکن زبان سے اگر کوئی لفظ نکلتا ہے تو یہی کہ اے قادیان کی بستی ! تجھ پر لاکھوں سلام اور اے قادیان میں رہنے والے جانباز و! تم پر لاکھوں ڈر دو!“ سیالکوٹ کے ایک احمدی نوجوان غلام احمد صاحب ابن مستری غلام قادر صاحب جو قادیان کی بستی کی حفاظت کے لئے سیالکوٹ سے گئے تھے.ان کی والدہ نے ان کے نام خط لکھا جو دراصل ان کی قربانی کی پیش گوئی بن گیا.وہ بھتی ہیں کہ بیٹا اگر ( دینِ حق ) اور احمدیت کی حفاظت کے لئے تمہیں لڑنا پڑے تو کبھی پیٹھ نہ دکھانا.اس سعادت مند خوش قسمت نوجوان نے اپنی بزرگ والدہ محترمہ حسین بی بی صاحبہ کی اس نصیحت پر اس طرح عمل کیا کہ قادیان میں احمدی عورتوں کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان دے دی.مگر دشمن کے مقابلے میں پیٹھ نہ دکھائی.مرنے سے پہلے اس نوجوان نے اپنے ایک دوست کو اپنے پاس بلایا اور اپنے آخری پیغام کے طور پر یہ لکھوایا.مجھے ( دین حق ) اور احمدیت پر پکا یقین ہے.میں ایمان پر قائم جان دیتا ہوں.میں اپنے گھر سے اسی لئے نکلا تھا کہ میں ( دینِ حق ) کے لئے جان دونگا.آپ لوگ گواہ رہیں کہ میں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا اور جس مقصد کے لئے جان دینے کے لئے آیا تھا.میں نے اس مقصد کے لئے جان دیدی.جب میں گھر سے چلا تھا تو میری ماں نے نصیحت کی تھی کی بیٹا دیکھنا! پیٹھ نہ دکھانا.میری ماں کو کہہ دینا کہ تمہارے بیٹے نے تمہاری نصیحت پوری کر دی اور پیٹھ نہیں دکھائی اور لڑتے ہوئے مارا گیا.کتنے بیٹے ہیں جنکی (قربانی) کے فیض میں اُن کی مائیں ، بہنیں ، بیویاں شامل ہوا کرتی تھیں.اُن کے فیض سے جو ثواب عطا ہوتا ہے.اس میں وہ شامل ہوتی
134 ہیں.اس سے کیا غرض کہ کوئی دیکھ رہا ہے یا نہیں دیکھ رہا.اور اکثر خواتین کے حالات سے تو دُنیا بے خبر ہوتی ہے اُن کو کیا پتہ کہ گھر میں کس حالت میں گزارا کیا.کس مصیبت سے وقت کا ٹا، کس طرح اپنے بچوں کی بھوک اور تکلیفوں اور بیماریوں کو برداشت کیا.یہ ساری وہ داستانیں ہیں جو نہ لکھی جاسکتی ہیں نہ لکھنے والوں کو میسر آتی ہیں لیکن یاد رکھیں کہ ہمارا خدا اپنے بندوں کی ادنیٰ سے ادنیٰ قربانیوں پر بھی نگاہ رکھتا ہے.اور اپنے فضلوں سے نوازتا چلا جاتا ہے.ان قربانیاں کرنے والوں کے حالات پر غور کریں جن میں سے کچھ کا ذکر میں نے آپ سے کیا ہے اور اب ان کی اولادوں کو دیکھیں کہ خدا تعالیٰ نے ان کو کیسے کیسے فضلوں سے نوازا ہے.کس طرح دنیا میں عزتیں دیں.کس طرح دین میں اُن کو مستحکم کیا اور دین و دنیا کے لحاظ سے ہمیشہ کے لئے سرفراز اور سرخرو ہو گئے.خدا کرے کہ احمدی خواتین کو ہمیشہ احمدیت اور ( دینِ حق ) اور خدا کی خاطر قربانیوں میں صف اول میں مقام عطاء رہے اور ہمیشہ اس مقام کی حفاظت کرتے ہوئے اس جھنڈے کو اپنے ہاتھوں میں بلند کرتے ہوئے وہ آگے بڑھتی رہیں..ایک مثالی واقف زندگی کی اہلیہ کے انداز : حضور اقدس رحمہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ 3 اپریل 1992 ء میں اپنی حرم محترمہ بیگم صاحبہ آصفہ بیگم صاحبہ کے متعلق فرمایا :- جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ابتداء میں آپ کا لجنہ وغیرہ سے کوئی ایسا تعلق نہیں تھا کیونکہ تربیت اور رنگ کی تھی.لیکن میرے کاموں میں بہت ہی بوجھ اُٹھایا ہے کیونکہ میرے تعلقات بہت زیادہ وسیع تھے اور ہر وقت مہمانوں کا آنا جانا.گھروں میں میٹنگز ہوتیں.میرا بے وقت گھر سے نکل جانا.صبح ایک سفر پر روانہ ہوا کہ رات کو آ جاؤں گا لیکن وہاں سے آگے بنگال چلا گیا.کئی دفعہ دو دو ہفتے ، تین
135 تین ہفتے بعد لوٹا.لیکن کبھی بھی عدم تعاون کا اظہار نہیں کیا.یہ شکوہ نہیں کیا کہ آپ مجھے سے یہ کہا کرتے ہیں مجھے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور بتاتے بھی کچھ نہیں.میں سلسلہ کے کام کیا کرتا تھا.تو بہت سی ایسی باتیں تھیں جن کا اشارہ بھی ذکر نہیں کیا کرتا تھا.میں نے انہیں کہا میں تو جماعتی کاموں کو اور گھر کے معاملات کو الگ الگ رکھتا ہوں اور میں پسند نہیں کرتا کہ مجھ پر جو جماعتی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں میں ان کا گھر والوں سے ذکر کروں.اس طرح پھر گھروں کے دخل شروع ہو جاتے ہیں اور پھر تبصرے اور بہت سے باتیں شروع ہو جاتی ہیں.اس طرح میرے کاموں پر غلط اثر پڑنے کا خطرہ ہے..تو اس بات کو پھر ہمیشہ قبول کئے رکھا اور وفات کے دن تک کبھی بھی جماعتی کاموں میں دخل اندازی کی نہ کوشش کی نہ مجھ سے جستجو کی نہ مشورے دیئے.رفتہ رفتہ جماعت کی خواتین سے تعلق بہت بڑھ گیا اور خاص طور پر ترک وطن کے بعد بہت زیادہ وسیع تعلق ہوا ہے.آسٹریلیا میں نجی میں ، سنگا پور میں پھر یورپ کے سب ممالک میں، کینیڈا میں امریکہ میں جہاں جہاں گئیں بہت ہی انکساری کے ساتھ خواتین سے ملتی تھیں اور ایک ایسی خوبی جو فطرتاً ودیعت ہوئی تھی اس میں کوئی تکلف نہ تھا.اپنے آپ کو کسی معنوں میں بھی بڑا نہیں سمجھا اور ہر ایک سے برابر محبت و پیار سے ملتی تھیں.خاص طور پر انگلستان کی خواتین سے تو بہت ہی تعلق تھا اور کہا کرتی تھیں کہ ان کے بہت ہی احسانات ہیں.بہت خدمت کی ہے.آخری دور میں دعاؤں کی طرف، نیک باتوں کی طرف ، ذکر الہی کی طرف بہت ہی توجہ رہی اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آخری دنوں میں پوری طرح بغیر کسی تردد بغیر کسی استثناء کے کامل طور پر راضی برضا ہو چکی تھیں اور اپنے آخری
136 وقت کا اندازہ ہو چکا تھا.غیر معمولی صابرہ واقف زندگی خاتون: سیدنا حضرت خلیفہ ایح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ 13اپریل 1992ء میں اپنی حرم محترمہ کی بیماری کی تفصیل بتانے کے بعد فرمایا :- ان کی نماز جنازہ کے ساتھ میں ایک نماز جنازہ غائب کو بھی شامل کرنا چاہتا ہوں.وہ ایک ایسی خاتون کی نماز جنازہ ہے جن کے متعلق ایک خاص بات محرک بنی ہمارے چوہدری محمود احمد صاحب چیمہ جو انڈونیشیا میں مستقل طور پر مربی فائز ہوئے ہیں اُن کی بیگم فاطمہ بیگم صاحبہ کو بھی بی بی والا کینسر تھا یعنی پتے کا کینسر جو کینسر میں سب سے خطرناک سمجھا جاتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ وہ ایک بہت ہی فدائی اور غیر معمولی صابرہ واقف زندگی عورت تھیں.خاوند نے وقف کیا.شادی کے 41 سال کے عرصہ میں سے صرف 11 سال اکٹھے رہنا نصیب ہوا.اور 30 سال جدا ر ہے اور نہایت غربت کی حالت میں زندگی بسر کی.شادی کے 41 سال کی ساری عمر کوارٹروں میں بسر کی.ان کی چار بچیاں ہیں ان کو پڑھانا ، ان کی دیکھ بھال کرنا ، ان کی شادیاں بھی خود ہی کیں.خاوند تو الگ دنیا میں بسنے والے انسان تھے ان کا اپنی بیوی اور بچیوں کے سود و زیاں سے کوئی تعلق نہیں تھا.اور انہوں نے کلیتہ ذمہ داری قبول کی.بڑی صابرہ ، شاکرہ کسی قسم کا کوئی تصنع نہیں بہت سادہ زندگی سلسلہ کی فدائی، دس سال تک صدر لجنہ بھی رہیں اور قرآن کریم پڑھانے کا بہت شوق تھا.خود بھی بڑے شوق سے سیکھا.فاطمہ بیگم صاحبہ کے خاوند نے وقف کیا اور کامل وفا کے ساتھ بیوی نے اپنی
137 ساری زندگی کی ، جوانی دین کے حضور پیش کر دی اور سارے دُکھ خود اٹھائے اور خاوند کو بے فکر کر کے دین میں چھوڑ دیا.(اس کے برعکس آج کے زمانہ میں ایسے واقفین ہیں کہ جب وہ باہر آتے ہیں اور جماعت کے صدقے انہیں مقامی نیشنلٹی (Nationality) نظر آنے لگتی ہے تو آنکھیں پھیر لیتے ہیں اور اس میں بڑی حد تک (......بیویاں ذمہ دار ہوتی ہیں.اور اس ضمن میں بیویاں ایک غیر معمولی کردارا دا کرسکتی ہیں اور یہ وہ ہیں جن کے متعلق تاریخ خاموش رہ جاتی ہے تو آپ لوگ متعجب نہ ہوں کہ میں نے آج کیوں خصوصیت سے اُن کا ذکر کیا ہے.میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ احمدیت کی تاریخ میں کچھ باب ہیں جو سیاہی سے لکھے جارہے ہیں.کچھ اُن کے پس منظر میں روشنائی سے لکھے جانے والے ایسے ابواب بھی ہیں جن کو ظاہری آنکھ نہیں دیکھ رہی.کتنی قربانی کرنے والی عورتیں ہیں جنہوں نے اپنی جوانیاں ڈھال دیں اور زندگی کے آرام تج دیئے اور بڑے صبر کے ساتھ اپنے دکھوں کو اپنی حد تک اپنی چھاتیوں میں محفوظ کئے ہوئے وہ وفا کے ساتھ سلسلہ کی خدمت پر قائم رہیں.بلکہ خاوندوں کو قائم رکھا.اور جب اُن میں کوئی کمزوری آئی تو اُٹھ کھڑی ہوئیں اور کہا خبر دار ” یہ وہ رستہ ہے جس سے واپسی کا کوئی سوال نہیں.“ (مصباح جنوری 1993ء) محترمہ رضیہ در دصاحبہ کو ایک منفرد اعزاز حاصل ہے کہ آپ کے والد ماجد حضرت مولانا عبدالرحیم در دصاحب صف اوّل کے واقفین زندگی میں سے تھے.خاوند مکرم محترم مسعود احمد عاطف صاحب واقف زندگی تھے.دونوں بیٹے مکرمہ حامد مقصود عاطف صاحب اور ڈاکٹر محمود احمد عاطف واقف زندگی ہیں.داماد
138 مکرم فضل محمود بھنو صاحب واقف زندگی ہیں.اس پر مزید یہ کہ آپ خود بھی واقف زندگی ہیں آپ نے خلافت رابعہ کے ابتدائی دور میں اپنی زندگی وقف کر دی تھی.اللہ تعالیٰ ان خاموش خدمات کو قبول فرمائے.محترمہ زینب حسن صاحبہ نے چالیس سال لجنہ لا ہور کی بھر پور خدمت کی توفیق پائی.3 جون 1966ء کو بغیر اطلاع کئے محترم محمد شجاعت علی صاحب چیف انسپکٹر تحریک جدید نے لجنہ لاہور کے آمد و خرچ کے رجسٹر کا معائنہ کر کے اپنے تاثرات میں 45 سال سے صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید میں کام کر رہا ہوں کلکتہ ممبئی، کراچی پشاور اور راولپنڈی جیسے عظیم الشان شہروں میں کام کرنے کا موقع ملا.لیکن خدا لگتی بات یہ ہے کہ آج تک اس سوجھ بوجھ سے کام کرنے والی خاتون اور لجنہ کی عہد یدار کم ہی نظر سے گزری ہے.“ (مصباح 2 اگست 1992 ، صفحہ 38)
139 احمدی خواتین کی دعوت الی اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشا در بانی ہوا اُدْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ (النحل: 126) اپنے رب کے رستہ کی طرف بنی نوع انسان کو بلا نصیحت آموز حکمت کے ساتھ نیز حکم ہوا يَا يُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ (المائدہ:68) اے رسول! جو بھی آپ کی طرف احکام الہی نازل ہوئے ہیں ان کو پوری طرح ( بنی نوع انسان تک پہنچا دو.ہر رسول نبی، مامور مجد امام نے دعوت الی اللہ کو اپنا فریضہ اولین قرار دیا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:- ”ہمارے اختیار میں ہو تو ہم فقیروں کی طرح گھر بہ گھر پھر کر خدا تعالیٰ کے سچے دین کی اشاعت کریں اور اس کو ہلاک کرنے والے شرک اور کفر سے جو دنیا میں پھیلا ہوا ہے لوگوں کو بچائیں اور اس تبلیغ میں زندگی ختم کر دیں خواہ مارے ہی جاویں." آپ کی دعا ہے :- ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 391) دیکھ سکتا ہی نہیں میں ضعف دین مصطفی مجھ کو کر اے میرے سلطاں کامیاب و کامگار
140 ایک عالم مرگیا ہے تیرے پانی کے بغیر پھیر دے اے میرے مولیٰ اس طرف دریا کی دھار ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار مضمون حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے 8 جولائی 1915ء کو لاہور کی خواتین سے خطاب فرمایا جس میں آپ نے لاہور کی خواتین کو علم دین سیکھنے اور اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:- لا ہور ایک مرکز ہے..یہاں ہماری عورتوں کو بہت ہوشیار رہنا چاہیے اور تبلیغ میں بہت کوشش کرنی چاہئے احمدی عورتوں کا فرض ہے کہ وہ عورتوں میں تبلیغ کریں.اُنہیں دین سکھائیں اور وعظ کریں.جلسہ کر کے اُن میں عورتوں کو بلا ئیں اور تقریریں کریں.رسالوں اور اخباروں میں عورتوں کیلئے مو لکھیں.تمام عورتوں کو چاہیے کہ قرآن اور حدیث سے واقف ہونے کی کوشش کریں.خاص کر لاہور کی عورتوں کو اس میں زیادہ کوشش کرنی چاہیے کیونکہ یہاں تمہارے سامنے ایسی عورتیں ہیں جو دنیا کے لئے تو کوشش کر رہی ہیں لیکن انہیں دین کا کوئی فکر الفضل 23 جولائی 1915 ء صفحہ نمبر 4-5) حضور اقدس فضل عمر کے خطابات اور تقاریر سے خواتین میں بیداری کے آثار نظر آنے لگے چنانچہ اہلیہ ملک کرم الہی صاحبہ نے اپنے ایک مضمون ”انجمن احمد یہ نہیں.مستورات جھنگ مکھیا نہ “ کے عنوان سے لکھا: - عورتوں کی انجمن قائم ہے جس کا با قاعدہ ہر جمعہ کو اجلاس ہوتا ہے بہت سی غیر احمدی عورتیں بھی شامل ہو جاتی ہیں اور تبلیغ کا بھی عمدہ موقع مل جاتا ہے.“ الفضل 18 نومبر 1920 صفحہ نمبر 8) 1921 ء میں لاہور کی احمدی خواتین کا پہلا جلسہ ہوا جس میں 65,60
141 عورتیں شریک ہوئیں.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی نے پردے کے باہر کھڑے ہو کر ایک گھنٹہ وعظ فرمایا.اس جلسہ کے بعد سے چند عورتیں جمعہ میں بھی آنے لگیں جن کے لئے ( بیت) کے ایک حصہ میں پردہ کر دیا جاتا تھا.(الفضل 4 اپریل 1921ء صفحہ نمبر 2) گویا 1921ء میں جبکہ ابھی لجنہ قائم نہیں ہوئی تھی.مستورات میں بیداری اور قربانی کا جذبہ پیدا ہو چکا تھا.چنانچہ گجرات شہر میں بھی بیداری پیدا ہو چکی تھی.برکت علی صاحب جو انجمن احمدیہ کے سیکریٹری تھے لکھتے ہیں :- شہر گجرات میں کچھ عرصہ سے مستورات میں بھی تبلیغ کا کام شروع ہے اور مستورات کی ایک انجمن بنائی گئی ہے اور باقاعدہ چندہ کی فہرست کھولی گئی شہر گجرات کی مستورات میں مرزا حاکم بیگ صاحب کی اہلیہ نے ہے..66 احمدیت کی رُوح پیدا کر دی ہے.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے.“ ( تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ 53) با وجود تعلیم کی کمی کے احمدی مستورات نے تبلیغ کی طرف بھی توجہ..دی اور اپنے اپنے حلقوں میں دوسری مستورات تک احمدیت کا پیغام پہنچاتی رہیں.چنانچہ قائم مقام ناظر تالیف واشاعت نے لکھا: - الحمد اللہ تبلیغی سیکریٹری صاحبان کے ذریعہ بہت اچھی تبلیغ ہو رہی چنانچہ پانی پت میں اہلیہ صاحبہ محمد اسمعیل صاحب اور سعد اللہ پور میں اہلیہ صاحبه منشی غلام علی صاحب مدرس سیکریٹری تبلیغ کی مستورات میں تبلیغی کوششوں کی اطلاع پہنچی ہے." ( تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ 56) 1927ء میں حضرت فضل عمر نے اپنے خطاب میں فرمایا:- آج میں ممبرات لجنہ کو خصوصیت سے توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ادنیٰ قوم کی عورتوں میں تبلیغ شروع کریں.اگر ہماری عورتیں امریکہ یورپ جاوا سماٹرا کو بھلا کر
142 سر دست اس امر کو مد نظر رکھ لیں کہ گھر میں آنیوالی چوڑھیوں اور دیگر ادنی اقوام کی عورتوں کو اپنے اخلاق سے اپنے وعظ سے اپنی امداد سے ( دینِ حق ) میں لانا ہے.تو وہ اور پھر اُن کے ذریعے آٹھ ، دس (8,10) سال میں ہزاروں آدمی ہدایت یاب ہو سکتے ہیں.پس اپنے اپنے گھروں میں کام شروع کر دو اور ایک دو ماہ کے اندر اندر کچھ کر دکھاؤ.یہ پھل اپنی شیرینی میں اُن پھلوں سے کم نہ ہوگا جنکے خواب (مصباح یکم را پریل 1927ء صفحہ نمبر 5) دیکھے جاتے ہیں.مبلغه کلاس: 18 فروری 1946ء کو ایک مبلغہ کلاس کا اجراء کیا گیا.چنانچہ یہ کلاس حضرت سیدہ ام طاہر کے مکان کے نچلے حصہ میں روزانہ لگتی تھی.اس کی طالبات کے ناموں کا پورار یکارڈ نہیں مل سکا.صرف مندرجہ ذیل ناموں کا پتہ افضل سے لگتا ہے.کیونکہ شہادت القرآن اور تبلیغ ہدایت کے امتحانوں میں یہ طالبات مبلّغہ کلاس کی حیثیت سے شامل ہوئیں:.(1) محمودہ بیگم صاحبہ (2) امة الحفیظ صاحبه سلطانه عزیز صاحبه (4) رشیده شکیله صاحبه (3) (5) سلیمہ بیگم صاحبہ (6) امتہ الرشید صاحبہ (7) سعیدہ بیگم صاحبہ ( الفضل 21 رمئی 1946 ءصفحہ 5) آہستہ آہستہ احمدی خواتین کی سرگرمیوں کو تسلیم کیا جانے لگا.روزنامہ آزاد 26 دسمبر 1950 ء کی اشاعت میں لکھتا ہے:.”مرزائی عورتوں نے لجنہ اماء اللہ کے نام سے اپنی علیحد تنظیم قائم کر رکھی ہے.اور وہ عورتوں میں مرزائیت کی تبلیغ کر رہی ہیں.میں اپنی بہنوں سے عرض کروں گا کہ وہ نوع
143 انسانی کو ا فتنہ مرتد سے بچانے کیلئے منظم ہوکر کام کریں.“ حضرت خلیفہ اُسیح الثالث نے 18 / مارچ 1966ء کو وقف عارضی“ کے ما تحت تحریک جاری فرمائی اس کے تحت ملازمت پیشہ یا کاروباری لوگ سال میں دو سے چار ہفتہ وقف کر کے خدمت دین کرتے ہیں اور تبلیغ ( دین حق ) کی سعادت حاصل کرتے ہیں.مردوں کی طرح اس میں خواتین بھی کسی طرح پیچھے نہیں رہیں اکثر تو اپنے خاوندوں کے ہمراہ اپنے شہروں سے باہر دوسری جگہ جا کر تعلیم القرآن میں حصہ لیتی ہیں اور تبلیغ کرتی ہیں لیکن غیر شادی شدہ خواتین اپنے ہی شہر یا گاؤں میں تعلیمی کلاسیں لگاتی ہیں یا تبلیغی وفود کے ساتھ شامل ہوتی ہیں.گویا دیکھا جائے تو ہر احمدی خاتون خواہ وہ ماں یا بہن یا بیوی ہے یا بیٹی مبلغ ( دین حق ) ہے.اور اپنے دل میں تبلیغ کا جوش رکھتی ہیں اور اپنے ماحول میں جب بھی اور جہاں بھی اُسے موقع ملتا ہے دینِ حقیقی کی تبلیغ میں کوشاں رہتی ہیں.نصرت جہاں آگے بڑھو‘ سکیم میں جہاں مردوں نے قابل قدر کام کیا وہاں پر اُن کے ہمراہ گئی ہوئی بیویوں نے بھی اپنے خلوص ، اعلیٰ اخلاق اور دینی روایات کی وجہ سے برابر کا حصہ لیا.حقیقت یہ ہے کہ ایک واقف زندگی کی بیوی بھی واقف زندگی ہوتی ہے وہ ہر گرم اور سرد میں اُس کا ساتھ دیتی ہے.مشکلات کے وقت حوصلہ افزائی کرتی ہے اور اپنے خاوند کے کام کو خوش اسلوبی سے جاری رکھنے میں خاصا اہم کردار ادا کرتی ہے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ہر فرد جماعت کو دعوت الی اللہ میں جھونک دیا.چنانچہ آپ نے فرمایا: - میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس سے زیادہ پیارا اور اس سے زیادہ عزیز نذرانہ میرے لئے اور کوئی نہ ہوگا کہ احمدی خواہ مرد ہو یا عورت ہو یا بچہ ہو یا بوڑھا ہو دعا کی درخواست کے ساتھ یہ لکھے کہ میں خدا کے فضل کے ساتھ اُن لوگوں میں داخل
144 ہو گیا ہوں جو اللہ کی طرف بلاتے ہیں.جن کا عمل صالح ہے.کس طرح میرے دل سے دُعائیں پھوٹ پھوٹ کر نکلیں گی.میرے دل ہی سے نہیں ہر احمدی کے دل سے اُن لوگوں کے لئے دُعا ئیں پھوٹ پھوٹ کر نکلیں گی.“ (الفضل 26 اپریل 1983ء) حضور اقدس کی کوئی مجلس، کوئی ملاقات اور کوئی گفتگو تبلیغ ( دین حق ) سے خالی نہیں تھی.شب و روز کے تمام ترلمحات اسی پر کیف موضوع کے لئے وقف رہے.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 12 ستمبر 1992ء کو جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر فرمایا : - دو دعوت الی اللہ کی جب میں نے تحریک کی تو اس میں بھی احمدی خواتین نے بھر پور حصہ لیا ہے اور بھر پور حصہ سے یہ مراد نہیں ہے کہ جس طرح کثرت سے احمدی خواتین چندہ میں شامل ہوتی ہیں اُسی کثرت سے دعوت الی اللہ کی ہے.یہ پہلوا بھی باقی ہے لیکن بعض احمدی خواتین نے جس شان کے ساتھ لبیک کہی اور جس طرح دل لگا کر اور جان ڈال کر دعوت الی اللہ کی کوشش کی ہے اسکے بہت اچھے اچھے پھل بھی اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے ہیں.اس وقت میں چند نمو نے اس غرض کیلئے پیش کر رہا ہوں کہ آپ کو احساس ہو کہ یہ وہ قربانی کا میدان ہے جس میں ابھی آپ پیچھے ہیں اور میں یہ پسند نہیں کرتا کہ احمدی خواتین جنہوں نے اتنا شاندار ماضی جگمگاتا ہوا ماضی اپنے پیچھے چھوڑا ہے وہ کسی ایک تحریک میں بھی پیچھے رہ جائیں.پس دعوت الی اللہ کے کام میں بھی آپ کو بھر پور توجہ دینی چاہیے اور یہ وہ خدمت ہے جسکے نتیجہ میں اپنی نسلوں تک ہمیشہ ہمیش کیلئے آپ پر سلامتی بھیجنے والے پیدا ہوں گے.کیونکہ جو شخص آپ کی تبلیغ سے مسلمان ہوگا اللہ کے فضل سے اُس کی ساری نسلیں بھی آپ کے زیر احسان رہیں گی اور قیامت تک وہ جتنے نیک کام کریں گے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدہ کے مطابق اُنکی نیکیاں
145 گی..آپ کے نام بھی لکھی جائیں گی.اگر مرد پوری توجہ سے کام نہیں کر ر ہے تو عورتیں ہی یہ کام کرنا شروع کر دیں.بسا اوقات تاریخ ( دین حق ) میں ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جہاں مرد پیچھے رہ گئے وہاں عورتیں آگے بڑھیں اور ان کا نمونہ دیکھ کر پھر مر دوں کو بھی ہوش آ گئی.حضور انور نے حضرت فضل عمر کا بیان کیا ہوا ایک ایمان افروز واقعہ سنایا:- ایک احمدی عورت روشنی کا مینار : چک منگلا اور پنڈ بھروانہ یہ علاقہ خدا کے فضل سے ترقی کر رہا ہے اور یہی وہ بہادر لوگ ہیں جن کی عورت کی مثال میں نے کل اختتامی تقریر میں بیان کی تھی وہ بیعت کرنے یہاں آئی ہوئی تھی شام کو اُس کی بیٹی بھی یہاں آگئی اس نے کہا اماں تو نے مجھے کہاں بیاہ دیا ہے وہ لوگ تو میری بات سنتے ہی نہیں.تو نے مجھے جو کتا ہیں دی تھیں میں اُن کو پڑھ کر سناتی ہوں تو وہ سنتے ہی نہیں.میں احمدیت پیش کرتی ہوں تو وہ ہنسی مذاق کرتے ہیں اور مجھے پاگل قرار دیتے ہیں وہ عورت کہنے لگی بیٹی تو میری جگہ آ کر اپنے والد اور بھائیوں اور دوسرے عزیزوں کی روٹی پکا.میں تیرے سُسرال جاتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ کون میری بات نہیں سنتا میں ان سب کو احمدی بنا کر دم لوں گی.شاید یہی عورت جلسہ سالانہ سے چند ماہ قبل آئی تھی اُس کے پاس ایک بچہ تھا اُس نے مجھے بتایا کہ یہ میرے بھائی کا بیٹا ہے وہ ربوہ نہیں آتا تھا.میں اُس کا بچہ اٹھالا ئی ہوں کہ وہ اس بچہ کی وجہ سے تو ربوہ آئے گا.مجھے کسی نے بتایا کہ اُس کا بھائی احمدیت کے قریب ہے لیکن چوہدری فتح محمد سیال صاحب نے خبر دی ہے کہ اللہ کے فضل سے اب وہ احمدی ہو چکا ہے تو اس طرح ایک احمدی خاتون پورے خاندان کے لئے، در حقیقت اُس سارے علاقے کے لئے ایک روشنی کا مینار بن گئی.اگر کوئی عورت دعوت الی اللہ کرنا چاہے اور دُعا کرے اور اخلاص کے ساتھ کام کرے تو یقینا وہ پچھل سے محروم نہیں رہے گی.“
146 نیز آپ نے فرمایا.لجنہ کی رپورٹیں ملتی ہیں.اس سے مجھے اندازہ ہوا ہے کہ اللہ کے فضل سے بعض لجنات دعوت الی اللہ کے کام میں بہت آگے بڑھ گئی ہیں اور خدام اور انصار سے بھی آگے نکل گئی ہیں.گذشتہ رپورٹوں میں سے ایک لجنہ کی رپورٹ کے مطابق تین گاؤں میں محض لجنہ نے 27 احمدی بنائے ہیں اور یہ افریقہ کی بات ہے.وہاں کی لجنہ کی خواتین دیہات میں وفد بنا کر جاتی ہیں اور اپنے رنگ میں خدا کے فضل سے نئی نئی جماعتیں قائم کر رہی ہیں.پاکستان میں بھی بعض خواتین نے ایسا ہی کام کیا ہے.ایک گاؤں میں لجنہ کے ذریعے 7 احمدی ہوئے اور پہلی دفعہ وہاں احمدیت کا بوٹا لگا ہے.بنگال میں بھی وہاں کی ایک بیوہ خاتون نے احمدیت قبول کی.اس کے بعد مزید تین خواتین اُس کے ذریعے احمدی ہوئیں.اس پر شدید مخالفت ہوئی تینوں کے خاوندوں نے طلاق کی دھمکیاں دیں لیکن اُن عورتوں نے کہا جو چاہو کر لو ہم نے حق کو پالیا ہے ہم پیچھے ہٹنے والی نہیں.تم بے شک ہمیں طلاق دے دو اور طلاق کی دھمکی کے باوجود اُسی طرح دعوت الی اللہ کرتی رہیں اللہ کے فضل سے اب بنگال میں اُن عورتوں کی قربانی کی وجہ سے 30 خواتین اور بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو چکی ہیں اور اس گاؤں پر احمدیت کا غلبہ ہوتا دکھائی دیتا ہے.پاکستان کے جو حالات ہیں وہ آپ جانتے ہیں.مردوں کیلئے بھی کام کرنا بہت مشکل ہے.لیکن پاکستان کی لجنات کی جور پورٹیں مجھے ملی ہیں ان سے پتہ چل رہا ہے کہ بعض احمدی خواتین اپنے محلوں اور دوسری جگہ جاکر مسلسل دعوت الی اللہ کر رہی ہیں.ایک گھرانے کو احمدی خاتون نے تبلیغ کی تو سارا محلہ ان کی مخالفت پر اکٹھا ہو گیا.اور ایک طوفانِ بدتمیزی اُٹھ کھڑا ہوا اُس داعیہ کے گھر کا بائیکاٹ کر دیا گیا.اُس نے ان سب باتوں کے باوجود کام نہیں چھوڑا.مسلسل لٹریچر تقسیم کرتی رہی اور اللہ کے فضل کے ساتھ اب 7 افراد پر مشتمل ایک گھرانہ اس بچی کی تبلیغ سے احمدی ہو
147 چکا ہے.اسی طرح ایک خاتون کے ذریعے تین (3) احمدی ہوئیں پھر بعض بچیاں اپنا ایسا اعلیٰ نمونہ دکھاتی ہیں کہ اُس نمونہ کو دیکھ کر بعض اساتذہ اور اُستانیاں بہت متاثر ہوتے ہیں اور پتہ کرتے ہیں کہ احمدیت کیا چیز ہے.ایک لڑکی کے متعلق یہ رپورٹ ہے کہ اسکا نمونہ اپنی کلاس میں جہاں وہ اپنی ٹریننگ لے رہی تھی اتنا مثالی تھا کہ اُس کے اُستاد و حکیم صاحب احمدیت میں دلچسپی لینے لگے اور اللہ کے فضل کے ساتھ اُس بچی کا نیک نمونہ تھا جس سے بالآخر احمدیت کی صداقت کو پا کر سارے خاندان سمیت اُنہوں نے احمدیت میں شمولیت اختیار کر لی.لاہور میں ایک خاتون کے ذریعے 30 احمدی ہوئیں.......ایک احمدی خاتون نے اکیلی نے خدا کے فضل سے 30 احمدی کر لئے ہیں اور ہیں وہ معمولی لکھی پڑھی.ان سے پوچھا گیا کہ کیا راز ہے کس طرح احمدی کروارہی ہیں.ماحول بڑا مخالف ہے لوگوں کے مزاج ہی دین کی طرف نہیں.مردوں سے جو کام نہیں ہورہے وہ آپ کیسے کر رہی ہیں.اُنہوں نے کہا میں بہت کم پڑھی لکھی ہوں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت میں سرشار ہوں اور اس نشے کے ساتھ اس موج میں دعوت الی اللہ کرتی ہوں کہ سننے والے مجبور ہو جاتے ہیں.جاہل سے جاہل آدمی بھی میرا یہ جذ بہ دیکھ کر سننے پر آمادہ ہو جاتا ہے اور اللہ کے فضل کے ساتھ جب بھی موقع ملے.اسی جذبہ کے ساتھ دعوت الی اللہ کرتی ہوں اور یہ اسی کا پھل ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ دعوت الی اللہ میں جذبہ بہت اہم کردار ادا کرتا ہے.دلائل سے آپ کتنے آراستہ ہوں کتنے ہی آپ کے پاس اعلیٰ دلائل اور دعوت الی اللہ کا مسالہ موجود ہو جب تک جذبہ دل میں نہیں ہے اُس وقت تک تبلیغ کوئی اثر نہیں کرتی اور میرا وقف جدید کا لمبا تجربہ یہی ہے.وہاں وہ غریب مسکین مبلغ جوعلمی لحاظ سے اکثر معلمین سے بہت پیچھے ہوا کرتے تھے مگر اُن میں جذبہ تھا وہ ہمیشہ بڑے بڑے
148 عالموں پر غالب آجایا کرتے تھے سخت سے سخت کر علاقے میں بھی جب ان کو مقرر کیا گیا تو وہاں بھی ان کی باتوں سے دل پسیج جایا کرتے تھے.پس احمدی خواتین کے لئے یہ نکتہ بہت ہی اہم ہے جو اُس عورت نے ایک عورت کے سوال کے جواب میں پیش کیا کہ ٹھیک ہے مجھے علم نہیں ہے.مگر معمولی تعلیم ہے، جذبہ ہے میں دعوت الی اللہ نشہ کی حالت میں یعنی محبت الہی اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے پیار میں نشہ کی حالت میں تبلیغ کرتی ہوں اور اسکے نتیجہ میں لوگ میری بات کو سننے پر مجبور ہو جاتے ہیں.لجنات میں جو دعوت الی اللہ کے کام ہورہے ہیں ان میں ایک بہت بڑا ذریعہ سیرت نبوی کے جلسے ہیں.آپ بھی اس سے فائدہ اُٹھا ئیں.سیرت نبوی کے جلسے دنیا میں ہر جگہ غیر معمولی اثر دکھاتے ہیں.تربیت کے لئے بھی کام آتے ہیں لیکن دوسرے مسلمانوں اور غیر مسلموں پر بھی اُنکا بڑا گہرا اثر پڑتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے لجنات میں اُسکی طرف بہت توجہ پیدا ہورہی ہے.اور جو مجموعی رپورٹیں ہیں اُنکا خلاصہ اس وقت یہ ہے کہ 122 ایسے دعوت الی اللہ کے جلسے ہوئے ہیں جو دراصل دعوت الی اللہ کے جلسے براہ راست تو نہیں تھے سیرت کے جلسے تھے اُن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت عمدہ رنگ میں دوسروں تک احمدیت کا پیغام پہنچانے کی توفیق ملی.اسی طرح ویڈیوز کے ذریعہ احمدی خواتین دعوت الی اللہ کر رہی ہیں.آج کل ایسی بہت سی ویڈیوز میسر ہیں جن کا اثر غیروں پر بہت پڑتا ہے.قادیان کی رپورٹ ہے کہ جب ہم خواتین کی طرف سے ویڈیوز دکھاتی ہیں تو اس کا بہت گہرا اثر دل پر پڑتا ہے.روس میں جو واقفین عارضی گئے ہمیں اُن کے ایک وفد نے بتایا کہ وہاں کے ایک بہت بڑے افسر تھے جن سے گفتگو ہو رہی تھی.شروع میں انہوں نے کوئی توجہ نہیں دی تو پھر ہم نے ویڈیو استعمال کی جو انگلستان کے جلسہ کی تھی کہتے ہیں وہ ویڈیودیکھتے دیکھتے اُن کی کیفیت بدل گئی اُنہوں نے کہا یہ ویڈیو تو سارے روس میں
149 دکھائی جائے.تو اللہ نے ایک اور ذریعہ بھی ہمیں مہیا فرما دیا ہے.جب ویڈیوز کے ذریعے آپ گھروں میں دعوت دیکر خواتین اور بچیوں کی سہیلیوں کو بلا کر پروگرام دکھائیں تو اللہ نے چاہا تو اسکے نتیجہ میں بہت سی غلط فہمیاں دور ہو جاتی ہیں.اور جو دل بات سننے پر آمادہ نہیں ہوئے وہ اب آمادہ ہو جائیں گے.( منقول از الفضل انٹر نیشنل 12 تا 19 اکتوبر 1992ء) آڈیو کیسٹس نے بھی چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں جہاں ویڈ یوکیسٹس دکھانے کا انتظام نہیں ہو سکتا بہت مؤثر کام کیا ہے.گویا آڈیو اور ویڈیویسٹس کا نظام بھی اس ترقی یافتہ دور میں تبلیغ دین حق ) کا ایک موثر ہتھیار بن گیا ہے.سیدنا حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی طالبعلمی کے زمانہ کا ایک خواب بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: - میں لجنہ اماءاللہ کے ان تیروں میں سے ہوں جو خاص وقت کے لئے بچا کر رکھے گئے تھے لیکن اس سے پہلے یہ وقت آگیا ہے.لجنہ اماءاللہ کے تیر کہنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی لونڈیوں کا ایک تیر ہے جو دنیا کے لئے پھینکا جا رہا ہے.اس کا جو بھی مطلب ہو میں نے اس کی یہ تعبیر کی ہے کہ میرے دور میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ لجنہ جماعتی خدمات میں بہت ہی مستعد ہوگی اور بہت قوت کے ساتھ میری مدد کرے گی.یہ تعبیر اس لئے ہے کہ تیر تو چلتا ہے لیکن تیر کو چلانے والے ہاتھ پیچھے ہوتے ہیں اور ان ہاتھوں کی طاقت تیروں میں منتقل ہوتی ہے پس مجھے لجنہ اماءاللہ کے تیروں میں سے ایک تیر کہنا اس سے مراد یہ ہے کہ انشاء اللہ میری ہر تحریک پر لجنہ اماءاللہ بڑی قوت کیساتھ عمل کریگی اور اس کی طاقت کے زور سے دنیا تک ( دین حق ) کا پیغام پہنچے گا.( خطاب جلسہ سالانہ لجنہ اماءاللہ کینیڈا بمقام ٹورنٹو6 جولائی 1991ء) لجنہ اماءاللہ کی ممبرات نے جس والہانہ انداز میں اپنے پیارے امام کی آواز
150 پر لبیک کہا اُس کی مثال ڈھونڈنے سے نہیں ملتی.آج ساری دنیا کی احمدی خواتین لاکھوں کی تعداد میں کسی نہ کسی اہم کام سے منسلک ہو کر اپنے امام کی بتائی ہوئی اسکیموں پر عمل کرنا عین سعادت سمجھتی ہیں وہ بے نیاز ہو چکی ہیں دنیا کی لذتوں سے، وہ بے نیاز ہو چکی ہیں عام تفریح کے ذرائع سے اور شب وروز دعوت الی اللہ کی فکر میں غلطاں ہیں.اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ وہ اس جوش سے آگے بڑھ رہی ہیں کہ چشم فلک حیرت زدہ ہے.نہ صرف ہندو پاکستان کی خواتین اس جذبہ سے سرشار ہیں بلکہ کم وبیش دنیا کے 160 ممالک کی خواتین میں سے مخلصانہ طور پر آگے آنے والی بے شمار خواتین علم جہاد بلند کئے اپنے جوش ایمانی کا عملی مظاہرہ کر رہی ہیں.کوئی دنیا کا کو نہ ایسا نہیں جہاں پر عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ قدم آگے نہ بڑھا رہی ہوں.سال بیعتوں کی تعداد 2,04,308 1993 4,21,753 1994 8,47,725 1995 16,02,721 1996 30,04,585 1997 50,04,591 1998 1,08,20,226 1999 4,13,08,975 2000 8,10,06,721 2001 2,06,54,000 2002 گیارہ ستمبر کے واقعہ کے بعد عالمی حالات میں تبدیلی کے باوجود ) میزان 16,48,75,605 ماشاء الله
151 دعوت الی اللہ کے سلسلے میں احمدی خواتین کا ایک نہایت قابل رشک تذکرہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے برطانیہ کے جلسہ 1998ء میں خواتین سے خطاب کے موقع پر فرمایا :- آپ نے فرمایا کہ احمدی عورتیں تقدیر بدل سکتی ہیں.وہ عملی زندگی کے وہ بہت سے میدانوں میں مردوں سے مسابقت اختیار کر چکی ہیں.خصوصاً دعوت الی اللہ کے میدان میں، خدمت خلق کے میدان میں اور مہمان نوازی کے تقاضے ادا کرنے کے میدان میں وہ بہت نمایاں خدمات سرانجام دے رہی ہیں." لجنہ اماءاللہ غانا حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا غانا میں بکثرت ہونے والی دعوت الی اللہ میں لجنہ اماءاللہ کی خاموش خدمات کا بہت بڑا دخل ہے ان کی خدمات کی ساری تفاصیل محفوظ نہیں ہیں.لیکن یہ بات واضح ہے کہ اگر لجنہ غانا کی یہ خواتین اس قدر مہمان نوازی سے خدمت نہ کرتیں تو غانا میں اس قدر وسیع پیمانے پر دعوت الی اللہ کا کام ممکن نہ تھا.صرف یہی نہیں بلکہ لجنہ غانا نے دینی اسکول قائم کر رکھے ہیں جہاں مختلف علاقوں سے خواتین اور بچیاں آتی ہیں.آکر دین سیکھتی ہیں اور پھر واپس اپنے اپنے علاقوں میں جا کر دوسری عورتوں کو دین سکھاتی ہیں.نیز فرمایا :- جنہ غانا کی ایک مثال ایسی ہے جو یورپ کی جماعتوں کے لئے قابل تقلید مثال ہے وہ یہ ہے کہ لجنہ غانا نے ایسی عورتوں کی بھی فہرستیں بنائی ہیں جو پہلے کبھی احمدی تھیں مگر اب احمدیت سے دور ہو چکی ہیں.لجنہ غانا کی عورتیں ان تک پہنچتی ہیں اور ان کو دوبارہ دعوت الی اللہ کرتی ہیں اور اللہ کے فضل سے ان کو پھر سے احمدی بنادیتی ہیں.جو احمدیت میں کمزور ہیں ان کو مختلف ذرائع سے احمدیت میں سرگرم کر دیتی ہیں.
152 لجنہ جرمنی بہت بڑی خدمت سرانجام دے رہی ہے.انتھک خدمت کی سعادت پارہی ہے.یہ خواتین صرف خواتین کے لئے خصوصیت سے دعوت الی اللہ کے اسٹال لگاتی ہیں یہ بہت اہم کام ہے اسطرح وہ احمدیت کا لٹریچر گھروں میں پہنچانے کا ذریعہ بن جاتی ہیں.جرمنی کی لجنات ایک اور بہت اہم کام کر رہی ہیں اُنہوں نے مختلف ممالک کی خواتین کی تربیت کا کام شروع کر دیا ہے اور معلمات تیار کی جارہی ہیں چنانچہ لجنہ جرمنی کی کوششوں سے جرمن ، البانین، بوسنین ، رومانی اور افغانی معلمات تیار کرنے کا کام جاری ہے.اور اس کا سہرا لجنہ مرکزی کے سر ہے.ایک اور بہت اہم کام لائبریریوں میں لٹریچر رکھوانا ہے یہ اتنا بڑا کام ہے کہ اس کا سرسری ذکر کرنے سے آپ کے تصور میں اس کام کی وسعت نہیں آسکتی.یہ بہت بڑا کام ہے.صرف برطانیہ میں ایک لاکھ سے زیادہ لائبریریاں ہیں اور اگر اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں اور دیگر اداروں کی لائبریریوں کو شمار کیا جائے تو ہرگز بعید نہیں کہ ان کی تعداد دس لاکھ سے بھی اور پر نکل جائے..یہ وہ میدان ہے جو احمدی خواتین کے لئے کھلا پڑا ہے اس میں وہ مر دوں کے مقابل کھلی دوڑ لگا سکتی ہیں.میں چاہتا ہوں کہ احمدی خواتین اس شعبے میں بھر پور توجہ دیں اور فاستبقو الخیرات کا ایسا نمونہ دکھائیں کہ مرد بھی ان کے ساتھ آگے آئیں.اس معاملے میں ضروری نہیں کہ مرد اُن کے ساتھ ہوں وہ مر دوں کو اس معاملے میں شکست بھی دے سکتی ہیں.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایم ٹی اے (MTA) کے ذریعے جو خدمت ہو رہی ہے وہ بہت ہی اہم ہے.حضور نے فرمایا لجنہ انڈونیشیا نے ایک ایسا کام کیا ہے جو غالباً دُنیا بھر میں اور کسی جگہ نہیں کیا گیا.ایک گاؤں میں دعوت الی اللہ کے لئے انہوں نے جانا تھا وہاں پر لجنہ نے ”وقار عمل کر کے تین کلو میٹر لمبی سڑک
153 بناڈالی.اس سڑک کا گاؤں والوں کو بہت فائدہ ہورہا ہے اور ان کا احساس تشکر بیدار ہو رہا ہے جسکے نتیجے میں احمدیت کی طرف انکی توجہ مبذول ہورہی ہے چنانچہ یہ سڑک بنانے کے بعد اب تک اس گاؤں میں 500 احمدی ہو چکے ہیں.احمدی خواتین کسی بھی ملک سے تعلق رکھتی ہوں ہمارے مذہب کی تعلیم ہے کہ خدا کے بعد اللہ کے بندوں کی خدمت کرو.اس کا مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا دنیا کے ہر ملک میں لجنات ایسے گھروں کو تلاش کریں اور غریب، گندے گھر والوں کو رہن سہن کے طریق سکھائیں..دینی خدمت کے لئے کسی گہرے علم کی ضرورت نہیں اس ضمن میں حضور نے ایک نیک خاتون کی مثال بیان فرمائی اور فرمایا حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی والدہ بظاہر ان پڑھ تھیں لیکن ان کی سادہ باتیں سن کر کثرت سے خواتین احمدی ہوتی تھیں.ایک عورت نے ایک دفعہ کہا کہ بتائیں یہ علم آپ نے کہاں سے حاصل کیا.آپ کی بات میں اثر کہاں سے آیا ؟ انہوں نے کہا کہ دو باتیں بتاتی ہوں ایک یہ کہ میں اللہ سے ڈرتی ہوں اور دوسرے یہ کہ میں اللہ سے محبت کرتی ہوں“.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ اتنی عظیم الشان بات ہے کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتیں کہ کس طرح ساری زندگی کے لئے یہ رہنما اصول طے ہو سکتا ہے.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا قلوب کو فتح کئے بغیر اذہان کی فتح نہیں ہو سکتی.یہ عذر کہ آپ کی تعلیم کم ہے اور زبا نہیں نہیں آتیں.اول تو زبانوں کی طرف توجہ کریں.پھر یہ بات یادرکھیں کہ اللہ کی محبت کا جواثر ہے وہ اسطرح ہوتا ہے کہ زبان خاموشی میں بھی اثر کرتی ہے.(ماخوذ الفضل مورخہ 25 راگست 1998ء صفحہ 7،4،3 کالم نمبر 4) ایک خوش نصیب داعی الی اللہ : کراچی کی سیکریٹری اصلاح وارشاد محتر مہ حور جہاں بشری داؤ د ایک پاکباز،
154 فدائی حسن احسان کی مرقع خاتون تھیں.صدر لجنہ کراچی محترمہ سلیمہ میر صاحبہ نے اُن کی وفات پر بایں الفاظ خراج تحسین پیش کیا ” آج کل بشری داؤ دسیکریٹری اصلاح وارشاد کے طور پر کام کر رہی تھیں.کام کیا کر رہی تھیں جگہ گار ہی تھیں.جب سے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسوں کی تحریک کی تھی مکمل طور پر اس میں جت گئی تھیں.کراچی کے ہر کونے میں سیرت پاک پر تقاریر کرتی تھیں.اپنے پرائے سب اُسکی تقریر کے مداح تھے.اس کی تقریر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا اس طرح احاطہ کرتی کہ خدائے تعالیٰ سے ایک زندہ تعلق پیدا ہوتا.اُس کی ہر ادا پر تقویٰ کا رنگ غالب نظر آتا.“ اس کے علاوہ لا ہور کے دورے بھی کئے اور وہاں بھی سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد جلسوں میں بے مثال تقاریر کیں.23 جولائی 1993 ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے جس محبت سے اس کا ذکر فرمایا ہے اُس کی وجہ سے وہ تاریخ احمدیت میں زندہ و جاوید ہوگئی.حضور نے فرمایا: - ”خدا نے حسن بیان کا جو ملکہ بخشا تھا وہ خصوصیت سے سیرت کے مضمون پر ایسے جلوے دکھاتا کہ اُن کی شہرت دُور و نزدیک پھیل گئی اور جب بھی سیرت کے مضمون پر زبان کھولتی تھیں تو بعض ایسی متعصب خواتین جو احمدیت سے دشمنی رکھتی تھیں اگر وہ لوگوں کے کہنے پر اس جلسہ میں حاضر ہو گئیں تو ایک ہی تقریر سنکر ان کی کایا پلٹ جایا کرتی تحریر کا ملکہ بھی انہیں عطا فرمایا تھا کئی چھوٹی چھوٹی کتابیں سیرت کے مضمون پر انہوں نے لکھیں تھیں.“ آپ کو Students اور نوجوان لجنہ کی ممبرات کو تعلیم دینے کی شدید لگن
155 تھی.ایک ایسا پروگرام بنایا جس کے تحت طالبات کو تعلیم دینے کے بعد ایف اے اور بی اے کی طرح کی ڈگریاں دی جانی تھیں اور بہت سی طالبات نے اپنے کالج بھی اس پروگرام میں شامل ہونے کے لئے چھوڑ دیئے.حضور اقدس نے بھی اس پروگرام کی فائل پر منظور ہے“ کے الفاظ ثبت کئے.اس طرح یہ پروگرام بڑی شان سے شروع ہوا مگر بوجوہ جاری نہ رہ سکا.پھر بعد میں قائد اعظم یونیورسٹی کی طرز پر دینی کورسز کا سلسلہ شروع کیا کہ گھر بیٹھے پڑھائی کریں اور ایسی ماؤں اور بچیوں کو مجاہدہ مائیں اور مجاہدہ بچیوں کا نام دیا.یہ کورسز بعد میں کتابی شکل میں بھی شائع کئے گئے.1992ء سے 1999 ء تک حصول پھل کا جائزہ نمبر شمار نام داعیات 1 2 3 4 5 6 جمیلہ سرور صاحبہ امة العزیز صاحبہ غزالہ یامین صاحبہ کنیز فاطمه 7 8 9 10 خدیجه بی بی بشری صاحبہ (چک منگلا ) خدیجہ بیگم صاحبہ (چک منگلا ) امتہ المتین صاحبہ (چک منگلا ) تسنیم لطیف صاحبہ امة الحمید صاحبہ 11 غزالہ یاسمین صاحبہ (ٹھٹھہ جوئیا ) (مصباح دسمبر 1993ء) ضلع تعداد پھل سرگودھا 398 39 " 10 " 15 " 20 " 14 " 18 " 37 " 23 11 " " 10 "
323 10 14 25 11 11 156 امینه مبارکه صاحبه ( فاروق آباد) امتہ النصیر صاحبہ (کوٹ عبدالمالک) نصیرہ بیگم صاحبہ ( سانگلہ ہل ) شیخوپورہ " " " " " 197 " 107 " " 18 12 " 13 " 52 فیصل آباد 29 " 717 " 35 " 60 " 23 " 37 " 16 " 13 " 12 22 " 12 " مبارکہ بیگم صاحبه عابدہ زاہد صاحبہ صابرہ بی بی صاحبہ ڈاکٹر شاہدہ ناصر صاحبہ فضیلت النساء صاحبہ (چاندی کوٹ ) نفیسه بشیر صاحبه وسیمه نصیر صاحبه خالدہ افضل صاحبہ ( شاہ کوٹ ) مجیدہ بیگم صاحبہ رانا ریحانه ظفر صاحبہ شہناز کرامت صاحبہ زاہدہ خلیل صاحبہ پروین الحق صاحبه صفیه ارشد صاحبه امة النور صاحبہ بشری سمیع صاحبه حلیمہ مبارک صاحبہ را شده نیم صاحبه رضوانه راحت صاحبه 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33
157 زاہدہ شہاب صاحبہ شہناز نعیم صاحبہ امتة النصیر نذیر صاحبہ ( قیادت 2) فضیلت انیس صاحبہ کراچی " 29 1378 92 منڈی بہاء الدین 71 24 104 12 " " " 12 " بشری سیف صاحبه شمیم افضل صاحبه شازیہ مبشر صاحبہ نصرت ریاض صاحبہ 36 35 34 که چه که گاه 37 " نصرت تنویر صاحبہ 14 کوثر نصیر صاحبه روبینہ طاہر صاحبہ اوکاڑہ طاہرہ جبیں صاحبہ شکر یہ ناصر صاحبہ خالده با نو صاحبه صدیقہ نا صر صاحبہ آنسه مظفر صاحبه محموده بشیر صاحبه شاہدہ اخوند صاحبہ حیدرآباد ناصرہ داؤ دصاحبہ لاہور 11 " 271 23 " 120 " 49 " 46 " 90 " 25 " 28 93 88 55 " " 12 " خیر النساءستکوہی صاحبہ سیده بشری بیگم صاحبہ خالده آفتاب صاحبه 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55
14 لاہور 596 38 " " 158 صالحه در دصاحبه خالدہ رشید صاحبه امۃ الکریم صاحبہ فوزیہ طلعت صاحبہ ناصرہ شاہین صاحبہ امة الحی بشری صاحبہ ارشاد بیگم صاحبہ حفظہ الیاس صاحبہ زیب النساء صاحبه شمسه عاصم صاحبہ ملیحہ مین صاحبہ " شکیلہ آغا صاحبہ 20 " 45 " 125 " " 18 13 " 34 99 7228 " " 12 59 " بشری حکمت صاحبہ سکینہ غلام محمد صاحبہ صفیه افضل صاحبه ناہید صبوحی صاحبہ منصورہ اسلم صاحبہ 11 " 14 " 352 " 35 " 152 " " نفیسه منور صاحبه 56 شمسه احسن صاحبه ثریا خانم صاحبہ بھلوال امة الشافی صاحبہ قصور طاہرہ تنویر صاحبہ گجرانوالہ 24 " 21 30 355 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 76 77
19 44 43 120 گجرانوالہ " 120 " 33 " 27 " 25 " 43 " 123 ربوه 11 " 42 " 45 " 11 " 39 " 21 " 204 " 64 " 54 " 15 " 15 " 177 " 159 طیبہ انور صاحبہ مبارکه ناصر صاحبہ طیبہ نا صر صاحبہ ذكية قسم صاحبه زیب النساء صاحبه رو بینه خانم صاحبه عطیہ ملک صاحبہ مبارکہ سا جد صاحبه صبیحه عزیز صاحبه 78 79 80 7760 81 82 83 84 85 86 87 88 89 90 91 92 93 94 95 96 آصفہ رفیع صاحبه ( دارالرحمت شرقی ) امتہ السلام پراچہ صاحبہ ( دار الصدر) امتہ المصور صاحبہ ( دارالصدر شرقی ) نسرین شاہ صاحبہ ( دارالصدر شرقی ) امتہ الحئی صاحبہ ( دارالیمن) جمیلہ منیر صاحبہ رضیہ احمد صاحبہ امته المصور صاحبہ ( دارالرحمت شرقی ) بشری سیال صاحبہ ( دارالصدر غربی) روبینہ ارشد صاحبہ ( دارالعلوم غربی ) امة الحفیظ صاحبہ ( دارالعلوم جنوبی ) نرگس یونس صاحبه ( دارالرحمت غربی) امتہ النصیر صاحبہ ( دارالرحمت شرقی ) 97 98 99
160 100 بشری رشید صاحبہ اور منیرہ بھٹی صاحبہ 101 فاطمہ نجم صاحبہ ( دار النصر غربی) 102 منصوره صدیق صاحبه معه وفد 103 چاند سلطانہ صاحبہ (دار النصر غربی) 104 نعیمه یوسف صاحبه ( دار النصر جنوبی) 105 عذرا پروین صاحبہ ( دارالرحمت شرقی ) 106 صادقہ سلطانہ صاحبہ ( ناصر آباد) 107 امتة النصیر اشرف صاحبہ ( دار النصر ) 108 امۃ القیوم مبشر صاحبہ 109 اہلیہ مظفر احمد صاحب 110 مسترت مبارک صاحبہ 111 عابدہ لغاری صاحبہ ربوه 38 31 30 22 20 " " " " 55 " 34 " 26 " 26 " 19 میر پورخاص 52 90 " " 112 امۃ الشافی صاحبہ 113 امتة الرؤف صاحبه 114 امۃ الشافی صاحبہ 115 جمیلہ حق صاحبہ ( کا نوکوٹ ) 116 منصوره ثار صاحبہ 117 118 شمیم افضل صاحبه ظفر کریم صاحبہ 119 ڈاکٹر سلیمہ ارشاد صاحبہ 120 نبیلہ علی صاحبہ 121 طاہرہ لودھی صاحبہ 58 " " 48 30 41 54 54 30 42 27 قصور میر پور وہاڑی اسلام آباد پیشاور بہاولپور 24
161 احمدی خواتین کی عظیم الشان قربانیاں سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ للہ تعالیٰ نے 30 جولائی 1994 ءکو جلسہ سالانہ یو کے (UK) کے موقع پر مستورات میں جو خطاب فرمایا اُس کا عنوان تھا احمدی خواتین کی عظیم الشان قربانیوں کی دلگداز داستان ! حضور انور کی زبانِ مبارک سے احمدی خواتین کے صبر ورضا کی جو داستانیں تمام دنیا نے MTA پرسنیں وہ ہمیشہ کے لئے تاریخ احمدیت میں محفوظ رہیں گی.حضور نے فرمایا:- وہ زمین پر چلنے والی ایسی تھیں کہ آسمان پر کہکشاں کی طرح اُنکے قدموں کے نشانات ہمیشہ تاریخ میں روشن رہیں گے.یہ داستانیں نہایت ہی درد ناک ہیں اس لئے دعا کریں کہ اللہ مجھے حوصلہ دے کہ اپنے ضبط کو قائم رکھتے ہوئے آپ کے سامنے کچھ واقعات بیان کرسکوں.جب میں سرسری نظر سے یہ واقعات پڑھ رہا تھا تو دل کی کیفیت یہ تھی.روکے ہوئے ہیں ضبط متحمل کی قوتیں رگ رگ پھڑک رہی ہے دلِ ناصبور کی بیٹوں کی وفات اور رونے پر پابندی: مکرمہ عائشہ بی بی صاحبہ اہلیہ مہر دین صاحب گوجرانوالہ بیان کرتی ہیں کہ 1974ء میں جب گوجرانوالہ میں حالات بہت خراب ہوئے تو میرے بیٹے منیر احمدکا ایک غیر احمدی دوست آیا اور کہنے لگا صبح بہت خطرہ ہے راتوں رات کہیں چلے جائیں.میرے بیٹے نے کہا کہ ہمیں کہیں جانے کی اجازت نہیں ہم یہیں رہیں
162 گے.میرے بیٹے بشیر نے مجھے اور میری بیٹی جمیلہ کو اپنے دوست کے گھر بھجوا دیا.صبح جلوس نے حملہ کر دیا میرے بیٹے تمام دروازے مقفل کر کے اوپر چلے گئے جہاں پہلے بھی پانچ آدمی موجود تھے ہجوم نے ان پر پتھر برسانے شروع کر دیئے.بچے چھت پر ادھر اُدھر بھاگتے مگر بچاؤ کی کوئی صورت نہ تھی وہ پچھلی گلی میں اُترے تا کہ وہاں سے باہر نکل جائیں لیکن وہاں بھی ہجوم تھا.انہوں نے نیچے اُترتے ہی اُن پر حملہ کر دیا اور ڈنڈوں اور پتھروں سے مار مار کر انہیں ( قربان ) کر دیا اور انہیں اینٹوں اور پتھروں کے بڑے بڑے ڈھیروں کے نیچے دبا دیا گیا.اس موقع پر میرے بیٹوں منیر احمد اور بشیر احمد کے علاوہ سعید احمد ، منظور احمد محمود احمد اور احمد علی بھی (قربان) ہوئے.سبھی کو ڈنڈے اور پتھر مار مار کر ( قربان ) کیا گیا.آپ بیان کرتی ہیں کہ اس قیامت کے گذرنے کا جب مجھے علم ہوا تو ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے لیکن گھر والوں نے رونے بھی نہ دیا کہ تمہارے رونے سے ہماری جان کو خطرہ لاحق ہے.ہماری حالت نا قابل بیان تھی.اُس وقت تو مجھے کچھ علم نہ تھا کہ میرے بیٹوں نے کیسے جان دی ہے اور اُن پر کیا گذری ہے بعد میں معلوم ہوا کہ بڑے ظالمانہ اور سفا کا نہ طریق سے اُنہیں مارا گیا.بڑا کڑا امتحان تھا.بیٹوں کے لئے رو بھی نہیں سکتی تھی.دل ودماغ میں غموں کا ایک طوفان تھا.آنسوزار و قطار بہہ رہے تھے لیکن کچھ کہنے سننے کی اجازت نہ تھی.آپ بیان کرتی ہیں کہ بعد میں جب حالات بدلے تو اُس گھر میں رہنے کو جی نہیں چاہتا تھا مگر اُس ویرانہ میں رہنا ہماری مجبوری تھی.پہلے بھی ہم بہت غمزدہ تھے دوسرے اہلِ محلہ نے ہمارا بائیکاٹ کر دیا.دوکانداروں نے سودا سلف دینا بند کر دیا.ہم تمام اشیاء بہت دور سے جا کر لاتے تھے.اہل محلہ ہمیں دیکھ کر رستہ بدل لیتے تھے.ان حالات سے ہمیں اور بھی اذیت پہنچی لیکن ہم نے صبر کا دامن نہ چھوڑا.یہ تو ہم سے
163 غیروں کا سلوک تھا لیکن اس موقع پر اپنے عزیزوں نے بھی منہ پھیر لیا برسوں کے طے شدہ رشتے توڑ دیئے اور ہمیں نصیحتیں کیں کہ اپنا مذہب چھوڑ دو جس نے سوائے بربادی کے کچھ نہیں دیا.لیکن ہم نے اُن سب کو چھوڑ دیا اور ہر قدم پر اپنے ایمان پر مضبوطی سے قائم رہیں.ان حالات میں صبر کرنا ناممکن دکھائی دیتا ہے.راضی برضا ر ہنے کے لئے اور صبر اختیار کرنے کے لئے بھی اللہ کی مدد کی ضرورت ہے اس لئے ابھی سے ہر آئندہ وقت کے لئے امن کے زمانوں میں دعائیں کرنی چاہئیں کہ اگر اللہ کسی کو آزمائش میں ڈالنے کا فیصلہ فرمالے تو ہمیں بھی توفیق عطا فرمائے کہ ہمارے سر اُس کے حضور میں خم رہیں اور دل ہر حال میں راضی برضا ر ہے اور ہمیں صبر کے اعلیٰ نمونے پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائے.یہاں تک کہ خدا کی تقدیر ہمارے حق میں کہے کہ اللہ تمہارے ساتھ ہے اور اللہ تمہارا ساتھ کبھی نہیں چھوڑے گا.پھر حضورا نور رحمہ اللہ تعالیٰ نے مکرمہ نفیسہ سید صاحبہ بنت سید احمد علی صاحب کا واقعہ سنایا کہ وہ کہتی ہیں کہ :- جون 1974ء میں بھرے ہوئے ہجوم اور مولویوں کے جلوس نے بہت تباہی مچائی.گھروں کو جلایا.احمدی گھروں پر پتھراؤ کیا اس فساد میں ہم چار بہنیں اور امی جان حیران پریشان چھت پر چڑھیں تو اچا نک جلوس کی ایک ٹولی ہمارے گھر کی طرف بڑھی اور کہنے لگی یہ مرزائیوں کے مربی کا گھر ہے پہلے اسے آگ لگاؤ.میرے چھوٹے بھائی سید ولی احمد صادق اور میرے ابا جان سید احمد علی صاحب دونوں ہی ( بیت ) میں تھے اور ( بیت ) دشمنوں میں گھری ہوئی تھی وہ دونوں کسی نہ کسی طرح وہاں سے نکلے اور ہم چاروں بہنوں کو ایک قریبی احمدی محمود احمد صاحب امینی کے گھر چھوڑ آئے یہ عشاء کا وقت تھا.جب ہم چاروں بہنیں امینی
164 صاحب کے گھر پہنچیں تو دیکھا کہ دیگر احمدیوں کی لڑکیاں اور عورتیں بھی وہاں موجود تھیں.ہم چھت پر بیٹھ کر ایمان کی سلامتی اور احمدیت کی ترقی کی دعائیں کرتی رہیں.یکم جون کو تقریباً صبح کے پونے چار بجے پانچ رائفل بردار امینی صاحب کے گھر کی چھت پر آگئے جنہیں دیکھتے ہی مرد اور عورتیں چوبارہ کے کمروں میں چلے گئے.کمرے صرف دو تھے ایک میں مرد اور دوسرے میں عورتیں جمع ہو گئیں.حملہ آور سر پر آپہنچے اور اُن کی رائفلیں شعلے برسانے لگیں.آہ وفغاں کا شور بلند ہوا.گولیاں چلتی رہیں.دروازے ٹوٹنے کی آوازیں آرہی تھیں.ہم اپنے کمزور ہاتھوں سے دروازوں کو تھامتے رہے.اُس وقت ہماری حالت یہ تھی کہ ہم نہیں کہہ سکتے تھے کہ ہم اس دُنیا کو دوبارہ دیکھ سکیں گے یا نہیں؟ ہاتھ پاؤں میں خوف سے رعشہ طاری تھا اور ایسی کیفیت تھی جسے بیان کرنے کا حوصلہ نہیں.اچانک مردوں کی جانب سے دروازہ ٹوٹا جہاں محمود صاحب اور اُن کے نوجوان بھانجے اشرف صاحب تھے.چند لمحوں کے بعد اُن کی دلدوز چیخوں کی آواز کانوں کے پردے پھاڑتی ہوئی آئی ماموں بھانجا خاک و خون میں تڑپ رہے تھے ایسا منظر کہ جسے دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا تھا.محمود صاحب کی ٹانگ سے خون کے فوارے بہہ رہے تھے انکی اہلیہ چھت پھلانگ کر اپنے غیر از جماعت عزیزوں کے ہاں گئیں اور کہا کہ ہمارے گھر میں گولیاں برسائی جارہی ہیں.میرا میاں اور ان کا بھانجا زخمی حالت میں تڑپ رہے ہیں آپ ہی کچھ مدد کریں.مگر ان کا جواب یہ تھا کہ تمہارے ساتھ ہم اپنی جانیں کیوں گنوائیں.حملہ آور تو چلے گئے مگر زخمیوں کی چیخوں سے آسمان تھرارہا تھا.اُن کی یہ حالت دیکھ کر ضبط کی تمام ملیں چکنا چور ہوگئیں.ہم نے باہر آکر ان کے منہ میں پانی ڈالا اور پولیس سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا اور اُن کو صورت حال سے
165 آگاہ کیا.مگر پولیس تو ایسی چھپی کہ ڈھونڈ وتو اسکا نشان نہ ملے.اسی طرح گوجرانوالہ میں جب حکیم نظام جان صاحب کے بچوں کے گھر کو آگ لگائی گئی تو تمام اہل خانہ نچلی منزل پر تھے.یہ سب دوسری منزل پر چلے گئے.جلوس نے یہاں بھی پیچھا نہ چھوڑا اور دوسری منزل کو بھی آگ لگا دی.باہر نکلنے کے تمام راستے بند تھے.سڑک پر ہزاروں کا مجمع ہر طرح کے کیل کانٹوں سے لیس انکی بوٹیاں کرنے کو تیار کھڑا تھا.جب یہ بچے اور عورتیں تیسری منزل پر پہنچے تو وہ بھی آگ کی لپیٹ میں آگئی.سیٹرھیاں بھی جل گئیں.اب نیچے اُترنے کے لئے کوئی راستہ نہ تھا اور آگ بڑی تیزی سے پھیل رہی تھی بچے سہم کر بڑوں سے چمٹے ہوئے تھے.لیکن سبھی بے بس تھے اور دُعائیں کر رہے تھے.نیچے گلی میں ہجوم اس انتظار میں تھا کہ کب ؟ لوگ جل جائیں.یا چھلانگیں لگا ئیں تو ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں.اس موقع پر سامنے کے گھر والوں نے ہمدردی کی اور لکڑی کا ایک تختہ اپنے گھر کی چھت سے اُس جلتے ہوئے گھر کی چھت تک رکھا.یہ تختہ اتنا چوڑا بھی نہ تھا کہ ایک آدمی با آسانی اُس پر سے گذر سکے لیکن ایمان کی مضبوطی سے اُس خاندان کا ایک ایک بچہ اُس پر سے گزر گیا.حضور نے بتایا.مکرمہ سعیدہ افضل صاحبہ جو حضور کے عزیز دوست اور کلاس فیلو کرم محمد افضل صاحب کھوکھر ( قربان راہِ مولا ) کی اہلیہ ہیں وہ بیان کرتی ہیں شہادت سے چند روز پہلے کی بات ہے کہ افضل عشاء کی نماز پڑھ کر آئے تو میں بستر پر بیٹھی رو رہی تھی.دیکھ کر کہنے لگے سعیدہ کیوں رو رہی ہو؟ میں نے کہا کہ کتاب ”روشن ستارے“ پڑھ رہی تھی اور میرے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ کاش میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوتی اور میرا نام بھی کسی نہ
166 کسی رنگ میں کتاب میں آتا.اس پر افضل صاحب کہنے لگے یہ آخرین کا زمانہ ہے.اللہ کے حضور قربانیاں پیش کرو تو اولین میں شمار کی جاؤ گی.31 مئی کی رات احمدیوں کے خلاف فسادات شروع ہو گئے.ساری رات جاگ کر دُعائیں کرتے گزرگئی.مجھے یہ وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ اپنے شوہر اور بیٹے کے ساتھ یہ آخری رات ہے.یکم جون کو جلوس نے حملہ کر دیا.ہم عورتوں کو افضل صاحب نے ہمسایہ کے گھر بھیج دیا اور خود باپ بیٹے گھر پر ٹھہر گئے.سارا دن حملہ ہوتا رہا تو ڑ پھوڑ کی آوازیں آتی رہیں مگر ہمیں کچھ پتہ نہ تھا کہ باپ بیٹے کو ( قربان کر دیا گیا ہے اور ظالموں نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے.حضور نے بتایا کہ ظالموں نے پہلے بیٹے کو باپ کے سامنے (قربان) کیا اور اس درد ناک طریق پر ( قربان ) کیا کہ ایک غیر احمدی جو اُس مجمع میں شامل ہوا تھا وہ اس واقعہ کو دیکھ کر اپنے حواس کھو بیٹھا.پھر رفتہ رفتہ اُسے ہوش آیا تو اُس نے بتایا کہ جب افضل سے کہا گیا کہ مرزا غلام احمد کو گالیاں دو تو انہوں نے کہا کہ کیا تم مجھے اپنے بیٹے سے بھی کمزور ایمان والا سمجھتے ہو جس نے میرے سامنے اس بہادری سے جان دی ہے جب آخری وقت سسکتے ہوئے وہ پانی مانگ رہا تھا تو گھر پر جو عمارت کے لئے ریت پڑی تھی وہ اُس کے منہ میں ڈالی گئی.افضل صاحب نے کہا تم جو چاہو کر لو میں اپنے ایمان میں متزلزل نہیں ہوں گا.اس پر انہیں اور بھی دردناک طریق پر ( قربان ) کیا گیا پھر انہیں ننگا کر کے ان کی نعشیں تیسری منزل سے نیچے پھینک دی گئیں.یہ وہ بر بریت ہے جسکو بد بخت لوگ حضرت اقدس محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے ہیں.اس سے بڑی بے حیائی ( دینِ حق ) کے نام پر شاید کبھی نہ کی گی ہو...محترمہ صفیہ صدیقہ صاحبہ اہلیہ چوہدری منظور احمد صاحب
167 ( قربان راہ مولا ) لکھتی ہیں کہ :- جون 1974 ء میں جب حالات خراب ہوئے تو ایک مولوی کے کہنے پر میرے بیٹے مقصود احمد کو پولیس دوکان پر سے گرفتار کر کے لے گئی اور حوالات میں بند کر دیا.اگلے دن جلوسوں نے گھروں پر حملہ کر دیا.عورتوں کو ایک احمدی کے گھر جو بظاہر محفوظ تھا پہنچا دیا گیا.شام تک ہمیں کوئی خبر نہ ملی.بعض لوگوں نے بتایا کہ ہمارے گھروں کو جلوس نے آگ لگا دی ہے اور وہاں پر موجود تمام افراد زخمی ہو گئے ہیں.دشمنوں کو معلوم ہو گیا ہے کہ اُس گھر میں جہاں ہم نے پناہ لی تھی عورتیں چھپی ہوئی ہیں لہذا اس گھر پر بھی حملے کا خطرہ بڑھ گیا.ہم رات کے اندھیرے میں وہاں سے نکل کررا ہوالی چلی گئیں اُس وقت ہمیں کچھ علم نہ تھا کہ ہمارے پیاروں سے کیا بیتی ہے.اگر وہ زخمی ہیں تو کہاں ہیں؟ اس وقت شام کو جب ایک ٹرک چھ شہیدوں کی لاشوں کو لے کر راہوالی پہنچا میرے تو اسوقت ہمیں پتہ چلا کہ ہمارے پیارے تو (قربان) ہو چکے ہیں.میاں منظور احمد ، بیٹا محمود احمد اور داماد سعید احمد تو (قربان) ہو چکے تھے.چھوٹا بیٹا شدید زخمی تھا اور بڑا بیٹا حوالات میں بند تھا اُسے اپنے گھر والوں کی کچھ خبر نہ تھی کہ اُن پر کیا قیامت گزرگئی ہے.تفصیلات بیان کرتے ہوئے صفیہ صدیقہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ (ایک سپاہی کا بیان ) یکم جون کو سول لائن میں ایک گھر کی چھت پر جو معرکہ میں نے دیکھا وہ آج سے چودہ سو سال پہلے صرف تاریخ ( دینِ حق ) میں پڑھنے کو ملا تھا کہ کس طرح صحابہ ( دین حق ) پر جان نثار کرتے تھے.اس سپاہی نے کہا کہ میں اُس لڑکے کو کبھی نہ بھلا سکوں گا جس کی عمر بمشکل سترہ (17) اٹھارہ (18) برس ہوگی سفید رنگ لمبا قد اُس کے ہاتھ میں بندوق تھی ( یہ حلیہ محترمہ صفیہ صدیقہ کے بیٹے محمود احمد طاہر کا تھا ) ہمارے ایک ساتھی نے جاتے ہی اُس کے ہاتھ پر ڈنڈا مار کر بندوق چھین
168 لی.جلوس اُس لڑکے پر تشدد کر رہا تھا جلوس میں سے کسی نے کہا مسلمان ہو جاؤ کلمہ پڑھ لو تو اُس نے کلمہ پڑھا اور کہا کہ میں سچا احمدی ہوں مومن ہوں جلوس میں سے کسی نے کہا مرزا کو گالیاں دو اُس لڑکے نے اپنے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا کہ میں نے کبھی گالی نہ دی ہے اور نہ سنی ہے اور تم مجھے اس ہستی کو گالیاں دینے کو کہہ رہے ہو جو اس جان سے بھی پیارا ہے اور ساتھ ہی اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام زندہ باد، احمدیت زندہ باد کا نعرہ لگایا، نعرہ لگانے کی دیر تھی کہ جلوس نے اُس لڑکے کو چھت پر سے اُٹھا کر نیچے پھینک دیا.اینٹوں اور پتھروں کی بارشیں تو پہلے ہی اُس پر ہو رہی تھیں مزید چھت پر بنے پردے کی جالیاں تو ڑ کر اُس پر پھینکیں اور اُس لڑکے نے میرے سامنے اپنی جان نثار کر دی.صفیہ صدیقہ صاحبہ اپنے بیٹے محمود احمد ( قربان راہِ مولا) کے بارے میں لکھتی ہیں کہ میرا بیٹ محمد نہایت خوبصورت ،خوب سیرت اور پاک طینت تھا.پانچ وقت کا نمازی ، دعوت الی اللہ کا دھنی تھا.حضور نے ایک اور واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ مکرمہ رشیدہ بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ :- کیا..میرے شوہر قریشی محمود احمد صاحب ( قربان راہِ مولا ) کو ( قربانی) کا شوق تھا.1974ء میں جب مخالفت زوروں پر تھی تو ہر موقعہ پر ثابت قدمی کا مظاہرہ 1982ء میں اُن کے ماموں زاد بھائی مقبول احمد کو پنوں عاقل میں (قربان) کر دیا گیا.تو کہا اے مقبول یہ رتبہ خوش نصیبوں کو حاصل ہوتا ہے کاش مجھے بھی یہ رتبہ حاصل ہو اور میں بھی ربوہ میں آؤں..پولیس نے زمین بیچ کر انہیں کہیں اور چلے جانے کا مشورہ دیا تو آپ نے جواب دیا کہ مخالفت تو ہر جگہ ہے اگر مجھے (قربانی) ملنی ہے تو کہیں بھی مل سکتی ہے.ہمارے بیٹے اسکول
169 کرتے.جاتے تو مولویوں کے کہنے پر لڑ کے ان پر پتھر مارتے اور اساتذہ بھی سختی ہر قسم کے حربے آزمائے گئے تمام ظلم روا ر کھے گئے مگر قریشی محمود صاحب ثابت قدم رہے..ایک دن ایک دوست کو ملنے گئے.چودہ (14) سالہ بیٹا بھی ساتھ تھا واپسی پر تین آدمیوں نے اچانک گلی سے نکل کر آپ پر فائر کر کے (قربان) کر دیا.میری بچیوں کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے کہ ہمارے والد نے شہادت کا رتبہ حاصل کیا.پہلی احمدی شهید خاتون: حضور نے ان دردناک واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ مکرمہ رخسانہ طارق صاحبہ جون 1986ء کو عید کے دن (قربان راہِ مولا) ہوئیں.رُخسانہ نے عید کی نماز پر جانے کا ارادہ ظاہر کیا.طارق کے بڑے بھائی نے جو غیر احمدی تھا مخالفت کی اور ڈانٹ کر منع کر دیا.وہ طارق سے کہنے لگی کہ ہم ربوہ چلے جاتے ہیں.یہ پابندی اُس پر بہت گراں تھی.پھر وہ پرانے کپڑوں میں عید کی نماز پڑھنے چلی گئی.حالانکہ شادی کے بعد یہ اُس کی پہلی عید تھی.عید کی نماز میں وہ بہت روئی اور واپسی میں آتے ہوئے وہ بہت خوش تھی.سب کے لئے ناشتہ تیار کیا.اُس کے خاوند بتاتے ہیں کہ میں حیران تھا کہ آج اتنی خوش کیوں ہے.وہ گھر میں سب کو خوشی خوشی ملی.ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہ اُس کے آخری لمحات ہیں.طارق کا بڑا بھائی گھر آیا.آتے ہی گولی چلائی اور وہ ( قربان ) ہو گئی.طارق صاحب کہتے ہیں کہ مجھے اکثر کہا کرتی تھیں کہ میں جب اللہ کو پیاری ہو جاؤں تو مجھے پہاڑوں کے قریب دفن کر دینا.چنانچہ ربوہ کے پہاڑوں کے دامن
170 میں ہی دفن ہوئیں.محترمہ شمیم اختر صاحبہ اہلیہ مقبول احمد صاحب ( قربان راه مولا بیان کرتی ہیں کہ میرے شوہر مقبول احمد صاحب نے 1967ء میں بیعت کی تھی.احمدیت قبول کرنے کے بعد مولوی آپ کو بہت تنگ کرتے تھے اور دھمکیاں دیتے تھے.آپ کا لکڑی کا ایک آرا تھا.ایک دن ایک نقاب پوش شخص لکڑی خرید نے کے بہانے سے آیا اور خنجر نکال کر آپ پر پے در پے وار کر کے ( قربان ) کر دیا.شوہر کی شہادت پر سسرال والوں نے کہا احمدیت چھوڑ دو تو ہم تمہیں پناہ دیں گے.دشمن بھی دھمکیاں دیتے تھے کہ احمدیت چھوڑ دو اور ہمارے ساتھ مل جاؤ.ہم تمہیں سینے سے لگا ئیں گے لیکن آپ نے ان سب باتوں کو ر ڈ کر دیا اور کسی قیمت پر احمدیت چھوڑ نا گوارا نہ کیا جس کی خاطر آپ کے شوہر نے جان دی تھی.محترمہ مریم سلطانہ صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر محمد احمد خان صاحب بیان کرتی ہیں کہ میں اپنے خاوند اور چار بچوں کے ساتھ ضلع کوہاٹ کے علاقہ ٹل میں مقیم تھی.اس علاقہ میں کوئی احمدی گھرانہ نہ تھا.1953ء کے فسادات میں وہاں مخالفت کی آگ بہت بھڑک اٹھی.مخالفین میرے خاوند کو دھوکہ دے کر لے گئے اور غیر علاقہ میں جا کر (قربان) کر دیا.جب آپ کو شہادت کی خبر ملی تو اردگرد کوئی بھی آپ کا دوست نہ تھا.سب مخالف تھے.اپنے آپ کو دلاسا دیا اور ہمت کر کے بچوں کو خدا کے سپر د کر کے اپنے میاں کی لاش تلاش کرنے کے لئے نکل کھڑی ہوئی.جس قسم کے حالات تھے لاش کا ملنا ممکن نہ تھا.آپ لاش تلاش کرتی پھرتی تھیں.اور شہر کے لوگ اُن کے قتل پر خوشیاں منا رہے تھے.آپ نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا.کوئی آپ کے غم میں آپ کا ساتھی نہ تھا.آخر آپ نے نعش حاصل کر لی اور ٹرک کا انتظام کیا.نعش کو ٹرک میں رکھ کر
171 چاروں بچوں کو لے کر ربوہ روانہ ہو گئیں.سیکیوں اور آہوں میں زیرلب دعائیں کرتی رہیں.لوگ آپ کا بلند عزم ،حوصلہ اور صبر وتحمل دیکھ کر حیران ہوتے تھے.آپ کے شوہر کی دوکان لوٹ لی گئی.قاتل وہاں دندناتا پھرتا تھا لیکن کوئی بھی اُسے پکڑنے والا نہ تھا.لیکن خدا کی پکڑ بڑی سخت ہوتی ہے.وہ پاگل ہو گیا اور دیوانگی کی حالت میں گلیوں میں نیم برہنہ پھرتا تھا اور کچھ عرصہ نظر آنے کے بعد کہیں گم ہو گیا اور وہ شخص جو مریض کے بہانے ڈاکٹر صاحب شہید کو بلانے آیا تھا.وہ بھی اپنے بھائی کے ہاتھوں بیوی بچوں سمیت قتل ہو گیا.حضور نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ظالموں کی پکڑ ضرور ہوتی ہے خواہ ہم ان باتوں کا تتبع کریں یا نہ کریں.جماعت کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے اور خدا کی راہ میں (قربان) ہونے والوں سے خدا نے جو سلوک کیا اور اُن کے دُشمنوں سے جو سلوک کیا اُس پر نظر رکھیں اور تحقیق کے ذریعے مستند واقعات محفوظ کئے جائیں.پھر حضور نے اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر منور احمد صاحبہ ( قربان راہِ مولا) سکرنڈ کا واقعہ بیان فرمایا.وہ بیان کرتی ہیں کہ :- ڈاکٹر صاحب کی (قربانی) سے قبل ان کی اہلیہ نے خواب میں دیکھا کہ میری سونے کی چوڑیوں میں سے ایک چوڑی ٹوٹ کر گر گئی ہے اور ساتھ ہی بہت بڑا ہجوم ہے اور عورتیں باری باری میرے گلے لگ کر رو رہی ہیں اور میں سمجھ نہ سکی کہ وہ کیوں رو رہی ہیں.صبح اُٹھ کر پریشان رہی ،صدقہ دیا مگر یوں محسوس ہوا کہ جسم میں سے جان نکل گئی ہے.ڈاکٹر صاحب کو خواب سنائی تو کہنے لگے اللہ پر بھروسہ رکھو جو رات قبر میں آنی ہے وہ ہر گز با ہر نہیں آئے گی.بہت بہادر تھے اور کہا کرتے تھے کہ (قربانی) ہر کسی کو نہیں ملتی.یہ نصیبوں والوں کا حصہ ہے.کاش یہ رتبہ مجھے بھی نصیب ہو.سکرنڈ کے حالات خراب ہوئے تو مجھے کہنے لگے کہ ربوہ چلی جاؤ مگر میں نہ
172 مانی اور کہا کہ آپ کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گی.جب شہادت کا دن آیا تو کلینک میں دو آدمی آئے اور آپ کو گولی مار کر ( قربان ) کر دیا.بیان کرتی ہیں کہ شدید گرمی میں پونے تین بجے کے قریب تینوں بچے سوئے ہوئے تھے کہ اچانک اٹھ کر چیچنیں مارنے لگے.میں پہلے ہی بے چین تھی کہ اتنے میں کمپوڈر روتا ہوا آیا اور بتایا کہ ڈاکٹر صاحب کو کسی نے گولی مار دی ہے.بہت ہجوم اکٹھا ہو گیا.پولیس آئی اور لاش لے گئی.ایک غم کا پہاڑ مجھ پر ٹوٹ پڑا.بڑی تکلیف میں یہ دن کئے بچے پوچھتے ہیں تو میں اُن کو سمجھاتی ہوں کہ تمہارے ابوکوشہادت کا شوق تھا وہ انہیں نصیب ہوگئی.مکرمہ ثریا صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ وہ گوجرانوالہ میں علی پور میں رہتی تھیں.1974ء کے ہنگاموں میں جب وہاں پر جلوس نکلے تو ایک رات پانچ چھ آدمی ہمارے گھر آگئے.میری تائی جان نے پوچھا تم کیا چاہتے ہو تو انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے گھروں کو اور تم کو جلانا چاہتے ہیں.میری تائی جان نے اُن سے کہا کہ بیشک ہمارے گھروں کو جلا دو لیکن ہمیں یہاں سے نکل جانے دو.اتنے میں میرے بہنوئی عنایت صاحب بھی آگئے.اُنہوں نے میرے بہنوئی اور میرے والد غلام قادر صاحب کو پکڑ لیا.میرے سامنے اُن کو ز بر دستی گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے.اکیلی عورت تھی کچھ نہ کر سکتی تھی.اور میرے دیکھتے دیکھتے اُن دونوں کو گولیاں مارکر ( قربان ) کر دیا.اللہ نے مجھے صبر کی توفیق بخشی.دو ماہ بعد میری والدہ بھی وفات پاگئیں.بہت تکلیف دہ حالات تھے.مگر اللہ نے ہر موقع پر ثابت قدم رکھا.محترمہ امۃ اللہ صاحبہ اور امتۃ الرشید صاحبہ بنت ڈاکٹر عبدالقدیر جدران صاحب ( قربان راہِ مولا ) بیان کرتی ہیں کہ 1984ء میں جب حالات خراب ہوئے تو آپ کو کئی دفعہ دھمکی آمیز خط آئے کہ ہم تمہیں قتل کر دیں گے.لیکن آپ کو ان دھمکیوں سے کوئی خوف اور ڈر نہ تھا بلکہ نماز تہجد میں
173 (قربانی) کی دُعا مانگا کرتے تھے.آخر ایک روز ایک شخص مریض بن کر آیا اور مسیحا کی جان لے لی.اُس نے کئی فائر کئے اور ڈاکٹر صاحب نے اُسی وقت شہادت کا عظیم درجہ حاصل کر لیا.آب زم زم سے دُھلے ہوئے دوکفن مکہ سے لائے تھے.اُن کی خواہش تھی کہ اُن میں اُن کو کفنایا جائے.اصولاً شہید کو کفن نہیں دیا جاتا مگر ڈاکٹر صاحب کے کپڑے خون میں لت پت تھے.جو پولیس نے لے لئے اور ڈاکٹر صاحب پر وہی کفن والی چادر ڈالی گئی.مکرمہ امۃ الحفیظ شوکت اہلیہ ڈاکٹر انعام الرحمان صاحب انور ( قربان راہِ مولا ) بیان کرتی ہیں کہ جب ایک دن لوگوں نے آپ کو حالات خراب ہونے اور اس کے نتیجے میں خطرات سے آگاہ کیا تو آپ نے یہ کہہ کر علاقہ چھوڑنے سے انکار کر دیا کہ پھر تو یہ علاقہ احمدیت سے خالی ہو جائے گا.آپ کے بہن بھائیوں اور عزیز واقارب نے سندھ چھوڑنے کا مشورہ دیا.مگر اس وقت بھی حامی نہ بھری.بلکہ کہنے لگے کہ شاید سندھ کی سرز مین میرا خون مانگتی ہے اور پھر سینے پر ہاتھ مار کر کہنے لگے کہ میں اس کے لئے تیار ہوں.ڈاکٹر صاحب مجھے کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ جیسی دردمند، محبت کرنے والی اور دین کی راہوں پر قدم مارنے والی ساتھی عطا کی ہے.آخری دن جب ہم دونوں بازار گئے ہوئے تھے تو ایک دوکان پر مجھے انتظار کرنے کے لئے کہا اور ساتھ ہی ایک اسٹول لا کر رکھ دیا کہ آپ یہاں بیٹھیں.یہ گوارا نہ تھا کہ میں بے آرامی میں کھڑے ہو کر انتظار کروں.ساتھ ہی گوشت کی دوکان تھی ڈاکٹر صاحب گوشت لے کر پیسے نکالنے لگے تو پیچھے سے اچانک دشمنوں نے حملہ کر دیا اور آپ موقع پر ہی ( قربان راہِ مولا ) ہو گئے.آپ کی لاش خون میں لت پت تھی.ان کی شہادت کا منظر بڑا دردناک تھا.میرے سامنے تڑپتے تڑپتے جان دی.اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل
174 سے مجھے صبر کی تو فیق دی.سیہ وہ داستانیں ہیں جن سے احمدیت زندہ ہے.شہید خود بھی زندہ ہوتے ہیں اور اُن قوموں کو بھی زندہ کر جاتے ہیں جن سے وہ وابستہ ہوتے ہیں.اُن کی زندگی کی گواہی جو قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے.اُس کے ہم سب گواہ ہیں.حقیقت میں شہیدوں کی زندگی سے قو میں زندگی پا یا کرتی ہیں..جو شہید کا مرتبہ پانے والے ہیں وہ بھی مرنہیں سکتے.آسمان کا خدا گواہ ہے کہ آپ ہمیشہ کے لئے زندہ ہیں اور آپ ہی کی زندگی سے آپ کے بعد پیچھے رہنے والی قومیں زندہ رہیں گی.اور اسی کا فیض پاتی رہیں گی.(ماخوذ از مصباح اکتوبر 1994ء صفحہ 5 تا16) حضور انور نے 26 اگست 1994 ء کو جرمنی کے سالانہ جلسہ میں مستورات سے خطاب فرماتے ہوئے فرمایا:- مگر مه نسیم لطیف صاحبہ جمال پورسندھ سے لکھتی ہیں کہ 24 یا25 مئی 1985ء کا دن تھا کہ عصر کی نماز کے بعد ہماری گوٹھ جمال پور کو سکھر کی پولیس نے گھیرے میں لے لیا اور میرے شوہر لطیف صاحب اور آپ کے والد کو بھی گرفتار کر کے لے گئے اور کہا کہ جب تک ایوب نہیں ملتا آپ دونوں ہماری حراست میں رہیں آخر جب ایوب پکڑا گیا تو اُس کو ساری رات اُلٹا لٹکاتے تھے.اور ساتھ ڈنڈوں اور جوتوں سے مارتے تھے اور جھوٹ بولنے پر مجبور کرتے تھے کہ بتاؤ وہ کون ہے جس نے مولویوں کے مدرسے کو آگ لگائی تھی.یا بم پھینکا تھا.تو جب وہ کہتا کہ مجھے علم نہیں تو پھر مارنا شروع کر دیتے.یہاں تک کہ وہ بے ہوش ہو جاتا.بعد میں جب ایوب سے میں نے پوچھا کہ تم اتنی اذیت برداشت کس طرح کرتے تھے؟ تو اُس نے بتایا کہ آپ کو سُن کر جتنی تکلیف ہو رہی ہے مجھے اُس سے کم ہورہی تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسا فضل کر دیا تھا کہ باوجود اُلٹا لٹکنے کے اور شدید زدوکوب کے
175 تکلیف کا احساس معمولی تھا.پولیس والے بھی حیران ہوتے تھے کہ اس قدر اذیت دینے کے باوجود اس کو کوئی اثر نہیں ہورہا.تو دراصل یہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بعض دفعہ خدا اُس وقت غیر معمولی طور پر انسان کی حفاظت فرماتا ہے.یہی بات 1974ء کے فسادات میں بھی ایک احمدی نے بتائی جس کو اینٹوں سے کوٹا گیا تھا.اُن کا منہ کرچیوں کا ایک تھیلا بن گیا تھا.ہڈیاں، دانت ٹوٹے اور بہت دردناک حالت تھی.خدا نے بچالیا.بعد میں جب سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہو گیا تو تب بھی اُن کا منہ زخموں سے اسی طرح بگڑا ہوا تھا.اُن سے میں نے ایک دفعہ پوچھا کہ مجھے بتا ئیں اُس وقت آپ کی حالت کیا تھی.جب اس قدر خوفناک سزادی جا رہی تھی.اینٹوں سے منہ کو شنا کوئی معمولی بات تو نہیں تو مسکرا کر کہا چپ ہی کر جائیں.لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ میں نے بڑی قربانی کی ہے مگر مجھے تو کچھ بھی نہیں پتہ لگا اور اُس وقت مجھے سمجھ آئی کہ لوگ شہادت کی دعائیں کیوں کیا کرتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہو کر تکلیفیں اُٹھا کر، زخم کھا کر ، پھر کیوں شہادت کی دُعائیں کیا کرتے تھے.خدا اپنے فضل کے ساتھ ایسی تائید فرماتا ہے کہ انسان کو شدید زخموں کے باوجود وہ دُکھ نہیں ہوتا جو دشمن سمجھتا ہے کہ ہم اسے پہنچارہے ہیں.اب میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہر زخمی ہونے والے کی یہی کیفیت ہوگی مگر یہ ایسی دو گواہیاں ہیں جن کا میں خود گواہ ہوں اور بلا تکلف اُنہوں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے موقع پر ہماری حفاظت فرماتا رہا ہے.نسیمہ صاحبہ لکھتی ہیں کہ ہم نے اپنے گھروں کے خود پہرے دیئے.لطیف صاحب اور اُن کے والد صاحب کے علاوہ 27 دیگر احمدیوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا.سکھر کے حالات سنگین تر ہوتے گئے.گیارہ احمدی (قربان راہِ مولا) ہو گئے.ان حالات میں سکھر کونئی قیادت کی ضرورت تھی.وہ کہتی ہیں کہ دین کو پیش کرنے کے لئے اُس وقت میرے پاس کوئی چیز نہیں تھی سوائے لطیف صاحب
176 کے! اور میں نے دُعا کی کہ اللہ تعالیٰ یہ توفیق دے کہ میں اپنا پیارا خاوند دین کے لئے پیش کر دوں.کہتی ہیں ایسی میری یہ دعا قبول ہوئی کہ اُن شدید خطرات کے دنوں میں جبکہ سکھر جانا ہی ایک احمدی کے لئے خطرے کا موجب تھا اُن کے میاں کو سکھر کا امیر مقرر کر دیا گیا اور اُن کو اپناز میندارہ چھوڑ کر سکھر جانا پڑا اور نسیمہ صاحبہ بھی اُن کے ساتھ ہی گئیں.کیونکہ میں اُس زمانے میں اُن سب لوگوں سے رابطے رکھتا تھا اور میری خدمات میں اولین خدمت ان حادثات سے متاثر ہونے والوں کے لئے وقف تھیں.اس لئے میں جانتا ہوں.اُن کے ساتھ میرا مسلسل رابطہ رہا.بڑے حوصلے سے نسیمہ، اُن کے والد اور لطیف کے والد پھر اُن کے بچوں نے غیر معمولی بہادری اور ہمت سے احمدیت کی خاطر اپنے دوسرے مظلوم بھائیوں کی حفاظت کی اور اُن کے مقدمے لڑے اور اُن کی ضرورتیں پوری کیں اور اللہ تعالیٰ نے پھر اپنے فضل سے اُن کو بھی خطرات سے بچالیا.ایک دفعہ انہوں نے مجھے لکھا کہ ہمارے گھروں کے او پر موت کے نشان لگ چکے ہیں اور حملہ آور آتے رہتے ہیں اور ہمیں متنبہ کر دیا گیا ہے کہ تمہاری زندگی کے چند دن رہ گئے ہیں اور ساتھ ہی مجھے تسلی دی کہ آپ بالکل مطمئن رہیں.ہمیں کوئی خطرہ نہیں جو منصب جماعت نے ہمارے سپرد کیا ہے ہم اس پر قائم رہیں گے.پس اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اُن کو منصب پر بھی قائم رکھا اور اُن کی حفاظت بھی کی.یہ خود بیان کرتی ہیں کہ ایک دن گیٹ پر ایک نامعلوم خط پڑا دیکھا.ایسے خطوط پہلے گیارہ (قربان راہِ مولا) ہونے والوں کو بھی لکھے گئے تھے.کہ تو بہ کر لو ور نہ تمہیں فلاں فلاں وقت ختم کر دیا جائے گا اور عین اُسی طرح ہوتا اور وقت مقررہ پر اُن کو ( قربان راہِ مولا ) کر دیا جاتا.خط دیکھ کر دکھ کی شدت سے میرا جسم کانپ رہا تھا.میں نے انتہائی گریہ وزاری سے اپنے مولا کے حضور التجا کی کہ
177 باری تعالیٰ اتنی جلدی ! تین چار سال تو ہمیں خدمت کا موقع دیا ہوتا.اللہ نے ہی پھر حفاظت فرمائی اور وہ خط بے اثر ہو گیا.محترمه خورشید بیگم صاحبہ اہلیہ محمد زمان صاحب لکھتی ہیں کہ میں نے احمدیت کی راہ میں شروع سے بہت تکلیفیں اٹھائی ہیں.بہت ظلم برداشت کئے ہیں.ہماری رہائش چنیوٹ میں تھی.ایک دفعہ جلوس کی شکل میں مخالفین اکٹھے ہو کر آ گئے اور گھر کو آگ لگانے کی کوشش کی.ہمسایوں نے بڑی بہادری سے ہمارا دفاع کیا اور اللہ نے ہمیں اپنے فضل سے محفوظ رکھا.حضور فرماتے ہیں:- میں دیکھ رہا ہوں کہ آئندہ چند سالوں میں عظیم انقلاب رونما ہونے شروع ہو جائیں گے اور ملکوں کے ملک اور قوموں کی قومیں انشاء اللہ احمدیت میں داخل ہوں گی لیکن آپ یا درکھیں کہ یہ ساری باتیں اُن احمدی مظلوموں کی آہوں کا شمرہ ہیں، اُن مارکھانے والے بچوں کی بلکتی دعاؤں کا ثمرہ ہیں ، اُن سسکیوں کا ثمرہ ہیں جو ماؤں نے لیں جو اپنے بچوں اور بچیوں کے زخمی ہاتھوں کو دیکھ کر کچھ نہیں کر سکتی تھی.ہم بھول سکتے ہیں ان باتوں کو اور بسا اوقات تو میں اپنی ایسی دردناک تاریخ کو بھلا بھی دیا کرتی ہیں مگر خدا نہیں بھولتا.اُس کی قربانی کرنے والے کی ایک ایک ادا پر نظر ہوتی ہے اُس کی ایک ایک سانس کی قیمت ادا کرتا ہے.ہر دُکھ کے بدلے احسانات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کر دیتا ہے.پس اب جو فضل جماعت پر ہورہے ہیں اور یہاں آنے کے بعد جو آپ لوگوں کی کایا پلٹی ہے تو ہمیشہ ان مظلوموں کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں جنہوں نے عظیم قربانیاں پیش کیں مگر اپنے ایمان کو بچایا اور راہ صداقت پر ثابت قدم رہے ان عورتوں کی قربانیاں بھی ہمیشہ انشاء اللہ احمدیت کی تاریخ میں زندہ رہیں گی اور اس لائق ہیں کہ زندہ رکھی جائیں.امر واقعہ یہ ہے کہ تمام مذاہب کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ جس جگہ
178 بھی ، جس ملک میں بھی ، جس قوم میں بھی خدا کے پیغام نے ترقی کی ہے، خدا والوں نے ترقی کی ہے وہاں ضرور شدید رد عمل ظاہر ہوتا ہے.آج نہیں تو کل ایسا ہو گا.اُس وقت کی تیاری کے لئے اپنے بچوں کو ، اپنی نسلوں کو ان قربانیوں کے تذکرے، قصے سناتی رہیں.اُن کے دلوں میں عزم پیدا کرنے کے لئے ڈرانے کے لئے نہیں، حکمت کے ساتھ اور پورے عزم کے ساتھ ، آپ کے تذکرے اُن کے دل میں خوف نہیں بلکہ قربانی کے لئے ولولے پیدا کریں.نئے جوش سے اُن کو بھر دیں اور وہ اپنے آپ کو ہمیشہ اس بات کے لئے تیار پائیں کہ خدا کی خاطر جو بھی سرزمین خون مانگے گی وہ اپنا خون پیش کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہیں گے.اگر احمدی مائیں اس نصیحت پر عمل کریں تو پھر احمدیت کو دنیا میں کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچا سکتی کیونکہ ایسی عظیم مائیں ہی ہیں جو اپنے دُودھ میں بچوں کو قربانیوں کی تمنائیں پلاتی ہیں ،شہادت کی آرزوئیں پلاتی ہیں اور صبر واستقامت کے راز پلاتی ہیں اور ایسی ماؤں کے بچے ہمیشہ قوموں کی زندگی کا موجب بنا کرتے ہیں.یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب شہید بھی ہو جائیں تو اُن کو مردہ نہ کہو کیونکہ وہ ہمیشہ کے لئے زندہ کر دئے گئے ہیں.6 الفضل انٹر نیشنل 10 تا 16 نومبر 1995) احمدی خواتین کے کثرت سے اس دعا کے لئے حضور کی خدمت میں خط آتے ہیں کہ انہیں خدا کی راہ میں جانی قربانی کی سعادت نصیب ہو.انہیں مخاطب کرتے ہوئے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: - احمدی خواتین قربانیوں میں ہرگز اپنے مردوں سے پیچھے نہیں ہیں.وہ بیوگان جو پیچھے رہ گئی ہیں ، اُن کے متعلق یہ گمان کرنا کہ وہ قربانی کے ثواب سے محروم رہ گئیں.یہ غلط خیال ہے.مردوں کو خدا کی راہ میں جانی قربانی کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی عظمت کے اندران بیواؤں کی عظمت بھی شامل ہوتی ہے.اسی طرح سب
179 مائیں جن کے بیٹے اور بہنیں جن کے ویر خدا کی راہ میں مارے گئے یہ سب قربانیوں میں شامل ہیں اور عورتیں ہرگز قربانیوں میں مردوں سے پیچھے نہیں ہیں.“ خطبہ جمعہ فرمودہ 20 / جون 1986ء) محتر مہ رخسانہ صاحبہ کے علاوہ مندرجہ ذیل احمدی خواتین نے بھی راہِ وفا میں جان کا نذرانہ پیش کیا:- -1 -2 -3 -4 اہلیہ محترمہ حاجی میراں بخش صاحب انبالہ اگست 1940ء محترمہ رشیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ قاری عاشق حسین صاحب سانگلہ ہل ور اگست 1978ء محترمہ ایڈوٹ صاحبہ جماعت چیانڈرم، انڈونیشیا اندازاً 1948ء محتر مہ اویسہ صاحبہ جماعت چیانڈرم، انڈونیشیا اندازاً 1950ء (ماخوذ از مجله صد ساله جشن تشکر لجنہ اماءاللہ ربوہ صفحہ 81) -5- مکرمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم محمد سلیم بٹ صاحب چونڈہ پاکستان کے بارے میں الفضل 19 جون 1999 ، صفحہ 1 کالم 4 پر لکھا ہے:." آپ 2 مئی کو دعوت الی اللہ کے سلسلہ میں قریبی گاؤں ڈوگراں گئی تھیں.ایک نو مبائع مکرم عابد صاحب کے گھر میں بیٹھی تھیں کہ ایک مخالف نے چھری سے وار کر کے شدید زخمی کر دیا.ہسپتال میں 13 بوتلیں خون دیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکیں اور ورمئی 1999 ء کو خدائے تعالیٰ کی راہ میں قربان ہوگئیں.“ شہدائے احمدیت میں ڈاکٹر نسیم با بر صاحب ( جو اسلام آباد یونیورسٹی میں فزکس کے پروفیسر تھے ) بھی مذہبی تعصب اور ( دینِ حق ) کے نام لیواؤں کی سنگدلی کا شکار ہوئے.سب سے بڑا بچہ 8 سال کا دوسرا 6 سال کا اور تیسرا صرف 2 سال کا تھا جب انسان نما بھیڑیوں نے اُن کے باپ کو اور باپ کی انمول شخصیت کو ہمیشہ کے لئے اُن سے چھین لیا.مکرمہ بیگم نسیم بابر نے اپنے تاثرات کو قلم بند کیا ہے.اُس جوان
180 بیوہ نے جس صبر ورضا کا نمونہ دکھایا ہے شاذ ہی ایسے دلگد از مواقع پرممکن ہے.اپنے مضمون کی ابتداء میں قاتلوں کا بے وقت گھر کے اندر آ کر کلاشنکوف کے فائر کر کے ڈاکٹر نسیم بابر کو خون میں نہلا نا اور پھر ہسپتال لے جانے سے لے کر وفات کا تذکرہ کیا ہے.پھر اسپتال سے گھر آکر بچوں کا خیال.لکھتی ہیں :- میں ساری رات بچوں کے کمرے میں اُن کے سرہانے بیٹھی رہی اُس وقت مجھے یہ احساس تھا کہ گھر میں غیر معمولی کیفیت دیکھ کر روتی آنکھوں اور چیخوں سے وہ خوفزدہ نہ ہو جائیں.صبح معمول کے مطابق بچے اُٹھے.بیٹے سنی نے مجھے خلاف معمول سرہانے پا کر ایک دم پوچھا امی پاپا کہاں ہیں؟ میں نے بہت آہستہ سے دونوں بچوں کو سمجھایا کہ رات آپ کے پاپا اللہ میاں کے پاس چلے گئے ہیں کیونکہ اُن کی عمر ختم ہو گئی تھی.ہمیں بھی اپنی عمر ختم کر کے اللہ میاں کے پاس جانا ہے.پھر میں نے انہیں بتایا کہ آپ کے پاپا اللہ میاں کی راہ میں قربان ہو گئے ہیں وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے.یہ آپ کی خوش قسمتی ہے.گھبرانے والی بات نہیں.دونوں بچے جو پہلے رو پڑے تھے آنسو پونچھ کر مسکرانے لگے اور گھر میں آئے ہوئے لوگوں سے ملنے لگے.بابر کو بڑے اعزاز سے ربوہ میں دفن کی گیا.زندگی معمول پر آنے لگی اور اُس کے ساتھ ہی میرے اور میرے خدا کے درمیان وہ عجیب تعلق پیدا ہوا جو شاید میں پوری طرح الفاظ میں کھل کر بیان بھی نہ کر سکوں.اس تعلق کو سمجھنا بھی ہر ایک کے لئے ممکن نہیں.کیونکہ میں جانتی ہوں کہ جب تک یہ سب واقعہ مجھ پر نہیں گذرا تھا میں بھی بندے اور خدا کے درمیان اس خاص تعلق کو پوری طرح محسوس نہیں کر سکتی تھی.شاید مجھ جیسے لوگوں کے لئے ہی یہ کہا گیا ہے:.خدا مجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
181 ضمناً میں عرض کر دوں کہ بابر کی وفات پر میں نے کوئی غیر معمولی آہ و بکا نہیں کی.اللہ نے مجھے ہمت دی اور ایک بھی لفظ بے صبری یا شکوہ کا میرے منہ سے نہیں نکلا.نہ میں نے حواس کھوئے.نہ آواز بلند کی.میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں (قربان) ہونے والے کی بیوہ ہوں.یہ میرا اعزاز ہے.میں اللہ کی اس رحمت کو کیوں رسوا کرتی؟ یہ سب میرے اُو پر میرے رب کا فضل تھا ورنہ میں کیا کر سکتی تھی.اب میں اُس عظیم معجزے کی وضاحت کروں گی جو مجھ پر بابر کی وفات کے بعد گذرا.......عجیب بات ہے چند سال سے مجھے یہ احساس رہنے لگا تھا کہ خدا تعالیٰ کے مجھ پر بے شمار احسانات ہیں.ہر خواہش زبان پر آنے سے پہلے پوری ہو جاتی ہے.دل میں جیسے کوئی حسرت ہی نہیں تھی.نماز پڑھتی تھی کہ سب دوسروں کے لئے مانگتی ہوں لیکن اپنے لئے کیا مانگوں؟ پھر یہ عادت بن گئی کہ نماز میں دو دعائیں لازم ہوتی تھیں کہ خدایا بابر کو میری زندگی میں ہمیشہ سلامت رکھنا اور اے اللہ اگر آزمائش آئے تو اس میں سے گذرنے کی ہمت دینا.اب سوچتی ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ دونوں ہی دعائیں پوری ہوگئیں.خدا نے بابر کو وفات دے کر بھی زندہ رکھا اور آزمائش کو بڑی کڑی تھی.لیکن خدا نے اس میں سے اس طرح گزارا کہ میں اُس کی رحمتوں کی پہلے سے زیادہ شکر گزار ہوگئی.میرے عزیز اور باقی احباب میرے صبر کو سراہتے ہیں.ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے کچھ دنوں کے بعد مجھے آ کر کہا ”میں آپ کے حوصلے کو سلام کرتا ہوں.ان تمام باتوں کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا.میں دل ہی دل میں اپنے مولا سے کہتی ہوں.واہ مولا ! میرے مولا ! کمال تو تیرا ہے اور اعزاز مجھے مل رہا ہے.یقیناً یہ تمام احساسات خدا ہی کے پیدا کردہ تھے جو مجھے ایک ع
66 182 اعزاز کو سنبھالنے کا اہل بنانے کیلئے تیار کر رہا تھا.مصباح فروری 1996ء صفحہ 35 تا 37) 14 اپریل 1999ء کو خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پہلی قربانی راہ مولا) کی سعادت محترم صاحبزادہ مرزا غلام قادر احمد صاحب کو حاصل ہوئی.آپ حضرت مسیح موعود کے پڑپوتے اور حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کے نواسے تھے.آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ حضرت اقدس کی ایک پیشگوئی آپ کی ذات میں پوری ہوئی ”غلام قادر آگئے گھر نور اور برکت سے بھر گیا آپ کی قربانی راہِ مولا) پر آپ کی والدہ محترمہ قدسیہ بیگم صاحبہ نے کمال صبر کا نمونہ پیش کیا.بیٹے کو وقار سے رخصت کیا.جزاک اللہ میرے بیٹے جزاک اللہ تمہاری جان کا نذرانہ مجھے سرفراز کر گیا ہے.بیٹے تم نے عین جوانی میں اتنی بڑی قربانی دی تو میں تمہاری روح کو خوش کرنے کے لئے خدا کی رضا کے لئے صبر بھی نہ کروں.میں ساری رات جاگتی ہوں دُنیا کے سامنے خاموش ہوں.مگر خدا رات کو میری چیخیں سنتا ہے.میرے بچے صبرا اپنی جگہ اور مامتا اپنی جگہ.یہ مامتا ہی تو ہے صرف اور صرف جس کی خدا نے اپنی محبت سے مثال دی ہے.خدا حافظ میرے بچے خدا حافظ! الفضل 7 جون 1999ء صفحہ 4 کالم 2)
183 احمدی خواتین کی مالی قربانیاں انفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت قرآن مجید کی متعدد آیات سے اظہر من الشمس ہے.اللہ تعالیٰ کی دی گئی نعمتوں کو محض اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کی محبت کی خاطر خرچ کرنا متقیوں کی ایک علامت قرار دیا گیا ہے.تطہیر قلب کے لئے مالی قربانی اشد ضروری ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:- لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ( سورة ال عمران : 93) ترجمہ: تم کامل نیکی کو ہر گز نہیں پاسکتے جب تک اپنی پسندیدہ اشیاء میں سے خدا کی راہ میں خرچ نہ کرو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ( رفقاء) نیز بعد میں آنے والے مخلصین نے مالی قربانیوں کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم کی ہیں.ان مثالوں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور صحابیات کی مالی قربانیوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے.حرص و ہوس کے اس مادی دور میں جہاں دوسروں کے مال کو لو ٹنا اور ہر قسم کے دھوکہ اور فریب سے ہر ایک کا مال غصب کر لینا عام مسلمانوں کا طرہ امتیاز ہو گیا ہے.وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مریدوں کا تزکیہ نفس کچھ اس انداز میں ہوا کہ اُنہوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شاندار قربانیوں کی طرح تن ، من ، دھن کی قربانی پیش کر دی.یہ کیوں نہ ہوتا جبکہ خود حضرت مسیح پاک نے فرمایا تھا:- “صحابہ سے ملا جب مجھ کو بابا ابتداء میں جماعت کے افراد کی تعداد نہایت قلیل تھی اور آمدنی بھی بہت کم
184 تھی ، خاص طور پر عورتوں کی ذاتی آمدنی نہ ہونے کے برابر تھی لیکن احمدیت کی تاریخ شاہد ہے کہ اپنے پیارے امام کی آواز پر جہاں مردوں نے والہانہ لبیک کہا وہاں عورتوں نے بھی دلی جوش سے ہر طرح کی قربانی پیش کر کے اپنے ایمانی جذبہ اور خلوص کا شاندار مظاہرہ کیا.یہ نقوش جہاں انمٹ ہیں وہاں قابلِ صد افتخار بھی ہیں.انہی نقوشِ پا پر چلتے چلتے آج احمدی مستورات ایک ایسے مقام پر آ پہنچی ہیں جہاں باقی دنیا کی عورتیں پہنچنے کا تصور بھی نہیں کر سکتیں.جماعت کی کوئی مالی تحریک ایسی نہیں جس میں خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ نہ لیا ہو.مثلاً بیوت الذکر کی تعمیر تبلیغی مشنوں کا قیام، قرآن کریم کی اشاعت، الرقیم پریس، ایم ٹی اے غرض جب بھی ضرورت پڑی خواتین نے اپنی جمع پونجی ، محنت مزدوری کا معاوضہ بشاشت سے اللہ کے حضور پیش کر دیا.مہمان نوازی کے لئے زیور بیچ دیا: ابتدائی زمانہ میں تو مہمان نوازی کا سب خرچ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود برداشت کرتے تھے اور حضور کی ان قربانیوں میں ہمیں حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ برابر کی شریک نظر آتی ہیں.حضرت منشی ظفر احمد صاحب سے روایت ہے کہ:.ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقعہ پر خرچ نہ رہا.اُن دنوں جلسہ سالانہ کے لئے چندہ جمع ہو کر نہیں جاتا تھا.حضور اپنے پاس سے ہی صرف فرماتے تھے.میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے آ کر عرض کی کہ رات کو مہمانوں کے لئے کوئی سالن نہیں ہے.فرمایا بیوی صاحبہ سے کوئی زیور لے کر جو کفایت کر سکے فروخت کر کے سامان کر لیں.چنانچہ زیور فروخت یا رہن کر کے میر صاحب روپیہ لے آئے اور مہمانوں کے لئے سامان بہم پہنچا دیا.“ ( تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ 8) ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود نے حضرت منشی ظفر احمد صاحب سے فرمایا ایک
185 تبلیغی اشتہار کے لئے ساٹھ (60) روپے کی ضرورت ہے کیا آپ کی جماعت یہ انتظام کر سکے گی؟ تو آپ نے اثبات میں جواب دیا.اور کپورتھلہ تشریف لا کر جماعت کے کسی بھی فرد سے ذکر کئے بغیر اپنی بیگم کے زیور بیچ کر 60 روپے کی رقم حاصل کی اور حضور اقدس کی خدمت میں پیش کر دی.یہ واقعہ جہاں حضرت منشی ظفر احمد صاحب کا اخلاص ظاہر کرتا ہے وہاں اُن کی اہلیہ محترمہ کی مالی قربانی کا بھی شاہد ہے.عورتوں کو زیور بہت محبوب ہوتا ہے لیکن حضرت مسیح پاک کا یہ بھی ایک روحانی اعجاز تھا کہ خواتین احمدیت مالی قربانی کے اعلیٰ مقام پر فائز نظر آتی ہیں.احمدیت کے دور اول میں یعنی حضرت مسیح موعود کے زمانے میں صرف چند خواتین اس میدان میں نظر آتی ہیں جن کی سرخیل حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ تھیں.سلسلہ کی کوئی ایسی مالی تحریک نہیں تھی جس میں حضرت سیدہ اماں جان نے فراخ دلی سے حصہ نہ لیا ہو.ہر تحریک کی ابتداء آپ کے چندہ سے ہوئی اور وعدہ لکھوانے کے بعد جلد ادائیگی کا اہتمام فرماتیں.آپ نے اپنی زمین زیورات اور مکان بیچ کر راہ مولیٰ میں پیش کر دئیے.منارة المسيح.رۃ المسیح کے لئے دہلی کا ایک مکان بیچ کر ایک ہزار روپے چندہ دیا.الفضل کے اجراء کے موقع پر زمین فروخت کر کے ایک ہزار روپیہ دیا.اسی طرح ( بیت ) برلن تعلیم الاسلام کالج، خلافت جوبلی کی تحریک میں پانچ پانچ سو روپے عطا فرمایا.1935ء میں کوئٹہ کے زلزلہ کے مصیبت زدگان کے لئے دوسو روپے دیئے ( یہ رقوم ایک صدی قبل قابل ذکر حد تک گراں قدر تھیں ) ہر سال جو نہی حضرت مصلح موعود تحریک جدید کے چندہ کا اعلان فرماتے اُس کے معا بعد گذشتہ برس کے اضافے کے ساتھ آپ نقد ادا ئیگی فرماتیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سوروپے یا اس سے زائد رقم دینے والوں
186 کے نام منارہ اسیح پر کندہ کروانے کا اعلان فرمایا تھا لہذا مردوں کے دوش بدوش عورتیں بھی اس میں شرکت کرتی ہوئی نظر آتی ہیں حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم کے علاوہ محترمه حسین بی بی والدہ چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب اور عزیز بیگم اہلیہ خان صاحب منشی برکت علی صاحب شملوی کے نام بھی منارۃ ایح پر کندہ ہیں.1898ء کے شروع میں ایک مرتبہ بعض اہم دینی ضروریات کے لئے رقم کی ضرورت پڑی تو حضرت اماں جان سیدہ نصرت جہاں بیگم نے فرمایا با ہر سے قرضہ لینے کی کیا ضرورت ہے میرے پاس ایک ہزار نقد ہے اور کچھ زیورات ہیں وہ آپ لے لیں تو آپ نے فرمایا میں بطور قرضہ لیتا ہوں اور اس کے عوض باغ کی زمین رہن رکھ دیتا ہوں یہ صرف جماعت کو سبق سکھانے کے لئے تھا کہ بیویوں کا مال اُن کا اپنا مال ہوتا ہے (اسی لئے آپ نے اپنی بیگم سے رقم تو لی مگر بطور قرضه ( سیرت حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہ از یعقوب علی صاحب عرفانی صفحه 528) اپنی اہلیہ محترمہ کی بے مثال قربانی کو دیکھتے ہوئے حضور اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں اس بر وقت امداد کو سراہا وہاں پر ایک شرعی مسئلہ ( یعنی بیویوں کا مال بیویوں کا ہی ہوتا ہے ) بھی تمام مردوں کے لئے واضح کر دیا.یہی دینی تربیت قدم قدم پر افراد جماعت کی راہ نما بنی اور ( دین حق ) کی صحیح اور سچی تعلیم سے جماعت اور خلافت اولیٰ میں خواتین کی مالی قربانیوں کا سلسلہ جاری رہا اور اُن کے ایمان اور خلوص میں وقت کے ساتھ توسیع اور اضافہ ہوتا چلا گیا.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد نے حضرت مولانا نورالدین خلیفہ المسیح الاوّل کے زمانے میں جماعت کے ایک اخبار کے اجراء کی تجویز پیش کی جو منظور تو ہو گئی لیکن اُن دنوں مالی حالت اس قدر کمزور تھی کہ اس تجویز کو عملی جامہ پہنانا ناممکن نظر آتا تھا.لیکن آفرین ہے ایک احمدی خاتون کے جذبہ قربانی کو جس نے رہتی دنیا تک
187 ایک شاندار مثال پیش کی یہ پاکباز خاتون حضرت محمودہ بیگم حرم اول حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد تھیں.اُن کی اس یاد گار قربانی کو حضرت مصلح موعود نے یوں بیان فرمایا:- خدائے تعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں اسی طرح تحریک کی جس طرح حضرت خدیجہ کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کی تحریک کی تھی.اُنہوں نے اس امر کو جانتے ہوئے کہ اخبار میں روپیہ لگانا ایسا ہی ہے جیسے کنویں میں پھینک دینا اور خصوصاً اس اخبار میں جس کا جاری کرنے والا محمود ہو جو اُس زمانہ میں شاید سب سے زیادہ مذموم تھا اپنے دوز یور مجھے دے دیئے کہ میں اُن کو فروخت کر کے اخبار جاری کر دوں ان میں سے ایک تو اُن کے اپنے کڑے تھے دوسرے اُن کے بچپن کے کڑے تھے جو انہوں نے اپنی اور میری لڑکی ناصرہ بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ کے استعمال کے لئے رکھے ہوئے تھے.میں زیورات کو لے کر اُسی وقت لا ہور گیا اور پونے پانچ سو کے وہ دو کڑے فروخت ہوئے یہ ابتدائی سرمایہ الفضل کا تھا.الفضل اپنے ساتھ میری بے بسی کی حالت اور میری بیوی کی قربانی کو تازہ رکھے گا.کیا ہی سچی بات ہے کہ عورت ایک خاموش کارکن ہوتی ہے.اس کی مثال اس گلاب کے پھول کی سی ہے جس سے عطر تیار کیا جاتا ہے.لوگ اُس دوکان کو تو یا در کھتے ہیں جہاں سے عطر خریدتے ہیں لیکن اُس گلاب کا کسی کو خیال بھی نہیں آتا جس نے مر کر اُن کی خوشی کا سامان پیدا کیا.میں حیران ہوتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ یہ سامان پیدانہ کرتا تو میں کیا کرتا اور میرے لئے خدمت کا کون سا دروازہ کھولا جاتا“.تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد 1 صفحہ 16) حضرت سیدہ امة الحفیظ بیگم نام ونمود کی خواہاں کبھی بھی نہیں تھیں اور نیکی کے کاموں میں بالعموم اخفاء ان کی عادت تھی اس طرح قربانیوں ،صدقہ و خیرات کا بھی یہی معاملہ تھا لیکن مالی قربانیوں کی تحریکات میں سیدہ موصوفہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.
188 جب بھی کوئی تحریک ہوئی اُنہوں نے انفرادی طور پر بھی اور اپنے ذی وقار شوہر کی معیت میں بھی شاندار نمونہ پیش کیا اور انفاق فی سبیل اللہ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا.تحریک جدید کا چندہ وعدہ کے ساتھ ہی ادا کر دیتیں نہ صرف اپنا بلکہ اپنے صاحبزادوں اور صاحبزادیوں تک کا بھی حتی کہ اپنی ایک خادمہ محمد بی بی کا چندہ بھی آپ اپنی طرف سے ادا کرتی رہیں.حضرت سیدہ موصوفہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد (مندرجہ رسالہ الوصیت صفحہ 29) کے مطابق نظام وصیت سے متمنی تھیں لیکن اس کے باوجود آپ چندہ عام اور حصہ جائیداد ادا فرماتی رہیں حضرت نواب محمد عبداللہ خاں صاحب نے رقم فرمایا:- اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوسرے چندوں کو ملا کر آمد کا کم از کم 1/3 حصہ خدائے تعالیٰ کی راہ میں جا رہا ہے.(اصحاب احمد جلد 12 صفحہ 76) علاوہ ازیں جماعت کی 16 مختلف تحریکات میں موصوفہ نے حصہ آمد اور ( دخت کرام صفحه 106) تحریک خاص میں دو ہزار روپیہ چندہ دیا.تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں آپ کا نام شامل ہے.حضرت مسیح موعود کا خاندان تحریک جدید کی قربانیوں میں بالکل ممتاز اور منفر د تھا.حضرت سیّدہ ام طاہر صاحبہ کی قربانیاں : حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں:.مالی قربانی میں بھی سیدہ موصوفہ کو خدائے تعالیٰ نے ممتاز حیثیت عطا کی تھی اور میں جب اُن کے چندوں کو دیکھتا تھا تو حیران ہوتا تھا کہ اس قدرقلیل آمد پر اتنے بھاری چندے کس طرح ادا کرتی ہیں.جو دوست ہمارے گھروں کے حالات سے واقف ہیں انہیں معلوم ہے کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی طرف سے جو ماہوار خرچ حضور کے گھروں میں ملتا ہے وہ بہت ہی نپا تلا ہوتا ہے مگر باوجود اس کے سیّدہ موصوفہ نہ معلوم کس طرح اپنے گھر کے اخراجات سے رقمیں کاٹ کر سلسلہ کے چندہ کی ہر
189 تحریک میں پیش پیش رہتی تھیں حتی کے مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ تحریک جدید کے امانت ذاتی کے شعبہ میں بھی اُنہوں نے محض ثواب کی خاطر حصہ لے رکھا تھا اور اسی طرح پرائیوٹ چندوں میں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتی تھیں.یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ سوائے حضرت خلیفتہ امسیح والی باری کے دن جب کہ وہ کچھ تو حضور کے آرام کے خیال سے اور کچھ اس احساس کے ماتحت کہ حضور کو اُن کے گھر کی تنگی کا علم نہ ہوکسی قد راچھا کھانا پکوالیتی تھیں عموماً گھر کا کھانا پینا نہایت درجہ سادہ بلکہ غریبانہ ہوتا تھا.بایں ہمہ ہمشیرہ مرحومہ بے حد مہمان نواز تھیں اور مہمانوں کے آرام کی خاطر سب کچھ خرچ کر ڈالنے میں دریغ نہیں تھا اور مہمانوں کی خدمت میں حقیقی خوشی پاتی تھیں.مرحومہ موصیہ تو شروع سے ہی تھیں مگر یہ بات غالبا اکثر لوگوں کو معلوم نہ ہوگی کہ کئی سال سے مرحومہ نے اپنے حصہ وصیت کو دسویں سے بڑھا کر ایک تہائی کر دیا تھا.ایک تہائی وہ حد ہے جس سے اوپر ( دین حق ) نے کوئی وصیت جائز نہیں رکھی..تابعین ( رفقائے ) احمد جلد سوم صفحہ 214) حضرت اُمّم طاہر مرحومہ کی اعلیٰ صفات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت سیدہ مہر آپا فرماتی ہیں:.یوں تو ہر انسان اپنی بساط کے مطابق کچھ نہ کچھ خدا کی راہ میں دیتا ہی ہے مگر میں نے پھوپھی جان کا رنگ بالکل نرالا دیکھا تھا.کئی بیواؤں کا خرچ اپنی رگرہ سے مقرر کر رکھا تھا.کئی قیموں کی تعلیم پر وہ خود خرچ کرتی تھیں مگر اس طرح پر کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی.آپ کی طبیعت میں اس قسم کے کارِ خیر کے لئے نمود ہر گز نہ تھی.انہیں یہ بات قطعا برداشت نہ تھی کہ وہ اپنی اس قسم کی نیکی کو الَم نَشْرَحْ کریں.اس قسم کے صدقات و خیرات اُن کا روز مرہ کا مشغلہ تھا.لیکن پھر سال میں ایک ماہ ایسا بھی آتا تھا جس میں وہ اپنا سب کچھ خدا کے لئے دے چھوڑتیں وہ مہینہ رمضان کا مہینہ ہوتا.اگر قادیان میں ہوتیں تو خود اپنے ہاتھ سے نقدی کی صورت میں
190 روزانہ کھانا کھلانے کی صورت میں، ہر قسم کی جنس و رسد کی صورت میں کپڑوں کی صورت میں بے حساب خیرات کرتیں.اور اگر آپ حضرت اقدس کے ساتھ اس ماہ میں پہاڑ پر ہوتیں تو ہر قسم کی تفصیلی ہدایات کے ساتھ اُن کا خط آجا تا.اس کے علاوہ الگ رقم بھجواتیں کہ میں بوجہ بیماری روزے نہیں رکھ سکتی.فلاں کو یہ رقم پیش کر دیں اور وہ رقم جس قد رفد یہ ہونا چاہیے تھا اُس سے بڑھ کر ہوتی..(تابعین ( رفقائے ) احمد جلد سوم صفحہ 216-217) سلسلہ کی خاطر وہ ادنیٰ سے ادنی کام کو اپنے ہاتھ سے کرنے کے لئے ہرگز حجاب محسوس نہ کرتیں.چندہ جمع کرنے کے لئے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جلسہ میں یا اسی طرح کوئی ہنگامی فنکشن ہوتا تو آپ تھیلیاں اُٹھا کر خود مستورات سے چندہ اکھٹا کرتیں.ہم لوگ کئی دفعہ یہ کہہ اُٹھتے کہ اور سب کام کریں گے لیکن چندہ کسی سے خود نہیں مانگتے شرم آتی ہے اور اکثر ہم اس طرح کرتے ہیں لیکن وہ اس قسم کی خدمت میں حجاب کے کوئی معنی نہیں بجھتی تھیں.نتیجہ یہ ہوتا کہ لوگ دلی خوشی سے بڑھ بڑھ کر چندے دیتے اُن کے حسن اخلاق کا یہی کرشمہ تھا کہ لوگ اُن کے منہ کی نکلی ہوئی بات کو اس قدر اہمیت دیتے کہ ادھر آپ کوئی مطالبہ کرتیں اور اُدھر لوگ پورا کرنے میں اپنی سعادت سمجھتے." تابعین ( رفقائے ) احمد جلد سوم صفحہ 222) حضرت خلیفتہ امی الاول کے زمانہ کی اولین تحریک زنانہ دعوت الی الخیر فنڈ کے نام سے ہوئی جو دراصل حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی پیش کردہ تحریک تھی.اس فنڈ کی ابتداء بھی حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کے چندہ سے ہوئی جو دوروپے تھا.بعد ازاں دیگر بہت سی خواتین نے بھی اس میں حصہ لیا.الفضل 7 جنوری 1914ء)
191 1920ء میں جب احمدی مستورات کی تعدا د نہایت قلیل تھی اور مالی حالت بھی اکثریت کی کمزور تھی.خلیفہ اسیح الثانی نے ( بیت ) برلن کی تحریک کی اور اسے خالصتاً احمدی خواتین کے چندہ سے تعمیر کروانے کی خواہش کا اظہار فرمایا.چنانچہ نہایت قلیل عرصہ میں احمدی خواتین نے ایک لاکھ روپے کی گراں قدر رقم جمع کر کے اپنے امام کے قدموں میں ڈال دی.چنانچہ ان قابل فخر قربانیوں کو حضرت امام جماعت خلیفہ اسی نے یوں خراج تحسین پیش کیا.1920ء میں جماعت کی یہ حالت تھی کہ جب میں نے اعلان کیا کہ ہم برلن میں (بیت) بنائیں گے، اس کے لئے ایک لاکھ روپے کی ضرورت ہے تو جماعت کی عورتوں نے ایک ماہ کے اندر اندر یہ روپیہ اکھٹا کر دیا.اُنہوں نے اپنے زیور اتار کر دے دیئے.جہاں دوسرے لوگوں کی یہ حالت ہے کہ مال خرچ کرنے کی وجہ سے ان میں لوگ مرتد ہو جاتے ہیں ہمیں وہاں ایک نیا تجربہ ہوا ہے میں نے اس ( بیت) کی تحریک کے لئے یہ شرط رکھی تھی کہ احمدی عورتوں کی طرف سے یہ ( بیت) ہوگی جو اُن کی طرف سے نومسلم بھائیوں کو بطور ہدیہ پیش کی جائے گی.اب بجائے اس کے کہ وہ عورتیں جنہیں کمزور کہا جاتا ہے اس تحریک کو سن کر پیچھے بہتیں عجیب نظارہ نظر آیا اور وہ یہ کہ اس وقت تک گیارہ عورتیں داخلِ احمدیت ہو چکی ہیں تا کہ وہ بھی اس چندہ میں شامل ہو سکیں.گویا اس تحریک نے گیارہ روحوں کو ہلاکت سے بچالیا.اور یہ پہلا پھل ہے جو ہم نے اس تحریک سے چکھا.“ خطبہ جمعہ مطبوعہ الازھار لذوات الخمار ) یہی جوش یہی ولولہ چشم فلک نے باقی دونوں ( بیوت) یعنی ہالینڈ اور لنڈن کے چندہ کی تحریک کے وقت دیکھا جب احمدی خواتین نے ایک دوسرے سے بڑھ کر مالی قربانی کی.ایک غریب جماعت کے طبقہ نسواں کی مالی قربانیاں وقتی نہ تھیں بلکہ
192 تاریخ احمدیت شاہد ہے اس بات کی کہ گذشتہ 113 سال سے وہ مسلسل انتھک قربانیاں پیش کرتی چلی آرہی ہیں اور اُن کا جذ بہ خلوص کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے.حضرت خلیفہ السیح الثانی کے دور خلافت کی سب سے پہلی تحریک بارہ ہزار روپے کی تھی مکرمہ سکینۃ النساء اہلیہ قاضی ظہور الدین صاحب اکمل نے اخبار الفضل میں 6 رمئی 1914 ء میں مالی تحریک کی طرف توجہ دلاتے ہوا لکھا.پیاری بہنو! غالبا آپ حیران ہوں گی کہ اس ,, غریب جماعت کی قادیانی بہنوں نے حضرت صاحبزادہ خلیفہ المسیح کی اپیل دعوت الی الخیر کرنے پر اپنے مالوں اور اپنے زیوروں سے قربانی کر کے ثواب حاصل کیا.یہاں تک کہ ہمارے اسکول کی چھوٹی چھوٹی بچیوں نے بھی ایک ایک پیسہ بخوشی دیا.چنانچہ اس غریب جماعت کی خواتین کے قریباً پچاس روپے اور کچھ زیور تو فوراً تحریک کرتے ہی وصول ہو گئے اور کوئی دو چار سو کے وعدے ہیں.امید ہے کہ سال بھر تک انشاء اللہ بہت روپیہ جمع ہوگا.حضرت سیّدہ اماں جان نصرت جہاں بیگم صاحبہ نے اس تحریک میں 100 روپے عطا فرمائے.( تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ 26) پھر حضرت فضل عمر نے 16 / دسمبر 1916 ء کو احمدی خواتین کو دین کی خاطر قربانیاں کرنے کی تاکید فرماتے ہوئی مالی تحریک فرمائی اور فرمایا:- ولایت کے اخراجات تبلیغ بڑھ رہے ہیں اور مرد اس وقت اندازاً آٹھ دس ہزار روپے ماہوار کا خرچ برداشت کر رہے ہیں.عورتیں اپنے ذمہ پانچ سوروپے ماہوار
193 لے لیں اور ایک تبلیغی فنڈ قائم کریں جس میں بطور ماہوار چندہ یا اعانت حصہ لیں.“ حضور نے دیہات کی خواتین کے لئے تجویز فرمایا کہ ایک برتن میں روزانہ ایک مٹھی آٹا جمع کیا کریں جو ایک ہفتہ کے بعد فروخت کر کے تبلیغ فنڈ میں بھجوا دیا کریں.چنانچہ اس تحریک میں عورتوں نے عمدہ رنگ میں لبیک کہا اور سب سے پہلے اہلیہ صاحبہ چوہدری فتح محمد صاحب سیال نے جو حضرت مولانا نورالدین خلیفہ اسیح الاول کی نواسی ہیں اپنا زیور قیمتی بائیس روپے بطور اعانت دیا.اُستانی سکینۃ النساء نے پھر اپنے مضمون میں لکھا: ”یہاں کی عورتوں میں صاحبزادہ عالی مقام نے ”دعوت الی الخیر کی تحریک فرمائی یہاں کی غریب غریب عورتوں نے اپنے زیورات روپیہ پیسہ سے ایثار کا عمدہ نمونہ دکھایا.“ ( تاریخ لجنہ جلد اول حصہ 36 ) حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے زمانہ میں جو متعد تحریکات سامنے آئیں وہ مختصر آمندرجہ ذیل ہیں.(1) چندہ برائے زنانہ وارڈ نور ہسپتال 1923 ء چار ہزار روپے جمع ہوئے.(2) تحریک چندہ خاص 1922 ء انجمن کا مالی بوجھ ہلکا کرنے کیلئے دس ہزار روپے (3) شدھی کی تحریک 1923 ء زیورات ، کپڑے اور نقدی (4) (بیت) فضل لندن تراسی ہزار (83,000) روپے.لجنہ اماء اللہ کے قیام کے بعد سب سے پہلی بڑی مالی تحریک ( بیت ) برلن بوجوہ تعمیر نہ ہوسکی الہذا حضرت مصلح موعود نے فیصلہ کیا کہ (بیت) برلن کے لئے جمع شده رقم ( بیت ) لندن کی تعمیر پر لگادی جائے.1923ء کے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے حضور اقدس نے عورتوں کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اسی ہزار (80,000) روپے چندہ ہو چکا ہے اور اس چندہ کی برکات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : -
194 اس قربانی کے نتیجے میں سو کے قریب مستورات نے احمدیت قبول کی.یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایسا کرشمہ تھا جس نے مخالفین کو بھی حیرت میں ڈال دیا.تاریخ لجنہ جلد اول بحواله دوش بدوش) 21 /اکتوبر 1956ء کو لجنہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر حضور اقدس نے اس طرح پر اظہار مسرت فرمایا : - اس زمانے میں بھی اگر دیکھا جائے تو عورتوں کی قربانیاں دین کی خاطر کم نہیں ہیں.1920ء میں جب میں نے ( بیت ) برلن کے لئے چندہ کی تحریک کی تو....ام طاہر کی والدہ زندہ تھیں اُنہوں نے اُسی وقت اپنی بہوؤں اور بیٹیوں کو بلایا اور کہا سب زیور اتار کر رکھ دو میں یہ سب زیور ( بیت ) برلن میں دونگی.چنانچہ وہ سب زیور بیچ کر بیت ) برلن کے لئے چندہ دے دیا گیا.“ ( بیت ) برلن کے لئے احمدی خواتین نے بے مثال قربانیاں کیں اور بہت زیادہ ایمان افروز واقعات دیکھنے میں آئے.چند ایک کا تذکرہ بطور نمونہ درج ذیل ہے:.حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم کو ایک جائیداد کی فروخت سے پانچ سو روپے حاصل ہوئے جو تمام چندہ میں دے دئے.حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے ایک ہزار روپیہ دیا.اسی طرح حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ ، بیگم مرزا شریف احمد صاحب، بیگم میر محمد الحق صاحب، اور بیگم صاحبہ خاں بہا در مرز اسلطان احمد صاحب نے بھی نمایاں حصہ لیا.حضرت سیّدہ ام ناصر صاحبہ چندہ جمع کرنے میں کامیابی کا گر ہمیشہ دعا اور اپنا نمونہ بتاتی تھیں.حضرت سیّدہ امتہ احئی صاحبہ نے نقد اور حضرت سیّدہ اُمّم طاہر صاحبہ نے اپنا
195 ایک گلو بند اور کچھ نقدی بھی دی قادیان کی دوسری خواتین کے علاوہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی، حضرت قاضی امیرحسین صاحب کے گھر والوں اور حامدہ بیگم صاحبہ بنت پیر منظور محمد صاحب نے نمایاں حصہ لیا.ایک نہایت غریب اور ضعیف بیوہ جو پٹھان اور مہاجر تھیں اور سونٹی لے کر بمشکل چل سکتی تھی خود چل کر آئی اور حضور کی خدمت میں دوسوروپے پیش کر دئیے.یہ عورت بہت غریب تھی.اُس نے دو چار مرغیاں رکھی ہوئی تھیں جن کے انڈے فروخت کر کے اپنی کچھ ضروریات پوری کیا کرتی تھیں باقی دفتر کی امداد پر گزارا چلتا تھا.ایک پنجابی خاتون جس کی واحد پونجی صرف ایک زیور تھا وہی اُس نے ( بیت) کے لئے دے دیا.ایک بیوہ عورت جو یتیم پال رہی تھی اور زیور یا نقدی کچھ بھی پاس نہ تھا اُس نے استعمال کے برتن ہی چندہ میں دے دیئے.ایک بھاگلپوری دوست کی بیوی دو بکریاں لے کر پہنچی اور کہا ہمارے گھر میں ان کے سوا کوئی چندہ نہیں یہی دو بکریاں ہیں جو قبول کی جائیں.تاریخ احمدیت جلد 5 صفحہ 376) قادیان سے باہر کی مستورات نے بھی قابلِ رشک قربانیاں پیش کیں.اہلیہ کیپٹن عبدالکریم صاحب سابق کمانڈر انچیف ریاست خیر پور نے اپنا تمام تر زیور اور نہایت قیمتی ملبوسات چندے میں دے دیئے.اسی طرح اخلاص کا اعلیٰ نمونہ مندرجہ ذیل اصحاب کے اہلِ خانہ نے پیش کیا.☆ ☆ ☆ چوہدری محمد حسین صاحب قانونگو سیالکوٹ سیٹھ ابراہیم صاحب خاں بہا درمحمد علی خان صاحب اسسٹنٹ پولیٹیکل آفیسر چکدرہ بنوں حضرت مولوی عبداللہ خاں صاحب سنوری ڈاکٹر اعظم علی صاحب جالندھری
196 خان بہادر صاحب نون (ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر ) ڈاکٹر قاضی کرم الہی صاحب امیر جماعت امرتسر میاں محمد دین صاحب واصل باقی نویس تاریخ احمدیت جلد 5 صفحہ 377) مکرمہ بیگم شفیع صاحبہ نے بھی اس میں بڑے خلوص سے حصہ لیا.تاریخ لجنہ جلد اول کے صفحہ 95 پر تحریر ہے:- عورتوں کی قربانیوں میں سے ایک کا تذکرہ ڈاکٹر شفیع احمد محقق دہلوی ایڈیٹر روز نامہ اتفاق دہلی کی زبان سے سنیے آپ لکھتے ہیں:.جمعہ کی نماز دہلی کی جماعت خاکسار کے دفتر میں پڑھتی ہے گذشتہ جمعہ کو خطیب صاحب نے حضرت اقدس کا خطبہ جو الفضل میں چھپا ہوا تھا سنا یا یہاں سوائے میری اہلیہ کے سب مرد تھے اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ بعد نماز بیگم سے کہوں گا کہ (بیت) کے لئے آپ اپنی پازیب دیدیں کہ اتنے میں دروازے کی دستک میرے کان میں آتی ہے اور میں گھر گیا جہاں وہ مصلے پر بیٹھی خطبہ سن رہی تھیں اور اُن کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے کچھ بات نہیں کی اور اپنے گلے سے پیج لڑا طلائی ہار جو غالباً تین سوروپے کا تھا مجھے دے دیا جو میں نے اُسی وقت خطیب صاحب کو لا کر دے دیا.“ اُن کی بیٹی سیدہ نسیم سعید صاحب لکھتی ہیں :- مرکز سے جب کبھی بھی کسی چندے کی تحریک کی جاتی اماں کی کوشش ہوتی کہ دہلی کی لجنہ زیادہ سے زیادہ چندہ بھیجے چنانچہ تحریک جدید اور کشمیر فنڈ میں لجنہ دہلی کے چندے نمایاں ہوتے.“
197 ممبرات سے ذاتی تعلق رکھتیں ہر ایک کے دُکھ سکھ میں شریک ہوتیں اس لئے ممبرات کہتیں کہ ”برکات کی اماں“ آجاتی ہیں تو چندہ ادا کئے بغیر چارہ نہیں ہوتا.حضرت مصلح موعود نے لجنہ دہلی کی قربانی پر نہایت خوشنودی کا اظہار فرمایا جو تاریخ لجنہ جلد اول صفحہ 227 پر یوں درج ہے ”لجنہ دہلی میں بیداری پائی گئی پچیس ہزار کی تحریک میں اس لجنہ نے حصہ لیا..( سواخ بیگم شفیع صفحه 48-47) (بیت) فضل لندن کا افتتاح 13 اکتوبر 1924ء کو مکرم شیخ عبدالقادر صاحب نما ئندہ لیگ آف نیشنز نے کیا.حضرت خلیفۃ اسیح الثانی نے لندن روانگی سے قبل فرمایا : - ”میرے نزدیک انگلستان کی فتح کی بنیاد رکھ دی گئی ہے.آسمان پر اس کی فتح کی بنیا د رکھی گئی ہے اور اپنے وقت پر اس کا اعلان زمین پر بھی ہو جائے گا دشمن ہنسے گا اور کہے گا کہ یہ بے ثبوت دعوئی تو ہر کوئی کر سکتا ہے.اُسے ہنسنے دو کیونکہ وہ اندھا ہے اور حقیقت کو نہیں دیکھ سکتا.الفضل 4 اکتوبر 1924 ، صفحہ 3) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی اپنی کتاب سلسلہ عالیہ احمدیہ میں اس حقیقت کو یوں بیان فرمایا :- الغرض حضرت خلیفہ امسح الثانی کے زمانہ میں حضور کی ہدایت اور نگرانی کے تحت احمدی مستورات نے ہر جہت میں ترقی کی ہے اور بعض کاموں میں تو وہ اس قدر جوش اور شوق دکھاتی ہیں کہ مردوں کو شرم آنے لگتی ہے اور مالی قربانیوں میں ان کا قدم پیش پیش ہے.“ (صفحه 390)
198 نہ صرف اپنے بلکہ غیر اور دشمن بھی احمدی خواتین کی قربانیوں اور بے مثال کارناموں کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے.مثلاً کٹر آریہ سماجی اخبار تیج لکھتا ہے:.چند سال ہوئے ان کے امیر نے ایک مسجد کے لئے پچاس ہزار روپے کی اپیل کی اور یہ قید لگا دی کہ یہ رقم صرف عورتوں کے چندے سے ہی پوری کی جائے.چنانچہ پندرہ روز کی قلیل مدت میں ان عورتوں نے پچاس ہزار کی بجائے پچپن ہزار جمع کر دیا.( اخبار تیج 25 جولائی 1927ء، تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ 321) اسی طرح اخبار بندے ماترم نے لکھا:.’ احمد یہ جماعت ایک نہایت زبردست منظم اور مسلسل تبلیغی کام کرنے والی جماعت ہے.احمدیوں کی عورتیں ہماری قوم کے مردوں سے بازی لے گئی ہیں.“ (اخبار بندے ماترم 18 ستمبر 1927ء، تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ 616) لندن مشن کے اخراجات کے لئے مستورات کو نو ہزار روپے کی تحریک کی گئی تو انہوں نے دل کی گہرائیوں سے اس میں حصہ لیا.(الفضل 25 /اکتوبر 1928ء) 2 راگست 1928 ء کولندن (بیت) کے گنبد کی مرمت کے لئے صرف عورتوں کو تحریک کی گئی.چنانچہ لجنہ اماءاللہ نے دس ہزار روپے جمع کئے.تحریک ملکانہ: ( دوش بدوش صفحه 31) تحریک ملکانہ کے سلسلہ میں حضور فضل عمر نے جماعت کو بتایا کہ جہاں ہندوؤں کو تبلیغ کرنے کی ضرورت ہے وہاں جرمن مشن بخارا مشن اور دیگر متفرق کاموں کے لئے رقم کی ضرورت ہے.لہذا چالیس ہزار روپے کی رقم کا اندازہ ہے.گو
199 اس میں مستورات مخاطب نہ تھیں لیکن اُن کی قربانی اور اخلاص کی روح انہیں چین نہیں لینے دیتی تھی.چنانچہ چندہ دینے والوں کی فہرست میں مستورات کے نام بھی نمایاں تھے اُنہوں نے نقد اور زیورات دونوں ہی پیش کئے.”مائی کا کو صاحبہ “ جو مکرم مولانا جلال الدین صاحب شمس کی پھوپھی تھیں نے اپنی طلائی بالیاں پیش فرمائیں.تاریخ لجنہ جلد اول صفحہ 132) جلسہ سالانہ کے لئے دیگوں کے لئے ناظر صاحب ضیافت نے 10 / دسمبر 1936ء کے الفضل میں لکھا کہ ہمارا مطالبہ 80 دیگوں کا تھا لیکن 91 دیگوں کی قیمت وصول ہوگئی ہے.تحریک جدید میں مالی قربانیاں : 1934 ء کا سال احمدیت کی تاریخ میں ایک اہم سال شمار ہوتا ہے.اس سال کے دوران تمام مخالفین نے احراری تحریک کے زیر اثر مل کر یہ عزم کیا کہ جماعت احمدیہ کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا..ان پر آشوب حالات میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) کے دل پر اللہ تعالیٰ نے ایک خاص تحریک کا القاء فرمایا اور یہ تحریک تحریک جدید کے نام سے شروع کی گئی جو اتنی با برکت اور بار آور ہوئی کہ آج تک جاری ہے.اس عظیم الشان تحریک کے ذریعے حضرت مصلح موعود نے جماعت کے سامنے 19 مطالبات رکھے ان مطالبات کی بجا آوری کے لئے جماعت احمدیہ کے مردوزن نے والہانہ لبیک کہا.حضرت مصلح موعود نے تحریک جدید کے جو مطالبات پیش فرمائے اُن کا زیادہ تعلق خواتین سے تھا.آپ نے تین سال تک کھانے پینے ، رہنے سہنے، آرائش وزیبائش میں سادگی اختیار کرنے کا حکم دیا.بے ضرورت کپڑے سلوانا گوٹا کناری سلمہ تلا اور فیتہ وغیرہ پر روپیہ خرچ کرنا.نئے زیور خریدنا ، ان سب چیزوں پر حضور نے پابندی عائد کر دی.بجائے اس کے کہ احمدی خواتین اس بات کا برامنا تیں اُنہوں نے اس تحریک کا جواب انتہائی جوش و خروش سے
200 دیا اور عملی طور پر ثابت کر دیا کہ وہ ( دین حق ) کی ترقی کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں.قادیان کی لجنہ نے سب سے پہلے لبیک کیا اور لجنہ کے اجلاس میں اہلیہ حضرت حافظ روشن علی صاحب نائب صدر لجنہ قادیان نے مندرجہ ذیل ریزولیوشن پیش کیا: - ”ہم حضور انور کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے یہ عہد کرتی ہیں کہ ہم تین سال تک حضور کے ارشادات کے مطابق بالکل سادہ زندگی اختیار کریں گی حتی الوسع لباس اور غذا میں کفایت شعاری سے کام لیں گی انشاء اللہ ایسا ہی ہم خدمت دین کیلئے ہر وقت حاضر ہیں.ہماری جانیں اور مال سب ( دینِ حق ) پر فدا ہیں.ہماری خوشی ہماری راحت ہماری مسرت ہماری زینت ، ہماری خوشی ، ہماری زیبائش، ہمارا سکون ، ہمارا ایمان، ہمارا اطمینان سب دینِ حق ) کے ارتقاء میں مضمر ہے.اس لئے یہ لازماً ضروری ہے کہ ہم اس عہد کو مدنظر رکھتے ہوئے جو ہم نے حضرت امام المتقین حضرت خلیفہ المسیح الثانی (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) سے بیعت میں کیا ہے کہ ”ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گی“ سواب وقت آ گیا ہے کہ وفائے عہد کرتے ہوئے دین کو دنیا پر مقدم کر کے دکھا ئیں کیونکہ اس عہد میں سب بہنیں امیر غریب متوسط سب ہی شامل ہیں.امانت فنڈ : امانت فنڈ میں سلسلہ کے احباب کو اپنا فالتو روپیہ جمع کرانے کی تحریک کی گئی.1934ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضوراقدس نے تحریک فرمائی کہ عورتیں اپنا زیور بیچ کر امانت فنڈ میں روپیہ جمع کروائیں تا کہ اُن کا روپیہ بھی جمع رہے اور انہیں
201 ثواب بھی حاصل ہو چنانچہ بہت سی خواتین نے اس تحریک پر بھی لبیک کہا اور اپنے زیور فروخت کر کے رقوم امانت فنڈ میں جمع کرائیں.(الفضل 16 / مارچ 1935ء) قرضہ حسنہ: 1936ء کو اکتوبر میں مجلس مشاورت منعقد ہوئی تو حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے جماعت کی اشد ضرورت کے پیش نظر مخلصین جماعت سے ایک لاکھ روپیہ بطور قرضہ طلب فرمایا جس کی واپسی پانچ سال میں ہوگی اس قرضہ میں کم از کم یکصد (100) روپیہ دینا ہو گا چنانچہ احمدی خواتین اس میں بھی شامل ہوئیں اور متعدد خواتین نے شرکت کی.مندرجہ ذیل خواتین کے نام تاریخ لجنہ جلد اول کے صفحہ 403 پر درج ہیں :- 440 روپے (1) اہلیہ صاحبہ چوہدری اکبر علی صاحب چکوال (2) اہلیہ صاحبہ ملک محمد شفیع صاحب نوشہرہ چھاؤنی 200 روپے (3) سعیدہ بیگم صاحبہ بنت سیٹھ محمد غوث صاحب حیدر آباد 100 روپے (4) سلیمہ بیگم صاحبہ (5) امة الحفیظ بیگم صاحبہ (6) امتہ الحئی بیگم صاحبہ " " " " " " " " " " " " 100 روپے 100 روپے 100 روپے (7) مجیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری شاہ نواز صاحب 100 روپے 100 روپے (8) اہلیہ صاحبہ ملک حسن محمد صاحب قادیان خلافت جوبلی فنڈ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے 1937ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر جو بلی فنڈ کی تحریک کی مردوں کے علاوہ عورتوں نے بھی اس میں حصہ لیا.اس فنڈ میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مستورات کے علاوہ قادیان اور بیرون قادیان کی مستورات نے بھر پور حصہ لیا.تاریخ لجنہ جلد اول صفحہ 149)
202 ( بیت ) اقصیٰ اور ( بیت ) مبارک قادیان کی توسیع کے لئے حضرت فضل عمر (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) نے 23 / دسمبر 1938 ء کو ایک تحریک کی کہ ہر کمانے والا دس روپے فی کس کے حساب سے چندہ دے اور جن عورتوں کی کوئی آمدنی نہیں اور بچے بھی صرف ایک پیسر فی کس چندہ دیں تا کہ جماعت کا کوئی فرد اس ثواب سے محروم نہ رہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے عورتوں کے جذ بہ قربانی کا یوں تذکرہ فرمایا :- ” جب میں نے اس کے متعلق خطبہ پڑھا تو باوجود یہ کہ میں نے کہہ دیا تھا کہ اس تحریک میں دس روپے سے زیادہ کسی سے نہ لیا جائے پھر بھی ایک عورت نے اپنی دوسو روپے کے قریب مالیت کی چوڑیاں اس فنڈ میں داخل کر دیں جو میں نے بزور واپس کیں اور کہا کہ آپ اس میں دس روپے تک ہی دے سکتی ہیں.“ تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ 41-45) مینارہ اسی پرسنگ مرمرکا پلاسٹر کروانے کے لئے جب تین ہزار روپے کی تحریک کی گئی تو اس میں 28 خواتین نے ایک ایک سو روپیہ دیا.اُن کے نام، مینارہ اسی پر کندہ ہیں.دوش بدوش صفحه 40) غرباء کے لئے 22 رمئی 1942ء کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے غلہ کی تحریک کی کیونکہ جنگ کی وجہ سے قحط کے آثار شروع ہو گئے تھے.حضور نے پانچ سو من غلہ یا اُس کی خرید کے لئے اس کے برابر رقم دینے کی تحریک فرمائی تو تھوڑے ہی عرصے میں پندرہ سو من غلہ جمع ہو گیا حضور نے فرمایا تھا کہ جو اپنے لئے دس من غلہ خریدے وہ صرف دس سیر غلہ غرباء کے لئے دے دے چنانچہ اس تحریک میں شمولیت
203 سے خواتین بھی محروم نہ رہیں.39 ناموں میں حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم اور حضرت سیّدہ ام طاہر کے نام بھی درج ہیں.تاریخ لجنہ جلد اول صفحه 507) خدا اس غریب بندی کا گھر جنت میں ضرور بنائے گا : حضور اقدس نے خواتین کی بے مثال مالی قربانی کے سلسلہ میں فرمایا :- یہ خلافت ہی کی برکت ہے جو تم دیکھ رہے ہو کہ کس طرح قادیان کے غریبوں اور مسکینوں نے ایسی قربانی پیش کی جس کی نظیر کسی اور جماعت میں نہیں مل سکتی.آج بھی مجھے حیرت ہوئی جب کہ ایک غریب عورت جو تجارت کرتی ہے جس کا سارا سرمایہ سوڈیڑھ سوروپے کا ہے اور جو ہندؤوں سے مسلمان ہوئی ہے صبح ہی میرے پاس آئی اور اس نے دس دس روپے کے پانچ نوٹ یہ کہتے ہوئے مجھے دیئے کہ یہ میری طرف سے (بیت) کی توسیع کیلئے ہیں.میں نے اُس وقت اپنے دل میں کہا کہ اس عورت کا یہ چندہ اُس کے سرمایہ کا آدھا یا ثلث ہے مگر اس نے خدا کا گھر بنانے کیلئے اپنا آدھا یا ثلث سرمایہ پیش کر دیا ہے پھر کیوں نہ ہم یقین کریں کہ خدا بھی اپنی اس غریب بندی کا گھر جنت میں بنائے گا اور اسے اپنے انعامات میں سے حصہ دے گا.“ الفضل صفحہ 11، 14 / مارچ 1944ء) وقف جائیداد کی تحریک حضور نے 15 / مارچ 1942ء کو فرمائی تو قادیان کے اصحاب نے چند گھنٹوں کے اندر اندر چالیس لاکھ روپے کی مالیت کی جائیدادیں وقف کر دیں اور جب اس خطبہ کی اطلاع قادیان سے باہر پہنچی تو وقف ہونے والی جائیدادوں کی مالیت چند دنوں کے اندر کروڑ تک جا پہنچی..اقدس نے غریب عورتوں کے جذبہ ایثار اور قربانی کو اپنے خطبہ میں یوں سراہا : - حضرت
204 لیں..” میری تحریک کے بعد بعض غریب عورتیں میرے پاس آئیں اور اپنے زیور پیش کئے کہ یہ لے لیں ایسا نہ ہو کہ ہم خرچ کرلیں.میں نے کہا کہ ابھی ہم اس طرح نہیں لے رہے.ایک عورت نے تو ایک عورت کے پاس اپنے زیور رکھ دیئے کہ جب ضرورت ہو تو دے دیئے جائیں ایسا نہ ہو کہ اُس کے پاس ہوں تو خرچ ہو جائیں.( تاریخ لجنہ جلد اول صفحہ 546) خواتین نے اپنی جائیداد منقولہ و غیر منقولہ حق مہر ، زیور، کئی ماہ کی آمدنی جیب خرچ وغیرہ پیش کیا.تاریخ لجنہ میں خاندان حضرت مسیح موعود کی خواتین اور دیگر خواتین کے 169 ناموں کی فہرست درج ہے.تعلیم الاسلام کالج کے لئے چندہ کی تحریک 24 / مارچ 1944ء کو ہوئی اور ڈیڑھ لاکھ روپے کا مطالبہ کرتے ہوئے حضرت فضل عمر نے گیارہ ہزار روپے اپنے اور اپنی بیویوں کی طرف سے عطا فرمائے حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ نے پانچ سوروپے دیئے قادیان اور بیرونِ قادیان کی 28 لجنہ کی ممبرات کے نام انفرادی اور اجتماعی درج ہیں.( تاریخ لجنہ جلد اول صفحه 554) بعد میں کالج میں بی اے، بی ایس سی کلاسز کا اضافہ کرنے کے لئے رقم کی ضرورت ہوئی تو عورتوں نے بھی شمولیت کی.( دوش بدوش صفحه 44) دفتر لجنہ کے لئے 1945 ء میں چندہ جمع کر کے زمین کی ادا شدہ قیمت دی گئی اور تعمیر شروع کر دی گئی.اس چندہ میں لجنہ قادیان کے علاوہ باہر کی لجنات نے بھی حصہ لیا.1944 ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت مصلح موعود نے لجنہ کو جرمن
205 زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ اور ایک کتاب کا ترجمہ چھپوانے کے لئے اٹھائیس ہزار روپے کی تحریک کی احمدی مستورات نے چونتیس ہزار روپے جمع کر دیا.1954ء میں جرمن ترجمہ کا پہلا ایڈیشن شائع ہوا.فرمایا:- تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ 567) حضرت اقدس فضل عمر نے اپنے خطاب جلسہ سالانہ 1944ء کے موقع پر گولڈ کوسٹ (جنوبی افریقہ) کی جماعت نے فیصلہ کیا ہے کہ اب وہاں ایک زنانہ اسکول بھی جاری کیا جائے جس کے لئے وہاں کے ایک احمدی نے پندرہ ہزار روپے کی زمین دے دی ہے اور اب وہاں کی لجنہ نے فیصلہ کیا ہے کہ عورتیں چندہ جمع کر کے وہاں اسکول بنائیں ( گی).“ ( الا زہار لذوات الخما رصفحہ 411) 21 فروری 1947ء کو حضرت مصلح موعود نے اعلان فرمایا کہ قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ عنقریب شائع ہو جائے گا اور جماعت میں تحریک فرمائی کہ سیاستدانوں ، لیڈروں اور مستشرقین میں تقسیم کرنے کے لئے احباب کو ایک ہزار جلد خرید کر سلسلہ کے حوالے کرنی چاہیے.حضور کے اس خطبہ کے بعد لجنہ نے دوسو جلدوں کی پیش کش حضور کی خدمت میں کی.تاریخ لجنہ جلد اول صفحہ 618) 21 /اکتوبر 1956ء کے سالانہ اجتماع کے موقع پر حضرت مصلح موعود نے ایک نہایت ایمان افروز واقعہ سنایا: - جب تقسیم ملک ہوئی اور ہم ہجرت کر کے پاکستان آئے تو جالندھر کی ایک احمدی عورت مجھے ملنے آئی رتن باغ میں
206 ہم مقیم تھے وہیں وہ آکر ملی اور اپنا زیور نکال کر کہنے لگی کہ حضور میرا یہ زیور چندہ میں دے دیں.میں نے کہا بی بی عورتوں کو زیور کا بہت خیال ہوتا ہے اور تمہارے سارے زیور سکھوں نے لوٹ لئے ہیں.یہی ایک زیور تمہارے پاس بچا ہے اسے اپنے پاس رکھو.اس پر اُس نے کہا حضور جب میں ہندوستان سے چلی تھی تو میں نے عہد کیا تھا کہ اگر میں امن سے لاہور پہنچ گئی تو اپنا یہ زیور چندہ میں دے دونگی آپ مجھے اسے اپنے پاس رکھنے پر مجبور نہ کریں چنانچہ اُس عورت نے اپنا یہ زیور چندہ میں دے دیا.( دوش بدوش صفحه 46) ہالینڈ میں (بیت) کی تعمیر کے لئے حضرت فضل عمر نے جماعت کی خواتین کوتحریک کی.گو یہ وقت بہت مالی تنگی کا تھا اور جماعت کا اکثر حصہ ہجرت کے زخموں سے چور تھا تا ہم عورتوں کا ایسے حالات میں ( بیت ) کے لئے ایک معقول رقم کی فراہمی اُن کا ایک زندہ جاوید کا رنامہ تھا.( دوش بدوش صفحه 47) 31 مئی 1950ء کو دفتر لجنہ کا سنگ بنیاد رکھا گیا.جس کی تعمیر پر -/80,000 روپے خرچ ہوئے.7 نومبر 1952ء کو لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے ہال میں جامعہ نصرت کے سالانہ جلسہ تقسیم اسناد کے موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے فرمایا:- ہال عورتوں کا اپنا بنایا ہوا ہے اور میرا خیال ہے کہ سارے پاکستان میں عورتوں کا اتنا بڑا ہال کوئی نہیں.اور یہ خوشی کی بات ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کی عورتوں کو ہر رنگ میں ترقی کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.“ ( دوش بدوش صفحه (48)
207 اسی طرح یکم نومبر کو 1950ء کو امتہ الحئی لائبریری کے لئے تین ہزار روپے دیئے.سکینڈے نیوین مشن میں خواتین نے تین ہزار روپے دیئے.( بیت) ہیمبرگ کی بنیاد 22 فروری 1957ء کو رکھی گئی اس میں بھی حضرت مسیح موعود کے خاندان اور باقی احمدی خواتین نے حسب سابق جوش سے حصہ لیا.1956ء میں لجنہ کے زیر انتظام نصرت انڈسٹریل اسکول کا اجراء ہوا.خواتین نے اسکول کے لئے گیلری بنوانے اور پندرہ سلائی مشینوں کی خریداری کے لئے رقم دی.اس اسکول کا مقصد غریب لڑکیوں اور بیواؤں کو ہنر سکھانا تھا.وقف جدید کی تحریک آخری تحریک ہے جو حضرت مصلح موعود نے 1958ء میں جماعت کے سامنے پیش فرمائی.وقف جدید کی تحریک نہایت کامیابی سے جاری ہے.مستورات کے علاوہ ہر احمدی بچی جو خواہ ایک دن کی عمر کی ہواس تحریک میں شامل ہونی چاہئے.جن بچیوں ( ناصرات) کی طرف سے سو روپے سالانہ ادائیگی ہوتی ہے وہ منھی مجاہدات کہلاتی ہیں یہ تحریک اب پاکستان اور بیرونِ پاکستان میں بڑی کامیابی سے جاری ہے.اور بڑے اعلیٰ نتائج کی حامل ثابت ہوئی ( دوش بدوش صفحه 50-51) ہے.حصہ لیا.فرینکفرٹ (جرمنی) کی ( بیت ) کی تعمیر میں خواتین نے بھر پور ( بیت ) زیورخ (سوئٹزر لینڈ ) میں بھی عورتوں نے معقول حصہ لیا اس کا سنگِ بنیاد حضرت سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نے 25 اگست 1962 ء کو رکھا.خلافت ثالثہ میں خواتین نے فضل عمر فاؤنڈیشن پروگرام میں بھر پور حصہ لیا.
208 حضرت خلیقہ مسیح اثالف نے 19 دسمبر 1965ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی اصلح الموعود کے سنہری کارناموں اور ان گنت احسانون کی یادگار کے طور پر پچیس لاکھ روپے کا ایک فنڈ قائم کرنے کی تحریک کی.جس کا نام ”فضل عمر فاؤنڈیشن“ رکھا گیا.جماعت نے قلیل عرصے میں 34 لاکھ کی رقم پیش کر دی احمدی خواتین نے بھی حضرت مصلح موعود کے ساتھ اپنی محبت کا عملی ثبوت پیش کرتے ہوئے اس تحریک پر والہانہ لبیک کہا اور مالی قربانی کے بے نظیر نمونے پیش کئے.اس فنڈ کی آمد سے حضرت مصلح موعود کے جاری کردہ عظیم الشان ( دوش بدوش صفحه 53) کاموں کی تکمیل ہوتی ہے.( بیت ) نصرت جہاں کو پن بیگن (ڈنمارک) کی تیسری (بیت) خالصتاً احمدی عورتوں کے چندہ سے تعمیر کی گئی.حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ حرم حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے 27 ستمبر 1964 ء کو یہ تحریک حضرت مصلح موعود کی منظوری سے پیش کی.اور حضرت فضل عمر کے عظیم احسانات خصوصاً طبقہ نسواں پر کی یادگار کے طور پر ایک (بیت) کی تعمیر کا خیال اور خواہش کا اظہار فرمایا.مئی 1966ء کو صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے اس کا سنگ بنیاد رکھا جب کہ 6 21 جولائی 1967ء کو حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ اسیح الثالث نے اس کا افتتاح فرمایا.اس ( بیت ) کے لئے صرف خواتین نے چھ لاکھ چھ ہزار کی رقم جمع کر کے عظیم الشان مالی قربانی کا ثبوت فراہم کیا.( دوش بدوش صفحه 55) حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے 1970ء میں مغربی افریقہ کے دورہ کے بعد نصرت جہاں ریز روفنڈ کی تحریک فرمائی تا کہ افریقہ کی مظلوم اور غریب اقوام کے لئے ہسپتال، اسکول اور ڈسپنسریاں کھولی جائیں چنانچہ حسب سابق احمدی عورتوں نے مردوں کے دوش بدوش لاکھوں روپے چندہ دیا اس فنڈ سے قرآن کریم کی ستائیس ہزار جلدیں مع انگریزی ترجمہ افریقہ کے چھ ممالک میں بھجوائی گئیں.کئی اعلیٰ دو
209 تعلیم یافتہ خواتین زندگی وقف کر کے افریقی ممالک میں خدمت ( دینِ حق ) بجالا رہی ہیں جن میں ٹیچر ز بھی ہیں اور ڈاکٹر ز بھی.گھانا کے شمالی علاقہ میں بچیوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے 1970ء میں نصرت جہاں اکیڈمی شروع کی گئی.( تاریخ لجنہ جلد سوم صفحہ 647) 1970ء میں جامعہ نصرت ربوہ کے سائنس بلاک کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا اس بلاک پر تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپیہ خرچ ہوا جس کا نصف لجنہ اماءاللہ نے ادا کیا.25 دسمبر 1972ء کو لجنہ اماءاللہ کے قیام پر پچاس سال گزرے صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے 1968ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر یہ تحریک پیش کی کہ لجنہ کے پچاس سالہ جشن کے موقع پر لجنہ اماءاللہ کی طرف سے ایک لاکھ روپے کی رقم حضرت خلیفتہ امسیح کی خدمت میں پیش کی جائے.علاوہ ازیں ایک وسیع دفتر لجنہ تعمیر کیا جائے نیز لجنہ اماءاللہ کی پچاس سالہ تاریخ لکھی جائے اس تحریک کو تحریک خاص کا نام دیا گیا.حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے لجنہ عالمگیر کی طرف سے دو لاکھ روپے کا گراں قدر عطیہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں پیش کیا.حضور نے یہ رقم جدید پریس میں لگانے کا ارشاد فرمایا تھا.تا کہ اس پریس میں ہمیشہ ہمیش کے لئے قرآن مجید چھپتا رہے اور ثواب لجنہ اماءاللہ کو ملتا ہے یہ امر قابل ذکر ہے کہ مذکورہ بالا دو لاکھ کی رقم میں سے ایک لاکھ روپیہ لجنہ انگلستان نے پیش کیا.جلسہ سالانہ کے موقع پر عورتوں کے قیام کے لئے جگہ کی شدید تنگی محسوس ہوتی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام ”وَسَعُ مَكَانَكُ “ کے پیشِ نظر حضرت خلیفہ اسیح کی منظوری سے حضرت سیدہ صدر صاحبہ نے 28 جون 1976ء کو اس چندہ کی تحریک (مہمان خانہ مستورات ) بذریعہ الفضل فرمائی اس تحریک میں بھی خواتین نے عظیم قربانی کا مظاہرہ کیا.لہذا ساڑھے تین لاکھ کی لاگت سے یہ مہمان
210 خانہ تعمیر ہوا.سو سالہ جو بلی فنڈ“ کے نام سے حضرت مرزا ناصر احمد خلیفتہ امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے 1973 ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر ایک عالمگیر منصوبہ کا اعلان فرمایا تا کہ جماعت احمد یہ اپنا سو سالہ جشن شایان شان طریقہ سے منا سکے.حسب معمول اس فنڈ میں مردوں کے شانہ بشانہ خواتین نے بھی جوش خروش سے حصہ لیا اور یہ ثابت کر دیا کہ وہ ثبات قدم کے ساتھ مالی قربانیوں کے میدان میں مسابقت کی روح لئے ہوئے رواں دواں ہیں.خدایا تیرا مسیحا کس شان کا تھا: حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تقریر 12 ستمبر 1992ء کو جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر فرمایا:- حضرت فضل عمر اُس زمانے میں ( بیت ) برلن کی تعمیر کی تحریک کے دوران ایک احمدی پٹھان عورت کی قربانی کا ذکر فرماتے ہیں کہتے ہیں ضعیف تھی چلتے وقت قدم سے قدم نہیں ملتا تھا.لڑکھڑاتے ہوئے چلتی تھی، میرے پاس آئی اور دوروپے میرے ہاتھوں میں تھما دیئے زبان پشتو تھی اُردو اٹک اٹک کر تھوڑا تھوڑا بولتی تھی اتنی غریب عورت تھی کہ جماعت کے وظیفہ پر پل رہی تھی اُس نے اپنی چھنی کو ہاتھ لگا کر دکھایا کہ یہ جماعت کی ہے اپنی قمیض کو ہاتھ میں پکڑ کر بتایا کہ یہ جماعت کی ہے جوتی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ بھی جماعت کی ہے اور جو وظیفہ ملتا تھا اس میں سے جو دوروپے تھے وہ کہتی ہے وہ بھی جماعت ہی کے تھے.میں نے اپنے لئے اکٹھے بچائے ہوئے تھے اب میں یہ جماعت کے حضور پیش کرتی ہوں کتنا عظیم جذبہ تھا وہ دوروپے جماعت ہی کے وظیفہ سے بچائے ہوئے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے حضور اُس دوروپے کی عظیم قیمت ہوگی.حضرت فضل عمر فرماتے ہیں اُس نے کہا یہ جوتی دفتر کی ہے، میرا قرآن بھی دفتر کا ہے یعنی میرے پاس کچھ بھی نہیں مجھے ہر چیز دفتر سے ملتی ہے فرماتے
211 ہیں اُس کا ایک ایک لفظ ایک طرف تو میرے دل پر نشتر کا کام کر رہا تھا اور دوسری طرف میرا دل اُس محسن کے احسان کو یاد کر کے جس نے ایک مردہ قوم میں سے زندہ اور سرسبز روحیں پیدا کر دیں شکر و احسان کے جذبات سے لبریز ہورہا تھا اور میرے اندر سے یہ آواز آرہی تھی.خدایا ! تیرا مسیحا کس شان کا تھا جس نے اُن پٹھانوں کی جو دوسروں کا مال لوٹ لیا کرتے تھے ایسی کا یا پلٹ دی کہ وہ تیرے دین کے لئے اپنے ملک اور اپنے عزیز اور اپنا مال قربان کر دینا ایک نعمت سمجھتے ہیں.احمدی خواتین کا مالی قربانیوں کا ایک سمندر ہے.جسے کوزے میں سمونا بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن کام ہے.حضرت اماں جان سے بات شروع کرتا ہوں حضرت اماں جان نے ہر قسم کے چندوں میں جماعت احمدیہ کی خواتین کے لئے ایسے پاک اور دائی نمونے چھوڑے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے دوڑ میں کوئی تیز رفتار مضبوط جوان آگے بڑھ کر رفتار کے معیار مقرر کرتا ہے اور دوسرے ساتھی اگر اس معیار پر پورے اُتریں تو مقابلے میں شامل رہتے ہیں ورنہ بہت پیچھے رہ جاتے ہیں اسی طرح اگر خواتین نیک کاموں میں دوڑیں لگا رہی ہیں تو آپ کو اس دوڑنے والے قافلے کے سر پر اماں جان حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہ دکھائی دیتی ہیں یہ واقعہ ہے اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ مالی قربانی کیسے کی جاتی ہے اس کے نمونے حضرت اماں جان نے اُس زمانے میں دکھا دیئے اور اللہ کے فضل سے احمدی خواتین نے پھر کوئی کمی نہیں کی بلکہ مسلسل اسی راہ پر اُسی شان کے ساتھ ، اُسی ولوے اور جذبے کے ساتھ آگے قدم بڑھاتی رہیں.دوسرا پہلو عورت کی قربانی کا یہ ہے کہ ان کی قربانیاں جب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہوتی ہیں تو وہ زندہ جاوید بنادی جاتی ہیں.زندہ جاوید اس طرح نہیں کہ ان کا ذکر چلتا ہے بلکہ اس طرح کہ وہی قربانیاں ہیں جو آئندہ نسلوں میں سرایت
212 کرتی جاتی ہیں.آج جو آپ لوگوں کو خدا کے حضور غیر معمولی قربانیوں کی توفیق مل رہی ہے اس میں یقیناً ان ماؤں کا دخل ہے جنہوں نے چار چار آٹھ آٹھ آنے کی قربانیاں اس طرح پیش کیں گویا اپنا لہو پیش کر رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اس لہو کو ایسے رنگ لگائے کہ آج تمام دنیا میں خواتین عظیم قربانیاں پیش کر رہی ہیں اور ان قربانیوں کے نتیجہ میں خدمت دین کے بڑے بڑے کام لئے جارہے ہیں اللہ تعالیٰ اس جذبے کو ہمیشہ سلامت اور دائم اور قائم رکھے.حضرت فضل عمر پرانے زمانے کا ذکر فرماتے ہیں کہ جب ابھی بہت زیادہ غربت تھی، ایک بڑھیا خاتون نے جس کا خاوند فوت ہو چکا تھا.حضور کی تحریک پر باوجود غربت کے وعدہ کیا کہ آٹھ آنے ماہوار دیا کروں گی.آپ اندازہ کریں اُس وقت آٹھ آنے کی کیا قیمت تھی اور اُس زمانے میں آٹھ آنے ماہوار ادا کرنا اُس کے لئے کتنا مشکل تھا لیکن چند مہینے اُس نے آٹھ آنے ماہوار ادا کئے اور اس کے بعد پھر بے قرار ہوگئی کہ مجھے وعدہ پورا کرتے ہوئے ایک سال لگے گا تو حضرت فضل عمر کی خدمت میں باقی پیسے پیش کرتے ہوئے اُس نے کہا اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ خواہ فاقے کرنے پڑیں لیکن میں اکٹھا دونگی وہ آٹھ آنے بچانے کے لئے واقعی اس عورت کو فاقے درپیش تھے تو بظاہر یہ ایک بہت معمولی قربانی تھی لیکن وہ جذ بہ، وہ اخلاص، اللہ تعالیٰ کی محبت میں فنا ہو کر اپنے اموال پیش کرنا یہ وہی ہے جو آج ساری جماعت کے کام آ رہا ہے.“ یہ جرمنی جس میں ہم اس وقت بیٹھے ہوئے ہیں اُن کا جماعت پر بڑا حسان ہے مگر وہ قربانیاں جو غریبوں نے جرمن قوم کو دین سکھانے کے لئے پیش کی تھیں وہ چند آنوں کی ہوں یا بکریوں کی ہوں ، روپوں کی ہوں یا زیورات کی یا گھر کے برتنوں کی، امر واقعہ یہ ہے کہ اُن کی چمک دمک کو آئندہ زمانوں کی کوئی بھی قربانیاں ماند نہیں کر سکتیں.قربانی کا تعلق دل کے جذبوں سے ہوا کرتا ہے.پیسوں کی مقدار
213 قربانی نہیں بنایا کرتی.وہ ولولے وہ جذ بے وہ پچھلتی ہوئی روح جو قربانی کو پیش کرنے کے لئے بے قرار ہوا کرتی ہے وہی ہے جس سے قربانی کے معیار بنتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ احمدی عورتوں نے جرمنی کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے اور جرمن قوم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین میں داخل کرنے کی خاطر خدائے تعالیٰ کے حضور جو قربانیاں پیش کی ہیں ان سے اگر چہ وہ ( بیت ) تو نہ بن سکی ( بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پر جرمنی میں اُس وقت ( بیت) نہ بن سکتی تھی لہذا وہ رقم ( بیت ) فضل لندن کی تعمیر پر خرچ کی گئی مگر یہ قربانیاں ہمیشہ زندہ رہیں گی اور میں یہ سمجھتا ہوں یہی وہ قربانیاں ہیں جنہوں نے آئندہ آنے والی احمدی نسلوں کے لئے رفتار کے وہ معیار مقرر کر دیے تھے جن پر آج بھی جماعت احمدیہ کی عورتیں اُسی دُھن کے ساتھ اُسی جذبے کے ساتھ اُسی ولولے کے ساتھ گامزن ہیں.“ پھر فرمایا : - (مصباح جولائی 1992ء صفحہ 11-12) ” جب (بیت) کوپن ہیگن کی تحریک ہو رہی تھی اور عورتیں جس طرح و والہانہ طور پر سب کچھ حاضر کر رہی تھیں تو اتفاق سے ایک غیر احمدی عورت بھی وہاں بیٹھی یہ نظارہ دیکھ رہی تھی اس نے یہ تبصرہ کیا کہ ہم نے دیوانہ وار لوگوں کو پیسے لیتے دیکھا ہے لیکن دیوانہ وار لوگوں کو پیسے دیتے بھی نہیں دیکھا.یہ آج احمدی عورتوں نے ہمیں بتایا ہے کہ پیسے لیتے ہوئے جوش نہیں ہوا کرتا اصل جوش وہ ہے جو پیسے دیتے وقت دکھایا جائے.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ وہ زندگی کی علامت ہے جس نے احمدی خواتین کو سب دنیا میں ممتاز کر دیا ہے.“ 66 نائیجریا میں جب حضرت امام جماعت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے تحریک فرمائی تو ایک خاتون نے 25 ،30 ہزار پاؤنڈ پیش کئے.آپ نے فرمایا : - ”میرے علم میں افریقی ممالک کا کوئی اکیلا فرد بھی ایسا نہیں جس نے بیک
214 وقت 25، 30 ہزار چندہ دیا ہو.اسی طرح ایک اور نائیجرین خاتون الحاجہ لا ر گانے بھی دس ہزار پاؤنڈ (بیت) کے لئے پیش کئے.امریکہ میں پرانے زمانوں میں بہت غربت تھی یعنی احمدی افراد ا کثر پیدائشی امریکیوں میں سے آئے تھے اور اُن کے حالات اُس وقت بہت ہی غربت کے حالات تھے تو احمدی خواتین خدمت کر کے اپنی قربانی کی روح کو تسکین دیا کرتی تھیں.ہماری ایک مخلص خاتون کلیولینڈ اوہایو سے تعلق رکھتی ہیں انہوں نے بتایا کہ ہم اتنے غریب تھے اور میرا سارا خاندان اتنا شکستہ حال تھا کہ کچھ بھی ہم خدمت کرنے کے لائق نہ تھے.میں اپنے خدمت کے جذبے کو تسکین دینے کے لئے یہ کیا کرتی تھی کہ جمعہ کے روز علی اصبح مشن ہاؤس جاتی اپنے ساتھ پانی کی بالٹی اور گھر میں بنائے ہوئے صابن کا ٹکڑا لے جاتی تھی یعنی اس زمانے میں امریکہ جیسے ملک میں بھی اُن کو صابن خرید نے کی توفیق نہیں تھی گھر میں بنایا ہوا صابن لے جا کر ساری ( بیت) کو دھوتی اور پالش کرتی اور جمعہ سے پہلے اس لئے واپس آجایا کرتی تھی کہ کسی کو پتہ نہ لگے کہ یہ کام کس نے کیا ہے.عجیب حسین اور ہمیشہ زندہ رہنے والی قربانیاں ہیں لیکن بے آواز ہیں اور ہر ملک میں احمدی عورتیں اس قربانی میں برابر شریک ہوتی ہیں.اب اس زمانے میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی خاتون کے جذبہ قربانی پر کوئی برا اثر نہیں پڑا بُرا اثر تو کیا جہاں تک قربانی کے عمومی معیار کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں کہ عالمی حیثیت سے احمدی خواتین قربانی میں آگے بڑھی ہیں پیچھے نہیں ہٹیں.جب یورپ کے مشنوں کی تحریک کی گئی تو اُس زمانے میں جو مجھے یاد ہے عجیب کیفیت میں ان کے دن کئے بعض دفعہ احمدی خواتین کے حالات جانتے ہوئے میں منتیں کیا کرتا تھا کہ آپ یہ نہ کریں آپ کی طرف سے میں دے دوں گا.لیکن وہ باز نہیں آیا کرتی تھیں مجبور کر دیا کرتی تھیں کہ ہمارا حال خدا پر رہنے دو ہم کسی
215 اور سے پیچھے نہیں رہ سکتیں.بڑے ہی دردناک نظارے ہیں جو آج میری آنکھوں کے سامنے آتے ہیں تو میرے لئے ضبط کرنا مشکل ہو جاتا ہے.کون دُنیا میں کہہ سکتا ہے کہ یہ پس ماندہ خواتین ہیں بے کار ہیں.گھروں میں بند ہیں.جو احمدی خواتین اس وقت دنیا کے سامنے مثبت کاموں کے نمونے پیش کر رہی ہیں کوئی دُنیا کی دوسری قوم ان کے پاسنگ کو بھی نہیں پاسکتی میں اس کے چند نمونے آپ کے سامنے رکھتا ہوں :- ایک ماں نے میرے پاس دس ہزار روپے بھیجے لکھتی ہیں کہ میرے پاس بیٹی کے زیور کے لئے دس ہزار روپے جمع تھے جو سُنار کو دیئے ہوئے تھے لیکن یہ خطبہ سن کر دل نے فیصلہ کیا کہ جب میرا خدا میری بیٹی کے لئے ساتھی دے گا تو زندہ خدا اس کو زیور بھی دے گا.آج میرے حضور کو ضرورت ہے چنانچہ سُنار کو دیئے ہوئے وہ پیسے واپس لے کر یورپین مشن کے چندے میں دے دیئے.ایک اور عورت بھتی ہے میں نے کچھ عرصہ پہلے اپنے زیور کا سیٹ مبلغ چار ہزار روپے میں فروخت کیا تھا کہ کچھ اور رقم جمع کر کے ذرا بھاری سیٹ بنواؤں گی تا کہ بچیوں کے کام آسکے لیکن بچیوں کے لئے اللہ کوئی اور انتظام کر دے گا.اب زیور بنوانے کی خواہش نہیں رہی میری طرف سے یورپین مشن کے لئے یہ حقیر رقم قبول فرمائیں.ایک واقف زندگی کی بیگم نے لکھا اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ میں اس قربانی کے موقع پر حاضری دوں اور قرآن مجید کے حکم لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ یعنی تم ہر گز نیکی کو نہیں پا سکو گے جب تک اس میں سے خرچ نہ کرو جو تمہیں عزیز ہو، جو تمہیں پیارا ہو.کہتی ہیں کہ اس آیت کے تابع میں نے سوچا کہ مجھے اپنی ملیتی چیزوں میں سے جو چیز سب سے پیاری ہے وہ پیش کروں تو میں نے دیکھا کہ میرے گلے کا ایک ہار جو میرے زیوروں میں سے
216 زیادہ بھاری ہے وہی مجھے سب سے پیارا ہے.پس میں یہ ہار یورپین مشن کے لئے پیش کرتی ہوں.پھر لکھتی ہیں کہ ( دین حق) کی ترقی اور عظمت ہی ہمارے گھر کا اصول رہا ہے اور اصل زینت کا باعث یہی ہے.اس لئے مجھے ( دین حق ) کی یہی زینت سب سے زیادہ پیاری ہے.ایک صاحب اپنی بیٹی کے متعلق لکھتے ہیں کہ میری بیٹی جس کی عمر پندرہ سال ہے اُس کے کانوں میں صرف دو بالیاں تھیں اور ناک میں ڈالنے والے دو کو کے تھے وہ بے قرار ہوگئی اور اُتار کر دے دیئے اور کہنے لگی ابا جان یہ میرے آقا کے حضور پیش.کر دیں اور اس جذبے سے اُس نے کہا کہ باپ بھی انکار نہیں کرسکا.بعض واقفین زندگی ایسے تھے جن کی خواتین کے پاس پیش کرنے کے لئے کچھ نہیں تھا تو انہوں نے اپنے بچے پیش کئے یہ جو وقف نو“ کی تحریک ہے یہ تو بعد میں چلی ہے.بہت پہلے بعض عورتوں نے اس وجہ سے کہ ہمارے پاس کچھ دینے کے لئے نہیں ہے.اپنے بچوں میں سے جو سب سے پیارا لگتا تھا وہی خدمت دین کے لئے پیش کر دیا تھا.لندن کی ایک خاتون نے اپنے نکاح کی ایک نشانی رکھ کر باقی سب کچھ خدا کی راہ میں پیش کر دیا تھا.لندن ہی سے ایک اور خاتون نے لکھا آج جب میں نے آپ کا خطبہ سنا تو میری نظر ایک دم میرے ہاتھ کی چوڑیوں اور باقی زیور پر پڑی میں نے گھر آکر اُتار دیں اور کہا عید سے پہلے یہ چیزیں میں دین کے لئے دے دوں اور عید پر کچھ نہ پہنوں حضور آپ یہ قبول فرماویں.میرا خدا میرے لئے کافی ہے.ایک واقف زندگی کی غریب بیٹی نے لکھا: سیدی! میرے پاس ایک انگوٹھی اور ایک کانٹے نیاز یورتھا میں نے کانٹے سلسلہ احمدیہ کو پیش کر دیئے ہیں.حضور جہاں چاہیں خرچ کریں میں بہت غریب اور تنگ حال خادمہ ہوں مگر جب میرے باپ نے زندگی وقف کر دی تو میرا بھی تو حق تھا کہ میں کچھ قربانی پیش کرتی.
217 ایک جرمن خاتون نے لکھا کہ میں نے جب احمدی خواتین کا جذبہ قربانی دیکھا تو میرے دل میں بھی ایک لگن لگ گئی ہے کہ میں بھی کچھ پیش کروں لیکن اتفاق سے اس وقت میرے پاس کوئی نقدی، کوئی چیز پیش کرنے کے لئے نہیں ہے.اس لئے میں اپنا ایک پیارا بیٹا خدمت دین کے لئے پیش کرتی ہوں جس طرح چاہیں اُس سے کام لیں جو چاہیں اُس سے سلوک کریں میری طرف سے اب آپ کا ہو چکا ہے.“ (مصباح جولائی 1993 صفحہ 12 تا 14) حضرت فضل عمر نے ( بیت ) جرمنی کی تحریک کے سلسلہ میں فرمایا کہ :- اُن دنوں قادیان کے لوگوں کا جوش وخروش دیکھنے کے قابل تھا اور اس کا وہی لوگ ٹھیک اندازہ کر سکتے ہیں جنہوں نے اس کو آنکھوں سے دیکھا مرد اور عورتیں اور بچے سب ایک خالص نشہ محبت میں چور نظر آتے تھے کئی عورتوں نے اپنے زیور اُتار دیئے اور بہتوں نے ایک دفعہ چندہ دے کر پھر دوبارہ جوش آنے پر اپنے بچوں کی طرف سے چندہ دینا شروع کر دیا.چونکہ جوش کا یہ حال تھا اپنے وفات یافتہ رشتہ داروں کے نام سے چندہ دیا.ایک غریب بچے نے جو ایک غریب اور محنتی باپ کا بیٹا تھا مجھے ساڑھے تیرہ روپے بھیجے کہ مجھے جو پیسے خرچ کے لئے ملتے تھے اُن کو میں جمع کرتا رہتا تھا وہ سب کے سب اس چندہ میں دیتا ہوں نہ معلوم کن کن اُمنگوں کے تحت اُس بچے نے وہ پیسے جمع کئے ہوں گے لیکن مذہبی جوش نے خدا کی راہ میں اُن پیسوں کے ساتھ اُن اُمنگوں کو بھی قربان کر دیا ( ناممکن ہے کہ اس بچے نے ایسی ماں کی گود میں پرورش پائی ہو جو دین کے لئے اپنا مال اور اپنے جذبات قربان نہ کرسکتی ہو.(مصباح جولائی 1993 ء صفحہ 10) آپ میں سے ہر وہ خاتون جو کسی ایسے خاندان سے تعلق رکھتی ہے جن کے آباؤ اجداد نے ابتداء میں احمدیت قبول کی تھی وہ مڑ کر دیکھیں تو سہی، کہ اُس زمانے
218 میں کیا حالات تھے اور اب کیا بن چکے ہیں.یہ سارے ان قربانیوں کے پھل ہی ہیں جو آپ کھا رہی ہیں اور آئندہ آپ کی نسلیں کھاتی چلی جائیں گی.جو قربانیاں آج آپ پیش کر رہی ہیں اُن کی ایک جزاء تو خدا نے وہیں نقد دی کہ آپ کے دل کو سکنیت سے بھر دیا.آپ کے گھروں کو برکتوں سے بھر دیا لیکن آئندہ نسلیں بھی اس کی خیرات پائیں گی اور یہ سلسلہ ایسا ہے جو نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے کاش دوسرے بھی دیکھیں اور سمجھیں کہ باقی رہنے والی لذتیں کیا ہوتی ہیں.ان کا دُنیا کی عارضی لذتوں سے مقابلہ کرنا محض نادانی اور جہالت ہے.دُنیا کی عارضی لذتیں تکلیفیں پیچھے چھوڑ جاتی ہیں ، دکھ چھوڑ جاتی ہیں بنے بنائے گھروں کو اُجاڑ دیتی ہیں مگر نیکی کرنے والے گھروں کو اللہ تعالیٰ برکتیں بخشتا ہے محبت اور پیار کے ماحول عطا کرتا ہے.اولا دیں ماں باپ کی رہتی ہیں ماں باپ اولاد کے رہتے ہیں اور ایسے محبت کے باہمی رشتے گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں جو اس دنیا ہی میں ہر گھر کو ایک جنت نشان گھر بنا دیا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہماری ان قربانیوں کو نہ صرف قبول فرمائے بلکہ ان کو دوام بخشے اور جتنا اجر عطا کرے وہ سب کچھ پھر ہم خدا کے حضور پیش کرتے چلے جائیں کیونکہ یہ سلسلہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے.چاہئے جو خدا دے وہ پھر ہم خدا کے حضور پیش کرتے رہیں.(مصباح جولائی 1993 ء صفحہ 21،20).بوسنیا (BOSNIA) کے مسلمانوں پر اُن کے ہم وطن عیسائیوں نے ظلم و ستم کا جو بازار گرم کیا اُس کو پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں.اُن کی جانیں ، گھر بار، عصمت بڑی بے دردی سے لوٹی گئیں.اپنے گھروں سے نکلے ہوئے بچے کھچے لوگ کیمپوں میں نہایت کسمپرسی کی حالت میں پڑے تھے زخمی ، بیمار، بچے بوڑھے اور حاملہ خواتین زیادہ قابل رحم حالت میں تھے ایسے حالات میں حضور اقدس کی طرف سے احمدی رضا کاروں کے ذریعے اُن کے لئے روزمرہ زندگی کی اشیاء اور ادویات وافر
219 مقدار میں بھیجوانے کا انتظام کیا گیا.بوسنیا کے تباہ حال لوگوں کے لئے بنیادی ضروریات کا انتظام کرنے کے لئے جماعت کے مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں نے بھی رقوم مہیا کیں اور اس کارخیر میں حصہ لیا.یورپین مراکز اور جرمنی میں 100 (بیوت) تعمیر کرنے کا کام بھی ایک بہت بڑے خرچ کا متقاضی تھا لیکن جماعت احمدیہ کے افراد ( مرد و زن) نے قدم پیچھے ہٹانے کے بجائے پورے جوش و خروش سے اس میں حصہ لے کر اپنے مضبوط ایمان کا عملی ثبوت فراہم کیا خواتین نے اپنے بھاری زیورات اپنے امام کی خدمت میں پیش کر دئیے.امریکہ کے مشن ہاؤس اور (بیوت) کی تعمیر کا خرچ اُٹھانا کوئی آسان مراحل نہ تھے لیکن خلافت رابعہ میں مردوں کے دوش بدوش عورتوں نے ان گراں قدر اسکیموں کو قابل عمل بنا دیا ہے.اسی طرح حضور اقدس نے برطانیہ میں شایان شان وسیع ( بیت ) اور مشن ہاؤس کا تذکرہ فرمایا تو وہاں بھی رقوم اُسی فراخدلی سے وصول ہونے لگ گئیں اس میں خواتین برابر کی شریک ہیں.b ایم ٹی اے (MTA): MTA کے سلسلے میں سیٹیلائٹ کے جملہ انتظامات کرنے میں کیا کیا مشکل مراحل آئے یہ ایک الگ داستان ہے لیکن اس نظام یعنی دنیا بھر سے چوبیس گھنٹوں کا رابطہ رکھنے کا نظام کس قدر مالی خرج کا تقاضا کر رہا تھا اس کا ایک عام آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا.لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک نہایت وسیع حوصلہ کے مالک انسان جو اولوالعزم کا اولوالعزم فرزند تھا اُسے اس آسمانی مائدہ کے بارے میں القاء فر مایا تو ہر قسم کی مشکل راستہ سے ہٹ گئی اور اتنا بڑا مالی منصوبہ پایہ تکمیل تک جا پہنچا خدائے تعالیٰ جو قادر وتوانا ہے اُسی نے اس کام کی طرف توجہ پھیری تھی تو ”ہمت مرداں مدد خدا کا ظہور ہو گیا اور اتنا بڑا معجزہ رونما ہوا کہ آج امیر سے امیر اور بڑی سے بڑی حکومت بھی یہ کام نہیں کر رہی جو جماعت احمدیہ کے غریب عوام نے کر دکھایا.
220 حضور انور نے MTA کے لئے ابھی کسی قسم کی مالی تحریک جماعت کو نہیں فرمائی تھی کہ اس کے لئے فنڈز فراہم کئے جائیں لیکن افراد جماعت تو اس بات کے منتظر رہتے ہیں کہ اُن کے پیارے امام کے منہ سے کوئی بات نکلئے کوئی اشارہ ملے تو وہ اپنے تعاون اور للہی فدائیت کا ثبوت دیں.بغیر طلب کئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے روحانی فرزند کے قدموں میں دولت کے ڈھیر لگا دیئے لاکھوں کے چیک مردوں اور عورتوں کی طرف سے وصول ہونا شروع ہو گئے.کیوں یہ انتظام نہ ہوتا اللہ تعالیٰ نے تو حضرت مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کو ” نور الدین“ بنا دیا.کوئی بھی خواہش، کوئی بھی منصوبہ ہو اُس کے لئے روپے کی کمی آڑے نہیں آتی.بہر کیف یہ عرض کرنا ہے کہ مالی قربانیوں کی جو تحریکات آج سے 113 سال قبل شروع ہوئی تھیں وہ مسلسل اس عرصے میں جاری چلی آرہی ہیں ان کا تذکرہ گذشته صفحات میں اس لئے کیا گیا ہے کہ ساٹھ یا ستر تحریکات میں شرح صدر سے چندہ دینا ایک حیرت انگیز مالی قربانی ہے اور انشاء اللہ یہ سلسلہ بڑھتا جائے گا اور پھیلتا چلا جائے گا اور احمدی خواتین مردوں کے قدم بقدم برضا و رغبت اس راستہ پر گامزن رہیں گی.انشاء اللہ مالی قربانی کا سلسلہ صرف پاکستان ، ہندوستان یا جرمنی تک ہی محدود نہیں بلکہ تمام دنیا میں پھیل چکا ہے سبھی کا ذکر تو اس کتاب میں کرنا ناممکن ہے مثال کے طور پر چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے.خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درخت وجود کی سرسبز شاخیں زمین کے چپے چپے پر پھیل رہی ہیں.کینیڈا کی سیکرٹری مال لجنہ اماءاللہ کی ایک رپورٹ برائے نمونہ پیش کر رہی ہوں.مکرمہ عطیہ شریف صاحبہ نے لجنہ اماءاللہ کی اُن مالی قربانیوں کی جھلک پیش کی ہے جو انہوں نے احمد یہ مشن ہاؤس اور احمدیہ ( بیت ) ٹورانٹو کے لئے بڑھ چڑھ کر
221 پیش کی ہیں.وہ لکھتی ہیں :- اس (بیت) ٹورانٹو (کینیڈا) کی ایک ایک اینٹ سیمنٹ ، بجری اور چونے سے نہیں بلکہ احباب جماعت ، خواتین اور بچوں کی قربانیوں سے چنی گئی ہیں.اس مادی دور میں جب کہ کوئی ایک پیسہ بھی دینے کو تیار نہیں ہوتا اس طرح کی قربانی وہی لوگ کر سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتے ہیں اور اُس کے فضلوں کے عینی شاہد ہوتے ہیں.آسمان شاہد ہے کہ (بیت) کے لئے کی جانے والی وقتا فوقتا تحریکات کے نتیجہ میں لجنہ اماءاللہ نے انفرادی وعدہ جات کی ادائیگی کے علاوہ اپنے سونے، چاندی ہیرے، جواہرات کے زیورات اپنے کانوں اور کلائیوں سے اُتار اُتار کر پیش کر دیئے جنہیں اُنہوں نے سالہا سال پیسہ جوڑ جوڑ کر خریدا تھا.جنہیں انہوں نے اپنی بیٹیوں کی شادیوں میں دینے کے لئے محفوظ کیا ہوا تھا یا جنہیں وہ شادی میں جہیز کی صورت میں لائی تھیں.زیورات خاص طور پر چوڑیاں والدین جہیز میں اس لئے بھی دیتے ہیں کہ یہ بغیر کسی ملاوٹ کے صرف سونے کی خالص ہوتی ہیں جو بوقتِ ضرورت اُسی قیمت پر فروخت ہو جاتی ہیں.خدا گواہ ہے کہ میرے پاس زیادہ تر زیورات چوڑیوں کی صورت میں ( بیت) فنڈ کے لئے آئے.اکثریت اُن میں ایسی بہنوں کی ہے جنہوں نے نقد اپنے وعدہ جات کیش کی صورت میں ادا کر دیے تھے.دوبارہ وعدہ جات میں اضافہ کی تحریک میں حصہ لینے کے لئے زیور و دیگر قربانی کا ایک نیا انداز پیش کیا.ان تین سالوں میں تقریباً اسی ہزار (80,000) ڈالر کی مالیت کے زیورات لجنہ اماءاللہ کینیڈا نے پیش کئے.بعض زیورات بالکل نئے نو بیا ہتا دلہنوں کے ہوتے.اطفال اور ناصرات نے ڈبوں میں سکے بھر بھر کر پیش کئے اور ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ اور جلد از جلد ڈبے بھر کر دیتے.یہ سکے اُن کی جیب خرچ، عیدی یا آمین کے تحفوں کے ہوتے گویا ان بچوں نے اپنی ماؤں کی
222 قربانیوں سے یہ سبق سیکھا تھا کہ وہ بھی اس نیکی سے محروم نہ رہیں.کینیڈا میں گذشتہ بارہ سال سے مینا بازار بھی انوکھی طرز کے ہوتے ہیں.یہ صرف اور صرف (بیت) اور مشن ہاؤس کے فنڈ کے لئے مخصوص ہوتے.آمدنی صرف ایک روزہ آمدنی نہ ہوتی بلکہ اس کے پیچھے شب و روز کی محنت جو سلائی، کڑھائی، پکوان سیل میں سستے داموں کپڑا خرید کر اور طرح طرح کی ترکیبوں سے یہ رقم بڑھائی جاتی رہی.حتی کہ ( بیت) کی تکمیل تک مینا بازار سے حاصل ہونے والی آمدنی ڈیڑھ لاکھ ڈالر سے زائد رقم پر مشتمل ہے.مالی قربانی کی یہ اعلیٰ مثال لجنہ اماءاللہ کینیڈا نے قائم کر کے آئندہ آنے والی نسلوں اور دوسری جماعتوں کے لئے ایک راستہ کھول دیا..ہر کوئی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں دکھائی دیتا تھا لیکن یہاں لینے کے لئے نہیں بلکہ دینے کے لئے..در حقیقت یہ خلافت ہی کی برکت ہے کہ اُس نے آج معاشی بدحالی کے اس دور میں جماعت احمدیہ کے افراد میں وہ روح زندہ کر دی ہے جس نے قرونِ اولیٰ اور پھر نشاۃ ثانیہ کے ابتدائی دور کی قربانیوں کی یاد تازہ کردی.(مصباح ستمبر 1993ء 23-26) لجنہ اماءاللہ جرمنی کی تاریخ 1973 ء تا 1990 ء مرتبہ کوثر شاہین ملک سے پتہ چلتا ہے کہ لجنہ کی تمام مہرات ہر قسم کے طوعی اور لازمی چندہ جات میں با قاعدہ بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں.مثل الجنہ گیزن کی آٹھ (8) ممبرات کے نام سو (100) ( بیوت) کی تحریک کے وعدہ کے سلسلہ میں درج ہیں.جس میں ہر ایک کی طرف سے پانچ سو (500) مارک سے لے کر تین ہزار (3,000) مارک تک وعدے لکھوائے گئے ہیں.اور کل بارہ ہزار (12,000 ) مارک! ( تاریخ لجنہ جرمنی صفحه 39)
223 اسی طرح لجنہ ہنوور کی سترہ (17) ممبرات نے تمہیں ہزار (30,000) مارک سو (100) بیوت کی تحریک میں وعدہ جات لکھوائے.تاریخ لجنہ جرمنی صفحہ 46-47) لجنہ شمٹن کی 26 ممبرات نے بتیس ہزار (32,000) مارک کے وعدے سو ( بیوت ) کی تحریک میں لکھوائے.تاریخ لجنہ جرمنی صفحه 76-77) علی ھذ القیاس ہر مجلس کی ہر ممبر نے بڑھ چڑھ کر اللہ تعالیٰ کے گھر بنانے کے لئے مالی قربانی کی.لجنہ جرمنی بڑی تیزی سے منظم ہوئی اس کی ایک سو آٹھ شاخیں ہیں.( تاریخ لجنہ جرمنی صفحه 304) اسی طرح یورپین مراکز کے لئے لجنہ کی ہر مجلس نے قابل تقلید قربانیوں کا مظاہرہ کیا.خواتین نے اپنے پورے پورے زیورات کے سیٹ اس عظیم مقصد کے لئے پیش کر دئیے.مثلاً تاریخ لجنہ جرمنی کے صفحہ 121 پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں ممبرات نے یورپین مراکز کے لئے نقد رقوم دی ہیں وہاں ایک بہن کے نام کے سامنے طلائی ہار.کانٹے ، نتھے ، ٹیکا ، انگوٹھیاں دو عدد اور دوسری بہن کے نام کے سامنے بڑی چوڑیاں چار عدد کانٹے ایک جوڑی انگوٹھیاں دو عدد لونگ ایک عدد درج ہے.اسی طرح صفحہ 313 تا 323 تک اُن ممبرات کے نام درج ہیں جنہوں نے مختلف اوقات میں مختلف تحریکات کے مواقع پر اپنے زیورات پیش کئے.اور ہر ممبر نے دو دو چار چار زیورات دیئے ہیں.کل 141 نام درج ہیں کم از کم چھ سات سو زیورات ہیں جن میں بھاری زیور مثلاً کڑے اور چار چار چھ چھ چوڑیاں بھی ہیں.مالی قربانیوں کے ذکر کے تسلسل میں سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 2 / جون 1990 ء کو لجنہ اماء اللہ جرمنی سے ہمقام ناصر باغ خطاب
224 فرمایا.اس خطاب کا ایک اقتباس اس باب کے اختتام پر پیش کیا جاتا ہے.آپ نے فرمایا:- قرآن کریم کے تابع ( دینِ حق ) نام ہے دو قسم کی قربانیوں کا.جانی قربانی اور مالی قربانی.قرآن کریم فرماتا ہے: اَنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ أَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ.خدائے تعالیٰ نے جنت کے بدلے میں تم سے تمہاری جانیں بھی خرید لی ہیں اور تمہارے اموال بھی خرید لئے ہیں.آپ وہ مثالیں ہیں جنہوں نے اگلے سوسال کی ضمانت دینی ہے.آپ وہ مائیں ہیں جنہوں نے یہ بتانا ہے کہ ہم اپنے بچوں کی ایسی تربیت کریں گی اور اس طرح اُن کے ذہنوں میں یہ ان مٹ سُنَّت الانبیاء نقش کر دیں گی کہ وہ اس بات کو کبھی بھلا نہ سکیں وہ انہیں راستوں پر گامزن رہیں یہاں تک کہ اگلی صدی آجائے اور پھر اگلی صدی کے سر پر کھڑا ہونے والا خلیفہ اُس وقت کی ماؤں کو یاد کرائے گا کہ دو سو سال تم نے بڑی وفا کے ساتھ انبیاء کے نقوشِ قدم کی پیروی کی ہے ان کو چومتے ہوئے تم آگے بڑھو اٹھو! اور اگلی صدی کی ضمانت دو.اور اے دوسری صدی میں پیدا ہونے والی ماؤں ! تم اس جھنڈے کو اگلی نسل کے لئے آگے بڑھا دو اور یہ ضمانت دو کہ تم ایسی تربیت کروگی کہ ان پاکیزہ اسباق کو تمہاری نسلیں کبھی نہیں بھولیں (ماخوز از تاریخ لجنہ جرمنی صفحه 290)
225 احمدی خواتین اور تربیت اولاد تربیت اولاد کے سلسلہ میں بھی ہم احمدی خواتین کو عظیم ماؤں کے طور پر بڑے فخر سے پیش کر سکتے ہیں کیونکہ قرآن کریم کی تعلیم اور احادیث کی روشنی میں احمدی خواتین تربیت اولاد کی اہمیت سے بہت حد تک واقف تھیں اس لئے کہ اُن کو دینی علوم سے واقف کروانے کا سلسلہ احمدیت کی ابتداء ہی سے شروع ہو چکا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن وسنت کی روشنی میں اپنی تحریرات کے ذریعے والدین کو یہ پیغام دیا کہ بچے کی پہلی تربیت گاہ والدین کا گھر اور اُس گھر کا ماحول ہوتا ہے.آپ نے فرمایا:- ” صالح اور متقی اولاد کی خواہش سے پہلے ضروری ہے کہ والدین پہلے اپنی اصلاح کریں اور اپنی زندگی کو متقیانہ بنائیں تب اُن کی ایسی خواہش ایک نتیجہ خیز خواہش ثابت ہوگی کہ اُس کو باقیات الصَّالِحَات کا مصداق کہیں.“ ( ملفوظات جلد 6 صفحہ 370) حضرت مسیح پاک کو آسمانی آواز آئی اَشْكُرُ نِعْمَتِي رَأَيْتَ لفظ خدیجہ میں وہ بھی اُمور پوشیدہ تھے جو پہلی خدیجہ کی زندگی خَدِيجَتِي میں ظہور پذیر ہوئے...لفظ خدیجہ استعمال فرمانے کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ جس طرح پہلی خدیجہ سے خادم دین اولاد پیدا ہوئی اسی طرح اس خدیجہ سے بھی خادمِ دین اولا د پیدا ہوگی.چنانچہ مندرجہ ذیل پیشگوئی اس امر کی وضاحت فرما رہی ہے.سوچونکہ خدائے تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میری نسل سے ایک بڑی بنیاد حمایت
226 ( دینِ حق ) کی ڈالے گا اور اس میں سے وہ شخص پیدا کرے گا جو آسمانی روح اپنے اندر رکھے گا اس لئے اُس نے پسند کیا کہ اس خاندان کی لڑکی میرے نکاح میں لاوے اور اس سے وہ اولاد پیدا کرے جو اُن نوروں کو جس کی میرے ہاتھ سے تخم ریزی ہوئی ہے دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلا دے.( تریاق القلوب صفحہ 64-65) حضور مسیح پاک فرماتے ہیں :- یہ پانچوں جو کہ نسلِ سیّدہ ہے یہی ہیں پنج تن جن پر بنا ہے ایسی پاک اولاد کی تربیت کا کام بھی نہایت کٹھن ذمہ داری تھی جو حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ نے بڑی خوبصورتی اور فطری دانش مندی سے بحسن و خوبی پوری کر دکھائی.حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ سے بہتر عینی شاہد جونم و فراست کا مجسمہ تھیں اور کون ہوسکتا ہے جو ہماری راہ نمائی کرے.فرمایا: - اصولی تربیت میں میں نے اس عمر تک بہت مطالعہ عام و خاص لوگوں کا کر کے بھی والدہ صاحبہ سے بہتر کسی کو نہیں پایا.آپ نے دنیوی تعلیم نہیں پائی ( بجز معمولی اُردو خواندگی کے) مگر جو آپ کے اصول اخلاق و تربیت ہیں اُن کو دیکھ کر میں نے یہی سمجھا ہے کہ خاص خدا کا فضل اور خدا کے مسیح کی تربیت کے سوا اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ سب کہاں سے سیکھا؟ (1) بچے پر ہمیشہ اعتبار اور بہت پختہ اعتبار ظاہر کر کے اُس کو والدین کے اعتبار کی شرم اور لاج ڈال دینا یہ آپ کا بڑا اصول تربیت ہے.(2) جھوٹ سے نفرت اور غیرت وغنا آپ کا اول سبق ہوتا تھا.ہم لوگوں سے بھی آپ ہمیشہ یہی فرماتی رہیں کہ بچہ میں یہ عادت ڈالو کہ وہ کہنا مان لے پھر بے شک
227 بچپن کی شرارت بھی کرے تو کوئی ڈر نہیں جس وقت بھی روکا جائے گا باز آجائے گا اور اصلاح ہو جائے گی فرماتیں کہ اگر ایک بار تم نے کہنا ماننے کی پختہ عادت ڈال دی، تو پھر ہمیشہ اصلاح کی اُمید ہے.یہی آپ نے ہم لوگوں کو سکھا رکھا تھا.اور کبھی ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ ہم والدین کی عدم موجودگی کی حالت میں بھی اُن کے منشاء کے خلاف کر سکتے ہیں.حضرت اماں جان ہمیشہ فرماتی تھیں کہ میرے بچے جھوٹ نہیں بولتے اور یہی اعتبار تھا، جو ہم کو جھوٹ سے بچاتا بلکہ زیادہ متنفر کرتا تھا.مجھے آپ کا سختی کرنا کبھی یاد نہیں.پھر بھی آپکا ایک خاص رعب تھا اور ہم بہ نسبت آپ کے حضرت مسیح موعود سے دُنیا کے عام قاعدہ کے خلاف بہت زیادہ بے تکلف تھے.اور مجھے یاد ہے کہ حضور اقدس کی حضرت والدہ صاحبہ کی بے حد محبت وقد ر کرنے کی وجہ سے آپ کی قدر میرے دل میں اور بھی بڑھا کرتی تھی.بچوں کی تربیت کے متعلق ایک اصول آپ یہ بھی بیان فرمایا کرتی تھیں کہ : پہلے بچے کی تربیت پر اپنا پورا زور لگاؤ.دوسرے اُن کا نمونہ دیکھ کر خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے.“ (سیرت حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہ از شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب صفحه 273) آپ کی تربیت اولاد کے سلسلہ میں اُستانی سکینہ بیگم نے فرمایا :- تربیت اولاد کا حضرت اماں جان کو خاص ملکہ ہے آپ کی اولاد میں سے ایک تو روشن چاند حضرت خلیفہ اسیح الثانی ہیں مجھ ایسی نا چیز کو کچھ لکھنے کی ضرورت ہی نہیں.یہ دُنیا جہان پر روشن ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب نہایت صالح، نہایت نیک اخلاق ،سارے جہان پر ان کے علم وفضل اور حسن و احسان کا شہرہ ہے.ماشاء اللہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ
228 اور صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ دونوں باوقار، صالحہ، بے حد متقی، عالمہ، فاضلہ، با عزت با عصمت، خوش اخلاق ،سچائی پسند برائیوں سے دور ، لوگوں سے بھلائی کرنے والی ہیں، یعنی اگر مجموعه حسن وخوبی دیکھنا ہو تو اماں جان کی اولا دکو دیکھو.میر قاسم علی صاحب نائب ناظر نے ایک مرتبہ چوہدری غلام قادر صاحب اوکاڑہ کو بتایا کہ دریا گنج کے مکان میں ایک مرتبہ خاندان مسیح موعود قیام پذیر ہوا تو یہ بات سامنے آئی.کہ حضرت اماں جان اپنے بچوں، بہو، بیٹیوں کی عبادات وغیرہ کے متعلق پوری توجہ سے نگرانی فرماتی ہیں نماز تہجد کا خاص اہتمام فرماتی ہیں اور ہمیشہ خاندان کے افراد کو حضرت مسیح موعود کے نقش قدم پر چلنے کی تاکید فرماتی رہتی ہیں.“ (سیرت حضرت لتاں جان حصہ اول از شیخ محمود احمد صاحب عرفانی صفحه 274) حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کی تربیت کا بہترین نمونہ حضرت فضل عمر کی ذات والا صفات تھی.وہ عہد جو اُنہوں نے اپنے والد گرامی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد آپ کے جسد مبارک کے سرہانے کیا تھا وہ مظہر ہے اُس عشق اور قربانی کا جو انہوں نے اپنی والدہ کی گود میں سیکھا.یہ الفاظ کسی پختہ عمر کے مضبوط جسم کے مالک انسان کے نہیں بلکہ ایک 19 سالہ جوان منحنی کے دہن مبارک سے نکلے.میں کروں گا عمر بھر تکمیل تیرے کام کی میں تری تبلیغ پھیلا دوں گا برروئے زمیں زندگی میری کٹے گی خدمت دین حق) میں وقف کر دوں گا خدا کے نام پر جانِ حزیں
229 یہ قابل صد افتخار فرزند کس کی گود کا پالا تھا بلا شبہ حضرت سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کا..حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ بھی بچوں کی تربیت کے گر سے بہت اچھی طرح واقف تھیں نہ صرف اپنے بچوں کی تربیت نہایت اعلیٰ پیمانے پر کی بلکہ جماعت کے تمام بچوں کی تربیت کا خیال رکھتیں.ایک مرتبہ احمدی بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ” تم چھوٹے ہو بے شک! مگر دُعا کرنا صرف بڑوں کا حق نہیں اس نعمت سے سب ہی فائدہ اُٹھانے کے حقدار ہیں...ابھی سے دعاؤں کی عادت ڈالو اپنے اللہ میاں سے اپنے لئے دین ودنیا کی ہر خیر و نعمت مانگو.دعا کیا کرو کہ مولا ہمیں ہر دھو کے اور فتنہ سے بچانا.ہمیں شیطان کے پھندے میں نہ پھنسنے دینا.ہم صادق رہیں نیک رہیں.ہمیشہ صادقوں کے ساتھ رہیں.قدرت ثانیہ سے وابستہ رہیں.زندگی کی ہر راہ پر توہی ہمارا دستگیر بن جا اور رہنمائی فرما.حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ نے کئی بار مجھے فرمایا کہ میرے ایک کام کے لئے دُعا کرنا.دراصل یہ بچوں کو ذہن نشین کروانے کے لئے ہوتا تھا کہ ہم نے بھی دُعائیں کرنی ہیں.(سیرت و سوانح حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ صفحہ 346-345) مندرجہ بالا اقتباس اس بات کا مظہر ہے کہ آپ بچوں کی نفسیات سے پوری طرح واقف تھیں یعنی جو بات بچوں کے دل میں چھوٹی عمر ہی سے راسخ کی جائے وہ تربیت کا ایک حصہ بن جاتی ہے اور یہ عادت اس طرح پر راسخ ہوتی ہے کہ تمام زندگی انسان اس پر عمل پیرا رہتا ہے.آپ نے ایک مرتبہ بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:-
230 بری صحبت سے بچو.برے دوستوں کو چھوڑ دواس کی پہچان کا ایک موٹا گر فی الحال یا درکھو کہ جس بات کو تم اپنے والدین یا بزرگوں کے سامنے نہ کر سکو وہ گناہ ہے وہ زہر ہے.جس بات کو تم اُن کو بتاتے رُکو یا شرماؤ وہ ٹھیک نہیں.سیرت و سوانح حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ صفحه 347) آپ رات کو سونے سے پہلے بچوں کو بلالیتیں اور نہایت عمدہ عمدہ کہانیاں سناتیں ارکان دین حق اور دین کی چھوٹی چھوٹی باتیں یاد کرواتیں.صبح رات کی بتائی ہوئی باتیں دہرائیں.آتے جاتے سلام کہنے کی عادت ڈالتیں.انبیاء کے حالات سناتیں اُٹھنے بیٹھنے کھانے پینے کے انداز کو دیکھتیں اور مناسب اصلاح فرماتیں.جب بار بار ایک ہی غلطی دیکھتیں تو پیار آمیز سرزنش بھی کر دیتیں.جب بچوں پر نماز فرض ہو جاتی تو نماز کے علاوہ تلاوت قرآن پاک کی بھی تاکید اور نگرانی کرتیں.بچوں کے مطالعہ کے لئے اپنی منتخب کتابیں دیتیں.بچوں کو چغلی کی عادت سے بچاتیں.( ہر اول دسته صفحه 41) آپ براہ راست حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق فاضلہ سے حصہ پانے والی اور حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم کے زیر تربیت رہنے والی ایک ایسی ہستی تھیں جنہوں نے اپنے اخلاق فاضلہ اور اوصاف کریمانہ کی خیرات دل کھول کر بانٹی.لجنہ کے اجتماعات کی تقاریر، جلسہ سالانہ کے خطبات اور جامعہ نصرت کی تقریبات کے موقع پر ارشادات آپ کے پاکیزہ خیالات اور قیمتی ہدایات کا ایسا خزانہ ہے جو نہایت ہی انمول ہے.بلا شبہ اُنہوں نے نہ صرف اپنی اولاد کی بلکہ تمام احمدی خواتین اور ناصرات کی تربیت میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے.اللہ تعالیٰ انہیں بہترین جزا دے اور اعلیٰ
231 ترین درجات عطا فرمائے آمین.حضرت سیّدہ اُمم طاہر کی تربیت اولاد کے بارے میں سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ یوں رقم طراز ہیں :- روز مرہ کی گوناگوں مصروفیات کی وجہ سے اولاد کی طرف خاص توجہ دینے کی فرصت نہیں تھی مگر ہم سے توقعات ایسی بلند رکھی ہوئی تھیں گویا 24 گھنٹے ہمیں پر کھپاتی ہیں.ہماری غلطیوں پر سخت ناراض ہوتی تھیں اور بعض اوقات بدنی سزا بھی دیتی تھیں.زیادہ تر غصہ بچے کی ضد پر آتا تھا.اگر کوئی بچہ اپنی ضد پر اڑ کر بیٹھ جائے تو اس وقت تک نہیں چھوڑتی تھیں جب تک اُس کی ضد نہ توڑ لیں.نصائح عام طور پر اُس رنگ میں کرتی تھیں کہ دل میں اُتر جاتی تھیں اگر کسی امر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حوالہ یاد ہوا تو وہ ضرور دیتی تھیں.مثلاً ایک دفعہ ہم بہشتی مقبرہ سے دعا کر کے واپس آرہے تھے.راستے میں کوئی شخص گزرا جس نے نہ ہمیں سلام کیا اور نہ میں نے اُسے.اس پر مجھ سے بہت مایوس ہو ئیں کہ تمہیں اتنا بھی سلیقہ نہیں کہ راستہ میں چلتوں کو سلام کہو میں نے کہا اُس نے بھی تو نہیں کیا تھا تو کہنے لگیں تمہیں اس سے کیا غرض ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو سب کو پہلے سلام کیا کرتے تھے.پھر نصیحت کی کہ دیکھو خواہ کوئی واقف ہو یا نا واقف ہوا سے پہلے سلام کیا کرو.کھانے کے آداب کا بہت خیال رکھتی تھیں.حرص اور خود غرضی سے شدید نفرت تھی.کسی کو غیبت کرتے سن
232 لیتیں تو سخت غصہ آتا تھا کسی بڑے کے خلاف بدتمیزی کا کلمہ بالکل برداشت نہیں تھا.نماز کی پابندی بہت سختی سے کرواتی تھیں.چندہ کی خود بھی پابند تھیں اور ہمیں بھی بچپن سے اس کی عادت ڈالی ہمارے جیب خرچ کاٹ کر چندہ دیا کرتی تھیں اور ہمیں یہ بات ہمیشہ جتاتی رہتی تھیں تا کہ خوب ذہن نشین ہو جائے کہ یہ چندہ ہم خود دے رہے ہیں.غرباء کی ہمدردی کی بہت تلقین کرتی تھیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت عشق تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف میں یہ رباعی بہت پسند تھی.بَلَغَ الْعُلَى بِكَمَالِهِ كَشَفَ الدُّجى بِجَمَالِهِ حَسُنَتْ جَمِيعُ خِصَالِهِ صَلُّوا عَلَيْهِ وَآلِهِ مجھے بھی خود مترنم آواز میں ساتھ پڑھوایا کرتی تھیں.حضرت مسیح موعود کا دل میں ایسا گہرا احترام تھا کہ باوجود بہو ہونے کے ہمیشہ اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود کی اولاد سے کم مرتبہ سمجھا.حالانکہ خاندان میں گھل مل جانے کے بعد یہ فرق کون مد نظر رکھا کرتا ہے؟ قطع رحمی سے سخت اجتناب کرتی تھیں مگر بعض اوقات بھائیوں یا دیگر اقارب سے وقتی ناراضگیاں ہو جایا کرتی تھیں.ایک دفعہ کسی بات پر بڑے ماموں جان سید ولی اللہ شاہ صاحب
233 سے رنجش ہوگئی.اس تکرار کے وقت میں بھی وہاں موجود تھا.چنانچہ اس کے اثر سے میں نے صفی اللہ (ابن سید ولی اللہ شاہ صاحب) سے بولنا چھوڑ دیا امی کو معلوم ہوا تو سخت ناراض ہوئیں اور کہا خبر دار جو آئندہ لڑائی بھڑائی میں بڑوں کی نقل کی.بچوں کی لڑائی میں کبھی اپنے بچوں کا نا جائز ساتھ نہیں ویق تھیں یہ برداشت نہیں کرتی تھیں کہ بچے کسی خادم پر ہاتھ اُٹھا ئیں اگر کوئی ایسا کر بیٹھتا تو اُسے بدنی سزا دیتی تھیں.( تابعین ( رفقائے ) احمد جلد سوم صفحہ 236 تا 240) حضرت سیدہ مریم بیگم ام طاہر کے بارے میں حضرت خلیفتہ المسیح الرابع نے فرمایا..ایک دفعہ تکلیف کی شدت میں موت کو سرہانے کھڑے دیکھ کر مجھ سے یہ الفاظ کہے:- طاہری مجھے یہ بہت احساس ہے کہ میں تمہارا خیال نہیں رکھ سکی اور جیسا کہ حق تھا تم سے پیار نہیں کر سکی بلکہ ہمیشہ سختی کی.یہ صرف تمہاری تربیت کی خاطر تھا.لیکن مجھے اس کی بھی تکلیف ہے.(سيرة سیّدہ اُم طاہر صفحہ 245) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے تحریر فرمایا : - ہماری مرحومہ بہن ( سیده مریم بیگم صاحبہ ) اس جذبہ میں بھی غیر معمولی شان رکھتی تھیں اور انہیں اپنی اولاد کی بہتری اور بہبودی اور اس سے بڑھ کر ان کی دین داری کا بے حد خیال رہتا تھا وہ اُن کے واسطے نہ صرف خود بے انتہا دعائیں کرتی تھیں بلکہ دوسروں کو بھی کثرت کے ساتھ تحریک کرتی رہتی تھیں اور پھر اولا د کے ساتھ اُن کی
234 محبت کا رنگ بھی نرالا تھا.جو حجاب بسا اوقات والدین کو اولاد کے درمیان ادب کے فرق وغیرہ کی وجہ سے پیدا ہو جاتا ہے وہ اُن میں اور اُن کی اولا د میں بہت کم پایا جاتا تھا کیونکہ اُن کی عادت تھی کہ بچوں کو بے تکلف عزیزوں کی طرح اپنے ساتھ لگائے رکھتی تھیں.بایں ہمہ اُن کے بچوں میں اپنی والدہ محترمہ کا بے حد ادب تھا اور وہ اپنی والدہ کے لئے حقیقتا قرۃ العین تھے.سیدہ موصوفہ اپنی اولاد کے حق میں ایک بہترین ماں تھیں اور اُن کی دینی و دنیوی بہبودی کے لئے بے حد کوشاں رہتی بہترین ماں تھیں اور ان کی (سیرت سیدہ ام طاہر صفحہ 262 تا 263) حضرت فضل عمر نے بھی تربیت اولاد کے سلسلہ میں بارہا والدین کو اور خصوصاً ماؤں کو توجہ دلائی آپ نے اس سلسلہ میں فرمایا: - ماؤں کی ذمہ داری اس قدر اہم ہے کہ اگر مخلص مرد چاہیں بھی کہ وہ اپنی اولادوں کی تربیت کریں تو اُن میں ایسا کرنے کی طاقت نہ ہوگی.کیونکہ بچوں کی تربیت کرنے کی طاقت مرد سے زیادہ عورت میں ہی ہے اس لئے تمہیں چاہیے کہ تم اپنی ذمہ داری کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہ کرو بلکہ پوری توجہ سے اس فریضہ کو ادا کرو.“ (مصباح جنوری 1939ء) یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ تاریخ احمدیت مثالی ماؤں کے سلسلہ میں بھی مالا مال ہے اور اُن ماؤں نے اس فریضہ کو بڑی محنت اور جاں شاری سے ادا کیا اور اپنی اولا دوں کو اعلیٰ تربیت سے آراستہ کیا اس طرح کہ وہ دین و دنیا میں ایک ممتاز مقام کی حامل ہوئیں.مثلاً حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم جن کی گود کا پالا حضرت مصلح موعود جیسا
235 عدیم المثال بیٹا تھا.حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ جن کا تربیت یافتہ نافلہ مسیح موعود کا لقب پاکر خلافت ثالثہ کے عظیم مرتبہ کا حامل ہوا.حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہ کا اکلوتا فرزند حضرت مرزا طاہر احمد خلافت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوا اور حیرت انگیز اور عظیم الشان کارنامے سرانجام دیئے.حضرت حسین بی بی جن کا جگر گوشہ حضرت سر محمد ظفر اللہ خاں جیسا روشن ستارہ تھا.مکرمہ د محترمہ ہاجرہ بیگم صاحبہ والدہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے تقویٰ وزہد اور دعاؤں کا ثمر ایک نوبل انعام یافتہ کی صورت میں تمام دنیا میں شہرت پا گیا اور اپنے عجز وانکسار اور اخلاق فاضلہ کا لوہا بھی منوایا.علاوہ ازیں ہزار ہا مثالیں احمدی ماؤں کی صورت میں دی جاسکتی ہیں.ہمیں ان قابلِ رشک ماؤں سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ انسان کی ذاتی کوشش اور خواہش اُس کی اولاد کی کامرانی کے لئے کافی نہیں جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو.اللہ تعالیٰ سے در د دل سے مانگنے والے اور اس کے فضل پر تو کل کرنے والے اُس کی بارگاہ سے بہت کچھ پاتے ہیں اور انی قریب کا وعدہ پورا ہوتے دیکھتے ہیں.ہماری جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کے ساتھ ایک سے ایک اعلیٰ نمونہ پاکیزگی اور صالحیت کا موجود ہے.محترمہ سیدہ صالحہ بیگم صاحبہ کو اپنی اولاد کی تربیت کا بہت خیال رہتا تھا.خود بھی نماز روزے کی پابند تھیں اور بچوں کو بھی بچپن سے اس کی عادت ڈالی.نیز بچوں کے دل میں بھر پور خدمت دین کا جذبہ پیدا کیا.تینوں بیٹوں کو بچپن ہی سے خدمت دین کے لئے وقف کر دیا.محترم میر دادو احمد
236 صاحب جامعہ احمدیہ کے پرنسپل تھے.بہت ہی نیک طلباء کا بہت زیادہ خیال رکھنے والے ہمدرد اور اُن کی دینی تربیت کا بہت زیادہ خیال رکھنے والے تھے.محترم میر مسعود احمد صاحب سابق مبلغ ڈنمارک نے بھی اعلیٰ دینی خدمات انجام دیں اب مرکز میں خدمت میں مصروف ہیں اور تیسرے صاحبزادے میر محمود احمد صاحب سپین اور امریکہ میں بحیثیت مبلغ وقت گذار نے کے بعد اب مرکز میں بطور پرنسپل جامعہ احمدیہ نمایاں خدمات دین کی توفیق پارہے ہیں آپ اپنے عظیم المرتبت والد صاحب حضرت میر محمد اسحق کی طرح حدیث کے جید عالم ہیں.(خلاصہ ہر اول دستہ صفحہ 88) سیده نصیره بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا عزیز احمد صاحب آپ کی بڑی صاحبزادی ایک طویل عرصہ تک جلسہ سالانہ کے مہمانوں کی خدمت کی سعادت پاتی رہیں.مکرمہ سیدہ بشری بیگم صاحبہ بچپن ہی سے مختلف دینی کاموں میں نہایت خلوص اور سرگرمی سے حصہ لیتی رہی ہیں قادیان رتن باغ اور لاہور میں نہایت اہم شعبوں میں بڑی ذمہ داری سے کام کیا.وہ چند ایسی خواتین میں شمار ہوئیں جن کا نمونہ قابل رشک رہا ہے اُنہوں نے ایک طویل عرصہ تک بطور صدر لجنہ لاہورایسی شاندار خدمات انجام دیں جو سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں.لجنہ لاہور میں اُنہوں نے نئی جان ڈال دی اور شب و روز اس قدر تن دہی سے کام کیا کہ لاہور کو پاکستان میں اہم ترین لجنہ کا مقام دلا دیا آپ نے آخری دم تک کام کیا اور خدمت دین ہی میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا.آپ نے ہمیشہ نئی نسل کی تربیت پر گہری نگاہ رکھی.جہاں بھی کوئی خامی نظر آتی نہایت حکمت سے اُس کی اصلاح کی طرف توجہ دلاتیں رہتی تھیں.لجنہ کی نوجوان ممبرات اور ناصرات کی بچیوں کی اخلاقی حالت کو سنورانے کے لئے عملی طور پر کوشاں رہیں اس طرح اپنی اولاد کی تربیت پر انتہائی توجہ مرکوز کی اُن کی بیٹی عزیزہ
237 امتہ الکافی لکھتی ہیں :- بچپن کے دور کو یاد کرتی ہوں لمحہ لمحہ آنکھوں کے سامنے آتا ہے کہ غلط بات کریں تو کس قدرسختی سے اصلاح کی طرف مائل رہتی تھیں اور جو نہی عمروں کے ایسے دور میں داخل ہوئے کہ عام طور پر اولاد سمجھدار یا سیانی ہو جاتی ہے وہاں نرمی کا بہتا ہوا دریا بن گئیں کبھی کسی بڑے کی برائی یا برے رنگ میں ذکر نہ کیا اور خاص طور پر خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواتین مبارکہ اور بزرگوں کا احترام کرتیں اور مجال نہیں تھی کہ کوئی بات اُن کے بارے میں کسی سے سُننا بھی گوارا کریں.بچوں کے ہمیشہ سچ بولنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ جھوٹ بولنے کی سزا بڑی ہی شدید ہوا کرتی تاکہ جھوٹ کا خوف اور رعب نہ رہے.جو بات امی نے ہمیں نہ بتانی ہوتی تو آرام سے کہہ دیتیں کہ یہ نہیں بتاؤں گی لیکن جھوٹ کبھی نہ بولتے سنا اور نہ ہی ہمیں ایسا کرتے ہوئے برداشت کیا فضول مشاغل یا وقت کا ضیاع.ان باتوں پر بہت روکتیں..اولاد کی تربیت میں امی نے ہمارے لئے کس قدر مجاہدہ کیا تھا اور کتنی دعائیں کی تھیں.ہمیں ہمارے بچوں کے لئے دعائیں کرنی سکھائیں.(مصباح ستمبر 1997 ء صفحہ 17) آپ نے اپنے دونوں بیٹوں کو خدمت دین کے لئے وقف کر دیا تھا اور بہترین تربیت کے بعد سلسلہ کے بہترین خادم بنانے کا سہرا آپ ہی کے سر پر ہے.پھر یہ کوشش بھی کی کہ اپنی تینوں بیٹیوں کو بھی واقفین زندگی کے ساتھ بیا ہیں اس طرح
238 پر وہ جو کہ اپنی زندگی کی ہر سانس خدمت دین کے لئے وقف کر چکی تھیں اپنی اولا د کی ذہنی تربیت اس رنگ میں کی کہ آئندہ وہ بھی دین کی خدمت کو اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم سمجھ کر خلوص اور محبت سے اپنے سر تسلیم خم کر دیں واقعی قابل رشک ہیں ایسی مائیں جو اپنی نیکی تقوی اور قربانی کی خصوصیات کو اس خوبصورتی سے منتقل کرتی ہیں کہ اگلی نسلیں اُن کی جگہ لے کر سلسلۂ خدمت کو بہتر سے بہترین کی طرف لے جاتیں ہیں.مکرمہ امتہ الباری ناصر صاحبہ نے اس صورت حال کو اس طرح شعروں کی صورت میں ڈھالا ہے:- (بزبان حسین احمد صاحب) مجھ کو جس ماں نے کیا وقف یہ حق ہے اُس کا بوند بوند اپنا لہو دین پر قربان کروں ایسا کچھ ہو سکے مجھ سے جو خدا راضی ہو اُن کے درجوں کی بلندی کے میں سامان کروں مکرمه و محترمہ صاحبزادی قدسیہ بیگم صاحبہ اہلیہ صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب کی اپنے بیٹے مرزا غلام قادر کو دین کی راہ میں وقف کرنے کی خواہش کے ساتھ ساتھ یقیناً اُن کی نیک تربیت کا بھی بہت بڑا ہاتھ تھا.بچے کی ابتدائی تربیت میں زیادہ تر ماں ہی کا حصہ ہوتا ہے اس لئے کہ وہ چوبیس گھنٹے بچے کی نگہداشت کرتی ہے اور ایک ایک لمحہ اس کی نظروں کے سامنے ہوتا ہے.مکر مہ محترمہ قدسیہ بیگم صاحبہ لھتی ہیں:- ایبٹ آباد پبلک اسکول میں جاتے ہی اس کو فکر تھی کہ الفضل اور تشید لگوادیں.1974ء میں بارہ سال کی عمر میں گیا تھا.دوسرے خط میں پھر.تاکید سے لکھتا ہے کہ الفضل اور تشخیز بھیجواد میں اس چیز کی فکر نہ کریں کہ ہم نماز وغیرہ نہیں پڑھتے ، پڑھتے ہیں اُسے پورا احساس تھا کہ میں خاندان اور ماں باپ
239 کے لئے کسی بدنامی کا باعث نہ بنوں اور اس چیز کے لئے دعا سے کام لیتا تھا جو بارہ سال کے بچے کے لئے ایک غیر معمولی بات ہے.ایک خط میں لکھا چھ طا ہر ( حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ) سے کہہ دیں میں مجلس کا چندہ وغیرہ یہیں پر دے دیتا ہوں.یہ سب فکر میں اُس کو بارہ سال کی عمر میں تھی.“ الفضل 20 راگست 1999 ء صفحہ 4،3 کالم 4،1) اس بچے نے امریکہ جا کر کمپیوٹر سائنس میں ایم سی ایس کرنے کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی خدمات پیش کر دیں.امریکہ جیسے ملک میں جہاں دنیا کمانے اور دیگر ترقیات حاصل کرنے کے وسیع امکانات تھے انہیں چھوڑ کر اپنے آقا کے حکم سے ربوہ جیسے چھوٹے شہر میں آکر کمپیوٹر کا شعبہ قائم کیا اور اس ادارہ کو نہایت کامیابی سے چلایا.یہ تھی ایک احمدی اور بچے احمدی کی ماں جس نے ایک ہیرے جیسے بیٹے کی تربیت کی اور پروان چڑھایا.جلسہ سالانہ برطانیہ 1991ء کے دوسرے روز خواتین سے خطاب کرتے ہوئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:- ماؤں کی اصلاح کے بغیر بچوں کی اصلاح نہیں ہوسکتی.ہر احمدی ماں کو اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا چاہیے کہ واقعی ماں کے پاؤں کے نیچے جنت ہے.سبھی بچوں کی اصلاح ہوسکتی ہے.غیر شادی شدہ لڑکیوں کو حضور نے توجہ دلائی کہ نیک اور صالح ماں بننے کی خوبیاں ابھی سے اپنے آپ میں پیدا کریں.“ حضور انور نے خاندانی جھگڑوں کا تذکرہ فرمایا کہ بعض جاہل مائیں اور بہنیں اپنے شادی شدہ بیٹے اور بھائی کا گھر رسومات کے زیر اثر جہنم بنا دیتی ہیں
240 سلسلہ کلام کو آگے بڑھاتے ہوئے آپ نے فرمایا :- اس قسم کی جاہل عورتیں جو اس دنیا میں بھی نہ صرف اپنی نسل کے لئے بلکہ آئندہ نسلوں کے لئے جہنم پیدا کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہیں وہ مائیں جن کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ان کے پاؤں تلے جنت ہے وہ یہ مائیں نہیں یہ وہ مائیں ہیں جو ایسی بدنصیب ہیں کہ جن کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کی خوشخبری یا جنت کی تمنا کی لیکن اس کے باوجود اُن کی بدبختی ان کے پاؤں تلے سے اُن کی اولاد کے لئے جہنم پیدا کرنے کا موجب بن گئی اور سارے معاشرے کو دکھوں سے بھر دیا.ایسی عورتیں شاذ کے طور پر نہیں ملتیں بلکہ بڑی بھاری تعداد میں آج دنیا میں موجود ہیں.پاکستان کے اخباروں میں ہندوستان کی بعض مظلوم لڑکیوں کا تو ذکر ملتا ہے جو جہیز نہ ملنے کے نتیجہ میں زندہ جلا دی گئیں لیکن پاکستان میں لاکھوں کروڑوں ایسی بدنصیب لڑکیاں ہیں جو زندہ تو نہیں جلائی جاتیں بلکہ زندہ درگور کر دی جاتی ہیں اُن کی ساری زندگی جہنم بن جاتی ہے.،، حضور اقدس نے بعد ازاں ایک مثالی ساس کا تذکرہ فرمایا:- بہت سے ایسے واقعات میرے علم میں ہیں.ایسی ساسیں جن کی بہوئیں اُن کو دعائیں دیتی ہیں اور اُن کا گھر خدا کے فضل سے جنت نشان بن جاتا ہے ایسی ہی ایک نیک خاتون ابھی کچھ عرصہ پہلے لاہور میں فوت ہوئیں اُن کی بہو مجھے ملنے
241 آئی تو ذکر کرتے ہی اس قدر روئی اس قدر آواز گلو گیر ہوئی کہ منہ سے بات نہیں نکلتی تھی.میں حیران تھا کہ ساس فوت ہوئی ہے اور اتنا عرصہ بھی گزر گیا یہ کیا بات ہے تو اُس نے کہا میں آپ کو بتا نہیں سکتی.وہ کیسی ساس تھی اُس نے مجھے ماؤں سے زیادہ پیار دیا ہے اور میری کمزوریوں کو اس طرح نظر انداز کرتی تھیں جیسے مجھ میں کوئی کمزوری کبھی تھی ہی نہیں اور اس کی وجہ سے میری ساری زندگی دعا بن گئی ہے اور میں ہمیشہ اُن کو دعا میں یا درکھوں گی.آپ بھی ان کے لئے دعا کریں.ایسی ساسیں خدا کے فضل سے دنیا میں اور بھی ہیں مجھے سب سے زیادہ خوشی اُس وقت ہوتی ہے جب کوئی بہو ملاقات کے دوران اپنی ساس کا ذکر کرتی ہے تو محبت سے اُس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں ایسے بہت سے واقعات ہیں جرمنی میں ملاقاتوں کے درمیان بھی ایک بہو ملی تو اس سے میں نے پوچھا کہ تمہاری ساس کا کیا حال ہے.اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے ، زندہ ساس ہے اُس کی وفات کا صدمہ نہیں بلکہ محبت کی وجہ سے اُس نے کہا آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ کیسی احساس کرنے والی ساس ہے کس طرح اُس نے مجھے پیار دیا ہے.اُسی کی برکت سے ہمارا گھر جنت بن گیا ہے.ایسی ساسیں یقیناً وہ مائیں ہیں جن کے متعلق حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبر دی کہ ان کے پاؤں کے نیچے جنت ہے.خطاب کے آخر پر حضور انور نے تقویٰ کی حفاظت اور اُس پر قائم رہنے کی
تلقین فرمائی: - 242 ہر اک نیکی کی جڑ اتقاء ہے اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے اس جڑ کی حفاظت کرو اور اس کی خاطر ہر دوسری چیز کو قربان کرنے کے لئے تیار رہو.بفضل تعالیٰ جماعت احمدیہ کی تاریخ ایسی مثالی خواتین اور مخلص ماؤں سے بھری پڑی ہے ان سب کا ذکر کرنے کے لئے ایک ضخیم کتاب درکار ہوگی.آخر پر ایک عورت جس کا نام تاریخ محفوظ نہیں کر سکی مگر اللہ تعالیٰ کے ہاں اُس کا نام جلی حروف میں موجود ہے ایک قابلِ رشک واقعہ پیش خدمت ہے.ایک عورت اپنے بیمارلٹڑ کے کو حضرت مسیح موعود کے پاس لے کر آئی اور کہنے لگی کہ میرا یہ لڑ کا عیسائی ہو گیا ہے.آپ اس کا علاج بھی کریں اور جو بات وہ اصرار سے کہتی تھی وہ یہ تھی آپ اس سے ایک دفعہ کلمہ پڑھوا دیں پھر بے شک یہ مکر جائے مجھے کوئی پروا نہیں.حضور اقدس نے اُسے حضرت حکیم مولوی نورالدین ( خلیفہ اسیح الاول) کے پاس علاج کے لئے بھیج دیا اور کچھ نصیحت بھی فرمائی مگر وہ بڑا پختہ تھا ایک رات بھاگ کر قادیان سے چلا گیا رات کو ہی اُس کی ماں کو بھی پتہ چل گیا وہ بھی اُس کے پیچھے دوڑ پڑی اور بٹالہ کے نزدیک اُسے جا پکڑا اُسے واپس قادیان لے کر آئی.بالآخر خدا نے اُس کی فریا دسنی اور اُس
243 کا بیٹا ایمان لے آیا.بعد میں گو وہ فوت ہو گیا مگر اُس عورت نے کہا اب میرے دل کو ٹھنڈ پڑ گئی ہے موت سے پہلے اُس نے کلمہ تو پڑھ لیا ہے.“ تحریک وقف نو خطاب حضرت خلیفہ المسیح الرابع جلسہ سالانہ خواتین 1991ء) 3 را پریل 1987ء کو ( بیت ) الفضل لندن میں حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے احمدیت کی دوسری صدی کے استقبال کے لئے اور اس صدی میں اُبھرنے والی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے اور دوسری صدی کے نئے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے وقف نو کی بابرکت تحریک کا اعلان فرمایا.حضور نے فرمایا :- اللہ تعالیٰ نے مجھے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ میں احباب کو تحریک کروں کہ وہ عہد کریں کہ آئندہ دو سال کے اندر جس کو بھی جو اولا ونصیب ہوگی وہ اُسے خدا کے حضور پیش کر دیگا اور کچھ مائیں حاملہ ہیں تو وہ بھی عہد کریں کہ اگر اس تحریک میں پہلے شامل نہیں ہو سکی تھیں تو اب شامل ہو جائیں لیکن ماں باپ کو مل کر عہد کرنا ہوگا.دونوں کو اکھٹے فیصلہ کرنا ہوگا تا کہ اس سلسہ میں پھر یک جہتی پیدا ہو، اولاد کی تربیت میں یک رنگی پیدا ہو.اور بچپن ہی سے ان کی اعلیٰ تربیت شروع کر دی جائے اور اعلیٰ تربیت کے ساتھ اُن کو بچپن ہی سے اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ ایک عظیم مقصد کے لئے ایک عظیم الشان وقت میں پیدا.ہوئے ہیں.یہ وہ وقت ہے جب کہ غلبہ ( دینِ حق ) کی ایک
244 صدی غلبہ ( دینِ حق ) کی دوسری صدی سے مل گئی ہے اس سنگم پر تمہاری پیدائش ہوئی ہے اور اس نیت اور دُعا کے ساتھ ہم نے تجھ کو خدا سے مانگا تھا اور ہم نے یہ دُعا کی تھی اے خدا تو آئندہ نسلوں کی تربیت کے لئے ان کو عظیم الشان مجاہد بنا.اگر اس طرح دعائیں کرتے ہوئے لوگ ان دو سالوں میں اپنے ہاں پیدا ہونے والے بچے وقف کریں گے تو مجھے یقین ہے کہ بہت ہی حسین اور بہت ہی پیاری نسل ہماری آنکھوں کے سامنے دیکھتے دیکھتے خدا کی راہ میں قربانی کے لئے تیار ہو جائے گی.“ یہ تحریک احباب جماعت خصوصاً طبقہ نسواں کے لئے ایک بہت بھاری چیلنج تھا.مگر اللہ تعالیٰ کے احسان سے جماعت اس قربانی میں بھی سرخرو نکلی اور کثیر تعداد میں اپنے جگر گوشوں کو راہ مولیٰ میں وقف کرنے لگے.اور اس سے قبل خود جہاد با النفس کے کڑے امتحان سے گزرنے کے لئے تیار ہو گئے تا کہ نیکی اور تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر قائم ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے ہوئے واقف نو بچے پیش کریں.واقفین نو کے لئے تربیت کا جو مکمل اور اعلیٰ معیار مقرر کیا گیا ہے اُس پر عمل کرنا اور کروانا کوئی آسان کام نہیں تھا.اس میدان میں سرفروشی سے قدم رکھنا قابلِ محسین ہے.
245 احمدی خواتین کی خدمتِ خلق و اکرام ضیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ( دینِ حق ) کا خلاصہ ”حقوق اللہ اور حقوق العباد قرار دیا ہے.قرآنی تصور بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی اُس کی عبادت اور اوامر و نواہی کی مکمل پابندی اگر اللہ تعالی کے حقوق ہیں، تو مخلوق خدا کی بلا تمیز مذہب وملت خدمت، حقوق العباد میں شمار ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ جو غفور الرحیم ہے.جس کو چاہے اپنے حقوق معاف کر سکتا ہے لیکن بندوں کے حقوق معاف نہیں ہوں گے.اللہ تعالیٰ نے مومنین کی صفات میں سے ایک نمایاں صفت وَ مِمَّا رَزَقْنهُمْ يُنْفِقُونَ قرار دی ہے.گویا اپنی صلاحیت، طاقت اور حیثیت کے مطابق بنی نوع انسان کی خدمت کرنا.حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے ہمیں بتایا کہ کبھی کسی حاجت مند، مصیبت زدہ اور بے کس انسان کو نظر انداز نہ کرو.حدیث قدسی کے مطابق بھو کے کو کھانا کھلانا، ننگے کولباس دینا اور پیاسے کو سیراب کرنا گو یا اللہ تعالیٰ کی بھوک ننگ اور پیاس کو دور کرنے کے مترادف ہے.حضور اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی ازدواج مطہرات ،صحابہ کرام اور صحابیات رضوان اللہ علیہم صدقہ و خیرات میں نہایت وسیع القلمی کا مظاہرہ کرتے تھے بلکہ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے.یہی نمونہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے ( رفقاء) میں مشاہدہ کرتے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے کبھی کسی سوالی کو خالی ہاتھ نہ لوٹایا.آپ کی سیرت طیبہ ان پاکیزہ مثالوں سے بھری پڑی ہے.حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ جو اللہ تعالی کے ہاں خدیجہ
246 کے لقب سے پکاری گئیں ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاک صحبت میں رہ کر آپ کی فطری خوبیوں نے جلاء پائی.غرباء کی امداد حضرت اماں جان سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ ) کا نمایاں خُلق تھا.آپ اس کثرت سے غربا کی امداد کرتیں جس کی بہت کم مثالیں ملتی ہیں.جو بھی مصیبت زدہ آپ کے پاس آتا اپنی طاقت سے بڑھ کر اس کی مددفرماتیں.کئی دفعہ ایسی خفیہ مددفرماتیں کہ کسی اور کو پتہ بھی نہ چلتا.اگر اور کسی کو دعاؤں کے ذریعے مدد کی ضروت ہوتی تو دُعائیں کر کے اس کی مدد کرتیں.ہر موسم کے شروع میں خاص کر موسم سرما کے شروع میں آپ بہت اہتمام سے گرم کپڑے، لحاف وغیرہ تیار کرواتیں اور غرباء میں تقسیم کرواتیں.رمضان المبارک میں بہت زیادہ خیرات دیتی تھیں اور تین چار آدمیوں کا کھانا بطور فدیہ اپنے ہاتھ سے پکا کر دیتیں.عید کے موقع پر بڑے اہتمام سے کپڑے تقسیم کرواتیں.آپ غرباء کی ہمدردی بلالحاظ مذہب و فرقہ کرتیں.آپ قرض مانگنے والوں کو فراخ دلی سے قرض دیتیں اور اگر کبھی اپنے پاس قرض کی گنجائش نہ ہوتی تو کسی اور سے کہہ کر اس کی ضرورت پوری فرمائیں.آپ مزدور کو اس کی مزدوری زیادہ دیتیں تا کہ وہ خوش ہو جائے.” آپ یتیم بچوں اور بچیوں کو اپنے گھر پر بلا کر کھانا کھلاتیں اور بعض اوقات اُن کو گھروں پر بھی کھانا بھجوا نہیں بہت سے یتیم آپ کے گھر میں بچوں کی طرح مقیم رہے.آپ اپنے ہاتھ سے غرباء اور یتامیٰ کے کپڑے اور رضائیاں سیتیں ، انہیں مکان بنوا کر دیتیں.آپ کے گھر میں پلنے والے یتیم بچوں کی عمریں بعض اوقات تین یا چار سال ہوتی.آپ انہیں خود کلمہ نماز اور ابتدائی دینی تعلیم سکھاتیں.ناظرہ قرآن مجید ختم کرنے پر آمین کی پر تکلف خوشی منائی جاتی اسکول میں داخل کرواتیں اور ان کی اردو کی غلطیوں کی اصلاح فرماتیں.جب اردو ٹھیک ہو جاتی تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھوا کر سنتیں.اُن کی اہمیت سمجھاتیں.مسائل سمجھاتیں پھر لڑکیوں کو
247 گھریلو کام مثلاً سینا پرونا کھانا پکانا خود سکھایا.سفر پر تشریف لے جاتیں تو ساتھ شادی کا وقت آتا تو جہیز میں ہرقسم کی ضروریات زندگی موجود ہوتیں.عید پر عیدیاں جاتیں.پیار ومحبت و شفقت کا یہ سلسلہ اگلی نسل تک چلتا.حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں:.کہ جن لڑکیوں کو بھی حضرت اماں جان نے پالا ان کی جوئیں نکالنا، کنگھی کرنا یہ کام اکثر آپ خود ہی کرتیں.اور باوجود نہایت صفائی پسند ہونے کے گھن نہیں کھاتی تھیں.ایک مرتبہ ایک گاؤں کی سیر کے لئے تشریف لے گئیں وہاں گندے کپڑوں اور برے حال میں ایک یتیم لڑکی دیکھی تو اُسے گھر لے آئیں.نہلا دھلا کر کپڑے پہنائے اور شفقت کا یہ سلسلہ شادی تک رہا.غرض آپ کے سایہ عاطفت میں کوئی نہ کوئی لڑکا یا لڑکی بچوں کی طرح رہا اور آپ ان کی بہت خدمت کرتیں.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں.مجھے یقین ہے کہ حضرت اماں جان رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت سے انشاء اللہ ضرور حصہ پائیں گی.یعنی قیامت کے دن ”میں اور یتیموں کی پرورش کرنے والا اس طرح اکھٹے ہوں گے جس طرح ایک ہاتھ کی دو انگلیاں باہم پیوست ہوتی ہیں.“ ایک مرتبہ آپ پٹیالہ تشریف لے گئیں تو آپ نے وہاں بھی قیدیوں سے حسنِ سلوک کا موقع تلاش کر لیا اور ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کے ذریعے قیدیوں کو عمدہ قسم کا کھانا کھلایا.(خلاصہ ہر اول دستہ 28-25) آپ کے اکرام ضیف کے متعلق عرفانی صاحب کا نوٹ بہت دلچسپ ہے:.
248 ”میری آنکھ نے ایک حیرت افزاء چیز دیکھی جو کانوں کے ذریعہ پیش ہوئی تھی.حضرت (اماں جان) بنفس نفیس لنگر خانہ میں تشریف لے جاتی ہیں اور وہاں کے انتظامات دیکھتی ہیں اور اپنی تسلی کرتی ہیں پھر اپنے ذاتی اخراجات سے ایک پلاؤ کی دیگ مہمان خواتین کے لئے تیار کراتی ہیں.سوال پلاؤ کی ایک دیگ کا نہیں بلکہ اکرام ضیف کے اُس وصف کا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زوجیت کے ساتھ آپ کو ملا.مہمانوں کی خاطر تواضع کے متعلق حضرت اماں جان کی سیرت کا باب بہت وسیع ہے.اور اس کی شاندار مثالیں بے شمار ہیں.مگر اس عمر میں اور اس کثرتِ ہجوم میں آپ کی توجہ ایک خاص سبق دیتی ہے.پھر یہی نہیں آپ اسٹیشن پر جاتی ہیں اور اپنی موٹر کو اُس وقت مہمان عورتوں کو پیش کر دیتی ہیں اور خو داسٹیشن پر کھڑی رہتی (الحکم 14 جنوری 1934 ، صفحہ 12) ہیں.ایک مرتبہ حضرت اماں جان نے حضرت خلیفہ اول کو کہلا بھیجا کہ خرائے تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے میں چاہتی ہوں کہ آپ کا کوئی کام کروں حضرت خلیفہ ایح الاول نے ایک طالب علم کی پھٹی پرانی رضائی مرمت کے لئے بھجوادی.حضرت اماں جان نے بشافت قلبی سے اس رضائی کی مرمت اپنے ہاتھ سے کی اور اسے درست کر کے واپس بھیجوا دیا.مرمت شدہ رضائی طالب علم کو واپس کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اول نے فرمایا.حضرت اماں جان فرماتی ہیں.رضائی میں چیکٹ بہت تھی.اپنے کپڑوں کو صاف رکھا کرو.“ ( تاریخ لجنہ جلد دوم صفحہ 326) حضرت اماں جان جیسی عظیم المرتبت خاتون نے اس رضائی کی مرمت کر کے مندرجہ ذیل صفات حسنہ کا عملی ثبوت فراہم کیا جو ہمارے لئے ایک قابل تقلید مثال ہے:- اول : اطاعت اور خلافت کی عظمت.دوم: رضائے باری تعالیٰ کے لئے
249 اپنے ہاتھ سے رضائی کی مرمت کرنا.سوم : جذ بہ خدمت خلق ہی تھا کہ ایک غریب الدیار طالبعلم کی چیکٹ بھری رضائی کو مرمت کیا اور صاف کیا.چہارم : جب تک عجز وانکسار اور ایثار نہ ہو ایسا کام ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے.حضرت سیدہ صغری بیگم صاحبہ حرم حضرت سیدنا مولانا نورالدین صاحب خلیفتہ امسیح الاوّل جماعت احمدیہ میں احتراما اماں جی کے لقب سے پہچانی جاتی ہیں.آپ حضرت صوفی احمد جان صاحب جیسے متوکل با خدا بزرگ کی صاحبزادی تھیں آپ کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود اپنے محت خاص کی زوجیت کے لئے منتخب فرمایا.حضور اقدس حضرت اماں جان کے ہمراہ بنفس نفیس بارات میں شرکت کے لئے تشریف لے گئے.علاوہ ازیں حضرت اماں جی کو یہ فضلیت بھی حاصل تھی کہ حضرت فضل عمر جیسے جلیل القدر انسان کو آپ کا داماد بنا دیا.نیز آپ کو یہ اعزاز بھی عطا فر مایا کہ حضرت مسیح موعود کے دست مبارک پر آپ کو سلسلہ احمدیہ میں شمولیت کا شرف ” خواتین میں سب سے پہلے حاصل ہوا.اور آپ ہی کا آبائی گھر دارالبیعت، قرار پایا.خدمت خلق کے سلسلہ میں مصباح کے مضمون کے چند اقتباس پیش خدمت ہیں :- نادار اور یتیم بچوں کی پرورش آپ کا محبوب ترین مشغلہ تھا.ایسی دلداری.اور دلجوئی کے انداز میں ان کی پرورش فرماتیں کہ انہیں اپنی کم مائیگی اور بے کسی کا احساس تک نہ ہونے دیتیں.اُن کو اپنے سامنے اپنے بچوں کے ساتھ بٹھا کر کھلاتیں پلاتیں اور بشاشت اور خود اعتمادی کا احساس ان کے اندر بیدار کرتیں.بہت سی مستحق اور قابل امداد عورتیں مستقل طور پر اُن کے ہاں رہتیں اور ویسے آپ کے ہاں آنے جانے والی عورتوں کا تو کوئی شمار ہی نہ تھا.آپ کی امداد کا رنگ بھی عجب دلکش ہوتا ایک ضعیف العمر خاتون کو متعدد بار بطور امداد کچھ رقم دی کہ
250 خربوزے خرید کر اُس سے کچھ نفع کما لے.وہ خربوزوں کی ٹوکری خرید کر آپ ہی کے ہاں لے آتی...گرمیوں کے دن ہوتے تھکی ماندی وہ آتی.اس کو دیکھ کر فرمایا کرتی تھیں کہ اب اس گرمی میں اِن کو بیچنے کہاں جائے گی.خود ہی خرید لیتیں اور خربوزے آس پاس کے لوگوں میں تقسیم کروا دتیں.سید نا حضرت خلیفہ نورالدین صاحب فرمایا کرتے تھے کہ میرا نام آسمان پر عبدالباسط ہے اور باسط اس کو کہتے ہیں جو فراخی سے دینے والا ہو.آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے فکر کر دیا گیا تھا.اور یہ یقین دہانی فرما دی گئی تھی کہ وہ آپ کی ضرورتوں کے پیدا ہونے سے پہلے ان کے پورا ہونے کے سامان پیدا فرما دیا کرے گا اور بعینہ اسی طرح ہوتا رہا.اس کی جھلک ہمیں ”حضرت اماں جی کی زندگی میں بھی نظر آتی ہے وہ کبھی اس بارے میں فکر مند ہوتی نظر نہ آتیں.نہ انہیں روپیہ جمع کرتے دیکھا گیا.جو رقم بھی آتی خواہ وہ ہزاروں میں کیوں نہ ہو جلد از جلد اُسے خرچ کر دیتیں اور یہ غریبوں، مہمانوں اور دوستوں پر خرچ ہوتا اپنے آرام و آسائش پر نہ ہوتا.جب بھی انہیں کوئی تحفہ، نذرانہ نقدی یا ملبوسات کی شکل میں ملتا وہ اسے تیموں اور غریبوں میں تقسیم کر دیتیں.جب یہ عرض کیا جاتا کہ یہ تو آپ کے علاج اور استعمال کے لئے تھا تو فرماتیں تم اپنی خوشی پوری کرنے کے لئے مجھے دیتے ہو.میں اپنی خوشی پوری کر لیتی ہوں.اُن کی کوئی ایسی خواہش نہ تھی جو پوری نہ ہوئی ہو.کوئی حاجت ایسی نہ تھی جس کے پورا ہونے کا سامان اُس ضرورت کے پیدا ہونے سے پہلے حضرت نورالدین کے باسط خدا نے آپ کے لئے فراہم نہ کر دیئے ہوں.آخری ایام میں جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کی کوئی خواہش ہو تو بتا دیں.تو جواب دیا کوئی خواہش نہیں.بس اب تو اپنے اللہ سے ملنا ہے.ایک اور موقع پر جواب دیا کوئی خواہش نہیں بس ایک یتیم بچی ہے جو میرے پاس رہتی ہے.
251 اس کو پڑھا دینا.حضرت اماں جی نے ساری زندگی بڑے صبر وشکر اور وقار کے ساتھ گزاری.اگر کسی نے ذراسی بھی نیکی آپ سے کی تو آپ نے ہمیشہ اُسے یادرکھا.جب بھی موقع ہوتا اپنے بچوں کو بتاتیں کہ فلاں فلاں نے تم سے اتنی اتنی نیکیاں کی ہیں.اور ہمیشہ شکر گزاری کے ساتھ ان سے نیک سلوک کرنے کی تلقین فرماتیں.سید نا حضرت فضل عمر کی نوازشات کا ذکر تو انتہائی شکر گزاری کے ساتھ اکثر و بیشتر آپ کے لبوں پر ہوتا.آپ کی زندگی انتہائی سادی اور درویشانہ تھی.“ 66 (مصباح اگست دوستمبر 1989ء) مہمان نوازی غربا پروری ، صبر وحلم ، سیر چشمی اور قناعت ، سخاوت اور فراخدلی، صلہ رحمی و شکر گزاری اور سادگی و تو کل آپ کی سیرت کے ممتاز اور نمایاں پہلو تھے.مہمان نوازی آپ کے اخلاق کا سب سے نمایاں جو ہر تھا.بلا مبالغہ ہزاروں ہزار انسان ہیں جن کی خدمت اور مہمان نوازی کا شرف آپ کو حاصل ہوتا رہا.سید نا حضرت خلیفہ مسیح الاوّل کی زندگی میں اور اس کے بعد بھی قادیان میں ساری زندگی آپ کا وسیع اور سادہ مکان ایک مستقل مہمان خانہ بنارہتا تھا.خصوصاً جلسہ سالانہ کے ایام میں سینکڑوں خواتین اور بچے آپ کے ہاں بطور مہمان قیام کرتے تھے.تمام گھر خالی کر کے مہمانوں کے حوالے کر دیا جاتا تھا.آپ ایک چھوٹی سی چار پائی اپنے لئے کچے باورچی خانہ میں ڈلوالیا کرتیں اور بعض اوقات وہ بھی کسی مہمان ہی کے کام آتی.آپ سب کی مہمان نوازی اور آرام کا خیال ایسے انہماک ، جوش اور خلوص کے ساتھ کرتیں کہ اس کی مثال کم نظر آسکتی ہے.خصوصاً غرباء اور ضعیف العمر ، بیمار اور بچے آپ کی توجہ کا خاص مرکز بنے رہتے.ان ایام میں بمشکل دو تین گھنٹے کچھ آرام
252 کرلیتیں ہر مہمان سے نہایت خندہ پیشانی سے پیش آتیں.اکثر خود اپنے ہاتھ سے مہمانوں کے لئے چائے وغیرہ تیار کرتیں.مہمان نوازی سے شغف تھا مگر تکلف اور نام و نمود کا عنصر نام کو نہ تھا.ہرا میر و غریب سے یکساں برتا ؤ ہوتا.ایک دفعہ جلسہ کے ایام میں ربوہ میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضرت اماں جی حسب معمول اپنے باورچی خانہ میں مہمانوں کی خدمت کے لئے موجود تھیں.حضرت چوہدری صاحب کی تشریف آوری کا علم ہوا تو دروازہ پر تشریف لے گئیں.ملحقہ ڈیوڑھی میں ان کے لئے چار پائی بچھوا دی.حضرت چوہدری صاحب بے تکلفی سے اُس پر بیٹھ گئے.باتیں ہوتی رہیں.حضرت اماں جی نے فرمایا.کھانا کھا کر جائیں اور عام سادہ برتنوں میں ایک ٹرے میں اندر کھانا بھجوا دیا.حضرت چوہدری صاحب نے بشاشت اور شکر گزاری کے ساتھ کھایا.کوئی اہتمام نہیں کوئی تکلف نہیں.عجیب پر وقار انداز تھا مہمان نوازی کا.کیا ہی مبارک تھیں یہ مہمان نواز اور کیا ہی مبارک تھے ان کے عقیدت مند مہمان.نہ جانے ایسے کتنے واقعات ان کی زندگی میں پیش آئے ہوں گے جن کی یادیں بے شمار دلوں پر ثبت ہیں.ان برکات اور نوازشات الہیہ کی عملی شکر گزاری آپ نے اس طرح کی کہ آپ کی پاک اور متقیانہ زندگی ، ہمدردی خلائق سے بھر پور زندگی ہمارے لئے نشان راہ بن گئی، ایک جلتی ہوئی شمع جو ہماری زندگی کے تاریک گوشوں کو منور کر دیتی ہے اور (مصباح ستمبر 1989 ء صفحہ 30) کرتی رہے گی.جذ بہ خدمت خلق کا ایک اور حسین تذکرہ ملاحظہ ہو! حضرت مرزا طاہر احمد خلیفة امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی والدہ ماجدہ کے اخلاق عالیہ اور اوصاف حمیدہ کے تذکرہ میں رقم فرمایا : - " آپ کی یادوں کے ہراول دستوں میں مجھے آپ کا جذ بہ خدمت خلق نظر
253 آتا ہے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ کا نام اس تصور سے الگ ہو کر میرے ذہن میں داخل ہوا ہو.بے کسوں ، یتیموں ، مساکین، مصیبت زدگان اور مظلوموں سے گہری ہمدردی آپ کی شخصیت کا جز ولا نیک تھا یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ جذبہ ہمدردی اُن کے خون میں گھل مل کر اُن کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے.یہ ہمدردی جذباتی بھی تھی قولی بھی اور فعلی بھی اور یہ رنگ ایسا غالب تھا کہ گویا سیرت کے دوسرے تمام پہلوؤں میں سرایت کر گیا تھا.اس جذ بہ کو تسکین دینے کے لئے آپ نے مالی قربانی بھی بہت کی.جانی بھی اور جذباتی بھی.مجھے یاد ہے وفات سے ایک سال پہلے ڈلہوزی میں رمضان کے مہینے میں باوجود بیماری کے حضور کے تمام عملے کے لئے سحری کے وقت خود اپنے ہاتھ سے پراٹھے پکایا کرتی تھیں.بات دراصل یہ تھی کہ حضور کی طرف سے ان دنوں مالی حالات کے پیش نظر جو خرچ ملتا تھا اس سے اتنی گنجائش نہیں نکل سکتی تھی کہ کھلا خرچ کیا جا سکے.اور جتنا بھی اس غرض کے لئے خرچ کیا جاسکتا تھا.اس میں باورچی نے مطلوبہ تعداد میں پراٹھے پکانے سے صاف انکار کر دیا تھا.باورچی مُصر تھا کہ یا مجھے گھی زیادہ دو یا مجھ سے یہ کام نہیں ہوسکتا.ادھر خرچ کی تنگی اس کی اجازت نہیں دیتی تھی.چنانچہ ایک دو روزے اسی کشمکش میں گزر گئے اور عملہ کے اراکین سالن کے ساتھ عام روٹی کھا کر گزارا کرتے رہے.ماشکی نے امی سے شکایت کی کہ خشک روٹی سے روزے رکھ کر مجھ سے اتنی محنت کا کام نہیں ہوتا حالانکہ محنت کرنے والوں کو روزے کے دنوں میں اچھی غذا کی ضرورت ہوتی ہے.چنانچہ اسی رات سے آپ نے خود اٹھ کر پراٹھے پکانے شروع کئے اور اللہ تعالیٰ نے ایسی برکت عطا فرمائی کہ اسی گھی میں جس میں باورچی کے نزدیک اتنے افراد کے لئے پراٹھے پکنے ناممکن تھے ،سارے عملہ کی ضرورت پوری ہوتی رہی.بیماری کی وجہ سے بعض اوقات آپ کو خاصی تکلیف اٹھانی پڑتی تھی مگر آپ کہتی تھیں کہ میں یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ محنت کرنے والے سحری کے وقت خشک روٹی کھائیں.
254 بھینس رکھنے کا بہت شوق تھا اور صبح کے وقت بڑی کثرت سے لوگ چھاچھ لینے آیا کرتے تھے.جو لوگ زیادہ غریب یا معذور ہوا کرتے تھے ان کی چھاچھ میں مکھن بھی ڈال دیا کرتی تھیں.خود تلاش کر کے ضرورت مندوں کی ضرورت پورا کرنے کی کوشش کرتیں اور چونکہ تحریک جدید کے اجراء کے بعد خاص طور پر حضور کی طرف سے خرچ نپا تلا ماتا تھا.اس لئے مالی لحاظ سے ہمیشہ تنگ رہتی تھیں.ایک طرف جماعتی چندوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا شوق دوسری طرف یہ بے قرار تمنا کہ ہر حاجت مند کی حاجت پوری کر دوں اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا تھا کہ اپنے گھر میں خوب ہاتھ گس کر خرچ کریں.پس کچھ تو روز مرہ کے کھانے کا معیار گرا کر چندوں ، خدمت خلق اور مہمان نوازی کے لئے بچت کر لیتیں اور کچھ ہمارے کپڑوں کے خرچ میں سے اس غرض کے لئے پیسے بچا لیتی تھیں.تحریک جدید کا بہانہ ہاتھ آیا ہوا تھا چنانچہ کپڑے سادہ ہی نہیں بلکہ تعداد کے لحاظ سے بھی واجبی بناتی تھیں.کئی دفعہ غریب لڑکیوں کی خود شادیاں کیں.بعض یتیموں کی پرورش کی.روزمرہ کے طور پر مختلف رنگ میں امداد کا سلسلہ تو جاری رہتا ہی تھا.خفیہ بھی اور اعلانیہ بھی ! گھر کے مستقل خرچ کے علاوہ جو حضور کی طرف سے ملتا تھا ذاتی آمدنی بہت معمولی تھی.( ان کا کچھ روپیہ حضور نے کہیں تجارت پر لگا رکھا تھا.) اس لئے اکثر مالی مشکلات میں مبتلا رہتی تھیں.مگر اللہ تعالیٰ پھر بھی غیب سے سامان کرتا رہا اور جیسے کیسے بھی بن پڑا انفاق کا سلسلہ جاری رکھا.اللہ تعالیٰ پر بہت تو کل تھا اور اُس رحیم وکریم نے اپنے در سے کبھی خالی نہیں لوٹایا.وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ کی ایک زندہ تصویر تھیں.اگر کسی ضرورت مند کو دینے کے لئے خود اپنے پاس کچھ نہ ہوتا تو بعض دوسرے متمول دوستوں کو توجہ دلا کر امداد کی صورت نکال لیتی تھیں.اگر کوئی راہ نہ
255 پاتیں تو قرض اٹھا کر بھی ضرورت مند کی ضرورت پوری کر دیتی تھیں اور دوسروں کے مالی فکر اپنے سینے سے لگالیتی تھیں.(سیرت سیدہ ام طاہر صفحہ 227 تا230) حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ کی خدمت خلق کے جذ بہ کو حضرت قمر الانبیاء مرزا بشیر احمد صاحب نے یوں اجاگر کیا ہے:- وو مرحومہ میں غرباء کی امداد کا وصف بھی خاص طور پر پایا جاتا تھا چونکہ اُن کے دل کو خالق فطرت کی طرف سے جذبات کا غیر معمولی خمیر ملا تھا اس لئے جب بھی وہ کسی غریب یا بیمار یا مصیبت زدہ کو تکلیف میں دیکھتی تھیں تو ان کا دل بے چین ہونے لگتا اور فوراً اس کی امداد کے لئے تیار ہو جاتی تھیں.چنانچہ ان کے گھر میں غریبوں، بیواؤں اور یتیموں کا تانتا لگا رہتا تھا.اور وہ مقدور بھر سب کی امداد کرتی تھیں یعنی اگر کسی مصیبت زدہ کی خود مدد کر سکتیں تھیں تو خود کر دیتی تھیں اور اگر کسی ناظر یا کسی اور شخص کو کچھ کہنا ہوتا تو اُسے کہلا بھیجتی تھیں اور اگر حضرت صاحب تک معاملہ پہنچانا ضروری ہوتا تو حضور تک پہنچا دیتی تھیں.میں نے دیکھا ہے جہاں حضور کی دوسری بیویاں حضور کی مصروفیت کا خیال کر کے یا اس اندیشے سے کہ کہیں ہماری سفارش غلط نہ ہو حضرت صاحب تک معاملات پہنچانے میں اکثر حجاب اور تامل کرتی تھیں وہاں یہ ” خدا کی بندی ( حضرت صاحبزدہ مراز بشیر احمد صاحب نے حضرت سیّدہ ام طاہر صاحبہ کو خدا کی بندی“ کے معزز لقب سے یاد فرمایا ہے.یہاں خاکسار کے دل میں فوراً یہ خیال آیا کہ اسی خدا کی بندی نے ایک ایسے بیٹے کو جنم دیا اور دعاؤں کے ساتھ پروان چڑھایا جس نے ”مرد خدا کی حیثیت سے دنیا کے تمام ممالک کے مخلصین جماعت کے دلوں پر حکمرانی کی.اور صحیح معنوں میں ” مردِ خدا“ کے لقب کا مستحق ہے خاکسار بشری بشیر ).جب کسی شخص کو واقعی قابل امداد خیال کرتی تھیں تو بلا تامل حضور تک بات پہنچا دیتی تھیں اور پھر اس کا پیچھا کرتی تھیں.بے شک وہ بعض
256 اوقات غلطی سے محبت کی جھاڑ بھی کھالیتی تھیں مگر پھر بھی کسی موقعہ پر وہ پوکتی نہیں تھیں اور اپنا فرض برابر ادا کئے جاتی تھیں.اس لئے غریب عورتیں بلکہ غریب مرد بھی اُنہیں اپنا سچا مربی خیال کرتے تھے اور ہر تکلیف کے وقت ان کے دروزے کی طرف دوڑتے تھے اور وہ بھی سب کے ساتھ محبت سے پیش آتی تھیں.آپ نے کئی یتیم ، بچیوں اور بچوں کو اپنے ساتھ رکھ کر اپنے گھر میں پالا اور ہمیشہ اپنے بچوں کی طرح سلوک کیا.ان کے دکھ کو اپنا دکھ اور ان کی راحت کو اپنی راحت سمجھا.غریبوں کی دلداری کا اس رنگ میں بھی مرحومہ کو خاص خیال تھا کہ ان کی خوشیوں میں اپنے عزیزوں کی طرح شریک ہوتی تھیں.اس کا نتیجہ یہ تھا کہ جب آپ کسی سفر وغیرہ میں ہوتی تھیں تو کئی لوگ اپنے عزیزوں کی شادی کو صرف اس وجہ سے ملتوی کر دیتے تھے کہ آپا جان آئیں گی تو پھر ان کے سامنے شادی کریں گے.الغرض حقیقی معنوں میں غریبوں کی دوست اور یتیموں کی ماں تھیں.مجھے وہ واقعہ غالبا کبھی نہ بھولے گا کہ جب حضرت میر محد الحق صاحب کی وفات ہوئی تو اس دن میں نے دیکھا کہ ایک غریب مہاجر بہشتی مقبرہ کی سڑک پر اور ہا تھا.اور جب میں اس کے پاس سے گزرا اور اس کی طرف نظر اٹھائی تو اس نے مجھے سسکیاں لیتے ہوئے کہا کہ آج غریب بالکل یتیم ہو گئے.پھر کہنے لگا بارہ 12 دن پہلے غریبوں کی ماں گزرگئی تھی اور آج باپ بھی رخصت ہوا.اس کا اشارہ سیدہ اُمم طاہر صاحبہ اور حضرت میر محمد الحق صاحب کی طرف تھا.میں نے دل میں کہا گواصل یتیم اور غیر یتیم تو اللہ کے ساتھ تعلق رکھنے یا نہ رکھنے کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے.اور جس کا خدا زندہ ہے اور اس کا اس سے تعلق ہے وہ کبھی یتیم نہیں ہو سکتا.مگر اُس غریب مہاجر کا کہنا بھی درست ہے کہ ان دو او پر تلے کی موتوں نے قادیان کے غریبوں کے دو بڑے ظاہری سہارے اُن سے چھین لئے.اور میں نے دُعا کی خدائے تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں ”نعم د
257 البدل عطا کرے تا کہ ان دکھے دلوں کی تسکین اور راحت کا سامان پیدا ہو.“ (سیرت حضرت سیّدہ ام طاہر صفحہ 260-259) حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ فرماتی ہیں:.ایک مرتبہ غرباء کے لحاف بننے میں دیر ہو گئی حضور نے فرمایا اس قدرلحاف تین دن میں تیار ہو جا ئیں میں برداشت نہیں کر سکتا کہ مزید لحافوں کی تیاری میں تاخیر ہواور اللہ کی مخلوق کو سردی سے دو چار ہونا پڑے اور یہ کام اب آپ ( یعنی پھوپھی جان حضرت سیّدہ ام طاہر صاحبہ ) کے سپر دکرتا ہوں.مجھے خوب یاد ہے کہ رات رات بھر جاگ کر اور سارا سارا دن لگ کر جس میں کھانے پینے اور آرام کا خیال بھی نہ رکھا گیا آپ نے کام ختم کیا اور ٹھیک تیسرے دن ڈھیروں لحاف تیار کر کے حضور کی خدمت میں پیش کر دئیے اور خود اپنا یہ حال تھا کہ شدید بیمار ہوگئیں کیونکہ عملی طور پر آپ نے کام میں زیادہ حصہ لیا اور یہ احساس آپ کو تڑپا گیا کہ اب تک غرباء کے لئے سردی سے بچاؤ کا انتظام نہیں ہو سکا.طبیعت میں ذرہ بھر نمائش و نمود کا نام نہیں تھا.سب کچھ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کیا کرتیں استی اسی نوے توے مشینیں رکھے خود بھی غرباء کے لئے کپڑے سینا اور خدمتِ خلق اور سلسلہ کی خدمت کا جذبہ رکھنے والی خواتین سے ذوق وشوق سے بلا اُجرت کام کروانا آپ کے حسنِ اخلاق کی شاندار دلیل ہے.(سیرت حضرت سیّدہ ام طاہر خلاصہ صفحہ 176-175) مکرمہ حضرت سیّدہ ام داؤ د صاحبہ نے خدمتِ خلق کے میدان میں جو نا قابل فراموش اور بے مثال خدمات سرانجام دی ہیں.وہ تاریخ احمدیت میں ہمیشہ یادگار رہیں گی.جلسہ سالانہ کے موقع پر مستورات میں مہمان نوازی کے فرائض 1922ء سے 1951 ء تک مسلسل ادا کرتی رہیں.
258 ایک شفیق ماں کی طرح دار الشیوخ کے نادار بچوں کو ہر ممکن آرام پہنچانے کی کوشش کرتیں.عید کے موقع پر کپڑے سلوانے ،سردیوں میں رضائیاں تیار کرنے میں خاصی دلچسپی سے کام لیتیں.حضرت میر صاحب اپنی تنخواہ کا زیادہ حصہ ان یتیموں، غریبوں اور بیوگان کی ضروریات پر خرچ کر دیتے تو آپ نے کبھی شکایت نہ کی کیونکہ آپ کو بھی طبعاً اُن غرباء، یتامی اور بیوگان کی حاجت روائی پسند تھی.آپ کا دامن بہت سی نیکیوں سے معمور تھا.اور نیکی کے کاموں میں اپنے خاوند کا ہمیشہ ساتھ دیتیں.آپ کے گھر میں ہمیشہ دو تین یتیم اور نادار بچے ضرور ہوتے جن کی ہر قسم کی ضروریات آپ پوری کرتیں آپ انہیں اپنے بچوں کے ساتھ پڑھاتیں.کوشش کرتیں کہ انہیں اپنے ماں باپ کی کمی محسوس نہ ہو.بعض آپ کو امی جان کہہ کر پکارتے.آپ کوئی دل شکنی کی بات نہ ہونے دیتیں.جب پہلے بچے بڑے ہو جاتے تو اور بیچے آجاتے اور یہ سلسلہ جاری رہتا آپ بہت سادہ زندگی بسر کر نیوالی صابر و شاکر خاتون تھیں.ہر اول دستہ خلاصہ صفحہ 86-87) خدمت خلق لجنہ اما اللہ کا ایک نمایاں وصف ہے.ابتدائی احمدی خواتین نے خدمت خلق کی مثالیں قائم کی ہیں ان نمایاں خواتین میں مکرمہ محترمہ اُستانی میمونہ صوفیہ صاحبہ اہلیہ مولوی غلام محمد صاحب بھی تھیں.اگر آپ کو معلوم ہو جاتا کہ کوئی ضرورت مند ہے تو آپ صاحب استطاعت لوگوں کو تحریک کر کے مالی اعانت حاصل کرتیں اور غرباء کی ضروریات پوری کرتیں.عید کے موقع پر غرباء کے لئے کپڑے بنوانے اور سردیوں میں لحاف تیار کروانے کے لئے کپڑے کی خریداری کی ذمہ داری آپ پر ہوتی.جسے باحسن ادا کرتی رہیں اور جب تک ہمت رہی یہ کام پوری بشاشت سے کرتی رہیں.( ہر اول دسته صفحه 111) حضرت مصلح موعود کی صاحبزادی مکرمه و محترمہ صاحبزادی ناصره بیگم صاحبہ نے صدر لجنہ ربوہ کی گوناگوں مصروفیات کے ساتھ ساتھ خدمت خلق کے
259 سلسلہ میں بہت نمایاں خدمات سرانجام دی ہیں.بڑے خلوص محبت اور توجہ سے یہ کام نہ صرف اپنی صدارت کے زمانہ میں کئے بلکہ بعد ازاں بھی یہ سلسلہ جاری رہا.انکی الوداعی پارٹی کے موقع پر حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ سابقہ صدر لجنہ پاکستان نے جولائی 1992ء میں فرمایا :- شعبہ خدمت خلق میں ذاتی طور پر مستحق کے حالات کا پتہ لگانا اور اس کی جائز ضروریات پوری کرنا.اس کے لئے اگر اپنے فنڈ میں رقم نہیں تو فنڈ جمع کرنا اور صاحب ثروت خواتین کو اس میں حصہ لینے کی طرف توجہ دلائی.یہاں تک کہ آپ نے اس میں بہت وسعت پیدا کر دی اور یہ سارے اخراجات مثلاً عیدین کے موقع پر مستحقین کے لئے کپڑے بنوائے.سردیوں میں گرم کپڑے.ان کے بچوں کی فیس، کتب وغیرہ دیتیں اور ہزاروں ضرورتیں عورتوں کی پوری کرتیں.لڑکیوں کی شادیوں پر امدا دا ایک بہت بڑا فریضہ تھا جسے نہایت خوبی سے اب تک نبھاتی چلی آئی ہیں.دوسرا کام جس کی طرف آپ نے بہت توجہ کی وہ نمائش کا شعبہ تھا.عورتوں سے کام لینا، پہلے اُن کو کام سکھانا یا سکھوانا.جو چیز بنوانی پہلے اس کا کپڑا اور دھاگہ خود خرید کر لانا.ڈیزائن بنانے ! اب یہ شعبہ بہت ترقی کر چکا ہے.اور بعد میں آنیوالی سیکرٹریان نے اچھی طرح سنبھال لیا ہے.لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ساری ترقی کا انحصاران کی اکیلی ذات پر تھا.“ (مصباح صفحہ 6-7 جولائی 1992ء) حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے کسی نہ کسی رنگ میں اپنی زندگی خدمت خلق کرتے ہوئے گزاری ذاتی طور پر جس قدر امکان میں تھا ہمیشہ غریبوں، بے کسوں اور ضرورت مندوں کا خیال رکھا.اور جہاں تک ہوسکا ان کی امداد کے لئے کوشاں رہی ہیں.دستِ سوال دراز کرنے کی عادت کو ختم کرنے کے لئے ربوہ میں نصرت
260 انڈسٹریل اسکول کا اجراء فرمایا تا کہ یتیم لڑکیاں اور بیوہ خواتین یہاں پر کام سیکھیں اور پھر اس ہنر کو اپنی باعزت آمد کا ذریعہ بنا ئیں.اس طرح پر سینکڑوں خواتین اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئیں اور بلاضرورت مانگنے کی برائی سے بچ گئیں.کئی غریب لڑکیوں کو اپنے گھر میں رکھ کر باقاعدہ تعلیم دلوائی اور پھر ان کی شادیاں کیں.علاوہ ازیں صدقہ و خیرات کے ذریعے کئی مخفی امداد کے طریقے ہوتے.اس بات پر عمل پیرا تھیں کہ دائیں ہاتھ سے دو تو بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو.یہ چیز بارہا مشاہدہ میں آئی کہ آپ نے تمام قرابت داری اور رشتہ داری کے حقوق باحسن ادا فرمائے.ہر ایک سے محبت اور خلوص کے ساتھ پیش آنے کے علاوہ ضرورت کے وقت ہمدردی اور حوصلہ افزائی فرمائی صلہ رحمی کی نہایت عمدہ مثالیں آپ کی زندگی میں ملتی ہیں.گاہے گاہے بیماروں کی خدمت اور زچگی کے موقع پر دیکھ بھال کے سلسلہ میں دوسرے شہروں کے ہسپتالوں میں بھی اپنی عزیز خواتین کے ہمراہ جا کر رہتی تھیں یہ کام اچھا خاصا محنت طلب اور تکلیف دہ ہے لیکن محبت اور ثواب کی خاطر انہیں یہ کام بھی کرتے دیکھا.اپنوں اور غیروں سے ہمدردی کے جذبہ اور بے لوث خدمت کا یہ سلسلہ جاری رہا.غرض یہ کہ ضرورت کے وقت ہر ایک کے کام آنا آپ کا معمول تھا.نہایت سلیقہ مند اور اعلی ذوق کی مالک تھیں اپنوں اور غیروں کی شادی بیاہ کے موقع پر بھی کپڑوں پر گوٹا کناری ٹانکنا اور کٹائی سلائی میں مدد کرنا آپ کا شیوہ تھا نئے پیدا ہونے والے بچوں کے اونی کپڑے(سوئیٹر وغیرہ) اپنے ہاتھ سے بن کر تھنے کے طور پر عنایت فرماتی تھیں.آپ کی ذات نمود و نمائش اور تصنع سے قطعاً پاک تھی.
261 سلطان القلم کی مجاہدات احمدی خواتین کی نظم و نثر میں خدمات حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا :- کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی.ہے شعر و شاعری محض ادب کے لئے ہے ، زندگی کے لئے ہے یا کمائی کا ذریعہ سارے جھگڑے چکا دئے.اس ڈھب سے کوئی سمجھے، فرما کر ادب کو نئے راستے دیئے ادبی صلاحیتیں برائے ابلاغ ہیں.لطیف انداز میں محسوسات کی خوبصورت زبان میں دلوں کے تار چھیڑے جائیں اور اُن میں وہ پیغام منتقل کر دیئے جائیں جو اللہ تعالیٰ سے ملادیں.خواتین کی اس محفل شعر و سخن کی میر مشاعرہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ہیں.حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبه: ہیں:.حضرت خلیفۃ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ آپ کے بارے میں فرماتے بڑی پھوپھی جان حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کی نظمیں پڑھ کر آپ حیران ہوں گی کہ اس دور کے بڑے بڑے شاعر بھی فصاحت و بلاغت میں آپ کا مقابلہ نہیں کرتے.ذہن بھی روشن دل بھی روشن اور سکینت بھی تھی جو کبھی زندگی کا
262 ساتھ نہیں چھوڑتی تھی.جو اس زندگی میں مزہ ہے وہ ہر وقت متحرک رہنے سے بے چین رہنے میں کہاں نصیب ہوسکتا ہے؟ (دخت کرام صفحہ 196) حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ علم وادب کا ایک سمندر تھیں فرمایا کرتیں کہ قرآن کریم پڑھتے ہوئے کسی لفظ کے ترجمہ کے متعلق طبیعت رکتی ہے تو میں لغت دیکھتی ہوں اور وہی معنی درست ہوتے ہیں جو میں سمجھتی ہوں.آپ کے کلام کو پڑھنے سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا مقصود شعر گوئی نہیں بلکہ ضرورت پر اپنے جذبات کو نظم میں ظاہر کر دینا ہے.آپ کا کلام تصنع سے پاک ہے.آپ نے کبھی کسی سے اصلاح نہیں لی.آپ کا کلام نہایت موثر اور دلنشین ہے.آپ کا مجموعہ کلام در عدن کے نام سے شائع ہوا جو شعر و ادب پر آپ کی قدرت کلام کا نہایت اعلیٰ نمونہ ہے.اشعار نہایت پاکیزہ، عشق خدا اور عشق رسول کے آئینہ دار ہیں.آپ کے اشعار پڑھ کر انسان بے اختیار عش عش کر اٹھتا ہے.نمونہ کلام : مجھے دیکھ طالب منتظر مجھے دیکھ شکل مجاز میں جو خلوص دل کی رمق بھی ہو ترے اڈ عائے نیاز میں تیرے دل میں میرا ظہور ہے ترا سر ہی خودسر طور ہے تری آنکھ میں مرا نور ہے مجھے کون کہتا ہے دُور ہے مجھے دیکھتا جو نہیں ہے تو، یہ تری نظر کا قصور ہے مجھے دیکھ طالب منتظر مجھے دیکھ شکل مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں تری جبینِ نیاز میں مجھے دیکھ رفعت کو ہ میں مجھے دیکھ پستی کاہ میں
263 مجھے دیکھ عجز فقیر میں مجھے دیکھ شوکت شاہ میں نہ دکھائی دوں تو یہ فکر کرکہیں فرق ہو نہ نگاہ میں نہ روک راہ میں مولی شتاب جانے دے کھلا تو ہے تری ”جنت کا باب“ جانے دے مجھے تو دامنِ رحمت میں ڈھانپ لے یونہی حساب مجھ سے نہ لے ” بے حساب“ جانے دے سوال مجھ سے نہ کر اے مرے سمیع و بصیر جواب مانگ نہ اے لاجواب جانے دے مرے گناہ تری بخشش سے بڑھ نہیں سکتے ترے نثار حساب و کتاب جانے دے حضرت سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کے شعری ذوق کے متعلق ایک دلچسپ روایت حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:- حضرت پھوپھی جان ( حضرت سیّدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ ) کو نہایت ہی لطیف شعری ذوق عطا ہوا تھا.خود بہت ہی صاحب کمال شاعرہ تھیں.لیکن اپنے کلام کولوگوں سے چھپاتی تھیں.اکثر چند سطور لکھیں اور ایک طرف پھینک دیں.اور پھر وہ کلام نظر سے غائب ہو گیا.چونکہ مجھے بچپن سے ہی شعر کا ذوق رہا ہے اس لئے حضرت پھوپھی جان ( حضرت نواب امتہ الحفیظ
264 بیگم صاحبہ ) سے میرا ایک خاص تعلق اس وجہ سے بھی تھا.میری ان تک رسائی تھی اور وہ بعض دفعہ بڑے پیار کے ساتھ مجھے اپنا کلام سنادیا کرتی تھیں ابھی کچھ عرصہ پہلے جب میں ملاقات کے لئے گیا تو ایک بہت ہی پرانی نظم جو حضرت پھوپھی جان نے مجھے قادیان کے زمانہ میں سنائی تھی اس کے ایک دو شعر سنانے کو کہے تو ان کے چہرے پر عجیب مسکراہٹ پیدا ہوئی کہ تم اب تک وہ باتیں یا در کھتے ہو.“ مصباح جنوری فروری 1988 صفحہ 18) نمونہ کلام : مری جدائی گوارا ہوئی تمہیں کیوں کر تمہیں یہ ذکر بھی تھا ناگوار یاد کرو کہاں ہے کدھر ہے قرار مرے دل کا بنے تھے تم مرے دل کا قرار یاد کرو محترمہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ: جماعت احمدیہ کی شعری روایات کی پاسدار، بلند پاکیزہ مضامین کے ساتھ قادر الکلامی اور نمنگی نے صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ کو منفرد مقام عطا کیا ہے.نمونہ کلام : خدا کا یہ احسان ہے ہم پہ بھاری کہ جس نے ہے اپنی یہ نعمت اُتاری نہ مایوس ہونا گھٹن ہو نہ طاری رہے گا خلافت کا فیضان جاری
265 نبوت کے ہاتھوں جو پودا لگا ہے خلافت کے سائے میں پھولا پھلا ہے یہ کرتی ہے اس باغ کی آبیاری رہے گا خلافت کا فیضان جاری الہی ہمیں تو فراست عطا کر خلافت سے گہری محبت عطا کر ہمیں دکھ نہ دے کوئی لغزش ہماری رہے گا خلافت کا فیضان جاری وہ جو احمد بھی ہے اور محمد بھی ہے وہ موید بھی ہے اور موید بھی ہے وہ جو واحد نہیں ہے پہ واحد بھی ہے اک اُسی کو تو حاصل ہوا یہ مقام اس پہ لاکھوں درود اُس پہ لاکھوں سلام وہ معارف کا اک قلزم بیکراں فخر انسانیت رشک قدوسیاں اُس کی توصیف ہو کس طرح سے بیاں ہے زباں شرمسار اور نادم کلام اس پہ لاکھوں درود اُس پہ لاکھوں سلام مکرمہ منیره ظهور صاحبہ: مکرمہ منیرہ ظہور صاحبہ بھی ایک مستند شاعرہ تھیں.کلام بہت پر اثر لہجہ دھیما
266 اور پُر خلوص، اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے.نمونہ کلام : موت کا زخم“ ہر جانب اک حشر بپا ہر بپا ہے کون کسی سے بچھڑ گیا ہے گل چاک گریباں دیکھا گاشتن عید کا دن چاند ނ بھی سہما سہا کون گیا ہے لرزاں لرزاں ہر تارا کون ہوا دنیا رخصت عید کا ہے شہر میں اک کہرام مچا ہے دن یہ کیسا آیا کسی کی آنکھ ہر اک آنکھ سے خون بہا ہے سے ساون برسا رات کا دامن بھیگ گیا ہے راہ میں ساتھی کھو کر کوئی آخری دم تنہا چپ، حیران کھڑا ہے تک جو نہ بھرے گا موت نے ایسا زخم دیا ہے مکرمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ: مکرمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ بھی ایک بہت منجھی ہوئی صاحب طرز احمدی
شاعرہ ہیں.نمونہ کلام : 267 دل کے بند در بیچوں میں اک درد بسایا ساری رات آج کسی تقصیر نے مجھ کو خوب رُلایا ساری رات اک شب قدر ملی جو میں نے غفلت میں کھودی آنکھوں نے پھر اکثر ہی رتجگا منایا ساری رات ارض وسما کے فاصلے طے کر پاتا کیسے نازک دل تو شہہ رگ سے پاس تھا مولا کیوں تڑپایا ساری رات سے سب کو سُنا کر کیا لینا ہے سوجاؤ خاموشی عظمت اُس نے سُن تو لیا ہے جس کو سنایا ساری رات مکرمہ امۃ القدیر ارشاد صاحبه: مکرمہ امتہ القدیر ارشاد صاحبہ نے سنجیدہ شعر گوئی کے ساتھ پر لطف مزاحیہ شاعری بھی کی ہے.یادِ ماضی کے عنوان سے ایک نظم کے چند بند یوں ہیں.آج بھی مجھ کو وہ کالج کا زمانہ یاد ہے اُن کی شفقت یاد ہے اپنا ستانا یاد ہے آئے دن جرمانے کھا کر بھول جانا یاد ہے ہر بہانہ یاد ہے ہر اک فسانہ یاد ہے اے ہمارے جامعہ عرفان و حکمت کے چمن یاد آتے ہیں کبھی تجھ کو بھی یاران کہن؟ ہوٹل میں چھپ کے کھانے کا مزا بھولا نہیں اور یہ بھی ڈر کہ واللہ وہ نہ آجائیں کہیں
268 پھر تو بچنے کی خدایا کوئی صورت ہی نہیں اور جرمانہ بھی ہونا لازمی ہے بالیقیں اے ہمارے جامعہ ماضی کی یادوں کے وطن یاد آتے ہیں کبھی تجھ کو بھی یاران گہن ؟ محترمہ امۃ الباری ناصر صاحبہ آف کراچی: میں سلطان القلم کی اک سپاہی مری دولت قلم کاغذ سیاہی کتب خانه درون قلب قائم بنی اُستاد آه سحر گاہی عرش معلی میرا ہادی مراحافظ ہے خود عالم پناہی مجھے حق نے عطا کی کامرانی مرے دشمن کو ناکامی ، تباہی مری منزل رضائے رب رحماں سوا اس کے کوئی دولت نہ چاہی میں ہوں شاہ جہان فکر و احساس فقیری میں ملی ہے بادشاہی کیا سنگسار نااہلوں نے مجھ کو یہ کافی ثبوت ہے ہے گناہی میں لکھوں، خوب لکھوں اور مقصد فقط تیری رضا ہو یا الہی
269 نہیں ہے پیش منظر جب وہ ہستی تو پس منظر سیاہی ہی سیاہی لپک کر گود میں بھرتی ہے منزل طلب میں اُس کی جب نکلے ہیں راہی ☆..مندرجہ بالا چند شاعرات کا ذکر اور مختصر نمونہ ہائے کلام صرف اس اندازے کے لئے پیش کیا گیا ہے کہ احمدی شاعرات اس میدان میں بھی کسی سے کم نہیں.ان کے علاوہ بھی بڑی تعداد میں خواتین عمدہ دل آویز شعر کہہ رہی ہیں.مثلاً مکرمہ اصغری نور الحق صاحبہ، مکرمہ شاکرہ بیگم صاحبہ، مکر مہ طیبہ زین صاحبہ.نثر میں خواتین کی قلمی کاوشوں کے متعلق حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کے ایک مضمون سے اقتباس پیش خدمت ہے آپ فرماتی ہیں کہ :- لجنہ کی ابتدائی ممبرات میں سے چند خواتین ایسی تھیں جن کی یہ خواہش تھی کہ عورتوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ایک الگ رسالہ جاری ہو.صف اول میں سیدہ صالحہ بیگم صاحبہ ام داؤد تھیں.پھر اُستانی سکینۃ النساء اہلیہ قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل ممتاز حیثیت رکھتی تھیں.ان کے علاوہ اور بہنیں بھی وقتا فوقتا احمدی خاتون اور ” تادیب النساء میں اس سلسلہ میں لکھتی رہی ہیں.”احمدی خاتون“ ایک رسالہ عرفانی صاحب نے مستورات کے لئے جاری کیا تھا جس کا نام بعد میں حضرت مصلح موعود نے ” تادیب النساء “ رکھ دیا تھا.کچھ عرصہ بعد وہ بھی بند ہو گیا تو الفضل کے صفحات پر احمدی خواتین کے مضامین نظر آنے لگے.ایڈیٹر صاحب الفضل نے اعلان فرمایا کہ الفضل میں ایک صفحہ عورتوں کے مضامین کے لئے مخصوص کر دیا جائے گا.اس اعلان کے بعد الفضل کے صفحات پر نظر ڈالیں تو ہر پر چہ میں
270 کسی نہ کسی خاتون کا مضمون نظر آتا تھا جس میں کوئی نہ کوئی تجو یز عورتوں کی ترقی کی ہوتی تھی.احمدی بہنوں کو جو کچھ عرصہ سے ایک زنانہ اخبار کی ضرورت محسوس کر رہی تھیں اور اپنے خیالات کا اظہار بھی کر رہی تھیں.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے ایسے اخبار کی منظوری دے دی.آخر 15 دسمبر 1926ء کو اس کا پہلا پرچہ شائع ہوا.اس رسالہ کا نام مصباح رکھا گیا.یہ اخبار دوبار یکم اور پندرہ کو نکلتا تھا.حجم سولہ (16) صفحے اور قیمت اڑھائی روپے تھی.ایک کٹر آریہ سماجی اخبار نتیجے کی رائے مصباح کے بارے میں یہ تھی.” میرے خیال میں یہ اخبار اس قابل ہے کہ ہر آریہ سماجی اس کو دیکھے.اس کے مطالعہ سے انہیں احمدی عورتوں کے بارے میں جو غلط نہی ہے کہ وہ پردہ کے اندر بند رہتی ہیں اس لئے کچھ کام نہیں کرتیں فی الفور دُور ہو جائے گی اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ یہ عورتیں باوجود اسلام کے ظالمانہ حکم کے طفیل پردہ کی قید میں رہنے کے کس قدر کام کر رہی ہیں.؟ اور ان میں مذہبی احساس اور اسلام کا جوش کس قدر ہے.ہم استری سماج قائم کر کے مطمئن ہوچکے ہیں لیکن ہم کو معلوم ہونا چاہئے.کہ احمدی عورتوں کی ہر جگہ انجمنیں قائم ہیں اور جو کام وہ کر رہی ہیں اسکے آگے ہمارے استری سماجوں کا کام بالکل بے حقیقت ہے.مصباح کو دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ احمدی عورتیں ہندوستان ، افریقہ ، عرب، مصر، یورپ اور امریکہ
271 میں کس قدر اور کس طرح کام کر رہی ہیں.“ آپ مزید ھتی ہیں کہ عورتوں کا یہ اخبار جو 15 دسمبر 1926ء کو جاری ہوا تھا.تقسیم ملک تک یعنی 1947 ء تک جاری رہا.شروع میں پندرہ روزہ تھا جو بعد میں ماہوار ہو گیا.شروع میں مرد حضرات نے بطور ایڈیٹر خدمت انجام دی لیکن 1947ء میں لجنہ اما اللہ نے فیصلہ کیا کہ لجنہ اس رسالہ کو اپنی نگرانی میں لے لے اور اس کا تمام خرچ خود برداشت کرے.ملکی تقسیم کے بعد 1950ء میں دوبارہ مصباح جاری ہوا.جو اللہ کے فضل سے پوری شان کے ساتھ جاری ہے اور عورتوں کا واحد تر جمان ہے.اس کی پہلی مدیرہ عزیزہ امتہ اللہ خورشید بنت مولانا ابو العطاء تھیں.اُن کی وفات کے بعد امۃ الرشید شوکت صاحبہ، ان کے بعد امتہ اللطیف صاحبہ اہلیہ شیخ خورشید احمد صاحب اور اب ان کے بعد سلیمہ قمر صاحبہ ادارت کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں.(مصباح جنوری 1996 صفحہ 39-47،40) مصباح کے علاوہ دنیا بھر کے ممالک کی لجنات اپنی زبانوں اور ضرورت کے مطابق رسالے شائع کرتی ہیں مثلاً النصرت برطانیہ المائده امریکہ عائشہ (Aysha) امریکہ صدیقہ نائیجریا النساء زینب کینیڈا ناروے لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے سولہ کتب شائع کی ہیں.جن میں الازھار لذوات
272 الخمار المصابیح ، تاریخ لجنہ اماءاللہ بہت اہم ہیں.لجنہ اماءاللہ لاہور کی اشاعتی خدمات: صد سالہ جشن تشکر کی خوشی میں لجنہ لاہور نے سوکتب کی اشاعت کا منصوبہ بنایا تادم تحریران کی 5 کتب شائع ہو چکی ہیں.صاحب قلم خواتین ملکی اخبارات میں اپنے موقف پر مشتمل خطوط اور مضامین بھی بھتی ہیں.حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ یو کے 1992ء اپنے دوسرے دن کے خطاب میں لجنہ لاہور کے شعبہ اشاعت کے کام پر خوشنودی کا اظہار فرمایا.محترمہ نسیم سعید صاحبہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ لجنہ پاکستان کی طرف سے شائع ہونے والے مجلّہ صد سالہ جشن تشکر کی ادارت کے فرائض ادا کئے.سیکریٹری اشاعت لجنہ لاہور کے نام حضور انور کے تعریفی خطوط سے اقتباس پیش خدمت ہیں.22.6.88 لجنہ لاہور نے جو کتب بچوں کے لئے تیار کی ہیں وہ مل گئی ہیں ماشاء اللہ اچھی دیدہ زیب پیش کش ہے جزاکم اللہ احسن الجزا.اللہ تعالیٰ تمام کام کرنے والیوں کو اپنے فضلوں سے نوازے.“ مبارک ہو.“ آپ کا خط ملا کتا میں بھی مل گئیں بہت اچھی ہیں لاہور کی جن خواتین نے 56 کتب لکھنے میں قلمی اعانت کی ان کے نام مندرجہ ذیل ہیں :- مکرمہ صادقہ فضل صاحبہ (سیکرٹری اشاعت لاہور ) -1
-2 -3 4._5 -6 -7 -8 -9 273 مکرمه ستاره مظفر صاحبه مکر مہ رقیه خالد صاحبه مکرمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ مکرمہ سعدیہ حئی صاحبہ مکرمہ امۃ الرحمان طاہرہ صاحبہ مکر مہ ناصرہ داؤ د صاحبہ مکرمہ مبشرہ چوہدری صاحبہ مکرمہ ساجدہ صالح صاحبہ 10 - مکرمه حسن آرا منیر صاحبہ 11 - مکرمه عظمی مبارک صاحبہ 12 - مکرمہ نسیم ساہی صاحبہ 13.مکرمہ صالحہ در دصاحبہ 14.مکرمہ خالدہ آفتاب صاحبہ 15.مکرمہ بشری و سیم صاحبہ 16- مکرمہ نعیمہ سلہری صاحبہ 17.مکرمہ کفیله خانم صاحبہ 18 - مکرمه سیده نیم سعید صاحبه 19.مکر مہ امۃ الشکور بیگ صاحبه 20.مکرمہ عطیہ عارف صاحبہ 21 - مکرمه آمنه قریشی صاحبہ 22 - مکر مہ امۃ الرفیق ظفر صاحبہ 23 مکرمہ سلمی شہناز صاحبہ
274 لجنہ کراچی کی اشاعتی خدمات: امتہ الباری نا صرصاحبہ سیکر یٹری اشاعت لجنہ اماءاللہ کرا چی لکھتی ہیں.”ہم نے فضل خداوندی سے امام وقت کی اطاعت میں ان کی دعاؤں کے طفیل نئی صدی کے استقبال کا عاجزانہ منصوبہ بنایا جس میں ہمیں کامیابی نصیب ہورہی ہے.40-50 کتابیں چھاپ لینا قابل ذکر واقعہ نہیں مگر امام وقت کی توجہ ، محبت، شفقت، رہنمائی اور دعائیں حاصل کرنا بہت بڑا واقعہ ہے.حضور پر نور کی حوصلہ افزائی مسرت انبساط محسوسات و جذبات کے معاملات ہیں جن کا بیان دنیا کی کسی زبان میں ممکن نہیں.1988ء میں شعبہ اشاعت لجنہ کراچی کے تحت کتب کا کام شروع کیا گیا.اب تک یہ گراں قدر علمی خدمات تسلسل اور خوبصورتی کے ساتھ رواں دواں ہے.شروع میں چھوٹی چھوٹی خوبصورت اور مفید کتب کی اشاعت کا کام منظر عام پر آیا اور حضور پرنور کی نظر سے گزرا تو آپ نے صدر لجنہ ضلع کراچی سلیمہ میر صاحبہ کو ایک خط میں یوں خراج تحسین عطا فر مایا.سب لجنہ کراچی کو میرا محبت بھر اسلام پہنچادیں.دنیا بھر کی لجنات میں جو چند لجنات صف اول کی ہیں ان میں لجنہ کراچی نمایاں ہے.ٹیم ورک اور نیک کاموں میں استقلال اور نظم وضبط اس لجنہ کی خاص خوبیاں ہیں جو مجھے 66 بطور خاص پسند ہیں.“ حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے ایک خط 89-12-28 کو تحریر فرمایا :- جن مشکلات اور جس تھوڑے عرصے میں آپ نے
275 بڑا دفتر لٹریچر کا تیار کیا ہے حیرت انگیز ہے.خدا تعالیٰ نے خاص توفیق بخشی ہے.یہاں مرکزی طور پر تیاری لڑ پچر میں اس کو زیر نظر رکھتے ہیں.“ بعد کراچی کو نکھر اب شائع کرنے کی توفیق ملی اور حضرت خدیبیہ اہمیچ نے 11-11-90 کے مکتوب میں خوشنودی کا اظہار فرمایا :- کلام طاہر : لیفہ آپ نے ماشاء اللہ بہت خوبصورت رسالہ نکالا ہے نظمیں بھی بہت اچھی ہیں اور معیار بھی بلند ہے.“ حضرت اقدس کی تفصیلی ہدایات کی روشنی میں ظاہری اور باطنی لحاظ سے نہایت خوبصورت اور دیدہ زیب چھپی.الفضل 16 اکتوبر نے تعارف میں لکھا : - احمد یہ جماعت میں سب سے خوبصورت کتاب، کاغذ، پرنٹ ، جلد اور فلیپ کی خوبصورتی مد نظر رکھتے ہوئے چھپنے والی کتاب کا اعزاز شعبہ اشاعت لجنہ اماء اللہ کراچی کے حصہ میں آیا.“ حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحم اللہ تعالی جن کی میرات اور سیکر یٹری اشاعت اور صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.(30-12-96) آپ اور آپ کے ساتھیوں کی مساعی قابل صد ستائش ہے.کتب، لکھنے اور فروخت کرنے میں تو آپ نے کمال کر دیا ہے.خلوص سے کام کیا جائے تو اسی طرح برکت
276 پڑتی ہے.ہاتھ پلا ہلاتے رہیں تو خدا تعالیٰ تصورات سے بھی زیادہ نوازتا ہے.الحمد للہ کہ آپ لوگوں کی مساعی مثمر بثمرات ہوئی.“ کراچی کی اہل قلم خواتین :- 1.محترمہ بشری داؤ د صاحبہ 2.محترمہ امۃ الرشید جمیل صاحبہ 3.محترمہ امۃ الرفیق ظفر صاحبہ -4.محترمہ محمودہ امتہ السمیع وہاب صاحبہ 5.محترمہ امۃ الشکور امجد بیگ صاحبہ 6.محترمہ صوفیه اکرم چٹھہ صاحبہ 7.محترمہ صفیہ سیال صاحبہ 8.محترمہ رفیعه محمد صاحبہ 9.محترمہ برکت ناصر ملک صاحبہ 10.محترمہ شہناز نعیم صاحبہ 11.محترمہ امۃ الشافی سیال صاحبہ 12.امۃ الباری ناصر صاحبہ
277 اللہ فرمایا: - احمدی خواتین کا مستحسن اور مستحکم مقام حضرت مصلح موعود نے 21 اکتوبر 1956ء برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماء پس اگر تم کمر ہمت باندھ لو اور دین کی خاطر ہر قربانی کے لئے آمادہ ہو جاؤ تو میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ ابھی تم میں سے بہت سی عورتیں زندہ ہوں گی کہ ( دین حق ) غالب آجائے گا اور تم اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرو گی اور آخرت میں بھی اس کے انعامات کی وارث ہوگی اور تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گی کہ عیسائیت شکست کھا گئی ہے.اور ( دینِ حق ) فتح پا گیا ہے.حضرت عیسی کی خدائی ٹوٹ چکی ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بادشا د ہی قائم ہو چکی ہے.پس یہ کام تمہارے اختیار میں ہے اور اگر تم چاہو تو بڑی آسانی سے کرسکتی ہو.“ چشم تصور سے حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پر عالمی بیعتیں دیکھئے اور اس ارشاد کو بار بار پڑھئے کتنے ہی زندہ نشان اُبھر کر سامنے آتے رہیں گے.اور ہم دل سے تصدیق کریں گے کہ ہمارے بزرگوں کا ہر فرمان سچا تھا.کمزور ، غریب کم علم دیہاتی خواتین ہوں یا پڑھی لکھی اعلیٰ عہدوں پر متمکن خواتین سب کی چھوٹی بڑی مساعی مل کر دنیا کی تقدیر بنا رہی ہیں.پیارے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے بڑے دلنشیں انداز میں خواتین کو خراج تحسین
278 پیش فرمایا ہے :- ایک کھلا چیلنج ہے تمام دنیا کی خواتین کے لئے احمدی خواتین سی کوئی اور خواتین لا کر تو دکھاؤ.کتنی عظمت کی زندگی ہے.کتنی اعلیٰ مقاصد کے لئے وقف ہیں اور ان کی لذتوں کے معیار بدل چکے ہیں.تمہیں جو لذت سنگھار پٹار میں ملتی ہے.دکھاوے نمائش اور ناچ گانوں میں ملتی ہے.اس سے بہت بہتر اور بہت اعلیٰ درجے کی لذتیں احمدی خواتین کی زندگی کو منور رکھتی ہیں اور ان کے دلوں میں ایسی باقی رہنے والی لذات ہیں جو اس زندگی میں بھی اس کا ساتھ دیتی ہیں اور اس دنیا میں بھی جہاں تم سب نے مرکز پہنچنا ہے.احمدی خواتین دُنیا میں مثبت اقدام کے طور پر کیا کچھ کر رہی ہیں قوموں کی زندگی میں کتنا بھر پور حصہ لے رہی ہیں اور جیسا کہ میں نے پہلے ہی کہا ہے کہ دنیا بھر کی تمام خواتین سے مقابلہ کر کے دیکھیں کہ کسی قوم میں خواتین کی اتنی بھاری تعداد اتنے مثبت اور مفید کار آمد کاموں میں مصروف دکھائی نہیں دیں گی جیسے کہ احمدی خواتین دکھائی دیتی ہیں.اپنے خلفائے کرام کے زیر سایہ صبر ورضائے الہی، تو کل، زہد اور تقوی کی دولت سے مالا مال نہ صرف مردوں کے شانہ بشانہ چلتی چلی جارہی ہیں بلکہ اولادوں کی اعلیٰ تربیت کر کے نئی نسلوں کے ذریعے جماعت کو ایک نئی اور عظیم قوت
279 فراہم کرتی چلی جارہی ہیں.آج میں احمدی خواتین کو اپنے دائیں بھی لڑتے دیکھ رہا ہوں اور بائیں بھی اور آگے بھی اور پیچھے بھی.آج احمدی خواتین بیدار ہو کر اُٹھ کھڑی ہوئی ہیں.احمدی خواتین نے ہر میدان میں میرا ساتھ دیا.بگڑے ہوئے معاشرے کا بہترین جواب احمدی خواتین ہیں“.حضرت صاحب نے افریقہ کے بارے میں فرمایا: - وہاں احمدی خواتین سے وہ خدمت نہیں لی جارہی جس طرح دوسرے ممالک میں ان سے خدمت کی جارہی ہے اور اگر ان کو بیدار کر دیا جائے تو چند سال میں سارے افریقہ میں انقلاب آسکتا ہے اور چند سال میں سارے افریقہ کی تقدیر بدل سکتی ہے.انڈونیشیا کے بارے میں فرمایا :- انڈونیشیا میں جو انقلاب رُکا ہوا تھا وہ اب اللہ نے چاہا تو احمدی خواتین کی وجہ سے قریب آ رہا ہے.جرمنی کے بارے میں حضور اقدس نے فرمایا :- ریسرچ کے کام میں 100 سے زائد احمدی بچیاں دن رات کام کر رہی ہیں.یہ پوری بیدار اور ہمہ وقت چوکس ہیں.احمد یہ ٹیلی ویژن کے لئے سینکڑوں بچیاں کام کر رہی ہیں دعوت الی اللہ میں بھی مصروف ہیں.اس سے پہلے احمدیت کی تاریخ میں مجھے احمدی بچیوں کا اس طرح کام یاد نہیں بلکہ اس کا سواں
280 (100) حصہ بھی کبھی عورتوں نے کام نہیں کیا.ناروے کی احمدی بچیوں کے بارے میں بتایا کہ:- انہوں نے قرآن مجید کا ایسا اچھا ترجمہ کیا کہ ماہرین ایک بھی غلطی نہ نکال سکے.ناروے کی احمدی بچیوں کو دیکھ کر نارویجین بچیاں بھی دین کی طرف مائل ہو رہی ہیں اور دینی طرز کالباس پہنے لگی ہیں.سویڈن کے بارے میں فرمایا: - پہلے لمبے عرصے تک صرف ڈاکٹر قانتہ کا نام سنا جاتا تھا اب اللہ کے فضل سے یہاں کتنی قانتائیں بیدار ہوچکی ہیں.ڈنمارک کے بارے میں فرمایا : - کہ یہاں کے بارے میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ اب ایک لہر اٹھی تو ہے اب دیکھتے ہیں کہاں تک پہنچتی ہے.پاکستان کے بارے میں فرمایا :- کہ یہاں کے بارے میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ احمدی خواتین ہر میدان میں آگے ہیں حضور نے لجنہ ربوہ کی صدر آپا طاہرہ صدیقہ صاحبہ کے بارے میں فرمایا کہ یہ جو کام لندن میں ہوتا دیکھتی ہیں ربوہ میں بھی جاری کر دیتی ہیں.حضور نے صاحبزادی امتہ القدوس صاحبہ ( موجودہ صدر لجنه پاکستان ) کا بھی ذکر فرمایا جو صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب اور محترمہ آپا نا صرہ بیگم صاحبہ کی بیٹی ہیں.لاہور
281 کے ذکر میں حضور نے وفات یافته محترمہ آپا سیده بشری صاحبہ کا ذکر فرمایا اور ان کی غیر معمولی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا اور فرمایا کہ اب ان کا کام عزیزہ فوزیہ شمیم صاحبہ آگے بڑھا رہی ہیں.سرگودھا کے بارے میں فرمایا یہاں کی احمدی عورتیں خاموش کام کر رہی ہیں.اور دیہات میں غیر معمولی خدمات انجام دے رہی ہیں.کراچی کی لجنہ کے بارے میں فرمایا یہ غیر معمولی خراج تحسین کی مستحق ہیں.ان کی صدر آپا سلیمہ صاحبہ نیک دل خاتون ہیں ان کی ساتھیوں میں حور جہاں بشری داؤد صاحبہ وفات پاچکی ہیں.اب امتہ الباری ناصر اور مسز ناصر ملک صاحبہ نے اشاعت کتب میں غیر معمولی مہارت کا ثبوت دیا ہے.بہت سے رسائل لکھے ہیں اور نئے سے نئے مزید لکھ رہی ہیں.دعوت الی اللہ کے بارے میں بھی لجنہ کراچی کی تعریف فرمائی.انگلستان کا ذکر حضور انور نے تفصیل سے یوں فرمایا.اس نئے دور کا آغاز انگلستان سے ہی ہوا.ساری نیکیوں کی بناء یہاں کی احمدی خواتین نے ڈالی.اگر یہ میرا سہارا نہ بنتیں تو میں نہیں جانتا کہ کس طرح میں سارے کاموں سے نبٹ سکتا ؟ سال بھر میں مجھے دو (2) لاکھ خطوط موصول ہوتے ہیں اُن کا سارا کام یہاں کی عورتوں نے سنبھالا ہوا ہے ان کی سر براہ سارہ رحمان ہیں.انہوں نے ایک ٹیم بنائی ہے.میرے
282 دل سے بے اختیار ان کے لئے دعا نکلتی ہے.ایک دفعہ میں نے ایک عورت سے کہا کہ آپ کے پاس بہت زیادہ کام ہے اسے کم نہ کر دیا جائے تو بے اختیارانہوں نے کہا کہ خدا کے لئے ایسا نہ کریں مجھے تو اس کام میں بے حد لطف اور مزا آتا ہے.اس ضمن میں حضرت صاحب نے مسٹر ونڈ رمین کی خدمات کا بھی ذکر فرمایا اور فرمایا للہ ان سب کو جزا دے.ریسرچ ٹیموں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت صاحب نے فرمایا : - یہ کام لندن سے شروع ہوا تا کہ اہم مسائل پر ریسرچ کر کے ( دین حق ) پر حملے کر نیوالوں پر جوابی حملے کئے جاسکیں لندن کے بعد جرمنی میں بھی ریسرچ ٹیم بنی.اس ضمن میں حضور نے فوزیہ شاہ صاحبہ اور نویدہ شاہد صاحبہ دونوں کا ذکر کیا.حضرت بیٹی کے بارے میں ریسرچ کے ضمن میں حضور نے محترمہ ماہا صاحبہ کا نام لیا اور دیگر خدمات کر نیوالی خواتین میں صوفیہ صفی، سعیدہ غازی اور ان کی بہن اسماء غازی کا خصوصی تذکرہ فرمایا.ترجمہ کی ٹیم کے بارے میں فرمایا: - کہ اس کا نام F6 ہے کیونکہ اس میں جو چھ خواتین غیر معمولی کام کر رہی ہیں ان سب کے نام F“ سے شروع ہوتے ہیں فوزیہ رشید، فوزیہ باجوہ، فوزیہ شاہ، فریدہ غازی ، فرینہ قریشی اور فرحانہ صادق یہ کتب حضرت مسیح موعود کے ترجمہ کا کام سنبھالے ہوئے ہیں.
283 ہومیو پیتھک ٹیم میں دو غیر معمولی خدمت کرنے والی خواتین فرحت واکر اور نعیمہ کھوکھر ہیں.فرحت وا کرنے میرے لیکچرز کو تحریر کی صورت دی ہے اور نعیمہ کھوکھر نے انڈیکس کی تیاری کا کام کیا.حضور نے فرمایا اس کتاب سے گھر گھر ہو میو پیتھک کلینک بن جائے گا.انڈیکس کے ذریعے ہر دوا تک پہنچا جا سکے گا.ہیو میو پیتھی کے سلسلہ میں ڈبوں کی سپلائی کا کام حفیظ بھٹی اور ان کی فیملی نے کیا.ہومیو پیتھک کی کتاب کے ٹائٹل کے بارے میں حضور نے فرمایا کہ یہ امریکہ کی نوما نے بنایا ہے.شیریں بیگم صاحبہ کے بارے میں بتایا انہوں نے جب ہومیو علاج شروع کیا تو یہ بیساکھیوں پر چلتی تھیں.اب چلنے کے بعد دوڑنے کی بھی کوشش کرتی ہیں.ہومیو پیتھک ڈسپنسری میں ڈیوٹی دینے والی مستورات میں سے حضور نے قانتہ رشید، عارفه امتیاز ، صبیحه لون ، شگفتہ ناصر، نعیمہ کھوکھر ، مبارکہ گلزار اور ناصرہ رشید کا نام لیا.حضور نے نئی کتاب کے بارے میں مددگار ٹیم کے طور پر ماہا بر بوس اور فوزیہ شاہ کا نام لیا اور فرمایا اس کام کو منصورہ حیدر نے آگے بڑھایا.اس کے علاوہ مسرت بھٹی اہلیہ طاہر بھٹی صاحب اور آپا مجیدہ نے پروف ریڈنگ کا کام کیا.اس کتاب کی تیاری میں آخری مددگار ٹیم میں منیر الدین شمس صاحب، فریدہ غازی اور فرینہ قریشی ہیں.اس کے علاوہ حضور نے صالحہ صفی کی خدمات کا
284 خصوصی تذکرہ فرمایا.حضور نے فرمایا سینکڑوں بہنیں ہزاروں بچیاں ہیں جو احمد یہ ٹیلی ویژن میں دیگر خدمات بجالا رہی ہیں اور نیک کاموں میں مصروف ہیں.وہ اپنے بیمار بچے ، اپنی بیمار مائیں اور گھر کے کام چھوڑ کر دین کا کام کرتی ہیں.اس لحاظ سے آج جماعت احمدیہ کے کاموں میں احمدی خواتین کا نمایاں دخل ہے.اللہ تعالیٰ ان کو دنیا اور آخرت میں جزاء عطا کرے.آمین الفضل 30 جولائی 1999ء) الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے احمدی خواتین کا یہ ممتاز ، منفرد اور مستحکم مقام خدائے تعالیٰ کا خاص فضل واحسان ہے.حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام اور آپ کے خلفائے کرام کی خاص توجہ، تربیت اور شفقت شامل حال رہی ورنہ ناممکن تھا کہ آج احمدی خواتین اس بلند مرتبہ تک پہنچ سکتیں.ہم احمدی خواتین تو اس خاص فضل کے لئے اللہ تعالیٰ کا کما حقہ شکر بھی ادا نہیں کر سکتیں.بھیج درود اس محسن پر تو دن میں سوسو بار پاک محمد مصطفی نبیوں کا سردار
سب سے اہم اور ضروری چیز وجن خاندانوں میں مائیں نیک ہوں نمازیں پڑھنے میں با قاعدہ ہوں، نظام جماعت کی اطاعت کرنے والی ہوں اجلاسوں اجتماعوں میں باقاعدہ شامل ہونے والی ہوں، ہر قسم کے تربیتی پروگراموں میں اپنے کاموں کا حرج کر کے حصہ لینے والی ہوں نظام جماعت کی پوری طرح اطاعت گزار ہوں اور سب سے بڑھ کر اپنے بچوں کے لئے دعائیں کرنے والی ہوں تو ایسے گھروں کے بچے پھر عمو مادین کی طرف رغبت رکھنے والے ہوتے ہیں اور ماں باپ کے بھی اطاعت گزار ہوتے ہیں اس لئے سب سے اہم اور ضروری چیز ہے کہ ماں باپ خوداپنے بچوں کے لئے نمونہ نہیں." ارشاد حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر والعزیز جلسہ سالانہ بر طانیہ 2003 ء کے موقع پر مستورات سے خطاب الفضل 17 ستمبر 2004 ء